Professional Documents
Culture Documents
Urdu Story بھولی داستان
Urdu Story بھولی داستان
میں نہ تو کوئی لکھاری ہوں اور نہ ھی کچھ ذیادہ تعلیم یافتہ ہوں،
بس یہاں سے نامور لکھاریوں سے متاثر ہوکر مجھے بھی شوق پیدا ھوا کہ اپنی زندگی کے گزرے لمحات آپ دوستوں سے
شئیرکروں پیارے دوستو اگر امالء میں کہیں مجھ سے کوئی غلطی ھوجاے تو چھوٹا بھائی سمجھ کر درگزر کر دینا اور
میری رہنمائی کرتے رہنا
پیارے دوستو آپ کی تنقید میرے لیے رہنمائی ھوگی اور آپ کی تعریف کے چند الفاظ میرے لیے حوصلہ افزائی ھوگی،
دوستو یہ سٹوری حقیقت پر مبنی ھے مجھے نھی پتہ کہ میں آپ کے معیار پر یا آپ کے ذوق پر پورا اتر سکوں گا کہ نھی یہ
تو آپ کی قیمتی راے سے ھی مجھے پتہ چلے گا کہ کیا میں آپ کے ذوق کے مطابق لکھ رھا ھوں
میری یہ سٹوری ان باذوق دوستوں کے لیے ھے جو اہل علم ھونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند ھیں جہاں تک میری ناقص
راے ہے کہ
سٹوری میں سیکس ھونا چاھیے نہ کہ سیکس میں سٹوری
کیونکہ اکثر لوگ صرف لن پھدی کی لڑائی کو پسند کرتے ہیں چاھے وہ حقیقت سے کوسوں دور ھو تو میری کوشش یہ ھی
ھوگی کہ میری سٹوری پڑھ کر آپ کو بھی اپنا ماضی یاد آجاے
اس لیے سیکس میں کہانی تالش کرنے والوں سے میں اڈوانس معذرت کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
دوستو ،،،میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں
میری یہ سٹوری ھے ان دنوں کی
جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بالجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریبًا 15/ 14سال کے لگ بھگ
ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو
ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریبًا چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے
جو تقریبًا اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کالس میں پہلی سے
تیسری کالس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کالس میں چوتھی اور پانچویں کالس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کالس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل
کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا
میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو
طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چال
جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی
میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے واال منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا
جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا
میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سالم کیا آنٹی فوزیہ
بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی
طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی
رنگ انکا سفید تھا
دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چال آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی
میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا
ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا
آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے واال منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ ُپتر تیری امی کو تجھ
سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حالت بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے
کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکھی میں
نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے واال بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی
دیکھ ُپتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور
نسرین
(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں)
بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر
کی طرف سے چلے جایا کرنا ..
)Update no (3
ابھی تم دل لگا کر پڑھو اور جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر
ہالیا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،،
میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی
گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے
پاس چال گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا
کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا
تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک
گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی
تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی
میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی
زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اوالد نھی ھوئی انکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے
مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام
سودا سلف وغیرہ میں ھی ال کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا
اس لیے گھر کا الڈال بھی تھا
باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
)Update no (4
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی
مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا
قد تقریبًا میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے
عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم
بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے ُبنڈ بھی کافی
باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا
جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر عظمی سے کم ھی تھے
میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی کوشش کے بعد آخر کار میں اسے منانے میں
کامیاب ھوگیا میں اور عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی کہ
جلدی آ جانا ذیادہ دور مت جانا
ہم نے آنٹی فوزیہ کی بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل کر کھیت کی طرف چل پڑے
دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ واال
کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت کی جاتی تھی
اور اس وقت کپاس کی فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے اس وقت تقریبًا پانچ فٹ تک ھوتے تھے اور کپاس کی فصل
کے آگے والے کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی اور جو دوست گاوں کے رھنے
والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک
پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر چھوٹا سا
لکڑی کا پل تھا جسکو کراس کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور شہر کا فاصلہ
تقریبًا دو کلو میٹر تھا
خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں
کھیل رھے تھے جن کی عمر دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے تھے
)Update no (5
دوستو،،
ہمارا پسندیدہ کھیل ُلکن میٹی سٹیپو باندر ِکال وانجو پکڑن پکڑائی ھونے؟؟؟؟؟
جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ُچھپن چھپٰا ئی کی باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر ہماری
گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ غصے سے بوال
آگئی ہنساں دی جوڑی اینی دیر کردتی یار
میں نے کہا یار ایس میڈم نے دیر کرادتی ُرس کے بیٹھی تھی نواب زادی
تو میں اور عظمی نے بھی اپنی اپنی باری ُپگی اور تین بچوں کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو ڈھونڈنا تھا
ہم سب ُچ ھپنے کے لیے کپاس کی فصل کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چُھپ گئے جبکہ میں
اور عظمی کپاس کی فصل میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس ادھر ھی چھپ
جاتے ہیں میں نے سنا ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے ھوے ہیں
دوستو ان دنوں ہمارے گاوں میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس لیے ھو بھی ادھر
جاے احتیاط سے جاے،
مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی نہ گرمی
نہ سردی کی فکر
میں نے عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا یار
پنڈ والے ایویں چوالں ماردے نے کہ کوئی چھلیاں نہ توڑے
عظمی بولی نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے
تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے جہاں ایک پانی کا کھاال تھا جسکو کراس کر کے
دوسری طرف مکئی کی فصل شروع ہو جاتی تھی ۔۔
کھالے کے ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم کے درخت تھے
میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے چھالنگ
لگا کر کھاال کراس کیا اور پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے چھالنگ لگائی اور میں اسکی ھی طرف منہ کر کے کھڑا تھا
عظمی نے جب چھالنگ لگائی تو سیدھی آکر میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا
کرنے سے اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ھوگئے
ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں اکثر کبھی
کبھی عظمی کو جپھی ڈال کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی وجہ سے کبھی
کبھار ایک دوسرے کے اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔
).Update no (6
عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت کے پیچھے لے آیا
اور عظمی میرے آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے پیچھے اسکی ُبنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا ھوگیا اور دونوں آگے
پیچھے اپنے سروں کو نکال کر سامنے بنے کی طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا
ھوگا جو سویا ھوا عظمی کی ُبنڈ کے دراڑ کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ گئے
کہ اچانک عظمی نے
گبھرائی ہوئی آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر سے میں پیچھے سے عظمی
کے ساتھ بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ مجھے سیکس واال مزہ آرھا تھا بس ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم
گانڈ کے ساتھ .چپک کر کھڑے ھونا اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم ڈرپوک بہت
ھو عظمی کچھ دیر اور کھڑی رھی پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور جلدی سے کھالے پر سے چھالنگ لگا کر دوسری
طرف چلی گئی اور مجھے کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار اسکے پیچھے ھی کھاال
پھیالنگ چل پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے
خوشی میں شور مچارھے تھے ہم دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے ادھر کی پکڑن
پکڑائی کھیلتے رھے اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنےاپنے گھروں کی طرف چل دیے
ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے گھر اور گھر سے کھیل کود
ایک دن ہم سکول میں اپنی کالس میں بیٹھے تھے کالس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی
ادھر ادھر ہماری کالس گھیسیاں کرتی کرتی جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی
تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے
ہماری کالس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی اور ماسٹر جی کو سالم کیا تب ماسٹر جی
نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی اٹھا کر لے آیا
جس پر آنٹی فرحت بیٹھ گئی .
)Update no (7
دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا چلوں،،
آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی فرحت
کی امی انکو اپنے پاس ہمارے گاوں ھی لے آئی تھی
آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر سے ھی
چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی آنکھیں ھی انکے
باقی حسن کی تعریف کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو بس اس جھیل میں ایسا
ڈوبے کہ کسی اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے
انٹی فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا
انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے ساتھ
کافی فری ھونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا رھے ہیں تب ماسٹر جی
نے صغیر کو آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر جی اور انٹی فرحت کے پاس جا
پہنچا ماسٹر جی نے دستہ کھوال اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ دیکھا
اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آو میں ذرہ
آفس میں جا رھا ھوں تم کالس کا دھیان رکھو کوئی بچہ شرارت نہ کرے،،
دوستو میں کالس میں سب سے الئق تھا اور میرا قد بھی تقریبًا سب بچوں سے بڑھا تھا اس لیے میں کالس میں سب سے
آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے مجھے کالس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی ماسٹر جی
مجھے سمجھا کر اٹھے اور آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور خود آفس کی
طرف چل پڑے اور انکے جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی گانڈ میں پھنسی
ھوئی تھی جسکو انہوں نے بڑی ادا سے باہر نکاال اور اپنے بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے چل پڑی
اور میں کالس کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی طرف تھا جب کہ ساری کالس کی پیٹھ کمروں کی
طرف تھی کالس کمروں کی مخالف سمت بیٹھتی تھی
کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے .
).Update no (8
میں نے اسے پوچھا سنا خوب کالس لگی ماسٹر جی اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر جا کر کالس میں بیٹھ گیا تقریبًا
دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے صرف
نام کے واش روم کی طرف چل پڑا
دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے ایک کمرے کو تو جب سے میں نے دیکھا تاال ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے آدھے
کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے حصے میں
ایک الماری لگا کر پارٹیشن کی گئی تھی اور اس کے پیچھے .دو چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر جی آرام کرنے کے
لیے لیٹ جاتے تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین فٹ کی جگہ رکھی تھی
جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا
میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی
فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی
کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے
کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا
پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے
گی
میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے
میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا،
اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف
دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھوال کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں
بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں
مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکال دفتر واقعی
ھی خالی تھا
میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا
پہنچا
میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے
برعکس تھا
جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا
)Update no (9
میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی
فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی
کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے
کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا
پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے
گی
میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے
میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا،
اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف
دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھوال کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں
بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں
مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکال دفتر واقعی
ھی خالی تھا
میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا
پہنچا
میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے
برعکس تھا
اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت آنٹی
کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی تھی
مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی
میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت آنٹی
کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے دونوں بڑے بڑے
گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کے ایک ُممے
پر تھا اور دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی ُبنڈ پر رکھ کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔
انٹی فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی
انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے جاتی .
).Update no (10
دوستو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے میں میں سوچ
بھی نھی سکتا کہ یہ بھی ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال میں میرا تو دیکھ کر
برا حال ھورھا تھا ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری ٹانگیں کانپ رھی تھی
ادھر ماسٹر جی اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی مستی میں گم تھے
ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ
کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ چھت کی طرف
تھا اب ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے کبھی
زبان پھیرتے تو کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتے
آنٹی فرحت کا رنگ تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر کی طرح سرخ ھوچکا تھا
ماسٹر جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے سے
زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے بل کھڑی
ھوجاتی اور بند آنکھوں سے چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی کرکے ماسٹر جی کے
ساتھ مزید چمٹ جاتی
ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی فرحت کے
کان کی لو سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے
حصہ کو ماسٹر جی کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی
فرحت کو پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر جی تین چار ،منٹ تک ایسے ھی کبھی گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے
پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل پر
زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم اکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل اپنی زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر زبان گھماتے انٹی
فرحت مزے سے سسسییی افففففف اممممم کری جارھی تھی
)Update no (11
ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیرنے
لگ جاتے اب ماسٹر جی نے ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا اور زور زور سے چوسی جارھے تھی انکی تھوک
سے سارا مما گیال ھو گیا تھا
ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا رھے تھے
آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا کبھی
بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی
ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں سے نالے کا سرا تالش کرنے لگ گئے آنٹی
فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس لیے انہوں
نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں اوپر کر کے انٹی
فرحت کی آنکھوں میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں سر ہالیا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ بس اس سے آگے کچھ نھی
کرنا
مگر
ماسٹر وی کسے چنگے استاد دا
چھنڈیا ھویا سی
ماسٹر جی نے بڑے پیار اے اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ چھڑواتے ہوے شلوار کے
نالے کے سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان پھنسا لیا تھا
اور ایک جھٹکے سے ناال کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا ناال کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت کچھ سمجھتی انکی
شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی
میری آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن
رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی ھوی ُپھدی تھی۔
یہ سین دیکھتے ھی میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چال گیا جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں
نے لن کو مسلنا شروع کردیا ،،
ادھر ماسٹر جی نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی پر رکھ دیا اور ھاتھ کی
درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ
کر ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے بجاے
انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر جی کے ھاتھ کو
آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے اندر کی آنٹی فرحت کے منہ
سے ایک لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی طرف لے گئی اور دونوں کے
ہونٹ پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح
ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی کے اندر باہرھو رھی تھی
اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند ھونے لگ گئی اور منہ سے ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں گئی میں گئیییییی
کی آوازیں آنے لگ گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی
دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جھکتی گئی کہ
نیچے ھی پاوں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے کی وجہ سے ساتھ ساتھ
نیچے ھوتے گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر رکھ کر بیٹھی رھی
کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی اپنی
شلوار اوپر کرلی اور ذور سے ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا ناال باندھ لیا ماسٹر
جی حیران پریشان آنٹی فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت
کیا ھوا تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی
انکی منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے سے خوار ھورھا تھا
ماسٹر جی جب دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور آنٹی
فرحت کو گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا آنٹی فرحت کی نظر جیسے ہی پردے پر پڑی میرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے
میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے بھاگا اور سیدھا کالس کی طرف آگیا مجھے کالس کی طرف آتے دیکھ عظمی بھی
میری طرف متوجہ ھوگئی میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز چل رھی تھی میں
اس قدر گبھرایا اور ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ رھی ھے اور میں عظمی
کو نظر انداز کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا
عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے پکڑ کر
بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں عظمی نے ایک ھی
سانس میں کئی سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے
میں نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے اپنی
طرف دیکھتے عظمی نے مجھے بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر بولو کیا سوچ رھے ھو
میں ایک دم سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی اپنےنے
نہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ رھو
وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر کے بیٹھ گئی
میرا دھیان اب کمرے کے دروازے کی طرف ھی تھا
).Update no (12
اور دل میں کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر
جی کو ضرور بتاے گی
یاسر پتر توں تے گیا ھن
ھن تیری خیر نئی
ماسٹر جی نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے
میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں سے کالس کی طرف آتے
دیکھا
ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر میرا تو گال خشک ھوگیا بیٹھے ھی میرا جسم کانپ رھا تھا
ماسٹر جی
کالس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے انکے چہرے پر غصہ صاف صاف جھلک رھا تھا
اب مجھے نھی معلوم تھا کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا
خیر ماسٹر جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی
چبھوئی ھو
میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر
ماسٹر جی بولے
تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام چیک کرو تم نے کیا
میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے صرف کالس کا دھیان رکھنے کا کہا تھا
میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا
تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں مانیٹر کس لیے بنایا ھے
بیٹھ جاو
میں جلدی سے بیٹھ گیا
اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھال کہنے لگ گیا
کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ وی میرا ای قصور اے
پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا اور باری باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ گئے
ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا غصہ ان بچوں پر نکاال جنہوں نے ہوم ورک نھی کیا ھوا تھا
مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر جی کو نھی پتہ چال کہ میں بھی انکی پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا
چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے عظمی
کے چہرے پر کافی بےچینی سی نظر آرھی تھی
ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا جیسے
خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس کھڑا ھوگیا.
نسرین سمیت باقی بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ
کھڑی ھوئی اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب بتاو کیا ھوا تھا
میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات ھے ہمارا
گھر آنے واال ھے اتنی جلدی کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے ھوے تھے تو میں
نے کہا یار وہ ماسٹر جی اور آنٹی فرحت،،،،،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے نسرین اکیلی
کھڑی ھمارا انتظار کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی عظمی نے مجھے پھر کہنی
ماری بولو کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے ھوے
خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی
تواڈے دوناں دیا لتاں ُٹٹیاں ھویاں نے
لتاں کڑیس کڑیس کے ُٹردے او
میں نے شوخی سے کہا
تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ کے اگے اگے پہنچ جانی اے
تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان جو
سالم کیا اور کمرے کی طرف چل دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت مزدوری کر کے
آیا ھوں
لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے لگ گیا
دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی بولوں گا سالی اب اس الئق ھی نھی رھی،،،،
میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے گورے گورے خربوزے جتنے ممے آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے چٹے سفید دودہ
سے بھرے پیالے تھے جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل اندر کی طرف تھا کیا
کمال کی گوری چٹی ٹانگیں
کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکال
یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چال کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے تھے
).Update no (13
کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے خیالوں سے ال باھر پھینکا
یاسررررر
امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بوال جی امی جی
تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی پتر آکر روٹی کھا لو
میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی
روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک کر کے تھوڑی دیر بعد میں پھر لیٹ گیا اور پتہ
نھی کب میری آنکھ لگی جب میں اٹھا تو اس وقت چار بج رھے تھے
امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں بالنے آئی تھی کہ امی یاسر کو بال رھی ھے
تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر سمجھا ھوا
ھے جب بھی کوئی کام ھوتا ھے تو منہ اٹھا کر اسے بالنے آجاتے ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب بن کر رھتا ھے
اور ان کے گھر نوکری کر کے خوش ھے
امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار کرتی
ھے اس لیے مان سے اسے کوئی باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا تکلیف ھے
امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا اور
باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے دروازے پر
جا پہنچا جب میں اندر داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سالم کیا اور ان سے اپنے سر پر پیار لیا
تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو دفعہ مجھے
بالنے آئی تھی خیریت تو ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی
پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھوے کہا
جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی آئیں میں نے انٹی
سے ان دونوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو َم لکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی گئی مگر عظمی اندر کمرے میں
ہے دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے کل
نہر پر کپڑے دھونے جانا ہے۔۔
میں نے ھممم کر کے سر ہالیا اور انٹی سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک کا توڑا
اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے لے کر صحن
میں باھر کے دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی اتنی دیر میں گندم کا تھیال اٹھا کر لے آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی
لیا ھوا تھا جیسے ھی انٹی گندم کا تھیال سائکل کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں
کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے چٹے ممے
آگئے اور میں ٹکٹکی باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ میری گندی نظروں سے بے خبر
اپنے دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے فریم میں چین کے کور کے اوپر .سیٹ کر رھی تھی
جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے میں نددیدوں
کی طرح آنٹی کے ممے دیکھی جارھا تھا ،
دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا تھا تب میری معصومیت بچپنا اور سیکس سے
ناآشنائی کی وجہ تھی اور یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا
نھی تھا جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں
میں بچہ تھا معصوم تھا
مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک آنکھ
کھول لی تھی
آنٹی نے گندم کا تھیال سہی کرکے رکھ دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی گھر سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل بھی آگے
سے ہل رھا تھا اور میں ڈگمگاتے ھوے چال جارھا تھا کہ اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی آواز آئی جو مجھے رکنے
کا کہہ رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں اسے دیکھ کر رک گیا
،،عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور بولی ُبدھو پیسے تو لیتا جا میں نے اسکی
ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے ساتھ ساتھ
سائکل کو پیچھے سے پکڑے چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ بولی ذیادہ شوخا نہ
بن اور کل والے واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں
میں عظمی کی بات سن کر پریشان ھوگیا
میں گبھراے ہوے بوال یار کچھ بھی نھی ھے
).Update no (14
عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے
میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی ھے
تو عظمی بولی
تو بتاو پھر
میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم سے گندی باتیں کروں،
تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور بولی،
میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے نال گندی گل کیتی
تو میں نے کہا
ُدرفٹے منہ تیرا
میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات کررھا ھوں
تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا تم
تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور بات کرو
تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور مجھے گھورتے ھوے بولی
جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج توں بعد نی ُبالئیں تیری میری کٹی اور یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی میری
طرف کرتے ھوے واپس بھاگ گئی
دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی
میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے آنٹی سے
پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی ھوگی
تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت واپس آگئی تھی
آنٹی بولی
فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی ھونی اے
میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا ھو
تب تک شام ڈھلنے والی تھی
میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں کھیلتے ھوے
بچوں کو دیکھ رھی تھی
میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور کھیت کی
دوسری طرف بنی پگڈنڈی کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ فاصلے پر اسکے
پیچھے پیچھے چلتا ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی
میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر اسکے
اور قریب ھوگیا عظمی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی
کی تکلیف اے میرے ِپچھے کیوں پیا ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ
میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا
تو عظمی بولی
جا دفعہ ھو جان چھڈ میری
میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو لڑکیوں سے نھی کی جاتی
تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی ھو
تو عظمی بولی
میں تیرے کولوں کش ُپچھیا اے جیڑا توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا کہ
عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے والے انداز سے کہا
چل آ تینوں دسدا آں
تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز سے بولی
تینوں ُسندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں کہ میں ُک ش نئی ُسننا جا جان چھڈ میری
میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی
میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا
اور اپنے ُگ ٹنوں میں سر دے کر رونے لگ گیا
دوستو میں گھر اور محلے میں سب لڑکوں سے خوبصورت الڈال ھونے کی وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے کسی کی
ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی برداشت نھی ھوتی تھی۔
اسی وجہ سے عظمی کے سخت رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری ہچکی بندھ گئی تھی
مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے تو
میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو
عظمی بیٹھی تھی اور پیار سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے چپ کرا رھی تھی
عظمی بولی
میرے شونے کو غصہ آگیا ھے
میں نے غصے سے اپنے کندھے اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گیا عظمی پھر بولی
میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے
اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے کانوں کی
طرف لے گئی اور اپنے کان پکڑ کر کہنے لگی
معاف کردو سوری بابا
تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا
تو عظمی نے شوخی سے میرے کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی
چل شوخا
اور ہم دونوں ھنس پڑے
عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا
تو میں نے کہا
یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل جب تم
آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر پر جاو گی تو تب .میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر بتاوں گا
تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہالیا اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے
وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ
).Update no (15
اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں چُھٹی تھی
میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا آنٹی کے
گھر پہنچ گیا گھر میں داخل ہوتے ھی آنٹی کو سالم کیا اور انکل بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سالم کیا انکل مجھے
چھیڑنے لگ گئے کہ
یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے جارھے ھو
میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی تو انکل
نے مجھے پیار سے ساتھ لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے لگے
چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی جانے لگ
جائیں انکے ساتھ ھی چلے جایا کرنا میں ھاں میں سر ہالتا ھوا انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ کی طرف چل پڑا جو
چارپائی پر بیٹھی قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں
باہیں ڈال کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ کو جپھی ڈال لی ،
آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا ہونے کی وجہ
سے پیچھے سے آنٹی کے کالے رنگ کے بریزئیر کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے
اور سوٹ کا کلر
انٹی پر بہت جچ رھا تھا
میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر پر ہیں
اس لیے تو آنٹی فوزیہ
حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی سے ایسے بات کرتے ھوے
اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو شہر کی ہوا
لگ گئی ھے تو انکل بھی اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم پر الئن مار رھا ھے
میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی لوگوں کے
پاس بھاگ گیا مجھے پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں کی آواز سنائی
اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی
گل تے سن کتھے چالں آں
مگر تب تک میں کمرے میں داخل ھوچکا تھا
اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو نسرین نے
ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا ویال
تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں اسے جواب دیتے ھوے کہا
توں تے بڑی کاموں اے سارا دن پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی ایں
سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا کر
عظمی کھلکھال کر ہنس پڑی تو نسرین کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو مارنا شروع کردیا
میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر ھماری آپس میں نوک جھونک جاری رھی
تقریبًا ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی
چلو ُک ڑیو جلدی نال کہڑے ُچ کو تے نہر تے چلو میرے نال
نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل آے
کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن کپڑے
دھونے واال ڈنڈا اور دیگر ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے دھونے واال ڈنڈا ھاتھ
میں پکڑا اور ہم گھر سے نہر کی طرف چل پڑے کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے
بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی طرف جار رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی
اسکے پیچھے عظمی اور اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے جارھے تھے کیوں کہ
پگڈنڈی کی جگہ ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر عظمی کی گول مٹول ُبنڈ پر پڑی جو باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس
کے ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی تھرتھراتی کبھی ُبنڈ کی ایک پھاڑی اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی سیکسی ُبنڈ
دیکھ کر میں تو سب کچھ بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی ہم ایسے ھی
چلتے چلتے نہر پر پہنچ گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں نیچے گھاس پر رکھ دی
اور بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے
وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ
)Update no (16
انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک گٹھڑی کو
کھوال اور اس میں سے کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی تھے
آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں کے بل .بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی تو آنٹی
کی قمیض کا گال کافی کھال تھا اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے سامنے کھڑا آنٹی
کو کپڑے دھوتے دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین باقی کی گٹھڑیوں کو کھولنے میں مصروف تھی
وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان میری
طرف نھی تھا
پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو تھوڑا
نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا فائدہ مجھے ھوا کہ آنٹی کے مموں کے درمیانی الئن مجھے صاف نظر آرھی تھی اور میں
اس نظارے کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے ذور ذور
سے اچھل کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے کے لیے بے تاب تھے اور یہ سب دیکھ کر میری حالت قصائی کے پھٹے
کے سامنے کھڑے ُک تے جیسی تھی،
دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط خیال نھی تھا
بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی ُبنڈ اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے مجھے بہت
اچھا محسوس ھوتا،،،
میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے کے لیے
ُجھکی
تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت آگے بڑھ
کر آنٹی کے دونوں دودھیا رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور ذور سے سائکل پر
لگے پاں پاں کرنے والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا
آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا بھی نھی
پہنی ھوئی تھی شاید آتے ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض کے گلے کے کنارے پر اٹکے
ھوے تھے اور انکے مموں پر گول براون دائرہ بھی نظر آرھا تھا
یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا
کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ رھا
ھے اور اسکے جسم کے کون سے عضو پر نظر کا تیر لگ رھا ھے
یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا
میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے اچانک آنٹی
نے اپنا ایک ھاتھ اپنے سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ یاسر
میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بوال جی آنٹی جی
تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر پر رھے ہیں
میں شرمندہ سا سر جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا آنٹی کی طرف نھی دیکھا
بلکہ انکی طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف کر کے بیٹھ گیا
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور کپڑوں
کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیا اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر اس سے نیچے
نھی اترا جارھا تھا تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ کپڑے نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر نیچے جایا جا رھا میں
جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر نیچے اتربے لگ گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی
نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی کرنے لگ
گئی ایسے کرنے سے اس کے ممے بلکہ اوپر کو ھوگئے میری پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی عظمی نے میری
طرف دیکھا اور آنکھ کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو ہالتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے میں اس کے اچانک اس
اشارے سے کنفیوز سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر آواز دے دینی ھے
تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے اوپر پھیالنے لگ گئی
میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا پریشان سا ھوگیا تھا
اور منہ ھی منہ میں ماسٹر اور فرحت کو گالیاں دینے لگ گیا
,کہ گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے کم تے الدتا اے
چنگا پال شریف سی
تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیال دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کا
نظارا کرتے کرتے جانے لگ گیا
ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی
کپڑے دھو رھی تھی ،
اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے بھی کافی گیلے
ہو چکے تھے جس میں سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر آجاتا
آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی کپڑے ُس کنے ڈال دو میں جلدی سے اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی کو ساتھ لیے
نیچے اگیا اب ہم کچھ دور چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا آگے مکئی کی فصل
کے پاس چلے گئے
تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا تھا
میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے تو میں نے
عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا چلو گا تو عظمی نے اثبات میں سر ہالیا میں نے عظمی کو کہا
کہ دیکھو یہ بات تمہارے اور میرے درمیان میں ھی رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی
مت کرنا عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی
میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ پر پڑی
تو میں ڈر کر بھاگ آیا ،،،
عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا کام کررہے تھے میں پریشان سا بوال وہ ھی گندا کام تو وہ معصومیت سے میری
طرف منہ کر کے بولی کون ساااااااا
میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے ھوے شرم نھی
آئی تھی جو اب بتاتے ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے اندر گیا تھا وہ تو مجھے
آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر اندر دیکھنے گیا تھا کہ پتہ نھی آنٹی کو کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر
گیا تو آنٹی فرحت اور ماسٹر جی،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی جھنجھال کر بولی
)Update no (17
درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی
میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ھوے نیچے منہ کر کے بوال
ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی
اور دونوں ایک دوسرے کی ُچمیاں لے رھے تھے
اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے ھی پکڑے ھوے تھے
میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا دیا
عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ھو
اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے منہ کے اگے رکھ کر بولی
ھاےےےے ****** میں مرگئی
فیر
میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ
امی بال رئی اے تواڈیاں گالں ای نئی ُمکن دیاں
میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری بات بتاوں گا
ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی
میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے .عظمی بھی بڑبڑاتی آگئی
کچھ دیر ہم اور نہر پر ھی رھے پھر ہم نے سارے کپڑے سمیٹے اور اسی انداز میں گھر کی طرف چل پڑے راستے میں
بھی کوئی خاص بات نھی ھوئی
مگر میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا
ایسے ھی چلتے ھوے ھم گھر پہنچ گئے
اگلے دن سکول
میں بھی کچھ خاص نھی ھوا شام کو میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا اور عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف
چل پڑا کھیت میں پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع ھوچکے تھے ہم نے ُلکم میٹی کے لیے اپنی اپنی باریاں ُپگنے لگ
گئے آخر میں
میں عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری طرف کر
کے کھڑے ھوگئے اور باقی سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چُھپنے کے لیے ِادھر ُادھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد ایک بچے کی
آواز آئی کہ
لب لو
تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے .اور آپس میں
مشورہ کرنے لگ گئے کہ کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے ہمارے ساتھ واال لڑکا کہتا کہ یاسر تم نہر والے بنے سے
جاو عظمی درمیان سے جاے اور میں دوسری طرف سے جاتا ھوں
عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا شاید وہ
میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس لیے ُچپ ھوگئی
تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
نئی تینوں ِج ن کھاندا
اور میں نے اس لڑکے کو دوسری طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے ھی دوسری طرف بھاگ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل پڑے
عظمی راستے میں ھی مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے کہاں چلو کھالے
کے پاس جاکر بیٹھ کر بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہالیا ،،
تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے کپاس کی فصل
کے آخر میں چلے گئے اس سے آگے پانی کا کھاال تھا جسکو کراس کر کے مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی میں نے
عظمی کو کھاال کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے ھی میں نے بھی چھالنگ لگا کر کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی ھوئی تھی
اور بیٹھنے کے لیے بہت اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ،،
ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے
تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے ھوے کہا
چلو بتاو نہ اب میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا اب ھم دونوں کے گُھٹنے آپس میں مل رھے تھے
میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا تھا تو عظمی بولی
تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ نھی آئی تھی
تو میں نے بتانا شروع کردیا
کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ سے مسل
رھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے
ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی
عظمی بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی طرح سرخ ھوتا جارھا تھا
عظمی بولی پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا ناال کھول دیا تھا اور اسکی شلوار نیچے گر گئی تھی
اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر رکھ دیا
تو عظمی بولی کہاں
تو میں نے کہا نیچے
عظمی بولی کہاں نیچے
تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا یہاں پر
تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی
جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض کو ھی چھوئی تھی
عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا
میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر نیچے
بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے میری طرف دیکھا اس دوران عظمی بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور بار بار اہنے ہونٹوں
پر زبان پھیرتی
کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے کھینچا
)Update no (18
تو میں ایک دم چونکا
کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے میرے لن پر
اپنا ھاتھ محسوس کر لیا تھا
عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے
تو عظمی بولی
میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی شادی کردو اب
تو میں نے کہا
میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی ھے
اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا
اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی
بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ چلے گا
میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی ُمچی ھی نہ بتا دے
میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے ھوے کہہ دیا
کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن
میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا تو بتا دیا
تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے عظمی کو سالمی دے رھا تھا
عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان ھونے کا امی کو بتاوں گی
تو میں نے گبھراتے ھوے کہا
کون جوان کونسی جوانی
تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی
یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ نکلی
اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی ڈرامائی انداز
میں بوال
ھاےےےےے میں مرگیا افففففف
عظمی نے ایک نظر پیچھے میری طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی
مزا آیا
اور کھاال پھالنگ کر دوسری طرف چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے مزا آتا ھے
مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور جاکر
پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ لیا
میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے پیٹ پر
تھے عظمی ہنستے ھوے بولی چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی
میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر سر اٹھا لیا اور عظمی کی ُبنڈ کی دراڑ میں
گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی ُبنڈ پر محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے
ُچ ھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا
عظمی کو جب یہ احساس ھوگیا کہ ایسے ذور آزمائی سے جان نھی چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے لگ گئی جب
عظمی آگے کو ُج ھک کر نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں کو اندر کی طرف
دھکیل چکا تھا
اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے ھوے
اسکے دونوں مموں پر آگئے
عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا پڑا
عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا
اور میں نے عظمی کے دونوں مموں کو اپنی ُمٹھیوں میں بھر لیا
عظمی کو جب میری اس کاروائی کا احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع کردیا
اور روتے ھوے غصے سے بولی چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو
عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا
اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا
عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر رونے لگ
گئ
میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ
یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے کبھی ایسے غصہ کیا ھے
چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ
تو میں بھی غصے سے اسے وھیں چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
عظمی بھی سر نیچے کئے آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی
دوستو کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی ھی
شکایت نہ لگا دی ھو
مگر ایسا کچھ نھی ھوا،
ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ
فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر جی کو
سالم کیا
جب فرحت میرے پاس سے گزری تو اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی جیسے ابھی نہا کر آئی ھو
فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ فرحت
کے سالم کا جواب دیا اور بڑے انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا
میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی طرف آنکھ سے اشارا کیا
تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور کر بولی دفعہ ھو ے
فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر آرھی تھی
ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی تھی
وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں کررھے تھے
اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی کبھی نہ نہ میں سر ہالتی ایک دفعہ تو اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا
میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر
میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی
نے کرسی پر ھی بیٹھے ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائًیں طرف کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر
اپنے ساتھ لگا کر کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا
بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا
میری جب نظر فرحت پر پڑی
میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا
کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی
فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر سرخ
رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت ھی سوٹ کررھی تھی
ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر دیکھا ھوتا تو وہ الزمی میری طرف دیکھتی یا پھر
کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو مجھے بلکل نظرانداز
کر کے ماسٹر جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی جیسے مجھے جانتی ھی نھی
میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا
ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کالس میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں کرنے
لگ گیا،،
دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر ذیادہ تر
سکول میں ایک وقت میں ایک ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور میں گاوں کے
سکولوں پر اتنی توجہ نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس ھی کرنے آتے تھے
اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے گپ شپ لگا رھے تھے
جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی طرف نھی تھی اگر میں نے انکی کرتوت کو دیکھا
نہ ھوتا تو شاید میں بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا،
ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں مسلسل مست تھے
میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام کریں
گے
اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں چلیں گے دیکھنے
تو عظمی بولی
مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں گا نال مینوں وی مروائیں گا
میں نے کہا یار ُک ش نئی ہوندا
تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی جانا
ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب کر لیا اور ماسٹر جی کو سالم کر کے واپس
جانے لگی فرحت جیسے ھی میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی خوشبو آئی اور
میں بھی ناک کو سکیڑ کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا
دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا ھوں کہ کمرے ہماری کالس کی مخالف سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف تھی
اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے ھوتی ھوئی ہماری کالس کی طرف آتی تھی اگر
کوئی سڑک کے راستے سے باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے سے گزر کر واپس جاتا
فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا اور میرا
پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت دفتر والے کمرے
میں داخل ھوتی نظر آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما لیا ایسا بس
دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا
اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا،
ماسٹر جی بولے
تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی ُپھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے،
میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی جلدی ایک
نظر چند ورقوں پر ماری اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو کہنے لگے
میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے
تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی
میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا
اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی کرواتے
ہوے کمرے کی طرف چل پڑے
مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی کے سر میں نھی بلکہ لن میں درد ھے
،،
ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور ساتھ
پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ،
کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے سر ہالتے کمرے کی طرف متوجہ کیا تو عظمی
نے برا سا منہ بنا کر مجھے گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور شوخی سے
دستہ مجھے پکڑایا
میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے تو آجانا اور خود
اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا
عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو عظمی
غصے سے مجھے گھورتے ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر آیا وڈا شریف ذادہ
میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے واپس دے دیا
پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی تو میں بھی جاوں گا
تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق نھی
اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر سے بھی
تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو
)Update no (19
میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو عظمی بڑی شوخی سے بولی
وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان
تو میں نے بھی فوری جواب دیتے ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس پہلوان کو تو عظمی بولی
کی مطلب اے تیرا
تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے ھوے کہا
میرا مطلب کہ ُک شتی کر کے دیکھ لینا
تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے ورگے
میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار کروں گا
ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا ،
اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے کہا نہ کہ
کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی دیوار کی اوٹ
سے کالس کی طرف دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی دیکھائی دی،
کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے پاس آگیا اور
یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ ابھی دفتر میں ھی ہیں
تو میں نے کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر
ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف دروازے کے پاس پہنچ گیا
عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے
میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر کالس کی طرف دیکھا تو سب بچے دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان میں لگے
ھوے تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا
اور آہستہ سے دروازہ کھوال اور دونوں اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی اندر سے ُک نڈی نھی تھی صرف باہر ھی
ُک نڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے دروازہ بند کردیا
دوستو
دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے کی وجہ سے اندھیرا سا تھا
بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ ہم دوسری
طرف آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور دوسری طرف والے ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے
میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے پاس جا پہنچا
میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس کے اوپر لیٹ کر
فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ
چپکا ھوا تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے
ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہال ہال کر اپنا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں بازو
ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی
عظمی نے مجھے کندھے سے ہالیا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا پوچھا
تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا
عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے ساتھ رگڑ
کھا گئی
اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے لگ گئی
میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری نکر پر آگیا
مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ نکال دے
میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے کی جگہ تالش کرنے لگ گیا تو مجھے ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا
ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم دونوں
آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ سکتے تھے
میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا
الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ خانے خالی تھی اور سوراخ واال خانہ بھی خالی
تھا
سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا سا نیچے
جھک کر اپنے دونوں ھاتھ خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا
عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے مالئم تھا
میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکا بازو دبا کر
اسے کھڑے رھنے کا کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی،
اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی ھوئی تھی
ماسٹر جی سائڈ سے اسکے ساتھ لیٹے ھوے تھے
ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت کا مما دبا
رھے تھے
فرحت بھی ُف ل مزے میں تھی اس نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے دائیں بائیں کر کے چارپائی کے سرھانے کی
طرف لگے لوہے کے پائپ کو پکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ ھی رہ
گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک ماسٹر جی کھا ُچکے تھے
پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی کی لمبی
زبان فرحت کہ گلے پر رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک آتی فرحت بھی زبان
کے لمس کو برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی
سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے فرحت سسییییی افففففف امممممم کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے ایسے ھی زبان
کو پھیرتے پھیرتے زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو
فرحت ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر
کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا مالپ کرانے
لگ گئی
ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی طرح اپنے حربے استعمال کررھے تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر میں پھس چکی
تھی
ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ کر
زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی اوپر سے نیچے تک لے آتے
پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ میں ڈاال اور نکال کر کان کے اندر
ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی
ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی اور پھر
ھاتھ کو اگے الکر آگے سے قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے گئے فرحت کے مموں پر قمیض تھوڑی سی پھنسی تھی
مگر ماسٹر جی نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے دایاں مما باھر نکاال بھر بایاں اور قمیض کندھوں تک لے گئے
اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ برا
میں ڈاال اور ایک ممے کو آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما بھی بریزئیر سے نکال
دیا۔۔۔
فرحت کے گورے گورے موٹے ممے دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی کی گانڈ کی
دراڑ میں کپڑوں سمیت گھسا ھوا تھا
میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی گانڈ کو پیچھے سے ہال رھی تھی عظمی کہ
جزبات کو دیکھ کر اور ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے
عظمی کے مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ دیے
عظمی نے گردن گھما کر میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی
عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں کر رھی تھی ،میں نے آہستہ آہستہ مموں کو دبانا شروع کردیا
عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں مموں کو
دباتا عظمی بھی ویسے ھی میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی
اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا
جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ میں
پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگ گئی
دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے کر فرحت کے دونوں مموں کو باری باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی مموں
کے تنے ھوے نپلوں پر گوالئی کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے اور کبھی ممے
کو منہ میں بھر کر ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے بالوں میں انگلیاں پھیر
رھی تھی اور منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی
ماسٹر جی تقریبًا دس منٹ تک دودہ کے پیالوں کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے
تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے
ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو چھوڑا اور مموں کے درمیان الئن میں زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے
اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے ماسٹر جی ُک تے کی طرح زبان کو پیٹ پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے پیٹ پر
شہد لگا ھو
ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی نوک سے
ناف کے سوراخ کے چاروں طرف پھیرنے لگے
جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگ جاتی
۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر ُگ ھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت کا ناال کھوال
اسی دوران فرحت نے شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے ُگ ھٹنوں تک کی اور پھر
باری باری دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر نیچے پھینک دی
ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے منہ میں
پانی آگیا
ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی طرح
دانے کو چاٹنے لگ گئے
جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور اس نے
ھاےےےےےےےے میں گئی کہ آواز نکالی
تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر نہ اٹھے
ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر ُک تے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ گئے
فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی کی ھوئی تھی
اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی
اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو دیکھانے میں مصروف تھی
ِادھر عظمی مسلسل میرا لن دباے جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا رھا تھا
مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا ہاتھ عظمی
کی شلوار میں گھسا دیا اور اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے لگ گیا
عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا تھا عظمی
نے میرا لن چھوڑ کر اپنی پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد ھوتے ھی دوبارا عظمی
کی گانڈ میں گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی
پھدی پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے
تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو دبانے
لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا میرا لن عظمی کی
موٹی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ لیا اور ساتھ ھی اپنی
ٹانگوں کو میرے ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ
میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے
میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی ِلیک کر رھی تھی
ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام َچ ک کے رکھا ھوا تھا
ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا مالئی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی چاٹنے
کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے کر رھے تھے کہ
اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور پانی
سے ملی جلی پھوار نکلی جو سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر جی کا منہ
فرحت کی منی اور پانی سے بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل خراب ھونے لگ گیا
اور عظمی نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو اس نے ایکدم اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوے
ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی نکل کر کچھ اسکے ہاتھ پر اور کچھ سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے اس نے
کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر جی اور فرحت نے بھی سن لی
ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھالنگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے
بولے کون ھے،،،
کون ھے
)Update no (21
میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر جارھا تھا
۔۔۔
کالس میں پہنچ کر عظمی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور میں کرسی پر کمروں کی طرف منہ کر
کے بیٹھ گیا
۔۔۔
اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے دیکھ کر اپنے منہ پر ھاتھ پھیر کر اسے انگلی دیکھاتے
ھوے اشارہ کیا کہ دیکھ لوں گا تجھے
۔۔
کچھ دیر بعد ماسٹر جی کمرے سے نکل کر کالس کی طرف آتے دیکھائی دئے میں نے جان
بوجھ کر ماسٹر جی کو ایسے نظر انداز کیا جیسے میں نے انہیں دیکھا ھی نھی
ماسٹر جی اتنے میں میرے قریب سے گزرتے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے
بولے۔۔۔۔
سنا چھوٹے ماسٹر کی ہوریا اے،
میں ایکدم ایسے چونکہ جیسے ماسٹر جی کی آمد کا مجھے پتہ ھی نھی چال
میں جلدی سے کھڑا ھوگیا اور بوال
سر بچوں کی نگرانی کررھا ھوں آپکی طبعیت کیسی ھے اب
ماسٹر جی کے چہرے پر شیطانی سی مسکراہٹ آئی اور ماسٹر جی نے کرسی پر بیٹھتے
ھوے ٹانگیں سیدھی کی اور دونوں ھاتھ سر سے اوپر لیجا کر ایک لمبی سی جمائی لی اور
بولے ٹھیک ھے اب جاو شاباش جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاو
میں جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
مجھے پھر نھی پتہ چال کہ فرحت کب گئی
عظمی نے مجھے کہنی ماری اور بولی
مروان لگا سی نا اج تو میں نے کہا بلے بھی بلے کھانسی تمہاری نکلی اور مروانے میں
لگا تھا
تو عظمی نے گھورتے ھوے کہا
اینی دیر اوتھے کھڑا کی کردا ریا سی
،
میں نے کہا کچھ نھی بس ویسے ھی کھڑا تھا
تو اس نے مجھے پھر کہنی ماری اور بولی سہی سہی بتا کیا دیکھ رھا تھا
ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ نھی
میں نے کہا
تم گبھراو مت کچھ نھی ھوا
اور میں نے ماسٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے
اسے خاموش کروا دیا کہ راستے میں سب بتا دوں گا،
ماسٹر جی آنکھیں بند کیے کرسی پر بیٹھے کرسی کو آگے پیچھے کر کر کے پتہ نھی کس
سوچ میں گم تھے
پھر ہمیں چھٹی ھوگئی اور گھر جاتے وقت کافی سارے بچے ہمارے ساتھ ساتھ تھے اس
لیے عظمی سے کچھ خاص بات نہ ھو سکی
شام کو میں کھیلنے کے لیے گھر سے نکل کر سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر گیا
تو جیسے ھی میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو آنٹی فوزیہ دروازے کے بلکل ساتھ ھی
لگے ہوے نلکے سے برتن دھو رھی تھی،
میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر سالم کا جواب دیا
۔۔۔۔
آنٹی فوزیہ نے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور ُک ھرے کی بنی پر
بیٹھ کر برتن دھونے میں مصروف ھوگئی
میں بھی آنٹی کے پاس ھی کھڑا ھوگیا آنٹی پاوں کے بل بیٹھی تھی اس لیے انہوں نے
پیچھے سے قمیض اٹھا کر آگے دونوں ٹانگوں میں دی ھوئی تھی کہ قمیض پیچھے سے
گیلی نہ ھو
اور آنٹی کی گانڈ پاوں کے بل بیٹھنے سے پیچھے کو نکلی ھوئی تھی اور انکی تھوڑی
سی کمر بھی ننگی ھورھی تھی میری کمبخت آنکھوں نے کھڑے ھوتے ھی آنٹی کی گانڈ
کا اچھے سے ایکسرا کیا
میں نے آنٹی سے عظمی لوگوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ دونوں کمرے میں پڑھ رھی
ہیں
میں پہلے تو کمرے کی طرف چلنے لگا مگر آنٹی کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے فلحال
اپنا ارادہ ملتوی کردیا،
اور نلکے کی ہتھی پکڑا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آنٹی سے بوال
آنٹی میں نلکا گیڑتا ھوں آپ آرام سے برتن دھو لو
آنٹی بولی پتر تم جاو اندر میں دھو لوں گی تم ایسے اپنے کپڑے گیلے کرو گے مگر میں
نے آنٹی کو کہا کہ کچھ نھی ھوتا
اور زور زور سے نلکے کی ہتھی کو گیڑتے ھو آنٹی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا
آنٹی نے الن کی قمیض پہنی ھوئی تھی اور پیلے رنگ میں سے کالے رنگ کے برا کے
سٹرپ صاف نظر آرھے تھے.
آنٹی جب جھک کر برتن کو مانجھتی تو پیچھے سے اپنی گانڈ کو بھی اوپر نیچے کرتی
برتن دھوتے آنٹی کی شلوار ایک سائڈ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس میں سے انکا
گورا جسم دعوت نظارا دے رھا تھا
آنٹی کی گانڈ کی ایک سائڈ صاف نظر آرھی تھی میں چوری چوری نظر گھما کر دیکھ کر
آنکھیں ٹھنڈی کرتا رھا
تب تک آنٹی نے سارے برتن دھوکر لوھے کی ٹوکری میں رکھ لیے اور کھڑی ھوکر پیچھے
سے گانڈ میں پھنسی شلوار کو نکاال اور قمیض کو درست کیا،
تو میں برتنوں کی ٹوکری کو اٹھانے لگا
آنٹی بولی پتر رہنے دے
میں خود اٹھا لوں گی تیرے سے برتن گر جائیں گے،
اور یہ کہہ کر آنٹی میرے سامنے ھی نیچے کو ٹوکری اٹھانے کے لیے جھکی تو آنٹی کے
گلے پر میری بے ساختہ نظر پڑی ان کے چٹے چٹے مموں کا نظارا بلکل میرے سامنے
تھا
کالے بریزئیر میں انکے گورے ممے کیا قیامت لگ رھے
اوپر سے پیال رنگ انپر بہت جچ رھا تھا آنٹی نے برتنوں کی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی
ھوگئی،
میں سکتے کے عالم میں کھڑا ویسے ھی آنٹی کی چھاتی کو دیکھے جارھا تھا
آنٹی نے مجھے آواز دی یاسرررر
)Update no (22
میں ایک دم ہڑبڑا گیا اور آنٹی کی طرف گبھراے ھوے بوال
ججججی آنٹی تو آنٹی
مسکرا کر بولی
کون سے خیالوں میں کھو جاتے ھو
میں نے کہا کہیں نھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی چلو کمرے میں
اور آنٹی میرے آگے آگے برتنوں کی ٹوکری کو اٹھاے اپنے پیٹ کے ساتھ لگاے چلی
جارھی تھی
میں آنٹی کے پیچھے انکی ہلتی ھوئی گانڈ کو گھورتے چال جارھا تھا
آنٹی کمرے میں داخل ھو کر سامنے دیوار پر لگے لکڑی کے پھٹے پر برتن جوڑنے لگ
گئی اور میں عظمی اور نسرین کے پاس جا کھڑا ھوگیا
،،،،
اور تالی مار کر بوال واہ جی واہ بڑی پڑھائیاں ھو رھی ہیں،
نسرین بولی
ہاں تینوں کوئی تکلیف اے
آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گالں کرنیاں،
میں نے بھی جوابا کہا
جناں مرضی پڑ لو ُہناں تے فیل ای اے
تو اس دفعہ عظمی بولی
تم تو ہر دفعہ فرسٹ آتے ھو جیسے۔۔
میں نے کہا
شکر ھے فرسٹ ھی آتا ھو
تمہاری طرح رشوت دے کر پاس نھی ہوتا
تو نسرین جھال کر بولی
اممییییی اسے بولو ہمیں پڑھنے دے خود تو سارا دن آوارہ پھرتا ھے اور دوسروں کو
پڑھنے نھی دیتا،
تو آنٹی جو پہلے ھی ہماری باتوں پر ہنس رھی تھی
ہنستے ھوے بولی
بھائی ھے تمہارا .اب تم لوگوں کے ساتھ نھی مزاق کرے گا تو کس سے کرے گا،
تو عظمی بولی امی آپ کی ان ھی باتوں نے اسے سر پر چڑھا رکھا ھے
تو انٹی غصے سے بولی بکواس نہ کر تے چپ کر کے پڑھ،
تو عظمی نے غصہ سے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنا شروع کردی کہ پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا
اب یہ شیطان کا چیال آگیا اس نے پڑھنے دینا ھے،
میں نے آنٹی کی طرف بڑا معصوم سا چہرہ بنا کر دیکھا اور کہا آنٹی جی دیکھ لیں
مجھے کیا کہہ رھی ھے تو آنٹی بولی
ایدی زبان وڈن والی ھوئی اے جو منہ وچ اندہ پونک دیندی اے
تو عظمی مجھے گھورنے لگ گئی
میں نے عظمی کی طرف دیکھا اور زبان نکال کر اسے منہ چڑایا تو وہ مجھے مارنے کے
لیے بھاگی تو میں کمرے سے باھر کو بھاگا اور وہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آگئی
میں گلی میں نکل کر کھیتوں کی طرف بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی تیز تیز
چلتی جوتا ھاتھ میں پکڑے آرھی تھی
میں رک گیا اور اس کی طرف دیکھ کر پھر زبان نکال کر منہ چڑایا تو اس نے ھاتھ میں
پکڑا جوتا میری طرف پھینکا جو مجھ سے کچھ ھی دور گرا میں نے آگے بڑھ کر اسکا
جوتا اٹھایا اور کھیت کی طرف بھاگ گیا
وہ بھی ایک پاوں میں جوتا پہنے اور ایک ننگے پاوں سے ھی مجھے برا بھال کہتی میرے
پیچھے بھاگی
میں کھیت میں پہنچا تو کافی سارے بچے کھیل رھے تھے
میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ گیا۔
).Update no (25
اوپر سے ہماری کالس میں زیادہ بچے شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے تھے
کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی اردو سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ جاتے
میں شرمندہ سا ھوجاتا
سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ کی ھوئی
عالمہ اقبال اور قائد اعظم کی تصویر یں
میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر دوسری طرف
جاتا تو تب بھی میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے .میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور اس چیز کو بہت انجواے کیا
خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی شہر
جانے کی ھوتی
اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر پر ایک
چھوٹا سا لکڑی کا ُپل بنا ھوا تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف جاتے تھے
سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو عظمی
اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی تھی اور شہر کڑھائی اور سالئی کا کام سیکھنے جاتی تھی
واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی تھی
مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا تھا
باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی
اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ بھگ تھی اور
تھی بڑی سیکسی سی
چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے کے برابر
تھا اور اسکی گانڈ تو کمال کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا فٹنگ واال پہنتی تھی
جس سے اسکے ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی
الگ ھوتا
رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے رنگ میں ایک کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی بات کرتے
ھوے آنکھوں کو وہ اکثر بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات کرتی
جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں اور
اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک جاتے دیکھتا رھوں
وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی
جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری گال پر ُچ ٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے چلیں
میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو باجی
مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ دیتی ھی،،
کسے دن میں ایدی ُبنڈ تے دندی وڈ کے پج جانا اے،
مگر یہ میرا خیالی پالن تھا میں ایسا صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل کرنا ناممکن تھا
دوستو
کافی دن ایسا ھی چلتا رھا
ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد
جس کو سب اونٹ کہتے تھے
کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی ھی
ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا
اسد پڑھائی میں بلکل نالئق تھا اسی وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کالس میں ھی رھا تھا
ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا ھے
سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا پڑھتا کچھ بھی نہ
شکل سے بلکل ساال ُپھکرا لگتا تھا
اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی تھی
میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں میری
گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا
میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر اگنور کر دیتا
تھا
ایک دن میں نے دیکھا .کہ اسد بڑا مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ رھا تھا اور
ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے تو میں سمجھا شاید
اسکے خارش ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو
بنا ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک اٹھاے ھوے تھا
میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی،،.
میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم میں نے جھر ُج ھری سی لی اور آنکھیں پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ،
جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا
رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں کی تصویریں تھی
جس میں کسی جگہ
لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو منہ میں لے کر چوس رھی تھی کہیں گوری گھوڑی بنی
ھوئی تھی اور گورے نے اسکے بال پکڑے ھوے تھے اور لن پیچھے .سے اسکی پھدی میں ڈاال ھوا تھا
کسی جگہ .گوری اپنے ممے چسوا رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے تھے اور
کسی جگہ دو گوریاں آپس میں ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں گوری اپنی انگلی
پھدی میں ڈال کر لیٹی ھوئی تھی
ایسے بہت سے پوز تھے
میں رساال دیکھنے میں فل مگن ھوگیا تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں لن
سے بیگانہ ھوکر بس انگریز گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی چٹی ُبنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک
مجھے جھٹکا لگا اور میں نے گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو،،،،،،،
میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو اسد نے میرا لن پکڑا ھوا تھا اور لن کو مٹھی میں دبا رھا تھا میں نے ایک جھٹکے اس
کے ھاتھ سے اپنا لن ُچ ھڑوایا اور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اوے کیا مسئلہ ھے تجھے تمیز سے رہو تو وہ مسکرا کر بوال یار میں تو تیرا لن چیک کر رھا تھا کہ کتنا بڑا ھوگیا
ھے
میں نے کہا تو نے میرا لن اپنی گانڈ میں لینا ھے جو چیک کررھا ھے،
تو بوال یار ابھی تیری عمر نھی ھے گانڈ میں لن ڈالنے کی ابھی تو تجھے یہ بھی نھی پتہ ھوگا کہ
بیر دی ُبنڈ کتھے ہوندی اے
تو میں بوال
او پائی میں ایتھے پڑن آنداں ایں بیر دی ُبنڈ ویکھن نئی،
تو اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر کہا یہ دیکھ ایسا ھوتا ھے ُبنڈ پاڑ لن
تو میں نے جھٹکے سے اپنا ھاتھ پیچھے کرتے ھوے کہا
اوے توں باز نئی آنا
آ لین دے ماسٹر جی نوں
میں دسنا اے توں جیڑے کم کرن لگیا ھویاں اے
تو اسد نے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا
یار تم تو غصہ ھی کرگئے میں تو اس لیے کہہ رھا تھا کہ اپنے لن کی مالش کیا کرو دیکھنا کیسے دنوں میں میرے لن جتنا
ھوتا ھے
تو میں نے کہا او بھائی اپنی اور میری عمر اور قد کا فرق دیکھ
پہلے پھر یہ بات کرنا
تیری عمر ذیادہ ھے اس لیے تیرا لن بھی بڑا ھی ھوگا میں ابھی چھوٹا ھوں اس لیے میرا لن بھی چھوٹا ھے
تو اسد بوال یار ایک تو تم غصہ بہت کرتے ھو میں تیرے فائدے کی ھی بات کررھا ھوں
اور دیکھ لن کا عمر اور قد سے کوئی تعلق نھی
لن کو جتنی جلدی اور جتنا مرضی بڑا کرسکتے ھو
میں اسد کی باتوں میں آچکا تھا اس لیے میرا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ھوگیا تھا
اس لیے میں اسکی باتوں کو غور سے سن رھا تھا
تو میں نے کہا وہ کیسے کرسکتے ہیں
تو اسد بوال یاسر ویرے دیکھ سیدھی سی بات ھے
میں یاروں کا یار ھوں اور گانڈو لوگوں کو میں اپنے پاس بھی نھی بھٹکنے دیتا
تم مجھے اچھے لڑکے لگے ھو میں کافی دنوں سے تجھ سے دوستی کرنا چاھتا تھا مگر ججھک رھا تھا
تو میں نے کہا دیکھ اسد میں پینڈو جیا تے سدھا سادھا جیا بندا واں
اسی پنڈ دے لوک وی یاراں دے یار ہوندے آں
تے جدے نال اک واری یاری ال ٰل یے تے اودے واسطے جان وی دے دیندے آں،
اسد نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور مجھے کہنے لگا بس یار مجھے بھی ایسا ھی سمجھ اور میں نے بھی اسکے ھاتھ میں
دوستی کا ھاتھ دے دیا
اور کافی دیر ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے بارے میں بتاتے رھے
اسد نے بتایا کہ اسکی بس ایک بہن ھی ھے جو اس سے ایک سال چھوٹی ھے اور میٹرک کر رھی ھے اور اس کے ابو
اسکے بچپن میں ھی ایک کار ایکسڈینٹ میں ہالک ہوگئے تھے جس میں اسکے ماموں اور ممانی بھی ساتھ ھی ہالک ھوے
تھے
اور اسکا ایک کزن ھے جو اس کے ماموں کا ھی بیٹا تھا
جو کچھ دن پہلے کینڈا چال گیا تھا
اسد کے ابو اور ماموں بوتیک کا کام کرتے تھے جو اب اسد کی امی نے سمبھاال ھوا تھا
اسد کا پڑھائی میں بلکل بھی دل نھی لگتا تھا جس وجہ سے وہ تین چار دفعہ فیل ھوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تک چھٹی
کالس میں ھی تھا اسد نے بتایا کہ اسے سیکس کا بہت شوق ھے اور خاص کر لڑکوں کی ُبنڈیں بہت مارتا ھے
جب اس ،نے مجھے یہ بتایا تو میں نے اسے مکا مارتے ھوے کہا ماما تبھی میرے پٹوں پر ھاتھ پھیرتا رہتا تھا
تو اس نے ہنس کر کہا کہ ہاں یار میں نے تجھ پر بڑی دفعہ ٹرائی ماری مگر تم ویسے لڑکے نھی نکلے ورنہ اب تک تم
بھی میرے نیچے ھوتے
میں نے اسد کے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور دونوں کھل کھال کر ہنس پڑے
تو میں نے کہا یار یہ گندے رسالے کہاں سے التا ھے اور تجھے ڈر نھی لگتا تو اسد بڑے فخر سے بوال جگر یہ تو کچھ
بھی نھی ھے میرے پاس تو ایسے ایسے رسالے پڑے ہیں کہ تو دیکھ کر چھوٹ جاے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم انکو رکھتے کہاں پر ھو تو وہ بوال کہ میرے کزن واال کمرہ اب میرے پاس .ھی ھوتا
ھے اس میں الماریاں ہیں وہیں چھپا دیتا ھوں میرا کزن بھی بڑا حرامی تھا کسی دن تجھے گھر لیجا کر ایسی ایسی ایٹمیں
دیکھاوں گا کہ تو یاد کرے گا کہ کس سخی دل سے پاال پڑا ھے
میں نے کہا واہ یار تیری تو موجیں لگی ھوئی ہیں
تو اسد بوال میرے ساتھ رھو گے تو تیری بھی موجیں ھونگی
میں نے کہا نئی یار ایسی بھی بات نھی بس تیری دوستی ھی کافی ھے میرے لیے
اسی دوران ہمیں تفری ہوگئی .ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ھی سب بچے باہر کو بھاگے .ہم بھی نکل کر باہر گراونڈ میں
آگئے پھر ہم سڑک کی طرف چلے گئے وھاں ریڑھی سے انڈے والے نان کھاے اور پھر گراونڈ میں آکر ایک طرف بیٹھ
کر باتیں کرنے لگ گئے
اسد بوال سنا جگر گاوں میں کسی بچی کی پھدی بھی ماری ھے اب تک یاں پھر کنوارہ ھی پھر رھا ھے تو میں نے کہا نہ
یار .ہمارے گاوں میں ایسا ویسا کچھ نھی ھوتا
اگر ایسا کچھ ھو تو پتہ لگنے پر ویسے ھی لڑکے لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں
تو اسد بوال
ابھی تیرا لن چھوٹا ھے نہ اسی لیے پھدی کی طلب نھی کرتا اور مجھے تو لگتا کہ تم نے ابھی تک مٹھ بھی نھی ماری ھوگی
تو میں نے حیران ھوتے ھوے پوچھا کہ یار چھوٹے لن کی تو سمجھ آگئی مگر یہ مٹھ مارنا کیا ھے
تو اسد نے ہنستے ھوے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے کہا
جا یار .تم واقعی پکے پینڈو ھو
چل کسی دن تجھے یہ چسکا بھی ڈال دوں گا
میں کچھ دیر خاموش رھا اور جھجھکتے ھوے اسد سے بوال
یار کیا واقعی لن کے بڑے ھونے کا عمر سے کوئی تعلق نھی
تو اسد میری طرف دیکھتے ھوے بوال
تم نے بڑا کرنا ھے تو بتا دیکھنا چند دنوں میں ھی لن بڑا نہ ھوا تو کہنا
میں نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا سچی
تو اسد بوال
مچی
تو میں نے کہا یار وہ کیسے تو اسد بوال ہے میرے پاس ایک نسخہ
تو میں نے کہا کونسا
تو اسد بوال بیس روپے کا ھے بس
تو میں پریشان سا ھوکر بول بیسسسسس روپے کا
نہ یار مجھے تو گھر سے پچاس پیسے خرچہ ملتا ھے اور اسکا میں نان کھا لیتا ھوں میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آنے
ہیں
تو اسد بوال چھڈ یار
یاراں دے ہوندیاں پریشان نئی ھوئی دا
میں نے کہا کیا مطلب
تو اسد بوال
یار میں تجھے ال دوں گا پیسوں کی فکر نہ کر
تو میں نے کہا نھی یار میں ایسے نھی لے سکتا جب میرے پاس پیسے ھونگے میں تجھے بتا دوں گا
تو اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال
ماما فیر کردتی نہ پینڈواں والی گل
نالے یاری الئی اے تے نالے فرق رکھنا اے
میں نے کہا نھی یار ایسی بھی بات نھی بس مجھے شرم آتی ھے
تو اسد بوال
چل ایسے کر مجھ سے ادھار کرکے لے لینا جب تیرے پاس پیسے ھونگے تو دینا
اب تو ٹھیک ھے
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے اسد کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہال دیا
اتنی دیر میں ہاف ٹائم بھی ختم ھوگیا اور ہم دونوں کالس کی طرف چل دیے
اور اسد نے بتایا کہ میں کل ھی اپنے یار کے لیے تحفہ لے آوں گا
میں دل ھی دل میں بہت خوش ھوتا رھا
چھٹی کے بعد میں عظمی اور نسرین کے سکول کی طرف چال گیا اور انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
دوسرے دن میں سکول کے لیے تیار ھوکر عظمی کے گھر گیا اور ان دونوں کو لے کر ہم تینوں باجی صدف کے گھر
اسے ساتھ لینے چلے گئے
باجی صدف تیار ھوکر بیٹھی تھی بس برقعہ ھی پہننا تھا ہمیں دیکھ کر باجی صدف بولی بس دومنٹ میں ابھی آئی اور
کمرے کی طرف چلی گئی
باجی صدف لگتا تھا ابھی ابھی نہائی تھی کیوں پیچھے سے گیلے بال اسکی قمیض کو بھی گیال کیے ھوے تھے
باجی صدف نے آج پنک کلر کا سوٹ پہنا ھوا تھا جو اسپر بہت جچ رھا تھا
باجی صدف تھوڑی ھی دیر بعد برقعہ پہنے باہر آگئی اور ہم سکول کی طرف چلدیے
کھیت کی پگڈنڈی پر ہم سب آگے پیچھے چل رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اس سے پیچھے عظمی اور پھر باجی
صدف اور اس کے پیچھے میں تھا اور باجی صدف کی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے مزے سے مست ھوکر چل رہا
تھا اور ہمارا فاصلہ بھی کچھ ذیادہ نھی تھا بس ایک قدم کے فاصلے پر میں باجی صدف کے پیچھے چل رھا تھا میرا لن بھی
قمیض کو اوپر اٹھاے پیچھے سے باجی صدف کی گانڈ کو اشارے کر رھا تھا جب ہم آدھے راستے پر پہنچے تو ایکدم کپاس
کی فصل جو اب سوکھ چکی تھی اس میں سے ایک کالے رنگ کی بلی نکل کر تیزی سے عظمی اور باجی صدف کے
درمیان سے نکل کر پگڈنڈی کے دوسری طرف بھاگ گئی بلی شاید باجی صدف کے پاوں کے اوپر سے گزری تھی باجی
صدف نے زور دار چیخ ماری اور پیچھے کو ھوئی جس سے اسکا پاوں بھی پگڈنڈی سے سلپ ھوا اور نیچے گرنے
ھی لگی تھی کے میں نے جلدی سے باجی صدف کو پیچھے سے جپچھی ڈال دی اور گرنے سے بچا لیا
)Update no (26
یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ مجھے بھی سمجھ نہ آئی کے باجی کو کہاں سے پکڑوں
میرے پکڑنے سے پہلے باجی کافی نیچے کو جھک چکی تھی اور انکی ُبنڈ جو پہلے ھی باہر کو نکلی ھوئی تھی جھکنے
کی وجہ سے اور باہر نکل گئی تھی میں نے ویسے ھی اسکو پیچھے سے جب جپھی ڈالی تو میرے ھاتھ اسکے دونوں بڑے
بڑے اور نرم ممے آگئے اور میرا لن اس کی ُبنڈ کی دراڑ کے اوپر ٹکر مار کر اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
ایسا بس کوئی تیس چالیس سیکنڈ ھی ھوا
باجی صدف نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھے اور جھٹکے سے مموں کو آزاد کروا دیا مگر میں نے
بھی ممے چھوڑتے وقت ہلکے سے دبا کر اس انداز سے چھوڑے کے باجی کو ایسے لگے جیسے انکے چھڑانے کی وجہ
سے مموں پر دباو آیا تھا
اور میرے ھاتھ باجی کے پیٹ پر آگئے تھے
اور لن صاحب ابھی تک باجی کی گانڈ میں گھسنے کی ٹرائیاں مار رھے تھے
باجی اب سمبھل چکی تھی اور عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر کھڑی ھوگئی تھی اور عظمی نے بھی آگے بڑھ کر باجی کو
بازوں سے پکڑ کر سیدھا کیا
میں نے پوچھا باجی کیا ھوا تھا بچ تو گئی چوٹ تو نھی آئی تو باجی ایکدم آگے کو ہوئی اور بڑی حیرت سے میری آگے
سے اٹھی ھوئی شلوار کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنا آپ مجھ سے چھڑوا کر
بولی ھاں ھاں بچ گئی ھوں
بلی نے اچانک چھالنگ لگائی تو میں ڈر کر پھسل گئی
شکر ہے تم نے مجھے پکڑ لیا نھی تو میری پاوں میں موچ آجانی تھی
تو میں نے کہا باجی ***** نہ کرے کہ آپکے پاوں میں موچ اجاے
تو باجی مجھے غور سے دیکھتے ھوے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
شکریہ یاسر
تو میں نے کہا کوئی بات نھی باجی یہ تو میرا فرض بنتا تھا
تو وہ تھوڑا ہنسی اور ایک دفعہ پھر میری قمیض کی طرف دیکھا جہاں اب سب شانتی تھی اور مسکرا کر پھر میرے آگے
چل پڑی
میں نے اس دوران عظمی کی طرف دیکھا وہ پتہ نھی کیوں مجھے گھورے جارھی تھی
خیر ہم سکول پہنچ گئے
اور میں دل ھی دل میں بلی کو دعائیں دیتا رھا جسکی وجہ سے مجھے باجی صدف کے جسم کو چھونا نصیب ھوا وہ بھی
ڈریکٹ مموں کو اور گانڈ کو
جسکو روز حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رھتا تھا،
عظمی لوگوں کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول آگیا کچھ دیر پڑھانے کے بعد ٹیچر بھی کمرے سے باہر چلے
گئے اور سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف ھوگئے
تب اسد نے بیگ سے دو چھوٹی سی شیشیاں نکالی اور مجھے دیکھاتے ھوے کہا یہ ھے وہ جادوئی نسخہ جس کی مالش
سے دنوں میں تیرا لن پھدی پاڑ لن بن جاے گا
میں نے شیشیوں کو پکڑتے ھوے انکو حیرانگی سے دیکھا جن کے ڈھکن الگ الگ کلر کے تھے اور اسد سے کہا
یہ کیا ھے
تو وہ بوال
جگر اس میں تیل ھے
رات کو تم نے پہلے یہ سفید ڈھکن والے تیل کی سارے لن پر ہلکے ہلکے مالش کرنی ھے اور لن پر سوتی کپڑا لپیٹ دینا
ھے اور پھر آدھے گھنٹے بعد کالے ڈھکن والی شیشی کے تیل سے ٹوپی کو چھوڑ کر نچلے حصہ پر مالش کرنی ھے اور
پھر وہ ھی کپڑا دوبارا لپیٹ لینا ھے
تو میں نے کہا کتنے دن کرنی ھے تو اس نے بتایا بس جب تک یہ تیل ختم نھی ھوتا
تب تک روز مالش کرتے رہنا تجھے دنوں میں فرق کا پتہ چل جاے گا
میں نے خوش ھوکر شیشیاں اپنے بیگ میں رکھ دی
پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ گھر جاکر انکو رکھوں گا کہاں پر پھر سوچا جگہ بھی مل ھی جاے گی ایک دفعہ لے کر گھر تو
پہنچوں
پھر ہاف ٹائم ھوگیا اور ہم باہر نکل کر گراونڈ میں چلے گئے اسد بوال پھر کب میرے گھر چلے گا تو میں نے بتایا کہ یار
میں تمہارے گھر چال تو جاتا مگر میں جا نھی سکتا
تو وہ بوال
جا کیوں نھی سکتا
میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور جانے کی
ڈیوٹی بھی میری ھے اس لیے
تو اسد کچھ دیر سوچتے ھوے بوال
کہ اگر ہم سکول سے ُپھٹہ لگا لیں تو
میں نے کہا وہ کیا ھوتا ھے
تو اسد ہنستے ھوے میرے سر پر تھپڑ مارتے ھوے بوال
جا اوے توں وی نہ حالے تک ہینڈو ای ایں
میں نے اسے کہا ماما جدوں مینوں پتہ ای نئی کہ ُپھٹہ ھوندا کی اے تے مینوں سمجھ کنج آے گی
تو وہ ہنستا ھوا بوال
کہ یار سکول سے بھاگ کر چھٹی کرنے کو ُپھٹہ لگانا کہتے ہیں
تو میں نے فٹ کیا
سالیا مینوں مروانا اے
ابھی تو میرا شوق بھی نھی پورا ھوا شہر آنے کا اور تو مجھے سکول سے نکلوانے کا پروگرام بنا رھا ھے
تو اسد بوال یار پریشان نہ ھو تیرا یار ھے نہ اس سکول کا بھیدی
تو بس ٹینشن نہ لے تیرے پر اگر کوئی بات آئی تو میں سب سنبھال لوں گا
مجھے پتہ ھے کی کیا کرنا ھے
بس تو مجھ پر بھروسہ رکھ
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے پھر اسے کہا
یار ویکھیں ِکتے مروا نہ دیویں
تو اسد بوال یار مجھ پر یقین نھی تو میں نے کہا نھی
تو اسد غصے سے کھڑا ھوکر ُمکا بنا بازو اوپر کر کے کہنے لگا
لن تے چڑ فیر
اور جانے لگا تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھاتے ھوے کہا
ایویں ھن شوخا نہ بن چل فیر ویکھی جاے گی جو ھوے گا
تو اسد بوال چل پھر کل تیار رہنا ہم اسمبلی کے وقت سکول کے کمروں کے پیچھے بیرونی دیوار سے نکل کر سکول
سے .باھر نکل جایں گے
تو میں نے کہا یار سکول کی دیواریں تو کافی اونچی ہیں تو وہ بوال اس بات کی فکر نہ کر بس تو تیار رہنا
میں نے اثبات میں سر ہالیا
اور ہم دونوں اٹھے اور باہر سڑک پر اکر نان کھانے لگ گئے
سکول سے واپس .جاتے بھی کچھ خاص نھی ھوا
دوسرے دن پالننگ کے تحت ہم کمروں کے پیچھے چلے گئے کیوں کے سکول کا مین گیٹ بند ھوگیا تھا اور کوئی بچہ
باھر نھی جاسکتا تھا
ہم کمروں کے پیچھے سے چلتے ھوے ایک جگہ پہنچے جہاں سے بڑا سا ناال تھا جو سکول کی بیرونی دیوار کے نیچے
سے باہر کو جاتا تھا جو اس وقت سوکھا ھوا تھا شاید بارش کے پانی کے لیے وہ ناال بنایا ھوا تھا
نالے کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم آسانی سے نکل کر دوسری طرف جاسکتے تھے
پہلے اسد نیچے گھسا اور دوسری طرف گردن نکال کر تسلی کرنے لگا اور پھر جلدی سے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا
اور باھر نکل گیا میں بھی اسکے پیچھے ھی باہر آگیا
ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ایک چھوٹی سی گلی میں گھس گئے وہ گلی آگے جاکر بازار میں کھلتی تھی میں نے اسد سے کہا یار
چھٹی کے وقت میں نے سکول پہنچنا ھے تو اسد بوال یار پریشان نہ ھو ساری ٹینشن دماغ سے نکال دے اور میرے ساتھ
چل پھر دیکھنا تو سب کچھ بھول جاے گا
میں چپ کرگیا اور اسکے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلتا رھا
ہم بازار سے ھوتے ھوے پھر ایک گلی میں گھس گئے گلی بھی بازار کی ھی طرح تھی
مگر ادھر آمدورفت بہت ھی کم تھی
اسد نے ایک دکان کے آگے رکتے ھوے مجھے کہا چل یار آج تجھے ایک گرما گرم چیز دیکھاتا ھوں تو میں نے کہا
کہاں پر تو اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جس کے اگے پردہ لگا ھوا تھا اور اندر سے ویڈیو گیم کا شور آرھا تھا
اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لے کر دکان میں گھس گیا
کاونٹر پر ایک انکل بیٹھا ھوا تھا
اسد نے اسے ایک روپیہ دیا اور اسے کہا سپیشل گیم تو اس نے کافی سارے سکے اسد کو تھما دیے اور سائڈ پر بنے ایک
کیبن کی طرف اشارہ کیا اور بوال ادھر چلے جاو خالی ھے
میں بونگوں کی طرح دکان میں لگی بڑی بڑی گیموں کو دیکھ رھا تھا جہاں پانچ چھ بچے مختلف گیمیں کھیل رھے اور وہ
بچے بھی سکول یونیفارم میں ھی تھے
اسد کیبن کی طرف چل دیا اور میں بھی اسکے پیچھے کیبن کے اندر گھس گیا
اسد نے ایک سکہ گیم میں ڈاال اور گیم سٹارٹ کر کے کھیلنے لگ گیا میں حیران ھوکر رنگین سکرین پر چلتی ھوئی گیم کو
بڑی دلچسپی سے دیکھ رھا تھا
میں نے زندگی میں پہلی دفعہ رنگین ٹی وی دیکھا تھا
اسد نے گیم ختم کی اور میرے پٹ پر ھاتھ مار کر بوال تیار ھوجا اب
میں نے گبھرا کر اسد کی طرف دیکھا تو
اسد نے کہا جگر ادھر دیکھ تو میں سکرین کی طرف دیکھنے لگ گیا اتنے میں ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی جس نے
ہاف سکرٹ پہنا ھوا تھا اور اونچی ہیل والی جوتی پہنی ھوئی تھی اسکے ممے اتنے بڑے تھے جیسے ابھی سکرٹ کو پھاڑ
کر باہر آجائیں گے
وہ بڑی ادا سے جسم کو لہراتی ھوئی ہماری طرف آئی
اور بڑی ادا سے کھڑی ھوگئی اور ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر ھاتھ کو چوما اور ہماری طرف پھونک ماردی اور سکرین
پر انگلش میں لکھا ھوا
ویلکم ٹو مائی سویٹ ھارٹ
آیا
اور وہ لڑکی گھومی اور پیچھے اپنی بڑی سی گول مٹول سی گانڈ پر دونوں ھاتھوں کو رکھا اور بڑے سٹائل سے ھاتھوں
کو اپنی گانڈ پر پھیرا اور اسی سٹائل سے چلتی ھوئی واپس چلی گئی
تو اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال
سنا فیر
میں نے کہا یار بچی تو کمال کی تھی
تو اسد بوال
آگے آگے دیکھ
تو اسد پھر گیم کھیلنے لگ گیا اور کچھ ھی دیر بعد اسد نے دوسری سٹیج بھی کھیل لی اور وہ ھی لڑکی پھر دوبارا اسی
سٹائل سے کمر کو لہراتی گانڈ کو مٹکاتی ھوئی چلی آئی اور پھر سے ہوائی ُچ می ہماری طرف پھینکی اور بڑے سٹائل سے
کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے اور کندھوں سے سکرٹ نیچے اتار دیا سکرٹ مموں پر آکر رک گیا
اور پھر اس لڑکی نے بڑی ادا سے کمر کو ہالیا اور ساتھ ساتھ سکرٹ کو نیچے کرتی گئی جب سکرٹ اسکے مموں سے
نیچے اترا تو سرخ کلر کے بریزیر میں اسکے بڑے بڑے گول مٹول ممے قیامت ڈھا رھے تھے اسکے ممے دیکھ کر میرا
تو حلق خشک ھونے لگ گیا اور میں نے بے ساخت اپنے لن کو پکڑ کر مسلنے لگ گیا
لڑکی نے آہستہ آہستہ کمر کو لہراتے ھوے سکرٹ گانڈ تک اتارا دیا اور پھر دونوں ھاتھ اپنے کولہوں پر رکھ کر گانڈ کو
لہراتے ھو سکرٹ گانڈ سے بھی نیچے اتار کر چھوڑ دیا
سکرٹ اسکے پاوں میں گر گیا
اب وہ سرخ بریزیر اور سرخ ھی پینٹی میں تھی اسکے پورے جسم پر ایک بھی بال نھی تھا کیا کمال کا فگر تھا یار
لڑکی کچھ دیر کھڑی ادائیں کرتی رھی اور پھر واپس چلی گئی
اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال سنا جگر مزہ آیا کہ نھی میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ھوے اسے کہا
یار کمال کردتا ای
کیا بم پھوڑ کے گئی ھے مزہ اگیا
تو اسد بوال آگے دیکھ
اور اسد نے اگلی سٹیج کھیلنی شروع کردی
تو میں نے کہا
یار اسکا نام کیا ھے تو اسد نے سکرین پر ایک سائڈ پر اسی لڑکی کی چھوٹی سی تصویر کے نیچے لکھے نام کی طرف
اشارہ کرتے ھوے کہا
اسکا نام جولی ھے تو میں نے کہا واہ کیا نام ھے جولی
تو اسد ہنسنے لگ گیا
اور بوال
نام تو ایسے پوچھ رھا ھے جیسے اس سے شادی کرنی ھے
تو میں نے ایک لمبا سا سانس اندر کھینچ کر سانس باہر چھوڑا اور آہ بھرتے ھوے کہا ساڈی قسمت وچ کتھوں ایھو جیاں
پریاں
تو اسد کھل کھال کر ہنس پڑا اور بوال
میرے شزادے تو لن تو ایک دفعہ بڑا کر پھر دیکھ ایسی تو کیا اس سے بھی سپیشل پھدیاں تیرا انتظار کریں گی
تو میں نے حسرت بھری اواز نکالتے ھوے کہا
پتہ نئی او وقت کدوں آنا اے تو
اسد بوال بس صبر کر صبر دا پھل مٹھا ھوندا اے
تبھی اسد نے سٹیج مکمل کی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی
تو جولی پھر گانڈ کو لہراتی بل کھاتی کیٹ واک کرتی ہماری طرف آکر کھڑی ھوگئی
اور پھر ایک فالئنگ کس ہماری طرف پھینکی جسے میں نے آگے ھاتھ کر کے پکڑ کر اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے
سینے کے ساتھ مٹھی کو لگا لیا
جولی نے دونوں ھاتھ کمر کے پیچھے کیے اور بریزیر کے ہک کھول دیے اور کندھوں سے بریزیر کے سٹرپ سرک کر
نیچے بازوں تک کر دیے اور ھاتھ آگے کر کے مموں پر بریزیر کے کپ کے اوپر رکھ لیے اور آنکھ سے اشارہ کر کے
ہمیں پوچھا کہ اتاردوں
میں جو بے صبری سے اسکے مموں کو دیکھنے کے لیے ترسا بیٹھا تھا جلدی سے بوال
ال وی دے ہن کناں ترسائیں گی
تو اس نے میری بات مان کر مموں سے بریزیر کے کپوں کو ہٹا دیا
اور میں جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں ھاتھوں سے اسکے ممے پکڑنے کی کوشش کرنے لگ گیا اور سکرین
کو نوچنے لگ گیا اتنے میں
میں ایکدم اچھال کیوں کہ اسد نے پیچھے سے میری گانڈ میں انگلی دے دی تھی
میں اچھل کر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا اور بوال جا اوے پین یکہ سارا مزا ای خراب کردتا ای
تو اسد ھنستے ھوے بوال سالیا ساری سکرین روک لئی سی مینوں وی تے ویکھن دے
تب جولی نے اپنے گول مٹول مموں کو پکڑا اور ایک ممے کو اپنے منہ کی طرف لے گئی اور نپل پر زبان پھیر کر ممے
کو چھوڑ دیا پھر دوسرے ممے کے نپل پر زبان پھیری اور واپس .چلی گئی
اسد نے پھر گیم کھیلنا شروع کردی اور کچھ ھی دیر بعد سٹیج ختم کی اور پھر سے جولی بڑے بڑے مموں کو لہراتی گانڈ
کو ہالتی چلی آئی ابھی جولی نے فالئنگ کس کی ھی تھی کہ اچانک ایک جھماکہ ھوا اور،،،،،،
،،،،
وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ
).Update no (27
..Post ko like aur share Lazmi karen
جھماکہ ہوتے ہی الئٹ بند ھوگئی
میں نے اور اسد نے ایک آواز میں ھی واپڈا والوں کو تگڑی سی گالی دی اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے
میں نے اسد کو کہا یار چلو دفعہ کرو پھر کبھی دیکھیں گے اور ہم دکان سے باہر نکل کر اسد کے گھر کی طرف چل دیے
اسد کے گھر کے سامنے پہنچ کر اسد نے جیب سے چابی نکالی اور مجھے رکنے کا کہہ کر گیٹ کھول کر اندر داخل ھوگیا
میں باہر کھڑا حیرانگی اور حسرت بھری نگاہوں سے اسد کے گھر کو باہر سے دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگ گیا کہ
باہر سے اتنا خوبصورت گھر ھے تو اند سے کتنا خوبصورت ھوگا
اتنے میں اسد نے بیٹھک کر دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کا اشارا کیا
میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو اپنے پینڈو ہونے کا ثبوت دینے لگ گیا اور کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ کر واہ واہ کرنے
لگ گیا کیا کمال کی کمرے میں سیٹنگ کی ھوئی تھی بڑے بڑے صوفے اور صوفوں کے اگے پڑا بڑا سا شیشے کا ٹیبل
دیواروں کے ساتھ لگی رنگ برنگی پینٹنگ دیواروں پر لمبے سائز کے خوبصورت پردے
کیونکہ اتنا خوبصورت کمرہ اور یہ سب چیزیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی ہمارے گاوں میں تو بس بیٹھکوں
میں چارپایاں اور مُو ڑے پڑے ھوتے تھے یا جو اچھے زمیندار ھوتے انکے لکڑی کے صوفے ھوتے مگر یہاں تو سب کچھ
ھی میرے لیے نیا تھا،،
اسد میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بوال
جگر بیٹھ میں تھوڑی دیر تک آیا
اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ جلدی سے گھر کے اندر کی طرف جاتے دروازے سے نکل کر اندر چال گیا اور
میں کھڑا ھوکر پھر کمرے کی ہر ہر چیز غور سے دیکھنے لگ گیا
کچھ دیر میں گردن کو گھماتے کمرے کی چاروں اطراف کا جائزہ لیتا رھا
پھر میں صوفے پر بیٹھ گیا
بیٹھتے ھی میجھے ایسے لگا جیسے میں صوفے مین دھنس کر پیچھے کی طرف گرنے لگا ہوں
دوستو اس وقت اگر میری کوئی حالت دیکھتا تو شاید ہنسی کے دورے سے بےہوش ہوجاتا
میں ہڑبڑا کر پھر سے کھڑا ھوگیا اور پریشان ھوکر صوفے کو دیکھنے لگ گیا
پھر میں نے ڈرتے ڈرتے صوفے کی سیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اسکو دبا کر تسلی کرنے لگ گیا کہ صوفہ سہی سالمت ھی ھے
میں دوبارا ڈرتے ڈرتے صوفے پر آہستہ سے بیٹھ گیا اب صوفے کی سیٹ اتنی نیچے نھی ھوئی تھی
دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے میں بڑی شوخی سے صوفے پر پورے وزن کے ساتھ بیٹھا تھا
صوفہ انتہائی نرم تھا اس لیے میرے ذور سے بیٹھنے کی وجہ سے صوفے کا میٹرس بھی نیچے کی طرف گیا اور میں ڈر
گیا تھا
میں بیٹھ کر تھوڑا تھوڑا نیچے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر صوفے کا مزہ لے رھا تھا
کہ اچانک گھر کے اندر کی طرف والے دروازے کا پردہ سرکہ اور
ایک حسین دلفریب پری کا چہرہ نمودار ھوا
چہرہ کیا تھا چودہویں کا چاند تھا
میرے تو ہوش ھی ہوا ھوگئے میرا تو اس وقت یہ حال تھا کہ
اس کے بے ہجاب ھونے تک یاسر
شامل تھے ہم بھی ہوش والوں میں
چودہویں کے چاند جیسا روشن چمکتا چہرہ گالبی ہونٹ چہرے پر معصومیت آنکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر شاید حسن
کی ساری تعریفیں اس چہرے میں ھی تھی
اس کی انکھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور میری گستاخ آنکھوں نے بھی جرات کردی اسکی آنکھوں کے سمندر میں
ڈبکی لگانے کی
پھر وہ حسین چہرہ پردے کی اوٹ لے کر گم ھوگیا
مگر میں اس حسین چہرے کے سحر میں ابھی تک جکڑا پردے کو دیکھی جارھا تھا اور میری نظریں پھر اس گستاخی کے
لیے ترسی اسکو تالش کررھی تھی
مگر وہ جاچکی تھی
ھاےےےےےے افففففف ٹھنڈی آھ بھری اور پھر اسی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ کون تھی یہ حسینا۶
کچھ دیر اسی قاتلہ کے بارے میں سوچتا رھا جو ایک ھی نظر میں میرا سب کچھ لے اڑی تھی
کہ اسد اندر داخل ھوا میں نے حسرت بھری نگاہوں سے پھر پردے کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ھی حسینہ جلوہ گر ھے
مگر وہ ساال اسد تھا
اسد ہاتھ میں ٹرے لیے ھوے ایا جس میں مشروب تھا اور بسکٹ وغیرہ
اسد میرے پاس آیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور بوال سوری یار وہ کپڑے بدلنے میں دیر ھوگئی تھی
مگر میں تو اپنے خیالوں میں کھویا ھوا تھا کہ اسد نے مجھے گم سم دیکھ کر کندھے سے پکڑ کر ہالتے ھوے کہا
اوے کتھے ُپنچیا ھویاں اے
طبعیت تے سئی اے
تو اسے میں کیا بتاتا
کہ
یہ طبیب بھال اب میری مرض کو کیا سمجھیں،
تم اب آ بھی جاو
کہ یہ وصل بیماری ھے
میں نے ایکدم چونکتے ھوے اسد سے کہا نھی نھی میں ٹھیک ھوں بس ایسے ھی تمہارا گھر دیکھ کر بس اپنی غریبی
کے بارے میں سوچ رھا تھا
تو اسد نے مجھے کندھے سے پکڑا اور بوال
چھڈ یار ایویں چوالن مار دیاں ایں دوبارا اے گل نہ سوچیں یاری وچ امیری غریبی نئی ہوندی
اور ساتھ ھی مشروب کا گالس مجھے پکڑا دیا اور کہنے لگا چل جلدی سے پی پھر تجھے ایک گرم گرم چیز دیکھاتا ھوں
میں تو پہلے ھی گرم ھو چکا تھا اسے اب کیا بتاتا
میں نے ایک ہی سانس میں گالس ختم کیا اور اسد کو کہنے لگ گیا کہ یار تمہارا گھر بہت خوبصورت ھے
تو اسد نے شکریہ ادا کیا
کچھ سوچتے ہوے میں نے اسد سے پوچھا یار تیری امی نے نھی پوچھا کہ تو سکول سے اتنی جلدی واپس اگیا ھے
تو وہ ہنس کر بوال
کہ امی تو بوتیک پر چلی گئی ہیں اور رات کو ھی واپس آئیں گی گھر میں بس سسٹر ھی ھے اور اسکو رشوت وغیرہ لگا
دیتا ھوں تو وہ امی کو نھی بتاتی تو میں ہمممم کر کے چپ کر کے اندازہ لگانے لگ گیا کہ ہو نہ ہو وہ حسین پری اسد کی
بہن ھی ھوگی
کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے پھر اسد نے مجھے کہا چل اٹھ اوپر کمرے میں چلتے ہیں
میں اسد کے پیچھے بیٹھک سے نکل کر انکے گھر میں داخل ھوے
اور سامنے ٹی وی الونج سے سیڑیاں چڑھ کر اوپر جانے لگ گئے اسد میرے آگے جارھا تھا میں نے پیچھے سے سارے
گھر کا جائزہ لیا
مگر مجھے وہ قاتل حسینہ کہیں نظر نہ آئی
ہم اوپر پہنچے تو اسد مجھے لے کر ایک کمرے میں چال گیا جب میں کمرے میں داخل ھوا تو وہ کمرا بھی کمال کا تھا
سامنے بڑا سا جہازی سائز کا بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے بلکل اوپر چھت کے ساتھ شیشے کا بڑا سا جھومر لٹک رھا تھا اور
دوسرے طرف ایک بڑی سی الماری بنی ھوئی تھی جس میں بڑے سائز کا ٹی وی پڑا تھا اور نچلے حصے میں وی سی آر
اور اس سے نچلے حصہ میں کافی ساری ویڈیو کیسٹوں کا انبار لگا ھوا تھا
اور کمرے کی ایک سائڈ پر چھوٹا سا دروازہ تھا جو شاید اٹیچ باتھ کا لگ رھا تھا
اسد نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دروازہ الک کرنے چال گیا
دروازہ الک کر کے اس نے ٹی وی اون کیا اور وی سی آر کے پیچھے کی طرف ھاتھ مارتے ھو کچھ تالش کرنے لگ گیا
کچھ دیر بعد اسکے ھاتھ میں ایک ویڈیو کیسٹ تھی جو اس نے وی سی آر میں لگا دی اور وی سی آر اور ٹی وی کا
ریمورٹ لے کر میرے ساتھ بیڈ پر جمپ مار کر بیٹھ گیا میں ابھی تک ٹانگیں نیچے لٹاے بیٹھا تھا تو اسد نے مجھے کہا جگر
اوپر ھوکر بیٹھ جا کیا
نئ نویلی دلہن کی طرح شرما رھا ھے یہ اپنا ھی گھر سمجھ
میں بھی ٹانگیں پھیال کر بیڈ پر بیٹھ گیا
تبھی سامنے ٹی وی پر بلیو فلم چل گئی اور انگریز گوریوں کو مختلف پوزوں میں چود رھے تھے
میں بڑی دلچسپی سے ویڈیو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو بھی مسل رھا تھا
کافی دیر بعد
۔میری اچانک اسد پر نظر پڑی تو اسد نے اپنا بڑا سا لن نکال کر ھاتھ میں پکڑا ھوا تھا
اور لن پر ھاتھ سے ُمٹھی بنا کر اوپر نیچے کری جارھا تھا
میں نے اسے ھاتھ سے ہال کر کہا
سالیا اے کی کری جاناں اے
تو اسد نے بڑی سیکسی سی آواز میں کہا
مٹھ مار رھا ھوں تو بھی ایسے کر پھر دیکھ کتنا مزہ آتا ھے اور پھر سے ٹی وی کی طرف دیکھ کر ُمٹھ مارنے لگ گیا
میرا بھی فلم دیکھ کر دماغ خراب ھوچکا تھا میں نے بھی شلوار میں سے لن نکاال اور جیسے اسد کر رھا تھا ویسے ھی
کرنے لگ گیا
مجھے کچھ خاص مزہ نھی آرھا تھا تو میں نے اسد کو کہا
گانڈو ایسے تو بلکل بھی مزہ نھی آرھا اس سے زیادہ تو لن کو مسلنے میں مزہ آتا ھے
تو اسد نے پہلے میرے لن کی طرف دیکھا اور
بوال ساال صاب لن کو چکنا تو کرلے
میں نے کہا کیسے
تو اس نے سرھانے کے پاس پڑی ایک شیشی مجھے پکڑاتے ھوے کہا اسکو پہلے لن پر اچھی طرح لگا پھر ُمٹھ مار
میں نے شیشی کا ڈھکن کھوال اور اپنی ھتھیلی پر الٹایا تو اس میں سے منی کی طرح کا سفید سا گاڑھا گاڑھا محلول نکال اور
اس میں سے خوشبو سی آرھی تھی میں کہ
یار یہ کیا ھے
تو بوال
ماما نظر نھی آرھا شیمپو ھے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا یہ کیا ھوتا ھے
تو وہ ہنس کر بوال
جا اوے گانڈو
اس سے سر کے بالوں کو دھوتے ہیں
اور میں سر کو جھٹکا کہ شیمپو کو لن پر لگا کر ُمٹھ مارنے لگ گیا
شیمپو کے ساتھ ُمٹھ مارتے ہوے مجھے بھی اب مزہ آرھا تھا اور ایک عجیب سے ُلطف کی لہر میرے جسم میں گزر رھی
تھی کے اچانک اسد کے لن سے منہ کے فوارے چھوٹنا شروع ھوگئے اور کچھ دیر تک اسد لمبے لمبے سانس لیتا رھا
مگر میرے چھوٹنے کا امکان ابھی تک دور دور تک نھی تھا مجھے بس مزہ ھی آرھا تھا مگر لن چھوٹنے کا نام نھی لے
رھا تھا
اسد اٹھ کر واش روم چال گیا تھا اور میں اپنی دھن میں دے دھنا دھن لگا ھوا تھا اب تو شیمپو بھی ُخ شک ھو چکا تھا میں
نے تین چار دفعہ تھوک پھینک کر گیال کیا مگر پھر خشک ھو جاتا تھا
اسد واش روم سے فری ھو کر واپس کمرے میں آگیا
)Update no (28
..Post ko like aur share Lazmi karen
اور حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال
اوے توں حالے تک فارغ نئی ھویا
میں نے کہا یار کچھ نکل ھی نھی رھا
تو اسد بوال
پہلے کبھی چھوٹا ھے تو میں نے نفی میں سر ہال دیا تو اسد بوال
فیر میرا لوڑا ُچ ھٹیں گاں اویں اپنی باواں وچ کھلیاں پان لگیا ھویاں اے
چار دن تیل دی مالش کر فیر ویکھیں تیرے لن وچوں وی کیویں فوارے نکلدے
میں بھی ھاتھ چال چال کر تھک چکا تھا
میں ایسے ھی اٹھا اور واش روم میں گھس کر اپنا آپ دھویا اور باہر آگیا
اسد نے ٹی وی بند کردیا تھا اور فلم بھی نکال کر چھپا دی تھی اور ہم کمرے سے نکل کر سیڑیاں اترنے لگے جب میں اسد
کے پیچھے پیچھے آدھی سیڑیاں ھی اترا تھا کہ مجھے نیچے کچن سے وہ حسن کی شہزادی نکلتی ھوئی ٹی وی الونج
میں آتی ھوئی نظر آئی اسکے ھاتھ میں چاے کا بڑا سا مگ پکڑا ھوا تھا اور چاے کی چسکیا لیتی ھوئی
بڑی ادا سے چلی آرھی تھی
دوستو اس حسینہ کا کیا قیامت فگر تھا
اس نے ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور قمیض کی اتنی فٹنگ تھی کہ میرے جیسا پینڈو یہ
ھی سوچتا رہتا کہ یہ قمیض کے اندر ُگ ھسی کیسے اور قمیض کافی شورٹ تھی جو اسکے ُگ ٹنوں سے بھی اوپر اور پھدی
والے حصہ سے کچھ نیچے تھی
اسکے چھتیس سائز کے ممے آگے کو ایسے تنے ھوے تھے کہ جیسے ابھی قمیض کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں اور پیٹ تو
بلکل نظر ھی نھی آرھا تھا کمر ایسی تھی کہ میں دونوں ھاتھ کی انگلیاں جوڑ کر کمر کو پکڑتا تو میرے ھاتھوں میں اسکی
کمر آجاتی
دوپٹہ نام کی چیز ھی نظر نھی آئی
وہ ظالم جب چاہے کی ُچ سکی لیتی تو ساتھ اپنی لمبی سی پلکوں کو جھپکاتی اور اس کے گالبی ہونٹ خوش قسمت کپ کو
چھو کر آپس میں مل جاتے اور اس کے نرم سے روئی کے گولے جیسے پنک گالوں پر ڈنپل بن جاتا
پانچ فٹ پانچ انچ کی یہ حسینہ حسن کا کرشمہ تھی
چاے کے کپ کو ہونٹ لگاتے ھی اس حسینہ نے اپنی ساگر جیسی آنکھوں پر چھاوں کی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر میری طرف
دیکھا آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کے قدم رک گئے
اور اس ظالم کو شاید ہوش آیا اور میری موجودگی کا احساس ھوا
اور وہ میرے دل پر ُچ ھریاں چالتی واپس پلٹی اور اسکی بتیس سائز کی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ تھر تھرائی اور
ساتھ ھی گانڈ کو چھلکاتی ھوئی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی طرف چلدی اسے دیکھتے دیکھتے ھی وہ قاتلہ میرا سب کچھ
لے کر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں وہیں خالی ھاتھ رھ گیا
اتنے میں اسد کی آواز آئی کہ آ بھی جاو سکول کی چھٹی کا ٹائم ھوگیا ھے تو میں ایکدم سے ہڑبڑایا اور تیز تیز قدم اٹھاتا
ھوا نیچے آگیا اور گھر سے نکلتے وقت اسد نے اندر منہ کرکے آواز دی
مہری دروازہ الک کر لو
اور ہم سکول کی طرف تیز تیز قدموں سے چل پڑے میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا نام ھوا مہری اب میں اسد سے بھی نھی
پوچھ سکتا تھا کہ تمہاری بہن کا اصل نام کیا ھے
خود ھی جوڑ توڑ لگا کر سوچنے لگ پڑا جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسی نام پر اکتفا کیا
اور من ھی من میں ٹھنڈی آہ بھر کر دل نے پکارا مہرییییی
سکول کے قریب پہنچے تو چھٹی ھوچکی تھی اور اسد نے مجھے الوداع کیا اور واپس گھر کی طرف ھی چال گیا دل تو میرا
بھی کررھا تھا کہ دوبارا پھر اس کے ساتھ چال جاوں مگر مجبوری تھی
میں سیدھا عظمی کے سکول گیا اور ان دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
مگر میرے دماغ پر مہری ھی چھائی ھوئی تھی جبکہ عظمی کی گانڈ ہل ہل کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر رھی تھی مگر
میرا دھیان کہیں اور ھی تھا
راستے میں عظمی نے کافی دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی اور ہنسی مزاق کا ماحول بنایا مگر میں سیریس ھی
رھا
تو عظمی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کیا ھوا سکول سے مار پڑی ھے یا طبعیت خراب ھے
مگر میں نے اسے ٹال مٹول کردیا
ایسے ھی ہم گھر پہنچ گئے
دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے کھیتوں کی فصلیں بھی کٹ چکی تھی بلکہ اسکی جگہ نئی فصل بھی کھیت سے سر اٹھا
رھی تھی
اسد روز مجھ سے پوچھتا سنا آج مالش کی کوئی فرق پڑا کہ نھی پڑا کبھی کبھار وہ میرا لن بھی پکڑ کر چیک کرلیتا اور
مجھے کہتا واہ یار بڑی جلدی تیل اثر کررھا ھے اور دوبارا اسد کے گھر جانے کا بھی اتفاق نہ ھوا
اسکی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ دوسرے دن ماسٹر جی نے میری اچھی بھلی کالس لی تھی اور دوبارا سکول سے بھاگنے پر
سکول سے نکال دینے کی دھمکی بھی ملی تھی اس لیے میری دوبارا جرات نھی ھوئی
فصلیں ابھی چھوٹی تھی اس لیے مجھے عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا بھی موقع میسر نہ آیا
اور روز جاتے ھوے باجی صدف کی گانڈ اور آتے ھوے عظمی اور کبھی نسرین کی گانڈ کا نظارا ملتا رھتا
وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ پتہ ھی نہ چال کہ کب ساالنہ پیر سر پر آگئے
پڑھائی میں جتنا تیز پہلے تھا مگر اسد کی دوستی کی وجہ سے اب اتنا ھی ناالئک ھوگیا تھا
پیپروں کے شروع ھونے میں ایک مہینہ رھ گیا تھا
اور موسم بھی کافی سرد ھوچکا تھا
میں نے عظمی کو بتایا کہ یار میری تو پیپروں کی تیاری ھی نھی ھورھی میں تو اس سال فیل ہو جاوں گا
تو عظمی نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ باجی صدف کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلے جایا کرو
مجھے اسکا مشورہ کافی مفید لگا اور ویسے بھی میں باجی صدف کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے ترسا رھتا تھا
میں نے امی سے بات کی کہ شہر کی پڑھائی بہت مشکل ھے اس لیے مجھے بھی باجی صدف کے پاس ٹیویشن رکھوا دو
امی نے بھی حامی بھر لی کہ میرے ُپتر نوں پڑائی دا کناں فکر اے
دوسرے دن سے میں نے ٹیوشن جانا شروع کردیا میں جب بھی باجی صدف کہ گھر جاتا تو باجی صدف ویسے ھی میری
گال پر چٹکی ًال زمی کاٹتی اور میں انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھتا.
اب یہ چمک کیسی تھی مجھے اس کا اندازہ لگانا مشکل ھو رھا تھا کیوں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ
کرتی جس کی وجہ سے میں فائنل ڈسیزن لے سکتا
مگر ایک بات تھی جو میں نے نوٹ کی کہ باجی صدف اپنے مموں پر دوپٹہ نھی لیتی تھی اور کام چیک کروانے جب میں
انکے پاس جاتا تو اسکے گلے سے انکے مموں کا اوپر واال حصہ صاف نظر آتا
تھا
اس کے چہرے کی نسبت اسکے مموں واال حصہ ذیادہ سفید تھا
ایک دن ہم ٹیوشن کے لیے باجی صدف کے گھر گئے تو باجی صدف گھر میں نظر نھی آئی تو انکی امی نے بتایا کہ تم
لوگ بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو تمہاری باجی نہا رھی ھے
انکا واش روم بیرونی دروازے کے بلکل ساتھ ھی تھا
ہم اپنی جگہ پر بیٹھ کر کتابیں بیگ میں سے نکالنے لگ گئے
تو باجی صدف کی امی نے مجھے آواز دی کے یاسر بیٹا بات سنو میں جلدی سے اٹھا اور انکے پاس پہنچ گیا تو آنٹی نے کہا
کہ بیٹا
پوڑی ال کے ٹارے توں چھیٹیاں تھلے ُسٹ دے
)
(سیڑی لگا کر واش روم کے بلکل سامنے بیرونی دیوار کے ساتھ بنے برآمدے سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں اتار دو)
میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھو ے کہا اچھا آنٹی جی ابھی اتار دیتا ھوں
میں نے بانس کی بنی ھوئی سیڑھی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر برآمدے کی چھت پر چڑھ گیا اور سوکھی سوکھی
چھڑیاں ُچن ُچ ن کر نیچے پھینکنے لگ گیا
ابھی میں نے چند ھی چھڑیاں نیچے پھینکیں تھی کہ اچانک میرا دھیان واش روم کی دیوار پر بنے بڑے سے روشن دان پر
پڑا
جیسے ھی میری نظر روشن دان کے اندر پڑی کیوں کہ واش روم کی چھت برآمدے کی چھت سے کافی چھوٹی تھی اس
لیے چھت پر کھڑے ہوکر واش روم کا اندر کا سارا منظر بلکل صاف نظر آتا تھا حطہ کہ واش روم کا فرش بھی نظر آتا تھا
روشن دان کا سوراخ کافی بڑا سا تھا اور آگے کوئی جالی وغیرہ بھی نھی تھی
میں تو واش روم کے اندر کا منظر دیکھتے ھی رھ گیا
کی صدف بلکل ننگی کھڑی تھی
)دوستو ایک بات یاد رکھنا جس آنٹی اور جس باجی پر نیت خراب ھوگئی تھی انکو میں صرف نام سے پکاروں گا،،،،
صدف ٹانگیں کھولے کھڑی اپنی پھدی پر کچھ لگا رھی تھی مجھے اسکا ایک مما نظر آیا
میں نے جلدی سے پہلے نیچے دیکھا تو مجھے آنٹی کہیں نظر نھی آئی اور عظمی اور نسرین اور باقی کے بچے دوسری
طرف منہ کرکے پڑھنے میں مصروف تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور تھوڑا پیچھے ھوکر واش روم میں دیکھنے لگ گیا
اب نیچے سے کوئی مجھے دیکھ نھی سکتا تھا کہ میں اوپر کیا کررھا ھوں
صدف بڑے آرام سے پھدی پر بال صفا پوڈر کا لیپ کررھی تھی کچھ دیر بعد صدف ٹانگیں پھال کر دیورا کے ساتھ ٹیک
لگا کر لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی
اب صدف کے نیم گورے ممے بلکل صاف نظر آرھے تھے اسکے مموں پر براون سا دائرہ بنا ھوا تھا اور چھوٹے چھوٹے
نپل تھے پیٹ بلکل اندر کی طرف گیا ھوا تھا
کچھ دیر صدف ایسے ھی بیٹھی رھی
تب میں اٹھا اور کچھ چھڑیاں اور اٹھا کر نیچے پھینک دیں
اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا
تب صدف پانی کے ٹب سے ڈبے میں پانی ڈال کر پھدی والے حصہ کو دھو رھی تھی اور ذور ذور سے پھدی کو مل مل
پھر پانی ڈال دیتی
پھر صدف کھڑی ھوئی اور تولیہ لے کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی
مجھے صرف اسکی ٹانگیں ھی نظر آرھی تھی اور ایک مما نظر آرھا تھا کیوں کے صدف سائڈ پوز سے کھڑی تھی
پھدی صاف کر کے وہ پھر ٹانگیں کھول کر تھوڑا نیچے جھک کر اپنی پھدی کا معائنہ کرنے لگ گئی کہ کوئی بال رھ تو
نھی گیا
جب اچھی طرح اس نے تسلی کرلی تو پھر سے لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی اور اپنے بالوں کی پونی کھولی اور جھٹکے
سے سر کو دائیں بائیں کر کے بالوں کو کھالرنے لگی صدف
جیسے جیسے بالوں جھٹکتی اسکے ممے بھی ویسے ھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے
میرا لن ایکدم اکڑ گیا اور میں ھاتھ سے لن کو حوصلہ دینے لگ گیا
پھر صدف سر جھکا کر پانی کے ڈبے بھر بھر کر اپنے سر کے بالوں کو گیال کرنے لگ گئی پھر اس نے کپڑے دھونے
واال صابن اٹھایا اور سر کے
بالوں کو لگانے لگ گئی اور اچھی طرح صابن لگا کر بالوں کو منہ کے آگے کر کے سر جھکا کر بالوں کو دونوں
ھاتھوں میں لے کر ھاتھ آپس میں رگڑنا شروع کردیا کچھ دیر ایسے ہی کرتی رھی
اور میں وقفے وقفے سے چھڑیاں اٹھا کر نیچے پھینکتا رھا
پھر صدف نے بالوں کو اچھی طرح سے دھویا اور اپنے جسم پر پانی ڈالنا شروع کردیا
اور ساتھ ساتھ کبھی اپنے مموں کو مسلتی کبھی نیچے ھاتھ لیجا کر پھدی کو مسلتی اور کبھی کمر کے پیچھے ھاتھ لیجا کر
کمر کو مسلتی
واش روم میں 100واٹ کا بلب جل رھا تھا جس کی گولڈن الئٹ میں صدف کا جسم چمک رھا تھا
صدف کے ممے ٹن ٹنا ٹن کھڑے تھے اور ھاتھ لگانے کے بعد مستی سے جھومتے صدف نے جسم پر صابن لگانا شروع
کردیا اور پھر صابن کو اچھی طرح پورے جسم پر ملنا شروع کردیا صدف جب مموں کو مسلتی تو اپنی انگلی اور
انگوٹھے سے ممے کے نپل کو بھی پکڑ کر مسل دیتی ایسے اس نے کئی بار کیا
اور جب پھدی پر صابن کی مالش کرتی تو ایکدم اپنی آنکھیں بند کر کے سر کو دیوار کے ساتھ لگا لیتی کافی دیر یہ ھی سین
چلتا رھا
پھر صدف تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی گانڈ کو اچھی طرح ملنے لگ گئے اسکی گانڈ کیا تھی کمر کے حساب سے کمر
کے نیچے سپیڈ بریکر ھی تھا
اگر اسکی گردن سے ھاتھ پھیرتے ھوے کمر سے نیچے لیجا کر گانڈ کہ اوپر سے گزاریں تو ایسے ھی لگے گا کہ
کارپٹ روڈ پر اچانک سپیڈ بریکر آگیا ھے
گانڈ کو اچھی طرح مل لینے کے بعد اس نے تین انگلیاں گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر ھاتھ کو اوپر نیچے کر کے دراڑ کی
صفائی کرنے لگ گئی
پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کردیا
میں فل مست ھوکر پورا دھیان لگا کر صدف کے سیکسی جسم کا نظارہ کر رھا تھا اور اس کے انگ انگ کو باخوبی زہن
نشین کررھا تھا
صدف نے سارے جسم کو اچھی طرح سے دھو لیا تھا اور اب وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ھوئی جب وہ کھڑی ھوئی تو
اسکے دودہ کے پیالے ایسے چھلکے جیسے ابھی پیالوں سے سارا دودہ اچھل کر باہر گر جاے گا صدف نے تولیہ روشن
دان میں لٹکا دیا تھا
صدف نے جیسے ھی میری طرف منہ کر کے تولیہ پکڑنے کے لیے ھاتھ آگے بڑھایا تو اسکی سیدھی نظر مجھ پر پڑی اور
نظروں سے نظریں ملی اور صدف نے جلدی سے تولیہ کھینچا اور اپنے مموں کے آگے کرتے ھوے ایک زور دار چیخ
ماری
اور ساتھ ھی مجھے آنٹی کے واش روم کی طرف دوڑے انے کی آواز آئی
؟؟؟؟؟؟؟
جیسے ھی میں نے صدف کی چیخ سنی اور ساتھ ھی آنٹی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو
میری تو گانڈ پھٹ گئی
میں خود کو کوسنے لگ گیا
کہ
پین یکہ صبر نئی ہوندا سی ہن پتہ لگے گا ہور ویکھ ممے تے پھدیاں
خیر مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے جلدی جلدی سے تین چار چھڑیوں کے بنڈل اٹھاے اور نیچے پھینک کر
جلدی سے سیڑھی سے اتر کر نیچے صحن میں آگیا تو میں نے واش روم کی طرف دیکھا تو آنٹی عظمی اور نسرین بھی
دروازے کے باہر کھڑی صدف سے پوچھ رھی تھی کیا ھوا مگر اندر سے کوئی آواز نہ آئی میں جلدی سے جاکر اپنی جگہ
پر بیٹھ گیا اور کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا
پڑھتا کیا میری تو ڈر کے مارے گانڈ پھٹ رھی تھی
مجھے تو یہ سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کروں کیا اور میرے ساتھ ھوگا کیا
،،
اتنے میں صدف سر کے بالوں کو تولیہ لپیٹے واش روم سے نکلی اور کسی سے بھی کچھ بات کیے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی
میرے پاس سے گزر کر کمرے کی طرف چلی گئی
اور کمرے کے دروازے پر کھڑی ھوکر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے میں داخل ہو
کر ذور سے دروازہ بند کردیا
میری تو بیٹھے کی ٹانگیں کانپ رھی تھی کہ پتہ نھی آنے واال وقت کیسا ھوگیا صدف اور اسکی امی میرے ساتھ کیا کرے
گی صدف کا ابو تو تھا بھی بڑے غصے واال اور بدمعاش ٹائپ کا تھا
اتنے میں عظمی اور نسرین بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے انجان بنتے ھوے عظمی سے پوچھا کہ تم لوگ کدھر گئے
تھے تو عظمی بولی تمہیں باجی کی چیخ نھی سنائی دی تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ نھی میں تو ٹارے کے اوپر
چڑھ کر چھیٹیاں پھینک رھا تھا
تو کیا ھوا تھا باجی نے چیخ کیوں ماری تھی
تو صدف نے منہ بسورتے ھوے کہا پتہ نھی آنٹی نے پوچھا بھی تھا مگر وہ ڈری سی اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ بولی
ھی نھی
تب آنٹی کی مجھے آواز آئی
کہ یاسر
میں نے گبھراے ھوے آنٹی کی طرف بنا دیکھے کہا
ججججی آنٹی ججججی تو آنٹی بولی
پتر اینیاں وڑیاں چھیٹیاں تھلے ُسٹ دیتیاں ای میں تے تینوں تھوڑیان جیاں کیاں سی
تو میں اب آنٹی کو کیا بتاتا کہ تمہاری بیٹی کی مہربانی ھے جو اس نے مجھے اپنے دھیان لگائی رکھا تھا
میں نے کہا آنٹی جی مجھے پتہ نھی چال کہو تو دوبارا اوپر رکھ دوں
تو آنٹی بولی
نئی رہن دے کل کم آ جان گیاں پہلے ای تھک گیا ھویں گا
میں خاموش رھا اور پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگ گیا جبکہ میرا دل دماغ صدف کے کمرے کی طرف تھا
اور سوچ رھا تھا کہ اب سالی باہر نکل کر پتہ نھی کیا ہنگامہ کرے گی
تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھال اور صدف نے منہ باھر نکال کر اپنی امی کو آواز دی اور دوبارا دروازہ بند کردیا
آنٹی جلدی سے کمرے کی طرف چلی گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ھوگئی
میری تو حالت ایسے ھوگئی کہ کاٹو تو جسم میں لہو نھی
رہی سہی کسر بھی نکل گئی
میرا دماغ پھٹنے واال ھوگیا کہ
کاکا اب خیر نھی صدف نے اپنی ماں کو بتانے کے لیے اندر بالیا ھے اور اس نے اپنی ماں کو
سب کچھ بتا دینا ھے اور آنٹی نے اپنے بندے کو
تے کاکا تینوں فیر وجے ای وجے
اونے تے تینوں ویسے ای وڈ کے رکھ دینا اے
ایسے ھی الٹے سیدھے خیال میرے دماغ میں چل رھے تھے
مجھے کچھ اور تو نہ سوجا
میں نے جلدی سے کتابیں اپنے بیگ میں رکھنا شروع کردی اور ایکدم سے اٹھا اور بیگ کندھے سے لٹکایا اور باہر کو چلدیا
تو عظمی نے حیران ھوتے ھوے مجھے آواز دی کے کدھر جارھے ھو تو میں نے کہا میرے سر میں درد ھورھا ھے
مجھے چکر آرھے ھیں باجی کو بتا دینا میں گھر جارھا ھوں
میں نے عظمی کا جواب سنے بغیر باہر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور کب میں گھر پہنچا مجھے نھی پتہ رات کو
مجھے بہت تیز بخار چڑھ گیا میرا جسم کانپ رھا تھا
عظمی لوگ دوسرے دن سکول ٹائم ہمارے گھر آئیں اور امی سے پوچھنے لگ گئی کہ یاسر ابھی تک تیار نھی ھوا تو امی
نے بتایا کہ وہ تو کل کا بیمار پڑا ھے تو عظمی اور نسرین دونوں کمرے میں ائیں اور میرے ماتھے ہر ھاتھ رکھ کر بخار
چیک کرنے لگ گئی
میں نے کہا تم جاو سکول میں نے آج نھی جانا
تو وہ دونوں بولیں ہم اکیلی کیسے جائیں گی
نہ بابا ہمیں تو ڈر لگتا ھے تو میں نے کہا ڈر کیسا باجی بھی تو ساتھ ھی جاے گی تو وہ دونوں بولیں
جاتے ھی ساتھ ھونگی واپسی پر تو اکیلی ھی آئیں گی
ہم بھی آج چھٹی کرلیتی ہیں کل تمہارے ساتھ ھی جائیں گی تو میں خاموش ھوگیا اب میں کیا انکو کہتا مجھ سے تو ہال نھی
جارھا تھا بخار کی شدت اتنی تھی
وہ دونوں کچھ دیر بیٹھی اور اپنے گھر بتانے کے لیے چلی گئی کہ میری طبعیت نھی سہی ھے
کچھ ھی دیر بعد آنٹی فوزیہ گبھرائی ھوئی کمرے میں آئی انکے پیچھے ھی عظمی اور امی بھی تھیں
آنٹی نے آتے ھی میرا منہ سر چومنا شروع کردیا اور بولی
ھاے ھاے کی ھویا میرے شزادے نوں کیویں بخار نال تپدا پیا اے
میں انٹی کے اتنے بے تحاشا پیار اور فکر کو دیکھ کر رونے لگ گیا
آنٹی نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینے کے ساتھ لگا کر مجھے چپ کروانے لگ گئی
میں اور ذور ذور سے بچوں کی طرح رونے لگ گیا
تو عظمی کہنے لگی
امی ایدھے سارے ڈرامے نے کل چنگا پال سی
تو آنٹی نے غصہ سے نیچے جھک کر اپنی چپل اٹھائی اور عظمی کو دے ماری اور بولی
چل دفعہ ھو کسے ُک تی دی بچی میرا الل بخار نال ادھ موا ھوگیا تے تینوں بکواس کرن دئی پئی اے
عظمی کو جب جوتا پڑا تو.
ناچاھتے ھوے بھی روتے روتے میری .ہنسی نکل گئی اور عظمی مجھے گھورتے ھوے اہنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے برا
سا منہ بنا کر ایک سائڈ پر کھڑی ھوگئی
اور آنٹی نے میرا سر پکڑا کر پھر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرنے لگ گئی
آنٹی کا پیار دیکھ کر مجھے خود پرغصہ آنے لگ گیا کہ
میں کتنا برا ھوں کہ آنٹی مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور میرے لیے کتنی فکر مند ہیں اور میں کتنا
گھٹیا اور گندا انسان ھوں جو ہر وقت انکے بارے میں غلط سوچتا رھتا ھوں اور انکو گندی نظر سے دیکھتا رہتا ہوں
مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا اور شرمندگی سے اپنے آپ میں مرا جارھا تھا
)Update no (29
..Post ko like aur share Lazmi karen
خیر آنٹی دو گھنٹے کے قریب میرے پاس ھی بیٹھی رھی اور مجھے اپنے ھاتھ سے دلیہ کھالیا
پھر آنٹی شام کو آنے کا کہہ کر مجھے پھر ڈھیر سارا پیار کرکے چلی گئی اور میں اکیال لیٹا آنے والے اچھے برے وقت کے
بارے میں سوچتا رھا
اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر صدف نے اپنی امی کو بتایا ھوتا تو الزمی عظمی یا نسرین کو بھی پتہ چل جانا تھا مگر انہوں
نے میرے ساتھ ایسی کوئی بات نھی کی
پھر نیگٹیو سوچ نے آگھیرا کہ بچو اگر عظمی لوگوں کے سامنے بات کرنا ھوتی تو صدف نے اپنی ماں کو اندر کمرے میں
کیون بالنا تھا .وہ باہر آکر بھی کہہ سکتی تھی
انہیں سوچوں میں مجھے پتہ ھی نھی چال کہ میں کب سو گیا
شام کو میری بہن نے مجھے اٹھایا کہ تیری ٹیویشن والی باجی اور اسکی امی ائی ہیں
ان دونوں کا سن کر میری تو ٹانگیں پھر کانپنے لگ گئیں
اور میں نے کانپتے ھوے مری ھوئی آواز نکالتے ھوے اپنی بہن نازی کو کہا کہ انکو کہو کہ میں سورھا ھون
تو وہ غصہ سے بولی
صبح کے سوے مرے ھو ابھی تک نیند نھی پوری ھوئی
وہ اتنی دور سے ائی ہیں اور تم نواب زادے بہانے بنا رھے ھو
میں نے غصہ سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ
جانی اے کہ نئی
تو وہ پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی
اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا آنٹی اور صدف کمرے میں داخل ھویں
انکو دیکھتے ہی میرا رنگ اڑ گیا اور اتنے میں انٹی اگے بڑھیں اور
اور میرے سر پر پیار دیتے ھوے بولیں کیا ھو یاسر بیٹا کل تو اچھے بھلے تھے
ہمیں بتا کر بھی نھی آے چپ کر کے گھر آگئے تھے
میری وجہ سے تمہاری طبعیت خراب ھوئی ھے نہ میں تمہیں چھیٹیاں اتارنے کو کہتی نہ تمہارا یہ حال ھوتا
صدف میرے سامنے کھڑی بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کررھی تھی
میں ڈرتا اس سے نظریں بھی نھی مال رھا تھا
پھر آنٹی صدف کو یہ کہہ کر چلی گئی
کہ
تم اپنے ویرے کے پاس بیٹھو میں ذرہ آپاں کے پاس جارھی ہوں
مجھے یہ سن کر پھر ایک جھٹکا سا لگا کہ شاید آنٹی امی کو میری کرتوت بتانے جارھی ھے
تو آنٹی کے جاتے ھی صدف مجھے گھورتے ھوے میرے پاس میرے کولہوں کے پاس بیٹھ گئی اور آگے ہوکر میرے گال
پر ذور سے ُچ ٹکی کاٹ کر بولی
ہاں جی سناو بے شرم ویرے کیویں بخار چڑیا
تو میں شرم سے ڈوبا جارھا تھا چپ کر کے منہ دوسری طرف کر کے رونے لگ گیا
تو صدف نے ایک ھاتھ میرے دائیں طرف میری
بغل کے قریب رکھا اور میرے اوپر ُج ھک کر اپنا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پار کرتے ھوے ایک ھاتھ سے میرا چہرہ
پکڑ کر سیدھا کیا اس حالت میں صدف کے ممے میرے سینے سے کچھ فاصلے پر ھی تھے
جبکہ اسکی گانڈ میرے کولہوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور اسکے ناف کا حصہ بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگا ھوا تھا
صدف بولی
بچو ذیادہ ڈرامے نہ کر
اب تجھے بڑے رونے آرھے ہیں جب بے شرموں کی طرح مجھے ننگا نہاتے ھوے دیکھ رہا تھا تب تیرا یہ رونا کہاں تھا
شکر کرو میں نے امی کو یاں ابو کو نھی بتایا ورنہ جو تیرا حال ھونا تھا
تجھے پتہ نھی
ابھی تیری عمر ھے یہ کام کرنے کی جو تو کررھا ھے
شرم کر اپنی عمر دیکھ اور کام دیکھ ابھی سے تجھے جوانی چڑھی ھوئی ھے بڑا ھوکر کیا کرے گا
صدف نے ایک ھی سانس میں مجھے لمبا سا لیکچر دے دیا
مجھے یہ سن کر کچھ حوصلہ ھوگیا کہ صدف نے گھر نھی بتایا اور شکر ادا کرنے لگ گیا
صدف اسی سٹائل میں میرے اوپر جھکی ھوئی میرے منہ کو اپنی انگلیوں اور انگھوٹھے سے ایسے دبایا ھوا تھا جیسے
بچے کو زبردستی دوائی پالنے کے لیے اسکا منہ ایسے پکڑ کر زبردستی کھولتے ہیں
میں سکتے کے عالم میں صدف کے چہرے کی طرف دیکھی جارھا تھا جس کے چہرے پر نہ پیار تھا نہ ھی غصہ
پھر صدف میرے منہ کو ہالتے ھوے بولی
بتا اب تیرا کیا کروں
بتاوں اپنے ابو کو یا تیری امی کو
تو میں چت لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے اوپر جھکی ھوئی تھی اسکی چھاتی میرے سینے سے تھوڑا ھی اوپر تھی
میرے ھاتھ بلکل سیدھے چارپائی پر تھے
میں نے صدف کی جب پھر دھمکی سنی تو میں اس سے ھاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ اوپر کر نے
لگا تو میرے دونوں ھاتھوں کی انگلیاں پہلے اسکے پیٹ سے ٹکرائیں پھر دونوں مموں سے نپل کے نچلے حصہ سے
ٹکرائیں اور نپلوں کو چھوتی ھوئی صدف کے چہرے کے سامنے کرکے ھاتھ جوڑ لیے میری دونوں کہنیاں اب بھی صدف
کے دونوں مموں کے ساتھ ٹچ تھی یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ صدف کو سنبھلنے کا موقع ھی نھی مال
مگر یہ سب ھوا غیر ارادی طور پر تھا
میں نے روتے ھوے ھاتھ جوڑتے کہا باجی مجھے معاف کردو
****** کی قسم میں نے جان بوجھ کر آپ کو نھی دیکھا تھا بس ایسے انجانے میں مجھ سے غلطی ھوگئی
پلیز آئندہ کبھی بھی ایسا نھی ھوگا
پلیز کسی کو مت بتانا
تو صدف بولی بس بس زیادہ ڈرامے مت کرو
مجھے سب پتہ ھے
کہ تم مجھے کن نظروں سے دیکھتے ھو
اس دن جب میں گری تھی تب بھی کیا اچانک ھی سب ھوا تھا
اور روز جاتے ھوے میں نوٹ کرتی رہتی ھوں تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں
میں یہ سب سن کر مزید شرمندہ ھونے لگ گیا
اچانک مجھے اپنی کہنیوں پر صدف کے مموں کا لمس محسوس ھوا اور میرا ایکدم دھیان اسکے مموں پر چال گیا اور اسکی
گانڈ تو پہلے ھی میرے ساتھ جڑی ھوئی تھی اتنا خیال آتے ھی میرے لن ساب نے انگڑائی لی اور کھڑا ھوگیا
صدف اپنی دھن میں مجھے گنوای جارھی تھی کہ
جب تم کام چیک کروانے آتے ھو تب بھی تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں اب اتنے معصوم بن رھے ھو
اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتاو جب میں سکول جاتے گرنے لگی تھی تو تم نے جب مجھے پیچھے سے جپھی ڈالی تھی تو
تمہاری قمیض کیوں اوپر ھوئی ھوئی تھی
میں نے کہا مجھے نھی پتہ
کہاں سے اور کیوں قمیض اوپر تھی
صدف بولی اچھا سب بھول گئے میں بتاوں کس چیز نے تمہاری قمیض اوپر کی ھوئی تھی
اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھتا صدف نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے اکڑے ھوے لن کو پکڑ لیا جو تیل کی مالش کر
کر شیش ناگ بن چکا تھا
صدف نے لن کو پکڑتے ھوے کچھ کہنے کے لیے لب ہالے اس کے منہ سے بس اتنا ھی نکال
اسسسسسسسسس کییییییی وجہہہہہہہ
اور صدف کا منہ حیرانگی سے کھلے کا کھال رھ گیا
اور کچھ سیکنڈ اس نے میرے لن کو اچھی طرح سے ٹٹول کر چیک کیا کہ واقعی .اسکے ھاتھ میں میرا ھی لن ھے
تو اسے ایک جھٹکا لگا اور جمپ مار کر کھڑی ھوگئی اور میرے اکڑے لن کو جو قمیض کو تمبو بناے کھڑا تھا
آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھی تھی اور پھر ایکدم اسے ہوش آیا اور چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بنا کچھ کہے باہر بھاگ
گئی
دوسرے دن میری طبیعت کافی بہتر ھوچکی تھی اور صدف کا خوف بھی تقریبا اتر ُچکا تھا
میں سکول کے لیے تیار ھونے لگ گیا امی نے مجھے کافی روکا کہ آج بھی چھٹی کر لو
مگر میں نے سکول جانے کا اصرار کر کے امی کو منا لیا اور تیار ھوکر آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا آنٹی سے سالم دعا
اور حال احوال بتانے کے بعد ہم تینوں گھر سے نکل آے اور میں سیدھا کھیت کی طرف جانے لگا تو عظمی نے میرا بازو
پکڑتے ھوے کہا کہ باجی کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے وہ ہمارا انتظار کررھی ھوگی تو میں نے کہا یار چلو وہ خود ھی
آجاے گے ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے
مگر عظمی اور نسرین کی ضد کی وجہ سے مجھے مجبورًا صدف کے گھر جانا پڑا ہم جب اندر داخل ھوے تو صدف
برقعہ پہنے تیار بیٹھی تھی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر باہر کی طرف چل پڑی ہم بھی اسکے
پیچھے پیچھے گھر سے نکل کر سکول کی طرف چل پڑے
دوستوں جہاں پہلے کپاس کی فصل ھوا کرتی تھی اب وہاں بھی مکئی کی فصل کاشت کردی تھی اور مکئی کا ان دوستوں
کو پتہ ھے جو گاوں میں رہتے ہیں کہ یہ فصل دنوں میں بڑھتی ھے اور تقریبا سات آٹھ فٹ ھوجاتی ھے
ہم آگے پیچھے چل رھے تھے میں سب سے پیچھے تھا اور میرے آگے عظمی تھی اور اس کے آگے صدف اور سب سے
آگے نسرین تھی
کچھ دور جاکر صدف کو پتہ نھی کیا ھوا وہ بہانے سے عظمی کو آگے کر کے خود پیچھے آگئی
اور مڑ کر مجھے دیکھا
اسکی آنکھوں میں مجھے واضح طور پر شرارت نظر آرھی تھی
مگر میں نے اسکے دیکھنے کا کوئی رسپونس نھی دیا اور
میں نے غور سے اسکی گانڈ کو ایک نظر دیکھا تو
آج اسکی گاند کافی باہر کو نکلی ھوئی تھی
میں نے دوبارا غور سے دیکھا تو واقعی ایسا ھی تھا
میں سوچ ھی رھا تھا کہ یہ کیا ماجرا ھے کہ
چلتے چلتے میری نظر اسکے پاوں کی طرف پڑی تو
آج وہ اونچی ہیل پہن کر آئی تھی جس کی وجہ سے اسکی گانڈ مزید باہر کو نکلی ھوئی تھی
اور وہ جب قدم آگے کو بڑھاتی تو اسکی گانڈ کا ایک حصہ جب اوپر کو جاتا تو ساتھ برقعے کو بھی کھینچ کر اوپر لے جاتا
اسکی سیکسی گانڈ دیکھ کر میرا تو دماغ خراب ھونے لگ گیا
جبکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ھوجاے آج کے بعد صدف کے جسم کو نھی دیکھنا کیوں کہ سالی کو پتہ نھی کیسے
پتہ چل جاتا تھا
خیر میں ناچاھتے ھوے بھی مسلسل نظر ٹکاے صدف کی گانڈ کو دیکھی جارھی تھا
کہ اچانک صدف رکی اور ایکدم پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا
اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر کے اشارے سے پوچھا کیا دیکھ رھے ھو
تو میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا
ایسا بس چند ھی سیکنڈ کے لیے ھوا تھا
اور صدف بڑی ادا سے منہ دوسری طرف کر کے پھر چلنے لگ گئی
بس ایسے ھی تانکہ جھانکی میں ہم سکول پہنچ گئے
کالس میں اسد مجھے بڑی گرمجوشی سے مال اور پوچھنے لگ گیا کہ کل کیوں نھی آے میں نے اسے بخار کا بتایا اور کچھ
دیر وہ میری خیر خبر لیتا رھا اور ہم پڑھائی میں مصروف ھوگئے
ھاف ٹآئم کے وقت ہم گراونڈ میں بیٹھ کر باتیں کررھے تھے کہ اسد نے پوچھا سنا پھر .کیسی جارھی ھے لن کی مالش تو
میں نے کہا یار میرا لن تو واقعی اب پہچانا نھی جاتا کہ یہ میرا لن ھی ھے
جب کھڑا ھوتا ھے میری قمیض میں تنبو بن جاتا ھے
تو اسد فخر سے سر اوپر کر کے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بوال
دیکھا جگر میں نے کہا تھا نہ کہ یہ تیل نھی جادو ھے جادو
تو میں نے کہا ھاں یار واقعی میں تم سچ ھی کہتے تھے
اسد نے پھر مجھ سے پوچھا سنا لن سے مال شال نکلنا شروع ھوگیا
تو میں نے کہا یار میں نے دوبارا مٹھ ھی نھی ماری تو وہ ہنسنے لگ گیا
اور بوال کوئی حال نئی تیرا چیک تو کرنا تھا
تو میں نے کہا اچھا یار کبھی موقع مال تو چیک کروں گا
اور کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ھاف ٹائم ختم ھوگیا اور ہم پھر کالس میں چلے گئے
کالس میں کچھ خاص نہ ھوا چھٹی ھوئی اور میں عظمی لوگوں کو لے کر گھر آگیا
شام کو ہم ٹیوشن چلے گئے
صدف نے آج سفید سوٹ پہنا ھوا تھا اور بلیک جرسی پہنی ھوئی تھی جس میں اسکے ممے تنے ھوے تھے اور جرسی
کی وجہ سے ممے مزید بڑے بڑے لگ رھے تھے
صدف ہمارے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہماری طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی ذیادہ نظر مجھ پر ھی
تھی جیسے ھی میں سر اٹھا کر اسکے مموں کو دیکھتا تو سالی کو اپنی طرف ھی دیکھتا ھو پاکر شرمندہ سا ھوکر پھر
جلدی سے سر نیچے کر کے گود میں رکھی کتاب کو پڑھنے لگ جاتا
میں نے ایک بات پر غور کیا کہ اگر صدف کو پتہ ھے کہ میں بار بار اسکے مموں کو ھی دیکھ رھا ھوں تو
سالی مموں پر دوپٹہ کیوں نھی لیتی
پتہ نھی اسکے دل میں کیا تھا
کیوں میرا کڑا امتحان لے رھی تھی کس بات کی سزا مجھے دے رھی تھی
تبھی صدف کی امی کمرے سے نمودار ھوئی اور صدف کو کہا کہ میں زرہ درزن کے گھر جارھی ھوں تیرے سوٹ کا
پتہ کرنے تھوڑی دیر تک آجاوں گی
صدف کے دو بھائی تھے ایک الہور میں کام کرتا تھا جو مہینے میں ایک دفعہ ھی گھر آتا تھا
اور دوسرا اپنے ابو کے ساتھ بس ڈرائیور تھا
باپ بس چالتا تھا اور بیٹا کنڈیکڑ تھا
اس وقت گھر میں صدف اور میں اور عظمی اور نسرین اور محلے کے کچھ بچے تھے
صدف کی امی درزن کے گھر کا کہہ کر باہر چلی گئی اور صدف نے ایک بچے کو کہا کہ جاکر باہر کے دروازے کی کنڈی
لگا آے
اور پھر ہماری طرف متوجہ ھوکر بیٹھ گئی
اور وقفہ وقفہ سے بچوں کے نام لے لے کر انکو سبق یاد کرنے کا کہتی رہی
کچھ ھی دیر بعد صدف اٹھی اور کمرے کی طرف چلی گئی
اور
تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے سر نکاال اور مجھے آواز دی کے یاسر میں نے کہا جی باجی
تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو
میں اچھا باجی کہتے ھوے اٹھا اور کمرے میں داخل ھوگیا
جب میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف مجھے کمرے میں نظر نہ آئی کمرے کے ساتھ ایک دروازہ تھا جو شاید سٹور روم
تھا
میں دروازے کی طرف چل دیا جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو
صدف پیٹی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی
تو میں اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال کہ باجی کہاں ھے ٹرنک جو اوپر رکھنا ھے تو وہ
آگے بڑھی اور میرا بازو پکڑ کر مجھے سٹور کی نکر کی طرف لے گئی اور پھر میرے سامنے اپنی بغلوں ہاتھ دے کر
ایسے کھڑی ھوگئی جیسے اسے بہت سردی لگ رھی ھو اور آہستہ سے بولی تم نے باز آنا ھے کہ نھی
میں نے حیران ھوکر پوچھا کے باجی اب میں نے کیا کیا ھے تو صدف جھٹ سے بولی
زیادہ معصوم مت بنو
میں تو جو تمہیں سمجھتی تھی تم تو میری سوچ کے بلکل برعکس نکلے
میں نے پھر کہا باجی کچھ بتائیں تو سہی کہ میں نے کیا کیا ھے
تو صدف بولی پہلے تو تم مجھے یہ باجی باجی کہنا بند کرو میں تمہاری باجی نھی سمجھے
کوئی اپنی باجیوں کو بھی اس نظر سے دیکھتا ھے
میں نے سر جھکا لیا
تو صدف آگے بڑھی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر بولی
سچ سچ بتاو تم چاھتے کیا ھو
میں نے سر جھکائے کہا کچھ نھی باجی
تو صدف بھی جھنجھال کر بولی پھر باجی
میں نے تمہیں کہا کہ مجھے باجی نہ کہو
تو میں نے سرجھکاے ھے کہا کہ اچھا اب نھی کہتا
تو صدف تھوڑے نرم لہجے میں بولی یاسر میری طرف دیکھو
میں نے سر اٹھایا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل رھے تھے
تو صدف نے پیار سے اپنے ایک ھاتھ سے میرے آنسو صاف کیے جبکہ دوسرا ھاتھ ابھی تک میرے ایک کندھے پر ھی تھا
اور بولی دیکھو یاسر تمہارے دل میں جو بھی ھے مجھے سچ سچ بتا دو
میں وعدہ کرتی ھوں کسی کو نھی بتاوں گی
مگر شرط یہ ھے اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھ کر سچ بتاو گے تب
تو میں نے کہا کچھ بھی نھی ھے ایسا
تو صدف بولی پھر جھوٹ
میں نے کہا نہ کہ اس وقت یہ سمجھو کہ ہم دونوں دوست ہیں
کیا تم مجھے اپنا دوست نھی بنا سکتے میں نے ہاں میں سر ہالیا تو
صدف بولی کہ دوستوں سے دل کی بات چھپاتے ہیں کیا
)Update no (30
..Post ko like aur share Lazmi karen
میں نے ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتے ھو نھی میں سر ہالیا
تو صدف بولی
تو پھر مجھے بتاو اپنے دل کی بات
تو میں سمبھلتے ھوے کہا
کہ آپ ناراض ھوجاو گی تو
صدف بولی
یار جب میں خود کہہ رھی ھوں تو ناراض کیسے ھو جاوگی
پھر کچھ دیر صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ میں تمہیں اچھی لگتی ھوں
تو میں نے سر ہال کر ھاں میں جواب دیا تو صدف نے مجھے کندھوں سے ہالتے ھوے کہا
یہ کیا گونگوں کی طرح اشارے کررھے ھو زبان نھی ھے منہ میں
میں نے آہستہ سے کہا ھاں جی
تو صدف نے پھر پوچھا کہ کتنی اچھی لگتی ھوں تو میں نے کہا بہت اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ
میرے جسم کا کون سا حصہ تمہیں زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا آپ سر سے پاوں تک ھی اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی
پھر بھی کوئی حصہ تو ھوگا جو تم زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے اشارے سے اسکے مموں کی طرف انگلی کرتے ھوے کہا یہ
تو صدف نے پوچھا
اور
میں نے اسکی گانڈ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ
تو صدف نے کہا
اچھا جی
اور پھر صدف نے اپنے ممے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا یہ تمہیں کتنا کہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا بہت تو اچانک صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنے مموں پر رکھ کر اپنے ھاتھوں کو دبا دیا جس
سے اسکے ممے میری مٹھی میں بھینچے گئے
اور صدف کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی سسسسی اور بڑی سیکسی آواز نکال کر بولی لو پھر انکو اچھی طرح دباو
اندھا کا چاھے دو آنکھیں
میں نے آہستہ آہستہ صدف کے گول مٹول مموں کو دبانا شروع کردیا
کچھ دیر ایسے ھی دباتا رھا اور صدف میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھے منہ چھت کی طرف کرکے آنکھیں بند کیے
سسسییی سسسییی کرتی رھی
میں نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھا
اور اپنا ایک ھاتھ صدف کی کمر پر رکھ کر اسے اپنی طرف کیا اور صدف نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور میری طرف
نشیلی آنکھوں سے دیکھا اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے صاف نظر آرھے تھے
میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک جھٹکا دیا اور صدف میرے سینے سے لگ گئی اور ساتھ ھی میں نے اپنے
ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے
صدف کو فرنچ کس نھی کرنا آتی تھی اس لیے وہ اوپر اوپر سے میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی
میں نے بہت کوشش کی کے صدف کا اوپر واال یا نیچے واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لوں مگر وہ منہ ھی نھی کھول
رھے تھی بس ہونٹوں سے ہونٹ مال کر چومی جارھی تھی میرے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر تھے اور اسکے دونوں ھاتھ
میری کمر پر اور جسم بلکل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر ایک جسم بنے ھوے تھے میرا لن بھی نیچے سے تن کر صدف
کی پھدی کے اوپر ٹکریں مار مار کر اسے ھوشیار باش کر رھا تھا
تبھی میں نے صدف کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور زبان اسکے ہونٹوں پر پھیرنے لگ گیا اور زبان کی نوک
اسکے ہونٹوں کے بیچھ اندر کی طرف دبانے لگ گیا تھوڑی سی کوشش کے بعد اسکے نرم مالئم گالب کی کلی کیطرح
تھوڑا سا کھلے اور میری زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا اور میری زبان نے باقی کا راستہ خود ھی ہموار کر لیا اور کافی
ساری زبان اسکے منہ میں ڈال کر اسکا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے لگ گیا اور اپنی زبان
کو اسکے منہ کے اندر چاروں اطراف پھرنے لگ گیا اور کبھی اسکے زبان سے چھیڑ چھیڑ کرنے لگا جاتا
صدف بھی اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانا شروع ھوگئی اور میرا نیچے واال ہونٹ بھی چوسنے لگ گئی
منہ کے اندر زبان کی زبان کے ساتھ .لڑائی جاری تھی اور باھر ھونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ لڑائی جاری تھی اور نیچے
سے لن اور پھدی ابھی تک ایک دوسرے سے مشورہ کرنے میں مصروف تھے اور صدف کے ممے میرے سینے میں دبے
ھوے تھے اور میرے ھاتھ اب اسکی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو جکڑے ھوے تھے اور صدف کا ھاتھ میری کمر پر تھا
اور دوسرا میری گردن کے اوپر بالوں میں
کہ اتنے میں اچانک باھر سے کمرے سے برتن گرنے کی آواز آئی اور ہم دونوں کو کرنٹ لگا اور ہوش میں آتے ھے
جھٹکے سے ایک دوسرے سے الگ ھوے
اور
صدف نے مجھے جلدی سے پٹیوں کے اوپر چڑھنے کو کہا میں بجلی سی تیزی سے جمپ مار کر پیٹی کے اوپر چڑھ گیا
اور ایسے ھی پیٹی کے اوپر پڑے ٹرنک کو ادھر ادھر کرنے میں مصروف ھوگیا
صدف نے خود سنبھاال اور اپنے کپڑے سہی کرتی ھوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی
میں کافی دیر ویسے ھی پیٹی کے اوپر بیٹھا رھا اور میرے کان باہر کی طرف کھڑے تھے اور میری ٹانگیں کانپ رھی تھی
تقریبًا دس منٹ بعد صدف مسکراتی ھوئی سٹور میں داخل ھوئی اور مجھے یوں سہمے ھوے دیکھ کر ہنستے ھوے بولی
تیری کیوں جان تے بنی ھوئی اے چل تھلے آجا ُک ش نئی ھویا بلی نے برتن پھینکے تھے
میں بلی کو گندی گالیاں دیتے ھوے شکر کرتے نیچے آگیا اور
صدف نے کہا کہ تم باہر جاکر بیٹھ جاو اور تھوڑی دیر تک سب کوچھٹی ھو جانی ھے تم گھر کا چکر لگا کر پھر آجانا
امی ابھی ایک گھنٹہ سے پہلے نھی آتی میں نے کہا آنٹی تو درزن کے پاس گئی تھی اتنی دیر کیسے لگائیں گی تو صدف
بولی
تمہیں میری امی کا نھی پتہ وہ بہت باتونی ھے تم بے فکر رھو اگر وہ آ بھی گئی تو میں انکو کہہ دوں گی کہ میں اکیلی تھی
اس لیے تمہیں روک لیا تھا
میں نے پھر ڈرتے ھوے انداز میں کہا کہ دیکھنا کہیں مروا نہ دینا تو صدف نے مجھے باھر جانے کے لیے دھکہ دیا کہ اب
جاو بھی میں سب سنبھال لوں گی اور پھر پیچھے سے آہستہ سے آواز دی کے یاسر جلدی آجانا
میں باہر آکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی مجھے غور سے دیکھتے ھوے بولی
تمہیں اتنی سردی میں بھی پسینہ کیوں آیا ھوا ھے
تو میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر پھیرتے ھوے کہا کہ
تمہاری باجی صاحبہ نے اتنا بھاری ٹرنک جو مجھ سے اٹھوا کر پیٹی پر رکھوایا ھے
میں نے نھی کل سے پڑھنے آنا تو عظمی بولی کیوں کیا ھوا تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا کہ میں یہاں کام کرنے آتا
ھوں یاں پڑھنے
تو عظمی ہنستے ھوے بولی
کوئی بات نھی کسی کا کام کردینے سے تم چھوٹے تو نھی رھ جاو گے
کچھ دیر ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے اتنے میں صدف کمرے سے باہر نکلی اور سب کو چھٹی کرنے کا کہا
ہم نے جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں رکھی اور سالم لے کر باہر کو نکلنے لگے میں سب سے آخر میں تھا تو میں نے
پیچھے مڑ کر دیکھا تو صدف نے مجھے ھاتھ کے اشارے سے جلدی آنے کا کہا اور میں نے اثبات میں سر ہالیا اور باہر
نکل آیا اور تیز تیز قدموں سے گھر پہنچا اور بیگ رکھتے ھی امی کو کہا کہ باجی صدف نے مجھے بلوایا ھے تو امی
نے کہا ابھی تو انکے ھی گھر سے آرھے ھو تو میں نے کہا کہ باجی نے کہا تھا کہ گھر بیگ رکھ کر جلدی آنا شاید انہوں
نے کچھ منگوانا تھا
تو امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا
دھند پڑنا شروع ھوجاتی ھے میں نے ابھی تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور بھاگتا ھوا صدف کے گھر پہنچ گیا اور دروازہ
کھوال اور اندر داخل ھوا تو صدف سامنے ھی چارپائی پر بیٹھی ھوئی دروازے کی طرف ھی دیکھ رھی تھی اور مجھے
اشارے سے دروازہ بند کرنے کا کہا تو میں نے دروازہ بند کردیا اور سنگلی کی بنی کنڈی کو لگا دیا
اور چلتا ھوا صدف کے پاس آگیا صدف کھڑی ھوئی اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے چلتا ھوا
کمرے میں داخل ھوا اور صدف نے کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا
اور مجھے کمرے میں بچھی چارپائی بیٹھنے کہا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی
میں نے اسکے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے اب جرسی نھی پہنی ھوئی تھی
صدف نے میرا ھاتھ پکڑ کر کہا
تم کیا چیز ھو
میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں کیا ھوا تو وہ میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
یہ کس کرنا کہاں سے سیکھا ھے تو میں نے کہا آپ سے
تو میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی
چل شوخا
سچ بتاو کہاں سے سیکھا ھے تو میں کہا
صحیح کہہ رھا ھوں آپ سے کس کرتے وقت ھی مجھے پتہ ھی نھی چال کہ میں کیا کررھا ھوں اور ساتھ ھی میں نے اپنے
دونوں ھاتھوں سے اسکے بازوں کے نیچے سے سائڈ کیطرف سے جپھی ڈال دی اور اسکو پیچھے کی طرف دھکیل کر
چارپائی پر لٹا دیا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا تو صدف بولی چھوڑو مجھے کیا کررھے ھو میں نے اس لیے
تمہیں بلوایا ھے کیا
تو میں نے اسکی بات سنی ان سنی کر کے ایک ھاتھ سے صدف کا مما مسلنا شروع کردیا صدف بلکل سیدھی لیٹی ھوئی
تھی اور اسکی ٹانگیں نیچے فرش کی طرف لٹکی ھوئی تھی میں اسپر ترچھا لیٹا ھوا تھا میرا ایک بازو اسکی کمر کے
نیچے تھا اور دوسرا اسکے سینے پر اور میرا ھاتھ مسلسل اسکے ممے کو مسلی جارھا تھا
کچھ دیر بعد عظمی بولی یاسر تمہارا بازو میری کمر میں ُچ بھ رھا ھے اسے نکالو میں نے بازوں اس کی کمر کے نیچے
سے نکال کر اسکی گردن کے نیچے رکھ دیا اور تھوڑا اوپر ھوکر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنے لگا تو صدف نے
منہ دوسری طرف کر کے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھ لیا
اور نہ نہ میں سر ہالنے لگ گئی
میں نے اسکا مما چھوڑا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر منہ سے ہٹا دیا اور ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پر رکھ کر کسنگ شروع کردی
صدف کچھ دیر احتجاج کرتی رھی مگر پھر ٹھنڈی ھوکر میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے اسی دوران اسکی قمیض کو آگے
سے تھوڑا اوپر کیا اور ھاتھ قمیض کے اندر ڈال کر مموں تک لے گیا صدف نے میرا ھاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر اس
سے پہلے اسکا مما میرے ھاتھ میں آچکا تھا میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اس نے بریزیر بھی نھی پہنا ھوا تھا
یعنی سالی نے پوری تیاری کررکھی تھی بس نخرے کررھی تھی
عظمی کے ممے میرے ھاتھ سے بڑے تھے اس لیے پورا مما ھاتھ میں نھی آرھا تھا میں کبھی ممے کو دباتا کبھی اکڑے
ھوے نپلوں کو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر مسل دیتا
تب صدف لمبی لمبی سسکاریاں لیتی اور اففففف آہستہ کرو آرام سے کرو کہتی
اور پورے جوش سے میرے ہونٹ چوس رھی تھی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا میں نے اس کے ممے سے ھاتھ ہٹا کر
پیچھے اسکی کی کمر کی طرف لی گیا اور گردن کے پیچھے والے ھاتھ سے اسکی گردن کو اوپر کیا اور اسکو چارپائی پر
سیدھا کردیا اب ہم دونوں کی ٹانگیں بھی چار پائی پر تھیں
اور صدف بلکل سیدھا چارپائی پر لیٹی تھی جبکہ میں سائڈ لے کر اسکے اوپر تھا میں نے صدف کی کمر سے قمیض اوپر
کی طرف کردی اور پھر ھاتھ آگے الکر آگے سے بھی ساری قمیض اٹھا کر اسکے مموں سے اوپر کرتے ھوے اسکے گلے
تک کردی
اب صدف لے نیم گورے چھت کی طرف تنے ممے بلکل ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے
میں اسکے اتنے دلکش موٹے گول مٹول مموں کو دیکھ کر انپر ٹوٹ پڑا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنا شروع
کردیا صدف میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دبا رھی تھی اور نیچے سینے کو اوپر اٹھا اٹھا کر مزے لے لے کر
مجھے ممے چوسنے لو سگنل دے رھی تھی اور ساتھ ساتھ لمبے لمبے سانس لے رھی تھی
میں کبھی صدف کے اکڑے ھوے نپل پر زبان پھیرتا کبھی پورا مما منہ
میں لینے کی کوشش کرتا کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر میں نے اپنا ایک ھاتھ اسکے پیٹ پر رکھ کر اسکی ناف میں انگلی گھمانے لگ گیا
میں جیسے اسکی ناف کو چھیڑتا صدف اتنا ذیادہ مچلتی
پھر میں نے پھرتی سے اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیا اور یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ اس نے بھی میری طرح بس السٹک
ھی پہنی ھوئی ھے اس لیے میرا ھاتھ آسانی سے اندر چال گیا اور اسکی پھدی کی مالئم جلد سے ھوتا ھو اسکی پھدی کے
ہونٹوں پر جا پہنچا
میرا ھاتھ جیسے ھی صدف کی پھدی کے اوپر لگا صدف نے ایک زور دار جھر جھری لی لمبی سی ھاےےےےےےے
میں مر گئی کیا اور مجھے کس کر جپھی ڈال کر سر نھی نھی میں ہالنے لگ گئی
مگر میں اب کہاں رکنے واال تھا
میں نے محسوس کیا کہ صدف کی پھدی کے ہونٹ کافی گیلے ہیں جس سے میری انگلیاں اسکی پھدی کے اوپر چپک رھی
تھی
میں مسلسل اسکی مالئم ریشم سی نازک بالوں سے پاک پھدی کو مسل رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکے ایک ممے کو بے دردی
سے منہ کی مار مار رھا تھا
اور میرا لن اسکے پٹ میں گھسنے کی کوشش میں تھا جسکو صدف بخوشی سے برداشت کر کے مزے میں ڈوبی سسکیاں
لے رھی تھی کہ اچانک اس کی سسکیوں میں شدت پیدا ھوگئی
مجھے بھی جوش آگیا
میں نے لن کو مزید اسکے کولہے کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنے ھاتھ کی سپیڈ تیز کردی اور ایکدم سے
درمیان والی انگلی پھدی کے اندر تک گھسا دی جیسے ھی انگلی اندر گئی تبھی صدف کا چھوٹنے کا وقت سر پر تھا صدف
نے زور سے گانڈ کو اوپر کی طرف کر کے ایکدم نیچے چارپائی پر پھینکا
اور ھاےےےےےےےے امییییییک کی آواز آتے ھی صدف کہ جسم نے جھٹکے لینے شروع کردیے اور پھدی کو سکیڑ لیا
جس میں میری انگلی تھی اور انگلی ایسے تھی جیسے آگ کی بھٹی میں ھو اور ٹانگوں کو زور سے آپس میں بھینچ لیا اور
صدف نے اسی سمے اپنا ھاتھ نیچے کر کے میرے لن کو بھی ذور سے پکڑ لیا اور ذور ذور سے جھٹکے لینے لگی اور
ساتھ ھی سیییییی افففففف اممممم ہمممممم ھاےےےےےےےے کر کہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکی ٹانگوں جکڑا میرا ھاتھ اسکی
پھدی کے پانی اور منی سے گیال ھوگیا تھا
اسکی پھدی سے مسلسل پانی نکل رھا تھا
اب اسکا جسم وقفے وقفے سے ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رھا تھا
صدف کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھاے اور ساتھ ھی وہ بےجان سی ھوگئی
جیسے ھی اسکی ٹانگیں ڈھیلی ہوئی میں نے ہاتھ باہر نکال کر اس کی شلوار سے اپنے ھاتھ کو صاف کیا اور پھر سے
اسکے مموں کو چوسنا شروع کردیا
صدف پہلے تو کچھ بےچین سی رھی پھر کچھ ھی دیر بعد وہ دوبارا سے گرم ہونا شروع ھوگئی
میں نے آہستہ آہستہ سے صدف کی شلوار کو نیچے کھسکانا شروع کردیا
پہلے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور پھر آگے سے کھینچ کر گھٹنوں تک نیچے کردی
صدف نے تھوڑا احتجاج کیا مگر میں نے تھوڑی سی زبردستی کی اور شلوار نیچے کرنے میں کامیاب ہوگیا
اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی اور صدف کے اوپر آکر لن اسکی پھدی کے اوپر رکھنے لگا تو صدف نے جلدی سے
اپنا ھاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی یہ کیا کرنے لگے ھو پاگل تو نھی ھوگئے
تو میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
تو اس نے کہا چھوڑو مجھے خبردار اگر اندر کیا مجھے برباد کرنا ھے
میں نے کہا اندر کرنے سے تم کیسے برباد ھوجاو گی کسی کو پتہ تھوڑا لگنا ھے
تو صدف بولی تم پاگل ھو جو میری بات نھی سمجھ رھے مجھے مارنا ھے
میں نے کہا یار بس تھوڑا سا اندر کروں گا ایک دفعہ ھاتھ تو پیچھے کرو تو صدف نھی میں سر ہالتے ھوے کہنے لگی
ہرگز بھی نھی کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ھو
میں کنواری ھوں شادی شدہ نھی جو کچھ نھی ھوگا
مگر میرے دماغ پر منی سوار تھی میں نے زبردستی صدف کا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے قریب کر دیا اس نے دوسرا ھاتھ
نیچے لیجانا چاھا مگر میں نے راستے میں اسکا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے پاس لیجا کر چارپائی پر دبا دیا اب میرے
دونوں ھاتھوں میں اسکی دونوں کالئیاں تھی اور صدف سر ادھر ادھر مار رھی تھی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر دائیں بائیں
کرتے ھوے میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رھی مگر مرد کے آگے عورت بے بس ھی ھوتی ھے میں نے اپنی
گانڈ ہال ہال کر لن اسکی پھدی پر سیٹ کرنا شروع کردیا مگر وہ نیچے سے ہلے جارھی تھی اور مجھے دھمکیاں دینے لگ
گئی کہ میں اپنی امی کو بتاوں گی ابو کی بتاوں گی مگر مجھ پر صدف کی دھمکیوں کا کوئی اثر نھی ھورھا تھا
مجھے جب بھی لگتا کہ لن سہی نشانے پر ھے تو میں ذور سے گھسا مارتا مگر لن پھدی سے سلپ ھوکر اس کے چڈوں کے
درمیان گھس جاتا
ایک تو صدف کی پھدی بہت گیلی تھی دوسرا جب بھی گھسا مارتا تو صدف اوپر کی طرف کھسک جاتی اور میرا وار خالی
جاتا
مگر جب بھی میرا لن اسکے چڈوں کے درمیان جاتا تو میرے جسم میں مزے کی لہر دوڑ جاتی
صدف اب رونے لگ گئی تھی اور مجھے اموشنل بلیک میل کرتے ھوے کہنے لگی
یاسر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے کو دوست بنایا ھے اور مجھے تم پر بہت بھروسہ تھا کہ تم میرے ساتھ کچھ
غلط نھی کرو گے
مگر تم بھی ہوس کے پجاری نکلے
کیا ملے گا تمہیں میری عزت برباد کرکے
میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی
اگر تم مجھے دوست سمجھتے ھو تو پلیز اندر مت کرنا
ورنہ میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھوں گی اور ساتھ ساتھ روئی جارھی تھی
مجھے بھی اب صدف کے چڈوں میں گھسے مارنے میں مزہ آرھا تھا
اس لیے میں نے بھی اندر کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ھوے کہا
اچھا یار نھی اندر کرتا مگر مجھے ایسے تو کرنے دو
تو صدف بولی ایسے بھی اندر جاسکتا ھے تو میں نے کہا یار ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ نھی اندر کرتا تو نھی کرتا
تو صدف بولی دیکھ لو یاسر اب میں تمہیں نھی روکوں گی
اگر تمہیں میری عزت پیاری ھوئی تو اندر نھی کرو گے
میں نے کہا یار مجھے تمہاری عزت پیاری ھے تو کہہ رھا ھوں کہ اندر نھی کرتا
صدف نے اب ہلنا بند کردیا تھا اور میں اب اسکی چڈوں کے بیچ ھی لن کو اندر باھر کر رھا تھا
میں اب صدف کی کالئیاں بھی چھوڑ دی تھی اور بلکل سیدھا اس کے اوپر لیٹ کر اسکی پھدی کو اپنے لن سے رگڑیں لگاتا
ھوا اوپر نیچے ھورھا تھا
مجھے بہت مزہ آرھا تھا
اب صدف کہ بھی آنکھیں بند ھونا شروع ھوگئی
میں گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ صدف کا پورا چہرہ چوم رھا تھا
آہستہ آہستہ میرے گھسوں میں شدت آرھی تھی اور چارپائی چیخ چیخ کر آہستہ کرنے کا کہہ رھی تھی
نیچے سے چارپائی کی چوں چوں کی آوزیں پورے کمرے میں گونج رھی تھی اور میں اب ایک ردھم سے گھسے ماری
جارھا تھا اور مزے کی شدت میں بھی اضافہ ھوتا جارھا تھا
صدف نے میری کمر کو ذور سے جکڑ رکھا تھا
کہ اچانک صدف نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں کس کر مالنا شروع کیا اور اسکے چڈوں نے میرے لن کو جکڑ لیا اور پھر
ڈھیال چھوڑ دیا
جب صدف نے میرے لن کو جکڑا تو میرا لن پھنس کے اسکے چڈوں میں گیا تو مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیان نھی کرسکتا
میں نے صدف کو کہا جانی ویسے ھی کرو
تو صدف نے پھر چڈوں کو آپس میں جوڑ کر جسم کو اکڑا لیا
میں گھسے مارتے ھوے بوال
ھاں ھاں ایسے ھی بڑا مزہ آرھا ھے
ایسے ھی رکھنا بس
تو صدف بھی فل نشے میں تھی اور ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں ملتے اور کبھی جدا ھوتے
صدف بڑی نشیلی آواز میں بولی یاسر
میں نے کہا
جی جان
صدف بولی مزہ آرھا ھے میں نے اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا ُبہہہہتتتت مزہ آرھا ھے
تمہیں بھی مزہ آرھا ھے
تو صدف نشے کی سی حالت میں بولی .بہتتتت مزہ آرھا ھے
پھر وہ بولی یاسر مجھے چھوڑو گے تو نھی
میں نے کہا نھی جان
پھر بولی مجھے دھوکا تو نھی دو گے
میں نے کہا نھی جان
صدف پھر بولی
یاسر مجھے بدنام تو نھی کرو گے
میں نے کہا سوچنا بھی مت
پھر بولی
یاسر تم نے پہلے بھی کسی کے ساتھ کیا ھے
تو میں نے کہا نھی جان میرا بھی پہلی ھی دفعہ ھے
تو وہ بولی
سچ کہہ رھے ھو نہ میں نے کہا جی جان
تو صدف نیند کی سی حالت میں بولی
کھاو میری قسم
میں نے کہا
تمہاری قسم جان جی
پھر صدف کو ایکدم جوش چڑھا اور دونوں ھاتھون سے میرا چہرہ پکڑ کر بڑی سپیڈ کے ساتھ پورے چہرے پر چھوٹی
چھوٹی پاریاں کرنے لگ گئی اور پھر آنکھیں بند کر کے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ کس کے لگا لیا
میری گھسے مارنے کی سپیڈ بہت تیز ھوچکی تھی اور صدف کی بالوں سے صاف چکنی مالئم نرم پھدی کے ساتھ رگڑ
رگڑ کر اندر باھر ھو رھا تھا
اچانک مجھے لگا جیسے میرا سارا خون میرے لن میں اکھٹا ھو رھا ھے اور مجھے بہت تیز کا پیشاب آرھا ھے
پھر وہ وقت آگیا کہ مجھ سے برداشت نہ ھوا اور سارے جہان کا مزہ اکھٹا ھوکر میرے لن میں آگیا اور میں نے بے ساختہ
صدف کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ جکڑ لیے اور جتنا ممکن تھا اسکو اپنے جسم میں سمونے لگا اور کس کر صدف کو جپھی
ڈال دی
صدف کے بڑے بڑے ممے میرے سینے میں دب گئے تھے
اور پھر میرے جسم کو ایک زبردست جھٹکا لگا اور میرے لن سے منی نکلتی گئی مجھے نھی پتہ کہ کتنی دفعہ میرے لن
سے منی نکلی بس مجھے تو مزے ھی مزے آرھے تھے
جیسے جیسے میرے لن سے منی نکلنا کم ھورھی تھی
ویسے ھی میرے گھسے بھی سلو موشن میں لگ رھے تھے اور پھر صدف کے چڈوں نے میرے لن کو اچھی طرح نچوڑ
لیا
میں صدف کے مموں پر اپنے گال رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا اور صدف اس دوران میرے بالوں میں انگلیاں
پھیرتے ھوے بولی اب خوش میں کافی دیر ایسے ھی پڑا رھا پھر صدف نے مجھے ہالیا کہ اب اٹھ بھی جاو کہ امی آے گی
تب ھی اٹھو گے میں امی کا نام سنتے ھی صدف کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو دیکھنے لگ گیا جو سرخ ھو چکا تھا
اور نیم مرجھا گیا تھا میں نے صدف کی شلوار سے ھی لن کو صاف کیا تو صدف کہنے لگی پاگل ھوگئے ھو میرے کپڑے
گندے کررھے ھو مگر میں نے تب تک لن صاف کرلیا تھا اور شلوار اوپر کی تب صدف بھی جلدی سے اٹھی اور اپنی
قمیض نیچے کر کے کھڑی ھوکر شلوار اوپر کرلی
اور چارپائی سے چادر اکھٹی کرتی ھوئی بولی یاسر تم گھر جاو امی بھی آنے ھی والی ھے میں امی کے آنے سے پہلے
چادر بدل دوں
میں نے چادر کی طرف دیکھا تو چادر ایک جگہ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس پر گاڑھی گاڑھی منی اب بھی نظر
آرھی تھی
میں نے صدف کو بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف اسکا منہ کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی تو صدف اپنا آپ چھڑواتے
ھوے بولی
اب دفعہ بھی ھوجاو
میں اسکو چھوڑ کر کمرے سے نکلنے ھی لگا تھا کہ
...
میں ابھی دروازے کی دہلیز کے باہر ھی گیا تھا کہ پیچھے سے صدف نے مجھے آواز دی کہ یاسر میں نے پلٹ کر اسکو
دیکھا
تو وہ مجھے ہوائی چمی دیتے ھوے بولی شکریہ
میں نے کہا کس بات کا تو صدف بولی میرا بھروسہ نہ توڑنے کا
اور میں نے ہممم کیا اور باھر نکل آیا اور بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی اور گلی میں نکال تو گلی میں کافی اندھیرا
ھوچکا تھا
میں تیز تیز قدموں سے چلتا گھر کی طرف چال گیا
رات کو نیند بڑے مزے کی آئی صبح سکول کی لیے تیار شیار ھوکر
آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا تو آنٹی سے سالم دعا لی آنٹی نے پیار سے میری گال اور ماتھے کو چوما اور کہنے لگی
میرے شزادے کی پیپروں کی تیاری کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے
تو آنٹی میرے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی شاباش
بس انج ای دل ال کہ پڑیا کر
ایس دفعہ وی فرسٹ ای آویں
تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا
اب میں کیا بتاتا کہ میرے تو پاس ھونے کی بھی چانس نھی
اتنی دیر میں عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر کمرے سے نکل آئیں
اور نسرین مجھے آنٹی کی بغل میں بیٹھا دیکھ کر بولی
امی ُت سی کی ہر ویلے اینوں گودی وچ واڑی رکھدے او
تو آنٹی غصے سے بولی
تینوں کی تکلیف اے میرا اکو اک ای تے پتر اے
ہے کو ایدے ورگا سوہنا ُسنکھا
تو نسرین کی بجاے عظمی بولی
شکل دیکھی اسکی آیا وڈا شزادہ
تو میں نے زبان نکال کر اسکو منہ چڑھایا
اور آنٹی نے مزید مجھے اپنے ساتھ لگا کر کہا
چل دفعہ
ھووو کی ہر ویلے میرے منڈے دے پچھے پئیاں رہندیاں جے
تو نسرین بولی جے ماں پتر دا پیار ختم ھوگیا ھوے تے سکول جان دی اجازت مل سکدی اے
تو میں ہنستے ھو آنٹی سے الگ ھوا اور جانے لگا تو آنٹی بولی یاسر پتر بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا آج باہر ُدھند بھی
کافی پڑی ھوئی ھے
میں نے جی اچھا کہا اور
انکو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر صدف کے گھر کی طرف چلدییے
گلی سے نہر کی طرف دیکھ کر صاف پتہ چل رھا تھا کہ دھند کی شدت کتنی ھے کیوں کہ ہمیں تو کھیت بھی نظر نھی
آرھے تھے خیر ہم صدف کے گھر پہنچے تو
صدف بھی تیار ھی بیٹھی تھی ہمیں دیکھ کر جلدی سے وہ بھی باہر کو آنے لگی تو اسکی امی بھی ساتھ ھی آگئی اور مجھے
وہ ھی بات کہنے لگ گئی جو آنٹی فوزیہ نے کہی تھی کہ دھند بہت ھے بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا
میں نے جی اچھا کہا اور دل ھی دل میں کہا چلو جی اک ھور پین دا اضافہ ھوگیا
ہم سکول کی طرف چل دیے
صدف ایسے شرما شرما کر مجھے دیکھ رھی تھی جیسے میری منگیتر ھو
راستے میں دھند کافی پڑی ھوئی تھی اس لیے ہم سنبھل سنبھل کر جارھے تھے تھوڑا سا بھی ایک دوسرے کا فاصلہ بڑھتا
تو ایکدوسرے کی نظروں سے اوجھل ھوجاتے عظمی اور نسرین بھی ڈر ڈر کر جارھی تھی جبکہ صدف میرے آگے تھی
اور بلکل میرے ساتھ ساتھ ھی جارھی تھی
مجھے اچانک شرارت سوجھی تو میں نے ھاتھ آگے کر کے صدف کی گانڈ میں پورا چپہ دے دیا صدف نے ایکدم ھائی کیا
اور جھٹکے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا
تبھی عظمی نے پیچھے مڑ کر پوچھا کیا ھوا باجی تو صدف بولی کچھ نھی میرا پیر پھسلنے لگا تھا
تو عظمی بولی باجی دھیان سے چلیں آگے سے تو کچھ نظر بھی نھی آرھا صدف نے پیچھے مڑ کر غصے سے دیکھا اور
عظمی کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ تو کیال کرو اگر عظمی دیکھ لے گی تو
تھوڑا سا ھی آگے گئے تھے کہ میں نے پھر آگے بڑھ کر صدف کی گانڈ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس دفعہ صدف بولی تو
کچھ نہ مگر میرا ھاتھ پیچھے کرنے لگ گئی ایسے ھی میں کھڑمستیاں کرتا رھا اور ہم نہر کہ پل پر پہنچ گئے وہاں کچھ
ذیادہ ھی دھند تھی
جب ہم نے نہر کا پل کراس کیا تو عظمی اور نسرین کچھ زیادہ ھی آگے چلی گئی تھی جبکہ صدف اور میں تھوڑا پیچھے
تھے تب صدف نے کہا تمہیں چھٹی کس وقت ھوتی ھے میں نے نے کہا آج تو ہاف ڈے جمعرات ھے آج تو گیارہ بجے
چھٹی ھوجانی ھے ویسے .ایک بجے چھٹی ھوتی ھے
تو صدف بولی میں دوبجے واپس آتی ھوں آج میں ٹانگے کی بجاے ادھر سے واپس آوں گی تم ُپل پر میرا انتظار کرو گے
پھر ہم اکھٹے واپس گاوں آجائیں گے میں نے کہا
واپسی پر میرے ساتھ یہ دونوں مصیبتیں ھوتی ہیں
میں انکو گھر چھوڑ کر دوبارا نہر کے پل پر آسکتا ھوں
آج تو ویسے ھی جمعرات ھے
تو تم بھی جلدی آجانا
تو صدف کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی
میں کوشش کروں گی کہ باراں بجے تک واپس آجاوں
تم ساڑھے باراں بجے ُپل موجود ھونا
میں نے کہا ٹھیک ھے مگر تم آجانا یہ نہ ھو کہ میں انتظار ھی کرتا رہوں تو صدف نے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے
کہا فکر نہ کر میرے شزادے صدف اپنے وعدے توں نئی ُمکر دی
اور پھر ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم سکول پہنچ گئے صدف اپنی اکیڈمی کے راستے کی طرف چلی گئی اور ہم اپنے
اپنے سکول میں چلے گئے
کالس میں اسد سے بھی کچھ خاص بات نہ ھوئی بس وہ ھی سیکسی رسالہ دیکھا اور کچھ سیکسی باتیں کی
اور اسد نے میرا لن پکڑا جو رسالہ دیکھنے کی وجہ سے کھڑا ھوچکا تھا
تو اسد نے حیرانگی سے کہا واہ جگر تیرا لن تو پورے جوبن پر آگیا ھے
یہ تو اب پھدی پاڑ لن بن گیا
میں لکھ کر گارنٹی دیتا ھوں کہ تو جسکی بھی ایک دفعہ پھدی مارے گا دوبارا وہ تیرے لن کو ترسے گی تیری ُچدی پھدی
تیری مرید ھوجاے گی
میں خوش ھوتے ھوے بوال
بس یار یہ تیری مہربانی ھے
تو وہ ہنس کر بوال دیکھ لیا پھر ہماری یاری کا رزلٹ
میں نے اسکی کمر پر تھپکی دیتے ھوے کہا یار تیرا یہ احسان کبھی نھی بھولوں گا تو اسد نے کہا گانڈو یاری میں احسان
نھی ھوتا
تو اچانک مجھے صدف کے کہے ھوے الفاظ یاد آے کہ
اندر مت کرنا میں برباد ھوجاوں گی
میں شادی شدہ نھی کنواری ھوں
تو میں نے اسد سے کہا یار ایک بات پوچھنی تھی
اسد بوال
دو پوچھ یار
تو میں نے کہا یار یہ کنواری لڑکی اور شادی شدہ میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بوال کیا مطلب
میں نے کہا مطلب کہ
کنواری لڑکی کے ساتھ سیکس کیا جاے اور شادی شدہ کے ساتھ کیا جاے تو اس میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بوال
کنواری سیل پیک ھوتی ھے
اسکی سیل کھولنا پڑتی ھے جبکہ شادی شدہ کی پہلے ھی کھلی ھوتی ھے
تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ یار یہ سیل کیا ھوتی ھے تو اسد ہنستے ھوے بوال
جا اوے چلیا تینوں حالے تک اے ای نئی پتہ
کملیا سیل لڑکی کے کنوارے ھونے کا ثبوت ھوتا ھے
اسکی پھدی کے اندر ایک پردہ ہوتا ھی
جب لن اسکی پھدی میں جاتا ھے اور پردے کو پھاڑ کر آگے چال جاے تو اسکی سیل یعنی پردہ پھٹ جاتا ھے اور اسکی
پھدی سے خون نکل آتا ھے
اسے سیل ٹوٹنا کہتے ہیں
میں نے حیران ھوتے ھوے اسد کی طرف دیکھتے ھوے کہا
یار اس سے لڑکی کو درد بھی ھوتا ھے
اور خون کتنا نکلتا ھے
تو اسد بوال
کسی کسی لڑکی کے بہت ذیادہ درد بھی ھوتی ھے اور خون بھی ذیادہ نکلتا ھے اور کسی لڑکی کے نارمل سی درد ھوتی
ھے اور خون بھی کچھ خاص نھی نکلتا
اور کچھ تو کنواری بھی ھوتی ہیں اور سیل بھی خود ھی توڑ لیتی ہیں
میں نے پوچھا وہ کیسے
تو اسد بوال
جیسے ہم مٹھ مار کر فارغ ھوجاتے ہیں ایسے ھی کچھ گرم اور سیکسی لڑکیاں اپنی پھدی میں انگلی کرتی ہیں اور جو جوش
میں آکر انگلی ذیادہ اندر کردیتی ہیں انکی سیل ٹوٹ جاتی ھے
اور میں نے تو ایک انگلش فلم میں دیکھا تھا کہ
لڑکی اپنی پھدی میں کھیرا اور بینگن بھی لے رھی تھی اور ایک تو موم بتی اپنی پھدی میں لے رھی تھی
اور ایک لڑکی تو اپنی بنڈ کی موری میں بھی پورا کھیرا لے رھی تھی
میں حیران ھوتے ھوے اسد کو دیکھی جارھا تھا کہ سالے کو لڑکیوں کہ بارے میں کتنا پتہ ھے
تو میں نے کہا واہ یار بڑی معلومات ھے تیری
یار مجھے ایک بات کی سمجھ نھی آئی کہ پھدی میں تو چلو مان لیا کہ سب کچھ لے سکتی ہیں مگر یہ گانڈ میں کیسے لیتی
ہیں تو اسد بوال
جناب کئی کنواری لڑکیاں تو گانڈ بھی بڑے شوق سے مرواتی ہیں اور جنکو چسکا پڑ جاے تو وہ اتنی پھدی نھی مرواتی
جتنی گانڈ مرواتی ہیں
میں ہیییں کہا
اور اسد کو کہا یار انکے درد نھی ھوتا تو اسد نے کہا پہلے پہلے ھوتا ھے مگر بعد میں یہ گانڈ پیچھے کر کر کے پورا لیتی
ہیں
اور کنواری لڑکی کو یہ فائدہ ھوتا ھے کہ اسکی سیل ٹوٹنے سے بھی بچ جاتی ھے اور لن کا سواد بھی چکھ لیتی ھیں
ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ ماسٹر جی کمرے میں داخل ھوے اور ہم دونوں شریف زادے بن کر بیٹھ گئے
ُچ ھٹی ہوتے ھی میں عظمی لوگوں کو ساتھ لے کر گھر چال گیا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کھیلنے کے بہانے سے گھر
سے نکال اور نہر کی طرف چل دیا گھر سے میں ٹائم دیکھ کر نکال تھا اس لیے مقررہ وقت میں ابھی پندرہ منٹ پڑے
تھے
[] size/میں تیز تیز قدموں سے چلتا نہر پر پہنچ گیا اور نہر کے کنارے پر بیٹھ کر صدف کا انتظار کرنے لگ گیا
[] size/تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر نہر کی دوسری طرف شہر کو جاتی کچی سڑک کی طرف دیکھتا رہتا
کہ شاید اب صدف آتی ھوئی نظر آجاے
وقت تھا کہ گزر ھی نھی رہا تھا
ایک ایک منٹ مجھے ایک گھنٹے جیسا لگ رھا تھا
جیسے جیسے وقت گزرتا جارھا تھا میری
ےچینی بڑھتی جارھی تھی
سچ کہا ھے شاعر نے
در پر نظر آہٹ پر کان دل میں اضطراب،۔
پوچھے کوئی ستم گروں سے مزہ انتظار کا۔
میرا حال بھی کچھ ایسا ھی تھا
دل میں وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی صدف نے آنا ھے کہ نھی کہیں وہ ٹانگے پر تو نھی چلی گئی وغیرہ وغیرہ
تقریبًا
ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی
جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل دیا
اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا ھوں تو
صدف نے اپنی عادت کے مطابق
میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے ھوے کہا
پھر کیا ھوا میرے میاں مٹھو
تو میں اپنی گال کو مسلتے ھوے بوال
یہ کیا تم ہر وقت میری گال پر چٹکیاں کاٹتی رہتی ھو
).Update no (32
پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ ہر آنے والی نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن آپ کو مل سکے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدف بولی میری مرضی
میں تو کاٹوں گی جاو جو کرنا ھے کرلو
تو میں نے کہا جس دن میں نے کاٹی نہ تو اس دن تم نے رونے لگ جانا ھے
اسی دوران ہم ُپل کراس کر کے گاوں کی طرف آگئے تھے
میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی آ تو نھی رھا
جب میری تسلی ھوئی تو
میں نے چلتے چلتے ھی صدف کا نقاب نیچے کھینچا اور اسکی گال کو چوم لیا
تو صدف مصنوعی غصے سے بولی شرم کرو سرعام گندی حرکتیں کر رھے ھو
تو میں نے کہا دیکھ لے جس نے دیکھنا ھے
تو صدف میری طرف دیکھتے ھوے بولی
واہ جی واہ
بڑی گل اے منڈا تے رانجھا بن گیا اے
تو میں پھر صدف کی گال پر ُچمی لیتے ھوے کہا
کہ جب ہیر اتنی پیاری ھو تو ہر دیکھنے واال رانجھا بن جاتا ھے
تو صدف بولی
اچھا جی
میں نے کہا
ہاں جی
صدف بولی
بڑی گل اے
میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا کرنا تھا
میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے ویسے بھی تو
تمہاری اکیڈمی کی چھٹی میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا ھے
تو صدف بولی نھی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے اگر کسی گاوں والے دیکھ لیا تو تم سوچ بھی نھی سکتے کہ ہمارے ساتھ کیا
ھوگا
تو میں نے کہا یار ہم ادھر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے ہمیں کوئی دیکھ بھی نھی سکتا
تو صدف بولی
پاگل ادھر کدھر ایسی جگہ ھے جہاں کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا
تو میں نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور کہا چلو
تو صدف اپنا ھاتھ چھڑواتے ھو بولی
تم پاگل تو نھی ھو
ھاتھ تو چھوڑو میرا
تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ھوں
مگر میری ایک شرط ھے
تو میں نے پوچھا کیا شرط ھے جناب کی
تو صدف بولی اگر مجھے وہ جگہ محفوظ نہ لگی تو میں نے پھر ادھر نھی رکنا
تو میں نے کہا یار چلو تو سہی ایک دفعہ
نہ پسند آے جگہ تو بیشک چلی جانا
اور یہ کہ کر میں صدف کے آگے آگے چلنے لگ گیا
میں صدف کو لے کر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں عظمی کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا ھوتا تھا
صدف نے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو اسے بھی جگہ پسند آگئی
دوستو اب وہ جگہ پہلے سے بھی ذیادہ محفوظ تھی
کیوں کہ اسکے دونوں اطراف مکئی اگی ھوئی تھی جو اب اتنی اونچی ھو چکی تھی کہ ہم کھڑے بھی ھوتے تو کوئی ہمیں
دیکھ نھی سکتا تھا
صدف اور میں ٹاہلی کی اوٹ میں ایک دوسرے کے سامنے گھاس پر بیٹھ گئے
صدف بولی یاسر تمہیں اس جگہ کا کیسے پتہ ھے تو میں نے کہا گرمیوں میں ہم جب ُلکن میٹی کھیلتے تھے تب ہم ادھر آکر
ُچھپ جاتے تھے
تو صدف بولی کون کون
میں نے گلی کے دوتین لڑکوں کا نام لیتے ھوے بتایا کہ ہم سب ادھر ھی آکر ُچھپتے تھے
تو صدف بولی عظمی اور نسرین بھی تمہارے ساتھ ھوتی تھی میں نے کہا نھی یار وہ اتنی دور آنے سے ڈرتی تھی اس لیے
وہ پیچھے کپاس میں ھی ُچ ھپ جاتی تھی
تو صدف ہمممم کر کے خاموش ھوگئی
میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد
بوال صدف اس دن مزہ آیا تھا تو صدف نے شرما کر منہ نیچے کر لیا اور بولی
گندی باتیں نہ کرو
تو میں نے کہا یار گندی باتیں کیسے ھوئی
وہ تو پیار تھا
اور پیار کی باتیں گندی تھوڑی ھوتی ہیں
تو صدف ایکدم میری طرف دیکھتے ھوے بولی
تم چیز کیا ھو
مجھے تو تم نے پریشان کرکے رکھا ھوا ھے
میں نے کہا
وہ کیسے جی
تو صدف بولی
تمہاری عمر کتنی ھے
تو میں نے کہا
یہ ھی کوئی سولہ سال
تو صدف بولی
سولہ سال کی عمر میں تم ایک منجھے ھوے مرد بن گئے ھو
تو میں نے کہا
وہ کیسے
تو صدف بولی ذیادہ معصوم بننے کی ایکٹنگ مت کرو
تم اچھی طرح جانتے ھو میں کیا کہنا چاھ رھی ھوں
تو میں نے پھر معصوم سا چہرہ بناتے ھوے کہا
سچی مجھے نھی پتہ کہ تم ایسا کیوں کہہ رھی ھو
تو صدف بولی اپنی حرکتوں پر غور کرو خود ھی سمجھ آجاے گی
میں نے پھر کہا
کون سی حرکتیں جناب،،
اسی دوران میں نے صدف کا ھاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا ھاتھ اسکے ھاتھ پر پھیرنے لگ گیا تھا
تو صدف بولی وہ ہی جو میرے ساتھ کرتے رھتے ھو اور کل تو تم نے مجھے حیران پریشان کردیا تھا میں تو ساری رات
تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی کہ جسے میں بچہ سمجھ کر الڈ سے چھیڑتی تھی اس بچے نے تو میری نیندیں اڑا کر
رکھ دی ہیں،،
تو میں نے کہا یار بتاو بھی کہ ایسا میں نے کیا کردیا ھے جس سے تم اتنی پریشان ھو
تو صدف بولی پہلی بات تو یہ ھے کہ تمہاری عمر کے بچوں کو سیکس کے بارے میں تو بلکل بھی پتہ نھی ھوتا
مگر تم تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے اکسپرٹ ھو
اور صدف نے میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
( جو ہلکا سا سر اٹھا چکا تھا )
تمہارا یہ تو اتنا بڑا ھے کہ جب میں نے ھاتھ میں پکڑا تھا تو میں ایکدم ہل گئی تھی کہ یہ تمہارا وہ ھے یا لوھے کا راڈ ھے
میں نے کہا یار نام لے کر بتاو نہ کہ کیا لوھے کا راڈ ھے
تو صدف شرماتے ھوے اپنی گود کی طرف دیکھتے ھوے بولی
مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے کہا
یار کل تم خود ھی کہہ رھی تھی کہ دوستی میں شرم نھی ھوتی اب تمہیں چھمیں آرھی ہیں
اور اسکے ساتھ ھی میں نے صدف کا پکڑا ھوا ھاتھ اپنے لن پر رکھا
اور ،کہا
بتاو نہ یار
اسے کیا کہتے ہیں
جیسے ھی صدف کا ہاتھ میرے لن کے ساتھ ٹچ ھوا
لن ساب نے زور سے اوپر کو جھٹکا مارا
جیسے کہتا ھو
کہ
نہ چھیڑ ملنگاں نوں
صدف نے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی
تو میں نے ھاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑتے ھو صدف کو کہا یار نہ کرو کیا ھوتا ھے بتاو نہ اسے کیا کہتے ہین
تو صدف بولی مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے پھر سے اصرار کیا
تو صدف نے سر نیچے کیے ھوے ھی آہستہ سے کہا لن
میں نے کہا
کیا کہا مجھے سنا نھی
تو صدف بولی مجھے نھی پتہ چھوڑو میرا ھاتھ
میں نے کہا یار اب ایسے نخرے تو نہ کرو
صدف نے ھاتھ کی ُمٹھی کو زور سے بند کیا ھوا تھا میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے
اسکی مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا کچھ دیر زور ازمائی کے بعد میں نے اسکی ُمٹھی کو کھول دیا
تب اس نے ہلکی سی شرارتی چیخ مارتے ھوے کہا ھوے میری انگلیاں ٹوٹ گئی
تو میں نے اسکی ہتھیلی کو چومتے ھوے کہا
میری جان کی انگلیاں کیسے ٹوٹ سکتی ہیں
اور ساتھ ھی اسکی کھلی ہتھیلی کو اپنے لن پر رکھ کر اسکی مٹھی بند کردی صدف نے تھوڑا سا پھر نخرا کیا مگر پھر اس
نے میرے لن کو نرمی سے پکڑ لیا
لن ساب پورے جوبن پر تھے اور لن کی ٹوپی پھنکارے مار رھی تھی
صدف نے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو بولی یاسر اتنا بڑا کیسے کیا
تو میں نے اسے تیل کا بتانا مناسب نہ سمجھا
اور جھوٹ بولتے ھوے کہا
یار میں نے اسے کیسے بڑا کرنا ھے
خود ھی بڑا ھوگیا ھے مجھے تو خود سمجھ نھی آئی کہ میرا لن اتنی جلدی کیسے بڑا ھوگیا ھے
تو صدف بولی چل چوٹھا
میں نے کہا سچی کہہ رھا ھوں
صدف بولی
اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر رھے تھے اور جیسے میرے انکو چوس رھے
تھے
صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف کرتے ھوے کہا
یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا
میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین کیوں نھی آرھا ھے اگر تمہیں مجھ پر یقین ھی نھی تو پھر ہماری دوستی کا کیا فائدہ،
اور میں نے روٹھنے واال منہ بنا لیا
تو صدف نے پھر میری گال پر ُچ ٹکی کاٹتے ھوے کہا
ڈرامے بازا میں سب سمجھنی آں
تو میں نے کہا یار ہم لڑنے کے لیے ادھر بیٹھیں ہیں تو صدف بولی
نہ جھوٹ بولو پھر
میں نے غصے سے صدف کا ھاتھ اپنے لن سے ہٹاتے ھوے کہا اور اٹھتے ھوے بوال جب تمہیں میری ہر بات ھی جھوٹ
لگ رھی ھے تو پھر میرا یہاں بیٹھنے کا کیا کام
صدف نے ساتھ ھی میرا بازو نیچے کھینچا اور میں پھر اسی جگہ صدف کے سامنے بیٹھ گیا
صدف بولی ایک تو تم ڈرامے بہت کرتے ھو
تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا یار ڈرامے کیسے مجھے دکھ ھوتا ھے جب میری سچی بات سن کر بھی تم اسے
جھوٹ سمجھتی ھو
تو صدف بولی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے دو
میں نے کہا اگر تمہیں ایسا لگتا ھے تو پھر آج کے بعد میں تمہیں شکل بھی نھی دیکھاوں گا
تو صدف نے آگے کو ہو کر میری دونوں کانوں پر ھاتھ رکھے اور میرے ہونٹ چوم کر بولی
یاسر تمہیں نھی پتہ تم مجھے کتنے پیارے لگتے ھو
میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر لیجاتے ھوے اسے پیچھے کی طرف لیٹانے لگا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا اور
کچھ بولے بغیر ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو صدف نے مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے کہا
اوےےےےےے میرا ُبرقعہ گندا ھوگیا
کیوں مجھے پھنسواے گا
میں بھی جلدی سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا
اور صدف پھر اٹھ کر بیٹھ گئی
میں نے صدف کو کہا کہ برقعہ اتار دو
تو صدف بولی
یاسر اگر کوئی آگیا تو
تو میں نے کہا یار ادھر کوئی نھی آتا تم اس بات کی پرشانی نہ لو
اور ساتھ ھی میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اسے کھڑا کرنے لگ گیا تو صدف کھڑے ھوتے ھوے بولی
یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کوئی آ نہ جاے
میں نے کہا یار مجھ پر بھروسہ رکھو مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ھے
تو صدف بولی ایسے ھی کھڑے کھڑے کسنگ کرلیتے ہیں
تو میں نے اسی دوران نیچے جھک کر صدف کے برقعے کا پال پکڑا اور اوپر اسکے پیٹ تک لے آیا اور بوال یار کچھ
نھی ھوتا
اور پھر اسکے برقعے کو اسکے مموں تک کردیا مموں پر برقعہ پھنسا ھوا تھا اس لیے میں تھوڑا زور لگا برقعہ اوپر
کرنے لگا تو صدف
بولی او ہو
کیا ھے میرا برقعہ پھاڑنا ھے
میں نے کہا اتنا تنگ پہنتی کیوں ھو
تو صدف بولی تنگ نہ پہنتی تو تم مجھے ایسے دیکھتے کیسے اور ہماری دوستی کیسے ھوتی
اور ساتھ ھی صدف نے پہلے دونوں ھاتھوں سے برقعہ اپنے مموں سے اوپر کیا اور اپنے بازو اوپر کر کے برقعہ اتارنے
لگی
جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے سامنے صدف کے تنے ھوے ممے مجھے
گھورتے ھوے نظر آئے صدف کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور گوالئی شیپ میں تھے کچھ صدف نے جب برقعہ اتارنے
کے لیے بازو اوپر کیے تو اس کے ممے مذید آگے کی طرف آگئے
مجھ سے رھا نہ گیا
ابھی برقعہ صدف اپنے سر سے نکالنے میں مصروف تھی کہ میں نے اسکے دونوں مموں کو پکڑ کر پی پی پی پی کر کے
بجایا اور ایسے ھی اسکو جپھی ڈال لی صدف نے برقعے سے سر نکالتے ھوے اپنے بالوں کو صحیح کرتے ھوے مجھے
کہا
صبر نئی ہندا اصلوں ای بے صبرا ھو جانا اے میں ِکتے پج چلی آں
تو میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے کہا
میری جانو تمہارے ُد دو دیکھ کر اور تمہارا سیکسی جسم دیکھ کر مجھے ہوش کہاں رھتا ھے
تو صدف بولی مسکے بڑے النے آندے نے
میں نے کہا میرے پیار کو مسکے تو نہ کہو
اور میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے
اسکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ لگ کر دبی ہوئی تھی اور میرے ھاتھ اسکی کمر پر تھے
صدف نے بھی اپنے ھاتھ میرے کمر پر رکھ لیے تھے
اور نیچے سے میرا لن اسکی پھدی سے تھوڑا اوپر اسکی ناف سے تھوڑا نیچے لگا ہوا تھا
صدف بے شک عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑی تھی مگر اسکا قد مجھ سے تھوڑا سا چھوٹا ھی تھا
اسکے ہونٹ چومت ھوے بھی مجھے تھوڑا سر جھکانا پڑا تھا
ہم کچھ دیر ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے کبھی میں صدف کا اوپر واال ہونٹ چوستا تو صدف میرا نیچے
واال ہونٹ چوستی کبھی میں اسکا نیچے واال ہونٹ چوستا تو وہ میرا اوپر واال ہونٹ چوستی
کبھی زبانوں کی لڑائی ھوتی تو کبھی سانسوں کے ایکے دوسرے کے اندر ٹرانسفر ھوتا
تو کبھی ایک دوسرے کے لباب کو نگھلتے
اسی دوران میں نے صدف کی پیچھے سے قمیض اوپر کر کے اسکی السٹک والی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اسکی گول مٹول
سڈول گانڈ کے چوتڑوں کو پکڑ کر مٹھیاں بھرنے لگ گیا
صدف کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی
اور کافی گوشت چڑھا ھوا تھا
ساتھ ساتھ میں اپنی گانڈ کو دائیں بائیں ہال ہال کر لن اسکے جسم کے ساتھ رگڑ رھا تھا
صدف کا بھی یہ ھی حال تھا
وہ بھی ایڑیاں اٹھا کر لن کو پھدی کے ساتھ مالنے کی کوشش کررھی تھی میں بھی تھوڑا سا نیچے ھوا اور لن اور پھدی کا
مالپ کر دیا
اب میرے ہونٹ صدف کے ہونٹوں کو چوم اور چوس رھے تھے اور میرے سینے کے نپل صدف کی چھاتیوں کے نپلوں کو
چوم رھے تھے
اور نیچے سے لن اور پھدی بھی بھرپور انداز میں مشاورت کررھے تھے
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر ہم دونوں الگ ھوے اور صدف اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھوئی بولی
میرے ساڑ پین لگ گیا اے
میں نے صدف سے پوچھا تمہارے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر ھے تو اس نے کہا کیا کرنی ھے تو میں نے کہا بتاو تو سہی ھے
کہ نھی
تو اس نے اپنے شولڈر بیگ کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا اس میں چادر پڑی ھے میں نے آگے بڑھ کر اسکے بیگ کی
زپ کھولی تو اوپر ھی مجھے چادر نظر آگئی میں نے چادر نکالی جو کہ گرم شال تھی اسکو گھاس پر بچھا دیا
صدف آگے بڑھ کر چادر پکڑ کر اٹھانے لگی کہ میری چادر گندی کرنی ھے سارے گھاس کے داغ لگ جانے ہین
میں نے کہا یار اسکا رنگ
اسکا رنگ گہرہ ھے داغ نظر نھی آئیں گے تو صدف بولی پاگل میں نے اکیڈمی میں اوپر لینی ھوتی ھے تو میں نے کہا یار
کل کون سا تم نے جانا ھے
کل دھو لینا
تو صدف چپ ھوگئی
میں نے چادر درست کر کے بیچھا دی اور صدف کو لے کر چادر کے اوپر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی میں نے صدف کو سیدھا
لٹا دیا اور اسکی قمیض پیٹ سے اوپر تک کردی تو
صدف بولی کیا کررھے ھو اگر کوئی اچانک آگیا تو مرواو گے تم
میں نے کہا یار ایک تو تم ڈرتی بہت ھو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو صدف چپ کر گئی میں نے اسکے پیٹ پر ھاتھ پھیرا اور ھاتھ کو نیچے اسکی کمر تک لے گیا اور ھاتھ سے اسکو تھوڑا
اوپر ہونے کا کہا تو صدف نے گانڈ اٹھا کر کمر اوپر کو کی تو میں نے نیچے سے اسکی قمیض اوپر کردی اور پھر ھاتھ
آگے ال کر آگے سے بھی اسکی قمیض اسکے مموں سے اوپر کردی
صدف نے سکن کلر کا بریزیر پہنا ھوا تھا
میں نے اسکے مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنا شروع کردیا
جوش میں آکر مجھ سے اسکا مما ذیادہ دبایا گیا تو
صدف نے زور سے سیییییییی کیا اور بولی جانور نہ بنو آرام سے کرو
میں نے ھاتھ نرم کر لیا اور پھر بریزیر کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کردیا اور اسکے کھلتے ھوے ممے ایکدم میرے سامنے
آے میں مموں پر ایسے جھپٹا جیسے بچہ بھوک کی حالت میں مموں کو منہ مارتا ھے
صدف میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سسکیاں لینے لگ گئی
میں نے ایک ھاتھ اسکی شلوار میں ڈالدیا اور پھدی کو مسلنے لگ گیا صدف کا برا حال ھورھا تھا
صدف کی پھدی کافی گیلی ھوچکی تھی
میں نے دوسرے ھاتھ سے اپنی شلوار نیچے کی اور لن کو باھر نکال لیا
اور صدف کا ایک ھاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا
تو صدف پہلے ھی سیکس میں ُچور ُچ ور ھوئی تھی اس نے بھی بنا کچھ کہے لن کو پکڑ لیا اور مٹھیاں بھرنے لگی ساتھ
ساتھ وہ میرے لن کے سائز کو بھی ناپ رھی تھی کبھی ٹوپے کو انگلیاں لگا کر اسکی موٹائی کو چیک کرتی کبھی لن کو
جڑ سے پکڑتی اور پھر ٹوپے تک ھاتھ کو ال کر لمبائی چیک کرتی
)Update no (33
پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ ہر نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن آپ کو مل سکے ۔۔۔
۔۔۔۔
میں صدف کی پھدی مسلنے کے ساتھ ساتھ اسکی شلوار بھی نیچے کردیتا یہاں تک کہ اسکی شلوار اسکے گھٹنوں سے
نیچے کردی تھی اور میں نے اپنی شلوار بھی اپنے پیروں تک نیچے کردی تھی اور پھر اسی پوزیشن میں شلوار کو پاوں
کے ساتھ ھی اتار دیا اور پھر اپنی قمیض اوپر گلے تک کی اور اپنے ننگے جسم کو صدف کے ننگے جسم کے ساتھ ٹچ
کرنے لگ گیا
صدف ابھی تک لن کو ٹٹول رھی تھی جیسے اسے ابھی تک یقین ھی نھی ھوا ھو کہ یہ واقعی میرا ھی لن ھے
تو میں نے اپنی ایک ٹانگ صدف کی ٹانگوں کے درمیان کی اور پاوں کے ذریعے اسکی شلوار مزید نیچے کی طرف لے گیا
اور اسکے پاوں سے اتار دی
صدف اور میری قمیض ھی جسم پر تھی وہ بھی دونوں کے کندھوں تک تھیں
جبکہ ہم دونوں کا سینے سے پیروں تک کا جسم بلکل ننگا تھا
میں نے صدف کے ھاتھ میں پکڑے لن پر ھاتھ رکھ کر ہالتے ھوے کہا اپنے اس شزادے کے ہونٹوں پر ایک کس تو کردو تو
صدف نے میرے ھونٹوں پر کس کردی میں نے کہا اس شزادے کے نھی اس کے اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
اور لن ہال کر اسکے منہ کی طرف کردیا تو صدف نے پریشان ھوکر کہا شرم کرو گندے کام مجھ سے کرواتے ھو
کیا ایسے بھی کوئی گندے کام کرتا ھے تو میں نے کہا
بس ایک چھوٹی سی کس کردو کچھ نھی ھوتا
اور لن صدف کے ہونٹوں کے بلکل قریب کردیا صدف نھی نھی میں سر ہالنے لگ گئ اور ہونٹوں کو مضبوطی سے آپس
میں بھینچ لیا
میں مزید آگے کی طرف ھوا اور لن اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے کہنے لگا
بس ایک چمی بس بس ایک
تو صدف نے آنکھیں بند کر کے کڑوی دوائی پیتے ھوے ایک چھوٹی سے ُچ می لی اور دوسری طرف منہ کر کے تھوکنے
لگ گئی
اور کہنے لگ گئی
گندے بےشرم گندے کام کرتے ھو
میں نے کہا تم کو مجھ سے پیار نھی ھے
پیار کیا ھوتا ھے اور کسکو پیار کہتے ہیں یہ میں تمہیں بتاتا ھوں
اور میں یہ کہتے ھی اسکی ٹانگوں کے پاس آیا اور اسکی دونوں ٹانگیں اوپر کی تو صدف گبھرا کر بولی کیا کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا پیار کرنے لگا ہوں
تو صدف بولی کیڑا پیار اے جیڑا لتاں ُچ ک کے کری دا
تو میں نے کہا بس دیکھتی جاو تو صدف نے اپنی پھدی پر ھاتھ رکھ کر ھاتھ کو دباتے ھوے کہا اندر کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا نھی میری جان جب نے منع کردیا ھے کہ اندر نھی کرنا تو پھر بار بار کیوں مجھے کہہ رھی ھو تو
صدف بولی پھر کیا کرنے لگے ھو تو میں نے کہا یار ایک دفعہ ھاتھ تو ہٹاو
تو صدف نے ڈرتے ڈرتے ھاتھ پیچھے کرلیا
تو میں کھلتی کلی کو غور سے دیکھنے لگ گیا
صدف کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے چمک رھی تھی
اور پھدی کے دونوں باریک سے ہونٹ آپس میں ملے ہوے تھے
اور ہونٹوں کی لمبائی بھی چھوٹی سی تھی
میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور دو انگلیاں جوڑ کر پھدی کے ہونٹوں کو کھوال
تو گالبی ہونٹ تھوڑا سا کھلے اور اندر کی جلد ایسے سرخ نظر آئی جیسے سارا خون ادھر ھی جمع ھو
پھدی کے شروع کے حصے میں چھوٹی سی جھلی تھی شاید پیشاب کرنے کا سوراخ تھا
میں نے اس جھلی کو انگلی سے دبا کر مسلنا شروع کیا تو صدف ایک دم تڑپی اور میری کالئی کو مضبوطی سے پکڑ لیا
میں کچھ دیر چھوٹی سی جھلی کے ساتھ کھیلتا رھا
پھر میں نے پھدی کے قریب منہ کر سونگھا تو مجھے بدبو سی آئی اور ابھکائی سی آنے لگی میں نے تھوڑا سا اپنا منہ
پیچھے کیا
کہ اچانک مجھے اپنا چیلنج یاد آگیا
کہ پیار کیا ہوتا ھے میں بتاتا ھون
تو میں نے سانس روک کر زبان باہر نکالی اور پھدی کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹے سے ابھرے ھوے دانے کے اوپر
رکھ کر زبان کو اوپر نیچے کر کے چاٹنا شروع کردیا
جیسے ھی میں نے یہ عمل کیا صدف
کے منہ سے آواز نکلی
ھاےےےےےےےےےے میییییں مرگئیییییییی
اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر کو پیچھے کی طرف دھکیال اس کے اس
اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون سے نکل گءی مگر میں نے اسکی ٹانگیں اپنے
کندھوں پر رکھی اور اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور
پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان پھیرنے لگ گیا
صدف ذور ذور سے سر دائیں بائیں مار رھی تھی اور اپنا آپ مجھ سے چھڑوانے کی کوشش کررھی تھی مگر میں نے اسکو
قابو ھی ایسے کیا ھوا تھا کہ میرے شکنجے سے نکل ھی نھی سکتی تھی
صدف ساتھ سسکیاں اور اففففففف یاسرررررررر نہ کرو میں مرجاوں گی
ھاےےےےے یاسر میری جان نکل رھی ھے
یاسرررررر پلیززززززز نہ کرو ھاےےےےےے امممممممم اففففففف
صدف کی سسکیاں اور آہیں سن کر مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا
اور میں زور زور سے پھدی کو ِلک کر رھا تھا کہ اچانک صدف کی سسکیاں اور آہیں تیز ھوگئی اور اس نے ُبنڈ اوپر کر
کے ُپھدی کو میرے منہ کے ساتھ مزید جوڑ کر اوپر کو گھسے مارنے شروع کردیا اور دونوں ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں
بھر لیا
اچانک صدف نے اپنی ٹانگیں بلکل سیدھی آسمان کی طرف کر کے اکڑا لیں
اور پھر وہ ھوا جسکی وجہ سے عظمی کو الٹیاں آئی تھی
صدف کی پھدی سے ایک لمبی سی پھوار نکلی
اور صدف نے زور سے ھاےےےےےےےےے میں گئیییییییی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی پھوار میرے منہ پر
میرے ناک پر میری آنکھوں پر پڑی اس سے پہلے کے دوسری پھوار بھی میرے منہ پر پڑتی میں پیچھے کو ہٹ کر منہ کے
آگے ہاتھ رکھ لیا
اور باقی کی تین چار منی اور پانی کی پھواریں میرے ھاتھ پر گری
اور ساتھ ھی صدف کی پھدی کے ہونٹ کھلتے بند ھوتے مجھے گالیاں دیتے نظر آے
اور صدف بےجان ھوکر جسم ڈھیال چھوڑ کر لیٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
کچھ دیر بعد صدف کچھ سنبھلی تو میں اسکی ٹانگوں کے درمیان اسکے اوپر لیٹ کر اپنا منہ اسکے منہ کے قریب کیا تو
اچانک اس نے میرے دونوں کانوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر ذور سے میرے سر کو ہالتے ھوے کہا
میں تیری جان کڈ لینی اے
تو میں نے مسکرا کر کہا
دیکھ لیا میرے پیار کا ثبوت اسے کہتے ہیں پیار تو صدف نے ویسے ھی میرے کان پکڑے میرا منہ اپنے منہ کے قریب کیا
اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی اور بولی
آئی لو یو
یاسر میں تیری ھوں میرا سب کچھ تیرا ھے
یہ جسم بھی تیرا ھے یہ جان بھی تیری ھے
جیسے چاھے کر میں تجھے کبھی نھی روکوں گی
میں نے یہ سن کر کہا
اندر کردوں
تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ھوے بولی کردو
میں نے کہا سیل ٹوٹ جاے گی
صدف بولی ٹوٹنے دو
میں نے کہا عزت چلی جاے گی
تو صدف بولی جانے دو
میں نے کہا کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھو گی
تو صدف بولی نھی پروا
میں نے کہا برباد ہو جاو گی
تو صدف بولی
ہونے دو
صدف ایسے بول رھی تھی جیسے اس پر جادو کیا ھو اور وہ سحر میں جکڑے ہر بات کا پوزٹیو جواب دے رھی ھو
میں ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ٹانگوں کو مزید کھول کر اپنے لن کے پھولے ھوے ترسے
ھوے پیاسے ٹوپے کو اسکی چوت کے لبوں میں سیٹ کرچکا تھا
اب پوزیشن یہ تھی کہ بس مجھے ایک دھکا لگانا تھا
میں نے صدف سے پھر کہا سوچ لو
تو وہ اسی نشیلے انداز میں بولی سوچ لیا
میں نے کہا پھر مجھے مت کہنا
تو صدف بےساختہ بولی نھی کہتی
میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے مزید قریب کیے
اور کہا تیار ھو
تو اس نے کہا تیار ھوں
میں نے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکا منہ بند کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے کندھوں پر رکھ کر کندھوں کو
مضبوطی سے پکڑا
اور ایک زور دار گھسا مارا صدف کی پھدی گیلی تھی میرا لن خشک تھا
گھسا اتنا جاندار تھا کہ پھدی کو چیرتا ھوا ساری رکاوٹوں کو ہٹاتا ھوا سارے کا سارا اندر چال گیا صدف
میرے نیچے سے ایسے تڑپی جیسے مرغی کو چھری پھیر کر ٹھنڈا ھونے کے لیے چھوڑ دیا ھو
صدف نے پورے زور سے چیخ ماری تھی
مگر اسکی چیخ میرے منہ کے اندر ھی گونج کر خاموش ھوگئی صدف ایک دم اوپر کو اچھلی مگر اسکے کندھے میرے
ھاتھوں میں تھے اس نے پھدی اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی مگر میرا سارا وزن اسکے پھدی والے
حصہ پر تھا
صدف کی آنکھون سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی جو اس کی بند آنکھوں سے بہہ رھی تھی
میں گھسا مار کر اسکے اوپر لن اندر کیے ھی لیٹا رھا
صدف تین چار منٹ تک مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رھی اور میں اسے دالسا دیتا رھا
کچھ دیر بعد صدف کچھ ریلکس ھوگئی
میں نے اب اسکے کندھے چھوڑ دیے تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رھا تھا اسکے آنسو صاف کر رھا تھا
صدف کچھ بول نھی رھی تھی بس روے
جارھی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میرا لن کسی گرم بھٹی میں ھے اور اسکی پھدی نے میرے لن کو اپنے شکنجے
میں جکڑا ھوا ھے
میں اس سے باتیں کر رھا تھا مگر وہ گم سم سی بس روے جارھی تھی اسکی یہ حالت دیکھ کر میرا بھی دل بھر آیا میں
ایک جھٹکے سے اس سے الگ ھوا اور لن باہر ایک جھٹکے سے باہر آیا تو صدف نے پھر زور سے چیخ ماری مجھے اس
کا دھیان ھی نھی تھا کہ لن نکالتے ھوے بھی درد ھوگا
اس لیے اسکی چیخ الزمی آس پاس تک گئی تھی اور میرا رنگ اڑ گیا
میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا تو لن خون کے ساتھ لت پت تھا اور اسکی پھدی سے کافی خون نکل کر نیچے چادر میں
سمو گیا تھا ،اسکی پھدی سے اب بھی سرخ پانی سا نکل رھا تھا
مجھے تو یہ ٹینشن پڑ گئی تھی کہ اگر کسی نے صدف کی چیخ سنی ھوگی تو الزمی ادھر آے گا
مگر صدف اس سب سے العلم ھوکر نیم بے ہوشی کی سی حالت میں مجھے دیکھی جارہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو
اب بھی جاری تھے
مجھے تو سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کیا کروں
کہ اچانک
میرے دماغ کی بتی جلی اور میں نے جلدی سے چادر کے ساتھ اپنے لن کو اچھی طرح صاف کیا
اور صدف کو سنبھالتے ھوے اٹھا کر بیٹھا دیا اور خود ھی اسکی پھدی کو صاف کرنے لگا میں نے جیسے ھی چادر کے
ساتھ اسکی پھدی کو صاف کرنے کے لیے اسکی پھدی کے ساتھ چادر لگائی تو صدف پھر تڑپ کر آگے کو ھوئی اور میرا
ھاتھ پکڑ کر غصے سے جھٹک دیا
تو میں نے اسے کندھوں سے ہالتے ھوے کہا کہ
صدف صدف صدف ہوش کرو
جلدی سے شلوار پہنو کوئی آجاے صدف کچھ سنبھل گئی تھی ویسے ھی بیٹھے بیٹھے اس نے شلوار پہننے کی کوشش کرنے
لگ گئی میں نے جلدی جلدی اسکی شلوار اسے پہنائی اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا
تو وہ ایکدم لڑکھڑا کر گرنے لگی مگر نے اسے سنبھال لیا
اور پھر اسے ہالنے لگا کہ صدف ہوش کرو یار
صدف بولی یاسر مجھے پتہ نھی کیا ہورھا ھے
مجھ سے تو کھڑا ھی نھی ھورھا
تم نے اچھا نھی کیا میرے ساتھ
تو میں اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ھوے کہا مجھے معاف کردو مجھے نھی پتہ تھا کہ
تمہیں اتنی درد ھوگی
تو صدف نے میرے جڑے ھاتھ پکڑ کر سنبھلتے ھوے کہا
اب کیا فائدہ یاسر جب پیچھے بچا ھی کچھ نھی
تو میں نے پھر سے رو دینے والے انداز سے اس مافیاں مانگنے لگ گیا
تقریبًا دس پندرہ منٹ میں اس کے ترلے کرتا رھا۔
دوستو اسکی جو حالت تھی میں واقعی ڈر گیا تھا اور سیریس ہوکر ھی اس کی منتیں کررھا تھا
خیر اب صدف کافی سنبھل چکی تھی میں نے اسکی حالت بہتر ھوتے دیکھ کر اسکو برقعہ پکڑایا کہ اسے پہن لو تو صدف
نے مشکل سے برقعہ پہنا اور میں نے جلدی سے چادر اکھٹی کی اور صدف کے ہینڈ بیگ میں ڈال دی
جب میں نے چادر اٹھائی تو نیچے گھاس بھی خون سے سرخ ھو چکی تھی میں نے پاوں مار کر مٹی اور گھاس جو مکس
کر دیا
اور صدف کو چلنے کا کہا تو صدف چلنے لگی تو پھر ایکدم لڑکھڑائی
تو میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سہارا دے کر سنبھال لیا
صدف بولی یاسر مجھ سے نھی چال جارھا میرے پیٹ میں اور میرے نیچے بہت درد ھوے جارھی ھے
تم جاو میں نے ابھی نھی جانا
تو میں اسے کہا یار پاگل ھو کیا جو ایسی باتیں کررھی ھو میں تمہیں کیسے اس حال میں چھوڑ کر جاسکتا ھوں
مجھے تو بس تمہاری عزت کا خیال ھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا بنے گا
یہ کہہ کر
میں نے اسے کھڑا کیا اور اسکا پیٹ دبانے لگ گیا اور ساتھ ساتھ پھدی سے اوپر واال حصہ بھی دبا دیتا
میرا رنگ اڑا ھوا تھا میرے چہرے سے پریشانی اور خوف صاف نظر آرھا تھا جسکو صدف نے بھی نوٹ کرلیا تھا
ایسے تقریبًا ہمیں آدھا گھنٹہ ایسے گزر گیا
صدف کبھی بیٹھتی کبھی کھڑی ھوتی اور کبھی آہستہ آہستہ سے ادھر ادھر چلتی
اور میں کھالے کے بنے پر کھڑا ھوکر ادھر ادھر دیکھتا رھا کہ کوئی آ تو نھی رھا مزید کچھ دیر بعد صدف نے مجھے
چلنے کو کہا
تو میں اس کا ھاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ کھالے پر بنی ایک چھوٹی سی ُپلی کی طرف چل پڑے کیوں کے صدف سے
اب کھاال تو نھی پھالنگا جا سکتا تھا
اور میں کوئی اتنا بھی شیر جوان نھی تھا کہ اسے اٹھا کر چھالنگ لگا کر دوسری طرف چال جاتا
صدف اب بھی کچھ لڑکھڑا کر چل رھی تھی اور اس نے ٹانگوں کو بھی تھوڑا کھوال ھوا تھا
میں نے صدف کو کہا یار اگر ایسے چلو گی تو ہر دیکھنے والے کی نظر تم پر پڑے گی اور تمہاری امی کو بھی شک
ھوجاے گا
خود کو سنمبھالو یار۔۔
تو صدف تھوڑا غصے سے بولی
اتنی فکر تھی تو میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرتے یہ سب تمہارا ھی کیا دھرا ھے
میں نے کہا یار مجھے اگر پتہ ھوتا تو میں کبھی بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہ
تو صدف غصے سے بولی
اگر تم سے صبر نھی ھی ھوتا تھا تو آرام سے کرلیتے ایک دم جانور بن گئے تھے ۔
میں نے کہا یار اب معاف بھی کردو
تو صدف بولی معاف تو تم مجھے کرو ۔۔
میں نے کہا یار اب ایسے غصہ تو نہ کرو۔۔
تو صدف جنجھال کر بولی میری زندگی تباہ کردی اور میں غصہ بھی نہ کروں۔۔۔
میں نے روھانسے ہوکر صدف کو کہا کہ مجھے سزا دے دو جو تمہارا دل کرے ۔۔
صدف بولی سزا میں نے کیا دینی ھے جو تم نے مجھے سزا دی ھے میرے لیے وہ ھی کافی ھے۔۔۔
ایسے ہم ِگ لے شکوے کرتے گاوں کی طرف چلے جارھے تھے صدف کی حالت کافی بہتر ھوچکی تھی اور اس نے کافی حد
تک خود پر کنٹرول کرلیا تھا اور اسکی چال بھی کافی بہتر ہوگئی تھی ۔۔۔
صدف چلتے چلتے ایکدم رکی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر سچ سچ بتانا کہ تم میرے اندر فارغ تو نھی ھوے ۔۔۔
میں تھوڑے سے طنزیہ انداز سے بوال
واہ میڈم جی واہ میں تے حالے اک گھسا مار کے سارا اندر کیتا سی تے تواڈیاں اکھاں ُپٹھیاں ہوگیاں سی
میں تے تواڈی حالت دیکھ کے دوسرا گھسا مارنا ھی ُپل گیا سی۔۔۔۔
تو صدف شرم اور غصے اور رونے والے ملے جلے انداز میں میرے ُمکا مارتے ہوے بولی
میرا اب مزاق اڑا رھے ھو نہ
تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا نھی جناب میری اتنی جرات کہاں کہ یہ گستاخی کروں
تو صدف تھوڑا سا ہنسی اور بولی چل آیا وڈا
۔۔
اور پھر ہم چلتے چلتے گاوں پہنچ گئے ۔۔۔
اور صدف کو میں گلی نکر پر چھوڑ کر واپس گھر آگیا
شام کو ہم ٹیوشن کے لیے گئے تو صدف کی امی نے بتایا کہ آج چھٹی کرو
تمہاری باجی کی طبعیت سہی نھی ھے
عظمی نے آنٹی سے پوچھا کیا ھوا ھے باجی کو تو آنٹی بولی
پتہ نھی جب سے اکیڈمی سے آئی ھے تب سے لیٹی ھے اور ہلکا سا بخار بھی ہے اسے
کہتی کے اکیڈمی میں بھی الٹیاں آتی رھی ہیں
تو ہم صدف کے کمرے کی طرف جانے لگے تو آنٹی نے آواز دی کہ ابھی وہ سورھی ھے اور اس نے کہا تھا کہ اسے کوئی
جگاے نہ
اور ہم آنٹی کی بات سن کر واپس آگئے
اگلے دن ویسے ھی چھٹی تھی
دوسرے دن میں گیارہ بجے تک گھر ھی رھا پھر مجھے صدف کا خیال آیا کہ وہ کیا سوچے گی کہ میں اسکا پتہ بھی نھی
کرنے آیا تو میں گھر سے نکل کر سیدھا صدف کے گھر جا پہنچا۔۔
دروازہ کھال ھوا تھا
میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو سامنے برآمدے میں صدف کا ابو بیٹھا ھوا تھا اور اپنے پاوں کے ناخن کاٹنے میں مصروف
تھا
میں اسے دیکھ کر ایکدم رک گیا اور واپس پلٹنے کے لیے مڑا ھی تھا کہ پیچھے سے انکل کی آواز آئی
کیویں آیا ایں کاکا
میں نے انکل کی طرف منہ کیا اور کہا وہ مممم میں باجی کا پتہ کرنے آیا تھا اور باجی سے پوچھنا تھا کہ
صبح ہم پڑھنے آجائیں تو انکل مونچھوں کو تاو دیتے ھوے بولے
۔۔
جاو اندر کمرے میں چلے جاو ادھر ھے تمہاری باجی
۔۔
میں جی کہا اور سہما سہما صدف کے کمرے کی طرف چل دیا
میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف رضائی لے کر لیٹی ھوئی تھی
اور اسکی امی اسکے سرہانے کی طرف بیٹھی صدف کا سر دبا رھی تھی
میں نے اندر جاکر سالم کیا تو آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا ۔۔
صدف نے جب میری آواز سنی تو اس نے میری طرف دیکھا بھی نھی اور آنکھیں بند کرلیں
میں نے آنٹی سے پوچھا کیسی طبعیت ھے اب باجی کی
میں آنٹی سے بات کرتے ھوے صدف کے چہرے کی طرف ھی دیکھ رھا تھا
میں نے جیسے ھی آنٹی سے باجی کا پوچھا تو صدف نے آنکھیں کھول کر مجھے گھورا
جیسے کہنا چاہ رھی ھو
کہ
میری ُپھدی وی پاڑ دتی اے تے حالے وی میں تیری باجی ای آں۔۔
تو آنٹی بولی
ُپتر پتہ نئی کل دا ایس ُک ڑی نوں کی ہویا اے بخار نال تپدی پئی اے
پتہ نئی لگدا اے کسے پکی جگہ تو ننگ آئی اے
تے ایدھے تے کوئی بارلی شے دا اثر ہوگیا اے ۔۔۔
۔(بیٹا پتہ نھی کل کا اسکو کیا ھوگیا ھے بخار سے اسکا جسم بہت زیادہ گرم ھے مجھے تو لگتا ھے کسی ایسی جگہ سے
گزری ھے جہاں پر جنات کا اثر ھو اور انکا اثر اس پر بھی پڑ گیا ھے ۔۔)
تو میں نے کہا آنٹی شاہ صاحب سے دم کروا کے دیکھ لیں کہیں سچ میں ایسا نہ ھو
تو آنٹی بولی
ُپتر َگ ل تے تیری سئی اے میں جانی آں شاہ جی دے کاار
میں نے کہا آنٹی جی آپ نے جانا ھے تو چلی جائیں ابھی پھر شاہ جی نے جمعہ پڑھانے *****چلے جانا ھے
میں باجی کا سر دبا دیتا ہوں
تو آنٹی پھر بولی
میں ایس کملی نوں سمجھایا وی سی کہ ِش کر دوپیرے پیدل نیر ولوں نہ آیا کر ٹانگے تے آجایا کر پر اے میری گل مندی ای
نئی ہن پے گئی اے نہ منجھی تے
۔۔(میں نے اس بیوقوف کو
سمجھایا بھی تھا کہ اتنی دوپہر کو نہر کی طرف سے نہ آیا کرے تانگے پر آجایا کر مگر یہ میری بات مانے تو پھر نہ
اب بیمار ھوکر چارپائی پر پڑی ھے ۔۔)
میں نے صدف کی طرف دیکھا جو مجھے گھورے جارھی تھی
اور بولی میں سہی ھوں کچھ نھی ھوا مجھے بس میرے پیٹ مین درد تھا اس لیے ایسے ھوگیا تھا
کوئی سایہ نھی ھے مجھ پر
میں نے آنٹی سے پوچھا کہ میرے لیے کوئی کام ھو تو بتا دیں کچھ منگوانا ھو
آنٹی بولی ُپتر توں ایتھے اپنی باجی کول بیٹھ میں شاہ جی دے کروں پتہ کر کے آئی
تو عظمی کچھ بولنے لگی تھی تو میں نے اسے آنکھ مار کر چپ رھنے کا کہا تو وہ خاموش ھوگئی
اور آنٹی اٹھ کر باہر چلی گئی
اور باھر سے انکل کے ساتھ بات کرتے ھوے بولی
جمعہ نھی پڑھنا تو انکل بولے ھالے ایک گھنٹہ پڑا ھے ابھی جا کر ****** میں بیٹھ جاوں
تو آنٹی نے انکل کو شاہ صاحب کے گھر جانے کا کہا اور باہر کو چلی گئی
میں صدف کے پاس بیٹھ کر اسکا سر دبانے لگا تو
صدف نے مجھے دھکا دیتے ھوے کہا
اٹھو یہاں سے میرے ساتھ ہمدردیاں مت کرو
میں نے رونے واال منہ بناتے ھوے کہا کہ اب میں اس الئک بھی نھی رھا
۔ تو صدف آہستہ سے بولی الئک کے بچے
ابو باہر ہیں اگر کمرے میں آگئے تو تمہیں میرے پاس بیٹھا دیکھ کر تمہاری اور میری بےعزتی کریں گے
اس لیے سامنے والی کرسی چارپائی کے قریب کر کے بیٹھ جاو ۔
میں اسکے ابو کا سنتے ھی جلدی سے کھڑا ھوگیا اور سامنے لکڑی کی کرسی اٹھا کر صدف کے قریب بیٹھ گیا
اور اسکا حال احوال پوچھنے لگ گیا
کہ اچانک کمرے میں انکل داخل ھوے اور مجھے کہنے لگے
چل کاکا شاباش اپنے کار جا
اپنی باجی نوں آرام کرن دے
میں شرمندہ سا ہوکر نیواں نیواں ہوکے انکے گھر سے نکل آیا
اور سارے راستے صدف کے ابو کو گالیاں دیتا رھا
گھر پہنچ کر میں بھی نہا دھو کر جمعہ کی تیاری کرنے لگ گیا
دوستو
ایسے ھی تین چار دن صدف ہمارے ساتھ شہر بھی نھی گئی اور نہ ھی ہم ٹویشن پڑھنے گئے
سکول میں اسد سے بھی وہ ھی روز مرہ کی سیکسی باتیں چلتی رہتی
میں نے باتوں ھی باتوں میں اس سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کنواری لڑکی کی پھدی میں لن کیسے ڈالتے ہیں اور اندر فارغ نھی
ھوتے جسکی وجہ سے لڑکی پریگنٹ ھو جاتی ھے
دوستو ایسے ھی وقت گزرتا رھا
صدف ہمارے ساتھ جاتی تو تھی مگر دوبارا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا موقع نھی مال اور ٹیوشن میں بھی کچھ خاص نہ ھو
بس ہلکا پھلکا آنکھ مٹکا چلتا رھتا تھا
ایسے ھی پیپر ہونا شروع ھوگئے میں نے بھی اب ذیادہ توجہ پڑھائی کی طرف کردی تھی
اور صدف نے مجھ پر کافی توجہ دے کر میرے پیپروں کیا تیاری کروا دی تھی
اس لیے میرے پیپر اچھے ھوے
اور پھر اکتیس مارچ کو رزلٹ آگیا
مجھے کو پوزیشن تو نہ ملی مگر اچھے نمبروں سے پاس ھوگیا تھا اور اسد بھی مشکل سے پاس ھوگیا تھا
اور اس دفعہ عظمی اور نسرین کے نمبر مجھ سے اچھے تھے
جس کے طعنے مجھے کئی دنوں تک سننا پڑے
نئی کالسیں شروع ھوگئی تھی اس سکول میں میرا السٹ ائیر تھا اسکے بعد میں ھائی سکول میں داخلہ لینا تھا
اور عظمی لوگوں کا بھی میرے جیسا حال تھا
سیون کالس میں میری بدقسمتی ھی رھی کہ ساال اسد پھر میرے ھی سیکشن میں تھا
صدف اب بھی ہمارے ساتھ ھی جاتی تھی مگر واپسی پر وہ تانگے پر آتی تھی
ایک دن میں سکول کے لیے عظمی لوگوں کو لینے گیا تو پتہ چال کہ نسرین کو بخار ھے اور اس نے سکول نھی جانا
عظمی اکیلی میرے ساتھ جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی
آنٹی نے ہمیں گھر سے نکلتے وقت تک کہا کہ بہن کا خیال رکھنا اور دھیان سے جانا اور سیدھے سکول ھی جانا اور
سیدھے گھر ھی آنا
میں جی جی کرتے ھوے عظمی کو لے کر صدف کے گھر گیا اور اسکے ساتھ ہم سکول کی طرف چل پڑے
میں نے اب اکثر نوٹ کیا تھا کہ صدف اب میرے آگے نھی چلتی تھی کبھی عظمی میرے آگے ھوتی تو کبھی نسرین
آج بھی عظمی ھی میرے آگے آگے چل رھی تھی
کافی دن ھوگئے تھے مجھے عظمی کا جسم ٹچ کیے
میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح عظمی کی گانڈ۔کو ٹچ کروں مگر عظمی صدف کے ڈر کی وجہ سے صدف سے
باتیں کرتی ھوئی اسکے بلکل پاس ہو کر چل رھی تھی
میں اسے دل ھی دل میں گالیاں بھی دیتا جارھا تھا
پھر میں نے دل میں ھی کہا کہ کوئی بات نھی واپسی پر تو اکیلی ھی ھوگی نہ آج تیری ساری اگلی پچھلی کسر نہ نکالی تو
کہنا،
عظمی کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول میں آگیا اسمبلی کے لیے سب لڑکے باہر گراونڈ میں قطاریں بنا رھے
تھے میں بھی اسد کو ڈھونڈتا ھوا
اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا
سامنے سٹیج پر پی ٹی ماسٹر ھاتھ میں سٹک پکڑ کر سٹک کے اشارے سے قطاریں سیدھی کروا رھا تھا
اور تین لڑکے مائک کے سامنے ترانہ پڑھنے کے لئے سٹینڈ اپ تھے
کہ اچانک پی ٹی ماسٹر دل پر ھاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور اسکے منہ سے الٹیاں نکلنا شروع ھوگئی
اور ماسٹر پیچھے کو گر گیا
آگے کھڑے لڑکے دوڑ کر سٹیج پر چڑھے اور مائک والے لڑکے بھی پی ٹی ماسٹر کے ارد گرد اکھٹے ھوگئے
سب لڑکوں میں کھلبلی سی مچ گئی
اتنے میں اندر سے باقی اساتذہ بھی باہر کی طرف دوڑے آرھے تھے
میں نے اور اسد نے کافی کوشش کی کہ کسی طرح پی ٹی ماسٹر کے قریب پہنچ کر اسکی حالت کا اندازہ کیا جاے مگر رش
اتنا ھوگیا تھا کہ ہم آگے نھی جا سکے
خیر ہم دونوں ایک سائڈ پر کھڑے ھوگئے
اور اتنی دیر میں ایمبولینس بھی آگئی ماسٹر جی کو سٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ہسپتال لے گئے
کچھ لڑکے کہہ رھے تھے کہ
ماسٹر جی فوت ھوگئے ہیں اور کچھ کہہ رھے تھے کہ بےہوش ھوگئے ہیں
تبھی ایک ٹیچر نے مائک میں سب لڑکوں کو اپنی اپنی کالسوں میں جانے کا کہا
اور ہم دونوں بھی اپنی کالس میں چلے گئے
تقریبََا بیس منٹ بعد باہر سے لڑکوں کی آوازیں سنائی دی کہ پی ٹی ماسٹر جی فوت ھوگئے ہیں اس لیے چھٹی ھوگئی ھے
ہم دونوں اور باقی کالس کے لڑکے بھی جلدی سے اپنے اپنے بیگ اٹھا کر کالس سے نکلے
تو باہر آکر پتہ چال کہ واقعی سچ ھے
لڑکوں کو ماسٹر جی کے فوت ہونے کا غم کم تھا اور چھٹی کی خوشی ذیادہ تھی ۔
میں نے اسد کو کہا یار اب میں کیا کروں
میں تو چھٹی کے وقت سے پہلے گھر نھی جا سکتا کیوں کہ میری کزنوں نے میرے ساتھ ھی جانا ھوتا ھے،
دوستو میں نے اسد کو عظمی اور نسرین کے بارے میں یہ ھی بتایا تھا کہ یہ میری آنٹی کی بیٹیاں ہین
مگر اسد نے انکو دیکھا نھی ھوا تھا،
اسد بوال تو چل میرے ساتھ آج پھر مزے کرتے ہیں
میں نے کہا کہاں تو بوال پہلے گیموں پر چلتے ہیں
پھر گھر چلیں گے
اور چھٹی کے وقت میں تمہیں سکول چھوڑ جاوں گا
اسد کے گھر کا سن کر میری آنکھوں کے سامنے پھر سے اس حسین پری کا چہرہ آگیا
اور سوچنے لگ گیا کہ کیا نام تھا اسکا
پھر میرے ذہن میں ھاں مہری بلکل مہری ھی کہہ کر اسد نے آواز دی تھی
میں نے کہا یار سیدھے گھر ھی چلتے ہیں میرا گیموں پر جانے کو دل نھی کررھا،،،
تو اسد بوال یار ابھی ایک گھنٹے تک میرے ساتھ گھر نھی جاسکتے میں نے پوچھا وہ کیوں تو اس نے بتایا کہ ابھی مما گھر
پر ھی ھوں گی،،،
تو میں نے نے کہا پھر کیا کیا جاے
تو اسد بوال چل ایسا کر کہ اگر ممی تجھ سے پوچھیں بھی کہ واقعی ماسٹر فوت ھونے کی وجہ سے چھٹی ھوئی ھے تو تم
بلکل سچ ھی بتانا
باقی میں سنبھال لوں گا
اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوے بوال
چل جگر سیدھا گھر ھی چلتے ہیں ،دیکھی جاے گی جو ہوگا
تو میں نے کہا یار
میرے جانے سے اگر تمہیں کوئی پرابلم ھے تو میں نھی جاتا تم جاو میں ادھر ھی بیٹھ کر چھٹی کا انتظار کر لیتا ھوں ۔۔
تو اسد بوال نہ یار۔۔
کیسی باتیں کرتا ھے کچھ نھی ھوتا ایسی بھی کوئی خطرے کی بات نھی
تو ہم دونوں گھر کی طرف چلدیے تقریبََا دس پندرہ منٹ تک ہم پیدل چلتے اسد کے گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔۔
اسد نے بیل دی تو اسکی مما نے ھی گیٹ کا چھوٹا دروازہ
کھوال اور اسد کو اور مجھے سامنے دیکھ کر حیران ھوتے ہوے پوچھنے لگی
کیا ہوا بیٹا سکول نھی گئے تو اسد نے پی ٹی ماسٹر کے بارے میں سب کچھ بتا دیا
اور اندر داخل ہوگیا
میں بونگا بن کر اسکی مما کے چہرے کو ھی دیکھی جارھا تھا جسکو آنٹی نے بھی نوٹ کیا
آنٹی کی شکل ہو با ہو مہری جیسی تھی جیسے دونوں فوٹو کاپی ہوں اور انکے چہرے سے لگتا ھی نھی تھا کہ یہ اسد اور
مہری کی مما ھے بلکہ ایسے لگ رھا تھا جیسے ان دونوں کی بڑی بہن ھے
آنٹی نے براون کلر کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی جو اس کے حسن کو مزید چار چاند لگا رھی تھی آنٹی نے صرف سر ھی
باھر نکاال تھا باقی کے جسم کا مجھے اندازہ نہ ھوسکا کیوں کہ وہ دروازے کی اوٹ میں تھا
آنٹی کا رنگ بھی مہری کی طرح چٹا سفید تھا اور چہرے کی جلد بھی ایکدم کلین تھی
تھوڑی دیر بعد اسد نے بیٹھک کا بیرونی دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا
تو میں بیٹھک کے اندر چال گیا
اور اندر جاتے ھی اسد سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نھی بنا
تو اسد بوال سب اوکے ھے
اور مجھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا
تو میں صوفے پر آرام سے بیٹھ گیا
اسد مجھے کہنے لگا کہ جگر تو بیٹھ میں ذرہ چینج کر کے آیا،
میں صوفے پر بیٹھا اندر کمرے کا جائزہ لینے لگ گیا
کچھ ھی دیر بعد اندرونی دروازے کا پردہ ہٹا اور اسد کی مما ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی جس میں
مشروب کا ایک گالس پڑا ھوا تھا
میں آنٹی کو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا اور ایکدم سے کھڑا ہوگیا
اور آنٹی کو سالم کرنا ھی بھول گیا
بلکہ آنٹی
کے گورے چٹے رنگ تیکھے ناک بڑی بڑی آنکھیں کندھوں تک شولڈر کٹنگ سنہری بال
فٹنگ والے کالے سوٹ میں 38سائز کے ابھرے ہوے بڑے بڑے ممے ہلکا سا باہر کو نکال پیٹ پانچ فٹ سات انچ قد کو
دیکھنے لگ گیا
آنٹی نے بڑے غور سے میری طرف سر سے پیر تک دیکھا
اور ایک ہاتھ میں ٹرے تھی اور دوسرے ہاتھ کو میری آنکھوں کے آگے ہالتے ھو ہیلو کہا
تو مجھے ایک دم سے ہوش آیا اور میں شرمندہ سا ہو کر سر نیچے کر کے کھڑا ہوگیا
تو آنٹی کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آئی اور مجھے کہنے لگی کیا نام ہے تمہارا
میں ہکالتے ھوے کہا ییییییاسر تو آنٹی میرے سامنے میز پر ٹرے رکھتے ہوے جھکی تو آنٹی کے ریشمی بالوں نے اسکے
منہ کو ڈھانپ لیا اور میری ایکدم نظر آنٹی کے گلے پر پڑی
تو آنٹی کے کالے رنگ کے سوٹ کے کھلے َگ لے میں چاند کی طرح چمکتے چٹے سفید مموں کا تھوڑا سا درشن ھوا اور
آنٹی پھر سیدھی ھوگئی اور مسکراتے ھوے میرے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئی اور ایک ھاتھ
اپنے گھٹنے پر رکھ کر پاوں کو زور زور سے ہالتے ہوے بولی
بیٹھ جاو میں اسی وقت سیدھا ھی نیچے بیٹھتا گیا
آنٹی میری حالت کو کافی انجواے کر رھی تھی
پھر آنٹی کی پنکھڑیاں ہلی اور آنٹی بولی
کہاں رہتے ھو
تو میں نے گاوں کا نام بتا دیا
پھر آنٹی نے میرے گھر کے افراد اور ہماری پوزیشن کے بارے میں معلومات لیں
میں انکے ہر سوال کا جواب ہکالتے ھوے ھی دیتا تھا
تھوڑی ھی دیر بعد اسد کمرے میں داخل ھوا اور بوال مما مہری آپکو ُبال رھی ھے
تو آنٹی بڑی ادا سے اٹھی اور اسد کو بولی تمہارا دوست اچھا ھے
سیدھا سادھا پینڈو ٹائپ کا ھے
تو میں نے جھینپ کر سر نیچے کر لیا مجھے اپنی بےعزتی سی محسوس ہوئی
مگر اپنی تعریف سن کر اچھا بھی لگا
اور آنٹی کمرے سے باہر نکل گئی آنٹی کی جب گانڈ میری طرف ہوئی تو میں نے جھٹ سے سر اٹھا کر
انکی باہر کو نکلی موٹی سی گول مٹول گانڈ کا نظارا کیا جو قمیض میں پھنسی ھوئی تھی
تو اسد میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا
جگر مما کی بات کا برا تو نھی منایا تو میں نے نفی میں سر ہالدیا
پھر میں اور اسد بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے
)..Update no (34
تقریبًا آدھے گھنٹے بعد اسد کی مما پھر اندر آئی اور یاسر کو کہا کہ گیٹ بند کر لو میں بوتیک پر جارھی ھوں اور گھر ھی
رہنا
اور
پھر آنٹی نے پرس سے تین چار وزٹنگ کارڈ نکالے اور میری طرف بڑھاتے ھوے کہا کہ یہ ہمارے بوتیک کے کارڈ ہیں
اپنے پاس رکھ لو گاوں میں کسی نے شادی وغیرہ کی شاپنگ کرنی ھو تو
خصوصی ڈسکاونٹ پر سوٹ مل جائیں گے
اور یاسر کو کہا کہ اپنے دوست کو بوتیک بھی دیکھانا
میں نے آگے بڑھ کر کارڈ پکڑ لیے اور جیب میں ڈال کیے اور یاسر اپنی مما کو باہر چھوڑ کر گیٹ بند کرکے
کہ پھر میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے
میں بار بار آنٹی کے خیالوں میں کھو جاتا تھا
مجھے آنٹی کی آنکھوں عجیب سی کشش نظر آئی تھی جیسے کوئی پیاسا پانی کو دیکھ کر کرتا ھے
بلکل ایسے ھی آنٹی کی آنکھوں میں وہ تڑپ اور بےچینی سی تھی
خیر کچھ دیر بعد دروازے کہ اوٹ سے ایک ترنم سی آواز آئی
اسد بات سنو،،،
اسد آواز سنتے ھی اٹھ کر اندر چال گیا
اور کچھ ھی دیر بعد واپس آیا
اورمجھے کہنے لگا
یار میں زرہ سامنے گلی سے ہوکر آیا تم بیٹھو تو میں نے کہا یار میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ھوں تو اسد بوال نھی وہ میری
کزن آئی ھوئی ھے اسکو اسکے گھر چھوڑنے جانا ھے میں بس دس پندرہ منٹ میں آیا
میں چپ کرگیا اور اسد نے مجھے پھر کہا یار پریشان نہ ھونا میں بس ابھی آیا،
تو میں نے سر ہال کر اوکے کیا اور اسد اندر چال گیا
اور کچھ دیر بعد مجھے کسی لڑکی اور اسد کی باتیں کرنے کی آواز آئی
اور پھر اسد کی آواز آئی کہ مہری گیٹ بند کرلو اور ،ساتھ ھی باہر کا گیٹ کھلنے اور بند ھونے کی آواز آئی ۔۔
کچھ ھی دیر بعد کمرے کا پردہ ہٹا اور وہ حسینہ اندر آئی
اور آتے ھی مجھ پر بجلی گرا دی
پنک کلر کا سوٹ پہنے سینے کو تانے کیا پٹاخہ لگ رھی تھی ۔۔
مجھے سامنے دیکھ کر ٹھٹک کر وہیں رک گئی
جیسے اسے کمرے میں میری موجودگی علم نہ ھو
اور حیران ھوتے ھوے مجھ سے پوچھنے لگی
جی آپ اووووو سوری مجھے پتہ نھی تھا
میں نے کہا کوئی بات نھی جی
تو وہ واپس مڑنے لگی
اور پھر ُر ک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی
آپ وہ ھی ھو نا جو اس دن ہمارے گھر آے تھے اور اوپر گئے تھے
میں نے جب اسکی آواز سنی اور اپنے ساتھ بات کرتے دیکھا تو میرا ویسے ھی ستیاناس ھوگیا
میں نے ہکالتے ھوے کہا
ججججی جی
تو وہ مسکرا کر بولی
سو کیوٹ
میں نے کہا جی میں سمجھا نھی
تو وہ پھر مسکرا کر بولی
آپ کسی گاوں کے رہنے والے ھو
تو میں نے کہا ججججج جی
تو مہری بولی آپکا نام یاسر ھی ھے نہ تو میں نے حیران ھوکر پوچھا
ججججج جی ممگر آپ کو کیسے پتہ
تو مہری بولی اسد نے بتایا تھا
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آپ کا نام مہری ھے تو وہ ہنستے ھوے بولی
یس مگر میرا یہ نک نیم ھے
میرا رئیل نیم مہرالنساء ھے
تو میں اسکا اصلی نام سن کر سوچنے لگ گیا کہ واقعی مہرالنساء ھی ھے
جیسا حسن ویسا ھی نام تھا
میرے منہ سے بےاختیار نکال
ماشاءہللا
جی آپکی طرح آپکا نام بھی بہت خوبصورت ھے
تو اسکے چہرے پر ایک رونق سی آئی
اسکے باریک سے خوبصورت لب پھر ہلے اور بولی
اتنے دنوں بعد آے ہو
میں نے کہا جی بس وہ ٹائم ھی نھی مال
پیپر شروع ھوگئے تھے اس وجہ سے
تو مہری بولی گڈ
میں نے پوچھا جی آپ سکول نھی جاتی تو مہری بولی میں نے میٹرک کے پیپر دیے ہیں
اب رزلٹ کا انتظار ھے
میں نے کہا بہت اچھے جی
تو مہری مسکرا کر بولی
تھینکس
آپ بھی اسد کی طرح فیل ھوتے ھو جو ابھی تک سیون میں ھی ھو
تو میں نے کہا نھی جی میں تو پانچویں تک فرسٹ پوزیشن لیتا آیا ھوں اور اس دفعہ بھی میرے بہت اچھے نمبر آے ہیں،
تو مہری حیران ہوتے ھوے بولی کہ آپ کی عمر کتنی ھے
میں نے کہا 17سال میں لگ گیا ہوں تو
مہری بولی میری ایج 18سال ھے تو میں نے میٹرک بھی کر لیا ھے اور آپ ابھی تک سیون میں ھی ھو وہ کیوں
تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا کہ
ہمارے گاوں میں بچوں کو سکول ھی لیٹ داخل کرواتے ہیں
میں 9سال کی عمر میں سکول داخل ہوگیا تھا
تو مہری بولی واوووو کیا بات ھے
مجھے گاوں دیکھنے کا بہت شوق ھے سنا ھے وھاں بڑے بڑے کھیت اور باغات ھوتے ہیں اور بھینسیں ھوتی ہیں بکریاں
ھوتی ہیں اور بڑا پر سکون ماحول ھوتا ھے وھاں
تو میں نے کہا جی بلکل ایسے ھی ھے
آپ آجائیں کسی دن ہمارے گاوں آپکو سارے گاوں کی سیر کرواوں گا
تو مہری نے برا سا منہ بنایا مگر اسکا برا سا منہ بنانا بھی میرے دل پر چھریاں چال رھا تھا
مہری بولی دل تو بہت کرتا ھے مگر مما ھی نھی جانے دیتی
تو میں نے کہا اسد کو کہیں وہ لے آے گا
تو مہری بولی
اس الو کو میں نے کہا تھا کہ اب تو تمہارا دوست بھی گاوں کا ھے چلتے ہیں اسکے گھر مگر وہ بھی مما سے ڈرتا ھے
تو میں نے کہا میں کہوں آنٹی جی کو
تو مہری خوش ھوکر بولی
اگر آپ مما کو منا لیں تو آپکا احسان میں زندگی بھر نھی چکا سکوں گی
میں اس کملی معصوم کی باتیں سن کر ہنسنے لگ گیا
اور بول
جی یہ آپ احسان والی بات مت کریں میں تو کوشش کروں گی اگر آنٹی مان گئی تو
اتنے میں باھر کی بیل بجی اور مہری جلدی سے کمرے سے نکلی اور مجھے بولی پلیز اسد کو مت بتانا کہ میں نے آپ سے
بات کی ھے
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور ،دوازے کی طرف چلی گئی
اسد سیدھا بیٹھک میں آیا اور بوال
سوری یار
بور تو نھی ھوے
میں نے کہا نھی یار
اور دل میں کہا سالیا ھور تھوڑی دیر تک آجاندا
اس کے بعد ہم اوپر گئے بلیو پرنٹ دیکھا اور مقابلے پر ُمٹھ ماری جس میں جیت میری ھوئی
اور اسد مجھے سکول کے قریب چھوڑ کر
واپس چال گیا
میں نے عظمی کو ساتھ لیا اور ہم دونوں گاوں کی طرف چل دیے
جب نہر کا پل کراس کیا
تو میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا
اور
میں نے عظمی کو روک کر کہا
یار تم مجھ سے دور دور کیوں بھاگتی ھو
تو عظمی بولی ۔
میں کیوں دور بھاگوں گی ۔
میں نے کہا میں کتنے دنوں سے دیکھ رھا ہوں تم مجھے کوئی لفٹ ھی نھی کرا رھی
نہ کھیلنے آتی ھو نہ ھی سکول جاتے ھوے میرے ساتھ چلتی ھو ۔۔۔
تو عظمی بولی پیپروں کی وجہ سے میں کھیلنے نھی آتی تھی اور اب امی نے ویسے ھی منع کردیا ھے کہ تم بڑی ھوگئی
ھو اب باہر کھیلنے مت جایا کرو
اور سکول جاتے وقت باجی ساتھ اور نسرین ساتھ ھوتی ہیں
اب میں ان کے سامنے تمہارے ساتھ
جپھیاں ڈالنے سے رھی ۔
تو میں نے پہلے ِادھر ُادھر دیکھا اور عظمی کو اپنی طرف کھینچ کر جپھی ڈالتے ھوے کہا اب تو کوئی نھی ھے نہ ساتھ
تو عظمی گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی
پاگل تو نھی ہوگئے کیا چھوڑو مجھے
یہ کوئی جگہ ھے اگر کسی نے دیکھ لیا نہ تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی مرواو گے
اس کے ساتھ ھی عظمی نے مجھ سے اپنا آپ چھڑوا لیا،
اور میرے آگے پگڈنڈی پر بھاگتے ھوے بولی
بے شرم انسان
میں بھی اسکے پیچھے بھاگا
وہ مجھے آتا دیکھ کر اور تیز بھاگنے لگی
اور میں جان بوجھ کر تھوڑا آہستہ دوڑ رھا تھا۔
کہ عظمی مکئی کے اندر داخل ھوجاے اور کھالے کی ُپلی تک پہنچ جاے پھر اسے ادھر دھر لوں گا
تھوڑی ھی دیر بعد.
عظمی کھالے کے کچھ فاصلے پر تھی کہ میں نے اپنی سپیڈ تیز کی اور اسے کھالے سے پیچھے ھی جا لیا ۔۔
اور اسکو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور جپھی ڈال کر اسکی ُبنڈ کے ساتھ لن واال حصہ لگا کر اسے آگے سے اوپر اٹھانے
لگا تو ۔۔
عظمی بولی۔۔
ھاےےےےے امیییییی
چھوڑو مجھے میرا سانس بند ھو رھا ھے
مگر میں نے اسے چھوڑا نھی
تو عظمی بولی
چھڈ مینوں نئی تے میں روال پا دینا اے
میں نے اسے اوپر کو اٹھاے ھوے ھی کہا
پا دے روال
تو عظمی بولی یاسر مجھے نیچے تو اتارو
میں نے کہا ہاں تاکہ تم دوڑ لگا دو
تو عظمی بولی نھی لگاتی دوڑ
تو میں نے کہا
مجھے پتہ ھے تم نے دوڑ لگا دینی ھے،
تو عظمی نے قسم کھاتے ھوے کہا
کہ *******کی قسم نھی دوڑ لگاتی
تو میں نے اسے نیچے اتار دیا مگر میرے ھاتھ اب بھی اس کے پیٹ پر ھی تھے
عظمی نے پیچھے منہ کر کے کہا ھاں بتاو کیا تکلیف ھے
تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھتے ھوے کہا مجھے نھی تمہارے اس عاشق کو تکلیف ھے
میرا لن فل ٹائٹ ھو چکا تھا
تو عظمی نے شوخی سے میرے لن کو پوری مٹھی میں لے کر دبایا اور کچھ کہنے ھی لگی تھی
کہ اچانک اس نے میرے لن کو چھوڑا اور میری باہوں میں ھی گھوم کر میری طرف منہ کر لیا۔
اور میرے بازوں کا گھیرا توڑ کر تھوڑا پیچھے ہٹ کر میرے لن کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئی
میرے لن نے قمیض کو اوپر اٹھا کر تمبو بنایا ھوا تھا
تو
عظمی نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھا اور حیرانگی سے بولی
اینوں کی کیتا ای
میں نے کہا کیا ھوا
تو عظمی بولی
ھاے میرے ******اینوں کییییی کیتا ای
تو میں نے ہنستے ھوے
اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی قمیض کے نیچے سے لن پر رکھتے ھوے کہا
خود ھی دیکھ لو
کیا ھوا ھے
تو عظمی نے جلدی سے ہاتھ ایسے پیچھے کیا جیسے میں نے اسکا ھاتھ گرم توے پر رکھ دیا ھو
میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور درختوں کی طرف لے کر چلنے لگا
تو
عظمی بولی
ہن کتھے جانا اے
میں نے کہا چلو .تو سہی یار ایسا موقعہ دوبارا پتہ نھی کب ملنا ھے
تو عظمی اوپر اوپر سے نہ نہ کرتی میرے ساتھ چلی جارہی تھی
میں عظمی کو لے کر اسی جگہ آگیا جہاں صدف کی سیل توڑی تھی
عظمی ٹاہلی کے پیچھے جاکر اپنا بیگ نیچے رکھتے ھوے بولی تمہیں اس جگہ سے کچھ زیادہ ھی پیار نھی
تو میں نے کہا
یہ جگہ تب ھی پیاری لگتی ھے جب تم میرے ساتھ ھوتی ھے
تو عظمی بولی
چل چوٹھا
میں نے اسے جپھی ڈالتے ھوے کہا
قسم سے
اور ساتھ ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکے ہونٹ چوسنے لگ گیا
عظمی پہلے تو نخرے کرتی رھی
مگر پھر کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگ گئی
میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی ُبنڈ کی دونوں پھاڑیوں کو ُمٹھیوں میں بھرنا شروع کردیا
عظمی کی گانڈ اتنی نرم تھی جیسے میرے ھاتھ میں روئی کے گولے ھوں
میرا لن عظمی کی پھدی کے اوپر ٹھونگے مار رھا تھا اور اسکے مالٹے کے سائز کے ممے میرے سینے میں دبے ھوے
تھے
میں کسنگ کے ساتھ ساتھ اسکی پھدی پر لن سے نشانے لگا رھا تھا
جس سے عظمی بھی لطف اندوز ہوتے ھوے گانڈ آگے کو کر کے لن کو سہی سمت نشانہ لگانے میں مدد کررھی تھی
صدف نے اپنے دونوں ھاتھ میرے بازوں کے نیچے سے گزار کر میرے پیچھے سے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا ھوا تھا
ہم چار پانچ منٹ ایسی ھی پوزیشن میں رھے
عظمی کافی گرم ھو چکی تھی میں نے عظمی کی قمیض اوپر کی جو نیلے رنگ کی ریشمی کپڑے میں تھی
اسکی قمیض آسانی سے اوپر ہوگئی
اور میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور اسکے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکی قمیض اسکے گلے تک کر کے اسکو
قمیض پکڑے رکھنے کا کہا اور اسکے پیٹ کو چومنے لگ گیا
اسکا پیٹ گورا چٹا اور ریشم کی طرح مالئم تھا
میں نے سارے پیٹ کو اچھی طرح چوما اس دروان عظمی اپنے پیٹ کو اندر کی طرف کھینچتی رھی
میں نے اپنی زبان نکالی اور اسکی ناف کے سوراخ میں پھیرنے لگا عظمی کو جیسے کرنٹ لگ گیا وہ ایک جھٹکے سے
پیچھے ھوئی
۔اور منہ سے سسسکاری نکال کر بولی ھاےےےےےےےے میں مرگئی
میں نے تھوڑا آگے ھوکر پاوں کے بل بیٹھے ھی اسکی ننگی کمر کو پکڑا اور
پھر سے اسکی ناف کے سوراخ میں زبان پھیرنے لگ گیا
تو عظمی پھر سسکاریاں لیتے ھو پیچھے ھونے کی کوشش کرتی رھی مگر اب میں نے اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا
اس لیے وہ پیچھے نھی ھو سکتی تھی
تب عظمی بولی
ھائیییییی یاسر پلیز نہ کرو مجھے گد گدی ھوتی ھے
میں نے
اسکی ناف سے زبان نکالی اور ناف کے نیچے پھیرنے لگ گیا
ناف کے نیچے زبان پھیرتے ھوے میری نظر .عظمی کی شلوار پڑی تو اسکی شلوار گیلی نظر آئی
میں نے کمر سے ہاتھ نیچے کر کے اسکی شلوار کے نیفے پر رکھ دیے
اور بڑی پھرتی سے جھٹکے سے اسکے شلوار نیچے کو کھینچی شلوار میں السٹک تھی
اس لیے شلوار بنا کسی رکاوٹ کے
نیچے ھوتے ھوے عظمی کے پاوں میں گر گئی
اور عظمی کی کلین شیو پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی جس کے باریک سے ہونٹ اندر سے نکلے ھوے پانی سے
چمک رھے تھے
عظمی ایکدم مستی اور مزے سے باھر آئی اور نیچے کو جھک کر اپنی شلوار پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کرنے لگی
مگر میں نے جلدی سے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ لیے
اور اسکو سیدھے ھونے کا کہا
تو عظمی نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کر پھدی کو ُچھپا لیا
اور کہنے لگی
بے شرم انسان شرم نھی آتی مجھے سارا ننگا کردیا
تو میں نے کہا
میں تمہارا کچھ اتارنے تو نھی لگا
تو عظمی بولی
اتنی جرات ھے تمہاری
تو میں نے کہا مجھے غصہ دلوا رھی ھو تو عظمی بولی
غصہ آگیا تو کیا کرلو گے
تو میں نے کہا بتاوں کیا کر لوں گا پھر رونا مت
تو عظمی بولی
میں رونے والی نھی ھوں
تم اپنی فکر کرو
تو میں ایکدم کھڑا ہوگیا اور اپنی شلوار نیچے پاوں تک کر دی اور پھر پیروں سے نکال دی
عظمی یہ دیکھتے ھی اپنی طرف سے بھاگنے لگی تو اسکی شلوار اسکے پاوں میں تھی تو آگے کو منہ کے بل گھاس پر
گرنے لگی ابھی اسکے گھٹنے گھاس پر نھی لگے تھے کے میں نے پیچھے سے اسکو جپھی ڈال کر گرنے سے بچا لیا
اب میرے لن کے آگے میری قمیض تھی اور عظمی کی گانڈ کےآگے اسکی قمیض تھی
جبکہ ہم دونوں کی شلواریں اتری ہوئی تھی
عظمی اب گانڈ میری طرف کر کے کھڑی تھی
اور میرا تنا ھوا لن میری اور اسکی قمیض کو لے کر اسکی گانڈ کے دراڑ میں گھسا ھوا تھا
میں نے اسکو سیدھا کرتے ھوے کہا
ہن کتھے پجن لگی ایں
تو صدف اپنے دونوں ھاتھ پیچھے کر کے میرے پیٹ پر رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دینے کی کوشش کرتے ھوے بولی
چھڈ مینوں چنگا ریں گا نئی تے میرے تو ُبرا کوئی نئی ہونا،
میں نے ویسے ھی اسکو جپھی ڈالے ھوے کہا
میں نے کہا نھی چھوڑتا اگر ہمت ھے تو چھڑوا کر دیکھ لو
تو عظمی زور آزمائی کرنے لگی
اسی دوران میں نے اپنی قمیض کو آگے سے لن کے اوپر سے ہٹایا اور عظمی کی پیچھے سے قمیض کو اسکی گانڈ سے
اوپر کردیا اور لن اسکے چڈوں میں ُگ ھسا کر گھسے مارنے لگ گیا
عظمی ایسے ھی تھوڑی دیر مچلتی رھی
مگر جب میرے لن کے ٹوپے نے اسکی پھدی کو رگڑنا شروع کیا تو عظمی کی مزاحمت دم توڑ گئی
اور عظمی بھی گانڈ پیچھے کر کر کے
لن کے ٹوپے کا اپنی پھدی سے مالپ کروانے لگ گئی
میں نے عظمی کی قمیض کو پیچھے سے اور اوپر کر کے اسکے کندھوں تک کر کے اسکی کمر کو ننگا کر دیا اور پھر
ھاتھ آگے لیجا کر آگے سے بھی قمیض اسکے مموں سے اوپر کر کے اکھٹی کردی اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اسکو قمیض
وہیں پکڑ کر رکھنے کا کہا
عظمی پر بھی اب خماری سوار ھو چکی تھی وہ مزید آگے کو جھک گئی اور اپنی قمیض کو ایک ھاتھ میں پکڑ کر اپنے
گلے سے لگا لیا اور ایک ھاتھ نیچے لیجا کر اپنی پھدی کے اوپر آتے جاتے لن پر رکھا دیا
اب نیچے پھدی اوپر میرا لن اور میرے لن کے اوپر اسکی ُک ھلی ھوئی انگلیاں اور ہتھیلی تھی
جب میرا لن اسکی پھدی سے ٹچ ھوتے ھوے آگے جاتا تو
عظمی اپنی انگلیوں سے میرے لن کو اوپر پھدی کے ساتھ لگا دیتی جس سے میرا لن اس کی پھدی کے لبوں کو کھولتا ھو
پھدی کے دانے کو رگڑتا ھوا آگے چلے جاتا اور ویسے ھی رگڑ لگاتا ھوا پیچھے آتا
میں نے اسکے دونوں ممے برا سے آزاد کردیے تھے اور ایک ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا اور ایکھ ھاتھ سے اسکا مما
پکڑا
اور زور زور سے گھسے مارنے لگ گیا صدف کے منہ سے سسکاریاں نکلی جارھی تھی اور اپنی انگلیوں سے میرے لن
کا مساج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پھدی پر بھی زور دے کر لن اور پھدی کی جپھیاں ڈلوا رھی تھی
میرے پٹ عظمی کے گول چوتڑوں پر تھپ تھپ سے لگ رھے تھے
عظمی ایکدم سے اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کرنے لگ گئی اور
منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکال رھی تھی
ھااےےےےے افففففف سسسسیییی یاسسسرررررر تیززز کرو تیززز
اور میں ویسے ھی سپیڈ کو تیز کرتا جارھا تھا
عظمی کی پھدی اور سائڈ والی جگہ پہلے ھی گیلی تھی اس لیے میرا لن مزے لے لے کے آگے پیچھے کا سفر کررھا تھا
عظمی بولی جارھی تھی
ھااااں یاسسسر ایسے ھی کرو ایسے ھی کرووووو اففففف ھااےےےے یاسررررر مجھے کیا ھو رھا ھے
ھاےےےےے اممممممم
اور مجھے بھی جوش آئی جارھا تھا
میں پہلے ھی مٹھ مار کے آیا تھا اس لیے میرا ابھی چھوٹنے کا وقت بہت دور تھا
جبکہ عظمی کی جان نکلنے والی ھوچکی تھی
ایسے ھی دھپ دھپ دھپ گھسے ماری جارھا تھا کہ عظمی کی ٹانگیں اکڑ گئی اور اس نے میرے لن کو اپنے چڈوں میں
کس کے دبا لیا
اور ایکد م اسکے جسم نے جھٹکے مارنے شروع کردیے
اور مجھے اپنے لن پر اسکی گرم گرم منی بہتی محسوس ھوئی
عظمی نے اپنے گانڈ کو پورے ذور سے بھینچا ھوا تھا جس سے میرا لن اس کے چڈوں میں پھنسا ھوا تھا
کچھ دیر ایسے عظمی کا جسم جھٹکے کھاتا رھا اور پھر عظمی لمبے لمبے سانس لیتے ھو آگے کو ھوئی اور گھاس پر بیٹھ
گئی
منی اور پانی سے اسکی دونوں ٹانگیں گیلی ھو چکی تھی
عظمی کی شلوار ابھی بھی اسکے پاوں میں ھی تھی
عظمی ننگی گانڈ ھی گھاس پر رکھ کر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی
میں آگے بڑھا اور
عظمی کے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکی شلوار اسکے پاوں سے نکالنے لگا
تو عظمی نے سر اوپر کیا اور اکھڑی سانسوں کے ساتھ بولی
کی اےےےے ہن کی کرنا اے رجیا نئی ھالے
میں نے شلوار اسکے پاون سے علیحدہ کرتے ھوے ایک سائڈ پر رکھ دی
اور آگے سے قمیض اٹھا کر اپنا تگڑا کھڑا ھوا لن اسے دیکھاتے ھوے کہا
اسکا کیا قصور ھے یہ ابھی بھی پیاسا ھے
تم خود تو فارغ ھوگئی ھو
اسکو کس نے کرنا ھے
تو عظمی بولی ۔
میں ایسا ٹھیکہ لیا اے آپی کر لے فارغ۔۔۔
تو میں نے غصے میں کہا
واہ اپنی واری اینج کرن دئی ایں تینوں وہ اینے ای مزے دے دے کہ فارغ کیتا اے
احسان فراموش
مطلبی
تو عظمی ایکدم اکڑ کر بولی مجھے مطلبی مت کہو سمجھے
تو میں نے کہا
مطلبی نھی ھو تو اور کیا ھے بیچارے نے اتنی محنت کر کے تمہیں فارغ کیا ھے میں نے لن کو پکڑ کر اسکے سامنے
ہالتے ھوے کہا
دیکھو بیچار ے کا کیا حال ھوگیا ھے الل سرخ ھوچکا ھے
اور اب تم اسکو ناراض کررھی ھو
تو عظمی بولی بتاو کیا کروں جس سے تمہارا یہ بیچارا خوش ھوگا
تو میں نے اسکی ننگی پھدی پر انگلی لگاتے ھوے کہا
بس اسکے اندر کی سیر کروا دو
یہ خوش ھوجاے گا
تو عظمی کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوے بولی
مینوں مارنا اے
اینوں کھوتے نوں ویکھ پیلے
تے ایس نکی جئی نوں
ویکھ
پاڑنا اے اینوں
میں نے کہا یار یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ھی تو بنے ہیں
تو عظمی بڑی شوخی سے بولی
جب وقت آے گا تب ھی یہ ایک دوسرے کے لیے موثر ھوتے ہیں
ورنہ دونوں میں سے ایک کا نقصان ھی ھوتا ھے
ابھی ہم چھوٹے ہیں جب بڑے ہوں گے تو شادی کے بعد یہ سب کچھ کریں گے
میں نے کہا یار .تم بھی بڑی ھو کون سا چھوٹی ھو ابھی تو تم کہہ رھی تھی کہ آنٹی نے کہا ھے کہ اب تم بڑی ھوگئی ھو
اور میں تمہارے سامنے ھی ھوں
تو عظمی بولی نھی یاسر
ابھی ایسا ویسا کچھ نھی کرنا
اگر مجھے کچھ ہوگیا تو
میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا بس ہلکی سی درد ھوگی جیسے ٹیکہ لگوانے پر ھوتی ھے .اور پھر مزے ھی مزے
تو عظمی بولی
مینوں پاگل نہ بنا
مینوں پتہ اے جان نکل جاندی اے پیلی واری
تے نالے بچہ وی ہون واال ھو جاندا اے
میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ ھے
تو عظمی بولی سکول میں میری ایک سہیلی نے بتایا تھا
تو میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے
تو عظمی بولی
اسکو اسکی بھابھی نے بتایا تھا
تو میں نے کہا
اسکی بھابھی مر گئی تھی کروانے کے بعد
۔تو عظمی بولی
جا اوے پاگل اودھے درد بوت ہویا سی
تو میں نے کہا مری تو نھی تھی نہ درد ھی ھوا تھا
وہ بھی اسکے شوہر نے ایکدم سارا اندر کردیا ھوگا
تو عظمی بولی اور جو بچہ ہونے واال ھو جاتا ھے وہ
تو میں نے کہا یار میری بات غور سے سنو
جب ایکدم اندر کرتے ہیں تب درد ھوتی ھے
اور میں آہستہ آہستہ اندر کروں گا وہ بھی اتنا جتنا تم برداشت کر سکو جہاں تم کہو گی میں رک جاوں گا
)..Update no (35
اسکے بعد دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا ھے
پھر تم خود ھی مجھے کہو گی کے یاسر سارا ھی اندر کردو
اور رھی بچے کی بات تو بچہ تب ہونے واال ہوتا ھے جب میں تمہارے اندر ھی فارغ ھوجاوں گا ۔
اور میں فارغ ہونے سے پہلے ھی اندر سے نکال لوں گا
تو عظمی بولی
تینوں کیویں پتہ اےےےے
میں نے کہا میرے بھی دوست نے بتایا ھے
تو عظمی پھر میری نقل اتارتے ھوے بولی
اونوں کیویں پتہ اےےےےےے
تو میں جنجھال کر بوال
یار اسکے دوست کی ایک سہیلی تھی تو وہ اس کے ساتھ کرتا رھتا تھا
تو اس لیے اسے پتہ تھا
تو عظمی پھر بولی
مگر ہماری تو شادی نھی ھوئی نہ
تو میں نے کہا یار تم نے مجھ سے ھی شادی کرنی ھے نہ تو شادی سے پہلے کیا اور بعد میں کیا
تو عظمی کچھ سوچتے ہوے بولی یاسر تم بھی اپنے دوستوں کو بتاو گے کے میرے ساتھ تم نے کیا ھے
تو میں نے جزباتی ڈائیالگ بولنا شروع کردیے
کہ
تم نے مجھے بے غیرت سمجھ رکھا ھے تم میری سہیلی نھی ھو تم میری جان ھو تمہیں پتہ ھی نھی کہ تم میرے لیے کیا ھو
اور تم میرے بارے میں ایسی سوچ رکھتی ھو
بہت دکھ ھوا تمہاری بات سن کر عظمی
تو عظمی اپنے بارے میں .میرے جزبات دیکھ کر موم کی طرح پگھل گئی اور بولی
یاسر کچھ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو
یہ نہ ھو کہ ہمارے پاس سواے پچھتاوے اور بدنامی کے کچھ نہ بچے
میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر بھروسہ نھی ھے
تو عظمی نے ہنستے ھوے کہا نھی ھے
تو میں نے کہا پھر بات ھی ختم ھوگئی جب تمہیں مجھ پر بھروسہ ھی نھی اور میں یہ کہہ کر جیسے ھی کھڑا ھونے لگا
تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نیچے کھینچا تو میرا توازن برقرار نہ رھا اور میں سیدھا اسکے اوپر گر گیا
اور عظمی بھی جان بوجھ کر پیچھے لیٹ گئی
اب میں اسکی ٹانگوں کے درمیان تھا
اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں کے بلکل قریب تھے
تو عظمی بڑے رومینٹک انداز میں بولی
بتاو کیا کرنا ھے
تو میں نے کہا
پہلے اپنی قمیض اتار لو ساری گندی ھو جانی ھے
تو عظمی نے مجھے پیچھے ھونے کا کہا اور میں اس کے اوپر سے اٹھ کر سائڈ پر ھوگیا اور عظمی ویسے ھی ٹانگیں
سیدھی کیے بیٹھ گئی اور اپنی قمیض اتارنے لگ گئی
میں نے جلدی سے ھاتھ عظمی کی کمر کے پیچھے کیے اور اسکے بریزیر کی ہک کو پیچھے سے کھول دیا
تو عظمی بولی
اسکو تو رہنے دو
میں نے کہا آج فل مستی کریں گے
تو عظمی بولی مستی کے بچے
ٹائم بھی دیکھ لو اتنی دیر ہمیں پہلے ھی ھوگئی ھے
تو میں نے کہا ابھی تو ہمیں آدھا گھنٹہ بھی نھی ھوا
تم جلدی کرو نہ
تو عظمی نے قمیض اور برا اتار کر ایک سائڈ پر رکھی میں نے بھی اپنی قمیض اتار دی
اور اسکی قمیض کے اوپر رکھ دی
ہم دونوں سیکس کی بھوک میں اتنے پاگل ھوگئے تھے کہ ہمیں یہ نھی پروا تھی کہ کوئی ادھر آ بھی سکتا ھے یا گھاس
میں سے کو ئی زہریلی چیز کاٹ سکتی ھے
نہ وقت کی فکر نہ کسی کے آنے کا ڈر نہ جگہ کا خوف
بس دماغ پر منی سوار تھی
سچ کہتے ہیں کہ
بندے نوں پھدی دا شوق پھدی وچ واڑ دیندا اے
ہم ہر چیز سے بے خبر
مادر زاد ننگے ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوسنے میں مصروف تھے
عظمی پھر گرم ھوچکی تھی میرا لن تو پہلے ھی کھڑا تھا اور اب اسکے چڈوں کے درمیاں اسکی پھدی کے اوپر دباو ڈال
رھا تھا
عظمی نے منہ ایک طرف کیا
اور بولی
یاسر جو کرنا اے چھیتی چھیتی کر
پیلے ای دیر ھوگئی اے امی بولے گی کہ اینی دیر کتھے ال کے آندی اے
میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور جلدی سے اسکی ٹانگوں کو کھول کر اسکی پھدی کے سامنے لن کر کے
بیٹھ گیا اور تین چار اسکے مموں کے چوپے لگاے
تو عظمی پھر بولی یاسر جلدی کر لو
مجھے اب ڈر لگ رھا ھے
میں نے دل میں کہا سالی دی سوئی ہن جلدی تے پھس گئی اے
میں نے جلدی سے لن پر تھوک کا گوال پھینکا اور مٹھ مارنے کے انداز سے تھوک کو پورے لن پر پھیال دیا اور دوبارہ سے
پھر ٹوپے پر تھوک لگا کر ٹوپے کو تھوک سے تر کر دیا
اور اپنی عظمی کی پھدی کے ہونٹوں میں پھیر کر پھدی کی چکنائی چیک کرنے لگ گیا
جیسے ھی پھدی کے ہونٹوں سے میری انگلی ٹچ ھوئی
تو
عظمی نے سئیییییی کیا
اور میں نے لن کو جڑ سے پکڑا اور ٹوپے کو پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا کر ٹوپے کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا
عظمی پھر سسک رھی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی شاید خوف کی وجہ سے
میں اسکی کنڈیشن سمجھتے ھوے بوال
عظمی میری جان
برداشت کرنا اور خود کو ریلیکس کر لو ۔۔
تو عظمی نے کانپتی آواز میں کہا یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے
تو میں اسکے اوپر لیٹ گیا اور اسکی ٹانگوں کو مزید کھول دیا اور ھاتھ نیچے لے جاکر کر لن اس کی پھدی کے ہونٹوں
میں پھنسا دیا
اور دونوں ہاتھ عظمی کے ماتھے سے لے کر پیچھے بالوں تک پھیرتے ھوے اسکی ڈھارس بندھانے لگا
اور ہلکا سا لن کو اندر ُپش کیا تو ٹوپا اندر گھس گیا اور عظمی نے اپنا ایک ھاتھ منہ پر ذور سے رکھ کر
ھاےےےےےے میں مرگئی امیییییییی جییییییییی اور ساتھ ھی اوپر کو ہوگئی جس سے ٹوپا باہر نکل گیا
میں نے کہا
میری جان حوصلہ کرو بس تھوڑا سا تو اندر لو نہ ایسے کرو گی تو پھر درد ذیادہ ھوگی
تو عظمی بولی نھیییییی یاسررر بہتتت درد ھوا ھے
تو میں نے پھر ٹوپے کو اسکی پوزیشن پر سیٹ کیا اور عظمی سے کہا اب باہر مت نکالنا
اور پھر ہلکا سا اندر کی طرف ُپش کیا تو
عظمی نے پھر اپنے منہ کو دبا کر آنکھیں ذور سے بند کیے ھوے اوئییییییییی اممییییی جییییی کہا اور ساتھ ھی اسکی آنکھوں
سے دو موٹے آنسو نکل کر سائڈوں سے بہتے ھوے کان کی طرف چلے گئے
میں نے اندر کرتے ھوے عظمی کے کندھے پکڑ لیے تھے کہ پھر آگے کو نہ جاے
کچھ دیر میں ایسے ھی ٹوپا عظمی کی پھدی کے اندر کر کے رکا رھا
مجھے ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میرے لن کو کسی بہت ھی گرم چیز نے چاروں طرف سے بھینچا ھوا ھے
عظمی کی پھدی بہت ھی ٹائٹ تھی
پھدی تو صدف کی بھی ٹائٹ تھی مگر عظمی کی پھدی نے تو میرے ٹوپے کو ھی راستے میں روک رکھا تھا
شاید دونوں کی عمر کا فرق تھا یا پھر میرے گھسے کا فرق تھا
خیر
عظمی ھاےےےےے اوئییییییی اففففففف کرتی رھی
کچھ دیر بعد عظمی تھوڑی سی ریلکس ھوئی تو میں نے کہا اور کروں تو وہ بولی نھی بس اتنا ھی اندر رکھ کر اندر باھر
کرتے رھو
تو میں نے کہا یار ایسے نہ تو مجھے مزہ آنا ھے اور نہ ھی میں نے فارغ ھونا ھے
تو عظمی بولی بس تھوڑا سا اور کردو مگر آرام سے
اور یہ کہتے ھوے اس نے ایک ھاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور دوسرا ھاتھ میرے پیٹ پر کہ مجھے زیادہ اندر نہ کرنے دے
میں نے لن کو تھوڑا سا اور اندر کیا تو عظمی نے میرے پیٹ پر اپنی ہتھیلی کا دباو ڈال کر مجھے پیچھے رکنے کا اشارہ کیا
میں وہیں رک گیا
مجھے ٹوپے کے ساتھ کچھ ٹچ ھوتا محسوس ھوا
اور اسی سمے عظمی نے میری کمر کو زور سے بھینچ کر مجھے رکنے کا سگنل بھی دے دیا تھا
اور میں لن کو وہیں سے واپس کھینچ الیا اور پھر اتنا ھی اندر کرنے لگ گیا
اس دوران عظمی کی پھدی کافی گیلی ھوجانے کی وجہ سے میرے لن پر اسکی پھدی کی گرفت کم ہوگئی تھی اور لن پھدی
کو رگڑ لگاتا اندر باھر ھو رھا تھا
جیسی پہلے لن پر پھدی کی ٹائٹنس تھی اب ویسے نھی تھی
مجھے بھی اب مزہ آنے لگ گیا تھا
عظمی اب کافی حد تک لن کو برداشت کرنے میں کامیاب ھو چکی تھی
میں ساتھ ساتھ آرام آرام سے اندر باہر بھی کر رھا تھا اور اسکے ہونٹ بھی چوس رھا .تھا اور ممے بھی دبا رھا تھا تھا
عظمی بھی میرے نیچے بےقرار ھورھی رھی اور آہستہ آہستہ اپنی گانڈ اٹھا رھی تھی
پھر عظمی نے آنکھیں کھولیں جو مزے کی شدت میں بند تھی
اور ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ ٰک یے اور اکھڑی ھوئی سانس لیتے ھوے بولی
یاسر ایک ھی جھٹکے میں سارا اندر کردو
عظمی کی یہ بات سنتے ھی
استاد نے میرے کان میں کہا
سنا فیر منیا نہ
تو میں نے جی استاد کہا
اور عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال
دیکھ لو میری جان کو درد نہ ھو تو عظمی بولی جتنی میں نے برداشت کی ھے اس سے ذیادہ کیا ھوگی
گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر ھے ایک ھی دفعہ زہر کا پیالہ پی لوں
تم کرو اندر
میں نے اسکا دوپٹہ پکڑا اور اسے اکھٹا کر کے اسے پکڑاتے ھو کہا اسے دانتوں کے بیچ لے لو
تو عظمی نے میری بات سمجھتے ھوے دوپٹے کو منہ میں لے کر دانتوں میں بھینچ لیا
میں نے عظمی کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اسکی ٹانگوں کو اپنی ٹانگوں کی مدد سے تھوڑا اوپر کیا
عظمی بھی خود کیا تیار کر چکی تھی
اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی
میں نے اپنی پوزیشن سیٹ کی اور استاد سے اجازت لی
اور لن کو تھوڑا پیچھے کیا
اور ایک جاندار گھسہ مار کر لن عظمی کی پھدی کی جڑ تک بچے دانی میں گھسا دیا
لن نے پھدی کو چیر کے رکھ دیا تھا پھدی کا ستیاناس ہوچکا تھا اور ہچکیاں لے کر پھدی لن کو بدعائیں دے رھی تھی
جبکہ عظمی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رھی تھی اور اسکے منہ سے ُبھمممم ُبھمممممم کی آوازیں آرھی تھی
آنکھوں سے آنسووں کی برسات جاری تھی
اسکے ہونٹ کپکپا رھے تھے ٹانگیں کانپ رھی تھی
لبوں سے تھوک باہر کو نکل کر کپڑے کو گیال کر رھا تھا میرے سر کے بالوں کو اس نے دبوچ رکھا تھا
پھدی کے ہونٹوں سے رت بہہ بہہ کر گھاس کو سرخ کر رھا تھا
کچھ دیر مین اسکے اوپر لیٹا اسکو تسلیاں دیتا رھا
تقریبًا دس منٹ بعد عظمی سنبھلی تو میں نے پھر استاد کا بتایا ھوا ُگ ر آزماتے ھوے اسکے ہونٹ چوسنا شروع کردیے
عظمی کافی حد تک سنبھل گئی تھی
اور پھر میں نے لن آگے پیچھے کرنا
شروع کردیا
لن کافی گیال ہوچکا تھا اور پھدی کا راستہ بھی کھل چکا تھا
میں نے آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانی شروع کردی
عظمی پہلے تو مجھے روکتی رھی
اور
ھاےےے مرگئی.
بولی کر ھولی کر
بسسسسس بسسسسس
اوئییییی امممییییییی
میرے دل نوں کش ھو چال
یاسسرررررر بسسسسسس کررررر
مگر کچھ ھی دیر بعد اس کے ڈائالگ بدل گئے اور
موسم خوشگوار ھوا
اور اسکی پھدی نے برسات شروع کردی
اور عظمی گانڈ اٹھا اتھا کر پورا لن اندر لینے لگ گئی
کچھ ھی دیر بعد میرا بھی بوالوا آگیا اور میں نے جلدی سے لن کو باھر نکاال اور عظمی کے پیٹ کی طرف ٹوپا کر کے
مٹھ مارنے لگ گیا اور آخر کر لن صاحب نے پہلی الٹی اتنے پریشر سے کی کے عظمی کے ممے اور منہ تک چھینٹے
گئیے پھر تین چار مزید الٹیاں کرنے کے بعد لن صاحب سکون میں ھوگئےب
اور عظمی غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
میرے ُاتے ضرور گند مارنا سی
میں جلدی سے اٹھا اور مکئی کے پتے توڑ کر اس سے اسکا منہ اور ممے اور پیٹ صاف کرنے لگ گیا
عظمی کچھ دیر ھاے اوئی کرتی رھی کبھی اٹھتی کبھی بیٹھتی کبھی رکتی کبھی چلتی اور میں بھی اسکے نخرے اٹھاتا
اسکو راستے میں ھی چنگی پلی کر کے اسکے گھر پہنچا آیا
شام کو ٹیوشن جانے کے لیے عظمی کے گھر گیا
تو آنٹی فوزیہ نے بتایا کو دونوں بہنیں بخار سے تپ رھی ہیں پتا نھی ان دونوں کو ایک ساتھ ھی بخار چڑھنا تھا
میں یہ سن کر کمرے کی طرف چل دیا اور آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی
نسرین تو سو رھی تھی مگر عظمی چارپائی پر ٹانگیں سیدھی کیے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی
میں جا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی نے مجھے گھور کر دیکھا
میں نے شرارت سے کہا
تینوں وی بہانہ لب گیا اے ٹیویشن تو ُچھٹی کرن دا
تو عظمی غصے دے بولی
ایویں پونکی نہ جا
میں بخار نہ مرن دئی آں تینوں سواے بکواس کرن دے ُک ش نئی آندا۔۔۔
تو آنٹی بولی
عظمی ایسے کیوں بکواس کر رھی ھو
بھائی ھے تمہارا
شرم کرو کیسے اسکے ساتھ بات کررھی ھو
تو عظمی بولی اپنے اس الڈلے کو کہیں کہ میرے ساتھ کوئی فضول بات نہ کیا کرے
اور یہ کہتے ھی وہ سیدھی لیٹ گئی اور چادر جو اسکی ٹانگوں پر تھی کھینچ کر منہ پر لے لی
آنٹی بولی پتر دفعہ کر ایس ُک تی نوں
چل توں آجا بار جا کے بیٹھنے آں
میں نے کہا نھی آنٹی جی میں تو ٹویشن جانے لگا تھا سوچا نسرین کا پتہ کرتا چلو
تو آنٹی بولی ٹھیک ھے چل جا شاباش میرا پتر دل ال کے پڑیا کر
اور میں سر ہالتا ھوا
گھر سے نکل کر
صدف کے گھر کی طرف چل پڑا
گھر میں داخل ھوا تو صدف کرسی پر بیٹھی پانچ چھ چھوٹے چھوٹے چھ سات سال کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی
اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر مجھے اکیال دیکھ کر میرے پیچھے بھی نظر دوڑائی
اور پھر مجھے نظر انداز کر کے
منہ بچوں کی طرف کر لیا
میں تو یہ سوچ رھا تھا کہ صدف مجھے اکیلے کو دیکھ کر خوش ھوگی
مگر اس سالی نے تو مجھے گھاس بھی نہ ڈالی
میں نے جاکر سالم کیا اور ذرہ ذوررررر دے کر باججججججی کہا
تو صدف نے چونک کر میری طرف دیکھا
اور گھورنے لگ گئی
اور پھر ادھر ادھر دیکھا کہ آنٹی تو نھی
اور پھر میری طرف ھاتھ کا پنجہ کرتے ھوے آہستہ سے بولی
لکھ دی لس
النت تیری شکل تے
میں نے بھی چاروں طرف دیکھا کہ کوئی ھے تو نھی
تو میں نے اسکے قریب بیٹھتے ھوے کہا
کیا ھوا باجججججججیییییی
تو صدف کا رنگ جو پہلے ھی تھوڑا سا گندمی تھا مزید گہرا ھوتا گیا
اور پھر آہستہ سے بولی
بککککواسسسسس بند کر
تو میں نیچے سر کر کے ہنسنے لگ گیا
اور اپنا بیگ کھول کر کتاب باہر نکالی اور گود میں رکھ کر بیٹھ گیا
کچھ دیر بعد صدف نے مجھ سے پوچھا
عظمی نسرین کیوں نھی آئیں
تو میں نے کہا
چھوٹے بچوں کے انداز میں معصوم سا ،منہ بنا کے کہا
باججججیییی ۔۔۔
وہ دونوں بیمار ہیں اور انکی امی نے کہا تھا کہ اپنی
باجججیییی
کو بتا دینا کہ وہ آج چھٹی کریں گی
تو صدف نے پیر آگے کیا اور جوتے کی نوک میرے گھٹنے پر مارتے ھوے بولی
تیرییی بکواس بند ھونی اے کہ نئی
میں نے پھر اسی انداز میں سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہر ے پر التے ھوے کہا
باججیییی آپ نے خود ھی تو پوچھا تھا
تو صدف نے ہاتھ میں پکڑی ھوئی کتاب میرے منہ پر ماری جو میں نے ھاتھ آگے کر کے منہ کو بچا لیا
اور غصے سے اٹھی اور مجھے منہ ھی منہ میں گالیاں دیتی پیر پٹختی اندر کمرے کی طرف چلی گئی
میں ہنستا ھوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔۔۔
میں نے اسکے اگنور کرنے کا بدلہ باجی کہہ کر لے لیا تھا ۔۔۔
کچھ دیر بعد صدف پھر کمرے سے نکلی اور برآمدے میں ھی کھڑی ھوکر بولی امی آج پکانا کچھ نھی ھے
تو اسکی امی کی دوسرے کمرے سے آواز آئی
کہ
ُپتر کسے بچے نوں پیج کے ہانڈی واسطے ُک ش منگوا لے
میرے کولوں نئی جایا جانا،،،
تو صدف بولی امی
بچوں کو کیا پتہ کہ کون سی چیز سہی ھے اور کون سے خراب آپ خود چلی جاو
سیمے کی دکان بھی دوسرے چوک میں ھے اور بچے اتنی دور کیسے جائیں گے انہوں نے راستے میں ھی کھلینے لگ جانا
ھے تو بس پک گئی ہانڈی پھر،،،
تو آنٹی پھر بولی
ُپتر یاسر آگیا اے تے اونوں پیج دے او کیڑا بچہ اے اونوں کہ اپنے چاچے دا سائکل لے جاے،
صدف جنجھال کر بولی
اس نے پیپر کی تیاری کرنی ھے پہلے ھی اسکو سبق یاد نھی آیا بھی لیٹ ھے صبح اس نے پیپر دینا ھے ،،،۔۔۔
میں صدف کی بات سن کر ہکا بکا رھ گیا
کہ میرا کیڑا پیپر اے کل
تے کیڑا سبق یاد نئی مینوں
تو آنٹی آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر نکلی
اور بولی
اک تے میرے گوڈے کم نئی کردے ُاتوں اینی دور ُٹ ر کے جانا پیندا اے،
میں دوپیرے تینوں کیا وی سی کے ریڑھی والے کولوں سبزی لے لے پر توں میری َم نیں تے فیر ناں،
تو صدف بولی اچھا کل سے لے لیا کروں گی آج تو لے آئیں
پھر رات کو ابو بولیں گے کہ کچھ پکایا نھی ۔۔۔
تو آنٹی بولی
ال دے پیسے
تو صدف نے ہاتھ میں پکڑے پیسے آنٹی کو پکڑا دیے اور آنٹی
پاوں رینگتی باہر کو چلی گئی
مجھے صدف پر غصہ بہت آیا کہ کیسے وہ جھوٹ بول رھی تھی اور بوڑھی ماں کو اس حال میں اتنی دور بھیج رھی
تھی ،،،۔
آنٹی کے جانے کے بعد صدف بیرونی دروازے کی طرف گئی اور
باہر گلی میں جھانک کر دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی اور آکر ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی
تھوڑی دیر بعد صدف نے مجھے اونچی آواز میں کہا یاسر کمرے میں جاو اور جاکر پیٹی کے اوپر کھڑے ہوکر چھت سے
جالے اتار دو اور نیچے کچھ سامان پڑا ھے اسکو بھی اوپر رکھ دینا
میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور
اسے پھر چھیڑتے ھوے
اونچی آواز میں کہا اچھا باجییییی
اور جلدی سے اٹھ کر
کمرے کی طرف چلدیا
میں کمرے کی طرف جاتے سوچ رھا تھا کہ سالی کا کیا دماغ ھے کیسی فلم چالئی ھے اس نے ماں کو بھی بیوقوف بنا دیا
پھر سوچا کہ تم آم کھاو بس ُگ ھٹلیاں مت گنو
میں کمرے میں جاکر چارپائی پر جاکر بیٹھ گیا مجھے سب سمجھ آگئی تھی کہ کہاں سے جاال اتارنا ھے اور کون سا سامان
اٹھا کر اوپر رکھنا ھے
کچھ ھی دیر بعد دروازے سے صدف اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے ُک نڈی لگا دی
اور دونوں ہاتھ آگے کر کے دوڑی میری طرف آئی
میں سمجھا شاید جپھی ڈالنے کے لیے ایسے ہاتھ کھولے باہیں میری طرف کر کے آرھی ھی ابھی میں سوچ ھی رھا تھا کہ
سالی نے آتے ھی دونوں ھاتھ میرے گلے پر رکھے اور گال دباتے ھوے مجھے پیچھے دھکیل کر چارپائی پر لٹا کر خود
میرے اوپر آگئی
میں اس کے اچانک اس حملے سے بےخبر تھا اس لیے اسکے تھوڑے سے زور سے میں پیچھے گر گیا
اور صدف غصے سے بولی
میں تیرا گآل ُک ٹ دینا اے
اسکا سارا وزن میرے گلے پر ھی تھا
تو میرا تو سانس رکنے واال ھوگیا تھا
میری آواز نھی نکل رھی تھی اور کچھ دیر ایسے ھی میرا گال دبا رہتا تو واقعی میرا سانس بند ہو جانا تھا
میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی کالئیاں پکڑی اور پورے زور سے اسے جھٹکا دیا اور اپنا گال اسکے ہاتھوں سے آزاد
کروا لیا
اور زور زور سے کھانسنے لگ گیا
صدف میرے پیٹ کے اوپر چڑھ کر دونوں ٹانگیں میرے اردگرد کیے بیٹھی ھوئی تھی
صدف نے جب میری یہ حالت دیکھی تو وہ بھی گبھرا گئی اور میرا منہ پکڑا کر میری گالوں پر تھپکیاں دیتے ھوے بولی
یاسر یاسر کیا ھوا ذیادہ گال دبایا گیا
میں نے غصے سے اسکا ھاتھ جھٹک دیا
میری آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا تھا
صدف کا منہ بھی رونے واال بن گیا تھا
میں نے اسے اپنے اوپر سے دھکا دیتے ھوے کہا اترو نیچے چھوڑو مجھے
تو صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑ کر چارپائی کے ساتھ لگا دیے اور پورا زور لگا کر دبا دیے
جیسے زبردستی میری عزت لوٹنے لگی ھو
اور صدف بولی
تم نے مجھے غصہ کیوں دالیا
میں نے کہا مجھے نھی تم سے بات کرنی چھوڑو مجھے
اگر میں چاھتا تو ایک ھی جھٹکے سے اس کو چارپائی سے نیچے پھینک سکتا تھا
مگر صدف کی پھدی مارنے کا موقع ھاتھ سے نکل جانا تھا اس لیے میں ڈرامے کر رھا تھا
تو صدف بولی نھی چھوڑنا
کر لو جو کرنا ھے ،،
ایک تو مجھے تنگ کرتے ھو الٹا مجھ پر رعب جھاڑتے ھو
میں نے کہا
میں نے کیا تنگ کیا ھے
تو صدف بولی تمہیں شرم نھی آتی مجھے باجی کہتے
تو میں نے کہا اب کیا سب کے سامنے تمہیں
صدف ڈارلنگ کہوں
تو صدف بولی
میں نے ایسا کب کہا ھے
مگر تم جس انداز سے مجھے چڑا رھے تھے میں سب سمجھتی ھوں ۔۔
تو میں نے کہا اب اتر بھی جاو نیچے
کیوں بچے کی جان لینی ھے
تو صدف بولی آہو بچہ تے دیکھو
اس بچے نے مجھے ایک ھفتہ چارپائی سے نھی اٹھنے دیا
آج تم سے بچو سارے حساب کتاب چکتا کرنے ہیں
تیار ہو جاو
تو میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ھوے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ھوے کہا
عالی جا معاف کردو آئیندہ غلطی نھی ھوگی
میرا منہ دیکھ کر صدف کی ہنسی نکل گئی
اور میری گال پر ُچ ٹکی کاٹ کر بولی
تجھے کچا کھا جاوں گی
میں نے کہا
عالی جا آپ کے قبضہ میں ہوں کچا کھا لو یا پکا کہ کھالو
جیسے آپ کو بہتر لگے
تو صدگ ہنستے ھوے بولی
شکل دیکھ پیلے اپنی
آیا وڈا مغل اعظم دی اوالد
تو میں نے صدف کی کو اوپر سے نیچے اتارنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نھی ھو رھی تھی
میں نے اسکی بغلوں میں گد گدی کرنی شروع کردی تو صدف ہنستے ھوے ُدھری ھوتی میرے اوپر لیٹنے لگ گئی
اور میں نے اسے جپھی ڈال کر چارپائی پر سیدھا کر کے لٹا دیا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اسکے ہونٹوں پر پاریاں کرنے لگ
گیا
اور ایک ھاتھ سے اسکے ممے کو پکڑ کر دبانے لگ گیا
صدف بھی میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی
میں نے اسکی گال کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنا شروع کردیا اور اسکی قمیض اوپر کرنے لگ گیا جس میں صدف نے
بھی گانڈ اٹھا کر میری مدد کی اور اسکی قمیض اسکے بڑے سے گول مٹول مموں سے اوپر کردی
اور بریزیر کے اوپر سے ھی اسکے مموں پر ُمٹھیاں بھرنے لگ گیا
صدف کے منہ سے سسکاریاں نکل رھی تھی
میں کبھی اسکی گالوں کو چومتا کبھی چوستا کبھی ہلکی ہلکی کاٹی کر لیتا جس سے صدف مذید مچلنے لگ جاتی
میں نے صدف کو الٹا ھونے کا کہا
تو صدف الٹی ھوکر لیٹ گئی
میں نے پیچھے سے قمیض مزید اونچی کر کے اسکی گردن کے پاس کردی اور
اسکی گانڈ کے اوپر چڑھ کر ٹانگیں دونوں طرف کر لیں
اسکی کمر بلکل سیدھی تھی میں نے منہ اسکی گردن کے پاس کیا اور زبان نکال کر اسکی گردن پر پھیرنے لگ گیا صدف
سے برداشت نہ ھوا
تو اس نے سسیییییی کرتے ھو ے چارپائی پر بچھی چادر کو اپنی دونوں ُمٹھیوں میں بھر لیا
میرا لن بلکل تنا ھوا تھا اور صدف کی موٹی گانڈ میں اسکی شلوار کو اندر لے کر گھس گیا تھا اور صدف زور ذور سے
گانڈ کو بھینچ رھی تھی جس سے میں مزے کی وادیوں میں کھوتا جارھا تھا
میں نے زبان کی نوک کو گھماتے ھوے اسکے کان کے پیچھے پھیرتا تو صدف کا جسم کانپ جاتا
اور وہ مزید گانڈ کو بھیچنے لگ جاتی اور منہ سے لمبی سی سسسکاری لیتی
سسسسسسییییی اففففففف اممممممم کی اواز آتی
میں بھی لن کو اسکی گانڈ پر دبا رھا تھا اور وہ بھی مزے لے لے کر اپنی گانڈ کو بھینچ کر مجھے مزے دے رھی تھی
میں اب تھوڑا سا اوپر ھوا اور اپنی قمیض اوپر کر کر اپنا اگال حصہ ننگا کیا اور پھر اپنے ننگے جسم کو اسکی ننگی کمر
کے ساتھ مال کر اسکے اوپر لیٹ گیا اور سائڈ سے اسکی گال کو چومتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا
صدف میرے نیچے مچلی جارھی تھی
میں کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد اسکے اوپر اٹھا اور اسکے پاوں کی طرف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکی شلوار کو پکڑ
کر نیچے کھینچ کر اسکی پنڈلیوں تک کر دیا
اب اسکی موٹی سے گول گانڈ میرے سامنے .تھی میں نے جھک کر اسکی گانڈ کی پھاڑیوں کو چومنے لگ گیا
اور ھاتھوں سے اسکی .گانڈ کو پکڑ کر مٹھیوں میں بھینچنے لگ گیا
میں نے اسکی گانڈ کو کھوال تو مجھے اسکی گانڈ کے اندر چھوٹی سی موری نظر آئی
تو میں نے اسکی موری پر تھوک پھینکا اور انگلی اسکی موری میں گھسانے لگ گیا ابھی تھوڑی سی انگلی اندر گئی تھی
کہ صدف جھٹکے سے گھوم کر سیدھی ھوگئی
اور مجھے گھور کر بولی
بے شرم انسان یہ کیا کر رھے ھو
تو میں نے کہا پیار کررھا ھوں
تو وہ بولی
تمہارا سارا پیار اندر کر کے ھی ھوتا ھے
تو میں .نے کہا میرے شونے پیار کا ثبوت اندر کرکے ھی دیا جاتا ھے
تو صدف بولی مجھے نھی چاھیے ایسا ثبوت اور یہ کہہ کر وہ سیدھی لیٹ گئی
اسکی پھدی میرے سامنے تھی جس پر ہلکے ہلکے بال تھے
میں نے پھدی پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا کہ
یہ بال کیسے اگ آے اس دن تو نھی تھے
تو صدف بولی شرم نھی آتی گندی باتیں کرتے ھو ے
میں نے اپنی چاروں انگلیاں اسکی ناف کے نیچے رکھی اور انگھوٹھے کو پھدی کے اوپر کر کے انگھوٹے سے پھدی کے
دانے کو مسلنے لگ گیا
صدف ایک دم اوپر کو اچھلی اور لمبی سی .سسسسکاری بھری
اور مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا
میں ایک ھاتھ سے صدف کے دانے کو مسلنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے اسکے مموں سے بریزیر اوپر کیا اور
اسکے گول مٹول مموں کو پکڑ کر دبانے لگ گیا
صدف بولی جلدی کرو امی نے آجانا ھے
تو میں نے کہا کر تو رھا ہوں
تو وہ بولی زیادہ شوخے مت بنو جلدی کرو
امی آگئی نہ تو پھر نہ کہنا مجھے
میں اسکی بات سمجھتے ھوے جلدی سے آگے کو کھسکا اور اپنے لن کو تھوک سے اچھی طرح گیال کر نے لگ گیا
اور صدف کی پھدی تو پہلے ھی گیلی تھی اسکی پھدی کے بالوں پر پانی چمک رھا تھا
میں نے اسکی ٹانگوں کو کھوال اور جیسے ھی لن اسکی پھدی کے لبوں پر رکھ کر دبانے لگا تو صدف نے میرے پیٹ پر
ھاتھ .رکھ لیا اور کہنے لگی
یاسر پلیز آرام سے کرنا
میں نے ہلکا سا اندر ُپش کیا تو لن کا ٹوپا اسکی .پھدی میں ُگ ھس گیا
صدف نے ہلکی سی سسسسیییی کی اور مجھے کہا
ہولی
میں نے لن کو آہستہ آہستہ اندر کی طرف دھکیلنا شروع کردیا
صدف کافی حد تک لن کو برداشت کر رھی تھی
لن پانچ انچ اندر چال گیا تھا تب صدف نے ادھر ادھر سر مار کر میرے پیٹ پر ہاتھ رکھے مجھے رکنے کا کہا تو میں وہیں
رک گیا اور لن کو پیچھے لے آیا اور پھر آہستہ آہستہ اندر کی طرف کرتا گیا صدف نے پھر مجھے روک دیا اور مجھے کہا
یاسر بس اتنا ھی کرتے رھو
میں لن کو باہر کی طرف آرام آرام سے لے جاتا اور پھر اسی سپیڈ سے اندر کر دیتا
کچھ دیر ایسے ھی سلوموشن گھسے مارتا رھا
صدف کی پھدی کافی گیلی ھوتی جارھی تھی
میں نے جب دیکھا کہ صدف اب انجواے کررھی ھے اور سسسکیاں لے رھی ھے
تو میں ہر گھسے کے ساتھ لن مزید آگے کر نا شروع کر دیا
یہاں تک کہ میرا لن صدف کی پھدی میں جڑ تک چال گیا
اور صدف نے بھی پورا لن لے کر اوکے کا سگنل اپنی مستی بھری آوازوں سے دے دیا
میں اب لن کو پورا باہر کھینچتا صرف ٹوپا ھی اندر رھنے دیتے اور پھر جھٹکے سے لن اندر کردیتا اور صدف ساتھ ھی
کہتی ھاےے مرگئی آرام نال
میں ایسے ھی کرتا رھا
صدف بھی اب میرا ساتھ دی رھی تھی
وہ بھی لن اندر جاتے سسکاریاں بھر رھی تھی
میں نے اب مسلسل دھکے مارنے شروع کردیے اور گھسوں کی سپیڈ تیز کر دی میں جیسے جیسے گھسہ مارتا صدف کے
ممے ویسے ویسے اوپر کو جاتے میرےگھسوں اسکے ہلتے ممے دیکھ کر مجھے اور جوش چڑھتا
اور میں مزید گھسا زور کے مارتا
صدف بھی ھاےےےےےے مرگئی اففففففف ھاےےےےےے کی اواز نکال میرے مزے کو دوباال کررھی تھی
صدف کی پھدی نے اب میرے لن کو راستہ دے دیا تھا میرا لن فراوانی سے اندر باھر ھو رھا تھا
صدف نے میرے چہرے کو اپنے ھاتھوں پکڑ لیا اور میرے ہونٹو ں کو اپنے ہونٹوں لے کر زور زور سے چوسنے لگی اور
نیچے سے گانڈ اٹھا اٹھا کر لن پورا اندر تک لینے کی کوشش کرتی لن اسکی بچے دانی سے ٹکرا رھا تھا
کہ اچانک صدف نے اپنے دونوں ٹانگوں کو میری کمر کے گرد لپیٹ لیا اور پیروں کی مدد سے شکنجہ بنا کر میری کمر
کو اپنی ٹانگوں میں بھینچ لیا اور گانڈ کو پورا اوپر کر کے میرا لن اندر لے لیاب
میں بھی مسلسل گھسے ماری جارھا تھا اسکے ممے میرے سینے میں دبے ھوے تھے اور میرے ہونٹ اسکے ہونٹوں میں
تھے
کہ اچانک صدف کی ٹانگوں کی گرفت میری کمر کے گرد مزید سخت ھوتی گئی اور اسکی سانسیں اکھڑنا شروع ھوگئی
اور اس نے اپنی گانڈ کو زور زور سے اوپر نیچے کرنے لگ گئی
پھر ایکدم صدف نے ہلکی سی چیخ ماری آئیییییییی امممممممممم میییییی گگگگئییییییی
اور ساتھ ھی صدف نے پورے زور سے گانڈ اٹھا کر پھدی کے اندر میرے لن کو پورا نگل لیا اور اسکی پھدی سے گرم گرم
الوا اگلنا شروع ھوگیا
صدف نے میرے سر کے بالوں کو بہت بری طرح دبوچا ھوا تھا
اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی
میں کچھ دیر ایسے ھی رکا رھا
پھر صدف نے جسم ڈھیال چھوڑ دیا اور میری کمر کو بھی اپنی ٹانگوں سے آزاد کردیا
میں نے پھر گھسے مارنے شروع کردیے اب اسکی پھدی اور زیادہ گیلی ھوچکی تھی اور لن بھی ِچ پ ِچ پ کر رھا تھا
اور کمرے میں دھپ دھپ ُپچُ پچ کی آواز گونج رھی تھی
کچھ دیر بعد مزے نے شدت پکڑی اور مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ھوئی تو میں جھٹکے تیز کردیے اب
میرے جھٹکے اتنے شدید تھے کے چارپائی نے بھی اب چوں چوں ک
کر کے احتجاج رکارڈ کروانا شروع کردیا
پھر میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور لن کو پکڑ کر اسکی پھدی کے اوپر کردیا میرے لن سے منی بارش صدف کی
پھدی پر پڑنے لگ گئی اور میں لن کو اسکی پھدی کے اوپر دبا کر صدف کے اوپر لیٹ گیا
ابھی میری سانسیں بھی درست نھی ھوئی تھی
کہ
کمرے کے دروازے کو کسی نے زور زور سے بجانا شروع کردیا
میری تو جان ہلک میں اٹک گئی میں جمپ مار کر چار پائی سے اترا اور صدف نے بھی جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی
کہ اچانک باہر سے؟؟؟؟؟؟
مذید اپڈیٹس کے لیے پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ آپ تک نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن پہنچ سکے
).Update no (36
اچانک باہر دروازے سے ایک بچی کے رونے کی آواز آئی
تو صدف نے پوچھا کیا تکلیف ھے تو بچی نے روتے ہوے کہا
ساجد ماری جارھا ھے
تو صدف بولی چلو دفع ہو جاو ادھر جاکر بیٹھو میں آکے پوچھتی ہوں اسے
تو بچی کے رونے کی آواز دور ہوتی گئی
میری جان میں جان آئی اور صدف بھی ریلکس ھوگئی
ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور صدف نے جلدی جلدی چارپائی کی چادر اکھٹی کی اور اسکی جگہ دوسری چادر بچھا دی
میں نے پوچھا صدف مزہ آیا تو وہ بولی مزے کے بچے میں پہلے باہر جاتی ھوں تم تھوڑی دیر کے بعد آجانا
اور یہ کہہ کر صدف باہر چلی گئی میں بھی کچھ دیر بعد باہر جاکر بیٹھ گیا شام کافی ڈھل چکی تھی ہلکا ہلکا اندھیرا ہونا
شروع ھوگیا تھا
دوستو
اسد کی دوستی نے مجھے پھدی پاڑ مرد بنا دیا تھا
میرا تجربہ اور ناولج میری عمر سے بڑھ کر ھوگیا تھا
جو تھوڑی بہت جھجک تھی وہ عظمی اور صدف کی پھدی مارنے کے بعد اتر گئی تھی
بلیو فلم سے میں نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور سیکسی رسالوں سے سب سیکسی پوز ذہن نشیں کر چکا تھا
میرا رنگ پہلے ھی بہت سفید تھا اور اب ہلکی ہلکی مونچھیں اور ٹھوڑی پر ہلکے ہلکے ڈاڑھی کے بال بھی آنا شروع
ھوگئے تھے
اور میرا قد پہلے ھی عمر کے حساب سے لمبا تھا اور ان دو سالوں میں مزید لمبا ہوچکا تھا
مطلب کہ اب میں ایک خوبرو جوان کی شکل اختیار کر چکا تھا
دماغ سے بچپنے نے نکل کر سیکس نے جگہ بنا لی تھی
مجھے جب بھی موقع ملتا
کبھی عظمی کی پھدی بجا دیتا کبھی صدف کی
ہر وقت بس دماغ میں پھدی پھدی پھدی اور بس پھدی ھی رہتی
ہر آتی جاتی آنٹی یا لڑکی کے مموں کو تاڑنا پیچھے سے گانڈ کو گھورنا
میری عادت بن چکی تھی
آٹھویں کالس کے پیپر شروع ھوے تو مجھے ٹائی فیڈ بخار ھو گیا
جس کی وجہ سے میں پیپر نھی دے سکا اور گھر والوں سے بھی ضد کی کے میں نے اب نھی جانا سکول مجھے مار بھی
پڑی پیار سے بھی سمجھایا گیا
مگر پتہ نھی کیوں میرے دماغ میں بس اب ایک ھی بات بیٹھ گئی تھی
کہ میں نے کپڑے کا کام سیکھنا ھے
ہماری گلی میں ایک سجاد نامی آدمی تھا جس کی شہر میں کپڑے کی دکان تھی
میں نے ضد کی کہ مجھے اسکی دکان پر چھوڑ دیا جاے
گھر والوں نے بھی میری ضد کہ آگے ہار مان لی اور میرے بڑے بھائی نے ابو کو سمجھایا کہ ایسے یہ آوارہ پھرے یا تو
اسے میرے ساتھ پنڈ میں ھی کریانے کی دکان پر بیٹھا دو یا پھر اسے شہر سجاد کی دکان پر چھوڑ دو ایک دو دن بعد
مجھے سجاد نامی انکل کے پاس ابو چھوڑ آے
عظمی اور نسرین اب آٹھویں کالس میں ھوچکی تھی
میں انکے ساتھ اب بھی شہر جاتا تھا پہلے انکو سکول چھوڑتا پھر ادھر سے ھی دکان پر چال جاتا تھا
دوستو جمعہ کا دن تھا
اور میں گھر پر ھی تھا کہ باہر کا دروازہ کھڑکا تو امی نے کہا کہ
یاسر پتر باھر دیکھ کون ھے
تو میں نے جیسے ھی دروازہ کھوال تو میرا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے رھ گیا
اور میں
اسد کو دیکھ کر ہکا بکا رھ گیا
اور میں کبھی اسکی طرف دیکھتا کبھی اسکی کار کی طرف دیکھتا
اچانک کار کا دروازہ ُک ھال اور اس میں وہ حسینہ بلیک گالسس پہنے نکلی جسے صرف دیکھ کر ھی میری سانسیں رک
جاتی تھی جو حسن کا ایک مجسمہ تھا
جسکی تعریف شروع کردیں تو الفاظ کم پڑ جاتے تھے
اسد نے مجھے یوں حیران پریشان ھوتے دیکھ کر کہا
بے وفا جھوٹے سکول چھوڑ کر مجھے بھول ھی گیا تھا
تو میں نے آگے بڑھ کر اسے کس کر جپھی ڈال لی اور کافی دیر ایک دوسرے کے گلے لگ کر گلے شکوے کرتے رھے
اس دوران مہری چلتی ھوئی ہمارے پاس آگئی تھی اور بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی
مہری نے پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا اور سفید شلوار اور سفید ھی دوپٹہ تھا
اور اسکے گورے رنگ پر بہت ھی جچ رھا تھا
وہ کسی پری سے کم نھی لگ رھی تھی حسن کی ساری تعریفیں اس پر تمام شد تھیں
اسے اچانک اپنے غریب خانے پر دیکھ کر مجھے شعر یاد آگیا
جسکو دل ھی دل میں کہہ دیا
کہ
وہ آے ہمارے گھر خدا کی قدرت
کبھی انکو دیکھتے ہیں تو کبھی اپنے گھر کو
میں نے مہری کو غور سے دیکھتے ھوے سالم کیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کے اس نے میرے سامنے ھاتھ کر
دیا سالم لینے کے لیے
تو میں نے جھجکتے ھوے اسکے ساتھ ہینڈ شیک کیا
اور انکو اندر لے آیا
امی
ان دونوں کو دیکھ کر حیران پریشان کھڑی کبھی انکو دیکھتی کبھی میری طرف دیکھتی
میں نے امی سے دونوں کا تعارف کروایا تو امی نے اسد کے سر پر پیار دیا اور مہری کا آگے بڑھ کر ماتھا چوما اور
دعائیں دینے لگ گئی
امی مہری کو اندر کمرے میں لے گئی جہاں میری بہن نازی تھی
اور میں اسد کو لے کر اپنی بیٹھک میں آگیا
میں اندر اندر سے اپنے گھر کی پوزیشن اور اسد کے سٹیٹس کا موازنہ کر کے شرمندہ ہو رھا تھا۔
اسد نے بھی میری احساس کمتری کو نوٹ کر لیا تھا
۔اسد کو بیٹھک میں الکر میں نے
چارپائی کی چادر کو جھاڑا اور دوبارہ چارپائی پر بچھا دیا
اور اس کی طرف شرمندگی سے دیکھتے ھوے کہا کہ یار ہم تو غریب لوگ ہیں اور ہمارا غریب خانہ بھی ہم جیسا ھی ھے
تو اسد نے مجھے تھپڑ مارتے ہوے کہا شرم کر یار
انسان کا دل امیر ہونا چاھیے
آئیندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ تیری میری دوستی ختم سمجھ
اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگا
میں نے تجھ سے یاری صرف تمہارے سادے پن اور دل کے صاف ھونے کی وجہ لگائی ھے
ورنہ شہروں میں دوستوں کی کمی نھی
اب کبھی یہ امیری غریبی کا فرق نہ مجھے بتانا
یہ میرا ھی گھر ھے سمجھے
ایسی کافی باتیں کر کے اس نے میری کمتری دور کردی اور چھالنگ لگا کر چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ گیا
اور چارپائی پر ھاتھ مار کر بوال چل آجا میرے پاس ادھر بیٹھ
میں نے کہا تم بیٹھو میں ابھی آیا
تو اسد نے مجھے آواز دی کدھر جارھے ہو تو میں نے کہا
یار کچھ ٹھنڈا لے آوں
تو اسد بوال یار ہم گاوں بوتلیں نھی پینے آے
ایسا کر لسی لے آ
میں نے ہنس کر کہا ابے تو لسی پیے گا
تو اسد بوال
کیوں لسی انسان نھی پیتے کیا
تو میں نے کہا یار تم نے پہلے کبھی پی نھی نہ اس لیے کہہ رھا ھوں
تو اسد ہنستے ھوے بوال
اسی لیے تو کہہ رھا ھوں کہ لسی لے آ
پہلے کبھی پی نھی نہ تو میں ہمممم کہہ کر گھر میں چال گیا
اور سیدھا آپی کے کمرے میں گیا جہاں مہری اور امی بھی تھی
تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ مہری بلکل دیسی انداز میں چارپائی پر چونکڑی مار کر بیٹھی تھی اور آپی سے ایسے
ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی جیسے پتہ نھی کتنی ُپرانی دوست ھو
مہری کو یوں دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی
تو آپی مجھے گھورتے ھوے بولی
تیرے کیوں دند نکلن دے نے
تو میں نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ھوے امی کو باہر آنے کا کہا
امی باہر آئی
تو میں نے کہا لسی ٹھنڈی کر دو
تو امی حیران ہوتے ھوے بولی لسی کی کرنی اے
میں نے کہا اسد نے پینی ھے
تو امی غصے سے بولی
پیلی واری پرونے آے نے تے توں اوناں نو لسی پالویں گا،،،
،جا پج کے جا تے ویرے(.میرا بڑا بھائی) دی دکان تو شیزان تے پیپسی دی بوتل پھڑ لیا
میں نے امی کو کہا کہ میں بوتلیں ھی لینے جارھا تھا
لیکن اسد نے منع کردیا کہ ہم گاوں لسی پینے آے ہیں بوتلیں نئی
اتنے میں اندر سے مہری بھی نکل آئی اور وہ بھی لسی کا ھی اصرار کرنے لگ گئی
امی نے جلدی جلدی لسی ٹھنڈی کی اور دو بڑے بڑے پیتل کے گالسوں میں ڈال کر
سٹیل کی ٹرے میں رکھ کر مجھے پکڑا دئے اور آپی مہری کے لیے جگ میں ڈال کر اور سٹیل کے گالس لے کر اندر
چلی گئی
میں نے اسد کے سامنے ٹرے کی تو وہ بڑی حیرانگی سے اتنے لمبے لمبے گالسوں کو دیکھنے لگ گیا
پھر اس نے ایک گالس اٹھا
اور پہلے ایک گھونٹ پیا اور مزے سے کہا واہ یار بڑی مزے کی ھے لسی
اور پھر ایک ھی دفعہ گالس کو منہ لگا کر ساری لسی ختم کردی میں ابھی دوسرا گالس ٹرے میں رکھے ھی کھڑا تھا تو
اسد نے دوسرا گالس بھی اٹھا لیا اور میری طرف دیکھتے ھوے شرارت سے کہا
پلیز ڈونٹ مائینڈ
اور دوسرے گالس کو بھی خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا اور بوال تھینکس
یار پہلی دفعہ اتنا مزہ آیا ھے واہ واقعی یار لسی پنڈ کی سوغات ھے
میں ہنسنے لگ گیا اور مزاق میں اسے کہا
ماما میری وی پی گیًاں اے
تو وہ قہقہ مار کر ہنس پڑا اور بولی اتنے مزے کی چیز بھی کوئی چھوڑتا ھے
۔۔
ایسے ھی ہم کافی دیر ہنس ہنس کر باتیں کرتے رھے
اور پرانی یادیں تازہ کرتے رھے
اسد نے مجھے پڑھائی چھورنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اسے کپڑے کی دکان پر کام سیکھنے اور وہاں پر آنے والی
رنگ برنگی تتلیوں کا بتایا
تو اسد نے پوچھا کون سے بازار میں دکان ھے تو میں نے بتایا کہ کارخانے بازار میں تو اسد حیرانگی سے بوال
یار ادھر ھی تو میری ماما کی بوتیک ھے
تو میں ایکدم حیران ھوکر بوتیک کی لوکیشن پوچھنے لگ گیا
)Update no (37
مجھے یاد آیا کہ آنٹی نے مجھے اپنی بوتیک کا کارڈ بھی دیا تھا
مگر پتہ نھی وہ کارڈ مین کدھر رکھ بیٹھا تھا اس لیے میرے ذہن سے آنٹی کے بوتیک کا نکل گیا تھا
ورنہ انکی بوتیک ہماری دکان سے کچھ ھی دور ایک مارکیٹ کے اندر تھی
میں اور اسد باتیں ھی کررھے تھے کہ مہری اندر داخل ھوئی اور بڑی شوخی سے بولی
اگر جناب کی باتیں ختم ھوگئی ھوں تو
مجھے گاوں کی سیر کرنی ھے
تو اسد بوال چل یار اس نے میری جان کھائی ھوئی تھی کہ میں .نے گاوں دیکھنا ھے
آج بڑی مشکل سے ماما سے اجازت لی تھی
وہ بھی تمہارے گاوں اور سے ملنے کی وجہ سے اجازت ملی ورنہ مما کبھی بھی ہمیں نھی آنے دیتی
اور ہاں مما نے شکوہ بھی کیا ھے کہ تم گھر بھی نھی آے اور بوتیک پر بھی نھی
خیر ہم تینوں گھر سے نکل آے اسد بوال گاڑی میں چلیں تو مہری بولی
نھی میں نے پیدل ھی جانا ھے
تو میں نے بھی اسد کو کہا ماما کھیتوں میں کار چالے گا
تو اسد شرمندہ سا ہوگیا
اور ہم کھیتوں کی طرف چل دیے
آتے جاتے لوگ اسد اور خاص کر مہری کو ایسے دیکھ رھے تھے جیسے یہ انسان نھی کوئی خالئی مخلوق ھو
میں نے مہری سے پوچھا کہ پہلے کھیت دیکھنے ہیں یا پھر امرود اور مالٹوں کے باغ
تو مہری جھٹ سے بولی
سب کچھ دیکھنا ھے
تو میں نے کہا کھیت سامنے ہیں اور باغ ٹرین کی پٹری کے اس پار ہیں
تو مہری بولی چلو پہلے باغ میں چلتے ہیں تو
میں انکو لے کر پٹری کی طرف چل دیا
میری نے بلیک سن گالسس لگاے ھوے تھے
وہ کسی میم سے کم نھی لگ رھی تھی
تھوڑا آگے جاکر کچی جگہ شروع ھو جاتی تھی
جس میں کافی مٹی تھی
جب ہم کچی جگہ سے گزرنے لگے تو مہری نے اپنی شلوار پنڈلیوں سے اوپر کو کرلی تاکہ مٹی نہ لگے اور وہ شلوار کو
دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چل رھی تھی
جب ہم پٹری کے قریب پہنچے اسد دوڑ کر پٹری کے اوپر چڑھ گیا اسکے پیچھے ھی مہری دوڑتی ھوئی پٹری کے اوپر
چڑھ گئی
جب مہری پٹری کے اوپر چڑھ رھی تھی تو چڑھائی چڑھتے وقت اسکی .گول مٹول گانڈ باہر کو نکل آئی
اور بڑا ھی دلکش سین میری آنکھوں کو دیکھنا نصیب ھوا
مہری پٹری پر چڑھ کر بہت خوش ھورھی تھی اور چاروں طرف بڑے غور سے دیکھ دیکھ کر ُک ھلے ماحول کو انجواے
کر رھی تھی
میں سوچ رھا تھا کہ انسان کی بھی عجیب نفسیات ھے
پینڈو شہر کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں
اور
شہری پنڈ کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں
اتنے میں
میں بھی انکے پاس پہنچ گیا
اور انکو بتانے لگ گیا کہ وہ سامنے باغ ہین اور اسطرف فالں فالں چیز کے درخت ہین
میں انکو ایک ایک چیز درختوں پودوں کے نام بتاتا جارھا تھا کہ یہ کیسے اگتے ہین کیسے انکی کاشت ہوتی ھے کب کٹائی
ھوتی ھے
ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم باغ میں پہنچ گئے تھے
اس دوران اسد کے سامنے ھی مہری میرے ساتھ کافی حد تک فرینک ھو چکی تھی
اور کبھی وہ میرے کندھے پر ھاتھ رکھ کر باتیں کرتی کبھی ہنستے ہنستے میرے ہاتھ پر ھاتھ مارتی
اور میں حیران تھا کہ اسد کو ذرہ بھی ُبرا نھی لگ رھا تھا
کافی بولڈ قسم کے واقعہ ھوے دونوں بہن بھائی
ورنہ ہمارے ماحول میں تو ویسے ھی کسی انجان سے بات کرنے .یا فری ھونے پر لڑکی کو کاٹ دیا جاتا تھا
مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا
باتوں باتوں میں .میں نے نوٹ کیا کہ کافی دفعہ مہری نے مجھے یار کہہ کر مخاطب کیا تھا
خیر ہم باغ میں پہنچے
باغ کے مالک کا بیٹا میرا دوست ھی تھا
میں پہلے اس سے مال اور اسے بتایا کہ شہر سے میرے مہمان آے ہیں
انکو باغ دیکھنا .ھے تو اس نے خوشی خوشی اجازت دی کہ یار تمہارے نھی ہمارے مہمان ہیں جیسے مرضی گھومیں جو
دل کرے توڑ کر کھائیں میں نے اسکا شکریہ ادا کیا
اور ہم باغ میں داخل ھوگئے
مہری بڑی خوش نظر آرھی تھی وہ باغ میں چلتے چلتے کبھی بازوں کو اٹھا کر گھومتی کبھی پودوں کے پتوں کو توڑتی
وہ پورا انجواے کر رھی تھی
ایک جگہ جا کر مہری بولی میں نے امرود کھانے ہیں تو میں نے کہا میں توڑ دیتا ہوں تو وہ بولی نھی میں نے خود توڑنے
ہیں تو میں نے کہا توڑ لو کس نے روکا ھے
تو وہ امرود توڑنے لگی
اسد بوال یار مجھے پیشاب بہت تیز آیا ھے تو میں نے کہا یہیں کرلو ایک سائڈ پر تو وہ بولی یار چھوٹا نھی بڑا پیشاب آیا
ھے
تو میں نے کہا یار
چلو پھر گھر چلتے ہیں تو مہری کہنے لگی نھی ابھی تو میں نے پورا باغ دیکھنا ھے اسے جانا ھے تو چال جاے
تو میں نے بےچارگی سے اسد کی طرف دیکھا کہ اب کیا کیا جاے تو اسد بوال تم مہری کو باغ دیکھاو
میں گھر سے پیشاب کر کے آجاتا ھوں تو میں نے کہا یار یہ مناسب نھی
تو وہ بوال
یار میری نکلنے والی ھوئی ھے
تم مہری کو باغ دیکھاو میں نے بس آن جان کرنا ھے
اور یہ کہتے ھوے وہ بھاگ کر پٹری کی طرف چال گیا
اور میں حیران پریشان کھڑا اسے جاتا دیکھتا رھا
تو مہری نے مجھے بازو سے ہالیا اور بولی کم ان یار جانے دو اسے آجاے گا بچہ تو نھی جو گم ھو جاے گا
تو میں مہری کی طرف متوجہ ھوگیا
ہم چلتے چلتے باغ کے کافی اندر پہنچ گئے تھے
ایک درخت کے پاس کھڑے ہوکر مہری بولی یاسر وہ دیکھو کتنا پیارا سرخ امرود لگا ھے تو میں جمپ مار کر توڑنے لگا
تو مہری نے مجھے بازو سے پکڑ کر توڑنے سے منع کرتے ھوے کہا
او نو یار اسے میں نے اپنے ہاتھ سے توڑنا ھے
دوستو پہلے بھی مہری نے مجھے ٹچ کیا تھا مگر اب جیسے ھی اس نے میرے بازو کو پکڑا تو اس کے نازک ہاتھ کے لمس
سے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑنے لگا شاید یہ خلوت میں اتنی قربت کا نتیجہ تھا کہ میری یہ حالت ھوگئی
میں نے کہا مہری وہ امرود اونچا ھے تمہارا ہاتھ نھی پہنچنا
میں توڑ دیتا ھوں تو وہ بچوں کی طرح اچھل اچھل کر کہنے لگی مجھے نئی پتہ میں نے وہ اپنے ہاتھ سے توڑنا ھے
جیسے مرضی کرو مجھے وہ امرود توڑنا ھے
تو میں نے جان چھڑواتے ھوے کہا کہ پھر میں تمہیں اٹھا لیتا ھوں اور تم توڑ لینا
میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ مہری ایسا کرنے سے انکار کردے گی اور میری جان چھوٹ جاے گی
مگر مہری نے جب کہا کہ
ُگ ڈ آئڈیا یار
یور آر ُگ ڈ بوائے
کم آن یار
یہ سنتے ھی میرے طوطے اڑ گئے کہ اگر اسد نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا کہ تم نے میری ھی بہن پر ٹرائیاں مارنی
شروع کردی
پھر سوچا وہ تو ابھی گیا ھے اسے آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جانا ھے
میں نے ڈرتے ڈرتے مہری کے پاس گیا اور اسکے سامنے نیچے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگوں کے گرد اپنے بازو کیے اور
ٹانگوں کو کس کے جپھی ڈال کر اسکو اوپر اٹھا لیا
مہری کا وزن کافی تھا میں نے اسکو اٹھا تو لیا مگر مجھ سے سہی طرح کھڑے نھی ھوا جارھا تھا
مہری .بھی کبھی دائیں طرف جھکتی کبھی بائیں طرف
تو مہری بولی ایسے میں گر جاوں گی سہی طرح تو اٹھاو تو میں نے اپنے بازوں کو تھوڑا ڈھیال کیا تو مہری میرے بازوں
کے احسار میں کھسکتی میرے ساتھ جڑی نیچے کی طرف آگئی
مہری جیسے جیسے نیچے آرھی تھی
تو میرے ہاتھ پہلے اسکی رانوں پر آے پھر وہ اور نیچے آئی تو میرے ھاتھ جیسے ھی اسکی گانڈ پر آے تو مجھے چالیس
ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا
اتنی نرم اتنی نرم اتنی نرررررم گانڈ کہ بے ساختہ میں نے اسکی گانڈ کو دبا کر چھوڑ دیا اور ساتھ ھی میرے لن نے جھٹکا
کھایا اور کھڑا ھوگیا اور مہری کی ٹانگوں کے بیچ ھی سیدھا مہری کی پھدی کے ساتھ لگ گیا
مہری کی قمیض پہلے ھی شارٹ سی تھی اوپر سے ریشمی اور سوفٹ سا کپڑا تھا
جب مہری نیچے آئی تو اسکی پیچھے سے قمیض میرے ھاتھوں میں اٹک کر خود ھی اسکی گانڈ سے اوپر ھوگئی تھی اور
آگے سے بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگتے ھی اوپر ھوگئی تھی اور میرے لن کو کھال راستہ مل گیا تھا
مہری کے دونوں ھاتھ میرے کندھوں پر تھے اور اسکے نرم نرم روئی کے گولے چونتیس سائز کے ممے میرے سینے
میں دبے ھوے تھے اور اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے ایک دوسرے کو دیکھ کر ترس رھے تھے
ایک دفعہ تو ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھی جارھے تھے
کچھ دیر بعد جب مہری کو میرے لن کا احساس ہو جو اسکی پھدی پر دستک دے رھا تھا تو
مہری نے گبھرائی ھوئی آواز مین مجھے کہا کہ ووو امرود
تو مجھے بھی ہوش آیا
تو میں نے ایکدم اسے چھوڑ دیا
اور اسے کہا سوری
تو وہ حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی
سوری کس بات کی۔۔۔
تو میں شرمندہ سا سر جھکائے کھڑا رھا تو
مہری پھر بولی
کم ان یار
کیا لڑکیوں کی طرح شر ما رھے ھو
اٹھاو مجھے
میں نے پھر اسے ویسے ھی اٹھایا تو پھر وہ ھی حال ھوا اور مہری پھر میرے بازوں میں کھسکتی ھوئی نیچے آگئی اس
دفعہ تو سب کچھ الٹ پلٹ ھو گیا تھا
کیونکہ
کیونکہ اس دفعہ میر لن پہلے ہی کھڑا تھا جسکو مہری نے محسوس بھی کیا تھا اور ایک نظر دیکھا بھی تھا
اسکے باوجود اس نے مجھے پھر اٹھانے کا کہا تھا
اب جب وہ کھسکتی نیچے آئی تو میرا ایک ھاتھ سیدھا اسکی گانڈ کی پھاڑی کے اندر چال گیا تھا اور میری انگلیاں اسکی
پھدی کو ٹچ ھوگئی تھی اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ جہاں میری انگلیاں لگی تھی وھاں سے مہری کی شلوار گیلی
تھی اورآگے سے میرا لن اسکے پٹوں میں پھدی کو رگڑ لگا کر دباے ھوا تھا میری انگلیاں اسکی پھدی کے ساتھ ساتھ
میرے لن کے ٹوپے کو بھی چھورھی تھی
مجھے جب اسکی شلوار گیلی ھونے کا پتہ چال تو میں نے جان بوجھ کر اپنی انگلیاں ادھر ھی روکے رکھی
اور مہری اسی انداز میں میرے کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے میرے ساتھ چپکی ھوئی تھی
میں نے اسکی آنکھوں میں ُخ ماری دیکھ لی تھی
اور سمجھ بھی گیا تھا کہ
یہ سب ڈرامے کررھی ھے جان بوجھ کر نیچے آتی ھے لن کا مزہ لینے کے لیے
ورنہ میری گرفت اتنی بھی کمزور نہ تھی کہ یہ مجھ سے سمبھالی نہ جاتی
مہری
کی گانڈ میں میرا ھاتھ ویسے ھی تھا
میں نے ھاتھ نکاال نھی تھا
مہری کے گالبی ہونٹ بلکل میرے سامنے تھے اور وہ بلکل ساکت کھڑی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھی جارہی
تھی
ہماری سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا رھی تھی
اسکی سانسیں بتا رھی تھی کہ وہ کسی اور دنیا میں پہنچی ھوئی ھے جہاں سے سیل ُت ڑوا کر ھی لوٹا جاسکتا تھا
مجھ سے اب برداشت نھی ھو رھا تھا
شاید مہری بھی پہل کرنے سے ڈر رھی تھی
جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ھونے لگا تو میں نے اپنے ہونٹوں کو بس ایک انچ ھی آگے کیا تو مہری نے اپنے ہونٹوں
کو دو انچ آگے کر کے میرے ہونٹوں سے مال دیا
بس
پھر کیا تھا
اسکے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں کے اندر سمانے لگے
اسکی گرم سانسیں میرے اندر منتقل ھورھی تھی اور میری سانسیں اس کے اندر منتقل ھو رھی تھی
مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کانوں کے اوپر رکھے اور
اور دو گونگے آپس میں باتیں کرنا شروع ھوگئے
میں تو اسکے ہونٹوں کو چوسنے کو ترسا ھوا ھی تھا
مگر مہری کے کسنگ کرنے کے انداز سے لگ رھا تھا کہ وہ برسوں کی پیاسی اور ترسی ھوئی ھے
میں نے مہری کی گانڈ کو اپنی مٹھیوں جکڑ لیا تھا
اور لن اسکی پھدی کے اوپر رگڑنے لگ گیا تھا
مہری میرے ہونٹوں کو بری طرح کھانے کی کوشش میں تھی وہ جنگلی بلی بنی ھوئی تھی
میں نے ہاتھ آگے کر کے اسکی قمیض اوپر کو کی اور قمیض کے اندر ھی ہاتھ ڈال کر اسکے ممے کو پکڑ لیا اسکا مما
اتنا نرم تھا اور مالئم تھا کہ میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا
اتنی سوفٹنس
عظمی اور صدف کے مموں میں نہ تھی
جتنی مہری کے ممے میں تھی
مہری میرے لن کو ٹانگوں میں بھینچی جارھی تھی مجھ سے بھی اب صبر نہ ھو سکا
میں نے دوسرے ھاتھ سے اسکے گانڈ سے شلوار نیچے کرنا شروع کردی اور اسکی ننگی سوفٹ گانڈ کو دبانے لگ گیا
اور میں نے ویسے ھی ہاتھ اسکی گانڈ سے گھما کر
آگے کی طرف لے آیا اور آگے سے اسکی شلوار نیچے کی تو شلوار اسکے پاوں میں گر گئی
اور میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال
پتہ نھی مجھے کس بات کی جلدی تھی
میں ترسوں کی طرح سب کچھ جلدی جلدی کر رھا تھا
میں نے اپنا ناال کھوال تو میری شلوار بھی میرے پاوں میں گر گئی میں نے اپنے لن کو پکڑا اور جیسے ھی اسکی کلین
شیو نرم پھدی کے لبوں پر رکھا تو مہری کو ایکدم جیسے ہوش آگیا ھو
اس نے مجھے زور سے دھکا دیا
اور بولی
وٹ از ِدس
اسکا دھکا اتنا شدید تھا کہ میں پیچھے لڑکھراتا ھوا نیچے گھاس پر جا گرا
میرے گرنے کی وجہ میرے پاوں میں شلوار بھی تھی
اور مہری اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھو جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار اوپر کرنے لگی
میں بھی ڈر گیا تھا اس لیے خاموشی سے وہیں بیٹھا اپنی شلوار اوپر کر کے ناال باندھنے لگ گیا
اور اسی حال میں بیٹھا حیرانگی سے مہری کی طرف دیکھنے لگ گیا
اصل میں
مہری کے ساتھ میری سیکس کے موضوع پر پہلے کو ڈسکس نھی ھوئی تھی اور نہ ھی میں اس معاملے میں اسکے ساتھ
فرینک تھا کہ اٹھ کر اس سے دھکا دینے کی وجہ پوچھتا یا اس سے ذبردستی کرتا یا اسکا منت ترال کرتا کہ مجھے الزمی
پھدی دو
یہ تو سب اچانک اور فٹافٹ ھوا تھا کہ نہ مجھے پتہ چال نہ مہری کو
بس آگے کے سامنے گھی جیسا حال ھوا تھا
مہری بھی حیران پریشان میری طرف دیکھی جارہی تھی
کچھ دیر بعد
اس نے منہ دوسری طرف کیا اور اپنے بال اور دوپٹہ سہی کرنے لگی
اور دوسری طرف منہ کیے ھی مجھے کہنے لگی مجھے گھر جانا ھے
میں اب اسے کیا کہتا
میں کھڑا ھوا اور سر جھکائے
چل پڑا میں نے اسے یہ بھی نھی کہا کہ چلو
کہتا بھی کیسے
مجھ میں ہمت نھی تھی
شاید میری غریبی وجہ تھی یا میرا اپنے آپ کو مہری سے کمتر سمجھنا تھا
جبکہ۔ میں بے شک غریب تھا
مگر حسن کے معاملے میں بھی نواب تھا
اگر وہ حیسن تھی تو کچھ کم میں بھی نھی تھا
مگر اس کے باوجود بھی
میری ہمت جواب دے چکی تھی
اور میں گونگا بن کر چلنے لگا تو وہ مجھے جاتا دیکھ کر میرے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلنے لگی
تو اچانک مجھے اسد کی آواز آئی کہ یاسرررد کدھر ھو یار
میں نے جب اسد کی آواز سنی تو میرے جسم میں کچھ جان آئی
اور میں نے پیچھے مڑ کر مہری کو دیکھا جو شاید میری طرف پہلے سے ھی دیکھ رھی تھی
اسکی طرف دونوں ھاتھ جوڑے اور اپنے لب ہالے کہ
پلیز پہلے کی طرح اپنا موڈ کر لو ورنہ اسد کو شک ھوجاے گا
تو اسکی سمجھ مین بھی میری بات آگئی
اور اس کے چہرے کا تاثرات بدلنے لگے
اب اسکا چہرہ پچھتاوے اور غصے واال نھی تھا کچھ بہتر تھا
مگر پہلے جیسا نہ تھا
کچھ ھی دیر میں اسد ہمیں ڈھونڈتا ھوا ہمارے پاس آگیا اور کہنے لگا یار
میری تو بس ھوگئی ھے
میں نے کہا کیا ھوا تو اس نے کہا یار واش روم کے چکر لگا لگا کر برا حال ھوگیا ھے
تو میں نے کہا لسی کا ایک اور گالس پی لینا تھا
تو وہ بوال بس یار مزے لیتے لیتے ب
اپنے پیٹ کا بیڑہ غرق کرلیا
اسکی یہ بات سن کر مہری کھل کھال کر ہنس پڑی
اسد پھر بوال
پتہ نھی یار تم لوگ کیسے اتنی پاور فل خوراک کھالتے ھو
میں نے کہا
ہم کام بھی اتنا ھی سخت کرتے ہیں
اس لیے ہمارے معدے بھی مضبوط .ہیں
ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم نہر کی طرف سے گھر آگئے
سارے راستے مہری بس نارمل ھی رھی جیسے وہ پہلے چہک رھی تھی اب اسکی ساری چہک نکل چکی تھی
اب وہ ایسے بات کررھی تھی
جیسے بڑی میچور اور سمجھدار ھو
گھر آکر امی نے روٹی کا کہا مگر اسد کا پیٹ پہلے ھی لسی کی وجہ سے خراب تھا
اوپر سے امی نے دیسی گھی کا ساگ اور مکئی کی روٹی کا کہا تو اسد نے بھاگنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی اور جلدی
سے جاکر کار کا سٹیرنگ سنبھال کر بیٹھ گیا
جبکہ مہری امی اور آپی سے مل رھی تھی اور انکو اپنے گھر آنے کی دعوت دے رھی تھی اور جاتے جاتے بھی آنے کا
اصرار کرتی رھی
اور اسد مجھے گاڑی میں ھی بیٹھا مال
جبکہ مہری مجھ سے نظریں ُچ را رھی تھی
اسد نے مجھے تاکید کی کی آنٹی اور آپی کو لے کر ضرور ہمارے گھر آنا میں نے کوشش کروں گا کہا
تو تب مہری نے مجھے مخاطب کر کے کہا
اگر آپ نہ آے تو ہم نے بھی دوبارا کبھی نھی آنا
تو وہ مجھ سے آنے کا وعدہ لے کر چلے گئے
اور میں انکی دھول اڑاتی گاڑی کو پیچھے سے دیکھتا رھا
۔میں روزانہ سکول ٹائم پر ھی گھر سے نکلتا اور عظمی نسرین اور صدف کو ساتھ لے کر انکو سکول چھوڑتا اور خود
دکان پر چال جاتا
انکل سجاد اچھے انسان تھے میرے ساتھ انکا اخالق بھی اچھا
اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک تو وہ ہماری گلی کے تھے دوسرا انکی وائف آنٹی رضیہ کا میری امی سے کافی اچھا تعلق
تھا
انکل نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ تم میرے ساتھ موٹر سائیکل پر چلے جایا کرو
مگر مجھے عظمی اور صدف کا قرب حاصل تھا
میں کیسے انکی قربت سے دور ہو سکتا تھا
اس لیے میں انکو ٹال مٹول کردیتا
ایک بات سے وہ بھی خوش تھے کہ
میں پیدل بھی ان سے پہلے دکان پر پہنچ جاتا تھا
اور انکے آنے سے پہلے
دکان کے آگے سے
صفائی وغیرہ کر کے بیٹھا ھوتا تھا
انکل کی دکان
میں دو مالزم اور بھی تھے
اور انکی دکان بھی اچھی چلتی تھی
مالزم دکان کھلنے کے بعد آتے تھے
اس لیے میں انکے آنے سے پہلے ھی دکان کی اندر سے بھی صفائی کر لیتا
اور الماریوں میں لگے کپڑوں کو جھاڑن سے جھاڑ لیتا
جس کی وجہ سے میں چند ھی دنوں میں انکل کی آنکھ کا تارا بن گیا
دکان میں ذیادہ ورائٹی لیڈیز کی ھی تھی
جس میں موسم کے لحاظ سے ہر طرح کے کپڑے میں ورائٹی موجود ھوتی
زیادہ کام فینسی سوٹ اور بوتیک کے سوٹوں کا تھا جو شادی بیاہ میں استعمال ھوتے تھے
).Update no (38
دکان کے آخر میں بلکل سامنے ایک بڑا سا شیشے کا ریک تھا جس میں بوتیک کے سوٹ ٹانگے ہوتے تھے
اور ریک کے ساتھ ھی ایک چھوٹا سا دروازہ ٹرائی روم کا تھا
جس میں آنٹیاں اور پوپٹ بچیاں سوٹ پہن کر اپنی فٹنگ چیک کرتی تھی
باقی دکان میں پھٹے نما کاونٹر تھے جن پر ہم بیٹھ کر
کسٹمر کو کپڑے پسند کرواتے
اور کسٹمر کے بیٹھنے کے لیے پوشش کیے ھوے بینچ پڑے تھے جن پر آنٹیاں اور گرما گرما بچیاں اپنی پتلی موٹی گول
مٹول باہر کو نکلی یا نارمل تشریف
رکھ کر بیٹھ کر اپنی پسند کی ورائٹی دیکھانے کی فرمائش کرتیں
اور کچھ ایسی بھی ھوتیں جو بار بار ہاتھ لمبا کر کے انگلی کے اشارے سے اپنی پسند کا سوٹ بتاتی کے وہ دیکھائیں تو
بے ساخط دھیان انکے تنے ھوے مموں پر چال جاتا یاں جب اٹھ کر جاتی تو پیچھے سے انکی گانڈ میں پھنسی قمیض کو
دیکھنے کا مزہ ھی الگ ھوتا
پہلے تو میں کچھ دن دکان
پر شرماتا رھا
مگر میری یہ شرم صرف جینٹری کی آنٹیوں اور ممی ڈیڈی بچیوں کو دیکھ کر ہوتی
اور میرا حوصلہ بھی نہ ھوتا کہ ان سے پوچھ ھی سکوں کہ آپ کو کس طرح کی ورائٹی چاھیے
باقی جو دیہات کے تھکی ہوئی مائیاں ھوتی انکو میں دیہاتی انداز میں تھوڑا بہت پوچھ لیتا تھا
پہلے پہل تو مالزموں نے مجھے چاے النے بوتل النے روٹی النے پر ھی لگاے رکھا
مگر آہستہ آہستہ وہ دن بھی آگئے جب میں کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا بلکہ مالزموں سے زیادہ سیل میری ھوتی
انکل اب مجھ پر بہت اعتماد کرنے لگ گئے تھے
وہ اکثر الہور جاتے تو دکان کی چابیاں مجھے دے دیتے
اور میں بڑی ذمہ داری اور ایمانداری سے سارے دن کی سیل لکھتا اور انکو ایک ایک روپے کا حساب دیتا تھا
جس سے وہ مذید مجھ پر اعتماد کرنے لگ جاتے
دوستو
میں جب بھی آنٹی فوزیہ کے گھر جاتا تو
آنٹی مجھے روز چھیڑتی کے
میرا شزادہ جوان ھوگیا ھے اور میری ٹھوڑی کو پکڑ کر کہتی واہ اب تو داڑھی مونچھیں بھی نکل رھی ہیں
اور کبھی کہتی کہ منڈا کاروباری ھوگیا ھے
اب تو اسکی ٹوریں ھی بدل گئی ہیں
میں ہنستا رہتا اور آنٹی کو بھی چھیڑ دیتا کہ
انٹی آپ بھی تو ابھی تک جوان ھو انکل آپ کے سامنے بوڑھے لگتے ہیں
تو آنٹی جوتا اٹھاتے ھوے مجھے مارنے کی ایکٹنگ کرتی اور کہتی ٹھہر جا ابھی تجھے بتاتی ھوں
شہر جا کر خراب ھوگیا ھے
اب میں کیا بتاتا کہ خراب تو آپ کی بیٹی نے کیا ھے
آنٹی اب بھی میرے ساتھ ویسے ھی رہتی جیسے تین سال پہلے تھی
میں ایسے ھی آنٹی کے ساتھ چپکا رہتا
اور آنٹی نے بھی کبھی برا محسوس نھی کیا تھا
وہ اب بھی میرے سامنے بغیر دوپٹے کے ھی رہتی
اور میں انکی بڑی بڑی چھاتیوں کو کن اکھیوں سے دیکھتا رہتا
دوستو
جمعہ کو دکان سے چھٹی ہوتی تھی
میں چھٹی والے دن ذیادہ وقت آنٹی کے ھی ساتھ گزارتا تھا
انکل کبھی گھر ھوتے کبھی اپنی تھوڑی سے ٹھیکے پر لی ھوئی زمین پر ھوتے
ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا میں صبح صبح ھی آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی گھر میں اکیلی تھی
میں نے عظمی نسرین کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ ٹیویشن گئی ہیں
میں نے حیرانگی سے پوچھا آج تو چھٹی ھے پھر وہ کیوں گئی ہیں اور اتنی صبح صبح
تو آنٹی نے بتایا انکے پیپر سر پر ہیں اور پیپر بھی بورڈ کے ہیں اس لیے انکو میڈم نگہت کے پاس ٹیویشن رکھوا دیا ھے
میڈم نگہت کافی عمر رسیدہ خاتون تھی جو شہر گورمنٹ سکول میں پڑھاتی تھی
میں نے ہمممم کہا اور آنٹی کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا
آنٹی کے بال گیلے تھے جس سے صاف لگ رھا تھا کہ آنٹی فوزیہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ھی نہائی ہیں انہوں نے ہلکے
سکن کلر کا الن کا باریک سوٹ پہنا ھوا تھا
نیچے شمیض بھی نھی پہنی ھوئی تھی جس کی وجہ سے انکا کالے رنگ کا برا صاف نظر آرھا تھا
اور قمیض بھی کئی جگہ سے گیلی تھی جس کی وجہ سے انکا گورا جسم کپڑوں سے نمایاں نظر آرھا تھا
جس کو دیکھ کر میرے لن نے انگڑائی لینا شروع کردی
آنٹی فوزیہ نے بال ُک ھلے چھوڑے ھوے تھے اور صحن میں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی
میں انکے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا ہم دونوں کی ٹانگیں چارپائی سے لٹکی ہوئی تھی
میری اور آنٹی کی ٹانگ آپس میں جڑی ہوئی تھی
میں نے اپنا بازو آنٹی کے پیچھے سے گزار کر انکی دوسری طرف کندھے سے ذرہ نیچے بازو پر رکھتے ھوے کہا
آنٹی آج خیر ھے
صبح صبح ھی تیار شیار ھو رھی ہیں کہیں جانا تو نھی
تو آنٹی ہنستے ھوے بولی
بےشرم انسان
ضرور تو نھی کہ کہیں جانا ھو تو ھی تیار ھوا جاتا ھے
اور ویسے بھی میں نے کونسا سرخی پاوڈر لگایا ھے یا الل جوڑا پہنا ہے جو تم ایسے کہہ رھے ھو
میں نے ایک لمبی سی آہ بھرتے ھوے کہا
آنٹی جی آپکو سرخی پاوڈر لگانے کی کیا ضرورت ھے
آپ تو ایسے ھی بس نہا لو تو جوان لڑکیوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ھو
تو آنٹی نے میرے پیٹ میں کہنی مارتے ھوے کہا
شرم کرو بےشرم
میں تمہاری آنٹی ھوں اور تم اپنی آنٹی پر ھی الئن مار رھے ھو
آ لینے دو تمہارے انکل کو بتاتی ھوں انکو کہ یہ شہری بابو آپک کی بیگم کو سیٹ کرنے میں لگا ھوا ھے
تو میں نے ہنستے ھوے کہا
آنٹی جی آپ چیز ھی ایسی ھو اس میں میرا کیا قصور
یہ کہتے ھی میں اٹھ کر صحن میں دوڑ پڑا
انٹی ہنستے ھوے بولی ٹھہر تجھے بتاتی ہوں بے شرما
اور آنٹی مجھے پکڑنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی میں آگے آگے بھاگ رھا تھا اور آنٹی میرے پیچھے پیچھے
میں نے صحن کا ایک چکر لگایا
اور بیری کے درخت کے چاروں طرف گھومنے لگ گیا
آنٹی میری پیچھے پیچھے تھی
میں نے بیری کے گرد دو تین چکر لگاے
اور کمرے کی طرف بھاگ گیا آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی
میں چارپائی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا
آنٹی کو بھی سانس چڑھا ھوا تھا انہوں نے ہانپتے ھوے میرے دونوں بازوں کو پکڑا اور مجھے پیچھے چارپائی پر دھکا
دیتے ھوے میرے اوپر جھک گئیں
آنٹی کے پاوں زمین پر تھے اور میرے بازوں کو پکڑے ہوے میرے اوپر جھکی ھوئی تھی
میرے دونوں گُھٹنے آنٹی کے پٹوں کے ساتھ لگے ھوے تھے اور آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ سے اوپر مجھے
گھورے جارہے تھے
آنٹی ہانپتی ھوئی مجھے کہنے لگی
ُہن پچ ُپتر ِکتھے َپ جیں گاں کیڑی ماں کو نس کے چال سی
میں ڈرنے کے انداز میں اپنے بازوں ُچ ڑانے کی کوشش کر رھا تھا اور آنٹی سے مصنوعی معافیاں مانگتے ھوے کہہ رھا
تھا
آنٹی ُہن نئی کیندا معاف کردو ُہن نئی کیندا
آنٹی پھر بولی
توں باز نئی آنا انج
اور آنٹی میرے ُگ ُد ُگ دی کرنے لگ گئی اور ساتھ کہتی رھی
ہن میرے تے لین ماریں گا دس ہن لین ماریں گا
میں ہنس ہنس کر ُدھرا ہوتے جا رھا تھا
اور آنٹی سے معافیاں مانگی جارھا تھا کہ اب نھی کہتا پلیز چھوڑ دو
میرا ہنس ہنس کر ُبرا حال ھوگیا تھا میری آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا تھا
انٹی بھی میری حالت سے محفوظ ھورھی تھی
مجھ سے جب ُگ دُ گدی برداشت نہ ہوئی تو میں نے آنٹی کی کمر کو زور سے پکڑا اور جمپ مار کر آنٹی کو بھی ساتھ لیتا
ھوا کھڑا ھوگیا
اب آنٹی بلکل میرے ساتھ ُج ڑی کھڑی تھی انکے ممے میرے سینے کے ساتھ لگے ھوے تھے
مگر آنٹی پھر بھی میرے ُگ د ُگ دی کرے جارھی تھی
میں پھر کبھی ایک سائڈ کو ُج ھکتا کبھی دوسری سائڈ کو ُجھکتا
مجھ جب بلکل ھی برداشت نہ ھوا تو میں ایکدم سے گھوما اور آنٹی کے پیچھے آگیا میرے دونوں بازو پہلے ھی آنٹی کی
کمر کے گرد تھے
اس لیے میں تھوڑا جھک کر انکے ایک بازو کے نیچے سے اپنا سر نکال کر انکے پیچھے آگیا
اب آنٹی کی نرم گانڈ میرے لن کے نشانے پر تھی اور میرے دونوں ھاتھ آنٹی کے پیٹ پر تھے
آنٹی نے اب اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر میری بغلوں کے تھوڑا نیچے ُگ د ُگ د ی کرنے کی کوشش کی مگر میں تھوڑا سا پیچھے
ھوگیا جس سے میرے لن اور آنٹی کی گانڈ کا فاصلہ بڑھ گیا
میں نے جلدی سے آنٹی کے پیٹ پر ھی انگلیوں سے ُگ د ُگ دی کرنا شروع کردی آنٹی کو ایک دم جھٹکا لگا اور آنٹی نے اپنے
دونوں ہاتھ آگے کیے اور آگے کو ُج ھکی جس سے انکی نرم گانڈ میرے لن کے ساتھ ُج ڑ گئی
آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے میرے ھاتھ پکڑے ھوے تھے اور زور لگا کر میرے ھاتھ پیٹ سے الگ کرنے کی کوشش
کررھی تھی
ادھر میرے لن کو پتہ .نھی کیا سوجھی
لن ساب نے اپنی ہی ٹرائیاں مارنی شروع کردی
اور ایکدم کھڑا ھوکر آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں ٹھونگے مارنے لگ گیا آنٹی بلکل آگے کو جھکی میرے ھاتھ اپنے پیٹ سے
ہٹانے کی کوشش کررھی تھی
اور ہنسی جارھی تھی
اور ساتھ ساتھ کہی جارھی رھی تھی
نہ کرو ھھھھھھ نہ کرو چھڈ مینوں بتمیز ھھھھھھھھ
میں بوال
اب پتہ لگا نہ
تو انٹی بولی اچھا ہن نئی کردی چھڈ دے
آنٹی کو میرے لن کی سختی محسوس ھوگئی تھی مگر آنٹی ایسے کر رھی تھی جیسے اسکو پتہ ھی نھی
اور میں بھی ایسے ھی ریکٹ کر رھا تھا جیسے مزاق مزاق میں ھی سب کچھ ھورھا ھو
آنٹی نے اچانک میرے ھاتھوں کو جھٹک کر اپنے پیٹ سے الگ کیا اور جھکے ھوے ھی آگے کو بھاگنے لگی تو میں نے
بے دھیانی سے پھر آنٹی کو پکڑنا چاھا تو میرے دونوں ھاتھوں میں آنٹی کے بڑے بڑے نرم ممے آگئے
اور بےدھیانی میں ھی مموں کو پکڑتے ھی دبا دیا
تو آنٹی کے منہ سے سییییییییی نکال اور ساتھ ھی آنٹی بولی
بتمیزززز
میں نے جلدی سے انٹی کے مموں کو دبا کر چھوڑ دیا اور
آنٹی سے الگ ھوگیا
آنٹی ایکدم سیدھی ھوئی اور چارپائی پر بیٹھ گئی اور دونوں ھاتھوں پر ماتھا رکھ کر .لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
میں ویسے ھی آنٹی کے سامنے ُبت بنے کھڑا آنٹی کو دیکھے جارھا تھا
مجھے یہ بھی احساس نھی تھا کہ نیچے لن ساب شلوار میں تمبو بناے بھی آنٹی کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رھے ہیں
کچھ دیر بعد آنٹی نے منہ اوپر کیا اور میری طرف دیکھتے ھوے کہا
یاسر تم بہت بتمیز ھوگئے ھو میرا کیا حال کردیا ھے
میں نے کہا سوری آنٹی
آنٹی نے جیسے ھی اپنی نظر نیچے کی تو لن ساب نے بھی آنٹی کو آنکھ مار دی
تمبو کو دیکھ کر آنٹی کی انکھیں کھلی کی کھلی رھ گئی آنٹی سکتے کی عالم میں تمبو کے اندر لن کا اندازہ لگانے کی
کوشش میں ِٹکٹکی باندھے لن کو دیکھی جا رھی تھی
کچھ دیر ایسے ھی آنٹی گم سم لن کو دیکھے جارھی تھی
کہ اچانک آنٹی نے ایک ھاتھ منہ پر رکھا اور دوسرا ہاتھ آگے کر کے لن کو پکڑا اور پھر ایکدم چھوڑ کر ہاتھ پیچھے کو
جھٹکا
جیسے کرنٹ پڑا ھو
اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی
اے کی اےےےے یاسسرررررر دے بچے
اینوں کی کیتا اییی
تو میں چپ ھی کھڑا رھا
آنٹی کچھ دیر ایسے ھی کبھی میرے لن کو دیکھتی تو کبھی میرے منہ کی طرف دیکھتی
میں نے حوصلہ کر کے پوچھ ھی لیا کیا ھوا آنٹی جی
تو آنٹی بولی میں تو تمہیں ابھی تک بچہ ھی سمجھتی تھی مگر تم تو
آنٹی خاموش ھوگی
میں آنٹی کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا تو آنٹی کھسک کر مجھ سے دور ھوگئی اور بولی
یاسررررر
تم نے اسے کچھ کیا ھے
میں نے کہا نھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی
ہو ھی نھی سکتا
ہرگز نھی
تو میں نے کہا آنٹی جی بتاو تو سہی ھوا کیا ھے
تو آنٹی بولی
اتنا بڑا تو تمہارے انکل کا بھی نھی ھے
مگر تم نے یہ کیسے
کر لیا
میری تو سمجھ سے باہر ھے
میں نے ناسمجھی کے انداز میں کہا
کسکو کیا کر لیا آنٹی جی میں آپ کی بات سمجھا نھی
تو آنٹی ابھی تک ششوپن کا شکار تھی ان سے بات بھی سہی طرح نھی ھو رھی تھی
آنٹی بولی
کچھ نھی تم جاو
میں نے کہا آنٹی بتائیں ھوا کیا ھے
تو انٹی بولی کچھ نھی بس تم جاو
تمہارے انکل آنے والے ہیں
میں آنٹی کی بات سن کر حیران و پریشان ھوگیا
کہ آنٹی کو اچانک ھوا کیا ھے
پہلے انکل کونسا نھی آتے یا میں انکل کے سامنے نھی آتا میں تو انکل کے سامنے ھی آنٹی سے چمٹا رھتا تھا
میں نے حیران ھوتے ھوے کہا آنٹی جی کیا مطلب انکل کے آنے سے مجھے کیا ھے
تو آنٹی بولی میں نے کہا نہ کہ جاو
بحث کیوں کررھے ھو
میں روہانسی آواز میں بوال آنٹی جی میں جاوں
کیوں کہ آنٹی نے پہلی بار مجھ سے اتنی بےرخی کا مظاہرہ کیا تھا
میں سچی میں رونے واال ھوگیا تھا
میں اٹھ کر کھڑا ھوا اور آنٹی کے سامنے انکی طرف منہ کر کے کھڑا ھوا
تو میں نے دیکھا آنٹی کا چہرہ پسینے سے شرابور ھے
اور انٹی اپنی قمیض کے پلو سے منہ صاف کر رھی تھی
میں نے انٹی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور آنٹی سے پوچھا
آنٹی جی کیا ھوا،
میری آواز پہلے ھی گلوگیر تھی
تو آنٹی نے اپنی پلکوں کو اوپر کر کے میرے چہرے کو دیکھتے ھوے کہا کچھ نھی
تو میں نے آنٹی کے ماتھے کو صاف کرتے ھوے کہا
کہ آنٹی جی بتاو نہ کیا ھوا آپکی طبعیت تو سہی ھے .میں دوائی ال دوں
تو آنٹی بولی یاسر مجھے کچھ نھی ھوا
تم خدا کے لیے چلے جاو
مجھے کچھ دیر اکیال رہنا ھے
آنٹی نے جب یہ الفاظ کہے
جو سیدھے میرے دل دماغ پر کسی ُچ ھری کی طرح لگے
کیوں کہ میں دل سے صاف تھا آنٹی کے جسم کو میں دیکھتا ضرور تھا مگر کبھی ان کے بارے میں سیکس کا زہن میں نھی
الیا تھا
یہ جو کچھ بھی ھوا تھا بس اچانک ھی ھوا تھا
اور اس میں ساری غلطی
پین چود لن کی ھی تھی
نہ گانڈو آنٹی کو چھیڑتا نہ انٹی ایسے سختی سے پیش آتی میں قدموں کو گھسیٹتا ھوا دروازے کی طرف چال جارھا تھا
میں نے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر پھر مڑ کر دیکھا کہ شاید اب آنٹی مجھے آواز دے مگر آنٹی سر نیچے کئے
ھوے ہلتے پیروں کو دیکھ رھی تھی اور کسی گہری سوچ میں ُگ م تھی
میری انکھوں سے آنسو نکل آے اور میں آنسووں کو صاف کرتے ھوے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آیا اور بیرونی
دروازے کی طرف تیز تیز قدموں سے چلتا ھوا باہر گلی میں اگیا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا
گھر آکر میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور چھت واال پنکھا ُف ل سپیڈ میں چال کر چارپائی پر لیٹ کر انٹی کے بارے میں
سوچنے لگ گیا سوچتے سوچتے میں کب سویا مجھے نھی پتہ چال
جب میری آنکھ ُک ھلی تو شام ھوچکی تھی اور میں حیران تھا کہ سارا دن میں سویا ھی رھا
میں اٹھ کر بیٹھا ھی تھا کہ آپی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی
ُک ھل گئی آنکھ نواب زادے کی
خیر تھی سارا دن سو کر ھی گزارا نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی
تو میں نے کہا جا دفعہ ھو
کی میرا سر کھان لگ گئی ایں
آپی میری جھاڑ سن کر ُبڑ ُبر کرتی باہر چلی گئی
میں اٹھا اور باہر صحن میں آکر بیٹھ گیا ۔۔
مجھے ابھی بیٹھے کچھ دیر ھی ھوئی تھی کے آنٹی فوزیہ گھر میں داخل ہوئیں
میں دروازے کے بلکل سامنے چارپائی پر بیٹھا ھوا تھا میرا منہ دروازے کی ھی طرف تھا
میں نے جیسے ہی آنٹی کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو میری اور آنٹی کی نظریں ملیں تو آنٹی مسکرا دی اور میں غصہ سے
اٹھ کر دوبارا اپنے کمرے میں چال گیا
میں اندر جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد
آنٹی فوزیہ اندر داخل ہوئیں اور آتے ھی میرا کان پکڑ کر زور سے مروڑ دیا
اور بولیں
بڑی آکڑ اے نواب زادے وچ
میں کچھ بوال تو نہ مگر میری آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو نکل کر گرنے لگے اور میں بے آواز رونے لگ گیا
آنٹی نے جب میرے آنسو دیکھے تو
وہ گبھرا کر میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئیں اور میرا چہرہ اپنی طرف کیا اور میری گال پر اور ماتھے پر بوسا لیتے ھوے بولی
ھے چال نہ ھوے تے ایویں بچیاں ونگوں رون لگیا اے
تو میں نے آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا تو انٹی نے میرا سر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور میری کمر تھپ تھپا کر
مجھے ُچ پ کروانے لگ گئی
میری رونے کی آواز سن کر امی بھی دوڑی کمرے میں آگئی ۔
اور پوچھنے لگ گئی کی ہویا اے سب خیر تے ہے نہ
تو آنٹی امی سے بولی
منڈا کیندا میرا ویا کردو میں وڈا ھوگیاں آں
انٹی کی بات سن کر میں روتا ھوا ہنسنے لگ گیا
تو امی بولی لے کردو ویا
ُبنڈ تون دا ول نئی آیا تے کردو ایسا ویا
تو میں امی کی بات سن کر چڑ گیا اور غصے سے اٹھنے لگا
تو آنٹی نے مجھے پکڑ کر بٹھا لیا
انٹی امی کو بولنے لگ گئی کہ
آپاں ُک ج تے خیال کریا کر ہن اے بچہ نئی ریا وڈا ھوگیا اے
تو امی بولی
اے جنا مرضی وڈا ھوجاے
میرے واسطے تے بچہ ای رے گا
کچھ دیر ادھر ُادھر کی باتیں کرنے کے بعد آنٹی بولی
یاسر پتر کل توں کم تے نئی جانا
میں نے امی اور آنٹی کی طرف دیکھتے ھوے حیران ھوکر پوچھا
کیوں نھی جانا
تو آنٹی بولی
آج میں نے کپڑے دھونے نہر پر جانا تھا مگر عظمی اور نسرین ٹویشن سے ھی لیٹ واپس آئی کل انہوں نے سکول چلے
جانا ھے
پھر اگلے جمعہ پر بات چلی جاے گی تو
تم کل میرے ساتھ نہر پر چلے جانا
پھر عظمی اور نسرین بھی وہیں ھی آجائیں گی
میں نے کہا میں کیسے چھٹی کر سکتا ھوں سیزن ھے دکان پر رش ھوتا ھے
تو امی میری بات کاٹتے ھوے بولی
بیجا ایڈا توں وڈا کاماں ریندہ نئی
اک دن کم تے نئی جائیں گا تے کیڑا قیامت آن لگی اے ۔
تو میں امی کی بات سن کر ُچپ ھوگیا
امی یہ کہہ کر باہر چلی گئی تو
آنٹی اٹھی اور پھر بولی
اب میں بے فکر ھوجاوں نہ
تو میں نے پھر بہانہ بناتے ھوے کہا کہ وہ عظمی اور نسرین سکول کس کے ساتھ جائیں گی تو انٹی بولی
تم انکی فکر مت کرو
وہ چلی جائیں گی
بلکہ تم سکول ٹائم پر ھی آجانا وہ بھی نہر تک ہمارے ساتھ ھی چلی جائیں گی
اور پھر آگے تو شہر آجاتا ھے ادھر کوئی مسئلہ نھی
تو میں چپ کرگیا
تو آنٹی پھر میرا سر ہالتے ھوے بولی
دس فیر آئیں گا کہ نئی
تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا
اور آنٹی میرے سر پر ہلکی سی ہاتھ سے چپت لگاتے ھوے بولی
آجائیں چھیتی مینوں تیرے نال اک ہور وی کم اے
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا انٹی گانڈ ہالتی ھوئی کمرے سے نکل کر چلی گئی
اور میں بیٹھا سوچتا ھی رھا کہ
کیڑا ایسا کم اے جیڑا نہر تے جا کہ ہونا اے ،،،۔۔۔
اگلے دن میں سکول ٹائم پر ھی گھر سے نکال اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ گیا
تو آنٹی کپڑوں کو گٹھری میں باندھ رھی تھی آنٹی نے کل واال ہی سوٹ پہنا ھوا تھا اور عظمی اور نسرین تیار ہوکر ناشتہ
کرنے میں مصروف تھیں
آنٹی نے مجھے ناشتہ کرنے کا کہا ۔۔
تو نسرین جھٹ سے بولی کر کے ھی آیا ہوگا ۔۔
میں نے کہا کھاؤ کھاو میں تمہارے حصہ کا تو نھی کھانے لگا کھا کھا کر بھینس بنتی جارہی ھو
تو وہ بولی تمہیں کوئی تکلیف ھے گھر سے ھی کھاتی ہوں تمہارے گھر تو کھانے کو نھی جاتی
تو میں نے کہا آجایا کرو جہاں اتنے فقیروں کو روٹی دیتے ہیں وہاں تم بھی لے جایا کرو
تو نسرین جھنجھال کر بولی پونکو پونکو تمہیں سواے پونکنے کے آتا بھی کیا ھے
تو میں نے کہا تمہارا جوٹھا جو کھا لیا ھے
تو نسرین رونے کے سے انداز میں بولی امییییی
تو آنٹی بولی نہ پنگے لیا کر فیر رون لگ جانی اے
آنٹی نے پھر مجھے کہا کہ ناشتہ بناوں تمہارے لیے
میں نے آنٹی کو کہا کہ میں ناشتہ کرکے آیا ہوں ۔۔
کچھ دیر بعد ہم سب نہر کی طرف نکل پڑے ایک گٹھری میں نے اٹھائی ہوئی تھی
جبکہ ایک ایک عظمی اور نسرین نے
ہم ایسے ھی فصلوں کے بیچ چلتے نہر پر چلے گئے
اور عظمی اور نسرین سکول کی طرف چلدیں
اور جاتے جاتے یہ کہہ گئیں کہ جب تک ہم نہ آئیں گھر نھی جانا
آنٹی نے ایک گٹھڑی کھول کر کپڑے باہر نکالنے شروع کردیے اور نہر کے پانی کے پاس کنارے پر پاوں کے بل بیٹھ گئی
میں بھی ایک سائڈ پر بیٹھ کر آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھتا رھا
آنٹی کپڑے بھی دھو رھی تھی اور ساتھ ساتھ مجھ سے باتیں بھی کر رھی تھی مگر میں انٹی کی باتوں کا ہوں ھاں میں ھی
جواب دے رھا تھا
یہ بات انٹی نے بھی محسوس کی آنٹی نے کافی کوشش کی کہ میں انکے ساتھ ویسے ھی ہنسی مزاق کروں
مگر میں سیریس ھو کر بیٹھا رھا اور گھاس کے تینکھوں کو توڑ توڑ کر کھیتوں کی طرف پھینکتا رھا
تبھی آنٹی نے
مجھے کہا یاسر ادھر میرے پاس آکر بیٹھ جاو کیسے دور بیٹھے ھو جیسے اٹھ کر بھاگنا ھو
میں آنٹی کے بلکل سامنے بیٹھ گیا مگر میری نظریں نیچی ھی تھی
آنٹی نے مجھے آواز دی کے یاسر
میں نے سر نیچے کیے ھی کہا جی آنٹی جی
تو
آنٹی بولی میری طرف دیکھو
تو میں نے سر اٹھا کر انکے چہرے کی طرف دیکھا
تو آنٹی مسکراتے ھوے بولی
ناراض ھو ابھی تک
تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا کہ نھی
تو آنٹی بولی پھر ایسے منہ لٹکائے کیوں بیٹھے ھو
تو میں نے کہا ویسے ھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی ویسے ھی نھی
کچھ تو بات ھے مجھے پتہ ھے تم کل میرے ڈانٹنے کی وجہ سے ناراض ھو
تو میں نے کہا نھی آنٹی جی ایسی ویسی کوئی بات نھی
اگر میں ناراض ھوتا تو میں نے آنا ھی نھی تھا
تو آنٹی بولی
تو پھر تم اداس اداس کیوں ھو پہلے جیسی شرارتیں کہاں گئی
تو میں نے ہمت کر کے کہا
میری شرارتوں کی وجہ سے کل آپ پریشان ھوگئی تھی اس لیے
تو آنٹی بولی
تم کو پتہ ھے کہ میں تم سے کیوں اتنا پیار کرتی ھوں
تو میں نے کہا جی
تو آنٹی نے خود ھی وضاحت کرتے ھوے کہا
کہ
کیوں کہ میرا کوئی بیٹا نھی ھے اور میں تم کو اپنا بیٹا ھی سمجھ کر پیار اور الڈ کرتی آرھی ھوں
گلی میں اور بھی کتنے لڑکے ہیں کبھی کسی کو ہمارے گھر دیکھا ھے
یا تمہاری بہنوں نے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ مزاق وغیرہ کیا ھے
تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا نھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی
کل تم نے جو کیا تمہیں پتہ بھی ھے کہ اسکا صدمہ مجھے کتنا ھوا
مگر پھر بھی میں تمہارے پیار میں کھینچی چلی تمہارے گھر تمہیں منانے آگئی تھی
میں نے کہا
آنٹی جی میں نے ایسا کیا کیا تھا
تو آنٹی بولی تمہیں نھی پتہ کہ کیا کیا تھا
تو میں نے نفی میں سر ہال دیا
تو آنٹی بولی دیکھو یاسر میں مانتی ہوں کہ تم اب بچے نھی رھے بلکہ بڑے ھوگئے ھو
مگر تم کو ہمارے رشتے اور عمر کا خیال رکھنا چاہیے تھا
تم نے کل جو میرے ساتھ کیا مجھے ذرا سی بھی تم سے یہ امید نھی تھی
میں نےکہا
آنٹی جی آپ بھی مجھے ُگ د ُگ دی کر رھی تھی
وہ تو میں نے اپنا آپ بچانے کے لیے آپکو بھی ُگ د گدی کردی
اور میں نے سوری بھی کرلی تھی
مگر آپ اتنا ناراض ھوگئیں کہ مجھے گھر سے ھی نکال دیا
آپکو پتہ ھے کہ میں گھر آکر کتنا رویا تھا
تو آنٹی بولی
ھے نہ کمال جیا میں کیڑی گل کرن دئی آں تے اے منڈا گل کدر لے کے جاندا پیا اے
تو میں نے پھر معصوم سا منہ بنا کر کہا
کہ
آنٹی تو پھر آپ بتا دیں کہ کس بات کی وجہ سے آپ ناراض ہوئیں تھی ۔
تو آنٹی بولی
تینوں سچی اے نئی پتہ
تو میں نے پھر نفی میں سر ہال دیا
تو آنٹی بولی کل جو تم میرے پیچھے کھڑے میرے ساتھ کیا کررھے تھے
میں نے کہا ُگ د گدی
تو آنٹی جھنجھال کر بولی گد گدی کی بات نھی کررھی
میرے پیچھے کیا کررھے تھے
میں نے پھر کہا آنٹی جی گد گدی ھی کررھا تھا
تو آنٹی اپنے ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے بولی
کوئی حال نئی تیرا
تینوں سچی اے نئی پتہ
میں نے کہا آنٹی جی آپکی قسم مجھے نھی پتہ کہ آپ کیا کہنا چاھ رھی ھو
تو آنٹی بولی
چلو مان لیا کہ تمہیں نھی پتہ کچھ بھی
تو پھر تمہارا لن اتنا بڑا کیسے ھوگیا تھا
میں آنٹی کے منہ سے لن کا لفظ سن کر ہکا بکا ہو کر آنٹی کا منہ دیکھنے لگ گیا
تو آنٹی نے پھر کہا بتاو اب الو کی طرح آنکھیں کھولے مجھے کیا دیکھ رھے ہو
مجھے ایکدم ہوش آیا تو میں نے شرم سے سر ُجھکا لیا
آنٹی نے پھر کہا
اب ُچپ کیوں ھو بولو
میں پھر ُچ پ ھی رھا اب میں کیا بتاتا آنٹی کو مجھے تو ویسے ھی اس بات کی شرم آرھی تھی کے آنٹی نے میرے لن کا ذکر
کیسے بےباکی سے کیا ھے
ذرا سی بھی شرم نھی کی
آنٹی بولی جھوٹے ھو نہ اس لیے اب تم سے بوال نھی جارھا
تو میں نے جھٹ سے سر اوپر اٹھایا اور آنٹی کو کہا کہ میں جھوٹا نھی ھوں
تو آنٹی پھر بولی بتاو پھر تمہارا لن کیسے کھڑا ھوا
تو میں نے کہا آنٹی جی آپ کیسی باتیں کررھی ھو
تو آنٹی بولی تم ایسے کام کرسکتے ھو تو میں ایسی باتیں نھی کر سکتی
جتنی تمہاری عمر ھے اس سے زیادہ میرا تجربہ ھے اور تم ھو کہ مجھے پاگل بنانے کی کوشش کررھے ھو
میں نے تھوڑا غصے سے کہا کہ میں نے آپ کو پاگل کیوں بنانا ھے
آنٹی بولی تو اور کیا کررھے ھو
پاگل ھی بنا رھے ھو
میں نے کہا آنٹی جی اب آپکو مجھ پر یقین ھی نھی تو میں کیا کرسکتا ھوں
آنٹی بولی یقین کیسے کروں میں خود گواہ ہوں
میں نے کہا کس بات کی
آنٹی بنا جھجھک بولی
میرے پیچھے لن کھڑا کر کے لگانے کی
مجھے ذرا بھی امید نھی تھی کہ آنٹی اتنی واحیات باتیں بھی کرسکتی ھے اور وہ بھی میرے ساتھ
میں سر نیچے کر کے دانت پیسنے لگ گیا مجھے شرم بھی آرھی تھی اور آنٹی پر غصہ بھی
آرھا تھا
تب آنٹی بولی بولو اب کیا کہتے ھو
میں پہلے ھی جال ُبھنا بیٹھا ھوا تھا غصہ سے سر اوپر کیا
اور بوال
آنٹی آپ کی گانڈ ھی اتنی نرم تھی اور آپکا جسم اتنا نرم تھا کہ مجھے خود پتہ نھی چال اور میرا لن کھڑا ھوگیا اس میں میرا
کوئی قصور نھی آپ کے سیکسی جسم کا قصور ھے جس نے مجھے بہکا دیا
میں نے ایک ھی سانس میں سارا فلسفہ کہہ ڈاال
آنٹی نے جب میرے منہ سے اپنی گانڈ اور نرم سیکسی جسم جیسے الفِاظ سنے تو آنٹی کا چہرہ ایکدم سرخ ھوگیا
اور انکی آنکھوں میں سیکس کی بھوک کی چمک نظر آئی
آنٹی نے یہ سنتے منہ نیچے کر لیا اور بولی
بے شرم انسان شرم کرو میں تمہاری آنٹی ہوں اور تم میرے ساتھ ایسی واحیات باتیں کررھے ھو
تو میں نے انٹی پر ایک اور وار کردیا
میں نے کہا
سچ ھی تو کہا ھے آنٹی جی آپ ھو ھی اتنی خوبصورت اب میں کیا کروں
میرا یہ وار کامیاب رھا آنٹی ایسے شرمائی جیسے میری منگیتر ھو
اور کپڑے دھونے واال ڈنڈا مجھے ڈرانے کے لیے میری طرف کیا جیسے مجھے مارنے لگی ھو
اور بولی
ٹھہر جا میں کڈنی آ تیری ساری خوبصورتی
بغیرت نہ ھوے تے
آنٹی نے جیسے ھی میری طرف ڈنڈا کیا میں شوخی سی پیچھے کی طرف ھوا اور اٹھ کر بھاگنے لگا تو میرا پاوں وھاں
سے پھسال اور میں دھڑام سے نہر میں جاگرا ،،،۔۔۔
.میں جیسے ھی نہر میں گرا تو مجھے ایکدم غوطہ آیا میرے ناک اور منہ میں پانی چال گیا
)Update no (39
یہ تو شکر تھا کہ نہر اتنی گہری نھی تھی پانی میرے کندھوں تک ھی تھا مگر اچانک گرنے کی وجہ سے غوطہ آگیا تھا
آنٹی نے جب مجھے گرتے دیکھا تو انہوں نے بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر میرے اوپر ھی چھالنگ لگا دی مجھے بچانے
کے لیے
اور میں غوطہ آنا کی وجہ سے پانی میں ھاتھ مار رھا تھا جبکہ آنٹی نے میری کمر کے گرد بازو ڈال کر مجھے اپنے سینے
کے ساتھ لگایا ھوا تھا
دوستو گاوں کا ماحول پہلے ایسا ھوتا تھا کہ اگر نہر پر عورتیں کپڑے دھو رھی ھوتی تو
کوئی مرد بھی اس جگہ کے ارد گرد نظر نہ آتا اگر کوئی اچانک ادھر آ بھی جاتا تو دور سے ھی اپنا راستہ بدل لیا کرتا تھا
یہ ڈر یا خوف کی وجہ نھی
بلکہ ثقافت ھوتی تھی
اس لیے ہم جس جگہ پر تھے کسی کے آنے کا کوئی خطرہ نھی تھا ،،،،۔۔۔
میرے اور آنٹی کے کپڑے مکمل بھیگ چکے تھے آنٹی کا رنگ بھی اڑا ھوا تھا
آنٹی نے کس کر مجھے اپنے ساتھ لگایا ھوا تھا انکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ چپکی ھوئی تھیں اور نیچے سے بھی
ہم دونوں کی تھائیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگ رھی تھی
نہر چھوٹی سی تھی اس لیے پانی کا بہاو بھی کچھ ذیادہ نھی تھا اس لیے ہم دونوں کے پاوں پانی کے اندر ریت میں ایک جگہ
ٹھہرے ھوے تھے میں نے آنٹی کے کندھوں پر ھاتھ رکھے ھوے تھے
جبکہ پہلے اپنا آپ سنبھالتے میرے ھاتھ آنٹی کی پھدی اور پیٹ پر لگ گئے تھے مگر وہ غیر ارادی طور لگے تھے
میں بلکل ریلکس ھوچکا تھا
جبکہ آنٹی ابھی بھی مجھ سے پوچھ رھی تھی کہ چوٹ تو نھی لگی پاگل تو نھی ھوگئے تھے اگر ذیادہ غوطہ آجاتا تو کیا
ھوتا
ڈوبنے کا تو چانس ھی نھی تھا کیوں کہ پانی ھی بہت کم سطح پر تھا
آنٹی نہر کے اندر ھی میرا منہ سر چوم رھی تھی
کہ بچ گیا ھوں میں جبکہ ایسی کوئی خطرے والی کنڈیشن بھی نھی تھی
میں نے کہا
آنٹی آپ مجھے ڈنڈا مارنے لگی تھی اس لیے میں ڈر گیا تھا اور میرا پیر پھسل گیا تھا
تو آنٹی بولی میں تجھے مار سکتی ھو بھال
چال ھویاں اے
میں نے کہا مارنے تو لگی تھی آپ
آنٹی بولی
میں تو ڈرا رھی تھی
تم جو گندی باتیں کررھے تھے
ہم دونوں نے وہیں کھڑے پھر گلے شکوے شروع کردیے تھے اور یہ بھول گئے تھے کہ باہر بھی نکلنا ھے
آنٹی بولی تمہیں شرم نھی آتی
میں نے کہا کس بات کی تو نے میری کمر کے گرد گرفت تھوڑی ڈھیلی کی جس سے ہمارا جسم جو پہلے ایک دوسرے کے
ساتھ چپکا ھوا تھا اب ذرا ڈھیال ھوگیا مگر انکا نیچے واال حصہ اب بھی میری ٹانگوں کے ساتھ ھی لگ رھا تھا اصل میں
میرا روخ اسطرف تھا جدھر کو پانی کا بہاو تھا اور آنٹی کا رخ پانی کے بہاو کے مخالف تھا اس لیے مجھے پانی پیچھے
سے دھکلینے کی کوشش کرتے ھوے میرا لن واال حصہ آنٹی کی پھدی والے حصہ کے ساتھ ٹچ کرتا
یوں کہہ لیں جیسے سلو موشن میں گھسے مارتے ہیں بلکل کچھ ایسا ھی سین پانی کے اندر تھا،،،،۔
خیر آنٹی بولی میرے ساتھ ایسی باتیں کرتے ھو شرم نھی آتی
میں نے کہا
آنٹی آپ سچ سن کر بھی غصہ کرتی ھو اور جھوٹ سن کر بھی
میری اچانک آنٹی کے گلے پر نظر پڑی تو ایسے لگ رھا تھا کہ آنٹی بلکل ننگی ھے بس کالے رنگ کا بریزیر ھی پہنا ھے
اس میں سے آنٹی کا گورا جسم چمک رھا تھا
آنٹی نے سکن کلر پہنا ھوا تھا جو انکے رنگ کے ساتھ میچ ھورھا تھا
اوپر سے جب انکے کپڑے گیلے ھوے تو
سکن کلر ویسے ھی غائب ھوگیا
الن کا سوٹ تھا انکے جسم کے ساتھ ایسے چپکا جیسے جسم کا حصہ ھی ھو
آنٹی کے آدھے ممے پانی کے اندر تھے آدھے پانی کے باہر
انکے مموں کے درمیان والی الئین جو بریزیر سے باہر تھی وہ صاف نظر آرھی تھی
اور اوپر سے قیامت کے انکے مموں کی نوک میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھورھی تھی
اور نیچے سے لن اور پھدی مالپ کرنے کو ترس رھے تھے
آنٹی کے ادھ ننگے اور سیکسی ممے دیکھ کر میرا لن پانی کے اندر ھی کھڑا ھوگیا اور آنٹی کی پھدی کے اوپر چونچیں
مارنے لگ گیا
اب پھدی کھڑی تو ہو نھی سکتی تھی اس لیے مجھے پھدی کی کنڈیشن کا اندازہ نھی تھا کہ وہ بیچاری کس حال میں ھے، ،۔۔
آنٹی بولی سچ سچ ھی ھوتا ھے اور جھوٹ جھوٹ ھی
میں نے کہا تو آنٹی پھر سچ سن کر غصہ کیوں کرتی ھو
آنٹی بولی کون سا سچ
میں نے کہا
جس کی وجہ سے یہ سب ھوا تھا
نیچے سے میرا لن فل اکڑ کر آنٹی کے چڈوں میں گھس جاتا اور باھر آجاتا یہ سب پانی کی مہربانی تھی جو نیچے سے
ہماری مدد کررھا تھا
آنٹی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ نیچے کیا ھورھا ھے
آنٹی کی بھی اب آواز اور لہجہ بدلتا جارھا تھا
وہ جان بوجھ کر باتوں کو طویل کررھی تھی جبکہ یہ باتیں باھر نکل کر بھی ھوسکتی تھی
مگر تب جب آنٹی چاھتی ۔۔۔،،،
آنٹی بولی کونسا کام
میں نے کہا
وہ ھی جس کی وجہ سے آپ ناراض ھوئی تھی
آنٹی کی انکھوں میں الل ڈورے آنے شروع ھوچکے تھے
آنٹی کی آواز انکا ساتھ دینا چھوڑ رھی تھی
نیچے لن اپنا کام کر چکا تھا آنٹی نیچے سے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر پھدی کے اوپر رگڑ لگا کر چھوڑتی لن باہر آتا تو
پانی پھر میرے گانڈ کو دھکا مارتا اور لن پھر آنٹی کے چڈوں میں پھدی کے اوپر پھدی کے ہونٹوں کو رگڑتا ھوا اندر جاتا
اور آنٹی پورے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر چھوڑ دیتی اور لن پھر پھدی کو رگڑتا ھوا باہر آجاتا
آنٹی بولی بتاوووو نہ کونسا کام
میں نے کہا وہ ھی
تو آنٹی فل نشیلی آواز میں بولی
کونسسسا
میں سمجھ چکا تھا کہ لوھا اب ُفل گرم ھو چکا ھے
میں نے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور آنٹی کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا کر اپنے اور آنٹی کے چڈوں کے پاس لیجا کر اپنے لن کے اوپر
رکھتے ھوے کہا
یہ والی بات
تو آنٹی نے ویسے ھی مدہوشی میں لن کو مٹھی میں پکڑ لیا میرے کپڑے بھی گیلے تھے اور لن کے ساتھ چپکے ھوے
تھے اس لیے پورا لن ھی
آنٹی کے ہاتھ میں آگیا آنٹی نے لن کی تین چار دفعہ اوپر نیچے سے ُمٹھیاں بھریں
اور لن کے سائز کو چیک کیا اسکی موٹائی کو چیک کیا
اور بولی
یاسسسرررر تم پھر باز نھی آرھے نہ
اور لن کو اپنے چڈوں میں لے کے پھر ھاتھ میری کمر کے گرد ڈال لیے اور ہلکا ہلکا آگے کو ُپش کرنے لگ گئیں
تو میں نے کہا .آنٹی میرا کوئی قصور نھی ھے
تو آنٹی میرے لن کو اپنے چڈوں مین لیے گھسے مارے ھوے بولی
کس کا قصور ھے
میں نے ہاتھ نیچے لیجا کر دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی بنڈ کی پھاڑیوں کو پکڑ لیا اور مٹھی میں بھینچنا شروع کردیا
اور بوال
آنٹی جی آپکی اس نرم اور موٹی سی گانڈ کا قصور ھے انٹی کے دونوں ھاتھوں نے میری کمر پر کی جلد کو اپنی مٹھیوں
میں بھینچنا شروع کردیا تھا ۔
آنٹی فل گرم ھوچکی تھی انکی آنکھیں بند ھو رھی تھی
آنٹی بولی
میری گانڈ اتنی بھی موٹی نھی ھے جو تم اسے موٹی کہہ رھے ھو
میں نے آنٹی کے نیچے پر انگلیاں لگا کر چیک کیا تو آنٹی نے السٹک پہنی ھوئی تھی
میں نے اندازے سے قمیض کے نیچے ہاتھ کیے انکی قمیض پہلے ھی پانی کے بہاو سے گانڈ سے اوپر ھوک پانی میں بہہ
رھی تھی
اس لیے آسانی سے میں نے انکی شلوار میں ہاتھ ڈاال اور انکی شلوار گانڈ سے نیچے کردی اور انکی ننگی مالئم گانڈ کو
مٹھیوں میں بھر لیا اور کہا
موٹی ھے دیکھیں کیسے میرے ہاتھ میں بھی نھی آرھی
اور دیکھیں آنٹی جی کتنی مالئم بھی ھے
آنٹی بولی
تمہارا لن بھی کتنا بڑا ھے یہ کون سا چھوٹا ھے
دیکھو میرے آگے سے ہوکر پیچھے میری ُبنڈ کے پاس سے بھی نکل رھا ھے
اور ساتھ ھی آنٹی نے نیچے ھاتھ کر کے میرے نالے کے سرے کو پکڑا ،کر کھینچا جس سے میری شلوار بھی نیچے چلی
گی اور انٹی نے میرا لن پکڑا کر اپنی بالوں سے پاک نرم پھدی کے ساتھ لگا دیا اور
بولی یہ دیکھو کتنا بڑا ھے تمہارا یاسر
آنٹی نے جب خود دعوت سیکس نامہ بھیج دیا تو میری ساری جھجک اور شرم جاتی رھی میں نے ہاتھ نیچے کیا اور لن کو
جڑ سے پکڑا اور تھوڑا سا نیچے ھوا اور اپنے ایک ُگ ھٹنے کی مدد سے آنٹی کی ٹانگ کو تھوڑا سا کھوال اور لن کے ٹوپے
کو آنٹی کی پھولی ھوئی موٹے موٹے ہونٹوں والی پھدی پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو لن سارے کا سارا
بغیر سوچے سمجھے اندر چال گیا
آنٹی نے ایکدم چیخ ماری اور میرے کندھے پر دانت گاڑھ دیے آنٹی کی آدھی چیخ نکلی تھی اور آدھی میرے کندھے میں
دب گئی
اور پھر آنٹی بولی
مار دتا ایییییی کھسماں
اوییییی
اینی زوررررر دی سارا ای کردتا ایییییییی ظالماں
مار سٹیا ای
افففففف
میں نے آنٹی کی چیخ اور آہوں اور سسکیوں کی پروا کیے بغیر لن کو پھر باہر نکاال اور پھر ویسے ھی سارا اندر کردیا
تو انٹی
بولی
ھاااےےےےے ماردتا ایییییی
ہولییییییی کرلے
کیڑے بدلے لین لگاں ایییییء
آنٹی کی اس طرح کی آوازیں سن کر مجھے اور جوش چڑھنے لگا اور میں نے چھ سات دفعہ ایسے ھی لن کو باہر نکاال
اور اندازے سے ھی نشانہ لگا کر اندر کر دیتا
میرا نشانہ بلکل درست لگتا
لگتا بھی کیسے نہ کتنی دیر سے تو لن پھدی کی صالح مشورے ہورے تھے
اچھی جان پہچان ھوجاے تو کون راستہ بھولتا ھے
اس لیے لن سہی دشہ میں چوٹ لگا رھا تھا
اب میں نے آنٹی کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا اور
مسلسل لن کو پھدی .کی سیر کروا رھا تھا
پھدی بھی چکنی اور پانی کی وجہ سے گیلی تھی اس لیے لن روانی کے ساتھ ایک ردھم میں چل رھا تھا میں آنٹی کے ممے
کو کپڑوں کے اوپر سے ھی پانی کے اندر ھی منہ میں لے کر چوس رھا تھا
جس سے انکے کپڑوں کا اور نہر کے پانی کا ذائقہ میرے منہ میں جارھا تھا
اس وقت تو مموں پر زہر بھی لگا ہوتا تو میں پھر بھی ممے چوس لیتا
یہ تو نہر کا گدال پانی تھا
آنٹی اب پورا مزا لے رھی تھی اور میرے ہونٹ میری گال میرے ماتھے کو چومی جارھی تھی
ہم دونوں ھی فل مستی میں لگے ھوے تھے
اچانک آنٹی کا جنون بڑھتا گیا
آنٹی نے مجھے کس کر جپھی ڈال لی اور زور زور سے گانڈ کو آگے کرنے کی کوشش کرتی رھی اس جنون کے آگے پانی
کا بہاو بھی دم توڑ گیا اور آنٹی کی گانڈ پانی کو چیرتی ھوئی پیچھے سے آگے کو آکر دھکا مارتی
جس سے لن جھٹکے سے اندر جاتا اور
آنٹی منہ سے کہتی
ھاےےےےے امممم ۔ افففففف
ایتھے مار ایتھے ہاں انج ای مار ایتھے
ہاں ہٹ ہٹ کہ مار شاوا ش
مجھے بھی ایسی آوازیں سن کر مزید جوش انے لگ جاتا اور میں بھی پانی جو چیرتا ھوا زور زور سے ک
گھسے مارنے لگ گیا
اچانک آنٹی کے جسم کو جھٹکے لگنے شروع ھوگئے اور آنٹی
نے زور سے لن کو پھدی میں بھینچتے ھو میری گانڈ کو پکڑ کر اپنی طرف زورر لگا کر اپنے چڈے ساتھ مال لیے اور بولی
ھاےےےےےےے گئیییییییی میں اور پھر کافی جھٹکے لینے کے بعد پھدی کو بھی ڈھیال چھوڑ دیا چڈوں کو بھی اور میری
گانڈ کو بھی
میں نے پھر گیلی اور گرم گرم منی سے بھری پھدی میں ھی گھسے مارنا شروع کردیے
اور میرا لن نہر کے پانی سے آنٹی کی پھدی کی اندر سے صفائی کرنے لگ گیا
کچھ دیر بعد میرا بھی چھوٹنے کا وقت آگیا میں .نے آنٹی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں جکڑ لیا آنٹی کو۔فرنچ کس تو کرنی
نھی آتی تھی بس ایسے ہی
ُبچ ُبچ کرتے ھوے چومی جارھی تھی
پھر میری سپیڈ بھی تیز ھوگئی اور میں نے آٹھ دس جاندار سٹروک لگاے اور آنٹی کی پھدی کے اندر ھی لن نے الٹیاں شروع
کردیں اور آخری قطرے تک لن اندر ھی ہچکیاں لے لے کر ایک آنکھ سے آنسو بہاتے رھا
اس سے پہلے کہ ہم علیحدہ ھوتے
اور میں لن پھدی سے نکالتا
کہ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے اٹک گیا جب میں نے سامنے دیکھا؟؟؟....
مذید اپڈیٹس کے لیے پیج کو الئیک شئیر اور فالو الزمی کرو تاکہ آپ کو نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن مل سکے
)..Update no (40
میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو مجھے دور سے ایک موٹرسائکل سوار آتا ھوا نظر آیا
میں نے آنٹی کو کہا آنٹی جلدی سے شلوار اوپر کرلو پیچھے دیکھو۔۔،،،۔
آنٹی نے بھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو آنٹی کا بھی رنگ اڑ گیا
میں نے جلدی سے نہر میں ڈبکی لگائی اور پاوں کے بل بیٹھ کر شلوار کو پکڑا اور کھڑا ھوگیا
اور جلدی سے میں نے ناال باندھا
اور آنٹی فوزیہ ابھی بھی سکتے کے عالم میں کھڑی کبھی میری طرف دیکھ رھی تھی کبھی پیچھے موٹر سائکل سوار کو۔
میں نے آنٹی کو پکڑ کر ہالیا
آنٹی جلدی کرووووو
آنٹی نیچے جھک کر شلوار پکڑنے کے لیے ھاتھ مارنے لگ گئی
مگر شلوار نیچے پاوں تک تھی
آنٹی بولی یاسر
مجھ سے شلوار نھی پکڑی جارھی
میں نے جواب دیے بغیر
پھر اپنی ناک کو پکڑ کر دبایا اور
نیچے پانی میں چال گیا
اور آنٹی کی شلوار کو ایک ھاتھ سے پکڑ کر اوپر کی طرف کر کے آنٹی کے ھاتھ میں پکڑا دی
شلوار اوپر کرکے آنٹی کے ہاتھ میں پکڑواتے وقت میرا ھاتھ دو دفعہ آنٹی کی پھدی کے اوپر لگا
مگر اس وقت میری اپنی جان پر بنی ھوئی تھی
اس لیے پھدی دماغ سے اتر چکی تھی
میں نے آنٹی کے ہاتھ میں شلوار پکڑاتے ھی
پانی کے اندر ھی مخلف سمت ُج ست لگائی اور اندر ھی اندر تیرتا ھو دوسرے کنارے کے پاس جا کر پانی سے سر نکاال.
اور
آنٹی کی طرف دیکھا جو حیران پریشان ھوئی ادھر ادھر دیکھ کر مجھے تالش کررھی تھی
آنٹی نے جیسے ھی مجھے دوسرے کنارے پر دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی
اتنی دیر میں موٹر سائکل سوار
ہم سے کچھ ھی دور پیچھے سے ھی نہر کی پٹری سے اتر کر نیچے چالگیا تھا
شاید اس نے آنٹی کو پانی میں اترے دیکھ لیا تھا اور وہ یہ سمجھا ھوگا کہ آنٹی نہا رھی ھے
مگر اسے کیا پتہ تھا
کہ کچھ دیر پہلے آنٹی مجھ دے ُچدوا رھی تھی
خیر آنٹی نے مجھے آواز دی کہ اب آجاو
وہ چال گیا
میں نے پھر پانی کے اندر سے ڈبکی لگائی اور
پانی کے اندر ھی تیرتا ھوا
آنٹی کی ٹانگوں کے پاس آیا اور دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی پنڈلیاں پکڑ لی
آنٹی پہلے تو ایکدم گبھرا گی کے کس نے انکی پنڈلیوں کو دبوچا ھے مگر
جیسے ھی میں پانی سے سر نکال کر انکے بلکل سامنے آیا
تو آنٹی نے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا
میری جان ای کڈ دتی سی
میں نے کہا آنٹی جی جان تو میری نکال دی آپ نے
تو آنٹی میری گال کو پکڑ کر مسلتے ھوے بولی
جیڑی میری جان کڈی اے اووووو
تو میں نے موضوع بدلتے ھوے کہا آنٹی جلدی سے باہر نکلیں یہ نہ ھو کہ کوئی آجاے
اور یہ کہتے ھوے ھی میں پانی سے باھر نکل آیا
تو آنٹی باھر نکلنے کی کوشش کرنے لگی مگر ان سے نکال نھی جا رھا تھا
وہ بار بار سلپ ھوکر پھر پانی میں چلی جاتی
آنٹی نے اپنا ہاتھ میری طرف کیا کہ مجھے نکالوں باہر
میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور انکو باہر کھینچا تو آنٹی گیلے کپڑوں کے ساتھ
جھک کر گھاس کو پکڑے باہر نکلنے لگی آنٹی جب جھکی تو انکے گلے میں سے پانی باھر نکلنے لگا جو کے بریزیر
میں بھرا ھوا تھا
میری جیسے ھی نظر آنٹی کے گلے میں پڑی تو انکے ادھ ننگے ممے قمیض سے باھر کو آنے کے لیے بے چین تھے
آنٹی جب باھر نکلی تو انکا سارا جسم ننگا نظر آرھا تھا
انکے کپڑے انکے ساتھ چپکے ھوے تھے آگے سے انکی پھدی نے انکی شلوار اور قمیض کو اہنے ہونٹوں میں بھینچا ھوا
تھا
انکا کالے رنگ کا بریزیر بلکل واضع نظر آرھا تھا
میں تو آنٹی کے فگر میں کو دیکھ کر ھی بے ہوش ھونے واال ھوگیا
میں آنکھیں پھاڑے آنٹی کی جسم کو دیکھی جارھا تھا
آنٹی نے جب مجھے اپنے جسم کو گھورتے دیکھا تو جلدی سے سر نیچے کر کے قمیض کا پلو پکڑ کر نچوڑتے ھوے مجھ
سے
ُ کہنے لگی
مینوں وی سارا ِگال کر دتا ای
ہن میں کیڑے کپڑے پاواں گی
سارے تے ُتون والے نے
پھر ایکدم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی
یاسر آج جو ھوا اچھا نھی ھوا
میں کیسے تمہارا سامنا کروں گی مجھے تو تمہارے سامنے کھڑے ہونے میں بھی شرم آرھی ھے
میں نے کہا آنٹی جی مجھے معاف کردیں اس میں میری بھی غلطی ھے میں بھی بہک گیا تھا
تو آنٹی بولی
یاسر غلطی میری بھی ھے مجھے خود ہوش نھی رھا کہ جسے آج تک اپنا بیٹا سمجھتی رھی اس کے ساتھ ھی ،،،،۔۔۔۔
میں نے کہا آنٹی جی
چھوڑیں اب اس بات کو ۔۔
پریشان مت ہوں یہ بات ہم دونوں کے بیچ ھی رھے گی کسی کو پتہ نھی چلے گا
آنٹی کچھ دیر ایسے ھی پریشان رھی اور خود کو کوستی رھی کہ میں کیا کر بیٹھی ہوں وغیرہ وغیرہ،
میں نے کپڑوں کی گٹھری میں سے ایک سوٹ نکاال اور آنٹی کی طرف بڑھاتے ھوے کہا یہ
دھونے واال سوٹ ھی پہن لیں آپ ساری گیلی ھوگئی ہیں اگر کوئی آگیا تو کیا سوچے گا ۔۔
تو آنٹی نے میرے ھاتھ سے کپڑے پکڑتے ھو کہا
شرم کر ُہن تے مینوں آنٹی نہ کہ
میں نے کہا
اچھا آنٹی جی پھر کیا کہوں
تو آنٹی بولی
مجھے میرے نام سے پکارا کرو
میں نے کہا ایسے سب کہیں گے کہ میں بتمیز ہوں
تو آنٹی بولی
سب کے سامنے تھوڑی نام سے پکارنے کا کہا ہے
جب اکیلے ہوں تو تب مجھے نام سے پکارا کرو
تو میں نے کہا آنٹی جی
وہ کیوں
توآنٹی بولی پہلے تو تم مجھے آنٹی کہنا بند کرو
جب تم مجھے آنٹی کہتے ھو تو میں اندر ھی اندر مرنے لگ جاتی ہوں
تو میں نے کہا اچھا نھی کہتا
آپ پہلے کپڑے بدل لیں
تو آنٹی فوزیہ
بولی
کپڑے کہاں بدلوں
میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میری نظر نہر کے ساتھ والے کھیت میں مکئی پر نظر پڑی تو میں نے کہا
آئیں میرے ساتھ
تو آنٹی میرے پیچھے پیچھے نہر کی پٹری سے اترتی ھوئی مکئی کی طرف آنے لگی
میں مکئی کے اندر داخل ھوا اور
مکئی کے پودوں کو پانی لگانے کے لیے درمیان میں بنی دو تین فٹ کی کیاری میں چلنے لگا اور آنٹی کو پیچھے آنے کا
اشارا کیا آنٹی تھوڑا سا آگے آکر رک گئی اور مجھے کہنے لگی تم تو باہر جاو
میں کپڑے بدل لوں گی ادھر ھی
تو میں نے کہا آنٹٹٹٹ او سوری فوزیہ جی
آپ میرے سامنے ھی بدل لو
تو آنٹی فوزیہ نے مجھے بازو سے پکڑا کر کہا جاتے ھو کہ لگاوں ایک
میں پھر ڈھیٹ بن کر کھڑا رھا اور
بوال
آپ میرے سامنے بدل لو کیا ھے تو آنٹی بولی کہ مجھے شرم آتی ھے
تم باہر جاو
میں نے آنٹی کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا
اور اپنے سامنے کرتے ھوے کہا
مجھے نھی پتہ میں نے آپ کو کپڑے بدلتے دیکھنا ھے تو
آنٹی بولی یاسر
تم کیا بچوں کی طرح ضد ال لیتے ھو
چلو جاو
میں نے ابھی کپڑے دھونے ہیں سارے کپڑے ویسے کے ویسے ھی پڑے ہیں
میں نے کہا نھی فوزیہ جی
میں تو ایسے جانے واال نھی
اور میں نے ساتھ ھی آنٹی کو اپنے ساتھ لگا لیا
اور انکے بازوں کو چھوڑ کر انکے بازوں کے نیچے سے اپنے ھاتھ گزار کر انکی کمر کہ گرد ڈال کر جپھی ڈال لی
اب ہم دونوں کے گیلے کپڑے تھے تو ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے
ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہیں
آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی
کہ چھوڑو کیا کررھے ھو پاگل تو نھی ھوگئیے
مگر میرا لن سر اٹھا چکا تھا اور اس نے پھدی کو بھی اشارہ کر دیا تھا کہ تیار ھوجاو۔۔،،،
دوستو اب میں آنٹی فوزیہ کو ان کے نام سے ھی پکاروں گا
میں نے لن پورے زور سے فوزیہ کی ُپھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا تھا
اور
فوزیہ اب بھی احتجاج کرتے ھوے مجھے پیچھے دھکیل رھی تھی
کہ یاسر پاگل نہ بنو ایک دفعہ کر تو لیا ھے
کوئی آجاے گا
نہ کرو چھوڑو مجھے
میں نے کہا فوزیہ جان ایک دفعہ سے کہاں دل بھرتا ھے
اور میں فوزیہ کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کرنے لگا تو فوزیہ اپنے سر کو ِادھر ُادھر کر کے اپنے ہونٹ بچانے لگ
گئی مگر میں نے کوشش جاری رکھی
اور فوزیہ کے ہونٹوں کو پکڑنے میں کامیاب ھوگیا
اور ان کو چوسنے لگ گیا
فوزیہ بھی اب ہتھیار ڈالتے جارھی تھی
میں نے فوزیہ کے ہاتھ سے کپڑے پکڑے اور انکو مکئی کے پودے کے ساتھ لگے سٹے اور ٹہنی کے ساتھ لٹکا دئیے اور
پیچھے سے انکی گانڈ کو پکڑ کر مسلنے لگا فوزیہ اب مکمل میرے کنٹرول میں آچکی تھی
میں لن کو مسلسل اسکی پھدی کے ساتھ رگڑ رھا تھا
اور وہ بھی میرے ساتھ ُجڑ ُج ڑ کر مزے لے رھی تھی
میں نے فوزیہ کی گیلی قمیض پیچھے سے پکڑ کر اوپرکرنے لگا اور ایک ھاتھ آگے کر کے آگے سے بھی قمیض اوپر
کرنا شروع ھوگیا پہلے تو فوزیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ھاتھ جھٹک کر ہٹا
دیا اور اسکی قمیض کو اسکے مموں تک لے آیا
قمیض گیلی تھی اور جسم کے ساتھ چپکی ھونے کی وجہ سے مجھے کافی مشکل ھو رھی تھی کہ اسکے ممے قمیض سے
آزاد کرواوں
کہ فوزیہ بولی کیوں میری قمیض پھاڑو گے رکو ایک منٹ
اور یہ کہتے ھوے فوزیہ نے اپنے ایک ھاتھ کو پیچھے کیا اور ایک کو آگے کیا اور قمیض کو آگے پیچھے سے پکڑ کر
اوپر سر کی جانب لے گئی اور پھر قمیض اتار کر ایک سائڈ پر پھینک دی اور میری طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے بریزیر کی طرف اشارہ کیا کہ اسے بھی اتارو
تو وہ ہنستے ھوے بولی ایک تو تم نہ ،،،۔۔۔۔
اور ہاتھ پیچھے کر کے بریزیر کی ہک کھول دی اور
اور ھاتھ نیچے کر لیے
میں نے جلدی سے بریزیر پکڑ کر فوزیہ کے جسم سے الگ کیا
اور اس کے مموں کو غور سے دیکھنے لگ گیا
تو فوزیہ میری طرف دیکھتے ھوے بولی
ُہن خوش ایں ۔۔
میں نے کہا ھممممم
اور ساتھ ھی فوزیہ کے بڑے بڑے گورے نرم مالئم مموں کو دونوں ھاتھوں میں پکڑ لیا اور دبانے لگ گیا
فوزیہ کے منہ سے سیییییییی نکال اور بوال آرام سے
تو میں نے ھاتھوں کی گرفت ڈھیلی کی اور آرام آرام سے دبانے لگ گیا
فوزیہ کے ممے بہت ھی نرم تھے
اور اسکی عمر کے حساب سے بلکل بھی ڈھلکے ھوے نھی تھے
بلکہ ایک دم تنے ھوے تھے
میں مزے لے لے کر مموں کو کھولنا سمجھ کر انسے کھیل رھا تھا
فوزیہ بھی سیییی سیییی کررھی تھی
میں تھوڑا سا ُج ھکا اور ایک ممے کے براون تنے ھوے موٹے سے نپل پر زبان پھیرنے لگ گیا
فوزیہ کے ممے گیلے اور چکنائی والے تھے
ممے کے نپل سے عجیب سا ذائقہ میری زبان پر لگ رھا تھا
میں جیسے ھی ممے کے گول براون دائرے پر زبان پھیرتا اور پھر نپل کو ہونٹوں میں لے کر چوستا تو
فوزیہ لمبی سی سسکاری لیتی اور میرے سر پر ھاتھ رکھ کر ممے پر دبا دیتی
میں اب ممے کو پورا منہ میں لینے کی ناکام کوشش کرنے لگ گیا
اور ممے کے تھوڑے سے حصے کو منہ میں بھر کر نپل کو اپنے حلق کی طرف کھینچتا
جس سے فوزیہ
کو بھی جوش چڑھتا اور وہ
میرے سر کو اور ذور سے پکڑ کر ممے پر دباو بڑھا دیتی
میں باری باری دونوں مموں کو کبھی چوستا کبھی نپل پر دانت گاڑھتا
کچھ دیر بعد
میں اور نیچے ھوا اور فوزیہ کے ہلکے سے باہر نکلے گورے نرم پیٹ کو چومنے لگ گیا
پیٹ کو چومتے چومتے میں ناف کے نیچے پھدی کے اوپر .شلوار کے نیچے کے پاس زبان پھیرنے لگ گیا
فوزیہ کے جسم کو ایک دھم جھٹکا لگا
اور افففففففف سییییییییی ممممممم
کر نے لگ گئی اور پیار سے میرے سر کے بالوں میں انگیلیاں پھیرنے لگ گئی
میں پاوں کے بل بیٹھ چکا تھا
اور میر منہ فوزیہ کی پھدی کے سامنے تھا
میں نے دونوں ھاتھوں سے فوزیہ کی شلوار کو پکڑا اور کھینچ کر نیچے کر دیا
فوزیہ نے بھی مجھے نہ روکا
میری انکھوں کے سامنے فوزیہ کی چٹی سفید بالوں سے پاک پھدی تھی
جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے جن میں ایک جھلی سی باہر کو نکلی ھوئی تھی
جس پر ایک موٹا سا دانا تھا
میں بڑے غور سے پھدی کا جائزہ لینے لگ گیا
میں نے زبان اپنے خشک ہونٹوں پر پھیری اور
زبان کو باہر نکاال اور پھدی کے اوپر رکھ .دیا
فوزیہ ایک دم تڑپی اور پیچھے کو ھوگئی
اور بولی
وے پاگل ھوگیاں ایں اے کی کرن دیاں اے
میں نے سر اوپر کیا اور
فوزیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے بوال
اپنی جان کو پیار کرنے لگا ھوں
تو فوزیہ
بولی
نئی یاسر یہ گندی جگہ ھے
اس پر زبان مت لگاو
میں نے کہا ایک دفعہ بس پیار کرنے دو
تو
فوزیہ بولی نھی یاسر
پلیززز میری بات مانو یہ مناسب نھی
تو میں نے دو تین دفعہ آگے ھوکر پھدی کو چومنا چاھا مگر
فوزیہ پھدی پر ھاتھ رکھ کر پیچھے ھوجاتی
میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور
کھڑا ھو کر اپنی گیلی قمیض اتاری اور پھر شلوار کا ناال کھول کر شلوار بھی اتار دی
فوزیہ نے بھی اپنی شلوار پاوں سے نکال کر ایک سائڈ پر رکھ دی
میرا لن فل تنا ھوا تھا جیسے ھی فوزیہ کی میرے ننگے لن پر نظر پڑی
تو اسکی آ نکھوں میں ایک چمک سی آئی اور میرے لن کو پکڑ کر بولی
ھاےےےے میں مرگئی اینا وڈا لن اے تیر ا یاسر
اففففف توبہ
اتنا بڑا تو کسی بڑے مرد کا نھی ھوگا
کیا کیا ھے اسے
میں نے کہا
فوزیہ جی بس یہ آپکی سیکسی پھدی کو دیکھ کر بڑا ھوگیا ھے ویسے تو نھی ھے
اور اسکے ساتھ ھی میں نے فوزیہ کو جپھی ڈال کر لن اسکے چڈوں کے درمیان گھسا دیا اور پھدی کے لبوں کے اوپر
رگڑتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا
کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد
میں نے فوزیہ کی ایک ٹانگ اٹھائی اور لن کو پھدی کے لبوں کے اندر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکا مارا لن بغیر کی چوں
چراں کے جڑ تک اندر چال گیا
فوزیہ کے منہ سے چیخ نکلی جسے وہ اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوے دباکر بولی ھاےےےےے میں مرگئی
ھاےےےےےےےے میری مائیں۔
میں مرگئییییییی اور اسکے ساتھ ھی فوزیہ پیچھے کو ہوئی اور توازن برقرار نہ رکھتے ھوے پیچھے کو گرتی گئی
میں نے بھی اسکی ٹانگ کو پکڑا ھوا تھا
تو میں بھی ویسے ھی اسکے اوپر اسکے ساتھ آگے کی طرف گرتا گیا
فوزیہ اب کھیت کی کیاری میں لیٹی ھوئی تھی اور میں اسکے اوپر .تھا اور لن
باھر نکل گیا تھا
فوزیہ بولی
ہاے میرا َلک ُٹٹ گیا
ہے نی میری ےے مائیں
میں نے فوزیہ کی ھوے ھوے کی پروا کیے بغیر
دونوں ٹانگوں کو اوپر اٹھایا اور پھر ایک ھی جھٹکے میں لن فوزیہ کی بچے دانی تک پہنچا دیا
فوزیہ پھر تڑپی اور مجھے گالی دیتے ھوے بولی
تیرے وچ انساناں والے کم نئی اے
جانور کسے تھاں دا
کیوں میرا اندر پاڑنا ای
جان کڈ کے رکھ دتی اے
میں نے سور ی کہا اور
لن کو پیچھے کھینچا اور پھر زور دار طریقے سے گھسہ مارتے ھوے پورا لن پھدی کے اندر کر دیا
فوزیہ نے مجھے پیچھے دھکے مارتے ہوے رونے والے انداز میں کہنا شروع کردیا
پچھے ہو چھڈ مینوں میں نئی کروانا
ھاےےےےے ماں
ھاےےےےےے مرگئی
ھاےےےےےےے
چھڈ پچھے ھو جا
ھاےےےےےےےےے
میں نے کہا
اچھا جان بس ایک دفعہ معاف کردو
پھر نھی کرتا اتنے زور سے
میں نے فوزیہ کو مسکے شسکے لگا کر شانت کر لیا اور
آہستہ آہستہ
لن کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگ گیا
اب فوزیہ ریلکس تھی اور میرے پیٹ پر ھاتھ رکھے اپنی مرضی سے جتنا لن اس ،سے برداشت ھورھا تھا لے رھی تھی
جہاں اسے درد ھوتی وہیں میرے پیٹ کو دبا کر مجھے مزید اندر کرنے سے روک دیتی
فوزی کی پھدی کافی گیلی تھی جس کی وجہ سے لن مزے سے اندر باہر کی سیر کر رھا تھا
میرے گھسوں سے فوزیہ کے بڑے بڑے ممے اچھل اچھل کر اسکے منہ کی طرف جارھے تھے
فوزیہ
فل مزے لے لے کر مجھ سے چُدوا رھی تھی
فوزیہ نے اب دونوں ھاتھ میرے سینے پر رکھے ھوے تھے اور میرے نپلوں کو اپنی انگلیوں سے مسل رھی تھی جس سے
مجھے مزید مزہ آرھا تھا
اور میں جوش میں لن پھدی کی جڑ تک پہنچا رھا تھا
فوزیہ کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے مزے سے بھری آوازیں نکال رھی تھی
ھاےےےےے ہمممممم ایتھے مار سٹ ھاں انج مار
ھاےےےے زور دی مار سٹ
ھمممممم پورا کردے اندر .ھااےےےے اففففففف بڑا مجا آریا اےےےےےے افففففف
پورا کردے پورا کردے سارااااااا کردےےےےےےےےےے
اسکے ساتھ ھی فوزیہ کا جسم اکڑ گیا اور اسکی پھدی سے گرم گرم منی نکلنا شروع ھوگئی
مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر منی کی دھاریں ٹکراتی محسوس ھورھی تھی
میں کچھ دیر رکا
جب فوزیہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکا جسم ڈھیال ھوگیا تو میں نے پھر گھسے مارنے شروع کردئے
فوزیہ اب مجھ سے جان چھڑوا رھی تھی
جلدی کر جلدی کر کری جارھی تھی
تقریبًا دس منٹ میں جوش سے گھسے مارتا رھا
اچانک مجھے لگا جیسے میری ٹانگوں سے جان نکل رھی ھے اور سارا خون لن میں جمع ھوگیا تو
میں نے جاندار گھسے مارنا شروع کردیے
فوزیہ .کے ممے اچھل رھے تھے
اسکے ساتھ ھی میرے لن نے زبردست انگڑائی لی اور اپنی ایک آنکھ کھولی اور اور سارے آنسو پھدی کے اندر ھی
گرانے لگ گیا
ابھی میرے سانس بھی بحال نھی ھوے تھے
کہ میرے کانوں میں آواز
گونجی
کیڑاں اےےےےے ۔۔۔۔۔
میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ایک ضعیف العمر بابا دھوتی بنین پہنے آنکھوں پر ہاتھ رکھے غور سے میری طرف
دیکھتا ھوا کیاری میں چھڑی ٹکا ٹکا کر چال آرھا تھا
بابے کی شاید نظر کمزور تھی اس لیے وہ بڑے غور سے دیکھ رھا تھا
میں نے جھٹکے سے لن باہر کھینچا اور فوزیہ بھی جمپ مار کے بیٹھ گئی
اور کھڑے ھوتے ھو ے گبھراے ھوے پیچھے دیکھنے لگ گئی
میں نے کہا آنٹی بھاگگگگگگ
اور فوزیہ نے جلدی سے کچھ کپڑے جتنے ھاتھ لگے پکڑے اور ننگی باہر نہر کی طرف بھاگی میں نے بھی اپنے کپڑے
پکڑے اور جو فوزیہ کے رہ گئے تھے وہ پکڑے اور اس کے پیچھے ننگا ھی بھاگ کھڑا ھوا
یہ شکر تھا کہ بابے کی پہچان میں ہم دونوں ھی نھی آے
مکئی سے باہر نکلتے ھوے ہم آگے پیچھے نہر پر ننگے ھی چڑھ گئے اور میں نے تو جاتے ھی نہر میں چھالنگ لگادی
اور فوزیہ جلدی جلدی سے شلوار پہننے لگی اور پھر جلدی سے قمیض پہن کر کنارے پر بیٹھ کر کپڑے دھونے میں
مصروف ھوگئی
فوزیہ کا رنگ اب بھی پیال پڑا ھوا تھا
اور پاوں کے بل بیٹھی کی ٹانگیں کانپ رھی تھی
میں نہر کے اندر سے ھوتا ھوا دوسری طرف پہنچ گیا اور کنارے کو پکڑ کر پانی میں ھی کھڑا ہوکر فوزیہ کی طرف
دیکھنے لگ گیا
فوزیہ کی نظر مکئی کی ھی طرف تھی میں نے فوزیہ کو اشارہ کیا کے میرے کپڑے ادھر پھینک دے
فوزیہ کی اب بھی سانس اکھڑے ھوے تھے
بابا ابھی تک مکئی کے اندر ھی تھا نہر کی طرف باہر نھی نکال تھا
فوزیہ نے میرے گیلے کپڑے اکھٹے کیے اور مروڑ کر رول بنا کر زور سے میری طرف پھینک دیے
میں نے کپڑے کیچ کیے
اور کپڑوں کو کھول کر دیکھنے لگ گیا میرے سارے کپڑے مٹی سے بھر چکے تھے اور جگہ جگہ کیچڑ لگا ھوا تھا
میں نے پہلے شلوار پکڑی اور اسکو پانی سے دھویا
اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی ھے تو نھی
اور گھاس کو پکڑ کر نہر سے باہر نکال اور جلدی سے شلوار پہن کر ناال باندھا اور پھر قمیض کو دھویا
اور اسکو سوکھنے کے لیے وہیں گھاس پر ڈال دیا
بابا پتہ نھی کدھر ُگ م ھوگیا تھا
شاید وہ ادھر سے ھی واپس چال گیا تھا
فوزیہ کی بھی حالت قدرے سنبھل گئی تھی
فوزیہ نے مجھے آواز دی کے آجاو ادھر اب
بابا نھی نکال
میں نے قمیض اٹھائی اور اسے بازو اوپر کر کے پکڑ کر نہر میں اتر گیا اور ایسے ھی چلتا ھوا دوسرے کنارے پر فوزیہ
کے پاس آگیا
اور فوزیہ سے بوال شکر اے بچ گئے
تو فوزیہ میری طرف گھورتے ھوے بولی
بچ گئے دے بچے
تیری کالیاں تے ضداں نے اج مروا دینا سی
شکر کر کے او نمبڑاں دا بڈھا مالزم سی جے کوئی ھو ھوندا نہ تے فیر پجیا وی نئی سی جانا
میں نے کہا کش نئی ھوگیا بچ گئیں آں
تو فوزیہ نے میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھتے ھوے کہا
اے ویکھ میرا دل کیویں پھڑکن دیا اے
واقعی فوزیہ کا دل تیز تیز دھڑک رھا تھا
مجھے پھر شرارت سوجھی میں نے فوزیہ کا مما دبا دیا
فوزیہ نے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا کہ
ہالے رجیا نئی
تو میں نے کہا ایسے گرم سیکسی مال سے کس دل بھرتا ھے
تو فوزیہ غصہ کے انداز میں بولی بتاوں تجھے
کھسماں مینوں پیلے ای ُٹ رن جوگا نئی چھڈیا میرا اندر ھال کے رکھ دتا ای
میں تے تینوں بچہ سمجھدی سی پر توں تے پورا افالطون نکلیا ایں
).Update no (41
میں نے ہنستے ھوے کہا
آپکو دیکھ کر بابے جوان ھوجاتے ہیں میں تو پھر ابھی جوان ھو رھا ھوں
تو فوزیہ نے منہ پر ھاتھ رکھا اور ایک ھاتھ اپنے کانوں کو لگاتی بولی
توبہ توبہ توبہ
میرے کولوں کوئی ُپچھے کہ اے بچہ اے کہ کی شئے اے
میں نے کہا تو بتاو میں کیا شئے ھوں
تو فوزیہ بولی چل ھن گالں چھڈ عظمی نسرین آن والیاں نے
تے جلدی نال اپنے کپڑے سکا لے
کچھ دیر بعد میں نہر سے نکال اور اپنی قمیض کو سکھانے کے لیے گھاس پر ڈال دیا
تو فوزیہ میری طرف ایک چادر پھینکتے ھوے بولی
اے چادر بن لے تے شلوار وی سکنے پا دے
میں نے چادر پکڑی اور
شلوار اتار کر چادر باندھ لی اور شلوار کو بھی سوکھنے ڈال دیا
اور فوزیہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا تو کبھی دھوے ھوے کپڑوں کو سوکھنے ڈال دیتا
ایسے کچھ دیر بعد عظمی اور نسرین بھی آگئی اور مجھے چادر میں دیکھ کر میرا مزاق اڑانے لگ گئی
کچھ دیر ایسے ھی ہم ہنسی مزاق کرتے رھے
اور پھر کپڑے سمیٹے اور گھر کی طرف چلدیے
اگلے دن میں دکان پر پہنچا اور باہر کی صفائی وغیرہ کر کے بیٹھ گیا کچھ ھی دیر گزری تھی کہ ایک نقاب پوش سفید
یونیفارم میں لڑکی میری طرف بڑے غور سے دیکھتی ھوئی چلی آرھی تھی میں بھی بڑے غور سے اسے دیکھ رھا تھا
کہ آنکھیں اور جسامت جانی پہچانی لگ رھی ھے
کہ اتنے میں وہ میرے قریب آکر میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور میرے سامنے ھاتھ کر کے بڑی شوخ اور چنچل سی اپنی
مترنم آواز میں بولی السالم وعلیکم میں ایک دم گبھرا کر اٹھ کے کھڑا ھوگیا مجھے ہکا بکا پریشان دیکھتے ھوے بولی
یاسر ادھر بیٹھے کیا کررھے ھو
تو میں فورن اسکی آواز سے پہچان گیا کہ یہ تو مہرالنسا ھے
تو میں نے بڑی گرمجوشی سے اسکے ھاتھ کو تھام لیا اور اس سے مصافحہ کرتے ھوے بوال
مہری تم ادھر کیسے تو وہ بولی پہلے تم بتاو کہ تم ادھر کیا کررھے ھو تو میں نے اسے یاددھانی کرواتے ھوے دکان کے
شٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ یہ ھی تو دکان ھے جس پر میں کام کرتا ھوں تو مہری بولی او آئی سی گڈ دراصل
آج اسد مجھ سے پہلے ھی تیار ھوکر نکل گیا تھا شاید اس نے کہیں جانا تھا اس لیے میں آج پیدل ھی کالج کے لیے نکل آئی
۔۔میں نے کہا کالج تو کافی دور ھے تم اکیلی کیسے جاو گی تو مہری بولی کوئی بات نھی میں اکثر اکیلی ھی چلی جاتی ھوں
نو برابلم میں نے کہا نھی نھی ایسے کیسے اکیلی جاو گی چلو میں تمہیں چھوڑ کر آتا ھوں تو مہری کے الکھ انکار پر بھی
میں اسے ساتھ لے کر کالج کی طرف چل پڑا کچھ آگے چل کر مہری نے ایک مارکیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اس مارکیٹ
میں مما کا بوتیک ھے تو میں نے مارکیٹ کی طرف دیکھا جو ابھی تک ساری ھی بند تھی اور میں .ہمممم کر کے مہری
کے ساتھ آگے چل پڑا بازار سے نکل کر ہم گلی میں داخل ھوگئے تو میں نے مہری کو کہا کہ سوری مہری میں اس دن کے
لیے بہت شرمندہ ہوں مجھے ایسا تمہارے ساتھ نھی کرنا چاھیے تھا تو مہری نے ایک دم میری طرف چونک کر دیکھا اور
کہنے لگی اٹ از اوکے یار جو ہوا بھول جاو اس میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے اسلیے یہ سوری شوری کرنے کی
ضرورت نھی میں مہری کے اس بے باک لہجے پر حیران رھ گیا کہ کیسے اتنی بڑی بات کو ہوا میں اڑا دیا خیراسکی بات
سن کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا تو میں نے مہری سے کہا مہری ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو تو مہری میری طرف بڑی
گہری نظر ڈالتے ھوے بولی بولو میں نے کہا مہری تم بہت اچھی ھو تو مہری ہنستے ہوے بولی لو بتاو بھال اس میں برا
ماننے والی کون سی بات ھے میں نے کہا نھی میرے کہنے کا مطلب ھے کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ھو مہری چلتی چلتی
ایکدم رک گئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی او ہیلو خیر تو ہے نہ میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے کرلیامہری
بولی کیا ھوا چپ کیوں ھوگئے میں نے کہا سوری میں اپنی اوقات بھول گیا تھا مہری بولی نونسینس دوبارا ایسی بات کی تو
تمہارا منہ توڑ دوں گی اوقات کا کچھ لگتا میں نے کہا تم ناراض جو ہوگئی تھی میں سمجھا شاید میں غریب ھوں اس لیے میں
تمہارے قابل نھی ھوں مہری بولی کیا مطلب قابل نھی ھوں میں سمجھی نھی کھل کر بات کرو کیا کہنا چاھتے ھومیں نے کہا
تم نے پھر ناراض ھو جانا ھے مہری بولی اب تم نے نہ بتایا نہ تو پھر میں نے تم سے کبھی بات نھی کرنی ۔میں نے کہا
مہری تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی سوچتا رہتا ھوں مگر جب تمہارے اور اپنے سٹیٹس کے
بارے میں سوچتا ھوں تو مجھے اپنی غریبی پر غصہ آتا ھے مہری بولی پہلے تو یہ امیری غریبی واال رونا میرے سامنے
مت روو اگر بات کرنی ھے تو چند الفاظ میں بات کو کہہ کر ختم کرو۔۔میں نے کہا مہری میں تم کو پسند کرتا ہوں اور تم
سے دوستی کرنا چاھتا ہوں مہری ہنستے ھوے بولی لو کر کو گلکھودا پہاڑ نکال چوھامیں سمجھی پتہ نھی جناب کو کونسی
ایسی بات کرنی ھے جسکی وجہ سے جناب کہتے ھوے اتنا گبھرا رھے ہیں ۔ارے ُبدھو پہلے کونسا ہم ایک دوسرے کے
دشمن ہین اور تمہارا دماغ کام نھی کرتا کہ ایک لڑکی کیسے کسی انجان لڑکے کے ساتھ یوں باتیں کرتے ھوے جاسکتی ھے
کیا ،،مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا کہ واقعی میں ُبدھو ھی ھوں ،میں نے خوش ہوکر کہا کہ واقعی ہم دوست ہیں،
مہری ہنستے ھوے بولی
افکورس میں نے خوشی سے جمپ مارا اور دونوں ھاتھوں کو ھوا میں کر کے مکے بنا کر کہا یسسسسسسسسمہری میری
اس حرکت پر ہنسس ہنسس کر دھری ھوتی گئی اور میری طرف ھاتھ سے اشاری کرتے ھوے بولی کوئی حال نھی تمہارا۔۔
میں نے مہری کا ہاتھ پکڑ لیامہری نے جلدی سے مجھ سے ہاتھ ُچ ھڑوایا اور بولی پاگل ہوگئے ھو کیا ابھی اتنی بھی دوستی
نھی بڑھی کے تم میرا سرعام ہاتھ پکڑ کر چلنے لگومیں شرمندہ سا ھوکر رھ گیا میں نے ست کھجاتے ھوے آہستہ سے کہا
جب دوست اتنا خوبصورت ھو تو نہ زمانے کا ڈر نہ گھر والوں کا ڈر مہری نے شاید میری بات سن لی تھی وہ ایکدم بولی
کیا کہادوبارا کہنامیں نے کہا کچھ نھی مہری بولی تم باز آجاو کچھ زیادہ ھی اوور ایکٹ کر رھے ھو میں نے کہا ایسا تو
کچھ نھی کچھ دیر بعد میں نے مہری سے پوچھا مہری پھر کب ملو گی تو مہری نے شرارت بھری نظر سے میری طرف
دیکھتے ھو کہا کیوں مل کہ کیا کرنا ھے میں نے کہا کچھ نھی بس تم سے باتیں کر کے اچھا لگتا ھے مہری بولی اچھااااا
جییییمیں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے کہا ھااااں جیییییمہری بولی جب مرضی آجاو گھر تمہیں کس نے روکا ھے میں نے
کہا کہ گھر میں تو اسد کے بغیر نھی آسکتا اور ویسے بھی اسد کیا سوچے گا مہری بولی کیوں پہلے اسد کے سامنے مجھ
سے بات نھی کرتے تھے میں نے کہا اسد کے سامنے جپھی تو نھی ڈال سکتا نہ مہری ایک دم شرمندہ سی ھوگئی اور شرما
کر بولی چل شوخا میں نے پھر کہا بتاو نہ یار مہری بولی مجھے کیا پتہ تم آجاو جب مرضی میں نے جنجھال کر پھر پوچھا
یار میں اکیلے مین ملنا چاھتا ہوں مہری پھر گہری نظر میں میری طرف دیکھتے ھوے بولی خیر ھے اکیلے مل کر کیا
کرنے کا پروگرام ھے میں نے کہا یار تمہیں روس کر کے کھانا ھے مہری یہ سن کر کھلکھال کر ہنس پڑی اور ہنستے ھوے
بولی سٹوپٹ روس نھی ھوتا روسٹ ھوتا ھے کچھ پڑھ لیتے تو انگلش کی بےعزتی نہ کرتے میں پھر شرمندہ سا ہوکر بوال
جو بھی ھے یار بتاو نہ تو مہری بولی شام کو چار سے سات بجے تک میں اکیلی ھی ھوتی ھوں یاسر اکیڈمی چال جاتا ھے
اگر اس وقت آسکتے ھو تو آجانا یں نے کیا پکی بات ھے نہ کوئی ٹینشن تو نھی بنے گی تو مہری بولی نو ٹینشن یار کہہ دیا
نہ میں نے کہا چھٹی کتنے بجے ھوتی ھے تو مہری بولی ایک بجے میں نے کہا چھٹی کے وقت لینے آوں تمہیں مہری بولی
نو تھینکس اسد لے جاے گا اس نے مجھے کیا تھا کی میں لینے آجاوں گااتنی دیر میں کالج آگیا اور میں نے مہری کو باے
بات کیا اور واپس دکان کی طرف چل دیا
دکان پر جب میں پہنچا تو انکل نے دکان کھول لی تھی میں نے انکل کو سالم کیا اور جوتا اتار کر کاونٹر پر چڑھ گیا
انکل نے پوچھا کہاں چلے گئے تھے
میں نے پیشاب کرنے کا بہانہ بنایا
کیونکہ انکل میرے آنے سے کچھ دیر پہلے ھی آے تھے اس لیے مجھے یہ بہانہ معقول لگا
میں نے جھاڑن پکڑی اور دکان کی الماریوں میں لگے کپڑوں کو جھاڑنا شروع کردیا
پھر ساری دکان کی صفائی کی اور سٹک پکڑ کر کچھ سوٹ دکان کے باھر لٹکاے ۔۔
تو انکل نے مجھے بتایا کہ یاسر بیٹا میں نے مال لینے آج فیصل آباد جانا ھے
تو تم دھیان سے بیٹھنا
اور لڑکوں کا خیال رکھنا کہ پیسے آگے پیچھے نہ کریں
میں جی انکل کہا اور انکو مکمل تسلی دی کے آپ بےفکر ھو کر جائیں
کچھ دیر بعد ایک لڑکا آگیا
تو انکل نے اس لڑکے کو کہا کہ مجھے الری اڈے پر چھوڑ آو
اس لڑکے نے جسکا نام جنید تھا مجھے سے دو تین سال ھی بڑا ھوگا اس ،نے موٹر سائکل باھر نکالی اور انکل اسکے
پیچھے بیٹھ گئے اور وہ انکل کو لیے الری اڈے کی طرف روانا ھوگیا
میں گدی پر بیٹھ کر باہر کی طرف دیکھنے لگ گیا
تو ایک عمر رسیدہ خاتون اور ایک نقاب پوش برقعہ پہنے آنٹی ٹائپ عورت ھی کہہ لیں باہر لٹکے سوٹ دیکھنے لگ گئیں
میں نے انکو آواز دی کے آنٹی اندر آجائیں اندر کافی ورائٹی مل جاے گی
تو وہ دونوں ماں بیٹی یا ساس بہو تھی دونوں اندر آگئیں اندر داخل ہوتے وقت نقاب پوش آنٹی مجھے بڑے ھی غور سے
دیکھی جارہی تھی میں نے بھی ایک دو دفعہ اسکی طرف دیکھا تو وہ نظریں پھیر لیتی
میں انکو لیے پیچھے دکان کے آخر میں چال گیا
کیوں کے انہوں نے بوتیک کے سلے سالے سوٹ لینے تھے اور بوتیک کی ساری ورائٹی پیچھے پڑی تھی
میں نے ان سے پوچھا جی آنٹی جی کس طرح کی ورائٹی چاھیے تو
وہ برقعے والی آنٹی جو اب بھی بار بار مجھے ھی دیکھی جارہی تھی
بولیں کہ وہ سامنے گرین کلر کا سوٹ دیکھائیں
میں نے اسکی آواز سنی تو مجھے آواز جانی پہچانی سی لگی
میں نے سوچتے ھوے سوٹ کی طرف بڑھا اور ریک کا شیشہ کھول کر سوٹ نکال کر انکے سامنے کردیا
اور انکو کپڑے کی کوالٹی اور امبرائڈڈ کی تعریفیں کرنے لگ گیا
تو وہ نقاب پوش آنٹی بڑی اداوں سے بات کری جارھی تھی
اور کافی فرینک ھونے کی کوشش کر رھی تھی
عمررسیدہ اماں جی بولی
بیٹا اسکا کلر تو نھی خراب ہوتا
تو وہ نقاب پوش آنٹی بولی
امی اگر کلر خراب ھوگیا تو انکے گھر دے آیں گے
یہ ہمارے گاوں کا ھی ھے
تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا
انٹی آپ کہاں رھتی ہیں تو وہ ہنستے ھوے بولی
اب جوان ھوگئے ھو تو اپنے دوست کی مما کو بھی نھی پہچانتے تو میں نے اسکو غور سے دیکھتے ھوے کہا
آنٹی جی میں نے واقعی آپکو ابھی تک بھی نھی پہچانا
تو آنٹی ہنسی اور ساتھ ھی بولی
تم یاسر ھی ھو نہ
تو میں اپنا نام سن کر اور حیران ھوگیا
کہ یہ کون ھے جسکو میرے نام کا بھی پتہ ھے
آواز بھی جانی پہچانی لگ رھی
اتنے میں آنٹی نے نقاب پر لگی پن نکالی اور نقاب ہٹا دیا
میری جیسے ھی اسکے چہرے پر نظر پڑی میں تو ایکدم سکتے کے عالم میں ٹکٹکی باندھے اسکو دیکھے جارھا تھا
یہ تو میری پہلی سیکس ٹیچر تھی
اس گشتی نے ھی تو میری اچھی بھلی سادا سی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا اسکی وجہ سے میں سیکس سے آشنا ھوا تھا
اس ظالم نے ھی تو مجھے پہلی بار مموں کی ڈیزائنگ دیکھائی تھی
اس خرافہ نے ھی تو مجھے پھدی کی خوبصورت شیپ سے آشنا کیا تھا
اسی کی ھی لذت بھری آوازوں نے میری نیندیں اڑائیں تھی
جی بلکل دوستو آپ سہی سمجھے
یہ اور کوئی نھی فرحت تھی
مجھے حیران پریشان دیکھ کر فرحت نے ہلکا سا کھانسا تو میں ایکدم خیالوں سے باہر آیا
اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال
جججججی آپپپپ
تو وہ بڑی ادا سے بولی
ھاں جی اب پہچانہ کہ اب بھی انجان بنے ھو
میں نے نھی میں سر ہالتے ھوے کہا
ننننھی جی اب تو پہچان لیا
آپ قیصر کی مما ہیں نہ
تو وہ بولی ھاں جی شکر ھے پہچان لیا
تو میں انکا حال احوال پوچھنے لگ گیا اور قیصر کے بارے میں کہ وہ اب کہاں پڑھتا ھے
تو فرحت نے بتایا کہ وہ اب الھور اپنے ماموں کے پاس .چال گیا ھے اور ادھر ھی پڑھتا ھے
ادھر آوارہ گرد ھوتا جارھا تھا اس لے اس کی نانی نے اسے اسکے ماموں کے پاس بھیج دیا ھے
).Update no (42
میں اتنا ایکسائڈڈ تھا کہ
میرے منہ سے اچانک نکل گیا
اور ماسٹر جی کیسے ہیں
تو فرحت ایک دم گبھرا گئی اور جلدی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھتے ھو بولی
کککون
ممماسسٹرر
فرحت کی حالت دیکھ کر
مجھے ایکدم اپنی غلطی کا احساس ھوا
تو میں نے جلدی سے بات کو سنبھالتے ھوے کہا
وہ سر صفدر صاحب کا پوچھا تھا کیوں میں نے تو سکول چھوڑ دیا تھا اور قیصر مجھ سے دو کالس پیچھے تھا
تو آپ قیصر کا پتہ وغیرہ کرنے جاتی رھی ھوں گی اس لیے انکا پوچھ لیا
تو فرحت نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا
پتہ نھی مجھے کیا پتہ
میں تو بس ایک دو دفعہ ھی گئی تھی اس کے بعد قیصر کو بھی ہٹا لیا تھا سکول سے
میں نے ہممممم کیا اور
پھر ایک دو سوٹ اور انکو دیکھانے لگ گیا
ایک سوٹ سرخ کلر کا تھا
میں نے اس سوٹ کو انکی طرف کیا اور کہا کہ آنٹی آپ یہ سوٹ لے لیں یہ آپ پر بہت اچھا لگے گا
تو فرحت نے بڑی ادا سے میری طرف دیکھا اور سوٹ کو الٹ پلٹ کر کے دیکھنے لگ گئی
تو اسکی امی نے کہا
ُپتر دو ِتن سوٹ شاپر وچ پا دے اسی کار جاکے ویکھ لواں گے جیڑا چنگا لگیا اور رکھ لواں گے باقی توں آن لگے لے آویں
یا فیر تواڈے کار پھڑا دیاں گے
میں نے کہا ماں جی کوئی بات نھی
اگر ادھر بھی پہن کر چیک کرنا ھے تو اس الماری کے پیچھے بھی سٹور ھے ادھر پہن کر بھی چیک کر سکتے ہین
میں نے الماری کے پیچھے سٹور ھے کو ذرا لمبا کر کے کہتے ہوے فرحت کی طرف
گہری نظر سے دیکھا
تو فرحت بھی ایکدم چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی
اور جلدی سے بولی
ننننھی نھی ہم گھر میں ھی پہن چیک کرلیں گے
تو میں نے کہا آنٹی جی آپ نے اپنے لیے لینا ھے یا کسی اور کے لیے
تو فرحت بولی میں نے اپنے لیے ھی لینا ھے کیوں ایسا کیوں پوچھ رھے ھو
تو میں نے کہا آپ کہہ رھی ہیں نہ کہ ہم گھر جاکر پہن کر دیکھ لیں گی
تو فرحت مسکرا کر بولی میرا مطلب ھے کہ میں گھر جاکر پہن کر چیک کرلوں گی
میں نے ہممممم کیا اور انکی پسند کے تین چار سوٹ شاپر میں ڈال دیے اور فرحت پرس سے پیسے نکال کر دینے لگی تو
میں نے کہا
رہنے دیں پہلے آپ سوٹ پسند کر لیں جونسا پسند ھوا
میں گھر سے لے لوں گا اور باقی کے سوٹ بھی لیتا آوں گا
تو فرحت نے ہممم کہا اور
پھر نقاب کر کے پن لگائی اور
اٹھنے لگی تو میں نے کہا
کتنے بجے آوں
توفرحت بولی چاھے رات کو ھی آجانا یا صبح
فرحت کی امی دکان سے باہر نکل گئی تھی جبکہ فرحت ابھی تک دکان کی مزید ورائٹی کی طرف
نظریں گھما رھی تھی
میں نے پھر کہا آنٹی جی سرخ سوٹ ایک دفعہ پہن کر ضرور دیکھنا آپ پر بہت اچھا لگے گا
تو فرحت نے میری طرف دیکھا اور بڑی شوخی سے
بولی اچھا جی
سرخ بھی پہن لوں گی
تو میں نے کہا اگر آپکی مرضی ھو تو الماری کے پیچھے بنے ھوے سٹورررر میں بھی پہن کر دیکھ سکتی ہیں
یہاں کسی قسم کی کوئی ٹینشن نھی ھوگی
تو فرحت نے مجھے بڑی گہری نظر سے دیکھا
اور بولی اچھاااا جی امی ساتھ نہ ھوتی تو تمہاری الماری کے پیچھے سٹور کو بھی دیکھ لیتی کہ وہاں کیا اتنی خاص بات
ھے جو تم بار بار سٹور کا کہہ رھے ھو
اور یہ کہہ کر فرحت نے کپڑوں کا شاپر پکڑا اور باہر نکل گئی
میں اسے جاتی ھوئی کو پیچھے سے دیکھنے لگ گیا
برقعے میں بھی اسکی گانڈ ہلتی نظر آرھی تھی ،،۔۔
فرحت دکان کے تھڑے پر جاکر رکی اور ایکدم پیچھے کو گردن گھما کر دیکھا
جیسے اسکی گانڈ کو دیکھنے کی میری چوری کو اس نے پکڑ لیا ھو
اور پھر ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی امی کے ساتھ آگے چلی گئی
اور میں اہستہ آہستہ چلتا ھوا
پھر کیش دراز کے پاس گدی پر بیٹھ گیا
اتنے میں جنید بھی انکل سجاد کو چھوڑ کر آگیا
میں نے کاپی پکڑی اور اسپر فرحت کے بیٹے کا نام درج کر کے ایڈریس کے ساتھ سوٹوں کی تعداد لکھی اور کاپی کو دراز
میں رکھ دیا
جنید نے مجھ سے پوچھا آیا کوئی کسٹمر تو میں نے اسے بتایا کہ ہمارے گاوں کی آنٹی تھی
وہ پانچ سوٹ گھر دیکھانے کے لیے لے گئی ھے
تو وہ ہمممم کر کے میرے پاس ھی بیٹھ گیا
اور مجھ سے پوچھنے لگ گیا کہ شاہد نھی آیا تو میں نے کہا ابھی تک تو نھی آیا کہیں چھٹی کا پروگرام نہ بنا لیا ھو اس
نے ،۔۔
تو وہ بھی اسکی ُبرائیاں کرنے لگ گیا کہ اسکو کوئی پروا نھی کل اسکو انکل نے بتایا بھی تھا کہ میں نے صبح فیصل آباد
جانا ھے پھر بجی چھٹی کر کے بیٹھ گیا ھے
اتنے میں شاہد بھی اگیا اور مجھ سے سالم دعا کے بعد سوری کرنے لگا کہ یار انکل کو نہ بتانا کہ میں لیٹ آیا ،تھا میرا بیٹا
بیمار تھا اسکی دوائی لینے گیا تھا
میں نے اسکو تسلی دی کہ کوئی بات نھی نھی بتاتا
پھر ایسے ھی کسٹمر آنا شروع ھوگئے اور ہم سارا دن مصروف ھی رھے
رات کو کافی لیٹ دکان بند کی کیونکہ انکل نے آنا تھا تو ھی دکان بند کرنی تھی
رات کو دیر ھونے کی وجہ سے میں بھی فرحت کے گھر نھی گیا دوسرے دن صبح صبح ھی میں انکے گھر چال گیا
گھر کا مجھے پتہ تھا
میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو فرحت کی آواز آئی کون ھے
تو میں نے اپنا بتایا کہ یاسر
فرحت نے دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا
میں اندر چال گیا
فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے مین آگئی اس کمرے میں بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل پڑا تھا
مجھے اس نے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا
اور ایک منٹ کا کہہ کر کہ میں آئی اور باہر چلی گئی
میں بیٹھا
کمرے کا جائزہ لیتا رھا
کہ فرحت ہاتھ میں کپڑوں کا شاپر لیے اندر داخل ھوئی
اور اس نے سرخ سوٹ نکال کر کہا
یہ مجھے اچھا لگا ھے
ویسے تمہاری پسند کافی اچھی ھے
میں نے فخر سے سینہ چوڑا کرتے ھوے کہا
آنٹی دیکھ لین میں نے کہا تھا نہ کہ سرخ سوٹ آپ پر بہت اچھا لگے گا
فرحت بولی ھاں ویسے تمہاری پسند کو بھی داد دینی پڑے گی
میں نے دل میں ھی کہا
داد کے بدلے پھدی دے دو تو مزہ آجاے تجھے ماسٹر بھی بھول جاے گا ،،۔۔
فرحت بولی یاسر تمہیں کیسے پتہ تھا کہ مجھے سرخ رنگ ھی پسند آے گا اور مجھ پر بہت اچھا لگے گا تم نے یہ اتنے یقین
سے کیسے کہا
میں نے کہا آنٹی جی آپ کا رنگ بہت سفید ھے
اور اس سوٹ کی فٹنگ بلکل آپکے جسم کے مطابق تھی اور سرخ رنگ آپ کے گورے رنگ پر چار چاند لگا دے گا
اس لیے میں نے سرخ رنگ ھی آپکو لینے کے لیے کہا تھا
فرحت حیران ھوتے ھوے بولی
واہ بڑی معلومات ھے تمہیں میرے بارے میں
میں نے کہا بس جی دیکھ لیں کام کرتے تجربہ تو ھوھی جاتا ھے
فرحت بولی یاسر ایک بات تو بتاو مگر سچ بتانا
میں نے کہا جی آنٹی پوچھیں میں کیوں جھوٹ بولوں گا
فرحت بولی
تم نے ماسٹر جی کا مجھ سے کیوں پوچھا تھا
میں نے کہا
ووووہ میں نے ایسے ھی پوچھ لیا تھا
فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی یاسر دیکھو مجھے سچ سچ بتاو میں کوئی بچی نھی ھوں
میں نے دل میں ھی کہا کہ واقعی
توں ماسٹر کولوں کدوں بچی سی
ہن میرے کولوں وی نئی
بچدی
میں نے کہا میں سچ ھی کہہ رھا ھوں
فرحت بولی پھر جھوٹ بول رھے ھو
اور یہ جو تم بار بار الماری کے پیچھے سٹور سٹور لگے تھے
اور ماسٹر جی کا پوچھ رھے تھے
اسکے پیچھے جو سچ ھے وہ مجھے بتاو
مجھے پتہ ھے کہ تم کالس کے مانیٹر تھے اور ماسٹر جی کے بہت الڈلے بھی
اگر تمہیں ماسٹر جی نے کچھ الٹا سیدھا میرے بارے میں بتایا ھے
تو پلیززز مجھے سچ سچ بتا دو
میرا تم سے وعدہ ھے کہ میں تمہیں کچھ نھی کہوں گی
تمہاری ان باتوں نے مجھے ساری رات نھی سونے دیا
میں نے کہا آنٹی جی آپ کو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے
فرحت بولی یاسررر تم مجھے بیوقوف نھی بنا سکتے جو سچ ھے وہ بتا دو
میں نے تم سے وعدہ کیا ھے نہ کہ کچھ نھی کہتی۔۔
میں سوچنے لگ گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا سچ ھی کہا ھے کسی نے
سالی کی چھٹی حس کتنی تیز ھے
ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا
کہ فرحت میرے قریب آکر بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس نے اچانک،،،
میرا ھاتھ پکڑا اور میرے ھاتھ پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھتے ھوے بولی
تم اپنی امی سے کتنا پیار کرتے ھو
تو میں نے کہا یہ کیسا سوال ھے
فرحت بولی بتاو نہ کتنا پیار کرتے ھو
میں نے کہا اپنی جان سے بھی ذیادہ اپنی ماں سے پیار کرتا ھوں
فرحت بولی
تمہیں تمہاری ماں کی جان کی قسم مجھے سچ سچ بتاو .اگر جھوٹ بولو گے تو اپنی مری ماں کا منہ دیکھو گے
فرحت کی یہ بات سن کر میرا دماغ چکرا گیا کہ سالی نے کیسا سچ اگلوانے کے لیے میرا ویک پوائنٹ پکڑا ھے
میں ہاتھ چھڑوا کے ایک دم کھڑا ھوگیا اور کپڑوں کا شاپر پکڑ کر باہر نکلنے لگا تو
فرحت نے میرا بازو پکڑ لیا اور جلدی سے کمرے کے دروازے کو بند کر کے کنڈی لگا دی
میں نے کہا مجھے دکان سے دیر ھورھی ھے مجھے جانیں دیں
فرحت بولی جب تک سچ نھی بتاو گے جانے نھی دوں گی
میں نے کہا
آپ کی امی کیا سوچے گی کہ کمرے کا دروازہ کیوں بند ھے تو فرحت بولی
انکی فکر مت کرو وہ سوئی ھوئی ہیں دوائی کھا کر دس بجے سے پہلے نھی اٹھتی
مین نے کہا مگر مجھے تو جانے دیں
فرحت بولی یاسر مجھے یقین ھے کہ تم جھوٹ بول رھے ھو اب تو تمہیں تمہاری امی کی قسم بھی دے دی ھے
اب بھی جھوٹ بولو گے یا کچھ چھپاو گے تو
پھر اس کے تم خود ھی ذمہ دار ھوگے
میں نے کہا
آنٹی سچی مجھے دیر ھورھی ھے
میں نے انٹی فوزیہ کی بیٹیوں کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے
وہ میرا انتظار کررھی ہوں گی ابھی مجھے جانے دیں
میں رات کو آکر سب کچھ سچ سچ بتا دوں گا
مگر ایک بات بتاتا چلوں کہ تب بتاوں گا جب آپ کی امی پاس نہ ھوں گی
فرحت بولی قسم کھاو کہ تم رات کو آو گے اور سب کچھ بتاو گے
میں نے قسم کھا کر فرحت کو یقین دلوایا
تو فرحت نے مجھے وقت بتایا کہ اس وقت امی سو جاتی ھے میں بیٹھک کے دروازے کی کنڈی کھول دوں گی اور دروازہ
ویسے ھی بند کردوں گی
تم دروازے کو ہلکا سا کھولنا اور اندر آجانا
اور گلی میں دیکھ کر آنا کہ کوئی تمہیں اندر آتے نہ دیکھے
میں نے فرحت سے وعدہ کیا اور جلدی سے کمرے سے نکل کر صحن میں آگیا اور پھر بیرونی دروازے سے نکل کر اپنے
گھر کی طرف چل دیا
).Update no (43
آدھے راستے میں جاکر مجھے یاد آیا کہ میں نے پیسے تو لیے ھی نھی
پھر یہ سوچ کر واپس نھی گیا کہ
سالی نے نواں کٹا کھول کہ بے جانا اے
مجھے پہلے ھی کافی دیر ھوچکی تھی میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا
فوزیہ کے گھر پہنچ گیا تو فوزیہ نے مجھے شرما کر دیکھا جیسے کل ھی اس نے میرے ساتھ سہاگ رات منائی ھو
عظمی اور نسرین میرے انتظار میں ھی بیٹھی ھوئی تھی
مجھے دیکھتے ھی نسرین مجھ پر بھڑک اٹھی
کہ روزانہ ہمیں سکول سے دیر کروا دیتا ھے نواب زادہ
میں اسکی باتوں کو نظر انداز کرتا ھوا
فوزیہ کے پاس کھڑا ھوگیا
نسرین کی اچانک نظر میرے ھاتھ میں پکڑے شاپر پر پڑی اور بولی یاسر اس میں کیا ھے
میں پہلے ھی اسکی جلی سڑی باتوں سے غصے میں تھا
میں بوال
ُک ش نئی بیجا آرام نال
تو نسرین بولی بتا دے کیا ھے بھائی نھی میرا
میں نے کہا سوٹ ہیں فینسی بوتیک کے
تو وہ جلدی سے آگے بڑھی اور میرے ھاتھ سے شاپر پکڑنے کی کوشش کی تو میں نے جلدی سے شاپر اوپر کر کے
دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اس نے جمپ مار کر شاپر پکڑنے کی کوشش کی شاپر میرے سر کے بلکل اوپر تھا
تو اسکے دونوں ممے میرے سینے کے ساتھ لگے
پہلی دفعہ نسرین کا جسم میرے جسم کے ساتھ ٹچ ھوا تھا
اسکے مموں کے لمس سے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا
جبکہ اسکے بارے میں میرے دماغ میں کبھی بھی ایسی ویسی بات نھی آئی تھی اسکا جسم بھی عظمی کی طرح بہت
سیکسی تھا
اب تو اسکے ممے بھی چونتیس سائز کے ھوچکے تھے اور جسم بھی بھرا بھرا تھا
مگر میں نے کبھی اسکو غلط نگاہ سے دیکھا ھی نھی تھا
کیونکہ وہ میرے ساتھ کبھی اتنا فری نھی ھوئی تھی اور ویسے بھی وہ سڑئیل مزاج کی تھی اس لیے بھی میں اسکو زیادہ منہ
نھی لگاتا تھا ۔۔۔
خیر اسکے مموں کے لمس نے مجھے چونکا دیا اور لن ساب نے بھی کہا کہ ماما اے وہ جوان اے
میں نے جلدی سے شاپر دوسرے ھاتھ میں کر لیا اور شاپر کو مزید اونچا کردیا تو نسرین نے پھر شاپر کو پکڑنے کے لیے
جمپ لگایا تو اس دفعہ پہلے سے ذیادہ اسکے ممے میرے ساتھ ٹچ ھوے
عظمی شاید یہ سب دیکھ رھی تھی
اس لیے وہ غصے سے بولی
تیری کیوں جان نکل رئی اے پہلے ھی سکول سے اتنی دیر ھوگئی ھے
چلو چلیں
اگر اتنا ھی شوق چڑھا ھے تو دکان پر جاکر دیکھ لینا
نسرین نے ُبرا سا منہ بنایا اور اپنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی کوئی بات نھی دیکھ لوں گی تجھے
اور میں ہنستہ ھوا
انکو لے کر صدف کے گھر پہنچا تو اس سے بھی یہ ھی سب کچھ سننے کو مال
اور ہم چاروں شہر کی طرف چل پڑے
راستے میں بھی نسرین سب سے آگے منہ بسورے جلدی جلدی تیز قدموں سے چلی جارہی تھی اور اسکی گانڈ بھی اس
حساب سے
ون ٹو کرتی جارھی تھی
صدف میرے آگے تھی اس نے بھی .مجھ سے پوچھا کہ دیکھاو کون سے ڈیزائن ہیں میں بھی ویسے سی لوں گی دیکھ کر
تو میں نے اس کو بھی ٹال دیا کہ پھر کبھی تمہیں دیکھا دوں گا ابھی دیر ھورھی ھے
ایسے ھی چلتے چلتے ہم سکول پہنچ گئے
انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں سیدھا دکان پر چال گیا
اور پھر روز مرہ کی طرح کام میں مصروف رھا
تین بجے اچانک میرے ذہن میں آیا کہ میں نے تو چار بجے مہری سے ملنے جانا ھے
خیر
تین سے چار بجے کا وقت مجھے پتہ ھے کہ میں نے کیسے گزارہ تھا
بڑی مشکل سے چار بجے
میں نے انکل سے بہانہ کیا کہ میرے دوست کے والد کی طبعیت بہت خراب ھے تو میں نے انکا پتہ کرنے اسکے گھر جانا
ھے
تو انکل نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نھی کی کیوں کے میں نے کبھی فضول چھٹی نھی کی تھی اور نہ ھی دکان سے کبھی ادھر
ادھر گیا تھا
یہ پہال موقع تھا کہ میں چھٹی سے پہلے دکان سے جارھا تھا
خیر میں انکل سے اجازت لے کر جانے لگا تو انکل نے مجھے آواز دی کہ یاسر اگر تمہارے دوست کا گھر دور ھے تو
جنید تمہیں موٹر سائیکل پر چھوڑ آتا ھے
تو مجھے انکل کا مشورہ معقول لگا کیوں کہ مجھے جتنی بے چینی تھی مہری کے قرب کی مجھ سے تو اسکے گھر کا
راستہ بھی جلدی طے نھی ھونا تھا
میں نے کہا نیکی اوت پوچھ پوچھ
اور انکل سے کہا اگر جنید کو کوئی کام نھی ھے تو بھیج دیں
انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کو اسکے دوست کے گھر چھوڑ آو
جنید نے موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور مجھے پیچھے بٹھا کر مجھ سے راستہ پوچھتے ھوے جانے لگا
مہری کے گھر سے کچھ ھی دور گلی کی نکڑ پر میں نے جنید کو رکنے کا کہا اور میں موٹرسائیکل سے اتر گیا اور اسکا
شکریہ ادا کرتے ھوے اسے جانے کا کہا
جیند نے موٹرسائیکل گھمائی اور واپس چال گیا مجھے جب تسلی ھوگئی کہ جنید چال گیا ھے تو میں
مہری کے گھر کی طرف چلنے لگ گیا
گلی سنسان تھی
اس لیے میں بنا کسی پریشانی کے چلتا ھوا مہری کے گھر کے سامنے پہنچ کر کھڑا ھوگیا
اور ڈور بیل بجائی
کچھ دیر بعد
اس قاتل حسینہ کی مترنم آواز میرے کانوں کو
چھوئی
کون ہے
تو بے ساختہ میرے دل نے کہا
ہم خاک نشیں ۔تم ُسخن آرائے سِر بام۔۔
پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو ہو،۔
میں نے کہا جی میں یاسر
تو دوسری طرف سے کچھ دیر خاموشی رھی اور پھر گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھال
اور اس دروازے سے وہ حسین چہرہ نکال جیسے بادلوں سے چاند نکلتا ہے
میرے دل سے پھر آواز آئی
حسین چہرہ ۔گالبی رنگت۔
جھیل سی آنکھیں۔
ہو تم اپنی مثال آپ جاناں،
اس جہاں میں تجھ سا حسین دیکھا نھی،
مہری نے مجھے اپنے ُح سن کے سحر میں ڈوبا دیکھا تو شرما کر بولی اب ادھر ھی کھڑے رھو گے کی اٹھا کر اندر الوں
اور یہ کہہ کر وہ ایک سائڈ پر ھوگئی
اور میں اس کے خیالوں سے باہر آیا اور جلدی سے اندر چال گیا،
مہری بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو ویری ُگ ڈ،
اور یہ کہتے ھوے اس نے دروازہ الک کر دیا
مہری نے الئٹ گرین الن کا سمپل سا مگر قیمتی سوٹ پہنا ھوا تھا
اور اسکے جسم پر سوٹ بھی انمول ھوگیا تھا
کمال کی حسین لگ رھی تھی شارٹ شرٹ چونٹوں والی بیلٹ والی شلوار
جو اسکی قمیض کی سائد سے نظر آرھیں تھی
وہ کسی ُگ ڑیا سے کم نھی لگ رھی تھی
میں نے اسکو سر سے پاوں تک دیکھا اور ساتھ ھی میرے منہ سے نکال
ما*****تو مہری نے شرما کر سر نیچے کرلیا اور مجھے دھکا دیتے ھوے کہنے لگی چلو اندر کہ یہاں کھڑے کھڑے مجھے
ھی گھورتے رہنا ھے
میں نے ادھر کھڑے ھی اسکو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کردیا
اور غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا
مہری نے میری آنکھوں آنکھیں ڈال کر اشارے سے پوچھا کیا ھے
تو بےساخطہ میرے لب ہلے
چہرے پہ مرےُز لف کو پھیالؤ ناں
کیا روز گرجتے ہو ،آج جی بھر کہ برس جاؤ ناں
رازوں کی طرح ُاترو مرے دل میں آج
دستک پہ مرے ہاتھ کی ُک ھل جاؤ ناں
مہری نے شرما کر مجھ سے اپنا آپ ُچ ھڑوایا اور اندر کمرے کی طرف بھاگ گئی
میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکے کمرے میں آگیا
اسکا کمرہ بھی اسکی طرح خوبصورت تھا
یا شاید اس کے حسن نے کمرے کو اور حسین بنا دیا تھا
).Update no (44
مہری کمرے میں جا کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور منہ کے اگے دونوں ہاتھ رکھ لیے
میں جاکر اسکے قدموں میں پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے حسین نرم ھاتھوں پر رکھے
اور اسکے ھاتھوں کو چاند سے ہٹانے لگا
جیسے ھی اسکے ھاتھ اسکے چہرے سے ہٹے تو میں نے دیکھا کہ چودہویں کا چاند تو شرم سے ھی سرخ ھورھا ھے
مہری نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی
میں نے کہا مہری
مہری نے ایسے آنکھیں کھولی جیسے گڑیا بےبی ڈول آنکھیں کھول کر پھر بند کرلیتی ھے
مگر میری بے بی ڈول نے آنکھیں کھولی تھی مگر بند نھی کی تھی
اور مجھے پھر اشارے سے پوچھا کیا ھے اور ہنسنے لگ گئی
میں نے کہا مہری مجھ سے شرما کیوں رھی ھو
مہری بولی
تم پلیز مجھے اسطرح نہ دیکھو مجھے شرم آرھی ھے
میں اٹھ کر اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسکی
ٹھوڑی کیا ریشم کا زرہ تھا
جس پر میری انگلیاں رکھتے ھی نشان پڑ گئے
میں نے اس حسین چہرے کو اپنی طرف گھماتے ھوے کہا
مہری تم واقعی ھی بہت خوبصورت ھو مجھے یقین نھی ھورھا کہ تم جیسی حسین پری میری دوست بن سکتی ھے اور
مجھے اس کا قرب حاصل ھوسکتا ھے
مہری بولی
اچھا جی خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں ھو
میں نے کہا
جس خوش نصیب کے سامنے یہ گالب کا پھول ھو تو وہ اس کی خوشبو سے مدہوش نہ ھو تو لعنت ھے اس وصال یار پر
مہری تھوڑا سے پیچھے کھسکتی ھوئی بولی مجھے تمہاری طبعیت اور نیت کچھ سہی نھی لگ رھی
میں نے کہا طبعیت تو بلکل سہی ھے مگر
یہ حسن یہ دیدار صنم دیکھ کر نیت کی کیا گارنٹی کہ وہ خراب نہ ھو
مہری جلدی سے اٹھی اور مجھ سے کہنے لگی اچھا مجنوں جی
پہلے کچھ کھا پی لو
پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں
میں نے کہا
اگر پالنا ھی ھے تو پھر سن شربتی گالبی پنکھڑیوں کا رس پال دو
جسے پی کر ہم بھی امر ھو جائیں
مہری بولی
تمہارا گال دبا دینا ھے
میں نے کہا
دیر کس بات کی میری خوش نصیبی ھوگی
جو در یار پر میری جاں نکلے
تو فری اففففففف کرتی ھوئی اپنے ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے باہر نکل گئی میں اسے جاتا ھوا اسکی مٹکتی ھوئی گول گانڈ
کو دیکھتا رھا
مہری کے جانے کہ بعد میں اسکے حسن میں کھویا اسکے تصور میں
ہاتھ پیچھے بیڈ پر رکھے ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکاے
آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا
کہ اچانک میرے منہ پر پانی کے چھینٹے پڑے اور میں نے ایکدم آنکھیں کھولی تو
وہ حسینہ جس کو آنکھیں بند کئے دیکھ رھا تھا
آنکھیں ُک ھلتے ھی میرے سامنے ھاتھ میں ٹرے پکڑے جس میں دو مشروب کےگالس تھے
مجھے دیکھے مسکرا رھی تھی
پھر اسکے لب ہلے اور بولی جناب سونے آے ہیں ادھر
میں نے کہا
نیند اب کہاں رھی
آنکھیں بند بھی کروں تو صرف تیرا ھی چہرہ سامنے آتا ھے
مہری بولی اچھا جی جناب شاعر بھی ہیں مجھے تو آج پتہ چال
میں نے کہا
تیرے ُح سن نے شاعر بنا دیا ورنہ شاعری ہمارے بس کا کام نہ تھی
مہری نے ایک گالس مجھے پکڑایا اور ایک گالس خود پکڑ کر ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھ دی اور مشروب کی چسکی لیتی
ھوئی میرے پاس بیٹھ گئی
میں نے بھی مشروب کا ایک گھونٹ بھرا اور
منہ بسور کر کہا کہ
یار یہ تو پھیکا ھے
مہری ایکدم گبھرائی اور بولی پھیکا کیسے ھو سکتا ھے میں بھی یہ ھی پی رھی تھی
میں نے گالس اسکی طرف کرتے ھوے کہا یہ پی کر دیکھو
مہری نے ایک گھونٹ بھرا اور نگلتے ھوے بولی
جھوٹے اتنا تو میٹھا ھے
تو میں نے پھر گھونٹ بھرا اور
گھونٹ بھرتے اوپر منہ کر کے آہہہہہہہہہہ کیا اور مہری کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اب میٹھا ھوگیا ھے
مہری نے میرے پیٹ میں کہنی ماری اور بولی
چل شوخا بتمیز
میں نے کہا تمہاری لباب نے اسے میٹھا کیا ھے پہلے تو یہ پھیکا ھی تھا
میں نے دو تین لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور گالس خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا
کچھ دیر میں مہری نے بھی گالس خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا
میں نے مہری سے پوچھا کہ اسد کب گیا ھے مہری بولی وہ تو اوپر ھے کمرے میں
میں جمپ مار کے کھڑا
ہوگیا اور گبھراے ھوے انداز میں بوال
او ِش ٹ یار پہلے کیوں نھی بتایا
مہری بولی اب بتا دیا ھے
کیوں کیا ھوا اتنے پریشان کیوں ھوگئے ھو
میں جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا اور مہری کو کہا
میں جارھا ھوں
مہری جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر مجھے بازو سے پکڑ کر ہنستے ھوے بولی
ڈرپوک
میں مزاق کررھی تھی
تم سچی میں بڑے ڈرپوک ھو نکل گئی نہ ایک منٹ میں ساری شاعری
دوستو اسد کا سن کر واقعی میری ہوا نکل گئی تھی
میں نے مصنوعی غصہ دیکھاتے ھوے مہری کی طرف دیکھ کر کہا جاو میں نھی بولتا تمہارے ساتھ
اور اس سے بازو ُچ ھڑوا کر باہر جانے لگا تو مہری نے مجھے پیچھے سے جپھی ڈال لی اور بولی
دل توڑ کہ نہ جا منہ موڑ کے نہ جا
ایسے گانا ُگ ن گناتے ھوے میرے ساتھ جھولنے لگ گئی
مہری کے نرم نرم ممے جیسے ھی میری کمر کے ساتھ لگے
تو میرے اندر پھر ہوس پیدا ھو گئی
اور میں نے مہری کے ہاتھ پکڑ لیے جو اس نے میرے پیٹ پر باندھے ھوے تھے
میں نے آہستہ سے اسکے ہاتھ کھولے اور گھوم کر اسکی طرف منہ کرلیا اور اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر
اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا
میں ڈرتا نھی ھوں
میں نے نے جیسے ھی مہری کے ہونٹ چومنے کے لیے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھاے تھے
مہری نے میرے ہونٹوں کو اتنا قریب آتے دیکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی اور اسکے ہونٹ کانپنے لگ پڑے تھے
میں نے پھر اس کے نرم گالبی ہونٹوں کو چوما اور
مہری کو ویسے ھی گالوں سے پکڑے اسکو پیچھے دھکیلتے ھوے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا
مہری بھی میرے ہر قدم کے ساتھ پیچھے ھوتی جارھی تھی
کہ بیڈ کے ساتھ اسکی ٹانگیں لگ گئی اور میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے اسے پیچھے بیڈ پر لیٹا دیا اور خود اسکے
اوپر لیٹ گیا ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھی میرا لن مہری کی پھدی کے بلکل اوپر
اسکی پھدی کو دبا رھا تھا
میں اب مسلسل اسکے ہونٹوں کو چومی جارھا تھا اور مہری نے ابھی تک آنکھیں بند ھی کی ھوئی تھی
میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھی رکھے
پھر اسکی دونوں ٹانگوں کے نیچے ھاتھ لیجا کر اسکی ٹانگوں کو بیڈ کے اوپر کی اور سرھانے والے سائڈ پر اسکا سر
کرکے
مہری کو بلکل سیدھا بیڈ پر لٹا کر اسکی دائیں طرف اسکے اوپر جھک گیا
مہری نے ایک دفعہ اپنی آنکھیں کھولی تو مجھے اسکی آنکھوں میں سرخی نظر آئی اور اس نے پھر جلدی سے ایسے
آنکھیں بند کر لی جیسے
کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ھے
میں اسکے اوپر جھکا مہری کے چہرے کو غور سے دیکھ رھا تھا اور ھاتھ کی ایک انگلی کو اسکے چہرے پر پھیر رھا
تھا مہری کا ایک مما میرے سینے کے ساتھ لگا تھا
جس سے اسکے سینے کی تیز دھڑکن کا پتہ چل رھا تھا
مہری کی کنپٹی سے انگلی کو پھیرتے ھوے اسکے ماتھے سے گزار کر اسکی نرم روئی جیسی سوفٹ گال پر پھیرتا ھوا
ٹھوڑی سے لے کر اسکے دوسرے گال تک لیجا کر اسکی بند آنکھوں کی پلکوں کو ٹچ کرتا ھوا اسکی چھوٹی سی تیکھی
ناک پر پھیرتے ھوے اسکے نرم گالبی ہونٹوں پر انگلی کو پھیرتا تو مہری کا جسم کانپ جاتا اسکے ہونٹ تھرتھرانے لگ
جاتے اسکی پلکیں کپکپانے لگ جاتی
اسکے ممے تیز سانسوں کی وجہ سے میرے سینے کو ٹچ ھوکر واپس اپنی جگہ پر چلے جاتے
میں اسکی یہ حالت دیکھ کر کافی محفوظ ھورھا تھا
وہ کسی بے جان مورت کی طرح پڑی تھی
نہ مجھ سے بات کررھی تھی نہ مجھے روک رھی تھی
بس میری انگلی کے جادو سے تھر تھرا رھی تھی
اسکے بالوں کی ایک لٹ پنکھے کی ہوا سے اسکے چاند سے چہرے پر داغ لگانے بار بار اڑ کر آجاتی تھی جسے میں
انگلی سے ھی ہٹا کر اسکے کان کی لو کے پیچھے کرتا
اور غور سے اپنے مجازی محبوب کے حسن میں ڈوبا اس چاند سے چہرے کو دیکھ کر سوچ رھا تھا کہ
یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب ہے۔اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ ،اور اب ،خال اور
قد غرض سراپائے جسم کی تعریف و توصیف بیان کروں تو کیسے کروں
اور اسکی بالوں کی جو لٹ بار بار اڑ کر اس چاند پر گرتی تھی
اسکو سنبل ،سانپ ،ناگن ،زنجیر ،سائباں ،بادل ،رات کا اندھیرا اور ساون کی گھٹا جیسے استعاروں سے تشبیہ دوں یا
کیا نام دوں
یا پھر یہ کہہ دوں کہ
زلف جاں سے ملی فکر و نظر کی چاندنی۔۔
زلفوں کے پیچ و خم میں یہ عارض کی دھوپ چھاؤں۔۔
کس نے کھوال ہے ہوا میں گیسوؤں کو ناز سے۔۔
اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
بے ساخطہ میرے لب ہلے اور میں نے کہا
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔۔
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔۔
مہری نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور غور سے میری آنکھوں میں جھانکنے لگ گئی
مہری کی آنکھوں میں نشہ تھا سرور تھا سرخی تھی
اک عجیب سے کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچے جارھی تھی اور میں اسکی .جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبتا جارھا
تھا
اور ڈوبتے ڈوبتے میرے پھر لرزتے ہونٹ ہلے
اور میں مہری کی آنکھوں میں کھویا
بول پڑا
)Update no (45
میں مہری کی آنکھوں میں کھویا
بول پڑا
-----------------------
تمہاری کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر سب۔۔
چاقو واقو ،چھریاں ُو ریاں ،خنجر ونجر سب
-----------------------
پھر میں بوال
دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں
پارسائی خراب ہو جائے
--------------------------
یہیں پر بس نھی ھوئی
تو پھر کہا
مہری تمہاری آنکھیں بتاؤں کیسی ھیں؟
جھیل سیف الملوک جیسی ہیں
---------------------------
مہری اور بتاوں
گالب آنکھیں شراب آنکھیں,
یہی تو ہیں الجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بال کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
دّر از پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حالل آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کی بندی سنبھال آنکھیں.
مہری میرے سحر میں جکڑ چکی تھی مجھے یوں اپنے اوپر نچھاور دیکھ کر
مسکرا کر کچھ بولنے گی لگی تھی کہ
میں نے مہری کے گالبی ہونٹوں کو چوما اور کہا
شییییی
آج کچھ نہ بولو بس مجھے جی بھر کے دیکھنے دو
اور جی بھر کے کہنے دو
اور مہری کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا
نازکی تمہارے کے لب کی کیا کہنے
پنکھڑی اک گالب کی سی ہے
مہری اکھڑے ھوے سانس لیتے ھوے بولی آج میری جان لینی ھے
اتنا ظلم مت کرو مجھ پر کہ دور رہنا مشکل ھوجاے
میں نے کہا کون کمبخت دور رہنا چاہتا ھے میری تو آرزو بھی یہ ھے کہ میری جاں بھی تیری قربت میں نکلے
مہری نے دونوں بازو کھولے اور مجھے کس کر جپھی ڈال لی
اور میرے ہونٹوں کو بے دردی سے چوسنے لگ گئی
میں نے بھی اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑنا چاھا
مگر مہری مجھ پر سبقت برقرار رکھے ھوے تھی
کچھ دیر دیوانہ وار کسنگ کر کے مہری نے لمبی آہہہہہہہ بھری اور زور سے سر پیچھے میٹرس پر رکھے تکیہ پر مارا
میں تھوڑا سا جھکا اور اسکے پیٹ کے پاس منہ کیا اور اسکی شرٹ کے پلو کو اپنے دانتوں میں جکڑا اور دانتوں جکڑے
ھوے پلو کو لے کے مہری کے سینے سے ھوتا ھوا اسکے منہ پر آکر پلو کو چھوڑ دیا اور پھر ادھر سے ھی واپس اسکے
ننگے نرم نازک چٹے سفید دودیا مانند پیٹ پر آگیا اور اسکی ناف کے سوراخ پر ایک کس کی
تو مہری کا پیٹ وائبریٹ ھونے لگ گیا
مہری نے دونوں ھاتھوں میں سرھانے کے ُن کریں پکڑ کر بھینچتے ھو سر کو دائیں بائیں کرتے ھو سسسسکاریاں لینی شروع
کردی
میں پیٹ کو چومتا ھو مہری کے مموں کے قریب تر ھوتا گیا یہاں تک کے اسکی شرٹ جو مموں پر تھی وہ میرے ناک کو
چھونے لگی
میں نے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے کیے اور اسکو تھوڑا سا اوپر ھونے کا اشارہ کیا تو مہری اوپر ھوگئی
میں نے اسکی شرٹ کمر سے اوپر اسکے بریزیر تک کردی
اور ساتھ ھی اسکے مموں کے اوپر سے شرٹ کو دانتوں میں لے کر اسکے ممے شرٹ سے آزاد کردیے
میری جسے ھی مہری کے مموں پر نظر پڑی اففففففففف
کیا بتاوں دوست
ممے تھے کہ کیا قیامت تھے
شاید کوئی انگریزوں کی کسی گوری میم کے بھی ایسے ممے نہ ھوں جیسے اس قیامت کی پڑیا کے تھے
ظلم پر ظلم کہ بریزیر بھی سرخ رنگ کا پہنا ھوا تھا
بندے کی جان نہ نکلے تو کیا ھو
میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا اگر کھانے والی چیز ھوتی تو اب تک ڈکار مار چکا ھوتا
مگر یہ تو کھیلنے والی پیار کرنے والے سنبھال کر رکھنے والے چیز تھی
میں نےمموں کے درمیان چومنا شروع کردیا
کچھ دیر بعد ایسے ھی چومتے ھوے مہری کی برا کو مموں سے الگ کردیا
اففففففف میرے خدایا کیا آج میرا آخری دن ھے
کیا بچے کی جان لے گی
ممے افففففف
کیا لکھوں کیا کہوں نہ میرے پاس الفاظ ہیں نہ اور کچھ
بس اسکے سفید مموں کے اوپر بنے پنک گول دائرے اور اکڑے ھوے پنک .نپل پر میں بے دردی سے ٹوٹ پڑا اور پورے
ممے کو ایک ھی نوالے میں نگھلنے کی کوشش کرنے لگا
تبھی مہری نے زور سے سیییییی کیا
اور بولی افففففففف نھیییی
یاسسررررر
پلیززززز آہستہ
کاٹو تو نہ
تو مجھے اپنے جانور بننے کا احساس ھوا
اور ساتھ ھی میں نے ممے پر دباو کم کر دیا اور آرام آرام سے ممے کو چوسنے لگ گیا مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میں
نے منہ میں روئی ڈالی ھوئی ھے
یا جیسے لچھا ھوتا ھے بلکل نرم اور سوفٹ
خیر کچھ دیر ایسے ھی میں دونوں مموں کو باری باری چومتا رھا
پھر میں نے ایک ھاتھ مہری کی شلوار میں ڈال دیا اور جیسے ھی میری انگلیاں اسکی مالئم نرم نازک بالوں سے پاک پھدی
پر لگی
تو مہری ایکدم اوپر کو اچھلی اور زور سے ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا جس سے میری انگلیاں اس کی پھدی کے ساتھ
چپک گئی او ر مہری نے میرے سر کے بالوں کو زور سے پکڑ لیا اور ایکدم مہری کے منہ سے
نکال
ھاےےےےےےےےےےےے ممممممممممممممم افففففففففف سیییییییییج
اور ساتھ ھی میری انگلیوں پر گرم گرم الوا پڑتا محسوس ھوا اور مہری کا جسم ذور ذور سے جھٹکے کھانے لگ گیا
مہری کا جسم ایسے ھوگیا جیسے برف میں لگ گئی ھے
مہری نے ساتھ ھی کروٹ لی جس سے میرا ھاتھ اسکے نرم مالئم چڈوں سے نکل گیا اور مہری نے اپنے گوڈے اپنے پیٹ
کے ساتھ لگاے اور منہ دوسری طرف کر کے لمبے لمبے سانس لیتی ھوئی لیٹ گئی اور میں حیران پریشان اسکی ننگی گانڈ
کو دیکھنے لگا گیا ۔۔۔
مہری کی گانڈ آدھی ننگی تھی اور پیچھے سے اسکی قمیض بھی اوپر کندھوں تک تھی جس سے اسکی چٹی سفید کمر اور
گانڈ نظر آرھی تھی
مہری تو فارغ ھو کر کروٹ لیے اکھٹی ُسنگڑ کر لیٹی تھی
مگر میرے دماغ اور لن کی گرمی ابھی ویسے ھی باقی تھی
مہری کا ننگا گورا جسم دیکھ کر میرا مذید دماغ خراب ھونے لگ گیا
میں نے مہری کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کیا تو مہری نے میرا ھاتھ پکڑ کر جھٹک دیا
میں کہاں باز آنے واال تھا
ننگے کنوارے گورے بدن تو پہلے بھی دیکھ چکا تھا
مگر مہری کا جسم اور اسکی رنگت اور بناوٹ ان سب سے انمول تھی جس کی جتنی تعریف کی جاے کم تھی
میں مہری کے پیچھے اسکی طرف منہ کر کے ٹیڑھا ھوا اور اسکو پکڑ کر الٹا کردیا
مہری نے کوشش کی کہ سیدھی ھو جاے مگر میں وقت ضائع کئے بغیر ھی اسکے اوپر الٹا لیٹ گیا
مہری میں نیچے دبی ھوئی مجھے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی
مگر میں مرد تھا اور وہ ایک کھلتا گالب جسکو پہلی دفعہ کسی مرد نے چھوا تھا
اور اسے پہلی دفعہ مرد کے جسم کا لمس محسوس ھوا تھا
میں نے ہاتھ نیچے کیا اور اپنی قمیض اپنے پیٹ سے اوپر کر کے اپنے سینے کو بھی ننگا کر دیا اور مہری کی پیچھے سے
قمیض کو پکڑ کر مزید اوپر کرکے اسکی کمر کے اوپر اپنا ننگا جسم رکھ دیا اور پیچھے سے اپنے پیروں کی انگلیوں کو
مہری کے نرم پیروں کے پیچھے رکھ کر لن اسکی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا اور اسکے ریشم جیسے بالوں کو اسکی
گردن سے ہٹا کر ایک طرف کر کے اسکی ننگی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے
مہری کا سارا جسم ھی ایک جیسا نرم نازک تھا
اس کے جس عضاء کو میں چھوتا مجھے اسکا جسم اک نئی لذت سے آشنا کروا دیتا
میرے ہونٹوں نے جیسے ھی مہری کی گردن کو چھوا مہری کی مزاحمت وہاں ھی دم توڑ گئی
اور اس نے سیییییییییییی کیا اور اپنا منہ سرھانے میں دبا لیا
میں نے اسکی گردن کو چومنا شروع کردیا
اور ساتھ ھی زبان نکالی اور مہری کی گردن پر پھیرتے ھوے اسکے کان کے قریب لے جاتا اور مہری سسکیاں بھرتے
ھوے خود کو سمیٹنے کی کوشش کرتی اور اپنی گانڈ جے دراڑ میں پھنسے ھوے لن کو بھینچ لیتی
اور کہتی یاسرررررر پلیزززززز نہ کرو
میں ایسے ھی کچھ دیر اسکی گردن کو چومتا اور گردن کے دونوں اطراف زبان پھیرتا رھا
اور مہری میری قربت میں سسکتی رھی
میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور میرا لن مہری کے چتڑوں سے نکل کر اسکے چڈوں میں آگیا اور میرے ہونٹ مہری
کی مالئم کمر کو چومنے لگ گئے
میں کمر کے ایک ایک حصہ کو چومتا ھوا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرھا تھا
مہری میرے نیچے کانپ رھی تھی
میرے ہونٹوں کا لمس اس سے برداشت کرنا مشکل ہورھا تھا
کچھ دیر تک میں اسکی گانڈ کے بلکل قریب آچکا تھا
میں نے زبان نکالی اور گانڈ کے اوپر جہاں سے ریڑھ کی ہڈی شروع ھوتی ھے وہاں پر رکھ دی اور مہری کے ریڑھ کی
ہڈی کو زبان لمبی کر کے چاٹنے لگا
مہری سے برداشت نہ ھوا مہری ایکدم پورے زور سے جھٹکا مار کے سیدھی ھوگئی
اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی
ُت
مجھ پر ترس کھا یاسر کیوں مجھے مارنے پر لے ھوے ھو
میں نے کہا مہری تم چیز ھی ایسی ھو
تمہارا جسم ھی اتنے کمال کا ھے کہ میرا بس چلے تو اس جسم کو اپنے جسم میں سما لوں
تمہارے اس جسم کو اتنا پیار کروں کہ میری ساری عمر گزر جاے اور میری جان نکل جاے
تو مہری نے جلدی سے اپنا ھاتھ میرے منہ پر رکھ دیا اور بولی
*****
نہ کرے کیسی باتیں کر رھے ھو یاسر خبردار اگر دوبارا ایسی بات کی
تو میں نے اسکا ہاتھ پیار سے پکڑا اور ہاتھ کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور
ساتھ ھی اسکے اوپر جھک کر اسکے گالبی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا
مہری بھی میرا برابر ساتھ دے رھی تھی
میری گردن پر اپنا نرم نازک ھاتھ رکھ کر انگلیوں کو میرے بالوں میں پھیر رھی تھی
۔جس سے مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا کچھ دیر ایسے ھی ہم کسنگ کرتے رھے
میں نے مہری کے ہونٹوں کو چھوڑا
اور نیچے کی طرف سرکتا ھوا اسکے ننگے مموں پر آگیا اور باری باری دونوں مموں کو چومتا ھوا
نیچے اسکے پیٹ کی طرف آیا اور اسکے روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے مالئم پیٹ پر زبان پھیرتے ھوے میری کی ناف
کے نیچے تک آگیا
مہری بلکل مدہوش ھو کر
ہممممم اففففففف مممممم سسسسییییی کر رھی تھی تھی اور میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنساے ھوے کبھی بالوں کو مٹھی
میں بھرتی تو کبھی میرے سر میں مساج کرنے کے انداز میں پھیرنے لگ جاتی
کچھ دیر ایسے ھی میں کبھی ناف کو چومتا چاٹتا تو کبھی ناف کے اوپر تک چال جاتا
مہرے کے پیٹ کا کوئی حصہ ایسا نہ بچا ہوگا جو میں نے نھی چوما چاٹا جسکا ثبوت اسکے سارے پیٹ کا میری تھوک سے
گیال ھونا تھا
میں پھر اٹھا اور میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال اور لن باہر نکاال اور مہری کی شلوار جو پہلے ھی کافی اتری ھوئی تھی
اسے پکڑ کر مزید نیچے کرتے ھوے
اتار دیا
مہری کی انکھیں بند تھی اس نے ابھی تک میرے لن کو نھی دیکھا تھا
ورنہ ابھی الت مار کر مجھے بیڈ سے نیچے پھینک دیتی
خیر
میں نےمہری کی شلوار بھی اتار دی
میں مہری کی دونوں ٹانگوں کے بیچھ
ُگ ھٹنوں کے بل بیٹھا ھوا تھا
میرے سامنے مہری کی بالوں سے پاک نرم پھدی .تھی
جس کے ہونٹ بھی پنک تھے اور پھدی کی رنگت اتنی سفید تھی کہ میں نے پہلے کبھی ایسی پھدی خواب میں بھی نھی
دیکھی تھی
میں نے منہ پھدی کے قریب کر کے پھدی کو سونگھا تو پھدی سے منی کی دھیمی دھیمی خوشبو میرے ناک کو چھوتی
ھوئی میرے دماغ میں چلی گئی اور میں اس خوشبو میں مذید مدھوش ھوتا چال گیا
میں نے زبان باہر نکالی اور پھدی کے ہونٹوں کے درمیان گھسا کر پھدی کے ہونٹوں کو کھوال اور پھدی کی ہڈی پر زبان
کی نوک سے دباو ڈال دیا
مہری پھدی کو سک کرنے سے پہلے کی میری ساری کاروائی سے بے خبر تھی
جیسے ھی پھدی پر میری زبان لگی
مہری نے چیخ ماری اور بیڈ سے دوفٹ اچھل کر میرے سر کو پکڑ کر مجھے پیچھے دھکا دے دیا اور ساتھ ھی ٹانگو کو
سکیڑ کر پیچھے ہٹ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی
اور آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتے ھوے بولی
وٹ اس دس یاسر
تم اتنا گر سکتے ھو
آئی شیم یو
میں نے کہا مہری مجھے تمہارے جسم نے پاگل کر دیا ھے
پلیز مجھے نہ ترساو بس ایک بار پیار کرنے دو پلیززززززز
مہری نے زور زور سے انکار میں سر ہالتے ھوے کہا
پلیزززز ڈونٹ ٹچ می
یاسرررررر
یہ کیسا پیار ھے
کیا تم اسکو پیار کہتے ھو
کس جاہل نے اس گندی حرکت کو پیار کا نام دیا
یہ پیار نھی ہوس ھے
اگر تمہیں مجھ سے پیار نھی بس ہوس پوری کرنی ھے
تو لو یاسر
ہوس کے پجاری بنو اور اپنی ہوس کو پوری کرلو
اور ساتھ ھی مہری ٹانگیں چوڑی کر کے پھدی کو میرے سامنے کر کے لیٹ گئی
اور بولی
یاسر میں تمہیں نھی روکوں گی میرا جسم بھی تمہاری ملکیت ھے اور میری روح بھی
تم پہلے مرد ھو جس نے مجھے ٹچ کیا ھے اور میرے اتنے قریب آے ھو
تمہارا جو دل کرے میرے ساتھ کرتے رہنا
مگر اس کے بعد میرے اور تمہارے درمیان پیار نام کا شبت نھی رھے گا
اگر رھے گی تو بس
ہوسسسسسسس ،،،،،،۔۔۔۔۔
مہری نے ٹانگیں میرے کندھوں پر رکھ دیں
اور بولی
کم ان لیٹس گو
میں اسکی باتیں سن کر ہکا بکا آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں لن اسکی پھدی کے پاس کر کے بیٹھا اسے دیکھی جارھا
تھا
مہری نے ٹانگوں سے میرے کندھے کو ہالیا
اور مجھے دوبارا ہوش آئی تو میں نے مہری کی ٹانگوں کو کندھوں سے ذور سے ہٹا کر نیچے کیا اور جلدی سے کھڑا
ھوگیا میرا لن فل تنا ھوا تھا جو اب مہری کی آنکھوں کے سامنے لہرا رھا تھا
مہری کی نظر جب میرے لن پر پڑی تو اسکی آنکھیں ایکدم پتھرا سی گئیں وہ کچھ بولنے لگی تھی مگر اسکی آواز اس کے
ہلک میں ھی اٹک گئی
اور میں اس حسن کے مجسمہ کو اسی حالت میں ننگا چھوڑ کر جلدی سے شلوار پہن کر کمرے سے باہر نکال اور تیز تیز
قدم اٹھاتا ھوا مین گیٹ کے پاس آیا اور دروازہ کھول کر گلی میں نکل کر دکان کی طرف چلدیا
میں نے پیچھے بھی مڑ کر نھی دیکھا تھا
کہ مہری مجھے آواز دے گی کہ نھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
).Update no (46
مہری کی باتیں میرے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح ذربیں لگا رھی تھیں
اور میرا ضمیر مجھے لعن طعن کر رھا تھا
کہ یاسر کیا تم ہوس کے پجاری ھو کیا تمہارے نذدیک صرف سیکس کرنا ھی فرض ھے
کیا تم اسکو پیار کہتے ھو
نھی یہ پیار نھی ہوس ھے ہوس
اگر تم نے مہری کے ساتھ بھی
صدف عظمی اور فوزیہ کی طرح سیکس ھی کرنا تھا تو
پھر اس معصوم سے پیار نام شبد کیوں بولے
اگر تمہیں اس سے واقعی پیار ھے تو کبھی سوچنا بھی نہ کہ تم شادی سے پہلے اس کے ساتھ بھی باقی لڑکیوں جیسا سلوک
کرو گے
کیا عظمی کے بارے میں تمہاری ویسے فیلنگ ھے جیسی پہلے ھوتی تھی
وہ تو تمہاری بچپن کی دوست تھی
میں ایسے ھی ضمیر سے بےعزتی کرواتا دکان پر پہنچ گیا اور جاکر خاموشی سے کاونٹر پر بیٹھ گیا
انکل شاید ***پڑھنے گئے تھے
جنید نے مجھ سے پوچھا خیریت تو ھے اتنی جلدی واپس آگئے اور پریشان بھی لگ رھے ھو ۔
میں نے اسکو ٹال مٹول کر کے اور دوست کے والد کی طبعیت کو ذیادہ سیریس ۔۔۔بتا کر مطمئن کر لیا۔۔
شام کو انکل کے ساتھ ھی میں گاوں چال گیا۔
انکل کو میں نے بتا دیا تھا کہ فرحت نے ایک سوٹ رکھا تھا اور شام کو پیسے لینے کا کیا تھا ۔
انکل نے بھی ہمممم .کردیا۔۔
اور مجھے تاکید کی کہ جاکر پیسے الزمی لے آنا۔۔
میں گھر گیا اور کچھ دیر بعد امی کو بتایا کہ
میں نے کسی سے پیسے لینے ہیں انکے گھر جارھا ہوں ۔
امی نے بھی ذیادہ تفصیل نھی پوچھی تو میں گھر سے نکل کر سیدھا فرحت کی گلی میں جاپہنچا۔
اندھیرا ہونے کی وجہ سے گلی تقریبا سنسان ھی تھی
میں انکی بیٹھک کے دروازے کے پاس پہنچا اور
دروازے کو اندر کی طرف دھکیال تو حسب وعدہ فرحت نے دروازہ کھال چھوڑا ھوا تھا۔
میں اندر داخل ھوتے وقت گبھرا بھی رھا تھا
کہ کوئی ٹینشن نہ بن جاے
مگر پھر بھی میں حوصلہ کرکے اندر داخل ھوگیا
جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو سامنے فرحت چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی
مجھے دیکھ کر کھڑی ھوکر بولی
اتنی دیر کردی
میں کب سے تمہارا انتظار کررھی تھی
میں نے کہا خیر تھی
تو وہ بولی بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑا ھوا تھا
تو مجھے بھی ادھر بیٹھنا پڑا ایسے کوئی بھی اندر آسکتا تھا
گھر میں کونسا مرد ھے
میں اور امی ھی ہیں
امی ویسے ھی شام کو ھی دوائی کھا کر سوجاتی ہیں ،۔
میں نے ہمممم کیا اور چارپائی پر بیٹھ .گیا
فرحت بولی گلی میں کسی نے تمہیں اندر آتے تو نھی دیکھا میں نے کہا نھی جی
گلی بلکل خالی تھی
تو فرحت مطمئن ہو کر بولی اچھا کیا جو احتیاط سے اندر آگئے۔
میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا تو فرحت بولی
وہ تو کب کی سوگئی ہیں۔
میں نے پھر کہا کہ ایک دفعہ تسلی کرلیں
تو فرحت بولی
مجھے پتہ ھے وہ کب سوتی ھیں اور کب اٹھتی ہین ۔۔
میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی
اور چپ کر گیا
فرحت بولی
یاسر کیا کھاو گے کھانا لے کر آوں یا چاے پیو گے میں نے کہا نھی شکریہ میں سب کچھ کھا پی کر ھی آیا ہوں
فرحت بولی چلو چاے پی لو اسی بہانے میں بھی تمہارے ساتھ پی لوں گی
میں نے بھی ذیادہ نخرہ نھی کیا اور چاے کا کہہ دیا
فرحت بولی اندر میرے کمرے میں آجاو ادھر سے آواز باہر جاتی ھے
میں اٹھا اور اسکے پیچھے پیچھے چلتا ھوا صحن مین آگیا
انکا صحن کافی ُک ھال تھا اور سامنے چار کمرے ایک ھی الئن میں بنے ھوے تھے اور انکے آگے برآمدہ تھا اور ایک سائڈ
پر کچن تھا اور ایک طرف لکڑیاں وغیرہ رکھنے کے لیے کچا سا
برآمدہ تھا۔
فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے میں آگئی اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر خود چاے بنانے چلی گئی
میں بیٹھا آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا اور پالننگ کرنے لگا کہ پوری کوشش کروں گا کہ آج ھی اس کی
پھدی مار کر
اس دماغ سے ماسٹر کو نکال کر اسکو اپنی مریدنی بنا لوں ۔
کچھ دیر بعد فرحت چاے لے کر کمرے میں داخل ھوئی اور ٹرے کو سائڈ ٹیبل پر رکھتے ھوے بولی
یاسر جوتا اتار کر بیڈ کے اوپر ھو جاو ایسے ٹانگیں لٹا کر کیوں بیٹھے ھو۔
میں نے جوتا اتارا اور بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔
فرحت بھی میرے سامنے بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئی اور مجھے چاے پینے کا کہا
میں نے چاے کا کپ پکڑا اور فرحت کو پکڑا دیا اور دوسرا خود پکڑ کر
چاے کی چسکیاں لینے لگ گیا
فرحت بولی
دیکھو یاسر
تم اچھے لڑکے ھو اور سمجھدار ھو
دیکھو میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہمارے بیچ مین ھونے والی بات بس ہم دونوں میں ھی رھے گی اور تم کو میں نے
ماں کی قسم بھی دی ھے
اس لیے تم بنا کسی پریشانی کے دوستانہ ماحول ریلیکس ہوکر مجھے سب کچھ بتاو
جو تمہیں اس کنجر ماسٹر نے بتایا ھے
میں نے کہا مجھے ماسٹر جی نے کچھ نھی بتایا
فرحت بولی
یاسر پھر جھوٹ۔۔۔۔
میں نے بات کاٹتے ھوے کہا
پہلے میری بات تو سن لیں
فرحت بولی ھاں بولو
میں نے کہا کہ مجھے ماسٹر جی نے نھی بتایا کچھ بھی
میں نے خود آپکو اور ماسٹر جی کو دو دفعہ گندے کام
کرتے ھوے دیکھا ھے۔
فرحت کا ایکدم رنگ اڑ گیا
اور وہ ہکالتے ھوے بولی
کککککب ککیسے کککہاں دیکھا تھا۔
میں نے کہا سکول کے کمرے میں
دفتر کی بیک سائڈ پر الماری کے پیچھے سٹور میں ۔۔
فرحت اپنے دوپٹے سے پسینہ صاف کرتے ھوے بولی ۔
تتم نے کہاں سے دیکھا تھا
میں نے کہا
پہلے جب آپ نے ماسٹر جی کو دھکا دیا تب تھوڑا سا ھی گندا کام کیا تھا
اس وقت میں نے پردے سے دیکھا تھا
اور دوسری دفعہ جب آپ نے کافی دیر گندہ کام کیا تھا
تب میں نے الماری کے پیچھے سوراخ سے بھی دیکھا تھا ،اور کمرے کے پیچھے بنی کھڑکی سے بھی دیکھا تھا
فرحت منہ میں ُبڑبڑائی
کنجر نوں کیا وی سی کہ کوئی ہے کمرے وچ پر اوس کنجر نے منی ای نئی۔۔
میں نے کہا جیییییی
فرحت ایکدم ہڑبڑا کر بولی کچھ نھی ۔۔
فرحت کی ہوائیاں ُاڑ چکی تھی
اسکا لہجہ اسکا ساتھ نھی دے رھا تھا
پھر بولی
تم اندر کیسے آے تھے
تو میں نے کہا
کہ
میں پیشاب کرنے کے لیے کمرے کے پیچھے گیا تھا
تو اچانک مجھے آپ کی چیخ کی آواز سنائی دی تو میں گبھرا کر آپکو دیکھنے کے لیے اندر آیا تو مجھے دفتر میں آپ نظر
نہ آئیں تو میں نے پردے کو تھوڑا سا ہٹا کر اندر جھانکا تو
ماسٹر جی نے آپکی قمیض اوپر اٹھا رکھی تھی اور آپ کے ممے چوس رھے تھے
۔۔۔
میں نے جان بوجھ کر مموں کا ذکر کیا۔۔
فرحت شرم سے مری جارھی تھی
اور اس کا رنگ سرخ ھوچکا تھا۔
اچانک فرحت آگے ھوئی اور ۔
فرحت نے دونوں ہاتھ آگے کئے اور میرے پیروں کو پکڑ کر رونے لگ گئی اور
مجھ سے معافیاں مانگنے لگ گئی
یاسر پلیزز میری عزت کا سوال ھے میں اس کنجر کی باتوں میں آکر بہک گئی تھی مجھ سے غلطی ھوگئی تھی
پلیززز کسی کو یہ بات مت بتانا
ورنہ میں بدنام ھو جاوں گی
میں تو پہلے ھی بیوا عورت ھوں
ان گاوں والوں نے ہمارا جینا حرام کردینا ھے
میں نے فرحت کے دونوں ھاتھ پکڑ کر اپنے پاوں سے ہٹاے اور پاوں کو پیچھے کھینچ لیا
اور بوال
آپ کیا کررھی ہیں پلیززززز
فرحت بولی
یاسر تم نے کسی کو یہ بات بتائی تو نھی
تو میں نے پالننگ کے مطابق کہا کہ پہلے تو کسی سے یہ بات نھی کی تھی مگر وہ زاہد ہمارے گھر کے سامنے واال میرا
دوست ھے اس
کو پچھلے جمعہ ایسے ھی باتوں باتوں میں تھوڑا سا بتایا تھا مگر آپ کا نام نھی لیا تھا ابھی اس سے
کیوں کے باتوں کے دوارن ھی مجھے ایک کام یاد آگیا تھا تو میں نے اسے پھر بتانے کا کہا تھا اور ادھر سے گھر آگیا تھا
اب شاید کل ہم پھر بیٹھیں گے تو وہ پھر پوچھنے لگ جاے گا۔
تو فرحت اور اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گئی اور میرے سامنے ھاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی
یاسر پلیزز اسے نہ بتانا تمہیں فالں کی قسم فالں کی قسم
میں نے خودکشی کرلینی ھے اسکے زمہ دار تم ھوگے
ہم گاوں میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رہیں گے
فرحت ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی اسکے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی
مجھے اسکی حالت پر ترس آنے لگ گیا
میں نے آگے ہوکر اسکے ھاتھ پکڑ کر نیچے کئے اور اسکو تسلی دیتے ھوے کہا
کہ پلیز آپ ریلکس ھو جائیں اگر آپ نے یوں ھی رونا ھے تو میں جارھا ھوں
۔اور یہ کہتے ھی میں بیڈ سے نیچے اترنے لگا تو
فرحت نے میری دونوں ٹانگوں کو پکڑ لیا اور سر نفی میں ہالتے ھوے بولی
نہی نہی جانا تم نے
اچھا بیٹھو تو سہی
میں نھی روتی اب
میں کچھ بولتی بھی نھی
اسکی آواز میں خوف تھا التجاء تھی
میں نے پھر ٹانگیں اوپر کرلیں اور
بوال
دیکھیں میری بات غور سے ُسنیں
اور پہلے یہ رونا دھونا بند کریں
تو فرحت نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں اور منہ صاف کرتے ریلکس ھوتے ھوے کہا
ھاں جی بولیں،
میں نے کہا یہ تو اچھا ھوا کہ آپ نے مجھے منع کردیا ورنہ آج یا کل میں تفصیل سے ذاہد کے ساتھ کرنے واال تھا
خیر اب میں وعدہ کرتا ھوں آپ سے کہ یہ بات ادھر ھی دفن کر کے جاوں گا اور مرتے دم تک میرے منہ سے کبھی آپ یہ
بات دوبارا نھی ُسنیں گی
لیکن ،،۔۔۔
کہہ کر میں چپ ھوگیا اور فرحت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگ گیا۔
جو بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی
میرے لیکن کہہ کر ُچپ ہوجانے پر وہ چونک کر بولی
لیکن کیا ،،،۔۔۔
)Update no (47
میں نے کہا چھوڑیں آپ ناراض ھوجائیں گی ۔۔
فرحت قسم کھا کر بولی کہ تم بتاو میں نھی ناراض ہوتی ۔۔
میں نے پھر کہا
دفعہ کریں
فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی یاسر پلیز بتاو میرا دل بیٹھا جارھا ھے میں پہلے ھی بڑی پریشان ہوں پلیز مجھے اور پریشان
مت کرو ،،۔۔
تو میں نے ایکدم بولتے ھوے کہا کہ
اس میں میرا کیا فائدہ ھوگا کہ میں آپ کے اس راز کو ہمیشہ کے لیے راز ھی رکھوں ۔۔
فرحت حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر میری طرف گھورنے کے انداز سے بولی کیا مطلب میں سمجھی نھی۔
میں نے کہا میری بات کا مطلب صاف ھے
کہ اس کے بدلے میں میرا کیا فائدہ ھوگا
فرحت بولی کون سا فائدہ تم چاھتے ھو
پیسے لینے ہیں اسکے بدلے
میں نے ہنستے ھوے کہا
پیسے نھی آپ کی ُپھدی لینی ھے
فرحت کا رنگ ایکدم الل پیال ھوگیا اور اس نے غصے سے میرے منہ پر ایک ذور دار تھپڑ مارا
اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ھوگئی اور بولی
بےشرم گھٹیا انسان
تمہیں شرم نھی آئی یہ بات کرتے ھوے
میں تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر بنا کسی خوف کے اندر کمرے میں لے آئی اور تیری میرے بارے میں اتنی گندی سوچ ھے
تمہاری جرات کیسے ھوئی یہ بات سوچنے کی بھی
اپنی عمر دیکھو
کم از کم اپنی اور میری عمر کا لحاظ ھی کرلیتے گھٹیا انسان نکلو ادھر سے
فرحت کا تھپڑ کھاتے ھی میری ساری ہوا نکل گئی کہ اس سالی نے تو سارا معاملہ ھی الٹ پلٹ کردیا میں تو بڑی پالننگ
سے آیا تھا
میں اپنی گال پر ھاتھ رکھے غصے اور ڈرے ھوے ملے جلے تاثرات سے فرحت کی طرف دیکھتا ھوا اٹھا
اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑا ھوگیا
فرحت پھر بولی تمہیں ذرہ سی بھی شرم نھی آئی یہ بات کرتے ھوے
اس کنجر نے میرے ساتھ زبردستی کی ایک دفعہ اور تم نے مجھے چلتی پھرتی عورت سمجھ لیا
نکل جاو ابھی کہ ابھی
میری تو سمجھ میں نھی آرھا تھا کہ اب میں اس خرافہ عورت کو کیا کہوں
سالی مزے لے لے کر پھدی مرواتی رھی تھی
اور اب کہتی ھے کہ میرے ساتھ ذبردستی کی ھے ۔
مجھے اور تو کچھ نہ سوجا
میں نے کہا ووووہ سوٹ کے پیسے دے دو
اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور اپنی اے ٹی ایم .مشین میں ھاتھ ڈال اور کچھ پیسے نکال کر میرے منہ پر
مارے
اور کہا پکڑ اپنے پیسے اور چل دفعہ ھوجا ادھر سے دوبارہ اپنی شکل بھی دیکھائی نہ تو تیرا وہ حال کروں گی کہ تجھے
تیرے گھر والے بھی نھی پہچان سکیں گے
میں نے پیسے پکڑے اور بند دروازے کے پاس آکر اسکی طرف منہ کر کے اپنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا
دیکھ لوں گا تجھے
جتنی تو شریف ذادی ھے مجھے پتہ ھے
پورے ِپنڈ وچ بدنام نہ کیتا تے فیر کویں
فرحت یہ ُس ن کر بھوکی شیرنی کی طرح مجھ پر جھپٹی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر
کہنے لگی کیا کہا کہ
پورے ِپنڈ وچ مینوں بدنام کریں گا
دسنی آں تینوں ایتھوں سئی سالمت جاویں گا تے فیر ای کسے نوں دسیں گا
فرحت نے مجھے بازوں سے پکڑے ھی گھما کر بیڈ کی طرف دھکا دیا
گشتی وچ اینی جان پتہ نئی کتھوں آگئی سی
اسکے ایک ھی دھکے سے میں کمزور عورت کی طرح بیڈ پر جاگرا
فرحت مجھ پر پھر جپٹی اور میرا گال دبانے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ میرے گلے کی طرف بڑھاے میں اب کچھ سنبھل چکا
تھا
میں نے اسکے بازو پکڑ کر اسکے ہاتھ راستے میں ھی روک لیے
اور اسکو ایسے ھی گھما کر اپنے ساتھ بیڈ پر گرادیا
ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے لٹک رھی تھی
جیسے ھی فرحت بیڈ پر گری
میں جلدی سے سائڈ بدل کر اسکے اوپر چڑھ گیا اور
اسکے دونوں بازوں کو کالئیوں سے پکڑ کر اس کے سر کے ساتھ لگا دئے
اب ہم دونوں کے پاوں فرش پر تھے اور میرا لن اسکی پھدی کے بلکل اوپر تھا
اور میرا منہ اسکے بڑے سے گول مٹول مموں پر تھا
فرحت بولی چھڈ دے مینوں میں روال پان لگی آں
میں اسکی بات سن کر ڈر بھی گیا تھا کہ یہ ھے تو بڑی حرامذادی اس لیے کچھ بھی کرسکتی ھے
میں نے اسے کہا
سالیے ماسٹر نوں اپنی پھدی وی چٹوانی اے تے پھدی وچ لن وی مزے لے لے کے لینی اے تے میری واری شریف ذادی
بندی ایں
فرحت بولی
بکواس نہ کر کتے بغیرت گھٹیا انسان
میں تیری ماں نو دسنی ایں تیری کرتوت
میں نے کہا جا دس دے میں وی دس دیواں گا کہ ماسٹر کولوں پھدی مرواندی رئی اے تے اپنا سارا گند میرے تے پان دئی
اے
اور ساتھ ھی میں نے ایک ہاتھ سے فرحت کی کالئیاں پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے اسکے ممے کو دبانے لگ گیا
فرحت کافی زور لگاتی رھی اپنے ھاتھ ُچھڑوانے کے لیے
مگر میں نے اسکی کالئیوں کو پکڑ کر پورے وزن کے ساتھ بیڈ پر دباے رکھا تھا
میرا لن بھی فل تن ُچکا تھا
میں نے ھاتھ نیچے لیجا کر فرحت کی پھدی کو مسلنے لگا تو فرحت نے ٹانگوں کو آپس میں بھینچ کر چیخ ماری
اب پتہ نھی اسکی چیخ کمرے سے باہر نکلی بھی تھی کہ نھی کیوں کے دروازہ بند تھا
جو خود ھی اس گشتی نے بند کیا تھا
اور ویسے بھی کمرے میں کوئی کھڑکی نھی تھی جس سے اسکی آواز باہر جانے کا چانس ھوتا
مطلب کمرہ ساونڈ پروف تھا
مجھ پر تو جنون سوار ھوچکا تھا کہ سالی نے مجھے تھپڑ مارا ھے اسکی اتنی جرات
میں نے سوچ لیا تھا کہ جو ھوگا دیکھا جاے گا ایک دفعہ اس کو سبق سکھا کر جاوں گا
میرا ھاتھ اسکی ٹانگوں کے بیچ پھنسا ھوا تھا
میں نے اسکی چیخ کو نظرانداز کرتے ھو ہاتھ باھر کھینچا اور اسے کہا چیخ گشتی عورت اب تجھے میں بتاتا ھوں کہ گھر
ُبال کر کسی کو کیسے ذلیل کرتے ہیں
آج تیرا پھدا نہ پھاڑا تو پھر کہنا۔
تیرے پھدے میں آج اتنا بڑا لن ڈالوں گا کہ تو ماسٹر کا لن بھول جاے گی
میری بات سن کر پہلے تو فرحت کے چہرے پر حیرت کے تاثرات آے پھر غصے سے بولی
یاسر اپنی اوقات میں رہ تجھے پتہ نھی کہ تو کس سے اور کیا کررھا ھے
مجھے چھوڑ دے اور شرافت سے چال جاے
ورنہ تم ساری عمر پچھتاو گے
تو میں نے کہا ماسٹر تو نھی پچھتایا جو میں پچھتاوں گا
فرحت سے باتیں کرنے کے دوران میں اپنا ناال کھول چکا تھا اور میری شلوار پیروں میں گر گئی تھی
فرحت بولی میرے بھائی کو پتہ چل گیا نہ تو تجھے ویسے ھی وہ قتل کردے گا
میں نے کہا
لن وڈ لے تیرا پرا تے توں وی
بس اک واری میرا لن تیرے پھدے وچ چال جاوے
بعد وچ ویکھی جاوے گی جو ھوے گا
فرحت نے جب دیکھا کہ اسکے کسی وار کا اثر مجھ پر نھی ھورھا
تو فرحت کے اندر ایکدم عورت جاگی اور اس نے رونا اور منتیں کرنا شروع کردی کہ یاسر پلیز مجھے معاف کردو تم
میرے تھپڑ مار لو پھر تم خوش
اچھا چلو میں کسی کو نھی بتاتی
جتنا تم نے میرا ساتھ کرنا تھا کرلیا اب چھوڑ دو مجھے
تم میرے بیٹے جیسے ھو سوچو کوئی بیٹا اپنی ماں کے ساتھ ایسا کرتا ھے کیا
فرحت کی یہ آخری بات سن کر میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا اور بوال
بکواس بند کر گشتی عورت اگر تو ماں کہنے کے الئق ھوتی تو تیرے پیر دھو دھو کہ پیتا
کون بیٹا ماں کو کسی غیر مرد سے ُچ دتا دیکھ کر اس ماں کو زندہ چھوڑ دیتا ھے
تو ماں نھی بلکہ ایک گشتی عورت ھے اور گشتی عورت اور ماں میں زمین آسمان کا فرق ھوتا ھے
ماں سر پر ہوتی ھے
اور گشتی لن کے نیچے
لحاظ اپنا منہ بند رکھ یہ نہ ھو کہ پھدی کے ساتھ ساتھ تیری گانڈ بھی پھاڑ دوں
فرحت میری بات سن کر اور بات کرنے کے انداز کو دیکھ کر
سہم گئی اور رونے لگ گئی
اور آہستہ آہستہ آواز میں روتے ھوے کہے جارھی تھی
مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو
ہاےےےےے امی
اسکے رونے کا اثر مجھ پر نھی ھو رھا تھا
میں نے اسکی قمیض کو پکڑ کر پھدی والے حصے سے اوپر کیا اور اس کے نالے کے سرے کو پکڑ کر کھینچ دیا
جس سے فرحت کی شلوار ڈھیلی ھوگئی
جیسے ھی اس کا ناال کھال اور شلوار ڈھیلی ھوئی تو
فرحت نے جھٹکے سے ایک کالئی میرے ھاتھ سے چھڑوائی اور جلدی سے شلوار کو کس کے پکڑ لیا اور
نفی میں سر دائیں بائیں مارتے ھوے کہنے لگ گئی
یاسر پلیزز تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ فالں کا واسطہ مجھے چھوڑ دو ایسا ظلم مت کرو
میں مر جاوں گی
پلیززززز چھوڑ دو
میں نے اسکی کالئی کو پکڑ کر جھٹکا مارا اور اسکی کالئی کو واپس اسی جگہ لے جاکر
دوسری کالئی کے ساتھ جکڑ کر پکڑ لیا
اور جلدی سی ھاتھ نیچے کیا اور اسکی شلوار کو کھینچ کر نیچے کردیا شلوار خود ھی اس کے پیروں میں گر گئی
فرحت نے پھر زور دار چیخ ماری اور اپنا آپ چھڑوانے کے لیے ٹانگوں کو اوپر اٹھانے لگی
فرحت نے جیسے ھی اپنی دونوں ٹانگوں کو اوپر کر کے فولڈ کیا تو
خربوزہ خود ھی چھری کے نیچے آگیا
فرحت کی پھدی بلکل میرے لن کے سامنے تھی
میں نے اس کے گھٹنوں کو اپنی بغلوں میں جکڑتے ھوے
ایک ہاتھ پر بڑا سا تھوک کا گوال پھینکا اور لن کے ٹوپے پر مل لیا اور لن کو پھدی کے لبوں پر رکھتے ھی پوری جان سے
ایک ھی گھسے میں سارا لن فرحت کی پھدی کے اندر بچے دانی تک پہنچا دیا
فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی
ھاےےےءےےے میں مرگئی
اے کی واڑ دتا اییییییییی
ھوے امیییییییییی
ھاےےےےءءےےےےےےےے
ابھی میں نے لن واپس نھی کھینچا تھا کہ؟؟؟؟؟؟؟
فرحت نے پورے ذور سے میرے پیٹ میں پاوں مارے اور میں اچھل کر پیچھے ھوا اور گرتے گرتے بچا۔
لن کڈن دا بڑا چنگا طریقہ ازمایا سالی نے۔۔
لن جیسے ھی فرحت کی پھدی سے نکال
فرحت درد سے بلبال کر ُد ھری ہو کر اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھے دوسری طرف منہ کر کے اپنے گوڈے پیٹ کے ساتھ لگا کر
ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی
اور رونے لگ گئی
ہاے میرا اندر گیا ھاےےے میں مرگئی
ھاےےےےے
ماں میرئیے ھاےےےےےےے
فرحت ساتھ ساتھ روے جارھی تھی اور آنکھیں پھاڑے میرے لن کو بھی دیکھی جارہی تھی۔
میں غصے سے آگے بڑھا اور پھر سے فرحت کو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر سالی نے مجھے ٹانگیں مارنی شروع
کردی
میں نے بڑی مشکل سے اسکی ٹانگوں کو قابو کیا اور فرحت کو سیدھا تو نہ کر سکا مگر اسے الٹا کرنے میں کامیاب ھوگیا
فرحت کی ٹانگیں اب بھی بیڈ سے نیچے تھی اور پھدی بیڈ کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور گانڈ اوپر تھی
میں نے فرحت کو الٹا کر کے اسکے دونوں ھاتھ پکڑ کر پیچھے اسکی کمر کے ساتھ لگا کے پورے ذور سے اسکی کمر پر
دبا کے قابو کر لیے
فرحت پھر ذور ذور سے چالے جا رھی تھی اور مجھے واسطے دیئے جا رھی تھی
فرحت کو میں نے اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا
اور مجھے شیطان نے قابو کیا ھوا تھا میرے دل میں ذرہ سا بھی رحم نھی آرھا تھا
شاید مہری کے غصہ اور تھپڑ کے غصہ نے مجھے پاگل کیا ھوا تھا
بس ہوس ھی ہوس میرے دماغ پر سوار تھی
خیر
فرحت نیچے سے گانڈ کو دائیں بائیں ہال کر اپنا بچاو کرنے کی پوری کوشش کررھی تھی
فرحت کے شور شرابے سے میں تنگ آچکا تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجھے تکیہ پڑا نظر آیا میں نے ایک ھاتھ سے
فرحت کی دونوں کالئیاں قابو کیں اور دوسرا ھاتھ لمبا کر کے تکیہ پکڑا اور تکیے کو فرحت کے سر کے اوپر رکھا اور دبا
دیا جس سے اسکی آواز بیڈ کے میٹرس اور تکیے میں دب گئی اب اسکی آواز ایسے آرھی تھی جیسے بہت دور سے آرھی
ھو
میرا لن پھدی کے پانی سے کافی گیال ھو چکا تھا
میں نے فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں لن رکھا اور اندازے سے پھدی کا نشانہ لگا کر پھر زور سے گھسا مارتے ھوے
فرحت کے اوپر ھی لیٹتا گیا
میں نے جیسے ھی اندازے سے گھسا مارا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا لن کسی تنگ سوراخ میں گھس گیا ھو اس کے
ساتھ ھی فرحت ایسے تڑپی جیسے کسی نے اسے ذیبحہ کردیا ھو اسکی تکیہ کے نیچے سے غوں غوں کی آواز آرھی تھی
فرحت پہلے تو اپنی گانڈ کو ایکدم اوپر کو کیا جس لن مزید اسکی گانڈ کے اندر چال گیا
تو اسی وقت فرحت نے گانڈ کو ذور سے بھینچ کر میٹرس کی طرف زور لگانا شروع کردیا
مجھے اپنے گرد فرحت کی گانڈ کے سوراخ کی گرفت اتنی ذیادہ ٹائٹ محسوس ھوئی جیسے فرحت کی گانڈ ابھی میرے لن
کا کچومر نکال دے گی
میں ایسے ھی سارا وزن فرحت پر ڈال کر اسکے اوپر لیٹا رھا
فرحت بری طرح تڑپ رھی تھی
).Update no (48
اب وہ نیچے سے گانڈ کو ہال نھی رھی تھی
شاید ہلنے سے اسکو درد ھوتی تھی۔
اچانک مجھے محسوس ھوا کہ فرحت مجھے کچھ کہنا چاھ رھی تھی
میں نے گھسا مارتے وقت اسکے دونوں ھاتھ کھول کر اسکے پاس لے گیا تھا تو اب وہ ھاتھ کے اشارے سے مجھے کچھ
سمجھا رھی تھی اسکی غوں غوں بھی بند ہوگئی تھی
میں نے تکیہ اسکے سر سے اٹھا کر سر سے آگے ھی پھینک دیا تو
فرحت نے لمبا سانس لیا جیسے اسکا سانس رکا ھوا تھا
فرحت روتے ھوے بولی یاسر اسے باہر نکال لو تم نے میری گانڈ پھاڑ دی ھے
ایسے بھی کوئی کرتا ھے کیا
میں نے کہا
جب ایسے ہلتی رھو گی تو لن کہیں بھی جاسکتا ھے
آرام سے کروا لیتی تو اتنی تکلیف نہ اٹھاتی بلکہ ماسٹر سے بھی ذیادہ مزا دیتا تم کو۔
فرحت بولی یاسر ادھر سے نکال لو تم جیسے کہو گے میں ویسے ھی کروا لوں گی
شور بھی نھی کرتی مگر ادھر سے نکال لو نھی تو میں مر جاوں گی
میری جان نکل رھی ھے
میں نے بھی محسوس کیا کہ فرحت کی ٹانگیں بری طرح کانپ رھی ہیں
تو میں نے فرحت کے منہ پر ھاتھ رکھا اور ایک جھٹکے سے لن باہر کی طرف کھینچا
تو فرحت کے منہ سے پھر چیخ نکلی جو میرے ھاتھ میں ھی دب گئی اور ساتھ ھی فرحت نے بڑا سا پد مارا پڑووووووں
فرحت نے چیخ مارنے کے بعد میری ہتھیلی پر دندی کاٹ لی
مجھے تکلیف تو بہت ھوئی مگر برداشت کرگیا
اور ساتھ ھی میں فرحت کے ساتھ ٹیڑھا ہوکر لیٹ گیا میں نے فرحت کو چھوڑا نھی تھا کہ سالی بھاگ نہ جاے
فرحت ایک دم سکون میں ہوگئی
اور ویسے ھی بےجان ھوکر الٹی لیٹی رھی اور ایک ھاتھ پیچھے کرکے اپنی گانڈ کی دراڑ میں انگلیاں ڈال کر دبانے لگ
گئی
مین نے اپنے لن کو دیکھا تو میرے لن پر خون اور گندگی لگی ھوئی تھی میں نے بیڈ کی چادر کے ساتھ ھی لن کو صاف
کرنا شروع کردیا
فرحت کچھ دیر ایسے ھی بلکل خاموش لیٹی رھی
میں نے فرحت کو سیدھا کیا تو اس سے سیدھا نہ ھوگیا گیا
اسکو واقعی ھی تکلیف بہت ذیادہ ہورھی تھی
میں بیڈ سے نیچے اترا اور فرحت کو پکڑ کر سیدھا کیا اور اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر بیڈ پر کیا اور خود بھی بیڈ پر چڑھ کر
اسکی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور لن کو پکڑ کر فرحت کی انکھوں کے سامنے لہرانے لگا
فرحت گم سم سی آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھی جارھی تھی
میں نے فرحت کی شلوار جو پیروں میں اٹکی ھوئی تھی اسکو اتارا اور
فرحت کی ٹ اس ٹانگوں .کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھا
اور لن کو پکڑا کر فرحت کی پھدی پر پھیرنے لگ گیا
فرحت کو جب لن پھدی پر لگنے کا احساس ھوا
تو فرحت نے دونوں ھاتھ جوڑے اور میری آنکھوں کے سامنے کرتے ھوے بلبال کر رونے لگ گئی اور کانپتی آواز میں
بولی یاسر.
تم نے اگر کرنا ھی ھے تو کل آجا نا ابھی مجھ میں ہمت نھی ھے
میری جان نکل رھی ھے
کل تم جیسے کہو گے میں ویسے ھی کروں گی
فرحت کی آواز میں اتنا درد تھا کہ اسکی آواز نے میرا دل نرم کردیا اور اسکے لیے میرے دل میں نرم گوشہ پیدا ھوگیا
میں نے کہا اچھا جی
کل میں آوں تو تم مجھے دروازے پر ھی ذلیل کر کے بھگا دو
فرحت بولی یاسر اب میرے پاس بچا ھی کیا جو تم سے چھپاوں گی
میں اپنے بیٹے کی قسم کھا کر کہتی ھوں کہ میں سچ کہہ رھی ھوں
اگر جھوٹ بولوں تو اپنے بیٹے کا مرا منہ دیکھوں
اب بھی تم کو یقین نھی تو بیشک تمہارا جو دل کرتا ھے کرلو
میں مرتی ھوں تو مجھے مرنے دو
مگر یاسر یہ یاد رکھنا تمہارے دومنٹ کے مزے نے میری جان لے لینی ھے
میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا فرحت کے چہرے کو غور سے دیکھتا رھا
اس کے چہرے پر سواے ندامت شرم اور تکلیف کے کچھ نھی تھا
میں جمپ مار کر کھڑا ھوا اور اپنی شلوار کو پہنتے ھوے بوال
فرحت میں تم پر یقین کر کے تمہیں چھوڑ رھا ھوں
اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر تم نے مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تو اسکا خمیازہ تمکو بھگتنا پڑے گا
فرحت غور سے میری طرف بس دیکھے جارھی تھی
میں نے اسکو پھر کہا
میری بات یاد رکھنا
میں کل آوں گا
اگر بیٹھک کا دروازہ کھال ھوا تو میں اندر آجاوں گا اگر دروازہ بند ھوا تو پھر میں یہ ھی سمجھوں گا کہ تم جھوٹی مکار ھو
یہ کہتے ھی میں اسکا جواب سنے بغیر کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور بیٹھک کے دروازے سے باھر گلی میں
نکال اور گھر کی طرف چل دیا ۔۔۔
میں گھر آیا تو امی ابھی تک صحن میں ھی بیٹھی ھوئی تھی شاید میرا ھی انتظار کر رھی تھی جیسے ھی میں اندر داخل ھوا
امی مجھ پر ناراض ھونے لگ گئی کہ اتنی دیر لگادی نہ کھانے کی فکر ھے تجھے
پہلے کھانا تو کھا لیتا پھر آوارہ گردی کرنے نکل جاتے
دوستو ایک واحد ماں ھی ھوتی ھے جسے بچے کی کھانے پینے کی فکر ھوتی ھے جب ماں کا سایہ سر سے اٹھ جاے تو
ھی ماں کی قدر ھوتی ھے ساری دنیا کی لڑکیوں کی محبت ایک ترازو میں رکھ دو تو ماں کی محبت کا ایک ذرہ بھی
اسکے قابل رکھ دو تو ماں کی محبت کا وہ زرہ بھی ان پر بھاری ھوگا
اس لیے بھائیو جن کی مائیں ان کے سر پر سالمت ہیں انکی جتنی خدمت کر سکتے ھو کرلو
دنیا اور آخرت سنور جاے گی
ماں کی ڈانٹ بھی دودھ کی نہر ھوتی ھے
وہ کہتے ہیں نہ کہ
ماں پیو دیاں گاالں
تے دودہ دیاں ناالں
امی کی ڈانٹ سن کر میں کمرے میں چال گیا
کچھ دیر بعد امی کھانا لے کر آگئی اور پھر سے اپنی ممتا دیکھاتے ھوے مجھے سمجھانے لگ گئی میں چپ کر کے سنتا
رھا اور کھانا کھاتا رھا میں نے کھانا کھایا اور امی سے پوچھا کی نازی کدھر گئی ھے تو امی جان مجھ سے پوچھنے لگ
گئی کہ اپنی آنٹی کہ گھر نھی گئے تو میں نے کہا نھی امی جی
امی بولی تیری آنٹی کا بھائی فوت ھوگیا ھے اور وہ دوپہر کو ھی سرگودھے چلی گئی تھی
عظمی اور نسرین اکیلی گھر پر تھی
تو تیری آنٹی نے کہا تھا کہ
نازی کو انکے ساتھ سال دینا
اور ھوسکے تو یاسر کو بھی کہنا کہ بہنوں کے پاس سو جاے
میں نے کہا کہ آنٹی انکو بھی ساتھ لے جاتی تو امی بولی بیٹا انکے پیپر ھونے والے ہیں وہ کیسے سکول سے چھٹی کر
سکتی تھی
تم ایسا کرو دودھ پی کر بہنوں کے پاس چلے
اور ادھر ھی سوجانا
صبح انکو ساتھ بھی لیتے جانا
کل بھی ھوسکتا ھے کہ تمہاری آنٹی نہ آے
میرے اندر تو لڈو پھوٹنے لگ گئے کہ
دو پھدیاں تو نھی ملی چلو
آج رات ُپرانی پھدی ھی سہی
نکالنا تو پانی ھی تھا
ورنہ ُمٹھ مار کر سونا پڑتا
میں نے مصنوعی غصے سے کہا امی کیا مصیبت ھے
انٹی انکو ساتھ لے جاتی
مجھے انکے گھر نیند نھی آنی
میں نے صبح جلدی اٹھنا ھوتا
تو امی پیار سے مجھے پچکارتے بولی کہ نہ پتر بہنیں اکیلی ھیں جا میرا بچہ کچھ نھی ھوتا دو راتوں کی تو بات ھے
میں نے اچھے بچے کی طرح اثبات میں سر ہالیا
اور اٹھ کر جانے لگا تو
امی نے آواز دی
ہن کتھے چالں آں
میں نے کہا کہ امی آپ نے خود ھی تو کہا ھے کہ آنٹی کے گھر سونا ھے
تو امی بولی پتر دودھ تو پیتا جا
میں نے کہا امی جی ابھی تو روٹی کھائی ھے
میں انکے گھر سے پی لوں گا
تو امی میرے پیچھے پیچھے دروازے تک آئی اور پیچھے سے بھی آواز دے کر بولی پتر یاد نال دودھ پی لینا
میں نے اونچی آواز میں کہا اچھا امی جی
پی لوں گا دودھ
اور
اچھلتا کودتا ٹھک کر کے عظمی کے گھر جا پہنچا
اور دروازہ کھٹکھٹایا کچھ دیر بعد اندر سے نسرین کی آواز ائی کون ھے
میں نے بلی کی آواز نکالتے ھوے میاوں کیا
تو نسرین نے پھر پوچھا کون
میں نے پھر میاوں کیا
نسرین کی اب غصہ سے آواز آئی
منہ وچ زبان نئی ھے گی
میں نے کہا چور ہوں چوری کرنے آیا ھوں دروازہ کھولو
نسرین نے دروازہ کھوال
اور غصے سے مجھے دیکھتے ھوے بولی
منہ وچ زبان نئی ھے
میں کب سے پوچھ رھی ھوں کہ کون ھے کون ھے
تو میں نے اسے منہ چڑھایا اور اندر آگیا اور اس سے آگے آکر بوال
دروازہ بند کر کے آئیں
تو نسرین غصے سے دروازہ کھال چھوڑ کر کمرے کی طرف چلدی اور بولی
میں تیری نوکر نئی آپے بند کرلے ہتھ نئ ُٹٹے تیرے
میں نے ہنستے ھوے دروازہ بند کیا اور اس کے پیچھے تیز قدم چلتا ھوا اسکے پیچھے پہنچا اور پیچھے سے اسکے کندھوں
پر ھاتھ رکھ کر اسپر وزن ڈال کر جمپ لگایا
تو نسرین بولی
ھاےےےےے مرگئی
ُک تا کسے تھاں دا
بغیرتا میرے موڈے توڑ دیتے ای
شرم تے نئی آندی
میں اسکی گالیوں کو انجواے کرتے ھوے
ہنستا ھوا اس کے سر پر چپت لگا کر اسکے آگے بھاگ کر کمرے میں آگیا
نسرین مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی مگر میں تیز بھاگ کر اس سے پہلے کمرے میں پہنچ چکا تھا
کمرے میں نازی اور عظمی چارپائی پر بیٹھی گپیں لگا رھی تھیں
مجھے دیکھ کر عظمی کے چہرے پر چمک سی ائی اور ناذی شروع ھوگئی
کتھے گیا ھویا سی آوارہ گردا
میں نے کہا
پونک نہ ایویں اپنا منہ بند رکھ
تو نسرین جو میرے پیچھے ھی کھڑی تھی اس نے ایڑیاں اٹھا کر میرا کان پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی شرم نھی آتی بڑی
بہن کے ساتھ بتمیزی کرتے ھو
میں نے اپنا کان چھڑواتے ھوتے کہا ھاےےےےےے چھڈ میرا کن چولے
تو عظمی نے نسرین کو گھورتے ہوے کہا شرم کر
اور میں نے کان چھڑوایا اور کان کو مسلتا ھوا
عظمی اور نازی کے پاس دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا
عظمی نے پوچھا یاسر کھانا لے کر آوں تو میں نے کہا نھی میں کھا کر آیا ھوں
دودھ پیوں گا مگر ابھی نھی اور ساتھ ھی نازی سے بچا کر اسے آنکھ ماردی
عظمی نے شرما کر منہ نیچے کرلیا
میں نے عظمی اور نسرین سے انکے ماموں کا افسوس کیا اور کچھ دیر افسوس کا ماحول چلتا رھا
پھر نسرین بولی
چلو سب صحن میں سب پکڑن پکڑائی کھیلتے ہیں
تو میں چارپائی پر لیٹتے ھوے بوال نہ بابا میں نے تو نھی کھیلنا
تو نسرین نے میرے پیر کو پکڑا اور کھینچتے ھو مجھے چارپائی سے گرانے کی کوشش کرتے ھو کہنے لگی آرام سے
اٹھتے ھو کی گراوں نیچے میں نے ہنستے ھوے کہا اچھا چھوڑو آتا ھوں تو ہم چاروں باہر صحن میں آگئے
صحن کافی ُک ھال تھا
جس میں ایک بیری کا درخت لگا ھوا تھا
اور صحن میں 100واٹ کا بلب لگا ھوا تھا جس کے نیچے چولہا تھا اور دھویں سے بلب کی روشنی نہ ھونے کے برابر
تھی
باہر آکر میں نے کہا اندھیرے میں کیسے پکڑن پکڑائی کھیلیں گے
تو عظمی بولی کچھ نھی ہوتا اتنے دنوں بعد تو کھیلنے کا موقع مال ھا
میں نے کہا چلو جی جیسے آپ کی مرضی
پھر ہم نے اپنی اپنی باری پگنا شروع کردی
پہلی دفعہ نسرین ھار گئی
نسرین کی انکھوں پر دوپٹہ باندھ دیا اور وہ اندھوں کی طرح باہیں پھیالے ادھر ادھر ہاتھ چالتے ھوے گھومنے لگ گئی
جدھر سے آواز آتی وہ اسطرف بھاگ پڑتی دو دفعہ بیچاری بیری کے درخت سے ٹکرائی
ہمارا ہنس ہنس کے براحال ھوتا رھا دس پندرہ منٹ تک وہ ایسے ھی کبھی میری آواز سن کر میری طرف بھاگتی کبھی
نازی کی طرف اور کبھی عظمی کی طرف
مجھے اس بیچاری پر ترس آیا تو میں نے جان بوجھ کر اسکے قریب ھوا تو اس نے میرا بازو پکڑ کر بڑی فاتحانہ انداز میں
چیخ کر فاتح کا اعالن کیا
اب میری باری تھی
تو نسرین نے جلدی دوپٹہ پکڑا اور میرے پیچھے آکر میری آنکھوں پر دوپٹہ باندھنے کی کوشش کرنے لگ گئی
میرا قد نسرین سے لمبا تھا اس لیے نسرین ایڑیاں اٹھا کر میری آنکھوں پر دوپٹہ باندھ رھی تھی تو اسکے ممے میری کمر
کو چھو رھے تھے
نسرین کے نرم ممے جیسے میری کمر پر لگتے تو میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ جاتا نسرین جیسے ھی میری آنکھ پر
دوپٹہ سہی کرنے کی کوشش کرتی تو میں جان بوجھ کر آگے کو جھک جاتا تو نسرین بھی میرے پیچھے میرے اوپر جھک
جاتی جسکی وجہ سے نسرین کے ممے میری کمر کے ساتھ رگڑ کھا جاتے
میں نے چار پانچ دفعہ ایسے کیا تو
نسرین جنجھال کر بولی مجھ سے نھی اس لمبو کے دوپٹہ باندھا جاتا
تو نازی آگے بڑی اور نسرین کے ھاتھ سے دوپٹہ لے کر میرے باندھنے لگ گئی
میں نے آرام سے نازی سے دوپٹہ بندھوا لیا اور
ہاتھ لمبے کر کے جس طرف سے آواز آتی اسطرف بھاگنے لگ جاتا تو مخالف مجھے چکما دے کر دوسری طرف ھو جاتا
میں اندھوں کی طرح ایسے ھی ھاتھ مار رھا تھا
کافی دیر ایسے ھی بھاگ دوڑ ھوتی رھی
کہ مجھے نسرین کی آواز اپنے دائیں طرف سے آئی تو میں نے اسکو محسوس نھی ھونے دیا کہ مجھے اسکی آواز سنائی
دی ھے جبکہ دوسری طرف سے نازی اور عظمی کی آواز آرھی تھی جو کچھ دور لگ رھی تھی
).Update no (49
میں نے پہلے بازوں نازی کی آواز کک سمت ایسے کیے جیسے میں اسکو پکڑنے کے لیے بھاگنے لگا ھوں
مگر میرا ٹارگٹ نسرین تھی جو میرے قریب ھی کھڑی تھی
میں نے ایکدم بازوں کا رخ نسرین کی آواز کی طرف کیا اور تھوڑا آگے بڑھا تو میرے دونوں ھاتھ کسی نرم سی چیز سے
ٹکراے تو میں نے جلدی سے ان نرم چیزوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیا
اسکے ساتھ ھی نسرین کے ہلکی سی چیخ نکلی اور ساتھ ھی اس نے کہا ہارے ربا
اور نسرین نے میرے ھاتھوں پر ھاتھ رکھ کر نرم نرم چیزوں کو چھڑوانا چاھا اور پیچھے کو ہٹنے لگی تو میرا پیر کسی
چیز سے ٹکرایا اور میں نسرین کے مموں کو پکڑے ھوے اسکو ساتھ لیے نیچے جاگرا نسرین میرے نیچے تھی اور میں
اسکے اوپر گرتے وقت نسرین کے ممے میرے ھاتھ سے نکل گئے تھا اور اب میعء سینے کے ساتھ اس کے ممے چپکے
ھوے تھا نسرین کی دونوں ٹانگیں کھلی تھی اور میرا لن واال حصہ اسکی پھدی کے بلکل ساتھ ایسے چپکا ھوا تھا جیسے میں
لن اسکی پھدی میں ڈال کر اسے چود رھا ھوں
نسرین کے منہ سے چیخ نکلی تھی
اور گرتے وقت میں نے اسکے کندھوں کے پیچھے اپنے بازو کردیے تھے جس کی وجہ سے اسے چوٹ تو نھی لگی مگر
میرے ممے پکڑنے اور پھر ایسے اسکے ساتھ چپک جانے کی وجہ سے وہ ڈر گئی تھی
اس لیے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی
ایسا بس چند سیکنڈ ھی ھوا تھا
اس سے پہلے کہ نازی اور عظمی ہمار ے سر پر پہنچتی میں جلدی سے نسرین کے اوپر سے اٹھا اور دوپٹے کو آنکھوں
سے اتار کر حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا جیسے ابھی آسمان سے گر کر زمین پر پہنچا ھوں نسر ین اپنی کمر
کو پکڑے بیٹھی ھوے ھوے کررھی تھی
عظمی اور نازی بھی بھاگتی ھوئی ہمارے پاس پہنچ گئی
اور میری دشمن نے آتے ھی نسرین سے پوچھنا شروع کردیا کہ بچ گئی چوٹ تو نھی لگی
اور میری ہمدرد عظمی نے مجھ سے پوچھنا شروع کردیا کہ چوٹ تو نھی لگی میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ نھی ھوا بچ
گئے ہین
تو عظمی نسرین کو بولنے لگ گئی کہ ہن مزہ آگیا کھیلن دا تینوں وی بڑا چا سی پھڑن پھڑائی کھیلن دا
تو نسرین چپ تھی کچھ بولی نہ بس عظمی کو گھور گھور کر دیکھی جارھی تھی
نازی نے بھی نسرین کو اٹھا کر کھڑا کردیا تھا اور
نسرین کی گانڈ کو جھاڑ رھی تھی
میں نے جیسے ھی نسرین کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ چوٹ تو نھی لگی
تو نسرین نے میری طرف دیکھا اور شرما کر نظریں نیچے کرلیں اور بولی بچ گئی ھوں ورنہ تم نے تو کوئی کسر نھی
چھوڑی تھی کہ میری کمر توڑنے کی
ایسے ھی ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رھے
پھر کمرے میں چلے گئے
کمرے میں دو ھی چار پائیاں تھی ایک پر نسرین اور نازی لیٹ گئی دوسری پر عظمی
میں نے پوچھا کہ
میں نے کہاں لیٹنا ھے
تو نازی بولی تم ساتھ والے کمرے میں لیٹ جاو
تبھی
عظمی اٹھی اور بولی چلو میں بستر کر دیتی ھوں
اور میں عظمی کے پیچھے چلتا ھوا
دوسرے کمرے میں آگیا
کمرے میں آتے ھی میں نے عظمی کو جپھی ڈال لی اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگ گیا
اور اسکا مما پکڑ کر دبانے لگ گیا
عظمی آہستہ سے بولی
چھوڑو مجھے پاگل ھوگئے ھو
وہ دونوں جاگ رھی ہیں
میں نے کہا جاگنے دو
۔تو عظمی بولی
یار سمجھا کرو
اگر ان میں سے کوئی آگئی تو بڑا مسئلہ بن جاے گا
میں کہیں بھاگی تو نھی جارھی تھوڑا صبر کرلو انکو سونے دو میں ادھر آجاوں گی
میں نے کہا یار مجھ سے صبر نھی ھورھا کتنے دن ہوگئے ہیں
عظمی میرے سینے پر مکہ مارتے ھوے بولی
میں نے کہا نہ کہ آتی ھوں تھوڑی دیر کہ بعد اور عظمی نے میرے ہوںنٹوں پر ایک لمبی سی ذور دار کس کی اور مجھ سے
علیحدہ ھو کر چارپائی کی طرف چلی گئی جو پہلے ھی بچھی ھوئی تھی اس پر چادر بچھا کر جانے لگی تو دروازے کے
قریب پہنچ کر رک گئی اور میری طرف گھوم کر بولی دودھ گرم پینا ھے کہ ٹھنڈا
میں نے کہا منہ لگا کر تازہ پینا وہ بھی جب تم آو گی
تو ہنسی اور ہاتھ میری طرف کر کے اشارے سے بولی کوئی حال نئی تمہاری
اور کمرے سے باہر چلی گئی
میں چارپائی پر لیٹ گیا اور نسرین کے نرم مموں میں کھو گیا کہ کیا کمال کے ممے تھے میرا تو کبھی دھیان ھی نھی گیا
اسطرف
کافی دیر میں ایسے ھی سوچتا رھا اور سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی
اور خواب میں نسرین کو چودنے لگ گیا
اس سے پہلے کہ میں خواب میں نسرین کی پھدی کے اندر ھی فارغ ھوتا
اچانک مجھے ایسا لگا کہ مجھے کو ئی جنجھوڑ رھا ھے
میں نے جیسے ھی آنکھیں کھولی تو جو چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا میں اسے آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا تھا
کیونکہ وہ چہرہ..؟؟؟؟؟؟
میں آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا کہ جسکو خواب میں چود رھا تھا
یہ چہرہ تو وہ نھی
کہ عظمی نے میری گال تھپتھپا کر مجھے خواب سے باہر نکال دیا
اور غصے سے دبی آواز میں بولی
مجھے آنے کا کہہ کر خود گھوڑے بیچ کر سوے ھوے ھو
میں نے عظمی کو دونوں بازوں سے پکڑا اور اپنے سینے کے اوپر گرا لیا
عظمی میرے سینے پر لیٹے ھوے میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی
کب سے اٹھا رھی ہوں
جناب کو کوئی ہوش ھی نھی تھا
میں نے کہا بس یار تمہیں یاد کرتے کرتے سوگیا پتہ ھی نھی چال
عظمی کی ٹانگیں چارپائی سے نیچے تھی اور وہ چارپائی پر گانڈ میرے ساتھ لگا کر میرے سینے پر اپنے ممے رکھے
ھوے لیٹی تھی اسکا منہ میرے منہ سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اسکی گرم سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی
عظمی بولی چل جھوٹا
جب کوئی کسی کو یاد کرتا ھے اسکی تو نیندیں اڑ جاتی ہیں
اور تم جسے یاد کرنے کا جھوٹ بول رھے ھو
وہ کب سے تمہیں اٹھانے لگی ھے
میں نے کہا
اچھا چھوڑو یہ بتاو کہ وہ دونوں چڑیلیں سو گئی کہ نئی
تو عظمی نے پیارے سے میری گال پر چپت لگاتے ھوے بولی
پاگل اگر وہ جاگتی ھوتی تو میں نے آنا تھا
میں نے کہا
یعنی کہ وہ سوگئی ہیں تو عظمی نے دھیمی ہنسی ہنستے ھوے کہا
بدھو وہ تو کب کے سوئی ہوئی ہیں
میں تو صحن کی الئٹ بھی بند کرکے آئی ھوں
میں نے اپنے منہ کو تھوڑا آگے کیا اور عظمی کے ہونٹ چومتے ھوے کہا گڈ سیانی ھوگئی ھو
عظمی نے تین چار دفعہ میرے ہونٹوں پر کس کی
اور بولی
کیا ساری رات مجھے ایسے ھی بیٹھاے رکھنا ھے میں تھک گئی ھوں تھوڑا سے پیچھے ہٹو
یہ کہتے ھوے عظمی میرے ساتھ لیٹ کر مجھے دوسری طرف دھکیلتے ھوے جگہ بنانے لگ گئی
میں نے عظمی کو کہا یار نیچے کوئی چیز بچھا لو چارپائی پر تنگ ھوں گے ساری جگہ تو تم نے ھی گھیر لی ھے یہ
دیکھو میں نیچے گرنے واال ھوگیا ھوں
میں نے جان بوجھ کر چارپائی کے کنارے پر پہنچ کر گرنے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا تھا ۔۔
عظمی نے میرے سینے پر مکا مارتے ھوے کہا
چل شوخا
میں اتنی بھی موٹی نھی ھوں
میں نے کہا یار پھر
ایسے چارپائی کی چوں چوں نے پورا محلہ اکھٹا کر لینا ھے
عظمی میری بات سن کر ہنستے ھوے اٹھی اور مجھے بھی اٹھنے کا کہا
اور پھر چارپائی سے گدا اٹھا کر نیچے بچھا دیا میں نے گدے کے اوپر چڑھ کر پیروں پر وزن ڈالتے ھوے کہا
یار اگر ایک گدا اور بچھا دو تو مزہ آجاے گا
عظمی کچھ دیر سوچتی رھی پھر بولی ایک منٹ میں دیکھ کر التی ھوں اور وہ دبے پاوں چلتی ھوئی دوسرے کمرے میں
گئی اور وہاں سے ایک اور گدا اٹھا کر لے آئی
اور ال اسے بھی اسی گدے کے اوپر بچھا دیا
اور دو سرھانے بھی رکھ دیے
اور چوکڑی مار کر گدے پر ایسے بیٹھ گئی جیسے میرے ساتھ تاش کھیلنے لگی ھو،
میں نیچے بیٹھا اور ساتھ ھی لیٹ گیا
اور عظمی کو پکڑ کر بھی لٹا لیا
اور ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے کے ساتھ جپھی ڈال کر لیٹے ھوے ایک دوسرے کے ہونٹ چومنے لگ گئے
میرا لن فل کھڑا ھوگیا تھا اور عظمی کی پھدی پر دستک دے رھا تھا کہ جلدی دروازہ کھولو آج صبح سے کھجل ھورھا ھوں
۔
کچھ دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے کے بعد
میں اٹھا اور اپنی قمیض اتار دی اور پھر بنیان بھی اتار کر ایک سائڈ پر رکھ دی
اور پھر عظمی کو اٹھنے کا کہا تو وہ بولی کیا ھے
میں نے اسکی قمیض پکڑ کر کہا کہ اسے اتارو
تو عظمی بولی نھی قمیض نھی اتارنی اگر وہ اٹھ گئیں تو اتنی جلدی مجھ سے نھی پہنی جانی
میں نے کہا یار اگر تمہیں انکا اتنا ھی ڈر تھا تو آتی ھی نہ
چلو اٹھو اتارو قمیض
عظمی کی مصیبت اے کہتی ھوئی اٹھی اور اپنی قمیض اتار کر سیدھی کر کے رکھ دی اور بریزیر پکڑ کر بولی اسکو بھی
اتار دوں میں نے کہا ھاں جی ،۔۔۔
اس نے پھر پیچھے ھاتھ کر کے اپنا بریذیر کھوال اور اسے بھی اتار دیا
اور قمیض کے اوپر ھی رکھ دیا
عظمی کا گورا بدن اندھیرے میں بھی چمک رھا تھا
صحن میں چاند کی روشنی تھی جو ہلکی ہلکی اندر بھی آرھی تھی
کمرے میں اندھیرا تھا مگر اتنا بھی نھی کہ ایک دوسرے کو بلکل بھی دیکھ نہ سکتے
میں نے عظمی کو جپھی ڈال کر پھر اسی پوزیشن میں لٹا لیا اب عظمی کا اور میرا اوپر واال ننگا حصہ ایک دوسرے کے
ساتھ ُجڑا ھوا تھا ۔
اور پھر سے ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے
میں نے ایک ھاتھ نیچے کیا اور
اپنا ن
ازاربند کھوال اور لن کو ہوا لگائی
اور ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے ھاتھ کو پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا
عظمی بھی فل گرم ھوچکی تھی اس نے میرے لن کو مٹھی میں بھر کر مٹھ مارنے کے انداز میں ھاتھ کو اوپر نیچے کرنے
لگ گئی
اور کبھی ھاتھ کو کھول کر انگلیوں سے لن کا مساج کرتی اور کبھی ٹوبے کے گرد انگلیوں کو گھماتی اور انگوٹھے سے
ٹوپے کی اکلوتی آنکھ کو ناخن کی مدد سے کھولتی اور انگوٹھے کے پورے سے ٹوپے کو مسلتی ایسے ھی مزے لے لے
کر لن کے ساتھ کھیلتی اور کبھی ھاتھ پورا نیچے لیجا کر ٹٹوں کو انگلیوں سے مسلتی اور پھر ویسے ھے ہتھیلی لن پر رکھ
کر انگلیوں کو اوپر کی طرف لے آتی
اور میرا لن اسکی شرارتوں سے جھٹکے کھانے لگ جاتا
میں نے ایک ھاتھ اسکی السٹک والی شلوار میں ڈال کر اسکی مالئم گانڈ پر پھیر رھا تھا اور آہستہ آہستہ اسکی شلوار بھی
نیچے کرتا جارھا تھا
میں نے جب اسکی پوری گانڈ سے شلوار اتار دی تو ھاتھ کی درمیان والی انگلی کو اسکی گانڈ کی دراڑ میں پھرنے لگ گیا
عظمی کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور وہ گانڈ کو بھینچنے لگ گئی تھی میری انگلی جیسے ھی اسکی گانڈ کے سوراخ پر لگتی
تو وہ گانڈ کو ذور سے بھینچ لیتی
میں نے ھاتھ تھوڑا سا لمبا کر کے گانڈ کی موری سے تھوڑا آگے کیا تو میری انگلیاں عظمی کی پھدی سے ٹکرائیں اور
ساتھ ھی میری انگلیاں آگے سے گیلی ھوگئی
عظمی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی
جس سے میری انگلیاں گیلی ھوگئی اور میں ان گیلی انگلیوں کو پیچھے کر کے اسکی گانڈ کی مورے کے کنگروں پر سارا
پانی مل کر انگلیاں صاف کر کے پھر پھدی کی طرف لے جاتا اور پھدی کے تالب میں انگلیوں کو گیال کرتا اور پھر ال کر
گانڈ کے سوراخ کو مزید گیال کر دیتا ایسے کئی دفعہ کرنے سے اسکی گانڈ کی موری میں کافی چکنائی ھو گئی تھی اور
اسکی موری کے کنگرے بھی نرم ھو چکے تھے
اب میں نے ایک انگلی اسکی موری پر رکھی اور ہلکے سے اندر کی
تو عظمی نے اوئییییی کیا اور میرے بازو کو کہنی مار کر پیچھے کرنے کو کہا میں نے آہستہ سے کہا آرام سے لیٹی رھو
تو عظمی بولی پیچھے سے کیوں کر رھے ھو اپنے ھاتھ گندے کرو گے
میں نے کہا
تینوں ٹٹی آئی اے تے جا پج کے کر آ
تو عظمی نے میرے لن کو ذور سے دبا کر کہا چل گندا
شرم نھی آتی ایسی گندی باتیں کرتے ھوے
میں نے کہا تم جو کہہ رھی ھو کہ ھاتھ گندے کرنے ھے
تو عظمی بولی میرا مطلب ھے کہ گندی جگہ ھے ادھر نہ کرو
میں نے کہا تم فکر نہ کرو میں نے تمہاری پھدی کے پانی سے اچھی طرح دھو لی ھے وہ جگہ
۔عظمی نے شرما کر اپنا منہ میرے گلے میں دیتے ھوے کہا
یاسر تم بہت ھی بے شرم ھو گئے ھو
تو میں نے کہا
شرم ساری اتار کر سائڈ پر رکھ دی ھے اس لیے تم بھی اب ڈرامے نہ کرو
اور یہ کہتے ھی میں نے عظمی کی گانڈ میں کافی ساری انگلی اندر کردی
تو عظمی نے ساتھ ھی
اوئییییییییییی میں مرگئی
یاسر نہ کر ادھر سے درد ھوتا ھے
میں نے انگلی اندر باہر کرتے ھوے کہا دیکھنا ابھی کتنا مزہ آتا ھے
عظمی بولی مجھے نھی لینا ایسا مزہ
میں نے عظمی کی گانڈ کے سوراخ سے انگلی نکالی اور پھر اسکی شلوار آگے سے بھی نیچے کی اور اپنی شلوار کو
بھی اتار کر ہاوں سے نکال کر سائڈ پر رکھا
اور عظمی کی شلوار بھی پاوں سے نکال کر رکھنے لگا تو عظمی میرے ھاتھ سے شلوار پکڑی اور اسکو سیدھی کر کے
قمیض کے اوپر رکھ دیا میں اور عظمی اب مادر زاد ننگے تھے
میں نے عظمی کی پھدی پر ھاتھ پھیرا تو عظمی تڑپ کر میرے ساتھ چپک گئی میں نے عظمی کو اہنے سے الگ کیا اور
سیدھا لٹا دیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گیا اور تین چار دفعہ اسکے گول مموں کو باری باری چوما عظمی کے نپل۔ایک دم اکڑے
ھوے تھے اور سخت ھوگئے تھے
میں اٹھا اور کھڑا ھوکر عظمی کے سینے کے دونوں اطراف ٹانگیں کی اور مموں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر نیچے اسکے
مموں کے درمیان لن کو رکھ کر مموں کو آپس میں جوڑ کر گھسے مارنے لگ گیا
عظمی میرے اس نئے طریقے کو فل انجواے کر رھی تھی میں عظمی کو کہا کہ اپنے دونوں مموں کو پکڑ کر لن کو اس
میں بھینچ لے عظمی نے جلدی سے دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں مال دیا اور میں لن عظمی کے مموں کے درمیان آگے
پیچھے کرنے لگ گیا
لن آگے سے نکل کر عظمی کی ٹھوڑی کے ساتھ لگ رھا تھا مجھے ایسا کر کے بہت ھی مزہ آرھا تھا
میں نے عظمی کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کیا اور ہاتھ اسکی گردن میں پر رکھ کر سر کو مزید اوپر کردیا
اب میرے لن کا ٹوپا عظمی کے ہونٹوں پر لگتا
عظمی پہلے تو ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر ٹوپے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر نفرت کا اظہار کرتی
تو میں نے کہا عظمی اسکو کس کرو
عظمی نے میرے اصرار پر ٹوپے کو چومنا شروع کردیا جب بھی ٹوپا اسے کے ھونٹوں کو چھوتا تو عظمی ٹوپے کو چوم
لیتی
عظمی کا تو پتہ نھی مجھے یہ سب کر کے بہت اچھا لگ رھا تھا
میں نے یہ بلیو فلم میں دیکھا تھا
اور اس کا پریکٹیکل آج پہلی دفعہ کر رھا تھا
کچھ دیر ایسے ھی مموں میں گھسے مارتا رھا اور عظمی متواتر میرے ٹوپے کو چومتی رھی
میں نے اسی پوزیشن می ایک ھاتھ پیچھے کیا اور عظمی کی پھدی پر دو انگلیاں رکھ کر پھدی کے دانے کو ہڈی کے ساتھ
لگا کر مسلنے لگ گیا
میں نے جیسے ھی دانے کو مسال
عظمی نے مزے کی لزت میں آہ آہہہہہ کیا اور ایسا کرنے سے اسکا منہ کھال ادھر ٹوپا اسکے منہ کے پاس پہنچ گیا تو میں
تھوڑا اور آگے کو ہوا اور اسکی گردن کے پیچھے رکھے ھوے ھاتھ کو مزید اوپر کیا جس سے عظمی کا منہ مذید میرے لن
کے قریب ھوگیا اور ٹوپا سیدھا عظمی کے منہ کے اندر چال گیا
عظمی نے جلدی سی منہ ہپپپ کر کے بند کیا تو پوراٹوپا اسکے منہ کے اندر ھی اسکے ہونٹوں میں دب گیا
عظمی نے جلدی سے سر ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی مگر اسکی گردن میرے ھاتھ میں تھی میں نے اسکے سر کو ہلنے
ھی نھی دیا بلکہ گردن کو اور اوپر کر دیا جس سے ٹوپا اسکے منہ کت اندر پھنس گیا
میں نے ساتھ ھی کہا جان چوسو اسے
تو عظمی نفی میں سر ہالنے کی کوشش کرنے لگ گئی ادھر میں اسکی پھدی کے دانے کو مسلی جارھا تھا
آخر پھدی کے دانے کی لذت نے عظمی کو لن چوسنے پر مجبور کر دیا اور عظمی نے ہار مانتے ھوے صٍر ف ٹوپے کو
چوسنا شروع کردیا
لن ایسے ھی اسکے مموں کو چود رھا تھا اور جب بھی لن عظمی کے منہ کے قریب جاتا عظمی دلی گیٹ کی طرح منہ کو
کھول کر ٹوپے کو اندر جانے کا راستہ دے دیتی اور ٹوپا جب اندر جاتا تو ہونٹوں کو بھینچ لیتی اور میں ٹوپے کو واپس
کھینچتا تو ایک مزے کی لہر میرے سارے جسم میں دوڑتی
مجھے ایکدم ایسے لگا جیسے میری منی نکلنے والی ھوگئی ھے
میں نے پھدی کے دانے کو مسلنا تیز کردیا اور عظمی نے مزے کی بڑھتی ھوئی شدت کی وجہ سے آنکھیں بند کرلی اور
اسے پریکٹس بھی ھوگئی تھی کہ کب لن کے ٹوپے کو چوسنا ھے اور کب اسے اندر انے کا راستہ دینا ھے
مموں کے درمیان میرے گھسوں کی سپیڈ تیز ھوگئی
ادھر میری انگلی بھی تیزی سے پھدی کے دانے کو مسلی جارھی تھی ادھر میری ٹانگوں سے جان نکل رھی تھی ادھر
عظمی کا جسم اکڑ رھا تھا
جیسے جیسے میری سپیڈ بھڑتی جارھی تھی ویسے ھی عظمی کی جان نکلنے والی ھوگئی تھی
کہ اچانک عظمی کے جسم نے ذور دار جھٹکا لیا اور عظمی نے اپنی ٹانگوں کو زور سے بھینچ لیا دوسری طرف میرا بھی
آخری گھسا لگا اور عظمی کے جسم کے جھٹکے جاری تھے کہ عظمی نے جھٹکے مارتے ھوے لن کے ٹوپے کومزید اندر
نگل کر منہ میں جکڑ کر چوسنا شروع کردیا
میرے لن سے بھی اتنا زبردست چوپا برداشت نہ ھو تو
میرے لن سے منی کے فوارے عظمی کے منہ میں ھی نکلنے لگے میں بھی کانپتے ھو عظمی کی گردن کو مذید جکڑ لیا
اور لن کی منی عظمی کہ منہ میں ھی برسانے لگا
ادھر عظمی کے جسم کو جھٹکے لگ رھا تھے اسکی پھدی منی اگل رھی تھی اور اس دوران اس کے منہ میں زہر بھی ھوتا
تو نگل جاتی
عظمی فارغ ھوتے ھوے مزے میں اتنی ڈوبی ھوئی تھی کہ اسے یہ بھی احساس نہ ھوا کہ نیچے اسکی پھدی منی اگل رھی
ھے اور اوپر اسکے منہ کے اندر میرا ببر شیر منی اگل رھا ھے اور عظمی ویسے ھی لن کو چوس۔چوس کر منی گلے کے
اندر ھی نگل رھی تھی
کہ ۔۔۔۔
عظمی کو یکلخت ہوش آیا کہ وہ میرے لن کی ساری منی نگل گئی ھے
عظمی نے جلدی سے سر کو پیچھے کیا میرے ہاتھ کی گرفت بھی ڈھیلی ہوگئی جس کی وجہ سے میرا لن جو آخری ہچکیاں
لے رھا تھا ۔
عظمی کے منہ سے باھر آگیا
عظمی نے ایک ھاتھ اپنے منہ پر رکھا اور دوسرا ھاتھ میرے پیٹ پر رکھ کر
مجھے پیچھے دھکیل دیا میں بھی ٹھنڈا ھوچکا تھا
دماغ کی ساری گرمی لن کے راستے سے عظمی کے منہ میں نکل کر اسکے معدے میں اتر چکی تھی ۔
عظمی جلدی سے اٹھ کر گدے کے دوسری طرف منہ کر کے الٹی کرنے کی کوشش کرتے ھوے ذور لگا کر کھانسنے لگ
گئی مگر منی اس کے معدے میں جاچکی تھی اور معدے نے منی ہضم کرلی تھی اب سواے تھوک اور پانی کے اسکے منہ
سے کچھ نھی نکل رھا تھا
میں عظمی کی حالت سے بے خبر ھوکر سیدھا لیٹا
لمبے لمبے سانس لے کر خود کو ریلیکس کر رھا تھا۔
کچھ دیر بعد عظمی نے میری طرف منہ کیا اور میرے نیم مردہ ننگے لن کو پکڑ کر مروڑتےھوے غصے سے بولی
میں اینوں توڑ دینا اے
عظمی کی گرفت کافی مضبوط تھی جس کی وجہ سے مجھے کافی درد ھوئی اور میں ٹانگیں سکیڑ کر ھاےےےےےے
کیا اور اسکی کالئی پکڑ کر زور سے دبا دی جس سے عظمی کو اپنی نازک سی کالئی میں درد کا احساس ھوا تو اس نے
گرفت ڈھیلی کی اور لن کو چھوڑ کر میرے پیٹ کے اوپر ٹانگیں دونوں اطراف کر کے بیٹھ گئی
عظمی کی چکنی پھدی سے پانی نکال جس سے میرا پیٹ بھی گیال ھوگیا
عظمی نے میرے پیٹ پر سوار ھوتے ھی میرا گال دبانے کے لیے ھاتھ آگے بڑھاے اور بولی
شوخیا میں تیرا گال ُک ٹ دینا اے سارے جہان دے گندے کم تیرے وچ ای اے
میں نے ہنستے ھوے اسکے دونوں ھاتھوں کو کالئیوں سے پکڑ لیا
اور انکو پکڑے ھوے ھی پیچھے اسکی کمر کے ساتھ لگا کر عظمی کو آگے اپنے اوپر ُجھکا لیا
عظمی بولی
یاسر یہ اچھا نھی کیا تم نے
میں نے کہا یار تم نے چوپا ھی بڑے کمال کا لگایا تھا
مجھے پتہ ھی نھی چال
عظمی کے مموں کے نپل میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھو رھے عظمی کا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پر تھا
عظمی بولی اچھا میرے ھاتھ تو چھوڑو
میں نے کہا نھی جی تم نے میرا گال دبا دینا ھے
عظمی بولی نھی دباتی چھوڑ دو بازو
میں نے عظمی کے بازو چھوڑ دیے
اور ویسے ھی اسکی کمر کے گرد بازو رکھے عظمی
بولی
اب جاوں میں تو میں نے بازوں کا گھیرا تنگ کر کے عظمی کو مزید اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے کہا
ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور جناب جانے کی باتیں کررھی ھے
عظمی مصنوعی غصے سے میرا کان پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی
گندے بچے میرا سارا منہ گندا کردیا ھے اور ابھی کہتے ھو کہ کچھ کیا ھی نھی
میں نے عظمی کو کہا
ابھی بتاتا ھوں کہ کیا کرنا باقی ھے
اور ساتھ ھی میں نے عظمی کے دونوں مموں کو پکڑا اور اپنے منہ کی طرف مموں کے نپل کئے اور سر اونچا کر کے
مموں کو باری باری چوسنے لگ گیا۔
عظمی کے منہ سے یکلخت سسکاری نکلی
اور عظمی نے ساتھ ھی پھدی کا دباو میرے پیٹ پر بھڑا دیا
کچھ دیر عظمی کے ممے چوسنے کے بعد
میرے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا
اور پیچھے سے عظمی کی گانڈ کے دراڑ کے ساتھ لگنے لگ گیا
).Update no (50
عظمی مزے لے لے کر خود اپنے ممے کو پکڑے نپل کو میرے منہ ڈال رھی تھی
میرا لن بھی فل تن چکا تھا
میں نے عظمی کی کمر کو پکڑا اور اسے اوپر کیا تو عظمی نے اپنی پھدی میرے لن سے اٹھا کر تھوڑی اوپر کی
میں عظمی کو کہا تھوڑا پیچھے ھو جاو
عظمی ڈوگی سٹائل میں ھی پیچھے ھوئی اور پھدی کو لن کے اوپر کر دیا
میں ہاتھ نیچے لیجا کر
لن کو جڑ سے پکڑا اور عظمی کی پھدی کے ہونٹوں کے بیچ سیٹ کرنے لگا
عظمی سمجھ گئی تھی اب کاال ناگے پھدی کا ستیاناس کرنے لگا ھے
تو عظمی نے جھٹ سے پھدی کو لن سے اوپر کیا اور
خود ہاتھ نیچے کر کے لن سے میرا ھاتھ ہٹا کر خود لن کو پکڑتے ھوے بولی
یاسر میں خود اندر کروں گی
تم پلیز دھکا نہ مارنا نھی تو میری چیخ
انکے کمرے تک جانی ھے
میں نے بھی لن کو چھوڑ دیا اور اسکی کمر کو دونوں طرف سے پکڑ لیا
عظمی نے لن کی ٹوپی کو پھدی کے لبوں میں اچھی طرح پھیر کر پھدی کے تھوک سے گیال کیا اور لن کو پھدی کے
سوراخ پر رکھ کر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھنے لگ گئی
آدھا لن عظمی نے پھدی میں آہ آہ آہ اوییییی کرتے لے لیا اور پھر گانڈ کو اٹھا ااٹھا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آدھے لن کا
ھی مذہ لینے لگ گئی ۔
میں بھی نیچے سے گانڈ اٹھا کر لن مذید اندر کرنے کی کوشش کرتا مگر عظمی ساتھ ھی اوپر ھو جاتی اور کہنے لگ جاتی
یاسر تم کچھ مت کرو آج میں خود ھی کروں گی
میں ہمممم کر کے مما منہ میں لے کر چوسنے لگ گیا
کچھ دیر ایسے ھی عظمی آدھے لن پر اوپر نیچے ھوتی رھی اور میں عظمی کے دونوں مموں کو باری باری چوستا رھا
عظمی نے آہستہ آہستہ پورا لن پھدی کے اندر اتار لیا
اور ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر لمبی کر کے پورا لن اندر لے کر میرے اوپر لیٹ گئی
اور بڑے فخر سے سیکسی اواز میں بولی یاسر سارا چال گیا نہ اندر
میں نے اثبات میں سر ہال کر اوکے کیا
عظمی نے مجھے کس کر جپھی ڈال کر گانڈ کو اوپر نیچے کر کے آہستہ آہستہ گھسے مارنے شروع کردئے
میں نے دونوں ھاتھ عظمی کی گانڈ پر رکھ کر گانڈ کو بھینچنے لگ گیا
عظمی جیسے ھی گانڈ اوپر کرتی تو میں ھاتھوں کا دباو دے کر گانڈ کو لن کی طرف جھٹکے سے دبا دیتا
عظمی ھاےےے کرتی اور مدہوش آواز میں کہتی یاسر بڑا مزہ آرھا ھے ھممممم افففففف آہ آہ آہ
میں اسکی ایسی آواز میں سیکسی باتیں سن کر جوش میں آجاتا اور زور زور سے گانڈ کو ھاتھوں میں دبوچ دبوچ کر نیچے
کی طرف دباتا
کچھ دیر بعد عظمی نے گھسے مارنے کی سپیڈ تیز کردی اور ساتھ ھی
مدہوشی میں بولے جارھی تھے
ہاں یاسر ایسے کرو ایسے ھی آہہہہہ آہ ھممممم سسسسسسیییی یاسر سارا کرو
اور میں نیچے گانڈ اٹھا کر پورے ذور سے لن کو پھدی کے اندر تک کر دیتا
عظمی نے گھسے مارنے بند کردئے اور لن کو پھدی میں جکڑ کر میرے اوپر سے کھسک کر پاوں کی طرف چلی گئی
جس سے میرا لن پھدی کی ہڈی کے ساتھ لگ گیا
مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ عظمی کا سارا وزن میرے لن پر ھی آگیا ھے
میرا لن بری طرح پھدی میں جکڑا ھوا تھا اور پھدی کی ہڈی کے ساتھ رگڑ کھاے ھوے تھا
عظمی لن کو پھدی میں جکڑ کر سانپ کی طرح بل کھاتے ھوے گانڈ کو ہال رھی تھی اور مزید لن پر ہڈی کو رگڑ رھی تھی
اور پیچھے جانے کی کوشش کررھی تھی میری تو درد سے جان نکلنے والی ھوگئی
مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ پھدی کی ہڈی نے میرے لن کو توڑ دینا ھے میں نے دونوں بازو لمبے کیے اور عظمی کی گانڈ
کو دبوچ کر آگے کی طرف زور لگانے لگ گیا
عظمی میں پتہ نھی کون سا جن آگیا تھا
عظمی کی سانسیں بری طرح اکھڑی ہوئی تھیں اسکے ممے میرے سینے میں پوست تھے عظمی بس ایک بات ھی کری
جارھی تھی
یاسر ُبوتتتتت مزہ آرھا ھے
کہاں تھا یہ مزہ سییییی ہممممم ایسے کرتی کرتی نے یکدم اپنی ٹانگوں کو بھینچ کر لن کو پھدی میں مزید جکڑ لیا اور میرے
ہونٹوں کو بےدردی سے اپنے دانتوں سے کاٹتے ھوے
رک کر گانڈ کو پورے زور سے میرے لن کی طرف دبا دیا
جسم کو جھٹکے دینے لگ گئی
درد کے ماری میری بری حالت ھوچکی تھی
ایک منٹ تک عظمی ایسے ھی میرے اوپر لیٹی رھی
اور پھر اسکو میری حالت پر ترس آیا تو اسکی پھدی نے میرے لن کی جان چھوڑی اور عظمی کا جسم ڈھیال ہو کر میرے
اوپر پڑا تھا اور عظمی کی تیز دھڑکن مجھے اپنے سینے پر صاف محسوس ھورھی تھی
میں نے عظمی کو کہا
اچھا ریپ کیا ھے میرا
عظمی ہنستے ھوے اکھڑی آواز میں بولی
کیوں کیا ھوا
میں نے کہا میرا لن ٹوٹنے واال ھوگیا تھا اور تم کہہ رھی ھو کیا ھوا تھا
آج تمہیں ھوکیا گیا تھا
سہی بدال لیا تم نے جنگلی بلی
عظمی ہنستے ھوے بولی
جب تم میری جان نکالتے ھو تب تمہیں احساس ھوتا ھے کہ مجھے کتنی درد ھوتی ھے
خود سے تھوڑی دیر کے لیے درد برداشت نھی ھوتی
ہم ابھی باتیں ھی کر رھے تھے کہ اچانک؟؟؟؟؟؟؟
اچانک؟؟؟؟
میرے لن نے عظمی کی پھدی میں جھٹکا مار کر مجھے اپنی طرف توجہ کیا کہ
سائیں میرا وی ُک ش سوچو۔۔۔
میں نے عظمی کو تھوڑا اوپر کیا اور اسکی ٹانگوں دونوں طرف سے پکڑ کر آگے کی طرف کھینچ کر اسے اپنے اوپر
گھوڑی کی شکل میں کردیا۔
عظمی نے دونوں بازوں گدے پر کہنیوں کے بل کیے اور گھٹنوں کے بل گانڈ اوپر کر کے لن کے کچھ فاصلے پر پھدی کو
کرلیا ۔
میں نے اسکےدونوں چوتڑوں پر ھاتھ رکھے اور نیچے اپنی گانڈ اٹھا کر لن عظمی کی پھدی میں ڈال کر اوپر کی طرف
گھسے مارنے شروع کردیے
میں جیسے جیسے گانڈ اٹھا کر گھسے مارتا
عظمی کے ممے میرے منہ کے سامنے ہلتے
میرا لن پھدی کی گہرائی تک جا رھا تھا
میرے ھاتھ عظمی کی گانڈ کو دبوچ کر گانڈ کو نیچے کی طرف ُپش کررھے تھے
میری انگلیاں ساتھ ساتھ عظمی کی گانڈ کے دراڑ میں جاکر گانڈ کے سوراخ کا مساج بھی کرتی جارھی تھی
عظمی نے بھی یس یس اففففف اممممم کرنا شروع کردیا ۔
جس سے میرا جوش مذید بڑھ رھا تھا
عظمی کی سسکاریاں میرے لطف میں مذید اضافہ کرتی جارھی تھی
عظمی کی پھدی کافی گیلی تھی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی منی میرے لن پر پر ھی لگ گئی تھی جس کی وجہ سے لن
پھدی میں فراوانی سے اندر باھر ھو رھا تھا
میں گھسے مارنے کے دوران اپنا سر اونچا کر کے عظمی کے ممے کو بھی چوم لیتا
میرے گھسوں سے ہلتے ممے کمال لگ رھے تھے
اس کے مموں کی تھرتھراہٹ سے مجھے اپنے گھسوں کی شدت کا اندازہ ھورھا تھا
کچھ دیر بعد میں گھسے مار مار کر تھک گیا
عظمی بھی پھر فارغ ھونے کے قریب تھے
میرے گھسوں کی رفتار کم ھوئی تو
عظمی پھدی کو نیچے کی طرف ُپش کرنے لگ گئی اور پھر عظمی کی سسکیاں اور پھدی کو لن پر ُپش کرنے کی رفتار تیز
سے تیز تر ھوتی ھوگئی اور پھر عظمی نے پورا وزن میرے لن پر ڈال کر لن کو پھدی کی گہرائی تک پہنچا دیا اور میرے
ساتھ چمٹ گئی اور اسکا جسم جھٹکے کھانے لگا
عظمی کی پھدی کے اندر ھی منی کی دھاریں میرے ٹوپے سے ٹکرا رھی تھی ۔
عظمی لمبے لمبے سانس لیتی ھوی میرے اوپر سے دوسری طرف گر گئی اور
دونوں ھاتھ اپنے منہ پر رکھ کر افففففففففف
ھاےےےےےےے
ھوے ھوے ھوے
کرنے لگ گئی
)Update no (51
میں جلدی سے اٹھا اور عظمی کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور عظمی کی ٹانگیں اٹھا کر اسکے گھٹنے
اسکے پیٹ کے ساتھ لگا دیے اور لن کو پھدی پر سیٹ کر کے ایک دھکے میں سارا لن پھدی کے اندر اتار دیا
عظمی نے اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوے
ابھھھھھپھھھھ کیا
اور ذور ذور سے سر دائیں بائیں مارنے لگی
چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں
اسکے چہرے پر تکلیف کے ایثار نظر آرھے تھے
عظمی منہ سے ہاتھ ہٹا کر آہستہ سے بولی
ماردتا ای ظالماں کیڑا بدلہ لیا ای
میں نے اسکو کوئی جواب نہ دیا اور لن کو باہر کھینچ کر پھر ویسے ھی ذور سے اندر کیا میرا لن اسکی ریڑھ کی ہڈی سے
ٹکرایا
تو عظمی نے بری طرح اپنے ہونٹوں اور آنکھوں کو بھینچ اور میرے سر کے بالوں کو ذور سے پکڑ کر میرا سر ہالتے
ھوے بولی
یاسرررررررررر
جانور نہ بنو
میں انسان ھوں جانور نھی جو تم ایسے کر رھے ھو
میں نے پھر لن پیچھے کو کھینچا اور اس سے پہلے کہ تیسری دفعہ گھسا مارتا
عظمی نے گانڈ ہال کر پھدی کو سائڈ پر کرنے کی کوشش کی تو میرا ٹوپا بھی باہر تھا تو میں نے بنا سوچے سمجھے ویسے
ھی گھسا ماردیا میرا لن عظمی کی پھدی کے نیچے اور گانڈ کے سوراخ سے اوپر ذور سے لگا
جس سے مجھے تو درد ھوئی ھی ساتھ عظمی بھی تڑپ گئی
اور ٹانگوں کی مدد سے مجھے پیچھے دھکیل کر
بولی
جاو میں نے نھی کروانا
تم سے انسان بن کر نھی کیا جاتا
تو میں نے عظمی کو پھر پچکار کر ریلیکس کیا اور
آرام سے کرنے کا کہہ کر پھر اسکی ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور لن کو پھدی کے اوپر سیٹ کر کے آرام سے اندر اتارا
دیا اور
گھسے مارتے ھوے عظمی کو جپھی ڈال لی
عظمی کے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے اور میں اسکی گالوں کو چومتا اور ہونٹوں کو عطمی نے اپنے
دونوں ھاتھ میری کمر پر رکھے ھوے تھے ۔
میں دس پندرہ منٹ عظمی کو ایسے ھی چودتا رھا اور پھر میری سپیڈ تیز ھوئی اور عظمی کی سیکسی آوازیں بھی نکلنا
شروع ھوگئے
اس سے پہلے کہ میرا لن عظمی کی پھدی کو منی سے بھرتا میں نے ھاتھ نیچے کیا آخری جاندار گھسہ مارا اور لن کو باہر
نکال کر پھدی کے اوپر ھی ساری منی نکال دی
کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور عظمی نے جلدی سے اپنے کپڑے پہنے میں نے صرف شلوار اور بنیان ھی پہن لی
اور
عظمی نے گدا اٹھایا اور باھر نکل گئی
دوسرا گدا میں نے اٹھا کر چارپائی پر بیچھا دیا اور لیٹ گیا
میں نے کچھ دیر عظمی کا انتظار کیا کہ شاید گدا رکھ کر واپس آے مگر وہ آئی کہ نھی آئی میں پتہ نھی کب سوگیا
صبح میری تب آنکھ کھلی جب نازی مجھے جنجھوڑ کر اٹھا رھی تھی کہ اٹھ جاو دکان پر نھی جانا
عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر بیٹھی تمہارا انتظار کررھی ہیں اور تم گھوڑے بیچ کر سوے ھوے ھو
اٹھو جلدی
میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور نازی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ
کیا تکلیف ھے سونے بھی نھی دے رھی ھو
تو نازی بولی
سونے کے بچے ٹائم دیکھ کیا ھوگیا ھے
انکو بھی سکول سے لیٹ کرواے گا
میں نے منہ دیوار کی طرف کر کے کالک پر جب ٹائم دیکھا تو جمپ مار کر چارپائی سے اترا اور ناذی کو گھورتے ھوے
بوال
کہ جلدی نھی اٹھا سکتی تھی مجھے
تو ناذی بولی ایک گھنٹہ ہوگیا ھے
تم کو اٹھاتے ھوے
تم پتہ نھی کونسی نشے کی گولی کھا کر سوے تھے کہ اٹھنے کا نام ھی نھی لے رھے تھے
میں ناذی کو گھورتا ھوا منہ ھی منہ میں اسے برا بھال کہتا باہر نکال تو عظمی اور نسرین سکول یونیفارم پہنے ھوے بیٹھی
تھی
نسرین مجھے دیکھ کر بولی کھل گئی جناب کی انکھ
میں نے اس کی بات سنی ان سنی کی اور جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور ناذی کو کہا گھر سے میرے کپڑے لے آو
جلدی
میں نہانے لگا ہوں
نازی بولی جلدی نہاو میں ابھی لے کر آتی ہوں
میں نے جلدی جلدی نہایا اور نازی کو آواز دی کے مجھے کپڑے دے دے اس نے واش روم کے بڑے سے روشن دان میں
کپڑے رکھ دیے میں نے کپڑے پہنے تو عظمی بولی ناشتہ کیا کرنا ھے تو میں نے کہا جلدی چلو پہلے ھی دیر ھوگئی ھے
ناشتہ میں دکان پر کر لوں گا
ہم جلدی سے باہر نکلے اور میں نے نازی کو کہا کہ گھر کے دروازوں کو اچھی طرح بند کر کے گھر چلی جانا ۔
اور ہم تیز تیز قدم بھرتے صدف کے گھر پہنچے تو اسکی امی نے بتایا کہ وہ تو چلی گئی تم لوگوں کا انتظار کرتے کرتے
میں دل میں صدف کو گالیاں دیتا ھوا ان دونوں کو ساتھ لے کر شہر کی طرف چل دیا
سکول والی گلی میں پہنچے تو گلی میں کافی رش تھا لڑکے لڑکیاں سکول کے لیے آ جارھے تھے،
ہم ابھی سکول سے تھوڑا پیچھے ھی تھے کہ
ہمارے پیچھے کار کے بریک لگانے اور ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز آئی تو عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر ایک طرف
ھو گئیں اور میں نے بھی بڑے غصے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
اسد کار کے شیشے سے سر نکال کر میری طرف دیکھ کر ہنسے جارھا تھا
اسے دیکھ کر میرا غصہ بھی کم ہوگیا ۔
اور ساتھ ھی اسد کار کا دروازہ کھول کر باہر نکال اور وہ میری طرف اور میں اسکی طرف بڑھا اور دونوں بغل گیر
ھوگئے
اسد مجھ سے گلے شکوے کری جارھا تھا
عظمی اور نسرین بڑی حیرانگی سے اسد کی طرف اور اسکی گاڑی کی طرف دیکھی جارھی تھی ۔
میں نے انکو حیران پریشان کھڑے دیکھ کر انکو مخاطب کیا کہ یہ میرا کالس میٹ اور بیسٹ فرینڈ اسد ھے
اور اسد کو بتایا کہ یہ میری کزنیں ہیں
میں نے تعارف کرواتے وقت عظمی کی طرف دیکھا
جو بڑے غور سے اسد کو دیکھی جارھی تھی ۔
اور اسد نے بھی شاید نوٹ کیا تھا جو بار بار آنکھ چرا کر عظمی کو دیکھ رھا تھا
مجھے عظمی پر بہت غصہ آرھا تھا اور عجیب سی جیلسی ھو رھی تھی
جبکہ نسرین منہ دوسری طرف کر کے کھڑی تھی
میں نے کچھ دیر اسد سے بات کی اور اسکو بتایا کہ ہمیں پہلے ھی دیر ھوگئی ھے میں ان دونوں کو چھوڑ کر آتا ھوں تم
ادھر ھی رکو تو اسد بوال چلو میں گاڑی میں چھوڑ آتا ھوں اور انکو اتار کر ہم آگے چلے جائیں گے
میں نے کہا نھی یار وہ سامنے تو سکول ھے
تو اسد بوال چل نہ یار ایسے تکلف میں مت پڑو ۔
اور میرا بازو کھینچتے ھوے مجھے فرنٹ سیٹ کی طرف کر دیا اور عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بولی آجائیں میں آپکو
ڈراپ کردیتا ھون
نسرین جلدی سے بولی نھی بھائی ہم چلے جائیں گے شکریہ اور عظمی کا بازو کھینچ کر بولی چلو
عظمی میری اور اسد کی طرف دیکھتے ھوے پاوں گھسیٹتی ھوئی چلنے لگ گئی
تو میں نے اسد کو کہا یار تم بس ادھر ھی رکو میں ابھی آیا اور یہ کہتے انکے پیچھے بھاگ کر انکے ساتھ مل گیا اسد
پیچھے کھڑا دیکھی جارھا تھا
ہم سکول کے قریب پہنچے تو عظمی نے گھوم کر ایک دفعہ پیچھے کی طرف دیکھا اور جلدی سے سکول کے گیٹ میں
داخل ھوگئ اور میں اسے گھورتا ھوا واپس اسد کے پاس آگیا
اور اسد نے فرنٹ گیٹ کھوال تو میں کار کے اندر بیٹھ گیا۔
میں پہلی دفعہ کار میں بیٹھا تھا تو میرے اندر سے عجیب فیلنگ پیدا ھورھی تھی اور میں ایسے ھی سامنے دیکھ دیکھ کر
ہنسی کو دبا رھا تھا اور ہر پیدل آتے جاتے کو غور سے دیکھتا کہ وہ مجھے کار میں ببیٹھا دیکھ رھا ھے
اور میں کار میں ایسے بیٹھا ھوا تھا
جیسے میں ھی کار کا مالک ھوں اور اسد میرا ڈرائیور ھے
اور میں کوئی دنیا کی انوکھی چیز میں بیٹھا ھوا ھوں
اسد نے مجھے کہا کدھر چلنا ھے جگر
میں نے ایکدم چونکتے ھوے کہا کہ میں نے کدھر جانا ھے یار
دکان کی طرف چلو اور مجھے ادھر اتار دینا
اسد بوال چھوڑو یار دکان پر چلو کہیں گھومنے چلتے ہیں
میں نے کہا تم نے سکول نھی جانا تو اسد بوال
لن تے چڑ گیا سکول
سکول بھی چال جاوں گا
آج تو چھٹی کرنے کا پروگرام ھے
تم اگر نہ ملتے تو میں مہری کو کالج چھوڑ کر سکول ھی جارھا تھا کہ اچانک میری نظر تم پر پڑی
میں نے کہا نھی یار تم مجھے دکان پر چھوڑ کر سکول چلے جاو پیپر بھی سر پر ہیں
تو اسد ہنستے ھوے میری تھائی پر ہاتھ مارتے ھوے بوال
یار پہلے کونسا میں سکول میں فرسٹ آتا تھا جو ایک دن نہ جانے سے پیچھے رہ جاوں گا
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اسد نے کار کو سپیڈ سے گھمایا جس سے ٹائروں کی زبردست چرچراہٹ گونجی اور اردگرد
کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ھوے
اسد نے جس برے طریقے سے کار کو گھمایا تھا
تو ایک دفعہ ۔
میرے ٹٹے تاں چڑ گئے
میں بھی گھومتی کار کے ساتھ شیشے کے ساتھ سر لگا کر ایک ٹانگ ہوا میں کیے چکرا گیا اور پھر ایکدم خود کو سنبھال
کر سیدھا ھوگیا
اسد میری حالت دیکھ کر مسکرا دیا ۔۔۔
میں نے اسد کو پھر کہا یار ادھر کدھر جارھے ھو تو اسد ہنستے ھوے بوال
النگ ڈرائیو پر جانی
تو میں نے کہا وہ کس جگہ ھے تو اسد نے حیران ھوتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے کہا
کون؟؟؟؟؟
تو میں نے مشکل سے نام لیتے ھوے کہا لونگ ڈرائیو ،،
اسد میری بات سن کر کھل کھال کر ہنسی جا رھا تھا اور میری طرف ھاتھ کر کے کہتا کوئی حال نئی تیرا یار
میں نے کہا کیا مطلب ہنس کیوں رھے ھو یار
اسد بوال تیری سادگی پر ہنسی آتی ھے
النگ ڈرائیو کسی جگہ کا نام نھی ھے
میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے بوال
تو
اسد بوال النگ ڈرائیو کا مطلب ھے کہ ہم لمبے سفر پر جارھے ہیں
میں اسکی بات سن کر جھینپ گیا اور بوال
یار لمبے سفر پر کیا ہم کراچی جارھے ہیں
تو اسد بوال نھی یار
بس ایسے ھی سڑک پر آوارہ گردی کریں گے اور جب کالج کی چھٹی کا وقت ھوا تو مہری کو لے کر گھر ڈراپ کر کے
تمہارے گاوں چلیں گے
میں نے ہہ۔ممم کیا
اور شیشے میں سے بھاگتے ھوے درختوں اور بھاگتی ھوئی سڑک کو دیکھنے لگ گیا
اسد نے بوال
یار کون سا گانا سنے گا
میں نے کہا جونسا تجھے پسند ھے لگا لے
تو اسد نے ٹیپ میں کیسٹ ڈالی اور آواز اونچی کر کے گانا چال دیا،،،
اسد نے ٹیپ کا فل والیم کیا ہوا تھا
اور اس وقت کا مشہور گانا چل رھا تھا ،۔
تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم
پیار ہوتا ھے دیوانہ ھے صنم۔
اور اسد ٹیپ کی آواز سے بھی بلند آواز کرنے کی کوشش میں جھوم جھوم کر گا رھا تھا اور بار بار میرے پٹ پر ھاتھ مار
کر میری طرف مسکرا کر بھی دیکھ لیتا۔
مجھے اسکے اس چھچھورے پن پر غصہ آرھا تھا
میں نے ھاتھ آگے بڑھا کر ٹیپ کی آواز کم کرتے ھوے کہا
یار کیا کان پھاڑ رھے ھو یا خود گا لو یا پھر اسے گانے دو
اسد ہنسنے لگ گیا اور بوال جا یار اتنا مزہ آرھا تھا سارے مزے دی پین نو یے دتا ای ،۔
کچھ دیر بعد ایک اور گانا شروع ھوگیا
اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے کھلتا گالب۔۔۔۔۔۔۔
اسد نے پھر آواز بلند کر دی اور پھر جھوم جھوم کر اپنی بےسری آواز میں گانے لگ گیا
میں نے پھر آواز کم کردی اور اسے کہا
گانڈو تو مجھے گانے سنانے کے لیے الیا ھے ۔مجھے ایسے ھی غصہ آئی جا رھا تھا
اور گانے کے بول سن کر اور اسد کی فیلنگ دیکھ کر
میرے دماغ میں
عظمی کا اسد کو بار بار دیکھنا اور پھر سکول کے گیٹ میں داخل ہوتے وقت پھر مڑ کر دیکھنا
یاد آرھا تھا
حاالنکہ مجھے عظمی سے کوئی پیار ویار نھی تھا
بس سیکس کی حد تک ھی تعلق تھا اس سے
مگر پھر بھی عظمی کا کسی اور کی طرف دیکھنا مجھ سے برداشت نھی ھو رھا تھا
اور یہ چیز مجھے اپسیٹ کیے ھوے تھی ۔
اسد بوال یار ہم انجواے کرنےنکلے ہیں کوئی فوتگی پر تو نھی جارھے ۔
میں نے غصے سے منہ دوسری طرف کیا اور شیشے سے باھر دیکھنے لگ گیا
اسد کار شہر سے نکال کر
ہمارے شہر سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ٹائپ عالقہ تھا چونڈہ جو اب کافی اچھا شہر بن چکا ھے ۔۔
اسد نے کار اس عالقے کی طرف لیجانے لگ گیا تھا۔
اسد نے جب میرا خراب موڈ دیکھا تو ٹیپ بند کردی اور میرے بازو پر مکا مارتے ھوے بوال
سالیا کوئی مرگیا اے جیڑا شکل وگاڑ کے بیٹھا ایں ۔
میں نے بازو کو مسلتے ھوے کہا
گانڈو خود تو گانے سننے میں مست ھوا ھے
تو اسد بوال چل اب بند کردی ھے ٹیپ
اب موڈ سہی کر
اور کچھ دیر بعد .ایک ڈھابے نما ہوٹل پر اسد نے بریک ماری اور میری طرف دیکھ کر بوال چل آ کچھ کھاتے ہیں ادھر سے
اور ہم دونوں کار سے اتر کر ڈھابے کے باہر بچھی چارپائیوں پر جا بیٹھے
اور تبھی ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اور ہم سے پوچھنے لگ گیا کیا کھاو گے بھا جی
اسد نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا کھاو گے جگر
میں نے کہا کچھ نھی یار ابھی تو ناشتہ کر کے آیا ہوں ۔
جبکہ میں نے صبح کا کچھ بھی نھی کھایا تھا۔
اسد نے اسے لسی اور بن وغیرہ کا کہا،۔
تو میں نے اسد کی طرف دیکھ کر ہنستے ھوے کہا
ماما لسی پی کہ فیر تینوں ٹٹیاں لگ جانیاں نے ،۔
اسد جھینپ سا گیا اور بوال
گانڈو یہ وہ لسی نھی ھے
یہ دہی کی لسی ھے،
جو میں گھر پر بھی صبح پیتا ھوں ۔
میں نے ہنستے ھوے کہا
دیکھنا یار یہ نہ ھو کہ سارے راستے بریکیں مارتے رھو ۔
اسد ہنستے ھوے بوال۔
چل ہن اپنی بکواس بند وی کر لے
اتنی دیر میں لڑکا ایک جگ میں لسی اور دو شیشے کے گالس لے آیا اور ساتھ دو بن بھی ۔
ہم نے لسی وغیرہ پی
اور اسد اٹھا اور
کاونٹر پر پیسے دے کر واپس آیا اور جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور دو سگریٹ نکال کر ایک اپنے منہ میں لی اور
دوسری میری طرف بڑھاتے ھوے بوال لے پی یار۔
میں نے اسے انکار کرتے ھوے کہا
نھی یار میں نے سگریٹ نھی پی کبھی بھی ۔
اسد نے کافی اسرار کیا مگر میں نے انکار کردیا۔
تو اسد نے کندھے اچکا کر کہا مرضی تیری اور سگریٹ
واپس ڈبی میں ڈال کر پیکٹ پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
میں نے کہا
یار تمہاری مما کچھ نھی کہتی تمیں
تو اسد بوال میں کونسا انکے سامنے پیتا ھوں۔
یہ تو بس ایسے ھی جب گھومنے نکلوں تو پی لیتا ھوں ۔۔
میں اسکو سمجھانے لگ گیا کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ھے نہ پیا کرو ،،۔۔
تو اسد نے تاویلیں شروع کردیں۔
ایسے ھی کافی دیر ہم ادھر بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔
اسد نے کالئی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔
چل جگر مہری کو کالج
سے چھٹی ھونے والی ھے اسے گھر چھوڑ کر پھر ۔
تمہارے گاوں چلتے ہیں
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر واپس شہر کی طرف چل دیے ۔
راستے میں بھی وہ طنز مزہ چلتا رھا کوئی خاص بات نہ ہوئی ۔
ہم کالج کے گیٹ پر پہنچے تو
اسد نے گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو اشارا کیا
جو شاید اسد کا پہلے سے واقف تھا ۔
چوکیدار اندر چال گیا اور کچھ دیر بعد
اس کے پیچھے پیچھے مہری چلتی ھوئی کار کے پاس آئی اور مجھے دیکھ کر ۔
اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی ۔
اور حیران ھوتے ھوے پچھال دروازہ کھول کرگاڑی میں بیٹھ گئی اور
بیٹھتے ھی ہاتھ میری طرف بڑھا کر سالم لیا میں نے کن اکھیوں سے اسد کی طرف دیکھتے ھوے ۔
اس سے ہاتھ مال لیا۔
اسد اپنی مستی میں بیٹھا گیٹ سے نکلتی باقی لڑکیوں کو تاڑ رھا تھا،
مہری نے میرا اور گھر والوں ۔
کا حال احوال پوچھا ۔
اور اسد کو چلنے کا کہا۔
اسد نے کار آگے بڑھائی اورگھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر اسد گاڑی سے اترا اور مین گیٹ کھول کر گاڑی اندر کردی،
اور ہم اندر گیراج میں ھی گاڑی سے اترے ۔
مہری نے مجھے ٹی وی الونج میں صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔
اور خود چینج کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی اور اسد بھی چینج کرنے اوپر اپنے کمرے میں چال گیا ۔
اور میں اکیال بیٹھا
ٹی وی الونج کا جائزہ لینے لگ گیا۔۔
کچھ دیر بعد مہری
کپڑے بدل کر آگئی اور آکر میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
اور دونوں ھاتھ گردن پر لیجا کر بالوں میں انگلیاں پھیر کر اپنے سنہری سلکی بالوں کو اپنے کندھوں پر پھیالنے لگ گئی ۔
ھاتھ پیچھے کرنے کی وجہ سے مہری کے ممے آگے کی طرف آے جس کی وجہ سے اس کے ابھار مزید ابھر گئے۔
اور میں غور سے اس کے مموں کو تاڑ رھا تھا۔
مہری نے مجھے اپنے مموں کو تاڑتے ھوے دیکھا
تو میری آنکھوں کے آگے ھاتھ ہال کر اشارے سے بولی کیا دیکھ رھے ھو۔
میں ایکدم جھینپ گیا اور سر نیچے کر کے اپنے پیروں کو دیکھنے لگ گیا۔
مہری نے مجھ سے چاے کا پوچھا تو میں نے انکار کردیا ۔
اور اس سے کوئی خاص بات نہ ہوئی۔
کہ اسد تیز تیز سیڑیاں
پھالنگتا ہوا نیچے آگیا ۔
مہری اٹھ کر کچن میں چلی گئی ۔
اور میں نے جب اسد کی طرف دیکھا تو
میں اسکو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا۔
سکاے کلر کی جینز کی پینٹ اوپر بلیک رنگی کی ہاف بازو ٹی شرٹ
بلیک سن گالسس پہنے کسی ہیرو سے کم نھی لگ رھا تھا۔
اسد نے مجھے اپنی طرف یوں غور سے دیکھتے ھوے کہا کیا دیکھ رھے ھو نظر لگاو گے۔
میں نے کہا کہیں شادی پر جارھے ھو کیا اتنا بن ٹھن کر۔
اسد ہنستے ھوے بوال
چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا
شادی پر ایسے کپڑے پہن کر تھوڑی جایا جاتا ھے ۔
یہ تو میرا ریگولر ڈریس ھے۔۔
میں حسرت بھری نگاہ ڈال کر ہمممم کر کے خاموش ھوگیا۔
اسد نے مہری کو آواز دی کہ چاے بنادے۔
میں نے اٹھتے ھوے کہا نھی یار میرا دل نھی کررھا چاے پینے کو۔
تو اسد نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔
چل تم نے نھی پینی تو میں نے تو پینی ھے نہ اور تمہیں میرے ساتھ پینی پڑے گی ۔
اور یہ کہتا ھوا وہ میرے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔
اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا۔
کچھ دیر بعد مہری چاے لے آئی اور ہم تینوں چاے پیتے ھوے
ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے ۔
میں نے اسد کی ایک بات نوٹ کی کہ اسد تھوڑی تھوڑی دیر بعد کالئی کو اوپر کر کے گھڑی پر ٹائم دیکھت
وہ کافی بے چین نظر آرھا تھا جیسے اسے کسی کے آنے کا انتظار ھو اور وقت گزر نہ رھا ھو۔
چاے پیتے ھی اسد کھڑا ھوا اور مجھے بوال چل جگر
چلتے ہیں۔
مہری بولی کدھر جارھے ہو۔
اس سے پہلے کہ اسد بولتا
میں نے کہدیا کی گاوں جارھے ہیں ۔
تو اسد نے مجھے گھور کر دیکھا
اور آنکھ دبا کر اشارہ کیا کہ اسے نھی بتانا تھا
اور وہ ھی ھوا جس سے اسد ڈر رھا تھا۔
مہری بولی کہ پھر تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی ۔
اسد نے یہ سنتے ھی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے کہا۔
تم نے کیا کرنا ھے جا کہ
میں نےتو بس یاسر کو چھوڑ کے ابھی واپس آجانا ھے ۔
مہری بولی مجھے نھی پتہ میں نے بھی ساتھ جانا ھے
اسد بوال پھر کبھی تمہیں لے جاوں گا ۔
مہری بچوں کی طرح نیچے پاوں مارتی ھوئی بولی
میں نے کہدیا نہ کہ میں نے جانا ھے تو بس جانا ھے
ورنہ تمہیں بھی نھی جانے دوں گی ۔
اور اگر نہ لے کر گئے تو
میں مما کو تمہاری ایک ایک بات بتاوں گی ،۔
اسد مہری کی دھمکی سن کر پریشان ھوگیا۔
اور غصہ سے میری اور مہری کی طرف دیکھتے ھوے بوال،
چلوووووو
اور تیز تیز قدم اٹھاتا گیراج میں آگیا اور مین گیٹ کھول کر گاڑی باہر گلی میں لے گیا ۔
میں اور مہری بھی چلتے ھوے باہر آگئے
اور اسد نے گیٹ بند کر کے الک کیا۔
اور ہم تینوں گاڑی میں
بیٹھ گئے
میں اسد کی موجودگی میں مہری کو اگنور کرنے کی ھی کوشش کررھا تھا
مگر مہری بھی بڑی باتونی تھی
کوئی نہ کوئی بات چھیڑ لیتی تھی
اسد نے کار گرلز سکول والی گلی میں موڑ دی
گلی میں سکول سے چھٹی ھونے کی وجہ سے آتی جاتی لڑکیوں کا گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش لگا ۔
ھوا تھا
جسکی وجہ سے اسد رک رک کر آگے بڑھ رھا تھا اور ساتھ ھی آتی جاتی لڑکیوں کو تاڑ رھا تھا۔
مہری پیچھے بیٹھی اسد پر برس رھی تھی کہ دوسری گلی سے نھی جایا جاتا تھا
جان بوجھ کر اتنے رش میں گاڑی لے آے ھو اور اسد اسکی باتوں کو نظر انداز کر کے نظریں ادھر ادھر گھما کر کسی کو
تالش کرنے کی کوشش کررھا تھا
اور اس کے چہرے پر کافی پریشانی کے بھی ایثار نمایاں ہو رھے تھے
ایسے ھی ہم سکول کا مین گیٹ بھی کراس کرگئے
کچھ ھی آگے گئے تھے کہ اسد کا چہرہ ایکدم کھل اٹھا اور اس نے مجھے سامنے اشارا کرتے ھوے کہا
یاسر وہ دیکھو؟؟ ؟؟؟
.وہ دیکھو لگتا ہے تمہاری کزنیں جارھی ہیں
میں چونک کر دیکھا تو واقعی
عظمی اور نسرین سائڈ پر چلی جا رھی تھیں ۔
میں نے کہا ہے تو وہ ھی۔
اسد بوال گاڑی روکوں انکو بھی ساتھ ھی لے چلتے ہیں بیچاری کیسے اتنی دھوپ میں اکیلی جائیں گی
میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اسد عظمی کے چکر میں ھی اتنا تیار شیار ھو کر آیا ھے اور یہ اسکی ھی وجہ سے سکول
والی گلی میں آیا تھا
ورنہ دوسرے راستے سے بھی جاسکتا تھا۔
میں نے کچھ سوچتے ھوے کہا
نھی یار یہ روز ھی اکیلی جاتی ہیں خود ھی چلی جائیں گی۔
اسد بوال نھی یار تمہاری کزنیں ھیں تمہارا بھی اخالقی حق بنتا ھے کہ انکو ساتھ لے کر چلو اگر ہم نہ آتے اس طرف تو اور
بات تھی ۔
اتنے میں مہری بولی
یاسر
اسد سہی کہہ رھا ھے ویسے بھی تو ہم گاوں ھی جارھے ہیں
اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا۔
مہری نے اسد کو کہا
اسد ان کے پاس پہنچ کر گاڑی روکو
یاسر نے تو ایسے ھی کہتے رہنا ھے ۔
اور اتنی دیر میں .کار انکے قریب پہنچ چکی تھی تو اسد نے ہارن بجایا اور بریک لگا دی ۔
عظمی اور نسرین نے کار کے ہارن کی وجہ سے کار کی طرف متوجہ ھو کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ پر مجھے بیٹھے دیکھ کر
حیران ھو کر دیکھنے لگ گئی
میں نے شیشہ نیچے کیا اور انکو آواز دی کہ گاڑی میں بیٹھو
تو عظمی جلدی سے کار کے قریب آگئی
بیچاریوں نے کبھی خواب میں بھی نھی سوچا ھوگا کہ کار میں بیٹھیں گی ۔
عظمی قریب آکر کار کے اندر جھانک کر مہری کو دیکھتے ھوے بولی
یاسر تم دکان پر نھی گئے تو میں نے مہری کا اور اسد کا تعارف کرواتے ھوے بتایا کہ انہوں نے گاوں جانا تھا
اس لیے دکان سے چھٹی کی
اتنے میں مہری نے پیچھے واال دروازہ کھول کر انکو اندر بیٹھنے کا کہا
عظمی تو جلدی سے بیٹھ گئی اور نسرین تھوڑا جھجھک رھی تھی
اور اس نے ایک دو دفعہ انکار بھی کیا کہ ہم چلی جائیں گی
مگر میرے کہنے پر وہ بھی منہ بسورتے ھوے کار میں بیٹھ گئی۔
اور اسد نے کار آگے بڑھا دی اور سلو سلو ھی چالتے ھوے
بہانے بہانے سے مہری سے بات کرتے ھوے پیچھے کی طرف دیکھتا،
مجھے اسد کی حرکت پر بہت غصہ آئی جا رھا تھا
میرا بس نھی چل رھا تھا کہ اسے کھری کھری سنا کر کار سے نیچے اتر جاوں
مگر مہری کی وجہ سے ُچپ کر کے برداشت کرتی رھا۔
کچھ دیر بعد ہمارے گاوں کی سڑک آگئی اسد نے کار گاوں کی طرف موڑ دی اور گاوں کے اندر داخل ہوتے ھوے
چھوٹے بڑے سب کار کو اور مجھے دیکھ کر حیران ھو رھے تھے
اور میں اسی میں فخر محسوس کر رھا تھا جب گلی میں داخل ھوے تو میں نے عظمی کے گھر کے قریب اسد کو رکنے کا
کہا
کہ انکو ادھر اتار دو ۔
تو اسد نے بریک لگا دی
اور وہ دونوں اتر گئی
تو عظمی نے انکو اندر آنے کا اسرار کیا
تو میں نے عظمی کو گھورتے ھوے کہا
کہ تیری امی گھر پر نھی ھے
اس لیے مناسب نھی تم جاو
جب تمہاری امی ھوگی تو میں ان لوگوں کو ضرور لے کر آوں گا ۔
تو عظمی برا سا منہ بنا کر گھر چلی گئی
تو اسد بوال یار تم نے بیچاری کا دل توڑ دیا
کتنے خلوص سے کہہ رھی تھی
کچھ دیر کے لیے چلے جاتے تو کیا تھا ۔
).Update no (52
میں نے کہا نھی یار اسکی امی گھر نھی ھے یہ مناسب نھی ھوگا ۔
تو اسد نے کندھے اچکا کر کار آگے بڑھا دی اور میرے گھر کے پاس جا کر بریک لگائی
اور میں آگے سے اتر کر گھر میں داخل ہوا،
صحن میں کوئی بھی نھی تھا آپی اور امی کمرے میں تھیں اور بھائی دکان پر گیا ہوا تھا اور میں نے جلدی سے بیٹھک کا
دروازہ کھوال اور اسد کو اندر آنے کا کہا مہری اور اسد بیٹھک میں آگئے اور مہری اندر دوسرے کمرے کی طرف چلی
گئی
میں نے اسد کو اندر لیجانا مناسب نھی سمجھا
کیونکہ پہلے جب اسد اندر آیا تھا تو امی نے بعد میں مجھے سمجھایا تھا کہ گھر میں جوان بہن ھے تو آئیندہ کسی دوست کو
ایسے منہ اٹھا کر اندر نھی لے کر آنا ،،۔۔
خیر میں اسد کو بیٹھنے کا کہہ کر
اندر کمرے میں گیا تو مہری امی اور نازی سے مل کر ہنس ہنس کر باتیں کرنے میں مصروف تھی
امی نے مجھے کولڈ ڈرنک النے کا کہا
تو میں باہر دکان سے دو بوتلیں لے ایا اور ایک بوتل مہری کو دے کر دوسری بوتل لے کر بیٹھک میں آگیا اور اسد کو
دے دی ۔
اسد بوتل پینے میں مصروف ھوگیا
میں نے دو تین چکر اندر کے لگاے اور مہری کو باتوں میں مصروف دیکھ کر پھر بیٹھک میں آجاتا
اور اسد کے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتا
اسد نے عظمی اور اسکی فیملی کے بارے میں پوچھا اور انکی امی کی غیرموجودگی کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ ان
کے ماموں فوت ھوگئے ہیں تو آنٹی نے کل ھی آنا ھے
کچھ دیر میں اسد کے ساتھ گپ شپ کرتا رھا
کہ مہری بیٹھک میں داخل ہوئی اور کہنے لگی یاسر چلو نہر پر چلتے ہیں ۔
میں نے کہا چلو۔
تو ہم تینوں گلی میں نکل آے اور پیدل ھی نہر کی طرف چلنے .لگے جب ہم عظمی کے گھر کے سامنے سے گزرنے لگے
تو
عظمی دروازے میں کھڑی
عظمی دروازے میں کھڑی باہر ھی دیکھ رھی تھی
میں نے عظمی کو گھورا اور غصے کے انداز میں بوال
تم دروازے میں کھڑی کیا کررھی ھو ۔
تو عظمی بولی تمہیں کیا تکلیف ھے خود تو آوارہ گردی کرنے جارھے ھو
عظمی کے اس جواب سے میں جھینپ سا گیا
اور مہری کے سامنے مجھے اپنی بےعزتی سی محسوس ھوئی ۔
تو میں نے غصہ سے کہا بکواس مت کر آ لینے دو آنٹی کو ۔
تمہاری زبان بس میں کرواتا ھوں
تو عظمی غصے سے بولی جا جو کروانا ای کروا لویں میں نئی ڈر دی کسے توں ۔
اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا
مہری بیچ میں ٹپک پڑی اور مجھے ڈانٹتے ھوے بولی
یاسر کیا بتمیزی ھے کس طرح کا لہجہ اپنا رھے ھو بات کرتے ھوے
پھر کیا ھوا اگر وہ دروازے میں کھڑی ھے
تو میں نے دیکھا عظمی کی آنکھوں میں آنسو تھے جو وہ دوپٹے سے صاف کررھی تھی
شاید اسکو بھی میرے اس لہجے سے اسد اور مہری کے سامنے بےعزتی کا احساس ھوا تھا۔
عظمی روتی ھوئی اندر چلی گئی
تو میں آگے بڑھنے لگا تو مہری بولی
ٹھہرو یاسر
پہلے اپنی کزن سے سوری کرو
وہ بیچاری
کیسے روتی ھوئی اندر گئی ھے
میں نے کہا چھوڑو یار چلو یہ اس کا روز کا کام ھے
تو اسد بوال نھی یار تم نے اس بےچاری کے ساتھ ذیادتی کی ہے
مہری نے میرا بازو پکڑا اور مجھے کھینچتی ھوئی
اندر لے گئی
عظمی کمرے میں تھی
مہری مجھے لیے ھوے سیدھا کمرے میں لے گئی
اسد بھی ہمارے پیچھے ھی کمرے میں آگیا
عظمی چارپائی پر گھٹنوں میں سر دے کر روئی جارھی تھی
مہری مجھے چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی اور مجھے گھورتے ھوے
اسکو چپ کروانے لگ گئی
اور مجھے کہنے لگی چلو سوری کرو
اتنی پیاری گڑیا جیسی تمہاری بہن ھے
اور تم نے اسے روال دیا
مہری نے جب لفظ بہن کہا تو
عظمی نے ایکدم سر اٹھا کر مجھے دیکھا
اور میں بھی شرمندہ سا کھڑا اسے دیکھ رھا تھا
مہری پھر بولی
چلو سوری کرو سنا نھی تمہیں
میں تھوڑا سا آگے بڑھا اور عظمی کو کہا سوری یار
بس ایسے ھی غصہ آگیا تھا
تو عظمی کچھ نارمل ھوئی تو
مہری بولی چلو تم بھی ہمارے ساتھ ھی نہر پر چلتے ہیں
تو میں نے کہا نھی مہری گھر میں کوئی نھی ھے اسکو گھر ھی رہنے دو
تو مہری ضد کرتے ھوے بولی کچھ نھی ھوتا ابھی تو ہم نے آجانا ھے
چلو عظمی بڑا مزہ آے گا
عظمی میری طرف دیکھنے لگ گئی جیسے مجھ سے اجازت مانگ رھی ھو
تو میں نے کہا مرضی ھے اسکی .آنا ھے تو آجاو
عظمی نھی اوپر اوپر سے انکار کر رھی تھی
تو مہری نے عظمی کا بازوں کھینچ کر چارپائی سے اسے اٹھاتے ھوے کہا
کم ان یار
عظمی اٹھنے ھی لگی تھی کہ ۔
نسرین اندر داخل ہوئی اور مہری سے سالم دعا کرنے کے بعد بولی
یاسر میں تمہارے گھر جارھی ہوں نازی کو لینے
تو میں نے کہا ٹھیک ھے چلی جاو
اور ایسا کرنا تم ادھر ھی رہنا جب میں واپس آوں گا تو تم لوگوں کو لے آوں گا
تو نسرین بولی عظمی گھر میں اکیلی رھے گی
تو میں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ جارھی ھے
تو نسرین .بولی ادھر ماموں جان فوت ھوے ہیں ادھر محترمہ کو سیر سپاٹے کی پڑی ھے ۔۔۔
تو مہری ہنستے ھوے بولی
ریلیکس بےبی
کچھ نھی ھوتا تم بھی چلو ہمارے ساتھ
تو نسرین بولی توبہ توبہ
اسکو ھی لے جاو اسکو ھی شوق ھے پھرنے کا
تو عظمی بولی
پونک نہ ُک تی
تو میں نے نسرین کو بازو سے پکڑا اور باہر لے آیا اور اسے سمجھا بجھا کر اپنے گھر بھیج دیا
اور ہم چارو گھر سے نکل کر نہر کی طرف چل دیے
جب ہم گلی کی نکڑ پر پہنچے تو
مہری بولی ادھر ٹرین کی پٹری کی طرف سے چلتے ہیں
فصلوں کے بیچ سے مجھے ڈر لگتا ھے
تو میں نے کہا جیسے تمہاری مرضی
مجھے اس دفعہ کچھ زیادہ خوشی نھی ھورھی تھی
کہ مہری میرے ساتھ جارھی ھے
پتہ نھی کیوں اسد اور عظمی کو لے کر میرا دماغ اپسیٹ ھوچکا تھا
خیر ہم ایک ساتھ سڑک پر چل رھے تھے میرے دائیں طرف عظمی تھی اور بائیں طرف مہری اور مہری کے ساتھ اسد تھا
ہم چلتے ھوے پٹری پر پہنچ گئے
تو مہری بازو پھیال کر گھومنے لگ گئی جیسے بڑی جنت میں آگئی ھو اور پھر شوخی سے پتھر اٹھا اٹھا کر باغ کی طرف
پھینکنے لگ گئی
ٹرین کی پٹری کی دوسری باغ تھا جو کہ نہر تک جاتا تھا
اور دوسری سمت مکئی تھی
ہم ایسے ھی چلتے ھوے نہر کی طرف جارھے تھے
مہری اور عظمی کافی فرینک ھوگئی تھی
عظمی کا اور اسد کا بار بار ایک دوسرے کو دیکھنا
مجھے مذید پریشان کررھا تھا
وقفے وقفے سے دونوں ہنسی مزاق بھی کرلیتے تھے
جبکہ میں ایسے جارھا تھا جیسے کسی جنازے کے ساتھ جا رھا ھوں
کچھ آگے چل کر مہری نے مکئی کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ میں نے سٹے توڑنے ہیں
میں نے کہا چلو توڑ لو
اور مہری پٹری سے نیچے دوڑتی ھوئی مکئی کے کھیت کہ طرف چلی گئی مین بھی اسکے پیچھے ھی دوڑتا ھوا نیچے
اتر آیا جبکہ عظمی اور اسد ابھی تک اوپر ھی کھڑے تھے ۔
میں پٹری سے نیچے اتر کر انکی طرف منہ کر کے بوال تم لوگ بھی آجاو کہ ادھر ھی کھڑے رہنا ھے
تو اسد بوال نہ یار مجھے نھی شوق میں نے اپنے کپڑے گندے نھی کرنے
اس پاگل کو لے جاو اور سٹے توڑ کے لے آو ۔۔
اور یہ کہتے ھوے اسد پٹری کے اوپر ھی پینٹ اونچی کر کے بیٹھ گیا
عظمی ابھی تک کھڑی میری طرف دیکھ رھی تھی
میں نے طنزیہ انداز میں اسے گھورتے ھوے کہا
جناب نیچے تشریف لے آئیں گی کہ تمہارے کپڑے بھی گندے ھونے ھیں
تو عظمی بولی میں نے نھی آنا جاو سڑیل انسان
تو میں اسے گھورتا ھوا مہری کے پیچھے چال گیا جو کھالے کے پاس کھڑی سوچ رھی تھی کے دوسری طرف کیسے جایا
جاے ۔
میں نے مہری کے قریب پہنچ کر اسے کہا اب مارو چھالنگ دوسری طرف تو مہری بولی نہ بابا نہ
مجھے ڈر لگتا ھے
اسد اور عظمی پٹری پر مہری کی طرف دیکھ کر ہنس رھے تھے
جبکہ عظمی کی ہنسی مجھے زہر لگ رھی تھی ۔
میں نے چھالنگ لگائی اور کھالے کی دوسری طرف چال گیا
اور مہری کو کہا تم بھی ایسے ھی چھالنگ لگا کر آجاو
مہری پھر بھی ڈر رھی تھی
اور نفی میں سر ہالئی جارھی تھی
میں نے کہا اچھا ایسے کرو میں سٹے توڑ کر پھینک دیتا ھون
تو مہری بولی نھی میں نے اپنے ہاتھ سے توڑنے ہیں۔
کچھ دیر سوچتے ھوے میں نے کہا ایسا کرو
کہ تم تھوڑا آگے چلو اور آگے جاکر ایک ُپلی آے گی اسکے اوپر سے اس طرف آجانا
تو مہری ہمممم کرکے آگے چل پڑی
اور میں نے عظمی اور اسد کی طرف دیکھا جو ابھی تک مہری کا مزاق اڑا کر ہنس رھے تھے
اور عظمی ابھی تک کھڑی ھی تھی ۔
میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کر ان دونوں کو انکے حال پر چھوڑا اور
مہری کے پیچھے چل پڑا جو کافی آگے جا چکی تھی ۔
آگے جاکر پلی آگئی تو مہری اسکے اوپر سے گزر کر مکئی کی طرف آگئی
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی ابھی بھی ہماری طرف ھی دیکھ رھی تھی اور اسد اسے کچھ کہہ رھا تھا
ہمارا اور ان دونوں کا فاصلہ کافی ذیادہ ھوچکا تھا
مہری نے میرا ہاتھ پکڑا اور پگڈنڈی پر چلتے ھوے مکئی کے اندر چل پڑی
دوستو یہ راستہ بھی اس طرف ھی جاتا تھا
جدھر میں نے پھدیاں مارنے کی شروعات کی تھی
ہم دونوں مکئ کے اندر داخل ھوگئے تھے
اب نہ تو میں عظمی کو دیکھ سکتا تھا اور نہ ھی وہ لوگ ہم کو دیکھ سکتے تھے
کچھ آگے آکر مہری بولی اس دن تم بھاگ کیوں گئے تھے
میں نے کہا ویسے ھی بس
تو مہری بولی مجھے پتہ ھے کہ تم کیوں بھاگے تھے
میں نے کہا
بتاو کیوں بھاگا تھا
تو مہری بولی مجھ سے پیار کرتے ھو نہ اسکا ثبوت دینے کے لیے بھاگے تھے
ورنہ تم چاھتے تو میرے ساتھ سیکس بھی کرسکتے تھے
میں نے کہا
مہری اگر میں کچھ کردیتا تو ۔۔۔۔
مہری بولی پہلی بات تو یہ تھی کہ اگر تم میرے ساتھ کچھ کرنے لگتے تو مین نے کرنے ھی نھی دینا تھا
کیونکہ میں تو تمہیں آزما رھی تھی
اور اگر تم ذبردستی کر بھی لیتے تو
وہ مالقات ہماری آخری ھونی تھی ۔۔
اس کے بعد میں نے تمہاری شکل نھی دیکھنی تھی
میں نے رک کر مہری کے کندھوں کو پکڑ کر ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس کرتے ھوے کہا۔
مہری تمہیں اندازہ بھی نھی ھے کہ میں تمہیں کتنا چاھتا ھوں
I💖u
مہری
مہری کا جسم ایک دم کانپنے لگ گیا ہونٹ میری گرم سانسوں کی وجہ سے تھرتھرانے لگ گئے اور اسکے ساتھ ھی مہری
نے
مہری نے اپنے تھرتھراتے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور
بازوں کے احصار میں مجھے لے کر کس لیا
میں بھی عظمی اور اسد کو بھول کر
مہری کے سحر میں جکڑ کر مہری کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا ،،،۔۔۔
اسد۔۔ بس کریں وہ چلے گئے ہیں
عظمی۔۔۔ ججی
۔اسد۔آپ کون سی کالس میں پڑھتی ہیں ۔
عظمی۔۔۔
جججی ایٹ کالس میں
اسد ۔۔ واوووو ُگ ڈ
اسد۔۔۔۔ بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک جائیں گی انکو پتہ نھی کتنی دیر لگنی ھے ۔
عظمی ۔۔۔۔
جججی نھی ٹھیک ھوں میں۔
اسد۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑتے ھوے۔
بیٹھ جائیں پلیز میرے پاس یا میں اس قابل نھی ھوں۔
عظمی یکلخت گبھراتے ھوے۔
پپلیز میرا ھاتھ چھوڑ دیں یاسر نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا۔۔
اسد عظمی کا ہاتھ کھینچ کر اسے پاس بیھٹانے کی کوشش کرتے ھوے۔
کچھ نھی ہوتا پلیزز کول ڈاون
یاسر نھی آتا ابھی ۔
عظمی نخرے سے اسد کے ساتھ بیٹھتے ھوے،
اچھا بیٹھتی ھوں مممگر میرا ھاتھ تو چھوڑ دیں ۔
اسد۔۔۔ آپکا ہاتھ اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔
عظمی ۔۔۔پلیزززز اسد ھاتھ چھوڑ دو اگر یاسر نے دیکھ لیا تو آپکو نھی پتہ کہ کونسی قیامت آجانی ھے ۔۔
اسد۔۔۔
ہاتھ کو چوم کر چھوڑتے ھوے
آپ کے ہاتھ بہت پیارے ہیں چومنے کی گستاخی معاف۔۔
).Update no (53
عظمی ۔۔ڈر کر یاسر کی سمت دیکھتے ھوے۔۔
ہاےےےے*****یہ کیا
کیا آپ نے ۔۔۔۔
اسد۔۔۔
گستاخی کی معافی مانگ چکا ھوں دوبارا مانگ لوں۔۔۔
عظمی ہاتھ چھپاتے ھوے خود سمیٹتے ھوے۔۔
نھی نھی رہنے دیں رہنے دیں ۔
اسد۔۔مسکراتے ھوے
ایک تو آپ ڈرتی بہت ھو
یاسر ھے جن تو نھی ۔۔
عظمی ۔۔گبھراے ھوے ہاتھ کی انگلیوں کو چٹختے ھوے ۔۔
نھی ایسی تو کوئی بات نھی بس ویسے ھی ڈر لگتا ھے کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔۔
اسد۔۔
محفوظ ھوتے ھوے مسکرا کر۔۔
اچھا یہ بتائیں کہ میں آپکو کیسا لگتا ھوں اچھا کہ برا۔۔
عظمی ۔۔۔ججی آپ اچھے ھو۔
اسد ۔۔
بس اچھا ھی ہوں۔
عظمی پلیز آپ اس طرح کی باتیں نہ کریں
میں ایسی ویسی لڑکی نھی ہوں جیسی آپ مجھے سمجھ رھے ھو۔۔
اسد۔۔۔
آپ کیسی لڑکی ھو بتاءیں نہ۔
عظمی
چپپپپ
اسد
چلیں ہم باغ سے اتنی دیر امرود توڑ کر التے ہیں
عظمی۔۔ ننننننھی
آپ جائیں میں ادھر ھی ٹھیک ھوں۔
اسد ۔۔کم ان یار
میں تمہیں کھا تو نھی جاوں گا۔۔
عظمی ۔۔۔
نھی میں نے کہا نہ کہ آپ جائیں ۔۔
اسد بات کاٹتے ھوے ۔۔
کیا آپ مہمانوں کے ساتھ اسطرح کا سلوک کرتی ہین۔
وہ یاسر کو دیکھو ایک دفعہ مہری نے کہا اور وہ اڑتا ھوا اسکے پیچھے چال گیا یہ ھوتی ھے مہمان نوازی ۔۔
اور آپ ھیں کے نخرے کر رھی ھو،
عظمی شرمندا سی ھوکر۔۔۔
جی چلیں ہم بھی کسی سے کم نھی ہیں ۔۔
اسد ۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑے اٹھاتے ھوے
باغ کی طرف جاتے ھوے
چلیں پھر اٹھیں ۔۔۔۔
میں نے مہری کو خود سے علیحدہ کیا اور
اسے لے کر اپنی پرانی جگہ پر جا پہنچا
اور ٹاہلی کے پیچھے
لے جاکر پھر سے مہری کو جپھی ڈال لی مہری
بولی یاسر اس جگہ کا کوئی آتا تو نھی میں نے کہا نھی ادھر کوئی نھی آتا،
تو مہری پھر بولی یہ نہ ھو کہ اسد ادھر آجاے
تو میں نے کہا اس نواب کے کپڑے گندے ھو جانے تھے وہ بھی نھی آتا
اس کے ساتھ ھی میں نے مہری کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ اس کے سوفٹ سے مموں پر رکھ کر
دبانے لگا۔
مہری بے چین ھو کر اپنی پھدی کو میرے کھڑے لن کے ساتھ رگڑنے لگی
کچھ دیر ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے
میں نے ہاتھ نیچے کیا اور مہری کی شرٹ اٹھا کر اوپر کردی اور مہری کے گول مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنے
لگ گیا
مہری آہیں بھر رھی تھی
میں نے مہری کے ہونٹ چھوڑے اور سر نیچے کر کے مہری کے بریزیر کو اوپر کیا اور اس کے گالبی نوک والے چٹے
مموں کو باری باری منہ میں ڈال کر چوس چوس کر الل کررھا تھا
مہری میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر مموں کی طرف دبا رھی تھی
میں نے ایک ھاتھ نیچے لیجا کر مہری کی شلوار میں ڈال دیا اور مہری کی مالئم پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے لگا
مہری کی پھدی جو گیلی ھو چکی تھی
میری انگلیاں بھی گیلی ھو رھی تھی ۔
مہری کی بےچینی بڑھتی جارھی تھی مہری میرے ہاتھ کا لمس پھدی پر برداشت نھی کر پارھی تھی
میں نے کچھ دیر مہری کی پھدی کو مسال اور ھاتھ پیچھے لیجا کر اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور مہری کا منہ دوسری
طرف کر دیا مہری ننگی گانڈ میری طرف کیے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ھوگئی میں نے آگے ھاتھ لیجا کر مہری
کے شرٹ کے نیچے سے ڈال کر اسے ننگے ممے پکڑ لیے اور مسلنے لگا ۔۔
مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھے تھے جو اس کے ممے مسل رھے تھے
مہری کی شرٹ جو پہلے اوپر تھی سائڈ تبدیل کرنے کی وجہ سے نیچے ھوچکی تھی
میرا لن اسکی شرٹ کو بھی اسکی گانڈ کی دراڑ
میں ُگ ھساے ھوے تھا
میں نے
مہری کا ایک مما چھوڑا اور ہاتھ نیچے لیجا کر اپنا ناال کھوال اور میری شلوار میرے پاوں میں گر گئی
اور میں نے مہری کی قمیض کو اسکی گانڈ سے اوپر کیا اور لن اسکی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر اسکے چڈوں کی طرف
گھسہ مارا
لن مہری کی گانڈ کی دراڑ سے ھوتا ھوا اسکی پھدی کے نرم نازک ہونٹوں کو چومتا ھوا رگڑتا ھوا آگے چال گیا
مہری میری اس اچانک حرکت سے گبھرا گئی
اور بولی یاسررررر کیا کرنے لگے ھو
میں نے کہا
میری جان مجھ پر بھروسہ رکھو
اندر نھی کرتا
اگر اندر کرنا ھوتا تو اس دن ھی کر دیتا۔
مہری بولی یاسر یہ نہ ھو کہ اندر چال جاے
میں نے کہا مجھ پر یقین نھی
تو مہری بولی یقین نہ ھوتا تو بات یہاں تک کیسے پہنچتی
تو میں نے کہا
بس پھر سکون سے کھڑی رھو اور مزہ لو
مہری چہ کر گئی تو میں نے لن مہری کے چڈوں میں اندر باھر کرنا شروع کردیا
لن پوری طرح مہری کی پھدی کو رگڑ رھا تھا
مہری بھی مزے سے سسک رھی تھی اور گانڈ میرے ساتھ جوڑ رھی تھی
مہری کی گانڈ اتنی نرم تھی کہ میں جب گھسا مارتا تو مہری کی گانڈ کا گوشت اندر کی طرف چال جاتا
اور مہری سسک جاتی
کچھ دیر بعد مہری نے اپنا ہاتھ نیچے پھدی کے پاس کر لیا اور میرے ٹوپے کو اسکی انگلیاں چھوتی تو مجھے مزید جوش
چڑھتا
مہری نے پھدی کے اوپر ہاتھ ھی ایسے رکھا ھوا تھا کہ میرا لن اوپر سے اسکی پھدی کو رگڑتا اور لن کا نچال حصہ
مہری کی ہتھیلی سے رگڑتا میں مزے کی اتھاء گہرائیوں میں ڈوبتا جا رھا تھا
ادھر مہری کا حال بھی مجھ سے جدا نہ تھا
وہ بھی لن کو پھدی کے ساتھ مسلسل رگڑنے کے لیے لن کو اوپر کی طرف کر دیتی جس سے لن پھدی کے نازک لبوں میں
سے ھوتا ھوا ہڈی کو ٹچ کرتا
مہری کو ایک دم جوش چڑھا اور گانڈ پیچھے کو کر کے لن کو پھدی کے ساتھ لگا کر ٹانگوں کو بھینچ لیا اور جھٹکے
کھانے لگی اسکی پھدی سے گرم منی میرے لن کے اوپر والے حصے سے بہتی ھوئی اسکے چڈوں کو گیال کرتے ھوے
نیچے اسکے پیروں کی طرف جارھی تھی ۔
مہری لمبے لمبے سانس لے رھی تھی
ادھر مجھے بھی جوش چڑھ گیا میں ایسے ھی بھینچے ھو چڈوں میں گھسے مارنے لگ گیا اور مہری کو کہا
مہری پلیز کچھ دیر ایسے ھی رھنا
اور تیز تیز گھسے مارتا ھوا
اسکے چڈوں میں ھی لن سے منی کی بارش شروع کردی اور کس کے مہری کے دونوں مموں کو ھاتھ میں پکڑ لیا اور
اسکی گردن کو ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرنے لگ گیا ۔۔
کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور مہری نے چار پانچ سٹے توڑے اور واپس جانے لگے
**************
اسد ۔۔۔
عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے پٹری سے نیچے اترتے ھوے۔۔
دھیان سے اترنا کہیں گر نا جانا۔۔
عظمی ہاتھ چھڑوانے کی کوشش میں۔۔
نھی گرتی پلیز میرا ھاتھ چھوڑ دو مجھے ڈر لگ رھا
میں جا تو رھی ھوں آپ کے ساتھ۔۔۔
اسد۔۔۔
باغ میں داخل ھوتے ہوے،،
آپ کو کون سے امرود پسند ہیں ۔
عظمی ۔۔اسد کے ساتھ ساتھ چلتے ھوے۔
میں امرود نھی کھاتی ۔۔
اسد۔۔
مسکراتے ھوے عظمی کے مموں کی طرف دیکھتے ھوے ۔
ویری بیڈ اس کا مطلب ھے کہ امرود مجھے ھی توڑنے پڑیں گے
عظمی ۔۔۔۔اسد کی نظروں کو سمجھتے ھوے۔
آپ مرد ہو تو امرود توڑنے کا کام مردوں کو ھی اچھا لگتا ھے ۔۔
عظمی ۔۔شرماتے ھوے۔۔
تو پھر توڑ لیں امرود کس نے روکا ھے
اسد۔۔۔۔معنی خیز نظروں سے عظمی کے مموں کو دیکھتے ھوے ۔۔
اگر میں امرود توڑوں گا تو باغ کے مالک کو اعتراض تو نھی ھوگا۔۔
عظمی ۔۔نخرے اور اترا کر بولتے ھوے ۔۔۔۔
اس باغ کے مالک اتنے سنگدل اور کنجوس نھی کہ مہمانوں کے ہاتھ روکیں گے ۔۔
اسد ۔۔
شوخی سے بھوکھی نظروں سے مموں کو تاڑتے ھوے۔۔
دیکھ لیں بعد میں مالک اپنی اس ثقافت کو بھول جاے ۔۔
عظمی۔۔ فخر سے
گاوں کی ثقافت زبان پر چلتی ھے گاوں والے زبان کے پکے ہوتے ہیں۔۔۔
اسد۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر دونوں مموں کو پکڑ کر دباتے ھوے
واہ کیا زبردست نرم امرود ہیں ایسے امرود تو زندگی میں پہلی دفعہ دیکھے ہیں اور پہلی دفعہ ایسے نرم نازک امرودوں کو
پکڑنے کا شرف حاصل ھوا ھے ۔۔
عظمی گبھرانے کی ایکٹنگ کرتے ھوے اسد کے ہاتھ پکڑ کر۔۔۔
سسییییی چھوڑیں یہ کیا بتمیزی ھے کیون مجھے بدنام کرنے پر تلے ھوے ہیں
یہ آپکا شہر نھی گاوں ھے یہاں کسی نے دیکھ لیا تو دونوں کو چوک میں کھڑا کر کے قتل کردیں گے ۔۔
اسد ۔۔نڈر پن کا مظاہرہ کرتے ھوے عظمی کا ہاتھ جھٹکتے ھوے۔
ایسے نرم نازک حسن کی دیوی کے لیے ہزار جانیں قربان ہیں ،،۔۔۔
عظمی ۔۔ آنکھیں موندھتے ھوے۔۔
اسد پلیز یہاں سے چلو میرا دل گبھرا رھا ھے پلیززززز چھوڑ دو نہ ۔۔
اسد ۔۔۔عظمی کے ممے مسل کر چھوڑ تے ھی اسے جپھی ڈال کر ہونٹوں کو چومتے ھوے۔۔
عظمی پلیز مجھے آج نہ روکو صبح جب تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تو
تب سے میں تمہارے اس سیکسی جسم اور تتمہارے شربتی ہونٹوں اور یہ ساگر جیسی آنکھوں کا دیوانہ ھوگیا ھوں پلیززز
مجھے ان ساگر سی آنکھوں ڈوبنے دو
مجھے ان شربتی ہونٹوں کو پینے کا شرف دو
مجھے اس سیکسی جسم کو چھونے سے مت روکو
میں صبح سے تڑپ رھا ھوں ۔۔۔
عظمی یکدم گبھراتے ھوے اپنا آپ چھڑواتے ھوے ۔۔۔
نھی اسد یہ ظلم مت کرو
اگر تم مجھے چاھتے ھو تو میری عزت مت خراب کرو
نہ یہ جگہ سہی ھے اور نہ یہ موقع
یہاں کوئی بھی آسکتا ھے
اور یاسر لوگ بھی کسی وقت آسکتے ہین ۔۔
ابھی مجھے چھوڑ دو
پھر جدھر موقع مال
میں تمہیں نھی روکوں گی
پلیزززززز۔۔۔۔
).Update no (54
اسد ۔۔۔۔جپھی کو کس کر عظمی کے مموں کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتے ھوے سر کو جھکا کر عظمی کے گالبی
ھونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ھوے ۔۔۔
عظمی بس ایک کس کرنے دو پھر چھوڑ دوں گا ۔۔۔
عظمی۔۔۔۔ کانپتے ہونٹ کھولتے ھو ے ۔۔
اسد ۔۔۔۔۔
عظمی کے کانپتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھرتے ھوے لمبا سا چوسا لگا کر چھوڑتے ھوے ۔۔۔۔
بس اب خوش چلو چلیں ۔۔۔
عظمی۔۔۔اپنے ہونٹوں سے اسد کا تھوک صاف کرتے ھوے ۔۔
گندا ۔۔۔۔
اسد۔۔۔شوخی سے
اچھا جی ۔۔۔
عظمی شرماتے ھوے ۔۔۔
ھاں جی ۔
اسد ۔۔عظمی کے ساتھ باھر کی طرف چلتے ھوے۔۔
کب ملو گی ۔
عظمی شرما کر نیچے دیکھتے ھوے۔۔۔
پتہ نھی ۔۔
اسد۔۔۔۔ کسے پتہ ھے۔
عظمی۔۔
آپکو پتہ ھوگا۔۔۔
اسد۔۔۔
میں تو کہتا ھوں چلو میرے ساتھ ھی ۔۔۔
عظمی ۔۔۔
ذیادہ گرم گرم نھی کھاتے منہ جل جاتا ھے۔۔
اسد۔۔۔
جلنے دو میرا منہ ھے نہ کوئی بات نھی ۔۔۔
عظمی ۔۔۔
بڑے تیز ھو آپ
اسد ۔۔
وہ کیسے جی ۔
عظمی۔۔۔
پہلی مالقات میں اتنا کچھ کرلیا توبہ توبہ ۔۔۔
اسد ۔۔۔
اتنا کچھ کیا کیا ھے بس ان شربتی ہونٹوں کا ایک گھونٹ ھی بھرا ھے ورنہ تو میرا ارادہ تھا کہ ان کا سارا شربت نگھل
جاتا۔۔
عظمی ۔۔۔
بڑی باتیں بنانی آتی ہیں آپکو لگتا ھے کافی لڑکیاں اپنی ایسی باتوں سے امپریس کی ھونگی۔۔۔
اسد ۔۔۔۔
جونسی مرضی قسم لے لو تمہارے عالوہ کسی کو چھوا بھی ہو تو۔۔۔۔
عظمی ۔۔ادا دیکھاتے ھوے ۔۔
بڑی گل اے
ویسے ماننے میں نھی آتی بات۔۔
اسد پٹری پر چڑھتے ھوے۔۔
مرضی ھے آپکی نہ مانیں
یہ تو آپ کے ُح سن کی مہربانی ھے جس نے پہلی ھی نظر میں مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور یہ دیوانہ اس حسن کے
پیچھے یہاں تک چال آیا۔۔۔
عظمی ۔سرخ ھوتے ھوے۔۔
بس بس اب اتنا بھی نہ بنائیں
کہاں آپ وڈے وڈے لوگ
کہاں ہم چھوٹے لوگ
کہاں آپ کوٹھیوں میں رہنے والے کہاں ہم جھونپڑی میں رہنے والے
اسد ۔۔۔۔
عظمی کے ہونٹوں پر ھاتھ رکھتے ھوے ۔۔۔
عظمی پلیزززززز دوبارا یہ بات کر کے مجھے شرمندہ مت کرنا میرے پیار کو گالی مت دینا
عشق امیری غریبی نھی دیکھتا اونچ نیچ نھی دیکھتا
بادشاہ فقیر نھی دیکھتا
بس یہ ھوجاتا ھے
اور جس سے ھوتا ھے
تو اس عاشق کے لیے
۔ اسکا معشوق مجازی ھوتا ھے
سب کچھ اسکے لیے قربان کردیتا ھے
عظمی آنکھیں پھاڑے دیکھتے ھوے ۔۔۔۔
اسد پلیز مجھے ایسے خواب مت دیکھو جو پورے نہ ھوسکیں ۔۔
اسد۔۔۔۔
عظمی تم آزما کر دیکھ لینا
تمہارے لیے یہ اسد کیا کرسکتا ھے ہر کسی سے ٹکرا سکتا ھے ۔۔
عظمی پٹری کے اوپر پہنچتے ھوے یاسر کی سمت دیکھ کر ۔۔۔
بات کو پلٹتے ھوے۔۔
دیکھو انکو ابھی تک نھی نکلے۔۔
اسد۔۔۔
نھی نکلے تو ہمارا ھی فائدہ ھے مجھ خوش نصیب کو تمہاری قربت نصیب ھوئی
عظمی پھر ادھر دیکھتے ھوے ،،،۔۔
لگتا ھے وہ آرھے ہیں ۔آپ ادھر بیٹھ جائیں یاسر بہت شکی مزاج ھے ۔۔۔
اسد ۔۔ جلدی سے پٹری کے اوپر بیٹھتے ھوے۔۔
جو حکم میرے بادشاہ کا۔۔۔
عظمی ۔۔اداوں سے ہاتھ کا اشارہ کرتے ھوے۔۔۔
چل شوخا۔۔۔
اسد ۔۔دل پر ھاتھ رکھتے ھوے
۔۔ھاےےےےےے مار ُسٹیا ای۔۔۔
************
میں مہری کو لے کر جیسے ھی باہر نکال تو عظمی ابھی تک ویسے ھی کھڑی ہماری طرف دیکھ رھی تھی
اور اسد بھی اسی جگہ بیٹھا ھوا تھا
میں تو اچانک مکئی سے نکال تھا کہ شاید یہ دونوں کوئی حرکت کررھے ھوں ۔
مگر وہ تو ویسے کے ویسے ھی بیٹھےتھے
مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا کہ خامخواہ ھی بیچاری عظمی پر شک کیا
اور وہ بیچاری کیسے میری طرف دیکھ کر بے چینی سے انتظار کررھی ھے
یہ ھی سوچتے ھوے
ہم ان دونوں کے پاس پہنچے ۔۔
تو عظمی مجھ پر برس پڑی کہ اتنی دیر سے کھڑی ھو ھو کر میری ٹانگیں درد کرنے لگ گئی ہیں
تو میں نے کہا بیٹھ جاتی یار تمہیں کسی نے منع کیا تھا۔۔
اسد بوال یار تمہاری کزن تو بہت ھی سنجیدہ طبعیت کی مالک ہے
محترمہ بات کرنا بھی گوارہ نھی کرتی ۔۔
تو مجھے عظمی پر فخر ھونے لگا
کہ اچھا کیا جو اسے گھاس نھی ڈالی
اور میں عظمی کی وفاداری کو دل ھی دل میں سراہنے لگا
اور خود کو ایک بات پھر کوسنے لگا
کہ جیسے خود ھو ویسے ھی عظمی کو سمجھنے لگ گئے
مہری نے نہر پر جانے کا فیصلہ بدل لیا اور واپس جانے کا اصرار کرتے ھوے گھر کی طرف چل دی .مجبورًا ہمیں بھی
اسکی تقلید میں چلنا پڑا۔۔
گھر پہنچ کر اسد اور مہری باہر سے ھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر باے باے کرتے ھوے چلے گئے اور میں کچھ دیر گھر
میں ھی رھا
تو نازی نسرین اور عظمی کو ساتھ لیے ان کے گھر چلی گئی اور مجھے جلدی آنے کی تاکید کی
میں انکے جانے کے بعد واش روم میں گھس گیا
اور نہا کر انھی کپڑوں میں باہر آیا
اور ٹائم دیکھا تو ابھی چھ بجے تھے
تو میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے
لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ھوگیا
کہ اچانک میرے دماغ میں
فرحت کا خیال آیا کہ اسنے تو مجھے آج آنے کا کہا تھا
فرحت کا خیال آتے ھی میں ۔۔۔
فرحت کا خیال آتے ھی
میں سوچنے لگ گیا کہ
مجھے جانا چاھیے یا آج بھی عظمی کے ساتھ ھی سیکس کروں
ذہن ڈبل مائنڈڈ ھو چکا تھا
فرحت کہ ھاں چانس ففٹی ففٹی تھا جبکہ
عظمی کے ساتھ سیکس کرنے کا پورا موقع میسر تھا۔۔
ایسے ھی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی
جب میری آنکھ کھلی تو
مجھے کوئی کندھوں سے ہال رھا تھا۔۔
تو میں نے آنکھیں مل کر غور سے دیکھا تو نسرین تھی جو غصے کے ملے جلے انداز میں مجھے اٹھا رھی تھی ۔۔
میں .اٹھ کر بیٹھ گیا اور جنجھال کر بوال
کیا مصیبت ھے کوئی قیامت آگئی ھے کیا جو سونے نھی دیتے تم لوگ ۔
نسرین بولی
ذرہ باہر نکل کر دیکھو پھر تمہیں پتہ لگے کیوں اٹھا رھی ھوں ۔
میں گبھرا کر جلدی سے اٹھا اور جوتا پہن کر باہر آیا تو اندھیرے گھپ میں ادھر ادھر دیکھتے ھوے
نسرین سے پوچھنے لگ گیا کیا ھے ۔۔
نسرین بولی
آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن
نظر نھی آرھا کتنی رات ھوگئی ھے
اور ہم اکیلیں تمہارا انتظار کررھیں ہیں ۔۔
تو اچانک مجھے ہوش آیا اور غور کرنے پر یقین ھوا کہ واقعی کافی ٹائم ھوگیا ھے
فارغ ھونے کہ بعد نیند آتی ھی ایسے ھے جیسے کوئی نشہ آوار چیز کھا لی ھو یا نیند کی گولی کھا کر سوے ہوں ۔۔
میں نے نسرین کو کہا تم چلو میں آتا ھوں ۔
نسرین نے غصہ سے میرا بازو پکڑا اور کہا
اگے لگ آیا وڈا نواب ۔۔
نسرین نے جس انداز سے دونوں ہاتھوں سے میرا بازو پکڑ کر اپنا کندھا مجھے مارتے ھوے آگے چلنے کا کہا تھا تو اس کا
مما میری کمر کے ساتھ لگ گیا تھا
اور ایسے ھی وہ مجھے دھکیلتی ھوئی باہر کے دروازے کی طرف لے کر چلنے لگی ۔۔
دروازے سے باھر نکل کر اس نے امی کو آواز دی کہ خالہ دروازہ بند کرلو۔۔۔
اور اسی انداز میں مجھے آگے گھسیٹتے ھوے لے کر جارھی تھی ۔۔
جیسے پولیس والے مجرم کو لے کر جاتے ہیں ۔۔
نسرین کے ممے کا لمس میری کمر پر محسوس ھوتے ھی میرے لن میں خارش شروع ھوگئی
میں نے جان بوجھ کر ہاتھ اپنی کمر کی طرف لیجا کر
اس جگہ خارش کرنے کی ایکٹنگ کی جس جگہ نسرین کا مما لگا ھوا تھا میری انگلیاں سیدھی نسرین کے ممے سے ٹچ
ھوئیں مگر نسرین جوں کی توں میرے ساتھ لگی رھی
میرا حوصلہ مذید بڑھ گیا میں نے دوبارا پھر خارش کرنے کے لیے ھاتھ الٹا کر کے پیچھے لے گیا
کے میری ہتھیلی والی سائڈ
نسرین کے ممے پر لگے اور اسکا مما میرے ھاتھ میں آجاے
گلی میں کافی اندھیرا تھا
جسکا مجھے یہ فائدہ تھا کہ کوئی ہمیں اسطرح جاتے دیکھ نھی سکتا تھا
میں نے الٹا ھاتھ پیچھے لیجا کر نسرین کے ممے
کے نیچے سے گزار کر ہاتھ اس انداز سے ہالیا کہ نسرین کے نپل پر میری ہتھیلی کی رگڑ لگے اور نسرین کی توجہ اس
لزت کی طرف جاے۔
اور میرا یہ خطرناک وار کامیاب ھوا
جیسے ھی میری ہتھیلی سے نسرین کے ممے کے نپل نے رگڑ کھائی تو نسرین نے سییی کیا اور ممے کو مزید میری
ہتھیلی کے ساتھ دبا کر مجھے آگے چلنے کا کہا
نسرین نے اپنی طرف سے مجھے اپنی سسکاری محسوس نھی ھونے دی تھی.
مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہ کرشمہ میری ھی پالننگ سے ھوا ھے ۔
اسکی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ نسرین نے بریزیر نھی پہنا ھوا تھا
جس کے وجہ سے اسکے ممے کہ نپل کو میری ہتھیلی کی رگڑ نے سواد دیا تھا .اور وہ سواد نسرین کے دماغ پر اثر کر
گیا
ممے سے اٹھنے والے مزے کی ایک چھوٹی سی جھلک سے وہ آشنا ھو چکی تھی ۔۔
میں نے پھر تیزی سے ھاتھ کو آگے پیچھے کیا۔
تو نسرین نے پھر وہ ھی حرکت کی مگر اس دفعہ جیسے ھی اس نے میری ہتھیلی پر مما دبایا
تو میں نے مٹھی بند کرکے ممے کو مٹھی میں دبا لیا۔۔
نسرین کو جھٹکا لگا اور اس نے فل مزے میں پہلے سسکاری بھری
سسسسیییی
پھر ایکدم پیچھے ہو کر مجھے چھوڑ دیا اور اسکا مما میرے ھاتھ سے نکلتے وقت بھی مسال گیا تھا۔۔
میں نے پیچھے منہ کر کے کہا
کیا ھوا اب چھوڑ کیوں دیا۔
تو نسرین کو جواب تو کچھ نہ آیا بس یہ کہہ کر چلنے لگی
جلدی چلو
اور میں ہنستا ھوا
انکے گھر میں داخل ھوا
تو نسرین بھی میرے پیچھے ھی داخل ھو کر دروازہ بند کر کے کنڈی لگانے لگ گئی
اور میں حیران ھوکر دیکھنے لگ گیا کہ آج اس نے مجھے نھی کہا کہ خود ھی کنڈی لگا لو۔۔۔
میں اس کے پاس ھی رک گیا کیوں کہ نازی اور عظمی کمرے میں ھی تھی
میں نے نسرین کو کہا
آج بھی پکڑن پکڑائی کھیلیں گے
اور شرارت بھرے انداز سے اسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر ہالتے ھوے کہا
کل سے بھی ذیادہ مزہ آے گا دیکھ لینا
نسرین نے شرم والی ہنسی ہنستے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر جھٹک دیا اور بھاگ کر اندر چلی گئی میں اسے پکڑنے کے لیے
بھاگا مگر وہ مجھ سے پہلے ھی کمرے میں داخل ھوچکی تھی ۔۔۔
نسرین کمرے میں داخل ہوکر جلدی سے نازی کے پاس جاکر بیٹھ گئی
اور میں بھی اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو نازی بولی آگئے نواب ساب
میں نے غصے اور طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ھااااں جی آگیا ھوں
کوئی تکلیف ھے۔۔
تو نازی میری طرف ھاتھ کا اشارا کرتے ھوے بولی
دفعہ ھو میں تیرے منہ نئی لگنا ،۔۔
عظمی بولی چل چھوڑ نازی
ایسے لڑتے رہتے ھو،
میں بھی انکی چارپائی کے پاس پڑی دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا ،۔۔
اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ طنز مزاح کرنے لگ گئے۔۔
کافی دیر ایسے ھی بیٹھے ہنستے اور لڑتے رھے
میرے دماغ سے فرحت کے گھر جانے کا خیال بھی نکل چکا تھا
ایک تو رات کافی ھوگئی تھی دوسرا انکے گھر بھی رہنا ضروری تھا ۔
نسرین میری طرف دیکھتے ھوے بولی چلو سب پکڑن پکڑائی کھیلتے ہیں ۔
میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال
سچیییی
تو نسرین بھی اسی انداز میں بولی
ُمچییییی۔
عظمی بولی کل گری تھی بھول گئی ھو
پھر کمر کو پکڑ کر ھاے ھاے کرتی رھی ھو۔۔
نسرین بولی
تم نے نھی کھیلنا تو نہ کھیلو
میرے پے روعب ت جھاڑو
عظمی ہاتھ سے اشارہ کرتے ھوے بولی جا دفعہ ھو کھیلدی پھر کلی ای
میں تے نئی آندی ہن میں تے سون لگی آں
نسرین بولی
ھاں ھاں مجھے پتہ ھے محترمہ اس شہری بابو کے ساتھ پھر پھر کر تھک جو گئی ھے،،
عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور غصے سے پھنکارتے ھوے بولی
زبان سنبھال کر بات کی ہتمیز
بےحیاء بے شرم
نسرین اسکو ھاتھ سے دھتکارتے ھوے بولی پونکی جا
اور یہ کہہ کر نسرین باہر چلی گئی ،،،۔۔۔
میں اس کو غصے سے باہر جاتے دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگا اور باہر آگیا۔۔
نسرین صحن میں بنے تندور کے ساتھ ٹیک لگا کر بغلوں میں ہاتھ دے کر ٹانگ کو ٹانگ پر رکھے کھڑی ناک منہ پھال رھی
تھی اور منہ ھی منہ میں عظمی کو برا بھال کہہ رھی تھی ۔۔
میرے دماغ میں فورن ایک پالن آیا کہ گرم لوہے پر اگر ضرب لگائی جاے تو یقینًا
نسرین کی قربت بھی حاصل ھو سکتی ھے
اور موقع بھی خلوت کا تھا
دونوں صحن میں اکیلے تھے
مجھے یقین تھا کہ عظمی نھی آتی اب اور نازی کا ویسے ھی موڈ نھی تھا کھیلنے کا۔۔
میں دھیرے دھیرے چلتا ھوا
نسرین کے پاس گیا اور اسکی ٹھوڑی پکڑ کر بوال
کیا ھوا میرے چھونے چھونے کاکے کو۔۔
تو نسرین ہلکے سے مسکراتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی
دیکھ تو آے ھو
کہ کیسے میری بےعزتی کی ھے تمہاری اس الڈلی نے
تو میں نسرین کے بلکل سامنے کھڑا ھوگیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر بولی
پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ میری الڈلی نھی ھے جیسے وہ تمہارے ساتھ بتمیزی کرتی ھے ویسے ھی میرے ساتھ بھی بتمیزی
کرتی ھے ۔
اور دوسری بات یہ کہ تم نے بھی تو غلط بات کی کہ شہری بابو کے ساتھ پھرتی رھی ھے ایسے بھی کوئی کہتا ھے کیا۔۔
نسرین بولی میں نے کچھ غلط نھی کہا۔
تو میں نے کہا
یار میں لب کہہ رھا ھوں کے تم نے غلط کہا۔
تو نسرین حیران ہوکر میری طرف دیکھتے ہوے بولی
کیا واقعی یہ سچ ھے کہ عظمی اس لڑکے کے ساتھ ھی تھی ۔
میں نے اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا ہاں۔۔۔
نسرین آنکھیں پھاڑے اپنے منہ پر ھاتھ رکھ کر بولی
ھاےےےے*****واقعی
میں نے کہا
یار میں نے اپنی آنکھون سے دیکھا تھا کہ وہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔
نسرین بولی ۔۔ کیا وہ دونوں بتاو ناں ۔۔
میں نے کہا رہنے دو تم اسے یا آنٹی کو بتا دو گی اور ایسے فضول میں سارا الزام مجھ پر آجانا ھے ۔۔
).Update no (55
نسرین میرے بازوں کو پکڑتے ھوے بولی ۔
۔*****کی قسم نھی بتاتی کسی کو پلیز بتاو نہ ۔۔۔
نسرین کی آواز تھوڑی اونچی ھوگئی تھی میں نے جلدی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کہا
ہولی بول او اندر اے سن لوے گی ۔۔
تو نسرین نے اثبات میں سر ہالیا اور میں نے اسکے منہ سے ھاتھ کو ہٹا لیا۔۔
اور آہستہ سے بوال
پہلے تم میرے ساتھ وعدہ کرو کہ یہ بات ہم دونوں میں ھی رھے گی ۔۔
تو نسرین پھر قسم کھاتے ھوے بولی
نھی بتاتی۔۔
میں نے اچھی طرح تسلی کر کے اسے کہا
میں جب انکے ساتھ نہر کی طرف .گیا تو عظمی میرے دوست کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی ۔
پھر جب ہم مکئی کے پاس پہنچے تو میرے دوست نے کہا میں نے چھلیاں توڑنی ہیں تو عظمی جلدی سے بولی چلو اسد میں
چلتی ھوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔
نسرین تمہیں تو پتہ ھی ھے کہ یہ کتنی بتمیز ھے میں نے سے کہا بھی کہ نہ جاو مگر میری ایک نگی سنی اس نے اور
بولی یاسر تم اور مہری ادھر ٹرین کی پٹری پر رکو میں ااسد کو چھلیاں توڑ کر ال کے دیتی ھوں ۔۔
نسرین انکھیں پھاڑے منہ پر ھاتھ رکھے میری بات غور سے سن رھی تھی ۔۔
نسرین بیچ میں ھی بےصبری سے بول پڑی ۔۔
تو کیا عظمی چلی گئی اس کے ساتھ ۔۔
میں نے ادھر ادھر دیکھ کر رازداری سے کہا ہاں وہ چلی گئی تھی اور دونوں مکئی کے اندر چلے گئے۔۔
نسرین کا رنگ اڑا ھوا تھا
وہ پھر بے صبری سے بولی
اور تم انکے پیچھے نھی گئے۔۔
میں نے پھر ادھر ادھر دیکھا اور کہا
میں کچھ دیر بعد گیا تو وہ مجھے کہیں نظر نہ آے میں پریشان ہونے
کھالے کے ساتھ جو درخت نھی لگے ھوے
نسرین بولی ہاں ہاں
لگے ھوے ہیں
میں نے کہا میں جیسے ھی ان درختوں کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
میں اتنا کہہ کر چپ ہوگیا اور کمرے کے دروازے کی طرف دیکھنے لگ گیا اور نسرین سے جلدی سے بوال لگتا ھے کہ
عظمی یا نازی آرھی ہیں ۔
تم رات کو جب یہ سو جائیں تو دوسرے کمرے میں آجانا میں تم کو ساری بات بتا دوں گا مگر تم یہ بات کسی سے کرنا مت
میں ایک ھی سانس میں اسے سارا سبق سنا کر اس کا جواب سنے بغیر کمرے کی طرف چال گیا
اور نسرین ہکی بکی مجھے روکتے روکتے چپ ھوگئی کیوں کے میں اتنی دیر میں کمرے میں داخل ھوگیا تھا۔۔
کمرے میں آیا تو عظمی اور نازی ایک ھی چارپائی پر لیٹی ایک دوسرے کے ساتھ ُک ھسر ُپھسر کررھیں تھی ۔۔
میں جا کر انکے پاس بیٹھ گیا۔
تو عظمی بولی منا آے اس الڈلی کو
میں نے کہا یار ایک تو تم دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو
ایک کو سمجھاوں تو دوسری بگڑ جاتی ھے دوسری کو سمجھاوں تو پہلی بگڑ جاتی ھے ۔
تو نازی عظمی کو چپ کرواتے ھوے بولی دفعہ کر اینوں اور ساتھ ھی دونوں پھرباتیں کرنے لگ گئی
میں عظمی کی ایک بات نوٹ کر رھا تھا کہ وہ مجھ میں کچھ خاص توجہ نھی لے رھی
وہ ایسے ریکٹ کر رھی تھی کہ جیسے اسکی نظروں میں میری کوئی اہمیت ھی نھی ھے ۔
خیر میں کچھ دیر انکے پاس بیٹھا رھا مگر نسرین ابھی تک باھر ھی تھی اندر نھی آئی ۔۔
میں بھی انکے پاس سے اٹھا اور عظمی کو کہا کہ میرا بستر کیا ھے کہ نھی
تو عظمی پھر بے رخی سے بولی جاو اپنی اس الڈلی سے کہو کہ بستر بھی کردے ۔۔
میں پیر پٹختا ھوا کمرے سے باہر نکل گیا اور دیکھا کہ نسرین ابھی تک ادھر ھی کھڑی کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔
میرے چلنے کی آہٹ سن کر وہ چونکی اور میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔
میں اسکے پاس پہنچا اور کہا تم نے ساری رات ادھر ھی کھڑے رہنا ھے جاو جا کر سوجاو صبح سکول بھی جانا ھے ۔
نسرین بولی جب وہ ُک تی سوے گی تب ھی اندر جاوں گی ،
میں نے پھر اسے پیار سے پچکارتے ھوے کہا ۔
یار میں کہہ رھا ھوں نہ کہ جاو اندر ،۔
تو نسرین بولی مجھے نیند نھی آرھی جب آے گی تو چلی جاوں گی ۔
تم نے سونا ھے تو چلے جاو کمرے میں سوجاو
میں نے کہا مجھے نیند تو بہت آرھی ھے ۔
مگر سوؤں گا کہاں
کمرے میں تو بستر بھی نھی کیا ھوا۔
تو نسرین بولی
او ھو یہ ہڈحرام اتنا سا کام بھی نھی کرسکتی آواراگرد
چلو میں کردیتی ھوں ۔
اور نسرین میرے اگے آگے چل پڑی میں اسکے جسم کا پیچھے سے معائنہ کرنے لگ گیا کہ
عظمی سے کم بھی جسم نھی نسرین کا
گول مٹول سی باہر کو نکلی گانڈ اور چلتے ھوے ہلتے ھوے نرم کولہے
30کمر
34ممے
36گانڈ
بھرا بھرا جسم
میری ہوس جوبن پکڑ چکی تھی
نتیجہ کیا نکلتا اسکی فکر نھی تھی
بس دل کر رھا تھا کہ اندر جاتے ھی
نسرین کے نرم مموں کو پکڑ کر لن کو اسکی بپھری ھوئی مست گانڈ کے ساتھ لگا کر جپھی ڈال لوں
اور اس شہد کی بوتل کو نچوڑ نچوڑ کر پی جاوں
نسرین میری ہوس سے بے خبر اپنی دھن میں چلتی ھوئی کمرے میں پہنچی
میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کو دیکھ کر گنتی کرتا ھوا کہ کتنی دفعہ اوپر گئی اور کتنی دفعہ نیچے
گئی۔
میں کمرے میں داخل ھوا تو 100واٹ کا بلب جل رھا تھا اور نسرین جلدی سے چارپائی بچھا کر بستر کرنے لگ گئی اور
کمرے سے جانے لگی تو میں نے اسے آواز دی کہ
میں سو جاوں تو نسرین .بولی سونے کے لیے ھی تو بسترا کیا ھے اور تم نے تارے گننے ہیں تو بسترا باھر کردیتی ھوں ۔۔
اسکا جواب سن کر میں جھینپ سا گیا اور مجھے اپنی ساری منگھڑت کہانی سنانے کی محنت پر پانی پھرتا ھوا نظر آرھا تھا
۔۔
سہی کہتے ھیں
بوتے کراں دا پروناں ُپکھا ای ریندا اے
میں منہ بسور کر چارپائی پر گرا اور لیٹ کر سوچنے لگا
چنگی ھوئی کا کا
عظمی کی پھدی کے لیے فرحت کی پھدی چھوڑی اور نسرین کی پھدی کے چکر میں عظمی کی پھدی بھی گنوائی
اور نسرین وی لن وکھا کے چلی گئی
ہن مار ُمٹھ تے سوجا
شاباش۔۔۔
کچھ دیر نسرین کو اور اپنی جلد بازی کو کوستا ھوا سوچتا رھا اور پھر دل کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کرنے لگا کہ
شاید نسرین یا عظمی خود ھی آجائیں ۔۔
نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور مجھے ایسے لگا جیسے مجھے کوئی جنجھوڑ رھا ھے میں نے آنکھ کھولی تو میری
نظروں کے سامنے نسرین تھی
جو مجھے اٹھا رھی تھی کہ یاسر اٹھو مجھے آنے کا کہہ کر خود سو رھے ھو ۔
میں نے نسرین کو اسی حالت میں کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا اور نسرین کے ہونٹ چومنے لگ گیا نسرین منہ ادھر
ادھر کر کے میرے سینے پر ھاتھ رکھ کر پیچھے کو ہونے کی کوشش کررھی تھی اور کہے جارھی تھی کی چھوڑو
مجھے یہ کیا بتمیزی ھے میں تمہیں بھائی سمجھتی ہوں پلیز یاسر چھوڑ دو یہ سب غلط ھے ۔۔
میں اسکی کسی بات کا جواب نھی دے رھا تھا
اور مسلسل اسکو اپنے اوپر بازوں میں بھینچ کر اسکے ہونٹوں کو چومے جا رھا تھا
میرا لن فل کھڑا ھو چکا تھا
میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل مجھ سے اپنا آپ بچا رھی تھی ۔
میں نے نسرین کی کمر کے گرد ڈالے بازوں کو جھٹکا دے کر نسرین کو چارپائی کے اوپر کرلیا اور اسکو اسی حالت میں
اپنے نیچے کرلیا ۔
اور اپنے دونوں ھاتھ کمر کے نیچے سے نکال کر اسکے ھاتھ پکڑ کر چارپائی کے ساتھ اسکے سر کے قریب رکھ کر دبا
دئیے
اور بوال نسرین تمہارے اس سیکسی مموں اور سیکسی گانڈ نے مجھے پاگل کیا ھوا ھے
پلیز چپ کر کے مجھے اپنے ان بے قابو مموں کو چوسنے دو
دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا ھے
نسرین سر دائیں بائیں مار کر نفی کر رھی تھی
مگر میرے دماغ کو منی چڑھی ھوئی تھی
میں نے کچھ دیر زبردستی نسرین کے ہونٹ چوسے
تو نسرین بھی گرم ھوگئی
اسکو ذیادہ گرم میرے اکڑے ھوے لن نے کیا تھا جو اسکی کنواری پھدی کو دبا کر رکھے ھوے تھا۔
نسرین کی مزاحمت دم توڑ رھی تھی اور آخر کار اس نے اپنا جسم میرے حوالے کر دیا
میں نے نسرین کی قمیض اوپر کی اور اسکے گورے گورے ممے جن پر بریزیر بھی نھی تھا
میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔۔
اور میں بھوکے شیر کی طرح مموں پر جھپٹ پڑا
اور دونوں مموں کو باری باری چوسنے لگ گیا
نسرین کے ممے بلکل عظمی کے مموں جیسے تھے
مجھے ایسے ھی لگ رھا تھا کہ چہرہ نسرین کا ھے مگر ممے عظمی کے ہیں
نسرین سسک رھی تھی
میں کبھی اکڑے ھوے نپل کو دانتوں سے کاٹتا تو نسرین آہ آہ سیییییی کرتی
تو کبھی میں پورے ممے کو منہ میں بھرنے کی کوشش کرتا
نسرین کی سسکاریاں جنون میں بدلتی جارھی تھیں۔۔
اور وہ میرے بالوں کو نوچنے لگ گئی تھی
میرا لن پھدی کو بری طرح مسل رھا تھا اور نسرین بھی گانڈ اوپر کر کے پھدی کو مزید لن کے ساتھ رگڑ رھی تھی
میں نے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا نیچے کھسک کر نسرین کی شلوار اتار دی اور نسرین نے بھی گانڈ اوپر کر کے شلوار
اتارنے میں میری مدد کی
شلوار اتار کر میں نے چارپائی سے نیچے پھینک دی اور
نسرین کی پھدی پر ھاتھ پھیرا تو پھدی پر بال تھے اور پھدی کے ہونٹ .بھی آپس میں جڑے ھوے تھے
پھدی کو جب میرے ھاتھ نے چھوا تو نسرین نے مزے سے بھری سییییییی کی اور گانڈ کو اوپر اٹھایا
میں نے لن پر تھوک کا گوال پھینکا اور لن پر تھوک کو گیال کیا اور لن کو پھدی کے ہونٹوں پر رکھ کر لن کو اوپر نیچے
کرنے لگ گیا
مجھے لن کی ٹوپی پر گیال گیال سا محسوس ھورھا تھا لن تو پہلے ھی گیال تھا مگر نسرین کی پھدی سے نکلنے والے پانی
نے اسے مزید گیال کر دیا
میں نے نسرین کی ٹانگیں کھول کر تھوڑی اوپر کی اور لن کے ٹوپے کو پھدی کے لبوں پر سیٹ کیا اور خود جھک کر
نسرین کے منہ کے پاس اپنا منہ کر کے اسکے ہونٹوں کو اپنے میں بھر لیا کہ اسکی آواز نہ نکل پاے
اس سے پہلے کی نسرین کچھ سمجھتی میں نے جھٹکا مار کر لن کو پھدی کے اندر کردیا
آدھا ن لن نسرین کی پھدی کو پھاڑتا ھوا اندر اترگیا
نسرین میرے نیچے تڑپ رھی تھی رو رھی تھی فریادیں کر رھی تھی
مگر اسکی غوں غوں کرتی آواز کو میں ان سنی کررھا تھا
میں نے دوسرا گھسہ مارا تو لن پورا پھدی کے اندر اتر گیا اور
نسرین نے پھر میرے نیچے بری طرح مچلنا شروع کردیا
نسرین بری طرح تڑپ رھی تھی
نسرین کی سیل ٹوٹ چکی تھی
اسکی پھدی سے گرم گرم خون نکل کر چارپائی پر گر رھا تھا
نسرین نیم بےھوش ھو کر بےدم ھوگئی
میں نے تین چار گھسے مزید مارے مگر نسرین بےہوشی کی حالت میں پتہ نھی کیا بولی جارھی تھی
مگر مجھ پر جنون سوار تھا
میں بغیر کسی ڈر خوف کے اسکی پھدی پھاڑ رھا تھا
پھدی کے اندر اتنی گرمی تھی
کے میں صرف چار پانچ مذید گھسے مار سکا اور لن نے ساری منی نسرین کی کنواری پھدی کے اندر ھی اگلنا شروع
کردی
اور میں بھی مدھوش ھو کر اسکے اوپر لیٹ گیا اور میرا جسم جھٹکے کھا رھا تھا
کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو
نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔
۔دوستو اس اپڈیٹ میں مجھ سے آخر میں ایک غلطی ھوگئی
جو کہ
یوں لکھی گئی کہ۔۔۔
کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو
نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔
۔۔
جب کہ اصل یہ تھا ۔۔۔۔
اس لیے آپ اس سین کو ھی ذہن میں رکھیں غلطی کی معافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو
نسرین کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔
تو میں پریشان ہوکر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رھا تھا کہ اگر نسرین یہ ھے تو میرے نیچے کون ھے جسکی سیل توڑ کر
میں اندر ھی فارغ ھوگیا
جیسے ھی میں نے الٹے لیٹے اپنی پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو
مارے شرمندگی کے میرا برا حال ھوگیا کہ
جسے میں نسرین سمجھ کر ذبردستی چود رھا تھا وہ نسرین نھی بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے نیچے نہ نسرین تھی نہ ھی عظمی
بلکہ نرم سرھانہ میرے نیچے دبا ھوا تھا
اور میری شلوار نیچے سے ساری گیلی ھوچکی تھی
نسرین میرے سر کے بالوں کو پکڑ کر ہال ہال کر مجھے اٹھا رھی تھی کہ اٹھ جاو ہمیں سکول سے دیر ھو رھی ھے ۔
میں شرمندہ سا الٹا ھی لیٹا رھا کہ نسرین کے سامنے کیسے سیدھا ھوکر اٹھوں کیوں کے منی سے میری شلوار اور قمیض
دونوں گیلی ھوچکی تھی۔
میں نے خود کو سنبھالتے ھوے نسرین کی طرف غصے سے دیکھتے ھوے کہا جاو دفع ھو جاو
یہ کیا بتمیزی ھے
چھوڑو میرے بال
اور میں نے اسکی کالئی پکڑ کر زور سے جھٹک دی ۔
تو نسرین ُبڑ ُبڑ کرتی باھر کو چلی گئی ۔
میں کچھ دیر ایسے ھی الٹا لیٹا رھا اور پھر
ہمت کر کے اٹھا اور ڈرتے ڈرتے کمرے سے باھر جھانکا کہ صحن میں کوئی ھے تو نھی
تو صحن کو خالی پا کر میں نے اپنی گیلی جگہ پر ہاتھ رکھا اور میں سپیڈ سے بھاگا اور سیدھا واش روم میں داخل ھوگیا۔
میں نے کپڑے اتار کر منی والی جگہ کو دھویا اور کپڑوں کو نچوڑ کر واش روم میں لگے کیل کے ساتھ لٹکا دیا اور
نہا کر کپڑوں کو نیچے گیلے فرش پر پھینک دیا تاکہ دیکھنے والے کو یہ نہ پتہ چلے کہ میں نے شلوار اور قمیض کو آگے
سے دھویا ھے اور نہا کر نازی کو آواز دی کہ میرے کپڑے دے دو تو نازی شاید پہلے ھی گھر سے میرا سوٹ لے آئی تھی
اس واش روم کے روشن دان میں پہلے میری شلوار رکھی جب میں نے شلوار اٹھائی تو اس نے قمیض رکھ دی ۔۔
میں نے قمیض بھی اٹھا کر پہن لی اور سر کے بالوں میں انگلیاں مارتا ھوا باہر نکل آیا
عظمی نے میرے لیےناشتہ بنا دیا تھا۔۔۔
میں نے ناشتہ کیا اور ہم گھر سے نکلنے ھی لگے تھے کہ دروازے کے سامنے ٹانگہ آکر رکا
جس میں فوزیہ اور انکل بیٹھے ھوے تھے
ہم ان کو دیکھ کر رک گئے فوزیہ اور انکل ٹانگے سے اترے اور تانگے والے کو پیسے دے کر چلتا کیا
اور عظمی نسرین اور نازی کے سر پر پیار دیا
میں نے بھی فوزیہ کے آگے سر کیا تو اس نے پیار دینے کی بجاے میرے سر میں چپت لگائی اور ہنستے ھوے اندر چلی
گئی ۔
انکل بولے یاسر بیٹا
بہنوں کو سکول چھوڑ کر جاتے تھے نہ میں نے اثبات میں سر ہالیا۔
تو انکل نے میرے سر پر پیار دیتے ھوے دعا دی جیتے رھو بیٹا
تو عظمی بولی ابو ہمیں سکول سے دیر ھو رھی ھے
تو انکل نے کہا جاو جاو دھیان سے جانا
اور ہم صدف کی طرف گئے
صدف آج بڑی بنی سنوری تھی
پوچھنے پر پتہ چال کہ انکی اکیڈمی میں آج فنکشن ھے
خیر ہم سب شہر کی طرف چل پڑے۔
انکو سکول چھوڑ کر میں دکان کی طرف چل دیا
انکل سجاد نے دکان کھول لی تھی اور مجھ سے کل نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے مہمانوں کا بہانہ کردیا
اور دکان کی صفائی وغیرہ میں مصروف ھوگیا۔
کچھ دیر بعد کسٹمر آنے شروع ھوگئے۔
ایسے ھی سارا دن کام میں گزر گیا
شام ڈھلنے لگی
میں دکان کے باہر بینچ پر بیٹھا گزرتے ھوے کسٹمر کو دیکھ رھا تھا کی دو شوخ سے لڑکیاں میرے پاس سے گزر کر
دکان میں چلی گئی
میں بھی جلدی سے اٹھا اور انکو ڈیل کرنے کے لیے
انکے پاس پہنچ گیا۔
دونوں لڑکیاں ھی ایک سے بڑھ کر ایک تھی
دونوں نے جینز کی پینٹیں اور اوپر النگ شرٹ پہنی ھوئی تھی
جسم انکا ایسے تھا جیسے وہ فٹنس کلب جاتی تھی
کمال کا فگر تھا انکا
دونوں کی شولڈر کٹنگ تھی اور گولڈن کلر کے بال تھے
مجھے تو کوئی انڈین فلم سٹار لگ رھی تھی
ایک لڑکی کافی شوخی لگ رھی تھی
وہ ریک میں لگے ڈیزائن دیکھ کر منہ بسور کر ساتھ والی لڑکی کو کہہ رھی تھی کہ سب اولڈ ڈیزائنگ ھے
چلو یار فضول میں ٹائم برباد کرنا ھے ۔
میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھ رھا تھا
کہ اتنی اچھی ڈیزانگ لگی ھوئی ھے اور یہ محترمہ کیسے انکو رد کررھی ھے ۔
وہ واپس مڑنے لگی تو میں نے
کہا میم بات سنیں
تو وہ ایک دم چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بڑی ادا سے بولی
جی فرمائیں ۔۔
).Update no (56
میں نے کہا آپ کو کس طرح کی ورائٹی چاہیے تو وہ ناک چڑھا کر بولی
ہمارے مطلب کی ورائٹی آپ کے پاس نھی ھے۔۔
میں نے کہا آپ بیٹھیں تو سہی
اور بتائیں کس طرح کولیکشن پسند کرتیں ہیں انکے عالوہ بھی ہمارے پاس کافی ورائٹی ھے
تو دوسری لڑکی جو پہلے ھی بیٹھی ھوئی تھی اور کھڑی ہونے ھی لگی تھی
وہ بولی
بھائی ہمیں سلیو لیس امبرائڈڈ میں النگ شرٹس چاھیے جن کے ساتھ فٹنگ میں ٹراوزر ھو
تو میں نے کہا مل جائیں گی آپ پلیز تھوڑا آگے آجائیں ۔
تو وہ لڑکی اٹھی اور دوسری شوخ لڑکی کا ھاتھ پکڑ کر بولی آو یار دیکھ لیتیں ہیں شاید کوئی پسند آجاے ،،۔۔
تو وہ لڑکی اس کے پیچھے چلتی ھوئی دکان کے اینڈ پر آگئیں
اور پہلے والی لڑکی بیٹھ گئی اور وہ شوخ چنچل حسینہ ابھی بھی کھڑی تھی جیسے اسکی گانڈ میں درد ھو ۔۔
جنید جو کہ فرنٹ پر میرے ساتھ ھی بیٹھا ھوا تھا وہ بھی ادھر بیٹھا ان کو ھی تاڑ رھا تھا جبکہ دوسرا لڑکا کسٹمر کو ڈیل کر
رھا تھا۔۔
میں نے اس شوخ حسینہ کو کہا میم آپ بھی بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک جائیں گی ۔
تو وہ بولی آپ جلدی سے سوٹ دیکھا دیں ہمارے پاس وقت بہت کم ھے ہمیں جلدی ھے ۔۔
میں نے کہا میم آپ پلیز بیٹھیں تو سہی ۔
میں دیکھانے لگا ہوں ۔
تو دوسری لڑکی نے اسکا ھاتھ کھینچتے ھوے کہا کہا
ضوفی بیٹھ تو جاو یار ایسی بھی کیا جلدی ھے
تو وہ بولی یار میں نے برائیڈل تیار کرنی ھے جا کر
تم ایسے مجھے لے آئی
ھو
برائڈل کو تیار کرنے کا سن کر مجھے یہ تو کنفرم ھوگیا کہ یہ پالر والی ھے ۔۔۔۔
مجھے ضوفی کا نام سن کر یہ سمجھ آئی کہ دوسری لڑکی نے اسے صوفی کہہ کر ُبالیا ھے ۔۔
میں حیران ھوکر اسکے چہرے کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ
یہ صوفی کیا نام ھوا
تو ضوفی بولی
بھائی دیکھائیں سوٹ آپ تو ہماری باتیں سننے لگ گئے ۔
میں جھینپ سا گیا اور جلدی سے نئے مال سے سوٹ نکال کر انکو دیکھانے لگ گیا
ادھر انکل نے بڑے بلب جو 500واٹ کے ہوتے تھے وہ چال دیے
جن کی گولڈن الئٹ میں ان دونوں پریوں کے رنگ چمکنے لگ گئے اور انکے بال مزید گولڈن ہو کر چمکنے لگ تھے ۔۔
میں نے چھ سات نیو ڈیزائن کھولے تو ضوفی پھر بھی منہ بسور کر رجیکٹ کر رھی تھی ۔۔
میں نے ضوفی سے پوچھا میم آپ نے اپنے لیے لینا ھے
یا پھر کسی اور کے لیے
تو وہ بڑے مغرور سے بولی
کہ آپکو اس سے کیا مطلب تو میں نے کہا
میم آپ تو ناراض ھو رھی ہیں ۔
میں تو اس لیے پوچھ رھا ھوں کہ پھر آپ کی پرسنیلٹی کے حساب سے مذید ورائٹی دیکھا دوں۔۔
تو ضوفی نے جب اپنی تعریف سنی تو کچھ ٹھنڈی پڑ گئی اور تھوڑے نرم لہجے میں بولی ۔
جی میں نے اپنے لیے ھی لینا ھے ۔
تو میں نے ایک پنک کلر کی سلیو لیس شرٹ کھولی اور اپنے ساتھ لگا کر اسے دیکھاتے ھوے کہا
میم آپ یہ لے لیں یقین کریں آپ کے کلر کے ساتھ میچ ھوگی اور بہت ھی خوبصورت لگے گئی
تو ضوفی بڑے غور سے شرٹ کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی
ساتھ والی لڑکی نے بھی میری تائید کرتے ھوے کہا ۔ضوفی واقعی یار کمال کی ڈیزاننگ ھے ۔۔
تو میں نے ایک بار پھر تعریف کے ُپل باندھتے ھوے کہا
میم یہ پہلی آپ ھی کسٹمر ہیں جنکو کھول کر دیکھا رھا ھوں بلکل لیٹس ڈیزائن ھے
تو ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے بولی
کیوں جی ہمیں کیوں دیکھا رھے ہیں کیا بیچنے کے لیے نھی لے کر آے ۔۔
میں نے کہا نھی میم ایسی بات نھی
ہم ہر کسٹمر کی ُلک کے حساب سے ھی اسے ورائٹی دیکھاتے ہیں۔۔
جیسے آپکا کلر پنک ھے ویسے ھی اس سوٹ کا کلر آپ کے کلر کے ساتھ میچ کرے گا
اور ہر دیکھنے واال آپ کی تعریف کئے بغیر نھی رھ سکے گا ۔۔
میری باتیں ضوفی کے دل دماغ پر اثر کررھی تھی ۔
میں نے کہا
اگر آپ کو یقین نھی تو یہ ٹرائی روم ھے آپ پہن کر چیک کرلیں
اگر میری بات غلط ھو تو پھر آپ بے شک نہ لینا ۔۔
ضوفی نے ٹرائی روم کے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے
میرے ھاتھ سے شرٹ پکڑی اور دوسری لڑکی کو کہا ثانیہ چلو پہن کر دیکھ لیتے ہیں ۔
ثانیہ بولی پاگل تم جاو اندر میں ادھر ھی بیٹھتی ھوں
تو ضوفی شرٹ پکڑے ھوے ٹرائی روم میں چلی گئی ۔
اور دوسری لڑکی جس کا نام ثانیہ تھا وہ ادھر ھی بیٹھی رھی اور دوسرے سوٹوں کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی ۔
اور مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی
بھائی دعا کریں اسے پسند آجاے
ورنہ اس نے تو دو گھنٹے سے مجھے ذلیل کیا ھوا ھے
تو میں نے کہا آپ گبھرائیں نہ یہ شرٹ انکو بہت سوٹ کرے گی
پھر میں نے ثانیہ کو کہا میم ایک بات کروں اگر آپ ناراض مت ہوں تو۔۔
ثانیہ نے ایکدم چونکتے ھوے بڑی حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
جی پوچھیں ۔
میں نے کہا انکا نام صوفی کیوں ھے
تو ثانیہ کھل کھال کر بولی
نھی بھائی اس کا نام صوفی نھی
ضوفی ھے اور یہ اسکا ِنک نیم ھے
اصل نیم ضوفشاں ھے ۔۔
میں نے کہا ہممم سوری میم مجھے سمجھ آئی تھی کہ آپ نے انکو صوفی کہا ھے
اور میں تب سے پریشان تھا کہ صوفی تو مولویوں کو کہا جاتا ھے ۔۔
تو ثانیہ ہنسنے لگ گئی ۔
)Update no (57
جنید آہستہ سے بوال
یار مال بڑا چوکس تھا
میں نے کہا ھاں یار دونوں بچیاں ھی بڑی زبردست تھی
جنید بوال ایک کو تو میں جانتا ھوں
میں نے چونکتے ھوے کہا کسکو
جنید بوال
وہ جس نے گولڈن کلر کی شرٹ پہنی ھوئی تھی جو شرٹ پہن کر چیک کرنے اندر گئی
میں نے کہا ھاں ھاں
تم اسے کیسے جانتے ھو۔
جنید بوال یار یہ ساتھ والی مارکیٹ کی بیسمنٹ میں اسکا پالر ھے بڑی گرم بچی ھے
اسکے محلے کے سارے لڑکے اسکے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں
مگر یہ سالی کسی کو گھاس نھی ڈالتی
میں نے جنید سے اسکے محلے کا پوچھا تو جنید نے محلے کے ساتھ ساتھ مجھے گلی اور گھر کا نقشہ بھی بتا دیا۔۔
میں بڑی حیرانگی سے جنید کی طرف دیکھتے ھوے بوال
واہ یار بڑی معلومات رکھتا ھے
کہیں تم بھی اسکے پیچھے تو نھی۔
جنید ٹھنڈی آہ بھر کر بوال
نھی یار میری اتنی قسمت کہاں کہ ایسی پوپٹ بچی کو پھنسا سکوں
میں تو بس اسکے نام کی ُمٹھ ھی مارلیتا ھوں ۔
میں نے ہنستے ھوے جنید کی کمر پر ہاتھ مارتے ھوے کہا
چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا۔
ٹرائی تو مارنی تھی شاید پھنس ھی جاے۔
جنید بوال اس سالی کے پیچھے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکا ھے
مگر یہ دیکھتی سب کی طرف ھے مگر کسی کو لفٹ نھی کرواتی ۔
تو بھی ٹرائی کر کے دیکھ لے شاید تیرا کام بن جاے تم بھی پوپٹ بچے ھو۔
میں نے کانوں کو ھاتھ لگاتے ھوے کہا
نہ یار میں ٹھہرا پینڈو اور وہ ٹھہری شہری میم اور اوپر سے ہے بھی پالر والی
نہ بابا نہ پٹواے گا کیا اس سے مجھے
جنید بوال سوٹ لیتے وقت تو تیرے ساتھ بہت ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی
میں نے کہا یار مجھے کیا لینا اسکی ہنسی سے
میں نے تو بس اسکے پرس سے پیسے نکلوانے تھے
سو نکلوا لیے
اب لن پر چڑھے
جنید ہنستے ھوے بوال
ماما لن تے اونے ایویں نئی چڑ جانا
پتہ نئی کنے لن اودھے انتظار وچ روز روندے نے
میں ہنسس پڑا
کہ اتنے میں انکل کی آواز آئی کے
چلو ُمنڈیو سامان اندر رکھو دکان بند کرئیے
اور ہم ہنستے ھوے اٹھے اور باہر سے سوٹ اتار کر اندر رکھنے لگ گئے
اور دکان بند کر کے میں انکل کہ ساتھ ھی گاوں آگیا ۔۔
گھر آکر میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور پھر باہر گلی میں نکل کر فوزیہ کے گھر کی طرف چل دیا۔
اندر داخل ھوا تو صحن میں انکل اور فوزیہ بیٹھی ھوئی تھی جبکہ عظمی اور نسرین مجھے نظر نہ آئیں شاید وہ کمرے میں
تھیں ۔
میں نے فوزیہ اور انکل کو سالم کیا
اور فوزیہ کے پاس بیٹھنے کی بجاے انکل کے پاس جاکر بیٹھ گیا
اور انسے انکے سالے کا افسوس کرنے لگ گیا
فوزیہ اپنے بھائی کا ذکر سن کر رونے لگ گئی میں اٹھ کر ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور فوزیہ کو کندھے سے پکڑ کر
اپنے ساتھ لگاتے ھوے حوصلہ دینے لگ گیا کہ
ہم جانے والے کو روک تو نھی سکتے جس کا جتنا وقت دنیا میں لکھا ھے اس نے اتنا ھی گزارنا ھے ۔۔
فوزیہ بولی ابھی اسکی عمر ھی کیا تھی ابھی تو اسکی ایک بیٹی جوان کنواری تھی جسکی شادی کرنے کا بیچارا سوچ رھا
تھا بیچارے کو اپنی بیٹی کی شادی دیکھنا نصیب بھی نہ ھوا۔
میں نے فوزیہ سے پوچھا
آنٹی انکے کتنے بچے ہین۔
فوزیہ اپنے آنسو دوپٹے سے صاف کرتے ھوے بولی
دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے جو جوان ھے ۔
بیٹے بھی ابھی چھوٹے ہین
بھابھی بیچاری بھی کیسے انکی کفالت کرے گی
جانے واال تو چال گیا
بچوں کا کیا بنے گا
اور بیچاری گھر کیسے چالے گی ۔
فوزیہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئی ۔۔
میں پھر انکو اپنے ساتھ لگا کر چپ کروانے لگ گیا،
فوزیہ کے رونے کی آواز سن کر
عظمی اور نسرین بھی باھر آگئی اور وہ بھی فوزیہ کے قریب آکر فوزیہ کو چپ کروانے لگ گئی
کہ امی بس کریں جب سے آئیں ہیں روئی جارھی ھیں صبر کریں
فوزیہ اور رونے لگ جاتی
کچھ دیر بعد فوزیہ کچھ سنبھل گئی
اتنے میں محلے کی دو تین عورتیں اندر داخل ھوئی تو میں انکے بیٹھنے کے لیے جگہ چھوڑ کر اٹھ کر اندر کمرے کی
طرف چال گیا میرے پیچھے ھی نسرین بھی آگئی ۔
اور افسردہ سی ھو کر بیٹھ گئی
میں نے بھی موقع کی مناسبت سے کوئی ایسی ویسی بات نہ کی اور کچھ دیر ادھر ھی بیٹھا رھا
اور پھر گھر آگیا ،اگلے دن جمعہ تھا
اور مجھے دکان سے چُھٹی تھی
اور عظمی لوگوں نے بھی سکول نھی جانا تھا ۔
صبح میں اٹھا تو ناشتہ وغیرہ کر کے صدف کے گھر کی طرف چل دیا
اور دروازہ کھال دیکھ کر اندر جھانکا کے اس کا سڑیل باپ تو نھی
مگر صحن میں صرف صدف کی امی بیٹھی کپڑوں کو گھٹری میں باندھ رھی تھی
میں نے آنٹی کو سالم کیا
اور پوچھا آنٹی کیا کررھی ہیں
آنٹی بولی۔۔
ُک ش نئی ُپتر اے تون والے کپڑے نے کنے اکھٹے ھو گئے نے
تیری پین نوں تے ٹیم نئی ملدا وچاری شام نوں سکولوں آندی اے تے آندے ای بچے پڑن آجاندے نے
تے اج نال والی صغراں نہر تے چلی سی کپڑے تون تے میں سوچیا میں وی اودے نال چلی جاواں اودیاں ِتن چار کڑیاں نے
ہتھوں ہتھ چھیتی نال میرے کپڑے وی تو دین گیا۔۔۔
میں نے کہا آنٹی صدف کو کہیں وہ بھی آپ کے ساتھ چلی جاے
تو آنٹی بولی۔
اوس وچاری کولوں ٹیم کتھے
میں نے کہا آنٹی میرے لیے کچھ کام ھو تو بتا دینا
آنٹی بولی
جیوندہ رہ ُپتر
شاال جوانیاں مانے،
بس میرے نال اے کپڑیاں دی َپ نڈ نہر تے َچ ھڈ آ
تے فیر اپنی پین کول آجاویں او نمانی کلی اے کار
تیرا چاچا تے تیرا ویر وی اج کم تے اے او وی پتہ نئی رات نوں آندہ اے کہ اگلے دن ۔
ُتوں میرا ُپتر چھیتی نال واپس آجاویں تے جدوں تک میں نہ آواں تے ُتوں کروں بار نہ نکلیں۔۔
خوشی کے مارے میری تو باچھیں کھل اٹھیں کہ اج دکان توں ُچھٹی اے پر ُپھدی تو ُچھٹی نئی واہ جی واہ بلے بلے
۔تبھی صدف کمرے سے کچھ دھونے والے کپڑے پکڑے ہوے باہر نکلی اور مجھے دیکھ کر حیران ھوگئی
اور بولی خیر اے صبح صبح ای چن ِکدروں نکل آیا
میں نے کہا آنٹی کے ساتھ نہر پر جارھا ھوں کپڑے دھونے کے لیے ۔
صدف ہنستے ھوے بولی
امی اس سے کپڑے دھلوانے ہیں کیا۔
آنٹی بولی ۔۔
کملی ھوگئی ایں
اے کیڑا ُک ڑی اے
جیڑا میرے نال کپڑےتواے
اینے مینوں چھڈ کے آنا اے تے فیر ایتھے تیرے کول رے گا ۔
تےاینوں تنگ نہ کریں
تیرا چھوٹا ویر اے۔۔
میں نے آنٹی کے پاس جاکر آنٹی کو بڑے الڈ سے کہا
آنٹی جی اسکو اچھی طرح سمجھا دیں
یہ ایسے ھی مجھ پر رعب جھاڑتی رھتی ھے اور بھاری بھاری کام مجھ سے کرواتی ھے ۔۔
تو آنٹی صدف کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
گل ُسن لے کاکی ہن توں میرے ُپتر نوں تنگ کیتا ناں تے میں تیریاں لتاں توڑاں گی ۔۔
صدف مجھے گھورتے ھوے منہ پر ھاتھ پھیر کر بولی
امی یہ جھوٹ بول رھا ھے میں اسے کیوں تنگ کروں گی،
میں نے ڈرنے کے انداز سے پھر آنٹی کو کہا
آنٹی دیکھ لیں مجھے پھر گھور رھی ھے اور دھمکی دے رھی ھے،
تو انٹی بولی
صدف شرم کر تیرے توں چھوٹا اے،
صدف پیر پٹختی ھوئی اندر چلی گئی،
اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی اندر ائی اور بولی
خالہ امی کیندی اے نہر تے چلیے
انٹی بولی
ہاں پتر اپنی امی نوں کے چھیتی نال آجاوے میں
لیڑیاں دی َپ نڈ َب ن لئی اے ۔۔
کچھ دیر بعد ساتھ والی آنٹی اور اسکی تین چار بیٹیاں جو ابھی جوان ھورھی تھی
)..Update no (58
میں نے اپنے ہونٹوں کے درمیان سے زبان کی نوک نکال کر اسکے ہونٹوں پر پھیرتے ھوے منہ کے اندر گھسا دی
تو صدف نے اپنے ہونٹوں کا دروازہ بند کر کے میری زبان کو ہونٹوں میں بھینچ کر چوسنا شروع کردیا
کچھ دیر بعد صدف نے اپنا منہ کھوال اور اپنی گالبی زبان کی نوک کو لہراتے ھے باہر نکاال
اور ادھر میں نے بھی اسکی تقلید میں ایسا ھی کیا
اور نوک کے ساتھ نوک کو مال کر
عجب مزے کا لطف لینے لگ گیا
کچھ دیر ایسے ھی نوک سے نوک ملتی رھی ٹکراتی رھی
اور جب جنون بڑھا تو
دونوں کے لبوں کے پٹ کھلے اور ہونٹوں میں ہونٹ سمانے لگے
ایک دوسرے کا لباب اپنے اندر اتارتے رھے۔۔۔
صدف کے ممے میرے سینے میں جزب ھورھے تھے
میرا لن تن کر پھدی کے ساتھ ملن کے لیے بے چین تھا اور پھر کے در پر ٹکریں مار مار کر دخول کرنے کا احتجاج کررھا
تھا۔
مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں دونوں ڈوب چکے تھے
میں صدف سے اوپر اٹھا تو اور صدف کو بازوں سے پکڑ کر اوپر کو اٹھایا
اور صدف کی قمیض آگے اور پیچھے سے پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو
صدف بولی
یاسر کمر ے کا دروازہ تو بند کردو
میں نے کہا باہر کا تو بند ھے کھال رھنے دو
تو صدف بولی نھی یاسر اسے بھی بند کردو
میں اپنا کام ادھورا چھوڑ کر چارپائی سے اترا اور دروازہ بند کرنے چال گیا
دروازہ بند کر کے میں پھر چارپائی کے پاس آکر کھڑا ھوگیا
صدف ویسے ھی بیٹھی تھی
میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا اور اسے چارپائی سے نیچے اترنے کا کہا تو صدف بھی چارپائی سے نیچے اتر کر میرے مقابل
کھڑی ھوگئی ۔
میں نے صدف کی کمر کر گرد بازوں کا گھیرا ڈاال
اور لن کو پھدی والی جگہ پر لگا کر صدف کے کان کے نیچے گردن پر ہونٹ رکھ کر اسے کس کر جپھی ڈال لی ۔
صدفے نے بھی ھاتھ میرے پیچھے لیجا کر مجھے بازوں میں کس لیا
دو جسم ایک جسم بن گئے
ایک دوسرے میں سما گئے
دونوں پر شہوت سوار ھو چکی تھی
پھدی اور لن ایک دوسرے کے لمس سے مچل رھے تھے
سینے ایک دوسرے میں سامنے کی کوشش کررہے تھے
صدف کی آہیں سسکیاں نکل رھی تھی
میرے ہونٹ صدف کی گردن کو چومتے ھوے گلے تک آرھے تھے اور یہ سفر چھوٹی چھوٹی پاریاں کر کے طے کررھے
تھے
میں نے صدف کی کمر سے ھاتھ تھوڑا نیچے کیا اور اسکے گوشت سے بھری گول گانڈ کی پھاڑیوں کو مٹھیوں میں بھر لیا
صدف بے چین ھوکر پھدی کو لن پر دبا رھی تھی
کچھ دیر بعد
میں نے صدف کی قمیض کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کیا تو صدف مجھ سے الگ ھوگئی اور خود قمیض کو آگے اور
پیچھے سے پکڑ کر اتارنے لگ گئی
قمیض اتار کر اس نے چار پائی پر رکھ دی اور گھوم کر کمر میری طرف کر کے مجھے بریزیر کی ہک کھولنے کا اشارا
کیا
میں نے پہلے اسکے ننگے کندھوں پر ہونٹ رکھ کر چوما جس سے صدف نے جھرجھری لی اور میں نے ہاتھ بڑھا کر
اسکی بریزیر کی ہکا کھول کر
بریزیر کے سٹرپ کو اسکے کندھوں سے اتارا اور ھاتھوں کو اسکی بغلوں کے نیچے سے گزار کر بریزیز کے کپ کے
اندر سے اسکے دونوں ننگے مموں کو پکڑ کر انگوٹھے سے کپوں کو آگے کی طرف ُپش کیا تو بریزیر صدف کے پیروں
میں گر گیا اور صدف کا اوپر واال حصہ کپڑوں سے بے نیاز ھوگیا
میں نے لن صدف کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر صدف کے ننگی کمر کو اپنے سینے سے لگا کر ھاتھوں میں ممے پکڑ کر
جپھی ڈال لی
صدف کی سسکاریاں بلند ھوگئی
دونوں کو کوئی ڈر خوف نھی تھا کسی کے آنے کا ڈر نھی تھا کسی کے دیکھنے کا ڈر نھی تھا تو اس لیے بے دریغ اپنے
مزے کا اعالن بلند سسکاریوں اور آہوں سے کر رھے تھے ۔
کچھ دیر ایسے ھی میں صدف کی کمر سے چمٹا اسکی گانڈ میں لن کو رگڑتا رھا
اور اسکے ممے مسلتا ھوا اسکے کندھوں اور گردن کو چومتا رھا
پھر میں نے اسکا منہ اپنی طرف کیا
اور اپنی قمیض اتارنے لگ گیا
قمیض اتار کر میں نے بھی صدف کی قمیض کے اوپر اپنی قمیض رکھ دی
صدف
میرے ننگے سینے پر ھاتھ پھیرتی رھی
اور پھر آگے ھوئی اور میرے سینے پر اپنے ہونٹ رکھ کر میرے ننگے سینے کو چومنا شروع کردیا۔
اور سینے کو چومتی ھوئی ساتھ دونوں ہاتھ کھول کر میرے سینے پر رکھے نیچے میری ناف کی طرف جارھ تھی اور ساتھ
ساتھ پاوں کے بل نیچے بیٹھ رھی تھی
اسکے نرم ہاتھ میرے سینے سے رینگتے ھوے میرے پیٹ کی طرف آتے ھوے میرے جسم میں کرنٹ پید کررھی تھی اور
مجھے مزے کی شدید لہر اپنے جسم میں دوڑتی محسوس ھو رھی تھی
صدف پاوں کے بل بیٹھ چکی تھی
اور میرے پیٹ کو چومتے ھوے ناف سے نیچے زبان کو پھیر رھی تھی
میرا لن صدف کے گلے لگا ھوا تھا
دوستو اس وقت مجھے جو مزہ جو لطف آرھا تھا وہ مین بیان نھی کرسکتا صدف کے ہونٹوں کا لمس مجھے جنت کی وادیوں
میں لیے جارھا تھا
میں مزے کی نئی دنیا سے واقف ھو رھا تھا۔
صدف نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور میرا ناال کھولنے لگ گی
میں حیران ھوکر صدف کو دیکھ رھا تھا کہ اسے کیا ھوگیا آج۔۔
صدف نے میرے نالے کا سرا پکڑا اور کھینچ کر نالے کی گانٹھ کو کھول دیا اور میری شلوار کو کھول کر نیچے میرے
پیروں کی طرف چھوڑ دیا شلوار خود ھی میرے قدموں میں گر گئی
میرا ننگا لن لہرا کر باہر نکال اور صدف کے ہونٹوں کو ہونٹوں سے چھو کر اسکی ناک کر لگا
صدف بڑے غور سے لن کا معائنہ کررھی تھی اور ایک ھاتھ لن کی جڑ پر اور ایک ھاتھ لن کے ٹوپے پر رکھ کر درمیان
والی خالی جگہ کو چوم رھی تھی ۔
صدف میری جان لینے پر تلی ھوئی تھی
اس کا یہ نیا روپ ۔مجھ پر بھاری پڑ رھا تھا۔
صدف نے زبان نکالی اور ٹوپے کے ہونٹوں کے درمیان زبان کی نوک لگا کر نوک کو دبانے لگ گئی میرا لن پھنکارنے لگ
گیا کسی ازدھے کی طرح پھن کو پھالنے لگ گیا میرے لن کی نسیں پھول چکی تھی جیسے ابھی پھٹ جائیں گی
صدف کا ہر اگال قدم مجھ پر بھاری پڑ رھا تھا
صدف نے منہ کھوال اور لن کو جڑ سے پکڑ کر ٹوپے کو منہ میں بھر لیا۔
اور لولی پپ کی طرح چوپا لگا کر ٹوپے کو باہر نکال دیا۔
اور زبان نکال کر ٹوپے کے اوپر پھیرنے لگ گئی ۔
اسکی زبان ٹوپے کو چاروں طرف سے اپنے احسار مین لے رھی تھی اور صدف لن کو جڑ سے پکڑ کر ساتھ ساتھ مٹھ بھی
مار رھی تھی
یہ مزہ بھی میرے لیے نیا تھا۔۔
صدف کسی ایکسپرٹ کال گرل کی طرح۔ لن میں کھوئی ھوئی ہر چیز سے بےگانی ھو کر لن کے ساتھ کھیل رھی تھی
لن کو صدف نے جڑ سے پکڑا اور پھر ٹوپے سے چومتی ھوئی لن کے جڑ تک آئی اور پھر ایسے ھی چومتے ھوے اوپر
ٹوپے کی طرف چلی گئی کچھ دیر صدف ایسے ھی میرے لن کو چاروں اطراف سے چومتی سک کرتی رھی اور پھر وہ
کھڑی ھوگئی اور میری طرف خمارآلود انکھوں سے دیکھتے ھوے بولی مزہ آیا۔۔۔
میں نے اسکی گالوں پر ھاتھ رکھ کر چومتے ھوے اسکے ھونٹ چوم کر کہا واہ میری جان
بہتتتتتت مزہ آیا
اور میں نے ساتھ ھی جھک کر صدف کے ممے کو منہ میں بھر لیا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا
کچھ دیر دونوں مموں کو چوس چوس کر میرے من کی پیاس بجھائی
اور صدف کو چارپائی پر لیٹنے کو کہا
صدف نے کپڑے اٹھا کر دوسری چارپائی پر رکھے اور سیدھی لیٹ گئی میں شلوار پاوں سے نکال کر ایک طرف رکھی
اور چارپائی پر چڑھ گیا۔
صدف ایک ٹانگ کو کھڑی کر کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹی ھوئی تھی
میں
صدف کی ٹانگ اسکے گھٹنے سے اتاری اور اسکی شلوار پکڑ کر نیچے لیجانے لگا تو پھدی والے حصے سےطساری
شلوار گلی تھی
میں نے شلوار کو نیچے کی طرف کیا تو صدف نے گانڈ اٹھائی تو میں نے شلوارنیچے کھینچ کر اسکے پیروں سے نکال دی
اب میری آنکھوں کے سامنے صدف کی بالوں سے پاک مالئم پھدی تھی جس کے ہونٹ پھدی کے پانی سے گیلے تھے
میں نے پھدی کے نزدیک ناک کی اور پھدی کو سونگھا تو مجھے پھدی سے مدہوش کر دینے والی سمیل نے مجبور کردیا
اور میری زبان خود باخود باہر نکلی اور زبان کی نوک نے پھدی کے دانے کو ٹچ کیا
صدف کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور صدف لمبی سی سسکاری بھر کر دھری ھوگئی
جس سے مجھے مزید جوش چڑھا تو زبان اور لمبی کر کے پھدی کے دانے کو چاٹنے لگ گیا
صدف کی جیسے جان نکل رھی تھی اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی
آنکھیں بند کئے سر دائیں بائیں مار رھی تھی
اور سییییییی اممممممم کر رھی تھی
میں نے صدف کی پھدی کے دانے کو ہونٹوں میں بھر کر چوسنا شروع کردیا
صدف چارپائی سے اچھلتی اور پھر چارپائی پر ڈھے جاتی
صدف کی حالت قابل رحم تھی
وہ بری طرح مچل رھی تھی کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رھی تھی ۔
یکلخت صدف کا جسم اکڑا اور پھدی سے گرم منی کا الوا پھوٹ پڑا میں نے منہ جلدی سے پیچھے کیا مگر پھر بھی منی
کی چھینٹیں میرے منہ پر پڑ گئی ۔
صدف کا جسم جھٹکے لے رھا تھا اور منی بہہ کر چادر کو گیلی کر رھی تھی ۔
صدف اب لمبے لمبے سانس لے رھی تھی
میں نے صدف کی ٹانگوں کو کھوال جو اس نے بھینچی ھوئی تھی ۔
اور ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا
اور لن کو پھدی پر سیٹ کر کے
لن کو اندر کرنے لگا تو صدف نے میرے پیٹ پر ھاتھ رکھ کر کہا
یاسر پلیز ایکدم سارا اندر نہ کرنا۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور لن کو آہستہ آہستہ اندر دھکیل کر پورا لن صدف کی پھدی میں اتار دیا
پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے لن آسانی سے اندر چال گیا
صدف نے بھی آہہہہہہہ کیا اور سییییییی پر ختم کیا
اور میں صدف کی ٹانگیں کندھوں پر رکھے اسکے اوپر .جھک کر گھسے مارنے لگ گیا
صدف آہ آہ آہ آہستہ آرام سے کرو
کر رھی تھی
پھدی کی گرمی اور صدف کی سیکسی آوازوں نے مجھے ذیادہ دیر ٹھہرنے نھی دیا اور میں مزے کی اتنی گہرائی مین چال
گیا تھا کہ جب تک میں مزے سے باہر نکلتا
میرے لن نے صدف کی پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنا شروع کردیں
جب دونوں کو ہوش آیا
تو لن آخری ہچکیاں لے رھا تھا
صدف کو جیسے ھی احساس ھوا کہ میرے لن نے ساری منی اسکی پھدی میں ُاگل دی ھے تو
صدف ایک جھٹکے سے اٹھی اور مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے میرے نیم مرجھاے ھوے لن کو پھدی سے نکال کر مجھے
گھورتے ھوے بولی
یاسررر یہ کیا کردیا
تم میرے اندر فارغ ھوگئے
ھاےےےے اب کیا ھوگا
اگر کچھ ہوگیا تو
میں کیا کروں گی کس کو منہ دیکھاوں گی
یاسر تمہیں اندازہ بھی ھے کہ تم نے کیا حرکت کی ھے
تمہاری .اس حرکت کی وجہ سے میری زندگی تباہ ھو سکتی ھے
میں بھی گبھرا گیا تھا واقعی غلطی ھوگئی تھی
صدف ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی
میں نے ہمت کرکے اسے تسلی دیتے ھوے کہا کہ صدف گبھراو مت کچھ نھی ھوتا
میں ہوں نہ
صدف رونے لگ گئی
اور ایک ھی بات کو دھرانے لگ گئی یاسر تم نے کیا کردیا اب کیا ھوگا۔۔
میں اسکے اس طرح مسلسل رونے کی وجہ سے چڑ سا گیا اور
اسے کندھوں سے پکڑ کر ہال کر بوال
یار میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا
تم تو ایسے رو رھی ھو جیسے
ابھی کاکا باہر نکل آنا ھے
مجھ پر بھروسہ کرو
صدف پھر روتے ھوے بولی
تم پر بھروسہ کر کے ھی تو یہ سب کچھ ھوا ھے
میں نے کہا یار میں کونسا تم سے دور جارھا ھوں
پہلی بات تو ھے کہ کچھ ھوگا ھی نھی
اگر کچھ ھوا بھی تو اسکا حل نکال لیں گے
پلیز تم اس حسین موقع کو رونے میں صرف مت کرو
اگر آنٹی آگئی تو وہ تم کو روتا دیکھ کر کیا سوچیں گی اور پوچھنے پر انکو کیا جواب دو گی
کہ میں تمہارے اندر فارغ ھوگیا ھوں
اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یار
اور ساتھ ھی میں صدف کے ہونٹ چومنے لگ گیا
صدف بیٹھی اپنے بازو سے میرا منہ پیچھے ہٹانے لگی کہ یاسر نہ کرو پلیز
میں پہلے ھی پریشان ھوں ۔
میں نے صدف کو ذبردستی چارپائی پر لٹا دیا اور خود اسکے ساتھ لیٹ گیا
صدف کی پھدی سے میری منی ابھی بھی تھوڑی تھوڑی نکل رھی تھی ۔
میں نے صدف کی طرف اپنی سائڈ تبدیل کی اور اس کے اوپر ھو کر منہ اسکے قریب کر کے
صدف کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگ گیا اور اسے پچکار کر ریلیکس کرنے لگ گیا
صدف کافی حد تک ریلیکس ھو چکی تھی
ہم دونوں کے مادر زاد ننگے جسم ایک دوسرے کے لمس سے پھر گرم ھونا شروع ھو چکے تھے
میں نے صدف کے ممے کو ھاتھ میں پکڑ کر دبا رھا تھا
اور ممے کے اکڑے نپل کو چٹکی میں لے کر مسل رھا تھا
جس سے صدف پھر انکھیں موند کر سسکیاں بھرنے لگ گئی
میں اب صدف کے مممے کو منہ میں ڈال چکا تھا اور چوس چوس کر صدف کو مذید گرم کر رھا تھا
میرا لن جو چھوارا بنا ھوا تھا
اس میں بھی جان ڈلنی شروع ھوگئی تھی اور اس نے بھی سر اٹھا کر جھٹکے مارنے شروع کئے ھوے تھے
۔
صدف پھر مجھ میں سمانے کی کوشش کر رھی تھی
۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا بالخره میں نے صدف کو گھوڑی بننے کا کہا تو صدف کچھ دیر انکار کرنے کے بعد گھوڑی
بن کر مجھے سواری کرنے کا موقع دے ھی دیا
میں صدف کی گانڈ کے پیچھے لن اکڑاے ھوے کھڑا تھا اور صدف گانڈ اونچی کر کے سر آگے تکیہ پر رکھے میرے
سامنے ُلنڈی گھوڑی بنی ھوئی تھی
اور میں پیچھے سے لن پھدی میں ڈالنے کی پوزیشن میں بیٹھا
صدف کی گانڈ کی دراڑ کو ہاتھ سے مزید کھول کر اسکی گانڈ کے گول چھوٹے سے سوراخ کا جائزہ لے رھا تھا
صدف کے مموں کے نپل چارپائی کے ساتھ ٹچ ھو رھے تھے
اور وہ بھی میرا انتظار کر ھی تھی کہ میں کب پیچھے سے وار کروں اور اسکا نتیجہ کیا کیسا نکلتا ھے
اسی تجسس میں صدف بھی بے چین تھی
کہ میں نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور ایک تھوک کر بڑا ساگوال اپنی ہتھیلی پر پھینا اور اپنے لوڑے پر مل دیا میرا لن پہلے
ھی چکنا تھا تھوک سے مزید چکنا ھو گیا
میں نے ٹوپے کو پھدی پر سیٹ کیا اور دونوں ھاتھوں سے صدف کی کمر کو پکڑا اور لن پھدی کی طرف دھکیلنا شروع
کردیا
آدھا لن میں نے آرام سے ڈاال اور پھر کمر کو مضبوطی سے پکڑے ایک ذور دار دھکا مارا تو کمرے میں تھپ کی آواز کے
ساتھ ساتھ صدف کی چیخ کی آواز بھی گونجی اور صدف آگے کو ھوئی جس سے میرا لن پھر باہر کو نکل آیا ۔
صدف بولی یاسرررر کے بچے آرام سے کرلو
جانور مت بنا کرو پتہ نھی تمہیں ھو کیا جاتا ھے
میرے اندر جا کر لگا ھے
ُ میں نے کہا یار مجھے مزہ ھی ایسے آتا ھے
تو صدف غصے سے بولی واہ واہ
اگلے کی جان گئی جناب کا مزہ ٹھہرہ۔۔۔
میں نے ہنس کر کہا تم تو زندہ ھو تمہاری تو جان نھی گئی
صدف بولی اب کیا جان لینی ھے
میں اسے پھر گھوڑی بناتے ھوے بوال
اس جان میں تو میری جان ھے
تو صدف گھوڑی بنتے ھوے گانڈ کو ہال کر پیچھے ھوئی اور بولی اگر ایسے کرنا ھے تو آرام سے کرنا۔۔
میں نے کہا جو حکم آقا
اور اس کے ساتھ ھی میں نے لن آرام سے پورے کا پورا صدف کی پھدی میں اتار دیا جسے صدف نے صدق دل سے قبول
کر لیا
اور صدف کی کمر کو پکڑ کر آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگ گیا
صدف کو بھی مزہ مزہ آنا شروع ھوگیا اور وہ بھی سسکیاں لیتے ھوے
گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر لن پورا اندر لینے کی کوشش کرتی
میں نے آہستہ اہستہ اپنی سپیڈ تیز کردی
اور ایک ھاتھ سے صدف کی کمر پکڑ لی اور ایک ھاتھ آگے بڑھا کر صدف کے پونی کیے ھوے بال پکڑ لیے جس سے
صدف کا منہ بھی تھوڑا سا اوپر اٹھ گیا
اس سٹائل میں صدف کو چودنے کا مزہ ھی بہت آرھا تھا
اور صدف بھی یس یس یس آہ آہ اہ سسسسسسس ممممممم کر رھی تھی
صدف کا جوش بڑھتا جارھا تھا اور اس کے جوش کو دیکھ کر میری سپیڈ حد سے تجاوز کر چکی تھی
میرے جھٹکوں سے صدف کے بڑے بڑے ممے ہل رھے تھے
کیا منظر تھا کیا نظارا تھا کیا مزہ تھا
صدف کی سسکیاں اور آہیں اب چیخوں میں بدل چکی تھی
پورے کمرے میں تھپ تھپ ِچ پ ِچ پ آہ آہ آہ ھاےےےےےے مرگئی ھاےےےے میں گئی میں گئی میں گئی یاسسسسررررر
کی آوازیں گونجی اور اس کے ساتھ ھی
صدف نے پورے ذور سے گانڈ میرے ساتھ چپکا دی اور اسکی پھدی میرے لن کو بھینچ بھینچ کر چھوڑنے لگی اور پھدی
سے منی کا اخراج جاری ھوگیا
صدف لمبی سانس لیتی ھوئی آگے کو گرتی گئی اور اسکے ممے چارپائی کے ساتھ چپک گئے اور منہ تکیے میں دب گیا
اور پیچھے سے گانڈ ابھی بھی اونچی اور میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی
اور صدف کی پھدی ابھی بھی رو رھی تھی ہچکیاں لے رھی تھی
اسکے چوتڑے آپس میں مل کر ُک ھل رھے تھے ۔
کچھ دیر بعد جب صدف ریلکس ھوئی تو اب بدلہ لینے کی میری باری تھی
میں نے پھر گیلی پھدی میں ھے لن پھیرنا شروع کردیا اور لن کو صاف اور خشک کرنا بھی گوارہ نہ کیا بس اسی غلطی
نے مجھے بہت جلد نیچا دیکھا دیا اور میرے لن نے ایک بار پھر صدف کی پھدی میں ھی منی کی بوچھاڑ کردی
اس سے پہلے کہ صدف سنبھلتی یا میں لن کو باہر کھینچتا
باہر کے دروازے پر زوردار دستک ھوئی جیسے وہ کب کا دستک دے رھا تھا اور ہم سیکس کے نشے میں اندھے گونگے
بہرے ھوے اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔۔
میں نے جلدی سے صدف کی پھدی سے لن نکاال
اور چارپائی سے چھالنگ لگا کر نیچے اترا صدف بھی گبھرا کر جلدی سے اٹھی اور دونوں اپنے اپنے کپڑے پہن کر آگے
پیچھے کمرے سے نکل کر صحن میں
آگئے
دروازہ پھر کھڑکا اور ساتھ ھی ایک آواز آئی جسے سن کر ہم دونوں کی ہنسی نکل گئی اور ہنس ہنس کر ُبرا حال ھوگیا
میں آگے بڑھا اور دروازہ کھوال تو سامنے ایک بچی کندھے پر گندہ سا بیگ لٹکاے
سدائیں دے رھی تھی
اور خیرات مانگ رھی تھی
میں نے اسے غصے سے کہا یہ کیا بتمیزی ھے
کسی کا دروازہ ایسے کھٹکھٹاتے ہیں ۔تم تو ایسے کر رھی ھو جیسے ہم سے قرض لینا ھے
وہ بولی بابو ***کے نام کا مانگ رھی ہوں
آٹا ھی دے دو
اتنی دیر میں صدف پلیٹ میں آٹا ڈال کر لے آئی اور اس بچی نے اپنے کندھے سے لٹکایا ھوا میال سا تھیال آگے کیا اور اسکا
منہ کھول کر پلیٹ اس میں انڈھیل دی ۔
میں نے دروازہ بند کیا اور ہم دونوں آگے پیچھے چلتے دوبارہ کمرے میں آگئے
صدف نے اندر آتے ھی مجھے چارپائی پر دھکا دیا تو میں جان بوجھ کر چارپائی کے اوپر ایسے گرا جیسے واقعی اس
کے ھی دھکے سے میں گرا ھوں
صدف میرے اوپر لیٹ کر میرا گال دبانے کی ایکٹنگ کرتے ھوے بولی
یاسر کے بچے تم دوبارہ پھر میرے اندر ھی فارغ ھوے ھو نہ
میں نے کہا یار میرا گال تو چھوڑو
پھر ھی بتاوں گا تو
صدف نے ھاتھ میرے گلے سے ہٹاے اور
میرے منہ کی طرف دیکھ کر میرے جواب کا انتظار کرنے لگی
میں نے کھنگارہ بھرا اور بوال
یار پہلے ھی اندر فارغ ھوا تھا دوسری دفعہ میرا لن خود ھی باھر آگیا تھا ۔۔
صدف بولی
جھوٹ مت بولو یاسر
مجھے خود محسوس ھوا تھا کہ تم میرے اندر ھی فارغ ھوے تھے
میں نے کہا نھی یار جہاں تک مجھے پتہ ھے کہ فارغ ہوتے وقت
لن باھر نکل آیا تھا۔۔
صدف بولی میں کہہ رھی ھوں کہ تم میرے اندر ھی فارغ ھوے ھو۔
میں نے ہنستے ھوے کہا کہ ھو سکتا ھے
صدف پھر میرا گال دبانے کے لیے مجھ پر جھپٹی مگر میں نے خود کو بچاتے ھو اسکے ھاتھ پکڑے اور اسکو گھما کر
اپنے نیچے کر لیا ۔میں نے اسکے دونوں ھاتھ کالئیوں سے پکڑے ھوے تھے اور میری ٹانگیں اسکی ٹانگوں کے بیچ تھی
اور میرا سویا ھوا لن اسکی پھدی کے اوپر لگا ھوا تھا ۔
).Update no (59
صدف پورا زور لگا کر مجھ سے اپنا آپ ُچھڑوا رھی تھی
اور مجھے کہہ رھی تھی
اگر کچھ الٹا سیدھا ہوگیا نہ تو میں نے تمہارے گھر آجانا ھے
پھر تم جانو اور تمہارا کام
میں اسے تسلیاں دے رھا تھا کہ یار گبھراو نہ کچھ نھی ھوتا۔
کچھ دیر ہم یونہی زور آزمائی کرتے رھے ۔
آخر صدف تھک ہار کر لمبے لمبے سانس لینے لگی اور ساتھ ھی اپنا جسم بھی ڈھیال چھوڑ دیا ۔۔
میں اسکے اوپر لیٹا رھا اور اس سے بوال
صدف یار تمہاری پھدی ھی اتنی گرم ھے کہ مجھے پتہ ھی نھی چلتا کہ میں کب فارغ ھوجاتا ھوں ۔۔
صدف برا سا منہ بنا کر بولی
آئندہ میں تمہیں کچھ کرنے دوں گی تو ھی اندر فارغ ھوگے نہ ۔
میں نے کہا۔
یار تم میرے بغیر رھ لو گی
وہ بڑے اعتماد سے بولی ھاں رھ لوں گی
میں نے کہا
تمہارا جب دل کرے گا کچھ کرنے کو تو پھر کیا کرو گی۔۔
صدف بولی۔
میرا دل نھی کرتا۔۔
میں نے کہا سوچ لو۔
تو وہ بولی سوچ لیا۔
میں نے کہا اگر میرا دل کیا کرنے کو تو میں کیا کروں گا۔۔
وہ بولی
یہ تمہارا مسئلہ ھے میرا نھی۔
میں نے کہا سوچ لو۔
وہ پھر اعتمادی انداز میں بولی سوچ لیا۔
میں نے کہا مجھ سے تو نھی رھا جانا۔
صدف بولی۔
میں کیا کروں۔
میں نے کہا پھر میں کسی اور لڑکی کے ساتھ یہ کام کرلوں گا پھر تم ناراض مت ھونا۔۔
صدف ایک دم مجھ پر پھر جھپٹی
اور غصے سے بولی
تیری جان ناں کڈ دیواں گی کسے ہور ُک ڑی ول ویکھیا وی۔
میں اپنا بچاو کرتے ھوے بوال ۔
پھر تم ھی بتاو میں کیا کروں۔
صدف بولی تم نے کسی اور لڑکی کے بارے میں سوچا بھی کیسے
کیا میں تمہارے لئے کھلونا ھوں کہ جب دل کیا کھیل لیا جب دل کیا توڑ کر پھینک دیا۔
اور ساتھ ھی رونے لگ گئی ۔
میں اسے پچکارتے ھوے بوال۔
یار مزاق کررھا ھوں تمہارے عالوہ تو کسی اور کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ھوں ۔
کچھ دیر میرے مسکے سننے کے بعد صدف نارمل ھوگئی
میں نے پھر کہا اب بتاو نہ کہ جب میرا دل کیا کرے گا تو پھر میں کیا کروں گا۔
وہ شرما کر بولی
جو ابھی میرے ساتھ کیا تھا وہ ھی کرو گے۔
میں بوال
کس کے ساتھ۔
وہ پھر چیخ کر میری طرف مکا لہراتے ھوے بولی
میرے ساتھ ۔
میں نے کہا۔
مجھ سے تو اب باہر نھی فارغ ھوا جاتا ۔
کچھ گبھرا کر بولی
یاسر تمہیں میری عزت کی پرواہ نھی ھے کیا۔
میں نے کہا بلکل ھے بلکہ اپنی عزت سے بڑھ کر تمہاری عزت کی فکر ھے۔
صدف بولی پھر اندر فارغ ھونے کا کیوں کہتے ھو۔
میں نے کہا ایک طریقہ ھے جس سے میں اندر بھی فارغ ھوجاوں گا اور تمہیں کچھ ھوگا بھی
۔نھی ۔
صدف جلدی سے بولی وہ کونسا۔
میں کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بوال
اسکے لیے بس تمہیں کچھ دیر کے لیے تکلیف سہنا پڑے گی ۔
وہ حیران ہوتے ھوے بولی کیا مطلب میں سمجھی نھی ۔
میں نے کہا جب کریں گے تو بتاوں گا ۔
صدف استفسار کرنے لگی کہ ابھی بتاو مجھے نھی پتہ ۔
وہ کافی تجسس کا شکار تھی ۔
میں نے کہا یار ابھی کیسے بتاوں جب کریں گے تو تب ھی بتاوں گا نہ ۔
صدف جلدی سے بولی ابھی کر لو۔
میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کیا کہ ابھی یہ دو دفعہ فارغ ھو چکا ھے
اب یہ کھڑا ھوگا تو ھی کروں گا۔
صدف بولی .مجھے نھی پتہ جیسے مرضی اس کو کھڑا کرو۔
میں کچھ پل سوچنے کے بعد بوال ۔
اسے ا ب تم ھی کھڑا کر سکتی ھو۔
صدف بولی وہ کیسے۔
میں نے کہا اپنے ہونٹوں سے اپنی زبان سے جیسے پہلے کیا تھا۔
صدف بولی نہ بابا اب تو یہ گندہ ھے ۔
میں نے کہا تو پھر رھنے دو
جب صاف ھوا تو بتا دوں گا۔
صدف ایکدم بولی نھی نھی میں کرتی .ھوں کچھ
اور یہ کہتے ھوے اس نے مجھے اپنے اوپر سے اٹھنے کو کہا ۔
میں اسکے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گیا
اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
اور شلوار کے اوپر سے ھی لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا جس میں پہلے سے کچھ جان پڑ چکی تھی ۔
صدف لن لو پکڑ کر مٹھی بھرنے لگ گئی
لن میں ہلکی سے جنبش پیدا ھونے لگی ۔
صدف دوسرے ھاتھ سے میرا ناال کھولنے لگ گئی ناال کھول کر اس نے میری شلوار نیچے کی اور میرے لن کو باہر نکال
کر غور سے ادھر ادھر کر کے دیکھنے لگ گئی اور لن کو میری شلوار سے اچھی طرح صاف کرکے اس کے ٹوپے کو
چومنے لگ گئی ۔
لن آہستہ آہستہ جھٹکے کھاتا ھواجوبن میں آنا شروع ھوگیا
صدف کے ہونٹوں کالمس لن میں سختی پیدا کررھا تھا اور صدف بھی لن کو لولی پاپ سمجھ کر چوس رھی تھی
آخر کار صدف کی محنت رنگ الئی اور لن فل تن کر پھنکارنے لگ گیا
صدف نے جب لن کو پورے جوبن میں دیکھا تو ٹوپے کو منہ لیے اپنی لمبی پلکوں کی چادر کو آنکھیں سے ہٹا کر میری
طرف بڑے فخریہ انداز سے دیکھا جسے کے ٹو کی چوٹی فتح کرلی ھو۔
اور پھر لن کو منہ کے اندر کرنے لگی
آدھے سے کم ھی لن وہ منہ میں لے سکی اور اسی طرح جتنا لن وہ منہ میں لے سکتی تھی اتنا ھی لے کر ہونٹوں سے
بھینچ کر اند باہر کرنے لگ گئی
میں بھی مزے کی گہرائیوں میں ڈوبنے لگ گیا۔
کچھ دیر صدف میرے لن کے ساتھ کھیلتی رھی جب اسکا شوق پورا ھوگیا تو میری طرف دیکھ کر بولی بسسسسس
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور
صدف کو کھینچ کر اپنے ساتھ لٹا کر اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا اس کے ممے دبانے لگ گیا اور اسکی قمیض اوپر
کر دی اور اسے اتارنے کو کہا تو صدف نے اتارنے کا انکار کردیا اور ویسے ھی کھینچ کر مموں سے اوپر کر کے گلے
تک کر لی
میں اوپر اٹھا اور صدف کی شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچ کر اسکے پیروں سے نکال دی
صدف نے جلدی سے اپنی ٹانگیں کھولی لی
اور پھدی میرے سامنے کردی
میں نے نفی میں سرہالتے ھوے اسے کہا ایسے نھی الٹی لیٹو تو صدف بولی ایسے ھی کرلو
میں نے کہا ایسے تمہیں درد ذیادہ ھوگی ۔
تو صدف حیرانگی سے بولی
پہلے بھی تو کرتے ھو کونسا نیا کرنا ھے ۔
میں نے طنزیہ انداز سے ہنستے ھوے کہا تم الٹی تو ھو پھر بتاتا ھوں
تو صدف حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے الٹی لیٹ گئی
میں نے اسکی گانڈ کے پاس منہ کیا اور اس کے چوتڑوں کو کھول کر تھوک کا گوال اسکی موری پر پھینکا تو صدف
تھوڑی سی ہلی
اور ساتھ ھی میں نے انگھوٹا اسکی گانڈ کی موری پر رکھ کر تھوک کو موری کے اوپر جزب کرنے لگ گیا اور اسی دوران
انگوٹھے کا پورا اندر چال گیا
صدف نےایک دم سائڈ تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے بولی یہ کیا کررھے ھو ۔
تو میں نے اسکی گانڈ کو ادھر ھی دباتے ھوے کہا کچھ نھی۔
ہوتا صبر تو کرو
صدف بولی کچھ الٹا سیدھا نہ کرنا۔۔
بتا رھی ھوں ،۔
میں اسکی بات کو نظر انداز کر کے اپنے لن کو تھوک سے اچھی طرح گیال کرنے لگا،
اور لن کے گیلے ٹوپے کو صدف کی گانڈ کے دراڑ کے اندر موری پر رکھ کر صدف کےکندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے
اوپر ھوا اور ہلکا سا ُپش کیا
صدف کی گانڈ اور سوراخ
اتنا سوفٹ تھا کہ ٹوپا اسکی کنواری گانڈ کے کنوارے سوراخ میں چال گیا
صدف کے منہ سے ایک ذبردست چیخ نکلی مگر اسی سمے میں نے دوسرا جاندار گھسا مارا اور لن کافی حد تک اندر .اتر
گیا اور میرے پٹ اسکی گانڈ کے ساتھ لگ گئے ۔
صدف درد سے بلبال اٹھی اور رونے لگ گئی
ھاےےےےےےے میں مرگئی
ھاےےےےےےے امی جییییییی
ھاےےےےےےےےے *****ہہہہ
میں صدف کے اوپر مکمل الٹا لیٹا ھوا تھا
اور میری شلوار میرے پیروں میں تھی اور میرا پیٹ اور سینہ صدف کی کمر کے ساتھ چپکا ھوا تھا
میرا لن صرف اتنا ھی باھر تھا جتنا صدف کی گانڈ کا ابھار تھا
باقی سارا لن گانڈ کو بری طرح چھلنی چھلنی کر کے اندر گھس گیا تھا
صدف
۔بس روے جا رھی تھی گانڈ کو نہ اوپر کر رھی تھی نہ ھی ادھر ادھر
میں نے منہ اسکے کان کے پاس کیا اور اسے کہا صدف بس کچھ دیر درد برداشت کرو کچھ نھی ھوتا
پھر تمہیں بھی مزہ آے گا۔۔
صدف رو رو کر ہلکان ہورہی تھی۔
صدف منہ سے کچھ نہ بولی بس نفی میں سر ہالنے لگی
اور پھر اسکے منہ سے بس اتنا ھی نکال
یاسرررررر نھیییییییی برداشت ھورھا۔
میں نے اسے پھر تسلی دینا شروع کردیب
مگر صدف کو شاید درد بہت ذیادہ ھورھا تھا وہ مزید روے جارھی تھی
اور ھاےےےےےےے مرگئی
ھاےےےےےےےے امی
بس امی کو ھی یاد کر رھی تھی جیسے اس نے آکر لن باہر نکال دینا ھے ۔
کچھ دیر میں ایسے ھی صدف کے اوپر لیٹا رھا اور اسے پچکارتا رھا
صدف ہچکیاں لے رھے تھی ۔اور کہنے لگی یاسرررر پلیز باہر نکال لو میری جان نکل رھی ھے
اتنا بڑا ھے سارا ھی اندر کردیا
مجھے بتا تو دیتے کہ ادھر کرنے لگے ھو ھاےےےےے امی جی ۔
میں نے کہا صدف یار برداشت کر لو کچھ ھی تو دیر کی بات ھے
ادھر میں اندر بھی فارغ ھوگیا تو کچھ نھی ھوتا۔
صدف بولی نھییییی یاسسرررر
مجھ سے نھی برداشت ھورھا
تم آگے سے کرلو بیشک اندر ھی فارغ ھوجانا میں تمہارا بچہ بھی پیدا کرنے کو تیار ھوں بس ایک دفعہ باہر نکال لو۔
تو میں نے کہا یار اندر تو چال ھی گیا بس اب کچھ دیر برداشت کرلو
میرا یقین کرلو .۔
صدف بولی
تیرے یقین نے ای تے مینوں مروا دتا ایییییی
کچھ .دیر صدف ھاے ھاے کرتی رھی پھر کچھ نارمل ھوئی
میں نے پوچھا کچھ فرق پڑا تو صدف بولی تھوڑی سی درد کم ھوئی ھے
میں نے ہلکا سا لن کو باہر کھینچا تو صدف پھر تڑپنے لگ گئی اور ھاتھ پیچھے کر کے میری کمر کو پکڑ کر مجھے
رکنے کا اشارا کرتے ھوے نفی میں سرہال کر بولی
نھی نھی نھی یاسر ابھی نھی ہلنا
پھر درد ھونے لگ گئی ھے ۔
میں ادھر ھی رک گیا۔
اور پھر صدف کہ بالوں پر ھاتھ پھیرتے ھوے انکو سہالنے لگ گیا اور اسے پھر تسلیاں دینے لگ گیا
مجھے دس منٹ ھوگئے تھے ایسے ھی
میں خود تنگ آگیا تھا
کہ
کیڑی ُک ھڈ وچ لن پا بیٹھا واں۔
صدف اب کافی حد تک نارمل ھوگئی تھی
میں نے صدف کو کہا یار اب برداشت کرنا تھوڑی سے درد ھوگی مگر برداشت کرلینا
صدف پھر میری منتیں کرنے لگ گئی کہ
یاسررر پلیز آگے کرلو .مجھ سے نھی برداشت ھوگا
تم چاھے اندر ھی فارغ ھوجانا۔
اس سے پہلے کہ صدف اپنی بات ختم کرتی میں نے لن باھر کھینچ کر پھر اندر کردیا اور گھسے مارنے لگ گیا صدف پھر
چالنے لگ گئی اور میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر میں نے اسے بری طرح نیچے جکڑا ھوا تھا
اور اپنا سارا وزن اس پر ڈاال ھوا تھا۔
میں صدف کی چیخوں اور شور کو نظرانداز کرتے ھوے گھسے ماری جارھا تھا
صدف کی آواز بیٹھ چکی تھی
اور اب اس نے بھی ھار مان لی تھی اور دھیمی آواز میں رو رھی تھی
میں پندرہ بیس منٹ تک مسلسل صدف کی گانڈ کو چودتا رھا
صدف نے بھی حالت سے سمجھوتا کر لیا تھا اور اب وہ بھی خاموش ھوچکی تھی
کچھ دیر مزید گھسے مارنے کے بعد میں بھی فارغ ہونے کے قریب پہنچ .گیا اور جاندار گھسے مارنے لگ گیا۔
صدف بولی یاسررررر کرلو ظلم آج جتنا کرسکتے ھو
مگر اس کے بعد میرے سامنے بھی نہ آنا۔
مگر اس دوران میں خود مزے میں ڈوبا ھوا تھا مجھے اس کی ان باتوں میں بھی مزہ آرھا تھا
میرے آخری گھسے شدت اختیار کر چکے تھے
اور پھر آخری وہ گھسا جس میں ساری دنیا کا مزہ بھرا تھا مارا اور لن نے صدف کی گانڈ میں الٹیاں کرتے ھوے ساری منی
اندر بہا دی اور میں صدف کے اوپر لیٹے لمبے لمبے سانس لینا شروع کردیے اور لن باھر کھینچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ
کر لن کو دیکھنے لگ گیا
لن کی حالت صدف کے ُقرب کی وضاحت کر رھی تھی
سارا لن خون سے لت پت تھا
صدف بے جان ھوکر ابھی تک ویسے ھی ننگی لیٹی ھوئی تھی
میں ایسے ھی ننگا باہر صحن میں نکال اور واش روم میں جا کر لن کو اچھی طرح دھویا
اور واپس آیا تو صدف آہستہ آہستہ سیدھا ھونے کی کوشش کررہی تھی
اور مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ دوسری طرف کرلیا
میں اس کی حالت سمجھ گیا تھا
کہ اب اس سے سواے گالیاں سننے کے کچھ نھی ملنا
میں نے جلدی سے شلوار پہنی صدف بھی اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور ایک ھاتھ سے گانڈ کو دبا رھی تھی ۔
میں نے صدف کو آواز دی مگر اس نے میری طرف دیکھا بھی نہ
میں اسے .اسی حال میں چھوڑ کر واپس گھر کی طرف آگیا اور آتے وقت صدف کو بس اتنا ھی کہا
کپڑے پہن کر دروازہ بند کرلینا؟؟؟؟؟؟؟؟
میں صدف کی گانڈ پھاڑ
۔
۔کر اسکو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے گھر آگیا
تھکاوٹ نے میرا ُبرا حال کردیا تھا
جسم ٹوٹ رھا تھا
زندگی میں پہلی دفعہ ایک ھی وقت میں مسلسل تین دفعہ فارغ ھوا تھا ۔
اس وجہ سے جسم میں کافی کمزوری محسوس کر رھا تھا اور آنکھیں بھی بھوجل ھورھی تھی
میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور پنکھا چال کر بستر پر لیٹ گیا
اور کچھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔
شام کو امی نے اٹھایا کہ پتر اٹھ جا دوپہر کا سویا ھوا ھے تھکا نھی سو سو کر رات کو پہرہ دینا ھے کیا۔
۔۔
یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ جو دوست گاوں کے رہنے والے ہیں وہ اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ پہلے یا اب بھی گاوں
میں رات کو پہرہ گاوں کے لوگ ھی دیتے تھے اور ہر روز تین گھروں سے ایک ایک فرد کی باری ھوتی تھی ۔میں ابھی
چھوٹا تھا اس وجہ سے میری جگہ میرا بھائی چال جاتا تھا۔
اور شاید کچھ عرصہ تک میرا نمبر بھی لگنا شروع ھوجانا تھا۔۔
خیر۔۔۔۔
میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور امی سے پوچھا ٹائم کیا ھوا ھے تو امی بتایا کہ پتر چھ بج چکے ہیں
میں جلدی سے اٹھا اور نہانے کے لیے واش روم میں گھس گیا
نہا کر کپڑے بدلے
خود کو کافی بہتر محسوس کیا ۔
امی نے روٹی کا کہا کہ روٹی کھا کر باہر نکلنا
صبح کا بھوکا ھے دوپہر کو بھی کچھ نھی کھایا
میں نے کہا روٹی پکائی ھے تو امی بولی
تو بیٹھ ابھی دومنٹ میں پکا کر الئی
میں پھر کمرے میں چال گیا اور جاکر ریڈیو کو اون کیا اور ایک سٹیشن پر انڈین گانے لگے ھوے تھے وہ سننے لگ گیا
کچھ دیر بعد امی روٹی لے کر آگئی
میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا لسی پی اور فٹ ھوکر پھر گھر سے نکل کر سیدھا فوزیہ کے گھر چال گیا۔
اندر داخل ہوا تو فوزیہ کو پھر گاوں کی عورتوں نے گھیرا ھوا تھا اور فوزیہ رو رو کر انکو بھائی کی جدائی کا غم اور
اسکی گزری زندگی کے بارے میں بتا رھی تھی ۔
دوستو انسان نے بہت ھی اچھا بننا ھو نہ تو بندا مر جاے ،۔۔
رونے والے تعریفوں کے ُپل باندھ دیتے ہیں۔
جو زندگی میں ملنا بھی گوارا نھی کرتے میت پر انکے رونے کی آواز سب سے بلند ھوتی ھے
کچھ تو ساتھ ھی جانے کی ضد کرتے ہیں ۔۔۔
ناراض نہ ھونا میری بات پر دوستو یہ تلخ حقیقت ھے اور کڑوا سچ
۔۔۔۔
میں بھی افسردہ سا منہ بنا کر فوزیہ کے پاس چال گیا اور انکو سالم کیا اور انکی نرم کمر پر ھاتھ پھیر کر انکو دالسا دینے
لگ گیا
فوزیہ کے رونے کی آواز اور بلند ھوگئی
عورتیں بھی ایسی چول تھی
ساتھ ساتھ انکو چپ بھی کروا رھی تھی اور جب وہ چپ ھوجاتی تو
ان میں سے پھر ایک بول پڑتی
ھاےےےے وچارے دے باالں دا کی بنے گا۔
فوزیہ پھر بچوں کا سن کر بین کرنے لگ جاتی۔
فوزیہ چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی اور میں نیچے اسکے ساتھ لگا فوزیہ کی کمر کو سہال رھا تھا
فوزیہ نے روتے ھوے ایکدم میری کمر میں ھاتھ ڈال کر اپنا منہ میرے پیٹ سے تھوڑا اوپر سینے کے قریب لگا دیا اور
اسکے ممے میرے لن سے اوپر ناف پر لگ گئے
اور مجھے کہنے
لگی
یاسر میں کی کراں
میں نے دل میں ھی کہا
مینوں پھدی دے ہور توں کی کرنا اے ۔
میں بھی رونے واال منہ بنا کر عورتوں کی طرف دیکھتے ھوے بوال آنٹی صبر کریں جو چال جاے وہ واپس نھی آتا
یہ ھی دنیا کا دستور ھے
بس حوصلہ کریں
صبر کریں
فوزیہ پھر روتے ھوے بولی ۔کیویں حوصلہ کراں یاسر میرا اکو اک پرا سی
میں اودھے بغیر کیویں رواں گی۔۔
جبکہ سالی میری ہوش میں ایک دفعہ بھی اسکو نھی ملنے گئی تھی اور نہ ھی وہ کبھی آیا تھا۔۔
میں نے پھر فوزیہ کی کمر پر بریزیر کے سٹرپ پر ہاتھ پھیرتے ھوے
اسے تسلیاں دینی شروع کردیں۔
عورتیں ایک ایک کرکے کھسکنے لگ گئیں اور پھر آخری عورت بھی بولی
چنگا پین میں چلنی آں تیرا پرا آن واال اے روٹی ُٹ کر دا وی بندو بست کرنا اے
******
تینوں حوصلہ دیوے
میں اسکے جانے کہ بعد فوزیہ کے پاس ھی بیٹھ گیا اور
عظمی اور نسرین کا پوچھا تو فوزیہ بولی وہ ٹیویشن سے نھی آئیں
تو ایسا کر جا اپنی بہنوں کو لے آ
میں نے کہا اچھا جاتا ھوں
دوستو ماحول ھی کچھ ایسا تھا کہ میرا حوصلہ ھی نہ ھوا کہ فوزیہ سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔
میں جلدی سے اٹھا تو فوزیہ نے مجھے پیچھے سے آواز دی کہ آتے ھوے شیمے کی دکان سے اکلو چینی اور دس پانچ
روپے والی پتی کی ڈبی لیتے آنا اور اسے کہنا
کھاتے میں لکھ لے
میں اثبات میں سر ہالتے ھوے
ٹیویشن والی آنٹی کے گھر کی طرف چل دیا
مجھے فرحت کی گلی سے ُگ زر کر جانا تھا
کیونکہ ٹیویشن والی آنٹی کا گھر فرحت کی گلی کے موڑ پر تھا۔
میں جیسے ھی فرحت کی گلی میں داخل ہوا تو مجھے ایکدم فرحت کا خیال آیا
میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا
فرحت کے گھر کے قریب پہنچا اور گلی میں گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو ایک سائکل سوار آتا ھوا نظر آیا
میں نے جلدی سے ناال کھوال اور فرحت کے گھر کے باہر بنی نالی پر پیشاب کرنے کے بہانے بیٹھ گیا
جیسے ھی سائکل واال گزرا تو میں اسے جاتے ھوے دیکھتا رھا جب وہ موڑ مڑا تو
میں جلدی سے اٹھا اور ناال باندھ کر بیٹھک کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا مگر دروازہ اندر سے بند تھا
مجھ میں ہمت نھی ھو رھی تھی کہ کیسے اسکا دروازہ کھٹکھٹاؤں
کچھ دیر میں اسی تجسس میں ڈوبا کھڑا رھا پھر کچھ سوچنے کے بعد میں جیسے ھی آگے کی طرف چال تو اچانک ۔۔۔۔۔؟؟...
مجھے سامنے سے عظمی اور نسرین گلی میں داخل ہوتی نظر آئیں اور میں نے شکر ادا کیا کہ میں فرحت کے گھر نھی چال
گیا
نھی تو ان چنڈالوں نے طرح طرح کے سوال کرنے تھے ۔
انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا
میں انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چل دیا اور راستے سے چینی پتی لی اور انکے گھر آگیا اور فوزیہ کو سامان پکڑاتے
ھوے پوچھا کہ اور کچھ تو نھی منگوانا
تو فوزیہ میرا شکریہ ادا کرنے لگ گئی کہ میرے پیچھے سے تم نے گھر کی ذمہ داری بڑے اچھے طریقے سے نبھائی ۔
میں کچھ دیر بیٹھا رھا انکل بھی آگئے اور میں اٹھ کر انسے اجازت لے کر اپنے گھر آگیا۔
****
اگلی صبح بروز ہفتہ میں عظمی اور نسرین کو لے کر جب صدف کے گھر گیا تو صحن میں اکیلی آنٹی ھی تھی صدف نظر
نھی آرھی تھی
عظمی نے آنٹی سے پوچھا کہ باجی نے جانا نھی تو
آنٹی مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی ۔
یاسر پتر میں نے تجھے کہا بھی تھا کہ جب تک میں نہ آوں تم نے گھر نھی جانا۔
میرے تو ایک دم ٹٹے اوپر چڑھ گئے کہ کہیں آنٹی کو پتہ تو نھی چل گیا۔
میں نے کہا سوری آنٹی جی مجھے گھر کام تھا اس لیے چال گیا ۔
تو آنٹی بولی تمہارے جانے کی وجہ سے تمہاری باجی سیڑھی سے گر گئی تھی اور کل کی چوٹ لگوا کر چارپائی پر پڑی
ھے ۔
میں نے شکر کیا
اور آنٹی سے معذرت کی ۔
تو عظمی اور نسرین جلدی سے صدف کے کمرے کی طرف بھاگیں اور میں وہیں کھڑا رھا
تو آنٹی بولی تم بھی اپنی باجی کا پتہ لے لو۔
میں نے ڈرنے والے انداز سے کہا
نھی آنٹی جی باجی مجھ سے ناراض ھونگی
مجھے ڈر لگتا ھے
تو آنٹی بولی ۔
جھلیا جو ہونا سی ھوگیا اس نمانی نے تینوں کیڑا کھا جانا اے ۔
چل کوئی نہ جا توں وی چٹ اپنی باجی کول بے جا۔
میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ھوا کمرے کی طرف جانے لگ گیا۔
میرا حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ میں صدف کا سامنا کر سکوں ۔
میرے قدم پیچھے کی طرف بھاگنے کی کوشش کررہے تھے مگر میں انکو مخالف سمت اٹھا رھا تھا۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
آنٹی واش روم میں ُگ ھس رھی تھی
تو میں وہیں کھڑا ھوگیا۔
اس سے پہلے کہ آنٹی واش روم سے نکلتی ۔
عظمی اور نسرین کمرے سے نکل آئیں
اور وہ دونوں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ھوے میرے پاس سے گزر کر باہر کے دروازے کی طرف چل
دی
انکا اسطرح مجھے دیکھنا
میرے دل کے چور کو پھر جگا گیا اور میں اضطراب میں انکے پیچھے چلنے لگا
کہ کہیں انکو تو صدف نے نھی بتا دیا۔
ہم باھر گلی میں آگئے
تو کچھ دور جاکر
نسرین میری طرف گھور کر بولی
تمہیں زرہ سی بھی شرم حیاء نھی ھے
میں نے کہا کیا ھوا ھے
تو وہ پھر مجھے گھورتے ھوے اسی انداز میں بولی
تمہیں نھی پتہ
کیا ھوا ھے
سب تمہاری وجہ سے ھی ھوا ھے
کچھ شرم کرو حیاء کرو
بے شرمی کی بھی حد ھوتی ھے ۔۔
میرے تو رنگ اڑ گئے
میرے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا
میں ایکدم رک گیا۔
تو عظمی بولی اب کیا تکلیف ھے چال نھی جارھا ھے کیا ۔
میں نے گبھراتے ھوے کہا۔
پپپپہلے ببتاوو ھوا کیا ھے جو تم میرے ساتھ ایسے بات کر ھی ھو۔
نسرین بولی یہ تم اتنے بوکھالے ھوے کیوں ھو۔
میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا۔
کککچھ نھی بس ایسے ھی میری طبعیت سہی نھی ھے۔
تو نسرین بولی یاسر تم اب بچے نھی رھے کچھ عقل سے کام لیا کرو
کل جب باجی نے تمہیں کہا تھا کہ چھت سے جالنے والی لکڑیاں اتار دو تو تم اتار دیتے
تم انکو بہانہ بنا کر گھر چلے آے گھر جاکر نے کونسی چکی چالنی تھی ۔
بیچاری باجی کے کولہوں پر اتنی ذبردست چوٹ لگی ھے ان سے تو اٹھ کر بھی نھی بیٹھا جاتا
تمہاری دومنٹ کی الپرواہی نے انکو بستر پر ڈال دیا۔
اور اوپر سے تم انکا پتہ کرنے کمرے میں بھی نھی آے۔۔
نسرین کی تقریر سن کر میری جان میں جان آئی اور میں دل ھی دل میں صدف کے دماغ کی داد دینے لگ گیا اور شکر کا
کلمہ پڑھا کہ اس نے حقیقت کسی کو نھی بتائی۔۔
میں نے کہا
مجھے بچہ بلوانے آیا تھا کہ تمہاری امی بلوا رھی ہہے
گھر میں کچھ کام تھا
اب میں انکا نوکر تو نھی کہ سارا دن انکے ھی کام میں لگا رھوں
ایسے ہی ہم چونچیں لڑاتے ھوے شہر پہنچ گئے۔
عظمی لوگوں کو انکے سکول چھوڑا اور میں پونڈی کرتا ھوا دکان کی طرف چلدیا۔۔
اور دکان پر پہنچ کر روزمّر ہ کی طرح باہر سے صفائی کر کے شٹر کے باہر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد انکل آگئے اور میں نے ان سے چابیاں لی اور دکان کے تالے کھول کر شٹر اوپر کیا اور دکان میں داخل ھوکر
دکان کی جھاڑ پونچھ کر کے فرنٹ پر آکر بیٹھ گیا اور کسٹمر کا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد کسٹمر آنا شروع ہوگئے۔
اور میں کام میں مصروف ھوگیا دوپہر کب ھوئی ٹائم کا پتہ ھی نھی چال
انکل نے جنید کو کہا کہ آج کھانا کچھ نھی تو جنید بوال پیسے دے دیں میں اور یاسر جاکر کھانا لے آتے ہیں ۔
تو انکل بولے تم ہوٹل سے نہ لے کر آنا بلکہ میرے گھر میں آج چاولوں کی دیگ پکی ھے ختم دالیا تھا تو تم یاسر کو ساتھ
لے جاو اور گھر سے چاول لے آو اور کچھ ذیادہ لے آنا تاکہ دوسرے دکانداروں کو بھی چاول دے دیں گے
جنید نے جی انکل جی کہا اور موٹرسائیکل کی چابی پکڑی اور مجھے آواز دی کہ چلو گاوں سے جانا ھے تو میں بھی اٹھ
کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور ہم گاوں کی طرف چل دئیے ۔
شہر سے نکل کر جب ہم گاوں کی طرف جاتی سڑک پر گئے تو میں نے جنید کو کہا یار مجھے بھی موٹر سائیکل چالنا
سیکھا دو تو جنید بوال یار یہ کونسا مشکل کام ھے میں نے کہا یار مشکل ان کے لیے نھی جن کو چالنی آتی ھے میرے لیے
تو ابھی مشکل ھی ھے
تو جنید نے ایک سائڈ پر بریک ماری اور نیچے اتر کر مجھے آگے بیٹھنے کر چالنے کو کہا
اور مجھے سمجھانے لگا کہ پہلےکک مار کر اتنی ریس دے کر سٹارٹ کرتے ھیں پھر ایسے کلچ دبا کر اسطرح گیئر لگاتے
ہیں اور گیا۔ ا۔
یس دے کر آہستہ آہستہ کلچ چھوڑتے ہیں اور پھر دوسرا اور تیسرا چوتھا گیئر کتنی دیر بعد اور کیسے لگاتے ہیں ۔
میں اسکی باتوں کو ذہن نشین کرنے لگ گیا۔
اور کک مار کر ریس دی تو مجھ سے ریس ذیادہ ھوگئی اور موٹرسائیکل کی گانڈ پھٹنے لگ گئی
جنید نے جلدی سے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ریس کم کی
اور پھر مجھے کہا کہ اب کلچ دباو میں نے کلچ دبا کر گیئر لگا دیا
اور کلچ کو چھوڑنے لگا مگر موٹرسائیکل بند ھوگئی میں نے پھر سٹارٹ کی اور دوبارہ گیئر لگا کر چالنے لگا تو جنید نے
کلچ اور ریس پر میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ چالنا شروع کردی
)Update no (60
مجھ سے ہینڈل کا بیلنس سہی طرح سے نھی ھورھا تھا
موٹرسائیکل ڈگمگا رھی تھی کبھی اسطرف جاتی تو کبھی اسطرف
کچھ دور جاکر میری کنفیوژن کچھ دور ھوئی تو میں کافی حد تک موٹرسائیکل کو قابو کرنے میں کامیاب ھوگیا
جنید نے بھی اپنے ھاتھ ہٹا لیے اور
میں آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانے لگا
جنید مجھے کہتا بھی رھا کہ یاسر ابھی آرام سے چالو
مگر مجھ پر جنون سا سوار تھا اور میں ریس کو بڑھائی جارھا تھا
کہ اچانک سڑک کے ساتھ لگے درختوں میں سے ایک کتا نکل کر دوڑ کر سڑک کی دوسری طرف جانے لگا
ُک تے کو دیکھ کر میں اتنا گبھرا گیا کہ
میں نے بریک لگانے کی بجاے ریس بڑھا دی
پھر مجھے جنید اور اپنی بس چیخ ھی سنائی دی
اسکے بعد مجھے بس اتنا ھی یاد رھا کہ ُک تا اگلے ٹائر کے نیچے آیا اور ہم دونوں موٹرسائیکل سے اچھل کر سڑک پر
گرےتھے۔۔۔
جب میری آنکھ ُک ھلی تو میں ہسپتال کے بیڈ پر پڑھا تھا اور مجھے اپنے چاروں طرف دھندلے دھندلے چہرے نظر آرھے
تھے
کچھ دیر غور کرنے کے بعد ان چہروں کو پہچانا تو
امی ابو نازی عظمی فوزیہ اور انکل جاوید کی بیوی تھیں ۔
میں نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آیا اور میں پھر بے ہوشی کی حالت میں چال گیا۔ جب
مجھے دوبارا ہوش آئی تو امی میرے سر کے پاس بیٹھی میرے سر پر ھاتھ پھیر رھی تھی
اور فوزیہ میرے پیروں کی طرف بیٹھی ھوئی تھی ۔
میں منہ ھی منہ میں ُبڑبڑانے لگ گیا امی امی امی
میری آنکھیں کھلتے اور مجھے بڑبڑاتے دیکھ کر امی روتے ھوے میرا ماتھا چومتے ھوے بولی۔
جی امی کی جان
میں نے کہا امی جان میں کہاں ھوں کیا ھوا ھے مجھے آپ کیوں رو رھی ہیں ۔
جنید کہاں ھے
امی بولی ماں صدقے جاے شکر ھے میرے بچے کو ہوش آگیا۔
کچھ نھی ھوا تجھے جنید بھی ٹھیک ھے ذیادہ بول نہ ابھی تیری طبعیت سہی نھی ھے
تبھی فوزیہ بھی اٹھ کر میری ناف کے پاس بیٹھ کر میرے اوپر جھک کر مجھے خاموش رہنے کا کہنے لگ گئی
اور امی کو بھی مجھ سے بات کرنے سے روکتے ہوے بولی
آپاں ابھی اس سے بات نہ کریں
چپ رہیں
میں ڈاکٹر کو بال کر التی ہوں ۔
اور فوزیہ اٹھ کر وارڈ سے باہر چلی گئی اور کچھ دیر بعد
اسکے پیچھے ایک عورت چلتی ھوئی میرے بیڈ کے پاس آگئی اس عورت نے نرسنگ ڈریس پہنا ھوا تھا
میں غور سے اسکو دیکھنے لگ گیا ۔
مجھے وہ شکل جانی پہچانی سی لگ رھی تھی ۔
وہ عورت مجھ پر جھک کر میرے ماتھے پر بندھی پٹی کو سہی کرتے ھوے میرے گال تھپتھپا کر مجھ سے مخاطب ھوئی
کیسی طبعیت ھے اب یاسر
اس عورت کا چہرہ جب میرے چہرے کے بلکل قریب ھوا تو میں جب غور سے دیکھا تو مارے حیرانگی کے مجھے ایک
بار پھر چکر آگیا
وہ عورت تو فرحت تھی
یہ یہاں ہسپتال میں کیا کررھی ھے
میں آنکھیں بند کر کے سوچنے لگ گیا۔
فرحت نے سمجھا شاید میں پھر بےہوش ھوگیا ہوں ۔
وہ پھر میری نبض پکڑ کر میری گال تھپتھپا کر مجھے ہوش میں النے کی کوشش کرتے ھوے بولی
یاسر یاسر یاسر۔
ہوش کرو
آنکھیں کھولو ادھر دیکھو میری طرف ۔
میں نے پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں
اور پھر اسکے چہرے کو دیکھنے لگ گیا۔
تو وہ بولی کیسا محسوس کر رھے ھو ۔
میں نے اثبات میں سر ہال کر بہتر محسوس کرنے کا اشارہ کیا۔
تو فرحت پھر بولی مجھے پہچانا۔
میں نے پھر اثبات میں سر ہالیا۔
پھر اس نے امی کی طرف اشارہ کیا یہ کون ہیں بتاو
میں نے آہستہ سی آواز میں کہا امی اور ساتھ ھی میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ھوگئے۔
فرحت میری گال پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی اچھے بچے روتے نھی ہیں
تم تو بڑے بہادر ھو
اور پھر فرحت فوزیہ کی طرف اشارہ کر کے بولی
اچھا بتاو یہ کون ہیں ۔
میں نے بوجھل آنکھوں سے فوزیہ کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔
آنٹی۔۔۔
تو فرحت پھر میری گال پر شاباشی دیتے ھوے بولی
ُگ ڈ بواے
تم بہت جلد سہی ھوجاو گے
دیکھو تمہاری امی کتنی پریشان ھے
اور تمہارے سب گھر والے بھی تمہاری وجہ سے کتنے پریشان ہیں۔
میں پھر امی اور فوزیہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔
اور فرحت میرے اوپر سے سیدھی کھڑی ھوئی
اور امی کو مخاطب کرتے ھوے بولی
آنٹی پریشان ہونے کی کوئی بات نھی یاسر اب بلکل ٹھیک ھے ۔
تو امی بولی ۔
پتر ہور کنے دن ہسپتال رہنا پوے گا۔
تو فرحت بولی
ویسے تو اسکی حالت کافی بہتر ھے
پھر بھی رات کو ڈاکٹر صاحب راونڈ پر آئیں گے تو وہ ھی اسکی پوزیشن دیکھ کر بہتر بتا سکیں گے
اور یہ کہتے ھوے وہ پھر مجھ پر جھکی اور پھر میری گال کو تھپتھپا کر بولی
جلدی سے ٹھیک ھو جاو
میں نے سوٹ لینے پھر تمہاری دکان پر آنا ھے ۔۔۔
اور یہ کہتے ھوے وہ دوسرے بیڈ پر مریض کو دیکھنے کے لیے چلی گئی۔
فوزیہ میرے تھائی کے ساتھ پھر اپنی گانڈ لگا کر بیٹھ گئی
میں نے فوزیہ کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا آنٹی مجھے کیا ھوا تھا اور میرے ساتھ میرا دوست جنید تھا وہ کدھر ھے
اور میں کب سے ادھر ہسپتال میں ۔۔۔۔۔۔
فوزیہ نے جلدی سے میری بات پوری ھونے سے پہلے میرے اوپر جھکی اور ممے میرے سینے کے ساتھ لگا کر میری
گال پر اپنا ھاتھ رکھ کر بولی
یاسر ذیادہ بولو مت
میرے شزادے کو کچھ بھی نھی ھوا
اور تمہارا دوست بھی بلکل سہی ھے
وہ کل ھی اپنے گھر چال گیا
ہم بھی ایک دو دن میں گھر چلے جائیں گے
تم بس جلدی سے سہی ھوجاو
اور مجھے چھیڑتے ھوے
بولی
پھر میں اور میرا شزادہ نہر پر کپڑے دھونے جائیں گے
چلو گے نہ میرے ساتھ
امی بھی فوزیہ کی بات سن کر ہنس پڑی جو کافی دیر سے گم سم بیٹھی تھی
میں نے اثبات میں سر ہال دیا۔۔
امی بیچاری اب اندر کی بات کیا جانتی تھی کہ کون سے کپڑے کہاں دھونے ہیں ۔
فوزیہ پھر میری گال تھپتھپا کر بولی
یہ ہوئی نہ بات ۔
اور پھر فوزیہ اپنے ممے میرے سینے سے اوپر کر کے سیدھی ھوکر بیٹھ گئی ۔
مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی اس کی وجہ سے شاید مجھ پر پھر غنودگی چھانے لگی اور میں پھر نیند کی وادیوں میں کھوگیا۔
جب میری آنکھ کھلی تو وارڈ میں بلکل سناٹا سا تھا
شاید رات کا کوئی پہر تھا۔
میں اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کررھا تھا ۔
میں نے سر گھما کر سائڈ پر پڑے بینچ کی طرف دیکھا تو وہاں فوزیہ میری طرف منہ کر کے گانڈ دوسری طرف کئے
گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ لگا کر بےسدھ سوئی ھوئی تھی اور ہلکے ہلکے خراٹے اسکے منہ سے نکل رھے تھے ۔
مجھے پیشاب بہت تیز آیا ھوا تھا میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو میرے سر میں ہلکی سی درد کی چییس اٹھی اور میں نے
ایک دفعہ دونوں ھاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ لیا اور پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو ہال کر دیکھا تو ایک گھٹنے سے درد کی
لہر پوری ٹانگ میں دوڑی ۔
مجھے محسوس ھوا کہ میرے سر میں ذیادہ چوٹ لگی ھے اور باقی ہڈیاں وغیرہ ٹوٹنے سے بچ گئی ہین
اور کہنی اور گھٹنوں پر بس معمولی رگڑیں لگی ہیں
میں آہستہ آہستہ اپنے سارے جسم کے اعضاء کو ہال ہال کر چیک کررھا تھا ۔
اسی دوران میں نے اپنے لن کو بھی اچھی طرح چیک کیا کہ میرا نصیب تو سالمت ھے نہ ۔
مجھے پیشاب کی حاجت بہت ھورھی تھی
میں کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رھا ۔
مگر سب سے ھوے تھے
نرسیں بھی شاید اپنے سٹاف روم تھیں
اور مجھے تو یہ بھی نھی پتہ تھا کہ واش روم کسطرف ہیں۔۔۔
میں پہلے تو فوزیہ کو آواز دینے لگا پھر یہ سوچ کر خاموش ھوگیا
کہ پتہ نھی بیچاری کتنے دنوں سے ادھر ھی میری وجہ سے خوار ھو رھی ھے ۔
میں خود ھی حوصلہ کر کے اٹھا اور کراہتا ھوا بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا بیٹھنے کی وجہ سے میری کمر میں
بھی تکلیف کا احساس ہوا۔
مگر میں پھر بھی برداشت کرگیا
پیشاب تھا کہ جیسے ابھی بیچ میں نکل جاے گا ۔
میں پوری ہمت اکھٹی کر کے کھڑا ھوا تو مجھے ایکدم چکر آیا اور میں سیدھا فوزیہ کے پیٹ پر گر گیا اور ایک ھاتھ میرا
فوزیہ کی کمر کے پیچھے چال گیا دوسرا ھاتھ اس کے ممے کے اوپر
فوزیہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور مجھے سنبھالتے ھوے پکڑ لیا اور بولی یاسر کیا ھوا کدھر جارھے تھے
میں نے خود کو سنبھالتے ھوے پھر کھڑے ھونے کی کوشش کی اور فوزیہ بھی مجھے اپنے سینے سے لگا کر کھڑی
ھوگئی اور مجھے بیڈ پر بیٹھانے لگی
میں نے درد بھری آہ بھرتے ھوے کہا
آنٹی مجھے پیشاب کرنا ھے ۔
تو فوزیہ بولی
مجھے آواز دے دیتے
ہے نہ کمال ُمنڈا
پتہ بھی ھے کہ ابھی چلنے پھرنے کے قابل نھی ھوا اور چال ھے خود ھی جوان بننے ۔
اور پھر فوزیہ مجھے کھڑا کر کہ بولی چل میں تیرے ساتھ چلتی ھوں
میں اب کافی حد تک سنبھل چکا تھا
شاید کتنے دن ھوگئے تھے بستر پر ھی لیٹے ھوے تو ایکدم کھڑے ھونے کی وجہ سے چکر آگیا تھا۔
پہلے شاید مجھے پیشاب کی نالی لگائی ھوگی مگر اب وہ بھی اتار دی تھی
ورنہ مجھے اٹھنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔
فوزیہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر میری کمر میں بازو ڈال کر واش روم کی طرف آہستہ آہستہ چلتے ھوے لے کر جانے لگی ۔
وارڈ سے باہر نکل کر ایک طرف گلی سی تھی اس طرف کو ہم مڑ کر واش روم کے پاس پہنچ گئے
ہسپتال میں بلکل سناٹا سا چھایا ھوا تھا
واش روم کے دروازے پر پہنچ کر فوزیہ نے دروازہ کھوال اور مجھے لے کر واش روم کے اندر چلی گئی
واش روم میں کمپووڈ تھا اور فلیش بھی
میں فلیش کی طرف بڑھنے لگا تو فوزیہ بولی ادھر کمپووڈ میں کھڑے ہوکر کر لو پیشاب
میں ناال کھولنے لگ گیا مگر میرے ہاتھ پر سوئی لگی ھوئی تھی
جس کی وجہ سے مجھے ناال کھولنے میں دکت پیش آرھی تھی ۔
فوزیہ نے جب دیکھا کہ مجھ سے ناال نھی ُک ھل رھا تو وہ آگے بڑھی اور میری قمیض اوپر کر کے میرا ناال کھولنے لگ
گئی ۔
ناال کھول کر اس نے شلوار تھوڑی سی نیچے کی تو میں ہاتھ نیچے کر کے اپنے لن کو پکڑ کر کمپووڈ کی طرف کرنے لگا
تو میرے ہاتھ پر لگی ہوئی سوئی میرے جلدی سے ھاتھ نیچے لیجانے کی وجہ سے میری قمیض کے پلو کے ساتھ اٹک گئی
جس سے مجھے اتنی درد ھوئی کے میرے منہ سے ھاےےےے نکل گیا ۔۔
فوزیہ نے گبھرا کر میرے ھاتھ پر لگی ھوئی سوئی کی طرف دیکھا اور جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر سوئی کے اوپر اپنا
انگوٹھا رکھ کر ہلکا سا دبانے لگی اور پھر
فوزیہ نے اپنا ھاتھ آگے کیا اور میرا لن پکڑ کر کمپووڈ کی طرف کرتے ھو ھوے بولی چلو کرو پیشاب میں پکڑ کر رکھتی
ھوں ۔
جیسے ھی فوزیہ کے ھاتھ کا لمس میرے لن کو محسوس ھوا تو
زخمی اور درد کی حالت میں بھی نجانے کیوں میرے لن نے ہلکا سا جھٹکا مار کر اپنے ہونے کا اشارہ کیا۔
اور لن کو ھاتھ میں پکڑتے ھوے فوزیہ کے چہرے پر بھی ایک رنگ آکر گزر گیا
اور ساتھ ھی پیشاب کی لمبی دھار کمپووڈ میں گرنے لگی ۔
)Update no (61
پیشاب تھا کی رکنے کا نام ھی نھی لے رھا تھا
جیسے صدیوں بعد پیشاب کررھا تھا۔
کچھ دیر پیشاب نکلتا رھا اور پھر لن نے ہلکے ہلکے جھٹکے لینے کے بعد پیشاب کے قطرے فوزیہ کے ہاتھ پر ھی بہانے
شروع کردیے ۔
فوزیہ نے لن کو تین چار بار جھٹکا دے کر نچوڑا میرے لن میں ہلکی سی سختی واقع ھو چکی تھی
فوزیہ نے لن کو جھٹک کر
مسلم شاور پکڑا اور بٹن دبا کر شاور سے میرا لن دھونے لگ گئی ۔
لن فوزیہ کے ہاتھ کے لمس سے فل تن گیا ایک تو انٹی بیٹک میڈیسن اوپر سے فوزیہ کا گرم ھاتھ
لن بیچارا کی کرے
ٹھنڈا پانی پی مرے۔
فوزیہ نے لن کو مٹھی میں بھر کر میری طرف شرارت سے دیکھتے ھوے کہا
گندے بچے اب تو باز آجاو
اپنی حالت دیکھو اور لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے ۔
اور اپنے کام دیکھو۔۔
میں نے کہا کیا ھوا آنٹی
میں نے حیران ھوتے ھوے ایسے پوچھا جیسے مجھے کسی بات کا علم نہ ھو
تو فوزیہ میرے لن کو ہالتے ہوے بولی
آنٹی کے بچے
یہ کیا ڈرامہ ھے
ایک منٹ میں اتنا بڑا کر لیا۔
میں نے جھینپ کر کہا
مجھے کیا پتہ
آپ نے ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا
تو فوزیہ میرے لن کو مٹھی مٹھی میں دبا کر چھورتے ھوے بولی
جلدی سے سہی ھوجا
پھر اس کی آکڑ بھی توڑتی ھوں ۔
تو میں بھی ہنس پڑا اور پھر فوزیہ نے میری شلوار اوپر کی اور میرا ناال باندھتے ھوے بولی اب اس کو ٹھنڈا کرلو نھی تو
وارڈ کی طرف جاتے ھوے اگر کسی نرس کی نظر پڑ گئی نہ تو پھر اس نے تم پر ترس نھی کھانا
میں ہلکے سے مسکر کر بوال آپ کو دیکھ کر کھڑا ھوگیا تھا آپ ھی اسے سمجھا دیں ۔
تو فوزیہ ناال باندھ کر تمبو بنے لن پر ہلکے سے تھپڑ مارتے ھوے بولی
تم ٹھیک ھو جاو کرتی ھوں اسکا عالج بھی
اور اسکے ساتھ ھی فوزیہ نے مجھے پھر اپنے مموں کے ساتھ لگایا اور لے کر واش روم سے جیسے ھی باہر آئی تو
اچانک؟؟؟؟؟؟؟
مجھے چکر آیا اور میں پھر لڑکھڑایا اور فوزیہ نے مجھے مذید اپنے ممے کے ساتھ چپکاتے ھوے لے کر وارڈ کی طرف
چل دی
میں بھی ڈرے ھوے اور سہمے ھوے بچے کی طرح فوزیہ سے چپکا ھوا تھا۔
فوزیہ نے مجھے بیڈ پر بیٹھایا اور پھر مجھے لیٹا کر میری ٹانگیں اوپر کردیں ۔
اور خود بینچ کو گھسیٹ کر بیڈ کے قریب کر کے بیٹھ گئی اور مجھ سے بوچھنے لگ گئی کہ اب کیسی طبعیت ھے
تو مجھے اس حال میں بھی مزاق سوجھا میں نے شرارتی انداز میں کہا
کس کی۔
تو پہلے تو فوزیہ نے حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بس اتنا ھی کہا کہ تمہاری اور کس،،،،،،
جب اسے سمجھ آئی تو میرے بازو پر ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی
ٹھہر جا ۔۔
گندا بچہ۔۔۔
میں بھی ہنسنے لگ گیا۔
میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ مجھے ہسپتال کون الیا تھا اور جنید جو میرے ساتھ تھا وہ کدھر ھے
تو وہ بولی جہاں تم لوگ گرے تھے وہاں سے گزرنے والے گاوں کے ھی لوگ تم دونوں کو ہسپتال لے کر آے تھے
ہمیں تو بعد میں پتہ چال تھا کہ تمہارا ایکسیڈنٹ ھوگیا ھے ۔
تو ہم سب نے سالم تانگہ کروایا اور ہسپتال جب پہنچے تو تمہارے کپڑے سارے پھٹے ھوے تھے اور سر پر پٹی کی ھوئی
تھی اور تمہارے دوست کو اتنی ذیادہ چوٹ نھی آئی تھی مگر تم دونوں ھی بےہوش تھے
تمہاری امی تو تمہاری حالت دیکھ کر گر گئی تھی
میں نے کہا مجھے کتنے دن ھوگئے ہیں تو فوزیہ بولی تمہیں آج چوتھا دن ھے
تمہارے دوست کو تو اسی دن ہسپتال والوں نے گھر بھیج دیا تھا
مگر تمہارے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اور بے ہوشی کی وجہ سے ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ جب تک تسلی نھی ھو
جاتی تب تک گھر نھی جا سکتے۔۔
تو میں نے کہا کہ آپ اس دن سے رات ادھر ھی ٹھہرتی ھو تو فوزیہ بولی پہلے دن تو تمہاری امی ھی ادھر رکی تھی
اور پھر انکی بھی طبعیت خراب ھوگئی تھی تمہاری حالت دیکھ کر تو انکو پھر گھر بھیج دیا اور میں ادھر رکنے لگ گئی ۔۔
مجھے اچانک فرحت کا خیال آیا کہ یہ ہسپتال میں کیا کررھی تھی ۔
میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ صبح جو عورت آئی تھی وہ کون تھی ۔
فوزیہ ہنستے ھوے بولی
تم نے اسے پہچانہ نھی
وہ اپنے گاوں کی ھی ھے فرحت ھے اسکا نام
بےچاری بیوہ ھے اور بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی ھے اور ہسپتال میں نرس ھے
اس بےچاری نے تمہارا بڑا خیال رکھا ورنہ سرکاری ہسپتالوں میں ماڑے بندے کو کون پوچھتا ھے ۔
وہ بےچار جب بھی ڈیوٹی پر ھوتی
ہر دس منٹ بعد تمہیں دیکھنے آتی اور ڈاکٹر کو بھی اس نے یہ کہا کہ یہ میرے جاننے والے ہیں ۔
میں نے کہا یہ ظہیر کی امی ہیں نہ جو اپنے ماموں کے پاس چال گیا ھے ۔
تو فوزیہ بولی ھاں ھاں وہ ھی ھے
تو میں نے کہا یہ کب سے نرس لگی ھوئی ہے تو فوزیہ بولی
اسکو تو کافی عرصہ ھوگیا ھے ۔
بےچاری کا اور کمانے واال بھی کون ھے
ہم ایسے ھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے
اور کچھ دیر بعد نرس آگئی مجھے چیک کرنے اور پھر سے مجھے ڈرپ لگا کر چلی گئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ ہم
گھر کب تک جا سکتے ہیں ۔
تو وہ بولی صبح ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو وہ ھی بتائیں گے ۔
میں چپ کر کے لیٹ گیا
اور کچھ ھی دیر بعد مجھے پھر نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح میری آنکھ کھلی تو امی نازی عظمی نسرین اور صدف آگئی
صدف کی طرف میں نے ایک نظر ھی دیکھا مگر اس کی سوالیا نظروں کی تاب نہ التے ھوے اپنی آنکھیں پھیر لی
کچھ دیر سب نے میرا حال احوال پوچھا
تو فرحت بھی آگئی
میں نے اسے غور سے دیکھا
سفید لباس میں اوپر سفید ۔ واسکٹ میں کسے ھوے ممے ۔ہونٹوں پر ہلکے پنک رنگ کی لپسٹک جو اس کے پہلے سے
گالبی ہونٹوں کو مزید نکھار رھی تھی
مسکراتے ھوے گانڈ ہالتی ھوئی ھاتھ میں فائل پکڑے میرے پاس آئی اور بڑی ادا سے مسکرا کر بولی
یاسر کیسے ھو اب
میں نے بھی مسکرا کر کہا جی بلکل ٹھیک ھوں اور آپ کا شکریہ آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا
تو وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔
بس بس رہنے دو شکریہ کو
اگر اتنا ھی شوق ھے شکریہ ادا کرنے کا تو جب دکان پر سوٹ لینے آوں تو ڈسکاونٹ پر دے دینا
فرحت کی بات سن کر سب ہنس پڑے اور
پھر وہ مجھے مبارک باد دیتے ھوے بولی مبارک ھو یاسر
تمہاری سب رپورٹ کلیر ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے تمہیں گھر جانے کی اجازت دے دی ھے
اب تم آرام کر سکتے ھو اور کوئی بھی ذور واال کام نھی کرنا اور ایک ہفتہ گھر پر آرام کرنا ھے
یہ میڈیسن ہیں وقت پر لینی ہیں ۔
میں مذید تمہیں گھر پر بھی دیکھنے آیا کرون گی
اور جاتے ھوے بولی
چاے تو پالیا کرو گے نہ
تو پھر سب گھر والے ہنس پڑے
تو امی بولی
پتر تیرا اپنا کار اے جدوں مرضی آ
اور وہ بڑی ادا سے مڑتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے دوسرے بیڈ پر چلی گئی ۔
اور کچھ دیر بعد ہم سب تانگے پر گھر آگئے اور مجھے میرے کمرے میں چارپائی پر لٹا دیا گیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد محلے کی عورتیں آنا شروع ھوگئیں اور میرا حال احوال پوچھنے لگ گئی
اور کچھ اپنے درد بتا کر چلی گئیں شام تک ایسے ھے ایک گئی دو آ گئیں میں تو گھر آکر پچھتا رھا تھا
۔اچھا بھال ہسپتال میں سکون تھا ۔۔
میں سونے کی کوشش کرتا تو ان عورتوں کی آوزیں مجھے سونے نھی دے رھی تھی
کہ فرحت کمرے میں داخل ہوئی اور آکر میرے جب میرے پاس بیٹھی تو ساتھ ھی مجھے سب کچھ اچھا لگنے لگ گیا
فرحت کا نرم نرم جسم جب میرے جسم کے ساتھ ٹچ ھوا
جب اسکی نرم گانڈ میری تھائی کے ساتھ لگی تو سارے دن کی بوریت ایک لمحہ میں ختم ھوگئی
اور میں فرحت کی گانڈ کے لمس کو دل جان سے محسوس کرنے لگ گیا۔
فرحت مسکراتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی
سناو کیسی طبعیت ھے اب۔
میں نے کہا جی بلکل فٹ ھوں ۔
تو وہ ہنس کر بولی ابھی اتنے بھی فٹ نھی ھو جتنا کہہ رھے ھو۔
تو میں نے کہا جی بس آپ کی مہربانی ھے جو میں چلنے پھرنے کے قابل ھوگیا ھوں۔۔
تو فرحت بولی بس بس اب بار بار یہ مہربانی اور شکریہ والے الفاظ استعمال مت کرو
میرا تو کام ھی یہ ھے کہ ہر مریض کی دیکھ بھال کرنا۔
میں نے کہا جی بلکل مگر کچھ خاص بھی ھوتے ہیں جن پر سب کو چھوڑ کر توجہ دی جاتی ھے ۔
تو فرحت میری گال پر ہاتھ پھیر کر بولی یہ تو ھے ۔
اور پھر فرحت نے میرے سر کی پٹی کھولی اور میرے زخم کو دیکھتے ھوے بولی
گڈ جلدی بھر جاے گا زخم ۔
اور پھر فرحت نے دوبارا نئی بینڈیج کی اور میرے گھٹنے سے شلوار اوپر کر ک گھٹنے پے زخم کے اوپر پاویوڈین لگا
کر صاف کیا اور پھر میری کہنی پر سے ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد امی چاے لے کر اگئی
تو فرحت بولی آنٹی جی یہ کیا تکلف کیا میں تو مزاق کررھی تھی ۔
تو امی بولی بیٹی تیرا اپنا گھر ھے تو نہ بھی کہتی تو بھال ہم تمہیں چاے پینے کے بغیر جانے دیتے
میرے پتر کو اتنی جلدی صحیح کرنے میں سارا ھاتھ تمہارا ھے۔
میں نے امی کی بات سن کر دل میں کہا
واہ امی تینوں کی پتہ کہ مینوں خراب کرن وچ وی ایس دا ای سارا ہتھ تے کی پوری باں ای اے۔
فرحت بولی نھی آنٹی جی یہ تو میرا فرض تھا
اور آپ تو میرے گاوں کے ھو اور ویسے بھی اتنا پیارا بچہ ھے آپ کا
۔۔
امی بھی فرحت کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں باتیں کرنے لگ گئی
اور امی فرحت کے شوہر کی وفات کے بارے میں بات چھیڑ کر بیٹھ گئی جس سے فرحت کی آنکھیں نم ھونا شروع ھوگئی۔
اور مجھے انکی باتوں سے کوفت ھو رھی تھی
کچھ دیر بعد فرحت نے اجازت طلب کی اور کل پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی ۔
اور اسکے جانے کے بعد
فوزیہ اور اسکی ساری فیملی آگئی اور کافی دیر باتوں کا تسلسل جاری رھا۔
پھر انکل جاوید اور انکی بیگم آگئی ۔
۔۔۔۔۔۔
).Update no (62
اگلے دن جب میں سو کر اٹھا
تو میری طبیعت کافی حد تک بہتر ھو چکی تھی اور میں خود بغیر کسی کے سہارے چلنے لگ گیا تھا ۔
کچھ دیر صحن میں چہل قدمی کرنے کے بعد میں دوبارا اندر کمرے میں چال گیا ۔
تین چار دن تک یہ ھی معمول رھا
فرحت آتی اپنی مسکراہٹوں کو میرے نام کر کے چلی جاتی ادھر فوزیہ بھی بےچین تھی میری تھکاوٹ اتارنے کے لیے
دو دو پھدیاں بے چینی سے میرا انتظار کررھی تھی ۔
آخر کار وہ دن بھی آگیا کہ جس دن میں گھر سے تیار شیار ھو کر عظمی اور صدف کے گھر سے ہوتا ھوا انکو ساتھ لے کر
دکان کی طرف چل دیا
صدف کا غصہ بھی کافی حد تک کم ھوگیا تھا
مگر میرے ساتھ اسکا پہلے جیسا رویہ نھی تھا
بس روکھے پن کا مظاہرہ کر رھی تھی ۔
میں کافی دن گزرنے کے بعد دکان پر گیا تھا
تو ساتھ والے دکانداز بھی میری خیریت دریافت کرنے آے
جنید تو دو دن بعد ھی دکان پر آگیا تھا۔
جنید مجھ سے مل کر کافی خوش ھوا
اور مجھ سے ناراض بھی ھونے لگا کہ تمہاری چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے ہم موت کے منہ سے بچے تھے
انکل نے بھی جنید کی اچھی خاصی کالس لی تھی کے مجھے کیوں موٹر سائیکل چالنے دی ۔
میں دکان کے فرنٹ پر ھی بیٹھا ھوا تھا کہ وہ ھی دونوں حسینائیں جلوہ گر ہوئیں
ثانیہ اور ضوفشاں ۔
اور مجھ سے سالم لینے کے بعد اندر چلی گئیں ۔
میں بھی اٹھا اور انکے پیچھے چال گیا
اور ان دونوں کو بیٹھنے کا کہا اور دوبارا آنے کا شکریہ ادا کیا تو ضوفی بڑی ادا سے بولی ہم تو پرسوں بھی آئیں تھی مگر
آپ نھی تھے پوچھنے پر آپ کا پتہ چال کہ آپ کے چوٹ لگی ھے
کیسے ہیں آپ اب
میں نے کہا جی شکر ھے اب کافی بہتر ھوں تو انہوں نے ایکسیڈنٹ کی وجہ پوچھی جو میں نے انکو تفصیل سے بتادی تو
ضوفی بولی
آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے چوٹ لگی ھے
اور کچھ مزید مجھے سمجھانے کے بعد بولیں
ہم نے دلہن کا ڈریس رینٹ پر لینا تھا
تو ہمیں ایک سوٹ پسند آیا تھا مگر آپ کے انکل نے رینٹ ھی بہت ذیادہ بتایا تو ہم نے پھر آنے کا کہہ کر نھی لے کرگئیں
ہم نے تو سوچا تھا کہ آپ ہمیں مزید ڈسکاونٹ دیں گے مگر آپ کے انکل نے تو لہنگے کی ہاف قیمت جتنا رینٹ بتا دیا تھا ۔۔
میں ضوفی کی تقریر اور گلے شکوے سننے کے بعد بوال
میں معذرت خواہ ھوں کہ آپ کو لہنگے کی وجہ سے دوبارا آنا پڑا
آپ بتائیں کون سا لہنگا ھے
تو ثانیہ نے اپنے گالبی ہونٹ ہالے اور سامنے الماری میں پیک کئے ھوے شاکنگ پنک کلر کے لہنگے کی طرف اشارہ کر
کے کہا
جی وہ واال لہنگا ھے ۔
تو میں نے وہ لہنگا نکاال اور ان کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا آپ میں سے کس کی شادی ھے تو دونوں ہنس پڑیں اور
ضوفی بولی ۔
ہماری نھی بلکہ میری کسٹمر کی شادی ھے جمعہ کو تو اس کے لیے لینا ھے
میں نے پوچھا کہ میں سمجھا نھی کہ آپکی کسٹمر کیا مطلب ۔۔۔
تو ضوفی نے پرس سے ایک کارڈ نکال کر میری طرف بڑھاتے ھوے کہا میرا پارلر ھے شاہین مارکیٹ کی بیس منٹ میں
اور یہ میرا کارڈ ھے
اور میں نے دلہن تیار کرنی ھے تو اس کے لیے لینا ھے
اتوار کو آپ کو واپس مل جاے گا ۔
میں نے ہمممم کیا اور کارڈ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا
اور لہنگا شاپر میں ڈال کر انکی طرف بڑھاتے ھوے کہا یہ لیں
تو ضوفی بولی آپ رینٹ تو بتا دیں۔
آپ کے انکل تو چار ہزار مانگ رھے تھے
ہم اتنا افورڈ نھی کرسکتے
تو میں نے کہا
آپ کتنے دینا چاھتی ہیں ۔
تو وہ بولی میں دوہزار دے سکتی ھوں
تو میں نے کہا ویسے تو ہم چار ہزار سے کم نھی لیتے
آپ لے جائیں اور میں انکل کو خود ھی سمجھا دوں گا۔
آپ خود لہنگا نہ دینے آنا میں آپ کے پارلر سے پکڑ لوں گا
ضوفی نے پرس سے دوہزار نکال کر مجھے دئیے اور بڑی غور سے مجھے دیکھتے ھوے شکریہ کہا اور ایک جھٹکے
سے کھڑی ھوئی جس سے اس کے بھاری ممے ایسے ہلے جیسے ابھی نیچے گرنے لگے ھوں
میں تو اسکے مموں کو دیکھتا ھی رھی گیا
مجھے اپنے مموں کی طرف دیکھتے ھوے ۔
ضوفی گال کھکنگار کر بولی
جی ہم جائیں
تو میں جھینپ کر بوال ججججی جی
۔
تو ثانیہ اس سے پہلے دکان سے باہر نکلنے لگی تو ضوفی نے مجھ ہر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر تھینکسس کہا اور اپنی
گول گانڈ مٹکاتی ہوئی باہر کی طرف جانے لگی اسکی گانڈ جو کہ اسکی شارٹ شرٹ کی وجہ سے اسکی شرٹ کو بھی اوپر
نیچے کررھی تھی
میرا تو اسکی گانڈ دیکھ کر دل کر رھا تھا کہ ابھی جاکر پورا چپہ چڑھا دوں اسکی گانڈ میں ۔
ضوفی جب دکان کے فرنٹ پر پہنچی تو اس نے یکلخت گھوم کر دیکھا تو میں اسکی گانڈ کے دلکش نظارے میں کھویا ھوا
تھا تو میری نظریں اسکی نظروں سے ملیں تو اس نے بڑی سیکسی سی سمائل دی اور ہرنی کی طرح دکان کی تین
سیڑھیاں پھالنگتے ھو باھر چلی گئی ۔
جس انداز سے وہ اتری تھی
استاد اسکی چھلکتی گانڈ دیکھ کر میرا تو لن کھڑا ھوگیا جسکو میں نے اسی جگہ بیٹھ کر چھپا لیا
اور کچھ دیر تک اس کی گانڈ کے خیالوں مین ھی کھویا رھا
کہ کس خوش نصیب کو اسکی گانڈ نصیب ھوگی ۔
کہ جنید میرے پاس آکر شرارتی انداز میں بوال
سر جی چلی گئی ھے ۔۔۔
میں ہڑبڑا کر بوال
لن تے چڑے جاندی اے تے جاوے۔
تو وہ ہنس کر بوال
استاد بچی تیرے پر مر گئی ھے پکی بات بتا رھا ھوں ۔
تو میں نے کہا جاندے یار کیوں مزاق کررھا ھے
تو جنید بوال جانی میرا بھی تجربہ ھے ۔
میں نے کہا یار لگ تو مجھے بھی رھا جیسے ہرنی کی طرح گانڈ مٹکا کر کمر کو ہال کر پیچھے مڑ کر دیکھ کر گئی تھی
اگر انکل دیکھ لیتے تو
میرے چھتر پڑ جانے تھے
تو جنید بوال استاد لوھا گرم ھے بس تیری طرف سے چوٹ مارنے کی دیر ھے
مین نے کہا سالی موقع تو دے میں تو ایسی چوٹ لگاوں گا کہ کسی اور کی طرف یہ دیکھے گی بھی نھی
تو جنید بوال یار اس بچی کے پیچھے آدھا شہر پڑا ھوا ھے
اور یہ پکے آم کی طرح تیری جھولی میں گر رھی ھے ۔
میں نے کہا جگر تو صبر کر بس ایک دفعہ چانس بننے دے پھر دیکھ میں نے تو اس آم کی گٹھلی بھی نھی چھوڑنی ۔
ابھی ہم باتیں ھی کر رھے تھے کہ
انکل جو پیشاب کرنے گئے تھے دکان میں داخل ھوتے نظر آے تو ہم جلدی سے الگ ھوکر بکھرے سوٹ طے کرنے لگ
گئے ۔۔ میں نے سوٹ طے کر کے انکل کو دوہزار پکڑاے اور کہا کہ ایک کسٹمر کو لہنگا کراے پر دیا ھے تو انکل نے
پوچھا کونسا لہنگا تو مین نے لہنگے کا بتایا تو انکل نے کہا یار بہت کم رینٹ لیا ھے اتنا مہنگا ھے تو میں نے استفسار پیش
کیا اور کہا کہ وہ ہمارے پرانے کسٹمر تھے
کسی اور چیز میں کسر نکال لیں گے ۔
تو انکل چپ کرگئے ۔
شام ہوئی اور میں انکل کے ساتھ گھر چال گیا
اور کھانا وغیرہ کھایا تو
ایک بچہ گھر میں داخل ھوا اور بوال یاسر بھائی آپکو آنٹی فرحت بال رھی ھے ۔
تو امی بھی میرے پاس بیٹھی تھی ۔
مین نے جان بوجھ کر کہا انکو کہو کہ یاسر کی طبعیت سہی نھی ھے ۔
بچہ جیسے ھی جانے لگا تو امی نے اسے آواز دے کر رکنے کا کہا
اور مجھے غصہ ھو کر بولی کہ
یاسر اتنے احسان فراموش نھی بنتے ایک دفعہ انکی بات سن آو ھو سکتا ھے کوئی کام ھو
ہمارے مشکل وقت میں اس نے کتنا ساتھ دیا اور اگر پہلی دفعہ اس نے بلوایا ھے تو جا میرا شزادہ جا کہ بات سن آ۔
).Update no (63
میں تھوڑا سا نخرہ دیکھا کر بچے کو ساتھ لے کر فرحت کے گھر کی طرف چل پڑا
بچہ مجھے دروازے پر چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا ۔۔
میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی یاسر آجاو دروازہ کھال ھوا ھے ۔تو میں حیران ھوتا ھوا اندر داخل ھوگیا کہ
اسے کیسے پتہ چال کہ میں ھوں،
صحن میں آیا تو فرحت چولہے کے پاس بیٹھی چاے بنا رھی تھی ۔
مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی
بڑے بے وفا ھو
بھول ھی گئے کہ کوئی جناب کے انتظار میں روز بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑتا ھے ۔
میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو گھر بلکل خالی تھا شاید اسکی امی اپنے کمرے میں سوچکی تھی ۔
میں نے کہا خالہ جان کہاں ہیں تو
فرحت نے بڑے سٹائل سے اپنے دونوں ھاتھ اپنی گال پر رکھ کر اشارہ کیا کہ وہ سو رھی ہین ۔
میں فرحت کے پاس ھی بیٹھنے لگا تو فرحت نے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ
دروازہ تو بند کر آو
میں اٹھا اور باہر کے دروازے کی طرف دروازہ بند کرنے چال گیا
دروازہ بند کر کے میں پھر چولہے کے پاس آگیا تو فرحت بولی اندر کمرے میں چلو میں چاے لے کر ابھی آئی ادھر دھویں
میں کیسے بیٹھو گے
میں نے فرحت کا جائزہ لیا تو دیکھ کر اسے بس دیکھتا ھی رھ گیا ۔
گورے رنگ پر
ہلکا پیلے رنگ کا سوٹ پہنے ھوے
سرخ لپسٹک لگاے ھوے
حسن کی ساری حدیں پار کرنے پر اتری ھوءی تھی
چاند کی اور بلب کی روشنی میں
دوسرا چاند اس صحن میں چمک رھا تھا
مجھے اپنی طرف غور سے دیکھتے ھوے
فرحت مسکراتے ھوے بولی کیا دیکھ رھے ھو ۔
میں نے نفی میں سر ہالیا اور فرحت کے بیڈ روم کی طرف چال گیا اور کمرے میں داخل ھوا تو کمرہ بلکل صاف ستھرا اور
بیڈ پر بھی بلکل نئی بیڈ شیٹ بچھا ئی ھوئی تھی
جیسے کسی خاص مہمان کی آمد پر خاص اہتمام کیا گیا ھو
میں جاکر بیڈ پر بیٹھ گیا اور کمرے کے دروازے کی دہلیز پر ٹکٹی لگا کر دیکھتے ھوے فرحت کے دلفریب جسم کی جھلک
کا انتظار کرنے لگا،،،،،
میں فرحت کے انتظار میں دروازے کی دہلیز پر نظر ٹکاے اسکے سیکسی جسم اور آنے والے حسین لمحات میں ڈوبا ھوا تھا
کہ فرحت اندر داخل ھوئی اور مجھے یوں سوچ میں ڈوبا ھوا دیکھ کر میری آنکھوں کے آگے ھاتھ ہال کر بڑی شوخی سے
بولی
شہزادہ کدھر کس کے خیالوں میں ُگ م ھے ۔
تو میں نے فرحت کے مسکراتے ہوے ہونٹوں کی طرف دیکھا جن میں عرصہ دراز کی پیاس تھی اور اسکی بڑی سی جھیل
جیسی آنکھوں میں دیکھا جس میں اک شرارت تھی تو میرے منہ سے بےاختیار نکال۔
روئے ،نہ لب ہالئے ،نہ جھپکی کبھی پلک ،۔
تیرے انتظار میں ہم پتھر کے ہوگئے ،۔
تو فرحت کھلکھال کر ہنستے ھوے چاے کی ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھتے ھوے بولی ۔واہ واہ واہ تو جناب شاعر بھی ہیں ۔
تو میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھاتے ھوے کہا۔
کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرؔت ۔
بہت ہے تمہیں اک نظر دیکھ لینا۔
تو فرحت میرا ہاتھ چومتے ھوے بولی
خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں ھو۔
تو میں نے کہا
تمہیں کیا خبر اے جاناں
کب سے دیوانہ ھے یہ دل تیرا۔
فرحت بولی
اس رات آے نھی تھے تم
میں نے فوزیہ کے بھائی کی اچانک موت کا بتادیا اور پھر اس کے بعد ایکسیڈنٹ کا بتایا تو فرحت بولی
میں آدھی رات تک تمہارا انتظار کرتی رھی مگر تم آے نھی
اور اس کے ساتھ ھی فرحت نے آگے ھوکر میری چاے کا کپ پکڑا اور مجھے پکڑاتے ھوئے بولی
اگر تم آج بھی نہ آتے تو میں نے تمہارے گھر خود تمہیں لینے آجانا تھا۔
تو میں نے کہا
آپ کا حکم مال تو میں دوڑا آیا ۔
تو فرحت بولی گھر کیا بتا کر آے ھو
تو میں نے کہا امی نے ھی تو مجھے بھیجا تھا۔فرحت ہممم کرکے چاے کی چسکی لینے لگ گئی ۔
اور پھر دونوں نے کپ خالی کیے اور فرحت ایک منٹ آئی کہہ کر باہر چلی گی اور کچھ دیر بعد فرحت اندر آئی اور
دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی اور پردہ اچھی طرح آگے کر کے بیڈ پر چڑھ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی
میں بھی جوتا اتار کر اوپر پاوں کر کے فرحت کے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا ۔
فرحت ایکدم چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی آنٹی کو کیا بتاو گے کہ میں نے کیوں بلوایا تھا ۔
یہ سن کر میں بھی کچھ پریشان ھوگیا کہ مجھے تو کافی دیر ھوجانی ھے یہ نہ ھو کہ بھائی یا ابو مجھے لینے ادھر پہنچ
جاے
تو میں نے کہا یہ تو میں نے بھی نھی سوچا
ایسا کرتا ھوں کہ میں ابھی چلتا ھوں
اگر آپ کے پاس کوئی تاال ھے تو دے دیں
کچھ دیر بعد جب گھر والے سو جائیں گے تو میں بیٹھک کو باہر سے تاال لگا کر آجاوں گا ۔
ایسے کسی کو شک بھی نھی ھوگا چاھے میں رات بھر آپ کے پاس رہوں آپ بس اپنی بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑ دینا ۔
فرحت کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی بات تو تمہاری سہی ھے کافی سمجھدار ھوگئے ھو
مگر یہ نہ ھو کہ اس دن کی طرح تم پھر نہ آو تو میں نے وعدہ کیا کہ الزمی آوں گا تم انتظار کرنا۔
فرحت بیڈ سے نیچے اتری اور سائڈ ٹیبل کا دراز کھول کر مجھے ایک تاال نکال کر دیا اور کہنے لگی دھیان سے نکلنا گھر
سے یہ نہ ھو کہ تمہیں کوئی آتا دیکھ لے
میں نے کہا آپ بےفکر رھو جی
میں تسلی کر کے ھی آوں گا ۔
میں تاال لے کر جیب میں ڈالتا ھوا کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا تو فرحت بھی میرے پیچھے آگئی اور دروازہ کھول کر
مجھے باہر نکال کر پھر آہستہ سے کہا کہ جلدی آجانا میں اثبات میں سر ہالتا ھوا گھر کی طرف چال گیا
گھر میں داخل ھوا تو صحن کی الئٹ بھی بند تھی شاید گھر والے سب کمروں میں تھے میں سیدھا امی کے کمرے میں گیا
اور بھائی کا پوچھا کہ دکان بند کر کے آگیا ھے کہ نھی تو امی نھ بتایا کہ وہ تو کب کا آگیا ھوا ھے
وہ تو شاید سو بھی گیا ھو صبح چار بجے تو بیچارہ اٹھتا ھے
پھر امی نے پوچھا کہ کیا کہتی تھی فرحت تو میں نے کہا بس ایسے ھی حال چال پوچھ رھی تھی اور کہہ رھی تھی ایک
دفعہ پھر اپنا چیک اپ کروا لینا تو امی فرحت کے صدقے واری جانے لگ گئی
میں نے امی سے سونے کی اجازت لی اور کمرے کی بجاے بیٹھک میں لیٹ گیا
جو کہ اکثر میں لیٹ جایا کرتا تھا کیوں کہ میرا بھائی سوتے ھوے خراٹے بہت مارتا تھا اور اکثر میں اسکے خراٹوں سے
تنگ آکر بیٹھک میں سوجاتا تھا
مگر آج کا بیٹھک میں جانا روٹین سے کچھ الگ تھا
دل میں چور تھا اس لیے ڈر بھی لگ رھا تھا
میں بیٹھک میں لیٹ گیا اور سب کے سونے کا انتظار کرنے لگ گیا وقت تھا کہ گزر ھی نھی رھا تھا
ایک ایک سیکنڈ گھنٹے جیسا لگ رھا تھا ۔
آخر کار جیسے تیسے ایک گھنٹہ گزر گیا ساتھ والے کمرے سے بھائی کے خراٹوں کی آواز بیٹھک میں سنائی دے رھی تھی
میں چپکے سے اٹھا اور پہلے کمرے کی طرف واال دروازہ اندر سے الک کیا اور پھر بڑے آرام سے بیٹھک کا بیرونی
دروازہ کھوال اور جیب سے تاال نکال کر ہاتھ میں پکڑا اور کنڈی لگا کر اس میں تاال لگا کر چابی جیب میں ڈالی اور پھر
فرحت کے گھر کی طرف چل دیا گلیاں سنسان تھی
بس کتوں کے بھونکنے کی آواز آجاتی ۔
مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کیوں کہ پہلی دفعہ اتنی رات کو گھر سے اکیال نکال تھا ۔
آخر کار ڈرتا ھوا فرحت کے گھر کے پاس پہنچ گیا اور ادھر ادھر دیکھتے ھوے بیٹھک کا دروازہ کھوال تو دروازہ اندر کی
طرف کھلتا گیا
اور میں جلدی سے اندر داخل ھوکر دروازہ بند کرکے کنڈی لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا جیسے بڑا لمبا سفر طے
کر کے آیا ھوں ۔۔
فرحت بیٹھک میں ھی بیٹھی ھوئی تھی میری حالت دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آئی اور پریشانی سے پوچھنے لگ گئی
سب خیر تو ھے اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو تو میں نے اسے ہاتھ سے تسلی دیتے ھوے
کہا کہ خیر ھی ھے سب ۔
اور پھر میں بیٹھک سے نکل کر اسکے کمرے کی طرف ایسے چل دیا جیسے میرا اپنا گھر ھو فرحت بھی میرے پیچھے
پیچھے کمرے میں اگئی میں کمرے میں داخل ھوتے ھی بیڈ پر ڈھے گیا
میری ٹانگیں نیچے تھی اور میں آدھا بیڈ پر بازو پھیالے لیٹا ھوا تھا
فرحت نے اندر آکر دروازہ بند کیا اور پردہ سہی کر کے میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میں بھی خود کو ریلیکس کر کے بیڈ
کے اوپر ھوکر بیٹھ گیا فرحت بھی جوتا اتار کر میرے قریب ھوکر بیٹھ گئی
ہم دونوں خاموش بیٹھے ھوے تھے اور
اب ہم۔دونوں پہل کرنے کا انتظار کرنے لگے کہ کس کی طرف سے پہل ھوتی ھے
مجھے پتہ نھی کیوں فرحت کو اتنا قریب پاکر بھی پہل کرنے میں جھجک محسوس ھورھی تھی ۔
آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور فرحت کا ھاتھ پکڑ کر اسے چوم کر بوال
اس دن کے لیے معافی چاھتا ھوں بس ایسے ھی جزبات میں آکر میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا اور فضول باتیں بھی کی ۔
تو فرحت میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ بولی
چھوڑو جو ھوا سو ہوا
غلطی دونوں کی تھی
میں نے بھی تمہارے ساتھ غلط کیا
جس کی وجہ سے میں بعد میں بہت پچھتائی تھی ۔
اور ساری رات تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی۔
اور پھر ساتھ ھی بولی چلو چھوڑو یہ وقت ایسی باتیں کرنے کا نھی ھے ۔
تو میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا اور اسے اسکے گلے سے علیحدہ کردیا ۔
اور اتار کر ایک طرف رکھ دیا فرحت کے کالے لمبے بال اسکی گانڈ تک تھے جس میں فرحت نے اوپر کیچر لگایا ھوا تھا
اور باقی بال کھلے اسکی کمر کو ڈھانپے ھوے تھے
میں نے اسکے ریشمی بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے ھوے اوپر سے نیچے اسکی نرم گانڈ تک لے آیا اور فرحت نے بڑی
دلفریب ادا سے سر کو جھٹک کر بالوں کو جھٹکا دیا اور بال جو میری انگلیوں میں تھے پھسل کر انگلیوں سے ایسے نکلے
جیسے ریت کے ذرے نکلتے ھیں ۔
اور ساتھ ھی فرحت نے گانڈ اٹھا کر نیچے سے قمیض باہر نکالی اور ھاتھ پیچھے لیجا کر بالوں کو پکڑ کر جوڑا بنانے لگی
تو میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس نے میری طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کیا ھے
تو میں نے کہا رہنے دو ایسے ھی کھلے ھوے تو
فرحت مسکرا کر بولی کیوں
فرحت کے دونوں بازو اوپر تھے ۔
جس کی وجہ سے
فرحت کے باریک سوٹ سے اسکا کاال بریزیر صاف نظر آرھا تھا
اسکے 38سائز کے بڑے بڑے ممے بریزیر میں پھنسے ھوے تھے اور بلکل آگے کو تنے ھوے تھے ۔
میں نے فرحت کو اسی حالت میں کمر میں ھاتھ ڈال کر گھما کر اپنے اوپر ال کر خود لیٹ گیا فرحت کے ممے میرے سینے
میں دب گئے اسکے لمبے بال اسکے کندھوں سے آدھے ایک طرف اور آدھے ایک طرف بکھر کر میرے کندھوں کے
دونوں اطراف آگئے۔
میں نے کمر سے ھاتھ ہٹایا اور فرحت کے بالوں میں لگا کیچر کھول کر کھینچا تو اس میں کچھ بال اٹک گئے تو فرحت نے
آئیییییی کیا اور بال نکال دیے
جیسے ھی کیچر سے بال آزاد ھوے تو فرحت کے سلکی سیاہ بالوں نے اسکے حسین چہرے کو دونوں اطراف میں ایسے
ڈھانپ لیا جیسے چاند کو کالے بادل گھیر لیتے ھیں ۔
فرحت کا آدھا جسم بیڈ پر تھا اور پیٹ سے اوپر واال حصہ میراے سینے کے ساتھ لگا ھوا تھا اور فرحت کا چاند سا چہرہ
میرے چہرے کے اوپر تھا اور ہم دونوں کے چہروں کو فرحت کے سیاہ ریشمی بالوں کی چادر نے دونوں اطراف سے
ڈھانپ رکھا تھا۔
میں نے ہاتھ آگے کیے اور فرحت کی نرم گالوں کے دونوں اطراف ھاتھ رکھے اور اس سیکس کی ُپڑیا کے چہرے کو
اپنے منہ کے مزید قریب کیا اور اسکے سرخ لپسٹک والے ہونٹوں پر ایک کس کی اور اس کی آنکھون میں آنکھیں ڈال کر
دیکھنے لگ گیا ۔
تو فرحت نے شرماتے ھوے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کیا ھے ۔
تو میں نے کہا
ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو تو
رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو۔
تو فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو ہو یاسر تم ۔۔۔
ھو سویٹ۔
تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی لٹ کو
ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر پھر کہا
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔
فرحت نے بے ساختہ میر-ے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں
بھرنے کی کوشش کرنے لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔
.فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو ہو یاسر تم ۔۔۔
ھو سویٹ۔
تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی لٹ کو
ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر کہا
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔
فرحت نے بے ساختہ میر-ے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں
بھرنے کی کوشش کرنے لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔
اور فرحت جنونی انداز میں میرے ہونٹ کو چوس رھی تھی اور میں اسکا نیچے واال ہونٹ چوستے ھوے اسکے بالوں میں
دونوں اطراف سے انگلیان پھیر رھا تھا ۔
فرحت کے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک میرے میدے کے اندر جا چکی تھی
اب فرحت کے گالبی موٹے ہونٹوں کی باری تھی ۔
فرحت کے ہونٹوں کا ذائقہ میرے اندر سیکس کی بھوک کو مزید بڑھا رھا تھا
اور فرحت کا بھی حال مجھ سے الگ نھی تھا
فرحت کا بس نھی چل رھا تھا کہ میرے ہونٹ کھا جاتی ۔
وہ اس وقت کسی بھوکی شیرنی کی طرح میرے ہونٹوں کو بےدردی سے چوس رھی تھی
کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے کے اوپر نیچے والے ہونٹوں کو باری باری چوستے کبھی ایک دوسری کی زبان کو قابو
کر کے زبان کا سارا لباب اندر نگھل لیتے۔
مگر پیاس تھی کے ُبھجنے کی بجاے بڑھ رھی تھی
میں نے جوش میں آکر فرحت کے دونوں کانوں پر ھاتھ رکھ کر دبا کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے فرحت کو گھما کر اپنے
نیچے کیا اور خود اسکے اوپر آگیا اور اپنے آپ کو فرحت کی ٹانگوں کے درمیان اڈجسٹ کرنے لگ گیا فرحت نے بھی
ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی والی جگہ کو ُک شادہ کیا اور جب میرا فل ٹائٹ لن پھدی کے اوپر اپنا ذور لگانے لگا تو فرحت
نے اپنی دونوں ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور میری کمر کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ کر پاوں میں پاوں پھنسا کر قینچی ڈال
لی اور اس جنون میں فرحت مجھ پر سبقت لے رھی تھی ۔
فرحت کے ممے میرے سینے میں ایسے دبے ھوے تھے جیسے میں کسی مولٹی فوم کے اوپر لیٹا ھوا ہوں فرحت کا جسم
بھرا بھرا تھا اور اتنا ھی سوفٹ بھی تھا ۔
).Update no ,(64
میرا لن اور فرحت کی پھدی مالپ کے لیے بےچین تھے
فرحت میں اسقدر جنون آچکا تھا کہ اس نے اپنی گانڈ اٹھا کر پھدی کو لن پر جتنا دباو ڈال سکتی تھی ڈال رھی تھی اور میری
کمر کے گرد اسکی ٹانگوں کی گرفت اسقدر سختی پکڑے جارھی تھی کہ مجھے اپنا سانس بند ھوتا محسوس ھورھا تھا
فرحت میرے نیچے لیٹی مجھکو قابو کر کے ٹانگوں کے زور سے کبھی دائیں طرف لے جاتی کبھی بائیں طرف اور میں
بے بس کمزور لڑکی کی طرح اسکی ٹانگوں کی گرفت میں پھنسا اسکی ٹانگوں کے اشاروں پر ادھر ادھر ھورھا تھا
فرحت نے میرے ہونٹ اسقدر ذور سے چوس رھی تھی کہ جیسے ابھی کھا جاے گی
یکلخت فرحت نے مجھے تین چار دفعہ ٹانگوں سے جکڑے دائیں بائیں کیا اور پھر اسکے منہ سے ممممممممم نکال اور
زور زور سے اسکی گانڈ اور کمر جھٹکے لینے لگ گئی اور پھر فرحت کا جسم ایسے ھوگیا جیسے
موت کا فرشتہ اپنی امانت نکال کر لے گیا ھو ۔
فرحت نے میری کمر سے ٹانگیں ہٹا کر ذور سے بیڈ پر ایسے گرائیں جیسے ان میں جان ختم ھوگئی ھو اور ساتھ ھی فرحت
نے میرے ہونٹوں پر ترس کھاتے ھوے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹا کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔
میں نے شکر ادا کیا کہ کچھ دیر اور یہ مجھے اسی حال میں رکھتی تو بس میں تو گیا تھا۔
واقعی استاد استاد ھی ھوتا ھے ۔
میری سیکس ٹیچر تھی تو میں تو اسکے آگے بچہ ھی تھا نہ ۔
مگر یہ اسکی بھول تھی
کیوں کہ
پکچر تو ابھی باقی تھی ۔۔۔۔
فرحت بےسدھ ہوکر لیٹ گئی اور اپنا بازوں آنکھوں پر رکھ لیا جیسے سونے لگی ھو۔
فرحت کی تیز سانسوں کی وجہ سے ممے اوپر نیچے ھورھے تھے
میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا ،اور اسکے گالبی ہونٹوں کے گرد پھیلی ھوئی سرخ لپسٹک صاف کی ۔
اور اسکا بازوں اسکی آنکھوں کے آگے سے ہٹایا تو فرحت کی آنکھیں بند تھیں ۔
میں فرحت کے اوپر سے اٹھا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگ اسکی ُپھدی کے اوپر رکھ لی اور اس کے تنے ھوے ممے
کو پکڑ کر دبانے لگا
فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور اس نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ کے اوپر رکھ کر کہا آرام سے
میں نے اسکے ہونٹوں کو چوما اور کہا درد ھوتی ھے تو فرحت نے اپنی پلکوں کو اٹھایا اور نشیلی آنکھوں سے میری
طرف دیکھ کر صرف ھاں میں سر ہالیا۔
فرحت کے ممے ایک دم ٹائٹ تھے
جیسے ابھرتی جوان ہوتی بچی کے ھوتے ہیں جبکہ اس عمر میں اکثر عورت کے ممے ڈھلک جاتے ہیں۔
میرے ہونٹ بار بار خشک ھورے تھے جن کو زبان سے تر کر کے فرحت کے شربتی ہونٹوں کو چوم کر اس کے حسن کو
دیکھنے لگ جاتا ۔
فرحت مجھے یوں اپنے چہرے کو غور سے دیکھتے ھوے شرما کر آنکھیں بند کرلیتی اور پھر آنکھیں کھول کر میری
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی
کیا دیکھ رھے
میں نے کیا تمہارے حسن کو دیکھ رھا ہوں کہ کتنی فرصت سے بنایا ھے بنانے والے نے
اور یہ کہہ کر میں پھر اس کے گالبی ہونٹوں کو چوم لیتا
فرحت پھر آنکھیں بند کرلیتی
فرحت کے مموں کو میں باری باری دبا رھا تھا مسل رھا تھا انکے ساتھ کھیل رھا تھا ۔
فرحت آنکھیں موندھ کر میرے ھاتھ کے لمس کو اپنے تنے ھوے ممے پر محسوس کر کے مزے کی گہرائیوں میں اتر رھی
تھی
میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور اسکی نرم گال پر زبان پھیرنے لگ گیا اور زبان کو گال پر پھیرتے ھوے اسکے کان
کے قریب لے گیا تو فرحت نے اپنے مموں کو اوپر اٹھایا اور اپنے چہرے کو مذید اوپر لے جاے
کر میری سر کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر
افففففففف سسییییییی کیا اور پھر ایسے ھی مموں کو نیچے لے آئی
میری زبان جب بھی اسکے کان کے ساتھ ٹکراتی فرحت یوں ھی سسکاریاں بھرتی اور میرے سر میں مساج کرنے کے انداز
میں اپنی انگلیوں کو حرکت دیتی
جب اسکی انگلی میرے سر کے زخم سے ٹکراتی جو ابھی تک مکمل سہی نھی ھوا تھا تو مجھے تکلیف ہوتی .تو میرے منہ
سے بھی سی نکل جاتی تو فرحت فورن اس جگہ سے انگلی ہٹا لیتی
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔فرحت اب پھر فل گرم ھوچکی تھی
میں نے فرحت کی حالت کا اندازہ لگاتے ھوے اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹا اور اپنی قمیض کے بٹن اور بازوں کے بٹن
کھولنے لگ گیا فرحت کی آنکھیں اب بھی بند تھی
پتہ نھی وہ کس جگہ کس مقام پر پہنچی ھوئی تھی ۔
مجھ سے بے خبر وہ اپنی مستی میں لیٹی ھوئی تھی ۔
میں نے قمیض اتاری اور ایک سائد پر رکھ دی پھر اپنی بنیان اتار کر سائڈ پر پڑی قمیض کے اوپر رکھ دی
میں نے
فرحت کی گردن کے پیچھے اپنا بازو کیا اور اسکو اوپر اٹھانے لگا ۔
فرحت نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور
مسکرا کر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
فرحت جب اٹھ کر بیٹھی تو اسکے لمبے سلکی ُک ھلے ھوے بالوں نے اسکی کمر کو ُچھپا لیا
اور کچھ بال اسکے چہرے کے آگے آگئے
میں نے فرحت کے کان کے پاس سے اسکے بالوں میں انگلیاں ڈالیں اور انگلیوں سے بالوں کو اوپر اٹھاتا ھوا
ھاتھ کو بالوں کے سروں تک لے گیا
).Update no (65
یہ کیا تم مجھے آپ آپ کہہ رھے ھو.
تو میں فرحت کے ساتھ لیٹ کر فرحت کے ممے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال۔
تو جناب کو کیا کہہ کر بالوں
تو فرحت بڑی شوخی سے بولی
میرا نام لے لو اور کچھ کہہ لو
اب تو ہم ہم نھی رھے
بلکہ
ہم سے تم ھوگئے ہیں ۔
تو میں نے اسی انداز میں ممے پر ٹھوڑی رکھے ھوے اپنا ھاتھ آگے بڑھایا اور فرحت کے گالبی ہونٹوں پر انگلی پھیرتے
ھوے کہا
دل تو کرتا ھے کہ تمہیں
تمہارے حسن کے مطابق نام دوں مگر جب حسن کو دیکھتا ھوں تو کوئی نام اس الئک ھی نھی لگتا کہ جو تمہارے حسن پر
پورا اتر سکے ۔
تو فرحت میری انگلی کو دانتوں میں لے کر دبا کر چھوڑتے ھوے بولی ۔
بہت شوخے ھو۔
مسکے لگانا کوئی سے سیکھے ۔
میں نے کہا نھی جان میں حقیقت بیان کر رھا ھوں
تمہیں کیا پتہ کہ ۔
َم یں تو تم کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے ۔
جب زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی میری۔۔
میری انگلی اب بھی فرحت کے ہونٹوں کے چاروں اطراف گردش کررہی تھی ۔
فرحت میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی یاسر تم اپنی عمر سے بڑھ کر باتیں کرجاتے ھو
تمہارے ساتھ جس لڑکی کی بھی شادی ھوگی وہ خوش نصیب لڑکی ھوگی
تم ہر لحاظ سے فٹ ھو ۔
تو میں نے فرحت کے ہونٹ پر انگلی کو پھیرتے ھوے اسکے منہ کے اندر انگلی کا ایک پورا ڈالتے ھوے اسکے نچلے
ہونٹ کو دباتے ھوے کہا
میری شاعری کا مرکزی خیال عشق ہے ۔
ِادھر ُادھر کے بھی کردار ٓاتے جاتے رہے
مرے سخن کا مگر مرکزی خیال تم ھو۔
تو فرحت نے میرے کانوں پر دونوں ھاتھ رکھے اور میرے سر کو اپنے منہ کی طرف کھینچتے ھوے اپنا منہ میرے منہ کہ
قریب کیا اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر میرے ہونٹوں کا لمبا سا چوسا لے کر بولی
یاسر تم میرے ساتھ ایسا ظلم مت کرو یہ نہ ھو کہ میں تمہیں پانے کہ لیے بغاوت پر اتر آوں ۔
تو میں نے کہا جان تمہیں پتہ ھے کہ عورت کے جسم سے مجھے تم نے آشنا کیا تھا
میں تو چار سال سے تمہارے جسم کے ایک ایک اعضاء کو اپنے دل دماغ میں بساے بیٹھا ھوں ۔
اور خوابوں میں تمہارا یہ سیکسی جسم مجھے دیکھائی دیتا رہتا تھا
اور میں خواب میں تمہارے اس حسین جسم کو چھوتا تھا چومتا تھا چاٹتا تھا
اور سوچتا تھا کہ پتہ نھی میرا خواب کبھی سچ بھی ھوگا کہ نھی
اور آج میرا خواب میری حسرت میری آرزو پوری ھونے جا رھی ھے
اور آج کی رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات ھوگی ۔
ملتا ہے یہ حسن کا مجسمہ بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں۔
اور پھر ساتھ ھی میں نے فرحت کے ہونٹوں کو چوم لیا۔
فرحت مجھ پر واری جا رھی تھی
فرحت بولی
کیا واقعی تم اتنی دیر سے میرے بارے میں سوچتے آرھے ھو تو میں نے کہا
میں جھوٹ نھی بولتا
تو فرحت میری گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولی
اچھا میری جان کے ٹوٹے آج سے میرے جسم کے مالک تم ھو میری روح کے مالک تم ھو
آج سے تم میرے مالک اور میں تمہاری کنیز
اپنی اس کنیز کو حکم دو کہ آج کی رات یہ کنیز اپنے مالک کے لیے کیا کرے۔
تو میں فرحت کے مموں کے ساتھ اپنا سینہ لگا کر اسکے ماتھے پر ہتھیلی رکھ کر بالوں کی طرف پھیرتے ھوے
اور اپنے ہونٹ فرحت کے ہونٹوں کے قریب کر کے اس کی سانسوں کو اندر کھینچتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے آہستہ
سے بوال۔
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو۔
میں صدیوں سے ادھورا ہوں مجھےمکمل کر دو ۔
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے ۔
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو ۔
تم ہتھیلی کو میرے پیار کی مہندی سے رنگو ۔
اپنی آنکھوں میں میرے نام کا کاجل کر دو ۔
تیری زلفوں کے سائے میں میرے خواب دہک اٹھیں ۔
میرے چہرے پہ سیاہ چمکتا ہوا آنچل کر دو ۔
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر۔
اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو ۔
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے۔
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو۔
تم چھپا لو میرا دل اوٹ میں اپنے دل کی۔
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو۔
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے۔
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو۔
اپنے غم سے کہو ہر وقت میرے ساتھ رہے۔
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو۔
مجھ پہ چھا جأو کسی آگ کی صورت جاناں ۔
اور میری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو۔
برسوں سے پیاسا ھوں تیرے اس ُحسن مجسمہ کا۔
آج اس ُحسن مجسمہ کو میرے نام کردو۔
حسرت سے دیکھتا تھا تمہارے ان ابھاروں کو۔
وقت ھے اب آیا میرے سینے سے لگا کر اس میں جزب کردو۔
تمہاری یہ مٹکتی ہوئی گانڈ جو خوابوں میں تھی تڑپاتی ۔
آج رات اسکو میرے لوڑے کے نام کردو
فرحت نے مجھے کس کر جپھی ڈالی اور مجھے گھما کر اپنے نیچے کرلیا اور۔۔۔
میری آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر مسکرائی اور پھر آنکھیں بند کر کے پتہ نھی کیا سوچنے لگ گئی
میرا لن جو اب اکڑ چکا تھا فرحت میرے اوپر اپنی پھدی کو لن کے ساتھ لگاے ھوے اور اپنے مموں کو میرے ننگے سینے
کے ساتھ لگ کر میرے اوپر لیٹی ھوئی تھی اور فرحت کے پاوں میرے پاوں کے ساتھ ملے ھوے تھے
فرحت کا منہ میرے منہ کے بلکل قریب تھا
اسکی تیز چلتی ھوئی سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی
اسکی دل کی تیز دھڑکن میرے سینے پر محسوس ھو رھی تھی
میں نے اپنے دونوں ہاتھ فرحت کی کمر پر رکھے
اور
فرحت کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگ گیا اسکی لمبی پلکوں کی چادر نے
اسکی آنکھوں کے موتی کو چھپایا ھوا تھا ۔
میں نے کمر پر رکھے ھاتھ کی انگلیوں کو فرحت کی ننگی مالئم نرم سی کمر میں پیوست کر کے فرحت کو مخاطب کیا ۔
اب اٹھاؤ نقاب آنکھوں سے
ہم بھی چن لیں گالب آنکھوں سے ۔
تمہارے پاس مے کے پیالے ہیں
میں پیئوں گا آج شراب آنکھوں سے۔
الکھ روکا تمہارے آنچل نے۔
ہم نے دیکھا حجاب آنکھوں سے۔
الجھی الجھی ہے زلف ساون کی
برسا برسا شباب آنکھوں سے۔
لوگ کرتے ہیں خواب کی باتیں
ہم نے دیکھا ہے خواب
آنکھوں سے۔
فرحت نے جیسے ھی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر اپنی جھیل سے آنکھوں کو بے نقاب کیا تو میں نے آنکھوں میں اللی اور
ہوس کا نشہ دیکھتے ھی کہا
آبرو رکھ لو آج رات کی
مل گیا ہے جواب آنکھوں
سے۔
تو فرحت میں جنگلی بلی کی روح نازل ھوگئی اور وہ میرے چہرے کو جگہ جگہ سے چومنے لگ گئی
جیسے چھؤٹے سے بچے پر بہت ذیادہ پیار آجاے تو بچے کے چہرے کو چومتے ہیں
بلکل ایسا ھی حال اسکا تھا
وہ مسلسل میرے چہرے کو ہونٹوں کو آنکھوں کو ماتھے کو چومی جارھی تھی۔
اور ایسے ھی چومتی چومتی نیچے کو کھسکنے لگ گئی
اور میرے گلے سے نیچے میرے سینے سے ہوتی ھوئی میرے پیٹ تک آگئی میرا لن اسکے مموں کے درمیان پھنسا ھوا
فرحت کا گال دبا
رھا تھا
کچھ ھی دیر بعد فرحت کے ہونٹوں کا لمس پھر مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس ھوا اور ساتھ ھی فرحت کی زبان نکلی
اور لن کے ٹوپے پر پھرنا شروع ھوگئی اور یکلخت فرحت نے ٹوپا منہ کے اندر لیا اور ذور سے چوسا لگا کر منہ سے
باہر نکال دیا میرے منہ سے بےاختیار آہہہہہہہہ نکال اور میرے دونوں ھاتھوں نے فرحت کر سر تھام لیا اور سر کو پھر لن
کی طرف دبا کر لن فرحت کے منہ میں گھسا دیا اور میں نیچے سے گانڈ اٹھا کر لن کو منہ کے اندر باہر کرنے لگ گیا
کچھ دیر ایسے ھی کرنے کے بعد
فرحت نے لن منہ سے نکال دیا اور لن کے پیچھے سے پھولی ھوئی نالی پر زبان پھیرتے ھوے ٹٹوں کی جانب بھڑی اور
میرے ٹٹوں کو ہتھیلی میں بھر کر مساج کرنے لگ گئی
میری تو مزے سے جان نکلنے والی ھوگئی تھی ۔
فرحت نے لن کی جڑ پر زبان لیجا کر لن کے نذدیک پٹ اور لن کے درمیان والی جگہ پر جیسے ھی زبان پھیری
دوستوں مجھے جو اس وقت مزہ آیا وہ میں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا۔
کہ اس وقت مزے کی کیا کیفیت تھی ۔
میرے جسم کو ایک ذور دار جھٹکا لگا
تو فرحت جان بوجھ کر زبان کو ادھر ھی پھیرنے لگی جیسے میری جان کی دشمن ھو
اور میں کیسے برداشت کرتا رھا یہ میں ھی جانتا ھوں ۔
آخر کار اسے میری حالت پر ترس آ ھی گیا اور فرحت میرے پٹوں کو چومتی اور چاٹتی ھوئی میرے گھٹنوں تک چلی گئی
اور پھر وہ خود گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
کیسا لگا۔
میں نے دونوں ھاتھ اسکے سامنے جوڑے اور کہا
میری جان نکالنی ھے کیا۔
تو فرحت مسکرا کر گھٹنوں کے بل بیٹھی ھوئی تھوڑا سا اوپر ھوئی اور گانڈ کو اٹھا کر اپنی شلوار کو نیچے کرنے لگ
گئی شلوار میں آج السٹک تھا اسی وجہ سے شلوار آسانی سے نیچے چلی گئی اور پھر فرحت کھڑی ھوئی اور جھک کر
شلوار کو پیروں سے نکال کر بڑے رومینٹک انداز سے گھما کر بیڈ سے
نیچے پھینک دیا۔
اور پھر نیچے جھکی
اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل
چوپایوں کی طرح میرے دونوں اطراف ھاتھ اور گھٹنے بیڈ پر رکھ کر چلتی میرے منہ کی طرف آنے لگی ۔
میری ٹانگیں بلکل سیدھی تھیں اور ایک ساتھ جڑی ھوئی تھی
اور میرا لن تنا ھوا کھڑا فرحت کو للکار رھا تھا۔
فرحت ڈوگی سٹائل میں چلتی ھوئی میرے لن کے ساتھ مموں کو رگڑ کر میرے پیٹ سے مموں کے نپلوں کو مسلتے ھوے
ممے میرے سینے تک لے آئی اور پھر مموں کو تھوڑا اوپر کیا اور پھدی کو لن کے اوپر سیٹ کرنے لگ گئی فرحت نے
ایک ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور دوسرا ھاتھ نیچے لیجا کر میرے لن کو پکڑا اور پھدی کے ہونٹ ٹوپے کے ساتھ کھول
کر لن کو پھدی کے گیٹ پر سیٹ کیا اور مجھ سے بولی یاسر ہلنا مت اور میرا جواب سنے بغیر ھی آہستہ آہستہ گانڈ کو
نیچے کی طرف لیجا کر لن کو پھدی کے اندر کرنے لگی
فرحت کی پھدی گیلی ھی اتنی تھی کہ پھدی کے پانی نے ھی لن کو سیراب کر کے گیال کردیا تھا۔
اور لن بغیر کسی رکاوٹ کے اندر جارھا تھا
فرحت نے آدھا لن ایک ھی دفعہ میں بغیر سٹاپ کے اندر لے لیا تھا اور پھر رک گئی اور دوبارا آرام آرام سے لن کو باہر
نکال کر پھر اندر لے گئی ایسے ھی چار پانچ دفعہ سسکاریاں مارتے ھوے فرحت نے لن سارا پھدی کے اندر کر لیا اور
پھدی کے لبوں کو لن کے جڑ تک لے جا کر فخر سے میری طرف دیکھتے ھوے ۔
آنکھوں سے کہا دیکھ لو پورا لے لیا نہ ۔
اور فرحت لن کو پورا اندر لیے ھوے میرے پٹوں پر بیٹھ کر گانڈ کو میرے پٹوں پر مسلنے لگی میرا ٹوپا فرحت کی پھدی
کے اندر کسی انتہائی نرم اور گرم سے گوشے میں گھسا ھوا تھا شاید بچے دانی تھی ۔
اور فرحت نے اب دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھے ھوے تھے اور لن کو پورا اندر لے کر گانڈ سے چکی چال رھی تھی
اور منہ چھت کی طرف کر کے آنکھیں بند کئے ھوے
سیییییییی اففففففف آہہہہہہہہ کی آوازیں نکال رھی تھی
کچھ دیر ایسے ھی کرنے کہ بعد فرحت پھر مجھ پر جھکی اور گانڈ کو اٹھا اٹھا نیچے ال رھی تھی اور پھدی لن کو ھی
گھسے مار مار کے چود رھی تھی
پھدیاں چودنے واال لن آج خود پھدی سے ُچد رھا تھا
فرحت کی گانڈ کی سپیڈ تیز ھوتی جارھی تھی
میں نے بھی دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ کی چھلکتی ھوئی پھاڑیوں پر رکھے ھوے تھے
فرحت کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی اور اسکی سپیڈ اتنی تیز ھوگئی تھی
کے میرے ھاتھ اسکی گانڈ پر ٹک نھی رھے تھے
بلکہ اسکے ہر واپس اوپر کو آتے گھسے سے میرے ھاتھ اسکی گانڈ سے اچھل جاتے
اور فرحت اسی سپیڈ سے پھدی کے لبوں کو ٹوپے تک ال کر واپس جڑ تک لے جاتی
یکلخت فرحت کی سسکاریاں تیز ھوئی فرحت نے دونوں ھاتھ میری بغلوں سے نیچے سے گزار کر میرے کندھوں کو ذور
سے پکڑ لیا اور ممے میرے سینے کے ساتھ چپکا کر اپنا اگال سارا وزن مجھ پر ڈال کر پیٹ سے اوپر والے حصے کو
میرے ساتھ چپکا لیا اور پیچھے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر میرے لن کو پھدی سے چودنے لگی
اسکے گھسوں کی شدت سے بیڈ ہلنے لگ گیا اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آنے لگ گی فرحت کے ناخن میرے کندھے
میں چبھنے لگ گئیے اور فرحت نے آخری گھسا اس ذور سے مارا کے بیڈ ذور سے ہال جیسے زلزلہ آگیا ھو
اور فرحت کے منہ سے بس اتنا ھی نکال ھاےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےگگےگگگگگ
گئی۔
اور ساتھ ھی میرے لن کو گرم گرم منی نے نہال دیا ۔
اور فرحت سے جتنا زور لگ سکا اس نے اتنا ھی گانڈ کا ذور لگا کر پھدی کے اندر جڑ تک لن کو پہنچا کر میرے اوپر
وزن ڈال دیا اور جھٹکے کھاتا ھوا اسکا جسم مجھے بھی ساتھ ہال رھا تھا اور فرحت کی اکھڑی اور تیز تیز سانسیں اور دل
کی تیز دھڑکن میرے سینے پر دھک دھک کر رھی تھی
اور فرحت
ُبنڈ واال زور ال کے فارغ ھو گئی اور۔۔۔۔۔
فرحت فارغ ہوکر بےجان ہوکر پورا وزن مجھ پر ڈالے لیٹی ہوئی تھی ۔
اور میں اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد فرحت نارمل ہوئی اور میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اور اسکو گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود اسکے
اوپر آگیا
فرحت بلکل خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی۔
فرحت کے یوں خاموشی سے لیٹے رہنے پر مجھے اپنے استاد محترم کا قول یاد آگیا
کہ پتر
سیکس کے بعد عورت کی خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ تم نے چود چود کر اسے الجواب کر دیا ہے۔
میرا لن ابھی بھی فرحت کی گیلی پھدی میں ھی تھا ۔
فرحت بولی یاسر میری بس ہوگئی ہے
میں نے کہا اتنی جلدی میں نے تو ابھی کچھ کیا ھی نھی ۔
تو فرحت بولی یاسر آج تم نے میری برسوں کی پیاس بجھا دی ھے
تو میں نے کہا
یاسر کی جان ابھی تو میں نے اپنی برسوں کی پیاس بجھانی ھے ۔
اور اسکے ساتھ ہی میں نے فرحت کی ٹانگیں اوپر کیں اور گھسے مارنے شروع کردیے ۔
میرے گھسوں سے فرحت کے ممے کبھی میری طرف آتے تو کبھی فرحت کے منہ کی طرف
فرحت کے ہلتے ممے دیکھ .کر میرا جوش مذید بڑھ رھا تھا۔۔
فرحت آہ آہ آہ آرام سے آرام سے کرو نہ درد ہورہی ھے آرام سے آرام سے
کہی جارھی تھی اور اسکی آہ میں بھی مزہ تھا اسکی آواز میں بھی نشہ تھا
میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا اورٍ فرحت کی سیکسی آوازوں سے مجھ پر نشہ طاری ہوتا جارھا تھا۔
دس پندرہ منٹ میں فرحت کو اسی سٹائل میں چودتا رھا
فرحت بولی یاسر میری ٹانگیں تھک گئی ہیں ۔
میں نے فرحت کی ٹانگیں نیچے کی اور فرحت کو گھوڑی بننے کا کہا۔
تو فرحت تھوڑا نخرہ کرنے کے بعد الٹی ہوگئی
اور اپنی گول مٹول گانڈ کو ہالتے ہوے اپنی پوزیشن سیٹ کر نے لگی ۔
میں بھی فرحت کے پیچھے گھٹنوں کے بل ہوکر لن کو جڑ سے پکڑ کر فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں پھیرنے لگ گیا
میرا ٹوپا جیسے ھی فرحت کی گانڈ کی موری کے ساتھ لگا
فرحت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کرکے لن کو موری سے ہٹا کر پھدی کی طرف کردیا اور مجھ سے بولی
یاسر پلیز
پیچھے سے نہ کرنا مجھ سے برداشت نھی ھوگا۔
تو میں نے کہا کچھ نھی ہوتا جان بس ہلکا سا درد ھوگا
اسکے بعد مزے ھی مزے ہیں ۔
تو فرحت بولی
یاسر پیچھے سے بھی بھال کوئی کرتا ھے
لن پھدی کے لیے بنا اور پھدی لن کے لیے ۔
تو پھر گانڈ میں کیوں کررھے ھو ۔
میں نے کہا جان تمہاری گانڈ ھی اتنی مست اور سیکسی ھے کہ میں چار سال سے اسکا ُچھپا ہواعاشق ہوں ۔
اور آج میرے لن کے نصیب ُک ھلے ہیں تو تم
یوں انکار کر کے اس بیچارے کا دل تو نہ توڑو۔
تو فرحت بولی ۔
پہلے آگے سے تو کرو پھر جب میں کہوں گی تو پیچھے سے بھی کرلینا۔
فرحت نے یہاں عیاری دیکھائی تھی کے میں ذیادہ دیر پھدی سے مقابلہ نھی کرسکوں گا اور پھدی میرے لن کو مات دے دے
گی تو اس طرح اسکی گانڈ کی جان بخشی ھوجاے گی۔
مگر یہ اسکی بھولی تھی ۔۔
کیوں کے میری پکچر کے تو ابھی نمبر ھی چل رھے تھے پوری پکچر تو ابھی باقی تھی ۔
خیر میں نے لن کو سمجھا بجھا کر فرحت کی گول مالئم گانڈ پر ایک ہاتھ رکھا اور دوسرا ہاتھ فرحت کے کندھوں کے پاس
لیجا کر نیچے کو دبایا جس سے فرحت آگے سے نیچے جھک گئی اور اسکی گانڈ مذید پیچھے سے اونچی ہوگئی تھی ۔
میں نے ٹوپے کو پھدی کے لبوں پر سیٹ کیا
اور دونوں ہاتھوں سے فرحت کی کمر کو پکڑا اور ایک جاندار گھسا مارا لن نان سٹاپ پھدی کی گہرائی میں چال گیا اور
کمرے میں تھپ کی آواز گونجی ۔
ایک ھی جھٹکے میں جب جڑ تک پورا لن بچے دانی تک گیا
فرحت کے منہ سے
آئییییییی مرگئی میں یاسررررر
نکال اور اسکا سر جاکر بیڈ کے ٹیک سے لگا اور لن باہر نکل کر گانڈ کے اوپر جھومنے لگا۔
فرحت کی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر
ایک بار پھر
مجھے اپنے استاد محترم کا قول یاد آگیا کہ
ُپتر
جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس کی کامیابی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔اسی طرح ہر گھوڑی
بنی عورت کے پیچھے ایک مرد کھڑا ہوتا ہے جو اسے چودنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
استاد محترم کی بات یاد آتے ھی مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا
اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر پھر فرحت کی کمر کو پکڑا ،اور
گاڑی بیک کی اور ِڈ کی اوپر کر کے پھر لن کو اسکی آرام گاہ تک پہنچایا
جیسے ھی لن پھدی کے پاس پہنچا تو
فرحت گردن گھما کر بولی یاسر اب آرام سے کرنا
میرا اندر ہال کے رکھ دیا تھا
اتنا بھی جوش مت دیکھو
مانا کہ تم جوان ھو۔
میں نے فرحت کی گول مٹول گانڈ پر ایک ذور دار تھپڑ مارتے ہوے کہا آج درد کا بھی مزہ لو جان ۔۔۔
تو فرحت کے منہ سے سسکاریییی نکلی اور فرحت بولی
ھاےےےےےےے مار دتا ایییی ظالماں
اور اس کےساتھ لن کو پھر ایک دھکے میں سارا اندر پہنچا دیا
فرحت نے پھر آگے کو ہونے کی کوشش کی مگر میں نے اسکی کمر کو پہلے ھی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا
فرحت پھر ھاےےےےے کر کے بولی یاسرررررر نھی باز آے نہ ۔
میں نے پھر اسکی گانڈ پر تھپڑ مارا اور فرحت کی سسکاری سن کر
چار پانچ گھسے لگا تار مار دیے اور
ساتھ ھی اس کے لمبے بالوں کو اکھٹا کر کے ہاتھ میں پکڑ کر
گھوڑی کی لگامیں قابو کر لیں اور گھسے مارنے شروع کردیے
میرے جاندار گھسوں سے فرحت کے ممے اسکے منہ تک جانے کی کوشش کررہے تھے
اور اسکی گانڈ تھر تھرا کر اپنی سوفٹنس کا اظہار کر رھی تھی
فرحت کا بال میں نے کھینچے ہوے تھے جسکی وجہ سے فرحت کا منہ اوپر کو اٹھا ھوا تھا
میں مسلسل گھسے مار رھا تھا فرحت کی مزے میں ڈوبی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رہیں تھی ۔
فرحت کی گانڈ کے ساتھ گھسوں سے لگنے والے میرے پٹ
تھپ تھپ کررھے تھے
پھدی کی چکناہٹ اور لن کی فراوانی سے
پچ پچ کی آواز آرھی تھی
کمرے میں فل میوزک شو چل رھا تھا
سات ُسروں واال سیکس
خاموش رات میں اپنا ھی سنگیت سنا رھا تھا
فرحت مزے میں پھر غرق ہوتی جارھی تھی
اور اس کی سیکسی آوازیں مجھے گرانے پر مجبور کر رھی تھیں
مگر میرے ارادے بھی پختہ تھے
میں کیسے اسکی پھدی کے آگے ہار مان لیتا
میں تو پھدی پر سبقت لینے کے چکر میں گھسوں کی سپیڈ بھڑاے جارھا تھا
اور آخر کار ہار پھدی کے نصیب میں ہوئی اور پھدی نے ہاتھ جوڑ کر آنسو بہاتے ھوے میرے لن کو بھی گیال کرنا شروع
کردیا
اور فرحت پیچھے کو پورا ذور لگا کر گانڈ میرے پٹوں کے ساتھ جوڑ کر پھدی کو بھینچنے لگ گئی اور فرحت کی آخری آہ
ہہہہہہہہ نکلی اور فرحت سر خم کر کے تکیے پر گر گئی اور میں پھر گانڈ پر ہاتھ رکھے
فرحت کی پھدی سے نکلتی گرما گرم منی اپنے لن پر اور ٹٹوں پر محسوس کرنے لگا اور گھسوں کو روک کر
کہا۔
آئی وڈی سیاست دان۔۔۔۔
فرحت کی حالت دو دن قبل مرے ہوے ُک تے جیسی ھوگئی تھی
ہوتی بھی کیسے نہ تین دفعہ تو فارغ ہوچکی تھی ۔
فرحت نڈھال گھوڑی بنی سر تکیے پر رکھے لمبے لمبے سانس لے رھی تھی ۔
اور میں اسکی کمر پر انگلیاں پھیر کر اپنی ھی انگلش لکھ رھا تھا اور اسکے ریلیکس ہونے کا انتظار کررھا تھا۔
تین چار منٹ گزر گئے فرحت خاموش لیٹی رھی میں نے اسے ہالے کہ کہیں سو تو نئی گئی ۔
تو فرحت غنودگی سی حالت میں بولی
یاسر بسسسسسسسس
اور ساتھ ھی اس نے ٹانگیں سیدھی کی اور گانڈ نیچے کر کے پھدی میٹرس کے ساتھ لگا کر الٹی لیٹ گئی ۔
میرا لن ترسی اکلوتی نگاہ سے گانڈ کو دیکھ رھا تھا میں فرحت کے اوپر جھکا اور لن کو گانڈ کی دراڑ میں کر کے فرحت
سے کہا
اجازت ھے ۔
تو فرحت نے گردن گھما کر پھر تھکے ھوے انداز میں کہا
معافی نھی مل سکتی
میں نے کہا آج معافی نھی ۔
تو فرحت بولی
تو پھر ایسا کرو
ڈریسنگ ٹیبل کے دراز میں
سرسوں کے تیل کی شیشی پڑی ھے
وہ نکال کر لے آو اور اچھی طرح اپنے اس گھوڑے پر اور میرے معصوم سوراخ پر لگا دو میں جلدی سے چھالنگ لگا کے
ڈریسنگ ٹیبل کے پاس پہنچا اور دراز کھول کر پلسٹک کی تیل والی ُک پی نکالی اور اسکا ڈھکن کھول کر اپنی ہتھیلی پر تیل
نکاال اور ہتھیلی کو لن پر الٹ دیا اور اچھی طرح تیل سے لن کو چوپڑ کر تیل والی ُک پی کو لے کر بیڈ پر آگیا
فرحت کی گانڈ کی پھاڑیوں کو کھول کر دراڑ کے اندر نیم کنواری موری پر تیل کی کپی سے تیل چھوٹی سی دھار پھینکی
اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو پھدی کے پاس رکھ کر نیچے جاتے ھوے تیل کو واپس موری پر ال کر اچھی طرح موری
کے ِک نگروں کو تیل سے تر کیا اور تیل سے موری کے کنگرے کافی سوفٹ یوچکے تھے
پھر میں لن کے ٹوپے کو موری پر سیٹ کرنے لگا
ابھی میں دباو ڈالنے ھی لگا تھا کہ
فرحت بولی یاسر آرام سے کرنا
میں نے ہلکا سا ُپش کیا تو موری کا منہ کھولتا ھوا ٹوپا اندر چال گیا
فرحت کے منہ سے
ھاےےےےےےےے نکال
اور اس نے گانڈ کو ذور سے بھینچ لیا۔
اور مجھے باہر نکالنے کو کہا
میں نے ٹوپے کو باہر نکاال اور کچھ دیر بعد دوبارہ ٹوپے کو اندر کردیا
فرحت نے پھر .ھاےےےےےےے مرگئی کیا
مگر اب اس نے باہر نکالنے کو نھی کہا تھا
میں آہستہ آہستہ لن کو اندر لیجانے لگا ۔
فرحت کو جہاں ذیادہ درد ہوتی وہ مجھے روک دیتی۔
کچھ دیر ایسے ھی تھوڑا سا لن اندر لیجاتا اور پھر باہر نکال لیتا۔
میں نے فرحت کو کہا کہ تم ٹیڑھی ھو کر لیٹو تو فرحت دوسری طرف منہ کر کے گانڈ میری طرف کر کے لیٹ گئی
میں فرحت کے پیچھے تھوڑا نیچے ھوکر لیٹ گیا
میں نے فرحت کی ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسکو گانڈ مزید پیچھے کرنے کو کہا
تو فرحت نےگانڈ کو کھسکا کر اور باہر نکال لیا میں نے اسکی ٹانگوں کو اسکے پیٹ کی طرف کیا اب اس کے دونوں
ُگ ھٹنے اسکے پیٹ کے ساتھ لگے ھوے تھے
اور گانڈ کی دراڑ پوری کھلی ھوئی تھی
میں نے لن کو پکڑ کر موری پر رکھا اور ایک ہاتھ سے فرحت کا مما پکڑا اور ایک گھسا مار کے آدھا لن گانڈ کے اندر اتار
دیا۔
فرحت پھر ھاےےےےےےےھھ افففففففف کر کے رہ گئی۔
میں نے پھر لن کو باہر نکاال اور پھر گھسا مار کر موری کو مذید کھولتے ہوے آدھے سے ذیادہ لن اندر اتار دیا
اور فرحت نے غصے میں آکر گانڈ کو پورے ذور سے آئییییییی کرتے ھوے پیچھے میرے پٹوں کے ساتھ مال کر قصہ ھی
تمام کردیا اور لن سارا گانڈ کے اندر چال گیا۔
کچھ دیر میں لن کو اندر کیے لن کو گوالئی میں گھوماتا رھا اور پھر .اپنا ایک بازو فرحت کی بغل میں سے گزار کر آگے
کی طرف لے گیا اور اسکا ایک مما پکڑ لیا۔
پھر دوسرا بازو فرحت کے دوسرے بازو کے نیچے سے گزار کر دوسرا مما بھی پکڑ لیا ۔
اور دونوں مموں کو مٹھیوں میں قابو کر کے گھسے مارنے شروع کردیے
فرحت درر سے ھاےےےےھھ امییی ھاےےےےھ مرگئی
اففففففف ظالماں ہولی
کر ہولی کر ۔۔
کری جارھی تھی اور مجھے اس کی آوازوں سے مذید شیاری آرھی تھی اورمیں ذور ذور سے گھسے مار رھا تھا
چار پانچ منٹ ایسے ھی فرحت کی گانڈ کو چودتا رھا
تو فرحت کی جب بس ہوگئ اور درد بڑھ گئی تو فرحت نے میری گانڈ کو تھپتھپا کر مجھے رکنے کا اشارا کیا اور بولی یاسر
میں الٹی ہوتی ہوں تم اوپر آجاو۔
میں جس حال میں تھا ویسے ھی فرحت کے دونوں مموں کو پکڑے اور لن گانڈ میں اتارے فرحت کو گھما کر الٹا کیا اور
اس کے اوپر الٹا لیٹ کر
گھسے مارنے لگ گیا
دوستوں فرحت کا جسم تھا کہ ماسٹر کے مولٹی فوم کا گدا
میرے دونوں ہاتھوں میں فرحت کے ممے تھے جو میٹرس کے ساتھ لگے تھے
مگر میرے الٹے ھاتھ میٹرس کے ساتھ لگے تھے اور میری ہتھیلیوں میں فرحت کے نرم نرم ممے تھے اور جب میں گھسا
مارتا تو فرحت کے ابھرے ھوے چتڑوں پر آکر جب میرے پٹ لگتے تو
کیا مزہ آتا کیا ھی نشہ چڑھتہ۔
فرحت میرے نیچے الٹی لیٹی تڑپ رھی تھی سسک رھی تھی
اور کہہ رھی تھی
یاسرررر جلدی کرلو
ھاےےھھھ اور کتنی دیر
لگاو گے ۔۔ھاےےےےےےے میریے مائیں ۔
ھاےےےےےےےے مرگئی ۔۔۔۔
یاسر بسسس کرو
توبہ ھے
جتنا لمبا تمہارا لن ھے اتنا لمبا ھی تمہارا چھوٹنے کا ٹائم ہے
نہ لن تھوڑا نہ ٹیم تھوڑا
میرے گھسے شدت اختیار کررھے تھے اور
فرحت کی فریادیں اور گلے شکوے بھی شدت اختیار کررھے تھے
پھر یوں ھوا ۔
کہ
کیا ھوا
وہ ھی ھوا
جو ہوتا ھے.
میرے گھسوں کی رفتار بڑھی اور ساتھ ھی فرحت کی گانڈ کو میرے لن نے منی سے سیراب کرنا شروع کردیا
اور فرحت نے بھی شکر ادا کیا
کہ جان چھوٹی
میں فارغ ہوکر فرحت کے اوپر ھی لیٹا رھا اور لمبی لمبی سانسیں لے کر لن گانڈ سے نکال کر اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا
فرحت کچھ دیر ایسے الٹی لیٹی رھی
اور پھر فرحت نے ھاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل کے دراز کو کھوال اور اس میں سے ایک کپڑا نکال کر اپنی گانڈ کی موری پر
رکھا اور گانڈ سے نکلتی منی کو صاف کر کے کپڑا میری طرف بڑھایا میں نے بھی کپڑے سے اچھی طرح لن کو صاف
کیا اور کپڑا نیچے پھینک دیا۔
فرحت ھاےےےےے کر کے سیدھی ہوئی اور ایک ٹانگ کو بینڈ کر کے دوسری ٹانگ اس کے اوپر رکھ کر لیٹ گئی
اور میری طرف دیکھ کر بولی
یاسر تم بہت ظالم ہو ۔میں نے مسکرا کر کہا کیا ھوا جان جی ۔
فرحت بولی
توبہ توبہ کرادی ھے اور اب بھی پوچھ رھے ہو کیا ہوا۔
میں نے کہا
ابھی تو ایک شارٹ اور لگانا ھے ۔
تو فرحت نے تکیہ اٹھا کر مجھے مارتے ھوے کہا
ٹہھر جا بتاتی ہوں تمہیں۔
مارنا ھے مجھے ۔
پہلے ھی میرے آگے پیچھے درد ھورھی ھے
اور تم پھر کرنے کو کہہ رھے ھو
ابھی دل نھی بھرا کیا۔
میں نے کہا
دل اتنی جلدی بھرنے واال نھی
تم چیز ھی ایسی ھو کہ ساری رات بھی تمہیں چودوں تو دل نھی بھرے گا۔
اور نہ ھی میں تھکوں گا ۔
تو فرحت نے کالک کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا زرہ ٹائم دیکھو کتنی دیر لگائی ھے تم نے ۔
میں نے کالک کی طرف دیکھا تو
ایک بج چکا تھا
میں بھی پریشان ھوگیا کہ
اتنا وقت گزرگیا اور مجھے پتہ بھی نھی چال۔
فرحت بولی یاسر ایک بات پوچھوں سچ سچ بتانا۔
جھوٹ مت بولنا
میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم سے نہ ناراض ہوں گی اور نہ ھی کچھ کہوں گی
مگر تم سچ بولو گے ۔
میں نے فرحت کے ساتھ لیٹتے ھوے پوچھا
جی پوچھیں ۔
تو فرحت بولی
تم نے پہلے کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا ھے
۔
میں فرحت کے اس اچانک کئے گئے سوال سے گبھرا گیا اور
بوال
کککسی سے بھی نھی ۔
تو فرحت بولی
یاسر میرے ساتھ جھوٹ نہ بولو
تم جس انداز سے میرے ساتھ کررھے تھے
یہ ہو ھی نھی سکتا کہ تم نے کسی کے ساتھ نہ کیا ھو۔
تم ایک تجربہ کار اور منجھے ھوے چودو ھو
تمہارا چودنے کا ہر طریقہ ھی تمہارے
تجربہ کار ہونے کی گواہی دیتا ھے ۔
اگر تم مجھے نھی بتانا چاہتے تو بیشک نہ بتاو
میں یہ ھی سمجھوں گی کہ تم مجھے اس الئک نھی سمجھتے۔
میں نے کہا کیسی باتیں کررھی ھو۔
فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی
تو پھر بتاو نہ کہ کس کس لڑکی کو چود ُچکے ھو۔
میں نے کہا
پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس لڑکی سے بات نھی کرو گی اس بارے میں۔
فرحت بولی میں پہلے بھی اس بات کا وعدہ کرچکی ہوں
میں نے کہا
وہ میری ٹیویشن ٹیچر ھے ہماری پچھلی گلی میں رہتی ھے
اس سے دو تین دفعہ کیا ھے ۔
فرحت بولی اسکا نام کیا ھے میں نے کہا
صدف
تو فرحت حیرانگی سے بولی
یہ وہ ھی لڑکی ھے نہ جو شہر سالئی کڑھائی کا کام دیکھنے جاتی ہے۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔
تو فرحت منہ بسور کر بولی بڑی ُچھپی ُرستم ھے ۔
میں نے فرحت کے چہرے اور لہجے میں حسد محسوس کرلیا تھا ۔
اور مذید کچھ نہ بتانے کا بھی سوچ لیا تھا۔
فرحت بولی اس سے کیسے سیٹنگ ہوگئی تمہاری
اور کتنی دفعہ کیا ھے اور کہاں کیا ھے ۔
میں نے فرحت کو مختصرًا بتا دیا کہ
بس ایسے ھی آنکھ مٹکے سے سیٹنگ ہوگئی تھی اوت بس تین دفعہ ھی کرنے کا موقع مال وہ بھی اسکے گھر ھی
تو فرحت جیلسی پن سے بولی ۔
اب کب کرو گے اسکے ساتھ
میں نے اسکی ذہنیت دیکھتے ھوے کہا۔
جب تمہارے جیسی حسین دوشیزہ کی قربت نصیب ہوگئی ھے تو میں اس کی طرف دیکھوں بھی نہ
کہاں وہ ۔کہاں تم
تو فرحت کے چہرے پر غرور کی لہر آئی اور
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا ہاتھ میرے لن کی طرف لیجا کر لن کو مٹھی میں بھر لیا اور بولی
تمہارے اس گھوڑے نے بھی مجھے تمہارا مرید کر لیا ھے ۔
اور لن کو مٹھی میں لے کر دبانے لگی
لن بھی پھر سے سختی پکڑنے لگ گیا۔
صدف کا ذکر چھڑتے ھی مجھے اسکی بات یاد آگئی کے یاسر تم میرے اندر فارغ ہوگئے ھو اگر کچھ ہوگیا تو
میں سوچنے لگ گیا کہ فرحت سے اس کے بارے میں پوچھوں کہ نہ پوچھوں ۔
پھر میں نے سوچا کہ اگر اب صدف کا ذکر کیا تو یہ سالی پھر نہ موڈ بنا لے
اسلیے میں نے ارادہ بدل دیا ۔
اور فرحت کے ممے کو پکڑ کر کھیلنے لگ گیا۔
میرا لن فرحت کے ھاتھ میں آتے ھی فل ٹائٹ ھوگیا
اور
میرا پھر موڈ بننے لگا کہ ایک شفٹ ہو جاے
لن بھی تیار تھا فرحت کا موڈ بھی بن رھا تھا
مگر ٹائم بہت ذیادہ ہوگیا تھا
میں نے دوبارا کالک کی طرف دیکھا تو آدھا گھنٹہ مذید گزر چکا تھا ۔
میں نے فرحت کو کہا کیا موڈ ہے ۔
تو فرحت بولی ساری کسر آج ہی نکال دینی ھے کچھ پھر کسی دن کے لیے باقی رہنے دو۔
تو میں نے کہا آپ کی امی اتنی بےسد سورھی ھوتی ھے ۔
تو فرحت بولی
میں نے آج انکو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی اس لیے مجھے انکی کوئی پریشانی نھی ھے ۔
میں نے شرارت سے پوچھا
کہ
لگتا ھے آج پورے موڈ میں تھی
اگر میں نہ آتا تو۔
فرحت بولی نہ آتے تو تمہیں گھر سے اٹھا کر لے آنا تھا۔
میں نے کہا واہ جی واہ
ہن ساڈے نال بدمعاشیاں چلن گئیاں ۔
فرحت بولی
کبھی کبھی کچھ پانے کے لیے بدمعاشی بھی کرنا پڑتی ھے ۔
میں اچھا جی کہہ کر فرحت کے ہونٹوں پر کس کی اور کپڑے پہننے لگا
فرحت بولی پھر کب آو گے تو میں نے کہا جب جناب کا حکم ہوا
فرحت بولی
اب جب ملنا ھوگا تو میں تمہیں ایک دن پہلے بتا دوں گی ۔
میں نے کہا ٹھیک ہے اگلی دفعہ کچھ نیا کروں گا کہ تم یاد رکھو گی ۔
فرحت میرے بازو پر مکا مارتے ھوے بولی ابھی بھی کچھ نیا کرنے والے رہتا ھے ۔
میں نے کہا ۔
وہ تو کب ملیں گے تو پتہ چلے گا کہ ابھی کتنا کچھ رہتا ھے ۔
فرحت بولی
یاسر یہ سب کہاں سے سیکھا ھے
اتنی دیر میں
میں نے کپڑے پہن لیے تھے اور شلوار کا ناال باندھتے ہوے بوال۔
جب دوبارا آیا تو بتاوں گا ۔
فرحت جان بوجھ کر باتوں میں لگا رھی تھی کہ پھر کچھ کروں مگر میرا دھیان پیچھے گھر کی طرف تھا اور ڈر بھی رھا
تھا کہ اتنی رات کو کیسے جاوں گا اگر کسی پہرے دار نے دیکھ لیا تو اس نے صبح ابو کو یا بھائی کو بتا دینا ہے۔
تو میری خیر نھی پھر ۔
میں نے کپڑے درست کیے اور کالک کی طرف دیکھا تو دو بج چکے تھے ۔
میں نے فرحت کو کہا ٹائم کافی ہوگیا ھے ابھی مجھے جانا چاھیے ۔
تین بجے ابو اٹھ جاتے ہیں ۔
تو فرحت جلدی سے اٹھی اور کپڑے پہننے لگی
فرحت نے کپڑے پہنے اور مجھے رکنے کا کہا اور دروازہ کھول کر باہر صحن میں نکل گئی کچھ دیر بعد۔
فرحت اندر آئی اور مجھے چلنے کا کہا
میں اس کے پیچھے چلتا ہوا
بیٹھک میں پہنچا اور اس نے بیٹھک کا دروازہ کھوال اور باہر سر نکال کر گلی کا جائزہ لیا ۔
اور اوکے کا اشارہ کیا اور میں باہر نکلنے لگا تو فرحت بولی ایسے ھی جاو گے ۔
تو میں واپس مڑا اور اسکو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں کا لمبا سا چوسا لیا اور باہر گلی میں نکل کر ڈرتا ڈرتا
گھر تک پہنچا اور تاال کھول کر بیٹھک میں داخل ہوا ۔
کان لگا کر گھر کے حاالت کا جائزہ لیا
مگر ہر طرف شانتی ھی تھی ۔
میں نے شکر ادا کیا اور بستر پر لیٹ گیا کچھ دیر فرحت کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرتا ھوا نہ جانے کب سوگیا۔
صبح امی نے مجھے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا۔
میرا اٹھنے کو دل ھی نھی کر رھا تھا
مگر مجبوری تھی
اٹھا نہا دھو کر تیار ہو کر ناشتہ کیا اور
سیدھا فوزیہ کے گھر پہنچا
تو دیکھا فوزیہ گھر میں اکیلی ھی تھی
میں نے عظمی اور نسرین کا پوچھا تو فوزیہ بولی عظمی کو گئے تو ایک گھنٹہ ہوگیا ھے۔
اور نسرین کی طبعیت سہی نھی تھی اس لیے وہ نھی گئی۔
میں نے حیران ہوکر فوزیہ سے پوچھا
کہ عظمی اتنی جلدی کیوں گئی ھے اور آپ نے اسے اکیلی کو بھیج دیا۔
فوزیہ بولی ۔
وہ کہہ رھی تھی کہ اسکے پیپر کی کچھ تیاری رہتی تھی
تو اس کی سہیلی نے کچھ گیس دینے تھے اسے اور وہ اس لیے جلدی چلی گئی تھی شاید اس نے سکول میں تیاری کرنی ہو
۔
مجھے دال میں کچھ کاال لگا اور غصہ بھی آیا عظمی پر ۔
میں نے کہا پھر بھی آپکو اسے اکیلی کو نھی بھیجنا چاہیے تھا
).Update no (66
فوزیہ بولی
اس کے باپ نے سر پر چڑھا رکھا ھے
میں کچھ کہتی ہوں تو ۔
تمہارا چاچا مجھے بولنے لگ جاتا ۔
اپنی مرضیاں کرتی ھے ۔
میں نے کہا بھی تھا کہ خالہ کے گھر چلی جاو اور یاسر کو ساتھ لیتی جاو
مگر اس لڑکی پر جلدی جانے کا بھوت سوار تھا جیسے اس کی گاڑی نکل جانی تھی ۔
میں نے نسرین کا پوچھا اس کی طبیعت کو کیا ہوا تو فوزیہ کچھ چھپانے کے انداز میں بولی
کچھ نھی بس ہلکا سا بخار ھوا ھے دو تین دن میں اتر جاے گا۔
میں نے ہممم کہا اور ذیادہ تفصیل نھی پوچھی اور
فوزیہ کو سالم کر کے گھر سے نکل آیا ۔
پہلے تو میں سیدھا دکان کی پر جانے لگا
پھر مجھے خیال آیا کہ صدف شاید ابھی گھر پر ھی ھو اسے ساتھ لیتا جاتا ہوں
اور راستے میں اس سے معافی بھی مانگ لوں گا
کیوں کہ وہ ابھی تک مجھ سے ناراض تھی ۔
میں سیدھا صدف کے گھر پہنچا تو گھر میں داخل ہوتے ھی سامنے دیکھا تو صدف برقعہ پہنے برآمدے میں ٹہل رہی تھی ۔
مجھے دیکھ کر میرے پیچھے دیکھنے لگ گئی اور مجھے اکیال دیکھ کر عظمی اور نسرین کا پوچھا کہ وہ نھیں آئی ۔
تو میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بوال
کہ وہ گلی کی نکر پر کھڑی ہیں ۔
صدف حیرانگی سے میری طرف دیکھ کر میرا جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرتے ہوے بولی ادھر کھڑی کیا کررھی ہیں دو
قدم آگے نھی آسکتی نواب زادیاں
میں نے کہا
انکی کوئی سہیلی مل گئی تھی تو اس کے ساتھ باتیں کرنے کھڑی ہوگءیں
اور مجھے کہا کہ تم باجی کو لے آو۔
صدف کندھے اچکا کر
اپنا ہینڈ بیگ پکڑ کر ااپنی امی کو بتا کر باہر نکل آئی اور میرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گلی کی نکڑ پر آگئی.
اور چاروں طرف دیکھتے ھوے بولی کدھر ہیں دونوں۔۔
میں نے کہا چلو تو بتاتا ہوں تو صدف میری طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوے بولی
یاسر کدھر ہیں وہ جھوٹ کیوں بوال تم نے ۔
میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا ،اور اسے چلنے کہا کہ بتاتا ھوں یار چلو تو سہی ۔
صدف نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا
اور گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی ۔
شرم نام کی کوئی چیز ھے تم میں ۔
اب تمہاری اتنی جرات ہوگئی کے سرعام میرا ہاتھ پکڑ لو ۔
میں نے کہا صدف چلو تو سہی ایسے کوئی دیکھ لے گا ہمیں بحث کرتے ہوے تو کیا سوچے گا۔
صدف قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھ کر میرے آگے تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی ۔
جیسے مجھ سے پہلے اس نے شہر پہنچ کر کپ جیت لینا ھے ۔
تیز چلنے کی وجہ سے صدف کی گانڈ برقعے کو پھاڑنے کی کوشش کرتے ھوے اوپر نیچے ہورھی تھی
میں نے بھی اپنی کچھ سپیڈ بڑھائی
اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کھیتوں میں داخل ہوگیا ۔
آگے چل کر مکئی شروع ھوگئی تھی اور مکئی کے درمیان جو پگڈنڈی تھی اس پر ہم برابر میں نھی چل سکتے تھے تو
مجبورًا مجھے اس کے پیچھے ہونا پڑا
میں بڑے غور سے اسکی مٹکتی ہوئی گانڈ کو دیکھ رھا تھا جسکو چند روز پہلے میں نے بےدردی سے پھاڑا تھا۔
صدف خاموشی سے تیز تیز چل رھی تھی ۔
کچھ دور جاکر میں تھوڑا تیز ہوا اور صدف کا ہاتھ پکڑ لیا صدف ایکدم رک گئی اور مڑ کر میری طرف دیکھ کر بولی کیا
بتمیزی ھے
ہاتھ چھوڑو میرا۔
میں نے کہا
یار بات تو سن لو۔
صدف بولی خبردار مجھے اب یار کہہ کر مخاطب کیا ۔
میرے ساتھ کوئی رشتہ بڑھانے کی کوشش مت کرو۔
میں نے کہا
صدف بس ایک دفعہ میری بات تو سن لو ۔
پھر چاھے تم مجھے اپنی شکل بھی مت دیکھانا۔
بلکہ میں بھی تمہارے سامنے کبھی نھی آوں گا
صدف بولی پہلے میرا ہاتھ چھوڑو میں نے ہاتھ چھوڑا
تو صدف پھر چلتے ھوے بولی
مجھے تم سے کوئی بات نھی کرنی ۔
میں پھر دوڑ کر اسکو کراس کر کے اس سے آگے نکال اور اسکی طرف منہ کر کے اسکا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا اور
اسکو بازوں سے پکڑ کر بوال صدف کیا میں اتنا ھی برا ھوگیا ھوں کہ تم میرے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کررھی ھو۔
میری غلطی کیا ھے بس یہ بتا دو۔
صدف اپنے بازو مجھ سے ُچھڑواتے ہوے بولی۔
تمہیں نھی پتہ کہ تم نے کونسی گھٹیا حرکت کی ھے ۔
اب مجھے صفائیاں دینے چلے ھو۔
راستہ چھوڑو میرا ۔
تمہیں ایک بار کہی بات سمجھ میں نھی آرھی کہ میں تم سے کوئی بات نھی کرنا چاھتی نہ کوئی رشتہ رکھنا چاھتی ہوں ۔
میں نے صدف کی ٹھوڑی کو پکڑا اور کہا اتنا غرور آگیا ھے تم میں ۔
صدف نے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور میرے منہ پر پورے ذور سے تھپڑ مار دیا
اور بولی
تمہیں پیار کی زبان سمجھ میں نھی آرھی کیا۔
پھر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آے ھو۔
مجھے ذرہ سی بھی امید نھی تھی کے صدف اتنی جرات کر سکتی ھے کہ مجھ پر ہاتھ اٹھا لے ۔
میں اپنی گال پر ہاتھ رکھے
آنکھیں پھاڑے اسکے منہ کو دیکھنے لگ گیا۔
صدف میرے دائیں طرف سے نکل کر مجھے حیران پریشان گال پر ہاتھ رکھے کھڑے کو چھوڑ کر انجان بن کر ایسے چلی
گئی جیسے مجھے جانتی ھی نہ ھو اور اس نے مجھے تھپڑ بھی نہ مارا ھو۔۔۔۔۔
مجھے جب ہوش آیا
تو میں نے مڑ کر دیکھا تو صدف کافی دور جاچکی تھی ۔
مجھے سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں کیا کروں
میں ابھی تک ادھر ھی کھڑا اسے جاتا ھوا دیکھ رھا تھا ۔
اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ مجھ پر کیا بیت رھی ھے ۔
صدف کا اور میرا فاصلہ کافی بڑھ گیا تھا ۔
میں آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ھوا اس کے پیچھے جانے لگا ۔
مگر وہ تو میری نظروں سے بھی اوجھل ہو چکی تھی ۔
میں بوجھل قدموں سے اپنی بےعزتی کا بوجھ لیے چال جارھا تھا
میرے دماغ نے سوچنا بند کردیا تھا
بلکل گم سم ھوگیا تھا میں ۔
میں چلتا ھوا مکئی سے باہر نکل کر ُپل کے پاس پہنچ گیا
صدف مجھے اب بھی نظر نہ آئی ۔
میں جب ُپل کے اوپر پہنچا تو مجھے کافی دور صدف جاتی ہوئی نظر آئی وہ اب بھی اسی سپیڈ سے چلی جارھی تھی ۔
میں ادھر پل پر ھی بیٹھ گیا ۔
اور اسکو جاتا ھوا دیکھنے لگ گیا ۔
میرا آگے جانے کو دل ھی نھی کررھا تھا میرے قدم ادھر ھی رک گئے تھے
صدف اب مجھے نظر آنا بھی بند ہوگئی تھی ۔
میں تقریبًا ایک گھنٹہ نہر کے ُپل پر ھی بیٹھا رھا ۔
میری آنکھوں سے خود ھی آنسو نکل نکل کر اب خشک ہو چکے تھے ۔
میں نے حوصلہ کیا اور
نہر کے پانی سے منہ پر چھینٹے مارے ۔
اور اپنی قمیض سے ہی منہ صاف کیا اور
پھر شہر کی طرف چل دیا
دکان پر پہنچا تو انکل سجاد اور دونوں لڑکے بھی آچکے تھے بلکہ ایک کسٹمر بھی بیٹھا ہوا تھا ۔
میں افسردہ سا دکان میں داخل ھوا اور انکل کو سالم کیا تو انکل میرے منہ کی طرف دیکھتے ھوے بولے ۔
یاسر بیٹا کیا ھوا خیریت تو ھے اتنی لیٹ آے ھو اور منہ کیوں لٹکایا ھوا ھے
سب خیریت تو ھے طبعیت تو سہی ھے ۔
انکل نے ایک ھی سانس میں مجھے کتنے سارے سوال کردئے۔
میں نے صرف اتنا ھی کہا
کچھ نھی انکل جی بس سر میں درد ھے۔
انکل بولے بیٹا چھٹی کرلینی تھی ۔
دوائی وغیرہ لی کہ نھی ۔
میں نے کہا انکل جی ایسی بھی کوئی خاص بات نھی کہ دوائی لوں ۔
بس ہلکی سی درد ھے کچھ دیر بعد سہی ھو جاوں گا۔
انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کے لیے چاے کا کہو
اور انکل نے دراز کھوال
اور دو گولیاں
شیر مارکہ پیراسٹامول نکال کر مجھے دی کہ یہ کھا لو ابھی سہی ہو جاو گے ۔
میں نے چاروناچار گولیاں پکڑی اور کولر سے پانی کا گالس بھرا اور گولیاں منہ میں ڈال کر پانی سے نگھل گیا۔
اور پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھ کر باہر آتے جاتے کسٹمر کو دیکھنے لگ گیا ۔
مگر میرا دماغ صدف پر اٹکا ھوا تھا
کہ اس نے
۔
مجھے تھپڑ مارا مجھےُ ۔۔
اسکی اتنی جرات
بس قیاس آرائیاں شروع تھی دماغ کی
کہ یہ کروں گا اسکے ساتھ اسے قتل کر دوں گا اسے بدنام کروں گا
پتہ نھی کیا کیا سوچ رھا تھا کہ
اچانک میری آنکھوں کے سامنے
آنکھوں کے سامنے سے گاڑی گزری اور اس میں سے ایک چہرے نے میری طرف دیکھا اور جلدی گبھرا کر دوسری
طرف منہ کر لیا۔
میں ایک دم چونکا اور گاڑی کی طرف دیکھنے لگ گیا جو رش کی وجہ سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رھی تھی ۔
میں نے جیسے ھی گاڑی اور ڈرائیور کو دیکھا تو ہکا بکا رھ گیا
کہ یہ تو اس اسد کی گاڑی ھے اور اس نے مجھے دیکھ کر بھی منہ دوسری طرف کیوں کیا اور وہ اچانک گبھرایا کیوں
ایک ساتھ میرے دماغ میں کئی سوال اٹھے۔
اس سے پہلے کہ میں مذید کچھ سوچتا یا کھڑا ھوکر گاڑی کی طرف جاتا
اسد نے تیزی سے گاڑی کو رش میں سے نکال کر کچھ آگے ایک اور بازار کی طرف گاڑی کو موڑ دیا اور کار سپیڈ سے
دوڑا کر لے گیا ۔
یہ ہوا بھی اتنا اچانک تھا کہ نہ تو میں یہ دیکھ سکا کہ اسد کے ساتھ کون تھا اور نہ ھی میں کار کے اندر جھانک سکا
میں تو اپنے خیالوں میں گم سم سا بیٹھا ھوا تھا۔
ابھی میں اسد کی بے رخی کے بارے میں ھی سوچ رھا تھا کہ اچانک میرے دماغ میں جھماکہ ھوا ۔
کہ کہیں عظمی ۔۔۔۔۔۔
تو دل میں خیال آیا کہ
ھاں اسد کے ساتھ یقینًا عظمی ھی ھوگی
اسکا گھر سے اکیلے جلدی آنا
پیپر کی تیاری کا بہانہ کرنا۔
اور سکول ٹائم سے پہلے سکول جانا
اسی طرف اشارہ کررھا تھا کہ ہو نہ ہو یہ عظمی ھی اسد کے ساتھ تھی۔
پھر دماغ نے میرے دل کے خیال کو جھٹالتے ھوے کہا۔
اگر عظمی تھی تو وہ تمہاری دکان کے سامنے سے کیوں گزرتی اور اسد نے بھی اسے لے کر تمہاری ھی دکان کے سامنے
سے گزرنا تھا
پاگل ہو کیا
کچھ ہوش کے ناخن لو۔
پھر دل کے خیال نے دماغ پر چڑھائی شروع کردی کی ۔
تمہاری دکان کا نہ تو عظمی کو پتہ ہے کہ کس جگہ دکان ھے اور نہ ھی اسد نے تمہاری دکان دیکھی ھے ۔
آخر کار دماغ کو یہ بات ماننا پڑی کہ اسد کے ساتھ عظمی ھی تھی اسی لیے جب اسد نے مجھے دیکھا تو مجھے اچانک
سامنے دیکھ کر گبھرا گیا اور گاڑی کو بھگا کر لے گیا
ورنہ وہ ضرور رکتا اور تم سے ملے بغیر آگے نہ جاتا۔
میں اپنے آج کے منحوس دن کو ھی کوسنا شروع ھوگیا
کہ پتہ نھی آج کس منحوس کی شکل دیکھ لی ھی ۔
ساال دن ھی پریشانیوں سے شروع ھو رھا ھے۔
ساال اج دا دن ای ماڑا اے ۔
ایک ساتھ دو دو پریشانیوں سے میرا دماغ پھٹنے واال کردیا تھا۔
میں سر کو پکڑ کر ادھر بینچ پر ھی بیٹھ گیا۔
اور کچھ سوچ کر کھڑا ھوا اور انکل سے کہا کہ میں تھوڑی دیر تک آیا
اور عظمی کے سکول کی طرف چل دیا۔۔۔
).Update no ,(67
******************************
دوستو اب آپ
عظمی اور اسد کے بیچ میں ہوا مکالمہ پڑہیں گے جسکا علم مجھے بعد میں ہوا تھا۔ پہلے بتانے کا مقصد کہ آپ سب ریڈرز
کو حقیقت معلوم ہو جاے
یہ مکالمہ آج سے تین دن پہلے سے شروع ھوتا ھے۔۔۔۔۔۔۔
*******************************
عظمی نسرین کے ساتھ سکول والی گلی میں بوائز سکول سےتھوڑا پیچھے بوائز سکول کی دیوار کے ساتھ کھڑی ۔اسد کی
کار کو دیکھ کر چونک کر کار کی طرف متوجہ ہوئی اور نسرین سے نظریں بچا کر نظروں سے اسد کو تالش کرنے لگی
اسد بھی شاید اس کے انتظار میں کار میں بیٹھا بیک مرر سے انکو دیکھ رھا تھا اور جیسے ھی اسد کی نظر ان دونوں پر
پڑی تو وہ جلدی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکال۔
بلیو جینز پر اورنج ہاف بازو ٹی شرٹ پہنے بلیک سن گالسس لگاے ۔
کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوکر سڑک کی دوسری طرف آتی ہوئی عظمی کی طرف دیکھنے لگ گیا۔
عظمی نے جب اسد کو اور اس کی شاندار ڈریسنگ کو دیکھا تو اسد سے نظریں ہٹانا اس کے لیے مشکل ہوگیا
مشکل ھوتا بھی کیسے نہ۔
جس شہزادے کو وہ سپنوں میں دیکھتی تھی
جیسا آئیڈیل وہ سوچتی تھی
کہ اونچا لمبا جوان کلین شیو گورا چٹا شہزادہ ہو اور اس کے پاس بڑی سی کار ہو جس میں اسے بڑی شان سے اپنے ساتھ
فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر دور بڑی بڑی سڑکوں پر گھمانے لے جاے
اور شاندار ہوٹل میں اپنے سامنے بیٹھا کر کھانا کھالے
اور مہنگے سے مہنگے ڈریس اسے گفٹ کرے جس کو پہن کر جب بھی باہر نکلے تو پنڈ کی سب لڑکیاں اسکو حسرت کی
نگاہ سے دیکھیں ۔
اور آج اس کے سپنوں کا شہزادہ اسکی راہ میں آنکھیں بیچھا کر کھڑا تھا ۔
عظمی اسد کو ٹکٹکی باندھے دیکھے چلی آرھی تھی۔
نسرین کی بھی نظر اسد پر جب پڑی تو اسد کو دیکھتے ھی اس نے عظمی کی جانب دیکھا جو ہر چیز سے بے خبر ھوکر
اسد کو ھی دیکھی جارھی تھی ۔
نسرین سے جب برداشت نہ ھوا تو اس نے عظمی کو کہنی ماری اور عظمی چونک کر اسکی طرف دیکھ کر بولی
کی تکلیف اے۔
نسرین بولی
اپنے ڈیلے تے بوتھی سدھی کر کے ُٹر
تو عظمی گبھرا کر بولی
کی مطبل اے تیرا،
نسرین ۔
َٹ َٹ
میں ویکھ رئی آں جتھے آنے ڈ ڈ ویکھن دئیں اے۔
تو عظمی بولی
سدھی طراں بکواس کر کی کیناں چانی ایں۔
نسرین بولی ۔
او باندر جیا جیڑا کھڑا اے اودے ول ای دیکھن دئی ایں ناں۔
عظمی انجان بن کر بولی ۔
کیڑا باندرررررد،،،،
نسرین نے اسد کی طرف اشارہ کیا
اوہ جیڑا َپ د ُک ٹنی جئی پا کے کھڑا اے۔
اتنی دیر میں دونوں اسد کے کچھ فاصلے پر پہنچ گئی تو اسد جلدی سے سڑک کراس کر کے ان کہ سر پر پہنچ گیا۔
اور ان دونوں کو سالم کرتے ہوے ۔بوال معاف کرنا جی آج آپ اکیلی آرھی ہیں
یاسر نھی آیا آپ کے ساتھ۔
دونوں اسد کے یوں سامنے آجانے پر رک گئیں
جبکہ نسرین گبھرا گئی ۔
عظمی نقاب میں اپنی آنکھوں سے تیر چالتے ھوے آنکھوں کو مٹکا کر بڑی ادا سے بولی
آپ کو نھی پتہ یاسر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور ساتھ ھی عظمی یاسر کے موٹرسائیکل سے گرنے اور ہسپتال تک کا سارا
واقعہ تفصیل سے سنانے لگی ۔
جبکہ نسرین اسکو گھور رھی تھی اور بار بار اسکا ھاتھ کھینچ کر اسے چلنے کا کہہ رھی تھی ۔
اسد حیران پریشان ہونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے بوال
کمال ھے کسی نے مجھے بتایا ھی نھی اتنے دن ہوگئے ہیں یاسر کا ایکسیڈنٹ ھوے اور مجھے خبر ھی نھی ۔
تو نسرین جان ُچ ھڑواتے ہوے سڑیل انداز میں بولی ۔
ویرے تینوں ہن تے پتہ لگ گیا اے ناں ہن جا کہ پتہ لے لویں ۔
چل عظمی سکولوں دیر ُہندی پئی اے۔۔۔
تو اسد پھر انکا راستہ روکتے ہوے بوال معاف کرنا جی
اگر کہیں تو جب تک یاسر سہی نھی ہوتا میں آپ کو چھوڑ آیا کروں سکول ۔
تو نسرین غصے سے بولی۔
وے پراوا تیری یاری یاسر نال اے تے اودے نال ای رکھ
تیری مہربانی اے سانوں سکول جان دے تے اج توں بعد ساڈا ایویں رستہ نہ روکیں ۔
عظمی ُتوں چلنا اے کے نئی ۔
نئی تے میں جاواں تے توں ایس شہری بابو نال گڈی وچ بے کے آجاویں ۔
اور نسرین آگے چل پڑی
اسد نے جلدی سے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ جو وہ کب سے چھپا کر کھڑا تھا
عظمی کی ُمٹھی میں دے دیا۔
عظمی اسد کی اس جھٹ پٹ حرکت سے گبھرا گئی اور جلدی سے نسرین کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے آگے جارھی تھی
اس نے شکر ادا کیا کہ نسرین نے نھی دیکھا ورنہ پتہ نھی کیا ھوجاتا ۔
اسد عظمی کے ہاتھ میں خط پکڑا کر بنا کچھ کہے سڑک کراس کر کے کار کے پاس پہنچ گیا
اور عظمی ہونکی بنی کبھی نسرین کو دیکھتی کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑے خط کو اور کبھی اسد کی طرف جو کار میں بھی
بیٹھ چکا تھا
۔
اتنے میں اسکے کانوں میں پھر نسرین کی آواز آئی
ہن ُٹ ر وی پے کے موچ پے گئی پیراں وچ ۔
تو عظمی ہڑبڑا کر مٹھی کو چادر میں چھپاتے ھوے
تیز تیز قدم بڑھاتے ھوے نسرین کے پاس پہنچ گئی
تو نسرین جلی ُبھنی بولی
کی کیندا سی او ُک ھسرا جیا۔
تو عظمی بولی تمیز سے بات کرو
شرم نھی آتی کسی کے بارے میں یوں بکواس کرتے ھوے۔
تو نسرین بولی تینوں بڑا ہیجال آندا اے اوس ُک ھسرے دے منہ والے دا،،
تو عظمی اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ھوے بولی ۔
میں نے کیوں اسکی سائڈ لینی ھے
میں تو اس لیے کہہ رھی تھی
یاسر کا دوست ھے
تو وہ کیا سوچے گا کہ یاسر کی کزنیں کتنی بتمیز ہیں ۔
تو نسرین بولی
یار ھوے گا تے یاسر دا ہوے گا
ساڈا مامے دا ُپتر نئی جیڑا سڑکاں دے َک ھڑ کے اودے نال گالں کرئیے۔
مینوں تے اے اونج ای ذہر لگدا اے
ُمچھ کٹا اوتوں َپ د ُک ٹنی جئی پا پھردا اے پتہ نئی ایدے وچ لتاں کیویں واڑ دا ہوے گا۔
عظمی نسرین کی سادگی پر ہنستی ہوئی بولی ۔
کملی بہن یہ پینٹ شرٹ شہر کے لوگوں کا لباس ھے
دیکھا نھی کتنا خوبصورت لگ رھا تھا،
نسرین غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بولی
توں اک واری کار تے چل امی نوں دساں گی ناں تے فیر تیریاں پینٹاں شرٹاں تے سوہنا سونکھا امی کڈے گی ۔
تو عظمی گبھراتے ھوے اپنے جزبات پر قابو پا کر بولی۔
مممممیں لعنت بھیجتی ہوں مجھے کیا لگے ان شہری لوگوں سے جو مرضی پہنیں
میں تو ویسے ھی کہہ رھی تھی
اور تم ہر بات کو الٹ لیتی ھو۔
نسرین بولی
میں سب جاننی آں بچی نئی آں
اتنے میں سکول کا گیٹ آگیا اور دونوں خاموش ھوگئیں اور سکول میں داخل ھوگئیں ۔
سکول میں داخل ھوتے ھی عظمی نے مٹھی میں پکڑا خط جلدی سے اپنے گلے میں ہاتھ ڈال کر بریزیر میں چھپے مموں میں
رکھ دیا اور کالس روم کی طرف چل دی ۔
کالس میں بھی عظمی کو بےچینی نے گھیرے رکھا۔
اور سکول کے جتنا وقت بھی گزرا اسکا تجسس بڑھتا رھا کہ پتہ نئی خط میں کیا لکھا ھوگا
عظمی کا بس نھی چل رھا تھا۔
کہ ابھی گھر چلی جاے اور جاکر اپنے سپنوں کے شہزادے کے ہاتھ سے لکھا ہوا پہال محبت نامہ پڑھ لے۔
جیسے تیسے
سکول کی چھٹی کا وقت ہوا اور
چھٹی کی گھنٹی کی آواز عظمی کے کانوں میں پڑی تو عظمی کے چہرے پر سارے جہاں کی خوشی اور گھر پہنچنے کی
بےچینی آگئی ۔
سکول سے نکل اسد کے سکول کے آگے سے گزرتے ھوے بھی عظمی کی نظریں اسد کو ڈھونڈتی رہیں مگر وہاں نہ تو
اسد تھا اور نک ھی اسد کی گاڑی
عظمی مایوس ہوکر جلدی جلدی سے گھر پہنچی
اور
جاتے ھی بیگ کمرے میں رکھا اور واش روم کی طرف بھاگی ۔
اور واش روم میں داخل ہوتے ھی جلدی سے اپنے بریزیر میں ہاتھ ڈاال اور
پہال محبت نامہ نکال کر
اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ
تحریر کو پڑھنے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
جان سے پیاری عظمی
پیار کا پہال خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے۔
۔میرے پیاری عظمی جان میری آنکھوں میں بسے سپنے بہت!
سوچا کہ تمہیں بتاؤں یا نہیں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔
ان حاالت میں یہ بتانا مشکل ہے اس اظہار کے لیے راستہ ڈھونڈنا بہت مشکل تھا ۔
سوچا اپنی محبت کا اظہار خط کے ذریعے کر دوں ۔
مجھے اس بات کا خوف قطعًا نہیں کہ میرے خط کو تحریری ثبوت کے طور پہ کوئی پکڑ لے گا۔
یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں پھر میں اتنا نڈر تو ہوں کہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کے کر سکوں ۔
تم سوچتی ہو گی کہ مجھے خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کسی اور طرح سے بھی کہی جا سکتی تھی ۔
لیکن مجھے فینٹسی میں رہنا اچھا لگتا ہے تو سوچا خط لکھوں مجھے پتہ ہی نہیں چال کہ کب تم میری روح میں آ بسی تمہیں
عجیب لگے گا کہ میں اور روح کی بات تو سچا ئی یہی ہے تمہاری محبت نے مجھے بتایا کہ واقعی دنیا میں ایسے جذبے
بھی ہیں جنہیں ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا۔
دو جمع دو کر کے بتایا نہیں جا سکتا تو یہی میرے ساتھ ہوا۔
تم میری سوچ میں آ بسی ہو ۔
جانتی ہو کہ وہ لوگ جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کی کوئی ادا ،انداز ،مسکراہٹ ،سوچنے ،محسوس کرنے یا بولنے کا
انداز کب ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے ہمیں گمان بھی نہیں ہوتا اور جس لمحے میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں اس وقت
تک وہ
روح تک سما چکا ہوتا ہے ۔
اور ایک مطمئن مسکراہٹ کے سوا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا کہ محبوب روح میں اتر چکا ہے ہر سانس میں سما چکا
ہے۔
تب قربت اور ساتھ بے معنی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ہے تم سوچتی
ہو گی کہ یہ ولیوں کی باتیں ہیں مجھ جیسے مادیت پسند لڑکے کے منہ سے اچھی نہیں لگتی لیکن ایسا ہی ہوا ۔
تم میری روح میری ذات کا اتنا مکمل حصہ ہو جیسے سانس لینے کا عمل۔
کہ نہ لیا تو حرکت ختم زندگی ناپید۔
نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا ۔شائید جاننا چاہوں بھی نہیں ۔
جب جذبوں کا پوسٹمارٹم ہو جاتا ہے وہ کھل کے سمجھ آ جائیں تو ان کی کشش اور چارم اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ دریافت
میں یہی مسئلہ ہے کہ یہ اسرار کی گرہیں کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز بہت واضح ہو اس میں
دلچسپی نہیں لیتا خواہ وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔
تم جانتی ہو کہ مجھے ادراک ہے کہ تم اور میں دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔بغاوت اور روایت کی دنیا ،حقیقت اور تخیل
کی دنیا ،بے فکری اور احساس ذمہ داری کی دنیا۔
کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ کیا ضروری تھا کہ مجھے تم سے ہی محبت ہوتی۔ جہاں ہجر کا طویل صحرا ہے اور دور
تک نخلستان کا نام و نشان نہیں .میرے شاطر ذہن کو تمھارے ساده دل سے ہی شکست ہونا تھی۔ تو وصل و قربت کا کوئی تو
امکان ہوتا کہ عقل دھوکے میں رہتی.لیکن نہیں وه محبت ہی کیا جو حقائق جانچے پرکھے اصول بنائے فرار کے راستے
کھوجے مقصود کو حاصل کرنے کی جستجو میں دیوانہ وار کوشش کرے یہ تو ایسا جذبہ ہے جو جینے کی امنگ دیتا
ہے .محبوب سے بات ہو نه ہو دل اسی سے محو کالم رہتاہے.اس کا خیال کٹھن ترین وقت کو بھی سہل کر دیتا ہے ۔
جہاں حسن ہے ،خوشی ہے ،سکون ہے،میرا جسم تمہاری قربت کا خواہاں ہے .ایک دھن ایک ردھم ہے جو ہر سو طاری
ہے جس میں سر مستی و بے خودی ہے سودو زیاں کا خیال نہ کوئی خوف بس محبت ،محبت اور محبت۔ میں جانتا ہوں تمہیں
میری باتیں عجیب لگی ہوں گی ۔جھوٹ کا گمان گزرے گا ایسا ہونا بھی چاہیے ۔میں اپنی سچائی ثابت کرنے کی کوشش ہر گز
نہیں کروں گا کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ کیا یہ میرے ہی الفاظ ہیں؟
یا مجھ میں کوئی اور بول رہا ہے ؟
تمہارے جسم کی خوشبوں آج بھی مجھے اپنے آپ سے آتی
تمہارے نازک اعضاء کو جو میرے ہاتھوں نے چھوا تھا
تمہارے اس نرم نازک ابھار کا لمس آج بھی مجھے اپنے ہاتھوں میں محسوس ہوتا ھے
ساری دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈال کر تمہیں اپنانا چاہتا ہوں
مجھ سے تنہائی میں ایک مالقات تمہیں میرے پیار کا ثبوت دے گی ۔۔
خیر چھوڑو جو بھی ہے ۔مجھے تو بس تمہیں بتانا ہے۔یہ میرا تمہارے نام پہال محبت نامہ ھے
مجھے نھی پتہ کہ میں کیسا لکھ رھا ھوں کیا لکھ رھا ہوں
میں کل تمہارے خط کا انتظار کروں گا
اسی جگہ
اگر نسرین کا خوف ھو
تو میرے خط کا جواب میرے پاس سے گزرتے ھوے نیچے پھینک دینا میں اٹھا لوں گا ۔
تمہاری ایک مالقات اور قربت کا منتظر
تمہارا خادم
اسد
عظمی خط کو پڑھ کو پھولے نھی سمارھی تھی
عظمی نے دو تین دفعہ خط کو پڑھا اور خط کو لپیٹ کر پھر اپنے بریزیر میں رکھ کر واش روم سے باہر آگئی
کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر گھر کے کام کاج میں مصروف رھی
اور پھر ٹیوشن کے لیے چلی گئی
وہ سارا وقت خط کا جواب لکھنے کے بارے میں سوچتی رھی کے کیا لکھے اسے کچھ سمجھ نھی آرھا تھا کہ کیا لکھے
اسے اسد کی طرح الفاظ کا چناو نھی کرنا آتا تھا اور جتنے مشکل الفاظ اسد نے خط میں لکھے تھے انکو سمجھنے کہ لیے
بھی اس کو خط بار بار پڑھنا پڑا تھا۔
اور وہ یہ سوچتی رھی کہ شہری لوگوں کا محبت کا اظہار کرنے کا طریقہ بھی کیا نراال ھے اور محبت کے اظہار میں کہاں
کہاں سے الفاظ ڈھونڈ کر التے ہیں
اور ہم جیسے پینڈو تو بس سواے بونگیاں مارنے کے اور کچھ کر بھی نھی سکتے۔
خیر
ٹیوشن سے آکر
رات کو موقع پاکر عظمی نے اپنے رجسٹر سے ایک ورق پھاڑ کر
اسپر
اپنے پہلے محبت نامے کا جواب لکھنا شروع کیا۔
جان سے پارے اسد
آپکا خط پڑھا
دل کو بہت سکون مال
اسد جی میں نے بھی جب سے آپکو دیکھا ھے
آپ کے ھی بارے میں سوچتی رھتی تھی
مگر آپ سے بات کرنے آپ سے ملنے کا موقع میسر نہ ہوا
جس کی وجہ میرے ساتھ میری سڑیل بہن اور میرا سڑیل کزن تھا۔
اس دن آپ نے باغ میں مجھے جب چھوا تھا
تو آپ کے ہاتھوں کے لمس نے رات بھر مجھے بے چین رکھا
میرا خود دل کررھا تھا کہ ابھی اڑ کر آپ کی بانہوں میں چلی جاوں اور آپ مجھے اپنی بانہوں بھر کر سینے سے لگا لیں
اور یوں ھی رات بیت جاے
آپ سے ملنے کو میرا بھی بہت دل کرتا ھے مگر آپ کے سامنے میری مجبوری بھی ھے
آپ دعا کریں کہ کبھی ایسا موقع آجاے کہ میں اکیلی سکول آوں اور پھر ہم دونوں جہاں مرضی مل سکیں
اس وقت کا آپ بھی انتظار کریں اور میں بھی
اور ایک بات کہنی تھی ناراض مت ہونا۔
نسرین اور یاسر کے سامنے مجھ سے بات مت کیا کریں انکو شک ھوجاے گا
اور خاص کر میرا وہ کزن یاسر بہت سڑیل ھے اور مجھے تو وہ ذہر لگتا ھے
خود کو پتہ نھی کیا سمجھتا ھے ۔
میں بھی پتہ نھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ۔
اچھا اب اجازت چاھتی ہوں
جب موقع مال آپ کو بتا دوں گی
آپکی صرف آپکی خادمہ
عظمی ۔
).Update no (68
عظمی نے جیسے تیسے خط مکمل کیا اور اسکو طے کر کے اپنے بریزیر میں رکھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے لگی
سوچتے ھوے اسے پتہ نھی چال کہ رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگ گئی اور صبح نسرین کے اٹھانے پر وہ اٹھی
اور سکول کی تیاری میں مصروف ھوگئی
جلدی جلدی ناشتہ کیا اور سکول کہ لیے نکلنے لگی تو
عظمی کی امی نے کہا۔
کہ پتر
تمہارا بھائی ٹھیک ھوگیا ھے اس سے پوچھتی جانا شاید آج وہ بھی دکان پر جاے تو اسکے ساتھ چلی جانا۔
تو عظمی منہ بنا کر بولی
امی ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے
اسکو جانا ہوتا تو ابھی تک اجانا تھا۔
اور امی کا جواب سنے بغیر دونوں باہر نکل گئیں
سکول والی گلی میں پہنچ کر عظمی جان بوجھ کر
دوسری طرف چلنے لگی جس طرف کل اسد کہ کار کھڑی تھی
اسد کے سکول کے قریب پہنچ کر عظمی کو اسد کھڑا نظر آگیا۔
آج بھی اسد بہت پیارا لگ رھا تھا۔
نسرین اسد کو دیکھتے ھی دوسری طرف جانے لگی تو عظمی بولی
اسطرف ھی چال اگر آج اس نے روکا تو میں تمہارے سامنے اسکی بےعزتی کروں گی ۔
نسرین حیرانگی عظمی کا منہ تکنے لگی تو بےیقینی سے بولی خیر ھے ایک دن میں ھی اتنی تبدیلی
تو عظمی بولی میں نے رات بھر تمہاری بات پر غور کیا کہ تم سہی کہتی تھی
یار ھو گا تو یاسر کا ھوگا ہمیں اس سے کیا لینا۔
اتنی دیر میں دونوں چلتی اسد کے قریب پہنچی
عظمی نے بڑی چالکی سے خط پہلے ھی مموں سے نکال کر ھاتھ میں پکڑ لیا تھا
اور اسد کے پاس سے انجان بن کر گزرتے ھوے اس نے بڑی فنکاری سے اپناپہال محبت نامہ محبوب کے قدموں میں پھینک
دیا اور نسرین کو پتہ بھی نھی چلنے دیا
اور دونوں سکول کی طرف بڑھ گئیں ۔
اسد نے جلدی سے خط اٹھایا اور جلدی سے کار میں بیٹھ کر بے چینی سے جلدی جلدی سے خط کو کھولنے لگا ۔اور جیسے
جیسے اسد خط پڑھتا جاتا
اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آتی جاتی اور
آخری الفاظ پڑھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا اور بڑبڑاتے ھوے بوال
ھا ھا ھا
تمہاری صرف تمہاری
۔ھھھھھھھھھب
عظمی
ھھھھھھھب
اور خط کو مرؤڑ کر ڈسٹ بین میں پھینک کر
کار کو سٹارٹ کیا اور تیزی سے گاڑی کو گھما کر گرلز کالج کی طرف چال گیا ۔۔۔۔۔۔
عظمی کالس میں بیٹھی اپنے محبوب کے بارے میں رھی تھی کہ اسد کتنا خوش ھوا ھوگا میرا خط پڑھ کر
کیسے اس نے بار بار چوما ھوگا میرے خط کو
کتنی بار پڑھا ھوگا خط کو
کیسے رات کو بھی خط کو سینے سے لگا کر سوے گا ۔۔
.۔سکول سے چھٹی ہوئی تو عظمی نسرین کو لے کر سکول سے نکلی اور بوائز سکول کے سامنے سے گزرتے ہوے
اسکی نظر پھر اسد کو ڈھونڈتی رہی
مگر اسد اسے نظر نہ آیا
راستے میں نسرین بار بار اپنی کمر پر ہاتھ رکھتی اور مشکل سے چل رہی تھی ۔
عظمی نے نسرین کی حالت دیکھ کر اسے پوچھا کہ کیا ہوا ھے طبعیت تو سہی ھے ۔
تو نسرین نے بتایا کہ میری کمر میں پتہ نھی کیوں درد ہورھی ھے ۔
تو عظمی بولی کوئی بھاری چیز تو نھی اٹھائی تو
نسرین بولی نھی میں نے کونسی بھاری چیز اٹھانی ھے ۔
تو عظمی بولی گھر چل کر بام لگا کر ٹکور کر لینا ۔
نسرین بولی ۔
مجھے تو لگتا ھے جیسے ماہواری کے ہونے والی ھی بس آج کل میں ھی اسی لیے میرا یہ حال ہو رھا ھے ۔
عظمی بولی ہوسکتا ھے ایسا ھی ھو۔
میرے سے دس دن بعد ھی تمہاری تاریخ آتی ھے
اور مجھے تو نہاے ھوے بھی تین دن ہوگئے ہیں اس حساب سے تو تم دو دن لیٹ ھو۔
نسرین بولی
ہر مہینے ھی ایسا ھوتا ھے کبھی دو دن پہلے خون آنا شروع ھو جاتا ھے تو کبھی بعد میں ۔
کل پیپر بھی ھے اور دعا کرو مذید ایک دن گزر جاے ورنہ مجھے کل سکول سے چھٹی کرنی پڑ جاے گی ۔
یہ سنتے ھی عظمی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی
کہ عنقریب
وصل یار کا موقع میسر ہونے واال ھی ھے ۔
نسرین کی حالت کو بھول کر اسکی اپنی پھدی میں خارش شروع ھوگئی ۔
اس کو ساتھ یہ بھی پریشانی الحق تھی کہ اگر کل نسر ین نہ آئی اور یاسر کل ساتھ آگیا تو کیسے اسد کے ساتھ مالقات ہوگی
انہیں سوچوں میں ُگ م وہ گھر پہنچ گئیں ۔
باقی کا دن بھی کچھ ٹیوشن میں گزر گیا کچھ گھر کے کام کاج میں
رات کو عظمی نے نسرین سے پوچھا کے کیسی طبعیت ھے بلیڈنگ شروع ھوئی کہ نھی ۔
نسرین نے بتایا کہ ابھی تک تو نھی
صبح ھی پتہ چلے گا ۔
دعا کرو نہ ھی ہو نھی تو کل کا پیپر ضائع ہو جانا ھے ۔
عظمی بولی تم پریشان نہ ھو جو ھوگا بہتر ھی ھوگا ۔
رات جیسے تیسے گزری۔
صبح بھی نسرین کو بلیڈنگ نہ ہوئی اور دونوں سکول کی تیاری کرنے لگ گئی ۔
تیار ہوکر ابھی ناشتہ ھی کررھی تھیں ۔
کہ یاسر آگیا
یاسر کو دیکھ کر عظمی پریشان ہوگئی کہ اب کیا ھوگا
میں تو آج بڑی پالننگ کئے ھوے تھی مگر نہ نسرین نے چھٹی کی اور اوپر سے یہ یاسر بھی آن ٹپکا۔
یاسر نے امی کے ساتھ
سالم دعا لی حال احوال بتانے کے بعد
تینوں گھر سے نکل پڑے
صدف کو ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے راستے میں بھی کچھ خاص بات نہ ہوئی ۔
صدف اپنی اکیڈمی کی طرف چلی گئی اور یاسر کے ساتھ دونوں
سکول والی گلی میں داخل ہوگئی ۔
عظمی کا دل دھک دھک کررھا تھا
کہ کہیں اسد پھر نہ راستے میں کھڑا ھو ۔
اگر یاسر نے اسے یوں کھڑے دیکھ لیا تو اسکو شک ہوجانا ھے
اور اگر یاسر نے نسرین سے پوچھ لیا تو نسرین نے تو سب کچھ بتا دینا ھے ۔
انہی سوچوں میں وہ سکول کی طرف چلی آرھی تھی اور دل میں دعائیں مانگ رھی تھی کہ اسد کا سامنا نہ ھی ھو۔
آخر کار تینوں بوائز سکول کے قریب پہنچے تو عظمی نے سکھ کا سانس لیا
کیونکہ اسکو اسد نظر نھی آیا
یاسر انکو سکول کے گیٹ پر چھوڑ کر دکان پر چال گیا ۔
عظمی اور نسرین کا پیپر دس بجے شروع ھونا تھا
مگر ابھی آٹھ بجے تھے دو گھنٹے وہ دونوں کالس میں بیٹھی پیپر کی مذید تیاری میں مصروف تھی۔
کہ نسرین پھر ھوے ھوے کرنے لگ گئی ۔
عظمی نے نسرین کو تکلیف میں دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا پھر درد شروع ہوگئی ھے ۔
تو نسرین بولی
عظمی مجھ سے تو بیٹھا بھی نھی جارھا
اور نیچے بھی گیال گیال محسوس ھورھا
یہ نہ ھو کہ ادھر ھی بلیڈنگ شروع ھوجاے ۔
عظمی بولی تم نے انڈرویر پہنا ھے کہ نھی ۔
تو نسرین بولی ۔
ہاں میں نے تو رات کو ھی پہن لیا تھا
کہ کہیں کپڑے نہ خراب ہوجائیں ۔
عظمی بولی
کچھ نھی ہوتا برداشت کرو
نسرین بھی درد کو برداشت کررھی تھی
اور ساتھ ساتھ پیپر کی تیاری بھی کررھی تھی ۔
عظمی پالننگ کرنے لگ گئی کہ کل تو پکا نسرین نھی آے گی اور رھا یاسر کا مسئلہ تو یاسر سے پہلے اگر میں امی سے
بہانہ لگا کر آجاوں تو یاسر کو بھی پتہ نھی چلے گا ۔
اور میں اسد سے تین گھنٹوں کی مالقات بھی کرسکوں گی
کیوں کہ پیپر تو دس بجے شروع ہونا ھے
اور اگر میں گھر سے سات بجے بھی نکلوں تو اسد سے مالقات کر کے پیپر شروع ھونے تک سکول پہنچ سکتی ہوں ۔
اور پھر سوچنے لگ گئی کہ اسد کو کیسے بتاوں گی کہ کل ہم نے ملنا ھے ۔
یہ سوچ کر عظمی نے جلدی بیگ سے کاپی نکالی اور ایک ورق پھاڑ کر اس پر
اسد کو کل کی مالقات اور وقت کے بارے میں لکھ کر کاغذ کو طے کر کے اپنے ممے میں رکھ لیا ۔
پیپر دینے کے بعد
دونوں سکول سے نکلیں تو نسرین سے چلنا دشوار ہو رھا تھا ۔
جیسے ھی وہ اسد کے سکول کی پاس پہنچیں تو اسد پھر انکے سر پر آٹپکا اور
نسرین کو سالم کیا اور عظمی کو آنکھوں سے سالم کرنے کے بعد نسرین کو مخاطب کر کے بوال ۔
آپی اگر آپ کہیں تو آپکو گاوں تک ڈراپ کردوں
میں بھی ادھر ھی جارھا ھوں ۔
نسرین بولی
نھی بھائی ہم چلی جائیں گی ۔
اسد نے پھر کہا مگر نسرین نے سختی سے جب منع کیا تو
اسد خاموش ہوگیا
اور نسرین آگے بڑھ گئی عظمی اسی تاک میں تھی کہ نسرین اس سے کچھ آگے ھو
تو وہ رقعہ اسد کو پکڑا دے یا اسے دیکھا کر نیچے پھینک دے ۔
جیسے ھی نسرین تین چار قدم آگے بڑھی تو
عظمی نے جلدی سے اپنے ممے سے رقعہ نکاال اور
اسد کو دیکھاتے ھوے اپنے پیروں میں پھینک کر جلدی سے نسرین کے پیچھے چل پڑی
اور کچھ دیر بعد
پیچھے مڑ کر دیکھا تو
اسد نے رقعہ نیچے سے اٹھا لیا تھا
اور اسکو اپنی طرف دیکھ کر باے باے کا اشارا کیا۔
نسرین اور عظمی گھر پر پہنچی تو
نسرین کا انڈرویر راستے میں ھی خراب ہونا شروع ھوگیا تھا
اور گھر تک پہنچتے اسکی شلوار پر بھی خون کا دھبہ لگ گیا تھا۔
نسرین جلدی سے واش روم میں گھس گئی اور شلوار اتار کر پھدی کو دیکھنے لگ گئی جس سے ہلکا ہلکا خون رس رھا
تھا
نسرین نے ایک کپڑا لیا اور اسکو طے لگا کر پھدی پر رکھا اور پھر دوسرا انڈرویر پہن دوسرے کپڑے پہن لیے اور آکر
کمرے میں لیٹ گئی ۔
عظمی کے خوشی کے مارے پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے ۔
کچھ دیر بعد عظمی واش روم میں داخل ہوئی اور سارے کپڑے اتار کر پھدی کو دیکھنے لگ گئی پھدی پر کافی بال آچکے
تھے
عظمی نے واش روم پڑی پیالی میں بال صفا کے پاوڈر کو ڈاال اور تھوڑا سا پانی ڈال کر اسکو مکس کر کے ہاتھ سے پھدی
پر لیپ کرنے لگ گئی اچھی طرح پھدی کے بالوں پر لیپ لگا کر
اسکے سوکھنے کا انتظار کرنے لگ گئی ۔
دس منٹ بعد عظمی نے پھدی پر پانی ڈاال
تو نیچے سے چمکتی ہوئی اسکی صاف چٹی پھدی نکل آئی عظمی ہاتھ سے رگڑ رگڑ کر پھدی کو اچھی طرح دھو رھی
تھی ۔
پھدی کو دھونے کے دوران جب عظمی کی انگلیاں پھدی کے دانے کو مسلتیں تو عظمی کے جسم میں مزے کی لہر دوڑ
جاتی ۔
اور عظمی آنکھیں بند کرکے مزے کی اس لہر کا انجواے کرتی ۔
کچھ دیر بعد عظمی نے پھدی اور ٹانگوں کو اچھی طرح دھویا اور
تاول سے ٹانگوں کو اور پھدی والے حصے کو اچھی طرح صاف کیا
اور کپڑے پہن کر باہر آئی
تو اسکی امی بولی
سوگئی تھی کیا واش روم اتنی دیر لگا دی ۔
عظمی بولی امی نہا رھی تھی
گرمی بہت لگ رھی تھی ۔آپ بھی نہ ہر وقت نوکا ٹوکی کرتی رہتی ھو ۔
اور یہ کہتے ھوے عظمی کمرے میں چلی گئی
اور اسکی امی اس کے تلخ لہجے پر اسکا منہ ھی تکتی رہ گئی
اگلے دن عظمی چھ بجے ھی اٹھ کر تیار سکول کے لیے تیار ہونے لگ گئی
تو اس کی امی نے پوچھا خیر ہے اتنی جلدی سکول جانے کی تیاری کر رھی ھو
یاسر کو تو آنے دو
تو عظمی تلخی سے بولی
مجھے جاکر پیپر کی تیاری کرنی ھے میری دوست نے مجھے پیپر کے گیس دینے ہیں ۔
اب میں اس نواب ذادے کے انتظار میں بیٹھی رہوں ۔
تو عظمی کی ماں بولی
پتر تم اکیلی کیسے جاو گی ۔
تو عظمی جھوٹ بولتے ھوے بولی
کہ میں باجی صدف کے ساتھ جاوں گی
کوئی نھی مجھے کھانے لگا
آپ بھی بس وہ پرانے زمانے کا ذہن لے کر سوچتی ھو ۔
اور یہ کہتے ھوے عظمی ناشتہ کئے بغیر اپنا بیگ اٹھا کر
سات بجے سے ھی پہلے سکول کے لیے نکل گئی۔
اور اس کی امی اپنی بیٹی کا منہ تکتی رھ گئی ۔
عظمی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی شہر کی طرف جارھی تھی
آج اسے گاوں سے شہر تک کا سفر بھی پہاڑ لگ رھا تھا
راستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نھی لے رھا تھا۔
جب عظمی پل کراس کر کے کچھ ہی آگے گئی تھی کہ اسے اسد کی کار اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئی ۔
کار کو دیکھ کر عظمی کا دل ذور ذور سے دھڑکنے لگا ۔
کچھ ھی دیر بعد کار عظمی کے قریب آکر رکی ۔
تو عظمی نے دھڑکتے ہوے دل کہ ساتھ
کار میں بیٹھے اپنے محبوب کو دیکھا اور شرما کر نظریں جھکا لیں
اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارا کیا
عظمی نے پہلے ادھر ادھر
دیکھا کہ کوئی گاوں کا جاننے واال تو نھی آ جا رھا
اور تسلی کر کے جلدی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور دروازہ بند کردیا ۔
اسد نے بازوں آگے کیا اور ہاتھ عظمی کے پٹوں کے ساتھ رگڑتے ہوے دوبارا کار کا دروازہ کھول کر زور سے بند کیا
اور عظمی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوے کار واپس موڑنے لگا
عظمی کا دل گھبرا بھی رھا تھا
اور اندر سے خوشی کے لڈو بھی پھوٹ رھے تھے ۔
پہلی دفعہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر وہ خود کو رئیس زادی محسوس کر رھی تھی ۔
کچھ دیر دونوں خاموش رھے ۔
تو اسد نے کہا کہاں چلیں ۔
تو عظمی مشرقی لڑکی بنتے ھوے
بولی
بس مجھے سکول ڈراپ کر دیں ۔
تو اسد مسکرا کر بوال
سکول میں تو ابھی گیٹ مین بھی نھی آیا ھوگا
تو عظمی سر نیچے کیے ھوے اپنی انگلیاں چٹختے ھوے بولی
ججی وہ ہوسکتا ھے آگیا ھو۔
تو اسد بوال
کیا صرف سکول ڈراپ کرنے تک ھی یہ مالقات محدود ھے ۔
تو عظمی کی سمجھ میں کچھ نھی آرھا تھا کہ کیا کہے وہ بس شرماے جارھی تھی ۔
اسد نے پھر کہا
بتائیں کدھر جانا پسند کریں گی کسی ہوٹل میں یا پھر میں اپنی مرضی سے لے جاوں ۔
عظمی آہستہ سے بولی ۔
جیسے آپ کی مرضی مجھے کیا پتہ کہ کونسی جگہ سہی ھے ۔
تو اسد مسکراتے ھوے سامنے دیکھنے لگ گیا
کچھ ھی دیر بعد اسد نے گاڑی ایک سنسان سڑک کی طرف موڑ دی
تو عظمی سامنے سامنے سنسان راستہ دیکھ کر کچھ گبھرا گئی
اور پریشانی سے اسد کی طرف دیکھنے لگ گئی ۔
اور گبھراتے ھوے بولی
ادھر کدھر جارھے ہیں ۔
تو اسد قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال تمہیں اغواہ کرنے لگا ہوں ۔
)Update no( 69
عظمی اسد کی بات سن کر اندر سے گبھرا گئی مگر پھر بھی خود پر کنٹرول کرتے ھوے بولی
اسد سہی بتاو اسطرف کیوں جارھے ھو
تو اسد پھر ہنستے ھوے بوال
ڈر گئی نہ
ھھھھھھھھھھ
عظمی بولی نھی اسد اگر ڈرتی ہوتی تو تمہارے ساتھ آتی ھی نہ۔
اسد بوال
تو پھر گبھراو نہ
ہم ایسی جگہ جارھے ہیں جہاں صرف میں اور تم ہو گی
اور میں جی بھر کر اپنے سپنے کو پورا کرسکوں گا
عظمی بولی
کون سا سپنا ہے جناب کا
تو اسد مسکر کر بوال
لگ جاے گا پتہ
اتنی دیر میں اسد نے کار کو سڑک سے اتار کر ایک کچے راستے کی طرف موڑ دیا
اور کچھ آگے جا کر ایک پرانی سی حویلی نظر آنے لگ گئی
جیسے کسی زمیندار کا ڈیرا ہو۔
اسد نے کار حویلی کے گیٹ کے باہر روکی
اور ہارن بجایا تو
کچھ دیر بعد گیٹ کھال اور ایک اونچا لمبا جوان بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش ٹائپ کا آدمی نمودار ہوا
جس کو دیکھ کر عظمی کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ گبھرا کر اسد کو بولی
ییییہ کون ھے اسسد
اسد نے ہنستے ھوے کہا
تم کیوں ڈر گئی ھو
یہ یار ھے اپنا
عظمی نے دوبارا
اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ۔
جو سات فٹ لمبا چوڑھے کندھوں کا مالک انتہائی مکرو شکل کا تھا
اور وہ سگریٹ کا کش بھر کر
اسد کو اشارے سے کار اندر النے کو کہہ رھا تھا۔
عظمی نے جب غور سے اسکو دیکھا تو
وہ مزید ڈر گئی
اور اسد کو کہنے لگی۔
اسسسسد واپسسس چلو مجھے نھی اندر جانا
تو اسد عظمی کو ڈرے ھوے دیکھ کر اسے پچکارتے ھوے بوال۔
میری جان تم کیوں خامخواہ ڈر رھی ھو
یہ جگر ھے اپنا
تم میرے ساتھ ھو
پھر بھی ڈر رھی ھو ۔
تو عظمی کچھ سنبھلی مگر پھر بھی اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی اور
ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ھوگئے تھے
جسکو وہ اپنی چادر سے
صاف کررھی تھی
اتنی دیر میں اسد کار کو گیٹ کے اندر لے جاچکا تھا
اور اس آدمی نے گیٹ بند کردیا تھا
اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور باہر نکل آیا اور
عظمی کو بھی باہر آنے کا کہا۔
مگر عظمی کو ایک انجانے سے خوف نے گھیرا ھوا تھا۔
اسد نے جب عظمی کو سوچ میں پڑے دیکھا تو
جلدی سے کار کے اگے سے گھوم کر دوسری طرف آیا اور خود ھی کار کا دروازہ کھول کر عظمی کو پیار سے بازو سے
پکڑ کر باہر آنے کا کہا
عظمی پھر بولی اسد پلیز چلو یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رھا
تو اسد بوال یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا جو تم ایسے کررھی ھو میرا دوست کیا سوچے گا ۔
کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔
عظمی نے جب اسد کے منہ سے بھابھی کا لفظ سنا تو
عظمی کا سارا ڈرا خوف ایکدم سے جاتا رھا اور وہ اسی میں ھی خوش ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی بیوی بنانے کا
بھی سوچ لیا ھے اسی لیے اس کے دوست کی بھابھی ہوئی ۔
عظمی باہر نکلی اور اسد کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔
اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور
عظمی کی طرف اپنی سرخ بڑی بڑی سی آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد سے بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور اسد کا
حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔
اس دوران بھی اس کی نظریں عظمی پر ھی جمی ھوئی تھیں
اور بڑی ہوس بھری نظروں سے عظمی کو سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا۔
عظمی اسکی نظروں کی تاب نہ التے ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی
مگر اب بھی اسے ایسے محسوس ھورھا تھا کہ
اس آدمی کی آنکھیں اسکی گانڈ میں ُچبھ رھی ہیں ۔
اسد سے گلے ملے ھوے وہ شخص ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا
اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے عظمی کو دوسری طرف منہ کیے کھڑے ھوے دیکھا
تو عظمی کو مخاطب کر کے بوال
عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری جموں ہے
اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ
مگر اپنا جگر ھے
اور اکری یہ میری ہونی والی بیگم اور تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔
اکری نے پھر عظمی کو سر سے پاوں تک دیکھا اور
بوال واہ یارا
کیا بھابھی ڈھونڈی ھے
ہیرا ھے ہیرا
خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی
اسد بوال
یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا ھے
یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے
تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں
پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے جانا ھے ۔
اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال
او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے
جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی مار
سکتی ۔
اور اکری پھر بڑے غور سے عظمی کے ابھاروں کو جو چادر میں بھی نظر آرھے تھے انکو دیکھتے ھوے بوال
چلیں بھابھی جی آپکو آپ دونوں کا کمرہ دیکھاوں ۔
عظمی اکری کی جب انکھوں کو دیکھتی تو اس کا جسم کانپ جاتا
مگر پھر وہ جب بھابھی شبد اس کے منہ سے سنتی تو اسے کچھ حوصلہ ہو جاتا ۔
اکری بڑی شان سے اسد اور عظمی کے آگے چلتا ھوا
حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف بڑھنے لگا
اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے سے دروازے کو کھول کر اندر داخل ھوا تو عظمی اندر داخل ھوتے ھی حیرانگی سے
اندر بڑے سے حال کو دیکھنے لگ گئی
باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ رھی تھی
اسے کہتے ہیں
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہوتے ہین
اور کھانے کے اور ہوتے ہیں ۔
عظمی حیرانگی سے حال کو چاروں طرف دیکھے جارھی تھی
جس میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا اعالن کررھی تھی ۔
)Update no ,(70
حال کے اندر کافی سارے دروازے تھے
جو شاید کمروں کے تھے ۔
اکری نے جب عظمی کو حیران پریشان ھوتے دیکھا تو اپنی مونچھوں کو تاو دیتے ھوے بھاری بھرکم آواز میں بوال۔
کیوں پرجائی ساڈا غریب خانہ چنگا لگیا
تو عظمی صرف سر ہال کر رھ گئی
اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا جس کا دروازہ باقی کمروں کے دروازوں سے بڑا
تھا اور
دروازہ .کھول کر کسی خادم کی طرح جھک کر ہاتھ سے عظمی کو اندر جانے کا اشارا کرتے ھوے بوال
یہ آپ دونوں کا کمرہ ھے
یہاں پر کسی قسم کی پریشانی مت لینا
بے خوف ھو کر جب تک چاہیں رہیں ۔
اور اسد کو مخاطب کرکے بوال
چن مکھنا کسے شے دی لوڑ ھوے تے دس دیویں
اور ہنستا ھوا
باھر چال گیا۔
عظمی نے جب کمرے کا جائزہ لیا تو اسے ایسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رھی ھے
کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور سامنے بڑی سی الماری جس میں فل سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا تھا
اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں
مہنگے سے مہنگا ڈیکوریشن پیس لگا ہوا تھا
بیڈ کے اوپر اے سی لگا ہوا تھا جو شاید پہلے سے چل رھا تھا جس کی وجہ سے کمرا کافی ٹھنڈا تھا۔
عظمی کو حیرانگی سے کمرے کی ایک ایک چیز دیکھتے ھوے
اسد آگے بڑھا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر قریب کرتے ھوے
ہاتھ اسکے منہ کی طرف لیجا کر عظمی کا نقاب ہٹا دیا
اور بوال اب تو چاند سے پردہ ہٹا دو کہ ہمیں بھی دیدار یار ھو جاے
اور ساتھ ھی اسکی چادر پکڑ کر اتاری اور بیڈ کے ایک طرف پھینک دی
اور عظمی کو بازوں سے پکڑ کر سینے کی طرف کھینچا
اس سے پہلے کہ اسد عظمی کو جپھی ڈالتا یا اس کے گول تنے ہوے مموں کو پکڑتا کہ اچانک ۔۔۔۔۔۔
).Update no (71
عظمی اسد کو پیچھے کرتی ہوئی بولی
جناب پہلے دروازہ تو الک کرلیں ۔
اسد عظمی کو چھوڑ کر دروازہ بند کرنے کے لیے گیا تو باہر نکل گیا
عظمی نے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی اور اپنے اوپر اوڑھ کر بغلوں مین ہاتھ دے کر اسد کو باہر جاتا ھوا دیکھنے لگ گئی
اسے حیرانگی بھی ہوئی کہ یہ باہر کیوں چال گیا ھے
اور پھر بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ اتنے نرم بیڈ پر سیکس کرنے میں کتنا مزہ آے گا اور پھر اسکی نظر ایک کونے
میں پڑے شاندار ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس پر بڑے سائز کا شیشہ لگا ہوا تھا وہ بے اختیار ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی
اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گئی
کہ ایکدم اسکے ضمیر نے اسے جنھجوڑا
کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے جارھی ھے
کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے تاکہ
اسے پہلے جی پتہ چل جاے کہ تو کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے
پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا ہرگز ھی نھی
اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ جاے گی ۔
جیسے تو یاسر کی رکھیل ھے
یاسر تو شاید تم سے شادی بھی کرلے مگر اسد تجھے چودنے کے بعد تجھ پر تھوکے گا بھی نھی
آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر اس سے
شادی کے خواب دیکھ رھی ھے
کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے والی معمولی سی لڑکی
اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم سے
شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔
عظمی ابھی اپنے ضمیر کی جھاڑ سن ھی رھی تھی کہ اسے اچانک اپنے کندھوں پر ھاتھ محسوس ھوے تو اس نے جلدی
سے گھوم کر دیکھا تو اسد کھڑا مسکرا رھا تھا
دونوں ارنے قریب تھے کے دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ رھی تھیں اور عظمی کے ممے اسد کے سینے
کے ساتھ لگ رھے تھے عظمی ایکدم گبھرا کر پیچھے ھوئی تو ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ اسکی گانڈ لگ گئی
اسد اس کے اور قریب ھوا اور عظمی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال
جناب اپنے حسن کا جائزہ لے رھے تھے
کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا پروگرام ھے ۔ عظمی گبھرا کر اسد کو پیچھے کرتے ھوے پھر دروازے کے پاس
آگئی اور
بند دروازے
کی طرف دیکھنے لگ گئی
جب اسد واپس اسکی طرف مڑا تو عظمی بولی یاسر کنڈی تو لگا دو
یاسر ہنس کر بوال
جان یہ آٹوالک ھے
انکی کنڈیاں نھی ہوتی
عظمی نے جب غور سے دیکھا تو واقعی دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی تھی ۔
عظمی شرمندہ سی ہوگئی
اپنے پینڈو پن پر ۔
اسد پھر عظمی کے پاس آکر کھڑا ھوگیا
اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی مجھ سے کیسی شرم
اور پھر عظمی کو ساتھ لگانے لگا تو عظمی بولی ۔
اس ایک منٹ رکو تو سہی
اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا
تو عظمی بولی ایک بات تو بتاو
اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں کرنے کا نھی ھے
باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی ھے
مگر عظمی اسد کو پیچھے کرتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گئی
اور اسد
عظمی کا منہ تکتا رھ گیا۔
اسد پھر بوال کیا ھے یار
ایسے کیوں کررھی ھو۔
عظمی بولی
اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے
تم تو ایسے کررھے ھو جیسے
میں کہیں بھاگی جارھی ہوں
ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔
اسد غصے پر قابو کرتا ھوا کندھے اچکا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا۔
اور پھر مسکہ لگاتے ہوے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔
میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا
کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے ۔
ہم لیٹ نہ ہو جائیں ۔
عظمی دیوار پر لگے کالک کی طرف دیکھتے ھوے بولی
ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے
بہت ٹائم پڑا ھے ۔
اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے جناب کی مرضی
پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر ھورھی ھے
پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔
عظمی مسکرا کر اسد کی طرف دیکھتے ھوے بولی
نھی کہتی جی۔
جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے
اب خوش
مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔
اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے
بولو کیا پوچھ رھی تھی
اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو
عظمی نیچے جھک کر سکول شوز اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔
اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور عظمی کو بھی اپنے قریب لیٹنے
کا کہا۔
عظمی چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو اتار دو۔
عظمی بولی اچھا اتارتی ھوں
اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔
اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر عظمی کے ساتھ ُجڑ کر
بیٹھ گیا۔
اور آہہہہ بھر کر بوال
جی بولو
عظمی اسکے طنزیہ انداز سے
جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
یاسر تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو
کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے لیے بالیا تھا
کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق ھی رکھنا چاھتے ھو۔
اسد نے عظمی کو روہانسے انداز میں بولتے ھوے دیکھا
تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ھوے بوال
نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے
کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی ھے
میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا چاھتا ہوں
میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں گے وہ کریں گے
میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں گے ۔
عظمی بولی
اسد
یہ آدمی کون ھے جس کے گھر ہم آے ہیں
مجھے تو یہ کوئی بدمعاش لگتا ھے
اسد بوال
لوجی ابھی تک تمہاری سوئی اس بیچارے شریف آدمی پر اٹکی ہوئی ھے
اگر تم یہاں نھی رکنا چاھتی تو چلو پھر جہاں تم کہو گی ادھر چلتے ہیں
عظمی بولی اسد وہ شریف آدمی تو نھی لگتا
وہ تو شکل سے ھی بدمعاز اور عیاش قسم کا انسان لگتا ھے ۔
اسد ہنستے ھوے بوال
یار
وہ لوگوں کے لیے بدمعاش ھے
مگر اپنا جگری یار ھے ۔
عظمی بولی وہ ھی تو میں کہہ رھی ھوں کہ تم ایسے لوگوں سے دوستی کیوں رکھتے ھو۔
اسد بوال
چھوڑو یار کیسی فضول قسم کہ باتوں میں وقت برباد کررھی ھو
آو کوئی پیار کی باتیں کرتے ہیں
۔یہ کہتے ھو اسد نے عظمی کی گردن میں بازو ڈال کر اس کی گال پر ہاتھ رکھتے ھوے ۔
عظمی کا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا اور عظمی کے ہونٹوں کو چومنے لگا تو
عظمی نے جلدی سے اہنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا
اور اسد کے ہونٹ عظمی کے ہاتھ کو چومتے ھوے واپس پلٹے اور
اسد نے غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال
یار یہ کیا حرکت ھے
کیا میں اس الئک بھی نھی کہ
تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں ۔
تو عظمی بولی
نھی یاسر ابھی نھی ۔
جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح بھی تمہارے قبضے میں ھوگی
مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔
اسد حیران ہوتے ھوے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال
میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا وقت
ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا۔
عظمی نے اسد کے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو
تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے
عظمی بولی شک نھی مگر تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں
اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے کہا
ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے پیار کرتا ھوں ۔
عظمی بولی
مجھ سے شادی کرو گے نہ
).Update no (72
اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے ھوے کہا۔
ماں قسم کروں گا۔
عظمی بولی
کب
اسد بوال
جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی ۔
عظمی بولی
تو ایسا نھی ھوسکتا۔
کہ ہم جسمانی تعلق
سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔
یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزرگئی
مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور
پھر عظمی کو اپنی طرف کھینچتے ھوے بوال
شادی سے پہلے بھی میں نے ھی کرنا ھے
اور شادی کے بعد بھی میں نے ھی کرنا ھے
تو پہلے اور بعد میں کیا فرق
عظمی بولی فرق ھے نہ
میرا دل کہتا ھے کہ ہم جو بھی کریں گے سہاگ رات کو ھی کریں گے اس سے پہلے کچھ نھی کریں گے ۔
اگر تم مجھ سے سچا پیار کرتے ھو اور شادی کرنا چاھتے ھو تو تمہیں میری بات ماننا پڑے گی ۔
اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا ھوں
مگر میری بھی ایک شرط ھے
عظمی خوش ھوکر بولی
میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں ۔
اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے
مگر آج موقع ھے
مجھے پیار تو کرنے دو۔
کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا لہجہ روہانسہ ہوگیا
جیسے ابھی رونے لگا ھو۔
عظمی نے جلدی سے اسد کے گالوں پر ھاتھ رکھ اور اپنے گالبی ہونٹ اسد کے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے لگ گئی
اندھا کیا چاہے
دو آنکھیں
اسد نے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ عظمی اتنی جلدی مان جاے گی ۔
اور خود ھی فرنچ کس میں پہل کرے گی
اسد بھی عظمی کے ہونٹ چومنے لگ گیا۔
اور ساتھ ساتھ عظمی کی چادر بھی اتارنے لگ گیا۔
اسد عظمی کا اوپر واال ہونٹ چوس رھا تھا اور عظمی اسد کا نیچے واال ہونٹ چوس رھی تھی ۔
اسد سے ذیادہ عظمی اپنا تجربہ استعمال کر رھی تھی اور بڑی مہارت سے اسد کے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اسکی زبان
کو اپنی زبان سے پکڑنے کی کوشش کرتی عظمی کو اپنی مہارت دیکھانا مہنگی پڑی
اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی سمجھ رھا تھا
وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔
ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر رھا ھوگا ۔
تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے .۔
اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور ساتھ ساتھ سوچوں میں گم
عظمی کے بڑے بڑے مموں کو ایک ھاتھ سے باری باری پکڑ کر دبا رھا تھا۔
عظمی نے دونوں ھاتھوں سے اسد کر سر پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے اپنے یار کے ہونٹ چوس رھی تھی
کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے ھو ے عظمی کو بھی ساتھ لیٹانے لگا
عظمی بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک
دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رھے تھے
اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے لیے بے چین تھا اور عظمی کی پھدی کے ساتھ لگ رھا تھا عظمی بھی مزے میں
ڈوب چکی تھی اور کچھ دیر پہلے کی سوچ اس کے دماغ سے نکل چکی تھی
اسکا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا اعالن کررکھا تھا
اسد نے آہستہ اہستہ عظمی کو سیدھا لیٹا دیا اور اسکی قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر اس کے نازک اور نرم پیٹ پر پھیرنے
لگ گیا
عظمی کے سرور میں اور اضافہ ہوگیا
اور عظمی اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے پر ُت ل گئی اسد نے جب عظمی کا جنون دیکھا کہ یہ اب فل گرم ھوگئی ھے تو
اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا شروع کردیا
اور آخر کار اسد کا ہاتھ عظمی کے مموں تک پہنچ گیا
اور اسکا ہاتھ
آپے سے باہر آے ھوے مموں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گیا
عظمی اسد کے ہاتھ کے لمس سے مزید بے چین ھوکر اپنی پھدی کو اسکے پینٹ کے ابھار پر رگڑنے لگی
اسد کو بھی علم ھوگیا کہ .لوہا اب مکمل گرم ھو چکا ھے
تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے لیجا کر اپنے پنٹ کی زپ کھولی اور
انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ سے باہر نکال لیا
اور پھر ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے مموں کو دبانے لگا
عظمی اپنی مستی میں گم تھی
اسے پتہ ھی نھی چال کہ
نیچے کیا واردات ھونے والی ھی
اسد نے لن عظمی کی شلوار کے اوپر سے ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا
عظمی نے لن کو اہنے چڈوں میں بھینچ لیا اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی
اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ نیچے لیجا کر عظمی السٹک والی شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر رکھ دیا پھدی
تو پہلے نکو نک بھری ہوئی تھی جیسے ھی اسد کی انگلیاں عظمی کی مالئم پھدی سے ٹکرائیں
عظمی کے منہ سےلمبی سسکاری نکلی
اور سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی گھوم کر اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے اپنے بازوں میں جکڑ کر کس لیا اور ساتھ ھی
چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو جکڑ لیا اور پھدی سے ساون کی جھڑی شروع ھوگئی جو جمعرات سے شروع ھو کر اگلی
جمعرات کو ھی ختم ھوتی ھے
اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور عظمی کی سانسیں اکھڑنے لگی
اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں بھی تھم گئی
اور عظمی کا جسم ڈھیال پڑ گیا
تو اسد نے جلدی سے گیلی پھدی سے ھاتھ ہٹایا اور عظمی کی شلوار سے ھی ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے اپنے ساتھ
چمٹی ھوئی عظمی کی گانڈ سے شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے نیچے کی
اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے لگا
جیسے ھی عظمی کی پھدی کے ساتھ اسد کا لن ٹچ ہوا
تو عظمی کو ایکدم ہوش آگیا اور وہ ا سد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے سینے پر
رکھتے ھوے اسے زور سے دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور
اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کرنے لگے تھے
عظمی کے اچانک دھکے سے
اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا
اور غصے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے عظمی کو گھورنے لگ گیا ۔
اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے
عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے تھے
تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا کر وعدہ کیا تھا
کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں گے
مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد ۔ غصے سے بوال
یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ اتنی پارسا بن رھی ھو۔
عظمی اسد کی پارسا والی بات سن کر حیران ھوتے ھوے بولی
اسد کیا مطلب ھے تمہارا
تو اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب صاف ھے کہ
تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ کروانے لگی ھو۔
عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا
اور وہ جلدی سے اٹھی کر بیٹھ گئی اور غصے سے بولی
کیا بکواس کر رھے ھو اسد
تو اسد ہنستے ھوے بولے بکواس نھی سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے کر رھی تھی
کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔
عظمی اسد کی بات اور طعنہ سن کر رونے والی ھوگئی
اور روتے ھوے بولی
اسد بکواس بند کرو
میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر پیار کیا کر
لیا
تو تم
میری محبت میرے پیار میرے اعتماد
کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے
ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔
میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں آگئی
اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی آئی
خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی شکل بھی دیکھائی
جھوٹے مکار
اور یہ کہتے ھوے عظمی نے اپنی چادر اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔
تو
اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال
جا کدھر رھی ھو جان من
میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل نھی رہو گی
اور
ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو مگر جاو گی میری مرضی سے
چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو
مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا
کہ عظمی نے ایک ذور دار تھپڑ اسد کے منہ پر مارا
اور روتے ھوے بولی
جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام زادے
میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا سب ڈرامہ کیا تھا
میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک کر دیکھاو ۔
دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے
عظمی یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا
اس نے
عظمی کو بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا
اور خود عظمی کے پیٹ پر سوار ھوگیا اور عظمی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے عظمی ٹانگیں چال رھی تھی اور اونچی آواز
میں اسد کو گالیاں دے کر ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی
اسد نے جیسے تیسے عظمی کے دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک ھاتھ میں کیں
اور ایک ذور دار تھپڑ عظمی کے منہ پر مارتے ھوے بوال
ُچپ کر گشتئے
تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی
آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے
آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے
تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی بیڈ پر چودتا ھوں
اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا
پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب برابر ھوگا ۔
ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں دو لن جائیں گے
اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ
اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے
تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی
عظمی اسد کا تھپڑ کھانے اور اسکی دھمکیاں سننے کے بعد سہم گئی اور انکھیں پھاڑے اسد کو دیکھی جارھی تھی
اسد کے خاموش ہوتے ھی
عظمی بولی
چھوڑ مجھے کتے
میں یاسر کو بتاوں گی
اور اپنے ابو کو بھی
تو اسد غصے سے بوال
جا دس دے جنوں دسنا ای
لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی
عظمی اب خود کو بے بس محسوس کرنے لگ گئی تھی
ایک تو انجان جگہ دوسرا وہ اکیلی جان
اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا لیا تو میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔
عظمی نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات کا اثر نھی ھورھا تو
عظمی نے روتے ھوے اسد کی منتیں شروع کردیں اور
بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ مجھے جانے دو
تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا بیتے گی
میری عزت نہ خراب کرو
میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں گے
اسد نے اسکی بات سنی ان سنی کی اور پیچھے ھو کر عظمی کی ٹانگوں کے پاس پہنچ کر اسکی شلوار پکڑ کر نیچے کھینچ
دی ۔عظمی نے ایک ذور دار چیخ ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ آگے کی اور پورے زور سے اپنی ٹانگ اسد کے لن پر ماری ۔
اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا
اور ایک ذور دار چیخ مارے
ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی باہر کا
دروازہ دھڑم دے کھال اور۔۔۔
عظمی نے جیسے ھی دروازے کی طرف دیکھا۔
عظمی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رک گیا ۔
اکری دروازے کے دونوں اطراف بازو رکھ کر آنکھیں پھاڑے کبھی عظمی کی طرف دیکھتا تو کبھی لن پر ہاتھ رکھے فرش
پر تڑپتے ہوے اسد کی طرف دیکھتا ۔
اور پھر اکری کی کرخت دار آواز کمرے میں گونجی ۔
او پرجائی اے کی کیتا ای ۔
اسد رندھی آواز میں بوال۔
اکری پکڑ اس گشتی کو بھاگنے نہ پاے ۔
عظمی بیڈ سے نیچے اتری اور باہر بھاگنے لگی تو
اکری نے بازو ہوا میں لہرایا اور اپنے ہاتھ کے پنجے کو کھول کر عظمی کے منہ کی طرف کرتے ھوے بوال
رک جا پرجائی ایتھے ای ۔
عظمی اکری کی آگ کی طرح دھکتی غضب ناک آنکھوں کو دیکھ کر اور اس کی کرخت دار دھمکی آمیز آواز سن کر سہم
کر اسی جگہ بت بن کر کھڑی ہوگئی اور
بری طرح کانپنے لگی ۔
اکری اپنی لمبی ٹانگوں سے دوقدم بڑھ کر عظمی کے سر پر پہنچ گیا اور
عظمی کے سامنے کھڑا ہوکر
اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اپنا بڑا سا پنجہ کھول کر عظمی کے سر پر رکھ کر بوال ۔
پرجائی کی ہویا جیڑا توں میرے یار نوں تڑفا کے پج چلی آں ۔
عظمی روتے ہوے بولی
مجھے جانے دو تمہیں ******* کا واسطہ
تمہارا یہ دوست مجھے بہکا کر یہاں الیا ھے
اور میری عزت لوٹنا چاہتا ہے۔
اسد بوال اکری پھینک اسکو بیڈ پر اور اس کی پھدی پھاڑ دے میری طرف سے اجازت ھے ۔
اکری نے غصے سے اسد کہ طرف دیکھا اور اسکی طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے بوال
ٹھنڈ رکھ اوے منڈیا
مینوں ایس کڑی نال گل کرلین دے۔
اسد ہاےےےےے کرتا ھوا خاموش ہوگیا
اکری عظمی کی طرف دیکھ کر بوال۔
تم اس کے ساتھ اپنی مرضی سے نھی آئی عظمی بولی
یہ مجھے بہکا کر الیا ھے مجھ سے پیار کے دعوے کرتا تھا ۔
مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا
مگر یہاں آکر یہ میری عزت لوٹنا چاھتا ہے ۔
آپ کی مہربانی بھائی جان
ہم غریب لوگ ہیں
مجھے جانے دیں
اکری عظمی کی بات سن کر بوال
دیکھ کڑیئے
توں مینوں پرا کیا اے تے فیر گل سن میری
چپ کر کے ایتھے بیٹھ جا
اے اکری دا ڈیرہ اے ۔
کسے للو پنجو دا نئی
تے میرے وی کج اصول نے
صبر کر تے تینوں ڈرن دی کٰو ئی لوڑ نئی
اکری نے ساری ذندگی کسے دی عزت نہ تے ُلٹی اے تے نہ ای کسے نوں ذبردستی کسے دی دھی پین دی عزت ُلٹن دتی اے
۔
میں ذرا ایس ُمنڈے نال وی گل کر لیواں۔
اسد اتنی دیر تک لن پر ہاتھ رکھے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اور اب بھی تکلیف سے اسکا ُبرا حال تھا۔
اکری چلتا ھوا
اسد کے پاس گیا اور اس سے پوچھا
تم اس سے شادی کرنا چاھتے ھو۔
اسد نفی میں سر ہالتے ھوے بوال
نھی یار میں تے ایدی ُپھدی مارن واسطے ایتھے لے کے آیا سی
پر ایس گشتی نے میرے ٹٹیاں تے لت ماردتی اے ھاےےےےے
اکری کا رنگ سرخ ہوتا جارھا تھا
اکری بوال۔
ایس دا مطبل اے کے توں میرے نال وہ جھوٹ بولیا کہ
اے میری ہون والی پرجائی اے۔
اسد بوال چھڈ یار
ایس گشتی نوں لمے پا تے ایدی اج پھدی پاڑ دے
اسد کے منہ سے اکری نے جب یہ بات سنی
تو اس نے ایک نظر عظمی کی طرف دیکھا
اور ایک زناٹے دار تھپڑ
اسد کے منہ پر ماردیا ۔
اسد قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا
اور اکری بوال
ُک تے دیا ُپترا
توں مینوں کنجر سمجھیا اے
اسی عزتاں دے رکھوالے آں کوئی بےغیرت نئی
تیری اینی جرات کے اکری نوں توکھا دے کہ کسے شریف ُک ڑی دی عزت نوں ہتھ پاویں
ایس توں پیالں کے میں تیری ُبنڈ وچ فائر نار دیواں
پج جا ایتھوں
گندی نسل دیا۔
اسد کا رنگ پیال پڑ گیا اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے بوال۔
اکری
تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے
مجھے اس کے سامنے بےعزت کررھے ھو اپنی ساری یاری بھول گئے
اس سے پہلے کے اسد مذید کچھ کہتا۔
اکری نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈاال اور دھوتی میں سے پسٹل نکال کر بولٹ مار کر اسد کی طرف کرتے ھوے بوال
بکواس بند کر اوے ُک تے دیا ُپترا
ہن اک سیکنڈ وی ایتھے ُرکیا تے تیری ُبنڈ وچ فائر ماردینا اے
تیرے نال چار دن چنگے لنگے نے تے ہن تک بچیا ہویاں اے
نئی تے تیری الش وی تیرے کار والیاں نوں نئی لبنی سی۔
پج جا ایتھوں
نئی تے میں سب کج ُپل جاناں اے
عظمی نے جیسے ھی اکری کے ہاتھ میں ریوالور دیکھا تو عظمی کی چیخ نکلی مگر آواز ہلک میں اٹک گئی اور دونوں ھاتھ
منہ پر رکھ کر کبھی اکری کی طرف دیکھتی تو کبھی اسد کی طرف
اسد کی بھی گانڈ پھٹنے والی ہوگئی
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اکری جو کہتا ھے وہ کرنے میں دیر بھی نھی کرتا۔
اسد نے کھسکنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی
اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے لڑکھڑاتا ھوا کمرے سے باہر جانے لگا
تو اکری نے پھر
اسے مخاطب کیا
اوے گل سن
اک گل کن کھول کے سن لے جے اج توں بعد
توں ایس کڑی دے آسے پاسے وی نظر آیا ناں تے او دن تیرا آخری دن ہوے گا۔
اے ُک ڑی ہن کوئی معمولی نئی بلکہ
اے اکری دی پین اے
پین
سمجھ آئی کہ نئی ۔
اسد نے صرف اثبات میں ھی سر ہالیا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔
).Update no (73
اسد کے جاتے ھی
اکری عظمی کی طرف مڑا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بوال
گبھرا نہ ہن
توں اے ای سمجھ اپنے کار وچ ای بیٹھی ایں
عظمی ایکدم اٹھی اور اکری کے پاوں میں گر گئی اور اونچی آواز میں رونے لگ گئی
اور اسکا شکریہ ادا کرنے لگ گئی
جیسے ھی عظمی اکری کے پاوں میں گری تو اکری جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹا اور
اسے بازوں سے پکڑ کر اٹھایا اور
پھر اسکے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بوال
۔ھے ناں کملی
ایویں مینوں گناہ گار کرن دئی ایں
چل چادر لے سر تے
میرا نوکر تینوں سکول چھڈ آندا اے
اتنے میں اکری نے دروازے کہ طرف منہ کر کے آواز دی اوے غفورے
تو اسی وقت ایک لمبا چوڑا بڑی بڑی مونچھوں واال خطرناک بدشکل سا کندھے پر گن لٹکاے اندر داخل ہوا اور ادب سے سر
جھکا کر بوال جی سائیں
۔تو اکری بوال جا ایس کڑی نوں ایدے سکول چھڈ آ ۔
تو وہ پھر ادب سے بوال
جو حکم سائیں
اور باہر جانے لگا تو
اکری نے پھر اسے آواز دی کے گل سن نالے
او چھور اسد
جے ایدے اگے پچھے وی نظر آوے ناں تے اودیاں لتاں وچ فائر ماردیویں
تو غفورا جی سائیں کہتا ھوا باہر نکل گیا
عظمی شکر ادا کررھی تھی اور اسے اپنے آپ پر غصہ بھی آرھا تھا
اور جسے وہ ایک خطرناک بدمعاش سمجھ رھی تھی آج اسکی وجہ سے ہی اسکی عزت بچی
اور جسے عزت کا رکھواال سمجھ رھی تھی
وہ ھی اسکی عزت کو تار تار کرنے واال نکال ۔
عظمی پھر اکری کے سامنے ہاتھ جوڑتے ھوے بولی بھائی آپ کا شکریہ میں کیسے ادا کروں
اکری ہنستے ھوے بوال
پیناں ویراں دا شکریہ ادا نئی کردیاں ہوندیان
میں تے اے سوچ سوچ کے پریشان ھوندا پیاں واں
کہ جے او کنجر دا پتر تیری عزت لٹ لیندا تے ۔۔
میں تاں کدی وی اپنے آپ نوں معاف نئی کرنا سی
کہ میری حویلی وچ کسے شریف کڑی دی عزت لٹی جاوے او وی اکری دے یار دے ہتھوں ۔
مینوں پیلے پتہ ہندا کہ
اے کتے دا پتر تینوں توکھے نال لیایا سی تے
میں گل ایتھے تک وی نئی ُپنچن دینی سی
خیر چنگا ھو یا توں جو وی اودے نال کیتا
تے گل سن .اگوں جے اے تینوں تنگ کرے تے
بس اک واری اپنے ویر نوں دس دیویں
فیر ایسا جو حال ہوے گا
سارا شہر کناں نوں ہتھ الوے گا۔
اور یہ کہتے ھو اکری
عظمی کو اپنے ساتھ لگاے ھوے کمرے سے باہر آیا
اور حال سے ہوتا ھوا
باہر حویلی میں اگیا
سامنے ھی ایک جیپ کھڑی تھی جس میں غفورا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا عظمی کا انتظار کر رھا تھا
عظمی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جیپ کے پاس پہنچی ۔
اور
اچانک عظمی کو خیال آیا کہ اسکا پیپر واال دستہ اور ایک ُبک تو اسد کی کار میں ھی رھی گئی
تھی
وہ مڑی اور اکری کی طرف دیکھنے لگی مگر اس سے بولنے کی ہمت نھی ھورھی تھی
اکری نے جب عظمی کو اپنی طرف دیکھتے ھوے
دیکھا
تو چلتا ھوا عظمی کے قریب آیا
اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال کی گل اے ُپتر۔
عظمی گبھرائی ہوئی آواز میں بولی وووووو بببھائی جان
میری بک اور میرا دستہ اس کی کار میں رھ گیا ھے ۔
اکری کچھ سوچتے ھوے بوال
وہ تجھے مل جاے گا
پریشان نہ ہو۔
عظمی بولی میرا ابھی پیپر ھے
تو میں پیپر کیسے دوں گی ۔
تو اکری نے غفورے کو کہا کہ
اوے غفورے کڑی نوں جیڑی شے چائی دی ھوے اینوں رستے وچوں لے کے دے دیویں تے فیر سکولے چھڈ کے آویں ۔
غفورا جی سائیں کہہ کر چپ ھوگیا ۔
تو اکری عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بول جا میرا پتر جیڑی شے چائی دی اے غفورے نوں دس دیویں تینوں لے دے گا۔
عظمی پھر اکری کا شکریہ ادا کرتی ھوئی
ُلنڈی جیپ میں سوار ھوئی اور غفورا جیپ گیٹ سے باہر لے گیا اور جیپ کا رخ شہر کی طرف کردیا
راستے میں ایک بک ڈبو سے اس نے نئی بک لی اور پھر غفورا اسے سکول کے پاس لے کر پہنچا جیسے ھی
عظمی جیپ سے اترنے لگی تو اسکی نظر جیسے ھی سامنے سے آتے ھوے یاسر پر پڑی جو اسی کی ھی طرف دیکھ رھا
تھا۔
عظمی کا ڈر کے مار حلق خشک ہوگیا
اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔
اسد دیار یار سے بےعزت ہو کر گاڑی بھگاتا ھو شہر کی طرف جانے لگا
اسکو عظمی پر اور اکری پر بہت غصہ آرھا تھا
اور وہ سارا غصہ گاڑی کے گئیر پر نکال رھا تھا ۔
اسکو ذرہ سی بھی امید نھی تھی کہ یوں عظمی کے ساتھ ساتھ اپنے دوست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔ٹٹوں میں تکلیف اب
بھی ھو رھی تھی اور
اسد بار بار کبھی ٹٹوں کو پکڑ کر ہلکا سا دباتا تو کبھی اکری کے پڑے تھپڑ کی وجہ سے گال پر ہوتی جلن پر ہاتھ رکھ کر
گال کو مسلتا ہوا
غصے میں گاڑی کی رفتار حد سے ذیادہ کر کے گاڑی کو ہوا میں اڑا رھا تھا
اسے سمجھ نھی آرھی تھی کہ کدھر جاے
سکول جانے کو تو اسکا دل نھی کررھا تھا۔
ایسے میں وہ شہر میں داخل ھوگیا اور پھر اس نے سوچا کہ چلو گھر ھی چلتا ہوں
پھر اسکو خیال آیا کہ مما تو بوتیک پر چلی گئی ھوگی اور مہری بھی کالج چلی گئی ھوگی
اور آج تو اس کے پاس گھر کی چابی بھی نھی ھے
صبح پھدی کے چا میں چابی بھی لینا بھول گیا ۔
پھر اس نے سوچا کہ
مما سے چابی لے کر طبعیت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر گھر چال جاوں گا
تو اس نے کار بازار کی طرف موڑ لی اور
بازار میں رش تھا تو گاڑی کی سپیڈ بھی اسے آہستہ کرنی پڑی
ابھی وہ اپنی مما کے بوتیک سے کچھ ھی پیچھے تھا کہ اسکی کار کے اگے ایک سائکل واال آگیا جس کہ وجہ سے اسے
بریک مارنا پڑی
اور ساتھ ھی اسد نے ہارن بھی بجا دیا
اور شیشے سے دوسری طرف دیکھا
تو اسے ایک دکان کے باہر بیٹھا ھوا یاسر نظر آیا جو بڑے غصے سے اسکی طرف دیکھ رھا تھا جیسے ابھی اسکو قتل
کردے گا
اسد کہ دماغ میں فورن جھماکہ ھوا کہ کہیں اسے پتہ تو نھی چل گیا
اور اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور
گاڑی کو بھگا کر ایک گلی میں لے گیا اور شکر ادا کیا
کہ اس مصیبت نے اسکا پیچھا نھی کیا اور کار دوسرے بازار کی طرف لے گیا ۔
+++++++++++++++++
میں پریشان حال چلتا ہوا عظمی کے سکول کی طرف جارھا تھا
میرے دماغ میں جھماکے ھورے تھا
ایک ھی دن میں مجھکو ڈبل پریشانی نے گھیر لیا
ابھی تو میں صدف سے ہوئی اپنی بےعزتی کو نھی بھوال تھا کہ اوپر سے یہ اسد کا یوں گبھرا کے میری طرف دیکھنا اور
پھر جلدی سے گاڑی کو بھگا کر لے جانا۔
مجھے اضطراب میں ڈالے ھوے تھا
میرے قدم بوجھل ھوچکے تھے چلنا مجھ سے محال ھورھا تھا
دماغ تو پھٹنے واال تھا
مجھے پورا یقین ھو چکا تھا
کہ عظمی آج سکول نھی گئی بلکہ اسد کے ساتھ کار میں رنگ رلیاں مناتی پھر رھی ھے
اور اسد نے جب مجھے دیکھا تو گبھرا کر اسی لیے بھاگا کہ کہیں میں عظمی کو اسکے ساتھ دیکھ نہ لوں ۔
مگر آج میں دودہ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے ھی رہوں گا
مجھے آج اپنی بے بسی پر بھی غصہ آرھا تھا
کاش میرے پاس موٹرسائیکل ہوتی تو آج میں اسد اور عظمی کو یوں بھاگنے نہ دیتا بلکہ میں موٹرسائیکل پر اسد کی گاڑی
کا پیچھا کرتا اور ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا۔
مگر میرا تو آج کا دن ھی منحوس جارھا تھا
ایسے ھی خیالوں میں چلتا ھوا میں سکول والی گلی میں داخل ھوا اور عظمی کے سکول کی طرف بڑھنے لگا میں ابھی گیٹ
سے کچھ پیچھے ھی تھا ۔
کہ مجھے ایک ُلنڈی جیپ آتی ہوئی نظر آئی جسکی فرنٹ سیٹ پر ایک بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش بیٹھا ھوا تھا اور
ساتھ میں ایک نقاب پوش لڑکی بیٹھی ہوئی تھی
میں گیٹ کے قریب تھا اور جیب کچھ فاصلے پر تھی
اس سے پہلے کہ میں جیپ کی طرف سے نظر کو ہٹاتا جیپ بلکل میرے سامنے کچھ فاصلے پر آکر رکی تو جیسے ھی
میری نظر اس نقاب پوش لڑکی پر پڑی ۔
میرے تو پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی
وہ لڑکی کوئی اور نھی بلکہ عظمی تھی
اور عظمی نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور اس کی آنکھوں سے گبھراہٹ صاف نظر آرھی تھی
عظمی جیپ سے نیچے اتری اور آہستہ آہستہ چلتی میری طرف آرھی تھی
اور میں بت بنا کبھی عظمی کی طرف دیکھتا تو کبھی اس مونچھوں والے بدمعاش کی طرف
وہ بدمعاش بھی پہلے ادھر ادھر دیکھ رھا تھا ۔
پھر اسکی مجھ پر نظر پڑی کہ میں عظمی کو دیکھ رھا ہوں تو وہ مجھے گھورنے لگ گیا۔
عظمی چلتی ھوئی میرے قریب سے نظریں جھکائے گزرنے لگی تو میں نے
اسکو بازو سے پکڑ لیا اور پوچھنے لگا کہ
کدھر سے آرھی ھو اور یہ بدمعاش کون ھے ۔
اتنے میں وہ بدمعاش چھالنگ مارتے ھوے گاڑی سے اترا اور پیچھے سے بڑی سی گن اٹھا کر سیدھی میری طرف کردی
اور بوال
ہتھ چھڈ اوے کڑی دا
عظمی نے جب دیکھا کہ اسکے ساتھ آنے واال بدمعاش مجھے گولی مارنے پر اتر آیا ھے ۔
تو عظمی جلدی سے میرے آگے ہوگئی اور بولی نھی
بھا غفورے
اینوں ُک ج نئی کیناں اے تے میری خالہ دا پتر اے ۔
اس بدمعاش ٹائپ بندے نے جسکو عظمی بھا غفورے کہہ رھی تھی ۔
اس نے عظمی کے کہنے پر گن نیچے کر لی ۔
اور مجھے گھورتا ھوا واپس جیپ میں بیٹھ گیا
اس ُمچھل کو اور اسکو یوں مجھ پر گن تانے دیکھ کر ایک دفعہ تو میری بھی ہوا نکل گئی تھی
اور میں آنکھیں پھاڑےکبھی عظمی کو دیکھتا اور کبھی اس بدمعاش کو۔
عظمی مجھ سے بولی یاسر ابھی جاو
چھٹی کے وقت مجھے لینے اجانا
پھر تمہارے سب سوالوں کے جواب دے دوں گی
تمہیں
*****
کا واسطہ ابھی تم ادھر سے چلے جاو
میں تمہارا انتظار کروں گی ۔
اور یہ کہتے ھوے عظمی سکول میں داخل ھوگئی اور عظمی کے اندر داخل ھوتے ھی
وہ بدمعاش گاڑی کو گھما کر ایک دفعہ پھر مجھے گھورتا ھوا
چال گیا
اور میں بت بنے اس نئے گھن چکر کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔
عظمی سکول میں داخل ہوگئی اور جو شخص اسے چھوڑنے آیا تھا وہ بھی چال گیا
مگر میں بت بنا ادھر ھی کھڑا سوچتا رھا کہ
اگر عظمی اسد کے ساتھ تھی تو اس شخص کے ساتھ کیسے اتنی جلدی ادھر آگئی؟؟؟
اور اگر یہ اسد کے ساتھ نھی تھی تو اسد مجھے دیکھ کر بھاگا کیوں ؟؟؟؟؟
اور یہ بدمعاش ٹائپ کا شخص کون تھا جو عظمی کا ھاتھ پکڑنے پر مجھے مارنے پر تل گیا تھا؟؟؟؟؟
نہ تو یہ کوئی عظمی کا رشتہ دار تھا نہ ھی کوئی ینگ خوبصورت تھا کہ اسکے ساتھ عظمی کا چکر ھو بلکہ یہ تو عظمی
کہ باپ کی عمر کا تھا تو آخر یہ تھا کون؟؟؟؟؟؟
عظمی گھر سے صبح چھ بجے کی نکلی ہوئی ھے اور اب دس بجنے والے ہیں اور یہ چھ بجے کی گھر سے آئی اب سکول
پہنچی ھے وہ بھی ایک بدمعاش شخص کے ساتھ چار گھنٹے گزارنے کے بعد
یہ چکر کیا ھے؟؟؟؟؟؟
یہ سوال میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رھے تھے
اور میں سکول کے گیٹ کے پاس بت بنا کھڑا اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک مجھے کسی نے کندھے سے ہالیا۔
تو میں خیالوں کی بستی سے باہر نکل کر مخاطب کرنے والے کی طرف متوجہ ھوا تو ۔
گارڈ کی وردی پہنے ھوے ایک شخص میرا کندھا ہال کر پوچھ رھا تھا
کہ بھائی کس سے ملنا ھے
میں نے جب غور کیا تو وہ سکول کا گارڈ تھا
میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا ۔وہ میں اپنی کزن کو چھوڑنے آیا تھا
تو اس لیے ادھر ھی کھڑا ہوگیا ۔
تو وہ گارڈ بوال بھائی یہاں لڑکوں کا کھڑا ھونا ممنوع ھے ۔آپ اس طرف چلے جائیں یا جب چھٹی ھو جاے تب آجانا ۔۔
میں اثبات میں سرہالتا ھوا
ادھر سے چل پڑا مجھے تو اب سمت کا بھی نھی اندازہ ھورھا تھا
کہ اب میں جا کدھر رھا ھوں میری منزل کونسی ھے میرا پڑاو کہاں پر ھے ۔
میں کچھ دیر ایسے ھی چلتا ہوا ،بوائز سکول کے پاس پہنچ گیا
اتنی دیر میں کچھ سوچنے کے قابل ھوا
کہ اب دکان پر جاوں یا ادھر ھی عظمی کی چھٹی کا انتظار کروں ۔
میرا میرے دماغ میں اٹھتے ھوے سوالوں کا جواب عظمی سے سننے کا تجسس مجھے دکان پر جانے سے روک رھا تھا ۔
مگر مسئلہ یہ بھی تھا کہ انکل کو بھی میں بس یہ ھی بتا کر آیا تھا کہ
میں ابھی آیا
وہ بھی میرے واپس نہ انے کی وجہ سے پریشان ہوں گے۔
اب یہ بھی نھی پتہ تھا کہ عظمی کو چھٹی کس وقت ھونی ہے
کیوں کہ ابھی تو پیپر شروع ھوا ھوگا اور اسکے بعد کب چھٹی ھونی ھے اسکا بھی مجھے کنفرم نھی تھا۔
میں کچھ دیر کھڑا پھر سوچتا رھا
اور پھر واپس گرلز سکول کی طرف چل پڑا گیٹ بند ھوچکا تھا
میں نے گیٹ کے پاس پہنچ کر گیٹ پر دستک دی تو گیٹ کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلی اور اسی گاڈ نے سر باہر نکاال
اور مجھے دیکھ کر گھورتا ھوا بول
جی بھائی اب کیا ھے ۔
میں نے کہا ججییی سر معاف کرنا
وہ میں نے پوچھنا تھا کہ چھٹی کب ھونی ھے
تاکہ میں اندازہ کرسکوں کہ میں ادھر ھی کھڑ ا ھوکر انتظار کرلوں یا پھر گھر چال جاوں ۔
گارڈ نے حیرت سے مجھے اوپر سے نیچے دیکھ کر کہا
۔پہلی دفعہ آے ھو کیا۔
میں نے نھی سر میں پہلے صرف چھوڑنے آتا تھا
مگر آج گھر ضروری کام ھے اس لیے میں نے دکان سے چھٹی کی ھے تو سوچا کزن کو ساتھ ھی لیتا جاوں
میرے دماغ میں جو بہانہ آیا وہ لگادیا۔
جبکہ یہ بہانہ معقول نھی تھا
دماغ حاضر ھوتا تو سیدھی طرح کہدیتا کہ ۔پہلے میری دوسری کزن بھی آتی تھی اس لیے میں نھی لینے آتا تھا مگر آج یہ
اکیلی آئی ھے اس وجہ سے مجھے آنا پڑا۔
خیر
گارڈ بوال
بھائی جی
دو بجے چھٹی ھونی ھے
آپ گھر چلے جاو یا اپنی دکان پر
اور ساتھ ھی اسکا سر غائب ھوا اور کھڑکی بند ھوگئی ۔
میں کچھ دیر سوچتا رھا اور تذبذب کا شکار رھا
پھر دکان کی ھی طرف چل پڑا
کچھ دیر بعد دکان پر پہنچا
اور انکل سے جھوٹ بول کر بہانہ کیا اور پھر دکان پر کام میں مصروف ھوگیا۔
میرا دھیان بار بار گھڑی کی ھی طرف تھا
آخرکار ایک بج گیا
اور
میری بے چینی مذید بڑھ گئی
مذید آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد میں نے انکل سے بہانہ کیا کہ میں نے دوائی لینے جانا ھے میری طبعیت کچھ ذیادہ ھی
خراب ھورھی ھے
تو انکل نے خوشی سے مجھے چھٹی دی اور جیب سے پچاس روپے نکال کر مجھے دئیے کی بیٹا یہ لو دوائی بھی لے لینا
اور پیدل مت جانا تانگے پر چلے جانا
میں نے پچاس روپے پکڑ کر جلدی سے جیب میں ڈالے اور
انکو سالم کر کے سکول کی طرف چل دیا۔
سکول کے پاس پہنچا تو گیٹ کے اطراف میں پہلے سے اپنی بچیوں اور بہنوں کو لیجانے والوں کا کافی رش تھا
میں بھی کچھ آگے جاکر کھڑا ھوگیا۔
کوئی پندرا منٹ بعد چھٹی ھوئی تو
رنگ برنگی بچیاں سکول سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں ۔اور میری نظریں عظمی کو تالش کرنے لگی
کچھ دیر کے انتظار کے بعد عظمی آتی ہوئی نظر آئی ۔
اسکی جب مجھ پر نظر پڑی تو اس نے ایک نظر دیکھ کر نظریں جھکالیں ۔
اور میرے قریب سے مجھے مخاطب کیے بغیر گزر گئی ۔
مجھے غصہ تو بہت چڑھا
کہ
نالے چور تے نالے چتر۔
خیر
میں بھی اسکے پیچھے چلتا ھوا اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگ گیا ۔
وہ ایسے انجان بن کر جارھی تھی کہ جیسے مجھے جانتی ھی نہ ھو
اس کی نظریں سڑک کی طرف تھی ۔
جب ہم رش سے نکل کر گاوں کی طرف جاتی سڑک پر پہنچے تو میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔
عظمی میں تمہاری خاموشی دیکھنے کے لیے دکان چھوڑ کر نھی ھے ۔
تو عظمی نے میری طرف دیکھا تو
میں اسکی آنکھوں کو دیکھ کر حیران رھ گیا اسکی آنکھیں ایسی سرخ تھیں
جیسے
وہ رات بھر روتی رھی ھے
اور اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔
).Update no ,(74
عظمی نے میری طرف دیکھ کر پھر منہ سیدھا کرکے آنکھیں جھکا کر چلتی رھی ۔
میں نے پھر پوچھا عظمی کچھ بولو گی کہ نھی ھوا کیا ھے
تمہاری آنکھیں کیوں الل ہیں
تم رو کیوں رھی ھو
کچھ تو بولو کچھ تو مجھے بتاو۔
ایسے ھی ہم نہر کے پل پر پہنچ گئے
آدھا رستہ طے ھوچکا تھا
مگر عظمی کی زبان سے ایک لفظ سننے کو میرے کان ترس گئے تھے
پل سے گزر کر جب ہم نہر سے نیچے اترے تو میں نے عظمی کا بازو پکڑ لیا اور
اسکو روک کر
اپنی طرف گھما کر اسکے گالوں پر ھاتھ رکھ کر اسکا منہ اوپر کیا تو دیکھا عظمی رو رھی تھی اور آنسوؤں کی جھڑی نے
اسکا نقاب بھی گیال کردیا تھا۔
میں نے اسکے گال چھوڑے اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر جنجھوڑ کر پوچھا
عظمی کچھ تو بول ھوا کیا ھے
یہ کیا ماجرا ھے وہ مونچھوں واال چاچا کون تھا تم کدھر تھی
میں نے ایک ھی سانس میں کتنے سوال کردیے
عظمی نے شہر کی طرف انگلی کر کے اتنا ھی کہا
ووووہہہہ اسد نے مجھےےےےے کہتے ھوے عظمی چکرا کر میرے اوپر گری تو میں نے جلدی سے اسکو تھام لیا اور
اسکی گالوں کو تھپ تھپانے لگا
عظمی عظمی ہوش کرو عظمی
مگر عظمی تو ۔۔۔
میں عظمی کی کفیت دیکھ کر ڈر گیا
کہ اسے کیا ھوا۔
اور اسد نے کیا
کیا اس کے ساتھ جو عظمی صدمے سے بےہوش ہوگئی ۔
میں عظمی کی گالوں کو تھپتھپانے لگ گیا
مجھے سمجھ نھی آرھا تھا کہ میں کیا کروں
میں نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا مگر مجھے کوئی نظر نہ آیا
دوپہر کا وقت تھا
دور دور تک بندا نہ بندے کی ذات نظر آرھی تھی ۔
عظمی بلکل میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ہوے تھے
اور میں نے ایک ہاتھ عظمی کی بغل سے گزار کر اسکی کمر کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا
عظمی کا چہرا میرے کندھے پر تھا
اسکی ھاتھ سے دستہ اور بک نیچے گر گئی تھی ۔
جسے وہ سینے کے ساتھ لگا کر چلی آرھی تھی ۔
مجھے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے عظمی کو سیدھا کیا مگر وہ
کھڑی نھی ھورھی تھی
سارا وزن مجھ پر ھی ڈال رھی تھی ۔
میں نے عظمی کی گانڈ کے نیچے بازو ڈاال
اور اسکو اٹھا لیا عظمی کے ممے میرے کندھے سے اوپر ھوے اور عظمی میرے کندھے پر جھول گئی
اور اسکا سارا وزن میرے کندھے پر آگیا ۔
میں نے عظمی کو کندھے پر الدے بڑی مشکل سے نیچے سے اسکا دستہ اور بک اٹھائی اور اسے لے کر مکئی کے
درمیان میں بنی پگڈنڈی پر چل پڑا
میں بھی جھول جھول کر چل رھا تھا
عظمی کا وزن کافی تھا مگر قابل برداشت تھا۔
میں چلتا ھوا کھالے کے پاس پہنچا اور اپنی پرانی جگہ مجھے اس وقت سب سے ذیادہ محفوظ لگی ۔
تو میں عظمی کو اٹھاے ھوے بڑی تگ ودو کے بعد ٹاہل کے قریب پہنچ گیا ۔
اور ادھر ادھر دیکھتے ھو عظمی کو ٹاہلی کے پیچھے گھاس پر لیٹا دیا
اور پھر اسکی گالوں کو دونوں ہاتھوں میں لے کر ہلکا ہلکا تھپتھپا کر اسے آوازیں دینے لگا مگر عظمی بے سدھ ھی لیٹی
رھی ۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھ کر کھالے کی طرف بھاگا
اور ہاتھوں کو جوڑ کر کھالے میں سے پانی ہاتھوں ڈاال
اور دوڑتا ھوا عظمی کے پاس پہنچا اور پانی اسکے منہ پر گرا دیا ۔
کچھ ھی دیر بعد عظمی نھ آنکھیں کھولیں اور مجھے غور سے دیکھنے لگی
عظمی کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں ۔
میں نے عظمی کی گالوں پر سے پانی صاف کرتے ہوے اسکی گردن میں بازوں ڈال کر سر اوپر کر کے اپنا چہرہ عظمی
کے قریب کیا اور
پھر سے پوچھا
عظمی کیا ھوا تمہیں اتنی پریشان کیوں ھو
کیا
کیا تمہارے ساتھ اسد نے بولو پلیز کچھ تو بولو ۔
عظمی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور پھوٹ پھوٹ
کر روتے ھوے بولی
یاسر مجھے معاف کردو
میں دولت پیسہ شہرت پانے کے لیے اندھی ھوگئی تھی
اور تم کو دھوکا دے کر اسد کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر وہ اونچی آواز میں رونے لگ گئی
اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی
اور بار بار بس یہ ھی کہے جارھی تھی
یاسر میں تمہاری گناہ گار ہوں میرے ساتھ ایسا ھی ھونا چاھیے تھا
میں نے تمہیں دھوکا دیا
مجھے معاف کردو
میں عظمی کے ماتھے سے بالوں تک ہاتھ پھیرتے ھوے اس کی ڈھارس بندھا رھا تھا اسے حوصلہ دے رھا تسلیاں دے
رھا اس سے بس ایک دفعہ پوری بات پوچھنے کی کوشش کر رھا تھا
اسد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رھا تھا
اسکی بہن مہری کو اس کی آنکھوں کے سامنے چودنے کا کہہ رھا تھا
عظمی رو رو کر ہلکان ہو رھی تھی ۔
آخر کار میری کوشش رنگ الئی اور عظمی کافی سنبھل گئی مگر اسکی ہچکیاں باقی تھیں ۔
کچھ دیر بعد مکمل طور پر وہ ریلیکس ہوئی ۔
تو میں نے اسکا ماتھا چوما
اور
عظمی کو کہا ۔
عظمی مجھے پہلے سے ہی تم پر اور اسد پر شک تھا
مگر پھر بھی میں نے تمہیں محسوس نھی ہونے دیا۔
مگر اسد نے جو تمہارے ساتھ کیا اور کیسے تمہاری اس سے بات ہوئی اور کیسے یہ بات یہاں تک پہنچی کہ تم ہم سب کو
دھوکا دے کر
بنا کچھ سوچے سمجھے
اسد کے ساتھ چلی گئی
اور یہ مالقاتوں کا تسلسل کب سے جاری ھے
مجھے ایک ایک حرف سچ سچ بتا دو
میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتا ھوں کہ اسد کا وہ حال کروں گا کہ
وہ ساری زندگی کسی لڑکی کو دھوکا دینے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا ۔
مگر میں تب ھی کچھ کر پاوں گا اگر تم مجھے اب دھوکے میں نہ رکھو گی
اور حرف بحرف سب کچھ سچ سچ بتاو گی ۔
اور رھی بات مجھے دھوکا دینے کی
تو عظمی تم مجھے نھی اپنے آپ کو دھوکا دے رھی تھی
اس لیے مجھ سے معافی مانگنے کی بجاے اپنے آپ سے معافی مانگو
اپنے ضمیر سے معافی مانگو
اور تمہارا ضمیر تب ھی تمہیں معاف کرے گا جب
تم اب مجھے سب کچھ سچ سچ بتاو گی۔
اگر اب بھی جھوٹ بولنا ھے تو اٹھو چلو گھر چلتے ہیں
اور یہ بھی ذہن میں مت رکھنا کہ میں کسی اور سے یہ بات کروں گا یا تمہاری امی کو یا نسرین کو بتاوں گا ۔۔
اور یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا اور پھر روتے ھوے بولی
یاسر مجھے اپنے کئے کی سزا مل گئی ھے اور اس سے ذیادہ کیا ہوگی جو آج مجھے ملی ھے ۔
جس اذیت سے میں گزری ہوں یہ میں ھی جانتی ہوں ۔
مگر اتنا کچھ ھونے اور سننے کے بعد بھی تم میرے لیے کتنے پریشان ھو کتنے دکھی ھو
اور لعنت ھے مجھ پر جو میں تمہیں سمجھ نہ سکی
میری آنکھوں پر
اللچ کی رتبے کی
پٹی بندھی ھوئی تھی
میں اندھی ہوگئی تھی گونگی ھوگئی تھی ۔بہری ھوگئی تھی
مگر آج مجھے احساس ھوگیا کہ پیشہ شہرت دولت جائدادیں ھی سب کچھ نھی ہوتیں
ان سب سے اہم رشتے ہیں
وہ رشتے جو میرے ساتھ مخلص ہیں جنکو میری فکر ھے
جو میرے لیے تڑپتے ہیں جو میرے لیے پریشان ھوتے ہیں ۔جنکو میری فکر ھے ۔
یاسر مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو
عظمی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ھوے معافیاں مانگنے لگ گئی۔
میں نے اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا اور چومتے ھو ے کہا بس کرو عظمی تم نے بہت رو لیا ۔۔اب رونے کی باری اس
گشتی کے بچے کی ھے
تم بس مجھے تفصیل سے سب کچھ بتاو
پھر دیکھنا تمہارا یہ یاسر
تمہارے لیے کیا کرتا
جس اذیت سے تم گزر رھی ھو
اس سے ہزار گنا اذیت اسے پہنچاوں گا
اور وہ اذیت وقتی نھی ھوگی
ساری ذندگی کے لیے ھوگی
عظمی نے میری طرف دیکھتے ھوے
اگے بڑھی اور میرے ہونٹ گال انکھیں ماتھا چومنے لگ گئی ۔
اور کچھ دیر بعد سنبھل کر مجھ سے الگ ہوئی
اور بولی
یاسر جب تم اسد کو ہمارے گھر لے کر آے تھے اور جب تم مہری کے ساتھ چھلیاں توڑنے گئے تھے
اور جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔
عظمی نے سب کچھ حرف با حرف مجھے بتا دیا
،،،،۔۔۔
(دوستو جو عظمی نے مجھے حرف با حرف بتایا وہ سب کچھ میں تفصیل سے گذشتہ اپڈیٹ میں لکھ چکا ھوں
اب عظمی نے واقعی سب کچھ سچ ھی بتایا تھا
یا کچھ چھپایا تھا ۔
یہ آگے چل کر خود سب کچھ سامنے آجاے گا ۔۔۔۔۔
میں جیسے جیسے عظمی کی باتیں سنتا جارھا تھا
ویسے ویسے ھی میرا چہرہ غصہ سے سرخ ھوتا جارھا تھا
کچھ غصہ مجھے عظمی پر بھی آرھا تھا
جب گوشت کا ٹکڑا کتے کے سامنے کھال رکھ دیں تو کتے سے کیا بعید کے وہ اسپر جھپٹے نہ اسے نوچے نہ اسے کھاے
نہ۔
اسد سے ذیادہ عظمی خود اس کی ذمہ دار تھی ۔
خیر میں سب کچھ خاموشی سے سنتا رھا اور برداشت کرتا رھا
جب عظمی نے بات مکمل کی تو میں کافی دیر خاموش بیٹھا اسکی طرف دیکھتا رھا وہ پھر رونے لگ گئی تھی ۔
میں نے عظمی کو کہا ۔
چلو اٹھو گھر چلو ۔۔۔
اور یہ بات کسی سے مت کرنا
اب یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو ۔
اور اگر کبھی مہری سے بھی سامنا ھو تو اس کو بلکل محسوس مت ھونے دینا کہ اسد نے تمہارے ساتھ کچھ کیا ھے
بلکہ میں بھی اسد پر یہ ظاہر نھی ھونے دوں گا کہ
تم نے مجھے سب کچھ بتا دیا ھے ۔۔۔۔۔
کیونکہ
میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے کیا کرنا ھے ۔۔۔
عظمی نے پھر مجھے بازو سے پکڑ لیا اور پھر روتے ھوے بولی
یاسر تم نے مجھے معاف کردیا ناں۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور اسکے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے بازو سے الگ کیا اور اپنے ہونٹ اسکے ہاتھوں پر رکھ کر
اسکے ھاتھوں کو چوم لیا۔
اور اسے کہا تم اب یہ سب کچھ بھول جاو اور یہ ھی سمجھو کہ یہ ایک برا سپنا تھا
اور اٹھو تمہیں کافی دیر ہوگئی ھے
تمہاری امی پریشان ھوگی
میں نے اسکی گال پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا
اور ایسا کرو کھالے سے یہ سونا سا مکھڑا دھو لو اور فریش ھوکر گھر چلو نھی تو آنٹی کو شک ھوجاے گا کہ
کہیں اسکی بیٹی کو یاسر نے راستے میں ھی تو نھی چود دیا ۔
عظمی میری بات سن کر ہنس پڑی اور میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی
چل شوخا۔
کچھ کسر رہتی ھے تو پوری کر لو۔
میں جلدی سے اٹھا اور قمیض اوپر کر کے ناال کھولتے ھوے بوال
چل فیر سدھی ھو۔
تو عظمی ہنستی ھوئی اٹھی اور
بولی آرام نال شوخے۔
میں نے اسکی بات کاٹتےھوے کہا
آرام سے ھی کروں گا۔
میں اسد تھوڑی ہوں۔
عظمی میری بات سن کر ایکدم سیریس ھو گئی اور پھر رونے لگ گئی اور نم انکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
یاسر اب تم مجھے اسی طرح طعنے دیتے رھو گے
میں نے ذہر کھا کر مرجانا ھے
مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا مگر میں کیا کرتا میرے اندر حسد اور غصے کی جو آگ جل رھی تھی وہ اتنی جلدی تو
بھجنے والی نھی تھی ۔
میں نے خود پر کنٹرول کرتے ھوے
عظمی سے معذرت کرنے لگ گیا کہ
یار غلطی ھوگئی
آئیندہ کبھی بھی میرے منہ سے اس کنجر کا نام نھی سنو گی
اب موڑ صحیح کرو اور گھر چلو
اس کے ساتھ ھی میں نے عظمی کے ساتھ جپھی ڈال لی اور اس کے چہرے کو چومنے لگا
عظمی کچھ ریلیکس ھوئی اور مجھ سے علیحدہ ھوئی اور کھالے کی طرف چل دی اور منہ ھاتھ دھو کر
چادر سے اچھی طرح چہرے کو اور انکھوں کو صاف کیا اور
اپنی چادر کو صحیح کر کے اوپر لیا اور اچھی طرح نقاب کرکے میری طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کو مٹکا کر بولی اب
صحیح ھے
تو اسکی اس معصومانہ ادا کو دیکھ کر میں آگے بڑھا اور ایک ہاتھ سے اسکا مما پکڑ کر دباتے ھوے اسکی آنکھوں کو
چوم لیا
مما دبانے سے عظمی کے منہ سے سسکاری نکلی اور وہ مجھ سے لپٹ گئی ۔
کچھ دیر ہم ایسے ھی لپٹے رھے پھر عظمی مجھ سے علیحدہ ھوئی اور ہم گھر کی طرف چل دئیے ۔
گھر پہنچے تو فوزیہ مجھے عظمی کے ساتھ دیکھ کر حیران ھوئی ۔
اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ ۔تم دکان پر نھی گئے میں نے کہا
آنٹی جی میری طبعیت سہی نھی تھی
تو میں گھر آرھا تھا تو سوچا اس چڑیل کو بھی ساتھ لیتا جاوں جو صبح مجھے چھوڑ کر صدف کے ساتھ ھی چلی گئی تھی ۔
عظمی کمرے کی طرف جاتی ھوئی میری بات سن کر رک گئی تھی اور میرا جھوٹ سن کر کہ وہ اکیلی شہر نھی گئی بلکہ
صدف کے ساتھ گئی تھی ۔۔
وہ میری طرف دیکھ کر آنکھوں ھی آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کرنے لگ گئی ۔
آنٹی فوزیہ میری طبعیت خراب کا سن کر پریشانی سے بولی کیا ھوا میرے شزادے کو ۔
اور ساتھ ھی مجھے کندھے سے پکڑ کر اپنے بڑے بڑے مموں کے ساتھ لگا لیا میں نے مزید ساتھ جڑتے ھوے دونوں ھاتھ
انٹی فوزیہ کی کمر میں ڈال کر کہا ۔
آنٹی میرے سر میں بہت درد ھے
آنٹی بولی
چل جا اندر بیٹھ جا کہ اپنی پیناں کول میں چا بنا کہ لیانی واں
نال کوئی گولی کھا لے ۔
میں نے کہا نھی آنٹی جی میں گھر چلتا ھوں بس کچھ دیر آرام کروں گا تو ٹھیک ھوجاوں گا ۔
تو فوزیہ بولی شرم نھی اتی یہ تیرا گھر نھی ھے
چل اندر جا میں آنی واں
میں کمرے کی طرف چل دیا
کمرے میں پہنچا تو نسرین چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی ۔
اور عظمی کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔
میں نسرین کے پاس دوسری چار پائی پر بیٹھ گیا ۔
اور نسرین سے حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔
نسرین بھی مجھ سے دکان سے جلدی آنے کی وجہ پوچھنے لگ گئی ۔
میں نے وہ ھی روداد دوبارہ دھرا دی ۔
نسرین دروازے کی طرف دیکھتے ہوے آہستہ سے بولی
یاسر اس نواب زادی سے پوچھا کہ یہ صبح اتنی جلدی کیوں سکول گئی تھی
اور وہ بھی اکیلی ۔
نسرین کی بات سن کر میرے دماغ میں پھر وہ ھی اپنی ادھوری کوشش کو دوبارا مکمل کرنے کا پالن .جنم لینے لگ گیا ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا۔
نسرین نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا کیا کہا اس نے ۔
تو میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے پیچھے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا اور
نسرین کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا
میں نے تو اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے لگا تھا بس میری بدقسمتی کہ اسکی مجھ پر نظر پڑ گئی
اور۔
میں چپ ھوگیا تو نسرین بڑے تذبذب کا شکار ھوکر حیران ہوتے ھوے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ کر بولی اور کیا؟ ؟؟؟؟.
میں پھر گردن گھما کر پیچھے دیکھ کر کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ
میرے پالن اور سسپنس کو منزل تک پہنچانے کے لیے
خوش قسمتی سے عظمی کمرے میں داخل ہوئی
تو نسرین کی نظریں اسی وقت عظمی پر پڑیں
تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے چوکس کیا ۔
تو میں نے بھی اپنے منہ سے نکلتے الفاظ کو روک کر جلدی سے گردن گھما کر پیچھے عظمی کی طرف دیکھا اور ساتھ
ی بات کو بدلتے ھوے نسرین کو کہنے لگا ۔
تمہارا آج کا پیپر ضائع ھوگیا ھے
نسرین کی بجاے عظمی بولی
میں نے اس کی درخواست لکھ کر میڈم کو دے دی تھی
اس کے جتنے پیپر رھ گئے بعد میں دے دے گی ۔
میں نے حیران ھوتے ھوے کہا
کیا مطلب یعنی کہ یہ کل بھی سکول نھی جاے گی ۔
عظمی منہ کو بسورتے ھوے بولی ۔
اس میڈم کو پتہ ھوگا کہ کل بھی جانا ھے کہ نھی ۔
نسرین جو پہلے ھی عظمی کی مداخلت کی وجہ سے جلی بھنی ھوئی تھی
عظمی پر پھٹ پڑی ۔
ھاں ھاں تم تو چاہتی ھی ھو کہ میں سکول ھی نہ جاوں بس اکیلی تم ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظمی بولی کیا مطلب ،،،،،۔۔۔
اس سے پہلے کہ انکی تکرار بڑھتی آنٹی فوزیہ چاے لیے ھوے اندر داخل ھوئی ۔
اور انکو یوں چونچیں لڑاتے ھوے دیکھ کر بولی ۔
توبہ ہے تم دونوں کی ایک منٹ نھی بنتی آپس میں
پتہ نھی سکول میں بھی کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتی ہوں گی ۔
میں نے فورن ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے
چٹکلہ بھر
آنٹی جی ۔وھاں انکو پتہ ھے نہ کہ میڈم کالس میں ھی انکے کان پکڑا کر دونوں کو ڈیسکوں پر مرغا بنا دے گی اس لیے یہ
ادھر شانتی سے رہتی ہیں.
نسرین بولی
ھاں ھاں تیرے کان روز ماسٹر پکڑواتا ھوگا نی اس لیے تمہیں پتہ ہے۔
آنٹی فوزیہ ہنستے ھوے
نسرین کو ڈانٹتے ھوے بولی
چل ہن توں ایس وچارے نال شروع ھوجا۔
تو وہ جل بھن کر بولی
ھاں ھاں اس گھر میں سب ھی بیچارے ہیں
بس ایک میں ھی پاگل ہوں ۔
میں نے اسکی بات ختم ھوتے ھی اسے مذید چڑاتے ھوے کہا
واہ واہ اج سچی گل کیتی اے
واہ واہ مزہ آگیا۔
تو نسرین روہانسی ھوتے ھوے نیچے سے جوتا اٹھا کر مجھے مارنے لگی تو میں دونوں ٹانگیں اوپر کر کے ہاتھ آگے کر
کے اپنا آپ بچانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گیا اور آنٹی فوزیہ نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی کہ شرم کرو تمہارا بھائی ھے
اب تم بچے نھی رھے
بڑے ھوگئے ھو
نسرین نے جوتا نیچے پھینکا اور میری طرف گھورتے ھوے
منہ ھی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔
[] size/میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے پھر اسے چھیڑتے ھوے آنٹی کو کہا آنٹی جی دیکھ لیں یہ منہ میں
مجھے گالیاں دے رھی ھے ۔
تو نسرین بولی
میں تیرے منہ نئی لگدی۔۔۔
اور ہاتھ جوڑ کر بولی جا جان چھڈ میری ۔
میں ہنستا ھوا چارپائی پر پڑی ٹرے میں سے چاے کی پیالی اٹھا کر پینے لگا
اور پھر
کچھ دیر مزید
ہم باتیں کرتے رھے ۔
نسرین کے ساتھ وقت خلوت نہ مال۔
شام ہونے والی ہوگئی تھی
تو میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر آنے لگا تو آنٹی نے کہا یاسر کل تمہارے چاچا نے ختم پر جانا ھے میرے بھائی کے
میں نے بھی جانا تھا
مگر بچیاں اکیلی ہیں انکے پیپر بھی ہورھے ہیں ۔تو تم کل رات کو ادھر سوجانا
میں تمہاری امی کو بتا دوں گی ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور انکے گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا
گھر پہنچا تو
امی گھر ہر نھی تھی شاید ہمسایوں کے گھر گئی تھی
نازی بھی اپنے کمرے میں تھی
میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ دیر بیٹھا رھا
[] size/اور پھر لیٹ کر سوچوں میں گم ھوگیا میں نے یہ تو طے کر لیا تھا کہ اب صدف کے گھر بھی نھی جانا اور اس کو
منہ بھی نھی لگانا
اور پھر
کل عظمی کے ساتھ اکیلے جانے کے بارے میں سوچنے لگ گیا
اسد کے مسئلے پر بھی سوچتا رھا
اور نہ جانے کب انکھ لگی اور میں نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔۔۔
کمرے میں پہنچا تو نسرین چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی ۔
اور عظمی کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔
میں نسرین کے پاس دوسری چار پائی پر بیٹھ گیا ۔
اور نسرین سے حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔
نسرین بھی مجھ سے دکان سے جلدی آنے کی وجہ پوچھنے لگ گئی
میں نے وہ ھی روداد دوبارہ دھرا دی ۔
نسرین دروازے کی طرف دیکھتے ہوے آہستہ سے بولی
یاسر اس نواب زادی سے پوچھا کہ یہ صبح اتنی جلدی کیوں سکول گئی تھی
اور وہ بھی اکیلی ۔
نسرین کی بات سن کر میرے دماغ میں پھر وہ ھی اپنی ادھوری کوشش کو دوبارا مکمل کرنے کا پالن .جنم لینے لگ گیا ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا۔
نسرین نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا کیا کہا اس نے ۔
تو میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے پیچھے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا اور
نسرین کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا
میں نے تو اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے لگا تھا بس میری بدقسمتی کہ اسکی مجھ پر نظر پڑ گئی
اور۔
میں چپ ھوگیا تو نسرین بڑے تذبذب کا شکار ھوکر حیران ہوتے ھوے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ کر بولی اور کیا؟ ؟؟؟؟.
میں پھر گردن گھما کر پیچھے دیکھ کر کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ
میرے پالن اور سسپنس کو منزل تک پہنچانے کے لیے
خوش قسمتی سے عظمی کمرے میں داخل ہوئی
تو نسرین کی نظریں اسی وقت عظمی پر پڑیں
تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے چوکس کیا ۔
تو میں نے بھی اپنے منہ سے نکلتے الفاظ کو روک کر جلدی سے گردن گھما کر پیچھے عظمی کی طرف دیکھا اور ساتھ
ھی بات کو بدلتے ھوے نسرین کو کہنے لگا ۔
تمہارا آج کا پیپر ضائع ھوگیا ھے
نسرین کی بجاے عظمی بولی
میں نے اس کی درخواست لکھ کر میڈم کو دے دی تھی
اس کے جتنے پیپر رھ گئے بعد میں دے دے گی ۔
میں نے حیران ھوتے ھوے کہا
کیا مطلب یعنی کہ یہ کل بھی سکول نھی جاے گی ۔
عظمی منہ کو بسورتے ھوے بولی اس میڈم کو پتہ ھوگا کہ کل بھی جانا ھے کہ نھی ۔
نسرین جو پہلے ھی عظمی کی مداخلت کی وجہ سے جلی بھنی ھوئی تھی
عظمی پر پھٹ پڑی ۔
ھاں ھاں تم تو چاہتی ھی ھو کہ میں سکول ھی نہ جاوں بس اکیلی تم ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظمی بولی کیا مطلب ،،،،،۔۔۔
اس سے پہلے کہ انکی تکرار بڑھتی آنٹی فوزیہ چاے لیے ھوے اندر داخل ھوئی ۔
اور انکو یوں چونچیں لڑاتے ھوے دیکھ کر بولی ۔
توبہ ہے تم دونوں کی ایک منٹ نھی بنتی آپس میں پتہ نھی سکول میں بھی کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتی ہوں گی ۔
میں نے فورن ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے
چٹکلہ بھرا
آنٹی جی ۔وھاں انکو پتہ ھے نہ کہ میڈم کالس میں ھی انکے کان پکڑا کر دونوں کو ڈیسکوں پر مرغا بنا دے گی اس لیے یہ
ادھر شانتی سے رہتی ہیں.
نسرین بولی
ھاں ھاں تیرے کان روز ماسٹر پکڑواتا ھوگا نی اس لیے تمہیں پتہ ہے۔
آنٹی فوزیہ ہنستے ھوے
نسرین کو ڈانٹتے ھوے بولی
چل ہن توں ایس وچارے نال شروع ھوجا۔
تو وہ جل بھن کر بولی
ھاں ھاں اس گھر میں سب ھی بیچارے ہیں
بس ایک میں ھی پاگل ہوں ۔
میں نے اسکی بات ختم ھوتے ھی اسے مذید چڑاتے ھوے کہا
واہ واہ اج سچی گل کیتی اے
واہ واہ مزہ آگیا۔
تو نسرین روہانسی ھوتے ھوے نیچے سے جوتا اٹھا کر مجھے مارنے لگی تو میں دونوں ٹانگیں اوپر کر کے ہاتھ آگے کر
کے اپنا آپ بچانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گیا اور آنٹی فوزیہ نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی کہ شرم کرو تمہارا بھائی ھے اب
تم بچے نھی رھے
بڑے ھوگئے ھو۔نسرین نے جوتا نیچے رکھا اور میری طرف گھورتے ھوے منہ ھی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔
میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے پھر اسے چھیڑتے ھوے آنٹی کو کہا آنٹی جی دیکھ لیں یہ منہ میں مجھے
گالیاں دے رھی ھے ۔
تو نسرین بولی میں تیرے منہ نئی لگدی۔۔
اور ہاتھ جوڑ کر بولی جا جان چھڈ میری ۔میں ہنستا ھوا چارپائی پر پڑی ٹرے میں سے چاے کی پیالی اٹھا کر پینے لگا اور
پھر کچھ دیر مزید ہم باتیں کرتے رھے ۔
مگر نسرین کے ساتھ دوبارا وقت خلوت نہ مال۔
شام ہونے والی ہوگئی تھی۔
تو میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر آنے لگا تو آنٹی نے کہا یاسر کل تمہارے چاچا نے ختم پر جانا ھے میرے بھائی کے
میں نے بھی جانا تھا مگر بچیاں اکیلی ہیں انکے پیپر بھی ہورھے ہیں ۔تو تم کل رات کو ادھر سوجانا
میں تمہاری امی کو بتا دوں گی ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور انکے گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا
گھر پہنچا تو
امی گھر ہر نھی تھی شاید ہمسایوں کے گھر گئی تھی۔
نازی بھی اپنے کمرے میں تھی
میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ دیر بیٹھا رھا اور پھر لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ھوگیا میں نے یہ تو طے کر لیا تھا
کہ اب صدف کے گھر بھی نھی جانا اور اس کو منہ بھی نھی لگانا
اور پھر
کل عظمی کے ساتھ اکیلے جانے کے بارے میں سوچنے لگ گیا
اسد کے مسئلے پر بھی سوچتا رھا
اور نہ جانے کب انکھ لگی اور میں نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔۔۔
اگلے دن میں اٹھا اور نہا دھو کر ناشتہ کر کے آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا ۔
نسرین کی آج بھی چھٹی تھی
اس لیے اکیلی عظمی ھی میرے ساتھ ۔
آئی اور گلی کے موڑ پر پہنچ کر میں کھیتوں کی طرف بڑھنے لگا
تو عظمی بولی باجی کو نھی لے کر جانا
میں نے کہا نھی میں اس چول کو ساتھ نھی لے کر جاوں گا اگر تم نے جانا ھے اسکو لے کر تو اکیلی ھی جاو پھر میں
جارھا ھوں
یہ کہہ کر میں کھیت کی طرف چل پڑا ۔
عظمی بھی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی میرے پیچھے آئی اور قریب پہنچ کر دوڑ کر میرے ساتھ چلتی ہوئی بولی یاسر کیا ھوا
وہ ہماری ٹیچر رھی ھے ایسا کیا ھوا کہ تم اسے چول بول رھے ھو اور اسکو ساتھ نھی لے کر جارھے۔
میں نے عظمی کی طرف غصے سے دیکھتے ھوے کہا ۔
میں نے ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ اسے میں نے ساتھ نھی لے کر جانا تو نھی جانا۔
بات ختم ۔
اب اسکا ذکر بھی میرے سامنے مت کرنا ورنہ تم بھی مجھ سے جاو گی۔
عظمی حیران ھوتے ھوے بولی
یاسر کچھ بتاو تو سہی ھوا کیا ھے
باجی نے تم سے کچھ کہا ھے کیا تمہاری لڑائی ہوئی ھے
پرسوں تو اچھے بھلے ساتھ گئے تھے پھر ایک دن میں اچانک ایسا کیا ہوا جو تم اتنا ناراض ھورھے ھو۔
عظمی کی بات سن کر میں رک گیا ۔
اور پھر اسی انداز میں بوال۔
تمہیں ایک دفعہ میری بات سمجھ میں نھی ائی ۔
عظمی مجھے یوں غصے میں دیکھتے ھوے بولی ۔
اچھا بابا مجھ پر تو غصہ نہ ھو۔
نھی کچھ کہتی اب بسسسسسس۔
اور پھر ہم چلتے ھوے مکئ میں داخل ھوے تو عظمی میرے آگے آگے جارھی تھی اور میں اسکے پیچھے پیچھے ۔
میں نے عظمی کو کہا۔
عظمی آج بھی چھٹی دو بجے ھونی ھے
تو عظمی نے گھوم کر میری طرف دیکھتے ھوے کہا ہاں کیوں کیا ھوا۔
میں کچھ نھی کہہ کر چپ ہوگیا۔
کچھ آگے جاکر میں نے کہا
عظمی کیا پیپر ھی دو بجے ختم ھوتا ھے ۔
تو عظمی پھر سر گھما کر مجھے ایک نظر دیکھ کر منہ سامنے کر کے بولی ۔
نھی پیپر کا وقت تو بارہ بجے تک ھوتا ھے
اسکے بعد جس لڑکی کا گھر واال لینے آجاے تو وہ چلی جاتی ہے
نھی تو پھر دو بجے ھی مین گیٹ کھلتا ھے تو سب لڑکیاں جاتی ہیں
اس سے پہلے کوئی لڑکی اکیلی نھی جاسکتی ۔
میں نے ہمممممم کیا۔
اور کچھ دیر پھر بوال۔
عظمی اگر میں تمہیں لینے آوں بارہ بجے تو تم آسکتی ھو۔
عظمی چلتے چلتے رک کر میری طرف دیکھتے ھوے ہنس کر بولی
اچھااااااااا تو جناب اس لیے بار بار پوچھ رھے تھے ۔
میں نے بے ساختہ عظمی کوجپھی ڈال لی
اور باہوں میں کستے ہوے کہا
یار بہت دل کررھا ھے
کتنے دن ھوگئے ہیں ۔
عظمی نے کتاب اور پیپر لکھنے واال گتہ پکڑا ھوا تھا جسکو وہ سینے کے ساتھ لگا کر کھڑی تھی تو میرے سینے کے
ساتھ اسکا بازو ھی لگا مممے تو کتاب اور گتے کے پیچھے چھپے ھوے تھے۔
عظمی اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی ۔
یاسر دل تو میرا بھی بہت کرتا ھے
مگر دن کے وقت تم نے پھر اسی جگہ کرنے کو کہنا ھے
اور مجھے اس جگہ ڈر بہت لگتا ھے
اور ویسے بھی یہ جگہ غیر محفوظ ھے ۔
میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا
ہم نے پہلے بھی تو ادھر کتنی دفعہ کیا ھے ۔
عظمی بولی یاسر برا وقت آنے میں کوئی پتہ نھی لگتا ۔
اور عظمی مجھ سے اپنا آپ چھڑوا کر پھر چل پڑی۔
میں چپ کرکے اسکے پیچھے چلتا ھو ا
مکئی سے باہر آگیا اور پھر پل پر سے ہم ایک ساتھ چلتے ھوے دوسری طرف آگئے ۔
میں نے پھر کہا۔
یار تم میرے لیے اتنا بھی نھی کرسکتی۔
عظمی بولی میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ھوں
نہی یقین تو کسی دن آزما کر دیکھ لینا
تم
اور آزما کر بھی پچھتاو گے۔
میں نے کہا۔
تبھی تو ڈر رھی ھو۔
عظمی بولی ڈرتی صرف اپنے ماں باپ کی عزت سے ہوں ۔
تو میرے دماغ میں فورن آیا کہ اتنا عزت کا خیال ھوتا تو
یوں کار میں نہ پھرتی
مگر پھر اپنے آپ پر مالمت کرتے ھوے خیال کو جھٹک دیا کہ اب اگر اس نے غلطی کر ھی لی ھے تو وہ اسپر ندامت بھی
ھے
اور تم کتنے دودھ کے دھلے ھو
یا تم کون سا اس سے شادی کرنا چاھتے ھو جو اسکی اتنی فکر ھے
اسے تو صرف تمہیں چھوڑ کر ایک دوسرے مرد سے مراسم بڑھانے پر اتن ندامت ھے کہ وہ تیرے سامنے گھنٹوں ھاتھ
جوڑ کر روتی رھی
اور تم تو کتنی لڑکیوں کی پھدیاں مار چکے ھو تجھے تو کبھی یہ احساس نھی ھوا ۔
عظمی اور میں بلکل ساتھ ساتھ چل رھے تھے ۔
عظمی نے مجھے خاموش اور خیالًو ں میں ڈوبے دیکھا تو مجھے کندھا مار کر بولی
ہیلو
کس سوچ میں گم ھوگئے ھو۔
میں دفعتًا چونکا
اور خود کو سنبھالتے ھوے خود کو
اس پر ایسے ظاہر کیا جیسے اسکے انکار پر میں صدمے میں چال گیا ھوں ۔
مگر اسے کیا پتہ تھا کہ
اپنے ضمیر سے چھترول کروا رھا تھا
عظمی پھر بولی
اچھا بابا آجانا
تمہاری خاطر سب کچھ قربان ۔
اب تو منہ سہی کرلو ۔
میں عظمی کی ہاں سن کر یکلخت کھل اٹھا اور شوخی سی بھاگ کر اسکے آگے آیا اور اسکی طرف منہ کر کے بیک چلتا
ھوا بوال
سچیییییی
عظمی میری طرف دیکھ کر ہنستے ھوے میری نکل اتارتے ھوے بولی ُمچیییییی
میں پھر سیدھا ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگا۔
عظمی بولی یاسر مجھے تو یاد آیا کہ آج تو ابو نے ماموں کے ختم پر جانا ھے
اور تم نے ہمارے گھر سونا ھے ۔
تو رات کو اگر میں آجاوں تو کیسا رھے گا
ساری رات انجواے کریں گے
میں نے اسکی بات سنتے ھی اسکے ھی انداز میں اسکی نقل اتارتے ھوے کہا
انجواے کریں گے اور آنٹی سے چھتر کھائیں گےےےےےے
عظمی برا سا منہ بنا کر بولی
امی تو جلدی سوجاتی ھے
اور صبح ھی اٹھتی ھے ۔
میں نے کہا یار کوئی پتہ نھی کہ کب اٹھ سکتی ہیں ۔
تو عظمی بولی یاسر کچھ کرو نہ
کہ ہم ساری رات خوب مزے کریں
میں نے کہا
یار میں کیا کرسکتا ھوں
اب میں تمہاری آنٹی کو لوری تو نھی سنا سکتا
یا کوئی نشہ آور گولیاں تو نھی کھالااااااااا۔
کھال میرے منہ میں ھی اٹک گیا اور ایک شیطانی خیال آیا۔۔۔۔
جو آج کے دور میں روز مرہ کا معمول کام سمجھا جاتا ھے ۔
عظمی مجھے کھالااا پر اٹکے میرے منہ کی طرف دیکھنے لگ گئی ۔
میں نے کہا
یار ایک آئڈیا آیا ھے دماغ میں اگر ااسپر عمل ھوجاے تو ساری رات خوب انجواے کر سکتے ہًیں کسی کو کانوں کان خبر
نھی ھوگی ۔
عظمی تجسس کا شکار ھوے بولی
بتاو بھی کیا کریں۔
میں نے اہستہ سے منہ عظمی کے کآن کے پاس لیجا کر کہا
نشے کی گولیاں آنٹی کو کھال دیتے ہیں پھر آنٹی صبح ھی اٹھے گی ۔
عظمی منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی
ھاےےےے میں مرگئی ۔ نہ بابا نہ مینوں مروانا ای ۔
توبہ توبہ توبہ
میں نے جھال کر کہا۔
گل تے پیلے پوری ُسن لے
پیلے ای توں مرن والی ہو جانی ایں ۔
عظمی پھر نہ نہ نہ ۔
کر رھی تھی ۔
میں نے غصے سے کہا
وڑ پانڈے وچ نئی تے نہ سئی۔
جدوں گل ای نئی پوری سننی تے پتہ میرے لن دا لگنا اے۔
عظمی میرا برا سا منہ دیکھ کر نقاب کے اوپر ھی منہ پر ھاتھ رکھ کر ہنسنے لگ پڑی ۔
تو میں غصے سے چلتا ھوا اس سے آگے نکل گیا۔
عظمی بھاگ کر میرے ساتھ شامل قدم با قدم ھوئی
اور بولی ۔
اچھا بتاو کیا کہنے لگے تھے۔
میں نے کہا کچھ نئی یار چھڈ سارا موڈ ای خراب کردیا ھے ۔
عظمی بڑی ادا سے مجھے کندھا مارتے ھوے بولی
رات ہونے دو جناب کا موڈ سہی کردوں گی ۔
رات کا سن کر میں پھر واپس اپنی ٹون میں آگیا اور عظمی کے دوبارا اسرار کرنے کا انتظار کرنے لگا ۔
مجھے خاموش دیکھ کر عظمی پھر بولی بتا بھی دو سکول بھی آنے واال ھے
پھر نہ گھر کے رہیں گے نہ کھیت کے رہیں گے ۔
میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا
اور بوال
رات کو چاے کون کون پیتا ھے
عظمی بولی سب ھی پیتے ہیں ۔
میں نے کہا
بناتا کون ھے ۔
عظمی بولی
کبھی میں کبھی عظمی اور کبھی امی بھی بنا لیتی ھے ۔
میں نے کہا تو سمجھو اپنا کام تو ھوگیا۔
عظمی حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
وہ کیسے جی۔
میں نے کہا
رات کو میں جب آوں گا تو تمہیں چپکے سے گولیاں پکڑا دوں گا تم آنٹی کے کپ میں ڈال دینا اور جب آنٹی سوجائیں گی
تو تم چپکے سے دوسرے کمرے میں آجانا۔
عظمی بولی اور نسرین ۔
میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور ساتھ ھی میرے منہ سے ھای بھی نکلی
اور کہا کہ اسکا تو مجھے یاد ھی نھی
تم دونوں کے کپ میں ڈال دینا
اور میں ماتھے کو دبانے لگا۔
عظمی نے پوچھا کیا ھوا
میں نے کہا وہ چوٹ کی جگہ پر ہاتھ لگ گیا تھا
عظمی بولی دھیان سے رھا کرو نہ
میں نے کہا
جب ایسا پرزہ ساتھ ھو تو پھر دھیان کہیں اور کیسے جاے ۔
عظمی بولی
چل شوخا۔
اتنی دیر میں ہم سکول والی گلی میں داخل ہوے اور بوائز سکول کے گیٹ کے سامنے سے گزرے تو میں نے عظمی کی
طرف دیکھا جو وھاں سے چلنے کی سپیڈ تیز کر کے اور گبھراے انداز سے چل رھی تھی ۔
میں نے بھی اسے کچھ نھی کہا کہ بات خامخاہ کہیں اور نکل جاے گی ۔
)Update no ,(75
عظمی کو سکول چھوڑ کر میں دکان پر چال گیا ۔
دکان ابھی بند ھی تھی
میں نے باھر سے صفائی وغیرہ کی ۔
کچھ دیر بعد انکل بھی آگئے۔
اور دکان کھول کر دکان کی بھی صفائی وغیرہ کی اور پھر میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھ کر کسٹمر کا انتظار کرنے لگا
کچھ دیر بعد جنید بھی آگیا
اور انکل اور مجھ سے سالم دعا لینے کہ بعد میرے پاس ھی بیٹھ گیا ۔
اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے
اچانک میرے ذہن میں آیا کہ
عظمی کو گولیوں کا کہہ تو دیا ھے مگر گولیاں الوں گا کہاں سے میرا تو کوئی واقف بھی نھی ھے اور نشہ آور گولیاں
کوئی میڈیکل سٹور واال دے بھی کہ نہ دے ۔
میں نے جنید سے پوچھنے کا سوچا کہ یہ تو شہر میں ھی رہتا ھے اور
اسکا کا شاید کوئی میڈیکل سٹور واال واقف ھو۔
میں نے جنید سے پوچھا یار ایک کام ھے اگر تو کر دے تو تیری مہربانی ھے ۔
جنید ایک دم میری طرف دیکھتے ھوے بوال۔
کہیں موٹر سائیکل تو نھی سیکھنی ۔
میں نے ہنستے ھوے اسکی کمر پر ہاتھ مارتے ھوے کہا
نھی یار
موٹر سائیکل نے تو میرے کانوں کو ھاتھ لگا دیے ہیں ۔
جنید بوال تو پھر اور کیا کام ھے۔
میں نے کہا یار مجھے نیند کی گولیاں چاہیے
اسد حیران ھوتے ھوے بوال۔
خیر ھے کوئی بچی تو نھی پھنسا لی ۔
میں نے حیران ہوتے ھوے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا۔
واہ یار بڑا تجربہ ھے تیرا
تجھے کیسے پتہ ۔
جنید بڑے فخر سے سینہ چوڑا کر کے بوال۔
تیرے ویر نے بہت بچیاں ساری ساری رات بجائی ہیں ۔
میں نے کہا واہ یار بڑی گل اے ۔
تم تو ُچھپے رستم نکلے
تو وہ آہستہ سے دوسرے لڑکے کی طرف اشارہ کرکے بوال
یار اسے مت بتانا یہ بات صرف تم میں اور مجھ میں ھی رھے ۔وہ بڑا چغل خور ھے ۔اس نے انکل کو بتا دینا ھے ۔
میں نے کہا یار کیسی باتیں کررھا ھے
میں یاروں کا یار ھوں
سوچنا بھی نہ کہ تمہاری بات لیک آوٹ ھوگی
اور میں بھی تم پر یقین کرتے ھوے ھی تم سے بات کی ھے کہ تم یہ بات اپنے تک ھی محدود رکھو گے ۔
جنید بوال یار تم بھی بےفکر رہو۔
میں نے پھر کہا بتایا نھی کہ گولیاں مل جائیں گی ۔
جنید بوال کتنے لوگوں کو کھالنی ہیں ۔
میں نے کہا دو کو
جنید بوال
جب ہم کھانا لینے ہوٹل پر جائیں گے تو میرا دوست ھے میڈیکل سٹور پر ۔میری گلی کا ھی ھے
اس سے تجھے ایک پتہ ال دوں گا
اس میں سے دو گولیاں چاے یا دودھ میں حل کر کے ان دونوں کو پالدینا
بس پھر وہ صبح سے پہلے نھی اٹھتی
۔
میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا یار تیرا یہ احسان زندگی بھر نھی بھولوں گا
جنید بوال چھڈ یار
یہ بھی کوئی کام ھے ۔
اتنے میں ایک کسٹمر اندر داخل ہوا تو جنید اٹھ کر کسٹمر کو ڈیل کرنےلگ گیا۔
اور میں پھر باہر کی طرف متوجہ ھوکر اپنے خیالوں میں بیٹھا رھا۔
میری سوئی ایکدم اسد پر اٹک گئی کہ سالے نے عظمی کے ساتھ اچھا نھی کیا
اگر عظمی اس سے پیار کرتی ھی تھی چاھے دولت کی ھی اللچ میں تو اسد جیسے اسکو پیار کا دعوٰی اور شادی کی اللچ
دیتا رھا
۔
اگر اس سے شادی نھی کرنی تھی یا پھر پیار ھی نھی تھا تو اسے دھوکے سے بال کر اسکے ساتھ یوں زبردستی تو نہ کرتا۔
اگر عظمی اپنی رضا مندی سے اسکے ساتھ جو مرضی کرتی وہ الگ بات تھی
مگر اسے ایسے ایک بدمعاش کے ڈیرے پر لیجا کر اسکی عزت پر ہاتھ ڈالنا
تو سرا سر بدمعاشی ھے۔
میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور منہ میں ھی بڑبڑایا۔
اچھا اسد اسکا حساب تیری بہن سے چکتا کروں گا
اور پھر تجھے احساس ھوگا کہ کیسے کسی کے ساتھ ذبردستی کی جاتی ھے ۔
مگر میں ذبردستی نھی کروں گے بلکہ تیری بہن خود میرا لن پکڑ کر اپنی کنواری پھدی میں لے گی ۔
کچھ دیر بعد دکان میں کافی کسٹمر اگئے اور میں بھی کسٹمر ڈیل کرنے میں مصروف ھوگیا ۔
مصروفیت میں پتہ ھی نھی چال کہ کب دوپہر ھوگئی ۔
اور پھر میں اور جنید ہوٹل سے کھانا لینے چلے گئے ۔
راستے جنید بوال بچی کیسی ھے جس کی لینی ھے ۔میں نے جھوٹ بولتے ھوے کہا نھی یار بچی نھی بلکہ آنٹی ھے ۔
اسکا شوہر الہور میں کام کرتا ھے
اور وہ اپنی ساس اور نند کے ساتھ ہماری دوسری گلی میں رہتی ھے ۔
بس ایسے ھی اس سے آنکھ مٹکا ھوگیا
اور اس نے آج رات ملنے کا کہا اور ساتھ میں مجھے گولیاں النے کا بھی کہا
مجھے تو یہ پتہ نھی کہ یہ گولیاں ھوتی کیسی ہیں اور کہاں سے ملتی ہیں
اس لیے میں کل سے پریشان تھا اور ڈرتا تجھ سے پوچھ نھی رھا تھا۔
جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کندھے کو دباتے ہوے بوال چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا۔
تم مجھے کل ھی بتا دیتے یہ کونسی گیدڑسنگی تھی جو ملنی نھی تھی ۔
ایسے ھی ہم باتیں کرتے ھوے میڈیکل سٹور پر پہنچے تو جنید مجھے باہر کھڑے ھونے کا کہہ کر اندر گیا اور کچھ دیر بعد
باہر آیا اور مجھے چلنے کا کہا۔
مجھ سے رھا نہ گیا اور بےصبری سے اس سے پوچھنے لگ گیا کہ
مل گئی ۔
جنید نے برا سا منہ بنا کر کہا نھی یار وہ کہتا ھے کہ کل لے جانا آج ختم ھوگئی ہیں ۔
میں چلتا ھوا ایک دم رک گیا
اور اسکی طرف پریشان حال ھوکر دیکھتے ھوے بوال
نئی یار
جنید بوال چل کل پر رکھ لینا پروگرام کونسا قیامت آجانی ھے ۔
میں نے کہا یار پہلے ھی تو بڑی مشکل سے کام بنا ھے اور آج رات کا ھی موقع ھے
اور میں افسردہ سا ھوکر چلنے لگا ۔
جنید میرے چہرے کی طرف دیکھ کر جیب میں سے ہاتھ ڈال کر کاغذ والے چھوٹے سے لفافے میں لپٹا گولیوں کا پتہ
مجھے دیتے ھوے ہنستا ھوا بوال ۔
لے فیر یار کی یاد کریں گا ۔
میرے ہاتھ میں گولیوں کا پیکٹ آتے ھی میرے چہرے پر ایسے رونق آئی جیسے مجھے کوئی خزانہ مل گیا ھوں ۔
میں نے پیکٹ پکڑ کر جلدی سے جیب میں ڈالتے ھوے
جنید کے بازو پر مکا مارتے ھوے کہا۔
ماما مینوں ڈرا ای دتا سی ۔
ہم ایسے ھی ہنستے ھوے ہوٹل پر پہنچے اور کھانا لے کر دکان پر چلے گئے کھانا وغیرہ کھا کر فری ہوے اور پھر
کسٹمرز میں مصروف ہوے شام ہونے کا نام ھی نھی لے رھی تھی ۔ آخرکار وقت وصل قریب آیا اور میں گھر پہنچا تو امی
نے بتایا کہ تیری آنٹی اکیلی ھے
تم آج رات انکے گھر سو جانا
میں نے منہ بسور کر اچھا کیا
اور کھانا وغیرہ کھا کر
عظمی کے گھر پہنچ گیا۔
جاتے ھی آنٹی فوزیہ کو سالم کیا
تینوں ماں بیٹیاں صحن میں ھی بیٹھی کھانا کھا رھی تھیں ۔
مجھے دیکھ کر فوزیہ اور عظمی کے چہرے پر ایک الگ ھی خوشی نظر آئی۔
میں انکے پاس ھی بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے کھانے کا کہا مگر میں نے کہا کہ میں گھر سے کھا کر آیا ہوں ۔
تو آنٹی ناراض ہوتے ھوے بولی تمکو کہا بھی تھا کہ رات ادھر سونا ھے تو کھانا بھی ادھر ھی کھا لیتے ۔
میں نے کہا کوئی بات نھی آپکے اور ہمارے گھر کا کونسا کوئی فرق ھے ایک ھی بات ھے ۔
پھر کچھ دیر ادھر ادھر کیا باتیں چلتی رھی ۔
نسرین بیچاری تو پھدی کی لیکج کو لے کر افسردہ سی بیٹھی کھانا کھا رھی تھی
اور عظمی رات کو پھدی چودوانے کے لیے بے چین تھی
اور آنٹی فوزیہ کا بھی من کر رھا تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاے ۔
آنٹی فوزیہ کے آج تیار شیار ہونے سے ھی اسکے ارادوں کا پتہ چل رھا تھا ۔
آنٹی فوزیہ نے پیج کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا
جس میں اس کا گورا رنگ اور بھی کھل رھا تھا ۔
میں آنٹی کے پاس ھی بیٹھا ھوا تھا ان کے جسم سے صابن کی بھینی بھینی سے خوشبو اٹھ رھی تھی جیسے کچھ دیر پہلے
ھی نہائی ھو۔
میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا کہ کب واپس آئیں گے تو آنٹی بولی کل کا کہہ کر گئے تھے کہ الزمی آجاوں گا۔
میں نے ہممم کیا ۔
عظمی بار بار مجھے آنکھوں سے اشارے کر کے گولیوں کا پوچھ رھی تھی میں نے اسے آنکھ مار کر مطمئن کردیا۔
اور آنٹی کے سامنے بیٹھ کر اسکے جسم کا نظارا کرنے لگ گیا
آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا
اور وہ چارپائی پر ایک ٹانگ کو فولڈ کرکے گھٹنا اوپر کئے اور دوسری ٹانگ کو نیچے فولڈ کر کے پیر پھدی کے ساتھ
لگاے بیٹھی ھوئی تھی
جبکہ عظمی اور نسرین دوسری چارپائی پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی
کھانا کھانے میں مصروف تھیں ۔
آنٹی جب جھک کر روٹی کے نوالے کو پلیٹ سے سالن لگاتی تو آنٹی کے آدھے ممے گلے سے نظر آتے
اور آنٹی کو بھی پتہ تھا کہ میں اس کے مموں کا نظارا کررھا ھوں ۔
وہ بھی جان بوجھ کر ذیادہ جھکتی ۔
کچھ دیر بعد کھانا ختم کیا اور آنٹی نے عظمی کو برتن سمیٹنے کا کہا
نسرین اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی اور
عظمی برتن سمیٹ کر
نلکے کے پاس لے گئی اور دھونے میں مصروف ھوگئی
میں نے آہستہ سے آنٹی کو کہا
آج میرا نمبر لگ جاے گا کہ نھی ۔
تو آنٹی نے جلدی سے میرا ھاتھ دباتے ھوے عظمی کی طرف اشارہ کیا
تو میں نے آہستہ سے کہا وہ تو اتنی دور بیٹھی ھے اسکو
ہماری آواز کہاں سننی ھے ۔
آنٹی بولی صبر کرلو
اتنے بے صبرے مت بنو۔
میں نے کیا ۔آنٹی آپ کے ممے دیکھ کر ھی میں بےصبرا ھوگیا ھوں
اور اپنے لن کو پکڑ کر کہا یہ دیکھو
کیسے بےچین ھے ۔
آنٹی نے گبھرا کر اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارا کیا مگر میں کہا چپ رہنے واال تھا۔
میں نے پھر پوچھا بتا تو دیں کہ میں انتظار کروں آپ کا ۔تو آنٹی آہستہ سے بولی ۔
میں کوشش کروں گی
اب چپ ھوجاو ۔
اور یہ کہتے ھوے آنٹی چارپائی سے اٹھی اور جوتا پہنتے ھوے اپنی گانڈ میں پھنسی قمیض کو نکال کر عظمی کو برتن
اچھی طرح دھونے کا کہتی ھوئی اسکی طرف چلی گئی ۔
میں اب اکیال بیٹھا ھوا تھا
میں بھی اٹھ کر اندر کمرے میں نسرین کے پاس چال گیا اور جاکر اس سے اسکی طبعیت کا پوچھنے لگ گیا ا کچھ دیر بعد
ھی آنٹی برتنوں کی ٹوکری اٹھاے کمرے میں داخل ھوئی ۔
اور آنٹی کے پیچھے ھی عظمی بھی اندر آگئی ۔
عظمی نے اندر آتے ھی مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا
تو میں پیشاب کرنے کے بہانے باہر نکل آیا اور واش روم میں چال گیا اور دروازہ بند کر کے اندر کھڑا ھوگیا اور جیب سے
گولیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیں ۔
اور لکڑی کے دروازے کی دراڑ سے آنکھ لگا کر صحن میں دیکھنے لگا تو
عظمی دیگچی اٹھاے کمرے سے نکلی اور چولہے کی طرف جانے لگی تو میں جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکال اور
چلتا ھوا عظمی کے قریب پہنچا اور اسکے ہاتھ میں گولیوں کا پتہ .دیتے ھوے کہا ایک ایک گولی دونوں کی پیالی میں ڈال
دینا اور اسکا جواب سنے بغیر پھر کمرے کی طرف چال گیا۔
.کچھ دیر بعد عظمی چاے لے کر اندر داخل ہوئی تو میں نے اسکی طرف دیکھ کر آنکھوں کے اشارے کام ہوجانے کا پوچھا
تو عظمی نے پلکوں کو جھکا کر اثبات میں جواب دیا۔
اور پھر عظمی نے ایک پیالی آنٹی کو پکڑائی ایک مجھے اور پھر نسرین کو
ہم چاے پیتے ھوے گپیں مارتے رھے ۔
ساتھ میں نسرین کے ساتھ بھی چونچ لڑتی رھی اور جوابًا اسکی جلی کٹی باتیں سن کر قہقہے لگاتے رھے ۔
کچھ دیر بعد میں نے آنٹی سے پوچھا کہ میں نے کہاں سونا ھے ۔تو آنٹی بولی چلو میں ساتھ والے کمرے میں تمہارا بستر لگا
دیتی ہوں ۔
عظمی اور نسرین بھی لیٹ گئی تھیں میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چال گیا۔
میرے پیچھے ھی آنٹی گانڈ مٹکاتی ہوئی آگئی ۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے آنٹی کو کس کر جپھی ڈال لی
اور آنٹی کے ہونٹوں کو چومنے لگ گیا
آنٹی میرے اچانک یوں جپھی ڈالنے سے گبھرا گئی اور مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے آہستہ سے بول رھی
تھی
یاسر چھوڑو
پاگل ھوگئے ھو وہ دونوں جاگ رھی ہیں کوئی ادھر آگئی تو مجھے مرواو گے میں آنٹی کو تسلی دیتے ھوے کچھ نھی ہوتا
آنٹی وہ سونے لگی ہیں اب نھی آتی باہر
کہتے ھوے آنٹی کی ہونٹ چوم رھا تھا اور آنٹی منہ ادھر ادھر کر رھی تھی
آنٹی کے دونوں بازو میرے سینے اور آنٹی کے مموں کے درمیان تھے اور میرا لن فل ٹائٹ ھو کر آنٹی کی پھدی کے ساتھ
رگڑ رھا تھا ۔
کچھ دیر آنٹی احتجاج کرتی رھی مگر جب لن نے پھدی کو گرم کردیا اور میرے ہونٹوں کے لمس نے آنٹی کے جسم میں
ہوس جگا دی تو آنٹی نے بھی اپنے بازوں سینے سے نکال کر میری کمر کے گرد ڈال لیے اور اپنے ممے میرے سینے میں
جزب کر لیے
میں نے آنٹی کا اوپر واال ہونٹ منہ میں ڈال کر چوسنے لگ گیا جبکہ آنٹی نے میرا نچال ہونٹ قابو کر لیا۔
میں نے دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی موٹی گانڈ کی پھاڑیوں کو ھاتھوں میں جکڑا ھوا تھا
اور ھاتھوں کا دباو ڈال کر گانڈ کو آگے کی طرف دھک رھا تھا
اور میرا لن آنٹی کے نرم پٹوں کے درمیان پھدی کے ساتھ رگڑ کھا رھا تھا
جس سے آنٹی بھی فل انجواے کرتی ھوئی
اپنے پٹوں کو آپس میں بھینچ رھی تھی ۔
میں کچھ دیر ایسے ھی کرتا رھا ہم دونوں اتنا مستی میں ڈوبے ھوے تھے کہ یہ بھی خیال نہ رھا کہ کمرے کا دروازہ کھال
ھوا ھے اور
عظمی یا نسرین میں سے کوئی بھی اندر آسکتی ھے ۔
مگر جب منی دماغ پر سوار ھو تو سب اندھے گونگے بہرے ھی نظر آتے ہیں ۔
ایسا ھی حال ہمارا اس وقت تھا۔
بس کمرے کی الئٹ بند تھی شاید اس وجہ سے دماغ بھی کچھ مطمئن تھا
میں نے ھاتھ آگے کیا اور آنٹی کی قمیض کے اندر سے ھاتھ ڈال کر آنٹی کے نرم نرم مموں کو پکڑ کر دبانے لگا ۔
میں یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ آنٹی نے بریزیر بھی نھی پہنا ہوا تھا ۔
جبکہ جب میں آیا تھا تو میں نے آنٹی کے کپڑوں میں خود اپنی آنکھوں سے کالے رنگ کے بریزیر کا عکس دیکھا تھا ۔
جب میرا ہاتھ آنٹی کے ننگے ممے پر گیا اور جاتے ھی میں نے آنٹی کے تنے ھوے نپل کو انگلیوں میں مسال تو آنٹی کے
منہ سے سییییییی کی آواز نکلی
میں نے تھوڑی دیر ھی مموں کو باری باری جلدی جلدی مسل کر چھوڑ دیا۔
اور آنٹی کو پیچھے دھکیلتے ھوے دیوار کے ساتھ لگا دیا اور ساتھ ھی اپنا ھاتھ آنٹی کی السٹک والی شلوار میں ڈال کر
پھدی پر رکھ دیا
پھدی تو ایسے مالئم تھی جیسے آج ھی اسکی صفائی کی ھو ۔
یعنی آج صبح سے ھی آنٹی کا چدوانے کا موڈ تھا۔ میرا ھاتھ پھدی کو کیا چھوا پھدی نے میرا ھاتھ ھی گیال کردیا میری
انگلیاں چپ چپ کرنے لگ گئی
آنٹی نے پھدی کو ھاتھ لگتے ھی اپنی ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا اور سییییییی آہہہہہہہہہ کیا میرا ھاتھ آنٹی کے چڈوں میں
ھی پھنس گیا
میں نے کوشش کر کے ہاتھ باہر نکاال اور آنٹی کا منہ دوسری طرف کرنے کے لیے آنٹی کی کمر میں بازو ڈال کر آنٹی کو
گھما دیا انٹی آہستہ سے بولی کیا ھے میں نے کہا بتاتا ھوں منہ تو دوسری طرف کرو اور آنٹی نے
لےےےےےےے کیا اور منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔
میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال شلوار کو ڈھیال کیا تو شلوار میرے پاوں میں گر گئی ۔
)Update no( 76
اور پھر آنٹی کی قمیض گانڈ سے اوپر کی اور شلوار پکڑ کر گانڈ سے نیچے کرنے لگا تو آنٹی نے جلدی سے شلوار پکڑ لی
اور گھوم کر پھر سیدھی ھوگئی
اور مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی
یاسر پاگل تو نھی ھوگئے
اور ساتھ ھی کمرے سے باہر نکل گئی میرے منہ سے بس اتنا ھی نکال بات تو سنننننن۔۔
اور میں لن ھاتھ میں پکڑے آنٹی کو جاتا دیکھتا رھا۔
مجھے غصہ تو بہت آیا کہ سالی خود تو فارغ ھوگئی مگر مجھے ادھورا چھوڑ کر چلی گئی
میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی اور ناال باندھ کر کھڑے لن کے ساتھ ھی چارپائی پر بیٹھ گیا .۔
سالی بستر بھی نھی لگا کر گئی تھی
ویسے ھی چارپائی پڑی تھی جس پر میں بیٹھا
سوچ رھا تھا اور نیچے سے میرا لن مجھے
وکھرا منہ چڑھا رھا تھا ۔
میں کچھ دیر بیٹھا دل ھی دل میں آنٹی فوزیہ کو گالیاں دیتا رھا
مجھے غصے میں دیکھ کر لن بھی ڈر کر بیٹھ گیا۔
میں اٹھا اور باہر نکل کر واش روم کی طرف چال گیا ۔
پیشاب کر کے میں باہر آیا تو میں انکے کمرے کی طرف چل پڑا اور دروازے کہ قریب کھڑا ھوکر کان لگا کر اندر کے
حاالت معلوم کرنے لگ گیا ۔
مگر اندر مکمل سکوت طاری تھا ۔
کچھ دیر میں ادھر ھی کھڑا رھا پھر یہ سوچ کر دوسرے کمرے کی طرف چل پڑا کہ لگتا ھے آنٹی جاتے ھی سوگئی ھے
اور نسرین تو پہلے ھی سوگئی ھوگی اور عظمی سونے کا ناٹک کر رھی ھوگی۔
بس ایسے ھی قیاس آرائیوں سے دل کو دالسے دیتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور الئٹ جال کر بستر ڈھونڈ کر خود ھی بستر
کیا اور پھر الئٹ بند کر کے پنکھا چال کے لیٹ گیا اور عظمی کا انتطار کرنے لگ گیا
آنٹی کے آنے کی تو اب امید ھی نھی تھی
کیونکہ گولیاں اب تک اپنا اثر کرچکی ہونگی ۔
اور ویسے بھی آنٹی کی پھدی ایک دفعہ مینہ برسا چکی تھی اور ایسی حالت میں ویسے ھی نیند بہت جلد آجاتی ھے
کافی دیر تک میں ایسے ھی سوچوں میں گم رھا
کہ مجھے باہر سے کسی کے قدموں کی آواز آئی جیسے وہ کمرے کی طرف آرھا ھو ۔
میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے اور عظمی کو تنگ کرنے کے لیے میں جلدی سے آنکھیں موند کر سونے کی
ایکٹنگ کرنے لگا۔
۔قدموں کی آواز کی سمت کان لگائے میں آنکھیں موند کر لیٹا رھا اور قدموں کی آواز جب بلکل کمرے کے دروازے کے پاس
آگئی تو میں سونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے آہستہ آہستہ خراٹے مارنے لگ گیا۔
اور عظمی کو دفعتًا ڈرانے کے لیے تیار کرنے لگ گیا۔
عظمی نے اندر آتے ھی دروازہ بند کیا اور آکر چارپائی کے قریب کھڑی ہوگئی ۔
میرا لن تو اسکے قدموں کی آواز سن کر ھی اس کے آنے کی خوشی میں سر اٹھاے شلوار کو تمبو بنا کر اسکو تمبو کے
ساے تلے بیٹھانے کا بندوبست کرچکا تھا۔
عظمی
کچھ دیر کھڑی مجھے ہاتھ سے ہالتی رھی تو میں جو پہلے سیدھا لیٹا ھوا تھا اسکے ہالنے سے کروٹ لے کر اسکی طرف
پیٹھ کر کے لیٹ گیا
عظمی چارپائی سے اٹھی اور الئٹ جال کر پھر میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی
وہ خود اتنی ڈر رھی تھی کہ اسکی ہمت نھی ھورھی تھی کے مجھے آواز دے کر اٹھاے
اس نے چارپائی پر بیٹھ کر مجھے پھر ہالیا مگر میں نے پھر بھی اسکی طرف منہ نھی کیا
عظمی میرے ساتھ لیٹ گئی
اور میرے کان کے پاس منہ کر کے میرے کان پر ہلکی سے دندی کاٹ لی ۔
میں نے سیییییی کرتے ھوے
کان کو مسال
اور غصے سے اسکی طرف گھوم کر کہا سسییییی
عظظظظظظظظظظظ
آآآ آ آ آ آ
بس اتنا ھی میرے منہ سے نکال
اور آآ کی چیخ نکلی
اور میں نے آنکھوں کو ملتے ھوے ناقابل یقین سے پوری آنکھیں کھول کر جب دیکھا تو وہ عظمی نھی بلکل آنٹی فوزیہ
تھی
اور میں خود کو سنبھالتے ھوے عظظظظ کو
اظظظظالمیں کہہ کر مکمل کیا
میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنٹی کو آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا تھا
کہ یہ سالی آنٹی فوزیہ ھی ھے کہیں کوئی چڑیل تو نھی
کیونکہ مجھے تو پکا یقین تھا کہ
آنٹی اور نسرین تو بےہوشی کی نیند سوگئی ہوں گی
مگر یہ بال کہاں سے نازل ہوگئی
انکھیں بھی وہ ھی ناک بھی وہ ھی ہونٹ بھی وہ سوٹ بھی پیج کلر ھی ھے ہاتھ پیر بھی سیدھے ھی ہیں
اگر یہ آنٹی ھے تو
عظمی کدھر گئی ۔
مجھے یوں حیران پریشان دیکھ کر آنٹی مجھے کندھے سے ہالتے ھوے بولی
خیر اے میں ای آں
کی ڈیلے پاڑ پاڑ ویکھی جاناں ایں ۔
آنٹی کی آواز سن کر مجھے کچھ حوصلہ ھوا
میں نے کہا آآنٹیییی آپپپپپ
تو آنٹی نے مجھے پھر کندھے سے ہالتے ھوے
کہا
او کاکا ہوششش کر
میں ای آں
اینا ڈریاں ہویاں کیوں ایں ۔
میں نے جب دوبارا آنٹی کی آواز سنی تو مجھے یقین ھوا کہ واقعی یہ چڑیل نھی آنٹی فوزیہ ھی ہے۔
میں نے خود کو کنٹرول کرتے ھوے کہا
وہ میں سو گیا تھا ۔اور آپ نے میرے کان پر کاٹا تو میں ڈرگیا
آنٹی ہنستے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی جا اوے کوئی حال نئی تیرا۔
پورا پائی بن گیا ایں پر فیر وی اندروں بچہ ای ایں ۔
اب میں کافی ریلیکس ھوچکا تھا۔
اور دل کو سمجھا بیٹھا تھا
کہ چلو
کڑی نئی تے اودھی ماں ای سئی۔
آپاں تے پانی ای کڈنا اے
موٹر نئی تے ڈونکی پمپ ای سئی۔
میں نے آنٹی کو جپھی ڈال کر چارپائی پر لیٹاتے ھوے کہا۔
جان من آج اس بچے کا کمال تو دیکھنا
اور ساتھ ھی میں نے آنٹی کہ ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے
اور ہونٹ چوسنے لگ گیا۔
میرے دماغ میں پھر عظمی آگئی کہ یہ نہ ھو کہ وہ سالی اوپر سے آجاے
اور میں نہ ماں کو چود سکو ں نہ اسکی بیٹی کو۔
میں نے آنٹی کے لبوں سے اپنے لب ہٹاے اور آنٹی سے پوچھا کہ عظمی اور نسرین سوگئی
تو آنٹی بولی وہ تو کب کی سوگئی ہیں
میں نے تو انکو دو تین دفعہ آوازیں بھی دیں مگر وہ تو پتہ نئی کون سا نشہ پی کر سوئی ہیں ۔
میں عجیب ھی کشمکش میں تھا کہ یہ ساال ھو کیا رھا ھے یہاں تو سب کچھ ھی الٹ ھوگیا
بیٹی کو چودنے کی خاطر
ماں کو سالنے کہ لیے گولیاں کھالئیں
مگر یہاں ماں بیٹی کو سال کر خود چدنے آگئی
واہ ****؛تیرے کیا رنگ ہیں۔
لن جو موتر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا
انٹی کی پھدی کو قریب دیکھ کر پھر سے انگڑائی لے کر آنٹی کے چڈوں میں سر دے چکا تھا
میں نے بھی سب خیالوں کو لن پر کنڈوم کی طرح چڑھا کر ۔
سر کو جھٹکا اور
پھر سے
میرے انتظار میں کھڑے گالبی ھوتے ھوے ہونٹوں پر پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انکو چوسنے لگ گیا۔
آنٹی بھی گرم ہوچکی تھی
میں نے آنٹی کو سیدھا کیا اور انٹی کی قمیض کو اوپر کر کے مموں کو باہر نکاال
100
واٹ کے بلب کی گولڈن الئٹ میں آنٹی کے ممے چمکتے ھوے باہر آے اور مجھے ٹوٹ پڑنے کا دعوت نامہ پیش کرنے
لگے
جسے میں نے خوش دلی سے قبول کیا اور مموں پر ہاتھ صاف کرنے لگا
جیسے جیسے مموں کو میں چوستا آنٹی کندھے اٹھا اٹھا کر ممے میرے منہ کے اندر گھسانے کی کوشش کرتی اور ایک
ہاتھ سے مما پکڑ کر میرے منہ میں ایسے دیتی جیسے مجھے دودھ پال رھی ھو
اور چھت کی طرف منہ کر کے بند انکھوں سے سسکاریاں بھرتی ۔
کچھ دیر مموں کی چنگی تسلی کی ۔
اور پھر میں اٹھ کر آنٹی کی ٹانگوں کے درمیان آگیا۔
پہلے میں نے خود کو کپڑوں سے آزاد کیا اور مادر زاد ننگا ھوگیا اور پھر آنٹی کا بازو پکڑ کر کھینچتے ھو اسے بھی اٹھا
کر بیٹھا لیا اور اسکی قمیض بھی اتار دی بریزیر تو پہلے ھی نھی جسم پر تھا
آنٹی کا ننگا جسم بلب کی گولڈن الئٹ میں دیکھ کر میری تو باچھیں کھل گئیں
کیا جسم تھا آنٹی کا
چٹا سفید گولڈن سیب
میرا رنگ بھی کافی سفید تھا مگر
آنٹی کے اوپر لیٹا ھوا میں
نان پر کباب ھی لگ رھا تھا
انٹی کی گوری چمکتی رنگت کے سامنے میرا سفید رنگ بھی مانند پڑگیا۔
میں نے آنٹی کی قمیض اتار کر آنٹی کو پھر لیٹا دیا اور پھر شلوار کو پکڑا کر پھدی اور گانڈ سے نیچے کرتے ھوے
پیروں سے بھی الگ کردیا۔
اب دونوں
الف ننگے تھے
ایک کچی جوانی اور ایک پکی ُک ھنگ جوانی۔
آپس میں ٹکرانے کے لیے بے چین تھیں
دونوں کی سانسیں بے ترتیبی سے چل رھی تھیں
پھدی لن کو اور لن پھدی کو گھور رھا تھا
قارئین اضطراب کا شکار تھے
رات ابھی آدھی باقی تھی
حوصلے دونوں کے بلند تھے
مجھے اپنی جوانی اور جنون کا غرور
آنٹی کو اپنے تجربہ اور قوت برداشت کا تکبر
جیت کس کی ھوتی
یہ اختتام جنگ کے بعد ھی معلوم ہونا تھا۔
میں نے آنٹی کی پھدی کی طرف دیکھا تو
پھدی شیشے کی پلیٹ کی طرح چمک رھی تھی
میں نے دو انگلیوں کو جوڑا اور انکو پھدی کے لبوں کی درمیان گھسیڑ کر اندر کردیا
آنٹی کے کندھے چار پائی سے اوپر کو اٹھے اور ھائیییییی کی آواز آئی
اور پہلی شاٹ پر جنون کا پوائنٹ بڑھا
اور قوت برداشت صفر پر
انگلیاں میں نے جڑ تک اندر کردیں ۔
پھدی ابھی اتنی گیلی نھی تھی
اس لیے آنٹی کو ہلکی سی تکلیف ھوئی
جسکا اظہار انکی ہائیییییی سے ہوا۔
میں آنٹی کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھا
اپنے ھاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑے پھدی کے اندر باہر کرنے لگا
آنٹی کی اہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی
اس سے پہلے کے آنٹی کو پہلے ھی اوور میں صفر پر آوٹ کر دیتا
آنٹی کا تجربہ کام آیا اور آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔
اور نھی میں سر ہال کر پھدی سے انگلیاں باہر نکال دیں ۔
مجھے پہال وار خالی جانے پر دکھ ہوا خیر
ابھی تو گیم شروع ھوئی تھی ۔۔۔۔۔
آنٹی پھدی سے میری انگلیاں نکالنے کے بعد تیز سانس لے کر میری طرف مستانی آنکھوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے
پھر انگلیوں کو پھدی کی جانب بڑھایا تو آنٹی نے جلدی سے میری انگلیوں کو ھی پکڑ لیا ۔
میں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو
آنٹی نے نفی میں سر ہالتے ھوے روکا اور انگلیوں کو کھینچ کر آنکھوں کے اشارے سے اور سر کو خم دے کر مجھے
اپنے اوپر آنے کا کہا۔
مگر میرا ابھی پھدی کے ساتھ مستی کرنے کو دل کررھا تھا۔
میں ایک دفعہ تو آنٹی کا دل رکھتے ھوے ۔
اسکے اوپر سے سیدھا اسکے چہرے کے پاس منہ کر کے اسکے اوپر ھی لیٹ گیا اور میرا لن پھدی کے اوپر لگ گیا
آنٹی نے جلدی سے چالکی کھیلتے ھوے ۔ اپنی ٹانگوں کو کھوال۔
اور گانڈ کو نیچے سے اوپر کی طرف جھٹکا دیا کہ لن اندر چال جاے ۔
مگر میں نے لن کو اس انداز سے کر لیا کہ لن پھدی سے سلپ ھو کر انٹی کی گانڈ کی طرف چال گیا۔
آنٹی نے تین یکے بعد دیگرے گانڈ اٹھا کر لن کو گھسے مارے مگر میں ہر دفعہ پھدی کا وار خالی جانے دیتا۔
میں تو لمبی سیریز کھیلنے کے موڈ میں تھا مگر آنٹی تو بس ٹی ٹونئٹی میں ھی کام نپٹانا چاھتی تھی ۔
میں نے آنٹی کے ہونٹوں کو چوسا اور نیچے کھسکنے لگا تو آنٹی بولی
یاسر اندر کرو نہ
میں نے کہا صبر رکھیں ۔کرتا ھوں ۔
آنٹی بولی نھی صبر ہوتا
سارااااا ایییی کردو
میں نیچے کھسکتے ھو ے بوال
میری جان سارا ھی کروں گا
بس دومنٹ ۔
میں کھسکتا ھوا آنٹی کے مموں کے پاس پہنچا تو
مموں نے میرا راستہ روک لیا
کہ
کدرررررر۔
میں نے وھاں ٹھہر کر کچھ دیر دونوں مموں کو سمجھایا
اور پھر نیچے کی طرف آگیا۔
مموں کو منہ میں بھرتے ھی آنٹی نے مجھے مذید ساتھ چپکا لیا اور مموں کو اوپر کر کر کے مجھ سے چوسا لگوانے لگ
گئی ۔
میں نے مموں کو انکا حصہ دیا
).Update no (77
میں نے مموں کو انکا حصہ دیا
اور واپس اپنی منزل کی طرف لوٹتے ھوے نیچے کھسکنا شروع ہوگیا۔
آنٹی نے مجھے نیچے جانے کے لیے پھر روکا مگر میں کیسے رکتا
پھدی میرا انتظار کررھی تھی
میں انٹی کے پیٹ کو چومتا ھوا ناف سے نیچے آیا اور
پھدی کے لبوں کو چوما اور پھر دوزانوں ہوکر پھدی کے سامنے بیٹھ گیا
میں نے پھدی کے اوپر دونوں ہاتھ رکھے اور دونوں انگوٹھوں کی مدد سے پھدی کے لب کھولے اور پھدی کے اندر کا
منظر دیکھنے لگ گیا ۔۔
پھدی اندر سے سرخ تھی
اور پھدی کی سرخی پھدی میں لگی ہوئی آگ کی وضاحت کر رھی تھی ۔
میں پھدی کو غور سے دیکھ کر اندر کے حاالت معلوم کررھا تھا
آنٹی آنکھیں بند کر کے سی سی کر رھی تھی ۔
پھدی کے اندر جاکر اندھیری سرنگ شروع ہو جاتی تھی
جس سے آگے کچھ نظر نھی آرھا تھا ۔
پھدی کے اندر نرم ریشوں پر پھدی سے گرنے والی شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔
میں نے سر پھدی کی جانب بڑھایا ۔
انٹی ٹانگوں کو فولڈ کر کے گھٹنے اوپر کر کے پھدی کو میرے سامنے ایسے کھول کرلیٹی ہوئی تھی جیسے بچہ پیدا کرتے
وقت عورت ٹانگیں کھول کر لیٹتی ھے ۔
میں نے پھدی کے قریب منہ کیا اور اپنی زبان نکال کر پھدے کے مٹر جتنے دانے کو زبان کی نوک سے چھیڑا ۔تو
آنٹی نے سییییییییی کیا اور دونوں ٹانگیں جوڑ کر چڈوں میں میرا سر بھینچ کر چھوڑ دیا ۔
آنٹی کی تڑپ دیکھ کر مجھے آنٹی کا چور سوئچ مل گیا میں نے دانے کو زبان سے رگڑنا شروع کیا
تو آنٹی تڑپنے لگ گئی اور بار بار اپنے چڈوں میں میرا سر بھینچ کر چھوڑتی
آنٹی کی بےچینی اور سسکاریوں نے مجھے جوش چڑھایا تو میں نے پھدی کے دانے کو جھلی سمیت منہ میں ڈال کر
چوسنے لگا
آنٹی چارپائی سے اچھلی اور
ایک ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھا کر میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں دبوچ لیا اور
دوسرا ھاتھ چارپائی پر مارنا شروع کر دیا اور سسکاریاں مارتے ھوے اپنا سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی
میں جیسے جیسے پھدی کے دانے کو زور زور سے چوستا آنٹی اتنی ھی زور سے میرے بالوں کو مٹھی میں دبوچتی ھوئی
چارپائی پر تڑپتی ھوئی سسکاریاں مارنے لگ جاتی
آنٹی کی یہ حالت میرے جوش میں اضافہ کررھی تھی ۔
کہ آنٹی کا جنون حد سے تجاوز کرنے لگا
آنٹی کا جسم اکڑنا شروع ھوگیا
میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی
انٹی کی لمبی سسکاری نکلی
سسسیہہہہہ مممممممم اممممم یاھھھھھھھھ یاسررررررر میں گگگگئییییییییی
اور ساتھ ھی
آنٹی نے میرا سر پورے ذور سے پھدی کے اوپر دبا دیا
اور گانڈ کو نیچے سے اٹھا کر پھدی کو میرے منہ کے ساتھ دبا کر اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ لیں جس سے میرا سر آنٹی کے
چڈوں میں پھنس گیا
آنٹی نے کے جسم نے ایک ذورداد جھٹکا لیا اور آنٹی کی پھدی نے میرے منہ کے اندر باہر ناک آنکھوں کو منی سے بھر
دیا ۔
میرا سانس بند ھورھا تھا
میں سر پیچھے کھینچنے کی کوشش کررھا تھا
مگر آنٹی نے میرے سر کے بال مٹھی میں بھرے ھوے تھے اور چڈوں کو ذور سے بھینچ رکھا تھا
آنٹی کی تیز سانسیں اور جھٹکے جاری تھے
میری جب جان نکلنے والی ھوگئی اور جب تک آنٹی کی سانسیں درست ہونی تھی
میری سانسیں رک جانی تھی ۔
میں نے دونوں ھاتھ آنٹی کے چڈوں پر رکھے اور پورا زور لگا کر اپنا سر آنٹی کے چڈوں سے نکالنے میں کامیاب ھوگیا
آنٹی اپنے مزے میں ڈوبی میری حالت سے بے خبر لمبے لمبے سانس لے رھی تھی اور میرے بال ھاتھ سے نکلتے ھی آنٹی
نے ہاتھ پھدی پر رکھ کر پھر چڈوں کو بھینچ لیا تھا اور ہلکے ہلکے جھٹکے جاری تھے ۔
میں سر باہر نکال کر لمبا سانس لے کر کھانسنے لگا گیا
میرا سر آنٹی کے چڈوں سے ایسے نکال جیسے پھدی سے نومولود بچہ باہر آتا ھے
اور میرا سارا منہ پھدی کے پانی اور منی سے ایسے بھرا ھوا تھا جیسے پھدی سے نکلنے کے بعد بچے کا منہ اور سر پانی
سے بھرا ھوتا ھے میں کھانستے ھوے
منہ کو بھی صاف کررھا تھا
آنٹی کچھ ٹھنڈی ہوئی اور ساتھ ھی ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی آنٹی کا ھاتھ اب بھی پھدی پر ھی تھا۔
میں انٹی کے قدموں میں بیٹھا
اسکی چٹی سفید گانڈ کو دیکھ رھا تھا
جو سائڈ لے کر لیٹنے کی وجہ سے باھر کو نکل آئی تھی ۔
میں اپنا منہ اچھی طرح صاف کر کے آنٹی کے ساتھ آنٹی کی کمر کے ساتھ لگ کر لن آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر لیٹ
گیا اور ایک ھاتھ آنٹی کی بغل سے گزار کر آنٹی کا مما پکڑ لیا ۔
اور ممے کو دباتے ھوے کہا
مزہ آیا ۔
تو آنٹی بولی
بوتتتتتتتتتت
.میں نے آنٹی کو کہ
کہ آپ نے اپنے مزے کے چکر میں آج بچے کی جان لے لینی تھی ۔
آنٹی بولی بچہ نہ ُپٹھے کم کرے ۔
میں نے کہا جان من تم نے پھدی کو سپیشل میرے لیے تیار کیا تھا
اگر میں اس کی تیاری کو سراہتا نہ تو یہ پھدی کے ساتھ ذیادتی ہونی تھی ۔
آنٹی نے ہاتھ پیچھے کر کے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا۔
بے شرم
شرم نھی آتی گندی باتیں کرتے ھوے ۔
میں نے کہا لو جی اب میں نے کیا گندی باتیں کردی
تو آنٹی بولی ایک تو گندی حرکتیں کرتے ھو اور پھر کیسے چسکے لے لے کر اپنی حرکتوں کی وضاحت کرتے ھو ۔
میں آنٹی سے گفتگو کے دوران لن کو انٹی کی گانڈ کے دراڑ میں مین اندر باھر بھی کر رھا تھا ۔
میں نے باتوں کے دوران ھی ھاتھ نیچے کیا اور لن کو پکڑ کر ٹوپے کو گانڈ کی موری پر سیٹ کر چکا تھا
اور آنٹی کو باتوں میں لگا کر
جیسے ھی گھسا مار کر لن آنٹی کی ُبنڈ میں اتارنے لگا تو انٹی جھٹکے سے آگے ہوئی اور میرا ٹوپا موری سے سلپ ھوکر
پھدی سے رگڑتا ھوا آگے چال گیا۔
آنٹی گردن گھما کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی بے شرم یہ کیا کرنے لگے تھے
مجھے مارنا تھا کیا
ابھی اندر چال جاتا تو میری چیخ پورے محلے نے ُسننی تھی ۔
میں نے کہا
کچھ نھی ہوتا بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔
آنٹی بولی
نئی یاسر یہ بھی کوئی کرنے کی جگہ ھے
آگے سے کرو
میں نے کہا نھی مجھے پیچھے سے ھی کرنا ھا ۔
کچھ بھی نھی ھوتا
انٹی بولی نئی یاسر مجھ سے برداشت نھی ھونا۔
میں نے کہا کیوں ۔
کیا انکل نے پیچھے سے کبھی نھی کیا۔
تو آنٹی آہ بھر کر بولی ۔
اس بیچارے سے تو اب آگے سے بھی نھی ھوتا
پیچھے سے کیا کرے گا۔
میں نے حیران ھوتے ھوے کہا۔
وہ کیوں جی ۔
تو آنٹی بولی چھوڑو کن باتوں کو لے کر بیٹھ گئے ھو ۔
مگر میرا یہ جاننے کے لیے تجسس بڑھ گیا کہ ایسا کیا ھے کہ انکل سے کچھ بھی نھی ھوتا ۔
اور اتنی حسین اور ایسی سیکسی فگر کی مالک بیوی کو دیکھ کر بوڑھوں کے بھی لن کھڑے ھوجائیں تو پھر انکل نے
ایسی سیکسی لیڈی کو چودنا کیوں چھوڑ دیا ۔
میں نے انٹی کو پھر کہا کہ بتائیں نہ کہ انکل نے کب سے آپ کے ساتھ سیکس نھی کیا اور کیوں نھی کیا اسکی وجہ کیا
ھے ۔
آنٹی بولی بیچارا اب تو بوڑھا ھوگیا ھے ایک تو پہلے ھی مجھ سے دس سال بڑا تھا ۔
میری تو جب سے شادی ھوئی ھے اسکے ساتھ
شروع شروع میں میرے ساتھ کرتا رھا
اور
جب عظمی اور نسرین ہیدا ھوئی تو اس کے ایک سال بعد تمہارا انکل بلکل ھی فارغ ھوگیا
پہلے تو اسکا جلدی کھڑا ھی نھی ھوتا تھا اگر ھوتا بھی تو بس ایک دو گھسے مار کر فارغ ھو جاتا
اور میں ادھوری رھ جاتی
بچیاں ھونے کے بعد سوال سال میں نے کیسے گزارے مجھے پتہ ھے
بس بچیوں کو اور اپنے ماں باپ کی عزت کو دیکھتے ھوے اپنی جوانی گنوا کر حالت سے سمجھوتا کرلیا تھا
اور میں تو سیکس نام کی چیز کو بھی بھول چکی تھی
میرے ماں باپ کے غلط فیصلے نے میری جوانی رول دی۔
میں نے جب آنٹی کی یہ باتیں سنیں تو میرا تو حیرت کے مارے برا حال ھوگیا کہ پندرہ سولہ سال سے آنٹی لن کو ترستی
رھی اور اس کا حوصلہ کہ کیسے صبر کر کے ایک نامرد کے ساتھ گزارا کرتی رھی اور کبھی کسی غیر مرد کی طرف
آنکھ اٹھا کر بھی نھی دیکھا ۔
میں دل ھی دل میں آنٹی کے حوصلے اور صبر کو داد دینے لگا۔
میں نے حیران ھوتے ھوے انٹی سے پوچھا ۔
کہ اس دوران آپکا کبھی دل نھی کیا تھا تو آنٹی بولی دل تو بہت کرتا تھا مگر خالی دل کے کرنے یا نہ کرنے کا کیا کرتی
جب آگے کچھ نظر ھی نھی آتا تھا ۔
یا پھر اس سے طالق لے لیتی یا پھر باہر منہ کاال کرواتی ۔
آنٹی کی باتیں سن کر میرے ذہن سے ایک دفعہ تو سیکس نکل چکا تھا۔
میں نے کہا
۔پھر بھی جب اپکا بہت ذیادہ دل کرتا تھا تو کیا کرتی تھی ۔
تو آنٹی بولی ۔یاسر سہی بتاوں تو پہلے پہل مجھے بہت پریشانی ھوئی میں اس بات کو لے کر دن رات سوچتی رھتی تھی
مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا
میری قوت برداشت بڑھتی گئی اور پھر آہستہ آہستہ سیکس نام کی چیز ھی میرے دل دماغ سے نکل گئی اسکی سب سے بڑی
وجہ
میری جرواں بیٹیاں تھی
جنہوں نے مجھے مصروف رکھا
اور پتہ ھی نھی چال کہ کب سوال سال گزر گئے۔
اور جوانی کب گئی یہ بھی احساس تک نہ ھوا۔
وہ تو اس دن تم میرے ساتھ مزاق مزاق میں میرے پیچھے لگے تو
تم نے سوال سال پرانی بجھی آگ کو چنگاری دے دی اور وہ آگ ایسی جلی کہ مجھے یہ بھی احساس نہ رھا کہ تمہاری اور
میری عمر کا کتنا فرق ھے ۔
میں نے جب دیکھا کہ آنٹی اب کچھ ذیادہ ھی اموشنل ھورھی ھے تو میں نے سنجیدہ ماحول کو خوشگوار بنانے اور آنٹی کو
دوبارا سیکس کی طرف راغب کرنے کے لیے آنٹی کے ممے کو دباتے ھوے کہا۔
فوزیہ جان جوانی تو اب آئی ھے تم پر ۔
تم تو اب بھی کسی نوجوان لڑکی سے کم نھی ھو تمہیں پتہ ھے کہ
میں نے جب پہلی دفعہ تمہارے سیکسی جسم کو دیکھا تھا اور تمہاری پھدی کے اندر اپنا لن کیا تھا تو میں خود حیران ھوگیا
تھا کہ
تم کسی حساب سے بھی دو جوان بچیوں کی ماں نھی لگتی ھو۔
آنٹی نے پھر میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا
چل بےشرم
کیسی گندی باتیں کرتا ھے۔
بہت تیز ھوگیا ھے ۔
میں نے مذید انٹی کے ساتھ جڑتے ھوُے کہا
جان من اب تو اجازت ھے ۔
اور لن کو پکڑ کر پھر گانڈ کی موری پر سیٹ کیا تو
آنٹی نے آگے سے اپنا ھاتھ پھدی کے اوپر سے لیجاکر
لن کو پکڑ کر پھدی کے سوراخ کے اوپر رکھا
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یا کرتا
آنٹی نے گانڈ کو جھٹکے سے پیچھے کیا اور لن کو گانڈ میں لے کر سسیییییی کیا
اور سسکتے ھوے بولی
ایس شیر دی جگہ ایتھےےےےےےےے اےےےےے ھاےےءءءءءءءء
اور لن اندر لے کر آنٹی نے گانڈ میرے ساتھ چپکا دی
اور پھر بولی یاسر ایسے ھی کرو نہ جلدی۔
میں نے بھی ُبنڈ مارنے کا ارادہ ملتوی کیا اور پیچھے سے ھی سٹروک لگانے لگا ۔
آنٹی مزے سے سسک رھی تھی
اور ساتھ ساتھ
آہیں بھر رھی تھی اور مجھے مذید ذور سے کرنے کا کہتے ھوے
آہہہہہ سیییی افففففف
زور سے یاسرررر ذور سے
ہاں ایتھے سٹ مار ایتھے
میں انٹی کی ایسی باتیں سن کر مزید جوش میں اگیا اور آنٹی کے کندھوں پر دونوں ھاتھ رکھ کر
پورے ذور سے گھسے مار رھا تھا
پھدی سے پانی نکل نکل کر لن کو فراوانی مہیا کر رھا تھا
میرے شدید گھسوں سے
آنٹی کے ممے آگے سے ہل ہل کر آنٹی کی ٹھوڑی تک جارھے تھے
کمرے میں تھپ تھپ اور آنٹی کی سسکاریوں
اور
ایتھے سٹ مار یاسر
ھاں اینج ای اینج ای
ہٹ ہٹ کہ مار ہٹ ہٹ کے مار
سارا کردے اج ساراااااااا کردےےےےے
کی آوازیں پورے کمرے میں گونج رھی تھیں
ہم دونوں ہر چیز سے بیگانے ھو کر لن پھدی کا مزہ لے رھے تھے
نہ اندر کی خبر نہ باہر کی
آنٹی کی آوازیں اتنی بلند تھی کہ اگر کوئی دروازے کے باہر کھڑا ھوتا تو آسانی سے سن لیتا
مگر ہمیں کسی کی پرواہ نھی تھی ۔
میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا
آنٹی کے شور اور آہوں نے وہ ھی کیا جسکا مجھے ڈر تھا
کہ؟؟؟؟؟؟؟؟
اچانک
)Update no (78
اچانک میرے جھٹکوں کی سپیڈ تیز ھوگئی
لن کی رگیں پھولنا شروع ھوگئیں ۔
آنٹی کےجوش اور سیکسی آوازوں نے اور آنٹی کی دھکتی بھٹی کے آگے میں ذیادہ دیر ِٹک نھی سکا اور میرے لن نے آنٹی
کی پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنی شروع کردیں اور اسی دوران آنٹی نے بھی اپنی گانڈ کو میرے ساتھ چپکا دیا اور
پھدی کو بھینچ کر میرے لن کو سارا نچوڑنے لگی ۔
اور پھر مجھے اپنے ٹوپے پر پھدی کے اندر سے انٹی کی منی کی دھاریں گرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
میں اور آنٹی اکھٹے ھی فارغ ہوگئے
آنٹی بھی کروٹ لیے بے سدھ ہوکر لیٹ گئی اور میں میں بھی کروٹ لیے آنٹی کے ساتھ چپک کر جھٹکے کھاتا ھوا آنٹی کو
جپھی ڈالے لیٹا رھا
کچھ دیر بعد میرا لن شِلنگ ہوکر پھدی سے باہر نکل آیا اور آنٹی بھی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
میں نے آنٹی کو بازو سے پکڑ کر پھر اپنے اوپر کھینچنا چاھا تو آنٹی بولی بس یاسر ٹائم کافی ھوگیا ھے عظمی یا نسرین اٹھ
نہ جائیں ۔
میں نے کہا
ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور آپ جانے کی بات کررھی ھو۔
انٹی اپنا بازو چھڑواتے ھوے بولی
تمہارا جی نھی بھرنا
اگلے کی چاھے بس ھو جاے ۔میری کمر درد کرنے لگ گئی ھے
آنٹی بلکل ننگی چارپائی سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی ھوئی تھی اور میں کروٹ لے کر اسکی گانڈ کے ساتھ اپنا سویا ھوا لن
لگا کر لیٹا ھوا تھا
آنٹی بولی
اب مجھے جانے دو ۔
میں نے آنٹی کا ھاتھ پکڑ کر
کہا ایک دفعہ تو اور کرنے دو
ابھی تو میرا جی بھی نھی بھرا ۔
آنٹی نے جلدی سے اپنا ھاتھ کھینچا اور کھڑی ھوگئی ۔
آنٹی کی پھدی سے میری اور آنٹی کی منی مکس ھوکر پانی بن کر ٹانگوں سے بہہ کر آنٹی کے پیروں تک آگئی تھی ۔
اور ٹانگوں پر پانی ٹانگوں پر پانی چمک رھا تھا۔
آنٹی جب کھڑی ہوئی تو اسکی گانڈ میری طرف تھی
انٹی کی گانڈ عظمی کی گانڈ کی طرح بلکل گول مٹول اور باہر کو ابھری ہوئی تھی
مجھے گانڈ دیکھ کر
اسپر بے اختیار پیار آیا تو میں نے گانڈ کی طرف اپنا پاوں بڑھایا اور پیر کے انگھوٹھے کو گانڈ کی دراڑ میں ڈال دیا۔
آنٹی جو میری طرف گانڈ کر کے کھڑی اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے بال سنوار رھی تھی
گانڈ کی دراڑ میں انگوٹھا لگتے ھی تڑپ کر آگے کو ھوئی اور ہاتھ سے میرے پاوں کو جھٹکتے ھوے بولی
بتمیززززز۔
اور چارپائی سے دور ہٹ کر اپنے کپڑے پہننے لگ گئی
میں نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔
میں ُہن ناں ای سمجھاں۔
تو آنٹی ایک ٹانگ اٹھا کر شلوار پہنتے ہوے شوخی سے بولی ۔
توں تے رجناں نئی مینوں مروائیں گا۔
اور پھر شلوار اوپر کر کے
قمیض کو درست کرتے ھوے بولی
چل اٹھ کے کپڑے پہن لے اور دروازہ اندر سے بند کرلے میں جارھی ھوں ۔
اور آنٹی میرا جواب سنے بغیر آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر جھانک کر
نکل گئی
اور میں آنٹی کو جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔
کچھ دیر ایسے ھی ننگا لیٹا رھنے کے بعد میں اٹھا اور اپنے کپڑے درست کر کے الئٹ بند کی اور پھر چارپائی پر لیٹ گیا۔
اور کچھ دیر بعد نیند کی آغوش میں چال گیا ۔
صبح مجھے آنٹی نے ھی اٹھایا اور میں جلدی سے اٹھ کر اپنے گھر گیا اور نہا دھو کر ناشتہ کیا
اور پھر واپس آنٹی کے گھر آگیا ۔
جب گھر میں داخل ھوا تو صحن میں بیٹھی صدف کو دیکھ کر چونک گیا
اس نے بھی میری طرف ایک نظر دیکھا
میں نے اسے نظر انداز کیا اور اسکو مخاطب کیے بغیر اسکے پاس سے گزر کر اندر کمرے کی طرف چال گیا۔
عظمی اور نسرین دونوں ھی سکول کے لیے تیار بیٹھی تھیں ۔
میں نے عظمی کو گھورتے ھوے دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر شرمندہ سی ھوگئی اور سر جھکا کر میرے پاس سے
گزر کر باہر چلی گئی میں نے نسرین کو کہا
جناب نے بھی جانا ھے سکول ۔
نسرین غصے سے بولی
جانا اے ۔تینوں کوئی تکلیف اے ۔
میں نے کہا۔
مجھے کیوں تکلیف ھونی ھے مجھے تو خوشی ھے کہ
تمہاری طبعیت بہتر ھوگئی ھے ۔۔
نسرین
ہنکارا بھر کر میرے پاس سے گزر کر باہر چلی گئی
میں نے نسرین کی گانڈ کو غور سے دیکھا تو اسکی گانڈ کی دراڑ میں مجھے کو چیز ابھری سی نظر آئی
جیسے اس نے گانڈ کی دراڑ میں کچھ پھنسایا ھوا ھو ۔
میں بڑے تجسس سے اسکی گانڈ کو دیکھتا ھوا اسکے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر آگیا
عظمی اور صدف بیرونی دروازے کے پاس کھڑی نسرین کو جلدی جانے کا کہہ رھی تھی ۔
نسرین بھی تیز تیز قدموں سے چلتی ھوئی انکے پاس پہنچی
اور تینوں گھر سے نکل پڑیں
میں بھی انکے پیچھے پیچھے چل رھا تھا
میں صدف کی وجہ سے انسے کچھ فاصلے پر چل رھا تھا۔
ایسے ھی چلتے ھوے
ہم شہر پہنچ گئے راستے میں کچھ خاص بات نھی ھوئی ۔
وہ تینوں آپس میں باتیں کرتی رہیں مگر میں نے انکی کسی بات میں مداخلت نھی کی ۔
انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں ۔
دکان پر چال گیا
صفائی وغیرہ کرنے کے بعد
کچھ دیر کسٹمروں میں مصروف رھے
مجھے اچانک یاد آیا کہ ضوفی نے لہنگا پارلر سے لے کر جانے کا کہا تھا یہ خیال آتے ھی میں نے انکل سے پوچھا جو
لہنگا رینٹ پر دیا تھا کیا وہ واپس آگیا ھے انکل نے کہا
بیٹا تجھے پتہ ھو
مجھے تو کوئی واپس نھی دے کر گیا ۔
میں نے کہا
کوئی بات نھی ۔ادھر ساتھ ھی انکا گھر ھے میں دوپہر کو جاکر لے آوں گا۔
میں نے انکل کو نھی بتایا کہ وہ پالر والی ھے ۔
انکل کو یہ علم تھا کہ نھی
I don't know
۔انکل بولے ٹھیک ھے یاد سے لے آنا ۔
میں نے جی اچھا کیا اور پھر کام میں مصروف ھوگیا
کام میں مصروفیت کی وجہ سے وقت کا پتہ ھی نھی چال اور دو بج گئے
جنید نے مجھے کھانا النے کے لیے ساتھ چلنے کا کہا
تو میں جوتا پہن کر انکل سے کھانے کے پیسے لے کر اسکے ساتھ ہوٹل کی طرف چل پڑا۔
جنید راستے میں مجھ سے وصل یار کے حاالت معلوم کرتا رھا ۔
جو میں نے اسے مختصرًا بتا دیے ۔
باتوں باتوں میں
میں نے ضوفی کا ذکر چھیڑ لیا کہ
اسکے گھر میں کون کون ھے
تو جنید نے بتایا کہ
وہ تین بہنیں ھیں ایک چھوٹی ھے اور بڑی کی شادی ھوگئی ھے اور اسکا پارلر ھے
اور انکا بھائی کوئی نھی ھے
اور باپ بھی نھی ھے
ماں بوڑھی ھے
اس لیے گھر کی ساری ذمہ داری ضوفی پر ھی ھے ۔
میں نے جنید کو ضوفی کا نام نھی بتایا تھا
وہ اس لیے پھلجھڑی بلبل پٹاخہ جیسے نام لے کر اسکا ذکر کر رھا تھا۔
میں نے ضوفی کے بارے میں مذید معلومات لینے کی کوشش کی مگر جنید کو بس اتنا ھی علم تھا
کہ وہ بڑی سیکسی ھے سارے محلے کے لڑکے اس کے سمیت
اس پر الئن مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کسی کو لفٹ نھی کرواتی سالی بڑی مغرور ھے ۔
اور پھر ٹھنڈی اہ بھر کر بوال خوش قسمت ھی ھوگا وہ جسکو اس قیامت کی پڑیا کا سیکسی جسم نصیب ھوگا۔
جنید کی اس طرح کی باتیں سن کر میرے اندر ضوفی کی قربت پانے کا تجسس بڑھتا گیا۔
اور سوچتا ھوا واپس دکان کی طرف آگیا
کہ آج اس پر ٹرائی مار کر دیکھوں
گا۔
اگر ہنس پڑی تو سمجھو پھنس گئی
ورنہ کہہ دوں گا باجی ڈر گئی باجی ڈر گئی
.میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ منہ دھوکر بال بناے
دوستو میرے بال کافی سلکی تھے اور اجے دیوگن کی طرح میرا قدرتی پف بنا ھوا تھا ۔
اور میرا رنگ تو قدرتی سفید تھا اور اکثر میں شیشے کے سامنے کھڑا ھوکر بالوں کو سنوارتا ھوا خود ہولی ووڈ کا ہیرو
تصور کرتا ھوتا تھا۔
چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اور مونچھیں بھی نکل آئی تھیں
جنید اکثر مجھے پٹھان کہتا تھا
کہ تمہارا رنگ پٹھانوں اور کشمیریوں جیسا چٹا سفید ھے
اسی لیے مجھے آنٹی فوزیہ اور گلی کی دیگر خاتون شہزادہ کہتی تھیں ۔
خیر میں بھی کیا اپنے منہ میاں مٹھو بن رھا ہوں۔۔
میں اپنے آپ کو تیار شیار کررھا تھا
تو انکل میری طرف حیرانگی سے دیکھتے ھوے مجھے چھیڑتے ھوے بولے
خیر ھے کدھر کی تیاری ھو رھی ھے ۔
میں شیشے میں انکل کو دیکھ کر جھینپ سا گیا۔
اور بات بناتے ھوے بوال۔
کچھ نھی انکل جی بس ایسے ھی منہ پر مٹی پڑی تھی تو منہ دھولیا۔
انکل پھر شرارت سے بولے
میں تو سمجھا کہ
منڈا ویا تے چال اے ۔
میں ہنستے ھوے بوال
نھی انکل جی ایسی تو کوئی بات نھی ھے ۔
ماحول کی نذاکت کو دیکھتے ہوے اب مجھے حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ انکل کو لہنگا النے کا کہوں ۔
کچھ دیر میں بیٹھا انتطار کرتا رھا کہ انکل خود ھی مجھے کہیں تو میں لہنگا لینے کے بہانے ۔دیدار ُحسن کے لیے جاوں۔
میں نے کچھ دیر انتظار کیا مگر انکل اپنے کام میں مصروف رھے ۔
تو میں اٹھا اور لہنگوں والی الماری کے پاس جاکر لہنگوں کو سیٹ کرنے لگا۔
اور انکل سے کہا انکل وہ شاکنگ پنک کلر کا لہنگا ھی گیا تھا نہ ۔۔
انکل بولے ھاں وہ ھی گیا ھے ۔اور انکل نے کالک کی طرف دیکھتے ھوے کہا تم نے تو کہا تھا کہ دوپہر کو خود ھی
جاکر لہنگا لے آوں گا ۔
تم میں چونکنے کے ڈرامائی انداز سے بوال ۔اوووووو سوری انکل میرے تو دماغ سے ھی نکل گیا
میں ابھی جاتا ھوں ۔
انکل بولے ھاں جلدی لے آ
اگر ذیادہ دن ھوگئے تو
شادی بیاہ میں مصروف یہ لوگ رینٹ والی چیز کی احتیاط نھی کرتے
میں انکل کا آڈر ملتے ھی جلدی سے کاونٹر سے اترا اور جوتا پہن کر شیشہ کے پاس سے گزرتے ھوے،آئنے میں پھر اپنا
معائنہ کیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرتا ھوا سیٹی بجاتا دکان سے باہر نکل کر شاہین مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔۔
کچھ دیر بعد میں شاہین مارکیٹ کی بیس منٹ میں سیڑیاں اترتا ھوا چال گیا ۔
نیچے پہنچا تو دیکھا
ایک ھی الئن میں تین پارلر تھے ۔
اب مجھے کنفیوژنگ ھونے لگ گئی کہ ان میں سے ضوفی کا پارلر کون سا ھے ۔
اچانک مجھے یاد آیا کہ ضوفی نے اپنا کارڈ دیا تھا
میں نے جیب میں ھاتھ مارا اور اپنا بٹوا نکاال اسکو کھول کر دیکھنے لگ گیا تو خوش قسمتی سے مجھے کارڈ مل گیا۔
میں نے کارڈ پر پارلر کا نام دیکھا تو آخری پارلر ضوفی کا ھی تھا
جسکا نام کاجل بیوٹی پارلر تھا۔
میری انکھیں چمک اٹھی
اور میں پارلر کی طرف اپنے پف کو سنوارتا ھوا چل پڑا
پارلر کے گالس ڈور کے پاس پہنچ کر میں رک گیا اور کانپتے ھاتھ کے ساتھ ڈور پر ناک کیا تو
کچھ دیر بعد
شیشے کے آگے سے پردہ سرکا اور سانولی سی لڑکی کا چہرہ نمودار ھوا
اور اس نے مجھے دیکھا اور پھر ڈور کھول کر
سر باہر نکاال اور باقی سارا جسم پردے کی اوٹ میں کرکے بولی
جی فرمائیں۔
میں پہلے ھی کنفیوژن کا شکار تھا ۔اس لڑکی کی جی سن کر
ہکالتے ھوے بوال
وہہہ ضوفففی میڈم سے ملنا ھے ۔
اس لڑکی نے مجھے سر سے پاوں تک بڑے غور سے دیکھا اور میرا نام پوچھا تو میں نے نام بتا دیا
اور لڑکی
پھر پردے کے پیچھے غائب ہوگئی ۔۔۔
میں باہر کھڑا دوسرے پارلروں کا جائزہ لینے لگ گیا ۔
ضوفی پھر چونک کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی کیا کہا۔
میں نے کہا
میرا مطلب ہے کہ مینی پیڈی کیور کیا چیز ہے ۔
ضوفی ہنس کر بولی چلو دیکھاتی ہوں۔
اور ضوفی اور میں کیبن سے نکل کر دوسرے کیبن میں اگئے ۔
اس کیبن میں ایک سٹریچر پڑا ہوا تھا اور دو کرسیاں تھی جن کے پاوں کی طرف ٹپ بنے ہوے تھے جن میں پانی تھا۔
ضوفی مجھے بتانے لگ گئی کے
مینی پیڈی کیور کیسے کیا جاتا ہے ہاتھ اور پاوں کو گرم پانی میں کچھ لیکویڈ چیزوں کو مال کر ہاتھ پاوں کو دھویا جاتا ہے
اور کیسے پورے جسم پر ویکس کے ذریعے غیر ضروری بالوں کو اتارا جاتا ہے ۔
میری سمجھ میں کچھ باتیں تو آرہیں تھی اور کچھ میرے سر سے گزر رہیں تھی۔
میں تو بس ضوفی کے سیکسی فگر کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کررھا تھا۔
میں نے کہا ضوفی جی کیا میری ویکس بھی ہوسکتی ہے ۔
ضوفی پھر ہنسنے لگ گئی
اور شوخی سے بولی چلو کپڑے اتارو اور سٹریچر پر لیٹو کرتی ہوں تمہاری ویکس۔
میں نے ڈرنے کے انداز میں اپنی بغلوں میں ہاتھ لیتے ہوے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا ۔
ننننھی نھی
میں نے ویکس کروانی ہے
وڈا اپریشن نہیں۔
میری حالت اور میری جگت سن کر ضوفی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر میرے سامنے ُج ھکے کھلکھال کر ہنستی رہی ۔
اور میں اسکے جھکنے کی وجہ سے کھلے گلے سے آدھے ننگے مموں کا نظارہ کرتے ہوے اپنے ہوش گنوا بیٹھا اور
میرے لن نے بھی سر اٹھا لیا
ضوفی کے چٹے سفید موٹے نرم نازک مموں کے درمیان والی لکیر اور مموں کا کچھ حصہ میری آ نکھوں کے سامنے تھا
اور میں بغلوں میں ہاتھ دئیے ٹکٹکی باندھے مموں کو دیکھی جارھا تھا
اچانک ضوفی کو احساس ہوا کے میں اس کے گلے میں تاڑ رہا ہوں تو ضوفی جلدی سے سیدھی ہوگئی اور اسکی نظر جب
میرے نیچے شلوار میں بو بناے ہوے لن پر پڑی تو گبھرا کر نظریں پھیر لیں اور دوسری طرف دیکھتے ہوے بولی ۔
تو پھر کیا پروگرام ہے ۔
میں نے جلدی سے لن کو اپنی ٹانگوں میں بھینچ لیا اور ضوفی کو مخاطب کرتے ہوے
کہا جو آپ کا پروگرام ہے وہ ہی میرا پروگرام ہے ۔
ضوفی پھر میری طرف دیکھتے ہوے شوخی سے بولی چلو اتارو کپڑے
میں نے کہا شلوار بھی ۔
ضوفی پھر ہنستے ہوے بولی چل بے شرم
میں قمیض کی بات کررھی ہوں ۔
اور ساتھ ہی ضوفی نظر چرا کر میرے لن کی طرف بھی دیکھتی جو اب وہاں سے غائب ہوچکا تھا اور اس کے چہرے پر
حیرانگی کے ایثار بھی نمایاں ہوے ۔
ضوفی کی بات سنتے ہی
میں جلدی سے قمیض کے بٹن کھولنے لگا تو
ضوفی گبھرا کر جلدی سے بٹن پر رکھے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوے بولی
رہنے دو رہنے دو بھئی تم تو سچی میں تیار ہوگئے میں تو مزاق کررھی تھی ۔
میں منہ بسور کر دوبارا بٹن بند کرنے لگ گیا۔
ضوفی میرے منہ کو دیکھ کر صدف کی طرح میری گال پر چٹکی کاٹتے ہوے بولی
سو کیوٹ کتنے پیارا منہ بنا لیا ہے ۔
میں نے گال کو مسلتے ہوے پھر ویسے ہی منہ بناتے ہوے کہا ۔
آپ نے میرا دل توڑ دیا
ضوفی مسکرا
کر بولی
پاگل ابھی کسی وقت بھی کوئی کسٹمر آسکتا ہے
اگر تم نے واقعی ویکس کروانی ہے تو تم جمعہ کو آجانا
میں جمعہ کو فری ہوتی ہوں
میں نے ہنستے ہوے کہا
نئی ضوفی جی میں بھی مذاق کررھا تھا
میں بھال عورتوں والے کام کیوں کروں
ضوفی بولی یاسر
تم میری ایک بات مانو گے ۔
میں نے کہا جی حکم کریں ۔
ضوفی مسکرا کر بولی
تم اگر کلین شیو کرلو نہ تو بہت پیارے لگو گے
جیسی تمہاری کلین سکن ہے تو دیکھنا ہر لڑکی تم پر مرے گی
اور شلوار قمیض کی بجاے پینٹ شرٹ پہنا کرو۔
بہت ہینڈ سم لگو گے
میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے کہا
نہ بابا نہ
کیوں گاوں میں میرا مزاق بنانا ہے ۔
ضوفی حیرانگی سے بولی
یاسر تم گاوں میں رہتے ہو۔
میں نے کہا جی بلکل ۔
ضوفی بولی تمہاری شکل صورت تو گاوں والوں جیسی نہیں ہے۔
میں نے کہا آپ کبھی گاوں گئی ہو۔
ضوفی بڑی حقارت سے بولی توبہ میں کیوں جاوں گی گاوں
وہاں تو ڈسٹنگ اور ہر طرف سمیل ہی ہوتی ہے
چھی چھی
مجھے ضوفی کے ایسے گاوں کے متعلق حقارت امیز جملے کسنے پر غصہ بہت آیا مگر میں خود پر کنٹرول کرگیا اور
میں نے برا سا منہ بناتے ہوے
کہا گاوں کے لوگ اتنے بھی برے نھی ہوتے۔
کبھی آپ آو ہمارے گاوں اور دیکھو کہ وہاں کتنا پیار ملتا ہے آپکو کتنا سبزا ہے وہاں کتنی آب ہوا صاف ہے
کتنا سکون ہے
۔کتنا چاہنے والے لوگ ہیں ۔
ضوفی میری باتیں سن کر شرمندہ سی ہوگئی اور بولی
سوری یاسر میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوئی
اور پھر مسکراتے ہوے بولی
تم جمعہ کو آو گے
میں نے کہا جمعہ کو مجھے چھٹی ہوتی ہے
ضوفی بولی
کچھ نھی ہوتا بس تم نے جمعے کو آنا ہے اور دیکھنا میں تمہارا روپ ھی بدل دوں گی ۔
میں نے مسکراتے ہوے کہا
اوکے دیکھوں گا اگر کوئی ضروری کام نہ پڑا تو آجاوں گا
اور یہ نہ ہو کہ میں آوں اور آپ کا پارلر ھی بند ہو
ضوفی میری گال پر پھر چٹکی کاٹتے ہوے بولی
بے فکر ہوکر آجانا۔
میں نے کہا ٹھیک ھے جی ۔
اور جانے کی اجازت مانگی تو ضوفی بولی ۔۔۔۔۔۔
.میں کیبن سے باہر نکلنے لگا تو ضوفی نے مجھے آواز دی
یاسرررر
میں نے مڑ کر دیکھا
اور پوچھا جییی
ضوفی بولی وہ لہنگا تو لیتے جاو
مجھے بھی باتوں اور ضوفی کی قربت میں لہنگا بھول گیا تھا
میں بوال اووووو سوری مجھے یاد ہی نھی رہا۔
ضوفی تیسرے کیبن میں گئی اور لہنگے کا شاپر ال کر مجھے دیا اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوے بولی جمعہ کو الزمی آجانا
میں نے جی کہا اور پارلر سے نکل کر سیدھا دکان پر پہنچا اور انکل کو بتایا کہ لہنگا لے آیا ہوں
انکل بولے اچھی طرح چیک کرلیا میں نے کہا جی انکل میں نے ادھر ھی چیک کرلیا تھا۔
جنید میری طرف دیکھ کر آنکھ مار کر ہنسنے لگ گیا ۔
پھر دکان پر تو کچھ خاص نہ ہوا اور شام کو گھر پہنچا
اور وہ ہی روٹین کے مطابق کھانا وغیرہ کھایا اور کچھ دیر امی ابو کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگائی اور پھر اپنے بستر پر
لیٹ کر ضوفی کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گیا۔
صبح اٹھا ناشتہ وغیرہ کر کے آنٹی کے گھر پہنچا
تو پتہ چال کہ عظمی اور نسرین کے پیپر ختم ہوگئے ہیں لحاظ انہوں نے اب پندرہ بیس دن سکول نہیں جانا ۔
آنٹی سے کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد میں اکیال ہی شہر چال گیا ۔
صدف کا نہ میں نے پوچھا اور نہ ہی کسی نے میرے ساتھ اسکی بات کی ۔
دکان پر پہنچا اور وہ ہی روزمّر ہ کے کام کر کے دکان کے فرنٹ پر بیٹھ گیا ۔
آج جمعرات تھی اس لیے صبح صبح دکان پر رش شروع ہوگیا
دوپہر کب ہوئی نھی پتہ چال۔
جنید نے کھانا النے کا کہا اور ہم بازار چلے گئے
ہم دونوں باتیں کرتے ہوے ہوٹل کی طرف جارہے تھے کہ اچانک پیچھے سے کسی نے میرا نام لے کر مجھے پکارا
تو میں نے پلٹ کر دیکھا
تو اسد کی مما تھیں ۔
میں انکو دیکھ کر رک گیا اور ان سے سالم دعا کے بعد حال احوال پوچھا
تو آنٹی بولی کیا بات ہے کبھی گھر چکر نہیں لگایا ۔
میں نے کہا بس کام میں مصروفیت ہے اس لیے وقت نہیں مال ۔
آنٹی بولی اتنی بھی کیا مصروفیت ہوئی کہ کسی اور کہ لیے وقت ھی نہیں
میں نے کہا
آنٹی دراصل میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
اور میں ایک ہفتہ تو ہسپتال اور گھر ھی رھا
آنٹی میرے ایکسیڈنٹ کا سن کر کافی پریشان ہوئی اور مجھ سے گلہ کرنے لگ گئیں کہ ہمیں پھر غیر ہی سمجھا کہ بتانا
بھی پسند نہیں کیا
میں نے کہا آنٹی جی مجھے تو خود اپنا ہوش بھی نہیں تھا ۔
اور نہ ہی اسد یا مہری سے مالقات ہو سکی اس وجہ سے نہیں بتا سکا ۔
انٹی کچھ دیر گلے شکوے اور میری خیریت معلوم کرتی رہیں ۔
اور پھر بولی یاسر وہ سامنے مارکیٹ میں میرا بوتیک ہے ۔
تم نے کبھی بوتیک پر بھی چکر نہیں لگایا میں نے کہا جی آنٹی وقت نکال کر آپ کے بوتیک پر چکر لگاوں گا ابھی تو
میں دوست کے ساتھ ہوٹل سے کھانا لینے جارہا ہوں
تو آنٹی نے الزمی آنے کی تاکید کی اور میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوے چلی گئیں
جنید آنٹی کو بڑے غور سے دیکھتا اور کبھی میری طرف ۔
).Update no (80
آنٹی جب چلی گئیں تو
جنید میرے بازو ہر تھپڑ مار کر بوال
اوے تم اسے کیسے جانتے ہو
میں نے حیران ہوتے ہوے پوچھا کیا مطلب
میرے دوست کی امی ھے ۔
تو جنید کچھ سوچ کر چپ کرگیا۔
مگر مجھ سے اسکی خاموشی ہضم نہ ہوئی تو
میں نے کہا
تم کیوں اتنے حیران ہوکر کہہ رھے ہو کہ
میں اسے کیسے جانتا ہوں۔
تو جنید پھر جان چھڑواتے ہوے بوال
کچھ نہیں یار ۔انکا بوتیک ہے اس مارکیٹ میں ۔
میں اس لیے پوچھ رہا تھا۔
میں نے جنید کو کہا مجھے گولی مت دے جو اصل بات ہے وہ بتا
دوستی میں جھوٹ نہیں بولتے۔
جنید کچھ دیر خاموش رھا تو میں نے پھر اسے کہا تو جنید بوال
یار تیرے دوست کی امی ہے
تو تم ناراض مت ہونا۔
میں نے کہا لن تے چڑ گیا دوست
اتنا خاص بھی نھی ہے
تو بتا کیا بات ہے ۔
جیند بوال
یار یہ ایک نمبر کی بچے تاڑ ہے ۔
میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے ہوے بوال کیا مطلب
بچے تاڑ ہے ۔
جنید بوال
یہ سالی ینگ ینگ لڑکوں کو پھنسا کر ان سے چدواتی ہے اور انکو اپنے پاس سے پیسے بھی دیتی ہے اور عیش بھی
کرواتی ہے
میں تو سمجھا شاید تم بھی اسکے چکر میں آگئے ہو تو اس لیے میں نے پوچھا تھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو ۔
میں حیران پریشان ہوکر جنید کی باتیں سن رھا تھا ۔میں نے کہا
تجھے کیسے پتہ کہ یہ بچے تاڑ آنٹی ھے ۔
جنید بوال۔
یار یہ پوری مارکیٹ کو پتہ ہے
اور میرے دوست نے اسکی کتنی دفعہ لی ہے تجھے نھی یقین تو میں تجھے اسکے منہ پر کروا دیتا ہوں ۔
سالی ینگ لڑکوں کو چوستی ہے
تبھی تو اس عمر میں بھی جوان لگتی ہے ۔
ینگ خون چوس چوس کر خود بھی ینگ ہے ۔
مجھے خیال آیا کہ تبھی سالی پہلی مالقات میں ھی مجھے بڑی ہوس بھری نظروں سے دیکھ رھی تھی اور آج بھی یہ مجھے
اسی لیے بوتیک پر آنے کا کہہ رھی تھی ۔۔۔۔
میں نے کہا
یار یہ تو پھر بڑی چھپی ہوئی آئٹم ہے
تو جنید ہنس کر بوال
یار یہ تیرے لیے چھپی ھے ویسے تو ہر دوسرے بندے کو اس کے کریکٹر کے بارے میں علم ھے ۔
میری بات پلے باندھ لے یہ تجھے بھی معاف نھی کرے گی ۔
اور تم اس سے بچ کر رہنا
ورنہ اپنی جوانی گنوا بیٹھو گے ۔۔۔
میں نے کہا
نہیں یار پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ میرا انکے ساتھ گھریلو تعلق ہے
اور اگر ایسا اس نے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو مجھ سے بےعزتی کرواے گی ۔
جنید ہنستے ہوے بوال
یار تو بھی کمال ہے ۔
یہ بڑی آئیٹم ھے
یہ جس بچے کو بھی پھنساتی ہے اسکے ساتھ گھریلو تعلق ھی بناتی ھے ۔
اسکی ایک بیٹی بھی ھے ۔ نہ ۔
میں نے حیران ہوتے ہوے کہا ہاں یار ھے اسکی بیٹی
مگر تجھے اسکے بارے میں کیسے پتہ ۔
تو جنید ہنستے ہوے بوال
ماما یہ آنٹی اپنی بیٹی .کو دیکھا کر بچے پھنساتی ہے
لڑکا اسکی بیٹی کے چکر میں
اس کی ہر بات مان لیتا ھے
مگر سالی نے کبھی کسی کو بیٹی کے قریب نھی جانے دیا بس دور دور سے ھی درشن اور ہلکی پھلکی ہیلو جاے تک
محدود رکھتی ہے ۔
مجھ پر تو جیسے بم گر گیا تھا
میرا دماغ چکرا گیا ۔
میں نے جیند کو کہا یار
تجھے اتنی معلومات کیسے ہے ۔
جنید بوال
یار تجھے بتایا تو ھے کہ میرے دوست کی اسکے ساتھ سیٹنگ تھی اور وہ کتنی دفعہ انکے گھر بھی گیا تھا
تو یہ جان بوجھ کر اپنی بیٹی کو اپنے شکار کے سامنے التی
اور شکار اسکی بیٹی کے حسن کو دیکھ کر پھنس جاتا ۔
میں نے کہا
یار اسکی بیٹی بھی اسکی طرح دونمبر ھے کیا ۔
جنید بوال
اسکا مجھے علم نھی
کہ وہ کس طرح کی سوچ رکھتی ھے
ہوسکتا ھے کہ وہ بھی اپنی ماں کی طرح ھو یا یہ بھی ہو سکتا ھے کہ وہ اپنی ماں کی کرتوت اور اسکے شکار کرنے کے
طریقہ سے ناواقف ہو
مگر اتنا کنفرم ھے کہ کوئی لڑکا اسکی بیٹی تک پہنچ نہیں سکا ۔
میرے دل کو کچھ تسلی بھی ہوئی اور میرے تجسس میں اضافہ بھی
کہ مہری کہیں مجھے الو تو نہیں بنا رہی
یا پھر سچ میں وہ میرے ساتھ سریس ہے ۔
یہ تو اب اس سے مالقات کے بعد ھی معلوم ہونا تھا ۔
کیوں کہ میرا اگال پالن .مہری کی پھدی چیک کرنے کا تھا کہ سیل پیک ھے یا پھر؟؟؟؟؟؟؟
.میں دکان پر آکر بھی مہری اور اسکی مما کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ دنیا میں کتنے رنگوں کے لوگ
رہتے ہیں۔
بظاہر کچھ نظر آتے ہیں مگر اندر سے کچھ ۔
گھر جا کر بھی میری حالت کچھ ایسی ھی رھی
اگلے دن جمعہ تھا
اور میں وقت سے پہلے ہی اٹھ گیا
جبکہ ہر جمعرات کو یہ ھی سوچ کر سوتا تھا کہ صبح چھٹی ھے تو جی بھر کر سووں گا مگر صبح ہوتے ھی معاملہ سوچ
کے برعکس ہوتا تھا۔
میں اٹھ کر نہانے چال گیا اور پھر ناشتہ کرکے امی کو کہا کہ میں نے شہر جانا ھے تو امی نے حیران ہوتے ہوے پوچھا کہ
خیر ھے پہلے تو جمعے کو چھٹی کرتے تھے ۔
میں نے امی کو دوست سے ملنے کا بہانہ کیا اور امی کے طرح طرح کے سوالوں کے جواب دے کر امی کو مطمئن کر
کے ان سے اجازت لے کر آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا کیوں کہ ابھی صبح صبح کا ھی وقت تھا تو میں نے اتنی جلدی
ضوفی کے پارلر پر جانا مناسب نھی سمجھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی اسکا پارلر کھال بھی نھی ہوگا ۔
تو ایسے فضول میں ادھر خوار ہونا پڑنا تھا ۔
اپنے گھر تو میں بس سونے کے لیے ھی آتا تھا
کیوں کہ گھر میں امی ابو نازی اور بڑے بھائی کے عالوہ کوئی اور تھا نھی
امی ابو کے پاس میں اتنا بیٹھتا نھی تھا
نازی سے میری ویسے ھی نہیں بنتی تھی ۔
اور بڑے بھیاء ویسے ھی سڑیل سے تھے اور وہ ذیادہ وقت اپنی کریانے کی دکان پر ھی دیتے تھے
تو اس لیے میں گھر سے بھاگنے کی جلدی کرتا
آنٹی فوزیہ کے گھر میرا دل لگا رھا تھا
اور وقت بھی اچھا پاس ہوجاتا تھا۔
خیر میں آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی صحن میں جھاڑو لگا رھی تھی
آنٹی پاوں کے بل بیٹھی
گانڈ سے قمیض اٹھاے بیرونی دروازے کی طرف گانڈ کیے بیٹھی ہوئی تھی
میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو اکیلی آنٹی کو صحن میں دیکھ کر اور انکی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر مجھے شرارت
سوجھی ۔
میں دبے پاوں چلتا ہوا آنٹی کے قریب پہنچ گیا آنٹی میری آمد سے بےخبر اپنی مستی میں جھاڑو لگا رھی تھی ۔
میں نے پہلے چاروں طرف دیکھ کر اچھی طرح تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو نہیں۔
اور آنٹی کی گانڈ کے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوکر تھوڑا سا جھکا اور ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گانڈ میں چال چڑھا دیا ۔
آنٹی ایکدم گبھرا گئی اور چیخ مار کر گھٹنوں کے بل کوڈی ہوکر گرتے گرتے بچی
ورنہ آنٹی نے منہ کے بل گرنا تھا۔
آنٹی نے جب مجھے دیکھا تو ہاتھ میں پکڑا جھاڑو مجھے مارتے ہوے بولی بتمیز
یہ کیسا مزاق ھے میری جان نکال دی
میں جھاڑو سے بچتے ہوے ایک طرف بھاگا
آنٹی جھاڑو پکڑے میرے پیچھے پیچھے بھاگ رھی تھی اور میں آنٹی کے آگے اگے صحن کا چکر لگا رھا تھا۔
آنٹی کی چیخ سن کر عظمی اور نسرین بھی کمرے سے باہر نکل آئیں
انکو باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا تھا شاید وہ سو رھی تھیں ۔
انکے چہرے پر کافی گبھراہٹ تھی ۔
مگر جب انہوں نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوے دیکھا تو دونوں ہنسنے لگ گئی
اور عظمی نے آنٹی سے کہا کیا ہوا امی صبح صبح اس بیچارے کی شامت کیوں آئی ہوئی ھے ۔
آنٹی بولی
تمہارے
اس بیچارے نے میری جان نکال دی
آنٹی تھک کر کھڑی ہوکر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔
نسرین غصے سے بولی یاسر تمہیں شرم آنی چاہیے
ایسے کسی کو ڈراتے ہیں ۔
میں نے نسرین کو منہ چڑاتے ہوے کہا۔
تمہیں کوئی تکلیف ھے
یہ میری اور آنٹی کی بات ہے تم خامخواہ
بیچ میں چوہدرانی نہ بنو ۔
تو نسرین مجھے منہ چڑھا کر جا دفعہ ہو کہہ کر اندر چلی گئی اور عظمی مسکراتی ہوئی کھڑی رھی ۔
کچھ دیر بعد میں آنٹی کے قریب آیا اور انکو سائڈ سے جپھی ڈال کر سوری کرنے لگ گیا
کچھ نخرے دیکھانے کے بعد آنٹی
مان گئی اور میں اندر کمرے میں چال گیا جہاں سڑیل نسرین اور میری دلربا عظمی بیٹھی ہوئی تھیں ۔
عظمی مجھ سے پوچھنے لگ گئی خیر ھے آج کدھر کی تیاری ھے اتنی صبح صبح۔
میں نے کہا کہ شہر جارھا تھا تو سوچا آنٹی سے پوچھتا جاوں کہ کچھ منگوانا تو نھی ۔
عظمی بولی خیریت ھے جمعہ کو تو تم چھٹی کرتے ھو ۔
میں نے کہا ۔
دکان پر لڑکا ھے میرا دوست ھے اس سے ملنے جانا ھے
عظمی بولی کیوں روز ملتے نھی اس سے ۔
میں نے کہا روز ملتا ہوں ۔
مگر آج جمعہ ھے تو ہم نے کہیں گھومنے پھرنے جانا ھے ۔
عظمی کچھ کہنے لگی تھی کہ آنٹی کمرے میں آگئی تو عظمی کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئی ۔
آنٹی نے اندر آتے ھی میرے سر پر چپت لگاتے ہوے کہا ۔
یاسر بہت بتمیز ہوگئے ہو قسم سے میری جان نکال دی ۔
میں نے کہا
آنٹی میں نے تو بس واو کیا تھا اور آپ ڈر گئی ۔
آنٹی مجھے گھوری ڈالتے ہوے بولی
تیرے واو نے میری جان کڈ لینی سی ۔
میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی بولی وہ دوسرے کمرے میں سو رھا ھے
ساری رات کھانستا رھا ھے نہ خود سویا نہ مجھے سونے دیا۔
میں کچھ دیر مذید آنٹی کے گھر بیٹھا گپیں لگاتا رھا
نسرین اور آنٹی کی وجہ سے میں عظمی سے گولیوں کا معاملہ نھی پوچھ سکا
کہ آنٹی اور نسرین کو گولیاں دی تھی یا پھر مجھے گولی دے دی تھی ۔
خیر میں آنٹی سے اجازت لے کر دس گیارہ بجے کے دوران گھر سے نکل کر شہر کی طرف چل پڑا
آدھے گھنٹے میں شہر پہنچا اور راستے میں ایک حمام سے منہ پر اور سر پر شاور سے پانی مار کر راستے میں پڑی دھول
کو صاف کیا اور بال بنا کر ضوفی کے پارلر کی طرف چل پڑا ۔
مارکیٹ کے پاس پہنچا تو ساری مارکیٹ کو بند دیکھ کر میں پریشان سا ہوگیا کہ کہیں مجھے فضول چکر تو نہیں پڑگیا ۔
میں حوصلہ کر کے بیس منٹ کی سیڑیاں اترنے لگا تو یہ دیکھ کر دل کو سکون مل گیا کہ
ضوفی کا پارلر کھال ہوا ھے اور اسکے ساتھ واال چھوڑ کر تیسرا پارلر بھی کھال ہوا تھا
باقی ساری مارکیٹ کی دکانیں بند تھیں ۔
میں سیڑیاں اتر کر سیدھا ضوفی کے پارلر کے پاس پہنچا اور ڈور کو ناک کیا تو وہ ھی سانولی کچی کلی نمودار ہوئی ۔
اور مجھے دیکھ کر کچھ کہے سنے بغیر ھی پردے کے پیچھے غائب ہوگئی ۔
کچھ دیر بعد پھر وہ ہی لڑکی نمودار ہوئی اور ڈور کھول کر مجھے اندر آنے کا کہا۔
میں بالجھجک اندر چال گیا
مگر جیسے پالر کے اندر
انٹر ہوا
تو سامنے دیکھتے ھی میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رک گئی اور میرے اٹھتے قدم رک گئے میں
بت بنا کھڑا سامنے دیکھ رھا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔
.سامنے مجسمہ حسن ملکہ حسن شربتی ہونٹ جھیل سی آنکھیں
پتلی کمر
صراحی دار گردن
گلے کو پھاڑ کر باہر کو نکلنے کے لیے بےتاب ابھار
۔
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں
پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہی
.وہ حسن کی دیوی آج میرا قتل کرنے کے درپے تھی ۔
ضوفییییی ہاں ضوفی
ایک ہاتھ کمر پر رکھے
سلیو لیس پنک شرٹ جو مجھ سے پرچیز کی تھی پہنے ہوے نیچے سکن فٹنگ لیکرا سٹف میں ٹراوزر جس میں اسکی سڈول
پنڈلیاں اور سائڈ سے سڈول پٹ نمایاں نظر آرھے تھے
کیا قیامت ڈھانے کے ہر تول رھی تھی
کس جنم کا بدال وہ ظالم مجھ سے لے رھی تھی
کیوں آج پہلی نظر میں مجھے بہکنے کی دعوت دے رھی تھی
میں بت بنا کھڑا دل ھی دل میں اس مجسمہ حسن پر پوری غزل کہہ گیا
اور وہ حسینہ میری حالت کو دیکھ کر مذید مغرور ہوگئی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میری طرف بڑھی جیسے
کوئی ماڈل میم سٹیج پر کیٹ واک کرتی چلی آرھی ھو۔
میرے قریب آکر
اس سیکس کی پڑیا نے اپنا نازک سا ہاتھ اٹھایا
اور ہاتھ کی لکیریں میری آنکھوں کے سامنے یوں کی جیسے کہہ رھی ہو دیکھو اور ڈھونڈو اپنی قسمت کی لکیر ۔
اس سے پہلے کہ میری نظر اپنی قسمت کی لکیر پر پڑتی اس ظالم نے ہتھیلی میری آنکھوں کے سامنے ہالتے ہوے
اپنے گل گلزار کو کھوال اور ایک سریلی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔
ہیلوووو مسٹر
کدھر کھو گئے
میں ہوش میں ھی کہاں تھا جو ہوش میں آتا
اب کیسے اسکو بتاتا کہ کہاں کہاں سے ہوکر کہاں کہاں کھوگیا ہًو ں
میں اسے کیا بتاتا کہ
وہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے
بہ رنگ عود ملے گی اسے میری خوشبو
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جالئے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیالم ہو رہا ہوں یاسر
غم حیات سے کہہ دو خرید الئے مجھے۔
ضوفی نے پھر میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا کہ
جناب کدھر گم ہو۔
میں ایکدم ہوش میں آیا اور
اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر بوال
بنانے والے نے بھی آپکو کیا خوب بنایا ھے ۔
ضوفی بڑی ادا سے بولی
واہ واہ خیر ھے آج ناشتہ شاعری کا کر کے آے ہو ۔
میں نے کہا
اس مجسمہ حسن کو دیکھ کر کس کمبخت کو بھوک لگے۔
جو خود سر سے پاوں تک شاعری ہو تو اسپر اس نکمے کی شاعری کیا لگے ۔
ضوفی ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی مارنے کی انداز میں بولی
واوووو تو جناب چھپے رستم نکلے
جسکو ہم سادہ لوح سمجھتے تھے
وہ ھی قاتل جاں نکلے ۔
میں نے کہا واہ شاعرہ تو آپ بھی ہو۔
ضوفی ہنستے ہوے بولی ۔ایسی بھی بات نھی
بس ہ
تمہاری کیفیت دیکھ کر منہ سے چند الفاظ شعر بن کر نکلے مگر جناب تو پورے شاعر ہین ۔
میں نے کہا
نہیں جناب
یہ تو آپ کے حسن کا کمال تھا کہ آپکی تعریف میں میرے منہ سے آپکے حسن جمال پر غزل کی صورت میں میرے دل کی
بات نکل آئی
ورنہ ہم گاوں کے سادہ سے لوگ اس قابل کہاں ۔
تو ضوفی
مسکرا کر بولی اگر جناب کو شاعری سے فرصت مل گئی ہو تو
اندر تشریف رکھیں گے
میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا میں تو پہلے ھی اندر ہوں
تو ضوفی ہنستے ہوے بولی
اندر تو ہو مگر دروازے کے پاس کھڑے ھو ۔
میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف بڑھا اور
صوفے پر بیٹھ گیا صوفی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی
مجھے یقین تھا کہ تم الزمی آو گے ۔
میں نے کہا
دیکھ لیں میں نے آپکے یقین کو ٹوٹنے نہیں دیا۔
ضوفی بولی
تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم باہر کھڑے
کھڑے سوکھ جاو ۔
میں نے کہا
اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا نقصان ہوگیا۔
ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی
نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا کر لوں گی
میں نے کہا
میں نوکر جناب کا ۔
ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔
یاسر ایک بات کہوں ۔
میں نے کہا حکم کریں ۔
تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی طرف دیکھا
جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں محو تھی ۔
ضوفی نے اسے کہا
ثریا تم جا کر اندر کیبن میں بیٹھو ۔
وہ اٹھی اور کیبن میں چلی گئی ۔
ضوفی نے میری طرف دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔۔
.سامنے مجسمہ حسن ملکہ حسن شربتی ہونٹ جھیل سی آنکھیں
پتلی کمر
صراحی دار گردن
گلے کو پھاڑ کر باہر کو نکلنے کے لیے بےتاب ابھار
۔
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں
پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہی
.وہ حسن کی دیوی آج میرا قتل کرنے کے درپے تھی ۔
ضوفییییی ہاں ضوفی
ایک ہاتھ کمر پر رکھے
سلیو لیس پنک شرٹ جو مجھ سے پرچیز کی تھی پہنے ہوے نیچے سکن فٹنگ لیکرا سٹف میں ٹراوزر جس میں اسکی سڈول
پنڈلیاں اور سائڈ سے سڈول پٹ نمایاں نظر آرھے تھے
کیا قیامت ڈھانے کے ہر تول رھی تھی
کس جنم کا بدال وہ ظالم مجھ سے لے رھی تھی
کیوں آج پہلی نظر میں مجھے بہکنے کی دعوت دے رھی تھی
میں بت بنا کھڑا دل ھی دل میں اس مجسمہ حسن پر پوری غزل کہہ گیا
اور وہ حسینہ میری حالت کو دیکھ کر مذید مغرور ہوگئی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میری طرف بڑھی جیسے
کوئی ماڈل میم سٹیج پر کیٹ واک کرتی چلی آرھی ھو۔
میرے قریب آکر
اس سیکس کی پڑیا نے اپنا نازک سا ہاتھ اٹھایا
اور ہاتھ کی لکیریں میری آنکھوں کے سامنے یوں کی جیسے کہہ رھی ہو دیکھو اور ڈھونڈو اپنی قسمت کی لکیر ۔
اس سے پہلے کہ میری نظر اپنی قسمت کی لکیر پر پڑتی اس ظالم نے ہتھیلی میری آنکھوں کے سامنے ہالتے ہوے
اپنے گل گلزار کو کھوال اور ایک سریلی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔
ہیلوووو مسٹر
کدھر کھو گئے
)Update no (81
میں ہوش میں ھی کہاں تھا جو ہوش میں آتا
اب کیسے اسکو بتاتا کہ کہاں کہاں سے ہوکر کہاں کہاں کھوگیا ہًو ں
میں اسے کیا بتاتا کہ
وہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے
بہ رنگ عود ملے گی اسے میری خوشبو
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جالئے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیالم ہو رہا ہوں یاسر
غم حیات سے کہہ دو خرید الئے مجھے۔
ضوفی نے پھر میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا کہ
جناب کدھر گم ہو۔
میں ایکدم ہوش میں آیا اور
اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر بوال
بنانے والے نے بھی آپکو کیا خوب بنایا ھے ۔
ضوفی بڑی ادا سے بولی
واہ واہ خیر ھے آج ناشتہ شاعری کا کر کے آے ہو ۔
میں نے کہا
اس مجسمہ حسن کو دیکھ کر کس کمبخت کو بھوک لگے۔
جو خود سر سے پاوں تک شاعری ہو تو اسپر اس نکمے کی شاعری کیا لگے ۔
ضوفی ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی مارنے کی انداز میں بولی
واوووو تو جناب چھپے رستم نکلے
جسکو ہم سادہ لوح سمجھتے تھے
وہ ھی قاتل جاں نکلے ۔
میں نے کہا واہ شاعرہ تو آپ بھی ہو۔
ضوفی ہنستے ہوے بولی ۔ایسی بھی بات نھی
بس ہ
تمہاری کیفیت دیکھ کر منہ سے چند الفاظ شعر بن کر نکلے مگر جناب تو پورے شاعر ہین ۔
میں نے کہا
نہیں جناب
یہ تو آپ کے حسن کا کمال تھا کہ آپکی تعریف میں میرے منہ سے آپکے حسن جمال پر غزل کی صورت میں میرے دل کی
بات نکل آئی
ورنہ ہم گاوں کے سادہ سے لوگ اس قابل کہاں ۔
تو ضوفی
مسکرا کر بولی اگر جناب کو شاعری سے فرصت مل گئی ہو تو
اندر تشریف رکھیں گے
میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا میں تو پہلے ھی اندر ہوں
تو ضوفی ہنستے ہوے بولی
اندر تو ہو مگر دروازے کے پاس کھڑے ھو ۔
میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف بڑھا اور
صوفے پر بیٹھ گیا صوفی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی
مجھے یقین تھا کہ تم الزمی آو گے ۔
میں نے کہا
دیکھ لیں میں نے آپکے یقین کو ٹوٹنے نہیں دیا۔
ضوفی بولی
تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم باہر کھڑے
کھڑے سوکھ جاو ۔
میں نے کہا
اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا نقصان ہوگیا۔
ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی
نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا کر لوں گی
میں نے کہا
میں نوکر جناب کا ۔
ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔
یاسر ایک بات کہوں ۔
میں نے کہا حکم کریں ۔
تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی طرف دیکھا
جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں محو تھی ۔
ضوفی نے اسے کہا
ثریا تم جا کر اندر کیبن میں بیٹھو ۔
وہ اٹھی اور کیبن میں چلی گئی ۔
ضوفی نے میری طرف دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔۔
۔میں نے آنکھیں کھول کر ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے کہا
کہ ضوفی ہوگئی ویکس۔
تو ضوفی اچانک بوکھال کر مجھ سے نظریں چرا کر بولی نننن نھی ابھی ٹانگوں کی رہتی ہے
میں نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھ کر پوچھا
کیا ہوا پریشان کیوں ہو ۔
طبعیت تو سہی ہے ۔
ضوفی خود کو سنبھالتے ہوے زبردستی مسکرا کر بولی ہاں ہاں
ٹھیک ہوں بھال مجھے کیا ہونا ہے۔
میں نے اٹھتے ہوے کہا کہ پریشان کیوں ہو ۔
تو ضوفی جھٹکے سے اٹھی اور مجھے اٹھنے سے منع کرتے ہوے بولی
لیٹے رہو
ساری ویکس خراب ہو جانی ہے ۔
میں اسکے حکم کی تعمیل کرتے ہوے لیٹ گیا
ضوفی جب جھٹکے سے میری طرف ہاتھ کے اشارے مجھے روکتے ہوے اٹھی تو اس کے دودھ کے مٹکے ایسے ابھرے
جیسے ابھی گلے سے نکل کر باہر نکل کر گر جائیں گے ۔
ضوفی کی پریشانی دیکھتے ہوے میرے لن نے بھی کچھ سمجھداری کا کام کیا اور کچھ نرم ہوکر سر جھکا لیا مگر ابھی
بھی ابھار کے اثرات واضع نظر آرھے تھے ۔
میں پھر سیدھا لیٹ گیا مگر میں نے ضوفی سے نظر بچا کر آہستہ سے لن کو نیچے کر کے چڈوں میں دبا لیا
کیوں کے میں نہیں چاہتا تھا کہ ضوفی پہلی مالقات میں ہی میرے بارے میں غلط تاثرات نہ لے لے
کیوں کہ اسکی نظر میں
میں ایک سیدھا سادھا پینڈو لڑکا تھا
اور وہ میری سادگی اور میری خوبصورتی کی وجہ سے میری طرف راغب ہوئی تھی
ورنہ تو سینکڑوں لڑکے اسکی راہ میں آنکھیں بچھاے صبح دوپہر شام بیٹھے رہتے تھے ۔
تو میں نہیں چاہتا تھا کہ گرم گرم ھی نگھل لوں ۔
ضوفی کو بس لن کا سائز دیکھانا تھا
وہ دیکھا دیا تھا
جو عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ھے ۔چاہے عورت کتنی بھی پاکباز ہو
بڑے اور تگڑے لن کو دیکھ کر ایک دفعہ تو اسکی پھدی سے پانی کا قطرہ گر ھی جاتا ھے ۔
ضوفی کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کر کے اٹھی اور پھر باول پکڑ کر مجھ سے کچھ فاصلے پر ہوکر
میری ناف کے نیچے اور میری کالئیوں پر لیپ کر کے پھر میری ٹانگوں کی طرف بڑھی اور بولی یاسر اپنی ٹانگوں کو
فولڈ کر کے کھڑی کرلو میں نے گھٹنے اوپر کر کے ٹانگیں فولڈ کیں
تو میرا لن چڈوں سے آزاد ہوگیا مگر
تھا ابھی تک نارمل حالت میں
نہ چھوٹا نہ بڑا۔
ضوفی نے میری پنڈلیوں سے شلوار اوپر کرنی شروع کی اور میرے گھٹنوں تک لے آئی اور پھر گھٹنوں سے اوپر کرنے
لگی تو میرے پہنچہ میرے پٹ میں پھنس گیا
ضوفی نے اپنے ہاتھ کے دونوں انگوٹھے میرے پہنچے میں پھنسا کر تھوڑا سا زور لگایا تو اسکا ایک ہاتھ جو میری ٹانگوں
کے بیچ تھا وہ سلپ ہوا اور انگوٹھا پہنچے سے نکل گیا اور ضوفی کا ہاتھ سیدھا میرے لن پر جا لگا
لن نے بھی ہلکا سا جھٹکا مارا ضوفی نے گبھرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ اوپر کر لیا اور گبھراے ہوے ھی آنکھ چرا کر میری
طرف بھی دیکھا
ضوفی کا رنگ تو پہلے ھی پنک تھا لن کو چھوتے ہی اسکا رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ ہوگیا
ضوفی نے دوبارا پہنچے کو ہاتھ نھی لگا اور باول پکڑ کر میری ٹانگوں پر .برش سے ویکس کا لیپ کرنےلگ گئی
ضوفی کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔
اور وہ جلدی جلدی اپنا کام نپٹانے میں لگی ہوئی تھی
کچھ دیر میں ضوفی نے میری ٹانگوں پر لیپ مکمل کردیا اور پھر جا کر صوفے پر بیٹھ گئی ۔
مجھے ایسے محسوس ہو رھا تھا جیسے میرا جسم اکڑنے لگ گیا ہو
مجھے عجیب سی الجھن محسوس ھورھی تھی
ضوفی میری حالت دیکھتے ہوے بولی
بس کچھ دیر لیٹے رھو ابھی صاف کر دیتی ہوں ۔
اور پھر ضوفی اٹھی اس نے جینز کا کپڑا پکڑا اور میرے پیٹ اور سینے کے اوپر چپکانے لگ گئی
جب اچھی طرح اس نے لیپ کے اوپر کپڑا چپکا دیا تو
پھر کپڑے کے دونوں کونوں کو پکڑا اور مجھے کہنے لگی کہ یاسر ہلکی سی درد ہوگی برداشت کر لینا ۔
اور میرا جواب سنے بغیر اس نے جھٹکے سے کپڑے کو کھینچا۔
اور سارے کپڑے کو ایک ھی جھٹکے میں میرے سینے اور پیٹ سے الگ کردیا۔
میری تو ایک دفعہ جان نکل گئی میرے منہ سے آئیییییی اور سسییییییی نکال ۔
تو ضوفی بولی بس بس بس
ہوگیا۔
اور پھر میری آنکھوں کے سامنے کپڑا کر کے دیکھاتے ہوے بولی یہ دیکھو
میں نے جب کپڑے کی طرف دیکھا تو سارا کپڑا بالوں سے بھرا ہوا تھا۔
میں نے کپڑے کو دیکھ کر اپنے سینے سے پیٹ تک ہاتھ پھیرا تو میرا جسم ایسے سوفٹ اور کلین تھا جیسے لڑکیوں کا ہوتا
ھے ۔
میں نے تین چار دفعہ ایسے ھی ہاتھ پھیرا اور
ضوفی کی طرف بڑی ستائش نگاہ سے دیکھتے ہوے کہا
واہ ضوفی جی
ایک ھی جھٹکے میں سب کچھ صاف کردیا
ضوفی مسکرا کر بولی دیکھ لو پھر میرا کمال۔
مان گئے نہ پھر۔
میں نے کہا مان تو آپ کو پہلے دن ھی گیا تھا ۔
ضوفی
مسکراتی ہوئی میری ٹانگوں کی طرف آئی اور پھر اسی عمل کو دھرایا اور ٹانگوں سے بھی بال صاف کردئیے
کچھ دیر بعد اس نے ایک لوشن پکڑا اور اسکو اپنی ہتھیلی پر لگا کر میرے سینے سے لے کر پیٹ کی طرف مساج کرتے
ہوے میری ناف کی طرف ہاتھ لیجانے لگی اس کی نرم مالئم ہتھیلیوں کا میرے نرم مالئم جسم پر لمس کا ہونا ھی تھا کہ
بس۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
.لن نے پھر انگڑائی لی مگر میں نے ٹانگوں کو اکھٹی کر کے لن کی انگڑائی کو راستے میں ھی روک لیا []size/
ضوفی میری ٹانگوں کو اکھٹا ہوتے ہوے یکلخت چونکی اور اپنی آنکھوں کو گھما کر میری ٹانگوں میں چھپے رستم کو
دیکھا اور پھر میرے پیٹ اور سینے پر لوشن کا مساج کرنے لگ گئی
ضوفی کے ہاتھ اتنے نرم تھے اور مساج کا انداز اتنا زبردست تھا کہ میرے سارے جسم میں بجلی کی لہریں دوڑ رہیں تھی
اور میرا دل کر رھا تھا کہ بس ضوفی کا ہاتھ چلتا رھے اور میں ایسے ھی ساری ذندگی لیٹا رہوں ۔
ضوفی کی انگلیاں جب رینگتی ہوئی میری ناف کے نیچے جاتیں تو میرا لن میری ٹانگوں کو دھکے دے کر باہر نکلنے کی
کوشش کرتا ۔
میری برداشت دم توڑ رھی تھی میرا خود پر سے کنٹرول ختم ہو رھا تھا
مگر میں حیران تھا
ضوفی کی برداشت پر
کہ وہ اپنی کیفیت کو مجھ پر ذرہ بھی ظاہر نہیں ہونے دے رہی تھی جبکہ اسکے چہرے کی اللی اور آنکھوں سرخ ڈورے
کھل کر اعالن کر رھے تھے
کہ
لگی ہے آگ دونوں طرف۔
اگر میں ضوفی آنکھوں کے سامنے اسکے تنے ہوے مموں اور اسکے ہاتھ کے لمس کو برداشت نھی کرپارھا تھا
تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ضوفی میرے تنے ہوے لن کو دیکھ کر اور میرے جسم سے اٹھتی ہوئی گرمی کو ہاتھ پر محسوس
کرتے ہوے بھی اپنے آپ سے باہر نہ ہو رھی ہو
یقینََا اسکی پھدی سے کچھ نہ کچھ تو بوندیں گری ہی ہوں گی ۔
ضوفی جان بوجھ کر میرے صبر کا امتحان لینے کے لیے بار بار اپنی ہتھیلی کو سرکاری ہوئی انگلیوں کو میری نالے کے
ساتھ ٹچ کرتی اور پھر واپس اپنے ہاتھ کو میری ناف کے اوپر لے جاتی ۔
مجھے ایک پالن سوجھا کہ شاید جلتی پر تیل کا اثر ہو
اور میں نے اپنے چڈوں میں خارش کرنے کے بہانے سے ہاتھ نالے کی گانٹھ کے اوپر سے لیجا کر چڈوں میں خارش کرنے
لگا جس سے ضوفی نے اپنا ہاتھ ادھر سے ہٹا لیا
اور میں نے انگلیوں کی مدد سے نالے کے سرے کو اس انداز سے کھینچا کہ ضوفی کو ذرا سا بھی شک نہ ھو کہ میں
خارش کر رھا ہوں یا ناال کھول رہا ہوں ۔
میں نے کچھ سیکنڈ میں ھی اپنا ناال کھول کر شلوارا کے اندر کی طرف ھی کردیا کہ اسے یہ بھی محسوس نہ ھو کہ ناال
کھال ہوا ھے
اس دوران مجھے یہ بینیفٹ مال کہ ضوفی کیبن کے دروازے کی طرف متوجہ ہوگئی تھی
اور اسی دوران میں نے اپنے پری پالن کو عملی جامعہ پہنایا اور اس میں سو فیصد کامیاب بھی رھا۔
جب میں نے ہاتھ پھر اپنی ٹانگوں کے پاس سٹریچر پر رکھ لیا تو
ضوفی نے پھر بوتل سے تھوڑا سے تیل نما لوشن ہتھیلی پر ڈاال اور پھر میرے سینے اور پیٹ پر مساج شروع کر دیا
میں نے جان بوجھ کر سسکاری بھری تو ضوفی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بڑی شوخی سے بولی
مزہ آرھا ھے ۔
میں نے کہا ان مخملی ہاتھوں کا جادو اثر کررھا ھے ۔
تو ضوفی بڑی ادا سے بولی
اچھا جی ۔
دیکھنا کہیں یہ جادو تمہارے دماغ پر اثر نہ کرجاے
میں نے کہا
تم دماغ کی بات کرتی ہو
یہ پتہ نہیں کہاں کہاں پر اثر کر چکا ھے ۔
ضوفی میرے سینے پر میرے چھوٹے سے معصوم نپل پر ہلکی سی چٹکی کاٹ کر بولی
بتانا پسند کرو گے کہ کہاں کہاں پر اثر ہوا ھے ۔
میں نے سیییییی کیا اور کہا خود ہی معلوم کرلو ۔
ہاتھ تمہارا ہے جادو کا اثر تمہارا ھے ۔
تو پتہ بھی تمہیں ھی ہونا چاہیے۔
ضوفی بولی
اچھا جی دیکھتی ہوں کہ کہاں کہاں اثر ہوا ھے ۔
اور پھر مسکراتے ہوے نشیلی آنکھیں کے ڈورے میری آنکھیں میں ڈال کر ہتھیلی سے منتر پڑھ پڑھ کر آنکھوں سے مجھ
پر پھونکتے ہوے
میری ناف کی طرف بڑھنا شروع ہوئی
اور میری ناف کے چھوٹے سے سوراخ میں اپنی باریک سی انگلی ڈال کر گھماتے ہوے بولی یہاں تو نہیں جادو ہوا
اور ساتھ ھی اسے زبردست جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔
جب ضوفی نے میری ناف میں انگلی پھیری تو مجھے اچانک اتنی ذبردست گدگدی ہوئی جسکو برداشت نہ کرتے ہوے میں
اوپر کو اچھال اور میرا ایک ہاتھ جو ضوفی کی پھدی کے بلکل قریب تھا وہ اوپر آتے ہوے ضوفی کی پھدی کے اوپر سے
رگڑکھاتا ہوا اسکی ناف سے ٹچ ہوکر اسکے ایک ممے کو چھو کر واپس بھی اسی حالت میں جاتے ہوے اپنا کام کرکے
ضوفی کی نرم کالئی کو پکڑ لیا
ضوفی اس اچانک رگڑ سے ایک دم اچھلی اور اپنا آپ تھوڑا سا پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر تب تک ہاتھ نے اپنا کام
پورا کرلیا تھا
میں نے ایسے ظاہر کرتے ہوے ضوفی کی کالئی کو پکڑتے ہوے کہا نہہہہہہ کرو ضوفییی اسکو یہ محسوس ہوا جیسے یہ
سب غیر ارادی طور پر ھوا ھو
اور ہوا بھی یہ سب غیرارادی طور پر ھی تھا
اگر ضوفی میری ناف میں انگلی نہ گھسیڑتی تو
میری اتنی جرات کہاں تھی کہ اس حسینہ کے جسم کو اسکی اجازت کے بغیر چھو لیتا۔
ضوفی نے بھی کوئی ایسا ریکٹ نہ کیا کہ جس سے لگا ہو کہ اسے برا فیل ہوا ھے ۔
اور میری اس حالت پر ہنستے ہوے بولی
اب مزہ آیا نہ بچو۔
میں نے کہا نہ کرو یارررر
بہت گدگدی ہوتی ہے.
ضوفی نے اپنی فنگر میری ناف سے باہر نکالی پھر سے میرے پیٹ پر مساج کرتے ہوے ناف کے نیچے ہاتھ کو سرکانے
لگی
میں نے بھی اسکی کالئی چھوڑ دی تھی۔
اب اسی موقعہ کا مجھے انتظار تھا کہ آگے کیا ہوتا
کیونکہ اچانک ہلنے سے میرا لن بھی میرے چڈوں سے ازاد ہو چکا تھا اور اب وہ فری ہینڈ تھا ۔
ضوفی اپنے ھی حساب سے اپنی انگلیوں کو سرکاتے ہوے جیسے ھی میرے نالے کی طرف لے گئی اور اسکا ٹارگٹ تو
ناال تھا کہ جیسے ھی اسکی فنگر سے نالے لی گانٹھ ٹچ ہو تو اسے پتہ چل جاے کے آگے خطرناک عالقہ شروع ہوجاتا ھے
مگر اب تو اس خطرناک عالقے کی سرحد پر سے باڑ ہٹ گئی تھی اور انگلیاں اپنی مستی سے آگے کی آگے سرکتی ہوئی
جیسے ھی میرے ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟
.جیسے ہی ضوفی کی انگلیاں میری چوؤں سے ٹکراتے ہوئی میرے لن کی جڑ سے ٹکرائیں۔
ضوفی نے ہائییییی کیا اور ہاتھ باہر کھینچ کر آنکھیں پھاڑے میری ُک ھلی شلوار کی طرف دیکھتے ہوے اپنی انگلیوں کو
دوسرے ہاتھ سے مسلتے ہوے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔
میں بھی تھوڑا سا گبھرا گیا کہ اب پتہ نہیں کیا ہوگا اور ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں ساری گیم الٹ ہی نہ ہوجاے ۔
میں نے خود کو سنبھالتے ہوے انجان بن کر چونکنے کے انداز میں ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے کہا
کیا ہوا۔
ضوفی غصے اور حیرت ہونے کے ملے ُج لے لہجے میں میری شلوار کی طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے بولی
یہیہیہ تتتم نے شششلوار کب اتاری
میں نے حیران ہوکر شلوار پکڑ کر کہا کہ
کیا ہوااااشلوار تو پہنی ہوئی ہے
ضوفی بولی مممیرا مطلب ھے کہ ننناال کیوں کھوال۔
میں پالن کے مطابق
بات کو مزاق میں ڈالتے ہوے بوال
اپنی ناف کے نیچے والے بالوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ
میں نے اس لیے کھوال تھا
کہ ادھر والے بال بھی تو اتارنے ہیں ۔
ضوفی کا رنگ ٹماٹر کی طرح ہوگیا تھا۔
ضوفی بولی
نننھی بھئی میں یہاں سے کیسے کرسکتی ہوں
تتم جلدی سے اسے باندھو
یہ میں نہیں کرسکتی ۔
میں نے کہا
ضوفی کیا ہوا یار ۔
کیا دوستی میں اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتی ۔
مرضی ہے تمہاری
خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی سے سب کچھ کررھی تھی
جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔
اور میں نے ُبرا سا منہ بناتے ہوے روٹھنے کے انداز میں
اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے لگ گیا ۔
ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔
میں نے ناال باندھ کر اپنی شلوار کے پوہنچوں کو بھی پکڑ کر نیچے کرلیا اور سٹریچر سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر جوتا پہننے
لگا تو ۔
ضوفی جیسے ہوش میں آئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس لیٹاتے ہوے بولی ۔
کدھر چلے ہو ابھی تو ٹانگوں پر لوشن لگانا ہے
ورنہ الرجی ہوجاے گی سکن خراب ہوجاے گی ۔
میں نے موڈ بناے ہوے کہا
رہنے دو کچھ نہیں ہوتا
میں چلتا ہوں
ضوفی چہرے پر مصنوعی غصہ التے ہوے مجھے کندھے سے پیچھے دھکیلتے ہوے بولی ذیادہ شوخاااااااااا
اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر گری۔
اور شوخا نہ بن اس کے منہ میں ہی اٹک گیا۔
کیونکہ
ضوفی نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا تھا تو میں جان بوجھ کر پیچھے گرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوے ضوفی کی کمر کو
پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے اوپر ھی سٹریچر پر لےگیا۔
اب میری اور ضوفی کی ٹانگیں نیچے تھیں
اور میں سٹریچر کے اوپر اور میرے اوپر ضوفی تھی
ضوفی کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا اتنا سا اوپر تھا کہ اسکی گرم سانسیں میرے منہ پر پڑ رہیں تھیں
اور ضوفی کے گول مٹول سڈول ممے میرے ننگے سینے کے ساتھ دبے ہوے تھے
اور میرے دونوں ہاتھ ضوفی کی کمر کے گرد تھے اور ضوفی کے دونوں ہاتھ میرے ننگے شولڈر پر شولڈروں کو تھامے
ہوے تھے
)Update no (82
ضوفی کا پیٹ میرے ننگے پیٹ کے ساتھ لگا ہوا تھا
اور اسکی پھدی اور میرے نیم کھڑے لن کا پہال مالپ ہورھا تھا۔
ضوفی یوں اچانک میرے اوپر گرنے سے کافی گبھرا گئی تھی اور چند لمحوں میں اسی حالت میں میرے اوپر لیٹی بولی
یاسر بہت بتمیز ہو ابھی
تم نے خود بھی سٹریچر سے نیچے گرنا تھا اور مجھے بھی گرانا تھا۔
میں نے ضوفی کی کمر کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوے اسکے نرم جسم اور موٹے مموں کو مذید خود کے
ساتھ چپکاتے ہوے کہا۔
نہیں ضوفی جی
دھکا تو آپ نے دیا تھا
میں نے تو اپنے آپ کو سمبھاال تھا اور سمبھالتے ہوے آپ بھی میرے ساتھ ہی میرے اوپر گرگئی
مگر میرے بازو اتنے کمزور نہیں کہ آپ کو نیچے گرنے دیتا
۔
آپ نے اگر مجھ خوش نصیب کو دوست کہا ھے تو پھر یہ سوچنا بھی نہ کہ آپکا یہ غریب دوست کبھی آپکو گرنے دے گا۔
ضوفی نے سوفٹ سٹف کا ڈریس پہنا ہوا تھا اور اوپر سے اس کا جسم اتنا نرم تھا
کہ میرا لن تو اپنے پورے عروج پر آگیا تھا
اور ضوفی کی کنواری پھدی نے بھی پہلی دفعہ لن کا لمس پاتے ہی
لن کو ویلکم کیا اور لن ضوفی کی پھدی سے رگڑ کھاتا ہوا ضوفی کے چڈوں میں گھس گیا۔
ضوفی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے ھوے بولی
شوخے میں سب سمجھتی ہوں تم نے جان بوجھ کر مجھے اپنے اوپر گرایا ھے ۔
تمہارے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔
میں نے بھی ضوفی کی گمنام جزیرے جیسی آنکھوں میں گم ہوتے ہوے کہا۔
ضوفی جی میں نے آپکو اپنے اوپر ھی گرایا ھے
نیچے تو نہًیں۔
اور کس کم بخت کے ارادے غلط ہیں ۔
یہ آپ کا وہم ہے ۔
بس آپ کے حسن اور آپ کے سیکسی فگر کو دیکھ کر اور آپ کے نرم اور ریشم کی طرح مالئم ہاتھوں کے لمس سے یہ
ناچیز سیدھا سادھا پینڈو مرنے واال ہوگیا ھے جنکے ارادے غلط ہوتے ہیں وہ اتنا نذدیک آکر وقت ضائع نہیں کرتے ۔
آپ شریف لڑکی ہیں
تو میں بھی شریف لڑکا ھی ہوں ۔
مگر کیا کروں
آگ کے سامنے گھی کب تک جما رہ سکتا ہے ۔
ضوفی نے میرے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر پیار سے میری گال پر ہلکی سی چپت لگائی اور بولی
باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔
میں نے ضوفی کی کمر کو مذید کستے ہوے
ضوفی کے منہ سے ہلکی سی ہائیییی نکالتے ہو ے
کہا
اور مجھ جیسے سیدھے سادہ کو بہکانا بھی کوئی آپ سے سیکھے۔
ضوفی میری آنکھوں میں اپنی مستانی آنکھیں ڈال کر بولی
اب چھوڑ بھی دو میں تھک گئی ہوں ۔
میں نے نفی میں سرہالیا
ضوفی مسکین سا منہ بنا کر بولی پلیززززززز
جبکہ مجھے واضح محسوس ہورھا تھا کہ ضوفی میرے لن کو اپنے چڈوں میں لیے ہلکا ہلکا سا دبا کر پھدی کے اوپر لن کا
دباو بڑھا رھی تھی ۔
مگر اوپر اوپر سے نخرے کررھی تھی ۔
میں نے لوہا گرم دیکھ کر
ایک چوٹ لگانے کا سوچا اور
ضوفی کو کہا ایک شرط پر چھوڑوں گا
ضوفی اپنے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو کو انگلی سے ہٹاتے ہوے بڑی شوخی سے بولی ۔
اب کون سی شرط ھے جناب کی ۔
میں نے کہا۔
میرے نیچے والے بال بھی تم ھی اتارو گی
ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم مجھے اس قابل ہیں نہیں سمجھتی ۔
ضوفی کے چہرے پر یکلخت سارے جہاں کی شرم حیاء ٹپک پڑی اور
ضوفی بالوں کی شرارتی لٹ کو پھر اسی انداز میں چہرے سے ہٹاتے ہوے بولی
اگر نہ کروں تو۔
میں نے کہا۔
تو میں یہ ھی سمجھوں گا کہ میں ابھی تمہاری دوستی کے الئق نہیں ہوں ۔
ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ہوے اور نیچے سے اپنے چڈوں کو بھینچتے ہوے بولی
شرم تو نہیں آتی ایسی بات کہتے ہوے ۔
اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوے بولی
چلو چھوڑو مجھے
کرتی ہوں جناب کے نیچے والے بالوں کی بھی صفائی ۔
دوست مال بھی تو الڈال۔
اور یہ کہتے ہوے ضوفی اوپر کو ہوئی تو میں نے بھی اپنے بازو ضوفی کی نرم گوشت سے بھری کمر کو چھوڑ دیا۔
اور ضوف اٹھ کر کھڑی ہوئی تو اسکی نظر میرے لن ہر پڑی جو پورے جوبن میں
پھدی کی برسات سے بچنے کے لیے شلوار کو چھتری بناے کھڑا تھا۔
ضوفی ساتھ ساتھ اپنی شرٹ کو بھی سہی کررھی تھی جو لن نے اسکے چڈوں میں گھسا دی تھی اور ساتھ ساتھ میرے لن کو
بھی ُک ن اکھیوں سے دیکھ رھی تھی۔
میں نے بھی ٹانگیں .پھر اوپر کرلیں اور ضوفی کو مذید ترسانے کے لیے لن کو چڈوں میں دبا لیا ۔
ضوفی نے چونک کر میری طرف ایسے دیکھا جیسے ۔
میں نے اسکا بہت بڑا نقصان کردیا ہو۔
کچھ دیر بعد ضوفی پھر دوسری طرف منہ کر کے اپنی گول مٹول نرم گانڈ کو میری طرف کرکے باول اٹھانے چلی گئی
اور
دوسری طرف منہ کیے باول میں پھر ویکس تیار کرنے لگ گئی
دو تین منٹ ضوفی مجھے اپنی گانڈ کا دلکش نظارہ کروانے کے بعد اچانک میری طرف گھومی اور مجھے اپنی گانڈ کو
تاڑتے دیکھ کر بڑی معنی خیز آنکھوں سے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے اپنے شربتی لبوں پر سیکسی سی سمائل ال کر
آنکھوں سے اشارا کر کے مسکرا دی
کہ خیر ھے میری گانڈ کو کیوں دیکھ رھے تھے۔
اور کولہوں کو مٹکاتی ہوئی باول میں برش سے ویکس کے لیکوڈ کو مکسچر کرتے ہوے میری طرف بڑھی
اور
بولی ۔
تم ابھی تک ایسے ہی لیٹے ہوے ھو ۔
میں نے سوالیا نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
تو کیا کروں ۔
ضوفی بولی بالوں کی جگہ کو ننگا کرو
اور صرف بالوں کی جگہ کو ھی ننگا کرنا ھے سمجھے ۔
میں نے اثبات میں سر ہالتے ہوے جلدی سے ناال کھوال
اور شلوار نیچے کرنے لگا تو
ضوفی نے مجھے رکنے کا کہا اور خود آگے بڑھی
اور میری شلوار کو ڈرتے ڈرتے دو انگلیوں سے پکڑ کر بس تھوڑا سا نیچے کیا
اور میرے غیر ضروری بالوں کو ھی بس ننگا کیا
جبکہ اتنی شلوار نیچے کرنے سے بھی ضوفی کی انگلی میرے ننگے لن کے ساتھ ٹکرا چکی تھی
جس کی وجہ سے ضوفی نے جلدی شلوار کو چھوڑ دیا تھا۔
میں اب بھی ٹانگوں کو فولڈ کیے ہوے لن کو چڈوں میں دباے ہوے تھا۔
ضوفی شلوار نیچے کرنے کے بعد بولی اب ٹانگیں تو سیدھی کر کے گھٹنے نیچے کر لو ایسے کیسے میں ویکس کروں گی
میں نے جیسے ھی ٹانگیں سیدھی کیں تو لن پھر آزاد امیدوار بن کر جھومنے لگ گیا
ضوفی ایک دم چونکی اور بڑے غور سے میرے کھڑے لن کو اور ناف کے نیچے گولڈن بالوں کو دیکھنے لگ گئی تھی ۔
میں نے اسے یوں اپنے لن اور بالوں کو دیکھتے ہو
دیکھا تو میں نے کہا ضوفی جی ذیادہ بڑا تو نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
بالوں کا سائز۔۔۔۔
تو ضوفی نے چونک کر میری طرف دیکھتے ہوے کہا نننہیں
اور یہ کہتے ہوے ضوفی نے باول سے برش نکال کر بالوں پر ویکس کا لیپ کرنے لگ گئی ۔
اس کا ہاتھ کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔
میں نے کہا ضوفی جی ایسے تو میری شلوار بھی گندی ہوجاے گی تو ضوفی گبھرا کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی
تھوڑی سے اور نیچے کرلو میں ٹشو لگا دیتی ہوں
اور ضوفی یہ کہتے ھی ٹشو لینے چلی گئی ۔
میں نے جلدی سے شلوار ایسے نیچے کردی
کہ میرے لن کی جڑ اور ٹٹوں کی جھلک ضوفی کو نظر آجاے ۔
ضوفی جب ٹشو لے کر میرے قریب آئی
تو ضوفی نے جیسے ھی ٹشو کو میری شلوار کے نیچے میں لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ضوفی کی جب نظر میرے ننگے
موٹے تگڑے لن کی تگڑی جڑ اور ٹٹوں پر نظر پڑی تو ضوفی نے یکلخت۔۔۔۔۔۔۔
.میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھیں بند کیے دیکھ کر ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیا
۔جبکہ میں نے آنکھ کا پردہ ہلکا سا کھوال ہوا تھا۔
میں نے اسی حالت میں ضوفی کو کہا کہ ٹشو اچھی طرح لگا دینا۔
ضوفی بولی
اچھی طرح ھی لگا دیا ھے
اور پھر کچھ دیر بعد ضوفی نے جینز کا کپڑا پکڑ کر پھاڑا اور اسکا ٹکڑا میری ناف کے نیچے لگانے لگی
ضوفی کانپتے ہاتھوں سے کپڑا چپکا رہی تھی
اس دوران تین چار دفعہ ضوفی کا ہاتھ میرے لن سے ٹکرایا تو لن نے بھی اتنے ھی جھٹکے لگا کر ضوفی کو اپنی بےچینی
بتائی۔
ضوفی کپڑا چپکا کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی
یاسر ادھر سے درد ذیادہ ہوگی برداشت کرلو گے ۔
میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔
تمہارے ہاتھ سے تو ہر درد مزے میں بدل جاتا ھے ۔
ضوفی بولی اچھا لگ جاتا ھے پتہ ۔
اور اس کے ساتھ ھی ضوفی نے لن والی سائڈ سے کپڑے کو پکڑا
ضوفی کا ناخن میرے لن پر چبھا اور ساتھ ھی ضوفی نے جھٹکے سے کپڑے کو کھینچا تو
سییییی کرکے کھڑی ہوگئی۔
ضوفی کی گانڈ میرے منہ کی طرف تھی ۔
ضوفی میرے لن کی طرف منہ اور میرے منہ کی طرف اپنی گوشت سے بھری گانڈ کر کے کھڑی تھی ۔
اور میرا ھاتھ اسکی گانڈ کے بلکل پاس تھا
ضوفی نے جیسے ھی کپڑا کھینچا
درد کے مارے میرا برا حال ہوگیا
مگر انا کی وجہ سے اپنے منہ سے چیخ نھی نکلنے دی
بلکہ سییییی کرکے ضوفی کی گانڈ کی ایک موٹی پھاڑی کو اپنی ُمٹھی میں بھر لیا
ادھر میری سییییی نکلی
اور دوسری طرف ضوفی کی سیییی نکلی اور وہ جھٹکے سے سیدھی کھڑی ہوگئی اور جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹک
دیا۔
ضوفی نے میری طرف دیکھا اور بولی سناو بچو نکلی نہ جان
اور ساتھ میں میری بھی نکال دی نہ جان۔
میں نے کہا
نہیں ضوفی یہ درد نھی بلکہ مزے کی سیییی تھی ۔
ضوفی نے حیران ہوکر میری طرف دیکھا اور بولی
یاسر واقعی تم کو درد نہیں ہوا۔
اب میں اسے کیا بتاتا کہ میری تو گانڈ پھٹنے والی ہوگئی تھی ۔
میں نے اعلی نسل کا ڈھیٹ بنتے ہوے کہا نہیں یار سچ میں مجھے درد نہیں مزہ آیا تھا۔
تو ضوفی اپنی گانڈ کو مسلتے ہوے بولی
بتمیز پھر میرے ادھر سے کیوں اتنی ذور سے پکڑا تھا۔
میں نے ذبردستی ہنستے ہوے کہا۔
یار مزے کی شدت ہی اتنی تھی کہ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔
میں نے ساتھ ہی اپنا ہاتھ اپنی ناف کے نیچے پھیرنا شروع کیا میری سکن تو ایسی سوفٹ تھی جیسے کنواری لڑکی کی پھدی
سوفٹ ہوتی ھے ۔
تو ضوفی بولی ٹھہرو ابھی ہاتھ نہ لگاو
اور اس نے میرا بازو پکڑ کر اوپر کھینچا تو میری انگلیوں کے ساتھ شلوار بھی میرے لن سے اوپر اٹھ کر لن سے نیچے گر
گئی میرا میرا تنا ہوا لن جو درد کی وجہ سے نرم پڑ گیا تھا مگر سائز اتنا ھی تھا
سر جھکائے ضوفی کی نظروں کے سامنے کھڑا تھا
میرے لن کو دیکھ کر ضوفی کے چہرے کا امپریشن کیسا تھا میں یہ تو نہیں دیکھ سکا کیوں کے ضوفی کا منہ میرے لن کی
طرف تھا ۔
مگر ضوفی کا سر ایک جگہ ھی رک گیا تھا جس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ ضوفی میرے لن کو ٹکٹی
باندھے دیکھ رھی ھے۔
ضوفی کچھ دیر اسی حالت میں ھی رھی۔
میں نے ھی اسکا سکتہ توڑا اور کہا
یار ادھر بھی مساج کردو تو ضوفی کو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ مجھے کیسے کہے کہ میرا لن ننگا ہوگیا ھے ۔
وہ بنا کچھ کہے
الماری میں رکھے لوشن کی طرف چلی گئی ۔
شاید وہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ اسکی واپسی تک میں خود ھی لن اندر کرلوں گا۔
مگر میرے جیسا ڈھیٹ کوئی روز روز پیدا ہونا تھا۔
میں بھی ویسے ہی نیم آنکھیں بند کیے لیٹا رھا ۔
ضوفی کچھ دیر بعد لوشن لے کر پلٹی تو میرے ننگے لن کو اسی حالت میں پایا جس حالت میں چھوڑ کر گئی تھی ۔
ضوفی کا قدم وہیں رکا اس نے میری طرف دیکھا اور مجھے پھر آنکھیں بند کیے پایا تو
آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے لن کی طرف بڑھی ۔۔۔
مجھے لیٹے لیٹے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا
اور ایک گھنٹے سے مسلسل ضوفی کے ہاتھ کا لمس اسکے جسم کا لمس اسکے مموں کا لمس اور اسکی گانڈ کے لمس کو
انجواے کرکر کے میرا تو حال برا ہورھا تھا مگر میں پہل کرنے سے ڈر رھا تھا ۔
ورنہ ابھی تک میرا لن ضوفی کی پھدی پھاڑ چکا ہوتا۔
میں سٹریچر پر بلکل سیدھا چت لیٹا ھوا میرے دونوں بازو بھی بلکل سیدھے سٹریچر پر تھے ۔
ضوفی میرے چہرے کو غور سے دیکھتی ہوئی میرے لن کے پاس آکر کھڑی ہوگئی ۔
اور لوشن کو ہاتھ پر ڈال کر میری ناف کے نیچے مساج کرنے لگ گئی
ضوفی کی پھدی واال حصہ سٹریچر سے تھوڑا اوپر میرے ہاتھ کے بلکل قریب تھا ۔
میری انگلیوں اور ضوفی کی پھدی کے درمیان بس ایک انچ کا فاصلہ تھا اگر میں ہاتھ کو ذرہ سا بھی پھدی کی طرف سرکاتا
تو میری انگلیاں ضوفی کی پھدی کے ساتھ الزمی ٹچ ہوجاتیں ۔
کیوں کے ضوفی جب مساج کرتے ہوے ھاتھ کو ہالتی تو اسکی سوفٹ شرٹ میری انگلیوں کے ساتھ لگتی ۔
میں ضوفی کے حوصلے کو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ کیسے میرے ننگے لن کو دیکھ کر بھی اس کے کچھ فاصلے پر
مساج کررھی ھے اور
اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔
پتہ نہیں اب ضوفی کے دل میں کیا تھا
یا وہ بھی فل گرم تھی
بس پہل کرنے سے گبھرا رھی تھی ۔
ضوفی نے جیسے ہے ھی میرے لن کے نذدیک اپنا نرم مالئم ہاتھ دھیرے سے رکھا میرے لن نے انگڑائی لی ۔جب اس نے
ہاتھ کو سرکاتے ہوے مساج شروع کیا اور اسکی انگلیوں کے پورے میرے لن سے ٹکراے تو لن فل کھڑا ہوکر
یس میم کہنے لگ گیا۔
ضوفی نے چند سیکنڈ کے بعد ھی
اپنی پھدی کو سٹریچر کے ساتھ چپکانہ شروع کردیا
میں نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ہتھیلی کے بل انگوٹھا ضوفی کی پھدی کی طرف کردیا اور
ہاتھ کو سرکاتے ھوے انگوٹھے کو پھدی کے بلکل ساتھ لگا دیا۔
ضوفی پتہ نہیں کس مستی میں ایک جگہ ہی بڑے پیار سے اور سلو موشن سے مساج کررھی تھی ۔
اسے یہ احساس تک نہیں ہوا کہ میرے ہاتھ کا انگھوٹھا اسکی پھدی کے ساتھ لگ چکا ہے ۔
کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ ضوفی پھدی کو خود انگوٹھے کے ساتھ لگا رھی ھے تو میرا بھی حوصلہ بڑھا اور میں
نے ہتھیلی کو سیدھا کیا اور اپنے ہاتھ کی چاروں انگلیوں کو سیدھا کر کے پھدی کی طرف کردیا۔
ضوفی کے ھاتھ کی گردش کچھ سخت ہوتی جارھی تھی ۔
اور ضوفی نے اپنی پھدی کو میری انگلیوں کے ساتھ لگا کر آہستہ آہستہ گانڈ کو دائیں بائیں کرنا شروع کردیا
اور میری انگلیاں اسکی نرم پھدی کے ساتھ رگڑ کھانے لگ گئیں ۔میں نے بھی تھوڑا سا حوصلہ مذید کیا اور انگلیوں کی مدد
سے ضوفی کی شارٹ شرٹ کو اوپر کرنا شروع کردیا کچھ دیر کی محنت کے بعد میری انگلیاں اب ٹراوزر کے کپڑے کے
اوپر سے پھدی کو ٹچ کرنے لگ گئیں
پھدی کی جگہ سے ٹراوزر پہلے ھی گیال تھا جو انگلیوں کو بھی گیال کرچکی تھیں ۔
میری انگلیاں جیسے ہیں ریشمی ٹراوزر کے اوپر سے پھدی کے ساتھ لگیں تو ضوفی نے اپنی ٹانگوں میں میری انگلیوں کو
بھینچ کر چھوڑتے ہوے سسکاری بھری
میں نے ساتھ ھی سینٹر والی لمبی انگلی کو تھوڑا سا خم کیا اور ٹراوزر کے اوپر سے ھی پھدی کے لبوں کے درمیان رکھ
کر انگلی کو پھدی کی طرف دبا دیا تو
ضوفی نے سییییییییییی کیا اور ساتھ ھی میرے لن کو اپنی مٹھی میں پھر کر دبا لیا اور سر اوپر کر کے جھت کی طرف
کرلیا۔
اندھا کو اور کیا چاھیے
میں نے ساتھ ھی تین انگلیاں پھدی کے اوپر رکھ کر انگلیًو ں کو پھدی پر دبا کر پھدی کو رگڑنے لگ گیا۔
ضوفی میرے لن کو مٹھی میں دباے جارھی تھی
اور اسکی سسکاریاں بڑھتی جارہی تھی
ضوفی کبھی اپنے چڈوں کو بھینچ کر میری اس انگلیوں کو بھی
پھدی کے ساتھ دبا لیتی تو کبھی گانڈ کو آگے پیچھے کر کے انگلیوں پر گھسے مارنے لگ جاتی
میری برداشت بھی ختم ہوچکی تھی
میں نے چاروں انگلیاں پھدی پر رکھیں اور انگوٹھے کو اوپر ٹراوزر کے نیفے میں اڑایا اور السٹک والے ٹراوزر ،میں
انگوٹھا پھنسا کر ٹراوزر نیچے کی طرف کھینچا اور جھٹکے سے چاروں انگلیاں اس کے ٹراوزر میں گھسا کر ضوفی کی
پھدی پر رکھ دیں
ضوفی کی پھدی تھی کہ روئی کو گوال تھا چو پانی سے بھیگا ہوا تھا پتہ نہیں کب سے اسکی پھدی پانی چھوڑی جارہی تھی ۔
جیسے ہی میری انگلیاں اسکی ریشم جیسی مالئم کلین پھدی کے ننھے ننھے سوفٹ ہونٹ میری انگلیوں کی گرفت میں آے تو
ضوفی کو ایک ذبردست جھٹکا لگا اور اسکے ساتھ ھی اس نے ۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
۔ضوفی کی پھدی کو جیسے ہی میری انگلیوں نے بھینچا ضوفی کو ایک جھٹکا لگا اور ضوفی نے لمبی سسکاری بھری اور
ساتھ ھی اس نے میرے لن کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا اور پورے ذور سے مٹھی کو بھینچ دیا اور اپنے چڈوں کو بھینچ کر
میری انگلیوں کو پھدی کے اوپر ھی جکڑ لیا اور میرے لن کو پکڑے اور چڈوں میں میرا ھاتھ لیے
اپنے ممے میرے پیٹ پر رکھ کر دھری ہوتی میرے اوپر لیٹ گئی اور میں نے بھی اپنی انگلیاں پھدی کے اوپر دبا دیں ۔۔ اور
انگلیوں کو پھدی پر دبا کر انگلیوں کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا
میں نے کوئی پانچ چھ دفعہ ھی ایسے کیا تو
ضوفی نے ٹانگوں کو پورے ذور سے بھینچا اور لمبی سی سسسسسسسس کرتے ہوے
نننننہہہہہیی یاسسسسسررررررر ممممممم گگگگگگگءییییی اففففففففف آہہہہہہہہہ
کرتے ہوے جسم کو جھٹکے لگاتے ہوے اوپر کا پورا وزن میرے اوپر ڈال کر ایسے مجھ سے چپک گئی جیسے میرے جسم
میں ھی اسکا جسم جزب ہو جانا ھو ۔
کچھ دیر ضوفی اسی حالت میں میرے اوپر لیٹے جسم کو جھٹکے لگاتی رھی اور سسکاریاں بھرتی رھی ۔
).Update no (83
اسکی پہلی گرم گرم منی کی برسات نے میری انگلیوں کو سارا گیال کردیا تھا ۔
اور منی اسکی ٹانگوں سے بہہ کر اسکے پیروں تک چلی گئی تھی ۔
ضوفی جب اچھی طرح فارغ ہوئی اور اسے جب ہوش آیا کہ وہ کس کنڈیشن میں میرے اوپر لیٹی ھے اور میرا اکڑا ھوا لن
اسکی مٹھی میں اور اسکی پھدی میری مٹھی میں ھے ۔تو ضوفی کو ایک ذبردست جھٹکا لگا اور اس نے جلدی سے میرے
لن کو چھوڑا اور میری کالئی کو پکڑ کر میرا ھاتھ اپنے ٹراوزر سے نکال دیا اور جلدی سے کھڑی ہوکر اپنے کپڑے درست
کرتے ہوے
دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اور باہر بھاگ گئی ۔
ضوفی نے نہ مجھ سے کوئی بات کی نہ ھی میری طرف دیکھا
بس پریشان حال بھاگتی ہوئی کیبن سے نکل کر باہر چلی گئی اور میں ننگا لیٹا ہوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔
اسکی حالت اور یوں اسکے بھاگنے سے مجھے یقین ہو چال کہ ضوفی اب اندر نہیں آے گی ۔
میں نے کچھ دیر بیکار سا انتظار کیا مگر ضوفی اندر نہیں آئی ۔
تو میں نے کپڑے پہنے اور اپنا حلیہ درست کیا اور کیبن سے باہر آیا تو
وہ سانولی کچی کلی
کاونٹر پر بیٹھی ہوئی تھی ۔
اس کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی تو اس نے بڑے غور سے سوالیا نظروں سے مجھے دیکھا جیسے
اس نے میری چوری پکڑ لی ہو۔
میں باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھتے ہوے ضوفی کو دیکھا تو ضوفی مجھے پورے پارلر میں نظر نہ آئی میں دوسرے
کیبنوں میں دیکھ آیا مگر ضوفی کا نام نشان تک نہ نظر آیا۔
مجھے یوں پھرتا دیکھ کر وہ لڑکی بولی
بھائی
باجی چلی گئیں
ہیں
اور وہ کہہ کر گئیں تھیں کے آپ باہر آو تو آپ کو بتا دوں کہ انکو گھر میں ضروری پڑگیا ھے اس لیے وہ جارھی ہیں
اور آپ انکا انتظار مت کریں ۔
لڑکی کے چہرے پر سیکسی سی سمائل تھی ۔
میں نے اس سے پوچھا کہ
کب گئیں تھی تو وہ لڑکی بولی
انکو تو دس منٹ ہوگئے ہیں،
میں نے اس سے ذیادہ تفصیل نہیں پوچھی کیونکہ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ وہ کیوں گئی ھے ۔
گھر کا تو بہانہ تھا ۔۔۔
اصل وجہ تو ضوفی کو اپنے کئے پر شرمندگی تھی جو وہ جنون میں کرگزری تھی ۔
میں باہر نکلنے لگا تو وہ لڑکی بڑے سٹائل سے مجھے مخاطب کر کے بولی
بات سنیں ۔
میں باہر نکلتے اسکی طرف گھوم کر دیکھتے ہوے بوال جی فرمائیں ۔
تو وہ لڑکی بولی
آپ نے باجی کو کچھ کہا تھا تو میں نے کہا کیوں کیا ہوا ۔
تو وہ کہنے لگی باجی روتے ہوے گئی تھی ۔
میں نے اسکو جواب دینے کی بجاے باہر کا راستہ اختیار کیا اور چپ کر کے پارلر سے نکال اور مارکیٹ سے نکل کر میرا
رخ اسد کے گھر کی طرف ہوگیا
کچھ دیر بعد میں اسد کے گھر کے باہر کھڑا بیل بجا رھا تھا
.کچھ دیر بعد اسد نے دروازہ کھوال اور جیسے ہی اس نے سر دروازے سے باہر نکال کر مجھے دیکھا تو اسکے منہ سے
بس اتنا ھی نکال تتتتممم اور پھر اسکی آنکھیں باہر کو نکل آئیں اور رنگ زردی مائل ہوگیا۔
اور وہ سکتے کے عالم میں کھڑا مجھے دیکھنے لگ گیا۔
میں نے بڑے شوخ لہجے سے اسے مخاطب کرتے ہوے کہا۔
اوے ماما ہاں میں ای آں پر
تیرے منہ تے باراں کیوں وجے ہوے نے ۔
تو اسد
پھر ہلکاتے ہوے بوال ۔
مممیرا مطلب ککہ تتتم اچانک آے ہو۔
اور بات کرتے ہوے اسد مجھے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھ رھا تھا
شاید وہ فیصلہ نہیں کر پارھا تھا کہ
مجھے عظمی والے واقعہ کا علم ھے کہ نہیں ۔
میں آگے بڑھا اور اسکا کان پکڑتے ہوے اسے پیچھے دھکیل کر اندر داخل ہوگیا
اور اسد کو کہا
گانڈو
کس دنیا میں پہنچا ہوا ھے
کیا ہوا ھے تجھے اتنا ڈرا سہماں کیوں ہے ۔
اسد کو یقین ہوچکا تھا کہ مجھے عظمی کہ واقعہ کا علم نہیں ھے
اور نہ ھی میں نے اپنے رویے سے اسے ظاہر ہونے دیا کہ مجھے واقعی سب کچھ علم ھے ۔
اسد بوال ککچھ نہیں یار بس رات سے میری طبعیت خراب ھے چلو اندر چلو اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔
میں آگے ٹی الونج کی طرف بڑھ گیا اور اسد گیٹ بند کرنے لگ گیا۔
میں چلتا ہوا ٹی الونج میں پہنچا تو مہری کمرے سے نکلتی ہوئی دیکھائی دی
نظروں سے نظریں ملیں دل کے تار چھڑے اور مہری کی آنکھوں سے محبت بھرا پیغام مال
مہری کا چہرہ گالب کی طرح کھال اور اس کے گالبی ہونٹوں پر مسکان آئی اور وہ چلتی ہوئی میرے قریب سے قریب تر
ہوئی اور اپنا مخملی ہاتھ میری طرف بڑھا کر بڑی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا ۔
میں جو اس کے چونتیس سائز کے گول مٹول تنے ہوے مموں اور صراحی دار لہراتی ہوئی کمر میں گم تھا اسکے یوں اپنے
سامنے ہاتھ کرنے سے چونک پڑا اور اپنا ھاتھ اسکے ھاتھ میں دے کر راضی نامے کا اظہار کیا۔
مہری میری ہتھیلی میں انگلی پھیر کر اور میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چہک کر بولی خیر ھے آج چاند کدھر سے نکل آیا ۔
میں نے اسے کچھ کہنے سے پہلے گردن گما کر پیچھے دیکھا تو اسد کو آتا دیکھ کر چپ کر گیا اور
اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑواتے ہوے
کہا بس ویسے ھی بازار آیا تھا تو سوچا کہ بےوفا الپرواہ لوگوں سے ملتا جاوں ۔
مہری نے میری طرف چونک کر دیکھا اور بولی
جناب ہم کیسے بےوفا اور الپرواہ ٹھہرے۔۔۔
میں نے کہا
بیٹھنے کی اگر اجازت ہو تو
بیٹھ کر بتا دوں ۔
مہری جھینپ کر بولی
اوووو سوری
تشریف رکھیے۔
میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔
مہری ایک منٹ کہہ کر کچن کی طرف چلی گئی اور اسد آکر میرے سامنے بیٹھ گیا وہ اب بھی کنفیوژ تھا
اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
میں نے شوخی سے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ہوے کہا
ہیلوووووو
اسد نے چونک کر میری طرف نظریں کیں ۔
میں نے کہا
کیا ھوا پریشان لگ رھے ھو سب خیریت تو ھے ۔
اسد بوال ۔
ککچھ نہیں یار بس ایسے ھی طبعیت خراب تھی
میں نے کہا اسکا مطلب ھے میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا ۔
اسد ذبردستی سے مسکراتے ہوے بوال۔
نہیں یار کیسی باتیں کررھا ھے ۔
میں نے کہا ۔
تو ماما موڈ سہی کر ایسے منہ بنایا ھوا ھے جیسے کسی فوتگی پربیٹھا ھو۔
اسد خود کو سنبھالتے ہوے بوال
اور سنا کیا حال چال ھے
کام کیسا جارھا ھے ۔
میں نے کہا۔
تمہیں کیا لگے کوئی مرے یا جیے۔
اسد بوال کیا مطلب ۔
اتنی دیر میں مہری بھی ٹرے میں کولڈ ڈرنک لے کے چلی آرھی تھی ۔
میں نے مہری کی طرف دیکھتے ہوے کہا جو میرے ھی طرف بڑی نشیلی آنکھوں سے دیکھ رھی تھی ۔
میں بوال
بھائی تم امیر لوگ ہو ہم غریب مر بھی جائیں تو تم کو کیا فرق پڑے گا ۔
اسد جوخود کو سنبھال چکا تھا ۔
اپنی ٹون میں آکر بوال ۔
ماما اگے وی پونک ہویا کی اے ۔
میں نے کہا
میرا ایکسیڈنٹ ھوگیا تھا ۔
اور میں پندرہ دن ہسپتال اور گھر پڑا رھا مگر جناب کو خبر تک نہ ہوئی ۔
اسد تو کچھ خاص حیران پریشان نہ ھوا مگر مہری ایک دم چونک کر بولی ھاے****** کب ہوا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا کیوں
ہوا
مہری کی پریشانی میں اپنا پن تھا مگر اسد کی حیرانگی میں بناوٹ تھی
اسد نے بھی ایسا ھی کچھ ریکٹ کیا۔
میں نے ٹرے سے گالس اٹھاتے ہوے ۔
چسکی لے کر ساری روداد سنا دی ۔
میں نے اسد کو یہ بھی ظاہر نہ کیا کہ میں نے اسے بازار میں دیکھا تھا۔
مہری اور اسد مجھ سے اکسیوز اور گلہ بھی کرنے لگے کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں ۔
میں تھوڑا حیران بھی ھوا کہ کل آنٹی کو بتایا تھا تو اس نے ان کو نھیں بتایا۔
کچھ دیر ایسے ہی ہم باتیں کرتے رہے ۔
میں نےآنٹی کا پوچھا تو اسد نے بتایا کہ آج وہ الہور گئی ہیں دکان کے لیے کچھ سامان خریدنا تھا ۔
میں ہمممم کرکے خاموش ہوگیا ۔
اتنے میں جمعہ کی اذان ہونی شروع ہوگئی ۔
تو اسد بوال چلو یاسر جمعہ پڑھ کر آتے ہین۔
میں نے کہا یار میں تو 1:30واال پڑھ آیا ہوں ۔اسد نے ٹائم دیکھتے ہوے کہا ٹھیک ھے تم بیٹھو میں جمعہ پڑھ کر ایا پھر بیٹھ
کر باتیں کرتے ہیں ۔
اور یہ کہتے ہوے ۔
اسد باہر نکلتے ہوے مہری کو کہہ گیا کہ گیٹ بند کرلے اور کچھ دیر بعد اسد کی گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور کچھ
دیر بعد گیٹ الک ہونے کی آواز سنتے ھی میرے لن نے یہ کہتے ہوےانگڑائی لی کہ
ہن موجاں ای موجان
.مہری گیٹ بند کر کے ٹی وی الونج میں آتے ہی بڑی حیرانگی سےبولی ۔
یاسر آج تو معجزہ ہوگیا۔
میں نے سوالیا نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا۔
کیوں کیا ھوا۔
مہری میرے پاس صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔
یار اسد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گیا ھے۔
میں نے حیران ہوتے ہوے کہا کیوں ۔۔۔
کیا پہلے نھی جاتا تھا۔
مہری نے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا
نہیں یار اس نے تو کبھی *****
کا منہ نہیں دیکھا۔
میں نے ہمممم کیا اور کہا چلو اچھی بات ھے
کچھ تو سدھرا۔
میں نے کہا
مہری تمہیں واقعی نہیں پتہ تھا
کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
مہری قسم اٹھا کر بولی نھی یاسر
کیا تم یہ سوچ بھی سکتے ھو کہ مہری کو تمہارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلے اور مہری آرام سے بیٹھی رھے
مجھے اگر علم ھوتا تو میں اڑتی ہوئی تمہارے پاس آجاتی ۔
یہ کہتے ہوے مہری نے اپنے دونوں بازو سائڈ سے میری کمر کے گرد ڈال کر اپنے ممے میرے بازوں کے ساتھ چپکا کر
میرے کندھے پر سر رکھ کے مجھے بازوں کے احصار میں لے لیا۔
میں نے پیار سے اسکی روئی جیسے گال پر ہاتھ رکھا اور گال کو تھپتھپا کر ہاتھ کی انگلیوں کو اسکے کان کے اوپر آے
ہوے ریشمی بالوں میں سرکاتے ہوے
ہاتھ کو اسکے سر کے پیچھے لے گیا اور مسلسل ایسے کرتا رھا اور مہری کی طرف غور سے دیکھ کر اسکی اصلیت
جاننے کی کوشش کرتا رھا۔
مگر سواے اس کے چہرے پر خلوص محبت اور معصومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آرھا تھا ۔
میں مسلسل اس کے حسین چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رھا تھا
مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں سے اٹھایا اور میرے ہاتھ پر اپنا مخملی ہاتھ رکھا اور میرے ہاتھ کو پیار سے سہالتے
ہوے بولی
کیا دیکھ رھے ہو۔
میں نے چونک کر اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے ہوے نفی میں سر ہالیا کہ کچھ نہیں ۔
مہری
بولی کچھ تو دیکھ رہے ہو
میں نے اسکی آنکھوں میں شہوت طاری ہوتی دیکھ کر رومینٹک انداز میں مہری کے بالوں کو سہالتے ہوے کہا
دیکھ رہا ہوں کہ کتنی فرصت سے تم کو بنانے والے نے بنایا ھے
تمہارا ایک ایک انگ میرے جزبات کو چنگاری دیتا ھے ۔
مہری تم حسن کی دیوی ہو۔
مہری میرا دل کرتا ہے کہ تمہارے جسم کے ایک ایک ذرے کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر اپنی خواہش کو امر کرلوں ۔
مہری کے گالبی گال سرخی مائل ہورھے تھے ۔
مہری نے میری بات سن کر میری کمر کے گرد سے بازو ہٹاے اور مجھ سے الگ ہوکر میرے سامنے کھڑی ہوگئی اور
اپنے گلے میں ڈاال ہوا دوپٹہ اتار کر شیشے کے میز پر پھینک کر بازو پھیال کر آنکھیں بند کر کے رومینٹک انداز سے
بولی۔
یاسر آو اپنی خواہش کو آج جی بھر کر پورا کرلو
یہ جسم یہ جان سب کچھ تمہارا ھے ۔
ضوفی کے ہوا میں کھلے بازوں سے اسکے گول مٹول ممے بھی ہوا میں لہراتے ہوے نظر آے
اسکی فٹنگ والی شارٹ شرٹ میں اسکے مموں کا ابھار ایسے تھا جیسے ابھی دونوں ممے اسکی شرٹ پھاڑ کر باھر آجائیں
گے ۔
یہ سیکسی منظر دیکھتے ہی
میرے تو ہوش و ہواس گم ہوگیے
اور میرا دماغ مہری کے سیکسی فگر کو دیکھتے ہی تمام شد ہوگیا۔
مہری کے مموں کے سحر میں جکڑا
میں بےاختیار اٹھ کھڑا ہوا۔
اور اسکے سامنے اسکے نزدیک اسکے ابھاروں کے قریب اپنا سینہ کر کے
اپنے دونوں ہاتھ اسکے گالب کی کلی کی طرح کھلتے ہوے چہرے کی طرف بڑھاے
اور اسکی روئی جیسی نرم اور ریشم جیسی مالئم گالوں پر اپنے ہاتھوں کی ۔ہتھیلیاں رکھیں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو مہری
کے کانوں کی لوں کے ساتھ لگا کر
اس معصوم چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیا۔
اور اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوے اپنا چہرہ چودویں کے چاند کی طرف بڑھایا۔
مہری کے چمبیلی جیسے کھلتے ہونٹوں کے پاس اپنے ہونٹ ال کر اپنی زبان کو پھر اپنے ہونٹوں پر پھیرتے ہوے زبان کو
مزید لمبا کیا اور زبان کی نوک کو مہری کی گالبی پنکھڑیوں پر پھیرنے لگ گیا۔
مہری کے جسم کو ایک جھٹکا لگا
میری نے بھوکی شیرنی کی طرح منہ کھول کر میری زبان پر حملہ کیا اور زبان کو اپنی پنکھڑیوں میں جکڑ کر اندر
کھینچنے کی کوشش کرنے لگ گئی۔
شیرنی کی تڑپ دیکھ کر شیر بھی ہوش کھو بیٹھا اور شیر کے پنجے شیرنی کی گالوں کو اپنے شکنجے میں لے کر شیرنی
کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھینچنے لگیا۔
آگ تھی کہ دونوں طرف بھڑک اٹھی
نہ اسے ہوش رھا نہ مجھے
منہ کے اندر مہری کی اور میری زبان آپس میں ذور آزمائی کررہیں تھی
اور باہر دونوں کے ہونٹ آپس میں گتھم گتھا تھے
دونوں میں سے کوئی بھی ہار تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔
کچھ دیر بعد ہونٹوں سے ہونٹ اور زبان سے زبان الگ ہوئی
تو میں نے مہری کی شرٹ کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کی طرف کرنے لگا
مہری نے بھی باخوشی اپنی شرٹ اتارنے میں میری مدد کرتے ہوے شرٹ کو اپنے مخملی گورے گالبی شفاف بدن سے الگ
کر کے اپنے دوپٹےکے اوپر رکھ دیا۔
مہری کے گورے بدن کو دیکھ کر میری آنکھیں تڑپ اٹھیں ہونٹ پر خشکی چھانے لگی زبان بے اختیار ہونٹوں کی طرف
بڑھی اور انکو ہوش دالنے کے لیے اپنے لباب سے ہونٹوں کو تر کرتے ہوے حوصلہ دینے لگی ۔
مہری کےگالبی مموں پر گالبی بریزیر اسکے بدن کا حصہ ہی لگ رہا تھا
ظالم نے کیا میچنگ کی تھی اپنے رنگ کے ساتھ
میرا سر خم ہوا اور
اسکے بریزیر سے باہر کے حصے کی طرف میرے ہونٹ بڑھے اور اس مخمل کو ہونٹوں نے چوم لیا
مہری کے منہ سے سسکاری بلند ہوئی ۔
میں نے ہونٹوں کو مہری کے ننگے گالبی مموں کے حصے کوچومنا شروع کردیا
میرے ہونٹوں کا لمس مہری کو تڑپا رھا تھا سسکا رھا تھا ۔
مہری کی انگلیاں میرے سر کے بالوں کو سہال رہیں تھیں ۔
میرے ہونٹ مہری کو تڑپا رھے تھے ۔
کچھ دیر بعد میں نے دونوں ہاتھ مہری کی کمر کے پیچھے کیے اور اسکی سوفٹ پنک کلر کی برا کو کی ہک کو کھول دیا
اور اسکے ممے بریزیر سے آزاد ہوتے ہی چھلک کر بریزیر سے باہر آنے کو بےتاب ہوگئے
میں نے مہری کی کمر سے سڑیپ کھولنے کے بعد اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو اسکی مخملی کمر پر سرکاتے ہوے
اسکے مموں کی طرف النے لگا
مہری کی سانسیں اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگ گئی
اور میں اپنی انگلیوں کو اسکی کمر سے سرکاتا ہوا اسکے مموں کے پاس ال کر اسکے بریزیر کو انگلیوں سے اسکے جسم
سے الگ کیا تو بریزیر نیچے ہمارے پاوں میں گر گیا۔
اسکے دودھیا ممے ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے ۔
اسکی گالبی مموں پر گالبی دائرے میں گالبی نپل اکڑے ہوے تھے
میں نے اپنا منہ مموں کے قریب کیا اور پھر سے زبان کی نوک سے اسکے مموں کے اکڑے نپلوں کو چھیڑنے لگ گیا
مہری تھی کہ اب مری ۔
میری زبان کی نوک نپل کا چاروں طرف سے طواف کررھی تھی اور مہری اپنے ہونٹوں کو زبان سے تر کرتے ہوے
ہونٹوں کو بھینچ بھینچ کر سییییییی ممممممممم کر کے میری زبان کی چھیڑ خانیوں کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش
کررھی تھی ۔
.مہری کے مموں پر میری زبان کی نوک اپنا جادو پھونک رھی تھی
مہری نیچے سے اپنی ٹانگوں کو آپس میں بھینچے ہوے سسکاریاں بھر رھی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں کو چبا رھی
تھی میں نے اسکے ایک ممے کو مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور اسکے نپل کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیان دبوچ کو مسل
رھا تھا اور دوسرے ممے کے نپل کو زبان کی نوک سے سک کررھا تھا
میں مہری کے نپل کو کبھی ہونٹوں میں بھر کر چوستا تو کبھی آدھے سے کم ممے کو منہ میں ڈال کر اندر کی طرف کھینچتا
مہری کے ممے اتنے سوفٹ تھے
کہ میرے چوسنے کی وجہ مہری کے ممے کا نپل اور نچلے واال حصہ سرخ ہوچکا تھا۔
میں باری باری دونوں مموں کے ساتھ اپنی مرضی سے کھیل رھا تھا
مہری کے مموں تھے ھی اتنے سیکسی کے انکو چھوڑنے کا میرا من ھی نھی کررھا تھا مگر ساال صاحب کے آنے کے ڈر
کی وجہ سے میں۔
کچھ دیر اور ممے چوسنے کے بعد کھڑا ہوا اور مہری کو ایک ہگ کیا اور فرنچ کس کرنا شروع کردی تو مہری میرے
ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈال کر میرے ہونٹوں کو چوستی ہوئی مجھے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوے اپنے کمرے کی طرف
لیجانے لگی ۔
میں بھی اس کا ارادہ بھانپتے ہوے اپنے قدموں کو پیچھے کی طرف لیجانے لگا میں ساتھ ساتھ مہری کی نرم گانڈ کی پھاڑیوں
کو بھی اپنے دونوں ھاتھوں میں دبوچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ننگی مخملی کمر پر بھی ہاتھ پھیرتا ھوا پیچھے کی طرف
چلتا جارھا تھا اور مہری میرےہونٹوں کو چوستی ہوئی ایک ہاتھ میری گردن کے بالوں میں پھیرتے ھوے اور ایک ہاتھ
میرے سینے پر رکھے ہوے مجھے پیچھے کو دھکیلتے ھوے کمرے کے دروازے کے پاس لے گئی اور پھر کمرے کے
اندر لیجا کر مہری نے مجھے بیڈ کے قریب پہنچا دیا اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے میری قمیض کے بٹن کھولنا شروع
کردیے ۔
میں نے مہری کی بےچینی دیکھتے ہوے اسکی کمر سے ہاتھ ہٹاے اور اسکو ذور لگا کر خود سے الگ کیا اور اپنی قمیض
پکڑ کر اتار دی
مہری ترسی نگاہوں سے مجھے قمیض اتارتے ہوے دیکھ رھی تھی
پھر جیسے ھی میں نے بنیان کو اتارنے کے لیے پکڑا تو
مہری سے صبر نہ ہوا تو اس نے خود اپنے ہاتھ بنیان کی طرف بڑھا کر میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بنیان اتارنے میں
میری مدد کی۔۔۔
میں نے جیسے ھی بنیان اتاری تو مہری کی نظر جب میری کلین باڈی پر پڑی تو مہری کے منہ سے بےاختیار نکال
واووو سو سیکسی باڈی یار۔
اور ساتھ ھی اس نے اپنے ہونٹ میرے بالوں سے پاک سینے پر رکھ دیے اور ساتھ ھی اس نے لمبا سانس اندر کو کھینچا
اور ہونٹ ہٹا کر میری طرف بڑی حیرانگی سے دیکھتے ھوے بولی ۔
یاسر
تم ویکس کروا کر آے ھو ۔میں نے حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا
ہممممم
مگر تمہیں کیسے پتہ چال۔
تو مہری مسکرا کر بولی تمہارے سینے سے آفٹر ویکسنگ لوشن کی سمیل آرھی ھے ۔
میں نے کہا
وا جی بڑی بات ھے لگتا ھے تم بھی ویکسنگ کرواتی ھو ۔
مہری بولی ہاں کرواتی ہوں
مگر میں حیران ہوں
کہ تم بھی ویکس کرواتے ہو
تو میں نے کہا
چھوڑو یار کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ھو اور اس سے پہلے کہ مہری کوئی اور بات کرتی
میں نے مہری کو اپنے باہوں کے احصار میں لے لیا اور اپنے ننگے جسم کے ساتھ اسکا ننگا نرم نازک جسم لگا کر مہری
کے ساتھ چپک کر کھڑا ھوگیا
مہری کے مالئم ممے میرے ننگے سینے میں پیوست ھوگئے اسکے اکڑے نپل سینے پر لگے مہری کے گرم ہونے کی دلیل
پیش کررھے تھے ۔
مہری نے کچھ کہنے کے لیے جیسے ھی منہ کھوال تو میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی آواز کو اپنے منہ
کے اندر ھی نگھل کر ہضم کرگیا اسکے گالبی ہونٹوں کو چوستے ہوے مین نے مہری کو گھما کر اسکی گانڈ بیڈ کی طرف
کی اور اپنا وزن اسپر ڈالتے ہوے اسکو پیچھے کی طرف ُپش کیا تو مہری کمر کے بل پیچھے بیڈ پر گرتی گئی اور میں
اسکے سینے کے ساتھ چپکا ہوا اسکے اوپر ھی گرتا چال گیا۔
ہم دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے کے اوپر ایک جسم بنے ھوے تھے اور
میرا لن فل اکڑ کر مہری کی شلوار سمیت اسکے چڈوں میں گھس کر اسکی پھدی کو رگڑیں لگا کا چدنے کے لیے اکسا
رھا تھا
مہری نے بیڈ پر گرتے ھی میری کمر کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا ڈال لیا اور میری کمر پر ہاتھ رکھ لیے
اور میرے دونوں ہاتھ مہری کی کمر کے نیچے تھے ۔
میرے اور مہری کے ہونٹ اب بھی ملے ھوے تھی کہ مہری نے اپنا منہ دوسری طرف کیا اور مجھے بیڈ کےاوپر آنے کا
اور خود بھی اوپر ہونے کا کہا۔
میں مہری کے اوپر سے ھی پلٹ کر اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگیں اوپر کر کے بیڈ پر ہوگیا۔
مہری نے بھی ٹانگیں اوپر کیں اور سیدھی ہوکر بیڈ کی ٹیک کی طرف تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور میں بھی اسکی
بغل میں سرہانے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔
تو مہری میری طرف منہ کر کے سائد کے بل ہوئی اور گھوم کر میرے اوپر آگئی اور میرے سینے پر اپنے ممے اور میرے
لن کو اپنے چڈوں میں لے کر میرے اوپر لیٹ گئی ۔
میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ مہری نے
اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھ کر شییییییی کہہ کر مجھے خاموش رہنے کا کہا
میں وی سرکاراں دا حکم من کے چپ کرگیا۔۔
مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چہرے کی طرف کیے اور دونوں ہاتھوں کو میری آنکھوں پر پھیرتے ہوے مجھے آنکھیں
بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔
مجھے بھی حکم ماننا پڑا اور جیسے ھی مہری کے دونوں ہاتھوں کے نیچے چھپی میری آنکھوں پر سے اسکی ہتھیلیاں
سرکتی ہوئی میری گالوں طرف جاتے ہوے میری آنکھوں سے اپنی نازک ہتھیلیوں کا پردہ ہہٹایا تو جناب کے حکم کی تعمیل
ہوئی اور میری آنکھوں کو بند پایا ۔۔۔
تو مہری نے اپنے نرم ہونٹوں کو میرے ماتھے پر ٹکا کر میرے ماتھے کو چوما اور پھر میری آنکھوں کو باری باری چوما
اور میرے گالوں کو چومتی ہوئی ہونٹوں پر آئی تو
مہری تھوڑا سا نیچے کو کھسکی اور میری ٹھوڑی کو چومتے ہوے میرے گلے پر اپنی گالبی پنگھڑیوں
کو پھیالتے ھوتے
مذید نیچے کو کھسکتی گئی اور
میرے سینے کو چومنا شروع کردیا
مزے سے میرے منہ سے سیییییی نکال اور میں نے ہاتھ نیچے کر کے مہری کی دونوں مسمیوں کو پکڑ کر مسلنا شروع
کردیا
میرا لن مہرے کے پیٹ کے ساتھ لگا ہوا اسکے نرم پیٹ کو اندر دھکیلے ہوے تھا
مہری میرے مالئم سینے پر کبھی زبان پھیرتی تو کبھی چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتی ہوئی میرے سینے پر چھوٹے سے نپلوں
کی طرف متوجہ ہوئی اور
زبان نکال کر میرے زبان کی نوک سے میرے سینے پر نپلوں کو چھیڑنے لگ گئی میں مزے کی ایک نئی لذت سے واقف
ہوتے ہوے سسک پڑا اور ساتھ ھی میری آنکھیں جب کھلیں تو
مہری آنکھیں کو کھولے نظریں میرے چہرے کی طرف ٰک ئے ہوے تھی ۔
آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کی آنکھوں میں ہوس ایک دوسرے سے متعارف ہوئی
تو مہری نے آنکھوں کے اشارے سے ھی آنکھوں کو پیغام بھیجا کہ بند ہو جاو ۔
آج مجھے اس سے سارے اگلے پچھلے حساب چکتا کرنے ہیں
تو میری آنکھیں مہری کی آنکھوں کا حکم سنتے ہی دوبارا بند ہوگئیں ۔
مہری کچھ دیر باری باری میرے دونوں نپلوں کو چومنے کے بعد
اپنی زبان کو نکال کر میرے سینے کے درمیان پھیرتے ہوے میرے گلے تک الئی اور پھر زبان کو میرے سینے سے
سرکاری ہوئی
اور خود بھی نیچے کو سرکتی ہوئی میرے پیٹ پر زبان کو ال کر پیٹ کے چاروں اطراف پھیرنے لگ گئی
مہری کے نیچے کھسکنے کی وجہ سے اسکے ممے میرے ھاتھ سے نکل گئے اور میری انگلیوں میں اسکے نپل آگئے
جنکو میں نے انگلیوں سے ھی قابو کر لیا اور مسلنا شروع کرد یا۔
)Update no (84
مہری ڈوگی سٹائل میں میرے اوپر جھکی میرے پیٹ کو چاٹ رھی تھی
اور میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اسکی دونوں مسمیوں کی ڈوڈیوں کو پکڑے مسل رہیں تھیں۔
میں نے اپنے دونوں پیر اوپر کیے اور مہری کی کمر پر اپنی ایڑیاں رکھیں اور پاوں کو اسکی کمر کے اوپر لٹا کر اپنے
پاوں کے انگوٹھوں کی مدد سے اسکی السٹک والی شلوار کو نیچے کی طرف کھسکانا شروع کردیا۔
کچھ دیر بعد مہری کی شلوار اسکی گانڈ سے اتر کر اسکے گھٹنوں تک چلی گئی تھی مہری کی پھدی اور گانڈ
اب بلکل ننگی تھی ۔
مہری اپنی مستی میں میرے سارے جسم کو زبان سے چاٹ چاٹ پاگل ہورھی تھی اسکا جنون قابل تسکین تھا ۔
مہری ننگی گانڈ کو لہراتی ہوئی
گھٹنوں کے بل تھوڑا اور پیچھے کو کھسکی اور زبان کو میری ناف کے نیچے میرے نالے کی گانٹھ کے قریب لے آئی تو
میرا اکڑا ہوا لن اسکے گلے ملنے لگا تو مہری نے اپنا ایک ہاتھ میرے لن کی طرف کیا اور ۔۔
ُ
. .مہری میرے لن کو پکڑتے ھی چونکی اور مٹھی کو بھینچ کر لن کی موٹائی کو چیک کرتے ہوے پھٹی آنکھوں سے میری
طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے نیم بند آنکھوں سے جب مہری کو اپنی طرف دیکھتے ہوے دیکھا تو آنکھ کھول کر اسکی طرف دیکھ کر آنکھ مار
دی۔
مہری میرے لن کو مٹھی میں بھینچتے ہوے بولی
یاسررررررر
اتنا موٹا اور اتنا لمبا اففففففففف
میں نے مسکرا کر کہا۔
پسند نہیں آیا
مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں پر بچھاتے ہوے اثبات میں سر ہال کر لن کو پسند کرنے کا اظہار کیا اور مہری نے
پھر زبان باہر نکال کر میری ناف کے نیچے پھیرنا شروع کردی
مزے کی شدت سے میرا جسم تھر تھرا رھا تھا ۔
مہری نے لن کو چھوڑا اور میرے نالے کی گانٹھ کو کھولنا شروع کردیا
میں مہری کے اس جنون کو دیکھ کر حیران پریشان ھوگیا کہ
میرے کرنے والے کام آج مہری خود ھی نبٹا رھی ھے ۔
مہری نے گانٹھ کے سرے کو پکڑا کر کھینچا
اور ناال کھول دیا۔
ناال کھول کر مہری نے شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچا تو میں نے بھی اپنی گانڈ اوپر کی تو شلوار آسانی سے نیچے میرے
گھٹنوں تک چلی گئی
میرا لن شیش ناگ کی طرح پھن پھیالئے تن کر کھڑا تھا۔
مہری کچھ دیر لن کو ہر ذاویعے سے دیکھتے رھی
پھر مہری نے میرے ننگے پھنئر سانپ کو مٹھی میں بھر کر دبانے لگی ۔
مہری کی نرم ہتھیلی اور مخملی انگلیاں جیسے ھی میرے لن کے ساتھ لگیں تو میرے لن نے ایک ذور دار جھٹکا مارا اور
مہری کی مٹھی میں میرے لن کی رگیں پھولنا شروع ہوگئی رگیں تھیں کہ اب پھٹیں۔
مہری نے دوسرا ہاتھ بھی لن پر رکھا اور ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ لیا اور دوسرا ہاتھ اوپر ٹوپے سے نیچے رکھ کر
لن کی پیمائش کرنے لگ گئی
مہری تو مزے سے نہال ہورھا تھا
اور سوچ رھا تھا کہ جس حسن کی دیوی کی مٹھیاں اتنی سوفٹ ہیں تو اسکی پھدی اور گانڈ کا سوراخ کتنا سوفٹ ہوگا ۔
مہری کچھ دیر میرے لن کو دونوں مٹھیوں میں لے کے دباتی رہی ۔
تو میں نے مہری کو کہا ۔
مہری ۔
اسکو کس تو کرو ۔
مہری نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر اپنے ہونٹ لن کے ٹوپے پر رکھ کر چھ سات چھوٹی چھوٹی
پاریاں کرتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی بسسسس۔
مہری کے ہونٹوں کے لمس نے میرے منہ سے سسکاری نکال دی تھی
مہری کے بس کہنے پر
میں نے نفی میں سر ہالیا
اور بوال تھوڑا سا منہ میں ڈال کر چوسو۔
مہری نے مجھے سیکسی انداز میں گھورا اور پھر اپنے ہونٹوں کو کھول کر لن کے ٹوپے کو منہ میں بھر کر ٹوپے پر تین
چار چوسے لگا کر ٹوپا منہ سے نکال کر میری طرف دیکھتے ہوے پھر بولی بسسسسسس
میں نے سسکاری مارتے ہوے کہا
سسسسسس نننھیی تھوڑا اور چوسو مہری۔
مہری نے پھر ہونٹ لن کے ٹوپے پر رکھے اور پھر پورے ٹوپے کو چوسنے لگ گئی۔
اس سے پہلے کہ مہری ٹوپا منہ سے نکالتی میں نے دونوں ہاتھوں سے مہری کا سر پکڑ کر ٹوپے کی طرف دبا کر نیچے
سے گانڈ اٹھا کے لن مہری کے منہ کے اندر کرتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا ۔
مہری میرے ایسا کرنے سے گبھرا گئی تھی اور سر کو پیچھے کر کے لن منہ سے نکالنے کی کوشش کرتے وقت
غوں غوں غوں پھپپپ پھپ
کی آوازیں نکال رھی تھی
چند سیکنڈ ہی مہری لن کو منہ میں برداشت کرسکی
اور پھر ایک جھٹکا مار کر سر کو پیچھے کر کے لن منہ سے نکال کر تیز تیز سانس لیتے ہوے کھانستے ہوے بولی ۔
یاسرررر کے بچے میرا سانس بند کردیا ھے ۔
میں نے کہا
یار تمہارے لبوں کے لمس کا مزہ ھی اتنا آرھا تھا کہ دل کر رھا تھا کہ بس ایسے ھی کرتا رھوں ۔
مہری گھٹنوں کے بل میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھی لمبے لمبے سانس لیتی نے میری ٹانگ پر چپت مارتے ھوے کہا
تمہارے مزے کے چکر میں میری جان نکل جانی تھی ۔
کچھ دیر بعد مہری ریلیکس ہوئی
اور میری ناف کے نیچے اپنے سوفٹ ہاتھ پھیر کر بولی ۔یاسر کتنی سوفٹ ھے تمہاری سکن ۔
میں نے کہا
تم سے ذیادہ تو نہیں ۔
تمہاری سکن تو مخمل جیسی نرم نازک ھے
یہ کہتے ہوے میں نے مہری کے دونوں بازوں کو کالئیوں سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچا تو مہری میرے اوپر لیٹتی گئی
مہری جب مکمل طور پر میرے اوپر لیٹ گئی اور میرا لن اسکی پھدی کے اوپر رگڑیں لگانے لگا تو میں نے مہری کی
کمر کے گرد بازوں ڈالے اور مہری کا گھما کر اپنے نیچے کیا اور خود اسکے اوپر آگیا
اب میری پوزشین
ایسی تھی کہ
میری دونوں ٹانگیں مہری کی ٹانگوں کے درمیان تھیں اور
اور میرے لن کا نشانہ سیدھا مہری کی پھدی کیطرف تھا۔
میں مہری کا ماتھا آنکھ گال ٹھوڑی چومتا ہوا گھٹنوں کے بل ہوتا جارھا تھا
اور میری گانڈپیچھے کو نکلتی جارھی تھی
میں مہری کے دونوں تنے ھوے گالبی مموں کو باری باری چوستا ھوا مہری کے روئی جسے نرم پیٹ سے ہوتا ھوا مہری
کی ناف سے نیچے السٹک والی شلوار کے قریب جا پہنچا اور مہری کی ناف کے نیچے زبان پھیرنے لگ گیا۔
مہری کی سانسیں اکھڑنیں شروع ھو چکی تھیں ۔
اسکی حالت دیکھ کر لگ رھا تھا کہ مہری انھی فارغ ہونے ھی والی
اسکی اس حالت میں میرا ہر کام آسانی سے بن سکتا تھا
مہری اپنے ہوش ہواس کھو بیٹھی تھی
اور سینے کو چھت کی طرف بلند کر کے لمبے لمبے سانس بھر رھی تھی
اممممم یاسررر نہ کرو نہ
پلیززززز یاسر پلیزززز
مہری کی مدہوش آواز مجھے مزید گرما رھی تھی اور میں بھی اسکی ناف کے نیچے زبان پھیرتا ھوا اسکی شلوار اتارنے
میں مشغول تھا۔
میں نے شلوار کی السٹک میں اپنی انگلیاں پھنسا کر مہری کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے شلوار کو نیچے کھینچا
تو مہری نے گانڈ اٹھا کر شلوار اتارنے کی اجازت دے دی
اجازت نامہ ملتے ہی میں نے شلوار نیچے کھینچ کر گانڈ سے اتار کر مہری کے گھٹنوں تک کر دی اور پھر گھٹنوں سے
نیچے کرتا ھوا مہری کے پاوں کے پاس لیجا کر شلوار کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا مہری اب مادر زاد ننگی میرے
سامنے لیٹی ہوئی تھی اور
میں اسکے گورے گالبی مخملی بدن کو دیکھ کر اپنی پیاسی آنکھوں کو سیراب کر رھا تھا۔۔
مہری کےسارے ننگے جسم کو آج میں پہلی دیکھ رھا مہری کا جسم اتنا کلین اور پنک کلر کا تھا کہ
میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
۔مہری کے ننگے مموں کو دیکھتا ہوا میں اسکی پھدی کی طرف جب متوجہ ہوا تو اسکی چھوٹے سائز کی چٹی سفید پھدی
کے ننھے ننھے گالبی ہونٹ پھدی سے نکلنی والی شبنم کے قطروں سے چمک رھے تھے ۔۔
دوستو پھدیاں تو بہت دیکھیں تھیں بہت مگر مہری کی پھدی کی بات ہی کچھ اور تھی
مہری کی پھدی کی شیپ دیکھ کر ھی پتہ چل رہا تھا کہ ابھی اس معصوم کو لن نصیب نہیں ہوا ۔
ہاےےےےےےے کیا سین تھا کیا چمکتی مالئم پھدی تھی
مجھے اپنے لن کی قسمت پر رشک آنے لگا
کہ سالے نے کیا قسمت پائی ھے ۔
مہری اپنی آنکھوں پر بازو رکھے آنکھوں کو چھپاے لیٹی ہوئی تھی کہ
مہری کی چھٹی حس نے کام کیا اور اس نے اپنے بازو جھیل سے اٹھاے اور اپنی بڑی لمبی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر
میری طرف دیکھا
اور مجھے اپنی پھدی کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھتے ہوے پایا
تو
مہری نے گالب کی پنکھڑیوں کو کھوال اور اپنی مدبھری آواز میں بولی
یاسر ررررر
اس سے پہلے کہ پھدی کو میری نظر لگ جاتی میری نظریں پھدی ہٹ کر مہری کی طرف گئیں
آنکھوں سے آنکھیں ملیں
مہری بولی
بےشرمممممممم
اور ساتھ ھی مہری نے اپنے دونوں ہاتھ اس معصوم پر رکھ کر اپنی ٹانگوں کو بھینچ کر
میری للچائی نظروں سے اپنی پھدی کو چھپا لیا۔
میں نے اسکے آپس میں جڑے گھٹنوں کو چوما اور اپنے دونوں ہاتھ مہری کے گھٹنوں پر رکھ کر انکو ذور لگا کر کھولنے
لگا تو مہری ہنستے ہوے گھٹنوں کو دائیں بائیں کرنے لگ گئی ۔
اور ساتھ نفی میں سر ہال کر مجھے منع کرتے ہوے بولی نہ کرو بے شرم انسان ۔
میں نے کہا
پلیززز مہری آج مجھے نہ روکو آج مجھے بےشرم ھی ہونے دو آج کوئی شرم کوئی ججھک ہمارے درمیان مت آنے دو۔۔
مہری نے میری مسکین سی شکل دیکھ کر اپنے گھٹنوں کو ڈھیال کردیا اور میں دوزانوں بیٹھے نے مہری کے گھٹنے کھول
کر اسکی پھدی کو ننگا کیا مگر مہری نے اب بھی اپنی معصوم پھدی کو بچانے کے لیے
پھدی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور
پھدی کے آگے اپنا سر خم کیا اور
پھدی پر رکھے مہری کے ہاتھوں کو چوم لیا اور پیار سے اسکے ہاتھ پکڑ کر
اس معصوم کی جان چھڑوائی ۔
ہاتھ ہٹاتے ھی
میں نے پھدی کے لبوں کو چوم لیا
مہری
کی پھدی پر جیسے ھی میں نے ہونٹ رکھے
مہری
تڑپ گئی
اور بیڈ سے دو فٹ اچھلی اور
سسسکاری بھر کر بولی
سسسسسس نھیییییی یاسررررررر
اممممممم
پلیزززززز نہ کرو
مگر میں اس معصوم کا حق کیسے مار سکتا تھا۔
میں نے زبان نکالی اور پھدی کے لبوں کو زبان کی نوک سے کھول کر پھدی کے اندر زبان کر کے زبان کو اوپر پھدی کے
اوپر والی ہڈی کی طرف لیجا کر ہڈی کو زبان سے چاٹ لیا۔
مہری کے منہ سے زورر کی چیخ نکلی اور مہری نے اپنے ہاتھ مجھ سے چھڑوا کر میرے سر کے بالوں کو دونوں ہاتھوں
سے پکڑ لیا اور میرے سر کو پھدی پر دبا دیا اور نیچے سے اپنی گانڈ کو بھی اٹھا کر پھدی کو میرے منہ کے ساتھ چپکا دیا
اور
ھاےےےےےےے مرگئیییییی میں یاسررررررر
کہتے ہوے
سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔
مہری کے اس جنون نے میرے جنون کو بڑھا دیا اور میں پھدی کے چھوٹے سے دانے کو منہ میں لے کر چوستا تو کبھی
پھدی کے اندر تک زبان کو لیجا کر پھدی کے سارے حصے کو منہ میں بھر لیتا
تو کبھی پھدی کے گالبی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں بھر لیتا
مہری کا جسم کانپنا شروع ہوگیا
میرے بالوں پر اسکے ھاتھوں کی گرفت سخت سے سخت تر ہوگئی ۔
مہری کی گانڈ ہوا میں بلند ہوئی
پھدی میرے ہونٹوں کے ساتھ چپکی
ہاتھوں کا دباو میرے سر پر پھدی کی جانب بڑھا
مہری کی دونوں ٹانگوں نے میری گردن کو دبوچا
مہری کا سارا جسم ایکدم اکڑا
اور مہری کی بس اتنی سی آواز میرے کانوں میں پڑی ۔
ھاےےےےےےے یسسسسسسس ایم کمنگگگگگگ
اسکے بعد مجھے کچھ سنائی نہیں دیا بس میرے منہ پر مہری کی پھدی سے منی کی پہلی دھاریں پڑنی شروع ہوگئیں
میرے کان بہرے ھو چکے تھے ۔
کیونکہ مہری کے پٹوں نے میرے کانوں کو دونوں اطراف سے گھیر کر جکڑ رکھا تھا
مہری کی پھدی سے آبشار کا آخری قطرہ جب میرے منہ پر گرا تو مہری نے یکلخت اپٰن ی ٹانگوں کو ڈھیال چھوڑ کر میرے
سر کو آزاد کیا
اور اپنی ٹانگوں کو ایسے بیڈ پر پھینکا جیسے ان میں سے جان نکل گئی ہو۔
مہری کے پٹ ھی اتنے نرم تھے
مہری کے پٹوں میں مجھے اپنا سر ایسے لگ رھا تھا
جیسے
کسی نے میرے کانوں کے دونوں اطراف وکی سرہانے رکھ کر میرے سر کو تکیوں میں جکڑا ھوا تھا۔
مہری لمبے لمبے اکھڑے سانس لے رھی تھی اور اب بھی اسکا جسم وقفے سے ایک آدھا جھٹکا کھاتا
اور مہری کا پورا جسم لرزتا۔
مہری بےجان ہوکر بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی
اور میں گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں بیٹھا
اس کے فارغ ھوتے وقت کا جنون دیکھ رھا تھا
مہری نے اب دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر ہاتھوں کے بیچ میں
افففففففف ھاےےےےےے کر رھی تھی
کہ اتنے میں۔۔۔
.اتنے میں میرے لن نے جھٹکا مار کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا
کہ جناب میرا کی قصور اے۔۔۔
میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسے حوصلہ دیا
اور اسکو ہاتھ میں پکڑے گھٹنوں کے بل آگے ہوا
مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی تھی ۔
مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی تھی ۔
میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے گیلے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔
مہری نے ایکدم چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی یاسر کیا کرنے لگے ہو
میں نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اسے شیییییییی کر کے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
اور ٹوپے کو پھدی کے دانے سے رگڑنے لگ گیا۔
مہری کے منہ سے سییییییی نکلی اور بولی
یاسررررر اندر مت کرنا ۔
میں نے اسکی بات سنی ان سنی کی اور ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کر کے
ہاتھوں کے بل مہری کے اوپر جھکا اور اپنے ہونٹ مہری کے ہونٹوں پر رکھ کر ہونٹ چوسنے لگ گیا
مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے لن کے پاس ھی پٹوں پر رکھ لیے تاکہ میں لن پھدی میں نہ اتار سکوں ۔
میرے تو دماغ پر اس وقت مہری کی پھدی کا نشہ سوار تھا
اور مرد کی طاقت سے ذیادہ ہوس اور شہوت کی طاقت ذیادہ ہوتی
ورنہ تو مرد بے جان ہوتا ھے ۔
جب منی سر پر سوار ہو تو انسان کی طاقت میں دگنا اضافہ ھو جاتا ھے ۔
اور وہ ھی ھوا
میں نے اپنے سینے کو جھکا کر مہری کے مموں پر رکھا اور پیٹ مہری کے پیٹ کے ساتھ مالیا اور مہری کے ہونٹوں کو
اچھی طرح اپنے ہونٹوں میں بھرا
اور ایک جاندار گھسا مارا
اور آدھا لن مہری کی کنواری ٹائٹ مگر گیلی پھدی میں اتار دیا
گھسا کیا مارا مہری کہ جان ہلک میں اٹکا دی
جیسے ھی ایک جھٹکے میں آدھا لن مہری کی کنواری پھدی کو چیرتا ہوا پھدی کے نرم ریشوں کو زخمی کرتا ہوا اندر گھسا
پھدی کے شکنجے میں میرا آدھا لن پھنسا ھوا تھا اور میرے لن کے گرد پھدی کا گھیرا اتنا تنگ تھا کہ مجھے ایسے لگ رھا
تھا کہ کسی شے نے میرے لن کو دبوچ لیا ھے
میری تھائیوں پر رکھے مہری کے دونوں ہاتھ بھی میرے جھٹکے سے پیچھے ھوگئے اور مہری کے دونوں ھاتھوں نے
میری تھائیوں کو اسکا قدر بھینچا کے مہری کے ناخن میری سکن کو زخمی کرتے ہوے اندر دھنس گئے
مہری نے کمر اٹھا کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا دیے اور
میرے ہونٹوں میں اسکے ہونٹ ہونے کی وجہ سے
مہری کی آواز بس اتنی سی نکلی
مممممم غوں غوں آبببب ھھگگگگ ھاااااا
مہری کا رنگ ٹماٹر جیسا سرخ اور جھیل کے کناروں سے بہتے آنسو
اسکی تکلیف کا ثبوت پیش کررھے تھے ۔
اس سے پہلے کہ میں مہری کی درد اور اسکی تکلیف کو دیکھ کر پگھل جاتا میں نے
لن کو باھر کھینچا
اور ٹوپا اندر ھی رہنے دیا
اور دوسرا جھٹکا مار کر لن کو پھدی کی گہرائیوں میں اتار دیا۔
مہری نے پورے زور سے میرے ہونٹوں سے ہونٹ نکالے اور میری ٹانگوں سے ہاتھ ہٹا کر میرے سینے پر رکھ کر پورے
زور سے مجھے پیچھے کو دھکیلتے ہو ے اونیچی آواز میں چیخی ہاےےےےے-ےے مر گئیییییییییییییییییی
مممممااااااااااا جییییییییی
اور ساتھ ھی مہری بےجان ہوکر واپس بیڈ پر گر گئی ۔
مہری کو یوں بے جان گرتے دیکھ کر میں بھی ڈر گیا اور لن کو واپس کھینچا تو مہری کا جسم جھٹکے سے ہال۔
اور پھر بےجان ہوگیا۔
لن کو باہر نکال کر میں نے لن کو دیکھا تو لن خون سے لتھڑا ھوا تھا اور پھدی سے خون بہہ کر بیڈ کی چادر کو سرخ کرتا
جارھا تھا۔
میں جلدی سے اٹھا اور مہری کے چہرے کے پاس آکر مہری کی گالوں کو تھپتھانے لگا
اور مہری مہری کہہ کر آوازیں دینے لگا مگر مہری بےسدھ لیٹی ہوئی تھی
میں نے اسکے ممے پر کان لگا کر مہری کے دل کی دھڑکن کو سنا تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا کہ مہری زندہ ھے اور
صرف بےہوش ھی ھوئی ھے ۔
میں چھالنگ مار کر بیڈ سے اترا
اور ننگا ھی باہر کچن کی طرف بھاگا
کچن میں پہنچ کر فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور بھاگ کر
کمرے میں پہنچا تو مہری ویسے ھی بیڈ پر ٹانگیں پھالے بےہوش پڑی تھی اور اسکی پھدی اور پھدی کے دونوں اطراف کی
جگہ بیڈ کی چادر سمیت خون سے سرخ ہوچکی تھیں
پھدی سے اب بھی خون جاری تھا۔
میں نے بوتل کا ڈھکن کھوال اور بیڈ پر چڑھ کر مہری کے چہرے کے اوپر اپنا ہاتھ کیا اور بوتل میں سے ٹھنڈا پانی ہاتھ پر
ڈال کر
مہری کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگ ،گیا
کچھ دیر چھینٹے مارنے اور مہری کو آوازیں دینے سے مہری نے کراہتے ھوت آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنا شروع کیں ۔
تو میری جان میں جان آئی ۔
میں نے بوتل سائڈ ٹیبل پر رکھی اور مہری کے بالوں کو سہالتے ھوے اسے آوازیں دینے لگا۔
مہری مہری
ہوش کرو
اٹھو مہری اٹھو۔
مہری نے آنکھیں کھولیں
اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگ گئی ۔
جیسے جیسے مہری مجھے پہچانتی گئی اسکی آنکھوں میں نفرت اور غصے کے شعلے بڑھکتے گئے ۔
کچھ دیر بعد جب مہری جب بہتر ھوئی تو مہری نے دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھتے ھوے مجھے پورے ذور سے دھکا
دیا اور زور سے چیخی
گیٹ الس ایڈیٹ
آئی ِکل یو باسٹڈ
میں مہری کے اوپر جھکا ھوا تھا
مجھے ذرہ بھی مہری اس ریکشن کی امید نھی تھی
اس لیے اسکے اچانک یوں دھکا دینے سے
میں پیچھے کو ہوا اور میں جو پہلے ھی بیڈ کے کنارے سے پر بیٹھا ھوا تھا
اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ھوے پیچھے کو قالبازی کھا کر کارپٹ پر جا کر گرا
مہری مجھے متواتر انگلش میں پتہ نہیں کیا کیا گالیاں دیئے جارھی تھی ۔
میں نیچے گرتے ھی
خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور پھر مہری کی طرف بڑھا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے لگا تو
مہری نے قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھتے ہوے میرے ہاتھ کو ہوا میں ھی اپنے ہاتھ سے جھٹک دیا۔
اور بولی دفعہ ھو جاو ذلیل کمینے انسان جانور پینڈو ۔۔
میں نے کہا مہری بات تو سنو۔
مہری پھر ذور سے چالئی آئی سے گیٹ السسسسسسس
بلیڈی فوووولللللل
اور رونے لگ گئی
مہری کی آنکھوں سے آگ برس رھی تھی ۔
میں نے جب دیکھا کہ مہری
اب کسی طور بھی میری بات سننے کے لیے تیار نہیں
تو میں نے جلدی سے اپنے کپڑے پہننا شروع کردئے۔
اور مہری کو یوں ھی بیڈ پر خون سے لتھڑا ہوا چھوڑ کر
کمرے سے باہر نکل آیا اور گیٹ کی طرف چل دیا ۔
اس سے پہلے کے میں گیٹ کھول کر باہر نکلتا
میں نے ابھی گیٹ کی طرف ھاتھ بڑھایا ھی تھا کہ اچانک???????۔
۔مجھے پیچھے کمرے سے دھڑام کی آواز آئی جیسے کوئی چیز گری ہو
گیٹ کی طرف بڑھتا ھوا میرا ہاتھ رک گیا اور میرے دماغ میں مہری آگئی کہ کہیں وہ تو نہیں گری میں الٹے پاوں کمرے
کی طرف بھاگا
اور ٹی وی الؤنج سے ہوتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو مہری بیڈ سے نیچے قالین پر گری ہوئی تھی اور وہ بیڈ کو پکڑ کر
اٹھنے کی کوشش کررھی تھی ۔
میں بھاگ کر مہری کے پاس پہنچا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگا تو مہری نے اپنے کندھے مجھ چھڑوانے کی
کوشش کرتے ہوے
غنودگی کی حالت میں مجھے پھر برا بھال کہنے لگی میں نے اسکی گالیوں کہ پرواہ نہ کرتے ھوے
مہری کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اسکو کھڑا کر کے بیڈ پر بیٹھا دیا ۔
مہری کا رنگ پیال پڑ چکا تھا
بیڈ کی چادر پر خون کا بڑا سا دھبہ بنا ہوا تھا
مہری کی پھدی بھی خون سے سرخ ہوچکی تھی اور پھدی سے پاوں تک دونوں ٹانگوں پر خون کی لکیریں بنی ہوئی تھیں ۔
مہری بیڈ پر بیٹھی تو پھر آگے کو گرنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا تو مہری میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے سینے
پر مکے مارتے ھوے مدہوشی میں بولی جارھی تھی اور رو رھی تھی
یاسررر تم نے ایسا کیوں کیا
میرے یقین کو کیوں توڑا میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا
مہری پھوٹ پھوٹ کر رو رھی تھی ۔
میں مہری کو کندھے سے لگا اسکے بالوں کو سہالتے ھوے اس سے معافیاں مانگنے لگ گیا۔
)Update no(85مہری چپ ہونے کا نام ھی نہیں لے رھی تھی اور مجھے ماری جارھی تھی ۔
کچھ دیر تک یہ ھی سین چلتا رھا ۔
میں بھی مہری کے ریلیکس ہونے کا انتظار کرتا رھا۔
پندرہ بیس منٹ گزر گئے مجھے اسد کے آنے کا بھی ڈر تھا کہ وہ نہ آجاے
اتنی جلدی تو مہری سے بھی نہیں سنبھال جانا تھا اور بیڈ کی حالت بھی کچھ ایسی تھی کے کمرے میں داخل ہونے والے کی
سیدھی نظر بیڈ پر لگے خون کے بڑے سے دھبے پر جانی تھی ۔
مہری کچھ دیر رونے اور مجھے پیٹنے کے بعد ریلیکس ھوئی تو میں نے اسے اسکی شلوار پکڑی اور اسکے قدموں میں
بیٹھ کر اسکی شلوار مہری کے پاوں میں ڈال کر اوپر اسکے گھٹنوں تک کردی اور مہری کو بازوں سے پکڑ کر کھڑا کیا
تو مہری دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر میرے سینے پر سر رکھ کر سہارہ لے کر کھڑی ھوگئی ۔
میں نے مہری کی شلوار پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو
مہری آہستہ سے بولی
مجھے واش روم جانا ھے ۔
میں نے مہری کی شلوار واپس نیچے کر کے اہنے پیر کی مدد سے اسکے پیروں سے نکال دی اور پھر مہری کو مادر زاد
ننگی حالت لے کر
اسی حالت میں ھی سینے سے لگاے مہری کی کمر میں بازو ڈالے
واش روم کی طرف لے کر چل پڑا
مہری سے چلنا دشوار تھا وہ ٹانگوں کو کھول کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رھی تھی مہری نے ایک ہاتھ ناف کے نیچے اور
پھدی کے اوپر رکھا ھوا تھا
مہری کی حالت دیکھ کر میں نے اسے کہا کہ میں اٹھا کر لے جاوں تمہیں
مہری نے نفی میں سر ہال کر کہا نہیں میں نے ایسے ھی جانا ھے
مہری بلکل معصوم بچوں کی طرح اپنی بات منوانے کی ضد کررھی تھی
میں مہری کو لے کر واش روم کے دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھول کر اسکے ساتھ اندر جانے لگا تو
مہری بولی چھوڑ دو مجھے اور جاو میں نے کہا مہری تم پھر گر جاو گی
مہری بولی
گرنے دو مجھے
مرنے دو مجھے
میرے پاس اب بچا ھی کیا ھے
میں نے جی کر کیا کرنا ھے ۔
میں نے مہری کو کہا
مہری مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتہ چال بس سب کچھ اچانک ھوگیا تھا ۔
میں ہوں نہ مجھے جو چاھے سزا دے دو میں تمہارا مجرم ہًو ں مگر پلیز ایسی بے رخی مت دیکھاو۔
اور خود کو سنبھالو
اسد کسی وقت بھی آسکتا ھے ۔
اگر اس نے تمہاری یہ حالت دیکھ لی تو اسکو کیا جواب دوگی ۔
مہری بلکل نیم بےہوشی کی حالت میں تھی اور میرے سینے کے ساتھ لگی
مجھے وقفے وقفے سے مکے ماری جارھی تھی
میں بھی اسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کررھا تھا ۔
تاکہ مہری کا سارا غصہ اتر جاے اور اس کی حالت سنبھل جاے ۔
میں نے مہری کو پکڑ کر واش روم کے اندر لے گیا اور اسے کمپاوڈ کا ڈھکن اٹھا کر اسکے اوپر بیٹھا دیا
مہری سرخ اور نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رھی تھی
مہری پھر بولی یاسر جاو باہر
میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا
مہری پلیز ایک دفعہ مجھے تسلی ھوجاے کہ تمہاری طبعیت سہی ھوگئی ھے
تو میں خود ھی چال جاوں گا مگر
ابھی میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا
اتنی دیر میں مہری کی پھدی سے پیشاب کی دھار نکلی تو مہری کے منہ سے ھاےےےےےے سیییییییی کی آواز نکلی اور
مہری نے ناف کے نیچے رکھے ھاتھ سے اس جگہ کو دبانے لگ گئی ۔
مہری کی حالت اور اسکی تکلیف دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا
کہ میں واقعی انسان نھی جانور ھی ھوں اگر میں آرام سے کرتا تو مہری کو اتنی تکلیف بھی نہیں ہونی تھی اور
مہری کی نظروں سے بھی نہیں گرنا تھا ۔
میں دل ھی دل میں اپنی بےغیرتی کو کوس رھا تھا۔
مہری نے جیسے تیسے پیشاب کیا اور پھر مسلم شاور کو پکڑ کر پھدی کی طرف کر کے بٹن کو پریس کیا تو شاور سے
پانی نکل کر پھدی پر پڑنے لگا
مہری کو پانی سے بھی جلن ہورھی تھی
اور اس کے منہ سے اب بھی ھاےےےےے سییییی نکل رھا تھا اور ساتھ میں مجھے بھی نفرت سے دیکھ رھی تھی ۔مہری
نے جب پھدی کو واش کرلیا تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو میں آگے بڑھا اور مہری کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا
اور شاور کو پکڑا کر مہری کی پھدی کی طرف کر کے دوبارا اسکی پھدی اور ٹانگوں پر لگے خون کو دھونے لگا
میں نے ہاتھ مہری کی پھدی کی طرف کیا اور پھدی کی دونوں اطراف کی جگہ کو مل مل کر دھونے لگا ایسے ھی اسکی
دونوں ٹانگوں کو ہاتھ سے مل کر خون صاف کیا میری نظر جب مہری کی پھدی پر پڑی تو
پھدی کے ہونٹ کافی سوجے ھوے تھے
اور ہونٹوں کے شروع میں مجھے ہلکا سا کٹ لگا نظر آیا
شاید پھدی چھوٹی تھی اور لن زیادہ موٹا تھا تو لن نے مہری کی پھدی کو چیر دیا تھا ۔
پھدی بیچاری بھی مجھے لعن طعن کررھی تھی ۔
ٹانگوں کو صاف کرتے وقت مہری میرے ہاتھوں کو جھٹک رھی تھی مگر مِیں ڈھیٹ بن کر لگا رھا اور مہری کی پھدی اور
ٹانگوں کو اچھی طرح واش کیا اور پھر مہری کو لے کر واش روم سے باہر آگیا
مہری اب کافی بہتر محسوس کررھی تھی
مگر وہ اب بھی ٹانگوں کو کھول کر ھی چل رھی تھی ۔
کمرے میں آکر میں نے مہری کو بیڈ پر جیسے ھی بٹھایا
..تو مہری پیچھے کو گرتی بیڈ پر لیٹ گئی ۔ اور دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر پھر رونے لگ گئی
مہری کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکی ہوئی تھیں
اور باقی سارا جسم بیڈ پر ڈھیر تھا ۔
میں نے مہری کو بازو سے پکڑ کر ہالیا
اور بوال مہری یار اب بس بھی کرو
اور کپڑے پہن لو
اسد کسی وقت بھی آسکتا
ھے
مہری منہ سے ہاتھ ہٹا کر غصے سے چیختے ھوے بولی
مجھے نہیں پہننے کپڑے آنے دو جسے بھی آنا ھے ۔
میں نیچے جھکا اور کارپٹ پر پڑی مہری کی شلوار کو اٹھا کر اسکے قدموں میں بیٹھ گیا اور
شلوار کو مہری پاوں سے گزار کر اسکی پھدی کے قریب کر دی
مہری نے تھوڑی بہت مزاحمت کی تھی مگر میں نے ذبردستی اسے شلوار پہنا کر ھی دم لیا ۔
شلوار اوپر کرنے کے بعد میں نے مہری کی دونوں کالئیوں کو پکڑا اور اسکو اوپر کھینچا تو مہری نا چاہتے ھوے بھی اٹھ
کر بیٹھ گئی
میں نے مہری کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور شلوار اسکی گانڈ سے اوپر کر کے پھر پھدی سے بھی اوپر کردی ۔
شلوار پہنتے ھی مہری پھر بیڈ پر بیٹھ گئی تو میں نے ہاتھ لمبا کر کے مہری کی بریزیر
.پکڑی اور بیڈ پر چڑھ کر مہری کی کمر کے پیچھے بیٹھ گیا
اور بریزیر کو آگے لیجاکر مہری کے دونوں بازوں میں سے بریزیر کے اسٹرپ گزارے اور بریزیر کو
اسکے کندھوں تک لے آیا۔
پھر اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اور مموں کے اوپر آے ھوے بریزیر کے کپ کو پکڑ کر مموں کے اوپر کیا
یسے ھی مہری کے مموں کو میرا ہاتھ چھوا میرے اندر پھر شہوت کے کیڑے جھر جھری لی
اور میں نے مہری کے دونوں مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر کر دبا دیا ۔
مہری کے منہ سے سییییییییی نکلی اور مہری نے بازو پیچھے کر کے میرے پیٹ میں کہنی مارتے ھوے کہا۔
اب کوئی کسر رھتی ھے جو پوری کرنی ھے
اور پھر مہری نے مموں کو پکڑے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے گلے کے ساتھ لگا کر دباتے ھوے کہا
ویسے ھی میرا گال دبا دو
مار دو مجھے اپنے ھاتھ سے ھی مار دو۔
اور ساتھ ھی مہری نے پھر اونچی آواز میں رونا شروع کردیا۔
میں نے جلدی سے اس سے اپنے ہاتھ چھڑواے اور پیچھے سے سٹریپ کی ہک بند کرتے ھوے
اسکے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکے کان میں دھیرے سے بوال
مہری میں کیا کروں تم چیز ھی ایسی ھو
تمہارا ایک ایک انگ مجھے بہکنے پر مجبور کردیتا ھے ۔
قصور میرا نھی تمہارے اس مخملی بدن کا ھے
تم سر سے پاوں تک آب حیات ہو
جس کو پی کر میں ہمیشہ کے لیے امر ھونا چاہتا تھا
مہری نے میری بات سنتے ھی مجھےپیچھے کو دھکا دیا اور آگے سے اپنے بریزیر کو سیٹ کرتی ھوئی کھڑی ہوئی اور
پلٹ کر مجھے غصے سے دیکھتے ھوے بولی
تم ہوس کو پیار کا نام دیتے ھو
تم ایک ہوس کے پجاری ھو
اور تمہاری انہیں باتوں میں آکر میں اپنی عزت گنوا بیٹھی ھوں ۔
یاسرررردد اگر تم اپنی خیریت چاھتے ھو تو ابھی کہ ابھی دفعہ ھوجاو یہاں سے
اور آج کے بعد مجھے شکل مت دیکھانا
تم نے میرے اعتبار کو توڑا ھے
میرے جزبات سے کھیلے ھو تم
میں نے کہا مہرررر
ابھی میرے منہ میں اتنا ھی لفظ نکال تھا کہ مہری
پھر چنگاڑ کر بولی
شٹ اپ
اور دروازے کی طرف انگلی کرتے ھوے ۔
بولی ۔گیٹ الس فرام ہاوس
یں بھی کب سے اس کی بکواس سن رھا تھا
اور اسکو برداشت کررھا تھا
مہری سے انگریزی بےعزتی کرواتے ھی میں چھالنگ مار کر غصے سے بیڈ سے نیچے اترا اور اپنا جوتا پہن کر کمرے
کے دروازے کے پاس پہنچ کر
گردن گھما کر مہری کی طرف دیکھا جو میری ھی طرف دیکھ رھی تھی
میں نے مہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
نظروں سے نظریں ملیں
دونوں کی نظروں میں غصہ تھا
آگ تھی
قہر تھا
میں دھاڑتے ھوے گرجا
اور رعب دار آواز نکالتے ھوے
مہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال۔
مہریییییییییی
مہری میری گرجدار آوا ز سن کر سہم گئی
اور ایکدم اسکے چہرے پر غصے کی بجاے ڈر جھلکنے لگ گیا۔
میں پھر غصہ سے دھاڑا
مہرییییی میں جارھا ہوں اور میری بات کان کھول کر سن لو کہ ،،۔
یاد..؟؟ ؟؟؟؟؟؟
مہرییییی میں جارھا ہوں اور میری بات کان کھول کر سن لو کہ ،،۔
یاد..
سے بیڈ کی چادر بدل لینا یہ نہ ھو کہ تمہاری امی یا اسد آکر کمرے کا نظارہ دیکھ لیں ۔۔۔
میں غصے میں بھی مہری کو مذاق کر کے باہر کی طرف چل دیا مہری میری بات سن کر دانت بھینچ کر رھ گئی ۔
میں گیٹ کے پاس پہنچا اور گیٹ کھول کر باہر جھانکا تو گلی میں بچوں کو کھیلتے دیکھ کر میں باہر نکال اور بازار کی
طرف چل دیا
گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا
اور باہر نکل گیا کچھ دیر گلی کے دوستوں کے ساتھ گپیں مارنے کے بعد واپس گھر آگیا
اگلے دن دکان پر بھی کچھ خاص نہ ہوا
عظمی اور نسرین کو سکول سے چھٹیاں تھیں اور صدف کو ویسے ھی میں ساتھ نہیں لے کر جاتا تھا ۔
اس لیے مجھے اکیلے ھی جانا پڑتا
تقریبََا ایک ہفتہ ایسے ھی گزر گیا
ضوفی بھی ان دنوں میں دوبارا دکان پر نہیں آئی اور نہ ھی مجھے اسکا سامنا کرنے کی ہمت ہوئی ۔
ہفتہ پورا ھی میرا کام میں مصروفیت کی وجہ سے بغیر پھدی کے ھی گزر گیا ۔
ایک دن شام کو انکل سجاد نے مجھے بتایا کہ یاسر بیٹا کل
میں نے مال لینے الہور جانا ھے اور تم دکان پر ذرہ ہوشیار رہنا اور توجہ سے دکان داری کرنا
میں نے کہا جی انکل آپ بےفکر ہوکر جانا میں سنبھال لوں گا ۔
دوسرے دن میں انکل سجاد کے گھر گیا تو انکل سجاد مجھ سے پہلے ھی چلے گئے تھے اور دکان کی چابیاں گھر ھی دے
گئے تھے میں نے گھر سے چابیاں لیں اور دکان پر چال گیا
دکان پر پہنچا تو انکل کی موٹر سائکل دکان کے باہر ھی کھڑی تھی میں نے دکان کے شٹر کھولے اور دکان کی صفائی
کرنے لگ گیا کچھ دیر بعد ساتھ والی دکان کا لڑکا مجھے موٹرسائیکل کی چابی دے گیا اور ساتھ میں انکل کا میسج بھی دے
دیا کہ موٹر سائیکل یاسر کو کہنا موٹر سائکل کو لے کر کہیں جاے نہ ھی کسی اور کے دے
میں نے اچھا کہہ کر اس سے چابی لی اور دراز میں رکھ دی ۔
کچھ دیر بعد جنید آگیا
مگر دوسرا لڑکا شاہد ابھی تک نھی آیا تھا
جنید نے آتے ھی انکل کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ انکل تو الہور مال لینے گئے ہیں ۔
جنید نے حیران ھوتے ھوے کہا
کل انکل نے تو ہمیں بتایا ھی نہیں ۔
میں نے کہا شاید انکا اچانک پروگرام بنا ھو ۔
ایسے ھی ھم باتیں کرتے رھے
کسٹمرز کی بھی آمد شروع ھوگئی
شاہد دکان پر نھی آیا ۔
اسنے شاید چھٹی کرلی تھی ۔
مجھے اسپر غصہ بھی بہت چڑھا کہ
انکل بھی دکان پر نہیں ھیں اور یہ ساال بھی چھٹی کرکے بیٹھ گیا ھے ۔
دوپہر کا وقت ہوا تو جنید کھانا لینے چال گیا اور میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھ گیا ۔
کچھ ھی دیر گزری تھی کہ فرحت برقعہ پہنے اپنی امی کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی اور بڑی شوخی سے مجھے سالم کیا
اور دکان کے سینٹر میں ھی بیٹھ گئی ۔
فرحت کی امی کافی ضعیف العمر خاتون تھی
جس عمر کی سٹیج پر فرحت کی امی تھی اس عمر میں نظر بھی کافی کمزور ھوجاتی ہے
اس لیے فرحت اپنی امی کا ہاتھ پکڑے ھوے چلتی تھی ۔
بینچ پر بیٹھتے ھوے فرحت بڑی شوخ نظروں سے مجھے دیکھ کر بولی
یاسر کوئی نئی ورائٹی آئی ھے دکان پر تو دیکھا دو۔
میں بھی ان کے پاس پہنچ چکا تھا اور
انکا حال احوال پوچھنے کے بعد ۔
فرحت کو بوال آپ آگے آجائیں تو بہتر ھے ساری ڈزائنگ آگے پڑی ھے ۔
فرحت اپنی امی کو ادھر ھی بیٹھے رھنے کا کہہ کر دکان کے آخر میں چلی گئی ۔
اور بینچ پر بیٹھتے ھوے آہستہ سے بولی
آج کل کدھر مصروف رہتے ھو ۔
کبھی چکر ھی نھی لگایا ۔
میں نے کہا بس دکان پر کام کا ذور ھے اس لیے رات کو
بھی لیٹ ھی جاتا ھوں اس لیے تھکا ھوتا ھوں تو ٹائم نھی مال
اور آپ نے بھی تو دوبارا رابطہ نہیں کیا۔
فرحت بولی
جناب میں اسی لیے آج سپیشل آئی ہوں کہ نواب ساب کو یاد کروا دوں کہ ہم بھی تمہاری راہ دیکھنے والوں میں سے ہیں ۔
فرحت نے یہ بات بڑی دومعنی انداز سے کی تھی ۔
میں نے چونک کر فرحت کی طرف دیکھا
اور کہا
دیکھنے والوں کا کیا مطلب ۔
فرحت ہنس کر بولی کچھ نہیں ۔
میں نے تو ویسے ھی کہا ھے
تم تو ایسے چونکے ھو جیسے
واقعی کوئی بات ھے ۔
میں نے الماری سے سوٹ نکال کر فرحت کے اگے کھولتے ھوے کہا
جناب میں تو آپ کے اشارے کا منتظر تھا
مگر آپ کو تو اشارا کرنے کی بھی فرصت نہی تھی ۔
فرحت بولی ۔
لو پھر میں اشارہ کرنے ھی آئی ھوں کہ اگر وقت ملے تو آج رات کو حسین بنانے کے لیے میں نے یہ سنتے ھی ہاتھ میں
پکڑے ہوے سوٹ کو اس انداز میں کھول کر فرحت کے چہرے کی طرف پھینکا کے سوٹ کا کنارہ جا کر فرحت کے منہ پر
لگا اور فرحت کا نقاب آدھا اتر کر اسکے ہونٹوں تک آگیا
فرحت اپنی امی کی طرف دیکھتے ھوے آہستہ سے بولی
ذیادہ شوخا نہ بن امی بیٹھی ہوئی ہین۔
میں نے فرحت کی امی کی طرف دیکھا جو باہر کی طرف دھیان کر کے آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے کی ناکام کوشش
کررھی تھی ۔
میں نے کہا
شوخا تو آج رات کو بنوں گا
جب تمہاری ٹانگیں چھت کی طرف کیں ۔
فرحت شرماتے ھوے اپنا نقاب صحیح کرتے ھوے بولی ۔
شرم کر بےشرما۔
اور ساتھ ھی سوٹ کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی ۔
اور پھر بولی
یاسر کوئی اور اچھا سا ڈزائن دیکھاو
میں نے فرحت کی طرف شرارتی انداز میں دیکھتے ھوے اپنی قمیض آگے سے اٹھا کر نیم کھڑے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر
فرحت کی طرف کرتے ھوے کہا
یہ ڈیزائن کیسا ھے ۔
فرحت شرمندہ سی ہوکر میری طرف مکا لہراتے ہوے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
تمہارے اس ڈیزائن کی رات کو ایسی کی تیسی کروں گی بےشرم انسان جگہ تو دیکھ لیا کرو۔
میں نے ٹرائی روم کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
جگہ بھی دستیاب ھے اگر موڈ ھے تو ادھر ھی ایک شارٹ سا میچ ھوجاے۔
فرحت نے ٹرائی روم کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی اور
میری طرف دیکھتے ھوے مصنوعی غصے سے بولی
میرا مرنے کا ارادہ نہیں۔
میں نے آہستہ سے کہا
یقین کرو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا بس تھوڑی دیر کے لیے جلدی جلدی کرلیں گے ۔
فرحت کی آنکھیں بتا رھی تھی کہ وہ بھی اندر سے راضی تھی بس اوپر اوپر سے مشرقی خاتون بننے کی ایکٹنگ کررھی
ھے۔
فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی امی بیٹھی ہین۔
میں نے جب فرحت کی رضامندی اور بناوٹی انکار کو دیکھا تو ۔
میں نے تھوڑا سیریس ھوتے ھوے کہا ۔
یار کچھ نہیں ھوتا بس دو منٹ لگنے ہیں
آج انکل بھی نھی ہین اور لڑکے بھی چھٹی پر ہین ۔
فرحت بولی نہ بابا نہ مجھے ڈر لگتا ھے تم رات کو ھی آجانا ۔
میں نے کہا یار رات کو بھی کرلین گے
ابھی بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔
میں نے لن کو پکڑتے ھوے اسے دیکھاتے ھوے کہا یہ دیکھو تمہیں دیکھ کر ھی بےچین ھوگیا ھے
فرحت بے چین سی ہوکر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی
نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے ۔
میں نے کہا
تم اپنی امی کو بہانہ لگاو کہ میں سوٹ پہن کر چیک کرلوں کہ فٹنگ سہی ھے کہ نہیں۔
تو تم اندر چلی جانا اور موقع دیکھ کر میں بھی اندر آجاوں گا۔
یقین کرو کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہونی ۔
فرحت کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی یاسر کہیں پھنسوا نہ دینا ۔
میں نے کہا یار اگر کوئی ٹینشن والی بات ھوتی تو میں نے تمہیں کہنا ۔
ھی نہیں تھا۔
اسلیے بے فکر رھو اور مجھ پر بھروسہ رکھو ۔
فرحت کچھ دیر بیٹھی مذید سوچتی رھی اور اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر انگلیوں کو آپس میں
مسلتی رھی
میں نے اسے ششوپن پڑا دیکھ کر کہا
یار اٹھو اور یہ لو سوٹ اور اپنی کو بہانا بنا کر اندر چلی جاو
فرحت نے میرے ھاتھ سے سوٹ پکڑا اور اٹھ کر اپنی گانڈ میں پھنسا ہوا برقعہ نکالتے ھوے
اپنی امی کی طرف جانے لگی ۔
میری بے چینی مذید بڑھتی جارہی تھی اور میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارھا تھا کتنے دنوں سے پھدی کی شکل بھی
نھی دیکھی تھی تو منی لن کے ٹوپے پر اٹکی ہوئی تھی
میرا لن مجھ سے بھی ذیادہ جلدی میں تھا ۔
فرحت اپنی امی کو سوٹ دیکھاتے ھوے اس کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کررھی تھی اور اسکی امی سوٹ کو آنکھوں کے
قریب کرکے سوٹ کو پسند کرنے کی کوشش کررھی تھی ۔
کچھ دیر بعد فرحت نے اپنی امی سے سوٹ پکڑا اور اٹھ کر میری آنکھوں نشیلے انداز سے دیکھتی ھوئی میرے پاس سے
گزرتے ھوے مجھے مکا دیکھاتے ھوے ٹرائی روم میں چلی گئی اور میں باہر کی طرف دیکھ کر اٹھنے ھی لگا تھا کہ
جنید شیطان کی طرح ٹپک پڑا اور کھانا ہاتھ میں پکڑے سیٹی بجاتا دکان میں داخل ہونے لگا
جنید کو دیکھتے ھی مجھے پھدی ھاتھ سے جاتے نظر آنے لگ گئی ۔
مگر منی میرے دماغ پر سوار تھی
میں نے جلدی میں ایک پالن سوچا اور اٹھ کر جنید کے پاس چال گیا
اور اسکو آہستہ اے بوال
یار ٹرائی روم میں ایک پوپٹ آنٹی سوٹ پہن کر چیک کرنے گئی ھے اور وہ میرے ساتھ کافی فری بھی ھورھی تھی
میرا تو دل کررھا ھے کہ اس کے پیچھے ھی اندر جاکر اس کو جپھی ڈال لوں ۔
جنید حیرانگی سے کبھی میری طرف دیکھتا تو کبھی ٹرائی روم کی طرف تو کبھی اماں کی طرف ۔
میں نے اسے یوں سکتے کے عالم میں دیکھا تو اسکو کندھے سے ہالتےھوے کہا ۔
ماما توں کیڑیاں سوچاں وچ پے گیا ایں ۔
میں کی کیا اے۔
جنید ہڑبڑا کر بوال
دیکھنا یار اپنے ساتھ ساتھ مجھے پھنسوا نہ دینا
میں نے کہا یار تو بےفکر ھوجا
اس آنٹی نے مجھے فل لفٹ کروائی ھے
تم بس دکان کو سبھالنا اور اس اماں کو باتوں میں لگاے رکھنا اسکی ویسے بھی نظر کمزور ھے
میں بس گیا اور آ یا
اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا میں اسکا کندھا تھپتھپا کر ٹرائی روم کی طرف چل دیا
اور دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے ہلکا سا درواز اندر کو پش کیا تو
فرحت ہاتھ میں سوٹ پکڑے دیوار کے ساتھ لگی بڑی بےچین نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔
میں اندر گیا اور دروازے کو الک کیا اور
جاتے ھی فرحت کے ھاتھ سے سوٹ پکڑ کر نیچے پھینکا اور اسکے دونوں ممے مٹھیوں میں بھر لیے
فرحت نے سییییییی کر کے اپنے دونوں ھاتھ مموں پر رکھے میرے ھاتھوں پر رکھ دیے ۔
اور بولی
سیییییییی یاسر آرام سے
میں نے دو تین دفعہ مموں کو دبایا اور پھر فرحت کا برقعہ پکڑ کر اتارنے لگا ۔
فرحت برقعہ اتارتے ھوے بولی
اگر کوئی کسٹمر آگیا تو ۔۔
میں نے کہا نہیں آتا اگر آیا بھی تو چال جاے گا ۔
فرحت نے برقعہ اتار کر ایک طرف رکھا اور میں نے فرحت کو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کردیا
کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے فرحت کے آگے سے قمیض اوپر کرنے لگ گیا اور قمیض کو مموں سے اوپر کر
دیا فرحت نے سکن کلر کی بریزیر پہنی ھوئی تھی میں نے بریزیر کو بھی پکڑ کر مموں کو آزاد کر دیا
فرحت کے چٹے سفید بڑے بڑے ممے میرے سامنے بلکل ننگے تھے میں تھوڑا سا جھکا اور دونوں مموں کو
ہاتھوں میں پکڑ کر چوسنے لگ گیا میں باری باری دونوں مموں کو منہ بھرتا تو کبھی اکڑے ھوے براون نپلوں کو ہونٹوں
میں لے کر چوستا
فرحت سسکاریاں مار کر میرے بالوں کو سہالنے میں مصروف تھی ۔
کچھ دیر میں ایسے ھی مموں کو چوستا رھا
میرا لن فل اکڑا ھوا تھا
اور پھدی میں جانے کے لیے بےچین تھا ۔
میں نے مموں کو چھوڑا اور فرحت کو گھما کر اسکا منہ دیوار کی طرف کیا
اور پیچھے سے اسکی قمیض گانڈ سے اوپر کر کے اسکے السٹک والی شلوار کو کھینچ کر نیچے کیا تو فرحت نے گردن
گھما کر میری طرف دیکھا میں میں اسکی نظروں کا مطلب سمجھے بغیر نیچے جھکا اور اسکی ُبنڈ کی دونوں پھاڑیوں کو
باری باری چومنے لگا اور پھر کھڑا ھو کر جلدی سے اپنی شلوار کا ناال کھوال تو میری شلوار میری پیروں میں گر گئی
میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑ کر جیسے ھی فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں ڈاال فرحت نے گانڈ کو بھینچ کر میرے لن کو
راستے میں ھی روک کر آگے کو ھوئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی کیا کرنے لگے ہو۔
میں نے کہا سیدھی تو اندر ھی کرنے لگا ہوں۔
فرحت بولی پیچھے سے نھی کرنا ۔
میں نے کہا نھی یار آگے سے ھی کروں گا
تم سیدھی تو ھو جاو
فرحت پھر دیوار کی طرف منہ کر کے گانڈ میری طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔
میں تھوڑا سا پیچھے ھوا اور فرحت کی گانڈ کو پکڑ کر پیچھے کیا تو فرحت آگے کو جھک گئی اور اسکی گانڈ پیچھے کو
ھوگئی
میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑا اور اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا فولڈ کر کے نیچے ھوا اور سر نیچے کر کے ہاتھ فرحت کی پھدی
پر رکھ کر پھدی کو دیکھنے لگ گیا
پھدی پانی سے گیلی ھوچکی تھی
میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے قریب کر کے فرحت کے پیچھے سے ھی ٹوپا پھدی پر رگڑنے لگا
فرحت سسکاری مار کر اور جھک گئی اور دونوں ھاتھ دیوار پر رکھ کر گانڈ پیچھے کو نکال کر کھڑی ھوگئی
مذید جھکنے سے فرحت کی گانڈ مین سے پھدی نظر آنے لگ گئی
میں نے لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی کے پانی سے ٹوپے کو اچھی طرح گیال کیا
اور ٹوپا پھدی پر سیٹ کر کے
دونوں ھاتھوں سے
فرحت کی گانڈ کے اوپر سے کمر کو پکڑ لیا
اور ہلکا سا دھکا مار کر لن اندر کیا تو پھدی کے گیلے ھونے کی وجہ سا لن کافی اندر چال گیا
فرحت نے ایک ہاتھ پیچھے کرتے ھوے میرے پیٹ پر رکھ کر ھاےےےےے کیا اور بولی
ہولیییی یاسرررر۔
میں نے لن کو واپس کھینچا
اور دوسری دفعہ فرحت کی کمر کو پکڑ کر پورے زور سے گھسا مار کر لن کو پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا ۔
فرحت نے ہاےےے مرگئی
اففففففف سییییییی کیا اور گردن گھما کر غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
آرام نال نئی ہندا
جانور جیا۔
میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے ھوے لن کو واپس کھینچا اور پھر دوسری دفعہ بھی ویسے ھی سپیڈ سے لن اندر
کردیا فرحت کے منہ سے پھر آہہہہہہہہہہہ مرگئی نکال۔
اور ھاےےےےے کرتی بولی
توں باز نئی آنا۔۔
میں نے اسکی بات کو سنی ان سنی کرتے ھوے
فرحت کی کمر کو پکڑ کر گھسے مارنے شروع کردئیے فرحت ھاےےےء ہمممم سییییی ہولی ہولی ہولی کرتی رھی
میرے گھسوں کی سپیڈ تیز ھوتی گئی
فرحت کے ممے اچھل اچھل کر اسکے منہ کی طرف جارھے رھے
اسکی گانڈ کے ساتھ جب میری رانیں ٹکراتی تو فرحت کی گانڈ چھلک چھلک جاتی
کچھ دیر مذید گھسے مارے تو فرحت کی پھدی نے منی اگلنا شروع کردی اور فرحت نے لمبے سانس لیتے ھوے گانڈ میری
رانوں کے ساتھ چپکا کر لن پورا اندر لے لیا اور پھدی سے لن کو جکڑنے لگی ۔
کچھ دیر بعد میں نے پھر گھسے
مارنے شروع کردیے اور پھدی کی گرمی اور میرے اندر کی گرمی نے مجھے ذیادہ دیر ٹکنے نہیں دیا اور میرے آخری
جھٹکوں نے فرحت کا پورا جسم ہال کر رکھ دیا اور روم میں کچھ دیر تھپ تھپ تھپ کی آوازیں اور فرحت کی آہیں گونجیں
اور میرے لن نے فرحت کی پھدی کے اندر ھی اپنا سارا غبار نکال دیا اور میں فرحت کی کمر کو پکڑے ھوے فرحت کی
گانڈ کے ساتھ جڑ کر اسکے اوپر ھی اوندھا لیٹ گیا اور اس کی کمر کو چومنے لگ گیا ۔
کچھ دیر میں فرحت کے اوپر ایسے ھی جپھی ڈالے لیٹا رھا میرا لن سکڑ کر خود ھی پھدی سے باہر آگیا اور میں بھی فرحت
کے اوپر سے ہٹ کر سیدھا ھوگیا
فرحت جب سیدھی ہوئی تو اسکی پھدی سے میری منی پانی بن کر بہنے لگی اور اسکی رانوں سے لے کر پاوں تک منی کی
لکیر بن گئی فرحت نے مجھے گھورتے ھوے کہا یاسر تم بڑے ظالم ھو
میں نے ہنستے ھوے اپنی شلوار اوپر کر کے ناال باندھتے ھو ے کہا
سیکس میں ظالم نہ بنو تو پاٹنر کو مزہ ھی نہی آتا فرحت بھی اپنی شلوار اوپر کرچکی تھی اور کپڑے درست کرتی ہوئی
بولی مجھے ایسا مزہ نھی چاہیے
میں اگے بڑھ کر فرحت کے ہونٹ چوم کر بوال
تو میری جان کو کیسا مزہ چاہیے۔
فرحت میری ناک پر انگلی رکھ کر مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی رات کو آو گے نہ تو بتاوں گی کہ مجھے کیسا مزہ
چاھیے ۔
میں نے ایک بار پھر فرحت کے ہونٹوں پر کس کی اور بوال اچھا دیکھ لیں گے جب وقت آیا
ابھی میں باہر جا رھا ہوں جب میں دروازہ ناک کروں تو تم باہر آجانا
فرحت نے اثبات میں سر ہالیا اور میں نے دروازہ کھوال اور باہر آگیا
باہر نکال تو جنید ایک کسٹمر کو سوٹ دیکھا رھا تھا اور مجھے باہر نکلتا دیکھ کر جنید نیچے سر کر کے ہنسنے لگ گیا ۔
میں نے اہنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور باہر نکل کر فرشی کاونٹر پر چڑھ کر چلتا ھوا
جنید کے پاس گیا تو جنید آہستہ سے مسکراتے ھوے بوال
بن گیا کام
میں نے کہا ہممممم
جنید بوال
اب میں جاوں اندر
میں نے کہا ابھی نہیں
پہلے مجھے اچھی طرح اس سے سیٹنگ کر لینے دو پھر تیرے لیے بھی اسکو راضی کرلوں گا
پھر مین نے کہا جلدی سے اس کسٹمر کو بشیر حسین کر دے ۔
دوستو ہماری یہ زبان ھوتی تھی کہ جس کسٹمر کو بھگانا ھو یا سوٹ نہ دیکھانے ھوں تو ہم آپس میں کہتے تھے کہ یہ
ہوکا پارو ھے اسکو بشیر حسین کردو
یا لیکاں کردو
اور جو اچھا کسٹمر ھوتا تھا یا خوبصورت بچی ھوتی تھی تو اسے دیکھ کر کہتے تھے کہ اسکو چوکس کرو یا چوکس بچی
ھے ۔
یہ ہمارے کوڈ ورڈ ہوتے تھے ۔
خیر
جنید نے جلدی ہی کسٹمر کو بشیر کر دیا
اور میں نے فرحت کی امی کی طرف دیکھا تو وہ بیچاری بیٹھی بیٹھی سوگئی تھی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر
آنکھیں بند کئےبیٹھی اونگ رھی تھی ۔
میں نے جنید کو کہا تم ذرہ سائڈ پر ھو جاو آنٹی کو اندر سے نکلنے دو پھر اجانا ایسے وہ ڈرجاے گی کہ تمہیں سب کچھ پتہ
ھے
اور یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے متنفر ہوجاے ۔
جنید سر ہالتا ھوا دکان سے نکل گیا
تو میں جلدی سے دروازے کے پاس پہنچا اور دروازے کو ناک کر کے جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر سوٹ طے کرنے
لگ گیا۔
کچھ دیر بعد ھی فرحت برقعہ پہنے اور نقاب کیے سوٹ ہاتھ میں پکڑے باہر آگئی ۔
اور آکر سیدھی اپنی امی کے پاس گئی اور اپنی امی کو کندھے سے ہالتے ھوے اٹھاتے ھوے بولی
امی آپ سو گئی ھو
تو اسکی امی نے آنکھیں کھولتےھوے کہا
پتر مینوں پتہ ای نئی لگیا کیڑے ٹیم میری اکھ لگ گئی
فرحت نے اپنی امی کو بتایا کہ کوئی سوٹ اسے فٹ نھی آیا اور ڈزائنگ بھی اچھی نھی لگی
فرحت اپنی امی کو لے کر مجھے رات کو آنے کا اشارہ کرکے چلی گئی
دکان سے نکلتے وقت ھی جنید بھی آگیا اور اس نے فرحت کو بڑے غور سے دیکھا اور میری طرف انگلی اور انگوٹھے
سے گول دائرہ بنا کر اشارہ کیا کہ بڑا پوپٹ مال ھے۔
فرحت چلی گئی اور جنید شروع ہوگیا کہ یار آنٹی تو بڑی ذبردست ھے
کیسے پھنسا لی
اور اندر جاکر کیا کیا کرتے رھو ھو میں نے جنید کو مختصرا بتایا کہ بس
اس کے ممے دباے اور کسنگ کی
اصل بات میں حزف کرگیا ۔
جنید نے بڑی کوشش کی مگر میں نے اسکو منگڑت کہانی سنا کر مطمئن کر دیا اور کہا کہ اگلی دفعہ اسکی پھدی مارنے کی
کوشش کروں گا ۔
شام تک ہم وقفے وقفے سے فرحت کو لے کر باتیں کرتے رھے اور پھر سات بجے انکل بھی آگئے اور میں انکل کے ساتھ
ھی دکان بند کرکے گھر آیا
گھر آکر نہا دھو کر فریش ھوا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کچھ دیر باہر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتا رھا تقریبََا
9بجے میں گھر آیا تو سب گھر والے سو رھے تھے
اور صرف بھائی کمرے میں جاگ رھے تھے
میں کمرے سے ہوتا ھوا بیٹھک میں جانے لگا تو بھائی نے مجھے آواز دی کہ آجا میرے پاس بھی بیٹھ جایا کر یار
میں مجبورًا بھائی کے پاس بیٹھ گیا
اور ایک دوسرے کے کاروبار کے متعلق باتیں شروع کردیں
ایک گھنٹہ ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے ۔
تو بھائی نے کہا چنگا یار توں وی سو جا کل دکان تے جانا اے تے مینوں وی نیندر آرئی اے
میں نے شکر ادا کیا کہ ٹیم نال ای ویرے نوں نیندر آگئی اور
بیٹھک میں چال گیا اور بھائی کے خراٹوں کا انتظار کرنے لگ گیا ۔
دس پندرہ منٹ ھی گزرے تھے کہ
کمرا بھائی کے خراٹوں سے گونجنے لگ گیا ۔
میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر کمرے اور صحن کا چکر لگا تسلی کر کے واپس بیٹھک میں آگیا کہ کوئی جاگ تو نہیں رھا مگر
سب ھی گہری نیند سے ھوے تھے
میں نے مزید کچھ دیر اور انتظار کیا اور پھر کمرے کی طرف والے دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور
تاال اٹھایا جو میں نے ایک خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھا تھا
اور چپکے سے باہر کا دروازہ کھوال اور گلی میں سر نکال کر دیکھا تو گلی میں گھپ اندھیرا تھا دوررر سے پہرے دار کی
وقفے وقفے سے آواز آرھی تھی
جاگدے رووووو
میں نے باہر نکل کر بیٹھک کو باہر سے کنڈی لگا کر فرحت کے گھر کا رخ کیا
ہر طرف ہو کا عالم تھا
میں ڈرتا ہوا چال جارھا تھا
کہ کہیں کسی پہرے دار سے میرا ٹاکرا نہ ہوجاے
کچھ دیر چلنے کے بعد میں فرحت کی گلی میں داخل ہوا
اتو گلی میں بھی کافی اندھیرا تھا
مجھے چلتے چلتے ایسے لگتا جیسے میرے پیچھے کوئی آرھا ھے
اور میں ایکدم پیچھے گھوم کر دیکھتا تو کسی کو بھی نہ پاتا
بس میرا وہم مجھے ڈراے جارھا تھا ۔
مشکل سے میں فرحت کے گھر کے پاس پہنچا ھی تھا کہ
مجھے پیچھے سے
مجھے اپنے پیچھے سے کتے بھونکتے ہوے اپنی طرف دوڑتے نظر آے میں تو پہلے ھی اندر سے ڈرا ہوا تھا کتوں کو اپنی
طرف آتے دیکھ کر میں نے جلدی سے بیٹھک کے دروازے کو اندر دھکیال اور دروازہ حسب وعدہ کھال ہونے کی وجہ سے
اندر کو کھلتا گیا اور میں دوڑ کر اندر داخل ہوگیا ۔
سامنے ھی فرحت چار پائی پر لیٹی ہوئی تھی مجھے یوں اچانک اندر داخل ہوتے ھوے گبھرا کر سینے پر ہاتھ رکھتے ہوے
اٹھ کر بیٹھتے ہوے بولی ۔
ہاےےےے***کون اےےےےےےے
جب فرحت کی مجھ پر نظر پڑی تو کچھ سنبھل گئی اور گبھراے ھوے بولی
خریت تو ھے یاسر کیا ھوا
میں نے لمبے لمبے سانس لیتے ھوے کہا وہ کتے میرے پیچھے پر گئے تھے
فرحت ہنس کر میری طرف ھاتھ سے اشارہ کرتے ھوے بولی
جا اوے کوئی حال نئی تیرا میری تے جان ای کڈ دتی سی ۔
میں نے دروازے کو اندر سے الک کیا اور فرحت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اپنی تیز چلتی ہوئیں سانسوں کو درست کرنے
لگ گیا۔
فرحت بولی
اتنی دیر کردی آنے میں
میں نے کہا
بس یار میں نے جلدی آجانا تھا مگر بیٹھک میں بارے وقت بھائی نے مجھے پاس بیٹھا لیا تھا اور ادھر ادھر کی باتوں میں
کافی وقت لگ گیا تھا اور ویسے بھی دکان سے بھی لیٹ آیا تھا
اس وجہ سے دیر ہوگئی ۔
فرحت بولی میں تو سمجھی شاید نواب صاب کا دل بھر گیا ھوگا
میں نے فرحت کے پٹ پر ھاتھ پھیرتے ھوے اسکی نرم نرم جلد کو مٹھی میں بھر کر کہا
دل بھر جاے اور وہ بھی تم جیسی سیکسی اور خوبصورت حسن کی دیوی سے ۔
کدییییی ویییی نئییییی
فرحت اپنے پٹ پر رکھے میرے ھاتھ کو پکڑتے ھوے سیییییی کرتی ہوئی بولی
مسکے لگانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔
میں نے برا سا منہ بناتے ھوے روٹھنے کے انداز میں کہا
میرا پیار تمہیں مسکا لگتا ہے
جاو میں نہیں بولتا۔
فرحت میری کمر کے گرد بازو ڈال کر اپنے ممے میرے ساتھ لگا کر بولی ۔
چچچچچچ میرا کاکا ناجججج ہوگیا اےےےے۔
میں نے کہا
کاکے کو اب دودھو پالو گی تو کاکا مانے گا۔
فرحت بولی چل آ میرا کاکا
میں اپنے کاکے کو گودی میں بٹھا کر دودھو پالتی ہوں ۔
)..Update no (86
میں نے ہنستےہوے کہا کاکے نے گودی میں نئی بلکہ اوپر لیٹ کر دودھو پینا ھے ۔
اور یہ کہتے ھوے میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا تو فرحت بھی ہنستی ھوئی چارپائی سے اتر کر کھڑی ھوگئی ۔
میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا تو فرحت بتایا کہ آج میں نے انکو نیند کی گولی دے دی ھے انکی طرف سے
بےفکر رھو
اور یہ کہتے ھوے ہم دونوں بیٹھک سے نکل کر فرحت کے کمرے کی طرف چل دئیے۔
کمرے میں پہنچ کر فرحت نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود ایک منٹ آئی کہہ کر باہر چلی گئی
میں جوتا اتار کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
دس پندرہ منٹ میں بیٹھا فرحت کا انتظار کرتا رھا تو محترمہ مجھ غریب پر بجلیاں گرانے کے لیے جلوہ گر ہوئی تو میں اس
سیکسی لیڈی کو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا ۔
بلیک کلر کی سوفٹ سلک میں نائٹی پہنے اپنے لمبے بال کھولے ھوے ھاتھ میں ٹرے پکڑے جس میں ایک جگ اور گالس
تھا
مستانی چال چلتی کولہوں کو ہالتی چلتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی اور میری للچائی نظروں کو اپنے سیکسی جسم کا ایکسرا
کرتے دیکھ کر گالبی پنکھڑیوں پر مسکان التے ھوے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
رومینٹک انداز سے بولی دیکھنا نظر نہ لگا دینا۔
میں نے آہہہہہہہہ بھری اور میرے لب ہلے
کچهـ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ،ہم نہیں رہے
پھر
میں نے کہا بیشک تم اتنی حسین ھو کہ میری کہیں نظر نہ لگ جاے
فرحت سائڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر بڑے الڈ سے میری ناک کو پکڑ کر ہالتے ھوے بولی تم بھی ناں۔۔۔۔
میں بے اختیار بول پڑا
دھیان میں آ کر بیٹھ گئی ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہی ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملی ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسی ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتی ہو تم بھی ناں
فرحت میرے پاس بیڈ پر بیٹھتے ھوے میرے ہاتھوں کو ہاتھ میں لے کر بولی
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میں نے فرحت کے ہاتھوں کو اوپر کیا اور اسکے گورے ہاتھوں کو چوم کر بوال
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتی ہو
مجھ کو اتنا جان چکی ہو تم بھی ناں
فرحت شرما کر اٹھ کر مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر باہر جانے کے لیے اٹھی
تو میں اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرحت سیدھی میری لمبی کی ہوئی ٹانگوں کے اوپری
حصے رانوں پر لیٹتی گئی تو میں اسکے بالوں کو سہالتے ھوے بوال
مانگ رہی ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھی ہو تم بھی ناں
فرحت کر سر میرے لن کے اوپر تھا اور اسکے لمبے گیسو بیڈ پر اپنے ہر پھالے ھوے تھے فرحت کی ٹانگیں بیڈ سے
نیچے تھیں
اور میں فرحت کے بالوں کو سہالتا ھوا
اسکی بڑی بڑی آنکھوں اور گالبی پنکھڑیوں کے نشیب وفراز کو دیکھ کر انپر شاعری کے توڑ جوڑ لگا رھا تھا۔
فرحت
بھی کسی کنواری دوشیزہ کی طرح ناز نخرے دیکھا کر میرے جزبات کو مذید گرما رھی تھی ۔
کچھ دیر بعد فرحت میری رانوں سے سر اٹھاتے ھوے اور اپنے گیسوؤں کو کو اپنی انگلیوں سے سہالتی ہوئی اٹھتے ھوے
بولی
یاسر پہلے دودھ پی لو ۔
میں نے ہاتھ اوپر کر کے پیچھے سے فرحت کی بغلوں ڈال کر آگے کی طرف کر کے اسکے تنے ھوے دونوں مموں کو پکڑ
کر دباتے ھوے کہا
میں تو ان پیالوں کو منہ لگا کر دودھ پیوں گا ۔
فرحت میرے ہاتھوں پر ھاتھ رکھتے ہوے منہ چھت کی طرف کر کے بولی
سییییییییی
اور پھر سر نیچے کرے میری طرف شراب کے نشے سے چور آنکھوں کا وار کرتے ھوے بولی
میری جان پہلے جگ واال دودھ تو ختم کرلو پھر ان پیالوں کو بھی جی بھر کر پی لینا۔
اور یہ کہتے ھوے فرحت اٹھی اور اسکی سلکی نائٹی سے اسکے مموں سے پھسلتے ھوے میرے ہاتھ اسکے پیٹ سے ہوتے
ھوے اسکی گانڈ تک آگئے اور فرحت آگے کو ہوئی تو
فرحت کی گانڈ بھی میرے ھاتھوں سے نکل گئی اور فرحت گول مٹول کو گانڈ کو لہراتی ھوئی
بیڈ کے سائڈ ٹیبل کی طرف گئی اور جگ میں سے دودھ کو گالس میں ڈال کر میری طرف گالس بڑھایا میں نے گالس پکڑ
کر منہ کو لگا کر ایک ھی سانس میں گالس خالی کیا تو فرحت نے گالس میں پھر دودھ ڈال کر میری طرف بڑھا دیا
میں نے انکار کیا تو فرحت نے ذبردستی مجھے دوسرا گالس بھی پالدیا
دودہ نیم گرم تھا اور اس میں بادام کی گریاں ڈالی ہوئیں تھی
میں بھی مزے لے کر پی گیا ۔
اور گالس خالی کر کے فرحت کی طرف بڑھاتے ھوے کہا بسسسسس
فرحت ہنس کر بولی ایک گالس تو اور پی لو۔
میں منہ میں بڑبڑایا۔
کہ توں کیڑا اندر رہن دینا اے جنا مرضی پی لواں
فرحت نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی کیا کہا۔
میں نے کہا کچھ نھی جناب ۔۔۔۔
میری کیا مجال کہ میں کوئی گستاخی کرسکوں۔
فرحت بولی تم بھی ناں بہت پہنچی ھوئی روح ھو۔
میں نے ہنستے ھوے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا
واقعی جتھے کوئی نئی پہنچ سکتا اوتھے اے روح پہنچ جاندی اے
کچھ دیر مذید ہم آپس میں طنز و مذاح کرتے رھے ۔
پھر فرحت اٹھی اور دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور پردہ آگے کو کھسکا کر میری طرف کیٹ واک کرتی ہوئی آئی ۔۔۔
فرحت بلیک نائٹی میں بہت ھی سیکسی لگ رھی تھی اور اسکا گورا رنگ کالے لباس میں بلکل کوئلے کی کان میں چمکتے
ھوے ہیرے جیسا لگ رھا تھا
اوپر سے چھتیس سائز کے تنے ھوے ممے 38سائز کی گول مٹول گانڈ
تیس کی کمر
ہلکا سا باہر کو نکال پیٹ
اس وقت وہ کسی ماڈل گرل سے کم نھی لگ رھی تھی ۔
ایک تو اس کا سیکسی جسم دیکھ کر میرا پہلے سے ھی دماغ خراب ہوچکا تھا
اوپر سے گرم دودھ پی کر میرا تو برا حال تھا ھی مگر میرا گھوڑا تو سر اٹھاے میری شلوار کو پھاڑ کر باہر نکلنے کے
لیے بے چین تھا۔
دودہ پی کر مجھ پر عجیب سا نشہ سوار ھو رھا تھا اور میرا حلق خشک ھورھا تھا
میری آنکھوں سے اور کانوں سے سینک نکل رھا تھا ۔
میرا دل کررھا تھا کے ابھی اپنے سارے کپڑے اتار کر پھینک دوں ۔
فرحت آکر بیڈ پر چڑھی اور ٹانگوں کو پھیالتے ہوے میرے ساتھ بیٹھ کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔۔۔۔
میری طرف دیکھتے ہوے فرحت بولی
یاسر مجھے اس حالت میں دیکھ کر تم میرے بارے میں کچھ غلط مت سوچنا
میں صرف تمہارے لیے تیار ہوئی ہوں اور یہ نائٹ ڈریس اس مالقات کو حیسن بنانے کے لیے صرف تمہارے لیے ھی پہنا
ھے اور زندگی میں پہلی دفعہ مجھے شوق پیدا ھوا ھے کہ میں ایسا لباس پہنوں
اور وہ بھی صرف اور صرف تمہارے ھی لیے
یاسر مجھے خود نہیں پتہ کہ میں تمہاری طرف کیوں کھینچی چلی آئی
جبکہ تم مجھ سے بہت چھوٹے ھو
مگر تم میں ایک ایسے مرد جیسی خصوصیات ہیں کہ کسی بھی لڑکی کو تم اپنا دیوانہ بنا سکتے ھو ۔
اور اسکا منہ بولتا ثبوت میں خود ہوں
نہ چاہتے ھوے بھی میرے قدم تمہاری طرف بڑھے ہیں ۔
میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرے ھاتھ سے اسکا ھاتھ سہالتے ھوے بوال ۔
فرحت میں نے جب پہلی دفعہ تمہارا جسم دیکھا تھا تو تب سے میرے اندر تمہیں پانے کی تڑپ پیدا ھوگئی تھی
مگر میں ڈرتا تھا کہ کہیں
تم میرے گھر میری شکایت نہ لگا دو
مگر جب پہلی دفعہ تم سے سیکس کیا تو
میری برسوں کی پیاس اور تمہیں پانے کی آرزو تمہارے ساتھ سکیس کرنے کے بعد ختم ھونے کی بجاے مذید بڑھتی گئی ۔
میرا تو دل کرتا ھے کہ میری ہر رات تمہارے پہلو میں گزرے
تمہارے ان گیسووں کی چھاوں میں ساری رات گزاروں تمہارے اس نازک جسم کو ساری رات اپنی باہوں میں بھر کر
تمہارے اس مخملی جسم کا لمس پاوں ۔
تمہارے یہ بڑے بڑے دودھ کہ پیالوں کو اپنے لبوں سے لگا کر رات بھر انکو پیتا رھوں
اور تمہیں بے لباس کر کے تمہارے اس ریشم جیسے مالئم جسم کے ہر اعضاء کو چومتا چاٹتا رھوں ۔
میں فرحت کے جسم کی تعریف اور اس سے رومینٹک باتیں کرتا ھوا
اس کے ہر ہر اعضاء کو سہالتا جاتا۔
فرحت میری باتیں سن کر بے چین ہوکر مجھ سے لپٹ گئی ۔
اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ بھر کر مجھے اپنے ساتھ بیڈ پر دراز ہوگئی ۔
ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے سے چمٹے ھوے تھے فرحت کہ ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے میرا
اکڑا ھوا لن میرے کپڑوں سمیت فرحت کی سلکی نائٹی کو بھی لے کر فرحت کی رانوں میں پھدی کو رگڑتا ہوا گھسا ھوا
تھا اور فرحت نے اپنی رانوں میں میرے لوہے کے راڈ کو جکڑا ھوا تھا
).Update no (87
ہم دونوں کے بازو ایک دوسرے کی کمر کے گرد لپٹے ہوے تھے ۔
دو جسم ایک جسم ہونے جارھے تھے ۔
آگ تھی کہ دونوں کہ اندر جل رھی تھی ۔
بےچینی تھی کہ دونوں کو تڑپا رھی تھی ۔
پیاس تھی کے بجھنے کا نام نھیں لے رھی تھی ۔
وقت تھا کہ تھم گیا تھا
ہونٹوں میں ہونٹ جکڑے زبانوں کی لڑائی جاری تھی ۔
پھدی کی بے چینی اور لن کی تڑپ دیدہ زیب تھی ۔
فرحت کا جنون کسی کنواری کنیا سے کم نہ تھا ۔
فرحت آج اپنی ساری حسرتیں پوری کرنے کے پر تول رھی تھی ۔
میرے دماغ سن ہوتا جارھا حلق خشک اور لن سخت ہوچکا تھا ۔
کچھ دیر دو جسم بیڈ پر سانپوں کے ملن کی طرح ایک دوسرے سے لپٹے پورے بیڈ پر گھومتے رھے
کبھی فرحت میرے اوپر تو کبھی میں فرحت کے اوپر ۔
بیڈ کی چادر ایسے ہوچکی تھی جیسے اسپر گھمسان کی جنگ ہوچکی ھو ۔
آخر کار فرحت کے جسم کو چند جھٹکے لگے اور اسکی رانوں نے اپنے بیچ پھنسے میرے پھٹتے ھوے لن کا کچومر
نکالنے کی کوشش کی مگر لن اسکی جکڑ کی پرواہ نہ کرتے ھوے ویسے کا ویسا راڈ بنا رھا
اور فرحت میرے نیچے لمبے لمبے سانس لیتی اپنی ہار مان گئی
اور میرے لن نے اسکی پھدی کو دبا کر دھول چٹانے کا اعالن کردیا۔
فرحت کی آنکھیں بند تھی اور ہاااااا آہہہہہہہہ ھمممممممم کر کے لمبے لمبے سانس لے رھی تھی ۔
اسکی پھدی میرے لن کی سختی کو دیکھ کر اپنے سارے آنسو بہا چکی تھی ۔
کچھ دیر بعد میں گھٹنوں کے بل فرحت کی رانوں کے اوپر بیٹھ گیا اور فرحت میرا وزن اٹھاے ٹانگیں سیدھی کئے بلکل
سیدھی لیٹی رھی ۔
میں نے فرحت کی نرم رانوں پر بیٹھے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور قمیض اور بنیان کو ایک ساتھ ھی اتار دیا ۔
اور فرحت کے پیٹ پر نائٹی کی بیلٹ کی لگی گانٹھ کو کھول کر نائٹی کے دونوں پٹ کھول کر فرحت کے گورے گورے
جسم کو ننگا کر دیا ۔
فرحت نے بریزیر بھی نہیں پہنا ھوا تھا جسکی وجہ سے فرحت کے گول مٹول چٹے سفید ممے چمکتے ھوے نمودار ھوے
اور اسکے مموں پر براوں دائرے کے اوپر تنے ھوے گول نپل میری طرف دیکھ کر مسکراتے ھوے نظر آے ۔
میں نے فرحت کی رانوں پر بیٹھے ھوے ھی اپنےدونوں ھاتھ آگے کی طرف بڑھاے اور دونوں ھاتھوں میں فرحت کے
دودھ سے بھرے پیالوں کو مٹھیوں میں بھر لیا ۔
آہہہہہہہہہہہہ ھااااااا کیا نظارہ تھا کیا نرم مالئم ممے تھے جیسے میری مٹھیوں میں روئی کے دوگولے ہوں ۔
ادھر میری مٹھیاں فرحت کے ممے کو بھینچتی ادھر فرحت میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر منہ چھت کی طرف کئے سر
کو مزید اوپر کر کے
اففففففف سییییییییی کرتی ھوئی
آہیں بھرتی ۔
فرحت تو برسوں سے پیاسی ہونے کا منظر پیش کررھی تھی
اسکی ہر ہر ادا
مجھے جلد بازی کرنے پر اکسا رھی تھی
مگر میں آج اب کچھ ٹھہر ٹھہر کر کرنا چاہتا تھا ۔
ساری رات پڑی تھی
نہ کسی کے آنے کا ڈر اور نہ جانے کی جلدی ۔
آج وقت بھی میرا تھا اور پہلو نشین صنم کا جسم بھی میرا تھا
تو پھر بھی اپنی مرضی نہ کرتا تو
مجھ سے بڑا
ُپھدو کون ہونا تھا۔
فرحت نے جو آگ میرے اندر بھڑکائی تھی
اسے اب ساری رات اسی آگ میں جلنا تھا ۔
میں نے کچھ دیر فرحت کے مموں کو سہالتےھوے
فرحت کی سسکاریاں نکالی ۔
اور پھر اسکی رانوں سے کھسکتا ھوا اپنی گانڈ کو پیچھے لے گیا اور اسکے اوپر ھی الٹا لیٹ گیا
فرحت کی نائٹی کا اپر کھل چکا تھا نیچے بس سلکی ٹراوزر تھا جس میں چھپی اسکی گیلی پھدی اور اسکے اوپر میری
شلوار میں چھپا لوھے کا راڈ جو پھر اسکی رانوں میں گھس گیا تھا
اوپر سے دونوں کت ننگے جسم پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے تھے ۔
میں تھوڑا سا اور پیچھے کو کھسکا اور
اپنا منہ فرحت کے گول مٹول تنے ہوے مموں پر لے ایا اور پہلے ایک پیالے کو منہ لگا کر جی بھر کر پینے لگا مگر من
کی پیاس مذید برھتی جارھی تھی ۔
جب ایک سے جی نہ بھرا تو اس سے ہونٹ ہٹاے اور دوسرے پیالے کو ہونٹ لگا کر جی بھر کر پینے لگ گیا
فرحت کی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رھی تھی
اور وہ کمر کو اٹھا کر اپنے مموں کو میرے منہ کے ساتھ چپکا رھی تھی
فرحت کا بس نہیں چل رھا تھا کہ اپنا سارا مما میرے منہ کے اندر ڈال دیتی ۔
مگر میرا منہ چھوٹا تھا اور فرحت کا مما بڑا تھا
مگر ممے کی سوفٹنس اتنی تھی کے
میرے منہ کت اوپر فرحت کا مما ایسے دب جاتا جیسے میں نے مممے کا ماسک اپنے منہ پر پہنا ھو۔۔۔۔
کچھ دیر بعد فرحت نے مجھے کندھوں سے ہکڑ کر ایک طرف کیا تو میں اسکے اوپر سے پلٹ کر اسکے ساتھ سیدھا لیٹ
گیا تو فرحت اٹھی اور اپنی نائٹی کو اہنے کندھوں سے اتارتے ھوے بازوں سے نکال کر ایک طرف رکھ دیا اور پھر میرا
ناال پکڑ کر اسکی گرا کھول دی اور شلوار کو ڈھیال کر کے نیچے کھینچنے لگ گئی میں نے بھی گانڈ اٹھا کر شلوار
اتارنے میں فرحت کی مدد کی ۔
فرحت نے میری شلوار اتار کر ایک طرف رکھ دی
میں اب مادر ذاد ننگا لیٹا ہوا تھا جبکہ فرحت ٹراوزر پہنے میرے لن کے پاس دوزانوں بیتھی میرے اکڑے اور چھت کے
طرف منہ کئے ایسے تنے ھوے لن کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رھی تھی
جیسے پہلی دفعہ میرا لن دیکھ رھی ھو
اور میرا لن اسے سٹیٹ کھڑا تھا جیسے باڈر پر کوئی فوجی احساس حالت میں
الرٹ کھڑا ھو ۔
اور حاالت بھی کچھ ایسے تھے
کسی وقت بھی لن اور پھدی کی جنگ چھڑ سکتی تھی ۔
فرحت دوزانوں بیٹھی گھٹنوں کے بل پیچھے کو ہو کر میرے لن کو متھی میں پکڑ کر ہالتے ھوے
منہ سی اففففففففف
کرتے ھوے اپنے سر کو جھکا کر میرے لن کی طرف الئی اور اپنی گالبی پنکھڑیوں کو کھول کر فوجی کی ٹوپی پر رکھ
کر ایک بوسا لیا ۔
فرحت کے ہونٹوں کا لمس میرے لن کے ٹوپے کو مزید پھولنے پر مجبور کر رھا تھا
مزے کی لہر نے میرے منہ سے بھی سسکاری نکال دی ۔
فرحت نے پتہ نہیں کس انگریجی میم کی مووی دیکھی تھی جو آج وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ھورھی تھی ۔
فرحت نے ٹوپے کو ایک بار چوما اور دوسری دفعہ ٹوپے کو کناروں تک ہونٹوں میں بھر کر ایک لمبا سا چوسا لے کر
ہونٹوں کو ڈھیال چھوڑ کر پھر ہونٹوں کی گرپ ٹوپے کے گرد سخت کرتے ھوے ایسے چوسا لگایا جیسے
گرمیوں میں برف والے گولے کو چوسا لگاتے ہیں ۔
پھر فرحت نے ٹوپے کو ہونٹوں میں بھرے ھوے اپنی زبان کی نوک کو ٹوپے کی ہونٹوں کے بیچ پھیر کر ٹوپے کے ہونٹوں
کو چھیڑنے لگ گئی ۔
افففففففففف آہہہہہہہہہہہہہہہ سییییییییی ۔میرے منہ سے بےاختیار نکلنے لگ گئیں.
فرحت بڑے سلو موشن سے میرے ٹوپے کے ساتھ کھیل رھی تھی ۔
میری برداشت دم توڑ رھی تھی
ٹوپا پھول پھول کر پھنکار رھا تھا
میرے لن کی رگیں پھٹنے والی ہو چکی تھی ۔
فرحت کی نرم ہتھیلی میرے لن کا آحاطہ کیے ھوے تھی
کچھ دیر میرے لن اور فرحت کے ہونٹوں کا کھیل جارھی رھا مجھ سے اب صبر نہ ھو رھا تھا
تو میں نے فرحت کی ٹانگوں کو کھینچ کر اپنے منہ کی طرف کیا اور ایک ہاتھ سے ھی اپنی انگلیاں اسکے السٹ والے
ٹراوز میں پھنسا کر انگلیوں کی مدد سے اس کے ٹراوزر کو نیچے کھینچنے لگا تو فرحت نے دوسری طرف سے خود ھی
ٹراوز کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور اسکی چٹی سفید گانڈ میرے سامنے تھی اور اسکی گانڈ کے دونوں پٹ میرے منہ کی
طرف تھے ۔
میں نے فرحت کے ٹراوزر کو اسکے ٹانگوں سے بھی کھینچ کر اتار دیا اور اسکی ایک ٹانگ کو پکڑ کر اپنے اوپر سے
گزار کر فرحت گانڈ کو اپنے منہ کے اوپر لے آیا
اب فرحت کی پھدی میرے منہ کے اوپر تھی اور فرحت کے ممے میرے پیٹ کے ساتھ لگ رھے تھے اور فرحت میرے لن
کو منہ میں لیے میرے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی ۔
میں نے فرحت کی پھدی کو غور سے دیکھا تو پھدی پانی سے فل گیلی تھی اور پھدی کے سمیل میرے نتھنوں میں داخل
ھورھی تھی ۔
میں نے لمبی سانس اندر کھینچ کر پھدی کی سمیل کو اہنے دماغ میں اتار لیا ۔
اور فرحت کی دونوں رانوں کو پکڑ کر اپنی زبان باہر نکالی اور پھدی کے دانے کو زبان کی نوک سے چھیرڑنے لگ،
گیا ۔
جیسے ھی میری زبان نے فرحت کی پھدی کے دانے کو چھوا
فرحت نے مزے سے سسکاری بھرتے ھوے لن کو ہونٹوں میں ذور سے بھینچ لیا اور ذور ذور سے لن کو چوستے ھوے
میرے منہ کے اوپر ھی اپنی گانڈ کو ہالنے لگی ۔
ادھر جیسے ھی فرحت نے میرے لن کو ذور ذور سے چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے میں نے پھدی کے دانے کو
ھی منہ میں بھر لیا اور اسے چوسنے لگا گیا ۔
ادھر میری زبان سے پھدی کا مزہ اور سواد فرحت میرے لن پر نکالتی ۔
ادھر فرحت کے منہ میں اپنے لن کا مزہ اور سواد میں فرحت کی پھدی کے دانے اور اسکی پھدی کی ہڈی کے اوپر لٹکی
جھلی کو زبان سے چاٹ چاٹ ۔
کر نکالتا ۔
قسمت کب دھوکا دیتی ھے
انسان کو نہیں پتہ چلتا
ابھی میں پھدی چاٹنے میں مصروف ھی تھا کہ اچانک ۔۔۔
ابھی پھدی چاٹنے سے میرا دل بھی نہیں بھرا تھا ابھی میری پیاس بھی نہیں بھجی تھی ابھی میں پھدی کو مذید چاٹنا چاہتا تھا
مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا
میرے سارے ارادے پر پھدی سے نکلنے واال پانی پھر گیا اور پھدی سے پانی کا فواراہ چھوٹا جس نے میرا سارا منہ بھر دیا
اور فرحت نے دوسرا ظلم یہ کیا کہ اپنی گانڈ کا وزن میرے منہ پر ڈال دیا اور ظلم پر ظلم کہ ادھر میرے لن پر دانت گاڑ
ٰد یے ۔
اففففففف یارو سی دسو بھئ اینج دا وی کی مزہ کہ اگلے دی پین نوں لن وڑ جاوے تے جناب دا ُچھٹن دا سٹائل بن جاوے ۔ ُت
دوستو
اوپر سے میرا سانس بند اور نیچے سے میرے لن میں درد ۔
مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے پھدی کے ہونٹوں کو ھی اپنے دانتوں میں بھینچ کر اپنے لن کی جان چھڑوائی
اور فرحت ہاےےےےےےےےے مرگئییییییی کرتی ہوئی میرے لن کو چھوڑ کر اپنی چوت کو چھڑوانے کے لیے گانڈ اوپر
کر کے جھٹکا مار کر میرے اوپر سے اٹھتی ہوئی میرے ساتھ گری اور ٹانگوں کو پھیال کر پھدی کو ھاتھ سے مسلتے ھوے
سیییییییییییی اور پھدی ہر پھونکیں مارتے ھوے پھووووو پھووووووو پھوووووو کرنے لگ گئی ۔
میں بھی جلدی سے ایک ہاتھ سے اپنا منہ صاف کرتے ھوے اور ایک ھاتھ سے اپنے لن کو۔مسلتے ھوے
فرحت کے سٹائل میں ٹانگیں پھیال کر بیٹھ کر سیییییییی کرنے لگ گیا۔
ادھر پھدی زخمی تھی
ادھر لن زخمی تھا ۔
قصور سارا جنون کا تھا۔
نہ فرحت میری طرف دیکھ رھی تھی نہ میں فرحت کی طرف
اسے اپنی پھدی کی اور مجھے اپنے لن کی پڑی تھی ۔
مگر میں حیران تھا کہ
میرے لن پر فرحت کے دانت لگنے کی وجہ سے جلن اور درد کے باوجود بھی میرے لن کی آکڑ نھی ٹوٹی تھی
ساال ویسے کا ویسا ھی تن کر کھڑا تھا ۔
کچھ دیر ہم یوں ھی بیٹھے رھے ۔
فرحت کی جلن کچھ کم ھوئی تو میری طرف دیکھتے ھوے بولی
یاسر کیا ھوگیا تھا تمہیں.
میں نے اہنے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
جو تمہیں ھوا تھا ۔
فرحت گبھرا کر میرے لن کو اہنے سپنوں کے شہزادے کو کو دیکھنے لگ گئی
ٹوپے سے تھوڑا نیچے ایک جگہ سے لن سرخ ھوچکا تھا ۔
فرحت ایک ھاتھ اپنی پھدی ہر رکھے دوسرے ہاتھ سے میرا لن پکڑا کر انگلیوں سے سہالنے لگی
اور مجھ سے ایکسیوز کرنے لگی کہ مزے کی شدت سے مجھے پتہ نہیں چال۔
میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا۔
جناب تواڈا مزہ بن جانا سی
تے میرا نصیب وڈیا جانا سی۔
فرحت کھل کھال کر ہنس پڑی اور میرے ہونٹوں کو چومتے ھوے بولی ۔
تیرا ایویں نصیب اے
بلکہ
اے میرا نصیب اے ۔
اور کچھ دیر بعد ھی ہم لن پھدی کی درد کو بھول کر پھر ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے میں مصروف
ھوگئے ۔
ایک دوسرے سے لپٹے ھوے ھی میں نے فرحت کو گھما کر اپنے نیچے کیا اور گھٹنوں کے بل ھوکر اسکی گوری گوری
ٹانگوں کے درمیاں بیٹھ گیا۔
میں نے فرحت کی پنڈلیوں کو ہکڑا اور اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر فرحت کی ایڑیوں کو اہنے کندھوں پر رکھ کر اپنے
کندھوں کو اسکے کندھوں کے پاس لے گیا فرحت کی پھدی میرے لن کے سامنے تھی اور اور اسکے پیر اسکے سر کے
پاس پہنچ کر فرحت کا جسم دھر ھوچکا تھا ۔
میں نے ہاتھ لمبا کر کے تکیہ پکڑا اور اسے اٹھا کر فرحت کی گانڈ کے شروع میں ریڑھ کی ہڈی کے نیچے رکھ دیا۔
فرحت حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
پکے پیٹھے ھو۔
میں نے مسکراتے ھوے اسکی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ لن کی طرف لیجا کر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں می .سیٹ کیا
لن کو گیال کرنے کی ضرورت ھی نہیں تھی
کیونکہ پھدی سے ھی اتنی برسات ھوچکی تھی کہ جس کا کیچڑ ابھی تک سوکھا نہیں تھا ۔
مزید لن کو گیال کر کے
چپ چپ اور پچ پچ پچ ھی کرنی تھی
اس لیے سوکھا لن ھی پھدی کے گیلے ہونٹوں میں رکھا
تو فرحت نےمیعے ارادے کو جانچتے ہوے اپنے دونوں ہاتھ میری رانوں پر رکھ کر التجائی
نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے کہا
یاسررررر پلیزززز آرام سے کرنا اتنا بڑا مجھ سے ایکدم برداشششششششششششش ہاےےےےےےےےےے میں
مرگئییییییییی اوے ظالماں ھاےےےےےےےےے میں اندررررررررر پاٹ گیا۔
اور فرحت دائیں بائیں سر مارنے لگ گئی
فرحت کی آنکھیں ابھل کر باہر آنے کو تھیں چہرہ سرخ اور آنکھوں میں نمی تیر آئی تھی ۔
فرحت کی ادھوری بات میں میرے جاندار گھسے نے اسکی آنکھوں کے آگے تارے بچھا دئے تھے ۔
میرا پہال گھسا ھی اتنا جاندار تھا کا پورا لن فرحت کی پھدی کی گہرائی میں جاکر بچے دانی میں گھس گیا تھا اور ٹانگیں
زیادہ اونچی ہونے کی وجہ سے لن کی ضرب فرحت کی ریڑھ کی ہڈی پر لگی تھی.
ایک پھدی گیلی تھی دوسرا لن فل ٹائٹ تھا دھکا مارتے ھی
لن بنا کسی رکاوٹ کے پھدی کے نرم ریشوں کو رگڑتا ھوا جڑ تک اندر چال گیا تھا ۔
فرحت کے چہرے کے تاثرات اسکے قرب کی گواہی دے رھے تھے
مگر اس درد کی ذمہ دار وہ خود تھی
اونوں کنے کیا سی کہ گرم دودھ پال کہ بلدی تے تیل ُسٹے
فرحت نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجوں سے میری رانوں کے گوشت کو بھینچا ھوا تھا
اور مجھے پیچھے کرنے کو زوڑ لگاتے ھوے
اپنی ٹانگیں میرے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کررھی تھی ۔
مگر میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکے بازوں پر رکھ کر اسے قابو کیا ھوا تھا ۔
کچھ دیر میں گھسا مار کر ادھر ھی رکا رھا
اور پھر میں نے لن کو آدھا باہر کھینچا اور پھر دھڑم سے اندر کردیا
فرحت پھر
بولی
ہاےےےےےےے وے یاسرررااااا ہولییییییی
میں نے کہا
چپ کر ہن جان دے ہولی ہولی
ہن نہ بولی۔
اور میں گھسے مارنا شروع ھوگیا
دے گھسے تے گھسا دے گھسے گھسا ۔
فرحت کا رنگ سرخ سے سرخ تر ھوتا جارھا تھا
آنکھوں سے پانی کی لکیریں
اسکے کانوں کی لو تک جارہیں تھی
ممے اسکے ہلتے ھوے اسکے منہ کے پاس جاکر اسے تسلیاں دے رھے تھے
فرحت میرے ہر گھسے پر
ھاےےےءء مرگئی
گھساااا
ھاےےےےے مرگئی۔۔
گھسا
ھاےےےےےے مرگئیییی۔
گھسا
ھاےےےےےےےے مرگئیءءءءء
اففففففف آہہہہہ آہہہہہہ آہہہہہہہ
فرحت کی آہوں اور مزے والی درد کی آوازوں سے میرا جوش میرے سر چڑھ رھا تھا
اور میں اسکے ہاےےےےے مرگئییییییی
پر اگال گھسا مذید ذور سے مارتا اور لن کو پھدی کی گہرائی میں لیجا کر اسکی ریڑھ کی ہڈی پر مارتا ۔
)Update no (88
مجھے مزہہہہ بہت آرھا تھا
منی لن کی ٹوپی میں اٹکی ہوئی تھی مگر باہر نکلنے کا نام نہیں لے رھی تھی
فرحت مجھ سے جان چھڑوانے کے سارے حربے استعمال کررھی تھی ۔
مگر
اسکے ہر حربے کا جواب میں ذور دار گھسے سے دیتا ۔
میں پانچ منٹ لگاتار فرحت کو ایک ھی سٹائل میں چودتا رھا
درد اور تکلیف کہ باوجود فرحت کی پھدی پھر پانی چھوڑ چکی تھی
۔
آخر کار
آخر کار فرحت کی پھدی نے میرے لن کے گرد گرفت سخت کی اور ساتھ ھی فرحت نے میرے کندھوں کو مظبوطی سے
پکڑ لیا اور آہہہہہہہہہ یاسسسسسر ممممم گئییییی کہتے ھی فرحت کے جسم نے جھٹکے لینے شروع کردئے
فرحت کی پھدی سے گرم منی میرے گھسوں سے باہر نکل رھی تھی
اور اس کی منی سے میرا لن لتھڑ گیا تھا
اب پھدی میں ُپچ ُپچ شروع ھوچکا تھا
فرحت کی پھدی اتنی گیلی ہوگئی تھی کہ میرا سارامزہ کرکرا ھوگیا۔
فرحت نے بھی جسم ڈھیال چھوڑ دیا اور میں نے بھی اسکی ٹانگوں کو کندھوں سے اتار دیا اور اپنا لن باہر نکال کر فرحت
کی ٹانگوں کے درمیان پھدی کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا۔
فرحت کی سانسیں بحال ہوئی تو فرحت نے مجھے یوں منہ اٹھا کر بیٹھے دیکھا تو سوالیا نظروں سے میری طرف دیکھا میں
نے لن کی طرف اشارہ کیا کہ میرا لن تمہاری پھدی کی برسات سے بھیگ چکا ھے
فرحت نے ھاتھ لمبا کر کے سائڈ ٹیبل کے دراز کو کھوال اور اس میں سے کپڑا نکال کر میری طرف بڑھایا ۔
میں نے کپڑے سے اچھی طرح لن صاف کیا اور پھر فرحت کی پھدی کو اچھی طرح کپڑے سے خشک کیا ۔
اور فرحت کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا کر بٹھایا ۔
فرحت کمر پر ہاتھ رکھ کر ھاےےےےے کرتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی اسکی حالت سے لگ رھا تھا کہ وہ کافی تھکی تھکی
لگ رھی ھے ۔
میں نے فرحت کو چھیڑتے ھوے کہا
کہ اتنی جلدی تھک گئی ھو
فرحت میرے تنے ھوے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے بولی ۔
تمہارے اس سانڈ نے میری مت مار دی ھے میری کمر میں درد شروع ہوگیا ھے ۔
ایک تو تم اتنی ذور سے کرتے ھو دوسرا یہ اتنا بڑا میرے آگے جاکر لگتا ھے ۔
میں بیڈ کی ٹیک کی طرف لیٹتے ھوے بوال
چل آجا میرے اوپر
ابھی تو ساری رات پڑی ھے تم ابھی سے تھک گئی ۔
فرحت میری رانوں کے اوپر اپنی ٹانگوں کو دونوں اطراف کرتے ھوے لن سے تھوڑا پیچھے بیٹھ گئی میں نے فرحت کے
گول مٹول مموں کو ہاتھوں میں بھر کر مموں کو اپنی طرف کھینچا تو فرحت بھی ساتھ میرے اوپر جھکتی گئی اور اپنے
دونوں ہاتھ میرے کندھوں کے آگے لیجا کر میٹریس پر رکھ کر میرے اوپر جھک گئی فرحت کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر
آگیا اور فرحت کے لمبے بالوں نے دونوں اطراف سے ہم دونوں کے کے چہرون کو چھپا لیا فرحت کے ممے میرے سینے
کے اوپر تھے اور مموں کے نپل میرے سینے کو چھو رھے تھے
میں نے بازو لمبے کیے اور فرحت کے کولہوں کو پکڑ کر تھوڑا اوپر کیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا لن کو پھدی کے لبوں پر
سیٹ کیا اور ہاتھ واپس لیجا کر فرحت کے دونوں چوتڑوں کو پکڑ کر نیچے سے گانڈ اٹھا گھسا مارا تو لن بھی سوکھا پھدی
بھی خشک کچھ نہ کچھ تو ہونا ھی تھا۔
جیسے ھی میں نے گھسا مارا فرحت کے منہ سے چیخ نکلی
ھاےےےےےے امییییییی مرگئی اور فرحت آدھے سے بھی کم لن کو پھدی سے باہر نکالتے ھوے آگے کو ہوئی اور فرحت
کے ممے میرے سینے سے ھوتے ھوے میرے منہ پر آگئے۔
فرحت غصے سے بولی یاسررررر کے بچے انسان بن جانور نہ بن ۔
پہلے گیال تو کرلے میری جان نکال دی ھے ۔
میں نے فرحت کو پچکارتے ھوے پھر اسی پوزیشن پر لے آیا اور ہاتھ کو اپنے منہ کے پاس ال کر انگلیوں پر تھوک لگا کر
ہاتھ کو لن کی طرف لیجا کر تھوک کو ٹوپے پر مل دیا اور پھر گیلی انگلیوں کو پھدی کے لبوں کے درمیان پھیر کر پھدی کو
بھی تر کیا۔
اور لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی کے لبوں میں پھنسا کر آہستہ سے اوپر کو ہوکر لن کو اندر کیا
فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور آدھا لن اندر۔۔۔۔۔
میں نے لن کو واپس کھینچا ،اور پھر آہستہ سے اندر کردیا اس دفعہ پہلے سے کچھ ذیادہ لن پھدی میں اتر گیا ۔
فرحت نے پھر سسکاری بھری ۔
تین چار دفعہ ایسے کرنے سے سارا لن پھدی کے اندر تک چال گیا۔
میں نے دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ پر رکھے ھوے تھے اور ہاتھوں سے فرحت کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو دبوچا ھوا تھا
اور نیچے سے گانڈ اٹھا اٹھا کر گھسے مار رھا تھا
لن اب فراوانی سے اندر باہر ھورھا تھا
فرحت کے بڑے بڑے ممے ذور ذور سے ہل رھے تھے فرحت کے بال لہرا رھے تھے
گھسوں کا ردھم جاری تھا کہ ۔
فرحت نے نے بھی آہ آہ آہ ذور نال ذور نال سارااااا اندر کر دے یاسر بڑا مزہ آریا اے ھاں ھاں اینج ای اینج ای آہ آہ آہ اففففف
بوتتتتت مزا آریا اے یاسر
یاسر آئی لو یو یاسر آئی لو یو
آہ آہ آہ آہ ہمممممم ممممممممم گگگگگگئی یاسررررررررر
کرتے ھوے پھدی کو لن پر دبا کر لن کو بچے دانی تک لے گئی اور پھدی کے اندر سے فرحت کی منی میرے ٹوپے سے
ٹکراتی ھوئی مجھے محسوس ھونے لگی اور فرحت نے میری گردن کے گرد بازو ڈال کر اپنے ممے میرے سینے سے
چپکا کر مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور فرحت کا جسم کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد ڈھیال ھوگیا فرحت بےجان ھوکر میرے
اوپر ھی ڈھیر ھوگئی ۔
فرحت کا سینہ ذور ذور سے دھڑک رھا تھا اسکی دل کی دھڑکن مجھے اپنے سینے پر محسوس ھورھی تھی ۔
کچھ دیر فرحت میرے اوپر ھی لیٹی رھی۔
میں نے فرحت کی کمر کے گرد بازو ڈالے ھوے تھے تو اور میں اسکی کمر کو سہال رھا تھا۔
جب فرحت نارمل ھوئی تو میں نے فرحت کی کمر کو تھپتھپاتے ہوے اسے اوپر ھونے کو کہا تو فرحت تھکی تھکی سی
ھاےےےےےے کرتی ھوئی اوپر ھوئی ۔
تو میں نے اسے پھر اسی پوزیشن پر کر کے
گیلی پھدی میں ھی گھسے مارنے شروع کردئے کچھ دیر ایسے ھی گھسے مارتا رھا
فرحت کا اور میرا جسم پسینے سے شرابور ھوچکا تھا
مگر میرا لن چھوٹنے کا نام نھی لے رھا تھا ۔
فرحت نڈھال ھوچکی تھی اور مجھے
بس کرنے کا کہی جارہی تھی
مگر میرا جوش ویسے کا ویسا تھا ۔۔
مجھے آدھا گھنٹہ ہوچال تھا مسلسل گھسے مارتے ھوے
فرحت بےجان ھوکر میرے اوپر گری ھوئی تھی فرح نے اپنا چہرہ میرے کندھے پر رکھا ھوا تھا ،اور اس کے خاموش آنسو
میرے کندھے کو گیال کررھے تھےاور وہ بڑے صبر سے میرے گھسوں کی شدت برداشت کررھی تھی ۔
مجھے ایک دم جوش چڑھا اور میں نے فرحت کی کمر کو دبوچ کر پوری جان سے گھسے مارنے شروع کردیے میرے ان
گھسوں سے
فرحت کا صبر دم توڑ گیا اور فرحت ھاےےےےے جھٹکے سے اوپر ہوئی اور مجھے سے علیحدہ ھوتے ھوے میرے اوپر
سے مجھ سے علیحدہ ہوکر میرے ساتھ گر گئی اور ایک ہاتھ اپنی ناف کے نیچے رکھ کر دبانے لگ گئی اور دوسرے ھاتھ
سے اپنی پھدی کو دباتے ھوے رونے لگ گئی ۔
میں نے کروٹ بدلی اور فرحت کے بہتے آنسو صاف کرتے ھوے اسے چپ کروانے لگ گیا۔
فرحت بس ھاےےےے مرگئی کرتے ھوے اپنی ناف کو اور پھدی کو دباے جارھی تھی ۔
میں کافی دیر فرحت کو چپ کرواتا رھا ۔
میری نظر اچانک کالک پر پڑی تو ٹائم دیکھ کر پریشان ھوگیا
دو بج چکے تھے مجھے حیرانگی ھورھی تھی کے تین گھنٹوں سے فرحت کو چود رھا ہوں اور ابھی تک فارغ کیوں نھی
ھورھا۔
فرحت اب کافی حد تک نارمل ھوچکی تھی ۔
میں لن کو پکڑ کر سیدھی لیٹی فرحت کے اوپر آیا اور گھٹنوں کہ بل فرحت کی ٹانگوں میں بیٹھ گیا۔
فرحت بولی نہی یاسر مجھ میں ہمت نہیں ھے اب میرے نیچے بہت جلن اور درد ھورھی ھے ۔
میں نے اب نھی کروانا۔
میں نے بہت کوشش کی مگر فرحت نے پھدی سے ہاتھ نہیں ہٹایا۔
میں نے جب دیکھا کہ اب فرحت پھدی میں لن لینے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تو میں نے فرحت کی ٹانگ کو پکڑ کر
دوسری طرف لیجا کر دونوں ٹانگوں کو مال دیا اور فرحت کو ٹیڑھا کر دیا اب فرحت سائڈ کے بل دوسری طرف منہ کر کے
پھدی پر ھاتھ رکھے لیٹی تھی اور میں اسکی موٹی گول مٹول گانڈ کے پاس لن ھاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔
میں نے فرحت کی گانڈ پر ھاتھ پھیرنا شروع کردیا
اور فرحت کی کمر کے ساتھ لگ کر سائڈ کے بل لیٹ گیا میرا لن فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں لگ رہا تھا
میں نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا اور اسکو لن پر مسل دیا اور پھر ھاتھ پر تھوک لگا کر فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں
انگلیاں گھسا کر بنڈ کی موری پر تھوک مل دیا
جیسے ھی میری انگلیاں فرحت کی موری پر لگیں تو
فرحت کو کرنٹ لگ اور وہ جلدی سے گانڈ کو اگے کھسکا کر گردن میری طرف گھما کر بولی
ذیادہ شوخا نہ بن آرام نال رے ۔
پیلے ای میری درد نال جان نکلن دئی اے
تے توں نویں جگہ لب لئی اے ۔
مینوں مارنا ای ۔
میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا
بس آرام آرام سے کروں گا ۔
فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی۔
توں پاویں آرام نال کر یا تیز کر جدوں میں کروانا ای نئی تے فیرررررر۔
مجھے اس پر غصہ چڑھی جارھا تھا
کہ سالی خود تین چار دفعہ فارغ ھوچکی ھے اور مجھے ایک دفعہ بھی فارغ نہیں ھونے دے تھی ۔
میں نے تین چار دفعہ فرحت کی مذید منت ترال کیا مگر وہ نہ آگے سے کرنے دے رھی تھی نہ پیچھے سے ۔
میں نے غصے سے اسکی گانڈ پر ہاتھ رکھتے ھوے اسے آگے کو دھکا دیا اور کہا۔
لن تے چڑ نئی تے نہ سئی
آپ مزے لے لو کہ ہن رون لگ پئی ایں
ایویں ڈرامے کرن لگی ہوئیں این ۔
میں یہ کہہ کر اٹھا اور بیڈ سے نیچے اتر کر شلوار پہننے کے لیے بیڈ پر پڑی شلوار پکڑنے لگا تو فرحت نے میری شلوار
کو پکڑ کر کھینچا تو میں بھی شلوار کے ساتھ کھینچا ھوا بیڈ پر جاگرا ۔
کچھ زور فرحت نے لگایا تھا اور کچھ گرنے کا ڈرامہ میرا تھا
کیونکہ جانے کا ارادہ تو میرا بھی اندر سے نہیں تھا بس اوپر اوپر سے ڈرامہ کررھا تھا۔
فرحت شلوار کھینچتے ھوے بولی
جان دینی آں تینوں ۔آرام نال بے جا ۔
میں بیڈ پر اوندھا گرا اسکی طرف دیکھتے ھوے اجازت نامہ ملنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔
فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی کیڑی ماں کول چالں ایں ۔
میں نے منہ بناتے ھوے کہا جب تم نے کرنے ھی نہیں دینا تو میرا ادھر رکنے کا کیا فائدہ ۔
فرحت دوسرا ھاتھ میرے بالوں میں پھیرتے ھوے بولی میری کاکا ناج ھوگیا اے ۔
میں نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ھوے کہا
چھوڑو یار مجھے جانے دو دیر ھورھی ھے ۔
فرحت میرا ھاتھ کھینچتے ھوے سیدھی ھوکر بولی آرام سے ادھر آو میرے اوپر ۔
میں بھی شریف بچا بن کر فرحت کے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگیں کھول کر لن پر تھوک لگا کر پھدی کے اوپر سیٹ کیا اور
گھسا مار کر لن سارے کا سارا اندر کر دیا فرحت نے ھاےےےےےےےے ہولی وےےےےےےے منڈیاااا۔۔۔۔
کیا اور میری رانوں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔
میں نے بھی سارا غصہ دوسرے گھسے پر نکال دیا فرحت میرے دوسرے جاندار گھسے سے تڑپ اٹھی اور مجھے پیچھے
دھیکلنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر میں نے اب فرحت کو کندھوں سے پکڑ کر قابو کیا ھوا تھا اور اس کے رونے اور
واویال مچانے کی پرواہ کیے بغیر
ذور ذور سے گھسے مارتا جارھا تھا
دس پندرہ منٹ فرحت کو میں چودتا رھا فرحت روتی رھی مجھے بس کرنے کا کہتی رھی
ھاےےے مرگئیییی
کہتی رھی مگر میں مسلسل گھسے مارتا رھا
بالخره فرحت کی سنی گئی اور میری ٹانگوں سے سارا خون لن کی طرف جمع ہونا شروع ھوگیا
اور میرے آخری گھسے مذید شدت اختیا کر گئے فرحت کی بھیگی آنکھیں مجھ سے رحم کی اپیل کررھیں تھی فرحت کے
ممے چھلک رھے تھے کمرہ تھپ تھپ تھپ اور فرحت کی آہوں سے گونج رھا تھا
کہ فرحت کی آنکھوں کی اپیل منظور کرتے ھوے میرے لن نے فرحت کی پھدی میں پچکاریاں مارنی شروع کردیں۔
اور میرے جسم نے جھٹکے کھاے اور فرحت کی پھدی کو منی سے بھر دیا فرحت نے بھی سکھ کا سانس لیا
میں بھی نڈھال ہوکر فرحت کے اوپر گر گیا۔
۔
کچھ دیر ایسے ھی لیٹے رہنے کے بعد میں نے پھدی سے لن نکاال تو یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ لن ابھی تک ویسے کا
ویسا ھی اکڑا ھوا تھا ۔
میں اس تبدیلی پر حیران رھ گیا کہ
میرے اندر ایسی تبدیلی کیسے آگئی
ورنہ تو لن فارغ ھوتے ھی چھوارہ بن جاتا ھے مگر لن صاب تو ابھی ویسے کہ ویسے ھی کھڑے تھے جیسے جناب نے
کچھ کیا ھی نہ ھو۔
میں نے کالک کی طرف دیکھا تو ساڑھے تین بج چکے تھے میں جلدی سے اٹھا تو میرا لن فرحت کی آنکھوں کے سامنے
لہرانے لگ گیا فرحت آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھتے ھوے اپنے ایک ھاتھ سے اپنے دونوں کانوں کو باری باری چھو
کر توبہ توبہ کرنے لگ گئی ۔
میں نے فرحت کو یوں لن کی طرف دیکھتے ھوے کہا
کیا پروگرام گے ایک بازی اور ھوجاے۔
فرحت آنکھیں باہر نکالتے ھوے میرے سامنے دونوں ھاتھ جوڑتے ھوے بولی ۔
میں نے کل کا سورج دیکھنا ھے ابھی ۔
میں ہنستا ھوا بیڈ سے نیچے اترا اور
اپنے کپڑے پہننے لگ گیا کپڑے پہن کر میں نے فرحت کو آواز دی کی میں نے جانا ھے تم بھی جلدی سی کپڑے پہن لو ۔
فرحت جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی ہوئی تھی
ھاےےےےےےکرتی ہوئی اٹھی اور کپڑے سے اپنی پھدی کو صاف کرنے لگ گئی اور پھر کپڑے پہن کر بیڈ سے اتری تو
لڑکھڑا کر گرنے لگی میں نے فرحت کو کندھوں سے پکڑ کر سہارا دے کر گرنے سے بچا لیا
فرحت بولی یاسر تم نے آج ساری اگلی پچھلی کسریں نکال دیں ہیں مجھ سے تو کھڑا بھی ہونا دشوار ھے ۔
کچھ دیر بعد فرحت کچھ نارمل ھوئی تو پاوں گھسیٹتی ھوئی دروازے کی طرف بڑھی میں نے آگے بڑھ کر خود دروازہ
کھول دیا اور جلدی سی باہر نکال اور بیرونی دروازے کے پاس پہنچ کر دروازہ کھول کر باہر گلی میں دیکھنے لگ گیا
گلی بلکل سنسان تھی
اتنی دیر میں فرحت بھی میرے پاس پہنچ گئی میں نے فرحت کی گالوں کو دونوں ھاتھوں میں تھاما اور اسکے ہونٹوں پر
لمبی سی کس کی اور پھر باہر جھانک کر گلی میں نکل گیا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا گھر کے
دروازے پر پہنچا اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر اندر داخل ھوا تو مجھے دوسرے کمرے سے کسی کے چلنے کی آواز آئی
۔
میں ایکدم ڈر گیا کہ لگتا ھے کہ بھائی اٹھ گیا ھے ۔
اس سے پہلے کہ میں بستر پر لیٹتا بیٹھک کا اندرونی دروازہ ذور ذورے بجا ۔
میرا تو رنگ اڑ گیا ۔
مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں کیا کروں
ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا کہ۔۔
دوبارا دروازہ ذور سے کھڑکا اور بھا قیصر کی آواز آئی
اوے یاسر دروازہ کھول جلدی کر۔
میں نے نیند کی کیفیت میں ایکٹنگ کرتے ھوے کہا
کیا ھے بھا اتنی بھی کیا مصیبت آن پڑی ھے ۔
بھا قیصر کی پھر آواز آئی دروازہ تو کھول دسنا اے۔
میں نے دروازہ کھوال
اورآنکھیں ملتا ھوا
بھا قیصر کی طرف دیکھتےھوے بوال کیا ھے۔
بھا قیصر نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا
اور بوال
کہ یار کب سے دروازہ کھڑکا رھا ہوں تو گھوڑے بیچ کر سویا ھوا ھے ۔
اوپر سے اندر سے کنڈی لگائی ہوئی ھے ۔
میں نے کہا
بھا میں تھکا ھوا تھا اس لیے گہری نیند سویا ھوا تھا۔
بھا قیصر بوال ۔
میں دکان کے لیے دودھ لینے جارھا ہوں
کل کی مویشی منڈی لگی ھوئی ھے
میں نے حیران ھوکر پوچھا کہ
بھا اتنی صبح صبح ابھی تو اذانیں بھی نہیں ھوئیں
تو بھا بوال
پہلے پہنچوں گا تو ٹائم سے دودھ لے کر دکان پر آجاوں گا ۔
میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی اور سر ہالتا ھوا اسکے پیچھے چل پڑا۔
بھا نے اپنا سائکل نکاال اور پیچھے دودھ کی ڈرمیاں رکھیں اور
سائکل باہر نکال کر مجھے کہا کہ چل دروازہ بند کرلے میں نے بھی بھا کو کہا کہ دھیان سے جانا
اور وہ مجھے جواب دئیے بغیر سائکلپر چڑھ کر نکل گیا ۔
میں نے بھی دروازہ بند کیا اور آکر
بیٹھک کی بجاے بھا قیصر کے بستر پر ھی ڈھیرھوگیا اورکچھ ھی دیربعد نیند کی وادیوں میں چال گیا۔
صبح امی نے مجھے اٹھایا کہ پتر اٹھ جا ٹیم دیکھ کی ہوگیا اے دکان تےنئی جاناں ۔
میں نے آنکھیں ملتے ھوے کالک کیطرف دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے ۔
میں جلدی جلدی تیار ھوکر ناشتہ کرکے دکان کی طرف چل دیا۔
میں نے گلی کراس کی اور جیسے ھی سڑک سے کھیتوں کی طرف بڑھا مجھے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی
یاسررررر رکو۔۔۔۔۔
میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو صدف تیز تیز قدم اٹھاتی میری طرف چلی آرھی تھی ۔
میں نے جب اسےدیکھا تو ۔
مجھے اسکا تھپڑ اور اپنی بےعزتی یاد آگئی ۔
میں نے بس ایک جھلک اسے دیکھا اور منہ سیدھا کر کے تیز تیز قدم اٹھاتے نہرکی طرف چل دیا۔
مجھے دو تین دفعہ صدفنے آوازیں دیں مگر میں اسکی باتوں کو سنی ان سنی کر کے چلتا رھا ۔
جب میں مکئی کی پگڈنڈی پر گیا تو مجھے پیچھے سے دوڑتے قدموں کی آوازسنائی دی ۔
اور پھر میرے دونوں کندھوں کو نرم ھاتھوں نے دبوچ لیا اور صدف کی روہانسی آواز آئی ۔
یاسرررر میری بات تو سن لو
کیامیں اتنی ھی بری ھوگئی ھوں کہ مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کررھے۔
میں نے نفرت سے اسکی طرف دیکھا
صدف نے نقاب کیا ھوا تھامگر اسکی آنکھیں آنسووں سے نم تھی ۔
میں نے اسکے آنسوؤں کو بھی نظر انداز کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کندھوں پر رکھے صدف کے ہاتھوں کوپکڑ
کر جھٹک دیا اورپھر چلنے لگ گیا ۔
صدف نے دوڑ کر پھر میرے کندھے کو پکڑنا چاھا مگر میں نے ہوا میں ھی اسکے ہاتھ کو جھٹک دیا اور بنا کچھ بولے
تیز تیز قدموں سے صدف کے آگے چلنے لگا صدف نے دوڑ لگائی اور میری سائڈ سے آگے نکل کر میرے سامنے آکر
کھڑی ھوگئی ۔
اور میرا راستہ روک کر بولی
یاسر *****کا واسطہ ھے میری ایک دفعہ بات تو سن لو
پھر چاھے تو میری شکل بھی نہ دیکھنا۔
میں نے صدف کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا اور اسکو بازو سے پکڑ کر ایک طرف کرتے ھوے بوال ۔
مجھے دکان پر جانے دو میرے پاس فضول وقت نھی ھے کہ تمہاری فضول باتیں سنوں
اور یہ مکر کسی اور کو دیکھانا ۔
یہ کہتےھوے میں نے اسکو ایک طرف کیا اور پھر آگے چلنے
لگ گیا
صدف اونچی آواز میں روتے ھوے بولی یاسر مجھ سے کون سی غلطی ھوگئی ھے جو تم مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگ
گئے ھو اور صدف پھر بھاگتی ھوئی میرے سامنے آگئی ۔اور ہاتھ جوڑ کر میرے آگے کھڑی ھوگئی بولی یاسر مجھے معاف
کردو مجھے مار لو مجھے گالیاں دے لو جو تمہارا دل کرتا ھے وہ میرے ساتھ کرلو مگر میری بات تو سن لو ۔
میں نے صدف کو دونوں کندھون سے پکڑا اور اونچی آواز میں چیختے ھوے کہا
میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں مین تم سے نفرت کرتا ھوں نفرت کرتا ھوں نفرت کرتا ھوں سمجھ آئی میری بات مجھے
تمہاری کوئی فضول بات نہیں سننی خبردار اب تم نے میرا راستہ روکا یا مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے
برا کوئی نہیں ھوگا ۔
میں ایک ھی سانس میں سب کچھ بول کر صدف کو ایک طرف جھٹک کر آگے نکل گیا کہ
اچانک پیچھے سے صدف کی ہچکیوں میں آواز آئی ۔۔
یاسر میری بات فضول نہیں ھے
میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ھوں اگر تم نے مجھ سے اتنی ھی نفرت کرتےھو تو میں تمہارے سامنے نہر میں
چھالنگ لگا کر خودکشی کرلینی ھے ۔
صدف کے منہ سے ماں بننے کے الفاظ سنتے ھی میرے قدم ایسے رک گئے جیسے زمین نے میرے قدم پکڑ لیے ھوں ۔
میں نے گھوم کر صدف کی طرف دیکھا تو صدف پگڈنڈی پر پیروں کے بل بیٹھی میری طرف دیکھ کر رہے جارھی تھی ۔
میں بھاری قدموں سے چلتا ھوا اسکی طرف بڑھنے لگ گیا ۔
صدف کے پاس پہنچ کر میں نیچے جھکا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا تو صدف سر جھکائے میرے سامنے کھڑی
زاروقطار روئی جارھی تھی ۔
مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں اس سے کیا بات کروں ۔
میرے کانوں میں بس ایک ھی آواز گونجے جارھی تھی کہ
یاسر میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ھوں ماں بننے والی ھوں ماں بننے والی ہوں ۔
میرے دماغ میں ہتھوڑے برس رھے تھے ۔
میں صدف کے کندھوں کو پکڑے ہکالتے ھوے بوال ۔
کککیا کہا تتتم نے ۔۔
صدف نظریں اور سرجھکاے بس روئی جارھی تھی ۔
میں نے دو تین دفعہ اپنی بات دھرائی
مگر صدف سواے رونے کہ کچھ نہیں بولی ۔
میں نے صدف کے کندھوں کو ہالکر چیخ کر کہا۔
بولوووووو کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔
صدف نے سر اوپر کیا اور نظریں اٹھائیں اور میری طرف دیکھتے ھوے
بولی ۔
ییییاسر میں پریگنٹ ہوں ۔
اور تم میرے ہونے والے بچے کے باپ ھو ۔
اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو میرے ابو یہ کہ کر صدف پھر رونے لگ گئی ۔
صدف کی بات سنتےھی
میں نے صدف کے دونوں کندھے یکلخت چھوڑے اور اس سے دوقدم پیچھے ہٹ کرکھڑا ھوگیا اور دونوں ہاتھ اپنے منہ پر
رکھ کرنفی میں سر ہالتا ہوا نہر کی طرف بھاگ کھڑا ھوا ۔
مجھے کچھ نہیں سمجھ آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں کدھر جارھا ھوں مجھے صدف کےپاس ٹھہرکر اس سے بات کرنی
چاھیے تھی اسے حوصلہ دینا چاھیے تھا ۔
مگر مجھے تو ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے ابھی صدف کا باپ کلہاڑی لے کر میرے ٹوٹے ٹوٹے کردے گا ۔
میرے اندر کا خوف مجھے بزدل بنا کر میری دوڑ لگوا رھا تھا
اور میں کسی کمزور اور ڈرپوک انسان کیطرح بس دوڑی جارھا تھا۔
مجھے نہیں پتہ چال کہ میں نے کب نہر کراس کی کب میں شہر پہنچا اور کب میں دکان کے آگے جاکر دکان کے تھڑے پر
بیٹھا
لمبے لمبے سانس لے رھا تھا ۔
مجھ پر عجب سا خوف طاری تھا ۔
مجھے ہر آتا جاتا شخص صدف کا باپ یا بھائی لگ رھا تھا ۔
ابھی تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ انکل کی موٹر سائیکل دکان پر آکر رکی
میری یہ کیفیت تھی کہ میں انکل کو دیکھ بھی رھا تھا مگر اپنی جگہ پر بت بنا بیٹھا ھوا تھا ۔
انکل مجھے یوں بت بنے بیٹھے دیکھ کر حیران ھوتے ھوے موٹر سائیکل سے اترے اور چلتے ھوے میرے قریب آکر
میرے سر پر ہاتھ رکھ کر سر ھو ہالتے ھوے بولے یاسر پتر کتھے پہنچیا ھویاں ایں
سب خیر تے ہے ناں ۔۔۔۔
میں ایکدم چونکا اور ایسے کھڑا ھوا جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ھوں ۔
انکل نے پھر میرے کندھے کو ہالتے ھوے کہا
یاسررررر پتر کی گل اے ۔
میں ایکدم ھوش میں آتے ھوے ہکالتے ھوے بوال کککچھ نہیں انکل جی اور انکل سے چابیاں لے کر میں دکان کھولنے لگ
گیا۔۔۔۔۔۔
دوستو میں نہ تو کمزور تھا اور نہ ھی ڈرپوک
اصل میں اس وقت میرا بچپنا ھی تھا اورمیں ابھی میچور تو نہ تھا کہ موقع کی مناسبت سے حالت کو سمجھ کر اسے دماغ
سے ہینڈل کرتا
جبکہ یہ بات بھی واضع تھی کہ صدف کے عالوہ یہ بات کسی اورابھی تک معلوم نہیں تھی
اور صدف تو میری منتیں کررھی تھی کہ اسکا کوحل نکالیں
مگر میرا بچپنا تھا کہ اس کے انجام تک فٹا فٹ پہنچ کر وھان سے دوڑ لگا دی ۔۔۔۔۔۔
خیر۔
میں نے صفائی وغیرہ کی مگر میں بار بار باہر کی طرف ھی دیکھتا رھا کہ اب صدف کا باپ کلہاڑی یا بندوق پکڑے نمودار
ھوگا اور
مجھے قتل کردے گا ۔
میں نے جیسے تیسے صفائی کی اور پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھنے کی بجاے بلکل اینڈ پر ٹرائی روم کے پاس بیٹھ کر ایسے
ھی لہنگوں کو نکال کر سیٹ کرنے لگ گیا اور چور اکھیوں سے باہر کی جانب بھی دیکھتا رھتا۔
کچھ دیر میں بیٹھا لہنگے بار بار سیٹ کرتا رھا ۔
کہ میری نظر باہر کی طرف گئی تو میری گانڈ پھٹنے والی ہوگئی میری سانسیں رکنے لگ گئی ۔
میں نے دیکھا کہ صدف چلتی ھوئی انکل کے پاس آئی اور انکل کو سالم کر کے ان سے سر پر پیار لینے کے بعد انکے پاس
ھی کاونٹر پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ ان سے باتیں کرنے لگ گئی میں پہلے الماری کی طرف منہ کر بیٹھا ھوا تھا ۔
اور صدف کو انکل کے پاس بیٹھے دیکھ کر میں اپنی پشت بازار کی طرف کر کے بیٹھ گیا کہ جیسے صدف سمیت مجھے
کوئی دیکھ نہ سکے ۔
دل مضطرب تھا حلق خشک تھا بیٹھے کی میری ٹانگیں کانپ رھیں تھی اس وقت کے نزا کو پچھتا رھا تھا اور اندر ھی اندر
خود کو کوس رھا تھا اپنے آپ کو لعن طعن کئے جارھا تھا کہ چند سیکنڈ کے مزے نے مجھے زندگی اور موت کے بیچ ال
کھڑا کردیا ھے
پتہ نہیں اب کیا ہوگا
صدف کے گھر والوں کو پتہ چال تو بھی موت پکی
میرے گھر والوں کو پتہ چال تو میرے ساتھ ساتھ میری امی اور بہن کا پتہ نھی کیا بننا تھا
اگر گاوں میں یہ بات نکلتی تو پنڈ کی پنچائت نے ھی مجھے چوک کے چوراھے پر الٹا لٹکا کر میرے ٹکڑے ٹکڑے کردینے
تھے ۔
وسوسوں نے مجھے کچھ ھی دیر میں نفسیاتی مریض بنا دینا تھا
میرے کان انکل اور صدف کی دھیمی گفتگو کی طرف ھی تھے مگر مجھے سنائی کچھ نہیں دے رھا تھا
بس میرے دماغ میں قیاس آرائیاں چل رہی تھی
کہ صدف انکل کو اب کچھ بتا رھی ھو گی ۔
اب انکل میرے ابو کو بالئیں گے اور ان سے بات کریں گے ۔
میرے ابو کا یہ سن کر تو ویسے ھی ہارٹ فیل ھوجانا تھا ۔
ابھی میری قیاس آرائیاں جاری ھی تھیں کہ
انکل کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔
یاسررررر۔
میں نے انکل کی آواز کو وہم سمجھ کر مذید سوٹوں کی الماری میں سر دے کر ایسے ھی سوٹوں کو الٹ پلٹ کرنے لگ گیا
کہ
پھر انکل کی پہلے سے اونچی آواز آئی
اوے یاسررررررررر بوالں ایں ۔
میں نے چونک کر وہاں چوکڑی مارے بیٹھے بیٹھے ھی اپنے آپ کو پورا گھمایا اور انکل کی طرف دیکھا تو انکل کچھ
غصے میں لگ رھے تھے جب کے صدف کی پشت میری طرف تھی اور منہ دوسری طرف تھا ۔
میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے
ہکالتے ھوے کہا
ججججی انکککل ججی۔
انکل حیرانگی اور تلخی سے بولے
انکل کے بچے ادھر آیا وہاں کیا آنڈے دئے ہیں جن کہ اوپر بیٹھا ھے ۔
میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ھوگیا
میری ٹانگیں کانپی جارہیں تھی ۔
میں منوں وزن اٹھاے قدموں کو گھسیڑتا ھوا انکل کی طرف چال جارھا تھا ۔
مشکل سے انکل کے پاس پہنچا تو انکل بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھتے ھوے غصے سے بولے ۔۔۔۔۔۔
.تینوں خیر تے ہے کیویں سویر دا بوندلیاں پھرداں ایں۔
کم کتے کرداں ایں تے تیان تیرا کسے ہور پاسے اے۔
میں نے ہکالتے ھوے کہا۔
کککچھ نہی انکل جی میری طبعیت نئی سئی ھے ۔
انکل نے پھر مجھے غور سے دیکھا اور کہا
طبعیت تو سہی ھے مگر نیت سہی نہیں لگ رھی کوئی پریشانی ھے تو مجھے بتا دے ۔
شاید میں تیری پریشانی کا کوئی حل نکال سکوں۔
میں نے پھر اسی انداز میں گبھراے ھوے کہا کہ انکل کچھ نھی ھے بس ایسے ھی سر میں درد ھے ۔
انکل نے کندھے اچکاتے ھوے کہا کہ مرضی تیری پتر نہ دس ۔
میں سر جھکائے ناف ہر ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا ۔
تو انکل پھر بولے چل اینج کر اے کڑی نوں جاننا ایں اے کون اے ۔
میری تو ایکدم ہوا نکل گئی ۔میں نے پہلے نفی میں سر ہالیا اور پھر اسی وقت اثبات میں سر ہالتے ھوے بوال
جججججج جی انکل جی ۔
انکل میری کیفیت دیکھ کر کافی پریشان سے ہورھے تھے ۔
انکل بولے جا پیلے ٹھنڈے پانی دے منہ تے چھٹے مار کے آ تینوں کج ہوش آوے
کسی ناں وچ ُمنڈی ہالنا ایں تے کدی ہاں وچ ۔
میں بونگا بن کر سچ میں کولر کی طرف چل دیا
تو انکل نے پیچھے سے آواز دی کہ ہن کتھے چلیاں ایں
میرے چلتے کدم وہیں رک گئے اور روبورٹ کی طرح گھوم کر انکل کی طرف دیکھتے ھوے بوال
وووہ جی انکل جی منہ دھونے چال تھا ۔
انکل اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولے کوئی حال نئی تیرا کاکا ۔
سویرے کروں نہا کے نئی آیا
میں نے پھر پہلے نفی میں اور پھر اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا جججی نہا کر آیا تھا ۔
تو انکل بولے تے نہا کہ ہوش نئی آئی سی جیڑا ھن فیر منہ تون چالں ایں
میں نے جنید کی طرف دیکھا جو منہ پر ہاتھ رکھ کر میری طرف دیکھ کر ہنسی جارھا تھا
جبکہ صدف کی پیٹھ میری طرف تھی اس لیے اسکا مجھے نہیں پتہ کہ وہ ہنس رھی تھی یا رو رھی تھی ۔
میں انکل کی بات سن کر جھینپ گیا اور
سر جھکائے پھر انکل کے پاس ناف پر ھاتھ باندھے کھڑا ھوگیا۔
انکل بولے
گل سن میری کن کھول کے
میری پھر ہوا نکل گئی ۔
کہ پتہ نھی .اب انکل کیا کہیں گے ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا۔
تو انکل بولے
اوکاکا
تینوں منڈے والے ویکھن آے نے جیڑاں شرما کہ سر َت ھلے ُسٹیا ہویا اے ۔
جنید کھلکھال کر ہنس پڑا انکل نے گھور کر اسکی طرف دیکھا تو اسکی ہنسی وہیں رک گئی جبکہ مجھے محسوس ھورھا
تھا کہ صدف بھی ہنس رھی ھے ۔
مجھے جنید پر تو نھی صدف پر غصہ آنے لگ گیا کہ میری یہاں جان پر بنی ھوئی ھے اور اس سالی کی دندیاں نکل رھیں
ہیں۔
انکل بولے ادھر میری طرف دیکھ ۔
میں نے سر اٹھا کر انکل کی طرف دیکھا تو انکل بولے
اینج کر پنڈ جا تے نالے ایس ُک ڑی نوں ایسے کار چھڈ آویں تے نالے کار جاکہ اج دن چنگی طراں سو کے گزاریں تے کل ای
نا تو کے دکان تے آویں ۔
جا میرا پتر ۔
میں اثبات میں سر ہالتے ھوے کاونٹر سے نیچے اترا اور جوتا پہننے لگ گیا۔
تو انکل نے جیب سے سو روپے مجھے نکال کر دئے کہ تانگے پر چلے جانا اور اگر تمہاری طبعیت واقعی خراب ھے تو
ڈاکٹر سے دوائی لے کر گھر جانا ۔
سمجھ آئی کہ اگلی وی گئی ۔میں نے نہ چاھتے ھوے بھی انکل سے سو روپے پکڑے اور جیب میں ڈالتے ھوے جی انکل کہا
اور سپیڈ سے دکان سے باہر نکل کر چل پڑا ۔
کہ میرے کانوں میں انکل کی پھر آواز گونجی
اوے ہن کتھے چلیاں ایں ۔
میں انہی قدموں واپس مڑا اور کہا ججججی گھر ۔۔۔۔۔
انکل پھر ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے صدف کی طرف اشارہ کرتے ھوے بولے ۔
ایس باجی نوں تے نال لے جا کہ کالں ای جائیں گا ۔
)Update no (89
میں خود کو کوستے ھوے جھینپ کر صدف کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ نواب زادی خود ھی اٹھ کر آجاے یا مجھے اسے
اٹھا کر لیجانا ھے ۔
انکل نے صدف کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا جاپتر اپنے ویر نال چلی جا
تے اپنے ابے نوں میرا سالم کویں نالے اونوں کویں کہ کسی دکان تے مل ای جایا کرے
اپنے لنگوٹیے یار نوں۔
صدف اثبات میں سر ہالتے ھوے جی انکل کہتے ھوے میری طرف چل پڑی
اور جنید نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری کہ
بچی ٹیٹ اے۔
میں اوس سالے نوں کی دس دا کہ ایس بچی نے ای میری ِٹبری ٹیٹ کیتی ہوئی اے ایدی وجہ توں ای تے میرے ہوش گواچے
ھوے نے تے میری مت وجی ھوئی اے ۔۔۔
میں جیند کو نظر انداز کرتے ھوے صدف کو یہ سوچتے ھوے ساتھ لے کر چل پڑا کہ سالی نے پتہ نھی انکل کو کیا بین
سنائی ھے جو انکل نے مجھے اسکے ساتھ اس چڑیل کو گھر چھوڑنے کے لیے بھیج دیا ھے ۔
میری تو سمجھ سے باہر تھی ساری گیم ۔
میں ایکدم صدف سے آگے ھی چل رھا تھا اور صدف میرے پیچھے پیچھے چلی آرھی تھی
تانگے والے چوک تک ہمارا سفر خاموشی سے گزرا
جیسے ھی میں .چوک کی طرف مڑنے لگا تو صدف نے آگےبڑھ کر میرا بازو پکڑ کر مجھے چوک کے ساتھ ایک گلی کے
طرف کھینچ کر لیجانے لگی اور بولی کہ میں تمہارے پیچھے تانگے کا سفر کرنے کے لیے نہیں آئی
چپ چاپ میرے ساتھ چلو ورنہ بہت برا ھوگا۔
میں تو پہلے ھی ڈرا ھوا تھا
صدف کی بات مانتے ھوے اسکی تقلید میں گلی کیطرف چل دیا ۔
گلی میں کچھ آگے جاکر محلہ شروع ھوجاتا تھا اور اس محلے سے ایک گلی باہر مین سڑک پر کھلتی تھی اور سڑک سے
آگے ہمارے گاوں کی طرف جاتی کچی سڑک شروع ھوجاتی تھی جس سے ہم روز شہر آتے تھے ۔
صدف اور میں خاموشی سے چلے جارھے تھے ۔
محلے سے گزر کر مین سڑک کراس کی اور پھر گاوں کی طرف جاتی شارٹ کٹ کچی سڑک پر چلتے ھوے ہم نہر کے پل
پر جا پہنچے
پل پر پہنچ کر صدف مکئی کیطرف جانے کی بجاے نہر کے کنارے پر ٹرین کی پٹری کے پل کی طرف چل پڑی میں بھی
خاموشی سے اسکے ساتھ ساتھ چال جارھا تھا
کچھ دور جاکر صدف رک گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی
جب اسے تسلی ہوگئی کہ ادھر کوئی نہیں دیکھ رھا تو صدف نے میرا ھاتھ پکڑا اور نہر کے کنارے سے نیچے دوڑتی
ھوئی مجھے بھی ساتھ لے کر مکئی میں داخل ھوگئی ۔
مکئی کے بیچوں بیچ لیجاکر جب ہم آگے نکلے تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ
یہ تو وہ ھی جگہ ھے بچھڑے تھے ہم جہاں سے ۔
میں حیران ھوکر صدف کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ اسے کیسے اتنے شارٹ کٹ راستے کا پتہ ھے حاالنکہ اس راستے
کا مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ ادھر سے بھی ٹاہلی کے پاس پہنچ سکتے ہیں ۔
ٹاہلی کے پیچھے پہنچ کر صدف نے مجھے بیٹھنے کا اشارا کیا اور خود چوکڑی مار کر ایسے بیٹھ گئی جیسے گھر میں بیڈ
یا چارپائی پر بیٹھی ھو
اس سے پہلے کہ میں بیٹھتا کہ ۔۔۔۔۔۔
.میں نے چاروں اطراف نظر دوڑا کر تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو نہیں.
تسلی کرنے کے بعد میں صدف کے سامنے چوکڑی مار کر بیٹھ گیا صدف میرے چہرے کی طرف نم آنکھوں سے دیکھی
جارہی تھی اور میں اس سے نظریں چرا رھا تھا ۔
اوراپنے ھاتھوں کی انگلیوں کو چٹخ رھا تھا۔
آخرکار صدف نے ھی خاموشی توڑی اور اپنا نقاب اتار کر برقعے کا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا اور میرا ھاتھ پکڑ کر
بولی
یاسر اتنی بھی کیا بے رخی ھے کہ تم مجھ سے یوں دور بھاگ رھے ھو ۔
بیشک میری غلطی ھے میں نے تمہاری انسلٹ کی تھی
مجھے اپنے کئے پر بہت پچھتاوا ھے
بہت دفعہ میں نے کوشش کی کہ تم سے معافی مانگوں مگر مجھ میں ہمت نہیں ہورھی تھی کہ تمہارا سامنا کس منہ سے
کروں ۔
پلیز مجھے معاف کردو
صدف میرا ھاتھ چھوڑ کر میرے سامنے ھاتھ جوڑے رونے لگ گئی ۔
مجھ سے بھی اب صدف کا رونا دیکھا نہیں گیا میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑ کر ھاتھوں کو چومتے ھو روہانسی آواز
میں اسے کہا
صدف میرا قصور .کیا تھا جو تم اتنی سخت دل ہوگئی تھی ۔
صدف اور ذور سے رونے لگ گئی اور بس یہ ھی کہتی رھی
مجھ سے غلطی ھوگئی تھی یاسر مجھ سے غلطی ھوگئی تھی یاسر
مجھے معااااااففففف کردو
میرا بھی رونا نکل گیا میں نے آگے ھوکر صدف کو گلے لگا لیا
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بازوں میں جکڑا ھوا تھا
اور دونوں کے آنسو جاری تھے
میں بھی صدف سے معافی مانگ رھا تھا اور صدف مجھ سے دونوں لپٹے ھوے ھی گلے شکوے کررھے تھے
صدف نے دونوں ھاتھوں سے میرا چہرہ پکڑا اور میرے ہونٹوں کو گالوں کو ماتھے کو چومنے لگ گئی اور ساتھ ساتھ بولی
جارھی تھی
یاسر آئی لو یو یاسر اب مجھے چھوڑ کر نہ جانا یاسر میں تمہارے بنا ادھوری ھوں آئی لو یو یاسر آئی لو یو۔
میں نے بھی صدف کی گالوں کو ھاتھ میں پکڑلیا اور روتے ھوے بوال۔
لو یو ٹو صدف لو یو ٹو۔
تم بھی اب میرے ساتھ نہ لڑنا
بہت تڑپایا ھے تمہاری بے رخی نے بہتتتت۔
ہم دونوں کے ڈائلگ کافی دیر چلتے رھے ۔
کبھی صدف میرے ہونٹوں کو چومتی تو کبھی میں صدف کے ہونٹوں کو چومتا۔
کچھ دیر بعد ہم دونوں کا جنون کچھ کم ھوا تو ۔
صدف ایکدم گم سم ھوگئی
میں نے اسے یوں گم سم ھوتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ کیا ھوا صدف۔۔۔۔۔
صدف اپنے برقعے کے دوپٹے سے اپنی آنکھیں اور گالوں کو صاف کرتے ھوے بولی
یاسر مجھے بیس دن ھوگئے ہیں ماہواری نہیں آئی ۔
اور میرا ہر وقت دل خراب ھوتا رھتا ھے
کچھ بھی کھانے کو دل نہی کرتا بلکہ چار پانچ دنوں سے مجھے الٹیاں آئی جارہی ہیں ۔
میری فرینڈ نے مجھے بتایا ھے کہ ایسا تو تب ہوتا ھے جب لڑکی ماں بننے والی ھوتی ۔
میرا تو تب سے برا حال ھے کہ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ میں پریگنٹ ھوں تو میرے ساتھ ساتھ وہ تم کو بھی
جان سے ماردیں گے ۔
صدف کی بات سن کر میری پھری گانڈ پھٹنے والی ھوگئی ۔
ساری عاشقی ایکدم نکل گئی ۔
خوف پھر میرے دماغ پر سوار ھوگیا۔
میری بیٹھے کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوگئی ۔
صدف میری حالت دیکھ کر
بولی یاسر گبھرانے یا بھاگنے سے اس پریشانی کا حل نہیں نکلنا ۔
ریلیکس ہوجاو
اور کچھ سوچو کہ کیا کریں جس سے
ہم دونوں کی جان بھی بچ جاے اور ہمارے گھر والوں کی عزت بھی بچ جاے ۔
میں نے کہا صصصدف میں کیا کرسکتا ھوں ۔
مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرھا۔
صدف میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی
یاسر کولڈ ڈاون پلیزززززز
میں لڑکی ھوکر اتنا نھی گبھرا رھی جتنا تم لڑکے ھوکر گبھرا رھے ھو
ایسے تو ہم دونوں پھنس جائیں گے صدف کی باتوں سے میں کچھ ریلیکس ھوگیا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میرے
دماغ میں فرحت آئی کہ اگر اس کو ساری حقیقت بتا دوں تو ہو سکتا ھے وہ اس پرابلم کا حل نکال سکے ۔
پھر میرے دماغ میں منفی خیاالت نے جنم لیا کہ وہ بڑی خرافہ عورت ھے
کہیں حسد میں کچھ الٹا سیدھا نہ کردے ۔
میں دونوں ھاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا سوچوں میں گم تھا ۔
کہ صدف بولی یاسر اب کیا ھوگا
میں نے کہا یار صبر کرو کچھ سوچنے دو کوئی نہ کوئی حل تو نکلے گا ھی ۔
میں نے اچانک چونکتے ھوے کہا کہ صدف تمہاری سہیلی کو پتہ ھے کہ تم پریگنٹ ھو ۔
صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہیں اسے نہی .پتہ میں نے تو بس ایسے ھی باتوں باتوں میں اس سے ساری معلومات
لی تھی ۔
میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے ان باتوں کا ۔
صدف بولی وہ شادی شدہ ھے اس کے تین بچے ہیں سالئی سکول میں وہ سالئی کا کام سیکھاتی ھے ۔
ھے تو میری ٹیچر مگر میری دوست بن گئی تھی اس لیے اس سے پوچھ لیا ۔
میں ہممممم کر کے پھر خاموش ھوگیا اور ھاتھ پر مکا مارتے ھوے پھر سوچنے لگ گیا ۔
اور پھر میرے دماغ میں جنید آیا کہ شاید وہ کوئی بہتر مشورہ دے سکے یہ سوچ کر میں نے صدف کو حوصلہ دیتے ھوے
کہا کہ
تم پریشان مت ھو میں کل ھی اسکا کوئی نہ کوئی حل تالش کرلوں گا ۔
تم یہ بات کسی سے مت کرنا اور ذیادہ پریشان مت رہنا یہ نہ ھو کی تمہارے گھر والوں کو شک پڑ جاے۔
صدف نے دونوں ھاتھوں میں میرا ھاتھ پکڑا اور بولی
یاسر پلیززززز کچھ کرو جیسے جیسے دن گزرتے گئے بہت بڑا مسئلہ بن جانا ھے ۔
میں نے دوسرا ھاتھ اس کے ھاتھوں پر رکھ کر اسے تسلی دی کہ یار اب کچھ دن تو صبر کرنا ھی پڑے گا ۔
فٹافٹ تو یہ مسئلہ حل نھی ھونے واال۔
کچھ دیر مذید ہم مشاورت کرتے رھے
ہمیں ایک گھنٹہ ادھر بیٹھے ھوگیا تھا۔
میں نے کہا صدف اب تم نے گھر جانا ھے یا شہر ۔۔صدف بولی ابھی تو کافی وقت پڑا ھے ابھی گھر گئی تو امی نے سو
سوال کرنے ہیں۔
میں نے ہممممم کیا اور کہا کہ پھر ادھر ھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو صدف نے بھی اثبات میں سر ہال کر ہاں کہہ دی ۔
اب ہم دونوں کافی نارمل ھوچکے تھے اور ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے
میری نظر صدف کے تنے ھوے مموں پر پڑی جو برقعے میں پھنسے ھوے تھے اور برقعہ بھی سوفٹ سٹف میں تھا جس
میں صدف کے ممے بہت سیکسی لگ رھے تھے ۔
مموں کو دیکھتے ھی میرے دماغ میں شیطان نے پھونکیں مارنا شروع کردیں
میں آہستہ آہستہ کھسکتا ھوا
صدف کے قریب ھوتا گیا ۔
اور فرحت کی بغل میں اسکے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا اور اپنا ایک بازو اسکے کندھوں پر رکھ ھاتھ اسکے ممے کے اوپر اس،
انداز سے رکھ دیا جیسے یہ سب اچانک اور غیر ارادی طور پر ھورھا ھو۔۔میرے ہاتھ کی انگلیاں صدف کے ممے کو چھو
رھیں تھی
بظاہر میں صدف سے ادھر ادھر کی باتیں کررھا تھا مگر میرا دھیان اسکے ممے پر رکھے اپنے ھاتھ کی طرف تھا ۔
میں نے جان بوجھ کر موضوع تبدیل کرتے ھوے
صدف سے پوچھا
کہ صدف تمہارا دل نہیں کیا دوبارا کرنے کو۔
صدف میرے اس اچانک سوال پر چونک کہ میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
میری جان پر بنی ھوئی ہے اور تم دل کرنے کی بات کررھے ھو۔
میں نے کہا یار میں اب کی بات نہیں کر رھا
یہ تو تمہیں کچھ دن پہلے پتہ چال ھے مگر ہمیں کئے ھوے تو دو مہینے ھوچکے ہیں ۔
میں پہلے کی بات کررھا ھوں۔
صدف شرما کر سر نیچے کر کے بولی مجھے نہیں پتہ ۔۔۔
میں نے کہا تو کسے پتہ ھے ۔
صدف میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی تمہیں پتہ ھوگا۔
.میں نے صدف کو کندھے سے پکڑے مذید ساتھ لگاتے ھوے کہا۔
مجھے تو اپنا پتہ ھے
کہ میرا بہتتتتتتتت دل کرتا تھا ۔
مگر میں تمہارے دل کا حال جاننا چاھتا ھوں
کہ میری جان کا دل کیا کرتا تھا۔
صدف نے سر اٹھایا اور دونوں ھاتھوں کے پنجے کھول کر میرے گلے کو پکڑ کر مجھے پیچھے کی طرف دھکیل کر
پیچھے گراتے ھوے اور خود بھی میرے ساتھ ھی میرے اوپر لیٹے ھوے بولی میرا تو دل تمہارا گال دبانے کو کرتا تھا ۔
میں نے صدف کی کالئیوں کو پکڑا اور کہا لو اب اپنی حسرت پوری کر لو اور دبا دو میرا گال۔
میں گھاس پر بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے گلے پر دونوں ھاتھ رکھے سائڈ کے بل آدھی میرے اوپر لیٹی ھوئی
تھی اور اسکے دونوں تنے ھوے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ رھے تھے۔
صدف بولی یہ ھی تو میں کر نہیں سکتی ورنہ اس دن جو تم میرا حال کرکے گئے تھے میں تمہیں گولی مار دیتی اور جناب
نے مڑ کر میری خبر بھی نہ لی کہ میں زندہ ھوں یا مرگئی ھوں ۔
میں نے چومی لینے کے انداز میں ہونٹ صدف کی طرف کرتے ھوے اپنے ھاتھ سے صدف کی گردن کو پکڑ کر نیچے کر
کے اسکے ہونٹوں کو چوما اور کہا تم نھیں مر سکتی صدف میرا گال چھوڑ کر میری قمیض کے بٹنوں سے کھیلتی ھوئی
میری طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھتے ھوے بولی
تم نے تو مجھے مارنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ایسے بھی بھال کوئی کرتا ھے جیسے تم میرے ساتھ کرکے بھاگ
گئے تھے اگر مجھے کچھ ھوجاتا ۔
میں صدف کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے انکو سہالتے ھوے کہا
پیار میں تکلیف نہ ھو تو پیار پیار نہیں ھوتا ۔
صدف میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بڑے الڈ سے بولی مجھے نہیں چاہیے ایسا پیار ۔
صدف کی اس ادا پر میں فدا ھوتا گیا اور پھر اسکی گردن پر ھاتھ رکھ کر اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کے قریب کر کے
چومتے ھوے بوال۔
میری جان کو کیسا پیار چاھیے۔
صدف نے میری آنکھوں آنکھیں ڈالیں اور پھر اپنی پلکوں کو جھکا کر میری قمیض کے بٹنوں کو انگلیوں سے مروڑتے
ھوے بولی ۔
جس میں سکون ھی سکون ھو اپنا پن ہو دکھ تکلیف میں ساتھ ساتھ ھوں۔
صدف کے جسم کا لمس پاتے ھی میرا لن کھڑا ھوچکا تھا۔
کچھ دیر پہلے کا رونا دھونا پریشانی دونوں کے دماغ سے نکل چکا تھا ۔
میں نے صدف کی کمر میں ھاتھ ڈال صدف کو اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے کہا
تو کیا مجھ سے سکون نہیں ملتا اپنا پن نھی ملتا۔
صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی ۔
تم گندے ھو ظالم ھو مجھے تکلیف دے کر تم خوش ھوتے ھو۔
میں نے دونوں ھاتھوں سے اپنے کان پکڑ کر کہا
اگر معافی کی گنجائش ھو تو تمہارہ یہ خادم دوبارا یہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ کرتا ھے ۔
صدف ہنستے ھوے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر میرے کانوں سے ہٹاتے ھوے بولی ۔
ڈرامے باز بہتتتت تیز ھو تم ۔
اور یہ کہتے ھوے صدف نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔
اور میرا ھاتھ صدف کی گردن کو اپنے حصار میں لے کر گردن کو سہالنے لگا اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں
جزب ہونے کی کوشش کرنے لگ گئے
میرا لن شلوار کے اندر ھی جھٹکے کھانے لگ گیا۔
کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے
صدف کی ٹانگیں اور گانڈ گھاس پر تھی اور باقی کا اوپر جسم میرے اوپر تھا صدف کے ممے میرے سینے کے ساتھ ملن کر
رھے تھے اور صدف کا پیٹ میرے پیٹ کے اوپر تھا اور سائڈ کے بل ھونے کی وجہ سے صدف کی پھدی میری ران کے
ساتھ لگی ھوئی تھی ۔
اور ہم ہر شے سے بیگانے ھوکر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے ۔
سہی کہتے ہیں کہ
.خلوت میں نیند اور شہوت موقع محل نہی دیکھتیں انسان چاھے جس حال مین بھی ھو جس جگہ بھی ھو یہ دونوں سر پر
سوار ھوجائیں تو سب کچھ بھال دیتی ہیں ۔
ہمیں دو گھنٹے ھو چلے تھے اس جگہ پر آے ھوے مگر ہم وقت اور جگہ کو بھولے ھوے اپنی ہوس میں ڈوبے ایک
دوسرے کے ہونٹ چوسی جارھے تھے۔
میں نے ہاتھ آگے کر صدف کے برقعے کے اوپری بٹن کھولنے شروع کردیے صدف بھی فل تیار ہوچکی تھی اور جیسے وہ
پھدی کو میری ران کے ساتھ مسل رھی اس سے اسکے گرم جزبات اور پھدی سے بہتے پانی کا اندازہ مجھے ہوچکا تھا اس
لیے میں نے موقع کی مناسبت سے اگال قدم بڑھایا اور صدف کے برقعے کو اتارنے لگ گیا جس میں اس نے میری مدد
کرتے ھوے خود ھی برقعے کو اپنے سیکسی جسم سے الگ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔
اب صدف گہرے رنگ کے سوٹ میں تنے ھوے مموں کے ساتھ میرے اوپر پھر لیٹ چکی تھی ۔
اور میں صدف کے مموں کو ہاتھوں میں بھر کر بھینچ رھا تھا اور صدف کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔
صدف کے گول مٹول سوفٹ ممے دبانے میں مجھے بہت مزہ آرھا تھا اور صدف بھی ممے دبوانے کا مزہ سسکاریاں بھر
بھر لے رھی تھی ۔
کچھ دیر بعد میں نے صدف کو اپنے اوپر سے اٹھا کر اپنے ساتھ سیدھا لیٹا کر خود اسکے اوپر آگیا اور اسکی قمیض کو
پکڑ کر اوپر کرکے مموں کو قمیض سے آزاد کروا دیا۔
صدف کے چٹے سفید ممے کالے بریزیر میں چمک رھے تھے میں نے جلدی سے بریزیر کو مموں سے ہٹایا تو صدف کے
چٹے ممے میرے سامنے بلکل ننگے جگ مگ جگ مگ کر رھے تھے ۔
میں نے جی بھر کر مموں کو چوسا میرے چوسے سے ممے سرخی مائل ہو چکے تھے اور صدف مزے کی شدت سے
آنکھیں بند کیے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ھوے لیٹی سسکاریاں بھر رھی تھی ۔
میں نے مموں پر ہاتھ صاف کیا اور پھر صدف کی ٹانگوں کو کھول کر ان میں دوزانوں بیٹھ گیا اور صدف کی السٹک والی
شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچنے لگا تو صدف نے گانڈ اوپر کر کے شلوار اتارنے میں میری مدد کی
میں نے شلوار ایک ٹانگ سے نکال دی اور صدف کی دوسری ٹانگ میں شلوار رہنے دی اور جلدی سے اپنی قمیض اوپر کر
کے اپنا ناال کھوال اور شلوار نیچے کر کے لن کو پکڑ کر صدف کی گیلی پھدی کے لبوں کے درمیاں پھیرنے لگ گیا صدف
مزے میں دھری ھو رھی تھی گانڈ کو اٹھا کر پھدی کو جلدی سے لن اندر لینے کا اشارا کر رھی تھی ۔
صدف کی بے چینی دیکھتے ھوے میں نے صدف کی گوری گوری نرم رانوں پر ھاتھ رکھا کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور
گھسا مار کر لن اندر کردیا آدھا لن پہلے ھی گھسے میں صدف کی ٹائٹ پھدی میں چال گیا
صدف کے منہ سے آہہہہہہہہہ نکال اور بولی
آراااممممم نال یاسسسسر
میں نے لن کو واپس کھینچا اور پھر گھسا مار کر پورا لن پھدی میں اتار دیا اور خود گھٹنوں کے بل صدف کے اوپر ھوگیا ۔
پورا لن جاتے ھی صدف کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور میں نے ساتھ ھی اپنے ہونٹ صدف کے ہونٹوں پر رکھ دیے
اور آرام آرام سے گھسے مارنے لگ گیا
صدف پہلے تو کچھ دیر ھاے ھاے ھاے کرتی رھی صدف کی پھدی کافی ٹائٹ تھی جس نے میرے لن کو پوری طرح اپنے
قابو میں کر کے دبوچا ھوا تھا صدف نے دونوں بازو میری کمر کے گرد ڈالے ھوے تھے اور میری کمر کو اپنے ناخنوں
سے کھرچ رھی تھی اور میں گھسے پے گھسے ماری جارھا تھا
کچھ ھی دیر بعد صدف نے مجھے بازوں میں بھینچا
اور مجھے زور ذور سے کرنے کا بولی
میں نے بھی گھسوں کی سپیڈ تیز کردی ۔
صدف ھاےےےےےے ممممممم تیز تیز تیز کرو یاسر ھاں ہااااااں
.ایسےےے ھییی آہ آہ آہ مممممم گئی گگگگگئییییییییییی
کہتی نے مجھے ذور سے اپنے بازوں میں بھینچ کر پھدی کو لن کے گرد جکڑ بند کر کے منی کے فوارے چھوڑنے شروع
کردئے
صدف کی پھدی کے اندر اتنی گرمی تھی کہ میں بھی مذید ٹک نہ پایا اور چند تیز تیز گھسوں کے بعد میں بھی صدف کی
پھدی کے اندر ھی اپنا سارا مادہ گرا کر صدف کے اوپر ھی لیٹ گیا۔
دوستو جلدی جلدی سیکس کرنے کا بھی اپنا ھی مزہ ھوتا ھے ۔
جب میں نے منی کا آخری قطرہ بھی صدف کی پھدی کے اندر بہا دیا تو صدف میرے سینے پر مکے مارتے ھوے بولی پھر
اندر فارغ ھوگئے ھو نہ ۔
میں نے ہنستے ھوے کہا
کملیئے ہن کیڑا بچہ اوتے بچہ ہونا اے اگلے دا بندو بست ھو لین دے فیر اندر نئی فارغ ہوندا۔
صدف پھر مجھے مکا مارتے ھوے بولی بڑا پتہ اے تینوں ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ہم دونوں نے اپنی شلواروں کو اوپر کیا اور کپڑوں کو درست کر کے گاوں کی طرف چل دیے راستے میں بھی
صدف مجھے بار بار یاد دھانی کراتی رھی اور صبح اکھٹے شہر جانے کا کہتی رھی۔۔۔۔۔
میں صدف کو گھر چھوڑ کر جب اپنی گلی میں داخل ھوا اور آنٹی کے گھر کے پاس سے گزرنے لگا تو آنٹی دروازے پر
کھڑی تھی مجھے دیکھتے ھی غصے سے بولی
ننگ جا ننگ جا
چپ کر کے ۔
میں شرمندہ سا ھوکر آنٹی کی طرف چل دیا اور آنٹی سے سالم لے کر اندر داخل ھوا تو نسرین دروازے کے پاس ھی بیٹھی
برتن دھو رھی تھی اور عظمی شاید کمرے میں تھی میں نے کے پاس سے گزرتے ھوے اسکے سر پر چپت لگاتے ھوے
اسے چھیڑا اور آنٹی کی طرف منہ کر کے بوال
آنٹی اے کم والی مائی کدوں رکھی اے۔
نسرین سٹیل کے گالس کو دھو رھی تھی اس نے ہاتھ میں پکڑا گالس مجھے مارنے کے لیے میری طرف پھینکا
میں اس کے ارادے کو جانتے ھوے پہلے ھی تیار تھا میں نے گالس کو ہوا میں ھی کیچ کر لیا اور گالس میں جو تھوڑا سا
پانی تھا وہ نسرین پر پھینک کر اندر کمرے کی طرف بھاگ گیا۔
نسرین برتنوں کو وہیں چھوڑ کر ایک اور گالس میں پانی ڈال کر گالس پکڑے میرے پیچھے بھاگی
آنٹی ہنستے ھوے اسے منع کرنے لگ گئی ۔
میں بھاگتا ھوا کمرے میں داخل ھوا تو عظمی چارپائی پر بیٹھی دوپٹے پر کڑھائی کا کام کررھی تھی مجھے یوں اچانک
دیکھ کر چونک کر میری طرف متوجہ ھوئی اس سے پہلے کہ عظمی کچھ بولتی پیچھے ھی نسرین پانی کا بھرا ھوا گالس
لیے کمرے میں داخل ھوئی اور آتے ھی ہاتھ لمبا کر کے گالس کا پانی میری طرف اچھاال میں نے جلدی سے چارپائی پر پڑا
تکیہ اٹھا کر آگے کردیا پانی کی کچھ چھینٹیں میرے منہ پر پڑیں اور باقی پانی تکیہ پر گرا اتنے میں آنٹی اندر داخل ہوئیں
تو نسرین کو بولنے لگ گئیں کہ تم بہت بتمیز ھو گئی ھو یہ بھی کوئی طریقہ ھے کیا۔
نسرین نے ہاتھ میں پکڑا ھوا گالس ذور سے نیچے پھینکا اور روتے ھوے بولی
اپنے اس الڈلے کو کچھ نہیں کہنا اس نے پہلے مجھے کیوں مارا تھا
شیطان کسے تھاں دا
چنگا پال سکون سی کتھوں نازل ھوگیا۔
یہ کہتے ھوے نسرین پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی ۔
میں اور عظمی ہنس ہنس کے دھرے ھو رھے تھے۔
آنٹی بولی
یاسر تم بھی اس چڑیل کو نہ چھیڑا کرو پتہ بھی ھے کہ کتنی بتمیز ھے
میں نے کہا کچھ نھی ھوا آنٹی ایسا چلتا رہتا ھے آپ نے خوامخواہ بیچاری کو ڈانٹ دیا۔
آنٹی بولی
اچھا دفعہ کرو اسے
یہ بتاو جناب اتنے دنوں سے کہاں مصروف تھے نہ کوئی خیر نہ کوئی خبر۔
میں نے کہا بس آنٹی جی آجکل سیزن چل رھا ھے تو دکان سے فرصت ھی نہیں ملتی پہلے تو عظمی اور نسرین کو ساتھ لے
.کر جانا ھوتا تھا اس لیے میں آجاتا تھا
آنٹی بولی اچھا اس کا مطلب ھے کہ جناب کو کوئی مجبوری ہوگی تو ھی ہمارے گھر تشریف الئیں گے میں نے کہا نہیں آنٹی
جی ایسی بھی کوئی بات نہیں میں بس آنے ھی واال تھا
).Update no (90
آنٹی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔
تم تو اب بھی سیدھے اپنے گھر جارھے تھے اگر میں نہ دیکھتی تو تم نے کب آنا تھا۔
میں آنٹی کے قریب ھوا اور آنٹی کو سائڈ سے جپھی ڈال کر الڈ سے آنٹی کے ساتھ جھولتے ھو بوال نہیں آنٹی جی آپ نہ بھی
ھوتی تو میں نے آجانا تھا ۔
آنٹی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے بولی ۔
خیر ھے آج بڑی جلدی آگئے دکان سے ۔
میں نے برا سا منہ بنا کر ایکٹنگ کرتے ھوے کہا۔
شکر ھے آنٹی جی کہ آپ کو میری فکر ھوئی ورنہ جب سے آیا ھوں جھاڑ ھی سن رھا ہوں ۔
آنٹی ایکدم پریشان ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر طبعیت تو سہی ھے تمہاری۔
میں صدیوں سے بیمار ھونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے آنٹی کو چھوڑ کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ھاےےےےےے کرتا ھوا
چارپائی پر بیٹھ گیا آنٹی مذید پریشان ھوکر میرے ساتھ بیٹھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ھوے اور میرے ماتھے پر الٹا ھاتھ
لگاتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر بتاو بھی ۔
میں نے کہا بس آنٹی جی چھوڑو کیا بتاو۔
آنٹی مذید ششوپن کا شکار ھوتے ھوے بولی یاسر بتاو نہ کیا ھوا ھے سب خیریت ھے نہ ۔
میں چہرے کو مذید لٹکا کر رونے واال منہ بنا کر آنٹی کی طرف دیکھنے لگ گیا عظمی بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف
دیکھنے لگ گئی
آنٹی میری گال کو تھپتھپا تے ھوے بولی یاسر بولوووووو میرا دل بیٹھا جارھا ھے ۔
میں نے سارے جہاں کا حوصلہ اکھٹا کیا اور رونے واال منہ بنا کر بوال؟؟؟؟؟؟
آنٹی جی میں صبح دکان پر گیا جاکر میں نے صفائی شروع کردی کچھ دیر بعد میرا دل گبھرانے لگ گیا میرا سر چکرانے
لگ گیا مجھ سے کھڑا ھونا دشوار ھوگیا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔اور میں نیچے گرا تو انکل دوڑے آے
اور مجھے اٹھا کر بولے ۔۔۔۔۔۔
آنٹی اور عظمی بڑے غور سے میری لمبی تمہید سن رہیں تھیں اور انکے چہرے کے تاثرات بدلتے جارھے تھے
میں چپ ھوگیا تو آنٹی بولی پھر ۔۔۔۔۔
میں نے رونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا
پھر میں نے انکل کو کہا انکل جی انکل جی انکل جی
مجھے اپنی آنٹی کی بہت یاد آرھی ھے
انکل بولے جا ُپترررر جاااا اپنی آنٹی کو مل آ اور میرا دوڑا آپ کے پاس چال آیا
آنٹی نے مجھے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور بولی جا دفعہ ھو بغیرت میری جان ای کڈ دتی سی میں آنٹی کے دھکے سے
پیچھے چارپائی پر گر گیا
اور قہقہ لگا کر ہنسنے لگ گیا عظمی بھی ہنسنے لگ گئی آنٹی غصہ سے کھڑی ھوگی اور نیچے جھک کر جوتا اٹھا کر
میری ٹانگوں پر مار نے لگ گئی اور ساتھ ساتھ بولتی جارھی تھی ہن تنگ کریں گے بے شرماں
میں ہوا میں ٹانگیں چال رھا تھا اور ہاتھ آگے کر کے اپنا بچاو کر رھا تھا ۔
تبھی نسرین برتنوں کی ٹوکری اٹھاے ھوے اندر داخل ھوئی تو مجھے مار پڑتے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی اور بولی امی
اسے اور مارو بلکہ دو چار میرے حصے کی بھی لگا دو ۔
آنٹی نے جوتا نیچے پھینکا اور بولی
شہر جاکر تم بڑے بدمعاش ھوگئے ھو ۔
میں نے ہنستے ھوے کہا
آنٹی جی کچھ کھانے پینے کو بھی ملے گا یا بس چھتروں سے ھی میرا پیٹ بھرنا ھے ۔
آنٹی کو سانس چڑھا ھوا تھا آنٹی بولی
کیا کھانا ھے میرے شہزادے نے
میں نے کہا جو بھی پکا ھے لے آئیں قسم سے بڑی بھوک لگی ھے شہر سے دوڑ کر آیا ھوں
آنٹی ہنستے ھو پھر جوتا اٹھانے کے لیے نیچے جھکی اور بولی ٹھہر جا دسنی آں تینوں ۔۔۔ آنٹی کے جھکنے سے آنٹی کے
ُک ھلے گلے سے انکے چٹے سفید ممے صاف نظر آرھے تھے چند سیکنڈ ھی مموں کی جھلک دیکھنے کو ملی پھر آنٹی
سیدھی ھوگئی اور بولی
ھاتھ منہ دھو لے ابھی روٹی التی ھوں ۔
میں نے کہا آنٹی جی روٹی لے آئیں
شیراں دے ہتھ منہ توتے ای ہندے نے ۔
نسرین بولی شیر ویکھو بغیر پوش توں ۔۔۔
آنٹی ہنستی ھوئی باہر چلی گئی اور نسرین الماری میں برتن سیٹ کرنے لگ گئی
عظمی پھر کڑھائی کرنے میں مصروف ھوگئی ۔ اور میں بیٹھا کبھی عظمی کو چھیڑتا رھا تو کبھی نسرین کو کچھ دیر بعد
آنٹی روٹی لے کر اندر داخل ھوئی میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور شام تک بیٹھا گپ شپ کرتا رھا اور پھر گھر چال
گیا ۔
اگلے دن میں ٹائم سے اٹھا اور تیار ھو کر صدف کے گھر چال گیا صدف کی امی نے مجھ سے کافی گلے شکوے کیے کہ
اب آتے نہیں
میں نے بھی بس ہوں ہاں میں جواب دیا اور صدف کو لے کر شہر کی طرف چل دیا
راستے میں بھی بس وہ ھی پرانی باتیں ہوتی رہیں اور صدف مجھے پھر یاد دہانی کراتی ھوئی اپنے سکول کی طرف چلی
گئی میں نے بھی اسے کہا کہ تم بھی کوشش کرو میں بھی کوشش کرتا ھوں جلد ھی کوئی بہتر نکل آے گا ۔
میں سیدھا دکان پر پہنچا تو انکل نے دکان کھولی ھوئی تھی مجھے دیکھ کر انکل بولے آ گئے جناب
میں نے سالم دعا کے بعد اپنی طبیعت بہتر ھونے کا بتایا اور پھر دکان کی سیٹنگ کرنے میں مصروف ھوگیا کچھ دیر بعد
جنید بھی دکان پر آگیا اور آکر میرے پاس ھی بیٹھ گیا اور کل کے بارے میں مجھ سے پوچھنے لگ گیا کہ
مجھے کیا ھوا تھا میں نے اسکو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ فارغ وقت میں تفصیل سے بتاوں گا ۔
دوپہر کو میں اور جنید کھانا لینے کے لیے بازار گئے تو میں نے جنید کو ساری تفصیل بتا دی اور اس راز کو راز رکھنے
کے لیے اس سے قسم لی
جنید بھی پریشان ھوگیا اور بوال ماما تینوں ایڈی کادی اگ لگی ھوئی سی بار فارغ ھوجاندا یا ساتھی چڑھا لیندا ۔
میں نے کہا بس یار میری قسمت ماڑی تھی غلطی ھوگئی تیری مہربانی ھے میرے سر سے یہ بوجھ ہٹا دے ورنہ میں نے
پاگل ھوجانا ھے ۔
جنید بوال یار پریشان مت ھو میں ہوں نہ کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ۔
میں نے کہا یار وقت بہت کم ہے اور اگر مزید دن اوپر گزر گئے تو بہت مسئلہ بن جاے گا
اس سے پہلے کہ اسکے گھر والوں کو پتہ چلے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاھیے اور تمہارے سوا میرا کوئی مسیحا نہیں ھے ۔۔۔
جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپا کر بوال یار پریشان مت ھو میں ہوں نہ ۔اور یہ کہتے ھوے جنید مجھے لے کر
اپنے دوست کے میڈیکل سٹور کی طرف چل پڑا اور مجھ سے ساری تفصیل پوچھ لی کہ کتنے دن کی پریگنینسی ھے ۔
میں نے اسے سب کچھ بتا دیا دکان پر پہنچ کر جنید نے مجھے دکان کے باہر کھڑے ھونے کا کہا
اور خود اندر چال گیا دس پندرہ منٹ بعد جنید باہر نکال اور میرے پاس آکر بوال
یار کام سمجھو ھوگیا
مگر یار وہ پیسے بہت مانگ رھا ھے تمہیں تو پتہ ھے کہ میں بھی نوکری کرتا ھوں ورنہ میں اپنے پاس سے سارے پیسے
دے دیتا ۔
میں نے پوچھا کتنے پیسے کی میڈیسن ھے ۔
تو جنید بوال چار ہزار کی ۔
میں چار ہزار کا سن کر پریشان ھوگیا کہ اتنے پیسے میں کہاں سے الوں گا میری تو تنخواہ بھی پندرہ سو ھے
جنید مجھے سوچ میں پڑا دیکھ کر بوال بتا اب کیا کرنا ھے ۔
میں نے کہا یار میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔
اسے کہہ کچھ کم کرلے جنید بوال
یار اس نے میری وجہ سے یہ میڈیسن دینی ہیں ورنہ وہ اس معاملے میں کسی کو میڈیسن نہیں دیتے چاھے کوئی دس ہزار
بھی دے ۔
میں نے کہا یار اسکو کہہ دو کہ پیسے تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گا ۔
جنید کچھ دیر سوچتا رھا اور پھر بوال ایک منٹ رک میں آتا ھوں یہ کہہ کر جنید پھر دکان کے اندر چال گیا
اور کچھ دیر بعد ایک لڑکا اسکے ساتھ بایر آیا اور آکر مجھ سے ہاتھ مالیا تو جنید نے اس سے میرا تعارف کروایا اور اسکا
مجھ سے ۔ کہ یہ سنی ھے میری گلی میں رہتا ھے وغیرہ۔۔۔
سنی بوال یاسر بھائی یہ میڈیسن میں صرف جنید کی وجہ سے آپ کو دے رھا ہوں جنید نے مجھے ساری بات بتائی ھے اور
آپ کی مالی حالت کا بھی تو
میرے بھائی تم دوہزار پہلے دے دو اور باقی کا دوہزار اگلے مہینے دے دینا ۔
اور اسکی ضمانت بھی جنید ھی دے رھا ھے میں نے اس سے ھی لینے ہیں ۔
جنید بوال یار سنی تو پریشان نہ ہونا یہ بھی اپنا جگر ھی ھے ۔تجھے پیسے وقت پر مل جائیں گے ۔
میں نے جنید کو ایک طرف لیجا کر کہا یار میرے پاس تو ابھی دوہزار بھی نہی ہیں
ایسا کر شام کو انکل سے ادھارے لے کر دے دوں گا ۔
جنید بوال ٹھیک ھے تو پھر شام کو ہم میڈیسن بھی لے لیں گے ۔
میں نے اوکے کیا ۔
جنید نے سنی سے میری بات دھرائی تو سنی بوال
تم میڈیسن ابھی لے جاو
شام کو میڈیکل سٹور کا مالک جو ڈاکٹر ھے وہ آجاتا ھے پھر اس کے سامنے میں یہ والی میڈیسن نہیں دے سکتا۔
جنید نے کہا ٹھیک ھے میں شام کو تجھے گلی میں ھی پیسے دے دوں گا تو میڈیسن ابھی دے دے یہ کہہ کر دونوں اندر
چلے گئے اور کچھ دیر بعد جنید میڈیسن کا شاپر پکڑے باہر آیا
اور شاپر کھول کر مجھے سمجھانے لگا کہ کون سی ٹیبلٹ کب اور کتنی کھانی ہیں ۔
میں نے اچھی طرح سمجھ لیا اور شاپر پکڑ کر شلوار والی جیب میں ڈال لیا ۔
شاپر میں تین قسم کی گولیاں تھیں جن کی تعداد کوئی پندرہ تھیں
میں حیران تھا کہ اتنی مہنگی میڈیسن ھے ۔
مگر مجبوری تھی کیا کرتا ۔
جب کہ فرحت سے یہ کام میں فری کروا سکتا تھا مگر ۔مجھے اسپر بھروسہ نہیں تھا ۔
اور ایسے صدف کی بھی بدنامی کا ڈر تھا ۔
ہم دکان پر پہنچے تو انکل کی کچھ سڑی باتیں سننے کو ملی کہ پیچھے سے دکان پر رش پڑ گیا تھا اور تم دونوں نے اتنی
دیر لگا دی ۔
پتہ نہیں کہاں آوارہ گردی کرتے رھے ھو۔
ہم نے ہوٹل پر رش کا بہانہ لگا کر بات کو گول مول کردیا اور کھانا وغیرہ کھا کر ہم پھر دکان پر کسٹمرز میں مصروف
ھوگئے
شام کو انکل کو مسکے شسکے لگا کر دوہزار لے کر میں نے جنید کو دیا اور اگلے دن دکان پر آتے ھوے میں نے میڈیسن
صدف کو دیں اور اسکو ساری تفصیل سمجھا دی ۔
صدف کافی خوش ھوگئی ۔
اور پوچھنے لگ گئی کہ میڈیسن کیسے لی اور کتنے کی لی میں نے کہا بس چھوڑو تم آم کھاو بس۔
صدف بولی یاسر ڈاکٹر نے کوئی پرہیز تو نہیں بتایا۔
میں نے کہا ۔
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ہفتے میں دو دفعہ تسلی سے پورا لن اندر لینا جس سے جلدی یہ مسئلہ حل ھوجاے گا
صدف نے میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے کہا
چل شوخا جیا
ہر ویلے اپنا الو سدھا کردا ریا کر ۔
ایسے ھی ہنسی مزاق میں ہم شہر پہنچے میں نے اسے سکول چھوڑا اور خود دکان پر چال گیا ۔
دوستو ایسے ھی تین چار دن مذید گزر گئے جن میں ایسا کچھ خاص نہ ھوا جسکو بیان کرنا ضروری ہے ۔طوالت کے ڈر
سے سٹوری کو تھوڑا آگے بڑھا رھا ھوں ۔
جمعرات کا دن تھا میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھا ھوا تھا ۔
کہ ایک برقعہ پوش لڑکی نقاب کیے دکان میں داخل ھوئی اور میرے پاس سے گزرتے ھوے بولی یاسر بھائی میری بات
سنیں اور یہ کہتے ھوے وہ دکان کے اندر داخل ھوگئی
دکان میں پہلے بھی دو تین کسٹمر بیٹھے ھوے تھے
میں اس لڑکی سے اپنا نام سن کر ایکدم چونک گیا کہ یہ کون ھے جو میرے نام سے بھی واقف ھے ۔
کہ اچانک میرے دماغ میں جھماکہ ھوا کہ ۔۔
.مجھے اس لڑکی آواز جانی پہچانی سی لگی میں اسکے پیچھے ھی دکان میں چال گیا وہ لڑکی باقی کسٹمرز کے آگے سے
گزرتی ہوئی دکان کے آخر میں جاکر بینچ پر بڑے کانفیڈینس کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئی میں چلتا ھوا اس کے
سامنے پہنچا تو وہ نقاب میں آنکھوں مٹکا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
یاسر بھائی کیا حال ہیں میں اسکو فورن پہچان گیا کہ یہ تو وہ ھی کچی کلی ھے جو ضوفشاں کے پارلر پر کام کرتی ھے۔
میں نے حال احوال پوچھنے کے بعد کہا جی فرمائیں تو وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھتے ھوے سامنے الماری کی طرف اشارہ کر
کے بولی بھائی وہ واال سوٹ دیکھا دیں میں نے سوٹ نکاال اور کھول کر اسے دیکھانے لگ گیا ۔
مجھ سے کچھ فاصلے پر جنید بیٹھا کسٹمر کو سوٹ دیکھا رھا تھا کچی کلی بار بار جنید کی طرف دیکھی جارہی تھی شاید وہ
مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی اور جنید کی وجہ سے گبھرا رھی تھی ۔
اور جنید بھی بار بار کبھی میری طرف دیکھتا تو کبھی کچی کلی کی طرف۔
میں سوٹ کھول کر اسکے قریب ھی بیٹھ گیا اور سرگوشی میں اس سے ضوفی کا پوچھا کہ کیسی ھے وہ اور کدھر
مصروف رہتی ھے ۔
کچی کلی بھی ادھر ادھر دیکھتے ھوے سرگوشی میں بولی کہ باجی نے ھی مجھے میسج دے کر بھیجا کہ آپ فری ھوکر
پارلر پر آکر انکی بات سن جائیں۔
میں نے کہا ابھی تو میرے پاس ٹائم نہیں البتہ میں فری ہوکر آجاوں گا
اپنی باجی کو کہنا میرا انتظار کرلے یہ نہ ھو کہ میں آوں اور تمہاری باجی کہیں گئی ھو۔
کچی کلی سر ہالتے ھوے کہنے لگی ٹھیک ھے بھائی میں کہہ دوں گی آپ الزمی آنا باجی نے کوئی ضروری بات کرنی
ھے ۔
میں نے اوکے کہا تو کچی کلی اٹھ کر باہر نکل گئی جنید بڑے غور سے اسے جاتی ھوئی کو دیکھنے کے بعد پھر میری
طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کیا چکر ھے ۔
میں سوٹ کو تہہ کرتے ھوے بوال ۔
ایویں بشیر حسین سی ۔۔۔۔
جنید میرے چہرے کو بڑے غور سے دیکھ رھا تھا جیسے وہ اصل حقائق جاننا چاہتا ھو۔
مگر میں نے اسے رتی برابر بھی محسوس نہیں ہونے دیا اور سوٹ کو تہہ کر کے الماری میں لگا کر واپس باہر آکر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد باقی کے کسٹمرز بھی چلے گئے ۔
جب میں نے دیکھا کہ اب فارغ اوقات ھے تو میں نے انکل کو پیشاب کرنے کا بہانہ کیا اور شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا ۔
مارکیٹ پہنچ کر میں بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ھوے چاروں اطراف کا جائزہ لینے لگا اور بڑے محتاط انداز سے ضوفی
کے پارلر کے سامنے پہنچ کر دروازہ ناک کیا کچھ دیر بعد کچی کلی پردے سے نمودار ہوئی اور مجھے دیکھ کر ہنس کہ
پردے کے پیچھے غائب ہوگئی۔۔۔
کچھ ھی دیر میں ضوفی نے ڈور کھوال اور میری طرف دیکھ کر محبت بھری مسکان دی اور اپنا حسین چہرہ باہر نکال کر
دونوں اطراف دیکھ کر مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا میں جلدی سے اندر داخل ھوا
تو ضوفی نے دروازہ الک کر کے دکان بند ھے کی پلیٹ پلٹ کر باہر کی طرف کردی ۔۔
میں اندر داخل ہوکر صوفے کی طرف بڑھا تو ضوفی نے مجھے کیبن میں چلنے کا کہا ۔
کچی کلی کاونڑ پر بیٹھی میری طرف دیکھ کر ایویں ای ہنسی جارھی تھی کملی کسے تھاں دی۔۔۔
میں کیبن کی طرف چلدیا۔
ضوفی میرے آگے آگے چل رھی تھی بلیک فٹنگ میں پہنے ہوے سوٹ اسکی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے میں
اسکے پیچھے پیچھے کیبن میں داخل ہوا۔
ضوفی مجھے آخری کیبن میں لے گئی ۔
جس میں تھری سیٹر صوفہ پڑا تھا شاید اس کیبن کو ویٹنگ روم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔۔
ضوفی نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا میں ضوفی کے سیکسی جسم کو دیکھتا ھوا بیٹھ گیا ضوفی نے گلے میں دوپٹہ
ڈاال ھوا تھا اور دوپٹے کے دونوں پلو مموں کے اوپر تھے کندھوں تک ڈائی کئے ھوے سنہری بال چہرے پر ہلکا سا میک
اپ الئٹ کلر کی لپسٹک لمبی پلکیں تھوڑے سے موٹے ہونٹ تیکھا ناک لمبی صراحی دار گردن چھتیس کے تنے ھوے ممے
تیس کی کمر اڑتیس کی گانڈ ضوفی بلکل بےبی ڈول لگ رھی تھی ۔
ضوفی کی قربت مجھے خوش نصیب ثابت کرتی تھی ۔
ضوفی کیٹ واک کرتی میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر گھٹنے پر دونوں ہاتھ باندھ کر میری
طرف بڑے غور سے دیکھتے ھوے بولی ۔جناب کدھر مصروف تھے اتنے دن ۔
میں نے کہا واہ جی واہ ٹائم خود نہیں تمہارے پاس الٹا مجھے کہہ رھی ھو ۔
ضوفی بولی
میں نے کہاں مصروف ہونا ھے میں تو خود تمہارا انتظار کرتی رھی کہ تم خود ھی پارلر پر چکر لگا لو گے مگر مصروف
بندے ھو اتنا وقت کہاں کہ کسی اور کی پرواہ ھو۔
میں نے بڑے غور سے ضوفی کی طرف دیکھا اور بوال ۔
مجھے بہت پرواہ ھے تمہاری ضوفی میں تو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی سوچتا رھتا ہوں ۔
مگر اس دن تم جیسے مجھ کو اکیلے پارلر پر چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔
اور دوبارا مجھ سے رابطہ بھی نہیں کیا میں سمجھا شاید مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ھے ۔
اس لیے تم مجھے اگنور کررھی ھو۔
ضوفی نے اپنے گھٹنوں سے ھاتھ اٹھاے اور میرا ھاتھ پکڑ کر بولی ۔
یاسر میں خود حیران ہوں کہ تم میں ایسی کون سی بات ھے کون سی ایسی چیز ھے جو مجھے تمہاری طرف کھینچتی
جارھی ھے ۔
میں کافی دنوں سے تمہاری دکان پر آنے کا سوچ رھی تھی مگر میں اس دن کی اپنی حرکت سے شرمندہ تھی کہ تم پتہ نہیں
کیا سوچتے ھوگے ۔
بس اسی شرمندگی کی وجہ سے میں تمہارا سامنا نہیں کرسکی ۔
میں نے ضوفی کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھتے ھوے اس کے ہاتھ کو سہالتے ھو کہا۔
یار کیسی باتیں کررھی ھو ۔
میرے لیے تو یہ ھی کافی ھے کہ تم میری دوست ھو اور اس سے بڑ کر میری خوش نصیبی اور کیا ھوگی
کہ تم نے اس دیسی پینڈو کو اپنے نرم گوشے میں جگہ دی ھے
میں تم سے ناراض ہونے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا ۔
ضوفی بولی تمہاری انہیں باتوں نے تو مجھے تمہارا گرویدہ کرلیا ھے ۔
باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔۔۔
میں نے ضوفی کے ہاتھ کو پکڑے اوپر کیا اور اسکی نازک انگلیوں کو چوم لیا ضوفی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور ضوفی
نے شرما کر سر نیچے کر لیا اور اپنا ہاتھ میرے ھاتھ سے آہستہ سے سرکاتے ھوے کھینچ لیا۔
ضوفی بولی یاسر کل دکان پر آنا ھے یا چھٹی کرنی ھے میں نے کہا کل تو جمعہ ھے چھٹی ھے ۔
اگر میرے لیے کوئی حکم ھے تو بتا دو خادم حاضر ھے ۔
ضوفی ہنستے ھوے بولی بس بس اتنے بھی فرمابردار مت بننے کی کوشش کرو۔
میں نے کہا
میں جھوٹ نہیں کہہ رھا ھے کبھی ازما کر دیکھ لو کبھی خدمت کا موقع دے کر دیکھ لو خدمت میں رتی برابر کمی پیش آے
تو جو مرضی سزا دے دینا۔
ضوفی میری باتیں سن کر صوفے پر بیٹھی ھی پیٹ پر ھاتھ رکھے ہنس ہنس کر دھری ھو رھی تھی ۔
ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔
جناب میں نے کوئی خدمت نہیں کروانی ۔دراصل میں نے کل الہور جانا تھا پارلر کا سامان لینے کچھ کاسمیٹکس کی میں
الہور جانے کا سن کہ میرا چہرہ ایکدم کھل اٹھا اور میرے اندر لڈو پھوٹنے لگ گئے۔
پھر اپنی مالی حالت کا سوچ کر چہرہ مرجھا گیا۔
ضوفی میرے چہرے کو غور سے دیکھتے ھوے بولی
کیا ھوا یاسر پریشان کیوں ہوگئے ھو۔
اگر میرے ساتھ جانے میں کوئی پرابلم ھے یا کوئی کام ہے تو ڈونٹ ویری یار میں اکیلی بھی چلی جاوں گے جیسے پہلے
بھی جاتی رہتی ہوں ۔
وہ تو بس ایسے ھی تمہیں کہہ دیا کہ چلو سفر اچھا گزر جاے گا۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا نہیں یار ایسی بات نہیں ھے میری تو خوش قسمتی ھے کہ تم نے مجھے اس
قابل سمجھا ۔
ضوفی میری بات کاٹتے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر بولی پھر پریشان کیوں ھو۔
میں نے سر جھکاے ہوے کہا کچھ نہیں بس ایسے ھی ساتھ ہی میں اموشنل ھوگیا مجھے آج اپنی غریبی اور بے بسی پر
غصہ آرھا تھا اور احساس ندامت سے میری آنکھوں سے نکلنے کو تھے ۔
ضوفی میرے پریشان چہرے کو دیکھتے ھوے میرے ھاتھ کو اپنی نرم مالئم انگلیوں سے سہالتے ھوے بولی ۔
یاسر ادھر میری طرف دیکھو میں نے آہستہ سے سر اٹھایا اور ضوفی کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ضوفی بولی کیا بات ھے
یاسر پریشان کیوں ھو۔
میں اب ضوفی کو کیا کہتا کہ میرے پاس الہور جانے کے لیے نہ تو نئے کپڑے ہیں اور نہ ھی نیا جوتا بلکہ میرے پاس تو
کرایہ بھی نہیں ھے ۔
میں منہ سے تو کچھ نہ بوال ۔مگر میری آنکھوں سے ساون کی جھڑی نے میری خاموشی کے سارے پول کھول دئے۔
ضوفی مجھے روتے دیکھ کر جلدی سے کھسک کر میرے قریب ہوگئی اور میری گالوں کو اپنے نازک ھاتھوں میں لے کر
بولی یاسسسرررر کیااااا ھوا رو کیوں رھے ھو اور ساتھ ساتھ اپنی روئی جیسی نرم انگلیوں سے میرے آنسو صاف کرنے
لگ گئی ۔
مجھ سے کچھ بھی نہیں بوال جارھا تھا ۔
دل تو کہہ رھا تھا ۔
کہ چیخ چیخ کر ضوفی سے اپنے دل کا حال کہوں مگر میری زبان میرے دل کا ساتھ نہیں دے رھی تھی ۔
دل کا درد آنکھوں کے راستے سے پگھل کر بہہ رھا تھا۔۔
کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو ضوفی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے بولی یاسر تم مجھے اپنی دوست سمجھتے ھو کہ
نہیں ۔
میں نے نم آنکھوں سے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے اثبات میں سر ہالیا۔
ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی ایسے نہیں بول کر بتاو۔
میں جی کہا۔
ضوفی میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی ۔
کیا جی۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا جی دوست ھی سمجھتا ھوں ۔
ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی بس دوست ھی ۔
میں نےچونک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں پیار تھا شرارت تھی بہت سے سوال تھے ۔
میں نے ضوفی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبتے ھو نفی میں سر ہالیا۔۔۔
ضوفی بولی یعنی تم مجھے دوست نہیں سمجھتے ۔۔
میں نے مجبورًا ہنستے ھوے کہا میں تو تمہیں اپنا سب کچھ سمجھتا ھوں میرے لیے جو تم ھو اس کے لیے دوستی بہت
چھوٹا سا لفظ ھے ۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
ضوفی میرے خاموش ھونے پر بولی
مگر کیا۔۔۔۔۔
میں نے رک رک کر بولتے ھوے کہا۔
مگر میری غریبی اور میری سادگی مجھے طعنے دیتی ھیں کہ تم اپنی اوقات میں رہو کہاں تم ھو اور کہاں میں ہوں ۔۔۔۔
ضوفی شاید میرے اندر والی بات کی تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔
ضوفی ہنستے ھوے میرے سر پر چپت لگاتے ھوے بولی ۔
اڈیٹ۔۔۔۔۔
مجھے سب کچھ بھی سمجھتے ھو اور یہ امیری اور غریبی کا فرق بھی رکھتے ھو ۔
اور پھر ضوفی ایکدم سریس ہوتے ھوے بولی ۔
یاسر تمہیں پتہ ھے کہ میں تمہارے اتنا قریب کیوں ہوگئی ھوں ۔
صرف تمہاری سادگی اور تمہاری صاف دلی کی وجہ سے ۔
ورنہ اس شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکے ھیں جو خوبصورت بھی ھیں اور پیسے والے بھی ۔
میرے ایک اشارے پر وہ میرے آگے پیچھے پھریں ۔
مگر میں نے آج تک کسی نامحرم کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ لوگ چاہیں میرے بارے میں کچھ بھی سوچیں کچھ بھی
کہیں ۔
مگر یہ مجھے پتہ ھے میرا ضمیر مطمئن ھے کہ میں پاکباز ھوں ۔
میری زندگی میں تم پہلے لڑکے ھو جس نے مجھے چھوا ھے اور جس کہ قریب میں خود ھوگئی ھوں ۔
میں نے بھی غریبی دیکھی ھے میرا کوئی بھائی نہیں ھے میرے ابو بھی فوت ھوچکے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری مجھ پر
ھے میں آج یہاں تک صرف اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے پہنچی ہوں آج شکر ھے کہ میرے پاس پیسہ بھی اور عزت
بھی ھے مگر کبھی اپنا برا وقت نہیں بھولی ہوں ۔
آج کہ بعد دوبار اگر تم نے ایسی بات سوچی بھی نہ تو میں نے تم سے کبھی بات نہیں کرنی۔
اوکےےےے میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔۔
ضوفی پھر بولی ۔
اچھا یہ بتاو کہ کل تمہیں گھر پر کوئی کام تو نہیں ھے ۔
میں نے نفی میں سر ہالیا۔
ضوفی بولی اور کیا تمہارے گھر والے تمہیں الہور جانے کی اجازت دے دیں گے ۔
یں نے کہا اجازت تو میں لے لوں گا کسی نہ کسی طریقے سے ۔
مگر۔۔۔
ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی
پھررررر مگر۔
میں دل پر پتھر رکھتے ھوے ایک ھی سانس میں بول پڑا۔
مگر ضوفی میرے پاس الہور جانے کے لیے نہ پیسے ہیں اور نہ ھی ڈریس۔۔۔۔۔
ضوفی میری بات کاٹتے ہوے بولی
بس اتنی سی بات پر میری جان نے اتنے قیمتی آنسو بہا اینوں۔۔۔
بھی نہ ایک نمبر کے بدھو ھو۔۔۔۔۔
ضوفی اٹھی اور ایک منٹ کا کہہ کر باہر نکل گئی اور میں پھر اپنی بے بسی کو کوسنے لگ گیا۔
کچھ دیر بعد ضوفی ہاتھ پیچھے گانڈ پر رکھے بڑے غصے سے اندر داخل ھوئی اور مجھ سے بولی کھڑے ھوجاو۔۔۔۔۔
میں ایکدم گبھرا کر ایسے کھڑا ھوا جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ہوں اور میں پھٹی آنکھوں سے حیران پریشان کھڑا
ضوفی کے چہرے کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔
ضوفی تیز تیز قدم اٹھاتی ھوئی میرے پاس آئی اور میرے سامنے کھڑی ھوکر مجھے گھورنے لگ گئی
میری تو ایکدم جان نکل گئی کہ اسے پتہ نہیں اچانک کیا ھوگیا ھے ۔۔
چنگی پلی تے بار گئی سے بار جا کہ پتہ نئی کیڑا سپ لڑ گیا اینوں۔۔۔
ضوفی نے گانڈ پر رکھے ہاتھوں میں سے اپنا ایک ھاتھ تیزی آگے کیا اور ہاتھ کو کھول کر میرے منہ کی طرف ایسے الئی
جیسے مجھے ذور دار تھپڑ مارنے لگی ھو ۔
میرا تو مارے حیرت کے ہلک خشک ہوگیا میری ٹانگوں سے جان نکل گئی
ضوفی نے ہتھیلی کو کھول کر پورے زور سے میرے۔۔۔؟؟؟؟
.سینے پر رکھ کر مجھے پیچھے کو دھکا دیا
میں تو پہلے سے ھی ڈرا ھوا اور گبھرایا ھوا ششوپن میں کھڑا تھا
ضوفی کے دھکے سے میں لڑکھڑاتا ھوا پیچھے صوفے پر جاگرا اور آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں ضوفی کو دیکھی
جارھا تھا ضوفی جلدی سے آگے بڑھی اس سے پہلے کے میں خود کو سنبھالتا یا کچھ سوچتا ضوفی اپنی ٹانگوں کو کھول
کر میری رانوں کے دونوں اطراف کرلے میرے بے ہوش لن کے اوپر بیٹھ گئی میں صوفے کی ٹیک کے ساتھ کمر لگاے
بیٹھا تھا۔
اور ضوفی میری رانوں پر ایسے بیٹھی تھی جیسے میرا گال دبانے لگی ھو ضوفی نے اپنا دوسرا ہاتھ جو ابھی تک اسکی
کمر پر تھا اسکو آگے ایسے لے کر آئی جیسے ہاتھ میں خنجر ھو اور میرے سینے میں خنجر اتارنے لگی ھو میں نے
گبھرا کر اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اسکے ہاتھ میں پالسٹک کا انچی ٹیپ تھا ۔
میں سمجھا ضوفی میرے گلے میں انچی ٹیپ ڈال کر میرا گال دبانے گی ۔
دوستو میری تو سچی میں گانڈ پھٹنے والی ہوگئی ۔
اور ضوفی نے کیا بھی وہ ھی جو میں سوچ رھا تھا ۔
ضوفی نے انچی ٹیپ کو سیدھا کیا اور دونوں ہاتھوں میں اسکے سرے پکڑ کر ایسے گھمانے لگ گئی جیسے رسی کو وٹ
چڑھاتے ہیں ۔
اور ضوفی نے انچی ٹیپ کو گھماتے گھماتے اچانک میرے سر کے پیچھے کیا انچی ٹیپ میری گردن پر جا لگا ضوفی کے
ہاتھ میں انچی ٹیپ کے دونوں سرے تھے اور اس نے انکو ایسے پکڑا ھوا تھا جیسے گھڑ سوار کے ہاتھ میں گھوڑے کی
لگامیں ہوتی ہیں ۔
اور ہے بھی کچھ ایسا ھی تھا ضوفی کے ہاتھ میں میری گردن کی لگامیں تھیں ۔
ضوفی میرے لن پر اپنی نرم مولٹی فوم جیسی گانڈ کو رکھے ھوے میری لگامیں پکڑے سواری کررھی تھی
).Update no (91
میں ابھی تک ڈرا سہما ضوفی کو آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا سب کچھ خاموشی سے ھورھا تھا نہ میں نے کوئی بات
کی نہ ھی ضوفی نے ۔۔۔
ضوفی نے لگاموں کو کھینچا تو میری گردن پر فیتے کا ذور پڑا تو میرا سر آگے کو ہوگیا اور آہ کے ساتھ میرا منہ کھال
ضوفی ساتھ ھی آگے کو جھکی اور میرے کھلے ہونٹوں پر اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو رکھ کر میرے اوپر والے ہونٹ کو
اپنے منہ میں بھر لیا اور ضوفی کا نچال ہونٹ میرے منہ میں خود بخود آگیا
میری تو آنکھیں مذید ابھل کر باہر نکلنے کو آگئیں ۔
ضوفی نے فیتے کو چھوڑا اور اپنے مخملی ہاتھوں کو میری گردن کے دونوں اطراف رکھ کر میرے ہونٹ کو بے دردی
سے چوس رہی تھی
ضوفی میری لن کے اوپر گانڈ رکھے اپنے ہاتھوں کی مخملی ہتھیلیاں میرے کانوں کے نیچے رکھے اپنی نرم نازک انگلیوں
کو میری گردن کا احصار کر سہالتے ھوے اور اپنے انگوٹھوں کو میرے کانوں کی لو کے گرد مساج کے انداز سے پھیرتے
ھو میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے جنگلی بلی بنی چوسی جارھی تھی ۔
کچھ دیر بعد میرا ڈر میرا خوف ہوس میں بدل گیا اور نیچے سے میرے لن نے انگڑائی لی اور میرے دونوں ھاتھ ضوفی کی
تقلید میں اسکی گردن اور اسکے کانوں کے اوپر ریشمی بالوں کو سہالنے لگے اور میں بھی جنونی حالت میں ضوفی کی
پنکھڑیوں کا رس چوسنے لگ گیا ۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
فیتہ ابھی تک میرے گلے میں ھی تھا۔
ضوفی نے پھر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ کئے اور ہاتھ کا وزن میرے سینے پر ڈال کر
خود پیچھے ہوگئی اور پھر سے فیتے کو پکڑ کر میرے کندھوں پر لگا کر درزی کی طرح سائز لینے لگ گئی سائز لے کر
فیتے پر ایک نظر ڈالی اور پھر فیتے کے سرے کو پکڑ کر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ممے پر رکھ دیا میں نے ہاتھ میں
ضوفی کا مما پکڑ لیا اور ممے کو دبانے لگ گیا ضوفی نے سسکاری بھرتے ھوے اپنا ہاتھ لمبا کیا اور فیتے کو میرے
کندھے سے لگا کر دوسرے ھاتھ سے فیتہ پکڑ کر اپنے ممے کے پاس لیجا کر میری کالئی پر رکھ کر میرے بازو کا سائز
کرنے لگ گئی ۔۔۔۔
میں ضوفی کے اس نئے انداز سے حیران تو ھو ھی رھا تھا مگر مجھے مزہ بہت آرھا تھا ۔
بازو کا سائز لینے کے بعد ضوفی نے میری کالئی کا بھی سائز کیا اور پھر میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے ممے سے ہٹایا اور میرے
ھاتھ کو پکڑے اپنے ہونٹوں کے پاس لے گئی اور باری باری میری پانچوں انگلیوں کو چوسا اور ہاتھ واپس نیچے لیجا کر
چھوڑتے ھوے پھر فیتے کو پکڑ کر میری گردن میں ڈال کر میرے سر کو صوفے کی ٹیک سے لگا دیا میرا منہ چھت کی
طرف ھوگیا
ضوفی آگے کو ھوئی اور اپنی زبان بایر نکال کر میری شہ رگ پر رکھی اور ادھر سے زبان پھیرتے ھوے میری ٹھوڑی
تک لے آئی اور پھر میرے ہونٹوں کو چوم کر واپس سیدھی ھوکر بیٹھ گئی میرا لن فل تنا ھوا تھا اور ضوفی کی نرم گانڈ کی
دراڑ میں اور پھدی کے نیچے دبا ھوا جھٹکے مار کر اٹھنے کی کوشش کررھا تھا۔
ضوفی میرے گلے کو زبان سے چاٹ کر سیدھی ھوکر بیٹھی اور فیتے کو پکڑ کر میری گردن کے گرد لپٹ کر میری گردن
کا سائز لیا اور فیتے پر ایک نظر مار کر میرے گلے سے فیتہ کھینچ کر نکال دیا۔۔
ضوفی فیتہ کھینچے ھوے ساتھ ھی میری رانوں سے اتر گئی اور میرے سامنے کھڑی ھوکر مسکراتے ھوے نشیلی آنکھوں
سے میری طرف دیکھ کر اپنے دونوں بازو پھیال کر ہاتھ میری طرف کیئے اورانگلیوں کے اشارے سے مجھے ہاتھ تھام کر
اٹھنے کو کہا میں نےاپنی طرف بڑھے ضوفی کے دونوں ھاتھوں کو تھاما تو ضوفی نے میرے ھاتھوں کو اپنے نازک ہاتھوں
میں بھینچ کر زور سے اپنی طرف کھینچا تو میں اٹھ کر کھڑا ھوگیا اور میرا لن بھی میری شلوار میں قمیض کا تمبو بنا کر
سامنے نمودار ھوا۔۔۔
ضوفی نے مجھے کھڑا کرتے ھی کھینچ کر اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے میرے ھاتھوں کو چھوڑ کر میری بغلوں سے
اپنے بازوں گزار کر مجھے اپنے بازوں میں بھر لیا
میرا لن کپڑوں سمیت ضوفی کے چڈوں میں گھس چکا تھا
اور ضوفی کی پھدی کو رگڑ لگا رھا تھا۔۔اور ضوفی بھی چڈوں کو بھینچ کر لن کو پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی
ضوفی مجھ سے لپٹی ہوئی پھر میرے ہونٹؤں کو چوسنے لگ گئی اور ساتھ ساتھ پیچھے سے فیتے کو سیدھا کر کے دونوں
ہاتھوں میں پکڑا کر مجھ سے علیحدہ ھوکر میری کمر کے گرد فیتے کو ڈال کر نیچے جھک کر پاوں کے بل بیٹھ گئی اور
میری ناف کے نیچے سے فیتے کے دونوں سروں کو مال کر فیتے پر میری ویسٹ کا سائز چیک کر کے ساتھ ھی فیتہ میری
کمر سے اوپر میرے سینے پر لے گئی اور سینے کا سائز لیتے ھی فیتے کو میری کمر کے گرد سے کھینچ لیا۔۔۔ اور ساتھ
ھی ضوفی پھر پیروں کے بل بیٹھ گئی
میرا لن بلکل تن کر کھڑا ضوفی کے منہ کو سالمی دے رھے تھا میرے تمبو کو دیکھ کر ضوفی کی آنکھوں میں چمک سی
آئی ۔
اور ضوفی نے پاوں کے بل بیٹھی نے ھی پھر فیتے کا سرا ایک ہاتھ میں پکڑا اور اسی ہاتھ سے میرے لن کو پکڑ کر
مسلنے لگ گئی میرے منہ سے سسسسییییی نکلی ضوفی کے نرم ہاتھ میرے لن کو مذید تڑپنے پر مجبور کررھے تھے اور
لن نے ساتھ ھی پھنکارنا شروع کردیا ۔
کچھ دیر ضوفی نے میرے لن کو مسال
اور پھر میری قمیض کو آگے سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور میرے لن کو مٹھی میں بھر کر اپنی انگلیوں میں فیتہ پھنسا کر
میرے نالے کے ساتھ لگایا اور فیتے کے دوسرے حصے کو دوسرے ہاتھ سے میرے پاوں کو لگا کر میری شلوار کی لمبائی
چیک کرنے لگ گئی ضوفی نے اوپر سے میرے لن کو بھی پکڑا ھوا تھا اور فیتے کا سرا انگلیوں سے میرے نالے کے
ساتھ بھی لگایا ھوا تھا اور میرے لن کو انگھوٹھے اور ایک انگلیوں کے درمیان گول دائرے سے بھینچ بھی رھی تھی
میں مزے سے جھت کی طرف منہ کر کے سسکاریاں بھر رھا تھا۔
کچھ دیر اسی حالت میں رہنے کے بعد ضوفی کھڑی ھوئی اور فیتے کو ایک طرف پھینک کر میرے ساتھ لپٹ کر میرے
ہونٹوں کو چوستے ھوے مجھے پھر صوفے پر گرا دیا اور میرے ساتھ بیٹھ کرمیرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ھوے میری
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی مزہ آیا ۔۔۔
میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکے گالوں کو پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر لمبی کس کرتے ھوے کہا مزہہہہ تو بہت آیا مگر ایک
دفعہ تو تم نے میری جان نکال دی تھی ۔
ضوفی بولی جان تو میں پہلے ھی نکال چکی ھوں
ضوفی میری شہ رگ پر انگلی پھیرتے ھوے بولی اب یہ جان میری جان ھے ۔
ضوفی ساتھ ساتھ اپنے پیر کو میری پیر پر ہھیرتے ھوے میرے پیر سے چپل اتارنے لگ گئی اور کچھ دیر بعد میرے ننگے
پیر پر اپنا ننگا پیر پھیرنے لگ گئی ضوفی کا پاوں انتہائی نرم تھا اسکے پاوں کا لمس ھی میری جان نکال رھا تھا ۔
کچھ دیر ضوفی یوں ھی میری پیر کو مسلتی رھی اور پھر مجھ سے بولی
یاسر تم نے کل صبح چھ بجے ادھر پارلر پر ہونا ھے ۔
اور ہم کل الھور جارھے ہیں میں تمہارا انتظار کروں گی ۔۔
میں نے کہا مگر۔۔۔۔۔۔ضوفی میرے ہونٹوں ہر ہونٹ رکھ کر بولی اگر مگر کچھ نہیں
تم نے کل آنا ھے تو بس آنا ھے ۔۔
اگر نھی آنا تو مجھے ابھی بتا دو۔۔۔۔
میں کچھ دیر خاموش رینے کے بعد اثبات میں سر ہال کر بوال ٹھیک ھے ۔۔آجاوں گا۔۔۔
ضوفی خوش ھوکر مجھ سے لپٹ گئی اور میرے سارے چہرے کو چومنے کے بعد بولی تھینکیو۔۔۔۔۔
مجھے اچانک خیال آیا کہ میں تو انکل کو ہیشاب کرنے کا بہانہ کرکے آیا تھا لے کاکا ہن تیری خیر نئی میں جلدی سے اٹھا
اور ضوفی سے ایکسیوز کیا کہ مجھے دکان سے آے کافی دیر ھو چکی ھے انکل ناراض ہوں گے اس لیے مجھے اجازت
دے ۔۔۔
ضوفی پھر مجھ سے لپٹ کر میرے ھونٹوں کو چومتے ھو بولی اوکے
مگر صبح جلدی آجانا میں چھ بجے ادھر ھی ہوں گی اور گھر بتا کر آنا میں نے ہممممم کیا اور پارلر سے نکل کر دکان پر
پہنچ گیا۔۔۔
انکل کی چند باتیں اور نصحتیں سننے کے بعد کام میں مصروف ھوگیا اور شام کو گھر پہنچ کر کھانا وغیرہ کھا کر امی کو
جھوٹی کہانی سنا کر منا لیا اور رات کو الہور دیکھنے کی خوشی میں سوچتے سوچتے سوگیا ۔
.صبح میں پانچ بجے اٹھا اور تیار ہوکر کھیت کے راستے کی بجاے میں چوک کی طرف چل دیا کہ شاید کوئی سواری مل
جاے اور میں جلدی سے شہر پہنچ جاوں ۔
دوستو مجھے ضوفی کے ساتھ سفر کرنے سے ذیادہ الہور دیکھنے کا تجسس تھا میں چوک میں پہنچا تو وہاں کوئی تانگہ
نہیں کھڑا تھا تو میں سڑک پر ھی شہر کی جانب چل پڑا اتنے میں پیچھے سے مجھے موٹر سائکل آنے کی آواز آئی تو میں
نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو ہمارے گاوں کا ھی ایک شخص موٹر سائکل پر آرھا تھا میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو
اس نے بریک لگا کر مجھے لفٹ دے دی میں اسکا شکریہ ادا کرتا ھوا اس کے پیچھے بیٹھ گیا پانچ منٹ میں شہر پہنچ گیا
اتفاقًا اس آدمی نے بھی بازار کی طرف سے جانا تھا جس کا مجھے فائدہ ھوا کہ میرا کافی وقت ضائع ہونے سے بچ گیا۔
میں اپنی دکان کے سامنے اتر گیا اور اس کا پھر شکریہ ادا کیا
جب وہ شخص میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا۔
میں ابھی کچھ پیچھے ھی تھا کہ مجھے مارکیٹ کے باہر ضوفی رکشے سے اتر رھی تھی ۔
ضوفی نے رکشے والے کو کرایہ دیتے ھوے گردن گھما کر میری طرف دیکھا تو ایک سیکسی مسکراہٹ میری طرف
پھینکتے ھوے مجھے ہاتھ ہال کر ہاے کیا ۔
میں نے بھی جوابًا مسکرا دور سے ہاتھ ہالیا
رکشے واال چال گیا۔
ضوفی ادھر ھی کھڑی تھی ۔میں جب ضوفی کے پاس پہنچا تو اس کے جسم سے پرفیوم کی دھیمی سی خوشبو میرے نتھنوں
سے ٹکرائی اورضوفی نے مسکراتے ھوے ہاتھ میری طرف بڑھایا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو بازار سنسان ھی تھا تقریبًا
ساری دکانیں بند تھیں
میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کا ہاتھ تھاما اور ضوفی کے ساتھ بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ھوے ضوفی بولی ٹائم کے بڑے
پابند ہو میں نے کہا میں تو اس خوشی میں ھی ساری رات سویا ہی نہیں کہ تمہارے ساتھ سفر کرنے کا موقع مل رہا ھے
ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے بولی مسکے بہت لگاتے ھو تم میں نے کہا سچ کہہ رھا ہوں یار ایسے ھی ہم باتیں کرتے
ھوے پارلر کے پاس پہنچے ضوفی نے الک کھوال اور ڈور کھول کر ہم دونوں اندر داخل ہوگئے ضوفی نے دروازہ الک کر
کے دکان بند ھے کی پلیٹ باہر کو کر دی اور ضوفی نے اوپر لی چادر اتار کر صوفے پر پھینکی اور سینے کو آگے کر
کے دونوں ھاتھوں سے بالوں کو سنوارتے ھوے آئینے میں دیکھنے لگ گئی ۔
اففففففففففدف ضوفی نے جیسے ھی چادر اتاری تو اس کی ڈریسنگ دیکھ کر میں سکتے میں آگیا ضوفی نے ڈارک لپسٹک
ہلکا سا میک اپ اور بلیک سوفٹ جینز کی پینٹ اور پنک کلر کی شاٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی شرٹ کا کپڑا بھی اتنا سوفٹ تھا
کہ ضوفی کے تنے ہوے ممے ایسا منظر پیش کررھے تھے ۔جیسے ضوفی بغیر کپڑوں کے کھڑی ھو ۔ ایک تو ضوفی کے
ممے تنے ھوے تھے دوسرا جب ضوفی نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے سینے کو آگے کی طرف کیا تو افففففففففففف کیا
ھی نظارہ تھا ممے ایسے آگے کو ھوے جیسے ابھی شرٹ کو پھاڑ کر باہر آجائیں گے ۔
میرا تو خود سے کنٹرول ختم ھو رھا تھا میرا تو دل کر رھا تھا کہ ضوفی کے مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر لوں ۔
جب ضوفی نے میری طرف کمر کی اور چہرہ آئینے کی طرف کر کے بال بنانے لگی تو پیچھے سے ضوفی کی گانڈ بھی
کیا ذبردست نظارہ پیش کررھی تھی میرا ھی حوصلہ اور برداشت تھی کی ایسا ظلم برداشت کررھا تھا میری جگہ اگر کوئی
سو ساال بوڑھا بھی ھوتا تو وہ بھی اپنا ہتھیار ہاتھ میں پکڑ لیتا۔
ضوفی کچھ دیر بعد مجھے بولی یاسر ادھر آو اور پالر چیئر پر بیٹھو میں نے کہا کیوں خیر ھے
ضوفی بولی یار ٹائم کم ھے جلدی کرو
میں تجسس کا شکار ہوتے ھوے کندھے اچکا کر کرسی پر بیٹھ گیا ضوفی نے دراز کھوال اور تاول نکال کر میرے سینے پر
ایسے رکھ دیا جیسے نائی شیو کرنے کے دوران رکھتا ھے ۔
میں نے کہا یار کیا کرنے لگی ھو۔
ضوفی اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر شیییی کرتے ھوے بولی ۔
چپ کر کے بیٹھ جاو میں ضوفی کا حکم مانتے ھوے ھوے چپ کر کے بیٹھ گیا ۔۔ضوفی نے ایک بوتل سے جل نکال کر
میرے چہرے پر لگائی اور پھر ریزر پکڑ کر میری شیو کرنے لگی تو میں نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھوال ھی تھا کہ
ضوفی نے مجھے گھور کر دیکھا تو میں سہم کر بیٹھ گیا ۔
ضوفی بڑی احتیاط سے میری شیو کرنے لگ گئی میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں کہ جو ھوگا دیکھا جاے گا ۔
کچھ دیر بعد ضوفی نے شاور سے میرے چہرے پر پانی مارا اور ٹشو سے میرا چہرہ صاف کر کے بولی واووووووووو
سو کیوٹ یار اور ساتھ ھی ضوفی نے میری دونوں گالوں پر چٹکیاں کاٹ دیں
میں نے جیسے ھی آنکھیں کھول کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئیں ۔
میں تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر ھی اپنے آپ پر نہال ھورھا تھا
کلین شیو میں گورا رنگ میں تو بلکل لڑکیوں جیسا لگ رھا تھا ۔
مجھے یقین نہیں ھورھا تھا کہ یہ میں ہی ہوں میں آنکھیں پھاڑے شیشے میں اپنے چہرے کو دیکھی جارھا تھا۔
ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی
ایسے نہیں میں تم پر مر مٹی تھی ۔
ہیرے کی پہچان جوہری ھی کرسکتا ھے ۔
ضوفی کرسی کے پیچھے کھڑی میرے گلے میں باہیں ڈال کر میرے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر اپنے نرم گال کو میرے نرم
اور سوفٹ گال کے ساتھ رگڑتے ھوے بولی ۔
ابھی تو میرا شہزادہ تیار ھوگا تو دیکھنے والے دیکھتے رھ جائیں گے
یہ کہتے ھوے ضوفی نے میری گال کو چوما اور کیبن کی طرف چلی گئی میری گال پر ضوفی کی لپسٹک کے ہونٹ بن
گئے تھے ۔
میں نے ٹشو پکڑ کر اپنی گال سے لپسٹک صاف کی اور پھر آئینے میں اپنے حسن کو دیکھنے لگ گیا کچھ دیر بعد ضوفی
کی آواز آئی بس کرو میرے شہزادے کو نظر نہ لگا دینا۔
میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا تو ضوفی ہینگر ہاتھ میں پکڑے ہوے کھڑی تھی میں نے کرسی سے اٹھتے ھوے
گھوم کر دیکھا تو ضوفی کے ہاتھ میں جینٹس پینٹ شرٹ پکڑی ہوئی تھی
الئٹ پنک کلر کی شرٹ اور بلیک ڈریس پینٹ بلکل ویسی کلر میچنگ جیسی ضوفی نے خود پہنی ھوئی تھی میں حیران
ہوکر پوچھنے لگا یہ کیا ھے
ضوفی بولی یہ تمہارے لیے ھے ۔
میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا
نہیں یار میں یہ نہیں پہن سکتا کم از کم مجھ سے پوچھ تو لیتی ایسے فضول میں پیسے لگاے اور یہ مناسب بھی نہیں کہ میں
تمہارے پیسوں سے کپڑے پہنوں ضوفی بولی ۔
تم میں اور مجھ میں فرق ھے ۔
بہت دکھ ھوا یاسر تمہاری بات سن کر میں نے اپنی خوشی اور شوق سے تمہارے لیے یہ پینٹ شرٹ خریدی ھے اور تم ھو
کہ ۔۔۔۔۔
چلو جلدی سے کیبن میں جاکر چینج کرو ہمیں دیر ھو رھی ھے ۔
سات بجے ہم نے نکلنا ھے ۔۔
اور یہ کہتے ھو ضوفی نے میرے ھاتھ میں ہینگر پکڑایا اور مجھے دھکا لگاتے ھوے کیبن میں چھوڑ آئی ۔
میں نے بھی چاروناچار دل کو سمجھا کر کپڑے اتار کر پہلے شرٹ پہنی اور پھر انڈر ویر پین کر پینٹ پہن کر باہر آیا تو
ضوفی مجھے دیکھ کر ہنس کر بولی تم بھی نہ یار اور جلدی سے میرے قریب آکر میری شرٹ کو پینٹ کے اندر کیا اور
بیلٹ لگا کر ایک شاپر سے بلیک اور پنک الئنگ والی ٹائی نکال کر میرے گلے میں باندھ دی اور پھر الماری کے دراز سے
ایک شاپر نکاال اس میں سے ایک ڈبہ نکال کر بلیک نوک دار کوٹ شوز نکال کر مجھے بازو سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا
اور خود میرے قدموں میں بیٹھ گئی میں ضوفی کے جزبے اور شوق کو دل ھی دل میں سہرا رھا تھا ۔
کہ پاگل کتنا پیار کرتی ھے مجھ سے ۔
اور کتنا خرچا کردیا ۔
ضوفی نے اسی شاپر سے سوکس نکال کر خود ھی میرے پاوں میں پہنا کر پھر شوز میرے پاوں میں پہنانے لگ گئی
ضوفی مجھے ایسے تیار کررھی تھی جیسے بچے کو سکول کے لیے تیار کیا جاتا ھے ۔
پھر ضوفی نے ہیئر برش پکڑ کر میرے بال بنانے لگ گئی ۔
بال بنا کر مجھے بازو سے پکڑ کر دیوار پر لگے بڑے سے آئنے کے پاس لے آئی اور میرے پیچھے کھڑے ہوکر میری
کمر کر گرد باہیں ڈال کر ھاتھ میرے پیٹ پر باندھ کر اپنے ممے میری کمر کے ساتھ لگا کر میرے کندھے پر ٹھوڑی رکھ
کر آئینے میں دیکھتے ھوے بولی ++++++نظر نہ لگ جاے اور ضوفی نے اپنی چھوٹی فنگر کو اپنی آنکھ سے لگا کر
فنگر پر آنکھ سے کاجل لگا کر میری گردن پر ٹیکہ لگا دیا۔
.میں آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر پھولے نہیں سما رھا تھا اور مجھے یقین ھی نہیں ھو رھا تھا کہ یہ میں ھی ھوں
)Update no (92
پینٹ شرٹ میں ایک پینڈو
ہینڈ سم ُگ ڈ ُلکنگ سمارٹ بواے بن گیا تھا جسے جو لڑکی بھی ایک نظر دیکھ لے تو پلکیں جھکانا بھول جاے اور بس اپنا دل
تھام کر بیٹھ جاے ۔
ایک ان پڑھ پینڈو
اب ایک گریجویٹ ینگ مین بن چکا تھا ۔
ضوفی میرے پیچھے کھڑی تھی اور مجھے بڑے غور سے آئینے میں سے دیکھی جارھی تھی
ضوفی نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر گھما کر اپنی طرف کیا اور بولی تمہارا آئینہ ادھر ھے
اور مجھے سر سے لے کر پاوں تک دیکھتے ھوے بولی
یاسررررررر قسم سے تمہاری جیسی ُلک میں نے دماغ میں بیٹھائی ھوئی تھی تم تو اس سے بھی کہیں ذیادہ ُگ ڈُلکنگ نکلے
یارررررر
سہی پوچھو تو میں تمہاری بیوٹی سے جیلس ھورھی ہوں ۔
اور خود کو خوش نصیب بھی سمجھ رھی ہوں کہ میں نے الکھوں میں جو ہیرا چنا ھے وہ واقعی انمول ہیرا ھے ۔
آئی لو یو یاسررررررد یہ کہتے ھوے ضوفی مجھ سے لپٹ گئی اور بڑے ذور سے مجھے ہگ کیا۔
اور مجھ سے علیحدہ ھوتے ھوے میری گالوں کو اپنی ہتھیلیوں سے سہالتے ھوے بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کہ
کوئی تم کو مجھ سے چھین نہ لے ۔
میں نے ضوفی کے ہاتھوں پر اپنے ھاتھ رکھتے ھوے نفی میں سر ہالتےھوے بوال نہیں ضوفی
یہ یاسر آج سے تمہارا ھے صرف تمہارا۔
ضوفی بولی یاسر اگر تم نے مجھے دھوکا دیا نہ تو میں تمہاری بھی جان لے لوں گی اور اپنی بھی جان دے دوں گی
تمہارہ یہ روپ دیکھ کر مجھے ڈر لگنے لگ گیا ھے ۔
کہیں کوئی تم کو مجھ سے چھین کر نہ لے جاے ۔
میں نے ضوفی کے ھاتھوں کو سہالتے ھوے کہا نہیں ضوفی میرا یہ روپ تمہارا دیا ھوا ھے میں اتنا بھی سیلفش نہیں ہوں
کہ تمہارے اس احسان کو بھول جاوں ۔
ضوفی کافی اموشنل ھورھی تھی
ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہیں یاسر یہ احسان نہیں میرے پیار کو میرے خلوص کو میری محبت کو میرے جزبے
کو احسان کا نام مت دو ۔
میرا بس چلے تو میں تمہارے لیے ساری دنیا کی خوشیاں اکھٹی کر کے تمہارے قدموں میں رکھ دوں ۔
تم نہیں جانتے یاسر کہ تم میرے لیے کیا ۔
)Update no (93
ضوفی کی آنکھوں میں نمی آگئی اور وہ اموشنل ھوتی ھوئی میری گالوں کو سہالتے ھوے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
ایک ھی سانس میں بولی
کیسے بتاْو ں میں تمہیں
میرے لیئے تم کون ہو
تم دھڑکنوں کا گیت ہو
جیون کا تم سنگیت ہو
تم زندگی
تم بندگی
تم روشنی
تم تازگی
تم ہر خوشی
تم پیار ہو
تم پریت ہو
من میت ہو
آنکھوں میں تم
سانسوں میں تم
آہوں میں تم
نیندوں میں تم
خوابوں میں تم
تم ہو میری ہر بات میں
تم ہو میرے دن رات میں
تم صبح میں
تم شام میں
تم سوچ میں
تم کام میں
میرے لیئے پانا بھی تم
میرے لیئے کھونا بھی تم
میرے لیئے ہنسنا بھی تم
میرے لیئے رونا بھی تم
اور جاگنا سونا بھی تم
جاْو ں کہیں
دیکھوں کہیں
تم ہو وہاں تم ہو وہیں
کیسے بتاْو ں میں تمہیں
تم بن تو میں کچھ بھی نہیں
کیسے بتاْو ں میں تمھیں میرے لیے تم کون ہو
یہ جو تمہارا روپ ہے
یہ زندگی کی دھوپ ہے
چندن سے ترشا ہے بدن
بہتی ھے جس میں اک اگن
یہ شوخیاں ،یہ مستیاں
تم کو ہواْو ں سے ملیں
زلفیں گھٹاْو ں سے ملیں
ہونٹوں میں کلیاں کھل گئیں
آنکھوں کو جھیلیں مل گئیں
چہرے میں سمٹی چاندنی
آواز میں ہے راگنی
شیشے کے جیسا انگ ہے
پھولوں کے جیسا رنگ ہے
ندیوں کی جیسی چال ہے
کیا حسن ہے کیا حال ہے
یہ جسم کی رنگینیاں
جیسے ہزاروں تتلیاں
تمہارے جسم کا یہ لمس
یہ نگریاں ہیں خواب کی
کیسے بتاْو ں میں تمہیں
حالت دل بیتاب کی
کیسے بتاْو ں میں تمہیں میرے لیے تم کون ہو
کیسے بتاْو ں میں تمہیں۔۔۔۔
میرے لیئے تم دھرم ہو
میرے لیئے ایمان ہو
تم ہی عبادت ہو میری
تم ہی تو چاہت ہو میری
تم ہی میرا ارمان ہو
تکتی ہوں میں ہو پل جسے
تم ہی تو وہ تصویر ہو
تم ہی میری تقدیر ہو
تم ہی ستارا ہو میرا
تم ہی نظارا ہو میرا
کس حال میں میرے ہو تم
جیسے مجھے گھیرے ہو تم
پورب میں تم
پچھم میں تم
اتر میں تم
دکھن میں تم
سارے میرے جیون میں تم
ہر پل میں تم
ہر چھل میں تم
میرے لیئے رستہ بھی تم
میرے لیئے منزل بھی تم
میرے لیئے ساگر بھی تم
میرے لیئے ساحل بھی تم
میں دیکھتی تو تم کو ہوں
میں سوچتی تو تم کو ہوں
میں جانتی تو تم کو ہوں
میں مانتی تو تم کو ہوں
تم ہی میری پہچان ہو
کیسے بتاْو ں میں تمہیں
دیوتا ہو تم ۔۔ میرے لیے
میرے لیئے بھگوان ہو
کیسے بتاْو ں میں تمہیں میرے لیے تم کون ہو
ضوفی بولتی گئی میں سنتا گیا آج پہلی دفعہ میرا دل دھڑکا اور اس دھڑکن میں ضوفی کے لیے سچی محبت تھی جس میں
ہوس نہیں تھی
.صرف پیار تھا سچا جذبہ تھا ضوفی کا جنون ضوفی کی محبت ضوفی کے اخالص نے میرے دل میں گھر کرلیا آج مجھ میں
تبدیلی آگئی تھی جو فیلنگ میرے اندر ضوفی کے لیے جاگی وہ پہلے کبھی کسی لڑکی کے لیے نہیں جاگی تھی پہلے بس
لڑکیوں کے جسم کی کشش مجھے اپنی طرف مائل کرتی مگر آج ضوفی نے میری ظاہری حالت کے ساتھ ساتھ میرا باطن
بھی بدل کے رکھ دیا ۔
ضوفی کی آنکھیں اسکی سچی محبت کی گواہی دے رہیں تھیں ۔
کچھ دیر ایسے ھی ضوفی مجھ پر نہال ہوتی رھی اور میں اسکے پیار کے بندھن میں مزید بندھتا گیا ۔
آخر کار ضوفی کو احساس ھوا کہ الہور کی بس نکل جانی ھے تو ضوفی مجھ سے علیحدہ ھوئی اور جلدی سے اپنے ہینڈ
بیگ میں کچھ ضروری سامان رکھنے لگ گئی ۔
اور پھر ضوفی کیبن میں گئی اور جب باہر آئی تو اس نے گاون پہنا ھوا تھا جو مجھے بھی اچھا لگا ورنہ شاید اس لباس میں
اسے یوں سرعام لے کر پھرنا مجھے اچھا نہیں لگتا اور ایسی فیلنگ بھی پہلی دفعہ میرے اندر پیدا ھوئی تھی
شاید مجھے بھی ضوفی سے سچا پیار ھوگیا تھا
ورنہ تو میرا یہ ھی شوق ھوتا کہ ضوفی ایسے ھی اپنے مموں کا نظارا مجھے کرواتی جاتی ۔
خیر ہم پارلر سے باہر نکلے اور رکشہ پر بیٹھ کر الری اڈے پہنچے ۔
بس اسٹینڈ پر الہور جانے والی کوسٹر منی بس تیار کھڑی تھی ۔
ضوفی جلدی سے گاڑی کے پاس کاونڑ پر بیٹھے شخص سے ٹکٹ لینے لگ گئی اور پرس سے پیسے نکال کر دینے لگی
تو مجھے پھر اپنی غربت اور بےبسی پر غصہ آنے لگ گیا
مگر سواے اندر ھی اندر ُک ڑھنے کے کر بھی کیا سکتا تھا
ہمیں آخر کی چار سیٹوں میں سے دو سیٹیں ملیں مجبوری تھی بیٹھنا پڑا ورنہ دو گھنٹے بعد دوسری گاڑی جانی تھی ۔
کچھ دیر بعد گاڑی اڈے سے نکل پڑی
ضوفی شیشے والی سائڈ پر بیٹھی تھی اور ضوفی کے ساتھ میں بیٹھا ھوا تھا اور میرے ساتھ ایک بزرگ اور اس کے ساتھ
اماں جی بیٹھی ھوئی تھی ۔
ضوفی نے نقاب کیا ھوا تھا اور بلیک سن گالسس لگاے ھوے تھے کچھ دیر بعد میں نے ضوفی سے پوچھا یار ایک بات تو
بتاو
ضوفی جو شیشے کے باہر دیکھنے میں مصروف تھی میری طرف متوجہ ھوکر بولی ہممممم بولو۔۔۔
میں نے کہا یار تمہیں میری پینٹ شرٹ کے سائز اور میرے جوتے کے سائز کا کیسے پتہ چال۔
ضوفی مسکراتے ھوے بولی دیکھ لو چاہنے والے سب کچھ معلوم کرلیتے ہیں ۔
میں نے ضوفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ھوے ہاتھ کو سہالتے ھوے کہا۔
ضوفی سچ بتاو نہ یار کیسے پتہ چال۔۔۔
ضوفی بولی چھوڑو یار ۔
میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا نہیں یار بتاو نہ ۔
ضوفی بولی کل جو کچھ ہورھا تھا تو میں تمہارا سائز ھی لے رہی تھی ۔
میں نے چونکتے ھوے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال۔
لو جی میں ایویں سمجھتا رھا کہ تم میرے ساتھ رومانس کر رھی تھی
ضوفی ہنستی ھوئی سرگوشی میں بولی ۔
پاگل اگر میں تمہیں سیدھی طرح کہتی کہ تمہارے لیے پینٹ شرٹ لینی ھے اس لیے اپنا سائز دو تو تم نے کبھی بھی نہیں
ماننا تھا اس لیے مجھے ایک تیر سے دونشانے لگانے پڑے رومانس کا رومانس اور سائز کا سائز۔۔۔
میں نے کہا بڑی تیز ھو تم ۔۔۔ضوفی مجھے کندھا مارتے ھوے بولی تمہارا کچھ تو اثر مجھ پر پڑنا ھی تھا۔
میں نے آہستہ سے ضوفی کے کان میں کہا ضوفی صرف کپڑوں کا ھی سائز لیا تھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفی میری ادھوری بات پر چونکتے ھوے بولی
کیا مطلب میں سمجھی نہیں ۔
میں نے کہا کچھ نہیں ۔
ضوفی نے مجھے کہنی مارتے ھوے کہا ۔
بتاو نہ یاسر تنگ نہ کرو
میں نے کہا
جسکو ھاتھ میں پکڑ کر مسل رھی تھی اسکا سائز نہیں کیا۔
ضوفی میری بات سمجھتی ھوے میرے بازو پر چٹکتی کاٹتے ھوے بولی ۔
شوخےےےےےےے آرام نال ۔۔۔
میں نے کہا اب بتاو نہ ۔
ضوفی بولی شرم کرو یاسر ہم گھر پر نہیں گاڑی میں ہیں ۔
میں نے آہستہ سے کہا کان میں بتا دو ۔۔
ضوفی بھی میری نقل اتارتے ھوے اسی انداز میں بولی گھر جاکر بتاوں گی۔۔
میں نے کہا میرے گھر ۔
ضوفی بولی نہیں جی میرے گھر۔
میں نے کہا کیا مطلب ۔
ضوفی بولی کیوں کہ ہمیں واپسی پر رات کافی ھوجانی ہے اور تم اتنی رات کو گھر کیسے جاو گے اس لیے رات میرے گھر
ھی رکنا۔
میں نے کہا مگر یار میں تو گھر نہیں بتا کر آیا کہ میں رات کو نہیں آوں گا میری امی تو پریشان ھوں گی ۔
ضوفی بولی تمہاری گلی میں کسی کے گھر فون لگا ھے ۔
میں نے کہا گھر میں تو نہیں بلکہ ہمارے چوک میں ایک دکان پر فون ھے پورے گاوں کے فون ادھر ھی آتے ہیں اور
جسکا فون ھو وہ لڑکے کو بھیج کر انکے گھر بتا دیتا ھے ۔
ضوفی ھاتھ پر ھاتھ مارتے ھوے بولی لو پھر اپنا کام تو ھوگیا تم اب بےغم ھوجاو۔ الہور پہنچ کر گھر فون کر کے بتا دینا
میں نے ہممممم کیا ۔
اور میں نے جیسے ھی آگے والی سیٹ پر بیٹھے لڑکے کی طرف دیکھا تو میرا چہرہ ۔۔۔۔
.میرا چہرہ غصے سے الل ہوگیا وہ لڑکا بار بار گردن گھما کر ضوفی کو دیکھ رھا تھا میں پہلے تو اسے اتفاق سمجھ رھا
تھا مگر وہ بہانے بہانے سے گردن گھما کر پیچھے دیکھتا۔
کچھ دیر میں برداشت کرتا رھا مگر وہ لڑکا باز نہ آیا۔
ضوفی نے بھی شاید یہ بات نوٹ کی تھی اور ضوفی میرا ریکشن بھی دیکھ رھی تھی ۔
میں نے ضوفی کو کہا کہ اس چول نے مجھ سے چھتر کھا لینے ہیں کیسے بار بار گردن گھما کر تمہیں دیکھ رھا ھے ۔
ضوفی میرا ہاتھ دباتے ھوے بولی دفعہ کرو دیکھنے دو کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ھے ایسے ھی ہر لڑکی کو گھورنے کی ۔
میں نے کہا
مجھے اچھی طرح ایسے لوگوں کو سیدھا کرنا آتا ھے ۔
اب اگر اس نے دوبارا یہ حرکت کی تو میں نے سالے کی ُمنڈی مروڑ دینی ھے ۔
ضوفی بولی دفعہ کرو یاسر ایسے تماشہ بنے گا ۔
میں نے کندھے اچکاتے ھوے کہا بننے دو ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ اس لڑکے نے پھر گردن گھمائی اور ضوفی
کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔
میں نے پیچھے سے اسکی گردن کو پکڑ کر گھما کر کہا ۔
اوے پھدی دیا اپنی پین ول کی بار بار ویکھن لگیا ہویا ایں ۔
تیرے کولوں سدھا ہوکہ نئی بیٹھیا جاندا۔
لڑکا ایکدم گبھرا گیا اور ممممم کرنے لگ گیا کہ میں نے کب دیکھا ھے ۔
میں نے پھر غصے اور اونچی آواز میں دھاڑتے ھوے کہا۔
سالیا میں کدوں دا تیرے ولی ای ویکھی جاندیاں واں پر توں باز نئی آریا ۔
اتنے میں کنڈیکٹر بھی بھاگا پیچھے آیا اور میرے ساتھ بیٹھا ھوا بزرگ بھی مجھے چپ کروانے لگ گیا کنڈیکٹر اور دیگر
سواریوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا ۔
لڑکا بھی اب انسان کا بچہ بن کر بیٹھ گیا۔
ضوفی بولی یاسر میں نے کہا بھی تھا کہ دفعہ کرو ایسے خوامخواہ تماشا بنا دیا۔
میں نے کہا یار مجھ سے نہیں برداشت ھوتا کہ کوئی تمہیں یوں گندی نظروں سے دیکھے میں اس پین یک دیا اکھاں نہ کڈ
دیواں ۔
ضوفی میرا ھاتھ تھام کر سہالتے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر بولی ۔
اتنا پیار کرتے ھو مجھ سے ۔۔۔۔
میں بھی سینہ چوڑا کر کے بوال ۔
میرا بس چلے تو تم سات پردوں میں چھپا کر رکھوں کہ تمہارا کوئی بال بھی نہ دیکھ سکے ۔
ضوفی میرے کندھے سے سر اٹھا کر مجھے کندھا مارتے ھوے بولی اوے ھوے میرا دیوداس۔۔۔۔۔
ایسے ھی باتوں باتوں میں ہمیں پتہ بھی نہ چال کہ کب الہور آیا اور گاڑی رک گئی تو کنڈیکٹر نے آواز دی کے الری اڈا آگیا
ھے ۔۔۔
سب سواریاں اتر گئی تو ہم آخر میں اترے ۔۔
گاڑی سے باہر نکلے تو مجھے وہ لڑکا کہیں نظر نہ آیا جو ضوفی پر الئن مار رھا تھا۔۔۔
اتنے میں ہمارے قریب ایک رکشہ رکا تو ضوفی نے اسے شاہ عالم مارکیٹ جانے کا کہا اور اس سے کرایہ طے کر کے ہم
رکشے میں بیٹھ گئے۔۔
رکشے میں بیٹھتے ھی ضوفی نے اپنے پرس سے دوہزار روپے نکال کر مجھے دیے کہ یاسر یہ جیب میں ڈال لو مجھ سے
بار بار پرس نہیں کھوال جاتا تم خود ھی کرایہ وغیرہ دیتے رہنا میں انکار کیا مگر ضوفی ذبردستی میری پیٹ کی جیب میں
ڈال دیے ۔۔۔
میں رکشے میں بیٹھا بڑے شوق سے باہر کا نظارا کر رھا تھا
رنگ برنگی کاریں اونچی اونچی عمارتیں ۔۔۔
کہ اتنے میں میری نظر مینار پاکستان پر پڑھی تو میں نے خوشی سے تالی بجاتے ھوے ضوفی کو کہا کہ ضوفی وہ دیکھو
مینار پاکستان افففففف کتنا بڑا ھے ۔۔۔
ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی مارکیٹ سے فارغ ہوکر ہم ادھر بھی آئیں گے اور اوپر بھی چڑھیں گے ۔
میں خوش ھوتے ھوے ضوفی کا ھاتھ پکڑ کر بوال سچیییییی ضوفی بولی ُمچییییی ۔
میں نے دونوں ُمٹھیاں بھر کر یاااااا کیا اور پھر دور سے ھی مینار پاکستان کو دیکھنے لگ گیا رکشہ شاید مینار پاکستان کے
گرد ھی گھوم رھا تھا کیونکہ کتنی دیر دی ایک ھی لوکیشن نظر آے جارھی تھی ۔
کہ اتنے میں میری نظر دوسری طرف پڑی تو مجھے پرانی سے تاریخی عمارت نظر آئی میں نے ضوفی سے پوچھا یہ کس
کا گھر ھے اتنی اونچی اونچی دیواریں ہیں ۔
ضوفی میری بات سن کر کھلکھال کر ہنس پڑی اور میرے سر پر چپت لگاتے ھوے بولی ۔
پینڈو یہ گھر نہیں بلکہ بادشاہی قلعہ ھے اور وہ سامنے جو مینار نظر آرھا ھے وہ بادشاہی ****ھے ۔۔
میں نے جھینپ کر ہممممم کیا اور پھر سے شاہی قلعہ کو دیکھنے لگ گیا کچھ ھی دیر بعد یہ منظر میری آنکھوں سے غائب
ہوگیا میں پھر رکشہ سے سر باہر نکال کر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے لگ گیا۔
کہ رکشے واال بوال۔
سوہنے ِس ڑ اندڑ کڑلے ایویں کوئی نال ای لے جاوے گا۔
ضوفی نے مجھے بازو سے کھینچتے ھوے کہا یاسر سر اندر کرلو کیا دیکھ رھے ھو۔
میں شرمندہ سا ھوکر بوال کچھ نہیں اور پھر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد میری نظر سامنے دربار پر پڑی تو ضوفی نے بتایا کے یہ الہور کا مشہور دربار ھے ۔۔
میں بڑی حسرت سے دیکھتا رھا کچھ دیر مذید سفر کے بعد ہم مارکیٹ پہنچے تو میں نے جیب سے ہزار روپیہ نکال کر
رکشے والے کو دیا جو بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا ۔
اور شاید یہ سوچ رھا ھو کہ ۔
پینڈو بتیاں ویکھن آے نے ۔۔۔
ہزار کا نوٹ دیکھ کر رکشے واال بوال ۔
ویڑے سویڑے سویڑے ہزار کتھوں کھال کرواں گا ۔
ضوفی نے پرس کھوال اور اس کا مطلوبہ کرایہ دے کر مجھے ہزار جیب میں ڈالنے کا کہا اور ۔۔۔۔
ہم مارکیٹ کے اندر انٹر ھوگئے مارکیٹ میں بھاگم بھاگ پڑی ھوئی تھی ہر طرف رش ھی رش تھا۔
میں اتنا رش دیکھ کر پریشان ھورھا تھا کہ جمعہ کو بھی اتنا رش ھے تو آگے پیچھے کیا ھوتا ھوگا ۔
)Update no (94
مختلف بازاروں سے ھوتے ھوے ہم ایک پالزے پر پہنچے جہاں صرف کاسمیٹک کے ھی پروجیکٹ تھے ضوفی نے اپنی
مطلوبہ چیزیں لیں اور اسکو ایک بڑے سے کارٹن میں پیک کروا کر دکاندار کو پیمنٹ کر کے اپنے پارلر کا نام اور لوکیشن
کا بتایا جسکو وہ دکاندار ایک پرچی پر لکھتا گیا ۔
اور پھر ضوفی نے اسے کہا کہ بھائی اسکو احتیاط سے بلٹی کروا دینا تو دکاندار نے بھی خوش اسلوبی سے ھامی بھری
اور ہم واپس اسی جگہ آگئیے ۔۔۔
ضوفی بولی یاسر انارکلی بازار چلیں ادھر سے میں نے اپنے لیے اور چھوٹی سسٹر کے لیے کچھ شاپنگ کرنی ھے ۔۔۔
میں نے کندھے اچکا کر کہا چلو ۔۔۔
مجھے تو بس الہور دیکھنا تھا اور اوپر سے اتنا حسین ساتھ ۔
میں تو ہواؤں میں اڑ رھا تھا ۔
ہم دوبارا رکشے میں بیٹھے اور انار کلی بازار پہنچے تو ابھی کافی دکانیں بند ھی تھیں ۔
رکشہ سے اتر کر میں نے پھر جھٹ سے ہزار کا نوٹ نکال کر رکشے والے کی طرف بڑھایا تو رکشے والے نے پھر
مجھے وہ ھی الہوڑی سنا دی ۔۔
ضوفی نے مسکراتے ھوے پھر پرس سے پیسے نکال کر رکشے والے کو دیے
تو میں نے جنجھال کر دوسرا نوٹ بھی نکال کر ضوفی کو پکڑاتے ھوے کہا یار یہ مجھے کیوں دئیے تھے اگر ہر جگہ تم
نے ھی پیسے دینے ہیں ضوفی ہنستے ھوے میرے بڑھاے ھوے ھاتھ کو واپس کر کے کہ بولی ۔
سونے ابھی تو بہت جگہ پھرنا ھے اسے اپنے پاس ھی رکھو ۔
جہاں بڑا خرچا ھوا وہاں تمہاری جیب سے ھی لگواوں گی ۔
ضوفی کے اس بڑے پن پر مجھے اس پر بڑا پیار آیا کہ ایسے کہہ رھی ھے جیسے یہ پیسے واقعی میرے ہی ہیں ۔۔۔میں نے
منہ بسورتے ھوے پیسے واپس اپنی جیب میں ڈال لیے ۔
ضوفی بولی چلو یاسر پہلے ہم ناشتہ کرلیں مجھے تو بھوک بہت لگی ھے ۔
بھوک تو مجھے بھی لگی تھی کیونکہ ناشتہ میں نے بھی نہیں کیا تھا۔
ہم ایک دیسی ہوٹل کی طرف چل پڑے اندر لیڈیز کے لیے علیحدہ پردہ لگا ھوا تھا ہم ایک کیبن میں گھس گئے اور کچھ دیر
بعد ایک بچہ کندھے پر کپڑا رکھے آڈر لینے آیا ضوفی نے اس سے پوچھا کہ کیا پکا ھے تو اس نے ایک ھی سانس میں
پانچ چھے ایٹم گنا دیں جن میں سے مجھے تو دو کی ھی سمجھ آئی کہ سری پائے اور مرغ چنے ۔۔
ہم نے ناشتہ کا آڈر دیا اور کچھ دیر بعد ناشتہ کر کے ہم باہر نکلے تو میں جلدی سے کاونٹر کی طرف بڑھا اور ہزار روپیہ
نکال کر اسکی طرف بڑھایا اور شکر ادا کیا کہ اس نے الہوڑی نہیں سنائی۔۔۔
اس نے پیسے کاٹ کر باقی مجھے دے دئیے۔۔۔۔
ہم ہوٹل سے نکلے اور بازار میں چلنے لگے کافی دکانیں کھل چکی تھیں ہم ایک لیڈیز بوتیک میں داخل ھوے تو میں ورائٹی
دیکھ کر دنگ رہ گیا ہر سوٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھا ضوفی بولی یاسر پسند کرو کون سا سوٹ اچھا ھے ۔
میں کافی ڈریس دیکھنے کے بعد چار پانچ سوٹوں کو سلیکٹ کیا جسکو ضوفی نے بھی بہت پسند کیا اور میری پسند کی داد
دینے لگ گئی ۔۔
ضوفی نے سوٹ پیک کروا کر پیمنٹ کی اور ہم دکان سے باہر نکلے تو ضوفی مجھے لے کر ایک جینٹس پینٹ شرٹ والی
دکان میں داخل ہوئی تو میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا کہ ادھر سے کس کے لیے شاپنگ کرنی ھے تو
ضوفی بولی چلو تو سہی بتاتی ہوں ۔۔اس دکان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک پینٹ شرٹ پینٹ کوٹ شیروانی دلہا ڈریس کی
ورائٹی تھی ۔۔
ضوفی میری ویسٹ کے حساب سے پینٹیں دیکھنے لگ گئی ضوفی نے چھ سات پینٹیں پسند کرلیں جن میں کچھ جینز کی
تھیں اور کچھ کاٹن کی اور انکے ساتھ شرٹس بھی کافی اچھی ڈیزائننگ کی تھیں ۔
ضوفی نے کو پیک کروایا اور بل ادا کر کے پہلے والے سوٹ اور پینٹ شرٹس ادھر ھی جمع کروا دئیے کہ ہم واپسی پر لے
جائیں گے اور رسید لے کر ہم دکان سے باہر نکل پڑے ۔
جہاں تک مجھے یقین تھا کہ ضوفی نے میرے لیے ھی پینٹ شرٹس خریدیں ہیں ۔۔۔
کیونکہ ضوفی کہ گھر میں کوئی بھی میل نہیں تھا ۔
میں پھر بھی بار بار ضوفی سے پوچھتا رھا کہ اتنا خرچہ کس کے لیے کررھی ھو مگر ضوفی ہر دفعہ مجھے خاموش
رہنے کا کہہ دیتی ۔۔۔
ہم چلتے ھوے انار کلی بازار سے باہر آگئے وھاں سے ہم رکشہ لیا اور مینار پاکستان آگئے ۔۔۔
وہاں کچھ خاص رش نہیں تھا
کیونکہ الہور دن کو سوتا ھے اور رات کو جاگتا ھے دن کے وقت اکثریت سیرو تفری کے لیے آے ھوے دور دراز کے
عالقًو ں کے لوگ ھی تفریحی مقامات پر ھوتے تھے ۔
۔ہم لفٹ کے ذریعے مینار پاکستان پر چڑھے اور اوپر کھڑے ہوکر خوب انجوائے کیا ۔
وہاں ایک کام یہ ھوتا تھا جو شاید اب بھی ھوتا ھو کہ دور بین والے ذبردستی دور بین پکڑا دیتے تھے اور بعد میں اس کے
چارجز اپنی مرضی کے وصول کرتے تھے ۔۔
خیر ہمارے ساتھ بھی ایسا ھوا
کیونکہ انکا انداز ھی ایسا تھا جیسے فری میں دے رھے ھوں۔
ہم نے کافی انجواے کیا میں نے تو جی بھر کر اوپر سے نیچے کا نظارا کیا نیچے چلتے ھوے لوگ اور گاڑیاں چیونٹیوں
جتنی نظر آتی تھی یہ منظر مجھے بہت اچھا لگا ۔
اور پھر دور سے چھوٹی چھوٹی عمارتیں افففففف کیا ھی دلفریب نظارہ تھا ہم دو گھنٹے اوپر ھی رھے پھر نیچے آکر پارک
میں کچھ دیر بیٹھ کر کولڈ ڈرنک اور ساتھ میں چپس وغیرہ کھائی اور ایسے ھی ہم نے شاہی قلعہ اور اردوگرد کے مقامات
کی کی سیرو تفریح کرتے رھے اور خوب انجوائے کیا ۔۔۔
شام ڈھلنے لگی وقت کا پتہ ھی نہیں چال ۔
تو ضوفی بولی یار میں تو تھک گئی ھوں کیا پروگرام ھے اب واپس چلیں ۔
تھک تو میں بھی گیا تھا میں نے کہا چلو واپس چلتے ہیں ۔۔
مجھے اچانک خیال آیا کہ گھر کال کر کے بتا دوں میں نے ضوفی کو بتایا تو ضوفی بولی انارکلی بازار سے کسی پی سی او
سے کال کرلیں گے ۔
میں نے ہمممم کیا اور ہم پھر رکشہ میں بیٹھ کر انار کلی بازار کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔
دوستو میں حیران تھا کہ سارا دن ضوفی کے ساتھ گزارنے اور وہ بھی اتنے قریب سے اسکے ساتھ رہنے کے باوجود میرے
دماغ میں ایک دفعہ بھی ضوفی کے متعلق غلط خیال نہیں آیا کہ اسکے جسم کو جسن بوجھ کر ٹچ کروں یا اسکی گانڈ کو یا
مموں کو چھوؤں۔
پتہ نہیں اب
الہور دیکھنے کا نشہ وجہ تھی ۔
میری ظاہری تبدیلی وجہ تھی
یا پھر
مجھے ضوفی سے سچا پیار ھوگیا تھا ۔
خیر ہم انار کلی پینچے اور ادھر سے کال کر کے میں نے دکان والے کو اپنا تعارف کروایا اور اسے کہا کہ میرے گھر پیغام
بھیج دے کہ میں نے رات کو گھر نہیں آنا کہ الہور سے لیٹ ھوجاوں گا۔۔۔
اور پھر ہم اپنی کی ہوئی شاپنگ کے بیگ پکڑ کر وہاں سے ھی رکشہ میں بیٹھ کر الری اڈے پہنچے اور سیالکوٹ کی
گاڑی میں بیٹھ گئے سیٹوں پر بیٹھتے ھی ہم نے ٹھنڈی آہ بھری اور تھکاوٹ کا اظہار کرتے ھوے ایک دوسرے سے باتیں
کرتے رھے کچھ دیر بعد گاڑی بھی چل پڑی باہر کافی اندھیرا ھوچکا تھا اور مجھے لگ رھا تھا کہ ہم دس بجے سے پہلے
نہیں پہنچیں گے ۔۔
کچھ ھی دیر بعد ضوفی میرے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی اور میں ضوفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہالتے ھوے
سوچوں میں گم پتہ نہیں کب سوگیا۔
ایسے ھی کبھی آنکھ کھلتی کبھی بند ھوجاتی ضوفی نے تو اچھے طریقے سے نیند پوری کر کے تھکاوٹ اتار لی ۔
سارا سفر خاموشی سے ھی گزرا ۔
آخر کار ہم واپس اپنے شہر سیالکوٹ پہنچے اڈے سے رکشہ لیا اور سیدھا ضوفی کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔۔ضوفی کا گھر باہر
سے اچھا بنا ھوا تھا اور ڈبل سٹوری لگ رھا تھا مگر تھا چھوٹا ۔
میں نے ضوفی کو کہا یار تم اپنے گھر کیا بتاو گی تو ضوفی بولی تم بے فکر رھو میرے گھر والوں کی ٹینشن مت لینا اور
اسے اپنا گھر ھی سمجھنا ۔
میں نے ضوفی کو ذیادہ کریدا نہیں۔۔۔
ضوفی نے گھر کی ڈور بیل دی تو کچھ دیر بعد اندر سے کسی لڑکی کی پیاری سی آواز آئی کون ۔۔۔
ضوفی نے آواز دی ماہی دروازہ کھولو۔۔
دروازہ کھال تو سامنے جو چہرہ دیکھا تو ایسے ھی لگا کہ ضوفی ھی کھڑی ھے ہو باہو ضوفی کی ہم شکل اسکی چھوٹی
بہن کھڑی حیرانگی سے مجھے دیکھی جارہی تھی ۔
ضوفی اندر گئی اور مجھے بھی اندر آنے کا کہا اور میں بھی جھجھکتا ھوا اندر چال گیا ۔ ماہی نے دروازہ بند کیا اور
حیرانگی سے میرے پیچھے چلتی ھوی ٹی وی الونج میں آگئی ضوفی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور ماہی سے میرا تعارف
کرواتے ھوے بولی یہ یاسر ھے جسکا تمہیں بتایا تھا
اور یاسر یہ ماہ نور ھے جسے میں پیار سے ماہی کہتی ہوں ۔۔
اتنے میں کمرے سے ایک عمر رسیدہ آنٹی ھی کہہ لیں تقریبًا پچاس سال کے لگ بھگ عمر تھی برآمد ہوئیں اور مجھے
حیرانگی سے دیکھتے ھوے ضوفی کے سر پر پیار دیا میں نے بھی اٹھ کر انکو سالم کیا تو انہوں نے میرے سر پر بھی پیار
دیا۔۔۔
ضوفی نے آنٹی کا تعارف مجھ سے کروایا کہ یہ میری امی ہیں اور اپنی امی سے میرا تعارف کروایا کہ یہ یاسر ھے اور
ضوفی نے مجھے آنکھ مارتے ھوے کہا .
.میری دوست ثانیہ ھے نہ اسکا کزن ھے ادھر گاوں میں رھتا ھے میرے ساتھ الہور گیا تھا تو رات ہونے کی وجہ سے میں
اسے اپنے ساتھ ھی لے آئی کیونکہ رات کو انکے گاوں کی سواری نہیں ملتی
آنٹی مجھے سر سے پاوں تک ایسے دیکھ رھی تھی جیسے انکو یقین نہ آرھا ھو کہ میں کسی گاوں کا رہنے واال ھوں ۔۔
آنٹی شاید نیند سے بیزار ھوکر آئی تھیں انہوں نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نہیں کی اور مجھے دعائیں دیتی ھوئی واپس اپنے
کمرے میں چلی گئی ۔
ماہی نظر نہ آئی شاید وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھا یا پھر کچن میں ۔۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ضوفی اٹھی اور مجھے اپنے ساتھ اوپر آنے کا اشارہ کرتے ھوے سیڑھیاں چڑھنے لگ گی
میں بھی اسکے پیچھے اوپر چھت چھت پہنچا تو اوپر بھی ایک کمرہ تھا ضوفی کمرے میں داخل ھوئی تو میں بھی اسکے
پیچھے ھی کمرے میں داخل ھوا کمرے کی اچھ سیٹنگ کی گئی تھی بیڈ اور صوفے رکھے ھوے تھے کارنر میں ڈریسنگ
ٹیبل اور ایک طرف اٹیچ باتھ تھا۔۔۔ضوفی کا گھر تین کمروں پر ھی مشتمل تھا
ایک کمرہ نیچے تھا اسکے آگے ٹی وی الونج تھا اور اس سے آگے گیراج اور ایک طرف بیٹھک تھی ۔۔
ضوفی بولی یہ میرا اور ماہی کا کمرہ ھے ۔۔
میں ہمممم کرتے ھوے کمرے کا چاروں اطراف سے جائزہ لینے لگ گیا۔۔۔
ضوفی بولی یاسر تم بیٹھو میں چینج کرلوں اور کھانے کا بھی کچھ کروں ماہی گئی تو ھے کچن میں
میں ذرہ اسکی بھی ہیلپ کروا دوں ۔۔۔
ضوفی جانے لگی تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑ لیا ضوفی نے گردن گھما کر میری طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کے اشارے
سے پوچھا کیا ھے۔۔۔
میں نے ضوفی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگا کر باہوں میں بھرتے ھوے کہا
ابھی چینج مت کرنا ابھی تو میں نے جی بھر کہ دیکھا ھی نہیں ۔
ضوفی نے دونوں بازوں فولڈ کر کے میرے سینے پر رکھے تھے ضوفی میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی چھوڑو
پاگل ماہی اوپر آگئی تو کیا سوچے گی ۔۔۔۔میں نے کہا سوچنے دو جو کوئی سوچتا ھے ۔۔
تم نے چینج نہیں کرنا۔۔
ضوفی بولی اچھا بابا نہیں کرتی اب چھوڑ تو دو کیوں مروانا ھے ۔۔
میں نے بازوں کا گھیراو ڈھیال کیا تو ضوفی میرے بازوں سے نکل کر میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے ہنستی ھوی باہر کی
طرف بھاگ گئی اور میں اسے جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔
ضوفی کے جانے کہ بعد میں صوفے پر بیٹھ کر کمرے کا جائزہ لیتے ھوے سوچنے لگ گیا کہ ایسی کیا بات ھے کہ ضوفی
نے میرا سب کچھ بدل کر رکھ دیا ایک ھی دن میں ضوفی میری روح میں اتر چکی تھی ۔
ضوفی سے ایک منٹ کی بھی دوری اب مجھ سے برداشت نہیں ھورھی تھی
مجھے بے چینی سی ھورھی تھی کہ ضوفی جلدی سے واپس کمرے میں آجاے اور میں اسے سامنے بیٹھا کر بس دیکھتا
رہوں ۔۔۔
کیا اسی کا نام پیار تھا ۔
یا عشق تھا جنون تھا
تھا تو آخر کیا تھا ۔
جس نے مجھے اتنا بے چین کرکہ رکھ دیا تھا
اور کمال کہ بات کہ ماہی بھی اتنی خوبصورت تھی مگر ضوفی کی موجودگی میں میرا اسکی طرف دھیان ھی نہیں گیا تھا۔
ہر خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر جس یاسر کے منہ سے الریں ٹپکنا شروع ھوجاتیں تھی آج ضوفی کے حسن کے عالوہ
کسی اور حسینہ کا حسن اس پر اثر نہیں کر پارھا تھا ۔
ماہی کا جسم بھی بہت سیکسی تھا رنگ گورا قد کاٹھ کی بھی ٹھیک تھی جسم بھی بھرا بھرا ابھری چھاتیوں کے ساتھ دل کو
مو لیتا مگر میری نظریں اسکو دیکھ کر بھی نہ ڈگمگائیں ۔
ضوفی کے حسن اور اسکی محبت کے سحر نے تو الہور کی ایک سے بڑھ کر ایک بچی کی طرف بھی مجھے آنکھ اٹھا کر
دیکھنے نہ دیا ۔
اففففف ھاےےےےےے یہ
۔کمبخت عشق ساال پتہ نہیں آگے کتنا رالے گا۔۔۔۔
میں اپنے ھی خیالوں میں گم تھا کہ ماہی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی اور کھانا ٹیبل پر لگانے لگ گئی
ماہی اپنے سڈول سینے کو میرے سامنے جھکاے میرے آگے رکھے ٹیبل پر کھانا لگا رھی تھی اور میری نظریں بجاے
اسکے گلے میں جھانکنے کے اپنے پیروں کو دیکھ رہیں تھی ۔
ماہی کے کچھ ھی دیر بعد ضوفی بھی اندر آگئی جسکو دیکھتے ھی میراچہرہ کھل اٹھا۔۔۔
ضوفی آکر میرے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی اور میں حیران ھوا کہ ماہی نے اسکا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ سر جھکائے ضوفی
سے بولی آپی آپ کھانا کھاو میں نیچے چاے بنا لوں ضوفی بولی تم بھی آجاو تو ماہی بولی نہیں آپی میں نے کھانا کھا لیا
ھے آپ کھاو میں چاے بنا کر التی ھوں اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو آواز دے دینا ۔
ضوفی نے پھر اصرار کیا مگر ماہی انکار کرتی ھوئی نیچے چلی گئی ۔۔
میں نے کہا ضوفی یار ماہی کو بھی ساتھ بیٹھا لیتی
ضوفی بولی یہ بہت شرمیلی ھے تمہاری وجہ سے نہیں بیٹھی ورنہ یہ میرے بغیر کھانا کھاتی ہی نہیں ھے ۔۔۔
میں نے کہا یار اسے بال الو پھر ایسے اچھا نہیں لگے گا۔۔
).Update no (95
ضوفی بولی کوئی فائدہ نہیں مجھے پتہ ھے یہ نہیں آے گی ۔
اور ضوفی ساتھ ساتھ کھانا میرے سامنے پیش کرنے لگ گئی
میں چپ کر کے کھانا کھانے میں مصروف ھوگیا۔
تقریبًا آدھے گھنٹے کے بعد ماہی چاے لے کر کمرے میں داخل ہوئی تب تک ہم نے کھانا کھا لیا تھا۔۔۔
میں نے کھانے کی تعریف کرتے ھوے ماہی کا شکریہ ادا کیا ۔
تو ماہی منہ سے تو کچھ نہ بولی بس مسکرا کر میری طرف ایک نظر دیکھ کر سر نیچے کرکے ٹیبل پر چاے رکھنے لگ
گئی ۔۔
میں نے پہلی دفعہ ماہی کو مخاطب کرتے ھوے مزاق کے ساتھ کہا چاے پی لیں کہ وہ بھی نیچے جاکر اکیلی ھی ٰپ ئیں گی ۔۔۔
ماہی نے تو کوئی جواب نہ دیا مگر
ضوفی ہنس کر بولی ماہی یاسر سے کیسی شرم کررھی ھو ۔
یہ بھی اب ہماری فیملی کا حصہ۔۔۔۔۔۔۔
اتنا کہہ کر ضوفی خاموش ہوگئی میں نے بھی چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا۔
ضوفی ساتھ ھی بات کو بدلتے ھوے بولی ۔
گھر آے مہمان سے شرماتے نہیں ورنہ مہمان سمجھے گا کہ شاید میزبان کو اس کے آنے کی خوشی نہیں ھوئی
ماہی سر نیچے کئے ھی بولی نہیں آپی ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔
تو ضوفی بولی بیٹھو ادھر ھی پھر ۔
ماہی سر نیچے کئے دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی تو ضوفی نے چاے کا کپ اسکی طرف بڑھایا تو اس نے کپ کو پکڑا مگر
بیٹھی اسی حالت میں رھی جیسے لڑکے والے اسے دیکھنے کے لیے آے ھوں اور وہ شرماتے ھوے سر نہیں اٹھا رھی ۔۔۔
چاے ختم کی تو ضوفی بولی ماہی نیچے جو شاپر پڑے ھیں اوپر لے آو تمہارے لیے سوٹ الئی ہوں ۔
ماہی بچوں کی طرح خوش ھوکر نیچے بھاگ گئی اور کچھ ھی دیر بعد سارے شاپر ھاتھ میں پکڑے اوپر آئی ۔
اور سب شاپر کو بیڈ پر رکھ دیا ضوفی نے شاپر کھول کر اپنے اور ماہی کے سوٹ نکال کر اسے دیکھانے لگ گئی ماہی
سوٹ دیکھ کر بہت خوش ہورھی تھی ماہی بولی ان میں سے میرے کون سے ہیں ۔
ضوفی بولی تمہیں جونسے پسند ہیں لے لو ۔
ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی پسند ہیں بہت ھی اچھی چوائس ھے آپکی ۔
ضوفی بولی یہ میری نہیں یاسر کی چوائس ھے ۔
ماہی نے میری طرف دیکھا اور پھر ہنستے ھوے بولی بہت اچھی چوائس ھے آپکی ۔
میں نے تعریف کرنے کا شکریہ ادا کیا ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی پسند ہیں
ضوفی پیار سے ضوفی کے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی
میرا بچہ سارے لے لے تم سے سوٹ اچھے ہیں
میں دونوں بہنوں کے پیار کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رھا تھا ۔
ضوفی واقعی ھی چھوٹی عمر میں بڑے دل کی مالک تھی اور اسکا ظرف اور اسکا بڑا پن دیکھ کر مجھے اسپر اور پیار
آنے لگ گیا۔
ضوفی کو اسکے گھر کے حاالت نے میچور کردیا تھا ویسے تو اس عمر کی لڑکیوں کو تو اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں ھوتی ۔
اور ضوفی گھر میں باپ بھائی بہن بیٹی کا رول ادا کررھی تھی ۔۔
ضوفی کے اس مقام کو دیکھ کر میرے دل میں اسکی عزت بڑھتی جارہی تھی ۔
کچھ دیر بعد ماہی نے سارے سوٹ پیک کیے اور لے کر نیچے چلی گئی ۔
تو ضوفی بولی یاسر تھک گئے ھوگے آرام کرلو ۔
میں نے کہا تمہیں دیکھ کر میری ساری تھکاوٹ دور ھو گئی ھے ضوفی بولی صبح کا مجھے اب دیکھا ھے ۔
میں نے کہا تمہارا یہ روپ اب ھی دیکھا ھے ضوفی حیران ھوکر بولی کون سا روپ میں نے کہا ۔
ماہی کے ساتھ جس شفقت اور پیار سے تم پیش آرھی تھی ۔
وہ واال روپ ۔
ضوفی بولی یاسر ماہی میری بہن ھی نہیں بلکہ ایک بہت اچھی دوست بھی ھے اور میں تو اسے اپنا بچہ سمجھتی ہوں ۔
بہت پیار کرتی ھے مجھ سے ۔۔
میں نے کہا نظر نہ لگے تم بہنوں کے پیار کو ۔۔۔سدا ایسے ھی محبت پیار سے رھو۔
ضوفی بولی یاسر تم ادھر لیٹ جاو میں اور ماہی نیچے لیٹ جاتے ہین ۔
میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑتے ھوے کہا ۔
جان من میرا سب کچھ چھین کر اب مجھے اکیال چھوڑ کر جارھی ھو۔
ضوفی بولی ۔
یاسر دل تو میرا بھی نہیں کررھا ۔۔
مگر ماہی کیا سوچے گی اور اگر امی اٹھ گئی تو مجھے تمہارے ساتھ یوں ایک کمرے مین دیکھ کر کیا سوچیں گی ۔
اس لیے مجبوری ھے پلیزززززز ناراض مت ھونا۔۔
میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا تم صبح جلدی نیچے چلی جانا اور ماہی کو سمجھا دینا وہ سمجھ جاے گی
پلیززززززز یہ وقت دوبارا پتہ نہیں کب آنا ھے ابھی تو میں تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں ھے ۔۔
ضوفی کچھ دیر خاموش رھ کر سوچتی رہی پھر بولی اچھا تم لیٹو میں کچھ دیر بعد اوپر آجاتی ھوں ۔
میں نے کہا پرامس ضوفی بولی کوئی شک میں نے نفی میں سر ہالیا تو ضوفی نے مسکرا کر میری گال پر چٹکی کاٹی اور
سوکیوٹ کہتی ھوئی دروازے کی طرف بڑھی تو میں نے پیچھے سے آواز دی ۔۔ضوفی ۔۔۔۔
ضوفی نے رک کر پیچھے کو مڑ کر دیکھا تو میں نے کہا کپڑے نہیں تبدیل کرنے ابھی ۔۔۔
ضوفی مسکرا کر میری طرف ہاتھ سے جا اوے کا اشارا کرتے ھوے اثبات میں سر ہالتے ھوے سیڑھیاں اترتی نیچے چلی
گئی ۔
اور میں دھڑام سے بیڈ پر گرا اور ضوفی کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد ضوفی کمرے میں داخل ہوئی تو میں چونک کر اٹھ کر بیٹھ گیا ضوفی نے دروازہ الک کیا اور میرے پاس
آکر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
ضوفی میری طرف دیکھ کر بولی تم ابھی تک ویسے ھی بیٹھے ھو کم ان یار جوتے اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھو اور یہ ٹائی
تو اتار دو۔۔ اور کیا پینٹ پہن کر ھی سوؤ گے ۔۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔تم آگئی ھو تو اب سب کچھ اتر ھی جاے گا ۔۔
ضوفی میرے پیٹ پر گد گدی کرتے ھوے بولی ۔
میرے گھر میں میری ھی عزت لوٹنے کی دھمکی دے رھے ھو۔۔۔
میں نے کہا ایسی حسین بچی اکیلی کمرے میں ھو اور میرے جیسا پینڈو پھسلے نہ یہ کیسے ھو سکتا ھے ۔۔
ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی شوخے جلدی سے یہ ٹائی اور جوتے اتارو اور اوپر ھوکر بیٹھو۔۔
میں نے ٹائی ڈھیلی کی اور گلے سے اتار کر شوز بھی اتارے اور بیڈ کے اوپر بیٹھ کر بیک سے ٹیک لگا لی ۔
ضوفی بھی اوپر ھوکر میرے ساتھ ھی ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔۔ میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور چومتے ھوے بوال ضوفی تم
کتنی اچھی ہو جتنی تم خوبصورت ھو اس سے بھی ذیادہ تمہاری سیرت خوبصورت ھے تمہاری سوچ اور تمہارا بڑا پن دیکھ
کر تمہاری میرے دل میں اور عزت بڑھ گئی ھے ۔
ضوفی بولی ایسی بھی بات نہیں ھے ذیادہ مسکے مت لگاو۔۔
کچھ دیر بیٹھے ہم باتیں کرتے رھے ضوفی نے اپنے بارے میں بتایا کہ اس کے ابو اسکے بچپن میں ھی فوت ہوگئے تھے
اور اسکی والدہ نے کیسے محنت مزدوری کر کے انکو پاال اور کیسے اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ بٹایا اور پارلر کا کام سیکھ
کر آہستہ آہستہ کیسے ترقی کی ۔
ضوفی کی داستاں سن کر میرا تو دل بھر آیا میرے ساتھ ساتھ ضوفی بھی باتیں کرتی کرتی اموشنل ھوگئی ۔
میں نے ضوفی کو دالسا دیا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر ہم دونوں لیٹ گئے ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے سائڈ
کے بل لیٹے ھوے تھے ۔
ضوفی میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹی ھوئی تھی اور میں اسکے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر رھا تھا ۔
ضوفی کی سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھیں ضوفی کے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ رھے تھے اتنے قریب ھونے کے
باوجود بھی مجھ میں نہ شہوت آرھی تھی نہ ھی ہوس تھی بس مجھے ضوفی پر پیار آئی جارھا تھا اور میرا دل کررھا تھا کہ
بس ساری عمر ضوفی ایسے ھی میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے ساتھ لیٹی رھے اور میں اسکو بس دیکھتا رہوں ۔۔۔
میں ٹکٹی باندھے ضوفی کے چہرے کو دیکھی جارھا تھا ۔
ضوفی نے پلکوں کی جھالر آنکھوں سے ہٹائی اور میری طرف دیکھتے ھوے اپنے خوبصورت ہونٹوں کو کھوال اور بولی
کیا دیکھ رھے ھو ۔
میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ میں کتنا خوش قسمت ھوں کہ تم میرے پہلو میں لیٹی ھو ۔
میرا تو دل کرتا ھے ضوفی کے میری عمر تمہیں یوں ھی دیکھتے گزر جاے ۔
تم یوں ھی میرے سامنے رھو ایک پل بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ھو۔۔
مجھے ڈر ھے کہ یہ رات بیت نہ جاے صبح کا اجاال نہ ھو جاے ۔
کاش یہ وقت میرے بس میں ھوتا یہ لمحے میرے بس میں ھوتے تو کبھی انکو گزرنے نہ دوں ۔
ضوفی میرے ہونٹوں کو چومتی ہوئی بولی یاسر مجھے اتنے خواب مت دیکھو کہ جن کے ٹوٹنے کے ڈر سے میں کبھی
آنکھیں نہ کھول سکوں ۔
میں نے ضوفی کے ماتھے کو چوما اور اسکے سنہری سلکی بالوں کو سہالتے ھوے بوال ۔
ضوفی کاش تم میرے اندر جھانک سکو کاش تم میرے دل کو چیر کر دیکھ سکو کاش تم میری سانسوں کو محسوس کر سکو
کہ یہ دل صرف تمہارے لیے دھڑک رھا ھے یہ سانسیں صرف تمہارے نام ہیں ۔
تم میرے ظاہر باطن کی مالک بن چکی ھو میرے سپنوں کی ملکہ بن چکی ھے ۔
ضوفی میری بات سن کر ۔
مجھ سے مذید چپک گئی اور مجھے گھما کر نیچے کر کے میرے اوپر اوندھی لیٹ گئی اور میرے ماتھے پر آے میرے پف
کو انگلیوں سےسہالتے ھوے ماتھے سے ہٹا کر میرے ماتھے کو چوما پھر میری آنکھوں کو میرے گالوں کو اور پھر میرے
ہونٹوں پر اپنے شربتی ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی ۔۔۔
ضوفی کے مموں سمیت اسکا سارا جسم میرے جسم کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔
مجھے نہیں پتہ کہ کب میرے لن نے پینٹ میں ابھار بنا لیا تھا اور ضوفی کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھا تھا ۔
ضوفی پاگلوں کی طرح میرے چہرے کو اور میرے ہونٹوں کو چومی جارھی تھی ۔
میں نے ضوفی کے مولٹی فوم جیسے نرم جسم کے گرد بازو ڈال کر ضوفی کی کمر کو سہالنے لگا ۔
ایک تو ضوفی کا جسم بہت نرم تھا اوپر سے ضوفی نے ریشمی شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی جو میرے اوپر لیٹنے کی وجہ
سے اسکی گانڈ سے اوپر ھوکر کمر کے کچھ حصے کو ننگا کر چکی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا جیسے ضوفی کی کمر
بلکل ننگی ھے میں مزے سے ضوفی کی فرنچ کسنگ کا جواب بھی دے رھا تھا اور ساتھ ساتھ ضوفی کی نرم مالئم کمر کو
بھی سہال رھا تھا ضوفی بھی فل گرم ھوچکی تھی نہ اسے پتہ تھا کہ وہ کیا کررھی ھے اور نہ مجھے ہوش تھا کہ میں کس
حد تک جارھا ھوں ۔
دونوں کے ہوش و حواس گم ھوچکے تھے دو جسم ایک دوسرے کے جسموں میں سمانے کی کوشش کررہے تھے ۔
میرے گستاخ ہاتھوں نے ضوفی کی شرٹ کو مذید اوپر کر کے اسکی کمر کو آدھا ننگا کردیا تھا ۔
میرے ہاتھ جب ضوفی کی نرم مالئم کمر کو سہالتے ہوے اسکی ابھری ھوئی گول مٹول ڈبل روٹی پر جاتے تو میں ڈبل
روٹی کے دونوں پیسوں کو الگ الگ مٹھی میں بھینچ لیتا جب میں ضوفی کی گانڈ کو بھینچتا تو ضوفی اپنی پھدی کو میرے
لن کے ابھار پر دباو دے کر رگڑتی جس سے میرا لن مذید اوپر کو آنے کی کوشش کرتا مگر بےچارا دو چیزوں میں قید تھا
انڈر ویئر اور پینٹ میں ۔
ضوفی نے تو پینٹ ھی اتنی سوفٹ اور فلیکس ول پہنی ھوی تھی کے اسکی گانڈ اور پھدی بلکل ننگی محسوس ھورھی تھی
میری بے چینی بڑھتی جارھی تھی تمام حدیں توڑنے کی طرف میں بڑھتا جارھا تھا اور ان حدوں کا راستہ ضوفی ہموار
کرتی جارھی تھی ۔
کہ اتنے میں ضوفی مجھ سے الگ ہوئی اور میرے لن کے اوپر ھی اپنا پورا وزن ڈال کر بیٹھ گئی اور میری شرٹ کے بٹن
کھولنے لگ گئی میں نے بھی اپنی طرف گھورتے ھوے ضوفی کے گول مٹول مموں کو مٹھیوں میں بھر لیا ضوفی نے منہ
چھت کی طرف کر کے سسکاری بھری ۔
اور میری شرٹ کے ایک ایک کر کے سارے بٹن کھول دیے ادھر میں نے بھی ضوفی کی شرٹ پکڑ کر اسکے مموں سے
جیسے ھی اوپر کی تو ضوفی نے جلدی سے ۔۔
.اپنی شرٹ پکڑ کر لہراتے ھوے ایک طرف پھینک دی ضوفی کے سرخ رنگ کے بریزیر میں چٹے سفید ممے دیکھ کر
میری تو آنکھیں ابھل کر باہر گرنے کو تھیں میں نے ضوفی کی کمر پر ھاتھ رکھے اور اسے اوپر سے پلٹ کر اپنے نیچے
لے آیا جب ضوفی کو میں نے بیڈ پر پھینکا تو اسکے ممے اسے چھلکے جیسے بریزیر کو پھاڑ کر باہر نکل جایں گے ۔۔
میں نے ضوفی کو اپنے نیچے گراتے ھی اسکے اوپر آکر اسکے چٹے سفید مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے ضوفی کے ممے
اتنے سوفٹ تھے کہ مجھے ایسے لگا جیسے میں نے روئی پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے ھیں اتنی سوفٹنس تھی کہ اففففففف کیا
بتاوں یارو کہاں سے وہ الفاظ الوں جو اس قابل ہوں کہ ضوفی کے مموں کی تعریف بیان کرسکیں ۔۔
میں بریزیر سے باہر والے حصے کو چوم چوم کے سرخ کر چکا تھا اور ضوفی کی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رہیں
تھیں ۔
میرا تو دل کررھا تھا کہ انکو کھا جاوں اپنے اندر نگھل جاوں ۔
میں کافی دیر ضوفی کے مموں کے اوپری حصے کو چومتا رھا چاٹتا رھا دانتوں میں لے کر ہلکا سا کاٹتا رھا ۔
ضوفی کی سسکاریاں گونجتی رہیں اس کے دونوں ھاتھ میرے سر کو اپنے احصار میں لے کر مموں پر دباتے رھے ۔
میں نے جوش میں آکر ضوفی کے بریزیر کو پکڑ کر مموں سے الگ کرنے لگا تو ضوفی نے میرے ھاتھ پکڑ لیے میں نے
ضوفی کی طرف دیکھا تو ضوفی نے نفی میں سر ہالیا اور بولی نہیں یاسر اس سے آگے نہیں ۔
ورنہ دونوں بہک جائیں گے اور پھر ہم میں وہ محبت وہ چاہت وہ تڑپ باقی نہیں رھے گی اگر تم یہ چاہتے ھو کہ ہماری یہ
مالقات آخری مالقات ھو تو ضوفی نے ہاتھ ہٹاتے ھوے کہا جو تمہارا دل کرتا ھے وہ کرلو ۔
میں نے ضوفی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو نجانے کیوں میں نے ضوفی کے مموں سے ہاتھ ایسے ہٹاے جیسے مموں میں
کرنٹ آگیا ھو ۔
افففففف
سہی کہا کہنے والے نے
جو مزہ تکرار میں ھے وہ اقرار میں نہیں۔
غالب شوق بڑھتا گیا ان کی نہیں نہیں میں۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ میں ضوفی کے ساتھ زبردستی کروں یا اسکی رضامندی کے خالف جاوں
میں تو اس حسن مجسمہ کا پجاری تھا میں تو اس کا خادم تھا اسکا عاشق تھا وہ میری روح کی مالک تھی میرا انگ انگ
اسکے سحر میں جکڑا ھوا تھا اسکی غالمی میرے تن من نے قبول کر لی تھی اور ایک خادم اپنے مالک کے حکم کے
خالف اسکی مرضی کے خالف کیسے جاسکتا تھا۔
میں ایک جھٹکے سے ضوفی کے اوپر سے اترا اور ضوفی کے ساتھ لیٹ کر چھت کی طرف گھورتے ھوے لمبے لمبے
سانس لینے لگ گیا ۔ضوفی سائڈ کے بل میرے اوپر ھوئی اور میرے ننگے سینے کو چومتے ھوے بولی یاسر ناراض ہوگئے
ھو ۔
میں نے نفی میں سر ہالیا
ضوفی مذید میرے اوپر آئی اور اپنے ننگے جسم کو میرے ننگے سینے اور پیٹ پر رکھتے ھوے اپنی گالب کی پنکھڑیوں
کو میرے ہونٹوں کے قریب کرتے ھوے اپنی گرم سانسوں کو میرے چہرے پر پھینک کر مجھے مذید اکساتے ھوے میرے
اندر کی آگ کو مذید سلگاتے ھوے بولی ۔
یاسرررر میں نے جو اسکی گرم سانسوں کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیں تھیں آنکھیں کھول کر اسکی جھیل میں ڈبکی لگاتے
ھوے اپنے لرزتے ہونٹ ہالے اور بڑی مشکل سے بوال جججی جان ضوفی میرے ہونٹوں پر اپنی پنکھڑیوں کو رکھ کر ایک
لمبی کس کرتے ھوے بولی ۔
ایسے کیوں منہ بنا لیا ھے ۔
میں نے ضوفی کے چاند پر آے ھوے سرخ دھکتے ھوے بادلوں کی لہروں کو ہٹاتے ھوے کہا نہیں جان میں تم سے ناراض
ہوجاوں میری سانسیں نہ رک جایں
ضوفی نے تڑپ کر میرے ہونٹوں پر اپنے مخملی ہاتھ کو رکھ کر کہا سانسیں بند ھوں تمہارے دشمنوں کی آئیندہ ایسی بات
منہ سے نکالی تو جان نکال دوں گی ۔
میں نے کہا جان کہاں مجھ باقی ھے میری ہر سانس تو تم نے چھین لی ھے تمہاری ہر سانس کے ساتھ تو میری سانس چل
رھی ھے ۔
).Update no (96
ضوفی نے چھ سات دفعہ میرے ہونٹوں کو سپیڈ سے چوما اور گھوم کر میرے اوپر آگئی اور پھر پہلی پوزیشن بنا کر میرے
سخت لن کے اوپر اپنی نرم گانڈ رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنے بریزیر کی ہک کھولنے لگی ضوفی کے
ایسے کرنے سے ضوفی کے ممے مذید تن کر میرے سامنے آگئے ۔ مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا میں نے آنکھیں بند کیں اور
اپنے دونوں ہاتھ اسکے ابھرے ھوے مموں کی طرف بڑھاے اور ایک ھی جھٹکے میں ۔۔
.میں نے ضوفی کے بازوں کو پکڑ لیا اور نفی میں سر ہالتے ہوے اسکو بریزیر کی ہک کھولنے سے منع کیا ضوفی کی
آنکھوں میں خمار چھایا ہوا تھا اسکی نشہ سے چور آنکھیں نیم بند تھیں ضوفی نے پلکوں کو کھوال اور میری طرف دیکھتے
ھوے بولی ۔
کیوں کیا ہوا۔ اب میں اپنی مرضی سے اتار رھی ہوں تو اب مجھ روک کیوں رھے ھو ۔۔
میں نے کہا نہیں ضوفی میں تمہیں ایسے ھی دیکھنا چاہتا ہوں ۔
تمہارا حسن مجھے لباس میں ھی اچھا لگتا ھے بے لباس ہوگئے تو بہک جائیں گے اور اگر بہک گئے تو حد سے گزر جائیں
۔۔۔
میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔
ضوفی خماری میں ڈوبی میرے اوپر مذید جھکی اور میرے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ کر کے نشیلی آنکھوں کو میری
آنکھوں میں ڈالتے ہوے مدہوشی کے عالم میں بولی یاسررررر میرا بہکنے کو دل کررھا ھے ۔
میں نے اپنا سر اوپر کر کے ضوفی کے ہونٹوں کی طرف اپنے ہونٹ بڑھاے اور ضوفی کے مدمست ہونٹوں کو چومنے لگا
تو ضوفی نے اپنا سر پیچھے کو کیا جس سے میرے اور ضوفی کے ہونٹوں کا فاصلہ بڑھ گیا میرے ہونٹ ہوا میں ھی رھ
گئے ضوفی شرارت بھرے انداز سے مسکرا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی مجھے بے لباس ہونے دو یاسر پلیزززز
مجھے آج بہکنے دو مجھے نہ روکو یاسرررررر
میرے ہاتھ ضوفی کی کمر پر تھے اور انگلیاں ضوفی کے بریزیر کے سٹریپ پر لگی ہک پر تھیں میرے دماغ اور میرے دل
کی جنگ جاری تھی دماغ پر ہوس سوار تھی اور دل میں ضوفی کے لیے سچی محبت کا چراغ روشن تھا دماغ مجھے
بریزیر کی ہک کھولنے پر مجبور کررھا تھا کہ یاسر کھول دو کیا سوچ رھے ان دودھ کے پیالوں سے جی بھر کر اپنی
پیاس بجھا لو یہ موقع دوبارا نہیں ملنا پکا ھوا پھل تیری جھولی میں خود گر رھا ھے ساری حدیں پار کردو آج توڑ دے سیل
اسکی اور بہت سی مل جائیں گیں دماغ کی مانتے ہوے میں جیسے ہی انگلیاں ہک کو کھولنے کے لیے حرکت میں التا تو
میرادل سے آواز آتی ٹھہر جاو یاسر تمہیں چاہنے والی بے لوث سچی محبت کرنے والی ایسی لڑکی دوبارا نہیں ملے گی یہ
بس دو منٹ کا مزہ ھے پھر نہ اسے تیری طلب رہنی ھے اور نہ تجھے اسکی میں ششوپن کا شکار تھا ادھر ضوفی مجھے
اکسا رھی تھی ضوفی کےچٹے سفید ادھ ننگے ممے میری آنکھوں میں چبھ رھے تھے آخرکار دل کی جیت ہوئی اور میں
نے نفی میں سرہالتے ھو کہا نہیں ضوفی آج ہم ایسے ھی پیار کریں گے ضوفی برا سا منہ بنا کر مدہوشی میں ڈوبی میرے
اوپر اوندھی لیٹ گئی
میں ضوفی کے کی کمر کو سہال رھا تھا میرا ناسمجھ منہ ذور لن وکھرا ای پینٹ میں ابھار بناے ضوفی کی پھدی سے چھیڑ
چھاڑ کررھا تھا۔
ضوفی بولی یاسررر میں کیا کروں مجھ سے کنٹرول نہیں ہورھا میں تم میں سمانا چاہتی ہوں میرے انگ انگ کو نچوڑ دو
آج۔
ضوفی اپنی پھدی والے حصہ کو میرے لن پر رگڑتے ھوے مدہوشی میں بولی جارھی تھی
یاسررررر پلیززز کچھ کرو نہ کرو پلیزززز میں ہر درد سہنے کو تیار ھوں مجھے ادھورا نہ چھوڑو یاسرررررر
آہہہہہہہہۃہہہہہہہ کرتے ھوے ضوفی نے پورے ذور سے اپنی پھدی کو میرے لن پر دبا دیا ۔۔
اور ضوفی نے میرے کندھے پر دانت گاڑ دئیے ۔۔
کچھ دیر جھٹکے لینے کے بعد ضوفی میرے اوپر ھی ڈھے گئی اور میں اسکی کمر کو سہالتے ھوے اسے ریلیکس کرنے
لگ گیا۔
کچھ دیر ہم خاموشی سے ایسے ھی لیٹے رھے میں نے ضوفی کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈالے اور بازوں میں اسکی
ننگی کمر کو بھینچ کر اسکو گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود ضوفی کے اوپر آگیا اور ساتھ ھی اسکے ہونٹوں پر ہونٹ
رکھ کر چوسنے لگ گیا ضوفی بھی فرنچ کسنگ میں میرا برابر کا ساتھ دے رھی تھی ۔
ضوفی نے میری کھلی شرٹ کو آگے سے پکڑ کر میرے بازوں سے نکال دیا اب دو ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ
چپکے ھوے تھے ۔
کچھ دیر میں ضوفی پھر گرم ہوگئ اور
ضوفی کبھی میری کمر پر اپنے ناخن چبھوتی اور ساتھ ھی اپنی پھدی کو میرے لن کے ساتھ مسلتی ۔
جس سے میرے اندر شہوت کو مذید چنگاری ملتی ۔
اور میں بےدردی سے ضوفی کے ہونٹوں کو چوستا اور کبھی اسکی زبان کو اپنے منہ میں جکڑ کر چوس کر اسکا لباب
اپنے اندر اتارتا۔ضوفی بھی مجھ سے پیچھے نہ تھا وہ بھی اس جنونی کسنگ میں برابر میرا ساتھ دے رھی تھی ۔
کچھ دیر ایسے ھی ہماری کسنگ چلتی رھی ۔
جب دونوں تھک گئے تو ضوفی نے اپنے ہونٹ ہٹانے میں پہل کی اور اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انکو سہالنے لگ گئی
میری نظر جب ضوفی کے ہونٹوں پر پڑی تو اسکے ہونٹ کافی سوجھے سوجھے محسوس ہوے ۔
میں نے ایک نظر ضوفی کے ہونٹوں پر ڈالی جو اس وقت ٹماٹر کی طرح سرخ ہورھے تھے ۔
میں نے ان گالب کے پھولوں پر ہلکا سا بوسا لیا اور کھسکتا ھوا۔
۔ضوفی کے اوپر سے اسکے گے کی طرف گیا اور اپنی زبان نکال کر اسکی شہ رگ پر رکھی اور نوک کو دباتے ہوے ۔
زبان کو اوپر اسکی ٹھوڑی کی طرف لیجانے لگا ضوفی کے منہ سے سییییییی نکلی اور اس نے ساتھ ہی منہ چھت کی طرف
اٹھا کر سر کو پیچھے کی جانب
.خم دے کر اپنی صراحی دار گردن کو مذید لمبا کر دیا ۔
میں نے ضوفی کے گلے کے ہر ہر حصے کو زبان سے سیراب کیا اور پھر چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتا ھوا مذید نیچے کی
جانب کھسکتا ھوا اس کے دودھیا رنگ کے ادھ ننگے مموں کی دراڑ میں زبان ڈال دی ضوفی کے ممے تھے کہ افففففففف
اتنی سوفٹنس توبہ کیا بتاوں یارا۔۔۔
میری ساری زبان اس کے مموں کی دراڑ میں چلی گئی اور میں زبان کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا جیسے زبان سے ممے
چود رھا ھوں ۔
میں کبھی اسکے مموں کو چومتا تو کبھی چاٹتا میری تھوک سے اس کے ممے چمکنے لگ گئے تھے ۔۔میرا بس نہیں چل
رھا تھا کہ ابھی ان دودھ کے پیالوں سے ڈھکن اتار کر ان پیالوں کو منہ کے ساتھ لگا کر ایک ھی سانس میں سارا دودھ پی
جاوں بلکہ ان مموں کو ھی اپنے منہ کے اندر بھر کر اندر ھی نگھل جاوں ایک تو ممے انتہا کے چٹے تھے دوسرا سرخ
رنگ ان پر قیامت ڈاھ رھا تھا ۔
میرا سچا پیار ھی میرے جزبات کو بہکنے نہیں دے رھا تھا
ورنہ تو کب کی ٹانگیں میرے کندھوں پر ھوتی اور لن پھدی کو چیڑ پھاڑ کر گہرائیوں میں اترا ہوتا ۔
مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا ۔
گھی .جلتی آگ پر بھی پگھلنے کا نام نہیں لے رھا تھا۔
مموں کے ننگے حصے کو اپنی مرضی سے ہر ہر جگہ سے چوم چاٹ کر میں نیچے پیٹ کی جانب بڑھا اور جیسے ھی
ہونٹ پیٹ پر رکھی ضوفی تڑپی اور اسکا اندر کی طرف گیا پیٹ تھرتھرایا ۔
ضوفی نے بیڈ کی چادر کو دونوں مٹھیوں میں بھینچا اور سر دائیں بائیں مارتے ھوے سییییییی اففففففف کرنے لگ گئی مگر
میری زبان اور ہونٹ اسکے روئی کے گولے جیسے نرم پیٹ کو بھی چوم چاٹ رھے تھے ۔
جب میں مذید نیچے ناف سے بھی نیچے گیا تو ضوفی کندھوں سمیت اوپر کو اچھلی اور ھاےےےےےےےے مممممممم
سیییییییی کرتی ھوئی اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے بالوں کو دبوچ کر مجھے پیچھے کرنے لگی مگر میں کب باز
آنے واال تھا خود ھی تو ضوفی نے کہا تھا کہ کچھ بھی کرو میں ہر درد برداشت کرنے کو تیار ھوں مگر یہ تو مزہ تھا درد
تو ابھی باقی تھا ۔
ضوفی میرے سر کو جتنے ذور سے پیچھے کرتے ھوے اپنے گانڈ کو دائیں بائیں کر کے میرے نیچے سے نکلنے کی
کوشش کرتی میں اتنے ھی جنون سے اسکی ناف کے نچلے حصے کو زبان سے زدوکوب کرتا
ضوفی کی برداشت دم توڑ گئی ضوفی نےپورا ذور لگا کر میرا سر پیچھے کرتے ھوے بولی ننننہیییں یاسررررررررررر
نننننہ کروووووو ہاےےےےےےے امییییییی اور میں پیچھے ھوگیا تو ضوفی گھٹنوں کو اوپر کر کے گھٹنوں پر سر رکھ کر
کانپنے لگ گئی ۔۔
میں نے ضوفی کہ بازو کو پکڑا تو ضوفی نے میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر ذور سے دبا دیا اور سر اٹھا کر سرخ آنکھوں اور
گالبی گالوں اور رسیلے ہونٹوں سے میری طرف دیکھنے لگ گئی اور پھر اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو ہالتے ھوے بولی
یاسررررررر میری جان نکال دی۔
میں اسکے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بوالتمہاری جسن تو کب کی نکل چکی ھے اور اب تمہاری جان تو میرے
اندر ھے
اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ کر کہا یہ دیکھو یہ دل تمہارے لیے دھڑک رھا ھے ۔
ضوفی بولی یاسر آئی لو یو اور یہ کہتے ھوے وہ اٹھ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر مجھ سے چمٹ گئی ۔۔
اور میری گردن میرے کان میری گال کو چومتے ھوے بار بار آئی لویو یاسر آئی لو یو یاسر کہتی جارھی تھی ۔۔
دوستو آپ بھی سوچتے ھوگے کہ بار بار بس چوما چاٹی ھی ھو رھی ھے تو دوستو جس سے سچا پیار ھوتا ھے تو بس دل
یہ ھی کرتا ھے کہ محبوب بس آنکھوں کے سامنے بیٹھا رھے اور عاشق اسے دیکھتا رھے ۔
اور جب معشوق ایسا حسین ھو ایسا دلربا ھو تو پھر عاشق تو اس کے جسم کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرتا ھے ۔
میرا بھی اس وقت یہ ھی حال تھا میرا تو بس یہ ھی دل کررھا تھا کہ بس ضوفی یوں ھی مجھ سے لپٹی رھے اور وقت نزا
تک یوں ھی مجھ سے لپٹی رھے مجھے عجیب سا سکون مل رھا تھا میں نے بھی اسکے کمر کے گرد بازو ڈال لیے اور ہم
ایسے ھی پھر لیٹ گئے ۔
کتنی دیر لیٹے رھے۔۔
نہیں معلوم۔۔
کتنی دیر ہونٹوں میں ہونٹ رھے نہیں معلوم ۔۔۔
.کتنی دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو دیکھتے رھے
نہیں معلوم ۔۔۔۔
وقت کتنا گزرا نہیں معلوم کب نیند کی وادیوں میں گئے
نہیں معلوم ۔۔۔
ہوش تب آیا جب سورج کو ہوش آیا
آنکھ تب کھلی جب سورج نے آنکھ کھولی ۔
میرے کانوں میں پر ترنم گونجی یاسررر اٹھو میں نے آنکھیں کھولی تو ضوفی نہا کر کپڑے بدل کر تیار ھوچکی تھی ۔
میں انگڑائی لیتے ھوے اٹھ کر بیٹھ گیا اور حسرت بھری نگاہوں سے ضوفی کو ایسے دیکھنے لگ گیا جیسے اسے مدتوں
بعد دیکھا ھو
پتہ نہیں کم بخت نے کون سے تعویز ڈال دیے تھے کہ اسکے سوا اب کچھ دکھتا ھی نہیں تھا۔۔
.میں آنکھیں کھولے ضوفی کے کھلے کھلے چہرے کو دیکھی جارھا تھا اس کے گیلے بالوں سے اٹھتی ہوئی خوشبو رات کا
افسانہ بیان کررھی تھی ضوفی نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ھو ے کہا ۔
جناب کدھر پہنچے ھوے ھو میں ادھر ہوں۔۔
میں نے ضوفی کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو ضوفی مموں کے بل میرے اوپر گر گئی میں نے ساتھ ھی اسکی کمر
کے گرد بازو ڈالے اور بازوں کو بھینچ کر اسکے گیلے بالوں میں منہ چھپا کر لمبا سانس اندر کو کھینچا ۔ اور آہہہہہہہہ کیا ۔۔
کیا ھی مدمست خوشبو اٹھ رھی تھی ضوفی کے بالوں میں سے افففففففف
ضوفی میرے سینے پر ممے رکھتے ہوے اور منہ میرے منہ کے اوپر کرتے ھوے بولی رات کو کوئی کسر باقی رھ گئی
تھی جو اب پوری کرنے کا ارادہ ھے اٹھ جاو کب کی صبح ھوگئی ھے ٹائم دیکھو ۔
میں نے بڑے رومینٹک انداز سے ضوفی کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے کہا میری صبح تو ابھی ہوئی ھے
تمہارے اس حسین چہرے کی کرنوں سے ۔
ضوفی بولی بڑے ھی تم وہ ھو۔۔۔چھوڑو مجھے کوئی اجاے گا دروازہ کھال ھوا ھے ۔
میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما جو نہانے کی وجہ سے کھلتے گالب کی پنکھڑیوں کی طرح چمک رھے تھے
اور ضوفی کو چھوڑ دیا ۔
ضوفی جلدی سے میرے اوپر سے اٹھی اور دونوں ھاتھ اوپر لیجا کر انگلیوں کو اپنے بالوں میں پھیرتے ھوے سینے کے
ابھاروں کو مذید ابھارتے ھوے بولی اٹھ جاو اور نہا کر فریش ھوجاو میں ناشتہ لگاتی ہوں ۔
میں نے کہا میرا ناشتہ تو ہوگیا۔
ضوفی حیران ہوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی وہ کیسے جناب ۔
میں نے چمی لینے کے انداز سے ہونٹوں کو کرتے ھوے اشارے سے بتایا کہ تمہارے گالب کا رس پی کر ۔۔
ضوفی مسکراتے ھوے میری طرف اشارہ کرتے ھوے بولی چل شوخا ۔اور ساتھ ھی اپنی گول مٹول گانڈ کو ڈگمگا کر چلتے
ھوے کمرے سے باہر نکل گئی اور میں دل کو تھام کر اسے جاتے ھوے دیکھنے لگ گیا۔
ضوفی کے جانے کے کچھ ھی دیر بعد میں اٹھا اور واش روم میں گھس گیا کچھ ھی دیر میں
میں نہا کر فریش ھوکے واش روم سے باہر نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں برش پھیر رھا تھا ۔
کہ ضوفی ناشتے کی ٹرے لیے ھوے کمرے میں داخل ھوئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی اففففف یاسر تم نے پھر وہ
ھی پینٹ شرٹ پہن لی ۔
کوئی حال نہیں تمہارا
مگھر نے کہا تو اور کیا پہنتا میرے کپڑے تو پارلر پر پڑے ہیں ضوفی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی ۔
جناب عالی کل جو پینٹ شرٹز خریدی ہیں وہ کیا میں نے پہننی ہیں ۔
مجھے تو پہلے ھی شک کیا بلکہ یقین تھا کہ ضوفی نے میرے لیے ھی شاپنگ کی ھی ۔
میں نے روٹھنے کے انداز میں کہا ضوفی تم نے بہت ذیادتی کی ھے یہ سب کرکے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے میں اٹھا
نہ سکوں ۔
ضوفی ناشتے کے ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چلتی ھوئی میرے پاس آئی اور میں جو اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں آتا ھوا
دیکھ رھا تھا
ضوفی نے میرے قریب آکر مجھے پیچھے سے جپھی ڈالتے ھوے اپنے دونوں ھاتھ میرے پیٹ پر باندھ کر میرے ساتھ لگ
کر کھڑی ھوکر میرے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آئینے میں دیکھتے ھوے بولی ۔۔
کون سا بوجھ ۔
کیا میں تم پر بوجھ ہوں ۔
میں نے اپنی سائڈ تبدیل کی اور ضوفی کے رو برو کھڑا ھوکر ضوفی کو باہوں میں بھر کر بوال۔
نہیں ضوفی میں نے یہ تو نہیں کہا تم تو میرا غرور ھو میری جان ھو تم نے تو مجھے ایک نئی زندگی دی جینے کا ہنر
سیکھایا ھے مجھے انسان بنایا ھے ۔
تمہارا یہ ھی احسان میں مرتے دم۔۔۔۔۔
ضوفی نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا بکواس بند کرو خبردار اب یہ فضول بکواس کی مریں تمہارے دشمن ۔
چلو پہلے ناشتہ کرو اور پھر کپڑے تبدیل کرو اور میرے ساتھ ھی پارلر پر چلو مجھے ادھر چھوڑ کر تم دکان پر چلے جانا ۔
میں نے ضوفی کے ہونٹوں پر پھر ایک کس کی اور بوال ضوفی تم ہر لحاظ سے پرفیکٹ ھو مجھے تو اپنی قسمت پر ناز ھو
رھا ھے کہ مجھے تمہارا پیار مال ۔
ضوفی نے بھی میرے ہونٹوں کو چوما اور بولی اچھا اچھا اب ذیادہ مسکے نہ لگاو ناشتہ ٹھنڈا ھورھا ھے ۔
اور یہ کہتے ھوے ضوفی مجھ سے الگ ھوئی اور ہم دونوں ایک ساتھ ھی ناشتے کی ٹیبل کیطرف بڑھنے لگے
ناشتہ کر کے ضوفی نے اپنی پسند کی پینٹ شرٹ نکالی بلو جینز اور اورینج ہاف بازو شارٹ شرٹ ۔
جب میں نے پہنی تو ضوفی میری بالئیں لینے لگ گئی اور چوم چوم کر ساری لپسٹک سے میرے گال بھر دیے ۔
اور پھر خود ھی تاول کو گیال کر کے میرے گال صاف کرنے لگی اور ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھول کر پھر لپسٹک لگا کر
گاون پہن کر اور میری پینٹ شرٹس کا شاپر پکڑے ہم دونوں سیڑیاں اتر کر نیچے آے تو ضوفی کی امی مجھے بڑے غور
سے دیکھنے لگ گئی جیسے لڑکی کی ماں اپنے ہونے والے جمائی کو دیکھتی ھے ۔
میں نے انکے پاس پہنچ کر انکو سالم کیا تو آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور میرا ماتھا چومتے ھوے مجھے دعائیں دیتے
ھوے آتے جاتے رہنے کا کہنے لگی اور میں بھی اثبات میں سر ہالتا ھوا ان سے اجازت لے کر ضوفی کے ساتھ گھر سے
نکال اور ہم پیدل ھی چلتے ھوے پارلر کی طرف جانے لگے ۔
میں نے ایک بات نوٹ کی کہ جس چوک سے بھی گزرتے وہاں کھڑے لڑکے مجھے اور ضوفی کو ایسے دیکھتے جیسے
کوئی
چڑیا گھر کی نایاب چیز ادھر سے بھاگ کر بازار میں آگئی ھو۔۔
میں کچھ کو نظر انداز اور کچھ کو گھوریاں ڈالتے ھوے بازار پہنچا ۔
میں نے راستے میں ضوفی کو کہا ضوفی میری ایک بات مانو گی ۔
ضوفی بولی دو منوا لو ۔
میں نے کہا نہیں بس ایک ھی ۔
ضوفی بولی حکم جناب ۔
میں نے کہا حکم نہیں گزارش ھے اور وہ یہ ھے کہ تم نے اب نہ تو اکیلی گھر جایا کرنا ھے اور نہ ھی اکیلی نے گھر سے
آیا کرنا ھے ۔
ضوفی نے حیران ھوتے ھوے پوچھا وہ کیوں جی ۔
تو میں نے کہا بس مجھے اچھا لگے گا اگر تم خوشی سے میری بات مانو تو ٹھیک ھے ورنہ میری کوئی ذبردستی نہیں
ھے ۔
ضوفی بولی یاسر وہ تو ٹھیک ھے مگر میں کس کے ساتھ آیا جایا کروں گی ۔
میں نے سینے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا۔
میں میں میں جو ہوں تمہارا خادم تمہارا نوکر ۔
ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر چپت لگاتے ھوے بولی شوخے آرام نال ۔
ایسی باتیں کرکے مجھے گناہ گار نہ کر ۔
ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم شاہین مارکیٹ پہنچے تو مارکیٹ کی کارنر والی ایک جیولری کی دکان سے ایک بڑا ممی
ڈیڈی لڑکا بڑی شوخی سے باہر آیا اور مجھے گھور گھور کردیکھنے لگ گیا میں نے اسے نظر انداز کیا اور ضوفی کو پھر
ایک بار پوچھا کہ جواب نہیں دیا ۔
ضوفی بولی جواب ضرور سننا ھے
مجھے خوشی ھوگی اگر تم مجھے پک اینڈ ڈراپ کرو گے
میں نے کہا تو کتنے بجے آوں ضوفی بولی چھ بجے میں نے ہمممم کیا اور اسے باے باے کرتا دکان کی طرف چل دیا اور
شکر ادا کیا کہ ہماری دکان آٹھ بجے بند ہوتی ھے اور مجھے دو گھنٹے کا وقت فری میں مل گیا ۔
جیولری واال لڑکا اپنی دکان کے باہر کھرا مجھے پیچھے سے بھی گھورتا رھا میں نے دو تین دفعہ گھوم کر پیچھے دیکھا تو
وہ لڑکا ادھر ھی کھڑا میری طرف دیکھ رھا تھا۔
میں دکان پر پہنچا تو دکان کھلی ھوئی تھی ۔
جب میں دکان کے اندر داخل ھوا تو انکل مجھے ناقابل یقین نظروں سے سکتے کہ عالم میں دیکھتے ھوے ایکدم کھڑے
ھوگئے میں انکی حالت کو دیکھ کر دل ھی دل ہنستے ھوے انکے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا تو انکل نے بڑا لمبا سالم کا
جواب دیا ۔
]اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے اور میرے لباس کو دیکھتے ھوے حیرانگی سے بولے اوےےےےے یاسررررر
پتر تینوں کی ھوگیا اےےےےمیں نے کہا کچھ نہیں انکل جی بس کل ایک دوست کے ساتھ الہور گیا تھا تو سوچا اپنے لیے
بھی پینٹ شرٹ لے لوں ۔
۔انکل بولے واہ بھئی واہ منڈا تے الہوری بابو بن گیا اے ہن تے پیشانیا وی نئی جاندا ۔
میں نے ہنستے ھوے کہا انکل جی کیسا لگ رھا ہوں ۔
تو انکل انگلی سے اشارہ کرتے ھوے بولی
ایکدم ہیرو لگ رھا
نظر سے بچاے جیتے رھو
[] size/میں شوز اتار کر کاونٹر پر چڑھا اور جھاڑن سے کپڑوں کو جھاڑنے لگ گیا کہ جنید دکان میں داخل ھوتے ھوے
میری طرف دیکھ کر دونوں ھاتھ منہ پر رکھ کر حیرانگی سے آنکھوں کو پھاڑے میری طرف آیا اور ۔
بوال اوے یاسر تینوں کی ھوگیااااااا۔
میں نے کہا کیوں میرے وچ کیڑا تانگہ وجا اے ۔
جنید بوال نئی یار بڑی ٹور شور کڈی ھوئی اے خیر تے اے ۔
میں نے اسے بھی دوست کے ساتھ الہور والی فلم سنا کر جان چھڑوائی ۔
جنید گھنٹہ بھر میری تعریفیں کرتا رھا اور مجھے کندھے مار مار کہتا رھا کہ اب اس شہر کی بچیوں کی خیر نئی ۔۔۔۔
سارا دن دکان پر مصروفیت میں اور ہنسی مزاق میں گزر گیا چاربجے کے بعد میری بےچینی میں اضافہ ہوتا گیا چار سے
چھے بجے کہ درمیاں میں نے کوئی سو دفعہ ٹائم دیکھا کہ چھے بجنے میں ابھی کتنا وقت درکار ھے ۔
آخر کار چھے بجے اور میں انکل سے پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا مارکیٹ پہنچا تو وہ ھی
جیولری واال لڑکا دکان کے باہر بیٹھا تھا اسکی نظر جیسے ھی مجھ پر پڑی تو ایک دم چونکا اور بڑے غور سے مجھے سر
سے پاوں تک دیکھنے لگ گیا میں اسکو ایک نظر دیکھ کر اگنور کرتا ھوا سیڑیاں اتر کر نیچے چال گیا اور پارلر پر ناک
کیا تو شیشے کے آگے سے پردہ سرکا اور وہ ھی کچی کلی نمودار ہوئی اسکی نظر جیسے جی مجھ پر پڑی تو ایکدم وہ بھی
سکتے کے عالم میں مجھے دیکھنے لگ گئی ۔
میں نے اشارا کر کے اسے ڈور کھولنے کا کہا تو وہ ڈور کھولنے کی بجاے پردے کے پیچھے غائب ہوگئی کچھ ھی دیر بعد
اس نے ھی دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا میں پارلر کے اندر گیا تو ضوفی اپنا ہیند بیگ سنبھال رھی تھی مجھے
دیکھ کر اس نے محبت بھری مسکراہٹ میری طرف پھینکی اور جواب میں نے بھی مسکرا دیکھتے ھوے آداب بجا الیا۔
ضوفی بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو ۔
میں نے کچی کلی کی طرف دیکھا جو بونگی بنی مجھے دیکھی جارھی تھی اور آہستہ سے بوال ۔
مجھے تو دکان پر جاتے ھی چھ بجنے کا شدت سے انتظار تھا ضوفی مسکراتے ھوے کچی کلی کی طرف متوجہ ہوئی اور
اسے چھٹی کرنے کا کہا وہ جلدی سے جی باجی کہتی ھوئی اپنی چادر اوڑھ کر سالم کرکے کے نکل گئی ۔
ضوفی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اور پھر ہونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ جنگ جاری ہوگئی کچھ دیر ہم دونوں
ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رھے اور پھر ضوفی مجھ سے الگ ہوئی اور اپنے گلے میں ڈالے
ہوے دوپٹے سے اپنے ہونٹوں کو ٹکور دیتے ھوے بولی یاسر تم تو میرے ہونٹوں کی مت مار دیتے ھو دیکھو کیسے جلن
ہورھی ھے ۔
میں ضوفی کے قریب ھوا اور اسکی کمر کے اطراف میں ہاتھ ڈال کر اسکو اپنی طرف کھینچا اور پیار سے آرام سے سلو
موشن میں اسکی گالب کی پنکھڑیوں کو چوم کر بوال لو مرہم لگا دی اب جلن نہیں ہوگی ۔۔۔
ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی بہت تیز ھو ہر کام میں اپنا مطلب آگے رکھ لیتے ھو۔
میں نے کہا جان جی یہ مطلب نہیں میرا پیار ھے میرا جنون ھے ۔۔۔
ضوفی مجھ سے الگ ہوکر گاون پہن کر کندھے پر شولڈر بیگ لٹکاتے ھوے بولی چلیں اور ساتھ ھی ضوفی نے ایک بڑا سا
شاپر میری طرف بڑھایا کہ یہ تمہاری پینٹ شرٹ اور کل والے کپڑے ہیں ۔
میں نے شاپر پکڑتے ہوے سینے پر ھاتھ رکھ کر کسی دربان کی طرح جھکا اور دوسرا بازو اسکی راہ میں بچھاتے ھوے
بوال چلیں ضوفی اتراتی ھوئی ہرنی کی چال چلتی ھوئی میرے آگے سے گزرتے ھوے میرے سر پر چپت لگا کر بولی ۔
بہت شوخے ھو۔۔۔
اور ساتھ ھی دروازہ کھول کر باہر نکلی تو میں بھی اسکے پیچھے پیچھے باہر نکال ضوفی نے پرس سے چابی نکال کر
مجھے پکڑائی میں نے ڈور الک کیا اور ہم باتیں کرتے ھوے سیڑھیاں چڑھتے ھوے جب اوپر پہنچے تو وہ ھی لڑکا پھر
ادھر ھی کھڑا تھا اور اپنے بالوں کو سنوارتا ھوا ضوفی کی طرف دیکھ رھا تھا ۔
میں نے اسے پھر نظر انداز کیا اور ہم اسکے آگے سے گزرتے ھوے ضوفی کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
ضوفی کو اسکے گھر چھور کر میں واپس دکان پر آیا ضوفی بڑا اصرار کیا کہ اندر آو مگر میں نے دکان کا بہانہ کیا اور
باہر سے ھی واپس آگیا۔ دکان پر پہنچا تو انکل میرے ھاتھ میں شاپر دیکھ کر پوچھنے لگ گئے کہ یہ کیا ھے میں نے بتایا
کہ پینٹ شرٹس ہیں انکل نے اور جنید نے پینٹ شرٹس دیکھ کر کافی تعریف کیں ۔
انکل مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگ گئے تھے شاید یہ سوچ کر کہ میری اتنی حثیت نہیں تھی ایسے کپڑیں خریدنے
کی جنید نے بھی باتوں باتوں میں مجھے سنا دیا تھا کہ ویسے تو تم کہتے ھو کہ ہمارے حاالت سہی نہیں ہیں اور کپڑے اتنے
مہنگے کیسے خرید لیے ۔
میں نے اسے ٹال مٹول کر کے بہانہ بنا دیا ۔
گھر پہنچا تو گھر والے بھی مجھے عجوبہ سمجھ کر میرے ارد گرد اکھٹے رھے امی میری بالئیں لیتی رہیں ۔
جبکہ آپی میرا مزاق اڑاتی رھی کبھی کھسرا کہہ کر چھیڑتی تو کبھی کچھ ۔
آنٹی کے گھر جانے کا موقع نہیں مال ۔
اگلے دن جب میں پھر نئی پینٹ شرٹ پہن کر گلی سے گزرا تو گلی کی آنٹیاں جو باہر کھڑیں تھیں مجھے ایسے دیکھ رہیں
تھیں جیسے میں کوئی خالئی مخلوق ہوں اور آپس میں چے مگوئیاں کرنا شروع ھوگئیں میں الپرواہی سے چلتا ھوا صدف
کے گھر پہنچا تو صدف کی امی نے پہلے مجھے پہچانا نہ
اور ایک دم بولی کیڑاں ایں ایویں منہ ُچ ک کے اندر وڑی جاناں ایں مگر جب میں انکے قریب پہنچا تو وہ بھی میرا منہ متھا
چوم کر مجھے دعائیں دیتی ھوئی تبدیلی کی وجہ پوچھنے لگ گئی میں نے بھی بس منگھڑت کہانی سنا کر انکے سوالوں کا
جواب دیا اور جب صدف نے مجھے دیکھا تو اسکی بھی حالت دیکھنے کے قابل تھی ۔۔
اس نے بھی تعریفوں اور سوالوں کی اخیر کردی۔۔۔۔
خیر ہم شہر کی طرف چل دیے اور صدف بہت خوش نظر آرھی تھی اور اس نے بتایا کہ مجھے بلیڈنگ ھوگئی ھے ۔ اور
ساتھ میں اس نے ایک بری خبر بھی دی کہ اسکا کورس مکمل ہوگیا ھے یہ آخری سال ھے
میں نے بھی شکر ادا کیا کہ پیسے ظائع نہیں گئے اور اسکے کورس مکمل ہونے کو میں نے ذیادہ سیریس نہیں لیا۔۔۔
میں دکان کی بجاے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا اور دروازہ ناک کیا کچھ دیر بعد اندر ضوفی کی آواز آئی کون۔۔
میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا آپ کا چاہنے واال ۔۔
اندر سے کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی ۔
اور پھر دروازہ کھال تو میرا رنگ اڑ گیا دروازے پر ضوفی نہیں بلکہ ماہی تھی ۔۔
اور وہ کالج کے یونیفارم میں کھڑی میری طرف شرارت بھری نظریں ڈال کر بولی آجائیں آپی تیار ھو رہی ہیں ۔
ماہی کی شکل تو شکل آواز اور بولنے کا انداز بھی بلکل ضوفی جیسا تھا ۔۔
میں شرم سے پانی پانی ھوتے ھوے اندر داخل ہوا اور آہستہ سے بوال سوری ماہی دراصل مجھے لگا کہ ضوفی ھے ۔۔
ماہی نے بس مسکرا کر ھی میری سوری کو قبول کیا۔۔
میں شرمندا سا چلتا ھوا ٹی وی الونج میں جاکر بیٹھ گیا تو آنٹی کمرے سے نکلی تو میں انکو دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور سالم
کرنے کے بعد ان سے سر پر پیار لیا ۔
آنٹی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود میرے ساتھ والے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی اور میرا حال احوال پوچھنے کے بعد
بولی بیٹا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ ضوفی کو خود گھر چھوڑنے اور لے کر جانے کی ذمداری سنبھال لی ۔
ضوفی نے مجھے رات کو بتایا تھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی ۔
جیتے رھو ۔
آنٹی نے پھر میرے سر پر پیار دیا اور پھر کہنے لگ گئیں کہ زمانہ بہت خراب ھے مجھے تو بس اسکی فکر رہتی تھی کہ
بیچاری اکیلی جاتی ھے اور اکیلی ھی آتی ھے ۔
بیٹا تم اسے اپنا گھر ھی سمجھو جب تمہارا دل کرے بالجھجھک چلے آیا کرو ۔
میں سر نیچے کر کے بڑے شریفانہ انداز سے بیٹھا اپنے پیروں کو دیکھی جارھا تھا ۔
اور آنٹی کی ہر بات پر فرمابرداری سے سر ہالتے ہوے جی جی کررھا تھا ۔
کچھ ہی دیر بعد میری جان میری دلربا میری سانسوں کی مالک میری ضوفی سیڑیاں اترتی ہوئی مجھے نظر آئی میری
آنکھیں جو اٹھیں تو جھکنا بھول گئیں جب محبوب اتنا پیارا ھو اتنا سیکسی ھو تو پھر اس دیکھ کر نظر جھکانے کا گناہ کون
کرے ۔۔۔ضوفی کی نظر بھی مجھ پر پڑی تو اپنے حسین ہونٹوں کو بکھیرتے ہوے ایک مسکان میرے نام کی ۔
ضوفی کب میرے پاس پہنچی یہ اسکے سالم لینے سے مجھے پتہ چال ورنہ مجھے تو وہ ابھی بھی سیڑیاں اترتے ھی نظر
آرھی تھی ۔
میں نے چونک کر اس کے سالم کا جواب دیا
ضوفی اور آنٹی نے مجھے ناشتے کا کافی کہا مگر میں نے ناشتہ کرلیا ھے کہہ کر ٹال دیا اور ہم دونوں پریمی ہنسوں کی
جوڑی
بازار کی طرف چل دیے ۔
جب ہم شاہین مارکیٹ پہنچے تو وہ ھی لڑکا پھر ادھر ھی کھڑا ضوفی کو بڑی عجیب نظرون سے دیکھنے لگ گیا مجھے
غصہ تو بہت چڑھا مگر خود پر کنٹرول کرتے ھوے میں
ضوفی کو پارلر پر چھوڑ کر دکان کی طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو انکل دکان کھول ھی رھے تھے
میں نے سالم دعا کے بعد دکان کھلوا کر صفائی وغیرہ کی اور پھر جنید بھی آگیا اور ہم کام میں مصروف ہوگے سارا دن
ایسے ھی گزر گیا ۔
شام کو میں پھر بہانہ لگا کر ضوفی کے پارلر پر پہنچا اور ضوفی سے ڈھیر سارا پیار کرنے کے بعد اسے گھر چھوڑ کر
آگیا ۔۔
دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے اتفاق سے میں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی نہ جاسکا پالر پر آتے جاتے کارنر والی دکان کا
لڑکا مسلسل مجھے اور ضوفی کو گھورتا رہتا تھا اس دوران کوئی ایسا خاص واقعہ پیش نہ آیا جسکو لکھنا ضروری
سمجھوں ۔۔۔
).Update no (97
ایک ہفتہ مزید گزر گیا ۔
میں ضوفی کے گھر والوں کے ساتھ کافی فرینک ہوچکا تھا ماہی بھی مجھے بھائی بھائی کہتے نہ تھکتی تھی آنٹی بھی میری
ہر وقت بالئیں لیتی رہتیں تھیں ضوفی کے ساتھ جب بھی موقعہ ملتا میں موقع ضائع نہیں جاتا یعنی چوما چاٹا جپھی شپھی
ہوجاتی ۔۔۔
دوستو۔۔
میں نے نوٹ کیا کہ انکل مجھے ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے جیسے میں چور ہوں پتہ نہیں انکے دل میں میرے
متعلق کیا شک تھا پہلے والی بات نہیں رہی تھی ان میں چھوٹی چھوٹی بات پر مجھ سے تلخی سے بولتے تھے ۔
میں انکے رویہ سے خود حیران تھا۔
ایک دن غالبََا بدھ کا دن تھا میں جنید کے ساتھ کھانا لے کر دکان پر آیا تو انکل کے پاس وہ ھی لڑکا بیٹھا ھوا تھا جو شاہین
مارکیٹ کی کارنر والی دکان کا تھا ۔میں اسے دیکھ کر چونکا اس لڑکے نے جب مجھے دیکھا تو اسی وقت انکل سے اجازت
لے کر کھسک گیا۔
میری چھٹی حس نے فورن کام کیا کہ ہو نہ ہو یہ ساال میری شکایت لگانے آیا ھے ۔۔
جب میں اندر داخل ہوا تو انکل بھی مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگ گئے میرا شک یقین میں بدل گیا ۔
میں نے انکل سے کوئی بات نہ کی اور نہ ھی اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا کرنے آیا تھا ۔۔۔
دن ایسے ھی گزر گیا شام کو میں انکل سے پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر جانے لگا تو انکل بڑی تلخی سے بولے ۔
اوے کاکا توں کی نواں کم پھڑیا ہویا اے ۔
روز ایس ٹیم پیشاپ دا بہانہ بنا کہ آوارہ گردی کرن نکل جاناں ایں ۔
بے جا آرام نال کتے نئی جاناں ۔۔
میں ہکا بکا ہو کر انکل کی طرف دیکھنے لگ گیا
کہ اسے کیا ھوا میرے دماغ میں فورن اسی لڑکے کا آیا کہ یہ سب ڈرامہ اسی سالے کی وجہ سے ھو رھا ھے ۔
۔دوستو انسان جب دل کا سچا اور کسی کے ساتھ مخلص ھو تو وہ ھی اگر اس طرح کی بےرخی یا شک کرے تو پھر آپ
سب سمجھدار ہیں کہ کیا ہوتا ھے ۔۔
جی بلکل سہی سمجھے۔۔
مجھے بھی غصہ آگیا میں بھی تھوڑے تلخ لہجے میں بوال۔
انکل جی توانوں کنے پین یائی اے کہ میں آوارا گردی کرن جاناں ایں ۔
انکل بھی تلخی سے بولے ۔
تمیز نال گل کر تے نالے اپنی اوقات وچ رہ۔ اوس بازاری عورت دی خاطر میرے اگے بولن دی تیری جرات کیویں ہوئی
دوستو ۔۔میں سب کچھ برداشت کر لیتا سہہ لیتا مگر اس گانڈو نے ضوفی کو گالی دے کر میرے دل میں چھرا گھونپ دیا بس
پھر کیا تھا
میرا تو پارا چڑھ گیا کہ اس گانڈو کی میں نے ایمانداری اور مخلص ھو کر اتنی کم تنخواہ میں نوکری کی ھے اور ڈیوٹی بھی
سب سے ذیادہ اور کام بھی سب سے ذیادہ کرتا ھوں اور آج یہ مجھے میری اوقات بتا رھا ھے ۔
میں غصے سے کھڑا ہوگیا اور پہلے الفاظ بڑے پیار سے کہے کہ ۔
ویسے توں ہے تے بڑا ای لن لینی دا ایں ۔
پھر میری آواز دور دور تک سنائی دی ۔۔کسے گشتی دیا بچیا زبان سنبھال اپنی نئی تے ُگ تھی وچوں ِکھچ کے کتیاں اگے پا
دیواں گا ۔۔
میں تیرے واسطے اینی جان ماری تیرا نوکر بن کے ریاں تیرے بعد پوری ذمہ داری تے پوری ایمانداری نال کم کرداں ریاں
تے توں اج مینوں اے سال دے ریاں ایں ۔
اس گانڈو
نےغصے میں گز اٹھایا اور مجھے مارنے کے لیے آگے بڑھا تو جنید نے دوڑ کر پیچھے سے گز پکڑ لیا اور اسے بھی پکڑ
کر کھڑا ہوگیا ۔
ہماری اونچی آواز سن کر ادھر ادھر کے دکان دار اور راہ چلتے لوگ بھی اکھٹے ہوگئے ۔
وہ ساال مجھے گندی گندی گالیاں نکالنے لگ گیا میرے منہ میں بھی جو آیا میں نے کہہ دیا۔۔
اس نے کہا خبردار میری دکان تے پیر وی رکھیا ۔ ۔
میں نے بھی کہا میں لن توں واری تیری دکان تے تینوں وی ۔
وہ مجھے مارنے کے لیے دوڑتا میں اسے مارنے کے لیے دوڑتا مجھے بھی تین چار لوگوں نے پکڑا ھوا تھا اور اسے
بھی ۔
خیر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی کافی رش پڑ گیا کچھ لڑائی کو مذید بڑھانے والے تھے اور کچھ معاملہ رفع دفع کروانے
والے خیر تقریبًا ایک گھنٹہ ہماری منہ ماری ہوتی رھی اور میں غصے سے پیر پٹختہ ہوا شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا
غصے سے میرا رنگ سرخ ہورھا تھا ۔
دوستو میری عمر تو اس وقت انیس سال تھی مگر میرا قد چھ فٹ کے قریب تھا اور جسامت بھی میری گاوں کے گبھرو جوان
جیسی تھی ۔۔
میں جب شاہین مارکیٹ پہنچا تو میری نظر سیدھی کارنر والی دکان پر ھی تھی ۔
اس لڑکے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ ساال مجھے نظر نہیں آیا ۔
ورنہ آج یا وہ نہیں تھا یا میں نہیں ۔
میری شرٹ پر جگہ جگہ مجھے پکڑنے والوں کے ہاتھوں کے نشان لگے ھوے تھے میری شرٹ کے دو بٹن بھی ٹوٹ
چکے تھے میری حالت دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ میری کسی کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی ھے ۔
میں بھاگتا ھوا سیڑیاں اتر کر پارلر پر پہنچا اور بغیر دروازہ ناک کئے دروازے کو ذور سے کھول کر اندر داخل ہوا ۔
میرے دماغ نے یہ بھی کام نہ کیا کہ ہوسکتا ھے کہ اندر کوئی لیڈیز نہ ھو مگر غصہ عقل کو کھا جاتا ۔
میں جیسے ھی اندر داخل
,,,,,,,ھوا تو
اتفاق سے پارلر میں اکیلی ضوفی ھی تھی اور وہ بھی گاون پہن کر تیار بیٹھی میرا ھی انتظار کررھی تھی ۔
مجھے یوں اچانک دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔
اور گبھراے ہوے میری طرف دوڑ کر آئی اور مجھے بازوں سے پکڑ کر ہالتے ھوے بولی کیاااااا ھوا یاسر یہ کیا حالت
بنائی ہوئی ھے کسی سے لڑائی ہوئی ھے کیا بولووو کیا ھوا ۔
ضوفی رونے والی ہوچکی تھی اسکی آواز میں حقیقی دکھ تھا تکلیف تھی تڑپ تھی بے چینی تھی اپنا پن تھا ۔
میں نے ضوفی کے کندھوں کو پکڑ کر اسے صوفے کی طرف لیجاتے ھوے آرام سے صوفے پر بیٹھایا اور اسے ریلیکس
کرتے ھوے کہا کچھ نہیں ھوا ۔۔
مجھے ایک گالس پانی کا دو ضوفی جلدی سے اٹھی اور بھاگم بھاگ پانی لے کر آئی اس کا رنگ پریشانی سے سرخ ہوچکا
تھا ۔
میری طرف سوالیا نظروں سے دیکھی جارہی تھی ۔
میں نے ایک ھی سانس میں پانی کا گالس ختم کیا ضوفی نے اور پانی الوں کہا تو میں نے اثبات میں سر ہالیا ضوفی پھر
جلدی سے پانی لے آئی اور مجھے گالس پکڑا کر میرے ساتھ ھی صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔
اور میرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ھوے مجھے دیکھنے لگ گئی ۔۔
کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو میں نے ضوفی کو ساری سٹوری بتا دی اور جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اسکا بھی بتا
دیا ۔۔
ضوفی سابقہ انکل کو اور اس لڑکے کو گالیاں اور بدعائیں دینے لگ گئی ۔
ضوفی ایکدم غصے سے اٹھی اور اپنی چادر پکڑ کر اوپر لینے لگ گئی میں نے پوچھا کدھر جارھی ھو تو ضوفی بولی اس
کنجر کا منہ توڑنے جو فساد کی جڑا ھے ۔
میں جلدی سے اٹھا اور اسے پکڑ کر دوبارا صوفے پر بٹھاتے ھوے کہا نہیں ضوفی ابھی نہیں ۔اسکو مزہ میں چکھاوں گا
مگر موقع آنے پر ابھی نہیں ۔
ابھی خامخواہ ہم دونوں کا تماشا بنےگا میں نے بڑی مشکل سے ضوفی کو سمجھا بجھا کر بٹھایا اور اب پانی پالنے کی میری
باری تھی اور بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے کی بھی ۔۔۔۔
خیر کچھ دیر بعد ہم دونوں پارلر سے نکلے اور جب اوپر پہنچے تو وہ لڑکا دکان بند کر کے جاچکا تھا شاید اسے اس
ہنگامے کی خبر مل چکی تھی یا پھر ویسے ھی چال گیا تھا
I don't know
ضوفی اسکی بند دکان کو ھی گھورنے لگ گئی
اور ضوفی نے ادھر سے آدھی اینٹ اٹھا کر اسکے بند شٹر پر دے ماری اور اسکو گالیاں اور بدعائیں دیتی ھٰو یی آگے چل
پڑی ۔۔
میں نے ضوفی سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کہ اسکی دکان اپنی ھے یا کراے پر ھے اور کیا اسے جانتی ھو ضوفی
نے بتایا کہ یہ ہماری پچھلی گلی میں رہتا ھے اور کراے دار ھی ھے جبکہ مارکیٹ کا مالک بہت اچھا اور نیک ھے ۔
مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ھے اور انکے گھر تو ہمارا آنا جانا بھی ھے ۔میرے دماغ میں ایکدم اس گانڈو سے بدلہ لینے کی
سوجی ۔
اور میں دماغ میں ھی پوری فلم تیار کرنے لگ گیا۔۔
ضوفی نے مجھے سوچ میں پڑے دیکھ کر کہا یاسر مجھے معاف کردو میری وجہ سے تمہاری اتنی بےعزتی بھی ہوئی اور
دکان سے بھی چھٹی ہوگئی ۔۔
میں نے کہا کیسی باتیں کرتی ھو تمہاری قسم مجھے نہ تو اپنی بےعزتی کا دکھ ھے اور نہ ھی دکان سے چھٹی ہونے کا ۔
مجھے تو دکھ ھے کہ اس گانڈو نے اس گشتی کے بچے کے پیچھے لگ کر تمہیں گالی دی ۔
ضوفی میں سب کچھ برداشت کرسکتا ھوں مگر کوئی تم پر انگلی تو کیا آنکھ بھی اٹھاے وہ مجھ سے برداشت نہیں ھوگا ۔
ہم ایسے ھی باتیں کرتے جارھے تھے اور میں دماغ میں ہوتا پالن بنا چکا تھا کہ اس گشتی کے بچے سے کیسے بدلہ لینا
ھے ۔
ضوفی پھر بولی یاسر اگر اس بڈھے نے تمہارے گھر جاکر شکایت لگادی تو کیا ھوگا۔۔۔
میں نے الپرواہی سے کہا لگادے لگاتا ھے تو ۔
مجھے نہیں پرواہ کسی کی بھی ۔
دوستو۔۔یہ ساال عشق بھی نہ بسسسسسس
اپنے معشوق کی خاطر پورے زمانے سے لڑنے کے لیے جتنا بہادر بنا دیتا ھے نہ ۔
تو اپنے معشوق کے کھوجانے کے ڈر سے اتنا بزدل بھی بنا دیتا ھے ۔۔
جبکہ قبل مریض عشق گھر والوں سے ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹنے لگ جاتی تھی مگر یہاں اب معاملہ ھی الٹ تھا ۔۔
سارا زمانہ ایک پلڑے میں اور معشوق ایک پلڑے میں پھر بھی کونسا پلڑا بھاری۔۔۔۔۔
جی بلکل سہی سمجھے معشوق کا محبوب کا ۔۔۔۔
ہاےےےےےے رے مرگ عشق۔۔
ضوفی کی آواز نے مجھے پھر خیالوں سے ال باہر کیا اور وہ بولی ۔یاسررر اب کیا ھوگا مجھے تو ڈر لگ رھا ھے کہ کہیں
تمہارے گھر والے بھی میں جو پہلے ھی اندر ھی اندر غصے سے کہڑ رھا تھا۔۔۔۔۔
ضوفی کی بات سن کر اونچی آواز میں بوال اور یہ بھول گیا کہ ہم بازار سے گزر رھے ہیں جہاں لوگوں کی آمدورفت ھے ۔
میں ایکدم چیختے ھوے بوال تو کیا نکال دیں گے نہ میرے گھر والے مجھے گھر سے تو نکال دیں میں فٹ پاتھ پر سوجاوں
گا پیار کیا ہے تم سے کوئی ڈاکہ تو نہیں ڈاال کسی کا خون تو نہیں کیا ۔
ہمارے سامنے سے ایک بزرگ اور ایک اماں آرھیں تھی ۔
میں انکے سامنے رک گیا اور میاں جی کو کندھوں سے پکڑتے ھوے روہانسی مگر اونچی آواز سے بوال ۔
بابا جی آپ ھی بتاو پیار کرنا جرم ھے کیا
بابا یوں میرے ایکدم سامنے آنے اور ایسے چیخ کر سوال کر نے سے گبھرا گیا اور میری طرف دیکھتے ھوے نفی میں
سرہالیا میں نے پھر اماں جی سے پوچھا اماں جی آپ ھی بتاءیں کیا پیار کرنا جرم ھے گناہ ھے ۔۔
اماں جی بھی نفی میں سر ہالتے ھوے مجھ سے جان چھڑوا کر چل دیے شاید وہ مجھے نشے میں سمجھ بیٹھے تھے کا پاگل
سمجھ بیٹھے تھے قریب سے گزرتے اور کھڑے لوگ مجھے آنکھیں پھاڑے دیکھےجارھے تھے ۔
مجھ میں اتنا حوصلہ اتنا جزبہ میں اتنا نڈر کیسے ھوگیا سمجھ سے باہر ۔۔
شاید یہ میرے سچے پیار کی طاقت تھی ۔۔۔
ضوفی میرے اس رد عمل پر پہلے تو سہم گئی پھر ایکدم اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے کہا
یاسرررر ہوش کرو کیا ھوگیا ھے تمہیں ۔
میں پاگل ہوچکا تھا میں نے بھی نشے کی سی حالت میں ضوفی کے منہ کے قریب منہ کر کے کہا تم سے پیار ھوگیاھے۔
اور میں پھر اونچی آواز میں دھاڑا
ھاںااااااااں تم سے پیار ھوگیا ھے اگر کوئی میرے پیار کے بیچ میں آیا تو اس سالے کو جان سے ماردوں گا ہاں سن لو سب
جان سے ماردوں گا ۔
ضوفی میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے مجھے کھینچتے ھوے ایک چھوٹی سے سنسان گلی میں لے گئی اور وھاں مجھے
کھڑا کر کے غصے سے بولی یاسر یہ کیا بےہودگی ھے کیوں اپنا اور میرا تماشہ بنا رھے ھو یہ گاوں نہیں شہر ھے شہر
ھے ۔۔۔
میں حیران ھوکر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال ۔۔
ضوفی تم بھی مجھے غلط کہ رھی ھو ۔
تم بھی تم بھی ۔
ضوفی کچھ نارمل ھوکر بولی یاسر پلیز سمجھنے کی کوشش کرو چلو گھر چل کر بات کرتے ہیں میں نے ذور سے اپنا بازو
اس سے چھڑوایا اور غصے سے بوال ۔نہیں گھر نہیں ادھر ھی بتاو تم مجھ سے پیار کرتی ھو کہ نہیں یہاں سب کے سامنے
بتاو ۔۔
دوستو ۔۔میں نہ تو نشے میں تھا اور نہ ھی پاگل تھا۔۔
میں گاوں کا سادہ صاف دل اور سچا مخلص ہونے کی وجہ سے اپنا اعتبار اور اپنے آپ پر چوری کا الزام اور ضوفی کو
بازاری عورت سننے اور دکان سے چھٹی ہونے اور گھر جاکر پتہ نہیں کیا ہوجانے کی وجہ سے دل برداشتہ اور ڈپریشن
کی وجہ سے دل کی بھڑاس دل کی بات کو الفاظوں میں ڈھال کر سارے زمانے کے سامنے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی
کوشش کررھا تھا ۔
مگر کیا کہوں کہ
منافقوں کی بستی میں اپنے ڈیرے ہیں
تیرے منہ پر تیرے میرے منہ پر میرے ہیں ۔۔۔
ان منافقوں کے سامنے دل کا حال بتانا اپنا تماشہ بنانے جیسا تھا
یا یہ کہہ لیں
کہ
اندھوں کی بستی میں آئینے ببیچنے کی بیوقوفانہ حرکت تھی ۔
ضوفی ہوش میں تھی اس لیے وہ بھی سچی تھی ۔
مگر میں ضوفی پر ھی پھٹ پڑا .۔۔
ضوفی رونے لگ گئی اور میرے آگے ھاتھ جوڑتے ھوے بولی یاسر پلیزززز گھر چلو ادھر جاکر مجھے جو مرضی کہہ لینا
۔
مگر میں اسی بات ہر بضد تھا کہ ادھر ھی بتاو سب کے سامنے مجھ سے پیار کرتی ھو کہ نہیں ۔
ضوفی تھک ہار کر بولی ہاں کرتی ھوں پیار کرتی ھوں اب تو چلو
لوگ ہمارے اردگر اکھٹے ہوکر ہمارا تماشہ دیکھ رھے تھے ۔
ضوفی مجھے بازو سے پکڑ کر گھر کی طرف لیے جارھی تھی
ہاےےےےےےے رے یہ ساال کم بخت عشق کیا کیا رنگ دکھالے گا۔۔۔۔
.ضوفی میرا بازو پکڑے مجھے گھر کی طرف لیجارھی تھی اور ساتھ ساتھ مجھے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رھی
تھی ۔
کچھ دور جاکر میں کافی حد تک نارمل ہوچکا تھا گھر کے پاس جاکر میں واپس آنے لگا تو ضوفی نے مجھے بازو سے
پکڑ لیا اور ساتھ ھی ڈور بیل بجا دی کچھ دیر بعد ماہی نے پوچھ کر دروازہ کھوال اور میرے الکھ انکار کرنے پر بھی
ضوفی مجھے ذبردستی اندر لے گئی۔
میں نے بھی ماہی کی وجہ سے ذیادہ ڈرامہ نہ کیا اور چپ چاپ اندر داخل ہوگیا ۔
ماہی میری حالت دیکھ کر پریشان ھوگئی اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی کیا ھوا تو ضوفی نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ
کیا ضوفی سیدھا مجھے اوپر والے کمرے میں ھی لے گئی ۔۔
اوپر جاکر میں صوفے پر نیم دراز ھوگیا ۔
ضوفی مجھے بیٹھا کر نیچے چلی گئی اور کچھ دیر بعد چینج کرلے اوپر آئی تب تک میں بلکل نارمل حالت میں ہوچکا تھا
ضوفی نے مجھے پانی کا گالس ہیش کیا اور میرے سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ھوے بولی غصہ ٹھنڈا ھوا جناب کا
کہ نہیں اورساتھ ھی شرارت بھرے انداز میں ھاتھ کو کانوں کی لو کے ساتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ھوے بولی ۔
یاسرر تمہیں اتنا غصہ بھی آتا ھے اففففف میں تو یقین کرو ڈر گئی تھی کہ پتہ نہیں کیا کرگزرو گے ۔۔
میں صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے ھوے لمبا سانس لیتے ھوے بوال ۔
ضوفی جب انسان سچے دل کا ھو اور منافقت سے پاک ھو تو پھر وہ ذیادتی برداشت نہیں کرتا ۔
میں اس سالے کو چھوڑوں گا نہیں ۔
اسکی قسمت اچھی تھی جو وہ مجھے نظر نہیں آیا ورنہ اسکو ایسا سبق سکھاتا کہ ساری زندگی یاد رکھتا کہ کس سے پنگا لیا
ھے ۔۔
ضوفی مجھے پھر ریلیکس کرتے ھوے بولی دفعہ کرو کتوں کا کام ھے بھونکنا ۔۔
میں کچھ دیر اس گانڈو کو گالیاں دیتا رھا ۔
اورضوفی مجھے ٹھنڈا کرتی رھی ۔
میں نے پالن کے مطابق جو میں پہلے سوچ چکا تھا
ضوفی کو کہا کہ ضوفی میں نے اس لڑکے کو سبق سکھانا ھے اور اس میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ھے ۔
ضوفی بولی میری مدد کی وہ کیسے ۔۔
میں نے کہا پہلے تم وعدہ کرو کے میرا ساتھ دو گی ۔
ضوفی بولی یاسر تمہارے لیے میری جان بھی حاضر ھے ۔
تم بتاو تو سہی کہ مجھے کیا کرنا ھے ۔
اور پہلے یہ اپنی حالت درست کرو اور یہ کہتے ھوئے ضوفی میری شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی اور ساتھ ساتھ میرے
شرٹ پر پڑی سلوٹوں کو بھی
درست کرنے لگ گئی ۔
میں نے کہا
مارکیٹ کا جو مالک ھے ان کے ساتھ تمہارے گھریلو تعلقات ہیں نہ ۔
ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے بولی ہمممممم۔
میں نے کہا ۔
بس تو پھر صبح تم نے مارکیٹ کے مالک کے گھر جانا ھے اور اسکو کہنا ھے کہ یہ لڑکا روز مجھے تنگ کرتا ھے اور
مذید اپنے پاس سے مرچ مصالحہ لگا کر انکو اس کے خالف کرنا ھے ۔
اور شام کو یہ لڑکا اپنی عادت کے مطابق تمہیں دیکھے گا اور تم نے بس اس کو ایک گالی نکالنی ہے اور ساتھ میں تم نے
یہ کہنا ھے کہ تم کیا روز مجھے تنگ کرتے رہتے ہو بس اسکے بعد میں جانوں اور وہ لڑکا۔۔
ضوفی گبھرا کر بولی یاسر ایسے تم کچھ غلط نہ کر گزرنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے ۔
میں نے کہا یار تم پریشان مت ھو اگر میں نے اسکو سبق نہ سیکھایا تو میں اندر ھی اندر مرجاوں گا ضوفی ایکدم اٹھ کر
میرے پاس آئی اور میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی مریں تمہارے دشمن ۔۔۔
میں نے اسکا ھاتھ منہ سے ہٹاتے ھوے کہا تو ضوفی پھر تمہیں میری مدد کرنا ھوگی ۔
ضوفی بولی اس کا فائدہ کیا ھوگا میں نے کہا اسکے دو فائدے ھوں گے ایک تو اسکو یہ سبق مل جاے گا کہ کیسے کسی
کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی کرتے ہیں اور دوسرا مارکیٹ کا مالک اس سے دکان خالی کروا لے گا ۔
اور اسکو سبق ملے گا کہ کیسے کسی کی روزی میں ٹانگ مارتے ہیں ۔
ضوفی بولی یاسر دکان واال کام تو میں انکل کی بیگم کو کہہ کر کروا لوں گے
تو پھر اس کتے کے منہ ضرور لگنا ھے ۔
میں نے ضوفی کا پکڑا ہوا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ھوے کہا ضوفی تمہیں میری ضرورت ھے کہ نہیں ضوفی بولی یاسر
کیسی باتیں کررھے ھو ۔ تمہارے بغیر ایک پل بھی رہنا مجھ سے دشوار ھے اور تم۔۔۔۔
میں نے ضوفی کی بات کاٹتے ھوے کہا
تو پھر جو میں کہہ رھا ہوں وہ کرو ۔
ضوفی بولی یاسر مجھے تمہاری فکر ھے کہ تم کچھ الٹا سیدھا نہ کر بیٹھو۔
میں نے کہا اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تب میں نے کچھ الٹا سیدھا کربیٹھنا ھے۔۔
دوستو باالخر
میں نے ضوفی کو اپنی جان کی قسم دے کر مجبورًا راضی کرلیا۔
اور اسے صبح آنے کا کہہ کر اس سے اجازت لے کر ان کے گھر سے نکل آیا ۔ضوفی اور آنٹی نے بہت کوشش کی کہ میں
کھانا کھا کر جاوں مگر میں نے لیٹ ھونے کا بہانہ بنا کر وھاں سےنکل آیا اندھیرا کافی ھوچکا تھا ۔
میں سارے راستے صبح کی پالنگ اور گھر جاکر گھر والوں کے سوالوں کے جواب کے بارے میں سوچتا رھا اور گھر
پہنچنے سے پہلے ہی کافی لمبی چوڑی پالننگ تیار کرچکا تھا۔
گھر پہنچا تو سب کچھ نارمل ھی تھا شاید ابھی تک وہ گانڈو ُبڈھا دکان سے واپس نہیں آیا تھا ۔
ورنہ تو گھر داخل ھوتے ھی سب مجھ پر چڑھ دوڑتے ۔۔
میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور گھر سے نکل کر باہر دوستوں کی طرف چال گیا ۔
گاوں میں میرا ایک جگری دوست تھا شاہد جسکو شادا شادا کہتے تھے چھ فٹ قد چوڑا سینہ ورزشی جسم بڑی بڑی
مونچھیں اور بڑا دلیر اور مخلص یاروں کا یار تھا اسکا پہلے اس لیے ذکر نہیں کیا کیوں کہ اسکا کوئی رول نہیں تھا ۔
اس نے مجھے کہا یار آج تو بڑا پریشان لگ رھا ھے ۔
میں نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا مگر وہ پوچھنے پر بضد رھا ۔
میں نےضوفی کے معاملے کو گول کرکے اسکو ساری ہسٹری بتا دی ۔
وہ تو آپے سے باہر ھوگیا اور مجھے ابھی شہر چلنے کا کہنے لگا کہ اس پین یک دی ُبنڈ وچ فیر مارنا اے ۔
میں نے بڑی مشکل اسے سمجھا بجھا کر بٹھایا اور اسکو کہا کہ کل تم نے چھ بجے سے پہلے شاہین مارکیٹ کے باہر ہونا
ھے اور بس میرے پاس کسی اور کو نہیں آنے دینا اس پین یک نوں میں آپ پننا وا۔۔
شادا بوال توں فکر نہ کر جے ہور بندیاں دی لوڑ ہوئی تے او وی آ جان گیں ۔
میں نے کہا ضرورت تو نہیں پڑے گی باقی پھر بھی تم تین چار لڑکوں کو ساتھ لے آنا اور وہاں دیکھنے والوں کو یہ شک
بھی نہ ہو کہ تم میرے لیے آےھو اور میری وجہ سے لڑ رھے ھو ۔۔اور تم میں سے کوئی بھی لڑکا اس پین یک کو ہاتھ نہ
لگاے اسکو میں خود نپٹاوں گا۔۔
میں نے کچھ دیر بعد کہا یار مجھے اس بابے کی ٹینشن ھے وہ ساال میرے گھر شکایت نہ لگا دے
شادا بوال کویں تے ایس بابےدا وہ پٹکا پوا دینے آں میں نے کہا نہیں یار وہ پھر بھی میرا استاد ھے ۔اسے چھوڑ اور جو میں
نے کہا ھے اسے ذہن نشین کرلو
شادا بوال
پر یار جے اونے تیرےکار شکایت ال دتی تے فیر۔
میں سوچ میں پڑ گیا۔۔
تو شادا بوال
یاسرے بابے دا تے حل اے ھی اے کہ میں اونوں تیرے کار جان توں پیلے ای سمجھا دیواں میری گل اودی عقل وچ آجاوے
گی نئی تے فیر اونوں میرا پتہ ای اے
میں نے شادے کی بات سن کر کہا ھاں یار ہن تے او دکان توں آگیا ہناں اے ۔
شادا بوال چل فیر چلیے ایدھا تے منہ ٹھپ کرئیے۔
میں نے کہا چل فیر ۔
میں شادا اور دو تین اور لڑکے
ہم سب دکان والے کے گھر کی طرف چل دئیے اپنے گھر کے سامنے سے گزر کر ہم سجاد کے گھر کے سامنے جا پہنچے
شادے نے مجھ سمیت دوسرے لڑکوں کو گھر سے کچھ پیچھے جانے کو کہا میں ان لڑکوں کو اپنے گھر کی بیٹھک کے پاس
لے ایا۔۔اور ادھر کھڑے ہوکر ہم شادے کو دیکھنے لگ گئے شادے نے دروازہ کھوال تو
بابا ھی باہر نکال۔
ان دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی
I don't know
).Update no (98
شادا میری طرف اشارے کر کر اس سے باتیں کررھا تھا اور جب انکی بات مکمل ھوئی تو شادے نے سجاد کے کندھے پر
ھاتھ رکھ کر اس سے کچھ سختی سے بات کی اور ہماری طرف آنے لگ گیا جبکہ سجاد کچھ دیر کھڑا شادے کو دیکھتا رھا
اور پھر ذور سے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی شادے نے آتے ھی خوشخبری دی کہ اسکی عقل میں بات آگئی ۔
مگر یاسرے اے پالر والی کون اے میں نے ہنستے ھوے کہا تیری پرجائی اے ہور کون اے ۔
شادا میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بوال وا یار شہری بابو بن دے ای شہر دی بچی وی پھنسا لی ۔
میں اسکے پیٹ میں مکا مارتے ھوے بولو پھدی دیا تیری پرجائی اے ادب نال نام لے ۔
شادا قہقہہ مار کر ہنستے ھوے بوال ۔
ہن تے اوس پین یک دی خیر نئی ساڈے ویر دی پسند وچ لت اڑائی ایدی ماں دا پھدا ۔
میں نے اسکے کندھے پر ھاتھ رکھ کر اسے ٹھنڈا کیا کہ اسکو تم لوگوں نے ہاتھ نہیں لگانا ۔
یہ کام بس میرا ھے ۔
تم لوگوں نے بس کسی کو ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آنے دینا ۔
ہم کچھ دیر مذید باتیں کرتے رہے اور پھر صبح ملنے کا کہہ کر ہم اپنے اپنے گھر آگئے ۔
صبح میں اٹھا اور پینٹ شرٹ یا شلوار قمیض پہننے کی بجاے ٹراوزر شرٹ اور نیچے جوگر پہن کر شہر کی طرف چل دیا
میں سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی لگتا ھے کہیں میچ کھیلنے جارھے ھو میں
نے کہا میچ ھی کھیلنا ھے ضوفی پھر مجھے سمجھانے لگی مگر میں نے اسکی ایک نہ سنی اور ہم دونوں گھر سے نکل
کر مارکیٹ کے مالک کے گھر کی طرف چل دیے راستے میں ضوفی مجھ سے پوچھتی رھی کہ اب کدھر کام کرنا ھے اور
سارا دن کدھر گزارو گے میں بس ایسے ھی اسکی بات کو سنی ان سنی کرتا رھا ضوفی نے مجھے پالر میں دن گزارنے کا
بھی کہا مگر میں نے ایک دوست سے ملنے کا بہانہ کر کے اسے ٹال دیا ایسے ھی باتیں کرتے ھوے ہم شاہین مارکیٹ کے
مالک کے گھر کے دروازے پر پہنچے انکا گھر شاہین مارکیٹ سے پچھلی گلی میں ھی تھا
ضوفی گھر میں داخل ھوتے ھوے بولی یاسر تم جاو میں آنٹی سے بات کر کے پارلر پر چلی جاوں گی میں نے اسے آواز
دے کر اندر داخل ہونے سے روکتے ھوے کہا کہ تم آنٹی سے میرا بھی کچھ تعارف کروا دینا کزن بنا کر ضوفی بولی تم یہ
سب مجھ پر چھوڑ دو اور بے فکر ھو کر جاو ضوفی کو ادھر چھوڑ کر میں بازار کی طرف چل دیا دکان کے سامنے سے
گزرا تو سجاد اور جنید اپنے کام میں مصروف تھے میں نے بس ایک نظر ڈالی اور آگے گزر گیا جب میں ایک مشہور
مارکیٹ کے سامنے سے گزرنے لگا تو میرے دماغ میں اچانک اسد کی مما کے بوتیک کا آیا میرے پاس ویسے بھی ابھی
سارا دن پڑا تھا ۔
اسد کی مما کا خیال آتے ھی میں مارکیٹ کے اندر داخل ھوگیا اور کچھ آگے گیا تو مجھے آنٹی کا بوتیک نظر آگیا ۔
بوتیک کا ڈور کھال ھوا تھا مارکیٹ میں کچھ دکانیں ابھی بند ہیں تھیں اور کچھ کھلی ھوئی تھیں ۔۔
میں بوتیک کے پاس پہنچ کر بوتیک کے کھلے ھوے ڈور پر ھی ناک کرنے لگ گیا ۔
کچھ دیر بعد آنٹی ھی دروازے پر آئی اور مجھے دیکھ کر ایکدم چونکی اور منہ پر ھاتھ رکھ کر بڑی حیرانگی سے مجھے
سر سے پاوں تک دیکھنے لگ گئی ۔
میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی مجھے جی صدقے کرتی ھوئی اندر لے گئی اور بوتیک کا دروازہ بند کردیا۔
میری چھٹی حس نے فورن خطرے کا االرم بجایا ۔
کہ لے کاکا ہن تیری خیر نئی ۔۔
.میں بوتیک کے اندر داخل ہوتے ھی چاروں اطراف دیکھ کر بوتیک کا جائزہ لینے لگ گیا آنٹی نے کافی خرچہ کیا ھوا تھی
بوتیک کی سیٹنگ اور ڈسپلے کمال کا تھا ورائٹی بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھی ۔
آنٹی دروازہ بند کرکے مجھے بیٹھنے کا کہنے لگی میں کاونٹر کے پاس رکھے ھوے صوفے پر بیٹھ گیا آنٹی میرے پاس سے
گزر کر میرے بلکل سامنے رکھی ایزی چیئر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی ۔
آنٹی نے سرخ کلر کی باریک کپڑے میں بلکل سادہ سی شرٹ اور نیچے بلیک ٹائٹس پہنا ہوا تھا اور باریک سا شفون کا دوپٹہ
گلے میں لٹکایا ھوا تھا جس کے دونوں پلوؤں نے آنٹی کے بڑے سائز کے سڈول مموں کو اور سے ڈھانپ رکھا تھا۔
آنٹی کے بڑے بڑے ممے فٹنگ والی شرٹ کی وجہ سے مذید ابھرے ھوے تھے
صاف لفظوں میں
آنٹی کی جوانی پاٹ رھی تھی
دو جوان بچوں کی ماں ہونے کے باوجود بھی آنٹی کا فگر کمال کا سیکسی تھا ۔
آنٹی نے شرٹ بھی شارٹ پہنی ہوئی تھی اور نیچے پنسل ہیل پہننے کی وجہ سے گانڈ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور پیچھے
سے شرٹ کو بھی اوپر کیا ھوا تھا چلتے ھوے پیچھے سے گانڈ جب ہلتی تو بڑوں بڑوں کا ناال ڈھیال ہوجاتا،
گول مٹول سڈول گانڈ بہت ھی سیکسی تھی ۔
آنٹی جب میرے سامنے سے گزر کر کرسی کے جانب مڑی تو آنٹی کی گانڈ دیکھ کر ھی میرے لن میں کھجلی شروع ھوگئی
تھی ۔
اور جب آنٹی جاکر کرسی پر بیٹھی تو آنٹی کے ممے مجھے گھور کر منہ چڑھانے لگے اور جب آنٹی نے ٹانگ پر ٹانگ
رکھی اور دو مست رانیں ایک دوسرے کے اوپر آکر ٹائیٹس کو مذید ٹائٹ کرنے لگیں تو یہ منظر دیکھ کر میرا حلق خشک
اور لن ُپھرت ہوگیا۔۔
جیسے ھی میرے لن نے انگڑائی لی میں نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سالے کی ِگچی مروڑ دی ۔
آنٹی نے سرخ لپسٹک گوری گالوں پر ہلکا سا میک اپ آنکھوں میں کاجل پلکوں پر بلش اون لگا کر خود کو ایک سیکس کی
پڑیا بنایا ھوا تھا آنٹی کے سیکسی فگر کو دیکھتے ھی میرے دماغ سے لڑائی جھگڑا اور سارا غصہ نکل گیا اس کی ایک اہم
وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے پندرہ بیس دن سے پھدی نصیب نہیں ہوئی تھی اور ضوفی کے ساتھ رات گزارنے کے باوجود اس
سے کچھ نہیں کیا سواے رومانس کے ضوفی کا سیکسی جسم دیکھنے اور چومنے چاٹنے کے باوجود بھی ادھورا رھا اب یہ
ظالم اپنے سیکسی جسم کی نمائش کر کے میرے صبر کا امتحان لے رھی تھی اب خلوت میں ایسی بمب آنٹی ہر لحاظ سے
دعوت دے رھی ھو اور اپنے سیکسی جسم کا ہر ذاویعے سے نظارہ کرا رھی ھو تو پھر اس ننھی جان پر ظلم کا پہاڑ نہیں
تو اور کیا ھے ہن ۔ تسی دسو
ساال یاسر کیا کرے ہن ٹھنڈا پانی پی مرے۔
آنٹی نے میری آنکھوں کا تعاقب کرتے ھو اور میری نظروں میں ہوس کو تاڑتے ھوے بازوں اوپر کو اٹھاے اور سر سے
اوپر لیجا کر ایک ظالم انگڑائی لی اور انگڑائی لیتے ھی اپنے گلے سے دوپٹہ اتار کر کاونٹر پر رکھتے ھوے بالوں کو
سنوارتے ھوے بولی
ُک
واووو یاسر تم نے تو اپنا حلیہ ھی بدل لیا اور پھر گھٹنے پر ہنی رکھ کر اور الٹے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھ کر آگے جھکی
اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی
خیر ھے اس تبدیلی کی وجہ پوچھ سکتی ھوں کہیں کوئی لڑکی تو نہیں پھنسا لی ۔
میں نے شرماتے ھوے کہا نہیں آنٹی جی ایسی تو کوئی بات نہیں بس ایسے ھی کچھ دوستوں زبردستی میری کلین شیو کروا
دی
آنٹی ہنستے ھوے بولی بہت خوب اچھا کیا ۔
تمہاری تو ُلک ھی تبدیل ہوگئی ھے بلکہ تمہارے چہرے سے تو نسوانیت جھلک رھی ھے ۔
زبردست ۔
مجھے خوشی ہوئی تمہیں دیکھ کر ۔
اور سناو مصروفیت کیسی جارھی ھے ۔
میں نے کہا شکر سب ٹھیک چل رھا ھے ۔
آنٹی پھر گھر نہ آنے کا شکوہ کرنے لگ گئی میں نے کاروباری مصروفیات کا عزر پیش کیا ۔
کچھ دیر باتوں کے بعد آنٹی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی افففففف تمہارے آنے کی خوشی ھی اتنی ہوئی کہ میں تمہاری
مہمان نوازی ھی بھول گئی اور اٹھ کر بوتیک کے ایک طرف بنے دروازے کی طرف چل پڑی میں نے آنٹی کو کافی کہا کہ
میں ناشتہ وغیرہ کر کے آیا ہوں مگر آنٹی نے میری کوئی بات نہ سنی اور اپنی مست گانڈ کو ہالتی ہوئی دروازہ کھول کر
اندر چلی گئی اور کچھ ھی دیر بعد مشروب کا گالس پکڑے باہر نکلی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور
مجھے گالس پکڑا کر پھر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی ۔
میں نے چسکیاں لیتے ھوے ڈرنک ختم کیا اور گالس کاونٹر پر رکھ دیا اس دوران بس نارمل باتیں ہوتی رہیں ۔
پھر آنٹی بولی ۔
یاسر کیسا لگا میرا بوتیک ۔
میں نے شرارت بھرے انداز سے کہا آپ کی طرح آپ کا بوتیک بھی خوبصورت ھے ۔
اپنے حسن کی تعریف سنتے ھی آنٹی کی آنکھوں میں چمک اور گالوں پر اللی آئی ۔
آنٹی بولی اچھا جی مجھے تو آج پتہ چال کہ میں بھی خوبصورت ہوں ۔
میں نے کہا اس میں کون سا شک ھے آپ واقعی ای بہت خوبصورت ہیں ۔
آپ کو دیکھ کر تو یہ بھی نہیں لگتا کہ آپ شادی شدہ ھو ۔
آنٹی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی اب ایسی بھی بات نہیں اتنے بھی مجھے مسکے نہ لگاو ۔
میں نے کہا نہیں آنٹی یہ مسکے نہیں بلکہ حقیقت ھے ۔۔
آنٹی بولی اچھااااا جی میں نے بھی اسی انداز میں کہا ھاااااں جی ۔
آنٹی کچھ سوچنے لگ گئی اور پھر ایکدم اٹھی تو اس کے ممے ایسے اچھلے جیسے ابھی گال پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔
آنٹی بولی یاسر کل میں نے کچھ نیو ورائٹی منگوائی ھے ۔
زرا دیکھنا کیسی ھے میں بھی اثبات میں سر ہالتے ھوے اٹھ کر کھڑا ھوگیا
میں جیسے ھی کھڑا ھوا تو میرا لن مجھ سے پہلے کھڑا ہوگیا اور ٹراوزر کو آگے سے اٹھا کر اچھا بھال ابھار بنا دیا۔
میں نے انڈرویئر نہیں پہنا ھوا تھا اس لیے کچھ ذیادہھی ابھار بن گیا بلکہ میرے پھولے ھوے ٹوپے کا ڈیزائن ٹراوزر میں
صاف نظر ارھا تھا ۔
آنٹی کی جب نظر میرے ابھرے ھوے ٹراوزر پر پڑی تو آنٹی نظر ہٹانا بھولی گئی اسکی آنکھوں میں چمک آئی اور تھوک
نگھلتے ھوے ہونٹوں پر زبان پھیر کر خشکی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگ گئی ۔
میں نے آنٹی کو یوں محو لن دیکھا تو میں نے کھنگارا بھرا اور بولی کدھر ہے ورائٹی ۔
تو آنٹی ایکدم چونکی ۔
اور جھینپتے ھوے بولی وہ وہہہ آو دیکھاتی ہوں ۔۔اور ساتھ ھی آنٹی مجھ سے آگے اگے چل پڑی اور میں اسکی موٹی گانڈ
کے ہلنے کا نظارہ کرتا ھوا اسکے پیچھے چل دیا بوتیک کافی بڑا تھا اور آنٹی نے سیٹنگ کچھ ایسی کی ہوئی تھی کہ ایک
طرف ٹرائی روم اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا کچن نما کیبن اور ایک طرف سٹور بنایا ھوا تھا جہاں اضافی مال رکھا
جاتا تھا باقی سارے حال میں لیڈیز سٹیچو رکھ کر انپر مختلف ڈزائننگ کا ڈسپلے کیا ھوا تھا ۔
آنٹی چلتے چلتے پھر رکی اور گھوم کر بڑی نشیلی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی یاسر تم وہ سامنے سٹور میں چلو میں
ایک کال کر کے آئی ۔
میں اثبات میں سر ہالتے ھوے سٹور روم کی طرف چل دیا آنٹی کاونٹر کے پاس گئی اور پی ٹی سی ایل سے رسیور اٹھا کر
نمبر ڈائل کرنے لگ گئی ۔
میں ایک نظر آنٹی کو دیکھ کر روم میں داخل ھوا تو اندر کافی بڑے بڑے شاپر پڑے ھوے تھے جو ایک طرف دیوار کے
ساتھ اوپر نیچے رکھ کر جوڑے ھوے تھے اور ایک طرف نیچے قالین بچھا ھوا تھا جہاں بیٹھ کر شاید پیکنگ وغیرہ یا پھر
مال نکال کر چیک کیا جاتا تھا ۔۔
خیر میں ابھی سٹور کا جائزہ ھی لے رھا تھا کہ
کچھ ھی دیر میں آنٹی واپس سٹور روم میں آگئی ۔
اور آتے ھی بولی سوری وہ کسی کو ضروری کال کرنی تھی ۔
میں نے ہمممم کیا ۔
تو آنٹی نے ایک بڑے سے شاپر کو کھوال اور اس میں سے کچھ سوٹ نکال کر کھول کھول مجھے دیکھانے لگ گئی اور
میں آنٹی کی پسند اور پرچیزنگ مینیجمنٹ کی تعریفیں کرنے لگا گیا آنٹی ہر سوٹ کو اپنے ساتھ لگا لگا کر دیکھاتی اور میں
تعریفوں کے پل باندھتا کہ یہ سوٹ آپ پر بہت جچ رھا ھے آنٹی نے ایک سوٹ نکاال اور اپنے ساتھ گا کر بولی یار یہ کیسا
لگ رھا ھے میں نے کہا واووووو آنٹی جی زبردست یہ آپ پہن لو تو جوان لڑکیاں آپ سے جیلس ہونے لگ جائیں سوٹ تھا
بھی کمال کا ہلکے پیچ کلر کا سلیو لیس شرٹ اور بلکل شارٹ اور نیچے باریک کپڑے کا ٹراوزر جس پر امبرائڈ کی تھی ۔
آنٹی بولی پہن کر دیکھاوں ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی کیوں مجھے بےہوش کرنا ھے ۔
آنٹی مذید پھول گئی اور بولی میں ابھی پہن کر دیکھاتی ہوں اور سوٹ پکڑ کر سٹور روم سے باہر نکلی اور میں بھی اسکے
پیچھے ھی باہر نکل آیا ۔
آنٹی ٹرائی روم میں داخل ہوئی اور دروازہ کھال ھی چھوڑ دیا
میرا دماغ اور لن ایک ساتھ فل گرم ھو چکے تھے ۔
میرا تو بس نہیں چل رھا تھا کہ آنٹی کے پیچھے جی ٹرائی روم میں داخل ھوجاوں اور آنٹی کے سارے کپڑے پھاڑ کر آنٹی
کا ریپ کردوں ۔۔
میں باہر کھڑا ھی امیجینشن کرنے لگ گیا کہ اب آنٹی نے شرٹ اتاری ھوگی تو ایسا جسم ھوگا اب ٹائٹس اتارا ھوگا تو آنٹی
کی ٹائٹ گانڈ کیسے باہر کو نکلی ھوگی اس کے ممے بریزیر میں کیسا نظارا پیش کررھے ہوں گے ۔
میں ابھی ان ھی خیالوں میں گم تھا کہ آنٹی نے دروازے سے سر نکاال اور مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آنا ایک منٹ ۔
میں نے چونک کر ٹرائی روم کی طرف دیکھا اور میرے قدم خود باخود دروازے کی جانب اٹھنا شروع ھوگئے ۔
میں جیسے ھی ٹرائی روم میں داخل ہوا تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے اٹک گیا۔
آنٹی نے سوٹ پہنا ھوا تھا اور کمال کی سیکسی لگ رھی تھی ۔
مجھے یوں منہ کھولے کھڑا دیکھ کر آنٹی نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ھوے بولی ہیلو مائی ڈیئر کدھر گم ہو ۔۔
میں نے چونک کر آنٹی کی طرف دیکھا اور انگلی سے گول دائرہ بنا کر بوال آنٹی جی کمال لگ رہی ہیں سوپر سے بھی اوپر
ذبردست ۔
آنٹی نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گھوم کر پیٹھ میری طرف کرتے ھوے بولی یہ پیچھے سے زپ تو بند
کردو میں کھلی زپ کے اندر کا نظارہ دیکھ کر ھی مذید گرم ہوگیا آنٹی کی چٹی سفید گالبی رنگ کی مانند اففففففف اس پر
کالے بریزیر کا سٹریپ ھاےےےےےےےے کیا ھی سیکسی سین تھا اس وقت کا وہ نظارا اور میری کیفیت کا حال کیا
لکھوں یاروووووو۔۔
میری تو بس ہوگئی ۔۔۔۔
برداشت کی۔
میں نے کانپتے ھاتھ زپ کی طرف بڑھاے اور زپ کی ہک کو پکڑ کر تھوڑا سا اوپر ھی کیا تھا کہ میری انگلی آنٹی کی
گوری چٹی نرم مالئم کمر کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔بس پھر کیا تھا میرے لن نے ایک ذبردست جھٹکا مار کر مجھے ہوشیار کیا
اور ساتھ ھی زپ کی ہک اوپر جانے کی بجاے نیچے چلی گئی اور میرے دونوں ھاتھ کھلی زپ کے اندر سے ہوتے ھوے
آنٹی کے بڑے بڑے مموں پر چلے گئے اور میرا لن انٹی کی گانڈ کی دراڑ میں چال گیا اور میرے ھاتھوں کی مٹھیوں نے
آنٹی کے فٹ بال جتنے مموں کو اپنی گرفت میں لے کر بھینچ دیا اور آنٹی کے منہ سے بس یہ ھی نکال ھاےےےےےےے
میں مرگئی یاسرررررر یہ کیا کر رھے ھو ۔۔۔
)Update no (99
اففففففدفف دوستو
آنٹی کی چٹی نرم کمر کے ساتھ جیسے ھی میری انگلی ٹچ ھوئی میرے اندر شہوت کو مذید چنگاری ملی میں نے بے اختیار
زپ کی ہک کو اوپر لیجانے کی بجاے نیچے کھینچ دیا اور بڑی پھرتی اور بے صبری سے آنٹی کی کھلی زپ میں دونوں
ہاتھ ڈال کر اسکی بغلوں سے گزارتا ھوا آگے لے گیا اور آنٹی کے سڈول مموں کو مٹھیوں میں بھینچ کر پیچھے سے اپنا لن
آنٹی کی موٹی اور سڈول باہر کو ابھری ھوئی گانڈ کے ساتھ لگا کر لن کے ٹوپے کو گانڈ کی دراڑ میں گھسیڑ کر پیچھے
سے آنٹی کے ساتھ چمٹ گیا اور اپنی ٹھوڑی آنٹی کے کندھے پر رکھ کر آنٹی کی گال کو چومنے لگ گیا۔
میری اس افراتفری میں گئی حرکت سے آنٹی نے گبھرا کر شرٹ کے اوپر سے ھی میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا میرے ہاتھ
شرٹ کے اندر بریزیر کے اوپر مموں کو پکڑے ھوے تھے اور آنٹی نے شرٹ کے اوپر سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر
بھینچ لیا اور گبھرائی ہوئی آواز میں ھاےےےےےے میں مرگئی یاسررررر یہ کیا کیا ۔
اور آگے کو جھک گئی جس سے آنٹی کی گانڈ پیچھے سے باہر کو نکل گئی ۔۔
میں آنٹی کی گھبراہٹ کو نظر انداز کرتےھوے ۔
پاگلوں اور ازل سے ترسے ہوے کی طرح آنٹی کی گال اور گردن کو چومتے ھوے اسکے مموں کو بریزیر سے اوپر ھی
دباتے ھوے پیچھے سے لن کو آنٹی کی سیکسی اور موٹی گانڈ کے ساتھ چپکاے آنٹی کو والہانہ انداز سے چمٹا ھوا چوم رھا
تھا ۔
آنٹی بولی یاسررر کیا بتمیزی ھے ۔
شرم کرو چھوڑو مجھے ۔
مگر میں خاموشی سے بنا کچھ بولے اپنا کام کرتا رھا۔
آنٹی اپنے مموں سے میرے ہاتھ ہٹانے کی بس ہلکی پھلکی کوشش کررھی تھی اور ساتھ ساتھ نہیں یاسر نہ کرو یاسر
پلیززززز چھوڑ دو
میں تمہاری آنٹی ہوں شرم کرو نہ کرو بس کرو کوئی آجاے گا میں بدنام ھوجاوں گی ۔
میں ایسی نہیں ھوں وغیرہ وغیرہ ۔
کہی جارہی تھی جبکہ میرا کام جاری تھا ۔
کچھ دیر بعد آنٹی کی مزحمت اور زبان بند ھوئی تو میں نے اپنے بازوں کو تھوڑا کھوال اور بریزیر کے کپوں کو مموں
سے اوپر کر کے مموں کو بریزیر سے آزاد کر کے ننگے مست سڈول مموں کو مٹھی میں بھرا تو چررررررررر کی آواز
کے ساتھ آنٹی کی پیچھے سے زپ والی جگہ سے شرٹ پھٹ گئی اور میرے ہاتھ جو پہلے شرٹ میں پھنسے ھوے تھے اب
انکو اپنا کام کرنے کے لیے کافی آسانی مہیا ہوگئی ۔
آنٹی نے جب شرٹ پھٹنے کی آواز سنی اور ادھر سے اپنے ننگے مموں پر میرے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا تو آنٹی نے
ڈبل مائنڈڈ ہوکر ہاےےےےے میری شرٹ کے ساتھ ھی سیییییییی کرتے ھوے سسکاری بھر دی ۔
ایک طرف شرٹ پھٹنے کا دکھ تو دوسری طرف ممے دبوانے کا مزہ
آخر مزہ دکھ پر بھاری ثابت ھوا
مزے نے آنٹی کو شرٹ کا دکھ بھالدیا اور آنٹی شرٹ کو بھول کر ممے دبوانے کا انجواے کرتے ھوے سسکاریاں بھرنے
لگ گئی اور ساتھ ساتھ شرٹ کے اوپر سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر دبانے لگ گئی ۔۔
لوھا گرم ھوچکا تھا آگ دونوں طرف بھڑک چکی تھی ۔
بس اگال قدم بڑھانا تھا ۔
کچھ دیر میں اسی حالت میں ممے دباتے ھوے پیچھے سے لن کو گانڈ کی دراڑ میں مسلتا رھا اور آنٹی مستی بھری
سسکاریاں نکالتی رہیں ۔۔
پھر آنٹی مدہوشی میں بولی یاسررر شرٹ میں میرا سانس بند ھورھا ھے ۔
میں نے یہ سنتے ھی بازو پیچھے کو کھینچے اور ہاتھ شرٹ سے نکال لیے ۔۔
اور ساتھ ھی آنٹی کو گھما کر اسکا منہ اپنی طرف کیا اور آگے سے آنٹی کو جپھی ڈال لی اور پھر ہونٹوں میں ہونٹ اور
زبانوں کی آپس میں جنگ شروع ھوگئی نیچے سے لن پھدی کے ساتھ صالح مشورہ کرنے میں مصروف تھا پیچھے سے
میرے ھاتھ آنٹی کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑے مسل رھے تھے اور آنٹی اپنا تجربے کو مدنظر رکھتے ہوے سارے
حربے استعمال کررھی تھی آنٹی تو فرنچ کسنگ میں عمران ہاشمی کی بھی استاد ثابت ہوئی اس اس انداز سے وہ کبھی
میرے ہونٹوں کو چوستی اور کبھی میری زبان کو اپنے منہ کے اندر کھینچ کر چوستی میں تو حیران رھ گیا
.سالی واقعی ھی پوری منی تنی استاد ھے ۔۔
آنٹی مجھے کسنگ کےدوران کب ٹرائی روم سے باہر لے آئی اور کب میں الٹے قدموں سے چلتا ھوا باہر آیا مجھے تب پتہ
چال جب میری ٹانگوں کےساتھ صوفہ ٹکرایا اور میں پیچھے صوفے پر گرا آنٹی نے صوفے کے پاس ال کر میرے سینے پر
دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں صوفے پر گرتا گیا۔۔
آنٹی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی ھوئی آگے بڑھی اور میری رانوں پر دونوں اطراف اپنی ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی
۔
اور میری گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر میرے اوپر ایسے جھک گئی جیسے ڈریکوال خون چوستا ھے آنے کے شارٹ کٹ
ریشمی بالوں نے میرے چہرے کو دونوں اطراف سے ڈھانپ لیا اور آنٹی میرے کانوں کے نیچے میری گردن کے دونوں
اطراف ھاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو بےدری سے چوسنے لگ گئی ۔
اور ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو میرے لن کے اوپر رکھ کر پھدی سے لن کو رگڑنے لگ گئی آنٹی کے مموں کی نوک میرے
سینے کے ساتھ ٹچ ھونے لگ گئیں ۔
میں ساال اسکی عزت لوٹنے کا سوچ رھا تھا اور وہ رنڈی میری ھی عزت لوٹنے کے درپے تھی ۔
اور میں معصوم بنا بیٹھا بس آنٹی کی کمر کو سہال رھا تھا۔۔۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا پھر آنٹی کو میرے ہونٹوں پر ترس آیا اور آنٹی میرے اوپر سے سیدھی ہوئی اور میری رانوں
پر وزن ڈال کر بیٹھتے ھوے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انکو درست کیا اور تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی شرٹ کو پکڑا
کر اتار دیا افففففففففففففففف
کیا نظارا تھا چٹے سفید دودھ کے پیالے ھاےےےےےےےے مممممممم
کیا ھی پلے ھوے ممے تھے اس سے پہلے کے آنٹی شرٹ کو بازوں سے نکالتی میں بےصبروں کی طرح آنٹی کے مموں پر
ٹوٹ پڑا اور دونوں مٹھیوں میں مموں کو دبوچ کر منہ مموں کی طرف بڑھایا اس سے پہلے کے میرا منہ مموں کے پاس جاتا
آنٹی نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی اور پھر مجھ پر جھک کر اپنے دونوں بات میرے سر کے دونوں اطراف صوف پر
رکھ دیے جس سے آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ کے پاس خود ھی آگئے اور مموں نے میرے منہ کو آپنی آغوش میں
لے لیا
مموں کے درمیان میرا منہ تھا اور مموں نے میرے منہ پر چھاوں کی ہوئی تھی میں نے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھرا
اور باری باری انکو چوسنے لگ گیا آنٹی منہ چھت کی طرف کئے سسکاریاں بھر رھی تھی ۔
اور مموں کو میرے منہ پر دبا رھی تھی آنٹی کے ممے بہت ھی نرم تھے اور ان پر براون دائرے اور ان پر لگے دو انگور
الگ ھی نظارا پیش کررھے تھے ۔
میں ان موٹے اور تنے ھوے انگوروں کو منہ میں لے کر جتنی ذور سے چوستا آنٹی کے اندر اتنا ھی جوش بڑھتا ۔۔۔
کافی دیر تک میں مموں کو چوستا رھا آنٹی ایک دفعہ مستی میں فارغ ھوتے ھوے مجھے دبوچ کر اپنی پھدی سے منی کا
سیالب نکال چکی تھی ۔
کچھ دیر بعد آنٹی میرے اوپر سے اٹھی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور میرے ٹروازر کی ڈوری کے سرے کو پکڑ کر
کھینچ دیا اور مجھے اوپر ہونے کا اشارہ کیا ۔
میں نے گانڈ اوپر اٹھائی تو آنٹی نے میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کیا اور میرے پیروں میں کر دیا میرا لن آزاد ھوتے ھی ہوا
میں لہرایا آنٹی نے جب میرے موٹے ٹوپے اور تگڑے لن کو دیکھا تو آنٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی جیسے زندگی
میں پہلی بار اتنا تگڑا لن دیکھ رھی ہو ۔
آنٹی کتنی دیر میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دیکھتی اور کبھی میری طرف اپنی پلکوں کو اٹھا کر دیکھتی رھی ۔
میں نے خاموشی توڑی اور بوال آنٹی جی کیسا لگا ۔۔ آنٹی بڑی ستائش نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی واووووو
امیزنگ یاسررر کیا ہتھیار ھے تمہارا اففففففف میں تو سپنے میں بھی اتنے بڑے لن کا کبھی سوچا نہیں تھا ۔
میں نے کہا تو پھر اپنے اس سپنوں کے راج کمار کو پیار ھی کرلو آنٹی بولی کیوں نہیں اور یہ کہتے ھی آنٹی نے اپنی زبان
منہ سے نکالی اور پیروں کے بل میرے قدموں میں بیٹھی میرے لن کے ٹوپے کے ہونٹوں پر زبان کی نوک پھیرنے لگ گئی
اور پھر زبان کو ٹوپے کے چاروں اطراف پھیرتے ھوے ہوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بھی دیکھتی جیسے آنکھوں کے
اشارے سے پوچھ رھی ھو مزہ آرھا ھے ۔۔۔
مزہہہہہ تو کیا میری ٹانگوں سے سارا خون میرے لن کی طرف دوڑ پڑا تھا ۔
آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن پر زبان پھیر رھی تھی ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر کبھی اسطرف کرتے ھوے ٹوپے سے
جڑ تک زبان پھیرتی تو کبھی لن کو دوسری طرف کر کے ٹوپے سے زبان پھیرتے ھوے زبان کو ٹٹوں تک لے جاتی ۔
تو کبھی جتنا لن منہ میں لے سکتی اتنا لے کر چوستی میں آنکھیں بند کیے مزے سے سر کبھی صوفے کی بیک کے ساتھ
مارتا تو کبھی دائیں بائیں مارتے ھوے سسکاریاں بھرتا آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن کا چوپا لگا رھی تھی میرا آدھا لن
آنٹی اپنے حلق تک لیجا کر اسے منہ میں رکھ کر جب چوستی تو مجھے ایسے لگتا جیسے میں ابھی فارغ ہونے لگا ہوں
زندگی میں پہلی باری ایسا ایکسپرٹ چوپا لگانے والی آنٹی ملی تھی ۔
آنٹی کوئی پندرہ بیس منٹ مسلسل لن کو ہر زاویعے سے چومتی چاٹتی رھی ۔۔۔
میں تو بلکل چھوٹنے واال ہوگیا تھا آنٹی نے اس بار پھر لن کو منہ میں ڈاال اور ہلک تک کھینچ کر لے گئی بس مجھ سے
برداشت نہ ھوا میں آگے کو جھکا اور آنٹی کے سر کو ذور سے پکڑا اور لن پر دبا دیا اور ساتھ ھی میرے لن سے منی کے
فوارے چھوٹتے ھوے آنٹی کے گلے میں اترنے لگے جب لن نے پہلی پچکاری چھوڑی تو آنٹی نے سر کو اوپر جھٹکا دیا کہ
لن منہ سے باہر آجاے مگر مرد کے اندر جتنا جوش اور جتنی طاقت چھوٹتے وقت آتی ھے اتنی طاقت عام حالت میں نہیں
آتی ۔
آنٹی کے سر کو دبا کر آنٹی کے جھٹکے کو وہیں دبا دیا اور ساری منی آنٹی کے منہ میں نکالی اور جیسے ھی میں نے آنٹی
کا سر چھوڑا آنٹی نے جھٹکے سے لن منہ سے نکاال اور کھانستی ھوئی کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔
میں ادھر ھی بیٹھا لن کو آنٹی کی شرٹ کے ساتھ صاف کرنے لگ گیا۔۔۔
چار پانچ منٹ کے بعد آنٹی منہ پر دونوں ہاتھ رکھے باہر نکلی اور بولی بتمیز بتا تو دیتے کہ فارغ ھونے لگے ھو اپنا سارا
مال میرے منہ کے اندر ھی نکال دیا میں ایسے ھی نیم مرجھاے ھوے لن کے ساتھ اٹھا اور ٹراوز کو پاوں سے نکال کر ننگا
ھی آنٹی کی طرف بڑھا اور انکو سینے کے ساتھ لگا کر سوری کرنے لگ گیا ۔
کچھ دیر مسکے لگانے کہ بعد آنٹی کا موڈ سہی ھوا تو میں ایسے ھی آنٹی کو لے کر صوفے کے پاس آیا اور اسکو صوفے
پر گرا کر اسکے اوپر جھک گیا اور مموں کو چوسنے لگ گیا کچھ ھی دیر میں میرا لن پھر ٹائٹ ھوگیا آنٹی کی اور میری
ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں ۔۔
میرا لن جب اپنے جوبن میں آیا تو میں کھڑا ھوا اور آنٹی کے ٹائٹس کو پکڑ کر کھینچنے لگا تو آنٹی نے نخرے کی فارمیلٹی
پوری کرتے ھوے نہیں نہیں کرتے ھوے اپنے ٹائٹس کو پکڑ لیا مگر میں نے آنٹی کے ہاتھوں کو جھٹک کر ٹائٹس کھینچ کر
اسکے پیروں سے نکال پھینکا اور آنٹی کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسکو صوفے پر سیدھا لیٹایا اور خود بھی دوزانوں ہو کر آنٹی
کی چکنی پھدی کے سامنے لن ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا آنٹی کی پھدی پانی سے گیلی ہوچکی تھی اور بلکل مالئم بالوں سے
پاک موٹی پھدی کو دیکھ کر میرا لن مذید جھٹکے کھانے لگ گیا۔۔
میں نے اپن پوزیشن سنبھالی اور آنٹی کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور
آنٹی کی ٹانگوں کو فولڈ کرتے ھوے اسکے کندھوں تک لے گیا۔۔۔
اور ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر پھدی کے موٹے اور گیلے لبوں میں پھیر کر لن کو پھدی کے پانی سے گیال کیا اور ٹوپے
کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کرکے ایک جاندار گھسا مارا تو پہلے ھی گھسے میں لن آدھے سے ذیادہ پھدی میں اتر گیا
جیسے ھی لن پھدی کے اندر گیا آنٹی نے دونوں ہاتھوں سے میری رانوں کو دبوچ کر ھاےےےےےےے مرگئی
آہہہہہہہہہہہہہی
یاسررررررر کے بچےےےےےےےےے آرام نال کر سارا ایییییی اندر کردتا اییییی
میں نے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا اور یہ کہتے ھوے پھر ذوردار جھٹکے سے سارا لن جڑ تک اندر کردیا کہ آنٹی جی
ابھی تو آدھا گیا ھے آدھا باقی ھے ۔ جیسے ھی لن کا ٹوپا آنٹی کی بچے دانی میں گھسا تو
درد سے آنٹی کا رنگ سرخ ھوگیا اور آنٹی ھاےےےےےےے کرتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔میں بغیر رکے
گھسے مارنے لگ گیا آنٹی کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی پتہ نہیں کونسا نسخہ استعمال کرتی تھی سالی ۔
آنٹی میرے ہر گھسے سے ھاےےےےےے ہولی کر ہاےےےےےے ہولیییییی
کر رھی تھی میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا آنٹی کے ممے آنٹی کے سینے پر رقص کررھے تھے دس پندرہ منٹ میں
اسی سٹائل میں انٹی کو چودتا رھا آنٹی فل مزے میں سسکاریاں بھر رھی تھی آنٹی نے میری رانوں کو چھوڑ کر اب میری
کمر کے گرد بازو ڈال لیے تھے میرا ہر گھسا آنٹی کی بچے دانی تک زرب لگا رھا تھا آنٹی مزے لے لے کر چدوا رھی تھی
اور ساتھ ساتھ یس یس یس فاسٹ فاسٹ کری جارھی تھی ۔
آنٹی درد میں پنجابی اور مزے میں انگلش بولی جارھی تھی ۔
آنٹی کی سیکسی آوازیں اور ڈانس کرتے ممے میرا جوش بڑھائی جارھے تھے ۔
کچھ دیر مزید چودنے کے بعد آنٹی کی آہیں سسکیاں اور کم ان کم ان ایم کم ان کی آوازوں کے ساتھ آنٹی نے پھدی کو اوپر
کر کے لن کو پورا ہضم کیا اور جھٹکے کھاتے ھوے فارغ ھوگئی میں نے کچھ دیر آنٹی کے جسم کے جھٹکوں کو رک کر
انجواے کیا ۔
آنٹی کی پھدی نے جب میرے لن کو بھینچنا کم کیا اور آنٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن آنٹی کی منی سے لتھڑا ھوا تھا ۔
میں نے نیچے ہاتھ کر کے آنٹی کا ٹائٹس پکڑا اور لن کو صاف کرنے لگ گیا ۔
آنٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ھوئی تھی ۔۔۔
میں صوفے سے نیچے اترا اور آنٹی کا بازو پکڑ کر آنٹی کو کھینچا تو آنٹی سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے
اٹھی ۔
میں نے آنٹی کو کھڑا کیا اور صوفے کے کنارے کے پاس لیجا کر آنٹی کا منہ دوسری طرف کر کے آنٹی کو جھکنے کا کہا
آنٹی بغیر کچھ کہے گانڈ میری طرف کر کے ضوفے کے اوپر ہاتھ رکھ کر گھوڑی سٹائل میں جھک گئی آنٹی کی گانٹ
میرے سامنے تھی
میں تھوڑا سا نیچے کو ہوا اور گانڈ کے دراڑ کو کھول کر آنٹی کی موری دیکھنے لگ گیا اورانگلی آنٹی کی گانڈ کی موری
کے اوپر رکھ کر موری کو مسلنے لگ گیا آنٹی جھٹکے سے سیدھی ھوئی تو میرا انگلی آنٹی پھاڑیوں میں پھنس گی آنٹی نے
بھی پورے ذور سے گانڈ کو بھینچ کر انگلی کو سزا دی ۔۔
آنٹی سیدھی ھوتے ھی میری طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کر رھے ھو ۔
میں نے کہا کچھ بھی نہیں ۔
اور آنٹی کو پھر اسی پوزیشن پر کرنے کے لیے آنٹی کی کمر کو دبایا تو آنٹی جھکتے ھوے بولی یاسر پیچھے سے نہ کرنا۔۔
تمہارا اتنا بڑا مجھ سے برداشت نہیں ہونا میں نے کہا نہیں کرتا الٹی تو ھوجاو ۔
آنٹی پھر گھّو ڑی بن کر گانڈ کو مٹکاتے ھوے میرے لن کے سامنے سیٹ کرنے لگ گءی ۔
میں نے ٹانگوں کو تھوڑا سا خم کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں اڈجسٹ کرکے آنٹی کی کمر کو پکڑ کر گیلی پھدی
میں لن اتار دیا
آنٹی نے سر اوپر اٹھا کر ھاےےےےےےےے کیا اور ساتھ ھی سییییییییی کی آواز نکال کر ایک ہاتھ پیچھے میری ران پر
رکھ کر بولی آرام سے نہیں کیا جاتا ،۔
ایک ھی بار میں جان نکال دیتے ھو ۔۔
میں نے آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی کو تسلی دی اور پھر کمر کو پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا آنٹی
آہہہہہہہ افففففف مممممم .کی آوازیں نکال رھی تھی اور میری جاندار گھسوں کی وجہ سے آنٹی کے ممے اسکے منہ کی
طرف اچھل اچھل کر جارھے تھے پیچھے سے آنٹی کی گانڈ میرے گھسے سے چھلک چھلک جارھی تھی ۔
مزے کی انتہا تک مجھے سرور آرھا تھا آنٹی کی سسکیاں آہیں اور تھپ تھپ کی آوازیں میرے مزے کو دوباال کررھیں
تھی ۔۔
میں مسلسل ایک ردھم میں آنٹی کو چودے جار رھا تھا دس منٹ مذید چودنے کے بعد آنٹی کی پھدی نے پھر منی نکال دی
اور آنٹی گانڈ پیچھے کو نکالے صوفے کے بازوں کے اوپر ھی ممے رکھ کر ڈھیر ھوگئی میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن
پھر منی اور پانی سے لتھڑا ھوا تھا آنٹی کے جھکنے کی وجہ سے آنٹی کی گانڈکا سوراخ بلکل میرے سامنے تھا اور سوراخ
بھی گیال ھوچکا تھا میں نے موقع ضائع کیے بغیر گیلے لن کو سوراخ پر رکھا اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ سمجھتی ہے ا
اٹھنے کی کوشش کرتی میں نے آنٹی کی کمر پر دونوں ھاتھ رکھ کر دبایا اور گھسا مار کر لن گانڈ میں اتار دیا ۔۔۔۔۔۔
جیسے ھی لن نان سٹاپ آنٹی کی گانڈ میں گھسا آنٹی باکاں مارن لگ گئی ۔
نال ای پنجابی کا نزول ھوا ۔
آنٹی کے منہ سے چیخ نکلی
اور ساتھ ھی آنٹی بولی ۔۔
ہاےےےےےےےےےے میریییییییی بنڈ پاڑ دتی اووووو کنجرا ھاےےےےےے وےےےے تیرا ککھ نہ روے کی کردتا ای
ظالماں
ھاےےےےےے نی میریے مائیں ھاےےےےےےےے میں مرگئی
پچھے ہٹ جا کھوتےدے لن والیا
ھاےےےےےےے۔
آنٹی کا برا حال تھا شاید پہلی دفعہ لن گانڈ میں لیا تھا آنٹی جتنا ذور اوپر کو اٹھنے کے لیے لگاتی میں اتنا ھی ذور سے آنٹی
کو نیچے دبا دیتاااااا۔۔
آنٹی مجھے پنجابی میں ھی بد دعائیں دیتی ھاےےے مر گئی کری جا رھی تھی ۔
میں نے لن باہر نہ نکاال اور ایک ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گردن پر رکھا اور آنٹی کے سر کو صوفے کے فوم پر دبا دیا
جس سے آنٹی کی آوازصوفے میں ھی دب گئی ۔۔۔
اور میں نے ساتھ ھی گھسے مارنے شروع کردیے مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے اتنا جنون آگیا اور میں آنٹی کو نیچے دباے
اسکی ُبنڈ مارے جارھا تھا اور آنٹی کی غوں غوں کی آوازیں آرہیں تھیں آنٹی نے الکھ کوشش کی کہ میرے نیچے سے نکل
جاے مگر میں نے اسے جکڑا ھی اسطرح تھا کہ بچاری ہلنے سے قاصر تھی ۔۔
میں بڑی بے دردی سے گھسے ماری جارھا تھا آنٹی نڈھال ہوکر اوندھی لیٹی سسکیاں لے کر رو رھی تھی مگر میں پورے
جوش سے اسکی ُبنڈ کی دھجیاں اڑا رھا تھا ۔۔
بیس منٹ مسلسل آنٹی کی گانڈ چدتی رھی آنٹی سسکتی رھی بلکتی رھی مگر اسکی سسکیوں میں مجھے مزہ آرھا تھا ،میں
گھسے پر گھسا ماری جارھا تھا آنٹی کی بنڈ کی موری بھی کافی کھل چکی تھی میرا لن ایسے روانی سے چل رھا تھا جیسے
اسکی پھدی کو چود رھا ہوں بنڈ اور پھدی میں فرق ختم ھو چکا تھا آنٹی کا احتجاج تمام شد ھوچکا تھا کہ میرے ٹانگوں سے
ساراخون میرے لن کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا میرے گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی ہوگئی میرے جسم سے
پسینہ آنٹی کی کمر پر گرنے لگا آنٹی نیم بے ہوشی میں گئی میرے آخری گھسے نے آنٹی کو ہوش میں الیا ادھر میرا آخری
گھسا انتہائی جاندار تھا ادھر آنٹی کے منہ سے ھاےےےےےےے نکال
ادھر میرے لن سے بنڈ میں منی کا فوارہ نکال ۔
اور آنٹی کی ہودی کو بھرتا گیا بھرتا گیا میں نڈھال ھوکر آنٹی کے اوپر گر گیا ۔۔۔آنٹی کو ہوش آیا آنٹی نے غصے سے مجھے
پیچھے دھکا دیا اور ساتھ ہی پلٹ کر صوفے پر گر گئی اور دونوں ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر ایسے مچلنے لگ گئی
جیسے اسکی گانڈ میں کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں ۔۔۔میں دھکا لگنے سے پیچھے ہوکر کھڑا آنٹی کے تڑپنے کا نظارہ دیکھ
رھا تھا میری جیسے ھی نظر سامنے دیوار پر پڑی میں تو ایکدم۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
.سالی واقعی ھی پوری منی تنی استاد ھے ۔۔
آنٹی مجھے کسنگ کےدوران کب ٹرائی روم سے باہر لے آئی اور کب میں الٹے قدموں سے چلتا ھوا باہر آیا مجھے تب پتہ
چال جب میری ٹانگوں کےساتھ صوفہ ٹکرایا اور میں پیچھے صوفے پر گرا آنٹی نے صوفے کے پاس ال کر میرے سینے پر
دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں صوفے پر گرتا گیا۔۔
آنٹی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی ھوئی آگے بڑھی اور میری رانوں پر دونوں اطراف اپنی ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی
۔
اور میری گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر میرے اوپر ایسے جھک گئی جیسے ڈریکوال خون چوستا ھے آنے کے شارٹ کٹ
ریشمی بالوں نے میرے چہرے کو دونوں اطراف سے ڈھانپ لیا اور آنٹی میرے کانوں کے نیچے میری گردن کے دونوں
اطراف ھاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو بےدری سے چوسنے لگ گئی ۔
اور ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو میرے لن کے اوپر رکھ کر پھدی سے لن کو رگڑنے لگ گئی آنٹی کے مموں کی نوک میرے
سینے کے ساتھ ٹچ ھونے لگ گئیں ۔
میں ساال اسکی عزت لوٹنے کا سوچ رھا تھا اور وہ رنڈی میری ھی عزت لوٹنے کے درپے تھی ۔
اور میں معصوم بنا بیٹھا بس آنٹی کی کمر کو سہال رھا تھا۔۔۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا پھر آنٹی کو میرے ہونٹوں پر ترس آیا اور آنٹی میرے اوپر سے سیدھی ہوئی اور میری رانوں
پر وزن ڈال کر بیٹھتے ھوے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انکو درست کیا اور تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی شرٹ کو پکڑا
کر اتار دیا افففففففففففففففف
کیا نظارا تھا چٹے سفید دودھ کے پیالے ھاےےےےےےےے مممممممم
کیا ھی پلے ھوے ممے تھے اس سے پہلے کے آنٹی شرٹ کو بازوں سے نکالتی میں بےصبروں کی طرح آنٹی کے مموں پر
ٹوٹ پڑا اور دونوں مٹھیوں میں مموں کو دبوچ کر منہ مموں کی طرف بڑھایا اس سے پہلے کے میرا منہ مموں کے پاس جاتا
آنٹی نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی اور پھر مجھ پر جھک کر اپنے دونوں بات میرے سر کے دونوں اطراف صوف پر
رکھ دیے جس سے آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ کے پاس خود ھی آگئے اور مموں نے میرے منہ کو آپنی آغوش میں
لے لیا
مموں کے درمیان میرا منہ تھا اور مموں نے میرے منہ پر چھاوں کی ہوئی تھی میں نے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھرا
اور باری باری انکو چوسنے لگ گیا آنٹی منہ چھت کی طرف کئے سسکاریاں بھر رھی تھی ۔
اور مموں کو میرے منہ پر دبا رھی تھی آنٹی کے ممے بہت ھی نرم تھے اور ان پر براون دائرے اور ان پر لگے دو انگور
الگ ھی نظارا پیش کررھے تھے ۔
میں ان موٹے اور تنے ھوے انگوروں کو منہ میں لے کر جتنی ذور سے چوستا آنٹی کے اندر اتنا ھی جوش بڑھتا ۔۔۔
کافی دیر تک میں مموں کو چوستا رھا آنٹی ایک دفعہ مستی میں فارغ ھوتے ھوے مجھے دبوچ کر اپنی پھدی سے منی کا
سیالب نکال چکی تھی ۔
کچھ دیر بعد آنٹی میرے اوپر سے اٹھی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور میرے ٹروازر کی ڈوری کے سرے کو پکڑ کر
کھینچ دیا اور مجھے اوپر ہونے کا اشارہ کیا ۔
میں نے گانڈ اوپر اٹھائی تو آنٹی نے میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کیا اور میرے پیروں میں کر دیا میرا لن آزاد ھوتے ھی ہوا
میں لہرایا آنٹی نے جب میرے موٹے ٹوپے اور تگڑے لن کو دیکھا تو آنٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی جیسے زندگی
میں پہلی بار اتنا تگڑا لن دیکھ رھی ہو ۔
آنٹی کتنی دیر میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دیکھتی اور کبھی میری طرف اپنی پلکوں کو اٹھا کر دیکھتی رھی ۔
میں نے خاموشی توڑی اور بوال آنٹی جی کیسا لگا ۔۔ آنٹی بڑی ستائش نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی واووووو
امیزنگ یاسررر کیا ہتھیار ھے تمہارا اففففففف میں تو سپنے میں بھی اتنے بڑے لن کا کبھی سوچا نہیں تھا ۔
).Update no (100
میں نے کہا تو پھر اپنے اس سپنوں کے راج کمار کو پیار ھی کرلو آنٹی بولی کیوں نہیں اور یہ کہتے ھی آنٹی نے اپنی زبان
منہ سے نکالی اور پیروں کے بل میرے قدموں میں بیٹھی میرے لن کے ٹوپے کے ہونٹوں پر زبان کی نوک پھیرنے لگ گئی
اور پھر زبان کو ٹوپے کے چاروں اطراف پھیرتے ھوے ہوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بھی دیکھتی جیسے آنکھوں کے
اشارے سے پوچھ رھی ھو مزہ آرھا ھے ۔۔۔
مزہہہہہ تو کیا میری ٹانگوں سے سارا خون میرے لن کی طرف دوڑ پڑا تھا ۔
آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن پر زبان پھیر رھی تھی ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر کبھی اسطرف کرتے ھوے ٹوپے سے
جڑ تک زبان پھیرتی تو کبھی لن کو دوسری طرف کر کے ٹوپے سے زبان پھیرتے ھوے زبان کو ٹٹوں تک لے جاتی ۔
تو کبھی جتنا لن منہ میں لے سکتی اتنا لے کر چوستی میں آنکھیں بند کیے مزے سے سر کبھی صوفے کی بیک کے ساتھ
مارتا تو کبھی دائیں بائیں مارتے ھوے سسکاریاں بھرتا آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن کا چوپا لگا رھی تھی میرا آدھا لن
آنٹی اپنے حلق تک لیجا کر اسے منہ میں رکھ کر جب چوستی تو مجھے ایسے لگتا جیسے میں ابھی فارغ ہونے لگا ہوں
زندگی میں پہلی باری ایسا ایکسپرٹ چوپا لگانے والی آنٹی ملی تھی ۔
آنٹی کوئی پندرہ بیس منٹ مسلسل لن کو ہر زاویعے سے چومتی چاٹتی رھی ۔۔۔
میں تو بلکل چھوٹنے واال ہوگیا تھا آنٹی نے اس بار پھر لن کو منہ میں ڈاال اور ہلک تک کھینچ کر لے گئی بس مجھ سے
برداشت نہ ھوا میں آگے کو جھکا اور آنٹی کے سر کو ذور سے پکڑا اور لن پر دبا دیا اور ساتھ ھی میرے لن سے منی کے
فوارے چھوٹتے ھوے آنٹی کے گلے میں اترنے لگے جب لن نے پہلی پچکاری چھوڑی تو آنٹی نے سر کو اوپر جھٹکا دیا کہ
لن منہ سے باہر آجاے مگر مرد کے اندر جتنا جوش اور جتنی طاقت چھوٹتے وقت آتی ھے اتنی طاقت عام حالت میں نہیں
آتی ۔
آنٹی کے سر کو دبا کر آنٹی کے جھٹکے کو وہیں دبا دیا اور ساری منی آنٹی کے منہ میں نکالی اور جیسے ھی میں نے آنٹی
کا سر چھوڑا آنٹی نے جھٹکے سے لن منہ سے نکاال اور کھانستی ھوئی کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔
میں ادھر ھی بیٹھا لن کو آنٹی کی شرٹ کے ساتھ صاف کرنے لگ گیا۔۔۔
چار پانچ منٹ کے بعد آنٹی منہ پر دونوں ہاتھ رکھے باہر نکلی اور بولی بتمیز بتا تو دیتے کہ فارغ ھونے لگے ھو اپنا سارا
مال میرے منہ کے اندر ھی نکال دیا میں ایسے ھی نیم مرجھاے ھوے لن کے ساتھ اٹھا اور ٹراوز کو پاوں سے نکال کر ننگا
ھی آنٹی کی طرف بڑھا اور انکو سینے کے ساتھ لگا کر سوری کرنے لگ گیا ۔
کچھ دیر مسکے لگانے کہ بعد آنٹی کا موڈ سہی ھوا تو میں ایسے ھی آنٹی کو لے کر صوفے کے پاس آیا اور اسکو صوفے
پر گرا کر اسکے اوپر جھک گیا اور مموں کو چوسنے لگ گیا کچھ ھی دیر میں میرا لن پھر ٹائٹ ھوگیا آنٹی کی اور میری
ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں ۔۔
میرا لن جب اپنے جوبن میں آیا تو میں کھڑا ھوا اور آنٹی کے ٹائٹس کو پکڑ کر کھینچنے لگا تو آنٹی نے نخرے کی فارمیلٹی
پوری کرتے ھوے نہیں نہیں کرتے ھوے اپنے ٹائٹس کو پکڑ لیا مگر میں نے آنٹی کے ہاتھوں کو جھٹک کر ٹائٹس کھینچ کر
اسکے پیروں سے نکال پھینکا اور آنٹی کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسکو صوفے پر سیدھا لیٹایا اور خود بھی دوزانوں ہو کر آنٹی
کی چکنی پھدی کے سامنے لن ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا آنٹی کی پھدی پانی سے گیلی ہوچکی تھی اور بلکل مالئم بالوں سے
پاک موٹی پھدی کو دیکھ کر میرا لن مذید جھٹکے کھانے لگ گیا۔۔
میں نے اپن پوزیشن سنبھالی اور آنٹی کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور
آنٹی کی ٹانگوں کو فولڈ کرتے ھوے اسکے کندھوں تک لے گیا۔۔۔
اور ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر پھدی کے موٹے اور گیلے لبوں میں پھیر کر لن کو پھدی کے پانی سے گیال کیا اور ٹوپے
کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کرکے ایک جاندار گھسا مارا تو پہلے ھی گھسے میں لن آدھے سے ذیادہ پھدی میں اتر گیا
جیسے ھی لن پھدی کے اندر گیا آنٹی نے دونوں ہاتھوں سے میری رانوں کو دبوچ کر ھاےےےےےےے مرگئی
آہہہہہہہہہہہہہی
یاسررررررر کے بچےےےےےےےےے آرام نال کر سارا ایییییی اندر کردتا اییییی
میں نے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا اور یہ کہتے ھوے پھر ذوردار جھٹکے سے سارا لن جڑ تک اندر کردیا کہ آنٹی جی
ابھی تو آدھا گیا ھے آدھا باقی ھے ۔ جیسے ھی لن کا ٹوپا آنٹی کی بچے دانی میں گھسا تو
درد سے آنٹی کا رنگ سرخ ھوگیا اور آنٹی ھاےےےےےےے کرتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔میں بغیر رکے
گھسے مارنے لگ گیا آنٹی کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی پتہ نہیں کونسا نسخہ استعمال کرتی تھی سالی ۔
آنٹی میرے ہر گھسے سے ھاےےےےےے ہولی کر ہاےےےےےے ہولیییییی
کر رھی تھی میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا آنٹی کے ممے آنٹی کے سینے پر رقص کررھے تھے دس پندرہ منٹ میں
اسی سٹائل میں انٹی کو چودتا رھا آنٹی فل مزے میں سسکاریاں بھر رھی تھی آنٹی نے میری رانوں کو چھوڑ کر اب میری
کمر کے گرد بازو ڈال لیے تھے میرا ہر گھسا آنٹی کی بچے دانی تک زرب لگا رھا تھا آنٹی مزے لے لے کر چدوا رھی تھی
اور ساتھ ساتھ یس یس یس فاسٹ فاسٹ کری جارھی تھی ۔
آنٹی درد میں پنجابی اور مزے میں انگلش بولی جارھی تھی ۔
آنٹی کی سیکسی آوازیں اور ڈانس کرتے ممے میرا جوش بڑھائی جارھے تھے ۔
کچھ دیر مزید چودنے کے بعد آنٹی کی آہیں سسکیاں اور کم ان کم ان ایم کم ان کی آوازوں کے ساتھ آنٹی نے پھدی کو اوپر
کر کے لن کو پورا ہضم کیا اور جھٹکے کھاتے ھوے فارغ ھوگئی میں نے کچھ دیر آنٹی کے جسم کے جھٹکوں کو رک کر
انجواے کیا ۔
آنٹی کی پھدی نے جب میرے لن کو بھینچنا کم کیا اور آنٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن آنٹی کی منی سے لتھڑا ھوا تھا ۔
میں نے نیچے ہاتھ کر کے آنٹی کا ٹائٹس پکڑا اور لن کو صاف کرنے لگ گیا ۔
آنٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ھوئی تھی ۔۔۔
میں صوفے سے نیچے اترا اور آنٹی کا بازو پکڑ کر آنٹی کو کھینچا تو آنٹی سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے
اٹھی ۔
میں نے آنٹی کو کھڑا کیا اور صوفے کے کنارے کے پاس لیجا کر آنٹی کا منہ دوسری طرف کر کے آنٹی کو جھکنے کا کہا
آنٹی بغیر کچھ کہے گانڈ میری طرف کر کے ضوفے کے اوپر ہاتھ رکھ کر گھوڑی سٹائل میں جھک گئی آنٹی کی گانٹ
میرے سامنے تھی
میں تھوڑا سا نیچے کو ہوا اور گانڈ کے دراڑ کو کھول کر آنٹی کی موری دیکھنے لگ گیا اورانگلی آنٹی کی گانڈ کی موری
کے اوپر رکھ کر موری کو مسلنے لگ گیا آنٹی جھٹکے سے سیدھی ھوئی تو میرا انگلی آنٹی پھاڑیوں میں پھنس گی آنٹی نے
بھی پورے ذور سے گانڈ کو بھینچ کر انگلی کو سزا دی ۔۔
آنٹی سیدھی ھوتے ھی میری طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کر رھے ھو ۔
میں نے کہا کچھ بھی نہیں ۔
اور آنٹی کو پھر اسی پوزیشن پر کرنے کے لیے آنٹی کی کمر کو دبایا تو آنٹی جھکتے ھوے بولی یاسر پیچھے سے نہ کرنا۔۔
تمہارا اتنا بڑا مجھ سے برداشت نہیں ہونا میں نے کہا نہیں کرتا الٹی تو ھوجاو ۔
آنٹی پھر گھّو ڑی بن کر گانڈ کو مٹکاتے ھوے میرے لن کے سامنے سیٹ کرنے لگ گءی ۔
میں نے ٹانگوں کو تھوڑا سا خم کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں اڈجسٹ کرکے آنٹی کی کمر کو پکڑ کر گیلی پھدی
میں لن اتار دیا
آنٹی نے سر اوپر اٹھا کر ھاےےےےےےےے کیا اور ساتھ ھی سییییییییی کی آواز نکال کر ایک ہاتھ پیچھے میری ران پر
رکھ کر بولی آرام سے نہیں کیا جاتا ،۔
ایک ھی بار میں جان نکال دیتے ھو ۔۔
میں نے آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی کو تسلی دی اور پھر کمر کو پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا آنٹی
آہہہہہہہ افففففف مممممم .کی آوازیں نکال رھی تھی اور میری جاندار گھسوں کی وجہ سے آنٹی کے ممے اسکے منہ کی
طرف اچھل اچھل کر جارھے تھے پیچھے سے آنٹی کی گانڈ میرے گھسے سے چھلک چھلک جارھی تھی ۔
مزے کی انتہا تک مجھے سرور آرھا تھا آنٹی کی سسکیاں آہیں اور تھپ تھپ کی آوازیں میرے مزے کو دوباال کررھیں
تھی ۔۔
میں مسلسل ایک ردھم میں آنٹی کو چودے جار رھا تھا دس منٹ مذید چودنے کے بعد آنٹی کی پھدی نے پھر منی نکال دی
اور آنٹی گانڈ پیچھے کو نکالے صوفے کے بازوں کے اوپر ھی ممے رکھ کر ڈھیر ھوگئی میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن
پھر منی اور پانی سے لتھڑا ھوا تھا آنٹی کے جھکنے کی وجہ سے آنٹی کی گانڈکا سوراخ بلکل میرے سامنے تھا اور سوراخ
بھی گیال ھوچکا تھا میں نے موقع ضائع کیے بغیر گیلے لن کو سوراخ پر رکھا اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ سمجھتی ہے ا
اٹھنے کی کوشش کرتی میں نے آنٹی کی کمر پر دونوں ھاتھ رکھ کر دبایا اور گھسا مار کر لن گانڈ میں اتار دیا ۔۔۔۔۔۔
جیسے ھی لن نان سٹاپ آنٹی کی گانڈ میں گھسا آنٹی باکاں مارن لگ گئی ۔
نال ای پنجابی کا نزول ھوا ۔
آنٹی کے منہ سے چیخ نکلی
اور ساتھ ھی آنٹی بولی ۔۔
ہاےےےےےےےےےے میریییییییی بنڈ پاڑ دتی اووووو کنجرا ھاےےےےےے وےےےے تیرا ککھ نہ روے کی کردتا ای
ظالماں
ھاےےےےےے نی میریے مائیں ھاےےےےےےےے میں مرگئی
پچھے ہٹ جا کھوتےدے لن والیا
ھاےےےےےےے۔
آنٹی کا برا حال تھا شاید پہلی دفعہ لن گانڈ میں لیا تھا آنٹی جتنا ذور اوپر کو اٹھنے کے لیے لگاتی میں اتنا ھی ذور سے آنٹی
کو نیچے دبا دیتاااااا۔۔
آنٹی مجھے پنجابی میں ھی بد دعائیں دیتی ھاےےے مر گئی کری جا رھی تھی ۔
میں نے لن باہر نہ نکاال اور ایک ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گردن پر رکھا اور آنٹی کے سر کو صوفے کے فوم پر دبا دیا
جس سے آنٹی کی آوازصوفے میں ھی دب گئی ۔۔۔
اور میں نے ساتھ ھی گھسے مارنے شروع کردیے مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے اتنا جنون آگیا اور میں آنٹی کو نیچے دباے
اسکی ُبنڈ مارے جارھا تھا اور آنٹی کی غوں غوں کی آوازیں آرہیں تھیں آنٹی نے الکھ کوشش کی کہ میرے نیچے سے نکل
جاے مگر میں نے اسے جکڑا ھی اسطرح تھا کہ بچاری ہلنے سے قاصر تھی ۔۔
میں بڑی بے دردی سے گھسے ماری جارھا تھا آنٹی نڈھال ہوکر اوندھی لیٹی سسکیاں لے کر رو رھی تھی مگر میں پورے
جوش سے اسکی ُبنڈ کی دھجیاں اڑا رھا تھا ۔۔
بیس منٹ مسلسل آنٹی کی گانڈ چدتی رھی آنٹی سسکتی رھی بلکتی رھی مگر اسکی سسکیوں میں مجھے مزہ آرھا تھا ،میں
گھسے پر گھسا ماری جارھا تھا آنٹی کی بنڈ کی موری بھی کافی کھل چکی تھی میرا لن ایسے روانی سے چل رھا تھا جیسے
اسکی پھدی کو چود رھا ہوں بنڈ اور پھدی میں فرق ختم ھو چکا تھا آنٹی کا احتجاج تمام شد ھوچکا تھا کہ میرے ٹانگوں سے
ساراخون میرے لن کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا میرے گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی ہوگئی میرے جسم سے
پسینہ آنٹی کی کمر پر گرنے لگا آنٹی نیم بے ہوشی میں گئی میرے آخری گھسے نے آنٹی کو ہوش میں الیا ادھر میرا آخری
گھسا انتہائی جاندار تھا ادھر آنٹی کے منہ سے ھاےےےےےےے نکال
ادھر میرے لن سے بنڈ میں منی کا فوارہ نکال ۔
اور آنٹی کی ہودی کو بھرتا گیا بھرتا گیا میں نڈھال ھوکر آنٹی کے اوپر گر گیا ۔۔۔آنٹی کو ہوش آیا آنٹی نے غصے سے مجھے
پیچھے دھکا دیا اور ساتھ ہی پلٹ کر صوفے پر گر گئی اور دونوں ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر ایسے مچلنے لگ گئی
جیسے اسکی گانڈ میں کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں ۔۔۔میں دھکا لگنے سے پیچھے ہوکر کھڑا آنٹی کے تڑپنے کا نظارہ دیکھ
رھا تھا میری جیسے ھی نظر سامنے دیوار پر پڑی میں تو ایکدم۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
.۔۔ اچانک میرے دماغ میں خیال آیا کہ یاسر ابھی موقع نہیں برداشت کرلے ۔۔
یہ سوچتے ہی میں سیڑیوں کی جانب بڑھا اور بڑی تیزی سے سیڑھیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا ۔میں نے اپنے آپ کو نارمل
کیا اور دروازہ ناک کیا تو ضوفی نے ھی پردہ سرکا کر دیکھا اور عادت کے مطابق پیاری سی سمائل دی اور دروازہ کھول
دیا میں اندر داخل ہونے لگا تو اچانک میری نظر سیڑھیوں کی طرف پڑی تو ساال ساب اوپر کھڑے مجھے اندر جاتا دیکھ
رھا تھا ۔
میں اس پر ایک نظر ڈال کر اندر چال گیا اور جاتے ھی ضوفی سے پہال سوال یہ ھی کیا کہ کیا بنا ضوفی میرے قریب آئی
اور میرے بازوں کے نیچے سے بازو گزار کر مجھ سے لپٹ گئی اور پھر فرنچ کس کے بعد ۔
بولی کام ہوگیا ھے ۔۔
میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
میں نے کہا تفصیل سے بتاو کہ کیا ھوا ضوفی بولی میں نے آنٹی اور انکل سے بات کی کے یہ جو جیولری واال لڑکا ھے
بہت دنوں سے مجھے آتے جاتے تنگ کرتا ھے میں نے اسے کئی بار سمجھایا بھی ھے مگر اس نے آگے سے بتمیزی کی
اور جب بھی میں گزرتی ہوں تو لڑکوں کو کھڑا کر کے انکے ساتھ مل کر مجھ پر آوازیں کستا ھے ۔
آنٹی تو اسی وقت تیار تھی میرے ساتھ چلنے کو کہ ابھی اسکا سامان اٹھا کر باہر مارتی ہوں مگر انکل نے کہا میں خود اس
سے بات کروں گا اور اس کو ایک مہینے کا نوٹس بھی دے دوں گا کہ دکان خالی کردے ۔
میں نے پھر روتے ھوے کہا کہ وہ سفارشیں کرواے گا ۔
تو آنٹی نے انکل کو سختی سے کہا کہ اگر آپ نے اس سے دکان خالی نہ کروائی تو میری آپ کے ساتھ لڑائی ہو جانی ھے
اور میں خود جاکر اسکا سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکوں گی پھر نہ مجھے کہنا اور آنٹی مجھے ساتھ لگا کر کہنے لگی تم
میری بیٹی ھو اس لیے پریشان مت ھونا ۔
میں نے ضوفی کی بات کاٹ کر کہا کہ میرا بھی بتایا کہ نہیں ۔۔
ضوفی بولی سنو تو۔۔۔
پھر میں نے انکو بتایا کہ میری کزن کے ساتھ منگنی ھوگئی ھے اور میرا کزن مجھے لینے اور چھوڑنے آتا ھے تو یہ اسکو
بھی گھورتا ھے
اگر لڑائی ہوگئی تو پھر سارا بازار تماشا دیکھے گا ۔
آنٹی بولی کہ تم نے اپنے منگیتر کو کہنا تھا کہ اس کنجر کا منہ توڑتا
تو میں نے کہا آنٹی جی اسی لیے تو آپ کے پاس آئی ھوں کہ پھر آپ نے کہنا تھا کہ ہمیں تو بتاتی ۔
تو انکل کہنے لگے بیٹا تم پریشان نہ ھو بس ایک دو دنوں میں اسکا حل نکالتا ھوں تو آنٹی انکل کو گھورتے ھوے بولی حل
کیا نکالنا ھے اسکو نوٹس دو کہ دکان خالی کرے نہیں تو میں جاتی ہوں اس کے پاس ۔
انکل نے کہا کہ کرتا ہوں کچھ اسکا ۔۔۔
میں نے ضوفی کو جپھی ڈالی اور دس بیس ُچ میاں لیں اور کہا بس اپنا کام بن گیا ابھی وہ گشتی کا بچہ باہر ھی کھڑا ھے اور
تمہیں دیکھے گا ضرور بس تم ایک دفعہ اسکو سنا دینا اور پھر دیکھنا تماشا ۔۔
ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے مجھ سے لپٹ کر بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کہ کچھ غلط نہ ھوجاے ۔
میں نے کہا جتنا میرے ساتھ غلط ھوا ھے اس سے ذیادہ نہیں کرتا بس تم بے فکر رھو اور جو کہا ھے وہ کرنا اور ھاں
ڈرنے اور گبھرانے کی ضرورت نہیں
ضوفی نے میرے گال پر کس کی اور مجھ سے علیحدہ ہوکر گاون پہننے لگ گئی ۔
کچھ ھی دیر بعد ہم پارلر بند کر کے سیڑھیوں کی جانب بڑے تو وہ کنجر ادھر ھی کھڑا تھا ہمیں آتا دیکھ کر پیچھے ہوگیا
ورنہ وہ نیچے ھی جھانک رھا تھا ۔
میں نے جان بوجھ کر ضوفی کا ہاتھ پکڑ لیا .
.میں اور ضوفی سیڑیاں چڑھ کر جب اوپر پہنچے تو اس گانڈو کی قسمت ماڑی کے وہ دکان کے باہر کھڑا تھا اور اس نے
عادت کے مطابق ضوفی کو گھورنا شروع کیا میں نے ضوفی کا ہاتھ دبایا کہ موقع اچھا ھے ۔
ضوفی نے اس لڑکے کی طرف گھورا جسکا نام نسیم تھا اور ضوفی تیزی سے اسکی طرف گئی اور جاتے ھی ضوفی نے
ایک زوردار تھپڑ نسیم کے منہ پر دے مارا اور اونچی آواز میں بولی بغیرت کے بچے تیرے گھر میں ماں بہن نہیں ھے جا
انکو دیکھ نسیم نے ہکا بکا ہو کر اپنی گال پر ہاتھ رکھا اور جیسے ھی دوسرا ہاتھ اٹھا کر ضوفی کو تھپڑ مارنے لگا تو میں
بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور اسکے اٹھے ھوے ہاتھ کو ہوا میں ھی پکڑ لیا اور بوال
تیری پین دا پھدا گشتی دیا بچیا لڑکی تے ہتھ چکنا ایں ۔
اس سے پہلے کہ نسیم کچھ بولتا میں دوسرے ھاتھ کا مکا بنایا اور اسکے منہ پر جڑ دیا اور ساتھ ھی ایک زور دار الت
اسکے پیٹ میں ماری نسیم کے پیٹ میں جب الت پڑی تو وہ پیچھے کی طرف گرا ۔
اسی اثنا میں اسکی دکان سے دو لڑکے بھاگے باہر آے اور جیسے ھی میری طرف بڑھے تو ان میں سے ایک لڑکے کے تو
آتے ھی میں نے پیٹ میں ٹانگ ماری ۔
وہ لڑکا وہاں سے ھی پیچھے کی طرف گرا اور دوسرے لڑکے کو مجھ تک پہنچنے کا موقع ھی نہیں مال اسکو شادے نے
دبوچ لیا اور اسکی گردن کو اپنی بغل میں لے کر اسکے پیٹ میں اور میں پر مکوں کی بارش کردی ضوفی گبھرا کر ایک
طرف جا کھڑی ہوئی ۔
نسیم ابھی اٹھ ھی رھا تھا کہ میں دوڑ کر اسکے سر پر پہنچا اور پھر ایک زوردار ٹھوکر اسکے پیٹ میں ماری وہ بلبال کر
پیچھے کو قالبٰا زی کھاتا ھوا گرا ۔
دوسرے لڑکے کو جنید نے پکڑ لیا اور دونوں گتھم گتھا ہوکر ایک دوسرے پر مکوں کی بارش کرنے لگ گئے میں نے
نسیم کے سر کت بالوں کو پکڑا اور اسکے بالوں کو کھینچتا ھوا اسے باہر سڑک پر لےآیا
ایکدم مجمع اکھٹا ھوگیا دو تین دکاندار میری طرف بڑھے تو میرے باقی دوستوں نے انکو بھڑکیں مارتے ھوے وہیں روک
دیا ۔
میں نسیم کو بالوں سے پکڑے گھسیٹتا ھوا سڑک پر لے آیا اور اسکو کھڑا کر کے اسکے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی
اس نے بھی تین چار مکے مجھے مارے مگر میں اس پر بھاری تھا ۔
ہم دونوں کو چھڑانے کے لیے کوئی اگے نہیں بڑھ رھا تھا
میرے یار مجھ پر ساے کی طرح کھڑے تھے ۔
نسیم کے ہاتھ رک چکے تھے اور میرے مکے اور ٹانگیں بجلی کی سپیڈ سے اس پر برس رہی تھیں ۔
نسیم کو بھی میرے دوستوں کا علم ھوچکا تھا اور اس کی کتے والی حالت کی وجہ سے وہ نڈھال ھوکر نیچے گرتا تو میں
اسکو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کرتا اور پھر اسکے منہ پر مکا مارتا تو وہ پھر پیچھے جا کر گرتا
نسیم کی ناک پر مکے پڑنے سے
اسکی ناک سے خون بہنے لگ گیا ۔
میں نے اسے بالوں سے پکڑا اور پھر کھڑا کر کے ایک ذوردار ٹھوکر اسکی ٹانگوں کے بیچ ماری
نسیم کے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی اور وہ دونوں ھاتھ اپنے لن پر رکھتا ھوا دھرا ہوکر گھٹنوں کے بل سڑک پر بیٹھ
گیا میں پھر اسکی طرف بڑھا تو نسیم نے دونوں ہاتھ میرے آگے جوڑے اور بوال مینوں معاف کردے میرے کولوں غلطی
ھوگئی ہن نئی کردا بس اک واری معاف کردے اور پھر میرے پیروں کو پکڑ کر اونچی آواز میں رونے لگ گیا اور معافیاں
مانگنے لگ گیا۔
.میں نے جھک کر پھر اسکے بالوں کو پکڑا اور اسے کھڑا کر کے ایک ذور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تو اسکی آنکھیں
ایسے بند ہوئی جیسے وہ بےہوش ہونے لگا ھو میں نے اسکے بالوں کو پکڑے اسکے سر کو جنجھوڑا اور بولی
پین دی پھدی کھانیا۔
اپنی باجی نوں کیوں چھیڑدا سی ۔
نسیم کی ناک سے خون منہ سے خون اور تھوک بہہ کر اسکے آگے سے سارے کپڑے گیلے کر چکا تھا ۔
نسیم بوال
پا جی میں نئی چھیڑیا مینوں اپنی ماں دی قسمیں پیو دی قسمیں نئی چھیڑیا ۔
دوستو میں نے اسے یہ ظاہر ھی نہیں ہونے دیا کہ میں اسکو شکایت لگانے کی وجہ سے مار رھا ھوں نہیں تو سب دیکھنے
والوں نے مجھ کو اور ضوفی کو ھی قصوروار ٹھہرانا تھا ۔
نسیم مجھ سے معافیاں مانگی جارھا تھا ادھر اسکے دونوں ساتھیوں کا بھی حال اس کے جیسا ہوچکا تھا ۔
میں نے نسیم کو گریبان سےپکڑا اور اسے کھینچتا ھوا ضوفی کی طرف لے گیا
ضوفی کا رنگ اڑا ھوا تھا اور وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ مجھے اور نسیم کو دیکھی جارہی تھی ۔
میں نسیم کو کھینچتا ہوا ضوفی کے پاس لے گیا اور نسیم کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا اور بوال
معافی منگ اپنی پین دے پیراں وچ پے کے ۔
نسیم کسی فرمابردار کی طرح ضوفی کے پیروں میں گرا اور ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگ گیا ۔۔
ضوفی کے پیروں میں جب نسیم گرا تو ضوفی ایکدم پیچھے کو ہٹی ۔
نسیم کچھ دیر اسی حالت میں نیچے بیٹھا معافیاں مانگتا رھا ۔
ادھر اس کے دو ساتھیوں کا بھی حال برا تھا وہ بھی نیچے ایسے بیٹھے تھے جیسے پولیس والوں نے مجرموں کو مار مار
کر بٹھایا ھوتا ھے ۔
میں نے شادے کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے نکلنےکا اشارا کیا ۔
میں نے ایک زوردار ٹھوکر نسیم کی کمر پر ماری نسیم فٹ بال کی طرح گھومتا ھوا سڑک کے درمیان میں چال گیا اور
اونچی آواز میں رونے لگ گیا اور دیکھنے والوں سے التجائیں کر نے لگ گیا
مینوں بچا لو میں مرجاواں گا مینوں بچا لو ۔
مگر میرے دوستوں سے ڈرتا کوئی منہ نہیں کھول رھا تھا اور نہ ھی آگے بڑھ رھا تھا ۔
میں نے ضوفی کو چلنے کا کہا
ضوفی جلدی سے میرے آگے چلنے لگی اور ہجوم نے ہمیں خود ھی راستہ دے دیا میں جیسے ھی کچھ آگے گیا تو
اچانک ۔۔۔؟؟؟
.پیچھے سے شور سنائی دیا ۔
میں نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا تو دنگل مچا ہوا تھا ۔
میں نے ضوفی کو کہا کہ تم گھر جاو میں آتا ہوں۔
ضوفی نے میرا بازو پکڑا اور بولی نہیں یاسر تم نے نہیں جانا ۔
میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑ کر اپنا بازو ُچ ھڑوایا اور گرجدار آواز میں بوال تمہیں سنا نہیں میں نے کیا کہا جاو گھر ۔۔
ضوفی ایکدم سہم گئی ۔
میں نے ضوفی کی اگلی بات نہیں سنی اور واپس مارکیٹ کی طرف دوڑ لگا دی ۔
جب میں وھاں پہنچا تو چار پانچ لڑکے اور دو بڑی عمر کے انکل ٹائپ میرے دوستوں کے ساتھ گتھم گتھا تھے ۔
نسیم بھی اب شیر بنا ھوا تھا
نسیم کی جب نظر مجھ پر پڑی تو چیخ کر بوال او آگیا جے پین چود پھڑ لو اینوں وی ۔
انکل ٹائپ میرے طرف بڑے غصے سے بڑھا اور میرے منہ کی طرف مکا لہرایا میں نے اسکے مکے کو ایک ھاتھ سے
روکا اور جست لگا کر ٹکر اسکے ناک پر ماری انکل منہ پر ھاتھ رکھ کر ادھر ھی ُدہرا ہوکر گھٹنوں کے بل نیچے گرا نسیم
کو میرے ایک دوست نے نیچے گرایا ھوا تھا اور اس کے منہ پر مکوں کی بارش کررھا تھا شادا بھی دو لڑکوں کے ساتھ لڑ
رھا تھا کبھی ایک کے مکے اور ٹکریں مارتا کبھی دوسرے کے جنید بھی دوسرے انکل کے ساتھ گتھم گتھا تھا میرے باقی
کے چار دوست بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ لڑ رھے تھے ۔
انکل شاید نسیم کا باپ تھا ۔
وہ منہ پر دونوں ھاتھ رکھے سڑک پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا کہ میں نے اسکے بیٹھے پر ھی مکوں اور التوں کی بارش
کردی ۔
اتنے میں میرے پیچھے سے کسی نے میرے سر میں ڈنڈا مارا ۔
میری آنکھوں کے سامنے تو ایک دفعہ تارے گھومنے لگ گئے ۔
میں نے دونوں ھاتھ سر پر رکھے اور چکرا کر نیچے گر گیا ۔
اور ساتھ ھی قالبازی کھاتا ھوا سیدھا ھوا تو سامنے والے نے دوسرا وار میری ٹانگ پر کیا اور پھر تیسرا وار کرنے ھی
واال تھا کہ میرا ایک دوست اس پر جھپٹا اور اسکے ہاتھ سے ڈنڈا پکڑ کر اس سے ڈنڈا چھین لیا ۔
اور اسی ڈنڈے سے اس پر وار کرنے لگ گیا ۔
میں خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور دوست کی طرف لپکا جو ڈنڈے سے اس لڑکے کی پٹائی کر رھا تھا میں نے دوست کے
ھاتھ سے ڈنڈا چھینا اور اس لڑکے کے سر میں دے مارا وہ لڑکا بلبالتا ھوا سر پر ھاتھ رکھے نیچے گرا ۔
)Update no (101
ًا
اسکے سر سے خون نکلنا شروع ھوگیا میں اسکی حالت کی پروا کیے بغیر اسکی ٹانگوں اسکے بازو مختصر اندھا دھند
اس پر ڈنڈے برسانے لگا اور وہ لڑکا نیچے بانکیں مار مار واویال کرنے لگ گیا
ھاےے او میں مر گیا جے ھاے اوے او مینوں بچاو کوئی ۔
جب میں نے چنگی تسلی کر لی اور وہ بھی نیم بے ہوش ھوگیا ۔
تو میں نسیم کو تالش کرنے لگ گیا میری نظر جب اس پر پڑی تو وہ خون میں لت پت نیچے پڑا تھا اور اس کے اوپر جنید
سوار تھا جو اس کے پیٹ میں سینے پر مکوں کی بارش کررھا تھا ۔
نسیم کے باپ کے منہ سے بھی خون نکل رھا تھا اور وہ جنید کو اوپر سے مار رھا تھا میں اس کی طرف بھاگا ۔
اور جاتے ھے ایک فالئنگ کک نسم کے باپ کی کمر میں ماری تو وہ قالبازی کھا کر جنید سے دور جاگرا ۔
شادا جن دو لڑکو ں کو مار رھا تھا
وہ بھی خون سے لت پت تھے میرے سر سے بھی خون بہہ کر میرے کپڑوں کو رنگین کر چکا تھا۔
میرے ایک اور دوست کا بھی سر پھٹ گیا تھا ۔
اس کے کپڑے بھی خون سے رنگین تھے ۔
میں نے ھاتھ میں پکڑا ھوا ڈنڈا نسیم کی ٹانگوں پر برسانا شروع کردیا ۔۔
نسیم اونچی اونچی بانکیں مارنے لگ گیا نسیم کے پیٹ پر جنید سوار تھا جو اسکے مکے برسا رھا تھا جبکہ میں کھڑا نسیم
کی ٹانگوں پر ڈنڈے برسا رھا تھا
بازار میں ایک جنگ کا سماں تھا ۔
تماشائی سہمے ھوے لڑائی دیکھ رھے تھے کہ اچانک شادے کو پتہ چال کہ کسی نے پولیس کو اطالع کردی ھے ۔
شادا بھاگ کر میرے پاس آیا اور بوال یاسرے نکلو سب پولیس پے جانی جے ۔۔
میں نے جنید کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر نسیم سے الگ کیا نسیم نیم بے ہوش پڑا تھا اور اس کے ساتھ بھی زخمی حالت
میں پڑے تھے جبکہ دو لڑکے بھاگ گئے تھے ۔
ہم سب اکھٹے ادھر سے نکلے اور گلیوں میں سے بھاگتے ھوے گاوں کی طرف جانے لگ گئے مجھے شارٹ کٹ راستوں
کا علم تھا اس لے میں آگے تھا اور باقی سب میری تقلید میں میرے پیچھے بھاگ رھے تھے ہم جہاں سے گزرتے لوگ
حیران ھوتے ھوے ہم سب کی طرف دیکھتے
خیر اوکھے سوکھے ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ھوے کسی طرح نہر پر پہنچے اور پل کراس کر کے میں ان سب کو مکئی
میں لے گیا اور کھالے کے پاس پہنچ کر مجھے ٹاہلی والی جگہ کا خیال آیا کہ اس وقت اس سے محفوظ جگہ کوئی اور نہیں
میں نے شادے کو اسطرف آنے کا کہا شادا بوال دفعہ کرو ادھر نہیں بیٹھنا چلو ہمارے ڈیرے پر چلتے ہیں ۔
میرے باقی سب دوستوں نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا تو میں نے جیب سے پیسے نکالے اور ایک لڑکے کو کہا کہ تو گاوں
جا اور ادھر سے مرہم پٹی کا سامان لے کر شادے کے ڈیرے پر پہنچ ہم ادھر ھی ملیں گے اور گاوں میں کسی سے بات نہ
کرنا کہ ہماری لڑائی ھوئی ھے ۔
وہ لڑکا پیسے لے کر گاوں کی طرف چل پڑا جبکہ ہم فصلوں کے بیچو بیچ سے شادے کے ڈیرے پر چلے گئے ادھر جاکر
کچھ دیر ہم نے سانس لی ۔میرے سر سے خون بہہ بہہ کر خود ھی بند ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے کے سر سے ابھی بھی
خون رس رھا تھا شادے نے اور جنید نے ٹیوب ویل سے کپڑا گیال کیا اور ہم دونوں کے سر اور منہ صاف کرنے لگ گئے
اتنے میں وہ لڑکا بھی مرہم پٹی کا سامان لے کر پہنچ گیا شادے نے اور جنید نے ہم دونوں کی مرہم پٹی کی شادا ساتھ ساتھ
مجھے گالیاں بھی نکال رھا تھا کہ
پین یکہ جدوں تینوں میں جو کیا سی کہ نکل جا تے توں واپس بنڈ مراون ضرور آنا سی اسی سارے ای بوت سی ۔
میں نے کیا بس یار میں تم لوگوں کو کیسے اکیال چھوڑ سکتا تھا ۔
ایسے ھی ہم بیٹھے باتیں کرتے رہےاندھیرا کافی ہوچکا تھا ہم نے ٹیوب ویل سے اپنے کپڑے دھو کر وہیں سوکھنے کے لیے
ڈالے ھوے تھے ہمیں ادھر تین گھنٹے ہو چکے تھے کہ اتنے میں شادے کا مالزم ہانپتا ھوا آیا اور بوال بھا شادے چاچے نوں
تے یاسر دے ابے نوں پولیس پھڑ کے لے گئی اے ۔۔
ہم سب ایک دم گبھرا گئے اور گاوں کی طرف بھاگے ۔
شادا بوال یاسرے چوہدری دے ڈیرے تے چلنے آں
چوہدری اے ہن ساڈے کم آ سکدا اے ۔
میں نے بھی ہمممم کیا اور ہم سیدھا چوہدری نواب دین کے ڈیرے پر پہنچے ۔
چوہدری شادے کی بہت عزت کرتا تھا کیونکہ شادا اسکے پیچھے کئی جگہ پنگے لے چکا تھا ۔
چوہدری نواب دین نے جب ہم سب کو دیکھا تو حقہ پیتے ھوے چونک کر کھڑا ھوگیا شادا اس سے گلے مال اور ہم سب نے
بھی باری باری سالم دعا لی ۔
چوہدری بوال خیر اے ُمنڈیو کیویں کبراے ھوے او سب خیر تے ہے ناں ۔
شادے نے ساری روداد چوہدری کو سنا دی ۔
چوہدری کچھ دیر سوچتا رھ پھر ہنکارا بھرا اور بولی کوئی گل نئی پتر شادے پریشان نہ ھو اے کیڑا کم اے میں تے سمجھیا
کہ کوئی بندا پھڑکا دتا اے جیڑا اینے کبراے ھوے او۔
یہ کہہ کر چوہدری نے اپنے مالزم کو آواز دی کے جیپ نکال ۔
کچھ ھی دیر میں ہم سب جیپ میں سوار تھانے کی طرف نکل پڑے کچھ ھی دیر میں جیپ تھانے میں رکی اور ہم سب باری
باری جیپ سے اتر کر چوہدری کے پیچھے اندر چل دئیے ۔
جب ہم تھانے کے برامدے میں پہنچے تو ہماری مخالف پارٹی کے لوگ ادھر بیٹھے ھوے تھے جن میں دو تین تو وہ تھے
جنکی مرمت ھوئی تھی باقی شاید انکے رشتہ دار تھے یا محلے دار ۔
چوہدری ہم کو ادھر ھی کھڑا کر کے شادے کو لے کر اندر چال گیا ۔
مخالف کھڑے ہمیں گھور رھے تھے اور ہم انکو مگر بول کچھ نہیں رھے تھےبس نظروں کی لڑائی ھو رھی تھی ۔
ہم تقریبًا ایک گھنٹہ ادھر ھی کھڑے رھے کہ اندر سے ایک اہلکار باہر آیا اور مجھے اور جنید کو اندر آنے کا کہا اور
مخالف پارٹی کے بھی دو افراد کو اندر بلوایا ۔
اندر ایس ایچ او بیٹھا تھا ھوا تھا ۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ انکے دو بندوں کی ناک کی ہڈی ٹوٹی ھے اور دو ٹانگوں کی ہڈیاں فیکچر ھوئی ہیں اور ساتھ میں
انکی دکان سے ایک الکھ کے قریب رقم بھی چوری ھوئی ھے ۔
شادے نے کہا لڑائی میں ہڈیاں تو ٹوٹتی ہی ہیں مگر یہ پیسوں والی بات بلکل جھوٹی ھے ۔
خیر کافی دیر بحث مباحثہ ھوتا رھا بل آخر چوہدری نے دس ہزار پولیس والوں کو رشوت دے کر صلح صفائی کروا دی اور
ہم سب شادے کے ابو اور میرے ابو اور جنید کے بھائی کو تھانے سے لے کر نکلے ۔
جنید اور اسکا بھائی اپنے گھر کی طرف چلے گئے جبکہ ہم سب جیپ میں سوار ہوکر گاوں پہنچے ۔
گھر آکر میری اچھی کالس لگی ۔
ابو سے دو تین تھپڑ اور امی سے چنگی گالیاں پڑی کہ پتر جوان ھوکہ باپ دی باں بندے نے تے توں جوان ھوکہ پیو نوں
تھانے ویکھاندا ایں ۔
بارہ بجے سے ایک بجے تک میری کالس لگتی رھی اور میں چنگی بےعزتی کروان توں بعد لمے ہوگیا
یعنی سوگیا ۔۔۔۔
صبح میں کافی لیٹ اٹھا مجھے کسی نے اٹھایا ھی نہیں اور میں بھی تھکاوٹ اور سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے گہری
نیند سویا رھا۔
میں بستر سے اٹھنے لگا تو میرے سر میں ذبردست درد کی چیسیں اٹھیں اور جب میں ٹانگ کو ہالنے لگا تو ادھر بھی ایسے
ھی درد ہوئی ۔
میں کراہتا ھوا اٹھا اور چارپائی پر ھی بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ سر کو دبانے لگ گیا ۔
اتنے میں امی جان اندر داخل ہوئیں تو غصے سے میری طرف دیکھ کر بولیں ۔
اٹھ گیاں میرا بدمعاش پتر ۔
میرے چہرے پر درد کے اثار تھے امی نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تو سارا غصہ بھول کر ممتا جاگی اور امی
میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر میرا ماتھا چومتے ھوے بولی
ھاے ******میرے پتر نوں کناں تیز بخار چڑیا ھویا اے ۔
اور ساتھ ھی میرے سر پر لگے زخم کو دیکھ کر مخالف پارٹی کو گالیاں اور بددعائیں دینے لگ گئی ۔
کچھ دیر ایسے ھی امی الڈ کرتی رھی اور پھر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر ہاتھ سے میرے سر کے بالوں کو سہالنے لگ
گئی ۔
دوستو۔یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔
کہ جو سکون ماں کی آغوش میں ملتا ھے ویسا سکون پوری کائنات کی کسی بھی چیز میں نہیں ملتا ۔
ساری کائنات کی محبت ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور ماں کی محبت کا چوتھائی حصہ دوسرے پلڑے میں رکھ دو ۔
تو ماں کی محبت کا وہ پلڑا بھاری ھوگا ۔
میں اس شخص کو اس دنیا کا سب سے بڑا بدقسمت انسان سمجھتا ہوں جو ماں کی حیات میں اسکی خدمت سے محروم رھا
ھو ۔
اور دنیا کا سب سے بڑا ذلیل اور بیغیرت انسان اسکو سمجھتا ہوں جو بیوی یا گرل فرینڈ کے پیچھے لگ کر اپنی ماں کے
ساتھ برا سلوک کرتا ھے اور اسے بڑھاپے میں نظر انداز کرتا ھے ۔
اور دنیا کا سب غلیض اور اس دھرتی کا گند اسے سمجھتا ھوں جو اس پاک رشتے پر گندی سٹوریاں لکھتا ھے ۔
دوستو امی کی گود اور سر پر انکے شفقت بھرے ہاتھ سے مجھے ساری تکلیف بھول گئی اور میں نہ جانے کب سوگیا ۔
محبوب کی آغوش میں ہوس ھوتی ھے
اور ماں کی آغوش میں جنت کا سکون ۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنکی ماوں کا سایہ انکے سر پر سالمت ھے ۔
میں پھر نیند کی وادیوں میں چال گیا میری تب آنکھ کھلی جب امی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے میرے سرہانے کے پاس
بیٹھی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے مجھے اٹھا رھی تھی ۔
میں نے آنکھ کھولی تو سامنے میری جنت مسکرا رھی تھی امی نے شفقت سے کہا اٹھ میرا الل اٹھ کے روٹی کھا لے ۔
میں اٹھا اور امی کے کندھے کے ساتھ سر لگا کر بیٹھ گیا امی روٹی کے نوالے میرے منہ میں ڈالنے لگ گئی ۔
کھانا ختم کر کے امی اٹھی اور کچھ دیر بعد دودھ گرم کر میرے لیے لے آئیں ۔
امی مجھے پھر نصیحتیں کرنے لگ گئیں کہ ہم غریب اور عزت دار لوگ ہیں ۔
ایسے لڑائی جھگڑے ہمیں زیب نہیں دیتے ۔
میں فرمانبرداری سے سر ہالتا رھا۔۔پھر اچانک امی نے پوچھا پتر اے پالر والی کون اے جدے پچھے توں لڑیا سی ۔۔
میں ایک دم چونکا اور امی کے سوال کہ جواب کے لیے الفاظ تالش کرنے لگ گیا۔
امی مجھے خاموش اور یوں گبھراے ہوے دیکھ کر بولی دیکھ پتر میں تیری ماں ہوں اور ماں سے کچھ بھی نہیں چھپاتے ۔
دوستو اس میں کوئی شک نہیں اس دھرتی پر سب سے اچھا اور مخلص دوست ماں ھی ھے ۔۔
میں نے ہکالتے ھوے کہا کہ ووووہ میرے دوست کی بہن ھے ۔۔
امی بولی جھوٹ کیوں بول رھا ھے ۔
میں پھر بوال نننہیں امی ممممیں کیوں جھوٹ بولوں گا ۔
امی بولی مرضی تیری اگر تو ماں سے بھی سچی بات نہیں کرنا چاہتا۔
میں نے امی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کو چومتے ھوے بوال ۔
لے دس امی میں تیرے نال کیوں چوٹھ بوالں گا۔
امی بولی
پتر میں تینوں جمیا اے توں مینوں نئی ۔
میں نے تھوڑا شرماتے ھوے کہا امی جججی ووہہ مجھے پسند کرتی ھے ۔
امی ہنستے ھوے بولی اور تم ۔۔۔
میں نے بھی شرمیلی مورت بنتے ھوے اثبات میں سر ہالیا۔
امی مجھے ساتھ لگاتے ھوے میرا ماتھا چومتے ھوے بولی ۔
میرا پتر جوان ھوگیا اے ۔
چل مینوں نئی ملوایں گا میری نو نال ۔
میں نے خوش ھوتے ھوے امی کی گال کو چوما اور بوال ۔
ملواوں گا ضرور ملواوں گا ۔
امی بولی کب ملواو گے میں نے کہا جب آپ کہیں میں اسکو گھر لے آوں گا ۔
امی بولی ابھی کچھ دن صبر کر تیرے ابا کا موڈ جب سہی ھوا تو میں تجھے بتاوں گی پھر لے آنا میں خوش ھوکر امی کے
ساتھ چمٹ گیا کتنی دیر تک ایسے ھی امی کے ساتھ ضوفی کے بارے میں اور اس کے گھر کے بارے میں باتیں کرتا رھا
امی کو یہ بات کسی سے نہ کرنے کا بھی کہا اور خاص کر آنٹی فوزیہ اور نازی سے امی نے مجھے تسلی دی اور ۔۔
پھر امی چلی گئی اور میں بھی اٹھا اور کپڑے بدل کر ۔
گاوں کے ھی ایک ڈاکڑ کے پاس گیا اس سے سر پر پٹی کروائی اور دوائی لی اور پھر گھر کی طرف چل دیا
شام ہونے والی تھی ابھی شہر تو جا نہیں سکتا تھا ۔
اور ضوفی کو دیکھنے کا دل بھی بہت کر رھا تھا۔
میں چلتا ھوا ۔
سیدھا آنٹی فوزیہ کہ گھر گیا ۔۔میں جیسے ھی اندر داخل ھوا ۔
آنٹی صحن میں ھی چارپائی پر بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر چونکی اور جب انکی نظر میرے سر پر بندھی پٹی پر پڑی تو
چھالنگ مار کر چارپائی سے اتری
اور تیزی سے میری طرف بڑھتے ھوے میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا کر بولی ۔
کی حال کیتا اے کنجراں نے تیرا کیویں سٹ لگوائی اے میں تے کل دی پریشان آں کنی واری تیرے کار وی گئی پر توں ُستا
ہویا سی
آنٹی ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی
آنٹی کی آواز سن کر عظمی اور نسریں بھی دوڑی باہر آئیں میری حالت دیکھ کر وہ بھی کافی گبھرا کر میرے پاس کھڑی
ھوگئیں اور تینوں ماں بیٹیاں پوچھنے لگ گئیں کہ کیسے چوٹ لگی ۔
میں نے کہا مینوں بیٹھن تے دیو دسنا آں کوئی ایڈی خطرے والی گل نئی ۔
انٹی بولی
اینی وڈی لڑائی ہوئی تے توں کیناں ایں خطرے والی گل نئی ۔
مجھے یہ ٹینشن پڑ گئی کہ کہیں آنٹی کو بھی ضوفی کا نہ پتہ چل گیا ھو کہ اسکی وجہ سے لڑائی ھوئی ھے ۔
پھر انٹی نے جب یہ پوچھا کہ کون تھا وہ کنجر اور کیسے لڑائی ھوئی تو مجھے کچھ حوصلہ ھوا کہ آنٹی حقیقت سے العلم
ھے ۔
میں نے آنٹی کو ایسے ھی منگھڑت کہانی سنائی کہ میرے دوست کی بہن کو وہ تنگ کرتا تھا اور دوست بھی جنید ھی بتایا ۔
اس وجہ سے اس سے مار پیٹ ھوئی آنٹی بھی بدعائیں دینا شروع ھوگئی کچھ دیر بعد انکل بھی آے انکو بھی یہ ھی سٹوری
سنائی ۔
انکل کچھ دیر بعد اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے
) Update no (102عظمی اور نسرین پہلے تو سیرئس ہوکر بیٹھی رہیں جب ماحول کچھ بدال تو نسرین میرے چہرے کو
دیکھتے ھوے بولی
اے کی کھسرا بن گیا آں ۔
جبکہ عظمی زبردست کے اشارےکرتی رھی
آنٹی نے نسرین کی اچھی بھلی بےعزتی کردی ۔
نسرین بےعزتی کروا کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔
آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا اور پھر جب میں اور آنٹی کمرے میں رھ گئے تو انٹی جو میرے ساتھ ھی چارپائی پر
بیٹھی ھوئی تھی دروازے کی طرف دیکھتے ھوے میری گال کو چوم کر بولی میرا شزادہ تے ہیرو بن گیا ھے ۔
********۔
بہت سونا لگ ریاں ایں ****نظر تو بچاے
مجھے بھی شرارت سوجی میں نے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے آنٹی کے تنے ھوے ممے پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا
تو پھر کیا پروگرام ھے ۔
آنٹی نے سیییییی کیا اور میرے ہاتھ کو اپنے ممے سے جھٹکتے ھوے بولی ۔اس حال میں تو باز آجا ۔
میں نے کہا اتنی سیکسی آنٹی سامنے ھو تو مردہ بھی زندہ ھوجاتا ھے میرے تو بس ہلکی پھلکی چوٹ لگی ھے ۔
آنٹی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے نیم تنے ھوے لن کو مٹھی میں بھینچ کر چھوڑدیا اور بولی ۔
دل تو بہت کرتا ھے پر تمہارے پاس ھی اب ٹائم نہیں ھوتا اب تو تم شہری بابو بن گئے ھو اب ہم جیسے پینڈوں کے گھر آنا
بھی پسند نہیں کرتے ۔
آنٹی نے جیسے ھی میرے لن کو پکڑ کر چھوڑا تو میرا لن جھٹکے سے کھڑا ھوگیا ۔
میں نے کہا آنٹی جی بس کام کا سیزن ھے اس وجہ سے لیٹ ہوجاتا ھوں انٹی بولی جمعہ کو تو چھٹی ھوتی ھے تو میں نے
بتایا کہ جمعہ کو میں الھور گیا تھا دوست کے ساتھ۔
آنٹی الہور کا سن کے بہت خوش ھوئی اور بولی اکیلے اکیلے الہور دیکھ آے ھو
میں نے تنے ھوے لن سے قمیض اٹھا کر کہا آپکو ادھر ھی الھور دیکھا دیتا ھوں ۔
انٹی ہنستےھوے میرے لن پر چپت لگا کر بولی بےشرم کڑیاں اندر آجان گیاں ۔
میں نے جلدی سے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور لن پر رکھ دیا آنٹی کہ منہ سے بھی الریں ٹپک رھیں تھی اور پکا پھدی بھی لیک
کرگئی ھوگی آنٹی نے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے لن کو مٹھی میں بھینچ لیا ۔
اس سے پہلے کہ آنٹی لن کو چھوڑتی کہ اچانک دروازے سے ،،،،،۔۔۔۔۔
.قدموں کی چاپ سنائی دی آنٹی نے بجلی کی سی تیزی سے ہاتھ میرے لن سے کھینچا ادھر آنٹی کا ہاتھ میرے لن سے ہٹا
ادھر عظمی ہاتھ میں چاے کی ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔
میں نے اور انٹی نے بچ جانے پر شکر ادا کیا عظمی چاے ہمیں پیش کر کے ۔دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی
اور بڑی سیکسی نظروں سے مجھے دیکھنے لگ گئی میں بھی آنٹی سے نظر چرا کر اسے دیکھ لیتا ۔
میں کافی دیر ادھر بیٹھا انکے ساتھ گپ شپ کرتا رھا ۔
عظمی نے بتایا کے اگلے ہفتے ہمارا رزلٹ آجانا ھے ۔
پھر ہم نے کالج میں ایڈمیشن لے لینا ھے ۔
میں نے شرارت سے کہا پاس ھوگی تو ھی کالج جاو گی عظمی بولی *****فرسٹ آوں گی دیکھ لینا۔۔
میں نے کہا چلو لگ جاے گا پتہ کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں آنٹی لوگوں سے اجازت لے کر نکال اور گھر آگیا
ابو کا موڈ خراب تھا اور ناذی مجھے طنزیں کر رھی تھی میری اسکے ساتھ ہلکی پھلکی منہ ماری ہوئی رات کو امی نے
مجھے باہر نہیں جانے دیا اور میں بھی تھکاوٹ محسوس کررھا تھا اس لیے جلد ھی سوگیا
اگلے دن بھی میں گھر پر ھی رھا امی نے مجھے شہر جانے سے سختی سے منع کیا کہ ابھی دو چار دن شہر نہیں جانا میرا
بہت دل کررھا تھا کہ ضوفی کو ایک بار دیکھو پتہ نہیں وہ کس حال میں ہوگی مگر امی کسی قمیت پر نہیں مان رھی تھی
میں نے بہت منتیں کی مگر ابو کا سختی سے آڈر تھا کہ اسے ابھی شہر نہیں جانے دینا ۔
گھر میں سارا دن بور ھوتا رھا
شام کو امی سے پوچھ کر آنٹی کے گھر گیا وھاں بھی کچھ خاص بات نہ ہوئی مگر ایک خوشخبری ملی کہ صبح آنٹی نے
اور نسرین نے شہر ڈاکٹر کے پاس نسرین کی نظر چیک کروانے جانا ھے ۔
آنٹی نے مجھے ساتھ چلنے کا کہا مگر میں نے طبعیت خراب ہونے کا بہانہ بنایا اور عظمی کو بھی آنکھوں آنکھوں میں
اشارے سے سمجھا دیا کہ تیار رہنا۔
میں آنٹی کے گھر سے واپس آگیا اور رات ضوفی کے سپنوں میں گزری ۔
صبح آنٹی نے دس بجے شہر جانا تھا جبکہ انکل صبح صبح ھی اپنی زمینوں پر نکل جاتے تھے اور شام کو ھی واپس آتے
تھے اور آنٹی اور نسرین کم از کم بھی ایک دو بجے سے پہلے واپس نہیں آنے والی تھیں
پیچھے عظمی اکیلی رھ گئی تو اس کے لیے مجھے بےچینی لگی ھوئی تھی کہ کب دس بجیں میرے کان گلی کی ھی طرف
تھے کہ کب تانگے کی آواز آے میں کبھی صحن میں جاتا تو کبھی کمرے میں جب ساڑھے نو بجے تو میں بیٹھک میں چال
گیا اور کھڑکی کھول کر کھڑکی کے پاس کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور ریڈیو چال کر گانے سنتے ھوے نظر باہر کو رکھی ۔
تقریبًا ایک گھنٹے کے بعد مجھے نسرین اور آنٹی گلی سے گزرتیں ہوئی نظر آئیں ۔
میں جلدی سے اٹھا اور باہر کے دروازے کا ایک پٹ تھوڑا سا کھوال اور آنکھ لگا کر دیکھنے لگ گیا ۔
۔ آنٹی اور نسرین ہمارے گھر سے آگے چلی گئ میں نے شکر ادا کیا کہ کہیں ہمارے گھر ھی نہ اجائیں ورنہ مجھے انکے
ساتھ جانا پڑنا تھا ۔
میں نے پانچ دس منٹ مذید انتظار کیا اور پھر صحن میں اگیا امی کو باہر چوک میں جانے کا کہا تو امی نے دوہزار نصحتیں
کی پھر مجھے باہر نکلنے کی اجازت ملی میں سیدھا چوک کی طرف گیا کہ کہیں انٹی لوگ واپس ھی نہ آگئے ھوں یا پھر
ابھی چوک میں ھی نہ کھڑی ہوں مگر میری خوش قسمتی کے وہ تانگے میں جاچکی تھیں ۔
میں نے دوسرے تانگے والے سے کنفرم کیا اور واپس آنٹی کے گھر کی طرف اگیا ۔
میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا میں نے درواز ناک کیا کچھ دیر بعد عظمی کی آواز آئی کون ۔
میں نے کہا۔
چورررررر۔
عظمی بولی ۔
گھر میں کوئی بھی نہیں ھے چور ساب
میں نے کہا اسی لیے تو چوری کرنے آیا ہوں ۔
میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھی نظریں دوڑا رھا تھا کہ گلی کی کوئی چغل خور عورت تو نہیں کھڑی ۔
عظمی بولی میں نے نہیں کھولنا دروازہ ۔
میں نے بھی اب ذیادہ دیر باہر ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا حاالنکہ ایسی بات بھی کوئی نہ تھی اگر کوئی دیکھ بھی لیتا تو کوئی
فرق نہی پڑنا تھا مگر اپنے دل میں چور ھو تو پھر سب پولیس والے ھی نظر آتے ہیں
میں نے تھوڑا سیریس ہوتے ھوے کہا یار کھول وی دے کہ جدوں گلی دی کسے ُبڈی نے ویکھ لیا فیر کھولیں گی
عظمی کو بھی احساس ھوا اس نے جلدی سے دروازہ کھوال تو میں بھی پھرتی سے اندر داخل ھوا ۔
اور اس مکا بنا کر عظمی کے نرم نازک گگلے سے پیٹ میں ہلکے سے مار کر ِڈشواں کیا اور سیدھا کمرے میں چال گیا
عظمی بھی دروازہ بند کرکے کمرے میں آگئی میں نے اسے کمرے کا دروازہ بند کرنے کو کہا عظمی نے کمرے کا دروازہ
بھی بند کیا اور ۔
مڑنے لگی تو میں نے اسے دروازے کے پاس ھی بانہوں میں بھر لیا عظمی اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی بے صبرے تھوڑی
دیر صبر کرلے امی حالے چوک وچ ای ہوے پاویں ۔
میں نے کہا جان من میں تسلی کر کے ھی آیا ہوں ۔
اور ساتھ ہی میں نے عظمی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے عظمی کچھ دیر مزاحمت کرتی رھی جیسے پہلی دفعہ ملی ھو ۔
پھر میں نے جب گول مٹول مموں کو دبایا اور اسکے شربتی ہونٹوں کا رس چوسا تو کچھ ھی دیر میں وہ بھی گرم ھوگئی
اور ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے بل میری گردن میں اپنے نرم مالئم ہاتھ ڈال کر کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے
ٹراوز پہنا ھوا تھا جو میں رات کو پہن کر سوتا تھا
ٹراوزر میں میرا لن فل ٹائٹ ھوکر عظمی کی رانوں میں گھسا ھوا تھا اور عظمی کا قد مجھ سے چھوٹا تھا اس لیے وہ پنجوں
کے بل ھوکر لن کو پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی ۔
ہم دونوں یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے
دروازے سے چارپائی تک کا سفر کر کے چارپائی کے قریب پہنچے ۔
).Update no (103
میں نے عظمی کو اسی پوزیشن میں چارپائی پر لیٹایا اور خود بھی اسکے اوپر لیٹ گیا عظمی کو جسم بھرا بھرا تھا اور
ممے تو اسکے کمال کے تھے گول مٹول اور تنے ھوے ۔
عظمی کے ممے میرے سینے سے لپٹے ھوے تھے کچھ دیر میں عظمی کے اوپر لیٹا اسکے ہونٹ چوستا رھا ۔
پھر اسکی ٹانگوں کو چارپائی پر کیا اور اسکا سر تکیہ پر رکھا ۔
اور خود اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔۔
میں عظمی کی ٹانگوں کے درمیان اسکی پھدی کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چھت کی طرف تنے ھوے مموں کے ساتھ
سیدھی لیٹی ھوئی عظمی کے گول مٹول مموں کو دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا ۔
عظمی سینے کو اوپر کر کے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھ کر منہ کو پیچھے لیجاتے ھوے لمبی لمبی سسکاریاں
بھرنے لگ گئی میں بھی اسکی سیکسی اداوں اور مزے سے بھر پور سسکاریوں کو فل انجواے کرتے ھوے اسکے ممے
ذور ذور سے دبانے لگ گیا۔۔۔۔
میرا لن فل اکڑ کر ٹراوزر سے باہر نکلنے کے لیے اوپر کو چھالنگے مار رھا تھا.
کچھ دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا عظمی کے مموں کا مساج کرتا رھا اور عظمی مزے سے سسکاریاں بھرتی ھوی پھدی سے
پانی کا سیالب نکال کر میرے لن کو متاثر کرتی رھی ۔
میں نے عظمی کے مموں کو چھوڑا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اوپر کو کھینچا اور اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا ۔
اور عظمی کی قمیض پکڑ کر اتارنے لگا تو عظمی بولی نہیں یاسر قمیض نہیں اتارنی کوئی آگیا تو اتنی جلدی سنبھال نہیں
جانا میں نے کہا یار کوئی نہیں آتا عظمی بولی ایسے ھی اوپر کر لو مگر میرے اصرار پر اسے ہار ماننی پڑی اور یہ کہتے
ھوے اس نے بازو اوپر کردیے کہ مرواو گے مجھے
میں
نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض پکڑ کر اوپر کر کے اسکے سر سے نکال دی باقی کی اس نے خود ھی بازوں سے نکال کر
سیدھی کر کے دوسری چارپائی پر پھینک دی میں نے جلدی سے اپنی شرٹ اتاری اور اسکی قمیض کی طرف پھینکنے لگا
تو عظمی نے میری شرٹ راستے میں ھی کیچ کر کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا کر کے پھر اپنی قمیض کے اوپر پھینک
دیا ۔
عظمی کا دودھیا ممے کالے بریزیر میں چمک رھے تھے۔
کافی عرصے کے بعد عظمی کا جسم دیکھا تھا تو عجیب سی کیفیت ھورھی تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا گورا جسم دیکھ رھا
ھوں عظمی نے جب میری نظروں کو اپنے مموں کو گھورتے دیکھا تو بریزیر کی طرف اشارہ کر کے بولی اسے بھی اتار
دوں کہ ایسے ھی کام چل جاے گا ۔
عظمی کی طنز پر مجھے ہنسی آگئی میں نے مسکراتے ھوے کہا
اتار دو گی تو مہربانی ۔
عرصہ دراز سے ان دودھ کے پیالوں کا درشن نصیب نہیں ھوا۔۔
عظمی طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے ھاتھ پیچھے کمر کی طرف لیجاکر بریزیر کی ہک کھولتے ھوے مموں پر آے اپنے
سلکی اور لمبے بالوں کو جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوے بولی لو کرلو درشن تم خوش ھو جاو۔
اس کے ساتھ ھی بریزیر کی ہک کھلی اور بریزیر نے مموں کو رھائی دی ۔
اور عظمی نے بڑے نخرے اور ادا سے بریزیر کو بازوں سے باری باری نکاال اور بڑا احسان کرتے ھوے مموں کے آگے
سے پردہ ہٹا کر مموں کو جلوہ گر کیا۔
اففففففف کیا چٹے سفید ممے گول مٹول اوپر ہلکے براون رنگ کا گول دائرہ اوپر چھوٹا سا مگر تنا ھوا نپل مموں پر بریزیر
کے نشان مموں کے احساس نرم نازک ھونے کی دلیل پیش کررھے تھے ۔
بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے پیچھے تکیے پر سر کو گراتے ھوے جب لیٹی تو
اففففففففففف کیا سین تھا کیا نظارا تھا کیا غضب ڈھاتے ھوے ممے چھلکے جیسے ابھی سارا دودھ باہر کو گر جاے گا۔
۔عظمی جس انداز سے پیچھے کو گری اسکے گول مٹول نرم ممے بھی اپنے بڑے اور جوان ھونے کا احساس دالتے ھوے
چھلک رہے تھے۔
مموں کا یہ منظر دیکھ کر میرے ھاتھ خود با خود مموں کی طرف بڑھے اور میرے ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں کو
مٹھیوں میں بھینچ لیا اففففففف کیا سوفٹنس تھی کیا سیکسی ممے تھے میں مزے لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں بھینچ رھا
تھا اور ساتھ ساتھ انگوٹھوں سے مموں پر لگے انگور کے دانوں پر مساج کر رھا تھا عظمی پھر تتڑپنے لگ گئی اسکی
آنکھوں میں نشے کے ڈورے تیرنے لگ گئے آنکھوں اور گالًو ں کی اللی بڑھنا شروع ھوگئی عظمی کی سانسیں تیز اور منہ
سے سسکاریاں بلند ہونا شروع ھوگئی ۔
)Update no (104
عظمی کی بے چینی اور یوں سیکس میں تڑپ میرے اندر لگی آگ کو مزید تیز کررھی تھی میں مموں کو چھوڑ کر عظمی
کے اوپر جھکا اور دودھ کے پیالوں سے ہونٹ لگا کر من کی پیاس جو بھجانے کی کوشش کرنے لگ گیا ۔
پیاس بھجنے کی بجاے بڑھتی جارہی تھی بڑھتی جارہی تھی آخر اتنی پیاس بڑھی کے مموں کو منہ میں لیے ھی اپنا ٹراوز
نیچے کیا اور عظمی کی شلوار کھینچ کر اسکے گھٹنوں تک کی اور جلدی سے اوپر ھوا اور اسکی ٹانگوں کو اوپر کیا اسکی
شلوار کو اتارنا بھی گوارہ نہ کیا عظمی کی شلوا اسکے گھٹنو تک تھی میرا ٹراوزر بھی میرے گھٹنوں تک تھا ۔
میں نے لن کو جڑ سے پکڑا نہ پھدی کے ساتھ ٹوپے کو رگڑ کر گیال کیا نہ تھوک لگایا یوں ھی سوکھا لن گیلی پھدی کی نرم
ہونٹوں کے درمیان پھنسایا اور ہلکا سا جھٹکا مار کر عظمی کی ٹائٹ پھدی میں ڈال دیا عظمی کے منہ سے چیخ نکلی
ھاےےےےےےے امییییی جی مگر دوسرے گھسے نے اسے ابا بھی یاد کروا دیا کیوں کہ
۔آہووووو
سارا لن پھدی کی گہرائی میں اتر چکا تھا عظمی سر دائیں بائیں مار مار رو رھی تھی مجھے پیچھے دھکیل رھی تھی مگر
میں ٹھہرا نہ بلکل گھسے مارنا شروع کردیے عظمی کی پھدی نے چند گھسوں کے بعد ھی میرے لن کو روانی دے دی لن
بھی پھدی کے پانی سے تر ھوکر فروانی سے چل رھا تھا کچھ ھی دیر میں عظمی کی آہو پکار سسکیوں میں بدل گئی میرے
گھسوں سے عظمی کے ممے چھلک چھلک کر اسکے منہ کی طرف جارھے تھے ۔
عظمی اب گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن بچے دانی تک لے رھی تھی.
کچھ ھی دیر بعد عظمی کا جسم اکڑنا اور پھدی سکڑنا شروع ھوئی اور عظمی کی انکھیں نیم بے ہوشی کا منظر پیش کرنے
لگی اس کے منہ سے
ساراااا کردے یاسرررر اندر تک کردےےےےے ساراااااا ایییییی سارررااااا اییییییی یاسررررررررر کرتی ھوئی نے ہاتھوں
سے میرے کندھوں کو اور ٹانگوں سے میری کمر کو اور پھدی سے میرے لن کو جکڑ کر جسم کو جھٹکے مارنا شروع
کردیے ۔۔ عظمی کی پھدی سے گرم گرم منی میرے لن پر گر نا شروع ھوگئی عظمی کا جسم جھٹکے کھا رھا تھا اور اسکی
ٹانگیں بری طرح کانپ رھی تھیں کہ اچانک اسکا جسم ڈھیال ھوا اور اسکے ھاتھوں نے میرے کندھوں کو ٹانگوں نے میری
کمر کو اور پھدی نے میرے لن کو چھوڑا اور عظمی نڈھال ھوکر جسم کو ڈھیال چھوڑے لیٹی رھی۔
کچھ دیر ایسے ھی لن پھدی میں رھا تو میں نے عظمی کی ٹانگیں اوپر کی اور لن باہر نکال کر عظمی کی شلوار کو پکڑ کر
گھٹنوں سے نیچے کر کے اتارنے لگا ابھی میں نے شلوار کو ہاتھ ھی لگایا تھا کہ عظمی کو ایکدم جھٹکا لگا اور اس نے
بجلی کی سی تیزی شلوار کو پکڑ لیا اور مجھے اتارنے سے منع کرنے لگ گئی میں اسکے اس ردعمل پر حیران ھوگیا کہ
اسے اچانک کیا ھوا اب پیچھے بچا ھی کیا ھے جو یہ چھپا رھی ھے ۔
میں شلوار کو نیچے کھینچتا مگر عظمی شلوار کو اوپر کھینچتی ۔
عظمی بس یہ ھی کہی جارہی تھی کہ میں نے ساری شلوار نہیں اتارنی ایسے ھی کرلو اگر کرنا ھا ۔
میرا تجسس بڑھتا جارھا تھا کہ آخر کیا وجہ ھے پہلے تو کبھی اس نے اتنی مزاحمت نہیں کی ۔
میں نے آخر کار بڑی مشکل سے اسکے ہاتھوں سے شلوار چھڑوائی اور ذبردستی اسکی شلوار کھینچ کر جب ٹانگوں سے
علیحدہ کی تو عظمی چیخ مار کر اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔
میں نے اسکے رونے کی پروا کیے بغیر اسکی ٹانگوں کو اوپر کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کی طرف لیجانے لگا جیسے ھی
میری نظر اسکی پھدی پر پڑی اور جب میں نے غور سے دیکھا تو میں ایکدم جھٹکے سے ایسے پیچھے کو گرا جیسے
مجھے چالیس ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا ۔
عظمی اونچی آواز میں روے جارھی تھی ۔
پھدی دیکھ کر میرا سرچکرانے لگا میں ایک جھٹکے سے اٹھا اور عظمی کے منہ پر ایک ذور دار تھپڑ مارا اور پوچھا کہ
یہ پھدی کو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
..میں نے دوبارا ایک نظر عظمی کی پھدی پر ڈالی عظمی نے دونوں ہاتھ پھدی پر رکھ کر ٹانگوں کو جوڑ کر ایک طرف
اکھٹی ھوگئی میں غصے سے چارپائی سے اتر کر کھڑا ہوگیا اور عظمی کے بالوں کو پکڑا اور بالوں کو جنجھوڑ کر بوال
گشتی جھوٹی مکار یاروں کے نام لکھوانے کے لیے پھدی ھی ملی تھی ۔
عظمی اونچی آواز میں روتے ھوے بولی ۔
یاسر مجھے معاف کردو ۔
بے قصور ہوں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ھے ۔
میں نے عظمی کے سر کے بالوں کو جھٹکا دے کر چھوڑا بوال بکواس بند کر خرافہ مکار عظمی بولی مار لو مجھے جتنا
تمہارا دل کرتا ھے کہہ لو جو کہنا ھے میں ہوں ھی اسی الئک اسی لیے میں تم سے دور بھاگتی تھی مجھے پتہ تھا کہ تم
سارا الزام مجھ پر ھی لگاو گے ۔
میں نے ایک اور تھپڑ عظمی کے منہ پر دے مارا اور ٹراوز اوپر کرکے ڈوری باندھتے ھوے بوال بکواس بند کر کتیا۔۔۔
اب میں تیرے مکر میں نہیں آوں گا ۔
اور میں باہر کی جانب لپکا ۔
عظمی ننگی ھی جمپ مار کر چارپائی سے اتری اور بھاگ کر مموں کو چھلکاتی ھوئی میرے پیچھے آئی اور مجھے
دروازے سے پیچھے ھی روک کر میرے سامنے ھاتھ جوڑ کر روتے ھوے بولی یاسر میری بات تو سن لو مجھے ایک
موقعہ تو دو کہ میں اپنی صفائی پیش کرسکوں ۔
میں نے کہا ۔
پیچھے ہٹ جا بے غیرت جھوٹی ورنہ تجھے جان سے ماردوں گا ۔
عظمی نے میرے ھاتھ پکڑے اور اپنے گلے پر رکھتے ھوے بولی ۔
مارو مجھے مار دو مجھے میرا گال دبا دو
میں زندہ بھی نہیں رہنا چاہتی ۔
میں نے جھٹکے سے اپنے ھاتھ اس سے چُھڑواے اور اسے پیچھے کو دھکا دیتے ھوے بوال ۔
جا اپنے یاروں کے پاس جا اس کو کہہ کہ تیرا گال دباے جن کے نام پھدی پر لکھواے پھر رھی ھو گشتی عورت کیا میرا لن
کم پڑ گیا تھا جو دو دو یار بنا لیے رنڈی ہو تم رنڈی ۔
عظمی جو میرے دھکے سے پیچھے جاگری تھی نیچے ھی گھیسی کر کے میری ٹانگوں کی طرف بڑھی اور میری ٹانگوں
کو بازوں میں بھر کر ٹانگوں سے چمٹ گئی اور بولی یاسر میں بے قصور ہوں بے قصور ھوں میری ایک دفعہ بات تو سن
لو ۔
میں نے ٹانگیں چھڑواتے ھوے کہا
میں نے تیری کوئی بات نہیں سننی چھوڑ میری ٹانگیں
تم ایک پلید عورت ھو رنڈی ھو تم رنڈی ۔
عظمی بولی ۔
ایسے میں تمہیں نہیں جانے دوں گی جب تک تم میری بات نہیں سنو گے ۔
مجھے بس ایک موقع دے دو ۔
اس کے بعد جو تمہارا دل کرے وہ کرنا میں کچھ نہیں کہوں گی
عظمی کی حالت دیکھ کر مجھے ترس بھی آنے لگ گیا جیسے وہ میرے پیر پکڑے گڑگڑا رھی تھی بلبال رھی تھی
مگر اسکی پھدی پر لکھے دو نام میرا دماغ خراب کر رھے تھے ۔
باالخر میں نے کہا ہاں کرو بکواس کیا کرنی ھے بولو جھوٹ کیا بولنا ھے بناو نئی کہانی کیا بنانی ھے ۔
مگر ایک بات یاد رکھنا اب میں تیرے مکر میں نہیں آوں گا۔۔
عظمی بولی ۔
یاسر بس ایک دفعہ میری بات سن لو پھر تم یقین کرنا یا نہ کرنا مجھے اسکی پرواہ نہیں مگر میں تمہیں سچ بتا کر اپنے دل
سے یہ بوجھ ہٹانا چاہتی ھوں۔
تم جو سزا میرے لیے تجویز کرو گے میں ہنس کر قبول کروں گے ۔
نہ یقین کرو گے تو مجھے پھر بھی دکھ نہیں ھوگا ۔
مگر میرا ضمیر مطمئن ھوجاے گا میرے دل پر سے یہ پہاڑ ہٹ جاے گا جس کے بوجھ سے ہر وقت میرا سانس رکتا ھے
اورمیں اندر ھی اندر سے صبح شام مرتی جارھی ہوں ۔
میں تھوڑا سا نرم ھوا ۔
اور بوال ھاں بتاو کیا بتانا ھے ۔
عظمی کھڑی ھوئی اور بولی چلو ادھر چارپائی پر بیٹھو بتاتی ہوں سب ۔
میں نے کہا ادھر بتاو۔
عظمی میرا بازو پکڑ کر کھینچتے ھوے بولی چلو تو بیٹھ کر بتاتی ھوں ۔
میں بوجھل قدموں سے چارپائی کی طرف چل پڑا ۔
اور عظمی کو کہا کہ پہلے کپڑے پہنوں مجھے تمہارے اس ننگے وجود سے گھن آرھی ھے ۔
عظمی اثبات میں سر ہالتے ھوے ناچارگی سے اپنے کپڑے پہننے کے بعد بولی
)Update no(106
مگر مجھ کو ایک انجانے سے خوف نے گھیرا ھوا تھا۔
اسد نے جب مجھے سوچ میں پڑے دیکھا تو
جلدی سے کار کے آگے سے گھوم کر میری طرف آیا اور خود ھی میری سائڈ کا دروازہ کھول کر مجھے بازو سے پکڑ کر
باہر آنے کا کہا
میں نے پھر کہا اسد پلیز چلو یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رھا
تو اسد نے مجھے پھر بہالتے ھوے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے جو تم ایسے کررھی ھو میرا دوست کیا سوچے گا ۔
کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔
یاسر مجھ سے یہاں سے بس غلطی ہوئی جو میں نے اسد کے منہ سے جب بھابھی کا لفظ سنا تو
میرا سارا ڈر اور خوف ایکدم سے جاتا رھا اور میں بدنصیب اسی میں ھی خوش ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی بیوی
بنانے کا بھی سوچ لیا ھے اسی لیے تو میں اس کے دوست کی بھابھی ہوئی ۔
میں باہر نکلی اور اسد کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔
اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور
میری طرف اپنی سرخ بڑی بڑی سی آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد سے بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور اسد کا حال
احوال پوچھنے لگ گیا ۔
اس دوران بھی اس کی نظریں مجھ پر ھی جمی ھوئی تھیں
اور بڑی ہوس بھری نظروں سے مجھکو سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا۔
میں اسکی نظروں کی تاب نہ التے ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی
مگر اب بھی مجھے ایسے محسوس ھورھا تھا کہ
اس آدمی کی آنکھیں میری بیک میں ُچبھ رھی ہیں ۔
اسد سے گلے ملتے ھوے وہ شخص ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا
اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے مجھے دوسری طرف منہ کیے کھڑے ھوے دیکھا
تو مجھے مخاطب کر کے بوال
عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری جموں ہے
اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ
مگر اپنا جگری یار ھے
اور اکری یہ میری ہونے والی بیگم اور تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔
اکری نے پھر مجھے سر سے پاوں تک دیکھا اور
بوال واہ یارا
کیا بھابھی ڈھونڈی ھے
ہیرا ھے ہیرا
خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی
اسد بوال
یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا ھے
یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے
تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں
پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے جانا ھے ۔
اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال
او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے
جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی مار
سکتی ۔
.اور اکری پھر بڑے غور سے میرے سینے کی طرف دیکھتے ھوے بوال
چلیں بھابھی جی آپکو آپکا کا کمرہ دیکھاوں ۔
یاسر میری جب بھی نظر اکری کی سرخ اور خطرناک آنکھوں پر پڑتی تو میرا جسم کانپ جاتا
اور جب میں بھابھی جیسا شبد اس کے منہ سے سنتی تو مجھے کچھ حوصلہ ہو جاتا۔
اکری بڑی شان سے ہمارے آگے چلتا ھوا
حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف بڑھنے لگا
اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے سے دروازے کو کھول کر اندر داخل ھوا
میں جب اندر داخل ھوئی تو حیرانگی سے اندر بڑے سے حال کو دیکھنے لگ گئی
باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ رھی تھی
عظمی حیرانگی سے چاروں طرف دیکھے جارھی تھی
حویلی میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا اعالن کررھی تھی ۔
حال کے اندر کافی سارے دروازے تھے
جو شاید کمروں کے تھے ۔
اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا جس کا دروازہ باقی کمروں کے مقابلے میں بڑا
تھا جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے چاروں طرف کا جائزہ لیا مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رھی
ہوں
کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور سامنے بڑی سی الماری جس میں فل سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا تھا
اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں
مہنگے سے مہنگا ایک سے بڑھ کر ایک ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا تھا اسد نے مجھے یوں حیران ہوتے دیکھا تو آگے بڑھا
اور مجھکو کندھوں سے پکڑ کر قریب کرتے ھوے
ہاتھ میرے منہ کی طرف لیجا کر میرا نقاب ہٹا دیا
اور بوال
عظمی یہ کمرہ تو کچھ بھی نہیں ھے میں نے تو اس سے بھی بڑھ کر تمہارے لیے کمرہ تیار کیا ھوا ھے جس میں تم دلہن
بن کر جاو گی ۔
یاسر مجھے میرے اللچ اور اونچے خوابوں نے سب کچھ بھال دیا اور میں پھر اسکی چکنی باتوں میں آکر خوشی سے اس
کے ساتھ چمٹ گئی ۔۔
اسد نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور مجھے یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ میں ابھی آیا ۔
)Update no (107
میرے پاگل دماغ نے پھر بھی کام نہ کیا کہ یہ مجھے چھوڑ کر باہر کیوں گیا ھے ۔
میں اسد کے جانے کے بعد ۔بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ ایسے نرم بیڈ پر میں یاسر کی دلہن بن کر بیٹھوں گی اور
اسکے ساتھ سہاگ رات منانے کا کتنا مزہ آے گا اور پھر میری نظر ایک کونے میں پڑے شاندار ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس
پر بڑے سائز کا شیشہ لگا ہوا تھا میں بے اختیار ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گئی
کہ ایکدم میرے ضمیر نے مجھے جنھجوڑا
کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے جارھی ھے
کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے تاکہ اسے
پہلے ہی پتہ چل جاے کہ تو کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے
پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا ہرگز ھی نھی
اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ جاے گی اسد تجھے چودنے کے بعد تجھ پر تھوکے گا بھی نھی
آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر اس سے شادی
کے خواب دیکھ رھی ھے
کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے والی معمولی سی لڑکی
اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم سے
شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔
یاسر میں اپنے ضمیر کی جھاڑ سن کر جیسے ھی مڑنے لگی کہ مجھے اچانک اپنے کندھوں پر ھاتھ محسوس ھوے میں نے
جلدی سے گھوم کر دیکھا تو اسد کھڑا مسکرا رھا تھا
اسد میرے اتنا قریب تھا کے ہم دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ رھی تھیں اور میرا سینہ اسد کے سینے کے
ساتھ لگ رھا تھا میں ایکدم گبھرا کر پیچھے ھوئی تو ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ لگ گئی
اسد میرے اور قریب ھوا اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال
جان من شیشے میں اپنے حسن کا جائزہ لے رھی تھی
کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا پروگرام ھے ۔
میں گبھرا کر اسد کو پیچھے کرتے ھوے پھر دروازے کے پاس آگئی اور
بند دروازے
کی طرف دیکھنے لگ گئی
مجھے لگا جیسے دروازہ کھال ھوا ھے
جب اسد واپس میری طرف مڑا تو میں نے اسد سے کہا کہ کنڈی تو لگا دو
اسد ہنس کر بوال
جان یہ آٹوالک ھے
انکی کنڈیاں نھی ہوتی
میں نے جب غور سے دیکھا تو واقعی دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی تھی ۔
میں شرمندہ سی ہوگئی
اپنے پینڈو پن پر ۔
اسد پھر میرے پاس آکر کھڑا ھوگیا
اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی مجھ سے کیسی شرم
اور پھر مجھکو کو ساتھ لگانے لگا تو میں نے اسکو روکتے ھوے کہا ۔ ایک منٹ رکو تو سہی
اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا
میں نے اسے کہا ایک بات تو بتاو
اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں کرنے کا نھی ھے
باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی ھے
مگر میں اسد کو پیچھے کرتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گئی
اور اسد
میرا منہ تکتا رھ گیا۔
اسد بوال کیا ھے یار
ایسے کیوں کررھی ھو۔میں نے کہا
اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے
تم تو ایسے کررھے ھو جیسے
میں کہیں بھاگی جارھی ہوں
ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔
اسد کے چہرے پر غصہ جھلک رھا تھا مگر وہ کنجر غصے پر قابو کرتا ھوا کندھے اچکا کر میرے پاس بیٹھ گیا۔
اور پھر مسکہ لگاتے ہوے میرا ہاتھ پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔
میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا
کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے
ہم لیٹ نہ ہو جائیں
میں دیوار پر لگے کالک کی طرف دیکھتے ھوے بولی
ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے
بہت ٹائم پڑا ھے ۔
اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے جناب کی مرضی
پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر ھورھی ھے
پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔
میں مسکرا کر اسد کی طرف دیکھتے ھوے بولی
نھی کہتی جی۔
جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے
اب خوش
مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔
اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے
بولو کیا پوچھ رھی تھی
اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو
میں نیچے جھک کر سکول شوز اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔
اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور مجھکو کو بھی اپنے قریب لیٹنے
کا کہا۔
میں چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
.اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور مجھکو کو بھی اپنے قریب لیٹنے
کا کہا۔
میں چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔
اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو اتار دو۔
میں نے اسے ٹالتے ھوے کہا اچھا اتارتی ھوں
اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔
اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر میرے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا۔
اور آہہہہ بھر کر بوال
جی بولو
میں اسکے طنزیہ انداز سے
جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
اسد تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو
کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے لیے بالیا تھا
کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق ھی رکھنا چاھتے ھو۔
اسد نے مجھے جب روہانسے انداز میں بولتے ھوے دیکھا
تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ھوے بوال
نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے
۔کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی ھے
میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا چاھتا ہوں
میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں گے وہ کریں گے
میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں گے ۔
)Update no(108
میں اس کنجر کی باتوں میں پھر آ گئی اور اس پر بھروسہ کرتے ھوے اپنے ضمیر کو ھی برا کہنے لگی کہ اسد نے میری
گردن میں بازو ڈال کر میری گال پر ہاتھ رکھتے ھوے ۔
میرا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگا تو
میں نے جلدی سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا
اور اسد کے ہونٹ میرے ہاتھ کو چومتے ھوے واپس پلٹے اور
اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال
یار یہ کیا حرکت ھے
کیا میں اس الئک بھی نھی کہ
تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں
میں نے پیار سے اسے کہا نھی ابھی نھی
جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح بھی تمہارے قبضے میں ھوگی
مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔
اسد حیران ہوتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے بوال
میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا وقت
ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا
میں نے اسد کے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو
تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے
میں نے کہا شک نھی مگر تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں
اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے کہا
ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے پیار کرتا ھوں میں نے کہا
مجھ سے شادی کرو گے نہ
اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے ھوے کہا۔
ماں قسم کروں گا۔
میں نے پوچھا
کب
اسد بوال
جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی
میں نے کہا
تو ایسا نھی ھوسکتا۔
کہ ہم جسمانی تعلق
سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔
یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزرگئی
مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور
پھر مجھکو اپنی طرف کھینچتے ھوے بوال
شادی سے پہلے بھی میں نے ھی کرنا ھے
اور شادی کے بعد بھی میں نے ھی کرنا ھے
تو پہلے اور بعد میں کیا فرق
میں نے کہا فرق ھے نہ
میرا دل کہتا ھے کہ ہم جو بھی کریں گے سہاگ رات کو ھی کریں گے اس سے پہلے کچھ نھی کریں گے ۔
اگر تم مجھ سے سچا پیار کرتے ھو اور شادی کرنا چاھتے ھو تو تمہیں میری بات ماننا پڑے گی
اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا ھوں
مگر میری بھی ایک شرط ھے
میں خوش ھوکر بولی
میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں
اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے
مگر آج موقع ھے
مجھے پیار تو کرنے دو۔
کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا لہجہ روہانسہ ہوگیا
جیسے ابھی رونے لگا ھو۔
میں نے جلدی سے اسد کے گالوں پر ھاتھ رکھا اور اپنے ہونٹ اسد کے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے
لگ گئی
.ہم دونوں کافی دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے
اسد سے ذیادہ میں تجربہ استعمال کر رھی تھی جو یاسر تم سے سیکھا تھا اور بڑی مہارت سے اسد کے ہونٹ کو چوستی تو
کبھی اسکی زبان کو اپنی زبان سے پکڑنے کی کوشش کرتی مجھ کو اپنی مہارت دیکھانا مہنگی پڑی
اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی سمجھ رھا تھا
وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔
ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر رھا ھوگا ۔
تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے .۔
اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور ساتھ ساتھ سوچوں میں گم وہ میرے مموں کو ایک ھاتھ سے باری باری پکڑ کر دبا رھا
تھا۔
میں نے دونوں ھاتھوں سے اسد کا سر پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے اپنے ہونے والے شوہر کے ہونٹ چوس رھی تھی
کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے ھو ے مجھکو بھی ساتھ لیٹانے لگا
میں بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے
کے ہونٹوں کو چوس رھے تھے
اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے لیے بے چین تھا اور میری پھدی کے ساتھ لگ رھا تھا میں بھی مزے میں ڈوب چکی
تھی اور کچھ دیر پہلے کی سوچ میرے دماغ سے نکل چکی تھی
میرا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا اعالن کررکھا تھا
اسد نے آہستہ اہستہ مجھکو سیدھا لیٹا دیا اور میری قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر میرےبپیٹ پر پھیرنے لگ گیا
میرے سرور میں اور اضافہ ہوگیا
اور میں اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے پر ُت ل گئی اسد نے جب میرا یہ جنون دیکھا کہ میں اب فل گرم ھوگئی ھوں تو
اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا شروع کردیا
اور آخر کار اسد کا ہاتھ میرے مموں تک پہنچ گیا
اور اسکا ہاتھ میرے مموں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گیا میں اسد کے ہاتھ کے لمس سے مزید بے چین ھوکر اپنی پھدی کو
اسکے پینٹ کے ابھار پر رگڑنے لگی
اسد کو بھی علم ھوگیا کہ .لوہا اب مکمل گرم ھو چکا ھے
تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے لیجا کر اپنے پینٹ کی زپ کھولی اور
انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ سے باہر نکال لیا
اور پھر ھاتھ اوپر کر کے میرے مموں کو دبانے لگا
میں اپنی مستی میں گم تھی
مجھے پتہ ھی نھی چال کہ
نیچے کیا واردات ھونے والی ھی
اسد نے لن میری شلوار کے اوپر سے ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا
میں نے لن کو اپنے چڈوں میں بھینچ لیا اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی
اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ نیچے لیجا کر میری السٹک والی شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر رکھ دیا پھدی تو
پہلے نکو نک بھری ہوئی تھی جیسے ھی اسد کی انگلیاں میری پھدی سے ٹکرائیں میرے منہ سےلمبی سسکاری نکلی
اور میں نے سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی گھوم کر اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے اپنے بازوں میں جکڑ کر کس لیا اور ساتھ
ھی چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو جکڑ لیا
اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور میری سانسیں اکھڑنے لگی
اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں بھی تھم گئی
اور میراجسم ڈھیال پڑ گیا
اسد نے جلدی سے میری گیلی پھدی سے ھاتھ ہٹایا اور میری شلوار سے ھی ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے مجھے اپنے
ساتھ چمٹی ھوئی کی گانڈ سے شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے نیچے کی
اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے لگا
جیسے ھی میری پھدی کے ساتھ اسد کا لن ٹچ ہوا
تو مجھے ایکدم ہوش آگیا اور میں نے اسد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے سینے پر
رکھتے ھوے اسے زور سے دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور
اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کرنے لگے تھے
میرے اچانک دھکے سے
اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا
اور غصے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے مجھے گھورنے لگ گیا ۔
اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے
عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے تھے
تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا کر وعدہ کیا تھا
کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں گے
مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد ۔ غصے سے بوال
یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ اتنی پارسا بن رھی ھو۔
میں اسد کی پارسا والی بات سن کر حیران ھوتے ھوے بولی
اسد کیا مطلب ھے تمہارا
۔اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب صاف ھے کہ
تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ کروانے لگی ھو۔
یاسر بیشک تم نے میرے ساتھ بہت دفعہ کیا تھا مگر نجانے کیوں
میرا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا
اور میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصے سے بولی
کیا بکواس کر رھے ھو اسد
تو اسد ہنستے ھوے بوال بکواس نھی سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے میرے ساتھ کسنگ کر رھی تھی
کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔
میں اسد کی بات اور طعنہ سن کر رونے والی ھوگئی
اور روتے ھوے بولی
اسد بکواس بند کرو
میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر پیار کیا کر لیا
تو تم
میری محبت میرے پیار میرے اعتماد
کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے
ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔
میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں آگئی
اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی آئی
خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی شکل بھی دیکھائی
جھوٹے مکار
اور یہ کہتے ھوے میں نے اپنی چادر اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔
تو
اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال
جا کدھر رھی ھو جان من
میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل نھی رہو گی
اور
ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو مگر جاو گی میری مرضی سے
چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو
مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا
کہ میںن نے ایک ذور دار تھپڑ اسد کے منہ پر مارا
اور روتے ھوے بولی
جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام زادے
میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا سب ڈرامہ کیا تھا
میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک کر دیکھاو ۔
دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے
میں یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا
اس نے
مجھے بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا
اور خود میرے پیٹ پر سوار ھوگیا اور میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے میں ٹانگیں چال رھی تھی اور اونچی آواز میں اسد کو
گالیاں دے کر ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی
اسد نے جیسے تیسے میرے دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک ھاتھ میں کیں
اور ایک ذور دار تھپڑ میرے منہ پر مارتے ھوے بوال
ُچپ کر گشتئے
تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی
آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے
آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے والی
تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی بیڈ پر چودتا ھوں
اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا
پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب برابر ھوگا ۔
ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں دو لن جائیں گے
اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ
اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے
تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی میں اسد کا تھپڑ کھانے اور اسکی دھمکیاں سننے کے بعد
سہم گئی اور انکھیں پھاڑے اسد کو دیکھی جارھی تھی
اسد کے خاموش ہوتے ھی میں اسپر چالئی
چھوڑ مجھے کتے
میں یاسر کو بتاوں گی
اور اپنے ابو کو بھی
تو اسد غصے سے بوال
جا دس دے جنوں دسنا ای
لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی
میں خود کو بے بس محسوس کرنے لگ گئی تھی
ایک تو انجان جگہ دوسرا میں اکیلی جان
اوپر سے مجھے یہ خوف کہ
اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا لیا میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔
میں نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات کا اثر نھی ھورھا تو
میں نے پھر روتے ھوے اسد کی منتیں شروع کردیں اور
بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ مجھے جانے دو
۔تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا بیتے گی
میری عزت نہ خراب کرو
میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں گے
اسد نے میری بات سنی ان سنی کی اور پیچھے ھو کر میری ٹانگوں کے پاس پہنچ کر میری شلوار پکڑ کر نیچے کھینچ دی ۔
میں نے ایک ذور دار چیخ ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ آگے کی اور پورے زور سے اپنی ٹانگ اسد کے لن پر ماری ۔
اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا
اور ایک ذور دار چیخ مارے
ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی باہر کا
دروازہ دھڑم سے کھال اور اکری ایکدم اندر داخل ھوا اور پہلے اس نے مجھے دیکھا اور پھر جب اسکی اسد پر نظر پڑی
جو بیڈ سے نیچے گرا تڑپ رھا تھا تو وہ مجھے گھورتا ھوا اسد کی طرف بھاگا .اور جاکر اسد کوپکڑ کر کھڑا کرنے لگ
گیا ۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور چادر ھاتھ میں پکڑی اور ننگے پاوں باہر کی طرف بھاگی ۔
مگر میں جیسے ھی دروازے سے باہر نکلی تو سامنے ایک بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش ہاتھ میں گن لیے میرے سامنے
آکر کھڑا ہوگیا اور میرے قریب پہنچ کر ایک زوردار تھپڑ میرے منہ پر مارا تو میں الٹی واپس کمرے کے اندر گری تو اس
نے ساتھ ھی دروازہ باہر سے بند کردیا ۔
اور میری جیسے ھی پیچھے نظر پڑی تو میری جان حلق میں اٹک گئی کہ ...
........
..میں بڑے غور سے عظمی کی بات سن رھا تھا ۔
عظمی ایکدم اونچی اونچی رونے لگ گئی ۔
میں جو پہلے اسکی یہ سب باتیں سن چکا تھا ۔
تو میں جھنجھال کر غصے سے بوال بس یہ ھی بکواس سنانی تھی جو پہلے بھی سنا چکی ھو ۔
اور میں ساتھ ھی کھڑا ہوگیا عظمی روتے ھوے ایکدم چپ ھوگئی اور بولی پوری بات تو سن لو ۔
میں غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے دوبارا بیٹھ گیا ۔
عظمی بولی ۔
میں نے جب پیچھے مڑکر دیکھا تو اکری میری طرف بڑے غصے سے بڑ رھا تھا
اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر دوبارہ دروازے کی طرف بڑھتی اکری نے مجھے سر کے بالوں سے پکڑا اور مجھے کھڑا
کرتے ھوے بوال بڑی جلدی ھے تجھے اکری کے پنجرے سے آزاد ہونے کی ۔
یہاں ہر لڑکی اپنی مرضی سے آتی ھے مگر جاتی اکری کی مرضی سے ھے ۔
یہ کہتے ھوے اکری نے مجھے بالوں سے پکڑے بیڈ کی طرف گھسیٹتے ہوے لے گیا اور میں بے بس الچار روتی ہوئی
اسکی منتیں کرتی ہوئی اس کے آگے گڑاگڑاتی رھی مگر اس ظالم اور سفاک شخص نے میری ایک نہ سنی اور مجھے
گھسیٹتا ہوا بیڈ کے پاس لے گیا اور پھر ایک ذوردار تھپڑ میرے منہ پر مارا مجھے ایسے لگا جیسے میری گال پر کسی نے
ہتھوڑا ماردیا ھو اس کا ہاتھ کم اور لوھا ذیادہ تھا ۔
میں تھپڑ کھاتے ھی لڑکھڑا کر بیڈ پر جاگری ۔اور اس کو واسطے دینے لگی پھر گڑگڑانے لگی کہ شاید اس کے دل میں
رحم آجاے مگر وہ نشے کی حالت میں جھوم رھا تھا اسکی نشے سے چور بڑی بڑی خوفناک آنکھیں میرے سینے پر ٹکی
ہوئیں تھی ۔
۔دوستو آگے سٹوری میں سیکس کی منظر کشی اور سٹوری میں عظمی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس نے سادہ الفاظ میں
مجھے بتایا تھا مگر اس سین کو مذید سیکسی بنانے کے لیے عظمی کی بات کو میں اپنے انداز
کروں گا explainمیں
امید ھے آپکو اعتراض نہی ھوگا یہ تبدیلی صرف آپ کی انٹرٹینمنٹ کے لیے کررھا ھوں.۔
ادھر اسد بھی کھڑا ھوگیا تھا اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے مسل رھا تھا اور ساتھ میں اکری کو کہہ رھا تھا ۔
اکری اج اے گشتوڑ ایتھوں ُسکی نہ جاوے ایدی پھدی نوں اج ُپھدا بنا کے پیجنا اے ۔
یہ کہتے ھوے اسد بھی بیڈ کی دوسری سائڈ سے میری طرف بڑھنے لگا ۔
اب ایک طرف اکری کھڑا تھا اور دوسری طرف اسد ۔
اکری اپنی مکرو شکل کو مذید بگاڑتے ھوےمونچھوں کو تاو دیتے ہوے بدمعاشی انداز میں قہقہہ لگا کر ہنسا تو اس کے
گندے دانت نظرے آنے لگے اور وہ بوال ۔
او توں فکر نہ کر اینا ذبردست تے مست مال میں ُسکا کیویں جان دیواں گا ۔
پنڈ دی پلی ہوئی جوانی اج میرے ہتھے چڑی اے تے نالے لگدے ہتھ تیرا بدلہ وی لینا اے ۔
جیڑے لن تے اینے لت ماری سی اج او ھی لن ایسے منہ وچ جاوے گا تے اے چوسے گی ۔
ھا ھا ھا ھا ھا ۔
اسد بوال ۔
ہاں اکری یار اس سالی نے میرے لن پر ٹانگ ماری تھی یہ تو شکر ھے کہ اس گشتی کا پیر میرے ٹٹوں پر نہی لگا ورنہ
میں تو گیا تھا۔
چل آج اسکی سہاگ رات کا ارمان سہاگ دن کو پورا کر دیتے ہیں ۔۔اور ایک لن کے ساتھ ایک لن منہ دیکھائی میں گفٹ بھی
دیں گے
ھا ھا ھا ھا ھاھا ۔
میں سہمی ہوئی بیڈ پر سمٹی ہوئی کبھی اکری کی طرف س دیکھتی تو کبھی اسد کی طرف ۔
مگر دونوں کی طرف سے مجھے کوئی رحم کی امید نظر نہ آرھی تھی بلکہ
دو دو لن ایک ساتھ لینے کی یقین دہانی کرائی جارھی تھی ۔
میں نے جب دونوں کے دل کہ ارمان انکی زبانوں سے سنے تو میرا حلق خشک ھوگیا خوف کے مارے میرا جسم کانپنے
لگ گیا میرے ہونٹ ایسے تھرتھرانے لگے جیسے دسمبر کی راتوں میں بارش میں بھیگ جانے کے بعد سردی سے
تھرتھراتے ہیں ۔
میں مذید سمٹتی ھوئی پیچھے بیڈ کی ٹیک کے ساتھ جا لگی اور اونچی آواز میں چالنے لگی بچاو مجھے بچاو بچاو ۔
میں مدد کے لیے چال رھی تھی اور وہ دونوں میں میرا تمسخر اڑاتے ھوے ایک ساتھ قہقہے لگا رھے تھے اور ساتھ ساتھ
مجھے اکسا رھے تھے اور اونچی آواز میں مدد کے لیے بالو اور اونچی چالو شاید کو آجاے تمہیں بچانے ۔
ھا ھا ھا ھا
اکری بوال
مگر کان کھول کر سن لے تیری آواز اس حویلی سے باہر تو دور کی بات ھے اس کمرے کے باہر کھڑے میرے گن مین بھی
نہیں سن سکتے ۔
سمجھی
پھر بھی تو چال کر اپنا شوق پورا کر اور ہم تیری مست جوانی کے ساتھ من مستیاں کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں
ھا ھا ھا ھا
آہستہ آہستہ ان دونوں کے قہقہے بلند ہوتے گئے اور میری آواز دبدتی گئی بالخره انکے مکرو قہقہوں میں میری پکار دب
گئی اور دونوں ایک ساتھ میرے دائیں بائیں بیڈ پر بیٹھے اور دونوں کے ہاتھ میرے جسم کی طرف بڑھے ۔
میں نے جب ان دونوں کو اپنے اتنے قریب دیکھا تو اٹھ کر سامنے کی طرف بھاگنے لگی تو میرے ایک بازو کو اکری نے
پکڑ لیا اور میرے دوسرے بازو کو اسد نے پکڑ لیا اور کھینچ کر مجھے واپس بیڈ پر پھینکا تو میں بلکل سیدھی بیڈ پر آکر
گری میرے جسم پکو صرف سکول یونیفارم تھا ۔
میری چادر پہلے ھی اتر چکی تھی ۔
جب میں پیچھے کو گری
تو میرے بڑے بڑے تنے ہوے ممے ذور سے ہلے ۔
میرے ہلتے ھوے چھلکتے ھوے مموں کو اکری نے جب دیکھا تو ۔
اس نے سییییییییی افففففففففف ھوے اوے کیا ُببے ہیں اور دوسرا ہاتھ میرے ممے پر رکھ کر میرے ممے کو اپنے بڑے سے
ہاتھ میں لے کر دباتے ھوے بوال
اسد یار کیا مال گھیر کر الے ھوے دل خوش کردیا اسکے ممے اتنے ذبردست ہیں تو اسکی پھدی اور گانڈ کیسی کمال
ہوگی ۔
واہ یار آج تو تم نے دل خوش کردیا اب سمجھ لے تو میرا خاص بندا ھے ۔
اسد نے کسی خادم کی طرح سینے پر ہاتھ رکھ کر سرخم کیا۔
اکری نے میرے بڑے سائز کے ممے کو اپنی مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور دبا دبا کر مزے سے .افففففففف یارررررر کیا فوم
ھے ۔۔۔
میں چیخ چیخ کر تھک چکی تھی میرا گال بیٹھ گیا تھا ۔مجھے اب پورا یقین ھو چکا تھا کہ میں کسی صورت میں دولن لیے
بغیر ۔یہاں سے نہیں جاسکتی ۔
مجھے اسد سے ذیادہ اس دیوقامت اکری سے خوف آرھا تھا ۔
جسکا قد اتنا بڑا جسکے ھاتھ اتنے بڑے کہ میرے اتنے بڑے ممے کو پورا ھی ہاتھ میں لے لے اسکا لن کتنا بڑا ھوگا ۔
مارے خوف کے اے سی والے کمرے میں مجھے پسینہ آرھا تھا ۔
اتنے میں اکری نے اسد کو کہا کہ یار کیمرا تو پکڑ کے ال اس پھلجڑی کی ساتھ فلم بھی بناتے ہیں ۔
بچی ٹائٹ ھی مشکل وقت میں کام آے گی ۔
اور جب چدتے ھوے اسکی فلم ہمارے پاس ھوگی تو جب چاہیں گے یہ مٹیار دوڑی چلی آے گی ۔۔۔
ورنہ تو یہ
ُ.پھر ہوجاے گی ۔
ایسا مال بار بار ہاتھ نہیں آتا۔
میں نے جب اپنے چدنے کی فلم بننے کا سنا تو میں نے پھر پھٹی آواز میں چالنا شروع کردیا مگر کون تھا جو میری پکار
سنتا اسد میرا بازو چھوڑ کر کمرے میں بنے ایک اور دروازے کی طرف بڑھا میں نے جب اسد کو کیمرہ لینے جاتے دیکھا
تو میں نے پورا زور لگا کر اکری سے اپنا بازو ُچ ھڑوانے کے لیے ذور لگایا مگر میرے بازو پر اسکی گرفت ایسی تھی
کے میرا سارا ذور لگانا بھی میرے کام نہ آیا۔
میں نے جب دیکھا کہ اب میرا بچنا نہ ممکن ھے تو میں نے اکری کو ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کردیں ۔
اکری ہنستا ہوا ایکدم سیریس ھوا اور وہ اپنے دیوقامت جسم کے ساتھ بیڈ پر چڑھا اور میرے سامنے آتے ھی اس نے میرے
منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا اور بوال گشتی کی بچی مجھے گالی دیتی ھے اکری جمو کو گالی دیتی ۔
اسکے ساتھ ھی پھر میرے منہ پر تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی اکری نے میرے دونوں بازوں کو کالئیوں سے اپنے ایک
ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا اور مجھے گندی فاحشہ گالیاں دیتا ھوا ماری جارھا تھا ۔
اکری کے تھپڑ کھا کر میری زبان اور میری آنکھیں بند ھوگئیں اور میں نڈھال ھوکر پیچھے کو گرنے لگی ۔
مگر اکری نے میری کالئیوں کو پکڑا ھوا تھا تو میں ہوا میں ھی جھول رھی تھی ۔
اکری نے جب میری حالت دیکھی تو میری کالئیوں کو چھوڑ دیا ۔
میں بے جان سی ھوکر پیچھے گری اور کچھ دیر نیم بےہوشی کی حالت میں پڑی ۔
مجھے اسد کی آواز نے دوبارا ہوش دالیا۔
جب وہ اکری سے کہہ رھا تھا ۔
استاد اسے کیا کردیا ۔
سالی پہلے تو بڑا ُپھڑپھرا رہی تھی ۔
کہیں اس کے پر تو نہیں کاٹ دیے ۔
اکری کی آواز میرے کانوں میں پڑی کہ ابھی تو اسکو ایک جھلک دیکھائی ھے باقی کی فلم تو باقی ھے ۔
میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور جب میری اکری پر نظر پڑی تو مجھے اکری سے پڑے تھپڑوں کی تکلیف بھول گئی
اور اپنی پھدی کی فکر پڑ گئی ۔
اکری اپنا لمبا اور موٹا لن پکڑےمیرے منہ کے قریب بیٹھا تھا ۔
اکری کے جسم پر صرف بنیان ھی تھی باقی کے سارے کپڑے اتار چکا تھا ۔
)Update no (109
اکری کا لن دیکھ کر میری نیم کھلی آنکھیں ایکدم پوری کھل گئیں اور میرا حلق خشک اور زبان گنگ ہوگئ ۔
میں سکتے کے عالم میں پھٹی انکھوں سے اکری کے تگڑے لن کو دیکھی جارھی تھی ۔
اتنے میں مجھے دوسری طرف بھی کسی کی موجودگی کا احساس ھوا ۔تو میں نے سکتے کے عالم میں ھی نظروں کو گھما
کر جب دوسری طرف دیکھا تو اسد بھی مادر ذاد ننگا میرے بائیں طرف گھٹنوں کے بل اپنا لمبا لن لہراتے ہوے ہاتھ میں ایک
چھوٹا سا ویڈیو کیمرا پکڑے میرے منہ کی طرف کر کے بیٹھا ھوا تھا ۔
مجھے ایکدم ہوش آیا مجھ سے اور تو کچھ نہیں ہوسکا میں نے جلدی سے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنے چہرے کو
چھپا لیا اچانک میری دونوں کالئیوں کو دو ہاتھوں نے پکڑا اور میرے چہرے سے میرے ہاتھ ہٹتے گئے میں پھر چیخنا چاہ
رھی تھی مگر میرے حلق سے آواز نہیں نکل رھی تھی میرا ایک ہاتھ اکری نے اور دوسرا اسد نے پکڑا ھوا تھا میں نے
چیخنے کے لیے جیسے ھی منہ کھوال تو اسکے ساتھ ھی اکری گھٹنوں کے بل ھی اگے کو کھسکا اور اس نے ہاتھ میں
پکڑے ہوے اپنے تگڑے لن کے موٹے ھوے ٹوپے کو میرے کھلے منہ میں ٹھونس دیا میرے منہ میں اکری کے لن کا صرف
ٹوپا ھی گیا تھا کہ ٹوپے سے ھی میرا منہ بھر گیا میں نے ابھی یہ سوچ کر اکری کہ ٹوپے پر دانت رکھے ھی تھے کہ
ٹوپے کو کاٹ لوں کہ اکری نے کرخدار آواز میں کہا آرام سے ٹوپا چوس لے اگر کچھ الٹا سیدھا کیا تو اس حویلی کے سارے
نوکروں سے تجھے ُچدواوں گا ۔۔۔
اکری کی دھمکی سن کر میں مذید سہم گئی اور ٹوپے کو کاٹنے کا ارادہ مسترد کرتے ھوے میں نے دانتوں کو ٹوپے سے
ہٹایا اور ہونٹوں کو ٹوپے کے نچلے حصہ پر رکھ کر لن کو ہونٹوں میں بھر لیا اب لن کا موٹا ٹوپا میرے منہ کے اندر تھا اور
میرے ہونٹوں نے موٹے لن کو اپنے احصار میں لیا ہوا تھا ۔
اکری ہنستے ھوے بوال شاباش سمجھدار ھوگئی ھو ۔
چلو شاباش اب اسے میٹھا گنا سمجھ کر چوسو اور تب تک چوستی رہو جب تک میں خود نہ تمہیں روکوں ۔
اور کان کھول کر سن لو میں بات کو دھرانے کا عادی نہیں ہوں آگے تم خود سمجھدار ھو ۔
اس کے ساتھ ھی اکری نے میری کالئی کو بھی چھوڑ دیا ۔
میں ٹوپے کو منہ میں لیے لن کو ہونٹوں میں دباے ھوے پھٹی آنکھوں سے اکری کی طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی بات
ختم ھوتے ھی میں نے فرمانبرداری سے ٹوپے کو منہ کے اندر کھینچتے ھوے اور لن کے گرد ہونٹوں کا گھیرا تنگ کیا اور
اکری کے لن کا چوپا لگانے لگ گئی اکری کے منہ سے سسکاری نکلی اور وہ آنکھیں بند کر کے منہ چھت کی طرف
کرکے چوپا لگوانے کا مزہ لے رھا تھا اور میں ناچاہتے ھوے بھی اسکے موٹے اور کالے شیش ناگ کو منہ میں لے کر
چوسی جارھی تھی اکری نے اپنا ایک ھاتھ آگے بڑھایا اور میرا تنا ھوا گول مما ہاتھ میں پکڑا کر دبانے لگ گیا اور دوسرا
ھاتھ میرے سر کے نیچے لیجا کر میرے سر کو مزید اوپر کردیا اور میرے سر کو اوپر کرتے ھوے لن کو مزید میرے منہ
کے اندر باھر کرنے لگ گیا جب لن تھوڑا اور میرے منہ کے اندر گیا اور ٹوپا میرے ہلک کے قریب پہنچا تو مجھے ابکائی
آنے لگ گئی اور میرا سانس بند ہونے کو ھوگیا۔
میں نے اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ کے قریب کیا اور اکری کے موٹے گنے کو جڑ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف دھکیلنے لگ
گئ۔
اکری مزے میں لن کو میرے منہ کے اندر کرنے کی کوشش کرتا میں سانس بند ہونے کی تکلیف سے اسکے لن کو پکڑے
پیچھے کی طرف دھکیلتی ادھر اسکا ھاتھ مسلسل میرے ممے کو اپنی گرفت میں لے کر پمپنگ کررھا تھا ۔
مجھے اسد اور اسکے ہاتھ میں پکڑا ہینڈی کیم بھول گیا تھا ۔
کچھ دیر میں چوپا لگانے کی اذیت سے دوچار رہی میرا رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ اور میری آنکھوں سے پانی کا سیالب چل
رھا تھا بالخره اکری کو میری اذیت کا احساس ھوا یا پھر اس کا چوپے سے دل بھر گیا تھا ۔
خیرا اس نے اپنے ہتھیار کو میرے منہ سے نکاال تو مجھے سکھ کا سانس آیا اور میں لمبے لمبے سانس لے کر کھانستے
ھوے منہ دوسری طرف کر کے کروٹ لے کر لیٹ گئی ۔۔ کھانستے کھانستے میرا دھیان جب سامنے پڑا تو میری آنکھوں
کے سامنے اسد کا لن لہرا رھا تھا ۔
اس سے پہلے کہ میری کھانسی رکتی اسد نے اپنے تنے ھوے لن کو میرے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔
میں منہ ادھر ادھر کرنے کی کوشش کرنے لگی اسد بوال استاد سالی پھر نخرے کرنے لگ گئی ھے اسد کی بات سنتے ھی
اکری نے پھر اسی انداز میں کہا ۔
لگتا ھے کہ تجھے ایک بار کہی بات جلدی بھول جاتی ھے
میں نے چاروناچار پھر منہ کو کھوال اور اسد کے موٹے لن کو منہ میں بھر لیا اکری کے لن کی نسبت اسد کا لن چھوٹا تھا
اور موٹائی میں بھی کم تھا ۔
اس لیے اسد کے لن کا چوپا لگانے میں مجھے ذیادہ مشکل پیش نہیں آرھی تھی ۔
میری گانڈ اکری کی طرف تھی اور میں سائڈ کے بل اسد کی طرف منہ کر کے لیٹی ھوئی اسد کے لن کا چوپا لگا رھی تھی
اور اسد بھی مزے لے لے کر سسکاریاں بھر رھا تھا۔۔
اتنے میں مجھے اپنے پیچھے گانڈ پر اکری کا لن محسوس ھوا اور اسکے ساتھ ھی اکری سائڈ کے بل میری پیٹھ کی طرف
منہ کر کے میرے ساتھ لگ گیا اور میری شرٹ کو میرے پیٹ سے اوپر کر میرے ننگے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ھوے قمیض
کے اندر سے میرے مموں کی طرف لیجاتے ھوے شلوار کے اوپر سے ہی لن کو میری موٹی گانڈ کی دراڑ میں ڈالنے لگ
گیا۔
میں گبھرا کر تھوڑا سا کسمکسائی تو اکری نے میرے ممے کو پکڑ کر دبا کر مجھے شانت رہنے کا سگنل دیا ۔
میں بیچاری بے بس ہوا کی بیٹی کیا کرتی چپ کر کے لیٹی ایک لن کو منہ میں لیے اور دوسرے لن کو گانڈ کی دراڑ میں
گھستے برداشت کررھی تھی ۔
.میں جیسے ھی شانت ہوئی تو اکری نے اسد کو کہا بچے اب بس بھی کر کے اس بیچاری کا منہ ھی چودنا ھے ۔اسد نے جی
استاد کہا اور لن کو میرے سے کھینچ کر باہر نکاال اور میں نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔
سانس کیا لینا تھا کہ اکری نے اسی وقت مجھے سیدھا کیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھا کہ بٹھا دیا۔
اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر کرنے لگ گیا میں نے تھوڑا سا احتجاج کیا مگر اکری نے جب مجھے گھور کر دیکھا تو
اسکی سرخ خوفناک آنکھوں کو دیکھ کر میں ہینڈزاپ کیا تو اکری نے شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر التے ھوے میری قمیض
کو اوپر کرتے ھوے میرے سر سے نکال کر میرے بازوں سے نکال دی ۔
اور بیڈ سے نیچے پھینک دی ۔
اکری کی نظر جب میرے دودھیا جسم پر اور کالے بریزیر میں قید چٹے سفید بڑے بڑے گول مٹول تنے ھوے مموں پر پڑی
تو اسکی آنکھیں مزید کھل گئیں اور اس کے منہ سے الریں ٹپک پڑی جیسے پہلی دفعہ اس نے اتنا گورا جسم اور اتنے
تندرست ممے دیکھے تھے میں نے جب اسے اپنے مموں اور جسم کو گھورتے دیکھا تو میں نے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں پر
رکھ کر بازوں میں اپنی ادھ ننگی جوانی کو چھپا لیا۔۔مگر اس کمبخت نے اسی وقت میری کالئیوں کو پکڑا اور جھٹکے سے
میری جوانی کو عیاں کرتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے نفی میں سر ہالتے ہوے مسکرا کر بوال ۔
میری جان من اس حسین نظارے کو چھپانے کے لیے تمہیں ننگا نہیں کیا ۔
بےبسی سے میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔
مگر اس جانور کو کیا میرے آنسووں سے اکری نے میرے مموں کی الئن میں دو انگلیاں ڈالیں اور ایک جھٹکے سے میرے
بریزیر کو کھینچا تو بریزیز آگے سے دو حصوں میں تقسیم ھوگیا اور میں بھی جھٹکے سے ھاےےےے کرتی ھوئی اکری
کے سینے کے ساتھ لگ کر واپس اپنی جگہ پر آئی میرے ممے آگے سے ننگے ھوچکے تھے اکری نے پھٹے ھوے بریزیر
کو میرے بازوں سے اتارا اور نیچے پھینک کر میرے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔
اکری کی گرفت اتنی سخت تھی کے میرے نازک مموں پر اسکی انگلیوں کی نشان پڑ گئے اور میں درد سے
ھاےےےےےےےےےے کر کے اکری کے سخت ھاتھوں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر التجائی نظروں سے اسکی طرف
دیکھنے لگ گئی ۔
اسد بیڈ سے نیچے اتر کر ننگا کھڑا تھا اور ایک ھاتھ میں اپنا لن پکڑ کر مسل رھا تھا اور دوسرے ھاتھ سے میری اور اکری
کی فلم بنا رھا تھا۔
اکری میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا میرے مموں کو سختی سے پکڑ کر دبوچ رھا تھا اور میں اسکے ھاتھوں پر ھاتھ
رکھے درد سے سییییی اور ھاےےےےے کر رھی تھی ۔
اکری نے کچھ دیر میرے مموں کو بےدردی سے دبایا اور پھر مموں کو پکڑے ھی مجھے پیچھے دھکیل دیا اور خود میری
ٹانگوں کے درمیان آگیا ۔
میں پیچھے کی طرف لیٹ گئی میرا سر تکیےپر تھا اور میری ٹانگیں کھلی ھوئی تھی اور اکری میری ٹانگوں کے بیچ
گھٹنوں کے بل بیٹھا میرے ممے دبا رھا تھا ۔
اکری پھر پیچھے کو کھسکا اور اپنے دیو قامت جسم کو میرے اوپر کرتے ھوے میرے ایک ممے کو اپنے بڑے سے منہ
میں لے کر چوسنے لگ گیا ۔
اکری نے جیسے ھی میرے ممے کو منہ میں بھرا اور میرے نپل کو منہ کے اندر ھی زبان سے چھیڑا تو میرے جسم میں
کرنٹ سا دوڑا اور میرے منہ سے بےاختیار سییییییییی نکال ۔
اکری نے میری سسکاری سنتے ھی آنکھیں اٹھا کر میرے منہ کی طرف دیکھا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا کہ میں
نے سیییی کیوں کیا مگر میں کیا کرتی کب سے دو لنوں کو چوس رھی تھی آخر میں بھی جوان تھی نپل کا چوسا لگتے ھی
مزے کی لہر نے سارے دکھ درد بھالدیے اور بےساختہ منہ سے سسکاری نکل گئی سسکاری سنتے ھی اکری کو بھی
جوش آگیا اور وہ میرے نپل کو کبھی دانتوں میں لے کر مسلتا تو کبھی ہونٹوں میں لے کر چوستا میں خود پر بڑا کنٹرول کر
رھی تھی مگر پھر بھی لزت میرے دماغ پر سوار ھوتی جارھی تھی ۔
اکری کافی دیر باری باری میرےمموں کو چوستا رھا ۔
پھر وہ سیدھا ھوا اور اپنی بنیان اتار دی اسکے جسم کو سیاہ بالوں نے چھپا رکھا تھا جیسے ریچھ کے جسم پر بال ہوتے ہیں
بنیان اتار کر وہ پھر میرے اوپر جھکا اور میرے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ کیے اور میں نے منہ دوسری طرف کرلیا
اسکے منہ سے شراب کی اور سگریٹ کی گندی بو سے مجھے الٹی آنے والی ھوگئی اکری مجھے منہ دوسری طرف کرتے
دیکھ کر بوال ۔
شہزادی لن سے تو اچھا ھے میرا منہ اور اس کے ساتھ ھی اس نے زبردستی میرا منہ سیدھا کیا اور اپنے گندے کالے موٹے
ہونٹ میرے گالب جیسے سرخ نرم مالئم ہونٹوں پر رکھ کر میرے ہونٹ چوسنے لگ گیا اور آنکھوں سے مجھے دھمکی
دیتے ھوے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے ہالتے ھو ے مجھے فرنچ کسنگ کرنے کا کہنے لگ گیا ۔
)Update no (110
)Update no(112
بازار میں داخل ھوتے ھی مجھے عظمی بھول گئی اور ضوفی کو دیکھنے کی بےچینی بڑھ گئی ۔۔
میں چلتا ھوا شاہین مارکیٹ پہنچا تو مارکیٹ میں کسٹمرز کا کافی رش تھا تو اس لیے میری طرف کسی کا دھیان نہیں پڑا
ادھر ادھر کے دکاندار اپنے اپنے کام میں مصروف تھے مین سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا ۔
اور پارلر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ ھی دیر بعد پردہ سرکا اور وہ کچی کلی نمودار ھوئی اور مجھے دیکھ کر
ایسے اس کا چہرہ کھال جیسے وہ میری معشوق ھو
اور اسی وقت وہ پردے کے پیچھے غائب ہوئی کچھ ھی دیر بعد ضوفی دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر اسکا چہرہ کھل
اٹھا اور حال احوال اور گلے شکوے کے بعد بولی ۔
اندر کسٹمرز ہیں تم تھوڑی دیر رکو میں آتی ھوں اور گھر چلتے ہیں میں بھی اسکی مجبوری کو سمجھ کر ہمممم کر کے
باہر ھی کھڑا ھوکر انتظار کرنے لگ گیا تقریبا دس منٹ بعد ضوفی گاون پہنے اور نقاب کیے باہر نکلی اور بولی چلو ۔
مًیں نے کہا وہ کسٹمر ۔
ضوفی بولی تم سے عزیز نہیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے چلنے کا کہا۔۔
میں ضوفی کے ساتھ باہر نکال اور ہم نے کچھ اگے جاکر رکشہ لیا اور ضوفی کے گھر کی طرف روانہ ھوگئے۔
راستے میں کچھ خاص بات نہ ھوئی گھر پہنچ کر ضوفی نے ڈور بیل دی تو ماہ نور ماہی نے دروازہ کھوال اور مجھے
دیکھ کر ماہی کافی خوش ہوئی اور کافی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا ۔
ضوفی نے ماہی سے امی کا پوچھا تو ماہی نے بتایا کہ امی سوئی ھوئی ہیں ۔
ضوفی مجھے سیدھا اوپر والے کمرے میں لے گئی اور اندر داخل ھوتے ھی ضوفی نے دروازہ الک کیا اور پھر میرے ساتھ
ایسے جپھی ڈالی جیسے پتہ نہیں کتنے سال بعد ملی ھو ۔
ضوفی مجھ سے لپٹ کر رونے لگ گئی اور میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پاگلوں کی طرح چومنے لگ گئی
ضوفی روتی ھوئی میرے چہرے کو چومی جارھی تھی ۔
اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی تم مجھے چھوڑ کر دوبارہ کیوں لڑنے گئے تھے اگر تمہیں کچھ ھوجاتا میں تو جیتے جی
مرجاتی .پھر پلٹ کر میرا حال بھی نہ .پوچھا آج چار دنوں کے بعد آے ھو پتہ ھے میں کتنا روتی رھی کتنا یاد کرتی رھی
تمہارے گھر آنے لگی تھی مگر امی نے روک دیا کہ پتہ نہی تمہارے گھر والے کیا سوچیں ۔۔۔
ضوفی کی تڑپ بےچینی بےتابی میرے لیے اتنا پریشان ہونا مجھے یوں پاگلوں کی طرح چومنا
اور اسکے یوں رونے پر مجھے اسپر پیار آنے لگ گیا اور خود پر فخر ھونے لگا کہ مجھے اتنا چاہنے واال میرے لیے یوں
پریشان ھونے واال بھی کوئی ھے ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے ضوفی کی نرم گالوں پر ھاتھ رکھے اور انگوٹھے سے اسکے آنسوں صاف کرتے ھوے اسے چپ
کروانے اور تسلی دینے لگ گیا کہ مجھے کچھ بھی نہیں ھوا ۔
لڑائی میں اتنی معمولی سی چوٹ تو لگ ھی جاتی ھے ۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے ضوفی کے آنسووں کو اپنے ہونٹوں سے ُچ ننے لگ گیا اور پھر اسکے نمکین آنسووں کو اپنے
ہونٹوں پر لگا کر ضوفی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے لگ جاتا
کافی دیر میں ضوفی کو ایسے ھی الڈ پیار سے نارمل کرنے کی کوشش کرتا رھا اور ایسے ھی اسکو لے کر میں بیڈ پر بیٹھ
گیا
ضوفی اب چپ ھوکر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے ۔
مجھے دیکھی جارھی تھی
پاگل لڑکی۔۔۔
جب ضوفی مجھے یوں دیکھتی تو میں اسکو آنکھ ماردیتا
ضوفی میرے سینے پر مکا مارتی اور چل شوخا کہتے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے کندھے کو چومتی اور کچھ
دیر دوبارا سر اٹھا کر مجھے دیکھنے لگ جاتی ۔
۔بھی ہمارے الڈ جاری تھے کہ دروازے پر دستک ھوئی ۔
ضوفی جلدی سے اٹھی اور دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کرتے ھوے دروازے کے پاس گئی اور دروازہ کھول دیا ۔
ماہی ہاتھ میں ٹرے پکڑے کھڑی تھی جس میںں کولڈ ڈرنک تھی ۔
ضوفی دروازہ کھول کر واپس میری طرف آگئی اور ماہی ضوفی کے پیچھے پیچھے چلتی ھوئی ٹیبل پر ٹرے رکھ کر اس
میں سے ایک گالس اٹھا کر مجھے پکڑا کر ضوفی کی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگ گئی.
اور پھر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
بھائی آپی کو کیا ھوا ھے ۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔راستے میں ضد کررھی تھی کہ برف واال گوال کھانا ھے میں نے کھانے سے منع کیا کہ تمہارا گال
خراب ھوجاے گا تو گھر آکر رونے لگ گئی اور
اس لیے بےچاری رو رھی ھے
ضوفی جو سنجیدہ حالت میں بیٹھی ھوئی تھی میری بات سن کر ہنس پڑی اور مجھے مارنے کے لیے میری طرف دوڑی
میں جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور بھاگ کر ماہی کے پیچھے آگیا ۔
میں جیسے ھی ماہی کے پیچھے آیا تو ۔۔۔۔۔
.میں جیسے ماہی کے پیچھے اپنا بچاو کرنے کے لیے کھڑا ھوا تو ماہی بھی ہنستے ھوے ضوفی کے اٹھے ہاتھ کو پکڑنے
لگ گئی۔
میں ماہی کو کندھوں سے پکڑ کر دائیں بائیں ہو رھا تھا اور ضوفی بھی ماہی کے آگے کھڑی مجھے مارنے کے لیے مکا
لہراتے ھوے کبھی دائیں طرف سے مجھ پرحملہ آور ہوتی تو کبھی بائیں طرف سے ۔
ماہی بولی آپی بس کریں کہ میرے بھائی کو مار کر ھی رہیں گی ۔
ضوفی بولی تمہارا یہ بھائی بہت بگڑ گیا ھے۔
کچھ دیر بعد ضوفی مجھے گھورتے ھوے واپس صوفے پر جا بیٹھی اور میں بھی ماہی کے کندھوں کو چھوڑ کر جاکہ بیڈ پر
جا بیٹھا ۔۔
ماہی کچھ دیر بیٹھ کر کھانا بنانے کا کہہ کر چلی گئی ۔ میں بھی بیڈ کے اوپر ہوکر ایسے بیٹھ گیا جیسے میرا گھر ھو ۔
تھا بھی کچھ ایسا ھی مجھے ضوفی کے گھر میں آکر اپنائیت کا احساس ھوتا تھا ۔
میری بلکل جھجک ختم ھو چکی تھی ۔۔
میں بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ھوا تھا اور ضوفی صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھی مجھ سے باتیں
کررھی تھی ۔۔۔
میں نے ضوفی سے پوچھا کہ جب میں واپس گیا تھا تو تم گھر چلی گئی تھی ۔
ضوفی بولی میں تمہیں چھوڑ کر کیسے جاسکتی میں بھی تمہارے پیچھے آگئی تھی مگر وھاں ہجوم اتنا تھا اور مار دھاڑ
اتنی ھو رھی تھی کہ ۔میں آگے نہ جاسکی میرا تو دل گبھرا رھا تھا میں نے کافی کوشش کی کہ کسی طریقے سے آگے جاکر
دیکھوں مگر وھاں ہر طرف آدمی ھی کھڑے تھے تھک ہار کر میں ایک دکان کے باہر کھڑی ھوگئی تھی مجھے بس شور
اور چیخوں کی آوازیں آرھی تھی ۔جب تم لوگ وھاں سے بھاگے تھے تو تمہیں خون سے لت پت دیکھ کر میری چیخ نکل
گئی میں نے تمہیں بہت آوازیں دیں پیچھے بھی بھاگی مگر تم نے میری طرف دھیان ھی نہ دیا۔
جب تم لوگ وھاں سے نکلے ھی تھے کہ کچھ دیر بعد وھاں پولیس آگئی تھی اور پھر ایمبولینس آگئی ۔۔
میں نےبڑی کوشش کی کہ کسی طرح تم سے رابطہ ھوسکے مگر میں ناکام رہی ۔
میں نے کہا مارکیٹ کے مالک کو کیسے پتہ چال لڑائی کا اور اس نے کیا کہا تھا۔
ضوفی بولی میں ادھر سے سیدھی انکے گھر چلی گئی تھی اور میں نے ساری غلطی نسیم کی ھی نکالی اور انکو خوب ان
لوگوں کے خالف بڑھکایا ۔
نسیم کی ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور اس کے والد کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور اسکے چاچا کا بازو فیکچر ھوگیا تھا
باقی لڑکوں کے بھی کافی چوٹیں آئیں تھی ۔
اس کے باوجود بھی آنٹی نے انکل کو کہا کہ اگلے مہینے مجھے دکان خالی چاھیے ۔
اور انکل نے انکی ایک بھی نہ سنی اور ایک مہینے کا نوٹس دے دیا ۔۔
میں نے ہممممم کیا ۔۔۔
ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی ویسے یاسر تم بہت ظالم ھو اس طرح بھی کوئی کسی کو مارتا ھے ان بیچاروں کا کتنا
برا حال کیا تم نے اور تمہارے دوستوں نے ۔
میں نے کہا
ایسے لوگوں کا یہ ھی حال ھو تو ھی انکو سمجھ آتی ھے پیار کی زبان یہ لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔۔
ضوفی بولی پھر یاسر اگر ان میں سے کوئی مرجاتا تو کیا ھوتا۔
میں نے مکا بنا کر بازو کو ضوفی کی طرف کرتے ھوے مکے کو اوپر کرتے ھوے کہا لن تے چڑدے مردا تے مرجاندا۔۔۔۔
ضوفی منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو دباتے ھوے بولی ھوووو ھوے کتنے سنگدل ھو۔۔۔۔
مجھے تو تم سے ڈر لگنے لگ گیا ھے ۔۔۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔
تو پھر کیا سوچا ۔۔۔۔
ضوفی مجھے گھورتی ھوئی بولی
کیا مطلب ۔۔۔۔
میں نے کہا مطلب کہ میں پھر اپنی چھٹی سمجھوں ۔۔۔ضوفی میری طرف دونوں بازو سیدھے کر کے ھاتھوں کو کھول کر
تیزی سے آئی اور
میرے گلے کو پکڑ دباتے ھوے بولی تمہاری جان لے لینی ھے میں نے جو دوبارا یہ بات سوچی بھی۔۔
میں نے ضوفی کی کالئیوں کو پکڑا اور اپنے گلے سے ہاتھ ہٹاتے ھوے اسکو کھینچ کر اپنے سینے پر لیٹا کر اسکے بازو
اپنے سر کے اوپر لے گیا۔
ضوفی کے ممے میرے سینے پر دب گئے تھے اور اسکا چہرہ میرے چہرے کے اتنا قریب تھا کہ اسکی سانسیں میرے
چہرے پر پڑ رھی تھیں ۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سکتے کے عالم میں ایک دوسرے دیکھے جارھے تھے دونوں کی سانسوں رفتار تیز سے تیز ھوتی
جارھے تھی ہونٹ ہونٹوں کو چھونے کے لیے بےچین ھورھے تھے دونوں پلکیں جھپکنا بھول گئے تھے۔
بالخر سکتہ ٹوٹا ہونٹوں نے اگے بڑھنے کی جرات کی اور پھر سب کچھ بھول کر ہونٹ ایک دوسرے سے ُگ تھم گتھا ھوگئے
زبانیں آپس میں ٹکرانے لگیں لباب دھن ایک دوسرے کے اندر اترنے لگا ۔
میرے ھاتھ ضوفی کی گردن کے پیچھے اسکے ریشمی سلکی بالوں کو سہالنے لگے ضوفی کی تڑپ بے چینی اس کے
کسنگ کرنے کا والہانہ انداز مجھے مذید گرمانے لگا ۔
ہونٹ تھے کے ایک دوسرے سے جدا ھونے کو نام نہیں لے رھے تھے جسم تھے کے ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش
کررہے تھے ضوفی کے نرم جسم کو میرے سہالتے ھوے ہاتھ اسکی گالب کی پنکھڑیوں کا رس چوستے میرے ہونٹ اسکی
گرم زبان سے ٹکراتی میری زبان مجھے جنت کی وادیوں میں پہنچا رہیں تھی
محبوب کے گیسوں میں عجب سی مستی چھاے جارھی تھی ۔
ضوفی کی گردن کے پیچھے اسکے ریشمی سلکی بالوں کو سہالنے لگے ضوفی کی تڑپ بے چینی اس کے کسنگ کرنے کا
والہانہ انداز مجھے مذید گرمانے لگا ۔
ہونٹ تھے کے ایک دوسرے سے جدا ھونے کو نام نہیں لے رھے تھے جسم تھے کے ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش
کررہے تھے ضوفی کے نرم جسم کو میرے سہالتے ھوے ہاتھ اسکی گالب کی پنکھڑیوں کا رس چوستے میرے ہونٹ اسکی
گرم زبان سے ٹکراتی میری زبان مجھے جنت کی وادیوں میں پہنچا رہیں تھی
محبوب کے گیسوں میں عجب سی مستی چھاے جارھی تھی ۔
ضوفی کی گردن سے سرکتے ھاتھ اسکی کمر کو ناپتے ضوفی کی ابھری گانڈ کی طرف بڑھتے جارھے تھے ضوفی کی
مستی اسکا جوش بڑھتا جارہا تھا کہ اسی سمے ہمارے کانوں میں ماہی کے کھنگارنے کی آواز پڑی ۔
زبان نے زبان کو چھوڑا ہونٹوں نے ہونٹوں کو بچھڑنے کی اجازت دی ۔جسم جسم سے جدا ھوے ضوفی کی گانڈ کو سہالتے
میرے ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے ہٹے اور ضوفی گھوم کر سیدھی ہوئی اور جلدی سے اٹھی اور ہاتھ اہنے ہونٹوں پر رکھ
کر سر نیچے کر کے شرمندہ سی ھوکر بیٹھ گئی ۔۔۔
میں نے بھی جلدی سے خود کو سمیٹا اور مارے شرمندگی کے سر اٹھا کر ماہی کی طرف نہ دیکھا ۔۔۔۔۔
اتنے میں ماہی کی شوخی بھری آواز ہم دونوں کے کانوں میں پڑی ۔
سوری ۔۔وووووہ کھانا الئی تھی ۔۔۔
بندا کم از کم دروازہ ھی بند کرلیتا ھے ۔۔۔
ضوفی نے سر نیچے کیے آہستہ سے کہا ٹیبل پر رکھ دو کھانا اور تم جاو۔
ماہی نے جلدی سے ٹیبل پر کھانا رکھا اور الٹے قدموں باہر کو بھاگ گئی ۔۔۔۔
میں ٹانگیں فولڈ کر کے تکیہ پر ُک ہنی رکھے سائڈ کے بل سر نیچے کیے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے ھوے دیکھ تھا
جبکہ ضوفی میرے پیٹ کے ساتھ گانڈ لگا کر دوسری طرف منہ کیے بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکاے اپنے ھاتھوں کی انگلیوں
کو چٹخاتے ھوے شرمندہ سی بیٹھی تھی ۔۔۔
ماہی کے جاتے ھی میں نے پیچھے سے ضوفی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکے پیٹ پر رکھے اور اسکو اپنی طرف کھینچ
لیا ضوفی چھت کی طرف منہ کیے میرے اوپر آگئی اور جلدی سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے نرم نازک پیٹ سے ہٹانے
اور اوپر اٹھنے کی کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔۔
یاسر چھوڑو ماہی پانی لینے گئی ھے ابھی آتی ھوگی ۔۔۔
میں نے کہا ابھی تو وہ نیچے بھی نہیں پہنچی ھوگی ۔۔۔
ضوفی بولی پلیززززز یاسر مجھے پہلے ھی بہت شرمندگی ھورھی ھے کہ اس نے ہمیں اس حال میں دیکھ لیا ۔
نہ جانے کیا سوچے گی ۔۔۔
میں نے ہاتھوں کی گرفت سخت کرتے ھوے کہا ۔
کیا سوچے گی کہ جیجا جی اپنی ڈیوٹی پوری کررھے ہیں ۔۔۔
ضوفی نے پورا ذور لگاتے ھوے اییییییی
کیا اور میرے ہاتھ اپنے پیٹ سے کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بولی جیجا جی کے بچے اب چھوڑ بھی دو
وہ بچی ھے ہمیں یوں دیکھ کر برا اثر لے گی ۔۔۔
میں نے کہا ۔۔۔
بچی نہیں وہ بھی جوان ھوگئی ھے اور سمجھدار بھی ھے ۔۔۔
ضوفی زور ازمائی کے بعد اپنی ہار مانتے ھوے اپنے پیٹ پر بندھے میرے ہاتھوں پر اہنے نرم مالئم ہاتھ رکھ کر میرے
ھاتھوں کو سہالتے ھوے بولی اچھا چھوڑو بابا کھانا ٹھندا ھورھا ھے ۔
میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ سیڑیاں چڑھتے قدموں کی آواز آئی تو میں نے جھتکے سے ھاتھ کھینچ کر ضوفی کو آزاد
کردیا۔۔
ضوفی ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی اور بولی اب بھی نہ چھوڑتے ۔
اس کے ساتھ ھی ماہی کمرے میں داخل ھوئی اور ہماری طرف دیکھتے ھوے شرارت سے بولی لگتا ھے کہ کھانا کھانے کا
موڈ نہیں ھے ۔۔۔
ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتے ھوے بولی ۔۔
تمہارا بھائی کہتا ھے کہ ماہی کے ساتھ بیٹھ کر ھی کھانا کھائیں گے اس لیے تمہارا انتظار کررھے ہیں ۔۔۔
)Update no (113
ماہی مسکراتے ھوے بولی واہ جی واہ
ابھی سے سالی کی اتنی اہمیت ھوگئی ۔۔۔
ضوفی ھاتھ لہراتے ھوے بولی ذیادہ بکواس نہ کر ماروں گی ایک ۔۔۔
ماہی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی ۔
لو جی میں نے کیا غلط کہہ دیا ۔۔
چلو ٹھیک ھے نہیں بنتی سالی.
اور پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ دباتے ھوے بولی لگتا ھے کہ اب بھائی کی چھٹی ھوگئی ھے ۔۔
ضوفی ایکدم سیریس ھوگئی اور غصے سے ماہی کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔
تم کچھ ذیادہ ھی سر پر نہیں چڑھ رھی جو منہ میں آتا ھے بکواس کری جارھی ھو پانی رکھو ادھر اور دفعہ ھوجاو ۔۔۔۔
ماہی نے ضوفی کی بات کو خاصہ محسوس کیا اور ایکدم اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور پانی ٹیبل پر رکھ کر واپس بھاگی میں
جو ان دونوں بہنوں کی نوک جھونک سے لطف اندوز ھورھا تھا ۔
ماہی کو یوں روتے دیکھ کر جمپ مار کر اسکو آواز دیتا ھوا بیڈ سے نیچے اترا اور اسکو دروازے پر ھی جالیا۔۔
ماہی رو رھی تھی میں نے اسکے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور اسکے سر کو اہنے کندھے سے لگاتے ھوے اسے واپس
کھانے کے ٹیبل کی طرف النے لگا اور ضوفی کی طرف گھورتے ھوے بوال ۔
یار بولتے وقت کچھ تو خیال کیا کرو ۔۔
بیچاری نے اتنے شوق سے ہمارے لیے کھانا بنایا ھے اور تم اسکی محنت کا یہ صلہ دے رھی ھو ۔
بہت بتمیز ھو تم ضوفی ایسے ھی میری گڑیا کو روال دیا ۔
ماہی اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کرتی میرے کندھے سے لگی صوفے کے پاس آئی اور میں نے اسے بازوں سے
پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی بیٹھ گیا ۔
اور ماہی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا چلو کھانا پلیٹوں میں ڈالو آج میں اپنی گڑیا کے ساتھ ھی کھانا کھاوں گا
۔
یہ اکیلی ھی کھاے کھانا اس کی یہ ھی سزا ھے ۔۔
ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتی ھوئی ہمارے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔
کچھ دیر مذید مسکے لگانے کے بعد ماہی کا موڈ صحیح ھوا اور ضوفی نے بھی ماہی سے سوری کی اور اسکی گال پر ایک
بوسا بھی لیا ۔۔۔
اور پھر ہم خوشگوار موڈ میں کھانا کھانے لگ گئے ۔۔
کھانا کھانے کہ بعد میں مذید کچھ دیر ادھر بیٹھا رھا اور پھر نیچے آکر آنٹی سے انکی بیمار پرسی کی اور تقریبًا شام ڈہلنے
لگی تو میں ان سے اجازت لے کر گھر سے نکل آیا ضوفی نے دو تین دفعہ آہستہ سے مجھے رات رہنے کا کہا مگر میں
گھر بتا کر نہیں آیا تھا اس لیے میرا جانا ضروری تھا اور گھر کا ماحول بھی خراب تھا اگر میں رات کو گھر نہ جاتا تو ابو
سے چنگی پلی بےعزتی ھو جانی تھی ۔
ضوفی کے گھر
سے نکل کر میں سیدھا گاوں پہنچا اور گھر چکر لگا کر کھانا وغیرہ کھا کر میں باہر نکال اور سیدھا چوک کی طرف چلدیا
دور سے ھی مجھے شادا اور باقی کا گروپ چوک میں لگے بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھے نظر آگئے ۔۔
جب میں انکے پاس پہنچا تو خوب گرمجوشی سے ملے شادا میرے گھر والوں کے رویعے کے بارے میں پوچھنے لگ گیا
میں نے سب اوکے کہا ۔
کچھ دیر بیٹھے خوب ہال گال کرتے رھے ایک دوسرے کو جگتیں مارتے اور قہقہے لگاتے رھے ۔۔
کچھ دیر بعد میں نے شادے سے اکری کے بارے میں پوچھا کہ تم اسے جانتےھو تو شادے نے نفی میں سر ہالیا اور
پوچھنے لگ گیا کہ کون اکری ۔
میں نے جب اسے لوکیشن بتائی تو وہ ایک دم کھڑا ہوگیا اور میری طرف دیکھتے ھوے بڑے گبھراے ھوے لہجے سے بوال
اوے توں اکری جموں دی گل کرریاں ایں ۔۔
میں نے بڑے اطمینان سے سرہال کر ہاں کی ۔۔
تو اکری میرے سر کو ہالتے ھوے بوال
اوے توں اودے کولوں کی لینا اے ۔
او بڑا پین یک بندا اے اودے پچھے بڑے وڈے ہتھ نے پولیس تھانہ کچہری اودی جیب وچ اے۔۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے اسکا ھاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر بٹھاتے ھوے کہا۔
پین یکہ بے تے جا تیری کیوں ُبنڈ پاٹ گئی اودا ناں سندے ھوے ۔۔۔
شادا نیچے بیٹھتے ھوے بوال
پھدی دیا توں ناں ای اوس بندے دا لیا اے بنڈ تے پاٹنی ای اے ۔۔۔
میں نے شادے کی حالت دیکھتے ھوے اندازہ لگا لیا کہ یہ میری مدد نہیں کرے گا اسکی گانڈ تو اسکا نام سنتے ھی پھٹ
گئی ۔۔۔۔
جب اس سے پنگے کا سنے گا تو ساال ویسے ھی بھاگ نہ جاے اور کہیں یہ بات اکری تک نہ پہنچ جاے۔۔۔
میں نے بات کو مزاق میں ڈالتے ھوے کہا ۔
یار میں نے تو ویسے ھی پوچھا تھا کہ یہ کون ھے اسکا نام بہت سنا ھے شہر میں ۔۔
تو شادے نے لمبا سانس لیا اور شکر ادا کرتےھوے بوال کہ میں سمجھا شاید اس کے ساتھ کوئی تیرا روال پڑ گیا ھے ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا
پھدی دیا میں ہن روز رولے ای پانے نے ۔۔۔
میں نے اکری کے معاملے کو فلحال موخر کرنے کا سوچا کہ سہی وقت پر سہی موقع ملتے ھی کچھ کروں گا چاھے مجھے
کسی بھی حد تک نہ جانا پڑے ۔۔۔
دوستو میں عمر کے اس دور میں تھا جب ایک منٹ میں مرنے مارنے پر اتر آتا تھا ایک دفعہ ہر پھڈے میں ٹانگ اڑا دینی
بس بعد میں جو ہوگا دیکھا جاے گا ۔۔۔
میں کچھ دیر مذید ادھر بیٹھا اکری کے بارے میں معلومات لیتا رھا۔
شادا اسکی بہادری کے قصے سناتا رھا کی فالں وڈیرے کا ہاتھ اس کے سر پر ھے اس نے فالں بندے کو مارا ھے فالں کو
مارا ھے شادے نے مجھے کوئی دس پندرہ بندے گنا دیے جنکو اس نے قتل کیا تھا یا کروایا تھا مگر ثبوت نہ ملنے اور اس
کے سٹرونگ بیک گراونڈ کی وجہ سے پولیس کی گرفت میں نہی آیا اور نہ ھی کسی سر پھرے نے اس پر ہاتھ ڈاال تھا مگر
ایک بات میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی کہ ۔۔
ساال جتنا بڑا بھی بدمعاش ھے مگر ھے تو انسان ھی ۔
اسپر کونسا کوئی گولی اثر نہیں کرتی یا اس کے اندر خنجر نہیں اترتا۔۔۔
جو بھی ھے سالے کو ایک دن تو مرنا ھی ھے ۔ اور ایسے بندے اندھی گولی کا شکار بنتے ہیں ۔
یا پھر پتہ نہی چلتا کہ کون اسکو مار گیا ۔۔
خیر میں قیاس آرائیاں کرتا رھا اور پھر سب ادھر سے اٹھے اور اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ھوگئے ۔۔۔
گھر آکر بھی رات دیر تک بستر پر کروٹیں لیتا ھوا اکری کے بارے میں سوچتا رھا کہ کیسے میں اس تک پہنچ سکتا ھوں
اور کبھی اسد پر سوئی اٹک جاتی کہ کیسے اسد کو ایسی موت ماروں جس سے ساال روز جیے اور روز مرے ۔۔۔
اچانک میرے دماغ میں
ایک پالن آیا جس سے ایک تیر سے دو نشانے لگانے جاسکتے تھے ۔ ۔
اور پھر اس پالن کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے قیاس آرائیاں کرتا رھا اور بالخرہ پالن کے تحت عملی طور پر قدم اٹھانے
کا سوچتے ھوے سو گیا.
.صبح میں جلدی اٹھا اور تیار ہوکر شہر پہنچا اور سیدھا جنید کے گھر پہنچا ۔
دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد جنید نے ھی دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر حیران رھ گیا اور سالم دعا کے بعد
بیٹھک کا دروازہ کھولنے چالگیا
اور کچھ ھی دیر میں میں جنید کی بیٹھک میں بیٹھا ھوا تھا ۔
جنید بوال خیریت ھے آج صبح صبح چاند نکل آیا ۔۔
میں نے کہا یار بس فارغ رھ کر تھک گیا ھوں سارا دن بوریت میں گزرتا ھے ۔
اگر کوئی دکان ھے تو مجھے ادھر رکھوا دو جنید بوال میری جان میں نے تجھ سے پہلے ھی ایک دکان والے سے بات
کررکھی ھے مجھے پتہ تھا کہ تم اب گاوں میں نہیں رھ سکتے ویسے تو انکل سجاد بھی تجھے یاد کرتے ہیں اور نسیم کو
بھی گالیاں دیتے ہیں کہ اسکے پیچھے لگ کر تمہارے ساتھ ذیاتی کی ۔۔
اگر تم کہو تو میں انکل سے اپنے طور پر بات کروں ۔
میں نے کہا نہیں یار مجھے اس بندے سے نفرت ھوگئی ھے میں اسکے ساتھ جتنا مخلص تھا
اس سالے نے میری قدر نہ کی ۔
جنید بوال چھوڑ یار پھر بھی وہ تیرا استاد ھے اور استاد تو باپ کی جگہ ہوتا ھے اگر اس نے غصہ میں کچھ کہہ دیا تو دفعہ
کر غصہ تھوک دے ۔۔
وہ ویسے بھی اپنے کیے پر شرمندہ ھے ۔
اور اس کی باتوں سے لگتا ھے کہ وہ دل سے چاہتا ھے کہ تم دکان پر واپس آجاو۔
میں نے کہا یار میرا دل نہی مانتا جنید بول چل ماما ہن توں کڑیاں ونگوں نخرے کر ریاں ایں ۔۔
میں آج ھی انکل سے بات کرتا ہوں بلکہ تو میرے ساتھ ھی چل میں سنبھال لوں گا سب ۔
میں نے کہا نہیں یار ایسے وہ سمجھے گا کہ پتہ نہی مجھے کہیں کام نہی مال اس وجہ بےشرموں کی طرح واپس آگیا ھے ۔۔۔
تو ایسا کر آج اس سے بات کرلے اور اسکو کہنا کہ رات کو ہمارے گھر آکر مجھے کہے ۔۔۔
جنید بوال چل سہی ھے جیسے تو خوش اگر وہ آگیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں دوسری دکان پر تجھے کل ھی رکھوا دوں گا ۔۔۔
میں نے ہمممممم کیا اور پھر میں نے جنید سے کہا کہ یار ایک اور کام ھے اگر تو کردے تو ساری زندگی تیرا احسان نہیں
بھولوں گا ۔۔
جنید بوال
ماما نالے مینوں ویر وی کیناں ایں رے نالے اے احسان کرن والیاں چوالں وی مارن دیاں ایں ۔
حکم کر ۔۔
میں نے کہا یار مجھے کچھ دنوں کے لیے ایک کیمرہ چاہیے جس سے ویڈیو فلم بنتی ھو اور کیمرہ بھی چھوٹا سا ہو ۔۔
جنید بوال خیر ھے کس کی فلم بنانی ھے ۔۔۔
میں نے کہا یار بس وہ تیری پرجائی کی فرمائش ھے کہ ہم دونوں کی اکھٹے بیٹھے ھوے کی فلم بنے ۔۔۔
)Update no (114
جنید ہنستے ھوے بوال ۔
واہ یار یہ بھابھی کب سے بن گئی چپ کر کے شادی تے نئی کروا لی ۔
میں نے کہا نہیں یار بھابھی مطلب میری ایک سہیلی ھے اسکی فرمائش ھے ۔۔
جنید بوال ۔
کہیں وہ پالر والی تو نہیں ۔
میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور پھر خود کو سنبھالتے ھوے بوال نہیں یار گاوں کی ھے دیکھاوں گا تجھے کسی
دن ۔
بس یہ بتا کہ میرا کام ھوجاے گا ۔۔
جنید بوال یار کام مشکل ھے مگر ناممکن نھی بڑا کیمرہ چاہیے تو چل ابھی لے دیتا ھوں مگر یہ چھوٹے سائز واال کیمرہ بہت
کم لوگوں کے پاس ھے ۔۔
مگر پھر بھی تو پریشان مت ھو میں جلد ھی تجھے ڈھونڈ دوں گا ۔
ہے اپنے یار کافی سارے ۔۔۔
کسی نہ کسی کے گھر تو ھوگا ھی
ویسے تجھے چاہیے کب میں نے کہا مجھے چاھے آج ھی دے دو اگر آج نہی تو کم از کم دو تین دن کے اندر تو الزمی دے
دینا ۔۔۔
جنید بوال تو واپس کب دو گے ۔
میں نے کہا تم ایک مہینے کا کہہ دینا کیونکہ ہمیں جب بھی موقع مال تب ھی فلم بنانی ھے ہو سکتا ھے میں تجھے ایک ہفتے
میں ھی واپس کردوں۔۔۔
جنید بوال ٹھیک ھے میں کوشش کرتا ھوں کہ جلد ھی مل جاے باقی تم صبح دکان پر آنے کے لیے تیار رہنا میں نے کہا انکل
آے گا تو ھی میں آوں گا ۔۔
جنید بوال یہ مجھ پر چھوڑ دو اسکو میں آج فلم ھی ایسی سناوں گا کہ وہ پہلے تیرے پاس جاے گا پھر اپنےگھر جاے گا ۔۔۔
میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا دکان پر کب جانا ھے تو اس نے بتایا کہ بس میں تیار ھوں چلو اکھٹے ھی
نکلتے ہیں ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور میں اٹھ کر بیٹھک سے باہر ایا اور جنید نےدروازہ بند کیا اور مین دروازے سے باہر آیا اور ہم بازار
کی طرف چل دیے ۔۔
جنید کا گھر بھی ضوفی کے محلے میں ھی تھا ۔۔
میرا دل تو بہت کیا کہ میں ضوفی کے گھر جاوں مگر جنید کی وجہ سے دل پر پتھر رکھ کر محبوب کی گلی سے انجان بن
کر گزرگیا۔۔۔
بازار پہنچ کر میں جنید سے علیحدہ ھوا اور ایسے ھی ادھر ادھر گھومنےلگ گیا ۔۔
مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ کدھر جاوں ۔
جانے کے لیے جگہ تو بہت تھیں مگر دل کہیں بھی جانے پر مطمئن نہیں ھورھاتھا ۔۔۔۔
خیر میں یوں ھی چلتا ھوا گاوں کی طرف نکل گیا اور نہر کےکنارے پر جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
اور کنارے پر بیٹھا میں اپنے پالن پر ہر پہلو سے غور کرنےلگ گیا اور اسکو بہتر انداز میں سرانجام دینے کے لیے مذید
مغز ماری کرنے لگ گیا۔۔۔
مجھے بیٹھے کوئی ایک گھنٹہ ھی ہوا ھوگا کہ مجھے شہر کی مین سڑک والے پل کی طرف سے ایک
موٹر سائکل سوار آتا نظر
آیا جس کے پیچھے کالے رنگ کے برقعہ میں کوئی عورت بیٹھی ھوئی تھی ۔
اور وہ بڑے آرام آرام سے ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھتے ھوے آرھا تھا میں اسے دیکھی جارھا تھا وہ کبھی رکتا اور پھر
موٹرسائیکل آگے بڑھاتا اور کچھ آگے آکر پھر رک جاتا ۔
مجھے اسکی حرکات مشکوک لگیں ۔
کیونکہ اکثر لڑکے شہر کی لڑکیوں کو ورغال کر نہر پر ڈیٹ مارنے لے آتے تھے اور موقع پاکر نہر کے اطراف میں لگی
مکئی کی فصل میں گھس کر چدائی بھی کرلیتے تھے ۔۔۔
میری چھٹی حس نےفورن کام کیا کہ
یاسر پتر اے پھدی دا کیس اے تے ہوشیار ھوجا۔۔۔
وہ آدمی مجھ سے کافی فاصلے پر تھا اس نےمجھےدیکھا تھا یا نہیں
I don't know
مگر میں اسکی حرکات کو نوٹ کرکے چوکس ھوچکا تھا ۔۔
میں جلدی سے کنارے پر ھی لیٹ گیا نہر کا کنارہ ایک جگہ سے اونچا تھا اور کوئی دو تین فٹ کی جگہ جو پانی کے قریب
تھی اور نیچے تھی جس جگہ بیٹھ کر عورتیں کپڑے دھوتی تھیں ۔
میں کھسکتا ھوا اس جگہ پر پہنچ گیا ۔ اور کچھ دیر ایسے ھی کمانڈو سٹائل میں الٹا لیٹا رھا کچھ دیر بعد میں نے جب
سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے موٹر سائکل سوار نظر نہ آیا
میں نے مذید سر اٹھایا تو مجھے پھر بھی کوئی نظر نہ آیا ۔
میں یہ سوچ کر اوپر ھونے لگا کہ شکار نکل گیا ھے ۔
میں اٹھ کر کھڑا ھوا تو مجھے سامنے کوئی بندا نہ بندے کی ذات نظر آئی ۔۔
میں مایوس ہوکر کنارے سے اتر کر نیچے گاوں کی طرف جانے ھی لگا تھا کہ مجھے کچھ فاصلے پر درختوں کے بیچ
کھڑی موٹر سائکل کی سرخ رنگ کی ٹینکی کی ایک جھلک نظر آئی ۔ میں جلدی سے وہیں بیٹھ گیا اور الٹے پاوں واپس
کنارے پر جانے لگا ۔۔۔
مجھے اب سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں کیسے ان تک پہنچوں کہ انکو پتہ بھی نہ چلے خیر میں ان کو کچھ وقت دینے کی
سوچ کر وہیں بیٹھ گیا کہ وہ کچھ کرنے لگ جائیں تو ھی اوپر چھاپا ماروں ۔۔
میں نے کوئی دس منٹ انتظار کیا اور پھر آگے ھو کر دیکھا تو موٹر سائیکل ابھی بھی کھڑی تھی ۔۔
میں دبے پاوں جھک کر کنارے سے نیچے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ھوا ۔۔
موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگ گیا بارہ بجے کا ٹائم تھا ہر طرف سناٹا تھا ۔۔میں چلتا ھوا موٹر سائکل کے پاس پہنچ گیا
موٹر سائیکل بڑے طریقے سے چھپا کر کھڑی کی ہوئی تھی مگر دیکھنے والے دیکھ ھی لیتے ہیں ۔۔۔
میں بڑی احتیاط سے موٹر سائیکل کے چاروں اطراف دیکھنے لگ گیا مگر وھاں کچھ بھی نہیں تھا ۔
یعنی شکار مکئی کے اندر گھسا ھوا تھا ۔۔۔
میں بڑی احتیاط سے دبے پاوں جھک کر چلتا ھوا مکئی کے اندر داخل ھوا اور پاوں کے بل کیاری میں بیٹھ گیا۔۔۔
اور سامنے دیکھنے لگ گیا مجھے دور تک کیاری میں کچھ بھی نظر نہ ایا ۔۔۔
میں پاوں کے بل بیٹھا ھوا ھی آگے بڑھنے لگا میں بڑی احتیاط سے آگےبڑھ رھا تھا کہ مکئی کے پتوں کی آواز نہ پیدا
ھو ۔۔۔
میں کچھ ھی آگے گیا تھا کہ میرے کانوں میں نسوانی آواز آئی ۔۔
اب کر بھی لو کہ کوئی آے گا تو ھی کرو گے ۔
اور پھر ساتھ ھی مردانہ آواز آئی یار اسے کھڑا تو کرلوں اور ادھر اس وقت کوئی نہیں آتا نوٹینشن۔۔۔
میں فل چوکس ہوگیا اور آواز کی سمت چہرہ گھمایا تو تو مجھے ساتھ والی کیاری میں بالوں والی گانڈ نظر آئی میں جلدی
سے آگے بڑھا تو گانڈ نمایاں نظر آنے لگ گئی ۔۔۔۔
اور جب کچھ اور آگے بڑھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی ۔۔۔۔
.سامنے کا سین کچھ ایسا تھا کہ آدمی لڑکی کی ٹانگوں میں اسکی پھدی کے سامنے گھٹنوں کے بل بالوں سے بھری گانڈ
میری طرف کر کے بیٹھا ھوا تھا اور اس نے پینٹ اتار کر ایک طرف رکھی ہوئی تھی اور لڑکی کی گوری ٹانگیں اسکی
کمر کے دونوں اطراف نظر آرھیں تھی لڑکی کے پاوں اتنے سفید اور سرخی مائل تھے جیسے اسکے پیروں کے تلووں میں
خون اتر آیا ھو اور اسکی چٹی سفید پنڈلیوں سے لگ رھا تھا کہ بچی کافی صحت مند ھے ۔۔
آدمی لن کو پکڑے شاید مٹھ ماررھا تھا کیونکہ اسکے بازو کے ساتھ اسکی گانڈ بھی ہل رھی تھی ۔۔۔
لڑکی کا برقعہ اور شلوار بھی ایک طرف پڑے تھے اور انہوں نے نیچے چادر بچھائی ہوئی تھی یعنی کے
پورے پار نال آے نے
میں انکا جائزہ لے رھا تھا کہ کیسے انکو للکاروں ۔۔
جبکہ لڑکی اسے جلدی کرنے کا کہہ رھی تھی اور لڑکا اسے حوصلہ رکھنے کا کہہ رھا تھا جہاں تک میرے قیاس کے
مطابق لڑکے کا لن کھڑا نہیں ھورھا تھا
مردانه کمزوری ھوگی یا پھر خوف۔۔۔
میں نے دماغ میں پالن اور ڈائلگ سوچ لیے جو مجھے بولنا تھے ۔۔
اگر میرے ڈائلگ انپر اثر کرگئے تو لڑکے کو تو پتہ نہی مجھے اس شہری پوپٹ بچی کی پھدی کا شرف حاصل ھوجانا تھا
اور پھدی کے اندر لن ڈالنے کی رسائی بھی حاصل ھوجانی تھی ۔
خیر میں نے اپنے آپ کو تیار کیا اور کھڑا ہوکر ایک گرجدار اور رعب دار آواز نکالتے ھوے بوال اوے کنجرو اے کی کرن
دیو او ۔
اور اس کے ساتھ ھی میں نے آگے بڑھ کر لڑکی اور لڑکے کے کپڑے بھی اٹھا کر اپنے قبضے میں کرلیے ۔۔۔میں نے یہ
سب اتنی پھرتی سے کیا کہ انکو سنبھلنے کا موقع ھی نہ مال ۔
میری آواز سنتے ھی لڑکے نے حیران پریشان ہوکر گردن گھمائی اور وہیں سکتے کہ عالم میں لن ھاتھ میں پکڑے بیٹھا رھا
جبکہ کہ لڑکی کے منہ سے ہلکی سی
چیخ کے ساتھ ھاےےےے
*****
نکال اور لڑکی بھی آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں مجھے دیکھنے لگ گئی
اور انکے ساتھ لڑکی پر نظر پڑتے مجھ پر بھی سکتہ طاری ھوگیا۔۔۔
..اففففف لڑکی تھی کہ آسمان سے اتری حور .چٹی سفید تیکھے نین نقش باریک سے ہونٹ تیکھی ناک لمبی پلکوں کے نیچے
بڑی بڑی آنکھیں جو خوف سے مزید بڑی ہوگئیں تھی ۔میں تو لڑکی کو دیکھ کر ھی اپنے اگلے ڈائلگ بھول گیا ۔
لڑکی کی قمیض اسکے مموں سے اوپر کی ہوئی تھی اور اسکے چونتیس سائز کے گالبی رنگت کے ممے اور انپر ہلکے
براون رنگ کے چھوٹے سے تنے ھوے نپل تھے ۔
لعنت اس بھگوڑے پر جو اس پھلجھڑی کو کھیت میں چودنے کے لیے الیا تھا۔۔
ایسی نایاب چیز کو تو کھیت کی بجاے پھولوں کے بستر پر ہونا چاہیے تھا۔۔
اور اوپر ظلم کہ
ایسی کمال بچی کے اتنے سیکسی ننگے جسم کو دیکھ کر اور چھو کر بھی اس گانڈو کا لن کھڑا نہیں ھورھا تھا
ایسا کمال فگر لباس میں دیکھ کر بندہ چھوٹنے واال ھوجاے اور یہ ساال بدنصیب اس کو بےلباس کر کہ بھی ابھی تک لن
ھاتھ میں پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا جا اوے پھدی دیا۔۔۔
لڑکی کے حسن کہ سحر میں جکڑا میں سکتے کے عالم میں لڑکی کے جسم کو دیکھی جارھا تھا کہ لڑکا ایک دم جمپ مار
کر لڑکی کی ٹانگوں کو چھوڑ کر کھڑا ہوگیا جبکہ لڑکی نے ہوش میں آتے ھی سب سے پہلے اپنے مموں پر قمیض کر کے
حسین مموں کو میری نظر نہ لگنے کے ڈر سے چھپا لیا۔۔
مجھے بھی ایک دم اپنے ڈائلگ یاد آے اور میں گرج کر بوال
اوے پھدی دیا تینوں پھدی مارن واسطے ساڈی فصل ای لبی سی میں تیری بنڈ وچ فائر مارنا ایں ۔
اوےےےےے چھادے تے چھیدو جلدی آ و اےےے اے بچ کے نہ جاوے ۔۔
یہ کہتے ھی میں نے اپنے نیفے میں ایسے ھاتھ ڈاال جیسے ریوالور نکالنے لگا ہوں ۔۔
اس لڑکے کا رنگ زردی مائل ہوگیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ میں کسی اور کو بھی بال رھا ہوں اور ساتھ میں نیچے
سے ہتھیار نکالنے لگا ہوں اور میں اسکی طرف بڑھ رھا ہوں تو وہ گانڈو ننگا ھی ادھر سے بھاگ کھڑا ھوا اس نے لڑکی
کو چھوڑ کر مکئی میں ھی دوسری طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔
میں اسکے پیچھے دوڑنے کے انداز میں تین چار قدم آگے بڑھا اور لڑکی کے سر پر جا پہنچا اور ساتھ ھی میں نے للکار
ماری
اوے چھیدے چھیتی آ بندا پج چال ایییییی پھڑو اوے اینوں پین یک نوں ۔
لڑکی چند لمحوں میں مکئی کے اندر غائب آگیا سالے کی دوڑنے کی سپیڈ ھی بہت تھی
لڑکی اٹھنے کی کوشش کررھی تھی کہ میں نے اسکو بازو سے پکڑ لیا اور دھمکی دیتے ھوے بوال بے جا ایتھے آرام نال
جے پجن دی کوشش کیتی تے میری اک آواز تے ایتھے سارا پنڈ اک منٹ وچ اکھٹا ھو جانا اے ۔۔
)Update no (115
تے فیر تیرا جو حال ہونا اے تینوں پتہ ای نئی ۔۔
لڑکی مجھے کالج کی لگ رھی تھی کیونکہ اس نے سفید یونیفارم پہنا ھوا تھا ۔
لڑکی سہم کر اسی جگہ پاوں کے بل بیٹھ گئی۔
اور اس حسن کی دیوی نے اپنے نرم نازک ہاتھ میرے آگے جوڑے ۔اور بولی پلیززز مجھے جانے دو پلیزز مجھے معاف
کردو ۔۔۔
لڑکی کے ہاتھ بھی کانپ رھے تھے اور اسکی گالب کی پنکھڑیاں بھی ۔۔۔۔میں نے اسے پھر دھمکاتے ھوے کہا ۔۔
آرام سے بیٹھی رھو میرے آدمی ابھی تمہارے یار کے پیچھے گئے ہیں اسکو پکڑ کر التے ہیں تو پھر سوچتا ھوں کیا کرنا
ہے تم لوگوں کا ۔۔
لڑکی کانپی جارھی تھی ۔
اور پھر اچانک اس نے میرے پاوں پکڑ لیے اور رونے لگ گئی مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ھوگئی آئندہ نہیں کروں
گی ۔
اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے مجھے جان سے مار دینا ھے
تمہیں فالں کا واسطہ فالں کا واسطہ ۔
میں نے کہا اگر تجھے اتنا ھی گھر والوں کا ڈر تھا تو پھر اس گانڈو کے ساتھ ادھر منہ کاال کروانے کیوں آئی تھی اور جس
گانڈو کے ساتھ تو اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر آئی ہو وہ تو تجھے یہاں ننگی کو چھوڑ کر بھاگ گیا اور ساال اپنی پینٹ
بھی ادھر چھوڑ گیا ۔۔
میں نے اس لڑکے کی پینٹ اس کو دیکھاتے ھوے کہا۔۔۔۔
لڑکی بولی ۔۔
مجھ سے غلطی ھوگئی بس ایک دفعہ معاف کردو میں اسکی باتوں میں اگئی تھی مجھ سے غلطی ھوگئی پلیززززز مجھے
جانے دو ۔۔ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو میں مرجاوں گی مرجاوں گی ۔۔۔۔۔
یہ کہتے ھوے وہ میرے پیروں میں سر رکھ کر رونے لگ گئی ۔۔
میں دوقدم اس کے سر سے پیچھے ھوا اور بوال یہ ڈرامے بازی میرے ساتھ نہ کرو گھر سے پڑھنے آتی ھو اور پھر یہاں
پھدی مروانے آجاتی ھو اور اب تجھے اپنی عزت کا بڑا خیال آرھا ھے ۔۔
بس دومنٹ رک جاو ابھی میرے دوست تیرے یار کو پکڑ کر التے ہیں تو پھر تم دونوں کو گاوں لیجا کر تیرے گھر والوں کو
بال کر انکے حوالے کروں گا ۔۔
لڑکی نے جب یہ سنا تو اور اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔
اور پھر میری منتیں کرتے ھوے بولی پلیز یہ ظلم مت کرنا میرے گھر والوں نے مجھے مار دینا ھے ۔۔۔تم جو پلیز میرے
گھر والوں کو نہ بلوانا۔۔۔
میں نے کہا اوکے پھر میری ایک شرط ھے اگر تم مان لو تو پھر میں وعدہ کرتا ھوں کہ تم کو حفاظت کے ساتھ شہر پہنچا
کرآوں گا اور یہ راز ادھر ھی دفن ھوجاے گا۔۔
.لڑکی میری بات سنتے ھی میرے آگے ھاتھ جوڑتے ھوے بولی ۔
مجھے تمہاری ہر شرط منظور ھے ۔۔
مگر پلیز میرے گھر والوں کو نہ بلوانا ۔
میں نے کہا سوچ لو پھر مکر نہ جانا تو لڑکی ہچکی لیتے ھوے بولی ۔
نہیں مکرتی ******قسم
مجھے میری ماں کی قسم نہیں مکرتی
تم جو کہو گے میں وہ کرنے کو تیار ھوں ۔
مجھ سے جو مرضی قسم لے لو ۔
میں نے جب دیکھا کہ پھل تو تھوڑی سی محنت سے ھی جھولی میں گر رھا ھے تو میں لڑکی کی شلوار اور برقعہ اور
لڑکے کی پینٹ اپنے پیچھے کر کے پاوں کےبل لڑکی کے سامنے بیٹھ گیا اور نرم لہجے میں بوال تمہارا نام کیا ھے لڑکی
تھوڑا رک کر بولی سسسسسویرا ۔۔۔۔میں نے تعریفانہ انداز میں****** ،کہا
اور پھر بوال جو میں پوچھوں گا سچ سچ بتانا اگر میرے ساتھ کوئی ہوشیاری کی تو پھر اسکی ذمہ دار تم خود ھوگی اور میں
نے پھر نہ تو تیرا رونا دیکھنا ھے اور نہ ھی تیری کوئی بات سننی ھے ۔۔
لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کرتے ھوے اثبات میں سرہالیا۔۔
میں نے کہا تمہاری عمر کتنی ھے وہ بولی انیس سال میں نے کہا کونسی کالس میں پڑھتی ھو ۔۔وہ بولی
سیکنڈ ایئر میں میں نے ہمممم کیا اور پھر بوال پہلے اس گانڈو سے کتنی بار چدوا چکی ھو سویرا بولی دو دفعہ میں نے
کہا کس جگہ تو وہ ایک دفعہ اسکے دوست کے گھر اور ایک دفعہ اسی جگہ ۔۔
میں نے ہممممم کیا ۔
اور پھر بوال ۔
سویرا میری بات دھیان سے سنو اور میں بار بار اپنی بات کو دھرانے کا عادی نہیں ہوں ۔
اگر تمہیں میری شرط منظور ھوئی تو ہاں کردینا ورنہ میں نے تمہاری منتیں نہیں کرنی ۔۔۔
سویرا نے سر اٹھا کر میری طرف سوالیا نظروں سے دیکھا کہ میں کون سی شرط کا کہنے لگا ھوں ۔۔مجھے خاموش دیکھ
کر بولی ۔
میں نے کہا نہ کہ میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں ۔
بس مجھے میرے کپڑے دے دیں اور ادھر سے جانیں دیں ۔۔۔
میں نے کہا تو پھر سنو۔۔
مجھے ایک دفعہ کرنے دو اور کرنے کے دوران نہ کوئی نخرہ کرنا ھے نہ کوئی چوں چراں کرنی ھے ۔
بلکہ چدواتے وقت اور جیسے جیسے میں کروں گا ویسے ھی تم نے میرا برابر کا ساتھ دینا ھے ۔۔مجھے یہ محسوس نہ ھو
کہ میں تم سے ذبردستی کررھا ھوں اور تم بھی مجبوری سے کروا رھی ھو۔۔۔
جلدی بولو منظور ھے کہ نہیں اور سوچ سمجھ کر جواب دینا ۔
سویرا نے سر نیچے کیا اور سوچنے لگ گئی ۔۔۔
جب وہ کچھ ذیادہ ھی سوچ میں پڑگئی ۔
تو میں یہ کہہ کر اٹھنے لگا ۔
کہ اوکے جیسے تمہاری مرضی تو سویرا ایک دم خیالوں سے باہر آئی ۔۔اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے بیٹھنے کا کہتے ھوے
بولی مجھے منظور ھے منظور ھے منظور ھے ۔
میں پھر واپس بیٹھ گیا ۔۔سویرا بولی میری ایک ریکویسٹ ھے وہ مان لیں میں آپکو شکایت کا موقع نہیں دوں گی ۔
میں نے کہا بولو ۔
سویرا بولی ۔آپ میرے اندر فارغ نہ ھونا اور آپ کے عالوہ مجھے کوئی اور ھاتھ بھی نہ لگاے ۔۔۔میں ایسی لڑکی نہیں ھوں
بس اس کتی کے بچے کی باتوں میں آگئی اور مصیبت کے وقت میں وہ مجھے یہاں چھوڑ کر خود اپنی جان بچا کر بھاگ گیا
۔۔
میں نے کہا ٹھیک ھے مجھے تمہاری دونوں باتیں منظور ہیں ۔
میرا کوئی نوکر بھی تمہارے پاس بھی نہیں آے گا اور میں فارغ بھی باہر ھی ھو جاوں گا ۔
مگر ہم ادھر نہیں کریں گے کیونکہ میرے نوکر تمہارے یار کو پکڑ کر ادھر ھی الءیں گے اس لیے تم میرے ساتھ چلو میں
تمہیں ایک محفوظ جگہ لے کر چلتا ھوں ۔۔
سویرا گبھرا کر بولی ننننہیں ادھر ھی کرلو ۔
میں نے کہیں نہیں جانا۔۔
میں نے تھوڑا غصے سے کہا ۔
ہم گاوں کے لوگ زبان کے پکے ھوتے ہیں جب تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لی ھے تو جان بھی چلی جاے مگر تم پر کسی
کی گندی نگاہ بھی نہیں پڑنے دوں گا ۔
اپنے یار پر یقین کر کے بھی دیکھ لیا اب اس پینڈو پر بھی یقین کر کے دیکھ لو ۔
تمہیں خود پتہ چل جاے گا ۔۔
ہمیں باتیں کرتے دس پندرہ منٹ ھوچکے تھے میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھی نظریں دوڑا رھا تھا کہ سویرا کا ییندڑ واپس نہ
آجاے ۔
مگر اسکا کہیں نام نشاں نظر نہیں آرھا تھا ۔
سویرا میری بات سن کر خاموش ھوگئی میں نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر میرے بندے ادھر پہنچ گئے تو پھر معاملہ خراب
ھوجانا ھے ۔۔
سویرا بولی میری شلوار مجھے دو میں پہن لوں ۔۔
میں نے شلوار اسکی طرف بڑھاتے ھوے کہا ۔
میری بات یاد ھے نہ کہ کوئی بھی چاالکی نہیں کرنی ۔
سویرا سرہالتے ھوے بولی بے فکر رھو تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی
میں نے یہ سوچتے ھوے شلوار اسکی طرف بڑھائی کے ایک دفعہ میرا لن پھدی میں لے لو گارنٹی ھے کہ میرے لن کو
بھی نہیں بھولو گی ۔۔
سویرا نے جلدی سے شلوار پہنی
میری نظر اسکی گوری گوری ٹانگوں ہر تھی ۔۔
شلوار پہن کر سویرا نے نیچے بچھی ھوئی چادر اٹھائی اور مجھ سے برقعہ مانگا تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا ۔۔
تم بس یہ چادر ھی اوپر لو اور چلو میرے ساتھ ۔
میں نے آگے بڑھ کر اسکا ہینڈ بیگ بھی اپنے قبضے میں کر لیا اور لڑکے کی پینٹ ادھر ھی پھینکی اور سویرا کو لے کر
میں مکئی کے اندر سے ھی اپنی پرانی جگہ کی طرف لے کر چل پڑا ۔۔
لڑکا نہر کی طرف بھاگا تھا جبکہ میں اسے مخالف سمت لے کر جارھا تھا ۔۔
سویرا ڈرتے ڈرتے میرے اشاروں پر میرے آگے آگے چلی جارہی تھی جبکہ میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی گانڈ کا معائنہ
کرتا ھوا چل رھا تھا ۔
سویرا کا قد کوئی پانچ فٹ چھ انچ کا تھا .جبکہ اسکی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی اور کمر بھی بلکل پتلی تھی اور جسم اسکا
بھرا بھرا تھا بڑا ھی سیکسی فگر تھا ۔۔۔
میں سویرا کو لیے کافی آگے پہنچ چکا تھا سویرا بار بار پوچھ رھی تھی کہ اور کتنا آگے جانا ھے ۔
میں اسے بس تھوڑا سا اور آگے کہتا ھوا اسے چلتے رہنے کا کہتا ھوا اسکے پیچھے چل رھا تھا ۔
آخر کار ہم منزل مقصود پر پہنچ ھی گئے
.کھالے کے قریب پہنچ کر میں نے سویرا کا ہاتھ پکڑا اور اسے درختوں کی طرف لے کر چل دیا سویرا کا ہاتھ پکڑتے ھی
میرے جسم میں سیکس کا طوفان سر اٹھانے لگا سویرا کا ہاتھ تھا کہ بغیر ہڈی کے گوشت اتنا سوفٹ اتنا سوفٹ کہ اففففففف
کیا بتاوں یارا ،،،۔
سویرا سہمی ہوئی تھی اور اسکی حالت بتا رھی تھی کے وہ فل ڈری ہوئی ھے ۔اسکا بازو کانپ رھا تھا درختوں کی اوٹ میں
جاکر میں نے اسے پھر کہا کہ دیکھو سویرا تمہیں یہاں ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ اپنی زمینیں ہیں یہاں میری اجازت کے
بغیر کوئی نہیں آسکتا اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یہ نہ ھو کہ میرا موڈ خراب ہوجاے ۔۔۔
سویرا خود کو سنبھالتے ھوے بولی ججی ٹھیک ھے آپ فکر نہ کریں میری طرف سے آپکو شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور گڈ گرل کہہ کر اسے نیچے چادر بچھانے کا کہا اور خود کان لگا کر چاروں اطراف کی سن گھن لینے
لگا کہ کہیں کسی طرف سے مکئی کے پتوں کی سرسراہٹ تو نہیں ھورھی جس سے کسی کے آنے کا سگنل مل جاے مگر
ہر طرف امن امان کا ھی سگنل مال ۔
میں نے تسلی کر کے جب سویرا کی طرف دیکھا تو وہ نیچے چادر بچھا کر کھڑی میری طرف بڑے غور سے دیکھ رھی
تھی ۔۔
مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوے سویرا نے نظریں جھکا لیں ۔۔
میں نے کہا کیا دیکھ رھی ھو ۔
سویرا بولی میں نے آپ کو کہیں دیکھا ھے مگر مجھے یاد نہیں آرھا ۔۔
میں نے چونک کر اسکو مزید غور سے دیکھا مگر مجھے تو یہ کہیں سے جانی پہچانی نہیں لگ رھی تھی ۔
میں نے کہا ہوسکتا ھے کہیں آتے جاتے دیکھا ھو ۔
سویرا بولی نہیں میں نے آپ کو بڑے قریب سے پہلے کہیں دیکھا ھے ۔
میں نے کہا اچھا بیٹھو جب یاد آجاے تو بتا دینا ابھی ان فضول باتوں کے لیے میرے پاس وقت نہی ھے ۔
سویرا مجھے دیکھتی ھوئی نیچے بیٹھ گئی سویرا سفید سوٹ میں لمبے سیاہ بالوں میں گوری رنگت کے ساتھ واقعی سویرا
لگ رھی تھی ۔۔۔
چہرے پر مصومیت دیکھ کر لگتا ھی نہیں تھا کہ یہ چداکڑ ھے اور اس کے بقول دو دفعہ چدوا بھی چکی ھے ۔۔
سویرا کے نیچے بیٹھتے ھی
میں بھی اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا ۔
اتنے کانفیڈینس کے باوجود مجھے اسکے جسم کو چھونے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی ۔
میں کچھ دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا رھا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہالتا رھا ۔
اور پھر ہمت کرکے میں نے اپنا ایک ہاتھ اسکے ممے کی طرف بڑھایا اور سویرا کا چونتیس سائز کا گول مٹول مما پکڑ کر
دبا دیا اور پھر اس کو مٹھی میں بھر کر ممے کوکبھی دباتا تو کبھی سہالنے لگ جاتا ۔
سویرا کوئی ریکشن نہیں دے رھی تھی بلکل بت بنے بیٹھی ھوئی تھی ۔
مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے میں کسی سٹیچو کا مما دبا رھا ھوں ۔۔کچھ دیر میں سویرا کے دونوں مموں کو دباتا رھا
کافی تنے ھوے ممے تھے اور ایسے سڈول مموں کو سکول یونیفارم کے اوپر سے دبانے کا الگ ھی مزہ ہوتا ھے ۔
سویرا نے بریزیر بھی بہت سوفٹ پہنا ھوا تھا میں جب بھی ممے کو ُمٹھی میں بھر کر دباتا تو مما میری مٹھی سے سلپ
ھوکر مٹھی سے نکلنے کی کوشش کرتا ۔
میرا لن تو فل تن چکا تھا مگر سویرا کے گرم ھونے کا ابھی تک دور دور تک نشان نہیں تھا ۔
اگر پاٹنر سیکس میں ساتھ نہ دے تو سارے مزے کی ایسی کی تیسی ھوجاتی ھے ۔
اور ایسا ھی میرے ساتھ ھورھا تھا ۔
میں اکیال ھی بس سویرا کے مموں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رھا تھا جبکہ وہ بس میری طرف دیکھی جارھی
تھی اسکی آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی جب میں اسکی آنکھوں میں دیکھتا تو مجھے اسکی آنکھوں میں کئی سوال نظر
آتے اسکی آنکھیں اسکی مجبوری کی گواہی دے رہیں تھی ۔
میں اسکی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر کچھ تالش کرنے کی کوشش کرتا تو نجانے کیوں میری آنکھیں زیادہ دیر تک اسکی
آنکھوں کا سامنا نہ کرپاتی اور میں جلدی سے نظریں پھیر کر اسکے مموں کی طرف دیکھنے لگ جاتا یا اس کے گالبی
ہونٹوں کی طرف ۔
آخر مجھ سے مذید صبر نہ ھوا تو میں نے سویرا کو بانہوں میں بھر کر پیچھے کی طرف لٹا کر اسکے اوپر لیٹ گیا۔
)Update no (116
میرا اکڑا ھوا لن سویرا کی ران کی ساتھ لگ گیا اور اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ لپٹ گئیے میں نے اپنے ہونٹ سویرا
کے ہونٹوں پر رکھ دیے سویرا بےجان سی لیٹی ھوئی تھی ۔
اور اس نے اپنے ہونٹوں کو کوئی حرکت نہ دی میں نے ذبردستی اپنے ہونٹوں کی مدد سے اسکے ہونٹ کھولے اور آنکھیں
بند کر کے اس کے نرم مالئم ہونٹوں کا رس پینے لگ گیا ۔
سویرا نے اپنے دونوں بازو ڈھیلے چھوڑ کر گھاس پر رکھے ھوے تھے ۔
اسکا ایک ھاتھ میرے لن کے بلکل قریب تھا میں نے جلدی سے ایک ھاتھ نیچے لیجا کر اپنا ناال کھوال اور شلورا سے لن کو
نکاال اور سویرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھا سویرا نے پہلے تو ویسے ھی میرے لن پر ہاتھ رکھا مگر میں نے اسکے
ہاتھ کو پکڑ کر اسکی مٹھی کو بند کرکے لن اسکی گرفت میں کردیا ۔
میں ساتھ ساتھ سویرا کے ہونٹ چوسی جارھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی مٹھی کو اپنے لن پر دبا رھا تھا ۔
میں نے آنکھیں کھول کر سویرا کی آنکھوں کو دیکھا تو اسکی آنکھیں بند تھیں ۔
ادھر جب میرے لن کے گرد سویرا کی ہتھیلی اور انگلیوں کی گرفت پڑی تو سویرا نے اچانک میرے لن کو دبایا اور پھر
جھٹکے سے چھوڑ کر ایکدم آنکھیں کھول کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگ گئی ۔
میں نے پھر اسکا ھاتھ پکڑ کر لن پر رکھ کر اسکی مٹھی کو بند کردیا ۔
سویرا نے پھر لن کو آہستہ سے دبا کر لن کی موٹائی چیک کی اور پھر ہاتھ سرکاتی ھوئی پہلے ٹوپے کی طرف الئی اور
پھر ہاتھ کو سرکاری ھوئی جیسے ھی لن کی جڑ تک گئی تو اسکی کھلی آنکھوں میں ایک چمک سے آئی اور ساتھ ھی
خوف کے اثار بھی اور اس نے جھٹکے سے لن کو چھوڑا اور میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ آذاد کروا کر میرے سینے پر
دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے ذور سے پیچھے دھکا دیا میں اسکے دھکے سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا اور سیدھا زمین پر لیٹتا
گیا وہ بڑی سپیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور میر لن مکئی کے ٹانڈے کی طرح آسمان کی طرف منہ
کر کے تنا تن کھڑا تھا ۔
سویرا بیٹھتے ھی میرے لن کو پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی اور پھر اس نے دونوں ھاتھ منہ پر رکھ لیے اور ناقابل یقین
انداز سے نفی میں سر ہالتے ھوے آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھی جارہی تھی ۔۔
میں پہلے تو سمجھا کہ یہ بھاگنے لگی ھے مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ تو میرے لن کے سائز کے خوف سے تبق کر اٹھی
ھے تو میں مذید اپنے چڈے کھول کر اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر کے اسکو مکمل سائز چیک کروانے لگ گیا ۔
سویرا کا رنگ سرخ ٹماٹر جیسا الل ھوچکا تھا اور وہ چہرے پر ھاتھ رکھے سر کو نفی میں ہالے جارھی تھی اور میں
اسکی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔
میں نے سویرا کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر واپس اپنے پہلو میں لٹا دیا ۔سویرا گم صم سی میرے ساتھ پھر لیٹ گئی ۔
میں نے اسکے ھاتھ اسکے چہرے پر سے ہٹاے تو اسکے چہرے پر گبھراہٹ دیکھ کر میں اسکے اوپر جھکا اور اسکے
بالوں کو سہالتے ھوے بوال ۔
کیا ھوا اتنا گبھرا کیوں گئی ھو۔۔
سویرا نے صرف نفی میں سرہالنے پر ھی اکتفاء کیا۔میں نے پھر پوچھا کیا ھوا بولو تو سہی ۔
سویرا بولی وووہہ تمہارا اتنا بڑا ھے ۔
مجھ سے نہیں لیا جانا۔۔
میں نے کہا تمہارے یار کا اتنا بڑا نہیں تھا کیا ۔۔
سویرا نفی میں سر ہال کر بولی نہین۔
میں نے کہا اسکا کتنا ھے ۔
وہ بولی اس سے آدھا۔
میں نے کہا ۔
میرا لن لوگی تو تم کو سیکس کا اصل مزہ آے گا ۔
سویرا بولی مجھ سے برداشت نہی ھونا میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ اتنا بڑا بھی ہوتا ھے ۔
میں نے کہا اب تو دیکھ بھی لیا ھے اب تو یقین کرلو ۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے دوبارا اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سویرا کی قمیض
کو اسکے پیٹ سے اوپر کرکے اسکے نرم مالئم پیٹ پر ہاتھ پھرنے لگ گیا ۔
سویرا پتہ نہیں کیوں گرم نہیں ہورھی تھی بلکل بےجان گڑیا کی طرح لیٹی ھوئی مجھے ہر کام کی اجازت دے رھی تھی نہ
روک رھی تھی نہ میرا ساتھ دے رھی تھی ۔
میں ہاتھ کو سرکاتا ھوا قمیض کے اندر سے ھی اسکے مموں پر لے آیا اور بریزیر کے نیچے سے ہاتھ سیدھا کر کے اسکے
ننگے ممے کو مٹھی میں بھرا تو پہلی دفعہ سویرا کے منہ سے سیییییییی نکال اور اس نے میرے ھاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ
لیا۔
سویرا کے ممے کی سوفٹنس میں الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا اففففففففف کیا روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے مالئم ممے
تھے ۔
مگر جب میری انگلی میں اسکے ممے کا نپل آیا تو نپل فل ہارڈ ھوچکا تھا اور نہل کو جب بھی مسلتا سویرا کے منہ سے
سسکاری ضرور نکلتی مجھے اسکا چور سوئچ مل چکا تھا ۔
سویرا کی جان اسکے ممے کے نپل میں تھی ۔
کچھ دیر میں ھی سویرا نے میرے نچلے ہونٹ کو پہلی دفعہ کھینچ کر چوسنا شروع کیا تو مجھے اپنی محنت کا پھل ملتا
محسوس ھونے لگ گیا ۔
اور میں بار بار اسکے دونوں نپلوں کو ھی کبھی مسلتا تو کبھی سہالتا سویرا آہستہ آہستہ جوبن میں آتی جارھی تھی ۔
میں چاہتا تو آتے ھی اسکی شلوار نیچے کر کے لن گھسیڑ دیتا مگر ایسا سیکس کیا تو پھر کیا کیا ۔
سیکس کا اصل مزہ ھی تب آتا ھے جب دونوں پاٹنر برابر میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور دونوں کے اندر برابر کی آگ
لگی ھو ۔
تب ھی چدائی کا حق ادا ھوتا ھے ۔۔
بے شک سویرا کو میں نے بلیک میل کیا تھا اور وہ مجبوری میں سب کچھ کروا رھی تھی مگر اسکے باجود بھی میں اس
سے ایک لور پاٹنر کی امید رکھ رھا تھا
سویر نے میرے نچلے ہونٹ کو قابو کر لیا تھا اور اسے چوسنے لگ گئی اور اسکے ساتھ ھی اسکا ھاتھ اٹھا اور میری گردن
کو سہالتے ھوے میرے سر کو مذید نیچے کی طرف دبا کر میرا نچال ہونٹ چوستی ۔
سویرا کے ایکشن میں آنے کی دیر تھی کہ میرا بھی پارا چڑھ گیا اور میں نے بھی والہانہ انداز میں اسکے ممے کو دبانا اور
اسکے اوپری ہونٹ کو چوسنا شروع کردیا ۔۔۔
مجھے سویرا کی سیکس کی بھوک کا اندازہ اسکی والہانہ کسنگ اور کمر اٹھا اٹھا کر میرے ساتھ چپکنے سے ہورھا تھا
اور ساتھ میں جس انداز سے وہ میری گردن کو سہالتے ھوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی ۔
اس سے میرے اندر انتہاء کا جوش بڑھ رھا تھا ۔
اور میرا لن فل ٹائٹ ہو کر پھٹنے واال ھوچکا تھا میرا دل کررھا تھا کہ ابھی سویرا کی شلوار اتار کر ایک ھی جھٹکے میں
سارا لن اسکی پھدی میں اتار دوں ۔۔
مگر میں سویرا کو پورا تیار کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی رضامندی سے مجھے پھدی میں لن ڈالنے دے ۔۔
اس لیے میں لگاتار مسلسل اسکے مموں پر اور نپلوں پر انگلیوں سے منتر پڑھ کر اسکے اندر سیکس کی بھوک کو بڑھا رھا
تھا اور اس میں قدرے کامیاب بھی ہورھا تھا ۔۔
کچھ دیر ہم دونوں کے ہونٹوں کا دنگل جارہی رھا ۔
اور بالخره میں نے سویرا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگوں کو کھول کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
۔۔
سویرا میرے سامنے ٹانگیں کھولے لیٹی ھوئی تھی اور اسکی قمیض اسکے پیٹ سے اوپر اور مموں سے نیچے تھی ۔۔۔
سویرا کا پیٹ چٹا سفید تھا اور روشنی میں چمک رھا تھا پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اسکی جلد میں شائنگ تھی ایسے جیسی
ویکس کی ھو بال کی ایک لوں تک نہ دکھ رھی تھی ۔۔
میں نے اسکے پیٹ کو دیکھا تو بے اختیار میں اسکے پیٹ پر سجدہ ریز ھوگیا اور ہونٹ اسکے پیٹ پر رکھے اور پیٹ کا
بوسا لے کر اسکے حسن کی تعریف کی ۔۔۔۔میرے ہونٹ سویرا کے پیٹ پر لگے تو سویرا کے پیٹ کی جلد وائبریشن ہونے
لگ گئی اور سویرا نے گھاس سے کندھے اٹھا کر سر کو پیچھے خم دے کر سسکاری بھرتے ھوے میرے بالوں میں
..unglian pherni shorro kar den
.میں نے تین چار چھوٹی چھوٹی پاریاں سویرا کے پارے سے پیٹ پر کیں ۔
اور ساتھ ھی اپنی زبان کو نکال کر ناف میں ڈال دی اور ناف کے دائرے میں چاروں اطراف زبان کی نوک کو پھیرنے لگ
گیا سویرا ایکدم مچل اٹھی اور میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر لیا اور لمبی لمبی سسکاریاں لیتی ھوئی سر دائیں بائیں
مارنے لگ گئی ۔۔
اور ساتھ ھی سیکسی آوازوں میں پلیزززز نہ کرو پلیزززز نہ کرو مجھ سے برداشت نہیں ہورھا پلیزززززز ۔۔۔
سویرا کی نہیں نہیں سے میرا شوق بڑھتا گیا اور میں زبان کا جادو پیٹ پر چالنے کی تگ ودو میں لگ گیا ۔۔
.میں کبھی زبان کی نوک کو ناف کے چھوٹے سے سوراخ کے اندر ڈالتا تو کبھی سوراخ کے کناروں پر نوک کو گھماتا ۔
اور پھر سلو موشن میں زبان کو سرکاتا ھوا ناف کے نیچے االسٹک تک لے جاتا ۔
سویرا کی حالت ایسی تھی کہ جیسی ابھی ہلک سے جان نکل جاے ۔۔۔
کچھ دیر ایسے ھی اس کے پیٹ پر زبان اور ہونٹوں کا کھیل جاری رھا ۔
کچھ دیر بعد میں زبان کو سرکاتا ھوا اسکے مموں کی طرف لے گیا اور مموں پر قمیض ہونے کی وجہ سے بریزیر کی
السٹک تک ھی زبان لیجا سکا ۔۔
اور پھر ادھر والے حصے کو چوم کر سر اٹھا کر میں پھر سی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
تو سویرا نے شکر ادا کیا اور لمبا سانس بھر کر میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے اسکے دونوں
ھاتھوں کو پکڑا اور ھاتھوں کو اوپر کی جانب کیا اور اپنے سر کو نیچے جھکا کر اسکے ریشم سے مالئم اور روئی سے
نرم ہاتھوں کو چوم کر ھاتھوں کو ہلکے سے اپنی طرف کھینچ کر سویرا کو اٹھ کر بیٹھنے کا کہا۔۔
سویرا کسی جادوگر کے سحر میں جکڑی میرے اشارے پر چلتی ھوئی بے جان مورت کی طرح اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔میں نے
اس کے ھاتھوں کو اسکے سر کے اوپر لیجا کر بازوں کو اوپری جانب کر کے اسکے ہاتھوں کو چھوڑ دیا سویرا کسی
مجسمے کی طرح وہیں اپنے بازوں کو کھڑا کر کے میری طرف عجیب سی نظروں سےدیکھی جارھی تھی ۔۔
دوستو سہی بتاوں تو مجھے اسکے یوں اپنی طرف دیکھنے سے خوف محسوس ھونے لگ جاتا تھا کہ پتہ نہی اس پر جنات
کا اثر تو نہیں ۔۔
خیر
میں نے اسکی قمیض کو دونوں اطراف سے پکڑ کر اوپر کیا اور اسکے مموں کو ننگا کرتے ھوے اسکے سر سے قمیض
نکالی اور بازوں میں لیجاکر چھوڑ دی ۔۔
بازوں سے قیمیض اس لیے نہیں نکالی تھی کہ باقی کا کام سویرا خود کر لے گی یعنی بازوں سے قمیض خود نکال لے
گی ۔۔۔کیونکہ قمیض اتارتے ھوے بھی اس نے مجھے روکا نہیں تھا اور نہ ھی کوئی احتجاج کیا تھا ۔
بلکہ بلکل ایک سٹیچو کی طرح ہاتھ سر سے اوپر کر کے بازو بلکل سیدھے اوپر کی طرف کیے بیٹھی تھی ۔۔
جب میں نے اسکی قمیض اسکے جسم اور سر سے نکال کر اسکے بازوں میں چھوڑی تو اس نے ایکدم بازو نیچے کو گراے
اور میری طرف یوں بازو کردیے کہ جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ یہ بھی خود ھی اتار دو ۔
اور اسکی نظریں ویسے ھی مجھکو دیکھ رہیں تھی ۔
پتھر سی آنکھیں جیسے اسکی آنکھیں جھپکتی ھی نہ ھوں ۔
مجھے یہ لڑکی حسن کی مورت لگ رھی تھی ۔۔
یا پھر نفسیاتی مریض ۔۔۔
)Update no (117
میں نے اسکی بازوں سے قمیض نکال کر ایک طرف چادر پر رکھ دی میری جیسے ھی نظر اسکی ننگے جسم اور ہلکے
بلیو کلر کے بریزیر میں چھپے مموں پر پڑی ۔۔
دوستو قسم سے اس حسن مجسمہ کو دیکھتے ھی مجھ پر سکتہ طاری ھوگیا ۔
میں پلکوں کو جھپکانا بھول گیا سانس اندر باہر کھینچنا بھول گیا
اسکو دوبارا پیچھے کی جانب لیٹانا بھول گیا ۔۔
میرے ھاتھ اسکی رانوں پر تھے تو وہیں رک گئے میری کھلی آنکھیں پتھر ہوگئی میرا سانس جہاں تھا وہیں رک گیا ۔۔۔
اففففففففففففففف کیا اس ظالم کے حسن کی تعریف لکھوں کاش اسکے جسم کی بناوٹ اور اسکی خوبصورت گالبی رنگت کو
الفاظوں میں ڈھال کر آپ دوستوں کے سامنے پیش کرسکتا۔۔۔
سویرا بت بنی میرے چہرے کو دیکھی جارہی تھی اور میں بت بنا سویرا کے چٹے سفید گالبی رنگت کے چمکتے جسم کو
دیکھ رھا تھا ۔
کچھ دیر اسی حالت میں بےجان دو جسم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رھے۔
پھر یوں ہوا کہ مجھے ہوش آیا اور میرے ھاتھوں نے اٹھنے کی جرات کی اور اس حسن کی دیوی کے گول مٹول تنے ھوے
چٹے سفید مموں کو بریزیر کے اوپر سے پکڑ لیا اور ایک دفا دباتے ھی اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور وہ مورت
میری طرف دیکھتی ھوئی پیچھے کی جانب گرتی گئی اور گھاس کے اوپر بچھی چادر کے اوپر لیٹ گئی اور میں اسکو
پیچھے لیٹاتا ھوا اسکے ننگے جسم کے اوپر جھکتا گیا اور اس کے مموں کے درمیاں لکیر کے اوپر اپنے ہونٹ اس انداز
سے رکھ دیے کہ میرے ہونٹوں کا ایک طرف کا حصہ اسکے ایک طرف کے روئی سے نرم ممے پر تھا اور ہونٹوں کی
دوسری سائڈ اسکے دوسرے ممے کو چھو رھی تھی ۔
اور میرے ہونٹ اس مخمل میں دھنستے گئے افففففففففف یارا کیا سوفٹنس تھی کیا مالئمت تھی کیا کشش تھی ۔
میں تو اس کو اپنے سحر میں جکڑنا چاہتا تھا مگر سالی کے جسم کا نظارا کرتے ھی میرا سارا حساب کتاب ھی بگڑگیا۔۔
الکھ پالننگ سوچی تھی اسکو ننگا کر کے چودنے کی ۔
سالی نے صرف مموں کے جلوے سے ھی میرا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا۔
میں تو دور سے اسکے ممے اور گورا جسم دیکھ کر سکتے میں آگیا اب تو پھر بھی یہ گورا جسم حسن کی مورت میری
آنکھوں کے سامنے اور میری دسترس میں تھا ۔۔
تو پھر میری تو ایسی کی تیسی ھونی ھی تھی ۔۔
خیر میرا کچھ خمار کم ھوا تو میں نے سویرا کے مموں سے پردہ اٹھا کر اوپر کر کے مموں کو جلوہ گر کیا اور اسکے
روئی سے نرم مموں پر بے صبروں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔
اور سویرا کے منہ سے سسکاریوں کا طوفان نکل پڑا ۔
نہ مجھے کوئی روکنے واال تھا اور نہ سویرا کی سسکاریاں رکنے والی تھیں ۔
مین مموں کے چھوٹے سے اکڑے ھوے نپل کو کبھی دانتوں میں بھینچتا تو کبھی انہوں ہونٹوں میں لے کر چوستا
سویرا سر اٹھا اٹھا کر مجھے اپنے ممے چوستی دیکھتی اور ساتھ میں سسکاریاں بھرتی ھوئی میرے سر پر ھاتھ رکھ کر
مموں پر دباتی اور کبھی سر پیچھے لیجا کر کندھوں کو اٹھا کر مموں کو مزید اونچا کرتی ۔۔۔
کچھ دیر یہ کھیل چلتا رھا ۔
اور جب سویرا کے ممے سرخ ھوگئے اور میرے لباب سے تر ھوگئے اور سویرا کی سانسیں اکھڑنے کے بعد تھم گئی اسکا
جسم اکڑنے کے بعد بےجان ھوگیا اور مجھے اسکی پھدی گیلی ہونی کا یقین ھوچال تو تو میں اس کے مموں کو چھوڑ کر
پھر سے اسکی ٹانگوں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور اپنی شلوار کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور پھر
سویرا کی شلوار .کو السٹک والی جگہ سے پکڑ کر اسکی سڈول اور گوری چٹی بالوں سے پاک گانڈ سے نکال کر اسکی
ٹانگوں سے کھینچتا ھوا اسکے پیروں پر لے آیا اور پھر شلوار کو اسکے پیروں سے باری باری نکال دیا اور پھر اپنی
قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی اب دو جسم مادر ذاد ننگے تھے اور سویرا کے جسم پر صرف بریزیر تھا جو اسکے
مموں سے اوپر کی جانب اکھٹا ھو کر مموں کو ننگا کیے ھوے تھا۔۔
میں نے سویرا کی پھدی کا غور سے معائنہ کیا تو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ بلکل کنواری پھدی کی طرح تھی پھدی کی
ہونٹ اندر کی جانب ایک دوسرے سے چپکے ھوے تھے اور نہ ھی پھدی کی جھلی لٹک رھی تھی ۔
جس طرح سویرا کے چہرے پر معصومیت جھلک رھی تھی بلکل اسی طرح سویرا کی پھدی پر بھی معصومت جھلک رھی
تھی ۔۔۔
پھدی کے باریک سے ہونٹوں پر بس شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔۔
میں نے سویرا کی پھدی پر انگلی پھیری تو سویرا ایک دم کانپی اور اپنی ٹانگوں کو آپس میں مال کر میرے ہاتھ کو ٹانگوں
کے بیچ جکڑ کر سر اٹھا کر سسکاری ماری ۔۔۔
میں نے اسکی روئی سی نرم رانوں میں پھنسے ھاتھ سے ھی انگلی کو حرکت دیتے ھوے پھدی سے چھیڑ چھاڑ شروع
کردی کچھ دیر تو سویرا سر دائیں مارتے ھوے سییییہہہی افففففف کرتی ھوئی مجھے فنگرنگ کرنے سے منع کرتی رھی
مگر میں تو اسکی گرم پھدی کی گرمائش سے اپنی انگلی کو ٹکور دے رھا تھا اور پھدی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کی
کوشش کررھا
.کچھ دیر میں ایسے ھی انگلی کی مدد سے سویرا کی پھدی کو چھیڑتا رھا تو
کبھی پھدی کے چھوٹے سے پھولے ھوے دانے کو مسلتا رھا کہ سویرا کو ایک دم جوش چڑھا اور اس نے گانڈ اٹھا کر
میرے انگلی کو پھدی کے اندر لیا اور پھر زور سے رانوں کو آپس میں بھینچ کر گانڈ کو اوپر نیچے کرتے ھوے سییییییی
یس یس یس یس کرتی ھوئی ایک دم اکڑ کر ڈھیلی ھوئی اور پھدی سے گرم الوہ بہتا ھوا نکلنے لگا اور پھدی کے اندر میری
میری انگلی پر منی کی گرم دھاریں پڑتی رہیں ۔۔۔
سویرا فارغ ھوتے ھی ٹانگوں کو کھول کر پھر بےجان مورت بن کر میری طرف دیکھنے لگ گئی۔۔
سالی کو پھر پتہ نہیں کیا ھوا کہ اسکی آنکھیں پتھرا سی گئیں اور مجھے یوں دیکھنے لگ گی جیسے مجھے پہچاننے کی
کوشش کررھی ھو یا مجھ پر قربان جارھی ھو یا پھر اپنی مجبوری ظاہر کر رھی ھو ۔
کئی سے سوال اسکی انکھیں کررھیں تھی جنکو سمجھنے کی کوشش میں کرتا تو پاگل ھوجاتا ۔
میں نے کچھ پل اسکی آنکھوں کو دیکھا اور پھر سے اسکی پھدی کی طرف متوجہ ھوکر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں کے
درمیان ٹوپے کو پھنسانے لگا اور ٹوپے کو پھدی کے درمیان ٹوپے کو اڈجسٹ کر کے سویرا کے اوپر جھکا ۔
اور ایک جھٹکا مارا تو اسکی پتھرائی آنکھیں بھیگ گئیں اور اسکے منہ سے اتنا ھی نکال امییییییییییی جییییییییییی ۔
پھدی کو چیرتا ھوا لن آدھا اندر گھس چکا تھا اور سویرا کے ہاتھوں نے میرے بازوں کو جکڑ لیا تھا ۔
اور اس نے پیچھے کھسکنے کی کوشش کی تھی مگر میرے ھاتھ اسکے کندھوں کو اپنے شکنجے میں لیے ھوے تھے ۔
میرا لن ایسے تھا جیسے کسی آگ کی بھٹی میں گھس گیا ھو اور پھدی کی جکڑ ایسی تھی جیسے کسی نرم چیز نے پوری
طاقت سے میرے لن کو اپنے احصار میں لے کر جکڑا ھو ۔۔۔
سویرا نے نہ اوہہہہہہہ کی نہ ھاےےےےےےےے کی بس امی کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگ
گئی ۔۔۔
میں نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ھی دوسرا گھسا مار کر اسکی ننھی سی پھدی کی گہرائی کو لن سے ناپ لیا ۔۔
اور میرے ٹٹے اس کی گانڈ سے جا لگے اففففففف کیا ھی پھدی کی گرمائش تھی مجھے لگ رھا تھا کہ بس دوسرے گھسے
میں ھی میں فارغ ھوجاوں گا۔۔۔
دوسرا گھسا جب مارا تو لن پھدی کی گہرائی میں چال گیا اور سویرا نے پھر امی کو بڑی شدت سے یاد کیا ۔
اور اسکی آنکھیں باہر کو ابھلنے والی ھوگئیں سویرا سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے میری رانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھے
پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے امییییییی جی مرگئیییییی پلیزززززز مجھے چھوڑ دو اسے باہر نکال لو میں مرجاوں
گی ۔۔۔۔
.مجھ سے برداشت نہیں ھورھا.
خاموش گڑیا جو شروع سے ایک مجسمہ ایک بت ایک مورت ایک سٹیچو بنا ھوا تھا میرے لن نے اندر جاتے ھی اس بے
جان مجسمے میں جان ڈال دی اسکی زبان چلی تو رکنے کا نام نہ لی ۔
جس مورت کو دی زباں ہم نے وہ بولے تو ہم پر ھی برس پڑے۔۔۔۔
سویرا مجھے دھکے دینے کی کوشش کررھی تھی مجھ کو برا بھال کہنے پر اتر آئی ۔
مگر میں نے لن اندر سے باہر نہ نکلنے دیا کچھ دیر تڑپنے کے بعد سویرا ڈھل گیا ہر طرف خاموشی چھاگئی ۔۔
اور مین نے سویرا کے خاموشی کو اسکی برداشت کا نام دے کر آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔
/Update no /118
سویرا پھر سے میرے ہر گھسے پر امی کو یاد کرتی ۔
ماں بیٹی میں کافی پیار لگ رھا تھا جو اسے اس موقع پر امی کی یاد شدت سے آرھی تھی ۔۔
میں نے آہستہ آہستہ گھسوں کی رفتار تیز کردی اب میرے گھسے سے اس کے ممے ہلنا شروع ھوچکے تھے دودھ کے
پیالے چھلکنے لگ گئے تھے اسکے پیٹ کی جلد پر بھی وائبریشن ہورھی تھی ۔
اسکے آنسوں اب بھی بہہ رھے تھے ۔
پانچ منٹ بعد سویرا کو امی بھی بھول گئی اور آنسو بھی تھم گئے مموں نے ہلتے ھوے اوپر کو اٹھنا شروع کردیا سویرا کے
ھاتھ جو مجھے پیچھے کی طرف دھکیل رھے تھے اب میری رانوں کے آگے سے ہٹ کر میری رانوں کے پیچھے چلے
گئے اور اسکی آہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی ۔
میرے گھسوں کی بھی رفتار بھی ساتھی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بڑھ گئی سویرا نے ٹانگوں کو خود ھی مذید اوپر کیا
اور میری کمر کے گرد ٹانگوں کا شکنجا ڈال کر گاند کو اوپر اٹھاتے ھوے یس یس یس یس ایم کمنگ فاسٹ فاسٹ فک می
فک می کرتے ھوے ایکدم مجھ سے کسی چمگادڑ کی طرح چمٹ گئی اور پھدی سے منی کا مینہ برسنا شروع ہوگیا ۔۔۔
کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد سویرا بےدم ھوکر لیٹ گئی میں تھوڑا وقفہ دیا اور پھر سے چپو چالنا شروع کردیا تقریبًا
پانچ سات منٹ بعد ھی مجھے لگا کہ میں چھوٹنے واال ھوگیا ھوں تو میں نے آخری جاندار گھسا مارتے ھوے سویرا کو پھر
امی کی یاد دالئی جس کا ثبوت اس نے ھاےےےے امییییی کر کے دیا اور میں نے لن کو جھٹکے سے باہر نکاال اور اسکی
روئی سے نرم ران کے اوپر لن کو رکھ کر سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں جکڑ کر اسکے ہونٹوں کا رس
پیتے ھوے لن سے منی کے فوارے چھوڑتا ھو چھوٹنے کا مزہ لیتا رھا ۔۔۔
.جیسے جیسے میرے لن سے منی نکل کر سویرا کی ران پر بہتی جاتی میرے جسم کو جھٹکے لگتے اور میں مذے کی اتھاہ
گہرائیوں میں ڈوبتا ھوا سویرا کے اوپر لیٹا ھوا اسکے جسم میں سمانے کی کوشش کرتا ۔
سویرا بھی میرے بالوں کو سہالتی ھوئی میرے مزے کو دوباال کررھی تھی ۔
ُل
کچھ دیر میں مذید سویرا کے اوپر ھی لیٹا رھا اور پھر اسکے اوپر سے ایک طرف ڑھک کر اسکے ساتھ ھی لیٹ کر لمبے
لمبے سانس لینے لگ گیا ۔۔
سویرا جلدی سے اٹھی اور اپنے پرس سے ٹشو نکال کر اپنی پھدی اور ران کو صاف کرنے لگ گئی ۔
اور مجھے ایک دم جھٹکا لگا جب سویرا نے ٹشو سے میرا لن صاف کرنا شروع کردیا ۔۔
میری آنکھیں بند تھیں جیسے ھی سویرا نے میرے لن کو پکڑا تو جھٹکے سے میری آنکھیں کھلیں اور میں سویرا کے اس
عمل پر حیران رھ گیا ۔
سویرا بڑے غور سے میرے نیم تنے ھوے لن کو دیکھ رھی تھی اور ساتھ ساتھ ٹشو سے لن کو صاف کری جارھی تھی ۔
مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ھوے سویرا نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور مسکرا کر پھر لن کو ایک ھاتھ سے پکڑ کر
دوسرے ہاتھ سے ٹشو کے ساتھ لن کو صاف کرنے میں مصروف ھوگئی ۔۔۔
میں سویرا کو مخاطب کرتے ھوے بوال ۔۔۔
سویرا
سویرا نے نظریں گھما کر بڑی ادا سے میری طرف دیکھا ۔
میں اسکی سحرانگیز آنکھوں میں دیکھتے ہوے بوال مزہ آیا ۔
سویرا نے آنکھیں بند کر کے میرے سوال کا جواب دے دیا اور پھر میرے لن کو پکڑ کر ہالنے لگ گئی اور بڑے غور سے
لن کو ہر زاویے سے دیکھنے لگ گئی ۔۔
میں نے پھر سویرا کو کہا سویرا کیسا لگا میرا ہتھیار ۔
سویرا نے لب ہالے اور آہستہ سےبولی ۔
بہت ھی پیارا ھے
میں نے کہا کتنا پیارا ھے اور ساتھ ھی میں نے سویرا کے ممے کو ہاتھ میں لے لیا اور نپل کو انگوٹھے کے پورے سے
مسلنے لگ گیا ۔
سویرا نے سیییییی کیا اور میری طرف نشیلی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی واقعی تم اصلی مرد ھو
میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنا بڑا بھی ھو سکتا ھے ۔
میں نے کہا اگر واقعی تمہیں پسند ھے تو پھر اسے پاری نہیں کروگی ۔
سویرا نے ہونٹوں پر مسکراہٹ التے ھوے پلکوں کو جھپکا کر اثبات میں سر ہالیا اور پھر میرے نیم مردہ لن کو پکڑ کر
ہالیا اور اسے ہوش میں النے کی کوشش کرتے ہوے زبان نکال کر ٹوپے پر پھیرنے لگ گئی ۔
سویرا سر جھکا کر ٹوپے پر زبان پھیرتی تو اسکے کے سلکی بال اسکے چہرے کو چھپانے کی بار بار کوشش کرتے تو
سویرا ٹوپے سے منہ ہٹا کر ایک ہاتھ سے سلکی بالوں کو بڑی ادا سے اٹھا کر اپنے کان کے پیچھے کردیتی مگر جب سویرا
سر جھکا پھر زبان ٹوپے پر رکھتی تو وہ ظالم پھر کان کے پیچھے سے نکل کر سویرا کے چہرے کو ڈھانپ دیتے ۔۔
میں لیٹا ھوا سویرا کے بالوں کی بدمعاشیاں دیکھ رھا تھا ۔
بالخره مجھے بیچ میں ٹپکنا پڑا تو میں نے سویرا کے ممے کو چھوڑا اور اسکے بالوں میں انگلیاں ڈال کر انکو کو سہالتے
ھو سویرا کے سر کے پیچھے لے گیا ۔
اور اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر بالوں کو وہیں ٹکا دیا۔
سویرا بڑی مہارت سے ٹوپے کے اطراف میں زبان پھیرتی تو کبھی زبان کی نوک سے ٹوپے کے لبوں کو کھول کر زبان
کی نوک اندر ڈال کر زبان کی نوک کو دبا دیتی ۔
اففففففف سویرا کی زبان کا جادو میرے لن پر حاوی ھو رھا تھا سویرا کی زبان نے میرے لن میں پھر سے جان ڈال دی اور
لوڑے کو ایک نئی زندگی ملی اور ساتھ میں نیا مزہ ۔۔
تو لوڑا ساب پھنکارتے ھوے تن کر کھڑے ھوے ۔
تو سویرا نے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بڑی فاتحانہ انداز میں دیکھا ۔
اور ساتھ ھی ہونٹوں کو کھول کر ٹوپے کو منہ کے اندر لے کر چوسا لگا کر اپھاااااا کر کے منہ سے نکاال ۔
سویرا کسی ماہر چدکڑ کی طرح لن کو چوس رھی تھی کبھی ٹوپے کو منہ میں لے کر چوستی تو کبھی ٹوپے پر زبان
پھیرتے ھو زبان کو نیچے جڑ تک لے جاتی اور پورے لن پر زبان پھیرتی ۔
میں تو مزے کی وادیوں میں کھو چکا تھا ۔
میرے ھاتھ کی انگلیاں سویرا کے سر کے بالوں کو سہال رھی تھیں اور میرے منہ سے آہہہہ سییی نکل رھا تھا کچھ دیر
سویرا میرے لن کو چوستی چاٹتی رھی اور پھر میری طرف دیکھتے ھو لن کو منہ سے نکاال ۔
میں نے سویرا کے بازوں کو پکڑ کر اسے اپنے اوپر آنے کا کہا
تو سویرا جھٹ سے میرے لن کے اوپر اپنی پھدی کرتے ھوے میری رانوں کے اوپر آگئی اور گھٹنوں کے بل ھوکر اپنی
ٹانگوں کو میری ٹانگوں کے دونوں اطراف کرلیا ۔اور میرے اوپر گھوڑی بن گئی۔۔
سویرا کا منہ میرے منہ کے اوپر تھا اور اسکے چٹے سفید ممے میرے سینے کے اوپر لٹک رھے تھے اور اسکے مموں کی
نپل میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھورھے تھے ۔
سویرا میری نظروں میں نظریں ڈال کر بولی آپ کا نام کیا ھے ۔
میں نے کہا یاسر ۔
سویرا بولی رئیل نیم ھے یا پھر فیک ۔
میں نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں ۔۔
سویرا بولی یاسر تم نے مجھے پہلی دفعہ ھی اپنا دیوانہ بنا لیا ھے ۔
میں نے سواے اپنے فرینڈ کے کبھی کسی اور کے بارےمیں کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔
پتہ نہیں تم میں کون سی ایسی کشش ھے کہ نہ چاہتے ھوے بھی میں تم پر دل ہار بیٹھی ھوں ۔
میں نے کہا تمہارے فرینڈ کا اب کیا بنے گا .وہ ساال تو گانڈو نکال سالے نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ تم اکیلی رھ
گئی ھو ۔
اور وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا ۔
سویرا ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔
میں اس کتے کے بچے کہ منہ پر اب تھوکوں گی بھی نہیں ۔
گھٹیا انسان نکال۔۔
مجھ سے شادی کے دعوے کرتا تھا میرے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں اس نے ۔
لعنتی کتا بغیرت ۔۔۔
سویرا اپنے آپ سے ھی باتیں کررھی تھی خودخیالی میں بولی جارھی تھی کہ میں نے ھاتھ نیچے لیجا کرلن کو پکڑ کر
سویرا کی پھدی میں سیٹ کیا تو پھدی پر لن کو محسوس کرتے ھی سویرا ایکدم خیالوں سے باہر آئی اور خمار آنکھوں سے
میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر تم اندر مت کرنا میں خود کروں گی میں اسکی ادا پر ھی ُج م ھوگیا اور ساتھ ھی اپنے
لن سے ہاتھ ہٹا لیا۔
سویرا نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا اور ہاتھ نیچے لیجا کر لن پر تھوک کو لگا کر لن کو اچھی طرح گیال کیا اور پھر لن
کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں سیٹ کر کے تین چار دفعہ لن کو پھدی کے دانے کے ساتھ مسال اور پھر آہستہ سے نیچے
بیٹھتے ھوے لن کو پھدی کے اندر لینے لگ گئی اور ساتھ ھی اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے سسییییی کیا آدھا لن اندر کر
کے سویرا نے پھر گانڈ کو اوپر کیا اور لن کو باہر نکال کر پھر واپس لن پر بیٹھتے ھوے لن کا پورا مزہ لیتے ھوے
آہہہہہہہہہ سیییییی کرتی ھوئی پورا لن پھدی کے اندر ہڑپ کرگئی ۔
جیسے ھی لن سویرا کی بچے دانی کے اندر داخل ھوا سویرا نے ذور سے آنکھیں بند کر کے آہہہہہہہہہہ آیییییییی کیا اور
مجھے ایسے محسوس ھوا جیسے میرے ٹوپے کو کسی بہت ھی نرم چیز نے جکڑ لیا ھو ۔
سویرا نے دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھے اور پورے لن کو پھدی کے اندر لے کر منہ آسمان کی طرف اٹھا کر پھدی کو
مسلتے ھوے گانڈ میری رانوں پر آگے پیچھے کرنے لگ گئی ۔۔
اور ساتھ ساتھ افففففف آہہہہہہہہ سسییییییی کرتے ھوے چدائی کا فل مزہ لینے لگ گئی
سویرا جیسے جیسے گانڈ کو آگے پیچھے کرتی سویرا کے ممے ویسے ویسے اسکے سینے پر ڈانس کرتے میری آنکھوں
کے سامنے سویرا کے ہلتے ممے اور سویرا کا بڑھتا جنون میرے اندر کی آگ کو مذید بڑھکا رھا تھا ۔
میں نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور سویرا کے مموں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا اور مموں کو دبانے لگ گیا
کیا ھی سوفٹنس تھی سویرا کے مموں کی ۔۔
سویرا کی سپیڈ تیز سے تیز ھوتی جارھی تھی ۔
میں نیچے بلکل آرام سے لیٹا ھوا سویرا کا انداز چدائی دیکھ رھا تھا ۔
واقعی بڑی گرم بچی تھی اور پکی چداکڑ تھی ۔
کچھ ھی دیر بعد سویرا کی سانسیں اکھڑنا شروع ھوگئیں اور ساتھ ھی اسکی سپیڈ بھی تیز ھوگئی
سویرا مسلسل تیزی سے لن کے اوپر بیٹھی گانڈ کو آگے پیچھے کرکے فارغ ھونے کے قریب ھوتی جارھی تھی اور مزید
دومنٹ کے بعد سویرا ایکدم مجھ پر جھکی اور میرے سینے پر اپنے نرم مالئم ممے رکھ کر ٹانگوں جو پیچھے لیجا کر بلکل
سیدھی ھوکر میرے اوپر الٹی لیٹ گئی اور سانپ کی طرح اپنی کمر کو بل دے کر گانڈ کو ہالنے لگی میں نے بھی ہاتھ
پیچھے لیجا کر اسکی گول مٹول نرم چوتڑوں پر رکھ لیے سویرا کی سانسیں اور اسکی کمر کے بل مذید تیز ھوگئے اور
سویرا ایم کمنگ یاسرر ایم کمنگ یاسر لو یو لو یو اففففف آہہہہہ سیییییی ھاےےےےے گگگگگگگگگئی کرتی ھوئی نے گانڈ
کو پورے ذور کے ساتھ لن پر دبا کر لن کو پھدی کے اندر لے کر پھدی کو بھینچ لیا اور جھٹکے مارتے ھوے سویرا نے
دانت میرے شولڈر گاڑھ دیے درد سے میری جان نکلنے والی ھوگئی سالی نے کاٹا ھی اتنی ذور سے تھا ۔۔۔
میرے منہ سے بھی ٰآ ییییییییی نکل گیا مگر اس کمبخت کو کہاں ہوش تھا ۔
جیسے جیسے سویرا کی پھدی کی گرفت میرے لن سے ڈھیلی ہوتی گئی ویسے ویسے میرے کندھے کی جلد پر اسکے
دانتوں کی گرفت بھی ڈھیلی ھوتی گئی ۔
سویرا کی پھدی سے گرم منی میرے لن سے بہتی ھویی میرے ٹٹوں کو بھی گیال کرتی ھوئی نیچے چادر پر گر رھی تھی ۔
اور سویرا میرے اوپر بےجان ھوکر گری ھوئی تھی میرے ھاتھ اسکی کمر کو سہال رھے تھے ۔
Update no 119
میرے کندھے پر بہت جلن ھو رھی تھی مگر میں نے سویرا کو محسوس نہیں ھونے دیا۔۔
کچھ دیر بعد سویرا سنبھلی اور میرے اوپر سے اٹھنے لگی مگر میں نے اسکی کمر کو پکڑ کر اسے وہیں روک لیا اور ہاتھ
نیچے لیجا کر اسکی رانوں کو پکڑ کر آگے کی طرف کھینچ کر اسے گھوڑی سٹائل میں گھٹنوں کے بل کیا اور اسکی گانڈ
کو پکڑ کر نیچے سے گانڈ اٹھا کر گھسے مارنے شروع کردیے .۔
سویرا کے منہ سے پھر آہیں نکلنا شروع ھوگئیں ۔
اسکی آہیں بڑھتی گئیں میرے گھسے تیز ھوتے گئے سویرا آہہہہہہک پلیز آرام سے کرو یاسر پلیززززز اندر جا کر لگ رھا
ھے پلیززززز آہہہہہہ یاسرررر پلیزززززز
مگر اسکی یہ باتیں میرا جوش بڑھا رہیں تھیں اور میں بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورے ذور سے گھسے مارتا اور اسکے ہلتے
مموں اور اسکی آہوں کا فل انجواے کرتا کچھ دیر ایسے ھی میں سویرا کو چودتا رھا اور جوش میں آکر اسکی گانڈ پر ذور
ذور سے تھپڑ بھی مارتا رھا ۔
کافی دیر ایسے چودتے ھوے میری بھی بس ھوگئی تو میں نے سویرا کو اپنے اوپر ہٹایا اور اسکے نیچے سے نکل کر اسے
پکڑ کر پھر گھوڑی بنا دیا اور میں اسکے پیچھے لن کو لہراتا ھوا آیا ۔۔
سویرا کہنیوں کے بل آگے کو جھک کر گانڈ اٹھاے میرے سامنے گھوڑی بنی ھوئی تھی میں گھٹنوں کے بل اسکی گانڈ کے
سامنے بیٹھ گیا اور لن کو پکڑ کر اسکی پھدی پر سیٹ کی اور اسکی کمر کو پکڑ کر گھسا مار کر لن ایک ھی دفعہ سارا
اندر تک کردیا ۔
سویرا کے منہ سے ہلکی سی چیخ کے ساتھ سسکاری بھی نکلی ۔
اور سر گھما کر پیچھے دیکھتے ھوے بولی ظالم آرام سے بھی کرلیا کرو اتنا بڑا ایک ھی دفعہ میں اندر کردیتے ھو ۔۔۔
میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کچھ وقفہ دے کر اسکی کمر کو پکڑ کر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔۔
اچانک میری نظر سویرا کی گانڈ میں چھوٹے سے سوراخ پر پڑی جو گھسًو ں سے کبھی کھلتا تو کبھی بند ھوتا ۔۔
میں نے ایک ھاتھ اسکی کمر سے ہٹایا اور اسکے چوتڑے پر رکھ کر انگوٹھا اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر سوراخ کو
مسلنے ھی لگا تھا کہ سویرا جھٹکے سے آگے کو ھوئی تو میرا لن اسکی پھدی سے نکل گیا اور گانڈ بھی ھاتھ سے جاتی
رھی ۔۔
سویرا بولی یہ کیا کررھے ھو میں نے کہا کچھ بھی نہیں بس تمہاری حسین گانڈ کے حسین سوراخ کو پیار کررھا ھوں سویرا
بولی ۔
کچھ غلط نہ کرنا
میں نے اسے واپس اسی سٹائل میں کرتے ھوے کہا ۔
میری چیز ھے میرا جو دل کیا کروں گا ۔۔
سویرا واپس گھوڑی بنتے ھوے بولی نہیں یاسر میں نے پہلے کبھی ادھر سے نہیں کروایا اور تمہارا اتنا بڑا ھے کہ مجھ
سے آگے بھی نہیں لیا جاتا تو پیچھے تو بہت درد ھوگی ۔
میں نے لن واپس پھدی میں ڈال کر گھسا مارتے ھوے کہا جتنی درد ادھر ھو رھی ھے اتنی ھی پیچھے ھوگی ۔
سویرا آہہہہہہہہ کرتے ھوے بولی یہیں کرتے رھو نہ ۔۔۔
میں نے پھر گھسا مارا اور بوال سویرا میں اندر فارغ ھونا چاھتا ھوں باہر نکال کر فارغ ھونے میں مزہ نہیں آتا اس لیے
پیچھے کرنے دو اگر آگے فارغ ھوا تو کچھ ھوجاے گا ۔
سویرا بولی ۔
نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے پلیز ادھر ھی کرتے رھو کتنا مزہ آرھا ھے ھے آہہہہہہہہ ۔
میں گھسے مارتے ھوے بوال پیچھے بھی ایسے ھی مزہ آے گا کروا کر تو دیکھو ۔
سویرا بولی آہہہہہہ آہہہہہہ ننننہیں یاسرررر بہت درد ھوگا ۔
میں بھی گھسے مارتا ھوا مزے سے بوال کچھ بھی نہیں ھوتا جانننننن۔
سویرا بولی
آہہہہہہ آہہہہہہ یاسرررر پھر تھوڑا سا کرنا جب میں کہوں پھر اور کرنا آہہہہہ آہہہہہ
میں نے خوشی سے تیز گھسا مارا اور لن کو پھدی سے نکال کر گانڈ کے سوراخ پر رکھا سویرا بے آئییییییی کیا اور بولی
اتنا مزہ آرھا تھا یاسرررررر ۔
میں نے سویرا کی گانڈ پر تھپڑ مارا اور سویرا کو ایسے ھی الٹا لیٹنے کا کہا ۔
.کیوں کے گھوڑی سٹائل میں سالی نے ٹوپا ہی اندر لیتے بھاگ جانا تھا ۔۔
سویرا میری طرف بڑے موڈ سے دیکھتی ھوئی لیٹتے ھوے بولی افففففف تم بھی نہ بڑے ضدی ھو ۔۔۔
اور ساتھ ھی الٹی لیٹ گئی ۔
میں نے سویرا کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو کھوال اور اسکے گالبی سوراخ پر تھوک کا گوال پھینکا اور لن کو پکڑ کر
ٹوپے کو موری کے اوپر رکھا اور سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور منہ اسکے کان کے پاس لیجا کر بوال تھوڑی سی درد ھوگی
برداشت کرلینا۔۔
سویرا بولی پلیزززز یاسر آرام سے کرنا ۔۔
میں نے اسے دالسا دیا کہ آرام سے ھی کروں گا بس تم گانڈ کو ڈھیلی چھوڑے رکھنا ورنہ درد ذیادہ ھوگا۔۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے چادر کا پلو اکھٹا کر کے سویرا کے منہ کے پاس کیا اور اسے کہا اسے منہ میں ڈال لو کہیں
تمہاری چیخ نہ نکل جاے سویرا نے منہ کھوال تو میں نے چادر کو مروڑ کر اسکے منہ میں دے دیا ۔۔
اور پھر ہلکا سا گھسا مارا تو پڑووووچ کر کے ٹوپا موری کے اندر گھس گیا اور سویرا کے منہ سے غوںںںںںں غوں کی آواز
نکلی اور اس نے ایک ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں بھینچ لیا اور دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر مجھے پیچھے کرتے ھوے سر
نفی میں ہالتے ھوے مجھے روکنے کا اشارا کرنے لگ گئی ۔۔
میں وہیں رک گیا ۔۔
کچھ دیر بعد سویرا کی درد کچھ کم ھوئی تو اس نے جیسے ھی ہاتھ میری ران سے ہٹایا تو میں نے پھر ایک گھسا مارا تو لن
کافی اندر اتر گیا ۔
سویرا نے ذور سے چادر کو دانتوں میں بھینچ لیا اور مجھے پیچھے کو دھکے دینے لگ گئی اسکی حالت بتا رھی تھی کے
اسے بہت درد ھورھا ھے ۔
میں نے وقت ضائع کیے بغیر اگال گھسا مارا کر لن سارا ھی سویرا کی گانڈ میں اتار دیا سویرا بن پانی کے مچھلی کی طرح
تڑپنے لگ گئی ۔
اور ایک ذور دار دھکا مار کر میرے نیچے سے نکل کر گھوم کے چادر کو بھی ساتھ اکھٹا کرتے ھوے ایک طرف ھو کر
اپنی گانڈ کو پکڑ کر رونے لگ گئی ۔
اچانک جاندار دھکے سے میں سویرا کے اوپر سے ہٹ کر ایک طرف ُلڑھک گیا تھا اور سویرا ذور ذور سے ٹانگیں گھاس
پر مار کر گانڈ کے سوراخ پر انگلیاں رکھ کر دباے جار رھی تھی اور ساتھ ساتھ ھاےےےےھ امییی جییییی مرگئی کرے
جارھی تھی ۔۔
میں نے پیار سے اسکی گال پر ھاتھ رکھا تو سویرا نے غصے سے میرا ھاتھ جھٹک دیا اور بولی جاہل جنگلی پیچھے ہٹو ۔۔۔
ڈونٹ ٹچ میں اور ساتھ ھی رونے لگ گئی ۔۔
مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا کہ میں نے بےچاری کے ساتھ غلط کیا جب وہ خود رضامندی سے چدوا رھی تھی تو اتنی
جلدبازی کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔
کچھ دیر میں خاموشی سے سویرا کو دیکھتا رھا اور پھر اسے پیار سے پچکارتے ھوے سیدھا ھی لیٹا دیا اور کچھ دیر مذید
اسکی منت سماجت اور خوشامد کے بعد میں نے سویرا کی ٹانگیں اٹھا کر کندھوں پر رکھی اور لن کو پھدی میں ڈال کر
گھسے مارنا شروع ھوگیا سویرا اب بھی گانڈ کے درد سے رو رھی تھی مگر میں پھر بھی اسکی پھدی چودے جارھا تھا ۔۔
کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد سویرا کو بھی گانڈ کا درد بھول گیا اور اسکا رونا سسکیوں میں بدل گیا میں نے اسکی
ٹانگوں کو کندھوں سے نیچے کیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اسکے ہونٹوں کو چوستے ھو ے گھسے مارنے لگ گیا سویرا
نے اب خود ھی ٹانگوں کو اوپر کیا ھوا تھا اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے مزے لے لے کر میرے ھونٹ چوس
رھی تھی اور گانڈ اٹھا اٹھا کر چدوا رھی تھی ۔۔
میرے گھسوں کی رفتار تیز ھوتی جارھی تھی میں چھوٹنے کے قریب ھوتا جارھا تھا ادھر سویرا بھی چھوٹنے جے قریب
تھی اور اس نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹاے اور آہہہہہہہ سیییییک افففففف کرتے ھوے بولی جارھی تھی تیز یاسر ساراااا
اندر کردو سارراااا آہہہہ فج فک فک فک فک می یاسررررر آہہہہہ ایم کمنگ یاسر یاسسررررر میں بھی سویرا کو چومی
جارھا تھا اور بولی جارھا تھا سارااااا ایییی کردیا اندر سارااا ایییی اندر ھء فارغ ھونے لگا ھوں جان اندر ھی
.سویرا بھی بولی جارھی تھی ھاں یاسررررر اندر ھی ھو جاو اندر ھی .میں گولی کھا لوں گی .آہہہہہہہہہ یسسسسسسس اس
کے ساتھ ھی سویرا کا جسم اکڑا اور ادھر میری ٹانگیں اکڑی میرا آخری جاندار گھسا لگا اور لن کو اندر تک کرتے ھوے
پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنی شروع ھوگیا ادھر سویرا نے بھی منی چھوڑنا شروع کردی ہم دونوں کی سانسیں اکھڑی
ھوئی تھیں لمبے لمبے سانس لیتے ھوے ایک دوسرے کے ساتھ چچمٹے ھوے تھے ۔۔۔
.کچھ دیر بعد سانسوں کا طوفان تھما اور میرا لن بھی سکڑ گیا جسے سویرا کی پھدی نے ُاگھل کر باہر پھینک دیا
Update no 120
میں نے سویرا کے ہونٹوں پر لمبی کس کی اور اس سے پوچھا مزہ آیا سویرا نے میری گردن کے گرد بازوں کا احصار
ڈالتے ھوے بازوں کو کس کر میرے ہونٹوں پر زورررررر سےُچ ما لیا اور مستی سےبولی ُبتتتتتت مزہ آیا ۔۔۔
میں نے بھی سویرا کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر دباتے ھوے اسکے ہونٹوں کو چوم کر بڑے رومینٹک انداز سے
کہا کتنا مزہ آیا ۔۔
سویرا نے بازوں میری گردن سے نکالے اور بازوں کو سر سے اوپر لیجا کر پہلے ایک سیکسی انگڑائی لی اور پھر بازوں
کو پھیال کر بولی اتناااااااااااا مزہ آیا اور ساتھ ھی بازوں کو میری کمر میں ڈال کر مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔
میں نے پھر سویرا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبی کس کی اور سویرا کے اوپر سے ہٹ گیا ۔
سویرا کچھ دیر لیٹی بڑی عجیب نظروں سے مجھے دیکھتی رھی اور میں اپنے دھیان کپڑے پہننے لگ گیا ۔۔
سویرا اب بھی پیاسی نظروں سے مجھے دیکھ رھی تھی ۔
جیسے سالی پتہ نہیں کتنے عرصہ سے سیکس کی بھوکی تھی ۔
جو ابھی تک اسکی پیاس نہیں ُبجھی تھی ۔
میں نے سویرا کو کہا کپڑے پہن لو سویرا ایسے بےفکر ھوکر لیٹی ھوئی تھی جیسے اپنے گھر میں لیٹی ھو
کپڑے پہننے کا سن کر سویرا نے نفی میں سر ہالیا ۔۔
مجھے تو یہ ٹینشن لگ گئی تھی کہ ہمیں ادھر دو گھنٹے ھو چکے تھے ۔
اورکوئی بھی ادھر آسکتا تھا ۔
اور میں سویرا کو یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ جلدی کرو کوئی آجاے گا.
میں تو پہلے ھی اس کے ساتھ بڑی بڑی ُپھکریاں مار چکا تھا ۔
کہ یہ میری زمینیں ہیں میری اجازت کے بغیر ادھر کوئی آنہیں سکتا وغیرہ ۔۔۔
مگر مجھے اب اندر سے ڈر لگنے لگ گیا تھا کہ کوئی پانی لگانے واال مالزم ھی نہ ادھر آن ٹپکے ۔۔۔
میں کپڑے پہن چکا تھا جبکہ سویرا ابھی تک ننگی ھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی پیاسی نظروں سے مجھے دیکھی جارھی
تھی ۔
میں نے دو تین دفعہ اسے کہا کہ کپڑے پہن لو تمہیں شہر چھوڑ آوں مگر وہ سالی ہر دفعہ نفی میں سر ہال دیتی ۔۔
میرے دماغ میں اچانک ایک پالن آیا کیونکہ اب ادھر مذید رکنا پھنسنے والی بات تھی اس لیے
میں اچانک کھڑا ھوا اور ایسے کان لگا کر ایسے سننے لگا جیسے کسی کے آنے کی آہٹ کو محسوس کرنے لگا ہوں ۔
میں نے چہرے پر گبھراہٹ کے اثار التے ھوے کہا ۔
سویرا جلدی کپڑے پہنوں لگتا ھے کوئی اس طرف آرھا ھے ۔
یہ نہ ھو کہ کوئی گاوں واال راہگیر اسطرف ھی آجاے ۔۔
میں نے تو بڑے کانفیڈینس اور بڑی گبھراہٹ سے سویرا کو ڈرایا تھا ۔
مگر اسکا پھر نفی میں سر ہلتا دیکھ کر میری گانڈ پھٹنے والی ھوگئی ۔
میں جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گیا اور اسکا بازو ہالتے ھوے بوال سویرا پاگل مت بنو ایسے کوئی آگیا تو دونوں پھنس جایں
گے ۔
سویرا بولی آنے دو جسے آنا ھے ۔
میں حیران ھوتے ھوے بوال یار تمہاری بدنامی ھوگی ۔
سویرا بولی ہونے دو مجھے نھیں ڈر بدنامی کا۔
دوستو یقین کرو ۔۔میری تو گانڈ پھٹنے والی ھوگئی سویرا کا پاگل پن دیکھتے ھوے ۔۔
میں دل ھی دل میں سوچنے لگ گیا کہ لے کاکا اے کڑی تے تیرے گل پے گئی۔۔
میں نے جب دیکھا کہ سویرا پر میری کسی بات کا اثر نہیں ھورھا تو میں نے تھوڑا غصے سے کہا ۔
سویرا جلدی سے کپڑے پہنو نہیں تو میں جارھا ھوں بعد میں مجھ سے نہ گال کرنا ۔
اور میں ساتھ ھی اٹھنے لگا ۔تو سویرا ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی اور شلوار پکڑ کر سیدھی کرتے ھوے بولی ۔
ڈر گئے نہ ھاھا ھا ھا ھا
میں نے گبھراے ھوے لہجے سے کہا ۔
پاگل مجھے تمہاری عزت کی فکر ھے اگر کسی گاوں والے نے دیکھ لیا تو تمہیں نہیں پتہ کہ ہمارے گاوں والے اسکے ساتھ
کیا کرتے ہیں ۔۔
میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔
پھر کبھی کرلیں گے کسی اور جگہ اور جتنی دیر تم کہو گی میں اتنی دیر تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔
سویرا شلوار میں ٹانگ ڈالتے ھوے بولی ۔
پکا
میں نے کہا۔
ہاں یار پکا۔۔
سویرا دوسری ٹانگ شلوار میں ڈالتے ھوے بولی ۔
کھاو قسم کہ میں جب بھی کہوں گی تم آو گے ۔
میں نے قسم کھاتے ھوے کہا ہاں یار جب بھی تم کہو گی میں پہنچ جاوں گا۔۔
سویرا شلوار کو گانڈ سے اوپر کرتے ھوے بولی ۔
مگر میں تم کو ملوں گی کیسے یا تم تک میسج کیسے پہنچے گا ۔۔
میں بھی اسکے اس سوال پر پریشان ھوگیا ۔۔
کہ واقعی مجھے تو اسکے گھر کا بھی نہیں پتہ کہ یہ رہتی کہاں ھے ۔
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا تم مجھے اپنا اڈریس بتا دو میں تمہیں خط لکھ دیا کروں گا ۔
یا تم جس ٹائم کالج جاتی ھو وہ ٹائم بتا دو میں تم کو اس ٹائم مل لیا کروں گا اور جب تمہارا موڈ ھو مجھے بتا دینا میں جگہ کا
ارینج کرلوں گا ۔۔
سویرا بریزیر مموں کے اوپر کرتے ھوے بولی ۔
ٹھیک ھے میں صبح آٹھ بجے کالج جاتی ھوں فالں راستے سے ۔۔
اور دو بجے چھٹی ھوتی ھے تو اسی راستے سے واپس جاتی ھوں ۔۔
میں نے کہا اور تم رہتی کہاں ھو ۔۔۔سویرا نے جیسے ھی اپنے محلے اور گلی کا بتایا تو ۔
میرے پیروں تلے سے تو ایکدم زمین نکل گئی ۔۔۔کیونکہ اس محلے میں اور اسی گلی میں تو مہری کا گھر تھا ۔
مجھے یوں حیران دیکھ کر سویرا قمیض پہن کر قمیض کو مموں سے سہی کرتے ھوے مموں کو ہالتے ھوے بولی کیا ھوا ۔
پریشان کیوں ہوگئے۔۔
میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا کچھ نہیں بس ایسے ھی ۔۔۔
سویرا گھاس سے چادر اٹھا کر جھاڑتے ھوے بولی ۔۔سچ بتاو یاسر میرے محلے کا سن کر تم پریشان کیوں ہوگئے ۔
میں نے کہا کچھ نہیں یار بس ایسے ھی ۔
سویرا چادر تہہ کرتے ھوے بولی مرضی ھے تمہاری اگر نہیں بتانا چاھتے تو ۔
میں نے کہا نہیں یار ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔
بس ایسے ھی ۔۔
اور پھر میں نے برقعہ اٹھا کر سویرا کی طرف بڑھاتےھوے کہا لو یہ پہن لو اور جلدی کرو ۔
سویرا برا سا منہ بناتے ھوے برقعہ میرے ھاتھ سے پکڑ کر بولی ۔
اوہوووو اتنی بھی کیا جلدی پڑ گئی تمہیں ۔۔
اور سویرا برقعہ پہننے لگ گئی برقعہ پہن کر سویرا نے چادر شولڈر بیگ میں رکھ کر بیگ کی زپ بند کی اور بیگ کو
کندھے پر لٹکاتے ھوے بولی چلیں میں نے کہا ہممممم اور سویرا دو قدم آگے بڑھی اور پھر ممجھ سے لپٹ کر مجھے ہگ
کیا اور پھر ہم دونوں آگے پیچھے نہر کی طرف چل دیے ۔۔
نہر کے پل کے پاس پہنچ کر میں نے اس جگہ کی طرف دیکھا جہاں سویرا کے چودو کی موٹرسائیکل کھڑی تھی مگر اب
وھاں موٹرسائیکل کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی کے چودو ساب فرار ھو چکے تھے میں نے سویرا کو کہا کہ تمہارا فرینڈ
تو تمہیں چھوڑ کر فرار ھوچکا ھے ۔
سویرا اپنے چودو کو گندی گندی گالیاں دیتے ھوے پل کراس کر کے شہر کی طرف چل پڑی میں بھی اسکے ساتھ ساتھ چلتا
ھوا شہر پہنچا اور پھر سویرا کو رکشہ کروا کر اس میں بیٹھا کر میں پھر ملنے کا وعدہ کرکے کے واپس گاوں کی طرف
چل پڑا ۔۔
گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا اور پھر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل دیا ۔
آنٹی کے گھر پہنچا تو حسب معمول آنٹی چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا رھی تھی اور نسرین آنٹی کے پاس بیٹھی کھانا
بنوانے میں انکا ہاتھ بٹوا رھی تھی ۔
جبکہ عظمی مجھے نظر نہ آئی میں نے گھر میں داخل ھوتے ھی سالم کیا تو آنٹی اور نسرین نے چونک کر میری طرف
دیکھا تو آنٹی نے مسکراتے ھوے اور نسرین نے برا سا منہ بناتے ھوے میرے سالم کا جواب دیا ۔۔
میں آنٹی کے پاس پہنچا اور نسرین کے سر پر چپت مارتے ھوے کہا ۔
اج بڑیاں مینتاں ہو ریاں نے ۔۔
نسرین غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی.
تمیز نال ۔
آندے ای شوخا بن گیا آں ۔۔
آنٹی ہنستے ھوے نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی ۔
اور میری طرف دیکھ کر بولی آج چاند کدھر سے نکل آیا لگتا ھے کہ اب تمہارا دل نہیں کرتا ہمارے گھر آنے کو ۔
میں نے نسرین کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔
آنٹی جی دل تو بہت کرتا ھے مگر آپ کے گھر میں چڑیل کا سایہ ھے اور جب میں آپ کے گھر آتا ھوں وہ چڑیل مجھے
چمٹ جاتی ھے ۔
نسرین نے چمٹا پکڑا اور میری ٹانگ پر مارتے ھوے رونے والے انداز میں بولی ۔
امی دیکھ لو ہن .فیر تسی مینوں بولن لگ پیندے او ۔۔
ایویں بکواس کری جاندا اے .۔
میں نے ھائییییی کیا اور آنٹی کی طرف دیکھتے ھوے کہا دیکھ لیں آنٹی میں نے کہا تھا نہ کہ آپکے گھر چڑیل کا سایہ ھے ۔
آتے ھی چڑیل نے مجھ پر حملہ کردیا نہ ۔
اور یہ کہتے ھوے میں بھاگ کر اندر کمرے میں چال گیا اور نسرین مجھے برا بھال کہتی رھی ۔
کمرے میں پہنچا تو عظمی چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کسی ناول پڑھنے میں مصروف تھی میری طرف دیکھتے ھی
اس نے ناول ایک طرف رکھا اور بڑے سیریس انداز میں مجھے سالم کیا میں اسکے سیریس ھونے کی وجہ جانتا تھا مگر
میں نے اسے احساس نہیں ہونے دیا اور اپنی عادت کے مطابق اسے چھیڑتے ھوے بوال ۔
خیر ھے پڑھائی مکمل ہوگئی ھے جو ناول پڑھنے شروع کردیے ۔۔
عظمی سر جھکا کر بولی نہیں بس ایسے ھی فارغ بیٹھی ھوئی تھی توٹائم پاس کرنے کے لیے ناول پڑھنا شروع کردیا ۔
میں عظمی کے پاس بیٹھا کچھ دیر اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رھا ۔
اور پھر آنٹی اور نسرین بھی کمرے میں آگئیں اور آنٹی بتانے لگ گئی کہ نسرین کی نظر کمزور ہوگئی ھے اسے کل ڈاکٹر
کے پاس لے کر گئی تھی ۔
میں نے چونک کر انجان بنتے ھوے کہا کہ آنٹی آپ مجھے بتاتی میں ساتھ چال جاتا ۔
آنٹی بولی کوئی بات نہیں ہم تانگے پر ھی چلی گئیں تھیں میں نے ہمممم کیا اور انٹی نے کھانا لگا دیا اور پھر ہم سب نے مل
کر کھانا کھایا اور پھر میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر واپس اگیا ۔۔۔۔۔
ابھی میں گھر آکر صحن میں بیٹھا ھی تھا کہ باہر کے دروازے سے انکل سجاد اندر داخل ہوے اور میری طرف دیکھ کر
مسکراتے ھوے میرے پاس آے میں انکو دیکھ کر احترامًا کھڑا ہوگیا ۔۔
انکل نے میرے سر پر پیار دیا اور میں نے انکو چارپائی پر ھی بیٹھنے کا کہا ۔
اتنے میں امی اور ابو بھی آکر انکل کے پاس بیٹھ گئے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انکل نے مجھے کہا یاسر پتر
دکان پر کیوں نہی آرھے ۔
ابو بولے اسکی کرتوتیں ہیں دکان پر جانے والی ۔
انکل بولے بھائی آپ خاموش رہیں یاسر میرا بھی بیٹا ھے اور میں اسے آپ سے ذیادہ جانتا ہوں ۔
وہ سب کچھ بس غلط فہمی میں ھوا تھا اس میں یاسر کا کوئی قصور نہیں ھے ۔
میں حیران و پریشان ھوکر انکل کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔
کہ اچانک میرے دماغ میں جنید کی کہی بات آئی کے میں انکل کو فلم ھی ایسی سناوں گا کہ انکل خود تمہیں راضی کرنے
گھر آئیں گے ۔
میں مزید سینہ چوڑا کر کے بیٹھ گیا ۔
انکل کچھ دیر بیٹھے میری صفائیاں دیتے رھے اور پھر مجھے کہنے لگے کے صبح تم نے دکان پر آنا ھے نہیں تو میںنے
کان سے پکڑ کر لے جانا ھے میں نی جی اچھا کہا تو انکل اجازت لے کر اپنے گھر چلے گئے ۔
کچھ دیر ہم سب بیٹھے باتیں کرتے رھے ابو کا موڈ بھی میرے ساتھ بہتر ھوگیا تھا ۔۔
اور پھر میں سونے کے لیے بیٹھک میں چال گیا۔
..Update no 121
اگلے دن میں صبح ٹائم سے اٹھا اور دکان کے لیے تیار ھوکر گھر سے نکل پڑا ۔
دکان پر پہنچا تو انکل نے دکان کھول لی تھی ۔
میں نے دکان کی جھاڑ پونچھ کی اور کچھ ھی دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوا اور بڑی
گرمجوشی سے میرے گلے مال ۔
سارا دن کام میں مصروف رھے کچھ خاص نہ ھوا شام کو میں ضوفی کی طرف بھی نہیں گیا اور انکل کے ساتھ ھی گھر
آگیا۔
دو تین دن میں نے جم کر دکان پر ٹائم دیا ۔
ایک دن جنید نے مجھے خوشخبری دی کے تیرا کیمرے واال کام ھوگیا ھے ۔
میں نے خوش ھوکر پوچھا کہ کدھر ھے کیمرا جنید نے بتایا کی آج شام کو مل جاے گا
پھر ہم کام میں مصروف ہوگئے شام کو ایک لڑکا دکان پر آکر جنید کو منی سائز کا ہینڈی کیم دے گیا ۔
Update no 122
میں نے جنید سے کیمرا چالنے اور زومنگ کرنے کا طریقہ سیکھنے لگ گیا جنید نے تفصیل سے مجھے سارے فنکشن
سمجھا دیے میں نے کیمرہ ایک شاپر میں ڈال کر دکان میں ایک الماری میں چھپا کر رکھ دیا اور جب شام کے چھ بجے تو
میں انکل سے چھٹی لے کر شاہین مارکیٹ کی طرف اپنے محبوب کا دیدار کرنے کے لیے چل پڑا ۔
شاہین مارکیٹ پہنچا تو میں نے نسیم کی دکان دیکھی تو وہ بند تھی میں سیڑھیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا اور پارلر پر پہنچ
کر دروازے کو ناک کیا تو کچھ دیر بعد شیشے کے آگے سے پردہ سرکا تو میرا چاند مجھے نظر آیا ۔
ضوفی نے جیسے ھی مجھے دیکھا تو اسکے چہرے پر ایکدم رونق آگئی اور اس نے جلدی سے دروازہ کھوال ۔
اور میں بنا اسکے اشارے سے ھی اندر داخل ھوگیا ۔ اور اندر کا جائزہ لینے لگ گیا کہ اچانک مجھے پیچھے سے
ضوفی نے جپھی ڈال لی۔
اور ایڑیاں اٹھا کر میرے کان کے قریب منہ کر کے میرے کان کو منہ میں ڈال کر کان پر کاٹتے ھوے بولی الپرواہ کتنے
دنوں بعد آے ھو ۔
میں نے سیییی کرتے ھوے گھوم کر ضوفی کی طرف منہکیا اور اسے باہوں میں بھر کر بوال تمہیں کون سا میری یاد آئی کہ
آکر بندے کا حال ھی پوچھ لیتی ۔
ضوفی ایکدم سیریس ھوکر میری گالوں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر بولی کیا ھوا سب خیریت تو ھے ۔
ضوفی کی بےچینی یوں ایکدم گبھراہٹ اور فکر مندی میں اپنا .پن تھا
مجھے ضوفی پر بےاختیار پیار آیا اور
میں نے بھی ضوفی کی کمر سے ھاتھ نکالے اور اسکی روئی سی نرم اور ریشم سی مالئم گالوں کو تھام لیا اور اسکے
ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا ۔
کچھ نہیں ہوا میری جان ۔
ضوفی برا سا منہ بنا کر بولی تو پھر اتنے دنوں سے آے کیوں نہیں پتہ ھے میں کتنی پریشان ھوجاتی ھوں تمہیں ذرہ سی
بھی میری فکر نہیں ۔
میں نے پھر ضوفی کے ہونٹوں کو چوما اور کہامیری جان گھر میں کچھ ضروری کام تھا اس لیے میں شہر نہیں آیا اب
میری جان کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔
کیونکہ میں دوبارا اسی دکان پر واپس آگیا ھوں ۔
ضوفی کا چہرہ ایکدم گالب کی طرح کھل اٹھا اور میری کمر میں بازو ڈال کر میرے ساتھ چمٹتے ھوے بولی ۔
یہ تو بہت اچھا کیا تم نے یاسر میں اس بات کو لے کر بہت پریشان تھی کہ میری وجہ سے تمہاری نوکری گئی ۔
میں نے کہا ایسی الکھ نوکریاں اپنی جان پر وار دوں کیسی باتیں کرتی ھو ۔
ضوفی مذید میرے ساتھ چمٹتے ھوے بولی ۔
لویو یاسر ۔
میں نے بھی لو یو ٹو کہااور میرے بازوں نے بھی ضوفی کی کمر کے گرد گھیرا ڈال لیا ۔
اور دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں گتھم گتھا ھوگئے ۔
.ضوفی تو ایسے ترسوں کی طرح میرے ہونٹوں کو چوس رھی تھی جیسے کوئی سال بعد مجھ سے ملی ھو ۔
ضوفی ایڑیاں اٹھا اپنی رانوں کو میری رانوں کے ساتھ مال کر پھدی والے حصے کو میرے نیم تنے لن کے ساتھ رگڑ رھی
تھی ۔
دوستو پتہ نہیں کیوں ضوفی کی قربت میں میرا لن کیوں نہیں اکڑتا تھا نہ میرے دماغ پر شہوت سوار ھوتی تھی بس دل کرتا
تھا کہ ضوفی کے جسم کو اپنے جسم کے اندر سما لوں میرے عالوہ کوئی اور آنکھ ضوفی کو نہ دیکھے ۔
میرا بس چلتا تو ضوفی کو سات پردوں میں چھپا کر رکھوں ۔۔
کچھ ددیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رھے اور پھر ضوفی مجھ سے الگ ھوئی اور بولی ایک گڈ نیوز ھے ۔
میں نے حیران ھوکر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا وہ کیا جان ۔۔۔
ضوفی بولی نسیم دکان چھوڑ گیا ھے ۔
میں نے کہا اتنی جلدی
ضوفی بولی ۔
اسکو ایک مہینے کا نوٹس دیا تھا انکل نے تو انکو شاید کہیں اور دکان مل گئی ھے اس لیے وہ پہلے ھی دکان چھوڑ کر
چلے گئے ۔
میں نے ہممممم کیا ۔۔۔
تو ضوفی برقعہ پہنتے ھوے بولی یاسر میرے دماغ میں ایک آئیڈیا ھے اگر تم میرا ساتھ دو تو میرے دل کی تمنا بھی ھے
اور میرا شوق بھی ۔
میں نےکہا۔
حکم کرو جان ۔۔
ضوفی بولی گھر چل کر بتاوں گی ۔
میں نے بے صبری سے کہا ابھی بتاو نہ ضوفی مسکراتی ھوئی میرے قریب آئی اور میری گال پر چٹکی کاٹتےھوے بولی
میرے مجنوں گھر تو چلو پھر تسلی سے بات کرتے ہیں ۔
اور ہاں آج رات کو میں نے تمہیں جانے نہیں دینا اس لیے پہلے ھی گھر کال کر کے بتا دو۔۔
میں نے بازو سر سے اوپر کر کے انگڑائی لی اور بڑے رومینٹک اندازسے انگڑائی لیتے ھوے بوال ۔
خیر ھے کہیں آج ساری رات ہمممممممم
ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی ٹھہر جا شوخے ۔
میں سییییییی کرتے ھوے اپنے بازو کو مسلنے لگ گیا تو ضوفی مجھے دھکا لگاتے ھوے دروازے کی طرف لیجاتے ھوے
بولی گھر چلو ایک دفعہ بتاتی ھوں تمہیں ۔۔۔۔
میں نے ٹھنڈیآہہہہہہ بھری اور ضوفی کہ آگے لگ کر چلتا ھوا پارلر کے دروازے سے باہر نکال میں جیسے ھی پارلر سے
باہر آیا تو اچانک میری نظر سیڑیوں پر پڑی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکلتی گئی ۔۔۔ ۔
..سیڑیوں کی طرف دیکھ کر ایک دفعہ تو مجھےجھٹکا لگا کہ انکل سجاد اوپر سے نیچے اتر تے ھوے آرھے ہیں میں
آنکھیں پھاڑے غور سے آنے والے کو دیکھی جارھا تھا ۔
مگر جب وہ آدھی سیڑیاں اترا تو اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ یہ تو کوئی اور ھی ھے جسے میں انکل سجاد
سمجھ رھا تھا دور سے بلکل ہو با ہو آنے واال انکل سجاد کی فوٹو کاپی لگ رھا تھا اتنی ھی جسامت ویسے ھی آدھا سر گنجا
چھوٹی سی سفید داڑھی ۔۔۔
میں نے ایک لمبی سانس لے کر چھوڑی اور شکر ادا کیا کہ آج رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچ گیا۔۔
اتنی دیر میں ضوفی بھی پارلر سے باہر نکل آئی اور دروازہ الک کر کے مجھے چلنے کا کہنے لگ گئی میں سیڑھیاں
چڑھتا ھوا پھر اس آدمی کیطرف غور سے دیکھنے لگ گیا جس سالے کو دیکھ کر میرے ٹٹے شارٹ ھوگئے تھے ۔۔
اور پھر ہم دونوں بیسمنٹ سے باہر نکل کر گھر کی طرف چل پڑے باہر نکلتے وقت میں نے نسیم کی دکان کو پھر غور
سےدیکھا تو باہر سے بھی بلکل خالی تھی جو شوکیس باہر پڑا ھوا تھا وہ بھی نہیں تھا اسکا مطلب تھا کہ سچ میں دکان خالی
ھوچکی تھی ۔۔
ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے ھوے بازار سے نکلے اور ایک گلی میں داخل ھوے تو مجھے اچانک گھر فون کرنے کا
خیال آیا میں نے ضوفی سے پوچھا کے ادھر کوئی پی سی او ھے تو بتاو پہلے میں گھر اطالع کردوں کہ میں نے آج رات
اپنی جانو کے ساتھ جپھی ڈال کر سونا ھے ۔۔۔ اس لیے گھر نہیں آنا۔۔
ضوفی میرے بازو پر تھپڑ مارتے ھوے بولی آرام سے بڑے شوخے ھو تم یاسر
میں نے مصنوعی غصہ سے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا اسکا مطلب ھے کہ میں نے اکیلے نے ھی سونا ھے ۔
ضوفی نقاب میں آنکھوں می ںشوخی التے ھوے بڑی ادا سے اثبات میں سر ہال کر بولی ہممممم
میں وہیں رک گیا جیسے میرے پیر زمین نےپکڑ لیے ھوں ۔
میں نے رکتے ھی کہا
نہ پائی میں تے چال ایں ایتھوں ای پینڈ واپس ۔
اور میں گھوم کر واپس جانے لگا تو ضوفی نے ہنستے ھوے میرا بازو پکڑا اور بولی شوخےماروں گی ایک سیدھی طرح
گھر چلتے ھو کہ ۔لگاوں ایک ۔۔۔
میں نے کہا
واہ جی واہ
نالے کلے وی سوانا اے تے نالے بدمعاشیاں وی ۔۔
۔ضوفی ہنستے ھوے دھری ہوتی جارھی تھی ۔
ضوفی میرا بازو کھینچ کر مجھے واپس لیجاتے ھوے بولی ۔
یاسرتنگ نہ کرو چلو اگلی گلی میں پی سی او ھے گھر کال کرکے بتادو۔۔۔
میں نے رونے والے انداز سے کہا ۔
میں کلے نئی سونااااااااااآا
ضوفی پھر ہنستے ھوےبولی
اچھا بابا نہ سونا اب تو چلو ۔
میں بچے کو عیدی ملنے کی خوشی کیطرح خوشی سے اچھل پڑا اور سڑک پر ھے بھنگڑا ڈالتے ھوے کہنے لگا آہااااااااا
اے ہوئی نہ گل ۔۔۔۔
یہ تو شکر تھا کہ گلی میں کوئی سیانہ بندا نہیں تھا بس چھوٹے سے بچے کھیل رھے تھے ۔
ضوفی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی
ھوووووو ھاے
یاسر تم بھی نہ واقعی ای پاگل ھو ۔۔۔۔
جگہ تو دیکھ لو بیچ بازار ھی ناچنے لگ گئے ھو ۔
میں ایکدم سیریس ھو کر ضوفی کے قریب ھوا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسکا ھاتھ پکڑ کر بوال ۔
کیا کروں جانے من تم نے مجھے پاگل کردیا ھے اب اس میں میرا کیا قصور ھے ۔
ضوفی اپنا ھاتھ چھڑواتے ھوے بولی مجنو ساب آگے چوک آنے واال ھے باقی کے ڈائالگ گھر جاکر بول لینا ۔
میں نے سامنے دیکھا تو واقعی ہم چوک کے قریب آگئے تھے میں سریس ہوکر ضوفی کے ساتھ چلنے لگ گیا ۔۔
چوک کراس کر کے کچھ ھی آگے ایک پی سی او تھا میں نے پی سی او میں جاکر گاوں کا نمبر مالیا اور دکاندار سے کہا کہ
میرے گھر پیغام بھیج دے کہ میں نے آج گھر نہیں آنا کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ھے ۔
دکاندار سے تسلی بخش جھوٹ بول کر میں نے کال بند کی اور پی سی او سے باہر نکل کر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیے
راستے میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ گلی میں کافی چہل پہل تھی ۔
کچھ دیر بعد ہم گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔
ضوفی نے ڈور بیل دی تو کچھ ھی دیر بعد ماہی کی آواز آئی .کون ۔
میں نے شرارت سے کہا آپ کے جیجا جی ۔۔۔
ضوفی نے میرے کندھے پر چپت مارتے ھوے کہا ۔
کسی کو تو معاف کردیا کرو۔۔
اتنے میں ماہی نے دروازہ کھوال ۔
اور مسکرا کر ہم دونوں کا سواگت کیا ۔
پہلے ضوفی اندر داخل ھوئی تو جب میں اندر داخل ھونے لگا تو ماہی نے کسی دربان کی طرح جھک کر ھاتھ آگے کرتے
ھوے کہا آئیے جیجا جی اندر تشریف لے آئیں ۔۔
ضوفی نے مڑ کر ماہی کا انداز دیکھا تو کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی
دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو ۔۔
میں سینہ تان کر بڑے رعب سے چلتا ھوا اندر داخل ھوا تو میری نظر سامنے ٹی وی الونج میں پڑی تو آنٹی بیٹھی ھوئی
تھیں میں ایکدم بلکل معصوم سا بن کر چلتا ھوا آنٹی کے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور گلے
شکوے کرنا شروع ھوگئیں کہ میری اتنی طبعیت خراب رھی اور تم نے خبر لینا بھی مناسب نہیں سمجھا مجھے واقعی اپنی
الپرواھی پر شرمندگی ھونے لگ گئی کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ماہی نے بتایا بھی تھا کہ امی کی طبعیت خراب ھے ۔۔
میں نے انٹی سے سوری کی اور اپنی کچھ منگھڑت مجبوری بتائی ۔
تو آنٹی نے چلو کوئی بات نہیں جیتے رھو کہہ کر میرے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگ گئی ۔
ضوفی اوپر کمرے میں چینج کرنے چلی گئی ۔
اور ماہی کچن میں چلی گئی ۔
میں اور انٹی بیٹھے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے کچھ دیر بعد ضوفی چینج کر کے نیچے آگئی اور میرے
سامنے صوفے پر بیٹھ گئی باتوں کے دوران جب بھی میری نظر ضوفی کی نظر سے ملتی تو میں اسے اوپر چلنے کا اشارہ
کرتا ۔
ضوفی مشکل سے ہنسی کو کنٹرول کرتی ھوئی ہونٹوں کو دانتوں تلے دبانے لگ جاتی اور ساتھ میں آنکھوں کو کھول کر
مجھے گھور کر سر نیچے کرلیتی ۔۔
ہم کچھ دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ماہی کھانا لے کر آگئی تو آنٹی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
اور ماہی کو کمرے میں ھی کھانا لے کر آنے کا کہا میں نے آنٹی کو بہت کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ھی کھانا کھا لو مگر
آنٹی بولی بیٹا مجھ سے ذیادہ دیر بیٹھا نہیں جاتا اس لیے میں بستر پر ھی ٹیک لگا کر کھانا کھا لوں گی ۔
آنٹی کے جانے کے بعد ہم تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔
اور پھر ضوفی اورماہی نے برتن سمیٹے اور ضوفی بولی چلو یاسر چاے اوپر چل کر پیتے ہیں ۔۔
میں تو کب کا اوپر جانے کے لیے بےچین بیٹھا ھوا تھا ۔۔
میں جلدی سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں جا پہنچا میرے پیچھے ھی ضوفی بھی آگئی ۔۔
..Update no 123
میں صوفے پر بیٹھ گیا اور ضوفی بھی میرے ساتھ ھی جڑ کر بیٹھ گئی ۔۔
ضوفی میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی یاسر میرا ایک مشورہ ھے تمہیں اگر تم مجھے اپنا سمجھتے ھو تو انکار نہیں کرو گے ۔
۔ضوفی ہنستے ھوے دھری ہوتی جارھی تھی ۔
ضوفی میرا بازو کھینچ کر مجھے واپس لیجاتے ھوے بولی ۔
یاسرتنگ نہ کرو چلو اگلی گلی میں پی سی او ھے گھر کال کرکے بتادو۔۔۔
میں نے رونے والے انداز سے کہا ۔
میں کلے نئی سونااااااااااآا
ضوفی پھر ہنستے ھوےبولی
اچھا بابا نہ سونا اب تو چلو ۔
میں بچے کو عیدی ملنے کی خوشی کیطرح خوشی سے اچھل پڑا اور سڑک پر ھے بھنگڑا ڈالتے ھوے کہنے لگا آہااااااااا
اے ہوئی نہ گل ۔۔۔۔
یہ تو شکر تھا کہ گلی میں کوئی سیانہ بندا نہیں تھا بس چھوٹے سے بچے کھیل رھے تھے ۔
ضوفی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی
ھوووووو ھاے
یاسر تم بھی نہ واقعی ای پاگل ھو ۔۔۔۔
جگہ تو دیکھ لو بیچ بازار ھی ناچنے لگ گئے ھو ۔
میں ایکدم سیریس ھو کر ضوفی کے قریب ھوا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسکا ھاتھ پکڑ کر بوال ۔
کیا کروں جانے من تم نے مجھے پاگل کردیا ھے اب اس میں میرا کیا قصور ھے ۔
ضوفی اپنا ھاتھ چھڑواتے ھوے بولی مجنو ساب آگے چوک آنے واال ھے باقی کے ڈائالگ گھر جاکر بول لینا ۔
میں نے سامنے دیکھا تو واقعی ہم چوک کے قریب آگئے تھے میں سریس ہوکر ضوفی کے ساتھ چلنے لگ گیا ۔۔
...Update no 124
چوک کراس کر کے کچھ ھی آگے ایک پی سی او تھا میں نے پی سی او میں جاکر گاوں کا نمبر مالیا اور دکاندار سے کہا کہ
میرے گھر پیغام بھیج دے کہ میں نے آج گھر نہیں آنا کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ھے ۔
دکاندار سے تسلی بخش جھوٹ بول کر میں نے کال بند کی اور پی سی او سے باہر نکل کر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیے
راستے میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ گلی میں کافی چہل پہل تھی ۔
کچھ دیر بعد ہم گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔
ضوفی نے ڈور بیل دی تو کچھ ھی دیر بعد ماہی کی آواز آئی .کون ۔
میں نے شرارت سے کہا آپ کے جیجا جی ۔۔۔
ضوفی نے میرے کندھے پر چپت مارتے ھوے کہا ۔
کسی کو تو معاف کردیا کرو۔۔
اتنے میں ماہی نے دروازہ کھوال ۔
اور مسکرا کر ہم دونوں کا سواگت کیا ۔
پہلے ضوفی اندر داخل ھوئی تو جب میں اندر داخل ھونے لگا تو ماہی نے کسی دربان کی طرح جھک کر ھاتھ آگے کرتے
ھوے کہا آئیے جیجا جی اندر تشریف لے آئیں ۔۔
ضوفی نے مڑ کر ماہی کا انداز دیکھا تو کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی
دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو ۔۔
میں سینہ تان کر بڑے رعب سے چلتا ھوا اندر داخل ھوا تو میری نظر سامنے ٹی وی الونج میں پڑی تو آنٹی بیٹھی ھوئی
تھیں میں ایکدم بلکل معصوم سا بن کر چلتا ھوا آنٹی کے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور گلے
شکوے کرنا شروع ھوگئیں کہ میری اتنی طبعیت خراب رھی اور تم نے خبر لینا بھی مناسب نہیں سمجھا مجھے واقعی اپنی
الپرواھی پر شرمندگی ھونے لگ گئی کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ماہی نے بتایا بھی تھا کہ امی کی طبعیت خراب ھے ۔۔
میں نے انٹی سے سوری کی اور اپنی کچھ منگھڑت مجبوری بتائی ۔
تو آنٹی نے چلو کوئی بات نہیں جیتے رھو کہہ کر میرے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگ گئی ۔
ضوفی اوپر کمرے میں چینج کرنے چلی گئی ۔
اور ماہی کچن میں چلی گئی ۔
میں اور انٹی بیٹھے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے کچھ دیر بعد ضوفی چینج کر کے نیچے آگئی اور میرے
سامنے صوفے پر بیٹھ گئی باتوں کے دوران جب بھی میری نظر ضوفی کی نظر سے ملتی تو میں اسے اوپر چلنے کا اشارہ
کرتا ۔
ضوفی مشکل سے ہنسی کو کنٹرول کرتی ھوئی ہونٹوں کو دانتوں تلے دبانے لگ جاتی اور ساتھ میں آنکھوں کو کھول کر
مجھے گھور کر سر نیچے کرلیتی ۔۔
ہم کچھ دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ماہی کھانا لے کر آگئی تو آنٹی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
اور ماہی کو کمرے میں ھی کھانا لے کر آنے کا کہا میں نے آنٹی کو بہت کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ھی کھانا کھا لو مگر
آنٹی بولی بیٹا مجھ سے ذیادہ دیر بیٹھا نہیں جاتا اس لیے میں بستر پر ھی ٹیک لگا کر کھانا کھا لوں گی ۔
آنٹی کے جانے کے بعد ہم تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔
اور پھر ضوفی اورماہی نے برتن سمیٹے اور ضوفی بولی چلو یاسر چاے اوپر چل کر پیتے ہیں ۔۔
میں تو کب کا اوپر جانے کے لیے بےچین بیٹھا ھوا تھا ۔۔
میں جلدی سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں جا پہنچا میرے پیچھے ھی ضوفی بھی آگئی ۔۔
میں صوفے پر بیٹھ گیا اور ضوفی بھی میرے ساتھ ھی جڑ کر بیٹھ گئی ۔۔
ضوفی میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی یاسر میرا ایک مشورہ ھے تمہیں اگر تم مجھے اپنا سمجھتے ھو تو انکار نہیں کرو گے ۔
میں نے ضوفی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا ۔
حکم کرو جان ۔
میری کیا جرات کے میں انکار کردوں ۔۔
ضوفی میرے ھاتھ کو سہالتے ھوے بولی یاسر مزاق نہیں میں سیریس بات کرنے لگی ھوں اور میری بات کو مزاق میں مت
لینا ۔
اس میں ہمارا بہتر مستقبل بن سکتا ھے ۔۔اگر تم میرا ساتھ دو تو ۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے اسکا ھاتھ چوما اور بوال ۔
بولو جان میں سیریس ھی ھوں ۔
ضوفی بولی یاسر میرا ایک سپنا ھے کہ تمہاری اپنی دکان ھو اپنا کاروبار ھو اور تم ایک نواب کی طرح رہو ۔
**********میں نے مسکرا کر کہا ۔
۔تمہارا یہ سپنا ضرور پورا ھوگا
اگر
*******
نے چاھا تو ضرور کوئی نہ کوئی سبب بن جاے گا ۔
مگر اس کے لیے کچھ وقت تو لگے گا ۔
ابھی تو میری اتنی حثیت نہیں کہ اپنا کاروبار شروع کرسکوں۔۔
ضوفی بولی یاسر
میری ایک تجویز ھے اگر تم برا نہ مانو تو کہوں ۔
میں نے سوالیہ نظروں سے ضوفی کی طرف دیکھا اور مسکراتے ھوے بوال ۔۔
جی جان کہو۔۔
میں بھال کیوں برا مانوں گا۔۔
ضوفی بولی
یاسر وہ نسیم والی دکان جو خالی ھوئی ھے اگر تمہیں وہ دکان مل جاے اور تم ادھر بوتیک کا کام کرلو ۔تمہیں تجربہ تو ھے
پہلے ھی ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا میری جان میں پہلے یہ ھی بات کررھا تھا کہ میری ابھی اتنی حثیت نہیں ھے ۔۔۔
ضوفی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔
یاسر کیا میری اور تمہاری میں کوئی فرق ھے ۔
میں نے کہا نہیں جان ۔
میرا سب کچھ تمہارا ھے ۔۔
جتنا کہ میرے پاس ھے وہ سب کچھ تمہارے نام ھے میری ہر سانس کی مالک تم ھو ۔۔
ضوفی مسکراتے ھوے بولی ۔
اور میرا سب کچھ وہ کسکا ھے ۔۔
میں نے کہا تمہارا سب کچھ بھی میرے نام ھے ۔۔
ضوفی بولی ۔
تو پھر یہ جو تم نے بار بار حثیت نہیں ھے حثیت نہیں ھے لگا رکھی ھے پلیز اسکو بند کرو۔۔
میں نے کہا نہیں ضوفی جو حقیقت ھے وہ میں تم سے چھپانا نہیں چاہتا ۔۔
میں حقیقت پسند ھوں سپنوں کی زندگی بسر نہیں کرتا ۔۔
ضوفی بولی یاسر میری بات کیوں نہیں سمجھ رھے میں کچھ اور کہنا چاھ رھی ہوں اور تم پھر وہ ھی باتیں لے کربیٹھ گئے
ھو ۔
میں نے تو پھر تم کھل کر بتا دو میں واقعی تمہاری بات کو نہیں سمجھا۔۔
ضوفی بولی دیکھو یاسر ۔
اگر ہم وہ دکان لے لیں تو کیا تم اکیلے دکان کو سنبھال لو گے ۔۔
میں نے کہا یار مسئلہ تو پھر وہ ھی ھے کہ لیں گے کیسے ۔۔
ضوفی بولی ہم دونوں لیں گے ۔
میرے پاس کچھ پیسے سیو ہیں جو میں نے ماہی کی شادی کے لیے رکھے ہیں اور کچھ زیور بھی ھے اتنے پیسے تو آسانی
سے ھو جائیں گے کہ ہم دکان کی اچھی سیٹنگ کرکے مال ڈال سکیں رہی دکان لینے کی بات تو میں نے آنٹی سے دکان کی
بات کی تھی تو آنٹی نے کہا جب تمہارا دل کرے چابی لے لینا۔۔
میں ہکا بکا ھو کر ضوفی کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔۔
ضوفی نے مجھے یوں سکتے کے عالم میں دیکھا تو میرے بازو کو ہالتے ھوے بولی ۔
یاسررررررر۔۔۔
میں ایکدم چونکہ
اور بوال
ننننننہیں .ضوفی میں اتنا بھی گرا ھوا نہیں کہ تم سے پیسے لے کر کاروبار شروع کروں تمہارا تو پہلے ھی مجھ پر اتنا بڑا
احسان ھے جسکو میں عمر بھر نہیں چکا سکتا اور اوپر سے تم یہ دکان اور وہ بھی ماہی کی شادی کے پیسوں سے نہ نہ
نہ ۔
ضوفی تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے ۔۔
کیوں مجھے اپنی نظروں سے گرا رھی ھو۔۔۔۔
...Update no 125
ضوفی بولی اوہووووو میری بات تو پوری سن لو پہلے ھی اپنا لیکچر جھاڑنا شروع کردیا۔
میں نے کہا نہیں ضوفی پلیززز اس ٹاپک پر مجھ سے بات مت کرو ۔۔
ضوفی بولی یاسررر ایک دفعہ میری پوری بات تو سن لو پھر تمہارا جو دل کرے وہ کرلینا۔۔۔
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا ھاں بولو۔۔
ضوفی بولی ۔
دیکھو میں جتنے پیسے بھی دکان کے لیے دوں گی وہ تم ادھار سمجھ کر رکھ لینا
ویسے بھی تو وہ پیسے بنک میں ھی پڑے ہیں ہمارے کونسا کام کے ہیں ابھی ۔
اور زیور بھی ویسے ھی پڑا ھے ۔
ماہی کی ابھی چار پانچ سال تو شادی نہیں کرنی ابھی اسکی پڑھائی چل رھی ھے ۔۔
اتنے عرصہ میں تم کمیٹیاں ڈال کر مجھے پیسے واپس کردینا ۔۔
یہ ھی سمجھو کہ تم نے کسی سے ادھار پیسے لیے ہیں ۔۔
مجھے تو تم اپنا سمجھتے نہیں ۔
ضوفی کا ساتھ ھی لہجا گلوگیر ہوگیا۔۔
میں نے اسکی بھرائی آواز سنی تو چونک کر اسکی گالوں کو پکڑ لیا اور اسکے بہتے آنسو انگوٹھے سے صاف کرتے
ھوے بوال ۔۔
ضوفی میری جان تمہیں کیا پتہ کہ تم میرے لیے کیا ھو
میرا تو مرنا جینا بھی تمہارے لیے ھے ۔
میں تو تمہاری ہر سانس کے ساتھ سانس لیتا ھوں ۔
اور تم کہتی ھو کہ میں تمہیں اپنا نہیں سمجھتا ۔
تم میری مجبوری کو بھی سمجھو نہ اگر کاروبار نہ چال تو میں کیسے اتنے پیسے واپس کروں گا ۔
کیوں مجھ پر اتنا بڑا بوجھ ڈال رھی ھو جسکو میں اٹھا نہ سکوں ۔۔۔
ضوفی بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔
یاسر مجھے پورا یقین ھے کہ تم بہت جلد ترقی کرو گے مجھے تم پر بھروسہ ھے تو میں تمہیں یہ سب کچھ کرنے کا کہہ
رھی ھوں اور دکان بھی بڑے موقع کی ھے ۔
اگر میں نے آنٹی کو روکا نہ ھوتا تو دکان خالی ہونے سے پہلے ھی کرایہ پر چڑھ جانی تھی یہ تو انکی مہربانی ھے کہ
انہوں نے کسی کو دکان نہیں دی ۔۔
لوگ بینک سے الن لے کر بھی تو کاروبار کرتے ہیں نہ ۔
تم یہ ھی سمجھ لینا کہ بنک سے الن لیا ھے ۔
اور رھی کام چلنے کی بات تو دکان مین بازار میں ھے یہ تو ممکن ھی نہیں کہ کام نہ چلے اور اوپر سے تمہاری ڈیلنگ
بھی بہت اچھی ھے ۔
پلیززززززز یاسر میں نے بڑے مان سے تمہیں کہا ھے ۔۔
میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رھا ۔
اور پھر بوال ضوفی آنٹی اور ماہی کیا سوچیں گی ۔۔۔
اتنے میں ماہی چاے لے کر اندر داخل ھوئی اور مسکراتےھوے بولی ۔
ماہی یہ سوچے گی کہ اسکے بھائی کی اپنی دکان بن گئی اور امی یہ سوچیں گی کہ انکا بیٹا اپنا کاروبار کرنے لگ گیا۔۔
میں آنکھیں پھاڑے ماہی کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔۔
ضوفی مسکراتے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر دباتے ھوے بولی سن لیا کیا سوچیں گی ۔
دیکھ لو یاسر تم سے کتنے لوگوں کی امیدیں وابسطہ ہیں ۔
میں ماہی کی طرف گھورتے ھوے
بوال ۔
تم بھی اس پاگل کی باتوں میں آگئی ۔۔
ماہی ہنستے ھوے بولی ۔
جیجا جی ۔
یہ آپی کا نہیں بلکہ میرا اور امی کا پالن ھے ۔۔
آپی تو پہلے ھی کہہ رھی تھی کہ آپ نے نہیں ماننا ۔
مگر ہمارے مجبور کرنے سے آپی نے آپ کے ساتھ بات کی ھے ۔۔۔
میں اوففففففف کرتے ھوے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
ضوفی میرے کندھے کوہالتے ھوے بولی ۔
اب تو کوئی بہانہ نہیں جناب کے پاس ۔
میں نے سر اوپر اٹھایا اور ضوفی کیطرف دیکھتے ھوے بھرائی ھوئی آواز میں بوال ۔
ضوفی مجھے اپنی قسمت پر یقین نہیں ھورھا کہ آپ لوگوں جیسی فرشتہ صفت فیملی کے ساتھ میں اٹیچ ھوگیا ھوں ۔
ضوفی پلیز زززز ایک دفعہ پھر سوچ لو
میں بہت غریب گھرانے اور سادہ سے ماحول سے تعلق رکھتا ھوں ۔
میری اتنی اوقات نہیں ھے جتنا آپ لوگ مجھ پر مہربان ہورھے ھو ۔۔
یہ کہتے ھوے میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرکے آ نسو گرنے لگ گئے۔۔
ضوفی نے گبھرا کر میری گالوں کو تھاما اور بولی پاگل ھوگئے ھو عورتوں کی طرح رونے لگ گئے ۔۔
کون کہتا ھے کہ تم غریب ھو ۔
انسان پیسے سے نہیں دل سے امیر ھوتا ھے ۔
پیسہ تو ہر کوئی کما لیتا ھے ۔
مگر نیک دل اورانسانیت کسی کسی کو نصیب ھوتی ھے اور تم خوش نصیب ھو کہ تمہارے پاس صورت کے ساتھ ساتھ
اچھی سیرت بھی ھے ۔
میں ایسے ھی نہیں تم پر لٹو ھوگئی تھی ۔۔
جتنی غریبی میں نے دیکھی ھے تم سوچ بھی نہیں سکتے یاسر ۔
میں نے لڑکی ھوکر اپنے گھر کو سنبھاال اور آج ہمارے پاس سب کچھ ھے اور یہ سب کچھ میں نے مرد بن کر کمایا ھے
اور مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ھے ۔
لوگوں کی باتیں سنیں طعنے سنے مگر کسی کی پرواہ نہیں کی ۔
آج سب کے منہ بند ہیں ۔۔
جو باتیں کرتے تھے آجمیری مثالیں دیتے ہیں اور تم ایک مرد ھوکر عورتوں کی طرح آنسو بہا رھے ھو ۔کم ان یار ۔۔۔۔
ضوفی کی باتیں سن کر میں نے اپنے آپ کو سنبھاال اور ماہی جو کھڑی ہم دونوں کا الڈ پیار دیکھ رھی تھی ہنستے ھوے
بولی ۔
اگر دونوں کے پاس وقت ھے تو مجھ غریب پربھی ترس کھا لو کب کی ٹرے ھاتھ میں لیے کھڑی ھوں ۔۔
میں روتا ھوا ہنس پڑا اور ٹرے سے چاے کا کپ اٹھایا اور پھر ضوفی نے بھی ۔
تو ماہی نے چھت کی طرف منہ
۔ماہی نے چھت کی طرف منہ کر کے شکر ادا کیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چاے کا کپ اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔
پھر ضوفی بولی تو پھر صبح آنٹی سے دکان کی چابی لے لوں ۔
ماہی شوخی سے بولی لے لینا آپی بھائی کی طرف سے میں ہاں کرتی ھوں ۔
ماہی کی بات سن کر میں ناچاہتے ھوے بھی ہنس پڑا ۔۔
تو ضوفی بولی ٹھیک ھے پھر کل ھی میں چابی لے لیتی ھوں اور یاسر تم ایک دو دن میں دکان کی سیٹنگ کی تیاری شروع
کروا دینا ۔۔
میں نے آہستہ سے اثبات میں سر ہال دیا ۔۔
ماہی میرا ہلتا ھوا سر دیکھ کر تالی مارتےھوے بولی یہ ھوئی نہ بات ایسے ھی نہیں کہتے کہ سالی آدھے گھر والی ۔
تھینکیو جیجا جی ۔۔۔۔۔
اب تو میں پہلے جیجا جی سے پارٹی کھاوں گی پھر دکان کا کام شروع کرنے دوں گی ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی یہ کونسی بات ھے میری بہن جب کہے میں حاضر ھوں ۔۔
پھر ہم مذید کچھ دیر ہنستے کھیلتے باتیں کرتے رہے اور ماہی سونے کا کہہ کر اٹھ کر چلی گئی کہ آپ باتیں کریں مجھے تو
نیند آرھی ھے ۔
ماہی کے جاتے ھی ۔میں اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے الک کر دیا ضوفی ہنستے ھوے
بولی ۔
پاگل ابھی ماہی نیچے بھی نہیں پہنچی ھوگی
کیا سوچےگی۔۔۔
میں نے باہوں کو ہوا میں پھیالیا اور ضوفی کی طرف بڑے رومینٹک انداز سے چلتا ھوا بوال
یہ ھی سوچے گی کہ جیجا جی اپنی ڈیوٹی پوری کرنے لگے ہیں اور اسکے ساتھ ھی
.میں سیدھا ضوفی کی طرف بڑھا جو صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوچکی تھی ۔
میں نے ضوفی کے پاس پہنچتے ھی اسے باہوں میں بھر لیا اور کس کے جپھی ڈال کر اسے اوپر اٹھا کر گھمانے لگا ضوفی
نے مجھے کندھوں سے پکڑا ھوا تھا اور چال رھی تھی چھوڑو یاسر میں گر جاوں گی امییییییی جی
میں ضوفی کو گھماتا ھوا بیڈ کی طرف لے گیا اور دھڑام سے اسے بیڈ پر گرایا اور خود اسکے اوپر گرا ضوفی میرے
نیچے اور میں اسکے اوپر میرے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے ۔
ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھوں پر مکے مارتے ھوے بولی بہت شوخے ھو تم یاسر ایک منٹ میں میری مت مار دیتے
ھو ۔۔
میں نے ہونٹ ضوفی کی گالب کی پنکھڑیوں پر رکھے اور پنکھڑیوں کا رس چوس کر بوال ۔
تم چیز ھی ایسی ھو ضوفی تمہیں دیکھتے ھی بس تم میں سما جانے کو جی چاہتا ھے ۔۔
لو یو جانی ۔
اور پھر میں نے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور کتنی دیر میں ضوفی کے اوپر لیٹا ھوا اسکے ہونٹوں کا رس پیتا رھا ۔
اور ضوفی بھی مجھ سے پیچھے نہ تھی وہ بھی برابر میں میرا ساتھ دیتے ھوے کبھی میرا نچال ہونٹ چوستی تو کبھی اوپر
واال اور کبھی ہم دونوں کی زبانیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ۔
ضوفی کسنگ کے دوران پاگل ھوجاتی تھی اسکا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ میرے ہونٹوں کو ھی کھاجاے ۔
ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں میرا لن ضوفی کی پھدی کے بلکل اوپر تھا اور ہلکی سی تڑ کے ساتھ ضوفی کی
پھدی کو دباے ھوے تھا میرا سارا جسم ضوفی کے نرم جسم کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔۔
کچھ دیر بعد میں ضوفی کے اوپر سے اٹھا اور بیڈ سے نیچے کھڑا ہوگیا۔
ضوفی بھی ٹانگیں اوپر کر کے بیڈ پر سیدھی ھوکر لیٹ گئی ۔
میں نے قمیض کے بٹن کھولے اور قمیض اتار کر صوفے پر پھینکی اور پھر ضوفی کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا ضوفی بلکل
سیدھی لیٹی ھوئی تھی میں سائڈ کے بل لیٹ کر ضوفی کے اوپر جھک گیا اور اسکے سلکی ریشمی بالوں کو سہالتے ھو
اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا ۔
ضوفی کی آنکھیں سرخی مائل ہوچکی تھیں میں ان آنکھوں کی اس سرخی میں ڈوبتا جارھا تھا ۔
ضوفی پلکوں کو جھپکا کے بولی ۔
اب میں جاوں ۔
میں نے اسکے شربتی ہونٹوں پر انگلی رکھی اورنفی میں سرہالتے ھوے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھی انگلی کے قریب
کیے
اور بڑے رومینٹک انداز سے بوال
۔ابھی تو نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
میرے پہلو میں یوں ھی لیٹی رھو ابھی رات بہت ہے
جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں تسکین ہو کچھ تو
مت کرو جانے کی بات کہ ابھی رات بہت ہے
کب پو پھٹے کب رات کٹے کون یہ جانے
مت چھوڑ کے جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
رہنے دو ابھی چاند سا چہرہ میرے سامنے
اپنے شربتی ہونٹوں سے
مے اور پالؤ کہ ابھی رات بہت ہے
کٹ جائے یوں ہی پیار کی باتوں میں ہر اک پل
کچھ جاگو جگاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
۔ضوفی نے ساتھ ھی آنکھیں بند کرلیں اور میری غزل میں کھو گئی میں انگلی ضوفی کے ہونٹوں سے ہٹائی تو ضوفی کے
ہونٹ کانپ رھے تھے اسکا اوپر نیچے ھوتا ھوا سینہ اسکی تیز سانسوں کی گواہی دے رھا تھا
اسکی دل کی دھڑکن میرے سینے پر محسوس ہورھی تھی ۔
میں نے ہونٹوں کو ضوفی کے بند آنکھوں کی طرف بڑھایا اور اسکی آنکھوں کو چوم کر ہونٹ اسکے ماتھے پر لے گیا
ماتھے کو چوما تو ہونٹ اسکی روئی سی گالوں میں پوست ھوگئے ۔
ضوفی کے منہ سے سسکاری نکلی آہہہہہہ سیییییی اور پلکیں اٹھیں آنکھوں میں نشہ پھر دکھا اور میرے ہونٹ ہلے اس شب
وصل پر ایک اور شعر کہہ دیا
گزرنے ہی نہ دوں آج یہ رات۔۔
کہو تو
رکھ دوں ھاتھ گھڑی پر
۔ضوفی نے پھر پلکوں کو واپس آنکھوں پر بیچھا دیا۔
اور میں ضوفی کے روئی سے نرم جسم پر سوار ہوکر نیچے سرکتا ھوا اپنے چہرے کو ضوفی کے ابھرے ھوے سڈول
مموں پر لے آیا اور اسکے ُک ھلے گلے سے نظر آتی مموں کی درمیانی چٹی سفید لکیر پر ہونٹ کیا رکھے ضوفی کے جسم
میں کرنٹ لگ گیا ضوفی نے مموں کو اوپر کرتے ھوے لمبی سیییییییی سسکاری بھری اور مجھے کندھوں سے پکڑ کر
اپنے اوپر سے دھکا دے کے اپنے پہلو میں گرا لیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قمیض پکڑ کر جلدی سے اتار کر ایک
طرف پھینک دی ۔
)Update no (126
میری نظر جیسے ھی ضوفی دودھیا جسم پر پڑی
اففففففففففدفففففففففففففففففففففففففف۔
کس کافر نے سانس لینا گوارہ کیا ھو ۔
آہہہہہہہہہہہہہ۔
کیا ریشم سا بدن تھا کیا بدن کی بناوٹ تھی ظلم پر ظلم کہ گورے مموں پر سرخ بریزئیر ۔
کون کافر بہکے نہ کون کافر جو پلکوں کو جھپکاے ۔
میرے ہاتھ ضوفی کے مموں کی طرف بڑھے تو ضوفی نے میرے ھاتھوں کو وہیں روک دیا اور ہاتھوں کو پکڑ کر واپسی
کا راستہ دیکھاتے ھوے میری بنیان پر ال رکھا۔۔
میں ضوفی کا اشارا سمجھتے ھوے اٹھا اور بنیان پکڑ کر اتارنے لگا اور بنیان میرے منہ اور آنکھوں کو ڈھانپ کر میرے
سر سے کیا نکلی میرے تو جسم سے جان ھی نکل گئی۔
میری روح پرواز کر گئی ۔
۔
سارا ظلم مجھ پر ہی کیوں
رحم بھی کوئی شے ھے
ظالم نے میری روح قبض کرلی جب میری آنکھیں ضوفی کے ننگے مموں کی زیارت کو گئیں ۔
افففففففففففف آہہہہہہہہہہہ
کیا بتاوں یارو کیا تعریف کروں اس سنگ مرمرکی جسے بنانے والے نے فرصت سے بنایا تھا ۔
کہاں سے الوں وہ الفاظ جو اس کمبخت کے حسن کی تعریف پر پورے اتر سکیں
گالبی رنگت کے تنے ھوے گول مٹول ممے اففففففف اور مموں پر گالبی رنگ کے ھی چھوٹے سے تنے ھوے نپل
آہہہہہہہہہہہہہہہ۔
ممے دیکھ کر مجھے تو جو جھٹکا لگا سو لگا میرے لن کو مجھ سے بھی ذیادہ جھٹکا لگا اور جناب ایک ھی دفعہ میں سب
احترام بھول کر تن کر کھڑے ھوگئے ۔۔
بنیان اتارتے ھوے بنیان نے میری آنکھوں کے آگے پردہ کیا کیا ادھر۔
صاحب نے موقع غنیمت جانا اور مموں سے پردہ ہٹا دیا
ھاےےےےےےے رے ظالم گھائل کرنے کی تیری یہ ادا۔۔
۔مجھے یوں سکتے کہ عالم میں دیکھ کر ضوفی نے دونوں مموں پر ہاتھ رکھے اور مموں کو مٹھی میں بھر کر زبان باہر
نکال کر ہونٹوں پر پھیرتے ھوے ۔
گھٹنوں کے بل میری طرف بڑھی
میں بھی ٹانگیں پیچھے کیے ھوےبیٹھا ھوا تھا ۔
ضوفی اپنے دونوں مموں کو پکڑے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ھوے گھٹنوں کے بل رینگتی ھوئی میرے بلکل قریب آئی اور
مموں کو چھوڑ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر ایسے غرائی جیسے جنگلی بلی شکار کو دیکھتے ھوے حملہ کرنے سے
پہلے غراتی ھے اور ساتھ ھی اس جنگلی بلی نے سیدھا میرے دائیں کان پر حملہ کیا اور کان کو منہ میں ڈال کر ہلکی سی
کاٹی کی ۔
میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں ۔۔۔
)Update no (127
جیسے ھی ضوفی نے میرے کان کو منہ میں ڈال کر ہلکا سا کاٹا اور پھر اپنی گرم سانس کو میرے کان میں چھوڑا۔۔
مینوں تے اینج کمبنی چھڑی جیویں سردیاں وچ نہا کے بندا کمبدا اے۔۔۔
میرا سارا جسم کانپ گیا اور دوسرا ظلم مجھ غریب پر یہ ھوا کہ ضوفی کے ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ لگے اور
ننگے بازو میری گردن کے ساتھ لگے
اففففففففففففففف مرگیا غریب دا بال۔۔۔۔۔
میرے ھاتھ کانپنے لگے میری ٹانگیں کپکپانے لگی ضوفی نے دائیں کان کو چھوڑا تو پھر بائیں کان کو منہ میں ڈال کر ہلکا
سا کاٹ کر گرم سانس میرے کان میں چھوڑی تو ۔
میرا صبر جواب دے گیا ۔
میرے اندر پینڈو جاگ پڑا
میں نے ایکدم ضوفی کے مموں کو پکڑا اور ذور سے دبا کر ضوفی کو بیڈ پر گرا کر خود ضوفی کے اوپر چڑھ گیا اور
پاگلوں کی طرح ضوفی کے چہرے کو چومنے لگ گیا کبھی آنکھوں کو تو کبھی ماتھے کو تو کبھی گالوں کو تو کبھی
ہونٹوں کو تو کبھی ٹھوڑی کو تو کبھی نیگ کو تو کبھی کانوں کی لو کو ۔۔
ضوفی میرا پاگل پن دیکھ کر خود بھی پاگل ھوگئی اور وہ بھی میرے چہرے کو جگہ جگہ سے چومنے لگ گئی ۔۔
میں کھسکتا ھوا ضوفی کے اوپر لیٹ چکا تھا میرا تنا ھوا لن ضوفی کے چڈوں میں گھس چکا تھا ۔
ضوفی بھی اپنی رانوں کو آپس میں بھینچ کر میرے لن کو جکڑ رھی تھی اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے ساتھ مسل
رھی تھی ۔
میں بھی ایسے ھی گھسے ماری جارھا تھا ۔۔۔
۔ضوفی کا جوش بڑھتا جارھا تھا ضوفی نے میرے اوپر والے ہونٹ کو منہ میں ڈال لیا اور بڑے ذور سے چوستے ھوے گانڈ
اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے ساتھ رگڑ رھی تھی اور ضوفی کے ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے میں
بھی اپنے آپ سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ادھر ضوفی کے گانڈ اٹھانے کی سپیڈ تیز ھوئی ادھر میرے گھسوں کی بھی سپیڈ تیز
ھوگئی ضوفی نے یکلخت میرے ہونٹ کو دانتوں کے بیچ لے کر پورے زور سے کاٹ لیا میں نے پورے ذور سے ضوفی
کے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں لے کر کاٹ لیا ضوفی کے ناخن میری کمر میں پوست ھوتے گئے میرے بازوں کی گرفت
اسکی کمر کے گرد سخت ھوتی گئی ادھر ضوفی کا جسم اکڑا ادھر میری ٹانگوں سے جان نکلی ادھر ضوفی کے جسم نے
جھٹکے کھاتے ھوے پھدی سے منی شلوار نکلنا شروع ہوئی ادھر میرے لن سے منی کی پھوار شلوار میں ھی نکلنا شروع
ھوئی
دونوں کے جسم ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش کرتے ھوے کانپے لگے
دونوں کے ہونٹ زخمی ہوگئے میری کمر کو ضوفی کے ناخنوں نے چھیل ڈاال ۔
)Update no (128
لن اور پھدی کی برسات تھمی دونوں کہ جسم ایک دوسرے پر بےجان ھوکر گرے دونوں کی تیز چلتی سانسیں ایک دوسرے
کے اندر پہنچی ۔
کچھ دیر بعد دونوں کو ہوش تب آیا جب ایک دوسرے کےخون کا ذائقہ منہ میں آیا ۔
پھر نظروں سے نظریں چرا کر جھٹکے سے الگ ھوے اور پھر ۔۔۔۔۔۔
.دونوں شرمسار ہوکر ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئے ۔
کچھ دیر خاموشی سے گزری ۔
آخر کار میں نے ہمت کر کے کروٹ لی تو ضوفی بریزیر پہن کر دونوں بازو مموں پر رکھ کر سمٹ کر دوسری طرف لیٹی
ھوئی تھی ۔
میرے منہ میں خون کا ذائقہ اب بھی آرھا تھا میں نے ہونٹوں پر ہاتھ لگا کر ہاتھ کو دیکھا تو میری انگلیوں پر خون لگ گیا ۔
اور میرے نچلے ہونٹ پر شدید جلن کا احساس بھی ھوا
میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کے بازو کو چھونا چاھا مگر مجھ میں ہمت نہ ھوئی میں نے ہاتھ راستے میں سے ھی واپس
کھینچ لیا ۔
اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی گیلی شلوار کو دیکھنے لگ گیا میرا لن بھی سکڑ چکا تھا۔
میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا رھا کہ مجھے اپنی کمر پر ضوفی کا ھاتھ سرکتا ھوا محسوس ھوا میں نے گردن گھما کر دیکھا
تو ضوفی سیدھی ھوکر میری کمر کو سہال رھی تھی ۔
اور ضوفی کے اوپر والے ہونٹ سے بھی خون رس رھا تھا ۔۔
میں ضوفی کے ہونٹ کو دیکھ کر چونکہ اور جلدی سے ضوفی کی طرف منہ کر کے بیٹھتے ھوے اسکے ہونٹ کو انگلی
سے چھوتے ھوے ۔
کہا یہ کیا ھوا ضوفی ۔۔
میری انگلی لگتے ھی ضوفی نے سیییی کیا اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے میرے ہونٹ پر انگلی رکھتے ھوے
کہا ۔۔
سوری یاسر مجھے پتہ نہیں چال ۔۔
میں نے کہا سوری تو مجھے بولنا چاھیے کہ تمہارے نازک ہونٹ کو زخمی کردیا ۔۔
ضوفی مسکراتے ھوے بولی زخمی تو میں نے کیا تھا تم نے تو بدلہ لیا ھے ۔
میں نے سر جھکا کر کہا ۔
ضوفی آج جو کچھ بھی ھوا اچھا نہیں ھوا ۔
پتہ نہیں مجھے کیا ھوگیا تھا ۔
تمہارے جسم میں کشش ھی اتنی ہے کہ میں خود سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ۔۔
ضوفی بولی ۔
یاسر مجھے شرمندہ مت کرو اصل قصور تو میرا ھے ۔
میں خود بہک گئی تھی پتہ نہیں کیوں تمہیں دیکھتے ھی مجھ پر نشہ سا سوار ھو جاتا ھے اور دل کرتا ھے کہ تم میں سما
جاوں ۔۔
میں نے کہا میری جان میرا بھی یہ ھی حال ھے ۔
مگر پلیز ہمیں خود پر کنٹرول کرنا چاھیے ۔۔
ضوفی بولی ایسا بھی کچھ نہیں ھوا جو تم اتنا گبھرا گئے ھو ۔۔
میں نے اپنی گیلی شلوار ضوفی کو دیکھاتے ھوے کہا ۔
یہ دیکھو کیا ھوا ھے ۔۔
ضوفی میری گیلی شلوار دیکھ کر ہنستے ھوے بولی ۔
افففففف تم بھی نہ اتنی جلدی گیلے ھوگئے ۔۔
میں نے ضوفی کی پھدی والے حصہ سے شلوار کو پکڑ کر کہا ۔
جان جی میں اکیال نہیں اپنی بھی شلوار ذرہ دیکھو۔۔۔
ضوفی کی شلوار پکڑتے ھوے میری انگلیاں ضوفی کی پھدی کے ساتھ ٹچ ھوئیں تو مجھے ایکدم جھٹکا لگا اور ساتھ میں
ضوفی کا جسم بھی کانپا ۔
اور میری بات سن کر ضوفی شرمندہ سی ہوگئی اور جلدی سے ٹانگوں کو اکھٹا کر کے گیلی شلوار کو رانوں کے بیچ کر
لیا ۔۔
اور بولی نہیں جی یہ بھی تم نے ھی گیال کیا ھے
ضوفی کا اوپر واال حصہ اب بھی ننگا ھی تھا بس مموں پر بریزیر ھی تھا ۔۔
میں نے جلدی سے ہاتھ آگے کیا اور ضوفی کا گھٹنا پکڑ کر اسکی ٹانگوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بوال اب چھپا
کیوں رھی ھو ۔
ضوفی نے اور ذور سے ٹانگوں کو آپس میں مال لیا اور ہنستے ھوے بولی ۔
نہہہہی کرو بتمیز چھوڑو مجھے ۔
میں نے بھی ذور آزمائی شروع کردی ضوفی ہنسی جارھی تھی اور ٹانگوں کو کبھی دائیں طرف کرتی تو کبھی بائیں طرف
اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی چھوڑو یاسر نہ کرو پلیززززز امیییییی جییییی
یاسر پلیزززز میں جان بوجھ کر ہلکا سا زور لگا رھا تھا اور ضوفی کی ٹانگیں کھولنے کی کوشش کرتے ھوے کہہ رھا تھا
اب دیکھنے تو دو مجھے کہ میں نے گیال کیا ھے یا تم خود گیلی ھوگئی ھو۔۔۔
ضوفی بھی پوری زور ازمائی کرتے ھوے ٹانگوں کو بھینچ کررکھےھوے تھی اور ہاتھوں سے میرے ھاتھ پیچھے کررھی
تھی کچھ دیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ زور آزمائی کرتے رھے ۔
اور پھر ضوفی نے ہار مانتے ھوے کہا اچھا چھوڑو میں خود دیکھاتی ھوں ۔۔
میں نے جیسے ھی ضوفی کی ٹانگوں کو چھوڑا تو ضوفی اٹھ کر بیٹھ گئی اور پھر تیزی سے اٹھ کر بھاگنے لگی تو میں نے
پیچھے سے ھی ضوفی کی کمر میں بازو ڈال کر ھاتھ اسکے ننگے پیٹ پر لیجا کر اسکو کس کے پکڑتے ھوے قابو کرلیا
اور ساتھ ھی اسکو کھینچ کر اپنے اوپر التے ھوے میں بھی پیچھے کی طرف لیٹ گیا ۔۔
اب میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور ضوفی میرے اوپر کمر کے بل چھت کی طرف منہ کیے ھوے لیٹی تھی اور میرے ھاتھ
اسکے ننگے پیٹ پر تھے اور ضوفی کی گانڈ میرے لن پر تھی ۔۔
اور اسکی ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر بلکل سیدھی تھیں ۔
ضوفی ہنستے ھوے میرے ھاتھوں کو پکڑ کر اپنے پیٹ سے ہٹا کر میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔
میں نےاپنی گرفت کو اسکے نازک سے پیٹ پر مذید کستے ھوے کہا
جھوٹی مجھے چکما دے کر بھاگنے لگی تھی ۔
اور ساتھ ھی میں نے انگلیوں سے ضوفی کے پیٹ پر گدگدی شروع کردی ۔
ضوفی نے ذوردار چیخ ماری اور کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی نننننننہ کرو یاسرررررر کے بچے .آےےےےےےےے
ےےےےےے امییییییی جیییییی
میں نے کہا اب بتاو بھاگو گی ضوفی بولی نہیں بھاگتی پلیزززززز یاسر .نہ کرو میری پھرچیخ نکل جانی ھے ۔ ۔
میں نے کہا تم نے پھر بھاگ جانا ھے اور میں ساتھ ساتھ ضوفی کے پیٹ پر گدگدی بھی کری جارھا تھا ۔
ضوفی کا ہنس ہنس کے برا حال ھورھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر ٹانگوں سے سائکل چال کر ہاتھوں
سے میرے ہاتھ پکڑ کر زور لگا کر میری گرفت سے نکلنے کی کوشش بھی کر رھی تھی ۔
جب ضوفی تھک گئی تو آخری حربہ استعمال کرتے ھوے بولی ۔
یاسر تمہیں میری قسم چھوڑ دو نہیں بھاگتی ۔۔
ضوفی کے منہ سے قسم نکلتے ھی میں نے ھاتھ اسکے پیٹ سے الگ کرلیے ۔
ضوفی اسی حالت میں منہ چھت کی طرف کرکے ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔
اور ساتھ میں اففففف کرتے ھوے بولی بہت ببدمعاش ھو تم یاسر بہت تنگ کرتے ھو ۔۔۔
میری جان نکلنے والی ھوگئی تھی ۔۔
میں نے ہاتھ دوبارا اسکے پیٹ پر رکھ کر انگلیوں سے پیانو بجاتا ھوا ہاتھ کو اسکے مموں کے اوپر لے آیا اور بریزیر کے
اوپر سے ھے اسکے مموں کو پکڑ کو دباتے ھوے بوال ۔
تنگ تو تم کرتی ھو پہلے ھی آرام سے دیکھا دیتی ۔۔
ضوفی کے منہ سے ایکدم سسکاری نکلی اور اس نے میرے ھاتھوں کے اوپر ھی اپنے ہاتھ رکھے اور بولی کیا دیکھنا
ھے ۔
میں نے ضوفی کے کان کی لو پر زبان پھیرتے ھوے ایکدم ھاتھ نیچے لیجا کر اسکی گیلی شلوار پر رکھ کر انگلیوں کو
دباتے ھوے ضوفی کی پھدی کو سہال دیا ۔۔
ضوفی کو ایک ھی وقت میں دو جگہ سے مزہ مال ایک کان کی لو سے دوسرا پھدی پر پہلے مرد کے ہاتھ کے لمس کا۔
ضوفی نے جلدی سے پھدی پر رکھے میرے ھاتھ کے اوپر ہاتھ رکھا اور ٹانگوں کو اوپر کر کے آپس میں بھینچ لیا اور کان
کی لو کو سر ایک طرف کر کے میرے منہ سے دور کرتے ھو ے کانپتے جسم کے ساتھ سییییییییءیی کیا ضوفی کی سی
نے میرے اندر جوش پیدا کردیا اور میں نے اسکی ٹانگوں کے بیچ پھنسے ھاتھ کی انگلیوں کو مزید پھدی پر دبا دیا گیلی
شلوار کی وجہ سے مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے ضوفی کی پھدی بلکل ننگی میرے ہاتھ کے نیچے ھے ۔
اور دوسرا ھاتھ میرا ضوفی کے ممے پر تھا ۔۔
اورضوفی کی نرم مولٹی فوم جیسی گانڈ کا لمس پاتے ھی میرا لن بھی انگڑائیاں لینے پر مجبور ھوگیا ۔
ضوفی کا سر میرے کندھے سے لڑھک چکا تھا اور اسکا ایک کان میرےمنہ کے پاس تھا اور ضوفی سر پیچھے لڑھکاے
چھت کی طرف آنکھیں بند کے سسکاریاں بھری جارھی تھی ۔
اور میری انگلیاں پھدی کو مسلنے اور ایک ھاتھ ممےکو مسلنے اور میری زبان ضوفی
کے کان کی لو کو چھیڑتے ھوے اور لن نیچے گانڈ کی دراڑ میں گھسنے کی کوشش کرے جارھا تھا ۔۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا کہ اچانک ضوفی کا جسم پھر اکڑا اسکی سسکاریاں پورے کمرے میں گونجنے لگیں اور
ضوفی نے ایک ھاتھ پیچھے لیجاکر میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھرا اور ایک چیخ مارتے ھوے میرے بالوں کو
کھینچتے ھوے ۔
پھر پھدی سےگرم گرم منی کا اخراج کرتے ھوے میری انگلیوں کو مذید گیال کرنے لگ گئی ۔
ضوفی کا جسم جھٹکے کھانے کے بعد ڈھیال ھوا اور بےجان ھوکر میرے اوپر ھی ڈھے گئی ۔
جبکہ میرالن فل ٹائٹ ھوکر ضوفی کی گانڈ کی دراڑ میں گھسا ھوا تھا ۔۔
اس سے پہلے کہ ہم سنبھلتے یا اگال قدم اٹھاتےکہ اچانک کمرے کا دروازہ ذور ذور سے بجنے لگ گیا ۔۔
ہم دونوں ایسے ایک دوسرے سے الگ ھوے جیسے کتا گیینڈ چھڑوا کر بھاگتا ھے ۔۔
.ہم دونوں کے رنگ اڑ گئے کہ اس وقت یوں اچانک کون آگیا۔۔۔۔۔
.ضوفی جھٹکے سے میرے اوپر سے ہٹ کر ایک طرف لڑھک کر گری اور میں نے بھی جلدی سے اپنے کپڑوں کی طرف
ھاتھ بڑھایا اتنے میں دروازہ پھر زور زور سے بجایا جانے لگا ۔
ضوفی نے بریزیر اٹھا کر بیڈ کے نیچے پھینکا اور قمیض پہنتے ھوے کانپتی اور تلخ آواز میں پوچھا کون ھے ۔۔۔
دوسری طرف سے ماہی کی گبھرائی ہوئی آواز آئی آپی مما کو پتہ نہیں کیا ھوگیا ھے دروازہ کھولی ماہی کی آواز روہانسی
تھی ۔
ماہی کی بات سنتے ھی میں اور ضوفی گبھرا گئے اور جلدی سے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور ضوفی نے بھاگ کر دروزہ
کھوال۔
تو ماہی کھڑی روے جارھی تھی ۔میں بھی بیڈ سے چھالنگ لگا کر دروازے کی طرف بھاگا ۔
)Update no (129
ماہی مذید کچھ کہے نیچے بھاگ گئی اسکے پیچھے ضوفی اور میں تیزتیز سیڑیاں اترتے ھوے آنٹی کے کمرے میں پہنچے
تو آنٹی چارپائی پر بے ہوش پڑی ھوئی تھی ۔۔
ضوفی بھاگ کر آنٹی کے پاس پینچی اور امی امی کہہ کر آنٹی کو ہالنے لگ گئی ۔۔
میں بھی آنٹی کے پاس پہنچا اور آنٹی کی ناک کے پاس ہاتھ کیا تو آنٹی کی سانس چل رھی تھی ۔
میں نے ضوفی کو کہا حوصلہ کرو یار کچھ نہی ھوا آنٹی کو تم دوسری طرف جاکر آنٹی کی ہتھیلی کو ملو یہ کہتے ھوے
میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور ہتھیلی پر تیز تیز مالش کرنے لگ گیا میں نے ماہی کو کہا ماہی جلدی سے پانی الو ۔۔
ماہی کچن کی طرف بھاگی آنٹی کا جسم برف کی مانند ٹھنڈا ھوگیا تھا ۔۔
ضوفی اور میں آنٹی کی ہتھیلیوں پر مالش کررھے تھے ۔
ماہی پانی لے کر آئی تو میں نے پانی کا گالس پکڑ کر اسے آنٹی کے پاوں پر مالش کرنے کا کہا ۔
اور میں آنٹی کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگ گیا ۔
کچھ دیر بعد آنٹی نے آنکھیں کھولنا شروع کردیں ۔
ہم سب نے شکر ادا کیا اور میں آنٹی کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی سے بات کرنے لگ گیا ۔۔
ضوفی آنٹی کے بازو اور ماہی آنٹی کی ٹانگیں دبانے میں لگی تھیں ۔
کچھ دیر بعد آنٹی کی طبعیت کافی بہتر ھوگئی ۔
آنٹی نے بتایا کہ انکا بلڈ پریشر لو ہوگیا تھا ۔۔
پیشاب کرنے کے لیے اٹھی تو چکرا کر گرگئی یہ تو شکر ھے کہ ماہی کمرے میں ھی تھی اور جاگ رھی تھی ۔۔
میں نے ضوفی کو کہا کہ میں رکشہ لے کر آتا ھوں ۔
میں اٹھنے لگا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ لیا اور بولیں کہ نہیں بیٹا میں اب بلکل ٹھیک ھوں جیتے رھو ۔۔
میں نے کافی دفعہ کہا کہ ہسپتال ایک دفعہ چیک کروا آتے ہیں ۔
مگر آنٹی نہ مانی اور ویسے بھی بارہ ایک بج چکا تھا اس وقت کونسا ڈاکٹر ملنا تھا ۔
کچھ دیر مذید ہم بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔
ضوفی نے آنٹی کو بتایا کہ یاسر کو ہم نے منالیا ھے دکان کے لیے آنٹی بہت خوش ہوئیں ۔
اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیتی رہیں ۔۔
پھر آنٹی بولی جاو تم لوگ سوجاو صبح دکان پر بھی جانا ھے مجھے بھی نیند آرھی ھے اور میری طبعیت اب بلکل ٹھیک
ھے ۔۔
ماہی بولی آپی آپ بیٹھک میں سوجائیں بھائی اوپر سوجاے گا ۔
اور میں امی کے پاس ھی لیٹ جاتی ہوں ۔۔
ماہی ہم دونوں سے بات کرتے ھوے چونک کر کبھی ضوفی کے ہونٹ کی طرف دیکھتی تو کبھی میرے ہونٹ کی طرف ۔
ہم دونوں کو بھی اسکے چونکنے کا اندازہ ھوچکا تھا اس لیے میں اور ضوفی بہانے سے کبھی چہرہ دوسری طرف کرتے تو
کبھی بہانے سے ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لیتے ۔
ماہی ہمیں سونے کی جگہ بتاتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی ٹھیک ھے نہ بھائی آپ کو اوپر نیند آجاے گی ناں۔اااااا
ماہی کی ناااااں کو لمبا کرنا اور شرارتی انداز ۔
میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کیوں کہہ رھی ھے ۔کیونکہ ضوفی کو نیچے سونے کا جو کہا ھے ۔۔
میں نے شرمندہ سا ھوکر کہا ہہہہہااں ہاں میں سوجاوں گا ڈونٹ ویری ۔
.اور اسکے ساتھ ھی
میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر آنٹی کے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر انکی خیریت دریافت کی اور انکے ماتھے کا بوسا لیا۔۔
نجانے کیوں آنٹی سے مجھے ممتا کی خوشبو آتی تھی ۔
آنٹی تھی بھی بڑی نرم دل اورمحبت کرنے والی مجھے دیکھ کر انکر چہرہ ایسے کھل جاتا جیسے میں انکا اصلی بیٹا ھوں ۔
اور آنٹی سے مل کر مجھے لگتا جیسے آنٹی میری سگی ماں ہیں ۔۔۔
خیر۔
میں کمرے سے نکال اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں چال گیا اور دروازہ ویسے ھی بند کردیا الک نہ کیا ۔
اور سیدھا اٹیچ واش روم میں چال گیا اور کپڑے اتار کر پہلے شلوار کو اچھی طرح صابن سے دھویا اور پھر نہا کر قمیض
پہنی اور شلوار کو ویسے ھی ہاتھ میں پکڑے باہر آگیا۔۔
واش روم سے باہر نکلتے ھوے میری نظر بیڈ کے نیچے جھکی ضوفی پر پڑی ۔
وہ گھٹنوں کے بل گانڈ پیچھے کیے ھوے بیڈ کے نیچے ہاتھ مار کر کچھ تالش کررھی تھی ۔۔
واش روم کا درواز کھلنے کی آواز سے ضوفی بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔۔
میں قمیض پہنے شلوار ہاتھ میں پکڑے باہر آگیا ۔
اور مسکرا کر ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے بوال کیا تالش کررھی ھو ۔۔
ضوفی بولی ووووہ میرا ۔۔۔۔۔
میں نے کہا کیا تمہاراااا۔
ضوفی شرمندہ سی ھوکر مجھے جواب دینے کی بجاے ۔پھر نیچے سر کرکے جھکی اور بازو بیڈ کے نیچے گھسا کر کچھ
پکڑنے کی کوشش کرنے لگی ۔
مگر شاید وہ اسکے ہاتھ کی پہنچ سے دور تھا ۔۔
میں ضوفی کے قریب آیا اور پاوں کے بل بیٹھ گیا اور شلوار بیڈ پر رکھ کر اسکو کہا پیچھے ہٹو میں نکال دیتا ھوں ۔۔
ضوفی بولی ننننہیں رہنے دو میں صبح نکال لوں گی ۔۔
میں نے شرارت سے کہا کیاااااا
ضوفی مجھے دھکا مارتے ھوے بولی ۔۔
تم اتنے چوچچچچے کیوں بنتے ھو ۔
جیسے کسی چیز کا پتہ نہ ھو ۔۔
میں پہلے ھی پنجوں کے بل ضوفی کے سامنے بیٹھا ھوا تھا ۔
ضوفی نے جب مجھے دھکا دیا تو میں توازن برقرار نہ رکھ سکا اور باہیں پھالتا ھوا پیچھے جاگرا.
گرتے وقت میری قمیض آگے سے اوپر ہوگئی اور میری ناف سے پیروں تک کا حصہ ننگا ھوگیا ۔۔
ضوفی کی نظر جیسے ھی میرے لن پر پڑی تو ضوفی نے جلدی سے دونوں ھاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور کھڑی ھوکر منہ
دوسری طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔۔
میں ویسے ھی سٹیچو کی طرح ٹانگیں اوپر کو کھولے اور بازوں چھت کی طرف کیے لیٹا ھوا تھا ۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا
بڑی ظالم ھو ایک تمہاری مدد کرو اوپر سے دھکے بھی کھاو ۔
اور دھکا دے کر اٹھانے کی بجاے منہ مروڑ کر کھڑی ھوگئی ھو ۔۔
ضوفی دوسری طرف منہ کر کے ھی بولی ۔
بہت ڈرامے باز ھو اتنی ذور سے تو نہیں میں نے دھکا دیا تھا جتنی تیزی سے تم گرے ھو۔۔
میں نے ضوفی کی طرف باہیں پھیال کر کہا اچھا اب اٹھا تو دویار۔۔
ضوفی بولی میں نے نہیں اٹھانا بےشرم کمرے میں بھی ننگے پھر رھے ھو دروازہ تو الک کرلیتے ۔۔۔
میں ھاےےےےے کرتا ھوا نیچے سے اٹھا اور بوال دروازہ کھال تو تمہارے لیے چھوڑا تھا مجھے پتہ تھا کہ تم آو گی ۔
اگر دروازہ بند ھوتا تو تم نے دروازے سے ہی پلٹ جانا تھا ۔۔
ضوفی بولی کیوں جی مجھے کمرے میں بلوا کر کیا کرنا تھا اب میں اٹھ کر کھڑے ھوتے ھوے بوال ادھورا کام مکمل کرنا
تھا۔۔
ضوفی گھوم کر میری طرف دیکھ کر مصنوعی غصے سے بولی ۔
کیڑا ادھورا کممممممم
میں نے باہیں ضوفی کی طرف پھیالئیں اور اسکی طرف سلو موشن میں چلتاھوا بوال۔
بتاتا ھوں جان من ۔۔
)Update no (130
ضوفی پلٹ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی تو میں سلوموشن میں چلتا ھوا بجلی کی سی تیزی سے بھاگا اور ضوفی کو
پیچھے سے جپھی ڈال لی ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔
چھوڑو مجھے بدمعاش کہیں کے ۔۔
میں نے کہا ۔
ایسا موقع کون سا جلدی نصیب ھوتا ھے ۔
ضوفی بولی نصیب کے بچے دروازہ تو بند کرنے دو ۔
میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو واقعی دروازہ کھال ھوا تھا میں نے جلدی سے ضوفی کو چھوڑا ضوفی آہستہ آہستہ چلتی
ھوئی دروازے کی طرف بڑھی میں ادھر ھی کھڑا اسے دروازے کی طرف جاتے دیکھ رھا تھا ضوفی دروازے کے پاس
پہنچی اور ہینڈل کو پکڑ کر میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ اوپر کر کے ٹا ٹا ٹا کر کے جلدی سے باہر نکلی اور
سیڑھیاں اترتی ھوئی نیچے بھاگ گئی ۔
اور میں وہیں بت بنا اسے جاتا دیکھتا رھا۔۔۔
کچھ دیر بعد میں مایوسی سے چلتا ھوا دروازے کے پاس گیا اور دروازہ ویسے ھی بند کر کے بیڈ کے پاس پہنچ کر بیڈ پر
اپنے آپ کو گرا دیا ۔
کافی دیر میں ایسے ھی لیٹا سوچوں میں گم رھا پھر اٹھ کر شلوار پہنی اور اچھے بچے کی طرح چپ کر کے لیٹ گیا۔۔۔۔
صبح مجھے ضوفی نے اٹھایا کہ جلدی اٹھ جاو ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ۔۔
میں نے انگڑائی لیتے ھوے آنکھیں کھولیں تو ضوفی میرے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسکے گیلے بالوں سے پانی کی
بوندیں میرے منہ پر گررہیں تھیں ۔
میں نے آنکھوں کو پورا کھوال اور انگڑائی کے لیے اٹھے بازوں کو ضوفی کی گردن میں ڈال کر اسکے کھلتے گالب جیسے
چہرے کو اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور اسکی ہونٹوں پر کس کی اور بوال رات کو مجھے بیوقوف بنا کر بھاگ گئی تھی
نہ ۔
کوئی گل نئی۔۔
ضوفی نے میرے ہونٹوں کو چوما ۔
ضوفی کا ہونٹ اب بھی ہلکا سا سوجا ھوا تھا ۔
ضوفی اپنے ہونٹ پر انگلی سے مساج کرتے ھوے بولی ۔
ظالم یہ دیکھو تم نے رات کو کتنا برا کاٹا تھا ۔
ماہی نے دو تین دفعہ مجھے پوچھا ھے کہ ہونٹ پر کیا ھوا ھے ۔۔
میں نے اپنے نچلے ہونٹ کو باہر نکال کر کہا یہ دیکھو تم نے کونسا مجھے بخشا تھا۔۔
ضوفی میرے ہونٹ کو انگلی سے سہالتے ھوے سوری بولنے لگی ۔
میں نے اسکی گردن کو مزید نیچے کرتےھوے کہا خالی سوری سے کام نہیں چلنا
زخم دیا ھے تو اس پر ملہم لگا کر عالج بھی کردو۔
ضوفی نے اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو میرے ہونٹ پر رکھ کر پنکھڑیًو ں کا عرق لگایا اور بولی بس اور میں نے سر اٹھا کر
اسکے ہونٹ کو چوما اور اسکی گردن سے بازو نکال لیے ۔
تو ضوفی سیدھی ھوکر گیلے بالوں کو دونوں ھاتھوں سے جھٹک کر پیچھے کرتے ھوے بولی اب اٹھ کر فریش ھوجاو میں
ناشتہ لگاتی ھوں اور یہ کہتی ھوئی ضوفی کمرے سے باہر چلی گئی اور میں لیٹا لمبے لمبے سانس کھینچ کر اسکے گیلے
جسم اور گیلے بالوں سے اٹھتی دھیمی دھیمی مہک کو اپنے اندر کھینچتا رھا ۔۔ی
اور پھر اٹھا اور نہا کر فریش ھوا اور نیچے چال گیا اور کچھ دیر آنٹی کے پاس بیٹھا انکی طبعیت کے بارے میں پوچھتا
رھا ۔
اور پھر ماہی نے ناشتہ کرنے کا کہا میں اٹھ کر باہر ٹی وی الونج میں آگیا اور پھر ہم نے ناشتہ کیا اور کچھ ھی دیر بعد میں
اور ضوفی بازار کی طرف نکل پڑے ضوفی نے مارکیٹ مالک کے گھر چھوڑنے اور دوپہر کو آنے کا کہا میں ضوفی کو
مالک دکان کے گھر چھوڑ کر خود دکان پر پہنچا دکان کھلی ھوئی تھی ۔
).Update no (131
انکل اور جنید دکان پر تھے ان سے سالم دعا کے بعد کام میں مصروف ھوگئے ۔
کچھ دیر بعد میں نے علیحدہ ھوکر جیند سے دکان لینے اور کام کرنے کا کہا تو جنید حیران پریشان ھوگیا کہ ایکدم اتنی بڑی
تبدیلی کیسے میں نے کہا بس یار جب اوپر واال مہربان ھوتا ھے تو ہر ناممکن کام ممکن ھوجاتا ھے ۔
جنیدمجھ سے پوچھتا رھا کہ پیسے کہاں سے آے میں نے اسے گاوں کے دوست کا بتایا کہ اس نے پیسے لگانے ہیں اور کام
میں نے کرنا ھے ۔۔
خیر کافی باتوں کے بعد جنید کو یقین ھوگیا اور وہ بہت خوش ھوا اور مجھے مبارک باد دینے لگ گیا کہ یار بڑے خوش
قسمت ھو کہ اوپر والے نے اتنی جلدی تیری سن لی ۔۔
اور دوپہر کو میں سیدھا پارلر پر پہنچا تو ضوفی بڑی خوش نظر آئی اور اندر جاتے ھی مجھ سے لپٹ گئی اور خوشی سے
میری آنکھوں کے سامنے دکان کی چابی لہرانے لگی ۔۔
اور کچھ دیر ہم بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔
پھر ضوفی نے مجھے کہا کہ میرے ساتھ بنک تک چلو وھاں سے پیسے نکلوانے ہیں ۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔
کچھ دیر بعد ہم بنک پہنچے ضوفی نے ایک چیک مجھے پکڑایا اور بولی یہ کیش کروا لو ضوفی ایک طرف بیٹھ گئی میں
کاونٹر ۔پر گیا اور پچاس ہزار کی رقم نکلوا کر چھ سات دفعہ گنتی کی اور پیسے پورے کر کے کاونٹر سے واپس ضوفی کی
طرف آگیا اتنی بڑی رقم میں نے پہلی دفعہ دیکھی تھی اتنے پیسے ہاتھ میں پکڑ کر میری فیلنگ ھی الگ تھی ۔۔
پیسے میں نے ضوفی کی بڑھاے تو ضوفی بولی جناب اسے جیب میں ڈالو اور صبح سے دکان کی سیٹنگ شروع کروا دو ۔۔
میں نے کہا نہیں ضوفی اتنے ذیادہ پیسے مجھ سے نہیں سنبھالے جانے تم انکو اپنے پاس رکھو جتنے پیسوں کی ضرورت
ہوئی میں تم سے لیتا رہوں گا ۔۔۔
ضوفی نے اوکے کیا اور پیسے پکڑ کر اپنی اے ٹی ایم مشین میں رکھ لیے اور ہم بنک سے نکل کر مارکیٹ پہنچے میں نے
دکان کا تاال کھوال اور شٹر اوپر کیا تو آس پاس والے دکاندار چونک کر میری طرف اور ضوفی کی طرف دیکھنے لگ
گئے ۔۔
.ہم دونوں نے دکان کا اندر سے جائزہ لیا اور ۔پھر فرنیچراور دکان کو کیسے ڈیکوریٹ کرنا ھے ایک دوسرے سے مشورہ
کرنے لگ گئے ۔
تقریبا ایک گھنٹے کے سوچ بچار کے بعد حتمی پالن کیا اور دکان سے نکل کر ہم نے شٹر بند کیا اور نیچے پارلر میں آگئے۔
ضوفی سے اجازت لی اور دکان کا فرنیچر بنوانے والے کی طرف جانے کا کہہ کر میں نکلنے لگا تو ضوفی نے مجھے پانچ
ہزار دیا کہ ان سے بات پکی کر کے انکو بیانہ دے دینا اور ان سے سامان لکھوا لینا جو جو چاہیے وہ کل لے آنا آج تو لیٹ
ھوجاو گے ۔۔۔
میں نے ہمممم کیا اور پیسے پکڑ کر دکان کی طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو انکل کچھ تلخی سے بولے کہ اتنی دیر کہاں لگا
دی دکان پر اتنا رش پڑ گیا تھا ۔
یار کچھ تو اپنے آپ خیال کرلیا کرو۔۔
میں نے کہا انکل جی میں اپنے لیے دکان کی بات کرنے گیاتھا ۔
میں اپنی دکان بنانے لگا ہوں ۔
انکل کا منہ ایکدم کھلے کا کھال رھ گیا ۔۔
اور پھر جنید کی طرح انکو بھی سمجھانا پڑا مگر فرق صرف یہ تھا کہ انکو شہر کے کسی دوست کا بتایا جس کے ساتھ کام
شروع کرنا تھا ۔
انکل اوپر اوپر سے خوش دیکھائی دیے مگر اندر سے انسے حسد کی بو ارھی تھی ۔
پہلے تو وہ یہ کہتے رھے کہ تم سے ابھی کام نہیں ھونا ابھی تم اس قابل نہیں ھوے نقصان اٹھاو گے کام ایسے اتنی جلدی
نہیں چلتے اپنے دوست کا نقصان کرو گے وغیرہ وغیرہ ۔
مختصرا خوب ساڑ بکا۔۔۔۔
چار بجے میں نے جنید کو کہا یار مجھے کچھ دن کے لیے تمہاری مدد کی ضرورت ھے ۔
اگر تم مناسب سمجھو تو ۔۔
جنید مجھے مکا مارتے ھوے بوال
چوالں نہ ماریا کر یار ۔۔
سدھی بکواس کریا کر کہ میرے واسطے کی حکم اے ۔۔
میں نےکہا یار مجھے دکان کے سیٹنگ کے لیے اچھے کاریگر چاہیے اور تجھے تو کافی عرصہ ھوگیا ھے اس فیلڈ میں اور
انسے پیسے وغیرہ بھی طے کر سکتے ھو اور کون اچھا کام کرتا ھے یہ بھی تجھےعلم ھوگا ۔
جنید بوالبسسسسسس
اے کیڑا کم اےیار ۔
میں بوال۔
سالیا ہور میں تیرے کولوں بندا مروانا اے۔
جنید بوال یار لوڑ پئی تے بندا وی مار دیواں گے بندیاں نوں وی بندے ای ماردے نے۔
میں نے ہنستے ھوے کہا۔
.بےجاماما
ایڈا توں اکری بدمعاش۔۔
جنید بوال ۔
اکری میرے لن تو واریا اودی پین دے پچھے تیرااااااا۔
جنید ایکدم چپ ھوگیا۔۔۔
میں نے بھی اکری کی بہن کا سن کر چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔
اور بڑے تجسس سے جنید سے پوچھا کیا ھے اکری کی بہن کو ۔۔۔
جنید گبھرا کر بوال کش نئی بس ایویں مزاق چ منہ وچوں نکل گیا۔۔
میں نے کہا ماما ہن میرے کولوں وی گالں لکاویں گا بس اے ھی یاری اے ۔۔۔
جنید بوال نہیں یار ایسی بات نہی ھے میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے کہا تو پھر بتا کیا ھے اسکی بہن کو ۔
کہیں اسکے ساتھ تیرا چکر تو نہیں چل رھا ۔۔
جنید گبھرا کر میرے پٹ پر ہاتھ رکھ کر دباتے ھوے بوال
سالیا ہولی پونک کیوں مینوں مروانا اے ۔۔
میں نے آہستہ سے پوچھا بتا پھر ۔۔
جنید بوال سالیا تیرے کولوں صبر نئی ہوندا اینج کرن لگ پیاں ایں جیویں او تیری باجی اے ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا پھدی دیا میری باجی تیری وی تے باجی ای لگی ۔۔۔
جنید بوال تے فیر ُمٹھ رکھ جدوں کلے ہوے دس دیواں گا ۔۔۔
میں نے بھی پھر ذیادہ اس موضوع پر گفتگو نہ کی ۔
اور پھر جنید بوال چل فیر اک مستری ھے اودے کول چلدے آں۔۔۔
اور پھر ہم دونوں انکل کی موٹر سائیکل لے کر ایک مستری کے پاس گئے اسےساتھ لےکر ہم شاہین مارکیٹ پہنچے ۔
کاریگر نے دکان کا جائزہ لیااور میں اسے سیٹنگ کا نقشہ سمجھانے لگ گیا
کچھ ڈریکشن جنید اور مستری نے بھی دی جو مجھےکافی پسند آئی جس سے دکان کی سیٹنگ مذید اچھی بن سکتی تھی ۔۔
پھر جنید نے کاریگر سے اسکی مزدوری طے کی جو میری اور ضوفی کی سوچ سے کافی کم تھی ۔۔
میں نے چار ہزار اسکو بیانہ دیا اور اس نے پندرہ دن
کا ٹائم لیا کہ اتنے دن لگ جانے ہیں ۔
اور پھر اس سے سارے سامان کی لسٹ لکھوائی ۔
کاریگر کہتا رھا کہ میں ساتھ چلوں گا سامان لینے ۔
مگر جنید نے مجھے آنکھ ماردی تھی کہ اسے خود ھی النے کا کہہ دے میں نے اسے بہانہ کیا کہ میرے چاچو کی اپنی دکان
ھے اس لیے تم پریشانی مت لو جو چیز نہ پسند ہو وہ واپس کردیں گے اس لےتو کل اپنے ہتھیار وغیرہ لے کر دکان پر پہنچ
جانا ۔۔
باقی سامان کل دس گیارہ بجے پہنچ جاے گا۔۔
مستری سے اوکے کر کے ہم دکان پر پہنچے تو انکل کی سڑی سڑیجنید کو سننے کو ملی
وہ کہتے ہیں نہ کہ کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو ۔
انکل سنا مجھے رھے تھے اور بول جنید کو رھے تھے ۔۔۔
خیر ہم دکان میں بیٹھ گئے ۔۔
میں نے جنید سے سوری کی کہ یار میری وجہ سے تیری بےعزتی ھوئی ۔
جنید بوال
ماما پیلے کیڑا میرے تے چادراں چڑدیاں نے ۔
اینی تے روز کروں کرا کے آنا ایں ۔۔
میں نے ہنستے ھوےکہا
اچھااااا
چلو فیر خیر اے۔۔
جنید مجھے ٹانگ مارتے ھوے بوال
سالیا اک میری بےعزتی ھوئی الٹا خیر اے کہہ کے جان چھڑوان دیاں ایں ۔۔
میں وی تیرے کول ای آجانا اے ۔
بنڈ مار اے ھو جئے مالک دی ۔۔
میں نےکہا
.سوواری آ یارا
تیری اپنی دکان اے ۔۔۔
میرا بھی ذہن تھا کہ جنید کو اپنے پاس رکھ لوں گا بڑا کام کا یار تھا
اور مخلص بےلوث۔۔۔
اور جنید نے میرے دل کی بات کردی ۔
میںنے جنید کو کہا تو بس پھر تیار رہنا بلکہ تم اسی مہینے اس سے حساب کرلینا ۔۔
جنید نے بھی اوکے کیا ۔۔
اور میں نے جنید کو کہا کہ یار وہ کیمرہ تم فلحال گھر لے جاو ۔
جب مجھےضرورت پیش آئی تجھے بتا دوں گا کیوں کہ اب کچھ دن تو میں بہت مصروف رہوں گا ۔۔
جنید بوال چل یہ بھی سہی ھے میں .اسے کیمرہ واپس کردیتا ھوں جب ضرورت ھوئی تو اس لے لوں گا ۔
میں نے کہا یار یہ نہ ھو کہ وقت پڑنے پر کیمرہ ھی نہ ملے جنید بوال نوٹینشن یار وہ بھی اپنا جگر ھے۔۔
آدھی رات کو بھی ضرورت پڑی تو وہ ساال خود دے کر جاے گا ۔۔۔
میں نے ہممممم کیا اور جنید کے ساتھ کل کا پروگرام بنایا اور شام چھ بجے انکل سے پکی پکی چھٹی اور ان سے کمی
کوتاہی کی معافی مانگ کر الوداع کہہ کر زندگی کے نئے سفر کی طرف چل پڑا۔ ۔
)Update no (132
میں سیدھا ضوفی کے پاس پہنچا اسے ساری تفصیل بتائی اور سامان کی لسٹ بھی دیکھائی ضوفی کافی خوش ہوئی کے بڑے
مناسب پیسے طے کئے ہیں کاریگر سے ۔۔
اور کچھ دیر میں ضوفی کے پاس بیٹھا دکان کے مطلق باتیں کرتا رھا ۔
اور پھر ضوفی کو گھر چھوڑا اور آنٹی سے انکی صحت دریافت کرنے کے بعد میں گاوں پہنچا امی پہلے تو کافی غصے
ھوئیں اور گھر داخل ھوتے ھی برس پڑیں کہ تجھے کسی کی فکر نہیں ھے جب دل کرتا ھے رات باہر رہنے لگ جاتا ھے
اور نواب ساب فون کر کے اطالع بھجوا دیتا ھے ۔
میں ساری رات نہیں سوئی تیری فکر لگی رھی ۔
امی سے چنگی تسلی بخش بےعزتی کروانے کے بعد میں امی کے گلے میں باہیں ڈال کر امی کو دکان کی خوشخبری سنانے
لگ پڑا امی پہلے تو حیران پریشان ناقابل یقین انداز سے میری طرف دیکھتی رہیں اور پھر جب میں نے امی کو قسمیں کھا
کر یقین دلوایا تو امی خوشی سے نہال ہونے لگ گئیں اور ابو اور آپی کو آواز دے کر انکو خوشخبری سنانے لگ پڑیں ۔
ابو اور آپی کا بھی وہ ھی حال تھا کہ
جیسے کھسرے کے گھر بچہ ھوگیا ھو ۔
انکو بھی بڑی مشکل سے یقین دالیا ۔۔
امی ابو خوشی کے ساتھ کچھ پریشان بھی ھوے کہ تم بہت بڑا رسک لے رھے ھو اگر کچھ الٹا سیدھا ھوگیا تو ہماری تو اتنی
اوقات بھی نہیں ھے کہ ہم اتنے پیسے بھر سکیں ۔
میں نے کافی محنت مشقت سے انکو یقین دلوایا کہ دکان بڑی موقع کی ھے مین بازار میں ھے کام بہت اچھا چلے گا بس آپ
دعا کریں کے کسی کی نظر نہ لگے ہماری خوشیوں کو اب بہت جلد ہمارے اچھے دن شروع ھونے والے ہیں ۔
ایسے ھی ہم رات گئے تک شیخ چلی کے سپنے سجاتے رھے
پکا اور گلی میں سب سے اونچا مکان ٹیلی فون بیٹھک میں صوفے دیواروں پر پردے موٹرسائکل آپی کی دھوم دھام سے
شادی پھر کوٹھی کار وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
خیر صبح میں جلدی اٹھا اور فریش ھوکر ناشتہ کرکے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا اسے ساتھ لیا اور واپس مارکیٹ پہنچ کر
اس سے پیسے لے کر میں واپس ضوفی کے محلے کی طرف چل دیا کیونکہ جنید ابھی گھر ھی تھا اسے ساتھ لے کر میں
پھر واپس مارکیٹ پہنچا دکان کھول کر خالی دکان کا پھر جائزہ لینے لگ گئے۔
کچھ دیر بعد کاریگر بھی کھوتی ریڑی پر اپنا سامان الدھے پہنچ گیا ۔
اسکا سامان اتار کر دکان کے اندر رکھوایا ادھر ادھر کہ دکاندار مجھے مبارک باد دینے آے ۔
کہ بڑی اچھی دکان ملی ھے اور کام کا سن کر سب نے ھی کہا کہ یہ کام بہت اچھا چلے گا ۔۔
خیر کاریگر کو چھوڑ کر ہم سامان لینے چلے گئے ۔
تین چار دکانوں سے سارے سامان کا بل بنوایا اور پھر ایک دکان کا سب سے مناسب ریٹ لگا تو اس سے الماریوں کے لیے
شیٹیں اور شیشے اور باقی کا سارا چھوٹا موٹا سامان لیا شیشے ابھی ادھر ھی رکھوا دیے کے بعد میں لے جائیں گے اور
باقی کا سارا سامان ریڑھی پر رکھوا کر دکان پر پہنچایا ۔۔
پیسے کم پڑ گئے تھے ضوفی نے مزید پیسے نکلوا کر مجھے دیے ۔۔ایسے ھی دن گزرتے گئے ۔۔
ان دنوں میں میری ساری توجہ دکان کی طرف تھی میں سب کچھ بھول کر صرف دکان کی سیٹنگ کروانے اور جلد ازجلد
کام شروع کرنے پر فوکس کیے ھوے تھا ۔۔۔
ضوفی کے گھر رات رہنے کا موقع نہیں مال ویسے اس سے ہلکی پھلکی کسنگ جپھی شپھی ھوجاتی ۔
ان دنوں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی نہیں جاسکا ۔۔
صدف کا تو ویسے ھی اتا پتا نہیں تھا کیوں کہ وہ بھی سکول چھوڑ چکی تھی ۔
اور نہ ھی کافی دنوں سے فرحت کے ساتھ مالقات ھوسکی ۔۔
ان تمام دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا طوالت کے ڈر سے جسکو لکھنا ضروری نہیں سمجھتا
خیر چند ھی دنوں بعد دکان کی شاندار سیٹنگ ھوگئی ۔۔
.ان تمام دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا طوالت کے ڈر سے جسکو لکھنا ضروری نہیں سمجھتا
خیر چند ھی دنوں بعد دکان کی شاندار سیٹنگ ھوگئی ۔۔
میں نے دکان کا شٹر آدھا بند ھی رکھا ۔۔
کہ ساری سیٹنگ کرکے مال وغیرہ ڈال کر جب افتتاح کروں گا تو تب ھی سب دکان کو اندر سے دیکھیں گے ۔۔
بوتیک کی سیٹنگ ایسی تھی کہ پورے بازار میں ایسی سیٹنگ کسی بوتیک کی بھی نہیں تھی ۔مہری کی مما کے بوتیک کی
سیٹنگ بھی میں نے دیکھی ھوئی تھی جو کہ بڑی شاندار تھی مگر میں نے اس سےبھی اچھی سیٹنگ کروائی تھی کیونکہ
الہور جب ہم شاپنگ کے لیے انار کلی گئے تھے تو ادھر میں نے کچھ بوتیک دیکھے تھے بس اندازے سے ان سے ملتی
جلتی ساری سیٹنگ کروائی۔۔
جس میں ٹرائی روم ایک سٹور شاندار الماریاں جو تقریبًا شیشے کی تھیں سٹیچو کے لیے بڑے بڑے ریک باقی ہینگرز کے
لیے ایک طرف ہکیں باہر بھی ایک بڑے سائز کا شوکیس جس میں سٹیچو کھڑے کرنے تھے ۔۔
فرنٹ پر بھی سارا فریم شیشے کا
مختصرًا کہ اس دور کے حساب سےاپنی اوقات سے بڑھ کر سیٹنگ کی ۔
دوستو ان دنوں میں ایک الکھ کے قریب صرف سیٹنگ پر ھی خرچہ آیا جو آج کے دور میں بڑی خطیر رقم بنتی ھے ۔۔
اور سارا خرچہ ضوفی کا ھی ھورھا تھا ۔جسے وہ خوش ھو کر اور مجھ سے بھی ذیادہ شوق سے لگا رھی تھی ۔۔
دوستو سفید پوش لوگ ایسے ھی ھوتے ہیں دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں اسکے پاس کتنا پیسہ ھے مگر اندر
کے معامالت کا اسے ھی پتہ ہوتا ھے کچھ لوگ یہ بھی سمجھ رھے تھے کہ میں بہت امیر ھوں کچھ دکاندار یہ بھی سمجھ
رھے تھے کہ پالر والی نے مجھے امیر سمجھ کر پھنسایا ھوا ھے اور مجھ سے مال کھا رھی ھے ۔
جتنا جسکا ظرف تھا اتنا وہ ہمارے بارے میں سوچ رھا تھا ان میں سے ایک انکل سجاد بھی تھے جو یہ سوچ رھے تھے کہ
میں نے اور جنید نے مل کر انکی پھٹی لکھی ھے اور انکی دکان کو لوٹ کر اب خود کی دکان بنا لی ھے ۔۔
مختصرا ہر کو نیگٹیو ھی سوچ رھا تھا
خیر
جنید نے میرا بڑا ساتھ دیا میری وجہ سے اس بےچارے کی انکل سجاد کے ساتھ منہ ماری بھی ھوگئی دکان سے غائب رہنے
کی وجہ سے ۔
جنید نے انکل سے حساب کرلیا تھا اور اسکو دکان سے جواب دے دیا تھا۔۔
جنید کے جواب دینے کے بعد انکل سجاد نے ادھر ادھر کے دکانداروں کے ساتھ کافی ساڑ بکا تھا ۔۔
مجھے جب جنید نے بتایا کہ دکان سے فارغ ھوگیا ہوں تو میں نے اسی دن
ضوفی سے مشورہ کرنے کے بعد اسکی اجازت سے میں نے جنید کو اپنے پاس آنے کی آفر کردی اور معقول تنخواہ بھی
رکھ دی جسے اس نے خوشی سے قبول کیا اور پھر۔۔
ضوفی کے ھی کہنے پر میں اور جنید الہور گئے مارکیٹ اور دکانوں کا ہمیں پہلے ھی ایسے پتہ تھا کہ ۔
ہم نے انکل کی دکان پر مال کے بلوں پر سے مارکیٹ کے نام اور دکانوں کے نام نوٹ بھی کرلیے تھے اور ذہن نشین
بھی ۔۔۔۔۔۔
جب میں الہور کے لیے نکال تو میرے پاس مال لینے کے جو پیسے تھے اتنے پیسے تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہ
دیکھے تھے ضوفی نے سارا زیور بھی بیچ دیا تھا اور بنک میں سے ساری جمع پونجی نکال کر مجھے دے دی تھی
میں نے ضوفی سے ھی بنیان کے اندر کیطرف ااوپر نیچے کر کے دو تین جیبیں لگوالیں تھی اس لیے پیسے تو بلکل سیو
تھے مگر اتنے ذیادہ پیسوں کا پاس ھونے کا احساس مجھے خوف زدہ کیے ھوے تھا خیر اوپر والے پر بھروسہ کر کے گھر
سے امی ابو اور شہر سے آنٹی کی نصیحتوں اور دعاوں کے ساتھ جنید کو لیے الہور روانہ ھوا
جس کے ساتھ دو ماوں کی دعائیں اور اوپر والے پر بھروسہ ھو تو وہ کیسے ناکام ھوسکتا ھے ۔
الہور پہنچ کر ہم پہلے سے طے شدہ پالن کے مطابق پہلے انار کلی بازار میں گھومتے رھے جو سب سے اچھے بوتیک
تھے ان میں گھس کر ورائٹی نکل کرتے رھے اور پھر وہیں سے ہم رنگ محل گئے ادھر سے کچھ ورائٹی لی پھر اعظم
مارکیٹ ادھر سے ہمیں پتہ چال کہ انار کلی میں بھی ایک گلی میں بوتیک کی ہول سیل دکانیں ہیں ہم ادھر اعظم مارکیٹ سے
واپس پھر انار کلی بازار گئے ادھر سے بھی کافی اچھی اور بارعایت ورائٹی ملی ۔
ہم نے پرچیزنگ میں بڑی محنت کی مال ہم نے سارا بلٹی کروا دیا اور واپسی پر ہمارے پاس صرف کرایہ یا مزید کچھ پیسے
ھی بچے ۔۔۔۔
گھر میں آتے ھی بتا آیا تھا کہ میں الھور مال لینے جارھا ھوں
اس لیے رات کو گھر نہیں آوں گا ۔۔
ہمیں الہور ھی آٹھ بج گئے ہم نے انار کلی میں ھی رات کو کھانا کھایا ۔۔
خیر سیالکوٹ کی بس میں سوار ھوگئے تھکن اتنی تھی کہ ہم الہور الری اڈہ میں کھڑی ھی بس میں سوگئے اور پھر
سیالکوٹ الری اڈہ میں کھڑی ھی بس میں کنڈیکٹر نے ااٹھایا کہ ویرو اٹھ جاو کار آگیا جے ۔۔۔
ہم آنکھیں ملتے ھوے حیران پریشان خالی بس کو دیکھنے لگ گئے میں نے کنڈیکٹر کو کہا یار ابھی تک بس نہیں بھری ۔۔
کنڈیکٹر ہنستا ھوا بوال ویر جی بس سیالکوٹ الری اڈے وچ کھڑی اے ۔۔۔
میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اور جنید میری طرف اور میں جنید کیطرف دیکھ کر حیران پریشان بیٹھے تھے کہ کنڈیکٹر پھر
بوال
ویرو ہن اتر وی جاو کہ ایتھے ای بسترے ال دیواں یا فیر واپس الہور جانا اے ۔
نئی یقین ہوندا تے بار نکل کے اڈہ پشان لو اپنا ای اے ۔۔۔۔
جنید بوال ہن بس وی کر ماما ایویں ِنرلے کالجے بےعزتی کری جاناں ایں ۔۔۔
کنڈیکٹر آجو آجو آجو کہتا ھوا دروازے کی طرف چال گیا اور ہم بھی اسکے پیچھے بس سے نیچے اترے اور چاروں طرف
دیکھ کر پہچاننے لگے کہ واقعی ہمارا ھی شہر ھے ۔۔۔
ادھر سے ہم نے رکشہ کروایا جنید کے محلے کا ۔۔
جنید کو گھر اتارا تو جنید نے کافی اصرار کیا کہ رات اسکے پاس رکوں مگر مجھے تو کہیں اور جانے کی جلدی تھی میں
نے اسے گھر الزمی جانے کا کہا ۔۔
اور اسے رکشہ سے اتار کر رکشے والے کو واپس چلنے کا کہا رکشے والے نے کہا کدھر جانا ھے باو جی .میں کیا چل
تے سئی دسنا ایں ۔۔
کچھ آگے موڑ تھا موڑ مڑ کر میں نے کہا بس بس بس ادھر اتار دے رکشے واال بوال باو جی کوئی چیز تے نئی ُپل آے
اوتھے کیندے او تے واپس موڑ لواں.
میں نے او نئی یار میرا ایتھے کااار اے ۔۔۔
رکشے واال ہمممم کر کے چپ ھوگیا میں نے اسے کرایہ دیا اور پھر سجن کی گلی میں چل دیا ۔۔
)Update no (133
سجن کے گھر پہنچا بیل دی پہلی بیل کے چند سیکنڈ بعد ھی سجن کی کانوں سے ٹکراتی ھوئی سیدھا دل پر لگی آواز سن کر
ساری تھکاوٹ اتر گئی اور جب دیدار ماہی (ضوفی) کا ہوا تو رہتی تھکاوٹ بھی اتر گئی ۔
ضوفی کا چہرہ دیکھتے ھی جسم کو توانائی مل جاتی تھی ۔
ضوفی بڑی گرمجوشی سے دروازے پر ھی گلے ملی اور پھر ہم چلتے ھوے ٹی وی الونج میں پہنچے اور جب میری نظر
کالک پر پڑی تو ایک بج چکا تھا ۔
میں نے ماہی اور آنٹی کا پوچھا تو ضوفی نے اشارے سے بتایا کہ وہ تو کب کی سوگئی ہیں ۔۔
پھر ضوفی نے مجھے اوپر جانے کا کہا اورخود کھانا کھانے کا کہہ کر کچن کی طرف چلی تو میں نے کہا یار کھانا نہیں
بس چاے بنا دو
ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔
نواب ساب کھانا کھا آے میں نے اثبات میں سر ہالیا ضوفی برا سا منہ بناتے ھوے بولی ۔اور میں ۔۔۔۔۔
میں نے کہا کیا میں ۔۔
ضوفی نفی میں سر ہال کر افسردہ سی کچن کی طرف چل دی ۔
میں کچھ سوچتے ھوے اپنے ماتھ پر ہاتھ مارا
او تواڈی پین نو۔۔۔۔
.ضوفی کچن میں چلی گئی تھی اور مجھے اپنی غلطی کا احساس جب ھوا تو میں بھاگا ھوا ضوفی کے پیچھے کچن میں جب
داخل ھوا تو ضوفی شیلف پر رکھے چولہے کے سامنے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھوں
کو صاف کرتے ھوے چاے کی کیتلی چولہے پر رکھ رھی تھی ۔
میں جب کچن میں داخل ہوا تو ضوفی نے گردن گھما کر ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر دوسری طرف منہ کر کے کھڑی
ہوگئی ۔
ضوفی کو روتا دیکھ کر میں اپنے آپ کو کوسنے لگ گیا اور چلتا ھوا ضوفی کے پیچھے پہنچا اور اسکی کمر کے گرد بازو
ڈال کر ھاتھ اسکے مخمل سےنرم پیٹ پر رکھ کر تھوڑا سا جھکا اور اسکے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر بوال ۔
میرا چھونا ناج ھو دیا اے ۔۔
ضوفی روہانسے لہجے میں بولی تمہیں کیا لگے کسی سے ۔۔۔
میں نے کہا میری جان میں تو مزاق کررھا تھا میں تو خود صبح سے خالی پیٹ مارکیٹ میں گھومتا رھا اور اسی خوشی میں
بھوک ھی نہیں لگی کہ آج اپنی جان کے ھاتھ کا بنا ھوا کھانا کھاوں گا ۔۔
اور تم اتنی کنجوس ھو کہ ایک دفعہ صلح مار کر جان چھڑوا کر جلدی سے کچن میں بھاگ آئی ھو ۔۔۔
ضوفی ایکدم چونک کر گھومی اور میری طرف منہ کر کے دونوں بازوں میرے سینے پر الکر دونوں ہاتھوں سے میرے
سینے پر مکے مار کر بولی ۔
شوخے پہلے کیوں نہیں بتایا میں صبح سے تمہارے اتنظار میں بھوکی ھوں کچھ بھی نہیں کھایا ۔
کہ تم آو گے تو ھی تمہارے ساتھ کھانا کھاوں گی اور جناب نے آتے ھی کہہ دیا کہ کھانا کھا کر آیا ھوں ۔۔
میں ضوفی کی کمر سے ھاتھ ہٹاے اور اسکی روئی سی گالوں کو تھام کر اسکی نم آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی
پلکوں پر سجے شبنم کے قطروں کو اپنے ہونٹوں سے چنا اور بوال ۔
پاگل ھو تم بھی قسمت سے تو تمہارے ھاتھ کا بنا کھانا کھانے کو موقع ملتا ھے اور میں پاگل ھوں جو اپنی جان کے ساتھ
کھانا کھانے کا یہ قیمتی موقع ضائع کرتا ۔۔
اور پھر میں نے ضوفی کے مخملی ہاتھوں کو پکڑا اور ہاتھوں کو چومتےھوے بوال
اب جلدی سے ان پیارے سے ہاتھوں سے کھانا بناو اور اپنے ہاتھ سے کھالو قسم سے بہت بھوک لگی ھے ۔۔
ضوفی بولی بڑے مسکے لگانا جانتے ھو۔
چلو جا کر نہا کر فریش ھوجاو میں ابھی کھانا لے کر آتی ھوں ۔
میں نے ضوفی کا ہاتھ چھوڑا اور اسکے کندھوں کو پکڑ کر بڑے رومینٹک انداز سے بوال ۔
جان فریش تو تمہیں دیکھتے ھی ھوگیا ۔قسم سے تمہارے چہرے پر نظر پڑتے ھی ساری تھکاوٹ اتر گئی تھی
ضوفی بڑے غور سے آنکھیں جھپکاتے ھوے میری بات سن رھی تھی ۔
میں نے بڑے سسپنس سے کہا جان میری ایک بات مانو گی ۔ضوفی جو پہلے ھی میری باتوں میں کھوئی ھوئی تھی میرے
یوں سوال پرچونک کر بولی
حکم کرو جان ۔میں نے بڑا مسکین سا منہ بنایا اور بوال
ضوفی اگر تم مجھے
پہلے نہانے واال تو کردو تو پھر میں نہا بھی لوں گا۔۔
اور یہ کہہ کر میں باہر کی طرف بھاگا
ضوفی پیر پٹختی ھوئی کھانے کا چمچہ پکڑ کر میرے پیچھے بھاگی شوخےےےےےےےےٹھہر جا ابھی کرتی ھوں تجھے
نہانے واال ۔۔
میں بھاگتا ھوا اوپر کمرے میں آگیا ضوفی بس کچن کے دروازے سے ھی واپس مڑ گئی ۔۔
میں کمرے میں دَاخل ھوا اور شرٹ اتار کر بیڈ پر ایسے پھینکی جیسے یہ کمرہ میرا اور ضوفی کا بیڈ روم ھو اور کمرے
میں آکر میری فیلنگ بھی کچھ ایسی ھی ھو جاتی تھی ۔
میں سیٹی بجاتا ھوا واش روم میں گھس گیا اور نہانے لگ گیا نہا کر فریش ھوکر پینٹ پہن کر واش روم سے باہر نکال اور
پھر شرٹ پہنی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ھوکر سیٹی بجاتے ھوے بالوں میں برش پھیرنے لگ گیا۔۔
کہ ضوفی کے ہنسنے کی آواز آئی تو میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ضوفی کھانے کی ٹرے پکڑے ہنستے ھوے کہہ رھی
تھی ۔
واہ واہ لگتا ھے میرے شہزادے کو الہور کی ہوا لگ گئی ھے خیر ھے بڑے موڈ میں ھو ۔
میں جھینپ کر سر نیچے کر کے اپنے پیروں کو دیکھنے لگ گیا ۔۔
ضوفی میری حالت کو دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی اور ٹرے ٹیبل پر رکھتے ھوےبولی او ہوووووو میرے چھونے کو
چھماں آگیاں ہیں ۔۔
میں نے سر اٹھایا اور مسکراتا ھوا ضوفی کی طرف چلتا ھوا آیا اور بوال ۔
چھمیں تو اب اتارنی پڑیں گی اور ساتھ ھی میں نے پینٹ کی بیلٹ پر ہاتھ رکھا اور بیلٹ کو کھولنے لگ گیا ۔
ضوفی ایکدم گبھرا کر میری طرف بھاگ کر آئی اور میرے ھاتھوں کو پکڑکر بولی ۔
بس بس بس ذیادہ شوخے مت بنو ۔۔
چلو کھانا کھا مجھے بہت بھوک لگی ھے ۔۔
میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف چل پڑا۔۔
ضوفی بھی میرے ساتھ بیٹھ گئی اور ہم ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالتے ھوے کھانا کھانےلگ گئے۔۔۔
میں ساتھ ساتھ ضوفی کو مال لینے کی ڈٹیل بتاتا رھا اور جنید نے جیسے میرے ساتھ محنت کرکے مختلف جگہ سے ورائٹی
اور کلر سکیم لی اسکی بھی ساری ڈٹیل بتاتا رھا ۔
اچانک ضوفی بھولی یاسر ایک بات کہوں میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا اوربوال ہاں جان بولو ۔
ضوفی بولی یاسر جنید کو میرے اور تمہارے ریلیشن کاپتہ ھے ۔
میں نےنفی میں سر ہالیا ۔
ضوفی بولی
یاسر پہلے کی بات اور تھی اب جنید بھائی تمہارے ساتھ ہوگا اور میں نہیں چاہتی کہ وہ ہم دونوں کی محبت اور اس رشتہ
کو غلط نام دے
اس لیے تم اسے سب بتا دو مگر یہ راز ہمیشہ اپنے دل میں چھپاے رکھنا کہ تم نے کس سے پیسے لے کر کام کیا ھے ۔
یاسر مجھے غلط مت سمجھنا دوستی میں دراڑ پڑتے دیر نہیں لگتی میں یہ نہیں کہتی کہ جنید بھائی غلط ھے یا وہ تمہارے
ساتھ مخلص نہیں مگر میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکوں گی کہ کوئی تمہیں یہ پیسوں کا طعنہ دے ۔
راز وہ ھی ہوتا ھے جو اپنے دل میں ھو ایسے ہم راز دوست جب علیحدہ ھوتے ہیں تو جگہ جگہ بدنام کرتے ہیں اس لیے تم
جنید کو صرف میرے اور اپنے رشتے کے بارے مین بتا دینا تاکہ وہ ہم دونوں کے بارے میں غلط راے نہ قائم کرے ۔۔
میں نے کہا ٹھیک ھے جان تم نے بلکل سہی کہا مجھے اسکو بتا دینا چاہیے ۔
یہ نہ ھو کہ وہ تم پر ھی الئن مارنا شروع کردے ۔۔
ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔
میں اودھی بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے ول اکھ وی چک کے ویکھیا۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔۔
مزاق کر رھا ھوں یار ۔
جنید ایسا لڑکا نہیں ھے یاروں کا یار ھے ۔
وہ تمہاری عزت بھابھی سمجھ کر ھی کرے گا ۔
تم بے فکر رھو ۔
مین اسکو اچھی طرح جانتا ھوں ۔۔
اور میں موقع ملتے ھی اسے بتا دوں گا اس لیے اسکی طرف سے بےفکر رھو ۔
ضوفی نے ہممممم کیا ۔
اور پھر
کچھ دیر میں ہم نے کھانا ختم کیا اور ضوفی برتن اٹھاتے ھوے بولی یاسر وہ سامنے ٹراوزر لٹکا ھوا ھے وہ پہن لینا میں
چاے بنا کر التی ھوں ۔۔
میں نے ہمممم کیا ضوفی برتن اٹھا کر باہر نکل گئی اور میں نے دیوار پر ہینگر میں لٹکے ٹراوزر کو اتارا اور جلدی سے
پینٹ اتار کر ٹراوزر پہنا۔
اور بیڈ پر تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
کچھ دیر بعد ضوفی چاے لے آئی اور بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر چاے رکھ کر میرے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ گئ۔
ہم دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ہم دونوں کی رانیں ایک دوسرے کے ساتھ
ملی ہوئیں تھی ۔
میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں کی طرف ال کر ضوفی
کے ہاتھ کی الٹی سائڈ کو چوما اور بوال جان دروازہ تو بند کردو ضوفی نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی کیوں جی
دروازہ بند کرکے کیا کرنا ھے ۔۔۔میں نے ضوفی کے کندھے پر سر رکھا اور ھاتھ کو پھر چومتے ھوے بوال ۔
جپھی ڈالنی ھے ۔۔۔ضوفی بولی ۔
اوے ھوے
چپ کر کے اچھے بچوں کی طرح سوجاو پہلے ھی سارے دن مارکیٹنگ کرکے اور پھر سفر میں تھکے ھوے ھو اور صبح
دکان کی سیٹنگ بھی کرنی ھے
میں نے نفی میں سر ہالیا اور نیچے کھسکتا ھوا ضوفی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور ضوفی کے ھاتھ کو اپنے سینے
پر رکھ کر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال ۔
میں نے تو تمہاری گود میں سر رکھ کر سونا ھے ۔
ضوفی مسکراتے ھوے دوسرے ہاتھ سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی ۔
یاسر تنگ کیوں کرتے ھو ۔سمجھا کرو ایسے تمہاری طبعیت خراب ھوجاے گی ۔
)Update no (134
میں نے ضوفی کے ہاتھ کو چوما اور نظریں اسکے چاند کی طرح چمکتے ھوے چہرے کی طرف کرتے ھوے کہا کہ
تمہاری قربت میں میرے اندر شکتی بڑھتی ھے تم سے جدا ہوکر میں کمزور پڑجاتا ھوں تم میرے پہلو میں ہو تو میں ساری
زندگی جاگ کر گزار سکتا ھوں ۔۔
ضوفی ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھی ھوئی تھی اور میں ٹانگوں کو دوسری طرف کرکے سر ضوفی کی گود میں رکھ کر لیٹا
ھواتھا
ضوفی میرے اوپر جھک کر میرے ہونٹوں کو چومتی ھوئی بولی ۔
اوے ھوے میرے مجنوں ۔۔
چلو اٹھو پہلےچاے پیو پھر میں اپنے کاکے کو لوری سناکر سالتی ہوں ۔۔
میں جھٹکے سے ضوفی کی گود سے سر اٹھا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور بڑے جوش سے خوش ہوکر بوال سچییییییی ضوفی بھی
میری نکل اتارتے ھوے بولی ُمچییییییی۔
.اور پھر ضوفی نے چاے کا کپ اٹھا کر مجھے پکڑایا اور خود بھی چسکیاں لے کر چاے پینے لگ گئی ۔۔
میں نے جلدی سے چاے پی اور سائڈ ٹیبل پر کپ رکھنے کے بہانے بیڈ سے نیچے اترا اور کپ رکھ کر تیزی سے دروازے
کی طرف بڑھا اور دروازہ بند کر کے الک کر کے بھاگ کرجمپ لگا کر ضوفی کے قدموں کی طرف بیڈ پر چڑھ گیا ۔۔ اور
الٹا لیٹ کر کہنیوں کے بل ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ضوفی کو دیکھنے لگ گیا ۔۔
ضوفی نے جلدی سے ٹانگیں سیدھی کیں اور چوکڑی مار کر بیٹھتے ھوے مجھے گھور کر دیکھتے ھوے بولی ۔
بہت ضدی ہو تم یاسر بہت تنگ کرنے لگ گئے ھو ۔۔
میں نے کہا اور کس کے ساتھ ضد کروں کس سے اپنی بات منواوں ایک تم ھی تو ھو جس پر اپنا حق جتانا مجھے اچھا لگتا
ھے ۔۔
ضوفی بولی چلو اٹھو میرے پیروں کی طرف مت لیٹو کیوں مجھے گناہ گار کرتے ھو ۔
اور یہ کہتے ھوے ضوفی نے میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے اوپر کی طرف کھینچا اور میں گھٹنوں کے بل چلتا ھوا ضوفی کے
ساتھ جاکر بیٹھ گیا ۔۔
ضوفی نے بھی چاے ختم کرکے کپ رکھ دیا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے لیٹ گئے ۔
ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ ہماری سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہیں تھی میں نے
ایک بازو ضوفی کے سر کے نیچے کیا ھوا تھا اور دوسرا بازو اسکی بغل سے گزار کر ہاتھ اسکی کمر پر رکھا ھوا تھا
ضوفی کا سینہ میرے سینے کے ساتھ لگا ھوا تھا ہم دونوں کی رانیں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ھوئی تھیں میں ضوفی کی
آنکھوں میں انکھیں ڈال کر اسکی آنکھوں میں کھویا ھوا تھا ضوفی نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کہ کیا دیکھ رھے
ھو ۔
میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ ان آنکھوں میں .میرے لیے کتنا پیار ھے ضوفی بولی پیار آنکھوں میں نہیں دل میں ہوتا ھے
آنکھیں دھوکا دے دیتی ہیں اور دل کبھی دھوکا نہیں دیتا میرا دل صرف تمہارے لیے دھڑکتا ھے کاش تمہیں اپنا سینہ چیر کر
دیکھا سکتی کہ تم سے کتنا پیار کرتی ہوں ۔
میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما اور اسکی کمر کو سہالتے ھوے بوال ۔
جان تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں میں تو اپنی قسمت پر ناز کر رھا ھوں کہ مجھے تم جیسا جیون ساتھی مال تم اوپر
سے جتنی خوبصورت ھو اندر سے اس سے دگنی خوبصورت ھو
اوپر والے نے تمہیں صورت کے ساتھ سیرت سےبھی نوازہ ھے ۔
پتہ نہیں مجھ سے کون سی ایسی نیکی ھوئی جس کے بدلے اوپر والے نے تمہارا ساتھ مجھے دیا ۔
ورنہ میں تو اتنا گناہ گار ھوں کہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی تم میرے قریب آجاو گی اور اتنی جلدی میں اپنے
پیروں پر کھڑا ھوجاوں گا ۔
ضوفی بولی خوش قسمت تو میں ہوں کہ مجھے اتنا چاہنے واال جیون ساتھی مال ۔
یاسر کبھی کبھی تو مجھے بہت ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم ۔۔۔۔۔
ضوفی ایکدم چپ ھوگئی اور اسکے چہرے پر افسردگی چھا گئی ۔
میں نے کہا کیا۔۔۔۔۔
ضوفی بولی کچھ نہیں ۔
میں نے کہا بولو نہ جان کیا کہنے لگی تھی ۔
ضوفی بولی یاسر تم ساری زندگی مجھے یوں ھی پیار کرتے رھو گے نہ۔
میں نے کہا کوئی شک ھے۔
ضوفی بولی یاسر پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی مجھے اس زمانے سے ڈر لگنے لگ جاتا ھے کوئی تیسرا ہمارےبیچ نہ آجاے ۔۔
میں نے کہا پاگل ھو کیا ۔
میری ہر سانس تمہاری مقروض ھے تمہیں دیکھ دیکھ کر تو جیتا ھوں ۔
یہ سوچنا بھی نہ کہ کوئی اور تمہاری جگہ لے سکتا ھے تم سے بےوفائی کروں اس سے پہلے میں مر۔۔۔۔۔۔۔۔
ضوفی نے جلدی سے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر پیار کا تاال لگا دیا ۔
اور پاگلوں کی طرح میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی اور اپنے جسم کو میرے جسم کے ساتھ چپکا کر مجھ میں سمانے کی
کوشش کرنے لگ گئی ۔۔
)Update no (135
ضوفی کے جسم کا لمس پاتے ھی مجھ پر بھی خمار چھانے لگ گیا میں بھی کسنگ کی ضوفی برابر ساتھ دینے لگ گیا ۔۔
کتنی دیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے لیٹے رھے ۔۔
اور بیچ میں کبھی ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتے ھوے پورے بیڈ کی سیر کرتے رھے ۔
ضوفی کا جسم اتنا نرم اور سوفٹ تھا کہ میں اسکے جسم کے جس اعضاء پر بھی ہاتھ رکھ کر انگلیوں کو دباتا میری انگلیاں
اندر دھنس جاتی ۔
ضوفی ہر لحاظ سے فٹ تھی ۔۔
بنانے والے نے کسی چیز کی کمی اس میں نہیں رکھی تھی ۔
ضوفی دیکھ کر بس دل کر تا تھا کہ دیکھی جاوں میری نظریں اسکو دیکھ دیکھ کر نہ تھکتی تھی ۔
اور جب اسکا قرب حاصل ھوتا تو دل کرتا کہ اسکو اپنے جسم میں سمو لوں اسکے ہونٹوں کو کھا جاوں اسکے جسم کو
ہاتھوں سے نچوڑ دوں ۔
کافی دیر کے بعد ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں کی جان چھوڑی اور دونوں سیدھے ھوکر لیٹ گئے اور لمبے لمبے سانس
لینے لگ گئے ۔ضوفی بولی یاسر تم میری مت مار دیتے ھو ۔
میں نے سایڈ کے بل بوتے چہرہ ضوفی کی طرف کیا اور بوال اصل مت تو شادی کے بعد ماروں گا ۔۔
ضوفی بولی ۔۔کہیں مت مارتے مارتے مجھے ھی نہ مار دینا ۔
میں نے کہا تمہیں مار کر میں نے خود مرنا ھے
.بھی تو جینا سیکھا ھے اور مجھے ابھی لمبی زندگی جینا ھے ۔
اورتمہارے بغیر جینا مشکل ھی نہیں ناممکن ھے ۔
یہ میرا پیار ھے میرا جنون ھے میرا بس چلے تو تم کو اپنے اندر سمو لوں ۔۔
ضوفی نے بھی میری طرف سایڈ بدلی اور میرےبالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی
یاسر مجھ سے کیوں اتنا پیار کرتے ھو کیوں مجھے پاگلًو ں کی طرح چومتے چاٹتے ھو ۔
میں نے کہا ضوفی تم چیز ھی ایسی ھو جسے سواے دیکھنے اور چومنے کہ اور کچھ کرنے کو دل ھی نہیں کرتا ۔
ضوفی نے پھر مجھے جپھی ڈال لی اور ہم کتنی دیر ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش کرتے رھے اور اسی کوشش مًیں
پتہ نہیں کب آنکھ لگی اور آنکھ تب کھلی جب کوئی مجھے ۔۔۔۔
.صبح مجھے جنجھوڑ کر اٹھاتے ہوے ضوفی کی ُمدھ بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اٹھ بھی جاو جان اور کتنی دیر
سونا ھے دس بج چکے ہیں ۔۔
میں نے آنکھیں کھولیں تو میری آنکھوں کے سامنے میری صبح کا سورج چمک رھا تھا ۔
میں نے ایک سیکسی سی انگڑائی لی اور ضوفی کو بازوں سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ کر لیٹا لیا اور بازوں میں کس کر
ساری سستی ضوفی پر اتاری ضوفی ھاےےےےےے کر کے رھی گئی اور میرے بازو ڈھیلے ھوتے ھی جلدی سے میرے
اوپر سے اٹھ کر دروازے کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
تم بھی نہ یاسرکوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔۔
میں نے اٹھتے ہوے کہا ایسے مواقع کون سا روز روزملتے ہیں جو میں الپروائی کر کے ان قیمتی مواقع کو ہاتھ سے
جانے دوں ۔
ضوفی ہنستے ھوے بولی باتوں میں ویسے تم سے کوئی نہیں جیت سکتا ۔
چلو شاباش اٹھو جلدی سے اور تیار ھو جاو پہلے ھی بہت دیر ھوگئی ھے تین دفعہ جناب کو اٹھا کر گئی ھوں ۔
مگر جناب گھوڑے بیچ کر سوے ھوے تھے ۔
اب پھر نہ سوجانا میں ناشتہ لینے جارھی ہوں اور میرے آنے تک تم تیار ھو۔۔۔
میں نے فرمانبرداری سے جھکتے ھوے کہا جو حکم سرکار کا ۔۔
ضوفی کے یوں رعب جھاڑنے اور ڈانٹنے میں بھی اپنا پن تھا جس پر میں فدا ھوجاتا تھا ۔
ضوفی مسکراتی ھوئی کمرے سے نکل کر نیچے چلی گئی اور میں نے کالک کی طرف دیکھا تو واقعی دس بج چکے تھے
میں جلدی سے واش روم کی طرف بھاگا اور نہا دھو کر فریش ھوکہ باہر نکال اور ضوفی کے آنے سے پہلے ھی کپڑے
تبدیل کرکے بال بنا کر سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا آنٹی ٹی وی النج میں بیٹھی ہوئیں تھی مجھے دیکھ کر انکے چہرے پر
محبت اور شفقت بھری مسکراہٹ آئی میں نے آنٹی کو سالم کیا اور ان سے سر پر پیارلیا اور ڈھیر ساری دعائیں لے کر
انکے پاس ھی بیٹھ کر انکی صحت کے بارے میں پوچھنے لگ گیا ۔
آنٹی نے بتایا کہ اب انکی طبعیت ٹھیک ھے بس کبھی کبھی بلڈ پریشر کبھی لو ھو جاتا ھے تو کبھی ہائی ۔۔
میں نے آنٹی کو کہا کہ کسی دن میرے ساتھ ہسپتال چلیں آپ کا اچھی طرح چیک اپ کروا کر الوں گا ۔۔
مگر آنٹی ٹال مٹول کرتی رہیں اتنے میں ضوفی ناشتہ لے آئی میں نے ماہی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کالج چلی گئی ھے
۔
میں ہممم کر کے ناشتہ کرنے میں مصروف ھوگیا اور ساتھ ساتھ آنٹی سے دکان اور مال کی باتیں ہوتیں رہیں ۔
کچھ دیر بعد ہم دونوں مارکیٹ کی طرف چل دیے مارکیٹ پہنچے تو دکان کے باہر جنید بیٹھا ہوا تھا ۔۔
مجھے ضوفی کے ساتھ دیکھ کر چونک کہ کھڑا ھوگیا اور منہ کھولے حیرانگی سے پھٹی آنکھوں سے کبھی میری طرف
دیکھتا تو کبھی ضوفی کی طرف ضوفی نے بھی یہ بات نوٹ کی اور مجھے کہنی مار کر جنید کی حالت کیطرف متوجہ کیا
میں تو پہلے ھی اسکی طرف دیکھ رھا تھا ۔۔
ضوفی سیدھی نیچے بیسمنٹ میں اتر گئی ۔
جبکہ میں باہر دکان کی طرف بڑھا جہاں جنید کھڑا اب بھی سیڑھیوں کی طرف دیکھ رھا تھا ۔
میں نے جاکر اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا اوربوال ۔
سالیا بس وی کر کے ہن نظر النی اے ۔۔
جنید ایکدم چونک میری طرف دیکھتے ھوے بوال ۔
گانڈو توں کی شےایں ۔
روز ای کوئی نہ کوئی حیران پریشان کرن واال کم کری جاناں ایں ۔۔
میں نے کہا ۔
چل دکان کھول کر اندر چل کر بات کرتے ہیں ۔
اور میں نے جیب سےچابیاں نکالیں اور دکان کا شٹر آدھا کھول کر اندر داخل ھوا اور جنید بھی میرے پیچھے ھی اندر داخل
ہوگیا ۔۔
اندر جاتے ھی جنید نے میری گردن کو دبوچ لیا اور بوال سالیا کال ای موجاں ماری جاناں ایں ۔۔۔
اس سے آگے جنید کچھ بولتا
کہ
میں نے جھٹکے سے گردن چھڑوائی اور اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے بولنے سے روکتے ھوے بوال ۔
بسسسسسس اگے کش نہ بولیں
اے تیری پرجائی اے سمجھیا ۔۔
جنید بوال مگر یار یہ تو وہ ھی ھے نہ پالر والی جو ہمارے محلے میں رہتی ھے جسکی ہم اس دن بات کررھے تھے ۔۔
میں نے کہا ہاں یاروہ ھی ھے ۔
مگر اسکے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ یہ تیری بھابھی اور میری عزت ھے ۔۔
جنید حیران پریشان ھوتا ھوا دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر کرسی پر ڈھے گیا ۔۔۔
میں اسکی حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بوال ۔
پانی پالواں ۔۔
جنید بوال سالیا پانی دیا ۔
اے کدوں دا چکر چلن دیا اے جیڑا گل ایتھوں تک وی پونچ گئی ۔۔
میں نے کہا یار صبر تے کر سب ُک ش دس دیناں ایں مرن واال کیوں ہوگیاں ایں ۔
جنید بوال
ماما توں کم ای ایویں دے کرنا ایں اک دم ای چن چڑاناں ایں ۔۔۔
میں ہنستے ھوے جنید کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور اسکو مختصرًا یہ بتا دیا کہ میں اور ضوفی ایک دوسرے سے
سچا پیار کرتے ہیں اور عنقریب ہم شادی کرنے والے ہیں ۔
ُ اور ضوفی نہایت شریف اور خاندانی لڑکی ھے بس مجبوری سے بےچاری پارلر کا کام کرتی ھے جو شادی کے بعد
چھوڑ دے گی ۔۔
جنید بوال یار وہ سب تو ٹھیک ھے میں یہ بھی جانتا ھوں کہ یہ واقعی بہت شریف ھے کیونکہ میں تو اسکو بچپن سے جانتا
ھوں مگر یہ تیرے چکر میں آئی کیسے ۔
اس نے تو بڑے بڑے مگرمچھوں کو گھاس نہیں ڈالی ۔
میں نے کہا بس یار نصیب کی بات ھے اوپر والے نے ہم دونوں کی جوڑی بنانی تھی سو ایک دوسرے کے دل میں محبت
پیدا کردی ۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے جنید کو یقین دال ھی دیا کہ واقعی ضوفی اورمیں شادی کرنا چاھتے ہیں ۔
جنید اس بات کو لے کر کافی دیر مجھ پر برستا بھی رھا کہ اسے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔
میں نے ضوفی کی دنامی اور اس کی دی ھوئی قسموں کا بہانہ بنا کر جنید سے سوری کر کے اسکو منایا ۔۔
بارہ بجے ریڑھی پر بلٹی آگئی ۔۔
پلے دار نے مال کے بورے اور سٹیچوؤں کی پیٹیاں اور کچھ کارٹن وغیرہ دکان کے اندر رکھے ۔۔
میں نے ریڑھی والے کو بلٹی کے پیسے دے کر روانہ کیا اور پھر آدھا شٹر نیچے کر کے ۔
میں اور جنید بورے کھول کر اندر سے شاپر نکالنے لگ گئے ۔۔
اور ساتھ ساتھ ہنسی مزاق بھی کرتے رھے ۔۔
پھر ہم نے سٹیچووں کی پیٹیاں کھولیں اور جہاں جہاں سٹیچوں رکھنے تھے وھاں سیٹ کیے جنید گانڈو لڑکیوں کے
سٹیچووں کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا رھا کبھی انکے مموں کو پکڑتا کبھی انکی گانڈ پر ھاتھ پھیرتا تو کبھی انکے ساتھ جپھیاں
ڈالتا ۔
میں اسکی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہنسی جارھا تھا ۔
ایسے ھی ہنسی مزاق کے دوران ہم نے دکان کے اندر کافی حد تک سیٹنگ کرلی ہمیں وقت کا تب احساس ھوا جب باہر
اندھیرا ھونا شروع ھوگیا ۔۔
میں نے ٹائم دیکھا تو سات بج چکے تھے میں نے جنید کو کہا کہ یار باقی کا کل کر لیں ابھی تیری بھابی کو گھر بھی
چھوڑنے جانا ھے اور میں نے گاوں بھی جانا ھے۔۔
جنید نے بہت کہا کہ یار کل جمعہ ھی ھے ساری رات میں سیٹنگ مکمل کرلیں گے اور کل چھٹی ھی ھے دن ٹائم سو کر نیند
پوری کرلیں گے میں نے کہا نہیں یار پہلے ھی کل کی تھکاوٹ نہیں اتری ۔
کچھ دیر ہماری بحث چلتی رھی آخر کار جمعہ کو دن کے وقت بقیہ سیٹنگ کرنے اورہفتہ کو بوتیک کا افتتاح کرنے کا ڈن
ھوا اور ہم دکان سے باہر نکلے اور شٹر بند کیا جنید ضوفی کے متعلق مجھے چھیڑتا ھوا اپنے گھر کی طرف چل دیا اور
میں نیچے سیڑیاں اترتا ھوا پارلر کی طرف چلدیا ۔۔
پارلر بند کر کے ہم اوپر آے تو ضوفی نے دکان کی سیٹنگ دیکھنے کا کہا میں نے شٹر کھوال اور ہم بوتیک میں داخل ھوے
ضوفی دکان کے اندر داخل ہوکر چاروں اطراف دیکھتے ھوے بہت خوش ہورھی تھی بوتیک کا فرنیچر اور سیٹنگ اور
ورائٹی دیکھ کر ضوفی تعریفوں کے پل باندھی جارھی تھی ۔
اور میری محنت لگن اور پرچیزنگ کو سراہ رھی تھی ۔۔
کچھ دیر ہم بوتیک میں رھے اور پھر دکان بند کر کے میں ضوفی کو گھر چھوڑنے چال گیا کچھ دیر ضوفی کے گھر
ٹھہرنے کے بعد میں واپس اپنے گھر گاوں آگیا۔۔
امی ابو آپی بھا مجھے مبارکیں دے رھے تھے میں نے انکو ہفتہ کو بوتیک کے افتتاح پر آنے کا کہا آپی اور امی کو میں نے
اگلے دن ھی جمعہ کو بوتیک دیکھنے کا کہا ۔۔
اور امی کے کان میں انکو انکی بہو سے ملوانے کا بھی کہہ دیا ۔۔
اگلے دن میں امی اور آپی کو تانگے پر لے کر سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا
)Update no (136
امی کو راستے میں ھی بتا دیا کہ ہم پہلے ضوفی کے گھر جائیں گے آپ اسکی امی کی خیریت بھی دریافت کرلینا اور اپنی
بہو سے بھی مل لینا ،اور آپی کو بھی ساری تفصیل بتا دی ۔
اور اسکو سختی سے منع بھی کردیا کہ ابھی یہ بات کسی سے نہیں کرنی ۔
خاص کر آنٹی فوزیہ اور انکی بیٹیوں سے ۔
امی نے بھی آپی کو سختی سے منع کردیا ۔
خیر تانگہ ضوفی کے گھر کے سامنے رکا ہم سب تانگے سے نیچے اترے ۔۔
میں نے ڈور بیل دی تو ضوفی کی آواز آئی کون ۔۔
میں نے دروازے کے پاس منہ کر کے آہستہ سے کہا مگر تیز تیز کہا۔۔
تمہارےسسرال والے آے ہیں جلدی دروازہ کھولو۔۔ امی نے پیچھے سے میری گردن پر تھپڑ مارا کہ کتنے بتمیز ھو ایسے
بولتے ہیں ۔
اتنی دیر میں
ضوفی نے دروازہ کھوال اور غصے سے میری طرف دیکھ کر کچھ بولنے لگی کہ اسکی نظر امی اورآپی پر پڑ گئی ضوفی
وہیں ُگ نگ ہوکر کھڑی آنکھیں پھاڑے کبھی میری طرف دیکھتی کبھی امی لوگوں کی طرف ۔۔
میں نے ضوفی کی حالت دیکھی اور اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالتے ھوے بوال ۔۔۔
ہیلووووو
تمہاری ساس اورنند ہیں ۔۔۔
پریشان کیوں ہوگئی ہو ۔۔
ضوفی ایک دم سکتے سے باہر آئی اور سارے جہاں کی مسکراہٹ چہرے پر التے ھوے امی اور آپی کو اندر آنے کا کہا ۔
اوردروازے کے اندر داخل ہوتے ھی امی اور آپی سے بڑی گرمجوشی سے گلے ملی ۔۔
میں بعد میں اندر داخل ھوا آپی سے ملنے کے بعد ضوفی نے میری طرف گھور کر دیکھا تو میں بھی باہیں کھول کر ضوفی
کے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھا تو آپی منہ پھاڑے مجھے دیکھنے لگ گئی اور ضوفی شرما کر سر نیچے کیے انکو لے
کر اندر چلی گئی ۔۔
امی اور آپی کو دیکھ کر تو ضوفی کے پاوں زمین پر نہیں لگ رھے تھے ۔۔
خوشی کے مارے وہ نہال ہوئی جارھی تھی ۔۔
امی اور آپی کو اندر بیٹھا کر ضوفی آنٹی کو کمرے سے لینے چلی گئیں کچھ ھی دیر میں آنٹی بڑی خوش دوڑتی ھوئی
کمرے سے باہر آئہی اور بڑی گرمجوشی سے امی اور آپی سے ملیں ضوفی کچن میں گئی میں بھی اسکے پیچھے ھی کچن
میں چال گیا
موقع ملتے ھی ضوفی مجھ پر برس پڑی کے کم ازکم مجھے پہلے بتا تو دیتے کہ امی نے آنا ھے یوں اچانک ۔۔۔۔۔
میں نے بات کاٹتے ھوے کہا کچھ نہیں ہوتا بغیر میک اپ کے اگر تمہیں دیکھ لیا ۔۔
ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی ۔
الو میں اس لیے کہہ رھی تھی کے گھر کی صفائی وغیرہ کرلیتی سب کچھ بکھرا پڑا ھے ۔
میں نے کہا جان وہ تمہیں دیکھنے آے ہیں گھر کو نہیں ۔
اور پھر میں نے ساتھ ھی پلٹی مارتے ھوے ضوفی کو چھیڑا کہ ویسے بھی امی آنٹی کی خبر لینے آئیں ہیں ۔۔۔
تم ذیادہ خوش نہ ھو ۔۔۔
ضوفی گالس مجھے مارنے کے سٹائل سے میری طرف بڑھی تو میں پلٹ کر پیچھے بھاگا اور کچن سے نکل کر امی اور
آنٹی کے پاس جا بیٹھا ۔
امی مجھے گھورے جارھی تھی ۔
کہ میں ایسے بھاگا پھر رھا ہوں جیسے اپنا گھر ہو۔
میں امی کے گھورنے پر بڑا شریف بچہ بن کر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔
امی اور آنٹی کچھ ھی دیر میں کافی ُگ ھل مل گئیں تھیں ضوفی نے پہلے کولڈ ڈرنک پیش کی اور کچھ دیر امی کے پاس بیٹھ
کر امی کا حال احوال پوچھتی رہی ضوفی بڑے سلجے انداز میں امی اور آپی کو ٹریٹ کر رھی تھی اور کچھ دیر بعد ضوفی
کھانا بنانے کا کہہ کر آپی کو ساتھ لے کر کچن میں چلی گئی ۔
ماہی کالج گئی ھوئی تھی ۔
ورنہ وہ بھی امی اور آپی کو مل کر بہت خوش ہوتی ۔۔
آنٹی امی کے سامنے میری تعریفوں کے ُپل باندھی جارھی تھی ۔
میں مزید کچھ دیر بیٹھا اور پھر امی اور آنٹی کو دکان کی سیٹنگ کا بتایا کہ ابھی کچھ کام رہتا ھے اور آج جنید نے بھی آنا
تجا وہ انتظار کر رھا ھوگا اس لیے میں چلتا ھوں آپ لوگ باتیں کریں اور پھر ان سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور
ضوفی کو کہا کہ جب فری ھوجاو تو سب کو لے کر بوتیک پر آنا ۔۔۔
ضوفی نے اچھا جی کہا ۔۔
اور میں اسے آنکھ مار کر کچن سے باہر نکل گیا باہر نکلتے وقت میری نظر جب آپی پر پڑی تو آپی ہاتھ منہ پر رکھے
ہاےےےےے ***** کر رھی تھی ۔۔
میں ہنستہ ھوا باہر دروازے کی طرف بڑھا اور پھر گلی میں نکل کر دکان کی طرف چل دیا ۔۔۔
دکان پر پہنچا تو جنید پہلے سے وھاں موجود تھا ۔
مجھے دیکھ کر ایڑیاں اٹھا کر میرے پیچھے دیکھتے ھوے بوال بھابھی نہیں آئی ۔۔
میں نے امی اور آپی کا بتایا کہ وہ کچھ دیر بعد ان کے ساتھ آے گی دکان دیکھنے ۔۔
جنید بڑا حیران ھوکر بوال واہ جی واہ تے گل ایتھے تک پہنچ گئی اے ۔اب امی اور آپی بھی بھابی کو دیکھنے پہنچ گئیں ۔۔
میں نے کہا بس دیکھ لو یار اوپر واال جب مہربان ہوتا ھے تو سب ٹھیک ہو جاتا ھے ۔
جنید نے مجھ سے چابی لے کر دکان کا شٹر کھوال ۔
دوستو
جنید کا یوں میرے دکان پر آنے کا انتظار کرنا اور جب وہ دکان کے تالے کھول رھا تھا تو مجھے اپنے دن یاد آگئے کہ میں
کیسے انکل کا انتظار کیا کرتا تھا اور ان سےچابیاں لے کر دکان کھوال کرتا تھا ۔۔
اوپر والے کا شکر ادا کیا جس نے اتنی جلدی عزت سے نوازہ ۔۔میں جنید کے پیچھے دکان میں داخل ہوا اور صفائی کرنے
لگا تو جنید بوال رہنے دو میں کر لیتا ھوں ۔
جنید کی بات سن کر میں ہنستے ھوے بوال نہیں یار میں اپنی اوقات نہیں بھولنا چاہتا اور ہاں تم کبھی بھی مجھ میں اور اپنے
آپ میں فرق نہ سمجھنا جیسے ہم پہلے دوست تھے اب بھی ویسے ھی ہیں ۔
میں تمہیں مالزم نہیں بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر رکھا ھے ۔۔
جنید میرے پاس آیا اور مجھ سے جپھی ڈال کر بوال ۔
شکریہ یار جو تم نے مجھے اتنی عزت دی ۔۔
میں نے بھی اسکو بازوں میں کسا اور بوال ۔
بس یہ بات ذہن نشین کرلو کہ یہ تمہاری اپنی دکان ھے اور ہم نے مل کر اسے سٹینڈ کرنا ھے ۔۔
جنید بوال ۔
بلکل اوپر والے نے چاھا تو بہت جلد ہماری دکان کا نام ھوگا ۔۔۔پھر ہم ایک دوسرے سے علیحدہ ھوے اور جو سیٹنگ رھ
گئی تھی وہ سیٹنگ کرنی شروع کردی ۔
کام میں وقت کا ھی پتہ نہیں چال ۔کہ کب ایک بج گیا *****،کی آواز سن کر جنید بوال یار میں نے جمعہ پڑھنا ھے ۔
میں نے کہا ٹھیک ھے یار کام تو مکمل ھوچکا ھے تم ایسا کرو گھر چلے جاو اور میں نے امی لوگوں کا انتظار کرنا ھے ۔
جنید نے یممم کیا اور مجھ سے مل کر گھر چال گیا ۔۔
میں دکان کی صفائی کرنے لگ گیا جو شاپر وغیرہ بکھرے پڑے تھے انکو اٹھانے میں مصروف ھوگیا ۔۔
ایک گھنٹے بعد بوتیک کا شیشے کا دروازہ کھال اور پہلے امی اندر داخل ہوئیں اور آنکھیں پھاڑے حیران پریشان بوتیک کو
چاروں طرف دیکھنے لگ گئی امی کے پیچھے آنٹی اور پھر آپی اور ماہی ضوفی ۔۔۔
سب کے سب بوتیک کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہورھے تھے امی اور آنٹی نے میرا ماتھا چوما اور ڈھیر ساری دعائیں
دینے لگ گئیں نازی ماہی ضوفی بھی مجھے مبارکباد دینے لگ گئیں ۔۔۔
سب ھی بہت خوش تھے ۔۔۔
میں انکو بیٹھا کر باہر دے کولڈ ڈرنک لے آیا اور کافی دیر ہم ہنسی مزاق کرتےرھے ۔
امی اور نازی آنٹی لوگوں سے ایسے گھل مل گئے تھے جیسے ایک ھی فیملی ھو ۔۔۔
نازی بار ،بار مجھے ضوفی کی طرف آنکھوں سے اشارے کر کے ھاتھ سے بہت پیاری ھے کہہ رھی تھی ۔
ناذی ماہی اور ضوفی کے ساتھ ایسے فرینک ہوگئی تھی جیسے وہ انکی کزنیں ھوں ۔۔
.۔۔
ماہی بولی بھائی اب تو آپ کی طرف پارٹی بنتی ھے خالی بوتلوں سے ہمیں نہ ٹرکا دینا ۔۔
میں نے کہا جب کہیں کھال دوں گا ۔۔
آنٹی ماہی کو جھڑکتے ھوے بولی ۔
شرم کرو ماہی ابھی اسکو کام تو شروع کرنے دو ۔۔
امی بیچ میں بولیں ۔۔
آپاں پھر کیا ھوا وہ اتنے پیار اور مان سے کہہ رھی ھے ۔
ایسا کرتے ہیں کل آپ ہماری طرف آئیں سب ۔
ہمارا گاوں بھی دیکھ لینا اور ہمارا غریب خانہ بھی ۔۔
آنٹی بولی جی ضرور آئیں گے کیوں نہیں مگر کل تو مشکل ھے اگلے جمعہ کو ہم آپکے گھر آئیں گے تب ضوفی اور یاسر
کو بھی چھٹی ھوگی ۔۔۔
سب نے یہ تجویز پسند کی ۔۔
ضوفی ورائٹی دیکھ دیکھ کر بہت ھی خوش ھو رھی تھی اور میری پسند کی داد دے رھی تھی ۔۔
کہ اتنے کم پرائس میں اتنی عمدہ ورائٹی ۔۔۔
خیر شام تک سب دکان میں ھی رھے پھر امی نے جانے کی اجازت مانگی تو میں دو رکشے لے آیا دکان بند کی اور ضوفی
کو صبح افتتاح کرنے کا کہا ضوفی نے میری بات سمجھتے ھوے چپکے سے میری پینٹ کی جیب میں پیسے ڈال دیے ۔۔
پھر ہم گاوں آگئے اور آنٹی لوگ اپنے گھر چلے گئے ۔
)Update no (137
امی اور نازی آنٹی لوگوں سے مل کر بہت خوش تھیں سارے رستے ان سب کی تعریفیں کرتی رہیں ۔۔۔گھر آکر بھی انکی ھی
باتیں ہوتی رہیں ۔۔
امی نے ابو کو جب دکان کی سیٹنگ اور ورائٹی کے بارے میں قصیدے سناتے تو ابو بھی بہت خوش ھوے ۔۔۔۔
میں کچھ دیر گھر رہنے کے بعد آنٹی فوزیہ کے گھر انکو دکان کی خوشخبری سنانے چال گیا ۔
No 2.
آنٹی کے گھر پہنچا تو انکا دروازہ بند دروازہ ناک کیا تو کچھ دیر بعد آنٹی کی آواز آئی کون میں نے کہا آنٹی یاسر ہوں ۔۔
آنٹی نے دروازہ کھوال اور بڑے موڈ میں بولی مل گیا ٹائم آگئی یاد ۔۔میں ہنستا ہوا اندر داخل ھوا اور آنٹی کی گالوں پر چٹکی
کاٹ کر ہالتے ھوے بوال ۔
آپ کو خوشخبری سنانے آیا ھوں ۔۔
آنٹی ہاےےے کرتی ھوئی اپنی گالوں سے میرے ہاتھ ہٹاتے ھوے بولی ۔۔
شادی تونہیں کروانے لگے ۔۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی ابھی اپنے پاوں پر تو کھڑا ھوجاوں پھر شادی کا بھی سوچیں گے ۔۔
آنٹی دروازہ بند کرتے ھوے آہستہ سے بولی ۔
سب کچھ تو کھڑا ہوگیا ھے اور اب کیا کھڑا کرنا باقی ھے ۔۔
میں بولنے ھی لگا تھا کہ نسرین کمرے سے نکل کر باہر آتے ھوے بولی امی کون ھے باہر۔۔۔اور مجھ پر نظر پڑتے ھی
مجھے گھور کر دیکھتے ھوے بولی ۔۔
امی یہ کون اندر آگیا ۔۔
میں چلتا ھوا نسرین کے پاس پہنچا اور بوال ۔۔
نظر کمزور تھی پہلے لگتا ھے اب رہتی نظر چلی گئی ھے ۔
نسرین بولی او پائی کون ایں کدر منہ ُچ ک کے اندر وڑی جاناں ایں ۔۔۔
آنٹی میرے پیچھے ہنستے ھوے بولی ۔۔
ویسے تمہارے ساتھ ہونا ایسے ھی چاہیے ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی آپکا اعتراض بنتا ھے آپکا غصہ بھی بجا ھے ۔
مگر پہلے مجھے کچھ کہنے کا موقع تو دیں ۔۔
نسرین بولی ہم تمہیں جانتے ھی نہیں تو پھر بات کیوں سنیں ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا بکواس بند کرو آئی وڈی کار دی مالکن ۔۔۔
اور میں یہ کہتا ھوا کمرے میں داخل ھوگیا نسرین میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑتے ھوے مجھے روکتے ھوے بولی ۔
او ہیلو پائی کدھر منہ اٹھاے کمرے میں جارھے ھو ۔۔۔۔
مجھے اب واقعی غصہ آگیا تھا ۔۔
میں نے غصے سے نسرین کی طرف دیکھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے بازو سے جھٹک دیا اور غصے سے واپس باہر
کیطرف چل دیا ۔۔
آنٹی نے مجھے یوں غصے سے جاتے ھوے دیکھا تو ۔
نسرین کو گالیاں دیتی میرے پیچھے بھاگی اور مجھے بازو سے پکڑ کر واپس کمرے کی طرف کھینچتے ھوے لیجانے
لگی ۔۔
شور سن کر عظمی بھی کمرے سے باہر آگئی ۔۔۔
نسرین بھی مجھے غصے میں دیکھ کر شرمندہ سی ہوگئی ۔۔
آنٹی مجھے کھینچتے ھوے کمرے میں لیجانے لگی ۔۔
میں بھی نخرے کرتا ھوا آنٹی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا۔۔
آنٹی مجھے کمرے میں پڑی لکڑی کی کرسی پر بٹھاتے ھوے بولی ۔
آرام سے بیٹھ جا اب ۔
اس ُک تی کے بھونکنے کی وجہ سے موڈ خراب کررھے ھو پتہ تو ہے تمہیں اسکا منہ پھٹ ھے ۔۔
مجھے نسرین پر بہت غصہ چڑھی جارھا تھا نہ جانے کیوں ۔
پہلے بھی نسرین میرے ساتھ ایسے ھی کرتی تھی پہلے میں نے کبھی بھی اسکی بات کا برا نہیں مانا تھا ۔۔
مگر آج مجھے پتہ نہیں کیوں اپنی بےعزتی محسوس ہوئی ۔
نسرین بھی سر جھکائے میرے سامنے کھڑی تھی اوراسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رھے تھے ۔
میں سر جھکائے چپ کر کے بیٹھا اپنے ہلتے پاوں کی طرف دیکھی جارھا تھا ۔۔
آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا تو میں نے چاے پینے سے انکار کردیا ۔۔
مگر انٹی نے مجھے ڈانٹتےھوے کہا ان بس بھی کرو اتنا غصہ بھی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔
میں نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا نہیں آنٹی ایسی بات نہیں میں گھر سے چاے پی کر ایا ھوں ابھی دل نہیں کررھا ۔۔
انٹی نے عظمی کو ڈانٹتے ھوے کہا تینوں ُسنیا نئی ہالے تک اوتھے ای ُبن وٹا بن کے کھڑی ایں .چھیتی جا تے ویر واسطے
چا بنا کہ لیا۔۔۔
آنٹی کے منہ سے ویر سن کر میں نے چونک کر عظمی کی طرف دیکھا تو عظمی میری نظر کو محسوس کرکے شرمسار
سی ھوکر باہر چلی گئی ۔۔
نسرین ابھی تک وہیں دروازے کے پاس بت بنی کھڑی تھی آنٹی نے نسرین کی طرف دیکھا اور غصے سے بولیں.
ہن توں ایتھے ای کھڑی رہنا اے ۔
جا بار دفعہ ھوجا
جا کہ پین نال چا بنوا ۔۔۔
نسرین آنسو صاف کرتی چپ کرکے باہر نکل گئی ۔۔۔
آنٹی دوسری کرسی میرے پاس کر کے میرے ساتھ بیٹھتے ھوے میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے بولی ۔
میرے شہزادے کا
اب غصہ ٹھنڈا ھوا کہ نہیں میں نے خود کو نارمل کرتے ھوے مسکراتے ھوے کہا ۔
نہیں آنٹی مجھے کیوں غصہ آنا ھے آپ نے خامخواہ نسرین بیچاری کو ڈانت دیا ۔۔
آنٹی بولی یاسر یہ لڑکی بہت بتمیز ھوتی جارھی ھے بہت منہ پھٹ ھے کسی بڑے چھوٹے کا لحاظ نہیں کرتی تم بھی اچھی
طرح اس پاگل کی عادتوں سے واقف ھو ابھی تک اس میں بچپنا ھے ۔۔
میں نے دل میں کہا اسکا بچپنا تو اب مجھے ختم کرنا ھی پڑے گا ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔
کوئی بات نہیں آنٹی اتنا غصہ کرنے کا حق تو اسکا بھی بنتا تھا میں بھی تو اتنے دنوں سے نہیں آیا تھا ۔۔
آنٹی بولی اچھا بتاو کون سی خوشخبری سنانے لگے تھے ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی میں نے اپنی علیحدہ دکان بنا لی ھے سلے سالے لیڈیز سوٹوں کی ۔۔۔
آنٹی حیرت سے گنگ ھوگئی اور پھر بولی واقعی اییییییی سچ کہہ رھے ھو تم یاسر ۔
میں نے کہا قسم اے آنٹی اسی لیے تو میں اتنے دن آ نہیں سکا کل میری دکان کا پہال دن ھے ۔۔
آنٹی خوشی سے اٹھ کر میرے منہ ماتھا چومنے لگ گئی اور دعاءیں دینے لگ گئی ۔۔
اچانک آنٹی نے سنجیدہ ھوتے ھوے پوچھا مگر یاسر تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آے ۔۔
میں نے کہا بس آنٹی جی جب اوپر واال مہربان ہوتا ھے تو بہت سے اسباب بنا دیتا ھے ۔۔
انٹی بولی وہ تو ٹھیک ھے مگر پھر بھی پتہ تو چلے کہ اسباب کیسے بنے ۔
میں نے آنٹی کو اپنے دوست کی منگھڑت کہانی سنائی ۔۔۔۔۔
آنٹی میری بین سن کر یقین کرتے ھوے بڑی خوش ہوئی اور میرے دوست کو دعاءیں دینے لگ گئی ۔۔
عظمی بھی کافی خوش ہوئی اور نسرین نے بس خاموش رہنا ھی مناسب سمجھا ۔۔
میں نے انٹی لوگوں کو دکان پر انے کی دعوت دی اور انکو دکان کا اڈریس بھی سمجھایا ۔۔
آنٹی نے کہا جب بھی بازار کا چکر لگا الزمی آئیں گے ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور پھر کافی دیر تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے ۔
عظمی کسی نہ کسی بات میں حصہ لے لیتی مگر نسرین سڑی بھلی بیٹھی رھی ۔۔۔
میں نے بھی اسکو ذیادہ لفٹ نہیں کروائی ۔۔
میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ اسکی طبعیت نہیں سہی وہ دوائی کھا کر شام سے ھی سویا ھوا ھے ۔۔
کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں نے آنٹی سے کہا میں چلتا ھوں آکر دروازہ بند کرلیں ۔
ساتھ ھی میں .نے اآنٹی کو آنکھ ماردی ۔۔
آنٹی بھی شاید میری آنکھ کا اشارہ سمجھ گئی تھی ۔۔
میں اٹھ کر کمرے سے باہر نکال اور صحن میں کھڑا ھوکر چاروں طرف نظریں گھما کر جائزہ لینے لگ گیا۔۔
رات ہوچکی تھی کافی اندھیرا تھا صحن میں ۔۔
آآنٹی بھی کمرے سے باہر نکل کر میرے پیچھے آگئی میں کچھ آگے گیا اور اندھیرے میں کھڑا ہوگیا آنٹی میرے پاس آئی تو
مین نے انٹی کو بازوں میں بھر لیا اور کس کے جپھی ڈال لی آنٹی آہستہ سے بولی نہ کرو یاسر بچیاں جاگ رہی ہیں ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی بہت دل کررھا ھے آج کتنے دن یوگئے ہیں ۔۔۔
کچھ کرو نہ کہ ابھی میرا کام بن جاے آنٹی بولی پاگل ھوگئے ھو عطمی نسرین جاگ رہی ہیں ۔
میری نظر اچانک سیڑیوں پر پڑی ۔
اور پھر کمروں کے اوپر چاروں اطراف کیے اونچے پردوں
پر پڑی ۔۔
میں نے فٹ انٹی کو کہا انٹی اگر میں چھت پر چال جاوں اور آپ کسی طرح چھت پر آجاو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔
آنٹی بولی پاگل مسئلہ تو بچیوں کا ھے وہ جاگ رھی ہیں ۔
میں بچوں کی طرح ضد کرتے ھوے کہا مجھے نہیں پتہ انٹی جی کچھ کرووووو۔
آنٹی کچھ سوچتے ھوے بولی تم مرواو گے مجھے ۔
میں نے کہا کچھ نہیں ھوتا بس کچھ ھی دیر کی تو بات ھے ۔۔
)Update no (138
آنٹی بولی چلو پھر دھیان سے اور آرام آرام سے سیڑیاں چڑھتے ھوے اوپر جانا ۔۔
اور سٹور والی چھت ہر ھی رہنا دوسرے کمرے کی چھت پر مت جانا نہیں تو بچیاں چھت پر چلنے کی آواز سن لیں گی ۔۔
میں نے مزید کس کر اانٹی کو جپھی ڈالی اور انٹی کے ہونٹوں کو چومتے ھوے تھینکیو کیا اور بڑے سلو موشن میں سیڑیاں
چڑھتا ھوا چھت پر چال گیا اور ایک طرف پردے کی چاردیواری کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنٹی کا انتظار کرنے لگ
گیا ۔۔
مجھے بیٹھے آدھا گھنٹا گزر گیا مگر آنٹی کا دور دور تک نام نشان نہ تھا ۔
مجھے گھر جانے کی ٹینشن تھی گھر بھی میں ابھی آیا کہہ کر آیا تھا ۔۔
جب انتظار کی حد ھوگئی تو میں آیستہ سے اٹھا اور پردے سے سر اٹھا کر صحن میں جھانکا تو مجھے آنٹی واش روم سے
نکلتی نظر آئی اور پھر آنٹی انکل کے کمرے کی طرف جاتی نظر آئی ۔۔
میں انٹی کو کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر دل میں آنٹی کو گالیاں دینے لگ گیا کہ سالی مجھے چھت پر سوکھنے ڈال کر
پھر کمرے میں گھس گئی ھے ۔
میں واپس جانے کا سوچ ھی رھا تھا کہ آنٹی کمرے سے بڑے آرام آرام سے نکل کر چلتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف آتی
نظر آئی آنٹی نے ہاتھ میں کوئی کپڑا یا گدا پکڑا ھوا تھا ۔۔۔
میں خوشی سے یسسسسسسس کر کے جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔۔
کچھ ھی دیر بعد آنٹی چھت پر نمودار ھوئی اور تھوڑا ُج ھک کر چلتی ھوئی میرے پاس آئی اور ہاتھ میں پکڑا گدا کچی چھت
پر بچھا دیا اور منہ پر انگلی رکھ کر شییییی کرتے ھوے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔
اور گدے پر بیٹھتے ھوے مجھے بھی اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔۔۔
میں جلدی سے انٹی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھنے لگ گیا کہ اتنی دیر کردی میں تو واپس جانے لگا تھا ۔
آنٹی بولی جو جاگ رہیں تھیں انکو سال کر ھی آنا تھا ۔
میں نے کہا سوگئیں تو آنٹی بولی انکو جھڑک جھڑک کر سال کر کمرے کی باہر سے کنڈی لگا کر آئی ہوں ۔۔
میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی نے کہا وہ تو بےہوش پڑا ھے نیند کا سیرپ پی کر ۔۔۔
میں نے انٹی کا دوپٹہ اسکے گلے سے نکال کر ایک طرف رکھا اور آنٹی اپنے لمبے بالوں کو پیچھے سے اکھٹا کر کے انپر
پونی چڑھاتے ھوے پیچھے کیطرف لیٹ گئی ۔۔
میں بھی انٹی کی ٹانگوں کے بیچ آنٹی کی ٹانگوں کو پھیالتا ھو اسکے اوپر لیٹ گیا انٹی کا نرم نرم جسم اور موٹے موٹے
ممے مجھے میٹرس پر لیٹنے کا احساس دال رھے تھے ۔۔
میں نے انٹی کے اوپر لیٹتے ھی انٹی کے ہونتوں کو اپنے یونٹوں میں جکڑ لیا اور ایک ہاتھ سے ایک مما پکڑ کر دبانے لگ
گیا اور دوسرا بازو انٹی کے سر کے نیچے ڈال کر آنٹی کی گردن بازو پر رکھ لی میرا لن انڈر ویئر اور پینٹ کو ہھاڑ کر
باہر نکلنے کے لیے بےچین ہوکر آنٹی کی پھدی کے اوپر دباو ڈالے ھوے تھا ۔۔
آنٹی بھی پتہ نہیں کتنے دنوں کی پیاسی تھی ۔
جو بڑے جوش سے کسنگ میں میرا ساتھ دیتے ھوے میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر
پھدی کو میری پینٹ کے ابھار کے ساتھ مسل رہی تھی ۔
کچھ دیر ہم اسی پوزیشن میں ایک دوسرے کے ہونٹ اور زبانوں کو چوستے رھے ۔۔
انٹی کی تڑپ بےچینی اور جوش بتا رھا تھا کہ آنٹی کی پھدی ایک دفعہ اپنی گرمی باہر پھینک چکی ھے ۔۔
کچھ دیر بعد میں انٹی کے اوپر سے اٹھا اور آنٹی کے بازوں کو پکڑ کر آنٹی کو اوپر اٹھایا اور آنٹی کے نہ نہ کرنے کے
باوجود بھی قمیض کو پکڑ کر ذبردستی انکے بدن سے الگ کر دی آنٹی کے چٹے مموں کا اوپر واال حصہ کالی رات اور
کالے بریزئیر میں چمک رھا تھا میں نے جلدی سے آنٹی کی کمر پر ہاتھ لیجا کر بریزیر کی ہک کھول کر مموں کو قید سے
ازادی دال دی ۔۔
انٹی کے چٹے ممے اندھیرے میں بھی چمک رھے تھے ۔۔
انٹی نخرہ دیکھاتے ھوے بولی بہت تیز ھو تم یاسر کتنی جلدی میں مجھے ننگا کر کے رکھ دیا ۔۔
میں نے انٹی کے چٹے سفید ننگے کندھوں کو چوما اور کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انٹی کو پیچھے کی طرف دھکیل کر لیٹا
دیا ۔۔
ہماری گفتگو سرگوشی میں ھی ھو رھی تھی ۔۔
انٹی سیدھی لیٹی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے انٹی کے سینے پر پھیل گئے ۔۔
میں نے اپنی شرٹ اتاری اور پھر بنیان بھی اتار کر ایک طرف رکھی اور آنٹی کے ننگے جسم کے اوپر اپنا ننگا جسم رکھ
کر لیٹ گیا اور پھر انٹی کی ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا ۔
کچھ دیر بعد ہونٹوں کو چھوڑ کر کھسکتا ھوا انٹی کے مموں کی طرف آیا اور دونوں ھاتھوں میں انٹی کے گول مٹول بڑے
بڑے مموں کو پکڑ کر باری باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا ۔۔
آنٹی کے بڑے سائز کے نپل فل اکڑے ھوے تھے اور انٹی مزے لے لے کر سسکاریاں بھرتے ھوے اپنے ممے چسوا رھی
تھی ۔۔
مموں کو اچھی طرح چوس کر لباب سے گیال کردیا اور پھر میں کھڑ ہوا اور جھک کر اپنی پینٹ اور انڈر ویئر اتار کر تنے
ھوے لن کے ساتھ آنٹی کے ننگے پیٹ پر اپنی ننگی گانڈ رکھ کر بیٹھ گیا اور انٹی کے دونوں مموں کو پکڑ کر لن انٹی کے
مموں کے درمیان گھسا دیا اور ساتھ ھی آنٹی کو ممے پکڑ کر ساتھ مالنے کا کہا ۔
آنٹی نے میری تقلید کرتے ھوے اپنے دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں مال لیا اور میں آنٹی کے مموں میں لن گھسا کر
گھسے مارنے لگ گیا ۔۔
انٹی کے نرم مالئم مموں کو چودنے کا مزہ ھی الگ آرھا تھا ۔
میرا ٹوپا انٹی کی ٹھوڑی کے ساتھ لگ رھا تھا اور لن روانی سے مموں کے درمیان سپیڈ سے چل رھا تھا ۔۔
آنٹی بھی اس نئے طریقہ کو انجواے کررھی تھی میں لن کو مذید اگے کرتے ھوے ٹوپا انٹی کے ہونٹوں کے پاس لے جاتا ۔
انٹی ہونٹوں کو بھینچ کر منہ ادھر ادھر کرنے لگ جاتی ۔۔
میں نے انٹی کے سر کو پکڑا اور سر کو اوپر کرتے ھوے کہا آنٹی اپنے اس دیوانے کو تھوڑا سا چوم ھی لو ۔۔
انٹی اوں ہوں کرنے لگ گئی میرے اصرار پر انٹی نے ہلکا سا ہونٹوں کو کھوال اور جب ٹوپا ہونٹوں کے پاس آتا تو انٹی
ٹوپے کو ہونٹوں میں بھر کر چوسا لگا کر چھوڑ دیتی ۔
انٹی جب ٹوپے کو چوسا لگاتی میری تو مزے سے جان نکلنے والی ھوجاتی ۔۔
کچھ دیر ایسے ھی سین چلتا رھا ۔۔
پھر انٹی نے سر پیچھے کرتے ھوے کہا کہ بس یاسر تھک گئی ھوں ۔۔
میں نے بھی پیچھے ہٹنے کا سوچا اور آنٹی کے مموں سے لن نکال کر انٹی کی ٹانگوں میں گھٹنوں کے بل بیتھ گیا ۔۔۔
اور آنٹی کی شلوار پکڑ کر اتارنے لگا تو شلوار نیچے نہیں ھورھی تھی آنٹی ہنستے ھوے بولی ناال تو کھول لو ۔۔۔
میں نے غور کیا تو انٹی نے السٹک کی بجاے ناال باندھا ھوا تھا میں نے ٹٹول کر نالے کی گرا کا سرا پکڑا اور سرے کو
ذور سے کھینچ دیا ۔
میرا تو لن پھٹنے واال ھو چکا تھا اتنے دنوں سے بیچارے کو پھدی کا دیدار بھی نصیب نہیں ھوا تھا ۔
وہ کہتے ہیں نہ کہ
کالیاں اگے ٹوے۔۔۔۔
ایسا ھی کچھ میرے ساتھ ھوا ۔
پھدی میں لن ڈالنے کی بے صبری اور جلد بازی میں نالے کی گرا کے دوسرے سرے کو ذور سے کھینچ دیا گانٹھ کھلنے کی
بجاے مزید ٹائٹ ہوگئی ۔۔۔
میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا لن وکھری بدعائیں دینے لگ گیا ۔۔۔
میں پھر جلدی جلدی میں گانٹھ کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا مگر سالی کھل ھی نہیں رھی تھی ۔۔۔
تھک ہار کر دیسی نسخہ استعمال کرتے ھوے ۔
میں پھدی کے پاس منہ لیجا کر جھکا اور پھدی سے نکلنے والی منی کی مہک کو نتھنوں میں کھینچتے ھوے نالے کی گانٹھ
کو دانتوں میں لے کر ڈھیال کرنے لگ گیا اور آخر کار کامیابی نے میرے قدم چومے اور میں ناال کھولنے میں کامیاب
ھوگیا۔۔
انٹی میری جدوجہد دیکھ کر ہنسی جارھی تھی ۔۔
میں نے ناال ڈھیال ھوتے ھی شلوار پکڑ کر نیچے کھینچی تو آنٹی نے بھی ہنستے ھوے جلدی سے گانڈ اتھا کر شلوار کو
اترنے کے لیے راستہ دیا ۔
شلوار اتار کر ایک طرف رکھی اور آنٹی کی ٹانگوں کو اتھا کر کندھوں پر رکھا تو انٹی دوہری ھوگئی ۔۔اور میں نے لن کو
پکڑ کر پھدی کے اوپر سیٹ کیا تو
اانٹی نے جلدی سے دونوں بازو سیدھے کیے اور میری رانوں پر ہاتھ رکھ دیے کے میں ایک ھی دم سارا اندر نہ کردوں ۔۔
اور اسکا اظہار آنٹی نے زبان سے بھی کیا کہ یاسر ایکدم اندر نہ کرنا آرام آرام سے کرنا ۔۔۔
میں نے اچھا کہتے ھوے ہلکا سا دھکا مارا تو لن کا ٹوپا ۔
بھڑوووم کی آواز کے ساتھ پھدی میں گھس گیا اور انٹی کی انگلیوں نے میری رانوں کو گرفت میں لیتے ھوے میری ران
کے گوشت کو دبا کر آنٹی نے منہ سے سییییییییییی کیا ۔۔
میں نے پھر دوسرا ہلکا سا جھٹکا مارا تو لن تھوڑا سا اور اندر چال گیا
آنٹی کے منہ سے پھر کنوری بچی کی طرح اففففففففف سییییییی ہولییییییی نکال ۔۔۔
میں نے تیسرا گھسا مارا تو ادھا لن پھدی کے اندر چال گیا ۔
آنٹی کی پھدی ایکدم ٹائٹ تھی ۔۔
یاں فیر آنٹی نے چپیییٹ وٹی ہوئی سی ۔۔۔۔
لن کے گرد پھدی کی کافی گرفت تھی ۔۔
آنٹی ساتھ ھی سر پیچھے لیجا ۔ھاےےےےےےےے کرتی ھوئی بولی
یولی وےےےےےےےے ۔
میں نے لن کو واپس کھینچا اور ٹوپا اندر ھی رہنے دیا اور پھر لن کو تھوڑا سا اندر کرتا اور پھر بایر نکال لیتا چھ سات
دفعہ ایسے ھی کرکے آنٹی نوں آرے الیا ۔
اور پھر ایک زوردار گھسا مار کر لن کو پھدی کے اندر گہرائی میں اتار دیا ۔
آنٹی کی انکھیں ُابل کر باہر اگئیں اور آنٹی
اوپھھھھھھھھھھھھھ مممممممممم مر دتا اییییییییی کرتی ہوئی ہونٹوں کو ذور سے بھینچ کر سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی
اور میری رانوں پر رکھے ھاتھوں کو ذور دے کر مجھے پیچھے کرتے ھوے گانڈ کو ہال کر میرے نیچے سے نکلنے کی
کوشش کرنے لگ گئی مگر ۔۔
میں نے انٹی کی ٹانگوں کو اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا .۔۔
کیسے نکلتی ۔۔۔
میں کچھ دیر رکا اور پھر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔
انٹی میرے ہر گھسے پر
آہ آہ آہ آہ آہ آہ ہولی وےےےے ہولی وےےےےے
بوت درد ُہندی پئی اے ۔
ھاےےےےےے آہ آہ اہ ۔۔
کر رھی تھی جس سے مجھے مزید جوش چڑھ رھا تھا ۔۔
پانچ منٹ کی چدائی کے بعد ھی انٹی کی ٹون چینج ھوگئی ۔۔
اور آہیں سسکیوں میں بدل گئیں
ناں ناں
ہاں ہاں میں بدل گئی
ہولی ہولی تیزتیز میں بدل گئی
میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی انٹی کے ممے میرے تیز گھسوں سے سینے پر ڈانس کرنے میں مصروف تھے میرے گھسوں
سے تھپ تھپ اور پھدی کے گیلے پن کی وجہ سے چپ چپ کی آواز رات کی خاموشی کو توڑ رھی تھی ۔۔
ہم دنیا مافیا سے بیگانے چدائی میں لگے ھوے تھے ۔
انٹی اب میرے ہر گھسے پر سسکاری بھرتے ھوے ۔۔
سارا کردے سارا کردے سارا کردے ۔
ہاں ہااااں اینج ای اینج ای مار
ذور نال مار یاسرے ذور نال میری جان ۔
ہٹ ہٹ کے مار میرے چن ہت یٹ کے مار ۔۔
انٹی کی سیکسی آوازوں نے مجھے مذید ٹکنے نہ دیا ادھر آنٹی کی پھدی نے میرے لن کو جکڑا ادھر میرا لن پھوال.
آنٹی کی پھدی نے پہل کی اور منی کی پہلی دھار میرے لن کے ٹوپے پر پھینکی ۔
تو ساتھ ھی میرے لن نے بھی پھدی کے اندر ھی پچکاری ماری پھر دونوں اطراف سے منی کی برسات ھونا شروع ھوگئی ۔
انٹی نے مجھے اور میں نے انٹی کو بازوں میں جکڑا ھوا تھا اور دونوں کی سانسیں بےترتیبی سے چل رہیں تھی اور کچھ
دیر بعد ھی نڈھال ایک دوسرے کے اوپر چمٹے بےجان پڑے تھے کہ ۔۔۔۔۔
میرے لن نے آخری قطرہ بھی آنٹی کی پھدی میں ھی بہایا۔۔
آنٹی بھی لمبے لمبے سانس لے کر نارمل ہوچکی تھی
)Update no (139
آنٹی میرے بالوں کو سہالتی ہوئی بولی بسسسس اب خوش ۔۔
میں نے کہا ایک دفعہ اور کرنا ھے آنٹی جی بیت دنوں سے رکا ہوا ہوں آنٹی برا سا منہ بنا کر بولی چپ کر کے کپڑے پا
تے نکلدا ھو۔۔
اپنے ساتھ مجھے بھی پھنسواو گے ۔
میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا آنٹی جی ادھر کون سا کسی نے آنا سب سے ھوے ہیں ۔
آنٹی بولی نہ نہ تم پھر جلدی فارغ نہیں ہوتے میری مت ماردیتے ھو ۔
میں نے قسم سے ذیادہ دیر نہیں لگاتا ۔۔
آنٹی بولی یاسر ضد نہ کیا کرو کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔
میں نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا اس وقت اتنے اندھیرے میں ہمیں کس نے دیکھنا ھے عظمی نسرین تو ویسے بھی نہین
آسکتی باہر سے کنڈی لگی ھے اور انکل گہری نیند سوے ھوے ہیں ۔
آنٹی پھر نخرے کرنے لگ گئی ۔۔
میں نے بھی آنٹی کو منا کر ھی دم لیا اور پھر آنٹی بولی اچھا پیچھے تو ہٹو صاف کر لوں نیچے سے سارا گیال کردیا ھے پتہ
نہیں کتنا مال اکھٹا کیا ھوا تھا ۔۔
میں آنٹی کے اوپر سے اٹھتا ھوا بوال ۔
خود ھی حساب کرلیں کتنی دیر ہوگئی ھے کیے ھوے ۔۔۔
آنٹی اٹھ کر کپڑے سے اپنی پھدی صاف کرتے ھوے شرارت بھرے لہجے سے بولی ایڈا توں رہن واال ۔۔
میں نے کہا سچی آنٹی تب سے رکا ہوا ھوں جب اس رات آپ سے کیا تھا ۔۔۔
آنٹی سر ہالتے ھوے بولی جاندے جاندے ۔۔۔
میں نے کہا مرضی ھے آپکی نہ مانو۔۔۔
انٹی نے پھدی کو اچھی طرح صاف کیا اور کپڑا ایک طرف رکھنے لگی تو میں نے مرجھایا ھوا لن آنٹی کی طرف کرتے
ھوے کہا ۔
آنٹی جی اسے بھی صاف کردیں ۔۔آنٹی مسکراتے ہوے کپڑا میرے لن پر رکھ کر صاف کرتے ھوے بولی بہت تنگ کرتے
ھو یاسر۔۔۔۔۔۔
اور لن کو اچھی طرح صاف کر کے آنٹی نے کپڑا ایک طرف رکھا اور بالوں کو پیچھے کی طرف پھیالتے ھوے پھر لیٹ
گئی میں بھی انٹی کی طرف منہ کرکے سائڈ کے بل ہوکر لیٹ گیا اور مرجھایا ھوا لن آنٹی کی ران کے ساتھ لگا کر آنٹی کے
ممے کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ گیا ۔
آنٹی بھی آہہہہہہ سییییی کرنا شروع ھوگئی میں نے آنٹی کو مزید گرم کرنے کے لیے آنٹی کی دھکتی بھٹی انگلی ڈال کر
جلتی آگ پر تیل پھینک دیا ۔۔
پھدی کے دانے پر انگلی کا پورا رکھتے ھی آنٹی نے چہرہ اوپر کو کر کے لمبی سسکاری بھری اور ساتھ ھی میرے لن کو
مٹھی میں بھر لیا اور لن پر مٹھیاں بھرنے لگ گئی ۔۔
لن میں آہستہ آہستہ جان پڑ رھی تھی ۔
میں آنٹی کے دونوں مموں کو باری باری چوسی جارھا تھا اور ساتھ میں آنٹی کی پھدی کے دانے کو انگلی اور انگوٹھے کے
پوروں میں لے کر مسلتا تو کبھی پھدی کی اوپری ہڈی پر انگلی رکھ کر دبا کے مسلتا آنٹی مزے میں ڈوبی سسک رھی تھی
اور میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دباے جارھی تھی ۔
لن ساب بھی جوبن میں آچکے تھے اور آنٹی کی مٹھی میں پھنکاریں مار مار کر آنٹی کو تیار ہونے کا سگنل دے رھا تھا ۔۔
ادھر آنٹی کی پھدی سے پانی ٹپکنا شروع ھوچکا تھا آنٹی گانڈ اٹھا اٹھا کر پوری انگلی پھدی کے اندر لے رھی تھی ۔۔۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔
انٹی کی پھدی کو انگلی سے چود چود کر میرا بازو درد کرنے لگ گیا تھا کچھ دیر مزید پھدی میں فنگرنگ کرنے کے بعد
میں نے آنٹی کو گھوڑی بننے کا کہا۔۔
آنٹی بولی نہیں ایسے ھی کرو مجھ سے نہیں الٹا ہوا جاتا ۔
بہت درد ھوتی ھے
میں نے کہا آنٹی الٹی تو ہوجاو دیکھنا کتنا مذہ آتا ھے اور میں نے آنٹی کی ٹانگ پکڑ کر آنٹی کو الٹا کر الٹا کرنے لگ گیا
آنٹی بھی ھار مانتے ھوے الٹی ھوتے ھوے بولی ۔۔
اففففففف تم بھی نہ یاسر ۔
ُبڈھے وارے میرے کولوں کی ُپٹھے سدھے کم کروانا ایں ۔۔
مین نے آنٹی کی گانڈ کی پھاڑی کو پکڑ کر دباتے ھوے کہا۔
کون کہتا ھے ۔
کہ آپ بوڑھی ھو ۔
اب ھی تو آپ پر جوانی آئی ھے ۔۔۔
کیا سیکسی جسم ھے آپ کا ۔۔۔۔۔۔
ساتھ ھی میں نے آنٹی کے گانڈ پر ذور سے تھپڑ مارا آنٹی نے آہہہہہہہی کر کے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور بولی
بتمیزززز اتنی ذور سے تھپڑ مارا ھے جلن شروع یوگئی ھے ۔
میں نے گانڈ جو سہالتے ھوے کیا.
آنٹی جی آپ کی گانڈ ھے ھی اتنی مست کہ کیا بتاوں ۔۔۔۔دل کرتا ھے دندیاں کاٹوں ۔۔۔۔۔
اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل لن کو پکڑ کر آگے کی طرف کھسکا اور آنٹی کی گانڈ کے ساتھ ُج ڑ کر ہاتھ آگے لیجا کر
آنٹی کے کندھے ہر رکھ کر نیچے کی طرف دباتے ھوے آنٹی کے کندھے نیچے جھکا دیے
آنٹی نے کتے کے طرح بازو پھیال کر ہاتھوں پر چہرہ رکھ کر گانڈ کو مزید باہر نکال کر چدوانے کے لیے پوزیشن بنالی ۔۔۔
سر نیچے کرنے سے آنٹی کی گانڈ ۔
گوبھی کے پھول کی طرح ُک ھل گئی تھی ۔
آنٹی کی گانڈ کا سوراخ دراڑ میں صاف نظر آرھا تھا ۔۔
میں نے لن پر تھوک پھینکا اور لن کو گیال کر کے پھدی پر ٹوپا رکھا اور آنٹی کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہلکا سا
ُپش کیا تو لن بنا رکاوٹ کے پھدی میں اتر گیا اور ساتھ ھی دوسرا گھسا مار کر لن سارا اندر کردیا ۔۔
آنٹی ھاےےےےے ہولیییییی وےےےے کرتی ہوئی آگے کو ہونے لگی مگر آنٹی کی کمر میری گرفت میرے قبضے میں
تھی ۔
تو آنٹی کیسے آگے جاتی ۔۔۔
میں نے لن اندر رکھ کر کچھ وقفہ دیا اور وہیں رک کر آنٹی کی کمر کو سالنے لگا ۔۔
اور کمر کو سہالتے ہوے میں نے ہلکے ہلکے گھسے مار کر لن اندر باہر کرنے لگ گیا۔۔۔
اور آہستہ آہستہ سے سپیڈ بڑھتی گئی اور پھر آنٹی کی کمر کو ہاتھوں میں دبوچ کر دے گھسے تے گھسا شروع ھو گیا ۔
اور تھپ تھپ کی دہمک کے ساتھ آنٹی کی آہ آہ آہ آہ سییییییی سییییی کی سریلی آواز رات کے سناٹے کو توڑنے کی کوشش
کرنے لگ گئی ۔۔
میں گھسے مارتا ھوا ایک ھاتھ کو کمر سے کھسکا کر آنٹی کے چوتڑے پر لے آیا ۔۔۔
اور اس ہاتھ کا انگوٹھا گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر سوراخ کے اوپر رکھ دیا اور گھسوں کے ساتھ ساتھ آنٹی کی گانڈ کے
سوراخ کو بھی مسلی جارھا تھا اور انگوٹھا آہستہ آہستہ سوراخ کو نرم کرتا ھوا اندر گھستا جارھا تھا آنٹی نے دو تین دفعہ
ہاتھ پیچھے کر کے گانڈ سے میرا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی مگر میں اپنی ضد پر قائم رھا ۔۔
اور انگوٹھے کوآیستہ اہستہ اندر کرنے میں کامیاب ھوگیا ۔۔
میرا انگوٹھا گانڈ کے اندر پھدی میں چلتے لن کے ساتھ ٹچ ھورھا تھا ۔
پھدی میں لن گانڈ میں انگوٹھا ایک ھاتھ انٹی کی کمر کو پکڑے ہر گھسے پر آنٹی کے ہلتے ممے تھرتھراتی گانڈ اوپر سے
انٹی کی
آہہہہہ آہہہہہہ آہہہہہہہ کرتی آوازیں ۔
افففففففف کیا نظارہ تھا کیا مزے تھے ۔۔۔
کچھ ھی دیر بعد آنٹی خود گانڈ کو پیچھے کر کر کے لن پھدی میں لینے لگی اور پھر کچھ دیر میں انٹی کی سسکیاں تیز
ھوئیں اور آنٹی نے پورے زور سے گانڈ میری رانوں کے ساتھ لگائی اور چڈوں کو بھینچ کر جھٹکے کھاتی ھوئی الٹی ھی
لیٹتی گئی اور میں بھی انٹی کے اوپر لیٹتا گیا ۔
اور آنٹی کی پھدی سے گرم گرم نکلتی منی کو لن پر محسوس کرنے لگ گیا ۔۔۔اب آنٹی الٹی لیٹی ھوئی تھی اور میں آنٹی کے
اوپر پیچھے سے لن پھدی میں ڈالے الٹا لیتا ھوا تھا ۔۔۔
)Update no (140
کچھ دیر میں آنٹی نارمل ھوئی تو مین نے دو چار گھسے مارے تو پھدی میں منی کی بارش کی وجہ سے بہت کیچڑ ھو چکا
تھا ۔۔
چپ چپ کی آواز مجھے نہ بھائی تو مین نے لن باہر نکاال اور انٹی کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ہلکا سا پش کرتے ھوے
ٹوپا گانڈ میں چال گیا۔۔۔۔
میں نے یہ سب اتنی تیزی اور بغیر اجازت سے کیا کہ آنٹی کو پتہ ھی تب چال جب ٹوپا گانڈ میں گھس گیا آنٹی نے ہلکی سی
چیخ ماری ھاےےےےےےے مر گئی ۔۔
بار کڈ وے ھاےےےےے
آنٹی میرے نیچے کسمکسا رھی تھی گانڈ کو دائیں بائیں کرتے ھوے ٹوہا باہر نکالنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔
میں نے آنٹی کو اپنے نیچے اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا ۔۔
اور آنٹی کو تسلیاں دے رھا تھا بس بس بس ہلو مت ذیادہ اندر چال جاے گا ۔۔
آنٹی درد سے کراہ رھی تھی بول رھی تھی میں نے آنٹی کے بولنے کو اگنور کیا اور ہلکا سا پش کیا تو آدھا لن گانڈ میں اتر
گیا ۔۔۔
آنٹی کا جسم کانپ اٹھا اور انٹی کے منہ سے بس اتنا ھی نکال ۔۔
ھائییییییییییییییییییییییی میری بنڈ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تیسرا گھسا مار کر لن سارا ھی اندر کردیا اور لن اندر کرتے ھی آنٹی کے اوپر آنٹی کے ساتھ چمٹ گیا اور آنٹی کے
منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے انٹی کی آواز کو دبانے لگ گیا ۔۔
مگر آنٹی
مرگئی میں ھاےےےےےے بار کڈ لے ۔
بس اک واری کڈ لے ۔۔
تینوں ***** دا واسطہ ایییییی میری بند پاٹ گئی اےےےےے
وے یاسراااا تیرا بیڑہ ترے کی کیتا اییییییی ۔۔۔
میں انٹی کے بین ہاتھ سے چپ کروا رھا تھا ۔۔
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔۔۔
آنٹی رو دھو کر چپ ہوئی تو میں نے ہلکے ہلکے گھسے مارنے شروع کردیے آنٹی پھر ھاےےےے ھولی وے ھاےےےے
کرنے لگ گئی ۔۔
پانچ منٹ تک انٹی کی گانڈ نے لن کو سویکار کیا اور لن اور گاند کی دوستی ھوگئی اور لن آسانی سے گاند میں اندر باہر
ہونے لگ گیا آنٹی بھی اب شانت ھوکر لیٹی لن کو گانڈ میں لے کر انجواے کررھی تھی ۔۔
مزید گھسوں کے بعد جب آنٹی پرسکون ھوئی تو میں نے ایک ھاتھ آنٹی کے پیٹ سے ناف کی طرف نیچے کیا اور انگلیاں
پھدی میں ڈال کر گانڈ کو چودنے لگ گیا پھدی کے اندر میری انگلیوں سے لن ٹکرا رھا تھا بس لن اور انگلیوں میں ایک
پردہ تھا اور وہ گانڈ کا پردہ لن نے اوڑھا ھوا تھا ۔۔۔
میں گھسوں کے ساتھ ساتھ پھدی میں دو انگلیاں ڈال کر پھدی کو بھی انگلیوں سے مسل رھا تھا ۔۔۔
آنٹی گانڈ اور پھدی کی ایک ساتھ چدائی کو سسکاری مارتے ھوے انجواے کرنے لگ گئی ۔۔
انٹی اب گانڈ کو اوپر کر کے لنڈ پورا اندر لینے کی کوشش کرتی ۔
آنٹی کی پھدی بھی پانی چھوڑی جارھی تھی میری انگلیاں پھدی کے پانی سے گیلی ہوچکی تھی ۔۔
گھسے مارتے ھوے جب میری رانیں
آنٹی کے نرم اور موٹے چوتڑوں کے ساتھ لگتی تو میرے جسم میں مزے کی ٹیسیں اٹھتی ۔۔۔
پندرہ بیس منٹ کی لگا تار چدائی کے بعد میری ٹانگیں بھی اکڑی اور ٹانگوں سے جان نکلتی ھوئی لن کی طرف أئی اور دو
تین جاندار گھسے مارے اور انٹی کی پھر چیخ نکلواتےھوے لن نے منی سے آنٹی کی ہودی بھر دی اور میں آنٹی کے اوپر
پورا وزن ڈال کر جھٹکے لینے لگ گیا اور آنٹی کی گردن اور کندھوں کو چومنے لگ گیا ۔۔۔۔
جیسے ھی میرے جھتکے تھمے آنٹی نے جلدی سے سائڈ تبدیل کی تو میں انٹی کے اوپر سے بےجان سا ایک طرف گر گیا
اور لن بھی گاند سے نکل گیا ۔۔۔۔
انٹی جلدی سے اٹھی اور مجھے صرف اتنا ھی کہا کہ جلدی کپڑے پہن کر نیچے آجاواورآنٹی نے اپنے کپڑے ایک ہھاتھ
میں پکڑے اور دوسرا ھاتھ گانڈ کی دراڑ میں دے کر ننگی ھی تقریبََا بھاگتی ہوئی سیڑیاں اترتی ھوئی واش روم میں گھس
گئی ۔۔۔
میں منہ کھولے آنٹی کی دوڑ دیکھتا رھا ۔
اور پھر ادھر سے کپڑااٹھا کر لن کو اچھی طرح صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ گیا کپڑے پہن کر میں سیڑیاں اترتے ھوے
نیچے صحن میں آیا تو آنٹی بھی واش روم سے نکلی اور میرے قریب آکر غصے سے سرگوشی میں بولی ۔
یاسر تم بہت بگڑ گئے ھو میری جان نکال کہ رکھ دی ھے ۔۔
اتنی ذیادہ جلن ھورھی ھے ۔۔۔
میں نے انٹی کی گالوں پر ھاتھ رکھا اور آنٹی کے ہونٹوں کو چومتے ھوے بوال ۔
آنٹی جی آپ کے سیکسی جسم نے ھی مجھے بگاڑا ھے ۔۔۔۔
آنٹی انکل کے کمرے کی طرف دیکھتے ھوے بولی چلو اب نکلنے کی کرو تمہارے انکل نہ باہر نکل آئیں ۔۔۔
اور یہ کہتے ھوے آنٹی دروازے کی طرف بڑھی اور اہستہ سے کنڈی کھولی اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر سر باہر نکال
کر دونوں اطراف دیکھا اور پھر مجھے جانے کا کیا میں نے باہر نکلتے وقت آنٹی کے چوتڑے پر چٹکی کاٹی اور بھاگتا ھوا
گلی میں نکل گیا اور میں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔
گھر پہنچا امی کے سوالوں کہ جواب دیے کدھر گئے تھے کس کے پاس اتنی دیر لگادی ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ۔
حاالت سہی نہیں ہیں
اب آوارہ دوستوں کو چھوڑ دو ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
امی کی نصیحتیں سن کر کھانا وغیرہ کھایا اور سوگیا ۔
صبح ٹائم سے اٹھا اور گاوں میں جو میرے خاص دوست تھے انکو دکان کے افتتاح پر پہنچنے کا کہا اور پھر دکان پر پہنچا ۔
جنید کے آنے کے بعد مل کر
افتتاح کے لیے لوازمات کا انتظام کیا اور بچوں کو پڑھنے کے لیے بلوایا ۔
آس پاس کے دکانداروں کو اور انکل سجاد کو دعوت دی سب کچھ بہت اچھا ھوا ۔
ابو بھا اور میرے دوست بہت خوش ھوا سب نے مبارک بعد دی انکل سجاد بھی اوپر سے ھی خوش نظر آے خیر پہال دن
بہت اچھا گزرہ پہلے دن کی سیل بھی اچھی ہوئی ۔۔۔
پہلے دن دکان ٹائم پر بند کردی اور ضوفی کو لے کر انکے گھر پہنچا ۔۔
آنٹی کو سارے دن کی سیل دی آنٹی نے کہا کہ یہ تمہارا کاروبار ھے ان پیسوں پر تمہاری امی کا پہال حق ھے ۔۔
اب یہ تم نے دیکھنا ھے کہ کیسے بچت کرتے ھو اور کیسے آگے بڑھتے ھو ۔۔
میرے الکھ کہنے کے باوجود آنٹی نے ایک روپیہ بھی نہ لیا ۔۔
دوستو
اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ دکان لیٹ نائٹ تک کھلی رکھنی پڑنی تھی اور آٹھ نو بجے کے بعد گاوں جانا خطرے سے خالی
نہیں تھا جبکہ میرے پاس کوئی اپنی سواری بھی نہ تھی ۔۔۔۔
توضوفی نے اور آنٹی مجھے اپنے گھر رہنے کا کہا کہ جب تک کوئی سواری کاانتظام
نہیں ہوتا تب تک تم ہمارے ساتھ گھر رھ لیا کرنا ۔
میں امی اور ابو کے نہ ماننے کا ُع ذر پیش کیا تو آنٹی بولی تمہارے گھر والوں سے میں اجازت لے لوں گی ۔۔۔
میرے الکھ انکار پر آنٹی نہیں مانی ۔۔۔
میں امی سے بات کرنے کا کہہ کر آنٹی لوگوں سے اجازت اور بازار سے آتے ہوے مٹھائی کا ڈبہ آنٹی فوزیہ کے گھر دینے
کے لیے لے کر گاوں آگیا اور گھر آتے ھی سب سے پہلے ساری سیل امی کے ہاتھ میں تھما دی اور انکو کہا کہ آپ کے
بیٹے کی پہلے دن کی کمائی ھے ۔۔
امی اتنے سارے پیسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مجھ سے بولی کہ یہ پیسے میں نے خرچ نہیں کرنے بلکہ ایسے پیسے
جمع کرتے رہنا اور پھر ان پیسوں سے مذید مال لے آنا ۔۔
امی کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔۔۔
پھر کھانا وغیرہ کھا کر میں نے امی سے اپنی مجبوری بیان کی کہ بازار دیر تک کھال رہتا ھے ۔۔
جب تک میں موٹر سائیکل نہیں لے لیتا تب تک مجھے آنٹی کے گھر رات رکنا پڑے گا ۔۔۔
امی پہلے تو انکار کرتی رھی کہ انکی جوان بچیاں ہیں ایسے کسی کے گھر نہیں رہتے ۔۔
مگر میرے الڈ اور پیار سے امی مان گئی اور جلد ھی موٹر سائکل لینے کا کہا۔۔۔
اور امی نے یہ بھی تاکید کی کہ جب تک موٹر سائیکل نہیں لیتے تب تک اچھی طرح چالنی سیکھ لو۔۔
میں نے امی کی بات کی تائید کی اور پھر مٹھائی کا ڈبہ لے کر آنٹی کے گھر پہنچا ۔
آنٹی لوگ بھی بہت خوش ھوے ۔۔۔
انکل بھی جاگ رھے تھے اس لیے میں نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی ۔۔۔
کچھ دیر ادھر بیٹھنے کے بعد میں گھر آگیا۔۔۔۔۔
دوستو
میں سٹوری کو کچھ آگے بڑھا رھا ہوں امید ھے اپکو اعتراض نہیں ہوگا کیوں کے ان دنوں میں ایسا کچھ خاص نہیں ہوا جو
بیان کرنا ضروری سمجھوں سواے طوالت کے کچھ نہیں ھے۔۔۔۔
So please don't mind
After two weeks
دکان کو دو ہفتے گزر گئے ۔۔
دکان کا بینیفٹ سوچ سے بڑھ کر مال ۔۔۔۔
اس دوران ایک چکر الہور کا بھی لگا ۔
اور چند دن ضوفی کے گھر رہنے کے بعد
اوپر والے نے موٹر سائکل بھی دے دی اور جنید سے میں نے بائک چالنا بھی سیکھ لی اب میں روز موٹر سائیکل پر ھی آتا
جاتا۔۔۔
ضوفی کے ساتھ وہ ہی نارمل رومانس چلتا رہتا۔۔
خیر ایک دن دوپہر کے وقت جنید کھانا لینے گیا ھوا تھا ۔۔۔
میں اکیال ھی دکان کے باہر بیٹھا ہوا آتی جاتی لڑکیوں اور آنٹیوں کو دیکھ رھا تھا ۔۔۔
کالج سکول کو چھٹی ہوئی تھی تو سکول یونفارم میں ملبوس بچیوں کے ٹولے گزر رھے تھے ۔۔۔
کہ اچانک میری نظر ایک جانے پہچانے چہرے پر پڑی ۔
اور وہ چہرہ میرے سامنے سے گزر گیا ۔۔
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور بھاگ کر اسکے پیچھے گیا اور چند قدموں پر ھی اسے جا لیا ۔۔
اور اس کے سامنے جا کر کھڑا ھوگیا۔۔۔
نقاب میں چھپا چہرہ اور آنکھوں میں حیرت ۔۔۔۔
پلکیں دونوں جھپکانا بھول گئے ۔۔
اور جب سکتہ ٹوٹا تو ۔۔
مہری کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ۔۔۔
میں نے سرگوشی میں کہا مہری میرے ساتھ چلو مجھے تم سے بات کرنی ھے ۔
مہری بولی نہیں یاسر میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی ۔۔
میں نے کہا پلیز ایک دفعہ میرے ساتھ چلو وہ سامنے میری دکان ھے وھاں چل کر صرف ایک دفعہ میری بات سن لو پھر
چاہے تم چلی جانا اور میں کبھی تمہیں اپنا چہرہ نہیں دکھاوں گا۔۔
مہری بولی پلیز یاسر میں پہلے ھی بہت پریشان ہوں مجھے مزید پریشان مت کرو۔۔۔
میں نے کہا ۔
مہری پلیزززز ایک دفعہ بس ایک دفعہ کچھ ھی دیر کہ لیے میری بات سن لو ۔۔۔۔
کچھ منت سماجت کے بعد مہری میرے ساتھ بوتک پر آگئ۔۔
اور بولی ھاں بولو کیا کہنا ھے ۔۔۔
میں نے کہا یار بیٹھو تو سہی ۔۔۔
مہری کرسی پر بیٹھ گئی اور سر نیچے کر کے اپنی گود میں رکھے بیگ کو دیکھنے لگ گئی ۔۔۔
میں مہری سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا اور مہری کی طرف غور سے دیکھنے لگ گیا ۔
مہری واقعی پریشان لگ رھی تھی ۔۔۔
میں کافی دیر خاموشی سے کھڑا مہری کو دیکھتا رھا ۔۔
اور مہری مجھے یوں خاموش کھڑے دیکھ کر اٹھ کر کھڑی ھونے لگی
میں جلدی سے آگے بڑھا اور اسکو کندھوں سے پکڑ واپس بیٹھا دیا۔۔
مہری بولی اگر کچھ بولنا نہیں تو مجھے کیوں یہاں بیٹھایا ھے ۔۔۔
میں نے کہا یار تمہیں جی بھر کہ دیکھ تو لوں ۔۔۔
مہری نے میری طرف سر اٹھا کر دیکھا اور طنزیہ انداز میں ہنس کر بولی ۔
باتیںَ خوب بنا لیتے ھو کسی کو بیوقوف بنانے کے لیے ۔۔۔
میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ جنید کھانا لیے اندر داخل ہوا اور ایک نظر مہری پر ڈالی اور پھر میری طرف دیکھ کر
اشارے سے پوچھا کہ اے کی چکر اے ۔
میں نے اسے آنکھ مار کر چپ رہنے کا کہا۔۔
جنید نے مہری پر پھر ایک گہری نظر ڈالی اور کھانا لے کر کاونٹر کے پیچھے چال گیا ۔۔
مہری جلدی سے کھڑی ہوئی اور باہر نکلنے لگی ۔
تو میں جلدی سے اس کے آگے آگیا اور اسکے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
اور رونے واال منہ بنا کر بوال ۔
مہری کیا میں اتنا ھی برا ھوگیا ھوں کہ مجھ سے کچھ دیر بات کرنا بھی پسند نہیں کررھی ۔۔
مہری بولی تم نہیں میں بری ہوگئی ہوں پلیز راستہ چھوڑو مجھے گھر جانا ھے ۔
میں نے کہا ۔۔۔
مہری میری بات تو پہلے سن لو ۔۔۔
مہری وہیں ہاتھ بغلوں میں باندھ کر کھڑی ھوکر بولی ۔
ھااااں جی فرماووووووو۔۔
میں نے کہا ۔۔
یار اتنی بھی بےرخی کیسی
تم میرے ساتھ کس طرح بات کررھی ھو ۔۔
جیسے میں تمہارے لیے اجنبی ہوں ۔۔۔
مہری بولی یاسرر پلیزززز مجھے جانے دو گھر کوئی بھی نہیں ھے اور اسد بھی دو دن سے الہور گیا ھوا ھے ۔۔۔
مہری کی بات سن کر میں اسکا اشارہ فورن سمجھ گیا۔۔۔
کہ سالی غصے میں بھی دعوت نامہ دے رھی ھے ۔۔۔
میں نے انجان بنتے ھوے کہا ۔۔۔
کوئی بات نہیں آنٹی تو گھر ھی ہوں گی ۔۔
مہری چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔۔
مما بوتیک پر ہیں ۔۔۔
)Update no (141
سمجھے اب پیچھے ہٹو اور مجھے جانے دو پہلے ھی اتنی دیر ہوگئی ھے ۔۔۔
یہ کہتے ہوے مہری مجھے چکما دے کر باہر کی طرف نکل گئی اور دروازے کے پاس پہنچ کر بڑی پیاسی آنکھوں سے
میری طرف ایک نظر دیکھا اور ۔چلی گئی ۔۔
چند لمحوں میں مجھے ہوش آیا ۔
اور استاد نے دماغ کی بتی جالئی ۔
کہ ماما ُک ڑی تینوں کار آن دی دعوت دے کہ گئی اے توں ایتھے کھڑا امب پھڑن دیاں ایں ۔۔۔۔
میں نے جلدی سے دراز سے بائک کی چابی نکالی اور جنید کو کہا میں ابھی آیا یار۔۔۔
جنید بوال کتھے چالں ایں روٹی تے کھا لے ۔۔
میں نے کہا تم کھا لو مجھے بھوک نہیں ۔۔۔
اور میں جنید کا جواب سنے بغیر باہر نکال اور بائک سٹارٹ کر کے مہری کے پیچھے نکل گیا ۔۔۔۔
کچھ ھی دور جاکر ایک گلی میں مہری جاتی نظر آئی ۔۔۔۔
میں نے اسکے برابر جاکر موٹر سائیکل سلو کی تو وہ اچانک گبھرا کر رک گئی اور جب اس نے مجھے دیکھا تو
حیرت سے کبھی موٹر سائیکل کو دیکھے تو کبھی مجھے ۔۔۔
اور یہ کہہ کر چل پڑی کہ اب تم میرا پیچھا کرنے پر اتر آے
اور پھر چلنے لگی تو میں نے کہا ۔۔
مہری یار اب بس بھی کرو
تھوک دو غصہ بیٹھو تمہیں گھر چھوڑ آتا ھوں ۔۔
مہ
.مہری بولی شکریہ میں چلی جاوں گی ۔۔۔
میں نے کہا مہری یار بیٹھ جاولوگ دیکھ رھے ہیں کیا سوچیں گے ۔۔۔
مہری نے بھی یہ محسوس کیا تو چپ کر کے میرے پیچھے مجھ سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔
میں نے مسکراتے ھوے بائک آگے بڑھائی اور مہری کے گھر کیطرف چلدیا .۔
راستے میں کوئی بات نہ ہوئی ۔۔۔
میں نے بھی راستے میں مہری سے کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔
کچھ ھی دیر
بعد میں نے مہری کے گھر کے سامنے بریک لگائی تو مہری بریک لگانے کے وجہ سے کھسک کر میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔
میں نے دل میں ھی اپنے آپ کو برا بھال کہا ۔۔
جا اوےےےے پینڈوا رستے وچ ای بریکاں مار کے کڑی نوں نال ال لیندا ۔۔۔
مہری اتری اور میری طرف دیکھے بغیر بیگ سے گیٹ کی چابی نکالنے لگ گئی ۔۔
مہری گیٹ کی طرف منہ کیے گیٹ کی پہلی سیڑھی پر ایک پیر رکھے گھٹنے پر بیگ رکھ کر چابی نکال رھی تھی ۔۔
میں کھڑا اسکی طرف دیکھی جارھا تھا۔
مہری نے چابی نکالی گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھوال اور اندر داخل ہونے لگی تو میں نے کہا ۔۔
مہری ۔۔
مہری نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا تو میں نے کہا ۔
میں جاوں تو مہری کچھ بولے بغیر دروازہ کھال چھوڑے اندر چلی گئی ۔۔میں نے بائک کا سٹینڈ لگا یا اور اندر داخل ہوگیا تو
مہری گیراج میں کچھ آگے کھڑی تھی مجھے دیکھ کر کمرے کی طرف چل دی ۔۔
اسکی خاموشی ھی سب کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔
میں نے بڑا گیٹ کھوال اور بائک اندر کر کے گیٹ الک کر کے مہری کے کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔۔
میں جیسے ھی دروازے کے قریب پہنچا تو سامنے کا سین دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رھ گیا
۔۔۔۔
.مہری شرٹ اتار کر بریزیر اور شلوار میں اپنے سلکی بالوں کو کھولے کسی فاحشہ عورت کی طرح اپنے گاہک کے
انتظار میں بیڈ پر دروازے کیطرف منہ کر کے بیٹھی دروازے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔
میں بت بنا کھڑا مہری کا یہ روپ دیکھ رھا تھا ۔۔مہری نے مجھے یوں بت بنے کھڑا دیکھا تو ۔۔
طنزیہ مسکراہٹ سے بولی ۔۔
آجاو اندر وہاں کیوں کھڑے ھو ۔۔۔
آو شکار بلکل تیار ھے آو کھیلو میرے جسم کے ساتھ اسی لیے تو آے ھو آو بجھاو اپنی پیاس پوری کر لو اپنی ہوس اور یہ
کہتے ھوےمہری رونے لگ گئی ۔۔۔۔
میں مہری کی باتیں سن کر مذید سکتے کے عالم میں آگیا مہری اٹھی اور چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور میرے کندھوں کو
پکڑ کر مجھے ہالتے ھوے بولی ۔۔۔
کیا سوچ رھے ھو اب کسکا انتظار ھے ۔
کہو تو سارے کپڑے اتار دوں ۔۔۔
اور یہ کہتے ھوے مہری اپنے ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے لیجا کر بریزیر کی ہک کھولنے لگی ۔۔۔
میں نے ایک زور دار تھپڑ مہری کے منہ پر مارا ۔۔۔
تو مہری گھوم کر نیچے گری
میں مہری کو گرتے ہو ایک نظر دیکھ کر دروازے سے واپس پلٹا اور ٹی وی الونج میں ھی پہنچا تھا کہ مہری میرے
پیچھے بھاگتی ہوئی میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑ کر بولی کیا ھوا ۔
دل نہیں کر رھا یا پھر مجھ سے دل بھر گیا ھے ۔۔
میں نے غصے سے پلٹ کر مہری کی طرف دیکھا اور اسکے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور ہاتھ کو وہیں ہوا
میں روک لیا ۔۔۔
مہری روے جارھی تھی مہری نے میرا بازو پکڑ اور اپنے چہرے کی طرف کرتے ھوے بولی مارو رک کیوں گئے ھو ۔۔
مہری کی گال پر میری انگلیوں کے نشان پڑ چکے تھے اسکا رنگ سرخ ٹماٹر کی طرح ہوچکا تھا اسکی آنکھیں سرخی مائل
اور آنسوؤں سے لبریز تھیں ۔۔۔
مہری کی حالت دیکھ کر میرا سارا غصہ ہوا ھوگیا ۔۔۔
میں نے مہری کا ہاتھ پکڑا اور پھر دوسرا ہاتھ پکڑ کر دونوں ہاتھوں کو مال کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگایا اور ہاتھ چومتے
ھوے بوال ۔۔
مہری تمہیں کیا ہوگیا ھے ۔
مجھ سے اتنی بدزن کیوں ہوگئی ہو ۔
مانا مجھ سے اس دن غلطی ھوگئی تھی ۔۔
تمہاری قربت نے مجھے پاگل کردیا تھا ۔
مجھے خود نہیں پتہ چال کہ میں کیا کررھا ھوں ۔۔۔
میں تو اسی شرمندگی کی وجہ سے تمہارے سامنے آنے سے ڈر رھا تھا ۔
پلیز مجھے معاف کردو مہری میں تمہارا مجرم ہوں میں تمہارا گناہ گار ہوں ۔۔۔
مہری بولی ۔۔
یاسر تم اتنے بے مروت نکلو گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی مگر تم نے
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہری بلک بلک کر رونے لگ گئی ۔۔۔۔
میں نے مہری کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔
اور گالوں کو دباتے ھوے روہانسے لہجے میں نفی میں ار ہالتے ہوئے بوال
۔۔ نہیں مہری پلیززززز مجھے غلط مت سمجھو میں بھی تمہیں دل سے اپنا دوست سمجھتا ھوں ۔
مجھ سے غلطی ھوگئی پلیزززززمعاف کردو ۔
مجھے جو سزا دینی ھے دے لو مجھے منظور ھے ۔۔۔
اگر تم یہ ھی چاہتی ھو کہ میں کبھی تمہارے سامنے نہ آوں تو میں زندگی بھر کبھی تمہارے آس پاس بھی نہیں دکھوں گا
۔
مگر پلیز مجھے غلط مت سمجھو مجھے تمہارے جسم کی بھوک نہیں ھے ۔۔
اس دن کے بعد میں روز مرتا تھا روز جیتا تھا ۔
میں نے بہت دفعہ تمہارے گھر آنے کا ارادہ کیا بہت دفعہ تمہارے کالج جانے کا سوچا ۔۔
مگر مجھ میں تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔۔
میں بھی انسان یوں غلطیاں انسانوں سے ھی ہوتی ہیں ۔۔۔
اور ساتھ ھی میں رونے لگ گیا۔۔۔۔۔
مہری ایکدم چپ ہوگئی اور میرے سینے کے ساتھ لگ کر ۔۔
میرے ساتھ چمٹ گئی اور رونے لگ گئی ۔۔۔
اور شکوہ کرنے لگ گئی ۔۔
تم بہت گندے ھو پلٹ کر میرا پتہ بھی نہ لیا کہ میں زندہ ہوں
یا مرگئی ہوں ۔
مجھے تمہاری اس بے رخی نے بہت تڑپایا یاسر بہت تڑپایا ۔۔
کیوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔۔
ایک دفعہ تو پلٹ کر دیکھتے ایک دفعہ تو میرا حال پوچھنا گوارہ کرتے ۔۔۔
میں نے ایک ہاتھ اسکی ننگی کمر پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے سر کو اور بالوں کو سہالنے لگا ۔۔
اور بوال ۔
میں اگیا ہوں نہ جان اب تو مجھے معاف کردو تمہاری ہر بات سچ ھے مجھ سے غلطی ھوئی میں مان رھا ہوں ۔۔
کافی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے رھے اور پھر میں نے مہری کو بازوں سے پکڑ کر خود سے علیحدہ کیا اور اسکے
ہونٹوں کو چوم کر بوال چلو شرٹ پہنو ۔۔
مہری اثبات میں سر ہالتے ھوے کمرے کی طرف چلی گئی میں بھی اسکے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور بیڈ پر
بیٹھ گیا مہری اپنی شرٹ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل کر سٹور میں چلی گئی ۔
اور کچھ ھی دیر بعد ہلکے پیلے رنگ کا الن کا سوٹ پہن کر کھلے بالوں کے ساتھ دوپٹے سے اپنی آنکھیں صاف کرتی
ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
)Update no (142
اور آکر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔
کچھ دیر ہم دونوں خاموش ھی بیٹھے رھے ۔
پھر مہری نے میرا ہاتھ پکڑ اور دوسرا ہاتھ میری گال پر رکھ کر میرے چہرے کو اپنی طرف گھمایا میں مہری کی نم
آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا ۔۔۔
مہری نے دونوں ہاتھ
.اپنے کانوں کو لگاے اور کانوں کو پکڑ کر کسی معصوم بچے کی طرح نچلے ہونٹ کو باہر نکال کر روہانسے لہجے میں
بولی سوری ۔۔۔اور ساتھ ھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔۔۔
میں نے جلدی سے اسکے ہاتھ پکڑ کر اسکے کانوں سے الگ کئے اور ۔
اسکے ہاتھوں کو چوم کر مہری کی گالوں کو پکڑ کر انگوٹھے سے اسکے آنسوں صاف کرتے ھوے بوال ۔۔
پاگل ہوگئی ہو مہری ۔
کیوں بچوں کی طرح روئی جارھی ھو ۔۔
چپ ھوجاو ۔۔۔
پلیززززز ورنہ میں نے بھی رونے لگ جانا ھے ۔۔۔
اور پھر میں نے مہری کی گالوں کو پکڑے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور اسکے نرم مالئم یونٹوں پر بوسا لیا اور اپنی
ہتھیلیوں سے اسکی گالوں سے آنسو صاف کرنے لگ گیا ۔۔
مہری پھر مجھ سے لپٹ گئی اور پھر روتے ہوئے کہنے لگ گئی ۔
مجھے معاف کردو یاسر میں نے تمہیں بہت غلط سمجھا اور نجانے کیا کیا کہہ گئی ۔۔۔
میں نے پھر اسکو نارمل کرتے ھوے دالسا دیا کہ ۔
تمہارا غصہ جائز تھا مہری ۔
اب بس کرو مجھے تمہاری کوئی بات بری نہیں لگی ۔۔۔
بس ایک بات بری لگی ۔۔۔
مہری میرے کندھے سے سر اٹھا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
کیا برا لگا یاسر بتاو میں اسکی بھی معافی مانگ لیتی ھوں ۔۔
میں نے کہا رہنے دو دفعہ کرو ۔۔
مہری نفی میں سر ہالتے ہوے بولی نہیں یاسر بتاو پلہزززززز
میں نے بڑے رومینٹک انداز سے مہری کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے کہا ۔
بتا دوں مہری اثبات میں سر ہالتے ھوے بڑے تجسس سے بولی ہاں بتاو۔۔۔
میں نے پھر اسی اندازمیں کہا بتا دوں ۔۔
میرا اندازدیکھ کر مہری تھوڑا مسکرا کر میری شرٹ کے بٹن کو کھولتے ھوے انگلی میں گھماتے ھوے بولی بتاو نہ یاسر
تنگ نہ کرو۔۔۔
میں نے کہا ۔
جو کام میں نے کرنا تھا وہ کام تم نے مجھ سے پہلے کیوں کیا ۔۔
مہری نے بڑے تجسس بھرے انداز سے میری طرف دیکھتے ھوے کہا۔
کون سا کام ۔۔
میں نے برا سا منہ بنا کر روٹھنے والے اندازسے پاوں زمین پر مارتے ھوے اور دونوں ہاتھوں کے مکے اپنی رانوں پر
مارتے ھوے کہا ۔۔
تم نے میری اجازت کے بغیر شرٹ کیوں اتاری میں نے خود پیار سے اتارنی تھی ۔۔۔
مہری جو منہ کھولے بڑے غور سے اور بڑی سنجیدہ ھو کر میری بات سن رھی تھی ۔
میری بات سنتے ھی میرے گلے پر دونوں ہاتھ رکھے اور میرا گال پکڑ کر مجھے بیڈ پر گراتے ھوے بولی ۔
بتمیززززززززتمہاری جان نکال دینی ھے ۔۔۔
اور مہری میرے اوپر چڑھ گئی میری ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور مہری میرے اوپر پاوں میرے پاوں کے اوپر رکھے
اپنی پھدی میرے لن پر دباے میرے گلے کو نرمی سے پکڑے دباے ھوے تھی ۔
اور چیخ چیخ کر مجھ پر برس رھی تھی ۔۔
میں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں پوری کھولیں اور جیسے سانس بند ہونے کی وجہ سے میری جان نکلنے لگی ھو میں نے
ویسے ایکٹنگ کرتے ھوے ایک دم گردن ایک طرف لڑھک دی ۔۔
مہری نے گبھرا کر ایک دم میرا گال چھوڑا ۔
اور بڑی گبھرائی ھوئی آواز میرے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھے ہالتے ھوے آواز دینے لگ گئی یاسر یاسر یاسر اٹھو
میں مزاق کر رھی تھی ۔
میں نے دونوں بازو بیڈ پر ایسے پھیالے ھوے تھے جیسے سچ میں میری جان نکل گئی ھو ۔۔
مہری میرے ہونٹوں کے پاس ہوںٹ الئی اور مجھے ہالتے ھوے یاسر یاسر کہی جارھی تھی ۔۔
میں نے اچانک آنکھیں کھولیں اور مہری کو بازوں میں بھر کر گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا ۔۔
اور ہنسنے لگ گیا ۔۔۔
مہری بچوں کی طرح نچال ہونٹ باہر نکال کر میرے سینے پر مکے برسانے لگ گئی ۔۔۔
میں نے بڑی مشکل سے مہری کی کالئیوں کو پکڑا اور اسکے بازوں کو کھول کر بیڈ پر پھیال کر دبا کر میٹرس کے ساتھ
لگا دیا ۔
اور مہری کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگ گیا ۔
مہری کچھ دیر میرے نیچے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں چالنے کی کوشش کرتی رھی مگر مہری کی ٹانگوں کو میں نے
اپنی ٹانگوں کے درمیان جکڑا ھوا تھا اور مہری کے بازوں کو کالئیوں سے پکڑے میٹرس کے ساتھ لگا کر دبایا ھوا تھا اور
میرا لن مہری کی پھدی کے بلکل اوپر تھا
مگر لن ابھی ڈھیال ھی تھا اس وجہ سے مہری کو لن کا احساس نہیں ہورھا تھا ۔۔
مہری کچھ دیر بعد تھک کے بلکل شانت ہوکر جسم کو ڈھیال چھوڑ کر لیٹ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔۔
میں مہری کے پیٹ اور مموں سے کافی اوپر تھا جبکہ میرا نچال حصہ مہری کے نچلے حصے کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔۔
میں تھوڑا سا جھکا اور مہری کے چہرے کے بلکل اوپر اپنا چہرہ کر کے بوال بس تھک گئی ۔۔۔
)Update no (143
میری سانسیں مہری کے چہرے پر پڑ رھیں تھی ۔
جبکہ میرے یوں قریب آنے پر مہری کی بھی سانسیں مذید تیز چلنے لگیں اور اسکے سینے کے ابھار اوپر نیچے ھونے لگ
گئے ۔۔
میں نے ہونٹ کھولے اور زبان کی نوک باہر نکال کر اپنے سر جو مزید جھکایا اور زبان کی نوک مہری کے کانپتے ہونٹوں
کے پاس لے گیا مہری نے نے پہلے سر دائیں طرف کیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔
میں نے اپنے چہرہ وہیں رکھا ۔۔اور زبان کی نوک مہری کے کان کے پیچھے پھیر دی ۔
مہری نے تڑپ کر سسکاری بھری اور سر کو گھما کر چیرہ بائیں طرف کرلیا میں نے زبان کی نوک مہری کے دوسرے کان
کے پیچھے پھیر دی مہری نے پھر تڑپ کر سر پیچھے لیجا کر سینہ بلند کیا اور لمبی سسکاری بھر کر چہرہ بلکل سیدھا کر
لیا اپنے شربتی ہونٹ کھول کر میری زبان کو اپنے ہونٹوں کے اندر سمو لیا اور میں نے زبان مذید لمبی کر کے مہری کے
منہ میں ڈال دی ۔
مہری جنونی انداز میں میری زبان کو چوستے ھوے اپنی کالئیوں کو میرے ہاتھوں سے چھڑوانے لگ گئی ۔
میں نے بھی مہری کی کالئیوں کو جیسے ھی چھوڑا مہری نے بڑی پھرتی سے میری گردن میں ہاتھ ڈال کر میرے سر کو
مذید اپنے چہرے پر دبانے لگی ۔
اور میری زبان کو چوستے ھوے کبھی میرے نچلے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اوپر والے کو ۔۔
کافی دیر ہمارے ہونٹوں کی جنگ جاری رھی ۔۔
میرا لن بھی حرکت میں اچکا تھا اور میری ڈریس پینٹ کو پھاڑ کر باہر آنے کے لیے باوال ھورھا تھا میں نے ہاتھ نیچے لیجا
کر پینٹ کی زپ کھولی اور انڈر ویر کو تھوڑا سا کھسکا کر لن کو آزاد کیا لن کو آزادی ملنے کی دیر تھی کہ کمبخت مہری
کی باریک شرٹ کو اسکی رانوں میں دبا کر پھدی کے ساتھ جپھی ڈال کر رانوں کے بیچ پھدی کے ساتھ چپک گیا اور مہری
نے رانوں کو اپس میں بھینچ کر میرے لن کو قبول کرتے ہوے باہر نکلنے سے منع کررکھا تھا ۔
کچھ دیر بعد مہری نے مجھے بیڈ کے اوپر انے کا کہا تو میں مہری کے اوپر سے ہٹا اور لن کو انڈر ویر میں کر کے بیڈ
کے اوپر چڑھ گیا اور مہری بھی جلدی سے ٹانگیں اوپر کر کے سیدھی لیٹ گئی ۔۔
میں مہری کے ساتھ لیٹا اور اسکو پکڑ کر سائڈ کے بل کر کے منہ اپنی طرف کیا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئے
اور پھر ایک دوسرے کے یونٹ آپس میں بھڑ پڑے۔۔۔
ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔۔
میں مہری کے ہونٹ چوستے ھوے ایک بازو اسکی گردن کے نیچے اور دوسرا بازو اسکے بازو کے نیچے سے گزار کر
ہاتھ اسکی کمر پر لیجا کر مہری کی کمر کو سہالنے لگ گیا ۔۔
اور کچھ دیر بعد مہری کی شرٹ کو اوپر کر کے اسکی ننگی کمر پر انگلیوں سے مساج کرنے لگ گیا۔۔
مہری نے بھی میری تقلید کرتے ھوے میری شرت کو اوپر کر کے میری کمر پر اپنا مخملی ہاتھ پھیرتے ھوے اپنی بغیر
ہڈی کی انگیوں سے میری کمر کو سہالنے لگ گئی ۔۔
مہری کی انگلیوں میں جادو تھا میرے سارے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگ گیا مجھ پر کپکی طاری ھوگئی ۔۔
مہری کی انگلیاں اپنی کمر پر مجھ سے برداشت نہیں ہورہیں تھیں میں خود پر سے کنٹرول کھوتا جارھا رھا تھا۔
دوسری طرف مہری کا حال بھی مجھ سے الگ نہ تھا ۔
جتنا جوش مجھے چڑھ رھا تھا اتنا ھی مہری ریکٹ کررھی تھی ۔
ادھر میں میری کی شرٹ کو کھسکاتا ھوا اسکی گردن تک لے آیا ادھر مہری میری شرٹ کو کھسکاتی ھوئی میرے کندھوں
تک لے آئی ۔
اب ہم دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔
مہری کے نرم پیٹ کا لمس مجھے اپنے پیٹ پر پاگل کئے جارھا تھا ۔۔
کچھ ھی دیر بعد میں نے لیٹے ھی مہری کی شرٹ اسکے جسم سے الگ کردی اور مہری نے میری شرٹ بھی جلدی سے
اتار کر ایک طرف پھینک دی اور ہم پھر ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر ہوٹنوں میں ہونٹ ڈالے پورے بیڈ پر گھومنے لگے
کبھی مہری میرے اوپر تو کبھی میں مہری کے اوپر ۔۔
ہم گھومتے کبھی بیڈ کے اس کنارے پر جاتے تو کبھی ادھر سے پلٹ کر گھومتے ھوے اس طرف کنارے پر اجاتے ۔۔
کچھ دیر یہ ھی کھیل چلتا رھا ۔
اسی دوران میں نے مہری کے بریزیر کی ہک بھی پیچھے سے کھول دی اور موقع ملتے ھی اسکے بریزیر کو اسکے بازوں
سے نکال کر ایک طرف پھینک دیا ۔
اب میں پینٹ میں اور مہری شلوار میں تھی اور دونوں کے اوپری ننگے حصے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔۔
آخر پلٹیاں کھاتے کھاتے ہم بیڈ کے درمیان رکے اور میں مہری کے اوپر اور مہری میرے نیچے رکی۔
میں نے مہری کے ہونٹوں کو چھوڑا اور کھسکتا ھوا نیچے ھوا اور مہری کے گالبی رنگ کی مانند گول مٹول تنے ہوے
مموں پر ٹوٹ پڑا اور کبھی ایک ممے کو منہ میں لے کر اسکے گالبی انگور کو چوستا تو کبھی دوسرے ممے کے گالبی
تنے ھوے نپل کو چوستا ۔۔
مہری سسکاریاں بھرتے ھوے سر دائیں بائیں کر رھی تھی اور ساتھ میں میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بالوں کو
سہال رھی تھی ۔
کچھ دیر میں ھی مموں کو گالبی سے سرخ کردیا۔۔
اور پھر سرکتا ھوا مہری کے روئی سے نرم ریشم سے مالئم تھرتھراتے پیٹ پر ہونٹ رکھے تو مہری میٹرس سے اچھل
کر واپس گری اور آہہہہہہہہہ سییییییییییییی کرتے ھوے
زور زور سے سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔
)Update no (144
میں ہونٹوں سے پیٹ کو چومتا تو کبھی زبان نکال کر پیٹ کے چاروں اطراف گھماتا ۔
ہوا جب ناف سے نیچے جاتا تو مہری کی سسکاریا ں چیخوں میں بدل جاتی ۔
آخر کار میں نے مہری کی شلوار کی السٹک کو پکڑا اور شلوار کو کھینچتا ھوا ایک جھٹکے سے اسکے پیروں میں لے
گیا ۔
شلوار کے ساتھ مہری کی پینٹی بھی اتر کر اسکے پیروں میں چلی گئی اور میں نے مذید وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے
شلوار کو پینٹی سمیت مہری کے پیروں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور مہری کے پیروں کو پکڑ کر اسکی پیروں کو
چومنے لگ گیا ۔
مہری کے پیرے کسی نومولود بچے کی طرح نرم سوفٹ اور پنک کلر کے تھے ۔
میں مہری کے پیروں کو چومتے ھوے اسکی پنڈلیوں سے ہوتا ھوا اسکے گھٹنوں کے پاس آگیا ۔
مہری کی ٹانگوں تو کیا پورے جسم پر بالوں کا نام نشان تک نہ تھا۔
اور مہری کی ٹانگوں کی مالئمت اور سوفٹنس ناقابل بیان تھی ۔
میں نے مہری کی دونوں ٹانگوں کو سیدھا کیا اور اسکے پیروں سے چومتا ھوا اسکی رانوں پر آیا تو جب میری نظر اسکی
گالبی پھدی پر پڑی جس کے لبوں پر شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔
تو بے اختیار میرے زبان باہر نکلی اور یونٹوں پر پھرنے کے بعد واپس منہ کے اندر جانا بھول گئی اور اکڑتے ھوے سیدھی
مہری کی پھدی کو جا لگی ۔۔
زبان کی نوک نے مہری کی پھدی کے دانے کو کیا چھوا ۔
کہ مہری کو جیسے ذبیعہ کردیا ھو ۔
مہری بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتے ھوے.
نو نو نو نو نننننہی نہیں یییییاسسسسررررر ممممیں مرگئی اافففففف سیییییییءجج
کرنے لگ گئی ۔۔
مہری کے یوں تڑپنے سے میرے اندر مذید جوش پیدا ھوا اور میں نے مہری کی رانوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور ٹانگوں کو
کھول کر پھدی کے دانے کو منہ میں بھر لیا اور دانے کو چوسنے لگ گیا ۔
میری گانڈ اٹھا اٹھا کر نیچے مارتے اور سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے ۔
چیخ رھی تھی چال رھی تھی مجھے روک رھی تھی ۔
مگر اسکی منتیں میرا حوصلہ بڑھا رہیں تھیں میرے اندر پھدی کو چوسنے چاٹنے کا جنون پیدا کررھیں تھی ۔
مہری مزے میں پاگل ھوتی جارھی تھی
اور میں پھدی چاٹنے اور چوسنے میں پاگل ھوا جارھا تھا ۔
پھر یکلخت مہری کا جسم اکڑنا شروع ھوگیا مجھے اسکے جسم اکڑنے اور پھدی کے سکڑنے کا جیسے ھی احساس ھوا
تو میں نے پھدی سے منہ ہٹایا اور ساتھ ھی دو انگلیاں جوڑ کر پھدی میں گھسا دیں ۔
انگلیاں اندر کیا گئیں مہری نے ایک زور دار چیخ ماری اور گانڈ کو اٹھا کر انگلیوں کو جڑ تک اندر لیا اور ٹانگوں کو آپس
میں جوڑ کر انگیلوں کو پھدی اور ٹانگوں میں بھینچ لیا اور ساتھ ھی میری انگیلوں پر پھدی سے گرم گرم منی نکل کر
پڑنے لگی اور مہری کا جسم بری طرح جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔
کچھ دیر مہری یوں ھی میری انگلیوں کو پھدی میں لے کر بھینچے ھوے لیٹی رھی اور پھر ایکدم مہری نے ٹانگوں کو
کھوال تو میں نے انگلیاں پھدی سے باہر کھینچی تو مہری نے پھر ھاےےےےے کیا اور شانت ہوکر لیٹ گئی اور لمبے
لمبے سانس لیتے ھوے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے ھوے اففففففففففففف کرتے ھوے میری طرف دیکھا اور زبان نکال کر
مجھے منہ چڑھا کر گنداااااا کہا اور پھر اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر چہرے کو چھپا لیا ۔۔۔
اور میں مہری کی اس ادا پر فدا ھوگیا ۔۔۔
اور میں مہری کی اس ادا پر فدا ھوگیا ۔۔۔
.مہری اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے لیٹی ہوئی تھی اور میں اس کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھا اسکی اداوں کو
دیکھ رہا تھا۔۔
مہری نے اپنے چہرے دونوں ہاتھ اسطرح رکھے ہوے تھے کہ اسکی کہنیاں مموں کو چھپاے ہوے تھیں ۔۔
میں کچھ دیر بیٹھا مہری کے جسم کے ایک ایک اعضا کو غور سے دیکھتا رھا ۔
مہری کے جسم کا ہر اعضاء قابل تعریف تھا ۔۔
چھتیس سائز کے گول مٹول تنے ہوے ممے پتلی کمر اندر کی طرف پیٹ پیچھے کو نکلی گول مٹول گانڈ گالبی رنگت پورے
جسم پر بالوں کا نام نشان نہیں ریشم کی طرح مالئم سکن ۔۔۔۔۔
اس قدر سیکسی فگر کے انگ انگ کو چوم چوم کر بھی دل نہ بھرے ۔۔۔
میں نے مسکراتے ھوے گھٹنوں کے بل بیٹھے ھی پینٹ کی بیلٹ کھولی اور پھر ہک کھول کر کھڑا ھوا اور انڈرویر سمیت
ھی پینٹ نیچے کر کے اتار دی اور مہری کے سامنے تنے لن کے ساتھ کھڑا تھا ۔۔۔
مہری آنکھوں کے اوپر رکھی انگلیوں کو کھول کر انگلیوں کی دراڑ میں میرے لن کو دیکھ رھی تھی ۔۔۔
میں پھر گھٹنوں کے بل بیٹھا اور مہری کے گھٹنوں کو پکڑ کر مہری کی ٹانگیں کھول دیں مہری نے جلدی سے ہاتھ اپنے
چہرے سے ہٹاے اور میری طرف دونوں ہاتھ کر کے ہالتے ہوے بولی …no no no no
میں نے کہا کیا ہوا مہری۔۔۔۔۔
مہری سر اوپر اٹھا کر آنکھیں پھاڑے میرے تنے ہوے لن کو دیکھنے لگ گئی جو پھنکاریں مارتا ھوا مہری کی چھوٹی سی
پھدی کو گھور رھا تھا ۔۔۔
مہری بولی nnnnno
یاسر تمہارا اتنا بڑا ھے مجھ سے برداشت نہیں ہونا ۔۔
اس دن جو میرا حال ہوا تھا یاد ھے نہ ۔۔۔
میں مہری کے اوپر جھکا اور اسکے ہونٹوں کے پاس ہونٹ لیجا کر بوال ۔
جان اس دن پہلی دفعہ کیا تھا اور تم ورجن تھی اس لیے درد ھوا تھا ۔
پہلی دفعہ جب سیل ٹوٹتی ھے تو درد ھوتا ھے ۔۔
اسکے بعد مزے ھی مزے ہیں۔۔۔
مہری بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا بڑا اندر کیسے جاے گا ۔۔
میں نے کہا جیسے پہلے لیا تھا۔۔۔
مہری جلدی سے اپنی نکی جئی پھدی کو چھپاتے ھوے بولی ۔۔
نہ بابا نہ ۔۔
مجھے وہ دن بھوال نہیں جب ایک ہفتہ میرا بخار نہیں اترا تھا ۔۔
اور مجھے پتہ ھے کیسے گھر والوں سے چھپایا تھا ۔۔
مما کو تو جیسے شک ہوگیا تھا بڑی مشکل سے مما کو میں نے مطمئن کیا تھا کہ مینسز کی وجہ سے میری طبعیت خراب
ہوئی ھے ۔۔
اور اب پھر وہ ھی کرنے لگے ھو ۔۔
میں نے مہری کے ہاتھوں کو پکڑ کر اسکی پھدی سے ہٹایا اور بوال ۔۔
جان اب نہ تو خون نکلے گا نہ ھی درد ھوگی ۔۔
مجھ پر یقین رکھو ۔۔۔
مہری بولی تو اگر کچھ اور ھوگیا تووووووو۔
میں نے کہا کیا مطلب ۔۔
مہری بولی اگر میں پریگنٹ ھوگئی تووووووو۔
میں نے کہا یار پریگنٹ تب ھوگی جب مین اندر فارغ ھوں گا ۔۔۔خالی اندر کرنے سے تھوڑا پریگنٹ ھوجاوگی ۔۔۔
مہری بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے ۔۔
مین نے لن کو پکڑ کر ٹوپے کو مہری کی پھدی کے ساتھ لگا کر پھدی کے لبوں کے ساتھ مسلتے ھوے کہا ۔۔
جان تم بے فکر رھو میں وعدہ کرتا ھوں کہ درد نہیں ہونے دوں گا بلکہ پیار سے اور آرام آرام سے اندر کروں گا۔۔۔
مہری بولی ۔
اگر مجھے درد ہوئی نہ تو دیکھنا پھر تمہیں چھوڑوں گی نہین ۔۔۔
میں نے ٹوپے کو مہری کی پھدی کے دانے کے ساتھ مسلتے ھوے کہا ۔۔
جان تھوڑی سی درد تو ہوگی پھر دیکھنا تم خود کہو گی کے سارا اندر کرو۔۔۔
یہ کہتے ھوے میں نے ٹوپے کو اچھی طرح پھدی سے نکلنے والے پانی سے گیال کرلیا تھا ۔
اور ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں رکھ کر ہلکا سا ُپش کیا تو ٹوپا پھدی کے اندر چال گیا ۔۔
مہری کچھ کہنے ھی لگی تھی کہ ٹوپا پھدی کے اندر گھستا محسوس کرتے ھی
او او او او اوئییییییییییی کرنے لگ گئی ۔۔
میں مہری کے اوپر لیٹ گیا اور اسکے بالوں کو سہالتے ھوے اسکی آنکھوں دیکھتے ھوے کہا ۔۔
درد ھوا مہری بولی تھوڑا سا ھوا ھے ۔
میں نے لن کو ہلکا سا اور ُپش کیا تو پھدی کے اندر تھوڑا سا لن گھس گیا مہری نے دونوں ھاتھ میرے سینے پر رکھتے
ھوے آنکھیں بند اور چہرہ اوپر کو کرتے ھوے اووو اووئییییییییی درد ہور ھا ھے یاسسسسررررررر ۔۔
میں نے لن اتنا ھی اندر رہنے دیا اور مہری کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا کچھ دیر بعد میں نے مہری کے ہونٹوں سے اپنے
ہونٹ ہٹاے اور بوال ۔
جان اب تو درد نہیں ھو رھا ۔۔
مہری بولی اب کم ھوگیا ھے ۔۔۔
میں نے پھر ہلکا سا لن کو ُپش کیا تو آدھا لن مہری کی پھدی میں اتر گیا اور مہری کی پھدی نے میرے آدھے لن کو اپنی
گرفت میں بھینچ لیا مہری کی پھدی گیلی ھونے کے باوجود بہت ٹائٹ تھی ۔۔
جیسے ھی لن آدھا آندر گھسا ۔۔
مہری نے میرے سینے سے ہاتھ ہٹاے اور میرے کندھوں کو ذور سے پکڑا اور پوری آنکھیں کھول کر
ہائیییییییییی کیا اور با بس بس بس بس بس اس سے ذیادہ نہیں ۔
کہنے لگ گئی ۔۔
میں نے کہا ۔۔
جان برداشت کرو بس کچھ ھی دیر میں تمہیں مزہ انے لگ جاے گا ۔۔
مہری درد سے سر دائیں بائیں مارتے ھوے بولی نہیں یاسرررر بہتتتت درد ھورھا ھے پلیز ہلنا نہ ۔۔۔
میں نے کہا اچھا جان نہیں
.نہیں ہلتا ۔
تم اپنے آپ کو نارمل کرو کچھ بھی نہیں ہوتا بس ایک دفعہ سارا اندر لے لو ۔۔
پھر درد نہیں ھوگا ۔۔۔
مہری بولی یاسررررر مجھ سے اتنا بھی برداشت نہیں ھورھا ۔۔۔
میں آدھا لن ھی اندر کیے ھوے رکا رھا ۔۔۔
مہری بلکل ساکت لیٹی ھوئی تھی اور اففففففف اففففففف ہااااااااا کررھی تھی ۔۔
کچھ دیر اسی حالت میں میں مہری کے اوپر لیٹا رھا ۔۔
اور جب میری نارمل ہوئی تو میں نے کہا ۔
جان اب درد کم ھوا ۔۔
مہری نے اثبات میں سر ہالیا ۔۔
تو میں نے کہا جان ایک ھی دفعہ سارا کردوں ۔
بس ہلکی سی درد ھوگی ۔۔۔
مہری بولی یاسر مجھے کچھ ھو نہ جاے ۔
میں نے مہری کے ہونٹوں کو چوما اور بوال
جان مجھ پر بھروسا رکھو ۔۔۔
مہری بولی یاسر میرے ساتھ لگ جاو اور مجھے کس کر اپنی بانہوں میں لے لو۔۔
میں نے مہری کی کمر کے نیچے دونوں بازوں ڈالے اور مہری نے میری کمر کے گرد بازوں جا احصار باندھ لیا ۔
)Update no (145
میں نے مہری کے یونٹوں پر ہونٹ رکھے اور اسکا اوپر واال یونٹ منہ ڈاال اور مہری نے میرا نیچے واال ہونٹ منہ ڈاال ۔
اور ہم دونوں ایک دوسرے کے یونٹ چوسنے لگ گئیے ۔
مہری کا دھیان اب کسنگ کی طرف ھوچکا تھا اور وہ مزے سے کسنگ کری جارھی تھی اور ساتھ ساتھ نیچے سے آہستہ
آہستہ گانڈ اٹھا کر لن اندر باہر کرنے لگ گئی ۔۔
میں نے لوھا گرم دیکھا تو مہری کے ہونٹ کو منہ کے اندر کھینچا اور ساتھ ھی ہلکے جاندار گھسے سے سارا لن پھدی کی
گہرائی میں اتار دیا ۔۔
مہری کی آنکھیں پھٹی اسکی چیخ کو میں نے اپنے منہ کے اندر ھی سما لیا ۔
مہری نے میری کمر پر اپنے نوکیلے ناخن گاڑھ دیے ۔۔
اور سر ادھر ادھر کرتے ھوے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کی قید سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
مہری کا ریکشن اسکی تکلیف کی گواہی دے رھا تھا ۔۔
مہری کی انکھیں نم ہونا شروع ھوگئیں ۔۔
میں گھسا مار کر مہری کو اپنے بازوں میں جکڑے اپنے جسم کے ساتھ چپکاے مہری کے اوپر لیٹا ھوا تھا ۔۔۔
میرے لن کو مہری کی گرم پھدی نے بری طرح جکڑا ھوا تھا ۔
ماہی کی پھدی اتنی گرم تھی کہ مجھے لگ رھا تھا کہ بس میں ابھی فارغ ہوجاوں گا ۔۔۔
ویسے بھی پھدی مارے مجھے کافی دن ھوگئے تھے ۔۔
مگر پھر بھی اپنا دھیان ادھر ادھر بھٹکا کر خود پر کنٹرول کرنے میں کافی کامیاب ھو چکا تھا ۔۔۔
آخر کچھ ھی دیر میں لن نے پھدی کی ساری گرمی اپنے اندر سمو لی اور لن بھی اب ریلکس ھوکر پھدی کے اندر پھنسا ھوا
تھا مزید
کچھ دیر بعد مہری نارمل ہوئی ۔۔
اور مجھے گھورتے ھوے بولی ۔۔
بہت گندے ھو تم یاسر ایسے بھی کوئی کرتا ھے کیا ۔
میری جان نکال کے رکھ دی ۔۔
میں نے مہری کی گالوں کو چومتے ھوے کہا ۔۔جان بس جتنی درد ھونی تھی ھوگی اب مزے ھی مزے ہیں ۔۔۔
مہری منہ بسورتے ھوے بولی مجھے نہیں لینا ایسا مزہ ۔۔
میں نے کہا جان کچھ دیر رکو تو سہی اب ھی تو اصل مزے شروع ھونے ھے ۔۔۔۔
مہری میری بات سن کر خاموش ھوگئی ۔۔
میں نے کہا جان اب درد تو نہیں ھے ۔
مہری بولی جلن ھورھی ھے درد تو ختم ھوگی ۔
میں نے کہا بس اب یہ بھی ختم ھوجاے گی اور اسکے ساتھ ھی
میں نے آہستہ آہستہ گھسے مارنے شروع کردیے ۔۔
مہری اوہہہہہہ آہہ اہ آہ ۔
آرام سے آہ آہ آہ آہ ۔
کرنے لگ گئی ۔
میرے گھسوں کی سپیڈ آہستہ آہستہ سے تیز ہونا شروع ھوگئی اور میں نے مہری کے کمر کے گرد سے بازو بھی نکال لیے
اور اس کے اوپر سے اٹھ کر گھٹنوں کے بل ھوگیا اور مہری کی ٹانگوں کو پکڑ کر تھوڑا اوپر کر کے گھسے مارنے لگ
گیا ۔۔
مہری اب لن کا مزہ لیتے ھوے سسکیاں بھرنے لگ گئی ۔۔
میں نے بھی گھسے مارنا تیز کردیے مہری کی پھدی اب کافی گیلی ہو چکی تھی جس کی وجہ سے لن آسانی سے اندر باہر
ھورھا تھا پھدی کی ٹائٹنس بھی کم ہوگئی تھی ۔
میرے گھسوں سے مہری کے ہلتے ممے اور اسکی سسکاریاں میرے اندر مذید جوش پیدا کیے جارھیں تھی ۔۔
اچانک مہری کا جسم اکڑنا شروع ھوا اور ساتھ ھی مہری کی انکھیں بند ھوگئیں اور مہری پر خمار چھا گیا اور وہ خماری
میں yes yes yeses fuck me fuck me fast pass fast love u love u love u fuck fuck fuck
کرتے ھوے ایک دم کانپنے لگی اور مہری کی پھدی نے ایک بار پھر میرے لن کو شکنجے میں لیا اور مہری نے گانڈ کو
اٹھا کر لن کو جڑ تک اندر لیا اور پھر میرے لن کے ٹوپے پر مہری کی پھدی کے اندر منی کی دھاریں گرنے لگ گئی ۔۔
مہری فل مستی میں چہرہ چھت کی طرف سے پیچھے کو لے گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی میں رک کر مہری
کی طرف دیکھتے ھوے اس کے فارغ ہونے کا انجواے کرنے لگ گیا۔
جب مہری ٹھنڈی ہوئی تو آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگ گئی میں نے مسکرا کر کہا ۔مزہ آیا۔۔
مہری بولی مجھے نہیں پتہ اور ساتھ ھی دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا ۔۔
میں اسکی معصومیت دیکھ کر مسکرایا اور پھر اسکی ٹانگوں کو کندھوں پر رکھا اور گیلی پھدی میں ھی گھسے مارنے لگ
گیا ۔
.اور چند گھسوں کے بعد ھی میرے لن کی نسیں پھولنا شروع ہوئیں اور میں نے آخری جاندار گھسا مارا جس سے مہری کا
سارا جسم ہال اور مہری نے ھاےےےےےےےےے کیا اور میں نے جھٹکے سے لن باھر نکاال اور مہری کے پیٹ کی
طرف لن کا منہ کردیا ۔
میرے لن سے پہلی پچکاری مہری کے مموں پر پڑی اور پھر پچکاریاں مموں سے پیچھے آتی ہوئی مہری کی پھدی پر رکیں
اور لن سے قطرے نکل نکل کر مہری کی پھدی پر گرنے لگ گئے ۔۔
مہری بھی بڑے غور سے لن سے منی نکلتی دیکھ رھی تھی ۔۔
جیسے ھی لن خالی ھوا تو میں نڈھال ھوکر مہری کے ساتھ بیڈ پر گر پڑا ۔۔۔
اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا۔۔۔
مہری جلدی سے اٹھی اور ننگی ھی واش روم کی طرف بھاگ گئی ۔۔
میں مہری کی ہلتی ھوئی تھرتھراتی گانڈ کو پیچھے سے دیکھنے لگ گیا ۔۔۔
اور مہری میری نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔
میں ٹھنڈی اہہہہہہہہ بھر کر آنکھیں موند کر ٹانگ پر ٹانگ رکھے لیٹ گیا ۔۔۔
کافی دیر بعد مہری نے میری ٹانگ کو ہالتے ھوے مجھے آوازدی کہ یاسرررررمیں نے آنکھوں سے بازو ہٹایا اور مہری
کی طرف دیکھا جو نہا کر کپڑے پہنے گیلے بالوں کو کندھوں پر پھیالے کھڑی مسکرا رھی تھی ۔
مجھے آنکھیں کھولتے دیکھ کر مہری بڑی ادا سے گیلے بالوں کو ہاتھوں سے جھٹکتے ھوے بولی ۔
سوگئے تھے ۔۔
میں نفی میں سر ہالتے ھوے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔
تو مہری بولی اٹھو نہا کر کپڑے پہن لو میں اتنی دیر چاے بناتی ھوں ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور کپڑے پکڑ کر واش روم کی طرف چل دیا ۔۔
کچھ دیر بعد نہا کر کپڑے پہن کر میں کمرے میں آگیا تو مہری چاے لیے ھوے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔
اور بیڈ پر ھی چاے کی ٹرے رکھ دی ۔۔
میں نے چاے کا کپ اٹھایا اور چسکیاں لیتے ھوے مہری کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔
مہری بولی ۔۔
یاسر دکان کیوں بدل لی ۔۔
میں نے مسکرا کر کہا جناب وہ میری اپنی دکان ھے میں نے اب اپنا کام شروع کرلیا ھے ۔۔
مہری بولی واوووووو گڈ یار کب شروع کی دکان ۔۔
میں نے کہا پندرہ بیس دن ھی ھوے ہیں ۔۔
مہری بولی ۔
مبارک ھو یار بہت خوشی ھوئی مجھے بہت اچھی دکان بنائی ھے ۔۔
اتنی اچھی سیٹنگ تو مما کی بوتیک کی بھی نہیں ھے ۔
میں نے شکریہ ادا کیا ۔
اور پھر میں نے مہری سے اسد کا پوچھا کہ وہ الہور کیا کرنے گیا ھے ۔۔۔
مہری ایکدم سنجیدہ ھوگئی ۔۔
میں نے مہری کو پریشان دیکھ کر کہا کیا ہوا مہری پریشان کیوں ھوگئی ھو۔۔۔
مہری بولی کچھ نہیں بس ایسے ھی ۔۔۔
میں کھسک کر مہری کے قریب ھوا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر دباتے ھوے بوال ۔
مہری کچھ تو ھے جو تم مجھ سے چھپا رھی ھو ۔۔
مہری سر جھکا کر بیٹھی ھوئی تھی اچانک مہری کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے ۔۔۔
)Update no (146
میں مہری کی حالت دیکھ کر پریشان ھوگیا اور چاے ہکڑے کھڑا ھوا اور کپ کو بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ۔
مہری کے پاس بیٹھتے ھوے اسکی گالوں کو پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کر کے اپنی طرف کیا تو مہری انکھیں بند کیے ھی
روے جارھی تھی ۔
میں نے اسکی گالوں کو ہالتے ھوے کہا ۔
مہریییییی ۔
میری نے پلکوں کو اٹھایا تو اسکی بھیگی سرخ آنکھیں بہت سے سوال پیدا کررھیں تھی ۔۔
میں نے کہا مہری یار کیا ھوا اسد کو ایسا کیا ھے جو مجھ اے تم چھپا رھی ھو ۔۔
مہری بولی یاسر ہم اسد کی وجہ سے بہت مشکل میں پھنسے ھوے ہیں ۔۔۔
میں نے کہا ہوا کیا ھے یار کچھ بتاو گی بھی ۔۔۔۔۔۔
مہری اپنے انسوں صاف کرتی ھوئی بولی ۔۔۔
یاسر اسد غلط سوسائٹی میں بیٹھنے لگ گیا تھا ۔
اور کوئی اکری نامی بدمعاش کے ڈیرے پر دن رات رہتا تھا ۔
اور ہر وقت نشے کی حالت میں رہتا تھا شراب پی کر گھر آتا اور آکر مما کے ساتھ بتمیزی کرتا تو کبھی مجھے مارتا
کہ اچانک اسکے دوست اکری کے ڈیرے پر اسکے کسی دشمن نے حملہ کیا اور کافی فائرنگ ہوئی ۔۔
جس میں اکری کے اور مخالف پارٹی کی بندے مرے ۔
اور اس دن سے اسد ۔۔۔۔۔۔۔
مہری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔۔۔
میں نے کہا کیا اس دن سے مطلب کیا ھے اسد کہاں ھے ۔۔
مہری میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھتے ھوے روتے ھوے نفی میں سر ہالتے ھوے بولی پتہ نہیں کدھر گیا
ھے ۔۔
نہ اسکا کوئی پتہ ھے نہ ھی اسکے دوست اکری کا ۔۔۔
میں نے کہا ۔
تم لوگوں نے پتہ نہیں کروایا ۔۔۔
.مہری بولی ۔۔ہمیں تو پتہ ھی نہیں تھا وہ تو پولیس ہمارے گھر ائی تھی اسد کو تالش کرنے تو تب ہمیں ساری صورتحال کا
پتہ چال مما نے بہت کوشش کی مگر ان دونوں کا کوئی پتہ نہیں ۔۔۔
پولیس بھی ان دونوں کو تالش کررھی ھے ۔۔
انپر قتل کا کیس ھے ۔۔۔
اور جن کے بندے مرے ہیں وہ بھی بہت بڑے بدمعاش ہیں ۔۔۔
انکے بندے بھی ہمارے گھر آے تھے ۔۔۔
اور مما کو دھمکیاں دے کر گئے تھے کہ ۔
اسد کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔
میں نے کہا یار اتنا کچھ ھوگیا اور مجھے تم نے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔
مہری بولی کیسے بتاتی ۔۔
میں تو ایک مہینہ گھر سے ھی نہیں نکلی ۔۔۔
میں نے تو چار پانچ دن پہلے کالج جانا شروع کیا ھے وہ بھی میرے فائنل ائیر کے پیر ھورھے ہیں اور پھر میں نے کالج
بھی نہیں جایا کرنا ۔۔
میں تو چھپ کر کالج جاتی ھوں ۔۔۔
میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔
میں نے کچھ دیر بعد کہا۔
اسد کہاں ھے ۔۔ اور یہ کب ھوا سب ۔
مہری بولی ایک مہینہ سے اوپر ھوگیا ھے ۔
اور اسد کا کسی کو بھی علم نہیں اور اس کنجر بےغیرت کتے اکری کا بھی کوئی پتہ نہیں ۔۔۔
میں نے کہا ۔
لڑائی کس وجہ سے ہوئی تھی ۔
مہری بولی مجھے جہاں تک علم ھے کسی لڑکی کا چکر تھا ۔۔
اور وہ لڑکی شہر کے کسی ایم پی اے کی بیٹی تھی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی یا پتہ نہی .کچھ اور تھا ۔۔
اصل بات کا مما کو پتہ ھے ۔
میں نے مما سے بہت پوچھا مگر مما نے مجھے ٹال مٹول کردیا۔۔۔
میں نے کہا ۔
جن کی لڑکی تھی وہ لوگ دوبارہ تمہارے گھر نہیں آے ۔۔
مہری روتے ھوے بولی ۔
وہ تو مجھے اٹھا کر لیجانے کے لیے آے تھے ۔
مگر مما کے کوئی تعلق والے ہیں جن کا تعلق اس ایم پی اے کے ساتھ تھا ۔
انہوں نے بیچ میں پڑ کر ہماری جان بخشوائی مگر انہوں نے اسد کو معافی نہیں دی اور مما کے جو تعلق والے تھے انہوں
نے ایک ہفتہ پہلے ہمیں گارنٹی دی کہ تم بے فکر ھوکر جدھر مرضی جاو تم ماں بیٹی کی طرف وہ لوگ آنکھ اٹھا کر بھی
نہیں دیکھیں گےط۔
مگر اسد کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اگر آپ لوگوں کا اس سے رابطہ ھو بھی تو اسکو کہنا اس شہر میں بھول کر
بھی قدم نہ رکھے ۔۔۔
مہری پھدی بلک بلک کر رونے لگ گئی ۔۔۔
میں حیران پریشان بیٹھا اس ساری فلم کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ ۔۔
یہ کیا ھوگیا ۔۔
بدلہ تو میں نے لینا تھا مگر یہ کیا ھوا سارا کام ھی خراب ھوگیا ۔۔۔
میں کچھ دیر مذید بیٹھا مہری کو دالسا دیتا رھا اور پھر آنے کا کہہ کر نکلنے لگا تو مہری بولی یاسر مما کو نہ بتانا کہ تم
گھر آے تھے یا تمہیں اسد کے بارے میں علم ھے کہ اسکے ساتھ کیا ھوا ھے ۔۔۔
میں نے ہممممم کیا اور مہری کو بے فکر رہنے کا کہہ کر مہری سے ہگ کیا اور اس کے یونٹوں پر لمبی کس کی اور گھر
سے نکل کر دکان پر پہنچا تو دکان پر رش لگا ھوا تھا اور جنید بےچارا اکیال ھی پھنسا ھوا تھا مجھے دیکھ کر جیند مجھ پر
برس پڑا کہ پتہ بھی ھے میں اکیال ھوں مگر تم الپرواہ ھوکر دکان سے غائب ھو۔۔۔
میں نے سوری کیا اور کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا ۔
.مجھے دیکھ کر جیند مجھ پر برس پڑا کہ پتہ بھی ھے میں اکیال ھوں مگر تم الپرواہ ھوکر دکان سے غائب ھو۔۔۔
میں نے سوری کیا اور کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا ۔۔
کام میں مصروفیت کی وجہ سے پتہ ھی نہیں چال کہ کب شام ڈھل گئی ۔
جب سب کسٹمر چلے گئے تو میں کاونٹر پر آکر چئیر پر بیٹھ گیا ۔
جنید میرے پاس آیا اور بوال کدھر گئے تھے اور وہ لڑکی کون تھی ۔
میں نے کہا یار ایسی بات نہیں ھے جیسا تم سوچ رھے ھو وہ میرے دوست کی بہن تھی ۔
جنید بوال ماما مینوں ُپھدو نہ بنا ۔
ایسے تو نہیں وہ تمہارے ساتھ غصے سے بات کررھی تھی میں نے کہا یار سچی ایسی بات نہیں ھے جیسا تم سوچ رھے
ھو
جنید بوال تو پھر سچی بات کیا ھے اتنی دیر کہاں لگا کر آے ھو ۔
مًیں نے کہا یار بریک تے پیر رکھ دسنا ایں سب ۔۔۔
تو جنید بوال چلو رکھ دیا پیر بریک پر ۔
اب بولو ۔۔
میں نے کہا یار پہلے یہ بتا کہ اس دن جو تم کہہ رھے تھے کہ اکری بدمعاش کی بہن کے ساتھ تمہارا چکر چل رھا ھے.
کیا واقعی تم سچ کہہ رھے ھو ۔۔
جنید بوال ماما اوس کڑی نال اکری دی پین نال میرے چکر دا کی واسطہ ۔۔گل کیوں بدلن دیاں اے سدی طراں کے کہ دسنا نئی
۔۔۔
میں نے جنید کی ٹانگ پر پاوں مارتے ھوے کہا ماما پیلے پوری گل تے سن لے فیر پونکیں ۔۔
جنید بوال ۔
چل دس فیر۔۔
میں نے کہا پہلے بتا کہ تیرا اکری کی بہن کے ساتھ چکر ھے ۔۔
جنید بوال ہاں ھے مگر صرف اکھ مٹکا ھی ھے ابھی بات چیت تک نہیں پہنچا۔۔
میں نے کہا وہ رہتی کہاں ھے مطلب کے اکری کا گھر کدھر ھے اور تیرا اس کے ساتھ کیسے
اکھ مٹکا چال۔۔
جنید بوال یار سیدھی بات کر تو کہنا کیا چاہتا ھے ۔
میں نے کہا یار جنید ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ھے ۔
اور اس مسئلہ میں کتنی سچائی ھے یہ تب پتہ چل سکتا ھے کہ جب مجھے تیرے اور اکری کی بہن کے رلیشن کا تفصیل
سے پتہ ھوگا ۔۔۔
)Update no (147
جنید ایکدم گبھرا گیا ۔
اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ھوے بوال
او پھدی دیا کوئی نواں کٹا تے نئی کھول لیا میں تے ہالے اودا ہتھ پھڑ کے وی نئی ویکھیا۔۔۔۔
میں نے کہا جا اوے لن لینی دیا ۔
تینوں اپنی پے گئی اے ۔۔
میں گل کوئی ہور کرن دیاں ایں ۔۔
جنید بوال ۔
یار تو پھر پوری بات ایک ھی دفعہ بتا دے پہیلیاں کیوں بھجوا رھا ھے ۔۔
میں نے کہا اکری کی بہن کو ملے کتنے دن ھوگئے ہیں تمہیں ۔۔
جنید کرسی سے اٹھتے ھوے اپنے سر کو پیٹتے ھوے بوال ۔
او میرے باپ میں پونک تو رھا ہوں کہ میرا اسکے ساتھ صرف دیکھنے کی حد تک چکر ھے اور تو ملنے مالنے کی بھی
بات کری جارھے ھو ۔
میں نے جنید کی حالت کو نظر انداز کرتے ھوے کہا ۔
چل یہ ھی بتا کہ اسے دیکھے کتنے دن ہوگئے ہیں ۔
جنید بوال اسے دیکھے تو تین چار مہینے ھوگئے ہیں ۔
میں نے جنید کو گھورتے ھوے کہا ۔
پھدی دیا اے کیڑا چکر اے جیڑا معشوق نوں ویکھے ای تن مہینے ھوگئے نے ۔۔
جنید بوال ۔۔
یار ہمارے ہمسایوں کی شادی تھی تو وہ انکی شادی میں آئئ تھی تو وہاں اسکے ساتھ اکھ مٹکا ھوا ۔
پھر اسکے بعد دو تین دفعہ وہ انکے گھر آئی تھی تو بس آنکھوں کے اشارے سے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیتے
تھے ۔۔
.مگر اب کافی دنوں سے وہ انکے گھر نہیں آئی ۔۔۔
میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ کہ وہ اکری کی ھی بہن ھے ۔
جنید بوال میری کزن نے بتایا تھا ۔
ہمارے ہمسایوں کی لڑکی اسکی دوست ھے تو اس وجہ سے اسکا ان کے گھر آنا جانا ھے میں نے کہا یار تم تو دکان پر
ہوتے تھے پھر اسے کیسے دیکھتے تھے ۔۔
جنید بوال ماما میری کزن بتا دیتی تھی کہ اس نے آنا ھے تو میں اس دن دکان سے چھٹی کرلیتا تھا اور میرا ہمسایوں کے گھر
آنا جانا ھے میں بالجھجھک انکے گھر چکا جاتا ھوں تو اسکو دیکھنے کے لیے بہانے سے چال جاتا تھا ۔۔۔
میں نے ہممممم کیا ۔۔
تو جنید بوال اب بتا کیا بات ھے ۔۔
میں نے کہا یار میرا ایک دوست ھے اسکا اکری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ھے اکری کی کسی کے ساتھ لڑائی ھوئی ھے اور کافی
خون خرابہ بھی ھوا ھے ااور میرا دوست بھی اس لڑائی میں ملوث ھے اور اس وقت میرا دوست اور اکری دونوں مفرور ہیں
۔
اور یہ لڑکی میرے دوست کی بہن ھے ۔
اور اس وقت یہ بیچارے بری طرح پھنسے ھوے ہیں ۔
مخالف پارٹی بھی تگڑی ھے اپنا ایم پی اے ھے اکری کے مخالف ۔۔۔
جنید میری بات سن کر پریشان ھوگیا ۔
اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بوال ۔
تو اکری کی بہن کا اس معاملے میں کیا لینا دینا ۔
میں نے کہا یار اس سے یہ پتہ کروانا تھا کہ واقعی یہ بات سچ ھے کہ ایسے مجھے ماموں تو نہیں بنا رھے ۔۔۔
جنید بوال ھوسکتا ھے سچ ھی ھو اسکو کیا ضرورت ھے تم سے جھوٹ بولنے کی ۔
جنید کی بات سن کر میں بھی سوچنے لگ گیا کہ مہری مجھ سے جھوٹ کیوں بولے گی ۔۔۔
خیر میں نے جنید کو کہا کہ کسی طرح پتہ تو کروا اکری کی بہن سے کہ اکری کہاں مفرور ھے ۔
جنید قہقہہ لگا کر ہنسا اور بوال ۔
ماما پہلی بات تو یہ ھے کہ اکری کی بہن سے بات کرنا بہت مشکل ھے اور اگر ایسا ھو بھی جاے تو بھال وہ کیسے سچ
بتانے گی کہ اسکا بھائی کس جگہ گیا ھے ۔۔
میں نے ہممممممم کیا۔۔
اور جنید کو کہا
ویسے گل تے تیری ُسٹن والی نئی
پر
تیرے ُسٹن والی اے ۔۔
پھدی دیا اپنی کزن نوں کہ کے اپنی سیلی نوں کوے کہ اودے کولوں اگلوا لے ساری گل ۔۔
کڑیاں اک دوجے نوں راز دیاں گالں وی دس دیندیاں نے ۔۔
جنید بوال ۔
میں وعدہ نہیں کرتا کوشش کروں گا کہ بات بن جاے باقی ویکھی جاوے گی جو ھوے گا ۔۔۔
.کچھ دیر بعد پھر کسٹمرز کی آمد شروع ہوگئی
رات آٹھ بجے میں نے دکان بند کی ۔۔
ضوفی اب میرے ساتھ دکان بند ہونے کے بعد ھی جاتی تھی ۔
میں نے ضوفی کو بائک پر بیٹھایا اور ضوفی کے گھر کی طرف چل دیے ۔۔۔
ضوفی کام کے بارے میں پوچھتی رہی کہ آج کا دن کیسا رھا ۔۔
میں نے شکر ادا کرتے ھوے کہا کہ بہت اچھا رھا ۔۔۔
باتوں کے دوران ھی ضوفی کا گھر آگیا ۔۔
میں ضوفی کو ڈراپ کر کے آنے لگا تو ضوفی بولی یاسر ۔
کل ماہی کی برتھ ڈے ہے اگر تم آنٹی اور نازی کو لے آو ۔۔۔
میں نے کہا میں وعدہ نہیں کرتا مگر کوشش کروں گا اگر ابو نے اجازت دے دی ۔۔۔
ضوفی بولی ۔۔۔
اگر کہو تو میں تمہارے ساتھ جاکر ابو کو منا لیتی ہوں ۔۔
میں نے کہا۔۔
نننہیں نہیں کیوں مروانا ھے ابو سے ابھی بات نہیں ھوئی تمہارے اور میرے رشتہ کی اور تم یوں میرے ساتھ گئی تو تمہیں
نہیں پتہ کہ ہماری گلی کے لوگوں کے ھی منہ نہیں بند ہونے ۔
اور تمہارے بارے میں کوئی بات کرے گا تو مجھ سے برداشت نہیں ہونا۔۔۔۔
اس لیے میں کوئی نہ کوئی بہانہ مار کر امی اور نازی کو لے آوں گا ۔۔۔
ضوفی بولی ٹھیک ھے جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔
میں نے بائک اسٹارٹ کی اور ۔
گاوں کی طرف چل دیا۔۔۔۔
گھر پہنچا فریش ہونے کے بعد امی سے ماہی کی سالگرہ کی بات کی تو امی نے بھی ابو کے ناراض ہونے کا عذر پیش کیا
۔میں نے بہت کوشش کی کہ امی مان جاے مگر امی نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جب تک تمہارے رشتے کی بات تمہارے ابو
سے نہیں کر لیتی تب تک ان کے ہاں آنا جانا ممکن نہیں
اگر دن کا وقت ہوتا تو شہر جانے کا کوئی بہانہ بنا لیتی مگر رات کا فنکشن ھے ۔
تمہارے ابو نے کسی حال میں بھی اجازت نہیں دینی ۔
تم اکیلے چلے جاو ۔۔
اور ان لوگوں سے میری طرف سے معذرت کر لینا۔۔
)Update no (148
میں نے بھی پھر ذیادہ اصرار نہیں کیا
۔۔
اگلے دن سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ضوفی آنٹی اور ضوفی نے امی لوگوں کا پوچھا کہ رات کو آئیں گے کے نہیں میں نے
امی کی طبیعت خراب ھونے کا بہانہ بنا کر آنٹی سے معذرت کی ضوفی کافی ناراض ھورھی تھی اور مجھے بولی جارھی
تھی کہ تم جان بوجھ کر نہیں لے کر آے وغیرہ وغیرہ ۔۔
میں نے کافی صفائیاں دینے کے بعد اسکو مطمئین کرلیا کچھ دیر بعد میں ضوفی کو ساتھ لے کر دکان پر آیا ۔۔۔
اور ضوفی نیچے پارلر پر چلی گئی اور میں دکان کھولنے میں مصروف ہوگیا ۔
جنید ابھی تک نہیں آیا تھا ۔
میں نے دکان کھولی اور صفائی وغیرہ میں مصروف ھوگیا ۔
کچھ دیر بعد جنید بھی آگیا ۔۔
جنید نے آتے ھی مجھے بتایا کہ میں نے اپنی کزن کو اکری کی معلومات کے بارے میں لگا دیا ھے دو تین دن میں ساری
رپورٹ مل جاے گی ۔۔۔
میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا ۔
اور پھر ہم سیٹنگ وغیرہ میں مصروف ھوگئے۔۔۔
کچھ دیر بعد کسٹمرز کی آمد شروع ھوگئی آدھا دن کام میں ھی گزر گیا ۔
دوپہر کو میں سامنے والی دکان پر گیا اور ان سے کمیٹی ڈالنے کی بات کی تو پتہ چال کہ اگلے مہینے نئی کمیٹی شروع
ھونی ھے ۔
دوستو اصل میں میرا ذہن تھا کہ کمیٹیاں ڈال کر ضوفی کے پیسے جتنی جلدی ہوسکے واپس کردوں ۔
اس لیے میں نے سامنے والے انکل سے بات کی کیوں کے وہ بڑی کمیٹیاں ڈالتے تھے تو میں نے ان سے اپنی ایک کمیٹی
رکھنے کا اڈوانس کہہ دیا کمیٹی ایک ہزار روزانہ کی تھی اور ایک سال کی کمیٹی تھی تین الکھ ساٹھ ہزار کی ۔
میں نے یہ بات بھی سب سے چھپا کر ھی رکھنی تھی کہ میں نے کمیٹی ڈالنی ھے ۔۔۔
خیر سامنے والے انکل سے میں بات پکی کر کے واپس بوتیک پر آیا ۔۔
اورجنید کو کھانا لینے بھیجا اور خود دکان کے اندر ھی بیٹھ کر گالس ڈور سے باہر دیکھنے لگ گیا ۔۔۔
سکول و کالج کی چھٹی کا ٹائم تھا ۔
لڑکیاں گزرنا شروع ھوگئیں ۔۔۔
اور جس بات کو میرا دل مان رھا تھا کہ مہری الزمی آے گی تو وہ ھی ھوا مہری میری دکان کے سامنے رکی اور دکان کی
طرف دیکھتے ھوے اندر داخل ہوئی اور بڑی شوخی سے مجھے سالم کرتے ھوے بولی خیر ھے جناب اندر چُھپ کر بیٹھے
ہیں میں نے کہا بس ایسے ھی کچھ سیٹنگ کرنی تھی ۔۔۔
مہری پوری دکان میں گھوم پھر کر دکان جائزہ لینے لگ گئی اور ورائٹی اور دکان کی سیٹنگ کی تعریفیں کرنے لگ گئی ۔۔
میں نے مہری کو کھانے پینے کا منگوانے کا کیا تو اس نے انکار کردیا اور گھر جانے کا کہا ۔۔۔
آج میں مہری کے دکان میں اتنی دیر بیٹھنے اور یوں اسکے فرینگ ھونے سے گبھرا رھا تھا ۔۔
کہ کہیں ضوفی نہ آجاے ۔۔
اور وہ کیا سوچے گی ۔
کیوں کہ مہری کالج یونیفارم میں تھی اس لیے اسکو شک پڑ جانا تھا ۔
اب میں مہری کو جانے کا بھی نہیں کہہ سکتا تھا ۔۔۔
کچھ دیر بعد مہری بولی اچھا میں چلتی ھوں یاسر ۔۔۔
میں نے جلدی سے کہا ۔
مہری میں چھوڑ آوں ۔۔۔۔
میں نے تو یہ اوپر سے ھی مہری کو کہا تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں ۔
کہ مہری کہے گی کہ میں خود ھی چلی جاوں گی ۔۔
مگر سارا معاملہ ھی الٹ ھوگیا۔
مہری بولی ۔
اگر جناب کی دکانداری ڈسٹرب نہیں ھوتی تو چھوڑ آو۔۔۔
.میں دل ھی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگ گیا ۔۔۔
میں نے کہا اچھا تم بیٹھو لڑکا کھانا لینے گیا ھے وہ آتا ھے تو چلتے ہیں ۔
مہری بولی کتنی دیر تک آے گا میں نے کہا بس کچھ ھی دیر میں آجاے گا ۔۔۔
مہری بولی مجھے ایسے ادھر بیٹھنا مناسب نہیں لگتا ۔
دیکھنے والے کیا سوچیں گے ۔۔۔
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا ۔
کہ اچھا تو تم ایسا کرو آہستہ آہستہ چلتی جاو جیسے ھی لڑکا آیا میں اسی وقت آجاوں گا ۔۔۔
مہری بولی ٹھیک ھے میں کچھ آگے جاکر تمہارا انتظار کروں گی ۔۔
میں نے اوکے کہا ۔۔
تو مہری دکان سے نکل کر گھر کی طرف چلی گئی ۔
اور میں نے ایک لمبا سانس بھر کر چھوڑا ۔۔۔۔
کہ جنید کے آنے سے پہلے ھی مہری چلی گئی ورنہ سالے نے پھر پوچھ پوچھ میری مت مار دینی تھی ۔۔۔
مہری کے جانے کے کچھ ھی دیر بعد جنید کھانا لے کر آگیا ۔۔۔
میں اب سوچنے لگ گیا کہ اسکو اب کیا بہانہ بناوں ۔۔۔۔
پھر میں نے حوصلہ کیا اور جنید کو کہا یار میں ایک منٹ میں آیا ۔۔
جنید بوال یار اب کس دوست کی بہن کا دکھ سننے جا رھے ھو۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔
گانڈو میں ایڈا ویال وی نئی ۔
جنید بھی میرے ھی انداز میں بوال
تے ایڈا مصروف وی نئی ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا اچھا یار میں ابھی آیا ۔
جنید بوال
روٹی کھا لواں کہ اتنظار کراں ۔
میں نے کہا کھا لینا یار ۔۔
اور جنید کی بات سنے بغیر میں باہر نکال اور بائک سٹارٹ کر کے مہری کے گھر کی طرف بھگا دی ۔۔
کچھ آگے جاکر گلی کے نکڑ پر مہری کھڑی مجھے آتا دیکھ رھی تھی میری بھی نظر اس پر پڑ گئی تھی ۔
میں نے مہری کے پاس جاکر بریک لگائی اور مہری جلدی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے بیٹھ گئی ۔۔۔
میں نے جھتکے سے بائک آگے بڑھا کر ہلکی سے بریک لگائی تو مہری بریک لگنے کی وجہ سے آگے کو کھسک کر
میری کمر کے ساتھ لگ گئی مہری کا مما مجھے اپنی کمر پر محسوس ھورھا تھا ۔۔
مہری میرے کندھے پر تھپڑ مارتے ھوے بولی ۔
انسان بنو ۔
مجھے گرا نہ دینا ۔۔۔
میں نے کہا اگر ذیادہ ڈر لگ رھا ھے تو جپھی ڈال لو ۔۔۔
)Update no (149
مہری نے ایک ھاتھ سے میرے کندھے کو پکڑا ھوا تھا تو اس نے میرے کندھے پر چٹکی کاٹی اور بولی ۔
کل کا جی نہیں بھرا جپھیاں ڈال ڈال کر جو اب کسر رہتی ھے ۔۔۔
میں نے کہا سونے وہ والی جپھی نہیں میں دوسری جپھی یعنی کس کر پکڑنے کا کہہ رھا ھوں ۔
وہ جپھی تو گھر جاکر ڈالوں گا ۔۔
مہری بولی ۔۔
ہممممممم تو اسی لیے مجھے چھوڑنے آے ھو ۔۔۔
میں نے کیا نہیں یار اب تم میرے ہوتے ھوے پیدل جاو تو یہ مناسب تو نہیں ۔۔۔
.اچانک میرے زہن میں آیا کہ انکے پاس تو کار بھی تھی وہ کدھر گئی ۔۔
میں نے مہری سے پوچھ ھی لیا کہ یار اسد کی کار کدھر گئی ۔
کیوں کہ کل میں نے گیراج میں کھڑی نہیں دیکھی تھی ۔
مہری بولی ۔
وہ کار اسد کی نہیں اکری کی تھی ۔
مگر رہتی اسد کے پاس ھی تھی ۔
جھگڑے کے وقت کار بھی ادھر انکے ڈیرے پر ھی تھی ۔
پتہ نہیں کیا بنا کار کا ۔
مجھے تو باس اپنے بھائی کی فکر ھے ۔
دفعہ ھوں کاریں ۔۔
بس میرا بھائی واپس آجاے۔۔
میں ہونٹوں کو بھینچتا ھوا اپنے آپ سے ھی مخاطب ہوا اسکو واپس آنا پڑے گا جیسے بھی ۔۔
مہری بولی کیا کہا۔۔
میں نے چونکتے ھوے کہا ۔
کچھ نہیں مجھے بھی بہت شدت سے اسد کا انتظار ھے ۔
پتہ نہیں بیچارہ کس حال میں ھوگا ۔۔
مزید کوئی بات ھوتی کہ مہری کا گھر آگیا ۔۔
مہری کے گھر کے سامنے بریک لگائی ۔۔تو مہری اترتے ھوے بولی آجاو اندر یاسر ۔۔
مہری کے مموں کا لمس اور یونیفارم میں اسکا سیکسی فگر دیکھتے ھی ۔
مجھے دکان بھول گئی ۔۔
میں نے کنفرم کرنے کے لیے مہری سے اس کی مما کا پوچھا تو مہری بولی مما تو رات کو ھی آتی ھے بوتیک سے ۔۔۔
اور یہ کہتے ھوے مہری گیٹ کی طرف بڑھی اور الک کھول کر اندر داخل ھوئی میں ابھی سوچ ھی رھا تھا کہ اندر جاوں
کہ نہ جاوں ۔
کہ مہری نے مین گیٹ کھول دیا ۔
میں گیٹ کھال دیکھ کر سب سوچوں کو ایک طرف رکھتے ھوے گیئر لگایا اور ہینڈل گیٹ کی طرف گھما کر کلچ چھوڑتے
ھوے بائک اندر لے گیا۔۔۔
بائک اندر جاتے ھی مہری نے گیٹ بند کیا اور الک کر کے میرے پاس سے گزرتے ھوے ۔
میری کمر پر چٹکی کاٹ کر گول مٹول گانڈ مٹکاتے اندر چلی گئی اور میں سییییی کر کے بائک کا سٹینڈ لگاتے ھوے بائک
سے اترا اور مہری کے پیچھے چل پڑا۔۔
مہری سیدھی کمرے میں چلی گئی میں بھی اسکی تقلید میں چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا ۔
مہری نے بیگ کندھے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر آج شلوار قمیض کیوں پہنی
ھے پینٹ شرٹ تمہیں زیادہ اچھی لگتی ھے میں نے کہا بس کبھی پینٹ شرٹ پہن لیتا ھوں تو کبھی شلوار قمیض مہری نے
ہمممم کیا اور پھر بولی میں ابھی آئی تم بیٹھو یہ کہہ کر مہری باہر چلی گئی میں بیڈ پر بیٹھا کمرے کا جائزہ لینے لگ گیا ۔۔
اور چاروں طرف دیکھتے ھوے سوچنے لگ گیا کہ اگر مہری کو چودتے ھوے ویڈیو بنائی جاے تو کیمرہ کس جگہ چھپایا
جاے کہ پورا بیڈ کیمرے میں آجاے مگر کمرے کی سیٹنگ ھی ایسی تھی کہ کہیں بھی مجھے وہ جگہ نظر نہ آئی جہاں سے
کیمرہ مہری کی نظر میں آے بغیر رکاڈنگ کرے ۔۔
کچھ سوچتے ھوے میں نے اس پالن کو کوئی اور رنگ دینے کا سوچا اور مہری کے آنے کا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔
کچھ دیر بعد مہری ہلکے پنک کلر کے سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کی ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ھوئی۔۔
مہری نے فٹنگ میں بلکل شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی اور شفون کا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر مموں کے اوپر کیا ھوا تھا
۔۔
.اور گولڈن کلر کے سلکی بال جو اسکے کندھوں سے تھوڑا سا نیچے تھے انکو کچھ اپنے آگے اور کچھ پیچھے کیے ھوے
بڑی ادا سے چلی آرھی تھی
مہری پر پنک کلر بہت ھی جچ رھا تھا ۔۔
میں نے مہری کی طرف غور سے دیکھتے ھوے تعریفی کلمات کہے ۔۔
مہری کے گالبی ہونٹوں پر مسکان آئی اور مہری بڑی ادا سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی اچھا جی ۔۔۔
میں نے کہا
خوبصورت چیز کو دیکھ کر تعریف خود با خود منہ سے نکل جاتی ھے ۔۔
مہری ٹرے میرے سامنے کرتے ھوے بولی ۔
تعریف تو ایسے کررھے ھو جیسے پہلی دفعہ دیکھا ھے ۔
میں ٹرے سے گالس اٹھاتے ھوے بوال ۔۔
مہری تم ہو ہی اتنی خوبصورت کہ تمہیں جب بھی دیکھوں تو ایسے لگتا ھے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رھا ھوں ۔۔
میرا تو دل کرتا ھے کہ تم ہر وقت میرے سامنے ھو ۔۔
کسی فلمی ایکٹر کی طرح تمہارا فگر ھے ۔
مہری میرے پاس بیٹھتے ھوے بولی ۔
اچھا جی
میں نے کہا ھاں جی ۔
مہری میرے کندھے پر کہنی رکھتے ھوے بولی ۔
ذرہ بتانا پسند کرو گے کہ کون سی ایکٹر کے جیسی لگتی ھو۔۔
میں نے مہری کی طرف غور سے دیکھا اور اسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر اسکے نچلے گالبی ہونٹ پر انگوٹھا پھیرتے ھوے
بوال ۔
مادھوری ڈکشٹ کی طرح تمہارے ہونٹ اور تمہاری مسکان ھے ۔
مہری تعریف سن کر مذید شوخی میں بولی ۔
اور تم شاہ رخ ھو ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔
تو پھر ہماری بھی ایک فلم بننی چاہیے ۔۔
مہری ہنستے ھوے بولی اور فلم بننے سے پہلے ھی فالپ ھوجاے ۔۔۔
میں نے ڈرنک ختم کر کے گالس رکھتے ھوے ۔
)Update no (150
مہری کی کمر میں ھاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگاتے ھوے کہا ۔
ہماری فلم لوگوں کے دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ ہم دونوں کے ھی دیکھنے کے لیے بنے گی ۔۔۔
مہری بولی اسکا کیا فائدہ ۔۔
میں نے مہری کی گردن پر ہونٹ رکھتے ھوے کہا ۔
اسکا یہ فائدہ ھوگا کہ ہماری مالقات کی یادیں ویڈیو میں قید ھوجائیں گی جب بھی ان یادوں کو تازہ کرنے کا دل کیا تو ویڈیو
دیکھ لیا کریں گے ۔۔۔
مہری سیییییییییی کرتے ھوے بولی ۔۔
بس بس بس تم تو پکے ھی ھوگئے ۔۔۔
میں نے کہا ۔
تو میں کب مزاق کررھا ھوں ۔۔
مہری میری طرف غور سے دیکھتے ھوے بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولی ۔۔
اسکا مطلب ھے کہ تم سچ میں اپنی ویڈیو بنانے کی بات کررھے ھو ۔
میں نے کہا ھاں جان ۔
کیوں تمہیں شوق نہیں کہ ہماری ہر مالقات یادگاری کے طور پر ہمیشہ ہمارے پاس رھے ۔۔۔
مہری ہنستے ھوے کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوے بولی
توبہ توبہ کیوں بدنام کرنے کا پالن بنا رھے ھو ۔
میں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ھوے کہا۔
کیا مطلب مہری ۔۔
.میری بولی کہ مطلب صاف ھے کہ اگر کسی نے ویڈیو دیکھ لی تو سوچو پھر میری کتنی بدنامی ہوگی ۔۔۔
میں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ھوے مہری کو کہا ۔
بہت دکھ ھوا مہری تمہاری بات سن کر تم نے مجھے اتنا گھٹیا سمجھ لیا کہ میں تمہیں بدنام کروں گا ۔
تمہاری ویڈیو لوگوں کو دیکھاتا پھروں گا ۔۔
مہری میں نے تو صرف اپنی مالقاتوں کو یادگار بنانے کے لیے اپنے دل کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور تم تم تم ۔۔۔
میں یہ کہتے ھوے اٹھ کھڑا ھوا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔
میرا تیر بلکل نشانے پر لگا ۔۔
اور مہری بھاگتی ھوئی میرے پیچھے آئی اور میرا
ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر مجھ روک کر بولی ۔۔۔
یاسر بات تو سنو ۔
میں نے کہا نہیں مہری جب تم کو مجھ پر بھروسہ ھی نہیں تو پھر میرا یہاں رکنا بیکار ھے ایسے میری وجہ سے تم بدنام
ھوگی ۔۔
مہری چند قدم آگے بڑھی اور میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی ۔
یاسر میری بات کا تم نے الٹ مطلب لے لیا ۔۔میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم مجھے بدنام کرو گے یا تم میری ویڈیو کسی کو
دیکھاو گے ۔۔۔
میں تو یہ کہنا چاہ رھی تھی کہ اگر کسی نے ویڈیو دیکھ لی یا کسی کے ہاتھ لگ گئی تو ہم دونوں کی بدنامی ھے ۔۔
میں نے کہا چھوڑو مہری تم نے تو میرا دل ھی توڑ کر رکھ دیا ۔
میں تو ویسے ھی بات کررھا تھا میں کون سا کیمرہ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا ۔۔۔
تم میرا دل رکھنے کے لیے ھی کہہ دیتی ۔۔۔۔
مہری بولی ۔۔
یاسر تمہاری قسم تم پر مجھے پورا بھروسہ ھے میرا سب کچھ تو تم نے دیکھ لیا ایک لڑکی کے پاس سب سے قیمتی چیز
اسکی عزت عصمت ھی ھوتی ھے جب وہ ھی تمہیں دے چکی ھوں تو میرے پاس بچا ھی کیا ھے جو میں تم پر بھروسہ نہ
کروں تم پر بھروسہ تھا تو تمہیں اپنے قریب آنے دیا اور سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ھوے مہری چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر
گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتے ھوے رونے لگ پڑی ۔۔۔
میں کچھ دیر کھڑا مہری کو دیکھتا رھا ۔۔
اور پھر آگے بڑھ کر مہری کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اسکے ہاتھوں کو پکڑ کر اسکے چہرے سے ہٹایا اور مہری
کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے مہری کی کمر کو سہالنے لگا ۔۔۔۔
مہری کچھ دیر میرے سینے کے ساتھ لگی روتی رھی اور پھر مجھ سے الگ ہوئی اور ۔۔۔
میرا ہاتھ پکڑ کردوسرے ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتی ھوئی ۔
بیڈ کی طرف لیجانے لگی ۔
.میں خاموشی سے اسکے ساتھ چلتا ھوا بیڈ کے قریب پہنچا ۔
مہری نے میرے دونوں بازوں کو پکڑا اور مجھے بیڈ پر بیٹھاتے ھوے بولی ادھر بیٹھو یاسر ۔۔
میں مہری کی طرف دیکھتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔
مہری میرے بازو چھوڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل گئی ۔۔
میں حیرانگی سے اسے جاتا دیکھتا رھا اور سوچنے لگ گیا کہ یہ اب کیا کرنے گئی ھے ۔۔۔
کچھ ھی دیر میں مہری جب کمرے میں داخل ھوئی تو اسکے ھاتھ میں ہینڈی کیم تھا ۔۔۔
مہری تیز تیز قدم اٹھاتی میرے سامنے آکر کھڑی ھوگئی اور کیمرے واال ھاتھ میری طرف بڑھاتے ھوے بولی یہ لو یاسر ۔۔
اپنے دل کی خواہش پوری کر لو ۔۔
میں نے مہری کی طرف بڑے غور سے دیکھا مہری کے چہرے پر معصومیت دیکھ کر ۔۔۔
ضمیر ساب نے میری چھترول شروع کردی ۔۔۔۔
شرم کرو یاسر اسد کی غلطی کا بدال اسکی بہن سے لے رھے ھو اسکا بیچاری کا کیا قصور ھے ۔
یہ تو اپنے بھائی کی کرتوت سے العلم ھے ۔
اگر تم بھی اسد کی بہن کی ویڈیو بنا کر اسکو بدنام کرو گے یا بلیک میل کرو گے تو تم میں اور اسد میں کیا فرق رھ جاے گا
۔
مرد بنو عورت کا سہارہ لے کر لڑنا مردوں کا نہیں ہجڑوں کا کام ھے ۔
اگر اسد سے بدلہ لینا ھی ھے تو مرد بن کر اسکا اور اکری کا مقابلہ کرو ۔
ورنہ خاموشی اختیار کرلو ۔۔۔
اسد نے بھی عظمی کو دھوکا دیا تھا ۔
اور تم اسد کی بہن کو دھوکا دے کر کون سا تیر مار لو گے ۔۔۔
میں اپنے ضمیر سے چنگی چھترول کرواتے ھوے سوچ میں گم تھا کہ مہری نے میرے کندھے کو ہالتے ھوے کہا کیا ھوا
یاسر کس سوچ میں گم ھو ۔
میں غصے سے نہیں اپنی رضامندی سے تمہیں کہہ رھی ھوں ۔۔
پکڑو کیمرہ اور بتاو کیسے ویڈیو بنانی ھے ۔۔۔
میں نے مہری کے ہاتھ سے کیمرہ پکڑا اور کیمرہ کو بیڈ پر پھینکتے ھوے مہری کے دونوں بازوں کو پکڑ اپنی طرف
کھینچا تو مہری میرے اوپر آکر گری اور میں مہری کو سینے کے ساتھ لگاتے ہوے پیچھے کی طرف لیٹ گیا ہم دونوں
کے پاوں بیڈ سے نیچے تھے مہری میرے اوپر لیٹی ھوئی تھی اور میں مہری کے نیچے ۔۔۔
مہری کے ممے میرے سینے کے ساتھ اور پھدی میرے لن کے اوپر ااور مہری کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا
مہری کے سلکی بالوں نے آگے آکر ہم دونوں کے چہروں کو چھپا لیا تھا ۔۔۔
مہری میری آنکھوں میں اور میں مہری کی آنکھوں کھویا ھوا تھا ۔
ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھی جارھے تھے ۔۔۔
مہری کے ہونٹ ہلے ۔
کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رھے ھو ۔۔
میں نے آہستہ سے کہا ۔
دیکھ رھا ھوں کہ تم کو مجھ پر کتنا یقین ھے ۔۔
مہری میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔
کیوں کوئی شک ھے ۔
میں نے نفی میں سر ہالیا۔۔
مہری بولی ۔
.تو پھر کیا سوچ رھے ھو۔۔
میں نے کہا اگر میں واقعی تم کو بدنام کردوں تو ۔
مہری مسکرا کر بولی کردو۔
میں نے کہا اگر میں ویڈیو لوگوں کو دیکھا دوں تو ۔۔
مہری بولی دیکھا دینا ۔۔
اگر تمہیں ایسا کرنا اچھا لگے گا اور اس سے تمہیں سکون ملے گا تم خوش ھوگے تو ۔
میں تمہاری اس خوشی کے لیے بدنام ھونے میں بھی فخر محسوس کروں گی کے میری بدنامی سے تمہیں خوشی مل رھی
ھے ۔۔۔
مہری کے اس جواب نے مجھے الجواب کردیا ۔۔
اور میرے ہونٹ بے اختیار مہری کے ہونٹوں کی طرف بڑھے اور پھر میں نے گالب کی پتیوں کا رس پینا شروع کردیا ۔۔۔
مہری بھی میرے ساتھ چمٹی ھوئی کسنگ میں میرا برابر کا ساتھ دے رھی تھی ۔
دس پندرہ منٹ ہم اسی حالت میں لیٹے ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے ۔
میں کسنگ کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ مہری کی گردن میں ڈال کر اسکے بالوں کو سہال رھا تھا اور دوسرا ھاتھ مہری کی نرم
ابھری ھوئی گانڈ پر لیجا کر شارٹ شرٹ کو گانڈ سے ہٹاکر گانڈ کی ایک پھاڑی کو پکڑ کر مٹھی میں بھینچے ھوے گانڈ کی
دراڑ میں کبھی انگلی پھیرتا تو کبھی پورا چپہ ۔۔۔۔۔
شلوار میں میرا لن تن چکا تھا اور میری قمیض مہری کے اوپر آنے کی وجہ سے لن سے اوپر ھو چکی تھی اور مہری کی
شرٹ تو پہلے ھی شارٹ تھی جس کی وجہ سے ہم دونوں کی قمیضیں لن اور پھدی سے اوپر تھیں جسکی وجہ سے میرا لن
شلوار کو تمبو بناے مہری کے چڈوں میں گھسا ھوا تھا۔۔۔
مہری کی شلوار کا کپڑا بہت ھی سوفٹ اور مالئم تھا ۔ مٹھی میں بھینچا ھوا
مہری کی گانڈ کا ایک حصہ ایسے لگ رھا تھا جیسے بلکل ننگا ھو
ایک کپڑا ریشم کی طرح مالئم دوسرا مہری کی گانڈ بھی ریشم کی طرح مالئم اور روئی سے نرم اففففففففف کیا ھی مزہ
تھا ۔۔۔۔
اور نیچے شلوار میں سے لن کا مہری کے مالئم چڈوں میں پھدی کے ساتھ رگڑنا ھاےےےےےےےےےےے کیا مزے
کی کیفیت تھی کاش میں لفظوں میں اس مزے کی کیفیت کو بیان کرسکتا۔۔۔
خیر ۔۔۔
کچھ دیر بعد میں نے گھوم کر مہری کو اپنے نیچے کیا اور اسکے اوپر سے ہٹ کر بیڈ سے نیچے کھڑا ھوگیا۔۔
اور اپنی قمیض اور بنیان اتارنے لگ گیا مہری بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکاے مجھے قمیض اتارتے دیکھنے لگ گئی ۔۔
میں نے قمیض اتار کر ایک طرف رکھی اور مہری کے اور تھوڑا سا جھکا اور مہری کی دونوں کالئیوں کو پکڑ کر مہری
کو اپنے سامنے کھڑا کرلیا ۔۔۔
اور مہری کی شرٹ کو پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو مہری نے دونوں بازو چھت کے طرف سیدھے اوپر کھڑے کرلیے ۔۔
میں نے مہری کی شرٹ اتار کر اسکے بازوں سے نکالی اور ایک طرف رکھ دی ۔
مہری اب پنک کلر کی برا میں ننگی میرے سامنے کھڑی تھی ۔
مہری نے برا بھی اپنے جسم کے کلر جیسا ھی پہنا ھوا تھا ۔۔۔
مہری اس حالت میں بہت ھی سیکسی لگ رھی تھی ۔
مہری کا فگر دیکھ کر میرا لن تو جھٹکے مارتا ھوا پھٹنے واال ھوگیا ۔۔۔
میں نے مہری کے جسم کا جائزہ لیا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا مہری نے میرے لن کو مٹھی میں بھرا اور
چھوڑ دیا اور میری طرف دیکھ کر افففففففففففف کیا میں نے پھر مہری کا ہاتھ لن پر رکھا اور اسکو دبانے کا کہا ۔
مہری میری آنکھوں میں نشیلی آنکھوں سے دیکھتے ھوے لن کو دبانے لگ گئی ۔۔
.میں نے ہاتھ اپنے نالے پر لیجا کر نالے کی گانٹھ کو کھول دیا اور شلوا کو تھوڑا ڈھیال کیا تو شلوار میرے پیروں کی طرف
جانے کی بجاے مہری کے ہاتھ میں پکڑے لن کے ساتھ اٹک گئی میں نے مہری کا ھاتھ لن سے چھڑوایا تو شلوار میرے
پیروں میں چلی گئی اور میرا لن پھنکارتا ھوا مہری کے ننگے پیٹ کے سامنے جھومنے لگ گیا۔۔۔
مہری سر جھکا کر آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھنے لگ گئی ۔۔۔
اور افففففففففف اتنا بڑا او مائی ۔۔۔۔ ،کہتے ھوے میرے لن کو ڈر ڈر کر ایسے ہاتھ لگانے لگ گئی جیسے پہلی دفعہ لن دیکھ
رھی ھو ۔۔۔
میں نے کہا مہری کیسا لگا ۔۔۔
مہری بولی یاسر مجھے تو یقین ھی نہیں ھورھا کہ اتنا بڑا میں نے اندر لے کیسے لیا تھا ۔۔۔
میں نے مہری کی پھدی پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا اسکی اب میرے لن کے ساتھ دوستی ھوگئی ھے اس لیے سارا اندر لے لیا
تھا ۔۔۔
مہری بولی ۔۔
یاسر تم یر لحاظ سے فٹ ھو ۔۔۔
خوش قسمت لڑکی ہوگی جس کے ساتھ تمہاری شادی ھوگی ۔۔۔
میں نے جلدی سے موضوع تبدیل کرتے ھوے کہا ۔۔
مہری اسے پیار نہیں کرو گی ۔۔۔
مہری میری طرف دیکھتے ھوے مسکرائی اور اثبات میں سر ہال کر مجھے بازوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا اور خود میرے
قدموں میں پاوں کے بل بیٹھ گئی اور میرے لن کو جڑ سے پکڑ کر ہالنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر لن تو پھٹنے واال
ھوا تھا کیسے ہلتا وہ تو ایک دم تن کر کھڑا تھا ۔
اور ٹوپا ایسے پھوال ھوا تھا جیسے ۔
سوجا ھو ۔
)Update no (151
مہری کچھ دیر لن کو دونوں ہاتھوں میں لے کر سہالتی رھی
مہری کے روئی سے نرم ہاتھوں میں جادو تھا میرا لن تو اپنے آپ سے باہر ھونے لگ گیا تھا ۔۔۔
بہت ھی نرم اور مالئم ہاتھ تھے مہری کہ ۔۔۔
مہری بڑے سلو موشن میں لن جو سہال رھی تھی اور شرارتی انداز سے کبھی لن کی موٹائی چیک کرتی تو کبھی لن کی
لمبائی چیک کرتے ھوے اپنی نشیلی آنکھیں میری طرف کر کے اشارے سے واوووووو کیا بات ھے کہتی ۔۔۔۔۔
پھر مہری نے اپنی سرخی مائل زبان نکالی اور لن کو ٹوپے سے پکڑ کر لن کی جڑ سے زبان پھیرتے ھوے اوپر کی طرف
النے لگی ۔
اور ٹوپے کے کنارے سے زبان کو واپس لن کی جڑ تک لے جاتی ۔۔
اور کبھی ٹوپے کے چاروں اطراف زبان کو پھیرتے ھوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف دیکھ کر آنکھوں کی زبان سے
پوچھتی کہ سہی چوپا لگا رھی ھوں نہ مزہہہہ آرھا ھے نہ ۔۔۔
میں اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرا کر ہاں کہہ دیتا۔۔۔
مہری پانچ منٹ تک لن کو مختلف زاویوں سے چاٹتی اور چوستی رھی اور پھر میری طرف دیکھ کر بڑی معصومیت سے
بولی ۔۔
بس میں نے کہا ہمممممم ۔
اور پھر مہری کھڑی ھوئی تو میں بھی کھڑا ھوگیا اور شلوار جو پیروں سے نکاال اور مہری کے ساتھ ایک جپھی ڈال کر
اس کے یونٹوں کو چوم کر
چوپا لگانے کا شکریہ ادا کیا اور مہری کو گھما کر دوسری طرف منہ کیا اور پھر مہری کو آگے کی طرف جھکنے کا کہا
مہری نے سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھا مگر مین نے اسکے کندھوں کو پکڑ کر آگے کی طرف جھکا دیا مہری
نے جھک کر بیڈ کے میٹرس پر ہاتھ رکھ لیے ۔۔۔
میں نے مہری کی شلوار کی السٹک میں انگوٹھے پھنساے اور نیچے کو ذور لگاتے ھوے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کر
کے چھوڑ دی شلوار مہری کے قدموں میں جاگری ۔
اور مہری کی چمکتی گول مٹول چٹی سفید گالبی مانند گانڈ میرے سامنے تھی ۔۔۔
.میں نے لن پر تھوک پھینکا اور تھوڑا سا جھک کر مہری کی پھدی میں ٹوپا اڈجسٹ کرنے لگا ۔۔
مہری تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکی گانڈ کو سہالتے ھوے اسے تھاپی دی ۔۔۔
اور ٹوہا اسکی گیلی پھدی کے لبوں میں پھنسا کر اسکی پتلی کمر کو پکڑ کر ہلکا سا گھسا مارا ،۔۔
میری ہاےےےےےےے کرتی ھوئی آگے کو ھونے لگی مگر میں نے اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا اس لے اس سے آگے
نہیں ھوا گیا ۔۔
پہلے گھسے میں ٹوپا ھی پھدی کے اندر گھسا تھا ۔
باقی کا لن ابھی باہر ھی تھا۔۔
میں نے کچھ وقفہ دیا اور پھر گھسا مارا تو آدھا لن اندر گھس گیا مہری ھاےےےےےےےےے مییییممی ممی کرتے ھوے
آگے ھونے کی کوشش کرنے لگی میں نے اسی وقت تیسرا گھسا مار کر لن سارا ھی اندر گھسا دیا ۔۔
مہری نے ذوردار چیخ ماری ۔
آئیییییییییییییی مرگئی ۔۔۔
یاسسسسررررررر باہر نکالو .ظالم ماردیا ۔۔۔۔۔
اففففف ھاےےےےےےےےےے پلیززززززز یاسررررر باہر نکالو ۔۔
مہری پوری کوشش کررھی تھی کہ کسی طرح لن باہر نکل جاے مگر اسکی پتلی نازک کمر میری گرفت میں تھی ۔۔
میری ھاےےےےےے مما ھاےےےے مما جی ۔
کری جارھی تھی ۔۔
میں کچھ دیر رک کر اسے نارمل کرتا رھا ۔
کچھ دیر بعد مہری نارمل حالت ھوگئی ۔۔۔۔تو میں نے ہلکے ہلکے گھسے مارنے شروع کردیے مہری اب بھی آہ اہ آہ آہ آہ آہ
آہ آہ آہ آہ آہ سی سی سی سیییییاففاففا .اففف اف اف اف آہ آہ آہ ھاےےے ھاےےے کر رھی تھی مہری کی سیکسی آوازیں
مجھے بہت مزہ دے رہیں تھی ۔۔
میرے گھسوں کی رفتار تیز ھوتی جارھی تھی ۔
میں نے اب مہری کی کمر کو چھوڑ کر اسکے سلکی بالوں کو اکھٹا کر کے مٹھی میں بھر لیا تھا جس سے میری کا چہرہ
اوپر اٹھ گیا تھا ۔
اور دوسرے ھاتھ سے میں نے مہری کے بریزیر کے بیک چورس سٹرپ کو پکڑ لیا تھا ۔
اور مہری میرے آگے گھوڑی بنی ھوئی تھی اور میں اس پوپٹ گھوڑی کی لگامیں پکڑے چود رھا تھا ۔
مہری کی آہیں اب سسکاریوں میں بدل چکی تھیں ۔۔
مہری اب پیچھے ہو یو کر گانڈ میری رانوں کے ساتھ مارتے ھوے چدائی کا فل مزہ لے رھی تھی ۔۔
چدائی زورو شور سے جاری تھی کمرے میں تھپ تھپ کی آوازوں کے ساتھ مہری کی سیکسی آوازیں ۔
آہ آہ یس یس یس yes yesssss yesssss fuck fuck fuck yasir ahhhhhhhh ufffffff yesssssss
کی آوازیں گونج رہیں تھی کہ یکلخت مہری کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے لگی اور مہری پورے زور زور سے پیچھے کو
ھونے لگی اور m coming m coming yaaaaaa fasttttttt ahhhhhhhh yassssssir
کرتے ھوے جھٹکے کھانے لگ گئی اور مہری کی پھدی سے منی کی برسات ہونے لگ گئی ۔۔۔
کچھ دیر بعد مہری نارمل ھوئی تو میں نے لن باہر نکالنے کی زحمت گوارا نہ کی اور ویسے ھی پھر گھسے مارنے لگ گیا
اور دس بیس گھسے مار کر میں جیسے ھی چھوٹنے واال ہوا میں نے جلدی سے لن باہر نکاال اور مہری کی گانڈ کے اوپر
ٹوپا کر کر مٹھ مارنے لگ گیا ۔۔
.اس سے پہلے کہ میرے لن سے منی نکلتی ۔
مہری کو پتہ نہیں کیا سوجی ۔
مہری یکلخت گھومی اور میرے لن کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئی اور میرا ہاتھ لن سے ہٹا کر خود لن کو پکڑ کر مٹھ
مارنے لگ گئی اور پھر جب لن سے منی پھوٹی تو مہری نے ٹوپے کا منہ اپنے گلے کی طرف کر دیا اور منی کی پچکاریاں
مہری کے گلے پر گرنے لگ گئیں اور پھر بریزر سے باہر ننگے مموں کے حصہ کے اوپر منی کی چند پچکاریاں گریں ۔۔۔
اور مہری کے گلے سے منی بہتی ھوئی اسکے مموں کی دراڑ میں جانے لگی ۔۔۔
میں ابھی لمبے لمبے سانس لے ھی رھا تھا کہ اچانک ۔
باہر گیٹ کی بیل بجی ۔۔
مہری نے جھٹکے سے میرا لن چھوڑا اور میں بھی سانس لینا بھول گیا کہ ۔۔۔۔۔
)Update no (152
باہر گیٹ پر کسی کی موجودگی سے مہری کا رنگ بھی اڑ گیا اور میرا بھی ۔۔۔
مہری نے جلدی سے اپنا دوپٹہ پکڑا اور اپنے گلے اور مموں سے منی صاف کرنے لگ گئی اور مہری نے مجھے بھی
جلدی سے کپڑے پہننے کا کہا ۔۔
میں بھی جتنی جلدی ھوسکتا تھا اتنی سپیڈ سے کپڑے پہننے لگ گیا اس دوران چار سے پانچ دفعہ بیل بج چکی تھی ۔۔
ہم دونوں نے جلدی سے کپڑے پہنے تو مہری کانپتی آواز میں بولی یاسر اگر مما ھوئی تو کیا ھوگا ۔۔
میں نے کہا یار حوصلہ رکھو ایسے گبھراو گی تو جو کوئی بھی ھوا اسکو شک پڑجاےگا ۔
مہری بولی یاسر تم بیٹھک میں چلے جاو اور اگر میں کچھ دیر نہ آئی تو سمجھ لینا کہ مما ھے اور تم بیٹھک کا بیرونی
دروازہ کھول کر نکل جانا ۔
اور دس پندرہ منٹ بعد باہر کے گیٹ کی بیل دینا ۔
میں مما کو مطمئن کر لوں گی کہ تم بائک ادھر کھڑی کر کے کہیں گئے تھے ۔۔۔
اور اگر کوئی اور ھوا تو پھر میں جلد ھی تمہیں بتا دوں گی ۔۔
مہری ایک ھی سانس میں ساری پالننگ مجھے سمجھاتےھوے بیٹھک کی طرف مجھے لیجانے لگی ۔
بیٹھک کے دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے مہری کو تسلی دی اور
میں جلدی سے بیٹھک میں داخل ھو کر دروازے کے پاس ھی پردے کی اوٹ میں کھڑا ھوگیا اور کان گیراج کی طرف لگا
لیے ۔
کچھ دیر میں مہری کی آواز آئی کون ۔ باہر والے کی آواز مجھے نہیں سنائی دی ۔۔
ڈر کے مارے میری بھی ٹانگیں کانپ رھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو میرا دل ذور ذور سے دھڑکنے لگ گیا ۔
اور پھر مہری کے ہنسنے کی آواز کے ساتھ دوسری آواز میرے کانوں میں پڑی تو آواز سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے کہ
یہ آواز تو جانی پہچانی ھے ۔
میں دماغ پر ذور دینے لگ گیا ۔
آنے والی لڑکی تھی اور مہری کی فرینڈ تھی جو بڑی بےتکلفی سے مہری سے بات کرتے ھوے کہہ رھی تھی کہ
یار کب کی بیل دے رھی ہوں کدھر مصروف تھی ۔۔
میں تو واپس جانے لگی تھی ۔
اورمہری اسے اوپر والی منزل پر ہونے کا بہانہ لگا رھی تھی ۔
دونوں کی آوازیں دروازے کے قریب سے ھوکر دور ہوتی گئیں ۔۔۔
میں نے شکر ادا کیا کہ مہری کی مما نہیں ھے ورنہ بہت مسئلہ بن جانا تھا ۔
خیر میں لڑکی کی آواز کو پہچاننے کی کوشش کررھا تھا ۔
کچھ ھی دیر بعد مہری بیٹھک میں داخل ہوئی اور خوشی سے چہک کر بولی ۔
شکر ھے بچ گئے ۔
میں نے کہا کون تھا ۔
مہری بولی میری کالس میٹ ھے ادھر گلی میں ھی رہتی ھے ۔
اچانک میرے دماغ میں سویرا کا آیا کہ ہو نہ ھو یہ وہ ھی ھے ۔
میں نے مہری سے پوچھا کہ اب میں کیا کروں تو مہری بولی میں اسے کمرے میں بٹھا کر آئی ہوں ۔۔
تم جلدی سے بائک باہر نکال کر چلے جاو اور گیٹ بڑے آرام سے کھولنا اور اور ویسے ھی آرام سے بند کردینا میں جاکر
اسے باتوں میں لگاتی ہوں ۔۔۔
میں نے ہممممم کیا اور مہری بولی ایک منٹ رکو اور مہری باہر نکل کر جائزہ لیتے ھوے پردا سرکا کر اشارے سے مجھے
نکلنے کا کہا میں جلدی سے گیراج سے ھوتا ھوا گیٹ کی طرف بڑھا اور آرام سے گیٹ کھوال اور بائک باہر نکال کر گیٹ
ویسے ھی بند کر کے جلدی سے بائک سٹارٹ کر کے دکان کی طرف چل پڑا ۔
دکان پر پہنچا تو جنید ساب کی سڑی باتیں سننے کو ملیں ۔۔
مشکل سے اسے چپ کروایا اور پھر کام میں مصروف ہوگیا ۔۔
جنید وقفے وقفے سے مجھے سمجھا رھا تھا کہ یار یہ اچھی بات نہیں ھے دکان سے اتنی دیر غائب ہونے لگ گئے ھو ۔
اب تمہاری اپنی دکان ھے مالزمت نہیں کہ جب دل کیا جدھر مرضی چلے گئے ۔
اگر اوپر والے نے تمہاری سنی ھے تو میرے بھائی اس ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھاو ۔۔۔
میں نے جنید سے وعدہ کیا کہ یار بس غلطی ھوگئی ۔۔
آئیندہ احتیاط کروں گا۔۔
شام کو ہم نے دکان جلدی بند کی اور میں ضوفی کو لے کر گھر جانے کے لیے نکال تو ضوفی نے کہا کہ
یاسر کالونی کی طرف چلنا ھے میں نے کیا ادھر کیا کرنے جانا ھے ۔
ضوفی بولی میری فرینڈ ھے اسکو ساتھ لے کر گھر جانا ھے اس کو النے واال کوئی نہیں ھے ۔
اور اس نے ماہی کی برتھ ڈے پر آنا ھے ۔۔
میں نے کہا یار کالونی تو بہت دور ھے ہمیں آدھے گھنٹے سے ذیادہ وقت لگ جانا ھے ادھر جاتے جاتے اور خیر سے اتنی
دور تمہاری
کون سی سہیلی ھے ۔۔۔
میں نے پہلے تو کبھی نہیں تم سے سنا کہ اتنی دور بھی تمہاری کوئی خاص سہیلی رہتی ھے ۔۔
ضوفی بولی چلو تو سہی تم اسے جانتے ھو ۔۔
میں نے بائک کالونی کی طرف موڑی اور حیرانگی سے کہا کون سی ھے یار مجھے یاد نہین آرھا ۔۔
ضوفی میرے پیچھے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنا مما میری کمر کے ساتھ لگا کر چپک کر بیٹھی ھوئی تھی ۔
ضوفی نے میرے پیٹ پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا۔۔
بونگے ایک ھی تو میری سہیلی ھے ۔
جو پہلی دفعہ میرے ساتھ تمہاری دکان پر آئی تھی سوٹ لینے ۔۔۔
میں نے لمبا سااااا اچھااااااا کیا ۔
اور بوال ۔
ہاں یاد آیا اسکا نام ثانیہ ھے نہ ۔۔۔
ضوفی نے پھر میرے پیٹ پر چٹکی کاٹی اور بولی ۔
بڑی بات ھے نام بھی یاد ھے ۔۔۔
میں نے کہا ۔
اس دن تم نے ھی تو اسکو اسی نام سے پکارا تھا ۔
۔ضوفی بولی میں تو اسے اسکے نک نیم سے پکارتی ہوں
اصل نام کا تمہیں کیسے پتہ ۔
میں نے کہا یار تم نے اسے ثانیہ ھی کہا تھا ضوفی بولی نہیں جناب میں اسے ثانی کہہ کر ھی مخاطب کرتی ھوں پھر خود
ھی ضوفی بولی ھوسکتا ھے کہ میں نے ثانیہ ھی کہا ھو ۔۔
میں نے کچھ دیر بعد پھر پوچھا
کہ یار وہ تھی کدھر میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں ۔۔
ضوفی بولی ۔۔
ثانی شادی ہوگئی تھی ۔
یاد ھے تم سے لہنگا کراے پر لیا تھا ۔۔۔
میں نے ہمممممم کیا ۔
ضوفی بولی تب اسی کی شادی تھی ۔۔
میں نے کہا مگر تم نے تو کسی اور کی شادی کا کہا تھا ۔
ضوفی بولی ۔
ثانی نے مجھے منع کیا تھا کہ تمہیں اسکا نہ بتاوں۔۔۔
میں نے حیران ہوتے ھوے پیچھے گردن گھما کر ضوفی کی طرف ایک نظر ڈال کر پوچھا کہ مجھے بتانے سے کیوں منع
کیا تھا اس نے میری کون سا وہ سہیلی تھی ۔۔۔
ضوفی بولی بڑا شوق ھے سہیلیاں بنانے کا ۔
میں نے جلدی سے اپنی صفائی دیتے ھوے کہا ۔
میرا مطلب کہ میری کونسا وہ واقف تھی جو اس نے منع کیا۔۔
ضوفی بولی ۔
بس ایسے ھی اس نے کہا تھا کہ تم کیا سوچو گے کہ وہ اتنے غریب ہیں کہ لہنگا بھی نہیں لے سکتے ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا ۔۔
لوجی آج کل تو اچھے بھلے امیر لوگ بھی لہنگے کراے پر لے جاتے ھیں کہ یہ کونسا بعد میں پہنا جانا ھے ۔
ضوفی بولی ۔
ہمممممم بات تو سہی ھے بس ایسے ھی بےچاری نے اپنا بھرم رکھنے کی وجہ سے کہا تھا۔۔
میں نے کہا۔۔
ضوفی اسے تمہارے اور میرے ریلیشن کا پتہ ھے ۔
ضوفی بولی ھاں پتہ ھے اور اس نے ھی تو تمہاری تعریفیں کر کر کے میری توجہ تمہاری طرف دالئی تھی ۔۔
میں نے شوخی سے کہا
واہ جی واہ .پھر تو ثانیہ میری محسن ٹھہری کہ اس نے میری زندگی بدل دی اور تمہارے جیسی ۔
حسن کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی ۔۔
ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر بولی ۔
بہت باتیں بناتے ھو ۔۔
اور میں مہربان نہیں بلکہ تم پر لٹو ھوگئی ہوں سمجھے ۔۔۔
تقریبََا آدھے گھنٹے سے بھی ذیادہ وقت میں
ہم کالونی پہنچے تو مہری مجھے راستہ بتانے لگی اور کچھ ھی دیر میں ہم ایک نارمل سے گھر کے سامنے رکے ۔۔
ضوفی بائک سے اتری اور دروازے پر ناک کرنے لگ گئی ۔۔
کچھ دیر بعد ایک دس بارہ سال کی لڑکی نے دروازہ کھوال ۔۔
لڑکی کو دیکھتے ھی مجھے پتہ چل گیا کہ یہ ثانیہ کی بہن ھے ۔۔
ضوفی بچی کو پیار کرتی ھوئی اندر داخل ھوگئی ۔۔۔
اور میں باہر بائک پر ھی کھڑا ۔
گلی کا جائزہ لینے لگ گیا ۔۔
کچھ دیر بعد وہ ھی بچی باہر آئی اور مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی ۔
انکل اندر آجائیں ۔۔۔
میں نے بائک سٹینڈ پر لگائی اور بائک کو الک کر کے گھر میں داخل ھوگیا ۔
گھر اندر سے بھی سادہ سا بنا ھوا تھا چھوٹا سا صحن اور سامنے دو کمرے اگے برآمدہ ایک طرف کچن اور ایک سائڈ پر
واش روم تھا ۔۔
میں بچی کے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا تو ثانیہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوئی اور سالم دعا کے بعد مجھے
دکان کی مبارکباد دینے لگ گئی اور اتنے میں ایک عمررسیدہ خاتون اندر داخل ھوئی جو ثانیہ کی والدہ تھی ثانیہ نے میرا
تعارف ضوفی کے کزن اور منگیتر ھونے کا کروایا ۔۔
آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور دعائیں دیتے ھوے کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔
ثانیہ کی فیس بیوٹی کافی بدل چکی تھی جیسے پہلے وہ بڑی شوخ اور چنچل تھی مگر اب بڑی سلجھی اور سلیقہ مندی سے
پیش آرھی تھی ۔۔
کچھ دیر بیٹھے ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے جس میں میری خاموشی شامل تھی ۔۔
اور پھر ثانیہ نے اپنے کپڑے شولڈر بیگ میں رکھے کہ ضوفی کے گھر جاکر بدل لے گی اور وہیں تیار ھوجاے گی ۔۔
ثانیہ لوگ بھی ۔
تین بہنیں اور ایک بھائی اور اسکے والد بھی فوت ہوچکے تھے اور گھر کا گزارہ اسکا بھائی جو کسی فیکٹری میں جاب
کر کے اور اسکی امی کپڑے سی کر کرتے تھے ثانیہ کی بڑی بہن بھی شادی شدہ تھی اور ایک چھوٹی تھی جو ابھی پڑھ
رھی تھی ۔۔۔
میں آنٹی سے اجازت لے کر باہر نکل آیا اور کچھ دیر بعد ھی ضوفی اور ثانیہ بھی باہر اگئیں ۔۔
میں نے بائک سٹارٹ کی اور میرے پیچھے ضوفی بیٹھ گئی اور اسکے پیچھے ثانیہ ۔۔
میں تقریبََا ٹینکی پر پہنچ چکا تھا ۔۔
ثانیہ کا جسم بھی تھوڑا ِنگھر تھا
اور میرے والی کا تو آپ دوستو کو پتہ ھی ھے ۔۔
ضوفی بلکل میری کمر کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔
میں انکو لے کر ضوفی کے گھر پہنچا ۔۔
اور انکو اتار کر میں نے ضوفی سے سامان کی لسٹ لی تو ضوفی نے مجھے پیسے دینے کی الکھ کوشش کی مگر میں نے
اس سے لسٹ پکڑی اور وہیں سے بازار کی طرف بائک بھگا دی ۔۔۔
)Update no (153
۔بازار پہنچ کر میں نے کیک کا آڈر دیا اور سیدھا حمام پر پہنچا شیو اور بالوں کی سیٹنگ کروا کے میں نے لسٹ کے
مطابق لوازمات کی چیزیں لیں اور پھر بوتیک پر آیا اور دکان کھول کر ماہی کے لیے اور ضوفی کے لیے بوتیک میں سب
سے اچھے برانڈ کے سوٹ لیے ماہی کے لیے پنک اور ضوفی کے لیے بلیک ریشمی امبرائڈڈ میں ۔۔
اور ایک گفٹ سینٹر سے ماہی کا سوٹ پیک کروایا اور ماہی کے لیے ایک خوبصورت واچ بھی پیک کروا لی پھر لیڈیز شوز
کی دکان پر جاکر ضوفی کے سوٹ کے ساتھ پنسل ہیل والے سینڈل میچ کر کے لیے اور ماہی کے بھی اسی طرح کے پنک
کلر کے سینڈل لیے ضوفی کے جوتے کے سائز کا تو مجھے علم تھا تو ماہی کا بھی اسی سائز میں لے لیا اور پھر ایک
گارمنٹس کی دکان سے اپنے لیے ایک بلیک پینٹ اور ضوفی کے سوٹ پر جس کلر کی امبرائڈ تھی اس کلر کی شرٹ خریدی
کیونکہ کہ میرے کپڑے گندے ہوچکے تھے اور مجھے کپڑوں سے سمیل بھی آرھی تھی دو تین گھنٹوں میں ساری شاپنگ
کر کے بیکری سے کیک لینے کے بعد میں سامان سے لدی بائک کے ساتھ ۔
ضوفی کے گھر تھا ۔۔
سب ابھی تیار ھورھے تھے ۔۔
میں نے ضوفی کا سوٹ اور سینڈل اسے دکھاے اور اسے پسند آنے کا پوچھا ضوفی نے پہلے تو میری چوائس کی بہت
تعریف کی مگر جب میں نے اسے بتایا کہ یہ تمہارے لیے ھے اور تم نے ابھی پہننا ھے تو ضوفی مجھ پر برا پڑی کہ ایسے
فضول خرچی کرنے کی کیا ضرورت تھی گھر میں کونسا شادی رکھی ھے جو اتنا خرچہ کرآے وغیرہ وغیرہ ثانیہ بھی
سوٹ اور سینڈل کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ھوے بہت خوشی کا اظہار کرنے لگ گئی آنٹی اور ماہی کو بھی ضوفی کا
سوٹ اور سینڈل بہت پسند آیا ۔۔
میں نے ضوفی کا لیکچر سننے کہ بعد پھر اسے پہننے کا کہا تو
ضوفی پھر انکار کرنے لگ گئی اور مجھ پر کافی ناراض بھی ہوئی مگر پھر میری اموشنل بلیک میلنگ کے بعد اسے سوٹ
لینا پڑا۔
ماہی چہکتے ھوے بولی بھائی میرا برتھ ڈے گفٹ۔۔۔۔
میں نے کہا ۔۔
تمہارے لیے فیڈر پیک کروا کے الیا ھوں ۔۔
سب میری بات سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ گئے ۔۔
ماہی برا سا منہ بنا کر کمرے میں جانے لگی ۔۔
تو میں نے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکا اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے بوال ۔۔
لو جی میری بہن تو ناراض ھوگئی ۔۔
یہ ھوسکتا ھے کہ میں اپنی بہن کی سالگرہ پر اسے گفٹ نہ دوں ۔۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے شاپر سے تین پیک کیے ھوے گفٹ اسکی طرف بڑھاتے ھوے کہا ۔۔
یہ ھے میری الڈو کے لیے ۔۔
ضوفی پھر مجھے گھورنے لگی اور پھر بولی ۔
کر آے ھو گے نہ فضول خرچی تم بھی نہ ۔۔۔
میں نے اسے گھورتے ھوے کہا ۔۔
تم اپنا منہ بند رکھو میں اپنی بہن کے لیے الیا ہوں تم کیوں سڑ رھی ھو ۔۔
آنٹی بھی کہنے لگ گئی کہ اس میں کیا ھے ۔
میں نے کہا آپ سب چپ رہیں یہ میرا اور ماہی کا معاملہ ھے میں جو مرضی اپنی بہن کو گفٹ .دوں ۔۔
ماہی بھی پوچھنے لگ گئی کہ بھائی اتنے سارے گفٹ النے کی کیا ضرورت تھی ۔۔
اور ان میں ھے کیا ۔۔
میں نے کہا سرپرائز ھے اگر پہلے بتا دیا تو کیا فائدہ ۔۔
اور میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے ماہی کے کان کے پاس منہ لیجاکر آہستہ کہا مگر اتنی آواز میں کہ ضوفی بھی
سن لے ۔
کہ چپ ھو جاو اور یہ اندر بند کمرے میں کھولنا نہیں تو تمہاری آپی نے گفٹ دیکھ کر سڑ جانا ھے ۔۔
ضوفی نے جب یہ بات سنی تو ہاتھ میں پکڑا ھوا سوٹ مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی میں بھاگ کر آنٹی کے
پیچھے چال گیا اور آنٹی کے کندھوں کو پکڑ کر پیچھے چھپنے لگ گیا ۔۔
سب کھلکھال کر ہنس رھے تھے ۔۔۔آنٹی نے ضوفی کو ڈانٹا کہ بس کرو ۔۔۔
اور جلدی سے تیار ھو جاو ۔
پہلے ھی ٹائم کافی ھوچکا ھے ۔۔
میں نے ثانیہ کی آنکھوں میں حسرت اور جلن دیکھی جیسے اس سے میرا ان سب سے یوں فرینک ھونا اور گفٹ النا
برداشت نہ ھورھا ھو ۔
مگر میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا۔۔
اور پھر ماہی ضوفی اور ثانی اوپر چلی گئیں تیار ھونے اور
میں بھی نہانے کے لیے نیچے ھی واش روم میں گھس گیا اور میں نے جلدی سے نہا کر پینٹ شرٹ پہنی اور ان سب سے
پہلے تیار ہوکر ٹی الونج میں ٹیبل پر کیک اور دوسری چیزیں سیٹ کرنے لگ گیا ۔۔
اور پھر میں وہیں صوفے پر بیٹھ کر انکا انتظار کرتے ھوے سیڑھیوں کی طرف بار بار دیکھنے لگ گیا ۔
کچھ دیر بعد سب سے پہلے
ضوفی تیار ھوکر جب سیڑھیاں اترتے ھوے نیچے آنے لگی تو میری نظر جیسے ھی اس سراپا حسن پر پڑی تو اسے دیکھ
کر ۔
میں اپنی جگہ سے خود باخود اٹھ کہ کھڑا ھوگیا ۔۔ سیڑیاں اترتے اس کے ہر قدم پر میرا دل دھڑکنا بھول جاتا
بلیک سوٹ میں چمکتا چودھویں کا چاند آسمان سے اتر کر نیچے آرھا تھا ۔
ضوفی نے میک اپ کے شیڈ بھی سوٹ پر کی کڑھائی کے کلر کے ساتھ میچ کیے ھوے تھے اور لپسٹک ایسے لگائی ھوئی
تھی کہ لگتا ھی نہیں تھا کہ لپسٹک ھے یا ضوفی کے گالبی ہونٹوں کا اوریجنل کلر ھے ۔
افففففففففف
میں آنکھیں پھاڑے ضوفی کے حسن میں کھویا اسے دیکھی جارھا تھا اور ضوفی بھی میری طرف دیکھ کر میری پرسنیلٹی
سے کافی امپریس ھو رھی تھی ۔۔
ضوفی سیڑھیاں اتر کر میرے پاس آئی اور گالب کی پنکھڑیوں پر مسکان التے ھوے بڑی ادا سے میری آنکھوں کے
سامنے ہاتھ ہالتے ھوے بولی ہیلو ووووو میرا ہیرو کدھر کھویا ھوا ھے ۔۔۔
میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو نہ پاکر ضوفی کا مخملی ھاتھ پکڑا اور ہاتھ کو اپنے لبوں کے پاس الکر ہاتھ
پر لب رکھ اور اپنی پلکیں اٹھا کر ضوفی کے کی آنکھوں میں جھانکتے ھوے ۔
بوال۔۔۔
تیری قربت بھی یاد آ رہی ہے
تیری فرقت بھی دل کو بہا رہی ہے
نہ جانے حال کیسا ہو گیا ہے
کہانی اب الجھتی جا رہی ہے۔
ضوفی نے مسکرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور آنٹی کے کمرے کی طرف دیکھتے ھوے میری گالوں پر اپنے
مخملی ھاتھ رکھ کر بولی ۔
شاعر صاحب کہیں خود کو نظر نہ لگوا لینا۔۔
اور ضوفی نے اپنی چھوٹی انگلی سے اپنی آنکھ سے کاجل انگلی ہر لگایا اور میرے کان کے نیچے کاال تلک لگا دیا ۔۔
اور میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھتے ھوے بولی ۔
کمال لگ رھے ھو ۔۔
میں نے کہا ۔
تم سے تو کم ھی لگ رھا ھوں ۔۔
تم تو آج میری جان لے کر رھو گی ۔۔
ضوفی نے پیار سے میری گال کر چپت مارتے ھوے کہا ۔
چل گندا بات تو سوچ سمجھ کر کیا کرو جان جاے تمہارے دشمنوں کی ۔۔۔
اتنے میں اوپر سے سیڑھیاں اترنے کی آواز آئی تو ہم جلدی سے ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ھوگئے ۔۔
میں نے اوپر نظر دوڑائی تو آگے ثانی اور پیچھے ماہی نیچے آرھی تھی دونوں ھی پیاری لگ رہیں تھی ۔
مگر میرے محبوب سے کم ھی ۔۔۔۔
اور پھر آنٹی بھی اپنے کمرے سے نمودار ھوئیں ۔۔۔
اور سب میز کے گرد اکھٹے ھوکر کھڑے ہوگئے ۔۔
اور پھر ماہی نے کیک کاٹا اور سب نے تالیاں بجاتے ھوے ماہی کو برتھ ڈے وش کیا ۔۔۔
ماہی نے کیک کا پیس کاٹ کر سب کے منہ میں ڈاال ۔
مگر جب میرے منہ میں ڈالنے لگی تو ماہی نے شرارت سے کافی سارا پیس میرے منہ میں ڈال دیا ۔
جس سے کریم کے ساتھ میرا منہ بھر گیا ۔۔
سب کھلکھال کر ہنس پڑے ۔۔
اور ہم صوفے پر جا بیٹھے اور ماہی پلیٹوں میں کیک کے پیس ڈال کر سب کو پیش کرنے لگ گئی ۔
)Update no (154
اس کے بعد کولڈ ڈرنک اور سموسے کھاے اور کافی دیر بیٹھے ہنسی مزاق کرتے رھے آنٹی سونے کا کہہ کر اپنے کمرے
میں چلی گئی ۔۔
میں نے پھر غور کیا کہ ثانی بار بار مجھے دیکھ رھی ھے اسکی آنکھوں میں عجب سی کشش تھی جب بھی میری اور
اسکی نظریں ملتی تو ثانیہ نظروں کو عجیب انداز میں گھما کر پھیر لیتی ۔
اور کچھ دیر بعد وہ پھر مجھے دیکھنے لگ جاتی اور جب مجھے اسکی نظروں کا احساس ھوتا تو میں اچانک اسکی طرف
دیکھتا تو وہ بڑی ادا سے نظروں کو گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتی ۔۔
میرے دماغ میں ثانیہ کے بارے میں رتی برابر بھی غلط خیال نہیں تھا ۔
جبکہ اسکا فگر بھی کافی سیکسی تھا خوبصورت تھی ۔
جوان تھی اسکا جسم بھی کافی ِنگھر تھا ۔۔
دیکھنے واال اسپر پہلی نظر میں فدا ھوجاتا ۔۔۔
مگر اس کے باوجود بھی میں نے ابھی تک اسکو غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
مگر اسکا یوں مجھے بار بار دیکھنا میری توجہ اسکی طرف دال رھا تھا ۔
اور میرے دماغ میں اسکے بارے میں کئی سوال جنم لے رھے تھے ۔
پہلے تو میں نے اسکے یوں دیکھنے کو اتفاق سمجھا مگر یوں بار بار دیکھنا اور ٹک ٹکی لگا کر دیکھتے رہنا ۔
دال میں کچھ کاال ثابت کررھا تھا ۔
مگر پھر بھی میں اسے اگنور کررھا تھا ۔
اور اپنی جان کو دیکھ دیکھ کر اپنی قسمت کو داد دے رھا تھا ۔۔۔
خیر کافی دیر تک ہم باتیں کرتے رھے اور باتوں کے دوران ھی کھانا کھایا ۔۔۔
اور پھر ثانی ضوفی سے کہنے لگی کہ مجھے گھر جانا ھے کافی دیر ھوگئی ھے امی گھر اکیلی ہیں ۔۔۔
ضوفی کہنے لگی ۔
اتنی رات کو گھر جاو گی ادھر ھی سوجاو۔۔
تو میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا اور جب ضوفی کی اور میری نظریں ملیں تو میں نے منہ بسور کر اسے آنکھ
مار کر اسے جانے کا کہا ۔۔۔
.ضوفی بھی میرا اشارہ سمجھ چکی تھی اس لیے اس نے بھی ذیادہ ثانیہ کے رکنے کا اصرار نہیں کیا ۔۔۔
اور پھر ضوفی بولی چلو میں اور یاسر تمہیں گھر چھوڑ آتے ہیں ۔۔۔
تو مہری ایکدم بولی آپی امی سوگئی ہیں اور مجھے اکیلی کو ڈر لگنا ھے ۔۔
آپ نہ جاو ۔
بھائی
آپی ثانیہ کو چھوڑ آتیں ہیں ۔۔۔
ماہی کی بات سن کر ثانیہ کے چہرے پر ایک دم سرخی آئی مگر اس نے اپنی فیلنگ کو چھپانے کی کوشش کرتے ھوے
بناوٹی انکار کرنے لگ گئی کہ نہیں ضوفی تم بھی ساتھ چلو ۔۔۔
مگر ماہی بھی بضد تھی کہ اگر آپی جائیں گی تو میں اکیلی نہیں رہوں گی مجھے بھی ساتھ لے کر چلو ۔۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد آخر کار یہ طے پایا کہ میں اکیال ھی یہ ذمہ داری قبول کرتے ھو ثانی کو آدھی رات میں
اسکے گھر چھوڑ کر آوں ۔۔۔
اور پھر ضوفی مجھے کہنے لگی کہ یاسر اگر تمہیں برا محسوس نہ ھو تو ثانیہ کو اسکے گھر چھوڑ آو گے ۔۔۔
یہ سن کر ثانیہ کی آنکھیں پھر چمکیں ۔۔۔
میں نے بھی مجبوری میں حامی بھری ۔۔۔
اور اٹھ کے کھڑا ھوگیا۔۔۔
ثانیہ کے فگر کا پہلے ذکر کرچکا ھوں مگر پھر بھی بتاتا چلوں ۔
کہ ثانیہ کا قد تقریبََا پانچ فٹ تین انچ اور تیس کی کمر اور چالیس کی گانڈ اور چھتیس کے ممے تھے اور اسکا جسم شادی
کے بعد پہلے کی نسبت بھر گیا تھا اور اسکی گانڈ جو تھی گول مٹول مگر اب کچھ ذیادہ باہر نکل آئی تھی ۔
پتہ نئی سالی ُبنڈ مرواندی رئی اے اپنے بندے کولوں ۔
پر سانوں کی ۔۔۔۔
اودی چیز اے جیویں مرضی ورتے ۔۔۔
کیوں سجنوں سئی کیا اے ناں۔۔۔۔
خیر میں نے بائک باہر نکالی اور چہرے پر بڑی مجبوری اور الچاری التے ھوے بائک پر سوار ھوا ۔۔
اور میرا یہ ریکشن رئیل میں تھا ۔۔۔
کیونکہ ثانی کے بارے میں میری کوئی غلط نیت نہیں تھی ۔۔
جب آنکھوں کے سامنے حسن کی دیوی اور جان نچھاور کرنے والی محبوبہ ھو تو کون کافر کسی اور کی طرف بری نظر
سے آنکھ بھی اٹھا کر دیکھے ۔۔۔۔۔
ضوفی اور ماہی گیٹ تک ثانی کو چھوڑنے آئیں اور ثانی بڑی احتیاط سے مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے پیچھے بیٹھ
گئی ۔
اور دروازے پر کھڑی ماہی اور ضوفی کو باے باے کرنے لگ گئی اور ضوفی مجھے دھیان سے جانے اور جلدی واپس
آنے کا کہنے لگ گئی ۔۔
میں نے ہممممم کیا اور گئیر لگا کر بائک آگے بڑھائی اور آہستہ آہستہ بائک چالتے ھوے گلی سے نکال ۔۔
ہم دونوں ابھی تک خاموش ھی تھے ۔۔
آگے جاکر گلی میں ایک بڑا بے ترتیبا سپیڈ بریکر آیا جس پر مجھے اچانک بریک لگانا پڑی تو بریک لگتے ھی ثانی
جھٹکے سے کھسک کر میرے ساتھ لگ گئی اور ثانیہ نے آئییییییی کیا اور دھیان سے یاسررررر کہتے ھوے میرے کندھے
کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔۔
اور میں یہ محسوس کر کے حیران رھ گیا کہ ثانیہ میرے ساتھ چپکنے کے بعد پیچھے نہ ہٹی بلکہ اسی حالت میں میرے
کندھے کو پکڑے بیٹھی رھی ۔۔۔
مجھے جیسے ھی اپنی کمر پر ثانیہ کے نرم اور تنے ھوے ممے کا احساس ھوا جو تقریبا میری کمر کے ساتھ پریس ھوچکا
تھا ۔۔
تو میرے اندر شہوت کی گھنٹیاں بجنے لگ گئیں ۔۔
اور نہ چاہتے ھوے بھی میرا دھیان ثانیہ کے نرم موٹے گول مٹول ممے کی طرف ہوگیا ۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی میں بتا چکا
ہوں کہ
کالونی کا فاصلہ کافی تھا اور ضوفی کے گھر سے تو اور ذیادہ وقت لگ جانا تھا کیوں کہ گلیوں محلوں سے ہوکر جانا پڑنا
تھا ۔
اوپر سے رات کے بارہ ایک بجنے والے تھے ہر طرف ہوووو کا عالم تھا ۔۔۔
)Update no (155
کوئی ایک آدھ موٹر سائکل یا کار نظر آتی ۔۔۔
مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ کوئی چور ڈاکو ھی نہ راستہ روک لے ۔مگر پھر بھی حوصلہ کرکے میں آرام آرام سے بائک
چالتے ھوے جارھا تھا ۔۔
ثانیہ نے پیچ کلر کا سلک کا سوٹ پہنا ھوا تھا اور چائنہ سلک میں جسم جتنا سیکسی لگتا ھے شاید ھی کوئی کپڑا ایسا ھو
جس میں عورت کا جسم اتنا سیکسی نمایاں ھوتا ھو ۔۔
اس کپڑے میں ملبوس کوئی پچاس سال کی آنٹی بھی ھو تو اسکے جسم پر اگر ہاتھ پھیرو تو جوان بچی کے جسم جیسا لطف
آتا ھے ۔۔
تو سجنوں ۔
جد بچی بھی جوان ھو زیب تن بھی چائنہ سلک ھو ۔
رات بھی آدھی ھو۔
راستہ بھی سنسان ہو ۔
بچی بھی ساتھ چپکی ھو
تو پھر
ُتسی ای ی ی دسو
یاسر ایتھے ُبنڈ دیوے ۔۔۔۔۔
خیر ایک دو گلیوں میں بار بار بریکیں لگانے سے ثانیہ کی ران اور گانڈ ایک حصہ بھی میرے ساتھ لگ چکا تھا ۔
مختصرا کہ ران سے کمر اور کمر سے ایک مما میری کمر کے ساتھ لگا ھوا تھا ۔۔۔
ابھی تک سواے
دھیان سے یاسرررر کے عالوہ میری اور ثانی کی کوئی بات نہ ہوئی تھی ۔۔
کچھ ھی دیر بعد ثانیہ نے ھی خاموشی کو توڑا اور بولی ۔
اور سناو یاسر دکان کیسی چل رھی ھے میں نے مختصرًا جواب دیا کہ بہت اچھی جارھی ھے ۔
اور پھر ثانیہ بولی
اور ضوفی کے ساتھ خوب مزے ھورھے ہیں ۔۔۔۔
میں ایکدم چونک کر بوال کیا مطلب ۔۔۔
تو ثانیہ کچھ ہڑبڑا کر بولی ۔
ممم میرا مطلب کے تمہاری اور اسکی فرینڈشپ کیسی چل رھی ھے میں نے کہا آپ کے سامنے ھی ھے ۔۔۔
ثانیہ بولی ۔
.ثانیہ بولی ۔
ہمممم وہ تو میں نے دیکھا ھی ھے بات کافی آگے بڑھ چکی ھے ۔۔
میں نے کہا جی ایسا ھی کچھ ھے ۔۔۔
ثانیہ ٹھنڈا ہو کا بھر کر بولی چلو اچھی بات ھے ۔
مزے کرو۔۔۔
میں نے موضوع بدلتے ھوے پوچھا ۔
کہ ثانیہ جی آپ نے بڑی جلدی شادی کرلی پتہ بھی نہیں چلنے دیا ۔۔۔
ثانیہ کچھ سنجیدہ سی ھوکر بولی بسس جو قسمت کو منظور ھو ۔
انسان تو اچھے کے لیے سب کچھ کرتا ھے مگر آگے قسمت کو کچھ اور ھی منظور ھوتا ھے ۔۔۔
میں نے چونک کر کہا کیا مطلب ۔۔
ثانیہ بولی چھوڑو دفعہ کرو تم سناو کب شادی کررھے ھو ۔۔۔
میں نے کہا ۔
آپ نے بات بدل لی اگر بتانا پسند نہیں کرتی تو ٹھیک ھے جیسے آپکی مرضی ۔۔۔
ثانیہ بولی ۔
نہیں یاسر ایسی بات نہیں ھی بس سسسسسس کیا بتاوں اپنی قسمت پر رونا آتا ھے ۔۔
میں نے کہا کیا ھوا قسمت کو ۔۔
کیا آپ شادی کر کے خوش نہیں ۔
ثانیہ بولی خوش رہنے کے لیے ھی شادی کی تھی مگر جب مقدر میں خوشی ھو ھی نہ تو بندا کیا کرے ۔۔۔
میں نے کہا ثانیہ اگر آپ برا نہ مانیں تو پلیززز ذرہ وضاحت کردیں گی کہ ۔
کیا وجہ ھے جو آپ اتنی پریشان ہیں ۔۔۔
ثانیہ میرے کندھے پر سر ٹکا کر ۔
لمبا سانس کھینچ کر چھوڑتے ھوے سر اٹھا کر بولی ۔۔
یاسر میں تو ابھی پڑھنا چاھتی تھی تمہیں بتایا بھی تھا کہ میں کالج میں سیکنڈ ائیر میں پڑھ رھی یوں ۔
بس میری قسمت خراب کے گھر والوں کو ایک رشتہ کروانے والی مائی نے اپنی چٹ پٹی باتوں میں الکر میرا رشتہ طے
کروا دیا کہ لڑکا دبئی میں اچھی جاب کر رھا ھے اور ابھی وہ چھٹی پر پاکستان آیا ھے اور شادی کر کے اس نے واپس جانا
ھے اور پھر تین مہینہ بعد لڑکی کو بھی ساتھ لے جاے گا ۔۔۔
میرے گھر والے اس خرافہ عورت کی باتوں میں آگئے اور رشتہ طے کردیا ۔۔
اور منگنی کے دس دن بعد ھی سادگی سے میرا نکاح کر دیا ۔۔
اور شادی کے ہفتہ گزرنے کے بعد ھی میرا خاوند ۔۔
مجھے یہ کہہ کر امی کے گھر چھوڑ گیا کہ میں تین مہینہ بعد تمہارا ویزہ بھیجوں گا اور تمہیں بھی بلوا لوں گا مگر ۔۔۔۔۔
ثانیہ کی آواز روہانسی ھوگئی ۔۔
میں نے کہا مگر کیا۔۔۔
ثانیہ اپنے آنسو صاف کرتے ھوے بولی ۔
ویزہ تو کیا بھیجنا تھا ۔
اس نے جا کر میرا حال پوچھنا بھی گوارا نہ کیا ۔۔۔
مہینہ گزرنے کے بعد ایک خط آیا جس میں سواے تسلی دینے کے کچھ نہیں تھا اور پھر تین مہینے گزر گئے جس میں دو
خط مذید آے اور پھر نہ انکا کوئی خط آیا نہ ھی انہوں نے کوئی خرچہ بھیجا ۔میں سسرال گئی ۔
مگر سسرال والوں نے بھی مجھے کوئی لفٹ نہ کروائی اور نہ ھی میری انسے کوئی بات کروائی بلکہ الٹا مجھے قصور وار
گردانتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا بیٹا واپس نہیں آیا نہ ھی اسکا کوئی فون یا خط آیا ھے ۔۔۔
مگر مجھے اپنے سسرال والوں کے ہمسایہ سے پتہ چال کہ یہ لوگ جھوٹ بول رھے ہیں انکے لڑکے کی پہلے بھی دو
شادیاں ھوچکی ہیں ۔۔
جو اسی وجہ سے طالقیں ہوئیں ہیں ۔۔۔میں نے ثانیہ کی بات کاٹتے ھوے کہا کہ کتنی دیر ھوگئی ھے شادی کو۔۔
ثانیہ بولی دوسرا سال ختم ھونے کو ھے ۔۔۔
میں نے دکھ کر اظہار کرتے ھوے کہا ۔
بیت دکھ ھوا ثانیہ آپکے ساتھ تو بہت ظلم ھوا ۔۔
اور پھر ثانیہ نے بتایا کہ ابھی تک اسے نہ طالق ملی ھے اور نہ ھی اسکا شوہر واپس آیا ھے اور نہ ھی سسرال والوں نے
گھاس ڈالی ھے ۔
بلکہ وہ اپنی امی کے پاس ھی رھ رھی ھے ۔
اور کپڑے سالئی کرکے گزارہ کررھے ہیں بھائی جو الہور میں کسی فیکٹری میں مالزم ھے جو پندرہ دن بعد گھر چکر
لگاتا ھے ۔۔
ثانیہ کی سٹوری سن کر مجھے دلی دکھ ھوا کہ ۔
بیچاری کے ساتھ اتنی چھوٹی عمر میں ھی کتنا بڑا ظلم ھوا ھے ۔۔
خیر ایسے ھی باتیں کرتے ھوے ہم کافی سفر طے کرچکے تھے ۔
میں بائک بہت سکون سے چال رھا تھا ۔۔
ثانیہ مجھ سے پھر پوچھنے لگ گئی کہ ضوفی کے ساتھ ریلیشن شپ کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے
ہماری کبھی لڑائی نہیں ھوئی ۔۔
تو ثانیہ بڑے طنزیہ انداز میں بولی ۔۔
لڑائی کیسے ھونی ھے ۔
انکی موجیں لگی ہوئی ہیں ۔۔۔
میں نے چونک کر گردن گھما کر ثانی کی طرف ایک نظر ڈالی اور پھر سامنے دیکھتے ھوے بوال کیا مطلب میں سمجھا
نہیں ۔۔
ثانی بولی ۔
کچھ نہیں ۔۔۔
میں نے پھر کہا ۔۔
ثانی پلیز بات مکمل کیا کرو ایسے بندہ غلط فہمی کا شکار ھوجاتا ھے ۔۔۔
ثانی بولی ۔
کچھ نہیں یاسر ایسے تم برا مان لو گے اور اگر ضوفی کو پتہ چال تو وہ الگ سے ناراض ہوگی ۔۔۔
میں بچہ تو نہیں تھا ۔
کہ ثانیہ کی عیاری نہ سمجھ سکتا ۔۔
دوسری طرف کالونی بھی قریب آنے والی تھی میں نے نظریں ادھر ادھر دوڑانی شروع کی تو مجھے سڑک کے ایک طرف
کچھ درخت نظر آے تو میں نے درختوں کے پاس پہنچ کر بریک لگا دی چاروں طرف سناٹا ھی تھا دور دور تک کوئی بھی
شے نظر نہیں آرھی تھی بریک لگاتے ھی
میں .نے ثانیہ کے اندر سے اسکے دل کا غبار اگلوانے کے لیے ۔
پتہ پھینکا ۔
اور بوال ۔
دیکھو ثانیہ جیسے ضوفی میری دوست ھے میں ویسے ھی تمہیں بھی دوست سمجھتا ھوں ۔
اور میری یہ عادت نہیں کہ ادھر کی بات سن کر ادھر جاکر کروں ۔۔۔
میں نے ساتھ ھی بائک کا سوئچ بھی اوف کردیا ۔۔
جس سے ہیڈ الئٹ بھی بند ھوگئی ۔۔
)Update no (156
ثانیہ کچھ گبھرا سی گئی اور بولی ییییی تم نے بائک کیوں روک دی ۔۔وہ بھی اتنی سنسان جگہ پر ۔۔
میں نے کہا ۔۔
یار ڈرو نہ میں تمہارے ساتھ ھوں گبھرا کیوں رھی ھو۔۔
ثانی بولو نہیں یاسر میں تم سے نہیں اس ویرانے سے گبھرا رھی ھوں اگر کسی نے ہمیں اس وقت یہاں رکے دیکھ لیا تو
کوئی ایسے مسئلہ بن جاے گا اس لیے چلو راستے میں بات کرلیتے ھیں ۔۔
میں نے کہا کچھ دور کالونی رھ گئی ھے بات کیا ھونی ھے ۔۔
ثانی بولی کوئی بات نہیں ہم پھر کسی دن بات کر لیں گے مگر ابھی چلو ادھر سے ۔۔
میں نے کہا ۔۔
یار میں تو تمہیں اپنا دوست سمجھتا تھا مگر تم تو ڈرہوک نکلی تمہاری جگہ اگر ضوفی ھوتی تو اسکو چاہے میں جنگل میں
لے جاتا اس نے اففففف تک نہیں کرنی تھی ۔۔۔
میرا تیر بلکل نشانے پر لگا۔۔۔
اور ثانیہ بولی ۔۔
ایسی بھی بات نہیں ضوفی سے تو میں الکھ گنا بہادر ھوں ۔۔
اسکو تو تم سے مطلب ھے اس لیے ایسا کر سکتی ھے مگر مجھے ایسی کوئی اللچ نہیں ۔مگر پھر بھی ٹھیک ھے بولو کیا
ہوچھ رھے تھے ۔۔
میں نے کہا یہ یہ جو ابھی تم نے کہا ھے کہ ضوفی کو مجھ سے اللچ ھے میں سمجھا نہیں ۔۔
ثانیہ بولی ۔۔
چھوڑو یاسر تم نے یقین نہیں کرنا ۔۔
میں نے کہا میں نے تم کو کہا ھے نہ کہ میں جیسے ضوفی کو اپنا دوست سمجھتا ھوں تم بھی میرے لیے ویسی ھی دوست
ھو ۔۔۔
تو ثانیہ نے بڑے نخرے سے ہنکارہ بھرتے ھوے کہا۔۔۔
جانے دو کیوں جھوٹ بول رھے ھو اگر ایسی ھی بات ھوتی تو ۔
اگر ضوفی کے لیے سوٹ اور سینڈل ال سکتے تھے تو میرے لیے بھی التے ۔۔۔
مگر مجھے ضرورت بھی نہیں ان چیزوں کی ۔۔
اگر تم لے کر بھی آتے تو میں نے رکھنے ھی نہیں تھے ۔
ضوفی کی طرح نخرے بھی دیکھاے اور رکھ بھی لیے ایسا کچھ نہیں ھے مجھ میں ۔۔۔
میں ثانیہ کی باتوں سے اسکی نفسیات کے طے تک پہنچ گیا ۔۔
کہ یہ سالی مجھے ان فرشتہ صفت لوگوں اے بدزن کر کے اپنے جال میں پھنسانا چاھتی ھے ۔۔۔
ثانیہ بائک سے اتر کر مجھ سے کچھ فاصلے پر میری طرف منہ کر کے کھڑی تھی جبکہ میں بائک پر ھی بیٹھا ھوا تھا
۔
ثانیہ کی بات سن کر میں نے کہا ۔۔
اوووو سوری یار میں تو اس لیے نہیں الیا کہ تم کہیں برا نہ محسوس کرو اور کہیں ضوفی تمہارے بارے میں غلط نہ سوچے
۔۔۔
ثانیہ بولی اچھا کیا تم نہیں الے ورنہ اس نے کچھ اور ھی سمجنا تھا ۔
اور ویسے بھی میں نے کونسا سوٹ لینا تھا ۔۔میرے پاس تو اپنے بڑے اچھے اچھے سوٹ پڑے ہیں ۔۔
میں نے دل میں سوچا سالی کتنی ڈرامے باز ھے ابھی راستے میں اپنی غربت کے رونے رو رھی تھی اور اب کیسے
شیخیاں مار رھی ھے وہ بھی
شیخو کے سامنے ۔۔۔
.خیر میں نے کہا اچھا دفعہ کرو انہیں اور بتاو کہ تم نے یہ کیوں کہا کہ ضوفی کی موجیں لگی ہوئی ہًیں۔
میں تو اس سے شادی کرنے کا سوچ رھا ہوں مگر تم نے تو مجھے ڈرا ھی دیا ھے ۔۔۔
ثانیہ اپنا مقصد پورا ہوتے دیکھ کر تھوڑا میرے قریب ہوئی اور ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھتے ھوے بولی ۔
سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا جو بھی کرنا ھے ۔۔
میں نے بھی ادھر ادھر گردن گھما کر بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا ثانیہ تم اگر مجھے اپنا دوست سمجھتی ھو تو پلیز
میری مدد کرتے ھوے مجھے ان لوگوں کے بارے میں بتا دو ۔۔
ثانیہ بولی یہاں کیسے اتنی تفصیل سے بات کروں ۔۔
میں نے ایسے ھی چاروں طرف نطر دوڑائی ۔۔۔
جگہ تو میں پہلے ھی دیکھ چکا تھا جہاں ہم چھپ کر بیٹھ سکتے تھے ۔۔
میں نے کہا چلو ادھر چل کر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔
اور یہ کہہ کر میں ثانیہ کی بات سنے بغیر بائک کے اوپر بیٹھا ھی پیروں سے بائک کو آگے بڑھاتا ھو درختوں کے پیچھے
جانے لگا ثانیہ نے بس یہ ھی کہا بات تو سنو ادھر کہاں جارھے ھو مگر میں آگے چل پڑا تھا تو ثانیہ بھی اپنا سلکی فراک
ہاتھوں میں اٹھاے جھاڑیوں کو پھالنگتی ھوئی ۔۔
میرے پیچھے پیچھے آنے لگ پڑی ۔۔
یاسررر رکو تو بات سنو
آیستہ آہستہ سے کہتی ھوئی میرے پیچھے پیچھے درختوں کے جھنڈ میں آگئی ۔۔۔
میں نے بائک سٹینڈ پر لگائی اور بائک کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ھوگیا ۔
ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں کافی سارے گھنے درخت تھے اور دوسری طرف دیوار تھی شاید کوئی نئی کالونی بن رھی
تھی جس کی چاردیواری کی گئی تھی ۔
مگر جگہ بلکل سنسان تھی ۔
اور سڑک کی جانب سے ہم درختوں کی اوٹ میں ہوگئے تھے اگر کوئی رک کر ہماری طرف الئٹ مار کر دیکھتا تو پھر
شاید ہم اسے نظر آجاتے ورنہ اگر کوئی راہگزر موٹرسائیکل یا گاڑی واال ہمیں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔
دوستو اے طے توانوں چنگی طراں پتہ اے کہ تواڈا ویر جگہ لبن وچ پورا کھرانٹ اے ۔۔۔۔
خیر ثانیہ میرے سامنے آکر کھڑی ھوگئی اور مموں پر بازو باندھ کر ہاتھ بغلوں میں دے کر مصنوعی غصے سے بولی ۔
یاسر یہ کیا پاگل پن ھے بھال یہ بھی کوئی جگہ ھے رکنے کی ۔۔
میں نے کہا ثانیہ یار ادھر ہمیں کھڑے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس لیے بلکل ریلیکس ہوکر بتاو ۔۔۔
ثانیہ بولی ہاں پوچھو کیا پوچھنا تھا۔۔
میں نے کہا ۔
یار وہ ھی ان لوگوں کا پوچھنا تھا کہ کیسے لوگ ہیں۔
تم تو انکو کافی عرصہ سے جانتی ھو۔۔
ثانیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے بولی ۔
یاسر دیکھو تم ایک اچھے لڑکے ھو مجھے تم اچھے بھی لگتے ھو میں نہیں چاہتی کے تم دھوکے میں رھو ۔
یہ ضوفی لوگ اچھے لوگ نہیں ہیں ۔۔
میں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ھوے کہا۔۔
کیااااا
کھل کر بتاو ثانیہ میرا تو دل بیٹھا جارھا ھے ۔۔
میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سینے کو مسلتے ھوے کہا۔۔۔
ثانیہ نے لوھا گرم دیکھ کر ایک اور چوٹ ماری
بولی ۔
یاسر یہ لوگ دوسروں کو بیوقوف بنا کر مال کھاتے ھیں ۔
ایسے تو نہیں انہوں نے پکا مکان بنا لیا وہ بھی ڈبل سٹوری نہ انکا کوئی بھائی ھے نہ انکے سر پر باپ ھے ۔۔
اکیلی ضوفی ھی کماتی ھے ۔۔
تم نے نیا نیا کاروبار شروع کیا ھے ۔
انکی تو موجیں لگ گئیں ہیں ۔۔
.اگر یوں ھی تم ان پر لوٹاتے رھے تو
یہ تمہیں بہت جلد کنگال کردیں گی ۔سہی پوچھو تو مجھے بہت دکھ ہورھا ھے کیسے تم سے اتنے مہنگے گفٹ اور اتنی
چیزیں لے رہیں تھی ۔
ذرہ بھی شرم نہیں ھے ان کو ۔
تم کیسے محنت کر کے کماتے ھو ۔۔
اور وہ کیسے بے شرمی سے تمہیں اجاڑ رہی ہیں اور مجھے تو انکی ماں پر غصہ آرھا تھا کہ کیسے وہ بھی بیٹیوں کے
ساتھ مل کر تم کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ۔۔۔
میں نے سارے جہاں کا دکھ درد اپنے چہرے پر اکھٹا کیا اور ثانیہ کا بازو کالئی سے پکڑا جو اس نے اپنے مموں پر رکھا
ہوا تھا کالئی کو پکڑتے ھوے میری انگلیاں ثانی کے ممے پر لگ گئیں جس سے ثانی کا جسم ہلکا سا کانپا۔
مگر میں تو دکھی تھا پریشان تھا تازہ تازہ دل ٹوٹا تھا
کسی سہارے کی تو ضرورت تھی نہ۔۔۔
اور اس وقت بہترین سہارہ ثانی ھی تھی میری محسن میرا خیال رکھنے والی ۔۔۔
میرا احساس کرنے والی ۔۔۔۔
میں نے ثانی کی کالئی پکڑ کر اسکے مموں سے ہٹائی اور کالئی سے ھاتھ کھسکا کر اسکے نرم ہاتھ کو پکڑ کر دوسرا ھاتھ
اسکے ہاتھ پر رکھ کر روہانسے لہجے میں بوال۔
ثانی تم نے تو میری آنکھیں کھول دی ۔مجھے لٹنے سے بچا لیا ۔تمہارا یہ احسان کیسے اتاروں گا۔۔
ثانی مذید کچھ آگے بڑھی اور دوسرا ھاتھ میرے کندھے پر رکھا اور پھر میری گال پر رکھ کر گال کو سہالتے ھوے بولی ۔
حوصلہ کرو یاسر ۔۔
ابھی کچھ نہیں بگڑا۔۔
دیر آے درست آے۔۔۔
میں نے مذیڈ غمگین ھوتے ھوے اپنی گال پر رکھے ثانج کے ھاتھ کو پکڑ کر اسکے ہاتھ سے اپنی گال کو سہالتے ھوے
بوال ۔
کیسے حوصلہ کروں میں میرا تو دل ٹوٹ گیا ھے میں کیا کروں گا ۔۔
ثانی مذید آگے بڑھی اور دوسرا ھاتھ بھی میری گال پر رکھ کر مجھے حوصلہ دیتے ھوے بولی صبر کرو یاسر میں ھوں نہ
تم کیوں پریشان ھو رھے ھو ۔
میں نے ثانیہ کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنی گالوں سے ہٹاتے ھوے پیچھے اپنی گردن پر لیجا کر چھوڑے اور ہاتھ نیچے ال
کر ثانیہ کی کمر کے گرد ڈال کر اس کو اپنی طرف کھینچ کر ساتھ لگا لیا اور آہستہ آواز میں رونے لگا بین کرنے لگ گیا۔۔۔
)Update no.(157
ثانیہ میری گردن کے بالوں کو سہالتے ھوے مجھے چپ کروانے لگ گئی ثانی کے نرم نرم ممے میرے سینے کے ساتھ
لگے ھوے تھے ۔۔۔
میں نے پھر کہا۔۔
ثانیہ تم بہت اچھی ھو تم نے تو میری آنکھیں کھول دی تم ھی میری بیسٹ فرینڈ ھو ۔۔
اور ساتھ ھی میں نے ہونٹ ثانی کے کان کے نیچے گردن پر رکھ دیے اور تھوڑی سی زبان نکال کر اسکی گردن کو چاٹ
لیا ثانی کے جسم کو ذور دار جھٹکا لگا اور اس نے سییییییییی کرتے ھوے مجھے مذید اپنے ساتھ لگا لیا
اور ایک ہاتھ میری کمر پر اور دوسرا ہاتھ میری گردن پر رکھے مجھے دالسا دیتے ھوے چپ کروانے لگ گئی ۔۔۔
میں نے ثانیہ کی کمر کے گرد بازوں کا گھیرا ڈاال اور اسے اپنے ساتھ لگا کر اسکی کمر کو سہالنے لگ گیا۔۔
میرے آنسو تو نکل نہیں رھے تھے بس آواز کے ساتھ رونے کی ایکٹنگ کری جارھا تھا اور ثانیہ کے سیکسی جسم کے لمس
کا انجواے کررھا تھا ۔۔۔
ثانی کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے مجھے بہت مذہ آرھا تھا اور نیچے سے میرا لن بھی ٹائٹ ھوکر پینٹ میں ابھار بناے ثانی
کی ناف کے ساتھ لگا ھوا تھا۔۔
میں نے ثانی کی گردن سے ہونٹ ہٹاے اور اسکے ہونٹوں کے سامنے ہونٹ لیجا کر بوال ثانی تم کتنی اچھی ھو ۔
بڑے وقت پر تم نے مجھے سب بتا دیا اور میں بات کرتے ھوے ہونٹ ثانی کے ہونٹوں کے بلکل قریب لے گیا ثانی کا جسم
ہلکے سے کانپ بھی رھا تھا اور اسکے ہونٹ بھی کپکپا رھے تھے ۔
میں نے ثانی کی پوزیشن دیکھی اور ساتھ ھی ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔۔
ثانی نے ایک دم اپنی پوری آنکھیں کھولیں اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہنے ھی لگی تھی کہ میں نے اسکا
نیچے واال ہونٹ منہ میں ڈال کر اسکی بولتی بند کردی ۔
اور ثانیہ نے بھی آنکھیں بند کرلیں اور دونوں ھی ہر چیز سے بیگانے ھوکر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے لگ گئے
۔
میں نے ساتھ ھی ثانیہ کی کمر سے ہاتھ پھسالتے ھوے نیچے گانڈ کی طرف لیجانا شروع کردیا
ثانیہ نے النگ ہیل پہنی ھوئی تھی اسکے باوجود بھی وہ اوپر کو ہوکر میرے ساتھ کسنگ کررھی تھی ۔۔۔
میرا ھاتھ سرکتا ھوا ثانیہ کی گانڈ پر پہنچا اور اسکے نرم نرم چوتڑوں کو مٹھی میں بھرتے ھی
۔
میرے دماغ پر فل شہوت طاری ہوگئی ۔۔
اور میری کسنگ میں شدت پیدا ھوگئی اور ساتھ ھی ثانیہ کی گانڈ کو دبوچ کر آگے طرف ذور لگا کر تھوڑا سا نیچے ھوکر
لن کے ابھار کو ثانیہ کی پھدی کے ساتھ لگا کر مسلنے لگ گیا۔۔۔
ثانیہ بھی فل گرم ھوچکی تھی پتہ نہیں کتنے عرصہ سے لن کی پیاسی تھی ۔۔۔
.وہ بھی اپنی گانڈ کا ذور آگے کی طرف لگا کر گانڈ ہالتے ھوے میرے لن کے ابھار پر پھدی کو مسل رھی تھی ۔۔۔
میں نے کچھ ھی دیر بعد ثانیہ کی فراک کو انگلیوں کے ساتھ اوپر کھینچتے ھوے اسکی فراک گانڈ سے اوپر کر دی اور پھر
فراک گانڈ سے اوپر کر تے ھی ہاتھ اسکے چست پجامے میں ڈال کر اسکی مالئم اور نرم گانڈ کو مٹھی میں بھینچنا شروع
کردیا۔۔
ثانیہ کے منہ سے ایکدم سییییییی نکال اور وہ زور لگا لگا کر مجھے اپنے جسم کے ساتھ چپکانے لگ گئی ۔۔۔
میں نے آہستہ آہستہ ثانیہ کے تنگ پجامے کو اس انداز سے گانڈ سے نیچے کرنا شروع کر دیا کہ اسے احساس بھی نہ ہوا کہ
میں اسکا پجامہ گانڈ سے نیچے کر کے اتار رھا ہوں ۔۔
اسکو یہ ھی لگ رھا تھا کہ مجھے اسکی پوری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے میں پرابلم ہورھی ھے ۔
اس وجہ سے اسکا پجامہ میرے ھاتھ کی گردش سے خود ھی نیچے جارھا ھے ۔۔
ثانیہ کا پجامہ اسکی گانڈ سے نیچے کرنے کے بعد میں نے ہاتھ اسکی گانڈ سے ہٹایا اور ہاتھ کو آگے ال کر ثانیہ کی پھدی پر
رکھ دیا ۔۔۔
اففففف کلین شیو پھدی اور پھدی کا ابھار ھاےےےےےے ۔
میں نے جیسے ھی پھدی پر انگلیاں رکھیں۔۔
ثانیہ نے آہہہہہہہہہہہ کرتے ھوے اپنے چڈوں کو آپس میں بھینچ لیا اورپھر چڈوں کو ڈھیال کرتے ھوے پھدی کو میرے ہاتھ
کے ساتھ مسلنے لگ گئی۔۔۔
میں نے ثانیہ کا چست پاجامہ آگے سے بھی نیچے کردیا اور پاجامہ ثانیہ کے گھٹنوں تک چال گیا ۔۔
ثانیہ کا النگ فراک مجھے تنگ کر رھا تھا ۔
آگے سے بھی فراک اکھٹا کر کے اپنی کالئی پر رکھا ھوا تھا اور ہاتھ اسکی پھدی پر رکھ کر انگلیوں سے پھدی کے لبِو ں
اور موٹے دانے کے سے چھیڑ چھاڑ کر رھا تھا
ثانیہ کی پھدی کافی گیلی تھی ۔
اور میری انگلیوں کا لمس پانے کی وجہ سے مذید پانی چھوڑے جارھی تھی ۔۔۔
میں نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر پینٹ کے اوپر سے ھی لن پر رکھا ۔
ثانیہ نے مستی میں لن کے ابھار کو مٹھی میں بھینچا اور پھر یکدم ایسے چھوڑا جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ھو ۔۔۔۔میں نے
پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر لن کے ابھار پر رکھ دیا۔۔
ثانیہ نے ہچکچاہٹ کے ساتھ لن کو پکڑا اور پھر مٹھی بھر بھر کے ابھار کو ٹولنے لگ گئی جیسے اسکو یقین نہ آرھا ھو
کہ پینٹ کے اندر واقعی لن ھی ھے ۔ثانی جب میرے لن کو مٹھیاں بھر بھر ٹولنے لگی تو ۔
میں نے اگال وار ثانیہ کے مموں پر کیا اور ایک ہاتھ پھدی پر اور دوسرا ہاتھ ممے پر رکھ دیا اور ممے کو مٹھی میں بھر کر
دبانے لگ گیا ۔
ثانیہ کے ممے فل تنے ھوے تھے اور کافی ابھرے ھوے بھی ۔
اور اوپر سے سلک کے کپڑے میں قید اففففف کیا ھی سوفٹنس تھی مموں کی میں پھدی میں فنگر کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں
مموں کو باری باری دبا رھا تھا ۔
اور ثانیہ میرے لن کو پکڑے چہرہ آسمان کی طرف اٹھاے سسکاریاں بھر رھی تھی
ثانیہ کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے میری دو انگلیاں آسانی سے پچ پچ پچ کرتے اندر باہر ھو رہیں تھی ۔
چند ھی لمحوں میں ثانیہ کا جوش بڑھنے لگا اور ثانیہ آہہہہہہہہ سیییییییی کرتے ھوے میرے لن کو ذور ذور دے دباتے ھوے
چڈوں کو بھینچنے لگی اور پھر ایک دم ثانیہ چڈوں میں میرے ہاتھ کو اور پھدی میں میری انگلیوں کو بھینچ کر جھکتی ھوئی
ھاےےےےےےےے ممممممم گئییییییییی کرتے ہوے نیچے کی طرف بیٹھتی گئی اور اسکا جسم ایک دم کانپا اور پھدی سے
منی نکلنا شروع ھوگئی میری انگلیاں اسکی پھدی میں پھنسی ھوئیں تھی اور پھدی کی گرمائش بتا رھی تھی کہ ثانیہ سیکس
کی کتنی پیاسی ھے ۔۔۔
کچھ دیر بعد ثانیہ نارمل ہوئی تو میں نے پھدی سے ہاتھ نکاال اور ثانیہ کو بازوں سے پکڑ کر اٹھایا تو ثانیہ مارے شرم کے
سر جھکائے نظریں نیچے کیے اٹھ کر کھڑی ھوگئی ۔۔
اور میں نے اسکو پیچھے کرتے ھوے اسکی گانڈ بائک کی سیٹ کے ساتھ لگائی اور اسکا فراک پکڑ
کر اوپر کرنے لگا تو ثانیہ بولی پلیز یاسر یہ نہیں کرنا جتنا ھوگیا ھے وہ ھی کافی ھے ۔۔
پلیز نہ کرو یاسر میں نے اپنے خاوند کے عالوہ کبھی کسی اور مرد کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔
پلیززز چلو مجھے گھر جانا ھے ۔۔
میں نے کہا جان کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔ثانیہ میرے ھاتھوں میں پکڑے فراک کو نیچے کرنے کی کوشش کرتے ھوے
بولی ۔
پلیزززز یاسر مجھے پہلے ھی خود پر ندامت ھورھی ھے کہ تم نے مجھے کہاں کہاں سے چھو لیا پلیزززز اور نہیں ۔۔۔۔
میں نے کہا جان بس دومنٹ میں تمہارا دوست ھوں کوئی انجان تو نہیں۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے تھوڑا ذور لگا کر ثانیہ کا فراک اوپر کرنا شروع کر دیا اور مموں سے اوپر لیجا کر اسکے
ممے بریزیر سمیت فراک سے باہر نکال دیے اور فراک اکھٹا کر کے اسکو پکڑنے کا کہا ثانیہ نے نخرے دیکھاتے ھوے
بہت ضدی ھو تم یاسر بھال ایسے بھی کوئی کرتا ھے کہتے ھوے فراک اپنے مموں کے اوپر اکھٹا کر کے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔
.میں ثانیہ کے بلکل سامنے کھڑا ھوکر دونوں ھاتھ اسکے مموں کی طرف لے کر گیا اور اسکے بریزیر کو پکڑ کر اسکے
ممے سے اوپر کردیا ۔۔
ممے کافی موٹے اور سڈول تھے ۔
جس کی وجہ سے بریزیر میں پھنسے ھوے تھے ۔
میں جب مموں کو باہر نکاال تو ممے چھلک کر باہر نکلے اور اندھیرے میں بھی دودھیا رنگ کے ممے چمک رھے تھے ۔۔۔
میں ثانیہ کے ننگے مموں کو دیکھتے ھی انکو مٹھیوں میں بھینچ لیا۔۔
ثانیہ نے سیییییییییی کرتے ھوے کہا۔۔
آہستہ یاسرررر درد ھوتی ھے ۔
ثانیہ کی بات سنتے ھی میرے ھاتھوں کی گرفت ڈھیلی ھوگئی ۔۔
اور میں پیار پیار سے مموں کو دبانے لگ گیا ۔
اور پھر آگے کو ھوا اور جھک کر پہلے ایک ممے کو منہ میں ڈال کر اچھی طرح چوسا اور پھر دوسرے ممے کو اچھی
طرح سلیقے سے چوسنے لگ گیا ۔۔
ثانیہ پھر گرم ھوگئی تھی ۔۔
اور گانڈ سیٹ پر رکھے ایک ھاتھ میں فراک اوپر کر کے پکڑے دوسرے ھاتھ سے میرے سر کے بال سہال رھی تھی
اور چہرہ کبھی آسمان کی طرف اٹھا کر سییییییی آہہہہہہہ مممممممم کرتی تو کبھی مموں کو چوستے ھوے مجھے دیکھ کر
آہہہہہہہ سارا منہ میں ڈالو ھاں یاسررررررررر آہہہہہہہہہ
کہتی ۔
)Update no (158
ثانیہ کے گول مٹول مموں کی جی بھر کر چوسا اور ۔
اسکا پجامہ جو پہلے ھی گھٹنو تک تھا اسکو مذید نیچے کر کے پینٹ کی بیلٹ کھولی اور پھر انڈر ویر اور پینٹ کو ایک
ساتھ ھی نیچے کردیا ۔۔۔
اور لن پکڑ کر جیسے ھی ثانیہ کی پھدی کے ساتھ لگایا تو ۔
ثانیہ نے جلدی سے پھدی پر ہاتھ رکھ لیا اور نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہہہہہہہیں یاسرررررر یہ کیا کرنے لگے ھو ۔۔۔
پلززززززز مجھے برباد مت کرو جتنا کرلیا اتنا ھی کافی ھے۔۔۔
میں نے کہا جان کچھ نہیں ھوتا بس دومنٹ کی بات ھے ۔۔۔
ثانیہ پھر نخرے دیکھاتے ھوے بولی ۔
نہییییں یاسر اگر کچھ ہوگیا تو میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہوں گی ۔۔۔
پلیزززز میری زندگی برباد مت کرو۔۔۔
میں نے کہا جان کچھ بھی نہیں ھوگا مجھ پر یقین رکھو ۔۔
ثانیہ بولی اگر کچھ ھوگیا۔۔
میں نے کہا یار ہوگا تب نہ جب میں اندر فارغ ھووں گا ۔۔
اور یہ کہتے ھوے میں نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر پھدی سے ہٹایا اور تھوڑا سا جھک کر لن کو پکڑ کر ٹوپا پھدی کے لبوں میں
سیٹ کرنے لگ گیا ۔
اندھیرے کی وجہ سے ثانیہ میرے لن کو سہی طرح سے دیکھ نہیں پارھی تھی ۔۔
میں نے ثانیہ کی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھوال اور ٹوپا پھدی کے لبوں میں رکھا اور ثانیہ کی کمر کو پکڑ کر گھسا مارا تو کافی
لن ثانیہ کی گیلی پھدی میں چال گیا ثانیہ نے آہہہہہہہہہہہہہ کرتے ھوے میرے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔
اور سیییییی کرتے ھوے بولی آرااااممممممم سے یاسررررررر درد ھورھا ھے ۔
میں گھسا مار کر ادھر ھی رک گیا مجھے اس پوزیشن میں سہی طرح سے کھڑا نہیں ھوا جارھا تھا ۔
میں نے لن واپس کھینچا تو ثانیہ کے منہ سے پھر ھاےےےےےے نکال۔
اور میں نے جھک کر ثانیہ کا پاجامہ اسکے پیروں میں کر کے ایک پیر سے نکال دیا۔۔
ثانیہ بولی یاسر یہ کیا کررھے ھو اگر کوئی آگیا تو میں کیسے اتنی جلدی پاجامہ پہنوں گی ۔۔
مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا۔۔
میں نے کہا یار ایسے ڈر رھی ھو اتنی رات کو ادھر کس نے آنا ھے ۔۔
اور ساتھ ھی میں نے ثانیہ کی ایک ٹانگ پاجامے سے آزاد کردی اور پھر اسکی ٹانگ اٹھ کر اوپر کی تو ثانیہ نے دونوں
بازو پیچھے کر کے دونوں ہاتھ بائک کی سیٹ پر رکھ لیے ۔
اب پوزیشن کچھ بہتر ہوگئی تھی
میں نے ثانیہ کی ٹانگ اوپر کی اور لن پکڑ کر پھر پھدی کے پاس کیا اور پھر ایک گھسا مار کر لن آدھا اندر کر دیا ۔۔۔
ثانیہ پھر ھاےےےےےے امیییییی کر کے سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔
میں نے ایک ھاتھ ثانیہ کی کمر پر رکھ کر اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا اور دوسرے ھاتھ سے اسکی ایک ٹانگ اٹھائی ھوئی
تھی ۔۔
لن آدھا پھدی کے اندر تھا۔۔۔۔
میں نے لن تھورا سا پیچھے کھینچا اور پھر گھسا مارا تو لن سارا ھی اندر چال گیا۔۔
ثانیہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور ثانیہ اپنی آواز کو دباتے ھوے مجھ سے ٹانگ چھڑوانے کی کوشش کرتے ھوے
بولی ۔۔
ھاےےےےےےےے مرگئی یاسررررررررر اتنا بڑا ھے تمہارا۔۔۔ھاےےےے میرا اندررررر گیا ھاےےےےےے باہر
نکالو اففففدفففف آہہہہہہہہہہہہہہہ
مگر میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر اسکی ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑا اور گھسے مارنے لگ گیا۔۔
ثانیہ ھاےےےےے آءء
آہہہہہہہیہ امممممممممن اففففففف کرتے ھوے گھسے برداشت کررھی تھی ۔۔
.مجھ سے اس پوزیشن مین بھی چدائی کرتے ھوے تھکن محسوس ھورھی تھی اور مزہ بھی کم آرھا تھا ۔۔
میں نے چند گھسوں کے بعد ھی ثانیہ کی ٹانگ چھوڑی اور لن باھر نکاال ۔
تو ثانیہ نے لمبا سانسسسس لیا۔۔
اور اففففففففف یاسررررررر تم نے تو مار ھی ڈاال کہہ کر سیدھی کھڑی ھوگئی ۔۔
میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اسکی کمر کو پکڑ کر اسکا منہ دوسری طرف کرنے لگا تو ثانیہ بولی اب کیا
ھے ۔۔
میں نے کہا یار ایسے مجھ سے ھو نہیں رھا تم دوسری طرف منہ کر کے سیٹ ک
پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن جاو ۔۔
ثانیہ بڑ بڑ کرتی دوسری طرف منہ کر کے سیٹ پر ھاتھ رکھ کر جھکی تو اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی ۔۔
میں نے ثانیہ کا فراک جو اسکی گانڈ پر آچکا تھا پکڑ کر پھر اوپر کر کے اسکی گانڈ ننگی کی اور اسکے کندھے کو پکڑ کر
اسکو مذید جھکنے کا کہا۔۔
تو ثانیہ بائک کے سیٹ پر کہنیاں رکھتے ھوے ۔
اپنا ماتھا سیٹ پر ٹکا لیا جس سے اسکی گانڈ کافی باہر کو نکل آئی اور کمر اندر کی طرف چلی گئی
میں نے اپنی ٹانگوں کو ہلکا سا خم دیا اور نیچے ھوکر لن کو پکڑ کر پھدی میں اڈجسٹ کیا تو ثانیہ بولی یاسر پلیزززززز
آرام سے کرنا تمہارا بہت بڑا ھے میری پہلے ھی جان نکال کر رکھ دی تم نے ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور پھدی میں لن سیٹ کر کے ہلکا سا پش کیا تو ٹوپا پھدی میں گھس گیا۔
ثانیہ سییی کرتے ھوے تھوڑا سا کسمکسائی ۔
تو میں نے اپنی پوزیشن مضبوط کر کے ثانیہ کی کمر کو پکڑا اور دوسرا گھسا مارا تو لن آدھا اندر چال گیا ۔۔
ثانیہ پھر ھاےےےےےے کر بولی ۔آراممممم سےےےےےےے۔
میں نے لن کو پیچھے کھینچا اور پھر تھوڑا ذوردار گھسا مارا تو لن سارا اندر اتر گیا اور ثانیہ پھر اپنے چیخ کو دباتے ھوے
آگے کو ھونے کی کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔
ماررر ڈاالاااا ظالم ۔۔۔
ھاےےےےےے بہت درد کرادی یاسرررررر
میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر گھسے مارنے شروع کردیے ۔
ثانیہ میرے ہر گھسے پر ھاےےےےے امی ھاےےےےے امی آہہہہہہہ آہہہہہہہ کررھی تھی جس سے مجھے مذید جوش
چڑھ رھا تھا اور میں لگاتار گھسے ماری جارھا تھا۔۔۔
تقریبًا دس منٹ چودنے کے بعد ثانیہ پھر چھوٹنے والی ھوگئی اور سسکاریاں مارتے ھوے گانڈ پیچھے کر کر کے لن اندر
لینے لگ گئی ۔۔
اور ساتھ ۔
میں آہ آہ آہ یس یس یس یس یاسررر سارا ای کردو سارااااا ایییییییی ہاں ہاں ایسے ھی آہ آہ آہ اویییییی افففففف ممممممم
آہہہہہہہہ مممممم گگگگگگئییییی یاسررررر کرتے ھوے ثانیہ نے پھدی کو سکیڑ کر لن کے گد گرفت سخت کی اور چڈوں
کو آپس میں مال کر جسم کو جھٹکے مارتے ھوے ۔
لو یو یاسرررر لو یو یاسررررررر تم میرےےےےےے ہوووووووو کرتے ھوے پھدی سے منی کا بہاو شروع کردیا ۔۔۔
میں وہیں سٹاپ کرگیا ۔۔
اور ثانیہ کے چھوٹنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔۔
)Update no (159
چند لمحوں بعد ھی ثانیہ کی سانسیں درست ھونا شروع ھوئیں تو مین نے پھر گھسے مارنے شروع کردییے ۔۔
اور گیلی پھدی میں چپ چپ چپ تھپ تھپ تھپ کی آواز رات کے سناٹے میں گونجنے لگ گئی اور پھر کچھ جاندار گھسوں
کے بعد میں نے پھرتی سے لن باہر نکاال اور ثانیہ کی موٹی گانڈ کی دراڑ گھسا کر ثانیہ کے اوپر ھی جھکتا گیا اور میرے
لن سے منی نکلی اور ساتھ ھی ایک نسوانی آواز میں ذوردار چیخ نے میرے پاوں تلے سے زمین نکال دی ۔۔۔۔۔
.چیخ اتنی ذوردار تھی کہ اگر کوئی آس پاس ہوتا تو ضرور سنتا۔۔
میں جو فارغ ہونے کے مزے میں ڈوبا ہوا تھا ۔
چیخ کی آواز سے ایک دم گبھرا گیا۔
اس سے پہلے کہ میرے ہوش وحواس قائم ہوتے کہ دوسری چیخ کے ساتھ ھی ثانیہ کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔
آآآآآآآآآآآآئی مرگئ ییییییییییییی ھاےےےےےےےے میری ُبنڈ پاٹ گئی ۔۔۔
امیییی جییییییی میں مرگئ جے ےےےےےےے
اور ثانیہ نے پورے ذور سے مجھے پیچھے کو دھکا دیا ۔
اور ساتھ ھی ُپچ کے آواز کے ساتھ میرا لن ثانیہ کی گانڈ کی موری سے نکل گیا۔۔۔
تو مجھے ایک سیکنڈ میں سارا ماجرا سمجھ آگیا۔
کہ چھوٹتے وقت میں نے لن ثانیہ کی گانڈ کے دراڑ میں ڈاال تھا اور سارا وزن اس پر ڈال کر مزے میں ڈوبا اپنی گانڈ کا ذور
آگے کو لگا بیٹھا جس کی وجہ سے منی سے چکنی ثانیہ کی گانڈ کی موری میں لن گھس گیا۔۔۔۔
ثانیہ کے دھکے سے
میں گبھراے ھوے پیچھے کو گرتا گرتا بچا ۔
اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔
ثانیہ گانڈ پر ھاتھ رکھے گانڈ کو بائک کی سیٹ کے ساتھ لگا کر آگے کو جھکی رو رھی تھی ۔۔
میں کچھ دیر پریشانی کی عالم میں کھڑا کبھی ثانیہ کی طرف دیکھتا تو کبھی چاروں اطراف دیکھتا کہ کسی نے ثانیہ کہ چیخ
نہ سن لی ھو۔۔
مگر چاروں اطراف ہو کا عالم تھا ۔
رات کے اندھیرے نے ہر طرف سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی ۔
میں نے جلدی سے پہلے اپنی پینٹ اوپر کی اور بیلٹ باندھ کر
ثانیہ کی طرف بڑھا ۔
جو ابھی تک جھکی ھوئی ھاےےےےے مر گئی کرتے ھوے رو رھی تھی ۔۔اور ساتھ ساتھ گانڈ کو سیٹ کے ساتھ مسل رھی
تھی ۔میں آگے بڑھا
اور اسے کے کندھوں کو پکڑ کر اسے سیدھا کرتے ھوے سوری بولنے ھی لگا تھا کہ ثانیہ نے جھٹکے سے میرے ھاتھوں
کو پیچھے جھٹکتے ھوے بولی ۔
دور رھو مجھ سے ۔جاہل گنوار خبردار مجھے چھوا بھی ۔۔
میں ہکا بکا پیچھے ہٹ کر کھڑا ھوگیا ۔۔
ثانیہ مجھے برا بھال کہہ کر نیچے جھک کر اپنا پاجامہ اوپر کرنے لگ گئی ۔۔۔
میں نے پھر دور کھڑے ھی کہا ۔
ثانیہ سوری یار مجھے پتہ نہیں چال غلطی سے ہوگیا۔۔
ثانیہ پھر غصے سے بولی بکواس بند کرو ایڈیٹ ۔۔
مجھے اسپر غصہ تو بہت آیا مگر میں خود پر کنٹرول کرتے ھوے بوال ۔
ثانیہ تمہارا غصہ بجا ھے جو مرضی کہہ لو جتنی مرضی گالیاں دے لو ۔
مگر قسم سے میں نے جان بوجھ کر اندر نہیں کیا ۔
بس غلطی سے اندر چال گیا۔۔
میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتا ھوں پلیز غصہ تھوک دو۔۔
ثانیہ اپنا دوپٹہ سر پر لے کر دوپٹے کو درست کرتے ھوے بولی ۔
مجھے پہلے پتہ ھوتا کہ تم ابھی بھی جاہل کہ جاہل ھی ھو تو تم کو کبھی پاس نہیں آنے دیتی ۔
چلو مجھے گھر چھوڑ کر آو ۔۔۔ اور یہ کہتے ھوے بڑی حقارت سے میری طرف دیکھ کر درختوں سے نکل کر سڑک کی
طرف جانے لگ گئی
ثانیہ کی بات سن کر میرے اندر غصے کی چنگاریاں سلگنے لگ گئیں کہ گشتی کی بچی میں آکڑ کتنی ھے ۔
میرا دل تو کررھا تھا کہ اس گشتوڑ کو ادھر ھی چھوڑ کر گھر چال جاوں ۔
مگر پھر ضوفی کا خیال آتے ھی میں نے غصے سے ہنکارا بھرا اور بائک کو بغیر سٹارٹ کیے ثانیہ کے پیچھے پیچھے
چل پڑا۔۔
سڑک پر پہنچ کر میں نے بائک سٹارٹ کی تو ثانیہ بڑے آرام سے گانڈ سیٹ ہر رکھ کر میرے پیچھے مجھ سے فاصلہ رکھ
کر بیٹھ گئی ۔۔۔
میں نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی ۔
اور بائک آگے بڑھائی اور کالونی کی طرف چل پڑا میں اب بائک سپیڈ سے چال رھا تھا اور کچھ ھی دیر میں ۔
میں ثانیہ کے دروازے پر تھا ۔
ثانیہ خاموشی سے اتری اور ٹانگیں چوڑی کرکے چلتی ھوئی دروازے پر پہنچی میں کھڑا اسے دیکھ رھا تھا ۔کہ یہ گھر میں
داخل ھوجاے تو ھی میں جاوں
ثانیہ نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور غصے سے بولی ۔
اب جاو بھی ادھر کھڑے کیا کررھے ھو ۔
میں نے غصے سے ایک نظر اس پر ڈالی اور بڑی پھرتی سے بائک کو ادھر کھڑے کھڑے ھی گھمایا اور بڑی سپیڈ سے
بائک کو بھگا کر اسکی گلی سے نکال ۔
میں نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ ثانیہ اتنی رات کو سنسان گلی میں اکیلی باہر کھڑی ھے ۔
میں گلیوں سے نکل کر مین روڈ پر آیا تو فل سپیڈ سے بائک کو بھگاتا ھوا ضوفی کے گھر کی طرف جانے لگا۔
میں کوئی دس پندرہ منٹ میں ۔
ضوفی کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔
میں نے بائک روکی اور بائک سے اتر کر گیٹ کی طرف بڑھا اور میں ابھی بیل پر ہاتھ لیجانے ھی لگا تھا کہ گیٹ کھال اور
ضوفی کا مسکراتا ھوا چہرہ مجھے نظر آیا۔۔
میری جب ضوفی سے نظر ملی تو ضوفی بولی اتنی دیر لگا دی ۔۔
میں نے کہا یار بائک پنکچر ھوگئی تھی ۔۔۔اور بڑی مشکل سے پٹرول پمپ پر پینکچر والے سے پنکچر لگوایا۔
اور میں ضوفی کا جواب سنے بغیر ھی واپس مڑا اور بائک اندر لے آیا ضوفی نے گیٹ بند کیا ۔۔
تو میں اور ضوفی آگے پیچھے چلتے ڈرائنگ روم میں پہنچے تو میں نے ماہی کا پوچھا تو ضوفی بولی وہ تمہاری الڈلی
اوپر تمہارے دیے ھوے گفٹ دیکھ رھی تھی ۔
میں تو کب کی نیچے بیٹھی تمہارا انتظار کررھی تھی ۔۔۔
میں نے کہا چلو اوپر ھی چلتےہیں ۔۔
اور یہ کہتے ھوے میں اور ضوفی آگے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے ھوے کمرے میں پہنچے تو ۔
)Update no (160
ماہی بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کر کے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے نیم دراز ہوکر بک پڑھ رھی تھی ۔
ہمیں دیکھ کر ماہی نے جلدی سے اپنی ٹانگوں کو سمیٹا اور بک بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔
اور بولی ۔
یاسر بھائی اتنی دیر کہاں لگا دی ۔۔
میں نے پنکچر والی بین اسے بھی سنائی ۔۔۔
تو ماہی بولی ۔
بائک
پنکچر تو ہونی ھی تھی ساتھ جو کرماں والی گئی تھی ۔۔۔
ضوفی ماہی کو جھاڑتے ھوے بولی ۔
ماہی تمیز نہیں ھے تمہیں بات کرنے کی ۔۔
وہ میری فرینڈ ھے اور ہماری مہمان بھی تھی ۔۔۔
ماہی بولی ۔
آپی مجھے تو وہ ذہر لگتی ھے ندیدی ھے ایک نمبر کی اور شوخی بھی بہت ھے پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ھے آپکو پتہ
نہیں اس میں کیا نظر آتا ھے ۔۔
آپ نے دیکھا نہیں تھا کیسے بھائی کو بار بار گھور گھور کر دیکھ رھی تھی ۔۔
ماہی کی بات سن کر میں ایک دم چونکا ۔
کہ اسے کیسے پتہ چل گیا کہ باتوں کے دوران ثانیہ مجھے بار بار دیکھ رھی تھی ۔
ضوفی بولی ۔
ماہی شرم کرو شرم یاسر کیا سوچے گا ۔۔۔
وہ میری فرینڈ ھے اور میں اسے تم سے ذیادہ جانتی ھوں ۔
وہ ایسی چھچھوری لڑکی نہیں ھے ۔۔
میں نے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ھوے جلتی پر تیل ڈالنے کا سوچا ۔
کیوں کہ میں بھی اب نہیں چاہتا تھا کہ ضوفی اس سے ملے یا وہ انکے گھر آے ۔۔
کیونکہ اسکے دل میں ان فرشتہ صفت لوگوں کے لیے جو میل تھی وہ میں دیکھ چکا تھا۔۔۔
میں جلدی سے بوال ۔۔
ضوفی ۔۔ماہی صحیح کہہ رھی ھے مجھے بھی وہ لڑکی صحیح نہیں لگی بہت اوور ایکٹ کررھی تھی ۔
اور مجھے ایسی لڑکیوں سے سخت نفرت ھے ۔۔
تو ماہی جلدی سے بولی دیکھا آپی اب یقین آگیا اب تو بھائی نے بھی گواہی دے دی ھے ۔۔۔
ضوفی میری طرف حیرانگی سے دیکھتی ھوئی بولی ۔
مگر یاسر مجھے تو وہ ایسی لڑکی نہیں لگتی میں تو بہت عرصہ دراز سے اسے جانتی ہوں وہ بیچاری تو پہلے ھی بڑی
پریشان ھے اپنے خاوند کی وجہ سے ۔۔۔
۔میں نے کہا یار کچھ بھی ھے مگر وہ مجھے بلکل بھی پسند نہیں ھے ۔۔۔
ضوفی سنجیدہ سی ھوکر میرے قریب آئی اور میرے کندھے کو پکڑ کر بولی ۔۔
کیا ھوا یاسر اس نے راستے میں کوئی بات کی ھے ۔۔۔
میں نے آخری وار کیا۔۔
اور بوال دفعہ کرو ضوفی .میں نہیں چاہتا کہ تمہاری اس کے ساتھ منہ ماری ھو اس لیے بہتر یہ ھی ھے کہ تم اس سے جتنا
دور رھو اتنا ھی بہتر ھے ۔۔۔
میرے سسپنس سے ضوفی مذید پریشان ھوگئی اور ماہی بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔۔۔
ضوفی نے دوسرا ہاتھ بھی میرے کندھے پر رکھا اور میرے کندھوں کو ہالتے ھوے بولی ۔۔
یاسر بتاو کیا بات ھوئی ۔۔۔۔
میں نے کہا کچھ نہیں یار دفعہ کرو۔۔۔
ضوفی کا منہ رونے واال ھوگیا اور روہانسے لہجے میں بولی ۔۔
.یاسر پلیززز بتاو کیا ھوا ھے اس نے کیا کہا ھے تمہیں ۔۔۔
میں نے ضوفی کے کندھوں کو پکڑا اور بوال کچھ نہیں ھوا یار ایسے پاگل مت بنو فضول میں بات کو بڑھا رھی ھو ۔۔۔
ضوفی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرتے آنسو گرنے لگے اور اسکے دونوں ہاتھ میرے کندھوں سے میری گالوں پر آگئے اور
میری گالوں کو سہالتے ھوے میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ھوے بولی ۔
یاسر مجھ سے تم کچھ چھپا رھے ھو ۔۔۔
پلیززز بتاو کیا بات ھے میرا دل بیٹھا جارھا ھے ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے ضوفی کی گالوں کو تھاما اور اسکے آنسو صاف کرتے ھوے بوال۔۔
ہے ناں پاگل رونے لگ گئی ۔۔
میں تو مزاق کر رھا تھا ۔۔۔
اور میں نے ماہی کی طرف دیکھتے ھوے کہا دیکھو ماہی تمہاری آپی بچوں کی طرح رو رھی ھے ۔۔۔
ضوفی میرے ھاتھ اپنی گالوں سے ہٹاتے ھوے بولی ۔۔
یاسر میں مزاق کے موڈ میں نہیں ھوں تمہیں میری قسم بتاو اس نے تمہیں کیا کہا ھے ۔۔۔
دوستو ضوفی سے مجھے واقعی سچا پیار تھا ۔۔
بیشک میں اس فرشتہ کے الئک نہیں تھا ۔
اور باہر بھی منہ ماررھا تھا ۔
مگر ضوفی کے بارے میں میری فیلنگ بلکل ایک سچے عاشق جیسی تھی ۔
سچے سے مراد کہ مجھے اس کے جسم کی طلب نہیں تھی نہ ھی اس کو دیکھ کر میرے اندر شہوت جنم لیتی تھی ۔۔
ضوفی کو دیکھ کر مجھے سارے جہاں کا سکون مل جاتا تھا اور اس میں مجھے اپنائیت سچا پیار خلوص محبت صدق دلی
دیکھائی دیتی تھی ۔۔۔
یہ ھی وجہ تھی کہ ضوفی نے جب مجھے اپنی قسم دی تو مجھے ایک دم جھٹکا لگا اور اس بات کا احساس ہوا کہ جلتی پر
تیل پھینکنے سے انسان خود بھی آگ کی لپٹ میں آجاتا ھے
اب میں سوچنے لگ گیا کہ ضوفی نے مجھے اپنی قسم دے دی ھے اب اسے کیا بتاوں ۔۔
میں ان ھی سوچوں میں گم تھا کہ ضوفی پھر مجھے جھنجھوڑتے ھوے بولی یاسررررررر بتاو اس نے کیا کہا ھے تمہیں ۔۔۔
اگر نہ بتایا تو میرا مرا ھوا منہ دیکھو گے ۔۔
ضوفی کے منہ سے مرا ھو کا لفظ سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے دل پر کسی نے چھری سے وار کردیا ھو ۔۔
میں نے تڑپ کر اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اور روہانسے لہجے میں بوال مریں تمہاریں دشمن ۔۔۔
پاگل لڑکی اب ایسی بکواس کی تو میں نے تم سے کبھی بات بھی نہیں کرنی ۔۔۔
تو ضوفی بولی ۔
پھر بتاو کیا کہا ھے اس نے تمہیں جو تم اس سے اتنے بدزن ھوگئے ھو ۔۔
ماہی بھی ماحول کی سنجیدگی کو دیکھتے ھوے بیڈ سے نیچے اتر کر ہم دونوں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ھوگئی تھی ۔۔
میں نے ضوفی کو کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتے ھوے کہا اچھا بیٹھو بتاتا ھوں ۔۔۔
اور ماہی کو کہا کہ جاو پانی لے کر آو۔۔
ماہی جلدی سے سیڑیاں اترتی ھوئی نیچے چلی گئی اور میں ضوفی کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر ہاتھ سے اسکے آنسو صاف
کرنے لگ گیا۔۔
ُ چند لمحوں بعد ھی ماہی پانی کا گالس لے کر کمرے میں داخل ھوئی اور گالس ضوفی کی طرف بڑھایا تو میں نے ماہی
سے گالس پکڑ کر ضوفی کے لبوں سے لگایا تو ضوفی نے ایک گھونٹ بھرا اور گالس خود پکڑ کر پانی پینے لگ گئی ۔۔
ماہی کھڑی ہمیں دیکھ کر مسکرا رھی تھی ۔۔
میں نے ماہی کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔
تیریاں کیوں دندیاں نکلن دیاں نے ۔۔۔
.پین تیری نوں رونا آئی جاندا اے تے تینوں ہاسے پئئے آندے نے ۔۔۔
مہری منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر ہنسی کو دباتے ھوے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ھوگئی ۔۔۔
میں نے پھر ضوفی کو مخاطب کرتے ھوے کہا۔۔
دیکھو ضوفی
اس دور میں ہر ہاتھ مالنے واال دوست نہیں ھوتا ۔
بیشک تم مجھ سے ذیادہ سمجھدار ھو پڑھی لکھی ھو اور زندگی کے تلخ دور سے بھی گزر چکی ھو تمہارا تجربہ بھی مجھ
سے ذیادہ ھے ۔
مگر دھوکا وہ ھی کھاتا ھے جو ہرکسی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرلیتا ھے ۔۔
تم جسے اپنی دوست سمجھ رھی ھو ۔
اس کے دل میں تمہارے لیے بہت بغض حسد ھے ۔
وہ تمہاری ترقی سے ھی بہت جیلس ھے ۔
راستے میں میرے ساتھ تمہاری برائیاں ھی کرتی جارھی تھی ۔
کہ تم سہی لڑکی نہیں ھو تمہارے پاس اتنی دولت کیسے آئی ۔
اور میں تم سے بچ کر رھوں وغیرہ وغیرہ۔۔
میری باتیں سن کر ضوفی کا گالبی چہرہ سرخ ٹماٹر کی مشابہت اختیار کرتا جارھا تھا۔۔
میری بات مکمل ھوتے ھی ۔۔
ضوفی ایکدم کھڑی ھوئی ۔
اور غصے سے پھنکارتے ھوے بولی ۔۔
آ لین دے ایس سوراں یاؤن نوں ایدا ُچ وتھا میں ُپناں گی ۔۔
گندی رن کسے تھاں دی ۔۔۔
میں ضوفی کے منہ سے پنجابی میں گالیاں سن کر حیران پریشان اسکا منہ دیکھنے لگ گیا۔۔
اور ماہی بھی دونوں ھاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی
اووووو ھاےےےےےے آپی کیا ھوگیا ھے آپ کو
توبہ توبہ توبہ ۔
ویری بیڈ لینگوئج ۔۔۔
ضوفی نے غصے سے ماہی کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔
بےجا ایڈی توں انگریز دی تی۔۔۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا۔۔۔
واہ جی واہ میری بیگم نوں تے پنجابی وی بالی چنگی آندی اے
میں تے جماں ای نئی ُک سکاں گا اپنی بیگم دے اگے ۔۔۔
ضوفی میرا سٹائل دیکھ کر غصے میں بھی ہنس پڑی ۔۔۔
اور سر پکڑ کر صوفے پر ڈھیر ہوگئی ۔۔۔۔
ماہی بھی صوفے پر ھی بیٹھ گئی ۔
اور کچھ دیر ثانیہ کے ٹاپک پر ہات ھوتی رھی ۔۔
میں نے ضوفی کو فل اسکے خالف بھڑکا دیا تھا اور اس سے وعدہ بھی لیا تھا کہ وہ اس سے کوئی بھی ایسی ویسی بات
نہیں کرے گی بلکہ اسے اس طریقہ سے چھوڑے گی کہ اسے محسوس بھی نہ ھو اور اس سے جان بھی چھوٹ جاے ۔۔۔
پھر میں .نے ماہی سے گفٹ پسند آنے کا پوچھا تو ماہی نے بڑی گرمجوشی سے میرا شکریہ ادا کیا۔۔
اور میری چوائس اور میچنگ کو دل سے سراہا۔
اور شرارتی انداز میں بولی ۔
بھائی ویسے
سب باتیں ایک طرف آپی بہت خوش قسمت ہیں جن کو آپ جیسا شوہر ملے گا آپی کی تو موجیں ہیں گھر بیٹھے ھی سب کچھ
مل جایا کرے گا وہ بھی اعلی سے اعلی ۔۔۔
میں .نے ہنستے ھوے کہا ۔۔
کوئی ناں میری بہن پریشان نہ ھو تیرے لیے بھی کوئی ایسا ھی لڑکا تالش کرلیں گے ۔۔۔
ماہی میری بات سن کر شرمائی ۔
اور منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر بھائییییییییی آپ بھی ناں کہتے ھوے باہر کی طرف بھاگ گئی میں اسے آوازیں دیتا رھ گیا کہ
بات تو سنو ۔۔
مگر ماہی تیزی سے سیڑھیاں اترتے ھوے نیچے چلی گئی ۔۔۔
)Update no (161
ماہی کے جانے کے بعد ۔۔
میں اٹھا اور دروازہ ویسے ھی بند کیا تو ضوفی جلدی سے صوفے سے اٹھی اور بولی کیا کرنے لگے ھو ۔۔۔۔میں نے کہا
کچھ نہیں بس دروازہ بند کرنے لگا ھوں ۔۔
تو ضوفی بولی ۔۔
.میں بھی جارھی ھوں نیچے ۔۔
میں نے کہا کیوں ۔۔۔
ضوفی بولی ۔
ویسے ھی ۔۔
میں چلتا ھوا اسکے قریب آیا اور اسکی کمر کے گرد بازوں کا احصار باندھتے ھوے اسے اپنے ساتھ لگاتے ھوے ۔۔
ضوفی کے ہونٹوں پر کس کی تو ضوفی مجھے آرام سے پیچھے کرتے ھوے بولی ۔۔
آرام سے اب سوجاو صبح دکان بھی کھولنی ھے ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ھے ۔
میں نے کیا پھر کیا ھوا ٹائم ھوگیا ھے ۔
اور میں نے ساتھ ھی کالک کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے ۔
میں نے پھر بھی ضوفی کو پکڑے رکھا تو اپنی کمر کے گرد سے میرے بازو ہٹاتے ھوے بولی ۔۔
چھوڑو یاسر مجھے بھی نیند آرھی ھے اور میں نے صبح دو برائڈل تیار کرنی ہیں ۔۔
اس لیے تم بھی سو جاو اور میں بھی سونے جارھی ھوں ۔۔
میں نے ضوفی کو کس کر اپنے ساتھ لگایا اور کچھ دیر اسکی گالب کی ہتیوں کا رس چوسا ۔
اور کچھ دیر بعد اسے چھوڑ دیا ۔۔۔
ضوفی کے نیچے جانے کے بعد میں بیڈ پر لیٹتے ھی سوگیا۔۔۔
صبح مجھے ضوفی نے اٹھایا .
ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد میں اور ضوفی دکان پر آگئے۔۔۔
جنید پہلے سے ھی بوتیک کے باہر کھڑا انتظار کررھا تھا ۔
جنید نے مجھ سے چابیاں لیں اور دکان کھولی اور ہم دونوں مل کر صفائی وغیرہ کرنے میں مصروف ھوگئے۔۔
سارا دن کام میں مصروف رھے میری طبعیت بھی سارا دن سست رھی ایک تو کل دو پھدیاں وجایاں سی دوسرا رات کو
لیٹ سویا تھا۔۔
جنید نے بھی میری سستی کی وجہ پوچھی مگر میں نے طبعیت ناساز ہونے کا بہانہ بنایا ۔۔
رات کو حسب معمول میں ضوفی کو گھر چھوڑنے کے بعد گاوں پہنچا ۔
امی نے پوچھا کہ یاسر پتر ۔
تیری آنٹی ناراض تو نہی ھوئیں کہ ہم ماہی کی سالگرہ پر نہیں آے ۔۔
میں نے کیا ۔
کہ ناراض تو نہیں ہوئیں مگر گلہ کر رہیں تھی کہ آپ لوگوں کو آنا چاہیے تھا ۔۔
مگر میں نے انکو مطمئن کر لیا تھا ۔۔۔
امی بولی ۔پتر دل تو میرا بھی کررھا تھا مگر تجھے اپنے ابے کا پتہ ھی ھے کہ وہ ایسے ھی لڑنے لگ جاتے ہیں میں نہیں
چاھتی تھی کہ ایسے ان لوگوں کو لے کر ہمارے گھر میں کوئی جھگڑا ھو ۔۔
کوئی نہ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ھوجاے گا ۔
میں بس کچھ دنوں میں ھی تیرے ابا سے تیرے اور ضوفی کے رشتے کی بات کروں گی ۔
مجھے تو وہ لوگ بہت بھلے لگے اور ضوفی بھی کافی سلجھی اور سمجھدار بچی ھے ۔۔۔
میں نے الڈ سے امی کے گلے میں بازوں ڈال کر امی کے ساتھ جھولتے ھوے کہا۔۔۔
بس سلجھی اور سمجھدار ھی ھے ۔
امی نے حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے کہا۔۔
لے دس ہور سانوں کی چایے دا اے ۔۔۔
میں نے کہا میرا مطلب کہ سونی شونی نئی اے ۔۔۔
امی نے میری گال پر چپت مارتے ھوے کہا۔۔
تیرے نالوں تے سونی ای اے ۔۔
میں نے منہ بسورتے ھوے کہا۔
لو جی بہو گھر میں آئی بھی نہیں اور بیٹا برا بھی لگنے لگ گیا۔۔۔
.امی نے ہنستے ھوے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ھوے میرا ماتھا چوما اور بولیں ۔
میرے پتر توں ود سونا کوئی ھے ایس دنیا تے ۔۔۔
اور میں امی کے ساتھ لپٹ گیا۔۔
کچھ دیر مقں بیٹے کا الڈ پیار چلتا رھا ۔
پھر امی نے کہا چل میرا الل منہ ہتھ دھو لے میں تیرے لیے روٹی پکاتی ہوں ۔۔۔
میں منہ ہاتھ دھو کر فریش ھوکر کھانا کھانے کے بعد ۔۔
آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا ۔۔
گھر داخل ہوا تو صحن خالی تھا ۔۔
میں سیدھا کمرے میں جاپہنچا ۔
کمرے میں سب لوگ بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔
میں نے کمرے میں داخل ہوتے سالم کیا ۔۔تو انکل مجھے دیکھ کر بولے آ بھئی یاسر پتر ۔
شکر ھے تیرا چہرہ بھی دیکھنے کو مال۔
تم تو اب امیر بندے ھوگئے ھو ۔
میں چلتا ھوا انکل کے پاس جاکر چارپائی پر بیٹھتے ھوے بوال ۔
نہیں انکل جی ایسی تو کوئی بات نہیں بس دکان سے ھی بہت لیٹ گھر آتا ھوں آج تھوڑا جلدی آگیا تو سوچا آپ لوگوں سے
مل لوں ۔
آنٹی جو میری طرف دیکھ کر مسکرا رھی تھی ۔
بولی ۔
مہربانی جو ہم کو یاد رکھا۔۔
میں نے کہا۔
اب جانے بھی دیں آنٹی جی کیوں ایسی باتیں کر کے مجھے شرمندہ کررھیں ہیں ۔
اور پھر میں عظمی اور نسرین کا حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔
جو انکل کی وجہ سے بہت شریف بچیاں بن کر خاموشی سے بیٹھیں ہوئیں تھی ۔۔
عظمی اور نسرین نے بتایا کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ھوگئیں ہیں اور اب وہ کالج میں اڈمیشن لیں گی اور روز تانگے پر
ھی آیا جایا کریں گی ۔۔
میں نے انکو مبارکباد دی ۔
اور آنٹی سے بوال۔
دیکھ لیں آنٹی آپ میری دکان دیکھنے نہیں آئیں ۔۔
اور نہ ھی یہ دونوں چڑیلیں آئیں ہیں ۔
آنٹی بولی بس ٹائم ھی نہیں مال آنا تھا ۔
تیرے انکل کی طبعیت سہی نہیں رہتی ۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انکا الہور سے چیک اپ کروائیں ۔
بس اسی پریشانی کی وجہ سے گھر سے نکال نہیں جارھا ۔
تمہیں تو پتہ ھے کہ اب جوان بچیاں اکیلی چھوڑ کر میں کیسے انکو لے کر جاوں ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی آپ انکی پریشانی کیوں لی رہی ہیں ۔
انکو ہمارے گھر چھوڑ جائیں وہ بھی تو آپکا ھی گھر ھے ۔
مشکل وقت میں ہم آپ کے کام نہیں آئیں گے تو کون آے گا۔۔
آنٹی بولی جیوندا رھ ۔
میں نے تو تیرے انکل کو کہا تھا مگر یہ ھی نہیں مان رھے کہ تمہارے ابو کیا سوچیں گے ۔۔۔
میں نے انکل کی طرف منہ کیا اور انکی ران پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا۔۔
انکل جی آپ ایسا کیوں سوچ رھے ہیں کیا ہم آپ کے اپنے نہیں ہیں ۔۔
انکل نے کھانستے ھوے کہا ۔
نہیں یاسر پتر ایسی بات نہیں بس ایسے ھی سوچ رھا تھا کہ جوان بچیاں ہیں ایسے ھی لوگ باتیں نہ کریں ۔۔
میں نے ہنستے ھوے نسرین کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔۔
لو جی آپ کے لیے جوان ھوں گی ۔۔
میرے لیے تو ابھی بھی یہ ناک بہتی بچیاں ھی ہیں ۔۔
آپ بے فکر ھوکر اپنا اچھے سے چیک اپ کروایں اور انکی ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں ۔۔
.اور اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو بالجھجھک مجھے کہنا ۔
انکل نے میرے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرتے ھوے ھاتھ میری کمر پر لیجا کر کمر کو تھپتھپایا اور بولے ۔
جیوندہ رہ پتر تم لوگ ھی تو ہمارے اپنے ھو اور تم تو ویسے بھی ہمارے گھر کے فرد ھو ہم نے تو تمہیں کبھی بھی غیر
نہیں سمجھا ۔
تو میں نے کہا۔۔
تو پھر میرے ھوتے ھوے فکر کس بات کی کرتے ہیں ۔۔
اگر کوئی پیسوں کی پرابلم ھے تو بتائیں آپ کے بیٹے پر اوپر والے کا بڑا کرم ھے ۔
انکل کھانستے ھوے بولے ۔
نہیں پتر جیوندہ رھ پیسے تو ہیں بس ان بچیوں کی فکر تھی کیوں کہ الہور میں پتہ نہیں کتنے دن لگ جائیں ۔۔
زمانہ خراب ھے بس یہ ھی ڈر تھا ۔
اور اب تیری وجہ سے وہ بھی پریشانی ختم ھوگئی ۔۔
میں تو یہ سوچ بیٹھا تھا کہ ہمارا شہزادہ اب امیر بندہ ھوگیا ھے
پتہ نہیں اب ہمیں لفٹ کرواتا ھے کہ نہیں ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی انکل ۔
اب ایسی بھی بات نہیں میں آپ کے لیے وہ ھی پرانا یاسر ھوں جسکو آپ کندھوں پر بیٹھا کر کھالیا کرتے تھے۔
انکل نے پھر میرے سر پر پیار دیتے ھوے مجھے دعائیں دیں ۔۔
اورپھر میں نے پوچھا انکل جی الھور آپ رہیں گے کہاں ۔
انکل بولے تیری آنٹی کے بھائی کے سسرال الہور میں رہتے ہیں ۔
انسے بات ھوئی ھے ۔
وہ تو کب کے کہہ رھے ہیں کہ آجاوں مگر بچیوں کی وجہ سے انکو ٹال مٹول کررھے ہیں ۔۔
آنٹی بولی ۔
چلو اب چھوڑ بھی دو بچیوں کی فکر یاسر نے تسلی دے تو دی ھے ۔
بس اب آپ ایک دو دنوں میں الہور چلنے کی تیاری کریں ۔
میں کل ھی بھائی سے بات کرتی ھوں کہ ہم آرھے ہیں ۔۔
میں کچھ دیر مذید انکے پاس بیٹھا رھا ۔
اور پھر ان سے اجازت لینے کے بعد میں گھر واپس آگیا۔۔۔
اگلے دو تین دن بھی ایسے ھی گزر گیے ان دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا ۔۔
بس وہ ھی روز مرہ کے معامالت ۔۔
)Update no (162
چوتھے دن میں گھر سے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ۔
اور بیل دی تو ماہی نے دروازہ کھوال ۔
میں نے مسکراتے ھوے پوچھا خیر ھے پتر آج کالج کیوں نہیں گئی ۔
تو ماہی کچھ پریشانی سے بولی کککچھ نہیں بھائی بس ایسے ھی ۔
میں نے اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ھوے پیار سے پوچھا کیا ھوا ماہی پریشان
کیوں ھو ۔۔
تو ماہی ایک دم میرے کندھے کے ساتھ لگ کر اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔
میں ماہی کے یوں رونے سے پریشان ھوگیا اور میرا دھیان فورن آنٹی کی طرف گیا کہ کہیں انکی طبعیت نہ خراب ھو ۔۔
میں نے سنجدیگی سے ماہی کے سر کو سہالتے ھوے پوچھا ۔
کیا ھوا بیٹا کیوں رو رھی ھو گھر میں سب خیریت تو ھے ۔۔
اتنے میں ضوفی بھی گیراج کی طرف چلتی آئی ۔۔
اورماہی کو یوں روتےھوے اسکے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگ گئے۔۔
میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔
.ضوفی کیا ھوا اسے یہ کیوں رو رھی ھے اور تم بھی کیوں پریشان ھو کوئی مجھے کچھ بتاے گا بھی کہ نہیں
میں نے ضوفی کو دیکھتے ھوے ایک ھی سانس میں ڈھیر سارے سوال کردیے ۔۔
ضوفی ایکدم خود کو سنبھالتے ھوے میرے قریب آئی اورماہی کو پکڑ کر اسکے سر کو اپنے کندھے سے لگا کر اسکی گال
تھپتھپا لر اسے چپ کرواتے ھوے ۔
ڈرائنگ روم کی طرف لیجاتے ھوے بولی کچھ نہیں ھوا ۔
بس ایسے ھی پاگل ھے یہ فضول میں روے جارھی ھے ۔۔
میں ضوفی کے پیچھے حیران ھوتا ھوا چلتا ڈرائنگ روم میں پہنچا تو ضوفی نے ماہی کو صوفے پر بیٹھایا اور اسکے ساتھ
بیٹھ کر اسکے آنسو صاف کرتے ھوے اسے چپ کروانے لگ گئی ۔
ماہی بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رھی تھی ۔۔
میں نے نظر چاروں طرف دوڑا کر آنٹی کو دیکھا کہ اتنے میں آنٹی بھی پریشان سی کمرے سے نکلی اور میری طرف ایک
نظر ڈال کر وہ بھی بھاگی ھوئی ماہی کی طرف گئی اور کیا ھوا میری بچی کو کرتی ھوئی انکے ساتھ ھی بیٹھ کر ماہی کو
چپ کروانے لگ گئی ۔۔
ماہی کے ایک طرف ضوفی اور دوسری طرف آنٹی بیٹھی تھی
جبکہ میں انکے سامنے منہ کھولے کھڑا باری باری تینوں کو دیکھی جارھا تھا ۔
مجھے معاملہ کافی سنجیدہ لگا ۔۔
میں نے پھر آنٹی جی کو مخاطب کرتے ھوے کہا۔
آنٹی جی ہوا کیا ھے مجھے بھی تو کچھ بتائیں ۔سب خیریت تو ھے ماہی کیوں رو رھی ھے اور آپ سب کیوں پریشان ہیں۔
اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ بولتی ۔
ماہی میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔
بھائی میں نے اب کالج نہیں جایا کرنا مجھے روز ۔۔۔۔۔۔
ضوفی نے ماہی کے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے اس کی آواز کو دبا دیا۔۔
اور غصے سے ماہی کو گھورتی ھوئی بولی ۔۔۔
منہ بند رکھو تمہیں رات کو بھی سمجھایا تھا ۔۔
آنٹی کا رنگ بھی اڑ گیا تھا۔۔
میں ان سب کی حالت دیکھ کر مذید پریشان ھوگیا اور آگے بڑھا اور ماہی کی کالئی کو پکڑا اور اسے کھینچ کر ان دونوں
کے بیچ میں سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اسکو بازو سے پکڑے ایک طرف لیجا کر کھڑ کیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر
ہالتے ھوے بوال ۔
بولو پتر کیا بات ھے کیا ھوا ھے جو تم کالج نہیں جانا چاہتی کسی نے کوئی بات کی ھے کیا۔۔۔۔
ماہی آنٹی اور ضوفی کی طرف دیکھے جارھی تھی ۔۔۔
اتنے میں ضوفی جلدی سے اٹھی اور میرے قریب آکر کھڑے ھوکر بولی ۔
یاسر کچھ بھی نہیں ھوا یہ تو پاگل ھے ایسے ھی کہہ رھی ھے ۔
کالج میں ٹیچر نے اسے ڈانٹا ھے تو بس اس بات کو لے کر ۔۔۔
میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ھوے کہا چپپپپ۔۔۔
میں بچہ نہیں ہوں جو تم مجھے یوں بیوقوف بنا رھی ھو ۔۔
جاو تم ادھر جا کر بیٹھو ۔۔
میں اپنی بہن سے خود بات کرتا ھوں ۔۔
ضوفی بولی ۔مگر یاس۔۔۔۔۔۔۔
میں نے گرجدار آواز میں ضوفی کی بات کو ٹوکتے ھوے کہا ۔
تمہیں سنا نہیں ۔۔کہ ادھر جا کر بیٹھ جاوووووووو۔
ضوفی ایک دم کانپی اور سہم کر مجھ سے دور ہٹ کر کھڑی ھوگئی ۔
میرا رنگ غصہ سے سرخ ھوچکا تھا۔۔۔
میں نے پھر ماہی کی طرف دیکھا اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا۔۔
ماہی تم مجھے اپنا بھائی سمجھتی ھو کہ نہیں۔
ماہی نے اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا جی۔۔۔۔
میں نے کہا ۔
تو پھر اپنی پریشانی بھائی سے چھپاتے ہیں کیا۔۔۔۔۔ماہی نے نفی میں سرہالتے ھوے کہا نہیں۔۔
میں نے کہا۔
چلو پھر بتاو کیا بات ھے کہ میری بہن کالج کیوں نہیں جانا چاہتی ۔۔
ماہی نے پھر ضوفی اور آنٹی کی طرف دیکھا تو میں نے ماہی کو کہا ۔
ماہی ادھر میری طرف دیکھو اور بتاو کیا بات ھے ورنہ میں یہ ھی سمجھوں گا کہ تم مجھے اپنا بھائی نہیں بلکہ غیر
سمجھتی ھو ۔۔۔
.ماہی نے الچارگی سے میری طرف دیکھا اور پھر اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے شروع ھوگئے ۔۔۔
میں نے کچھ دیر اسکے بولنے کا انتظار کیا تو پھر میں نے اس کے کندھوں کو چھوڑا اور بوال ۔۔۔
ٹھیک ھے اگر تم مجھے اپنا بھائی نہیں سمجھتی اور پھر میں نے غصے سے آنٹی اور ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اور اس گھر والے بھی مجھے اپنا نہیں سمجھتے تو میرا یہاں رکنا فضول ھے ٹھیک ھے جیسے تمہاری مرضی ۔
اور میں گلوگیر آواز میں بولی ۔
اوکے میں چلتا ھوں ۔۔۔
یہ کہہ کر میں مڑ کر واپس گیراج کی طرف جانے لگا تو ۔۔
ماہی دوڑ کر میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑتے ھوے بولی ۔۔
رکو بھائی میں بتاتی ھوں ۔۔۔
میں وہیں رک گیا ۔۔۔
تو ماہی بولی ۔۔
بھائی تین چار لڑکے ہیں پتہ نہیں کون ہیں میں انکو نہیں جانتی وہ روز کالج تک میرے پیچھے آتے ہیں اور طرح طرح کی
آوازیں کستے ہیں ۔۔
کل تو ان میں سے ایک لڑکے نے میرا بازو پکڑ لیا تھا ۔۔۔
ماہی کی بات سن کر میرا رنگ مذید سرخ ہوگیا غصے سے میری آنکھوں میں خون تیرنے گا ۔
میرا جسم ہلکا ہلکا کانپنے لگ گیا۔۔۔
میں نے تھرتھراتی آواز میں ماہی سے پوچھا۔
کب سے وہ تمہارا پیچھا کررھے ہیں اور کس وقت کس جگہ سے تمہارے پیچھے لگتے ہیں اور کس چیز پر سوار
ھوتےہیں ۔
میں نے ایک ھی سانس میں سارے سوال کردیے ۔۔
ماہی بولی ۔
بھائی وہ پانچ چھ دنوں سے میرا پیچھا کررھے ہیں ۔
پہلے تو میں انکو اگنور کرتی رھی مگر کل تو ۔۔۔۔۔
ماہی پھر زارو قطار رونے لگ گئی ۔۔
میں نے اسکے سر پر پیار دیا اور اسے اپنے کندھے کے ساتھ لگا کر ۔
دالسا دیتے ھوے کہا ۔
چپ کر میرا پتر
تیرا بھائی ابھی زندہ ھے ۔ تو مجھے پہلے دن ھی بتا دیتی تو یہاں تک نوبت ھی نہیں انی تھی ۔۔
چل میرا پتر چپ کر اور بتا کہ تم ان کو پہچان لو گی ماہی اثبات میں سر ہالتے ھوے بولی ۔۔
ہممممم
میں نے کہا بس آج کا دن تو کالج سے چھٹی کر اور ویسے بھی اب کالج کا ٹائم ختم ھوگیا اس لیے آج تو گھر رھ کل میں
تیرے ساتھ جاوں گا اور پھر تم دیکھنا تیرابھائی کیا کرتا ھے ۔
اس کے بعد کوئی بھی تیری طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا کر دیکھے گا ۔۔۔
یہ کہتے ھوے میں ماہی کو واپس ڈرائنگ روم میں لے آیا آنٹی اور ضوفی ماہی پر بڑھک اٹھیں کہ مجھے کیوں بتایا اب
کوئی خون خرابا نہ ھو جاے ۔۔
ضوفی ذیادہ ڈری ھوئی تھی کیوں کے وہ پہلے میرا پاگل پن اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی ۔۔
میں نے آنٹی اور ضوفی کو تھوڑا نرم لہجے میں سمجھایا کہ آپ پریشان نہ ھوں کچھ بھی نہیں ھوتا ایسی لفنڈروں کو جس
زبان میں سمجھایا جاتا ھے وہ مجھے اچھی طرح آتی ھے ۔
انٹی بولی پتر مجھے ڈر لگ رھا ھے اس پاگل کو سمجھایا تھا کہ تجھے نہ بتاے مگر اسکے پیٹ میں بات نہ رھی ۔۔
میں نے کہا آنٹی جی ماہی میری بلکل ایسے ھی بہن ھے جیسے نازی میری بہن ھے آپکی عزت میری عزت ھے ۔
میں نے اس گھر کا نمک کھایا ھے اور آپ لوگوں کی وجہ سے میں اس مقام پر ھوں ۔
اور میری بہن کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو مجھ سے یہ برداشت نہیں ھوگا ۔۔
ان بہن چودوں کی وجہ سے میری بہن پڑھائی نہیں چھوڑے گی ۔۔۔
کچھ دیر مذید ہم اسی ٹاپک پر بات کرتے رھے آنٹی مجھے بار بار لڑائی سے منع کرتی رھی ضوفی بھی مجھے سمجھاتی
رھی اور پھر میں اور ضوفی دکان پر آگئے راستے میں بھی ضوفی مجھ سے وعدے لیتی رھی کہ لڑنا نہیں ھے بس پیار
سے سمجھا دینا ۔۔
میں ہوں ہاں میں اسکی باتوں کا جواب دیتا رھا ۔۔۔۔
دکان پر پہنچا مجھے پریشان دیکھ کر جنید نے وجہ پوچھی تو میں نے اسے ساری تفصیل بتادی ۔۔۔
.جنید کا پارا بھی چڑھ گیا ،اور وہ مجھے ابھی چلنے کا کہنے لگ گیا میں نے اسے سمجھا بجھا کر رلیکس کیا کہ اب وہ
سالے ُپھکرے ہمیں نہیں ملیں گے اس لیے کل صبح صبح تم تیار رہنا بونی ان سے ھی کریں گے ۔۔۔اور ویسے بھی کافی دن
ھوگئے ہین ہاتھ گرم نہیں کئے ۔۔
جنید نے بھی کل لڑنے کی پوری تیاری کس لی ۔۔۔
اور پھر کسٹمرز کی آمد کے بعد ہم کام میں مصروف ہوگئے ۔۔
رات کو میں نے جنید کو ٹائم اور جگہ کا بتایا اور پھر ضوفی کو گھر چھوڑا اور ماہی کو حوصلہ دیا کہ صبح تم کالج کے
لیے تیار رہنا اور پیدل ھی اکیلی جانا ۔۔
ہم فالں جگہ پر کھڑے ھوں گے اور بلکل بھی نہ گبھرانا ۔۔۔۔ماہی پہلے مجھے منع کرتی رھی آنٹی بھی الکھ سمجھاتی رھی ۔
مگر میری ضد کے سامنے سب کو ہار ماننا پڑی ۔۔
میں پھر انکے گھر سے نکال اور سیدھا گاوں پہنچا اور گھر سے کھانا وغیرہ کھا کر باہر چوک کی طرف چل پڑا اور حسب
منشا میرے لفنڈر یار چوک میں بوڑھ کے نیچے ڈیرہ جماے بیٹھے تھے ۔۔
مجھے دیکھ کر سب ھی بہت خوش ھوے ۔۔۔
سب ھی مجھے طرح طرح سے ُج گتیں مار مار کر چھیڑ رھے تھے کہ آج کل خوب شہری پوپٹ بچیاں دیکھ رھا ھے ۔
کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ ۔۔۔
شادا بھی انکا ساتھ برابر دے رھا تھا ۔۔
ہم ایسے ھی ایک گھنٹہ بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے رھے ۔۔۔
پھر میں نے سب کو مخاطب کرتے ھوے کہا کہ کل کیا مصروفیت ھے ۔۔
شادا بوال توں حکم ال کی کرناں ایں ۔۔
میں نے کہا بندا مروانا ھے مار دیویں گا ۔۔۔
شادا شوخی سے بوال مار دیواں گے بندا وی بندے ای ماردے نے ۔۔۔
میں نے تھوڑا سنجیدہ ھوتے ھوے کہا ۔۔
یار ایک مسئلہ ھے ۔۔
تم سب کو صبح سات بجے میرے ساتھ شہر جانا ھے ۔۔
شادا بوال خیر تے ھے ۔۔
میں نے کہا ۔
یار ُک ش ُمنڈے پھینٹنیں نے ۔
شادا بوال لے دس اے وی کوئی کم اے ۔
پھینٹ دیاں گے ۔۔
میں نے کہا بس پھینٹنے ھی ہیں سر نہیں پھاڑنے ۔
بس ُگ جیاں سٹاں مارنیاں نے ۔۔
سب ایک ساتھ بولے کوئی روال ای نئی ۔۔
میں نے پھر سب کو ساری حقیقت بتائی مگر آدھی کیوں کہ ماہی کو میں نے جنید کی بہن بتایا ۔۔
شادا مجھے چھیڑتے ھوے بوال ۔
پھدی دیا توں ہمیشہ ُک ڑیاں پچھے ای سانوں لڑایا کر .کسی اپنے واسطے وی سانوں حکم الدیا کر۔۔
میں نے کیا یار وہ لڑکی میری بہن جیسی ھے ایسی کوئی بات نہیں میرا دوست ھے نہ جو اس دن ہمارے ساتھ لڑا تھا جنید ۔۔
سب نے ہاں ھاں ھاں کہا ۔
میں نے کہا اب وہ میرے پاس کام کرتا ھے وہ لڑکی اسکی بہن ھے ۔
تو سب کا ھی پارا چڑھ گیا اور پھر شادے نے کہا کہ کل دو کو تم موٹر سائکل پر بٹھا لینا اور باقی کو میں ٹریکٹر پر لے
چلوں گا ۔۔
میں مذید ایک گھنٹہ ادھر بیٹھا رھا اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے ۔۔
اگلے دن سب وقت پر چوک میں جمع ھوگئے میں نے دو لڑکوں کو بائک پر بٹھایا اورباقی کے چار لڑکے شادے کے ساتھ
ٹریکٹر پر سوار ھوگئے ۔۔
ڈنڈے ہم نے ٹریکٹر پر ھی رکھ لیے تھے اور ہمارا دو سواریوں کا قافلہ شہر کی طرف روانہ ھوگیا ۔۔۔
)Update no (163
اگلے دن سب وقت پر چوک میں جمع ھوگئے میں نے دو لڑکوں کو بائک پر بٹھایا اورباقی کے چار لڑکے شادے کے ساتھ
ٹریکٹر پر سوار ھوگئے ۔۔
ڈنڈے ہم نے ٹریکٹر پر ھی رکھ لیے تھے اور ہمارا دو سواریوں کا قافلہ شہر کی طرف روانہ ھوگیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد ہم مقررہ جگہ پر پہنچے تو جنید بھی دو لڑکوں کو ساتھ لے کر موٹرسائیکل پر پہلے ھی اس جگہ موجود
تھا ۔۔۔۔
ہم سب باری باری جنید اور اسکے دوستوں سے ملے ہم جس جگہ کھڑے تھے ہماری وجہ سے وھاں کافی ہجوم سا لگ گیا
تھا ۔۔۔
میں نظر اسطرف تھی جدھر سے ماہی نے آنا تھا ۔۔۔
اور ماہی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ لڑکے اس جگہ سے ھی میرے پیچھے لگتے ہیں ۔۔
مگر مجھے ابھی تک نہ تو ماہی آتی نظر آئی اور نہ ھی کوئی لڑکے ایسے نظر آے جو مشکوک ھوں ۔۔۔
میں ابھی یہ سوچ ھی رھا تھا کہ مجھے دور سے تین موٹر سائکلوں پر سوار چھ لڑکے پینٹیں پہنیں بال شال بنا کر سن
گالسس لگاے بڑے ہیرو بنے آہستہ آہستہ موٹر سائیکلوں کو چالتے آتی جاتی لڑکیوں کو تاڑتے ھوے ہماری طرف آتے
دیکھائی دیے ۔
انکو دور سے دیکھتے ھی
میری چھٹی حس نے فورن کام کیا کہ ہو نہ ہو یہ سالے وہ ھی ُپھکرے ہیں اور فورن میرے دماغ نے کام کیا کہ اگر انہوں
نے ہمیں اکھٹے کھڑے دیکھ لیا تو سارا کام بگڑ جانا ھے ۔۔
ایک تو انکے کھڑے ھونے کی جگہ بھی یہ ھی تھی دوسرا
ہم ڈشکروں کے سامنے وہ سب ابھی بچے تھے ۔۔
۔۔۔ممی ڈیڈی بچے ۔۔۔
اور ہم سب کو ایک ساتھ دیکھ کر انکو ُک ھڑک جانی تھی کہ
.اج ساڈے کھڑکن گیاں .
.میں نے سب کی توجہ ان دور سے آنے والے لڑکوں کی طرف دالئی اور شادے کو کہا کہ تم ٹریکٹر کو آگے لے جاو اور
کچھ فاصلے پر کھڑے ھوجاو اور جنید کو بھی کہا کہ تم ٹریکٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ھوجانا تاکہ انکو شک نہ ھو کہ
ہم سب ایک ساتھ ہیں ۔۔۔
اور اگر ان مین سے کوئی بھاگنے لگے تو جنید تم آگے سے انکو گھیر لینا اور جب تک میں نہ کہوں تب تک ان کو کچھ
نہیں کہنا ۔۔۔
ہم نے جلدی سے پالن تیار کیا اور اس سے پہلے کہ وہ لڑکے ہمارے قریب پہنچتے شادا اور جنید آگے نکل گئے اور میں
اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں کھڑا ھوگیا اور دوستوں کو بھی سمجھا دیا کہ تم ان کی طرف مت دیکھنا اور ہم ایسے کھڑے
ھوگئے جیسے مجھے میرے دوست راستے میں راہ چلتے ملے ہوں اور ہم کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کررھے ھوں ۔۔۔
میرے دوست بیچارے پینڈوں ٹائپ اور سادہ سے میلے کپڑوں میں تھے ۔۔
خیر
وہ لڑکے سلو موشن میں بائک کو چالتے سیٹیاں بجاتے ہمارے قریب آکر رک گئے اور باری باری تین پیچھے بیٹھے لڑکے
اتر کر پینٹوں میں ہاتھ دے کر بڑے ہیرو بن کر کھڑے ہوکر ادھر ادھر دیکھ کر سکول .وکالج کی لڑکیوں کو تاڑنے لگ
گئے ۔۔
ہم اپنے دھیان کھڑے باتیں کررھے تھے ۔
کہ ان میں سے ایک ہیرو ہماری طرف بڑھا اور بڑے رعب سے بوال ۔۔
اوےےے ہیلو ادھر کھڑے کیا کررھے ھو چلو کھسکو ادھر سے ۔۔
میرا ایک دوست اسکی طرف بڑھنے لگا تو میں نے اسکی کالئی کو پکڑا اور اسے روک لیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے
کہا ۔
اچھا بھائی چلے جاتیں ہیں ناراض کیوں ھورھے ھو۔۔
تو دوسرا لڑکا بھی اسکے پاس آکر بوال چلو چلو شاباش نکلو یہاں سے ۔۔۔
میں اسکی طرف دیکھتے ھوے پاوں سے ھی بائک کو چالتے آگے کی طرف لے گیا اور دوستوں کو بھی آنے کا کہا ہم ان
لڑکوں سے کافی آگے جاکر کھڑے ہوکر پھر باتیں کرنے لگ گئے میرے دوست مجھے برا بھال کہی جارھے تھے کہ میں
نے انہیں کیوں روکا ۔۔
میں نے انہیں صبر کرنے کا کہا اور جس طرف سے ماہی نے آنا تھا اسطرف دیکھنے لگ گیا۔۔۔
وہ لڑکے ابھی تک وہیں کھڑے تھے اور اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔
کچھ ھی دیر گزری تھی ۔۔
کہ مجھے دور سے نقاب میں ماہی آتی ھوئی نظر آئی ۔۔
میں نے لڑکوں کی طرف دیکھا تو وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے آپس میں کوئی بات کر رھے تھے اور انکا دھیان بھی
ماہی کی طرف ھی تھا ۔۔
جیسے جی ماہی انکے قریب سے گزری ان میں سے ایک لڑکے نے جس نے ہمیں وہاں سے بھاگنے کا کہاں تھا اس نے
ماہی پر کوئی جملہ کسا ماہی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور جب اسکی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے انگلی منہ پر
رکھ کر اسے خاموش رہنے کا کہا تو ماہی میرا اشارہ پاتے ھی آگے چلتی ھوئی ہمارے قریب پہنچی اور ماہی کے پیچھے
ھی وہ سب لڑکے موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر پیچھا کرتے ھوے ماہی کے پیچھے پیچھے آنے لگ گئیے۔۔
ماہی ہم سے کچھ فاصلے پر ھی تھی کہ ان میں سے ایک موٹر سائکل سوار ماہی کے برابر آیا اور اسکے پیچھے بیٹھے
لڑکے نے ہاتھ آگے بڑھا کر ماہی کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو ماہی جو پہلے سے ھی ہوشیار تھی اس نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا
اور سڑک کے کنارے پر کھڑی ھوکر انکو گالیاں دینے لگ گئی ۔
موٹر سائکل سوار نے بریک لگائی تو پیچھے بیٹھا لڑکا موٹر سائکل سے چھالنگ مار کر اترا اور ماہی کی طرف بڑھا ۔۔
ہم تینوں کھڑے یہ سب ماجرہ دیکھ رھے تھے ۔
مجھے بس اسی موقع کا انتظار تھا ۔
.میں نے اپنے دونوں دوستوں کو کہا کہ تم ابھی ادھر ھی رکو اور یہ کہتے ھوے میں تیزی سے بائک کو سٹینڈ پر لگایا اور
اس سے پہلے کہ وہ لڑکا ماہی کے پاس پہنچتا میں بجلی کی سی تیزی سے بھاگ کر لڑکے اور ماہی کے درمیان میں کھڑا
ھوگیا۔۔۔
ماہی میرے پیچھے کھڑی تھی اور لڑکا میرے آگے ۔۔۔
لڑکے نے جب مجھے یوں کباب میں ہڈی بنتے دیکھا تو ۔۔بڑے غصے سے میری طرف دیکھا اور میرا گریبان پکڑتے ھوے
بوال ۔
گانڈو تجھے پہلے بھی کہا تھا کہ ادھر سے نکل لے ۔۔۔
مگر تو ساال بیچ میں ہیرو بننے آگیا ھے ۔
جانتا نہیں مجھے کیا کہ میں کون ہوں ۔۔۔
میں نے اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے ھوے کہا کہ ۔
اس لڑکی کو تنگ کیوں کررھے ھو۔۔
اس کے باقی ساتھ بھی بڑی شوخی سے مجھ اکیلے کو دیکھ کر میرے ارد گرد کھڑے ھوگئے تھے ۔۔
تو وہ لڑکا قہقہہ لگاتے ھوے میرے گریبان کو جھنجھوڑتے ھوے بوال ۔۔
کیوں تیری بہن ھے یا پھر توں اسکا ٹھوکو ھے ۔۔۔
لڑکے کی بات سنتے ھی میرا دماغ گھوم گیا اور میں نے اسکی کالئی کو پکڑا جس سے اس نے میرا گریبان پکڑا ھوا تھا ۔
اور ایک ذوردار جھٹکے سے اسکی کالئی کو مروڑا تو چٹخ کی آواز آئی جیسے اسکی کالئی کا جوڑ اکھڑ گیا ھو ۔
لڑکے کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی اور ساتھ ھی میں نے ٹانگ فولڈ کی اور ذوردار کک اسکے پیٹ میں ماری ۔
لڑکا بلکتا ھوا پیچھے کھڑے لڑکے کے اوپر جاگرا ۔
پیچھے کھڑا لڑکا اپنی موٹر سائکل کے آگے کھڑا تھا
ٹانگ کھانے واال لڑکا جب پیچھے کھڑے لڑکے کے اوپر گرا تو دونوں پیچھے بائک پر گرے اور بائک کو ساتھ لیتے ھوے
سڑک پر جاگرے ۔۔
اتنے میں باقی چاروں لڑکے ممی ڈیڈی بھڑکیں مارتے ھوے مجھ پر یلغار ھوے اس سے پہلے کے لڑکے مجھ تک پہنچتے
ان سے پہلے میرے دوست ان کے سر پر آ پہنچے اور ساتھ ھی ٹریکٹر اور جنید بھی آ پہنچا بس پھر انکو پتہ بھی نہ چال کہ
کہاں کہاں سے انکو پڑنا شروع ہوگئیں ہیں ۔۔
میں نے پھر اسی لڑکے کو گریبان سے پکڑا اور ہجوم سے باہر کھینچتا ھوا لے آیا یہ وہ ھی لڑکا تھا جس نے ماہی کا ہاتھ
پکڑنے کی کوشش کی تھی ۔
اور جسکی کالئی کا جوڑ اکھڑا تھا۔۔۔
ماہی گبھرائی ہوئی ایک طرف کھڑی دونوں ہاتھ منہ پر رکھے ۔
ان لڑکوں کی پٹائی دیکھ رھی تھی ۔
میں اس لڑکے کو کھینچتا ھوا ماہی کے سامنے لے آیا اور ماہی کے سامنے ھی اسپر التوں اور گھونسوں کی بارش کردی وہ
بلکتا رھا چالتا رھا معافیاں مانگتا رھا مگر میں نے اسکی ایک نہ سنی اور مسلسل اسکی ٹھکائی کرتا رھا ۔
جب وہ لڑکا بےجان ہوکر نیچے گرا تو میں اس ،پر ہاتھ نرم کیا اور اسکے پیٹ پر ایک زور دار ٹھوکر ماری تو اسکے منہ
سے دلدوز چیخ نکلی اور وہ پیٹ پر ھاتھ رکھے سڑک پر لیٹیاں لینے لگ گیا۔
)Update no (164
میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا تو لڑکے کے منہ سے خون اور تھوک ٹپک رھا تھا ۔
سالے کی ایک منٹ میں ساری ہیرو گری نکل گئی تھی میں نے اسکے سر کے بالوں کو جنجھوڑا اور ماہی کی طرف انگلی
کرکے کہا پکڑ ہاتھ اسکا گشتی کے بچے اور پھر میں نے اسکا وہ ھاتھ پکڑا جسکا شاید جوڑ اکھڑ چکا تھا ۔۔اور اسکے ہاتھ
کو پھر مروڑ کر بوال ۔
یہ ھی ہاتھ میری بہن کی طرف اٹھا یا تھا نہ ۔
لڑکا ذور ذور سے چیخ کر مجھ سے اور کبھی ماہی سے رحم کی بھیک مانگ رھا تھا ۔۔۔
میں نے کچھ دیر اسکا ہاتھ مروڑ کر رکھا لڑکا نیم بےہوشی کی حالت جا چکا تھا اور آہستہ آہستہ بول رھا تھا ۔۔
مجھے معاف کردو مجھے معاف کردو ۔
اور پھر میں نے اس کے پیٹ میں اپنا گھٹنا مارا تو لڑکا پھر بلبالتا ھوا دھرا ھوا ۔
تو میں نے اسکی گردن کو پکڑ کر ماہی کے پیروں اسکو پھینکا اور بوال مانگ معافی اپنی بہن سے اور کہہ کہ تو میری بہن
ھے ۔
.لڑکا ماہی کے سکول جوگر کو ہکڑ کر انپر ماتھا رکھ کر ۔
روتے ھوے بوال ۔
آپی مجھے معاف کردیں مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز میری جان بچالیں یہ مجھے ماردے گا ۔
پلیزززز آپی آپ میری بہن ھو میری توبہ آج کے بعد کبھی بھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا ۔
بس ایک بار مجھے معاف کردیں ۔۔۔
ماہی کو بھی اسپر ترس آگیا اور اپنے پاوں پیچھے کرتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے بولی بھائی چھوڑ دیں اسے بہت
ھوگئی اسکے ساتھ ۔۔۔
میں نے پھر زوردار ٹھوکر اسکی ٹانگوں پر ماری تو وہ کالبازیاں کھاتا ھوا ایک طرف کو چال گیا ۔۔۔۔اسے چھوڑ کر
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا
تومیرے دوستوں نے ان پانچوں کو مار مار کر باندر بنا دیا تھا ۔۔۔
اور شادا ان سب کومرغا بننے کا کہہ رھا ۔
شادے کے ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا پکڑا ھوا تھا ۔۔
اور پانچوں لڑکے جن کی آنکھوں پر نیل پڑے ھوے تھے مگر کمال کی مار تھی کہ خون کسی کے بھی نہیں نکل رھا تھا ۔
دوستو۔۔۔
پینڈواں دی مار تے سٹ ُگ جی ُہندی اے ۔
جدیاں پیڑاں بڑھاپے وچ وی نکل پیندیاں نے ۔۔۔
میرے دوستوں نے ایسا ھی کچھ ان پانچوں کا حال کیا تھا سر اور منہ چھوڑ کر انکے نچلے دھڑوں پر ڈنڈے برسائے
تھے ۔۔۔ لڑکے سڑک پر لیٹیاں لے رھے تھے اورکوئی اپنے بازو کو تو کوئی اپنی ٹانگوں کو پکڑے روئی جارھے تھے ۔۔
انکی ساری ہیرو گیری نکل چکی تھی ہیرو سے اب مٹی کے باندر بنے ھوے تھے ۔۔
شادا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے باری باری سب کو مار کر انکو کان پکڑنے کا کہہ رھا تھا۔۔
میں نے ماہی کو کہا چلو تمہیں پہلے کالج چھوڑ آوں ۔
ماہی سر جھکائے میرے پیچھے چل دی میں نے بائک پکڑی اور دوستوں کو انکے حال پر چھوڑ کر ماہی کو پیچھے بٹھایا
اور کالج چھوڑ کر واپس اسی جگہ پہنچا تو ۔۔
سب لڑکے کان پکڑے سڑک پر مرغا بن کر چل رھے تھے اور شادا انکی گانڈ پڑ باری باری ڈنڈے برسا رھا تھا ۔۔
چاروں طرف کافی لوگ جمع تھے اور ان کا تماشا دیکھ رھے تھے ۔۔۔
میں نے وہاں پہنچتے ھی سب کو نکلنے کا کہا کہ بس اتنا ھی کافی ھے ۔
اور پھر شادے نے باری باری پانچوں کو ٹھڈے مارے اور میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا اور پھر باقی دوستوں کو لے کر
گاوں کی طرف چل دیا گاوں پہنچ کر میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہیں سے واپس شہر آیا ایک حمام سے اپنا حلیہ
درست کیا اور وہاں سے سیدھا ضوفی کہ گھر پہنچا ۔۔
تو ضوفی بولی یاسر اتنی دیر کہاں لگا دی ماہی کب کی کالج گئی ھے ۔
اور تم اب آرھے ھو.
۔میں نے جان بوجھ کر حیران ھوتے ھوے کہا۔
اچھااااااااا تم نے اسے اکیلی کو کیوں جانے دیا۔۔۔
ضوفی بولی ۔
وہ کہہ رھی تھی کہ تم اسے راستے میں ملو گے ۔۔۔
میں نے کہا چلو کوئی بات نہیں آجاے گی کچھ نہیں ھوتا۔۔۔
ضوفی بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ،ھے چلو پہلے ماہی کے کالج چلتے ہیں ۔۔
میں نے بھی جلدی سے کہا ہاں ہاں چلو چلو ۔۔۔
اور ضوفی بھاگتی ھوئی باہر کی طرف لپکی اور میں مسکراتا ھوا اسکے پیچھے باہر نکال ۔۔۔
کہ اچانک ضوفی کی نظر میری مسکراہٹ پر پڑی تو مجھے گھورتے ھوے بولی ۔
میری جان پر بنی ھوئی ھے اور تم دندیاں نکال رھے ھو ۔۔
میں نے کہا تم نکال لو تمہیں کسی نے روکا ھے ۔۔
ضوفی بولی یاسر قسم سے میں مزاق ،کے موڈ میں نہیں ھوں میرا دل گبھرا رھا ھے ۔۔۔
میں نے کہا چلو کسی جوا کارنر پر تمہیں جوس پالتا ھوں ۔۔۔تمہارے دل کی گبھراہٹ ختم ھو جاے گی ۔۔۔
ضوفی پیر پٹختے ھوے بائک کے قریب پہنچی اور انگلی کے اشارے سے حکم صادر کرتے ھوے بولی ۔
ہاسر چپ کر کے کالج کی طرف چلو۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا کیوں اب کالج میں اڈمیشن تو نہیں لے لیا۔۔
میرے ہنسنے اور بےجا مزاق کرنے پر ضوفی چونکی اور میری طرف گھورتے ھوے بولی ۔
تم ماہی کو کالج چھوڑ کر آے ھو ناں ۔۔
میں نے الپروائی سے جواب دیتے ھوے کہا ۔۔
ی
ہاں ۔۔
ضوفی بائک پر بیٹھتے ھوے میری کمر تھپڑ مارتےھوے بولی ۔۔
.گنداااااااا۔
پہلے کیوں نہیں بتایا ۔
ایسے میں میرا کلو خون کم کر کے رکھ دیا۔۔۔
میں نے بائک سٹارٹ کی اور گئیر لگا کر جھٹکے سے کلچ چھوڑا تو ضوفی نے ایکدم پیچھے سے مجھے جپھی ڈالتے ھوے
کہا۔۔۔
بتمیززززززز میں ابھی گرنے لگی تھی ۔۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا۔
میں اپنی جان کو گرنے دیتا ھوں ۔۔۔
تو ضوفی میرے کندھے پر سر رکھتے ھوے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھے بولی ۔
یاسر نہ تنگ کیا کرو ۔۔
تم بہت بگڑ گئے ھو۔۔
میں نے کہا تم نے ھی تو بگاڑا ھے ۔۔
ضوفی میرے پیٹ کو اپنی نرم انگلیوں سے سہالتی ھوئی بولی ۔
وہ کیسے جی ۔
میں نے کہا دور رھ رھ کر اور ترسا ترسا کر ۔۔۔
ضوفی میرے پیٹ پر چٹکی کاٹنتے ھوے بولی شوخے جب بھی موقع ملتا ھے تم باز آتے ھو پھر بھی ایسی باتیں کررھے
ھو۔۔
میں نے کہا ۔
اتنے تھوڑے ٹائم میں تو تمہیں دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملتا باقی تو اور کیا کرنا میں نے ۔۔
ضوفی میری کمر پر ٹکر مارتے ھوے بولی ۔
اور کیا کرنا ھے تم نے ۔۔
میں نے کہا جب موقع دو گی تب پتہ چلے گا۔۔۔
ضوفی بولی تو پھر جلدی سے امی کو ہمارے گھر بھیج دو ۔
اور جلدی سے شادی کرلو پھر جو چاھے کرلینا ۔۔۔میں نے لمبا سا سانس لے کر چھوڑا اور بوال ۔
پتہ نہیں وہ حسین رات کب آنی ھے ۔۔
ضوفی تھوڑا سنجیدگی سے بولی ۔۔
اتنے جلد باز مت بنو پہلے سٹینڈ ھوجاو پھر شادی بھی کرلیں گے ۔
میں نے جلدی سے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور پیٹ سے ہٹا کر اہنے لن پر رکھتے ھوے کہا یہ دیکھو تمہیں دیکھتے ھی تو
سٹینڈ ھوجاتا ھے اب اور کتنا سٹینڈ کرنا ھے ۔۔۔۔ضوفی نے ذور سے میرے لن کو دبایا اور شرمندہ سی ھوکر ہاتھ جلدی سے
واپس کھینچا اور میری کمر پر ذور سے مکا مارا اور بولی ۔
گندااااا جاو میں نہیں بولتی تم سے ۔۔۔۔میں نے ہنستے ھوے ضوفی کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پیٹ پر رکھا مگر ضوفی نے
پھر واپس ہاتھ کھینچ لیا ۔
ایسے ھی شرارتیں کرتے ہم دکان پر پہنچے ۔
جنید ابھی تک دکان پر نہیں آیا تھا ،ضوفی پارلر پر چلی گئی ۔
تو میں نے دکان کھولی اورصفائی وغیرہ کرنے میں مصروف ھوگیا ۔۔
کچھ دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا۔۔
جنید آتے ھی مجھ پر برس پڑا ۔
اور سٹک پکڑ کر مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگا ۔۔
میں بھاگتا ھوا ،کاونٹر کے پیچھے چال گیا اور بوال یار ھوا کیا ھے بتاو تو سہی ۔
جنید بوال ماما میری کیڑی پین اے جنوں او منڈے چھیڑدے سی ۔۔
میں نے ہنستے ھوے کہا اچھاااا تو یہ بات ھے ۔
تمہیں کس نے کہا ھے کہ میں نے یہ کہا ھے ۔۔
جنید پھر میری طرف سٹک لہراتے ھوے بوال ۔
ماما جناں نو نال لے کے آیا سی اوناں نوں کی کیا سی کہ او میری پین نوں چھیڑدے سی تے ایس لئی اوناں نو ماریا اے ۔۔۔
میں قہقہے لگا کر ینسنے لگ گیا ۔
تو جنید مذید چڑ گیا اور میری ٹانگوں پر آہستہ سے سٹیکیں مارنے لگ گیا ۔۔
کچھ دیر ایسے ھی ہنستے رھے پھر میں نے کہا
یار تیری پین تے میری پین وچ کوئی فرق اے جنید بوال ماما او تے تیری سالی اے ۔
میں نے کہا بیشک یار مگر پھر میں اسے اپنی بہن ھی سمجھتا ھوں ۔۔
پھر جنید بھی کچھ رلیکس ھوا اور بوال ٹھیک ھے یار ودائی جا میریاں پیناں ۔۔۔
میں نے کہا چل کوئی نہ یار اے بس آخری پین ای سمجھ ۔۔
پھر ہم ان لڑکوں کی چھترول کے بارے میں ،باتیں کر کر کے ہنسنے لگ گئے ۔۔
کچھ دیر بعد کسٹمرز آنے شروع ھوگئے اور ہم دونوں کام میں مصروف ھوگئے ۔۔۔
رات کو دکان بند کی اور میں ضوفی کو ساتھ لے کر گھر پہنچا ۔۔
تو ماہی بڑی خوش تھی جبکہ آنٹی کافی پریشان تھی ۔۔
)Update no (165
ماہی بھاگتی ھوئی ضوفی کے گلے ملی اور پھر ساری لڑائی حرف بحرف مزے لے لے کر ہاتھ پاوں مارتے ھوے سنانے
لگ گئی ۔۔۔
.جبکہ ضوفی کا رنگ بدلتا گیا ۔۔
اور پھر میری طرف دیکھتے ھوے غصے سے بولی ۔
جناب اتنا کچھ کر آے اور مجھے بھنک بھی نہ لگنے دی ۔۔
یاسر تم باز آجاو کیوں میری جان لینی ھے ۔
کیوں ایسے دشمنیاں بڑھا رھے ھو ۔
پتہ نہیں وہ لڑکے کون تھے اور اب وہ بدلہ نہ لیں ۔
اور پھر ماہی پر ضوفی بھڑک اٹھی اور اسے بولنے لگ پڑی کہ اب سکون مل گیا تمہیں مجھے پہلے ھی اسی بات کا ڈر تھا
اسی لیے تمہیں منع بھی کیا تھا کہ اس پاگل کو نہ بتانا ۔
ورنہ یہ انکو جان سے مارنے پر اتر آے گا مگر تمہارے رونے ھی نہیں ختم ھوے اور نتیجہ دیکھ لیا وہ ھی ھوا نہ جسکا ڈر
تھا ۔۔
میں نے کہا ضوفی اب بس بھی کرو اس بیچاری کا کوئی قصور نہیں اگر انکی طنعیت صاف نہ ھوتی تو وہ سالے ُپھکرے
اس کو روز تنگ کرتے اور آج بھی میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے اسکو تنگ کیا اور اسکا ھاتھ پکڑنے کی کوشش
کی تھی ۔۔
میں نے تو پھر بھی اسے پیار سے سمجھایا کہ بات نہ بڑھے مگر اس نے آگے سے گندی گالی دے دی باس پھر ۔۔۔۔
ضوفی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔
پھر جناب پر جن نازل ھوگیا ھوگا اور مار دھاڑ شروع کردی ھوگی۔۔
میں نے کہا تو بتاو اور میں کیا کرتا ایک بھائی کے سامنے اسکی بہن کا سرے بازار ھاتھ پکڑا جاے اور پھر منع کرنے پر
آگے سے گالی سننے کو ملے تو ۔
پھر میرا مرنا ھی بہتر تھا اگر کچھ کرتا نہ ۔
ضوفی نے جلدی سے میرے منہ پر ھاتھ رکھا اور بولی ۔
مریں تمہارے دشمن ۔
یاسر میں تو یہ کہنا چاھ رھی تھی کہ ایسے دشمنی بڑھتی ھے ۔
میں نے کہا بڑھتی ھے تو بڑھنے دو دیکھ لوں گا جو بھی ھوا ۔
مگر میری غیرت زندہ ھے بےغیرت نہیں ھوں میں ۔
شکر کرو کہ وہ لڑکا بچ گیا جس نے میری بہن کا ہاتھ پکڑا تھا ابھی تو اسکا وہ ھاتھ ھی ٹوٹا تھا ۔
جان سےنہیں گیا ۔۔
ضوفی نے دونوں ھاتھ منہ پر رکھتے ھوے کہا ہووووووو ھاےےےےےے میں مرگئی ۔۔
یاسر تم نے اسکا ھاتھ توڑ دیا ۔۔
تو ماہی بڑی شوخی سے سٹائل بنا کر بتاتے ھوے بولی ۔
آپی اس نے بھائی کا گریبان پکڑا تو بھائی نے ایسے کر کے ایک ھی جھٹکے میں اسکی کالئی مروڑ دی اور اسکا ہاتھ ُٹنڈا
ھوگیا اور پھر ماہی نے ٹنڈے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا پھر وہ ایسےایسے چلتا ھوا میرے قدموں میں گر کر مجھ سے
معافی مانگنے لگ گیا ۔۔
باجی اک واری معاف کردے باجی مینوں معاف کردے ۔۔
ضوفی ہنستے ھوے بولی ٹھہر بتاتی ھوں تجھے کیسے چسکے لے لے کر نقلیں اتار رھی ہے ۔۔
ضوفی ماہی کو مارنے کے لیے اسکے پیچھے بھاگی تو ماہی بھاگتی ھوئی سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی ۔۔
آنٹی میرے پاس آئی اور میرے سر پر پیار دے کر میرا ماتھا چوما اور اپنے آنسو صاف کرتے ھوے بولی یاسر بیٹا مجھے
آج تم پر فخر ھورھا ھے کہ تم اس گھر کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ھو بیٹا مجھے اب اپنی بیٹیوں کی فکر نہیں تم جیسا
بیٹا مجھے مل گیا مجھے اور اب کسی چیز کی ضرورت نہیں اوپر واال تیری لمبی عمر کرے اور ہر بال سے محفوظ رکھے
اور نظر بد سے بچاے میرے بچے کو ۔۔
آنٹی کی شفقت اور محبت دیکھ کر میں نے آنٹی کو گلے لگا لیا اور آنٹی کے سر پر بوسا لیا اور بوال ۔
آنٹی جی میں اسے اپنا گھر سمجھتا ھوں اور میرے ھوتے ھوے اس گھر کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔
کچھ دیر میں آنٹی اور ضوفی سے باتیں کرتا رھا جبکہ ماہی اوپر چلی گئی تھی ۔
اور پھر میں ان سے اجازت لے کر نکلنے لگا تو آنٹی اور ضوفی مجھے دروازے تک چھوڑنے آئیں اور نصیحتیں کرتے
ھوے مجھے اجازت دی ۔
ضوفی بار ،بار دھیان سے جانا دھیان سے جانا کہے جارھی تھی ۔
میں ادھر سے نکال اور سیدھا گاوں آیا گھر داخل ھوا تو سامنے عظمی اور نسرین کا دیدار ھوا ۔
سالم دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد پتہ چال کہ
آنٹی اور انکل الہور چلے گئے ہیں ۔۔
اور ان دونوں کو ہمارے گھر چھوڑ گئے ہیں ۔۔
میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور پھر باہر نکل گیا عظمی اور نسرین سے کوئی خاص بات نہ ھوئی ۔
باہر نکل کر میں چوک کی طرف چال گیا اور وہاں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مزاق اور آج کی کاروائی پر باتیں کرتے
ھوے گھنٹہ گزگیا گیا اور پھر میں ان سے اجازت لے کر گھر آیا ۔۔