You are on page 1of 479

‫وہ بھولی داستاں جو یاد آگئ‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬


‫)‪Update no (1‬‬

‫میں نہ تو کوئی لکھاری ہوں اور نہ ھی کچھ ذیادہ تعلیم یافتہ ہوں‪،‬‬
‫بس یہاں سے نامور لکھاریوں سے متاثر ہوکر مجھے بھی شوق پیدا ھوا کہ اپنی زندگی کے گزرے لمحات آپ دوستوں سے‬
‫شئیرکروں پیارے دوستو اگر امالء میں کہیں مجھ سے کوئی غلطی ھوجاے تو چھوٹا بھائی سمجھ کر درگزر کر دینا اور‬
‫میری رہنمائی کرتے رہنا‬
‫پیارے دوستو آپ کی تنقید میرے لیے رہنمائی ھوگی اور آپ کی تعریف کے چند الفاظ میرے لیے حوصلہ افزائی ھوگی‪،‬‬
‫دوستو یہ سٹوری حقیقت پر مبنی ھے مجھے نھی پتہ کہ میں آپ کے معیار پر یا آپ کے ذوق پر پورا اتر سکوں گا کہ نھی یہ‬
‫تو آپ کی قیمتی راے سے ھی مجھے پتہ چلے گا کہ کیا میں آپ کے ذوق کے مطابق لکھ رھا ھوں‬
‫میری یہ سٹوری ان باذوق دوستوں کے لیے ھے جو اہل علم ھونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند ھیں جہاں تک میری ناقص‬
‫راے ہے کہ‬
‫سٹوری میں سیکس ھونا چاھیے نہ کہ سیکس میں سٹوری‬
‫کیونکہ اکثر لوگ صرف لن پھدی کی لڑائی کو پسند کرتے ہیں چاھے وہ حقیقت سے کوسوں دور ھو تو میری کوشش یہ ھی‬
‫ھوگی کہ میری سٹوری پڑھ کر آپ کو بھی اپنا ماضی یاد آجاے‬
‫اس لیے سیکس میں کہانی تالش کرنے والوں سے میں اڈوانس معذرت کرتا ہوں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دوستو‪ ،،،‬میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں‬
‫میری یہ سٹوری ھے ان دنوں کی‬
‫جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے‬
‫جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے‬
‫اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بالجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریبًا ‪15/ 14‬سال کے لگ بھگ‬
‫ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو‬
‫ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریبًا چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے‬
‫جو تقریبًا اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کالس میں پہلی سے‬
‫تیسری کالس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کالس میں چوتھی اور پانچویں کالس کے بچے پڑھتے تھے‬
‫میں اس وقت چوتھی کالس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل‬
‫کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے‬
‫شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬


‫)‪Update no (2‬‬

‫دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا‬
‫میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا‬
‫امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو‬
‫طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چال‬
‫جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی‬
‫میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے واال منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا‬
‫میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سالم کیا آنٹی فوزیہ‬
‫بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی‬
‫طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی‬
‫رنگ انکا سفید تھا‬
‫دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چال آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا‪،،‬‬
‫میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی‬
‫میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا‬
‫ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا‬
‫آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے واال منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی‬
‫آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ ُپتر تیری امی کو تجھ‬
‫سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حالت بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے‬
‫کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکھی میں‬
‫نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے واال بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی‬
‫دیکھ ُپتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور‬
‫نسرین‬
‫(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں)‬
‫بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر‬
‫کی طرف سے چلے جایا کرنا ‪..‬‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (3‬‬
‫ابھی تم دل لگا کر پڑھو اور جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر‬
‫ہالیا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات‪،،‬‬
‫میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی‬
‫گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے‬
‫پاس چال گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے‪،‬‬
‫میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا‬
‫کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا‬
‫تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک‬
‫گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی‬
‫تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی‬
‫میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی‬
‫زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی‬
‫دوستو‬
‫آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اوالد نھی ھوئی انکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے‬
‫مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام‬
‫سودا سلف وغیرہ میں ھی ال کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا‬
‫اس لیے گھر کا الڈال بھی تھا‬
‫باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (4‬‬
‫عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی‬
‫مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا‬
‫قد تقریبًا میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے‬
‫عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم‬
‫بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے ُبنڈ بھی کافی‬
‫باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا‬
‫جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر عظمی سے کم ھی تھے‬
‫میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی کوشش کے بعد آخر کار میں اسے منانے میں‬
‫کامیاب ھوگیا میں اور عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی کہ‬
‫جلدی آ جانا ذیادہ دور مت جانا‬
‫ہم نے آنٹی فوزیہ کی بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل کر کھیت کی طرف چل پڑے‬
‫دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ واال‬
‫کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت کی جاتی تھی‬
‫اور اس وقت کپاس کی فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے اس وقت تقریبًا پانچ فٹ تک ھوتے تھے اور کپاس کی فصل‬
‫کے آگے والے کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی اور جو دوست گاوں کے رھنے‬
‫والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک‬
‫پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر چھوٹا سا‬
‫لکڑی کا پل تھا جسکو کراس کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور شہر کا فاصلہ‬
‫تقریبًا دو کلو میٹر تھا‬
‫خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں‬
‫کھیل رھے تھے جن کی عمر دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے تھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (5‬‬
‫دوستو‪،،‬‬
‫ہمارا پسندیدہ کھیل ُلکن میٹی سٹیپو باندر ِکال وانجو پکڑن پکڑائی ھونے؟؟؟؟؟‬
‫جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ُچھپن چھپٰا ئی کی باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر ہماری‬
‫گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ غصے سے بوال‬
‫آگئی ہنساں دی جوڑی اینی دیر کردتی یار‬
‫میں نے کہا یار ایس میڈم نے دیر کرادتی ُرس کے بیٹھی تھی نواب زادی‬
‫تو میں اور عظمی نے بھی اپنی اپنی باری ُپگی اور تین بچوں کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو ڈھونڈنا تھا‬
‫ہم سب ُچ ھپنے کے لیے کپاس کی فصل کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چُھپ گئے جبکہ میں‬
‫اور عظمی کپاس کی فصل میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس ادھر ھی چھپ‬
‫جاتے ہیں میں نے سنا ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے ھوے ہیں‬
‫دوستو ان دنوں ہمارے گاوں میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس لیے ھو بھی ادھر‬
‫جاے احتیاط سے جاے‪،‬‬
‫مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی نہ گرمی‬
‫نہ سردی کی فکر‬
‫میں نے عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا یار‬
‫پنڈ والے ایویں چوالں ماردے نے کہ کوئی چھلیاں نہ توڑے‬
‫عظمی بولی نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے‬
‫تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے جہاں ایک پانی کا کھاال تھا جسکو کراس کر کے‬
‫دوسری طرف مکئی کی فصل شروع ہو جاتی تھی ۔۔‬
‫کھالے کے ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم کے درخت تھے‬
‫میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے چھالنگ‬
‫لگا کر کھاال کراس کیا اور پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے چھالنگ لگائی اور میں اسکی ھی طرف منہ کر کے کھڑا تھا‬
‫عظمی نے جب چھالنگ لگائی تو سیدھی آکر میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا‬
‫کرنے سے اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ھوگئے‬
‫ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں اکثر کبھی‬
‫کبھی عظمی کو جپھی ڈال کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی وجہ سے کبھی‬
‫کبھار ایک دوسرے کے اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (6‬‬
‫عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت کے پیچھے لے آیا‬
‫اور عظمی میرے آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے پیچھے اسکی ُبنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا ھوگیا اور دونوں آگے‬
‫پیچھے اپنے سروں کو نکال کر سامنے بنے کی طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا‬
‫ھوگا جو سویا ھوا عظمی کی ُبنڈ کے دراڑ کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ گئے‬
‫کہ اچانک عظمی نے‬
‫گبھرائی ہوئی آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر سے میں پیچھے سے عظمی‬
‫کے ساتھ بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ مجھے سیکس واال مزہ آرھا تھا بس ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم‬
‫گانڈ کے ساتھ‪ .‬چپک کر کھڑے ھونا اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم ڈرپوک بہت‬
‫ھو عظمی کچھ دیر اور کھڑی رھی پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور جلدی سے کھالے پر سے چھالنگ لگا کر دوسری‬
‫طرف چلی گئی اور مجھے کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار اسکے پیچھے ھی کھاال‬
‫پھیالنگ چل پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے‬
‫خوشی میں شور مچارھے تھے ہم دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے ادھر کی پکڑن‬
‫پکڑائی کھیلتے رھے اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنےاپنے گھروں کی طرف چل دیے‬
‫ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے گھر اور گھر سے کھیل کود‬
‫ایک دن ہم سکول میں اپنی کالس میں بیٹھے تھے کالس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی‬
‫ادھر ادھر ہماری کالس گھیسیاں کرتی کرتی جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی‬
‫تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے‬
‫ہماری کالس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی اور ماسٹر جی کو سالم کیا تب ماسٹر جی‬
‫نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی اٹھا کر لے آیا‬
‫جس پر آنٹی فرحت بیٹھ گئی ‪.‬‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (7‬‬
‫دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا چلوں‪،،‬‬
‫آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی فرحت‬
‫کی امی انکو اپنے پاس ہمارے گاوں ھی لے آئی تھی‬
‫آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر سے ھی‬
‫چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی آنکھیں ھی انکے‬
‫باقی حسن کی تعریف کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو بس اس جھیل میں ایسا‬
‫ڈوبے کہ کسی اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے‬
‫انٹی فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا‬
‫انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے ساتھ‬
‫کافی فری ھونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا رھے ہیں تب ماسٹر جی‬
‫نے صغیر کو آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر جی اور انٹی فرحت کے پاس جا‬
‫پہنچا ماسٹر جی نے دستہ کھوال اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ دیکھا‬
‫اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آو میں ذرہ‬
‫آفس میں جا رھا ھوں تم کالس کا دھیان رکھو کوئی بچہ شرارت نہ کرے‪،،‬‬
‫دوستو میں کالس میں سب سے الئق تھا اور میرا قد بھی تقریبًا سب بچوں سے بڑھا تھا اس لیے میں کالس میں سب سے‬
‫آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے مجھے کالس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی ماسٹر جی‬
‫مجھے سمجھا کر اٹھے اور آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور خود آفس کی‬
‫طرف چل پڑے اور انکے جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی گانڈ میں پھنسی‬
‫ھوئی تھی جسکو انہوں نے بڑی ادا سے باہر نکاال اور اپنے بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے چل پڑی‬
‫اور میں کالس کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی طرف تھا جب کہ ساری کالس کی پیٹھ کمروں کی‬
‫طرف تھی کالس کمروں کی مخالف سمت بیٹھتی تھی‬
‫کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے ‪.‬‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (8‬‬
‫میں نے اسے پوچھا سنا خوب کالس لگی ماسٹر جی اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر جا کر کالس میں بیٹھ گیا تقریبًا‬
‫دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے صرف‬
‫نام کے واش روم کی طرف چل پڑا‬
‫دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے ایک کمرے کو تو جب سے میں نے دیکھا تاال ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے آدھے‬
‫کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے حصے میں‬
‫ایک الماری لگا کر پارٹیشن کی گئی تھی اور اس کے پیچھے‪ .‬دو چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر جی آرام کرنے کے‬
‫لیے لیٹ جاتے تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین فٹ کی جگہ رکھی تھی‬
‫جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا‬
‫میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی‬
‫فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی‬
‫کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے‬
‫کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا‬
‫پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے‬
‫گی‬
‫میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے‬
‫میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا‪،‬‬
‫اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف‬
‫دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھوال کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں‬
‫بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں‬
‫مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکال دفتر واقعی‬
‫ھی خالی تھا‬
‫میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا‬
‫پہنچا‬
‫میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے‬
‫برعکس تھا‬
‫جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (9‬‬
‫میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی‬
‫فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی‬
‫کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے‬
‫کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا‬
‫پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے‬
‫گی‬
‫میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے‬
‫میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا‪،‬‬
‫اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف‬
‫دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھوال کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں‬
‫بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں‬
‫مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکال دفتر واقعی‬
‫ھی خالی تھا‬
‫میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا‬
‫پہنچا‬
‫میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے‬
‫برعکس تھا‬
‫اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت آنٹی‬
‫کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی تھی‬
‫مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی‬
‫میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت آنٹی‬
‫کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے دونوں بڑے بڑے‬
‫گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کے ایک ُممے‬
‫پر تھا اور دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی ُبنڈ پر رکھ کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔‬
‫انٹی فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی‬
‫انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے جاتی ‪.‬‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (10‬‬
‫دوستو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے میں میں سوچ‬
‫بھی نھی سکتا کہ یہ بھی ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال میں میرا تو دیکھ کر‬
‫برا حال ھورھا تھا ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫ادھر ماسٹر جی اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی مستی میں گم تھے‬
‫ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ‬
‫کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ چھت کی طرف‬
‫تھا اب ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے کبھی‬
‫زبان پھیرتے تو کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتے‬
‫آنٹی فرحت کا رنگ تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر کی طرح سرخ ھوچکا تھا‬
‫ماسٹر جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے سے‬
‫زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے بل کھڑی‬
‫ھوجاتی اور بند آنکھوں سے چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی کرکے ماسٹر جی کے‬
‫ساتھ مزید چمٹ جاتی‬
‫ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی فرحت کے‬
‫کان کی لو سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے‬
‫حصہ کو ماسٹر جی کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی‬
‫فرحت کو پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر جی تین چار‪ ،‬منٹ تک ایسے ھی کبھی گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے‬
‫پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل پر‬
‫زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم اکڑا ھوا تھا‬
‫ماسٹر جی مسلسل اپنی زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر زبان گھماتے انٹی‬
‫فرحت مزے سے سسسییی افففففف اممممم کری جارھی تھی‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (11‬‬
‫ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیرنے‬
‫لگ جاتے اب ماسٹر جی نے ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا اور زور زور سے چوسی جارھے تھی انکی تھوک‬
‫سے سارا مما گیال ھو گیا تھا‬
‫ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا رھے تھے‬
‫آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا کبھی‬
‫بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی‬
‫ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں سے نالے کا سرا تالش کرنے لگ گئے آنٹی‬
‫فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس لیے انہوں‬
‫نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں اوپر کر کے انٹی‬
‫فرحت کی آنکھوں میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں سر ہالیا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ بس اس سے آگے کچھ نھی‬
‫کرنا‬
‫مگر‬
‫ماسٹر وی کسے چنگے استاد دا‬
‫چھنڈیا ھویا سی‬
‫ماسٹر جی نے بڑے پیار اے اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ چھڑواتے ہوے شلوار کے‬
‫نالے کے سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان پھنسا لیا تھا‬
‫اور ایک جھٹکے سے ناال کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا ناال کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت کچھ سمجھتی انکی‬
‫شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی‬
‫میری آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن‬
‫رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی ھوی ُپھدی تھی۔‬
‫یہ سین دیکھتے ھی میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چال گیا جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں‬
‫نے لن کو مسلنا شروع کردیا ‪،،‬‬
‫ادھر ماسٹر جی نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی پر رکھ دیا اور ھاتھ کی‬
‫درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ‬
‫کر ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے بجاے‬
‫انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر جی کے ھاتھ کو‬
‫آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے اندر کی آنٹی فرحت کے منہ‬
‫سے ایک لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی طرف لے گئی اور دونوں کے‬
‫ہونٹ پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح‬
‫ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی کے اندر باہرھو رھی تھی‬
‫اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند ھونے لگ گئی اور منہ سے ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں گئی میں گئیییییی‬
‫کی آوازیں آنے لگ گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جھکتی گئی کہ‬
‫نیچے ھی پاوں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے کی وجہ سے ساتھ ساتھ‬
‫نیچے ھوتے گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر رکھ کر بیٹھی رھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی اپنی‬
‫شلوار اوپر کرلی اور ذور سے ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا ناال باندھ لیا ماسٹر‬
‫جی حیران پریشان آنٹی فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت‬
‫کیا ھوا تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی‬
‫انکی منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے سے خوار ھورھا تھا‬
‫ماسٹر جی جب دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور آنٹی‬
‫فرحت کو گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا آنٹی فرحت کی نظر جیسے ہی پردے پر پڑی میرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے‬
‫میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے بھاگا اور سیدھا کالس کی طرف آگیا مجھے کالس کی طرف آتے دیکھ عظمی بھی‬
‫میری طرف متوجہ ھوگئی میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز چل رھی تھی میں‬
‫اس قدر گبھرایا اور ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ رھی ھے اور میں عظمی‬
‫کو نظر انداز کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا‬
‫عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے پکڑ کر‬
‫بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں عظمی نے ایک ھی‬
‫سانس میں کئی سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے‬
‫میں نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے اپنی‬
‫طرف دیکھتے عظمی نے مجھے بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر بولو کیا سوچ رھے ھو‬
‫میں ایک دم سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی اپنےنے‬
‫نہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ رھو‬
‫وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر کے بیٹھ گئی‬
‫میرا دھیان اب کمرے کے دروازے کی طرف ھی تھا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (12‬‬

‫اور دل میں کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر‬
‫جی کو ضرور بتاے گی‬
‫یاسر پتر توں تے گیا ھن‬
‫ھن تیری خیر نئی‬
‫ماسٹر جی نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے‬
‫میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں سے کالس کی طرف آتے‬
‫دیکھا‬
‫ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر میرا تو گال خشک ھوگیا بیٹھے ھی میرا جسم کانپ رھا تھا‬
‫ماسٹر جی‬
‫کالس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے انکے چہرے پر غصہ صاف صاف جھلک رھا تھا‬
‫اب مجھے نھی معلوم تھا کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا‬
‫خیر ماسٹر جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی‬
‫چبھوئی ھو‬
‫میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر‬
‫ماسٹر جی بولے‬
‫تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام چیک کرو تم نے کیا‬
‫میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے صرف کالس کا دھیان رکھنے کا کہا تھا‬
‫میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا‬
‫تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں مانیٹر کس لیے بنایا ھے‬
‫بیٹھ جاو‬
‫میں جلدی سے بیٹھ گیا‬
‫اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھال کہنے لگ گیا‬
‫کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ وی میرا ای قصور اے‬
‫پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا اور باری باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ گئے‬
‫ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا غصہ ان بچوں پر نکاال جنہوں نے ہوم ورک نھی کیا ھوا تھا‬
‫مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر جی کو نھی پتہ چال کہ میں بھی انکی پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا‬
‫چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے عظمی‬
‫کے چہرے پر کافی بےچینی سی نظر آرھی تھی‬
‫ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا جیسے‬
‫خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس کھڑا ھوگیا‪.‬‬
‫نسرین سمیت باقی بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ‬
‫کھڑی ھوئی اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب بتاو کیا ھوا تھا‬
‫میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات ھے ہمارا‬
‫گھر آنے واال ھے اتنی جلدی کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے ھوے تھے تو میں‬
‫نے کہا یار وہ ماسٹر جی اور آنٹی فرحت‪،،،،،،،‬‬
‫یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے نسرین اکیلی‬
‫کھڑی ھمارا انتظار کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی عظمی نے مجھے پھر کہنی‬
‫ماری بولو کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے ھوے‬
‫خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی‬
‫تواڈے دوناں دیا لتاں ُٹٹیاں ھویاں نے‬
‫لتاں کڑیس کڑیس کے ُٹردے او‬
‫میں نے شوخی سے کہا‬
‫تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ کے اگے اگے پہنچ جانی اے‬
‫تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان جو‬
‫سالم کیا اور کمرے کی طرف چل دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت مزدوری کر کے‬
‫آیا ھوں‬
‫لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے لگ گیا‬
‫دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی بولوں گا سالی اب اس الئق ھی نھی رھی‪،،،،‬‬
‫میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے گورے گورے خربوزے جتنے ممے آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے چٹے سفید دودہ‬
‫سے بھرے پیالے تھے جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل اندر کی طرف تھا کیا‬
‫کمال کی گوری چٹی ٹانگیں‬
‫کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکال‬
‫یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چال کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے تھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (13‬‬
‫کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے خیالوں سے ال باھر پھینکا‬
‫یاسررررر‬
‫امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بوال جی امی جی‬
‫تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی پتر آکر روٹی کھا لو‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی‬
‫روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک کر کے تھوڑی دیر بعد میں پھر لیٹ گیا اور پتہ‬
‫نھی کب میری آنکھ لگی جب میں اٹھا تو اس وقت چار بج رھے تھے‬
‫امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں بالنے آئی تھی کہ امی یاسر کو بال رھی ھے‬
‫تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر سمجھا ھوا‬
‫ھے جب بھی کوئی کام ھوتا ھے تو منہ اٹھا کر اسے بالنے آجاتے ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب بن کر رھتا ھے‬
‫اور ان کے گھر نوکری کر کے خوش ھے‬
‫امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار کرتی‬
‫ھے اس لیے مان سے اسے کوئی باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا تکلیف ھے‬
‫امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا اور‬
‫باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے دروازے پر‬
‫جا پہنچا جب میں اندر داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سالم کیا اور ان سے اپنے سر پر پیار لیا‬
‫تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو دفعہ مجھے‬
‫بالنے آئی تھی خیریت تو ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی‬
‫پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھوے کہا‬
‫جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی آئیں میں نے انٹی‬
‫سے ان دونوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو َم لکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی گئی مگر عظمی اندر کمرے میں‬
‫ہے دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے کل‬
‫نہر پر کپڑے دھونے جانا ہے۔۔‬
‫میں نے ھممم کر کے سر ہالیا اور انٹی سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک کا توڑا‬
‫اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے لے کر صحن‬
‫میں باھر کے دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی اتنی دیر میں گندم کا تھیال اٹھا کر لے آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی‬
‫لیا ھوا تھا جیسے ھی انٹی گندم کا تھیال سائکل کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں‬
‫کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے چٹے ممے‬
‫آگئے اور میں ٹکٹکی باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ میری گندی نظروں سے بے خبر‬
‫اپنے دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے فریم میں چین کے کور کے اوپر‪ .‬سیٹ کر رھی تھی‬
‫جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے میں نددیدوں‬
‫کی طرح آنٹی کے ممے دیکھی جارھا تھا ‪،‬‬
‫دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا تھا تب میری معصومیت بچپنا اور سیکس سے‬
‫ناآشنائی کی وجہ تھی اور یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا‬
‫نھی تھا جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں‬
‫میں بچہ تھا معصوم تھا‬
‫مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک آنکھ‬
‫کھول لی تھی‬
‫آنٹی نے گندم کا تھیال سہی کرکے رکھ دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی گھر سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل بھی آگے‬
‫سے ہل رھا تھا اور میں ڈگمگاتے ھوے چال جارھا تھا کہ اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی آواز آئی جو مجھے رکنے‬
‫کا کہہ رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں اسے دیکھ کر رک گیا‬
‫‪ ،،‬عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور بولی ُبدھو پیسے تو لیتا جا میں نے اسکی‬
‫ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے ساتھ ساتھ‬
‫سائکل کو پیچھے سے پکڑے چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ بولی ذیادہ شوخا نہ‬
‫بن اور کل والے واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں‬
‫میں عظمی کی بات سن کر پریشان ھوگیا‬
‫میں گبھراے ہوے بوال یار کچھ بھی نھی ھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (14‬‬
‫عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے‬
‫میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫تو بتاو پھر‬
‫میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم سے گندی باتیں کروں‪،‬‬
‫تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور بولی‪،‬‬
‫میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے نال گندی گل کیتی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫ُدرفٹے منہ تیرا‬
‫میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات کررھا ھوں‬
‫تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا تم‬
‫تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور بات کرو‬
‫تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج توں بعد نی ُبالئیں تیری میری کٹی اور یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی میری‬
‫طرف کرتے ھوے واپس بھاگ گئی‬
‫دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی‬
‫میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے آنٹی سے‬
‫پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی ھوگی‬
‫تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت واپس آگئی تھی‬
‫آنٹی بولی‬
‫فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی ھونی اے‬
‫میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا ھو‬
‫تب تک شام ڈھلنے والی تھی‬
‫میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں کھیلتے ھوے‬
‫بچوں کو دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور کھیت کی‬
‫دوسری طرف بنی پگڈنڈی کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ فاصلے پر اسکے‬
‫پیچھے پیچھے چلتا ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی‬
‫میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر اسکے‬
‫اور قریب ھوگیا عظمی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی‬
‫کی تکلیف اے میرے ِپچھے کیوں پیا ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ‬
‫میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫جا دفعہ ھو جان چھڈ میری‬
‫میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو لڑکیوں سے نھی کی جاتی‬
‫تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی ھو‬
‫تو عظمی بولی‬
‫میں تیرے کولوں کش ُپچھیا اے جیڑا توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا کہ‬
‫عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے والے انداز سے کہا‬
‫چل آ تینوں دسدا آں‬
‫تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز سے بولی‬
‫تینوں ُسندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں کہ میں ُک ش نئی ُسننا جا جان چھڈ میری‬
‫میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی‬
‫میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا‬
‫اور اپنے ُگ ٹنوں میں سر دے کر رونے لگ گیا‬
‫دوستو میں گھر اور محلے میں سب لڑکوں سے خوبصورت الڈال ھونے کی وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے کسی کی‬
‫ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی برداشت نھی ھوتی تھی۔‬
‫اسی وجہ سے عظمی کے سخت رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری ہچکی بندھ گئی تھی‬
‫مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے تو‬
‫میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو‬
‫عظمی بیٹھی تھی اور پیار سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے چپ کرا رھی تھی‬
‫عظمی بولی‬
‫میرے شونے کو غصہ آگیا ھے‬
‫میں نے غصے سے اپنے کندھے اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گیا عظمی پھر بولی‬
‫میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے‬
‫اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے کانوں کی‬
‫طرف لے گئی اور اپنے کان پکڑ کر کہنے لگی‬
‫معاف کردو سوری بابا‬
‫تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا‬
‫تو عظمی نے شوخی سے میرے کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی‬
‫چل شوخا‬
‫اور ہم دونوں ھنس پڑے‬
‫عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل جب تم‬
‫آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر پر جاو گی تو تب‪ .‬میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر بتاوں گا‬
‫تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہالیا اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے‬
‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (15‬‬
‫اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں چُھٹی تھی‬
‫میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا آنٹی کے‬
‫گھر پہنچ گیا گھر میں داخل ہوتے ھی آنٹی کو سالم کیا اور انکل بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سالم کیا انکل مجھے‬
‫چھیڑنے لگ گئے کہ‬
‫یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے جارھے ھو‬
‫میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی تو انکل‬
‫نے مجھے پیار سے ساتھ لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے لگے‬
‫چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی جانے لگ‬
‫جائیں انکے ساتھ ھی چلے جایا کرنا میں ھاں میں سر ہالتا ھوا انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ کی طرف چل پڑا جو‬
‫چارپائی پر بیٹھی قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں‬
‫باہیں ڈال کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ کو جپھی ڈال لی ‪،‬‬
‫آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا ہونے کی وجہ‬
‫سے پیچھے سے آنٹی کے کالے رنگ کے بریزئیر کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے‬
‫اور سوٹ کا کلر‬
‫انٹی پر بہت جچ رھا تھا‬
‫میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر پر ہیں‬
‫اس لیے تو آنٹی فوزیہ‬
‫حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی سے ایسے بات کرتے ھوے‬
‫اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو شہر کی ہوا‬
‫لگ گئی ھے تو انکل بھی اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم پر الئن مار رھا ھے‬

‫میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی لوگوں کے‬
‫پاس بھاگ گیا مجھے پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں کی آواز سنائی‬
‫اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی‬
‫گل تے سن کتھے چالں آں‬
‫مگر تب تک میں کمرے میں داخل ھوچکا تھا‬

‫اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو نسرین نے‬
‫ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا ویال‬
‫تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں اسے جواب دیتے ھوے کہا‬
‫توں تے بڑی کاموں اے سارا دن پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی ایں‬
‫سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا کر‬
‫عظمی کھلکھال کر ہنس پڑی تو نسرین کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو مارنا شروع کردیا‬
‫میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر ھماری آپس میں نوک جھونک جاری رھی‬
‫تقریبًا ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی‬
‫چلو ُک ڑیو جلدی نال کہڑے ُچ کو تے نہر تے چلو میرے نال‬
‫نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل آے‬
‫کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن کپڑے‬
‫دھونے واال ڈنڈا اور دیگر ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے دھونے واال ڈنڈا ھاتھ‬
‫میں پکڑا اور ہم گھر سے نہر کی طرف چل پڑے کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے‬
‫بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی طرف جار رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی‬
‫اسکے پیچھے عظمی اور اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے جارھے تھے کیوں کہ‬
‫پگڈنڈی کی جگہ ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر عظمی کی گول مٹول ُبنڈ پر پڑی جو باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس‬
‫کے ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی تھرتھراتی کبھی ُبنڈ کی ایک پھاڑی اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی سیکسی ُبنڈ‬
‫دیکھ کر میں تو سب کچھ بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی ہم ایسے ھی‬
‫چلتے چلتے نہر پر پہنچ گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں نیچے گھاس پر رکھ دی‬
‫اور بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے‬
‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (16‬‬
‫انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک گٹھڑی کو‬
‫کھوال اور اس میں سے کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی تھے‬
‫آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں کے بل‪ .‬بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی تو آنٹی‬
‫کی قمیض کا گال کافی کھال تھا اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے سامنے کھڑا آنٹی‬
‫کو کپڑے دھوتے دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین باقی کی گٹھڑیوں کو کھولنے میں مصروف تھی‬
‫وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان میری‬
‫طرف نھی تھا‬
‫پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو تھوڑا‬
‫نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا فائدہ مجھے ھوا کہ آنٹی کے مموں کے درمیانی الئن مجھے صاف نظر آرھی تھی اور میں‬
‫اس نظارے کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے ذور ذور‬
‫سے اچھل کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے کے لیے بے تاب تھے اور یہ سب دیکھ کر میری حالت قصائی کے پھٹے‬
‫کے سامنے کھڑے ُک تے جیسی تھی‪،‬‬
‫دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط خیال نھی تھا‬
‫بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی ُبنڈ اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے مجھے بہت‬
‫اچھا محسوس ھوتا‪،،،‬‬
‫میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے کے لیے‬
‫ُجھکی‬
‫تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت آگے بڑھ‬
‫کر آنٹی کے دونوں دودھیا رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور ذور سے سائکل پر‬
‫لگے پاں پاں کرنے والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا‬
‫آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا بھی نھی‬
‫پہنی ھوئی تھی شاید آتے ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض کے گلے کے کنارے پر اٹکے‬
‫ھوے تھے اور انکے مموں پر گول براون دائرہ بھی نظر آرھا تھا‬
‫یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا‬
‫کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ رھا‬
‫ھے اور اسکے جسم کے کون سے عضو پر نظر کا تیر لگ رھا ھے‬
‫یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا‬
‫میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے اچانک آنٹی‬
‫نے اپنا ایک ھاتھ اپنے سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ یاسر‬
‫میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بوال جی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر پر رھے ہیں‬
‫میں شرمندہ سا سر جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا آنٹی کی طرف نھی دیکھا‬
‫بلکہ انکی طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف کر کے بیٹھ گیا‬
‫کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور کپڑوں‬
‫کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیا اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر اس سے نیچے‬
‫نھی اترا جارھا تھا تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ کپڑے نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر نیچے جایا جا رھا میں‬
‫جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر نیچے اتربے لگ گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی‬
‫نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی کرنے لگ‬
‫گئی ایسے کرنے سے اس کے ممے بلکہ اوپر کو ھوگئے میری پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی عظمی نے میری‬
‫طرف دیکھا اور آنکھ کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو ہالتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے میں اس کے اچانک اس‬
‫اشارے سے کنفیوز سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر آواز دے دینی ھے‬
‫تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے اوپر پھیالنے لگ گئی‬
‫میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا پریشان سا ھوگیا تھا‬
‫اور منہ ھی منہ میں ماسٹر اور فرحت کو گالیاں دینے لگ گیا‬
‫‪,‬کہ گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے کم تے الدتا اے‬
‫چنگا پال شریف سی‬
‫تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیال دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کا‬
‫نظارا کرتے کرتے جانے لگ گیا‬
‫ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی‬
‫کپڑے دھو رھی تھی ‪،‬‬
‫اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے بھی کافی گیلے‬
‫ہو چکے تھے جس میں سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر آجاتا‬
‫آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی کپڑے ُس کنے ڈال دو میں جلدی سے اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی کو ساتھ لیے‬
‫نیچے اگیا اب ہم کچھ دور چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا آگے مکئی کی فصل‬
‫کے پاس چلے گئے‬
‫تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا تھا‬
‫میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے تو میں نے‬
‫عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا چلو گا تو عظمی نے اثبات میں سر ہالیا میں نے عظمی کو کہا‬
‫کہ دیکھو یہ بات تمہارے اور میرے درمیان میں ھی رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی‬
‫مت کرنا عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی‬
‫میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ پر پڑی‬
‫تو میں ڈر کر بھاگ آیا ‪،،،‬‬
‫عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا کام کررہے تھے میں پریشان سا بوال وہ ھی گندا کام تو وہ معصومیت سے میری‬
‫طرف منہ کر کے بولی کون ساااااااا‬
‫میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے ھوے شرم نھی‬
‫آئی تھی جو اب بتاتے ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے اندر گیا تھا وہ تو مجھے‬
‫آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر اندر دیکھنے گیا تھا کہ پتہ نھی آنٹی کو کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر‬
‫گیا تو آنٹی فرحت اور ماسٹر جی‪،،،‬‬
‫یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی جھنجھال کر بولی‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (17‬‬
‫درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی‬
‫میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ھوے نیچے منہ کر کے بوال‬
‫ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی‬
‫اور دونوں ایک دوسرے کی ُچمیاں لے رھے تھے‬
‫اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے ھی پکڑے ھوے تھے‬
‫میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا دیا‬
‫عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ھو‬
‫اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے منہ کے اگے رکھ کر بولی‬
‫ھاےےےے ****** میں مرگئی‬
‫فیر‬
‫میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ‬
‫امی بال رئی اے تواڈیاں گالں ای نئی ُمکن دیاں‬
‫میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری بات بتاوں گا‬
‫ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی‬
‫میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے‪ .‬عظمی بھی بڑبڑاتی آگئی‬
‫کچھ دیر ہم اور نہر پر ھی رھے پھر ہم نے سارے کپڑے سمیٹے اور اسی انداز میں گھر کی طرف چل پڑے راستے میں‬
‫بھی کوئی خاص بات نھی ھوئی‬
‫مگر میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا‬
‫ایسے ھی چلتے ھوے ھم گھر پہنچ گئے‬
‫اگلے دن سکول‬
‫میں بھی کچھ خاص نھی ھوا شام کو میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا اور عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف‬
‫چل پڑا کھیت میں پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع ھوچکے تھے ہم نے ُلکم میٹی کے لیے اپنی اپنی باریاں ُپگنے لگ‬
‫گئے آخر میں‬
‫میں عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری طرف کر‬
‫کے کھڑے ھوگئے اور باقی سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چُھپنے کے لیے ِادھر ُادھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد ایک بچے کی‬
‫آواز آئی کہ‬
‫لب لو‬
‫تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے‪ .‬اور آپس میں‬
‫مشورہ کرنے لگ گئے کہ کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے ہمارے ساتھ واال لڑکا کہتا کہ یاسر تم نہر والے بنے سے‬
‫جاو عظمی درمیان سے جاے اور میں دوسری طرف سے جاتا ھوں‬
‫عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا شاید وہ‬
‫میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس لیے ُچپ ھوگئی‬
‫تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا‬
‫نئی تینوں ِج ن کھاندا‬
‫اور میں نے اس لڑکے کو دوسری طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے ھی دوسری طرف بھاگ گیا‬
‫میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل پڑے‬
‫عظمی راستے میں ھی مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے کہاں چلو کھالے‬
‫کے پاس جاکر بیٹھ کر بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہالیا ‪،،‬‬
‫تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے کپاس کی فصل‬
‫کے آخر میں چلے گئے اس سے آگے پانی کا کھاال تھا جسکو کراس کر کے مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی میں نے‬
‫عظمی کو کھاال کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے ھی میں نے بھی چھالنگ لگا کر کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا‬
‫میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی ھوئی تھی‬
‫اور بیٹھنے کے لیے بہت اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ‪،،‬‬
‫ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے‬
‫تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے ھوے کہا‬
‫چلو بتاو نہ اب میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا اب ھم دونوں کے گُھٹنے آپس میں مل رھے تھے‬
‫میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا تھا تو عظمی بولی‬
‫تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ نھی آئی تھی‬
‫تو میں نے بتانا شروع کردیا‬
‫کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ سے مسل‬
‫رھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے‬
‫ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی‬
‫عظمی بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی طرح سرخ ھوتا جارھا تھا‬
‫عظمی بولی پھر کیا ھوا‬
‫تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا ناال کھول دیا تھا اور اسکی شلوار نیچے گر گئی تھی‬
‫اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر رکھ دیا‬
‫تو عظمی بولی کہاں‬
‫تو میں نے کہا نیچے‬
‫عظمی بولی کہاں نیچے‬
‫تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا یہاں پر‬
‫تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی‬
‫جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض کو ھی چھوئی تھی‬
‫عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا‬
‫میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر نیچے‬
‫بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے میری طرف دیکھا اس دوران عظمی بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور بار بار اہنے ہونٹوں‬
‫پر زبان پھیرتی‬
‫کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے کھینچا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (18‬‬
‫تو میں ایک دم چونکا‬
‫کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے میرے لن پر‬
‫اپنا ھاتھ محسوس کر لیا تھا‬
‫عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی شادی کردو اب‬
‫تو میں نے کہا‬
‫میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی ھے‬
‫اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا‬
‫اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی‬
‫بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ چلے گا‬
‫میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی ُمچی ھی نہ بتا دے‬
‫میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے ھوے کہہ دیا‬
‫کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن‬
‫میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا تو بتا دیا‬
‫تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے عظمی کو سالمی دے رھا تھا‬
‫عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان ھونے کا امی کو بتاوں گی‬
‫تو میں نے گبھراتے ھوے کہا‬
‫کون جوان کونسی جوانی‬
‫تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی‬
‫یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ نکلی‬
‫اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی ڈرامائی انداز‬
‫میں بوال‬
‫ھاےےےےے میں مرگیا افففففف‬
‫عظمی نے ایک نظر پیچھے میری طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی‬
‫مزا آیا‬
‫اور کھاال پھالنگ کر دوسری طرف چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے مزا آتا ھے‬
‫مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور جاکر‬
‫پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ لیا‬
‫میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے پیٹ پر‬
‫تھے عظمی ہنستے ھوے بولی چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی‬
‫میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر سر اٹھا لیا اور عظمی کی ُبنڈ کی دراڑ میں‬
‫گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا‬
‫عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی ُبنڈ پر محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے‬
‫ُچ ھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا‬
‫عظمی کو جب یہ احساس ھوگیا کہ ایسے ذور آزمائی سے جان نھی چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے لگ گئی جب‬
‫عظمی آگے کو ُج ھک کر نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں کو اندر کی طرف‬
‫دھکیل چکا تھا‬
‫اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے ھوے‬
‫اسکے دونوں مموں پر آگئے‬
‫عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا پڑا‬
‫عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا‬
‫اور میں نے عظمی کے دونوں مموں کو اپنی ُمٹھیوں میں بھر لیا‬
‫عظمی کو جب میری اس کاروائی کا احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع کردیا‬
‫اور روتے ھوے غصے سے بولی چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو‬
‫عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا‬
‫عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر رونے لگ‬
‫گئ‬
‫میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ‬
‫یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے کبھی ایسے غصہ کیا ھے‬
‫چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ‬
‫تو میں بھی غصے سے اسے وھیں چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫عظمی بھی سر نیچے کئے آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی‬
‫دوستو کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی ھی‬
‫شکایت نہ لگا دی ھو‬
‫مگر ایسا کچھ نھی ھوا‪،‬‬
‫ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ‬
‫فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر جی کو‬
‫سالم کیا‬
‫جب فرحت میرے پاس سے گزری تو اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی جیسے ابھی نہا کر آئی ھو‬
‫فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ فرحت‬
‫کے سالم کا جواب دیا اور بڑے انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا‬
‫میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی طرف آنکھ سے اشارا کیا‬
‫تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور کر بولی دفعہ ھو ے‬
‫فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر آرھی تھی‬
‫ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی تھی‬
‫وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں کررھے تھے‬
‫اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی کبھی نہ نہ میں سر ہالتی ایک دفعہ تو اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا‬
‫میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر‬
‫میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا‬
‫کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی‬
‫نے کرسی پر ھی بیٹھے ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائًیں طرف کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر‬
‫اپنے ساتھ لگا کر کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا‬
‫بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا‬
‫میری جب نظر فرحت پر پڑی‬
‫میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا‬
‫کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی‬
‫فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر سرخ‬
‫رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت ھی سوٹ کررھی تھی‬
‫ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر دیکھا ھوتا تو وہ الزمی میری طرف دیکھتی یا پھر‬
‫کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو مجھے بلکل نظرانداز‬
‫کر کے ماسٹر جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی جیسے مجھے جانتی ھی نھی‬
‫میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا‬
‫ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کالس میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں کرنے‬
‫لگ گیا‪،،‬‬
‫دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر ذیادہ تر‬
‫سکول میں ایک وقت میں ایک ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور میں گاوں کے‬
‫سکولوں پر اتنی توجہ نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس ھی کرنے آتے تھے‬
‫اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے گپ شپ لگا رھے تھے‬
‫جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی طرف نھی تھی اگر میں نے انکی کرتوت کو دیکھا‬
‫نہ ھوتا تو شاید میں بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا‪،‬‬
‫ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں مسلسل مست تھے‬
‫میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام کریں‬
‫گے‬
‫اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں چلیں گے دیکھنے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں گا نال مینوں وی مروائیں گا‬
‫میں نے کہا یار ُک ش نئی ہوندا‬
‫تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی جانا‬
‫ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب کر لیا اور ماسٹر جی کو سالم کر کے واپس‬
‫جانے لگی فرحت جیسے ھی میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی خوشبو آئی اور‬
‫میں بھی ناک کو سکیڑ کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا‬
‫دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا ھوں کہ کمرے ہماری کالس کی مخالف سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف تھی‬
‫اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے ھوتی ھوئی ہماری کالس کی طرف آتی تھی اگر‬
‫کوئی سڑک کے راستے سے باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے سے گزر کر واپس جاتا‬
‫فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا اور میرا‬
‫پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت دفتر والے کمرے‬
‫میں داخل ھوتی نظر آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما لیا ایسا بس‬
‫دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا‬
‫اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا‪،‬‬
‫ماسٹر جی بولے‬
‫تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی ُپھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے‪،‬‬
‫میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی جلدی ایک‬
‫نظر چند ورقوں پر ماری اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو کہنے لگے‬
‫میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے‬
‫تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی‬
‫میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا‬
‫اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی کرواتے‬
‫ہوے کمرے کی طرف چل پڑے‬
‫مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی کے سر میں نھی بلکہ لن میں درد ھے‬
‫‪،،‬‬
‫ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور ساتھ‬
‫پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ‪،‬‬
‫کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے سر ہالتے کمرے کی طرف متوجہ کیا تو عظمی‬
‫نے برا سا منہ بنا کر مجھے گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور شوخی سے‬
‫دستہ مجھے پکڑایا‬
‫میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے تو آجانا اور خود‬
‫اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا‬
‫عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو عظمی‬
‫غصے سے مجھے گھورتے ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر آیا وڈا شریف ذادہ‬
‫میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے واپس دے دیا‬
‫پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی تو میں بھی جاوں گا‬
‫تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق نھی‬
‫اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر سے بھی‬
‫تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (19‬‬
‫میں ہوں نہ تمہارے ساتھ‬
‫تو عظمی بڑی شوخی سے بولی‬
‫وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان‬
‫تو میں نے بھی فوری جواب دیتے ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس پہلوان کو تو عظمی بولی‬
‫کی مطلب اے تیرا‬
‫تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے ھوے کہا‬
‫میرا مطلب کہ ُک شتی کر کے دیکھ لینا‬
‫تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے ورگے‬
‫میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار کروں گا‬
‫ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا ‪،‬‬
‫اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے کہا نہ کہ‬
‫کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی دیوار کی اوٹ‬
‫سے کالس کی طرف دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی دیکھائی دی‪،‬‬
‫کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے پاس آگیا اور‬
‫یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ ابھی دفتر میں ھی ہیں‬
‫تو میں نے کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر‬
‫ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف دروازے کے پاس پہنچ گیا‬
‫عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے‬
‫میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر کالس کی طرف دیکھا تو سب بچے دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان میں لگے‬
‫ھوے تھے‬
‫میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا‬
‫اور آہستہ سے دروازہ کھوال اور دونوں اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی اندر سے ُک نڈی نھی تھی صرف باہر ھی‬
‫ُک نڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے دروازہ بند کردیا‬
‫دوستو‬
‫دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے کی وجہ سے اندھیرا سا تھا‬
‫بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ ہم دوسری‬
‫طرف آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور دوسری طرف والے ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے‬
‫میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے پاس جا پہنچا‬
‫میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس کے اوپر لیٹ کر‬
‫فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ‬
‫چپکا ھوا تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے‬
‫ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہال ہال کر اپنا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں بازو‬
‫ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی‬
‫عظمی نے مجھے کندھے سے ہالیا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا پوچھا‬
‫تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا‬
‫عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے ساتھ رگڑ‬
‫کھا گئی‬
‫اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری نکر پر آگیا‬
‫مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ نکال دے‬
‫میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے کی جگہ تالش کرنے لگ گیا تو مجھے ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا‬
‫ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم دونوں‬
‫آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ سکتے تھے‬
‫میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا‬

‫الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ خانے خالی تھی اور سوراخ واال خانہ بھی خالی‬
‫تھا‬
‫سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا سا نیچے‬
‫جھک کر اپنے دونوں ھاتھ خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا‬
‫عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے مالئم تھا‬
‫میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکا بازو دبا کر‬
‫اسے کھڑے رھنے کا کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی‪،‬‬
‫اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی ھوئی تھی‬
‫ماسٹر جی سائڈ سے اسکے ساتھ لیٹے ھوے تھے‬
‫ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت کا مما دبا‬
‫رھے تھے‬
‫فرحت بھی ُف ل مزے میں تھی اس نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے دائیں بائیں کر کے چارپائی کے سرھانے کی‬
‫طرف لگے لوہے کے پائپ کو پکڑا ھوا تھا‬
‫ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ ھی رہ‬
‫گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک ماسٹر جی کھا ُچکے تھے‬
‫پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی کی لمبی‬
‫زبان فرحت کہ گلے پر رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک آتی فرحت بھی زبان‬
‫کے لمس کو برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی‬
‫سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے فرحت سسییییی افففففف امممممم کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے ایسے ھی زبان‬
‫کو پھیرتے پھیرتے زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو‬
‫فرحت ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر‬
‫کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا مالپ کرانے‬
‫لگ گئی‬
‫ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی طرح اپنے حربے استعمال کررھے تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر میں پھس چکی‬
‫تھی‬
‫ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ کر‬
‫زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی اوپر سے نیچے تک لے آتے‬
‫پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ میں ڈاال اور نکال کر کان کے اندر‬
‫ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی‬
‫ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی اور پھر‬
‫ھاتھ کو اگے الکر آگے سے قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے گئے فرحت کے مموں پر قمیض تھوڑی سی پھنسی تھی‬
‫مگر ماسٹر جی نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے دایاں مما باھر نکاال بھر بایاں اور قمیض کندھوں تک لے گئے‬
‫اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ برا‬
‫میں ڈاال اور ایک ممے کو آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما بھی بریزئیر سے نکال‬
‫دیا۔۔۔‬
‫فرحت کے گورے گورے موٹے ممے دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی کی گانڈ کی‬
‫دراڑ میں کپڑوں سمیت گھسا ھوا تھا‬
‫میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی گانڈ کو پیچھے سے ہال رھی تھی عظمی کہ‬
‫جزبات کو دیکھ کر اور ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے‬
‫عظمی کے مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ دیے‬
‫عظمی نے گردن گھما کر میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں کر رھی تھی‪ ،‬میں نے آہستہ آہستہ مموں کو دبانا شروع کردیا‬
‫عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں مموں کو‬
‫دباتا عظمی بھی ویسے ھی میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی‬
‫اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا‬
‫جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ میں‬
‫پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگ گئی‬
‫دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے کر فرحت کے دونوں مموں کو باری باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی مموں‬
‫کے تنے ھوے نپلوں پر گوالئی کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے اور کبھی ممے‬
‫کو منہ میں بھر کر ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے بالوں میں انگلیاں پھیر‬
‫رھی تھی اور منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی‬
‫ماسٹر جی تقریبًا دس منٹ تک دودہ کے پیالوں کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے‬
‫تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے‬
‫ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو چھوڑا اور مموں کے درمیان الئن میں زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے‬
‫اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے ماسٹر جی ُک تے کی طرح زبان کو پیٹ پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے پیٹ پر‬
‫شہد لگا ھو‬
‫ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی نوک سے‬
‫ناف کے سوراخ کے چاروں طرف پھیرنے لگے‬
‫جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگ جاتی‬
‫۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر ُگ ھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت کا ناال کھوال‬
‫اسی دوران فرحت نے شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے ُگ ھٹنوں تک کی اور پھر‬
‫باری باری دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر نیچے پھینک دی‬
‫ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے منہ میں‬
‫پانی آگیا‬
‫ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی طرح‬
‫دانے کو چاٹنے لگ گئے‬
‫جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور اس نے‬
‫ھاےےےےےےےے میں گئی کہ آواز نکالی‬
‫تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر نہ اٹھے‬
‫ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر ُک تے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ گئے‬
‫فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی کی ھوئی تھی‬
‫اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو دیکھانے میں مصروف تھی‬
‫ِادھر عظمی مسلسل میرا لن دباے جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا رھا تھا‬
‫مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا ہاتھ عظمی‬
‫کی شلوار میں گھسا دیا اور اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے لگ گیا‬
‫عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا تھا عظمی‬
‫نے میرا لن چھوڑ کر اپنی پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد ھوتے ھی دوبارا عظمی‬
‫کی گانڈ میں گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی‬
‫پھدی پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے‬
‫تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو دبانے‬
‫لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا میرا لن عظمی کی‬
‫موٹی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ لیا اور ساتھ ھی اپنی‬
‫ٹانگوں کو میرے ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ‬
‫میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے‬
‫میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی ِلیک کر رھی تھی‬
‫ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام َچ ک کے رکھا ھوا تھا‬
‫ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا مالئی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی چاٹنے‬
‫کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے کر رھے تھے کہ‬
‫اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور پانی‬
‫سے ملی جلی پھوار نکلی جو سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر جی کا منہ‬
‫فرحت کی منی اور پانی سے بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل خراب ھونے لگ گیا‬
‫اور عظمی نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو اس نے ایکدم اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوے‬
‫ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی نکل کر کچھ اسکے ہاتھ پر اور کچھ سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے اس نے‬
‫کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر جی اور فرحت نے بھی سن لی‬
‫ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھالنگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولے کون ھے‪،،،‬‬
‫کون ھے‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬


‫)‪.Update no (20‬‬
‫میرے تو ایکدم سے پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی میں نے عظمی کو بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی‬
‫اور جلدی سے باہر نکلے اور جیسے ھی میری سامنے نظر پڑی تو‪،،،،،،،،،،،‬‬
‫میں نے باہر نکلتے ھی دروازہ آہستہ سے بند کیا اور سامنے کالس کہ طرف دیکھا تو سب بچے اپنی اپنی گپوں میں‬
‫مصروف تھے میں نے عظمی کو کہا کہ تم جلدی سے کالس کی طرف جاو میں کمروں کے پیچھے سے ھو کر آتا ھوں‬
‫عظمی ابھی بھی ہلکا ہلکا کھانس رھی تھی میں اسے دروازے پر ھی چھوڑ کر کمروں کے پیچھے واش روم کی طرف بھاگ‬
‫گیا اور جلدی سے واش روم میں داخل ھوگیا پیشاب کر کے میں باہر نکال اور دوبارا کھڑکی کے پاس جاکر کان لگا کر اندر‬
‫کے حاالت معلوم کرنے لگ گیا‬
‫ڈر کے مارے میرا بھی برا حال تھا اور یہ سوچ سوچ کر میرا دل حلق کو آنے واال ھوگیا تھا کہ اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا‬
‫کہ ہم دونوں ھی کمرے میں تھے تو ماسٹر جی نے تو ہمیں چھوڑنا ھی نھی مار مار برا حال کردینا ھے اور بدنامی الگ سے‬
‫ہونی ھے‬
‫میں بڑے غور سے اندر کی سچویشن معلوم کرنے کے لیے دھیان اندر کی طرف کیے کھڑا تھا تبھی ماسٹر جی کی آواز آئی‬
‫کوئی بھی نھی ھے یار تم ایسے ڈر رھی ھو‬
‫تو فرحت بولی تم پاگل تو نھی ھوگئے میں نے خود کسی لڑکی کے کھانسنے کی آواز سنی ھے تم کہہ رھے ھو کوئی نھی‬
‫ھے تب ماسٹر جی کی آواز آئی کہ یار میں دفتر میں دیکھ کر آیا ھوں کوئی بھی نھی ھے اور دروازہ بھی ویسے ھی بند‬
‫ھے اگر کوئی اندر سے باہر جاتا تو الزمی دروازہ کھال ھوتا یا دروازہ کھلنے یا بند ھونے کی آواز آتی میں تسلی کرکے آیا‬
‫ھوں‬
‫تو فرحت کی آواز آئی ماسٹر جی‬
‫مینوں جان دیو ******دی قسمیں میرا دل پھڑکی جاندا پیا اے‬
‫مینوں بڑا ڈر لگ ریا اے‬
‫ماسٹر جی پھر منت کرتے ھوے بولے یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا مجھے اپنی عزت کا خیال نھی تم کیوں پریشان‬
‫ھورھی ھو‬
‫شاید کوئی بچی ادھر سے گزری ھو اس کے کھانسنے کی آواز میں نے بھی سنی تھی مگر‬
‫میں دفتر میں دیکھ کر ایا ھوں کوئی بھی نھی ھے‬
‫میں نے ان دونوں کی آواز سنی تو سکون کا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ بچ گئے‬
‫تبھی فرحت کی آواز آئی‬
‫نہ کرو ماسٹر جی اب مجھے جانے دو بہت دیر ھوگئی ھے اب میرا دل نھی کررھا اتنا کچھ تو کر لیا اب کوئی کسر رھ گئی‬
‫ھے‬
‫اور پھر کمرے میں خاموشی ھوگئی‬
‫میں نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ کھڑکی کے بنیرے پر رکھے اور اپنے دونوں پاوں دیوار کے ساتھ لگا کر جمپ مار کر‬
‫کھڑکی کے اندر دیکھا تو ماسٹر جی پھر فرحت کو جپھی ڈالے اس کے ہونٹ چوس رھے تھے‬
‫میں کچھ سیکنڈ ھی ایسے اوپر رھ سکا اور میرے پاوں دیوار سے پھسلتے ھوے واپس زمین پر آگئے‬
‫میں نے دو تین ٹرائیاں ماری مگر مجھ سے اوپر نھی ھوا گیا‬
‫میں اب سوچ میں پڑ گیا کہ اندر کا نظارا کیسے دیکھوں‬
‫کیوں کہ میں دوبارا اندر کمرے میں جانے کا رسک نھی لے سکتا تھا‬
‫اچانک میری نظر سکول کی بیرونی دیوار پر پڑی جس کی کافی ساری اینٹیں نیچے گری ہوئی تھی میں جلدی سے دیوار کی‬
‫طرف گیا اور وہاں بیٹھ کر چھ سات اینٹوں کو اوپر نیچے جوڑ کر اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے آیا اور آرام سے نیچے رکھ‬
‫دی اور انکو دیوار کے ساتھ چوکڑی بنا کر جوڑ دیں میں نے اینٹوں کے اوپر چڑھ کر اندر دیکھنے کی کوشش کی مگر‬
‫تھوڑا سا فرق بچا‬
‫میں جلدی سے پھر دیوار کے پاس گیا اور مزید اینٹیں اٹھا کر لے آیا اور ان اینٹوں کے اوپر ساری اینٹیں جوڑ دی اب کافی‬
‫اونچی چوکڑی بن چکی تھی‬
‫میں نے ایک ھاتھ کھڑکی کی بنی پر رکھا اور جمپ مار کر اینٹوں کی چوکڑی کے اوپر چڑھ گیا‪،‬‬
‫اب میں آسانی سے اندر کا سارا نظارہ دیکھ سکتا تھا‬
‫‪،،،‬‬
‫ماسٹر جی نے فرحت کھڑے کھڑے فرحت کی قمیض اوپر کی ھوئی تھی اور نیچے ھوکر اسکے ممے چوس رھے تھے‬
‫فرحت بھی اب سکون سے اہنے ممے چسوا رھی تھی ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی گانڈ کے پیچھے رکھے ھوے‬
‫تھے اور گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑ کر دبا رھے تھے‬
‫اور ماسٹر جی اپنا لن فرحت کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا کہ گھسے مار رھے تھے فرحت کی دونوں آنکھیں بند تھی اور‬
‫ماسٹر کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈال کر ہاتھ ماسٹر جی کی کمر پر پھیر رھی تھی‬
‫‪،،‬‬
‫استاد جی یہ منظر دیکھ کر میرا لن پھر تن گیا اور میں اپنے لن کو مسلنے لگ گیا‬
‫ماسٹر جی نے ایک ھاتھ فرحت کی گانڈ سے ہٹایا اور آگے ال کر اسکا ناال کھول دیا ناال کھلتے ھی فرحت کی شلوار اسکی‬
‫پاوں میں گر گئی اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ فرحت کی پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ اس کا مما‬
‫بھی چوسنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض جو پہلے ھی اسکے کندھوں تک تھی اسکو اتارنے کی کوشش کی مگر فرحت نے منع‬
‫کردیا کہ اگر کوئی آگیا تو اتنی جلدی میں قمیض نھی پہن سکوں گی‬
‫ماسٹر جی نے بھی ذیادہ اصرار نھی کیا اور اپنی قمیض اتار دی اور فرحت کو چارپائی پر لٹا دیا اب فرحت بلکل ننگی‬
‫چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی اور اس نے دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے پھدی کو چھپانے کی کوشش کررھی تھی قمیض ویسے‬
‫ھی اس کے گلے تک تھی فرحت کے ممے بلکل کنواری لڑکی کی طرح تنے ھوے تھے اور مموں پر ہلکے بروان کلر کے‬
‫نپل بھی تنے ھوے تھے فرحت کا جسم دیکھ کر کوئی کہہ نھی سکتا تھا کہ اسکا دس سال کا بیٹا بھی ھے‬
‫لیٹنے کی وجہ سے اسکا پیٹ بھی بلکل ساتھ لگا ھوا تھا فرحت کی ٹانگوں پر بال بھی نہ ھونے کے برابر تھے شاید گولڈن‬
‫کلر کے بال تھے جو دور سے مجھے نظر نھی آرھے تھے لگ ایسے رھا تھا جیسے اس نے ویکس کی ھوئی ھے جبکہ اس‬
‫دور میں ویکس وغیرہ کا تصور بھی نھی کیا جاتا تھا بس بال صفا پوڈر ھوتا تھا جس سے پھدی کی بال صاف کیے جاتے‬
‫تھے‬
‫فرحت کا چہرے کا رنگ تو سفید تھا ھی مگر اسکے جسم کا کلر کسی کشمیری بٹنی سے کم نھی تھا‬
‫میرا دور سے دیکھ کر ھی برا حال ھوئی جا رھا تھا تو سوچیں جو اس کے جسم کے ساتھ مستیاں کررھا تھا اسکا کیا حال‬
‫ھوگا‬
‫ماسٹر جی فرحت کو لٹا کر چارپائی کے پاس کھڑے ھوگئے اور اپنی شلوار کا ناال کھوال اور شلوار اتار دی‬
‫جیسے ھی ماسٹر جی کی شلوار اتری تو ماسٹر جی کا شیش ناگ لہراتا ھوا سامنے کھڑا تھا‬
‫ماسٹر جی کا لوڑا تھا کہ‬
‫کھوتے کا لن‬
‫ماسٹر جی کا لن دیکھتے ھی میرے منہ سے بےساختہ نکال‬
‫او تواڈی پین نوں ایڈا وڈا لن اففففف‬
‫فرحت کا جب دھیان ماسٹر جی کے لن کی طرف گیا تو فرحت کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی اور اسکا منہ کھلے کا‬
‫کھال رھ گیا ماسٹر جی نے اپنے لن کے پھولے ھوے ٹوپے پر ہاتھ پھیرا اور فرحت کے منہ کی طرف‪ .‬لن کو کر کے‬
‫اسکے قریب ھوگئے‬
‫فرحت ایک دم گبھرا گئی اور منہ دوسری طرف کر لیا‬
‫ماسٹر نے فرحت کے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف کیا اور لن کو ھاتھ میں پکڑ کر فرحت کے ہونٹوں پر مارنے لگ‬
‫گئے فرحت نے ھاتھ اپنے ھونٹوں پر رکھتے ھو ے نھی میں سر ہالیا‬
‫تو ماسٹر جی نے فرحت کا ھاتھ اسکے منہ سے علیحدہ کرتے ھوے کہا یار بس تھوڑا سا پیار کردو‬
‫تو فرحت بولی‬
‫میں نے یہ گندہ کام کبھی نھی کیا‬
‫اے تے ہے وی ایڈا وڈا تے اینا موٹا نہ بابا میرے منہ وچ نئی آنا‬
‫ماسٹر جی نے پھر منت کرتے ھوے کہا‬
‫یار بس ایک پوری کردو اور لن کی ٹوپی کو فرحت کے ہونٹوں پر رکھ دیا فرحت نے برا سا منہ بنا کر دو تین ُچمیاں ٹوپے‬
‫پر لے لیں اور ھاتھ سے بس کا اشارہ کردیا‬
‫مگر ماسٹر جی کہاں باز آنے والے تھے ماسٹر جی نے پھر سے منتیں کردی کہ بس تھوڑا سا منہ میں ڈال لو‬
‫تو فرحت نھی نھی کرتی رھی مگر ماسٹر جی نے لن کو اسکے منہ پر رکھ کر ہلکا سا ُپش کیا تو ٹوپے کی دباو سے مجبورًا‬
‫فرحت کو منہ کھولنا پڑا اور فرحت نے بڑا سا منہ کھول کر صرف ٹوپا ھی منہ میں لیا اور تھوڑا سا چوس کر باہر نکال دیا‬
‫اور الٹی کرنے کے سٹائل سے چارپائی کے سائڈ پر ھوکر نیچے تھوکنے لگ گئی اور کھانسنے لگ گئی‬
‫اور کھانسے ھوے بولی میرا سانس ھی بند کردیا اینا موٹا لن اے‬
‫ماسٹر جی بولے‪ .‬یار ابھی تو صرف ٹوپا ھی اندر کیا تھا اور تم اسے کرنے لگ گئی ھو ماسٹر جی نے پھر لن فرحت کے‬
‫ہونٹوں پر پھیرا اور اسے منہ کھولنے کو کہا تو فرحت نے آآآ کر کے منہ کھول دیا اور ماسٹر جی نے ایکدم کافی سارا لن‬
‫اسکے منہ میں ٹھونس دیا اور ساتھ ھے اسکے سر کو مضبوطی سے اس انداز میں پکڑ لیا کے فرحت اپنا سر پیچھے کر‬
‫کے لوڑا منہ سے نہ نکال لے‪ .‬اور ماسٹر جی ساتھ ھی گھسے مارنے لگ گئے‬
‫فرحت کی منہ میں آدھے سے بھی کم لن گیا ھوا تھا‬
‫مگر فرحت کا منہ پھوال ھوا تھا اور اس کے منہ سے غوں غوں غوں کی آوازیں آرھی تھی ایکدم فرحت کی آنکھیں باہر کو‬
‫آنے لگ گئی اور انکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا اور ذور لگا کر ماسٹر سے اپنا سر چھڑوانے لگ گئی‬
‫آخر کار ماسٹر جی کو بھی بیچاری پر ترس آگیا اور لن کو اسکے منہ سے نکال دیا‬
‫لن نکلتے ھی فرحت زور زور سے کھانستے ھوے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنا ھاتھ گلے پر پھیرتی ھوئی لمبے لمبے سانس‬
‫لینے لگ گئی‬
‫ماسٹر جی جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گئے اور اس سے معافی مانگنے لگ گئے‬
‫تو فرحت بولی تم نے مجھے جانور سمجھ رکھا ھے ایسے بھی کوئی کرتا ھے حد ھے تمہاری میرا سانس بند ھونے لگا‬
‫تھا اور تمہیں اپنے مزے کی پڑی ھوئی تھی‬
‫میں جارھی ھوں میں نے نھی کچھ کروانا‬
‫تو ماسٹر جی شرمندہ سے گبھراے ھوے بولے کہ یار غلطی ھوگئی‬
‫اچھا لیٹو اب نھی کرتا‬
‫فرحت کہنے لگی میں لیٹوں گی تو ھی کچھ کرو گے چھوڑو مجھے جانے دو‬
‫ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ اتنی خواری کے بعد بھی شکار ہاتھ سے نکل رھا ھے تو ماسٹر جی نے جلدی سے پینترا پلٹا‬
‫اور مسکے لگانا شروع ھوگئی‬
‫کہ یار تم خوبصورت ھی اتنی ھو کنواری لڑکی سے بڑھ کر تمہارا جسم ھے اتنے پیارے ہونٹ ہیں کہ مجھ سے رھا نھی گیا‬
‫میں نے بھی تمہاری پھدی کو زبان سے چاٹا ھے‬
‫کیا کمال کی چیز ھو تم لگتا ھی نھی کہ تم شادی شدہ ھو اور ایک بچے کی ماں ھو‬
‫میں کیا کروں مجھے سمجھ ھی نھی آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں‬
‫عورت کی سب سے بڑی کمزوری اسکی تعریف ھے اور ماسٹر جی کا حربہ کامیاب ھوگیا اور ماسٹر جی نے تعریف کرتے‬
‫کرتے فرحت کو پھر چار پائی پر لٹا کر اسکے اوپر آگئے‬
‫ماسٹر جی نے اوپر آتے ھی کچھ دیر فرحت کے مموں کو باری باری چوسا اور ایک ھاتھ سے پھدی کو مسال تو فرحت پھر‬
‫گرم ھوگئی‬
‫ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور فرحت کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور اپنے لوڑے کے موٹے ٹوپے کو فرحت‬
‫کی پھدی کے لبوں کے درمیان اوپر نیچے کرنے لگ گئے‬
‫تو فرحت نے کہا‬
‫ماسٹر جی مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا بڑا لن ھے آپکا میرے خاوند کا تو اس سے بھی آدھا لن تھا مجھے تو اس سے بھی‬
‫درد ھونے لگ جاتی تھی‬
‫اب یہ اتنا بڑا لن میں کیسے لے سکوں گی‬
‫تو ماسٹر جی نے کہا‬
‫میری جان کچھ نھی ھوتا بس برداشت کرنا پھر دیکھنا کیسے مزہ ھی مزہ آتا ھے‬
‫ایسے باتیں کرتے کرتے اور فرحت کو تسلیان دیتے ھوے ماسٹر جی نے فرحت کی ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھا اور‬
‫ٹانگوں کو کندھوں سے لے کر فرحت کے اوپر جھک گئے‬
‫اب فرحت کی ٹانگیں مل ماسٹر جی کے کندھوں پر تھی اور ماسٹر جی اپنا سر فرحت کے منہ کے قریب لے گئے اور‬
‫اپنے دونوں ھاتھوں کو فرحت کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر اسکے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا فرحت کے پیر‬
‫اسکے سر کے پاس پہنچ گئے‬
‫نیچے سے ماسٹر جی کا ٹوپا پہلے ھی پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا ھوا تھا‬
‫اس سے پہلے کہ فرحت کچھ بولتی یا سمجھتی ماسٹر جی نے ایک جاندار گھسا مارا پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے لن بغیر‬
‫کسی رکاوٹ کے پھدی کے ریشوں کو چیرتا ھوا اندر گہرائی تک جا پہنچا اور ٹوپا جاکر بچے دانی کا حال چال پوچھنے‬
‫لگ گیا‬
‫جیسے ھی لوڑے نے اپنا کام کیا فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی‬
‫ھاےےےےےےےے میں مر گئی‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫ھاےےےےےےے وے ماسٹرا ماردتا ای‬
‫ھاےےےےےےے وے کی کردتا ای‬
‫ھاےےےےےےےے امممییییی میری پھدی گئی‬
‫ھاےےےےےے‬
‫اففففففففففف‬
‫فرحت کی چیخ اتنی ذور کی تھی کہ اگر کوئی کمرے کے تھوڑے فاصلے پر بھی ھوتا تو اس کی چیخ سن لیتا فر حت کا یہ‬
‫حال دیکھ کر میں بھی ایک دفعہ کانپ گیا‬
‫ماسٹر جی بھی ایک دفعہ ہل گئے اور جلدی سے ایک ھاتھ‪ .‬فرحت کے منہ پر رکھ دیا اور لن اندر ھی جڑ تک رھنے دیا‬
‫فرحت ایسے تڑپ رھی تھی جیسے پہلی دفعہ چدی ھو‬
‫اور حقیقتًا واقعی فرحت کے حال پر ترس آرھا تھا‬
‫فرحت کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے دونوں ھاتھ ماسٹر کے سینے پر رکھ کر ماسٹر جی کو پیچھے دھکیل رھی‬
‫تھی اور کبھی سینے پر مکے مار رھی تھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی چلتا رھا دو منٹ تک ماسٹر جی نے کوئی حرکت نہ کی بس فرحت کے منہ کو چومتے رھے اور اپنے‬
‫ہونٹوں سے اسکے آنسو ُچنتے رھے‬
‫پھر ماسٹر نے فرحت کی ٹانگوں کو چھوڑ دیا فرحت نے ٹانگیں ماسٹر جی کے کندھوں سے نیچے اتار کر سیدھی کرلی اور‬
‫دو تین دفعہ ٹانگوں کو اٹھا اٹھا کر چار پائی پر مارتی رھی‬
‫کچھ دیر بعد فرحت بھی کچھ ریلکس ھوئی تو ماسٹر جی نے اہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا‬
‫فرحت ھوے ھوے افففف سسسسسیییی کرتی رھی اور ساتھ ساتھ ہولی کر ہولی کر ہولی کر کہتی رھی‬
‫تقریبا پانچ منٹ تک ایسے ھی دونوں لگے رھے پھر فرحت کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور ماسٹر جی کی بھی گھسوں کی سپیڈ‬
‫تیز ھوتی گئی‬
‫آخر کار لن اور پھدی کی صلح ھوگئی ‪،،‬‬
‫‪،،‬‬
‫اب فرحت بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن اندر لے رھی تھی ماسٹر جی نے ایک بار پھر فرحت کی ٹانگیں اوپر کر دیں اور‬
‫زور زور سے گھسے مارنے لگ گئے‬
‫فرحت کے ممے بھی اسی ردھم میں اوپر نیچے ھورھے تھے اور فرحت بھی سسکاریاں لے رھے تھی‬
‫فرحت نے اب دونوں ھاتھ ماسٹر کی گانڈ پر رکھ لیے اور ماسٹر کی گانڈ کو پھدی کی طرف دھکیلتی‬
‫اور منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتی‬
‫ماسٹر اگے کر ماااسٹر ساررررراا اگگگے کردے سارررا اگگے کردے‬
‫انکھیں بند منہ کھال‬
‫اور کہے جارھی تھی‬
‫سسسسسی پورا کردے سارا کردے زورررر دی ماسٹر ھاااں انج ای ایتھے مار ایتھے مار سٹ‪ .‬آآ ھااااا افففففف‬
‫اچانک فرحت کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوئی اور جسم اکڑنے لگ گیا‬
‫اور ایکدم بولی میں گئی میں گئی گئی گئییییییییی‬
‫اور ساتھ ھی ماسٹر جی کو کس کے جپھی ڈال کر اسکا منہ چومنے لگ گئی اور یکدم جسم ڈھیال چھوڑ کر لمبے لمبے سانس‬
‫لینے لگ گئی‬
‫ادھر ماسٹر جی کی بھی سپیڈ تیز ھوگئی چند گھسوں کے بعد یکدم ماسٹر جی نے اپنا لوڑا پھدی سے باھر نکاال اور فرحت‬
‫کے مموں کی طرف ٹوپا کر کے تیز تیز مٹھ مارنے لگ گئے‬
‫پھر ایک لمبی پچکاری لن سے نکلی جو سیدھی فرحت کے مموں پر گری اور کچھ چھینٹے فرحت کے منہ پر پڑے فرحت‬
‫نے اسی وقت اپنا ھاتھ منہ کے اگے کر لیا‬
‫پھر دوسری پچکاری مموں سے پچھے پھر تیسری پچکاری ناف پر اور پھر ماسٹر جی کے ہاتھ سے منی بہتی ھوئی پھدی‬
‫کے اوپر گرنے لگ گئ ماسٹر جی بھی لمبے لمبے سانس لے رھے تھے‬
‫یہ سب دیکھتے میں اپنے لن کو مسلنے میں مصروف تھا اور میرا سارا دھیان اندر ھی تھا مجھے یہ بھی احساس تک نہ ھوا‬
‫کے میرے پیچھے بھی کوئی کھڑا ھے وہ تو مجھے تب پتہ چال جب کسی نے میری شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچا جس‬
‫سے میری السٹک والی شلوار نیچے چلی گئی اور میں نے جیسے ھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫میری شلوار ُگ ھٹنوں تک نیچے چلی گئی تھی میں نے جلدی سے دونوں ھاتھ سے شلوار کو اوپر کرتے ہوے پیچھے مڑتے‬
‫دیکھا تو عظمی اپنے منہ پر ھاتھ رکھے ہنسی جارھی تھی‬
‫میں نے اسے گھور کر دیکھا اور چھالنگ مار کر اینٹوں سے نیچے اتر گیا‬
‫جب میں نے چھالنگ لگائی تو میرے لن نے قمیض کو آگے سے اٹھایا ھوا تھا عظمی نے بھی ایک نظر میری اٹھی ھوئی‬
‫قمیض کو دیکھا اور منہ دوسری طرف کر لیا میں نے اسے بازو سے پکڑ کر زور سے ہالیا اور غصے سے اشارہ کرتے‬
‫ھوے پوچھا کہ کیا تکلیف ھے تو وہ کچھ بولنے ھی لگی تھی کہ میں نے اسے انگلی منہ پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ‬
‫کیا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر کالس کی طرف چل دیا‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر جارھا تھا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (21‬‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر جارھا تھا‬
‫۔۔۔‬
‫کالس میں پہنچ کر عظمی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور میں کرسی پر کمروں کی طرف منہ کر‬
‫کے بیٹھ گیا‬
‫۔۔۔‬
‫اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے دیکھ کر اپنے منہ پر ھاتھ پھیر کر اسے انگلی دیکھاتے‬
‫ھوے اشارہ کیا کہ دیکھ لوں گا تجھے‬
‫۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ماسٹر جی کمرے سے نکل کر کالس کی طرف آتے دیکھائی دئے میں نے جان‬
‫بوجھ کر ماسٹر جی کو ایسے نظر انداز کیا جیسے میں نے انہیں دیکھا ھی نھی‬
‫ماسٹر جی اتنے میں میرے قریب سے گزرتے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے‬
‫بولے۔۔۔۔‬
‫سنا چھوٹے ماسٹر کی ہوریا اے‪،‬‬
‫میں ایکدم ایسے چونکہ جیسے ماسٹر جی کی آمد کا مجھے پتہ ھی نھی چال‬
‫میں جلدی سے کھڑا ھوگیا اور بوال‬
‫سر بچوں کی نگرانی کررھا ھوں آپکی طبعیت کیسی ھے اب‬
‫ماسٹر جی کے چہرے پر شیطانی سی مسکراہٹ آئی اور ماسٹر جی نے کرسی پر بیٹھتے‬
‫ھوے ٹانگیں سیدھی کی اور دونوں ھاتھ سر سے اوپر لیجا کر ایک لمبی سی جمائی لی اور‬
‫بولے ٹھیک ھے اب جاو شاباش جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاو‬
‫میں جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫مجھے پھر نھی پتہ چال کہ فرحت کب گئی‬
‫عظمی نے مجھے کہنی ماری اور بولی‬
‫مروان لگا سی نا اج تو میں نے کہا بلے بھی بلے کھانسی تمہاری نکلی اور مروانے میں‬
‫لگا تھا‬
‫تو عظمی نے گھورتے ھوے کہا‬
‫اینی دیر اوتھے کھڑا کی کردا ریا سی‬
‫‪،‬‬
‫میں نے کہا کچھ نھی بس ویسے ھی کھڑا تھا‬
‫تو اس نے مجھے پھر کہنی ماری اور بولی سہی سہی بتا کیا دیکھ رھا تھا‬
‫ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ نھی‬
‫میں نے کہا‬
‫تم گبھراو مت کچھ نھی ھوا‬
‫اور میں نے ماسٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے‬
‫اسے خاموش کروا دیا کہ راستے میں سب بتا دوں گا‪،‬‬
‫ماسٹر جی آنکھیں بند کیے کرسی پر بیٹھے کرسی کو آگے پیچھے کر کر کے پتہ نھی کس‬
‫سوچ میں گم تھے‬
‫پھر ہمیں چھٹی ھوگئی اور گھر جاتے وقت کافی سارے بچے ہمارے ساتھ ساتھ تھے اس‬
‫لیے عظمی سے کچھ خاص بات نہ ھو سکی‬
‫شام کو میں کھیلنے کے لیے گھر سے نکل کر سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر گیا‬
‫تو جیسے ھی میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو آنٹی فوزیہ دروازے کے بلکل ساتھ ھی‬
‫لگے ہوے نلکے سے برتن دھو رھی تھی‪،‬‬
‫میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر سالم کا جواب دیا‬
‫۔۔۔۔‬
‫آنٹی فوزیہ نے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور ُک ھرے کی بنی پر‬
‫بیٹھ کر برتن دھونے میں مصروف ھوگئی‬
‫میں بھی آنٹی کے پاس ھی کھڑا ھوگیا آنٹی پاوں کے بل بیٹھی تھی اس لیے انہوں نے‬
‫پیچھے سے قمیض اٹھا کر آگے دونوں ٹانگوں میں دی ھوئی تھی کہ قمیض پیچھے سے‬
‫گیلی نہ ھو‬
‫اور آنٹی کی گانڈ پاوں کے بل بیٹھنے سے پیچھے کو نکلی ھوئی تھی اور انکی تھوڑی‬
‫سی کمر بھی ننگی ھورھی تھی میری کمبخت آنکھوں نے کھڑے ھوتے ھی آنٹی کی گانڈ‬
‫کا اچھے سے ایکسرا کیا‬
‫میں نے آنٹی سے عظمی لوگوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ دونوں کمرے میں پڑھ رھی‬
‫ہیں‬
‫میں پہلے تو کمرے کی طرف چلنے لگا مگر آنٹی کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے فلحال‬
‫اپنا ارادہ ملتوی کردیا‪،‬‬
‫اور نلکے کی ہتھی پکڑا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آنٹی سے بوال‬
‫آنٹی میں نلکا گیڑتا ھوں آپ آرام سے برتن دھو لو‬
‫آنٹی بولی پتر تم جاو اندر میں دھو لوں گی تم ایسے اپنے کپڑے گیلے کرو گے مگر میں‬
‫نے آنٹی کو کہا کہ کچھ نھی ھوتا‬
‫اور زور زور سے نلکے کی ہتھی کو گیڑتے ھو آنٹی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا‬
‫آنٹی نے الن کی قمیض پہنی ھوئی تھی اور پیلے رنگ میں سے کالے رنگ کے برا کے‬
‫سٹرپ صاف نظر آرھے تھے‪.‬‬
‫آنٹی جب جھک کر برتن کو مانجھتی تو پیچھے سے اپنی گانڈ کو بھی اوپر نیچے کرتی‬
‫برتن دھوتے آنٹی کی شلوار ایک سائڈ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس میں سے انکا‬
‫گورا جسم دعوت نظارا دے رھا تھا‬
‫آنٹی کی گانڈ کی ایک سائڈ صاف نظر آرھی تھی میں چوری چوری نظر گھما کر دیکھ کر‬
‫آنکھیں ٹھنڈی کرتا رھا‬
‫تب تک آنٹی نے سارے برتن دھوکر لوھے کی ٹوکری میں رکھ لیے اور کھڑی ھوکر پیچھے‬
‫سے گانڈ میں پھنسی شلوار کو نکاال اور قمیض کو درست کیا‪،‬‬
‫تو میں برتنوں کی ٹوکری کو اٹھانے لگا‬
‫آنٹی بولی پتر رہنے دے‬
‫میں خود اٹھا لوں گی تیرے سے برتن گر جائیں گے‪،‬‬
‫اور یہ کہہ کر آنٹی میرے سامنے ھی نیچے کو ٹوکری اٹھانے کے لیے جھکی تو آنٹی کے‬
‫گلے پر میری بے ساختہ نظر پڑی ان کے چٹے چٹے مموں کا نظارا بلکل میرے سامنے‬
‫تھا‬
‫کالے بریزئیر میں انکے گورے ممے کیا قیامت لگ رھے‬
‫اوپر سے پیال رنگ انپر بہت جچ رھا تھا آنٹی نے برتنوں کی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی‬
‫ھوگئی‪،‬‬
‫میں سکتے کے عالم میں کھڑا ویسے ھی آنٹی کی چھاتی کو دیکھے جارھا تھا‬
‫آنٹی نے مجھے آواز دی یاسرررر‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (22‬‬
‫میں ایک دم ہڑبڑا گیا اور آنٹی کی طرف گبھراے ھوے بوال‬
‫ججججی آنٹی تو آنٹی‬
‫مسکرا کر بولی‬
‫کون سے خیالوں میں کھو جاتے ھو‬
‫میں نے کہا کہیں نھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی چلو کمرے میں‬
‫اور آنٹی میرے آگے آگے برتنوں کی ٹوکری کو اٹھاے اپنے پیٹ کے ساتھ لگاے چلی‬
‫جارھی تھی‬
‫میں آنٹی کے پیچھے انکی ہلتی ھوئی گانڈ کو گھورتے چال جارھا تھا‬
‫آنٹی کمرے میں داخل ھو کر سامنے دیوار پر لگے لکڑی کے پھٹے پر برتن جوڑنے لگ‬
‫گئی اور میں عظمی اور نسرین کے پاس جا کھڑا ھوگیا‬
‫‪،،،،‬‬
‫اور تالی مار کر بوال واہ جی واہ بڑی پڑھائیاں ھو رھی ہیں‪،‬‬
‫نسرین بولی‬
‫ہاں تینوں کوئی تکلیف اے‬
‫آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گالں کرنیاں‪،‬‬
‫میں نے بھی جوابا کہا‬
‫جناں مرضی پڑ لو ُہناں تے فیل ای اے‬
‫تو اس دفعہ عظمی بولی‬
‫تم تو ہر دفعہ فرسٹ آتے ھو جیسے۔۔‬

‫میں نے کہا‬
‫شکر ھے فرسٹ ھی آتا ھو‬
‫تمہاری طرح رشوت دے کر پاس نھی ہوتا‬
‫تو نسرین جھال کر بولی‬
‫اممییییی اسے بولو ہمیں پڑھنے دے خود تو سارا دن آوارہ پھرتا ھے اور دوسروں کو‬
‫پڑھنے نھی دیتا‪،‬‬
‫تو آنٹی جو پہلے ھی ہماری باتوں پر ہنس رھی تھی‬
‫ہنستے ھوے بولی‬
‫بھائی ھے تمہارا‪ .‬اب تم لوگوں کے ساتھ نھی مزاق کرے گا تو کس سے کرے گا‪،‬‬
‫تو عظمی بولی امی آپ کی ان ھی باتوں نے اسے سر پر چڑھا رکھا ھے‬
‫تو انٹی غصے سے بولی بکواس نہ کر تے چپ کر کے پڑھ‪،‬‬
‫تو عظمی نے غصہ سے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنا شروع کردی کہ پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا‬
‫اب یہ شیطان کا چیال آگیا اس نے پڑھنے دینا ھے‪،‬‬
‫میں نے آنٹی کی طرف بڑا معصوم سا چہرہ بنا کر دیکھا اور کہا آنٹی جی دیکھ لیں‬
‫مجھے کیا کہہ رھی ھے تو آنٹی بولی‬
‫ایدی زبان وڈن والی ھوئی اے جو منہ وچ اندہ پونک دیندی اے‬
‫تو عظمی مجھے گھورنے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کی طرف دیکھا اور زبان نکال کر اسے منہ چڑایا تو وہ مجھے مارنے کے‬
‫لیے بھاگی تو میں کمرے سے باھر کو بھاگا اور وہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آگئی‬
‫میں گلی میں نکل کر کھیتوں کی طرف بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی تیز تیز‬
‫چلتی جوتا ھاتھ میں پکڑے آرھی تھی‬
‫میں رک گیا اور اس کی طرف دیکھ کر پھر زبان نکال کر منہ چڑایا تو اس نے ھاتھ میں‬
‫پکڑا جوتا میری طرف پھینکا جو مجھ سے کچھ ھی دور گرا میں نے آگے بڑھ کر اسکا‬
‫جوتا اٹھایا اور کھیت کی طرف بھاگ گیا‬
‫وہ بھی ایک پاوں میں جوتا پہنے اور ایک ننگے پاوں سے ھی مجھے برا بھال کہتی میرے‬
‫پیچھے بھاگی‬
‫میں کھیت میں پہنچا تو کافی سارے بچے کھیل رھے تھے‬
‫میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ گیا۔‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no( 23‬‬


‫تو مجھے عظمی بڑے غصے میں آتی دیکھائی دی اور سیدھا میری ھی طرف رخ کیا اور کچھ فاصلے پر آکر کھڑی ھوگئی‬
‫اور نیچے کھیت سے ایک بڑا سا مٹی ڈھیال اٹھا کر مجھے مارنے کے لیے ڈرانے لگ گئی اور کہنے لگی‬
‫ُج تی دے میری چولے نئی تے تیرا َس ر پاڑ دینا اے‬
‫میں نے اسے دیکھ کر اپنے دونوں ھاتھ کانوں کو لگا کر اس سے معافی مانگنے لگ گیا‬
‫اور اسکی جوتی کا پاوں اسکی طرف پھینک دیا‬
‫عظمی آگے آئی اور جوتا پہن کر میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی‬
‫ُہن پج پتر‪،،‬‬
‫کتھے پجیں گا‬
‫اور زور سے مٹی کا ڈھیال میرے پیروں میں مارا میں نے دونوں پاوں اوپر کرلیے‬
‫اور اس سے کہنے لگ گیا بس کر یار ہن بچے دی جان لینی اے‬
‫تو عظمی بلکل میرے سامنے اپنے دونوں ھاتھ اپنی‬
‫وکھیوں پر رکھے بڑی شوخی سے بولی‬
‫بچہ تے ویکھو‬
‫وڈے وڈے کم کردا اے تے ہے بچہ واہ واہ‬
‫تو میں نے کہا اچھا بابا اب معاف بھی کردو‬
‫تو وہ میرے ساتھ ھی پگڈنڈی پر بیٹھ گئی‬
‫میں نے کہا اگر جناب کا غصہ اتر گیا ھے تو کھیلیں‬
‫تو عظمی بولی بُچ و میں پڑھائی چھوڑ کر تیرے پیچھے کھیلنے نھی آئی تو میں حیران ھوتے اسکی طرف دیکھ کر بوال تو‬
‫جناب کس لیے آئی ہیں‪،‬‬
‫تو عظمی بولی سہی سہی بتاو کہ کھڑکی سے کیا دیکھ رھے تھے‪،‬‬
‫تو میں نے بڑی شوخی سے اسکی طرف دیکھا اور اسکا کان پکڑ کر کھینچتے ھوے کہا‬
‫اچھااااا اے سار ڈرامہ کھڑکی والی َگ ل ُپچھن واسطے کیتا سی‪،‬‬
‫تو عظمی نے اپنا کان ُچ ھڑواتے ھوے بولی آئیییییی میرا َک ن چھڈ باندر جیا نہ ھوے تے‬
‫تو میں نے اسکا کان چھوڑ دیا‬
‫تو وہ بولی ایسے امی نے آنے نھی دینا تھا‬
‫تو میں نے اسکی گال پر ُچ ٹکی کاٹتے ھوے کہا بڑی تیز ھوگئی ایں‪،‬‬
‫تو عظمی نے جلدی سے اپنی گال کو پیچھے کیا اور میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا اور بولی چلو اب بتا بھی دو‬
‫تو میں نے کہا یار یہ کوئی جگہ ھے‬
‫بات کرنے کی یہاں سب بچے ہیں کسی نے ہماری بات سن لی تو‪،،،،،،‬‬
‫تو عظمی بولی‬
‫تو پھر کہاں جاکر بتانا ھے تو میں نے کہا وہاں کھالے کے پاس ٹاہلی کے پیچھے بیٹھ کر بتاوں گا اگر سننا ھے تو چلو ادھر‬
‫چل کر سب کچھ تفصیل سے بتاوں گا‬
‫عظمی کچھ دیر سوچتے ھوے بولی‬
‫چلو‬
‫میں نے کہا تم ادھر ھی بیٹھو میں پہلے جاتا ھوں تم تھوڑی دیر بعد آجانا تو‬
‫عظمی بولی نہ نہ مجھے اکیلی کو ڈر لگتا ھے میں نے نھی آنا اکیلی نے‬
‫تو میں نے کہا یار میں تھوڑا اگے جاکر رک کر تمہارا انتظار کرلوں گا جب تم آجاو گی تو پھر اکھٹے ھی کھالے پر چلیں‬
‫گے تو عظمی نے اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اور میں نے سب بچوں پر نظر دوڑائی تو سب بچے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے‬
‫میں وہیں سے پیچھے کی طرف کھسکتا ھوا کپاس کے پودوں میں ُگ ھس گیا اور پھر اٹھ کر پودوں کے درمیان سے ھی‬
‫پگڈنڈی پر آگیا اور کھالے کی طرف چل پڑا کچھ ھی دور جاکر میں کھڑا ھوگیا اور عظمی کو دیکھنے لگ گیا تقریبََا تین‬
‫چار منٹ بعد عظمی آتی دیکھائی دی‬
‫اور پھر ہم دونوں کھالے کی طرف چل پڑے میں نے اس سے تسلی کرلی کی کسی نے دیکھا تو نھی تو اس نے مجھے تسلی‬
‫دال دی کی میں سب کی نظروں سے بچ کر ھی آئی ھوں‬
‫اتنے میں ہم کھالے کہ پاس پہنچ گئے اور پھر باری باری کھاال کراس کیا اور ٹاہلی کے بڑے سے درخت کے پیچھے جاکر‬
‫بیٹھ گئے‬
‫میں اور عظمی بلکل ساتھ ساتھ بیٹھ گئے‬
‫تو عظمی بولی بتاو اب‬
‫میں نے کہا‬
‫میں تمہیں کالس کی طرف بھیجنے کے بعد کمرے کے پیچھے گیا اور کھڑکی سے اندر کے حالت جاننے کے لیے کان لگا‬
‫کھڑا ھوگیا کہ ماسٹر جی اب کیا کہتے ہیں‬
‫مگر ماسٹر جی کو ہمارے ادھر آنے کا پتہ نھی چال تھا‬
‫اور ماسٹر جی فرحت کو پھر گندے کام کرنے کا کہہ رھے تھے اور فرحت ڈری ہوئی نہ نہ کررھی تھی‬
‫تبھی مجھے ایسا لگا کہ ماسٹر جی نے پھر فرحت کے ساتھ گندا کام کرنا شروع کردیا ھے تو میں نے اینٹیں اکھٹی کی اور‬
‫انکو دیوار کے ساتھ رکھ کر اوپر کھڑا ھوگیا‬
‫جب میں نے اندر دیکھا تو ماسٹر جی فرحت کے سارے کپڑے اتارے ھوے تھے اور انکے دودو چوس رھے تھے اور اپنا‬
‫ایک ھاتھ فرحت کی پیشاب والی جگہ پر رکھ کر مسل رھے تھے‬
‫میں جیسے جیسے عظمی کو بتا رھا تھا عظمی کا رنگ سرخ ھوتا جارھا تھا اور وہ میری بات سنتے ہوے بار بار اپنی زبان‬
‫کو ہونٹوں پر پھیر رھی تھی‬
‫میرا لن بھی نیچے سے سر اٹھا چکا تھا‬
‫عظمی بولی اچھا پھر کیا ھوا‬
‫تو میں نے کہا پھر ماسٹر جی نے اپنی شلوار اتاری اور اپنا اپپپنا‬
‫تو عظمی بولی کیااااا اپنا‬
‫تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑا اور اپنے اکڑے ھوے لن پر رکھ کر کہا‬
‫ماسٹر جی اپنا یہ لن نکال کر فرحت کے منہ میں ڈال دیا‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنا ھاتھ واپس کھینچا اور مجھے گھورتے ھوے کہا‬
‫تمیز نال زیادہ شوخا نہ بن‬
‫میں جھینپ سا گیا اور خاموش ھوگیا‬
‫عظمی پھر بولی‬
‫اگے دس فیر کی ہویا‬
‫میں نے کہا‬
‫پھر ماسٹر جی نے فرحت کی بھی شلوار اتار دی اور گندے کام کرنے لگ گئے‪،‬‬
‫عظمی بولی یاسررررررر سہی طرح بتاو کہ پھر کیا ھوا‬
‫میں نے اسے گھورتے ھوے کہا کہ پھر تم نے میری شلوار کھینچ کر اتار دی تھی‬
‫تو عظمی میری بات سن کر شرمنده سی ھوگئی اور سر نیچے کرتے ھوے بولی کہ وووہ وہ تو میں نے تمہیں اپنی طرف‬
‫متوجہ کرنے کے لیے تمہاری شلوار کو کھینچا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ تم اتنی ڈھیلی االسٹک والی شلوار پہنتے ھو‬
‫تو میں نے کہا جب اتنی ذور سے کھینچی تھی تو ناال بھی ھوتا تو تب بھی شلوار اتر جانی تھی‬
‫تو عظمی بولی تم اب کون سا بچے ھو جو االسٹک پہنتے ھو‬
‫تو میں نے کہا تم بھی تو االسٹک ھی پہنتی ھو‬
‫تو عظمی نے اپنی قمیض آگے سے اوپر کر کے اپنا ناال مجھے دیکھاتے ھوے کہا‬
‫اے ویکھ َب ُچ و السٹک نئی ناال اے‬
‫عظمی نے جب قمیض اوپر کی تو اسکا چٹا سفید پیٹ مجھے نظر آیا اسکا پیٹ دیکھتے ھی میرے لن نے نیچے سے ایک‬
‫ذور دار جھٹکا مارا‬
‫پھر عظمی بولی اچھا اب بتا بھی دو کہ پھر کیا ھوا‬
‫مجھے تو سارا کچھ بھول کر عظمی کے گورے جسم کو دیکھنے اور چومنے کی پڑ گئی مگر میں اندر سے ڈر رھا تھا کہ‬
‫یہ موڈی لڑکی ھے اگر اس نے شور مچا دیا یا گھر بتا دیا تو سارا قصور میرا ھی نکلنا ھے‪،‬‬
‫اس لیے میں پہل کرنے سے گبھرا رھا تھا‬
‫عظمی نے مجھے کندھے سے ہالتے ھوے پھر کہا ہیلو میں کیا پوچھ رھی ھوں‬
‫تو میں نے کہا ہاں ہاں ہاں‬
‫وہ وہ وہ بتا تو دیا کہ پھر دونوں گندے کام کرنے لگ گئے تھے‬
‫تو عظمی بولی یاسسسرررر کے بچے تفصیل سے بتاو کہ کیا کیا کررھے تھے‬
‫آخر میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا‬
‫میں نے نشے کے سے انداز کھسک کر اسکے سامنے آیا اور اسکے سامنے آیا اور اسکے دونوں کندھوں کو پکڑا‬
‫اور منہ اسکے منہ کے قریب کیا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسے کہا تفصیل سے بتاوں تو عظمی نے ہاں میں صرف‬
‫سر ھی ہالیا اور میں نے ویسے ھی اسکو کندھوں سے پکڑے پیچھے کی طرف دھکیل کر گھاس پر لٹا دیا اور اسکے اوپر‬
‫لیٹ گیا عظمی نے بڑی کوشش کی اپنا آپ چھڑوانے کی مگر کامیاب نہ ھوسکی‬
‫آخر کار تھک کر‬
‫رونے واال منہ بنا کر میری طرف دیکھنے لگ گئی‪.‬‬
‫میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے کچھ فاصلے پر کئیے ھوے تھے‬
‫عظمی نے اب اپنے نیچے والے ہونٹ کو ایسے باہر نکاال جیسے‬
‫چھوٹا بچہ رونے سے پہلے نیچے واال ہونٹ باہر نکال کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتا ھے‬
‫بلکل ویسے ھی عظمی نے اپنا‪ .‬نیچے واال ہونٹ باہر کو نکاال ھوا تھا اسکے ہونٹ تو پہلے ھی پنک کلر کے تھے مگر ہونٹ‬
‫کا اندر کا حصہ سرخی مائل تھا‬
‫میں جیسے ھی اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا تو‬
‫عظمی نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھے دیکھانے لگ گئی میں نے سر کے اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو عظمی نے اہنے نیچے والے ہونٹ کو مذید باھر نکالتے ھوے کہا‬
‫ماروں گی‬
‫دوستو‬
‫اس وقت جیسا سٹائل اور جیسی معصومیت اور انداز تھا عظمی اگر آپ اس سین کو امیجینیشن کریں تو آپ عظمی کے دلفریب‬
‫گالب کے کھلتے پھول جیسے ہونٹوں کو کھا جائیں‬
‫کچھ ایسا ھی میرے ساتھ ھوا اور میں اسکی ادا اسکی معصومیت پر مر مٹا اور بے ساختہ اسکے نچلے ہونٹ کو اپنے‬
‫ہونٹوں میں جکڑ لیا اور چوسنے لگ گیا‬
‫عظمی پہلے تو کچھ دیر مچلی مگر پھر اس نے بھی اپنا ایک ھاتھ میری گردن کے پیچھے رکھ لیا‬
‫بلکل فرحت کی طرح کیوں کہ سیکس کے بارے میں جتنا کچھ ہم دونوں نے سیکھا اور سمجھا اور دیکھا تھا وہ ماسٹر جی‬
‫اور فرحت سے ھی سیکھا تھا‬
‫مختصرًا وہ جوڑی اس جوڑی کی سیکس ٹیچر تھی‬
‫خیر‬
‫ہم دونوں اب مسلسل ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رھے تھے‪ .‬مجھے بھی بہت اچھا لگ رھا تھا اور عظمی کے منہ کے‬
‫لباب کو اپنے لباب کے ساتھ مکس کر کے اندر نگھلتے وقت ایک عجیب سا مزہ اور سواد آرھا تھا ایسے ھی کبھی عظمی‬
‫میری زبان کو چوستی کبھی میں عظمی کی زبان کو چوستا‬
‫عظمی اب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں آچکی تھی اور میں اسکا بھرپور فائدہ اٹھا رھا تھا‬
‫میں نے ایک ھاتھ سے عظمی کی ایم مسمی کو پکڑا اور دبانے لگ گیا عظمی کا مما میرے ھاتھ میں پورا آیا ھوا تھا‬
‫اور میرا لن عظمی کی تھائی کے ساتھ ٹکریں مارھا تھا‬
‫کچھ دیر بعد میں نے عظمی کی قمیض کو اوپر کرنے کی کوشش کی تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑا لیا میں نے ہاتھ ُچھڑوایا‬
‫اورپھر سے قمیض اوپر کرنے لگا تو قمیض کا نچال حصہ زمین کے ساتھ لگا ھونے کی وجہ سے آگے سے قمیض بس‬
‫پیٹ سے تھوڑا اوپر مموں کے نیچے تک ھوئی‬
‫میں نے اسی کو غنیمت جانا اور عظمی کے گورے چٹے سفید روئی کی طرح نرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا‬
‫میرا ھاتھ جیسے ھی عظمی کے پیٹ پر رینگتا ھوا عظمی کے مموں کے قریب گیا عظمی ایک دم مچلی اور میرے ھاتھ کو‬
‫مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے بھی تھوڑا زور لگا کر اپنے ھاتھ کو عظمی کی قمیض کے نیچے سے گزار کر عظمی کی‬
‫ایک مسمی کو پکڑ لیا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no( 24‬‬


‫دوستو عظمی کا مما اتنا نرم اور مالئم تھا کہ کیا بتاوں مجھے تو ایسے لگا جیسے میں نے کوئی روئی کا گوال ہاتھ میں پکڑا‬
‫لیا ھو ھو‬
‫میں نے تین چار دفعہ جوش میں آکر عظمی کے ممے کو کچھ زیادہ ھی زور سے دبا دیا‬
‫عظمی کو شاید کچھ ذیادہ ھی درد ھوگئی اور اس نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور پھر ہلکی سی چیخ ماری اور غصے‬
‫سے بولی جانور مت بنو آرام سے کرو‬
‫میں نے ساتھ ھی اپنے ھاتھ کو نرم کرلیا اور پیار سے آرام آرام سے ممے کو دباتا رھا اور انگلی سے اسکے اکڑے ھوے‬
‫چھوٹے سے نپل کو بھی چھیڑتا رھا جس سے عظمی‬
‫مزے کی وادیوں میں کھو گئی‬
‫اور‬
‫ہمممممم اففففف سسسسسیییی کرنے لگ گئی‬
‫عظمی میرے ھونٹوں کو پاگلوں کی طرح چوس رھی تھی دو تین دفعہ تو اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ بھی دیا تھا مجھے‬
‫درد تو ھوا مگر میں نے اسپر ظاہر نھی کیا اور میں بھی مزے سے ایک ھاتھ سے اسکے دونوں مموں کو باری باری اپنی‬
‫مٹھیوں میں بھرتا اور کبھی ہاتھ کو پیٹ پر لے آتا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ہم ہر چیز سے بیگانے ھوکر اپنی مستی میں لگے رھے پھر میں ہاتھ عظمی کے نالے پر رکھا اور نالے‬
‫کی گانٹھ کے سرے کو انگلیوں سے تالش کرنے لگ گیا‬
‫میں اس انداز سے نالے کے سرے کو تالش کررھا تھا کہ عظمی کو شک بھی نہ ھو کہ میں اسکا ناال کھولنے لگا ھوں‬
‫تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد میں نے ایک جھٹکے سے نالے کے سرے کو کھینچا تو ناال کھل گیا اس سے پہلے کہ‬
‫عظمی اپنی شلوار کو پکڑی یا میرے ہاتھ کو پکڑتی‬
‫میں نے جلدی سے اپنی تین انگلیاں اسکی پھدی پر رکھ کر اسکی پھدی کو مسلنے لگ گیا‬
‫ایسا بس چند سیکنڈ میں ھی ھوا عظمی کی پھدی نے جیسے ھی میری انگلیوں کو دیکھا تو پھدی سے آنسووں کی جھڑی‬
‫لگ گئی اور عظمی نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور مجھے کس کر جپھی ڈالتے ھوے بولی سسسسیییی‬
‫ھااااےےےےے یاسسسرررر کے بچچچےےےے‬
‫کی کیتا ای‬
‫ادھر پھدی کے آنسووں نے میری انگلیوں کو تر کردیا اور میری انگلیاں آپس ِچ پ ِچ پ کرنے لگ گئی میں نے عظمی کی‬
‫پھدی پر انگلیوں کا دباو بڑھا دیا تھا اور عظمی بھی ویسے ھی مچل رھی تھی‪ .‬پھدی کو مسلنے کی سپیڈ میری بھی کافی‬
‫تیز ھوگئی اسی دوران عظمی نے مجھے کس کر بڑے زور سے اپنے بازوں میں جکڑ لیے اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کا‬
‫مساج کروانے لگ گئی پھر اس نے ایک لمبی سے ھاااااااااا کی اور اپنی دونوں ٹانگوں کو آپس میں زور سے بھینچ لیا اور‬
‫پھدی سے گرم گرم الوا نکل کر میری انگلیوں کو جالتا ھوا عظمی کی گانڈ سے نیچے گھاس پر گرنے لگا‬
‫عظمی تین چار دفعہ کانپی اور ٹھنڈی ھوگئی مگر میں تو ویسے کا ویسا ھی تھا عظمی کی سیکسی آوازیں سن کر اور اسکی‬
‫پھدی کا لمس پاکر میرا جزبہ اور جنون تو اور بڑھ چکا تھا میں پھر ایک دفعہ عظمی کی پھدی کے اوپر ھی اپنی انگلیوں‬
‫کو پھیرنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے عظمی کی قمیض کو زور لگا کر مموں سے اوپر کردیا اور جوش میں مما منہ ڈال‬
‫لیا مجھے ایسا کر کے اتنا مزہ آرھا تھا کہ اس مزے کی کیفیت کو میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا‬
‫میرا ھاتھ سپیڈ سے پھدی کے اوپر ھی حرکت کر رھا تھا اور میرا لن عظمی کے پٹ کے ساتھ گھسے مارنے اور رگڑنے‬
‫میں مصروف تھا‬
‫کہ اچانک جوش میں نے اپنی درمیان والی پوری انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گھسا دی پھدی بھی گیلی تھی اور انگلی‬
‫بھی گیلی‬
‫جب انگلی اور پھدی راضی‬
‫تو کیا کرے گا قاضی‬
‫جیسے ھی انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گئی عظمی نے ایک ذور دار چیخ مار کر مجھے پیچھے کو پورے ذور سے‬
‫دھکا دیا‬
‫میں عظمی کے اچانک اس رد عمل پر بہت ذیادہ ھی ڈر گیا اور پیچھے کی طرف جاگرا‬
‫اتنے میں مجھے اپنے پیچھے سے کھالے کے بنے پر؟؟؟؟‪...‬‬
‫میں عظمی کی چیخ سن کر اور اسکے زور دار دھکے کی وجہ سے پہلے ھی سہم گیا تھا اوپر سے جیسے ھی بنے پر کسی‬
‫کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو میرے اور زیادہ ترا نکل گئے میں نے ڈر کے مارے جلدی سے ٹاہلی کی اوٹ لیتے ھوے‬
‫دوسری طرف دیکھا تو مجھے چار پانچ بڑے بڑے ُک تے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ھوے آگے پیچھے بنے پر ہماری‬
‫طرف ھی دوڑے آتے ھوے نظر آے‬
‫ُک توں کو دیکھ کر میری تو گانڈ پھٹنے والی ہوگئی‬
‫میں نے جلدی سے عظمی کی طرف دیکھا جو اپنا ناال باندھ رھی تھی اسنے بھی کتوں کی آوازیں سن لی تھی‬
‫اس لیے رنگ اسکا بھی اڑا ھوا تھا‬
‫میں نے ڈرے ھوے انداز سے عظمی کو کہا‬
‫او تواڈی پین نوں عظمی چھیتی کر ُک تے آگئے نے‬
‫عظمی نے جلدی جلدی سے کپڑے سہی کیے اور میرے پیچھے کھڑی ھو کر ُک توں کو دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے جلدی سے اسکا ھاتھ پکڑا‬
‫اور مکئی کی فصل کے بیچو بیچ نہر کی طرف دوڑ لگا دی‬
‫ہم نے پیچھے مڑ کر نھی دیکھا تھوڑی ھی دیر بعد بھاگتے ھوے ہم نہر پر چڑھ کر ھی پیچھے دیکھنے لگ گئے اور اپنے‬
‫ُگ ٹنوں پر ھاتھ رکھ کر جھکے ھوے زور زور سے سانس لینے لگ گئے‬
‫کچھ دیر بعد عظمی سیدھی ھوئی اور اپنے مموں پر ھاتھ رکھ کر بولی‬
‫شکر ھے آج‪ .‬بچ گئے‬
‫میں نے بھی کہا ھاں یار واقعی قسمت نے بچا لیا‬
‫اور پھر ہم نے نہر سے پاوں دھوے اور منہ ھاتھ‪ .‬دھو کر نہر کے کنارے پر چلتے ھوے‬
‫ٹرین کی پٹری کے ُپل پر ُپہنچ گئے‬
‫ٹرین کی پٹری ہمارے گاوں کے پاس سے ھی گزرتی تھی ہم تھوڑی دیر وہاں کھڑے رھے اور پٹری پر ھی گاوں کی‬
‫طرف چل دئیے‬
‫میں نے عظمی کو کہا چلو دیکھتے ہیں کون پٹری کے اوپر زیادہ دیر تک چلتا ھے عظمی بولی مجھ سے نھی چال جانا‬
‫میرے پہلے ھی جلن ھورھی ھے‬
‫میں نے کہا کہاں جلن ھورھی ھے‬
‫تو وہ غصے سے بولی‬
‫جتھے توں چول ماری اے‬
‫میں امی نوں دساں گی کہ میرے نال گندے کم کردا اے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار ایک تو تم روز مجھے امی کی دھمکیاں دیتی رھتی ھو جاو بتا دو‬
‫میں بھی تمہاری ساری کرتوت بتاوں گا تو عظمی بولی جاو بتا دینا‬
‫میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے کہا‬
‫اچھا بتاو نہ کہاں جلن ھورھی ھے میں دبا دیتا ھوں‬
‫تو عظمی بولی‬
‫بوتا شوخا نہ بن وڈا آیا دبان واال‬
‫میں نے کہا عظمی‬
‫تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫کی اے‬
‫تو میں نے کہا یار معاف کردو غلطی سے ھوگیا تھا‬
‫تو وہ بولی غلطی سے ھوا تھا یا پھر جان بوجھ کر کیا تھا‬
‫تو میں نے کہا قسم سے مجھے پتہ ھی نھی چال اور میں نے انگلی اندر کردی مجھے مزا ھی اتنا آرھا تھا کہ مجھے ہوش‬
‫ھی نہ رھا‬
‫عظمی بولی‬
‫تمہیں پتہ بھی ھے کہ کتنی درد ھوئی تھی میری‪ .‬ایک دم سے جان نکل گئی تھی‬
‫میں نے کہا ہاں یار واقعی تمہاری تو چیخ ھی نکل ‪،،،،،‬گئی تھی‪،،‬‬
‫مگر مجھے بعد میں پتہ چال کہ سالی نے مزے والی چیخ ماری تھی‪،،،‬‬
‫اور میں نے حیرانگی سے‪،،‬‬
‫عظمی کی طرف دیکھا اور عظمی سے کہا یار تم بھی لڑکی ھو اور وہ فرحت بھی تو لڑکی ھی ھے‬
‫مگر اسے نے تو‬
‫‪،،،،،،،،،،،،‬‬
‫اتنا کہہ کر میں خاموش ھوگیا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫کیا اسنے تو‬
‫میں نے کہا کچھ نھی‬
‫چلو نہ یار پٹری کے اوپر چلتے ہیں عظمی بولی نئی پہلے بتاو‬
‫کہ کہا کہنے لگے تھے‬
‫میں نے کہا یار پھر کبھی بتاوں گا لمبی بات ھے ابھی اندھیرا ھو رھا ھے یہ نہ ھو کہ امی لوگ ہمیں ڈھونڈنے کھیت میں‬
‫پہنچ جائیں‬
‫عظمی نے جب امی کا سنا تو تیز تیز چلنے لگ گئی‬
‫اتنی دیر میں ہم گاوں پہنچ گئے اور تیز تیز چلتے جب گلی کی نکڑ پر پہنچے تو سامنے سے نسرین چلی آرھی تھی‬
‫ہم بھی نسرین کی طرف چل دیے تو وہ بڑے غصے سے بولی‬
‫مل گیا ٹیم ویلیاں نوں کار آندا‬
‫تسی کار چلو اک واری آوارہ گردو‬
‫ابو دس دے نے توانوں‬
‫عظمی بولی‬
‫چل چل آئی وڈی کماں والی‬
‫اور یہ کہہ کر اسکو نظر انداز کرتی ھوئی گھر کی طرف چلدی نسرین بھی اسکے پیچھے پیر پٹختی ُپھوں ُپھوں کرتی چلدی‬
‫میں تو سیدھا اپنے گھر ھی چال گیا‬
‫مجھے انکل سے ویسے ھی ڈر لگتا تھا‬
‫ایسے ھی دن گزرتے رھے‬
‫ہمارے پیپر شروع ھوگئے پھر رزلٹ بھی آگیا میں‪ .‬کالس میں فرسٹ آیا تھا‬
‫اور عظمی اور نسرین نے بھی اچھے نمبر لیے تھے مگر وہ صرف پاس ھی ھوئی اس دوران‬
‫میری عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی رھی‬
‫موقع ملتے ھی ہم کسنگ بھی کرلیتے‬
‫عظمی نے کئی دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ اس دن کیا بتانے لگے تھے مگر میں ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ پھر بتاوں گا‬
‫عظمی نے بھی اب مجھے پوچھنا چھوڑ دیا تھا‬
‫ادھر سکول میں‬
‫ہم نے دوبارا فرحت کو نھی دیکھا شاید ماسٹر جی نے اسے چودنے کے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیا تھا‬
‫رزلٹ کے بعد اب ہم تینوں نے شہر کے سکول میں داخلہ لینا تھا‬
‫کچھ دنوں بعد‪ .‬ہماری نئی یونیفارم کتابیں اور بیگ بھی آگیا‬
‫ابو مجھے شہر کے گورمنٹ مڈل سکول میں داخل کروا آے اور عظمی نسرین میرے سکول کے کچھ فاصلے پر گرلز مڈل‬
‫سکول میں داخل ھوگئی‪،،،‬‬
‫دوستو پہال دن تو میرا سکول میں بڑا ھی کنفیوژن میں گزرا میں سکول کی عمارت کو کمروں کو اور کمروں میں پڑے‬
‫ڈیسکوں کو اور چھت پر لگے پنکھوں کو اور دیواروں پر لگے رنگ برنگے چارٹوں کو دیکھ دیکھ کر بہت خوش ھوتا‬
‫رھا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (25‬‬
‫اوپر سے ہماری کالس میں زیادہ بچے شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے تھے‬
‫کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی اردو سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ جاتے‬
‫میں شرمندہ سا ھوجاتا‬
‫سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ کی ھوئی‬
‫عالمہ اقبال اور قائد اعظم کی تصویر یں‬
‫میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر دوسری طرف‬
‫جاتا تو تب بھی میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے‪ .‬میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور اس چیز کو بہت انجواے کیا‬
‫خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی شہر‬
‫جانے کی ھوتی‬
‫اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر پر ایک‬
‫چھوٹا سا لکڑی کا ُپل بنا ھوا تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف جاتے تھے‬
‫سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو عظمی‬
‫اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی تھی اور شہر کڑھائی اور سالئی کا کام سیکھنے جاتی تھی‬
‫واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی تھی‬
‫مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا تھا‬
‫باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی‬
‫اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ بھگ تھی اور‬
‫تھی بڑی سیکسی سی‬
‫چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے کے برابر‬
‫تھا اور اسکی گانڈ تو کمال کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا فٹنگ واال پہنتی تھی‬
‫جس سے اسکے ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی‬
‫الگ ھوتا‬
‫رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے رنگ میں ایک کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی بات کرتے‬
‫ھوے آنکھوں کو وہ اکثر بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات کرتی‬
‫جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں اور‬
‫اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک جاتے دیکھتا رھوں‬
‫وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی‬
‫جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری گال پر ُچ ٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے چلیں‬
‫میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو باجی‬
‫مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ دیتی ھی‪،،‬‬
‫کسے دن میں ایدی ُبنڈ تے دندی وڈ کے پج جانا اے‪،‬‬
‫مگر یہ میرا خیالی پالن تھا میں ایسا صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل کرنا ناممکن تھا‬
‫دوستو‬
‫کافی دن ایسا ھی چلتا رھا‬
‫ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد‬
‫جس کو سب اونٹ کہتے تھے‬
‫کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی ھی‬
‫ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا‬
‫اسد پڑھائی میں بلکل نالئق تھا اسی وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کالس میں ھی رھا تھا‬
‫ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا ھے‬
‫سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا پڑھتا کچھ بھی نہ‬
‫شکل سے بلکل ساال ُپھکرا لگتا تھا‬
‫اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی تھی‬
‫میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں میری‬
‫گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا‬
‫میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر اگنور کر دیتا‬
‫تھا‬
‫ایک دن میں نے دیکھا‪ .‬کہ اسد بڑا مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ رھا تھا اور‬
‫ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے تو میں سمجھا شاید‬
‫اسکے خارش ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو‬
‫بنا ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک اٹھاے ھوے تھا‬
‫میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی‪،،.‬‬
‫میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم میں نے جھر ُج ھری سی لی اور آنکھیں پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ‪،‬‬
‫جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا‬
‫رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں کی تصویریں تھی‬
‫جس میں کسی جگہ‬
‫لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو منہ میں لے کر چوس رھی تھی کہیں گوری گھوڑی بنی‬
‫ھوئی تھی اور گورے نے اسکے بال پکڑے ھوے تھے اور لن پیچھے‪ .‬سے اسکی پھدی میں ڈاال ھوا تھا‬
‫کسی جگہ‪ .‬گوری اپنے ممے چسوا رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے تھے اور‬
‫کسی جگہ دو گوریاں آپس میں ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں گوری اپنی انگلی‬
‫پھدی میں ڈال کر لیٹی ھوئی تھی‬
‫ایسے بہت سے پوز تھے‬
‫میں رساال دیکھنے میں فل مگن ھوگیا تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں لن‬
‫سے بیگانہ ھوکر بس انگریز گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی چٹی ُبنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک‬
‫مجھے جھٹکا لگا اور میں نے گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو‪،،،،،،،‬‬
‫میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو اسد نے میرا لن پکڑا ھوا تھا اور لن کو مٹھی میں دبا رھا تھا میں نے ایک جھٹکے اس‬
‫کے ھاتھ سے اپنا لن ُچ ھڑوایا اور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اوے کیا مسئلہ ھے تجھے تمیز سے رہو تو وہ مسکرا کر بوال یار میں تو تیرا لن چیک کر رھا تھا کہ کتنا بڑا ھوگیا‬
‫ھے‬
‫میں نے کہا تو نے میرا لن اپنی گانڈ میں لینا ھے جو چیک کررھا ھے‪،‬‬
‫تو بوال یار ابھی تیری عمر نھی ھے گانڈ میں لن ڈالنے کی ابھی تو تجھے یہ بھی نھی پتہ ھوگا کہ‬
‫بیر دی ُبنڈ کتھے ہوندی اے‬
‫تو میں بوال‬
‫او پائی میں ایتھے پڑن آنداں ایں بیر دی ُبنڈ ویکھن نئی‪،‬‬
‫تو اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر کہا یہ دیکھ ایسا ھوتا ھے ُبنڈ پاڑ لن‬
‫تو میں نے جھٹکے سے اپنا ھاتھ پیچھے کرتے ھوے کہا‬
‫اوے توں باز نئی آنا‬
‫آ لین دے ماسٹر جی نوں‬
‫میں دسنا اے توں جیڑے کم کرن لگیا ھویاں اے‬
‫تو اسد نے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا‬
‫یار تم تو غصہ ھی کرگئے میں تو اس لیے کہہ رھا تھا کہ اپنے لن کی مالش کیا کرو دیکھنا کیسے دنوں میں میرے لن جتنا‬
‫ھوتا ھے‬
‫تو میں نے کہا او بھائی اپنی اور میری عمر اور قد کا فرق دیکھ‬
‫پہلے پھر یہ بات کرنا‬
‫تیری عمر ذیادہ ھے اس لیے تیرا لن بھی بڑا ھی ھوگا میں ابھی چھوٹا ھوں اس لیے میرا لن بھی چھوٹا ھے‬
‫تو اسد بوال یار ایک تو تم غصہ بہت کرتے ھو میں تیرے فائدے کی ھی بات کررھا ھوں‬
‫اور دیکھ لن کا عمر اور قد سے کوئی تعلق نھی‬
‫لن کو جتنی جلدی اور جتنا مرضی بڑا کرسکتے ھو‬
‫میں اسد کی باتوں میں آچکا تھا اس لیے میرا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ھوگیا تھا‬
‫اس لیے میں اسکی باتوں کو غور سے سن رھا تھا‬
‫تو میں نے کہا وہ کیسے کرسکتے ہیں‬
‫تو اسد بوال یاسر ویرے دیکھ سیدھی سی بات ھے‬
‫میں یاروں کا یار ھوں اور گانڈو لوگوں کو میں اپنے پاس بھی نھی بھٹکنے دیتا‬
‫تم مجھے اچھے لڑکے لگے ھو میں کافی دنوں سے تجھ سے دوستی کرنا چاھتا تھا مگر ججھک رھا تھا‬
‫تو میں نے کہا دیکھ اسد میں پینڈو جیا تے سدھا سادھا جیا بندا واں‬
‫اسی پنڈ دے لوک وی یاراں دے یار ہوندے آں‬
‫تے جدے نال اک واری یاری ال ٰل یے تے اودے واسطے جان وی دے دیندے آں‪،‬‬
‫اسد نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور مجھے کہنے لگا بس یار مجھے بھی ایسا ھی سمجھ اور میں نے بھی اسکے ھاتھ میں‬
‫دوستی کا ھاتھ دے دیا‬
‫اور کافی دیر ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے بارے میں بتاتے رھے‬
‫اسد نے بتایا کہ اسکی بس ایک بہن ھی ھے جو اس سے ایک سال چھوٹی ھے اور میٹرک کر رھی ھے اور اس کے ابو‬
‫اسکے بچپن میں ھی ایک کار ایکسڈینٹ میں ہالک ہوگئے تھے جس میں اسکے ماموں اور ممانی بھی ساتھ ھی ہالک ھوے‬
‫تھے‬
‫اور اسکا ایک کزن ھے جو اس کے ماموں کا ھی بیٹا تھا‬
‫جو کچھ دن پہلے کینڈا چال گیا تھا‬
‫اسد کے ابو اور ماموں بوتیک کا کام کرتے تھے جو اب اسد کی امی نے سمبھاال ھوا تھا‬
‫اسد کا پڑھائی میں بلکل بھی دل نھی لگتا تھا جس وجہ سے وہ تین چار دفعہ فیل ھوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تک چھٹی‬
‫کالس میں ھی تھا اسد نے بتایا کہ اسے سیکس کا بہت شوق ھے اور خاص کر لڑکوں کی ُبنڈیں بہت مارتا ھے‬
‫جب اس‪ ،‬نے مجھے یہ بتایا تو میں نے اسے مکا مارتے ھوے کہا ماما تبھی میرے پٹوں پر ھاتھ پھیرتا رہتا تھا‬
‫تو اس نے ہنس کر کہا کہ ہاں یار میں نے تجھ پر بڑی دفعہ ٹرائی ماری مگر تم ویسے لڑکے نھی نکلے ورنہ اب تک تم‬
‫بھی میرے نیچے ھوتے‬
‫میں نے اسد کے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور دونوں کھل کھال کر ہنس پڑے‬
‫تو میں نے کہا یار یہ گندے رسالے کہاں سے التا ھے اور تجھے ڈر نھی لگتا تو اسد بڑے فخر سے بوال جگر یہ تو کچھ‬
‫بھی نھی ھے میرے پاس تو ایسے ایسے رسالے پڑے ہیں کہ تو دیکھ کر چھوٹ جاے‬
‫تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم انکو رکھتے کہاں پر ھو تو وہ بوال کہ میرے کزن واال کمرہ اب میرے پاس‪ .‬ھی ھوتا‬
‫ھے اس میں الماریاں ہیں وہیں چھپا دیتا ھوں میرا کزن بھی بڑا حرامی تھا کسی دن تجھے گھر لیجا کر ایسی ایسی ایٹمیں‬
‫دیکھاوں گا کہ تو یاد کرے گا کہ کس سخی دل سے پاال پڑا ھے‬
‫میں نے کہا واہ یار تیری تو موجیں لگی ھوئی ہیں‬
‫تو اسد بوال میرے ساتھ رھو گے تو تیری بھی موجیں ھونگی‬
‫میں نے کہا نئی یار ایسی بھی بات نھی بس تیری دوستی ھی کافی ھے میرے لیے‬
‫اسی دوران ہمیں تفری ہوگئی‪ .‬ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ھی سب بچے باہر کو بھاگے‪ .‬ہم بھی نکل کر باہر گراونڈ میں‬
‫آگئے پھر ہم سڑک کی طرف چلے گئے وھاں ریڑھی سے انڈے والے نان کھاے اور پھر گراونڈ میں آکر ایک طرف بیٹھ‬
‫کر باتیں کرنے لگ گئے‬
‫اسد بوال سنا جگر گاوں میں کسی بچی کی پھدی بھی ماری ھے اب تک یاں پھر کنوارہ ھی پھر رھا ھے تو میں نے کہا نہ‬
‫یار‪ .‬ہمارے گاوں میں ایسا ویسا کچھ نھی ھوتا‬
‫اگر ایسا کچھ ھو تو پتہ لگنے پر ویسے ھی لڑکے لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں‬
‫تو اسد بوال‬
‫ابھی تیرا لن چھوٹا ھے نہ اسی لیے پھدی کی طلب نھی کرتا اور مجھے تو لگتا کہ تم نے ابھی تک مٹھ بھی نھی ماری ھوگی‬
‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے پوچھا کہ یار چھوٹے لن کی تو سمجھ آگئی مگر یہ مٹھ مارنا کیا ھے‬
‫تو اسد نے ہنستے ھوے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے کہا‬
‫جا یار‪ .‬تم واقعی پکے پینڈو ھو‬
‫چل کسی دن تجھے یہ چسکا بھی ڈال دوں گا‬
‫میں کچھ دیر خاموش رھا اور جھجھکتے ھوے اسد سے بوال‬
‫یار کیا واقعی لن کے بڑے ھونے کا عمر سے کوئی تعلق نھی‬
‫تو اسد میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫تم نے بڑا کرنا ھے تو بتا دیکھنا چند دنوں میں ھی لن بڑا نہ ھوا تو کہنا‬
‫میں نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا سچی‬
‫تو اسد بوال‬
‫مچی‬
‫تو میں نے کہا یار وہ کیسے تو اسد بوال ہے میرے پاس ایک نسخہ‬
‫تو میں نے کہا کونسا‬
‫تو اسد بوال بیس روپے کا ھے بس‬
‫تو میں پریشان سا ھوکر بول بیسسسسس روپے کا‬
‫نہ یار مجھے تو گھر سے پچاس پیسے خرچہ ملتا ھے اور اسکا میں نان کھا لیتا ھوں میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آنے‬
‫ہیں‬
‫تو اسد بوال چھڈ یار‬
‫یاراں دے ہوندیاں پریشان نئی ھوئی دا‬
‫میں نے کہا کیا مطلب‬
‫تو اسد بوال‬
‫یار میں تجھے ال دوں گا پیسوں کی فکر نہ کر‬
‫تو میں نے کہا نھی یار میں ایسے نھی لے سکتا جب میرے پاس پیسے ھونگے میں تجھے بتا دوں گا‬
‫تو اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫ماما فیر کردتی نہ پینڈواں والی گل‬
‫نالے یاری الئی اے تے نالے فرق رکھنا اے‬
‫میں نے کہا نھی یار ایسی بھی بات نھی بس مجھے شرم آتی ھے‬
‫تو اسد بوال‬
‫چل ایسے کر مجھ سے ادھار کرکے لے لینا جب تیرے پاس پیسے ھونگے تو دینا‬
‫اب تو ٹھیک ھے‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے اسد کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اتنی دیر میں ہاف ٹائم بھی ختم ھوگیا اور ہم دونوں کالس کی طرف چل دیے‬
‫اور اسد نے بتایا کہ میں کل ھی اپنے یار کے لیے تحفہ لے آوں گا‬
‫میں دل ھی دل میں بہت خوش ھوتا رھا‬
‫چھٹی کے بعد میں عظمی اور نسرین کے سکول کی طرف چال گیا اور انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا‬
‫دوسرے دن میں سکول کے لیے تیار ھوکر عظمی کے گھر گیا اور ان دونوں کو لے کر ہم تینوں باجی صدف کے گھر‬
‫اسے ساتھ لینے چلے گئے‬
‫باجی صدف تیار ھوکر بیٹھی تھی بس برقعہ ھی پہننا تھا ہمیں دیکھ کر باجی صدف بولی بس دومنٹ میں ابھی آئی اور‬
‫کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫باجی صدف لگتا تھا ابھی ابھی نہائی تھی کیوں پیچھے سے گیلے بال اسکی قمیض کو بھی گیال کیے ھوے تھے‬
‫باجی صدف نے آج پنک کلر کا سوٹ پہنا ھوا تھا جو اسپر بہت جچ رھا تھا‬
‫باجی صدف تھوڑی ھی دیر بعد برقعہ پہنے باہر آگئی اور ہم سکول کی طرف چلدیے‬
‫کھیت کی پگڈنڈی پر ہم سب آگے پیچھے چل رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اس سے پیچھے عظمی اور پھر باجی‬
‫صدف اور اس کے پیچھے میں تھا اور باجی صدف کی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے مزے سے مست ھوکر چل رہا‬
‫تھا اور ہمارا فاصلہ بھی کچھ ذیادہ نھی تھا بس ایک قدم کے فاصلے پر میں باجی صدف کے پیچھے چل رھا تھا میرا لن بھی‬
‫قمیض کو اوپر اٹھاے پیچھے سے باجی صدف کی گانڈ کو اشارے کر رھا تھا جب ہم آدھے راستے پر پہنچے تو ایکدم کپاس‬
‫کی فصل جو اب سوکھ چکی تھی اس میں سے ایک کالے رنگ کی بلی نکل کر تیزی سے عظمی اور باجی صدف کے‬
‫درمیان سے نکل کر پگڈنڈی کے دوسری طرف بھاگ گئی بلی شاید باجی صدف کے پاوں کے اوپر سے گزری تھی باجی‬
‫صدف نے زور دار چیخ ماری اور پیچھے کو ھوئی جس سے اسکا پاوں بھی پگڈنڈی سے سلپ ھوا اور نیچے گرنے‬
‫ھی لگی تھی کے میں نے جلدی سے باجی صدف کو پیچھے سے جپچھی ڈال دی اور گرنے سے بچا لیا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (26‬‬
‫یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ مجھے بھی سمجھ نہ آئی کے باجی کو کہاں سے پکڑوں‬
‫میرے پکڑنے سے پہلے باجی کافی نیچے کو جھک چکی تھی اور انکی ُبنڈ جو پہلے ھی باہر کو نکلی ھوئی تھی جھکنے‬
‫کی وجہ سے اور باہر نکل گئی تھی میں نے ویسے ھی اسکو پیچھے سے جب جپھی ڈالی تو میرے ھاتھ اسکے دونوں بڑے‬
‫بڑے اور نرم ممے آگئے اور میرا لن اس کی ُبنڈ کی دراڑ کے اوپر ٹکر مار کر اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا‬
‫ایسا بس کوئی تیس چالیس سیکنڈ ھی ھوا‬
‫باجی صدف نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھے اور جھٹکے سے مموں کو آزاد کروا دیا مگر میں نے‬
‫بھی ممے چھوڑتے وقت ہلکے سے دبا کر اس انداز سے چھوڑے کے باجی کو ایسے لگے جیسے انکے چھڑانے کی وجہ‬
‫سے مموں پر دباو آیا تھا‬
‫اور میرے ھاتھ باجی کے پیٹ پر آگئے تھے‬
‫اور لن صاحب ابھی تک باجی کی گانڈ میں گھسنے کی ٹرائیاں مار رھے تھے‬
‫باجی اب سمبھل چکی تھی اور عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر کھڑی ھوگئی تھی اور عظمی نے بھی آگے بڑھ کر باجی کو‬
‫بازوں سے پکڑ کر سیدھا کیا‬
‫میں نے پوچھا باجی کیا ھوا تھا بچ تو گئی چوٹ تو نھی آئی تو باجی ایکدم آگے کو ہوئی اور بڑی حیرت سے میری آگے‬
‫سے اٹھی ھوئی شلوار کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنا آپ مجھ سے چھڑوا کر‬
‫بولی ھاں ھاں بچ گئی ھوں‬
‫بلی نے اچانک چھالنگ لگائی تو میں ڈر کر پھسل گئی‬
‫شکر ہے تم نے مجھے پکڑ لیا نھی تو میری پاوں میں موچ آجانی تھی‬
‫تو میں نے کہا باجی ***** نہ کرے کہ آپکے پاوں میں موچ اجاے‬
‫تو باجی مجھے غور سے دیکھتے ھوے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی‬
‫شکریہ یاسر‬
‫تو میں نے کہا کوئی بات نھی باجی یہ تو میرا فرض بنتا تھا‬
‫تو وہ تھوڑا ہنسی اور ایک دفعہ پھر میری قمیض کی طرف دیکھا جہاں اب سب شانتی تھی اور مسکرا کر پھر میرے آگے‬
‫چل پڑی‬
‫میں نے اس دوران عظمی کی طرف دیکھا وہ پتہ نھی کیوں مجھے گھورے جارھی تھی‬
‫خیر ہم سکول پہنچ گئے‬
‫اور میں دل ھی دل میں بلی کو دعائیں دیتا رھا جسکی وجہ سے مجھے باجی صدف کے جسم کو چھونا نصیب ھوا وہ بھی‬
‫ڈریکٹ مموں کو اور گانڈ کو‬
‫جسکو روز حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رھتا تھا‪،‬‬
‫عظمی لوگوں کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول آگیا کچھ دیر پڑھانے کے بعد ٹیچر بھی کمرے سے باہر چلے‬
‫گئے اور سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف ھوگئے‬
‫تب اسد نے بیگ سے دو چھوٹی سی شیشیاں نکالی اور مجھے دیکھاتے ھوے کہا یہ ھے وہ جادوئی نسخہ جس کی مالش‬
‫سے دنوں میں تیرا لن پھدی پاڑ لن بن جاے گا‬
‫میں نے شیشیوں کو پکڑتے ھوے انکو حیرانگی سے دیکھا جن کے ڈھکن الگ الگ کلر کے تھے اور اسد سے کہا‬
‫یہ کیا ھے‬
‫تو وہ بوال‬
‫جگر اس میں تیل ھے‬
‫رات کو تم نے پہلے یہ سفید ڈھکن والے تیل کی سارے لن پر ہلکے ہلکے مالش کرنی ھے اور لن پر سوتی کپڑا لپیٹ دینا‬
‫ھے اور پھر آدھے گھنٹے بعد کالے ڈھکن والی شیشی کے تیل سے ٹوپی کو چھوڑ کر نچلے حصہ پر مالش کرنی ھے اور‬
‫پھر وہ ھی کپڑا دوبارا لپیٹ لینا ھے‬
‫تو میں نے کہا کتنے دن کرنی ھے تو اس نے بتایا بس جب تک یہ تیل ختم نھی ھوتا‬
‫تب تک روز مالش کرتے رہنا تجھے دنوں میں فرق کا پتہ چل جاے گا‬
‫میں نے خوش ھوکر شیشیاں اپنے بیگ میں رکھ دی‬
‫پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ گھر جاکر انکو رکھوں گا کہاں پر پھر سوچا جگہ بھی مل ھی جاے گی ایک دفعہ لے کر گھر تو‬
‫پہنچوں‬
‫پھر ہاف ٹائم ھوگیا اور ہم باہر نکل کر گراونڈ میں چلے گئے اسد بوال پھر کب میرے گھر چلے گا تو میں نے بتایا کہ یار‬
‫میں تمہارے گھر چال تو جاتا مگر میں جا نھی سکتا‬
‫تو وہ بوال‬
‫جا کیوں نھی سکتا‬
‫میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور جانے کی‬
‫ڈیوٹی بھی میری ھے اس لیے‬
‫تو اسد کچھ دیر سوچتے ھوے بوال‬
‫کہ اگر ہم سکول سے ُپھٹہ لگا لیں تو‬
‫میں نے کہا وہ کیا ھوتا ھے‬
‫تو اسد ہنستے ھوے میرے سر پر تھپڑ مارتے ھوے بوال‬
‫جا اوے توں وی نہ حالے تک ہینڈو ای ایں‬
‫میں نے اسے کہا ماما جدوں مینوں پتہ ای نئی کہ ُپھٹہ ھوندا کی اے تے مینوں سمجھ کنج آے گی‬
‫تو وہ ہنستا ھوا بوال‬
‫کہ یار سکول سے بھاگ کر چھٹی کرنے کو ُپھٹہ لگانا کہتے ہیں‬
‫تو میں نے فٹ کیا‬
‫سالیا مینوں مروانا اے‬
‫ابھی تو میرا شوق بھی نھی پورا ھوا شہر آنے کا اور تو مجھے سکول سے نکلوانے کا پروگرام بنا رھا ھے‬
‫تو اسد بوال یار پریشان نہ ھو تیرا یار ھے نہ اس سکول کا بھیدی‬
‫تو بس ٹینشن نہ لے تیرے پر اگر کوئی بات آئی تو میں سب سنبھال لوں گا‬
‫مجھے پتہ ھے کی کیا کرنا ھے‬
‫بس تو مجھ پر بھروسہ رکھ‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے پھر اسے کہا‬
‫یار ویکھیں ِکتے مروا نہ دیویں‬
‫تو اسد بوال یار مجھ پر یقین نھی تو میں نے کہا نھی‬
‫تو اسد غصے سے کھڑا ھوکر ُمکا بنا بازو اوپر کر کے کہنے لگا‬
‫لن تے چڑ فیر‬
‫اور جانے لگا تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھاتے ھوے کہا‬
‫ایویں ھن شوخا نہ بن چل فیر ویکھی جاے گی جو ھوے گا‬
‫تو اسد بوال چل پھر کل تیار رہنا ہم اسمبلی کے وقت سکول کے کمروں کے پیچھے بیرونی دیوار سے نکل کر سکول‬
‫سے‪ .‬باھر نکل جایں گے‬
‫تو میں نے کہا یار سکول کی دیواریں تو کافی اونچی ہیں تو وہ بوال اس بات کی فکر نہ کر بس تو تیار رہنا‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا‬
‫اور ہم دونوں اٹھے اور باہر سڑک پر اکر نان کھانے لگ گئے‬
‫سکول سے واپس‪ .‬جاتے بھی کچھ خاص نھی ھوا‬
‫دوسرے دن پالننگ کے تحت ہم کمروں کے پیچھے چلے گئے کیوں کے سکول کا مین گیٹ بند ھوگیا تھا اور کوئی بچہ‬
‫باھر نھی جاسکتا تھا‬
‫ہم کمروں کے پیچھے سے چلتے ھوے ایک جگہ پہنچے جہاں سے بڑا سا ناال تھا جو سکول کی بیرونی دیوار کے نیچے‬
‫سے باہر کو جاتا تھا جو اس وقت سوکھا ھوا تھا شاید بارش کے پانی کے لیے وہ ناال بنایا ھوا تھا‬
‫نالے کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم آسانی سے نکل کر دوسری طرف جاسکتے تھے‬
‫پہلے اسد نیچے گھسا اور دوسری طرف گردن نکال کر تسلی کرنے لگا اور پھر جلدی سے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا‬
‫اور باھر نکل گیا میں بھی اسکے پیچھے ھی باہر آگیا‬
‫ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ایک چھوٹی سی گلی میں گھس گئے وہ گلی آگے جاکر بازار میں کھلتی تھی میں نے اسد سے کہا یار‬
‫چھٹی کے وقت میں نے سکول پہنچنا ھے تو اسد بوال یار پریشان نہ ھو ساری ٹینشن دماغ سے نکال دے اور میرے ساتھ‬
‫چل پھر دیکھنا تو سب کچھ بھول جاے گا‬
‫میں چپ کرگیا اور اسکے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلتا رھا‬
‫ہم بازار سے ھوتے ھوے پھر ایک گلی میں گھس گئے گلی بھی بازار کی ھی طرح تھی‬
‫مگر ادھر آمدورفت بہت ھی کم تھی‬
‫اسد نے ایک دکان کے آگے رکتے ھوے مجھے کہا چل یار آج تجھے ایک گرما گرم چیز دیکھاتا ھوں تو میں نے کہا‬
‫کہاں پر تو اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جس کے اگے پردہ لگا ھوا تھا اور اندر سے ویڈیو گیم کا شور آرھا تھا‬
‫اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لے کر دکان میں گھس گیا‬
‫کاونٹر پر ایک انکل بیٹھا ھوا تھا‬
‫اسد نے اسے ایک روپیہ دیا اور اسے کہا سپیشل گیم تو اس نے کافی سارے سکے اسد کو تھما دیے اور سائڈ پر بنے ایک‬
‫کیبن کی طرف اشارہ کیا اور بوال ادھر چلے جاو خالی ھے‬
‫میں بونگوں کی طرح دکان میں لگی بڑی بڑی گیموں کو دیکھ رھا تھا جہاں پانچ چھ بچے مختلف گیمیں کھیل رھے اور وہ‬
‫بچے بھی سکول یونیفارم میں ھی تھے‬
‫اسد کیبن کی طرف چل دیا اور میں بھی اسکے پیچھے کیبن کے اندر گھس گیا‬
‫اسد نے ایک سکہ گیم میں ڈاال اور گیم سٹارٹ کر کے کھیلنے لگ گیا میں حیران ھوکر رنگین سکرین پر چلتی ھوئی گیم کو‬
‫بڑی دلچسپی سے دیکھ رھا تھا‬
‫میں نے زندگی میں پہلی دفعہ رنگین ٹی وی دیکھا تھا‬
‫اسد نے گیم ختم کی اور میرے پٹ پر ھاتھ مار کر بوال تیار ھوجا اب‬
‫میں نے گبھرا کر اسد کی طرف دیکھا تو‬
‫اسد نے کہا جگر ادھر دیکھ تو میں سکرین کی طرف دیکھنے لگ گیا اتنے میں ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی جس نے‬
‫ہاف سکرٹ پہنا ھوا تھا اور اونچی ہیل والی جوتی پہنی ھوئی تھی اسکے ممے اتنے بڑے تھے جیسے ابھی سکرٹ کو پھاڑ‬
‫کر باہر آجائیں گے‬
‫وہ بڑی ادا سے جسم کو لہراتی ھوئی ہماری طرف آئی‬
‫اور بڑی ادا سے کھڑی ھوگئی اور ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر ھاتھ کو چوما اور ہماری طرف پھونک ماردی اور سکرین‬
‫پر انگلش میں لکھا ھوا‬
‫ویلکم ٹو مائی سویٹ ھارٹ‬
‫آیا‬
‫اور وہ لڑکی گھومی اور پیچھے اپنی بڑی سی گول مٹول سی گانڈ پر دونوں ھاتھوں کو رکھا اور بڑے سٹائل سے ھاتھوں‬
‫کو اپنی گانڈ پر پھیرا اور اسی سٹائل سے چلتی ھوئی واپس چلی گئی‬
‫تو اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال‬
‫سنا فیر‬
‫میں نے کہا یار بچی تو کمال کی تھی‬
‫تو اسد بوال‬
‫آگے آگے دیکھ‬
‫تو اسد پھر گیم کھیلنے لگ گیا اور کچھ ھی دیر بعد اسد نے دوسری سٹیج بھی کھیل لی اور وہ ھی لڑکی پھر دوبارا اسی‬
‫سٹائل سے کمر کو لہراتی گانڈ کو مٹکاتی ھوئی چلی آئی اور پھر سے ہوائی ُچ می ہماری طرف پھینکی اور بڑے سٹائل سے‬
‫کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے اور کندھوں سے سکرٹ نیچے اتار دیا سکرٹ مموں پر آکر رک گیا‬
‫اور پھر اس لڑکی نے بڑی ادا سے کمر کو ہالیا اور ساتھ ساتھ سکرٹ کو نیچے کرتی گئی جب سکرٹ اسکے مموں سے‬
‫نیچے اترا تو سرخ کلر کے بریزیر میں اسکے بڑے بڑے گول مٹول ممے قیامت ڈھا رھے تھے اسکے ممے دیکھ کر میرا‬
‫تو حلق خشک ھونے لگ گیا اور میں نے بے ساخت اپنے لن کو پکڑ کر مسلنے لگ گیا‬
‫لڑکی نے آہستہ آہستہ کمر کو لہراتے ھوے سکرٹ گانڈ تک اتارا دیا اور پھر دونوں ھاتھ اپنے کولہوں پر رکھ کر گانڈ کو‬
‫لہراتے ھو سکرٹ گانڈ سے بھی نیچے اتار کر چھوڑ دیا‬
‫سکرٹ اسکے پاوں میں گر گیا‬
‫اب وہ سرخ بریزیر اور سرخ ھی پینٹی میں تھی اسکے پورے جسم پر ایک بھی بال نھی تھا کیا کمال کا فگر تھا یار‬

‫لڑکی کچھ دیر کھڑی ادائیں کرتی رھی اور پھر واپس چلی گئی‬
‫اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال سنا جگر مزہ آیا کہ نھی میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ھوے اسے کہا‬
‫یار کمال کردتا ای‬
‫کیا بم پھوڑ کے گئی ھے مزہ اگیا‬
‫تو اسد بوال آگے دیکھ‬
‫اور اسد نے اگلی سٹیج کھیلنی شروع کردی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار اسکا نام کیا ھے تو اسد نے سکرین پر ایک سائڈ پر اسی لڑکی کی چھوٹی سی تصویر کے نیچے لکھے نام کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے کہا‬
‫اسکا نام جولی ھے تو میں نے کہا واہ کیا نام ھے جولی‬
‫تو اسد ہنسنے لگ گیا‬
‫اور بوال‬
‫نام تو ایسے پوچھ رھا ھے جیسے اس سے شادی کرنی ھے‬
‫تو میں نے ایک لمبا سا سانس اندر کھینچ کر سانس باہر چھوڑا اور آہ بھرتے ھوے کہا ساڈی قسمت وچ کتھوں ایھو جیاں‬
‫پریاں‬
‫تو اسد کھل کھال کر ہنس پڑا اور بوال‬
‫میرے شزادے تو لن تو ایک دفعہ بڑا کر پھر دیکھ ایسی تو کیا اس سے بھی سپیشل پھدیاں تیرا انتظار کریں گی‬
‫تو میں نے حسرت بھری اواز نکالتے ھوے کہا‬
‫پتہ نئی او وقت کدوں آنا اے تو‬
‫اسد بوال بس صبر کر صبر دا پھل مٹھا ھوندا اے‬
‫تبھی اسد نے سٹیج مکمل کی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی‬
‫تو جولی پھر گانڈ کو لہراتی بل کھاتی کیٹ واک کرتی ہماری طرف آکر کھڑی ھوگئی‬
‫اور پھر ایک فالئنگ کس ہماری طرف پھینکی جسے میں نے آگے ھاتھ کر کے پکڑ کر اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے‬
‫سینے کے ساتھ مٹھی کو لگا لیا‬
‫جولی نے دونوں ھاتھ کمر کے پیچھے کیے اور بریزیر کے ہک کھول دیے اور کندھوں سے بریزیر کے سٹرپ سرک کر‬
‫نیچے بازوں تک کر دیے اور ھاتھ آگے کر کے مموں پر بریزیر کے کپ کے اوپر رکھ لیے اور آنکھ سے اشارہ کر کے‬
‫ہمیں پوچھا کہ اتاردوں‬
‫میں جو بے صبری سے اسکے مموں کو دیکھنے کے لیے ترسا بیٹھا تھا جلدی سے بوال‬
‫ال وی دے ہن کناں ترسائیں گی‬
‫تو اس نے میری بات مان کر مموں سے بریزیر کے کپوں کو ہٹا دیا‬
‫اور میں جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں ھاتھوں سے اسکے ممے پکڑنے کی کوشش کرنے لگ گیا اور سکرین‬
‫کو نوچنے لگ گیا اتنے میں‬
‫میں ایکدم اچھال کیوں کہ اسد نے پیچھے سے میری گانڈ میں انگلی دے دی تھی‬
‫میں اچھل کر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا اور بوال جا اوے پین یکہ سارا مزا ای خراب کردتا ای‬
‫تو اسد ھنستے ھوے بوال سالیا ساری سکرین روک لئی سی مینوں وی تے ویکھن دے‬
‫تب جولی نے اپنے گول مٹول مموں کو پکڑا اور ایک ممے کو اپنے منہ کی طرف لے گئی اور نپل پر زبان پھیر کر ممے‬
‫کو چھوڑ دیا پھر دوسرے ممے کے نپل پر زبان پھیری اور واپس‪ .‬چلی گئی‬
‫اسد نے پھر گیم کھیلنا شروع کردی اور کچھ ھی دیر بعد سٹیج ختم کی اور پھر سے جولی بڑے بڑے مموں کو لہراتی گانڈ‬
‫کو ہالتی چلی آئی ابھی جولی نے فالئنگ کس کی ھی تھی کہ اچانک ایک جھماکہ ھوا اور‪،،،،،،‬‬
‫‪،،،،‬‬
‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪.Update no (27‬‬
‫‪..Post ko like aur share Lazmi karen‬‬
‫جھماکہ ہوتے ہی الئٹ بند ھوگئی‬
‫میں نے اور اسد نے ایک آواز میں ھی واپڈا والوں کو تگڑی سی گالی دی اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے‬
‫میں نے اسد کو کہا یار چلو دفعہ کرو پھر کبھی دیکھیں گے اور ہم دکان سے باہر نکل کر اسد کے گھر کی طرف چل دیے‬
‫اسد کے گھر کے سامنے پہنچ کر اسد نے جیب سے چابی نکالی اور مجھے رکنے کا کہہ کر گیٹ کھول کر اندر داخل ھوگیا‬
‫میں باہر کھڑا حیرانگی اور حسرت بھری نگاہوں سے اسد کے گھر کو باہر سے دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگ گیا کہ‬
‫باہر سے اتنا خوبصورت گھر ھے تو اند سے کتنا خوبصورت ھوگا‬
‫اتنے میں اسد نے بیٹھک کر دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کا اشارا کیا‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو اپنے پینڈو ہونے کا ثبوت دینے لگ گیا اور کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ کر واہ واہ کرنے‬
‫لگ گیا کیا کمال کی کمرے میں سیٹنگ کی ھوئی تھی بڑے بڑے صوفے اور صوفوں کے اگے پڑا بڑا سا شیشے کا ٹیبل‬
‫دیواروں کے ساتھ لگی رنگ برنگی پینٹنگ دیواروں پر لمبے سائز کے خوبصورت پردے‬
‫کیونکہ اتنا خوبصورت کمرہ اور یہ سب چیزیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی ہمارے گاوں میں تو بس بیٹھکوں‬
‫میں چارپایاں اور مُو ڑے پڑے ھوتے تھے یا جو اچھے زمیندار ھوتے انکے لکڑی کے صوفے ھوتے مگر یہاں تو سب کچھ‬
‫ھی میرے لیے نیا تھا‪،،‬‬
‫اسد میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بوال‬
‫جگر بیٹھ میں تھوڑی دیر تک آیا‬
‫اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ جلدی سے گھر کے اندر کی طرف جاتے دروازے سے نکل کر اندر چال گیا اور‬
‫میں کھڑا ھوکر پھر کمرے کی ہر ہر چیز غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر میں گردن کو گھماتے کمرے کی چاروں اطراف کا جائزہ لیتا رھا‬
‫پھر میں صوفے پر بیٹھ گیا‬
‫بیٹھتے ھی میجھے ایسے لگا جیسے میں صوفے مین دھنس کر پیچھے کی طرف گرنے لگا ہوں‬
‫دوستو اس وقت اگر میری کوئی حالت دیکھتا تو شاید ہنسی کے دورے سے بےہوش ہوجاتا‬
‫میں ہڑبڑا کر پھر سے کھڑا ھوگیا اور پریشان ھوکر صوفے کو دیکھنے لگ گیا‬
‫پھر میں نے ڈرتے ڈرتے صوفے کی سیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اسکو دبا کر تسلی کرنے لگ گیا کہ صوفہ سہی سالمت ھی ھے‬
‫میں دوبارا ڈرتے ڈرتے صوفے پر آہستہ سے بیٹھ گیا اب صوفے کی سیٹ اتنی نیچے نھی ھوئی تھی‬
‫دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے میں بڑی شوخی سے صوفے پر پورے وزن کے ساتھ بیٹھا تھا‬
‫صوفہ انتہائی نرم تھا اس لیے میرے ذور سے بیٹھنے کی وجہ سے صوفے کا میٹرس بھی نیچے کی طرف گیا اور میں ڈر‬
‫گیا تھا‬
‫میں بیٹھ کر تھوڑا تھوڑا نیچے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر صوفے کا مزہ لے رھا تھا‬
‫کہ اچانک گھر کے اندر کی طرف والے دروازے کا پردہ سرکہ اور‬
‫ایک حسین دلفریب پری کا چہرہ نمودار ھوا‬
‫چہرہ کیا تھا چودہویں کا چاند تھا‬
‫میرے تو ہوش ھی ہوا ھوگئے میرا تو اس وقت یہ حال تھا کہ‬
‫اس کے بے ہجاب ھونے تک یاسر‬
‫شامل تھے ہم بھی ہوش والوں میں‬
‫چودہویں کے چاند جیسا روشن چمکتا چہرہ گالبی ہونٹ چہرے پر معصومیت آنکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر شاید حسن‬
‫کی ساری تعریفیں اس چہرے میں ھی تھی‬
‫اس کی انکھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور میری گستاخ آنکھوں نے بھی جرات کردی اسکی آنکھوں کے سمندر میں‬
‫ڈبکی لگانے کی‬
‫پھر وہ حسین چہرہ پردے کی اوٹ لے کر گم ھوگیا‬
‫مگر میں اس حسین چہرے کے سحر میں ابھی تک جکڑا پردے کو دیکھی جارھا تھا اور میری نظریں پھر اس گستاخی کے‬
‫لیے ترسی اسکو تالش کررھی تھی‬
‫مگر وہ جاچکی تھی‬
‫ھاےےےےےے افففففف ٹھنڈی آھ بھری اور پھر اسی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ کون تھی یہ حسینا‪۶‬‬
‫کچھ دیر اسی قاتلہ کے بارے میں سوچتا رھا جو ایک ھی نظر میں میرا سب کچھ لے اڑی تھی‬
‫کہ اسد اندر داخل ھوا میں نے حسرت بھری نگاہوں سے پھر پردے کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ھی حسینہ جلوہ گر ھے‬
‫مگر وہ ساال اسد تھا‬
‫اسد ہاتھ میں ٹرے لیے ھوے ایا جس میں مشروب تھا اور بسکٹ وغیرہ‬
‫اسد میرے پاس آیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور بوال سوری یار وہ کپڑے بدلنے میں دیر ھوگئی تھی‬
‫مگر میں تو اپنے خیالوں میں کھویا ھوا تھا کہ اسد نے مجھے گم سم دیکھ کر کندھے سے پکڑ کر ہالتے ھوے کہا‬
‫اوے کتھے ُپنچیا ھویاں اے‬
‫طبعیت تے سئی اے‬
‫تو اسے میں کیا بتاتا‬
‫کہ‬
‫یہ طبیب بھال اب میری مرض کو کیا سمجھیں‪،‬‬
‫تم اب آ بھی جاو‬
‫کہ یہ وصل بیماری ھے‬
‫میں نے ایکدم چونکتے ھوے اسد سے کہا نھی نھی میں ٹھیک ھوں بس ایسے ھی تمہارا گھر دیکھ کر بس اپنی غریبی‬
‫کے بارے میں سوچ رھا تھا‬
‫تو اسد نے مجھے کندھے سے پکڑا اور بوال‬
‫چھڈ یار ایویں چوالن مار دیاں ایں دوبارا اے گل نہ سوچیں یاری وچ امیری غریبی نئی ہوندی‬
‫اور ساتھ ھی مشروب کا گالس مجھے پکڑا دیا اور کہنے لگا چل جلدی سے پی پھر تجھے ایک گرم گرم چیز دیکھاتا ھوں‬
‫میں تو پہلے ھی گرم ھو چکا تھا اسے اب کیا بتاتا‬
‫میں نے ایک ہی سانس میں گالس ختم کیا اور اسد کو کہنے لگ گیا کہ یار تمہارا گھر بہت خوبصورت ھے‬
‫تو اسد نے شکریہ ادا کیا‬
‫کچھ سوچتے ہوے میں نے اسد سے پوچھا یار تیری امی نے نھی پوچھا کہ تو سکول سے اتنی جلدی واپس اگیا ھے‬
‫تو وہ ہنس کر بوال‬
‫کہ امی تو بوتیک پر چلی گئی ہیں اور رات کو ھی واپس آئیں گی گھر میں بس سسٹر ھی ھے اور اسکو رشوت وغیرہ لگا‬
‫دیتا ھوں تو وہ امی کو نھی بتاتی تو میں ہمممم کر کے چپ کر کے اندازہ لگانے لگ گیا کہ ہو نہ ہو وہ حسین پری اسد کی‬
‫بہن ھی ھوگی‬
‫کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے پھر اسد نے مجھے کہا چل اٹھ اوپر کمرے میں چلتے ہیں‬
‫میں اسد کے پیچھے بیٹھک سے نکل کر انکے گھر میں داخل ھوے‬
‫اور سامنے ٹی وی الونج سے سیڑیاں چڑھ کر اوپر جانے لگ گئے اسد میرے آگے جارھا تھا میں نے پیچھے سے سارے‬
‫گھر کا جائزہ لیا‬
‫مگر مجھے وہ قاتل حسینہ کہیں نظر نہ آئی‬
‫ہم اوپر پہنچے تو اسد مجھے لے کر ایک کمرے میں چال گیا جب میں کمرے میں داخل ھوا تو وہ کمرا بھی کمال کا تھا‬
‫سامنے بڑا سا جہازی سائز کا بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے بلکل اوپر چھت کے ساتھ شیشے کا بڑا سا جھومر لٹک رھا تھا اور‬
‫دوسرے طرف ایک بڑی سی الماری بنی ھوئی تھی جس میں بڑے سائز کا ٹی وی پڑا تھا اور نچلے حصے میں وی سی آر‬
‫اور اس سے نچلے حصہ میں کافی ساری ویڈیو کیسٹوں کا انبار لگا ھوا تھا‬
‫اور کمرے کی ایک سائڈ پر چھوٹا سا دروازہ تھا جو شاید اٹیچ باتھ کا لگ رھا تھا‬
‫اسد نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دروازہ الک کرنے چال گیا‬
‫دروازہ الک کر کے اس نے ٹی وی اون کیا اور وی سی آر کے پیچھے کی طرف ھاتھ مارتے ھو کچھ تالش کرنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر بعد اسکے ھاتھ میں ایک ویڈیو کیسٹ تھی جو اس نے وی سی آر میں لگا دی اور وی سی آر اور ٹی وی کا‬
‫ریمورٹ لے کر میرے ساتھ بیڈ پر جمپ مار کر بیٹھ گیا میں ابھی تک ٹانگیں نیچے لٹاے بیٹھا تھا تو اسد نے مجھے کہا جگر‬
‫اوپر ھوکر بیٹھ جا کیا‬
‫نئ نویلی دلہن کی طرح شرما رھا ھے یہ اپنا ھی گھر سمجھ‬
‫میں بھی ٹانگیں پھیال کر بیڈ پر بیٹھ گیا‬
‫تبھی سامنے ٹی وی پر بلیو فلم چل گئی اور انگریز گوریوں کو مختلف پوزوں میں چود رھے تھے‬
‫میں بڑی دلچسپی سے ویڈیو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو بھی مسل رھا تھا‬
‫کافی دیر بعد‬
‫۔میری اچانک اسد پر نظر پڑی تو اسد نے اپنا بڑا سا لن نکال کر ھاتھ میں پکڑا ھوا تھا‬
‫اور لن پر ھاتھ سے ُمٹھی بنا کر اوپر نیچے کری جارھا تھا‬
‫میں نے اسے ھاتھ سے ہال کر کہا‬
‫سالیا اے کی کری جاناں اے‬
‫تو اسد نے بڑی سیکسی سی آواز میں کہا‬
‫مٹھ مار رھا ھوں تو بھی ایسے کر پھر دیکھ کتنا مزہ آتا ھے اور پھر سے ٹی وی کی طرف دیکھ کر ُمٹھ مارنے لگ گیا‬
‫میرا بھی فلم دیکھ کر دماغ خراب ھوچکا تھا میں نے بھی شلوار میں سے لن نکاال اور جیسے اسد کر رھا تھا ویسے ھی‬
‫کرنے لگ گیا‬
‫مجھے کچھ خاص مزہ نھی آرھا تھا تو میں نے اسد کو کہا‬
‫گانڈو ایسے تو بلکل بھی مزہ نھی آرھا اس سے زیادہ تو لن کو مسلنے میں مزہ آتا ھے‬
‫تو اسد نے پہلے میرے لن کی طرف دیکھا اور‬
‫بوال ساال صاب لن کو چکنا تو کرلے‬
‫میں نے کہا کیسے‬
‫تو اس نے سرھانے کے پاس پڑی ایک شیشی مجھے پکڑاتے ھوے کہا اسکو پہلے لن پر اچھی طرح لگا پھر ُمٹھ مار‬
‫میں نے شیشی کا ڈھکن کھوال اور اپنی ھتھیلی پر الٹایا تو اس میں سے منی کی طرح کا سفید سا گاڑھا گاڑھا محلول نکال اور‬
‫اس میں سے خوشبو سی آرھی تھی میں کہ‬
‫یار یہ کیا ھے‬
‫تو بوال‬
‫ماما نظر نھی آرھا شیمپو ھے‬
‫تو میں نے حیرانگی سے پوچھا یہ کیا ھوتا ھے‬
‫تو وہ ہنس کر بوال‬
‫جا اوے گانڈو‬
‫اس سے سر کے بالوں کو دھوتے ہیں‬
‫اور میں سر کو جھٹکا کہ شیمپو کو لن پر لگا کر ُمٹھ مارنے لگ گیا‬
‫شیمپو کے ساتھ ُمٹھ مارتے ہوے مجھے بھی اب مزہ آرھا تھا اور ایک عجیب سے ُلطف کی لہر میرے جسم میں گزر رھی‬
‫تھی کے اچانک اسد کے لن سے منہ کے فوارے چھوٹنا شروع ھوگئے اور کچھ دیر تک اسد لمبے لمبے سانس لیتا رھا‬
‫مگر میرے چھوٹنے کا امکان ابھی تک دور دور تک نھی تھا مجھے بس مزہ ھی آرھا تھا مگر لن چھوٹنے کا نام نھی لے‬
‫رھا تھا‬
‫اسد اٹھ کر واش روم چال گیا تھا اور میں اپنی دھن میں دے دھنا دھن لگا ھوا تھا اب تو شیمپو بھی ُخ شک ھو چکا تھا میں‬
‫نے تین چار دفعہ تھوک پھینک کر گیال کیا مگر پھر خشک ھو جاتا تھا‬
‫اسد واش روم سے فری ھو کر واپس کمرے میں آگیا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (28‬‬
‫‪..Post ko like aur share Lazmi karen‬‬
‫اور حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫اوے توں حالے تک فارغ نئی ھویا‬
‫میں نے کہا یار کچھ نکل ھی نھی رھا‬
‫تو اسد بوال‬
‫پہلے کبھی چھوٹا ھے تو میں نے نفی میں سر ہال دیا تو اسد بوال‬
‫فیر میرا لوڑا ُچ ھٹیں گاں اویں اپنی باواں وچ کھلیاں پان لگیا ھویاں اے‬
‫چار دن تیل دی مالش کر فیر ویکھیں تیرے لن وچوں وی کیویں فوارے نکلدے‬
‫میں بھی ھاتھ چال چال کر تھک چکا تھا‬
‫میں ایسے ھی اٹھا اور واش روم میں گھس کر اپنا آپ دھویا اور باہر آگیا‬
‫اسد نے ٹی وی بند کردیا تھا اور فلم بھی نکال کر چھپا دی تھی اور ہم کمرے سے نکل کر سیڑیاں اترنے لگے جب میں اسد‬
‫کے پیچھے پیچھے آدھی سیڑیاں ھی اترا تھا کہ مجھے نیچے کچن سے وہ حسن کی شہزادی نکلتی ھوئی ٹی وی الونج‬
‫میں آتی ھوئی نظر آئی اسکے ھاتھ میں چاے کا بڑا سا مگ پکڑا ھوا تھا اور چاے کی چسکیا لیتی ھوئی‬
‫بڑی ادا سے چلی آرھی تھی‬
‫دوستو اس حسینہ کا کیا قیامت فگر تھا‬
‫اس نے ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور قمیض کی اتنی فٹنگ تھی کہ میرے جیسا پینڈو یہ‬
‫ھی سوچتا رہتا کہ یہ قمیض کے اندر ُگ ھسی کیسے اور قمیض کافی شورٹ تھی جو اسکے ُگ ٹنوں سے بھی اوپر اور پھدی‬
‫والے حصہ سے کچھ نیچے تھی‬
‫اسکے چھتیس سائز کے ممے آگے کو ایسے تنے ھوے تھے کہ جیسے ابھی قمیض کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں اور پیٹ تو‬
‫بلکل نظر ھی نھی آرھا تھا کمر ایسی تھی کہ میں دونوں ھاتھ کی انگلیاں جوڑ کر کمر کو پکڑتا تو میرے ھاتھوں میں اسکی‬
‫کمر آجاتی‬
‫دوپٹہ نام کی چیز ھی نظر نھی آئی‬
‫وہ ظالم جب چاہے کی ُچ سکی لیتی تو ساتھ اپنی لمبی سی پلکوں کو جھپکاتی اور اس کے گالبی ہونٹ خوش قسمت کپ کو‬
‫چھو کر آپس میں مل جاتے اور اس کے نرم سے روئی کے گولے جیسے پنک گالوں پر ڈنپل بن جاتا‬
‫پانچ فٹ پانچ انچ کی یہ حسینہ حسن کا کرشمہ تھی‬
‫چاے کے کپ کو ہونٹ لگاتے ھی اس حسینہ نے اپنی ساگر جیسی آنکھوں پر چھاوں کی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر میری طرف‬
‫دیکھا آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کے قدم رک گئے‬
‫اور اس ظالم کو شاید ہوش آیا اور میری موجودگی کا احساس ھوا‬
‫اور وہ میرے دل پر ُچ ھریاں چالتی واپس پلٹی اور اسکی بتیس سائز کی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ تھر تھرائی اور‬
‫ساتھ ھی گانڈ کو چھلکاتی ھوئی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی طرف چلدی اسے دیکھتے دیکھتے ھی وہ قاتلہ میرا سب کچھ‬
‫لے کر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں وہیں خالی ھاتھ رھ گیا‬
‫اتنے میں اسد کی آواز آئی کہ آ بھی جاو سکول کی چھٹی کا ٹائم ھوگیا ھے تو میں ایکدم سے ہڑبڑایا اور تیز تیز قدم اٹھاتا‬
‫ھوا نیچے آگیا اور گھر سے نکلتے وقت اسد نے اندر منہ کرکے آواز دی‬
‫مہری دروازہ الک کر لو‬
‫اور ہم سکول کی طرف تیز تیز قدموں سے چل پڑے میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا نام ھوا مہری اب میں اسد سے بھی نھی‬
‫پوچھ سکتا تھا کہ تمہاری بہن کا اصل نام کیا ھے‬
‫خود ھی جوڑ توڑ لگا کر سوچنے لگ پڑا جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسی نام پر اکتفا کیا‬
‫اور من ھی من میں ٹھنڈی آہ بھر کر دل نے پکارا مہرییییی‬
‫سکول کے قریب پہنچے تو چھٹی ھوچکی تھی اور اسد نے مجھے الوداع کیا اور واپس گھر کی طرف ھی چال گیا دل تو میرا‬
‫بھی کررھا تھا کہ دوبارا پھر اس کے ساتھ چال جاوں مگر مجبوری تھی‬
‫میں سیدھا عظمی کے سکول گیا اور ان دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا‬
‫مگر میرے دماغ پر مہری ھی چھائی ھوئی تھی جبکہ عظمی کی گانڈ ہل ہل کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر رھی تھی مگر‬
‫میرا دھیان کہیں اور ھی تھا‬
‫راستے میں عظمی نے کافی دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی اور ہنسی مزاق کا ماحول بنایا مگر میں سیریس ھی‬
‫رھا‬
‫تو عظمی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کیا ھوا سکول سے مار پڑی ھے یا طبعیت خراب ھے‬
‫مگر میں نے اسے ٹال مٹول کردیا‬
‫ایسے ھی ہم گھر پہنچ گئے‬
‫دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے کھیتوں کی فصلیں بھی کٹ چکی تھی بلکہ اسکی جگہ نئی فصل بھی کھیت سے سر اٹھا‬
‫رھی تھی‬
‫اسد روز مجھ سے پوچھتا سنا آج مالش کی کوئی فرق پڑا کہ نھی پڑا کبھی کبھار وہ میرا لن بھی پکڑ کر چیک کرلیتا اور‬
‫مجھے کہتا واہ یار بڑی جلدی تیل اثر کررھا ھے اور دوبارا اسد کے گھر جانے کا بھی اتفاق نہ ھوا‬
‫اسکی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ دوسرے دن ماسٹر جی نے میری اچھی بھلی کالس لی تھی اور دوبارا سکول سے بھاگنے پر‬
‫سکول سے نکال دینے کی دھمکی بھی ملی تھی اس لیے میری دوبارا جرات نھی ھوئی‬
‫فصلیں ابھی چھوٹی تھی اس لیے مجھے عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا بھی موقع میسر نہ آیا‬
‫اور روز جاتے ھوے باجی صدف کی گانڈ اور آتے ھوے عظمی اور کبھی نسرین کی گانڈ کا نظارا ملتا رھتا‬
‫وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ پتہ ھی نہ چال کہ کب ساالنہ پیر سر پر آگئے‬
‫پڑھائی میں جتنا تیز پہلے تھا مگر اسد کی دوستی کی وجہ سے اب اتنا ھی ناالئک ھوگیا تھا‬
‫پیپروں کے شروع ھونے میں ایک مہینہ رھ گیا تھا‬
‫اور موسم بھی کافی سرد ھوچکا تھا‬
‫میں نے عظمی کو بتایا کہ یار میری تو پیپروں کی تیاری ھی نھی ھورھی میں تو اس سال فیل ہو جاوں گا‬
‫تو عظمی نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ باجی صدف کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلے جایا کرو‬
‫مجھے اسکا مشورہ کافی مفید لگا اور ویسے بھی میں باجی صدف کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے ترسا رھتا تھا‬
‫میں نے امی سے بات کی کہ شہر کی پڑھائی بہت مشکل ھے اس لیے مجھے بھی باجی صدف کے پاس ٹیویشن رکھوا دو‬
‫امی نے بھی حامی بھر لی کہ میرے ُپتر نوں پڑائی دا کناں فکر اے‬
‫دوسرے دن سے میں نے ٹیوشن جانا شروع کردیا میں جب بھی باجی صدف کہ گھر جاتا تو باجی صدف ویسے ھی میری‬
‫گال پر چٹکی ًال زمی کاٹتی اور میں انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھتا‪.‬‬
‫اب یہ چمک کیسی تھی مجھے اس کا اندازہ لگانا مشکل ھو رھا تھا کیوں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ‬
‫کرتی جس کی وجہ سے میں فائنل ڈسیزن لے سکتا‬
‫مگر ایک بات تھی جو میں نے نوٹ کی کہ باجی صدف اپنے مموں پر دوپٹہ نھی لیتی تھی اور کام چیک کروانے جب میں‬
‫انکے پاس جاتا تو اسکے گلے سے انکے مموں کا اوپر واال حصہ صاف نظر آتا‬
‫تھا‬
‫اس کے چہرے کی نسبت اسکے مموں واال حصہ ذیادہ سفید تھا‬
‫ایک دن ہم ٹیوشن کے لیے باجی صدف کے گھر گئے تو باجی صدف گھر میں نظر نھی آئی تو انکی امی نے بتایا کہ تم‬
‫لوگ بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو تمہاری باجی نہا رھی ھے‬
‫انکا واش روم بیرونی دروازے کے بلکل ساتھ ھی تھا‬
‫ہم اپنی جگہ پر بیٹھ کر کتابیں بیگ میں سے نکالنے لگ گئے‬
‫تو باجی صدف کی امی نے مجھے آواز دی کے یاسر بیٹا بات سنو میں جلدی سے اٹھا اور انکے پاس پہنچ گیا تو آنٹی نے کہا‬
‫کہ بیٹا‬
‫پوڑی ال کے ٹارے توں چھیٹیاں تھلے ُسٹ دے‬
‫)‬
‫(سیڑی لگا کر واش روم کے بلکل سامنے بیرونی دیوار کے ساتھ بنے برآمدے سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں اتار دو)‬
‫میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھو ے کہا اچھا آنٹی جی ابھی اتار دیتا ھوں‬
‫میں نے بانس کی بنی ھوئی سیڑھی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر برآمدے کی چھت پر چڑھ گیا اور سوکھی سوکھی‬
‫چھڑیاں ُچن ُچ ن کر نیچے پھینکنے لگ گیا‬
‫ابھی میں نے چند ھی چھڑیاں نیچے پھینکیں تھی کہ اچانک میرا دھیان واش روم کی دیوار پر بنے بڑے سے روشن دان پر‬
‫پڑا‬
‫جیسے ھی میری نظر روشن دان کے اندر پڑی کیوں کہ واش روم کی چھت برآمدے کی چھت سے کافی چھوٹی تھی اس‬
‫لیے چھت پر کھڑے ہوکر واش روم کا اندر کا سارا منظر بلکل صاف نظر آتا تھا حطہ کہ واش روم کا فرش بھی نظر آتا تھا‬
‫روشن دان کا سوراخ کافی بڑا سا تھا اور آگے کوئی جالی وغیرہ بھی نھی تھی‬
‫میں تو واش روم کے اندر کا منظر دیکھتے ھی رھ گیا‬
‫کی صدف بلکل ننگی کھڑی تھی‬
‫)دوستو ایک بات یاد رکھنا جس آنٹی اور جس باجی پر نیت خراب ھوگئی تھی انکو میں صرف نام سے پکاروں گا‪،،،،‬‬
‫صدف ٹانگیں کھولے کھڑی اپنی پھدی پر کچھ لگا رھی تھی مجھے اسکا ایک مما نظر آیا‬
‫میں نے جلدی سے پہلے نیچے دیکھا تو مجھے آنٹی کہیں نظر نھی آئی اور عظمی اور نسرین اور باقی کے بچے دوسری‬
‫طرف منہ کرکے پڑھنے میں مصروف تھے‬
‫میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور تھوڑا پیچھے ھوکر واش روم میں دیکھنے لگ گیا‬
‫اب نیچے سے کوئی مجھے دیکھ نھی سکتا تھا کہ میں اوپر کیا کررھا ھوں‬
‫صدف بڑے آرام سے پھدی پر بال صفا پوڈر کا لیپ کررھی تھی کچھ دیر بعد صدف ٹانگیں پھال کر دیورا کے ساتھ ٹیک‬
‫لگا کر لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی‬
‫اب صدف کے نیم گورے ممے بلکل صاف نظر آرھے تھے اسکے مموں پر براون سا دائرہ بنا ھوا تھا اور چھوٹے چھوٹے‬
‫نپل تھے پیٹ بلکل اندر کی طرف گیا ھوا تھا‬
‫کچھ دیر صدف ایسے ھی بیٹھی رھی‬
‫تب میں اٹھا اور کچھ چھڑیاں اور اٹھا کر نیچے پھینک دیں‬
‫اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا‬
‫تب صدف پانی کے ٹب سے ڈبے میں پانی ڈال کر پھدی والے حصہ کو دھو رھی تھی اور ذور ذور سے پھدی کو مل مل‬
‫پھر پانی ڈال دیتی‬
‫پھر صدف کھڑی ھوئی اور تولیہ لے کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی‬
‫مجھے صرف اسکی ٹانگیں ھی نظر آرھی تھی اور ایک مما نظر آرھا تھا کیوں کے صدف سائڈ پوز سے کھڑی تھی‬
‫پھدی صاف کر کے وہ پھر ٹانگیں کھول کر تھوڑا نیچے جھک کر اپنی پھدی کا معائنہ کرنے لگ گئی کہ کوئی بال رھ تو‬
‫نھی گیا‬
‫جب اچھی طرح اس نے تسلی کرلی تو پھر سے لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی اور اپنے بالوں کی پونی کھولی اور جھٹکے‬
‫سے سر کو دائیں بائیں کر کے بالوں کو کھالرنے لگی صدف‬
‫جیسے جیسے بالوں جھٹکتی اسکے ممے بھی ویسے ھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے‬
‫میرا لن ایکدم اکڑ گیا اور میں ھاتھ سے لن کو حوصلہ دینے لگ گیا‬
‫پھر صدف سر جھکا کر پانی کے ڈبے بھر بھر کر اپنے سر کے بالوں کو گیال کرنے لگ گئی پھر اس نے کپڑے دھونے‬
‫واال صابن اٹھایا اور سر کے‬
‫بالوں کو لگانے لگ گئی اور اچھی طرح صابن لگا کر بالوں کو منہ کے آگے کر کے سر جھکا کر بالوں کو دونوں‬
‫ھاتھوں میں لے کر ھاتھ آپس میں رگڑنا شروع کردیا کچھ دیر ایسے ہی کرتی رھی‬
‫اور میں وقفے وقفے سے چھڑیاں اٹھا کر نیچے پھینکتا رھا‬
‫پھر صدف نے بالوں کو اچھی طرح سے دھویا اور اپنے جسم پر پانی ڈالنا شروع کردیا‬
‫اور ساتھ ساتھ کبھی اپنے مموں کو مسلتی کبھی نیچے ھاتھ لیجا کر پھدی کو مسلتی اور کبھی کمر کے پیچھے ھاتھ لیجا کر‬
‫کمر کو مسلتی‬
‫واش روم میں ‪ 100‬واٹ کا بلب جل رھا تھا جس کی گولڈن الئٹ میں صدف کا جسم چمک رھا تھا‬
‫صدف کے ممے ٹن ٹنا ٹن کھڑے تھے اور ھاتھ لگانے کے بعد مستی سے جھومتے صدف نے جسم پر صابن لگانا شروع‬
‫کردیا اور پھر صابن کو اچھی طرح پورے جسم پر ملنا شروع کردیا صدف جب مموں کو مسلتی تو اپنی انگلی اور‬
‫انگوٹھے سے ممے کے نپل کو بھی پکڑ کر مسل دیتی ایسے اس نے کئی بار کیا‬
‫اور جب پھدی پر صابن کی مالش کرتی تو ایکدم اپنی آنکھیں بند کر کے سر کو دیوار کے ساتھ لگا لیتی کافی دیر یہ ھی سین‬
‫چلتا رھا‬
‫پھر صدف تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی گانڈ کو اچھی طرح ملنے لگ گئے اسکی گانڈ کیا تھی کمر کے حساب سے کمر‬
‫کے نیچے سپیڈ بریکر ھی تھا‬
‫اگر اسکی گردن سے ھاتھ پھیرتے ھوے کمر سے نیچے لیجا کر گانڈ کہ اوپر سے گزاریں تو ایسے ھی لگے گا کہ‬
‫کارپٹ روڈ پر اچانک سپیڈ بریکر آگیا ھے‬
‫گانڈ کو اچھی طرح مل لینے کے بعد اس نے تین انگلیاں گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر ھاتھ کو اوپر نیچے کر کے دراڑ کی‬
‫صفائی کرنے لگ گئی‬
‫پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کردیا‬
‫میں فل مست ھوکر پورا دھیان لگا کر صدف کے سیکسی جسم کا نظارہ کر رھا تھا اور اس کے انگ انگ کو باخوبی زہن‬
‫نشین کررھا تھا‬
‫صدف نے سارے جسم کو اچھی طرح سے دھو لیا تھا اور اب وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ھوئی جب وہ کھڑی ھوئی تو‬
‫اسکے دودہ کے پیالے ایسے چھلکے جیسے ابھی پیالوں سے سارا دودہ اچھل کر باہر گر جاے گا صدف نے تولیہ روشن‬
‫دان میں لٹکا دیا تھا‬
‫صدف نے جیسے ھی میری طرف منہ کر کے تولیہ پکڑنے کے لیے ھاتھ آگے بڑھایا تو اسکی سیدھی نظر مجھ پر پڑی اور‬
‫نظروں سے نظریں ملی اور صدف نے جلدی سے تولیہ کھینچا اور اپنے مموں کے آگے کرتے ھوے ایک زور دار چیخ‬
‫ماری‬
‫اور ساتھ ھی مجھے آنٹی کے واش روم کی طرف دوڑے انے کی آواز آئی‬
‫؟؟؟؟؟؟؟‬
‫جیسے ھی میں نے صدف کی چیخ سنی اور ساتھ ھی آنٹی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو‬
‫میری تو گانڈ پھٹ گئی‬
‫میں خود کو کوسنے لگ گیا‬
‫کہ‬
‫پین یکہ صبر نئی ہوندا سی ہن پتہ لگے گا ہور ویکھ ممے تے پھدیاں‬
‫خیر مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے جلدی جلدی سے تین چار چھڑیوں کے بنڈل اٹھاے اور نیچے پھینک کر‬
‫جلدی سے سیڑھی سے اتر کر نیچے صحن میں آگیا تو میں نے واش روم کی طرف دیکھا تو آنٹی عظمی اور نسرین بھی‬
‫دروازے کے باہر کھڑی صدف سے پوچھ رھی تھی کیا ھوا مگر اندر سے کوئی آواز نہ آئی میں جلدی سے جاکر اپنی جگہ‬
‫پر بیٹھ گیا اور کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا‬
‫پڑھتا کیا میری تو ڈر کے مارے گانڈ پھٹ رھی تھی‬
‫مجھے تو یہ سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کروں کیا اور میرے ساتھ ھوگا کیا‬
‫‪،،‬‬
‫اتنے میں صدف سر کے بالوں کو تولیہ لپیٹے واش روم سے نکلی اور کسی سے بھی کچھ بات کیے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی‬
‫میرے پاس سے گزر کر کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫اور کمرے کے دروازے پر کھڑی ھوکر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے میں داخل ہو‬
‫کر ذور سے دروازہ بند کردیا‬
‫میری تو بیٹھے کی ٹانگیں کانپ رھی تھی کہ پتہ نھی آنے واال وقت کیسا ھوگیا صدف اور اسکی امی میرے ساتھ کیا کرے‬
‫گی صدف کا ابو تو تھا بھی بڑے غصے واال اور بدمعاش ٹائپ کا تھا‬
‫اتنے میں عظمی اور نسرین بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے انجان بنتے ھوے عظمی سے پوچھا کہ تم لوگ کدھر گئے‬
‫تھے تو عظمی بولی تمہیں باجی کی چیخ نھی سنائی دی تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ نھی میں تو ٹارے کے اوپر‬
‫چڑھ کر چھیٹیاں پھینک رھا تھا‬
‫تو کیا ھوا تھا باجی نے چیخ کیوں ماری تھی‬
‫تو صدف نے منہ بسورتے ھوے کہا پتہ نھی آنٹی نے پوچھا بھی تھا مگر وہ ڈری سی اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ بولی‬
‫ھی نھی‬
‫تب آنٹی کی مجھے آواز آئی‬
‫کہ یاسر‬
‫میں نے گبھراے ھوے آنٹی کی طرف بنا دیکھے کہا‬
‫ججججی آنٹی ججججی تو آنٹی بولی‬
‫پتر اینیاں وڑیاں چھیٹیاں تھلے ُسٹ دیتیاں ای میں تے تینوں تھوڑیان جیاں کیاں سی‬
‫تو میں اب آنٹی کو کیا بتاتا کہ تمہاری بیٹی کی مہربانی ھے جو اس نے مجھے اپنے دھیان لگائی رکھا تھا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے پتہ نھی چال کہو تو دوبارا اوپر رکھ دوں‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫نئی رہن دے کل کم آ جان گیاں پہلے ای تھک گیا ھویں گا‬
‫میں خاموش رھا اور پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگ گیا جبکہ میرا دل دماغ صدف کے کمرے کی طرف تھا‬
‫اور سوچ رھا تھا کہ اب سالی باہر نکل کر پتہ نھی کیا ہنگامہ کرے گی‬
‫تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھال اور صدف نے منہ باھر نکال کر اپنی امی کو آواز دی اور دوبارا دروازہ بند کردیا‬
‫آنٹی جلدی سے کمرے کی طرف چلی گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ھوگئی‬
‫میری تو حالت ایسے ھوگئی کہ کاٹو تو جسم میں لہو نھی‬
‫رہی سہی کسر بھی نکل گئی‬
‫میرا دماغ پھٹنے واال ھوگیا کہ‬
‫کاکا اب خیر نھی صدف نے اپنی ماں کو بتانے کے لیے اندر بالیا ھے اور اس نے اپنی ماں کو‬
‫سب کچھ بتا دینا ھے اور آنٹی نے اپنے بندے کو‬
‫تے کاکا تینوں فیر وجے ای وجے‬
‫اونے تے تینوں ویسے ای وڈ کے رکھ دینا اے‬
‫ایسے ھی الٹے سیدھے خیال میرے دماغ میں چل رھے تھے‬
‫مجھے کچھ اور تو نہ سوجا‬
‫میں نے جلدی سے کتابیں اپنے بیگ میں رکھنا شروع کردی اور ایکدم سے اٹھا اور بیگ کندھے سے لٹکایا اور باہر کو چلدیا‬
‫تو عظمی نے حیران ھوتے ھوے مجھے آواز دی کے کدھر جارھے ھو تو میں نے کہا میرے سر میں درد ھورھا ھے‬
‫مجھے چکر آرھے ھیں باجی کو بتا دینا میں گھر جارھا ھوں‬
‫میں نے عظمی کا جواب سنے بغیر باہر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور کب میں گھر پہنچا مجھے نھی پتہ رات کو‬
‫مجھے بہت تیز بخار چڑھ گیا میرا جسم کانپ رھا تھا‬
‫عظمی لوگ دوسرے دن سکول ٹائم ہمارے گھر آئیں اور امی سے پوچھنے لگ گئی کہ یاسر ابھی تک تیار نھی ھوا تو امی‬
‫نے بتایا کہ وہ تو کل کا بیمار پڑا ھے تو عظمی اور نسرین دونوں کمرے میں ائیں اور میرے ماتھے ہر ھاتھ رکھ کر بخار‬
‫چیک کرنے لگ گئی‬
‫میں نے کہا تم جاو سکول میں نے آج نھی جانا‬
‫تو وہ دونوں بولیں ہم اکیلی کیسے جائیں گی‬
‫نہ بابا ہمیں تو ڈر لگتا ھے تو میں نے کہا ڈر کیسا باجی بھی تو ساتھ ھی جاے گی تو وہ دونوں بولیں‬
‫جاتے ھی ساتھ ھونگی واپسی پر تو اکیلی ھی آئیں گی‬
‫ہم بھی آج چھٹی کرلیتی ہیں کل تمہارے ساتھ ھی جائیں گی تو میں خاموش ھوگیا اب میں کیا انکو کہتا مجھ سے تو ہال نھی‬
‫جارھا تھا بخار کی شدت اتنی تھی‬
‫وہ دونوں کچھ دیر بیٹھی اور اپنے گھر بتانے کے لیے چلی گئی کہ میری طبعیت نھی سہی ھے‬
‫کچھ ھی دیر بعد آنٹی فوزیہ گبھرائی ھوئی کمرے میں آئی انکے پیچھے ھی عظمی اور امی بھی تھیں‬
‫آنٹی نے آتے ھی میرا منہ سر چومنا شروع کردیا اور بولی‬
‫ھاے ھاے کی ھویا میرے شزادے نوں کیویں بخار نال تپدا پیا اے‬
‫میں انٹی کے اتنے بے تحاشا پیار اور فکر کو دیکھ کر رونے لگ گیا‬
‫آنٹی نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینے کے ساتھ لگا کر مجھے چپ کروانے لگ گئی‬
‫میں اور ذور ذور سے بچوں کی طرح رونے لگ گیا‬
‫تو عظمی کہنے لگی‬
‫امی ایدھے سارے ڈرامے نے کل چنگا پال سی‬
‫تو آنٹی نے غصہ سے نیچے جھک کر اپنی چپل اٹھائی اور عظمی کو دے ماری اور بولی‬
‫چل دفعہ ھو کسے ُک تی دی بچی میرا الل بخار نال ادھ موا ھوگیا تے تینوں بکواس کرن دئی پئی اے‬
‫عظمی کو جب جوتا پڑا تو‪.‬‬
‫ناچاھتے ھوے بھی روتے روتے میری‪ .‬ہنسی نکل گئی اور عظمی مجھے گھورتے ھوے اہنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے برا‬
‫سا منہ بنا کر ایک سائڈ پر کھڑی ھوگئی‬
‫اور آنٹی نے میرا سر پکڑا کر پھر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرنے لگ گئی‬
‫آنٹی کا پیار دیکھ کر مجھے خود پرغصہ آنے لگ گیا کہ‬
‫میں کتنا برا ھوں کہ آنٹی مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور میرے لیے کتنی فکر مند ہیں اور میں کتنا‬
‫گھٹیا اور گندا انسان ھوں جو ہر وقت انکے بارے میں غلط سوچتا رھتا ھوں اور انکو گندی نظر سے دیکھتا رہتا ہوں‬
‫مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا اور شرمندگی سے اپنے آپ میں مرا جارھا تھا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (29‬‬
‫‪..Post ko like aur share Lazmi karen‬‬
‫خیر آنٹی دو گھنٹے کے قریب میرے پاس ھی بیٹھی رھی اور مجھے اپنے ھاتھ سے دلیہ کھالیا‬
‫پھر آنٹی شام کو آنے کا کہہ کر مجھے پھر ڈھیر سارا پیار کرکے چلی گئی اور میں اکیال لیٹا آنے والے اچھے برے وقت کے‬
‫بارے میں سوچتا رھا‬
‫اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر صدف نے اپنی امی کو بتایا ھوتا تو الزمی عظمی یا نسرین کو بھی پتہ چل جانا تھا مگر انہوں‬
‫نے میرے ساتھ ایسی کوئی بات نھی کی‬
‫پھر نیگٹیو سوچ نے آگھیرا کہ بچو اگر عظمی لوگوں کے سامنے بات کرنا ھوتی تو صدف نے اپنی ماں کو اندر کمرے میں‬
‫کیون بالنا تھا‪ .‬وہ باہر آکر بھی کہہ سکتی تھی‬
‫انہیں سوچوں میں مجھے پتہ ھی نھی چال کہ میں کب سو گیا‬
‫شام کو میری بہن نے مجھے اٹھایا کہ تیری ٹیویشن والی باجی اور اسکی امی ائی ہیں‬
‫ان دونوں کا سن کر میری تو ٹانگیں پھر کانپنے لگ گئیں‬
‫اور میں نے کانپتے ھوے مری ھوئی آواز نکالتے ھوے اپنی بہن نازی کو کہا کہ انکو کہو کہ میں سورھا ھون‬
‫تو وہ غصہ سے بولی‬
‫صبح کے سوے مرے ھو ابھی تک نیند نھی پوری ھوئی‬
‫وہ اتنی دور سے ائی ہیں اور تم نواب زادے بہانے بنا رھے ھو‬
‫میں نے غصہ سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ‬
‫جانی اے کہ نئی‬
‫تو وہ پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا آنٹی اور صدف کمرے میں داخل ھویں‬
‫انکو دیکھتے ہی میرا رنگ اڑ گیا اور اتنے میں انٹی اگے بڑھیں اور‬
‫اور میرے سر پر پیار دیتے ھوے بولیں کیا ھو یاسر بیٹا کل تو اچھے بھلے تھے‬
‫ہمیں بتا کر بھی نھی آے چپ کر کے گھر آگئے تھے‬
‫میری وجہ سے تمہاری طبعیت خراب ھوئی ھے نہ میں تمہیں چھیٹیاں اتارنے کو کہتی نہ تمہارا یہ حال ھوتا‬
‫صدف میرے سامنے کھڑی بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کررھی تھی‬
‫میں ڈرتا اس سے نظریں بھی نھی مال رھا تھا‬
‫پھر آنٹی صدف کو یہ کہہ کر چلی گئی‬
‫کہ‬
‫تم اپنے ویرے کے پاس بیٹھو میں ذرہ آپاں کے پاس جارھی ہوں‬
‫مجھے یہ سن کر پھر ایک جھٹکا سا لگا کہ شاید آنٹی امی کو میری کرتوت بتانے جارھی ھے‬
‫تو آنٹی کے جاتے ھی صدف مجھے گھورتے ھوے میرے پاس میرے کولہوں کے پاس بیٹھ گئی اور آگے ہوکر میرے گال‬
‫پر ذور سے ُچ ٹکی کاٹ کر بولی‬
‫ہاں جی سناو بے شرم ویرے کیویں بخار چڑیا‬
‫تو میں شرم سے ڈوبا جارھا تھا چپ کر کے منہ دوسری طرف کر کے رونے لگ گیا‬
‫تو صدف نے ایک ھاتھ میرے دائیں طرف میری‬
‫بغل کے قریب رکھا اور میرے اوپر ُج ھک کر اپنا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پار کرتے ھوے ایک ھاتھ سے میرا چہرہ‬
‫پکڑ کر سیدھا کیا اس حالت میں صدف کے ممے میرے سینے سے کچھ فاصلے پر ھی تھے‬
‫جبکہ اسکی گانڈ میرے کولہوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور اسکے ناف کا حصہ بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگا ھوا تھا‬
‫صدف بولی‬
‫بچو ذیادہ ڈرامے نہ کر‬
‫اب تجھے بڑے رونے آرھے ہیں جب بے شرموں کی طرح مجھے ننگا نہاتے ھوے دیکھ رہا تھا تب تیرا یہ رونا کہاں تھا‬
‫شکر کرو میں نے امی کو یاں ابو کو نھی بتایا ورنہ جو تیرا حال ھونا تھا‬
‫تجھے پتہ نھی‬
‫ابھی تیری عمر ھے یہ کام کرنے کی جو تو کررھا ھے‬
‫شرم کر اپنی عمر دیکھ اور کام دیکھ ابھی سے تجھے جوانی چڑھی ھوئی ھے بڑا ھوکر کیا کرے گا‬
‫صدف نے ایک ھی سانس میں مجھے لمبا سا لیکچر دے دیا‬
‫مجھے یہ سن کر کچھ حوصلہ ھوگیا کہ صدف نے گھر نھی بتایا اور شکر ادا کرنے لگ گیا‬
‫صدف اسی سٹائل میں میرے اوپر جھکی ھوئی میرے منہ کو اپنی انگلیوں اور انگھوٹھے سے ایسے دبایا ھوا تھا جیسے‬
‫بچے کو زبردستی دوائی پالنے کے لیے اسکا منہ ایسے پکڑ کر زبردستی کھولتے ہیں‬
‫میں سکتے کے عالم میں صدف کے چہرے کی طرف دیکھی جارھا تھا جس کے چہرے پر نہ پیار تھا نہ ھی غصہ‬
‫پھر صدف میرے منہ کو ہالتے ھوے بولی‬
‫بتا اب تیرا کیا کروں‬
‫بتاوں اپنے ابو کو یا تیری امی کو‬
‫تو میں چت لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے اوپر جھکی ھوئی تھی اسکی چھاتی میرے سینے سے تھوڑا ھی اوپر تھی‬
‫میرے ھاتھ بلکل سیدھے چارپائی پر تھے‬
‫میں نے صدف کی جب پھر دھمکی سنی تو میں اس سے ھاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ اوپر کر نے‬
‫لگا تو میرے دونوں ھاتھوں کی انگلیاں پہلے اسکے پیٹ سے ٹکرائیں پھر دونوں مموں سے نپل کے نچلے حصہ سے‬
‫ٹکرائیں اور نپلوں کو چھوتی ھوئی صدف کے چہرے کے سامنے کرکے ھاتھ جوڑ لیے میری دونوں کہنیاں اب بھی صدف‬
‫کے دونوں مموں کے ساتھ ٹچ تھی یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ صدف کو سنبھلنے کا موقع ھی نھی مال‬
‫مگر یہ سب ھوا غیر ارادی طور پر تھا‬
‫میں نے روتے ھوے ھاتھ جوڑتے کہا باجی مجھے معاف کردو‬
‫****** کی قسم میں نے جان بوجھ کر آپ کو نھی دیکھا تھا بس ایسے انجانے میں مجھ سے غلطی ھوگئی‬
‫پلیز آئندہ کبھی بھی ایسا نھی ھوگا‬
‫پلیز کسی کو مت بتانا‬
‫تو صدف بولی بس بس زیادہ ڈرامے مت کرو‬
‫مجھے سب پتہ ھے‬
‫کہ تم مجھے کن نظروں سے دیکھتے ھو‬
‫اس دن جب میں گری تھی تب بھی کیا اچانک ھی سب ھوا تھا‬
‫اور روز جاتے ھوے میں نوٹ کرتی رہتی ھوں تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں‬
‫میں یہ سب سن کر مزید شرمندہ ھونے لگ گیا‬
‫اچانک مجھے اپنی کہنیوں پر صدف کے مموں کا لمس محسوس ھوا اور میرا ایکدم دھیان اسکے مموں پر چال گیا اور اسکی‬
‫گانڈ تو پہلے ھی میرے ساتھ جڑی ھوئی تھی اتنا خیال آتے ھی میرے لن ساب نے انگڑائی لی اور کھڑا ھوگیا‬
‫صدف اپنی دھن میں مجھے گنوای جارھی تھی کہ‬
‫جب تم کام چیک کروانے آتے ھو تب بھی تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں اب اتنے معصوم بن رھے ھو‬
‫اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتاو جب میں سکول جاتے گرنے لگی تھی تو تم نے جب مجھے پیچھے سے جپھی ڈالی تھی تو‬
‫تمہاری قمیض کیوں اوپر ھوئی ھوئی تھی‬
‫میں نے کہا مجھے نھی پتہ‬
‫کہاں سے اور کیوں قمیض اوپر تھی‬
‫صدف بولی اچھا سب بھول گئے میں بتاوں کس چیز نے تمہاری قمیض اوپر کی ھوئی تھی‬
‫اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھتا صدف نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے اکڑے ھوے لن کو پکڑ لیا جو تیل کی مالش کر‬
‫کر شیش ناگ بن چکا تھا‬
‫صدف نے لن کو پکڑتے ھوے کچھ کہنے کے لیے لب ہالے اس کے منہ سے بس اتنا ھی نکال‬
‫اسسسسسسسسس کییییییی وجہہہہہہہ‬
‫اور صدف کا منہ حیرانگی سے کھلے کا کھال رھ گیا‬
‫اور کچھ سیکنڈ اس نے میرے لن کو اچھی طرح سے ٹٹول کر چیک کیا کہ واقعی‪ .‬اسکے ھاتھ میں میرا ھی لن ھے‬
‫تو اسے ایک جھٹکا لگا اور جمپ مار کر کھڑی ھوگئی اور میرے اکڑے لن کو جو قمیض کو تمبو بناے کھڑا تھا‬
‫آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھی تھی اور پھر ایکدم اسے ہوش آیا اور چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بنا کچھ کہے باہر بھاگ‬
‫گئی‬
‫دوسرے دن میری طبیعت کافی بہتر ھوچکی تھی اور صدف کا خوف بھی تقریبا اتر ُچکا تھا‬
‫میں سکول کے لیے تیار ھونے لگ گیا امی نے مجھے کافی روکا کہ آج بھی چھٹی کر لو‬
‫مگر میں نے سکول جانے کا اصرار کر کے امی کو منا لیا اور تیار ھوکر آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا آنٹی سے سالم دعا‬
‫اور حال احوال بتانے کے بعد ہم تینوں گھر سے نکل آے اور میں سیدھا کھیت کی طرف جانے لگا تو عظمی نے میرا بازو‬
‫پکڑتے ھوے کہا کہ باجی کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے وہ ہمارا انتظار کررھی ھوگی تو میں نے کہا یار چلو وہ خود ھی‬
‫آجاے گے ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے‬
‫مگر عظمی اور نسرین کی ضد کی وجہ سے مجھے مجبورًا صدف کے گھر جانا پڑا ہم جب اندر داخل ھوے تو صدف‬
‫برقعہ پہنے تیار بیٹھی تھی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر باہر کی طرف چل پڑی ہم بھی اسکے‬
‫پیچھے پیچھے گھر سے نکل کر سکول کی طرف چل پڑے‬
‫دوستوں جہاں پہلے کپاس کی فصل ھوا کرتی تھی اب وہاں بھی مکئی کی فصل کاشت کردی تھی اور مکئی کا ان دوستوں‬
‫کو پتہ ھے جو گاوں میں رہتے ہیں کہ یہ فصل دنوں میں بڑھتی ھے اور تقریبا سات آٹھ فٹ ھوجاتی ھے‬
‫ہم آگے پیچھے چل رھے تھے میں سب سے پیچھے تھا اور میرے آگے عظمی تھی اور اس کے آگے صدف اور سب سے‬
‫آگے نسرین تھی‬
‫کچھ دور جاکر صدف کو پتہ نھی کیا ھوا وہ بہانے سے عظمی کو آگے کر کے خود پیچھے آگئی‬
‫اور مڑ کر مجھے دیکھا‬
‫اسکی آنکھوں میں مجھے واضح طور پر شرارت نظر آرھی تھی‬
‫مگر میں نے اسکے دیکھنے کا کوئی رسپونس نھی دیا اور‬
‫میں نے غور سے اسکی گانڈ کو ایک نظر دیکھا تو‬
‫آج اسکی گاند کافی باہر کو نکلی ھوئی تھی‬
‫میں نے دوبارا غور سے دیکھا تو واقعی ایسا ھی تھا‬
‫میں سوچ ھی رھا تھا کہ یہ کیا ماجرا ھے کہ‬
‫چلتے چلتے میری نظر اسکے پاوں کی طرف پڑی تو‬
‫آج وہ اونچی ہیل پہن کر آئی تھی جس کی وجہ سے اسکی گانڈ مزید باہر کو نکلی ھوئی تھی‬
‫اور وہ جب قدم آگے کو بڑھاتی تو اسکی گانڈ کا ایک حصہ جب اوپر کو جاتا تو ساتھ برقعے کو بھی کھینچ کر اوپر لے جاتا‬
‫اسکی سیکسی گانڈ دیکھ کر میرا تو دماغ خراب ھونے لگ گیا‬
‫جبکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ھوجاے آج کے بعد صدف کے جسم کو نھی دیکھنا کیوں کہ سالی کو پتہ نھی کیسے‬
‫پتہ چل جاتا تھا‬
‫خیر میں ناچاھتے ھوے بھی مسلسل نظر ٹکاے صدف کی گانڈ کو دیکھی جارھی تھا‬
‫کہ اچانک صدف رکی اور ایکدم پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا‬
‫اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر کے اشارے سے پوچھا کیا دیکھ رھے ھو‬
‫تو میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا‬
‫ایسا بس چند ھی سیکنڈ کے لیے ھوا تھا‬
‫اور صدف بڑی ادا سے منہ دوسری طرف کر کے پھر چلنے لگ گئی‬
‫بس ایسے ھی تانکہ جھانکی میں ہم سکول پہنچ گئے‬
‫کالس میں اسد مجھے بڑی گرمجوشی سے مال اور پوچھنے لگ گیا کہ کل کیوں نھی آے میں نے اسے بخار کا بتایا اور کچھ‬
‫دیر وہ میری خیر خبر لیتا رھا اور ہم پڑھائی میں مصروف ھوگئے‬
‫ھاف ٹآئم کے وقت ہم گراونڈ میں بیٹھ کر باتیں کررھے تھے کہ اسد نے پوچھا سنا پھر‪ .‬کیسی جارھی ھے لن کی مالش تو‬
‫میں نے کہا یار میرا لن تو واقعی اب پہچانا نھی جاتا کہ یہ میرا لن ھی ھے‬
‫جب کھڑا ھوتا ھے میری قمیض میں تنبو بن جاتا ھے‬
‫تو اسد فخر سے سر اوپر کر کے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بوال‬
‫دیکھا جگر میں نے کہا تھا نہ کہ یہ تیل نھی جادو ھے جادو‬
‫تو میں نے کہا ھاں یار واقعی میں تم سچ ھی کہتے تھے‬
‫اسد نے پھر مجھ سے پوچھا سنا لن سے مال شال نکلنا شروع ھوگیا‬
‫تو میں نے کہا یار میں نے دوبارا مٹھ ھی نھی ماری تو وہ ہنسنے لگ گیا‬
‫اور بوال کوئی حال نئی تیرا چیک تو کرنا تھا‬
‫تو میں نے کہا اچھا یار کبھی موقع مال تو چیک کروں گا‬
‫اور کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ھاف ٹائم ختم ھوگیا اور ہم پھر کالس میں چلے گئے‬
‫کالس میں کچھ خاص نہ ھوا چھٹی ھوئی اور میں عظمی لوگوں کو لے کر گھر آگیا‬
‫شام کو ہم ٹیوشن چلے گئے‬
‫صدف نے آج سفید سوٹ پہنا ھوا تھا اور بلیک جرسی پہنی ھوئی تھی جس میں اسکے ممے تنے ھوے تھے اور جرسی‬
‫کی وجہ سے ممے مزید بڑے بڑے لگ رھے تھے‬
‫صدف ہمارے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہماری طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی ذیادہ نظر مجھ پر ھی‬
‫تھی جیسے ھی میں سر اٹھا کر اسکے مموں کو دیکھتا تو سالی کو اپنی طرف ھی دیکھتا ھو پاکر شرمندہ سا ھوکر پھر‬
‫جلدی سے سر نیچے کر کے گود میں رکھی کتاب کو پڑھنے لگ جاتا‬
‫میں نے ایک بات پر غور کیا کہ اگر صدف کو پتہ ھے کہ میں بار بار اسکے مموں کو ھی دیکھ رھا ھوں تو‬
‫سالی مموں پر دوپٹہ کیوں نھی لیتی‬
‫پتہ نھی اسکے دل میں کیا تھا‬

‫کیوں میرا کڑا امتحان لے رھی تھی کس بات کی سزا مجھے دے رھی تھی‬
‫تبھی صدف کی امی کمرے سے نمودار ھوئی اور صدف کو کہا کہ میں زرہ درزن کے گھر جارھی ھوں تیرے سوٹ کا‬
‫پتہ کرنے تھوڑی دیر تک آجاوں گی‬
‫صدف کے دو بھائی تھے ایک الہور میں کام کرتا تھا جو مہینے میں ایک دفعہ ھی گھر آتا تھا‬
‫اور دوسرا اپنے ابو کے ساتھ بس ڈرائیور تھا‬
‫باپ بس چالتا تھا اور بیٹا کنڈیکڑ تھا‬
‫اس وقت گھر میں صدف اور میں اور عظمی اور نسرین اور محلے کے کچھ بچے تھے‬
‫صدف کی امی درزن کے گھر کا کہہ کر باہر چلی گئی اور صدف نے ایک بچے کو کہا کہ جاکر باہر کے دروازے کی کنڈی‬
‫لگا آے‬
‫اور پھر ہماری طرف متوجہ ھوکر بیٹھ گئی‬
‫اور وقفہ وقفہ سے بچوں کے نام لے لے کر انکو سبق یاد کرنے کا کہتی رہی‬
‫کچھ ھی دیر بعد صدف اٹھی اور کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫اور‬
‫تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے سر نکاال اور مجھے آواز دی کے یاسر میں نے کہا جی باجی‬
‫تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو‬
‫میں اچھا باجی کہتے ھوے اٹھا اور کمرے میں داخل ھوگیا‬
‫جب میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف مجھے کمرے میں نظر نہ آئی کمرے کے ساتھ ایک دروازہ تھا جو شاید سٹور روم‬
‫تھا‬
‫میں دروازے کی طرف چل دیا جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو‬
‫صدف پیٹی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی‬
‫تو میں اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال کہ باجی کہاں ھے ٹرنک جو اوپر رکھنا ھے تو وہ‬
‫آگے بڑھی اور میرا بازو پکڑ کر مجھے سٹور کی نکر کی طرف لے گئی اور پھر میرے سامنے اپنی بغلوں ہاتھ دے کر‬
‫ایسے کھڑی ھوگئی جیسے اسے بہت سردی لگ رھی ھو اور آہستہ سے بولی تم نے باز آنا ھے کہ نھی‬
‫میں نے حیران ھوکر پوچھا کے باجی اب میں نے کیا کیا ھے تو صدف جھٹ سے بولی‬
‫زیادہ معصوم مت بنو‬
‫میں تو جو تمہیں سمجھتی تھی تم تو میری سوچ کے بلکل برعکس نکلے‬
‫میں نے پھر کہا باجی کچھ بتائیں تو سہی کہ میں نے کیا کیا ھے‬
‫تو صدف بولی پہلے تو تم مجھے یہ باجی باجی کہنا بند کرو میں تمہاری باجی نھی سمجھے‬
‫کوئی اپنی باجیوں کو بھی اس نظر سے دیکھتا ھے‬
‫میں نے سر جھکا لیا‬
‫تو صدف آگے بڑھی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر بولی‬
‫سچ سچ بتاو تم چاھتے کیا ھو‬
‫میں نے سر جھکائے کہا کچھ نھی باجی‬
‫تو صدف بھی جھنجھال کر بولی پھر باجی‬
‫میں نے تمہیں کہا کہ مجھے باجی نہ کہو‬
‫تو میں نے سرجھکاے ھے کہا کہ اچھا اب نھی کہتا‬
‫تو صدف تھوڑے نرم لہجے میں بولی یاسر میری طرف دیکھو‬
‫میں نے سر اٹھایا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل رھے تھے‬
‫تو صدف نے پیار سے اپنے ایک ھاتھ سے میرے آنسو صاف کیے جبکہ دوسرا ھاتھ ابھی تک میرے ایک کندھے پر ھی تھا‬
‫اور بولی دیکھو یاسر تمہارے دل میں جو بھی ھے مجھے سچ سچ بتا دو‬
‫میں وعدہ کرتی ھوں کسی کو نھی بتاوں گی‬
‫مگر شرط یہ ھے اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھ کر سچ بتاو گے تب‬
‫تو میں نے کہا کچھ بھی نھی ھے ایسا‬
‫تو صدف بولی پھر جھوٹ‬
‫میں نے کہا نہ کہ اس وقت یہ سمجھو کہ ہم دونوں دوست ہیں‬
‫کیا تم مجھے اپنا دوست نھی بنا سکتے میں نے ہاں میں سر ہالیا تو‬
‫صدف بولی کہ دوستوں سے دل کی بات چھپاتے ہیں کیا‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬

‫)‪Update no (30‬‬
‫‪..Post ko like aur share Lazmi karen‬‬
‫میں نے ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتے ھو نھی میں سر ہالیا‬
‫تو صدف بولی‬
‫تو پھر مجھے بتاو اپنے دل کی بات‬
‫تو میں سمبھلتے ھوے کہا‬
‫کہ آپ ناراض ھوجاو گی تو‬
‫صدف بولی‬
‫یار جب میں خود کہہ رھی ھوں تو ناراض کیسے ھو جاوگی‬
‫پھر کچھ دیر صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ میں تمہیں اچھی لگتی ھوں‬
‫تو میں نے سر ہال کر ھاں میں جواب دیا تو صدف نے مجھے کندھوں سے ہالتے ھوے کہا‬
‫یہ کیا گونگوں کی طرح اشارے کررھے ھو زبان نھی ھے منہ میں‬
‫میں نے آہستہ سے کہا ھاں جی‬
‫تو صدف نے پھر پوچھا کہ کتنی اچھی لگتی ھوں تو میں نے کہا بہت اچھی لگتی ھو‬
‫تو صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ‬
‫میرے جسم کا کون سا حصہ تمہیں زیادہ اچھا لگتا ھے‬
‫تو میں نے کہا آپ سر سے پاوں تک ھی اچھی لگتی ھو‬
‫تو صدف بولی‬
‫پھر بھی کوئی حصہ تو ھوگا جو تم زیادہ اچھا لگتا ھے‬
‫تو میں نے اشارے سے اسکے مموں کی طرف انگلی کرتے ھوے کہا یہ‬
‫تو صدف نے پوچھا‬
‫اور‬
‫میں نے اسکی گانڈ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ‬
‫تو صدف نے کہا‬
‫اچھا جی‬
‫اور پھر صدف نے اپنے ممے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا یہ تمہیں کتنا کہ اچھا لگتا ھے‬
‫تو میں نے کہا بہت تو اچانک صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنے مموں پر رکھ کر اپنے ھاتھوں کو دبا دیا جس‬
‫سے اسکے ممے میری مٹھی میں بھینچے گئے‬
‫اور صدف کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی سسسسی اور بڑی سیکسی آواز نکال کر بولی لو پھر انکو اچھی طرح دباو‬
‫اندھا کا چاھے دو آنکھیں‬
‫میں نے آہستہ آہستہ صدف کے گول مٹول مموں کو دبانا شروع کردیا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی دباتا رھا اور صدف میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھے منہ چھت کی طرف کرکے آنکھیں بند کیے‬
‫سسسییی سسسییی کرتی رھی‬
‫میں نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھا‬
‫اور اپنا ایک ھاتھ صدف کی کمر پر رکھ کر اسے اپنی طرف کیا اور صدف نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور میری طرف‬
‫نشیلی آنکھوں سے دیکھا اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے صاف نظر آرھے تھے‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک جھٹکا دیا اور صدف میرے سینے سے لگ گئی اور ساتھ ھی میں نے اپنے‬
‫ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے‬
‫صدف کو فرنچ کس نھی کرنا آتی تھی اس لیے وہ اوپر اوپر سے میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی‬
‫میں نے بہت کوشش کی کے صدف کا اوپر واال یا نیچے واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لوں مگر وہ منہ ھی نھی کھول‬
‫رھے تھی بس ہونٹوں سے ہونٹ مال کر چومی جارھی تھی میرے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر تھے اور اسکے دونوں ھاتھ‬
‫میری کمر پر اور جسم بلکل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر ایک جسم بنے ھوے تھے میرا لن بھی نیچے سے تن کر صدف‬
‫کی پھدی کے اوپر ٹکریں مار مار کر اسے ھوشیار باش کر رھا تھا‬
‫تبھی میں نے صدف کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور زبان اسکے ہونٹوں پر پھیرنے لگ گیا اور زبان کی نوک‬
‫اسکے ہونٹوں کے بیچھ اندر کی طرف دبانے لگ گیا تھوڑی سی کوشش کے بعد اسکے نرم مالئم گالب کی کلی کیطرح‬
‫تھوڑا سا کھلے اور میری زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا اور میری زبان نے باقی کا راستہ خود ھی ہموار کر لیا اور کافی‬
‫ساری زبان اسکے منہ میں ڈال کر اسکا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے لگ گیا اور اپنی زبان‬
‫کو اسکے منہ کے اندر چاروں اطراف پھرنے لگ گیا اور کبھی اسکے زبان سے چھیڑ چھیڑ کرنے لگا جاتا‬
‫صدف بھی اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانا شروع ھوگئی اور میرا نیچے واال ہونٹ بھی چوسنے لگ گئی‬
‫منہ کے اندر زبان کی زبان کے ساتھ‪ .‬لڑائی جاری تھی اور باھر ھونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ لڑائی جاری تھی اور نیچے‬
‫سے لن اور پھدی ابھی تک ایک دوسرے سے مشورہ کرنے میں مصروف تھے اور صدف کے ممے میرے سینے میں دبے‬
‫ھوے تھے اور میرے ھاتھ اب اسکی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو جکڑے ھوے تھے اور صدف کا ھاتھ میری کمر پر تھا‬
‫اور دوسرا میری گردن کے اوپر بالوں میں‬
‫کہ اتنے میں اچانک باھر سے کمرے سے برتن گرنے کی آواز آئی اور ہم دونوں کو کرنٹ لگا اور ہوش میں آتے ھے‬
‫جھٹکے سے ایک دوسرے سے الگ ھوے‬
‫اور‬
‫صدف نے مجھے جلدی سے پٹیوں کے اوپر چڑھنے کو کہا میں بجلی سی تیزی سے جمپ مار کر پیٹی کے اوپر چڑھ گیا‬
‫اور ایسے ھی پیٹی کے اوپر پڑے ٹرنک کو ادھر ادھر کرنے میں مصروف ھوگیا‬
‫صدف نے خود سنبھاال اور اپنے کپڑے سہی کرتی ھوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی‬
‫میں کافی دیر ویسے ھی پیٹی کے اوپر بیٹھا رھا اور میرے کان باہر کی طرف کھڑے تھے اور میری ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫تقریبًا دس منٹ بعد صدف مسکراتی ھوئی سٹور میں داخل ھوئی اور مجھے یوں سہمے ھوے دیکھ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫تیری کیوں جان تے بنی ھوئی اے چل تھلے آجا ُک ش نئی ھویا بلی نے برتن پھینکے تھے‬
‫میں بلی کو گندی گالیاں دیتے ھوے شکر کرتے نیچے آگیا اور‬
‫صدف نے کہا کہ تم باہر جاکر بیٹھ جاو اور تھوڑی دیر تک سب کوچھٹی ھو جانی ھے تم گھر کا چکر لگا کر پھر آجانا‬
‫امی ابھی ایک گھنٹہ سے پہلے نھی آتی میں نے کہا آنٹی تو درزن کے پاس گئی تھی اتنی دیر کیسے لگائیں گی تو صدف‬
‫بولی‬
‫تمہیں میری امی کا نھی پتہ وہ بہت باتونی ھے تم بے فکر رھو اگر وہ آ بھی گئی تو میں انکو کہہ دوں گی کہ میں اکیلی تھی‬
‫اس لیے تمہیں روک لیا تھا‬
‫میں نے پھر ڈرتے ھوے انداز میں کہا کہ دیکھنا کہیں مروا نہ دینا تو صدف نے مجھے باھر جانے کے لیے دھکہ دیا کہ اب‬
‫جاو بھی میں سب سنبھال لوں گی اور پھر پیچھے سے آہستہ سے آواز دی کے یاسر جلدی آجانا‬
‫میں باہر آکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی مجھے غور سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫تمہیں اتنی سردی میں بھی پسینہ کیوں آیا ھوا ھے‬
‫تو میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر پھیرتے ھوے کہا کہ‬
‫تمہاری باجی صاحبہ نے اتنا بھاری ٹرنک جو مجھ سے اٹھوا کر پیٹی پر رکھوایا ھے‬
‫میں نے نھی کل سے پڑھنے آنا تو عظمی بولی کیوں کیا ھوا تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا کہ میں یہاں کام کرنے آتا‬
‫ھوں یاں پڑھنے‬
‫تو عظمی ہنستے ھوے بولی‬
‫کوئی بات نھی کسی کا کام کردینے سے تم چھوٹے تو نھی رھ جاو گے‬
‫کچھ دیر ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے اتنے میں صدف کمرے سے باہر نکلی اور سب کو چھٹی کرنے کا کہا‬
‫ہم نے جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں رکھی اور سالم لے کر باہر کو نکلنے لگے میں سب سے آخر میں تھا تو میں نے‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھا تو صدف نے مجھے ھاتھ کے اشارے سے جلدی آنے کا کہا اور میں نے اثبات میں سر ہالیا اور باہر‬
‫نکل آیا اور تیز تیز قدموں سے گھر پہنچا اور بیگ رکھتے ھی امی کو کہا کہ باجی صدف نے مجھے بلوایا ھے تو امی‬
‫نے کہا ابھی تو انکے ھی گھر سے آرھے ھو تو میں نے کہا کہ باجی نے کہا تھا کہ گھر بیگ رکھ کر جلدی آنا شاید انہوں‬
‫نے کچھ منگوانا تھا‬
‫تو امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا‬
‫دھند پڑنا شروع ھوجاتی ھے میں نے ابھی تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور بھاگتا ھوا صدف کے گھر پہنچ گیا اور دروازہ‬
‫کھوال اور اندر داخل ھوا تو صدف سامنے ھی چارپائی پر بیٹھی ھوئی دروازے کی طرف ھی دیکھ رھی تھی اور مجھے‬
‫اشارے سے دروازہ بند کرنے کا کہا تو میں نے دروازہ بند کردیا اور سنگلی کی بنی کنڈی کو لگا دیا‬
‫اور چلتا ھوا صدف کے پاس آگیا صدف کھڑی ھوئی اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے چلتا ھوا‬
‫کمرے میں داخل ھوا اور صدف نے کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا‬
‫اور مجھے کمرے میں بچھی چارپائی بیٹھنے کہا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے اسکے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے اب جرسی نھی پہنی ھوئی تھی‬
‫صدف نے میرا ھاتھ پکڑ کر کہا‬
‫تم کیا چیز ھو‬
‫میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں کیا ھوا تو وہ میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی‬
‫یہ کس کرنا کہاں سے سیکھا ھے تو میں نے کہا آپ سے‬
‫تو میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫چل شوخا‬
‫سچ بتاو کہاں سے سیکھا ھے تو میں کہا‬
‫صحیح کہہ رھا ھوں آپ سے کس کرتے وقت ھی مجھے پتہ ھی نھی چال کہ میں کیا کررھا ھوں اور ساتھ ھی میں نے اپنے‬
‫دونوں ھاتھوں سے اسکے بازوں کے نیچے سے سائڈ کیطرف سے جپھی ڈال دی اور اسکو پیچھے کی طرف دھکیل کر‬
‫چارپائی پر لٹا دیا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا تو صدف بولی چھوڑو مجھے کیا کررھے ھو میں نے اس لیے‬
‫تمہیں بلوایا ھے کیا‬
‫تو میں نے اسکی بات سنی ان سنی کر کے ایک ھاتھ سے صدف کا مما مسلنا شروع کردیا صدف بلکل سیدھی لیٹی ھوئی‬
‫تھی اور اسکی ٹانگیں نیچے فرش کی طرف لٹکی ھوئی تھی میں اسپر ترچھا لیٹا ھوا تھا میرا ایک بازو اسکی کمر کے‬
‫نیچے تھا اور دوسرا اسکے سینے پر اور میرا ھاتھ مسلسل اسکے ممے کو مسلی جارھا تھا‬
‫کچھ دیر بعد عظمی بولی یاسر تمہارا بازو میری کمر میں ُچ بھ رھا ھے اسے نکالو میں نے بازوں اس کی کمر کے نیچے‬
‫سے نکال کر اسکی گردن کے نیچے رکھ دیا اور تھوڑا اوپر ھوکر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنے لگا تو صدف نے‬
‫منہ دوسری طرف کر کے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھ لیا‬
‫اور نہ نہ میں سر ہالنے لگ گئی‬
‫میں نے اسکا مما چھوڑا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر منہ سے ہٹا دیا اور ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پر رکھ کر کسنگ شروع کردی‬
‫صدف کچھ دیر احتجاج کرتی رھی مگر پھر ٹھنڈی ھوکر میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے اسی دوران اسکی قمیض کو آگے‬
‫سے تھوڑا اوپر کیا اور ھاتھ قمیض کے اندر ڈال کر مموں تک لے گیا صدف نے میرا ھاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر اس‬
‫سے پہلے اسکا مما میرے ھاتھ میں آچکا تھا میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اس نے بریزیر بھی نھی پہنا ھوا تھا‬
‫یعنی سالی نے پوری تیاری کررکھی تھی بس نخرے کررھی تھی‬
‫عظمی کے ممے میرے ھاتھ سے بڑے تھے اس لیے پورا مما ھاتھ میں نھی آرھا تھا میں کبھی ممے کو دباتا کبھی اکڑے‬
‫ھوے نپلوں کو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر مسل دیتا‬
‫تب صدف لمبی لمبی سسکاریاں لیتی اور اففففف آہستہ کرو آرام سے کرو کہتی‬
‫اور پورے جوش سے میرے ہونٹ چوس رھی تھی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا میں نے اس کے ممے سے ھاتھ ہٹا کر‬
‫پیچھے اسکی کی کمر کی طرف لی گیا اور گردن کے پیچھے والے ھاتھ سے اسکی گردن کو اوپر کیا اور اسکو چارپائی پر‬
‫سیدھا کردیا اب ہم دونوں کی ٹانگیں بھی چار پائی پر تھیں‬
‫اور صدف بلکل سیدھا چارپائی پر لیٹی تھی جبکہ میں سائڈ لے کر اسکے اوپر تھا میں نے صدف کی کمر سے قمیض اوپر‬
‫کی طرف کردی اور پھر ھاتھ آگے الکر آگے سے بھی ساری قمیض اٹھا کر اسکے مموں سے اوپر کرتے ھوے اسکے گلے‬
‫تک کردی‬
‫اب صدف لے نیم گورے چھت کی طرف تنے ممے بلکل ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے‬
‫میں اسکے اتنے دلکش موٹے گول مٹول مموں کو دیکھ کر انپر ٹوٹ پڑا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنا شروع‬
‫کردیا صدف میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دبا رھی تھی اور نیچے سینے کو اوپر اٹھا اٹھا کر مزے لے لے کر‬
‫مجھے ممے چوسنے لو سگنل دے رھی تھی اور ساتھ ساتھ لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬
‫میں کبھی صدف کے اکڑے ھوے نپل پر زبان پھیرتا کبھی پورا مما منہ‬
‫میں لینے کی کوشش کرتا کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر میں نے اپنا ایک ھاتھ اسکے پیٹ پر رکھ کر اسکی ناف میں انگلی گھمانے لگ گیا‬
‫میں جیسے اسکی ناف کو چھیڑتا صدف اتنا ذیادہ مچلتی‬
‫پھر میں نے پھرتی سے اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیا اور یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ اس نے بھی میری طرح بس السٹک‬
‫ھی پہنی ھوئی ھے اس لیے میرا ھاتھ آسانی سے اندر چال گیا اور اسکی پھدی کی مالئم جلد سے ھوتا ھو اسکی پھدی کے‬
‫ہونٹوں پر جا پہنچا‬
‫میرا ھاتھ جیسے ھی صدف کی پھدی کے اوپر لگا صدف نے ایک زور دار جھر جھری لی لمبی سی ھاےےےےےےے‬
‫میں مر گئی کیا اور مجھے کس کر جپھی ڈال کر سر نھی نھی میں ہالنے لگ گئی‬
‫مگر میں اب کہاں رکنے واال تھا‬
‫میں نے محسوس کیا کہ صدف کی پھدی کے ہونٹ کافی گیلے ہیں جس سے میری انگلیاں اسکی پھدی کے اوپر چپک رھی‬
‫تھی‬
‫میں مسلسل اسکی مالئم ریشم سی نازک بالوں سے پاک پھدی کو مسل رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکے ایک ممے کو بے دردی‬
‫سے منہ کی مار مار رھا تھا‬
‫اور میرا لن اسکے پٹ میں گھسنے کی کوشش میں تھا جسکو صدف بخوشی سے برداشت کر کے مزے میں ڈوبی سسکیاں‬
‫لے رھی تھی کہ اچانک اس کی سسکیوں میں شدت پیدا ھوگئی‬
‫مجھے بھی جوش آگیا‬
‫میں نے لن کو مزید اسکے کولہے کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنے ھاتھ کی سپیڈ تیز کردی اور ایکدم سے‬
‫درمیان والی انگلی پھدی کے اندر تک گھسا دی جیسے ھی انگلی اندر گئی تبھی صدف کا چھوٹنے کا وقت سر پر تھا صدف‬
‫نے زور سے گانڈ کو اوپر کی طرف کر کے ایکدم نیچے چارپائی پر پھینکا‬
‫اور ھاےےےےےےےے امییییییک کی آواز آتے ھی صدف کہ جسم نے جھٹکے لینے شروع کردیے اور پھدی کو سکیڑ لیا‬
‫جس میں میری انگلی تھی اور انگلی ایسے تھی جیسے آگ کی بھٹی میں ھو اور ٹانگوں کو زور سے آپس میں بھینچ لیا اور‬
‫صدف نے اسی سمے اپنا ھاتھ نیچے کر کے میرے لن کو بھی ذور سے پکڑ لیا اور ذور ذور سے جھٹکے لینے لگی اور‬
‫ساتھ ھی سیییییی افففففف اممممم ہمممممم ھاےےےےےےےے کر کہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکی ٹانگوں جکڑا میرا ھاتھ اسکی‬
‫پھدی کے پانی اور منی سے گیال ھوگیا تھا‬
‫اسکی پھدی سے مسلسل پانی نکل رھا تھا‬
‫اب اسکا جسم وقفے وقفے سے ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رھا تھا‬
‫صدف کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھاے اور ساتھ ھی وہ بےجان سی ھوگئی‬
‫جیسے ھی اسکی ٹانگیں ڈھیلی ہوئی میں نے ہاتھ باہر نکال کر اس کی شلوار سے اپنے ھاتھ کو صاف کیا اور پھر سے‬
‫اسکے مموں کو چوسنا شروع کردیا‬
‫صدف پہلے تو کچھ بےچین سی رھی پھر کچھ ھی دیر بعد وہ دوبارا سے گرم ہونا شروع ھوگئی‬
‫میں نے آہستہ آہستہ سے صدف کی شلوار کو نیچے کھسکانا شروع کردیا‬
‫پہلے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور پھر آگے سے کھینچ کر گھٹنوں تک نیچے کردی‬
‫صدف نے تھوڑا احتجاج کیا مگر میں نے تھوڑی سی زبردستی کی اور شلوار نیچے کرنے میں کامیاب ہوگیا‬
‫اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی اور صدف کے اوپر آکر لن اسکی پھدی کے اوپر رکھنے لگا تو صدف نے جلدی سے‬
‫اپنا ھاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی یہ کیا کرنے لگے ھو پاگل تو نھی ھوگئے‬
‫تو میں نے کہا کچھ نھی ھوتا‬
‫تو اس نے کہا چھوڑو مجھے خبردار اگر اندر کیا مجھے برباد کرنا ھے‬
‫میں نے کہا اندر کرنے سے تم کیسے برباد ھوجاو گی کسی کو پتہ تھوڑا لگنا ھے‬
‫تو صدف بولی تم پاگل ھو جو میری بات نھی سمجھ رھے مجھے مارنا ھے‬
‫میں نے کہا یار بس تھوڑا سا اندر کروں گا ایک دفعہ ھاتھ تو پیچھے کرو تو صدف نھی میں سر ہالتے ھوے کہنے لگی‬
‫ہرگز بھی نھی کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ھو‬
‫میں کنواری ھوں شادی شدہ نھی جو کچھ نھی ھوگا‬
‫مگر میرے دماغ پر منی سوار تھی میں نے زبردستی صدف کا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے قریب کر دیا اس نے دوسرا ھاتھ‬
‫نیچے لیجانا چاھا مگر میں نے راستے میں اسکا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے پاس لیجا کر چارپائی پر دبا دیا اب میرے‬
‫دونوں ھاتھوں میں اسکی دونوں کالئیاں تھی اور صدف سر ادھر ادھر مار رھی تھی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر دائیں بائیں‬
‫کرتے ھوے میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رھی مگر مرد کے آگے عورت بے بس ھی ھوتی ھے میں نے اپنی‬
‫گانڈ ہال ہال کر لن اسکی پھدی پر سیٹ کرنا شروع کردیا مگر وہ نیچے سے ہلے جارھی تھی اور مجھے دھمکیاں دینے لگ‬
‫گئی کہ میں اپنی امی کو بتاوں گی ابو کی بتاوں گی مگر مجھ پر صدف کی دھمکیوں کا کوئی اثر نھی ھورھا تھا‬
‫مجھے جب بھی لگتا کہ لن سہی نشانے پر ھے تو میں ذور سے گھسا مارتا مگر لن پھدی سے سلپ ھوکر اس کے چڈوں کے‬
‫درمیان گھس جاتا‬
‫ایک تو صدف کی پھدی بہت گیلی تھی دوسرا جب بھی گھسا مارتا تو صدف اوپر کی طرف کھسک جاتی اور میرا وار خالی‬
‫جاتا‬
‫مگر جب بھی میرا لن اسکے چڈوں کے درمیان جاتا تو میرے جسم میں مزے کی لہر دوڑ جاتی‬
‫صدف اب رونے لگ گئی تھی اور مجھے اموشنل بلیک میل کرتے ھوے کہنے لگی‬
‫یاسر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے کو دوست بنایا ھے اور مجھے تم پر بہت بھروسہ تھا کہ تم میرے ساتھ کچھ‬
‫غلط نھی کرو گے‬
‫مگر تم بھی ہوس کے پجاری نکلے‬
‫کیا ملے گا تمہیں میری عزت برباد کرکے‬
‫میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی‬
‫اگر تم مجھے دوست سمجھتے ھو تو پلیز اندر مت کرنا‬
‫ورنہ میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھوں گی اور ساتھ ساتھ روئی جارھی تھی‬
‫مجھے بھی اب صدف کے چڈوں میں گھسے مارنے میں مزہ آرھا تھا‬
‫اس لیے میں نے بھی اندر کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ھوے کہا‬
‫اچھا یار نھی اندر کرتا مگر مجھے ایسے تو کرنے دو‬
‫تو صدف بولی ایسے بھی اندر جاسکتا ھے تو میں نے کہا یار ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ نھی اندر کرتا تو نھی کرتا‬
‫تو صدف بولی دیکھ لو یاسر اب میں تمہیں نھی روکوں گی‬
‫اگر تمہیں میری عزت پیاری ھوئی تو اندر نھی کرو گے‬
‫میں نے کہا یار مجھے تمہاری عزت پیاری ھے تو کہہ رھا ھوں کہ اندر نھی کرتا‬
‫صدف نے اب ہلنا بند کردیا تھا اور میں اب اسکی چڈوں کے بیچ ھی لن کو اندر باھر کر رھا تھا‬
‫میں اب صدف کی کالئیاں بھی چھوڑ دی تھی اور بلکل سیدھا اس کے اوپر لیٹ کر اسکی پھدی کو اپنے لن سے رگڑیں لگاتا‬
‫ھوا اوپر نیچے ھورھا تھا‬
‫مجھے بہت مزہ آرھا تھا‬
‫اب صدف کہ بھی آنکھیں بند ھونا شروع ھوگئی‬
‫میں گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ صدف کا پورا چہرہ چوم رھا تھا‬
‫آہستہ آہستہ میرے گھسوں میں شدت آرھی تھی اور چارپائی چیخ چیخ کر آہستہ کرنے کا کہہ رھی تھی‬
‫نیچے سے چارپائی کی چوں چوں کی آوزیں پورے کمرے میں گونج رھی تھی اور میں اب ایک ردھم سے گھسے ماری‬
‫جارھا تھا اور مزے کی شدت میں بھی اضافہ ھوتا جارھا تھا‬
‫صدف نے میری کمر کو ذور سے جکڑ رکھا تھا‬
‫کہ اچانک صدف نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں کس کر مالنا شروع کیا اور اسکے چڈوں نے میرے لن کو جکڑ لیا اور پھر‬
‫ڈھیال چھوڑ دیا‬
‫جب صدف نے میرے لن کو جکڑا تو میرا لن پھنس کے اسکے چڈوں میں گیا تو مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیان نھی کرسکتا‬
‫میں نے صدف کو کہا جانی ویسے ھی کرو‬
‫تو صدف نے پھر چڈوں کو آپس میں جوڑ کر جسم کو اکڑا لیا‬
‫میں گھسے مارتے ھوے بوال‬
‫ھاں ھاں ایسے ھی بڑا مزہ آرھا ھے‬
‫ایسے ھی رکھنا بس‬
‫تو صدف بھی فل نشے میں تھی اور ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں ملتے اور کبھی جدا ھوتے‬
‫صدف بڑی نشیلی آواز میں بولی یاسر‬
‫میں نے کہا‬
‫جی جان‬
‫صدف بولی مزہ آرھا ھے میں نے اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا ُبہہہہتتتت مزہ آرھا ھے‬
‫تمہیں بھی مزہ آرھا ھے‬
‫تو صدف نشے کی سی حالت میں بولی‪ .‬بہتتتت مزہ آرھا ھے‬
‫پھر وہ بولی یاسر مجھے چھوڑو گے تو نھی‬
‫میں نے کہا نھی جان‬
‫پھر بولی مجھے دھوکا تو نھی دو گے‬
‫میں نے کہا نھی جان‬
‫صدف پھر بولی‬
‫یاسر مجھے بدنام تو نھی کرو گے‬
‫میں نے کہا سوچنا بھی مت‬
‫پھر بولی‬
‫یاسر تم نے پہلے بھی کسی کے ساتھ کیا ھے‬
‫تو میں نے کہا نھی جان میرا بھی پہلی ھی دفعہ ھے‬
‫تو وہ بولی‬
‫سچ کہہ رھے ھو نہ میں نے کہا جی جان‬
‫تو صدف نیند کی سی حالت میں بولی‬
‫کھاو میری قسم‬
‫میں نے کہا‬
‫تمہاری قسم جان جی‬
‫پھر صدف کو ایکدم جوش چڑھا اور دونوں ھاتھون سے میرا چہرہ پکڑ کر بڑی سپیڈ کے ساتھ پورے چہرے پر چھوٹی‬
‫چھوٹی پاریاں کرنے لگ گئی اور پھر آنکھیں بند کر کے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ کس کے لگا لیا‬
‫میری گھسے مارنے کی سپیڈ بہت تیز ھوچکی تھی اور صدف کی بالوں سے صاف چکنی مالئم نرم پھدی کے ساتھ رگڑ‬
‫رگڑ کر اندر باھر ھو رھا تھا‬
‫اچانک مجھے لگا جیسے میرا سارا خون میرے لن میں اکھٹا ھو رھا ھے اور مجھے بہت تیز کا پیشاب آرھا ھے‬
‫پھر وہ وقت آگیا کہ مجھ سے برداشت نہ ھوا اور سارے جہان کا مزہ اکھٹا ھوکر میرے لن میں آگیا اور میں نے بے ساختہ‬
‫صدف کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ جکڑ لیے اور جتنا ممکن تھا اسکو اپنے جسم میں سمونے لگا اور کس کر صدف کو جپھی‬
‫ڈال دی‬
‫صدف کے بڑے بڑے ممے میرے سینے میں دب گئے تھے‬
‫اور پھر میرے جسم کو ایک زبردست جھٹکا لگا اور میرے لن سے منی نکلتی گئی مجھے نھی پتہ کہ کتنی دفعہ میرے لن‬
‫سے منی نکلی بس مجھے تو مزے ھی مزے آرھے تھے‬
‫جیسے جیسے میرے لن سے منی نکلنا کم ھورھی تھی‬
‫ویسے ھی میرے گھسے بھی سلو موشن میں لگ رھے تھے اور پھر صدف کے چڈوں نے میرے لن کو اچھی طرح نچوڑ‬
‫لیا‬
‫میں صدف کے مموں پر اپنے گال رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا اور صدف اس دوران میرے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتے ھوے بولی اب خوش میں کافی دیر ایسے ھی پڑا رھا پھر صدف نے مجھے ہالیا کہ اب اٹھ بھی جاو کہ امی آے گی‬
‫تب ھی اٹھو گے میں امی کا نام سنتے ھی صدف کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو دیکھنے لگ گیا جو سرخ ھو چکا تھا‬
‫اور نیم مرجھا گیا تھا میں نے صدف کی شلوار سے ھی لن کو صاف کیا تو صدف کہنے لگی پاگل ھوگئے ھو میرے کپڑے‬
‫گندے کررھے ھو مگر میں نے تب تک لن صاف کرلیا تھا اور شلوار اوپر کی تب صدف بھی جلدی سے اٹھی اور اپنی‬
‫قمیض نیچے کر کے کھڑی ھوکر شلوار اوپر کرلی‬
‫اور چارپائی سے چادر اکھٹی کرتی ھوئی بولی یاسر تم گھر جاو امی بھی آنے ھی والی ھے میں امی کے آنے سے پہلے‬
‫چادر بدل دوں‬
‫میں نے چادر کی طرف دیکھا تو چادر ایک جگہ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس پر گاڑھی گاڑھی منی اب بھی نظر‬
‫آرھی تھی‬
‫میں نے صدف کو بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف اسکا منہ کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی تو صدف اپنا آپ چھڑواتے‬
‫ھوے بولی‬
‫اب دفعہ بھی ھوجاو‬
‫میں اسکو چھوڑ کر کمرے سے نکلنے ھی لگا تھا کہ‬
‫‪...‬‬

‫وہ بھولی داستان جو پھر یاد آگئ‬


‫)‪Update no (31‬‬
‫پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ ہر آنے والی نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن آپ تک سب سے پہلے پہنچ سکے ۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔‬

‫میں ابھی دروازے کی دہلیز کے باہر ھی گیا تھا کہ پیچھے سے صدف نے مجھے آواز دی کہ یاسر میں نے پلٹ کر اسکو‬
‫دیکھا‬
‫تو وہ مجھے ہوائی چمی دیتے ھوے بولی شکریہ‬
‫میں نے کہا کس بات کا تو صدف بولی میرا بھروسہ نہ توڑنے کا‬
‫اور میں نے ہممم کیا اور باھر نکل آیا اور بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی اور گلی میں نکال تو گلی میں کافی اندھیرا‬
‫ھوچکا تھا‬
‫میں تیز تیز قدموں سے چلتا گھر کی طرف چال گیا‬
‫رات کو نیند بڑے مزے کی آئی صبح سکول کی لیے تیار شیار ھوکر‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا تو آنٹی سے سالم دعا لی آنٹی نے پیار سے میری گال اور ماتھے کو چوما اور کہنے لگی‬
‫میرے شزادے کی پیپروں کی تیاری کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے‬
‫تو آنٹی میرے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی شاباش‬
‫بس انج ای دل ال کہ پڑیا کر‬
‫ایس دفعہ وی فرسٹ ای آویں‬
‫تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اب میں کیا بتاتا کہ میرے تو پاس ھونے کی بھی چانس نھی‬
‫اتنی دیر میں عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر کمرے سے نکل آئیں‬
‫اور نسرین مجھے آنٹی کی بغل میں بیٹھا دیکھ کر بولی‬
‫امی ُت سی کی ہر ویلے اینوں گودی وچ واڑی رکھدے او‬
‫تو آنٹی غصے سے بولی‬
‫تینوں کی تکلیف اے میرا اکو اک ای تے پتر اے‬
‫ہے کو ایدے ورگا سوہنا ُسنکھا‬
‫تو نسرین کی بجاے عظمی بولی‬
‫شکل دیکھی اسکی آیا وڈا شزادہ‬
‫تو میں نے زبان نکال کر اسکو منہ چڑھایا‬
‫اور آنٹی نے مزید مجھے اپنے ساتھ لگا کر کہا‬
‫چل دفعہ‬
‫ھووو کی ہر ویلے میرے منڈے دے پچھے پئیاں رہندیاں جے‬
‫تو نسرین بولی جے ماں پتر دا پیار ختم ھوگیا ھوے تے سکول جان دی اجازت مل سکدی اے‬
‫تو میں ہنستے ھو آنٹی سے الگ ھوا اور جانے لگا تو آنٹی بولی یاسر پتر بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا آج باہر ُدھند بھی‬
‫کافی پڑی ھوئی ھے‬
‫میں نے جی اچھا کہا اور‬
‫انکو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر صدف کے گھر کی طرف چلدییے‬
‫گلی سے نہر کی طرف دیکھ کر صاف پتہ چل رھا تھا کہ دھند کی شدت کتنی ھے کیوں کہ ہمیں تو کھیت بھی نظر نھی‬
‫آرھے تھے خیر ہم صدف کے گھر پہنچے تو‬
‫صدف بھی تیار ھی بیٹھی تھی ہمیں دیکھ کر جلدی سے وہ بھی باہر کو آنے لگی تو اسکی امی بھی ساتھ ھی آگئی اور مجھے‬
‫وہ ھی بات کہنے لگ گئی جو آنٹی فوزیہ نے کہی تھی کہ دھند بہت ھے بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا‬
‫میں نے جی اچھا کہا اور دل ھی دل میں کہا چلو جی اک ھور پین دا اضافہ ھوگیا‬
‫ہم سکول کی طرف چل دیے‬
‫صدف ایسے شرما شرما کر مجھے دیکھ رھی تھی جیسے میری منگیتر ھو‬
‫راستے میں دھند کافی پڑی ھوئی تھی اس لیے ہم سنبھل سنبھل کر جارھے تھے تھوڑا سا بھی ایک دوسرے کا فاصلہ بڑھتا‬
‫تو ایکدوسرے کی نظروں سے اوجھل ھوجاتے عظمی اور نسرین بھی ڈر ڈر کر جارھی تھی جبکہ صدف میرے آگے تھی‬
‫اور بلکل میرے ساتھ ساتھ ھی جارھی تھی‬
‫مجھے اچانک شرارت سوجھی تو میں نے ھاتھ آگے کر کے صدف کی گانڈ میں پورا چپہ دے دیا صدف نے ایکدم ھائی کیا‬
‫اور جھٹکے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا‬
‫تبھی عظمی نے پیچھے مڑ کر پوچھا کیا ھوا باجی تو صدف بولی کچھ نھی میرا پیر پھسلنے لگا تھا‬
‫تو عظمی بولی باجی دھیان سے چلیں آگے سے تو کچھ نظر بھی نھی آرھا صدف نے پیچھے مڑ کر غصے سے دیکھا اور‬
‫عظمی کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ تو کیال کرو اگر عظمی دیکھ لے گی تو‬
‫تھوڑا سا ھی آگے گئے تھے کہ میں نے پھر آگے بڑھ کر صدف کی گانڈ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس دفعہ صدف بولی تو‬
‫کچھ نہ مگر میرا ھاتھ پیچھے کرنے لگ گئی ایسے ھی میں کھڑمستیاں کرتا رھا اور ہم نہر کہ پل پر پہنچ گئے وہاں کچھ‬
‫ذیادہ ھی دھند تھی‬
‫جب ہم نے نہر کا پل کراس کیا تو عظمی اور نسرین کچھ زیادہ ھی آگے چلی گئی تھی جبکہ صدف اور میں تھوڑا پیچھے‬
‫تھے تب صدف نے کہا تمہیں چھٹی کس وقت ھوتی ھے میں نے نے کہا آج تو ہاف ڈے جمعرات ھے آج تو گیارہ بجے‬
‫چھٹی ھوجانی ھے ویسے‪ .‬ایک بجے چھٹی ھوتی ھے‬
‫تو صدف بولی میں دوبجے واپس آتی ھوں آج میں ٹانگے کی بجاے ادھر سے واپس آوں گی تم ُپل پر میرا انتظار کرو گے‬
‫پھر ہم اکھٹے واپس گاوں آجائیں گے میں نے کہا‬
‫واپسی پر میرے ساتھ یہ دونوں مصیبتیں ھوتی ہیں‬
‫میں انکو گھر چھوڑ کر دوبارا نہر کے پل پر آسکتا ھوں‬
‫آج تو ویسے ھی جمعرات ھے‬
‫تو تم بھی جلدی آجانا‬
‫تو صدف کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی‬
‫میں کوشش کروں گی کہ باراں بجے تک واپس آجاوں‬
‫تم ساڑھے باراں بجے ُپل موجود ھونا‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے مگر تم آجانا یہ نہ ھو کہ میں انتظار ھی کرتا رہوں تو صدف نے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے‬
‫کہا فکر نہ کر میرے شزادے صدف اپنے وعدے توں نئی ُمکر دی‬
‫اور پھر ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم سکول پہنچ گئے صدف اپنی اکیڈمی کے راستے کی طرف چلی گئی اور ہم اپنے‬
‫اپنے سکول میں چلے گئے‬
‫کالس میں اسد سے بھی کچھ خاص بات نہ ھوئی بس وہ ھی سیکسی رسالہ دیکھا اور کچھ سیکسی باتیں کی‬
‫اور اسد نے میرا لن پکڑا جو رسالہ دیکھنے کی وجہ سے کھڑا ھوچکا تھا‬
‫تو اسد نے حیرانگی سے کہا واہ جگر تیرا لن تو پورے جوبن پر آگیا ھے‬
‫یہ تو اب پھدی پاڑ لن بن گیا‬
‫میں لکھ کر گارنٹی دیتا ھوں کہ تو جسکی بھی ایک دفعہ پھدی مارے گا دوبارا وہ تیرے لن کو ترسے گی تیری ُچدی پھدی‬
‫تیری مرید ھوجاے گی‬
‫میں خوش ھوتے ھوے بوال‬
‫بس یار یہ تیری مہربانی ھے‬
‫تو وہ ہنس کر بوال دیکھ لیا پھر ہماری یاری کا رزلٹ‬
‫میں نے اسکی کمر پر تھپکی دیتے ھوے کہا یار تیرا یہ احسان کبھی نھی بھولوں گا تو اسد نے کہا گانڈو یاری میں احسان‬
‫نھی ھوتا‬
‫تو اچانک مجھے صدف کے کہے ھوے الفاظ یاد آے کہ‬
‫اندر مت کرنا میں برباد ھوجاوں گی‬
‫میں شادی شدہ نھی کنواری ھوں‬
‫تو میں نے اسد سے کہا یار ایک بات پوچھنی تھی‬
‫اسد بوال‬
‫دو پوچھ یار‬
‫تو میں نے کہا یار یہ کنواری لڑکی اور شادی شدہ میں کیا فرق ھوتا ھے‬
‫تو اسد بوال کیا مطلب‬
‫میں نے کہا مطلب کہ‬
‫کنواری لڑکی کے ساتھ سیکس کیا جاے اور شادی شدہ کے ساتھ کیا جاے تو اس میں کیا فرق ھوتا ھے‬
‫تو اسد بوال‬
‫کنواری سیل پیک ھوتی ھے‬
‫اسکی سیل کھولنا پڑتی ھے جبکہ شادی شدہ کی پہلے ھی کھلی ھوتی ھے‬
‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ یار یہ سیل کیا ھوتی ھے تو اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫جا اوے چلیا تینوں حالے تک اے ای نئی پتہ‬
‫کملیا سیل لڑکی کے کنوارے ھونے کا ثبوت ھوتا ھے‬
‫اسکی پھدی کے اندر ایک پردہ ہوتا ھی‬
‫جب لن اسکی پھدی میں جاتا ھے اور پردے کو پھاڑ کر آگے چال جاے تو اسکی سیل یعنی پردہ پھٹ جاتا ھے اور اسکی‬
‫پھدی سے خون نکل آتا ھے‬
‫اسے سیل ٹوٹنا کہتے ہیں‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے اسد کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫یار اس سے لڑکی کو درد بھی ھوتا ھے‬
‫اور خون کتنا نکلتا ھے‬
‫تو اسد بوال‬
‫کسی کسی لڑکی کے بہت ذیادہ درد بھی ھوتی ھے اور خون بھی ذیادہ نکلتا ھے اور کسی لڑکی کے نارمل سی درد ھوتی‬
‫ھے اور خون بھی کچھ خاص نھی نکلتا‬
‫اور کچھ تو کنواری بھی ھوتی ہیں اور سیل بھی خود ھی توڑ لیتی ہیں‬
‫میں نے پوچھا وہ کیسے‬
‫تو اسد بوال‬
‫جیسے ہم مٹھ مار کر فارغ ھوجاتے ہیں ایسے ھی کچھ گرم اور سیکسی لڑکیاں اپنی پھدی میں انگلی کرتی ہیں اور جو جوش‬
‫میں آکر انگلی ذیادہ اندر کردیتی ہیں انکی سیل ٹوٹ جاتی ھے‬
‫اور میں نے تو ایک انگلش فلم میں دیکھا تھا کہ‬
‫لڑکی اپنی پھدی میں کھیرا اور بینگن بھی لے رھی تھی اور ایک تو موم بتی اپنی پھدی میں لے رھی تھی‬
‫اور ایک لڑکی تو اپنی بنڈ کی موری میں بھی پورا کھیرا لے رھی تھی‬
‫میں حیران ھوتے ھوے اسد کو دیکھی جارھا تھا کہ سالے کو لڑکیوں کہ بارے میں کتنا پتہ ھے‬
‫تو میں نے کہا واہ یار بڑی معلومات ھے تیری‬
‫یار مجھے ایک بات کی سمجھ نھی آئی کہ پھدی میں تو چلو مان لیا کہ سب کچھ لے سکتی ہیں مگر یہ گانڈ میں کیسے لیتی‬
‫ہیں تو اسد بوال‬
‫جناب کئی کنواری لڑکیاں تو گانڈ بھی بڑے شوق سے مرواتی ہیں اور جنکو چسکا پڑ جاے تو وہ اتنی پھدی نھی مرواتی‬
‫جتنی گانڈ مرواتی ہیں‬
‫میں ہیییں کہا‬
‫اور اسد کو کہا یار انکے درد نھی ھوتا تو اسد نے کہا پہلے پہلے ھوتا ھے مگر بعد میں یہ گانڈ پیچھے کر کر کے پورا لیتی‬
‫ہیں‬
‫اور کنواری لڑکی کو یہ فائدہ ھوتا ھے کہ اسکی سیل ٹوٹنے سے بھی بچ جاتی ھے اور لن کا سواد بھی چکھ لیتی ھیں‬
‫ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ ماسٹر جی کمرے میں داخل ھوے اور ہم دونوں شریف زادے بن کر بیٹھ گئے‬
‫ُچ ھٹی ہوتے ھی میں عظمی لوگوں کو ساتھ لے کر گھر چال گیا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کھیلنے کے بہانے سے گھر‬
‫سے نکال اور نہر کی طرف چل دیا گھر سے میں ٹائم دیکھ کر نکال تھا اس لیے مقررہ وقت میں ابھی پندرہ منٹ پڑے‬
‫تھے‬
‫[‪] size/‬میں تیز تیز قدموں سے چلتا نہر پر پہنچ گیا اور نہر کے کنارے پر بیٹھ کر صدف کا انتظار کرنے لگ گیا‬
‫[‪] size/‬تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر نہر کی دوسری طرف شہر کو جاتی کچی سڑک کی طرف دیکھتا رہتا‬
‫کہ شاید اب صدف آتی ھوئی نظر آجاے‬
‫وقت تھا کہ گزر ھی نھی رہا تھا‬
‫ایک ایک منٹ مجھے ایک گھنٹے جیسا لگ رھا تھا‬
‫جیسے جیسے وقت گزرتا جارھا تھا میری‬
‫ےچینی بڑھتی جارھی تھی‬
‫سچ کہا ھے شاعر نے‬
‫در پر نظر آہٹ پر کان دل میں اضطراب‪،‬۔‬
‫پوچھے کوئی ستم گروں سے مزہ انتظار کا۔‬
‫میرا حال بھی کچھ ایسا ھی تھا‬
‫دل میں وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی صدف نے آنا ھے کہ نھی کہیں وہ ٹانگے پر تو نھی چلی گئی وغیرہ وغیرہ‬
‫تقریبًا‬
‫ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی‬
‫جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل دیا‬
‫اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا ھوں تو‬
‫صدف نے اپنی عادت کے مطابق‬
‫میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے ھوے کہا‬
‫پھر کیا ھوا میرے میاں مٹھو‬
‫تو میں اپنی گال کو مسلتے ھوے بوال‬
‫یہ کیا تم ہر وقت میری گال پر چٹکیاں کاٹتی رہتی ھو‬

‫)‪.Update no (32‬‬
‫پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ ہر آنے والی نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن آپ کو مل سکے ۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صدف بولی میری مرضی‬
‫میں تو کاٹوں گی جاو جو کرنا ھے کرلو‬
‫تو میں نے کہا جس دن میں نے کاٹی نہ تو اس دن تم نے رونے لگ جانا ھے‬
‫اسی دوران ہم ُپل کراس کر کے گاوں کی طرف آگئے تھے‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی آ تو نھی رھا‬
‫جب میری تسلی ھوئی تو‬
‫میں نے چلتے چلتے ھی صدف کا نقاب نیچے کھینچا اور اسکی گال کو چوم لیا‬
‫تو صدف مصنوعی غصے سے بولی شرم کرو سرعام گندی حرکتیں کر رھے ھو‬
‫تو میں نے کہا دیکھ لے جس نے دیکھنا ھے‬
‫تو صدف میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫واہ جی واہ‬
‫بڑی گل اے منڈا تے رانجھا بن گیا اے‬
‫تو میں پھر صدف کی گال پر ُچمی لیتے ھوے کہا‬
‫کہ جب ہیر اتنی پیاری ھو تو ہر دیکھنے واال رانجھا بن جاتا ھے‬
‫تو صدف بولی‬
‫اچھا جی‬
‫میں نے کہا‬
‫ہاں جی‬
‫صدف بولی‬
‫بڑی گل اے‬
‫میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا کرنا تھا‬
‫میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے ویسے بھی تو‬
‫تمہاری اکیڈمی کی چھٹی میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا ھے‬
‫تو صدف بولی نھی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے اگر کسی گاوں والے دیکھ لیا تو تم سوچ بھی نھی سکتے کہ ہمارے ساتھ کیا‬
‫ھوگا‬
‫تو میں نے کہا یار ہم ادھر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے ہمیں کوئی دیکھ بھی نھی سکتا‬
‫تو صدف بولی‬
‫پاگل ادھر کدھر ایسی جگہ ھے جہاں کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا‬
‫تو میں نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور کہا چلو‬
‫تو صدف اپنا ھاتھ چھڑواتے ھو بولی‬
‫تم پاگل تو نھی ھو‬
‫ھاتھ تو چھوڑو میرا‬
‫تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ھوں‬
‫مگر میری ایک شرط ھے‬
‫تو میں نے پوچھا کیا شرط ھے جناب کی‬
‫تو صدف بولی اگر مجھے وہ جگہ محفوظ نہ لگی تو میں نے پھر ادھر نھی رکنا‬
‫تو میں نے کہا یار چلو تو سہی ایک دفعہ‬
‫نہ پسند آے جگہ تو بیشک چلی جانا‬
‫اور یہ کہ کر میں صدف کے آگے آگے چلنے لگ گیا‬
‫میں صدف کو لے کر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں عظمی کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا ھوتا تھا‬
‫صدف نے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو اسے بھی جگہ پسند آگئی‬
‫دوستو اب وہ جگہ پہلے سے بھی ذیادہ محفوظ تھی‬
‫کیوں کہ اسکے دونوں اطراف مکئی اگی ھوئی تھی جو اب اتنی اونچی ھو چکی تھی کہ ہم کھڑے بھی ھوتے تو کوئی ہمیں‬
‫دیکھ نھی سکتا تھا‬
‫صدف اور میں ٹاہلی کی اوٹ میں ایک دوسرے کے سامنے گھاس پر بیٹھ گئے‬
‫صدف بولی یاسر تمہیں اس جگہ کا کیسے پتہ ھے تو میں نے کہا گرمیوں میں ہم جب ُلکن میٹی کھیلتے تھے تب ہم ادھر آکر‬
‫ُچھپ جاتے تھے‬
‫تو صدف بولی کون کون‬
‫میں نے گلی کے دوتین لڑکوں کا نام لیتے ھوے بتایا کہ ہم سب ادھر ھی آکر ُچھپتے تھے‬
‫تو صدف بولی عظمی اور نسرین بھی تمہارے ساتھ ھوتی تھی میں نے کہا نھی یار وہ اتنی دور آنے سے ڈرتی تھی اس لیے‬
‫وہ پیچھے کپاس میں ھی ُچ ھپ جاتی تھی‬
‫تو صدف ہمممم کر کے خاموش ھوگئی‬
‫میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد‬
‫بوال صدف اس دن مزہ آیا تھا تو صدف نے شرما کر منہ نیچے کر لیا اور بولی‬
‫گندی باتیں نہ کرو‬
‫تو میں نے کہا یار گندی باتیں کیسے ھوئی‬
‫وہ تو پیار تھا‬
‫اور پیار کی باتیں گندی تھوڑی ھوتی ہیں‬
‫تو صدف ایکدم میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫تم چیز کیا ھو‬
‫مجھے تو تم نے پریشان کرکے رکھا ھوا ھے‬
‫میں نے کہا‬
‫وہ کیسے جی‬
‫تو صدف بولی‬
‫تمہاری عمر کتنی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یہ ھی کوئی سولہ سال‬
‫تو صدف بولی‬
‫سولہ سال کی عمر میں تم ایک منجھے ھوے مرد بن گئے ھو‬
‫تو میں نے کہا‬
‫وہ کیسے‬
‫تو صدف بولی ذیادہ معصوم بننے کی ایکٹنگ مت کرو‬
‫تم اچھی طرح جانتے ھو میں کیا کہنا چاھ رھی ھوں‬
‫تو میں نے پھر معصوم سا چہرہ بناتے ھوے کہا‬
‫سچی مجھے نھی پتہ کہ تم ایسا کیوں کہہ رھی ھو‬
‫تو صدف بولی اپنی حرکتوں پر غور کرو خود ھی سمجھ آجاے گی‬
‫میں نے پھر کہا‬
‫کون سی حرکتیں جناب‪،،‬‬
‫اسی دوران میں نے صدف کا ھاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا ھاتھ اسکے ھاتھ پر پھیرنے لگ گیا تھا‬
‫تو صدف بولی وہ ہی جو میرے ساتھ کرتے رھتے ھو اور کل تو تم نے مجھے حیران پریشان کردیا تھا میں تو ساری رات‬
‫تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی کہ جسے میں بچہ سمجھ کر الڈ سے چھیڑتی تھی اس بچے نے تو میری نیندیں اڑا کر‬
‫رکھ دی ہیں‪،،‬‬
‫تو میں نے کہا یار بتاو بھی کہ ایسا میں نے کیا کردیا ھے جس سے تم اتنی پریشان ھو‬
‫تو صدف بولی پہلی بات تو یہ ھے کہ تمہاری عمر کے بچوں کو سیکس کے بارے میں تو بلکل بھی پتہ نھی ھوتا‬
‫مگر تم تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے اکسپرٹ ھو‬
‫اور صدف نے میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا‬
‫( جو ہلکا سا سر اٹھا چکا تھا )‬
‫تمہارا یہ تو اتنا بڑا ھے کہ جب میں نے ھاتھ میں پکڑا تھا تو میں ایکدم ہل گئی تھی کہ یہ تمہارا وہ ھے یا لوھے کا راڈ ھے‬
‫میں نے کہا یار نام لے کر بتاو نہ کہ کیا لوھے کا راڈ ھے‬
‫تو صدف شرماتے ھوے اپنی گود کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫مجھے شرم آتی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار کل تم خود ھی کہہ رھی تھی کہ دوستی میں شرم نھی ھوتی اب تمہیں چھمیں آرھی ہیں‬
‫اور اسکے ساتھ ھی میں نے صدف کا پکڑا ھوا ھاتھ اپنے لن پر رکھا‬
‫اور‪ ،‬کہا‬
‫بتاو نہ یار‬
‫اسے کیا کہتے ہیں‬
‫جیسے ھی صدف کا ہاتھ میرے لن کے ساتھ ٹچ ھوا‬
‫لن ساب نے زور سے اوپر کو جھٹکا مارا‬
‫جیسے کہتا ھو‬
‫کہ‬
‫نہ چھیڑ ملنگاں نوں‬
‫صدف نے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی‬
‫تو میں نے ھاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑتے ھو صدف کو کہا یار نہ کرو کیا ھوتا ھے بتاو نہ اسے کیا کہتے ہین‬
‫تو صدف بولی مجھے شرم آتی ھے‬
‫تو میں نے پھر سے اصرار کیا‬
‫تو صدف نے سر نیچے کیے ھوے ھی آہستہ سے کہا لن‬
‫میں نے کہا‬
‫کیا کہا مجھے سنا نھی‬
‫تو صدف بولی مجھے نھی پتہ چھوڑو میرا ھاتھ‬
‫میں نے کہا یار اب ایسے نخرے تو نہ کرو‬
‫صدف نے ھاتھ کی ُمٹھی کو زور سے بند کیا ھوا تھا میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے‬
‫اسکی مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا کچھ دیر زور ازمائی کے بعد میں نے اسکی ُمٹھی کو کھول دیا‬
‫تب اس نے ہلکی سی شرارتی چیخ مارتے ھوے کہا ھوے میری انگلیاں ٹوٹ گئی‬
‫تو میں نے اسکی ہتھیلی کو چومتے ھوے کہا‬
‫میری جان کی انگلیاں کیسے ٹوٹ سکتی ہیں‬
‫اور ساتھ ھی اسکی کھلی ہتھیلی کو اپنے لن پر رکھ کر اسکی مٹھی بند کردی صدف نے تھوڑا سا پھر نخرا کیا مگر پھر اس‬
‫نے میرے لن کو نرمی سے پکڑ لیا‬
‫لن ساب پورے جوبن پر تھے اور لن کی ٹوپی پھنکارے مار رھی تھی‬
‫صدف نے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو بولی یاسر اتنا بڑا کیسے کیا‬
‫تو میں نے اسے تیل کا بتانا مناسب نہ سمجھا‬
‫اور جھوٹ بولتے ھوے کہا‬
‫یار میں نے اسے کیسے بڑا کرنا ھے‬
‫خود ھی بڑا ھوگیا ھے مجھے تو خود سمجھ نھی آئی کہ میرا لن اتنی جلدی کیسے بڑا ھوگیا ھے‬
‫تو صدف بولی چل چوٹھا‬
‫میں نے کہا سچی کہہ رھا ھوں‬
‫صدف بولی‬
‫اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر رھے تھے اور جیسے میرے انکو چوس رھے‬
‫تھے‬
‫صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف کرتے ھوے کہا‬
‫یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا‬
‫میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین کیوں نھی آرھا ھے اگر تمہیں مجھ پر یقین ھی نھی تو پھر ہماری دوستی کا کیا فائدہ‪،‬‬
‫اور میں نے روٹھنے واال منہ بنا لیا‬
‫تو صدف نے پھر میری گال پر ُچ ٹکی کاٹتے ھوے کہا‬
‫ڈرامے بازا میں سب سمجھنی آں‬
‫تو میں نے کہا یار ہم لڑنے کے لیے ادھر بیٹھیں ہیں تو صدف بولی‬
‫نہ جھوٹ بولو پھر‬
‫میں نے غصے سے صدف کا ھاتھ اپنے لن سے ہٹاتے ھوے کہا اور اٹھتے ھوے بوال جب تمہیں میری ہر بات ھی جھوٹ‬
‫لگ رھی ھے تو پھر میرا یہاں بیٹھنے کا کیا کام‬
‫صدف نے ساتھ ھی میرا بازو نیچے کھینچا اور میں پھر اسی جگہ صدف کے سامنے بیٹھ گیا‬
‫صدف بولی ایک تو تم ڈرامے بہت کرتے ھو‬
‫تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا یار ڈرامے کیسے مجھے دکھ ھوتا ھے جب میری سچی بات سن کر بھی تم اسے‬
‫جھوٹ سمجھتی ھو‬
‫تو صدف بولی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے دو‬
‫میں نے کہا اگر تمہیں ایسا لگتا ھے تو پھر آج کے بعد میں تمہیں شکل بھی نھی دیکھاوں گا‬
‫تو صدف نے آگے کو ہو کر میری دونوں کانوں پر ھاتھ رکھے اور میرے ہونٹ چوم کر بولی‬
‫یاسر تمہیں نھی پتہ تم مجھے کتنے پیارے لگتے ھو‬
‫میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر لیجاتے ھوے اسے پیچھے کی طرف لیٹانے لگا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا اور‬
‫کچھ بولے بغیر ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو صدف نے مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے کہا‬
‫اوےےےےےے میرا ُبرقعہ گندا ھوگیا‬
‫کیوں مجھے پھنسواے گا‬
‫میں بھی جلدی سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا‬
‫اور صدف پھر اٹھ کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے صدف کو کہا کہ برقعہ اتار دو‬
‫تو صدف بولی‬
‫یاسر اگر کوئی آگیا تو‬
‫تو میں نے کہا یار ادھر کوئی نھی آتا تم اس بات کی پرشانی نہ لو‬
‫اور ساتھ ھی میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اسے کھڑا کرنے لگ گیا تو صدف کھڑے ھوتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کوئی آ نہ جاے‬
‫میں نے کہا یار مجھ پر بھروسہ رکھو مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ھے‬
‫تو صدف بولی ایسے ھی کھڑے کھڑے کسنگ کرلیتے ہیں‬
‫تو میں نے اسی دوران نیچے جھک کر صدف کے برقعے کا پال پکڑا اور اوپر اسکے پیٹ تک لے آیا اور بوال یار کچھ‬
‫نھی ھوتا‬
‫اور پھر اسکے برقعے کو اسکے مموں تک کردیا مموں پر برقعہ پھنسا ھوا تھا اس لیے میں تھوڑا زور لگا برقعہ اوپر‬
‫کرنے لگا تو صدف‬
‫بولی او ہو‬
‫کیا ھے میرا برقعہ پھاڑنا ھے‬
‫میں نے کہا اتنا تنگ پہنتی کیوں ھو‬
‫تو صدف بولی تنگ نہ پہنتی تو تم مجھے ایسے دیکھتے کیسے اور ہماری دوستی کیسے ھوتی‬
‫اور ساتھ ھی صدف نے پہلے دونوں ھاتھوں سے برقعہ اپنے مموں سے اوپر کیا اور اپنے بازو اوپر کر کے برقعہ اتارنے‬
‫لگی‬
‫جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے سامنے صدف کے تنے ھوے ممے مجھے‬
‫گھورتے ھوے نظر آئے صدف کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور گوالئی شیپ میں تھے کچھ صدف نے جب برقعہ اتارنے‬
‫کے لیے بازو اوپر کیے تو اس کے ممے مذید آگے کی طرف آگئے‬
‫مجھ سے رھا نہ گیا‬
‫ابھی برقعہ صدف اپنے سر سے نکالنے میں مصروف تھی کہ میں نے اسکے دونوں مموں کو پکڑ کر پی پی پی پی کر کے‬
‫بجایا اور ایسے ھی اسکو جپھی ڈال لی صدف نے برقعے سے سر نکالتے ھوے اپنے بالوں کو صحیح کرتے ھوے مجھے‬
‫کہا‬
‫صبر نئی ہندا اصلوں ای بے صبرا ھو جانا اے میں ِکتے پج چلی آں‬
‫تو میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے کہا‬
‫میری جانو تمہارے ُد دو دیکھ کر اور تمہارا سیکسی جسم دیکھ کر مجھے ہوش کہاں رھتا ھے‬
‫تو صدف بولی مسکے بڑے النے آندے نے‬
‫میں نے کہا میرے پیار کو مسکے تو نہ کہو‬
‫اور میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے‬
‫اسکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ لگ کر دبی ہوئی تھی اور میرے ھاتھ اسکی کمر پر تھے‬
‫صدف نے بھی اپنے ھاتھ میرے کمر پر رکھ لیے تھے‬
‫اور نیچے سے میرا لن اسکی پھدی سے تھوڑا اوپر اسکی ناف سے تھوڑا نیچے لگا ہوا تھا‬
‫صدف بے شک عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑی تھی مگر اسکا قد مجھ سے تھوڑا سا چھوٹا ھی تھا‬
‫اسکے ہونٹ چومت ھوے بھی مجھے تھوڑا سر جھکانا پڑا تھا‬
‫ہم کچھ دیر ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے کبھی میں صدف کا اوپر واال ہونٹ چوستا تو صدف میرا نیچے‬
‫واال ہونٹ چوستی کبھی میں اسکا نیچے واال ہونٹ چوستا تو وہ میرا اوپر واال ہونٹ چوستی‬
‫کبھی زبانوں کی لڑائی ھوتی تو کبھی سانسوں کے ایکے دوسرے کے اندر ٹرانسفر ھوتا‬
‫تو کبھی ایک دوسرے کے لباب کو نگھلتے‬
‫اسی دوران میں نے صدف کی پیچھے سے قمیض اوپر کر کے اسکی السٹک والی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اسکی گول مٹول‬
‫سڈول گانڈ کے چوتڑوں کو پکڑ کر مٹھیاں بھرنے لگ گیا‬
‫صدف کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی‬
‫اور کافی گوشت چڑھا ھوا تھا‬
‫ساتھ ساتھ میں اپنی گانڈ کو دائیں بائیں ہال ہال کر لن اسکے جسم کے ساتھ رگڑ رھا تھا‬
‫صدف کا بھی یہ ھی حال تھا‬
‫وہ بھی ایڑیاں اٹھا کر لن کو پھدی کے ساتھ مالنے کی کوشش کررھی تھی میں بھی تھوڑا سا نیچے ھوا اور لن اور پھدی کا‬
‫مالپ کر دیا‬
‫اب میرے ہونٹ صدف کے ہونٹوں کو چوم اور چوس رھے تھے اور میرے سینے کے نپل صدف کی چھاتیوں کے نپلوں کو‬
‫چوم رھے تھے‬
‫اور نیچے سے لن اور پھدی بھی بھرپور انداز میں مشاورت کررھے تھے‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر ہم دونوں الگ ھوے اور صدف اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھوئی بولی‬
‫میرے ساڑ پین لگ گیا اے‬
‫میں نے صدف سے پوچھا تمہارے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر ھے تو اس نے کہا کیا کرنی ھے تو میں نے کہا بتاو تو سہی ھے‬
‫کہ نھی‬
‫تو اس نے اپنے شولڈر بیگ کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا اس میں چادر پڑی ھے میں نے آگے بڑھ کر اسکے بیگ کی‬
‫زپ کھولی تو اوپر ھی مجھے چادر نظر آگئی میں نے چادر نکالی جو کہ گرم شال تھی اسکو گھاس پر بچھا دیا‬
‫صدف آگے بڑھ کر چادر پکڑ کر اٹھانے لگی کہ میری چادر گندی کرنی ھے سارے گھاس کے داغ لگ جانے ہین‬
‫میں نے کہا یار اسکا رنگ‬
‫اسکا رنگ گہرہ ھے داغ نظر نھی آئیں گے تو صدف بولی پاگل میں نے اکیڈمی میں اوپر لینی ھوتی ھے تو میں نے کہا یار‬
‫کل کون سا تم نے جانا ھے‬
‫کل دھو لینا‬
‫تو صدف چپ ھوگئی‬
‫میں نے چادر درست کر کے بیچھا دی اور صدف کو لے کر چادر کے اوپر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی میں نے صدف کو سیدھا‬
‫لٹا دیا اور اسکی قمیض پیٹ سے اوپر تک کردی تو‬
‫صدف بولی کیا کررھے ھو اگر کوئی اچانک آگیا تو مرواو گے تم‬
‫میں نے کہا یار ایک تو تم ڈرتی بہت ھو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ‬
‫تو صدف چپ کر گئی میں نے اسکے پیٹ پر ھاتھ پھیرا اور ھاتھ کو نیچے اسکی کمر تک لے گیا اور ھاتھ سے اسکو تھوڑا‬
‫اوپر ہونے کا کہا تو صدف نے گانڈ اٹھا کر کمر اوپر کو کی تو میں نے نیچے سے اسکی قمیض اوپر کردی اور پھر ھاتھ‬
‫آگے ال کر آگے سے بھی اسکی قمیض اسکے مموں سے اوپر کردی‬
‫صدف نے سکن کلر کا بریزیر پہنا ھوا تھا‬
‫میں نے اسکے مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنا شروع کردیا‬
‫جوش میں آکر مجھ سے اسکا مما ذیادہ دبایا گیا تو‬
‫صدف نے زور سے سیییییییی کیا اور بولی جانور نہ بنو آرام سے کرو‬
‫میں نے ھاتھ نرم کر لیا اور پھر بریزیر کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کردیا اور اسکے کھلتے ھوے ممے ایکدم میرے سامنے‬
‫آے میں مموں پر ایسے جھپٹا جیسے بچہ بھوک کی حالت میں مموں کو منہ مارتا ھے‬
‫صدف میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سسکیاں لینے لگ گئی‬
‫میں نے ایک ھاتھ اسکی شلوار میں ڈالدیا اور پھدی کو مسلنے لگ گیا صدف کا برا حال ھورھا تھا‬
‫صدف کی پھدی کافی گیلی ھوچکی تھی‬
‫میں نے دوسرے ھاتھ سے اپنی شلوار نیچے کی اور لن کو باھر نکال لیا‬
‫اور صدف کا ایک ھاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا‬
‫تو صدف پہلے ھی سیکس میں ُچور ُچ ور ھوئی تھی اس نے بھی بنا کچھ کہے لن کو پکڑ لیا اور مٹھیاں بھرنے لگی ساتھ‬
‫ساتھ وہ میرے لن کے سائز کو بھی ناپ رھی تھی کبھی ٹوپے کو انگلیاں لگا کر اسکی موٹائی کو چیک کرتی کبھی لن کو‬
‫جڑ سے پکڑتی اور پھر ٹوپے تک ھاتھ کو ال کر لمبائی چیک کرتی‬

‫)‪Update no (33‬‬
‫پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ ہر نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن آپ کو مل سکے ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔‬
‫میں صدف کی پھدی مسلنے کے ساتھ ساتھ اسکی شلوار بھی نیچے کردیتا یہاں تک کہ اسکی شلوار اسکے گھٹنوں سے‬
‫نیچے کردی تھی اور میں نے اپنی شلوار بھی اپنے پیروں تک نیچے کردی تھی اور پھر اسی پوزیشن میں شلوار کو پاوں‬
‫کے ساتھ ھی اتار دیا اور پھر اپنی قمیض اوپر گلے تک کی اور اپنے ننگے جسم کو صدف کے ننگے جسم کے ساتھ ٹچ‬
‫کرنے لگ گیا‬
‫صدف ابھی تک لن کو ٹٹول رھی تھی جیسے اسے ابھی تک یقین ھی نھی ھوا ھو کہ یہ واقعی میرا ھی لن ھے‬
‫تو میں نے اپنی ایک ٹانگ صدف کی ٹانگوں کے درمیان کی اور پاوں کے ذریعے اسکی شلوار مزید نیچے کی طرف لے گیا‬
‫اور اسکے پاوں سے اتار دی‬
‫صدف اور میری قمیض ھی جسم پر تھی وہ بھی دونوں کے کندھوں تک تھیں‬
‫جبکہ ہم دونوں کا سینے سے پیروں تک کا جسم بلکل ننگا تھا‬
‫میں نے صدف کے ھاتھ میں پکڑے لن پر ھاتھ رکھ کر ہالتے ھوے کہا اپنے اس شزادے کے ہونٹوں پر ایک کس تو کردو تو‬
‫صدف نے میرے ھونٹوں پر کس کردی میں نے کہا اس شزادے کے نھی اس کے اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا‬
‫اور لن ہال کر اسکے منہ کی طرف کردیا تو صدف نے پریشان ھوکر کہا شرم کرو گندے کام مجھ سے کرواتے ھو‬
‫کیا ایسے بھی کوئی گندے کام کرتا ھے تو میں نے کہا‬
‫بس ایک چھوٹی سی کس کردو کچھ نھی ھوتا‬
‫اور لن صدف کے ہونٹوں کے بلکل قریب کردیا صدف نھی نھی میں سر ہالنے لگ گئ اور ہونٹوں کو مضبوطی سے آپس‬
‫میں بھینچ لیا‬
‫میں مزید آگے کی طرف ھوا اور لن اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے کہنے لگا‬
‫بس ایک چمی بس بس ایک‬
‫تو صدف نے آنکھیں بند کر کے کڑوی دوائی پیتے ھوے ایک چھوٹی سے ُچ می لی اور دوسری طرف منہ کر کے تھوکنے‬
‫لگ گئی‬
‫اور کہنے لگ گئی‬
‫گندے بےشرم گندے کام کرتے ھو‬
‫میں نے کہا تم کو مجھ سے پیار نھی ھے‬
‫پیار کیا ھوتا ھے اور کسکو پیار کہتے ہیں یہ میں تمہیں بتاتا ھوں‬
‫اور میں یہ کہتے ھی اسکی ٹانگوں کے پاس آیا اور اسکی دونوں ٹانگیں اوپر کی تو صدف گبھرا کر بولی کیا کرنے لگے ھو‬
‫تو میں نے کہا پیار کرنے لگا ہوں‬
‫تو صدف بولی کیڑا پیار اے جیڑا لتاں ُچ ک کے کری دا‬
‫تو میں نے کہا بس دیکھتی جاو تو صدف نے اپنی پھدی پر ھاتھ رکھ کر ھاتھ کو دباتے ھوے کہا اندر کرنے لگے ھو‬
‫تو میں نے کہا نھی میری جان جب نے منع کردیا ھے کہ اندر نھی کرنا تو پھر بار بار کیوں مجھے کہہ رھی ھو تو‬
‫صدف بولی پھر کیا کرنے لگے ھو تو میں نے کہا یار ایک دفعہ ھاتھ تو ہٹاو‬
‫تو صدف نے ڈرتے ڈرتے ھاتھ پیچھے کرلیا‬
‫تو میں کھلتی کلی کو غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫صدف کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے چمک رھی تھی‬
‫اور پھدی کے دونوں باریک سے ہونٹ آپس میں ملے ہوے تھے‬
‫اور ہونٹوں کی لمبائی بھی چھوٹی سی تھی‬
‫میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور دو انگلیاں جوڑ کر پھدی کے ہونٹوں کو کھوال‬
‫تو گالبی ہونٹ تھوڑا سا کھلے اور اندر کی جلد ایسے سرخ نظر آئی جیسے سارا خون ادھر ھی جمع ھو‬
‫پھدی کے شروع کے حصے میں چھوٹی سی جھلی تھی شاید پیشاب کرنے کا سوراخ تھا‬
‫میں نے اس جھلی کو انگلی سے دبا کر مسلنا شروع کیا تو صدف ایک دم تڑپی اور میری کالئی کو مضبوطی سے پکڑ لیا‬
‫میں کچھ دیر چھوٹی سی جھلی کے ساتھ کھیلتا رھا‬
‫پھر میں نے پھدی کے قریب منہ کر سونگھا تو مجھے بدبو سی آئی اور ابھکائی سی آنے لگی میں نے تھوڑا سا اپنا منہ‬
‫پیچھے کیا‬
‫کہ اچانک مجھے اپنا چیلنج یاد آگیا‬
‫کہ پیار کیا ہوتا ھے میں بتاتا ھون‬
‫تو میں نے سانس روک کر زبان باہر نکالی اور پھدی کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹے سے ابھرے ھوے دانے کے اوپر‬
‫رکھ کر زبان کو اوپر نیچے کر کے چاٹنا شروع کردیا‬
‫جیسے ھی میں نے یہ عمل کیا صدف‬
‫کے منہ سے آواز نکلی‬
‫ھاےےےےےےےےےے میییییں مرگئیییییییی‬
‫اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر کو پیچھے کی طرف دھکیال اس کے اس‬
‫اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون سے نکل گءی مگر میں نے اسکی ٹانگیں اپنے‬
‫کندھوں پر رکھی اور اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور‬
‫پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫صدف ذور ذور سے سر دائیں بائیں مار رھی تھی اور اپنا آپ مجھ سے چھڑوانے کی کوشش کررھی تھی مگر میں نے اسکو‬
‫قابو ھی ایسے کیا ھوا تھا کہ میرے شکنجے سے نکل ھی نھی سکتی تھی‬
‫صدف ساتھ سسکیاں اور اففففففف یاسرررررررر نہ کرو میں مرجاوں گی‬
‫ھاےےےےے یاسر میری جان نکل رھی ھے‬
‫یاسرررررر پلیززززززز نہ کرو ھاےےےےےے امممممممم اففففففف‬
‫صدف کی سسکیاں اور آہیں سن کر مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا‬
‫اور میں زور زور سے پھدی کو ِلک کر رھا تھا کہ اچانک صدف کی سسکیاں اور آہیں تیز ھوگئی اور اس نے ُبنڈ اوپر کر‬
‫کے ُپھدی کو میرے منہ کے ساتھ مزید جوڑ کر اوپر کو گھسے مارنے شروع کردیا اور دونوں ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں‬
‫بھر لیا‬
‫اچانک صدف نے اپنی ٹانگیں بلکل سیدھی آسمان کی طرف کر کے اکڑا لیں‬
‫اور پھر وہ ھوا جسکی وجہ سے عظمی کو الٹیاں آئی تھی‬
‫صدف کی پھدی سے ایک لمبی سی پھوار نکلی‬
‫اور صدف نے زور سے ھاےےےےےےےےے میں گئیییییییی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی پھوار میرے منہ پر‬
‫میرے ناک پر میری آنکھوں پر پڑی اس سے پہلے کے دوسری پھوار بھی میرے منہ پر پڑتی میں پیچھے کو ہٹ کر منہ کے‬
‫آگے ہاتھ رکھ لیا‬
‫اور باقی کی تین چار منی اور پانی کی پھواریں میرے ھاتھ پر گری‬
‫اور ساتھ ھی صدف کی پھدی کے ہونٹ کھلتے بند ھوتے مجھے گالیاں دیتے نظر آے‬
‫اور صدف بےجان ھوکر جسم ڈھیال چھوڑ کر لیٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی‬
‫کچھ دیر بعد صدف کچھ سنبھلی تو میں اسکی ٹانگوں کے درمیان اسکے اوپر لیٹ کر اپنا منہ اسکے منہ کے قریب کیا تو‬
‫اچانک اس نے میرے دونوں کانوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر ذور سے میرے سر کو ہالتے ھوے کہا‬
‫میں تیری جان کڈ لینی اے‬
‫تو میں نے مسکرا کر کہا‬
‫دیکھ لیا میرے پیار کا ثبوت اسے کہتے ہیں پیار تو صدف نے ویسے ھی میرے کان پکڑے میرا منہ اپنے منہ کے قریب کیا‬
‫اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی اور بولی‬
‫آئی لو یو‬
‫یاسر میں تیری ھوں میرا سب کچھ تیرا ھے‬
‫یہ جسم بھی تیرا ھے یہ جان بھی تیری ھے‬
‫جیسے چاھے کر میں تجھے کبھی نھی روکوں گی‬
‫میں نے یہ سن کر کہا‬
‫اندر کردوں‬
‫تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ھوے بولی کردو‬
‫میں نے کہا سیل ٹوٹ جاے گی‬
‫صدف بولی ٹوٹنے دو‬
‫میں نے کہا عزت چلی جاے گی‬
‫تو صدف بولی جانے دو‬
‫میں نے کہا کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھو گی‬
‫تو صدف بولی نھی پروا‬
‫میں نے کہا برباد ہو جاو گی‬
‫تو صدف بولی‬
‫ہونے دو‬
‫صدف ایسے بول رھی تھی جیسے اس پر جادو کیا ھو اور وہ سحر میں جکڑے ہر بات کا پوزٹیو جواب دے رھی ھو‬
‫میں ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ٹانگوں کو مزید کھول کر اپنے لن کے پھولے ھوے ترسے‬
‫ھوے پیاسے ٹوپے کو اسکی چوت کے لبوں میں سیٹ کرچکا تھا‬
‫اب پوزیشن یہ تھی کہ بس مجھے ایک دھکا لگانا تھا‬
‫میں نے صدف سے پھر کہا سوچ لو‬
‫تو وہ اسی نشیلے انداز میں بولی سوچ لیا‬
‫میں نے کہا پھر مجھے مت کہنا‬
‫تو صدف بےساختہ بولی نھی کہتی‬
‫میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے مزید قریب کیے‬
‫اور کہا تیار ھو‬
‫تو اس نے کہا تیار ھوں‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکا منہ بند کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے کندھوں پر رکھ کر کندھوں کو‬
‫مضبوطی سے پکڑا‬
‫اور ایک زور دار گھسا مارا صدف کی پھدی گیلی تھی میرا لن خشک تھا‬
‫گھسا اتنا جاندار تھا کہ پھدی کو چیرتا ھوا ساری رکاوٹوں کو ہٹاتا ھوا سارے کا سارا اندر چال گیا صدف‬
‫میرے نیچے سے ایسے تڑپی جیسے مرغی کو چھری پھیر کر ٹھنڈا ھونے کے لیے چھوڑ دیا ھو‬
‫صدف نے پورے زور سے چیخ ماری تھی‬
‫مگر اسکی چیخ میرے منہ کے اندر ھی گونج کر خاموش ھوگئی صدف ایک دم اوپر کو اچھلی مگر اسکے کندھے میرے‬
‫ھاتھوں میں تھے اس نے پھدی اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی مگر میرا سارا وزن اسکے پھدی والے‬
‫حصہ پر تھا‬
‫صدف کی آنکھون سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی جو اس کی بند آنکھوں سے بہہ رھی تھی‬
‫میں گھسا مار کر اسکے اوپر لن اندر کیے ھی لیٹا رھا‬
‫صدف تین چار منٹ تک مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رھی اور میں اسے دالسا دیتا رھا‬
‫کچھ دیر بعد صدف کچھ ریلکس ھوگئی‬
‫میں نے اب اسکے کندھے چھوڑ دیے تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رھا تھا اسکے آنسو صاف کر رھا تھا‬
‫صدف کچھ بول نھی رھی تھی بس روے‬
‫جارھی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میرا لن کسی گرم بھٹی میں ھے اور اسکی پھدی نے میرے لن کو اپنے شکنجے‬
‫میں جکڑا ھوا ھے‬
‫میں اس سے باتیں کر رھا تھا مگر وہ گم سم سی بس روے جارھی تھی اسکی یہ حالت دیکھ کر میرا بھی دل بھر آیا میں‬
‫ایک جھٹکے سے اس سے الگ ھوا اور لن باہر ایک جھٹکے سے باہر آیا تو صدف نے پھر زور سے چیخ ماری مجھے اس‬
‫کا دھیان ھی نھی تھا کہ لن نکالتے ھوے بھی درد ھوگا‬
‫اس لیے اسکی چیخ الزمی آس پاس تک گئی تھی اور میرا رنگ اڑ گیا‬
‫میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا تو لن خون کے ساتھ لت پت تھا اور اسکی پھدی سے کافی خون نکل کر نیچے چادر میں‬
‫سمو گیا تھا‪ ،‬اسکی پھدی سے اب بھی سرخ پانی سا نکل رھا تھا‬
‫مجھے تو یہ ٹینشن پڑ گئی تھی کہ اگر کسی نے صدف کی چیخ سنی ھوگی تو الزمی ادھر آے گا‬
‫مگر صدف اس سب سے العلم ھوکر نیم بے ہوشی کی سی حالت میں مجھے دیکھی جارہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو‬
‫اب بھی جاری تھے‬
‫مجھے تو سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کیا کروں‬
‫کہ اچانک‬
‫میرے دماغ کی بتی جلی اور میں نے جلدی سے چادر کے ساتھ اپنے لن کو اچھی طرح صاف کیا‬
‫اور صدف کو سنبھالتے ھوے اٹھا کر بیٹھا دیا اور خود ھی اسکی پھدی کو صاف کرنے لگا میں نے جیسے ھی چادر کے‬
‫ساتھ اسکی پھدی کو صاف کرنے کے لیے اسکی پھدی کے ساتھ چادر لگائی تو صدف پھر تڑپ کر آگے کو ھوئی اور میرا‬
‫ھاتھ پکڑ کر غصے سے جھٹک دیا‬
‫تو میں نے اسے کندھوں سے ہالتے ھوے کہا کہ‬
‫صدف صدف صدف ہوش کرو‬
‫جلدی سے شلوار پہنو کوئی آجاے صدف کچھ سنبھل گئی تھی ویسے ھی بیٹھے بیٹھے اس نے شلوار پہننے کی کوشش کرنے‬
‫لگ گئی میں نے جلدی جلدی اسکی شلوار اسے پہنائی اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا‬
‫تو وہ ایکدم لڑکھڑا کر گرنے لگی مگر نے اسے سنبھال لیا‬
‫اور پھر اسے ہالنے لگا کہ صدف ہوش کرو یار‬
‫صدف بولی یاسر مجھے پتہ نھی کیا ہورھا ھے‬
‫مجھ سے تو کھڑا ھی نھی ھورھا‬
‫تم نے اچھا نھی کیا میرے ساتھ‬
‫تو میں اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ھوے کہا مجھے معاف کردو مجھے نھی پتہ تھا کہ‬
‫تمہیں اتنی درد ھوگی‬
‫تو صدف نے میرے جڑے ھاتھ پکڑ کر سنبھلتے ھوے کہا‬
‫اب کیا فائدہ یاسر جب پیچھے بچا ھی کچھ نھی‬
‫تو میں نے پھر سے رو دینے والے انداز سے اس مافیاں مانگنے لگ گیا‬
‫تقریبًا دس پندرہ منٹ میں اس کے ترلے کرتا رھا۔‬
‫دوستو اسکی جو حالت تھی میں واقعی ڈر گیا تھا اور سیریس ہوکر ھی اس کی منتیں کررھا تھا‬
‫خیر اب صدف کافی سنبھل چکی تھی میں نے اسکی حالت بہتر ھوتے دیکھ کر اسکو برقعہ پکڑایا کہ اسے پہن لو تو صدف‬
‫نے مشکل سے برقعہ پہنا اور میں نے جلدی سے چادر اکھٹی کی اور صدف کے ہینڈ بیگ میں ڈال دی‬
‫جب میں نے چادر اٹھائی تو نیچے گھاس بھی خون سے سرخ ھو چکی تھی میں نے پاوں مار کر مٹی اور گھاس جو مکس‬
‫کر دیا‬
‫اور صدف کو چلنے کا کہا تو صدف چلنے لگی تو پھر ایکدم لڑکھڑائی‬
‫تو میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سہارا دے کر سنبھال لیا‬
‫صدف بولی یاسر مجھ سے نھی چال جارھا میرے پیٹ میں اور میرے نیچے بہت درد ھوے جارھی ھے‬
‫تم جاو میں نے ابھی نھی جانا‬
‫تو میں اسے کہا یار پاگل ھو کیا جو ایسی باتیں کررھی ھو میں تمہیں کیسے اس حال میں چھوڑ کر جاسکتا ھوں‬
‫مجھے تو بس تمہاری عزت کا خیال ھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا بنے گا‬
‫یہ کہہ کر‬
‫میں نے اسے کھڑا کیا اور اسکا پیٹ دبانے لگ گیا اور ساتھ ساتھ پھدی سے اوپر واال حصہ بھی دبا دیتا‬
‫میرا رنگ اڑا ھوا تھا میرے چہرے سے پریشانی اور خوف صاف نظر آرھا تھا جسکو صدف نے بھی نوٹ کرلیا تھا‬
‫ایسے تقریبًا ہمیں آدھا گھنٹہ ایسے گزر گیا‬
‫صدف کبھی بیٹھتی کبھی کھڑی ھوتی اور کبھی آہستہ آہستہ سے ادھر ادھر چلتی‬
‫اور میں کھالے کے بنے پر کھڑا ھوکر ادھر ادھر دیکھتا رھا کہ کوئی آ تو نھی رھا مزید کچھ دیر بعد صدف نے مجھے‬
‫چلنے کو کہا‬
‫تو میں اس کا ھاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ کھالے پر بنی ایک چھوٹی سی ُپلی کی طرف چل پڑے کیوں کے صدف سے‬
‫اب کھاال تو نھی پھالنگا جا سکتا تھا‬
‫اور میں کوئی اتنا بھی شیر جوان نھی تھا کہ اسے اٹھا کر چھالنگ لگا کر دوسری طرف چال جاتا‬
‫صدف اب بھی کچھ لڑکھڑا کر چل رھی تھی اور اس نے ٹانگوں کو بھی تھوڑا کھوال ھوا تھا‬
‫میں نے صدف کو کہا یار اگر ایسے چلو گی تو ہر دیکھنے والے کی نظر تم پر پڑے گی اور تمہاری امی کو بھی شک‬
‫ھوجاے گا‬
‫خود کو سنمبھالو یار۔۔‬
‫تو صدف تھوڑا غصے سے بولی‬
‫اتنی فکر تھی تو میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرتے یہ سب تمہارا ھی کیا دھرا ھے‬
‫میں نے کہا یار مجھے اگر پتہ ھوتا تو میں کبھی بھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہ‬
‫تو صدف غصے سے بولی‬
‫اگر تم سے صبر نھی ھی ھوتا تھا تو آرام سے کرلیتے ایک دم جانور بن گئے تھے ۔‬
‫میں نے کہا یار اب معاف بھی کردو‬
‫تو صدف بولی معاف تو تم مجھے کرو ۔۔‬
‫میں نے کہا یار اب ایسے غصہ تو نہ کرو۔۔‬
‫تو صدف جنجھال کر بولی میری زندگی تباہ کردی اور میں غصہ بھی نہ کروں۔۔۔‬
‫میں نے روھانسے ہوکر صدف کو کہا کہ مجھے سزا دے دو جو تمہارا دل کرے ۔۔‬
‫صدف بولی سزا میں نے کیا دینی ھے جو تم نے مجھے سزا دی ھے میرے لیے وہ ھی کافی ھے۔۔۔‬
‫ایسے ہم ِگ لے شکوے کرتے گاوں کی طرف چلے جارھے تھے صدف کی حالت کافی بہتر ھوچکی تھی اور اس نے کافی حد‬
‫تک خود پر کنٹرول کرلیا تھا اور اسکی چال بھی کافی بہتر ہوگئی تھی ۔۔۔‬
‫صدف چلتے چلتے ایکدم رکی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر سچ سچ بتانا کہ تم میرے اندر فارغ تو نھی ھوے ۔۔۔‬
‫میں تھوڑے سے طنزیہ انداز سے بوال‬
‫واہ میڈم جی واہ میں تے حالے اک گھسا مار کے سارا اندر کیتا سی تے تواڈیاں اکھاں ُپٹھیاں ہوگیاں سی‬
‫میں تے تواڈی حالت دیکھ کے دوسرا گھسا مارنا ھی ُپل گیا سی۔۔۔۔‬
‫تو صدف شرم اور غصے اور رونے والے ملے جلے انداز میں میرے ُمکا مارتے ہوے بولی‬
‫میرا اب مزاق اڑا رھے ھو نہ‬
‫تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا نھی جناب میری اتنی جرات کہاں کہ یہ گستاخی کروں‬
‫تو صدف تھوڑا سا ہنسی اور بولی چل آیا وڈا‬
‫۔۔‬
‫اور پھر ہم چلتے چلتے گاوں پہنچ گئے ۔۔۔‬
‫اور صدف کو میں گلی نکر پر چھوڑ کر واپس گھر آگیا‬
‫شام کو ہم ٹیوشن کے لیے گئے تو صدف کی امی نے بتایا کہ آج چھٹی کرو‬
‫تمہاری باجی کی طبعیت سہی نھی ھے‬
‫عظمی نے آنٹی سے پوچھا کیا ھوا ھے باجی کو تو آنٹی بولی‬
‫پتہ نھی جب سے اکیڈمی سے آئی ھے تب سے لیٹی ھے اور ہلکا سا بخار بھی ہے اسے‬
‫کہتی کے اکیڈمی میں بھی الٹیاں آتی رھی ہیں‬
‫تو ہم صدف کے کمرے کی طرف جانے لگے تو آنٹی نے آواز دی کہ ابھی وہ سورھی ھے اور اس نے کہا تھا کہ اسے کوئی‬
‫جگاے نہ‬
‫اور ہم آنٹی کی بات سن کر واپس آگئے‬
‫اگلے دن ویسے ھی چھٹی تھی‬
‫دوسرے دن میں گیارہ بجے تک گھر ھی رھا پھر مجھے صدف کا خیال آیا کہ وہ کیا سوچے گی کہ میں اسکا پتہ بھی نھی‬
‫کرنے آیا تو میں گھر سے نکل کر سیدھا صدف کے گھر جا پہنچا۔۔‬
‫دروازہ کھال ھوا تھا‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو سامنے برآمدے میں صدف کا ابو بیٹھا ھوا تھا اور اپنے پاوں کے ناخن کاٹنے میں مصروف‬
‫تھا‬
‫میں اسے دیکھ کر ایکدم رک گیا اور واپس پلٹنے کے لیے مڑا ھی تھا کہ پیچھے سے انکل کی آواز آئی‬
‫کیویں آیا ایں کاکا‬
‫میں نے انکل کی طرف منہ کیا اور کہا وہ مممم میں باجی کا پتہ کرنے آیا تھا اور باجی سے پوچھنا تھا کہ‬
‫صبح ہم پڑھنے آجائیں تو انکل مونچھوں کو تاو دیتے ھوے بولے‬
‫۔۔‬
‫جاو اندر کمرے میں چلے جاو ادھر ھے تمہاری باجی‬
‫۔۔‬
‫میں جی کہا اور سہما سہما صدف کے کمرے کی طرف چل دیا‬
‫میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف رضائی لے کر لیٹی ھوئی تھی‬
‫اور اسکی امی اسکے سرہانے کی طرف بیٹھی صدف کا سر دبا رھی تھی‬
‫میں نے اندر جاکر سالم کیا تو آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا ۔۔‬
‫صدف نے جب میری آواز سنی تو اس نے میری طرف دیکھا بھی نھی اور آنکھیں بند کرلیں‬
‫میں نے آنٹی سے پوچھا کیسی طبعیت ھے اب باجی کی‬
‫میں آنٹی سے بات کرتے ھوے صدف کے چہرے کی طرف ھی دیکھ رھا تھا‬
‫میں نے جیسے ھی آنٹی سے باجی کا پوچھا تو صدف نے آنکھیں کھول کر مجھے گھورا‬
‫جیسے کہنا چاہ رھی ھو‬
‫کہ‬
‫میری ُپھدی وی پاڑ دتی اے تے حالے وی میں تیری باجی ای آں۔۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ُپتر پتہ نئی کل دا ایس ُک ڑی نوں کی ہویا اے بخار نال تپدی پئی اے‬
‫پتہ نئی لگدا اے کسے پکی جگہ تو ننگ آئی اے‬
‫تے ایدھے تے کوئی بارلی شے دا اثر ہوگیا اے ۔۔۔‬
‫۔(بیٹا پتہ نھی کل کا اسکو کیا ھوگیا ھے بخار سے اسکا جسم بہت زیادہ گرم ھے مجھے تو لگتا ھے کسی ایسی جگہ سے‬
‫گزری ھے جہاں پر جنات کا اثر ھو اور انکا اثر اس پر بھی پڑ گیا ھے ۔۔)‬
‫تو میں نے کہا آنٹی شاہ صاحب سے دم کروا کے دیکھ لیں کہیں سچ میں ایسا نہ ھو‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ُپتر َگ ل تے تیری سئی اے میں جانی آں شاہ جی دے کاار‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپ نے جانا ھے تو چلی جائیں ابھی پھر شاہ جی نے جمعہ پڑھانے *****چلے جانا ھے‬
‫میں باجی کا سر دبا دیتا ہوں‬
‫تو آنٹی پھر بولی‬
‫میں ایس کملی نوں سمجھایا وی سی کہ ِش کر دوپیرے پیدل نیر ولوں نہ آیا کر ٹانگے تے آجایا کر پر اے میری گل مندی ای‬
‫نئی ہن پے گئی اے نہ منجھی تے‬
‫۔۔(میں نے اس بیوقوف کو‬
‫سمجھایا بھی تھا کہ اتنی دوپہر کو نہر کی طرف سے نہ آیا کرے تانگے پر آجایا کر مگر یہ میری بات مانے تو پھر نہ‬
‫اب بیمار ھوکر چارپائی پر پڑی ھے ۔۔)‬
‫میں نے صدف کی طرف دیکھا جو مجھے گھورے جارھی تھی‬
‫اور بولی میں سہی ھوں کچھ نھی ھوا مجھے بس میرے پیٹ مین درد تھا اس لیے ایسے ھوگیا تھا‬
‫کوئی سایہ نھی ھے مجھ پر‬
‫میں نے آنٹی سے پوچھا کہ میرے لیے کوئی کام ھو تو بتا دیں کچھ منگوانا ھو‬
‫آنٹی بولی ُپتر توں ایتھے اپنی باجی کول بیٹھ میں شاہ جی دے کروں پتہ کر کے آئی‬
‫تو عظمی کچھ بولنے لگی تھی تو میں نے اسے آنکھ مار کر چپ رھنے کا کہا تو وہ خاموش ھوگئی‬
‫اور آنٹی اٹھ کر باہر چلی گئی‬
‫اور باھر سے انکل کے ساتھ بات کرتے ھوے بولی‬
‫جمعہ نھی پڑھنا تو انکل بولے ھالے ایک گھنٹہ پڑا ھے ابھی جا کر ****** میں بیٹھ جاوں‬
‫تو آنٹی نے انکل کو شاہ صاحب کے گھر جانے کا کہا اور باہر کو چلی گئی‬
‫میں صدف کے پاس بیٹھ کر اسکا سر دبانے لگا تو‬
‫صدف نے مجھے دھکا دیتے ھوے کہا‬
‫اٹھو یہاں سے میرے ساتھ ہمدردیاں مت کرو‬
‫میں نے رونے واال منہ بناتے ھوے کہا کہ اب میں اس الئک بھی نھی رھا‬
‫۔ تو صدف آہستہ سے بولی الئک کے بچے‬
‫ابو باہر ہیں اگر کمرے میں آگئے تو تمہیں میرے پاس بیٹھا دیکھ کر تمہاری اور میری بےعزتی کریں گے‬
‫اس لیے سامنے والی کرسی چارپائی کے قریب کر کے بیٹھ جاو ۔‬
‫میں اسکے ابو کا سنتے ھی جلدی سے کھڑا ھوگیا اور سامنے لکڑی کی کرسی اٹھا کر صدف کے قریب بیٹھ گیا‬
‫اور اسکا حال احوال پوچھنے لگ گیا‬
‫کہ اچانک کمرے میں انکل داخل ھوے اور مجھے کہنے لگے‬
‫چل کاکا شاباش اپنے کار جا‬
‫اپنی باجی نوں آرام کرن دے‬
‫میں شرمندہ سا ہوکر نیواں نیواں ہوکے انکے گھر سے نکل آیا‬
‫اور سارے راستے صدف کے ابو کو گالیاں دیتا رھا‬
‫گھر پہنچ کر میں بھی نہا دھو کر جمعہ کی تیاری کرنے لگ گیا‬
‫دوستو‬
‫ایسے ھی تین چار دن صدف ہمارے ساتھ شہر بھی نھی گئی اور نہ ھی ہم ٹویشن پڑھنے گئے‬
‫سکول میں اسد سے بھی وہ ھی روز مرہ کی سیکسی باتیں چلتی رہتی‬
‫میں نے باتوں ھی باتوں میں اس سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کنواری لڑکی کی پھدی میں لن کیسے ڈالتے ہیں اور اندر فارغ نھی‬
‫ھوتے جسکی وجہ سے لڑکی پریگنٹ ھو جاتی ھے‬
‫دوستو ایسے ھی وقت گزرتا رھا‬
‫صدف ہمارے ساتھ جاتی تو تھی مگر دوبارا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا موقع نھی مال اور ٹیوشن میں بھی کچھ خاص نہ ھو‬
‫بس ہلکا پھلکا آنکھ مٹکا چلتا رھتا تھا‬
‫ایسے ھی پیپر ہونا شروع ھوگئے میں نے بھی اب ذیادہ توجہ پڑھائی کی طرف کردی تھی‬
‫اور صدف نے مجھ پر کافی توجہ دے کر میرے پیپروں کیا تیاری کروا دی تھی‬
‫اس لیے میرے پیپر اچھے ھوے‬
‫اور پھر اکتیس مارچ کو رزلٹ آگیا‬
‫مجھے کو پوزیشن تو نہ ملی مگر اچھے نمبروں سے پاس ھوگیا تھا اور اسد بھی مشکل سے پاس ھوگیا تھا‬
‫اور اس دفعہ عظمی اور نسرین کے نمبر مجھ سے اچھے تھے‬
‫جس کے طعنے مجھے کئی دنوں تک سننا پڑے‬
‫نئی کالسیں شروع ھوگئی تھی اس سکول میں میرا السٹ ائیر تھا اسکے بعد میں ھائی سکول میں داخلہ لینا تھا‬
‫اور عظمی لوگوں کا بھی میرے جیسا حال تھا‬
‫سیون کالس میں میری بدقسمتی ھی رھی کہ ساال اسد پھر میرے ھی سیکشن میں تھا‬
‫صدف اب بھی ہمارے ساتھ ھی جاتی تھی مگر واپسی پر وہ تانگے پر آتی تھی‬
‫ایک دن میں سکول کے لیے عظمی لوگوں کو لینے گیا تو پتہ چال کہ نسرین کو بخار ھے اور اس نے سکول نھی جانا‬
‫عظمی اکیلی میرے ساتھ جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی‬
‫آنٹی نے ہمیں گھر سے نکلتے وقت تک کہا کہ بہن کا خیال رکھنا اور دھیان سے جانا اور سیدھے سکول ھی جانا اور‬
‫سیدھے گھر ھی آنا‬
‫میں جی جی کرتے ھوے عظمی کو لے کر صدف کے گھر گیا اور اسکے ساتھ ہم سکول کی طرف چل پڑے‬
‫میں نے اب اکثر نوٹ کیا تھا کہ صدف اب میرے آگے نھی چلتی تھی کبھی عظمی میرے آگے ھوتی تو کبھی نسرین‬
‫آج بھی عظمی ھی میرے آگے آگے چل رھی تھی‬
‫کافی دن ھوگئے تھے مجھے عظمی کا جسم ٹچ کیے‬
‫میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح عظمی کی گانڈ۔کو ٹچ کروں مگر عظمی صدف کے ڈر کی وجہ سے صدف سے‬
‫باتیں کرتی ھوئی اسکے بلکل پاس ہو کر چل رھی تھی‬
‫میں اسے دل ھی دل میں گالیاں بھی دیتا جارھا تھا‬
‫پھر میں نے دل میں ھی کہا کہ کوئی بات نھی واپسی پر تو اکیلی ھی ھوگی نہ آج تیری ساری اگلی پچھلی کسر نہ نکالی تو‬
‫کہنا‪،‬‬
‫عظمی کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول میں آگیا اسمبلی کے لیے سب لڑکے باہر گراونڈ میں قطاریں بنا رھے‬
‫تھے میں بھی اسد کو ڈھونڈتا ھوا‬
‫اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا‬
‫سامنے سٹیج پر پی ٹی ماسٹر ھاتھ میں سٹک پکڑ کر سٹک کے اشارے سے قطاریں سیدھی کروا رھا تھا‬
‫اور تین لڑکے مائک کے سامنے ترانہ پڑھنے کے لئے سٹینڈ اپ تھے‬
‫کہ اچانک پی ٹی ماسٹر دل پر ھاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور اسکے منہ سے الٹیاں نکلنا شروع ھوگئی‬
‫اور ماسٹر پیچھے کو گر گیا‬
‫آگے کھڑے لڑکے دوڑ کر سٹیج پر چڑھے اور مائک والے لڑکے بھی پی ٹی ماسٹر کے ارد گرد اکھٹے ھوگئے‬
‫سب لڑکوں میں کھلبلی سی مچ گئی‬
‫اتنے میں اندر سے باقی اساتذہ بھی باہر کی طرف دوڑے آرھے تھے‬
‫میں نے اور اسد نے کافی کوشش کی کہ کسی طرح پی ٹی ماسٹر کے قریب پہنچ کر اسکی حالت کا اندازہ کیا جاے مگر رش‬
‫اتنا ھوگیا تھا کہ ہم آگے نھی جا سکے‬
‫خیر ہم دونوں ایک سائڈ پر کھڑے ھوگئے‬
‫اور اتنی دیر میں ایمبولینس بھی آگئی ماسٹر جی کو سٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ہسپتال لے گئے‬
‫کچھ لڑکے کہہ رھے تھے کہ‬
‫ماسٹر جی فوت ھوگئے ہیں اور کچھ کہہ رھے تھے کہ بےہوش ھوگئے ہیں‬
‫تبھی ایک ٹیچر نے مائک میں سب لڑکوں کو اپنی اپنی کالسوں میں جانے کا کہا‬
‫اور ہم دونوں بھی اپنی کالس میں چلے گئے‬
‫تقریبََا بیس منٹ بعد باہر سے لڑکوں کی آوازیں سنائی دی کہ پی ٹی ماسٹر جی فوت ھوگئے ہیں اس لیے چھٹی ھوگئی ھے‬
‫ہم دونوں اور باقی کالس کے لڑکے بھی جلدی سے اپنے اپنے بیگ اٹھا کر کالس سے نکلے‬
‫تو باہر آکر پتہ چال کہ واقعی سچ ھے‬
‫لڑکوں کو ماسٹر جی کے فوت ہونے کا غم کم تھا اور چھٹی کی خوشی ذیادہ تھی ۔‬
‫میں نے اسد کو کہا یار اب میں کیا کروں‬
‫میں تو چھٹی کے وقت سے پہلے گھر نھی جا سکتا کیوں کہ میری کزنوں نے میرے ساتھ ھی جانا ھوتا ھے‪،‬‬
‫دوستو میں نے اسد کو عظمی اور نسرین کے بارے میں یہ ھی بتایا تھا کہ یہ میری آنٹی کی بیٹیاں ہین‬
‫مگر اسد نے انکو دیکھا نھی ھوا تھا‪،‬‬
‫اسد بوال تو چل میرے ساتھ آج پھر مزے کرتے ہیں‬
‫میں نے کہا کہاں تو بوال پہلے گیموں پر چلتے ہیں‬
‫پھر گھر چلیں گے‬
‫اور چھٹی کے وقت میں تمہیں سکول چھوڑ جاوں گا‬
‫اسد کے گھر کا سن کر میری آنکھوں کے سامنے پھر سے اس حسین پری کا چہرہ آگیا‬
‫اور سوچنے لگ گیا کہ کیا نام تھا اسکا‬
‫پھر میرے ذہن میں ھاں مہری بلکل مہری ھی کہہ کر اسد نے آواز دی تھی‬
‫میں نے کہا یار سیدھے گھر ھی چلتے ہیں میرا گیموں پر جانے کو دل نھی کررھا‪،،،‬‬
‫تو اسد بوال یار ابھی ایک گھنٹے تک میرے ساتھ گھر نھی جاسکتے میں نے پوچھا وہ کیوں تو اس نے بتایا کہ ابھی مما گھر‬
‫پر ھی ھوں گی‪،،،‬‬
‫تو میں نے نے کہا پھر کیا کیا جاے‬
‫تو اسد بوال چل ایسا کر کہ اگر ممی تجھ سے پوچھیں بھی کہ واقعی ماسٹر فوت ھونے کی وجہ سے چھٹی ھوئی ھے تو تم‬
‫بلکل سچ ھی بتانا‬
‫باقی میں سنبھال لوں گا‬
‫اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوے بوال‬
‫چل جگر سیدھا گھر ھی چلتے ہیں‪ ،‬دیکھی جاے گی جو ہوگا‬
‫تو میں نے کہا یار‬
‫میرے جانے سے اگر تمہیں کوئی پرابلم ھے تو میں نھی جاتا تم جاو میں ادھر ھی بیٹھ کر چھٹی کا انتظار کر لیتا ھوں ۔۔‬
‫تو اسد بوال نہ یار۔۔‬
‫کیسی باتیں کرتا ھے کچھ نھی ھوتا ایسی بھی کوئی خطرے کی بات نھی‬
‫تو ہم دونوں گھر کی طرف چلدیے تقریبََا دس پندرہ منٹ تک ہم پیدل چلتے اسد کے گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔۔‬
‫اسد نے بیل دی تو اسکی مما نے ھی گیٹ کا چھوٹا دروازہ‬
‫کھوال اور اسد کو اور مجھے سامنے دیکھ کر حیران ھوتے ہوے پوچھنے لگی‬
‫کیا ہوا بیٹا سکول نھی گئے تو اسد نے پی ٹی ماسٹر کے بارے میں سب کچھ بتا دیا‬
‫اور اندر داخل ہوگیا‬
‫میں بونگا بن کر اسکی مما کے چہرے کو ھی دیکھی جارھا تھا جسکو آنٹی نے بھی نوٹ کیا‬
‫آنٹی کی شکل ہو با ہو مہری جیسی تھی جیسے دونوں فوٹو کاپی ہوں اور انکے چہرے سے لگتا ھی نھی تھا کہ یہ اسد اور‬
‫مہری کی مما ھے بلکہ ایسے لگ رھا تھا جیسے ان دونوں کی بڑی بہن ھے‬
‫آنٹی نے براون کلر کی لپسٹک لگائی ہوئی تھی جو اس کے حسن کو مزید چار چاند لگا رھی تھی آنٹی نے صرف سر ھی‬
‫باھر نکاال تھا باقی کے جسم کا مجھے اندازہ نہ ھوسکا کیوں کہ وہ دروازے کی اوٹ میں تھا‬
‫آنٹی کا رنگ بھی مہری کی طرح چٹا سفید تھا اور چہرے کی جلد بھی ایکدم کلین تھی‬
‫تھوڑی دیر بعد اسد نے بیٹھک کا بیرونی دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا‬
‫تو میں بیٹھک کے اندر چال گیا‬
‫اور اندر جاتے ھی اسد سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نھی بنا‬
‫تو اسد بوال سب اوکے ھے‬
‫اور مجھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا‬
‫تو میں صوفے پر آرام سے بیٹھ گیا‬
‫اسد مجھے کہنے لگا کہ جگر تو بیٹھ میں ذرہ چینج کر کے آیا‪،‬‬
‫میں صوفے پر بیٹھا اندر کمرے کا جائزہ لینے لگ گیا‬
‫کچھ ھی دیر بعد اندرونی دروازے کا پردہ ہٹا اور اسد کی مما ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی جس میں‬
‫مشروب کا ایک گالس پڑا ھوا تھا‬
‫میں آنٹی کو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا اور ایکدم سے کھڑا ہوگیا‬
‫اور آنٹی کو سالم کرنا ھی بھول گیا‬
‫بلکہ آنٹی‬
‫کے گورے چٹے رنگ تیکھے ناک بڑی بڑی آنکھیں کندھوں تک شولڈر کٹنگ سنہری بال‬
‫فٹنگ والے کالے سوٹ میں ‪ 38‬سائز کے ابھرے ہوے بڑے بڑے ممے ہلکا سا باہر کو نکال پیٹ پانچ فٹ سات انچ قد کو‬
‫دیکھنے لگ گیا‬
‫آنٹی نے بڑے غور سے میری طرف سر سے پیر تک دیکھا‬
‫اور ایک ہاتھ میں ٹرے تھی اور دوسرے ہاتھ کو میری آنکھوں کے آگے ہالتے ھو ہیلو کہا‬
‫تو مجھے ایک دم سے ہوش آیا اور میں شرمندہ سا ہو کر سر نیچے کر کے کھڑا ہوگیا‬
‫تو آنٹی کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آئی اور مجھے کہنے لگی کیا نام ہے تمہارا‬
‫میں ہکالتے ھوے کہا ییییییاسر تو آنٹی میرے سامنے میز پر ٹرے رکھتے ہوے جھکی تو آنٹی کے ریشمی بالوں نے اسکے‬
‫منہ کو ڈھانپ لیا اور میری ایکدم نظر آنٹی کے گلے پر پڑی‬
‫تو آنٹی کے کالے رنگ کے سوٹ کے کھلے َگ لے میں چاند کی طرح چمکتے چٹے سفید مموں کا تھوڑا سا درشن ھوا اور‬
‫آنٹی پھر سیدھی ھوگئی اور مسکراتے ھوے میرے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئی اور ایک ھاتھ‬
‫اپنے گھٹنے پر رکھ کر پاوں کو زور زور سے ہالتے ہوے بولی‬
‫بیٹھ جاو میں اسی وقت سیدھا ھی نیچے بیٹھتا گیا‬
‫آنٹی میری حالت کو کافی انجواے کر رھی تھی‬
‫پھر آنٹی کی پنکھڑیاں ہلی اور آنٹی بولی‬
‫کہاں رہتے ھو‬
‫تو میں نے گاوں کا نام بتا دیا‬
‫پھر آنٹی نے میرے گھر کے افراد اور ہماری پوزیشن کے بارے میں معلومات لیں‬
‫میں انکے ہر سوال کا جواب ہکالتے ھوے ھی دیتا تھا‬
‫تھوڑی ھی دیر بعد اسد کمرے میں داخل ھوا اور بوال مما مہری آپکو ُبال رھی ھے‬
‫تو آنٹی بڑی ادا سے اٹھی اور اسد کو بولی تمہارا دوست اچھا ھے‬
‫سیدھا سادھا پینڈو ٹائپ کا ھے‬
‫تو میں نے جھینپ کر سر نیچے کر لیا مجھے اپنی بےعزتی سی محسوس ہوئی‬
‫مگر اپنی تعریف سن کر اچھا بھی لگا‬
‫اور آنٹی کمرے سے باہر نکل گئی آنٹی کی جب گانڈ میری طرف ہوئی تو میں نے جھٹ سے سر اٹھا کر‬
‫انکی باہر کو نکلی موٹی سی گول مٹول گانڈ کا نظارا کیا جو قمیض میں پھنسی ھوئی تھی‬
‫تو اسد میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا‬
‫جگر مما کی بات کا برا تو نھی منایا تو میں نے نفی میں سر ہالدیا‬
‫پھر میں اور اسد بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے‬

‫)‪..Update no (34‬‬
‫تقریبًا آدھے گھنٹے بعد اسد کی مما پھر اندر آئی اور یاسر کو کہا کہ گیٹ بند کر لو میں بوتیک پر جارھی ھوں اور گھر ھی‬
‫رہنا‬
‫اور‬
‫پھر آنٹی نے پرس سے تین چار وزٹنگ کارڈ نکالے اور میری طرف بڑھاتے ھوے کہا کہ یہ ہمارے بوتیک کے کارڈ ہیں‬
‫اپنے پاس رکھ لو گاوں میں کسی نے شادی وغیرہ کی شاپنگ کرنی ھو تو‬
‫خصوصی ڈسکاونٹ پر سوٹ مل جائیں گے‬
‫اور یاسر کو کہا کہ اپنے دوست کو بوتیک بھی دیکھانا‬
‫میں نے آگے بڑھ کر کارڈ پکڑ لیے اور جیب میں ڈال کیے اور یاسر اپنی مما کو باہر چھوڑ کر گیٹ بند کرکے‬
‫کہ پھر میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے‬
‫میں بار بار آنٹی کے خیالوں میں کھو جاتا تھا‬
‫مجھے آنٹی کی آنکھوں عجیب سی کشش نظر آئی تھی جیسے کوئی پیاسا پانی کو دیکھ کر کرتا ھے‬
‫بلکل ایسے ھی آنٹی کی آنکھوں میں وہ تڑپ اور بےچینی سی تھی‬
‫خیر کچھ دیر بعد دروازے کہ اوٹ سے ایک ترنم سی آواز آئی‬
‫اسد بات سنو‪،،،‬‬
‫اسد آواز سنتے ھی اٹھ کر اندر چال گیا‬
‫اور کچھ ھی دیر بعد واپس آیا‬
‫اورمجھے کہنے لگا‬
‫یار میں زرہ سامنے گلی سے ہوکر آیا تم بیٹھو تو میں نے کہا یار میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ھوں تو اسد بوال نھی وہ میری‬
‫کزن آئی ھوئی ھے اسکو اسکے گھر چھوڑنے جانا ھے میں بس دس پندرہ منٹ میں آیا‬
‫میں چپ کرگیا اور اسد نے مجھے پھر کہا یار پریشان نہ ھونا میں بس ابھی آیا‪،‬‬
‫تو میں نے سر ہال کر اوکے کیا اور اسد اندر چال گیا‬
‫اور کچھ دیر بعد مجھے کسی لڑکی اور اسد کی باتیں کرنے کی آواز آئی‬
‫اور پھر اسد کی آواز آئی کہ مہری گیٹ بند کرلو اور‪ ،‬ساتھ ھی باہر کا گیٹ کھلنے اور بند ھونے کی آواز آئی ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد کمرے کا پردہ ہٹا اور وہ حسینہ اندر آئی‬
‫اور آتے ھی مجھ پر بجلی گرا دی‬
‫پنک کلر کا سوٹ پہنے سینے کو تانے کیا پٹاخہ لگ رھی تھی ۔۔‬
‫مجھے سامنے دیکھ کر ٹھٹک کر وہیں رک گئی‬
‫جیسے اسے کمرے میں میری موجودگی علم نہ ھو‬
‫اور حیران ھوتے ھوے مجھ سے پوچھنے لگی‬
‫جی آپ اووووو سوری مجھے پتہ نھی تھا‬
‫میں نے کہا کوئی بات نھی جی‬
‫تو وہ واپس مڑنے لگی‬
‫اور پھر ُر ک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫آپ وہ ھی ھو نا جو اس دن ہمارے گھر آے تھے اور اوپر گئے تھے‬
‫میں نے جب اسکی آواز سنی اور اپنے ساتھ بات کرتے دیکھا تو میرا ویسے ھی ستیاناس ھوگیا‬
‫میں نے ہکالتے ھوے کہا‬
‫ججججی جی‬
‫تو وہ مسکرا کر بولی‬
‫سو کیوٹ‬
‫میں نے کہا جی میں سمجھا نھی‬
‫تو وہ پھر مسکرا کر بولی‬
‫آپ کسی گاوں کے رہنے والے ھو‬
‫تو میں نے کہا ججججج جی‬
‫تو مہری بولی آپکا نام یاسر ھی ھے نہ تو میں نے حیران ھوکر پوچھا‬
‫ججججج جی ممگر آپ کو کیسے پتہ‬
‫تو مہری بولی اسد نے بتایا تھا‬
‫میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آپ کا نام مہری ھے تو وہ ہنستے ھوے بولی‬
‫یس مگر میرا یہ نک نیم ھے‬
‫میرا رئیل نیم مہرالنساء ھے‬
‫تو میں اسکا اصلی نام سن کر سوچنے لگ گیا کہ واقعی مہرالنساء ھی ھے‬
‫جیسا حسن ویسا ھی نام تھا‬
‫میرے منہ سے بےاختیار نکال‬
‫ماشاءہللا‬
‫جی آپکی طرح آپکا نام بھی بہت خوبصورت ھے‬
‫تو اسکے چہرے پر ایک رونق سی آئی‬
‫اسکے باریک سے خوبصورت لب پھر ہلے اور بولی‬
‫اتنے دنوں بعد آے ہو‬
‫میں نے کہا جی بس وہ ٹائم ھی نھی مال‬
‫پیپر شروع ھوگئے تھے اس وجہ سے‬
‫تو مہری بولی گڈ‬
‫میں نے پوچھا جی آپ سکول نھی جاتی تو مہری بولی میں نے میٹرک کے پیپر دیے ہیں‬
‫اب رزلٹ کا انتظار ھے‬
‫میں نے کہا بہت اچھے جی‬
‫تو مہری مسکرا کر بولی‬
‫تھینکس‬
‫آپ بھی اسد کی طرح فیل ھوتے ھو جو ابھی تک سیون میں ھی ھو‬
‫تو میں نے کہا نھی جی میں تو پانچویں تک فرسٹ پوزیشن لیتا آیا ھوں اور اس دفعہ بھی میرے بہت اچھے نمبر آے ہیں‪،‬‬
‫تو مہری حیران ہوتے ھوے بولی کہ آپ کی عمر کتنی ھے‬
‫میں نے کہا ‪ 17‬سال میں لگ گیا ہوں تو‬
‫مہری بولی میری ایج ‪ 18‬سال ھے تو میں نے میٹرک بھی کر لیا ھے اور آپ ابھی تک سیون میں ھی ھو وہ کیوں‬
‫تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا کہ‬
‫ہمارے گاوں میں بچوں کو سکول ھی لیٹ داخل کرواتے ہیں‬
‫میں ‪ 9‬سال کی عمر میں سکول داخل ہوگیا تھا‬
‫تو مہری بولی واوووو کیا بات ھے‬
‫مجھے گاوں دیکھنے کا بہت شوق ھے سنا ھے وھاں بڑے بڑے کھیت اور باغات ھوتے ہیں اور بھینسیں ھوتی ہیں بکریاں‬
‫ھوتی ہیں اور بڑا پر سکون ماحول ھوتا ھے وھاں‬
‫تو میں نے کہا جی بلکل ایسے ھی ھے‬
‫آپ آجائیں کسی دن ہمارے گاوں آپکو سارے گاوں کی سیر کرواوں گا‬
‫تو مہری نے برا سا منہ بنایا مگر اسکا برا سا منہ بنانا بھی میرے دل پر چھریاں چال رھا تھا‬
‫مہری بولی دل تو بہت کرتا ھے مگر مما ھی نھی جانے دیتی‬
‫تو میں نے کہا اسد کو کہیں وہ لے آے گا‬
‫تو مہری بولی‬
‫اس الو کو میں نے کہا تھا کہ اب تو تمہارا دوست بھی گاوں کا ھے چلتے ہیں اسکے گھر مگر وہ بھی مما سے ڈرتا ھے‬
‫تو میں نے کہا میں کہوں آنٹی جی کو‬
‫تو مہری خوش ھوکر بولی‬
‫اگر آپ مما کو منا لیں تو آپکا احسان میں زندگی بھر نھی چکا سکوں گی‬
‫میں اس کملی معصوم کی باتیں سن کر ہنسنے لگ گیا‬
‫اور بول‬
‫جی یہ آپ احسان والی بات مت کریں میں تو کوشش کروں گی اگر آنٹی مان گئی تو‬
‫اتنے میں باھر کی بیل بجی اور مہری جلدی سے کمرے سے نکلی اور مجھے بولی پلیز اسد کو مت بتانا کہ میں نے آپ سے‬
‫بات کی ھے‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور‪ ،‬دوازے کی طرف چلی گئی‬
‫اسد سیدھا بیٹھک میں آیا اور بوال‬
‫سوری یار‬
‫بور تو نھی ھوے‬
‫میں نے کہا نھی یار‬
‫اور دل میں کہا سالیا ھور تھوڑی دیر تک آجاندا‬
‫اس کے بعد ہم اوپر گئے بلیو پرنٹ دیکھا اور مقابلے پر ُمٹھ ماری جس میں جیت میری ھوئی‬
‫اور اسد مجھے سکول کے قریب چھوڑ کر‬
‫واپس چال گیا‬
‫میں نے عظمی کو ساتھ لیا اور ہم دونوں گاوں کی طرف چل دیے‬
‫جب نہر کا پل کراس کیا‬
‫تو میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا‬
‫اور‬
‫میں نے عظمی کو روک کر کہا‬
‫یار تم مجھ سے دور دور کیوں بھاگتی ھو‬
‫تو عظمی بولی ۔‬
‫میں کیوں دور بھاگوں گی ۔‬
‫میں نے کہا میں کتنے دنوں سے دیکھ رھا ہوں تم مجھے کوئی لفٹ ھی نھی کرا رھی‬
‫نہ کھیلنے آتی ھو نہ ھی سکول جاتے ھوے میرے ساتھ چلتی ھو ۔۔۔‬
‫تو عظمی بولی پیپروں کی وجہ سے میں کھیلنے نھی آتی تھی اور اب امی نے ویسے ھی منع کردیا ھے کہ تم بڑی ھوگئی‬
‫ھو اب باہر کھیلنے مت جایا کرو‬
‫اور سکول جاتے وقت باجی ساتھ اور نسرین ساتھ ھوتی ہیں‬
‫اب میں ان کے سامنے تمہارے ساتھ‬
‫جپھیاں ڈالنے سے رھی ۔‬
‫تو میں نے پہلے ِادھر ُادھر دیکھا اور عظمی کو اپنی طرف کھینچ کر جپھی ڈالتے ھوے کہا اب تو کوئی نھی ھے نہ ساتھ‬
‫تو عظمی گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی‬
‫پاگل تو نھی ہوگئے کیا چھوڑو مجھے‬
‫یہ کوئی جگہ ھے اگر کسی نے دیکھ لیا نہ تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی مرواو گے‬
‫اس کے ساتھ ھی عظمی نے مجھ سے اپنا آپ چھڑوا لیا‪،‬‬
‫اور میرے آگے پگڈنڈی پر بھاگتے ھوے بولی‬
‫بے شرم انسان‬
‫میں بھی اسکے پیچھے بھاگا‬
‫وہ مجھے آتا دیکھ کر اور تیز بھاگنے لگی‬
‫اور میں جان بوجھ کر تھوڑا آہستہ دوڑ رھا تھا۔‬
‫کہ عظمی مکئی کے اندر داخل ھوجاے اور کھالے کی ُپلی تک پہنچ جاے پھر اسے ادھر دھر لوں گا‬
‫تھوڑی ھی دیر بعد‪.‬‬
‫عظمی کھالے کے کچھ فاصلے پر تھی کہ میں نے اپنی سپیڈ تیز کی اور اسے کھالے سے پیچھے ھی جا لیا ۔۔‬
‫اور اسکو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور جپھی ڈال کر اسکی ُبنڈ کے ساتھ لن واال حصہ لگا کر اسے آگے سے اوپر اٹھانے‬
‫لگا تو ۔۔‬
‫عظمی بولی۔۔‬
‫ھاےےےےے امیییییی‬
‫چھوڑو مجھے میرا سانس بند ھو رھا ھے‬
‫مگر میں نے اسے چھوڑا نھی‬
‫تو عظمی بولی‬
‫چھڈ مینوں نئی تے میں روال پا دینا اے‬
‫میں نے اسے اوپر کو اٹھاے ھوے ھی کہا‬
‫پا دے روال‬
‫تو عظمی بولی یاسر مجھے نیچے تو اتارو‬
‫میں نے کہا ہاں تاکہ تم دوڑ لگا دو‬
‫تو عظمی بولی نھی لگاتی دوڑ‬
‫تو میں نے کہا‬
‫مجھے پتہ ھے تم نے دوڑ لگا دینی ھے‪،‬‬
‫تو عظمی نے قسم کھاتے ھوے کہا‬
‫کہ *******کی قسم نھی دوڑ لگاتی‬
‫تو میں نے اسے نیچے اتار دیا مگر میرے ھاتھ اب بھی اس کے پیٹ پر ھی تھے‬
‫عظمی نے پیچھے منہ کر کے کہا ھاں بتاو کیا تکلیف ھے‬
‫تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھتے ھوے کہا مجھے نھی تمہارے اس عاشق کو تکلیف ھے‬
‫میرا لن فل ٹائٹ ھو چکا تھا‬
‫تو عظمی نے شوخی سے میرے لن کو پوری مٹھی میں لے کر دبایا اور کچھ کہنے ھی لگی تھی‬
‫کہ اچانک اس نے میرے لن کو چھوڑا اور میری باہوں میں ھی گھوم کر میری طرف منہ کر لیا۔‬
‫اور میرے بازوں کا گھیرا توڑ کر تھوڑا پیچھے ہٹ کر میرے لن کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئی‬
‫میرے لن نے قمیض کو اوپر اٹھا کر تمبو بنایا ھوا تھا‬
‫تو‬
‫عظمی نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھا اور حیرانگی سے بولی‬
‫اینوں کی کیتا ای‬
‫میں نے کہا کیا ھوا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫ھاے میرے ******اینوں کییییی کیتا ای‬
‫تو میں نے ہنستے ھوے‬
‫اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی قمیض کے نیچے سے لن پر رکھتے ھوے کہا‬
‫خود ھی دیکھ لو‬
‫کیا ھوا ھے‬
‫تو عظمی نے جلدی سے ہاتھ ایسے پیچھے کیا جیسے میں نے اسکا ھاتھ گرم توے پر رکھ دیا ھو‬
‫میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور درختوں کی طرف لے کر چلنے لگا‬
‫تو‬
‫عظمی بولی‬
‫ہن کتھے جانا اے‬
‫میں نے کہا چلو‪ .‬تو سہی یار ایسا موقعہ دوبارا پتہ نھی کب ملنا ھے‬
‫تو عظمی اوپر اوپر سے نہ نہ کرتی میرے ساتھ چلی جارہی تھی‬
‫میں عظمی کو لے کر اسی جگہ آگیا جہاں صدف کی سیل توڑی تھی‬
‫عظمی ٹاہلی کے پیچھے جاکر اپنا بیگ نیچے رکھتے ھوے بولی تمہیں اس جگہ سے کچھ زیادہ ھی پیار نھی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یہ جگہ تب ھی پیاری لگتی ھے جب تم میرے ساتھ ھوتی ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫چل چوٹھا‬
‫میں نے اسے جپھی ڈالتے ھوے کہا‬
‫قسم سے‬
‫اور ساتھ ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکے ہونٹ چوسنے لگ گیا‬
‫عظمی پہلے تو نخرے کرتی رھی‬
‫مگر پھر کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگ گئی‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی ُبنڈ کی دونوں پھاڑیوں کو ُمٹھیوں میں بھرنا شروع کردیا‬
‫عظمی کی گانڈ اتنی نرم تھی جیسے میرے ھاتھ میں روئی کے گولے ھوں‬
‫میرا لن عظمی کی پھدی کے اوپر ٹھونگے مار رھا تھا اور اسکے مالٹے کے سائز کے ممے میرے سینے میں دبے ھوے‬
‫تھے‬
‫میں کسنگ کے ساتھ ساتھ اسکی پھدی پر لن سے نشانے لگا رھا تھا‬
‫جس سے عظمی بھی لطف اندوز ہوتے ھوے گانڈ آگے کو کر کے لن کو سہی سمت نشانہ لگانے میں مدد کررھی تھی‬
‫صدف نے اپنے دونوں ھاتھ میرے بازوں کے نیچے سے گزار کر میرے پیچھے سے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا ھوا تھا‬
‫ہم چار پانچ منٹ ایسی ھی پوزیشن میں رھے‬
‫عظمی کافی گرم ھو چکی تھی میں نے عظمی کی قمیض اوپر کی جو نیلے رنگ کی ریشمی کپڑے میں تھی‬
‫اسکی قمیض آسانی سے اوپر ہوگئی‬
‫اور میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور اسکے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکی قمیض اسکے گلے تک کر کے اسکو‬
‫قمیض پکڑے رکھنے کا کہا اور اسکے پیٹ کو چومنے لگ گیا‬
‫اسکا پیٹ گورا چٹا اور ریشم کی طرح مالئم تھا‬
‫میں نے سارے پیٹ کو اچھی طرح چوما اس دروان عظمی اپنے پیٹ کو اندر کی طرف کھینچتی رھی‬
‫میں نے اپنی زبان نکالی اور اسکی ناف کے سوراخ میں پھیرنے لگا عظمی کو جیسے کرنٹ لگ گیا وہ ایک جھٹکے سے‬
‫پیچھے ھوئی‬
‫۔اور منہ سے سسسکاری نکال کر بولی ھاےےےےےےےے میں مرگئی‬
‫میں نے تھوڑا آگے ھوکر پاوں کے بل بیٹھے ھی اسکی ننگی کمر کو پکڑا اور‬
‫پھر سے اسکی ناف کے سوراخ میں زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫تو عظمی پھر سسکاریاں لیتے ھو پیچھے ھونے کی کوشش کرتی رھی مگر اب میں نے اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا‬
‫اس لیے وہ پیچھے نھی ھو سکتی تھی‬
‫تب عظمی بولی‬
‫ھائیییییی یاسر پلیز نہ کرو مجھے گد گدی ھوتی ھے‬
‫میں نے‬
‫اسکی ناف سے زبان نکالی اور ناف کے نیچے پھیرنے لگ گیا‬
‫ناف کے نیچے زبان پھیرتے ھوے میری نظر‪ .‬عظمی کی شلوار پڑی تو اسکی شلوار گیلی نظر آئی‬
‫میں نے کمر سے ہاتھ نیچے کر کے اسکی شلوار کے نیفے پر رکھ دیے‬
‫اور بڑی پھرتی سے جھٹکے سے اسکے شلوار نیچے کو کھینچی شلوار میں السٹک تھی‬
‫اس لیے شلوار بنا کسی رکاوٹ کے‬
‫نیچے ھوتے ھوے عظمی کے پاوں میں گر گئی‬
‫اور عظمی کی کلین شیو پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی جس کے باریک سے ہونٹ اندر سے نکلے ھوے پانی سے‬
‫چمک رھے تھے‬
‫عظمی ایکدم مستی اور مزے سے باھر آئی اور نیچے کو جھک کر اپنی شلوار پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کرنے لگی‬
‫مگر میں نے جلدی سے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ لیے‬
‫اور اسکو سیدھے ھونے کا کہا‬
‫تو عظمی نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کر پھدی کو ُچھپا لیا‬
‫اور کہنے لگی‬
‫بے شرم انسان شرم نھی آتی مجھے سارا ننگا کردیا‬
‫تو میں نے کہا‬
‫میں تمہارا کچھ اتارنے تو نھی لگا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫اتنی جرات ھے تمہاری‬
‫تو میں نے کہا مجھے غصہ دلوا رھی ھو تو عظمی بولی‬
‫غصہ آگیا تو کیا کرلو گے‬
‫تو میں نے کہا بتاوں کیا کر لوں گا پھر رونا مت‬
‫تو عظمی بولی‬
‫میں رونے والی نھی ھوں‬
‫تم اپنی فکر کرو‬
‫تو میں ایکدم کھڑا ہوگیا اور اپنی شلوار نیچے پاوں تک کر دی اور پھر پیروں سے نکال دی‬
‫عظمی یہ دیکھتے ھی اپنی طرف سے بھاگنے لگی تو اسکی شلوار اسکے پاوں میں تھی تو آگے کو منہ کے بل گھاس پر‬
‫گرنے لگی ابھی اسکے گھٹنے گھاس پر نھی لگے تھے کے میں نے پیچھے سے اسکو جپھی ڈال کر گرنے سے بچا لیا‬
‫اب میرے لن کے آگے میری قمیض تھی اور عظمی کی گانڈ کےآگے اسکی قمیض تھی‬
‫جبکہ ہم دونوں کی شلواریں اتری ہوئی تھی‬
‫عظمی اب گانڈ میری طرف کر کے کھڑی تھی‬
‫اور میرا تنا ھوا لن میری اور اسکی قمیض کو لے کر اسکی گانڈ کے دراڑ میں گھسا ھوا تھا‬
‫میں نے اسکو سیدھا کرتے ھوے کہا‬
‫ہن کتھے پجن لگی ایں‬
‫تو صدف اپنے دونوں ھاتھ پیچھے کر کے میرے پیٹ پر رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دینے کی کوشش کرتے ھوے بولی‬
‫چھڈ مینوں چنگا ریں گا نئی تے میرے تو ُبرا کوئی نئی ہونا‪،‬‬
‫میں نے ویسے ھی اسکو جپھی ڈالے ھوے کہا‬
‫میں نے کہا نھی چھوڑتا اگر ہمت ھے تو چھڑوا کر دیکھ لو‬
‫تو عظمی زور آزمائی کرنے لگی‬
‫اسی دوران میں نے اپنی قمیض کو آگے سے لن کے اوپر سے ہٹایا اور عظمی کی پیچھے سے قمیض کو اسکی گانڈ سے‬
‫اوپر کردیا اور لن اسکے چڈوں میں ُگ ھسا کر گھسے مارنے لگ گیا‬
‫عظمی ایسے ھی تھوڑی دیر مچلتی رھی‬
‫مگر جب میرے لن کے ٹوپے نے اسکی پھدی کو رگڑنا شروع کیا تو عظمی کی مزاحمت دم توڑ گئی‬
‫اور عظمی بھی گانڈ پیچھے کر کر کے‬
‫لن کے ٹوپے کا اپنی پھدی سے مالپ کروانے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کی قمیض کو پیچھے سے اور اوپر کر کے اسکے کندھوں تک کر کے اسکی کمر کو ننگا کر دیا اور پھر‬
‫ھاتھ آگے لیجا کر آگے سے بھی قمیض اسکے مموں سے اوپر کر کے اکھٹی کردی اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اسکو قمیض‬
‫وہیں پکڑ کر رکھنے کا کہا‬
‫عظمی پر بھی اب خماری سوار ھو چکی تھی وہ مزید آگے کو جھک گئی اور اپنی قمیض کو ایک ھاتھ میں پکڑ کر اپنے‬
‫گلے سے لگا لیا اور ایک ھاتھ نیچے لیجا کر اپنی پھدی کے اوپر آتے جاتے لن پر رکھا دیا‬
‫اب نیچے پھدی اوپر میرا لن اور میرے لن کے اوپر اسکی ُک ھلی ھوئی انگلیاں اور ہتھیلی تھی‬
‫جب میرا لن اسکی پھدی سے ٹچ ھوتے ھوے آگے جاتا تو‬
‫عظمی اپنی انگلیوں سے میرے لن کو اوپر پھدی کے ساتھ لگا دیتی جس سے میرا لن اس کی پھدی کے لبوں کو کھولتا ھو‬
‫پھدی کے دانے کو رگڑتا ھوا آگے چلے جاتا اور ویسے ھی رگڑ لگاتا ھوا پیچھے آتا‬
‫میں نے اسکے دونوں ممے برا سے آزاد کردیے تھے اور ایک ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا اور ایکھ ھاتھ سے اسکا مما‬
‫پکڑا‬
‫اور زور زور سے گھسے مارنے لگ گیا صدف کے منہ سے سسکاریاں نکلی جارھی تھی اور اپنی انگلیوں سے میرے لن‬
‫کا مساج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پھدی پر بھی زور دے کر لن اور پھدی کی جپھیاں ڈلوا رھی تھی‬
‫میرے پٹ عظمی کے گول چوتڑوں پر تھپ تھپ سے لگ رھے تھے‬
‫عظمی ایکدم سے اپنی گانڈ کو آگے پیچھے کرنے لگ گئی اور‬
‫منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکال رھی تھی‬
‫ھااےےےےے افففففف سسسسیییی یاسسسرررررر تیززز کرو تیززز‬
‫اور میں ویسے ھی سپیڈ کو تیز کرتا جارھا تھا‬
‫عظمی کی پھدی اور سائڈ والی جگہ پہلے ھی گیلی تھی اس لیے میرا لن مزے لے لے کے آگے پیچھے کا سفر کررھا تھا‬
‫عظمی بولی جارھی تھی‬
‫ھااااں یاسسسر ایسے ھی کرو ایسے ھی کرووووو اففففف ھااےےےے یاسررررر مجھے کیا ھو رھا ھے‬
‫ھاےےےےے اممممممم‬
‫اور مجھے بھی جوش آئی جارھا تھا‬
‫میں پہلے ھی مٹھ مار کے آیا تھا اس لیے میرا ابھی چھوٹنے کا وقت بہت دور تھا‬
‫جبکہ عظمی کی جان نکلنے والی ھوچکی تھی‬
‫ایسے ھی دھپ دھپ دھپ گھسے ماری جارھا تھا کہ عظمی کی ٹانگیں اکڑ گئی اور اس نے میرے لن کو اپنے چڈوں میں‬
‫کس کے دبا لیا‬
‫اور ایکد م اسکے جسم نے جھٹکے مارنے شروع کردیے‬
‫اور مجھے اپنے لن پر اسکی گرم گرم منی بہتی محسوس ھوئی‬
‫عظمی نے اپنے گانڈ کو پورے ذور سے بھینچا ھوا تھا جس سے میرا لن اس کے چڈوں میں پھنسا ھوا تھا‬
‫کچھ دیر ایسے عظمی کا جسم جھٹکے کھاتا رھا اور پھر عظمی لمبے لمبے سانس لیتے ھو آگے کو ھوئی اور گھاس پر بیٹھ‬
‫گئی‬
‫منی اور پانی سے اسکی دونوں ٹانگیں گیلی ھو چکی تھی‬
‫عظمی کی شلوار ابھی بھی اسکے پاوں میں ھی تھی‬
‫عظمی ننگی گانڈ ھی گھاس پر رکھ کر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی‬
‫میں آگے بڑھا اور‬
‫عظمی کے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکی شلوار اسکے پاوں سے نکالنے لگا‬
‫تو عظمی نے سر اوپر کیا اور اکھڑی سانسوں کے ساتھ بولی‬
‫کی اےےےے ہن کی کرنا اے رجیا نئی ھالے‬
‫میں نے شلوار اسکے پاون سے علیحدہ کرتے ھوے ایک سائڈ پر رکھ دی‬
‫اور آگے سے قمیض اٹھا کر اپنا تگڑا کھڑا ھوا لن اسے دیکھاتے ھوے کہا‬
‫اسکا کیا قصور ھے یہ ابھی بھی پیاسا ھے‬
‫تم خود تو فارغ ھوگئی ھو‬
‫اسکو کس نے کرنا ھے‬
‫تو عظمی بولی ۔‬
‫میں ایسا ٹھیکہ لیا اے آپی کر لے فارغ۔۔۔‬
‫تو میں نے غصے میں کہا‬
‫واہ اپنی واری اینج کرن دئی ایں تینوں وہ اینے ای مزے دے دے کہ فارغ کیتا اے‬
‫احسان فراموش‬
‫مطلبی‬
‫تو عظمی ایکدم اکڑ کر بولی مجھے مطلبی مت کہو سمجھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫مطلبی نھی ھو تو اور کیا ھے بیچارے نے اتنی محنت کر کے تمہیں فارغ کیا ھے میں نے لن کو پکڑ کر اسکے سامنے‬
‫ہالتے ھوے کہا‬
‫دیکھو بیچار ے کا کیا حال ھوگیا ھے الل سرخ ھوچکا ھے‬
‫اور اب تم اسکو ناراض کررھی ھو‬
‫تو عظمی بولی بتاو کیا کروں جس سے تمہارا یہ بیچارا خوش ھوگا‬
‫تو میں نے اسکی ننگی پھدی پر انگلی لگاتے ھوے کہا‬
‫بس اسکے اندر کی سیر کروا دو‬
‫یہ خوش ھوجاے گا‬
‫تو عظمی کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوے بولی‬
‫مینوں مارنا اے‬
‫اینوں کھوتے نوں ویکھ پیلے‬
‫تے ایس نکی جئی نوں‬
‫ویکھ‬
‫پاڑنا اے اینوں‬
‫میں نے کہا یار یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ھی تو بنے ہیں‬
‫تو عظمی بڑی شوخی سے بولی‬
‫جب وقت آے گا تب ھی یہ ایک دوسرے کے لیے موثر ھوتے ہیں‬
‫ورنہ دونوں میں سے ایک کا نقصان ھی ھوتا ھے‬
‫ابھی ہم چھوٹے ہیں جب بڑے ہوں گے تو شادی کے بعد یہ سب کچھ کریں گے‬
‫میں نے کہا یار‪ .‬تم بھی بڑی ھو کون سا چھوٹی ھو ابھی تو تم کہہ رھی تھی کہ آنٹی نے کہا ھے کہ اب تم بڑی ھوگئی ھو‬
‫اور میں تمہارے سامنے ھی ھوں‬
‫تو عظمی بولی نھی یاسر‬
‫ابھی ایسا ویسا کچھ نھی کرنا‬
‫اگر مجھے کچھ ہوگیا تو‬
‫میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا بس ہلکی سی درد ھوگی جیسے ٹیکہ لگوانے پر ھوتی ھے‪ .‬اور پھر مزے ھی مزے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫مینوں پاگل نہ بنا‬
‫مینوں پتہ اے جان نکل جاندی اے پیلی واری‬
‫تے نالے بچہ وی ہون واال ھو جاندا اے‬
‫میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ ھے‬
‫تو عظمی بولی سکول میں میری ایک سہیلی نے بتایا تھا‬
‫تو میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫اسکو اسکی بھابھی نے بتایا تھا‬
‫تو میں نے کہا‬
‫اسکی بھابھی مر گئی تھی کروانے کے بعد‬
‫۔تو عظمی بولی‬
‫جا اوے پاگل اودھے درد بوت ہویا سی‬
‫تو میں نے کہا مری تو نھی تھی نہ درد ھی ھوا تھا‬
‫وہ بھی اسکے شوہر نے ایکدم سارا اندر کردیا ھوگا‬
‫تو عظمی بولی اور جو بچہ ہونے واال ھو جاتا ھے وہ‬
‫تو میں نے کہا یار میری بات غور سے سنو‬
‫جب ایکدم اندر کرتے ہیں تب درد ھوتی ھے‬
‫اور میں آہستہ آہستہ اندر کروں گا وہ بھی اتنا جتنا تم برداشت کر سکو جہاں تم کہو گی میں رک جاوں گا‬

‫)‪..Update no (35‬‬
‫اسکے بعد دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا ھے‬
‫پھر تم خود ھی مجھے کہو گی کے یاسر سارا ھی اندر کردو‬
‫اور رھی بچے کی بات تو بچہ تب ہونے واال ہوتا ھے جب میں تمہارے اندر ھی فارغ ھوجاوں گا ۔‬
‫اور میں فارغ ہونے سے پہلے ھی اندر سے نکال لوں گا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫تینوں کیویں پتہ اےےےے‬
‫میں نے کہا میرے بھی دوست نے بتایا ھے‬
‫تو عظمی پھر میری نقل اتارتے ھوے بولی‬
‫اونوں کیویں پتہ اےےےےےے‬
‫تو میں جنجھال کر بوال‬
‫یار اسکے دوست کی ایک سہیلی تھی تو وہ اس کے ساتھ کرتا رھتا تھا‬
‫تو اس لیے اسے پتہ تھا‬
‫تو عظمی پھر بولی‬
‫مگر ہماری تو شادی نھی ھوئی نہ‬
‫تو میں نے کہا یار تم نے مجھ سے ھی شادی کرنی ھے نہ تو شادی سے پہلے کیا اور بعد میں کیا‬
‫تو عظمی کچھ سوچتے ہوے بولی یاسر تم بھی اپنے دوستوں کو بتاو گے کے میرے ساتھ تم نے کیا ھے‬
‫تو میں نے جزباتی ڈائیالگ بولنا شروع کردیے‬
‫کہ‬
‫تم نے مجھے بے غیرت سمجھ رکھا ھے تم میری سہیلی نھی ھو تم میری جان ھو تمہیں پتہ ھی نھی کہ تم میرے لیے کیا ھو‬
‫اور تم میرے بارے میں ایسی سوچ رکھتی ھو‬
‫بہت دکھ ھوا تمہاری بات سن کر عظمی‬
‫تو عظمی اپنے بارے میں‪ .‬میرے جزبات دیکھ کر موم کی طرح پگھل گئی اور بولی‬
‫یاسر کچھ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو‬
‫یہ نہ ھو کہ ہمارے پاس سواے پچھتاوے اور بدنامی کے کچھ نہ بچے‬
‫میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر بھروسہ نھی ھے‬
‫تو عظمی نے ہنستے ھوے کہا نھی ھے‬
‫تو میں نے کہا پھر بات ھی ختم ھوگئی جب تمہیں مجھ پر بھروسہ ھی نھی اور میں یہ کہہ کر جیسے ھی کھڑا ھونے لگا‬
‫تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نیچے کھینچا تو میرا توازن برقرار نہ رھا اور میں سیدھا اسکے اوپر گر گیا‬
‫اور عظمی بھی جان بوجھ کر پیچھے لیٹ گئی‬
‫اب میں اسکی ٹانگوں کے درمیان تھا‬
‫اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں کے بلکل قریب تھے‬
‫تو عظمی بڑے رومینٹک انداز میں بولی‬
‫بتاو کیا کرنا ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫پہلے اپنی قمیض اتار لو ساری گندی ھو جانی ھے‬
‫تو عظمی نے مجھے پیچھے ھونے کا کہا اور میں اس کے اوپر سے اٹھ کر سائڈ پر ھوگیا اور عظمی ویسے ھی ٹانگیں‬
‫سیدھی کیے بیٹھ گئی اور اپنی قمیض اتارنے لگ گئی‬
‫میں نے جلدی سے ھاتھ عظمی کی کمر کے پیچھے کیے اور اسکے بریزیر کی ہک کو پیچھے سے کھول دیا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫اسکو تو رہنے دو‬
‫میں نے کہا آج فل مستی کریں گے‬
‫تو عظمی بولی مستی کے بچے‬
‫ٹائم بھی دیکھ لو اتنی دیر ہمیں پہلے ھی ھوگئی ھے‬
‫تو میں نے کہا ابھی تو ہمیں آدھا گھنٹہ بھی نھی ھوا‬
‫تم جلدی کرو نہ‬
‫تو عظمی نے قمیض اور برا اتار کر ایک سائڈ پر رکھی میں نے بھی اپنی قمیض اتار دی‬
‫اور اسکی قمیض کے اوپر رکھ دی‬
‫ہم دونوں سیکس کی بھوک میں اتنے پاگل ھوگئے تھے کہ ہمیں یہ نھی پروا تھی کہ کوئی ادھر آ بھی سکتا ھے یا گھاس‬
‫میں سے کو ئی زہریلی چیز کاٹ سکتی ھے‬
‫نہ وقت کی فکر نہ کسی کے آنے کا ڈر نہ جگہ کا خوف‬
‫بس دماغ پر منی سوار تھی‬
‫سچ کہتے ہیں کہ‬
‫بندے نوں پھدی دا شوق پھدی وچ واڑ دیندا اے‬
‫ہم ہر چیز سے بے خبر‬
‫مادر زاد ننگے ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوسنے میں مصروف تھے‬
‫عظمی پھر گرم ھوچکی تھی میرا لن تو پہلے ھی کھڑا تھا اور اب اسکے چڈوں کے درمیاں اسکی پھدی کے اوپر دباو ڈال‬
‫رھا تھا‬
‫عظمی نے منہ ایک طرف کیا‬
‫اور بولی‬
‫یاسر جو کرنا اے چھیتی چھیتی کر‬
‫پیلے ای دیر ھوگئی اے امی بولے گی کہ اینی دیر کتھے ال کے آندی اے‬
‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور جلدی سے اسکی ٹانگوں کو کھول کر اسکی پھدی کے سامنے لن کر کے‬
‫بیٹھ گیا اور تین چار اسکے مموں کے چوپے لگاے‬
‫تو عظمی پھر بولی یاسر جلدی کر لو‬
‫مجھے اب ڈر لگ رھا ھے‬
‫میں نے دل میں کہا سالی دی سوئی ہن جلدی تے پھس گئی اے‬
‫میں نے جلدی سے لن پر تھوک کا گوال پھینکا اور مٹھ مارنے کے انداز سے تھوک کو پورے لن پر پھیال دیا اور دوبارہ سے‬
‫پھر ٹوپے پر تھوک لگا کر ٹوپے کو تھوک سے تر کر دیا‬
‫اور اپنی عظمی کی پھدی کے ہونٹوں میں پھیر کر پھدی کی چکنائی چیک کرنے لگ گیا‬
‫جیسے ھی پھدی کے ہونٹوں سے میری انگلی ٹچ ھوئی‬
‫تو‬
‫عظمی نے سئیییییی کیا‬
‫اور میں نے لن کو جڑ سے پکڑا اور ٹوپے کو پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا کر ٹوپے کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا‬
‫عظمی پھر سسک رھی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی شاید خوف کی وجہ سے‬
‫میں اسکی کنڈیشن سمجھتے ھوے بوال‬
‫عظمی میری جان‬
‫برداشت کرنا اور خود کو ریلیکس کر لو ۔۔‬
‫تو عظمی نے کانپتی آواز میں کہا یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے‬
‫تو میں اسکے اوپر لیٹ گیا اور اسکی ٹانگوں کو مزید کھول دیا اور ھاتھ نیچے لے جاکر کر لن اس کی پھدی کے ہونٹوں‬
‫میں پھنسا دیا‬
‫اور دونوں ہاتھ عظمی کے ماتھے سے لے کر پیچھے بالوں تک پھیرتے ھوے اسکی ڈھارس بندھانے لگا‬
‫اور ہلکا سا لن کو اندر ُپش کیا تو ٹوپا اندر گھس گیا اور عظمی نے اپنا ایک ھاتھ منہ پر ذور سے رکھ کر‬
‫ھاےےےےےے میں مرگئی امیییییییی جییییییییی اور ساتھ ھی اوپر کو ہوگئی جس سے ٹوپا باہر نکل گیا‬
‫میں نے کہا‬
‫میری جان حوصلہ کرو بس تھوڑا سا تو اندر لو نہ ایسے کرو گی تو پھر درد ذیادہ ھوگی‬
‫تو عظمی بولی نھیییییی یاسررر بہتتت درد ھوا ھے‬
‫تو میں نے پھر ٹوپے کو اسکی پوزیشن پر سیٹ کیا اور عظمی سے کہا اب باہر مت نکالنا‬
‫اور پھر ہلکا سا اندر کی طرف ُپش کیا تو‬
‫عظمی نے پھر اپنے منہ کو دبا کر آنکھیں ذور سے بند کیے ھوے اوئییییییییی اممییییی جییییی کہا اور ساتھ ھی اسکی آنکھوں‬
‫سے دو موٹے آنسو نکل کر سائڈوں سے بہتے ھوے کان کی طرف چلے گئے‬
‫میں نے اندر کرتے ھوے عظمی کے کندھے پکڑ لیے تھے کہ پھر آگے کو نہ جاے‬
‫کچھ دیر میں ایسے ھی ٹوپا عظمی کی پھدی کے اندر کر کے رکا رھا‬
‫مجھے ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میرے لن کو کسی بہت ھی گرم چیز نے چاروں طرف سے بھینچا ھوا ھے‬
‫عظمی کی پھدی بہت ھی ٹائٹ تھی‬
‫پھدی تو صدف کی بھی ٹائٹ تھی مگر عظمی کی پھدی نے تو میرے ٹوپے کو ھی راستے میں روک رکھا تھا‬
‫شاید دونوں کی عمر کا فرق تھا یا پھر میرے گھسے کا فرق تھا‬
‫خیر‬
‫عظمی ھاےےےےے اوئییییییی اففففففف کرتی رھی‬
‫کچھ دیر بعد عظمی تھوڑی سی ریلکس ھوئی تو میں نے کہا اور کروں تو وہ بولی نھی بس اتنا ھی اندر رکھ کر اندر باھر‬
‫کرتے رھو‬
‫تو میں نے کہا یار ایسے نہ تو مجھے مزہ آنا ھے اور نہ ھی میں نے فارغ ھونا ھے‬
‫تو عظمی بولی بس تھوڑا سا اور کردو مگر آرام سے‬
‫اور یہ کہتے ھوے اس نے ایک ھاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور دوسرا ھاتھ میرے پیٹ پر کہ مجھے زیادہ اندر نہ کرنے دے‬
‫میں نے لن کو تھوڑا سا اور اندر کیا تو عظمی نے میرے پیٹ پر اپنی ہتھیلی کا دباو ڈال کر مجھے پیچھے رکنے کا اشارہ کیا‬
‫میں وہیں رک گیا‬
‫مجھے ٹوپے کے ساتھ کچھ ٹچ ھوتا محسوس ھوا‬
‫اور اسی سمے عظمی نے میری کمر کو زور سے بھینچ کر مجھے رکنے کا سگنل بھی دے دیا تھا‬
‫اور میں لن کو وہیں سے واپس کھینچ الیا اور پھر اتنا ھی اندر کرنے لگ گیا‬
‫اس دوران عظمی کی پھدی کافی گیلی ھوجانے کی وجہ سے میرے لن پر اسکی پھدی کی گرفت کم ہوگئی تھی اور لن پھدی‬
‫کو رگڑ لگاتا اندر باھر ھو رھا تھا‬
‫جیسی پہلے لن پر پھدی کی ٹائٹنس تھی اب ویسے نھی تھی‬
‫مجھے بھی اب مزہ آنے لگ گیا تھا‬
‫عظمی اب کافی حد تک لن کو برداشت کرنے میں کامیاب ھو چکی تھی‬
‫میں ساتھ ساتھ آرام آرام سے اندر باہر بھی کر رھا تھا اور اسکے ہونٹ بھی چوس رھا‪ .‬تھا اور ممے بھی دبا رھا تھا تھا‬
‫عظمی بھی میرے نیچے بےقرار ھورھی رھی اور آہستہ آہستہ اپنی گانڈ اٹھا رھی تھی‬
‫پھر عظمی نے آنکھیں کھولیں جو مزے کی شدت میں بند تھی‬
‫اور ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ ٰک یے اور اکھڑی ھوئی سانس لیتے ھوے بولی‬
‫یاسر ایک ھی جھٹکے میں سارا اندر کردو‬
‫عظمی کی یہ بات سنتے ھی‬
‫استاد نے میرے کان میں کہا‬
‫سنا فیر منیا نہ‬
‫تو میں نے جی استاد کہا‬
‫اور عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫دیکھ لو میری جان کو درد نہ ھو تو عظمی بولی جتنی میں نے برداشت کی ھے اس سے ذیادہ کیا ھوگی‬
‫گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر ھے ایک ھی دفعہ زہر کا پیالہ پی لوں‬
‫تم کرو اندر‬
‫میں نے اسکا دوپٹہ پکڑا اور اسے اکھٹا کر کے اسے پکڑاتے ھو کہا اسے دانتوں کے بیچ لے لو‬
‫تو عظمی نے میری بات سمجھتے ھوے دوپٹے کو منہ میں لے کر دانتوں میں بھینچ لیا‬
‫میں نے عظمی کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اسکی ٹانگوں کو اپنی ٹانگوں کی مدد سے تھوڑا اوپر کیا‬
‫عظمی بھی خود کیا تیار کر چکی تھی‬
‫اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی‬
‫میں نے اپنی پوزیشن سیٹ کی اور استاد سے اجازت لی‬
‫اور لن کو تھوڑا پیچھے کیا‬
‫اور ایک جاندار گھسہ مار کر لن عظمی کی پھدی کی جڑ تک بچے دانی میں گھسا دیا‬
‫لن نے پھدی کو چیر کے رکھ دیا تھا پھدی کا ستیاناس ہوچکا تھا اور ہچکیاں لے کر پھدی لن کو بدعائیں دے رھی تھی‬
‫جبکہ عظمی بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رھی تھی اور اسکے منہ سے ُبھمممم ُبھمممممم کی آوازیں آرھی تھی‬
‫آنکھوں سے آنسووں کی برسات جاری تھی‬
‫اسکے ہونٹ کپکپا رھے تھے ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫لبوں سے تھوک باہر کو نکل کر کپڑے کو گیال کر رھا تھا میرے سر کے بالوں کو اس نے دبوچ رکھا تھا‬
‫پھدی کے ہونٹوں سے رت بہہ بہہ کر گھاس کو سرخ کر رھا تھا‬
‫کچھ دیر مین اسکے اوپر لیٹا اسکو تسلیاں دیتا رھا‬
‫تقریبًا دس منٹ بعد عظمی سنبھلی تو میں نے پھر استاد کا بتایا ھوا ُگ ر آزماتے ھوے اسکے ہونٹ چوسنا شروع کردیے‬
‫عظمی کافی حد تک سنبھل گئی تھی‬
‫اور پھر میں نے لن آگے پیچھے کرنا‬
‫شروع کردیا‬
‫لن کافی گیال ہوچکا تھا اور پھدی کا راستہ بھی کھل چکا تھا‬
‫میں نے آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانی شروع کردی‬
‫عظمی پہلے تو مجھے روکتی رھی‬
‫اور‬
‫ھاےےے مرگئی‪.‬‬
‫بولی کر ھولی کر‬
‫بسسسسس بسسسسس‬
‫اوئییییی امممییییییی‬
‫میرے دل نوں کش ھو چال‬
‫یاسسرررررر بسسسسسس کررررر‬
‫مگر کچھ ھی دیر بعد اس کے ڈائالگ بدل گئے اور‬
‫موسم خوشگوار ھوا‬
‫اور اسکی پھدی نے برسات شروع کردی‬
‫اور عظمی گانڈ اٹھا اتھا کر پورا لن اندر لینے لگ گئی‬
‫کچھ ھی دیر بعد میرا بھی بوالوا آگیا اور میں نے جلدی سے لن کو باھر نکاال اور عظمی کے پیٹ کی طرف ٹوپا کر کے‬
‫مٹھ مارنے لگ گیا اور آخر کر لن صاحب نے پہلی الٹی اتنے پریشر سے کی کے عظمی کے ممے اور منہ تک چھینٹے‬
‫گئیے پھر تین چار مزید الٹیاں کرنے کے بعد لن صاحب سکون میں ھوگئےب‬
‫اور عظمی غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫میرے ُاتے ضرور گند مارنا سی‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور مکئی کے پتے توڑ کر اس سے اسکا منہ اور ممے اور پیٹ صاف کرنے لگ گیا‬
‫عظمی کچھ دیر ھاے اوئی کرتی رھی کبھی اٹھتی کبھی بیٹھتی کبھی رکتی کبھی چلتی اور میں بھی اسکے نخرے اٹھاتا‬
‫اسکو راستے میں ھی چنگی پلی کر کے اسکے گھر پہنچا آیا‬
‫شام کو ٹیوشن جانے کے لیے عظمی کے گھر گیا‬
‫تو آنٹی فوزیہ نے بتایا کو دونوں بہنیں بخار سے تپ رھی ہیں پتا نھی ان دونوں کو ایک ساتھ ھی بخار چڑھنا تھا‬
‫میں یہ سن کر کمرے کی طرف چل دیا اور آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی‬
‫نسرین تو سو رھی تھی مگر عظمی چارپائی پر ٹانگیں سیدھی کیے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی‬
‫میں جا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی نے مجھے گھور کر دیکھا‬
‫میں نے شرارت سے کہا‬
‫تینوں وی بہانہ لب گیا اے ٹیویشن تو ُچھٹی کرن دا‬
‫تو عظمی غصے دے بولی‬
‫ایویں پونکی نہ جا‬
‫میں بخار نہ مرن دئی آں تینوں سواے بکواس کرن دے ُک ش نئی آندا۔۔۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫عظمی ایسے کیوں بکواس کر رھی ھو‬
‫بھائی ھے تمہارا‬
‫شرم کرو کیسے اسکے ساتھ بات کررھی ھو‬
‫تو عظمی بولی اپنے اس الڈلے کو کہیں کہ میرے ساتھ کوئی فضول بات نہ کیا کرے‬
‫اور یہ کہتے ھی وہ سیدھی لیٹ گئی اور چادر جو اسکی ٹانگوں پر تھی کھینچ کر منہ پر لے لی‬
‫آنٹی بولی پتر دفعہ کر ایس ُک تی نوں‬
‫چل توں آجا بار جا کے بیٹھنے آں‬
‫میں نے کہا نھی آنٹی جی میں تو ٹویشن جانے لگا تھا سوچا نسرین کا پتہ کرتا چلو‬
‫تو آنٹی بولی ٹھیک ھے چل جا شاباش میرا پتر دل ال کے پڑیا کر‬
‫اور میں سر ہالتا ھوا‬
‫گھر سے نکل کر‬
‫صدف کے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫گھر میں داخل ھوا تو صدف کرسی پر بیٹھی پانچ چھ چھوٹے چھوٹے چھ سات سال کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی‬
‫اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر مجھے اکیال دیکھ کر میرے پیچھے بھی نظر دوڑائی‬
‫اور پھر مجھے نظر انداز کر کے‬
‫منہ بچوں کی طرف کر لیا‬
‫میں تو یہ سوچ رھا تھا کہ صدف مجھے اکیلے کو دیکھ کر خوش ھوگی‬
‫مگر اس سالی نے تو مجھے گھاس بھی نہ ڈالی‬
‫میں نے جاکر سالم کیا اور ذرہ ذوررررر دے کر باججججججی کہا‬
‫تو صدف نے چونک کر میری طرف دیکھا‬
‫اور گھورنے لگ گئی‬
‫اور پھر ادھر ادھر دیکھا کہ آنٹی تو نھی‬
‫اور پھر میری طرف ھاتھ کا پنجہ کرتے ھوے آہستہ سے بولی‬
‫لکھ دی لس‬
‫النت تیری شکل تے‬
‫میں نے بھی چاروں طرف دیکھا کہ کوئی ھے تو نھی‬
‫تو میں نے اسکے قریب بیٹھتے ھوے کہا‬
‫کیا ھوا باجججججججیییییی‬
‫تو صدف کا رنگ جو پہلے ھی تھوڑا سا گندمی تھا مزید گہرا ھوتا گیا‬
‫اور پھر آہستہ سے بولی‬
‫بککککواسسسسس بند کر‬
‫تو میں نیچے سر کر کے ہنسنے لگ گیا‬
‫اور اپنا بیگ کھول کر کتاب باہر نکالی اور گود میں رکھ کر بیٹھ گیا‬
‫کچھ دیر بعد صدف نے مجھ سے پوچھا‬
‫عظمی نسرین کیوں نھی آئیں‬
‫تو میں نے کہا‬
‫چھوٹے بچوں کے انداز میں معصوم سا‪ ،‬منہ بنا کے کہا‬
‫باججججیییی ۔۔۔‬
‫وہ دونوں بیمار ہیں اور انکی امی نے کہا تھا کہ اپنی‬
‫باجججیییی‬
‫کو بتا دینا کہ وہ آج چھٹی کریں گی‬
‫تو صدف نے پیر آگے کیا اور جوتے کی نوک میرے گھٹنے پر مارتے ھوے بولی‬
‫تیرییی بکواس بند ھونی اے کہ نئی‬
‫میں نے پھر اسی انداز میں سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہر ے پر التے ھوے کہا‬
‫باججیییی آپ نے خود ھی تو پوچھا تھا‬
‫تو صدف نے ہاتھ میں پکڑی ھوئی کتاب میرے منہ پر ماری جو میں نے ھاتھ آگے کر کے منہ کو بچا لیا‬
‫اور غصے سے اٹھی اور مجھے منہ ھی منہ میں گالیاں دیتی پیر پٹختی اندر کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫میں ہنستا ھوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔۔۔‬
‫میں نے اسکے اگنور کرنے کا بدلہ باجی کہہ کر لے لیا تھا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد صدف پھر کمرے سے نکلی اور برآمدے میں ھی کھڑی ھوکر بولی امی آج پکانا کچھ نھی ھے‬
‫تو اسکی امی کی دوسرے کمرے سے آواز آئی‬
‫کہ‬
‫ُپتر کسے بچے نوں پیج کے ہانڈی واسطے ُک ش منگوا لے‬
‫میرے کولوں نئی جایا جانا‪،،،‬‬
‫تو صدف بولی امی‬
‫بچوں کو کیا پتہ کہ کون سی چیز سہی ھے اور کون سے خراب آپ خود چلی جاو‬
‫سیمے کی دکان بھی دوسرے چوک میں ھے اور بچے اتنی دور کیسے جائیں گے انہوں نے راستے میں ھی کھلینے لگ جانا‬
‫ھے تو بس پک گئی ہانڈی پھر‪،،،‬‬
‫تو آنٹی پھر بولی‬
‫ُپتر یاسر آگیا اے تے اونوں پیج دے او کیڑا بچہ اے اونوں کہ اپنے چاچے دا سائکل لے جاے‪،‬‬
‫صدف جنجھال کر بولی‬
‫اس نے پیپر کی تیاری کرنی ھے پہلے ھی اسکو سبق یاد نھی آیا بھی لیٹ ھے صبح اس نے پیپر دینا ھے‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫میں صدف کی بات سن کر ہکا بکا رھ گیا‬
‫کہ میرا کیڑا پیپر اے کل‬
‫تے کیڑا سبق یاد نئی مینوں‬
‫تو آنٹی آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر نکلی‬
‫اور بولی‬
‫اک تے میرے گوڈے کم نئی کردے ُاتوں اینی دور ُٹ ر کے جانا پیندا اے‪،‬‬
‫میں دوپیرے تینوں کیا وی سی کے ریڑھی والے کولوں سبزی لے لے پر توں میری َم نیں تے فیر ناں‪،‬‬
‫تو صدف بولی اچھا کل سے لے لیا کروں گی آج تو لے آئیں‬
‫پھر رات کو ابو بولیں گے کہ کچھ پکایا نھی ۔۔۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ال دے پیسے‬
‫تو صدف نے ہاتھ میں پکڑے پیسے آنٹی کو پکڑا دیے اور آنٹی‬
‫پاوں رینگتی باہر کو چلی گئی‬
‫مجھے صدف پر غصہ بہت آیا کہ کیسے وہ جھوٹ بول رھی تھی اور بوڑھی ماں کو اس حال میں اتنی دور بھیج رھی‬
‫تھی‪ ،،،‬۔‬
‫آنٹی کے جانے کے بعد صدف بیرونی دروازے کی طرف گئی اور‬
‫باہر گلی میں جھانک کر دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی اور آکر ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی‬
‫تھوڑی دیر بعد صدف نے مجھے اونچی آواز میں کہا یاسر کمرے میں جاو اور جاکر پیٹی کے اوپر کھڑے ہوکر چھت سے‬
‫جالے اتار دو اور نیچے کچھ سامان پڑا ھے اسکو بھی اوپر رکھ دینا‬
‫میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور‬
‫اسے پھر چھیڑتے ھوے‬
‫اونچی آواز میں کہا اچھا باجییییی‬
‫اور جلدی سے اٹھ کر‬
‫کمرے کی طرف چلدیا‬
‫میں کمرے کی طرف جاتے سوچ رھا تھا کہ سالی کا کیا دماغ ھے کیسی فلم چالئی ھے اس نے ماں کو بھی بیوقوف بنا دیا‬
‫پھر سوچا کہ تم آم کھاو بس ُگ ھٹلیاں مت گنو‬
‫میں کمرے میں جاکر چارپائی پر جاکر بیٹھ گیا مجھے سب سمجھ آگئی تھی کہ کہاں سے جاال اتارنا ھے اور کون سا سامان‬
‫اٹھا کر اوپر رکھنا ھے‬
‫کچھ ھی دیر بعد دروازے سے صدف اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے ُک نڈی لگا دی‬
‫اور دونوں ہاتھ آگے کر کے دوڑی میری طرف آئی‬
‫میں سمجھا شاید جپھی ڈالنے کے لیے ایسے ہاتھ کھولے باہیں میری طرف کر کے آرھی ھی ابھی میں سوچ ھی رھا تھا کہ‬
‫سالی نے آتے ھی دونوں ھاتھ میرے گلے پر رکھے اور گال دباتے ھوے مجھے پیچھے دھکیل کر چارپائی پر لٹا کر خود‬
‫میرے اوپر آگئی‬
‫میں اس کے اچانک اس حملے سے بےخبر تھا اس لیے اسکے تھوڑے سے زور سے میں پیچھے گر گیا‬
‫اور صدف غصے سے بولی‬
‫میں تیرا گآل ُک ٹ دینا اے‬
‫اسکا سارا وزن میرے گلے پر ھی تھا‬
‫تو میرا تو سانس رکنے واال ھوگیا تھا‬
‫میری آواز نھی نکل رھی تھی اور کچھ دیر ایسے ھی میرا گال دبا رہتا تو واقعی میرا سانس بند ہو جانا تھا‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی کالئیاں پکڑی اور پورے زور سے اسے جھٹکا دیا اور اپنا گال اسکے ہاتھوں سے آزاد‬
‫کروا لیا‬
‫اور زور زور سے کھانسنے لگ گیا‬
‫صدف میرے پیٹ کے اوپر چڑھ کر دونوں ٹانگیں میرے اردگرد کیے بیٹھی ھوئی تھی‬
‫صدف نے جب میری یہ حالت دیکھی تو وہ بھی گبھرا گئی اور میرا منہ پکڑا کر میری گالوں پر تھپکیاں دیتے ھوے بولی‬
‫یاسر یاسر کیا ھوا ذیادہ گال دبایا گیا‬
‫میں نے غصے سے اسکا ھاتھ جھٹک دیا‬
‫میری آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا تھا‬
‫صدف کا منہ بھی رونے واال بن گیا تھا‬
‫میں نے اسے اپنے اوپر سے دھکا دیتے ھوے کہا اترو نیچے چھوڑو مجھے‬
‫تو صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑ کر چارپائی کے ساتھ لگا دیے اور پورا زور لگا کر دبا دیے‬
‫جیسے زبردستی میری عزت لوٹنے لگی ھو‬
‫اور صدف بولی‬
‫تم نے مجھے غصہ کیوں دالیا‬
‫میں نے کہا مجھے نھی تم سے بات کرنی چھوڑو مجھے‬
‫اگر میں چاھتا تو ایک ھی جھٹکے سے اس کو چارپائی سے نیچے پھینک سکتا تھا‬
‫مگر صدف کی پھدی مارنے کا موقع ھاتھ سے نکل جانا تھا اس لیے میں ڈرامے کر رھا تھا‬
‫تو صدف بولی نھی چھوڑنا‬
‫کر لو جو کرنا ھے ‪،،‬‬
‫ایک تو مجھے تنگ کرتے ھو الٹا مجھ پر رعب جھاڑتے ھو‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نے کیا تنگ کیا ھے‬
‫تو صدف بولی تمہیں شرم نھی آتی مجھے باجی کہتے‬
‫تو میں نے کہا اب کیا سب کے سامنے تمہیں‬
‫صدف ڈارلنگ کہوں‬
‫تو صدف بولی‬
‫میں نے ایسا کب کہا ھے‬
‫مگر تم جس انداز سے مجھے چڑا رھے تھے میں سب سمجھتی ھوں ۔۔‬
‫تو میں نے کہا اب اتر بھی جاو نیچے‬
‫کیوں بچے کی جان لینی ھے‬
‫تو صدف بولی آہو بچہ تے دیکھو‬
‫اس بچے نے مجھے ایک ھفتہ چارپائی سے نھی اٹھنے دیا‬
‫آج تم سے بچو سارے حساب کتاب چکتا کرنے ہیں‬
‫تیار ہو جاو‬
‫تو میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ھوے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ھوے کہا‬
‫عالی جا معاف کردو آئیندہ غلطی نھی ھوگی‬
‫میرا منہ دیکھ کر صدف کی ہنسی نکل گئی‬
‫اور میری گال پر ُچ ٹکی کاٹ کر بولی‬
‫تجھے کچا کھا جاوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫عالی جا آپ کے قبضہ میں ہوں کچا کھا لو یا پکا کہ کھالو‬
‫جیسے آپ کو بہتر لگے‬
‫تو صدگ ہنستے ھوے بولی‬
‫شکل دیکھ پیلے اپنی‬
‫آیا وڈا مغل اعظم دی اوالد‬
‫تو میں نے صدف کی کو اوپر سے نیچے اتارنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نھی ھو رھی تھی‬
‫میں نے اسکی بغلوں میں گد گدی کرنی شروع کردی تو صدف ہنستے ھوے ُدھری ھوتی میرے اوپر لیٹنے لگ گئی‬
‫اور میں نے اسے جپھی ڈال کر چارپائی پر سیدھا کر کے لٹا دیا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اسکے ہونٹوں پر پاریاں کرنے لگ‬
‫گیا‬
‫اور ایک ھاتھ سے اسکے ممے کو پکڑ کر دبانے لگ گیا‬
‫صدف بھی میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی‬
‫میں نے اسکی گال کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنا شروع کردیا اور اسکی قمیض اوپر کرنے لگ گیا جس میں صدف نے‬
‫بھی گانڈ اٹھا کر میری مدد کی اور اسکی قمیض اسکے بڑے سے گول مٹول مموں سے اوپر کردی‬
‫اور بریزیر کے اوپر سے ھی اسکے مموں پر ُمٹھیاں بھرنے لگ گیا‬
‫صدف کے منہ سے سسکاریاں نکل رھی تھی‬
‫میں کبھی اسکی گالوں کو چومتا کبھی چوستا کبھی ہلکی ہلکی کاٹی کر لیتا جس سے صدف مذید مچلنے لگ جاتی‬
‫میں نے صدف کو الٹا ھونے کا کہا‬
‫تو صدف الٹی ھوکر لیٹ گئی‬
‫میں نے پیچھے سے قمیض مزید اونچی کر کے اسکی گردن کے پاس کردی اور‬
‫اسکی گانڈ کے اوپر چڑھ کر ٹانگیں دونوں طرف کر لیں‬
‫اسکی کمر بلکل سیدھی تھی میں نے منہ اسکی گردن کے پاس کیا اور زبان نکال کر اسکی گردن پر پھیرنے لگ گیا صدف‬
‫سے برداشت نہ ھوا‬
‫تو اس نے سسیییییی کرتے ھو ے چارپائی پر بچھی چادر کو اپنی دونوں ُمٹھیوں میں بھر لیا‬
‫میرا لن بلکل تنا ھوا تھا اور صدف کی موٹی گانڈ میں اسکی شلوار کو اندر لے کر گھس گیا تھا اور صدف زور ذور سے‬
‫گانڈ کو بھینچ رھی تھی جس سے میں مزے کی وادیوں میں کھوتا جارھا تھا‬
‫میں نے زبان کی نوک کو گھماتے ھوے اسکے کان کے پیچھے پھیرتا تو صدف کا جسم کانپ جاتا‬
‫اور وہ مزید گانڈ کو بھیچنے لگ جاتی اور منہ سے لمبی سی سسسکاری لیتی‬
‫سسسسسسییییی اففففففف اممممممم کی اواز آتی‬
‫میں بھی لن کو اسکی گانڈ پر دبا رھا تھا اور وہ بھی مزے لے لے کر اپنی گانڈ کو بھینچ کر مجھے مزے دے رھی تھی‬
‫میں اب تھوڑا سا اوپر ھوا اور اپنی قمیض اوپر کر کر اپنا اگال حصہ ننگا کیا اور پھر اپنے ننگے جسم کو اسکی ننگی کمر‬
‫کے ساتھ مال کر اسکے اوپر لیٹ گیا اور سائڈ سے اسکی گال کو چومتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا‬
‫صدف میرے نیچے مچلی جارھی تھی‬
‫میں کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد اسکے اوپر اٹھا اور اسکے پاوں کی طرف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکی شلوار کو پکڑ‬
‫کر نیچے کھینچ کر اسکی پنڈلیوں تک کر دیا‬
‫اب اسکی موٹی سے گول گانڈ میرے سامنے‪ .‬تھی میں نے جھک کر اسکی گانڈ کی پھاڑیوں کو چومنے لگ گیا‬
‫اور ھاتھوں سے اسکی‪ .‬گانڈ کو پکڑ کر مٹھیوں میں بھینچنے لگ گیا‬
‫میں نے اسکی گانڈ کو کھوال تو مجھے اسکی گانڈ کے اندر چھوٹی سی موری نظر آئی‬
‫تو میں نے اسکی موری پر تھوک پھینکا اور انگلی اسکی موری میں گھسانے لگ گیا ابھی تھوڑی سی انگلی اندر گئی تھی‬
‫کہ صدف جھٹکے سے گھوم کر سیدھی ھوگئی‬
‫اور مجھے گھور کر بولی‬
‫بے شرم انسان یہ کیا کر رھے ھو‬
‫تو میں نے کہا پیار کررھا ھوں‬
‫تو وہ بولی‬
‫تمہارا سارا پیار اندر کر کے ھی ھوتا ھے‬
‫تو میں‪ .‬نے کہا میرے شونے پیار کا ثبوت اندر کرکے ھی دیا جاتا ھے‬
‫تو صدف بولی مجھے نھی چاھیے ایسا ثبوت اور یہ کہہ کر وہ سیدھی لیٹ گئی‬
‫اسکی پھدی میرے سامنے تھی جس پر ہلکے ہلکے بال تھے‬
‫میں نے پھدی پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا کہ‬
‫یہ بال کیسے اگ آے اس دن تو نھی تھے‬
‫تو صدف بولی شرم نھی آتی گندی باتیں کرتے ھو ے‬
‫میں نے اپنی چاروں انگلیاں اسکی ناف کے نیچے رکھی اور انگھوٹھے کو پھدی کے اوپر کر کے انگھوٹے سے پھدی کے‬
‫دانے کو مسلنے لگ گیا‬
‫صدف ایک دم اوپر کو اچھلی اور لمبی سی‪ .‬سسسسکاری بھری‬
‫اور مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا‬
‫میں ایک ھاتھ سے صدف کے دانے کو مسلنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے اسکے مموں سے بریزیر اوپر کیا اور‬
‫اسکے گول مٹول مموں کو پکڑ کر دبانے لگ گیا‬
‫صدف بولی جلدی کرو امی نے آجانا ھے‬
‫تو میں نے کہا کر تو رھا ہوں‬
‫تو وہ بولی زیادہ شوخے مت بنو جلدی کرو‬
‫امی آگئی نہ تو پھر نہ کہنا مجھے‬
‫میں اسکی بات سمجھتے ھوے جلدی سے آگے کو کھسکا اور اپنے لن کو تھوک سے اچھی طرح گیال کر نے لگ گیا‬
‫اور صدف کی پھدی تو پہلے ھی گیلی تھی اسکی پھدی کے بالوں پر پانی چمک رھا تھا‬
‫میں نے اسکی ٹانگوں کو کھوال اور جیسے ھی لن اسکی پھدی کے لبوں پر رکھ کر دبانے لگا تو صدف نے میرے پیٹ پر‬
‫ھاتھ‪ .‬رکھ لیا اور کہنے لگی‬
‫یاسر پلیز آرام سے کرنا‬
‫میں نے ہلکا سا اندر ُپش کیا تو لن کا ٹوپا اسکی‪ .‬پھدی میں ُگ ھس گیا‬
‫صدف نے ہلکی سی سسسسیییی کی اور مجھے کہا‬
‫ہولی‬
‫میں نے لن کو آہستہ آہستہ اندر کی طرف دھکیلنا شروع کردیا‬
‫صدف کافی حد تک لن کو برداشت کر رھی تھی‬
‫لن پانچ انچ اندر چال گیا تھا تب صدف نے ادھر ادھر سر مار کر میرے پیٹ پر ہاتھ رکھے مجھے رکنے کا کہا تو میں وہیں‬
‫رک گیا اور لن کو پیچھے لے آیا اور پھر آہستہ آہستہ اندر کی طرف کرتا گیا صدف نے پھر مجھے روک دیا اور مجھے کہا‬
‫یاسر بس اتنا ھی کرتے رھو‬
‫میں لن کو باہر کی طرف آرام آرام سے لے جاتا اور پھر اسی سپیڈ سے اندر کر دیتا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی سلوموشن گھسے مارتا رھا‬
‫صدف کی پھدی کافی گیلی ھوتی جارھی تھی‬
‫میں نے جب دیکھا کہ صدف اب انجواے کررھی ھے اور سسسکیاں لے رھی ھے‬
‫تو میں ہر گھسے کے ساتھ لن مزید آگے کر نا شروع کر دیا‬
‫یہاں تک کہ میرا لن صدف کی پھدی میں جڑ تک چال گیا‬
‫اور صدف نے بھی پورا لن لے کر اوکے کا سگنل اپنی مستی بھری آوازوں سے دے دیا‬
‫میں اب لن کو پورا باہر کھینچتا صرف ٹوپا ھی اندر رھنے دیتے اور پھر جھٹکے سے لن اندر کردیتا اور صدف ساتھ ھی‬
‫کہتی ھاےے مرگئی آرام نال‬
‫میں ایسے ھی کرتا رھا‬
‫صدف بھی اب میرا ساتھ دی رھی تھی‬
‫وہ بھی لن اندر جاتے سسکاریاں بھر رھی تھی‬
‫میں نے اب مسلسل دھکے مارنے شروع کردیے اور گھسوں کی سپیڈ تیز کر دی میں جیسے جیسے گھسہ مارتا صدف کے‬
‫ممے ویسے ویسے اوپر کو جاتے میرےگھسوں اسکے ہلتے ممے دیکھ کر مجھے اور جوش چڑھتا‬
‫اور میں مزید گھسا زور کے مارتا‬
‫صدف بھی ھاےےےےےے مرگئی اففففففف ھاےےےےےے کی اواز نکال میرے مزے کو دوباال کررھی تھی‬
‫صدف کی پھدی نے اب میرے لن کو راستہ دے دیا تھا میرا لن فراوانی سے اندر باھر ھو رھا تھا‬
‫صدف نے میرے چہرے کو اپنے ھاتھوں پکڑ لیا اور میرے ہونٹو ں کو اپنے ہونٹوں لے کر زور زور سے چوسنے لگی اور‬
‫نیچے سے گانڈ اٹھا اٹھا کر لن پورا اندر تک لینے کی کوشش کرتی لن اسکی بچے دانی سے ٹکرا رھا تھا‬
‫کہ اچانک صدف نے اپنے دونوں ٹانگوں کو میری کمر کے گرد لپیٹ لیا اور پیروں کی مدد سے شکنجہ بنا کر میری کمر‬
‫کو اپنی ٹانگوں میں بھینچ لیا اور گانڈ کو پورا اوپر کر کے میرا لن اندر لے لیاب‬
‫میں بھی مسلسل گھسے ماری جارھا تھا اسکے ممے میرے سینے میں دبے ھوے تھے اور میرے ہونٹ اسکے ہونٹوں میں‬
‫تھے‬
‫کہ اچانک صدف کی ٹانگوں کی گرفت میری کمر کے گرد مزید سخت ھوتی گئی اور اسکی سانسیں اکھڑنا شروع ھوگئی‬
‫اور اس نے اپنی گانڈ کو زور زور سے اوپر نیچے کرنے لگ گئی‬
‫پھر ایکدم صدف نے ہلکی سی چیخ ماری آئیییییییی امممممممممم میییییی گگگگئییییییی‬
‫اور ساتھ ھی صدف نے پورے زور سے گانڈ اٹھا کر پھدی کے اندر میرے لن کو پورا نگل لیا اور اسکی پھدی سے گرم گرم‬
‫الوا اگلنا شروع ھوگیا‬
‫صدف نے میرے سر کے بالوں کو بہت بری طرح دبوچا ھوا تھا‬
‫اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی رکا رھا‬
‫پھر صدف نے جسم ڈھیال چھوڑ دیا اور میری کمر کو بھی اپنی ٹانگوں سے آزاد کردیا‬
‫میں نے پھر گھسے مارنے شروع کردیے اب اسکی پھدی اور زیادہ گیلی ھوچکی تھی اور لن بھی ِچ پ ِچ پ کر رھا تھا‬
‫اور کمرے میں دھپ دھپ ُپچُ پچ کی آواز گونج رھی تھی‬
‫کچھ دیر بعد مزے نے شدت پکڑی اور مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ھوئی تو میں جھٹکے تیز کردیے اب‬
‫میرے جھٹکے اتنے شدید تھے کے چارپائی نے بھی اب چوں چوں ک‬
‫کر کے احتجاج رکارڈ کروانا شروع کردیا‬
‫پھر میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور لن کو پکڑ کر اسکی پھدی کے اوپر کردیا میرے لن سے منی بارش صدف کی‬
‫پھدی پر پڑنے لگ گئی اور میں لن کو اسکی پھدی کے اوپر دبا کر صدف کے اوپر لیٹ گیا‬
‫ابھی میری سانسیں بھی درست نھی ھوئی تھی‬
‫کہ‬
‫کمرے کے دروازے کو کسی نے زور زور سے بجانا شروع کردیا‬
‫میری تو جان ہلک میں اٹک گئی میں جمپ مار کر چار پائی سے اترا اور صدف نے بھی جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی‬
‫کہ اچانک باہر سے؟؟؟؟؟؟‬

‫مذید اپڈیٹس کے لیے پیج کو الئیک فالو اور شئیر الزمی کریں تاکہ آپ تک نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن پہنچ سکے‬

‫)‪.Update no (36‬‬
‫اچانک باہر دروازے سے ایک بچی کے رونے کی آواز آئی‬
‫تو صدف نے پوچھا کیا تکلیف ھے تو بچی نے روتے ہوے کہا‬
‫ساجد ماری جارھا ھے‬
‫تو صدف بولی چلو دفع ہو جاو ادھر جاکر بیٹھو میں آکے پوچھتی ہوں اسے‬
‫تو بچی کے رونے کی آواز دور ہوتی گئی‬
‫میری جان میں جان آئی اور صدف بھی ریلکس ھوگئی‬
‫ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور صدف نے جلدی جلدی چارپائی کی چادر اکھٹی کی اور اسکی جگہ دوسری چادر بچھا دی‬
‫میں نے پوچھا صدف مزہ آیا تو وہ بولی مزے کے بچے میں پہلے باہر جاتی ھوں تم تھوڑی دیر کے بعد آجانا‬

‫اور یہ کہہ کر صدف باہر چلی گئی میں بھی کچھ دیر بعد باہر جاکر بیٹھ گیا شام کافی ڈھل چکی تھی ہلکا ہلکا اندھیرا ہونا‬
‫شروع ھوگیا تھا‬
‫دوستو‬
‫اسد کی دوستی نے مجھے پھدی پاڑ مرد بنا دیا تھا‬
‫میرا تجربہ اور ناولج میری عمر سے بڑھ کر ھوگیا تھا‬
‫جو تھوڑی بہت جھجک تھی وہ عظمی اور صدف کی پھدی مارنے کے بعد اتر گئی تھی‬
‫بلیو فلم سے میں نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور سیکسی رسالوں سے سب سیکسی پوز ذہن نشیں کر چکا تھا‬
‫میرا رنگ پہلے ھی بہت سفید تھا اور اب ہلکی ہلکی مونچھیں اور ٹھوڑی پر ہلکے ہلکے ڈاڑھی کے بال بھی آنا شروع‬
‫ھوگئے تھے‬
‫اور میرا قد پہلے ھی عمر کے حساب سے لمبا تھا اور ان دو سالوں میں مزید لمبا ہوچکا تھا‬
‫مطلب کہ اب میں ایک خوبرو جوان کی شکل اختیار کر چکا تھا‬
‫دماغ سے بچپنے نے نکل کر سیکس نے جگہ بنا لی تھی‬
‫مجھے جب بھی موقع ملتا‬
‫کبھی عظمی کی پھدی بجا دیتا کبھی صدف کی‬
‫ہر وقت بس دماغ میں پھدی پھدی پھدی اور بس پھدی ھی رہتی‬
‫ہر آتی جاتی آنٹی یا لڑکی کے مموں کو تاڑنا پیچھے سے گانڈ کو گھورنا‬
‫میری عادت بن چکی تھی‬
‫آٹھویں کالس کے پیپر شروع ھوے تو مجھے ٹائی فیڈ بخار ھو گیا‬
‫جس کی وجہ سے میں پیپر نھی دے سکا اور گھر والوں سے بھی ضد کی کے میں نے اب نھی جانا سکول مجھے مار بھی‬
‫پڑی پیار سے بھی سمجھایا گیا‬
‫مگر پتہ نھی کیوں میرے دماغ میں بس اب ایک ھی بات بیٹھ گئی تھی‬
‫کہ میں نے کپڑے کا کام سیکھنا ھے‬
‫ہماری گلی میں ایک سجاد نامی آدمی تھا جس کی شہر میں کپڑے کی دکان تھی‬
‫میں نے ضد کی کہ مجھے اسکی دکان پر چھوڑ دیا جاے‬
‫گھر والوں نے بھی میری ضد کہ آگے ہار مان لی اور میرے بڑے بھائی نے ابو کو سمجھایا کہ ایسے یہ آوارہ پھرے یا تو‬
‫اسے میرے ساتھ پنڈ میں ھی کریانے کی دکان پر بیٹھا دو یا پھر اسے شہر سجاد کی دکان پر چھوڑ دو ایک دو دن بعد‬
‫مجھے سجاد نامی انکل کے پاس ابو چھوڑ آے‬
‫عظمی اور نسرین اب آٹھویں کالس میں ھوچکی تھی‬
‫میں انکے ساتھ اب بھی شہر جاتا تھا پہلے انکو سکول چھوڑتا پھر ادھر سے ھی دکان پر چال جاتا تھا‬
‫دوستو جمعہ کا دن تھا‬
‫اور میں گھر پر ھی تھا کہ باہر کا دروازہ کھڑکا تو امی نے کہا کہ‬
‫یاسر پتر باھر دیکھ کون ھے‬
‫تو میں نے جیسے ھی دروازہ کھوال تو میرا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس نیچے رھ گیا‬
‫اور میں‬
‫اسد کو دیکھ کر ہکا بکا رھ گیا‬
‫اور میں کبھی اسکی طرف دیکھتا کبھی اسکی کار کی طرف دیکھتا‬
‫اچانک کار کا دروازہ ُک ھال اور اس میں وہ حسینہ بلیک گالسس پہنے نکلی جسے صرف دیکھ کر ھی میری سانسیں رک‬
‫جاتی تھی جو حسن کا ایک مجسمہ تھا‬
‫جسکی تعریف شروع کردیں تو الفاظ کم پڑ جاتے تھے‬
‫اسد نے مجھے یوں حیران پریشان ھوتے دیکھ کر کہا‬
‫بے وفا جھوٹے سکول چھوڑ کر مجھے بھول ھی گیا تھا‬
‫تو میں نے آگے بڑھ کر اسے کس کر جپھی ڈال لی اور کافی دیر ایک دوسرے کے گلے لگ کر گلے شکوے کرتے رھے‬
‫اس دوران مہری چلتی ھوئی ہمارے پاس آگئی تھی اور بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی‬
‫مہری نے پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا اور سفید شلوار اور سفید ھی دوپٹہ تھا‬
‫اور اسکے گورے رنگ پر بہت ھی جچ رھا تھا‬
‫وہ کسی پری سے کم نھی لگ رھی تھی حسن کی ساری تعریفیں اس پر تمام شد تھیں‬
‫اسے اچانک اپنے غریب خانے پر دیکھ کر مجھے شعر یاد آگیا‬
‫جسکو دل ھی دل میں کہہ دیا‬
‫کہ‬
‫وہ آے ہمارے گھر خدا کی قدرت‬
‫کبھی انکو دیکھتے ہیں تو کبھی اپنے گھر کو‬
‫میں نے مہری کو غور سے دیکھتے ھوے سالم کیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کے اس نے میرے سامنے ھاتھ کر‬
‫دیا سالم لینے کے لیے‬
‫تو میں نے جھجکتے ھوے اسکے ساتھ ہینڈ شیک کیا‬
‫اور انکو اندر لے آیا‬
‫امی‬
‫ان دونوں کو دیکھ کر حیران پریشان کھڑی کبھی انکو دیکھتی کبھی میری طرف دیکھتی‬
‫میں نے امی سے دونوں کا تعارف کروایا تو امی نے اسد کے سر پر پیار دیا اور مہری کا آگے بڑھ کر ماتھا چوما اور‬
‫دعائیں دینے لگ گئی‬
‫امی مہری کو اندر کمرے میں لے گئی جہاں میری بہن نازی تھی‬
‫اور میں اسد کو لے کر اپنی بیٹھک میں آگیا‬
‫میں اندر اندر سے اپنے گھر کی پوزیشن اور اسد کے سٹیٹس کا موازنہ کر کے شرمندہ ہو رھا تھا۔‬
‫اسد نے بھی میری احساس کمتری کو نوٹ کر لیا تھا‬
‫۔اسد کو بیٹھک میں الکر میں نے‬
‫چارپائی کی چادر کو جھاڑا اور دوبارہ چارپائی پر بچھا دیا‬
‫اور اس کی طرف شرمندگی سے دیکھتے ھوے کہا کہ یار ہم تو غریب لوگ ہیں اور ہمارا غریب خانہ بھی ہم جیسا ھی ھے‬
‫تو اسد نے مجھے تھپڑ مارتے ہوے کہا شرم کر یار‬
‫انسان کا دل امیر ہونا چاھیے‬
‫آئیندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ تیری میری دوستی ختم سمجھ‬
‫اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگا‬
‫میں نے تجھ سے یاری صرف تمہارے سادے پن اور دل کے صاف ھونے کی وجہ لگائی ھے‬
‫ورنہ شہروں میں دوستوں کی کمی نھی‬
‫اب کبھی یہ امیری غریبی کا فرق نہ مجھے بتانا‬
‫یہ میرا ھی گھر ھے سمجھے‬
‫ایسی کافی باتیں کر کے اس نے میری کمتری دور کردی اور چھالنگ لگا کر چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ گیا‬
‫اور چارپائی پر ھاتھ مار کر بوال چل آجا میرے پاس ادھر بیٹھ‬
‫میں نے کہا تم بیٹھو میں ابھی آیا‬
‫تو اسد نے مجھے آواز دی کدھر جارھے ہو تو میں نے کہا‬
‫یار کچھ ٹھنڈا لے آوں‬
‫تو اسد بوال یار ہم گاوں بوتلیں نھی پینے آے‬
‫ایسا کر لسی لے آ‬
‫میں نے ہنس کر کہا ابے تو لسی پیے گا‬
‫تو اسد بوال‬
‫کیوں لسی انسان نھی پیتے کیا‬
‫تو میں نے کہا یار تم نے پہلے کبھی پی نھی نہ اس لیے کہہ رھا ھوں‬
‫تو اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫اسی لیے تو کہہ رھا ھوں کہ لسی لے آ‬
‫پہلے کبھی پی نھی نہ تو میں ہمممم کہہ کر گھر میں چال گیا‬
‫اور سیدھا آپی کے کمرے میں گیا جہاں مہری اور امی بھی تھی‬
‫تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ مہری بلکل دیسی انداز میں چارپائی پر چونکڑی مار کر بیٹھی تھی اور آپی سے ایسے‬
‫ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی جیسے پتہ نھی کتنی ُپرانی دوست ھو‬
‫مہری کو یوں دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی‬
‫تو آپی مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫تیرے کیوں دند نکلن دے نے‬
‫تو میں نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ھوے امی کو باہر آنے کا کہا‬
‫امی باہر آئی‬
‫تو میں نے کہا لسی ٹھنڈی کر دو‬
‫تو امی حیران ہوتے ھوے بولی لسی کی کرنی اے‬
‫میں نے کہا اسد نے پینی ھے‬
‫تو امی غصے سے بولی‬
‫پیلی واری پرونے آے نے تے توں اوناں نو لسی پالویں گا‪،،،‬‬
‫‪ ،‬جا پج کے جا تے ویرے(‪.‬میرا بڑا بھائی) دی دکان تو شیزان تے پیپسی دی بوتل پھڑ لیا‬
‫میں نے امی کو کہا کہ میں بوتلیں ھی لینے جارھا تھا‬
‫لیکن اسد نے منع کردیا کہ ہم گاوں لسی پینے آے ہیں بوتلیں نئی‬
‫اتنے میں اندر سے مہری بھی نکل آئی اور وہ بھی لسی کا ھی اصرار کرنے لگ گئی‬
‫امی نے جلدی جلدی لسی ٹھنڈی کی اور دو بڑے بڑے پیتل کے گالسوں میں ڈال کر‬
‫سٹیل کی ٹرے میں رکھ کر مجھے پکڑا دئے اور آپی مہری کے لیے جگ میں ڈال کر اور سٹیل کے گالس لے کر اندر‬
‫چلی گئی‬
‫میں نے اسد کے سامنے ٹرے کی تو وہ بڑی حیرانگی سے اتنے لمبے لمبے گالسوں کو دیکھنے لگ گیا‬
‫پھر اس نے ایک گالس اٹھا‬
‫اور پہلے ایک گھونٹ پیا اور مزے سے کہا واہ یار بڑی مزے کی ھے لسی‬
‫اور پھر ایک ھی دفعہ گالس کو منہ لگا کر ساری لسی ختم کردی میں ابھی دوسرا گالس ٹرے میں رکھے ھی کھڑا تھا تو‬
‫اسد نے دوسرا گالس بھی اٹھا لیا اور میری طرف دیکھتے ھوے شرارت سے کہا‬
‫پلیز ڈونٹ مائینڈ‬
‫اور دوسرے گالس کو بھی خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا اور بوال تھینکس‬
‫یار پہلی دفعہ اتنا مزہ آیا ھے واہ واقعی یار لسی پنڈ کی سوغات ھے‬
‫میں ہنسنے لگ گیا اور مزاق میں اسے کہا‬
‫ماما میری وی پی گیًاں اے‬
‫تو وہ قہقہ مار کر ہنس پڑا اور بولی اتنے مزے کی چیز بھی کوئی چھوڑتا ھے‬
‫۔۔‬
‫ایسے ھی ہم کافی دیر ہنس ہنس کر باتیں کرتے رھے‬
‫اور پرانی یادیں تازہ کرتے رھے‬
‫اسد نے مجھے پڑھائی چھورنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اسے کپڑے کی دکان پر کام سیکھنے اور وہاں پر آنے والی‬
‫رنگ برنگی تتلیوں کا بتایا‬
‫تو اسد نے پوچھا کون سے بازار میں دکان ھے تو میں نے بتایا کہ کارخانے بازار میں تو اسد حیرانگی سے بوال‬
‫یار ادھر ھی تو میری ماما کی بوتیک ھے‬
‫تو میں ایکدم حیران ھوکر بوتیک کی لوکیشن پوچھنے لگ گیا‬

‫)‪Update no (37‬‬
‫مجھے یاد آیا کہ آنٹی نے مجھے اپنی بوتیک کا کارڈ بھی دیا تھا‬
‫مگر پتہ نھی وہ کارڈ مین کدھر رکھ بیٹھا تھا اس لیے میرے ذہن سے آنٹی کے بوتیک کا نکل گیا تھا‬
‫ورنہ انکی بوتیک ہماری دکان سے کچھ ھی دور ایک مارکیٹ کے اندر تھی‬
‫میں اور اسد باتیں ھی کررھے تھے کہ مہری اندر داخل ھوئی اور بڑی شوخی سے بولی‬
‫اگر جناب کی باتیں ختم ھوگئی ھوں تو‬
‫مجھے گاوں کی سیر کرنی ھے‬
‫تو اسد بوال چل یار اس نے میری جان کھائی ھوئی تھی کہ میں‪ .‬نے گاوں دیکھنا ھے‬
‫آج بڑی مشکل سے ماما سے اجازت لی تھی‬
‫وہ بھی تمہارے گاوں اور سے ملنے کی وجہ سے اجازت ملی ورنہ مما کبھی بھی ہمیں نھی آنے دیتی‬
‫اور ہاں مما نے شکوہ بھی کیا ھے کہ تم گھر بھی نھی آے اور بوتیک پر بھی نھی‬
‫خیر ہم تینوں گھر سے نکل آے اسد بوال گاڑی میں چلیں تو مہری بولی‬
‫نھی میں نے پیدل ھی جانا ھے‬
‫تو میں نے بھی اسد کو کہا ماما کھیتوں میں کار چالے گا‬
‫تو اسد شرمندہ سا ہوگیا‬
‫اور ہم کھیتوں کی طرف چل دیے‬
‫آتے جاتے لوگ اسد اور خاص کر مہری کو ایسے دیکھ رھے تھے جیسے یہ انسان نھی کوئی خالئی مخلوق ھو‬
‫میں نے مہری سے پوچھا کہ پہلے کھیت دیکھنے ہیں یا پھر امرود اور مالٹوں کے باغ‬
‫تو مہری جھٹ سے بولی‬
‫سب کچھ دیکھنا ھے‬
‫تو میں نے کہا کھیت سامنے ہیں اور باغ ٹرین کی پٹری کے اس پار ہیں‬
‫تو مہری بولی چلو پہلے باغ میں چلتے ہیں تو‬
‫میں انکو لے کر پٹری کی طرف چل دیا‬
‫میری نے بلیک سن گالسس لگاے ھوے تھے‬
‫وہ کسی میم سے کم نھی لگ رھی تھی‬
‫تھوڑا آگے جاکر کچی جگہ شروع ھو جاتی تھی‬
‫جس میں کافی مٹی تھی‬
‫جب ہم کچی جگہ سے گزرنے لگے تو مہری نے اپنی شلوار پنڈلیوں سے اوپر کو کرلی تاکہ مٹی نہ لگے اور وہ شلوار کو‬
‫دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چل رھی تھی‬
‫جب ہم پٹری کے قریب پہنچے اسد دوڑ کر پٹری کے اوپر چڑھ گیا اسکے پیچھے ھی مہری دوڑتی ھوئی پٹری کے اوپر‬
‫چڑھ گئی‬
‫جب مہری پٹری کے اوپر چڑھ رھی تھی تو چڑھائی چڑھتے وقت اسکی‪ .‬گول مٹول گانڈ باہر کو نکل آئی‬
‫اور بڑا ھی دلکش سین میری آنکھوں کو دیکھنا نصیب ھوا‬
‫مہری پٹری پر چڑھ کر بہت خوش ھورھی تھی اور چاروں طرف بڑے غور سے دیکھ دیکھ کر ُک ھلے ماحول کو انجواے‬
‫کر رھی تھی‬
‫میں سوچ رھا تھا کہ انسان کی بھی عجیب نفسیات ھے‬
‫پینڈو شہر کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں‬
‫اور‬
‫شہری پنڈ کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں‬
‫اتنے میں‬
‫میں بھی انکے پاس پہنچ گیا‬
‫اور انکو بتانے لگ گیا کہ وہ سامنے باغ ہین اور اسطرف فالں فالں چیز کے درخت ہین‬
‫میں انکو ایک ایک چیز درختوں پودوں کے نام بتاتا جارھا تھا کہ یہ کیسے اگتے ہین کیسے انکی کاشت ہوتی ھے کب کٹائی‬
‫ھوتی ھے‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم باغ میں پہنچ گئے تھے‬
‫اس دوران اسد کے سامنے ھی مہری میرے ساتھ کافی حد تک فرینک ھو چکی تھی‬
‫اور کبھی وہ میرے کندھے پر ھاتھ رکھ کر باتیں کرتی کبھی ہنستے ہنستے میرے ہاتھ پر ھاتھ مارتی‬
‫اور میں حیران تھا کہ اسد کو ذرہ بھی ُبرا نھی لگ رھا تھا‬
‫کافی بولڈ قسم کے واقعہ ھوے دونوں بہن بھائی‬
‫ورنہ ہمارے ماحول میں تو ویسے ھی کسی انجان سے بات کرنے‪ .‬یا فری ھونے پر لڑکی کو کاٹ دیا جاتا تھا‬
‫مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا‬
‫باتوں باتوں میں‪ .‬میں نے نوٹ کیا کہ کافی دفعہ مہری نے مجھے یار کہہ کر مخاطب کیا تھا‬
‫خیر ہم باغ میں پہنچے‬
‫باغ کے مالک کا بیٹا میرا دوست ھی تھا‬
‫میں پہلے اس سے مال اور اسے بتایا کہ شہر سے میرے مہمان آے ہیں‬
‫انکو باغ دیکھنا‪ .‬ھے تو اس نے خوشی خوشی اجازت دی کہ یار تمہارے نھی ہمارے مہمان ہیں جیسے مرضی گھومیں جو‬
‫دل کرے توڑ کر کھائیں میں نے اسکا شکریہ ادا کیا‬
‫اور ہم باغ میں داخل ھوگئے‬
‫مہری بڑی خوش نظر آرھی تھی وہ باغ میں چلتے چلتے کبھی بازوں کو اٹھا کر گھومتی کبھی پودوں کے پتوں کو توڑتی‬
‫وہ پورا انجواے کر رھی تھی‬
‫ایک جگہ جا کر مہری بولی میں نے امرود کھانے ہیں تو میں نے کہا میں توڑ دیتا ہوں تو وہ بولی نھی میں نے خود توڑنے‬
‫ہیں تو میں نے کہا توڑ لو کس نے روکا ھے‬
‫تو وہ امرود توڑنے لگی‬
‫اسد بوال یار مجھے پیشاب بہت تیز آیا ھے تو میں نے کہا یہیں کرلو ایک سائڈ پر تو وہ بولی یار چھوٹا نھی بڑا پیشاب آیا‬
‫ھے‬
‫تو میں نے کہا یار‬
‫چلو پھر گھر چلتے ہیں تو مہری کہنے لگی نھی ابھی تو میں نے پورا باغ دیکھنا ھے اسے جانا ھے تو چال جاے‬
‫تو میں نے بےچارگی سے اسد کی طرف دیکھا کہ اب کیا کیا جاے تو اسد بوال تم مہری کو باغ دیکھاو‬
‫میں گھر سے پیشاب کر کے آجاتا ھوں تو میں نے کہا یار یہ مناسب نھی‬
‫تو وہ بوال‬
‫یار میری نکلنے والی ھوئی ھے‬
‫تم مہری کو باغ دیکھاو میں نے بس آن جان کرنا ھے‬
‫اور یہ کہتے ھوے وہ بھاگ کر پٹری کی طرف چال گیا‬
‫اور میں حیران پریشان کھڑا اسے جاتا دیکھتا رھا‬
‫تو مہری نے مجھے بازو سے ہالیا اور بولی کم ان یار جانے دو اسے آجاے گا بچہ تو نھی جو گم ھو جاے گا‬
‫تو میں مہری کی طرف متوجہ ھوگیا‬
‫ہم چلتے چلتے باغ کے کافی اندر پہنچ گئے تھے‬
‫ایک درخت کے پاس کھڑے ہوکر مہری بولی یاسر وہ دیکھو کتنا پیارا سرخ امرود لگا ھے تو میں جمپ مار کر توڑنے لگا‬
‫تو مہری نے مجھے بازو سے پکڑ کر توڑنے سے منع کرتے ھوے کہا‬
‫او نو یار اسے میں نے اپنے ہاتھ سے توڑنا ھے‬
‫دوستو پہلے بھی مہری نے مجھے ٹچ کیا تھا مگر اب جیسے ھی اس نے میرے بازو کو پکڑا تو اس کے نازک ہاتھ کے لمس‬
‫سے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑنے لگا شاید یہ خلوت میں اتنی قربت کا نتیجہ تھا کہ میری یہ حالت ھوگئی‬
‫میں نے کہا مہری وہ امرود اونچا ھے تمہارا ہاتھ نھی پہنچنا‬
‫میں توڑ دیتا ھوں تو وہ بچوں کی طرح اچھل اچھل کر کہنے لگی مجھے نئی پتہ میں نے وہ اپنے ہاتھ سے توڑنا ھے‬
‫جیسے مرضی کرو مجھے وہ امرود توڑنا ھے‬
‫تو میں نے جان چھڑواتے ھوے کہا کہ پھر میں تمہیں اٹھا لیتا ھوں اور تم توڑ لینا‬
‫میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ مہری ایسا کرنے سے انکار کردے گی اور میری جان چھوٹ جاے گی‬
‫مگر مہری نے جب کہا کہ‬
‫ُگ ڈ آئڈیا یار‬
‫یور آر ُگ ڈ بوائے‬
‫کم آن یار‬
‫یہ سنتے ھی میرے طوطے اڑ گئے کہ اگر اسد نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا کہ تم نے میری ھی بہن پر ٹرائیاں مارنی‬
‫شروع کردی‬
‫پھر سوچا وہ تو ابھی گیا ھے اسے آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جانا ھے‬
‫میں نے ڈرتے ڈرتے مہری کے پاس گیا اور اسکے سامنے نیچے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگوں کے گرد اپنے بازو کیے اور‬
‫ٹانگوں کو کس کے جپھی ڈال کر اسکو اوپر اٹھا لیا‬
‫مہری کا وزن کافی تھا میں نے اسکو اٹھا تو لیا مگر مجھ سے سہی طرح کھڑے نھی ھوا جارھا تھا‬
‫مہری‪ .‬بھی کبھی دائیں طرف جھکتی کبھی بائیں طرف‬
‫تو مہری بولی ایسے میں گر جاوں گی سہی طرح تو اٹھاو تو میں نے اپنے بازوں کو تھوڑا ڈھیال کیا تو مہری میرے بازوں‬
‫کے احسار میں کھسکتی میرے ساتھ جڑی نیچے کی طرف آگئی‬
‫مہری جیسے جیسے نیچے آرھی تھی‬
‫تو میرے ہاتھ پہلے اسکی رانوں پر آے پھر وہ اور نیچے آئی تو میرے ھاتھ جیسے ھی اسکی گانڈ پر آے تو مجھے چالیس‬
‫ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا‬
‫اتنی نرم اتنی نرم اتنی نرررررم گانڈ کہ بے ساختہ میں نے اسکی گانڈ کو دبا کر چھوڑ دیا اور ساتھ ھی میرے لن نے جھٹکا‬
‫کھایا اور کھڑا ھوگیا اور مہری کی ٹانگوں کے بیچ ھی سیدھا مہری کی پھدی کے ساتھ لگ گیا‬
‫مہری کی قمیض پہلے ھی شارٹ سی تھی اوپر سے ریشمی اور سوفٹ سا کپڑا تھا‬
‫جب مہری نیچے آئی تو اسکی پیچھے سے قمیض میرے ھاتھوں میں اٹک کر خود ھی اسکی گانڈ سے اوپر ھوگئی تھی اور‬
‫آگے سے بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگتے ھی اوپر ھوگئی تھی اور میرے لن کو کھال راستہ مل گیا تھا‬
‫مہری کے دونوں ھاتھ میرے کندھوں پر تھے اور اسکے نرم نرم روئی کے گولے چونتیس سائز کے ممے میرے سینے‬
‫میں دبے ھوے تھے اور اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے ایک دوسرے کو دیکھ کر ترس رھے تھے‬
‫ایک دفعہ تو ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھی جارھے تھے‬
‫کچھ دیر بعد جب مہری کو میرے لن کا احساس ہو جو اسکی پھدی پر دستک دے رھا تھا تو‬
‫مہری نے گبھرائی ھوئی آواز مین مجھے کہا کہ ووو امرود‬
‫تو مجھے بھی ہوش آیا‬
‫تو میں نے ایکدم اسے چھوڑ دیا‬
‫اور اسے کہا سوری‬
‫تو وہ حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫سوری کس بات کی۔۔۔‬
‫تو میں شرمندہ سا سر جھکائے کھڑا رھا تو‬
‫مہری پھر بولی‬
‫کم ان یار‬
‫کیا لڑکیوں کی طرح شر ما رھے ھو‬
‫اٹھاو مجھے‬
‫میں نے پھر اسے ویسے ھی اٹھایا تو پھر وہ ھی حال ھوا اور مہری پھر میرے بازوں میں کھسکتی ھوئی نیچے آگئی اس‬
‫دفعہ تو سب کچھ الٹ پلٹ ھو گیا تھا‬
‫کیونکہ‬
‫کیونکہ اس دفعہ میر لن پہلے ہی کھڑا تھا جسکو مہری نے محسوس بھی کیا تھا اور ایک نظر دیکھا بھی تھا‬
‫اسکے باوجود اس نے مجھے پھر اٹھانے کا کہا تھا‬
‫اب جب وہ کھسکتی نیچے آئی تو میرا ایک ھاتھ سیدھا اسکی گانڈ کی پھاڑی کے اندر چال گیا تھا اور میری انگلیاں اسکی‬
‫پھدی کو ٹچ ھوگئی تھی اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ جہاں میری انگلیاں لگی تھی وھاں سے مہری کی شلوار گیلی‬
‫تھی اورآگے سے میرا لن اسکے پٹوں میں پھدی کو رگڑ لگا کر دباے ھوا تھا میری انگلیاں اسکی پھدی کے ساتھ ساتھ‬
‫میرے لن کے ٹوپے کو بھی چھورھی تھی‬
‫مجھے جب اسکی شلوار گیلی ھونے کا پتہ چال تو میں نے جان بوجھ کر اپنی انگلیاں ادھر ھی روکے رکھی‬
‫اور مہری اسی انداز میں میرے کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے میرے ساتھ چپکی ھوئی تھی‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں ُخ ماری دیکھ لی تھی‬
‫اور سمجھ بھی گیا تھا کہ‬
‫یہ سب ڈرامے کررھی ھے جان بوجھ کر نیچے آتی ھے لن کا مزہ لینے کے لیے‬
‫ورنہ میری گرفت اتنی بھی کمزور نہ تھی کہ یہ مجھ سے سمبھالی نہ جاتی‬
‫مہری‬
‫کی گانڈ میں میرا ھاتھ ویسے ھی تھا‬
‫میں نے ھاتھ نکاال نھی تھا‬
‫مہری کے گالبی ہونٹ بلکل میرے سامنے تھے اور وہ بلکل ساکت کھڑی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھی جارہی‬
‫تھی‬
‫ہماری سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا رھی تھی‬
‫اسکی سانسیں بتا رھی تھی کہ وہ کسی اور دنیا میں پہنچی ھوئی ھے جہاں سے سیل ُت ڑوا کر ھی لوٹا جاسکتا تھا‬
‫مجھ سے اب برداشت نھی ھو رھا تھا‬
‫شاید مہری بھی پہل کرنے سے ڈر رھی تھی‬
‫جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ھونے لگا تو میں نے اپنے ہونٹوں کو بس ایک انچ ھی آگے کیا تو مہری نے اپنے ہونٹوں‬
‫کو دو انچ آگے کر کے میرے ہونٹوں سے مال دیا‬
‫بس‬
‫پھر کیا تھا‬
‫اسکے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں کے اندر سمانے لگے‬
‫اسکی گرم سانسیں میرے اندر منتقل ھورھی تھی اور میری سانسیں اس کے اندر منتقل ھو رھی تھی‬
‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کانوں کے اوپر رکھے اور‬
‫اور دو گونگے آپس میں باتیں کرنا شروع ھوگئے‬
‫میں تو اسکے ہونٹوں کو چوسنے کو ترسا ھوا ھی تھا‬
‫مگر مہری کے کسنگ کرنے کے انداز سے لگ رھا تھا کہ وہ برسوں کی پیاسی اور ترسی ھوئی ھے‬
‫میں نے مہری کی گانڈ کو اپنی مٹھیوں جکڑ لیا تھا‬
‫اور لن اسکی پھدی کے اوپر رگڑنے لگ گیا تھا‬
‫مہری میرے ہونٹوں کو بری طرح کھانے کی کوشش میں تھی وہ جنگلی بلی بنی ھوئی تھی‬
‫میں نے ہاتھ آگے کر کے اسکی قمیض اوپر کو کی اور قمیض کے اندر ھی ہاتھ ڈال کر اسکے ممے کو پکڑ لیا اسکا مما‬
‫اتنا نرم تھا اور مالئم تھا کہ میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا‬
‫اتنی سوفٹنس‬
‫عظمی اور صدف کے مموں میں نہ تھی‬
‫جتنی مہری کے ممے میں تھی‬
‫مہری میرے لن کو ٹانگوں میں بھینچی جارھی تھی مجھ سے بھی اب صبر نہ ھو سکا‬
‫میں نے دوسرے ھاتھ سے اسکے گانڈ سے شلوار نیچے کرنا شروع کردی اور اسکی ننگی سوفٹ گانڈ کو دبانے لگ گیا‬
‫اور میں نے ویسے ھی ہاتھ اسکی گانڈ سے گھما کر‬
‫آگے کی طرف لے آیا اور آگے سے اسکی شلوار نیچے کی تو شلوار اسکے پاوں میں گر گئی‬
‫اور میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال‬
‫پتہ نھی مجھے کس بات کی جلدی تھی‬
‫میں ترسوں کی طرح سب کچھ جلدی جلدی کر رھا تھا‬
‫میں نے اپنا ناال کھوال تو میری شلوار بھی میرے پاوں میں گر گئی میں نے اپنے لن کو پکڑا اور جیسے ھی اسکی کلین‬
‫شیو نرم پھدی کے لبوں پر رکھا تو مہری کو ایکدم جیسے ہوش آگیا ھو‬
‫اس نے مجھے زور سے دھکا دیا‬
‫اور بولی‬
‫وٹ از ِدس‬
‫اسکا دھکا اتنا شدید تھا کہ میں پیچھے لڑکھراتا ھوا نیچے گھاس پر جا گرا‬
‫میرے گرنے کی وجہ میرے پاوں میں شلوار بھی تھی‬
‫اور مہری اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھو جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار اوپر کرنے لگی‬
‫میں بھی ڈر گیا تھا اس لیے خاموشی سے وہیں بیٹھا اپنی شلوار اوپر کر کے ناال باندھنے لگ گیا‬
‫اور اسی حال میں بیٹھا حیرانگی سے مہری کی طرف دیکھنے لگ گیا‬
‫اصل میں‬
‫مہری کے ساتھ میری سیکس کے موضوع پر پہلے کو ڈسکس نھی ھوئی تھی اور نہ ھی میں اس معاملے میں اسکے ساتھ‬
‫فرینک تھا کہ اٹھ کر اس سے دھکا دینے کی وجہ پوچھتا یا اس سے ذبردستی کرتا یا اسکا منت ترال کرتا کہ مجھے الزمی‬
‫پھدی دو‬
‫یہ تو سب اچانک اور فٹافٹ ھوا تھا کہ نہ مجھے پتہ چال نہ مہری کو‬
‫بس آگے کے سامنے گھی جیسا حال ھوا تھا‬
‫مہری بھی حیران پریشان میری طرف دیکھی جارہی تھی‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫اس نے منہ دوسری طرف کیا اور اپنے بال اور دوپٹہ سہی کرنے لگی‬
‫اور دوسری طرف منہ کیے ھی مجھے کہنے لگی مجھے گھر جانا ھے‬
‫میں اب اسے کیا کہتا‬
‫میں کھڑا ھوا اور سر جھکائے‬
‫چل پڑا میں نے اسے یہ بھی نھی کہا کہ چلو‬
‫کہتا بھی کیسے‬
‫مجھ میں ہمت نھی تھی‬
‫شاید میری غریبی وجہ تھی یا میرا اپنے آپ کو مہری سے کمتر سمجھنا تھا‬
‫جبکہ۔ میں بے شک غریب تھا‬
‫مگر حسن کے معاملے میں بھی نواب تھا‬
‫اگر وہ حیسن تھی تو کچھ کم میں بھی نھی تھا‬
‫مگر اس کے باوجود بھی‬
‫میری ہمت جواب دے چکی تھی‬
‫اور میں گونگا بن کر چلنے لگا تو وہ مجھے جاتا دیکھ کر میرے پیچھے پیچھے سر جھکائے چلنے لگی‬
‫تو اچانک مجھے اسد کی آواز آئی کہ یاسرررد کدھر ھو یار‬
‫میں نے جب اسد کی آواز سنی تو میرے جسم میں کچھ جان آئی‬
‫اور میں نے پیچھے مڑ کر مہری کو دیکھا جو شاید میری طرف پہلے سے ھی دیکھ رھی تھی‬
‫اسکی طرف دونوں ھاتھ جوڑے اور اپنے لب ہالے کہ‬
‫پلیز پہلے کی طرح اپنا موڈ کر لو ورنہ اسد کو شک ھوجاے گا‬
‫تو اسکی سمجھ مین بھی میری بات آگئی‬
‫اور اس کے چہرے کا تاثرات بدلنے لگے‬
‫اب اسکا چہرہ پچھتاوے اور غصے واال نھی تھا کچھ بہتر تھا‬
‫مگر پہلے جیسا نہ تھا‬
‫کچھ ھی دیر میں اسد ہمیں ڈھونڈتا ھوا ہمارے پاس آگیا اور کہنے لگا یار‬
‫میری تو بس ھوگئی ھے‬
‫میں نے کہا کیا ھوا تو اس نے کہا یار واش روم کے چکر لگا لگا کر برا حال ھوگیا ھے‬
‫تو میں نے کہا لسی کا ایک اور گالس پی لینا تھا‬
‫تو وہ بوال بس یار مزے لیتے لیتے ب‬
‫اپنے پیٹ کا بیڑہ غرق کرلیا‬
‫اسکی یہ بات سن کر مہری کھل کھال کر ہنس پڑی‬
‫اسد پھر بوال‬
‫پتہ نھی یار تم لوگ کیسے اتنی پاور فل خوراک کھالتے ھو‬
‫میں نے کہا‬
‫ہم کام بھی اتنا ھی سخت کرتے ہیں‬
‫اس لیے ہمارے معدے بھی مضبوط‪ .‬ہیں‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم نہر کی طرف سے گھر آگئے‬
‫سارے راستے مہری بس نارمل ھی رھی جیسے وہ پہلے چہک رھی تھی اب اسکی ساری چہک نکل چکی تھی‬
‫اب وہ ایسے بات کررھی تھی‬
‫جیسے بڑی میچور اور سمجھدار ھو‬
‫گھر آکر امی نے روٹی کا کہا مگر اسد کا پیٹ پہلے ھی لسی کی وجہ سے خراب تھا‬
‫اوپر سے امی نے دیسی گھی کا ساگ اور مکئی کی روٹی کا کہا تو اسد نے بھاگنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی اور جلدی‬
‫سے جاکر کار کا سٹیرنگ سنبھال کر بیٹھ گیا‬
‫جبکہ مہری امی اور آپی سے مل رھی تھی اور انکو اپنے گھر آنے کی دعوت دے رھی تھی اور جاتے جاتے بھی آنے کا‬
‫اصرار کرتی رھی‬
‫اور اسد مجھے گاڑی میں ھی بیٹھا مال‬
‫جبکہ مہری مجھ سے نظریں ُچ را رھی تھی‬
‫اسد نے مجھے تاکید کی کی آنٹی اور آپی کو لے کر ضرور ہمارے گھر آنا میں نے کوشش کروں گا کہا‬
‫تو تب مہری نے مجھے مخاطب کر کے کہا‬
‫اگر آپ نہ آے تو ہم نے بھی دوبارا کبھی نھی آنا‬
‫تو وہ مجھ سے آنے کا وعدہ لے کر چلے گئے‬
‫اور میں انکی دھول اڑاتی گاڑی کو پیچھے سے دیکھتا رھا‬
‫۔میں روزانہ سکول ٹائم پر ھی گھر سے نکلتا اور عظمی نسرین اور صدف کو ساتھ لے کر انکو سکول چھوڑتا اور خود‬
‫دکان پر چال جاتا‬
‫انکل سجاد اچھے انسان تھے میرے ساتھ انکا اخالق بھی اچھا‬
‫اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک تو وہ ہماری گلی کے تھے دوسرا انکی وائف آنٹی رضیہ کا میری امی سے کافی اچھا تعلق‬
‫تھا‬
‫انکل نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ تم میرے ساتھ موٹر سائیکل پر چلے جایا کرو‬
‫مگر مجھے عظمی اور صدف کا قرب حاصل تھا‬
‫میں کیسے انکی قربت سے دور ہو سکتا تھا‬
‫اس لیے میں انکو ٹال مٹول کردیتا‬
‫ایک بات سے وہ بھی خوش تھے کہ‬
‫میں پیدل بھی ان سے پہلے دکان پر پہنچ جاتا تھا‬
‫اور انکے آنے سے پہلے‬
‫دکان کے آگے سے‬
‫صفائی وغیرہ کر کے بیٹھا ھوتا تھا‬
‫انکل کی دکان‬
‫میں دو مالزم اور بھی تھے‬
‫اور انکی دکان بھی اچھی چلتی تھی‬
‫مالزم دکان کھلنے کے بعد آتے تھے‬
‫اس لیے میں انکے آنے سے پہلے ھی دکان کی اندر سے بھی صفائی کر لیتا‬
‫اور الماریوں میں لگے کپڑوں کو جھاڑن سے جھاڑ لیتا‬
‫جس کی وجہ سے میں چند ھی دنوں میں انکل کی آنکھ کا تارا بن گیا‬
‫دکان میں ذیادہ ورائٹی لیڈیز کی ھی تھی‬
‫جس میں موسم کے لحاظ سے ہر طرح کے کپڑے میں ورائٹی موجود ھوتی‬
‫زیادہ کام فینسی سوٹ اور بوتیک کے سوٹوں کا تھا جو شادی بیاہ میں استعمال ھوتے تھے‬

‫)‪.Update no (38‬‬
‫دکان کے آخر میں بلکل سامنے ایک بڑا سا شیشے کا ریک تھا جس میں بوتیک کے سوٹ ٹانگے ہوتے تھے‬
‫اور ریک کے ساتھ ھی ایک چھوٹا سا دروازہ ٹرائی روم کا تھا‬
‫جس میں آنٹیاں اور پوپٹ بچیاں سوٹ پہن کر اپنی فٹنگ چیک کرتی تھی‬
‫باقی دکان میں پھٹے نما کاونٹر تھے جن پر ہم بیٹھ کر‬
‫کسٹمر کو کپڑے پسند کرواتے‬
‫اور کسٹمر کے بیٹھنے کے لیے پوشش کیے ھوے بینچ پڑے تھے جن پر آنٹیاں اور گرما گرما بچیاں اپنی پتلی موٹی گول‬
‫مٹول باہر کو نکلی یا نارمل تشریف‬
‫رکھ کر بیٹھ کر اپنی پسند کی ورائٹی دیکھانے کی فرمائش کرتیں‬
‫اور کچھ ایسی بھی ھوتیں جو بار بار ہاتھ لمبا کر کے انگلی کے اشارے سے اپنی پسند کا سوٹ بتاتی کے وہ دیکھائیں تو‬
‫بے ساخط دھیان انکے تنے ھوے مموں پر چال جاتا یاں جب اٹھ کر جاتی تو پیچھے سے انکی گانڈ میں پھنسی قمیض کو‬
‫دیکھنے کا مزہ ھی الگ ھوتا‬
‫پہلے تو میں کچھ دن دکان‬
‫پر شرماتا رھا‬
‫مگر میری یہ شرم صرف جینٹری کی آنٹیوں اور ممی ڈیڈی بچیوں کو دیکھ کر ہوتی‬
‫اور میرا حوصلہ بھی نہ ھوتا کہ ان سے پوچھ ھی سکوں کہ آپ کو کس طرح کی ورائٹی چاھیے‬
‫باقی جو دیہات کے تھکی ہوئی مائیاں ھوتی انکو میں دیہاتی انداز میں تھوڑا بہت پوچھ لیتا تھا‬
‫پہلے پہل تو مالزموں نے مجھے چاے النے بوتل النے روٹی النے پر ھی لگاے رکھا‬
‫مگر آہستہ آہستہ وہ دن بھی آگئے جب میں کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا بلکہ مالزموں سے زیادہ سیل میری ھوتی‬
‫انکل اب مجھ پر بہت اعتماد کرنے لگ گئے تھے‬
‫وہ اکثر الہور جاتے تو دکان کی چابیاں مجھے دے دیتے‬
‫اور میں بڑی ذمہ داری اور ایمانداری سے سارے دن کی سیل لکھتا اور انکو ایک ایک روپے کا حساب دیتا تھا‬
‫جس سے وہ مذید مجھ پر اعتماد کرنے لگ جاتے‬
‫دوستو‬
‫میں جب بھی آنٹی فوزیہ کے گھر جاتا تو‬
‫آنٹی مجھے روز چھیڑتی کے‬
‫میرا شزادہ جوان ھوگیا ھے اور میری ٹھوڑی کو پکڑ کر کہتی واہ اب تو داڑھی مونچھیں بھی نکل رھی ہیں‬
‫اور کبھی کہتی کہ منڈا کاروباری ھوگیا ھے‬
‫اب تو اسکی ٹوریں ھی بدل گئی ہیں‬
‫میں ہنستا رہتا اور آنٹی کو بھی چھیڑ دیتا کہ‬
‫انٹی آپ بھی تو ابھی تک جوان ھو انکل آپ کے سامنے بوڑھے لگتے ہیں‬
‫تو آنٹی جوتا اٹھاتے ھوے مجھے مارنے کی ایکٹنگ کرتی اور کہتی ٹھہر جا ابھی تجھے بتاتی ھوں‬
‫شہر جا کر خراب ھوگیا ھے‬
‫اب میں کیا بتاتا کہ خراب تو آپ کی بیٹی نے کیا ھے‬
‫آنٹی اب بھی میرے ساتھ ویسے ھی رہتی جیسے تین سال پہلے تھی‬
‫میں ایسے ھی آنٹی کے ساتھ چپکا رہتا‬
‫اور آنٹی نے بھی کبھی برا محسوس نھی کیا تھا‬
‫وہ اب بھی میرے سامنے بغیر دوپٹے کے ھی رہتی‬
‫اور میں انکی بڑی بڑی چھاتیوں کو کن اکھیوں سے دیکھتا رہتا‬
‫دوستو‬
‫جمعہ کو دکان سے چھٹی ہوتی تھی‬
‫میں چھٹی والے دن ذیادہ وقت آنٹی کے ھی ساتھ گزارتا تھا‬
‫انکل کبھی گھر ھوتے کبھی اپنی تھوڑی سے ٹھیکے پر لی ھوئی زمین پر ھوتے‬
‫ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا میں صبح صبح ھی آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی گھر میں اکیلی تھی‬
‫میں نے عظمی نسرین کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ ٹیویشن گئی ہیں‬
‫میں نے حیرانگی سے پوچھا آج تو چھٹی ھے پھر وہ کیوں گئی ہیں اور اتنی صبح صبح‬
‫تو آنٹی نے بتایا انکے پیپر سر پر ہیں اور پیپر بھی بورڈ کے ہیں اس لیے انکو میڈم نگہت کے پاس ٹیویشن رکھوا دیا ھے‬
‫میڈم نگہت کافی عمر رسیدہ خاتون تھی جو شہر گورمنٹ سکول میں پڑھاتی تھی‬
‫میں نے ہمممم کہا اور آنٹی کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی کے بال گیلے تھے جس سے صاف لگ رھا تھا کہ آنٹی فوزیہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ھی نہائی ہیں انہوں نے ہلکے‬
‫سکن کلر کا الن کا باریک سوٹ پہنا ھوا تھا‬
‫نیچے شمیض بھی نھی پہنی ھوئی تھی جس کی وجہ سے انکا کالے رنگ کا برا صاف نظر آرھا تھا‬
‫اور قمیض بھی کئی جگہ سے گیلی تھی جس کی وجہ سے انکا گورا جسم کپڑوں سے نمایاں نظر آرھا تھا‬
‫جس کو دیکھ کر میرے لن نے انگڑائی لینا شروع کردی‬
‫آنٹی فوزیہ نے بال ُک ھلے چھوڑے ھوے تھے اور صحن میں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی‬
‫میں انکے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا ہم دونوں کی ٹانگیں چارپائی سے لٹکی ہوئی تھی‬
‫میری اور آنٹی کی ٹانگ آپس میں جڑی ہوئی تھی‬
‫میں نے اپنا بازو آنٹی کے پیچھے سے گزار کر انکی دوسری طرف کندھے سے ذرہ نیچے بازو پر رکھتے ھوے کہا‬
‫آنٹی آج خیر ھے‬
‫صبح صبح ھی تیار شیار ھو رھی ہیں کہیں جانا تو نھی‬
‫تو آنٹی ہنستے ھوے بولی‬
‫بےشرم انسان‬
‫ضرور تو نھی کہ کہیں جانا ھو تو ھی تیار ھوا جاتا ھے‬
‫اور ویسے بھی میں نے کونسا سرخی پاوڈر لگایا ھے یا الل جوڑا پہنا ہے جو تم ایسے کہہ رھے ھو‬
‫میں نے ایک لمبی سی آہ بھرتے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی آپکو سرخی پاوڈر لگانے کی کیا ضرورت ھے‬
‫آپ تو ایسے ھی بس نہا لو تو جوان لڑکیوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ھو‬
‫تو آنٹی نے میرے پیٹ میں کہنی مارتے ھوے کہا‬
‫شرم کرو بےشرم‬
‫میں تمہاری آنٹی ھوں اور تم اپنی آنٹی پر ھی الئن مار رھے ھو‬
‫آ لینے دو تمہارے انکل کو بتاتی ھوں انکو کہ یہ شہری بابو آپک کی بیگم کو سیٹ کرنے میں لگا ھوا ھے‬
‫تو میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی آپ چیز ھی ایسی ھو اس میں میرا کیا قصور‬
‫یہ کہتے ھی میں اٹھ کر صحن میں دوڑ پڑا‬
‫انٹی ہنستے ھوے بولی ٹھہر تجھے بتاتی ہوں بے شرما‬
‫اور آنٹی مجھے پکڑنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی میں آگے آگے بھاگ رھا تھا اور آنٹی میرے پیچھے پیچھے‬
‫میں نے صحن کا ایک چکر لگایا‬
‫اور بیری کے درخت کے چاروں طرف گھومنے لگ گیا‬
‫آنٹی میری پیچھے پیچھے تھی‬
‫میں نے بیری کے گرد دو تین چکر لگاے‬
‫اور کمرے کی طرف بھاگ گیا آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی‬
‫میں چارپائی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا‬
‫آنٹی کو بھی سانس چڑھا ھوا تھا انہوں نے ہانپتے ھوے میرے دونوں بازوں کو پکڑا اور مجھے پیچھے چارپائی پر دھکا‬
‫دیتے ھوے میرے اوپر جھک گئیں‬
‫آنٹی کے پاوں زمین پر تھے اور میرے بازوں کو پکڑے ہوے میرے اوپر جھکی ھوئی تھی‬
‫میرے دونوں گُھٹنے آنٹی کے پٹوں کے ساتھ لگے ھوے تھے اور آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ سے اوپر مجھے‬
‫گھورے جارہے تھے‬
‫آنٹی ہانپتی ھوئی مجھے کہنے لگی‬
‫ُہن پچ ُپتر ِکتھے َپ جیں گاں کیڑی ماں کو نس کے چال سی‬
‫میں ڈرنے کے انداز میں اپنے بازوں ُچ ڑانے کی کوشش کر رھا تھا اور آنٹی سے مصنوعی معافیاں مانگتے ھوے کہہ رھا‬
‫تھا‬
‫آنٹی ُہن نئی کیندا معاف کردو ُہن نئی کیندا‬
‫آنٹی پھر بولی‬
‫توں باز نئی آنا انج‬
‫اور آنٹی میرے ُگ ُد ُگ دی کرنے لگ گئی اور ساتھ کہتی رھی‬
‫ہن میرے تے لین ماریں گا دس ہن لین ماریں گا‬
‫میں ہنس ہنس کر ُدھرا ہوتے جا رھا تھا‬
‫اور آنٹی سے معافیاں مانگی جارھا تھا کہ اب نھی کہتا پلیز چھوڑ دو‬
‫میرا ہنس ہنس کر ُبرا حال ھوگیا تھا میری آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا تھا‬
‫انٹی بھی میری حالت سے محفوظ ھورھی تھی‬
‫مجھ سے جب ُگ دُ گدی برداشت نہ ہوئی تو میں نے آنٹی کی کمر کو زور سے پکڑا اور جمپ مار کر آنٹی کو بھی ساتھ لیتا‬
‫ھوا کھڑا ھوگیا‬
‫اب آنٹی بلکل میرے ساتھ ُج ڑی کھڑی تھی انکے ممے میرے سینے کے ساتھ لگے ھوے تھے‬
‫مگر آنٹی پھر بھی میرے ُگ د ُگ دی کرے جارھی تھی‬
‫میں پھر کبھی ایک سائڈ کو ُج ھکتا کبھی دوسری سائڈ کو ُجھکتا‬
‫مجھ جب بلکل ھی برداشت نہ ھوا تو میں ایکدم سے گھوما اور آنٹی کے پیچھے آگیا میرے دونوں بازو پہلے ھی آنٹی کی‬
‫کمر کے گرد تھے‬
‫اس لیے میں تھوڑا جھک کر انکے ایک بازو کے نیچے سے اپنا سر نکال کر انکے پیچھے آگیا‬
‫اب آنٹی کی نرم گانڈ میرے لن کے نشانے پر تھی اور میرے دونوں ھاتھ آنٹی کے پیٹ پر تھے‬
‫آنٹی نے اب اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر میری بغلوں کے تھوڑا نیچے ُگ د ُگ د ی کرنے کی کوشش کی مگر میں تھوڑا سا پیچھے‬
‫ھوگیا جس سے میرے لن اور آنٹی کی گانڈ کا فاصلہ بڑھ گیا‬
‫میں نے جلدی سے آنٹی کے پیٹ پر ھی انگلیوں سے ُگ د ُگ دی کرنا شروع کردی آنٹی کو ایک دم جھٹکا لگا اور آنٹی نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھ آگے کیے اور آگے کو ُج ھکی جس سے انکی نرم گانڈ میرے لن کے ساتھ ُج ڑ گئی‬
‫آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے میرے ھاتھ پکڑے ھوے تھے اور زور لگا کر میرے ھاتھ پیٹ سے الگ کرنے کی کوشش‬
‫کررھی تھی‬
‫ادھر میرے لن کو پتہ‪ .‬نھی کیا سوجھی‬
‫لن ساب نے اپنی ہی ٹرائیاں مارنی شروع کردی‬
‫اور ایکدم کھڑا ھوکر آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں ٹھونگے مارنے لگ گیا آنٹی بلکل آگے کو جھکی میرے ھاتھ اپنے پیٹ سے‬
‫ہٹانے کی کوشش کررھی تھی‬
‫اور ہنسی جارھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ کہی جارھی رھی تھی‬
‫نہ کرو ھھھھھھ نہ کرو چھڈ مینوں بتمیز ھھھھھھھھ‬
‫میں بوال‬
‫اب پتہ لگا نہ‬
‫تو انٹی بولی اچھا ہن نئی کردی چھڈ دے‬
‫آنٹی کو میرے لن کی سختی محسوس ھوگئی تھی مگر آنٹی ایسے کر رھی تھی جیسے اسکو پتہ ھی نھی‬
‫اور میں بھی ایسے ھی ریکٹ کر رھا تھا جیسے مزاق مزاق میں ھی سب کچھ ھورھا ھو‬
‫آنٹی نے اچانک میرے ھاتھوں کو جھٹک کر اپنے پیٹ سے الگ کیا اور جھکے ھوے ھی آگے کو بھاگنے لگی تو میں نے‬
‫بے دھیانی سے پھر آنٹی کو پکڑنا چاھا تو میرے دونوں ھاتھوں میں آنٹی کے بڑے بڑے نرم ممے آگئے‬
‫اور بےدھیانی میں ھی مموں کو پکڑتے ھی دبا دیا‬
‫تو آنٹی کے منہ سے سییییییییی نکال اور ساتھ ھی آنٹی بولی‬
‫بتمیزززز‬
‫میں نے جلدی سے انٹی کے مموں کو دبا کر چھوڑ دیا اور‬
‫آنٹی سے الگ ھوگیا‬
‫آنٹی ایکدم سیدھی ھوئی اور چارپائی پر بیٹھ گئی اور دونوں ھاتھوں پر ماتھا رکھ کر‪ .‬لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی‬
‫میں ویسے ھی آنٹی کے سامنے ُبت بنے کھڑا آنٹی کو دیکھے جارھا تھا‬
‫مجھے یہ بھی احساس نھی تھا کہ نیچے لن ساب شلوار میں تمبو بناے بھی آنٹی کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رھے ہیں‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی نے منہ اوپر کیا اور میری طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫یاسر تم بہت بتمیز ھوگئے ھو میرا کیا حال کردیا ھے‬
‫میں نے کہا سوری آنٹی‬
‫آنٹی نے جیسے ھی اپنی نظر نیچے کی تو لن ساب نے بھی آنٹی کو آنکھ مار دی‬
‫تمبو کو دیکھ کر آنٹی کی انکھیں کھلی کی کھلی رھ گئی آنٹی سکتے کی عالم میں تمبو کے اندر لن کا اندازہ لگانے کی‬
‫کوشش میں ِٹکٹکی باندھے لن کو دیکھی جا رھی تھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی آنٹی گم سم لن کو دیکھے جارھی تھی‬
‫کہ اچانک آنٹی نے ایک ھاتھ منہ پر رکھا اور دوسرا ہاتھ آگے کر کے لن کو پکڑا اور پھر ایکدم چھوڑ کر ہاتھ پیچھے کو‬
‫جھٹکا‬
‫جیسے کرنٹ پڑا ھو‬
‫اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫اے کی اےےےے یاسسرررررر دے بچے‬
‫اینوں کی کیتا اییی‬
‫تو میں چپ ھی کھڑا رھا‬
‫آنٹی کچھ دیر ایسے ھی کبھی میرے لن کو دیکھتی تو کبھی میرے منہ کی طرف دیکھتی‬
‫میں نے حوصلہ کر کے پوچھ ھی لیا کیا ھوا آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی میں تو تمہیں ابھی تک بچہ ھی سمجھتی تھی مگر تم تو‬
‫آنٹی خاموش ھوگی‬
‫میں آنٹی کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا تو آنٹی کھسک کر مجھ سے دور ھوگئی اور بولی‬
‫یاسررررر‬
‫تم نے اسے کچھ کیا ھے‬
‫میں نے کہا نھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ہو ھی نھی سکتا‬
‫ہرگز نھی‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی بتاو تو سہی ھوا کیا ھے‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫اتنا بڑا تو تمہارے انکل کا بھی نھی ھے‬
‫مگر تم نے یہ کیسے‬
‫کر لیا‬
‫میری تو سمجھ سے باہر ھے‬
‫میں نے ناسمجھی کے انداز میں کہا‬
‫کسکو کیا کر لیا آنٹی جی میں آپ کی بات سمجھا نھی‬
‫تو آنٹی ابھی تک ششوپن کا شکار تھی ان سے بات بھی سہی طرح نھی ھو رھی تھی‬
‫آنٹی بولی‬
‫کچھ نھی تم جاو‬
‫میں نے کہا آنٹی بتائیں ھوا کیا ھے‬
‫تو انٹی بولی کچھ نھی بس تم جاو‬
‫تمہارے انکل آنے والے ہیں‬
‫میں آنٹی کی بات سن کر حیران و پریشان ھوگیا‬
‫کہ آنٹی کو اچانک ھوا کیا ھے‬
‫پہلے انکل کونسا نھی آتے یا میں انکل کے سامنے نھی آتا میں تو انکل کے سامنے ھی آنٹی سے چمٹا رھتا تھا‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا آنٹی جی کیا مطلب انکل کے آنے سے مجھے کیا ھے‬
‫تو آنٹی بولی میں نے کہا نہ کہ جاو‬
‫بحث کیوں کررھے ھو‬
‫میں روہانسی آواز میں بوال آنٹی جی میں جاوں‬
‫کیوں کہ آنٹی نے پہلی بار مجھ سے اتنی بےرخی کا مظاہرہ کیا تھا‬
‫میں سچی میں رونے واال ھوگیا تھا‬
‫میں اٹھ کر کھڑا ھوا اور آنٹی کے سامنے انکی طرف منہ کر کے کھڑا ھوا‬
‫تو میں نے دیکھا آنٹی کا چہرہ پسینے سے شرابور ھے‬
‫اور انٹی اپنی قمیض کے پلو سے منہ صاف کر رھی تھی‬
‫میں نے انٹی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور آنٹی سے پوچھا‬
‫آنٹی جی کیا ھوا‪،‬‬
‫میری آواز پہلے ھی گلوگیر تھی‬
‫تو آنٹی نے اپنی پلکوں کو اوپر کر کے میرے چہرے کو دیکھتے ھوے کہا کچھ نھی‬
‫تو میں نے آنٹی کے ماتھے کو صاف کرتے ھوے کہا‬
‫کہ آنٹی جی بتاو نہ کیا ھوا آپکی طبعیت تو سہی ھے‪ .‬میں دوائی ال دوں‬
‫تو آنٹی بولی یاسر مجھے کچھ نھی ھوا‬
‫تم خدا کے لیے چلے جاو‬
‫مجھے کچھ دیر اکیال رہنا ھے‬
‫آنٹی نے جب یہ الفاظ کہے‬
‫جو سیدھے میرے دل دماغ پر کسی ُچ ھری کی طرح لگے‬
‫کیوں کہ میں دل سے صاف تھا آنٹی کے جسم کو میں دیکھتا ضرور تھا مگر کبھی ان کے بارے میں سیکس کا زہن میں نھی‬
‫الیا تھا‬
‫یہ جو کچھ بھی ھوا تھا بس اچانک ھی ھوا تھا‬
‫اور اس میں ساری غلطی‬
‫پین چود لن کی ھی تھی‬
‫نہ گانڈو آنٹی کو چھیڑتا نہ انٹی ایسے سختی سے پیش آتی میں قدموں کو گھسیٹتا ھوا دروازے کی طرف چال جارھا تھا‬
‫میں نے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر پھر مڑ کر دیکھا کہ شاید اب آنٹی مجھے آواز دے مگر آنٹی سر نیچے کئے‬
‫ھوے ہلتے پیروں کو دیکھ رھی تھی اور کسی گہری سوچ میں ُگ م تھی‬
‫میری انکھوں سے آنسو نکل آے اور میں آنسووں کو صاف کرتے ھوے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آیا اور بیرونی‬
‫دروازے کی طرف تیز تیز قدموں سے چلتا ھوا باہر گلی میں اگیا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا‬
‫گھر آکر میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور چھت واال پنکھا ُف ل سپیڈ میں چال کر چارپائی پر لیٹ کر انٹی کے بارے میں‬
‫سوچنے لگ گیا سوچتے سوچتے میں کب سویا مجھے نھی پتہ چال‬
‫جب میری آنکھ ُک ھلی تو شام ھوچکی تھی اور میں حیران تھا کہ سارا دن میں سویا ھی رھا‬
‫میں اٹھ کر بیٹھا ھی تھا کہ آپی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی‬
‫ُک ھل گئی آنکھ نواب زادے کی‬
‫خیر تھی سارا دن سو کر ھی گزارا نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی‬
‫تو میں نے کہا جا دفعہ ھو‬
‫کی میرا سر کھان لگ گئی ایں‬
‫آپی میری جھاڑ سن کر ُبڑ ُبر کرتی باہر چلی گئی‬
‫میں اٹھا اور باہر صحن میں آکر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫مجھے ابھی بیٹھے کچھ دیر ھی ھوئی تھی کے آنٹی فوزیہ گھر میں داخل ہوئیں‬
‫میں دروازے کے بلکل سامنے چارپائی پر بیٹھا ھوا تھا میرا منہ دروازے کی ھی طرف تھا‬
‫میں نے جیسے ہی آنٹی کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو میری اور آنٹی کی نظریں ملیں تو آنٹی مسکرا دی اور میں غصہ سے‬
‫اٹھ کر دوبارا اپنے کمرے میں چال گیا‬
‫میں اندر جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد‬
‫آنٹی فوزیہ اندر داخل ہوئیں اور آتے ھی میرا کان پکڑ کر زور سے مروڑ دیا‬
‫اور بولیں‬
‫بڑی آکڑ اے نواب زادے وچ‬
‫میں کچھ بوال تو نہ مگر میری آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو نکل کر گرنے لگے اور میں بے آواز رونے لگ گیا‬
‫آنٹی نے جب میرے آنسو دیکھے تو‬
‫وہ گبھرا کر میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئیں اور میرا چہرہ اپنی طرف کیا اور میری گال پر اور ماتھے پر بوسا لیتے ھوے بولی‬
‫ھے چال نہ ھوے تے ایویں بچیاں ونگوں رون لگیا اے‬
‫تو میں نے آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا تو انٹی نے میرا سر اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور میری کمر تھپ تھپا کر‬
‫مجھے ُچ پ کروانے لگ گئی‬
‫میری رونے کی آواز سن کر امی بھی دوڑی کمرے میں آگئی ۔‬
‫اور پوچھنے لگ گئی کی ہویا اے سب خیر تے ہے نہ‬
‫تو آنٹی امی سے بولی‬
‫منڈا کیندا میرا ویا کردو میں وڈا ھوگیاں آں‬
‫انٹی کی بات سن کر میں روتا ھوا ہنسنے لگ گیا‬
‫تو امی بولی لے کردو ویا‬
‫ُبنڈ تون دا ول نئی آیا تے کردو ایسا ویا‬
‫تو میں امی کی بات سن کر چڑ گیا اور غصے سے اٹھنے لگا‬
‫تو آنٹی نے مجھے پکڑ کر بٹھا لیا‬
‫انٹی امی کو بولنے لگ گئی کہ‬
‫آپاں ُک ج تے خیال کریا کر ہن اے بچہ نئی ریا وڈا ھوگیا اے‬
‫تو امی بولی‬
‫اے جنا مرضی وڈا ھوجاے‬
‫میرے واسطے تے بچہ ای رے گا‬
‫کچھ دیر ادھر ُادھر کی باتیں کرنے کے بعد آنٹی بولی‬
‫یاسر پتر کل توں کم تے نئی جانا‬
‫میں نے امی اور آنٹی کی طرف دیکھتے ھوے حیران ھوکر پوچھا‬
‫کیوں نھی جانا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫آج میں نے کپڑے دھونے نہر پر جانا تھا مگر عظمی اور نسرین ٹویشن سے ھی لیٹ واپس آئی کل انہوں نے سکول چلے‬
‫جانا ھے‬
‫پھر اگلے جمعہ پر بات چلی جاے گی تو‬
‫تم کل میرے ساتھ نہر پر چلے جانا‬
‫پھر عظمی اور نسرین بھی وہیں ھی آجائیں گی‬
‫میں نے کہا میں کیسے چھٹی کر سکتا ھوں سیزن ھے دکان پر رش ھوتا ھے‬
‫تو امی میری بات کاٹتے ھوے بولی‬
‫بیجا ایڈا توں وڈا کاماں ریندہ نئی‬
‫اک دن کم تے نئی جائیں گا تے کیڑا قیامت آن لگی اے ۔‬
‫تو میں امی کی بات سن کر ُچپ ھوگیا‬
‫امی یہ کہہ کر باہر چلی گئی تو‬
‫آنٹی اٹھی اور پھر بولی‬
‫اب میں بے فکر ھوجاوں نہ‬
‫تو میں نے پھر بہانہ بناتے ھوے کہا کہ وہ عظمی اور نسرین سکول کس کے ساتھ جائیں گی تو انٹی بولی‬
‫تم انکی فکر مت کرو‬
‫وہ چلی جائیں گی‬
‫بلکہ تم سکول ٹائم پر ھی آجانا وہ بھی نہر تک ہمارے ساتھ ھی چلی جائیں گی‬
‫اور پھر آگے تو شہر آجاتا ھے ادھر کوئی مسئلہ نھی‬
‫تو میں چپ کرگیا‬
‫تو آنٹی پھر میرا سر ہالتے ھوے بولی‬
‫دس فیر آئیں گا کہ نئی‬
‫تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اور آنٹی میرے سر پر ہلکی سی ہاتھ سے چپت لگاتے ھوے بولی‬
‫آجائیں چھیتی مینوں تیرے نال اک ہور وی کم اے‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا انٹی گانڈ ہالتی ھوئی کمرے سے نکل کر چلی گئی‬
‫اور میں بیٹھا سوچتا ھی رھا کہ‬
‫کیڑا ایسا کم اے جیڑا نہر تے جا کہ ہونا اے‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫اگلے دن میں سکول ٹائم پر ھی گھر سے نکال اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ گیا‬
‫تو آنٹی کپڑوں کو گٹھری میں باندھ رھی تھی آنٹی نے کل واال ہی سوٹ پہنا ھوا تھا اور عظمی اور نسرین تیار ہوکر ناشتہ‬
‫کرنے میں مصروف تھیں‬
‫آنٹی نے مجھے ناشتہ کرنے کا کہا ۔۔‬
‫تو نسرین جھٹ سے بولی کر کے ھی آیا ہوگا ۔۔‬
‫میں نے کہا کھاؤ کھاو میں تمہارے حصہ کا تو نھی کھانے لگا کھا کھا کر بھینس بنتی جارہی ھو‬
‫تو وہ بولی تمہیں کوئی تکلیف ھے گھر سے ھی کھاتی ہوں تمہارے گھر تو کھانے کو نھی جاتی‬
‫تو میں نے کہا آجایا کرو جہاں اتنے فقیروں کو روٹی دیتے ہیں وہاں تم بھی لے جایا کرو‬
‫تو نسرین جھنجھال کر بولی پونکو پونکو تمہیں سواے پونکنے کے آتا بھی کیا ھے‬
‫تو میں نے کہا تمہارا جوٹھا جو کھا لیا ھے‬
‫تو نسرین رونے کے سے انداز میں بولی امییییی‬
‫تو آنٹی بولی نہ پنگے لیا کر فیر رون لگ جانی اے‬
‫آنٹی نے پھر مجھے کہا کہ ناشتہ بناوں تمہارے لیے‬
‫میں نے آنٹی کو کہا کہ میں ناشتہ کرکے آیا ہوں ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم سب نہر کی طرف نکل پڑے ایک گٹھری میں نے اٹھائی ہوئی تھی‬
‫جبکہ ایک ایک عظمی اور نسرین نے‬
‫ہم ایسے ھی فصلوں کے بیچ چلتے نہر پر چلے گئے‬
‫اور عظمی اور نسرین سکول کی طرف چلدیں‬
‫اور جاتے جاتے یہ کہہ گئیں کہ جب تک ہم نہ آئیں گھر نھی جانا‬
‫آنٹی نے ایک گٹھڑی کھول کر کپڑے باہر نکالنے شروع کردیے اور نہر کے پانی کے پاس کنارے پر پاوں کے بل بیٹھ گئی‬
‫میں بھی ایک سائڈ پر بیٹھ کر آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھتا رھا‬
‫آنٹی کپڑے بھی دھو رھی تھی اور ساتھ ساتھ مجھ سے باتیں بھی کر رھی تھی مگر میں انٹی کی باتوں کا ہوں ھاں میں ھی‬
‫جواب دے رھا تھا‬
‫یہ بات انٹی نے بھی محسوس کی آنٹی نے کافی کوشش کی کہ میں انکے ساتھ ویسے ھی ہنسی مزاق کروں‬
‫مگر میں سیریس ھو کر بیٹھا رھا اور گھاس کے تینکھوں کو توڑ توڑ کر کھیتوں کی طرف پھینکتا رھا‬
‫تبھی آنٹی نے‬
‫مجھے کہا یاسر ادھر میرے پاس آکر بیٹھ جاو کیسے دور بیٹھے ھو جیسے اٹھ کر بھاگنا ھو‬
‫میں آنٹی کے بلکل سامنے بیٹھ گیا مگر میری نظریں نیچی ھی تھی‬
‫آنٹی نے مجھے آواز دی کے یاسر‬
‫میں نے سر نیچے کیے ھی کہا جی آنٹی جی‬
‫تو‬
‫آنٹی بولی میری طرف دیکھو‬
‫تو میں نے سر اٹھا کر انکے چہرے کی طرف دیکھا‬
‫تو آنٹی مسکراتے ھوے بولی‬
‫ناراض ھو ابھی تک‬
‫تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا کہ نھی‬
‫تو آنٹی بولی پھر ایسے منہ لٹکائے کیوں بیٹھے ھو‬
‫تو میں نے کہا ویسے ھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی ویسے ھی نھی‬
‫کچھ تو بات ھے مجھے پتہ ھے تم کل میرے ڈانٹنے کی وجہ سے ناراض ھو‬
‫تو میں نے کہا نھی آنٹی جی ایسی ویسی کوئی بات نھی‬
‫اگر میں ناراض ھوتا تو میں نے آنا ھی نھی تھا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫تو پھر تم اداس اداس کیوں ھو پہلے جیسی شرارتیں کہاں گئی‬
‫تو میں نے ہمت کر کے کہا‬
‫میری شرارتوں کی وجہ سے کل آپ پریشان ھوگئی تھی اس لیے‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫تم کو پتہ ھے کہ میں تم سے کیوں اتنا پیار کرتی ھوں‬
‫تو میں نے کہا جی‬
‫تو آنٹی نے خود ھی وضاحت کرتے ھوے کہا‬
‫کہ‬
‫کیوں کہ میرا کوئی بیٹا نھی ھے اور میں تم کو اپنا بیٹا ھی سمجھ کر پیار اور الڈ کرتی آرھی ھوں‬
‫گلی میں اور بھی کتنے لڑکے ہیں کبھی کسی کو ہمارے گھر دیکھا ھے‬
‫یا تمہاری بہنوں نے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ مزاق وغیرہ کیا ھے‬
‫تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا نھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫کل تم نے جو کیا تمہیں پتہ بھی ھے کہ اسکا صدمہ مجھے کتنا ھوا‬
‫مگر پھر بھی میں تمہارے پیار میں کھینچی چلی تمہارے گھر تمہیں منانے آگئی تھی‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی جی میں نے ایسا کیا کیا تھا‬
‫تو آنٹی بولی تمہیں نھی پتہ کہ کیا کیا تھا‬
‫تو میں نے نفی میں سر ہال دیا‬
‫تو آنٹی بولی دیکھو یاسر میں مانتی ہوں کہ تم اب بچے نھی رھے بلکہ بڑے ھوگئے ھو‬
‫مگر تم کو ہمارے رشتے اور عمر کا خیال رکھنا چاہیے تھا‬
‫تم نے کل جو میرے ساتھ کیا مجھے ذرا سی بھی تم سے یہ امید نھی تھی‬
‫میں نےکہا‬
‫آنٹی جی آپ بھی مجھے ُگ د ُگ دی کر رھی تھی‬
‫وہ تو میں نے اپنا آپ بچانے کے لیے آپکو بھی ُگ د گدی کردی‬
‫اور میں نے سوری بھی کرلی تھی‬
‫مگر آپ اتنا ناراض ھوگئیں کہ مجھے گھر سے ھی نکال دیا‬
‫آپکو پتہ ھے کہ میں گھر آکر کتنا رویا تھا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ھے نہ کمال جیا میں کیڑی گل کرن دئی آں تے اے منڈا گل کدر لے کے جاندا پیا اے‬
‫تو میں نے پھر معصوم سا منہ بنا کر کہا‬
‫کہ‬
‫آنٹی تو پھر آپ بتا دیں کہ کس بات کی وجہ سے آپ ناراض ہوئیں تھی ۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫تینوں سچی اے نئی پتہ‬
‫تو میں نے پھر نفی میں سر ہال دیا‬
‫تو آنٹی بولی کل جو تم میرے پیچھے کھڑے میرے ساتھ کیا کررھے تھے‬
‫میں نے کہا ُگ د گدی‬
‫تو آنٹی جھنجھال کر بولی گد گدی کی بات نھی کررھی‬
‫میرے پیچھے کیا کررھے تھے‬
‫میں نے پھر کہا آنٹی جی گد گدی ھی کررھا تھا‬
‫تو آنٹی اپنے ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے بولی‬
‫کوئی حال نئی تیرا‬
‫تینوں سچی اے نئی پتہ‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپکی قسم مجھے نھی پتہ کہ آپ کیا کہنا چاھ رھی ھو‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫چلو مان لیا کہ تمہیں نھی پتہ کچھ بھی‬
‫تو پھر تمہارا لن اتنا بڑا کیسے ھوگیا تھا‬
‫میں آنٹی کے منہ سے لن کا لفظ سن کر ہکا بکا ہو کر آنٹی کا منہ دیکھنے لگ گیا‬
‫تو آنٹی نے پھر کہا بتاو اب الو کی طرح آنکھیں کھولے مجھے کیا دیکھ رھے ہو‬
‫مجھے ایکدم ہوش آیا تو میں نے شرم سے سر ُجھکا لیا‬
‫آنٹی نے پھر کہا‬
‫اب ُچپ کیوں ھو بولو‬
‫میں پھر ُچ پ ھی رھا اب میں کیا بتاتا آنٹی کو مجھے تو ویسے ھی اس بات کی شرم آرھی تھی کے آنٹی نے میرے لن کا ذکر‬
‫کیسے بےباکی سے کیا ھے‬
‫ذرا سی بھی شرم نھی کی‬
‫آنٹی بولی جھوٹے ھو نہ اس لیے اب تم سے بوال نھی جارھا‬
‫تو میں نے جھٹ سے سر اوپر اٹھایا اور آنٹی کو کہا کہ میں جھوٹا نھی ھوں‬
‫تو آنٹی پھر بولی بتاو پھر تمہارا لن کیسے کھڑا ھوا‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی آپ کیسی باتیں کررھی ھو‬
‫تو آنٹی بولی تم ایسے کام کرسکتے ھو تو میں ایسی باتیں نھی کر سکتی‬
‫جتنی تمہاری عمر ھے اس سے زیادہ میرا تجربہ ھے اور تم ھو کہ مجھے پاگل بنانے کی کوشش کررھے ھو‬
‫میں نے تھوڑا غصے سے کہا کہ میں نے آپ کو پاگل کیوں بنانا ھے‬
‫آنٹی بولی تو اور کیا کررھے ھو‬
‫پاگل ھی بنا رھے ھو‬
‫میں نے کہا آنٹی جی اب آپکو مجھ پر یقین ھی نھی تو میں کیا کرسکتا ھوں‬
‫آنٹی بولی یقین کیسے کروں میں خود گواہ ہوں‬
‫میں نے کہا کس بات کی‬
‫آنٹی بنا جھجھک بولی‬
‫میرے پیچھے لن کھڑا کر کے لگانے کی‬
‫مجھے ذرا بھی امید نھی تھی کہ آنٹی اتنی واحیات باتیں بھی کرسکتی ھے اور وہ بھی میرے ساتھ‬
‫میں سر نیچے کر کے دانت پیسنے لگ گیا مجھے شرم بھی آرھی تھی اور آنٹی پر غصہ بھی‬
‫آرھا تھا‬
‫تب آنٹی بولی بولو اب کیا کہتے ھو‬
‫میں پہلے ھی جال ُبھنا بیٹھا ھوا تھا غصہ سے سر اوپر کیا‬
‫اور بوال‬
‫آنٹی آپ کی گانڈ ھی اتنی نرم تھی اور آپکا جسم اتنا نرم تھا کہ مجھے خود پتہ نھی چال اور میرا لن کھڑا ھوگیا اس میں میرا‬
‫کوئی قصور نھی آپ کے سیکسی جسم کا قصور ھے جس نے مجھے بہکا دیا‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں سارا فلسفہ کہہ ڈاال‬
‫آنٹی نے جب میرے منہ سے اپنی گانڈ اور نرم سیکسی جسم جیسے الفِاظ سنے تو آنٹی کا چہرہ ایکدم سرخ ھوگیا‬
‫اور انکی آنکھوں میں سیکس کی بھوک کی چمک نظر آئی‬
‫آنٹی نے یہ سنتے منہ نیچے کر لیا اور بولی‬
‫بے شرم انسان شرم کرو میں تمہاری آنٹی ہوں اور تم میرے ساتھ ایسی واحیات باتیں کررھے ھو‬
‫تو میں نے انٹی پر ایک اور وار کردیا‬
‫میں نے کہا‬
‫سچ ھی تو کہا ھے آنٹی جی آپ ھو ھی اتنی خوبصورت اب میں کیا کروں‬
‫میرا یہ وار کامیاب رھا آنٹی ایسے شرمائی جیسے میری منگیتر ھو‬
‫اور کپڑے دھونے واال ڈنڈا مجھے ڈرانے کے لیے میری طرف کیا جیسے مجھے مارنے لگی ھو‬
‫اور بولی‬
‫ٹھہر جا میں کڈنی آ تیری ساری خوبصورتی‬
‫بغیرت نہ ھوے تے‬
‫آنٹی نے جیسے ھی میری طرف ڈنڈا کیا میں شوخی سی پیچھے کی طرف ھوا اور اٹھ کر بھاگنے لگا تو میرا پاوں وھاں‬
‫سے پھسال اور میں دھڑام سے نہر میں جاگرا‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫‪.‬میں جیسے ھی نہر میں گرا تو مجھے ایکدم غوطہ آیا میرے ناک اور منہ میں پانی چال گیا‬

‫)‪Update no (39‬‬
‫یہ تو شکر تھا کہ نہر اتنی گہری نھی تھی پانی میرے کندھوں تک ھی تھا مگر اچانک گرنے کی وجہ سے غوطہ آگیا تھا‬
‫آنٹی نے جب مجھے گرتے دیکھا تو انہوں نے بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر میرے اوپر ھی چھالنگ لگا دی مجھے بچانے‬
‫کے لیے‬
‫اور میں غوطہ آنا کی وجہ سے پانی میں ھاتھ مار رھا تھا جبکہ آنٹی نے میری کمر کے گرد بازو ڈال کر مجھے اپنے سینے‬
‫کے ساتھ لگایا ھوا تھا‬
‫دوستو گاوں کا ماحول پہلے ایسا ھوتا تھا کہ اگر نہر پر عورتیں کپڑے دھو رھی ھوتی تو‬
‫کوئی مرد بھی اس جگہ کے ارد گرد نظر نہ آتا اگر کوئی اچانک ادھر آ بھی جاتا تو دور سے ھی اپنا راستہ بدل لیا کرتا تھا‬
‫یہ ڈر یا خوف کی وجہ نھی‬
‫بلکہ ثقافت ھوتی تھی‬
‫اس لیے ہم جس جگہ پر تھے کسی کے آنے کا کوئی خطرہ نھی تھا‪ ،،،،‬۔۔۔‬
‫میرے اور آنٹی کے کپڑے مکمل بھیگ چکے تھے آنٹی کا رنگ بھی اڑا ھوا تھا‬
‫آنٹی نے کس کر مجھے اپنے ساتھ لگایا ھوا تھا انکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ چپکی ھوئی تھیں اور نیچے سے بھی‬
‫ہم دونوں کی تھائیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگ رھی تھی‬
‫نہر چھوٹی سی تھی اس لیے پانی کا بہاو بھی کچھ ذیادہ نھی تھا اس لیے ہم دونوں کے پاوں پانی کے اندر ریت میں ایک جگہ‬
‫ٹھہرے ھوے تھے میں نے آنٹی کے کندھوں پر ھاتھ رکھے ھوے تھے‬
‫جبکہ پہلے اپنا آپ سنبھالتے میرے ھاتھ آنٹی کی پھدی اور پیٹ پر لگ گئے تھے مگر وہ غیر ارادی طور لگے تھے‬
‫میں بلکل ریلکس ھوچکا تھا‬
‫جبکہ آنٹی ابھی بھی مجھ سے پوچھ رھی تھی کہ چوٹ تو نھی لگی پاگل تو نھی ھوگئے تھے اگر ذیادہ غوطہ آجاتا تو کیا‬
‫ھوتا‬
‫ڈوبنے کا تو چانس ھی نھی تھا کیوں کہ پانی ھی بہت کم سطح پر تھا‬
‫آنٹی نہر کے اندر ھی میرا منہ سر چوم رھی تھی‬
‫کہ بچ گیا ھوں میں جبکہ ایسی کوئی خطرے والی کنڈیشن بھی نھی تھی‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی آپ مجھے ڈنڈا مارنے لگی تھی اس لیے میں ڈر گیا تھا اور میرا پیر پھسل گیا تھا‬
‫تو آنٹی بولی میں تجھے مار سکتی ھو بھال‬
‫چال ھویاں اے‬
‫میں نے کہا مارنے تو لگی تھی آپ‬
‫آنٹی بولی‬
‫میں تو ڈرا رھی تھی‬
‫تم جو گندی باتیں کررھے تھے‬
‫ہم دونوں نے وہیں کھڑے پھر گلے شکوے شروع کردیے تھے اور یہ بھول گئے تھے کہ باہر بھی نکلنا ھے‬
‫آنٹی بولی تمہیں شرم نھی آتی‬
‫میں نے کہا کس بات کی تو نے میری کمر کے گرد گرفت تھوڑی ڈھیلی کی جس سے ہمارا جسم جو پہلے ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ چپکا ھوا تھا اب ذرا ڈھیال ھوگیا مگر انکا نیچے واال حصہ اب بھی میری ٹانگوں کے ساتھ ھی لگ رھا تھا اصل میں‬
‫میرا روخ اسطرف تھا جدھر کو پانی کا بہاو تھا اور آنٹی کا رخ پانی کے بہاو کے مخالف تھا اس لیے مجھے پانی پیچھے‬
‫سے دھکلینے کی کوشش کرتے ھوے میرا لن واال حصہ آنٹی کی پھدی والے حصہ کے ساتھ ٹچ کرتا‬
‫یوں کہہ لیں جیسے سلو موشن میں گھسے مارتے ہیں بلکل کچھ ایسا ھی سین پانی کے اندر تھا‪،،،،‬۔‬
‫خیر آنٹی بولی میرے ساتھ ایسی باتیں کرتے ھو شرم نھی آتی‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی آپ سچ سن کر بھی غصہ کرتی ھو اور جھوٹ سن کر بھی‬
‫میری اچانک آنٹی کے گلے پر نظر پڑی تو ایسے لگ رھا تھا کہ آنٹی بلکل ننگی ھے بس کالے رنگ کا بریزیر ھی پہنا ھے‬
‫اس میں سے آنٹی کا گورا جسم چمک رھا تھا‬
‫آنٹی نے سکن کلر پہنا ھوا تھا جو انکے رنگ کے ساتھ میچ ھورھا تھا‬
‫اوپر سے جب انکے کپڑے گیلے ھوے تو‬
‫سکن کلر ویسے ھی غائب ھوگیا‬
‫الن کا سوٹ تھا انکے جسم کے ساتھ ایسے چپکا جیسے جسم کا حصہ ھی ھو‬
‫آنٹی کے آدھے ممے پانی کے اندر تھے آدھے پانی کے باہر‬
‫انکے مموں کے درمیان والی الئین جو بریزیر سے باہر تھی وہ صاف نظر آرھی تھی‬
‫اور اوپر سے قیامت کے انکے مموں کی نوک میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھورھی تھی‬
‫اور نیچے سے لن اور پھدی مالپ کرنے کو ترس رھے تھے‬
‫آنٹی کے ادھ ننگے اور سیکسی ممے دیکھ کر میرا لن پانی کے اندر ھی کھڑا ھوگیا اور آنٹی کی پھدی کے اوپر چونچیں‬
‫مارنے لگ گیا‬
‫اب پھدی کھڑی تو ہو نھی سکتی تھی اس لیے مجھے پھدی کی کنڈیشن کا اندازہ نھی تھا کہ وہ بیچاری کس حال میں ھے‪، ،‬۔۔‬
‫آنٹی بولی سچ سچ ھی ھوتا ھے اور جھوٹ جھوٹ ھی‬
‫میں نے کہا تو آنٹی پھر سچ سن کر غصہ کیوں کرتی ھو‬
‫آنٹی بولی کون سا سچ‬
‫میں نے کہا‬
‫جس کی وجہ سے یہ سب ھوا تھا‬
‫نیچے سے میرا لن فل اکڑ کر آنٹی کے چڈوں میں گھس جاتا اور باھر آجاتا یہ سب پانی کی مہربانی تھی جو نیچے سے‬
‫ہماری مدد کررھا تھا‬
‫آنٹی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ نیچے کیا ھورھا ھے‬
‫آنٹی کی بھی اب آواز اور لہجہ بدلتا جارھا تھا‬
‫وہ جان بوجھ کر باتوں کو طویل کررھی تھی جبکہ یہ باتیں باھر نکل کر بھی ھوسکتی تھی‬
‫مگر تب جب آنٹی چاھتی ۔۔۔‪،،،‬‬
‫آنٹی بولی کونسا کام‬
‫میں نے کہا‬
‫وہ ھی جس کی وجہ سے آپ ناراض ھوئی تھی‬
‫آنٹی کی انکھوں میں الل ڈورے آنے شروع ھوچکے تھے‬
‫آنٹی کی آواز انکا ساتھ دینا چھوڑ رھی تھی‬
‫نیچے لن اپنا کام کر چکا تھا آنٹی نیچے سے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر پھدی کے اوپر رگڑ لگا کر چھوڑتی لن باہر آتا تو‬
‫پانی پھر میرے گانڈ کو دھکا مارتا اور لن پھر آنٹی کے چڈوں میں پھدی کے اوپر پھدی کے ہونٹوں کو رگڑتا ھوا اندر جاتا‬
‫اور آنٹی پورے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر چھوڑ دیتی اور لن پھر پھدی کو رگڑتا ھوا باہر آجاتا‬
‫آنٹی بولی بتاوووو نہ کونسا کام‬
‫میں نے کہا وہ ھی‬
‫تو آنٹی فل نشیلی آواز میں بولی‬
‫کونسسسا‬
‫میں سمجھ چکا تھا کہ لوھا اب ُفل گرم ھو چکا ھے‬
‫میں نے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور آنٹی کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا کر اپنے اور آنٹی کے چڈوں کے پاس لیجا کر اپنے لن کے اوپر‬
‫رکھتے ھوے کہا‬
‫یہ والی بات‬
‫تو آنٹی نے ویسے ھی مدہوشی میں لن کو مٹھی میں پکڑ لیا میرے کپڑے بھی گیلے تھے اور لن کے ساتھ چپکے ھوے‬
‫تھے اس لیے پورا لن ھی‬
‫آنٹی کے ہاتھ میں آگیا آنٹی نے لن کی تین چار دفعہ اوپر نیچے سے ُمٹھیاں بھریں‬
‫اور لن کے سائز کو چیک کیا اسکی موٹائی کو چیک کیا‬
‫اور بولی‬
‫یاسسسرررر تم پھر باز نھی آرھے نہ‬
‫اور لن کو اپنے چڈوں میں لے کے پھر ھاتھ میری کمر کے گرد ڈال لیے اور ہلکا ہلکا آگے کو ُپش کرنے لگ گئیں‬
‫تو میں نے کہا‪ .‬آنٹی میرا کوئی قصور نھی ھے‬
‫تو آنٹی میرے لن کو اپنے چڈوں مین لیے گھسے مارے ھوے بولی‬
‫کس کا قصور ھے‬
‫میں نے ہاتھ نیچے لیجا کر دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی بنڈ کی پھاڑیوں کو پکڑ لیا اور مٹھی میں بھینچنا شروع کردیا‬
‫اور بوال‬
‫آنٹی جی آپکی اس نرم اور موٹی سی گانڈ کا قصور ھے انٹی کے دونوں ھاتھوں نے میری کمر پر کی جلد کو اپنی مٹھیوں‬
‫میں بھینچنا شروع کردیا تھا ۔‬
‫آنٹی فل گرم ھوچکی تھی انکی آنکھیں بند ھو رھی تھی‬
‫آنٹی بولی‬
‫میری گانڈ اتنی بھی موٹی نھی ھے جو تم اسے موٹی کہہ رھے ھو‬
‫میں نے آنٹی کے نیچے پر انگلیاں لگا کر چیک کیا تو آنٹی نے السٹک پہنی ھوئی تھی‬
‫میں نے اندازے سے قمیض کے نیچے ہاتھ کیے انکی قمیض پہلے ھی پانی کے بہاو سے گانڈ سے اوپر ھوک پانی میں بہہ‬
‫رھی تھی‬
‫اس لیے آسانی سے میں نے انکی شلوار میں ہاتھ ڈاال اور انکی شلوار گانڈ سے نیچے کردی اور انکی ننگی مالئم گانڈ کو‬
‫مٹھیوں میں بھر لیا اور کہا‬
‫موٹی ھے دیکھیں کیسے میرے ہاتھ میں بھی نھی آرھی‬
‫اور دیکھیں آنٹی جی کتنی مالئم بھی ھے‬
‫آنٹی بولی‬
‫تمہارا لن بھی کتنا بڑا ھے یہ کون سا چھوٹا ھے‬
‫دیکھو میرے آگے سے ہوکر پیچھے میری ُبنڈ کے پاس سے بھی نکل رھا ھے‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی نے نیچے ھاتھ کر کے میرے نالے کے سرے کو پکڑا‪ ،‬کر کھینچا جس سے میری شلوار بھی نیچے چلی‬
‫گی اور انٹی نے میرا لن پکڑا کر اپنی بالوں سے پاک نرم پھدی کے ساتھ لگا دیا اور‬
‫بولی یہ دیکھو کتنا بڑا ھے تمہارا یاسر‬
‫آنٹی نے جب خود دعوت سیکس نامہ بھیج دیا تو میری ساری جھجک اور شرم جاتی رھی میں نے ہاتھ نیچے کیا اور لن کو‬
‫جڑ سے پکڑا اور تھوڑا سا نیچے ھوا اور اپنے ایک ُگ ھٹنے کی مدد سے آنٹی کی ٹانگ کو تھوڑا سا کھوال اور لن کے ٹوپے‬
‫کو آنٹی کی پھولی ھوئی موٹے موٹے ہونٹوں والی پھدی پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو لن سارے کا سارا‬
‫بغیر سوچے سمجھے اندر چال گیا‬
‫آنٹی نے ایکدم چیخ ماری اور میرے کندھے پر دانت گاڑھ دیے آنٹی کی آدھی چیخ نکلی تھی اور آدھی میرے کندھے میں‬
‫دب گئی‬
‫اور پھر آنٹی بولی‬
‫مار دتا ایییییی کھسماں‬
‫اوییییی‬
‫اینی زوررررر دی سارا ای کردتا ایییییییی ظالماں‬
‫مار سٹیا ای‬
‫افففففف‬
‫میں نے آنٹی کی چیخ اور آہوں اور سسکیوں کی پروا کیے بغیر لن کو پھر باہر نکاال اور پھر ویسے ھی سارا اندر کردیا‬
‫تو انٹی‬
‫بولی‬
‫ھاااےےےےے ماردتا ایییییی‬
‫ہولییییییی کرلے‬
‫کیڑے بدلے لین لگاں ایییییء‬
‫آنٹی کی اس طرح کی آوازیں سن کر مجھے اور جوش چڑھنے لگا اور میں نے چھ سات دفعہ ایسے ھی لن کو باہر نکاال‬
‫اور اندازے سے ھی نشانہ لگا کر اندر کر دیتا‬
‫میرا نشانہ بلکل درست لگتا‬
‫لگتا بھی کیسے نہ کتنی دیر سے تو لن پھدی کی صالح مشورے ہورے تھے‬
‫اچھی جان پہچان ھوجاے تو کون راستہ بھولتا ھے‬
‫اس لیے لن سہی دشہ میں چوٹ لگا رھا تھا‬
‫اب میں نے آنٹی کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا اور‬
‫مسلسل لن کو پھدی‪ .‬کی سیر کروا رھا تھا‬
‫پھدی بھی چکنی اور پانی کی وجہ سے گیلی تھی اس لیے لن روانی کے ساتھ ایک ردھم میں چل رھا تھا میں آنٹی کے ممے‬
‫کو کپڑوں کے اوپر سے ھی پانی کے اندر ھی منہ میں لے کر چوس رھا تھا‬
‫جس سے انکے کپڑوں کا اور نہر کے پانی کا ذائقہ میرے منہ میں جارھا تھا‬
‫اس وقت تو مموں پر زہر بھی لگا ہوتا تو میں پھر بھی ممے چوس لیتا‬
‫یہ تو نہر کا گدال پانی تھا‬
‫آنٹی اب پورا مزا لے رھی تھی اور میرے ہونٹ میری گال میرے ماتھے کو چومی جارھی تھی‬
‫ہم دونوں ھی فل مستی میں لگے ھوے تھے‬
‫اچانک آنٹی کا جنون بڑھتا گیا‬
‫آنٹی نے مجھے کس کر جپھی ڈال لی اور زور زور سے گانڈ کو آگے کرنے کی کوشش کرتی رھی اس جنون کے آگے پانی‬
‫کا بہاو بھی دم توڑ گیا اور آنٹی کی گانڈ پانی کو چیرتی ھوئی پیچھے سے آگے کو آکر دھکا مارتی‬
‫جس سے لن جھٹکے سے اندر جاتا اور‬
‫آنٹی منہ سے کہتی‬
‫ھاےےےےے امممم ۔ افففففف‬
‫ایتھے مار ایتھے ہاں انج ای مار ایتھے‬
‫ہاں ہٹ ہٹ کہ مار شاوا ش‬
‫مجھے بھی ایسی آوازیں سن کر مزید جوش انے لگ جاتا اور میں بھی پانی جو چیرتا ھوا زور زور سے ک‬
‫گھسے مارنے لگ گیا‬
‫اچانک آنٹی کے جسم کو جھٹکے لگنے شروع ھوگئے اور آنٹی‬
‫نے زور سے لن کو پھدی میں بھینچتے ھو میری گانڈ کو پکڑ کر اپنی طرف زورر لگا کر اپنے چڈے ساتھ مال لیے اور بولی‬
‫ھاےےےےےےے گئیییییییی میں اور پھر کافی جھٹکے لینے کے بعد پھدی کو بھی ڈھیال چھوڑ دیا چڈوں کو بھی اور میری‬
‫گانڈ کو بھی‬
‫میں نے پھر گیلی اور گرم گرم منی سے بھری پھدی میں ھی گھسے مارنا شروع کردیے‬
‫اور میرا لن نہر کے پانی سے آنٹی کی پھدی کی اندر سے صفائی کرنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر بعد میرا بھی چھوٹنے کا وقت آگیا میں‪ .‬نے آنٹی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں جکڑ لیا آنٹی کو۔فرنچ کس تو کرنی‬
‫نھی آتی تھی بس ایسے ہی‬
‫ُبچ ُبچ کرتے ھوے چومی جارھی تھی‬
‫پھر میری سپیڈ بھی تیز ھوگئی اور میں نے آٹھ دس جاندار سٹروک لگاے اور آنٹی کی پھدی کے اندر ھی لن نے الٹیاں شروع‬
‫کردیں اور آخری قطرے تک لن اندر ھی ہچکیاں لے لے کر ایک آنکھ سے آنسو بہاتے رھا‬
‫اس سے پہلے کہ ہم علیحدہ ھوتے‬
‫اور میں لن پھدی سے نکالتا‬
‫کہ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے اٹک گیا جب میں نے سامنے دیکھا؟؟؟‪....‬‬
‫مذید اپڈیٹس کے لیے پیج کو الئیک شئیر اور فالو الزمی کرو تاکہ آپ کو نیو اپڈیٹ کا نوٹیفکیشن مل سکے‬
‫)‪..Update no (40‬‬
‫میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو مجھے دور سے ایک موٹرسائکل سوار آتا ھوا نظر آیا‬
‫میں نے آنٹی کو کہا آنٹی جلدی سے شلوار اوپر کرلو پیچھے دیکھو۔۔‪،،،‬۔‬
‫آنٹی نے بھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو آنٹی کا بھی رنگ اڑ گیا‬
‫میں نے جلدی سے نہر میں ڈبکی لگائی اور پاوں کے بل بیٹھ کر شلوار کو پکڑا اور کھڑا ھوگیا‬
‫اور جلدی سے میں نے ناال باندھا‬
‫اور آنٹی فوزیہ ابھی بھی سکتے کے عالم میں کھڑی کبھی میری طرف دیکھ رھی تھی کبھی پیچھے موٹر سائکل سوار کو۔‬
‫میں نے آنٹی کو پکڑ کر ہالیا‬
‫آنٹی جلدی کرووووو‬
‫آنٹی نیچے جھک کر شلوار پکڑنے کے لیے ھاتھ مارنے لگ گئی‬
‫مگر شلوار نیچے پاوں تک تھی‬
‫آنٹی بولی یاسر‬
‫مجھ سے شلوار نھی پکڑی جارھی‬
‫میں نے جواب دیے بغیر‬
‫پھر اپنی ناک کو پکڑ کر دبایا اور‬
‫نیچے پانی میں چال گیا‬
‫اور آنٹی کی شلوار کو ایک ھاتھ سے پکڑ کر اوپر کی طرف کر کے آنٹی کے ھاتھ میں پکڑا دی‬
‫شلوار اوپر کرکے آنٹی کے ہاتھ میں پکڑواتے وقت میرا ھاتھ دو دفعہ آنٹی کی پھدی کے اوپر لگا‬
‫مگر اس وقت میری اپنی جان پر بنی ھوئی تھی‬
‫اس لیے پھدی دماغ سے اتر چکی تھی‬
‫میں نے آنٹی کے ہاتھ میں شلوار پکڑاتے ھی‬
‫پانی کے اندر ھی مخلف سمت ُج ست لگائی اور اندر ھی اندر تیرتا ھو دوسرے کنارے کے پاس جا کر پانی سے سر نکاال‪.‬‬
‫اور‬
‫آنٹی کی طرف دیکھا جو حیران پریشان ھوئی ادھر ادھر دیکھ کر مجھے تالش کررھی تھی‬
‫آنٹی نے جیسے ھی مجھے دوسرے کنارے پر دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی‬
‫اتنی دیر میں موٹر سائکل سوار‬
‫ہم سے کچھ ھی دور پیچھے سے ھی نہر کی پٹری سے اتر کر نیچے چالگیا تھا‬
‫شاید اس نے آنٹی کو پانی میں اترے دیکھ لیا تھا اور وہ یہ سمجھا ھوگا کہ آنٹی نہا رھی ھے‬
‫مگر اسے کیا پتہ تھا‬
‫کہ کچھ دیر پہلے آنٹی مجھ دے ُچدوا رھی تھی‬
‫خیر آنٹی نے مجھے آواز دی کہ اب آجاو‬
‫وہ چال گیا‬
‫میں نے پھر پانی کے اندر سے ڈبکی لگائی اور‬
‫پانی کے اندر ھی تیرتا ھوا‬
‫آنٹی کی ٹانگوں کے پاس آیا اور دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی پنڈلیاں پکڑ لی‬
‫آنٹی پہلے تو ایکدم گبھرا گی کے کس نے انکی پنڈلیوں کو دبوچا ھے مگر‬
‫جیسے ھی میں پانی سے سر نکال کر انکے بلکل سامنے آیا‬
‫تو آنٹی نے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا‬
‫میری جان ای کڈ دتی سی‬
‫میں نے کہا آنٹی جی جان تو میری نکال دی آپ نے‬
‫تو آنٹی میری گال کو پکڑ کر مسلتے ھوے بولی‬
‫جیڑی میری جان کڈی اے اووووو‬
‫تو میں نے موضوع بدلتے ھوے کہا آنٹی جلدی سے باہر نکلیں یہ نہ ھو کہ کوئی آجاے‬
‫اور یہ کہتے ھوے ھی میں پانی سے باھر نکل آیا‬
‫تو آنٹی باھر نکلنے کی کوشش کرنے لگی مگر ان سے نکال نھی جا رھا تھا‬
‫وہ بار بار سلپ ھوکر پھر پانی میں چلی جاتی‬
‫آنٹی نے اپنا ہاتھ میری طرف کیا کہ مجھے نکالوں باہر‬
‫میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور انکو باہر کھینچا تو آنٹی گیلے کپڑوں کے ساتھ‬
‫جھک کر گھاس کو پکڑے باہر نکلنے لگی آنٹی جب جھکی تو انکے گلے میں سے پانی باھر نکلنے لگا جو کے بریزیر‬
‫میں بھرا ھوا تھا‬
‫میری جیسے ھی نظر آنٹی کے گلے میں پڑی تو انکے ادھ ننگے ممے قمیض سے باھر کو آنے کے لیے بے چین تھے‬
‫آنٹی جب باھر نکلی تو انکا سارا جسم ننگا نظر آرھا تھا‬
‫انکے کپڑے انکے ساتھ چپکے ھوے تھے آگے سے انکی پھدی نے انکی شلوار اور قمیض کو اہنے ہونٹوں میں بھینچا ھوا‬
‫تھا‬
‫انکا کالے رنگ کا بریزیر بلکل واضع نظر آرھا تھا‬
‫میں تو آنٹی کے فگر میں کو دیکھ کر ھی بے ہوش ھونے واال ھوگیا‬
‫میں آنکھیں پھاڑے آنٹی کی جسم کو دیکھی جارھا تھا‬
‫آنٹی نے جب مجھے اپنے جسم کو گھورتے دیکھا تو جلدی سے سر نیچے کر کے قمیض کا پلو پکڑ کر نچوڑتے ھوے مجھ‬
‫سے‬
‫ُ کہنے لگی‬
‫مینوں وی سارا ِگال کر دتا ای‬
‫ہن میں کیڑے کپڑے پاواں گی‬
‫سارے تے ُتون والے نے‬
‫پھر ایکدم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی‬
‫یاسر آج جو ھوا اچھا نھی ھوا‬
‫میں کیسے تمہارا سامنا کروں گی مجھے تو تمہارے سامنے کھڑے ہونے میں بھی شرم آرھی ھے‬
‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے معاف کردیں اس میں میری بھی غلطی ھے میں بھی بہک گیا تھا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫یاسر غلطی میری بھی ھے مجھے خود ہوش نھی رھا کہ جسے آج تک اپنا بیٹا سمجھتی رھی اس کے ساتھ ھی‪ ،،،،‬۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی‬
‫چھوڑیں اب اس بات کو ۔۔‬
‫پریشان مت ہوں یہ بات ہم دونوں کے بیچ ھی رھے گی کسی کو پتہ نھی چلے گا‬
‫آنٹی کچھ دیر ایسے ھی پریشان رھی اور خود کو کوستی رھی کہ میں کیا کر بیٹھی ہوں وغیرہ وغیرہ‪،‬‬
‫میں نے کپڑوں کی گٹھری میں سے ایک سوٹ نکاال اور آنٹی کی طرف بڑھاتے ھوے کہا یہ‬
‫دھونے واال سوٹ ھی پہن لیں آپ ساری گیلی ھوگئی ہیں اگر کوئی آگیا تو کیا سوچے گا ۔۔‬
‫تو آنٹی نے میرے ھاتھ سے کپڑے پکڑتے ھو کہا‬
‫شرم کر ُہن تے مینوں آنٹی نہ کہ‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا آنٹی جی پھر کیا کہوں‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫مجھے میرے نام سے پکارا کرو‬
‫میں نے کہا ایسے سب کہیں گے کہ میں بتمیز ہوں‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫سب کے سامنے تھوڑی نام سے پکارنے کا کہا ہے‬
‫جب اکیلے ہوں تو تب مجھے نام سے پکارا کرو‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی‬
‫وہ کیوں‬
‫توآنٹی بولی پہلے تو تم مجھے آنٹی کہنا بند کرو‬
‫جب تم مجھے آنٹی کہتے ھو تو میں اندر ھی اندر مرنے لگ جاتی ہوں‬
‫تو میں نے کہا اچھا نھی کہتا‬
‫آپ پہلے کپڑے بدل لیں‬
‫تو آنٹی فوزیہ‬
‫بولی‬
‫کپڑے کہاں بدلوں‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میری نظر نہر کے ساتھ والے کھیت میں مکئی پر نظر پڑی تو میں نے کہا‬
‫آئیں میرے ساتھ‬
‫تو آنٹی میرے پیچھے پیچھے نہر کی پٹری سے اترتی ھوئی مکئی کی طرف آنے لگی‬
‫میں مکئی کے اندر داخل ھوا اور‬
‫مکئی کے پودوں کو پانی لگانے کے لیے درمیان میں بنی دو تین فٹ کی کیاری میں چلنے لگا اور آنٹی کو پیچھے آنے کا‬
‫اشارا کیا آنٹی تھوڑا سا آگے آکر رک گئی اور مجھے کہنے لگی تم تو باہر جاو‬
‫میں کپڑے بدل لوں گی ادھر ھی‬
‫تو میں نے کہا آنٹٹٹٹ او سوری فوزیہ جی‬
‫آپ میرے سامنے ھی بدل لو‬
‫تو آنٹی فوزیہ نے مجھے بازو سے پکڑا کر کہا جاتے ھو کہ لگاوں ایک‬
‫میں پھر ڈھیٹ بن کر کھڑا رھا اور‬
‫بوال‬
‫آپ میرے سامنے بدل لو کیا ھے تو آنٹی بولی کہ مجھے شرم آتی ھے‬
‫تم باہر جاو‬
‫میں نے آنٹی کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا‬
‫اور اپنے سامنے کرتے ھوے کہا‬
‫مجھے نھی پتہ میں نے آپ کو کپڑے بدلتے دیکھنا ھے تو‬
‫آنٹی بولی یاسر‬
‫تم کیا بچوں کی طرح ضد ال لیتے ھو‬
‫چلو جاو‬
‫میں نے ابھی کپڑے دھونے ہیں سارے کپڑے ویسے کے ویسے ھی پڑے ہیں‬
‫میں نے کہا نھی فوزیہ جی‬
‫میں تو ایسے جانے واال نھی‬
‫اور میں نے ساتھ ھی آنٹی کو اپنے ساتھ لگا لیا‬
‫اور انکے بازوں کو چھوڑ کر انکے بازوں کے نیچے سے اپنے ھاتھ گزار کر انکی کمر کہ گرد ڈال کر جپھی ڈال لی‬
‫اب ہم دونوں کے گیلے کپڑے تھے تو ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے‬
‫ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہیں‬
‫آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی‬
‫کہ چھوڑو کیا کررھے ھو پاگل تو نھی ھوگئیے‬
‫مگر میرا لن سر اٹھا چکا تھا اور اس نے پھدی کو بھی اشارہ کر دیا تھا کہ تیار ھوجاو۔۔‪،،،‬‬
‫دوستو اب میں آنٹی فوزیہ کو ان کے نام سے ھی پکاروں گا‬
‫میں نے لن پورے زور سے فوزیہ کی ُپھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا تھا‬
‫اور‬
‫فوزیہ اب بھی احتجاج کرتے ھوے مجھے پیچھے دھکیل رھی تھی‬
‫کہ یاسر پاگل نہ بنو ایک دفعہ کر تو لیا ھے‬
‫کوئی آجاے گا‬
‫نہ کرو چھوڑو مجھے‬
‫میں نے کہا فوزیہ جان ایک دفعہ سے کہاں دل بھرتا ھے‬
‫اور میں فوزیہ کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کرنے لگا تو فوزیہ اپنے سر کو ِادھر ُادھر کر کے اپنے ہونٹ بچانے لگ‬
‫گئی مگر میں نے کوشش جاری رکھی‬
‫اور فوزیہ کے ہونٹوں کو پکڑنے میں کامیاب ھوگیا‬
‫اور ان کو چوسنے لگ گیا‬
‫فوزیہ بھی اب ہتھیار ڈالتے جارھی تھی‬
‫میں نے فوزیہ کے ہاتھ سے کپڑے پکڑے اور انکو مکئی کے پودے کے ساتھ لگے سٹے اور ٹہنی کے ساتھ لٹکا دئیے اور‬
‫پیچھے سے انکی گانڈ کو پکڑ کر مسلنے لگا فوزیہ اب مکمل میرے کنٹرول میں آچکی تھی‬
‫میں لن کو مسلسل اسکی پھدی کے ساتھ رگڑ رھا تھا‬
‫اور وہ بھی میرے ساتھ ُجڑ ُج ڑ کر مزے لے رھی تھی‬
‫میں نے فوزیہ کی گیلی قمیض پیچھے سے پکڑ کر اوپرکرنے لگا اور ایک ھاتھ آگے کر کے آگے سے بھی قمیض اوپر‬
‫کرنا شروع ھوگیا پہلے تو فوزیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ھاتھ جھٹک کر ہٹا‬
‫دیا اور اسکی قمیض کو اسکے مموں تک لے آیا‬
‫قمیض گیلی تھی اور جسم کے ساتھ چپکی ھونے کی وجہ سے مجھے کافی مشکل ھو رھی تھی کہ اسکے ممے قمیض سے‬
‫آزاد کرواوں‬
‫کہ فوزیہ بولی کیوں میری قمیض پھاڑو گے رکو ایک منٹ‬
‫اور یہ کہتے ھوے فوزیہ نے اپنے ایک ھاتھ کو پیچھے کیا اور ایک کو آگے کیا اور قمیض کو آگے پیچھے سے پکڑ کر‬
‫اوپر سر کی جانب لے گئی اور پھر قمیض اتار کر ایک سائڈ پر پھینک دی اور میری طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے بریزیر کی طرف اشارہ کیا کہ اسے بھی اتارو‬
‫تو وہ ہنستے ھوے بولی ایک تو تم نہ‪ ،،،‬۔۔۔۔‬
‫اور ہاتھ پیچھے کر کے بریزیر کی ہک کھول دی اور‬
‫اور ھاتھ نیچے کر لیے‬
‫میں نے جلدی سے بریزیر پکڑ کر فوزیہ کے جسم سے الگ کیا‬
‫اور اس کے مموں کو غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫تو فوزیہ میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫ُہن خوش ایں ۔۔‬
‫میں نے کہا ھممممم‬
‫اور ساتھ ھی فوزیہ کے بڑے بڑے گورے نرم مالئم مموں کو دونوں ھاتھوں میں پکڑ لیا اور دبانے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے منہ سے سیییییییی نکال اور بوال آرام سے‬
‫تو میں نے ھاتھوں کی گرفت ڈھیلی کی اور آرام آرام سے دبانے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے ممے بہت ھی نرم تھے‬
‫اور اسکی عمر کے حساب سے بلکل بھی ڈھلکے ھوے نھی تھے‬
‫بلکہ ایک دم تنے ھوے تھے‬
‫میں مزے لے لے کر مموں کو کھولنا سمجھ کر انسے کھیل رھا تھا‬
‫فوزیہ بھی سیییی سیییی کررھی تھی‬
‫میں تھوڑا سا ُج ھکا اور ایک ممے کے براون تنے ھوے موٹے سے نپل پر زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے ممے گیلے اور چکنائی والے تھے‬
‫ممے کے نپل سے عجیب سا ذائقہ میری زبان پر لگ رھا تھا‬
‫میں جیسے ھی ممے کے گول براون دائرے پر زبان پھیرتا اور پھر نپل کو ہونٹوں میں لے کر چوستا تو‬
‫فوزیہ لمبی سی سسکاری لیتی اور میرے سر پر ھاتھ رکھ کر ممے پر دبا دیتی‬
‫میں اب ممے کو پورا منہ میں لینے کی ناکام کوشش کرنے لگ گیا‬
‫اور ممے کے تھوڑے سے حصے کو منہ میں بھر کر نپل کو اپنے حلق کی طرف کھینچتا‬
‫جس سے فوزیہ‬
‫کو بھی جوش چڑھتا اور وہ‬
‫میرے سر کو اور ذور سے پکڑ کر ممے پر دباو بڑھا دیتی‬
‫میں باری باری دونوں مموں کو کبھی چوستا کبھی نپل پر دانت گاڑھتا‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫میں اور نیچے ھوا اور فوزیہ کے ہلکے سے باہر نکلے گورے نرم پیٹ کو چومنے لگ گیا‬
‫پیٹ کو چومتے چومتے میں ناف کے نیچے پھدی کے اوپر‪ .‬شلوار کے نیچے کے پاس زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے جسم کو ایک دھم جھٹکا لگا‬
‫اور افففففففف سییییییییی ممممممم‬
‫کر نے لگ گئی اور پیار سے میرے سر کے بالوں میں انگیلیاں پھیرنے لگ گئی‬
‫میں پاوں کے بل بیٹھ چکا تھا‬
‫اور میر منہ فوزیہ کی پھدی کے سامنے تھا‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے فوزیہ کی شلوار کو پکڑا اور کھینچ کر نیچے کر دیا‬
‫فوزیہ نے بھی مجھے نہ روکا‬
‫میری انکھوں کے سامنے فوزیہ کی چٹی سفید بالوں سے پاک پھدی تھی‬
‫جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے جن میں ایک جھلی سی باہر کو نکلی ھوئی تھی‬
‫جس پر ایک موٹا سا دانا تھا‬
‫میں بڑے غور سے پھدی کا جائزہ لینے لگ گیا‬
‫میں نے زبان اپنے خشک ہونٹوں پر پھیری اور‬
‫زبان کو باہر نکاال اور پھدی کے اوپر رکھ‪ .‬دیا‬
‫فوزیہ ایک دم تڑپی اور پیچھے کو ھوگئی‬
‫اور بولی‬
‫وے پاگل ھوگیاں ایں اے کی کرن دیاں اے‬
‫میں نے سر اوپر کیا اور‬
‫فوزیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے بوال‬
‫اپنی جان کو پیار کرنے لگا ھوں‬
‫تو فوزیہ‬
‫بولی‬
‫نئی یاسر یہ گندی جگہ ھے‬
‫اس پر زبان مت لگاو‬
‫میں نے کہا ایک دفعہ بس پیار کرنے دو‬
‫تو‬
‫فوزیہ بولی نھی یاسر‬
‫پلیززز میری بات مانو یہ مناسب نھی‬
‫تو میں نے دو تین دفعہ آگے ھوکر پھدی کو چومنا چاھا مگر‬
‫فوزیہ پھدی پر ھاتھ رکھ کر پیچھے ھوجاتی‬
‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور‬
‫کھڑا ھو کر اپنی گیلی قمیض اتاری اور پھر شلوار کا ناال کھول کر شلوار بھی اتار دی‬
‫فوزیہ نے بھی اپنی شلوار پاوں سے نکال کر ایک سائڈ پر رکھ دی‬
‫میرا لن فل تنا ھوا تھا جیسے ھی فوزیہ کی میرے ننگے لن پر نظر پڑی‬
‫تو اسکی آ نکھوں میں ایک چمک سی آئی اور میرے لن کو پکڑ کر بولی‬
‫ھاےےےے میں مرگئی اینا وڈا لن اے تیر ا یاسر‬
‫اففففف توبہ‬
‫اتنا بڑا تو کسی بڑے مرد کا نھی ھوگا‬
‫کیا کیا ھے اسے‬
‫میں نے کہا‬
‫فوزیہ جی بس یہ آپکی سیکسی پھدی کو دیکھ کر بڑا ھوگیا ھے ویسے تو نھی ھے‬
‫اور اسکے ساتھ ھی میں نے فوزیہ کو جپھی ڈال کر لن اسکے چڈوں کے درمیان گھسا دیا اور پھدی کے لبوں کے اوپر‬
‫رگڑتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد‬
‫میں نے فوزیہ کی ایک ٹانگ اٹھائی اور لن کو پھدی کے لبوں کے اندر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکا مارا لن بغیر کی چوں‬
‫چراں کے جڑ تک اندر چال گیا‬
‫فوزیہ کے منہ سے چیخ نکلی جسے وہ اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوے دباکر بولی ھاےےےےے میں مرگئی‬
‫ھاےےےےےےےے میری مائیں۔‬
‫میں مرگئییییییی اور اسکے ساتھ ھی فوزیہ پیچھے کو ہوئی اور توازن برقرار نہ رکھتے ھوے پیچھے کو گرتی گئی‬
‫میں نے بھی اسکی ٹانگ کو پکڑا ھوا تھا‬
‫تو میں بھی ویسے ھی اسکے اوپر اسکے ساتھ آگے کی طرف گرتا گیا‬
‫فوزیہ اب کھیت کی کیاری میں لیٹی ھوئی تھی اور میں اسکے اوپر‪ .‬تھا اور لن‬
‫باھر نکل گیا تھا‬
‫فوزیہ بولی‬
‫ہاے میرا َلک ُٹٹ گیا‬
‫ہے نی میری ےے مائیں‬
‫میں نے فوزیہ کی ھوے ھوے کی پروا کیے بغیر‬
‫دونوں ٹانگوں کو اوپر اٹھایا اور پھر ایک ھی جھٹکے میں لن فوزیہ کی بچے دانی تک پہنچا دیا‬
‫فوزیہ پھر تڑپی اور مجھے گالی دیتے ھوے بولی‬
‫تیرے وچ انساناں والے کم نئی اے‬
‫جانور کسے تھاں دا‬
‫کیوں میرا اندر پاڑنا ای‬
‫جان کڈ کے رکھ دتی اے‬
‫میں نے سور ی کہا اور‬
‫لن کو پیچھے کھینچا اور پھر زور دار طریقے سے گھسہ مارتے ھوے پورا لن پھدی کے اندر کر دیا‬
‫فوزیہ نے مجھے پیچھے دھکے مارتے ہوے رونے والے انداز میں کہنا شروع کردیا‬
‫پچھے ہو چھڈ مینوں میں نئی کروانا‬
‫ھاےےےےے ماں‬
‫ھاےےےےےے مرگئی‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫چھڈ پچھے ھو جا‬
‫ھاےےےےےےےےے‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا جان بس ایک دفعہ معاف کردو‬
‫پھر نھی کرتا اتنے زور سے‬
‫میں نے فوزیہ کو مسکے شسکے لگا کر شانت کر لیا اور‬
‫آہستہ آہستہ‬
‫لن کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگ گیا‬
‫اب فوزیہ ریلکس تھی اور میرے پیٹ پر ھاتھ رکھے اپنی مرضی سے جتنا لن اس‪ ،‬سے برداشت ھورھا تھا لے رھی تھی‬
‫جہاں اسے درد ھوتی وہیں میرے پیٹ کو دبا کر مجھے مزید اندر کرنے سے روک دیتی‬
‫فوزی کی پھدی کافی گیلی تھی جس کی وجہ سے لن مزے سے اندر باہر کی سیر کر رھا تھا‬
‫میرے گھسوں سے فوزیہ کے بڑے بڑے ممے اچھل اچھل کر اسکے منہ کی طرف جارھے تھے‬
‫فوزیہ‬
‫فل مزے لے لے کر مجھ سے چُدوا رھی تھی‬
‫فوزیہ نے اب دونوں ھاتھ میرے سینے پر رکھے ھوے تھے اور میرے نپلوں کو اپنی انگلیوں سے مسل رھی تھی جس سے‬
‫مجھے مزید مزہ آرھا تھا‬
‫اور میں جوش میں لن پھدی کی جڑ تک پہنچا رھا تھا‬
‫فوزیہ کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے مزے سے بھری آوازیں نکال رھی تھی‬
‫ھاےےےےے ہمممممم ایتھے مار سٹ ھاں انج مار‬
‫ھاےےےے زور دی مار سٹ‬
‫ھمممممم پورا کردے اندر‪ .‬ھااےےےے اففففففف بڑا مجا آریا اےےےےےے افففففف‬
‫پورا کردے پورا کردے سارااااااا کردےےےےےےےےےے‬
‫اسکے ساتھ ھی فوزیہ کا جسم اکڑ گیا اور اسکی پھدی سے گرم گرم منی نکلنا شروع ھوگئی‬
‫مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر منی کی دھاریں ٹکراتی محسوس ھورھی تھی‬
‫میں کچھ دیر رکا‬
‫جب فوزیہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکا جسم ڈھیال ھوگیا تو میں نے پھر گھسے مارنے شروع کردئے‬
‫فوزیہ اب مجھ سے جان چھڑوا رھی تھی‬
‫جلدی کر جلدی کر کری جارھی تھی‬
‫تقریبًا دس منٹ میں جوش سے گھسے مارتا رھا‬
‫اچانک مجھے لگا جیسے میری ٹانگوں سے جان نکل رھی ھے اور سارا خون لن میں جمع ھوگیا تو‬
‫میں نے جاندار گھسے مارنا شروع کردیے‬
‫فوزیہ‪ .‬کے ممے اچھل رھے تھے‬
‫اسکے ساتھ ھی میرے لن نے زبردست انگڑائی لی اور اپنی ایک آنکھ کھولی اور اور سارے آنسو پھدی کے اندر ھی‬
‫گرانے لگ گیا‬
‫ابھی میرے سانس بھی بحال نھی ھوے تھے‬
‫کہ میرے کانوں میں آواز‬
‫گونجی‬
‫کیڑاں اےےےےے ۔۔۔۔۔‬
‫میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ایک ضعیف العمر بابا دھوتی بنین پہنے آنکھوں پر ہاتھ رکھے غور سے میری طرف‬
‫دیکھتا ھوا کیاری میں چھڑی ٹکا ٹکا کر چال آرھا تھا‬
‫بابے کی شاید نظر کمزور تھی اس لیے وہ بڑے غور سے دیکھ رھا تھا‬
‫میں نے جھٹکے سے لن باہر کھینچا اور فوزیہ بھی جمپ مار کے بیٹھ گئی‬
‫اور کھڑے ھوتے ھو ے گبھراے ھوے پیچھے دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے کہا آنٹی بھاگگگگگگ‬
‫اور فوزیہ نے جلدی سے کچھ کپڑے جتنے ھاتھ لگے پکڑے اور ننگی باہر نہر کی طرف بھاگی میں نے بھی اپنے کپڑے‬
‫پکڑے اور جو فوزیہ کے رہ گئے تھے وہ پکڑے اور اس کے پیچھے ننگا ھی بھاگ کھڑا ھوا‬
‫یہ شکر تھا کہ بابے کی پہچان میں ہم دونوں ھی نھی آے‬
‫مکئی سے باہر نکلتے ھوے ہم آگے پیچھے نہر پر ننگے ھی چڑھ گئے اور میں نے تو جاتے ھی نہر میں چھالنگ لگادی‬
‫اور فوزیہ جلدی جلدی سے شلوار پہننے لگی اور پھر جلدی سے قمیض پہن کر کنارے پر بیٹھ کر کپڑے دھونے میں‬
‫مصروف ھوگئی‬
‫فوزیہ کا رنگ اب بھی پیال پڑا ھوا تھا‬
‫اور پاوں کے بل بیٹھی کی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫میں نہر کے اندر سے ھوتا ھوا دوسری طرف پہنچ گیا اور کنارے کو پکڑ کر پانی میں ھی کھڑا ہوکر فوزیہ کی طرف‬
‫دیکھنے لگ گیا‬
‫فوزیہ کی نظر مکئی کی ھی طرف تھی میں نے فوزیہ کو اشارہ کیا کے میرے کپڑے ادھر پھینک دے‬
‫فوزیہ کی اب بھی سانس اکھڑے ھوے تھے‬
‫بابا ابھی تک مکئی کے اندر ھی تھا نہر کی طرف باہر نھی نکال تھا‬
‫فوزیہ نے میرے گیلے کپڑے اکھٹے کیے اور مروڑ کر رول بنا کر زور سے میری طرف پھینک دیے‬
‫میں نے کپڑے کیچ کیے‬
‫اور کپڑوں کو کھول کر دیکھنے لگ گیا میرے سارے کپڑے مٹی سے بھر چکے تھے اور جگہ جگہ کیچڑ لگا ھوا تھا‬
‫میں نے پہلے شلوار پکڑی اور اسکو پانی سے دھویا‬
‫اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کی کہ کوئی ھے تو نھی‬
‫اور گھاس کو پکڑ کر نہر سے باہر نکال اور جلدی سے شلوار پہن کر ناال باندھا اور پھر قمیض کو دھویا‬
‫اور اسکو سوکھنے کے لیے وہیں گھاس پر ڈال دیا‬
‫بابا پتہ نھی کدھر ُگ م ھوگیا تھا‬
‫شاید وہ ادھر سے ھی واپس چال گیا تھا‬
‫فوزیہ کی بھی حالت قدرے سنبھل گئی تھی‬
‫فوزیہ نے مجھے آواز دی کے آجاو ادھر اب‬
‫بابا نھی نکال‬
‫میں نے قمیض اٹھائی اور اسے بازو اوپر کر کے پکڑ کر نہر میں اتر گیا اور ایسے ھی چلتا ھوا دوسرے کنارے پر فوزیہ‬
‫کے پاس آگیا‬
‫اور فوزیہ سے بوال شکر اے بچ گئے‬
‫تو فوزیہ میری طرف گھورتے ھوے بولی‬
‫بچ گئے دے بچے‬
‫تیری کالیاں تے ضداں نے اج مروا دینا سی‬
‫شکر کر کے او نمبڑاں دا بڈھا مالزم سی جے کوئی ھو ھوندا نہ تے فیر پجیا وی نئی سی جانا‬
‫میں نے کہا کش نئی ھوگیا بچ گئیں آں‬
‫تو فوزیہ نے میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھتے ھوے کہا‬
‫اے ویکھ میرا دل کیویں پھڑکن دیا اے‬
‫واقعی فوزیہ کا دل تیز تیز دھڑک رھا تھا‬
‫مجھے پھر شرارت سوجھی میں نے فوزیہ کا مما دبا دیا‬
‫فوزیہ نے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا کہ‬
‫ہالے رجیا نئی‬
‫تو میں نے کہا ایسے گرم سیکسی مال سے کس دل بھرتا ھے‬
‫تو فوزیہ غصہ کے انداز میں بولی بتاوں تجھے‬
‫کھسماں مینوں پیلے ای ُٹ رن جوگا نئی چھڈیا میرا اندر ھال کے رکھ دتا ای‬
‫میں تے تینوں بچہ سمجھدی سی پر توں تے پورا افالطون نکلیا ایں‬

‫)‪.Update no (41‬‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آپکو دیکھ کر بابے جوان ھوجاتے ہیں میں تو پھر ابھی جوان ھو رھا ھوں‬
‫تو فوزیہ نے منہ پر ھاتھ رکھا اور ایک ھاتھ اپنے کانوں کو لگاتی بولی‬
‫توبہ توبہ توبہ‬
‫میرے کولوں کوئی ُپچھے کہ اے بچہ اے کہ کی شئے اے‬
‫میں نے کہا تو بتاو میں کیا شئے ھوں‬
‫تو فوزیہ بولی چل ھن گالں چھڈ عظمی نسرین آن والیاں نے‬
‫تے جلدی نال اپنے کپڑے سکا لے‬
‫کچھ دیر بعد میں نہر سے نکال اور اپنی قمیض کو سکھانے کے لیے گھاس پر ڈال دیا‬
‫تو فوزیہ میری طرف ایک چادر پھینکتے ھوے بولی‬
‫اے چادر بن لے تے شلوار وی سکنے پا دے‬
‫میں نے چادر پکڑی اور‬
‫شلوار اتار کر چادر باندھ لی اور شلوار کو بھی سوکھنے ڈال دیا‬
‫اور فوزیہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا تو کبھی دھوے ھوے کپڑوں کو سوکھنے ڈال دیتا‬
‫ایسے کچھ دیر بعد عظمی اور نسرین بھی آگئی اور مجھے چادر میں دیکھ کر میرا مزاق اڑانے لگ گئی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ہم ہنسی مزاق کرتے رھے‬
‫اور پھر کپڑے سمیٹے اور گھر کی طرف چلدیے‬
‫اگلے دن میں دکان پر پہنچا اور باہر کی صفائی وغیرہ کر کے بیٹھ گیا کچھ ھی دیر گزری تھی کہ ایک نقاب پوش سفید‬
‫یونیفارم میں لڑکی میری طرف بڑے غور سے دیکھتی ھوئی چلی آرھی تھی میں بھی بڑے غور سے اسے دیکھ رھا تھا‬
‫کہ آنکھیں اور جسامت جانی پہچانی لگ رھی ھے‬
‫کہ اتنے میں وہ میرے قریب آکر میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور میرے سامنے ھاتھ کر کے بڑی شوخ اور چنچل سی اپنی‬
‫مترنم آواز میں بولی السالم وعلیکم میں ایک دم گبھرا کر اٹھ کے کھڑا ھوگیا مجھے ہکا بکا پریشان دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسر ادھر بیٹھے کیا کررھے ھو‬
‫تو میں فورن اسکی آواز سے پہچان گیا کہ یہ تو مہرالنسا ھے‬
‫تو میں نے بڑی گرمجوشی سے اسکے ھاتھ کو تھام لیا اور اس سے مصافحہ کرتے ھوے بوال‬
‫مہری تم ادھر کیسے تو وہ بولی پہلے تم بتاو کہ تم ادھر کیا کررھے ھو تو میں نے اسے یاددھانی کرواتے ھوے دکان کے‬
‫شٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ یہ ھی تو دکان ھے جس پر میں کام کرتا ھوں تو مہری بولی او آئی سی گڈ دراصل‬
‫آج اسد مجھ سے پہلے ھی تیار ھوکر نکل گیا تھا شاید اس نے کہیں جانا تھا اس لیے میں آج پیدل ھی کالج کے لیے نکل آئی‬
‫۔۔میں نے کہا کالج تو کافی دور ھے تم اکیلی کیسے جاو گی تو مہری بولی کوئی بات نھی میں اکثر اکیلی ھی چلی جاتی ھوں‬
‫نو برابلم میں نے کہا نھی نھی ایسے کیسے اکیلی جاو گی چلو میں تمہیں چھوڑ کر آتا ھوں تو مہری کے الکھ انکار پر بھی‬
‫میں اسے ساتھ لے کر کالج کی طرف چل پڑا کچھ آگے چل کر مہری نے ایک مارکیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اس مارکیٹ‬
‫میں مما کا بوتیک ھے تو میں نے مارکیٹ کی طرف دیکھا جو ابھی تک ساری ھی بند تھی اور میں‪ .‬ہمممم کر کے مہری‬
‫کے ساتھ آگے چل پڑا بازار سے نکل کر ہم گلی میں داخل ھوگئے تو میں نے مہری کو کہا کہ سوری مہری میں اس دن کے‬
‫لیے بہت شرمندہ ہوں مجھے ایسا تمہارے ساتھ نھی کرنا چاھیے تھا تو مہری نے ایک دم میری طرف چونک کر دیکھا اور‬
‫کہنے لگی اٹ از اوکے یار جو ہوا بھول جاو اس میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے اسلیے یہ سوری شوری کرنے کی‬
‫ضرورت نھی میں مہری کے اس بے باک لہجے پر حیران رھ گیا کہ کیسے اتنی بڑی بات کو ہوا میں اڑا دیا خیراسکی بات‬
‫سن کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا تو میں نے مہری سے کہا مہری ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو تو مہری میری طرف بڑی‬
‫گہری نظر ڈالتے ھوے بولی بولو میں نے کہا مہری تم بہت اچھی ھو تو مہری ہنستے ہوے بولی لو بتاو بھال اس میں برا‬
‫ماننے والی کون سی بات ھے میں نے کہا نھی میرے کہنے کا مطلب ھے کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ھو مہری چلتی چلتی‬
‫ایکدم رک گئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی او ہیلو خیر تو ہے نہ میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے کرلیامہری‬
‫بولی کیا ھوا چپ کیوں ھوگئے میں نے کہا سوری میں اپنی اوقات بھول گیا تھا مہری بولی نونسینس دوبارا ایسی بات کی تو‬
‫تمہارا منہ توڑ دوں گی اوقات کا کچھ لگتا میں نے کہا تم ناراض جو ہوگئی تھی میں سمجھا شاید میں غریب ھوں اس لیے میں‬
‫تمہارے قابل نھی ھوں مہری بولی کیا مطلب قابل نھی ھوں میں سمجھی نھی کھل کر بات کرو کیا کہنا چاھتے ھومیں نے کہا‬
‫تم نے پھر ناراض ھو جانا ھے مہری بولی اب تم نے نہ بتایا نہ تو پھر میں نے تم سے کبھی بات نھی کرنی ۔میں نے کہا‬
‫مہری تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی سوچتا رہتا ھوں مگر جب تمہارے اور اپنے سٹیٹس کے‬
‫بارے میں سوچتا ھوں تو مجھے اپنی غریبی پر غصہ آتا ھے مہری بولی پہلے تو یہ امیری غریبی واال رونا میرے سامنے‬
‫مت روو اگر بات کرنی ھے تو چند الفاظ میں بات کو کہہ کر ختم کرو۔۔میں نے کہا مہری میں تم کو پسند کرتا ہوں اور تم‬
‫سے دوستی کرنا چاھتا ہوں مہری ہنستے ھوے بولی لو کر کو گلکھودا پہاڑ نکال چوھامیں سمجھی پتہ نھی جناب کو کونسی‬
‫ایسی بات کرنی ھے جسکی وجہ سے جناب کہتے ھوے اتنا گبھرا رھے ہیں ۔ارے ُبدھو پہلے کونسا ہم ایک دوسرے کے‬
‫دشمن ہین اور تمہارا دماغ کام نھی کرتا کہ ایک لڑکی کیسے کسی انجان لڑکے کے ساتھ یوں باتیں کرتے ھوے جاسکتی ھے‬
‫کیا‪ ،،‬مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا کہ واقعی میں ُبدھو ھی ھوں‪ ،‬میں نے خوش ہوکر کہا کہ واقعی ہم دوست ہیں‪،‬‬
‫مہری ہنستے ھوے بولی‬
‫افکورس میں نے خوشی سے جمپ مارا اور دونوں ھاتھوں کو ھوا میں کر کے مکے بنا کر کہا یسسسسسسسسمہری میری‬
‫اس حرکت پر ہنسس ہنسس کر دھری ھوتی گئی اور میری طرف ھاتھ سے اشاری کرتے ھوے بولی کوئی حال نھی تمہارا۔۔‬
‫میں نے مہری کا ہاتھ پکڑ لیامہری نے جلدی سے مجھ سے ہاتھ ُچ ھڑوایا اور بولی پاگل ہوگئے ھو کیا ابھی اتنی بھی دوستی‬
‫نھی بڑھی کے تم میرا سرعام ہاتھ پکڑ کر چلنے لگومیں شرمندہ سا ھوکر رھ گیا میں نے ست کھجاتے ھوے آہستہ سے کہا‬
‫جب دوست اتنا خوبصورت ھو تو نہ زمانے کا ڈر نہ گھر والوں کا ڈر مہری نے شاید میری بات سن لی تھی وہ ایکدم بولی‬
‫کیا کہادوبارا کہنامیں نے کہا کچھ نھی مہری بولی تم باز آجاو کچھ زیادہ ھی اوور ایکٹ کر رھے ھو میں نے کہا ایسا تو‬
‫کچھ نھی کچھ دیر بعد میں نے مہری سے پوچھا مہری پھر کب ملو گی تو مہری نے شرارت بھری نظر سے میری طرف‬
‫دیکھتے ھو کہا کیوں مل کہ کیا کرنا ھے میں نے کہا کچھ نھی بس تم سے باتیں کر کے اچھا لگتا ھے مہری بولی اچھااااا‬
‫جییییمیں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے کہا ھااااں جیییییمہری بولی جب مرضی آجاو گھر تمہیں کس نے روکا ھے میں نے‬
‫کہا کہ گھر میں تو اسد کے بغیر نھی آسکتا اور ویسے بھی اسد کیا سوچے گا مہری بولی کیوں پہلے اسد کے سامنے مجھ‬
‫سے بات نھی کرتے تھے میں نے کہا اسد کے سامنے جپھی تو نھی ڈال سکتا نہ مہری ایک دم شرمندہ سی ھوگئی اور شرما‬
‫کر بولی چل شوخا میں نے پھر کہا بتاو نہ یار مہری بولی مجھے کیا پتہ تم آجاو جب مرضی میں نے جنجھال کر پھر پوچھا‬
‫یار میں اکیلے مین ملنا چاھتا ہوں مہری پھر گہری نظر میں میری طرف دیکھتے ھوے بولی خیر ھے اکیلے مل کر کیا‬
‫کرنے کا پروگرام ھے میں نے کہا یار تمہیں روس کر کے کھانا ھے مہری یہ سن کر کھلکھال کر ہنس پڑی اور ہنستے ھوے‬
‫بولی سٹوپٹ روس نھی ھوتا روسٹ ھوتا ھے کچھ پڑھ لیتے تو انگلش کی بےعزتی نہ کرتے میں پھر شرمندہ سا ہوکر بوال‬
‫جو بھی ھے یار بتاو نہ تو مہری بولی شام کو چار سے سات بجے تک میں اکیلی ھی ھوتی ھوں یاسر اکیڈمی چال جاتا ھے‬
‫اگر اس وقت آسکتے ھو تو آجانا یں نے کیا پکی بات ھے نہ کوئی ٹینشن تو نھی بنے گی تو مہری بولی نو ٹینشن یار کہہ دیا‬
‫نہ میں نے کہا چھٹی کتنے بجے ھوتی ھے تو مہری بولی ایک بجے میں نے کہا چھٹی کے وقت لینے آوں تمہیں مہری بولی‬
‫نو تھینکس اسد لے جاے گا اس نے مجھے کیا تھا کی میں لینے آجاوں گااتنی دیر میں کالج آگیا اور میں نے مہری کو باے‬
‫بات کیا اور واپس دکان کی طرف چل دیا‬
‫دکان پر جب میں پہنچا تو انکل نے دکان کھول لی تھی میں نے انکل کو سالم کیا اور جوتا اتار کر کاونٹر پر چڑھ گیا‬
‫انکل نے پوچھا کہاں چلے گئے تھے‬
‫میں نے پیشاب کرنے کا بہانہ بنایا‬
‫کیونکہ انکل میرے آنے سے کچھ دیر پہلے ھی آے تھے اس لیے مجھے یہ بہانہ معقول لگا‬
‫میں نے جھاڑن پکڑی اور دکان کی الماریوں میں لگے کپڑوں کو جھاڑنا شروع کردیا‬
‫پھر ساری دکان کی صفائی کی اور سٹک پکڑ کر کچھ سوٹ دکان کے باھر لٹکاے ۔۔‬
‫تو انکل نے مجھے بتایا کہ یاسر بیٹا میں نے مال لینے آج فیصل آباد جانا ھے‬
‫تو تم دھیان سے بیٹھنا‬
‫اور لڑکوں کا خیال رکھنا کہ پیسے آگے پیچھے نہ کریں‬
‫میں جی انکل کہا اور انکو مکمل تسلی دی کے آپ بےفکر ھو کر جائیں‬
‫کچھ دیر بعد ایک لڑکا آگیا‬
‫تو انکل نے اس لڑکے کو کہا کہ مجھے الری اڈے پر چھوڑ آو‬
‫اس لڑکے نے جسکا نام جنید تھا مجھے سے دو تین سال ھی بڑا ھوگا اس‪ ،‬نے موٹر سائکل باھر نکالی اور انکل اسکے‬
‫پیچھے بیٹھ گئے اور وہ انکل کو لیے الری اڈے کی طرف روانا ھوگیا‬
‫میں گدی پر بیٹھ کر باہر کی طرف دیکھنے لگ گیا‬
‫تو ایک عمر رسیدہ خاتون اور ایک نقاب پوش برقعہ پہنے آنٹی ٹائپ عورت ھی کہہ لیں باہر لٹکے سوٹ دیکھنے لگ گئیں‬
‫میں نے انکو آواز دی کے آنٹی اندر آجائیں اندر کافی ورائٹی مل جاے گی‬
‫تو وہ دونوں ماں بیٹی یا ساس بہو تھی دونوں اندر آگئیں اندر داخل ہوتے وقت نقاب پوش آنٹی مجھے بڑے ھی غور سے‬
‫دیکھی جارہی تھی میں نے بھی ایک دو دفعہ اسکی طرف دیکھا تو وہ نظریں پھیر لیتی‬
‫میں انکو لیے پیچھے دکان کے آخر میں چال گیا‬
‫کیوں کے انہوں نے بوتیک کے سلے سالے سوٹ لینے تھے اور بوتیک کی ساری ورائٹی پیچھے پڑی تھی‬
‫میں نے ان سے پوچھا جی آنٹی جی کس طرح کی ورائٹی چاھیے تو‬
‫وہ برقعے والی آنٹی جو اب بھی بار بار مجھے ھی دیکھی جارہی تھی‬
‫بولیں کہ وہ سامنے گرین کلر کا سوٹ دیکھائیں‬
‫میں نے اسکی آواز سنی تو مجھے آواز جانی پہچانی سی لگی‬
‫میں نے سوچتے ھوے سوٹ کی طرف بڑھا اور ریک کا شیشہ کھول کر سوٹ نکال کر انکے سامنے کردیا‬
‫اور انکو کپڑے کی کوالٹی اور امبرائڈڈ کی تعریفیں کرنے لگ گیا‬
‫تو وہ نقاب پوش آنٹی بڑی اداوں سے بات کری جارھی تھی‬
‫اور کافی فرینک ھونے کی کوشش کر رھی تھی‬
‫عمررسیدہ اماں جی بولی‬
‫بیٹا اسکا کلر تو نھی خراب ہوتا‬
‫تو وہ نقاب پوش آنٹی بولی‬
‫امی اگر کلر خراب ھوگیا تو انکے گھر دے آیں گے‬
‫یہ ہمارے گاوں کا ھی ھے‬
‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫انٹی آپ کہاں رھتی ہیں تو وہ ہنستے ھوے بولی‬
‫اب جوان ھوگئے ھو تو اپنے دوست کی مما کو بھی نھی پہچانتے تو میں نے اسکو غور سے دیکھتے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی میں نے واقعی آپکو ابھی تک بھی نھی پہچانا‬
‫تو آنٹی ہنسی اور ساتھ ھی بولی‬
‫تم یاسر ھی ھو نہ‬
‫تو میں اپنا نام سن کر اور حیران ھوگیا‬
‫کہ یہ کون ھے جسکو میرے نام کا بھی پتہ ھے‬
‫آواز بھی جانی پہچانی لگ رھی‬
‫اتنے میں آنٹی نے نقاب پر لگی پن نکالی اور نقاب ہٹا دیا‬
‫میری جیسے ھی اسکے چہرے پر نظر پڑی میں تو ایکدم سکتے کے عالم میں ٹکٹکی باندھے اسکو دیکھے جارھا تھا‬
‫یہ تو میری پہلی سیکس ٹیچر تھی‬
‫اس گشتی نے ھی تو میری اچھی بھلی سادا سی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا اسکی وجہ سے میں سیکس سے آشنا ھوا تھا‬
‫اس ظالم نے ھی تو مجھے پہلی بار مموں کی ڈیزائنگ دیکھائی تھی‬
‫اس خرافہ نے ھی تو مجھے پھدی کی خوبصورت شیپ سے آشنا کیا تھا‬
‫اسی کی ھی لذت بھری آوازوں نے میری نیندیں اڑائیں تھی‬
‫جی بلکل دوستو آپ سہی سمجھے‬
‫یہ اور کوئی نھی فرحت تھی‬
‫مجھے حیران پریشان دیکھ کر فرحت نے ہلکا سا کھانسا تو میں ایکدم خیالوں سے باہر آیا‬
‫اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫جججججی آپپپپ‬
‫تو وہ بڑی ادا سے بولی‬
‫ھاں جی اب پہچانہ کہ اب بھی انجان بنے ھو‬
‫میں نے نھی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫ننننھی جی اب تو پہچان لیا‬
‫آپ قیصر کی مما ہیں نہ‬
‫تو وہ بولی ھاں جی شکر ھے پہچان لیا‬
‫تو میں انکا حال احوال پوچھنے لگ گیا اور قیصر کے بارے میں کہ وہ اب کہاں پڑھتا ھے‬
‫تو فرحت نے بتایا کہ وہ اب الھور اپنے ماموں کے پاس‪ .‬چال گیا ھے اور ادھر ھی پڑھتا ھے‬
‫ادھر آوارہ گرد ھوتا جارھا تھا اس لے اس کی نانی نے اسے اسکے ماموں کے پاس بھیج دیا ھے‬

‫)‪.Update no (42‬‬
‫میں اتنا ایکسائڈڈ تھا کہ‬
‫میرے منہ سے اچانک نکل گیا‬
‫اور ماسٹر جی کیسے ہیں‬
‫تو فرحت ایک دم گبھرا گئی اور جلدی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھتے ھو بولی‬
‫کککون‬
‫ممماسسٹرر‬
‫فرحت کی حالت دیکھ کر‬
‫مجھے ایکدم اپنی غلطی کا احساس ھوا‬
‫تو میں نے جلدی سے بات کو سنبھالتے ھوے کہا‬
‫وہ سر صفدر صاحب کا پوچھا تھا کیوں میں نے تو سکول چھوڑ دیا تھا اور قیصر مجھ سے دو کالس پیچھے تھا‬
‫تو آپ قیصر کا پتہ وغیرہ کرنے جاتی رھی ھوں گی اس لیے انکا پوچھ لیا‬
‫تو فرحت نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا‬
‫پتہ نھی مجھے کیا پتہ‬
‫میں تو بس ایک دو دفعہ ھی گئی تھی اس کے بعد قیصر کو بھی ہٹا لیا تھا سکول سے‬
‫میں نے ہممممم کیا اور‬
‫پھر ایک دو سوٹ اور انکو دیکھانے لگ گیا‬
‫ایک سوٹ سرخ کلر کا تھا‬
‫میں نے اس سوٹ کو انکی طرف کیا اور کہا کہ آنٹی آپ یہ سوٹ لے لیں یہ آپ پر بہت اچھا لگے گا‬
‫تو فرحت نے بڑی ادا سے میری طرف دیکھا اور سوٹ کو الٹ پلٹ کر کے دیکھنے لگ گئی‬
‫تو اسکی امی نے کہا‬
‫ُپتر دو ِتن سوٹ شاپر وچ پا دے اسی کار جاکے ویکھ لواں گے جیڑا چنگا لگیا اور رکھ لواں گے باقی توں آن لگے لے آویں‬
‫یا فیر تواڈے کار پھڑا دیاں گے‬
‫میں نے کہا ماں جی کوئی بات نھی‬
‫اگر ادھر بھی پہن کر چیک کرنا ھے تو اس الماری کے پیچھے بھی سٹور ھے ادھر پہن کر بھی چیک کر سکتے ہین‬
‫میں نے الماری کے پیچھے سٹور ھے کو ذرا لمبا کر کے کہتے ہوے فرحت کی طرف‬
‫گہری نظر سے دیکھا‬
‫تو فرحت بھی ایکدم چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫اور جلدی سے بولی‬
‫ننننھی نھی ہم گھر میں ھی پہن چیک کرلیں گے‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی آپ نے اپنے لیے لینا ھے یا کسی اور کے لیے‬
‫تو فرحت بولی میں نے اپنے لیے ھی لینا ھے کیوں ایسا کیوں پوچھ رھے ھو‬
‫تو میں نے کہا آپ کہہ رھی ہیں نہ کہ ہم گھر جاکر پہن کر دیکھ لیں گی‬
‫تو فرحت مسکرا کر بولی میرا مطلب ھے کہ میں گھر جاکر پہن کر چیک کرلوں گی‬
‫میں نے ہممممم کیا اور انکی پسند کے تین چار سوٹ شاپر میں ڈال دیے اور فرحت پرس سے پیسے نکال کر دینے لگی تو‬
‫میں نے کہا‬
‫رہنے دیں پہلے آپ سوٹ پسند کر لیں جونسا پسند ھوا‬
‫میں گھر سے لے لوں گا اور باقی کے سوٹ بھی لیتا آوں گا‬
‫تو فرحت نے ہممم کہا اور‬
‫پھر نقاب کر کے پن لگائی اور‬
‫اٹھنے لگی تو میں نے کہا‬
‫کتنے بجے آوں‬
‫توفرحت بولی چاھے رات کو ھی آجانا یا صبح‬
‫فرحت کی امی دکان سے باہر نکل گئی تھی جبکہ فرحت ابھی تک دکان کی مزید ورائٹی کی طرف‬
‫نظریں گھما رھی تھی‬
‫میں نے پھر کہا آنٹی جی سرخ سوٹ ایک دفعہ پہن کر ضرور دیکھنا آپ پر بہت اچھا لگے گا‬
‫تو فرحت نے میری طرف دیکھا اور بڑی شوخی سے‬
‫بولی اچھا جی‬
‫سرخ بھی پہن لوں گی‬
‫تو میں نے کہا اگر آپکی مرضی ھو تو الماری کے پیچھے بنے ھوے سٹورررر میں بھی پہن کر دیکھ سکتی ہیں‬
‫یہاں کسی قسم کی کوئی ٹینشن نھی ھوگی‬
‫تو فرحت نے مجھے بڑی گہری نظر سے دیکھا‬
‫اور بولی اچھاااا جی امی ساتھ نہ ھوتی تو تمہاری الماری کے پیچھے سٹور کو بھی دیکھ لیتی کہ وہاں کیا اتنی خاص بات‬
‫ھے جو تم بار بار سٹور کا کہہ رھے ھو‬
‫اور یہ کہہ کر فرحت نے کپڑوں کا شاپر پکڑا اور باہر نکل گئی‬
‫میں اسے جاتی ھوئی کو پیچھے سے دیکھنے لگ گیا‬
‫برقعے میں بھی اسکی گانڈ ہلتی نظر آرھی تھی‪ ،،‬۔۔‬
‫فرحت دکان کے تھڑے پر جاکر رکی اور ایکدم پیچھے کو گردن گھما کر دیکھا‬
‫جیسے اسکی گانڈ کو دیکھنے کی میری چوری کو اس نے پکڑ لیا ھو‬
‫اور پھر ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی امی کے ساتھ آگے چلی گئی‬
‫اور میں اہستہ آہستہ چلتا ھوا‬
‫پھر کیش دراز کے پاس گدی پر بیٹھ گیا‬
‫اتنے میں جنید بھی انکل سجاد کو چھوڑ کر آگیا‬
‫میں نے کاپی پکڑی اور اسپر فرحت کے بیٹے کا نام درج کر کے ایڈریس کے ساتھ سوٹوں کی تعداد لکھی اور کاپی کو دراز‬
‫میں رکھ دیا‬
‫جنید نے مجھ سے پوچھا آیا کوئی کسٹمر تو میں نے اسے بتایا کہ ہمارے گاوں کی آنٹی تھی‬
‫وہ پانچ سوٹ گھر دیکھانے کے لیے لے گئی ھے‬
‫تو وہ ہمممم کر کے میرے پاس ھی بیٹھ گیا‬
‫اور مجھ سے پوچھنے لگ گیا کہ شاہد نھی آیا تو میں نے کہا ابھی تک تو نھی آیا کہیں چھٹی کا پروگرام نہ بنا لیا ھو اس‬
‫نے‪ ،‬۔۔‬
‫تو وہ بھی اسکی ُبرائیاں کرنے لگ گیا کہ اسکو کوئی پروا نھی کل اسکو انکل نے بتایا بھی تھا کہ میں نے صبح فیصل آباد‬
‫جانا ھے پھر بجی چھٹی کر کے بیٹھ گیا ھے‬
‫اتنے میں شاہد بھی اگیا اور مجھ سے سالم دعا کے بعد سوری کرنے لگا کہ یار انکل کو نہ بتانا کہ میں لیٹ آیا‪ ،‬تھا میرا بیٹا‬
‫بیمار تھا اسکی دوائی لینے گیا تھا‬
‫میں نے اسکو تسلی دی کہ کوئی بات نھی نھی بتاتا‬
‫پھر ایسے ھی کسٹمر آنا شروع ھوگئے اور ہم سارا دن مصروف ھی رھے‬
‫رات کو کافی لیٹ دکان بند کی کیونکہ انکل نے آنا تھا تو ھی دکان بند کرنی تھی‬
‫رات کو دیر ھونے کی وجہ سے میں بھی فرحت کے گھر نھی گیا دوسرے دن صبح صبح ھی میں انکے گھر چال گیا‬
‫گھر کا مجھے پتہ تھا‬
‫میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو فرحت کی آواز آئی کون ھے‬
‫تو میں نے اپنا بتایا کہ یاسر‬
‫فرحت نے دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا‬
‫میں اندر چال گیا‬
‫فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے مین آگئی اس کمرے میں بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل پڑا تھا‬
‫مجھے اس نے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا‬
‫اور ایک منٹ کا کہہ کر کہ میں آئی اور باہر چلی گئی‬
‫میں بیٹھا‬
‫کمرے کا جائزہ لیتا رھا‬
‫کہ فرحت ہاتھ میں کپڑوں کا شاپر لیے اندر داخل ھوئی‬
‫اور اس نے سرخ سوٹ نکال کر کہا‬
‫یہ مجھے اچھا لگا ھے‬
‫ویسے تمہاری پسند کافی اچھی ھے‬
‫میں نے فخر سے سینہ چوڑا کرتے ھوے کہا‬
‫آنٹی دیکھ لین میں نے کہا تھا نہ کہ سرخ سوٹ آپ پر بہت اچھا لگے گا‬
‫فرحت بولی ھاں ویسے تمہاری پسند کو بھی داد دینی پڑے گی‬
‫میں نے دل میں ھی کہا‬
‫داد کے بدلے پھدی دے دو تو مزہ آجاے تجھے ماسٹر بھی بھول جاے گا‪ ،،‬۔۔‬
‫فرحت بولی یاسر تمہیں کیسے پتہ تھا کہ مجھے سرخ رنگ ھی پسند آے گا اور مجھ پر بہت اچھا لگے گا تم نے یہ اتنے یقین‬
‫سے کیسے کہا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپ کا رنگ بہت سفید ھے‬
‫اور اس سوٹ کی فٹنگ بلکل آپکے جسم کے مطابق تھی اور سرخ رنگ آپ کے گورے رنگ پر چار چاند لگا دے گا‬
‫اس لیے میں نے سرخ رنگ ھی آپکو لینے کے لیے کہا تھا‬
‫فرحت حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫واہ بڑی معلومات ھے تمہیں میرے بارے میں‬
‫میں نے کہا بس جی دیکھ لیں کام کرتے تجربہ تو ھوھی جاتا ھے‬
‫فرحت بولی یاسر ایک بات تو بتاو مگر سچ بتانا‬
‫میں نے کہا جی آنٹی پوچھیں میں کیوں جھوٹ بولوں گا‬
‫فرحت بولی‬
‫تم نے ماسٹر جی کا مجھ سے کیوں پوچھا تھا‬
‫میں نے کہا‬
‫ووووہ میں نے ایسے ھی پوچھ لیا تھا‬
‫فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی یاسر دیکھو مجھے سچ سچ بتاو میں کوئی بچی نھی ھوں‬
‫میں نے دل میں ھی کہا کہ واقعی‬
‫توں ماسٹر کولوں کدوں بچی سی‬
‫ہن میرے کولوں وی نئی‬
‫بچدی‬
‫میں نے کہا میں سچ ھی کہہ رھا ھوں‬
‫فرحت بولی پھر جھوٹ بول رھے ھو‬
‫اور یہ جو تم بار بار الماری کے پیچھے سٹور سٹور لگے تھے‬
‫اور ماسٹر جی کا پوچھ رھے تھے‬
‫اسکے پیچھے جو سچ ھے وہ مجھے بتاو‬
‫مجھے پتہ ھے کہ تم کالس کے مانیٹر تھے اور ماسٹر جی کے بہت الڈلے بھی‬
‫اگر تمہیں ماسٹر جی نے کچھ الٹا سیدھا میرے بارے میں بتایا ھے‬
‫تو پلیززز مجھے سچ سچ بتا دو‬
‫میرا تم سے وعدہ ھے کہ میں تمہیں کچھ نھی کہوں گی‬
‫تمہاری ان باتوں نے مجھے ساری رات نھی سونے دیا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپ کو کوئی غلط فہمی ھوئی ھے‬
‫فرحت بولی یاسررر تم مجھے بیوقوف نھی بنا سکتے جو سچ ھے وہ بتا دو‬
‫میں نے تم سے وعدہ کیا ھے نہ کہ کچھ نھی کہتی۔۔‬
‫میں سوچنے لگ گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا سچ ھی کہا ھے کسی نے‬
‫سالی کی چھٹی حس کتنی تیز ھے‬
‫ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا‬
‫کہ فرحت میرے قریب آکر بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس نے اچانک‪،،،‬‬
‫میرا ھاتھ پکڑا اور میرے ھاتھ پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھتے ھوے بولی‬
‫تم اپنی امی سے کتنا پیار کرتے ھو‬
‫تو میں نے کہا یہ کیسا سوال ھے‬
‫فرحت بولی بتاو نہ کتنا پیار کرتے ھو‬
‫میں نے کہا اپنی جان سے بھی ذیادہ اپنی ماں سے پیار کرتا ھوں‬
‫فرحت بولی‬
‫تمہیں تمہاری ماں کی جان کی قسم مجھے سچ سچ بتاو‪ .‬اگر جھوٹ بولو گے تو اپنی مری ماں کا منہ دیکھو گے‬
‫فرحت کی یہ بات سن کر میرا دماغ چکرا گیا کہ سالی نے کیسا سچ اگلوانے کے لیے میرا ویک پوائنٹ پکڑا ھے‬
‫میں ہاتھ چھڑوا کے ایک دم کھڑا ھوگیا اور کپڑوں کا شاپر پکڑ کر باہر نکلنے لگا تو‬
‫فرحت نے میرا بازو پکڑ لیا اور جلدی سے کمرے کے دروازے کو بند کر کے کنڈی لگا دی‬
‫میں نے کہا مجھے دکان سے دیر ھورھی ھے مجھے جانیں دیں‬
‫فرحت بولی جب تک سچ نھی بتاو گے جانے نھی دوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫آپ کی امی کیا سوچے گی کہ کمرے کا دروازہ کیوں بند ھے تو فرحت بولی‬
‫انکی فکر مت کرو وہ سوئی ھوئی ہیں دوائی کھا کر دس بجے سے پہلے نھی اٹھتی‬
‫مین نے کہا مگر مجھے تو جانے دیں‬
‫فرحت بولی یاسر مجھے یقین ھے کہ تم جھوٹ بول رھے ھو اب تو تمہیں تمہاری امی کی قسم بھی دے دی ھے‬
‫اب بھی جھوٹ بولو گے یا کچھ چھپاو گے تو‬
‫پھر اس کے تم خود ھی ذمہ دار ھوگے‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی سچی مجھے دیر ھورھی ھے‬
‫میں نے انٹی فوزیہ کی بیٹیوں کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے‬
‫وہ میرا انتظار کررھی ہوں گی ابھی مجھے جانے دیں‬
‫میں رات کو آکر سب کچھ سچ سچ بتا دوں گا‬
‫مگر ایک بات بتاتا چلوں کہ تب بتاوں گا جب آپ کی امی پاس نہ ھوں گی‬
‫فرحت بولی قسم کھاو کہ تم رات کو آو گے اور سب کچھ بتاو گے‬
‫میں نے قسم کھا کر فرحت کو یقین دلوایا‬
‫تو فرحت نے مجھے وقت بتایا کہ اس وقت امی سو جاتی ھے میں بیٹھک کے دروازے کی کنڈی کھول دوں گی اور دروازہ‬
‫ویسے ھی بند کردوں گی‬
‫تم دروازے کو ہلکا سا کھولنا اور اندر آجانا‬
‫اور گلی میں دیکھ کر آنا کہ کوئی تمہیں اندر آتے نہ دیکھے‬
‫میں نے فرحت سے وعدہ کیا اور جلدی سے کمرے سے نکل کر صحن میں آگیا اور پھر بیرونی دروازے سے نکل کر اپنے‬
‫گھر کی طرف چل دیا‬

‫)‪.Update no (43‬‬
‫آدھے راستے میں جاکر مجھے یاد آیا کہ میں نے پیسے تو لیے ھی نھی‬
‫پھر یہ سوچ کر واپس نھی گیا کہ‬
‫سالی نے نواں کٹا کھول کہ بے جانا اے‬
‫مجھے پہلے ھی کافی دیر ھوچکی تھی میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا‬
‫فوزیہ کے گھر پہنچ گیا تو فوزیہ نے مجھے شرما کر دیکھا جیسے کل ھی اس نے میرے ساتھ سہاگ رات منائی ھو‬
‫عظمی اور نسرین میرے انتظار میں ھی بیٹھی ھوئی تھی‬
‫مجھے دیکھتے ھی نسرین مجھ پر بھڑک اٹھی‬
‫کہ روزانہ ہمیں سکول سے دیر کروا دیتا ھے نواب زادہ‬
‫میں اسکی باتوں کو نظر انداز کرتا ھوا‬
‫فوزیہ کے پاس کھڑا ھوگیا‬
‫نسرین کی اچانک نظر میرے ھاتھ میں پکڑے شاپر پر پڑی اور بولی یاسر اس میں کیا ھے‬
‫میں پہلے ھی اسکی جلی سڑی باتوں سے غصے میں تھا‬
‫میں بوال‬
‫ُک ش نئی بیجا آرام نال‬
‫تو نسرین بولی بتا دے کیا ھے بھائی نھی میرا‬
‫میں نے کہا سوٹ ہیں فینسی بوتیک کے‬
‫تو وہ جلدی سے آگے بڑھی اور میرے ھاتھ سے شاپر پکڑنے کی کوشش کی تو میں نے جلدی سے شاپر اوپر کر کے‬
‫دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اس نے جمپ مار کر شاپر پکڑنے کی کوشش کی شاپر میرے سر کے بلکل اوپر تھا‬
‫تو اسکے دونوں ممے میرے سینے کے ساتھ لگے‬
‫پہلی دفعہ نسرین کا جسم میرے جسم کے ساتھ ٹچ ھوا تھا‬
‫اسکے مموں کے لمس سے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا‬
‫جبکہ اسکے بارے میں میرے دماغ میں کبھی بھی ایسی ویسی بات نھی آئی تھی اسکا جسم بھی عظمی کی طرح بہت‬
‫سیکسی تھا‬
‫اب تو اسکے ممے بھی چونتیس سائز کے ھوچکے تھے اور جسم بھی بھرا بھرا تھا‬
‫مگر میں نے کبھی اسکو غلط نگاہ سے دیکھا ھی نھی تھا‬
‫کیونکہ وہ میرے ساتھ کبھی اتنا فری نھی ھوئی تھی اور ویسے بھی وہ سڑئیل مزاج کی تھی اس لیے بھی میں اسکو زیادہ منہ‬
‫نھی لگاتا تھا ۔۔۔‬
‫خیر اسکے مموں کے لمس نے مجھے چونکا دیا اور لن ساب نے بھی کہا کہ ماما اے وہ جوان اے‬
‫میں نے جلدی سے شاپر دوسرے ھاتھ میں کر لیا اور شاپر کو مزید اونچا کردیا تو نسرین نے پھر شاپر کو پکڑنے کے لیے‬
‫جمپ لگایا تو اس دفعہ پہلے سے ذیادہ اسکے ممے میرے ساتھ ٹچ ھوے‬
‫عظمی شاید یہ سب دیکھ رھی تھی‬
‫اس لیے وہ غصے سے بولی‬
‫تیری کیوں جان نکل رئی اے پہلے ھی سکول سے اتنی دیر ھوگئی ھے‬
‫چلو چلیں‬
‫اگر اتنا ھی شوق چڑھا ھے تو دکان پر جاکر دیکھ لینا‬
‫نسرین نے ُبرا سا منہ بنایا اور اپنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی کوئی بات نھی دیکھ لوں گی تجھے‬
‫اور میں ہنستہ ھوا‬
‫انکو لے کر صدف کے گھر پہنچا تو اس سے بھی یہ ھی سب کچھ سننے کو مال‬
‫اور ہم چاروں شہر کی طرف چل پڑے‬
‫راستے میں بھی نسرین سب سے آگے منہ بسورے جلدی جلدی تیز قدموں سے چلی جارہی تھی اور اسکی گانڈ بھی اس‬
‫حساب سے‬
‫ون ٹو کرتی جارھی تھی‬
‫صدف میرے آگے تھی اس نے بھی‪ .‬مجھ سے پوچھا کہ دیکھاو کون سے ڈیزائن ہیں میں بھی ویسے سی لوں گی دیکھ کر‬
‫تو میں نے اس کو بھی ٹال دیا کہ پھر کبھی تمہیں دیکھا دوں گا ابھی دیر ھورھی ھے‬
‫ایسے ھی چلتے چلتے ہم سکول پہنچ گئے‬
‫انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں سیدھا دکان پر چال گیا‬
‫اور پھر روز مرہ کی طرح کام میں مصروف رھا‬
‫تین بجے اچانک میرے ذہن میں آیا کہ میں نے تو چار بجے مہری سے ملنے جانا ھے‬
‫خیر‬
‫تین سے چار بجے کا وقت مجھے پتہ ھے کہ میں نے کیسے گزارہ تھا‬
‫بڑی مشکل سے چار بجے‬
‫میں نے انکل سے بہانہ کیا کہ میرے دوست کے والد کی طبعیت بہت خراب ھے تو میں نے انکا پتہ کرنے اسکے گھر جانا‬
‫ھے‬
‫تو انکل نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نھی کی کیوں کے میں نے کبھی فضول چھٹی نھی کی تھی اور نہ ھی دکان سے کبھی ادھر‬
‫ادھر گیا تھا‬
‫یہ پہال موقع تھا کہ میں چھٹی سے پہلے دکان سے جارھا تھا‬
‫خیر میں انکل سے اجازت لے کر جانے لگا تو انکل نے مجھے آواز دی کہ یاسر اگر تمہارے دوست کا گھر دور ھے تو‬
‫جنید تمہیں موٹر سائیکل پر چھوڑ آتا ھے‬
‫تو مجھے انکل کا مشورہ معقول لگا کیوں کہ مجھے جتنی بے چینی تھی مہری کے قرب کی مجھ سے تو اسکے گھر کا‬
‫راستہ بھی جلدی طے نھی ھونا تھا‬
‫میں نے کہا نیکی اوت پوچھ پوچھ‬
‫اور انکل سے کہا اگر جنید کو کوئی کام نھی ھے تو بھیج دیں‬
‫انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کو اسکے دوست کے گھر چھوڑ آو‬
‫جنید نے موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور مجھے پیچھے بٹھا کر مجھ سے راستہ پوچھتے ھوے جانے لگا‬
‫مہری کے گھر سے کچھ ھی دور گلی کی نکڑ پر میں نے جنید کو رکنے کا کہا اور میں موٹرسائیکل سے اتر گیا اور اسکا‬
‫شکریہ ادا کرتے ھوے اسے جانے کا کہا‬
‫جیند نے موٹرسائیکل گھمائی اور واپس چال گیا مجھے جب تسلی ھوگئی کہ جنید چال گیا ھے تو میں‬
‫مہری کے گھر کی طرف چلنے لگ گیا‬
‫گلی سنسان تھی‬
‫اس لیے میں بنا کسی پریشانی کے چلتا ھوا مہری کے گھر کے سامنے پہنچ کر کھڑا ھوگیا‬
‫اور ڈور بیل بجائی‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫اس قاتل حسینہ کی مترنم آواز میرے کانوں کو‬
‫چھوئی‬
‫کون ہے‬
‫تو بے ساختہ میرے دل نے کہا‬
‫ہم خاک نشیں ۔تم ُسخن آرائے سِر بام۔۔‬
‫پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو ہو‪،‬۔‬
‫میں نے کہا جی میں یاسر‬
‫تو دوسری طرف سے کچھ دیر خاموشی رھی اور پھر گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھال‬
‫اور اس دروازے سے وہ حسین چہرہ نکال جیسے بادلوں سے چاند نکلتا ہے‬
‫میرے دل سے پھر آواز آئی‬
‫حسین چہرہ ۔گالبی رنگت۔‬
‫جھیل سی آنکھیں۔‬
‫ہو تم اپنی مثال آپ جاناں‪،‬‬
‫اس جہاں میں تجھ سا حسین دیکھا نھی‪،‬‬
‫مہری نے مجھے اپنے ُح سن کے سحر میں ڈوبا دیکھا تو شرما کر بولی اب ادھر ھی کھڑے رھو گے کی اٹھا کر اندر الوں‬
‫اور یہ کہہ کر وہ ایک سائڈ پر ھوگئی‬
‫اور میں اس کے خیالوں سے باہر آیا اور جلدی سے اندر چال گیا‪،‬‬
‫مہری بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو ویری ُگ ڈ‪،‬‬
‫اور یہ کہتے ھوے اس نے دروازہ الک کر دیا‬
‫مہری نے الئٹ گرین الن کا سمپل سا مگر قیمتی سوٹ پہنا ھوا تھا‬
‫اور اسکے جسم پر سوٹ بھی انمول ھوگیا تھا‬
‫کمال کی حسین لگ رھی تھی شارٹ شرٹ چونٹوں والی بیلٹ والی شلوار‬
‫جو اسکی قمیض کی سائد سے نظر آرھیں تھی‬
‫وہ کسی ُگ ڑیا سے کم نھی لگ رھی تھی‬
‫میں نے اسکو سر سے پاوں تک دیکھا اور ساتھ ھی میرے منہ سے نکال‬
‫ما*****تو مہری نے شرما کر سر نیچے کرلیا اور مجھے دھکا دیتے ھوے کہنے لگی چلو اندر کہ یہاں کھڑے کھڑے مجھے‬
‫ھی گھورتے رہنا ھے‬
‫میں نے ادھر کھڑے ھی اسکو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کردیا‬
‫اور غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا‬
‫مہری نے میری آنکھوں آنکھیں ڈال کر اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو بےساخطہ میرے لب ہلے‬
‫چہرے پہ مرےُز لف کو پھیالؤ ناں‬
‫کیا روز گرجتے ہو‪ ،‬آج جی بھر کہ برس جاؤ ناں‬
‫رازوں کی طرح ُاترو مرے دل میں آج‬
‫دستک پہ مرے ہاتھ کی ُک ھل جاؤ ناں‬
‫مہری نے شرما کر مجھ سے اپنا آپ ُچ ھڑوایا اور اندر کمرے کی طرف بھاگ گئی‬
‫میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکے کمرے میں آگیا‬
‫اسکا کمرہ بھی اسکی طرح خوبصورت تھا‬
‫یا شاید اس کے حسن نے کمرے کو اور حسین بنا دیا تھا‬
‫)‪.Update no (44‬‬

‫مہری کمرے میں جا کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور منہ کے اگے دونوں ہاتھ رکھ لیے‬
‫میں جاکر اسکے قدموں میں پاوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے حسین نرم ھاتھوں پر رکھے‬
‫اور اسکے ھاتھوں کو چاند سے ہٹانے لگا‬
‫جیسے ھی اسکے ھاتھ اسکے چہرے سے ہٹے تو میں نے دیکھا کہ چودہویں کا چاند تو شرم سے ھی سرخ ھورھا ھے‬
‫مہری نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی‬
‫میں نے کہا مہری‬
‫مہری نے ایسے آنکھیں کھولی جیسے گڑیا بےبی ڈول آنکھیں کھول کر پھر بند کرلیتی ھے‬
‫مگر میری بے بی ڈول نے آنکھیں کھولی تھی مگر بند نھی کی تھی‬
‫اور مجھے پھر اشارے سے پوچھا کیا ھے اور ہنسنے لگ گئی‬
‫میں نے کہا مہری مجھ سے شرما کیوں رھی ھو‬
‫مہری بولی‬
‫تم پلیز مجھے اسطرح نہ دیکھو مجھے شرم آرھی ھے‬
‫میں اٹھ کر اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسکی‬
‫ٹھوڑی کیا ریشم کا زرہ تھا‬
‫جس پر میری انگلیاں رکھتے ھی نشان پڑ گئے‬
‫میں نے اس حسین چہرے کو اپنی طرف گھماتے ھوے کہا‬
‫مہری تم واقعی ھی بہت خوبصورت ھو مجھے یقین نھی ھورھا کہ تم جیسی حسین پری میری دوست بن سکتی ھے اور‬
‫مجھے اس کا قرب حاصل ھوسکتا ھے‬
‫مہری بولی‬
‫اچھا جی خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں ھو‬
‫میں نے کہا‬
‫جس خوش نصیب کے سامنے یہ گالب کا پھول ھو تو وہ اس کی خوشبو سے مدہوش نہ ھو تو لعنت ھے اس وصال یار پر‬
‫مہری تھوڑا سے پیچھے کھسکتی ھوئی بولی مجھے تمہاری طبعیت اور نیت کچھ سہی نھی لگ رھی‬
‫میں نے کہا طبعیت تو بلکل سہی ھے مگر‬
‫یہ حسن یہ دیدار صنم دیکھ کر نیت کی کیا گارنٹی کہ وہ خراب نہ ھو‬
‫مہری جلدی سے اٹھی اور مجھ سے کہنے لگی اچھا مجنوں جی‬
‫پہلے کچھ کھا پی لو‬
‫پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‬
‫میں نے کہا‬
‫اگر پالنا ھی ھے تو پھر سن شربتی گالبی پنکھڑیوں کا رس پال دو‬
‫جسے پی کر ہم بھی امر ھو جائیں‬
‫مہری بولی‬
‫تمہارا گال دبا دینا ھے‬
‫میں نے کہا‬
‫دیر کس بات کی میری خوش نصیبی ھوگی‬
‫جو در یار پر میری جاں نکلے‬
‫تو فری اففففففف کرتی ھوئی اپنے ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے باہر نکل گئی میں اسے جاتا ھوا اسکی مٹکتی ھوئی گول گانڈ‬
‫کو دیکھتا رھا‬
‫مہری کے جانے کہ بعد میں اسکے حسن میں کھویا اسکے تصور میں‬
‫ہاتھ پیچھے بیڈ پر رکھے ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکاے‬
‫آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا‬
‫کہ اچانک میرے منہ پر پانی کے چھینٹے پڑے اور میں نے ایکدم آنکھیں کھولی تو‬
‫وہ حسینہ جس کو آنکھیں بند کئے دیکھ رھا تھا‬
‫آنکھیں ُک ھلتے ھی میرے سامنے ھاتھ میں ٹرے پکڑے جس میں دو مشروب کےگالس تھے‬
‫مجھے دیکھے مسکرا رھی تھی‬
‫پھر اسکے لب ہلے اور بولی جناب سونے آے ہیں ادھر‬
‫میں نے کہا‬
‫نیند اب کہاں رھی‬
‫آنکھیں بند بھی کروں تو صرف تیرا ھی چہرہ سامنے آتا ھے‬
‫مہری بولی اچھا جی جناب شاعر بھی ہیں مجھے تو آج پتہ چال‬
‫میں نے کہا‬
‫تیرے ُح سن نے شاعر بنا دیا ورنہ شاعری ہمارے بس کا کام نہ تھی‬
‫مہری نے ایک گالس مجھے پکڑایا اور ایک گالس خود پکڑ کر ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھ دی اور مشروب کی چسکی لیتی‬
‫ھوئی میرے پاس بیٹھ گئی‬
‫میں نے بھی مشروب کا ایک گھونٹ بھرا اور‬
‫منہ بسور کر کہا کہ‬
‫یار یہ تو پھیکا ھے‬
‫مہری ایکدم گبھرائی اور بولی پھیکا کیسے ھو سکتا ھے میں بھی یہ ھی پی رھی تھی‬
‫میں نے گالس اسکی طرف کرتے ھوے کہا یہ پی کر دیکھو‬
‫مہری نے ایک گھونٹ بھرا اور نگلتے ھوے بولی‬
‫جھوٹے اتنا تو میٹھا ھے‬
‫تو میں نے پھر گھونٹ بھرا اور‬
‫گھونٹ بھرتے اوپر منہ کر کے آہہہہہہہہہہ کیا اور مہری کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اب میٹھا ھوگیا ھے‬
‫مہری نے میرے پیٹ میں کہنی ماری اور بولی‬
‫چل شوخا بتمیز‬
‫میں نے کہا تمہاری لباب نے اسے میٹھا کیا ھے پہلے تو یہ پھیکا ھی تھا‬
‫میں نے دو تین لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور گالس خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا‬
‫کچھ دیر میں مہری نے بھی گالس خالی کر کے ٹرے میں رکھ دیا‬
‫میں نے مہری سے پوچھا کہ اسد کب گیا ھے مہری بولی وہ تو اوپر ھے کمرے میں‬
‫میں جمپ مار کے کھڑا‬
‫ہوگیا اور گبھراے ھوے انداز میں بوال‬
‫او ِش ٹ یار پہلے کیوں نھی بتایا‬
‫مہری بولی اب بتا دیا ھے‬
‫کیوں کیا ھوا اتنے پریشان کیوں ھوگئے ھو‬
‫میں جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا اور مہری کو کہا‬
‫میں جارھا ھوں‬
‫مہری جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر مجھے بازو سے پکڑ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫ڈرپوک‬
‫میں مزاق کررھی تھی‬
‫تم سچی میں بڑے ڈرپوک ھو نکل گئی نہ ایک منٹ میں ساری شاعری‬
‫دوستو اسد کا سن کر واقعی میری ہوا نکل گئی تھی‬
‫میں نے مصنوعی غصہ دیکھاتے ھوے مہری کی طرف دیکھ کر کہا جاو میں نھی بولتا تمہارے ساتھ‬
‫اور اس سے بازو ُچ ھڑوا کر باہر جانے لگا تو مہری نے مجھے پیچھے سے جپھی ڈال لی اور بولی‬
‫دل توڑ کہ نہ جا منہ موڑ کے نہ جا‬
‫ایسے گانا ُگ ن گناتے ھوے میرے ساتھ جھولنے لگ گئی‬
‫مہری کے نرم نرم ممے جیسے ھی میری کمر کے ساتھ لگے‬
‫تو میرے اندر پھر ہوس پیدا ھو گئی‬
‫اور میں نے مہری کے ہاتھ پکڑ لیے جو اس نے میرے پیٹ پر باندھے ھوے تھے‬
‫میں نے آہستہ سے اسکے ہاتھ کھولے اور گھوم کر اسکی طرف منہ کرلیا اور اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر‬
‫اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا‬
‫میں ڈرتا نھی ھوں‬
‫میں نے نے جیسے ھی مہری کے ہونٹ چومنے کے لیے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھاے تھے‬
‫مہری نے میرے ہونٹوں کو اتنا قریب آتے دیکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی اور اسکے ہونٹ کانپنے لگ پڑے تھے‬
‫میں نے پھر اس کے نرم گالبی ہونٹوں کو چوما اور‬
‫مہری کو ویسے ھی گالوں سے پکڑے اسکو پیچھے دھکیلتے ھوے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا‬
‫مہری بھی میرے ہر قدم کے ساتھ پیچھے ھوتی جارھی تھی‬
‫کہ بیڈ کے ساتھ اسکی ٹانگیں لگ گئی اور میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے اسے پیچھے بیڈ پر لیٹا دیا اور خود اسکے‬
‫اوپر لیٹ گیا ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھی میرا لن مہری کی پھدی کے بلکل اوپر‬
‫اسکی پھدی کو دبا رھا تھا‬
‫میں اب مسلسل اسکے ہونٹوں کو چومی جارھا تھا اور مہری نے ابھی تک آنکھیں بند ھی کی ھوئی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھی رکھے‬
‫پھر اسکی دونوں ٹانگوں کے نیچے ھاتھ لیجا کر اسکی ٹانگوں کو بیڈ کے اوپر کی اور سرھانے والے سائڈ پر اسکا سر‬
‫کرکے‬
‫مہری کو بلکل سیدھا بیڈ پر لٹا کر اسکی دائیں طرف اسکے اوپر جھک گیا‬
‫مہری نے ایک دفعہ اپنی آنکھیں کھولی تو مجھے اسکی آنکھوں میں سرخی نظر آئی اور اس نے پھر جلدی سے ایسے‬
‫آنکھیں بند کر لی جیسے‬
‫کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ھے‬
‫میں اسکے اوپر جھکا مہری کے چہرے کو غور سے دیکھ رھا تھا اور ھاتھ کی ایک انگلی کو اسکے چہرے پر پھیر رھا‬
‫تھا مہری کا ایک مما میرے سینے کے ساتھ لگا تھا‬
‫جس سے اسکے سینے کی تیز دھڑکن کا پتہ چل رھا تھا‬
‫مہری کی کنپٹی سے انگلی کو پھیرتے ھوے اسکے ماتھے سے گزار کر اسکی نرم روئی جیسی سوفٹ گال پر پھیرتا ھوا‬
‫ٹھوڑی سے لے کر اسکے دوسرے گال تک لیجا کر اسکی بند آنکھوں کی پلکوں کو ٹچ کرتا ھوا اسکی چھوٹی سی تیکھی‬
‫ناک پر پھیرتے ھوے اسکے نرم گالبی ہونٹوں پر انگلی کو پھیرتا تو مہری کا جسم کانپ جاتا اسکے ہونٹ تھرتھرانے لگ‬
‫جاتے اسکی پلکیں کپکپانے لگ جاتی‬
‫اسکے ممے تیز سانسوں کی وجہ سے میرے سینے کو ٹچ ھوکر واپس اپنی جگہ پر چلے جاتے‬
‫میں اسکی یہ حالت دیکھ کر کافی محفوظ ھورھا تھا‬
‫وہ کسی بے جان مورت کی طرح پڑی تھی‬
‫نہ مجھ سے بات کررھی تھی نہ مجھے روک رھی تھی‬
‫بس میری انگلی کے جادو سے تھر تھرا رھی تھی‬
‫اسکے بالوں کی ایک لٹ پنکھے کی ہوا سے اسکے چاند سے چہرے پر داغ لگانے بار بار اڑ کر آجاتی تھی جسے میں‬
‫انگلی سے ھی ہٹا کر اسکے کان کی لو کے پیچھے کرتا‬
‫اور غور سے اپنے مجازی محبوب کے حسن میں ڈوبا اس چاند سے چہرے کو دیکھ کر سوچ رھا تھا کہ‬
‫یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب ہے۔اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ ‪ ،‬اور اب ‪ ،‬خال اور‬
‫قد غرض سراپائے جسم کی تعریف و توصیف بیان کروں تو کیسے کروں‬
‫اور اسکی بالوں کی جو لٹ بار بار اڑ کر اس چاند پر گرتی تھی‬
‫اسکو سنبل ‪ ،‬سانپ ‪ ،‬ناگن ‪ ،‬زنجیر ‪ ،‬سائباں ‪ ،‬بادل ‪ ،‬رات کا اندھیرا اور ساون کی گھٹا جیسے استعاروں سے تشبیہ دوں یا‬
‫کیا نام دوں‬
‫یا پھر یہ کہہ دوں کہ‬
‫زلف جاں سے ملی فکر و نظر کی چاندنی۔۔‬
‫زلفوں کے پیچ و خم میں یہ عارض کی دھوپ چھاؤں۔۔‬
‫کس نے کھوال ہے ہوا میں گیسوؤں کو ناز سے۔۔‬
‫اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے‬
‫بے ساخطہ میرے لب ہلے اور میں نے کہا‬
‫رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔۔‬
‫موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔۔‬
‫مہری نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور غور سے میری آنکھوں میں جھانکنے لگ گئی‬
‫مہری کی آنکھوں میں نشہ تھا سرور تھا سرخی تھی‬
‫اک عجیب سے کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچے جارھی تھی اور میں اسکی‪ .‬جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبتا جارھا‬
‫تھا‬
‫اور ڈوبتے ڈوبتے میرے پھر لرزتے ہونٹ ہلے‬
‫اور میں مہری کی آنکھوں میں کھویا‬
‫بول پڑا‬

‫)‪Update no (45‬‬
‫میں مہری کی آنکھوں میں کھویا‬
‫بول پڑا‬
‫‪-----------------------‬‬
‫تمہاری کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر سب۔۔‬
‫چاقو واقو‪ ،‬چھریاں ُو ریاں‪ ،‬خنجر ونجر سب‬
‫‪-----------------------‬‬
‫پھر میں بوال‬
‫دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں‬
‫پارسائی خراب ہو جائے‬
‫‪--------------------------‬‬
‫یہیں پر بس نھی ھوئی‬
‫تو پھر کہا‬
‫مہری تمہاری آنکھیں بتاؤں کیسی ھیں؟‬
‫جھیل سیف الملوک جیسی ہیں‬
‫‪---------------------------‬‬
‫مہری اور بتاوں‬
‫گالب آنکھیں شراب آنکھیں‪,‬‬
‫یہی تو ہیں الجواب آنکھیں‬
‫انہیں میں الفت انہیں میں نفرت‬
‫سوال آنکھیں عذاب آنکھیں‬
‫کبھی نظر میں بال کی شوخی‬
‫کبھی سراپا حجاب آنکھیں‬
‫کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے‬
‫کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں‬
‫کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی‬
‫کسی نے پائی شراب آنکھیں‬
‫وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے‬
‫حضور آنکھیں جناب آنکھیں‬
‫عجب تھا یہ گفتگو کا عالم‬
‫سوال کوئی جواب آنکھیں‬
‫یہ مست مست بے مثال آنکھیں‬
‫نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں‬
‫اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں‬
‫گریں تو کر دیں کمال آنکھیں‬
‫کوئی ہے انکے کراہ کا طالب‬
‫کسی کا شوق وصال آنکھیں‬
‫نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں‬
‫کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں‬
‫ہیں جینے کا اک بہانہ یارو‬
‫یہ روح پرور جمال آنکھیں‬
‫دّر از پلکیں وصال آنکھیں‬
‫مصوری کا کمال آنکھیں‬
‫شراب رب نے حرام کر دی‬
‫مگر کیوں رکھی حالل آنکھیں‬
‫ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں‬
‫خدا کی بندی سنبھال آنکھیں‪.‬‬
‫مہری میرے سحر میں جکڑ چکی تھی مجھے یوں اپنے اوپر نچھاور دیکھ کر‬
‫مسکرا کر کچھ بولنے گی لگی تھی کہ‬
‫میں نے مہری کے گالبی ہونٹوں کو چوما اور کہا‬
‫شییییی‬
‫آج کچھ نہ بولو بس مجھے جی بھر کے دیکھنے دو‬
‫اور جی بھر کے کہنے دو‬
‫اور مہری کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا‬
‫نازکی تمہارے کے لب کی کیا کہنے‬
‫پنکھڑی اک گالب کی سی ہے‬
‫مہری اکھڑے ھوے سانس لیتے ھوے بولی آج میری جان لینی ھے‬
‫اتنا ظلم مت کرو مجھ پر کہ دور رہنا مشکل ھوجاے‬
‫میں نے کہا کون کمبخت دور رہنا چاہتا ھے میری تو آرزو بھی یہ ھے کہ میری جاں بھی تیری قربت میں نکلے‬
‫مہری نے دونوں بازو کھولے اور مجھے کس کر جپھی ڈال لی‬
‫اور میرے ہونٹوں کو بے دردی سے چوسنے لگ گئی‬
‫میں نے بھی اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑنا چاھا‬
‫مگر مہری مجھ پر سبقت برقرار رکھے ھوے تھی‬
‫کچھ دیر دیوانہ وار کسنگ کر کے مہری نے لمبی آہہہہہہہ بھری اور زور سے سر پیچھے میٹرس پر رکھے تکیہ پر مارا‬
‫میں تھوڑا سا جھکا اور اسکے پیٹ کے پاس منہ کیا اور اسکی شرٹ کے پلو کو اپنے دانتوں میں جکڑا اور دانتوں جکڑے‬
‫ھوے پلو کو لے کے مہری کے سینے سے ھوتا ھوا اسکے منہ پر آکر پلو کو چھوڑ دیا اور پھر ادھر سے ھی واپس اسکے‬
‫ننگے نرم نازک چٹے سفید دودیا مانند پیٹ پر آگیا اور اسکی ناف کے سوراخ پر ایک کس کی‬
‫تو مہری کا پیٹ وائبریٹ ھونے لگ گیا‬
‫مہری نے دونوں ھاتھوں میں سرھانے کے ُن کریں پکڑ کر بھینچتے ھو سر کو دائیں بائیں کرتے ھو سسسسکاریاں لینی شروع‬
‫کردی‬
‫میں پیٹ کو چومتا ھو مہری کے مموں کے قریب تر ھوتا گیا یہاں تک کے اسکی شرٹ جو مموں پر تھی وہ میرے ناک کو‬
‫چھونے لگی‬
‫میں نے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے کیے اور اسکو تھوڑا سا اوپر ھونے کا اشارہ کیا تو مہری اوپر ھوگئی‬
‫میں نے اسکی شرٹ کمر سے اوپر اسکے بریزیر تک کردی‬
‫اور ساتھ ھی اسکے مموں کے اوپر سے شرٹ کو دانتوں میں لے کر اسکے ممے شرٹ سے آزاد کردیے‬
‫میری جسے ھی مہری کے مموں پر نظر پڑی اففففففففف‬
‫کیا بتاوں دوست‬
‫ممے تھے کہ کیا قیامت تھے‬
‫شاید کوئی انگریزوں کی کسی گوری میم کے بھی ایسے ممے نہ ھوں جیسے اس قیامت کی پڑیا کے تھے‬
‫ظلم پر ظلم کہ بریزیر بھی سرخ رنگ کا پہنا ھوا تھا‬
‫بندے کی جان نہ نکلے تو کیا ھو‬
‫میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا اگر کھانے والی چیز ھوتی تو اب تک ڈکار مار چکا ھوتا‬
‫مگر یہ تو کھیلنے والی پیار کرنے والے سنبھال کر رکھنے والے چیز تھی‬
‫میں نےمموں کے درمیان چومنا شروع کردیا‬
‫کچھ دیر بعد ایسے ھی چومتے ھوے مہری کی برا کو مموں سے الگ کردیا‬
‫اففففففف میرے خدایا کیا آج میرا آخری دن ھے‬
‫کیا بچے کی جان لے گی‬
‫ممے افففففف‬
‫کیا لکھوں کیا کہوں نہ میرے پاس الفاظ ہیں نہ اور کچھ‬
‫بس اسکے سفید مموں کے اوپر بنے پنک گول دائرے اور اکڑے ھوے پنک‪ .‬نپل پر میں بے دردی سے ٹوٹ پڑا اور پورے‬
‫ممے کو ایک ھی نوالے میں نگھلنے کی کوشش کرنے لگا‬
‫تبھی مہری نے زور سے سیییییی کیا‬
‫اور بولی افففففففف نھیییی‬
‫یاسسررررر‬
‫پلیززززز آہستہ‬
‫کاٹو تو نہ‬
‫تو مجھے اپنے جانور بننے کا احساس ھوا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ممے پر دباو کم کر دیا اور آرام آرام سے ممے کو چوسنے لگ گیا مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میں‬
‫نے منہ میں روئی ڈالی ھوئی ھے‬
‫یا جیسے لچھا ھوتا ھے بلکل نرم اور سوفٹ‬
‫خیر کچھ دیر ایسے ھی میں دونوں مموں کو باری باری چومتا رھا‬
‫پھر میں نے ایک ھاتھ مہری کی شلوار میں ڈال دیا اور جیسے ھی میری انگلیاں اسکی مالئم نرم نازک بالوں سے پاک پھدی‬
‫پر لگی‬
‫تو مہری ایکدم اوپر کو اچھلی اور زور سے ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا جس سے میری انگلیاں اس کی پھدی کے ساتھ‬
‫چپک گئی او ر مہری نے میرے سر کے بالوں کو زور سے پکڑ لیا اور ایکدم مہری کے منہ سے‬
‫نکال‬
‫ھاےےےےےےےےےےےے ممممممممممممممم افففففففففف سیییییییییج‬
‫اور ساتھ ھی میری انگلیوں پر گرم گرم الوا پڑتا محسوس ھوا اور مہری کا جسم ذور ذور سے جھٹکے کھانے لگ گیا‬
‫مہری کا جسم ایسے ھوگیا جیسے برف میں لگ گئی ھے‬
‫مہری نے ساتھ ھی کروٹ لی جس سے میرا ھاتھ اسکے نرم مالئم چڈوں سے نکل گیا اور مہری نے اپنے گوڈے اپنے پیٹ‬
‫کے ساتھ لگاے اور منہ دوسری طرف کر کے لمبے لمبے سانس لیتی ھوئی لیٹ گئی اور میں حیران پریشان اسکی ننگی گانڈ‬
‫کو دیکھنے لگا گیا ۔۔۔‬
‫مہری کی گانڈ آدھی ننگی تھی اور پیچھے سے اسکی قمیض بھی اوپر کندھوں تک تھی جس سے اسکی چٹی سفید کمر اور‬
‫گانڈ نظر آرھی تھی‬
‫مہری تو فارغ ھو کر کروٹ لیے اکھٹی ُسنگڑ کر لیٹی تھی‬
‫مگر میرے دماغ اور لن کی گرمی ابھی ویسے ھی باقی تھی‬
‫مہری کا ننگا گورا جسم دیکھ کر میرا مذید دماغ خراب ھونے لگ گیا‬
‫میں نے مہری کی کمر پر ھاتھ پھیرنا شروع کیا تو مہری نے میرا ھاتھ پکڑ کر جھٹک دیا‬
‫میں کہاں باز آنے واال تھا‬
‫ننگے کنوارے گورے بدن تو پہلے بھی دیکھ چکا تھا‬
‫مگر مہری کا جسم اور اسکی رنگت اور بناوٹ ان سب سے انمول تھی جس کی جتنی تعریف کی جاے کم تھی‬
‫میں مہری کے پیچھے اسکی طرف منہ کر کے ٹیڑھا ھوا اور اسکو پکڑ کر الٹا کردیا‬
‫مہری نے کوشش کی کہ سیدھی ھو جاے مگر میں وقت ضائع کئے بغیر ھی اسکے اوپر الٹا لیٹ گیا‬
‫مہری میں نیچے دبی ھوئی مجھے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی‬
‫مگر میں مرد تھا اور وہ ایک کھلتا گالب جسکو پہلی دفعہ کسی مرد نے چھوا تھا‬
‫اور اسے پہلی دفعہ مرد کے جسم کا لمس محسوس ھوا تھا‬
‫میں نے ہاتھ نیچے کیا اور اپنی قمیض اپنے پیٹ سے اوپر کر کے اپنے سینے کو بھی ننگا کر دیا اور مہری کی پیچھے سے‬
‫قمیض کو پکڑ کر مزید اوپر کرکے اسکی کمر کے اوپر اپنا ننگا جسم رکھ دیا اور پیچھے سے اپنے پیروں کی انگلیوں کو‬
‫مہری کے نرم پیروں کے پیچھے رکھ کر لن اسکی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا اور اسکے ریشم جیسے بالوں کو اسکی‬
‫گردن سے ہٹا کر ایک طرف کر کے اسکی ننگی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے‬
‫مہری کا سارا جسم ھی ایک جیسا نرم نازک تھا‬
‫اس کے جس عضاء کو میں چھوتا مجھے اسکا جسم اک نئی لذت سے آشنا کروا دیتا‬
‫میرے ہونٹوں نے جیسے ھی مہری کی گردن کو چھوا مہری کی مزاحمت وہاں ھی دم توڑ گئی‬
‫اور اس نے سیییییییییییی کیا اور اپنا منہ سرھانے میں دبا لیا‬
‫میں نے اسکی گردن کو چومنا شروع کردیا‬
‫اور ساتھ ھی زبان نکالی اور مہری کی گردن پر پھیرتے ھوے اسکے کان کے قریب لے جاتا اور مہری سسکیاں بھرتے‬
‫ھوے خود کو سمیٹنے کی کوشش کرتی اور اپنی گانڈ جے دراڑ میں پھنسے ھوے لن کو بھینچ لیتی‬
‫اور کہتی یاسرررررر پلیزززززز نہ کرو‬
‫میں ایسے ھی کچھ دیر اسکی گردن کو چومتا اور گردن کے دونوں اطراف زبان پھیرتا رھا‬
‫اور مہری میری قربت میں سسکتی رھی‬
‫میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور میرا لن مہری کے چتڑوں سے نکل کر اسکے چڈوں میں آگیا اور میرے ہونٹ مہری‬
‫کی مالئم کمر کو چومنے لگ گئے‬
‫میں کمر کے ایک ایک حصہ کو چومتا ھوا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرھا تھا‬
‫مہری میرے نیچے کانپ رھی تھی‬
‫میرے ہونٹوں کا لمس اس سے برداشت کرنا مشکل ہورھا تھا‬
‫کچھ دیر تک میں اسکی گانڈ کے بلکل قریب آچکا تھا‬
‫میں نے زبان نکالی اور گانڈ کے اوپر جہاں سے ریڑھ کی ہڈی شروع ھوتی ھے وہاں پر رکھ دی اور مہری کے ریڑھ کی‬
‫ہڈی کو زبان لمبی کر کے چاٹنے لگا‬
‫مہری سے برداشت نہ ھوا مہری ایکدم پورے زور سے جھٹکا مار کے سیدھی ھوگئی‬
‫اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫ُت‬
‫مجھ پر ترس کھا یاسر کیوں مجھے مارنے پر لے ھوے ھو‬
‫میں نے کہا مہری تم چیز ھی ایسی ھو‬
‫تمہارا جسم ھی اتنے کمال کا ھے کہ میرا بس چلے تو اس جسم کو اپنے جسم میں سما لوں‬
‫تمہارے اس جسم کو اتنا پیار کروں کہ میری ساری عمر گزر جاے اور میری جان نکل جاے‬
‫تو مہری نے جلدی سے اپنا ھاتھ میرے منہ پر رکھ دیا اور بولی‬
‫*****‬
‫نہ کرے کیسی باتیں کر رھے ھو یاسر خبردار اگر دوبارا ایسی بات کی‬
‫تو میں نے اسکا ہاتھ پیار سے پکڑا اور ہاتھ کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور‬
‫ساتھ ھی اسکے اوپر جھک کر اسکے گالبی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا‬
‫مہری بھی میرا برابر ساتھ دے رھی تھی‬
‫میری گردن پر اپنا نرم نازک ھاتھ رکھ کر انگلیوں کو میرے بالوں میں پھیر رھی تھی‬
‫۔جس سے مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا کچھ دیر ایسے ھی ہم کسنگ کرتے رھے‬
‫میں نے مہری کے ہونٹوں کو چھوڑا‬
‫اور نیچے کی طرف سرکتا ھوا اسکے ننگے مموں پر آگیا اور باری باری دونوں مموں کو چومتا ھوا‬
‫نیچے اسکے پیٹ کی طرف آیا اور اسکے روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے مالئم پیٹ پر زبان پھیرتے ھوے میری کی ناف‬
‫کے نیچے تک آگیا‬
‫مہری بلکل مدہوش ھو کر‬
‫ہممممم اففففففف مممممم سسسسییییی کر رھی تھی تھی اور میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنساے ھوے کبھی بالوں کو مٹھی‬
‫میں بھرتی تو کبھی میرے سر میں مساج کرنے کے انداز میں پھیرنے لگ جاتی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی میں کبھی ناف کو چومتا چاٹتا تو کبھی ناف کے اوپر تک چال جاتا‬
‫مہرے کے پیٹ کا کوئی حصہ ایسا نہ بچا ہوگا جو میں نے نھی چوما چاٹا جسکا ثبوت اسکے سارے پیٹ کا میری تھوک سے‬
‫گیال ھونا تھا‬
‫میں پھر اٹھا اور میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال اور لن باہر نکاال اور مہری کی شلوار جو پہلے ھی کافی اتری ھوئی تھی‬
‫اسے پکڑ کر مزید نیچے کرتے ھوے‬
‫اتار دیا‬
‫مہری کی انکھیں بند تھی اس نے ابھی تک میرے لن کو نھی دیکھا تھا‬
‫ورنہ ابھی الت مار کر مجھے بیڈ سے نیچے پھینک دیتی‬
‫خیر‬
‫میں نےمہری کی شلوار بھی اتار دی‬
‫میں مہری کی دونوں ٹانگوں کے بیچھ‬
‫ُگ ھٹنوں کے بل بیٹھا ھوا تھا‬
‫میرے سامنے مہری کی بالوں سے پاک نرم پھدی‪ .‬تھی‬
‫جس کے ہونٹ بھی پنک تھے اور پھدی کی رنگت اتنی سفید تھی کہ میں نے پہلے کبھی ایسی پھدی خواب میں بھی نھی‬
‫دیکھی تھی‬
‫میں نے منہ پھدی کے قریب کر کے پھدی کو سونگھا تو پھدی سے منی کی دھیمی دھیمی خوشبو میرے ناک کو چھوتی‬
‫ھوئی میرے دماغ میں چلی گئی اور میں اس خوشبو میں مذید مدھوش ھوتا چال گیا‬
‫میں نے زبان باہر نکالی اور پھدی کے ہونٹوں کے درمیان گھسا کر پھدی کے ہونٹوں کو کھوال اور پھدی کی ہڈی پر زبان‬
‫کی نوک سے دباو ڈال دیا‬
‫مہری پھدی کو سک کرنے سے پہلے کی میری ساری کاروائی سے بے خبر تھی‬
‫جیسے ھی پھدی پر میری زبان لگی‬
‫مہری نے چیخ ماری اور بیڈ سے دوفٹ اچھل کر میرے سر کو پکڑ کر مجھے پیچھے دھکا دے دیا اور ساتھ ھی ٹانگو کو‬
‫سکیڑ کر پیچھے ہٹ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی‬
‫اور آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتے ھوے بولی‬
‫وٹ اس دس یاسر‬
‫تم اتنا گر سکتے ھو‬
‫آئی شیم یو‬
‫میں نے کہا مہری مجھے تمہارے جسم نے پاگل کر دیا ھے‬
‫پلیز مجھے نہ ترساو بس ایک بار پیار کرنے دو پلیززززززز‬
‫مہری نے زور زور سے انکار میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫پلیزززز ڈونٹ ٹچ می‬
‫یاسرررررر‬
‫یہ کیسا پیار ھے‬
‫کیا تم اسکو پیار کہتے ھو‬
‫کس جاہل نے اس گندی حرکت کو پیار کا نام دیا‬
‫یہ پیار نھی ہوس ھے‬
‫اگر تمہیں مجھ سے پیار نھی بس ہوس پوری کرنی ھے‬
‫تو لو یاسر‬
‫ہوس کے پجاری بنو اور اپنی ہوس کو پوری کرلو‬
‫اور ساتھ ھی مہری ٹانگیں چوڑی کر کے پھدی کو میرے سامنے کر کے لیٹ گئی‬
‫اور بولی‬
‫یاسر میں تمہیں نھی روکوں گی میرا جسم بھی تمہاری ملکیت ھے اور میری روح بھی‬
‫تم پہلے مرد ھو جس نے مجھے ٹچ کیا ھے اور میرے اتنے قریب آے ھو‬
‫تمہارا جو دل کرے میرے ساتھ کرتے رہنا‬
‫مگر اس کے بعد میرے اور تمہارے درمیان پیار نام کا شبت نھی رھے گا‬
‫اگر رھے گی تو بس‬
‫ہوسسسسسسس‪ ،،،،،،‬۔۔۔۔۔‬
‫مہری نے ٹانگیں میرے کندھوں پر رکھ دیں‬
‫اور بولی‬
‫کم ان لیٹس گو‬
‫میں اسکی باتیں سن کر ہکا بکا آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں لن اسکی پھدی کے پاس کر کے بیٹھا اسے دیکھی جارھا‬
‫تھا‬
‫مہری نے ٹانگوں سے میرے کندھے کو ہالیا‬
‫اور مجھے دوبارا ہوش آئی تو میں نے مہری کی ٹانگوں کو کندھوں سے ذور سے ہٹا کر نیچے کیا اور جلدی سے کھڑا‬
‫ھوگیا میرا لن فل تنا ھوا تھا جو اب مہری کی آنکھوں کے سامنے لہرا رھا تھا‬
‫مہری کی نظر جب میرے لن پر پڑی تو اسکی آنکھیں ایکدم پتھرا سی گئیں وہ کچھ بولنے لگی تھی مگر اسکی آواز اس کے‬
‫ہلک میں ھی اٹک گئی‬
‫اور میں اس حسن کے مجسمہ کو اسی حالت میں ننگا چھوڑ کر جلدی سے شلوار پہن کر کمرے سے باہر نکال اور تیز تیز‬
‫قدم اٹھاتا ھوا مین گیٹ کے پاس آیا اور دروازہ کھول کر گلی میں نکل کر دکان کی طرف چلدیا‬
‫میں نے پیچھے بھی مڑ کر نھی دیکھا تھا‬
‫کہ مہری مجھے آواز دے گی کہ نھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫)‪.Update no (46‬‬
‫مہری کی باتیں میرے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح ذربیں لگا رھی تھیں‬
‫اور میرا ضمیر مجھے لعن طعن کر رھا تھا‬
‫کہ یاسر کیا تم ہوس کے پجاری ھو کیا تمہارے نذدیک صرف سیکس کرنا ھی فرض ھے‬
‫کیا تم اسکو پیار کہتے ھو‬
‫نھی یہ پیار نھی ہوس ھے ہوس‬
‫اگر تم نے مہری کے ساتھ بھی‬
‫صدف عظمی اور فوزیہ کی طرح سیکس ھی کرنا تھا تو‬
‫پھر اس معصوم سے پیار نام شبد کیوں بولے‬
‫اگر تمہیں اس سے واقعی پیار ھے تو کبھی سوچنا بھی نہ کہ تم شادی سے پہلے اس کے ساتھ بھی باقی لڑکیوں جیسا سلوک‬
‫کرو گے‬
‫کیا عظمی کے بارے میں تمہاری ویسے فیلنگ ھے جیسی پہلے ھوتی تھی‬
‫وہ تو تمہاری بچپن کی دوست تھی‬
‫میں ایسے ھی ضمیر سے بےعزتی کرواتا دکان پر پہنچ گیا اور جاکر خاموشی سے کاونٹر پر بیٹھ گیا‬
‫انکل شاید ***پڑھنے گئے تھے‬
‫جنید نے مجھ سے پوچھا خیریت تو ھے اتنی جلدی واپس آگئے اور پریشان بھی لگ رھے ھو ۔‬
‫میں نے اسکو ٹال مٹول کر کے اور دوست کے والد کی طبعیت کو ذیادہ سیریس ۔۔۔بتا کر مطمئن کر لیا۔۔‬
‫شام کو انکل کے ساتھ ھی میں گاوں چال گیا۔‬
‫انکل کو میں نے بتا دیا تھا کہ فرحت نے ایک سوٹ رکھا تھا اور شام کو پیسے لینے کا کیا تھا ۔‬
‫انکل نے بھی ہمممم‪ .‬کردیا۔۔‬
‫اور مجھے تاکید کی کہ جاکر پیسے الزمی لے آنا۔۔‬
‫میں گھر گیا اور کچھ دیر بعد امی کو بتایا کہ‬
‫میں نے کسی سے پیسے لینے ہیں انکے گھر جارھا ہوں ۔‬
‫امی نے بھی ذیادہ تفصیل نھی پوچھی تو میں گھر سے نکل کر سیدھا فرحت کی گلی میں جاپہنچا۔‬
‫اندھیرا ہونے کی وجہ سے گلی تقریبا سنسان ھی تھی‬
‫میں انکی بیٹھک کے دروازے کے پاس پہنچا اور‬
‫دروازے کو اندر کی طرف دھکیال تو حسب وعدہ فرحت نے دروازہ کھال چھوڑا ھوا تھا۔‬
‫میں اندر داخل ھوتے وقت گبھرا بھی رھا تھا‬
‫کہ کوئی ٹینشن نہ بن جاے‬
‫مگر پھر بھی میں حوصلہ کرکے اندر داخل ھوگیا‬
‫جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو سامنے فرحت چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی‬
‫مجھے دیکھ کر کھڑی ھوکر بولی‬
‫اتنی دیر کردی‬
‫میں کب سے تمہارا انتظار کررھی تھی‬
‫میں نے کہا خیر تھی‬
‫تو وہ بولی بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑا ھوا تھا‬
‫تو مجھے بھی ادھر بیٹھنا پڑا ایسے کوئی بھی اندر آسکتا تھا‬
‫گھر میں کونسا مرد ھے‬
‫میں اور امی ھی ہیں‬
‫امی ویسے ھی شام کو ھی دوائی کھا کر سوجاتی ہیں‪ ،‬۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور چارپائی پر بیٹھ‪ .‬گیا‬
‫فرحت بولی گلی میں کسی نے تمہیں اندر آتے تو نھی دیکھا میں نے کہا نھی جی‬
‫گلی بلکل خالی تھی‬
‫تو فرحت مطمئن ہو کر بولی اچھا کیا جو احتیاط سے اندر آگئے۔‬
‫میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا تو فرحت بولی‬
‫وہ تو کب کی سوگئی ہیں۔‬
‫میں نے پھر کہا کہ ایک دفعہ تسلی کرلیں‬
‫تو فرحت بولی‬
‫مجھے پتہ ھے وہ کب سوتی ھیں اور کب اٹھتی ہین ۔۔‬
‫میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی‬
‫اور چپ کر گیا‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر کیا کھاو گے کھانا لے کر آوں یا چاے پیو گے میں نے کہا نھی شکریہ میں سب کچھ کھا پی کر ھی آیا ہوں‬
‫فرحت بولی چلو چاے پی لو اسی بہانے میں بھی تمہارے ساتھ پی لوں گی‬
‫میں نے بھی ذیادہ نخرہ نھی کیا اور چاے کا کہہ دیا‬
‫فرحت بولی اندر میرے کمرے میں آجاو ادھر سے آواز باہر جاتی ھے‬
‫میں اٹھا اور اسکے پیچھے پیچھے چلتا ھوا صحن مین آگیا‬
‫انکا صحن کافی ُک ھال تھا اور سامنے چار کمرے ایک ھی الئن میں بنے ھوے تھے اور انکے آگے برآمدہ تھا اور ایک سائڈ‬
‫پر کچن تھا اور ایک طرف لکڑیاں وغیرہ رکھنے کے لیے کچا سا‬
‫برآمدہ تھا۔‬
‫فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے میں آگئی اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر خود چاے بنانے چلی گئی‬
‫میں بیٹھا آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا اور پالننگ کرنے لگا کہ پوری کوشش کروں گا کہ آج ھی اس کی‬
‫پھدی مار کر‬
‫اس دماغ سے ماسٹر کو نکال کر اسکو اپنی مریدنی بنا لوں ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت چاے لے کر کمرے میں داخل ھوئی اور ٹرے کو سائڈ ٹیبل پر رکھتے ھوے بولی‬
‫یاسر جوتا اتار کر بیڈ کے اوپر ھو جاو ایسے ٹانگیں لٹا کر کیوں بیٹھے ھو۔‬
‫میں نے جوتا اتارا اور بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔‬
‫فرحت بھی میرے سامنے بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئی اور مجھے چاے پینے کا کہا‬
‫میں نے چاے کا کپ پکڑا اور فرحت کو پکڑا دیا اور دوسرا خود پکڑ کر‬
‫چاے کی چسکیاں لینے لگ گیا‬
‫فرحت بولی‬
‫دیکھو یاسر‬
‫تم اچھے لڑکے ھو اور سمجھدار ھو‬
‫دیکھو میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہمارے بیچ مین ھونے والی بات بس ہم دونوں میں ھی رھے گی اور تم کو میں نے‬
‫ماں کی قسم بھی دی ھے‬
‫اس لیے تم بنا کسی پریشانی کے دوستانہ ماحول ریلیکس ہوکر مجھے سب کچھ بتاو‬
‫جو تمہیں اس کنجر ماسٹر نے بتایا ھے‬
‫میں نے کہا مجھے ماسٹر جی نے کچھ نھی بتایا‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر پھر جھوٹ۔۔۔۔‬
‫میں نے بات کاٹتے ھوے کہا‬
‫پہلے میری بات تو سن لیں‬
‫فرحت بولی ھاں بولو‬
‫میں نے کہا کہ مجھے ماسٹر جی نے نھی بتایا کچھ بھی‬
‫میں نے خود آپکو اور ماسٹر جی کو دو دفعہ گندے کام‬
‫کرتے ھوے دیکھا ھے۔‬
‫فرحت کا ایکدم رنگ اڑ گیا‬
‫اور وہ ہکالتے ھوے بولی‬
‫کککککب ککیسے کککہاں دیکھا تھا۔‬
‫میں نے کہا سکول کے کمرے میں‬
‫دفتر کی بیک سائڈ پر الماری کے پیچھے سٹور میں ۔۔‬
‫فرحت اپنے دوپٹے سے پسینہ صاف کرتے ھوے بولی ۔‬
‫تتم نے کہاں سے دیکھا تھا‬
‫میں نے کہا‬
‫پہلے جب آپ نے ماسٹر جی کو دھکا دیا تب تھوڑا سا ھی گندا کام کیا تھا‬
‫اس وقت میں نے پردے سے دیکھا تھا‬
‫اور دوسری دفعہ جب آپ نے کافی دیر گندہ کام کیا تھا‬
‫تب میں نے الماری کے پیچھے سوراخ سے بھی دیکھا تھا‪ ،‬اور کمرے کے پیچھے بنی کھڑکی سے بھی دیکھا تھا‬
‫فرحت منہ میں ُبڑبڑائی‬
‫کنجر نوں کیا وی سی کہ کوئی ہے کمرے وچ پر اوس کنجر نے منی ای نئی۔۔‬
‫میں نے کہا جیییییی‬
‫فرحت ایکدم ہڑبڑا کر بولی کچھ نھی ۔۔‬
‫فرحت کی ہوائیاں ُاڑ چکی تھی‬
‫اسکا لہجہ اسکا ساتھ نھی دے رھا تھا‬
‫پھر بولی‬
‫تم اندر کیسے آے تھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫کہ‬
‫میں پیشاب کرنے کے لیے کمرے کے پیچھے گیا تھا‬
‫تو اچانک مجھے آپ کی چیخ کی آواز سنائی دی تو میں گبھرا کر آپکو دیکھنے کے لیے اندر آیا تو مجھے دفتر میں آپ نظر‬
‫نہ آئیں تو میں نے پردے کو تھوڑا سا ہٹا کر اندر جھانکا تو‬
‫ماسٹر جی نے آپکی قمیض اوپر اٹھا رکھی تھی اور آپ کے ممے چوس رھے تھے‬
‫۔۔۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر مموں کا ذکر کیا۔۔‬
‫فرحت شرم سے مری جارھی تھی‬
‫اور اس کا رنگ سرخ ھوچکا تھا۔‬
‫اچانک فرحت آگے ھوئی اور ۔‬
‫فرحت نے دونوں ہاتھ آگے کئے اور میرے پیروں کو پکڑ کر رونے لگ گئی اور‬
‫مجھ سے معافیاں مانگنے لگ گئی‬
‫یاسر پلیزز میری عزت کا سوال ھے میں اس کنجر کی باتوں میں آکر بہک گئی تھی مجھ سے غلطی ھوگئی تھی‬
‫پلیززز کسی کو یہ بات مت بتانا‬
‫ورنہ میں بدنام ھو جاوں گی‬
‫میں تو پہلے ھی بیوا عورت ھوں‬
‫ان گاوں والوں نے ہمارا جینا حرام کردینا ھے‬
‫میں نے فرحت کے دونوں ھاتھ پکڑ کر اپنے پاوں سے ہٹاے اور پاوں کو پیچھے کھینچ لیا‬
‫اور بوال‬
‫آپ کیا کررھی ہیں پلیززززز‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر تم نے کسی کو یہ بات بتائی تو نھی‬
‫تو میں نے پالننگ کے مطابق کہا کہ پہلے تو کسی سے یہ بات نھی کی تھی مگر وہ زاہد ہمارے گھر کے سامنے واال میرا‬
‫دوست ھے اس‬
‫کو پچھلے جمعہ ایسے ھی باتوں باتوں میں تھوڑا سا بتایا تھا مگر آپ کا نام نھی لیا تھا ابھی اس سے‬
‫کیوں کے باتوں کے دوارن ھی مجھے ایک کام یاد آگیا تھا تو میں نے اسے پھر بتانے کا کہا تھا اور ادھر سے گھر آگیا تھا‬
‫اب شاید کل ہم پھر بیٹھیں گے تو وہ پھر پوچھنے لگ جاے گا۔‬
‫تو فرحت اور اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گئی اور میرے سامنے ھاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی‬
‫یاسر پلیزز اسے نہ بتانا تمہیں فالں کی قسم فالں کی قسم‬
‫میں نے خودکشی کرلینی ھے اسکے زمہ دار تم ھوگے‬
‫ہم گاوں میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رہیں گے‬
‫فرحت ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی اسکے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی‬
‫مجھے اسکی حالت پر ترس آنے لگ گیا‬
‫میں نے آگے ہوکر اسکے ھاتھ پکڑ کر نیچے کئے اور اسکو تسلی دیتے ھوے کہا‬
‫کہ پلیز آپ ریلکس ھو جائیں اگر آپ نے یوں ھی رونا ھے تو میں جارھا ھوں‬
‫۔اور یہ کہتے ھی میں بیڈ سے نیچے اترنے لگا تو‬
‫فرحت نے میری دونوں ٹانگوں کو پکڑ لیا اور سر نفی میں ہالتے ھوے بولی‬
‫نہی نہی جانا تم نے‬
‫اچھا بیٹھو تو سہی‬
‫میں نھی روتی اب‬
‫میں کچھ بولتی بھی نھی‬
‫اسکی آواز میں خوف تھا التجاء تھی‬
‫میں نے پھر ٹانگیں اوپر کرلیں اور‬
‫بوال‬
‫دیکھیں میری بات غور سے ُسنیں‬
‫اور پہلے یہ رونا دھونا بند کریں‬
‫تو فرحت نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں اور منہ صاف کرتے ریلکس ھوتے ھوے کہا‬
‫ھاں جی بولیں‪،‬‬
‫میں نے کہا یہ تو اچھا ھوا کہ آپ نے مجھے منع کردیا ورنہ آج یا کل میں تفصیل سے ذاہد کے ساتھ کرنے واال تھا‬
‫خیر اب میں وعدہ کرتا ھوں آپ سے کہ یہ بات ادھر ھی دفن کر کے جاوں گا اور مرتے دم تک میرے منہ سے کبھی آپ یہ‬
‫بات دوبارا نھی ُسنیں گی‬
‫لیکن‪ ،،‬۔۔۔‬
‫کہہ کر میں چپ ھوگیا اور فرحت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگ گیا۔‬
‫جو بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی‬
‫میرے لیکن کہہ کر ُچپ ہوجانے پر وہ چونک کر بولی‬
‫لیکن کیا‪ ،،،‬۔۔۔‬

‫)‪Update no (47‬‬
‫میں نے کہا چھوڑیں آپ ناراض ھوجائیں گی ۔۔‬
‫فرحت قسم کھا کر بولی کہ تم بتاو میں نھی ناراض ہوتی ۔۔‬
‫میں نے پھر کہا‬
‫دفعہ کریں‬
‫فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی یاسر پلیز بتاو میرا دل بیٹھا جارھا ھے میں پہلے ھی بڑی پریشان ہوں پلیز مجھے اور پریشان‬
‫مت کرو‪ ،،‬۔۔‬
‫تو میں نے ایکدم بولتے ھوے کہا کہ‬
‫اس میں میرا کیا فائدہ ھوگا کہ میں آپ کے اس راز کو ہمیشہ کے لیے راز ھی رکھوں ۔۔‬
‫فرحت حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر میری طرف گھورنے کے انداز سے بولی کیا مطلب میں سمجھی نھی۔‬
‫میں نے کہا میری بات کا مطلب صاف ھے‬
‫کہ اس کے بدلے میں میرا کیا فائدہ ھوگا‬
‫فرحت بولی کون سا فائدہ تم چاھتے ھو‬
‫پیسے لینے ہیں اسکے بدلے‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫پیسے نھی آپ کی ُپھدی لینی ھے‬
‫فرحت کا رنگ ایکدم الل پیال ھوگیا اور اس نے غصے سے میرے منہ پر ایک ذور دار تھپڑ مارا‬
‫اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ھوگئی اور بولی‬
‫بےشرم گھٹیا انسان‬
‫تمہیں شرم نھی آئی یہ بات کرتے ھوے‬
‫میں تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر بنا کسی خوف کے اندر کمرے میں لے آئی اور تیری میرے بارے میں اتنی گندی سوچ ھے‬
‫تمہاری جرات کیسے ھوئی یہ بات سوچنے کی بھی‬
‫اپنی عمر دیکھو‬
‫کم از کم اپنی اور میری عمر کا لحاظ ھی کرلیتے گھٹیا انسان نکلو ادھر سے‬
‫فرحت کا تھپڑ کھاتے ھی میری ساری ہوا نکل گئی کہ اس سالی نے تو سارا معاملہ ھی الٹ پلٹ کردیا میں تو بڑی پالننگ‬
‫سے آیا تھا‬
‫میں اپنی گال پر ھاتھ رکھے غصے اور ڈرے ھوے ملے جلے تاثرات سے فرحت کی طرف دیکھتا ھوا اٹھا‬
‫اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑا ھوگیا‬
‫فرحت پھر بولی تمہیں ذرہ سی بھی شرم نھی آئی یہ بات کرتے ھوے‬
‫اس کنجر نے میرے ساتھ زبردستی کی ایک دفعہ اور تم نے مجھے چلتی پھرتی عورت سمجھ لیا‬
‫نکل جاو ابھی کہ ابھی‬
‫میری تو سمجھ میں نھی آرھا تھا کہ اب میں اس خرافہ عورت کو کیا کہوں‬
‫سالی مزے لے لے کر پھدی مرواتی رھی تھی‬
‫اور اب کہتی ھے کہ میرے ساتھ ذبردستی کی ھے ۔‬
‫مجھے اور تو کچھ نہ سوجا‬
‫میں نے کہا ووووہ سوٹ کے پیسے دے دو‬
‫اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور اپنی اے ٹی ایم‪ .‬مشین میں ھاتھ ڈال اور کچھ پیسے نکال کر میرے منہ پر‬
‫مارے‬
‫اور کہا پکڑ اپنے پیسے اور چل دفعہ ھوجا ادھر سے دوبارہ اپنی شکل بھی دیکھائی نہ تو تیرا وہ حال کروں گی کہ تجھے‬
‫تیرے گھر والے بھی نھی پہچان سکیں گے‬
‫میں نے پیسے پکڑے اور بند دروازے کے پاس آکر اسکی طرف منہ کر کے اپنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا‬
‫دیکھ لوں گا تجھے‬
‫جتنی تو شریف ذادی ھے مجھے پتہ ھے‬
‫پورے ِپنڈ وچ بدنام نہ کیتا تے فیر کویں‬
‫فرحت یہ ُس ن کر بھوکی شیرنی کی طرح مجھ پر جھپٹی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر‬
‫کہنے لگی کیا کہا کہ‬
‫پورے ِپنڈ وچ مینوں بدنام کریں گا‬
‫دسنی آں تینوں ایتھوں سئی سالمت جاویں گا تے فیر ای کسے نوں دسیں گا‬
‫فرحت نے مجھے بازوں سے پکڑے ھی گھما کر بیڈ کی طرف دھکا دیا‬
‫گشتی وچ اینی جان پتہ نئی کتھوں آگئی سی‬
‫اسکے ایک ھی دھکے سے میں کمزور عورت کی طرح بیڈ پر جاگرا‬
‫فرحت مجھ پر پھر جپٹی اور میرا گال دبانے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ میرے گلے کی طرف بڑھاے میں اب کچھ سنبھل چکا‬
‫تھا‬
‫میں نے اسکے بازو پکڑ کر اسکے ہاتھ راستے میں ھی روک لیے‬
‫اور اسکو ایسے ھی گھما کر اپنے ساتھ بیڈ پر گرادیا‬
‫ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے لٹک رھی تھی‬
‫جیسے ھی فرحت بیڈ پر گری‬
‫میں جلدی سے سائڈ بدل کر اسکے اوپر چڑھ گیا اور‬
‫اسکے دونوں بازوں کو کالئیوں سے پکڑ کر اس کے سر کے ساتھ لگا دئے‬
‫اب ہم دونوں کے پاوں فرش پر تھے اور میرا لن اسکی پھدی کے بلکل اوپر تھا‬
‫اور میرا منہ اسکے بڑے سے گول مٹول مموں پر تھا‬
‫فرحت بولی چھڈ دے مینوں میں روال پان لگی آں‬
‫میں اسکی بات سن کر ڈر بھی گیا تھا کہ یہ ھے تو بڑی حرامذادی اس لیے کچھ بھی کرسکتی ھے‬
‫میں نے اسے کہا‬
‫سالیے ماسٹر نوں اپنی پھدی وی چٹوانی اے تے پھدی وچ لن وی مزے لے لے کے لینی اے تے میری واری شریف ذادی‬
‫بندی ایں‬
‫فرحت بولی‬
‫بکواس نہ کر کتے بغیرت گھٹیا انسان‬
‫میں تیری ماں نو دسنی ایں تیری کرتوت‬
‫میں نے کہا جا دس دے میں وی دس دیواں گا کہ ماسٹر کولوں پھدی مرواندی رئی اے تے اپنا سارا گند میرے تے پان دئی‬
‫اے‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ایک ہاتھ سے فرحت کی کالئیاں پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے اسکے ممے کو دبانے لگ گیا‬
‫فرحت کافی زور لگاتی رھی اپنے ھاتھ ُچھڑوانے کے لیے‬
‫مگر میں نے اسکی کالئیوں کو پکڑ کر پورے وزن کے ساتھ بیڈ پر دباے رکھا تھا‬
‫میرا لن بھی فل تن ُچکا تھا‬
‫میں نے ھاتھ نیچے لیجا کر فرحت کی پھدی کو مسلنے لگا تو فرحت نے ٹانگوں کو آپس میں بھینچ کر چیخ ماری‬
‫اب پتہ نھی اسکی چیخ کمرے سے باہر نکلی بھی تھی کہ نھی کیوں کے دروازہ بند تھا‬
‫جو خود ھی اس گشتی نے بند کیا تھا‬
‫اور ویسے بھی کمرے میں کوئی کھڑکی نھی تھی جس سے اسکی آواز باہر جانے کا چانس ھوتا‬
‫مطلب کمرہ ساونڈ پروف تھا‬
‫مجھ پر تو جنون سوار ھوچکا تھا کہ سالی نے مجھے تھپڑ مارا ھے اسکی اتنی جرات‬
‫میں نے سوچ لیا تھا کہ جو ھوگا دیکھا جاے گا ایک دفعہ اس کو سبق سکھا کر جاوں گا‬
‫میرا ھاتھ اسکی ٹانگوں کے بیچ پھنسا ھوا تھا‬
‫میں نے اسکی چیخ کو نظرانداز کرتے ھو ہاتھ باھر کھینچا اور اسے کہا چیخ گشتی عورت اب تجھے میں بتاتا ھوں کہ گھر‬
‫ُبال کر کسی کو کیسے ذلیل کرتے ہیں‬
‫آج تیرا پھدا نہ پھاڑا تو پھر کہنا۔‬
‫تیرے پھدے میں آج اتنا بڑا لن ڈالوں گا کہ تو ماسٹر کا لن بھول جاے گی‬
‫میری بات سن کر پہلے تو فرحت کے چہرے پر حیرت کے تاثرات آے پھر غصے سے بولی‬
‫یاسر اپنی اوقات میں رہ تجھے پتہ نھی کہ تو کس سے اور کیا کررھا ھے‬
‫مجھے چھوڑ دے اور شرافت سے چال جاے‬
‫ورنہ تم ساری عمر پچھتاو گے‬
‫تو میں نے کہا ماسٹر تو نھی پچھتایا جو میں پچھتاوں گا‬
‫فرحت سے باتیں کرنے کے دوران میں اپنا ناال کھول چکا تھا اور میری شلوار پیروں میں گر گئی تھی‬
‫فرحت بولی میرے بھائی کو پتہ چل گیا نہ تو تجھے ویسے ھی وہ قتل کردے گا‬
‫میں نے کہا‬
‫لن وڈ لے تیرا پرا تے توں وی‬
‫بس اک واری میرا لن تیرے پھدے وچ چال جاوے‬
‫بعد وچ ویکھی جاوے گی جو ھوے گا‬
‫فرحت نے جب دیکھا کہ اسکے کسی وار کا اثر مجھ پر نھی ھورھا‬
‫تو فرحت کے اندر ایکدم عورت جاگی اور اس نے رونا اور منتیں کرنا شروع کردی کہ یاسر پلیز مجھے معاف کردو تم‬
‫میرے تھپڑ مار لو پھر تم خوش‬
‫اچھا چلو میں کسی کو نھی بتاتی‬
‫جتنا تم نے میرا ساتھ کرنا تھا کرلیا اب چھوڑ دو مجھے‬
‫تم میرے بیٹے جیسے ھو سوچو کوئی بیٹا اپنی ماں کے ساتھ ایسا کرتا ھے کیا‬
‫فرحت کی یہ آخری بات سن کر میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا اور بوال‬
‫بکواس بند کر گشتی عورت اگر تو ماں کہنے کے الئق ھوتی تو تیرے پیر دھو دھو کہ پیتا‬
‫کون بیٹا ماں کو کسی غیر مرد سے ُچ دتا دیکھ کر اس ماں کو زندہ چھوڑ دیتا ھے‬
‫تو ماں نھی بلکہ ایک گشتی عورت ھے اور گشتی عورت اور ماں میں زمین آسمان کا فرق ھوتا ھے‬
‫ماں سر پر ہوتی ھے‬
‫اور گشتی لن کے نیچے‬
‫لحاظ اپنا منہ بند رکھ یہ نہ ھو کہ پھدی کے ساتھ ساتھ تیری گانڈ بھی پھاڑ دوں‬
‫فرحت میری بات سن کر اور بات کرنے کے انداز کو دیکھ کر‬
‫سہم گئی اور رونے لگ گئی‬
‫اور آہستہ آہستہ آواز میں روتے ھوے کہے جارھی تھی‬
‫مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو‬
‫ہاےےےےے امی‬
‫اسکے رونے کا اثر مجھ پر نھی ھو رھا تھا‬
‫میں نے اسکی قمیض کو پکڑ کر پھدی والے حصے سے اوپر کیا اور اس کے نالے کے سرے کو پکڑ کر کھینچ دیا‬
‫جس سے فرحت کی شلوار ڈھیلی ھوگئی‬
‫جیسے ھی اس کا ناال کھال اور شلوار ڈھیلی ھوئی تو‬
‫فرحت نے جھٹکے سے ایک کالئی میرے ھاتھ سے چھڑوائی اور جلدی سے شلوار کو کس کے پکڑ لیا اور‬
‫نفی میں سر دائیں بائیں مارتے ھوے کہنے لگ گئی‬
‫یاسر پلیزز تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ فالں کا واسطہ مجھے چھوڑ دو ایسا ظلم مت کرو‬
‫میں مر جاوں گی‬
‫پلیززززز چھوڑ دو‬
‫میں نے اسکی کالئی کو پکڑ کر جھٹکا مارا اور اسکی کالئی کو واپس اسی جگہ لے جاکر‬
‫دوسری کالئی کے ساتھ جکڑ کر پکڑ لیا‬
‫اور جلدی سی ھاتھ نیچے کیا اور اسکی شلوار کو کھینچ کر نیچے کردیا شلوار خود ھی اس کے پیروں میں گر گئی‬
‫فرحت نے پھر زور دار چیخ ماری اور اپنا آپ چھڑوانے کے لیے ٹانگوں کو اوپر اٹھانے لگی‬
‫فرحت نے جیسے ھی اپنی دونوں ٹانگوں کو اوپر کر کے فولڈ کیا تو‬
‫خربوزہ خود ھی چھری کے نیچے آگیا‬
‫فرحت کی پھدی بلکل میرے لن کے سامنے تھی‬
‫میں نے اس کے گھٹنوں کو اپنی بغلوں میں جکڑتے ھوے‬
‫ایک ہاتھ پر بڑا سا تھوک کا گوال پھینکا اور لن کے ٹوپے پر مل لیا اور لن کو پھدی کے لبوں پر رکھتے ھی پوری جان سے‬
‫ایک ھی گھسے میں سارا لن فرحت کی پھدی کے اندر بچے دانی تک پہنچا دیا‬
‫فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی‬
‫ھاےےےءےےے میں مرگئی‬
‫اے کی واڑ دتا اییییییییی‬
‫ھوے امیییییییییی‬
‫ھاےےےےءءےےےےےےےے‬
‫ابھی میں نے لن واپس نھی کھینچا تھا کہ؟؟؟؟؟؟؟‬
‫فرحت نے پورے ذور سے میرے پیٹ میں پاوں مارے اور میں اچھل کر پیچھے ھوا اور گرتے گرتے بچا۔‬
‫لن کڈن دا بڑا چنگا طریقہ ازمایا سالی نے۔۔‬
‫لن جیسے ھی فرحت کی پھدی سے نکال‬
‫فرحت درد سے بلبال کر ُد ھری ہو کر اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھے دوسری طرف منہ کر کے اپنے گوڈے پیٹ کے ساتھ لگا کر‬
‫ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی‬
‫اور رونے لگ گئی‬
‫ہاے میرا اندر گیا ھاےےے میں مرگئی‬
‫ھاےےےےے‬
‫ماں میرئیے ھاےےےےےےے‬
‫فرحت ساتھ ساتھ روے جارھی تھی اور آنکھیں پھاڑے میرے لن کو بھی دیکھی جارہی تھی۔‬
‫میں غصے سے آگے بڑھا اور پھر سے فرحت کو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر سالی نے مجھے ٹانگیں مارنی شروع‬
‫کردی‬
‫میں نے بڑی مشکل سے اسکی ٹانگوں کو قابو کیا اور فرحت کو سیدھا تو نہ کر سکا مگر اسے الٹا کرنے میں کامیاب ھوگیا‬
‫فرحت کی ٹانگیں اب بھی بیڈ سے نیچے تھی اور پھدی بیڈ کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور گانڈ اوپر تھی‬
‫میں نے فرحت کو الٹا کر کے اسکے دونوں ھاتھ پکڑ کر پیچھے اسکی کمر کے ساتھ لگا کے پورے ذور سے اسکی کمر پر‬
‫دبا کے قابو کر لیے‬
‫فرحت پھر ذور ذور سے چالے جا رھی تھی اور مجھے واسطے دیئے جا رھی تھی‬
‫فرحت کو میں نے اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا‬
‫اور مجھے شیطان نے قابو کیا ھوا تھا میرے دل میں ذرہ سا بھی رحم نھی آرھا تھا‬
‫شاید مہری کے غصہ اور تھپڑ کے غصہ نے مجھے پاگل کیا ھوا تھا‬
‫بس ہوس ھی ہوس میرے دماغ پر سوار تھی‬
‫خیر‬
‫فرحت نیچے سے گانڈ کو دائیں بائیں ہال کر اپنا بچاو کرنے کی پوری کوشش کررھی تھی‬
‫فرحت کے شور شرابے سے میں تنگ آچکا تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجھے تکیہ پڑا نظر آیا میں نے ایک ھاتھ سے‬
‫فرحت کی دونوں کالئیاں قابو کیں اور دوسرا ھاتھ لمبا کر کے تکیہ پکڑا اور تکیے کو فرحت کے سر کے اوپر رکھا اور دبا‬
‫دیا جس سے اسکی آواز بیڈ کے میٹرس اور تکیے میں دب گئی اب اسکی آواز ایسے آرھی تھی جیسے بہت دور سے آرھی‬
‫ھو‬
‫میرا لن پھدی کے پانی سے کافی گیال ھو چکا تھا‬
‫میں نے فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں لن رکھا اور اندازے سے پھدی کا نشانہ لگا کر پھر زور سے گھسا مارتے ھوے‬
‫فرحت کے اوپر ھی لیٹتا گیا‬
‫میں نے جیسے ھی اندازے سے گھسا مارا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا لن کسی تنگ سوراخ میں گھس گیا ھو اس کے‬
‫ساتھ ھی فرحت ایسے تڑپی جیسے کسی نے اسے ذیبحہ کردیا ھو اسکی تکیہ کے نیچے سے غوں غوں کی آواز آرھی تھی‬
‫فرحت پہلے تو اپنی گانڈ کو ایکدم اوپر کو کیا جس لن مزید اسکی گانڈ کے اندر چال گیا‬
‫تو اسی وقت فرحت نے گانڈ کو ذور سے بھینچ کر میٹرس کی طرف زور لگانا شروع کردیا‬
‫مجھے اپنے گرد فرحت کی گانڈ کے سوراخ کی گرفت اتنی ذیادہ ٹائٹ محسوس ھوئی جیسے فرحت کی گانڈ ابھی میرے لن‬
‫کا کچومر نکال دے گی‬
‫میں ایسے ھی سارا وزن فرحت پر ڈال کر اسکے اوپر لیٹا رھا‬
‫فرحت بری طرح تڑپ رھی تھی‬

‫)‪.Update no (48‬‬
‫اب وہ نیچے سے گانڈ کو ہال نھی رھی تھی‬
‫شاید ہلنے سے اسکو درد ھوتی تھی۔‬
‫اچانک مجھے محسوس ھوا کہ فرحت مجھے کچھ کہنا چاھ رھی تھی‬
‫میں نے گھسا مارتے وقت اسکے دونوں ھاتھ کھول کر اسکے پاس لے گیا تھا تو اب وہ ھاتھ کے اشارے سے مجھے کچھ‬
‫سمجھا رھی تھی اسکی غوں غوں بھی بند ہوگئی تھی‬
‫میں نے تکیہ اسکے سر سے اٹھا کر سر سے آگے ھی پھینک دیا تو‬
‫فرحت نے لمبا سانس لیا جیسے اسکا سانس رکا ھوا تھا‬
‫فرحت روتے ھوے بولی یاسر اسے باہر نکال لو تم نے میری گانڈ پھاڑ دی ھے‬
‫ایسے بھی کوئی کرتا ھے کیا‬
‫میں نے کہا‬
‫جب ایسے ہلتی رھو گی تو لن کہیں بھی جاسکتا ھے‬
‫آرام سے کروا لیتی تو اتنی تکلیف نہ اٹھاتی بلکہ ماسٹر سے بھی ذیادہ مزا دیتا تم کو۔‬
‫فرحت بولی یاسر ادھر سے نکال لو تم جیسے کہو گے میں ویسے ھی کروا لوں گی‬
‫شور بھی نھی کرتی مگر ادھر سے نکال لو نھی تو میں مر جاوں گی‬
‫میری جان نکل رھی ھے‬
‫میں نے بھی محسوس کیا کہ فرحت کی ٹانگیں بری طرح کانپ رھی ہیں‬
‫تو میں نے فرحت کے منہ پر ھاتھ رکھا اور ایک جھٹکے سے لن باہر کی طرف کھینچا‬
‫تو فرحت کے منہ سے پھر چیخ نکلی جو میرے ھاتھ میں ھی دب گئی اور ساتھ ھی فرحت نے بڑا سا پد مارا پڑووووووں‬
‫فرحت نے چیخ مارنے کے بعد میری ہتھیلی پر دندی کاٹ لی‬
‫مجھے تکلیف تو بہت ھوئی مگر برداشت کرگیا‬
‫اور ساتھ ھی میں فرحت کے ساتھ ٹیڑھا ہوکر لیٹ گیا میں نے فرحت کو چھوڑا نھی تھا کہ سالی بھاگ نہ جاے‬
‫فرحت ایک دم سکون میں ہوگئی‬
‫اور ویسے ھی بےجان ھوکر الٹی لیٹی رھی اور ایک ھاتھ پیچھے کرکے اپنی گانڈ کی دراڑ میں انگلیاں ڈال کر دبانے لگ‬
‫گئی‬
‫مین نے اپنے لن کو دیکھا تو میرے لن پر خون اور گندگی لگی ھوئی تھی میں نے بیڈ کی چادر کے ساتھ ھی لن کو صاف‬
‫کرنا شروع کردیا‬
‫فرحت کچھ دیر ایسے ھی بلکل خاموش لیٹی رھی‬
‫میں نے فرحت کو سیدھا کیا تو اس سے سیدھا نہ ھوگیا گیا‬
‫اسکو واقعی ھی تکلیف بہت ذیادہ ہورھی تھی‬
‫میں بیڈ سے نیچے اترا اور فرحت کو پکڑ کر سیدھا کیا اور اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر بیڈ پر کیا اور خود بھی بیڈ پر چڑھ کر‬
‫اسکی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور لن کو پکڑ کر فرحت کی انکھوں کے سامنے لہرانے لگا‬
‫فرحت گم سم سی آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھی جارھی تھی‬
‫میں نے فرحت کی شلوار جو پیروں میں اٹکی ھوئی تھی اسکو اتارا اور‬
‫فرحت کی ٹ اس ٹانگوں‪ .‬کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھا‬
‫اور لن کو پکڑا کر فرحت کی پھدی پر پھیرنے لگ گیا‬
‫فرحت کو جب لن پھدی پر لگنے کا احساس ھوا‬
‫تو فرحت نے دونوں ھاتھ جوڑے اور میری آنکھوں کے سامنے کرتے ھوے بلبال کر رونے لگ گئی اور کانپتی آواز میں‬
‫بولی یاسر‪.‬‬
‫تم نے اگر کرنا ھی ھے تو کل آجا نا ابھی مجھ میں ہمت نھی ھے‬
‫میری جان نکل رھی ھے‬
‫کل تم جیسے کہو گے میں ویسے ھی کروں گی‬
‫فرحت کی آواز میں اتنا درد تھا کہ اسکی آواز نے میرا دل نرم کردیا اور اسکے لیے میرے دل میں نرم گوشہ پیدا ھوگیا‬
‫میں نے کہا اچھا جی‬
‫کل میں آوں تو تم مجھے دروازے پر ھی ذلیل کر کے بھگا دو‬
‫فرحت بولی یاسر اب میرے پاس بچا ھی کیا جو تم سے چھپاوں گی‬
‫میں اپنے بیٹے کی قسم کھا کر کہتی ھوں کہ میں سچ کہہ رھی ھوں‬
‫اگر جھوٹ بولوں تو اپنے بیٹے کا مرا منہ دیکھوں‬
‫اب بھی تم کو یقین نھی تو بیشک تمہارا جو دل کرتا ھے کرلو‬
‫میں مرتی ھوں تو مجھے مرنے دو‬
‫مگر یاسر یہ یاد رکھنا تمہارے دومنٹ کے مزے نے میری جان لے لینی ھے‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا فرحت کے چہرے کو غور سے دیکھتا رھا‬
‫اس کے چہرے پر سواے ندامت شرم اور تکلیف کے کچھ نھی تھا‬
‫میں جمپ مار کر کھڑا ھوا اور اپنی شلوار کو پہنتے ھوے بوال‬
‫فرحت میں تم پر یقین کر کے تمہیں چھوڑ رھا ھوں‬
‫اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر تم نے مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تو اسکا خمیازہ تمکو بھگتنا پڑے گا‬
‫فرحت غور سے میری طرف بس دیکھے جارھی تھی‬
‫میں نے اسکو پھر کہا‬
‫میری بات یاد رکھنا‬
‫میں کل آوں گا‬
‫اگر بیٹھک کا دروازہ کھال ھوا تو میں اندر آجاوں گا اگر دروازہ بند ھوا تو پھر میں یہ ھی سمجھوں گا کہ تم جھوٹی مکار ھو‬
‫یہ کہتے ھی میں اسکا جواب سنے بغیر کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور بیٹھک کے دروازے سے باھر گلی میں‬
‫نکال اور گھر کی طرف چل دیا ۔۔۔‬
‫میں گھر آیا تو امی ابھی تک صحن میں ھی بیٹھی ھوئی تھی شاید میرا ھی انتظار کر رھی تھی جیسے ھی میں اندر داخل ھوا‬
‫امی مجھ پر ناراض ھونے لگ گئی کہ اتنی دیر لگادی نہ کھانے کی فکر ھے تجھے‬
‫پہلے کھانا تو کھا لیتا پھر آوارہ گردی کرنے نکل جاتے‬
‫دوستو ایک واحد ماں ھی ھوتی ھے جسے بچے کی کھانے پینے کی فکر ھوتی ھے جب ماں کا سایہ سر سے اٹھ جاے تو‬
‫ھی ماں کی قدر ھوتی ھے ساری دنیا کی لڑکیوں کی محبت ایک ترازو میں رکھ دو تو ماں کی محبت کا ایک ذرہ بھی‬
‫اسکے قابل رکھ دو تو ماں کی محبت کا وہ زرہ بھی ان پر بھاری ھوگا‬
‫اس لیے بھائیو جن کی مائیں ان کے سر پر سالمت ہیں انکی جتنی خدمت کر سکتے ھو کرلو‬
‫دنیا اور آخرت سنور جاے گی‬
‫ماں کی ڈانٹ بھی دودھ کی نہر ھوتی ھے‬
‫وہ کہتے ہیں نہ کہ‬
‫ماں پیو دیاں گاالں‬
‫تے دودہ دیاں ناالں‬
‫امی کی ڈانٹ سن کر میں کمرے میں چال گیا‬
‫کچھ دیر بعد امی کھانا لے کر آگئی اور پھر سے اپنی ممتا دیکھاتے ھوے مجھے سمجھانے لگ گئی میں چپ کر کے سنتا‬
‫رھا اور کھانا کھاتا رھا میں نے کھانا کھایا اور امی سے پوچھا کی نازی کدھر گئی ھے تو امی جان مجھ سے پوچھنے لگ‬
‫گئی کہ اپنی آنٹی کہ گھر نھی گئے تو میں نے کہا نھی امی جی‬
‫امی بولی تیری آنٹی کا بھائی فوت ھوگیا ھے اور وہ دوپہر کو ھی سرگودھے چلی گئی تھی‬
‫عظمی اور نسرین اکیلی گھر پر تھی‬
‫تو تیری آنٹی نے کہا تھا کہ‬
‫نازی کو انکے ساتھ سال دینا‬
‫اور ھوسکے تو یاسر کو بھی کہنا کہ بہنوں کے پاس سو جاے‬
‫میں نے کہا کہ آنٹی انکو بھی ساتھ لے جاتی تو امی بولی بیٹا انکے پیپر ھونے والے ہیں وہ کیسے سکول سے چھٹی کر‬
‫سکتی تھی‬
‫تم ایسا کرو دودھ پی کر بہنوں کے پاس چلے‬
‫اور ادھر ھی سوجانا‬
‫صبح انکو ساتھ بھی لیتے جانا‬
‫کل بھی ھوسکتا ھے کہ تمہاری آنٹی نہ آے‬
‫میرے اندر تو لڈو پھوٹنے لگ گئے کہ‬
‫دو پھدیاں تو نھی ملی چلو‬
‫آج رات ُپرانی پھدی ھی سہی‬
‫نکالنا تو پانی ھی تھا‬
‫ورنہ ُمٹھ مار کر سونا پڑتا‬
‫میں نے مصنوعی غصے سے کہا امی کیا مصیبت ھے‬
‫انٹی انکو ساتھ لے جاتی‬
‫مجھے انکے گھر نیند نھی آنی‬
‫میں نے صبح جلدی اٹھنا ھوتا‬
‫تو امی پیار سے مجھے پچکارتے بولی کہ نہ پتر بہنیں اکیلی ھیں جا میرا بچہ کچھ نھی ھوتا دو راتوں کی تو بات ھے‬
‫میں نے اچھے بچے کی طرح اثبات میں سر ہالیا‬
‫اور اٹھ کر جانے لگا تو‬
‫امی نے آواز دی‬
‫ہن کتھے چالں آں‬
‫میں نے کہا کہ امی آپ نے خود ھی تو کہا ھے کہ آنٹی کے گھر سونا ھے‬
‫تو امی بولی پتر دودھ تو پیتا جا‬
‫میں نے کہا امی جی ابھی تو روٹی کھائی ھے‬
‫میں انکے گھر سے پی لوں گا‬
‫تو امی میرے پیچھے پیچھے دروازے تک آئی اور پیچھے سے بھی آواز دے کر بولی پتر یاد نال دودھ پی لینا‬
‫میں نے اونچی آواز میں کہا اچھا امی جی‬
‫پی لوں گا دودھ‬
‫اور‬
‫اچھلتا کودتا ٹھک کر کے عظمی کے گھر جا پہنچا‬
‫اور دروازہ کھٹکھٹایا کچھ دیر بعد اندر سے نسرین کی آواز ائی کون ھے‬
‫میں نے بلی کی آواز نکالتے ھوے میاوں کیا‬
‫تو نسرین نے پھر پوچھا کون‬
‫میں نے پھر میاوں کیا‬
‫نسرین کی اب غصہ سے آواز آئی‬
‫منہ وچ زبان نئی ھے گی‬
‫میں نے کہا چور ہوں چوری کرنے آیا ھوں دروازہ کھولو‬
‫نسرین نے دروازہ کھوال‬
‫اور غصے سے مجھے دیکھتے ھوے بولی‬
‫منہ وچ زبان نئی ھے‬
‫میں کب سے پوچھ رھی ھوں کہ کون ھے کون ھے‬
‫تو میں نے اسے منہ چڑھایا اور اندر آگیا اور اس سے آگے آکر بوال‬
‫دروازہ بند کر کے آئیں‬
‫تو نسرین غصے سے دروازہ کھال چھوڑ کر کمرے کی طرف چلدی اور بولی‬
‫میں تیری نوکر نئی آپے بند کرلے ہتھ نئ ُٹٹے تیرے‬
‫میں نے ہنستے ھوے دروازہ بند کیا اور اس کے پیچھے تیز قدم چلتا ھوا اسکے پیچھے پہنچا اور پیچھے سے اسکے کندھوں‬
‫پر ھاتھ رکھ کر اسپر وزن ڈال کر جمپ لگایا‬
‫تو نسرین بولی‬
‫ھاےےےےے مرگئی‬
‫ُک تا کسے تھاں دا‬
‫بغیرتا میرے موڈے توڑ دیتے ای‬
‫شرم تے نئی آندی‬
‫میں اسکی گالیوں کو انجواے کرتے ھوے‬
‫ہنستا ھوا اس کے سر پر چپت لگا کر اسکے آگے بھاگ کر کمرے میں آگیا‬
‫نسرین مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی مگر میں تیز بھاگ کر اس سے پہلے کمرے میں پہنچ چکا تھا‬
‫کمرے میں نازی اور عظمی چارپائی پر بیٹھی گپیں لگا رھی تھیں‬
‫مجھے دیکھ کر عظمی کے چہرے پر چمک سی ائی اور ناذی شروع ھوگئی‬
‫کتھے گیا ھویا سی آوارہ گردا‬
‫میں نے کہا‬
‫پونک نہ ایویں اپنا منہ بند رکھ‬
‫تو نسرین جو میرے پیچھے ھی کھڑی تھی اس نے ایڑیاں اٹھا کر میرا کان پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی شرم نھی آتی بڑی‬
‫بہن کے ساتھ بتمیزی کرتے ھو‬
‫میں نے اپنا کان چھڑواتے ھوتے کہا ھاےےےےےے چھڈ میرا کن چولے‬
‫تو عظمی نے نسرین کو گھورتے ہوے کہا شرم کر‬
‫اور میں نے کان چھڑوایا اور کان کو مسلتا ھوا‬
‫عظمی اور نازی کے پاس دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا‬
‫عظمی نے پوچھا یاسر کھانا لے کر آوں تو میں نے کہا نھی میں کھا کر آیا ھوں‬
‫دودھ پیوں گا مگر ابھی نھی اور ساتھ ھی نازی سے بچا کر اسے آنکھ ماردی‬
‫عظمی نے شرما کر منہ نیچے کرلیا‬
‫میں نے عظمی اور نسرین سے انکے ماموں کا افسوس کیا اور کچھ دیر افسوس کا ماحول چلتا رھا‬
‫پھر نسرین بولی‬
‫چلو سب صحن میں سب پکڑن پکڑائی کھیلتے ہیں‬
‫تو میں چارپائی پر لیٹتے ھوے بوال نہ بابا میں نے تو نھی کھیلنا‬
‫تو نسرین نے میرے پیر کو پکڑا اور کھینچتے ھو مجھے چارپائی سے گرانے کی کوشش کرتے ھو کہنے لگی آرام سے‬
‫اٹھتے ھو کی گراوں نیچے میں نے ہنستے ھوے کہا اچھا چھوڑو آتا ھوں تو ہم چاروں باہر صحن میں آگئے‬
‫صحن کافی ُک ھال تھا‬
‫جس میں ایک بیری کا درخت لگا ھوا تھا‬
‫اور صحن میں ‪ 100‬واٹ کا بلب لگا ھوا تھا جس کے نیچے چولہا تھا اور دھویں سے بلب کی روشنی نہ ھونے کے برابر‬
‫تھی‬
‫باہر آکر میں نے کہا اندھیرے میں کیسے پکڑن پکڑائی کھیلیں گے‬
‫تو عظمی بولی کچھ نھی ہوتا اتنے دنوں بعد تو کھیلنے کا موقع مال ھا‬
‫میں نے کہا چلو جی جیسے آپ کی مرضی‬
‫پھر ہم نے اپنی اپنی باری پگنا شروع کردی‬
‫پہلی دفعہ نسرین ھار گئی‬
‫نسرین کی انکھوں پر دوپٹہ باندھ دیا اور وہ اندھوں کی طرح باہیں پھیالے ادھر ادھر ہاتھ چالتے ھوے گھومنے لگ گئی‬
‫جدھر سے آواز آتی وہ اسطرف بھاگ پڑتی دو دفعہ بیچاری بیری کے درخت سے ٹکرائی‬
‫ہمارا ہنس ہنس کے براحال ھوتا رھا دس پندرہ منٹ تک وہ ایسے ھی کبھی میری آواز سن کر میری طرف بھاگتی کبھی‬
‫نازی کی طرف اور کبھی عظمی کی طرف‬
‫مجھے اس بیچاری پر ترس آیا تو میں نے جان بوجھ کر اسکے قریب ھوا تو اس نے میرا بازو پکڑ کر بڑی فاتحانہ انداز میں‬
‫چیخ کر فاتح کا اعالن کیا‬
‫اب میری باری تھی‬
‫تو نسرین نے جلدی دوپٹہ پکڑا اور میرے پیچھے آکر میری آنکھوں پر دوپٹہ باندھنے کی کوشش کرنے لگ گئی‬
‫میرا قد نسرین سے لمبا تھا اس لیے نسرین ایڑیاں اٹھا کر میری آنکھوں پر دوپٹہ باندھ رھی تھی تو اسکے ممے میری کمر‬
‫کو چھو رھے تھے‬
‫نسرین کے نرم ممے جیسے میری کمر پر لگتے تو میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ جاتا نسرین جیسے ھی میری آنکھ پر‬
‫دوپٹہ سہی کرنے کی کوشش کرتی تو میں جان بوجھ کر آگے کو جھک جاتا تو نسرین بھی میرے پیچھے میرے اوپر جھک‬
‫جاتی جسکی وجہ سے نسرین کے ممے میری کمر کے ساتھ رگڑ کھا جاتے‬
‫میں نے چار پانچ دفعہ ایسے کیا تو‬
‫نسرین جنجھال کر بولی مجھ سے نھی اس لمبو کے دوپٹہ باندھا جاتا‬
‫تو نازی آگے بڑی اور نسرین کے ھاتھ سے دوپٹہ لے کر میرے باندھنے لگ گئی‬
‫میں نے آرام سے نازی سے دوپٹہ بندھوا لیا اور‬
‫ہاتھ لمبے کر کے جس طرف سے آواز آتی اسطرف بھاگنے لگ جاتا تو مخالف مجھے چکما دے کر دوسری طرف ھو جاتا‬
‫میں اندھوں کی طرح ایسے ھی ھاتھ مار رھا تھا‬
‫کافی دیر ایسے ھی بھاگ دوڑ ھوتی رھی‬
‫کہ مجھے نسرین کی آواز اپنے دائیں طرف سے آئی تو میں نے اسکو محسوس نھی ھونے دیا کہ مجھے اسکی آواز سنائی‬
‫دی ھے جبکہ دوسری طرف سے نازی اور عظمی کی آواز آرھی تھی جو کچھ دور لگ رھی تھی‬
‫)‪.Update no (49‬‬
‫میں نے پہلے بازوں نازی کی آواز کک سمت ایسے کیے جیسے میں اسکو پکڑنے کے لیے بھاگنے لگا ھوں‬
‫مگر میرا ٹارگٹ نسرین تھی جو میرے قریب ھی کھڑی تھی‬
‫میں نے ایکدم بازوں کا رخ نسرین کی آواز کی طرف کیا اور تھوڑا آگے بڑھا تو میرے دونوں ھاتھ کسی نرم سی چیز سے‬
‫ٹکراے تو میں نے جلدی سے ان نرم چیزوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیا‬
‫اسکے ساتھ ھی نسرین کے ہلکی سی چیخ نکلی اور ساتھ ھی اس نے کہا ہارے ربا‬
‫اور نسرین نے میرے ھاتھوں پر ھاتھ رکھ کر نرم نرم چیزوں کو چھڑوانا چاھا اور پیچھے کو ہٹنے لگی تو میرا پیر کسی‬
‫چیز سے ٹکرایا اور میں نسرین کے مموں کو پکڑے ھوے اسکو ساتھ لیے نیچے جاگرا نسرین میرے نیچے تھی اور میں‬
‫اسکے اوپر گرتے وقت نسرین کے ممے میرے ھاتھ سے نکل گئے تھا اور اب میعء سینے کے ساتھ اس کے ممے چپکے‬
‫ھوے تھا نسرین کی دونوں ٹانگیں کھلی تھی اور میرا لن واال حصہ اسکی پھدی کے بلکل ساتھ ایسے چپکا ھوا تھا جیسے میں‬
‫لن اسکی پھدی میں ڈال کر اسے چود رھا ھوں‬
‫نسرین کے منہ سے چیخ نکلی تھی‬
‫اور گرتے وقت میں نے اسکے کندھوں کے پیچھے اپنے بازو کردیے تھے جس کی وجہ سے اسے چوٹ تو نھی لگی مگر‬
‫میرے ممے پکڑنے اور پھر ایسے اسکے ساتھ چپک جانے کی وجہ سے وہ ڈر گئی تھی‬
‫اس لیے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‬
‫ایسا بس چند سیکنڈ ھی ھوا تھا‬
‫اس سے پہلے کہ نازی اور عظمی ہمار ے سر پر پہنچتی میں جلدی سے نسرین کے اوپر سے اٹھا اور دوپٹے کو آنکھوں‬
‫سے اتار کر حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا جیسے ابھی آسمان سے گر کر زمین پر پہنچا ھوں نسر ین اپنی کمر‬
‫کو پکڑے بیٹھی ھوے ھوے کررھی تھی‬
‫عظمی اور نازی بھی بھاگتی ھوئی ہمارے پاس پہنچ گئی‬
‫اور میری دشمن نے آتے ھی نسرین سے پوچھنا شروع کردیا کہ بچ گئی چوٹ تو نھی لگی‬
‫اور میری ہمدرد عظمی نے مجھ سے پوچھنا شروع کردیا کہ چوٹ تو نھی لگی میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ نھی ھوا بچ‬
‫گئے ہین‬
‫تو عظمی نسرین کو بولنے لگ گئی کہ ہن مزہ آگیا کھیلن دا تینوں وی بڑا چا سی پھڑن پھڑائی کھیلن دا‬
‫تو نسرین چپ تھی کچھ بولی نہ بس عظمی کو گھور گھور کر دیکھی جارھی تھی‬
‫نازی نے بھی نسرین کو اٹھا کر کھڑا کردیا تھا اور‬
‫نسرین کی گانڈ کو جھاڑ رھی تھی‬
‫میں نے جیسے ھی نسرین کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ چوٹ تو نھی لگی‬
‫تو نسرین نے میری طرف دیکھا اور شرما کر نظریں نیچے کرلیں اور بولی بچ گئی ھوں ورنہ تم نے تو کوئی کسر نھی‬
‫چھوڑی تھی کہ میری کمر توڑنے کی‬
‫ایسے ھی ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رھے‬
‫پھر کمرے میں چلے گئے‬
‫کمرے میں دو ھی چار پائیاں تھی ایک پر نسرین اور نازی لیٹ گئی دوسری پر عظمی‬
‫میں نے پوچھا کہ‬
‫میں نے کہاں لیٹنا ھے‬
‫تو نازی بولی تم ساتھ والے کمرے میں لیٹ جاو‬
‫تبھی‬
‫عظمی اٹھی اور بولی چلو میں بستر کر دیتی ھوں‬
‫اور میں عظمی کے پیچھے چلتا ھوا‬
‫دوسرے کمرے میں آگیا‬
‫کمرے میں آتے ھی میں نے عظمی کو جپھی ڈال لی اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگ گیا‬
‫اور اسکا مما پکڑ کر دبانے لگ گیا‬
‫عظمی آہستہ سے بولی‬
‫چھوڑو مجھے پاگل ھوگئے ھو‬
‫وہ دونوں جاگ رھی ہیں‬
‫میں نے کہا جاگنے دو‬
‫۔تو عظمی بولی‬
‫یار سمجھا کرو‬
‫اگر ان میں سے کوئی آگئی تو بڑا مسئلہ بن جاے گا‬
‫میں کہیں بھاگی تو نھی جارھی تھوڑا صبر کرلو انکو سونے دو میں ادھر آجاوں گی‬
‫میں نے کہا یار مجھ سے صبر نھی ھورھا کتنے دن ہوگئے ہیں‬
‫عظمی میرے سینے پر مکہ مارتے ھوے بولی‬
‫میں نے کہا نہ کہ آتی ھوں تھوڑی دیر کہ بعد اور عظمی نے میرے ہوںنٹوں پر ایک لمبی سی ذور دار کس کی اور مجھ سے‬
‫علیحدہ ھو کر چارپائی کی طرف چلی گئی جو پہلے ھی بچھی ھوئی تھی اس پر چادر بچھا کر جانے لگی تو دروازے کے‬
‫قریب پہنچ کر رک گئی اور میری طرف گھوم کر بولی دودھ گرم پینا ھے کہ ٹھنڈا‬
‫میں نے کہا منہ لگا کر تازہ پینا وہ بھی جب تم آو گی‬
‫تو ہنسی اور ہاتھ میری طرف کر کے اشارے سے بولی کوئی حال نئی تمہاری‬
‫اور کمرے سے باہر چلی گئی‬
‫میں چارپائی پر لیٹ گیا اور نسرین کے نرم مموں میں کھو گیا کہ کیا کمال کے ممے تھے میرا تو کبھی دھیان ھی نھی گیا‬
‫اسطرف‬
‫کافی دیر میں ایسے ھی سوچتا رھا اور سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی‬
‫اور خواب میں نسرین کو چودنے لگ گیا‬
‫اس سے پہلے کہ میں خواب میں نسرین کی پھدی کے اندر ھی فارغ ھوتا‬
‫اچانک مجھے ایسا لگا کہ مجھے کو ئی جنجھوڑ رھا ھے‬
‫میں نے جیسے ھی آنکھیں کھولی تو جو چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا میں اسے آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا تھا‬
‫کیونکہ وہ چہرہ‪..‬؟؟؟؟؟؟‬
‫میں آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا کہ جسکو خواب میں چود رھا تھا‬
‫یہ چہرہ تو وہ نھی‬
‫کہ عظمی نے میری گال تھپتھپا کر مجھے خواب سے باہر نکال دیا‬
‫اور غصے سے دبی آواز میں بولی‬
‫مجھے آنے کا کہہ کر خود گھوڑے بیچ کر سوے ھوے ھو‬
‫میں نے عظمی کو دونوں بازوں سے پکڑا اور اپنے سینے کے اوپر گرا لیا‬
‫عظمی میرے سینے پر لیٹے ھوے میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫کب سے اٹھا رھی ہوں‬
‫جناب کو کوئی ہوش ھی نھی تھا‬
‫میں نے کہا بس یار تمہیں یاد کرتے کرتے سوگیا پتہ ھی نھی چال‬
‫عظمی کی ٹانگیں چارپائی سے نیچے تھی اور وہ چارپائی پر گانڈ میرے ساتھ لگا کر میرے سینے پر اپنے ممے رکھے‬
‫ھوے لیٹی تھی اسکا منہ میرے منہ سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اسکی گرم سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی‬
‫عظمی بولی چل جھوٹا‬
‫جب کوئی کسی کو یاد کرتا ھے اسکی تو نیندیں اڑ جاتی ہیں‬
‫اور تم جسے یاد کرنے کا جھوٹ بول رھے ھو‬
‫وہ کب سے تمہیں اٹھانے لگی ھے‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا چھوڑو یہ بتاو کہ وہ دونوں چڑیلیں سو گئی کہ نئی‬
‫تو عظمی نے پیارے سے میری گال پر چپت لگاتے ھوے بولی‬
‫پاگل اگر وہ جاگتی ھوتی تو میں نے آنا تھا‬
‫میں نے کہا‬
‫یعنی کہ وہ سوگئی ہیں تو عظمی نے دھیمی ہنسی ہنستے ھوے کہا‬
‫بدھو وہ تو کب کے سوئی ہوئی ہیں‬
‫میں تو صحن کی الئٹ بھی بند کرکے آئی ھوں‬
‫میں نے اپنے منہ کو تھوڑا آگے کیا اور عظمی کے ہونٹ چومتے ھوے کہا گڈ سیانی ھوگئی ھو‬
‫عظمی نے تین چار دفعہ میرے ہونٹوں پر کس کی‬
‫اور بولی‬
‫کیا ساری رات مجھے ایسے ھی بیٹھاے رکھنا ھے میں تھک گئی ھوں تھوڑا سے پیچھے ہٹو‬
‫یہ کہتے ھوے عظمی میرے ساتھ لیٹ کر مجھے دوسری طرف دھکیلتے ھوے جگہ بنانے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کو کہا یار نیچے کوئی چیز بچھا لو چارپائی پر تنگ ھوں گے ساری جگہ تو تم نے ھی گھیر لی ھے یہ‬
‫دیکھو میں نیچے گرنے واال ھوگیا ھوں‬
‫میں نے جان بوجھ کر چارپائی کے کنارے پر پہنچ کر گرنے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا تھا ۔۔‬
‫عظمی نے میرے سینے پر مکا مارتے ھوے کہا‬
‫چل شوخا‬
‫میں اتنی بھی موٹی نھی ھوں‬
‫میں نے کہا یار پھر‬
‫ایسے چارپائی کی چوں چوں نے پورا محلہ اکھٹا کر لینا ھے‬
‫عظمی میری بات سن کر ہنستے ھوے اٹھی اور مجھے بھی اٹھنے کا کہا‬
‫اور پھر چارپائی سے گدا اٹھا کر نیچے بچھا دیا میں نے گدے کے اوپر چڑھ کر پیروں پر وزن ڈالتے ھوے کہا‬
‫یار اگر ایک گدا اور بچھا دو تو مزہ آجاے گا‬
‫عظمی کچھ دیر سوچتی رھی پھر بولی ایک منٹ میں دیکھ کر التی ھوں اور وہ دبے پاوں چلتی ھوئی دوسرے کمرے میں‬
‫گئی اور وہاں سے ایک اور گدا اٹھا کر لے آئی‬
‫اور ال اسے بھی اسی گدے کے اوپر بچھا دیا‬
‫اور دو سرھانے بھی رکھ دیے‬
‫اور چوکڑی مار کر گدے پر ایسے بیٹھ گئی جیسے میرے ساتھ تاش کھیلنے لگی ھو‪،‬‬
‫میں نیچے بیٹھا اور ساتھ ھی لیٹ گیا‬
‫اور عظمی کو پکڑ کر بھی لٹا لیا‬
‫اور ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے کے ساتھ جپھی ڈال کر لیٹے ھوے ایک دوسرے کے ہونٹ چومنے لگ گئے‬
‫میرا لن فل کھڑا ھوگیا تھا اور عظمی کی پھدی پر دستک دے رھا تھا کہ جلدی دروازہ کھولو آج صبح سے کھجل ھورھا ھوں‬
‫۔‬
‫کچھ دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے کے بعد‬
‫میں اٹھا اور اپنی قمیض اتار دی اور پھر بنیان بھی اتار کر ایک سائڈ پر رکھ دی‬
‫اور پھر عظمی کو اٹھنے کا کہا تو وہ بولی کیا ھے‬
‫میں نے اسکی قمیض پکڑ کر کہا کہ اسے اتارو‬
‫تو عظمی بولی نھی قمیض نھی اتارنی اگر وہ اٹھ گئیں تو اتنی جلدی مجھ سے نھی پہنی جانی‬
‫میں نے کہا یار اگر تمہیں انکا اتنا ھی ڈر تھا تو آتی ھی نہ‬
‫چلو اٹھو اتارو قمیض‬
‫عظمی کی مصیبت اے کہتی ھوئی اٹھی اور اپنی قمیض اتار کر سیدھی کر کے رکھ دی اور بریزیر پکڑ کر بولی اسکو بھی‬
‫اتار دوں میں نے کہا ھاں جی‪ ،‬۔۔۔‬
‫اس نے پھر پیچھے ھاتھ کر کے اپنا بریذیر کھوال اور اسے بھی اتار دیا‬
‫اور قمیض کے اوپر ھی رکھ دیا‬
‫عظمی کا گورا بدن اندھیرے میں بھی چمک رھا تھا‬
‫صحن میں چاند کی روشنی تھی جو ہلکی ہلکی اندر بھی آرھی تھی‬
‫کمرے میں اندھیرا تھا مگر اتنا بھی نھی کہ ایک دوسرے کو بلکل بھی دیکھ نہ سکتے‬
‫میں نے عظمی کو جپھی ڈال کر پھر اسی پوزیشن میں لٹا لیا اب عظمی کا اور میرا اوپر واال ننگا حصہ ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ُجڑا ھوا تھا ۔‬
‫اور پھر سے ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے‬
‫میں نے ایک ھاتھ نیچے کیا اور‬
‫اپنا ن‬
‫ازاربند کھوال اور لن کو ہوا لگائی‬
‫اور ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے ھاتھ کو پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا‬
‫عظمی بھی فل گرم ھوچکی تھی اس نے میرے لن کو مٹھی میں بھر کر مٹھ مارنے کے انداز میں ھاتھ کو اوپر نیچے کرنے‬
‫لگ گئی‬
‫اور کبھی ھاتھ کو کھول کر انگلیوں سے لن کا مساج کرتی اور کبھی ٹوبے کے گرد انگلیوں کو گھماتی اور انگوٹھے سے‬
‫ٹوپے کی اکلوتی آنکھ کو ناخن کی مدد سے کھولتی اور انگوٹھے کے پورے سے ٹوپے کو مسلتی ایسے ھی مزے لے لے‬
‫کر لن کے ساتھ کھیلتی اور کبھی ھاتھ پورا نیچے لیجا کر ٹٹوں کو انگلیوں سے مسلتی اور پھر ویسے ھے ہتھیلی لن پر رکھ‬
‫کر انگلیوں کو اوپر کی طرف لے آتی‬
‫اور میرا لن اسکی شرارتوں سے جھٹکے کھانے لگ جاتا‬
‫میں نے ایک ھاتھ اسکی السٹک والی شلوار میں ڈال کر اسکی مالئم گانڈ پر پھیر رھا تھا اور آہستہ آہستہ اسکی شلوار بھی‬
‫نیچے کرتا جارھا تھا‬
‫میں نے جب اسکی پوری گانڈ سے شلوار اتار دی تو ھاتھ کی درمیان والی انگلی کو اسکی گانڈ کی دراڑ میں پھرنے لگ گیا‬
‫عظمی کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور وہ گانڈ کو بھینچنے لگ گئی تھی میری انگلی جیسے ھی اسکی گانڈ کے سوراخ پر لگتی‬
‫تو وہ گانڈ کو ذور سے بھینچ لیتی‬
‫میں نے ھاتھ تھوڑا سا لمبا کر کے گانڈ کی موری سے تھوڑا آگے کیا تو میری انگلیاں عظمی کی پھدی سے ٹکرائیں اور‬
‫ساتھ ھی میری انگلیاں آگے سے گیلی ھوگئی‬
‫عظمی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی‬
‫جس سے میری انگلیاں گیلی ھوگئی اور میں ان گیلی انگلیوں کو پیچھے کر کے اسکی گانڈ کی مورے کے کنگروں پر سارا‬
‫پانی مل کر انگلیاں صاف کر کے پھر پھدی کی طرف لے جاتا اور پھدی کے تالب میں انگلیوں کو گیال کرتا اور پھر ال کر‬
‫گانڈ کے سوراخ کو مزید گیال کر دیتا ایسے کئی دفعہ کرنے سے اسکی گانڈ کی موری میں کافی چکنائی ھو گئی تھی اور‬
‫اسکی موری کے کنگرے بھی نرم ھو چکے تھے‬
‫اب میں نے ایک انگلی اسکی موری پر رکھی اور ہلکے سے اندر کی‬
‫تو عظمی نے اوئییییی کیا اور میرے بازو کو کہنی مار کر پیچھے کرنے کو کہا میں نے آہستہ سے کہا آرام سے لیٹی رھو‬
‫تو عظمی بولی پیچھے سے کیوں کر رھے ھو اپنے ھاتھ گندے کرو گے‬
‫میں نے کہا‬
‫تینوں ٹٹی آئی اے تے جا پج کے کر آ‬
‫تو عظمی نے میرے لن کو ذور سے دبا کر کہا چل گندا‬
‫شرم نھی آتی ایسی گندی باتیں کرتے ھوے‬
‫میں نے کہا تم جو کہہ رھی ھو کہ ھاتھ گندے کرنے ھے‬
‫تو عظمی بولی میرا مطلب ھے کہ گندی جگہ ھے ادھر نہ کرو‬
‫میں نے کہا تم فکر نہ کرو میں نے تمہاری پھدی کے پانی سے اچھی طرح دھو لی ھے وہ جگہ‬
‫۔عظمی نے شرما کر اپنا منہ میرے گلے میں دیتے ھوے کہا‬
‫یاسر تم بہت ھی بے شرم ھو گئے ھو‬
‫تو میں نے کہا‬
‫شرم ساری اتار کر سائڈ پر رکھ دی ھے اس لیے تم بھی اب ڈرامے نہ کرو‬
‫اور یہ کہتے ھی میں نے عظمی کی گانڈ میں کافی ساری انگلی اندر کردی‬
‫تو عظمی نے ساتھ ھی‬
‫اوئییییییییییی میں مرگئی‬
‫یاسر نہ کر ادھر سے درد ھوتا ھے‬
‫میں نے انگلی اندر باہر کرتے ھوے کہا دیکھنا ابھی کتنا مزہ آتا ھے‬
‫عظمی بولی مجھے نھی لینا ایسا مزہ‬
‫میں نے عظمی کی گانڈ کے سوراخ سے انگلی نکالی اور پھر اسکی شلوار آگے سے بھی نیچے کی اور اپنی شلوار کو‬
‫بھی اتار کر ہاوں سے نکال کر سائڈ پر رکھا‬
‫اور عظمی کی شلوار بھی پاوں سے نکال کر رکھنے لگا تو عظمی میرے ھاتھ سے شلوار پکڑی اور اسکو سیدھی کر کے‬
‫قمیض کے اوپر رکھ دیا میں اور عظمی اب مادر زاد ننگے تھے‬
‫میں نے عظمی کی پھدی پر ھاتھ پھیرا تو عظمی تڑپ کر میرے ساتھ چپک گئی میں نے عظمی کو اہنے سے الگ کیا اور‬
‫سیدھا لٹا دیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گیا اور تین چار دفعہ اسکے گول مموں کو باری باری چوما عظمی کے نپل۔ایک دم اکڑے‬
‫ھوے تھے اور سخت ھوگئے تھے‬
‫میں اٹھا اور کھڑا ھوکر عظمی کے سینے کے دونوں اطراف ٹانگیں کی اور مموں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر نیچے اسکے‬
‫مموں کے درمیان لن کو رکھ کر مموں کو آپس میں جوڑ کر گھسے مارنے لگ گیا‬
‫عظمی میرے اس نئے طریقے کو فل انجواے کر رھی تھی میں عظمی کو کہا کہ اپنے دونوں مموں کو پکڑ کر لن کو اس‬
‫میں بھینچ لے عظمی نے جلدی سے دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں مال دیا اور میں لن عظمی کے مموں کے درمیان آگے‬
‫پیچھے کرنے لگ گیا‬
‫لن آگے سے نکل کر عظمی کی ٹھوڑی کے ساتھ لگ رھا تھا مجھے ایسا کر کے بہت ھی مزہ آرھا تھا‬
‫میں نے عظمی کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کیا اور ہاتھ اسکی گردن میں پر رکھ کر سر کو مزید اوپر کردیا‬
‫اب میرے لن کا ٹوپا عظمی کے ہونٹوں پر لگتا‬
‫عظمی پہلے تو ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر ٹوپے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر نفرت کا اظہار کرتی‬
‫تو میں نے کہا عظمی اسکو کس کرو‬
‫عظمی نے میرے اصرار پر ٹوپے کو چومنا شروع کردیا جب بھی ٹوپا اسے کے ھونٹوں کو چھوتا تو عظمی ٹوپے کو چوم‬
‫لیتی‬
‫عظمی کا تو پتہ نھی مجھے یہ سب کر کے بہت اچھا لگ رھا تھا‬
‫میں نے یہ بلیو فلم میں دیکھا تھا‬
‫اور اس کا پریکٹیکل آج پہلی دفعہ کر رھا تھا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی مموں میں گھسے مارتا رھا اور عظمی متواتر میرے ٹوپے کو چومتی رھی‬
‫میں نے اسی پوزیشن می ایک ھاتھ پیچھے کیا اور عظمی کی پھدی پر دو انگلیاں رکھ کر پھدی کے دانے کو ہڈی کے ساتھ‬
‫لگا کر مسلنے لگ گیا‬
‫میں نے جیسے ھی دانے کو مسال‬
‫عظمی نے مزے کی لزت میں آہ آہہہہہ کیا اور ایسا کرنے سے اسکا منہ کھال ادھر ٹوپا اسکے منہ کے پاس پہنچ گیا تو میں‬
‫تھوڑا اور آگے کو ہوا اور اسکی گردن کے پیچھے رکھے ھوے ھاتھ کو مزید اوپر کیا جس سے عظمی کا منہ مذید میرے لن‬
‫کے قریب ھوگیا اور ٹوپا سیدھا عظمی کے منہ کے اندر چال گیا‬
‫عظمی نے جلدی سی منہ ہپپپ کر کے بند کیا تو پوراٹوپا اسکے منہ کے اندر ھی اسکے ہونٹوں میں دب گیا‬
‫عظمی نے جلدی سے سر ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی مگر اسکی گردن میرے ھاتھ میں تھی میں نے اسکے سر کو ہلنے‬
‫ھی نھی دیا بلکہ گردن کو اور اوپر کر دیا جس سے ٹوپا اسکے منہ کت اندر پھنس گیا‬
‫میں نے ساتھ ھی کہا جان چوسو اسے‬
‫تو عظمی نفی میں سر ہالنے کی کوشش کرنے لگ گئی ادھر میں اسکی پھدی کے دانے کو مسلی جارھا تھا‬
‫آخر پھدی کے دانے کی لذت نے عظمی کو لن چوسنے پر مجبور کر دیا اور عظمی نے ہار مانتے ھوے صٍر ف ٹوپے کو‬
‫چوسنا شروع کردیا‬
‫لن ایسے ھی اسکے مموں کو چود رھا تھا اور جب بھی لن عظمی کے منہ کے قریب جاتا عظمی دلی گیٹ کی طرح منہ کو‬
‫کھول کر ٹوپے کو اندر جانے کا راستہ دے دیتی اور ٹوپا جب اندر جاتا تو ہونٹوں کو بھینچ لیتی اور میں ٹوپے کو واپس‬
‫کھینچتا تو ایک مزے کی لہر میرے سارے جسم میں دوڑتی‬
‫مجھے ایکدم ایسے لگا جیسے میری منی نکلنے والی ھوگئی ھے‬
‫میں نے پھدی کے دانے کو مسلنا تیز کردیا اور عظمی نے مزے کی بڑھتی ھوئی شدت کی وجہ سے آنکھیں بند کرلی اور‬
‫اسے پریکٹس بھی ھوگئی تھی کہ کب لن کے ٹوپے کو چوسنا ھے اور کب اسے اندر انے کا راستہ دینا ھے‬
‫مموں کے درمیان میرے گھسوں کی سپیڈ تیز ھوگئی‬
‫ادھر میری انگلی بھی تیزی سے پھدی کے دانے کو مسلی جارھی تھی ادھر میری ٹانگوں سے جان نکل رھی تھی ادھر‬
‫عظمی کا جسم اکڑ رھا تھا‬
‫جیسے جیسے میری سپیڈ بھڑتی جارھی تھی ویسے ھی عظمی کی جان نکلنے والی ھوگئی تھی‬
‫کہ اچانک عظمی کے جسم نے ذور دار جھٹکا لیا اور عظمی نے اپنی ٹانگوں کو زور سے بھینچ لیا دوسری طرف میرا بھی‬
‫آخری گھسا لگا اور عظمی کے جسم کے جھٹکے جاری تھے کہ عظمی نے جھٹکے مارتے ھوے لن کے ٹوپے کومزید اندر‬
‫نگل کر منہ میں جکڑ کر چوسنا شروع کردیا‬
‫میرے لن سے بھی اتنا زبردست چوپا برداشت نہ ھو تو‬
‫میرے لن سے منی کے فوارے عظمی کے منہ میں ھی نکلنے لگے میں بھی کانپتے ھو عظمی کی گردن کو مذید جکڑ لیا‬
‫اور لن کی منی عظمی کہ منہ میں ھی برسانے لگا‬
‫ادھر عظمی کے جسم کو جھٹکے لگ رھا تھے اسکی پھدی منی اگل رھی تھی اور اس دوران اس کے منہ میں زہر بھی ھوتا‬
‫تو نگل جاتی‬
‫عظمی فارغ ھوتے ھوے مزے میں اتنی ڈوبی ھوئی تھی کہ اسے یہ بھی احساس نہ ھوا کہ نیچے اسکی پھدی منی اگل رھی‬
‫ھے اور اوپر اسکے منہ کے اندر میرا ببر شیر منی اگل رھا ھے اور عظمی ویسے ھی لن کو چوس۔چوس کر منی گلے کے‬
‫اندر ھی نگل رھی تھی‬
‫کہ ۔۔۔۔‬
‫عظمی کو یکلخت ہوش آیا کہ وہ میرے لن کی ساری منی نگل گئی ھے‬
‫عظمی نے جلدی سے سر کو پیچھے کیا میرے ہاتھ کی گرفت بھی ڈھیلی ہوگئی جس کی وجہ سے میرا لن جو آخری ہچکیاں‬
‫لے رھا تھا ۔‬
‫عظمی کے منہ سے باھر آگیا‬
‫عظمی نے ایک ھاتھ اپنے منہ پر رکھا اور دوسرا ھاتھ میرے پیٹ پر رکھ کر‬
‫مجھے پیچھے دھکیل دیا میں بھی ٹھنڈا ھوچکا تھا‬
‫دماغ کی ساری گرمی لن کے راستے سے عظمی کے منہ میں نکل کر اسکے معدے میں اتر چکی تھی ۔‬
‫عظمی جلدی سے اٹھ کر گدے کے دوسری طرف منہ کر کے الٹی کرنے کی کوشش کرتے ھوے ذور لگا کر کھانسنے لگ‬
‫گئی مگر منی اس کے معدے میں جاچکی تھی اور معدے نے منی ہضم کرلی تھی اب سواے تھوک اور پانی کے اسکے منہ‬
‫سے کچھ نھی نکل رھا تھا‬
‫میں عظمی کی حالت سے بے خبر ھوکر سیدھا لیٹا‬
‫لمبے لمبے سانس لے کر خود کو ریلیکس کر رھا تھا۔‬
‫کچھ دیر بعد عظمی نے میری طرف منہ کیا اور میرے نیم مردہ ننگے لن کو پکڑ کر مروڑتےھوے غصے سے بولی‬
‫میں اینوں توڑ دینا اے‬
‫عظمی کی گرفت کافی مضبوط تھی جس کی وجہ سے مجھے کافی درد ھوئی اور میں ٹانگیں سکیڑ کر ھاےےےےےے‬
‫کیا اور اسکی کالئی پکڑ کر زور سے دبا دی جس سے عظمی کو اپنی نازک سی کالئی میں درد کا احساس ھوا تو اس نے‬
‫گرفت ڈھیلی کی اور لن کو چھوڑ کر میرے پیٹ کے اوپر ٹانگیں دونوں اطراف کر کے بیٹھ گئی‬
‫عظمی کی چکنی پھدی سے پانی نکال جس سے میرا پیٹ بھی گیال ھوگیا‬
‫عظمی نے میرے پیٹ پر سوار ھوتے ھی میرا گال دبانے کے لیے ھاتھ آگے بڑھاے اور بولی‬
‫شوخیا میں تیرا گال ُک ٹ دینا اے سارے جہان دے گندے کم تیرے وچ ای اے‬
‫میں نے ہنستے ھوے اسکے دونوں ھاتھوں کو کالئیوں سے پکڑ لیا‬
‫اور انکو پکڑے ھوے ھی پیچھے اسکی کمر کے ساتھ لگا کر عظمی کو آگے اپنے اوپر ُجھکا لیا‬
‫عظمی بولی‬
‫یاسر یہ اچھا نھی کیا تم نے‬
‫میں نے کہا یار تم نے چوپا ھی بڑے کمال کا لگایا تھا‬
‫مجھے پتہ ھی نھی چال‬
‫عظمی کے مموں کے نپل میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھو رھے عظمی کا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پر تھا‬
‫عظمی بولی اچھا میرے ھاتھ تو چھوڑو‬
‫میں نے کہا نھی جی تم نے میرا گال دبا دینا ھے‬
‫عظمی بولی نھی دباتی چھوڑ دو بازو‬
‫میں نے عظمی کے بازو چھوڑ دیے‬
‫اور ویسے ھی اسکی کمر کے گرد بازو رکھے عظمی‬
‫بولی‬
‫اب جاوں میں تو میں نے بازوں کا گھیرا تنگ کر کے عظمی کو مزید اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے کہا‬
‫ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور جناب جانے کی باتیں کررھی ھے‬
‫عظمی مصنوعی غصے سے میرا کان پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی‬
‫گندے بچے میرا سارا منہ گندا کردیا ھے اور ابھی کہتے ھو کہ کچھ کیا ھی نھی‬
‫میں نے عظمی کو کہا‬
‫ابھی بتاتا ھوں کہ کیا کرنا باقی ھے‬
‫اور ساتھ ھی میں نے عظمی کے دونوں مموں کو پکڑا اور اپنے منہ کی طرف مموں کے نپل کئے اور سر اونچا کر کے‬
‫مموں کو باری باری چوسنے لگ گیا۔‬
‫عظمی کے منہ سے یکلخت سسکاری نکلی‬
‫اور عظمی نے ساتھ ھی پھدی کا دباو میرے پیٹ پر بھڑا دیا‬
‫کچھ دیر عظمی کے ممے چوسنے کے بعد‬
‫میرے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا‬
‫اور پیچھے سے عظمی کی گانڈ کے دراڑ کے ساتھ لگنے لگ گیا‬

‫)‪.Update no (50‬‬
‫عظمی مزے لے لے کر خود اپنے ممے کو پکڑے نپل کو میرے منہ ڈال رھی تھی‬
‫میرا لن بھی فل تن چکا تھا‬
‫میں نے عظمی کی کمر کو پکڑا اور اسے اوپر کیا تو عظمی نے اپنی پھدی میرے لن سے اٹھا کر تھوڑی اوپر کی‬
‫میں عظمی کو کہا تھوڑا پیچھے ھو جاو‬
‫عظمی ڈوگی سٹائل میں ھی پیچھے ھوئی اور پھدی کو لن کے اوپر کر دیا‬
‫میں ہاتھ نیچے لیجا کر‬
‫لن کو جڑ سے پکڑا اور عظمی کی پھدی کے ہونٹوں کے بیچ سیٹ کرنے لگا‬
‫عظمی سمجھ گئی تھی اب کاال ناگے پھدی کا ستیاناس کرنے لگا ھے‬
‫تو عظمی نے جھٹ سے پھدی کو لن سے اوپر کیا اور‬
‫خود ہاتھ نیچے کر کے لن سے میرا ھاتھ ہٹا کر خود لن کو پکڑتے ھوے بولی‬
‫یاسر میں خود اندر کروں گی‬
‫تم پلیز دھکا نہ مارنا نھی تو میری چیخ‬
‫انکے کمرے تک جانی ھے‬
‫میں نے بھی لن کو چھوڑ دیا اور اسکی کمر کو دونوں طرف سے پکڑ لیا‬
‫عظمی نے لن کی ٹوپی کو پھدی کے لبوں میں اچھی طرح پھیر کر پھدی کے تھوک سے گیال کیا اور لن کو پھدی کے‬
‫سوراخ پر رکھ کر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھنے لگ گئی‬
‫آدھا لن عظمی نے پھدی میں آہ آہ آہ اوییییی کرتے لے لیا اور پھر گانڈ کو اٹھا ااٹھا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آدھے لن کا‬
‫ھی مذہ لینے لگ گئی ۔‬
‫میں بھی نیچے سے گانڈ اٹھا کر لن مذید اندر کرنے کی کوشش کرتا مگر عظمی ساتھ ھی اوپر ھو جاتی اور کہنے لگ جاتی‬
‫یاسر تم کچھ مت کرو آج میں خود ھی کروں گی‬
‫میں ہمممم کر کے مما منہ میں لے کر چوسنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی عظمی آدھے لن پر اوپر نیچے ھوتی رھی اور میں عظمی کے دونوں مموں کو باری باری چوستا رھا‬
‫عظمی نے آہستہ آہستہ پورا لن پھدی کے اندر اتار لیا‬
‫اور ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر لمبی کر کے پورا لن اندر لے کر میرے اوپر لیٹ گئی‬
‫اور بڑے فخر سے سیکسی اواز میں بولی یاسر سارا چال گیا نہ اندر‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال کر اوکے کیا‬
‫عظمی نے مجھے کس کر جپھی ڈال کر گانڈ کو اوپر نیچے کر کے آہستہ آہستہ گھسے مارنے شروع کردئے‬
‫میں نے دونوں ھاتھ عظمی کی گانڈ پر رکھ کر گانڈ کو بھینچنے لگ گیا‬
‫عظمی جیسے ھی گانڈ اوپر کرتی تو میں ھاتھوں کا دباو دے کر گانڈ کو لن کی طرف جھٹکے سے دبا دیتا‬
‫عظمی ھاےےے کرتی اور مدہوش آواز میں کہتی یاسر بڑا مزہ آرھا ھے ھممممم افففففف آہ آہ آہ‬
‫میں اسکی ایسی آواز میں سیکسی باتیں سن کر جوش میں آجاتا اور زور زور سے گانڈ کو ھاتھوں میں دبوچ دبوچ کر نیچے‬
‫کی طرف دباتا‬
‫کچھ دیر بعد عظمی نے گھسے مارنے کی سپیڈ تیز کردی اور ساتھ ھی‬
‫مدہوشی میں بولے جارھی تھے‬
‫ہاں یاسر ایسے کرو ایسے ھی آہہہہہ آہ ھممممم سسسسسسیییی یاسر سارا کرو‬
‫اور میں نیچے گانڈ اٹھا کر پورے ذور سے لن کو پھدی کے اندر تک کر دیتا‬
‫عظمی نے گھسے مارنے بند کردئے اور لن کو پھدی میں جکڑ کر میرے اوپر سے کھسک کر پاوں کی طرف چلی گئی‬
‫جس سے میرا لن پھدی کی ہڈی کے ساتھ لگ گیا‬
‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ عظمی کا سارا وزن میرے لن پر ھی آگیا ھے‬
‫میرا لن بری طرح پھدی میں جکڑا ھوا تھا اور پھدی کی ہڈی کے ساتھ رگڑ کھاے ھوے تھا‬
‫عظمی لن کو پھدی میں جکڑ کر سانپ کی طرح بل کھاتے ھوے گانڈ کو ہال رھی تھی اور مزید لن پر ہڈی کو رگڑ رھی تھی‬
‫اور پیچھے جانے کی کوشش کررھی تھی میری تو درد سے جان نکلنے والی ھوگئی‬

‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ پھدی کی ہڈی نے میرے لن کو توڑ دینا ھے میں نے دونوں بازو لمبے کیے اور عظمی کی گانڈ‬
‫کو دبوچ کر آگے کی طرف زور لگانے لگ گیا‬
‫عظمی میں پتہ نھی کون سا جن آگیا تھا‬
‫عظمی کی سانسیں بری طرح اکھڑی ہوئی تھیں اسکے ممے میرے سینے میں پوست تھے عظمی بس ایک بات ھی کری‬
‫جارھی تھی‬
‫یاسر ُبوتتتتت مزہ آرھا ھے‬
‫کہاں تھا یہ مزہ سییییی ہممممم ایسے کرتی کرتی نے یکدم اپنی ٹانگوں کو بھینچ کر لن کو پھدی میں مزید جکڑ لیا اور میرے‬
‫ہونٹوں کو بےدردی سے اپنے دانتوں سے کاٹتے ھوے‬
‫رک کر گانڈ کو پورے زور سے میرے لن کی طرف دبا دیا‬
‫جسم کو جھٹکے دینے لگ گئی‬
‫درد کے ماری میری بری حالت ھوچکی تھی‬
‫ایک منٹ تک عظمی ایسے ھی میرے اوپر لیٹی رھی‬
‫اور پھر اسکو میری حالت پر ترس آیا تو اسکی پھدی نے میرے لن کی جان چھوڑی اور عظمی کا جسم ڈھیال ہو کر میرے‬
‫اوپر پڑا تھا اور عظمی کی تیز دھڑکن مجھے اپنے سینے پر صاف محسوس ھورھی تھی‬
‫میں نے عظمی کو کہا‬
‫اچھا ریپ کیا ھے میرا‬
‫عظمی ہنستے ھوے اکھڑی آواز میں بولی‬
‫کیوں کیا ھوا‬
‫میں نے کہا میرا لن ٹوٹنے واال ھوگیا تھا اور تم کہہ رھی ھو کیا ھوا تھا‬
‫آج تمہیں ھوکیا گیا تھا‬
‫سہی بدال لیا تم نے جنگلی بلی‬
‫عظمی ہنستے ھوے بولی‬
‫جب تم میری جان نکالتے ھو تب تمہیں احساس ھوتا ھے کہ مجھے کتنی درد ھوتی ھے‬
‫خود سے تھوڑی دیر کے لیے درد برداشت نھی ھوتی‬
‫ہم ابھی باتیں ھی کر رھے تھے کہ اچانک؟؟؟؟؟؟؟‬
‫اچانک؟؟؟؟‬
‫میرے لن نے عظمی کی پھدی میں جھٹکا مار کر مجھے اپنی طرف توجہ کیا کہ‬
‫سائیں میرا وی ُک ش سوچو۔۔۔‬
‫میں نے عظمی کو تھوڑا اوپر کیا اور اسکی ٹانگوں دونوں طرف سے پکڑ کر آگے کی طرف کھینچ کر اسے اپنے اوپر‬
‫گھوڑی کی شکل میں کردیا۔‬
‫عظمی نے دونوں بازوں گدے پر کہنیوں کے بل کیے اور گھٹنوں کے بل گانڈ اوپر کر کے لن کے کچھ فاصلے پر پھدی کو‬
‫کرلیا ۔‬
‫میں نے اسکےدونوں چوتڑوں پر ھاتھ رکھے اور نیچے اپنی گانڈ اٹھا کر لن عظمی کی پھدی میں ڈال کر اوپر کی طرف‬
‫گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫میں جیسے جیسے گانڈ اٹھا کر گھسے مارتا‬
‫عظمی کے ممے میرے منہ کے سامنے ہلتے‬
‫میرا لن پھدی کی گہرائی تک جا رھا تھا‬
‫میرے ھاتھ عظمی کی گانڈ کو دبوچ کر گانڈ کو نیچے کی طرف ُپش کررھے تھے‬
‫میری انگلیاں ساتھ ساتھ عظمی کی گانڈ کے دراڑ میں جاکر گانڈ کے سوراخ کا مساج بھی کرتی جارھی تھی‬
‫عظمی نے بھی یس یس اففففف اممممم کرنا شروع کردیا ۔‬
‫جس سے میرا جوش مذید بڑھ رھا تھا‬
‫عظمی کی سسکاریاں میرے لطف میں مذید اضافہ کرتی جارھی تھی‬
‫عظمی کی پھدی کافی گیلی تھی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی منی میرے لن پر پر ھی لگ گئی تھی جس کی وجہ سے لن‬
‫پھدی میں فراوانی سے اندر باھر ھو رھا تھا‬
‫میں گھسے مارنے کے دوران اپنا سر اونچا کر کے عظمی کے ممے کو بھی چوم لیتا‬
‫میرے گھسوں سے ہلتے ممے کمال لگ رھے تھے‬
‫اس کے مموں کی تھرتھراہٹ سے مجھے اپنے گھسوں کی شدت کا اندازہ ھورھا تھا‬
‫کچھ دیر بعد میں گھسے مار مار کر تھک گیا‬
‫عظمی بھی پھر فارغ ھونے کے قریب تھے‬
‫میرے گھسوں کی رفتار کم ھوئی تو‬
‫عظمی پھدی کو نیچے کی طرف ُپش کرنے لگ گئی اور پھر عظمی کی سسکیاں اور پھدی کو لن پر ُپش کرنے کی رفتار تیز‬
‫سے تیز تر ھوتی ھوگئی اور پھر عظمی نے پورا وزن میرے لن پر ڈال کر لن کو پھدی کی گہرائی تک پہنچا دیا اور میرے‬
‫ساتھ چمٹ گئی اور اسکا جسم جھٹکے کھانے لگا‬
‫عظمی کی پھدی کے اندر ھی منی کی دھاریں میرے ٹوپے سے ٹکرا رھی تھی ۔‬
‫عظمی لمبے لمبے سانس لیتی ھوی میرے اوپر سے دوسری طرف گر گئی اور‬
‫دونوں ھاتھ اپنے منہ پر رکھ کر افففففففففف‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫ھوے ھوے ھوے‬
‫کرنے لگ گئی‬

‫)‪Update no (51‬‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور عظمی کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور عظمی کی ٹانگیں اٹھا کر اسکے گھٹنے‬
‫اسکے پیٹ کے ساتھ لگا دیے اور لن کو پھدی پر سیٹ کر کے ایک دھکے میں سارا لن پھدی کے اندر اتار دیا‬
‫عظمی نے اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوے‬
‫ابھھھھھپھھھھ کیا‬
‫اور ذور ذور سے سر دائیں بائیں مارنے لگی‬
‫چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں‬
‫اسکے چہرے پر تکلیف کے ایثار نظر آرھے تھے‬
‫عظمی منہ سے ہاتھ ہٹا کر آہستہ سے بولی‬
‫ماردتا ای ظالماں کیڑا بدلہ لیا ای‬
‫میں نے اسکو کوئی جواب نہ دیا اور لن کو باہر کھینچ کر پھر ویسے ھی ذور سے اندر کیا میرا لن اسکی ریڑھ کی ہڈی سے‬
‫ٹکرایا‬
‫تو عظمی نے بری طرح اپنے ہونٹوں اور آنکھوں کو بھینچ اور میرے سر کے بالوں کو ذور سے پکڑ کر میرا سر ہالتے‬
‫ھوے بولی‬
‫یاسرررررررررر‬
‫جانور نہ بنو‬
‫میں انسان ھوں جانور نھی جو تم ایسے کر رھے ھو‬
‫میں نے پھر لن پیچھے کو کھینچا اور اس سے پہلے کہ تیسری دفعہ گھسا مارتا‬
‫عظمی نے گانڈ ہال کر پھدی کو سائڈ پر کرنے کی کوشش کی تو میرا ٹوپا بھی باہر تھا تو میں نے بنا سوچے سمجھے ویسے‬
‫ھی گھسا ماردیا میرا لن عظمی کی پھدی کے نیچے اور گانڈ کے سوراخ سے اوپر ذور سے لگا‬
‫جس سے مجھے تو درد ھوئی ھی ساتھ عظمی بھی تڑپ گئی‬
‫اور ٹانگوں کی مدد سے مجھے پیچھے دھکیل کر‬
‫بولی‬
‫جاو میں نے نھی کروانا‬
‫تم سے انسان بن کر نھی کیا جاتا‬
‫تو میں نے عظمی کو پھر پچکار کر ریلیکس کیا اور‬
‫آرام سے کرنے کا کہہ کر پھر اسکی ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور لن کو پھدی کے اوپر سیٹ کر کے آرام سے اندر اتارا‬
‫دیا اور‬
‫گھسے مارتے ھوے عظمی کو جپھی ڈال لی‬
‫عظمی کے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے اور میں اسکی گالوں کو چومتا اور ہونٹوں کو عطمی نے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ میری کمر پر رکھے ھوے تھے ۔‬
‫میں دس پندرہ منٹ عظمی کو ایسے ھی چودتا رھا اور پھر میری سپیڈ تیز ھوئی اور عظمی کی سیکسی آوازیں بھی نکلنا‬
‫شروع ھوگئے‬
‫اس سے پہلے کہ میرا لن عظمی کی پھدی کو منی سے بھرتا میں نے ھاتھ نیچے کیا آخری جاندار گھسہ مارا اور لن کو باہر‬
‫نکال کر پھدی کے اوپر ھی ساری منی نکال دی‬
‫کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور عظمی نے جلدی سے اپنے کپڑے پہنے میں نے صرف شلوار اور بنیان ھی پہن لی‬
‫اور‬
‫عظمی نے گدا اٹھایا اور باھر نکل گئی‬
‫دوسرا گدا میں نے اٹھا کر چارپائی پر بیچھا دیا اور لیٹ گیا‬
‫میں نے کچھ دیر عظمی کا انتظار کیا کہ شاید گدا رکھ کر واپس آے مگر وہ آئی کہ نھی آئی میں پتہ نھی کب سوگیا‬
‫صبح میری تب آنکھ کھلی جب نازی مجھے جنجھوڑ کر اٹھا رھی تھی کہ اٹھ جاو دکان پر نھی جانا‬
‫عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر بیٹھی تمہارا انتظار کررھی ہیں اور تم گھوڑے بیچ کر سوے ھوے ھو‬
‫اٹھو جلدی‬
‫میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور نازی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ‬
‫کیا تکلیف ھے سونے بھی نھی دے رھی ھو‬
‫تو نازی بولی‬
‫سونے کے بچے ٹائم دیکھ کیا ھوگیا ھے‬
‫انکو بھی سکول سے لیٹ کرواے گا‬
‫میں نے منہ دیوار کی طرف کر کے کالک پر جب ٹائم دیکھا تو جمپ مار کر چارپائی سے اترا اور ناذی کو گھورتے ھوے‬
‫بوال‬
‫کہ جلدی نھی اٹھا سکتی تھی مجھے‬
‫تو ناذی بولی ایک گھنٹہ ہوگیا ھے‬
‫تم کو اٹھاتے ھوے‬
‫تم پتہ نھی کونسی نشے کی گولی کھا کر سوے تھے کہ اٹھنے کا نام ھی نھی لے رھے تھے‬
‫میں ناذی کو گھورتا ھوا منہ ھی منہ میں اسے برا بھال کہتا باہر نکال تو عظمی اور نسرین سکول یونیفارم پہنے ھوے بیٹھی‬
‫تھی‬
‫نسرین مجھے دیکھ کر بولی کھل گئی جناب کی انکھ‬
‫میں نے اس کی بات سنی ان سنی کی اور جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور ناذی کو کہا گھر سے میرے کپڑے لے آو‬
‫جلدی‬
‫میں نہانے لگا ہوں‬
‫نازی بولی جلدی نہاو میں ابھی لے کر آتی ہوں‬
‫میں نے جلدی جلدی نہایا اور نازی کو آواز دی کے مجھے کپڑے دے دے اس نے واش روم کے بڑے سے روشن دان میں‬
‫کپڑے رکھ دیے میں نے کپڑے پہنے تو عظمی بولی ناشتہ کیا کرنا ھے تو میں نے کہا جلدی چلو پہلے ھی دیر ھوگئی ھے‬
‫ناشتہ میں دکان پر کر لوں گا‬
‫ہم جلدی سے باہر نکلے اور میں نے نازی کو کہا کہ گھر کے دروازوں کو اچھی طرح بند کر کے گھر چلی جانا ۔‬
‫اور ہم تیز تیز قدم بھرتے صدف کے گھر پہنچے تو اسکی امی نے بتایا کہ وہ تو چلی گئی تم لوگوں کا انتظار کرتے کرتے‬
‫میں دل میں صدف کو گالیاں دیتا ھوا ان دونوں کو ساتھ لے کر شہر کی طرف چل دیا‬
‫سکول والی گلی میں پہنچے تو گلی میں کافی رش تھا لڑکے لڑکیاں سکول کے لیے آ جارھے تھے‪،‬‬
‫ہم ابھی سکول سے تھوڑا پیچھے ھی تھے کہ‬
‫ہمارے پیچھے کار کے بریک لگانے اور ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز آئی تو عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر ایک طرف‬
‫ھو گئیں اور میں نے بھی بڑے غصے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫اسد کار کے شیشے سے سر نکال کر میری طرف دیکھ کر ہنسے جارھا تھا‬
‫اسے دیکھ کر میرا غصہ بھی کم ہوگیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی اسد کار کا دروازہ کھول کر باہر نکال اور وہ میری طرف اور میں اسکی طرف بڑھا اور دونوں بغل گیر‬
‫ھوگئے‬
‫اسد مجھ سے گلے شکوے کری جارھا تھا‬
‫عظمی اور نسرین بڑی حیرانگی سے اسد کی طرف اور اسکی گاڑی کی طرف دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے انکو حیران پریشان کھڑے دیکھ کر انکو مخاطب کیا کہ یہ میرا کالس میٹ اور بیسٹ فرینڈ اسد ھے‬
‫اور اسد کو بتایا کہ یہ میری کزنیں ہیں‬
‫میں نے تعارف کرواتے وقت عظمی کی طرف دیکھا‬
‫جو بڑے غور سے اسد کو دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫اور اسد نے بھی شاید نوٹ کیا تھا جو بار بار آنکھ چرا کر عظمی کو دیکھ رھا تھا‬
‫مجھے عظمی پر بہت غصہ آرھا تھا اور عجیب سی جیلسی ھو رھی تھی‬
‫جبکہ نسرین منہ دوسری طرف کر کے کھڑی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر اسد سے بات کی اور اسکو بتایا کہ ہمیں پہلے ھی دیر ھوگئی ھے میں ان دونوں کو چھوڑ کر آتا ھوں تم‬
‫ادھر ھی رکو تو اسد بوال چلو میں گاڑی میں چھوڑ آتا ھوں اور انکو اتار کر ہم آگے چلے جائیں گے‬
‫میں نے کہا نھی یار وہ سامنے تو سکول ھے‬
‫تو اسد بوال چل نہ یار ایسے تکلف میں مت پڑو ۔‬
‫اور میرا بازو کھینچتے ھوے مجھے فرنٹ سیٹ کی طرف کر دیا اور عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بولی آجائیں میں آپکو‬
‫ڈراپ کردیتا ھون‬
‫نسرین جلدی سے بولی نھی بھائی ہم چلے جائیں گے شکریہ اور عظمی کا بازو کھینچ کر بولی چلو‬
‫عظمی میری اور اسد کی طرف دیکھتے ھوے پاوں گھسیٹتی ھوئی چلنے لگ گئی‬
‫تو میں نے اسد کو کہا یار تم بس ادھر ھی رکو میں ابھی آیا اور یہ کہتے انکے پیچھے بھاگ کر انکے ساتھ مل گیا اسد‬
‫پیچھے کھڑا دیکھی جارھا تھا‬
‫ہم سکول کے قریب پہنچے تو عظمی نے گھوم کر ایک دفعہ پیچھے کی طرف دیکھا اور جلدی سے سکول کے گیٹ میں‬
‫داخل ھوگئ اور میں اسے گھورتا ھوا واپس اسد کے پاس آگیا‬
‫اور اسد نے فرنٹ گیٹ کھوال تو میں کار کے اندر بیٹھ گیا۔‬
‫میں پہلی دفعہ کار میں بیٹھا تھا تو میرے اندر سے عجیب فیلنگ پیدا ھورھی تھی اور میں ایسے ھی سامنے دیکھ دیکھ کر‬
‫ہنسی کو دبا رھا تھا اور ہر پیدل آتے جاتے کو غور سے دیکھتا کہ وہ مجھے کار میں ببیٹھا دیکھ رھا ھے‬
‫اور میں کار میں ایسے بیٹھا ھوا تھا‬
‫جیسے میں ھی کار کا مالک ھوں اور اسد میرا ڈرائیور ھے‬
‫اور میں کوئی دنیا کی انوکھی چیز میں بیٹھا ھوا ھوں‬
‫اسد نے مجھے کہا کدھر چلنا ھے جگر‬
‫میں نے ایکدم چونکتے ھوے کہا کہ میں نے کدھر جانا ھے یار‬
‫دکان کی طرف چلو اور مجھے ادھر اتار دینا‬
‫اسد بوال چھوڑو یار دکان پر چلو کہیں گھومنے چلتے ہیں‬
‫میں نے کہا تم نے سکول نھی جانا تو اسد بوال‬
‫لن تے چڑ گیا سکول‬
‫سکول بھی چال جاوں گا‬
‫آج تو چھٹی کرنے کا پروگرام ھے‬
‫تم اگر نہ ملتے تو میں مہری کو کالج چھوڑ کر سکول ھی جارھا تھا کہ اچانک میری نظر تم پر پڑی‬
‫میں نے کہا نھی یار تم مجھے دکان پر چھوڑ کر سکول چلے جاو پیپر بھی سر پر ہیں‬
‫تو اسد ہنستے ھوے میری تھائی پر ہاتھ مارتے ھوے بوال‬
‫یار پہلے کونسا میں سکول میں فرسٹ آتا تھا جو ایک دن نہ جانے سے پیچھے رہ جاوں گا‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اسد نے کار کو سپیڈ سے گھمایا جس سے ٹائروں کی زبردست چرچراہٹ گونجی اور اردگرد‬
‫کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ھوے‬
‫اسد نے جس برے طریقے سے کار کو گھمایا تھا‬
‫تو ایک دفعہ ۔‬
‫میرے ٹٹے تاں چڑ گئے‬
‫میں بھی گھومتی کار کے ساتھ شیشے کے ساتھ سر لگا کر ایک ٹانگ ہوا میں کیے چکرا گیا اور پھر ایکدم خود کو سنبھال‬
‫کر سیدھا ھوگیا‬
‫اسد میری حالت دیکھ کر مسکرا دیا ۔۔۔‬
‫میں نے اسد کو پھر کہا یار ادھر کدھر جارھے ھو تو اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫النگ ڈرائیو پر جانی‬
‫تو میں نے کہا وہ کس جگہ ھے تو اسد نے حیران ھوتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫کون؟؟؟؟؟‬
‫تو میں نے مشکل سے نام لیتے ھوے کہا لونگ ڈرائیو ‪،،‬‬
‫اسد میری بات سن کر کھل کھال کر ہنسی جا رھا تھا اور میری طرف ھاتھ کر کے کہتا کوئی حال نئی تیرا یار‬
‫میں نے کہا کیا مطلب ہنس کیوں رھے ھو یار‬
‫اسد بوال تیری سادگی پر ہنسی آتی ھے‬
‫النگ ڈرائیو کسی جگہ کا نام نھی ھے‬
‫میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے بوال‬
‫تو‬
‫اسد بوال النگ ڈرائیو کا مطلب ھے کہ ہم لمبے سفر پر جارھے ہیں‬
‫میں اسکی بات سن کر جھینپ گیا اور بوال‬
‫یار لمبے سفر پر کیا ہم کراچی جارھے ہیں‬
‫تو اسد بوال نھی یار‬
‫بس ایسے ھی سڑک پر آوارہ گردی کریں گے اور جب کالج کی چھٹی کا وقت ھوا تو مہری کو لے کر گھر ڈراپ کر کے‬
‫تمہارے گاوں چلیں گے‬
‫میں نے ہہ۔ممم کیا‬
‫اور شیشے میں سے بھاگتے ھوے درختوں اور بھاگتی ھوئی سڑک کو دیکھنے لگ گیا‬
‫اسد نے بوال‬
‫یار کون سا گانا سنے گا‬
‫میں نے کہا جونسا تجھے پسند ھے لگا لے‬
‫تو اسد نے ٹیپ میں کیسٹ ڈالی اور آواز اونچی کر کے گانا چال دیا‪،،،‬‬
‫اسد نے ٹیپ کا فل والیم کیا ہوا تھا‬
‫اور اس وقت کا مشہور گانا چل رھا تھا‪ ،‬۔‬
‫تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم‬
‫پیار ہوتا ھے دیوانہ ھے صنم۔‬
‫اور اسد ٹیپ کی آواز سے بھی بلند آواز کرنے کی کوشش میں جھوم جھوم کر گا رھا تھا اور بار بار میرے پٹ پر ھاتھ مار‬
‫کر میری طرف مسکرا کر بھی دیکھ لیتا۔‬
‫مجھے اسکے اس چھچھورے پن پر غصہ آرھا تھا‬
‫میں نے ھاتھ آگے بڑھا کر ٹیپ کی آواز کم کرتے ھوے کہا‬
‫یار کیا کان پھاڑ رھے ھو یا خود گا لو یا پھر اسے گانے دو‬
‫اسد ہنسنے لگ گیا اور بوال جا یار اتنا مزہ آرھا تھا سارے مزے دی پین نو یے دتا ای‪ ،‬۔‬
‫کچھ دیر بعد ایک اور گانا شروع ھوگیا‬
‫اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے کھلتا گالب۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اسد نے پھر آواز بلند کر دی اور پھر جھوم جھوم کر اپنی بےسری آواز میں گانے لگ گیا‬
‫میں نے پھر آواز کم کردی اور اسے کہا‬
‫گانڈو تو مجھے گانے سنانے کے لیے الیا ھے ۔مجھے ایسے ھی غصہ آئی جا رھا تھا‬
‫اور گانے کے بول سن کر اور اسد کی فیلنگ دیکھ کر‬
‫میرے دماغ میں‬
‫عظمی کا اسد کو بار بار دیکھنا اور پھر سکول کے گیٹ میں داخل ہوتے وقت پھر مڑ کر دیکھنا‬
‫یاد آرھا تھا‬
‫حاالنکہ مجھے عظمی سے کوئی پیار ویار نھی تھا‬
‫بس سیکس کی حد تک ھی تعلق تھا اس سے‬
‫مگر پھر بھی عظمی کا کسی اور کی طرف دیکھنا مجھ سے برداشت نھی ھو رھا تھا‬
‫اور یہ چیز مجھے اپسیٹ کیے ھوے تھی ۔‬
‫اسد بوال یار ہم انجواے کرنےنکلے ہیں کوئی فوتگی پر تو نھی جارھے ۔‬
‫میں نے غصے سے منہ دوسری طرف کیا اور شیشے سے باھر دیکھنے لگ گیا‬
‫اسد کار شہر سے نکال کر‬
‫ہمارے شہر سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ٹائپ عالقہ تھا چونڈہ جو اب کافی اچھا شہر بن چکا ھے ۔۔‬
‫اسد نے کار اس عالقے کی طرف لیجانے لگ گیا تھا۔‬
‫اسد نے جب میرا خراب موڈ دیکھا تو ٹیپ بند کردی اور میرے بازو پر مکا مارتے ھوے بوال‬
‫سالیا کوئی مرگیا اے جیڑا شکل وگاڑ کے بیٹھا ایں ۔‬
‫میں نے بازو کو مسلتے ھوے کہا‬
‫گانڈو خود تو گانے سننے میں مست ھوا ھے‬
‫تو اسد بوال چل اب بند کردی ھے ٹیپ‬
‫اب موڈ سہی کر‬
‫اور کچھ دیر بعد‪ .‬ایک ڈھابے نما ہوٹل پر اسد نے بریک ماری اور میری طرف دیکھ کر بوال چل آ کچھ کھاتے ہیں ادھر سے‬
‫اور ہم دونوں کار سے اتر کر ڈھابے کے باہر بچھی چارپائیوں پر جا بیٹھے‬
‫اور تبھی ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اور ہم سے پوچھنے لگ گیا کیا کھاو گے بھا جی‬
‫اسد نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا کھاو گے جگر‬
‫میں نے کہا کچھ نھی یار ابھی تو ناشتہ کر کے آیا ہوں ۔‬
‫جبکہ میں نے صبح کا کچھ بھی نھی کھایا تھا۔‬
‫اسد نے اسے لسی اور بن وغیرہ کا کہا‪،‬۔‬
‫تو میں نے اسد کی طرف دیکھ کر ہنستے ھوے کہا‬
‫ماما لسی پی کہ فیر تینوں ٹٹیاں لگ جانیاں نے‪ ،‬۔‬
‫اسد جھینپ سا گیا اور بوال‬
‫گانڈو یہ وہ لسی نھی ھے‬
‫یہ دہی کی لسی ھے‪،‬‬
‫جو میں گھر پر بھی صبح پیتا ھوں ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫دیکھنا یار یہ نہ ھو کہ سارے راستے بریکیں مارتے رھو ۔‬
‫اسد ہنستے ھوے بوال۔‬
‫چل ہن اپنی بکواس بند وی کر لے‬
‫اتنی دیر میں لڑکا ایک جگ میں لسی اور دو شیشے کے گالس لے آیا اور ساتھ دو بن بھی ۔‬
‫ہم نے لسی وغیرہ پی‬
‫اور اسد اٹھا اور‬
‫کاونٹر پر پیسے دے کر واپس آیا اور جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور دو سگریٹ نکال کر ایک اپنے منہ میں لی اور‬
‫دوسری میری طرف بڑھاتے ھوے بوال لے پی یار۔‬
‫میں نے اسے انکار کرتے ھوے کہا‬
‫نھی یار میں نے سگریٹ نھی پی کبھی بھی ۔‬
‫اسد نے کافی اسرار کیا مگر میں نے انکار کردیا۔‬
‫تو اسد نے کندھے اچکا کر کہا مرضی تیری اور سگریٹ‬
‫واپس ڈبی میں ڈال کر پیکٹ پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار تمہاری مما کچھ نھی کہتی تمیں‬
‫تو اسد بوال میں کونسا انکے سامنے پیتا ھوں۔‬
‫یہ تو بس ایسے ھی جب گھومنے نکلوں تو پی لیتا ھوں ۔۔‬
‫میں اسکو سمجھانے لگ گیا کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ھے نہ پیا کرو‪ ،،‬۔۔‬
‫تو اسد نے تاویلیں شروع کردیں۔‬
‫ایسے ھی کافی دیر ہم ادھر بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔‬
‫اسد نے کالئی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫چل جگر مہری کو کالج‬
‫سے چھٹی ھونے والی ھے اسے گھر چھوڑ کر پھر ۔‬
‫تمہارے گاوں چلتے ہیں‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر واپس شہر کی طرف چل دیے ۔‬
‫راستے میں بھی وہ طنز مزہ چلتا رھا کوئی خاص بات نہ ہوئی ۔‬
‫ہم کالج کے گیٹ پر پہنچے تو‬
‫اسد نے گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو اشارا کیا‬
‫جو شاید اسد کا پہلے سے واقف تھا ۔‬
‫چوکیدار اندر چال گیا اور کچھ دیر بعد‬
‫اس کے پیچھے پیچھے مہری چلتی ھوئی کار کے پاس آئی اور مجھے دیکھ کر ۔‬
‫اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی ۔‬
‫اور حیران ھوتے ھوے پچھال دروازہ کھول کرگاڑی میں بیٹھ گئی اور‬
‫بیٹھتے ھی ہاتھ میری طرف بڑھا کر سالم لیا میں نے کن اکھیوں سے اسد کی طرف دیکھتے ھوے ۔‬
‫اس سے ہاتھ مال لیا۔‬
‫اسد اپنی مستی میں بیٹھا گیٹ سے نکلتی باقی لڑکیوں کو تاڑ رھا تھا‪،‬‬
‫مہری نے میرا اور گھر والوں ۔‬
‫کا حال احوال پوچھا ۔‬
‫اور اسد کو چلنے کا کہا۔‬
‫اسد نے کار آگے بڑھائی اورگھر کی طرف چل دیا۔‬
‫گھر پہنچ کر اسد گاڑی سے اترا اور مین گیٹ کھول کر گاڑی اندر کردی‪،‬‬
‫اور ہم اندر گیراج میں ھی گاڑی سے اترے ۔‬
‫مہری نے مجھے ٹی وی الونج میں صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔‬
‫اور خود چینج کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی اور اسد بھی چینج کرنے اوپر اپنے کمرے میں چال گیا ۔‬
‫اور میں اکیال بیٹھا‬
‫ٹی وی الونج کا جائزہ لینے لگ گیا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری‬
‫کپڑے بدل کر آگئی اور آکر میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔‬
‫اور دونوں ھاتھ گردن پر لیجا کر بالوں میں انگلیاں پھیر کر اپنے سنہری سلکی بالوں کو اپنے کندھوں پر پھیالنے لگ گئی ۔‬
‫ھاتھ پیچھے کرنے کی وجہ سے مہری کے ممے آگے کی طرف آے جس کی وجہ سے اس کے ابھار مزید ابھر گئے۔‬
‫اور میں غور سے اس کے مموں کو تاڑ رھا تھا۔‬
‫مہری نے مجھے اپنے مموں کو تاڑتے ھوے دیکھا‬
‫تو میری آنکھوں کے آگے ھاتھ ہال کر اشارے سے بولی کیا دیکھ رھے ھو۔‬
‫میں ایکدم جھینپ گیا اور سر نیچے کر کے اپنے پیروں کو دیکھنے لگ گیا۔‬
‫مہری نے مجھ سے چاے کا پوچھا تو میں نے انکار کردیا ۔‬
‫اور اس سے کوئی خاص بات نہ ہوئی۔‬
‫کہ اسد تیز تیز سیڑیاں‬
‫پھالنگتا ہوا نیچے آگیا ۔‬
‫مہری اٹھ کر کچن میں چلی گئی ۔‬
‫اور میں نے جب اسد کی طرف دیکھا تو‬
‫میں اسکو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا۔‬
‫سکاے کلر کی جینز کی پینٹ اوپر بلیک رنگی کی ہاف بازو ٹی شرٹ‬
‫بلیک سن گالسس پہنے کسی ہیرو سے کم نھی لگ رھا تھا۔‬
‫اسد نے مجھے اپنی طرف یوں غور سے دیکھتے ھوے کہا کیا دیکھ رھے ھو نظر لگاو گے۔‬
‫میں نے کہا کہیں شادی پر جارھے ھو کیا اتنا بن ٹھن کر۔‬
‫اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا‬
‫شادی پر ایسے کپڑے پہن کر تھوڑی جایا جاتا ھے ۔‬
‫یہ تو میرا ریگولر ڈریس ھے۔۔‬
‫میں حسرت بھری نگاہ ڈال کر ہمممم کر کے خاموش ھوگیا۔‬
‫اسد نے مہری کو آواز دی کہ چاے بنادے۔‬
‫میں نے اٹھتے ھوے کہا نھی یار میرا دل نھی کررھا چاے پینے کو۔‬
‫تو اسد نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫چل تم نے نھی پینی تو میں نے تو پینی ھے نہ اور تمہیں میرے ساتھ پینی پڑے گی ۔‬
‫اور یہ کہتا ھوا وہ میرے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔‬
‫اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری چاے لے آئی اور ہم تینوں چاے پیتے ھوے‬
‫ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے ۔‬
‫میں نے اسد کی ایک بات نوٹ کی کہ اسد تھوڑی تھوڑی دیر بعد کالئی کو اوپر کر کے گھڑی پر ٹائم دیکھت‬
‫وہ کافی بے چین نظر آرھا تھا جیسے اسے کسی کے آنے کا انتظار ھو اور وقت گزر نہ رھا ھو۔‬
‫چاے پیتے ھی اسد کھڑا ھوا اور مجھے بوال چل جگر‬
‫چلتے ہیں۔‬
‫مہری بولی کدھر جارھے ہو۔‬
‫اس سے پہلے کہ اسد بولتا‬
‫میں نے کہدیا کی گاوں جارھے ہیں ۔‬
‫تو اسد نے مجھے گھور کر دیکھا‬
‫اور آنکھ دبا کر اشارہ کیا کہ اسے نھی بتانا تھا‬
‫اور وہ ھی ھوا جس سے اسد ڈر رھا تھا۔‬
‫مہری بولی کہ پھر تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی ۔‬
‫اسد نے یہ سنتے ھی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے کہا۔‬
‫تم نے کیا کرنا ھے جا کہ‬
‫میں نےتو بس یاسر کو چھوڑ کے ابھی واپس آجانا ھے ۔‬
‫مہری بولی مجھے نھی پتہ میں نے بھی ساتھ جانا ھے‬
‫اسد بوال پھر کبھی تمہیں لے جاوں گا ۔‬
‫مہری بچوں کی طرح نیچے پاوں مارتی ھوئی بولی‬
‫میں نے کہدیا نہ کہ میں نے جانا ھے تو بس جانا ھے‬
‫ورنہ تمہیں بھی نھی جانے دوں گی ۔‬
‫اور اگر نہ لے کر گئے تو‬
‫میں مما کو تمہاری ایک ایک بات بتاوں گی‪ ،‬۔‬
‫اسد مہری کی دھمکی سن کر پریشان ھوگیا۔‬
‫اور غصہ سے میری اور مہری کی طرف دیکھتے ھوے بوال‪،‬‬
‫چلوووووو‬
‫اور تیز تیز قدم اٹھاتا گیراج میں آگیا اور مین گیٹ کھول کر گاڑی باہر گلی میں لے گیا ۔‬
‫میں اور مہری بھی چلتے ھوے باہر آگئے‬
‫اور اسد نے گیٹ بند کر کے الک کیا۔‬
‫اور ہم تینوں گاڑی میں‬
‫بیٹھ گئے‬
‫میں اسد کی موجودگی میں مہری کو اگنور کرنے کی ھی کوشش کررھا تھا‬
‫مگر مہری بھی بڑی باتونی تھی‬
‫کوئی نہ کوئی بات چھیڑ لیتی تھی‬
‫اسد نے کار گرلز سکول والی گلی میں موڑ دی‬
‫گلی میں سکول سے چھٹی ھونے کی وجہ سے آتی جاتی لڑکیوں کا گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش لگا ۔‬
‫ھوا تھا‬
‫جسکی وجہ سے اسد رک رک کر آگے بڑھ رھا تھا اور ساتھ ھی آتی جاتی لڑکیوں کو تاڑ رھا تھا۔‬
‫مہری پیچھے بیٹھی اسد پر برس رھی تھی کہ دوسری گلی سے نھی جایا جاتا تھا‬
‫جان بوجھ کر اتنے رش میں گاڑی لے آے ھو اور اسد اسکی باتوں کو نظر انداز کر کے نظریں ادھر ادھر گھما کر کسی کو‬
‫تالش کرنے کی کوشش کررھا تھا‬
‫اور اس کے چہرے پر کافی پریشانی کے بھی ایثار نمایاں ہو رھے تھے‬
‫ایسے ھی ہم سکول کا مین گیٹ بھی کراس کرگئے‬
‫کچھ ھی آگے گئے تھے کہ اسد کا چہرہ ایکدم کھل اٹھا اور اس نے مجھے سامنے اشارا کرتے ھوے کہا‬
‫یاسر وہ دیکھو؟؟ ؟؟؟‬
‫‪.‬وہ دیکھو لگتا ہے تمہاری کزنیں جارھی ہیں‬
‫میں چونک کر دیکھا تو واقعی‬
‫عظمی اور نسرین سائڈ پر چلی جا رھی تھیں ۔‬
‫میں نے کہا ہے تو وہ ھی۔‬
‫اسد بوال گاڑی روکوں انکو بھی ساتھ ھی لے چلتے ہیں بیچاری کیسے اتنی دھوپ میں اکیلی جائیں گی‬
‫میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اسد عظمی کے چکر میں ھی اتنا تیار شیار ھو کر آیا ھے اور یہ اسکی ھی وجہ سے سکول‬
‫والی گلی میں آیا تھا‬
‫ورنہ دوسرے راستے سے بھی جاسکتا تھا۔‬
‫میں نے کچھ سوچتے ھوے کہا‬
‫نھی یار یہ روز ھی اکیلی جاتی ہیں خود ھی چلی جائیں گی۔‬
‫اسد بوال نھی یار تمہاری کزنیں ھیں تمہارا بھی اخالقی حق بنتا ھے کہ انکو ساتھ لے کر چلو اگر ہم نہ آتے اس طرف تو اور‬
‫بات تھی ۔‬
‫اتنے میں مہری بولی‬
‫یاسر‬
‫اسد سہی کہہ رھا ھے ویسے بھی تو ہم گاوں ھی جارھے ہیں‬
‫اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا۔‬
‫مہری نے اسد کو کہا‬
‫اسد ان کے پاس پہنچ کر گاڑی روکو‬
‫یاسر نے تو ایسے ھی کہتے رہنا ھے ۔‬
‫اور اتنی دیر میں‪ .‬کار انکے قریب پہنچ چکی تھی تو اسد نے ہارن بجایا اور بریک لگا دی ۔‬
‫عظمی اور نسرین نے کار کے ہارن کی وجہ سے کار کی طرف متوجہ ھو کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ پر مجھے بیٹھے دیکھ کر‬
‫حیران ھو کر دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے شیشہ نیچے کیا اور انکو آواز دی کہ گاڑی میں بیٹھو‬
‫تو عظمی جلدی سے کار کے قریب آگئی‬
‫بیچاریوں نے کبھی خواب میں بھی نھی سوچا ھوگا کہ کار میں بیٹھیں گی ۔‬
‫عظمی قریب آکر کار کے اندر جھانک کر مہری کو دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسر تم دکان پر نھی گئے تو میں نے مہری کا اور اسد کا تعارف کرواتے ھوے بتایا کہ انہوں نے گاوں جانا تھا‬
‫اس لیے دکان سے چھٹی کی‬
‫اتنے میں مہری نے پیچھے واال دروازہ کھول کر انکو اندر بیٹھنے کا کہا‬
‫عظمی تو جلدی سے بیٹھ گئی اور نسرین تھوڑا جھجھک رھی تھی‬
‫اور اس نے ایک دو دفعہ انکار بھی کیا کہ ہم چلی جائیں گی‬
‫مگر میرے کہنے پر وہ بھی منہ بسورتے ھوے کار میں بیٹھ گئی۔‬
‫اور اسد نے کار آگے بڑھا دی اور سلو سلو ھی چالتے ھوے‬
‫بہانے بہانے سے مہری سے بات کرتے ھوے پیچھے کی طرف دیکھتا‪،‬‬
‫مجھے اسد کی حرکت پر بہت غصہ آئی جا رھا تھا‬
‫میرا بس نھی چل رھا تھا کہ اسے کھری کھری سنا کر کار سے نیچے اتر جاوں‬
‫مگر مہری کی وجہ سے ُچپ کر کے برداشت کرتی رھا۔‬
‫کچھ دیر بعد ہمارے گاوں کی سڑک آگئی اسد نے کار گاوں کی طرف موڑ دی اور گاوں کے اندر داخل ہوتے ھوے‬
‫چھوٹے بڑے سب کار کو اور مجھے دیکھ کر حیران ھو رھے تھے‬
‫اور میں اسی میں فخر محسوس کر رھا تھا جب گلی میں داخل ھوے تو میں نے عظمی کے گھر کے قریب اسد کو رکنے کا‬
‫کہا‬
‫کہ انکو ادھر اتار دو ۔‬
‫تو اسد نے بریک لگا دی‬
‫اور وہ دونوں اتر گئی‬
‫تو عظمی نے انکو اندر آنے کا اسرار کیا‬
‫تو میں نے عظمی کو گھورتے ھوے کہا‬
‫کہ تیری امی گھر پر نھی ھے‬
‫اس لیے مناسب نھی تم جاو‬
‫جب تمہاری امی ھوگی تو میں ان لوگوں کو ضرور لے کر آوں گا ۔‬
‫تو عظمی برا سا منہ بنا کر گھر چلی گئی‬
‫تو اسد بوال یار تم نے بیچاری کا دل توڑ دیا‬
‫کتنے خلوص سے کہہ رھی تھی‬
‫کچھ دیر کے لیے چلے جاتے تو کیا تھا ۔‬
‫)‪.Update no (52‬‬
‫میں نے کہا نھی یار اسکی امی گھر نھی ھے یہ مناسب نھی ھوگا ۔‬
‫تو اسد نے کندھے اچکا کر کار آگے بڑھا دی اور میرے گھر کے پاس جا کر بریک لگائی‬
‫اور میں آگے سے اتر کر گھر میں داخل ہوا‪،‬‬
‫صحن میں کوئی بھی نھی تھا آپی اور امی کمرے میں تھیں اور بھائی دکان پر گیا ہوا تھا اور میں نے جلدی سے بیٹھک کا‬
‫دروازہ کھوال اور اسد کو اندر آنے کا کہا مہری اور اسد بیٹھک میں آگئے اور مہری اندر دوسرے کمرے کی طرف چلی‬
‫گئی‬
‫میں نے اسد کو اندر لیجانا مناسب نھی سمجھا‬
‫کیونکہ پہلے جب اسد اندر آیا تھا تو امی نے بعد میں مجھے سمجھایا تھا کہ گھر میں جوان بہن ھے تو آئیندہ کسی دوست کو‬
‫ایسے منہ اٹھا کر اندر نھی لے کر آنا‪ ،،‬۔۔‬
‫خیر میں اسد کو بیٹھنے کا کہہ کر‬
‫اندر کمرے میں گیا تو مہری امی اور نازی سے مل کر ہنس ہنس کر باتیں کرنے میں مصروف تھی‬
‫امی نے مجھے کولڈ ڈرنک النے کا کہا‬
‫تو میں باہر دکان سے دو بوتلیں لے ایا اور ایک بوتل مہری کو دے کر دوسری بوتل لے کر بیٹھک میں آگیا اور اسد کو‬
‫دے دی ۔‬
‫اسد بوتل پینے میں مصروف ھوگیا‬
‫میں نے دو تین چکر اندر کے لگاے اور مہری کو باتوں میں مصروف دیکھ کر پھر بیٹھک میں آجاتا‬
‫اور اسد کے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتا‬
‫اسد نے عظمی اور اسکی فیملی کے بارے میں پوچھا اور انکی امی کی غیرموجودگی کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ ان‬
‫کے ماموں فوت ھوگئے ہیں تو آنٹی نے کل ھی آنا ھے‬
‫کچھ دیر میں اسد کے ساتھ گپ شپ کرتا رھا‬
‫کہ مہری بیٹھک میں داخل ہوئی اور کہنے لگی یاسر چلو نہر پر چلتے ہیں ۔‬
‫میں نے کہا چلو۔‬
‫تو ہم تینوں گلی میں نکل آے اور پیدل ھی نہر کی طرف چلنے‪ .‬لگے جب ہم عظمی کے گھر کے سامنے سے گزرنے لگے‬
‫تو‬
‫عظمی دروازے میں کھڑی‬
‫عظمی دروازے میں کھڑی باہر ھی دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے عظمی کو گھورا اور غصے کے انداز میں بوال‬
‫تم دروازے میں کھڑی کیا کررھی ھو ۔‬
‫تو عظمی بولی تمہیں کیا تکلیف ھے خود تو آوارہ گردی کرنے جارھے ھو‬
‫عظمی کے اس جواب سے میں جھینپ سا گیا‬
‫اور مہری کے سامنے مجھے اپنی بےعزتی سی محسوس ھوئی ۔‬
‫تو میں نے غصہ سے کہا بکواس مت کر آ لینے دو آنٹی کو ۔‬
‫تمہاری زبان بس میں کرواتا ھوں‬
‫تو عظمی غصے سے بولی جا جو کروانا ای کروا لویں میں نئی ڈر دی کسے توں ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا‬
‫مہری بیچ میں ٹپک پڑی اور مجھے ڈانٹتے ھوے بولی‬
‫یاسر کیا بتمیزی ھے کس طرح کا لہجہ اپنا رھے ھو بات کرتے ھوے‬
‫پھر کیا ھوا اگر وہ دروازے میں کھڑی ھے‬
‫تو میں نے دیکھا عظمی کی آنکھوں میں آنسو تھے جو وہ دوپٹے سے صاف کررھی تھی‬
‫شاید اسکو بھی میرے اس لہجے سے اسد اور مہری کے سامنے بےعزتی کا احساس ھوا تھا۔‬
‫عظمی روتی ھوئی اندر چلی گئی‬
‫تو میں آگے بڑھنے لگا تو مہری بولی‬
‫ٹھہرو یاسر‬
‫پہلے اپنی کزن سے سوری کرو‬
‫وہ بیچاری‬
‫کیسے روتی ھوئی اندر گئی ھے‬
‫میں نے کہا چھوڑو یار چلو یہ اس کا روز کا کام ھے‬
‫تو اسد بوال نھی یار تم نے اس بےچاری کے ساتھ ذیادتی کی ہے‬
‫مہری نے میرا بازو پکڑا اور مجھے کھینچتی ھوئی‬
‫اندر لے گئی‬
‫عظمی کمرے میں تھی‬
‫مہری مجھے لیے ھوے سیدھا کمرے میں لے گئی‬
‫اسد بھی ہمارے پیچھے ھی کمرے میں آگیا‬
‫عظمی چارپائی پر گھٹنوں میں سر دے کر روئی جارھی تھی‬
‫مہری مجھے چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی اور مجھے گھورتے ھوے‬
‫اسکو چپ کروانے لگ گئی‬
‫اور مجھے کہنے لگی چلو سوری کرو‬
‫اتنی پیاری گڑیا جیسی تمہاری بہن ھے‬
‫اور تم نے اسے روال دیا‬
‫مہری نے جب لفظ بہن کہا تو‬
‫عظمی نے ایکدم سر اٹھا کر مجھے دیکھا‬
‫اور میں بھی شرمندہ سا کھڑا اسے دیکھ رھا تھا‬
‫مہری پھر بولی‬
‫چلو سوری کرو سنا نھی تمہیں‬
‫میں تھوڑا سا آگے بڑھا اور عظمی کو کہا سوری یار‬
‫بس ایسے ھی غصہ آگیا تھا‬
‫تو عظمی کچھ نارمل ھوئی تو‬
‫مہری بولی چلو تم بھی ہمارے ساتھ ھی نہر پر چلتے ہیں‬
‫تو میں نے کہا نھی مہری گھر میں کوئی نھی ھے اسکو گھر ھی رہنے دو‬
‫تو مہری ضد کرتے ھوے بولی کچھ نھی ھوتا ابھی تو ہم نے آجانا ھے‬
‫چلو عظمی بڑا مزہ آے گا‬
‫عظمی میری طرف دیکھنے لگ گئی جیسے مجھ سے اجازت مانگ رھی ھو‬
‫تو میں نے کہا مرضی ھے اسکی‪ .‬آنا ھے تو آجاو‬
‫عظمی نھی اوپر اوپر سے انکار کر رھی تھی‬
‫تو مہری نے عظمی کا بازوں کھینچ کر چارپائی سے اسے اٹھاتے ھوے کہا‬
‫کم ان یار‬
‫عظمی اٹھنے ھی لگی تھی کہ ۔‬
‫نسرین اندر داخل ہوئی اور مہری سے سالم دعا کرنے کے بعد بولی‬
‫یاسر میں تمہارے گھر جارھی ہوں نازی کو لینے‬
‫تو میں نے کہا ٹھیک ھے چلی جاو‬
‫اور ایسا کرنا تم ادھر ھی رہنا جب میں واپس آوں گا تو تم لوگوں کو لے آوں گا‬
‫تو نسرین بولی عظمی گھر میں اکیلی رھے گی‬
‫تو میں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ جارھی ھے‬
‫تو نسرین‪ .‬بولی ادھر ماموں جان فوت ھوے ہیں ادھر محترمہ کو سیر سپاٹے کی پڑی ھے ۔۔۔‬
‫تو مہری ہنستے ھوے بولی‬
‫ریلیکس بےبی‬
‫کچھ نھی ھوتا تم بھی چلو ہمارے ساتھ‬
‫تو نسرین بولی توبہ توبہ‬
‫اسکو ھی لے جاو اسکو ھی شوق ھے پھرنے کا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫پونک نہ ُک تی‬
‫تو میں نے نسرین کو بازو سے پکڑا اور باہر لے آیا اور اسے سمجھا بجھا کر اپنے گھر بھیج دیا‬
‫اور ہم چارو گھر سے نکل کر نہر کی طرف چل دیے‬
‫جب ہم گلی کی نکڑ پر پہنچے تو‬
‫مہری بولی ادھر ٹرین کی پٹری کی طرف سے چلتے ہیں‬
‫فصلوں کے بیچ سے مجھے ڈر لگتا ھے‬
‫تو میں نے کہا جیسے تمہاری مرضی‬
‫مجھے اس دفعہ کچھ زیادہ خوشی نھی ھورھی تھی‬
‫کہ مہری میرے ساتھ جارھی ھے‬
‫پتہ نھی کیوں اسد اور عظمی کو لے کر میرا دماغ اپسیٹ ھوچکا تھا‬
‫خیر ہم ایک ساتھ سڑک پر چل رھے تھے میرے دائیں طرف عظمی تھی اور بائیں طرف مہری اور مہری کے ساتھ اسد تھا‬
‫ہم چلتے ھوے پٹری پر پہنچ گئے‬
‫تو مہری بازو پھیال کر گھومنے لگ گئی جیسے بڑی جنت میں آگئی ھو اور پھر شوخی سے پتھر اٹھا اٹھا کر باغ کی طرف‬
‫پھینکنے لگ گئی‬
‫ٹرین کی پٹری کی دوسری باغ تھا جو کہ نہر تک جاتا تھا‬
‫اور دوسری سمت مکئی تھی‬
‫ہم ایسے ھی چلتے ھوے نہر کی طرف جارھے تھے‬
‫مہری اور عظمی کافی فرینک ھوگئی تھی‬
‫عظمی کا اور اسد کا بار بار ایک دوسرے کو دیکھنا‬
‫مجھے مذید پریشان کررھا تھا‬
‫وقفے وقفے سے دونوں ہنسی مزاق بھی کرلیتے تھے‬
‫جبکہ میں ایسے جارھا تھا جیسے کسی جنازے کے ساتھ جا رھا ھوں‬
‫کچھ آگے چل کر مہری نے مکئی کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ میں نے سٹے توڑنے ہیں‬
‫میں نے کہا چلو توڑ لو‬
‫اور مہری پٹری سے نیچے دوڑتی ھوئی مکئی کے کھیت کہ طرف چلی گئی مین بھی اسکے پیچھے ھی دوڑتا ھوا نیچے‬
‫اتر آیا جبکہ عظمی اور اسد ابھی تک اوپر ھی کھڑے تھے ۔‬
‫میں پٹری سے نیچے اتر کر انکی طرف منہ کر کے بوال تم لوگ بھی آجاو کہ ادھر ھی کھڑے رہنا ھے‬
‫تو اسد بوال نہ یار مجھے نھی شوق میں نے اپنے کپڑے گندے نھی کرنے‬
‫اس پاگل کو لے جاو اور سٹے توڑ کے لے آو ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے اسد پٹری کے اوپر ھی پینٹ اونچی کر کے بیٹھ گیا‬
‫عظمی ابھی تک کھڑی میری طرف دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے طنزیہ انداز میں اسے گھورتے ھوے کہا‬
‫جناب نیچے تشریف لے آئیں گی کہ تمہارے کپڑے بھی گندے ھونے ھیں‬
‫تو عظمی بولی میں نے نھی آنا جاو سڑیل انسان‬
‫تو میں اسے گھورتا ھوا مہری کے پیچھے چال گیا جو کھالے کے پاس کھڑی سوچ رھی تھی کے دوسری طرف کیسے جایا‬
‫جاے ۔‬
‫میں نے مہری کے قریب پہنچ کر اسے کہا اب مارو چھالنگ دوسری طرف تو مہری بولی نہ بابا نہ‬
‫مجھے ڈر لگتا ھے‬
‫اسد اور عظمی پٹری پر مہری کی طرف دیکھ کر ہنس رھے تھے‬
‫جبکہ عظمی کی ہنسی مجھے زہر لگ رھی تھی ۔‬
‫میں نے چھالنگ لگائی اور کھالے کی دوسری طرف چال گیا‬
‫اور مہری کو کہا تم بھی ایسے ھی چھالنگ لگا کر آجاو‬
‫مہری پھر بھی ڈر رھی تھی‬
‫اور نفی میں سر ہالئی جارھی تھی‬
‫میں نے کہا اچھا ایسے کرو میں سٹے توڑ کر پھینک دیتا ھون‬
‫تو مہری بولی نھی میں نے اپنے ہاتھ سے توڑنے ہیں۔‬
‫کچھ دیر سوچتے ھوے میں نے کہا ایسا کرو‬
‫کہ تم تھوڑا آگے چلو اور آگے جاکر ایک ُپلی آے گی اسکے اوپر سے اس طرف آجانا‬
‫تو مہری ہمممم کرکے آگے چل پڑی‬
‫اور میں نے عظمی اور اسد کی طرف دیکھا جو ابھی تک مہری کا مزاق اڑا کر ہنس رھے تھے‬
‫اور عظمی ابھی تک کھڑی ھی تھی ۔‬
‫میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کر ان دونوں کو انکے حال پر چھوڑا اور‬
‫مہری کے پیچھے چل پڑا جو کافی آگے جا چکی تھی ۔‬
‫آگے جاکر پلی آگئی تو مہری اسکے اوپر سے گزر کر مکئی کی طرف آگئی‬
‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی ابھی بھی ہماری طرف ھی دیکھ رھی تھی اور اسد اسے کچھ کہہ رھا تھا‬
‫ہمارا اور ان دونوں کا فاصلہ کافی ذیادہ ھوچکا تھا‬
‫مہری نے میرا ہاتھ پکڑا اور پگڈنڈی پر چلتے ھوے مکئی کے اندر چل پڑی‬
‫دوستو یہ راستہ بھی اس طرف ھی جاتا تھا‬
‫جدھر میں نے پھدیاں مارنے کی شروعات کی تھی‬
‫ہم دونوں مکئ کے اندر داخل ھوگئے تھے‬
‫اب نہ تو میں عظمی کو دیکھ سکتا تھا اور نہ ھی وہ لوگ ہم کو دیکھ سکتے تھے‬
‫کچھ آگے آکر مہری بولی اس دن تم بھاگ کیوں گئے تھے‬
‫میں نے کہا ویسے ھی بس‬
‫تو مہری بولی مجھے پتہ ھے کہ تم کیوں بھاگے تھے‬
‫میں نے کہا‬
‫بتاو کیوں بھاگا تھا‬
‫تو مہری بولی مجھ سے پیار کرتے ھو نہ اسکا ثبوت دینے کے لیے بھاگے تھے‬
‫ورنہ تم چاھتے تو میرے ساتھ سیکس بھی کرسکتے تھے‬
‫میں نے کہا‬
‫مہری اگر میں کچھ کردیتا تو ۔۔۔۔‬
‫مہری بولی پہلی بات تو یہ تھی کہ اگر تم میرے ساتھ کچھ کرنے لگتے تو مین نے کرنے ھی نھی دینا تھا‬
‫کیونکہ میں تو تمہیں آزما رھی تھی‬
‫اور اگر تم ذبردستی کر بھی لیتے تو‬
‫وہ مالقات ہماری آخری ھونی تھی ۔۔‬
‫اس کے بعد میں نے تمہاری شکل نھی دیکھنی تھی‬
‫میں نے رک کر مہری کے کندھوں کو پکڑ کر ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس کرتے ھوے کہا۔‬
‫مہری تمہیں اندازہ بھی نھی ھے کہ میں تمہیں کتنا چاھتا ھوں‬

‫‪I💖u‬‬
‫مہری‬
‫مہری کا جسم ایک دم کانپنے لگ گیا ہونٹ میری گرم سانسوں کی وجہ سے تھرتھرانے لگ گئے اور اسکے ساتھ ھی مہری‬
‫نے‬
‫مہری نے اپنے تھرتھراتے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور‬
‫بازوں کے احصار میں مجھے لے کر کس لیا‬
‫میں بھی عظمی اور اسد کو بھول کر‬
‫مہری کے سحر میں جکڑ کر مہری کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫اسد۔۔ بس کریں وہ چلے گئے ہیں‬
‫عظمی۔۔۔ ججی‬
‫۔اسد۔آپ کون سی کالس میں پڑھتی ہیں ۔‬
‫عظمی۔۔۔‬
‫جججی ایٹ کالس میں‬
‫اسد ۔۔ واوووو ُگ ڈ‬
‫اسد۔۔۔۔ بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک جائیں گی انکو پتہ نھی کتنی دیر لگنی ھے ۔‬
‫عظمی ۔۔۔۔‬
‫جججی نھی ٹھیک ھوں میں۔‬
‫اسد۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑتے ھوے۔‬
‫بیٹھ جائیں پلیز میرے پاس یا میں اس قابل نھی ھوں۔‬
‫عظمی یکلخت گبھراتے ھوے۔‬
‫پپلیز میرا ھاتھ چھوڑ دیں یاسر نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا۔۔‬
‫اسد عظمی کا ہاتھ کھینچ کر اسے پاس بیھٹانے کی کوشش کرتے ھوے۔‬
‫کچھ نھی ہوتا پلیزز کول ڈاون‬
‫یاسر نھی آتا ابھی ۔‬
‫عظمی نخرے سے اسد کے ساتھ بیٹھتے ھوے‪،‬‬
‫اچھا بیٹھتی ھوں مممگر میرا ھاتھ تو چھوڑ دیں ۔‬
‫اسد۔۔۔ آپکا ہاتھ اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔پلیزززز اسد ھاتھ چھوڑ دو اگر یاسر نے دیکھ لیا تو آپکو نھی پتہ کہ کونسی قیامت آجانی ھے ۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫ہاتھ کو چوم کر چھوڑتے ھوے‬
‫آپ کے ہاتھ بہت پیارے ہیں چومنے کی گستاخی معاف۔۔‬

‫)‪.Update no (53‬‬
‫عظمی ۔۔ڈر کر یاسر کی سمت دیکھتے ھوے۔۔‬
‫ہاےےےے*****یہ کیا‬
‫کیا آپ نے ۔۔۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫گستاخی کی معافی مانگ چکا ھوں دوبارا مانگ لوں۔۔۔‬
‫عظمی ہاتھ چھپاتے ھوے خود سمیٹتے ھوے۔۔‬
‫نھی نھی رہنے دیں رہنے دیں ۔‬
‫اسد۔۔مسکراتے ھوے‬
‫ایک تو آپ ڈرتی بہت ھو‬
‫یاسر ھے جن تو نھی ۔۔‬
‫عظمی ۔۔گبھراے ھوے ہاتھ کی انگلیوں کو چٹختے ھوے ۔۔‬
‫نھی ایسی تو کوئی بات نھی بس ویسے ھی ڈر لگتا ھے کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔۔‬
‫اسد۔۔‬
‫محفوظ ھوتے ھوے مسکرا کر۔۔‬
‫اچھا یہ بتائیں کہ میں آپکو کیسا لگتا ھوں اچھا کہ برا۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔ججی آپ اچھے ھو۔‬
‫اسد ۔۔‬
‫بس اچھا ھی ہوں۔‬
‫عظمی پلیز آپ اس طرح کی باتیں نہ کریں‬
‫میں ایسی ویسی لڑکی نھی ہوں جیسی آپ مجھے سمجھ رھے ھو۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫آپ کیسی لڑکی ھو بتاءیں نہ۔‬
‫عظمی‬
‫چپپپپ‬
‫اسد‬
‫چلیں ہم باغ سے اتنی دیر امرود توڑ کر التے ہیں‬
‫عظمی۔۔ ننننننھی‬
‫آپ جائیں میں ادھر ھی ٹھیک ھوں۔‬
‫اسد ۔۔کم ان یار‬
‫میں تمہیں کھا تو نھی جاوں گا۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔‬
‫نھی میں نے کہا نہ کہ آپ جائیں ۔۔‬
‫اسد بات کاٹتے ھوے ۔۔‬
‫کیا آپ مہمانوں کے ساتھ اسطرح کا سلوک کرتی ہین۔‬
‫وہ یاسر کو دیکھو ایک دفعہ مہری نے کہا اور وہ اڑتا ھوا اسکے پیچھے چال گیا یہ ھوتی ھے مہمان نوازی ۔۔‬
‫اور آپ ھیں کے نخرے کر رھی ھو‪،‬‬
‫عظمی شرمندا سی ھوکر۔۔۔‬
‫جی چلیں ہم بھی کسی سے کم نھی ہیں ۔۔‬
‫اسد ۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑے اٹھاتے ھوے‬
‫باغ کی طرف جاتے ھوے‬
‫چلیں پھر اٹھیں ۔۔۔۔‬
‫میں نے مہری کو خود سے علیحدہ کیا اور‬
‫اسے لے کر اپنی پرانی جگہ پر جا پہنچا‬
‫اور ٹاہلی کے پیچھے‬
‫لے جاکر پھر سے مہری کو جپھی ڈال لی مہری‬
‫بولی یاسر اس جگہ کا کوئی آتا تو نھی میں نے کہا نھی ادھر کوئی نھی آتا‪،‬‬
‫تو مہری پھر بولی یہ نہ ھو کہ اسد ادھر آجاے‬
‫تو میں نے کہا اس نواب کے کپڑے گندے ھو جانے تھے وہ بھی نھی آتا‬
‫اس کے ساتھ ھی میں نے مہری کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ اس کے سوفٹ سے مموں پر رکھ کر‬
‫دبانے لگا۔‬
‫مہری بے چین ھو کر اپنی پھدی کو میرے کھڑے لن کے ساتھ رگڑنے لگی‬
‫کچھ دیر ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے‬
‫میں نے ہاتھ نیچے کیا اور مہری کی شرٹ اٹھا کر اوپر کردی اور مہری کے گول مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنے‬
‫لگ گیا‬
‫مہری آہیں بھر رھی تھی‬
‫میں نے مہری کے ہونٹ چھوڑے اور سر نیچے کر کے مہری کے بریزیر کو اوپر کیا اور اس کے گالبی نوک والے چٹے‬
‫مموں کو باری باری منہ میں ڈال کر چوس چوس کر الل کررھا تھا‬
‫مہری میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر مموں کی طرف دبا رھی تھی‬
‫میں نے ایک ھاتھ نیچے لیجا کر مہری کی شلوار میں ڈال دیا اور مہری کی مالئم پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے لگا‬
‫مہری کی پھدی جو گیلی ھو چکی تھی‬
‫میری انگلیاں بھی گیلی ھو رھی تھی ۔‬
‫مہری کی بےچینی بڑھتی جارھی تھی مہری میرے ہاتھ کا لمس پھدی پر برداشت نھی کر پارھی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر مہری کی پھدی کو مسال اور ھاتھ پیچھے لیجا کر اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور مہری کا منہ دوسری‬
‫طرف کر دیا مہری ننگی گانڈ میری طرف کیے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ھوگئی میں نے آگے ھاتھ لیجا کر مہری‬
‫کے شرٹ کے نیچے سے ڈال کر اسے ننگے ممے پکڑ لیے اور مسلنے لگا ۔۔‬
‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھے تھے جو اس کے ممے مسل رھے تھے‬
‫مہری کی شرٹ جو پہلے اوپر تھی سائڈ تبدیل کرنے کی وجہ سے نیچے ھوچکی تھی‬
‫میرا لن اسکی شرٹ کو بھی اسکی گانڈ کی دراڑ‬
‫میں ُگ ھساے ھوے تھا‬
‫میں نے‬
‫مہری کا ایک مما چھوڑا اور ہاتھ نیچے لیجا کر اپنا ناال کھوال اور میری شلوار میرے پاوں میں گر گئی‬
‫اور میں نے مہری کی قمیض کو اسکی گانڈ سے اوپر کیا اور لن اسکی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر اسکے چڈوں کی طرف‬
‫گھسہ مارا‬
‫لن مہری کی گانڈ کی دراڑ سے ھوتا ھوا اسکی پھدی کے نرم نازک ہونٹوں کو چومتا ھوا رگڑتا ھوا آگے چال گیا‬
‫مہری میری اس اچانک حرکت سے گبھرا گئی‬
‫اور بولی یاسررررر کیا کرنے لگے ھو‬
‫میں نے کہا‬
‫میری جان مجھ پر بھروسہ رکھو‬
‫اندر نھی کرتا‬
‫اگر اندر کرنا ھوتا تو اس دن ھی کر دیتا۔‬
‫مہری بولی یاسر یہ نہ ھو کہ اندر چال جاے‬
‫میں نے کہا مجھ پر یقین نھی‬
‫تو مہری بولی یقین نہ ھوتا تو بات یہاں تک کیسے پہنچتی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫بس پھر سکون سے کھڑی رھو اور مزہ لو‬
‫مہری چہ کر گئی تو میں نے لن مہری کے چڈوں میں اندر باھر کرنا شروع کردیا‬
‫لن پوری طرح مہری کی پھدی کو رگڑ رھا تھا‬
‫مہری بھی مزے سے سسک رھی تھی اور گانڈ میرے ساتھ جوڑ رھی تھی‬
‫مہری کی گانڈ اتنی نرم تھی کہ میں جب گھسا مارتا تو مہری کی گانڈ کا گوشت اندر کی طرف چال جاتا‬
‫اور مہری سسک جاتی‬
‫کچھ دیر بعد مہری نے اپنا ہاتھ نیچے پھدی کے پاس کر لیا اور میرے ٹوپے کو اسکی انگلیاں چھوتی تو مجھے مزید جوش‬
‫چڑھتا‬
‫مہری نے پھدی کے اوپر ہاتھ ھی ایسے رکھا ھوا تھا کہ میرا لن اوپر سے اسکی پھدی کو رگڑتا اور لن کا نچال حصہ‬
‫مہری کی ہتھیلی سے رگڑتا میں مزے کی اتھاء گہرائیوں میں ڈوبتا جا رھا تھا‬
‫ادھر مہری کا حال بھی مجھ سے جدا نہ تھا‬
‫وہ بھی لن کو پھدی کے ساتھ مسلسل رگڑنے کے لیے لن کو اوپر کی طرف کر دیتی جس سے لن پھدی کے نازک لبوں میں‬
‫سے ھوتا ھوا ہڈی کو ٹچ کرتا‬
‫مہری کو ایک دم جوش چڑھا اور گانڈ پیچھے کو کر کے لن کو پھدی کے ساتھ لگا کر ٹانگوں کو بھینچ لیا اور جھٹکے‬
‫کھانے لگی اسکی پھدی سے گرم منی میرے لن کے اوپر والے حصے سے بہتی ھوئی اسکے چڈوں کو گیال کرتے ھوے‬
‫نیچے اسکے پیروں کی طرف جارھی تھی ۔‬
‫مہری لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬
‫ادھر مجھے بھی جوش چڑھ گیا میں ایسے ھی بھینچے ھو چڈوں میں گھسے مارنے لگ گیا اور مہری کو کہا‬
‫مہری پلیز کچھ دیر ایسے ھی رھنا‬
‫اور تیز تیز گھسے مارتا ھوا‬
‫اسکے چڈوں میں ھی لن سے منی کی بارش شروع کردی اور کس کے مہری کے دونوں مموں کو ھاتھ میں پکڑ لیا اور‬
‫اسکی گردن کو ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور مہری نے چار پانچ سٹے توڑے اور واپس جانے لگے‬
‫**************‬
‫اسد ۔۔۔‬
‫عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے پٹری سے نیچے اترتے ھوے۔۔‬
‫دھیان سے اترنا کہیں گر نا جانا۔۔‬
‫عظمی ہاتھ چھڑوانے کی کوشش میں۔۔‬
‫نھی گرتی پلیز میرا ھاتھ چھوڑ دو مجھے ڈر لگ رھا‬
‫میں جا تو رھی ھوں آپ کے ساتھ۔۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫باغ میں داخل ھوتے ہوے‪،،‬‬
‫آپ کو کون سے امرود پسند ہیں ۔‬
‫عظمی ۔۔اسد کے ساتھ ساتھ چلتے ھوے۔‬
‫میں امرود نھی کھاتی ۔۔‬
‫اسد۔۔‬
‫مسکراتے ھوے عظمی کے مموں کی طرف دیکھتے ھوے ۔‬
‫ویری بیڈ اس کا مطلب ھے کہ امرود مجھے ھی توڑنے پڑیں گے‬
‫عظمی ۔۔۔۔اسد کی نظروں کو سمجھتے ھوے۔‬
‫آپ مرد ہو تو امرود توڑنے کا کام مردوں کو ھی اچھا لگتا ھے ۔۔‬
‫عظمی ۔۔شرماتے ھوے۔۔‬
‫تو پھر توڑ لیں امرود کس نے روکا ھے‬
‫اسد۔۔۔۔معنی خیز نظروں سے عظمی کے مموں کو دیکھتے ھوے ۔۔‬
‫اگر میں امرود توڑوں گا تو باغ کے مالک کو اعتراض تو نھی ھوگا۔۔‬
‫عظمی ۔۔نخرے اور اترا کر بولتے ھوے ۔۔۔۔‬
‫اس باغ کے مالک اتنے سنگدل اور کنجوس نھی کہ مہمانوں کے ہاتھ روکیں گے ۔۔‬
‫اسد ۔۔‬
‫شوخی سے بھوکھی نظروں سے مموں کو تاڑتے ھوے۔۔‬
‫دیکھ لیں بعد میں مالک اپنی اس ثقافت کو بھول جاے ۔۔‬
‫عظمی۔۔ فخر سے‬
‫گاوں کی ثقافت زبان پر چلتی ھے گاوں والے زبان کے پکے ہوتے ہیں۔۔۔‬
‫اسد۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر دونوں مموں کو پکڑ کر دباتے ھوے‬
‫واہ کیا زبردست نرم امرود ہیں ایسے امرود تو زندگی میں پہلی دفعہ دیکھے ہیں اور پہلی دفعہ ایسے نرم نازک امرودوں کو‬
‫پکڑنے کا شرف حاصل ھوا ھے ۔۔‬
‫عظمی گبھرانے کی ایکٹنگ کرتے ھوے اسد کے ہاتھ پکڑ کر۔۔۔‬
‫سسییییی چھوڑیں یہ کیا بتمیزی ھے کیون مجھے بدنام کرنے پر تلے ھوے ہیں‬
‫یہ آپکا شہر نھی گاوں ھے یہاں کسی نے دیکھ لیا تو دونوں کو چوک میں کھڑا کر کے قتل کردیں گے ۔۔‬
‫اسد ۔۔نڈر پن کا مظاہرہ کرتے ھوے عظمی کا ہاتھ جھٹکتے ھوے۔‬
‫ایسے نرم نازک حسن کی دیوی کے لیے ہزار جانیں قربان ہیں‪ ،،‬۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔ آنکھیں موندھتے ھوے۔۔‬
‫اسد پلیز یہاں سے چلو میرا دل گبھرا رھا ھے پلیززززز چھوڑ دو نہ ۔۔‬
‫اسد ۔۔۔عظمی کے ممے مسل کر چھوڑ تے ھی اسے جپھی ڈال کر ہونٹوں کو چومتے ھوے۔۔‬
‫عظمی پلیز مجھے آج نہ روکو صبح جب تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تو‬
‫تب سے میں تمہارے اس سیکسی جسم اور تتمہارے شربتی ہونٹوں اور یہ ساگر جیسی آنکھوں کا دیوانہ ھوگیا ھوں پلیززز‬
‫مجھے ان ساگر سی آنکھوں ڈوبنے دو‬
‫مجھے ان شربتی ہونٹوں کو پینے کا شرف دو‬
‫مجھے اس سیکسی جسم کو چھونے سے مت روکو‬
‫میں صبح سے تڑپ رھا ھوں ۔۔۔‬
‫عظمی یکدم گبھراتے ھوے اپنا آپ چھڑواتے ھوے ۔۔۔‬
‫نھی اسد یہ ظلم مت کرو‬
‫اگر تم مجھے چاھتے ھو تو میری عزت مت خراب کرو‬
‫نہ یہ جگہ سہی ھے اور نہ یہ موقع‬
‫یہاں کوئی بھی آسکتا ھے‬
‫اور یاسر لوگ بھی کسی وقت آسکتے ہین ۔۔‬
‫ابھی مجھے چھوڑ دو‬
‫پھر جدھر موقع مال‬
‫میں تمہیں نھی روکوں گی‬
‫پلیزززززز۔۔۔۔‬

‫)‪.Update no (54‬‬
‫اسد ۔۔۔۔جپھی کو کس کر عظمی کے مموں کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتے ھوے سر کو جھکا کر عظمی کے گالبی‬
‫ھونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ھوے ۔۔۔‬
‫عظمی بس ایک کس کرنے دو پھر چھوڑ دوں گا ۔۔۔‬
‫عظمی۔۔۔۔ کانپتے ہونٹ کھولتے ھو ے ۔۔‬
‫اسد ۔۔۔۔۔‬
‫عظمی کے کانپتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھرتے ھوے لمبا سا چوسا لگا کر چھوڑتے ھوے ۔۔۔۔‬
‫بس اب خوش چلو چلیں ۔۔۔‬
‫عظمی۔۔۔اپنے ہونٹوں سے اسد کا تھوک صاف کرتے ھوے ۔۔‬
‫گندا ۔۔۔۔‬
‫اسد۔۔۔شوخی سے‬
‫اچھا جی ۔۔۔‬
‫عظمی شرماتے ھوے ۔۔۔‬
‫ھاں جی ۔‬
‫اسد ۔۔عظمی کے ساتھ باھر کی طرف چلتے ھوے۔۔‬
‫کب ملو گی ۔‬
‫عظمی شرما کر نیچے دیکھتے ھوے۔۔۔‬
‫پتہ نھی ۔۔‬
‫اسد۔۔۔۔ کسے پتہ ھے۔‬
‫عظمی۔۔‬
‫آپکو پتہ ھوگا۔۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫میں تو کہتا ھوں چلو میرے ساتھ ھی ۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔‬
‫ذیادہ گرم گرم نھی کھاتے منہ جل جاتا ھے۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫جلنے دو میرا منہ ھے نہ کوئی بات نھی ۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔‬
‫بڑے تیز ھو آپ‬
‫اسد ۔۔‬
‫وہ کیسے جی ۔‬
‫عظمی۔۔۔‬
‫پہلی مالقات میں اتنا کچھ کرلیا توبہ توبہ ۔۔۔‬
‫اسد ۔۔۔‬
‫اتنا کچھ کیا کیا ھے بس ان شربتی ہونٹوں کا ایک گھونٹ ھی بھرا ھے ورنہ تو میرا ارادہ تھا کہ ان کا سارا شربت نگھل‬
‫جاتا۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔‬
‫بڑی باتیں بنانی آتی ہیں آپکو لگتا ھے کافی لڑکیاں اپنی ایسی باتوں سے امپریس کی ھونگی۔۔۔‬
‫اسد ۔۔۔۔‬
‫جونسی مرضی قسم لے لو تمہارے عالوہ کسی کو چھوا بھی ہو تو۔۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔ادا دیکھاتے ھوے ۔۔‬
‫بڑی گل اے‬
‫ویسے ماننے میں نھی آتی بات۔۔‬
‫اسد پٹری پر چڑھتے ھوے۔۔‬
‫مرضی ھے آپکی نہ مانیں‬
‫یہ تو آپ کے ُح سن کی مہربانی ھے جس نے پہلی ھی نظر میں مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور یہ دیوانہ اس حسن کے‬
‫پیچھے یہاں تک چال آیا۔۔۔‬
‫عظمی ۔سرخ ھوتے ھوے۔۔‬
‫بس بس اب اتنا بھی نہ بنائیں‬
‫کہاں آپ وڈے وڈے لوگ‬
‫کہاں ہم چھوٹے لوگ‬
‫کہاں آپ کوٹھیوں میں رہنے والے کہاں ہم جھونپڑی میں رہنے والے‬
‫اسد ۔۔۔۔‬
‫عظمی کے ہونٹوں پر ھاتھ رکھتے ھوے ۔۔۔‬
‫عظمی پلیزززززز دوبارا یہ بات کر کے مجھے شرمندہ مت کرنا میرے پیار کو گالی مت دینا‬
‫عشق امیری غریبی نھی دیکھتا اونچ نیچ نھی دیکھتا‬
‫بادشاہ فقیر نھی دیکھتا‬
‫بس یہ ھوجاتا ھے‬
‫اور جس سے ھوتا ھے‬
‫تو اس عاشق کے لیے‬
‫۔ اسکا معشوق مجازی ھوتا ھے‬
‫سب کچھ اسکے لیے قربان کردیتا ھے‬
‫عظمی آنکھیں پھاڑے دیکھتے ھوے ۔۔۔۔‬
‫اسد پلیز مجھے ایسے خواب مت دیکھو جو پورے نہ ھوسکیں ۔۔‬
‫اسد۔۔۔۔‬
‫عظمی تم آزما کر دیکھ لینا‬
‫تمہارے لیے یہ اسد کیا کرسکتا ھے ہر کسی سے ٹکرا سکتا ھے ۔۔‬
‫عظمی پٹری کے اوپر پہنچتے ھوے یاسر کی سمت دیکھ کر ۔۔۔‬
‫بات کو پلٹتے ھوے۔۔‬
‫دیکھو انکو ابھی تک نھی نکلے۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫نھی نکلے تو ہمارا ھی فائدہ ھے مجھ خوش نصیب کو تمہاری قربت نصیب ھوئی‬
‫عظمی پھر ادھر دیکھتے ھوے‪ ،،،‬۔۔‬
‫لگتا ھے وہ آرھے ہیں ۔آپ ادھر بیٹھ جائیں یاسر بہت شکی مزاج ھے ۔۔۔‬
‫اسد ۔۔ جلدی سے پٹری کے اوپر بیٹھتے ھوے۔۔‬
‫جو حکم میرے بادشاہ کا۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔اداوں سے ہاتھ کا اشارہ کرتے ھوے۔۔۔‬
‫چل شوخا۔۔۔‬
‫اسد ۔۔دل پر ھاتھ رکھتے ھوے‬
‫۔۔ھاےےےےےے مار ُسٹیا ای۔۔۔‬
‫************‬
‫میں مہری کو لے کر جیسے ھی باہر نکال تو عظمی ابھی تک ویسے ھی کھڑی ہماری طرف دیکھ رھی تھی‬
‫اور اسد بھی اسی جگہ بیٹھا ھوا تھا‬
‫میں تو اچانک مکئی سے نکال تھا کہ شاید یہ دونوں کوئی حرکت کررھے ھوں ۔‬
‫مگر وہ تو ویسے کے ویسے ھی بیٹھےتھے‬
‫مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا کہ خامخواہ ھی بیچاری عظمی پر شک کیا‬
‫اور وہ بیچاری کیسے میری طرف دیکھ کر بے چینی سے انتظار کررھی ھے‬
‫یہ ھی سوچتے ھوے‬
‫ہم ان دونوں کے پاس پہنچے ۔۔‬
‫تو عظمی مجھ پر برس پڑی کہ اتنی دیر سے کھڑی ھو ھو کر میری ٹانگیں درد کرنے لگ گئی ہیں‬
‫تو میں نے کہا بیٹھ جاتی یار تمہیں کسی نے منع کیا تھا۔۔‬
‫اسد بوال یار تمہاری کزن تو بہت ھی سنجیدہ طبعیت کی مالک ہے‬
‫محترمہ بات کرنا بھی گوارہ نھی کرتی ۔۔‬
‫تو مجھے عظمی پر فخر ھونے لگا‬
‫کہ اچھا کیا جو اسے گھاس نھی ڈالی‬
‫اور میں عظمی کی وفاداری کو دل ھی دل میں سراہنے لگا‬
‫اور خود کو ایک بات پھر کوسنے لگا‬
‫کہ جیسے خود ھو ویسے ھی عظمی کو سمجھنے لگ گئے‬
‫مہری نے نہر پر جانے کا فیصلہ بدل لیا اور واپس جانے کا اصرار کرتے ھوے گھر کی طرف چل دی‪ .‬مجبورًا ہمیں بھی‬
‫اسکی تقلید میں چلنا پڑا۔۔‬
‫گھر پہنچ کر اسد اور مہری باہر سے ھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر باے باے کرتے ھوے چلے گئے اور میں کچھ دیر گھر‬
‫میں ھی رھا‬
‫تو نازی نسرین اور عظمی کو ساتھ لیے ان کے گھر چلی گئی اور مجھے جلدی آنے کی تاکید کی‬
‫میں انکے جانے کے بعد واش روم میں گھس گیا‬
‫اور نہا کر انھی کپڑوں میں باہر آیا‬
‫اور ٹائم دیکھا تو ابھی چھ بجے تھے‬
‫تو میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے‬
‫لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ھوگیا‬
‫کہ اچانک میرے دماغ میں‬
‫فرحت کا خیال آیا کہ اسنے تو مجھے آج آنے کا کہا تھا‬
‫فرحت کا خیال آتے ھی میں ۔۔۔‬
‫فرحت کا خیال آتے ھی‬
‫میں سوچنے لگ گیا کہ‬
‫مجھے جانا چاھیے یا آج بھی عظمی کے ساتھ ھی سیکس کروں‬
‫ذہن ڈبل مائنڈڈ ھو چکا تھا‬
‫فرحت کہ ھاں چانس ففٹی ففٹی تھا جبکہ‬
‫عظمی کے ساتھ سیکس کرنے کا پورا موقع میسر تھا۔۔‬
‫ایسے ھی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی‬
‫جب میری آنکھ کھلی تو‬
‫مجھے کوئی کندھوں سے ہال رھا تھا۔۔‬
‫تو میں نے آنکھیں مل کر غور سے دیکھا تو نسرین تھی جو غصے کے ملے جلے انداز میں مجھے اٹھا رھی تھی ۔۔‬
‫میں‪ .‬اٹھ کر بیٹھ گیا اور جنجھال کر بوال‬
‫کیا مصیبت ھے کوئی قیامت آگئی ھے کیا جو سونے نھی دیتے تم لوگ ۔‬
‫نسرین بولی‬
‫ذرہ باہر نکل کر دیکھو پھر تمہیں پتہ لگے کیوں اٹھا رھی ھوں ۔‬
‫میں گبھرا کر جلدی سے اٹھا اور جوتا پہن کر باہر آیا تو اندھیرے گھپ میں ادھر ادھر دیکھتے ھوے‬
‫نسرین سے پوچھنے لگ گیا کیا ھے ۔۔‬
‫نسرین بولی‬
‫آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن‬
‫نظر نھی آرھا کتنی رات ھوگئی ھے‬
‫اور ہم اکیلیں تمہارا انتظار کررھیں ہیں ۔۔‬
‫تو اچانک مجھے ہوش آیا اور غور کرنے پر یقین ھوا کہ واقعی کافی ٹائم ھوگیا ھے‬
‫فارغ ھونے کہ بعد نیند آتی ھی ایسے ھے جیسے کوئی نشہ آوار چیز کھا لی ھو یا نیند کی گولی کھا کر سوے ہوں ۔۔‬
‫میں نے نسرین کو کہا تم چلو میں آتا ھوں ۔‬
‫نسرین نے غصہ سے میرا بازو پکڑا اور کہا‬
‫اگے لگ آیا وڈا نواب ۔۔‬
‫نسرین نے جس انداز سے دونوں ہاتھوں سے میرا بازو پکڑ کر اپنا کندھا مجھے مارتے ھوے آگے چلنے کا کہا تھا تو اس کا‬
‫مما میری کمر کے ساتھ لگ گیا تھا‬
‫اور ایسے ھی وہ مجھے دھکیلتی ھوئی باہر کے دروازے کی طرف لے کر چلنے لگی ۔۔‬
‫دروازے سے باھر نکل کر اس نے امی کو آواز دی کہ خالہ دروازہ بند کرلو۔۔۔‬
‫اور اسی انداز میں مجھے آگے گھسیٹتے ھوے لے کر جارھی تھی ۔۔‬
‫جیسے پولیس والے مجرم کو لے کر جاتے ہیں ۔۔‬
‫نسرین کے ممے کا لمس میری کمر پر محسوس ھوتے ھی میرے لن میں خارش شروع ھوگئی‬
‫میں نے جان بوجھ کر ہاتھ اپنی کمر کی طرف لیجا کر‬
‫اس جگہ خارش کرنے کی ایکٹنگ کی جس جگہ نسرین کا مما لگا ھوا تھا میری انگلیاں سیدھی نسرین کے ممے سے ٹچ‬
‫ھوئیں مگر نسرین جوں کی توں میرے ساتھ لگی رھی‬
‫میرا حوصلہ مذید بڑھ گیا میں نے دوبارا پھر خارش کرنے کے لیے ھاتھ الٹا کر کے پیچھے لے گیا‬
‫کے میری ہتھیلی والی سائڈ‬
‫نسرین کے ممے پر لگے اور اسکا مما میرے ھاتھ میں آجاے‬
‫گلی میں کافی اندھیرا تھا‬
‫جسکا مجھے یہ فائدہ تھا کہ کوئی ہمیں اسطرح جاتے دیکھ نھی سکتا تھا‬
‫میں نے الٹا ھاتھ پیچھے لیجا کر نسرین کے ممے‬
‫کے نیچے سے گزار کر ہاتھ اس انداز سے ہالیا کہ نسرین کے نپل پر میری ہتھیلی کی رگڑ لگے اور نسرین کی توجہ اس‬
‫لزت کی طرف جاے۔‬
‫اور میرا یہ خطرناک وار کامیاب ھوا‬
‫جیسے ھی میری ہتھیلی سے نسرین کے ممے کے نپل نے رگڑ کھائی تو نسرین نے سییی کیا اور ممے کو مزید میری‬
‫ہتھیلی کے ساتھ دبا کر مجھے آگے چلنے کا کہا‬
‫نسرین نے اپنی طرف سے مجھے اپنی سسکاری محسوس نھی ھونے دی تھی‪.‬‬
‫مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہ کرشمہ میری ھی پالننگ سے ھوا ھے ۔‬
‫اسکی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ نسرین نے بریزیر نھی پہنا ھوا تھا‬
‫جس کے وجہ سے اسکے ممے کہ نپل کو میری ہتھیلی کی رگڑ نے سواد دیا تھا‪ .‬اور وہ سواد نسرین کے دماغ پر اثر کر‬
‫گیا‬
‫ممے سے اٹھنے والے مزے کی ایک چھوٹی سی جھلک سے وہ آشنا ھو چکی تھی ۔۔‬
‫میں نے پھر تیزی سے ھاتھ کو آگے پیچھے کیا۔‬
‫تو نسرین نے پھر وہ ھی حرکت کی مگر اس دفعہ جیسے ھی اس نے میری ہتھیلی پر مما دبایا‬
‫تو میں نے مٹھی بند کرکے ممے کو مٹھی میں دبا لیا۔۔‬
‫نسرین کو جھٹکا لگا اور اس نے فل مزے میں پہلے سسکاری بھری‬
‫سسسسیییی‬
‫پھر ایکدم پیچھے ہو کر مجھے چھوڑ دیا اور اسکا مما میرے ھاتھ سے نکلتے وقت بھی مسال گیا تھا۔۔‬
‫میں نے پیچھے منہ کر کے کہا‬
‫کیا ھوا اب چھوڑ کیوں دیا۔‬
‫تو نسرین کو جواب تو کچھ نہ آیا بس یہ کہہ کر چلنے لگی‬
‫جلدی چلو‬
‫اور میں ہنستا ھوا‬
‫انکے گھر میں داخل ھوا‬
‫تو نسرین بھی میرے پیچھے ھی داخل ھو کر دروازہ بند کر کے کنڈی لگانے لگ گئی‬
‫اور میں حیران ھوکر دیکھنے لگ گیا کہ آج اس نے مجھے نھی کہا کہ خود ھی کنڈی لگا لو۔۔۔‬
‫میں اس کے پاس ھی رک گیا کیوں کہ نازی اور عظمی کمرے میں ھی تھی‬
‫میں نے نسرین کو کہا‬
‫آج بھی پکڑن پکڑائی کھیلیں گے‬
‫اور شرارت بھرے انداز سے اسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر ہالتے ھوے کہا‬
‫کل سے بھی ذیادہ مزہ آے گا دیکھ لینا‬
‫نسرین نے شرم والی ہنسی ہنستے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر جھٹک دیا اور بھاگ کر اندر چلی گئی میں اسے پکڑنے کے لیے‬
‫بھاگا مگر وہ مجھ سے پہلے ھی کمرے میں داخل ھوچکی تھی ۔۔۔‬
‫نسرین کمرے میں داخل ہوکر جلدی سے نازی کے پاس جاکر بیٹھ گئی‬
‫اور میں بھی اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو نازی بولی آگئے نواب ساب‬
‫میں نے غصے اور طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ھااااں جی آگیا ھوں‬
‫کوئی تکلیف ھے۔۔‬
‫تو نازی میری طرف ھاتھ کا اشارا کرتے ھوے بولی‬
‫دفعہ ھو میں تیرے منہ نئی لگنا‪ ،‬۔۔‬
‫عظمی بولی چل چھوڑ نازی‬
‫ایسے لڑتے رہتے ھو‪،‬‬
‫میں بھی انکی چارپائی کے پاس پڑی دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا‪ ،‬۔۔‬
‫اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ طنز مزاح کرنے لگ گئے۔۔‬
‫کافی دیر ایسے ھی بیٹھے ہنستے اور لڑتے رھے‬
‫میرے دماغ سے فرحت کے گھر جانے کا خیال بھی نکل چکا تھا‬
‫ایک تو رات کافی ھوگئی تھی دوسرا انکے گھر بھی رہنا ضروری تھا ۔‬
‫نسرین میری طرف دیکھتے ھوے بولی چلو سب پکڑن پکڑائی کھیلتے ہیں ۔‬
‫میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال‬
‫سچیییی‬
‫تو نسرین بھی اسی انداز میں بولی‬
‫ُمچییییی۔‬
‫عظمی بولی کل گری تھی بھول گئی ھو‬
‫پھر کمر کو پکڑ کر ھاے ھاے کرتی رھی ھو۔۔‬
‫نسرین بولی‬
‫تم نے نھی کھیلنا تو نہ کھیلو‬
‫میرے پے روعب ت جھاڑو‬
‫عظمی ہاتھ سے اشارہ کرتے ھوے بولی جا دفعہ ھو کھیلدی پھر کلی ای‬
‫میں تے نئی آندی ہن میں تے سون لگی آں‬
‫نسرین بولی‬
‫ھاں ھاں مجھے پتہ ھے محترمہ اس شہری بابو کے ساتھ پھر پھر کر تھک جو گئی ھے‪،،‬‬
‫عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور غصے سے پھنکارتے ھوے بولی‬
‫زبان سنبھال کر بات کی ہتمیز‬
‫بےحیاء بے شرم‬
‫نسرین اسکو ھاتھ سے دھتکارتے ھوے بولی پونکی جا‬
‫اور یہ کہہ کر نسرین باہر چلی گئی‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫میں اس کو غصے سے باہر جاتے دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگا اور باہر آگیا۔۔‬
‫نسرین صحن میں بنے تندور کے ساتھ ٹیک لگا کر بغلوں میں ہاتھ دے کر ٹانگ کو ٹانگ پر رکھے کھڑی ناک منہ پھال رھی‬
‫تھی اور منہ ھی منہ میں عظمی کو برا بھال کہہ رھی تھی ۔۔‬
‫میرے دماغ میں فورن ایک پالن آیا کہ گرم لوہے پر اگر ضرب لگائی جاے تو یقینًا‬
‫نسرین کی قربت بھی حاصل ھو سکتی ھے‬
‫اور موقع بھی خلوت کا تھا‬
‫دونوں صحن میں اکیلے تھے‬
‫مجھے یقین تھا کہ عظمی نھی آتی اب اور نازی کا ویسے ھی موڈ نھی تھا کھیلنے کا۔۔‬
‫میں دھیرے دھیرے چلتا ھوا‬
‫نسرین کے پاس گیا اور اسکی ٹھوڑی پکڑ کر بوال‬
‫کیا ھوا میرے چھونے چھونے کاکے کو۔۔‬
‫تو نسرین ہلکے سے مسکراتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫دیکھ تو آے ھو‬
‫کہ کیسے میری بےعزتی کی ھے تمہاری اس الڈلی نے‬
‫تو میں نسرین کے بلکل سامنے کھڑا ھوگیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر بولی‬
‫پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ میری الڈلی نھی ھے جیسے وہ تمہارے ساتھ بتمیزی کرتی ھے ویسے ھی میرے ساتھ بھی بتمیزی‬
‫کرتی ھے ۔‬
‫اور دوسری بات یہ کہ تم نے بھی تو غلط بات کی کہ شہری بابو کے ساتھ پھرتی رھی ھے ایسے بھی کوئی کہتا ھے کیا۔۔‬
‫نسرین بولی میں نے کچھ غلط نھی کہا۔‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار میں لب کہہ رھا ھوں کے تم نے غلط کہا۔‬
‫تو نسرین حیران ہوکر میری طرف دیکھتے ہوے بولی‬
‫کیا واقعی یہ سچ ھے کہ عظمی اس لڑکے کے ساتھ ھی تھی ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا ہاں۔۔۔‬
‫نسرین آنکھیں پھاڑے اپنے منہ پر ھاتھ رکھ کر بولی‬
‫ھاےےےے*****واقعی‬
‫میں نے کہا‬
‫یار میں نے اپنی آنکھون سے دیکھا تھا کہ وہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نسرین بولی ۔۔ کیا وہ دونوں بتاو ناں ۔۔‬
‫میں نے کہا رہنے دو تم اسے یا آنٹی کو بتا دو گی اور ایسے فضول میں سارا الزام مجھ پر آجانا ھے ۔۔‬

‫)‪.Update no (55‬‬
‫نسرین میرے بازوں کو پکڑتے ھوے بولی ۔‬
‫۔*****کی قسم نھی بتاتی کسی کو پلیز بتاو نہ ۔۔۔‬
‫نسرین کی آواز تھوڑی اونچی ھوگئی تھی میں نے جلدی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کہا‬
‫ہولی بول او اندر اے سن لوے گی ۔۔‬
‫تو نسرین نے اثبات میں سر ہالیا اور میں نے اسکے منہ سے ھاتھ کو ہٹا لیا۔۔‬
‫اور آہستہ سے بوال‬
‫پہلے تم میرے ساتھ وعدہ کرو کہ یہ بات ہم دونوں میں ھی رھے گی ۔۔‬
‫تو نسرین پھر قسم کھاتے ھوے بولی‬
‫نھی بتاتی۔۔‬
‫میں نے اچھی طرح تسلی کر کے اسے کہا‬
‫میں جب انکے ساتھ نہر کی طرف‪ .‬گیا تو عظمی میرے دوست کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی ۔‬
‫پھر جب ہم مکئی کے پاس پہنچے تو میرے دوست نے کہا میں نے چھلیاں توڑنی ہیں تو عظمی جلدی سے بولی چلو اسد میں‬
‫چلتی ھوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔‬
‫نسرین تمہیں تو پتہ ھی ھے کہ یہ کتنی بتمیز ھے میں نے سے کہا بھی کہ نہ جاو مگر میری ایک نگی سنی اس نے اور‬
‫بولی یاسر تم اور مہری ادھر ٹرین کی پٹری پر رکو میں ااسد کو چھلیاں توڑ کر ال کے دیتی ھوں ۔۔‬
‫نسرین انکھیں پھاڑے منہ پر ھاتھ رکھے میری بات غور سے سن رھی تھی ۔۔‬
‫نسرین بیچ میں ھی بےصبری سے بول پڑی ۔۔‬
‫تو کیا عظمی چلی گئی اس کے ساتھ ۔۔‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھ کر رازداری سے کہا ہاں وہ چلی گئی تھی اور دونوں مکئی کے اندر چلے گئے۔۔‬
‫نسرین کا رنگ اڑا ھوا تھا‬
‫وہ پھر بے صبری سے بولی‬
‫اور تم انکے پیچھے نھی گئے۔۔‬
‫میں نے پھر ادھر ادھر دیکھا اور کہا‬
‫میں کچھ دیر بعد گیا تو وہ مجھے کہیں نظر نہ آے میں پریشان ہونے‬
‫کھالے کے ساتھ جو درخت نھی لگے ھوے‬
‫نسرین بولی ہاں ہاں‬
‫لگے ھوے ہیں‬
‫میں نے کہا میں جیسے ھی ان درختوں کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں اتنا کہہ کر چپ ہوگیا اور کمرے کے دروازے کی طرف دیکھنے لگ گیا اور نسرین سے جلدی سے بوال لگتا ھے کہ‬
‫عظمی یا نازی آرھی ہیں ۔‬
‫تم رات کو جب یہ سو جائیں تو دوسرے کمرے میں آجانا میں تم کو ساری بات بتا دوں گا مگر تم یہ بات کسی سے کرنا مت‬
‫میں ایک ھی سانس میں اسے سارا سبق سنا کر اس کا جواب سنے بغیر کمرے کی طرف چال گیا‬
‫اور نسرین ہکی بکی مجھے روکتے روکتے چپ ھوگئی کیوں کے میں اتنی دیر میں کمرے میں داخل ھوگیا تھا۔۔‬
‫کمرے میں آیا تو عظمی اور نازی ایک ھی چارپائی پر لیٹی ایک دوسرے کے ساتھ ُک ھسر ُپھسر کررھیں تھی ۔۔‬
‫میں جا کر انکے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫تو عظمی بولی منا آے اس الڈلی کو‬
‫میں نے کہا یار ایک تو تم دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو‬
‫ایک کو سمجھاوں تو دوسری بگڑ جاتی ھے دوسری کو سمجھاوں تو پہلی بگڑ جاتی ھے ۔‬
‫تو نازی عظمی کو چپ کرواتے ھوے بولی دفعہ کر اینوں اور ساتھ ھی دونوں پھرباتیں کرنے لگ گئی‬
‫میں عظمی کی ایک بات نوٹ کر رھا تھا کہ وہ مجھ میں کچھ خاص توجہ نھی لے رھی‬
‫وہ ایسے ریکٹ کر رھی تھی کہ جیسے اسکی نظروں میں میری کوئی اہمیت ھی نھی ھے ۔‬
‫خیر میں کچھ دیر انکے پاس بیٹھا رھا مگر نسرین ابھی تک باھر ھی تھی اندر نھی آئی ۔۔‬
‫میں بھی انکے پاس سے اٹھا اور عظمی کو کہا کہ میرا بستر کیا ھے کہ نھی‬
‫تو عظمی پھر بے رخی سے بولی جاو اپنی اس الڈلی سے کہو کہ بستر بھی کردے ۔۔‬
‫میں پیر پٹختا ھوا کمرے سے باہر نکل گیا اور دیکھا کہ نسرین ابھی تک ادھر ھی کھڑی کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔‬
‫میرے چلنے کی آہٹ سن کر وہ چونکی اور میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں اسکے پاس پہنچا اور کہا تم نے ساری رات ادھر ھی کھڑے رہنا ھے جاو جا کر سوجاو صبح سکول بھی جانا ھے ۔‬
‫نسرین بولی جب وہ ُک تی سوے گی تب ھی اندر جاوں گی ‪،‬‬
‫میں نے پھر اسے پیار سے پچکارتے ھوے کہا ۔‬
‫یار میں کہہ رھا ھوں نہ کہ جاو اندر‪ ،‬۔‬
‫تو نسرین بولی مجھے نیند نھی آرھی جب آے گی تو چلی جاوں گی ۔‬
‫تم نے سونا ھے تو چلے جاو کمرے میں سوجاو‬
‫میں نے کہا مجھے نیند تو بہت آرھی ھے ۔‬
‫مگر سوؤں گا کہاں‬
‫کمرے میں تو بستر بھی نھی کیا ھوا۔‬
‫تو نسرین بولی‬
‫او ھو یہ ہڈحرام اتنا سا کام بھی نھی کرسکتی آواراگرد‬
‫چلو میں کردیتی ھوں ۔‬
‫اور نسرین میرے اگے آگے چل پڑی میں اسکے جسم کا پیچھے سے معائنہ کرنے لگ گیا کہ‬
‫عظمی سے کم بھی جسم نھی نسرین کا‬
‫گول مٹول سی باہر کو نکلی گانڈ اور چلتے ھوے ہلتے ھوے نرم کولہے‬
‫‪ 30‬کمر‬
‫‪34‬ممے‬
‫‪36‬گانڈ‬
‫بھرا بھرا جسم‬
‫میری ہوس جوبن پکڑ چکی تھی‬
‫نتیجہ کیا نکلتا اسکی فکر نھی تھی‬
‫بس دل کر رھا تھا کہ اندر جاتے ھی‬
‫نسرین کے نرم مموں کو پکڑ کر لن کو اسکی بپھری ھوئی مست گانڈ کے ساتھ لگا کر جپھی ڈال لوں‬
‫اور اس شہد کی بوتل کو نچوڑ نچوڑ کر پی جاوں‬
‫نسرین میری ہوس سے بے خبر اپنی دھن میں چلتی ھوئی کمرے میں پہنچی‬
‫میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کو دیکھ کر گنتی کرتا ھوا کہ کتنی دفعہ اوپر گئی اور کتنی دفعہ نیچے‬
‫گئی۔‬
‫میں کمرے میں داخل ھوا تو ‪ 100‬واٹ کا بلب جل رھا تھا اور نسرین جلدی سے چارپائی بچھا کر بستر کرنے لگ گئی اور‬
‫کمرے سے جانے لگی تو میں نے اسے آواز دی کہ‬
‫میں سو جاوں تو نسرین‪ .‬بولی سونے کے لیے ھی تو بسترا کیا ھے اور تم نے تارے گننے ہیں تو بسترا باھر کردیتی ھوں ۔۔‬
‫اسکا جواب سن کر میں جھینپ سا گیا اور مجھے اپنی ساری منگھڑت کہانی سنانے کی محنت پر پانی پھرتا ھوا نظر آرھا تھا‬
‫۔۔‬
‫سہی کہتے ھیں‬
‫بوتے کراں دا پروناں ُپکھا ای ریندا اے‬
‫میں منہ بسور کر چارپائی پر گرا اور لیٹ کر سوچنے لگا‬
‫چنگی ھوئی کا کا‬
‫عظمی کی پھدی کے لیے فرحت کی پھدی چھوڑی اور نسرین کی پھدی کے چکر میں عظمی کی پھدی بھی گنوائی‬
‫اور نسرین وی لن وکھا کے چلی گئی‬
‫ہن مار ُمٹھ تے سوجا‬
‫شاباش۔۔۔‬
‫کچھ دیر نسرین کو اور اپنی جلد بازی کو کوستا ھوا سوچتا رھا اور پھر دل کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کرنے لگا کہ‬
‫شاید نسرین یا عظمی خود ھی آجائیں ۔۔‬
‫نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور مجھے ایسے لگا جیسے مجھے کوئی جنجھوڑ رھا ھے میں نے آنکھ کھولی تو میری‬
‫نظروں کے سامنے نسرین تھی‬
‫جو مجھے اٹھا رھی تھی کہ یاسر اٹھو مجھے آنے کا کہہ کر خود سو رھے ھو ۔‬
‫میں نے نسرین کو اسی حالت میں کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا اور نسرین کے ہونٹ چومنے لگ گیا نسرین منہ ادھر‬
‫ادھر کر کے میرے سینے پر ھاتھ رکھ کر پیچھے کو ہونے کی کوشش کررھی تھی اور کہے جارھی تھی کی چھوڑو‬
‫مجھے یہ کیا بتمیزی ھے میں تمہیں بھائی سمجھتی ہوں پلیز یاسر چھوڑ دو یہ سب غلط ھے ۔۔‬
‫میں اسکی کسی بات کا جواب نھی دے رھا تھا‬
‫اور مسلسل اسکو اپنے اوپر بازوں میں بھینچ کر اسکے ہونٹوں کو چومے جا رھا تھا‬
‫میرا لن فل کھڑا ھو چکا تھا‬
‫میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل مجھ سے اپنا آپ بچا رھی تھی ۔‬
‫میں نے نسرین کی کمر کے گرد ڈالے بازوں کو جھٹکا دے کر نسرین کو چارپائی کے اوپر کرلیا اور اسکو اسی حالت میں‬
‫اپنے نیچے کرلیا ۔‬
‫اور اپنے دونوں ھاتھ کمر کے نیچے سے نکال کر اسکے ھاتھ پکڑ کر چارپائی کے ساتھ اسکے سر کے قریب رکھ کر دبا‬
‫دئیے‬
‫اور بوال نسرین تمہارے اس سیکسی مموں اور سیکسی گانڈ نے مجھے پاگل کیا ھوا ھے‬
‫پلیز چپ کر کے مجھے اپنے ان بے قابو مموں کو چوسنے دو‬
‫دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا ھے‬
‫نسرین سر دائیں بائیں مار کر نفی کر رھی تھی‬
‫مگر میرے دماغ کو منی چڑھی ھوئی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر زبردستی نسرین کے ہونٹ چوسے‬
‫تو نسرین بھی گرم ھوگئی‬
‫اسکو ذیادہ گرم میرے اکڑے ھوے لن نے کیا تھا جو اسکی کنواری پھدی کو دبا کر رکھے ھوے تھا۔‬
‫نسرین کی مزاحمت دم توڑ رھی تھی اور آخر کار اس نے اپنا جسم میرے حوالے کر دیا‬
‫میں نے نسرین کی قمیض اوپر کی اور اسکے گورے گورے ممے جن پر بریزیر بھی نھی تھا‬
‫میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔۔‬
‫اور میں بھوکے شیر کی طرح مموں پر جھپٹ پڑا‬
‫اور دونوں مموں کو باری باری چوسنے لگ گیا‬
‫نسرین کے ممے بلکل عظمی کے مموں جیسے تھے‬
‫مجھے ایسے ھی لگ رھا تھا کہ چہرہ نسرین کا ھے مگر ممے عظمی کے ہیں‬
‫نسرین سسک رھی تھی‬
‫میں کبھی اکڑے ھوے نپل کو دانتوں سے کاٹتا تو نسرین آہ آہ سیییییی کرتی‬
‫تو کبھی میں پورے ممے کو منہ میں بھرنے کی کوشش کرتا‬
‫نسرین کی سسکاریاں جنون میں بدلتی جارھی تھیں۔۔‬
‫اور وہ میرے بالوں کو نوچنے لگ گئی تھی‬
‫میرا لن پھدی کو بری طرح مسل رھا تھا اور نسرین بھی گانڈ اوپر کر کے پھدی کو مزید لن کے ساتھ رگڑ رھی تھی‬
‫میں نے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا نیچے کھسک کر نسرین کی شلوار اتار دی اور نسرین نے بھی گانڈ اوپر کر کے شلوار‬
‫اتارنے میں میری مدد کی‬
‫شلوار اتار کر میں نے چارپائی سے نیچے پھینک دی اور‬
‫نسرین کی پھدی پر ھاتھ پھیرا تو پھدی پر بال تھے اور پھدی کے ہونٹ‪ .‬بھی آپس میں جڑے ھوے تھے‬
‫پھدی کو جب میرے ھاتھ نے چھوا تو نسرین نے مزے سے بھری سییییییی کی اور گانڈ کو اوپر اٹھایا‬
‫میں نے لن پر تھوک کا گوال پھینکا اور لن پر تھوک کو گیال کیا اور لن کو پھدی کے ہونٹوں پر رکھ کر لن کو اوپر نیچے‬
‫کرنے لگ گیا‬
‫مجھے لن کی ٹوپی پر گیال گیال سا محسوس ھورھا تھا لن تو پہلے ھی گیال تھا مگر نسرین کی پھدی سے نکلنے والے پانی‬
‫نے اسے مزید گیال کر دیا‬
‫میں نے نسرین کی ٹانگیں کھول کر تھوڑی اوپر کی اور لن کے ٹوپے کو پھدی کے لبوں پر سیٹ کیا اور خود جھک کر‬
‫نسرین کے منہ کے پاس اپنا منہ کر کے اسکے ہونٹوں کو اپنے میں بھر لیا کہ اسکی آواز نہ نکل پاے‬
‫اس سے پہلے کی نسرین کچھ سمجھتی میں نے جھٹکا مار کر لن کو پھدی کے اندر کردیا‬
‫آدھا ن لن نسرین کی پھدی کو پھاڑتا ھوا اندر اترگیا‬
‫نسرین میرے نیچے تڑپ رھی تھی رو رھی تھی فریادیں کر رھی تھی‬
‫مگر اسکی غوں غوں کرتی آواز کو میں ان سنی کررھا تھا‬
‫میں نے دوسرا گھسہ مارا تو لن پورا پھدی کے اندر اتر گیا اور‬
‫نسرین نے پھر میرے نیچے بری طرح مچلنا شروع کردیا‬
‫نسرین بری طرح تڑپ رھی تھی‬
‫نسرین کی سیل ٹوٹ چکی تھی‬
‫اسکی پھدی سے گرم گرم خون نکل کر چارپائی پر گر رھا تھا‬
‫نسرین نیم بےھوش ھو کر بےدم ھوگئی‬
‫میں نے تین چار گھسے مزید مارے مگر نسرین بےہوشی کی حالت میں پتہ نھی کیا بولی جارھی تھی‬
‫مگر مجھ پر جنون سوار تھا‬
‫میں بغیر کسی ڈر خوف کے اسکی پھدی پھاڑ رھا تھا‬
‫پھدی کے اندر اتنی گرمی تھی‬
‫کے میں صرف چار پانچ مذید گھسے مار سکا اور لن نے ساری منی نسرین کی کنواری پھدی کے اندر ھی اگلنا شروع‬
‫کردی‬
‫اور میں بھی مدھوش ھو کر اسکے اوپر لیٹ گیا اور میرا جسم جھٹکے کھا رھا تھا‬
‫کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو‬
‫نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬
‫۔دوستو اس اپڈیٹ میں مجھ سے آخر میں ایک غلطی ھوگئی‬
‫جو کہ‬
‫یوں لکھی گئی کہ۔۔۔‬
‫کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو‬
‫نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬
‫۔۔‬
‫جب کہ اصل یہ تھا ۔۔۔۔‬
‫اس لیے آپ اس سین کو ھی ذہن میں رکھیں غلطی کی معافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا تو‬
‫نسرین کھڑی میرے سر کے بال کھینچ کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬
‫تو میں پریشان ہوکر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رھا تھا کہ اگر نسرین یہ ھے تو میرے نیچے کون ھے جسکی سیل توڑ کر‬
‫میں اندر ھی فارغ ھوگیا‬
‫جیسے ھی میں نے الٹے لیٹے اپنی پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو‬
‫مارے شرمندگی کے میرا برا حال ھوگیا کہ‬
‫جسے میں نسرین سمجھ کر ذبردستی چود رھا تھا وہ نسرین نھی بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے نیچے نہ نسرین تھی نہ ھی عظمی‬
‫بلکہ نرم سرھانہ میرے نیچے دبا ھوا تھا‬
‫اور میری شلوار نیچے سے ساری گیلی ھوچکی تھی‬
‫نسرین میرے سر کے بالوں کو پکڑ کر ہال ہال کر مجھے اٹھا رھی تھی کہ اٹھ جاو ہمیں سکول سے دیر ھو رھی ھے ۔‬
‫میں شرمندہ سا الٹا ھی لیٹا رھا کہ نسرین کے سامنے کیسے سیدھا ھوکر اٹھوں کیوں کے منی سے میری شلوار اور قمیض‬
‫دونوں گیلی ھوچکی تھی۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے نسرین کی طرف غصے سے دیکھتے ھوے کہا جاو دفع ھو جاو‬
‫یہ کیا بتمیزی ھے‬
‫چھوڑو میرے بال‬
‫اور میں نے اسکی کالئی پکڑ کر زور سے جھٹک دی ۔‬
‫تو نسرین ُبڑ ُبڑ کرتی باھر کو چلی گئی ۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی الٹا لیٹا رھا اور پھر‬
‫ہمت کر کے اٹھا اور ڈرتے ڈرتے کمرے سے باھر جھانکا کہ صحن میں کوئی ھے تو نھی‬
‫تو صحن کو خالی پا کر میں نے اپنی گیلی جگہ پر ہاتھ رکھا اور میں سپیڈ سے بھاگا اور سیدھا واش روم میں داخل ھوگیا۔‬
‫میں نے کپڑے اتار کر منی والی جگہ کو دھویا اور کپڑوں کو نچوڑ کر واش روم میں لگے کیل کے ساتھ لٹکا دیا اور‬
‫نہا کر کپڑوں کو نیچے گیلے فرش پر پھینک دیا تاکہ دیکھنے والے کو یہ نہ پتہ چلے کہ میں نے شلوار اور قمیض کو آگے‬
‫سے دھویا ھے اور نہا کر نازی کو آواز دی کہ میرے کپڑے دے دو تو نازی شاید پہلے ھی گھر سے میرا سوٹ لے آئی تھی‬
‫اس واش روم کے روشن دان میں پہلے میری شلوار رکھی جب میں نے شلوار اٹھائی تو اس نے قمیض رکھ دی ۔۔‬
‫میں نے قمیض بھی اٹھا کر پہن لی اور سر کے بالوں میں انگلیاں مارتا ھوا باہر نکل آیا‬
‫عظمی نے میرے لیےناشتہ بنا دیا تھا۔۔۔‬
‫میں نے ناشتہ کیا اور ہم گھر سے نکلنے ھی لگے تھے کہ دروازے کے سامنے ٹانگہ آکر رکا‬
‫جس میں فوزیہ اور انکل بیٹھے ھوے تھے‬
‫ہم ان کو دیکھ کر رک گئے فوزیہ اور انکل ٹانگے سے اترے اور تانگے والے کو پیسے دے کر چلتا کیا‬
‫اور عظمی نسرین اور نازی کے سر پر پیار دیا‬
‫میں نے بھی فوزیہ کے آگے سر کیا تو اس نے پیار دینے کی بجاے میرے سر میں چپت لگائی اور ہنستے ھوے اندر چلی‬
‫گئی ۔‬
‫انکل بولے یاسر بیٹا‬
‫بہنوں کو سکول چھوڑ کر جاتے تھے نہ میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫تو انکل نے میرے سر پر پیار دیتے ھوے دعا دی جیتے رھو بیٹا‬
‫تو عظمی بولی ابو ہمیں سکول سے دیر ھو رھی ھے‬
‫تو انکل نے کہا جاو جاو دھیان سے جانا‬
‫اور ہم صدف کی طرف گئے‬
‫صدف آج بڑی بنی سنوری تھی‬
‫پوچھنے پر پتہ چال کہ انکی اکیڈمی میں آج فنکشن ھے‬
‫خیر ہم سب شہر کی طرف چل پڑے۔‬
‫انکو سکول چھوڑ کر میں دکان کی طرف چل دیا‬
‫انکل سجاد نے دکان کھول لی تھی اور مجھ سے کل نہ آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے مہمانوں کا بہانہ کردیا‬
‫اور دکان کی صفائی وغیرہ میں مصروف ھوگیا۔‬
‫کچھ دیر بعد کسٹمر آنے شروع ھوگئے۔‬
‫ایسے ھی سارا دن کام میں گزر گیا‬
‫شام ڈھلنے لگی‬
‫میں دکان کے باہر بینچ پر بیٹھا گزرتے ھوے کسٹمر کو دیکھ رھا تھا کی دو شوخ سے لڑکیاں میرے پاس سے گزر کر‬
‫دکان میں چلی گئی‬
‫میں بھی جلدی سے اٹھا اور انکو ڈیل کرنے کے لیے‬
‫انکے پاس پہنچ گیا۔‬
‫دونوں لڑکیاں ھی ایک سے بڑھ کر ایک تھی‬
‫دونوں نے جینز کی پینٹیں اور اوپر النگ شرٹ پہنی ھوئی تھی‬
‫جسم انکا ایسے تھا جیسے وہ فٹنس کلب جاتی تھی‬
‫کمال کا فگر تھا انکا‬
‫دونوں کی شولڈر کٹنگ تھی اور گولڈن کلر کے بال تھے‬
‫مجھے تو کوئی انڈین فلم سٹار لگ رھی تھی‬
‫ایک لڑکی کافی شوخی لگ رھی تھی‬
‫وہ ریک میں لگے ڈیزائن دیکھ کر منہ بسور کر ساتھ والی لڑکی کو کہہ رھی تھی کہ سب اولڈ ڈیزائنگ ھے‬
‫چلو یار فضول میں ٹائم برباد کرنا ھے ۔‬
‫میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھ رھا تھا‬
‫کہ اتنی اچھی ڈیزانگ لگی ھوئی ھے اور یہ محترمہ کیسے انکو رد کررھی ھے ۔‬
‫وہ واپس مڑنے لگی تو میں نے‬
‫کہا میم بات سنیں‬
‫تو وہ ایک دم چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بڑی ادا سے بولی‬
‫جی فرمائیں ۔۔‬

‫)‪.Update no (56‬‬
‫میں نے کہا آپ کو کس طرح کی ورائٹی چاہیے تو وہ ناک چڑھا کر بولی‬
‫ہمارے مطلب کی ورائٹی آپ کے پاس نھی ھے۔۔‬
‫میں نے کہا آپ بیٹھیں تو سہی‬
‫اور بتائیں کس طرح کولیکشن پسند کرتیں ہیں انکے عالوہ بھی ہمارے پاس کافی ورائٹی ھے‬
‫تو دوسری لڑکی جو پہلے ھی بیٹھی ھوئی تھی اور کھڑی ہونے ھی لگی تھی‬
‫وہ بولی‬
‫بھائی ہمیں سلیو لیس امبرائڈڈ میں النگ شرٹس چاھیے جن کے ساتھ فٹنگ میں ٹراوزر ھو‬
‫تو میں نے کہا مل جائیں گی آپ پلیز تھوڑا آگے آجائیں ۔‬
‫تو وہ لڑکی اٹھی اور دوسری شوخ لڑکی کا ھاتھ پکڑ کر بولی آو یار دیکھ لیتیں ہیں شاید کوئی پسند آجاے‪ ،،‬۔۔‬
‫تو وہ لڑکی اس کے پیچھے چلتی ھوئی دکان کے اینڈ پر آگئیں‬
‫اور پہلے والی لڑکی بیٹھ گئی اور وہ شوخ چنچل حسینہ ابھی بھی کھڑی تھی جیسے اسکی گانڈ میں درد ھو ۔۔‬
‫جنید جو کہ فرنٹ پر میرے ساتھ ھی بیٹھا ھوا تھا وہ بھی ادھر بیٹھا ان کو ھی تاڑ رھا تھا جبکہ دوسرا لڑکا کسٹمر کو ڈیل کر‬
‫رھا تھا۔۔‬
‫میں نے اس شوخ حسینہ کو کہا میم آپ بھی بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک جائیں گی ۔‬
‫تو وہ بولی آپ جلدی سے سوٹ دیکھا دیں ہمارے پاس وقت بہت کم ھے ہمیں جلدی ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا میم آپ پلیز بیٹھیں تو سہی ۔‬
‫میں دیکھانے لگا ہوں ۔‬
‫تو دوسری لڑکی نے اسکا ھاتھ کھینچتے ھوے کہا کہا‬
‫ضوفی بیٹھ تو جاو یار ایسی بھی کیا جلدی ھے‬
‫تو وہ بولی یار میں نے برائیڈل تیار کرنی ھے جا کر‬
‫تم ایسے مجھے لے آئی‬
‫ھو‬
‫برائڈل کو تیار کرنے کا سن کر مجھے یہ تو کنفرم ھوگیا کہ یہ پالر والی ھے ۔۔۔۔‬
‫مجھے ضوفی کا نام سن کر یہ سمجھ آئی کہ دوسری لڑکی نے اسے صوفی کہہ کر ُبالیا ھے ۔۔‬
‫میں حیران ھوکر اسکے چہرے کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ‬
‫یہ صوفی کیا نام ھوا‬
‫تو ضوفی بولی‬
‫بھائی دیکھائیں سوٹ آپ تو ہماری باتیں سننے لگ گئے ۔‬
‫میں جھینپ سا گیا اور جلدی سے نئے مال سے سوٹ نکال کر انکو دیکھانے لگ گیا‬
‫ادھر انکل نے بڑے بلب جو ‪500‬واٹ کے ہوتے تھے وہ چال دیے‬
‫جن کی گولڈن الئٹ میں ان دونوں پریوں کے رنگ چمکنے لگ گئے اور انکے بال مزید گولڈن ہو کر چمکنے لگ تھے ۔۔‬
‫میں نے چھ سات نیو ڈیزائن کھولے تو ضوفی پھر بھی منہ بسور کر رجیکٹ کر رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی سے پوچھا میم آپ نے اپنے لیے لینا ھے‬
‫یا پھر کسی اور کے لیے‬
‫تو وہ بڑے مغرور سے بولی‬
‫کہ آپکو اس سے کیا مطلب تو میں نے کہا‬
‫میم آپ تو ناراض ھو رھی ہیں ۔‬
‫میں تو اس لیے پوچھ رھا ھوں کہ پھر آپ کی پرسنیلٹی کے حساب سے مذید ورائٹی دیکھا دوں۔۔‬
‫تو ضوفی نے جب اپنی تعریف سنی تو کچھ ٹھنڈی پڑ گئی اور تھوڑے نرم لہجے میں بولی ۔‬
‫جی میں نے اپنے لیے ھی لینا ھے ۔‬
‫تو میں نے ایک پنک کلر کی سلیو لیس شرٹ کھولی اور اپنے ساتھ لگا کر اسے دیکھاتے ھوے کہا‬
‫میم آپ یہ لے لیں یقین کریں آپ کے کلر کے ساتھ میچ ھوگی اور بہت ھی خوبصورت لگے گئی‬
‫تو ضوفی بڑے غور سے شرٹ کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی‬
‫ساتھ والی لڑکی نے بھی میری تائید کرتے ھوے کہا ۔ضوفی واقعی یار کمال کی ڈیزاننگ ھے ۔۔‬
‫تو میں نے ایک بار پھر تعریف کے ُپل باندھتے ھوے کہا‬
‫میم یہ پہلی آپ ھی کسٹمر ہیں جنکو کھول کر دیکھا رھا ھوں بلکل لیٹس ڈیزائن ھے‬
‫تو ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫کیوں جی ہمیں کیوں دیکھا رھے ہیں کیا بیچنے کے لیے نھی لے کر آے ۔۔‬
‫میں نے کہا نھی میم ایسی بات نھی‬
‫ہم ہر کسٹمر کی ُلک کے حساب سے ھی اسے ورائٹی دیکھاتے ہیں۔۔‬
‫جیسے آپکا کلر پنک ھے ویسے ھی اس سوٹ کا کلر آپ کے کلر کے ساتھ میچ کرے گا‬
‫اور ہر دیکھنے واال آپ کی تعریف کئے بغیر نھی رھ سکے گا ۔۔‬
‫میری باتیں ضوفی کے دل دماغ پر اثر کررھی تھی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اگر آپ کو یقین نھی تو یہ ٹرائی روم ھے آپ پہن کر چیک کرلیں‬
‫اگر میری بات غلط ھو تو پھر آپ بے شک نہ لینا ۔۔‬
‫ضوفی نے ٹرائی روم کے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫میرے ھاتھ سے شرٹ پکڑی اور دوسری لڑکی کو کہا ثانیہ چلو پہن کر دیکھ لیتے ہیں ۔‬
‫ثانیہ بولی پاگل تم جاو اندر میں ادھر ھی بیٹھتی ھوں‬
‫تو ضوفی شرٹ پکڑے ھوے ٹرائی روم میں چلی گئی ۔‬
‫اور دوسری لڑکی جس کا نام ثانیہ تھا وہ ادھر ھی بیٹھی رھی اور دوسرے سوٹوں کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اور مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی‬
‫بھائی دعا کریں اسے پسند آجاے‬
‫ورنہ اس نے تو دو گھنٹے سے مجھے ذلیل کیا ھوا ھے‬
‫تو میں نے کہا آپ گبھرائیں نہ یہ شرٹ انکو بہت سوٹ کرے گی‬
‫پھر میں نے ثانیہ کو کہا میم ایک بات کروں اگر آپ ناراض مت ہوں تو۔۔‬
‫ثانیہ نے ایکدم چونکتے ھوے بڑی حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫جی پوچھیں ۔‬
‫میں نے کہا انکا نام صوفی کیوں ھے‬
‫تو ثانیہ کھل کھال کر بولی‬
‫نھی بھائی اس کا نام صوفی نھی‬
‫ضوفی ھے اور یہ اسکا ِنک نیم ھے‬
‫اصل نیم ضوفشاں ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا ہممم سوری میم مجھے سمجھ آئی تھی کہ آپ نے انکو صوفی کہا ھے‬
‫اور میں تب سے پریشان تھا کہ صوفی تو مولویوں کو کہا جاتا ھے ۔۔‬
‫تو ثانیہ ہنسنے لگ گئی ۔‬

‫)‪Update no (57‬‬
‫جنید آہستہ سے بوال‬
‫یار مال بڑا چوکس تھا‬
‫میں نے کہا ھاں یار دونوں بچیاں ھی بڑی زبردست تھی‬
‫جنید بوال ایک کو تو میں جانتا ھوں‬
‫میں نے چونکتے ھوے کہا کسکو‬
‫جنید بوال‬
‫وہ جس نے گولڈن کلر کی شرٹ پہنی ھوئی تھی جو شرٹ پہن کر چیک کرنے اندر گئی‬
‫میں نے کہا ھاں ھاں‬
‫تم اسے کیسے جانتے ھو۔‬
‫جنید بوال یار یہ ساتھ والی مارکیٹ کی بیسمنٹ میں اسکا پالر ھے بڑی گرم بچی ھے‬
‫اسکے محلے کے سارے لڑکے اسکے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں‬
‫مگر یہ سالی کسی کو گھاس نھی ڈالتی‬
‫میں نے جنید سے اسکے محلے کا پوچھا تو جنید نے محلے کے ساتھ ساتھ مجھے گلی اور گھر کا نقشہ بھی بتا دیا۔۔‬
‫میں بڑی حیرانگی سے جنید کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫واہ یار بڑی معلومات رکھتا ھے‬
‫کہیں تم بھی اسکے پیچھے تو نھی۔‬
‫جنید ٹھنڈی آہ بھر کر بوال‬
‫نھی یار میری اتنی قسمت کہاں کہ ایسی پوپٹ بچی کو پھنسا سکوں‬
‫میں تو بس اسکے نام کی ُمٹھ ھی مارلیتا ھوں ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے جنید کی کمر پر ہاتھ مارتے ھوے کہا‬
‫چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا۔‬
‫ٹرائی تو مارنی تھی شاید پھنس ھی جاے۔‬
‫جنید بوال اس سالی کے پیچھے ایک سے بڑھ کر ایک لڑکا ھے‬
‫مگر یہ دیکھتی سب کی طرف ھے مگر کسی کو لفٹ نھی کرواتی ۔‬
‫تو بھی ٹرائی کر کے دیکھ لے شاید تیرا کام بن جاے تم بھی پوپٹ بچے ھو۔‬
‫میں نے کانوں کو ھاتھ لگاتے ھوے کہا‬
‫نہ یار میں ٹھہرا پینڈو اور وہ ٹھہری شہری میم اور اوپر سے ہے بھی پالر والی‬
‫نہ بابا نہ پٹواے گا کیا اس سے مجھے‬
‫جنید بوال سوٹ لیتے وقت تو تیرے ساتھ بہت ہنس ہنس کر باتیں کررھی تھی‬
‫میں نے کہا یار مجھے کیا لینا اسکی ہنسی سے‬
‫میں نے تو بس اسکے پرس سے پیسے نکلوانے تھے‬
‫سو نکلوا لیے‬
‫اب لن پر چڑھے‬
‫جنید ہنستے ھوے بوال‬
‫ماما لن تے اونے ایویں نئی چڑ جانا‬
‫پتہ نئی کنے لن اودھے انتظار وچ روز روندے نے‬
‫میں ہنسس پڑا‬
‫کہ اتنے میں انکل کی آواز آئی کے‬
‫چلو ُمنڈیو سامان اندر رکھو دکان بند کرئیے‬
‫اور ہم ہنستے ھوے اٹھے اور باہر سے سوٹ اتار کر اندر رکھنے لگ گئے‬
‫اور دکان بند کر کے میں انکل کہ ساتھ ھی گاوں آگیا ۔۔‬
‫گھر آکر میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور پھر باہر گلی میں نکل کر فوزیہ کے گھر کی طرف چل دیا۔‬
‫اندر داخل ھوا تو صحن میں انکل اور فوزیہ بیٹھی ھوئی تھی جبکہ عظمی اور نسرین مجھے نظر نہ آئیں شاید وہ کمرے میں‬
‫تھیں ۔‬
‫میں نے فوزیہ اور انکل کو سالم کیا‬
‫اور فوزیہ کے پاس بیٹھنے کی بجاے انکل کے پاس جاکر بیٹھ گیا‬
‫اور انسے انکے سالے کا افسوس کرنے لگ گیا‬
‫فوزیہ اپنے بھائی کا ذکر سن کر رونے لگ گئی میں اٹھ کر ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور فوزیہ کو کندھے سے پکڑ کر‬
‫اپنے ساتھ لگاتے ھوے حوصلہ دینے لگ گیا کہ‬
‫ہم جانے والے کو روک تو نھی سکتے جس کا جتنا وقت دنیا میں لکھا ھے اس نے اتنا ھی گزارنا ھے ۔۔‬
‫فوزیہ بولی ابھی اسکی عمر ھی کیا تھی ابھی تو اسکی ایک بیٹی جوان کنواری تھی جسکی شادی کرنے کا بیچارا سوچ رھا‬
‫تھا بیچارے کو اپنی بیٹی کی شادی دیکھنا نصیب بھی نہ ھوا۔‬
‫میں نے فوزیہ سے پوچھا‬
‫آنٹی انکے کتنے بچے ہین۔‬
‫فوزیہ اپنے آنسو دوپٹے سے صاف کرتے ھوے بولی‬
‫دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے جو جوان ھے ۔‬
‫بیٹے بھی ابھی چھوٹے ہین‬
‫بھابھی بیچاری بھی کیسے انکی کفالت کرے گی‬
‫جانے واال تو چال گیا‬
‫بچوں کا کیا بنے گا‬
‫اور بیچاری گھر کیسے چالے گی ۔‬
‫فوزیہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں پھر انکو اپنے ساتھ لگا کر چپ کروانے لگ گیا‪،‬‬
‫فوزیہ کے رونے کی آواز سن کر‬
‫عظمی اور نسرین بھی باھر آگئی اور وہ بھی فوزیہ کے قریب آکر فوزیہ کو چپ کروانے لگ گئی‬
‫کہ امی بس کریں جب سے آئیں ہیں روئی جارھی ھیں صبر کریں‬
‫فوزیہ اور رونے لگ جاتی‬
‫کچھ دیر بعد فوزیہ کچھ سنبھل گئی‬
‫اتنے میں محلے کی دو تین عورتیں اندر داخل ھوئی تو میں انکے بیٹھنے کے لیے جگہ چھوڑ کر اٹھ کر اندر کمرے کی‬
‫طرف چال گیا میرے پیچھے ھی نسرین بھی آگئی ۔‬
‫اور افسردہ سی ھو کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے بھی موقع کی مناسبت سے کوئی ایسی ویسی بات نہ کی اور کچھ دیر ادھر ھی بیٹھا رھا‬
‫اور پھر گھر آگیا‪ ،‬اگلے دن جمعہ تھا‬
‫اور مجھے دکان سے چُھٹی تھی‬
‫اور عظمی لوگوں نے بھی سکول نھی جانا تھا ۔‬
‫صبح میں اٹھا تو ناشتہ وغیرہ کر کے صدف کے گھر کی طرف چل دیا‬
‫اور دروازہ کھال دیکھ کر اندر جھانکا کے اس کا سڑیل باپ تو نھی‬
‫مگر صحن میں صرف صدف کی امی بیٹھی کپڑوں کو گھٹری میں باندھ رھی تھی‬
‫میں نے آنٹی کو سالم کیا‬
‫اور پوچھا آنٹی کیا کررھی ہیں‬
‫آنٹی بولی۔۔‬
‫ُک ش نئی ُپتر اے تون والے کپڑے نے کنے اکھٹے ھو گئے نے‬
‫تیری پین نوں تے ٹیم نئی ملدا وچاری شام نوں سکولوں آندی اے تے آندے ای بچے پڑن آجاندے نے‬
‫تے اج نال والی صغراں نہر تے چلی سی کپڑے تون تے میں سوچیا میں وی اودے نال چلی جاواں اودیاں ِتن چار کڑیاں نے‬
‫ہتھوں ہتھ چھیتی نال میرے کپڑے وی تو دین گیا۔۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی صدف کو کہیں وہ بھی آپ کے ساتھ چلی جاے‬
‫تو آنٹی بولی۔‬
‫اوس وچاری کولوں ٹیم کتھے‬
‫میں نے کہا آنٹی میرے لیے کچھ کام ھو تو بتا دینا‬
‫آنٹی بولی‬
‫جیوندہ رہ ُپتر‬
‫شاال جوانیاں مانے‪،‬‬
‫بس میرے نال اے کپڑیاں دی َپ نڈ نہر تے َچ ھڈ آ‬
‫تے فیر اپنی پین کول آجاویں او نمانی کلی اے کار‬
‫تیرا چاچا تے تیرا ویر وی اج کم تے اے او وی پتہ نئی رات نوں آندہ اے کہ اگلے دن ۔‬
‫ُتوں میرا ُپتر چھیتی نال واپس آجاویں تے جدوں تک میں نہ آواں تے ُتوں کروں بار نہ نکلیں۔۔‬
‫خوشی کے مارے میری تو باچھیں کھل اٹھیں کہ اج دکان توں ُچھٹی اے پر ُپھدی تو ُچھٹی نئی واہ جی واہ بلے بلے‬
‫۔تبھی صدف کمرے سے کچھ دھونے والے کپڑے پکڑے ہوے باہر نکلی اور مجھے دیکھ کر حیران ھوگئی‬
‫اور بولی خیر اے صبح صبح ای چن ِکدروں نکل آیا‬
‫میں نے کہا آنٹی کے ساتھ نہر پر جارھا ھوں کپڑے دھونے کے لیے ۔‬
‫صدف ہنستے ھوے بولی‬
‫امی اس سے کپڑے دھلوانے ہیں کیا۔‬
‫آنٹی بولی ۔۔‬
‫کملی ھوگئی ایں‬
‫اے کیڑا ُک ڑی اے‬
‫جیڑا میرے نال کپڑےتواے‬
‫اینے مینوں چھڈ کے آنا اے تے فیر ایتھے تیرے کول رے گا ۔‬
‫تےاینوں تنگ نہ کریں‬
‫تیرا چھوٹا ویر اے۔۔‬
‫میں نے آنٹی کے پاس جاکر آنٹی کو بڑے الڈ سے کہا‬
‫آنٹی جی اسکو اچھی طرح سمجھا دیں‬
‫یہ ایسے ھی مجھ پر رعب جھاڑتی رھتی ھے اور بھاری بھاری کام مجھ سے کرواتی ھے ۔۔‬
‫تو آنٹی صدف کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫گل ُسن لے کاکی ہن توں میرے ُپتر نوں تنگ کیتا ناں تے میں تیریاں لتاں توڑاں گی ۔۔‬
‫صدف مجھے گھورتے ھوے منہ پر ھاتھ پھیر کر بولی‬
‫امی یہ جھوٹ بول رھا ھے میں اسے کیوں تنگ کروں گی‪،‬‬
‫میں نے ڈرنے کے انداز سے پھر آنٹی کو کہا‬
‫آنٹی دیکھ لیں مجھے پھر گھور رھی ھے اور دھمکی دے رھی ھے‪،‬‬
‫تو انٹی بولی‬
‫صدف شرم کر تیرے توں چھوٹا اے‪،‬‬
‫صدف پیر پٹختی ھوئی اندر چلی گئی‪،‬‬
‫اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی اندر ائی اور بولی‬
‫خالہ امی کیندی اے نہر تے چلیے‬
‫انٹی بولی‬
‫ہاں پتر اپنی امی نوں کے چھیتی نال آجاوے میں‬
‫لیڑیاں دی َپ نڈ َب ن لئی اے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ساتھ والی آنٹی اور اسکی تین چار بیٹیاں جو ابھی جوان ھورھی تھی‬

‫دروازے کے پاس کھڑی ھوکر‬


‫انٹی کو آواز دینے لگ گئی‬
‫آنٹی نے مجھے کپڑوں کی بڑی سی گھٹری اٹھانے کا کہا‬
‫میں نے جلدی سے گٹھری کو اٹھا کر سر پر رکھا اور باہر نکل آیا تو انٹی نے صدف کو آواز دی کہ ُپتر دروازہ بند کرلے‬
‫اور ہم نہر کی طرف چل پڑے‬
‫کچھ دیر بعد ہم نہر پر پہنچ گئے تو آنٹی نے مجھے دعائیں دیتے ھوے کہا‬
‫پتر سدھا کار جاویں تیری پین کلی اے‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا صدف کے دروازے پر جا پہنچا‬
‫اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد‬
‫صدف کی آواز آئی کون‬
‫میں نے کہا‬
‫تمہارا عاشق‬
‫وہ کچھ دیر خاموش رھی پھر بولی‬
‫ھاں جی فرماو کنوں ملنا اے‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھتے ھوے کہا‬
‫اس گھر میں ایک حسن کی دیوی رھتی ھے‬
‫اسکی پوجا کرنے کے لیے حاضر ھوا ھوں‬
‫صدف بولی‬
‫جناب غلط اڈریس پر آے ہیں یہاں ایسی ویسی کوئی دیوی نھی رھتی لحاظ جاءیں ادھر سے‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے جی جو جناب کا حکم‬
‫اور میں نے جان بوجھ کر قدموں کو ایسے زمین پر مارا کے صدف کو یہ لگے کے میں واپس جارھا ھوں ۔‬
‫ایکدم دروازہ کھال اور صدف نے پورا سر باہر کو نکاال‬
‫میں اس سے پہلے گلی کا جائزہ لے چکا تھا کہ کوئی ھے تو نھی۔‬
‫جیسے ھی صدف نے چہرہ باہر کو نکاال تو میں سائڈ سے اچانک نکل کر اس کے سامنے منہ کیا اور اسکے ہونٹوں کو‬
‫چوم کر بوال‬
‫میری دیوی مل گی ۔‬
‫صدف میرے اس طرح اچانک سامنے آنے اور اسکے ہونٹ چومنے کی وجہ سے بری طرح ڈر گئ تھی اگر اسکی نظر مجھ‬
‫پر نہ پڑتی تو بالشبہ اسکی چیخ نکل جانی تھی‬
‫صدف ایکدم پیچھے اندر کی طرف ھوگئی اور ایک ھاتھ اپنے ہونٹوں پر اور ایک ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر مجھے گھور‬
‫کر بولی ۔۔۔۔۔‬
‫بے غیرت گندا ُک تا میری جان نکال دی‬
‫شرم تو نھی آتی کیسے مجھے ڈرا دیا ھے۔‬
‫صدف نے ایک ھی سانس میں میری اچھی سیوا کردی ۔‬
‫میں ہنستا ھوا اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے صدف کی طرف ایسے بڑھا جیسے ِو لن ہیروئن کی عزت لوٹنے کے‬
‫لیے قدم بڑھاتا ھے۔۔‬
‫میں ایسے ھی سلوموشن میں قدم آگے بڑھا رھا تھا اور صدف اپنی عزت بچانے کے لیے ۔میری طرف منہ کیے پیچھے کی‬
‫طرف چل رھی تھی‬
‫میں نے قہقہہ لگایا ھا ھا ھا ھا‬
‫تو صدف میں مشرقی پینڈو لڑکی کی روح نازل ہوئی‬
‫اور صدف نے مجھے گریبان سے پکڑ کر ُمکا لہراتے ھوے کہا‬
‫میں اک مارنی اے تیری بوتھی تے آیا وڈا ہیرو‪،‬‬
‫میں تھوڑا سا نیچے کو ُج ھکا اور ایک ھاتھ صدف کی ٹانگوں کے پیچھے کیا اور ایک ھاتھ صدف کی کمر کے گرد‬
‫اور ایک جھٹکے سے اسے بازوں میں بھر کر اٹھا لیا اور اسے اٹھاتے ھوے میری اووئی بھی نکل گی‬
‫صدف اپنا آپ مجھ سے ُچ ھڑوا رھی اور ٹانگیں مار رھی تھی‬
‫کہ چھوڑو مجھے‬
‫میں نے شور مچا دینا ھے‬
‫کہ میری عزت لوٹنے لگا ھے‬
‫میں کمرے کی طرف چلتا ھوا پھر قہقہہ مار کر بوال‬
‫ھا ھا ھا ھا مار لو چیخ مچا لو شور آج تمہیں کوئی نھی بچا سکتا‬
‫صدف بولی‬
‫تیری اتنی جرات ھے کہ تم میری عزت لوٹ سکو‬
‫میں نے کہا‬
‫جرات ھے نھی جرات ھوگئی ھے اور ابھی کچھ دیر بعد‬
‫میں تمہیں چیڑ پھاڑ دوں گا‬
‫ھا ھا ھا ھا‬
‫ایسے ھی میں ڈرامہ کرتے ھوے صدف کو لے کر برآمدے میں پہنچ گیا۔‬
‫صدف ہنسی بھی جارھی تھی اور میرے سینے پر کے بھی ماری جارھی تھی‬
‫اور مجھے جعلی دھمکیاں بھی دے رھی تھی ۔‬
‫میں اسے اٹھاے ھوے اندر کمرے میں لے گیا اور اسکو چارپائی پر پھینک دیا‬
‫صدف چارپائی پر گرتے ھی بولی‬
‫ھاےےےے امی میری کمر ٹوٹ گئی۔‬
‫میں صدف کے اوپر ُجھکتے ھوےبوال‬
‫کمر تو اب ٹوٹے گی‬
‫جب ذور ذور سے جھٹکے لگے گیں‬
‫صدف بولی‬
‫چل دفعہ ھو آیا وڈا جھٹکے مارنے واال پیچھے ھو میں نے ابھی صفائیاں کرنی ہیں۔‬
‫میں نے صدف کی ٹھوڑی کو پکڑا کر کہا‬
‫کیا بات ھے‬
‫بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں‬
‫دل کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں ۔‬
‫صدف ہنس کر ٹھوڑی کو پکڑے میرے ہاتھ کو پکڑ کر بولی‬
‫جناب شاعر کب کے ہوگئے‬
‫میں نے کہا‬
‫جب سے جناب کی قرابت نصیب ھوئی ھے تب سے ہمیں ہر چیز پر شاعری کرنے کا شوق پیدا ھوگیا ہے‬
‫صدف بولی اچھا جی بڑی گل اے‬
‫میں اس کے ساتھ ھی چارپائی‪ .‬کے اوپر چڑھ کر ادھ لیٹی ھوئی صدف کے اوپر دونوں اطراف بازو کر کے بازوں کے‬
‫وزن پر اسپر جھک گیا‬
‫صدف کے ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے تھے‬
‫اس کی تیز تیز سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی‬
‫اس کے اوپر نیشچے ھوتے ممے میرے سینے سے لگ رھے تھے‬
‫صدف تھوڑا پیچھے کو کھسکی میں‬
‫میں ھاتھوں کے بل چلتا ھوا ایک ہاتھ آگے بڑھا‬
‫صدف شرماتے ھوے بولی‬
‫کیا ھے یاسر مجھے جانے دو‬
‫گھر میں سارا سامان بکھرا پڑا ھے اماں آگئی تو کیا سوچے گی کہ میں نے صفائی بھی نھی کی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا مجھے پتہ ھے جناب انٹی تین چار گھنٹوں سے پہلے نھی آتی۔۔‬
‫اس لیے جناب بےغم ھوجاو‬
‫صدف بولی‬
‫کیا چاہتے ھو‬
‫میں نے اسی انداز میں کہا تمہیں۔۔۔‬
‫صدف بولی یاسرررر مجھے صفائی تو کر لینے دو۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہال دیا۔۔‬
‫صدف نے ہار مانی اور سیدھی میرے نیچے ڈھے گئی ۔‬
‫اور منہ دوسری طرف پھیر لیا‬
‫میں نے اسکے اوپر لیٹتے ھوے کہا‬
‫صدف ۔۔‬
‫تو اس نے منہ دوسری طرف کئے ھی کہا‬
‫جی‬
‫میں نے کہا کیا ھوا ناراض ھوگئی ھو۔‬
‫وہ نفی میں سر ہال کر بولی‬
‫نھی‬
‫میں نے کیوں ناراض ھونا ھے‬
‫تو میں بوال‬
‫پھر یہ بےرخی کیوں دیکھا رھی ھو۔‬
‫میں آج سپیشل تم سے ملنے کے لیے آیا ھوں اور تم ھو کہ نخرے کر رھی ھو۔‬
‫صدف کی تیز چلتی سانسیں اسکے گرم ھونے کا اعالن کررھیں تھی‬
‫جبکہ صدف اپنے مشرقی ھونے کا ثبوت پیش کررھی تھی ۔‬
‫صدف نے میری طرف منہ کیا تو‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے قریب کئے‬
‫تو صدف نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے نرم ہونٹ کھول کر اعالن جنگ کا اعالن کردیا‬

‫)‪..Update no (58‬‬
‫میں نے اپنے ہونٹوں کے درمیان سے زبان کی نوک نکال کر اسکے ہونٹوں پر پھیرتے ھوے منہ کے اندر گھسا دی‬
‫تو صدف نے اپنے ہونٹوں کا دروازہ بند کر کے میری زبان کو ہونٹوں میں بھینچ کر چوسنا شروع کردیا‬
‫کچھ دیر بعد صدف نے اپنا منہ کھوال اور اپنی گالبی زبان کی نوک کو لہراتے ھے باہر نکاال‬
‫اور ادھر میں نے بھی اسکی تقلید میں ایسا ھی کیا‬
‫اور نوک کے ساتھ نوک کو مال کر‬
‫عجب مزے کا لطف لینے لگ گیا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی نوک سے نوک ملتی رھی ٹکراتی رھی‬
‫اور جب جنون بڑھا تو‬
‫دونوں کے لبوں کے پٹ کھلے اور ہونٹوں میں ہونٹ سمانے لگے‬
‫ایک دوسرے کا لباب اپنے اندر اتارتے رھے۔۔۔‬
‫صدف کے ممے میرے سینے میں جزب ھورھے تھے‬
‫میرا لن تن کر پھدی کے ساتھ ملن کے لیے بے چین تھا اور پھر کے در پر ٹکریں مار مار کر دخول کرنے کا احتجاج کررھا‬
‫تھا۔‬
‫مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں دونوں ڈوب چکے تھے‬
‫میں صدف سے اوپر اٹھا تو اور صدف کو بازوں سے پکڑ کر اوپر کو اٹھایا‬
‫اور صدف کی قمیض آگے اور پیچھے سے پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو‬
‫صدف بولی‬
‫یاسر کمر ے کا دروازہ تو بند کردو‬
‫میں نے کہا باہر کا تو بند ھے کھال رھنے دو‬
‫تو صدف بولی نھی یاسر اسے بھی بند کردو‬
‫میں اپنا کام ادھورا چھوڑ کر چارپائی سے اترا اور دروازہ بند کرنے چال گیا‬
‫دروازہ بند کر کے میں پھر چارپائی کے پاس آکر کھڑا ھوگیا‬
‫صدف ویسے ھی بیٹھی تھی‬
‫میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا اور اسے چارپائی سے نیچے اترنے کا کہا تو صدف بھی چارپائی سے نیچے اتر کر میرے مقابل‬
‫کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے صدف کی کمر کر گرد بازوں کا گھیرا ڈاال‬
‫اور لن کو پھدی والی جگہ پر لگا کر صدف کے کان کے نیچے گردن پر ہونٹ رکھ کر اسے کس کر جپھی ڈال لی ۔‬
‫صدفے نے بھی ھاتھ میرے پیچھے لیجا کر مجھے بازوں میں کس لیا‬
‫دو جسم ایک جسم بن گئے‬
‫ایک دوسرے میں سما گئے‬
‫دونوں پر شہوت سوار ھو چکی تھی‬
‫پھدی اور لن ایک دوسرے کے لمس سے مچل رھے تھے‬
‫سینے ایک دوسرے میں سامنے کی کوشش کررہے تھے‬
‫صدف کی آہیں سسکیاں نکل رھی تھی‬
‫میرے ہونٹ صدف کی گردن کو چومتے ھوے گلے تک آرھے تھے اور یہ سفر چھوٹی چھوٹی پاریاں کر کے طے کررھے‬
‫تھے‬
‫میں نے صدف کی کمر سے ھاتھ تھوڑا نیچے کیا اور اسکے گوشت سے بھری گول گانڈ کی پھاڑیوں کو مٹھیوں میں بھر لیا‬
‫صدف بے چین ھوکر پھدی کو لن پر دبا رھی تھی‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫میں نے صدف کی قمیض کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کیا تو صدف مجھ سے الگ ھوگئی اور خود قمیض کو آگے اور‬
‫پیچھے سے پکڑ کر اتارنے لگ گئی‬
‫قمیض اتار کر اس نے چار پائی پر رکھ دی اور گھوم کر کمر میری طرف کر کے مجھے بریزیر کی ہک کھولنے کا اشارا‬
‫کیا‬
‫میں نے پہلے اسکے ننگے کندھوں پر ہونٹ رکھ کر چوما جس سے صدف نے جھرجھری لی اور میں نے ہاتھ بڑھا کر‬
‫اسکی بریزیر کی ہکا کھول کر‬
‫بریزیر کے سٹرپ کو اسکے کندھوں سے اتارا اور ھاتھوں کو اسکی بغلوں کے نیچے سے گزار کر بریزیز کے کپ کے‬
‫اندر سے اسکے دونوں ننگے مموں کو پکڑ کر انگوٹھے سے کپوں کو آگے کی طرف ُپش کیا تو بریزیر صدف کے پیروں‬
‫میں گر گیا اور صدف کا اوپر واال حصہ کپڑوں سے بے نیاز ھوگیا‬
‫میں نے لن صدف کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر صدف کے ننگی کمر کو اپنے سینے سے لگا کر ھاتھوں میں ممے پکڑ کر‬
‫جپھی ڈال لی‬
‫صدف کی سسکاریاں بلند ھوگئی‬
‫دونوں کو کوئی ڈر خوف نھی تھا کسی کے آنے کا ڈر نھی تھا کسی کے دیکھنے کا ڈر نھی تھا تو اس لیے بے دریغ اپنے‬
‫مزے کا اعالن بلند سسکاریوں اور آہوں سے کر رھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی میں صدف کی کمر سے چمٹا اسکی گانڈ میں لن کو رگڑتا رھا‬
‫اور اسکے ممے مسلتا ھوا اسکے کندھوں اور گردن کو چومتا رھا‬
‫پھر میں نے اسکا منہ اپنی طرف کیا‬
‫اور اپنی قمیض اتارنے لگ گیا‬
‫قمیض اتار کر میں نے بھی صدف کی قمیض کے اوپر اپنی قمیض رکھ دی‬
‫صدف‬
‫میرے ننگے سینے پر ھاتھ پھیرتی رھی‬
‫اور پھر آگے ھوئی اور میرے سینے پر اپنے ہونٹ رکھ کر میرے ننگے سینے کو چومنا شروع کردیا۔‬
‫اور سینے کو چومتی ھوئی ساتھ دونوں ہاتھ کھول کر میرے سینے پر رکھے نیچے میری ناف کی طرف جارھ تھی اور ساتھ‬
‫ساتھ پاوں کے بل نیچے بیٹھ رھی تھی‬
‫اسکے نرم ہاتھ میرے سینے سے رینگتے ھوے میرے پیٹ کی طرف آتے ھوے میرے جسم میں کرنٹ پید کررھی تھی اور‬
‫مجھے مزے کی شدید لہر اپنے جسم میں دوڑتی محسوس ھو رھی تھی‬
‫صدف پاوں کے بل بیٹھ چکی تھی‬
‫اور میرے پیٹ کو چومتے ھوے ناف سے نیچے زبان کو پھیر رھی تھی‬
‫میرا لن صدف کے گلے لگا ھوا تھا‬
‫دوستو اس وقت مجھے جو مزہ جو لطف آرھا تھا وہ مین بیان نھی کرسکتا صدف کے ہونٹوں کا لمس مجھے جنت کی وادیوں‬
‫میں لیے جارھا تھا‬
‫میں مزے کی نئی دنیا سے واقف ھو رھا تھا۔‬
‫صدف نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور میرا ناال کھولنے لگ گی‬
‫میں حیران ھوکر صدف کو دیکھ رھا تھا کہ اسے کیا ھوگیا آج۔۔‬
‫صدف نے میرے نالے کا سرا پکڑا اور کھینچ کر نالے کی گانٹھ کو کھول دیا اور میری شلوار کو کھول کر نیچے میرے‬
‫پیروں کی طرف چھوڑ دیا شلوار خود ھی میرے قدموں میں گر گئی‬
‫میرا ننگا لن لہرا کر باہر نکال اور صدف کے ہونٹوں کو ہونٹوں سے چھو کر اسکی ناک کر لگا‬
‫صدف بڑے غور سے لن کا معائنہ کررھی تھی اور ایک ھاتھ لن کی جڑ پر اور ایک ھاتھ لن کے ٹوپے پر رکھ کر درمیان‬
‫والی خالی جگہ کو چوم رھی تھی ۔‬
‫صدف میری جان لینے پر تلی ھوئی تھی‬
‫اس کا یہ نیا روپ ۔مجھ پر بھاری پڑ رھا تھا۔‬
‫صدف نے زبان نکالی اور ٹوپے کے ہونٹوں کے درمیان زبان کی نوک لگا کر نوک کو دبانے لگ گئی میرا لن پھنکارنے لگ‬
‫گیا کسی ازدھے کی طرح پھن کو پھالنے لگ گیا میرے لن کی نسیں پھول چکی تھی جیسے ابھی پھٹ جائیں گی‬
‫صدف کا ہر اگال قدم مجھ پر بھاری پڑ رھا تھا‬
‫صدف نے منہ کھوال اور لن کو جڑ سے پکڑ کر ٹوپے کو منہ میں بھر لیا۔‬
‫اور لولی پپ کی طرح چوپا لگا کر ٹوپے کو باہر نکال دیا۔‬
‫اور زبان نکال کر ٹوپے کے اوپر پھیرنے لگ گئی ۔‬
‫اسکی زبان ٹوپے کو چاروں طرف سے اپنے احسار مین لے رھی تھی اور صدف لن کو جڑ سے پکڑ کر ساتھ ساتھ مٹھ بھی‬
‫مار رھی تھی‬
‫یہ مزہ بھی میرے لیے نیا تھا۔۔‬
‫صدف کسی ایکسپرٹ کال گرل کی طرح۔ لن میں کھوئی ھوئی ہر چیز سے بےگانی ھو کر لن کے ساتھ کھیل رھی تھی‬
‫لن کو صدف نے جڑ سے پکڑا اور پھر ٹوپے سے چومتی ھوئی لن کے جڑ تک آئی اور پھر ایسے ھی چومتے ھوے اوپر‬
‫ٹوپے کی طرف چلی گئی کچھ دیر صدف ایسے ھی میرے لن کو چاروں اطراف سے چومتی سک کرتی رھی اور پھر وہ‬
‫کھڑی ھوگئی اور میری طرف خمارآلود انکھوں سے دیکھتے ھوے بولی مزہ آیا۔۔۔‬
‫میں نے اسکی گالوں پر ھاتھ رکھ کر چومتے ھوے اسکے ھونٹ چوم کر کہا واہ میری جان‬
‫بہتتتتتت مزہ آیا‬
‫اور میں نے ساتھ ھی جھک کر صدف کے ممے کو منہ میں بھر لیا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر دونوں مموں کو چوس چوس کر میرے من کی پیاس بجھائی‬
‫اور صدف کو چارپائی پر لیٹنے کو کہا‬
‫صدف نے کپڑے اٹھا کر دوسری چارپائی پر رکھے اور سیدھی لیٹ گئی میں شلوار پاوں سے نکال کر ایک طرف رکھی‬
‫اور چارپائی پر چڑھ گیا۔‬
‫صدف ایک ٹانگ کو کھڑی کر کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹی ھوئی تھی‬
‫میں‬
‫صدف کی ٹانگ اسکے گھٹنے سے اتاری اور اسکی شلوار پکڑ کر نیچے لیجانے لگا تو پھدی والے حصے سےطساری‬
‫شلوار گلی تھی‬
‫میں نے شلوار کو نیچے کی طرف کیا تو صدف نے گانڈ اٹھائی تو میں نے شلوارنیچے کھینچ کر اسکے پیروں سے نکال دی‬
‫اب میری آنکھوں کے سامنے صدف کی بالوں سے پاک مالئم پھدی تھی جس کے ہونٹ پھدی کے پانی سے گیلے تھے‬
‫میں نے پھدی کے نزدیک ناک کی اور پھدی کو سونگھا تو مجھے پھدی سے مدہوش کر دینے والی سمیل نے مجبور کردیا‬
‫اور میری زبان خود باخود باہر نکلی اور زبان کی نوک نے پھدی کے دانے کو ٹچ کیا‬
‫صدف کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور صدف لمبی سی سسکاری بھر کر دھری ھوگئی‬
‫جس سے مجھے مزید جوش چڑھا تو زبان اور لمبی کر کے پھدی کے دانے کو چاٹنے لگ گیا‬
‫صدف کی جیسے جان نکل رھی تھی اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫آنکھیں بند کئے سر دائیں بائیں مار رھی تھی‬
‫اور سییییییی اممممممم کر رھی تھی‬
‫میں نے صدف کی پھدی کے دانے کو ہونٹوں میں بھر کر چوسنا شروع کردیا‬
‫صدف چارپائی سے اچھلتی اور پھر چارپائی پر ڈھے جاتی‬
‫صدف کی حالت قابل رحم تھی‬
‫وہ بری طرح مچل رھی تھی کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رھی تھی ۔‬
‫یکلخت صدف کا جسم اکڑا اور پھدی سے گرم منی کا الوا پھوٹ پڑا میں نے منہ جلدی سے پیچھے کیا مگر پھر بھی منی‬
‫کی چھینٹیں میرے منہ پر پڑ گئی ۔‬
‫صدف کا جسم جھٹکے لے رھا تھا اور منی بہہ کر چادر کو گیلی کر رھی تھی ۔‬
‫صدف اب لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬
‫میں نے صدف کی ٹانگوں کو کھوال جو اس نے بھینچی ھوئی تھی ۔‬
‫اور ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا‬
‫اور لن کو پھدی پر سیٹ کر کے‬
‫لن کو اندر کرنے لگا تو صدف نے میرے پیٹ پر ھاتھ رکھ کر کہا‬
‫یاسر پلیز ایکدم سارا اندر نہ کرنا۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور لن کو آہستہ آہستہ اندر دھکیل کر پورا لن صدف کی پھدی میں اتار دیا‬
‫پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے لن آسانی سے اندر چال گیا‬
‫صدف نے بھی آہہہہہہہ کیا اور سییییییی پر ختم کیا‬
‫اور میں صدف کی ٹانگیں کندھوں پر رکھے اسکے اوپر‪ .‬جھک کر گھسے مارنے لگ گیا‬
‫صدف آہ آہ آہ آہستہ آرام سے کرو‬
‫کر رھی تھی‬
‫پھدی کی گرمی اور صدف کی سیکسی آوازوں نے مجھے ذیادہ دیر ٹھہرنے نھی دیا اور میں مزے کی اتنی گہرائی مین چال‬
‫گیا تھا کہ جب تک میں مزے سے باہر نکلتا‬
‫میرے لن نے صدف کی پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنا شروع کردیں‬
‫جب دونوں کو ہوش آیا‬
‫تو لن آخری ہچکیاں لے رھا تھا‬
‫صدف کو جیسے ھی احساس ھوا کہ میرے لن نے ساری منی اسکی پھدی میں ُاگل دی ھے تو‬
‫صدف ایک جھٹکے سے اٹھی اور مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے میرے نیم مرجھاے ھوے لن کو پھدی سے نکال کر مجھے‬
‫گھورتے ھوے بولی‬
‫یاسررر یہ کیا کردیا‬
‫تم میرے اندر فارغ ھوگئے‬
‫ھاےےےے اب کیا ھوگا‬
‫اگر کچھ ہوگیا تو‬
‫میں کیا کروں گی کس کو منہ دیکھاوں گی‬
‫یاسر تمہیں اندازہ بھی ھے کہ تم نے کیا حرکت کی ھے‬
‫تمہاری‪ .‬اس حرکت کی وجہ سے میری زندگی تباہ ھو سکتی ھے‬
‫میں بھی گبھرا گیا تھا واقعی غلطی ھوگئی تھی‬
‫صدف ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی‬
‫میں نے ہمت کرکے اسے تسلی دیتے ھوے کہا کہ صدف گبھراو مت کچھ نھی ھوتا‬
‫میں ہوں نہ‬
‫صدف رونے لگ گئی‬
‫اور ایک ھی بات کو دھرانے لگ گئی یاسر تم نے کیا کردیا اب کیا ھوگا۔۔‬
‫میں اسکے اس طرح مسلسل رونے کی وجہ سے چڑ سا گیا اور‬
‫اسے کندھوں سے پکڑ کر ہال کر بوال‬
‫یار میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا‬
‫تم تو ایسے رو رھی ھو جیسے‬
‫ابھی کاکا باہر نکل آنا ھے‬
‫مجھ پر بھروسہ کرو‬
‫صدف پھر روتے ھوے بولی‬
‫تم پر بھروسہ کر کے ھی تو یہ سب کچھ ھوا ھے‬
‫میں نے کہا یار میں کونسا تم سے دور جارھا ھوں‬
‫پہلی بات تو ھے کہ کچھ ھوگا ھی نھی‬
‫اگر کچھ ھوا بھی تو اسکا حل نکال لیں گے‬
‫پلیز تم اس حسین موقع کو رونے میں صرف مت کرو‬
‫اگر آنٹی آگئی تو وہ تم کو روتا دیکھ کر کیا سوچیں گی اور پوچھنے پر انکو کیا جواب دو گی‬
‫کہ میں تمہارے اندر فارغ ھوگیا ھوں‬
‫اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یار‬
‫اور ساتھ ھی میں صدف کے ہونٹ چومنے لگ گیا‬
‫صدف بیٹھی اپنے بازو سے میرا منہ پیچھے ہٹانے لگی کہ یاسر نہ کرو پلیز‬
‫میں پہلے ھی پریشان ھوں ۔‬
‫میں نے صدف کو ذبردستی چارپائی پر لٹا دیا اور خود اسکے ساتھ لیٹ گیا‬
‫صدف کی پھدی سے میری منی ابھی بھی تھوڑی تھوڑی نکل رھی تھی ۔‬
‫میں نے صدف کی طرف اپنی سائڈ تبدیل کی اور اس کے اوپر ھو کر منہ اسکے قریب کر کے‬
‫صدف کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگ گیا اور اسے پچکار کر ریلیکس کرنے لگ گیا‬
‫صدف کافی حد تک ریلیکس ھو چکی تھی‬
‫ہم دونوں کے مادر زاد ننگے جسم ایک دوسرے کے لمس سے پھر گرم ھونا شروع ھو چکے تھے‬
‫میں نے صدف کے ممے کو ھاتھ میں پکڑ کر دبا رھا تھا‬
‫اور ممے کے اکڑے نپل کو چٹکی میں لے کر مسل رھا تھا‬
‫جس سے صدف پھر انکھیں موند کر سسکیاں بھرنے لگ گئی‬
‫میں اب صدف کے مممے کو منہ میں ڈال چکا تھا اور چوس چوس کر صدف کو مذید گرم کر رھا تھا‬
‫میرا لن جو چھوارا بنا ھوا تھا‬
‫اس میں بھی جان ڈلنی شروع ھوگئی تھی اور اس نے بھی سر اٹھا کر جھٹکے مارنے شروع کئے ھوے تھے‬
‫۔‬
‫صدف پھر مجھ میں سمانے کی کوشش کر رھی تھی‬
‫۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا بالخره میں نے صدف کو گھوڑی بننے کا کہا تو صدف کچھ دیر انکار کرنے کے بعد گھوڑی‬
‫بن کر مجھے سواری کرنے کا موقع دے ھی دیا‬
‫میں صدف کی گانڈ کے پیچھے لن اکڑاے ھوے کھڑا تھا اور صدف گانڈ اونچی کر کے سر آگے تکیہ پر رکھے میرے‬
‫سامنے ُلنڈی گھوڑی بنی ھوئی تھی‬
‫اور میں پیچھے سے لن پھدی میں ڈالنے کی پوزیشن میں بیٹھا‬
‫صدف کی گانڈ کی دراڑ کو ہاتھ سے مزید کھول کر اسکی گانڈ کے گول چھوٹے سے سوراخ کا جائزہ لے رھا تھا‬
‫صدف کے مموں کے نپل چارپائی کے ساتھ ٹچ ھو رھے تھے‬
‫اور وہ بھی میرا انتظار کر ھی تھی کہ میں کب پیچھے سے وار کروں اور اسکا نتیجہ کیا کیسا نکلتا ھے‬
‫اسی تجسس میں صدف بھی بے چین تھی‬
‫کہ میں نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور ایک تھوک کر بڑا ساگوال اپنی ہتھیلی پر پھینا اور اپنے لوڑے پر مل دیا میرا لن پہلے‬
‫ھی چکنا تھا تھوک سے مزید چکنا ھو گیا‬
‫میں نے ٹوپے کو پھدی پر سیٹ کیا اور دونوں ھاتھوں سے صدف کی کمر کو پکڑا اور لن پھدی کی طرف دھکیلنا شروع‬
‫کردیا‬
‫آدھا لن میں نے آرام سے ڈاال اور پھر کمر کو مضبوطی سے پکڑے ایک ذور دار دھکا مارا تو کمرے میں تھپ کی آواز کے‬
‫ساتھ ساتھ صدف کی چیخ کی آواز بھی گونجی اور صدف آگے کو ھوئی جس سے میرا لن پھر باہر کو نکل آیا ۔‬
‫صدف بولی یاسرررر کے بچے آرام سے کرلو‬
‫جانور مت بنا کرو پتہ نھی تمہیں ھو کیا جاتا ھے‬
‫میرے اندر جا کر لگا ھے‬
‫ُ میں نے کہا یار مجھے مزہ ھی ایسے آتا ھے‬
‫تو صدف غصے سے بولی واہ واہ‬
‫اگلے کی جان گئی جناب کا مزہ ٹھہرہ۔۔۔‬
‫میں نے ہنس کر کہا تم تو زندہ ھو تمہاری تو جان نھی گئی‬
‫صدف بولی اب کیا جان لینی ھے‬
‫میں اسے پھر گھوڑی بناتے ھوے بوال‬
‫اس جان میں تو میری جان ھے‬
‫تو صدف گھوڑی بنتے ھوے گانڈ کو ہال کر پیچھے ھوئی اور بولی اگر ایسے کرنا ھے تو آرام سے کرنا۔۔‬
‫میں نے کہا جو حکم آقا‬
‫اور اس کے ساتھ ھی میں نے لن آرام سے پورے کا پورا صدف کی پھدی میں اتار دیا جسے صدف نے صدق دل سے قبول‬
‫کر لیا‬
‫اور صدف کی کمر کو پکڑ کر آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگ گیا‬
‫صدف کو بھی مزہ مزہ آنا شروع ھوگیا اور وہ بھی سسکیاں لیتے ھوے‬
‫گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر لن پورا اندر لینے کی کوشش کرتی‬
‫میں نے آہستہ اہستہ اپنی سپیڈ تیز کردی‬
‫اور ایک ھاتھ سے صدف کی کمر پکڑ لی اور ایک ھاتھ آگے بڑھا کر صدف کے پونی کیے ھوے بال پکڑ لیے جس سے‬
‫صدف کا منہ بھی تھوڑا سا اوپر اٹھ گیا‬
‫اس سٹائل میں صدف کو چودنے کا مزہ ھی بہت آرھا تھا‬
‫اور صدف بھی یس یس یس آہ آہ اہ سسسسسسس ممممممم کر رھی تھی‬
‫صدف کا جوش بڑھتا جارھا تھا اور اس کے جوش کو دیکھ کر میری سپیڈ حد سے تجاوز کر چکی تھی‬
‫میرے جھٹکوں سے صدف کے بڑے بڑے ممے ہل رھے تھے‬
‫کیا منظر تھا کیا نظارا تھا کیا مزہ تھا‬
‫صدف کی سسکیاں اور آہیں اب چیخوں میں بدل چکی تھی‬
‫پورے کمرے میں تھپ تھپ ِچ پ ِچ پ آہ آہ آہ ھاےےےےےے مرگئی ھاےےےے میں گئی میں گئی میں گئی یاسسسسررررر‬
‫کی آوازیں گونجی اور اس کے ساتھ ھی‬
‫صدف نے پورے ذور سے گانڈ میرے ساتھ چپکا دی اور اسکی پھدی میرے لن کو بھینچ بھینچ کر چھوڑنے لگی اور پھدی‬
‫سے منی کا اخراج جاری ھوگیا‬
‫صدف لمبی سانس لیتی ھوئی آگے کو گرتی گئی اور اسکے ممے چارپائی کے ساتھ چپک گئے اور منہ تکیے میں دب گیا‬
‫اور پیچھے سے گانڈ ابھی بھی اونچی اور میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی‬
‫اور صدف کی پھدی ابھی بھی رو رھی تھی ہچکیاں لے رھی تھی‬
‫اسکے چوتڑے آپس میں مل کر ُک ھل رھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد جب صدف ریلکس ھوئی تو اب بدلہ لینے کی میری باری تھی‬
‫میں نے پھر گیلی پھدی میں ھے لن پھیرنا شروع کردیا اور لن کو صاف اور خشک کرنا بھی گوارہ نہ کیا بس اسی غلطی‬
‫نے مجھے بہت جلد نیچا دیکھا دیا اور میرے لن نے ایک بار پھر صدف کی پھدی میں ھی منی کی بوچھاڑ کردی‬
‫اس سے پہلے کہ صدف سنبھلتی یا میں لن کو باہر کھینچتا‬
‫باہر کے دروازے پر زوردار دستک ھوئی جیسے وہ کب کا دستک دے رھا تھا اور ہم سیکس کے نشے میں اندھے گونگے‬
‫بہرے ھوے اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے صدف کی پھدی سے لن نکاال‬
‫اور چارپائی سے چھالنگ لگا کر نیچے اترا صدف بھی گبھرا کر جلدی سے اٹھی اور دونوں اپنے اپنے کپڑے پہن کر آگے‬
‫پیچھے کمرے سے نکل کر صحن میں‬
‫آگئے‬
‫دروازہ پھر کھڑکا اور ساتھ ھی ایک آواز آئی جسے سن کر ہم دونوں کی ہنسی نکل گئی اور ہنس ہنس کر ُبرا حال ھوگیا‬
‫میں آگے بڑھا اور دروازہ کھوال تو سامنے ایک بچی کندھے پر گندہ سا بیگ لٹکاے‬
‫سدائیں دے رھی تھی‬
‫اور خیرات مانگ رھی تھی‬
‫میں نے اسے غصے سے کہا یہ کیا بتمیزی ھے‬
‫کسی کا دروازہ ایسے کھٹکھٹاتے ہیں ۔تم تو ایسے کر رھی ھو جیسے ہم سے قرض لینا ھے‬
‫وہ بولی بابو ***کے نام کا مانگ رھی ہوں‬
‫آٹا ھی دے دو‬
‫اتنی دیر میں صدف پلیٹ میں آٹا ڈال کر لے آئی اور اس بچی نے اپنے کندھے سے لٹکایا ھوا میال سا تھیال آگے کیا اور اسکا‬
‫منہ کھول کر پلیٹ اس میں انڈھیل دی ۔‬
‫میں نے دروازہ بند کیا اور ہم دونوں آگے پیچھے چلتے دوبارہ کمرے میں آگئے‬
‫صدف نے اندر آتے ھی مجھے چارپائی پر دھکا دیا تو میں جان بوجھ کر چارپائی کے اوپر ایسے گرا جیسے واقعی اس‬
‫کے ھی دھکے سے میں گرا ھوں‬
‫صدف میرے اوپر لیٹ کر میرا گال دبانے کی ایکٹنگ کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر کے بچے تم دوبارہ پھر میرے اندر ھی فارغ ھوے ھو نہ‬
‫میں نے کہا یار میرا گال تو چھوڑو‬
‫پھر ھی بتاوں گا تو‬
‫صدف نے ھاتھ میرے گلے سے ہٹاے اور‬
‫میرے منہ کی طرف دیکھ کر میرے جواب کا انتظار کرنے لگی‬
‫میں نے کھنگارہ بھرا اور بوال‬
‫یار پہلے ھی اندر فارغ ھوا تھا دوسری دفعہ میرا لن خود ھی باھر آگیا تھا ۔۔‬
‫صدف بولی‬
‫جھوٹ مت بولو یاسر‬
‫مجھے خود محسوس ھوا تھا کہ تم میرے اندر ھی فارغ ھوے تھے‬
‫میں نے کہا نھی یار جہاں تک مجھے پتہ ھے کہ فارغ ہوتے وقت‬
‫لن باھر نکل آیا تھا۔۔‬
‫صدف بولی میں کہہ رھی ھوں کہ تم میرے اندر ھی فارغ ھوے ھو۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا کہ ھو سکتا ھے‬
‫صدف پھر میرا گال دبانے کے لیے مجھ پر جھپٹی مگر میں نے خود کو بچاتے ھو اسکے ھاتھ پکڑے اور اسکو گھما کر‬
‫اپنے نیچے کر لیا ۔میں نے اسکے دونوں ھاتھ کالئیوں سے پکڑے ھوے تھے اور میری ٹانگیں اسکی ٹانگوں کے بیچ تھی‬
‫اور میرا سویا ھوا لن اسکی پھدی کے اوپر لگا ھوا تھا ۔‬

‫)‪.Update no (59‬‬
‫صدف پورا زور لگا کر مجھ سے اپنا آپ ُچھڑوا رھی تھی‬
‫اور مجھے کہہ رھی تھی‬
‫اگر کچھ الٹا سیدھا ہوگیا نہ تو میں نے تمہارے گھر آجانا ھے‬
‫پھر تم جانو اور تمہارا کام‬
‫میں اسے تسلیاں دے رھا تھا کہ یار گبھراو نہ کچھ نھی ھوتا۔‬
‫کچھ دیر ہم یونہی زور آزمائی کرتے رھے ۔‬
‫آخر صدف تھک ہار کر لمبے لمبے سانس لینے لگی اور ساتھ ھی اپنا جسم بھی ڈھیال چھوڑ دیا ۔۔‬
‫میں اسکے اوپر لیٹا رھا اور اس سے بوال‬
‫صدف یار تمہاری پھدی ھی اتنی گرم ھے کہ مجھے پتہ ھی نھی چلتا کہ میں کب فارغ ھوجاتا ھوں ۔۔‬
‫صدف برا سا منہ بنا کر بولی‬
‫آئندہ میں تمہیں کچھ کرنے دوں گی تو ھی اندر فارغ ھوگے نہ ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫یار تم میرے بغیر رھ لو گی‬
‫وہ بڑے اعتماد سے بولی ھاں رھ لوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫تمہارا جب دل کرے گا کچھ کرنے کو تو پھر کیا کرو گی۔۔‬
‫صدف بولی۔‬
‫میرا دل نھی کرتا۔۔‬
‫میں نے کہا سوچ لو۔‬
‫تو وہ بولی سوچ لیا۔‬
‫میں نے کہا اگر میرا دل کیا کرنے کو تو میں کیا کروں گا۔۔‬
‫وہ بولی‬
‫یہ تمہارا مسئلہ ھے میرا نھی۔‬
‫میں نے کہا سوچ لو۔‬
‫وہ پھر اعتمادی انداز میں بولی سوچ لیا۔‬
‫میں نے کہا مجھ سے تو نھی رھا جانا۔‬
‫صدف بولی۔‬
‫میں کیا کروں۔‬
‫میں نے کہا پھر میں کسی اور لڑکی کے ساتھ یہ کام کرلوں گا پھر تم ناراض مت ھونا۔۔‬
‫صدف ایک دم مجھ پر پھر جھپٹی‬
‫اور غصے سے بولی‬
‫تیری جان ناں کڈ دیواں گی کسے ہور ُک ڑی ول ویکھیا وی۔‬
‫میں اپنا بچاو کرتے ھوے بوال ۔‬
‫پھر تم ھی بتاو میں کیا کروں۔‬
‫صدف بولی تم نے کسی اور لڑکی کے بارے میں سوچا بھی کیسے‬
‫کیا میں تمہارے لئے کھلونا ھوں کہ جب دل کیا کھیل لیا جب دل کیا توڑ کر پھینک دیا۔‬
‫اور ساتھ ھی رونے لگ گئی ۔‬
‫میں اسے پچکارتے ھوے بوال۔‬
‫یار مزاق کررھا ھوں تمہارے عالوہ تو کسی اور کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ھوں ۔‬
‫کچھ دیر میرے مسکے سننے کے بعد صدف نارمل ھوگئی‬
‫میں نے پھر کہا اب بتاو نہ کہ جب میرا دل کیا کرے گا تو پھر میں کیا کروں گا۔‬
‫وہ شرما کر بولی‬
‫جو ابھی میرے ساتھ کیا تھا وہ ھی کرو گے۔‬
‫میں بوال‬
‫کس کے ساتھ۔‬
‫وہ پھر چیخ کر میری طرف مکا لہراتے ھوے بولی‬
‫میرے ساتھ ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫مجھ سے تو اب باہر نھی فارغ ھوا جاتا ۔‬
‫کچھ گبھرا کر بولی‬
‫یاسر تمہیں میری عزت کی پرواہ نھی ھے کیا۔‬
‫میں نے کہا بلکل ھے بلکہ اپنی عزت سے بڑھ کر تمہاری عزت کی فکر ھے۔‬
‫صدف بولی پھر اندر فارغ ھونے کا کیوں کہتے ھو۔‬
‫میں نے کہا ایک طریقہ ھے جس سے میں اندر بھی فارغ ھوجاوں گا اور تمہیں کچھ ھوگا بھی‬
‫۔نھی ۔‬
‫صدف جلدی سے بولی وہ کونسا۔‬
‫میں کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بوال‬
‫اسکے لیے بس تمہیں کچھ دیر کے لیے تکلیف سہنا پڑے گی ۔‬
‫وہ حیران ہوتے ھوے بولی کیا مطلب میں سمجھی نھی ۔‬
‫میں نے کہا جب کریں گے تو بتاوں گا ۔‬
‫صدف استفسار کرنے لگی کہ ابھی بتاو مجھے نھی پتہ ۔‬
‫وہ کافی تجسس کا شکار تھی ۔‬
‫میں نے کہا یار ابھی کیسے بتاوں جب کریں گے تو تب ھی بتاوں گا نہ ۔‬
‫صدف جلدی سے بولی ابھی کر لو۔‬
‫میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کیا کہ ابھی یہ دو دفعہ فارغ ھو چکا ھے‬
‫اب یہ کھڑا ھوگا تو ھی کروں گا۔‬
‫صدف بولی‪ .‬مجھے نھی پتہ جیسے مرضی اس کو کھڑا کرو۔‬
‫میں کچھ پل سوچنے کے بعد بوال ۔‬
‫اسے ا ب تم ھی کھڑا کر سکتی ھو۔‬
‫صدف بولی وہ کیسے۔‬
‫میں نے کہا اپنے ہونٹوں سے اپنی زبان سے جیسے پہلے کیا تھا۔‬
‫صدف بولی نہ بابا اب تو یہ گندہ ھے ۔‬
‫میں نے کہا تو پھر رھنے دو‬
‫جب صاف ھوا تو بتا دوں گا۔‬
‫صدف ایکدم بولی نھی نھی میں کرتی‪ .‬ھوں کچھ‬
‫اور یہ کہتے ھوے اس نے مجھے اپنے اوپر سے اٹھنے کو کہا ۔‬
‫میں اسکے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گیا‬
‫اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اور شلوار کے اوپر سے ھی لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا جس میں پہلے سے کچھ جان پڑ چکی تھی ۔‬
‫صدف لن لو پکڑ کر مٹھی بھرنے لگ گئی‬
‫لن میں ہلکی سے جنبش پیدا ھونے لگی ۔‬
‫صدف دوسرے ھاتھ سے میرا ناال کھولنے لگ گئی ناال کھول کر اس نے میری شلوار نیچے کی اور میرے لن کو باہر نکال‬
‫کر غور سے ادھر ادھر کر کے دیکھنے لگ گئی اور لن کو میری شلوار سے اچھی طرح صاف کرکے اس کے ٹوپے کو‬
‫چومنے لگ گئی ۔‬
‫لن آہستہ آہستہ جھٹکے کھاتا ھواجوبن میں آنا شروع ھوگیا‬
‫صدف کے ہونٹوں کالمس لن میں سختی پیدا کررھا تھا اور صدف بھی لن کو لولی پاپ سمجھ کر چوس رھی تھی‬
‫آخر کار صدف کی محنت رنگ الئی اور لن فل تن کر پھنکارنے لگ گیا‬
‫صدف نے جب لن کو پورے جوبن میں دیکھا تو ٹوپے کو منہ لیے اپنی لمبی پلکوں کی چادر کو آنکھیں سے ہٹا کر میری‬
‫طرف بڑے فخریہ انداز سے دیکھا جسے کے ٹو کی چوٹی فتح کرلی ھو۔‬
‫اور پھر لن کو منہ کے اندر کرنے لگی‬
‫آدھے سے کم ھی لن وہ منہ میں لے سکی اور اسی طرح جتنا لن وہ منہ میں لے سکتی تھی اتنا ھی لے کر ہونٹوں سے‬
‫بھینچ کر اند باہر کرنے لگ گئی‬
‫میں بھی مزے کی گہرائیوں میں ڈوبنے لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر صدف میرے لن کے ساتھ کھیلتی رھی جب اسکا شوق پورا ھوگیا تو میری طرف دیکھ کر بولی بسسسسس‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور‬
‫صدف کو کھینچ کر اپنے ساتھ لٹا کر اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا اس کے ممے دبانے لگ گیا اور اسکی قمیض اوپر‬
‫کر دی اور اسے اتارنے کو کہا تو صدف نے اتارنے کا انکار کردیا اور ویسے ھی کھینچ کر مموں سے اوپر کر کے گلے‬
‫تک کر لی‬
‫میں اوپر اٹھا اور صدف کی شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچ کر اسکے پیروں سے نکال دی‬
‫صدف نے جلدی سے اپنی ٹانگیں کھولی لی‬
‫اور پھدی میرے سامنے کردی‬
‫میں نے نفی میں سرہالتے ھوے اسے کہا ایسے نھی الٹی لیٹو تو صدف بولی ایسے ھی کرلو‬
‫میں نے کہا ایسے تمہیں درد ذیادہ ھوگی ۔‬
‫تو صدف حیرانگی سے بولی‬
‫پہلے بھی تو کرتے ھو کونسا نیا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے طنزیہ انداز سے ہنستے ھوے کہا تم الٹی تو ھو پھر بتاتا ھوں‬
‫تو صدف حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے الٹی لیٹ گئی‬
‫میں نے اسکی گانڈ کے پاس منہ کیا اور اس کے چوتڑوں کو کھول کر تھوک کا گوال اسکی موری پر پھینکا تو صدف‬
‫تھوڑی سی ہلی‬
‫اور ساتھ ھی میں نے انگھوٹا اسکی گانڈ کی موری پر رکھ کر تھوک کو موری کے اوپر جزب کرنے لگ گیا اور اسی دوران‬
‫انگوٹھے کا پورا اندر چال گیا‬
‫صدف نےایک دم سائڈ تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے بولی یہ کیا کررھے ھو ۔‬
‫تو میں نے اسکی گانڈ کو ادھر ھی دباتے ھوے کہا کچھ نھی۔‬
‫ہوتا صبر تو کرو‬
‫صدف بولی کچھ الٹا سیدھا نہ کرنا۔۔‬
‫بتا رھی ھوں‪ ،‬۔‬
‫میں اسکی بات کو نظر انداز کر کے اپنے لن کو تھوک سے اچھی طرح گیال کرنے لگا‪،‬‬
‫اور لن کے گیلے ٹوپے کو صدف کی گانڈ کے دراڑ کے اندر موری پر رکھ کر صدف کےکندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسکے‬
‫اوپر ھوا اور ہلکا سا ُپش کیا‬
‫صدف کی گانڈ اور سوراخ‬
‫اتنا سوفٹ تھا کہ ٹوپا اسکی کنواری گانڈ کے کنوارے سوراخ میں چال گیا‬
‫صدف کے منہ سے ایک ذبردست چیخ نکلی مگر اسی سمے میں نے دوسرا جاندار گھسا مارا اور لن کافی حد تک اندر‪ .‬اتر‬
‫گیا اور میرے پٹ اسکی گانڈ کے ساتھ لگ گئے ۔‬
‫صدف درد سے بلبال اٹھی اور رونے لگ گئی‬
‫ھاےےےےےےے میں مرگئی‬
‫ھاےےےےےےے امی جییییییی‬
‫ھاےےےےےےےےے *****ہہہہ‬
‫میں صدف کے اوپر مکمل الٹا لیٹا ھوا تھا‬
‫اور میری شلوار میرے پیروں میں تھی اور میرا پیٹ اور سینہ صدف کی کمر کے ساتھ چپکا ھوا تھا‬
‫میرا لن صرف اتنا ھی باھر تھا جتنا صدف کی گانڈ کا ابھار تھا‬
‫باقی سارا لن گانڈ کو بری طرح چھلنی چھلنی کر کے اندر گھس گیا تھا‬
‫صدف‬
‫۔بس روے جا رھی تھی گانڈ کو نہ اوپر کر رھی تھی نہ ھی ادھر ادھر‬
‫میں نے منہ اسکے کان کے پاس کیا اور اسے کہا صدف بس کچھ دیر درد برداشت کرو کچھ نھی ھوتا‬
‫پھر تمہیں بھی مزہ آے گا۔۔‬
‫صدف رو رو کر ہلکان ہورہی تھی۔‬
‫صدف منہ سے کچھ نہ بولی بس نفی میں سر ہالنے لگی‬
‫اور پھر اسکے منہ سے بس اتنا ھی نکال‬
‫یاسرررررر نھیییییییی برداشت ھورھا۔‬
‫میں نے اسے پھر تسلی دینا شروع کردیب‬
‫مگر صدف کو شاید درد بہت ذیادہ ھورھا تھا وہ مزید روے جارھی تھی‬
‫اور ھاےےےےےےے مرگئی‬
‫ھاےےےےےےےے امی‬
‫بس امی کو ھی یاد کر رھی تھی جیسے اس نے آکر لن باہر نکال دینا ھے ۔‬
‫کچھ دیر میں ایسے ھی صدف کے اوپر لیٹا رھا اور اسے پچکارتا رھا‬
‫صدف ہچکیاں لے رھے تھی ۔اور کہنے لگی یاسرررر پلیز باہر نکال لو میری جان نکل رھی ھے‬
‫اتنا بڑا ھے سارا ھی اندر کردیا‬
‫مجھے بتا تو دیتے کہ ادھر کرنے لگے ھو ھاےےےےے امی جی ۔‬
‫میں نے کہا صدف یار برداشت کر لو کچھ ھی تو دیر کی بات ھے‬
‫ادھر میں اندر بھی فارغ ھوگیا تو کچھ نھی ھوتا۔‬
‫صدف بولی نھییییی یاسسرررر‬
‫مجھ سے نھی برداشت ھورھا‬
‫تم آگے سے کرلو بیشک اندر ھی فارغ ھوجانا میں تمہارا بچہ بھی پیدا کرنے کو تیار ھوں بس ایک دفعہ باہر نکال لو۔‬
‫تو میں نے کہا یار اندر تو چال ھی گیا بس اب کچھ دیر برداشت کرلو‬
‫میرا یقین کرلو‪ .‬۔‬
‫صدف بولی‬
‫تیرے یقین نے ای تے مینوں مروا دتا ایییییی‬
‫کچھ‪ .‬دیر صدف ھاے ھاے کرتی رھی پھر کچھ نارمل ھوئی‬
‫میں نے پوچھا کچھ فرق پڑا تو صدف بولی تھوڑی سی درد کم ھوئی ھے‬
‫میں نے ہلکا سا لن کو باہر کھینچا تو صدف پھر تڑپنے لگ گئی اور ھاتھ پیچھے کر کے میری کمر کو پکڑ کر مجھے‬
‫رکنے کا اشارا کرتے ھوے نفی میں سرہال کر بولی‬
‫نھی نھی نھی یاسر ابھی نھی ہلنا‬
‫پھر درد ھونے لگ گئی ھے ۔‬
‫میں ادھر ھی رک گیا۔‬
‫اور پھر صدف کہ بالوں پر ھاتھ پھیرتے ھوے انکو سہالنے لگ گیا اور اسے پھر تسلیاں دینے لگ گیا‬
‫مجھے دس منٹ ھوگئے تھے ایسے ھی‬
‫میں خود تنگ آگیا تھا‬
‫کہ‬
‫کیڑی ُک ھڈ وچ لن پا بیٹھا واں۔‬
‫صدف اب کافی حد تک نارمل ھوگئی تھی‬
‫میں نے صدف کو کہا یار اب برداشت کرنا تھوڑی سے درد ھوگی مگر برداشت کرلینا‬
‫صدف پھر میری منتیں کرنے لگ گئی کہ‬
‫یاسررر پلیز آگے کرلو‪ .‬مجھ سے نھی برداشت ھوگا‬
‫تم چاھے اندر ھی فارغ ھوجانا۔‬
‫اس سے پہلے کہ صدف اپنی بات ختم کرتی میں نے لن باھر کھینچ کر پھر اندر کردیا اور گھسے مارنے لگ گیا صدف پھر‬
‫چالنے لگ گئی اور میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر میں نے اسے بری طرح نیچے جکڑا ھوا تھا‬
‫اور اپنا سارا وزن اس پر ڈاال ھوا تھا۔‬
‫میں صدف کی چیخوں اور شور کو نظرانداز کرتے ھوے گھسے ماری جارھا تھا‬
‫صدف کی آواز بیٹھ چکی تھی‬
‫اور اب اس نے بھی ھار مان لی تھی اور دھیمی آواز میں رو رھی تھی‬
‫میں پندرہ بیس منٹ تک مسلسل صدف کی گانڈ کو چودتا رھا‬
‫صدف نے بھی حالت سے سمجھوتا کر لیا تھا اور اب وہ بھی خاموش ھوچکی تھی‬
‫کچھ دیر مزید گھسے مارنے کے بعد میں بھی فارغ ہونے کے قریب پہنچ‪ .‬گیا اور جاندار گھسے مارنے لگ گیا۔‬
‫صدف بولی یاسررررر کرلو ظلم آج جتنا کرسکتے ھو‬
‫مگر اس کے بعد میرے سامنے بھی نہ آنا۔‬
‫مگر اس دوران میں خود مزے میں ڈوبا ھوا تھا مجھے اس کی ان باتوں میں بھی مزہ آرھا تھا‬
‫میرے آخری گھسے شدت اختیار کر چکے تھے‬
‫اور پھر آخری وہ گھسا جس میں ساری دنیا کا مزہ بھرا تھا مارا اور لن نے صدف کی گانڈ میں الٹیاں کرتے ھوے ساری منی‬
‫اندر بہا دی اور میں صدف کے اوپر لیٹے لمبے لمبے سانس لینا شروع کردیے اور لن باھر کھینچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ‬
‫کر لن کو دیکھنے لگ گیا‬
‫لن کی حالت صدف کے ُقرب کی وضاحت کر رھی تھی‬
‫سارا لن خون سے لت پت تھا‬
‫صدف بے جان ھوکر ابھی تک ویسے ھی ننگی لیٹی ھوئی تھی‬
‫میں ایسے ھی ننگا باہر صحن میں نکال اور واش روم میں جا کر لن کو اچھی طرح دھویا‬
‫اور واپس آیا تو صدف آہستہ آہستہ سیدھا ھونے کی کوشش کررہی تھی‬
‫اور مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ دوسری طرف کرلیا‬
‫میں اس کی حالت سمجھ گیا تھا‬
‫کہ اب اس سے سواے گالیاں سننے کے کچھ نھی ملنا‬
‫میں نے جلدی سے شلوار پہنی صدف بھی اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور ایک ھاتھ سے گانڈ کو دبا رھی تھی ۔‬
‫میں نے صدف کو آواز دی مگر اس نے میری طرف دیکھا بھی نہ‬
‫میں اسے‪ .‬اسی حال میں چھوڑ کر واپس گھر کی طرف آگیا اور آتے وقت صدف کو بس اتنا ھی کہا‬
‫کپڑے پہن کر دروازہ بند کرلینا؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫میں صدف کی گانڈ پھاڑ‬
‫۔‬
‫۔کر اسکو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے گھر آگیا‬
‫تھکاوٹ نے میرا ُبرا حال کردیا تھا‬
‫جسم ٹوٹ رھا تھا‬
‫زندگی میں پہلی دفعہ ایک ھی وقت میں مسلسل تین دفعہ فارغ ھوا تھا ۔‬
‫اس وجہ سے جسم میں کافی کمزوری محسوس کر رھا تھا اور آنکھیں بھی بھوجل ھورھی تھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور پنکھا چال کر بستر پر لیٹ گیا‬
‫اور کچھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔‬
‫شام کو امی نے اٹھایا کہ پتر اٹھ جا دوپہر کا سویا ھوا ھے تھکا نھی سو سو کر رات کو پہرہ دینا ھے کیا۔‬
‫۔۔‬
‫یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ جو دوست گاوں کے رہنے والے ہیں وہ اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ پہلے یا اب بھی گاوں‬
‫میں رات کو پہرہ گاوں کے لوگ ھی دیتے تھے اور ہر روز تین گھروں سے ایک ایک فرد کی باری ھوتی تھی ۔میں ابھی‬
‫چھوٹا تھا اس وجہ سے میری جگہ میرا بھائی چال جاتا تھا۔‬
‫اور شاید کچھ عرصہ تک میرا نمبر بھی لگنا شروع ھوجانا تھا۔۔‬
‫خیر۔۔۔۔‬
‫میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور امی سے پوچھا ٹائم کیا ھوا ھے تو امی بتایا کہ پتر چھ بج چکے ہیں‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور نہانے کے لیے واش روم میں گھس گیا‬
‫نہا کر کپڑے بدلے‬
‫خود کو کافی بہتر محسوس کیا ۔‬
‫امی نے روٹی کا کہا کہ روٹی کھا کر باہر نکلنا‬
‫صبح کا بھوکا ھے دوپہر کو بھی کچھ نھی کھایا‬
‫میں نے کہا روٹی پکائی ھے تو امی بولی‬
‫تو بیٹھ ابھی دومنٹ میں پکا کر الئی‬
‫میں پھر کمرے میں چال گیا اور جاکر ریڈیو کو اون کیا اور ایک سٹیشن پر انڈین گانے لگے ھوے تھے وہ سننے لگ گیا‬
‫کچھ دیر بعد امی روٹی لے کر آگئی‬
‫میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا لسی پی اور فٹ ھوکر پھر گھر سے نکل کر سیدھا فوزیہ کے گھر چال گیا۔‬
‫اندر داخل ہوا تو فوزیہ کو پھر گاوں کی عورتوں نے گھیرا ھوا تھا اور فوزیہ رو رو کر انکو بھائی کی جدائی کا غم اور‬
‫اسکی گزری زندگی کے بارے میں بتا رھی تھی ۔‬
‫دوستو انسان نے بہت ھی اچھا بننا ھو نہ تو بندا مر جاے‪ ،‬۔۔‬
‫رونے والے تعریفوں کے ُپل باندھ دیتے ہیں۔‬
‫جو زندگی میں ملنا بھی گوارا نھی کرتے میت پر انکے رونے کی آواز سب سے بلند ھوتی ھے‬
‫کچھ تو ساتھ ھی جانے کی ضد کرتے ہیں ۔۔۔‬
‫ناراض نہ ھونا میری بات پر دوستو یہ تلخ حقیقت ھے اور کڑوا سچ‬
‫۔۔۔۔‬
‫میں بھی افسردہ سا منہ بنا کر فوزیہ کے پاس چال گیا اور انکو سالم کیا اور انکی نرم کمر پر ھاتھ پھیر کر انکو دالسا دینے‬
‫لگ گیا‬
‫فوزیہ کے رونے کی آواز اور بلند ھوگئی‬
‫عورتیں بھی ایسی چول تھی‬
‫ساتھ ساتھ انکو چپ بھی کروا رھی تھی اور جب وہ چپ ھوجاتی تو‬
‫ان میں سے پھر ایک بول پڑتی‬
‫ھاےےےے وچارے دے باالں دا کی بنے گا۔‬
‫فوزیہ پھر بچوں کا سن کر بین کرنے لگ جاتی۔‬
‫فوزیہ چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی اور میں نیچے اسکے ساتھ لگا فوزیہ کی کمر کو سہال رھا تھا‬
‫فوزیہ نے روتے ھوے ایکدم میری کمر میں ھاتھ ڈال کر اپنا منہ میرے پیٹ سے تھوڑا اوپر سینے کے قریب لگا دیا اور‬
‫اسکے ممے میرے لن سے اوپر ناف پر لگ گئے‬
‫اور مجھے کہنے‬
‫لگی‬
‫یاسر میں کی کراں‬
‫میں نے دل میں ھی کہا‬
‫مینوں پھدی دے ہور توں کی کرنا اے ۔‬
‫میں بھی رونے واال منہ بنا کر عورتوں کی طرف دیکھتے ھوے بوال آنٹی صبر کریں جو چال جاے وہ واپس نھی آتا‬
‫یہ ھی دنیا کا دستور ھے‬
‫بس حوصلہ کریں‬
‫صبر کریں‬
‫فوزیہ پھر روتے ھوے بولی ۔کیویں حوصلہ کراں یاسر میرا اکو اک پرا سی‬
‫میں اودھے بغیر کیویں رواں گی۔۔‬
‫جبکہ سالی میری ہوش میں ایک دفعہ بھی اسکو نھی ملنے گئی تھی اور نہ ھی وہ کبھی آیا تھا۔۔‬
‫میں نے پھر فوزیہ کی کمر پر بریزیر کے سٹرپ پر ہاتھ پھیرتے ھوے‬
‫اسے تسلیاں دینی شروع کردیں۔‬
‫عورتیں ایک ایک کرکے کھسکنے لگ گئیں اور پھر آخری عورت بھی بولی‬
‫چنگا پین میں چلنی آں تیرا پرا آن واال اے روٹی ُٹ کر دا وی بندو بست کرنا اے‬
‫******‬
‫تینوں حوصلہ دیوے‬
‫میں اسکے جانے کہ بعد فوزیہ کے پاس ھی بیٹھ گیا اور‬
‫عظمی اور نسرین کا پوچھا تو فوزیہ بولی وہ ٹیویشن سے نھی آئیں‬
‫تو ایسا کر جا اپنی بہنوں کو لے آ‬
‫میں نے کہا اچھا جاتا ھوں‬
‫دوستو ماحول ھی کچھ ایسا تھا کہ میرا حوصلہ ھی نہ ھوا کہ فوزیہ سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرتا ۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا تو فوزیہ نے مجھے پیچھے سے آواز دی کہ آتے ھوے شیمے کی دکان سے اکلو چینی اور دس پانچ‬
‫روپے والی پتی کی ڈبی لیتے آنا اور اسے کہنا‬
‫کھاتے میں لکھ لے‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے‬
‫ٹیویشن والی آنٹی کے گھر کی طرف چل دیا‬
‫مجھے فرحت کی گلی سے ُگ زر کر جانا تھا‬
‫کیونکہ ٹیویشن والی آنٹی کا گھر فرحت کی گلی کے موڑ پر تھا۔‬
‫میں جیسے ھی فرحت کی گلی میں داخل ہوا تو مجھے ایکدم فرحت کا خیال آیا‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا‬
‫فرحت کے گھر کے قریب پہنچا اور گلی میں گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو ایک سائکل سوار آتا ھوا نظر آیا‬
‫میں نے جلدی سے ناال کھوال اور فرحت کے گھر کے باہر بنی نالی پر پیشاب کرنے کے بہانے بیٹھ گیا‬
‫جیسے ھی سائکل واال گزرا تو میں اسے جاتے ھوے دیکھتا رھا جب وہ موڑ مڑا تو‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور ناال باندھ کر بیٹھک کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا مگر دروازہ اندر سے بند تھا‬
‫مجھ میں ہمت نھی ھو رھی تھی کہ کیسے اسکا دروازہ کھٹکھٹاؤں‬
‫کچھ دیر میں اسی تجسس میں ڈوبا کھڑا رھا پھر کچھ سوچنے کے بعد میں جیسے ھی آگے کی طرف چال تو اچانک ۔۔۔۔۔؟؟‪...‬‬
‫مجھے سامنے سے عظمی اور نسرین گلی میں داخل ہوتی نظر آئیں اور میں نے شکر ادا کیا کہ میں فرحت کے گھر نھی چال‬
‫گیا‬
‫نھی تو ان چنڈالوں نے طرح طرح کے سوال کرنے تھے ۔‬
‫انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا‬
‫میں انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چل دیا اور راستے سے چینی پتی لی اور انکے گھر آگیا اور فوزیہ کو سامان پکڑاتے‬
‫ھوے پوچھا کہ اور کچھ تو نھی منگوانا‬
‫تو فوزیہ میرا شکریہ ادا کرنے لگ گئی کہ میرے پیچھے سے تم نے گھر کی ذمہ داری بڑے اچھے طریقے سے نبھائی ۔‬
‫میں کچھ دیر بیٹھا رھا انکل بھی آگئے اور میں اٹھ کر انسے اجازت لے کر اپنے گھر آگیا۔‬
‫****‬
‫اگلی صبح بروز ہفتہ میں عظمی اور نسرین کو لے کر جب صدف کے گھر گیا تو صحن میں اکیلی آنٹی ھی تھی صدف نظر‬
‫نھی آرھی تھی‬
‫عظمی نے آنٹی سے پوچھا کہ باجی نے جانا نھی تو‬
‫آنٹی مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر پتر میں نے تجھے کہا بھی تھا کہ جب تک میں نہ آوں تم نے گھر نھی جانا۔‬
‫میرے تو ایک دم ٹٹے اوپر چڑھ گئے کہ کہیں آنٹی کو پتہ تو نھی چل گیا۔‬
‫میں نے کہا سوری آنٹی جی مجھے گھر کام تھا اس لیے چال گیا ۔‬
‫تو آنٹی بولی تمہارے جانے کی وجہ سے تمہاری باجی سیڑھی سے گر گئی تھی اور کل کی چوٹ لگوا کر چارپائی پر پڑی‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے شکر کیا‬
‫اور آنٹی سے معذرت کی ۔‬
‫تو عظمی اور نسرین جلدی سے صدف کے کمرے کی طرف بھاگیں اور میں وہیں کھڑا رھا‬
‫تو آنٹی بولی تم بھی اپنی باجی کا پتہ لے لو۔‬
‫میں نے ڈرنے والے انداز سے کہا‬
‫نھی آنٹی جی باجی مجھ سے ناراض ھونگی‬
‫مجھے ڈر لگتا ھے‬
‫تو آنٹی بولی ۔‬
‫جھلیا جو ہونا سی ھوگیا اس نمانی نے تینوں کیڑا کھا جانا اے ۔‬
‫چل کوئی نہ جا توں وی چٹ اپنی باجی کول بے جا۔‬
‫میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ھوا کمرے کی طرف جانے لگ گیا۔‬
‫میرا حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ میں صدف کا سامنا کر سکوں ۔‬
‫میرے قدم پیچھے کی طرف بھاگنے کی کوشش کررہے تھے مگر میں انکو مخالف سمت اٹھا رھا تھا۔‬
‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫آنٹی واش روم میں ُگ ھس رھی تھی‬
‫تو میں وہیں کھڑا ھوگیا۔‬
‫اس سے پہلے کہ آنٹی واش روم سے نکلتی ۔‬
‫عظمی اور نسرین کمرے سے نکل آئیں‬
‫اور وہ دونوں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ھوے میرے پاس سے گزر کر باہر کے دروازے کی طرف چل‬
‫دی‬
‫انکا اسطرح مجھے دیکھنا‬
‫میرے دل کے چور کو پھر جگا گیا اور میں اضطراب میں انکے پیچھے چلنے لگا‬
‫کہ کہیں انکو تو صدف نے نھی بتا دیا۔‬
‫ہم باھر گلی میں آگئے‬
‫تو کچھ دور جاکر‬
‫نسرین میری طرف گھور کر بولی‬
‫تمہیں زرہ سی بھی شرم حیاء نھی ھے‬
‫میں نے کہا کیا ھوا ھے‬
‫تو وہ پھر مجھے گھورتے ھوے اسی انداز میں بولی‬
‫تمہیں نھی پتہ‬
‫کیا ھوا ھے‬
‫سب تمہاری وجہ سے ھی ھوا ھے‬
‫کچھ شرم کرو حیاء کرو‬
‫بے شرمی کی بھی حد ھوتی ھے ۔۔‬
‫میرے تو رنگ اڑ گئے‬
‫میرے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا‬
‫میں ایکدم رک گیا۔‬
‫تو عظمی بولی اب کیا تکلیف ھے چال نھی جارھا ھے کیا ۔‬
‫میں نے گبھراتے ھوے کہا۔‬
‫پپپپہلے ببتاوو ھوا کیا ھے جو تم میرے ساتھ ایسے بات کر ھی ھو۔‬
‫نسرین بولی یہ تم اتنے بوکھالے ھوے کیوں ھو۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا۔‬
‫کککچھ نھی بس ایسے ھی میری طبعیت سہی نھی ھے۔‬
‫تو نسرین بولی یاسر تم اب بچے نھی رھے کچھ عقل سے کام لیا کرو‬
‫کل جب باجی نے تمہیں کہا تھا کہ چھت سے جالنے والی لکڑیاں اتار دو تو تم اتار دیتے‬
‫تم انکو بہانہ بنا کر گھر چلے آے گھر جاکر نے کونسی چکی چالنی تھی ۔‬
‫بیچاری باجی کے کولہوں پر اتنی ذبردست چوٹ لگی ھے ان سے تو اٹھ کر بھی نھی بیٹھا جاتا‬
‫تمہاری دومنٹ کی الپرواہی نے انکو بستر پر ڈال دیا۔‬
‫اور اوپر سے تم انکا پتہ کرنے کمرے میں بھی نھی آے۔۔‬
‫نسرین کی تقریر سن کر میری جان میں جان آئی اور میں دل ھی دل میں صدف کے دماغ کی داد دینے لگ گیا اور شکر کا‬
‫کلمہ پڑھا کہ اس نے حقیقت کسی کو نھی بتائی۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫مجھے بچہ بلوانے آیا تھا کہ تمہاری امی بلوا رھی ہہے‬
‫گھر میں کچھ کام تھا‬
‫اب میں انکا نوکر تو نھی کہ سارا دن انکے ھی کام میں لگا رھوں‬
‫ایسے ہی ہم چونچیں لڑاتے ھوے شہر پہنچ گئے۔‬
‫عظمی لوگوں کو انکے سکول چھوڑا اور میں پونڈی کرتا ھوا دکان کی طرف چلدیا۔۔‬
‫اور دکان پر پہنچ کر روزمّر ہ کی طرح باہر سے صفائی کر کے شٹر کے باہر بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد انکل آگئے اور میں نے ان سے چابیاں لی اور دکان کے تالے کھول کر شٹر اوپر کیا اور دکان میں داخل ھوکر‬
‫دکان کی جھاڑ پونچھ کر کے فرنٹ پر آکر بیٹھ گیا اور کسٹمر کا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد کسٹمر آنا شروع ہوگئے۔‬
‫اور میں کام میں مصروف ھوگیا دوپہر کب ھوئی ٹائم کا پتہ ھی نھی چال‬
‫انکل نے جنید کو کہا کہ آج کھانا کچھ نھی تو جنید بوال پیسے دے دیں میں اور یاسر جاکر کھانا لے آتے ہیں ۔‬
‫تو انکل بولے تم ہوٹل سے نہ لے کر آنا بلکہ میرے گھر میں آج چاولوں کی دیگ پکی ھے ختم دالیا تھا تو تم یاسر کو ساتھ‬
‫لے جاو اور گھر سے چاول لے آو اور کچھ ذیادہ لے آنا تاکہ دوسرے دکانداروں کو بھی چاول دے دیں گے‬
‫جنید نے جی انکل جی کہا اور موٹرسائیکل کی چابی پکڑی اور مجھے آواز دی کہ چلو گاوں سے جانا ھے تو میں بھی اٹھ‬
‫کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور ہم گاوں کی طرف چل دئیے ۔‬
‫شہر سے نکل کر جب ہم گاوں کی طرف جاتی سڑک پر گئے تو میں نے جنید کو کہا یار مجھے بھی موٹر سائیکل چالنا‬
‫سیکھا دو تو جنید بوال یار یہ کونسا مشکل کام ھے میں نے کہا یار مشکل ان کے لیے نھی جن کو چالنی آتی ھے میرے لیے‬
‫تو ابھی مشکل ھی ھے‬
‫تو جنید نے ایک سائڈ پر بریک ماری اور نیچے اتر کر مجھے آگے بیٹھنے کر چالنے کو کہا‬
‫اور مجھے سمجھانے لگا کہ پہلےکک مار کر اتنی ریس دے کر سٹارٹ کرتے ھیں پھر ایسے کلچ دبا کر اسطرح گیئر لگاتے‬
‫ہیں اور گیا۔ ا۔‬
‫یس دے کر آہستہ آہستہ کلچ چھوڑتے ہیں اور پھر دوسرا اور تیسرا چوتھا گیئر کتنی دیر بعد اور کیسے لگاتے ہیں ۔‬
‫میں اسکی باتوں کو ذہن نشین کرنے لگ گیا۔‬
‫اور کک مار کر ریس دی تو مجھ سے ریس ذیادہ ھوگئی اور موٹرسائیکل کی گانڈ پھٹنے لگ گئی‬
‫جنید نے جلدی سے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ریس کم کی‬
‫اور پھر مجھے کہا کہ اب کلچ دباو میں نے کلچ دبا کر گیئر لگا دیا‬
‫اور کلچ کو چھوڑنے لگا مگر موٹرسائیکل بند ھوگئی میں نے پھر سٹارٹ کی اور دوبارہ گیئر لگا کر چالنے لگا تو جنید نے‬
‫کلچ اور ریس پر میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ چالنا شروع کردی‬

‫)‪Update no (60‬‬
‫مجھ سے ہینڈل کا بیلنس سہی طرح سے نھی ھورھا تھا‬
‫موٹرسائیکل ڈگمگا رھی تھی کبھی اسطرف جاتی تو کبھی اسطرف‬
‫کچھ دور جاکر میری کنفیوژن کچھ دور ھوئی تو میں کافی حد تک موٹرسائیکل کو قابو کرنے میں کامیاب ھوگیا‬
‫جنید نے بھی اپنے ھاتھ ہٹا لیے اور‬
‫میں آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانے لگا‬
‫جنید مجھے کہتا بھی رھا کہ یاسر ابھی آرام سے چالو‬
‫مگر مجھ پر جنون سا سوار تھا اور میں ریس کو بڑھائی جارھا تھا‬
‫کہ اچانک سڑک کے ساتھ لگے درختوں میں سے ایک کتا نکل کر دوڑ کر سڑک کی دوسری طرف جانے لگا‬
‫ُک تے کو دیکھ کر میں اتنا گبھرا گیا کہ‬
‫میں نے بریک لگانے کی بجاے ریس بڑھا دی‬
‫پھر مجھے جنید اور اپنی بس چیخ ھی سنائی دی‬
‫اسکے بعد مجھے بس اتنا ھی یاد رھا کہ ُک تا اگلے ٹائر کے نیچے آیا اور ہم دونوں موٹرسائیکل سے اچھل کر سڑک پر‬
‫گرےتھے۔۔۔‬
‫جب میری آنکھ ُک ھلی تو میں ہسپتال کے بیڈ پر پڑھا تھا اور مجھے اپنے چاروں طرف دھندلے دھندلے چہرے نظر آرھے‬
‫تھے‬
‫کچھ دیر غور کرنے کے بعد ان چہروں کو پہچانا تو‬
‫امی ابو نازی عظمی فوزیہ اور انکل جاوید کی بیوی تھیں ۔‬
‫میں نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آیا اور میں پھر بے ہوشی کی حالت میں چال گیا۔ جب‬
‫مجھے دوبارا ہوش آئی تو امی میرے سر کے پاس بیٹھی میرے سر پر ھاتھ پھیر رھی تھی‬
‫اور فوزیہ میرے پیروں کی طرف بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫میں منہ ھی منہ میں ُبڑبڑانے لگ گیا امی امی امی‬
‫میری آنکھیں کھلتے اور مجھے بڑبڑاتے دیکھ کر امی روتے ھوے میرا ماتھا چومتے ھوے بولی۔‬
‫جی امی کی جان‬
‫میں نے کہا امی جان میں کہاں ھوں کیا ھوا ھے مجھے آپ کیوں رو رھی ہیں ۔‬
‫جنید کہاں ھے‬
‫امی بولی ماں صدقے جاے شکر ھے میرے بچے کو ہوش آگیا۔‬
‫کچھ نھی ھوا تجھے جنید بھی ٹھیک ھے ذیادہ بول نہ ابھی تیری طبعیت سہی نھی ھے‬
‫تبھی فوزیہ بھی اٹھ کر میری ناف کے پاس بیٹھ کر میرے اوپر جھک کر مجھے خاموش رہنے کا کہنے لگ گئی‬
‫اور امی کو بھی مجھ سے بات کرنے سے روکتے ہوے بولی‬
‫آپاں ابھی اس سے بات نہ کریں‬
‫چپ رہیں‬
‫میں ڈاکٹر کو بال کر التی ہوں ۔‬
‫اور فوزیہ اٹھ کر وارڈ سے باہر چلی گئی اور کچھ دیر بعد‬
‫اسکے پیچھے ایک عورت چلتی ھوئی میرے بیڈ کے پاس آگئی اس عورت نے نرسنگ ڈریس پہنا ھوا تھا‬
‫میں غور سے اسکو دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مجھے وہ شکل جانی پہچانی سی لگ رھی تھی ۔‬
‫وہ عورت مجھ پر جھک کر میرے ماتھے پر بندھی پٹی کو سہی کرتے ھوے میرے گال تھپتھپا کر مجھ سے مخاطب ھوئی‬
‫کیسی طبعیت ھے اب یاسر‬
‫اس عورت کا چہرہ جب میرے چہرے کے بلکل قریب ھوا تو میں جب غور سے دیکھا تو مارے حیرانگی کے مجھے ایک‬
‫بار پھر چکر آگیا‬
‫وہ عورت تو فرحت تھی‬
‫یہ یہاں ہسپتال میں کیا کررھی ھے‬
‫میں آنکھیں بند کر کے سوچنے لگ گیا۔‬
‫فرحت نے سمجھا شاید میں پھر بےہوش ھوگیا ہوں ۔‬
‫وہ پھر میری نبض پکڑ کر میری گال تھپتھپا کر مجھے ہوش میں النے کی کوشش کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر یاسر یاسر۔‬
‫ہوش کرو‬
‫آنکھیں کھولو ادھر دیکھو میری طرف ۔‬
‫میں نے پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں‬
‫اور پھر اسکے چہرے کو دیکھنے لگ گیا۔‬
‫تو وہ بولی کیسا محسوس کر رھے ھو ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال کر بہتر محسوس کرنے کا اشارہ کیا۔‬
‫تو فرحت پھر بولی مجھے پہچانا۔‬
‫میں نے پھر اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫پھر اس نے امی کی طرف اشارہ کیا یہ کون ہیں بتاو‬
‫میں نے آہستہ سی آواز میں کہا امی اور ساتھ ھی میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ھوگئے۔‬
‫فرحت میری گال پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی اچھے بچے روتے نھی ہیں‬
‫تم تو بڑے بہادر ھو‬
‫اور پھر فرحت فوزیہ کی طرف اشارہ کر کے بولی‬
‫اچھا بتاو یہ کون ہیں ۔‬
‫میں نے بوجھل آنکھوں سے فوزیہ کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫آنٹی۔۔۔‬
‫تو فرحت پھر میری گال پر شاباشی دیتے ھوے بولی‬
‫ُگ ڈ بواے‬
‫تم بہت جلد سہی ھوجاو گے‬
‫دیکھو تمہاری امی کتنی پریشان ھے‬
‫اور تمہارے سب گھر والے بھی تمہاری وجہ سے کتنے پریشان ہیں۔‬
‫میں پھر امی اور فوزیہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔‬
‫اور فرحت میرے اوپر سے سیدھی کھڑی ھوئی‬
‫اور امی کو مخاطب کرتے ھوے بولی‬
‫آنٹی پریشان ہونے کی کوئی بات نھی یاسر اب بلکل ٹھیک ھے ۔‬
‫تو امی بولی ۔‬
‫پتر ہور کنے دن ہسپتال رہنا پوے گا۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫ویسے تو اسکی حالت کافی بہتر ھے‬
‫پھر بھی رات کو ڈاکٹر صاحب راونڈ پر آئیں گے تو وہ ھی اسکی پوزیشن دیکھ کر بہتر بتا سکیں گے‬
‫اور یہ کہتے ھوے وہ پھر مجھ پر جھکی اور پھر میری گال کو تھپتھپا کر بولی‬
‫جلدی سے ٹھیک ھو جاو‬
‫میں نے سوٹ لینے پھر تمہاری دکان پر آنا ھے ۔۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے وہ دوسرے بیڈ پر مریض کو دیکھنے کے لیے چلی گئی۔‬
‫فوزیہ میرے تھائی کے ساتھ پھر اپنی گانڈ لگا کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے فوزیہ کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا آنٹی مجھے کیا ھوا تھا اور میرے ساتھ میرا دوست جنید تھا وہ کدھر ھے‬
‫اور میں کب سے ادھر ہسپتال میں ۔۔۔۔۔۔‬
‫فوزیہ نے جلدی سے میری بات پوری ھونے سے پہلے میرے اوپر جھکی اور ممے میرے سینے کے ساتھ لگا کر میری‬
‫گال پر اپنا ھاتھ رکھ کر بولی‬
‫یاسر ذیادہ بولو مت‬
‫میرے شزادے کو کچھ بھی نھی ھوا‬
‫اور تمہارا دوست بھی بلکل سہی ھے‬
‫وہ کل ھی اپنے گھر چال گیا‬
‫ہم بھی ایک دو دن میں گھر چلے جائیں گے‬
‫تم بس جلدی سے سہی ھوجاو‬
‫اور مجھے چھیڑتے ھوے‬
‫بولی‬
‫پھر میں اور میرا شزادہ نہر پر کپڑے دھونے جائیں گے‬
‫چلو گے نہ میرے ساتھ‬
‫امی بھی فوزیہ کی بات سن کر ہنس پڑی جو کافی دیر سے گم سم بیٹھی تھی‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال دیا۔۔‬
‫امی بیچاری اب اندر کی بات کیا جانتی تھی کہ کون سے کپڑے کہاں دھونے ہیں ۔‬
‫فوزیہ پھر میری گال تھپتھپا کر بولی‬
‫یہ ہوئی نہ بات ۔‬
‫اور پھر فوزیہ اپنے ممے میرے سینے سے اوپر کر کے سیدھی ھوکر بیٹھ گئی ۔‬
‫مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی اس کی وجہ سے شاید مجھ پر پھر غنودگی چھانے لگی اور میں پھر نیند کی وادیوں میں کھوگیا۔‬
‫جب میری آنکھ کھلی تو وارڈ میں بلکل سناٹا سا تھا‬
‫شاید رات کا کوئی پہر تھا۔‬
‫میں اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کررھا تھا ۔‬
‫میں نے سر گھما کر سائڈ پر پڑے بینچ کی طرف دیکھا تو وہاں فوزیہ میری طرف منہ کر کے گانڈ دوسری طرف کئے‬
‫گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ لگا کر بےسدھ سوئی ھوئی تھی اور ہلکے ہلکے خراٹے اسکے منہ سے نکل رھے تھے ۔‬
‫مجھے پیشاب بہت تیز آیا ھوا تھا میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو میرے سر میں ہلکی سی درد کی چییس اٹھی اور میں نے‬
‫ایک دفعہ دونوں ھاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ لیا اور پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو ہال کر دیکھا تو ایک گھٹنے سے درد کی‬
‫لہر پوری ٹانگ میں دوڑی ۔‬
‫مجھے محسوس ھوا کہ میرے سر میں ذیادہ چوٹ لگی ھے اور باقی ہڈیاں وغیرہ ٹوٹنے سے بچ گئی ہین‬
‫اور کہنی اور گھٹنوں پر بس معمولی رگڑیں لگی ہیں‬
‫میں آہستہ آہستہ اپنے سارے جسم کے اعضاء کو ہال ہال کر چیک کررھا تھا ۔‬
‫اسی دوران میں نے اپنے لن کو بھی اچھی طرح چیک کیا کہ میرا نصیب تو سالمت ھے نہ ۔‬
‫مجھے پیشاب کی حاجت بہت ھورھی تھی‬
‫میں کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رھا ۔‬
‫مگر سب سے ھوے تھے‬
‫نرسیں بھی شاید اپنے سٹاف روم تھیں‬
‫اور مجھے تو یہ بھی نھی پتہ تھا کہ واش روم کسطرف ہیں۔۔۔‬
‫میں پہلے تو فوزیہ کو آواز دینے لگا پھر یہ سوچ کر خاموش ھوگیا‬
‫کہ پتہ نھی بیچاری کتنے دنوں سے ادھر ھی میری وجہ سے خوار ھو رھی ھے ۔‬
‫میں خود ھی حوصلہ کر کے اٹھا اور کراہتا ھوا بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گیا بیٹھنے کی وجہ سے میری کمر میں‬
‫بھی تکلیف کا احساس ہوا۔‬
‫مگر میں پھر بھی برداشت کرگیا‬
‫پیشاب تھا کہ جیسے ابھی بیچ میں نکل جاے گا ۔‬
‫میں پوری ہمت اکھٹی کر کے کھڑا ھوا تو مجھے ایکدم چکر آیا اور میں سیدھا فوزیہ کے پیٹ پر گر گیا اور ایک ھاتھ میرا‬
‫فوزیہ کی کمر کے پیچھے چال گیا دوسرا ھاتھ اس کے ممے کے اوپر‬
‫فوزیہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور مجھے سنبھالتے ھوے پکڑ لیا اور بولی یاسر کیا ھوا کدھر جارھے تھے‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے پھر کھڑے ھونے کی کوشش کی اور فوزیہ بھی مجھے اپنے سینے سے لگا کر کھڑی‬
‫ھوگئی اور مجھے بیڈ پر بیٹھانے لگی‬
‫میں نے درد بھری آہ بھرتے ھوے کہا‬
‫آنٹی مجھے پیشاب کرنا ھے ۔‬
‫تو فوزیہ بولی‬
‫مجھے آواز دے دیتے‬
‫ہے نہ کمال ُمنڈا‬
‫پتہ بھی ھے کہ ابھی چلنے پھرنے کے قابل نھی ھوا اور چال ھے خود ھی جوان بننے ۔‬
‫اور پھر فوزیہ مجھے کھڑا کر کہ بولی چل میں تیرے ساتھ چلتی ھوں‬
‫میں اب کافی حد تک سنبھل چکا تھا‬
‫شاید کتنے دن ھوگئے تھے بستر پر ھی لیٹے ھوے تو ایکدم کھڑے ھونے کی وجہ سے چکر آگیا تھا۔‬
‫پہلے شاید مجھے پیشاب کی نالی لگائی ھوگی مگر اب وہ بھی اتار دی تھی‬
‫ورنہ مجھے اٹھنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔‬
‫فوزیہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر میری کمر میں بازو ڈال کر واش روم کی طرف آہستہ آہستہ چلتے ھوے لے کر جانے لگی ۔‬
‫وارڈ سے باہر نکل کر ایک طرف گلی سی تھی اس طرف کو ہم مڑ کر واش روم کے پاس پہنچ گئے‬
‫ہسپتال میں بلکل سناٹا سا چھایا ھوا تھا‬
‫واش روم کے دروازے پر پہنچ کر فوزیہ نے دروازہ کھوال اور مجھے لے کر واش روم کے اندر چلی گئی‬
‫واش روم میں کمپووڈ تھا اور فلیش بھی‬
‫میں فلیش کی طرف بڑھنے لگا تو فوزیہ بولی ادھر کمپووڈ میں کھڑے ہوکر کر لو پیشاب‬
‫میں ناال کھولنے لگ گیا مگر میرے ہاتھ پر سوئی لگی ھوئی تھی‬
‫جس کی وجہ سے مجھے ناال کھولنے میں دکت پیش آرھی تھی ۔‬
‫فوزیہ نے جب دیکھا کہ مجھ سے ناال نھی ُک ھل رھا تو وہ آگے بڑھی اور میری قمیض اوپر کر کے میرا ناال کھولنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫ناال کھول کر اس نے شلوار تھوڑی سی نیچے کی تو میں ہاتھ نیچے کر کے اپنے لن کو پکڑ کر کمپووڈ کی طرف کرنے لگا‬
‫تو میرے ہاتھ پر لگی ہوئی سوئی میرے جلدی سے ھاتھ نیچے لیجانے کی وجہ سے میری قمیض کے پلو کے ساتھ اٹک گئی‬
‫جس سے مجھے اتنی درد ھوئی کے میرے منہ سے ھاےےےے نکل گیا ۔۔‬
‫فوزیہ نے گبھرا کر میرے ھاتھ پر لگی ھوئی سوئی کی طرف دیکھا اور جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر سوئی کے اوپر اپنا‬
‫انگوٹھا رکھ کر ہلکا سا دبانے لگی اور پھر‬
‫فوزیہ نے اپنا ھاتھ آگے کیا اور میرا لن پکڑ کر کمپووڈ کی طرف کرتے ھو ھوے بولی چلو کرو پیشاب میں پکڑ کر رکھتی‬
‫ھوں ۔‬
‫جیسے ھی فوزیہ کے ھاتھ کا لمس میرے لن کو محسوس ھوا تو‬
‫زخمی اور درد کی حالت میں بھی نجانے کیوں میرے لن نے ہلکا سا جھٹکا مار کر اپنے ہونے کا اشارہ کیا۔‬
‫اور لن کو ھاتھ میں پکڑتے ھوے فوزیہ کے چہرے پر بھی ایک رنگ آکر گزر گیا‬
‫اور ساتھ ھی پیشاب کی لمبی دھار کمپووڈ میں گرنے لگی ۔‬

‫)‪Update no (61‬‬
‫پیشاب تھا کی رکنے کا نام ھی نھی لے رھا تھا‬
‫جیسے صدیوں بعد پیشاب کررھا تھا۔‬
‫کچھ دیر پیشاب نکلتا رھا اور پھر لن نے ہلکے ہلکے جھٹکے لینے کے بعد پیشاب کے قطرے فوزیہ کے ہاتھ پر ھی بہانے‬
‫شروع کردیے ۔‬
‫فوزیہ نے لن کو تین چار بار جھٹکا دے کر نچوڑا میرے لن میں ہلکی سی سختی واقع ھو چکی تھی‬
‫فوزیہ نے لن کو جھٹک کر‬
‫مسلم شاور پکڑا اور بٹن دبا کر شاور سے میرا لن دھونے لگ گئی ۔‬
‫لن فوزیہ کے ہاتھ کے لمس سے فل تن گیا ایک تو انٹی بیٹک میڈیسن اوپر سے فوزیہ کا گرم ھاتھ‬
‫لن بیچارا کی کرے‬
‫ٹھنڈا پانی پی مرے۔‬
‫فوزیہ نے لن کو مٹھی میں بھر کر میری طرف شرارت سے دیکھتے ھوے کہا‬
‫گندے بچے اب تو باز آجاو‬
‫اپنی حالت دیکھو اور لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے ۔‬
‫اور اپنے کام دیکھو۔۔‬
‫میں نے کہا کیا ھوا آنٹی‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے ایسے پوچھا جیسے مجھے کسی بات کا علم نہ ھو‬
‫تو فوزیہ میرے لن کو ہالتے ہوے بولی‬
‫آنٹی کے بچے‬
‫یہ کیا ڈرامہ ھے‬
‫ایک منٹ میں اتنا بڑا کر لیا۔‬
‫میں نے جھینپ کر کہا‬
‫مجھے کیا پتہ‬
‫آپ نے ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا‬
‫تو فوزیہ میرے لن کو مٹھی مٹھی میں دبا کر چھورتے ھوے بولی‬
‫جلدی سے سہی ھوجا‬
‫پھر اس کی آکڑ بھی توڑتی ھوں ۔‬
‫تو میں بھی ہنس پڑا اور پھر فوزیہ نے میری شلوار اوپر کی اور میرا ناال باندھتے ھوے بولی اب اس کو ٹھنڈا کرلو نھی تو‬
‫وارڈ کی طرف جاتے ھوے اگر کسی نرس کی نظر پڑ گئی نہ تو پھر اس نے تم پر ترس نھی کھانا‬
‫میں ہلکے سے مسکر کر بوال آپ کو دیکھ کر کھڑا ھوگیا تھا آپ ھی اسے سمجھا دیں ۔‬
‫تو فوزیہ ناال باندھ کر تمبو بنے لن پر ہلکے سے تھپڑ مارتے ھوے بولی‬
‫تم ٹھیک ھو جاو کرتی ھوں اسکا عالج بھی‬
‫اور اسکے ساتھ ھی فوزیہ نے مجھے پھر اپنے مموں کے ساتھ لگایا اور لے کر واش روم سے جیسے ھی باہر آئی تو‬
‫اچانک؟؟؟؟؟؟؟‬
‫مجھے چکر آیا اور میں پھر لڑکھڑایا اور فوزیہ نے مجھے مذید اپنے ممے کے ساتھ چپکاتے ھوے لے کر وارڈ کی طرف‬
‫چل دی‬
‫میں بھی ڈرے ھوے اور سہمے ھوے بچے کی طرح فوزیہ سے چپکا ھوا تھا۔‬
‫فوزیہ نے مجھے بیڈ پر بیٹھایا اور پھر مجھے لیٹا کر میری ٹانگیں اوپر کردیں ۔‬
‫اور خود بینچ کو گھسیٹ کر بیڈ کے قریب کر کے بیٹھ گئی اور مجھ سے بوچھنے لگ گئی کہ اب کیسی طبعیت ھے‬
‫تو مجھے اس حال میں بھی مزاق سوجھا میں نے شرارتی انداز میں کہا‬
‫کس کی۔‬
‫تو پہلے تو فوزیہ نے حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بس اتنا ھی کہا کہ تمہاری اور کس‪،،،،،،‬‬
‫جب اسے سمجھ آئی تو میرے بازو پر ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی‬
‫ٹھہر جا ۔۔‬
‫گندا بچہ۔۔۔‬
‫میں بھی ہنسنے لگ گیا۔‬
‫میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ مجھے ہسپتال کون الیا تھا اور جنید جو میرے ساتھ تھا وہ کدھر ھے‬
‫تو وہ بولی جہاں تم لوگ گرے تھے وہاں سے گزرنے والے گاوں کے ھی لوگ تم دونوں کو ہسپتال لے کر آے تھے‬
‫ہمیں تو بعد میں پتہ چال تھا کہ تمہارا ایکسیڈنٹ ھوگیا ھے ۔‬
‫تو ہم سب نے سالم تانگہ کروایا اور ہسپتال جب پہنچے تو تمہارے کپڑے سارے پھٹے ھوے تھے اور سر پر پٹی کی ھوئی‬
‫تھی اور تمہارے دوست کو اتنی ذیادہ چوٹ نھی آئی تھی مگر تم دونوں ھی بےہوش تھے‬
‫تمہاری امی تو تمہاری حالت دیکھ کر گر گئی تھی‬
‫میں نے کہا مجھے کتنے دن ھوگئے ہیں تو فوزیہ بولی تمہیں آج چوتھا دن ھے‬
‫تمہارے دوست کو تو اسی دن ہسپتال والوں نے گھر بھیج دیا تھا‬
‫مگر تمہارے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اور بے ہوشی کی وجہ سے ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ جب تک تسلی نھی ھو‬
‫جاتی تب تک گھر نھی جا سکتے۔۔‬
‫تو میں نے کہا کہ آپ اس دن سے رات ادھر ھی ٹھہرتی ھو تو فوزیہ بولی پہلے دن تو تمہاری امی ھی ادھر رکی تھی‬
‫اور پھر انکی بھی طبعیت خراب ھوگئی تھی تمہاری حالت دیکھ کر تو انکو پھر گھر بھیج دیا اور میں ادھر رکنے لگ گئی ۔۔‬
‫مجھے اچانک فرحت کا خیال آیا کہ یہ ہسپتال میں کیا کررھی تھی ۔‬
‫میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ صبح جو عورت آئی تھی وہ کون تھی ۔‬
‫فوزیہ ہنستے ھوے بولی‬
‫تم نے اسے پہچانہ نھی‬
‫وہ اپنے گاوں کی ھی ھے فرحت ھے اسکا نام‬
‫بےچاری بیوہ ھے اور بوڑھی ماں کے ساتھ رہتی ھے اور ہسپتال میں نرس ھے‬
‫اس بےچاری نے تمہارا بڑا خیال رکھا ورنہ سرکاری ہسپتالوں میں ماڑے بندے کو کون پوچھتا ھے ۔‬
‫وہ بےچار جب بھی ڈیوٹی پر ھوتی‬
‫ہر دس منٹ بعد تمہیں دیکھنے آتی اور ڈاکٹر کو بھی اس نے یہ کہا کہ یہ میرے جاننے والے ہیں ۔‬
‫میں نے کہا یہ ظہیر کی امی ہیں نہ جو اپنے ماموں کے پاس چال گیا ھے ۔‬
‫تو فوزیہ بولی ھاں ھاں وہ ھی ھے‬
‫تو میں نے کہا یہ کب سے نرس لگی ھوئی ہے تو فوزیہ بولی‬
‫اسکو تو کافی عرصہ ھوگیا ھے ۔‬
‫بےچاری کا اور کمانے واال بھی کون ھے‬
‫ہم ایسے ھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے‬
‫اور کچھ دیر بعد نرس آگئی مجھے چیک کرنے اور پھر سے مجھے ڈرپ لگا کر چلی گئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ ہم‬
‫گھر کب تک جا سکتے ہیں ۔‬
‫تو وہ بولی صبح ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو وہ ھی بتائیں گے ۔‬
‫میں چپ کر کے لیٹ گیا‬
‫اور کچھ ھی دیر بعد مجھے پھر نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔‬
‫صبح میری آنکھ کھلی تو امی نازی عظمی نسرین اور صدف آگئی‬
‫صدف کی طرف میں نے ایک نظر ھی دیکھا مگر اس کی سوالیا نظروں کی تاب نہ التے ھوے اپنی آنکھیں پھیر لی‬
‫کچھ دیر سب نے میرا حال احوال پوچھا‬
‫تو فرحت بھی آگئی‬
‫میں نے اسے غور سے دیکھا‬
‫سفید لباس میں اوپر سفید ۔ واسکٹ میں کسے ھوے ممے ۔ہونٹوں پر ہلکے پنک رنگ کی لپسٹک جو اس کے پہلے سے‬
‫گالبی ہونٹوں کو مزید نکھار رھی تھی‬
‫مسکراتے ھوے گانڈ ہالتی ھوئی ھاتھ میں فائل پکڑے میرے پاس آئی اور بڑی ادا سے مسکرا کر بولی‬
‫یاسر کیسے ھو اب‬
‫میں نے بھی مسکرا کر کہا جی بلکل ٹھیک ھوں اور آپ کا شکریہ آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا‬
‫تو وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔‬
‫بس بس رہنے دو شکریہ کو‬
‫اگر اتنا ھی شوق ھے شکریہ ادا کرنے کا تو جب دکان پر سوٹ لینے آوں تو ڈسکاونٹ پر دے دینا‬
‫فرحت کی بات سن کر سب ہنس پڑے اور‬
‫پھر وہ مجھے مبارک باد دیتے ھوے بولی مبارک ھو یاسر‬
‫تمہاری سب رپورٹ کلیر ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے تمہیں گھر جانے کی اجازت دے دی ھے‬
‫اب تم آرام کر سکتے ھو اور کوئی بھی ذور واال کام نھی کرنا اور ایک ہفتہ گھر پر آرام کرنا ھے‬
‫یہ میڈیسن ہیں وقت پر لینی ہیں ۔‬
‫میں مذید تمہیں گھر پر بھی دیکھنے آیا کرون گی‬
‫اور جاتے ھوے بولی‬
‫چاے تو پالیا کرو گے نہ‬
‫تو پھر سب گھر والے ہنس پڑے‬
‫تو امی بولی‬
‫پتر تیرا اپنا کار اے جدوں مرضی آ‬
‫اور وہ بڑی ادا سے مڑتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے دوسرے بیڈ پر چلی گئی ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد ہم سب تانگے پر گھر آگئے اور مجھے میرے کمرے میں چارپائی پر لٹا دیا گیا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد محلے کی عورتیں آنا شروع ھوگئیں اور میرا حال احوال پوچھنے لگ گئی‬
‫اور کچھ اپنے درد بتا کر چلی گئیں شام تک ایسے ھے ایک گئی دو آ گئیں میں تو گھر آکر پچھتا رھا تھا‬
‫۔اچھا بھال ہسپتال میں سکون تھا ۔۔‬
‫میں سونے کی کوشش کرتا تو ان عورتوں کی آوزیں مجھے سونے نھی دے رھی تھی‬
‫کہ فرحت کمرے میں داخل ہوئی اور آکر میرے جب میرے پاس بیٹھی تو ساتھ ھی مجھے سب کچھ اچھا لگنے لگ گیا‬
‫فرحت کا نرم نرم جسم جب میرے جسم کے ساتھ ٹچ ھوا‬
‫جب اسکی نرم گانڈ میری تھائی کے ساتھ لگی تو سارے دن کی بوریت ایک لمحہ میں ختم ھوگئی‬
‫اور میں فرحت کی گانڈ کے لمس کو دل جان سے محسوس کرنے لگ گیا۔‬
‫فرحت مسکراتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫سناو کیسی طبعیت ھے اب۔‬
‫میں نے کہا جی بلکل فٹ ھوں ۔‬
‫تو وہ ہنس کر بولی ابھی اتنے بھی فٹ نھی ھو جتنا کہہ رھے ھو۔‬
‫تو میں نے کہا جی بس آپ کی مہربانی ھے جو میں چلنے پھرنے کے قابل ھوگیا ھوں۔۔‬
‫تو فرحت بولی بس بس اب بار بار یہ مہربانی اور شکریہ والے الفاظ استعمال مت کرو‬
‫میرا تو کام ھی یہ ھے کہ ہر مریض کی دیکھ بھال کرنا۔‬
‫میں نے کہا جی بلکل مگر کچھ خاص بھی ھوتے ہیں جن پر سب کو چھوڑ کر توجہ دی جاتی ھے ۔‬
‫تو فرحت میری گال پر ہاتھ پھیر کر بولی یہ تو ھے ۔‬
‫اور پھر فرحت نے میرے سر کی پٹی کھولی اور میرے زخم کو دیکھتے ھوے بولی‬
‫گڈ جلدی بھر جاے گا زخم ۔‬
‫اور پھر فرحت نے دوبارا نئی بینڈیج کی اور میرے گھٹنے سے شلوار اوپر کر ک گھٹنے پے زخم کے اوپر پاویوڈین لگا‬
‫کر صاف کیا اور پھر میری کہنی پر سے ۔۔۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد امی چاے لے کر اگئی‬
‫تو فرحت بولی آنٹی جی یہ کیا تکلف کیا میں تو مزاق کررھی تھی ۔‬
‫تو امی بولی بیٹی تیرا اپنا گھر ھے تو نہ بھی کہتی تو بھال ہم تمہیں چاے پینے کے بغیر جانے دیتے‬
‫میرے پتر کو اتنی جلدی صحیح کرنے میں سارا ھاتھ تمہارا ھے۔‬
‫میں نے امی کی بات سن کر دل میں کہا‬
‫واہ امی تینوں کی پتہ کہ مینوں خراب کرن وچ وی ایس دا ای سارا ہتھ تے کی پوری باں ای اے۔‬
‫فرحت بولی نھی آنٹی جی یہ تو میرا فرض تھا‬
‫اور آپ تو میرے گاوں کے ھو اور ویسے بھی اتنا پیارا بچہ ھے آپ کا‬
‫۔۔‬
‫امی بھی فرحت کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں باتیں کرنے لگ گئی‬
‫اور امی فرحت کے شوہر کی وفات کے بارے میں بات چھیڑ کر بیٹھ گئی جس سے فرحت کی آنکھیں نم ھونا شروع ھوگئی۔‬
‫اور مجھے انکی باتوں سے کوفت ھو رھی تھی‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نے اجازت طلب کی اور کل پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی ۔‬
‫اور اسکے جانے کے بعد‬
‫فوزیہ اور اسکی ساری فیملی آگئی اور کافی دیر باتوں کا تسلسل جاری رھا۔‬
‫پھر انکل جاوید اور انکی بیگم آگئی ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔‬

‫)‪.Update no (62‬‬
‫اگلے دن جب میں سو کر اٹھا‬
‫تو میری طبیعت کافی حد تک بہتر ھو چکی تھی اور میں خود بغیر کسی کے سہارے چلنے لگ گیا تھا ۔‬
‫کچھ دیر صحن میں چہل قدمی کرنے کے بعد میں دوبارا اندر کمرے میں چال گیا ۔‬
‫تین چار دن تک یہ ھی معمول رھا‬
‫فرحت آتی اپنی مسکراہٹوں کو میرے نام کر کے چلی جاتی ادھر فوزیہ بھی بےچین تھی میری تھکاوٹ اتارنے کے لیے‬
‫دو دو پھدیاں بے چینی سے میرا انتظار کررھی تھی ۔‬
‫آخر کار وہ دن بھی آگیا کہ جس دن میں گھر سے تیار شیار ھو کر عظمی اور صدف کے گھر سے ہوتا ھوا انکو ساتھ لے کر‬
‫دکان کی طرف چل دیا‬
‫صدف کا غصہ بھی کافی حد تک کم ھوگیا تھا‬
‫مگر میرے ساتھ اسکا پہلے جیسا رویہ نھی تھا‬
‫بس روکھے پن کا مظاہرہ کر رھی تھی ۔‬
‫میں کافی دن گزرنے کے بعد دکان پر گیا تھا‬
‫تو ساتھ والے دکانداز بھی میری خیریت دریافت کرنے آے‬
‫جنید تو دو دن بعد ھی دکان پر آگیا تھا۔‬
‫جنید مجھ سے مل کر کافی خوش ھوا‬
‫اور مجھ سے ناراض بھی ھونے لگا کہ تمہاری چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے ہم موت کے منہ سے بچے تھے‬
‫انکل نے بھی جنید کی اچھی خاصی کالس لی تھی کے مجھے کیوں موٹر سائیکل چالنے دی ۔‬
‫میں دکان کے فرنٹ پر ھی بیٹھا ھوا تھا کہ وہ ھی دونوں حسینائیں جلوہ گر ہوئیں‬
‫ثانیہ اور ضوفشاں ۔‬
‫اور مجھ سے سالم لینے کے بعد اندر چلی گئیں ۔‬
‫میں بھی اٹھا اور انکے پیچھے چال گیا‬
‫اور ان دونوں کو بیٹھنے کا کہا اور دوبارا آنے کا شکریہ ادا کیا تو ضوفی بڑی ادا سے بولی ہم تو پرسوں بھی آئیں تھی مگر‬
‫آپ نھی تھے پوچھنے پر آپ کا پتہ چال کہ آپ کے چوٹ لگی ھے‬
‫کیسے ہیں آپ اب‬
‫میں نے کہا جی شکر ھے اب کافی بہتر ھوں تو انہوں نے ایکسیڈنٹ کی وجہ پوچھی جو میں نے انکو تفصیل سے بتادی تو‬
‫ضوفی بولی‬
‫آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے چوٹ لگی ھے‬
‫اور کچھ مزید مجھے سمجھانے کے بعد بولیں‬
‫ہم نے دلہن کا ڈریس رینٹ پر لینا تھا‬
‫تو ہمیں ایک سوٹ پسند آیا تھا مگر آپ کے انکل نے رینٹ ھی بہت ذیادہ بتایا تو ہم نے پھر آنے کا کہہ کر نھی لے کرگئیں‬
‫ہم نے تو سوچا تھا کہ آپ ہمیں مزید ڈسکاونٹ دیں گے مگر آپ کے انکل نے تو لہنگے کی ہاف قیمت جتنا رینٹ بتا دیا تھا ۔۔‬
‫میں ضوفی کی تقریر اور گلے شکوے سننے کے بعد بوال‬
‫میں معذرت خواہ ھوں کہ آپ کو لہنگے کی وجہ سے دوبارا آنا پڑا‬
‫آپ بتائیں کون سا لہنگا ھے‬
‫تو ثانیہ نے اپنے گالبی ہونٹ ہالے اور سامنے الماری میں پیک کئے ھوے شاکنگ پنک کلر کے لہنگے کی طرف اشارہ کر‬
‫کے کہا‬
‫جی وہ واال لہنگا ھے ۔‬
‫تو میں نے وہ لہنگا نکاال اور ان کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا آپ میں سے کس کی شادی ھے تو دونوں ہنس پڑیں اور‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫ہماری نھی بلکہ میری کسٹمر کی شادی ھے جمعہ کو تو اس کے لیے لینا ھے‬
‫میں نے پوچھا کہ میں سمجھا نھی کہ آپکی کسٹمر کیا مطلب ۔۔۔‬
‫تو ضوفی نے پرس سے ایک کارڈ نکال کر میری طرف بڑھاتے ھوے کہا میرا پارلر ھے شاہین مارکیٹ کی بیس منٹ میں‬
‫اور یہ میرا کارڈ ھے‬
‫اور میں نے دلہن تیار کرنی ھے تو اس کے لیے لینا ھے‬
‫اتوار کو آپ کو واپس مل جاے گا ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور کارڈ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا‬
‫اور لہنگا شاپر میں ڈال کر انکی طرف بڑھاتے ھوے کہا یہ لیں‬
‫تو ضوفی بولی آپ رینٹ تو بتا دیں۔‬
‫آپ کے انکل تو چار ہزار مانگ رھے تھے‬
‫ہم اتنا افورڈ نھی کرسکتے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫آپ کتنے دینا چاھتی ہیں ۔‬
‫تو وہ بولی میں دوہزار دے سکتی ھوں‬
‫تو میں نے کہا ویسے تو ہم چار ہزار سے کم نھی لیتے‬
‫آپ لے جائیں اور میں انکل کو خود ھی سمجھا دوں گا۔‬
‫آپ خود لہنگا نہ دینے آنا میں آپ کے پارلر سے پکڑ لوں گا‬
‫ضوفی نے پرس سے دوہزار نکال کر مجھے دئیے اور بڑی غور سے مجھے دیکھتے ھوے شکریہ کہا اور ایک جھٹکے‬
‫سے کھڑی ھوئی جس سے اس کے بھاری ممے ایسے ہلے جیسے ابھی نیچے گرنے لگے ھوں‬
‫میں تو اسکے مموں کو دیکھتا ھی رھی گیا‬
‫مجھے اپنے مموں کی طرف دیکھتے ھوے ۔‬
‫ضوفی گال کھکنگار کر بولی‬
‫جی ہم جائیں‬
‫تو میں جھینپ کر بوال ججججی جی‬
‫۔‬
‫تو ثانیہ اس سے پہلے دکان سے باہر نکلنے لگی تو ضوفی نے مجھ ہر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر تھینکسس کہا اور اپنی‬
‫گول گانڈ مٹکاتی ہوئی باہر کی طرف جانے لگی اسکی گانڈ جو کہ اسکی شارٹ شرٹ کی وجہ سے اسکی شرٹ کو بھی اوپر‬
‫نیچے کررھی تھی‬
‫میرا تو اسکی گانڈ دیکھ کر دل کر رھا تھا کہ ابھی جاکر پورا چپہ چڑھا دوں اسکی گانڈ میں ۔‬
‫ضوفی جب دکان کے فرنٹ پر پہنچی تو اس نے یکلخت گھوم کر دیکھا تو میں اسکی گانڈ کے دلکش نظارے میں کھویا ھوا‬
‫تھا تو میری نظریں اسکی نظروں سے ملیں تو اس نے بڑی سیکسی سی سمائل دی اور ہرنی کی طرح دکان کی تین‬
‫سیڑھیاں پھالنگتے ھو باھر چلی گئی ۔‬
‫جس انداز سے وہ اتری تھی‬
‫استاد اسکی چھلکتی گانڈ دیکھ کر میرا تو لن کھڑا ھوگیا جسکو میں نے اسی جگہ بیٹھ کر چھپا لیا‬
‫اور کچھ دیر تک اس کی گانڈ کے خیالوں مین ھی کھویا رھا‬
‫کہ کس خوش نصیب کو اسکی گانڈ نصیب ھوگی ۔‬
‫کہ جنید میرے پاس آکر شرارتی انداز میں بوال‬
‫سر جی چلی گئی ھے ۔۔۔‬
‫میں ہڑبڑا کر بوال‬
‫لن تے چڑے جاندی اے تے جاوے۔‬
‫تو وہ ہنس کر بوال‬
‫استاد بچی تیرے پر مر گئی ھے پکی بات بتا رھا ھوں ۔‬
‫تو میں نے کہا جاندے یار کیوں مزاق کررھا ھے‬
‫تو جنید بوال جانی میرا بھی تجربہ ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار لگ تو مجھے بھی رھا جیسے ہرنی کی طرح گانڈ مٹکا کر کمر کو ہال کر پیچھے مڑ کر دیکھ کر گئی تھی‬
‫اگر انکل دیکھ لیتے تو‬
‫میرے چھتر پڑ جانے تھے‬
‫تو جنید بوال استاد لوھا گرم ھے بس تیری طرف سے چوٹ مارنے کی دیر ھے‬
‫مین نے کہا سالی موقع تو دے میں تو ایسی چوٹ لگاوں گا کہ کسی اور کی طرف یہ دیکھے گی بھی نھی‬
‫تو جنید بوال یار اس بچی کے پیچھے آدھا شہر پڑا ھوا ھے‬
‫اور یہ پکے آم کی طرح تیری جھولی میں گر رھی ھے ۔‬
‫میں نے کہا جگر تو صبر کر بس ایک دفعہ چانس بننے دے پھر دیکھ میں نے تو اس آم کی گٹھلی بھی نھی چھوڑنی ۔‬
‫ابھی ہم باتیں ھی کر رھے تھے کہ‬
‫انکل جو پیشاب کرنے گئے تھے دکان میں داخل ھوتے نظر آے تو ہم جلدی سے الگ ھوکر بکھرے سوٹ طے کرنے لگ‬
‫گئے ۔۔ میں نے سوٹ طے کر کے انکل کو دوہزار پکڑاے اور کہا کہ ایک کسٹمر کو لہنگا کراے پر دیا ھے تو انکل نے‬
‫پوچھا کونسا لہنگا تو مین نے لہنگے کا بتایا تو انکل نے کہا یار بہت کم رینٹ لیا ھے اتنا مہنگا ھے تو میں نے استفسار پیش‬
‫کیا اور کہا کہ وہ ہمارے پرانے کسٹمر تھے‬
‫کسی اور چیز میں کسر نکال لیں گے ۔‬
‫تو انکل چپ کرگئے ۔‬
‫شام ہوئی اور میں انکل کے ساتھ گھر چال گیا‬
‫اور کھانا وغیرہ کھایا تو‬
‫ایک بچہ گھر میں داخل ھوا اور بوال یاسر بھائی آپکو آنٹی فرحت بال رھی ھے ۔‬
‫تو امی بھی میرے پاس بیٹھی تھی ۔‬
‫مین نے جان بوجھ کر کہا انکو کہو کہ یاسر کی طبعیت سہی نھی ھے ۔‬
‫بچہ جیسے ھی جانے لگا تو امی نے اسے آواز دے کر رکنے کا کہا‬
‫اور مجھے غصہ ھو کر بولی کہ‬
‫یاسر اتنے احسان فراموش نھی بنتے ایک دفعہ انکی بات سن آو ھو سکتا ھے کوئی کام ھو‬
‫ہمارے مشکل وقت میں اس نے کتنا ساتھ دیا اور اگر پہلی دفعہ اس نے بلوایا ھے تو جا میرا شزادہ جا کہ بات سن آ۔‬

‫)‪.Update no (63‬‬

‫میں تھوڑا سا نخرہ دیکھا کر بچے کو ساتھ لے کر فرحت کے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫بچہ مجھے دروازے پر چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا ۔۔‬
‫میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی یاسر آجاو دروازہ کھال ھوا ھے ۔تو میں حیران ھوتا ھوا اندر داخل ھوگیا کہ‬
‫اسے کیسے پتہ چال کہ میں ھوں‪،‬‬
‫صحن میں آیا تو فرحت چولہے کے پاس بیٹھی چاے بنا رھی تھی ۔‬
‫مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی‬
‫بڑے بے وفا ھو‬
‫بھول ھی گئے کہ کوئی جناب کے انتظار میں روز بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑتا ھے ۔‬
‫میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو گھر بلکل خالی تھا شاید اسکی امی اپنے کمرے میں سوچکی تھی ۔‬
‫میں نے کہا خالہ جان کہاں ہیں تو‬
‫فرحت نے بڑے سٹائل سے اپنے دونوں ھاتھ اپنی گال پر رکھ کر اشارہ کیا کہ وہ سو رھی ہین ۔‬
‫میں فرحت کے پاس ھی بیٹھنے لگا تو فرحت نے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ‬
‫دروازہ تو بند کر آو‬
‫میں اٹھا اور باہر کے دروازے کی طرف دروازہ بند کرنے چال گیا‬
‫دروازہ بند کر کے میں پھر چولہے کے پاس آگیا تو فرحت بولی اندر کمرے میں چلو میں چاے لے کر ابھی آئی ادھر دھویں‬
‫میں کیسے بیٹھو گے‬
‫میں نے فرحت کا جائزہ لیا تو دیکھ کر اسے بس دیکھتا ھی رھ گیا ۔‬
‫گورے رنگ پر‬
‫ہلکا پیلے رنگ کا سوٹ پہنے ھوے‬
‫سرخ لپسٹک لگاے ھوے‬
‫حسن کی ساری حدیں پار کرنے پر اتری ھوءی تھی‬
‫چاند کی اور بلب کی روشنی میں‬
‫دوسرا چاند اس صحن میں چمک رھا تھا‬
‫مجھے اپنی طرف غور سے دیکھتے ھوے‬
‫فرحت مسکراتے ھوے بولی کیا دیکھ رھے ھو ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا اور فرحت کے بیڈ روم کی طرف چال گیا اور کمرے میں داخل ھوا تو کمرہ بلکل صاف ستھرا اور‬
‫بیڈ پر بھی بلکل نئی بیڈ شیٹ بچھا ئی ھوئی تھی‬
‫جیسے کسی خاص مہمان کی آمد پر خاص اہتمام کیا گیا ھو‬
‫میں جاکر بیڈ پر بیٹھ گیا اور کمرے کے دروازے کی دہلیز پر ٹکٹی لگا کر دیکھتے ھوے فرحت کے دلفریب جسم کی جھلک‬
‫کا انتظار کرنے لگا‪،،،،،‬‬
‫میں فرحت کے انتظار میں دروازے کی دہلیز پر نظر ٹکاے اسکے سیکسی جسم اور آنے والے حسین لمحات میں ڈوبا ھوا تھا‬
‫کہ فرحت اندر داخل ھوئی اور مجھے یوں سوچ میں ڈوبا ھوا دیکھ کر میری آنکھوں کے آگے ھاتھ ہال کر بڑی شوخی سے‬
‫بولی‬
‫شہزادہ کدھر کس کے خیالوں میں ُگ م ھے ۔‬
‫تو میں نے فرحت کے مسکراتے ہوے ہونٹوں کی طرف دیکھا جن میں عرصہ دراز کی پیاس تھی اور اسکی بڑی سی جھیل‬
‫جیسی آنکھوں میں دیکھا جس میں اک شرارت تھی تو میرے منہ سے بےاختیار نکال۔‬
‫روئے‪ ،‬نہ لب ہالئے‪ ،‬نہ جھپکی کبھی پلک‪ ،‬۔‬
‫تیرے انتظار میں ہم پتھر کے ہوگئے‪ ،‬۔‬
‫تو فرحت کھلکھال کر ہنستے ھوے چاے کی ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھتے ھوے بولی ۔واہ واہ واہ تو جناب شاعر بھی ہیں ۔‬
‫تو میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھاتے ھوے کہا۔‬
‫کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرؔت ۔‬
‫بہت ہے تمہیں اک نظر دیکھ لینا۔‬
‫تو فرحت میرا ہاتھ چومتے ھوے بولی‬
‫خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں ھو۔‬
‫تو میں نے کہا‬
‫تمہیں کیا خبر اے جاناں‬
‫کب سے دیوانہ ھے یہ دل تیرا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫اس رات آے نھی تھے تم‬
‫میں نے فوزیہ کے بھائی کی اچانک موت کا بتادیا اور پھر اس کے بعد ایکسیڈنٹ کا بتایا تو فرحت بولی‬
‫میں آدھی رات تک تمہارا انتظار کرتی رھی مگر تم آے نھی‬
‫اور اس کے ساتھ ھی فرحت نے آگے ھوکر میری چاے کا کپ پکڑا اور مجھے پکڑاتے ھوئے بولی‬
‫اگر تم آج بھی نہ آتے تو میں نے تمہارے گھر خود تمہیں لینے آجانا تھا۔‬
‫تو میں نے کہا‬
‫آپ کا حکم مال تو میں دوڑا آیا ۔‬
‫تو فرحت بولی گھر کیا بتا کر آے ھو‬
‫تو میں نے کہا امی نے ھی تو مجھے بھیجا تھا۔فرحت ہممم کرکے چاے کی چسکی لینے لگ گئی ۔‬
‫اور پھر دونوں نے کپ خالی کیے اور فرحت ایک منٹ آئی کہہ کر باہر چلی گی اور کچھ دیر بعد فرحت اندر آئی اور‬
‫دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی اور پردہ اچھی طرح آگے کر کے بیڈ پر چڑھ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی‬
‫میں بھی جوتا اتار کر اوپر پاوں کر کے فرحت کے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا ۔‬
‫فرحت ایکدم چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی آنٹی کو کیا بتاو گے کہ میں نے کیوں بلوایا تھا ۔‬
‫یہ سن کر میں بھی کچھ پریشان ھوگیا کہ مجھے تو کافی دیر ھوجانی ھے یہ نہ ھو کہ بھائی یا ابو مجھے لینے ادھر پہنچ‬
‫جاے‬
‫تو میں نے کہا یہ تو میں نے بھی نھی سوچا‬
‫ایسا کرتا ھوں کہ میں ابھی چلتا ھوں‬
‫اگر آپ کے پاس کوئی تاال ھے تو دے دیں‬
‫کچھ دیر بعد جب گھر والے سو جائیں گے تو میں بیٹھک کو باہر سے تاال لگا کر آجاوں گا ۔‬
‫ایسے کسی کو شک بھی نھی ھوگا چاھے میں رات بھر آپ کے پاس رہوں آپ بس اپنی بیٹھک کا دروازہ کھال چھوڑ دینا ۔‬
‫فرحت کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی بات تو تمہاری سہی ھے کافی سمجھدار ھوگئے ھو‬
‫مگر یہ نہ ھو کہ اس دن کی طرح تم پھر نہ آو تو میں نے وعدہ کیا کہ الزمی آوں گا تم انتظار کرنا۔‬
‫فرحت بیڈ سے نیچے اتری اور سائڈ ٹیبل کا دراز کھول کر مجھے ایک تاال نکال کر دیا اور کہنے لگی دھیان سے نکلنا گھر‬
‫سے یہ نہ ھو کہ تمہیں کوئی آتا دیکھ لے‬
‫میں نے کہا آپ بےفکر رھو جی‬
‫میں تسلی کر کے ھی آوں گا ۔‬
‫میں تاال لے کر جیب میں ڈالتا ھوا کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا تو فرحت بھی میرے پیچھے آگئی اور دروازہ کھول کر‬
‫مجھے باہر نکال کر پھر آہستہ سے کہا کہ جلدی آجانا میں اثبات میں سر ہالتا ھوا گھر کی طرف چال گیا‬
‫گھر میں داخل ھوا تو صحن کی الئٹ بھی بند تھی شاید گھر والے سب کمروں میں تھے میں سیدھا امی کے کمرے میں گیا‬
‫اور بھائی کا پوچھا کہ دکان بند کر کے آگیا ھے کہ نھی تو امی نھ بتایا کہ وہ تو کب کا آگیا ھوا ھے‬
‫وہ تو شاید سو بھی گیا ھو صبح چار بجے تو بیچارہ اٹھتا ھے‬
‫پھر امی نے پوچھا کہ کیا کہتی تھی فرحت تو میں نے کہا بس ایسے ھی حال چال پوچھ رھی تھی اور کہہ رھی تھی ایک‬
‫دفعہ پھر اپنا چیک اپ کروا لینا تو امی فرحت کے صدقے واری جانے لگ گئی‬
‫میں نے امی سے سونے کی اجازت لی اور کمرے کی بجاے بیٹھک میں لیٹ گیا‬
‫جو کہ اکثر میں لیٹ جایا کرتا تھا کیوں کہ میرا بھائی سوتے ھوے خراٹے بہت مارتا تھا اور اکثر میں اسکے خراٹوں سے‬
‫تنگ آکر بیٹھک میں سوجاتا تھا‬
‫مگر آج کا بیٹھک میں جانا روٹین سے کچھ الگ تھا‬
‫دل میں چور تھا اس لیے ڈر بھی لگ رھا تھا‬
‫میں بیٹھک میں لیٹ گیا اور سب کے سونے کا انتظار کرنے لگ گیا وقت تھا کہ گزر ھی نھی رھا تھا‬
‫ایک ایک سیکنڈ گھنٹے جیسا لگ رھا تھا ۔‬
‫آخر کار جیسے تیسے ایک گھنٹہ گزر گیا ساتھ والے کمرے سے بھائی کے خراٹوں کی آواز بیٹھک میں سنائی دے رھی تھی‬
‫میں چپکے سے اٹھا اور پہلے کمرے کی طرف واال دروازہ اندر سے الک کیا اور پھر بڑے آرام سے بیٹھک کا بیرونی‬
‫دروازہ کھوال اور جیب سے تاال نکال کر ہاتھ میں پکڑا اور کنڈی لگا کر اس میں تاال لگا کر چابی جیب میں ڈالی اور پھر‬
‫فرحت کے گھر کی طرف چل دیا گلیاں سنسان تھی‬
‫بس کتوں کے بھونکنے کی آواز آجاتی ۔‬
‫مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کیوں کہ پہلی دفعہ اتنی رات کو گھر سے اکیال نکال تھا ۔‬
‫آخر کار ڈرتا ھوا فرحت کے گھر کے پاس پہنچ گیا اور ادھر ادھر دیکھتے ھوے بیٹھک کا دروازہ کھوال تو دروازہ اندر کی‬
‫طرف کھلتا گیا‬
‫اور میں جلدی سے اندر داخل ھوکر دروازہ بند کرکے کنڈی لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا جیسے بڑا لمبا سفر طے‬
‫کر کے آیا ھوں ۔۔‬
‫فرحت بیٹھک میں ھی بیٹھی ھوئی تھی میری حالت دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آئی اور پریشانی سے پوچھنے لگ گئی‬
‫سب خیر تو ھے اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو تو میں نے اسے ہاتھ سے تسلی دیتے ھوے‬
‫کہا کہ خیر ھی ھے سب ۔‬
‫اور پھر میں بیٹھک سے نکل کر اسکے کمرے کی طرف ایسے چل دیا جیسے میرا اپنا گھر ھو فرحت بھی میرے پیچھے‬
‫پیچھے کمرے میں اگئی میں کمرے میں داخل ھوتے ھی بیڈ پر ڈھے گیا‬
‫میری ٹانگیں نیچے تھی اور میں آدھا بیڈ پر بازو پھیالے لیٹا ھوا تھا‬
‫فرحت نے اندر آکر دروازہ بند کیا اور پردہ سہی کر کے میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میں بھی خود کو ریلیکس کر کے بیڈ‬
‫کے اوپر ھوکر بیٹھ گیا فرحت بھی جوتا اتار کر میرے قریب ھوکر بیٹھ گئی‬
‫ہم دونوں خاموش بیٹھے ھوے تھے اور‬
‫اب ہم۔دونوں پہل کرنے کا انتظار کرنے لگے کہ کس کی طرف سے پہل ھوتی ھے‬
‫مجھے پتہ نھی کیوں فرحت کو اتنا قریب پاکر بھی پہل کرنے میں جھجک محسوس ھورھی تھی ۔‬
‫آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور فرحت کا ھاتھ پکڑ کر اسے چوم کر بوال‬
‫اس دن کے لیے معافی چاھتا ھوں بس ایسے ھی جزبات میں آکر میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا اور فضول باتیں بھی کی ۔‬
‫تو فرحت میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ بولی‬
‫چھوڑو جو ھوا سو ہوا‬
‫غلطی دونوں کی تھی‬
‫میں نے بھی تمہارے ساتھ غلط کیا‬
‫جس کی وجہ سے میں بعد میں بہت پچھتائی تھی ۔‬
‫اور ساری رات تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی۔‬
‫اور پھر ساتھ ھی بولی چلو چھوڑو یہ وقت ایسی باتیں کرنے کا نھی ھے ۔‬
‫تو میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا اور اسے اسکے گلے سے علیحدہ کردیا ۔‬
‫اور اتار کر ایک طرف رکھ دیا فرحت کے کالے لمبے بال اسکی گانڈ تک تھے جس میں فرحت نے اوپر کیچر لگایا ھوا تھا‬
‫اور باقی بال کھلے اسکی کمر کو ڈھانپے ھوے تھے‬
‫میں نے اسکے ریشمی بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے ھوے اوپر سے نیچے اسکی نرم گانڈ تک لے آیا اور فرحت نے بڑی‬
‫دلفریب ادا سے سر کو جھٹک کر بالوں کو جھٹکا دیا اور بال جو میری انگلیوں میں تھے پھسل کر انگلیوں سے ایسے نکلے‬
‫جیسے ریت کے ذرے نکلتے ھیں ۔‬
‫اور ساتھ ھی فرحت نے گانڈ اٹھا کر نیچے سے قمیض باہر نکالی اور ھاتھ پیچھے لیجا کر بالوں کو پکڑ کر جوڑا بنانے لگی‬
‫تو میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس نے میری طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو میں نے کہا رہنے دو ایسے ھی کھلے ھوے تو‬
‫فرحت مسکرا کر بولی کیوں‬
‫فرحت کے دونوں بازو اوپر تھے ۔‬
‫جس کی وجہ سے‬
‫فرحت کے باریک سوٹ سے اسکا کاال بریزیر صاف نظر آرھا تھا‬
‫اسکے ‪ 38‬سائز کے بڑے بڑے ممے بریزیر میں پھنسے ھوے تھے اور بلکل آگے کو تنے ھوے تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو اسی حالت میں کمر میں ھاتھ ڈال کر گھما کر اپنے اوپر ال کر خود لیٹ گیا فرحت کے ممے میرے سینے‬
‫میں دب گئے اسکے لمبے بال اسکے کندھوں سے آدھے ایک طرف اور آدھے ایک طرف بکھر کر میرے کندھوں کے‬
‫دونوں اطراف آگئے۔‬
‫میں نے کمر سے ھاتھ ہٹایا اور فرحت کے بالوں میں لگا کیچر کھول کر کھینچا تو اس میں کچھ بال اٹک گئے تو فرحت نے‬
‫آئیییییی کیا اور بال نکال دیے‬
‫جیسے ھی کیچر سے بال آزاد ھوے تو فرحت کے سلکی سیاہ بالوں نے اسکے حسین چہرے کو دونوں اطراف میں ایسے‬
‫ڈھانپ لیا جیسے چاند کو کالے بادل گھیر لیتے ھیں ۔‬
‫فرحت کا آدھا جسم بیڈ پر تھا اور پیٹ سے اوپر واال حصہ میراے سینے کے ساتھ لگا ھوا تھا اور فرحت کا چاند سا چہرہ‬
‫میرے چہرے کے اوپر تھا اور ہم دونوں کے چہروں کو فرحت کے سیاہ ریشمی بالوں کی چادر نے دونوں اطراف سے‬
‫ڈھانپ رکھا تھا۔‬
‫میں نے ہاتھ آگے کیے اور فرحت کی نرم گالوں کے دونوں اطراف ھاتھ رکھے اور اس سیکس کی ُپڑیا کے چہرے کو‬
‫اپنے منہ کے مزید قریب کیا اور اسکے سرخ لپسٹک والے ہونٹوں پر ایک کس کی اور اس کی آنکھون میں آنکھیں ڈال کر‬
‫دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫تو فرحت نے شرماتے ھوے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کیا ھے ۔‬
‫تو میں نے کہا‬
‫ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو تو‬
‫رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو۔‬
‫تو فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو ہو یاسر تم ۔۔۔‬
‫ھو سویٹ۔‬
‫تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی لٹ کو‬
‫ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر پھر کہا‬
‫چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو‬
‫تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔‬
‫فرحت نے بے ساختہ میر‪-‬ے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں‬
‫بھرنے کی کوشش کرنے لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔‬
‫‪.‬فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو ہو یاسر تم ۔۔۔‬
‫ھو سویٹ۔‬
‫تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی لٹ کو‬
‫ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر کہا‬
‫چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو‬
‫تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔‬
‫فرحت نے بے ساختہ میر‪-‬ے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں‬
‫بھرنے کی کوشش کرنے لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔‬
‫اور فرحت جنونی انداز میں میرے ہونٹ کو چوس رھی تھی اور میں اسکا نیچے واال ہونٹ چوستے ھوے اسکے بالوں میں‬
‫دونوں اطراف سے انگلیان پھیر رھا تھا ۔‬
‫فرحت کے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک میرے میدے کے اندر جا چکی تھی‬
‫اب فرحت کے گالبی موٹے ہونٹوں کی باری تھی ۔‬
‫فرحت کے ہونٹوں کا ذائقہ میرے اندر سیکس کی بھوک کو مزید بڑھا رھا تھا‬
‫اور فرحت کا بھی حال مجھ سے الگ نھی تھا‬
‫فرحت کا بس نھی چل رھا تھا کہ میرے ہونٹ کھا جاتی ۔‬
‫وہ اس وقت کسی بھوکی شیرنی کی طرح میرے ہونٹوں کو بےدردی سے چوس رھی تھی‬
‫کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے کے اوپر نیچے والے ہونٹوں کو باری باری چوستے کبھی ایک دوسری کی زبان کو قابو‬
‫کر کے زبان کا سارا لباب اندر نگھل لیتے۔‬
‫مگر پیاس تھی کے ُبھجنے کی بجاے بڑھ رھی تھی‬
‫میں نے جوش میں آکر فرحت کے دونوں کانوں پر ھاتھ رکھ کر دبا کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے فرحت کو گھما کر اپنے‬
‫نیچے کیا اور خود اسکے اوپر آگیا اور اپنے آپ کو فرحت کی ٹانگوں کے درمیان اڈجسٹ کرنے لگ گیا فرحت نے بھی‬
‫ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی والی جگہ کو ُک شادہ کیا اور جب میرا فل ٹائٹ لن پھدی کے اوپر اپنا ذور لگانے لگا تو فرحت‬
‫نے اپنی دونوں ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور میری کمر کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ کر پاوں میں پاوں پھنسا کر قینچی ڈال‬
‫لی اور اس جنون میں فرحت مجھ پر سبقت لے رھی تھی ۔‬
‫فرحت کے ممے میرے سینے میں ایسے دبے ھوے تھے جیسے میں کسی مولٹی فوم کے اوپر لیٹا ھوا ہوں فرحت کا جسم‬
‫بھرا بھرا تھا اور اتنا ھی سوفٹ بھی تھا ۔‬
‫)‪.Update no ,(64‬‬
‫میرا لن اور فرحت کی پھدی مالپ کے لیے بےچین تھے‬
‫فرحت میں اسقدر جنون آچکا تھا کہ اس نے اپنی گانڈ اٹھا کر پھدی کو لن پر جتنا دباو ڈال سکتی تھی ڈال رھی تھی اور میری‬
‫کمر کے گرد اسکی ٹانگوں کی گرفت اسقدر سختی پکڑے جارھی تھی کہ مجھے اپنا سانس بند ھوتا محسوس ھورھا تھا‬
‫فرحت میرے نیچے لیٹی مجھکو قابو کر کے ٹانگوں کے زور سے کبھی دائیں طرف لے جاتی کبھی بائیں طرف اور میں‬
‫بے بس کمزور لڑکی کی طرح اسکی ٹانگوں کی گرفت میں پھنسا اسکی ٹانگوں کے اشاروں پر ادھر ادھر ھورھا تھا‬
‫فرحت نے میرے ہونٹ اسقدر ذور سے چوس رھی تھی کہ جیسے ابھی کھا جاے گی‬
‫یکلخت فرحت نے مجھے تین چار دفعہ ٹانگوں سے جکڑے دائیں بائیں کیا اور پھر اسکے منہ سے ممممممممم نکال اور‬
‫زور زور سے اسکی گانڈ اور کمر جھٹکے لینے لگ گئی اور پھر فرحت کا جسم ایسے ھوگیا جیسے‬
‫موت کا فرشتہ اپنی امانت نکال کر لے گیا ھو ۔‬
‫فرحت نے میری کمر سے ٹانگیں ہٹا کر ذور سے بیڈ پر ایسے گرائیں جیسے ان میں جان ختم ھوگئی ھو اور ساتھ ھی فرحت‬
‫نے میرے ہونٹوں پر ترس کھاتے ھوے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹا کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔‬
‫میں نے شکر ادا کیا کہ کچھ دیر اور یہ مجھے اسی حال میں رکھتی تو بس میں تو گیا تھا۔‬
‫واقعی استاد استاد ھی ھوتا ھے ۔‬
‫میری سیکس ٹیچر تھی تو میں تو اسکے آگے بچہ ھی تھا نہ ۔‬
‫مگر یہ اسکی بھول تھی‬
‫کیوں کہ‬
‫پکچر تو ابھی باقی تھی ۔۔۔۔‬
‫فرحت بےسدھ ہوکر لیٹ گئی اور اپنا بازوں آنکھوں پر رکھ لیا جیسے سونے لگی ھو۔‬
‫فرحت کی تیز سانسوں کی وجہ سے ممے اوپر نیچے ھورھے تھے‬
‫میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا‪ ،‬اور اسکے گالبی ہونٹوں کے گرد پھیلی ھوئی سرخ لپسٹک صاف کی ۔‬
‫اور اسکا بازوں اسکی آنکھوں کے آگے سے ہٹایا تو فرحت کی آنکھیں بند تھیں ۔‬
‫میں فرحت کے اوپر سے اٹھا اور اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگ اسکی ُپھدی کے اوپر رکھ لی اور اس کے تنے ھوے ممے‬
‫کو پکڑ کر دبانے لگا‬
‫فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور اس نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ کے اوپر رکھ کر کہا آرام سے‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں کو چوما اور کہا درد ھوتی ھے تو فرحت نے اپنی پلکوں کو اٹھایا اور نشیلی آنکھوں سے میری‬
‫طرف دیکھ کر صرف ھاں میں سر ہالیا۔‬
‫فرحت کے ممے ایک دم ٹائٹ تھے‬
‫جیسے ابھرتی جوان ہوتی بچی کے ھوتے ہیں جبکہ اس عمر میں اکثر عورت کے ممے ڈھلک جاتے ہیں۔‬
‫میرے ہونٹ بار بار خشک ھورے تھے جن کو زبان سے تر کر کے فرحت کے شربتی ہونٹوں کو چوم کر اس کے حسن کو‬
‫دیکھنے لگ جاتا ۔‬
‫فرحت مجھے یوں اپنے چہرے کو غور سے دیکھتے ھوے شرما کر آنکھیں بند کرلیتی اور پھر آنکھیں کھول کر میری‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی‬
‫کیا دیکھ رھے‬
‫میں نے کیا تمہارے حسن کو دیکھ رھا ہوں کہ کتنی فرصت سے بنایا ھے بنانے والے نے‬
‫اور یہ کہہ کر میں پھر اس کے گالبی ہونٹوں کو چوم لیتا‬
‫فرحت پھر آنکھیں بند کرلیتی‬
‫فرحت کے مموں کو میں باری باری دبا رھا تھا مسل رھا تھا انکے ساتھ کھیل رھا تھا ۔‬
‫فرحت آنکھیں موندھ کر میرے ھاتھ کے لمس کو اپنے تنے ھوے ممے پر محسوس کر کے مزے کی گہرائیوں میں اتر رھی‬
‫تھی‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور اسکی نرم گال پر زبان پھیرنے لگ گیا اور زبان کو گال پر پھیرتے ھوے اسکے کان‬
‫کے قریب لے گیا تو فرحت نے اپنے مموں کو اوپر اٹھایا اور اپنے چہرے کو مذید اوپر لے جاے‬
‫کر میری سر کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر‬
‫افففففففف سسییییییی کیا اور پھر ایسے ھی مموں کو نیچے لے آئی‬
‫میری زبان جب بھی اسکے کان کے ساتھ ٹکراتی فرحت یوں ھی سسکاریاں بھرتی اور میرے سر میں مساج کرنے کے انداز‬
‫میں اپنی انگلیوں کو حرکت دیتی‬
‫جب اسکی انگلی میرے سر کے زخم سے ٹکراتی جو ابھی تک مکمل سہی نھی ھوا تھا تو مجھے تکلیف ہوتی‪ .‬تو میرے منہ‬
‫سے بھی سی نکل جاتی تو فرحت فورن اس جگہ سے انگلی ہٹا لیتی‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔فرحت اب پھر فل گرم ھوچکی تھی‬
‫میں نے فرحت کی حالت کا اندازہ لگاتے ھوے اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹا اور اپنی قمیض کے بٹن اور بازوں کے بٹن‬
‫کھولنے لگ گیا فرحت کی آنکھیں اب بھی بند تھی‬
‫پتہ نھی وہ کس جگہ کس مقام پر پہنچی ھوئی تھی ۔‬
‫مجھ سے بے خبر وہ اپنی مستی میں لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫میں نے قمیض اتاری اور ایک سائد پر رکھ دی پھر اپنی بنیان اتار کر سائڈ پر پڑی قمیض کے اوپر رکھ دی‬
‫میں نے‬
‫فرحت کی گردن کے پیچھے اپنا بازو کیا اور اسکو اوپر اٹھانے لگا ۔‬
‫فرحت نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور‬
‫مسکرا کر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫فرحت جب اٹھ کر بیٹھی تو اسکے لمبے سلکی ُک ھلے ھوے بالوں نے اسکی کمر کو ُچھپا لیا‬
‫اور کچھ بال اسکے چہرے کے آگے آگئے‬
‫میں نے فرحت کے کان کے پاس سے اسکے بالوں میں انگلیاں ڈالیں اور انگلیوں سے بالوں کو اوپر اٹھاتا ھوا‬
‫ھاتھ کو بالوں کے سروں تک لے گیا‬

‫)‪.Update no (65‬‬
‫یہ کیا تم مجھے آپ آپ کہہ رھے ھو‪.‬‬
‫تو میں فرحت کے ساتھ لیٹ کر فرحت کے ممے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال۔‬
‫تو جناب کو کیا کہہ کر بالوں‬
‫تو فرحت بڑی شوخی سے بولی‬
‫میرا نام لے لو اور کچھ کہہ لو‬
‫اب تو ہم ہم نھی رھے‬
‫بلکہ‬
‫ہم سے تم ھوگئے ہیں ۔‬
‫تو میں نے اسی انداز میں ممے پر ٹھوڑی رکھے ھوے اپنا ھاتھ آگے بڑھایا اور فرحت کے گالبی ہونٹوں پر انگلی پھیرتے‬
‫ھوے کہا‬
‫دل تو کرتا ھے کہ تمہیں‬
‫تمہارے حسن کے مطابق نام دوں مگر جب حسن کو دیکھتا ھوں تو کوئی نام اس الئک ھی نھی لگتا کہ جو تمہارے حسن پر‬
‫پورا اتر سکے ۔‬
‫تو فرحت میری انگلی کو دانتوں میں لے کر دبا کر چھوڑتے ھوے بولی ۔‬
‫بہت شوخے ھو۔‬
‫مسکے لگانا کوئی سے سیکھے ۔‬
‫میں نے کہا نھی جان میں حقیقت بیان کر رھا ھوں‬
‫تمہیں کیا پتہ کہ ۔‬
‫َم یں تو تم کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے ۔‬
‫جب زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی میری۔۔‬
‫میری انگلی اب بھی فرحت کے ہونٹوں کے چاروں اطراف گردش کررہی تھی ۔‬
‫فرحت میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی یاسر تم اپنی عمر سے بڑھ کر باتیں کرجاتے ھو‬
‫تمہارے ساتھ جس لڑکی کی بھی شادی ھوگی وہ خوش نصیب لڑکی ھوگی‬
‫تم ہر لحاظ سے فٹ ھو ۔‬
‫تو میں نے فرحت کے ہونٹ پر انگلی کو پھیرتے ھوے اسکے منہ کے اندر انگلی کا ایک پورا ڈالتے ھوے اسکے نچلے‬
‫ہونٹ کو دباتے ھوے کہا‬
‫میری شاعری کا مرکزی خیال عشق ہے ۔‬
‫ِادھر ُادھر کے بھی کردار ٓاتے جاتے رہے‬
‫مرے سخن کا مگر مرکزی خیال تم ھو۔‬
‫تو فرحت نے میرے کانوں پر دونوں ھاتھ رکھے اور میرے سر کو اپنے منہ کی طرف کھینچتے ھوے اپنا منہ میرے منہ کہ‬
‫قریب کیا اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر میرے ہونٹوں کا لمبا سا چوسا لے کر بولی‬
‫یاسر تم میرے ساتھ ایسا ظلم مت کرو یہ نہ ھو کہ میں تمہیں پانے کہ لیے بغاوت پر اتر آوں ۔‬
‫تو میں نے کہا جان تمہیں پتہ ھے کہ عورت کے جسم سے مجھے تم نے آشنا کیا تھا‬
‫میں تو چار سال سے تمہارے جسم کے ایک ایک اعضاء کو اپنے دل دماغ میں بساے بیٹھا ھوں ۔‬
‫اور خوابوں میں تمہارا یہ سیکسی جسم مجھے دیکھائی دیتا رہتا تھا‬
‫اور میں خواب میں تمہارے اس حسین جسم کو چھوتا تھا چومتا تھا چاٹتا تھا‬
‫اور سوچتا تھا کہ پتہ نھی میرا خواب کبھی سچ بھی ھوگا کہ نھی‬
‫اور آج میرا خواب میری حسرت میری آرزو پوری ھونے جا رھی ھے‬
‫اور آج کی رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات ھوگی ۔‬
‫ملتا ہے یہ حسن کا مجسمہ بھی نصیب والوں کو‬
‫ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں۔‬
‫اور پھر ساتھ ھی میں نے فرحت کے ہونٹوں کو چوم لیا۔‬
‫فرحت مجھ پر واری جا رھی تھی‬
‫فرحت بولی‬
‫کیا واقعی تم اتنی دیر سے میرے بارے میں سوچتے آرھے ھو تو میں نے کہا‬
‫میں جھوٹ نھی بولتا‬
‫تو فرحت میری گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولی‬
‫اچھا میری جان کے ٹوٹے آج سے میرے جسم کے مالک تم ھو میری روح کے مالک تم ھو‬
‫آج سے تم میرے مالک اور میں تمہاری کنیز‬
‫اپنی اس کنیز کو حکم دو کہ آج کی رات یہ کنیز اپنے مالک کے لیے کیا کرے۔‬
‫تو میں فرحت کے مموں کے ساتھ اپنا سینہ لگا کر اسکے ماتھے پر ہتھیلی رکھ کر بالوں کی طرف پھیرتے ھوے‬
‫اور اپنے ہونٹ فرحت کے ہونٹوں کے قریب کر کے اس کی سانسوں کو اندر کھینچتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے آہستہ‬
‫سے بوال۔‬
‫اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو۔‬
‫میں صدیوں سے ادھورا ہوں مجھےمکمل کر دو ۔‬
‫نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے ۔‬
‫اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو ۔‬
‫تم ہتھیلی کو میرے پیار کی مہندی سے رنگو ۔‬
‫اپنی آنکھوں میں میرے نام کا کاجل کر دو ۔‬
‫تیری زلفوں کے سائے میں میرے خواب دہک اٹھیں ۔‬
‫میرے چہرے پہ سیاہ چمکتا ہوا آنچل کر دو ۔‬
‫دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر۔‬
‫اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو ۔‬
‫جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے۔‬
‫اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو۔‬
‫تم چھپا لو میرا دل اوٹ میں اپنے دل کی۔‬
‫اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو۔‬
‫مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے۔‬
‫اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو۔‬
‫اپنے غم سے کہو ہر وقت میرے ساتھ رہے۔‬
‫ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو۔‬
‫مجھ پہ چھا جأو کسی آگ کی صورت جاناں ۔‬
‫اور میری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو۔‬
‫برسوں سے پیاسا ھوں تیرے اس ُحسن مجسمہ کا۔‬
‫آج اس ُحسن مجسمہ کو میرے نام کردو۔‬
‫حسرت سے دیکھتا تھا تمہارے ان ابھاروں کو۔‬
‫وقت ھے اب آیا میرے سینے سے لگا کر اس میں جزب کردو۔‬
‫تمہاری یہ مٹکتی ہوئی گانڈ جو خوابوں میں تھی تڑپاتی ۔‬
‫آج رات اسکو میرے لوڑے کے نام کردو‬
‫فرحت نے مجھے کس کر جپھی ڈالی اور مجھے گھما کر اپنے نیچے کرلیا اور۔۔۔‬
‫میری آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر مسکرائی اور پھر آنکھیں بند کر کے پتہ نھی کیا سوچنے لگ گئی‬
‫میرا لن جو اب اکڑ چکا تھا فرحت میرے اوپر اپنی پھدی کو لن کے ساتھ لگاے ھوے اور اپنے مموں کو میرے ننگے سینے‬
‫کے ساتھ لگ کر میرے اوپر لیٹی ھوئی تھی اور فرحت کے پاوں میرے پاوں کے ساتھ ملے ھوے تھے‬
‫فرحت کا منہ میرے منہ کے بلکل قریب تھا‬
‫اسکی تیز چلتی ھوئی سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی‬
‫اسکی دل کی تیز دھڑکن میرے سینے پر محسوس ھو رھی تھی‬
‫میں نے اپنے دونوں ہاتھ فرحت کی کمر پر رکھے‬
‫اور‬
‫فرحت کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگ گیا اسکی لمبی پلکوں کی چادر نے‬
‫اسکی آنکھوں کے موتی کو چھپایا ھوا تھا ۔‬
‫میں نے کمر پر رکھے ھاتھ کی انگلیوں کو فرحت کی ننگی مالئم نرم سی کمر میں پیوست کر کے فرحت کو مخاطب کیا ۔‬
‫اب اٹھاؤ نقاب آنکھوں سے‬
‫ہم بھی چن لیں گالب آنکھوں سے ۔‬
‫تمہارے پاس مے کے پیالے ہیں‬
‫میں پیئوں گا آج شراب آنکھوں سے۔‬
‫الکھ روکا تمہارے آنچل نے۔‬
‫ہم نے دیکھا حجاب آنکھوں سے۔‬
‫الجھی الجھی ہے زلف ساون کی‬
‫برسا برسا شباب آنکھوں سے۔‬
‫لوگ کرتے ہیں خواب کی باتیں‬
‫ہم نے دیکھا ہے خواب‬
‫آنکھوں سے۔‬
‫فرحت نے جیسے ھی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر اپنی جھیل سے آنکھوں کو بے نقاب کیا تو میں نے آنکھوں میں اللی اور‬
‫ہوس کا نشہ دیکھتے ھی کہا‬
‫آبرو رکھ لو آج رات کی‬
‫مل گیا ہے جواب آنکھوں‬
‫سے۔‬
‫تو فرحت میں جنگلی بلی کی روح نازل ھوگئی اور وہ میرے چہرے کو جگہ جگہ سے چومنے لگ گئی‬
‫جیسے چھؤٹے سے بچے پر بہت ذیادہ پیار آجاے تو بچے کے چہرے کو چومتے ہیں‬
‫بلکل ایسا ھی حال اسکا تھا‬
‫وہ مسلسل میرے چہرے کو ہونٹوں کو آنکھوں کو ماتھے کو چومی جارھی تھی۔‬
‫اور ایسے ھی چومتی چومتی نیچے کو کھسکنے لگ گئی‬
‫اور میرے گلے سے نیچے میرے سینے سے ہوتی ھوئی میرے پیٹ تک آگئی میرا لن اسکے مموں کے درمیان پھنسا ھوا‬
‫فرحت کا گال دبا‬
‫رھا تھا‬
‫کچھ ھی دیر بعد فرحت کے ہونٹوں کا لمس پھر مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس ھوا اور ساتھ ھی فرحت کی زبان نکلی‬
‫اور لن کے ٹوپے پر پھرنا شروع ھوگئی اور یکلخت فرحت نے ٹوپا منہ کے اندر لیا اور ذور سے چوسا لگا کر منہ سے‬
‫باہر نکال دیا میرے منہ سے بےاختیار آہہہہہہہہ نکال اور میرے دونوں ھاتھوں نے فرحت کر سر تھام لیا اور سر کو پھر لن‬
‫کی طرف دبا کر لن فرحت کے منہ میں گھسا دیا اور میں نیچے سے گانڈ اٹھا کر لن کو منہ کے اندر باہر کرنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی کرنے کے بعد‬
‫فرحت نے لن منہ سے نکال دیا اور لن کے پیچھے سے پھولی ھوئی نالی پر زبان پھیرتے ھوے ٹٹوں کی جانب بھڑی اور‬
‫میرے ٹٹوں کو ہتھیلی میں بھر کر مساج کرنے لگ گئی‬
‫میری تو مزے سے جان نکلنے والی ھوگئی تھی ۔‬
‫فرحت نے لن کی جڑ پر زبان لیجا کر لن کے نذدیک پٹ اور لن کے درمیان والی جگہ پر جیسے ھی زبان پھیری‬
‫دوستوں مجھے جو اس وقت مزہ آیا وہ میں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا۔‬
‫کہ اس وقت مزے کی کیا کیفیت تھی ۔‬
‫میرے جسم کو ایک ذور دار جھٹکا لگا‬
‫تو فرحت جان بوجھ کر زبان کو ادھر ھی پھیرنے لگی جیسے میری جان کی دشمن ھو‬
‫اور میں کیسے برداشت کرتا رھا یہ میں ھی جانتا ھوں ۔‬
‫آخر کار اسے میری حالت پر ترس آ ھی گیا اور فرحت میرے پٹوں کو چومتی اور چاٹتی ھوئی میرے گھٹنوں تک چلی گئی‬
‫اور پھر وہ خود گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫کیسا لگا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ اسکے سامنے جوڑے اور کہا‬
‫میری جان نکالنی ھے کیا۔‬
‫تو فرحت مسکرا کر گھٹنوں کے بل بیٹھی ھوئی تھوڑا سا اوپر ھوئی اور گانڈ کو اٹھا کر اپنی شلوار کو نیچے کرنے لگ‬
‫گئی شلوار میں آج السٹک تھا اسی وجہ سے شلوار آسانی سے نیچے چلی گئی اور پھر فرحت کھڑی ھوئی اور جھک کر‬
‫شلوار کو پیروں سے نکال کر بڑے رومینٹک انداز سے گھما کر بیڈ سے‬
‫نیچے پھینک دیا۔‬
‫اور پھر نیچے جھکی‬
‫اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل‬
‫چوپایوں کی طرح میرے دونوں اطراف ھاتھ اور گھٹنے بیڈ پر رکھ کر چلتی میرے منہ کی طرف آنے لگی ۔‬
‫میری ٹانگیں بلکل سیدھی تھیں اور ایک ساتھ جڑی ھوئی تھی‬
‫اور میرا لن تنا ھوا کھڑا فرحت کو للکار رھا تھا۔‬
‫فرحت ڈوگی سٹائل میں چلتی ھوئی میرے لن کے ساتھ مموں کو رگڑ کر میرے پیٹ سے مموں کے نپلوں کو مسلتے ھوے‬
‫ممے میرے سینے تک لے آئی اور پھر مموں کو تھوڑا اوپر کیا اور پھدی کو لن کے اوپر سیٹ کرنے لگ گئی فرحت نے‬
‫ایک ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور دوسرا ھاتھ نیچے لیجا کر میرے لن کو پکڑا اور پھدی کے ہونٹ ٹوپے کے ساتھ کھول‬
‫کر لن کو پھدی کے گیٹ پر سیٹ کیا اور مجھ سے بولی یاسر ہلنا مت اور میرا جواب سنے بغیر ھی آہستہ آہستہ گانڈ کو‬
‫نیچے کی طرف لیجا کر لن کو پھدی کے اندر کرنے لگی‬
‫فرحت کی پھدی گیلی ھی اتنی تھی کہ پھدی کے پانی نے ھی لن کو سیراب کر کے گیال کردیا تھا۔‬
‫اور لن بغیر کسی رکاوٹ کے اندر جارھا تھا‬
‫فرحت نے آدھا لن ایک ھی دفعہ میں بغیر سٹاپ کے اندر لے لیا تھا اور پھر رک گئی اور دوبارا آرام آرام سے لن کو باہر‬
‫نکال کر پھر اندر لے گئی ایسے ھی چار پانچ دفعہ سسکاریاں مارتے ھوے فرحت نے لن سارا پھدی کے اندر کر لیا اور‬
‫پھدی کے لبوں کو لن کے جڑ تک لے جا کر فخر سے میری طرف دیکھتے ھوے ۔‬
‫آنکھوں سے کہا دیکھ لو پورا لے لیا نہ ۔‬
‫اور فرحت لن کو پورا اندر لیے ھوے میرے پٹوں پر بیٹھ کر گانڈ کو میرے پٹوں پر مسلنے لگی میرا ٹوپا فرحت کی پھدی‬
‫کے اندر کسی انتہائی نرم اور گرم سے گوشے میں گھسا ھوا تھا شاید بچے دانی تھی ۔‬
‫اور فرحت نے اب دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھے ھوے تھے اور لن کو پورا اندر لے کر گانڈ سے چکی چال رھی تھی‬
‫اور منہ چھت کی طرف کر کے آنکھیں بند کئے ھوے‬
‫سیییییییی اففففففف آہہہہہہہہ کی آوازیں نکال رھی تھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی کرنے کہ بعد فرحت پھر مجھ پر جھکی اور گانڈ کو اٹھا اٹھا نیچے ال رھی تھی اور پھدی لن کو ھی‬
‫گھسے مار مار کے چود رھی تھی‬
‫پھدیاں چودنے واال لن آج خود پھدی سے ُچد رھا تھا‬
‫فرحت کی گانڈ کی سپیڈ تیز ھوتی جارھی تھی‬
‫میں نے بھی دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ کی چھلکتی ھوئی پھاڑیوں پر رکھے ھوے تھے‬
‫فرحت کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی اور اسکی سپیڈ اتنی تیز ھوگئی تھی‬
‫کے میرے ھاتھ اسکی گانڈ پر ٹک نھی رھے تھے‬
‫بلکہ اسکے ہر واپس اوپر کو آتے گھسے سے میرے ھاتھ اسکی گانڈ سے اچھل جاتے‬
‫اور فرحت اسی سپیڈ سے پھدی کے لبوں کو ٹوپے تک ال کر واپس جڑ تک لے جاتی‬
‫یکلخت فرحت کی سسکاریاں تیز ھوئی فرحت نے دونوں ھاتھ میری بغلوں سے نیچے سے گزار کر میرے کندھوں کو ذور‬
‫سے پکڑ لیا اور ممے میرے سینے کے ساتھ چپکا کر اپنا اگال سارا وزن مجھ پر ڈال کر پیٹ سے اوپر والے حصے کو‬
‫میرے ساتھ چپکا لیا اور پیچھے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر میرے لن کو پھدی سے چودنے لگی‬
‫اسکے گھسوں کی شدت سے بیڈ ہلنے لگ گیا اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آنے لگ گی فرحت کے ناخن میرے کندھے‬
‫میں چبھنے لگ گئیے اور فرحت نے آخری گھسا اس ذور سے مارا کے بیڈ ذور سے ہال جیسے زلزلہ آگیا ھو‬
‫اور فرحت کے منہ سے بس اتنا ھی نکال ھاےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےگگےگگگگگ‬
‫گئی۔‬
‫اور ساتھ ھی میرے لن کو گرم گرم منی نے نہال دیا ۔‬
‫اور فرحت سے جتنا زور لگ سکا اس نے اتنا ھی گانڈ کا ذور لگا کر پھدی کے اندر جڑ تک لن کو پہنچا کر میرے اوپر‬
‫وزن ڈال دیا اور جھٹکے کھاتا ھوا اسکا جسم مجھے بھی ساتھ ہال رھا تھا اور فرحت کی اکھڑی اور تیز تیز سانسیں اور دل‬
‫کی تیز دھڑکن میرے سینے پر دھک دھک کر رھی تھی‬
‫اور فرحت‬
‫ُبنڈ واال زور ال کے فارغ ھو گئی اور۔۔۔۔۔‬
‫فرحت فارغ ہوکر بےجان ہوکر پورا وزن مجھ پر ڈالے لیٹی ہوئی تھی ۔‬
‫اور میں اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نارمل ہوئی اور میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اور اسکو گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود اسکے‬
‫اوپر آگیا‬
‫فرحت بلکل خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی۔‬
‫فرحت کے یوں خاموشی سے لیٹے رہنے پر مجھے اپنے استاد محترم کا قول یاد آگیا‬
‫کہ پتر‬
‫سیکس کے بعد عورت کی خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ تم نے چود چود کر اسے الجواب کر دیا ہے۔‬
‫میرا لن ابھی بھی فرحت کی گیلی پھدی میں ھی تھا ۔‬
‫فرحت بولی یاسر میری بس ہوگئی ہے‬
‫میں نے کہا اتنی جلدی میں نے تو ابھی کچھ کیا ھی نھی ۔‬
‫تو فرحت بولی یاسر آج تم نے میری برسوں کی پیاس بجھا دی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یاسر کی جان ابھی تو میں نے اپنی برسوں کی پیاس بجھانی ھے ۔‬
‫اور اسکے ساتھ ہی میں نے فرحت کی ٹانگیں اوپر کیں اور گھسے مارنے شروع کردیے ۔‬
‫میرے گھسوں سے فرحت کے ممے کبھی میری طرف آتے تو کبھی فرحت کے منہ کی طرف‬
‫فرحت کے ہلتے ممے دیکھ‪ .‬کر میرا جوش مذید بڑھ رھا تھا۔۔‬
‫فرحت آہ آہ آہ آرام سے آرام سے کرو نہ درد ہورہی ھے آرام سے آرام سے‬
‫کہی جارھی تھی اور اسکی آہ میں بھی مزہ تھا اسکی آواز میں بھی نشہ تھا‬
‫میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا اورٍ فرحت کی سیکسی آوازوں سے مجھ پر نشہ طاری ہوتا جارھا تھا۔‬
‫دس پندرہ منٹ میں فرحت کو اسی سٹائل میں چودتا رھا‬
‫فرحت بولی یاسر میری ٹانگیں تھک گئی ہیں ۔‬
‫میں نے فرحت کی ٹانگیں نیچے کی اور فرحت کو گھوڑی بننے کا کہا۔‬
‫تو فرحت تھوڑا نخرہ کرنے کے بعد الٹی ہوگئی‬
‫اور اپنی گول مٹول گانڈ کو ہالتے ہوے اپنی پوزیشن سیٹ کر نے لگی ۔‬
‫میں بھی فرحت کے پیچھے گھٹنوں کے بل ہوکر لن کو جڑ سے پکڑ کر فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں پھیرنے لگ گیا‬
‫میرا ٹوپا جیسے ھی فرحت کی گانڈ کی موری کے ساتھ لگا‬
‫فرحت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کرکے لن کو موری سے ہٹا کر پھدی کی طرف کردیا اور مجھ سے بولی‬
‫یاسر پلیز‬
‫پیچھے سے نہ کرنا مجھ سے برداشت نھی ھوگا۔‬
‫تو میں نے کہا کچھ نھی ہوتا جان بس ہلکا سا درد ھوگا‬
‫اسکے بعد مزے ھی مزے ہیں ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫یاسر پیچھے سے بھی بھال کوئی کرتا ھے‬
‫لن پھدی کے لیے بنا اور پھدی لن کے لیے ۔‬
‫تو پھر گانڈ میں کیوں کررھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا جان تمہاری گانڈ ھی اتنی مست اور سیکسی ھے کہ میں چار سال سے اسکا ُچھپا ہواعاشق ہوں ۔‬
‫اور آج میرے لن کے نصیب ُک ھلے ہیں تو تم‬
‫یوں انکار کر کے اس بیچارے کا دل تو نہ توڑو۔‬
‫تو فرحت بولی ۔‬
‫پہلے آگے سے تو کرو پھر جب میں کہوں گی تو پیچھے سے بھی کرلینا۔‬
‫فرحت نے یہاں عیاری دیکھائی تھی کے میں ذیادہ دیر پھدی سے مقابلہ نھی کرسکوں گا اور پھدی میرے لن کو مات دے دے‬
‫گی تو اس طرح اسکی گانڈ کی جان بخشی ھوجاے گی۔‬
‫مگر یہ اسکی بھولی تھی ۔۔‬
‫کیوں کے میری پکچر کے تو ابھی نمبر ھی چل رھے تھے پوری پکچر تو ابھی باقی تھی ۔‬
‫خیر میں نے لن کو سمجھا بجھا کر فرحت کی گول مالئم گانڈ پر ایک ہاتھ رکھا اور دوسرا ہاتھ فرحت کے کندھوں کے پاس‬
‫لیجا کر نیچے کو دبایا جس سے فرحت آگے سے نیچے جھک گئی اور اسکی گانڈ مذید پیچھے سے اونچی ہوگئی تھی ۔‬
‫میں نے ٹوپے کو پھدی کے لبوں پر سیٹ کیا‬
‫اور دونوں ہاتھوں سے فرحت کی کمر کو پکڑا اور ایک جاندار گھسا مارا لن نان سٹاپ پھدی کی گہرائی میں چال گیا اور‬
‫کمرے میں تھپ کی آواز گونجی ۔‬
‫ایک ھی جھٹکے میں جب جڑ تک پورا لن بچے دانی تک گیا‬
‫فرحت کے منہ سے‬
‫آئییییییی مرگئی میں یاسررررر‬
‫نکال اور اسکا سر جاکر بیڈ کے ٹیک سے لگا اور لن باہر نکل کر گانڈ کے اوپر جھومنے لگا۔‬
‫فرحت کی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر‬
‫ایک بار پھر‬
‫مجھے اپنے استاد محترم کا قول یاد آگیا کہ‬
‫ُپتر‬
‫جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس کی کامیابی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔اسی طرح ہر گھوڑی‬
‫بنی عورت کے پیچھے ایک مرد کھڑا ہوتا ہے جو اسے چودنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‬
‫استاد محترم کی بات یاد آتے ھی مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا‬
‫اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر پھر فرحت کی کمر کو پکڑا‪ ،‬اور‬
‫گاڑی بیک کی اور ِڈ کی اوپر کر کے پھر لن کو اسکی آرام گاہ تک پہنچایا‬
‫جیسے ھی لن پھدی کے پاس پہنچا تو‬
‫فرحت گردن گھما کر بولی یاسر اب آرام سے کرنا‬
‫میرا اندر ہال کے رکھ دیا تھا‬
‫اتنا بھی جوش مت دیکھو‬
‫مانا کہ تم جوان ھو۔‬
‫میں نے فرحت کی گول مٹول گانڈ پر ایک ذور دار تھپڑ مارتے ہوے کہا آج درد کا بھی مزہ لو جان ۔۔۔‬
‫تو فرحت کے منہ سے سسکاریییی نکلی اور فرحت بولی‬
‫ھاےےےےےےے مار دتا ایییی ظالماں‬
‫اور اس کےساتھ لن کو پھر ایک دھکے میں سارا اندر پہنچا دیا‬
‫فرحت نے پھر آگے کو ہونے کی کوشش کی مگر میں نے اسکی کمر کو پہلے ھی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا‬
‫فرحت پھر ھاےےےےے کر کے بولی یاسرررررر نھی باز آے نہ ۔‬
‫میں نے پھر اسکی گانڈ پر تھپڑ مارا اور فرحت کی سسکاری سن کر‬
‫چار پانچ گھسے لگا تار مار دیے اور‬
‫ساتھ ھی اس کے لمبے بالوں کو اکھٹا کر کے ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫گھوڑی کی لگامیں قابو کر لیں اور گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫میرے جاندار گھسوں سے فرحت کے ممے اسکے منہ تک جانے کی کوشش کررہے تھے‬
‫اور اسکی گانڈ تھر تھرا کر اپنی سوفٹنس کا اظہار کر رھی تھی‬
‫فرحت کا بال میں نے کھینچے ہوے تھے جسکی وجہ سے فرحت کا منہ اوپر کو اٹھا ھوا تھا‬
‫میں مسلسل گھسے مار رھا تھا فرحت کی مزے میں ڈوبی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رہیں تھی ۔‬
‫فرحت کی گانڈ کے ساتھ گھسوں سے لگنے والے میرے پٹ‬
‫تھپ تھپ کررھے تھے‬
‫پھدی کی چکناہٹ اور لن کی فراوانی سے‬
‫پچ پچ کی آواز آرھی تھی‬
‫کمرے میں فل میوزک شو چل رھا تھا‬
‫سات ُسروں واال سیکس‬
‫خاموش رات میں اپنا ھی سنگیت سنا رھا تھا‬
‫فرحت مزے میں پھر غرق ہوتی جارھی تھی‬
‫اور اس کی سیکسی آوازیں مجھے گرانے پر مجبور کر رھی تھیں‬
‫مگر میرے ارادے بھی پختہ تھے‬
‫میں کیسے اسکی پھدی کے آگے ہار مان لیتا‬
‫میں تو پھدی پر سبقت لینے کے چکر میں گھسوں کی سپیڈ بھڑاے جارھا تھا‬
‫اور آخر کار ہار پھدی کے نصیب میں ہوئی اور پھدی نے ہاتھ جوڑ کر آنسو بہاتے ھوے میرے لن کو بھی گیال کرنا شروع‬
‫کردیا‬
‫اور فرحت پیچھے کو پورا ذور لگا کر گانڈ میرے پٹوں کے ساتھ جوڑ کر پھدی کو بھینچنے لگ گئی اور فرحت کی آخری آہ‬
‫ہہہہہہہہ نکلی اور فرحت سر خم کر کے تکیے پر گر گئی اور میں پھر گانڈ پر ہاتھ رکھے‬
‫فرحت کی پھدی سے نکلتی گرما گرم منی اپنے لن پر اور ٹٹوں پر محسوس کرنے لگا اور گھسوں کو روک کر‬
‫کہا۔‬
‫آئی وڈی سیاست دان۔۔۔۔‬
‫فرحت کی حالت دو دن قبل مرے ہوے ُک تے جیسی ھوگئی تھی‬
‫ہوتی بھی کیسے نہ تین دفعہ تو فارغ ہوچکی تھی ۔‬
‫فرحت نڈھال گھوڑی بنی سر تکیے پر رکھے لمبے لمبے سانس لے رھی تھی ۔‬
‫اور میں اسکی کمر پر انگلیاں پھیر کر اپنی ھی انگلش لکھ رھا تھا اور اسکے ریلیکس ہونے کا انتظار کررھا تھا۔‬
‫تین چار منٹ گزر گئے فرحت خاموش لیٹی رھی میں نے اسے ہالے کہ کہیں سو تو نئی گئی ۔‬
‫تو فرحت غنودگی سی حالت میں بولی‬
‫یاسر بسسسسسسسس‬
‫اور ساتھ ھی اس نے ٹانگیں سیدھی کی اور گانڈ نیچے کر کے پھدی میٹرس کے ساتھ لگا کر الٹی لیٹ گئی ۔‬
‫میرا لن ترسی اکلوتی نگاہ سے گانڈ کو دیکھ رھا تھا میں فرحت کے اوپر جھکا اور لن کو گانڈ کی دراڑ میں کر کے فرحت‬
‫سے کہا‬
‫اجازت ھے ۔‬
‫تو فرحت نے گردن گھما کر پھر تھکے ھوے انداز میں کہا‬
‫معافی نھی مل سکتی‬
‫میں نے کہا آج معافی نھی ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫تو پھر ایسا کرو‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کے دراز میں‬
‫سرسوں کے تیل کی شیشی پڑی ھے‬
‫وہ نکال کر لے آو اور اچھی طرح اپنے اس گھوڑے پر اور میرے معصوم سوراخ پر لگا دو میں جلدی سے چھالنگ لگا کے‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کے پاس پہنچا اور دراز کھول کر پلسٹک کی تیل والی ُک پی نکالی اور اسکا ڈھکن کھول کر اپنی ہتھیلی پر تیل‬
‫نکاال اور ہتھیلی کو لن پر الٹ دیا اور اچھی طرح تیل سے لن کو چوپڑ کر تیل والی ُک پی کو لے کر بیڈ پر آگیا‬
‫فرحت کی گانڈ کی پھاڑیوں کو کھول کر دراڑ کے اندر نیم کنواری موری پر تیل کی کپی سے تیل چھوٹی سی دھار پھینکی‬
‫اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو پھدی کے پاس رکھ کر نیچے جاتے ھوے تیل کو واپس موری پر ال کر اچھی طرح موری‬
‫کے ِک نگروں کو تیل سے تر کیا اور تیل سے موری کے کنگرے کافی سوفٹ یوچکے تھے‬
‫پھر میں لن کے ٹوپے کو موری پر سیٹ کرنے لگا‬
‫ابھی میں دباو ڈالنے ھی لگا تھا کہ‬
‫فرحت بولی یاسر آرام سے کرنا‬
‫میں نے ہلکا سا ُپش کیا تو موری کا منہ کھولتا ھوا ٹوپا اندر چال گیا‬
‫فرحت کے منہ سے‬
‫ھاےےےےےےےے نکال‬
‫اور اس نے گانڈ کو ذور سے بھینچ لیا۔‬
‫اور مجھے باہر نکالنے کو کہا‬
‫میں نے ٹوپے کو باہر نکاال اور کچھ دیر بعد دوبارہ ٹوپے کو اندر کردیا‬
‫فرحت نے پھر‪ .‬ھاےےےےےےے مرگئی کیا‬
‫مگر اب اس نے باہر نکالنے کو نھی کہا تھا‬
‫میں آہستہ آہستہ لن کو اندر لیجانے لگا ۔‬
‫فرحت کو جہاں ذیادہ درد ہوتی وہ مجھے روک دیتی۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی تھوڑا سا لن اندر لیجاتا اور پھر باہر نکال لیتا۔‬
‫میں نے فرحت کو کہا کہ تم ٹیڑھی ھو کر لیٹو تو فرحت دوسری طرف منہ کر کے گانڈ میری طرف کر کے لیٹ گئی‬
‫میں فرحت کے پیچھے تھوڑا نیچے ھوکر لیٹ گیا‬
‫میں نے فرحت کی ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسکو گانڈ مزید پیچھے کرنے کو کہا‬
‫تو فرحت نےگانڈ کو کھسکا کر اور باہر نکال لیا میں نے اسکی ٹانگوں کو اسکے پیٹ کی طرف کیا اب اس کے دونوں‬
‫ُگ ھٹنے اسکے پیٹ کے ساتھ لگے ھوے تھے‬
‫اور گانڈ کی دراڑ پوری کھلی ھوئی تھی‬
‫میں نے لن کو پکڑ کر موری پر رکھا اور ایک ہاتھ سے فرحت کا مما پکڑا اور ایک گھسا مار کے آدھا لن گانڈ کے اندر اتار‬
‫دیا۔‬
‫فرحت پھر ھاےےےےےےےھھ افففففففف کر کے رہ گئی۔‬
‫میں نے پھر لن کو باہر نکاال اور پھر گھسا مار کر موری کو مذید کھولتے ہوے آدھے سے ذیادہ لن اندر اتار دیا‬
‫اور فرحت نے غصے میں آکر گانڈ کو پورے ذور سے آئییییییی کرتے ھوے پیچھے میرے پٹوں کے ساتھ مال کر قصہ ھی‬
‫تمام کردیا اور لن سارا گانڈ کے اندر چال گیا۔‬
‫کچھ دیر میں لن کو اندر کیے لن کو گوالئی میں گھوماتا رھا اور پھر‪ .‬اپنا ایک بازو فرحت کی بغل میں سے گزار کر آگے‬
‫کی طرف لے گیا اور اسکا ایک مما پکڑ لیا۔‬
‫پھر دوسرا بازو فرحت کے دوسرے بازو کے نیچے سے گزار کر دوسرا مما بھی پکڑ لیا ۔‬
‫اور دونوں مموں کو مٹھیوں میں قابو کر کے گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫فرحت درر سے ھاےےےےھھ امییی ھاےےےےھ مرگئی‬
‫اففففففف ظالماں ہولی‬
‫کر ہولی کر ۔۔‬
‫کری جارھی تھی اور مجھے اس کی آوازوں سے مذید شیاری آرھی تھی اورمیں ذور ذور سے گھسے مار رھا تھا‬
‫چار پانچ منٹ ایسے ھی فرحت کی گانڈ کو چودتا رھا‬
‫تو فرحت کی جب بس ہوگئ اور درد بڑھ گئی تو فرحت نے میری گانڈ کو تھپتھپا کر مجھے رکنے کا اشارا کیا اور بولی یاسر‬
‫میں الٹی ہوتی ہوں تم اوپر آجاو۔‬
‫میں جس حال میں تھا ویسے ھی فرحت کے دونوں مموں کو پکڑے اور لن گانڈ میں اتارے فرحت کو گھما کر الٹا کیا اور‬
‫اس کے اوپر الٹا لیٹ کر‬
‫گھسے مارنے لگ گیا‬
‫دوستوں فرحت کا جسم تھا کہ ماسٹر کے مولٹی فوم کا گدا‬
‫میرے دونوں ہاتھوں میں فرحت کے ممے تھے جو میٹرس کے ساتھ لگے تھے‬
‫مگر میرے الٹے ھاتھ میٹرس کے ساتھ لگے تھے اور میری ہتھیلیوں میں فرحت کے نرم نرم ممے تھے اور جب میں گھسا‬
‫مارتا تو فرحت کے ابھرے ھوے چتڑوں پر آکر جب میرے پٹ لگتے تو‬
‫کیا مزہ آتا کیا ھی نشہ چڑھتہ۔‬
‫فرحت میرے نیچے الٹی لیٹی تڑپ رھی تھی سسک رھی تھی‬
‫اور کہہ رھی تھی‬
‫یاسرررر جلدی کرلو‬
‫ھاےےھھھ اور کتنی دیر‬
‫لگاو گے ۔۔ھاےےےےےےے میریے مائیں ۔‬
‫ھاےےےےےےےے مرگئی ۔۔۔۔‬
‫یاسر بسسس کرو‬
‫توبہ ھے‬
‫جتنا لمبا تمہارا لن ھے اتنا لمبا ھی تمہارا چھوٹنے کا ٹائم ہے‬
‫نہ لن تھوڑا نہ ٹیم تھوڑا‬
‫میرے گھسے شدت اختیار کررھے تھے اور‬
‫فرحت کی فریادیں اور گلے شکوے بھی شدت اختیار کررھے تھے‬
‫پھر یوں ھوا ۔‬
‫کہ‬
‫کیا ھوا‬
‫وہ ھی ھوا‬
‫جو ہوتا ھے‪.‬‬
‫میرے گھسوں کی رفتار بڑھی اور ساتھ ھی فرحت کی گانڈ کو میرے لن نے منی سے سیراب کرنا شروع کردیا‬
‫اور فرحت نے بھی شکر ادا کیا‬
‫کہ جان چھوٹی‬
‫میں فارغ ہوکر فرحت کے اوپر ھی لیٹا رھا اور لمبی لمبی سانسیں لے کر لن گانڈ سے نکال کر اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا‬
‫فرحت کچھ دیر ایسے الٹی لیٹی رھی‬
‫اور پھر فرحت نے ھاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل کے دراز کو کھوال اور اس میں سے ایک کپڑا نکال کر اپنی گانڈ کی موری پر‬
‫رکھا اور گانڈ سے نکلتی منی کو صاف کر کے کپڑا میری طرف بڑھایا میں نے بھی کپڑے سے اچھی طرح لن کو صاف‬
‫کیا اور کپڑا نیچے پھینک دیا۔‬
‫فرحت ھاےےےےے کر کے سیدھی ہوئی اور ایک ٹانگ کو بینڈ کر کے دوسری ٹانگ اس کے اوپر رکھ کر لیٹ گئی‬
‫اور میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫یاسر تم بہت ظالم ہو ۔میں نے مسکرا کر کہا کیا ھوا جان جی ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫توبہ توبہ کرادی ھے اور اب بھی پوچھ رھے ہو کیا ہوا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ابھی تو ایک شارٹ اور لگانا ھے ۔‬
‫تو فرحت نے تکیہ اٹھا کر مجھے مارتے ھوے کہا‬
‫ٹہھر جا بتاتی ہوں تمہیں۔‬
‫مارنا ھے مجھے ۔‬
‫پہلے ھی میرے آگے پیچھے درد ھورھی ھے‬
‫اور تم پھر کرنے کو کہہ رھے ھو‬
‫ابھی دل نھی بھرا کیا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫دل اتنی جلدی بھرنے واال نھی‬
‫تم چیز ھی ایسی ھو کہ ساری رات بھی تمہیں چودوں تو دل نھی بھرے گا۔‬
‫اور نہ ھی میں تھکوں گا ۔‬
‫تو فرحت نے کالک کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا زرہ ٹائم دیکھو کتنی دیر لگائی ھے تم نے ۔‬
‫میں نے کالک کی طرف دیکھا تو‬
‫ایک بج چکا تھا‬
‫میں بھی پریشان ھوگیا کہ‬
‫اتنا وقت گزرگیا اور مجھے پتہ بھی نھی چال۔‬
‫فرحت بولی یاسر ایک بات پوچھوں سچ سچ بتانا۔‬
‫جھوٹ مت بولنا‬
‫میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم سے نہ ناراض ہوں گی اور نہ ھی کچھ کہوں گی‬
‫مگر تم سچ بولو گے ۔‬
‫میں نے فرحت کے ساتھ لیٹتے ھوے پوچھا‬
‫جی پوچھیں ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫تم نے پہلے کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا ھے‬
‫۔‬
‫میں فرحت کے اس اچانک کئے گئے سوال سے گبھرا گیا اور‬
‫بوال‬
‫کککسی سے بھی نھی ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫یاسر میرے ساتھ جھوٹ نہ بولو‬
‫تم جس انداز سے میرے ساتھ کررھے تھے‬
‫یہ ہو ھی نھی سکتا کہ تم نے کسی کے ساتھ نہ کیا ھو۔‬
‫تم ایک تجربہ کار اور منجھے ھوے چودو ھو‬
‫تمہارا چودنے کا ہر طریقہ ھی تمہارے‬
‫تجربہ کار ہونے کی گواہی دیتا ھے ۔‬
‫اگر تم مجھے نھی بتانا چاہتے تو بیشک نہ بتاو‬
‫میں یہ ھی سمجھوں گی کہ تم مجھے اس الئک نھی سمجھتے۔‬
‫میں نے کہا کیسی باتیں کررھی ھو۔‬
‫فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی‬
‫تو پھر بتاو نہ کہ کس کس لڑکی کو چود ُچکے ھو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس لڑکی سے بات نھی کرو گی اس بارے میں۔‬
‫فرحت بولی میں پہلے بھی اس بات کا وعدہ کرچکی ہوں‬
‫میں نے کہا‬
‫وہ میری ٹیویشن ٹیچر ھے ہماری پچھلی گلی میں رہتی ھے‬
‫اس سے دو تین دفعہ کیا ھے ۔‬
‫فرحت بولی اسکا نام کیا ھے میں نے کہا‬
‫صدف‬
‫تو فرحت حیرانگی سے بولی‬
‫یہ وہ ھی لڑکی ھے نہ جو شہر سالئی کڑھائی کا کام دیکھنے جاتی ہے۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔‬
‫تو فرحت منہ بسور کر بولی بڑی ُچھپی ُرستم ھے ۔‬
‫میں نے فرحت کے چہرے اور لہجے میں حسد محسوس کرلیا تھا ۔‬
‫اور مذید کچھ نہ بتانے کا بھی سوچ لیا تھا۔‬
‫فرحت بولی اس سے کیسے سیٹنگ ہوگئی تمہاری‬
‫اور کتنی دفعہ کیا ھے اور کہاں کیا ھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو مختصرًا بتا دیا کہ‬
‫بس ایسے ھی آنکھ مٹکے سے سیٹنگ ہوگئی تھی اوت بس تین دفعہ ھی کرنے کا موقع مال وہ بھی اسکے گھر ھی‬
‫تو فرحت جیلسی پن سے بولی ۔‬
‫اب کب کرو گے اسکے ساتھ‬
‫میں نے اسکی ذہنیت دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫جب تمہارے جیسی حسین دوشیزہ کی قربت نصیب ہوگئی ھے تو میں اس کی طرف دیکھوں بھی نہ‬
‫کہاں وہ ۔کہاں تم‬
‫تو فرحت کے چہرے پر غرور کی لہر آئی اور‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا ہاتھ میرے لن کی طرف لیجا کر لن کو مٹھی میں بھر لیا اور بولی‬
‫تمہارے اس گھوڑے نے بھی مجھے تمہارا مرید کر لیا ھے ۔‬
‫اور لن کو مٹھی میں لے کر دبانے لگی‬
‫لن بھی پھر سے سختی پکڑنے لگ گیا۔‬
‫صدف کا ذکر چھڑتے ھی مجھے اسکی بات یاد آگئی کے یاسر تم میرے اندر فارغ ہوگئے ھو اگر کچھ ہوگیا تو‬
‫میں سوچنے لگ گیا کہ فرحت سے اس کے بارے میں پوچھوں کہ نہ پوچھوں ۔‬
‫پھر میں نے سوچا کہ اگر اب صدف کا ذکر کیا تو یہ سالی پھر نہ موڈ بنا لے‬
‫اسلیے میں نے ارادہ بدل دیا ۔‬
‫اور فرحت کے ممے کو پکڑ کر کھیلنے لگ گیا۔‬
‫میرا لن فرحت کے ھاتھ میں آتے ھی فل ٹائٹ ھوگیا‬
‫اور‬
‫میرا پھر موڈ بننے لگا کہ ایک شفٹ ہو جاے‬
‫لن بھی تیار تھا فرحت کا موڈ بھی بن رھا تھا‬
‫مگر ٹائم بہت ذیادہ ہوگیا تھا‬
‫میں نے دوبارا کالک کی طرف دیکھا تو آدھا گھنٹہ مذید گزر چکا تھا ۔‬
‫میں نے فرحت کو کہا کیا موڈ ہے ۔‬
‫تو فرحت بولی ساری کسر آج ہی نکال دینی ھے کچھ پھر کسی دن کے لیے باقی رہنے دو۔‬
‫تو میں نے کہا آپ کی امی اتنی بےسد سورھی ھوتی ھے ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫میں نے آج انکو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی اس لیے مجھے انکی کوئی پریشانی نھی ھے ۔‬
‫میں نے شرارت سے پوچھا‬
‫کہ‬
‫لگتا ھے آج پورے موڈ میں تھی‬
‫اگر میں نہ آتا تو۔‬
‫فرحت بولی نہ آتے تو تمہیں گھر سے اٹھا کر لے آنا تھا۔‬
‫میں نے کہا واہ جی واہ‬
‫ہن ساڈے نال بدمعاشیاں چلن گئیاں ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫کبھی کبھی کچھ پانے کے لیے بدمعاشی بھی کرنا پڑتی ھے ۔‬
‫میں اچھا جی کہہ کر فرحت کے ہونٹوں پر کس کی اور کپڑے پہننے لگا‬
‫فرحت بولی پھر کب آو گے تو میں نے کہا جب جناب کا حکم ہوا‬
‫فرحت بولی‬
‫اب جب ملنا ھوگا تو میں تمہیں ایک دن پہلے بتا دوں گی ۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ہے اگلی دفعہ کچھ نیا کروں گا کہ تم یاد رکھو گی ۔‬
‫فرحت میرے بازو پر مکا مارتے ھوے بولی ابھی بھی کچھ نیا کرنے والے رہتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫وہ تو کب ملیں گے تو پتہ چلے گا کہ ابھی کتنا کچھ رہتا ھے ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر یہ سب کہاں سے سیکھا ھے‬
‫اتنی دیر میں‬
‫میں نے کپڑے پہن لیے تھے اور شلوار کا ناال باندھتے ہوے بوال۔‬
‫جب دوبارا آیا تو بتاوں گا ۔‬
‫فرحت جان بوجھ کر باتوں میں لگا رھی تھی کہ پھر کچھ کروں مگر میرا دھیان پیچھے گھر کی طرف تھا اور ڈر بھی رھا‬
‫تھا کہ اتنی رات کو کیسے جاوں گا اگر کسی پہرے دار نے دیکھ لیا تو اس نے صبح ابو کو یا بھائی کو بتا دینا ہے۔‬
‫تو میری خیر نھی پھر ۔‬
‫میں نے کپڑے درست کیے اور کالک کی طرف دیکھا تو دو بج چکے تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو کہا ٹائم کافی ہوگیا ھے ابھی مجھے جانا چاھیے ۔‬
‫تین بجے ابو اٹھ جاتے ہیں ۔‬
‫تو فرحت جلدی سے اٹھی اور کپڑے پہننے لگی‬
‫فرحت نے کپڑے پہنے اور مجھے رکنے کا کہا اور دروازہ کھول کر باہر صحن میں نکل گئی کچھ دیر بعد۔‬
‫فرحت اندر آئی اور مجھے چلنے کا کہا‬
‫میں اس کے پیچھے چلتا ہوا‬
‫بیٹھک میں پہنچا اور اس نے بیٹھک کا دروازہ کھوال اور باہر سر نکال کر گلی کا جائزہ لیا ۔‬
‫اور اوکے کا اشارہ کیا اور میں باہر نکلنے لگا تو فرحت بولی ایسے ھی جاو گے ۔‬
‫تو میں واپس مڑا اور اسکو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں کا لمبا سا چوسا لیا اور باہر گلی میں نکل کر ڈرتا ڈرتا‬
‫گھر تک پہنچا اور تاال کھول کر بیٹھک میں داخل ہوا ۔‬
‫کان لگا کر گھر کے حاالت کا جائزہ لیا‬
‫مگر ہر طرف شانتی ھی تھی ۔‬
‫میں نے شکر ادا کیا اور بستر پر لیٹ گیا کچھ دیر فرحت کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرتا ھوا نہ جانے کب سوگیا۔‬
‫صبح امی نے مجھے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا۔‬
‫میرا اٹھنے کو دل ھی نھی کر رھا تھا‬
‫مگر مجبوری تھی‬
‫اٹھا نہا دھو کر تیار ہو کر ناشتہ کیا اور‬
‫سیدھا فوزیہ کے گھر پہنچا‬
‫تو دیکھا فوزیہ گھر میں اکیلی ھی تھی‬
‫میں نے عظمی اور نسرین کا پوچھا تو فوزیہ بولی عظمی کو گئے تو ایک گھنٹہ ہوگیا ھے۔‬
‫اور نسرین کی طبعیت سہی نھی تھی اس لیے وہ نھی گئی۔‬
‫میں نے حیران ہوکر فوزیہ سے پوچھا‬
‫کہ عظمی اتنی جلدی کیوں گئی ھے اور آپ نے اسے اکیلی کو بھیج دیا۔‬
‫فوزیہ بولی ۔‬
‫وہ کہہ رھی تھی کہ اسکے پیپر کی کچھ تیاری رہتی تھی‬
‫تو اس کی سہیلی نے کچھ گیس دینے تھے اسے اور وہ اس لیے جلدی چلی گئی تھی شاید اس نے سکول میں تیاری کرنی ہو‬
‫۔‬
‫مجھے دال میں کچھ کاال لگا اور غصہ بھی آیا عظمی پر ۔‬
‫میں نے کہا پھر بھی آپکو اسے اکیلی کو نھی بھیجنا چاہیے تھا‬

‫)‪.Update no (66‬‬
‫فوزیہ بولی‬
‫اس کے باپ نے سر پر چڑھا رکھا ھے‬
‫میں کچھ کہتی ہوں تو ۔‬
‫تمہارا چاچا مجھے بولنے لگ جاتا ۔‬
‫اپنی مرضیاں کرتی ھے ۔‬
‫میں نے کہا بھی تھا کہ خالہ کے گھر چلی جاو اور یاسر کو ساتھ لیتی جاو‬
‫مگر اس لڑکی پر جلدی جانے کا بھوت سوار تھا جیسے اس کی گاڑی نکل جانی تھی ۔‬
‫میں نے نسرین کا پوچھا اس کی طبیعت کو کیا ہوا تو فوزیہ کچھ چھپانے کے انداز میں بولی‬
‫کچھ نھی بس ہلکا سا بخار ھوا ھے دو تین دن میں اتر جاے گا۔‬
‫میں نے ہممم کہا اور ذیادہ تفصیل نھی پوچھی اور‬
‫فوزیہ کو سالم کر کے گھر سے نکل آیا ۔‬
‫پہلے تو میں سیدھا دکان کی پر جانے لگا‬
‫پھر مجھے خیال آیا کہ صدف شاید ابھی گھر پر ھی ھو اسے ساتھ لیتا جاتا ہوں‬
‫اور راستے میں اس سے معافی بھی مانگ لوں گا‬
‫کیوں کہ وہ ابھی تک مجھ سے ناراض تھی ۔‬
‫میں سیدھا صدف کے گھر پہنچا تو گھر میں داخل ہوتے ھی سامنے دیکھا تو صدف برقعہ پہنے برآمدے میں ٹہل رہی تھی ۔‬
‫مجھے دیکھ کر میرے پیچھے دیکھنے لگ گئی اور مجھے اکیال دیکھ کر عظمی اور نسرین کا پوچھا کہ وہ نھیں آئی ۔‬
‫تو میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بوال‬
‫کہ وہ گلی کی نکر پر کھڑی ہیں ۔‬
‫صدف حیرانگی سے میری طرف دیکھ کر میرا جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرتے ہوے بولی ادھر کھڑی کیا کررھی ہیں دو‬
‫قدم آگے نھی آسکتی نواب زادیاں‬
‫میں نے کہا‬
‫انکی کوئی سہیلی مل گئی تھی تو اس کے ساتھ باتیں کرنے کھڑی ہوگءیں‬
‫اور مجھے کہا کہ تم باجی کو لے آو۔‬
‫صدف کندھے اچکا کر‬
‫اپنا ہینڈ بیگ پکڑ کر ااپنی امی کو بتا کر باہر نکل آئی اور میرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گلی کی نکڑ پر آگئی‪.‬‬
‫اور چاروں طرف دیکھتے ھوے بولی کدھر ہیں دونوں۔۔‬
‫میں نے کہا چلو تو بتاتا ہوں تو صدف میری طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوے بولی‬
‫یاسر کدھر ہیں وہ جھوٹ کیوں بوال تم نے ۔‬
‫میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا‪ ،‬اور اسے چلنے کہا کہ بتاتا ھوں یار چلو تو سہی ۔‬
‫صدف نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا‬
‫اور گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫شرم نام کی کوئی چیز ھے تم میں ۔‬
‫اب تمہاری اتنی جرات ہوگئی کے سرعام میرا ہاتھ پکڑ لو ۔‬
‫میں نے کہا صدف چلو تو سہی ایسے کوئی دیکھ لے گا ہمیں بحث کرتے ہوے تو کیا سوچے گا۔‬
‫صدف قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھ کر میرے آگے تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی ۔‬
‫جیسے مجھ سے پہلے اس نے شہر پہنچ کر کپ جیت لینا ھے ۔‬
‫تیز چلنے کی وجہ سے صدف کی گانڈ برقعے کو پھاڑنے کی کوشش کرتے ھوے اوپر نیچے ہورھی تھی‬
‫میں نے بھی اپنی کچھ سپیڈ بڑھائی‬
‫اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کھیتوں میں داخل ہوگیا ۔‬
‫آگے چل کر مکئی شروع ھوگئی تھی اور مکئی کے درمیان جو پگڈنڈی تھی اس پر ہم برابر میں نھی چل سکتے تھے تو‬
‫مجبورًا مجھے اس کے پیچھے ہونا پڑا‬
‫میں بڑے غور سے اسکی مٹکتی ہوئی گانڈ کو دیکھ رھا تھا جسکو چند روز پہلے میں نے بےدردی سے پھاڑا تھا۔‬
‫صدف خاموشی سے تیز تیز چل رھی تھی ۔‬
‫کچھ دور جاکر میں تھوڑا تیز ہوا اور صدف کا ہاتھ پکڑ لیا صدف ایکدم رک گئی اور مڑ کر میری طرف دیکھ کر بولی کیا‬
‫بتمیزی ھے‬
‫ہاتھ چھوڑو میرا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار بات تو سن لو۔‬
‫صدف بولی خبردار مجھے اب یار کہہ کر مخاطب کیا ۔‬
‫میرے ساتھ کوئی رشتہ بڑھانے کی کوشش مت کرو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫صدف بس ایک دفعہ میری بات تو سن لو ۔‬
‫پھر چاھے تم مجھے اپنی شکل بھی مت دیکھانا۔‬
‫بلکہ میں بھی تمہارے سامنے کبھی نھی آوں گا‬
‫صدف بولی پہلے میرا ہاتھ چھوڑو میں نے ہاتھ چھوڑا‬
‫تو صدف پھر چلتے ھوے بولی‬
‫مجھے تم سے کوئی بات نھی کرنی ۔‬
‫میں پھر دوڑ کر اسکو کراس کر کے اس سے آگے نکال اور اسکی طرف منہ کر کے اسکا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا اور‬
‫اسکو بازوں سے پکڑ کر بوال صدف کیا میں اتنا ھی برا ھوگیا ھوں کہ تم میرے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کررھی ھو۔‬
‫میری غلطی کیا ھے بس یہ بتا دو۔‬
‫صدف اپنے بازو مجھ سے ُچھڑواتے ہوے بولی۔‬
‫تمہیں نھی پتہ کہ تم نے کونسی گھٹیا حرکت کی ھے ۔‬
‫اب مجھے صفائیاں دینے چلے ھو۔‬
‫راستہ چھوڑو میرا ۔‬
‫تمہیں ایک بار کہی بات سمجھ میں نھی آرھی کہ میں تم سے کوئی بات نھی کرنا چاھتی نہ کوئی رشتہ رکھنا چاھتی ہوں ۔‬
‫میں نے صدف کی ٹھوڑی کو پکڑا اور کہا اتنا غرور آگیا ھے تم میں ۔‬
‫صدف نے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور میرے منہ پر پورے ذور سے تھپڑ مار دیا‬
‫اور بولی‬
‫تمہیں پیار کی زبان سمجھ میں نھی آرھی کیا۔‬
‫پھر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آے ھو۔‬
‫مجھے ذرہ سی بھی امید نھی تھی کے صدف اتنی جرات کر سکتی ھے کہ مجھ پر ہاتھ اٹھا لے ۔‬
‫میں اپنی گال پر ہاتھ رکھے‬
‫آنکھیں پھاڑے اسکے منہ کو دیکھنے لگ گیا۔‬
‫صدف میرے دائیں طرف سے نکل کر مجھے حیران پریشان گال پر ہاتھ رکھے کھڑے کو چھوڑ کر انجان بن کر ایسے چلی‬
‫گئی جیسے مجھے جانتی ھی نہ ھو اور اس نے مجھے تھپڑ بھی نہ مارا ھو۔۔۔۔۔‬
‫مجھے جب ہوش آیا‬
‫تو میں نے مڑ کر دیکھا تو صدف کافی دور جاچکی تھی ۔‬
‫مجھے سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں کیا کروں‬
‫میں ابھی تک ادھر ھی کھڑا اسے جاتا ھوا دیکھ رھا تھا ۔‬
‫اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ مجھ پر کیا بیت رھی ھے ۔‬
‫صدف کا اور میرا فاصلہ کافی بڑھ گیا تھا ۔‬
‫میں آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ھوا اس کے پیچھے جانے لگا ۔‬
‫مگر وہ تو میری نظروں سے بھی اوجھل ہو چکی تھی ۔‬
‫میں بوجھل قدموں سے اپنی بےعزتی کا بوجھ لیے چال جارھا تھا‬
‫میرے دماغ نے سوچنا بند کردیا تھا‬
‫بلکل گم سم ھوگیا تھا میں ۔‬
‫میں چلتا ھوا مکئی سے باہر نکل کر ُپل کے پاس پہنچ گیا‬
‫صدف مجھے اب بھی نظر نہ آئی ۔‬
‫میں جب ُپل کے اوپر پہنچا تو مجھے کافی دور صدف جاتی ہوئی نظر آئی وہ اب بھی اسی سپیڈ سے چلی جارھی تھی ۔‬
‫میں ادھر پل پر ھی بیٹھ گیا ۔‬
‫اور اسکو جاتا ھوا دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫میرا آگے جانے کو دل ھی نھی کررھا تھا میرے قدم ادھر ھی رک گئے تھے‬
‫صدف اب مجھے نظر آنا بھی بند ہوگئی تھی ۔‬
‫میں تقریبًا ایک گھنٹہ نہر کے ُپل پر ھی بیٹھا رھا ۔‬
‫میری آنکھوں سے خود ھی آنسو نکل نکل کر اب خشک ہو چکے تھے ۔‬
‫میں نے حوصلہ کیا اور‬
‫نہر کے پانی سے منہ پر چھینٹے مارے ۔‬
‫اور اپنی قمیض سے ہی منہ صاف کیا اور‬
‫پھر شہر کی طرف چل دیا‬
‫دکان پر پہنچا تو انکل سجاد اور دونوں لڑکے بھی آچکے تھے بلکہ ایک کسٹمر بھی بیٹھا ہوا تھا ۔‬
‫میں افسردہ سا دکان میں داخل ھوا اور انکل کو سالم کیا تو انکل میرے منہ کی طرف دیکھتے ھوے بولے ۔‬
‫یاسر بیٹا کیا ھوا خیریت تو ھے اتنی لیٹ آے ھو اور منہ کیوں لٹکایا ھوا ھے‬
‫سب خیریت تو ھے طبعیت تو سہی ھے ۔‬
‫انکل نے ایک ھی سانس میں مجھے کتنے سارے سوال کردئے۔‬
‫میں نے صرف اتنا ھی کہا‬
‫کچھ نھی انکل جی بس سر میں درد ھے۔‬
‫انکل بولے بیٹا چھٹی کرلینی تھی ۔‬
‫دوائی وغیرہ لی کہ نھی ۔‬
‫میں نے کہا انکل جی ایسی بھی کوئی خاص بات نھی کہ دوائی لوں ۔‬
‫بس ہلکی سی درد ھے کچھ دیر بعد سہی ھو جاوں گا۔‬
‫انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کے لیے چاے کا کہو‬
‫اور انکل نے دراز کھوال‬
‫اور دو گولیاں‬
‫شیر مارکہ پیراسٹامول نکال کر مجھے دی کہ یہ کھا لو ابھی سہی ہو جاو گے ۔‬
‫میں نے چاروناچار گولیاں پکڑی اور کولر سے پانی کا گالس بھرا اور گولیاں منہ میں ڈال کر پانی سے نگھل گیا۔‬
‫اور پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھ کر باہر آتے جاتے کسٹمر کو دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مگر میرا دماغ صدف پر اٹکا ھوا تھا‬
‫کہ اس نے‬
‫۔‬
‫مجھے تھپڑ مارا مجھےُ ۔۔‬
‫اسکی اتنی جرات‬
‫بس قیاس آرائیاں شروع تھی دماغ کی‬
‫کہ یہ کروں گا اسکے ساتھ اسے قتل کر دوں گا اسے بدنام کروں گا‬
‫پتہ نھی کیا کیا سوچ رھا تھا کہ‬
‫اچانک میری آنکھوں کے سامنے‬
‫آنکھوں کے سامنے سے گاڑی گزری اور اس میں سے ایک چہرے نے میری طرف دیکھا اور جلدی گبھرا کر دوسری‬
‫طرف منہ کر لیا۔‬
‫میں ایک دم چونکا اور گاڑی کی طرف دیکھنے لگ گیا جو رش کی وجہ سے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رھی تھی ۔‬
‫میں نے جیسے ھی گاڑی اور ڈرائیور کو دیکھا تو ہکا بکا رھ گیا‬
‫کہ یہ تو اس اسد کی گاڑی ھے اور اس نے مجھے دیکھ کر بھی منہ دوسری طرف کیوں کیا اور وہ اچانک گبھرایا کیوں‬
‫ایک ساتھ میرے دماغ میں کئی سوال اٹھے۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں مذید کچھ سوچتا یا کھڑا ھوکر گاڑی کی طرف جاتا‬
‫اسد نے تیزی سے گاڑی کو رش میں سے نکال کر کچھ آگے ایک اور بازار کی طرف گاڑی کو موڑ دیا اور کار سپیڈ سے‬
‫دوڑا کر لے گیا ۔‬
‫یہ ہوا بھی اتنا اچانک تھا کہ نہ تو میں یہ دیکھ سکا کہ اسد کے ساتھ کون تھا اور نہ ھی میں کار کے اندر جھانک سکا‬
‫میں تو اپنے خیالوں میں گم سم سا بیٹھا ھوا تھا۔‬
‫ابھی میں اسد کی بے رخی کے بارے میں ھی سوچ رھا تھا کہ اچانک میرے دماغ میں جھماکہ ھوا ۔‬
‫کہ کہیں عظمی ۔۔۔۔۔۔‬
‫تو دل میں خیال آیا کہ‬
‫ھاں اسد کے ساتھ یقینًا عظمی ھی ھوگی‬
‫اسکا گھر سے اکیلے جلدی آنا‬
‫پیپر کی تیاری کا بہانہ کرنا۔‬
‫اور سکول ٹائم سے پہلے سکول جانا‬
‫اسی طرف اشارہ کررھا تھا کہ ہو نہ ہو یہ عظمی ھی اسد کے ساتھ تھی۔‬
‫پھر دماغ نے میرے دل کے خیال کو جھٹالتے ھوے کہا۔‬
‫اگر عظمی تھی تو وہ تمہاری دکان کے سامنے سے کیوں گزرتی اور اسد نے بھی اسے لے کر تمہاری ھی دکان کے سامنے‬
‫سے گزرنا تھا‬
‫پاگل ہو کیا‬
‫کچھ ہوش کے ناخن لو۔‬
‫پھر دل کے خیال نے دماغ پر چڑھائی شروع کردی کی ۔‬
‫تمہاری دکان کا نہ تو عظمی کو پتہ ہے کہ کس جگہ دکان ھے اور نہ ھی اسد نے تمہاری دکان دیکھی ھے ۔‬
‫آخر کار دماغ کو یہ بات ماننا پڑی کہ اسد کے ساتھ عظمی ھی تھی اسی لیے جب اسد نے مجھے دیکھا تو مجھے اچانک‬
‫سامنے دیکھ کر گبھرا گیا اور گاڑی کو بھگا کر لے گیا‬
‫ورنہ وہ ضرور رکتا اور تم سے ملے بغیر آگے نہ جاتا۔‬
‫میں اپنے آج کے منحوس دن کو ھی کوسنا شروع ھوگیا‬
‫کہ پتہ نھی آج کس منحوس کی شکل دیکھ لی ھی ۔‬
‫ساال دن ھی پریشانیوں سے شروع ھو رھا ھے۔‬
‫ساال اج دا دن ای ماڑا اے ۔‬
‫ایک ساتھ دو دو پریشانیوں سے میرا دماغ پھٹنے واال کردیا تھا۔‬
‫میں سر کو پکڑ کر ادھر بینچ پر ھی بیٹھ گیا۔‬
‫اور کچھ سوچ کر کھڑا ھوا اور انکل سے کہا کہ میں تھوڑی دیر تک آیا‬
‫اور عظمی کے سکول کی طرف چل دیا۔۔۔‬
‫)‪.Update no ,(67‬‬
‫******************************‬
‫دوستو اب آپ‬
‫عظمی اور اسد کے بیچ میں ہوا مکالمہ پڑہیں گے جسکا علم مجھے بعد میں ہوا تھا۔ پہلے بتانے کا مقصد کہ آپ سب ریڈرز‬
‫کو حقیقت معلوم ہو جاے‬
‫یہ مکالمہ آج سے تین دن پہلے سے شروع ھوتا ھے۔۔۔۔۔۔۔‬
‫*******************************‬
‫عظمی نسرین کے ساتھ سکول والی گلی میں بوائز سکول سےتھوڑا پیچھے بوائز سکول کی دیوار کے ساتھ کھڑی ۔اسد کی‬
‫کار کو دیکھ کر چونک کر کار کی طرف متوجہ ہوئی اور نسرین سے نظریں بچا کر نظروں سے اسد کو تالش کرنے لگی‬
‫اسد بھی شاید اس کے انتظار میں کار میں بیٹھا بیک مرر سے انکو دیکھ رھا تھا اور جیسے ھی اسد کی نظر ان دونوں پر‬
‫پڑی تو وہ جلدی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکال۔‬
‫بلیو جینز پر اورنج ہاف بازو ٹی شرٹ پہنے بلیک سن گالسس لگاے ۔‬
‫کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوکر سڑک کی دوسری طرف آتی ہوئی عظمی کی طرف دیکھنے لگ گیا۔‬
‫عظمی نے جب اسد کو اور اس کی شاندار ڈریسنگ کو دیکھا تو اسد سے نظریں ہٹانا اس کے لیے مشکل ہوگیا‬
‫مشکل ھوتا بھی کیسے نہ۔‬
‫جس شہزادے کو وہ سپنوں میں دیکھتی تھی‬
‫جیسا آئیڈیل وہ سوچتی تھی‬
‫کہ اونچا لمبا جوان کلین شیو گورا چٹا شہزادہ ہو اور اس کے پاس بڑی سی کار ہو جس میں اسے بڑی شان سے اپنے ساتھ‬
‫فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر دور بڑی بڑی سڑکوں پر گھمانے لے جاے‬
‫اور شاندار ہوٹل میں اپنے سامنے بیٹھا کر کھانا کھالے‬
‫اور مہنگے سے مہنگے ڈریس اسے گفٹ کرے جس کو پہن کر جب بھی باہر نکلے تو پنڈ کی سب لڑکیاں اسکو حسرت کی‬
‫نگاہ سے دیکھیں ۔‬
‫اور آج اس کے سپنوں کا شہزادہ اسکی راہ میں آنکھیں بیچھا کر کھڑا تھا ۔‬
‫عظمی اسد کو ٹکٹکی باندھے دیکھے چلی آرھی تھی۔‬
‫نسرین کی بھی نظر اسد پر جب پڑی تو اسد کو دیکھتے ھی اس نے عظمی کی جانب دیکھا جو ہر چیز سے بے خبر ھوکر‬
‫اسد کو ھی دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫نسرین سے جب برداشت نہ ھوا تو اس نے عظمی کو کہنی ماری اور عظمی چونک کر اسکی طرف دیکھ کر بولی‬
‫کی تکلیف اے۔‬
‫نسرین بولی‬
‫اپنے ڈیلے تے بوتھی سدھی کر کے ُٹر‬
‫تو عظمی گبھرا کر بولی‬
‫کی مطبل اے تیرا‪،‬‬
‫نسرین ۔‬
‫َٹ‬ ‫َٹ‬
‫میں ویکھ رئی آں جتھے آنے ڈ ڈ ویکھن دئیں اے۔‬
‫تو عظمی بولی‬
‫سدھی طراں بکواس کر کی کیناں چانی ایں۔‬
‫نسرین بولی ۔‬
‫او باندر جیا جیڑا کھڑا اے اودے ول ای دیکھن دئی ایں ناں۔‬
‫عظمی انجان بن کر بولی ۔‬
‫کیڑا باندرررررد‪،،،،‬‬
‫نسرین نے اسد کی طرف اشارہ کیا‬
‫اوہ جیڑا َپ د ُک ٹنی جئی پا کے کھڑا اے۔‬
‫اتنی دیر میں دونوں اسد کے کچھ فاصلے پر پہنچ گئی تو اسد جلدی سے سڑک کراس کر کے ان کہ سر پر پہنچ گیا۔‬
‫اور ان دونوں کو سالم کرتے ہوے ۔بوال معاف کرنا جی آج آپ اکیلی آرھی ہیں‬
‫یاسر نھی آیا آپ کے ساتھ۔‬
‫دونوں اسد کے یوں سامنے آجانے پر رک گئیں‬
‫جبکہ نسرین گبھرا گئی ۔‬
‫عظمی نقاب میں اپنی آنکھوں سے تیر چالتے ھوے آنکھوں کو مٹکا کر بڑی ادا سے بولی‬
‫آپ کو نھی پتہ یاسر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور ساتھ ھی عظمی یاسر کے موٹرسائیکل سے گرنے اور ہسپتال تک کا سارا‬
‫واقعہ تفصیل سے سنانے لگی ۔‬
‫جبکہ نسرین اسکو گھور رھی تھی اور بار بار اسکا ھاتھ کھینچ کر اسے چلنے کا کہہ رھی تھی ۔‬
‫اسد حیران پریشان ہونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے بوال‬
‫کمال ھے کسی نے مجھے بتایا ھی نھی اتنے دن ہوگئے ہیں یاسر کا ایکسیڈنٹ ھوے اور مجھے خبر ھی نھی ۔‬
‫تو نسرین جان ُچ ھڑواتے ہوے سڑیل انداز میں بولی ۔‬
‫ویرے تینوں ہن تے پتہ لگ گیا اے ناں ہن جا کہ پتہ لے لویں ۔‬
‫چل عظمی سکولوں دیر ُہندی پئی اے۔۔۔‬
‫تو اسد پھر انکا راستہ روکتے ہوے بوال معاف کرنا جی‬
‫اگر کہیں تو جب تک یاسر سہی نھی ہوتا میں آپ کو چھوڑ آیا کروں سکول ۔‬
‫تو نسرین غصے سے بولی۔‬
‫وے پراوا تیری یاری یاسر نال اے تے اودے نال ای رکھ‬
‫تیری مہربانی اے سانوں سکول جان دے تے اج توں بعد ساڈا ایویں رستہ نہ روکیں ۔‬
‫عظمی ُتوں چلنا اے کے نئی ۔‬
‫نئی تے میں جاواں تے توں ایس شہری بابو نال گڈی وچ بے کے آجاویں ۔‬
‫اور نسرین آگے چل پڑی‬
‫اسد نے جلدی سے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ جو وہ کب سے چھپا کر کھڑا تھا‬
‫عظمی کی ُمٹھی میں دے دیا۔‬
‫عظمی اسد کی اس جھٹ پٹ حرکت سے گبھرا گئی اور جلدی سے نسرین کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے آگے جارھی تھی‬
‫اس نے شکر ادا کیا کہ نسرین نے نھی دیکھا ورنہ پتہ نھی کیا ھوجاتا ۔‬
‫اسد عظمی کے ہاتھ میں خط پکڑا کر بنا کچھ کہے سڑک کراس کر کے کار کے پاس پہنچ گیا‬
‫اور عظمی ہونکی بنی کبھی نسرین کو دیکھتی کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑے خط کو اور کبھی اسد کی طرف جو کار میں بھی‬
‫بیٹھ چکا تھا‬
‫۔‬
‫اتنے میں اسکے کانوں میں پھر نسرین کی آواز آئی‬
‫ہن ُٹ ر وی پے کے موچ پے گئی پیراں وچ ۔‬
‫تو عظمی ہڑبڑا کر مٹھی کو چادر میں چھپاتے ھوے‬
‫تیز تیز قدم بڑھاتے ھوے نسرین کے پاس پہنچ گئی‬
‫تو نسرین جلی ُبھنی بولی‬
‫کی کیندا سی او ُک ھسرا جیا۔‬
‫تو عظمی بولی تمیز سے بات کرو‬
‫شرم نھی آتی کسی کے بارے میں یوں بکواس کرتے ھوے۔‬
‫تو نسرین بولی تینوں بڑا ہیجال آندا اے اوس ُک ھسرے دے منہ والے دا‪،،‬‬
‫تو عظمی اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ھوے بولی ۔‬
‫میں نے کیوں اسکی سائڈ لینی ھے‬
‫میں تو اس لیے کہہ رھی تھی‬
‫یاسر کا دوست ھے‬
‫تو وہ کیا سوچے گا کہ یاسر کی کزنیں کتنی بتمیز ہیں ۔‬
‫تو نسرین بولی‬
‫یار ھوے گا تے یاسر دا ہوے گا‬
‫ساڈا مامے دا ُپتر نئی جیڑا سڑکاں دے َک ھڑ کے اودے نال گالں کرئیے۔‬
‫مینوں تے اے اونج ای ذہر لگدا اے‬
‫ُمچھ کٹا اوتوں َپ د ُک ٹنی جئی پا پھردا اے پتہ نئی ایدے وچ لتاں کیویں واڑ دا ہوے گا۔‬
‫عظمی نسرین کی سادگی پر ہنستی ہوئی بولی ۔‬
‫کملی بہن یہ پینٹ شرٹ شہر کے لوگوں کا لباس ھے‬
‫دیکھا نھی کتنا خوبصورت لگ رھا تھا‪،‬‬
‫نسرین غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫توں اک واری کار تے چل امی نوں دساں گی ناں تے فیر تیریاں پینٹاں شرٹاں تے سوہنا سونکھا امی کڈے گی ۔‬
‫تو عظمی گبھراتے ھوے اپنے جزبات پر قابو پا کر بولی۔‬
‫مممممیں لعنت بھیجتی ہوں مجھے کیا لگے ان شہری لوگوں سے جو مرضی پہنیں‬
‫میں تو ویسے ھی کہہ رھی تھی‬
‫اور تم ہر بات کو الٹ لیتی ھو۔‬
‫نسرین بولی‬
‫میں سب جاننی آں بچی نئی آں‬
‫اتنے میں سکول کا گیٹ آگیا اور دونوں خاموش ھوگئیں اور سکول میں داخل ھوگئیں ۔‬
‫سکول میں داخل ھوتے ھی عظمی نے مٹھی میں پکڑا خط جلدی سے اپنے گلے میں ہاتھ ڈال کر بریزیر میں چھپے مموں میں‬
‫رکھ دیا اور کالس روم کی طرف چل دی ۔‬
‫کالس میں بھی عظمی کو بےچینی نے گھیرے رکھا۔‬
‫اور سکول کے جتنا وقت بھی گزرا اسکا تجسس بڑھتا رھا کہ پتہ نئی خط میں کیا لکھا ھوگا‬
‫عظمی کا بس نھی چل رھا تھا۔‬
‫کہ ابھی گھر چلی جاے اور جاکر اپنے سپنوں کے شہزادے کے ہاتھ سے لکھا ہوا پہال محبت نامہ پڑھ لے۔‬
‫جیسے تیسے‬
‫سکول کی چھٹی کا وقت ہوا اور‬
‫چھٹی کی گھنٹی کی آواز عظمی کے کانوں میں پڑی تو عظمی کے چہرے پر سارے جہاں کی خوشی اور گھر پہنچنے کی‬
‫بےچینی آگئی ۔‬
‫سکول سے نکل اسد کے سکول کے آگے سے گزرتے ھوے بھی عظمی کی نظریں اسد کو ڈھونڈتی رہیں مگر وہاں نہ تو‬
‫اسد تھا اور نک ھی اسد کی گاڑی‬
‫عظمی مایوس ہوکر جلدی جلدی سے گھر پہنچی‬
‫اور‬
‫جاتے ھی بیگ کمرے میں رکھا اور واش روم کی طرف بھاگی ۔‬
‫اور واش روم میں داخل ہوتے ھی جلدی سے اپنے بریزیر میں ہاتھ ڈاال اور‬
‫پہال محبت نامہ نکال کر‬
‫اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ‬
‫تحریر کو پڑھنے لگی ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جان سے پیاری عظمی‬
‫پیار کا پہال خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے‬
‫نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے۔‬
‫۔میرے پیاری عظمی جان میری آنکھوں میں بسے سپنے بہت!‬
‫سوچا کہ تمہیں بتاؤں یا نہیں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔‬
‫ان حاالت میں یہ بتانا مشکل ہے اس اظہار کے لیے راستہ ڈھونڈنا بہت مشکل تھا ۔‬
‫سوچا اپنی محبت کا اظہار خط کے ذریعے کر دوں ۔‬
‫مجھے اس بات کا خوف قطعًا نہیں کہ میرے خط کو تحریری ثبوت کے طور پہ کوئی پکڑ لے گا۔‬
‫یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں پھر میں اتنا نڈر تو ہوں کہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کے کر سکوں ۔‬
‫تم سوچتی ہو گی کہ مجھے خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کسی اور طرح سے بھی کہی جا سکتی تھی ۔‬
‫لیکن مجھے فینٹسی میں رہنا اچھا لگتا ہے تو سوچا خط لکھوں مجھے پتہ ہی نہیں چال کہ کب تم میری روح میں آ بسی تمہیں‬
‫عجیب لگے گا کہ میں اور روح کی بات تو سچا ئی یہی ہے تمہاری محبت نے مجھے بتایا کہ واقعی دنیا میں ایسے جذبے‬
‫بھی ہیں جنہیں ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا۔‬
‫دو جمع دو کر کے بتایا نہیں جا سکتا تو یہی میرے ساتھ ہوا۔‬
‫تم میری سوچ میں آ بسی ہو ۔‬
‫جانتی ہو کہ وہ لوگ جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کی کوئی ادا‪ ،‬انداز‪ ،‬مسکراہٹ ‪،‬سوچنے ‪،‬محسوس کرنے یا بولنے کا‬
‫انداز کب ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے ہمیں گمان بھی نہیں ہوتا اور جس لمحے میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں اس وقت‬
‫تک وہ‬
‫روح تک سما چکا ہوتا ہے ۔‬
‫اور ایک مطمئن مسکراہٹ کے سوا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا کہ محبوب روح میں اتر چکا ہے ہر سانس میں سما چکا‬
‫ہے۔‬
‫تب قربت اور ساتھ بے معنی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ہے تم سوچتی‬
‫ہو گی کہ یہ ولیوں کی باتیں ہیں مجھ جیسے مادیت پسند لڑکے کے منہ سے اچھی نہیں لگتی لیکن ایسا ہی ہوا ۔‬
‫تم میری روح میری ذات کا اتنا مکمل حصہ ہو جیسے سانس لینے کا عمل۔‬
‫کہ نہ لیا تو حرکت ختم زندگی ناپید۔‬
‫نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا ۔شائید جاننا چاہوں بھی نہیں ۔‬
‫جب جذبوں کا پوسٹمارٹم ہو جاتا ہے وہ کھل کے سمجھ آ جائیں تو ان کی کشش اور چارم اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ دریافت‬
‫میں یہی مسئلہ ہے کہ یہ اسرار کی گرہیں کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز بہت واضح ہو اس میں‬
‫دلچسپی نہیں لیتا خواہ وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔‬
‫تم جانتی ہو کہ مجھے ادراک ہے کہ تم اور میں دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔بغاوت اور روایت کی دنیا‪ ،‬حقیقت اور تخیل‬
‫کی دنیا‪ ،‬بے فکری اور احساس ذمہ داری کی دنیا۔‬
‫کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ کیا ضروری تھا کہ مجھے تم سے ہی محبت ہوتی۔ جہاں ہجر کا طویل صحرا ہے اور دور‬
‫تک نخلستان کا نام و نشان نہیں‪ .‬میرے شاطر ذہن کو تمھارے ساده دل سے ہی شکست ہونا تھی۔ تو وصل و قربت کا کوئی تو‬
‫امکان ہوتا کہ عقل دھوکے میں رہتی‪.‬لیکن نہیں وه محبت ہی کیا جو حقائق جانچے پرکھے اصول بنائے فرار کے راستے‬
‫کھوجے مقصود کو حاصل کرنے کی جستجو میں دیوانہ وار کوشش کرے یہ تو ایسا جذبہ ہے جو جینے کی امنگ دیتا‬
‫ہے ‪.‬محبوب سے بات ہو نه ہو دل اسی سے محو کالم رہتاہے‪.‬اس کا خیال کٹھن ترین وقت کو بھی سہل کر دیتا ہے ۔‬
‫جہاں حسن ہے‪ ،‬خوشی ہے ‪،‬سکون ہے‪،‬میرا جسم تمہاری قربت کا خواہاں ہے ‪.‬ایک دھن ایک ردھم ہے جو ہر سو طاری‬
‫ہے جس میں سر مستی و بے خودی ہے سودو زیاں کا خیال نہ کوئی خوف بس محبت‪ ،‬محبت اور محبت۔ میں جانتا ہوں تمہیں‬
‫میری باتیں عجیب لگی ہوں گی ۔جھوٹ کا گمان گزرے گا ایسا ہونا بھی چاہیے ۔میں اپنی سچائی ثابت کرنے کی کوشش ہر گز‬
‫نہیں کروں گا کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ کیا یہ میرے ہی الفاظ ہیں؟‬
‫یا مجھ میں کوئی اور بول رہا ہے ؟‬
‫تمہارے جسم کی خوشبوں آج بھی مجھے اپنے آپ سے آتی‬
‫تمہارے نازک اعضاء کو جو میرے ہاتھوں نے چھوا تھا‬
‫تمہارے اس نرم نازک ابھار کا لمس آج بھی مجھے اپنے ہاتھوں میں محسوس ہوتا ھے‬
‫ساری دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈال کر تمہیں اپنانا چاہتا ہوں‬
‫مجھ سے تنہائی میں ایک مالقات تمہیں میرے پیار کا ثبوت دے گی ۔۔‬
‫خیر چھوڑو جو بھی ہے ۔مجھے تو بس تمہیں بتانا ہے۔یہ میرا تمہارے نام پہال محبت نامہ ھے‬
‫مجھے نھی پتہ کہ میں کیسا لکھ رھا ھوں کیا لکھ رھا ہوں‬
‫میں کل تمہارے خط کا انتظار کروں گا‬
‫اسی جگہ‬
‫اگر نسرین کا خوف ھو‬
‫تو میرے خط کا جواب میرے پاس سے گزرتے ھوے نیچے پھینک دینا میں اٹھا لوں گا ۔‬
‫تمہاری ایک مالقات اور قربت کا منتظر‬
‫تمہارا خادم‬
‫اسد‬
‫عظمی خط کو پڑھ کو پھولے نھی سمارھی تھی‬
‫عظمی نے دو تین دفعہ خط کو پڑھا اور خط کو لپیٹ کر پھر اپنے بریزیر میں رکھ کر واش روم سے باہر آگئی‬
‫کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر گھر کے کام کاج میں مصروف رھی‬
‫اور پھر ٹیوشن کے لیے چلی گئی‬
‫وہ سارا وقت خط کا جواب لکھنے کے بارے میں سوچتی رھی کے کیا لکھے اسے کچھ سمجھ نھی آرھا تھا کہ کیا لکھے‬
‫اسے اسد کی طرح الفاظ کا چناو نھی کرنا آتا تھا اور جتنے مشکل الفاظ اسد نے خط میں لکھے تھے انکو سمجھنے کہ لیے‬
‫بھی اس کو خط بار بار پڑھنا پڑا تھا۔‬
‫اور وہ یہ سوچتی رھی کہ شہری لوگوں کا محبت کا اظہار کرنے کا طریقہ بھی کیا نراال ھے اور محبت کے اظہار میں کہاں‬
‫کہاں سے الفاظ ڈھونڈ کر التے ہیں‬
‫اور ہم جیسے پینڈو تو بس سواے بونگیاں مارنے کے اور کچھ کر بھی نھی سکتے۔‬
‫خیر‬
‫ٹیوشن سے آکر‬
‫رات کو موقع پاکر عظمی نے اپنے رجسٹر سے ایک ورق پھاڑ کر‬
‫اسپر‬
‫اپنے پہلے محبت نامے کا جواب لکھنا شروع کیا۔‬
‫جان سے پارے اسد‬
‫آپکا خط پڑھا‬
‫دل کو بہت سکون مال‬
‫اسد جی میں نے بھی جب سے آپکو دیکھا ھے‬
‫آپ کے ھی بارے میں سوچتی رھتی تھی‬
‫مگر آپ سے بات کرنے آپ سے ملنے کا موقع میسر نہ ہوا‬
‫جس کی وجہ میرے ساتھ میری سڑیل بہن اور میرا سڑیل کزن تھا۔‬
‫اس دن آپ نے باغ میں مجھے جب چھوا تھا‬
‫تو آپ کے ہاتھوں کے لمس نے رات بھر مجھے بے چین رکھا‬
‫میرا خود دل کررھا تھا کہ ابھی اڑ کر آپ کی بانہوں میں چلی جاوں اور آپ مجھے اپنی بانہوں بھر کر سینے سے لگا لیں‬
‫اور یوں ھی رات بیت جاے‬
‫آپ سے ملنے کو میرا بھی بہت دل کرتا ھے مگر آپ کے سامنے میری مجبوری بھی ھے‬
‫آپ دعا کریں کہ کبھی ایسا موقع آجاے کہ میں اکیلی سکول آوں اور پھر ہم دونوں جہاں مرضی مل سکیں‬
‫اس وقت کا آپ بھی انتظار کریں اور میں بھی‬
‫اور ایک بات کہنی تھی ناراض مت ہونا۔‬
‫نسرین اور یاسر کے سامنے مجھ سے بات مت کیا کریں انکو شک ھوجاے گا‬
‫اور خاص کر میرا وہ کزن یاسر بہت سڑیل ھے اور مجھے تو وہ ذہر لگتا ھے‬
‫خود کو پتہ نھی کیا سمجھتا ھے ۔‬
‫میں بھی پتہ نھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اچھا اب اجازت چاھتی ہوں‬
‫جب موقع مال آپ کو بتا دوں گی‬
‫آپکی صرف آپکی خادمہ‬
‫عظمی ۔‬
‫)‪.Update no (68‬‬
‫عظمی نے جیسے تیسے خط مکمل کیا اور اسکو طے کر کے اپنے بریزیر میں رکھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے لگی‬
‫سوچتے ھوے اسے پتہ نھی چال کہ رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگ گئی اور صبح نسرین کے اٹھانے پر وہ اٹھی‬
‫اور سکول کی تیاری میں مصروف ھوگئی‬
‫جلدی جلدی ناشتہ کیا اور سکول کہ لیے نکلنے لگی تو‬
‫عظمی کی امی نے کہا۔‬
‫کہ پتر‬
‫تمہارا بھائی ٹھیک ھوگیا ھے اس سے پوچھتی جانا شاید آج وہ بھی دکان پر جاے تو اسکے ساتھ چلی جانا۔‬
‫تو عظمی منہ بنا کر بولی‬
‫امی ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے‬
‫اسکو جانا ہوتا تو ابھی تک اجانا تھا۔‬
‫اور امی کا جواب سنے بغیر دونوں باہر نکل گئیں‬
‫سکول والی گلی میں پہنچ کر عظمی جان بوجھ کر‬
‫دوسری طرف چلنے لگی جس طرف کل اسد کہ کار کھڑی تھی‬
‫اسد کے سکول کے قریب پہنچ کر عظمی کو اسد کھڑا نظر آگیا۔‬
‫آج بھی اسد بہت پیارا لگ رھا تھا۔‬
‫نسرین اسد کو دیکھتے ھی دوسری طرف جانے لگی تو عظمی بولی‬
‫اسطرف ھی چال اگر آج اس نے روکا تو میں تمہارے سامنے اسکی بےعزتی کروں گی ۔‬
‫نسرین حیرانگی عظمی کا منہ تکنے لگی تو بےیقینی سے بولی خیر ھے ایک دن میں ھی اتنی تبدیلی‬
‫تو عظمی بولی میں نے رات بھر تمہاری بات پر غور کیا کہ تم سہی کہتی تھی‬
‫یار ھو گا تو یاسر کا ھوگا ہمیں اس سے کیا لینا۔‬
‫اتنی دیر میں دونوں چلتی اسد کے قریب پہنچی‬
‫عظمی نے بڑی چالکی سے خط پہلے ھی مموں سے نکال کر ھاتھ میں پکڑ لیا تھا‬
‫اور اسد کے پاس سے انجان بن کر گزرتے ھوے اس نے بڑی فنکاری سے اپناپہال محبت نامہ محبوب کے قدموں میں پھینک‬
‫دیا اور نسرین کو پتہ بھی نھی چلنے دیا‬
‫اور دونوں سکول کی طرف بڑھ گئیں ۔‬
‫اسد نے جلدی سے خط اٹھایا اور جلدی سے کار میں بیٹھ کر بے چینی سے جلدی جلدی سے خط کو کھولنے لگا ۔اور جیسے‬
‫جیسے اسد خط پڑھتا جاتا‬
‫اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آتی جاتی اور‬
‫آخری الفاظ پڑھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا اور بڑبڑاتے ھوے بوال‬
‫ھا ھا ھا‬
‫تمہاری صرف تمہاری‬
‫۔ھھھھھھھھھب‬
‫عظمی‬
‫ھھھھھھھب‬
‫اور خط کو مرؤڑ کر ڈسٹ بین میں پھینک کر‬
‫کار کو سٹارٹ کیا اور تیزی سے گاڑی کو گھما کر گرلز کالج کی طرف چال گیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی کالس میں بیٹھی اپنے محبوب کے بارے میں رھی تھی کہ اسد کتنا خوش ھوا ھوگا میرا خط پڑھ کر‬
‫کیسے اس نے بار بار چوما ھوگا میرے خط کو‬
‫کتنی بار پڑھا ھوگا خط کو‬
‫کیسے رات کو بھی خط کو سینے سے لگا کر سوے گا ۔۔‬
‫‪.‬۔سکول سے چھٹی ہوئی تو عظمی نسرین کو لے کر سکول سے نکلی اور بوائز سکول کے سامنے سے گزرتے ہوے‬
‫اسکی نظر پھر اسد کو ڈھونڈتی رہی‬
‫مگر اسد اسے نظر نہ آیا‬
‫راستے میں نسرین بار بار اپنی کمر پر ہاتھ رکھتی اور مشکل سے چل رہی تھی ۔‬
‫عظمی نے نسرین کی حالت دیکھ کر اسے پوچھا کہ کیا ہوا ھے طبعیت تو سہی ھے ۔‬
‫تو نسرین نے بتایا کہ میری کمر میں پتہ نھی کیوں درد ہورھی ھے ۔‬
‫تو عظمی بولی کوئی بھاری چیز تو نھی اٹھائی تو‬
‫نسرین بولی نھی میں نے کونسی بھاری چیز اٹھانی ھے ۔‬
‫تو عظمی بولی گھر چل کر بام لگا کر ٹکور کر لینا ۔‬
‫نسرین بولی ۔‬
‫مجھے تو لگتا ھے جیسے ماہواری کے ہونے والی ھی بس آج کل میں ھی اسی لیے میرا یہ حال ہو رھا ھے ۔‬
‫عظمی بولی ہوسکتا ھے ایسا ھی ھو۔‬
‫میرے سے دس دن بعد ھی تمہاری تاریخ آتی ھے‬
‫اور مجھے تو نہاے ھوے بھی تین دن ہوگئے ہیں اس حساب سے تو تم دو دن لیٹ ھو۔‬
‫نسرین بولی‬
‫ہر مہینے ھی ایسا ھوتا ھے کبھی دو دن پہلے خون آنا شروع ھو جاتا ھے تو کبھی بعد میں ۔‬
‫کل پیپر بھی ھے اور دعا کرو مذید ایک دن گزر جاے ورنہ مجھے کل سکول سے چھٹی کرنی پڑ جاے گی ۔‬
‫یہ سنتے ھی عظمی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی‬
‫کہ عنقریب‬
‫وصل یار کا موقع میسر ہونے واال ھی ھے ۔‬
‫نسرین کی حالت کو بھول کر اسکی اپنی پھدی میں خارش شروع ھوگئی ۔‬
‫اس کو ساتھ یہ بھی پریشانی الحق تھی کہ اگر کل نسر ین نہ آئی اور یاسر کل ساتھ آگیا تو کیسے اسد کے ساتھ مالقات ہوگی‬
‫انہیں سوچوں میں ُگ م وہ گھر پہنچ گئیں ۔‬
‫باقی کا دن بھی کچھ ٹیوشن میں گزر گیا کچھ گھر کے کام کاج میں‬
‫رات کو عظمی نے نسرین سے پوچھا کے کیسی طبعیت ھے بلیڈنگ شروع ھوئی کہ نھی ۔‬
‫نسرین نے بتایا کہ ابھی تک تو نھی‬
‫صبح ھی پتہ چلے گا ۔‬
‫دعا کرو نہ ھی ہو نھی تو کل کا پیپر ضائع ہو جانا ھے ۔‬
‫عظمی بولی تم پریشان نہ ھو جو ھوگا بہتر ھی ھوگا ۔‬
‫رات جیسے تیسے گزری۔‬
‫صبح بھی نسرین کو بلیڈنگ نہ ہوئی اور دونوں سکول کی تیاری کرنے لگ گئی ۔‬
‫تیار ہوکر ابھی ناشتہ ھی کررھی تھیں ۔‬
‫کہ یاسر آگیا‬
‫یاسر کو دیکھ کر عظمی پریشان ہوگئی کہ اب کیا ھوگا‬
‫میں تو آج بڑی پالننگ کئے ھوے تھی مگر نہ نسرین نے چھٹی کی اور اوپر سے یہ یاسر بھی آن ٹپکا۔‬
‫یاسر نے امی کے ساتھ‬
‫سالم دعا لی حال احوال بتانے کے بعد‬
‫تینوں گھر سے نکل پڑے‬
‫صدف کو ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے راستے میں بھی کچھ خاص بات نہ ہوئی ۔‬
‫صدف اپنی اکیڈمی کی طرف چلی گئی اور یاسر کے ساتھ دونوں‬
‫سکول والی گلی میں داخل ہوگئی ۔‬
‫عظمی کا دل دھک دھک کررھا تھا‬
‫کہ کہیں اسد پھر نہ راستے میں کھڑا ھو ۔‬
‫اگر یاسر نے اسے یوں کھڑے دیکھ لیا تو اسکو شک ہوجانا ھے‬
‫اور اگر یاسر نے نسرین سے پوچھ لیا تو نسرین نے تو سب کچھ بتا دینا ھے ۔‬
‫انہی سوچوں میں وہ سکول کی طرف چلی آرھی تھی اور دل میں دعائیں مانگ رھی تھی کہ اسد کا سامنا نہ ھی ھو۔‬
‫آخر کار تینوں بوائز سکول کے قریب پہنچے تو عظمی نے سکھ کا سانس لیا‬
‫کیونکہ اسکو اسد نظر نھی آیا‬
‫یاسر انکو سکول کے گیٹ پر چھوڑ کر دکان پر چال گیا ۔‬
‫عظمی اور نسرین کا پیپر دس بجے شروع ھونا تھا‬
‫مگر ابھی آٹھ بجے تھے دو گھنٹے وہ دونوں کالس میں بیٹھی پیپر کی مذید تیاری میں مصروف تھی۔‬
‫کہ نسرین پھر ھوے ھوے کرنے لگ گئی ۔‬
‫عظمی نے نسرین کو تکلیف میں دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا پھر درد شروع ہوگئی ھے ۔‬
‫تو نسرین بولی‬
‫عظمی مجھ سے تو بیٹھا بھی نھی جارھا‬
‫اور نیچے بھی گیال گیال محسوس ھورھا‬
‫یہ نہ ھو کہ ادھر ھی بلیڈنگ شروع ھوجاے ۔‬
‫عظمی بولی تم نے انڈرویر پہنا ھے کہ نھی ۔‬
‫تو نسرین بولی ۔‬
‫ہاں میں نے تو رات کو ھی پہن لیا تھا‬
‫کہ کہیں کپڑے نہ خراب ہوجائیں ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫کچھ نھی ہوتا برداشت کرو‬
‫نسرین بھی درد کو برداشت کررھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ پیپر کی تیاری بھی کررھی تھی ۔‬
‫عظمی پالننگ کرنے لگ گئی کہ کل تو پکا نسرین نھی آے گی اور رھا یاسر کا مسئلہ تو یاسر سے پہلے اگر میں امی سے‬
‫بہانہ لگا کر آجاوں تو یاسر کو بھی پتہ نھی چلے گا ۔‬
‫اور میں اسد سے تین گھنٹوں کی مالقات بھی کرسکوں گی‬
‫کیوں کہ پیپر تو دس بجے شروع ہونا ھے‬
‫اور اگر میں گھر سے سات بجے بھی نکلوں تو اسد سے مالقات کر کے پیپر شروع ھونے تک سکول پہنچ سکتی ہوں ۔‬
‫اور پھر سوچنے لگ گئی کہ اسد کو کیسے بتاوں گی کہ کل ہم نے ملنا ھے ۔‬
‫یہ سوچ کر عظمی نے جلدی بیگ سے کاپی نکالی اور ایک ورق پھاڑ کر اس پر‬
‫اسد کو کل کی مالقات اور وقت کے بارے میں لکھ کر کاغذ کو طے کر کے اپنے ممے میں رکھ لیا ۔‬
‫پیپر دینے کے بعد‬
‫دونوں سکول سے نکلیں تو نسرین سے چلنا دشوار ہو رھا تھا ۔‬
‫جیسے ھی وہ اسد کے سکول کی پاس پہنچیں تو اسد پھر انکے سر پر آٹپکا اور‬
‫نسرین کو سالم کیا اور عظمی کو آنکھوں سے سالم کرنے کے بعد نسرین کو مخاطب کر کے بوال ۔‬
‫آپی اگر آپ کہیں تو آپکو گاوں تک ڈراپ کردوں‬
‫میں بھی ادھر ھی جارھا ھوں ۔‬
‫نسرین بولی‬
‫نھی بھائی ہم چلی جائیں گی ۔‬
‫اسد نے پھر کہا مگر نسرین نے سختی سے جب منع کیا تو‬
‫اسد خاموش ہوگیا‬
‫اور نسرین آگے بڑھ گئی عظمی اسی تاک میں تھی کہ نسرین اس سے کچھ آگے ھو‬
‫تو وہ رقعہ اسد کو پکڑا دے یا اسے دیکھا کر نیچے پھینک دے ۔‬
‫جیسے ھی نسرین تین چار قدم آگے بڑھی تو‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنے ممے سے رقعہ نکاال اور‬
‫اسد کو دیکھاتے ھوے اپنے پیروں میں پھینک کر جلدی سے نسرین کے پیچھے چل پڑی‬
‫اور کچھ دیر بعد‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫اسد نے رقعہ نیچے سے اٹھا لیا تھا‬
‫اور اسکو اپنی طرف دیکھ کر باے باے کا اشارا کیا۔‬
‫نسرین اور عظمی گھر پر پہنچی تو‬
‫نسرین کا انڈرویر راستے میں ھی خراب ہونا شروع ھوگیا تھا‬
‫اور گھر تک پہنچتے اسکی شلوار پر بھی خون کا دھبہ لگ گیا تھا۔‬
‫نسرین جلدی سے واش روم میں گھس گئی اور شلوار اتار کر پھدی کو دیکھنے لگ گئی جس سے ہلکا ہلکا خون رس رھا‬
‫تھا‬
‫نسرین نے ایک کپڑا لیا اور اسکو طے لگا کر پھدی پر رکھا اور پھر دوسرا انڈرویر پہن دوسرے کپڑے پہن لیے اور آکر‬
‫کمرے میں لیٹ گئی ۔‬
‫عظمی کے خوشی کے مارے پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد عظمی واش روم میں داخل ہوئی اور سارے کپڑے اتار کر پھدی کو دیکھنے لگ گئی پھدی پر کافی بال آچکے‬
‫تھے‬
‫عظمی نے واش روم پڑی پیالی میں بال صفا کے پاوڈر کو ڈاال اور تھوڑا سا پانی ڈال کر اسکو مکس کر کے ہاتھ سے پھدی‬
‫پر لیپ کرنے لگ گئی اچھی طرح پھدی کے بالوں پر لیپ لگا کر‬
‫اسکے سوکھنے کا انتظار کرنے لگ گئی ۔‬
‫دس منٹ بعد عظمی نے پھدی پر پانی ڈاال‬
‫تو نیچے سے چمکتی ہوئی اسکی صاف چٹی پھدی نکل آئی عظمی ہاتھ سے رگڑ رگڑ کر پھدی کو اچھی طرح دھو رھی‬
‫تھی ۔‬
‫پھدی کو دھونے کے دوران جب عظمی کی انگلیاں پھدی کے دانے کو مسلتیں تو عظمی کے جسم میں مزے کی لہر دوڑ‬
‫جاتی ۔‬
‫اور عظمی آنکھیں بند کرکے مزے کی اس لہر کا انجواے کرتی ۔‬
‫کچھ دیر بعد عظمی نے پھدی اور ٹانگوں کو اچھی طرح دھویا اور‬
‫تاول سے ٹانگوں کو اور پھدی والے حصے کو اچھی طرح صاف کیا‬
‫اور کپڑے پہن کر باہر آئی‬
‫تو اسکی امی بولی‬
‫سوگئی تھی کیا واش روم اتنی دیر لگا دی ۔‬
‫عظمی بولی امی نہا رھی تھی‬
‫گرمی بہت لگ رھی تھی ۔آپ بھی نہ ہر وقت نوکا ٹوکی کرتی رہتی ھو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی کمرے میں چلی گئی‬
‫اور اسکی امی اس کے تلخ لہجے پر اسکا منہ ھی تکتی رہ گئی‬
‫اگلے دن عظمی چھ بجے ھی اٹھ کر تیار سکول کے لیے تیار ہونے لگ گئی‬
‫تو اس کی امی نے پوچھا خیر ہے اتنی جلدی سکول جانے کی تیاری کر رھی ھو‬
‫یاسر کو تو آنے دو‬
‫تو عظمی تلخی سے بولی‬
‫مجھے جاکر پیپر کی تیاری کرنی ھے میری دوست نے مجھے پیپر کے گیس دینے ہیں ۔‬
‫اب میں اس نواب ذادے کے انتظار میں بیٹھی رہوں ۔‬
‫تو عظمی کی ماں بولی‬
‫پتر تم اکیلی کیسے جاو گی ۔‬
‫تو عظمی جھوٹ بولتے ھوے بولی‬
‫کہ میں باجی صدف کے ساتھ جاوں گی‬
‫کوئی نھی مجھے کھانے لگا‬
‫آپ بھی بس وہ پرانے زمانے کا ذہن لے کر سوچتی ھو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی ناشتہ کئے بغیر اپنا بیگ اٹھا کر‬
‫سات بجے سے ھی پہلے سکول کے لیے نکل گئی۔‬
‫اور اس کی امی اپنی بیٹی کا منہ تکتی رھ گئی ۔‬

‫عظمی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی شہر کی طرف جارھی تھی‬
‫آج اسے گاوں سے شہر تک کا سفر بھی پہاڑ لگ رھا تھا‬
‫راستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نھی لے رھا تھا۔‬
‫جب عظمی پل کراس کر کے کچھ ہی آگے گئی تھی کہ اسے اسد کی کار اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئی ۔‬
‫کار کو دیکھ کر عظمی کا دل ذور ذور سے دھڑکنے لگا ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد کار عظمی کے قریب آکر رکی ۔‬
‫تو عظمی نے دھڑکتے ہوے دل کہ ساتھ‬
‫کار میں بیٹھے اپنے محبوب کو دیکھا اور شرما کر نظریں جھکا لیں‬
‫اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارا کیا‬
‫عظمی نے پہلے ادھر ادھر‬
‫دیکھا کہ کوئی گاوں کا جاننے واال تو نھی آ جا رھا‬
‫اور تسلی کر کے جلدی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور دروازہ بند کردیا ۔‬
‫اسد نے بازوں آگے کیا اور ہاتھ عظمی کے پٹوں کے ساتھ رگڑتے ہوے دوبارا کار کا دروازہ کھول کر زور سے بند کیا‬
‫اور عظمی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوے کار واپس موڑنے لگا‬
‫عظمی کا دل گھبرا بھی رھا تھا‬
‫اور اندر سے خوشی کے لڈو بھی پھوٹ رھے تھے ۔‬
‫پہلی دفعہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر وہ خود کو رئیس زادی محسوس کر رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر دونوں خاموش رھے ۔‬
‫تو اسد نے کہا کہاں چلیں ۔‬
‫تو عظمی مشرقی لڑکی بنتے ھوے‬
‫بولی‬
‫بس مجھے سکول ڈراپ کر دیں ۔‬
‫تو اسد مسکرا کر بوال‬
‫سکول میں تو ابھی گیٹ مین بھی نھی آیا ھوگا‬
‫تو عظمی سر نیچے کیے ھوے اپنی انگلیاں چٹختے ھوے بولی‬
‫ججی وہ ہوسکتا ھے آگیا ھو۔‬
‫تو اسد بوال‬
‫کیا صرف سکول ڈراپ کرنے تک ھی یہ مالقات محدود ھے ۔‬
‫تو عظمی کی سمجھ میں کچھ نھی آرھا تھا کہ کیا کہے وہ بس شرماے جارھی تھی ۔‬
‫اسد نے پھر کہا‬
‫بتائیں کدھر جانا پسند کریں گی کسی ہوٹل میں یا پھر میں اپنی مرضی سے لے جاوں ۔‬
‫عظمی آہستہ سے بولی ۔‬
‫جیسے آپ کی مرضی مجھے کیا پتہ کہ کونسی جگہ سہی ھے ۔‬
‫تو اسد مسکراتے ھوے سامنے دیکھنے لگ گیا‬
‫کچھ ھی دیر بعد اسد نے گاڑی ایک سنسان سڑک کی طرف موڑ دی‬
‫تو عظمی سامنے سامنے سنسان راستہ دیکھ کر کچھ گبھرا گئی‬
‫اور پریشانی سے اسد کی طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اور گبھراتے ھوے بولی‬
‫ادھر کدھر جارھے ہیں ۔‬
‫تو اسد قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال تمہیں اغواہ کرنے لگا ہوں ۔‬
‫)‪Update no( 69‬‬
‫عظمی اسد کی بات سن کر اندر سے گبھرا گئی مگر پھر بھی خود پر کنٹرول کرتے ھوے بولی‬
‫اسد سہی بتاو اسطرف کیوں جارھے ھو‬
‫تو اسد پھر ہنستے ھوے بوال‬
‫ڈر گئی نہ‬
‫ھھھھھھھھھھ‬
‫عظمی بولی نھی اسد اگر ڈرتی ہوتی تو تمہارے ساتھ آتی ھی نہ۔‬
‫اسد بوال‬
‫تو پھر گبھراو نہ‬
‫ہم ایسی جگہ جارھے ہیں جہاں صرف میں اور تم ہو گی‬
‫اور میں جی بھر کر اپنے سپنے کو پورا کرسکوں گا‬
‫عظمی بولی‬
‫کون سا سپنا ہے جناب کا‬
‫تو اسد مسکر کر بوال‬
‫لگ جاے گا پتہ‬
‫اتنی دیر میں اسد نے کار کو سڑک سے اتار کر ایک کچے راستے کی طرف موڑ دیا‬
‫اور کچھ آگے جا کر ایک پرانی سی حویلی نظر آنے لگ گئی‬
‫جیسے کسی زمیندار کا ڈیرا ہو۔‬
‫اسد نے کار حویلی کے گیٹ کے باہر روکی‬
‫اور ہارن بجایا تو‬
‫کچھ دیر بعد گیٹ کھال اور ایک اونچا لمبا جوان بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش ٹائپ کا آدمی نمودار ہوا‬
‫جس کو دیکھ کر عظمی کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ گبھرا کر اسد کو بولی‬
‫ییییہ کون ھے اسسد‬
‫اسد نے ہنستے ھوے کہا‬
‫تم کیوں ڈر گئی ھو‬
‫یہ یار ھے اپنا‬
‫عظمی نے دوبارا‬
‫اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ۔‬
‫جو سات فٹ لمبا چوڑھے کندھوں کا مالک انتہائی مکرو شکل کا تھا‬
‫اور وہ سگریٹ کا کش بھر کر‬
‫اسد کو اشارے سے کار اندر النے کو کہہ رھا تھا۔‬
‫عظمی نے جب غور سے اسکو دیکھا تو‬
‫وہ مزید ڈر گئی‬
‫اور اسد کو کہنے لگی۔‬
‫اسسسسد واپسسس چلو مجھے نھی اندر جانا‬
‫تو اسد عظمی کو ڈرے ھوے دیکھ کر اسے پچکارتے ھوے بوال۔‬
‫میری جان تم کیوں خامخواہ ڈر رھی ھو‬
‫یہ جگر ھے اپنا‬
‫تم میرے ساتھ ھو‬
‫پھر بھی ڈر رھی ھو ۔‬
‫تو عظمی کچھ سنبھلی مگر پھر بھی اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی اور‬
‫ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ھوگئے تھے‬
‫جسکو وہ اپنی چادر سے‬
‫صاف کررھی تھی‬
‫اتنی دیر میں اسد کار کو گیٹ کے اندر لے جاچکا تھا‬
‫اور اس آدمی نے گیٹ بند کردیا تھا‬
‫اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور باہر نکل آیا اور‬
‫عظمی کو بھی باہر آنے کا کہا۔‬
‫مگر عظمی کو ایک انجانے سے خوف نے گھیرا ھوا تھا۔‬
‫اسد نے جب عظمی کو سوچ میں پڑے دیکھا تو‬
‫جلدی سے کار کے اگے سے گھوم کر دوسری طرف آیا اور خود ھی کار کا دروازہ کھول کر عظمی کو پیار سے بازو سے‬
‫پکڑ کر باہر آنے کا کہا‬
‫عظمی پھر بولی اسد پلیز چلو یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رھا‬
‫تو اسد بوال یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا جو تم ایسے کررھی ھو میرا دوست کیا سوچے گا ۔‬
‫کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔‬
‫عظمی نے جب اسد کے منہ سے بھابھی کا لفظ سنا تو‬
‫عظمی کا سارا ڈرا خوف ایکدم سے جاتا رھا اور وہ اسی میں ھی خوش ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی بیوی بنانے کا‬
‫بھی سوچ لیا ھے اسی لیے اس کے دوست کی بھابھی ہوئی ۔‬
‫عظمی باہر نکلی اور اسد کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔‬
‫اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور‬
‫عظمی کی طرف اپنی سرخ بڑی بڑی سی آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد سے بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور اسد کا‬
‫حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫اس دوران بھی اس کی نظریں عظمی پر ھی جمی ھوئی تھیں‬
‫اور بڑی ہوس بھری نظروں سے عظمی کو سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا۔‬
‫عظمی اسکی نظروں کی تاب نہ التے ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی‬
‫مگر اب بھی اسے ایسے محسوس ھورھا تھا کہ‬
‫اس آدمی کی آنکھیں اسکی گانڈ میں ُچبھ رھی ہیں ۔‬
‫اسد سے گلے ملے ھوے وہ شخص ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا‬
‫اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے عظمی کو دوسری طرف منہ کیے کھڑے ھوے دیکھا‬
‫تو عظمی کو مخاطب کر کے بوال‬
‫عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری جموں ہے‬
‫اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ‬
‫مگر اپنا جگر ھے‬
‫اور اکری یہ میری ہونی والی بیگم اور تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔‬
‫اکری نے پھر عظمی کو سر سے پاوں تک دیکھا اور‬
‫بوال واہ یارا‬
‫کیا بھابھی ڈھونڈی ھے‬
‫ہیرا ھے ہیرا‬
‫خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی‬
‫اسد بوال‬
‫یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا ھے‬
‫یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے‬
‫تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں‬
‫پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے جانا ھے ۔‬
‫اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال‬
‫او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے‬
‫جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی مار‬
‫سکتی ۔‬
‫اور اکری پھر بڑے غور سے عظمی کے ابھاروں کو جو چادر میں بھی نظر آرھے تھے انکو دیکھتے ھوے بوال‬
‫چلیں بھابھی جی آپکو آپ دونوں کا کمرہ دیکھاوں ۔‬
‫عظمی اکری کی جب انکھوں کو دیکھتی تو اس کا جسم کانپ جاتا‬
‫مگر پھر وہ جب بھابھی شبد اس کے منہ سے سنتی تو اسے کچھ حوصلہ ہو جاتا ۔‬
‫اکری بڑی شان سے اسد اور عظمی کے آگے چلتا ھوا‬
‫حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف بڑھنے لگا‬
‫اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے سے دروازے کو کھول کر اندر داخل ھوا تو عظمی اندر داخل ھوتے ھی حیرانگی سے‬
‫اندر بڑے سے حال کو دیکھنے لگ گئی‬
‫باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ رھی تھی‬
‫اسے کہتے ہیں‬
‫ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہوتے ہین‬
‫اور کھانے کے اور ہوتے ہیں ۔‬
‫عظمی حیرانگی سے حال کو چاروں طرف دیکھے جارھی تھی‬
‫جس میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا اعالن کررھی تھی ۔‬
‫)‪Update no ,(70‬‬
‫حال کے اندر کافی سارے دروازے تھے‬
‫جو شاید کمروں کے تھے ۔‬
‫اکری نے جب عظمی کو حیران پریشان ھوتے دیکھا تو اپنی مونچھوں کو تاو دیتے ھوے بھاری بھرکم آواز میں بوال۔‬
‫کیوں پرجائی ساڈا غریب خانہ چنگا لگیا‬
‫تو عظمی صرف سر ہال کر رھ گئی‬
‫اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا جس کا دروازہ باقی کمروں کے دروازوں سے بڑا‬
‫تھا اور‬
‫دروازہ‪ .‬کھول کر کسی خادم کی طرح جھک کر ہاتھ سے عظمی کو اندر جانے کا اشارا کرتے ھوے بوال‬
‫یہ آپ دونوں کا کمرہ ھے‬
‫یہاں پر کسی قسم کی پریشانی مت لینا‬
‫بے خوف ھو کر جب تک چاہیں رہیں ۔‬
‫اور اسد کو مخاطب کرکے بوال‬
‫چن مکھنا کسے شے دی لوڑ ھوے تے دس دیویں‬
‫اور ہنستا ھوا‬
‫باھر چال گیا۔‬
‫عظمی نے جب کمرے کا جائزہ لیا تو اسے ایسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رھی ھے‬
‫کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور سامنے بڑی سی الماری جس میں فل سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا تھا‬
‫اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں‬
‫مہنگے سے مہنگا ڈیکوریشن پیس لگا ہوا تھا‬
‫بیڈ کے اوپر اے سی لگا ہوا تھا جو شاید پہلے سے چل رھا تھا جس کی وجہ سے کمرا کافی ٹھنڈا تھا۔‬
‫عظمی کو حیرانگی سے کمرے کی ایک ایک چیز دیکھتے ھوے‬
‫اسد آگے بڑھا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر قریب کرتے ھوے‬
‫ہاتھ اسکے منہ کی طرف لیجا کر عظمی کا نقاب ہٹا دیا‬
‫اور بوال اب تو چاند سے پردہ ہٹا دو کہ ہمیں بھی دیدار یار ھو جاے‬
‫اور ساتھ ھی اسکی چادر پکڑ کر اتاری اور بیڈ کے ایک طرف پھینک دی‬
‫اور عظمی کو بازوں سے پکڑ کر سینے کی طرف کھینچا‬
‫اس سے پہلے کہ اسد عظمی کو جپھی ڈالتا یا اس کے گول تنے ہوے مموں کو پکڑتا کہ اچانک ۔۔۔۔۔۔‬

‫)‪.Update no (71‬‬
‫عظمی اسد کو پیچھے کرتی ہوئی بولی‬
‫جناب پہلے دروازہ تو الک کرلیں ۔‬
‫اسد عظمی کو چھوڑ کر دروازہ بند کرنے کے لیے گیا تو باہر نکل گیا‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی اور اپنے اوپر اوڑھ کر بغلوں مین ہاتھ دے کر اسد کو باہر جاتا ھوا دیکھنے لگ گئی‬
‫اسے حیرانگی بھی ہوئی کہ یہ باہر کیوں چال گیا ھے‬
‫اور پھر بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ اتنے نرم بیڈ پر سیکس کرنے میں کتنا مزہ آے گا اور پھر اسکی نظر ایک کونے‬
‫میں پڑے شاندار ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس پر بڑے سائز کا شیشہ لگا ہوا تھا وہ بے اختیار ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی‬
‫اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گئی‬
‫کہ ایکدم اسکے ضمیر نے اسے جنھجوڑا‬
‫کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے جارھی ھے‬
‫کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے تاکہ‬
‫اسے پہلے جی پتہ چل جاے کہ تو کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے‬
‫پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا ہرگز ھی نھی‬
‫اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ جاے گی ۔‬
‫جیسے تو یاسر کی رکھیل ھے‬
‫یاسر تو شاید تم سے شادی بھی کرلے مگر اسد تجھے چودنے کے بعد تجھ پر تھوکے گا بھی نھی‬
‫آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر اس سے‬
‫شادی کے خواب دیکھ رھی ھے‬
‫کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے والی معمولی سی لڑکی‬
‫اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم سے‬
‫شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔‬
‫عظمی ابھی اپنے ضمیر کی جھاڑ سن ھی رھی تھی کہ اسے اچانک اپنے کندھوں پر ھاتھ محسوس ھوے تو اس نے جلدی‬
‫سے گھوم کر دیکھا تو اسد کھڑا مسکرا رھا تھا‬
‫دونوں ارنے قریب تھے کے دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ رھی تھیں اور عظمی کے ممے اسد کے سینے‬
‫کے ساتھ لگ رھے تھے عظمی ایکدم گبھرا کر پیچھے ھوئی تو ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ اسکی گانڈ لگ گئی‬
‫اسد اس کے اور قریب ھوا اور عظمی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال‬
‫جناب اپنے حسن کا جائزہ لے رھے تھے‬
‫کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا پروگرام ھے ۔ عظمی گبھرا کر اسد کو پیچھے کرتے ھوے پھر دروازے کے پاس‬
‫آگئی اور‬
‫بند دروازے‬
‫کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫جب اسد واپس اسکی طرف مڑا تو عظمی بولی یاسر کنڈی تو لگا دو‬
‫یاسر ہنس کر بوال‬
‫جان یہ آٹوالک ھے‬
‫انکی کنڈیاں نھی ہوتی‬
‫عظمی نے جب غور سے دیکھا تو واقعی دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی تھی ۔‬
‫عظمی شرمندہ سی ہوگئی‬
‫اپنے پینڈو پن پر ۔‬
‫اسد پھر عظمی کے پاس آکر کھڑا ھوگیا‬
‫اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی مجھ سے کیسی شرم‬
‫اور پھر عظمی کو ساتھ لگانے لگا تو عظمی بولی ۔‬
‫اس ایک منٹ رکو تو سہی‬
‫اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا‬
‫تو عظمی بولی ایک بات تو بتاو‬
‫اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں کرنے کا نھی ھے‬
‫باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی ھے‬
‫مگر عظمی اسد کو پیچھے کرتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گئی‬
‫اور اسد‬
‫عظمی کا منہ تکتا رھ گیا۔‬
‫اسد پھر بوال کیا ھے یار‬
‫ایسے کیوں کررھی ھو۔‬
‫عظمی بولی‬
‫اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے‬
‫تم تو ایسے کررھے ھو جیسے‬
‫میں کہیں بھاگی جارھی ہوں‬
‫ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔‬
‫اسد غصے پر قابو کرتا ھوا کندھے اچکا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫اور پھر مسکہ لگاتے ہوے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔‬
‫میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا‬
‫کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے ۔‬
‫ہم لیٹ نہ ہو جائیں ۔‬
‫عظمی دیوار پر لگے کالک کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے‬
‫بہت ٹائم پڑا ھے ۔‬
‫اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے جناب کی مرضی‬
‫پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر ھورھی ھے‬
‫پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔‬
‫عظمی مسکرا کر اسد کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫نھی کہتی جی۔‬
‫جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے‬
‫اب خوش‬
‫مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔‬
‫اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے‬
‫بولو کیا پوچھ رھی تھی‬
‫اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو‬
‫عظمی نیچے جھک کر سکول شوز اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔‬
‫اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور عظمی کو بھی اپنے قریب لیٹنے‬
‫کا کہا۔‬
‫عظمی چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو اتار دو۔‬
‫عظمی بولی اچھا اتارتی ھوں‬
‫اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔‬
‫اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر عظمی کے ساتھ ُجڑ کر‬
‫بیٹھ گیا۔‬
‫اور آہہہہ بھر کر بوال‬
‫جی بولو‬
‫عظمی اسکے طنزیہ انداز سے‬
‫جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو‬
‫کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے لیے بالیا تھا‬
‫کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق ھی رکھنا چاھتے ھو۔‬
‫اسد نے عظمی کو روہانسے انداز میں بولتے ھوے دیکھا‬
‫تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ھوے بوال‬
‫نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے‬
‫کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی ھے‬
‫میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا چاھتا ہوں‬
‫میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں گے وہ کریں گے‬
‫میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں گے ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫اسد‬
‫یہ آدمی کون ھے جس کے گھر ہم آے ہیں‬
‫مجھے تو یہ کوئی بدمعاش لگتا ھے‬
‫اسد بوال‬
‫لوجی ابھی تک تمہاری سوئی اس بیچارے شریف آدمی پر اٹکی ہوئی ھے‬
‫اگر تم یہاں نھی رکنا چاھتی تو چلو پھر جہاں تم کہو گی ادھر چلتے ہیں‬
‫عظمی بولی اسد وہ شریف آدمی تو نھی لگتا‬
‫وہ تو شکل سے ھی بدمعاز اور عیاش قسم کا انسان لگتا ھے ۔‬
‫اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫یار‬
‫وہ لوگوں کے لیے بدمعاش ھے‬
‫مگر اپنا جگری یار ھے ۔‬
‫عظمی بولی وہ ھی تو میں کہہ رھی ھوں کہ تم ایسے لوگوں سے دوستی کیوں رکھتے ھو۔‬
‫اسد بوال‬
‫چھوڑو یار کیسی فضول قسم کہ باتوں میں وقت برباد کررھی ھو‬
‫آو کوئی پیار کی باتیں کرتے ہیں‬
‫۔یہ کہتے ھو اسد نے عظمی کی گردن میں بازو ڈال کر اس کی گال پر ہاتھ رکھتے ھوے ۔‬
‫عظمی کا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا اور عظمی کے ہونٹوں کو چومنے لگا تو‬
‫عظمی نے جلدی سے اہنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا‬
‫اور اسد کے ہونٹ عظمی کے ہاتھ کو چومتے ھوے واپس پلٹے اور‬
‫اسد نے غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫یار یہ کیا حرکت ھے‬
‫کیا میں اس الئک بھی نھی کہ‬
‫تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں ۔‬
‫تو عظمی بولی‬
‫نھی یاسر ابھی نھی ۔‬
‫جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح بھی تمہارے قبضے میں ھوگی‬
‫مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔‬
‫اسد حیران ہوتے ھوے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا وقت‬
‫ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا۔‬
‫عظمی نے اسد کے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو‬
‫تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے‬
‫عظمی بولی شک نھی مگر تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں‬
‫اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے کہا‬
‫ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے پیار کرتا ھوں ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫مجھ سے شادی کرو گے نہ‬

‫)‪.Update no (72‬‬
‫اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے ھوے کہا۔‬
‫ماں قسم کروں گا۔‬
‫عظمی بولی‬
‫کب‬
‫اسد بوال‬
‫جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫تو ایسا نھی ھوسکتا۔‬
‫کہ ہم جسمانی تعلق‬
‫سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔‬
‫یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزرگئی‬
‫مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور‬
‫پھر عظمی کو اپنی طرف کھینچتے ھوے بوال‬
‫شادی سے پہلے بھی میں نے ھی کرنا ھے‬
‫اور شادی کے بعد بھی میں نے ھی کرنا ھے‬
‫تو پہلے اور بعد میں کیا فرق‬
‫عظمی بولی فرق ھے نہ‬
‫میرا دل کہتا ھے کہ ہم جو بھی کریں گے سہاگ رات کو ھی کریں گے اس سے پہلے کچھ نھی کریں گے ۔‬
‫اگر تم مجھ سے سچا پیار کرتے ھو اور شادی کرنا چاھتے ھو تو تمہیں میری بات ماننا پڑے گی ۔‬
‫اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا ھوں‬
‫مگر میری بھی ایک شرط ھے‬
‫عظمی خوش ھوکر بولی‬
‫میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں ۔‬
‫اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے‬
‫مگر آج موقع ھے‬
‫مجھے پیار تو کرنے دو۔‬
‫کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا لہجہ روہانسہ ہوگیا‬
‫جیسے ابھی رونے لگا ھو۔‬
‫عظمی نے جلدی سے اسد کے گالوں پر ھاتھ رکھ اور اپنے گالبی ہونٹ اسد کے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے لگ گئی‬
‫اندھا کیا چاہے‬
‫دو آنکھیں‬
‫اسد نے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ عظمی اتنی جلدی مان جاے گی ۔‬
‫اور خود ھی فرنچ کس میں پہل کرے گی‬
‫اسد بھی عظمی کے ہونٹ چومنے لگ گیا۔‬
‫اور ساتھ ساتھ عظمی کی چادر بھی اتارنے لگ گیا۔‬
‫اسد عظمی کا اوپر واال ہونٹ چوس رھا تھا اور عظمی اسد کا نیچے واال ہونٹ چوس رھی تھی ۔‬
‫اسد سے ذیادہ عظمی اپنا تجربہ استعمال کر رھی تھی اور بڑی مہارت سے اسد کے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اسکی زبان‬
‫کو اپنی زبان سے پکڑنے کی کوشش کرتی عظمی کو اپنی مہارت دیکھانا مہنگی پڑی‬
‫اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی سمجھ رھا تھا‬
‫وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔‬
‫ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر رھا ھوگا ۔‬
‫تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے‪ .‬۔‬
‫اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور ساتھ ساتھ سوچوں میں گم‬
‫عظمی کے بڑے بڑے مموں کو ایک ھاتھ سے باری باری پکڑ کر دبا رھا تھا۔‬
‫عظمی نے دونوں ھاتھوں سے اسد کر سر پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے اپنے یار کے ہونٹ چوس رھی تھی‬
‫کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے ھو ے عظمی کو بھی ساتھ لیٹانے لگا‬
‫عظمی بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رھے تھے‬
‫اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے لیے بے چین تھا اور عظمی کی پھدی کے ساتھ لگ رھا تھا عظمی بھی مزے میں‬
‫ڈوب چکی تھی اور کچھ دیر پہلے کی سوچ اس کے دماغ سے نکل چکی تھی‬
‫اسکا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا اعالن کررکھا تھا‬
‫اسد نے آہستہ اہستہ عظمی کو سیدھا لیٹا دیا اور اسکی قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر اس کے نازک اور نرم پیٹ پر پھیرنے‬
‫لگ گیا‬
‫عظمی کے سرور میں اور اضافہ ہوگیا‬
‫اور عظمی اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے پر ُت ل گئی اسد نے جب عظمی کا جنون دیکھا کہ یہ اب فل گرم ھوگئی ھے تو‬
‫اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا شروع کردیا‬
‫اور آخر کار اسد کا ہاتھ عظمی کے مموں تک پہنچ گیا‬
‫اور اسکا ہاتھ‬
‫آپے سے باہر آے ھوے مموں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گیا‬
‫عظمی اسد کے ہاتھ کے لمس سے مزید بے چین ھوکر اپنی پھدی کو اسکے پینٹ کے ابھار پر رگڑنے لگی‬
‫اسد کو بھی علم ھوگیا کہ‪ .‬لوہا اب مکمل گرم ھو چکا ھے‬
‫تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے لیجا کر اپنے پنٹ کی زپ کھولی اور‬
‫انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ سے باہر نکال لیا‬
‫اور پھر ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے مموں کو دبانے لگا‬
‫عظمی اپنی مستی میں گم تھی‬
‫اسے پتہ ھی نھی چال کہ‬
‫نیچے کیا واردات ھونے والی ھی‬
‫اسد نے لن عظمی کی شلوار کے اوپر سے ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا‬
‫عظمی نے لن کو اہنے چڈوں میں بھینچ لیا اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی‬
‫اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ نیچے لیجا کر عظمی السٹک والی شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر رکھ دیا پھدی‬
‫تو پہلے نکو نک بھری ہوئی تھی جیسے ھی اسد کی انگلیاں عظمی کی مالئم پھدی سے ٹکرائیں‬
‫عظمی کے منہ سےلمبی سسکاری نکلی‬
‫اور سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی گھوم کر اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے اپنے بازوں میں جکڑ کر کس لیا اور ساتھ ھی‬
‫چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو جکڑ لیا اور پھدی سے ساون کی جھڑی شروع ھوگئی جو جمعرات سے شروع ھو کر اگلی‬
‫جمعرات کو ھی ختم ھوتی ھے‬
‫اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور عظمی کی سانسیں اکھڑنے لگی‬
‫اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں بھی تھم گئی‬
‫اور عظمی کا جسم ڈھیال پڑ گیا‬
‫تو اسد نے جلدی سے گیلی پھدی سے ھاتھ ہٹایا اور عظمی کی شلوار سے ھی ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے اپنے ساتھ‬
‫چمٹی ھوئی عظمی کی گانڈ سے شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے نیچے کی‬
‫اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے لگا‬
‫جیسے ھی عظمی کی پھدی کے ساتھ اسد کا لن ٹچ ہوا‬
‫تو عظمی کو ایکدم ہوش آگیا اور وہ ا سد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے سینے پر‬
‫رکھتے ھوے اسے زور سے دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور‬
‫اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کرنے لگے تھے‬
‫عظمی کے اچانک دھکے سے‬
‫اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا‬
‫اور غصے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے عظمی کو گھورنے لگ گیا ۔‬
‫اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے‬
‫عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے تھے‬
‫تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا کر وعدہ کیا تھا‬
‫کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں گے‬
‫مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اسد ۔ غصے سے بوال‬
‫یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ اتنی پارسا بن رھی ھو۔‬
‫عظمی اسد کی پارسا والی بات سن کر حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫اسد کیا مطلب ھے تمہارا‬
‫تو اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب صاف ھے کہ‬
‫تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ کروانے لگی ھو۔‬
‫عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا‬
‫اور وہ جلدی سے اٹھی کر بیٹھ گئی اور غصے سے بولی‬
‫کیا بکواس کر رھے ھو اسد‬
‫تو اسد ہنستے ھوے بولے بکواس نھی سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے کر رھی تھی‬
‫کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔‬
‫عظمی اسد کی بات اور طعنہ سن کر رونے والی ھوگئی‬
‫اور روتے ھوے بولی‬
‫اسد بکواس بند کرو‬
‫میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر پیار کیا کر‬
‫لیا‬
‫تو تم‬
‫میری محبت میرے پیار میرے اعتماد‬
‫کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے‬
‫ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔‬
‫میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں آگئی‬
‫اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی آئی‬
‫خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی شکل بھی دیکھائی‬
‫جھوٹے مکار‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی نے اپنی چادر اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔‬
‫تو‬
‫اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال‬
‫جا کدھر رھی ھو جان من‬
‫میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل نھی رہو گی‬
‫اور‬
‫ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو مگر جاو گی میری مرضی سے‬
‫چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو‬
‫مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا‬
‫کہ عظمی نے ایک ذور دار تھپڑ اسد کے منہ پر مارا‬
‫اور روتے ھوے بولی‬
‫جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام زادے‬
‫میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا سب ڈرامہ کیا تھا‬
‫میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک کر دیکھاو ۔‬
‫دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے‬
‫عظمی یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا‬
‫اس نے‬
‫عظمی کو بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا‬
‫اور خود عظمی کے پیٹ پر سوار ھوگیا اور عظمی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے عظمی ٹانگیں چال رھی تھی اور اونچی آواز‬
‫میں اسد کو گالیاں دے کر ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی‬
‫اسد نے جیسے تیسے عظمی کے دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک ھاتھ میں کیں‬
‫اور ایک ذور دار تھپڑ عظمی کے منہ پر مارتے ھوے بوال‬
‫ُچپ کر گشتئے‬
‫تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی‬
‫آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے‬
‫آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے‬
‫تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی بیڈ پر چودتا ھوں‬
‫اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا‬
‫پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب برابر ھوگا ۔‬
‫ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں دو لن جائیں گے‬
‫اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ‬
‫اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے‬
‫تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی‬
‫عظمی اسد کا تھپڑ کھانے اور اسکی دھمکیاں سننے کے بعد سہم گئی اور انکھیں پھاڑے اسد کو دیکھی جارھی تھی‬
‫اسد کے خاموش ہوتے ھی‬
‫عظمی بولی‬
‫چھوڑ مجھے کتے‬
‫میں یاسر کو بتاوں گی‬
‫اور اپنے ابو کو بھی‬
‫تو اسد غصے سے بوال‬
‫جا دس دے جنوں دسنا ای‬
‫لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی‬
‫عظمی اب خود کو بے بس محسوس کرنے لگ گئی تھی‬
‫ایک تو انجان جگہ دوسرا وہ اکیلی جان‬
‫اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا لیا تو میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔‬
‫عظمی نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات کا اثر نھی ھورھا تو‬
‫عظمی نے روتے ھوے اسد کی منتیں شروع کردیں اور‬
‫بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ مجھے جانے دو‬
‫تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا بیتے گی‬
‫میری عزت نہ خراب کرو‬
‫میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں گے‬
‫اسد نے اسکی بات سنی ان سنی کی اور پیچھے ھو کر عظمی کی ٹانگوں کے پاس پہنچ کر اسکی شلوار پکڑ کر نیچے کھینچ‬
‫دی ۔عظمی نے ایک ذور دار چیخ ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ آگے کی اور پورے زور سے اپنی ٹانگ اسد کے لن پر ماری ۔‬
‫اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا‬
‫اور ایک ذور دار چیخ مارے‬
‫ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی باہر کا‬
‫دروازہ دھڑم دے کھال اور۔۔۔‬
‫عظمی نے جیسے ھی دروازے کی طرف دیکھا۔‬
‫عظمی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رک گیا ۔‬
‫اکری دروازے کے دونوں اطراف بازو رکھ کر آنکھیں پھاڑے کبھی عظمی کی طرف دیکھتا تو کبھی لن پر ہاتھ رکھے فرش‬
‫پر تڑپتے ہوے اسد کی طرف دیکھتا ۔‬
‫اور پھر اکری کی کرخت دار آواز کمرے میں گونجی ۔‬
‫او پرجائی اے کی کیتا ای ۔‬
‫اسد رندھی آواز میں بوال۔‬
‫اکری پکڑ اس گشتی کو بھاگنے نہ پاے ۔‬
‫عظمی بیڈ سے نیچے اتری اور باہر بھاگنے لگی تو‬
‫اکری نے بازو ہوا میں لہرایا اور اپنے ہاتھ کے پنجے کو کھول کر عظمی کے منہ کی طرف کرتے ھوے بوال‬
‫رک جا پرجائی ایتھے ای ۔‬
‫عظمی اکری کی آگ کی طرح دھکتی غضب ناک آنکھوں کو دیکھ کر اور اس کی کرخت دار دھمکی آمیز آواز سن کر سہم‬
‫کر اسی جگہ بت بن کر کھڑی ہوگئی اور‬
‫بری طرح کانپنے لگی ۔‬
‫اکری اپنی لمبی ٹانگوں سے دوقدم بڑھ کر عظمی کے سر پر پہنچ گیا اور‬
‫عظمی کے سامنے کھڑا ہوکر‬
‫اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اپنا بڑا سا پنجہ کھول کر عظمی کے سر پر رکھ کر بوال ۔‬
‫پرجائی کی ہویا جیڑا توں میرے یار نوں تڑفا کے پج چلی آں ۔‬
‫عظمی روتے ہوے بولی‬
‫مجھے جانے دو تمہیں ******* کا واسطہ‬
‫تمہارا یہ دوست مجھے بہکا کر یہاں الیا ھے‬
‫اور میری عزت لوٹنا چاہتا ہے۔‬
‫اسد بوال اکری پھینک اسکو بیڈ پر اور اس کی پھدی پھاڑ دے میری طرف سے اجازت ھے ۔‬
‫اکری نے غصے سے اسد کہ طرف دیکھا اور اسکی طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے بوال‬
‫ٹھنڈ رکھ اوے منڈیا‬
‫مینوں ایس کڑی نال گل کرلین دے۔‬
‫اسد ہاےےےےے کرتا ھوا خاموش ہوگیا‬
‫اکری عظمی کی طرف دیکھ کر بوال۔‬
‫تم اس کے ساتھ اپنی مرضی سے نھی آئی عظمی بولی‬
‫یہ مجھے بہکا کر الیا ھے مجھ سے پیار کے دعوے کرتا تھا ۔‬
‫مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا‬
‫مگر یہاں آکر یہ میری عزت لوٹنا چاھتا ہے ۔‬
‫آپ کی مہربانی بھائی جان‬
‫ہم غریب لوگ ہیں‬
‫مجھے جانے دیں‬
‫اکری عظمی کی بات سن کر بوال‬
‫دیکھ کڑیئے‬
‫توں مینوں پرا کیا اے تے فیر گل سن میری‬
‫چپ کر کے ایتھے بیٹھ جا‬
‫اے اکری دا ڈیرہ اے ۔‬
‫کسے للو پنجو دا نئی‬
‫تے میرے وی کج اصول نے‬
‫صبر کر تے تینوں ڈرن دی کٰو ئی لوڑ نئی‬
‫اکری نے ساری ذندگی کسے دی عزت نہ تے ُلٹی اے تے نہ ای کسے نوں ذبردستی کسے دی دھی پین دی عزت ُلٹن دتی اے‬
‫۔‬
‫میں ذرا ایس ُمنڈے نال وی گل کر لیواں۔‬
‫اسد اتنی دیر تک لن پر ہاتھ رکھے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اور اب بھی تکلیف سے اسکا ُبرا حال تھا۔‬
‫اکری چلتا ھوا‬
‫اسد کے پاس گیا اور اس سے پوچھا‬
‫تم اس سے شادی کرنا چاھتے ھو۔‬
‫اسد نفی میں سر ہالتے ھوے بوال‬
‫نھی یار میں تے ایدی ُپھدی مارن واسطے ایتھے لے کے آیا سی‬
‫پر ایس گشتی نے میرے ٹٹیاں تے لت ماردتی اے ھاےےےےے‬
‫اکری کا رنگ سرخ ہوتا جارھا تھا‬
‫اکری بوال۔‬
‫ایس دا مطبل اے کے توں میرے نال وہ جھوٹ بولیا کہ‬
‫اے میری ہون والی پرجائی اے۔‬
‫اسد بوال چھڈ یار‬
‫ایس گشتی نوں لمے پا تے ایدی اج پھدی پاڑ دے‬
‫اسد کے منہ سے اکری نے جب یہ بات سنی‬
‫تو اس نے ایک نظر عظمی کی طرف دیکھا‬
‫اور ایک زناٹے دار تھپڑ‬
‫اسد کے منہ پر ماردیا ۔‬
‫اسد قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا‬
‫اور اکری بوال‬
‫ُک تے دیا ُپترا‬
‫توں مینوں کنجر سمجھیا اے‬
‫اسی عزتاں دے رکھوالے آں کوئی بےغیرت نئی‬
‫تیری اینی جرات کے اکری نوں توکھا دے کہ کسے شریف ُک ڑی دی عزت نوں ہتھ پاویں‬
‫ایس توں پیالں کے میں تیری ُبنڈ وچ فائر نار دیواں‬
‫پج جا ایتھوں‬
‫گندی نسل دیا۔‬
‫اسد کا رنگ پیال پڑ گیا اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے بوال۔‬
‫اکری‬
‫تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے‬
‫مجھے اس کے سامنے بےعزت کررھے ھو اپنی ساری یاری بھول گئے‬
‫اس سے پہلے کے اسد مذید کچھ کہتا۔‬
‫اکری نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈاال اور دھوتی میں سے پسٹل نکال کر بولٹ مار کر اسد کی طرف کرتے ھوے بوال‬
‫بکواس بند کر اوے ُک تے دیا ُپترا‬
‫ہن اک سیکنڈ وی ایتھے ُرکیا تے تیری ُبنڈ وچ فائر ماردینا اے‬
‫تیرے نال چار دن چنگے لنگے نے تے ہن تک بچیا ہویاں اے‬
‫نئی تے تیری الش وی تیرے کار والیاں نوں نئی لبنی سی۔‬
‫پج جا ایتھوں‬
‫نئی تے میں سب کج ُپل جاناں اے‬
‫عظمی نے جیسے ھی اکری کے ہاتھ میں ریوالور دیکھا تو عظمی کی چیخ نکلی مگر آواز ہلک میں اٹک گئی اور دونوں ھاتھ‬
‫منہ پر رکھ کر کبھی اکری کی طرف دیکھتی تو کبھی اسد کی طرف‬
‫اسد کی بھی گانڈ پھٹنے والی ہوگئی‬
‫وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اکری جو کہتا ھے وہ کرنے میں دیر بھی نھی کرتا۔‬
‫اسد نے کھسکنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی‬
‫اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے لڑکھڑاتا ھوا کمرے سے باہر جانے لگا‬
‫تو اکری نے پھر‬
‫اسے مخاطب کیا‬
‫اوے گل سن‬
‫اک گل کن کھول کے سن لے جے اج توں بعد‬
‫توں ایس کڑی دے آسے پاسے وی نظر آیا ناں تے او دن تیرا آخری دن ہوے گا۔‬
‫اے ُک ڑی ہن کوئی معمولی نئی بلکہ‬
‫اے اکری دی پین اے‬
‫پین‬
‫سمجھ آئی کہ نئی ۔‬
‫اسد نے صرف اثبات میں ھی سر ہالیا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔‬

‫)‪.Update no (73‬‬
‫اسد کے جاتے ھی‬
‫اکری عظمی کی طرف مڑا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بوال‬
‫گبھرا نہ ہن‬
‫توں اے ای سمجھ اپنے کار وچ ای بیٹھی ایں‬
‫عظمی ایکدم اٹھی اور اکری کے پاوں میں گر گئی اور اونچی آواز میں رونے لگ گئی‬
‫اور اسکا شکریہ ادا کرنے لگ گئی‬
‫جیسے ھی عظمی اکری کے پاوں میں گری تو اکری جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹا اور‬
‫اسے بازوں سے پکڑ کر اٹھایا اور‬
‫پھر اسکے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بوال‬
‫۔ھے ناں کملی‬
‫ایویں مینوں گناہ گار کرن دئی ایں‬
‫چل چادر لے سر تے‬
‫میرا نوکر تینوں سکول چھڈ آندا اے‬
‫اتنے میں اکری نے دروازے کہ طرف منہ کر کے آواز دی اوے غفورے‬
‫تو اسی وقت ایک لمبا چوڑا بڑی بڑی مونچھوں واال خطرناک بدشکل سا کندھے پر گن لٹکاے اندر داخل ہوا اور ادب سے سر‬
‫جھکا کر بوال جی سائیں‬
‫۔تو اکری بوال جا ایس کڑی نوں ایدے سکول چھڈ آ ۔‬
‫تو وہ پھر ادب سے بوال‬
‫جو حکم سائیں‬
‫اور باہر جانے لگا تو‬
‫اکری نے پھر اسے آواز دی کے گل سن نالے‬
‫او چھور اسد‬
‫جے ایدے اگے پچھے وی نظر آوے ناں تے اودیاں لتاں وچ فائر ماردیویں‬
‫تو غفورا جی سائیں کہتا ھوا باہر نکل گیا‬
‫عظمی شکر ادا کررھی تھی اور اسے اپنے آپ پر غصہ بھی آرھا تھا‬
‫اور جسے وہ ایک خطرناک بدمعاش سمجھ رھی تھی آج اسکی وجہ سے ہی اسکی عزت بچی‬
‫اور جسے عزت کا رکھواال سمجھ رھی تھی‬
‫وہ ھی اسکی عزت کو تار تار کرنے واال نکال ۔‬
‫عظمی پھر اکری کے سامنے ہاتھ جوڑتے ھوے بولی بھائی آپ کا شکریہ میں کیسے ادا کروں‬
‫اکری ہنستے ھوے بوال‬
‫پیناں ویراں دا شکریہ ادا نئی کردیاں ہوندیان‬
‫میں تے اے سوچ سوچ کے پریشان ھوندا پیاں واں‬
‫کہ جے او کنجر دا پتر تیری عزت لٹ لیندا تے ۔۔‬
‫میں تاں کدی وی اپنے آپ نوں معاف نئی کرنا سی‬
‫کہ میری حویلی وچ کسے شریف کڑی دی عزت لٹی جاوے او وی اکری دے یار دے ہتھوں ۔‬
‫مینوں پیلے پتہ ہندا کہ‬
‫اے کتے دا پتر تینوں توکھے نال لیایا سی تے‬
‫میں گل ایتھے تک وی نئی ُپنچن دینی سی‬
‫خیر چنگا ھو یا توں جو وی اودے نال کیتا‬
‫تے گل سن‪ .‬اگوں جے اے تینوں تنگ کرے تے‬
‫بس اک واری اپنے ویر نوں دس دیویں‬
‫فیر ایسا جو حال ہوے گا‬
‫سارا شہر کناں نوں ہتھ الوے گا۔‬
‫اور یہ کہتے ھو اکری‬
‫عظمی کو اپنے ساتھ لگاے ھوے کمرے سے باہر آیا‬
‫اور حال سے ہوتا ھوا‬
‫باہر حویلی میں اگیا‬
‫سامنے ھی ایک جیپ کھڑی تھی جس میں غفورا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا عظمی کا انتظار کر رھا تھا‬
‫عظمی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جیپ کے پاس پہنچی ۔‬
‫اور‬
‫اچانک عظمی کو خیال آیا کہ اسکا پیپر واال دستہ اور ایک ُبک تو اسد کی کار میں ھی رھی گئی‬
‫تھی‬
‫وہ مڑی اور اکری کی طرف دیکھنے لگی مگر اس سے بولنے کی ہمت نھی ھورھی تھی‬
‫اکری نے جب عظمی کو اپنی طرف دیکھتے ھوے‬
‫دیکھا‬
‫تو چلتا ھوا عظمی کے قریب آیا‬
‫اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال کی گل اے ُپتر۔‬
‫عظمی گبھرائی ہوئی آواز میں بولی وووووو بببھائی جان‬
‫میری بک اور میرا دستہ اس کی کار میں رھ گیا ھے ۔‬
‫اکری کچھ سوچتے ھوے بوال‬
‫وہ تجھے مل جاے گا‬
‫پریشان نہ ہو۔‬
‫عظمی بولی میرا ابھی پیپر ھے‬
‫تو میں پیپر کیسے دوں گی ۔‬
‫تو اکری نے غفورے کو کہا کہ‬
‫اوے غفورے کڑی نوں جیڑی شے چائی دی ھوے اینوں رستے وچوں لے کے دے دیویں تے فیر سکولے چھڈ کے آویں ۔‬
‫غفورا جی سائیں کہہ کر چپ ھوگیا ۔‬
‫تو اکری عظمی کی طرف دیکھتے ھوے بول جا میرا پتر جیڑی شے چائی دی اے غفورے نوں دس دیویں تینوں لے دے گا۔‬
‫عظمی پھر اکری کا شکریہ ادا کرتی ھوئی‬
‫ُلنڈی جیپ میں سوار ھوئی اور غفورا جیپ گیٹ سے باہر لے گیا اور جیپ کا رخ شہر کی طرف کردیا‬
‫راستے میں ایک بک ڈبو سے اس نے نئی بک لی اور پھر غفورا اسے سکول کے پاس لے کر پہنچا جیسے ھی‬
‫عظمی جیپ سے اترنے لگی تو اسکی نظر جیسے ھی سامنے سے آتے ھوے یاسر پر پڑی جو اسی کی ھی طرف دیکھ رھا‬
‫تھا۔‬
‫عظمی کا ڈر کے مار حلق خشک ہوگیا‬
‫اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اسد دیار یار سے بےعزت ہو کر گاڑی بھگاتا ھو شہر کی طرف جانے لگا‬
‫اسکو عظمی پر اور اکری پر بہت غصہ آرھا تھا‬
‫اور وہ سارا غصہ گاڑی کے گئیر پر نکال رھا تھا ۔‬
‫اسکو ذرہ سی بھی امید نھی تھی کہ یوں عظمی کے ساتھ ساتھ اپنے دوست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔ٹٹوں میں تکلیف اب‬
‫بھی ھو رھی تھی اور‬
‫اسد بار بار کبھی ٹٹوں کو پکڑ کر ہلکا سا دباتا تو کبھی اکری کے پڑے تھپڑ کی وجہ سے گال پر ہوتی جلن پر ہاتھ رکھ کر‬
‫گال کو مسلتا ہوا‬
‫غصے میں گاڑی کی رفتار حد سے ذیادہ کر کے گاڑی کو ہوا میں اڑا رھا تھا‬
‫اسے سمجھ نھی آرھی تھی کہ کدھر جاے‬
‫سکول جانے کو تو اسکا دل نھی کررھا تھا۔‬
‫ایسے میں وہ شہر میں داخل ھوگیا اور پھر اس نے سوچا کہ چلو گھر ھی چلتا ہوں‬
‫پھر اسکو خیال آیا کہ مما تو بوتیک پر چلی گئی ھوگی اور مہری بھی کالج چلی گئی ھوگی‬
‫اور آج تو اس کے پاس گھر کی چابی بھی نھی ھے‬
‫صبح پھدی کے چا میں چابی بھی لینا بھول گیا ۔‬
‫پھر اس نے سوچا کہ‬
‫مما سے چابی لے کر طبعیت خراب ہونے کا بہانہ بنا کر گھر چال جاوں گا‬
‫تو اس نے کار بازار کی طرف موڑ لی اور‬
‫بازار میں رش تھا تو گاڑی کی سپیڈ بھی اسے آہستہ کرنی پڑی‬
‫ابھی وہ اپنی مما کے بوتیک سے کچھ ھی پیچھے تھا کہ اسکی کار کے اگے ایک سائکل واال آگیا جس کہ وجہ سے اسے‬
‫بریک مارنا پڑی‬
‫اور ساتھ ھی اسد نے ہارن بھی بجا دیا‬
‫اور شیشے سے دوسری طرف دیکھا‬
‫تو اسے ایک دکان کے باہر بیٹھا ھوا یاسر نظر آیا جو بڑے غصے سے اسکی طرف دیکھ رھا تھا جیسے ابھی اسکو قتل‬
‫کردے گا‬
‫اسد کہ دماغ میں فورن جھماکہ ھوا کہ کہیں اسے پتہ تو نھی چل گیا‬
‫اور اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور‬
‫گاڑی کو بھگا کر ایک گلی میں لے گیا اور شکر ادا کیا‬
‫کہ اس مصیبت نے اسکا پیچھا نھی کیا اور کار دوسرے بازار کی طرف لے گیا ۔‬
‫‪+++++++++++++++++‬‬
‫میں پریشان حال چلتا ہوا عظمی کے سکول کی طرف جارھا تھا‬
‫میرے دماغ میں جھماکے ھورے تھا‬
‫ایک ھی دن میں مجھکو ڈبل پریشانی نے گھیر لیا‬
‫ابھی تو میں صدف سے ہوئی اپنی بےعزتی کو نھی بھوال تھا کہ اوپر سے یہ اسد کا یوں گبھرا کے میری طرف دیکھنا اور‬
‫پھر جلدی سے گاڑی کو بھگا کر لے جانا۔‬
‫مجھے اضطراب میں ڈالے ھوے تھا‬
‫میرے قدم بوجھل ھوچکے تھے چلنا مجھ سے محال ھورھا تھا‬
‫دماغ تو پھٹنے واال تھا‬
‫مجھے پورا یقین ھو چکا تھا‬
‫کہ عظمی آج سکول نھی گئی بلکہ اسد کے ساتھ کار میں رنگ رلیاں مناتی پھر رھی ھے‬
‫اور اسد نے جب مجھے دیکھا تو گبھرا کر اسی لیے بھاگا کہ کہیں میں عظمی کو اسکے ساتھ دیکھ نہ لوں ۔‬
‫مگر آج میں دودہ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے ھی رہوں گا‬
‫مجھے آج اپنی بے بسی پر بھی غصہ آرھا تھا‬
‫کاش میرے پاس موٹرسائیکل ہوتی تو آج میں اسد اور عظمی کو یوں بھاگنے نہ دیتا بلکہ میں موٹرسائیکل پر اسد کی گاڑی‬
‫کا پیچھا کرتا اور ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا۔‬
‫مگر میرا تو آج کا دن ھی منحوس جارھا تھا‬
‫ایسے ھی خیالوں میں چلتا ھوا میں سکول والی گلی میں داخل ھوا اور عظمی کے سکول کی طرف بڑھنے لگا میں ابھی گیٹ‬
‫سے کچھ پیچھے ھی تھا ۔‬
‫کہ مجھے ایک ُلنڈی جیپ آتی ہوئی نظر آئی جسکی فرنٹ سیٹ پر ایک بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش بیٹھا ھوا تھا اور‬
‫ساتھ میں ایک نقاب پوش لڑکی بیٹھی ہوئی تھی‬
‫میں گیٹ کے قریب تھا اور جیب کچھ فاصلے پر تھی‬
‫اس سے پہلے کہ میں جیپ کی طرف سے نظر کو ہٹاتا جیپ بلکل میرے سامنے کچھ فاصلے پر آکر رکی تو جیسے ھی‬
‫میری نظر اس نقاب پوش لڑکی پر پڑی ۔‬
‫میرے تو پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی‬
‫وہ لڑکی کوئی اور نھی بلکہ عظمی تھی‬
‫اور عظمی نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور اس کی آنکھوں سے گبھراہٹ صاف نظر آرھی تھی‬
‫عظمی جیپ سے نیچے اتری اور آہستہ آہستہ چلتی میری طرف آرھی تھی‬
‫اور میں بت بنا کبھی عظمی کی طرف دیکھتا تو کبھی اس مونچھوں والے بدمعاش کی طرف‬
‫وہ بدمعاش بھی پہلے ادھر ادھر دیکھ رھا تھا ۔‬
‫پھر اسکی مجھ پر نظر پڑی کہ میں عظمی کو دیکھ رھا ہوں تو وہ مجھے گھورنے لگ گیا۔‬
‫عظمی چلتی ھوئی میرے قریب سے نظریں جھکائے گزرنے لگی تو میں نے‬
‫اسکو بازو سے پکڑ لیا اور پوچھنے لگا کہ‬
‫کدھر سے آرھی ھو اور یہ بدمعاش کون ھے ۔‬
‫اتنے میں وہ بدمعاش چھالنگ مارتے ھوے گاڑی سے اترا اور پیچھے سے بڑی سی گن اٹھا کر سیدھی میری طرف کردی‬
‫اور بوال‬
‫ہتھ چھڈ اوے کڑی دا‬
‫عظمی نے جب دیکھا کہ اسکے ساتھ آنے واال بدمعاش مجھے گولی مارنے پر اتر آیا ھے ۔‬
‫تو عظمی جلدی سے میرے آگے ہوگئی اور بولی نھی‬
‫بھا غفورے‬
‫اینوں ُک ج نئی کیناں اے تے میری خالہ دا پتر اے ۔‬
‫اس بدمعاش ٹائپ بندے نے جسکو عظمی بھا غفورے کہہ رھی تھی ۔‬
‫اس نے عظمی کے کہنے پر گن نیچے کر لی ۔‬
‫اور مجھے گھورتا ھوا واپس جیپ میں بیٹھ گیا‬
‫اس ُمچھل کو اور اسکو یوں مجھ پر گن تانے دیکھ کر ایک دفعہ تو میری بھی ہوا نکل گئی تھی‬
‫اور میں آنکھیں پھاڑےکبھی عظمی کو دیکھتا اور کبھی اس بدمعاش کو۔‬
‫عظمی مجھ سے بولی یاسر ابھی جاو‬
‫چھٹی کے وقت مجھے لینے اجانا‬
‫پھر تمہارے سب سوالوں کے جواب دے دوں گی‬
‫تمہیں‬
‫*****‬
‫کا واسطہ ابھی تم ادھر سے چلے جاو‬
‫میں تمہارا انتظار کروں گی ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی سکول میں داخل ھوگئی اور عظمی کے اندر داخل ھوتے ھی‬
‫وہ بدمعاش گاڑی کو گھما کر ایک دفعہ پھر مجھے گھورتا ھوا‬
‫چال گیا‬
‫اور میں بت بنے اس نئے گھن چکر کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔‬
‫عظمی سکول میں داخل ہوگئی اور جو شخص اسے چھوڑنے آیا تھا وہ بھی چال گیا‬
‫مگر میں بت بنا ادھر ھی کھڑا سوچتا رھا کہ‬
‫اگر عظمی اسد کے ساتھ تھی تو اس شخص کے ساتھ کیسے اتنی جلدی ادھر آگئی؟؟؟‬
‫اور اگر یہ اسد کے ساتھ نھی تھی تو اسد مجھے دیکھ کر بھاگا کیوں ؟؟؟؟؟‬
‫اور یہ بدمعاش ٹائپ کا شخص کون تھا جو عظمی کا ھاتھ پکڑنے پر مجھے مارنے پر تل گیا تھا؟؟؟؟؟‬
‫نہ تو یہ کوئی عظمی کا رشتہ دار تھا نہ ھی کوئی ینگ خوبصورت تھا کہ اسکے ساتھ عظمی کا چکر ھو بلکہ یہ تو عظمی‬
‫کہ باپ کی عمر کا تھا تو آخر یہ تھا کون؟؟؟؟؟؟‬
‫عظمی گھر سے صبح چھ بجے کی نکلی ہوئی ھے اور اب دس بجنے والے ہیں اور یہ چھ بجے کی گھر سے آئی اب سکول‬
‫پہنچی ھے وہ بھی ایک بدمعاش شخص کے ساتھ چار گھنٹے گزارنے کے بعد‬
‫یہ چکر کیا ھے؟؟؟؟؟؟‬
‫یہ سوال میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رھے تھے‬
‫اور میں سکول کے گیٹ کے پاس بت بنا کھڑا اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک مجھے کسی نے کندھے سے ہالیا۔‬
‫تو میں خیالوں کی بستی سے باہر نکل کر مخاطب کرنے والے کی طرف متوجہ ھوا تو ۔‬
‫گارڈ کی وردی پہنے ھوے ایک شخص میرا کندھا ہال کر پوچھ رھا تھا‬
‫کہ بھائی کس سے ملنا ھے‬
‫میں نے جب غور کیا تو وہ سکول کا گارڈ تھا‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا ۔وہ میں اپنی کزن کو چھوڑنے آیا تھا‬
‫تو اس لیے ادھر ھی کھڑا ہوگیا ۔‬
‫تو وہ گارڈ بوال بھائی یہاں لڑکوں کا کھڑا ھونا ممنوع ھے ۔آپ اس طرف چلے جائیں یا جب چھٹی ھو جاے تب آجانا ۔۔‬
‫میں اثبات میں سرہالتا ھوا‬
‫ادھر سے چل پڑا مجھے تو اب سمت کا بھی نھی اندازہ ھورھا تھا‬
‫کہ اب میں جا کدھر رھا ھوں میری منزل کونسی ھے میرا پڑاو کہاں پر ھے ۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی چلتا ہوا‪ ،‬بوائز سکول کے پاس پہنچ گیا‬
‫اتنی دیر میں کچھ سوچنے کے قابل ھوا‬
‫کہ اب دکان پر جاوں یا ادھر ھی عظمی کی چھٹی کا انتظار کروں ۔‬
‫میرا میرے دماغ میں اٹھتے ھوے سوالوں کا جواب عظمی سے سننے کا تجسس مجھے دکان پر جانے سے روک رھا تھا ۔‬
‫مگر مسئلہ یہ بھی تھا کہ انکل کو بھی میں بس یہ ھی بتا کر آیا تھا کہ‬
‫میں ابھی آیا‬
‫وہ بھی میرے واپس نہ انے کی وجہ سے پریشان ہوں گے۔‬
‫اب یہ بھی نھی پتہ تھا کہ عظمی کو چھٹی کس وقت ھونی ہے‬
‫کیوں کہ ابھی تو پیپر شروع ھوا ھوگا اور اسکے بعد کب چھٹی ھونی ھے اسکا بھی مجھے کنفرم نھی تھا۔‬
‫میں کچھ دیر کھڑا پھر سوچتا رھا‬
‫اور پھر واپس گرلز سکول کی طرف چل پڑا گیٹ بند ھوچکا تھا‬
‫میں نے گیٹ کے پاس پہنچ کر گیٹ پر دستک دی تو گیٹ کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلی اور اسی گاڈ نے سر باہر نکاال‬
‫اور مجھے دیکھ کر گھورتا ھوا بول‬
‫جی بھائی اب کیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ججییی سر معاف کرنا‬
‫وہ میں نے پوچھنا تھا کہ چھٹی کب ھونی ھے‬
‫تاکہ میں اندازہ کرسکوں کہ میں ادھر ھی کھڑ ا ھوکر انتظار کرلوں یا پھر گھر چال جاوں ۔‬
‫گارڈ نے حیرت سے مجھے اوپر سے نیچے دیکھ کر کہا‬
‫۔پہلی دفعہ آے ھو کیا۔‬
‫میں نے نھی سر میں پہلے صرف چھوڑنے آتا تھا‬
‫مگر آج گھر ضروری کام ھے اس لیے میں نے دکان سے چھٹی کی ھے تو سوچا کزن کو ساتھ ھی لیتا جاوں‬
‫میرے دماغ میں جو بہانہ آیا وہ لگادیا۔‬
‫جبکہ یہ بہانہ معقول نھی تھا‬
‫دماغ حاضر ھوتا تو سیدھی طرح کہدیتا کہ ۔پہلے میری دوسری کزن بھی آتی تھی اس لیے میں نھی لینے آتا تھا مگر آج یہ‬
‫اکیلی آئی ھے اس وجہ سے مجھے آنا پڑا۔‬
‫خیر‬
‫گارڈ بوال‬
‫بھائی جی‬
‫دو بجے چھٹی ھونی ھے‬
‫آپ گھر چلے جاو یا اپنی دکان پر‬
‫اور ساتھ ھی اسکا سر غائب ھوا اور کھڑکی بند ھوگئی ۔‬
‫میں کچھ دیر سوچتا رھا اور تذبذب کا شکار رھا‬
‫پھر دکان کی ھی طرف چل پڑا‬
‫کچھ دیر بعد دکان پر پہنچا‬
‫اور انکل سے جھوٹ بول کر بہانہ کیا اور پھر دکان پر کام میں مصروف ھوگیا۔‬
‫میرا دھیان بار بار گھڑی کی ھی طرف تھا‬
‫آخرکار ایک بج گیا‬
‫اور‬
‫میری بے چینی مذید بڑھ گئی‬
‫مذید آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد میں نے انکل سے بہانہ کیا کہ میں نے دوائی لینے جانا ھے میری طبعیت کچھ ذیادہ ھی‬
‫خراب ھورھی ھے‬
‫تو انکل نے خوشی سے مجھے چھٹی دی اور جیب سے پچاس روپے نکال کر مجھے دئیے کی بیٹا یہ لو دوائی بھی لے لینا‬
‫اور پیدل مت جانا تانگے پر چلے جانا‬
‫میں نے پچاس روپے پکڑ کر جلدی سے جیب میں ڈالے اور‬
‫انکو سالم کر کے سکول کی طرف چل دیا۔‬
‫سکول کے پاس پہنچا تو گیٹ کے اطراف میں پہلے سے اپنی بچیوں اور بہنوں کو لیجانے والوں کا کافی رش تھا‬
‫میں بھی کچھ آگے جاکر کھڑا ھوگیا۔‬
‫کوئی پندرا منٹ بعد چھٹی ھوئی تو‬
‫رنگ برنگی بچیاں سکول سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں ۔اور میری نظریں عظمی کو تالش کرنے لگی‬
‫کچھ دیر کے انتظار کے بعد عظمی آتی ہوئی نظر آئی ۔‬
‫اسکی جب مجھ پر نظر پڑی تو اس نے ایک نظر دیکھ کر نظریں جھکالیں ۔‬
‫اور میرے قریب سے مجھے مخاطب کیے بغیر گزر گئی ۔‬
‫مجھے غصہ تو بہت چڑھا‬
‫کہ‬
‫نالے چور تے نالے چتر۔‬
‫خیر‬
‫میں بھی اسکے پیچھے چلتا ھوا اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگ گیا ۔‬
‫وہ ایسے انجان بن کر جارھی تھی کہ جیسے مجھے جانتی ھی نہ ھو‬
‫اس کی نظریں سڑک کی طرف تھی ۔‬
‫جب ہم رش سے نکل کر گاوں کی طرف جاتی سڑک پر پہنچے تو میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫عظمی میں تمہاری خاموشی دیکھنے کے لیے دکان چھوڑ کر نھی ھے ۔‬
‫تو عظمی نے میری طرف دیکھا تو‬
‫میں اسکی آنکھوں کو دیکھ کر حیران رھ گیا اسکی آنکھیں ایسی سرخ تھیں‬
‫جیسے‬
‫وہ رات بھر روتی رھی ھے‬
‫اور اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔‬

‫)‪.Update no ,(74‬‬
‫عظمی نے میری طرف دیکھ کر پھر منہ سیدھا کرکے آنکھیں جھکا کر چلتی رھی ۔‬
‫میں نے پھر پوچھا عظمی کچھ بولو گی کہ نھی ھوا کیا ھے‬
‫تمہاری آنکھیں کیوں الل ہیں‬
‫تم رو کیوں رھی ھو‬
‫کچھ تو بولو کچھ تو مجھے بتاو۔‬
‫ایسے ھی ہم نہر کے پل پر پہنچ گئے‬
‫آدھا رستہ طے ھوچکا تھا‬
‫مگر عظمی کی زبان سے ایک لفظ سننے کو میرے کان ترس گئے تھے‬
‫پل سے گزر کر جب ہم نہر سے نیچے اترے تو میں نے عظمی کا بازو پکڑ لیا اور‬
‫اسکو روک کر‬
‫اپنی طرف گھما کر اسکے گالوں پر ھاتھ رکھ کر اسکا منہ اوپر کیا تو دیکھا عظمی رو رھی تھی اور آنسوؤں کی جھڑی نے‬
‫اسکا نقاب بھی گیال کردیا تھا۔‬
‫میں نے اسکے گال چھوڑے اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر جنجھوڑ کر پوچھا‬
‫عظمی کچھ تو بول ھوا کیا ھے‬
‫یہ کیا ماجرا ھے وہ مونچھوں واال چاچا کون تھا تم کدھر تھی‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں کتنے سوال کردیے‬
‫عظمی نے شہر کی طرف انگلی کر کے اتنا ھی کہا‬
‫ووووہہہہ اسد نے مجھےےےےے کہتے ھوے عظمی چکرا کر میرے اوپر گری تو میں نے جلدی سے اسکو تھام لیا اور‬
‫اسکی گالوں کو تھپ تھپانے لگا‬
‫عظمی عظمی ہوش کرو عظمی‬
‫مگر عظمی تو ۔۔۔‬
‫میں عظمی کی کفیت دیکھ کر ڈر گیا‬
‫کہ اسے کیا ھوا۔‬
‫اور اسد نے کیا‬
‫کیا اس کے ساتھ جو عظمی صدمے سے بےہوش ہوگئی ۔‬
‫میں عظمی کی گالوں کو تھپتھپانے لگ گیا‬
‫مجھے سمجھ نھی آرھا تھا کہ میں کیا کروں‬
‫میں نے گردن گھما کر چاروں طرف دیکھا مگر مجھے کوئی نظر نہ آیا‬
‫دوپہر کا وقت تھا‬
‫دور دور تک بندا نہ بندے کی ذات نظر آرھی تھی ۔‬
‫عظمی بلکل میرے ساتھ چپکی ہوئی تھی اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ہوے تھے‬
‫اور میں نے ایک ہاتھ عظمی کی بغل سے گزار کر اسکی کمر کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا‬
‫عظمی کا چہرا میرے کندھے پر تھا‬
‫اسکی ھاتھ سے دستہ اور بک نیچے گر گئی تھی ۔‬
‫جسے وہ سینے کے ساتھ لگا کر چلی آرھی تھی ۔‬
‫مجھے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے عظمی کو سیدھا کیا مگر وہ‬
‫کھڑی نھی ھورھی تھی‬
‫سارا وزن مجھ پر ھی ڈال رھی تھی ۔‬
‫میں نے عظمی کی گانڈ کے نیچے بازو ڈاال‬
‫اور اسکو اٹھا لیا عظمی کے ممے میرے کندھے سے اوپر ھوے اور عظمی میرے کندھے پر جھول گئی‬
‫اور اسکا سارا وزن میرے کندھے پر آگیا ۔‬
‫میں نے عظمی کو کندھے پر الدے بڑی مشکل سے نیچے سے اسکا دستہ اور بک اٹھائی اور اسے لے کر مکئی کے‬
‫درمیان میں بنی پگڈنڈی پر چل پڑا‬
‫میں بھی جھول جھول کر چل رھا تھا‬
‫عظمی کا وزن کافی تھا مگر قابل برداشت تھا۔‬
‫میں چلتا ھوا کھالے کے پاس پہنچا اور اپنی پرانی جگہ مجھے اس وقت سب سے ذیادہ محفوظ لگی ۔‬
‫تو میں عظمی کو اٹھاے ھوے بڑی تگ ودو کے بعد ٹاہل کے قریب پہنچ گیا ۔‬
‫اور ادھر ادھر دیکھتے ھو عظمی کو ٹاہلی کے پیچھے گھاس پر لیٹا دیا‬
‫اور پھر اسکی گالوں کو دونوں ہاتھوں میں لے کر ہلکا ہلکا تھپتھپا کر اسے آوازیں دینے لگا مگر عظمی بے سدھ ھی لیٹی‬
‫رھی ۔‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھ کر کھالے کی طرف بھاگا‬
‫اور ہاتھوں کو جوڑ کر کھالے میں سے پانی ہاتھوں ڈاال‬
‫اور دوڑتا ھوا عظمی کے پاس پہنچا اور پانی اسکے منہ پر گرا دیا ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد عظمی نھ آنکھیں کھولیں اور مجھے غور سے دیکھنے لگی‬
‫عظمی کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں ۔‬
‫میں نے عظمی کی گالوں پر سے پانی صاف کرتے ہوے اسکی گردن میں بازوں ڈال کر سر اوپر کر کے اپنا چہرہ عظمی‬
‫کے قریب کیا اور‬
‫پھر سے پوچھا‬
‫عظمی کیا ھوا تمہیں اتنی پریشان کیوں ھو‬
‫کیا‬
‫کیا تمہارے ساتھ اسد نے بولو پلیز کچھ تو بولو ۔‬
‫عظمی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور پھوٹ پھوٹ‬
‫کر روتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے معاف کردو‬
‫میں دولت پیسہ شہرت پانے کے لیے اندھی ھوگئی تھی‬
‫اور تم کو دھوکا دے کر اسد کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر وہ اونچی آواز میں رونے لگ گئی‬
‫اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی‬
‫اور بار بار بس یہ ھی کہے جارھی تھی‬
‫یاسر میں تمہاری گناہ گار ہوں میرے ساتھ ایسا ھی ھونا چاھیے تھا‬
‫میں نے تمہیں دھوکا دیا‬
‫مجھے معاف کردو‬
‫میں عظمی کے ماتھے سے بالوں تک ہاتھ پھیرتے ھوے اس کی ڈھارس بندھا رھا تھا اسے حوصلہ دے رھا تسلیاں دے‬
‫رھا اس سے بس ایک دفعہ پوری بات پوچھنے کی کوشش کر رھا تھا‬
‫اسد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رھا تھا‬
‫اسکی بہن مہری کو اس کی آنکھوں کے سامنے چودنے کا کہہ رھا تھا‬
‫عظمی رو رو کر ہلکان ہو رھی تھی ۔‬
‫آخر کار میری کوشش رنگ الئی اور عظمی کافی سنبھل گئی مگر اسکی ہچکیاں باقی تھیں ۔‬
‫کچھ دیر بعد مکمل طور پر وہ ریلیکس ہوئی ۔‬
‫تو میں نے اسکا ماتھا چوما‬
‫اور‬
‫عظمی کو کہا ۔‬
‫عظمی مجھے پہلے سے ہی تم پر اور اسد پر شک تھا‬
‫مگر پھر بھی میں نے تمہیں محسوس نھی ہونے دیا۔‬
‫مگر اسد نے جو تمہارے ساتھ کیا اور کیسے تمہاری اس سے بات ہوئی اور کیسے یہ بات یہاں تک پہنچی کہ تم ہم سب کو‬
‫دھوکا دے کر‬
‫بنا کچھ سوچے سمجھے‬
‫اسد کے ساتھ چلی گئی‬
‫اور یہ مالقاتوں کا تسلسل کب سے جاری ھے‬
‫مجھے ایک ایک حرف سچ سچ بتا دو‬
‫میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتا ھوں کہ اسد کا وہ حال کروں گا کہ‬
‫وہ ساری زندگی کسی لڑکی کو دھوکا دینے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا ۔‬
‫مگر میں تب ھی کچھ کر پاوں گا اگر تم مجھے اب دھوکے میں نہ رکھو گی‬
‫اور حرف بحرف سب کچھ سچ سچ بتاو گی ۔‬
‫اور رھی بات مجھے دھوکا دینے کی‬
‫تو عظمی تم مجھے نھی اپنے آپ کو دھوکا دے رھی تھی‬
‫اس لیے مجھ سے معافی مانگنے کی بجاے اپنے آپ سے معافی مانگو‬
‫اپنے ضمیر سے معافی مانگو‬
‫اور تمہارا ضمیر تب ھی تمہیں معاف کرے گا جب‬
‫تم اب مجھے سب کچھ سچ سچ بتاو گی۔‬
‫اگر اب بھی جھوٹ بولنا ھے تو اٹھو چلو گھر چلتے ہیں‬
‫اور یہ بھی ذہن میں مت رکھنا کہ میں کسی اور سے یہ بات کروں گا یا تمہاری امی کو یا نسرین کو بتاوں گا ۔۔‬
‫اور یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا اور پھر روتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے اپنے کئے کی سزا مل گئی ھے اور اس سے ذیادہ کیا ہوگی جو آج مجھے ملی ھے ۔‬
‫جس اذیت سے میں گزری ہوں یہ میں ھی جانتی ہوں ۔‬
‫مگر اتنا کچھ ھونے اور سننے کے بعد بھی تم میرے لیے کتنے پریشان ھو کتنے دکھی ھو‬
‫اور لعنت ھے مجھ پر جو میں تمہیں سمجھ نہ سکی‬
‫میری آنکھوں پر‬
‫اللچ کی رتبے کی‬
‫پٹی بندھی ھوئی تھی‬
‫میں اندھی ہوگئی تھی گونگی ھوگئی تھی ۔بہری ھوگئی تھی‬
‫مگر آج مجھے احساس ھوگیا کہ پیشہ شہرت دولت جائدادیں ھی سب کچھ نھی ہوتیں‬
‫ان سب سے اہم رشتے ہیں‬
‫وہ رشتے جو میرے ساتھ مخلص ہیں جنکو میری فکر ھے‬
‫جو میرے لیے تڑپتے ہیں جو میرے لیے پریشان ھوتے ہیں ۔جنکو میری فکر ھے ۔‬
‫یاسر مجھے معاف کردو معاف کردو معاف کردو‬
‫عظمی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ھوے معافیاں مانگنے لگ گئی۔‬
‫میں نے اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا اور چومتے ھو ے کہا بس کرو عظمی تم نے بہت رو لیا ۔۔اب رونے کی باری اس‬
‫گشتی کے بچے کی ھے‬
‫تم بس مجھے تفصیل سے سب کچھ بتاو‬
‫پھر دیکھنا تمہارا یہ یاسر‬
‫تمہارے لیے کیا کرتا‬
‫جس اذیت سے تم گزر رھی ھو‬
‫اس سے ہزار گنا اذیت اسے پہنچاوں گا‬
‫اور وہ اذیت وقتی نھی ھوگی‬
‫ساری ذندگی کے لیے ھوگی‬
‫عظمی نے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫اگے بڑھی اور میرے ہونٹ گال انکھیں ماتھا چومنے لگ گئی ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد سنبھل کر مجھ سے الگ ہوئی‬
‫اور بولی‬
‫یاسر جب تم اسد کو ہمارے گھر لے کر آے تھے اور جب تم مہری کے ساتھ چھلیاں توڑنے گئے تھے‬
‫اور جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا‪ ،،،،،‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪،،،،،،،،‬۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی نے سب کچھ حرف با حرف مجھے بتا دیا‬
‫‪،،،،‬۔۔۔‬
‫(دوستو جو عظمی نے مجھے حرف با حرف بتایا وہ سب کچھ میں تفصیل سے گذشتہ اپڈیٹ میں لکھ چکا ھوں‬
‫اب عظمی نے واقعی سب کچھ سچ ھی بتایا تھا‬
‫یا کچھ چھپایا تھا ۔‬
‫یہ آگے چل کر خود سب کچھ سامنے آجاے گا ۔۔۔۔۔‬
‫میں جیسے جیسے عظمی کی باتیں سنتا جارھا تھا‬
‫ویسے ویسے ھی میرا چہرہ غصہ سے سرخ ھوتا جارھا تھا‬
‫کچھ غصہ مجھے عظمی پر بھی آرھا تھا‬
‫جب گوشت کا ٹکڑا کتے کے سامنے کھال رکھ دیں تو کتے سے کیا بعید کے وہ اسپر جھپٹے نہ اسے نوچے نہ اسے کھاے‬
‫نہ۔‬
‫اسد سے ذیادہ عظمی خود اس کی ذمہ دار تھی ۔‬
‫خیر میں سب کچھ خاموشی سے سنتا رھا اور برداشت کرتا رھا‬
‫جب عظمی نے بات مکمل کی تو میں کافی دیر خاموش بیٹھا اسکی طرف دیکھتا رھا وہ پھر رونے لگ گئی تھی ۔‬
‫میں نے عظمی کو کہا ۔‬
‫چلو اٹھو گھر چلو ۔۔۔‬
‫اور یہ بات کسی سے مت کرنا‬
‫اب یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو ۔‬
‫اور اگر کبھی مہری سے بھی سامنا ھو تو اس کو بلکل محسوس مت ھونے دینا کہ اسد نے تمہارے ساتھ کچھ کیا ھے‬
‫بلکہ میں بھی اسد پر یہ ظاہر نھی ھونے دوں گا کہ‬
‫تم نے مجھے سب کچھ بتا دیا ھے ۔۔۔۔۔‬
‫کیونکہ‬
‫میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے کیا کرنا ھے ۔۔۔‬
‫عظمی نے پھر مجھے بازو سے پکڑ لیا اور پھر روتے ھوے بولی‬
‫یاسر تم نے مجھے معاف کردیا ناں۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور اسکے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے بازو سے الگ کیا اور اپنے ہونٹ اسکے ہاتھوں پر رکھ کر‬
‫اسکے ھاتھوں کو چوم لیا۔‬
‫اور اسے کہا تم اب یہ سب کچھ بھول جاو اور یہ ھی سمجھو کہ یہ ایک برا سپنا تھا‬
‫اور اٹھو تمہیں کافی دیر ہوگئی ھے‬
‫تمہاری امی پریشان ھوگی‬
‫میں نے اسکی گال پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا‬
‫اور ایسا کرو کھالے سے یہ سونا سا مکھڑا دھو لو اور فریش ھوکر گھر چلو نھی تو آنٹی کو شک ھوجاے گا کہ‬
‫کہیں اسکی بیٹی کو یاسر نے راستے میں ھی تو نھی چود دیا ۔‬
‫عظمی میری بات سن کر ہنس پڑی اور میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫چل شوخا۔‬
‫کچھ کسر رہتی ھے تو پوری کر لو۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور قمیض اوپر کر کے ناال کھولتے ھوے بوال‬
‫چل فیر سدھی ھو۔‬
‫تو عظمی ہنستی ھوئی اٹھی اور‬
‫بولی آرام نال شوخے۔‬
‫میں نے اسکی بات کاٹتےھوے کہا‬
‫آرام سے ھی کروں گا۔‬
‫میں اسد تھوڑی ہوں۔‬
‫عظمی میری بات سن کر ایکدم سیریس ھو گئی اور پھر رونے لگ گئی اور نم انکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسر اب تم مجھے اسی طرح طعنے دیتے رھو گے‬
‫میں نے ذہر کھا کر مرجانا ھے‬
‫مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا مگر میں کیا کرتا میرے اندر حسد اور غصے کی جو آگ جل رھی تھی وہ اتنی جلدی تو‬
‫بھجنے والی نھی تھی ۔‬
‫میں نے خود پر کنٹرول کرتے ھوے‬
‫عظمی سے معذرت کرنے لگ گیا کہ‬
‫یار غلطی ھوگئی‬
‫آئیندہ کبھی بھی میرے منہ سے اس کنجر کا نام نھی سنو گی‬
‫اب موڑ صحیح کرو اور گھر چلو‬
‫اس کے ساتھ ھی میں نے عظمی کے ساتھ جپھی ڈال لی اور اس کے چہرے کو چومنے لگا‬
‫عظمی کچھ ریلیکس ھوئی اور مجھ سے علیحدہ ھوئی اور کھالے کی طرف چل دی اور منہ ھاتھ دھو کر‬
‫چادر سے اچھی طرح چہرے کو اور انکھوں کو صاف کیا اور‬
‫اپنی چادر کو صحیح کر کے اوپر لیا اور اچھی طرح نقاب کرکے میری طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کو مٹکا کر بولی اب‬
‫صحیح ھے‬
‫تو اسکی اس معصومانہ ادا کو دیکھ کر میں آگے بڑھا اور ایک ہاتھ سے اسکا مما پکڑ کر دباتے ھوے اسکی آنکھوں کو‬
‫چوم لیا‬
‫مما دبانے سے عظمی کے منہ سے سسکاری نکلی اور وہ مجھ سے لپٹ گئی ۔‬
‫کچھ دیر ہم ایسے ھی لپٹے رھے پھر عظمی مجھ سے علیحدہ ھوئی اور ہم گھر کی طرف چل دئیے ۔‬
‫گھر پہنچے تو فوزیہ مجھے عظمی کے ساتھ دیکھ کر حیران ھوئی ۔‬
‫اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ ۔تم دکان پر نھی گئے میں نے کہا‬
‫آنٹی جی میری طبعیت سہی نھی تھی‬
‫تو میں گھر آرھا تھا تو سوچا اس چڑیل کو بھی ساتھ لیتا جاوں جو صبح مجھے چھوڑ کر صدف کے ساتھ ھی چلی گئی تھی ۔‬
‫عظمی کمرے کی طرف جاتی ھوئی میری بات سن کر رک گئی تھی اور میرا جھوٹ سن کر کہ وہ اکیلی شہر نھی گئی بلکہ‬
‫صدف کے ساتھ گئی تھی ۔۔‬
‫وہ میری طرف دیکھ کر آنکھوں ھی آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کرنے لگ گئی ۔‬
‫آنٹی فوزیہ میری طبعیت خراب کا سن کر پریشانی سے بولی کیا ھوا میرے شزادے کو ۔‬
‫اور ساتھ ھی مجھے کندھے سے پکڑ کر اپنے بڑے بڑے مموں کے ساتھ لگا لیا میں نے مزید ساتھ جڑتے ھوے دونوں ھاتھ‬
‫انٹی فوزیہ کی کمر میں ڈال کر کہا ۔‬
‫آنٹی میرے سر میں بہت درد ھے‬
‫آنٹی بولی‬
‫چل جا اندر بیٹھ جا کہ اپنی پیناں کول میں چا بنا کہ لیانی واں‬
‫نال کوئی گولی کھا لے ۔‬
‫میں نے کہا نھی آنٹی جی میں گھر چلتا ھوں بس کچھ دیر آرام کروں گا تو ٹھیک ھوجاوں گا ۔‬
‫تو فوزیہ بولی شرم نھی اتی یہ تیرا گھر نھی ھے‬
‫چل اندر جا میں آنی واں‬
‫میں کمرے کی طرف چل دیا‬
‫کمرے میں پہنچا تو نسرین چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫اور عظمی کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔‬
‫میں نسرین کے پاس دوسری چار پائی پر بیٹھ گیا ۔‬
‫اور نسرین سے حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫نسرین بھی مجھ سے دکان سے جلدی آنے کی وجہ پوچھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے وہ ھی روداد دوبارہ دھرا دی ۔‬
‫نسرین دروازے کی طرف دیکھتے ہوے آہستہ سے بولی‬
‫یاسر اس نواب زادی سے پوچھا کہ یہ صبح اتنی جلدی کیوں سکول گئی تھی‬
‫اور وہ بھی اکیلی ۔‬
‫نسرین کی بات سن کر میرے دماغ میں پھر وہ ھی اپنی ادھوری کوشش کو دوبارا مکمل کرنے کا پالن‪ .‬جنم لینے لگ گیا ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫نسرین نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا کیا کہا اس نے ۔‬
‫تو میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے پیچھے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا اور‬
‫نسرین کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا‬
‫میں نے تو اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے لگا تھا بس میری بدقسمتی کہ اسکی مجھ پر نظر پڑ گئی‬
‫اور۔‬
‫میں چپ ھوگیا تو نسرین بڑے تذبذب کا شکار ھوکر حیران ہوتے ھوے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ کر بولی اور کیا؟ ؟؟؟؟‪.‬‬
‫میں پھر گردن گھما کر پیچھے دیکھ کر کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ‬
‫میرے پالن اور سسپنس کو منزل تک پہنچانے کے لیے‬
‫خوش قسمتی سے عظمی کمرے میں داخل ہوئی‬
‫تو نسرین کی نظریں اسی وقت عظمی پر پڑیں‬
‫تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے چوکس کیا ۔‬
‫تو میں نے بھی اپنے منہ سے نکلتے الفاظ کو روک کر جلدی سے گردن گھما کر پیچھے عظمی کی طرف دیکھا اور ساتھ‬
‫ی بات کو بدلتے ھوے نسرین کو کہنے لگا ۔‬
‫تمہارا آج کا پیپر ضائع ھوگیا ھے‬
‫نسرین کی بجاے عظمی بولی‬
‫میں نے اس کی درخواست لکھ کر میڈم کو دے دی تھی‬
‫اس کے جتنے پیپر رھ گئے بعد میں دے دے گی ۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫کیا مطلب یعنی کہ یہ کل بھی سکول نھی جاے گی ۔‬
‫عظمی منہ کو بسورتے ھوے بولی ۔‬
‫اس میڈم کو پتہ ھوگا کہ کل بھی جانا ھے کہ نھی ۔‬
‫نسرین جو پہلے ھی عظمی کی مداخلت کی وجہ سے جلی بھنی ھوئی تھی‬
‫عظمی پر پھٹ پڑی ۔‬
‫ھاں ھاں تم تو چاہتی ھی ھو کہ میں سکول ھی نہ جاوں بس اکیلی تم ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی بولی کیا مطلب‪ ،،،،،‬۔۔۔‬
‫اس سے پہلے کہ انکی تکرار بڑھتی آنٹی فوزیہ چاے لیے ھوے اندر داخل ھوئی ۔‬
‫اور انکو یوں چونچیں لڑاتے ھوے دیکھ کر بولی ۔‬
‫توبہ ہے تم دونوں کی ایک منٹ نھی بنتی آپس میں‬
‫پتہ نھی سکول میں بھی کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتی ہوں گی ۔‬
‫میں نے فورن ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے‬
‫چٹکلہ بھر‬
‫آنٹی جی ۔وھاں انکو پتہ ھے نہ کہ میڈم کالس میں ھی انکے کان پکڑا کر دونوں کو ڈیسکوں پر مرغا بنا دے گی اس لیے یہ‬
‫ادھر شانتی سے رہتی ہیں‪.‬‬
‫نسرین بولی‬
‫ھاں ھاں تیرے کان روز ماسٹر پکڑواتا ھوگا نی اس لیے تمہیں پتہ ہے۔‬
‫آنٹی فوزیہ ہنستے ھوے‬
‫نسرین کو ڈانٹتے ھوے بولی‬
‫چل ہن توں ایس وچارے نال شروع ھوجا۔‬
‫تو وہ جل بھن کر بولی‬
‫ھاں ھاں اس گھر میں سب ھی بیچارے ہیں‬
‫بس ایک میں ھی پاگل ہوں ۔‬
‫میں نے اسکی بات ختم ھوتے ھی اسے مذید چڑاتے ھوے کہا‬
‫واہ واہ اج سچی گل کیتی اے‬
‫واہ واہ مزہ آگیا۔‬
‫تو نسرین روہانسی ھوتے ھوے نیچے سے جوتا اٹھا کر مجھے مارنے لگی تو میں دونوں ٹانگیں اوپر کر کے ہاتھ آگے کر‬
‫کے اپنا آپ بچانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گیا اور آنٹی فوزیہ نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی کہ شرم کرو تمہارا بھائی ھے‬
‫اب تم بچے نھی رھے‬
‫بڑے ھوگئے ھو‬
‫نسرین نے جوتا نیچے پھینکا اور میری طرف گھورتے ھوے‬
‫منہ ھی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔‬
‫[‪] size/‬میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے پھر اسے چھیڑتے ھوے آنٹی کو کہا آنٹی جی دیکھ لیں یہ منہ میں‬
‫مجھے گالیاں دے رھی ھے ۔‬
‫تو نسرین بولی‬
‫میں تیرے منہ نئی لگدی۔۔۔‬
‫اور ہاتھ جوڑ کر بولی جا جان چھڈ میری ۔‬
‫میں ہنستا ھوا چارپائی پر پڑی ٹرے میں سے چاے کی پیالی اٹھا کر پینے لگا‬
‫اور پھر‬
‫کچھ دیر مزید‬
‫ہم باتیں کرتے رھے ۔‬
‫نسرین کے ساتھ وقت خلوت نہ مال۔‬
‫شام ہونے والی ہوگئی تھی‬
‫تو میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر آنے لگا تو آنٹی نے کہا یاسر کل تمہارے چاچا نے ختم پر جانا ھے میرے بھائی کے‬
‫میں نے بھی جانا تھا‬
‫مگر بچیاں اکیلی ہیں انکے پیپر بھی ہورھے ہیں ۔تو تم کل رات کو ادھر سوجانا‬
‫میں تمہاری امی کو بتا دوں گی ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور انکے گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫گھر پہنچا تو‬
‫امی گھر ہر نھی تھی شاید ہمسایوں کے گھر گئی تھی‬
‫نازی بھی اپنے کمرے میں تھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ دیر بیٹھا رھا‬
‫[‪] size/‬اور پھر لیٹ کر سوچوں میں گم ھوگیا میں نے یہ تو طے کر لیا تھا کہ اب صدف کے گھر بھی نھی جانا اور اس کو‬
‫منہ بھی نھی لگانا‬
‫اور پھر‬
‫کل عظمی کے ساتھ اکیلے جانے کے بارے میں سوچنے لگ گیا‬
‫اسد کے مسئلے پر بھی سوچتا رھا‬
‫اور نہ جانے کب انکھ لگی اور میں نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔۔۔‬
‫کمرے میں پہنچا تو نسرین چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫اور عظمی کپڑے تبدیل کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔‬
‫میں نسرین کے پاس دوسری چار پائی پر بیٹھ گیا ۔‬
‫اور نسرین سے حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫نسرین بھی مجھ سے دکان سے جلدی آنے کی وجہ پوچھنے لگ گئی‬
‫میں نے وہ ھی روداد دوبارہ دھرا دی ۔‬
‫نسرین دروازے کی طرف دیکھتے ہوے آہستہ سے بولی‬
‫یاسر اس نواب زادی سے پوچھا کہ یہ صبح اتنی جلدی کیوں سکول گئی تھی‬
‫اور وہ بھی اکیلی ۔‬
‫نسرین کی بات سن کر میرے دماغ میں پھر وہ ھی اپنی ادھوری کوشش کو دوبارا مکمل کرنے کا پالن‪ .‬جنم لینے لگ گیا ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫نسرین نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا کیا کہا اس نے ۔‬
‫تو میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے پیچھے گردن گھما کر دروازے کی طرف دیکھا اور‬
‫نسرین کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا‬
‫میں نے تو اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ لینے لگا تھا بس میری بدقسمتی کہ اسکی مجھ پر نظر پڑ گئی‬
‫اور۔‬
‫میں چپ ھوگیا تو نسرین بڑے تذبذب کا شکار ھوکر حیران ہوتے ھوے آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ کر بولی اور کیا؟ ؟؟؟؟‪.‬‬
‫میں پھر گردن گھما کر پیچھے دیکھ کر کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ‬
‫میرے پالن اور سسپنس کو منزل تک پہنچانے کے لیے‬
‫خوش قسمتی سے عظمی کمرے میں داخل ہوئی‬
‫تو نسرین کی نظریں اسی وقت عظمی پر پڑیں‬
‫تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے چوکس کیا ۔‬
‫تو میں نے بھی اپنے منہ سے نکلتے الفاظ کو روک کر جلدی سے گردن گھما کر پیچھے عظمی کی طرف دیکھا اور ساتھ‬
‫ھی بات کو بدلتے ھوے نسرین کو کہنے لگا ۔‬
‫تمہارا آج کا پیپر ضائع ھوگیا ھے‬
‫نسرین کی بجاے عظمی بولی‬
‫میں نے اس کی درخواست لکھ کر میڈم کو دے دی تھی‬
‫اس کے جتنے پیپر رھ گئے بعد میں دے دے گی ۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫کیا مطلب یعنی کہ یہ کل بھی سکول نھی جاے گی ۔‬
‫عظمی منہ کو بسورتے ھوے بولی اس میڈم کو پتہ ھوگا کہ کل بھی جانا ھے کہ نھی ۔‬
‫نسرین جو پہلے ھی عظمی کی مداخلت کی وجہ سے جلی بھنی ھوئی تھی‬
‫عظمی پر پھٹ پڑی ۔‬
‫ھاں ھاں تم تو چاہتی ھی ھو کہ میں سکول ھی نہ جاوں بس اکیلی تم ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی بولی کیا مطلب‪ ،،،،،‬۔۔۔‬
‫اس سے پہلے کہ انکی تکرار بڑھتی آنٹی فوزیہ چاے لیے ھوے اندر داخل ھوئی ۔‬
‫اور انکو یوں چونچیں لڑاتے ھوے دیکھ کر بولی ۔‬
‫توبہ ہے تم دونوں کی ایک منٹ نھی بنتی آپس میں پتہ نھی سکول میں بھی کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتی ہوں گی ۔‬
‫میں نے فورن ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ھوے‬
‫چٹکلہ بھرا‬
‫آنٹی جی ۔وھاں انکو پتہ ھے نہ کہ میڈم کالس میں ھی انکے کان پکڑا کر دونوں کو ڈیسکوں پر مرغا بنا دے گی اس لیے یہ‬
‫ادھر شانتی سے رہتی ہیں‪.‬‬
‫نسرین بولی‬
‫ھاں ھاں تیرے کان روز ماسٹر پکڑواتا ھوگا نی اس لیے تمہیں پتہ ہے۔‬
‫آنٹی فوزیہ ہنستے ھوے‬
‫نسرین کو ڈانٹتے ھوے بولی‬
‫چل ہن توں ایس وچارے نال شروع ھوجا۔‬
‫تو وہ جل بھن کر بولی‬
‫ھاں ھاں اس گھر میں سب ھی بیچارے ہیں‬
‫بس ایک میں ھی پاگل ہوں ۔‬
‫میں نے اسکی بات ختم ھوتے ھی اسے مذید چڑاتے ھوے کہا‬
‫واہ واہ اج سچی گل کیتی اے‬
‫واہ واہ مزہ آگیا۔‬
‫تو نسرین روہانسی ھوتے ھوے نیچے سے جوتا اٹھا کر مجھے مارنے لگی تو میں دونوں ٹانگیں اوپر کر کے ہاتھ آگے کر‬
‫کے اپنا آپ بچانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گیا اور آنٹی فوزیہ نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی کہ شرم کرو تمہارا بھائی ھے اب‬
‫تم بچے نھی رھے‬
‫بڑے ھوگئے ھو۔نسرین نے جوتا نیچے رکھا اور میری طرف گھورتے ھوے منہ ھی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔‬
‫میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے پھر اسے چھیڑتے ھوے آنٹی کو کہا آنٹی جی دیکھ لیں یہ منہ میں مجھے‬
‫گالیاں دے رھی ھے ۔‬
‫تو نسرین بولی میں تیرے منہ نئی لگدی۔۔‬
‫اور ہاتھ جوڑ کر بولی جا جان چھڈ میری ۔میں ہنستا ھوا چارپائی پر پڑی ٹرے میں سے چاے کی پیالی اٹھا کر پینے لگا اور‬
‫پھر کچھ دیر مزید ہم باتیں کرتے رھے ۔‬
‫مگر نسرین کے ساتھ دوبارا وقت خلوت نہ مال۔‬
‫شام ہونے والی ہوگئی تھی۔‬
‫تو میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر آنے لگا تو آنٹی نے کہا یاسر کل تمہارے چاچا نے ختم پر جانا ھے میرے بھائی کے‬
‫میں نے بھی جانا تھا مگر بچیاں اکیلی ہیں انکے پیپر بھی ہورھے ہیں ۔تو تم کل رات کو ادھر سوجانا‬
‫میں تمہاری امی کو بتا دوں گی ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور انکے گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫گھر پہنچا تو‬
‫امی گھر ہر نھی تھی شاید ہمسایوں کے گھر گئی تھی۔‬
‫نازی بھی اپنے کمرے میں تھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ دیر بیٹھا رھا اور پھر لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ھوگیا میں نے یہ تو طے کر لیا تھا‬
‫کہ اب صدف کے گھر بھی نھی جانا اور اس کو منہ بھی نھی لگانا‬
‫اور پھر‬
‫کل عظمی کے ساتھ اکیلے جانے کے بارے میں سوچنے لگ گیا‬
‫اسد کے مسئلے پر بھی سوچتا رھا‬
‫اور نہ جانے کب انکھ لگی اور میں نیند کی وادیوں میں چال گیا۔۔۔۔‬
‫اگلے دن میں اٹھا اور نہا دھو کر ناشتہ کر کے آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا ۔‬
‫نسرین کی آج بھی چھٹی تھی‬
‫اس لیے اکیلی عظمی ھی میرے ساتھ ۔‬
‫آئی اور گلی کے موڑ پر پہنچ کر میں کھیتوں کی طرف بڑھنے لگا‬
‫تو عظمی بولی باجی کو نھی لے کر جانا‬
‫میں نے کہا نھی میں اس چول کو ساتھ نھی لے کر جاوں گا اگر تم نے جانا ھے اسکو لے کر تو اکیلی ھی جاو پھر میں‬
‫جارھا ھوں‬
‫یہ کہہ کر میں کھیت کی طرف چل پڑا ۔‬
‫عظمی بھی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی میرے پیچھے آئی اور قریب پہنچ کر دوڑ کر میرے ساتھ چلتی ہوئی بولی یاسر کیا ھوا‬
‫وہ ہماری ٹیچر رھی ھے ایسا کیا ھوا کہ تم اسے چول بول رھے ھو اور اسکو ساتھ نھی لے کر جارھے۔‬
‫میں نے عظمی کی طرف غصے سے دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫میں نے ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ اسے میں نے ساتھ نھی لے کر جانا تو نھی جانا۔‬
‫بات ختم ۔‬
‫اب اسکا ذکر بھی میرے سامنے مت کرنا ورنہ تم بھی مجھ سے جاو گی۔‬
‫عظمی حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫یاسر کچھ بتاو تو سہی ھوا کیا ھے‬
‫باجی نے تم سے کچھ کہا ھے کیا تمہاری لڑائی ہوئی ھے‬
‫پرسوں تو اچھے بھلے ساتھ گئے تھے پھر ایک دن میں اچانک ایسا کیا ہوا جو تم اتنا ناراض ھورھے ھو۔‬
‫عظمی کی بات سن کر میں رک گیا ۔‬
‫اور پھر اسی انداز میں بوال۔‬
‫تمہیں ایک دفعہ میری بات سمجھ میں نھی ائی ۔‬
‫عظمی مجھے یوں غصے میں دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫اچھا بابا مجھ پر تو غصہ نہ ھو۔‬
‫نھی کچھ کہتی اب بسسسسسس۔‬
‫اور پھر ہم چلتے ھوے مکئ میں داخل ھوے تو عظمی میرے آگے آگے جارھی تھی اور میں اسکے پیچھے پیچھے ۔‬
‫میں نے عظمی کو کہا۔‬
‫عظمی آج بھی چھٹی دو بجے ھونی ھے‬
‫تو عظمی نے گھوم کر میری طرف دیکھتے ھوے کہا ہاں کیوں کیا ھوا۔‬
‫میں کچھ نھی کہہ کر چپ ہوگیا۔‬
‫کچھ آگے جاکر میں نے کہا‬
‫عظمی کیا پیپر ھی دو بجے ختم ھوتا ھے ۔‬
‫تو عظمی پھر سر گھما کر مجھے ایک نظر دیکھ کر منہ سامنے کر کے بولی ۔‬
‫نھی پیپر کا وقت تو بارہ بجے تک ھوتا ھے‬
‫اسکے بعد جس لڑکی کا گھر واال لینے آجاے تو وہ چلی جاتی ہے‬
‫نھی تو پھر دو بجے ھی مین گیٹ کھلتا ھے تو سب لڑکیاں جاتی ہیں‬
‫اس سے پہلے کوئی لڑکی اکیلی نھی جاسکتی ۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا۔‬
‫اور کچھ دیر پھر بوال۔‬
‫عظمی اگر میں تمہیں لینے آوں بارہ بجے تو تم آسکتی ھو۔‬
‫عظمی چلتے چلتے رک کر میری طرف دیکھتے ھوے ہنس کر بولی‬
‫اچھااااااااا تو جناب اس لیے بار بار پوچھ رھے تھے ۔‬
‫میں نے بے ساختہ عظمی کوجپھی ڈال لی‬
‫اور باہوں میں کستے ہوے کہا‬
‫یار بہت دل کررھا ھے‬
‫کتنے دن ھوگئے ہیں ۔‬
‫عظمی نے کتاب اور پیپر لکھنے واال گتہ پکڑا ھوا تھا جسکو وہ سینے کے ساتھ لگا کر کھڑی تھی تو میرے سینے کے‬
‫ساتھ اسکا بازو ھی لگا مممے تو کتاب اور گتے کے پیچھے چھپے ھوے تھے۔‬
‫عظمی اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر دل تو میرا بھی بہت کرتا ھے‬
‫مگر دن کے وقت تم نے پھر اسی جگہ کرنے کو کہنا ھے‬
‫اور مجھے اس جگہ ڈر بہت لگتا ھے‬
‫اور ویسے بھی یہ جگہ غیر محفوظ ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا‬
‫ہم نے پہلے بھی تو ادھر کتنی دفعہ کیا ھے ۔‬
‫عظمی بولی یاسر برا وقت آنے میں کوئی پتہ نھی لگتا ۔‬
‫اور عظمی مجھ سے اپنا آپ چھڑوا کر پھر چل پڑی۔‬
‫میں چپ کرکے اسکے پیچھے چلتا ھو ا‬
‫مکئی سے باہر آگیا اور پھر پل پر سے ہم ایک ساتھ چلتے ھوے دوسری طرف آگئے ۔‬
‫میں نے پھر کہا۔‬
‫یار تم میرے لیے اتنا بھی نھی کرسکتی۔‬
‫عظمی بولی میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ھوں‬
‫نہی یقین تو کسی دن آزما کر دیکھ لینا‬
‫تم‬
‫اور آزما کر بھی پچھتاو گے۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫تبھی تو ڈر رھی ھو۔‬
‫عظمی بولی ڈرتی صرف اپنے ماں باپ کی عزت سے ہوں ۔‬
‫تو میرے دماغ میں فورن آیا کہ اتنا عزت کا خیال ھوتا تو‬
‫یوں کار میں نہ پھرتی‬
‫مگر پھر اپنے آپ پر مالمت کرتے ھوے خیال کو جھٹک دیا کہ اب اگر اس نے غلطی کر ھی لی ھے تو وہ اسپر ندامت بھی‬
‫ھے‬
‫اور تم کتنے دودھ کے دھلے ھو‬
‫یا تم کون سا اس سے شادی کرنا چاھتے ھو جو اسکی اتنی فکر ھے‬
‫اسے تو صرف تمہیں چھوڑ کر ایک دوسرے مرد سے مراسم بڑھانے پر اتن ندامت ھے کہ وہ تیرے سامنے گھنٹوں ھاتھ‬
‫جوڑ کر روتی رھی‬
‫اور تم تو کتنی لڑکیوں کی پھدیاں مار چکے ھو تجھے تو کبھی یہ احساس نھی ھوا ۔‬
‫عظمی اور میں بلکل ساتھ ساتھ چل رھے تھے ۔‬
‫عظمی نے مجھے خاموش اور خیالًو ں میں ڈوبے دیکھا تو مجھے کندھا مار کر بولی‬
‫ہیلو‬
‫کس سوچ میں گم ھوگئے ھو۔‬
‫میں دفعتًا چونکا‬
‫اور خود کو سنبھالتے ھوے خود کو‬
‫اس پر ایسے ظاہر کیا جیسے اسکے انکار پر میں صدمے میں چال گیا ھوں ۔‬
‫مگر اسے کیا پتہ تھا کہ‬
‫اپنے ضمیر سے چھترول کروا رھا تھا‬
‫عظمی پھر بولی‬
‫اچھا بابا آجانا‬
‫تمہاری خاطر سب کچھ قربان ۔‬
‫اب تو منہ سہی کرلو ۔‬
‫میں عظمی کی ہاں سن کر یکلخت کھل اٹھا اور شوخی سی بھاگ کر اسکے آگے آیا اور اسکی طرف منہ کر کے بیک چلتا‬
‫ھوا بوال‬
‫سچیییییی‬
‫عظمی میری طرف دیکھ کر ہنستے ھوے میری نکل اتارتے ھوے بولی ُمچیییییی‬
‫میں پھر سیدھا ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگا۔‬
‫عظمی بولی یاسر مجھے تو یاد آیا کہ آج تو ابو نے ماموں کے ختم پر جانا ھے‬
‫اور تم نے ہمارے گھر سونا ھے ۔‬
‫تو رات کو اگر میں آجاوں تو کیسا رھے گا‬
‫ساری رات انجواے کریں گے‬
‫میں نے اسکی بات سنتے ھی اسکے ھی انداز میں اسکی نقل اتارتے ھوے کہا‬
‫انجواے کریں گے اور آنٹی سے چھتر کھائیں گےےےےےے‬
‫عظمی برا سا منہ بنا کر بولی‬
‫امی تو جلدی سوجاتی ھے‬
‫اور صبح ھی اٹھتی ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کوئی پتہ نھی کہ کب اٹھ سکتی ہیں ۔‬
‫تو عظمی بولی یاسر کچھ کرو نہ‬
‫کہ ہم ساری رات خوب مزے کریں‬
‫میں نے کہا‬
‫یار میں کیا کرسکتا ھوں‬
‫اب میں تمہاری آنٹی کو لوری تو نھی سنا سکتا‬
‫یا کوئی نشہ آور گولیاں تو نھی کھالااااااااا۔‬
‫کھال میرے منہ میں ھی اٹک گیا اور ایک شیطانی خیال آیا۔۔۔۔‬
‫جو آج کے دور میں روز مرہ کا معمول کام سمجھا جاتا ھے ۔‬
‫عظمی مجھے کھالااا پر اٹکے میرے منہ کی طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار ایک آئڈیا آیا ھے دماغ میں اگر ااسپر عمل ھوجاے تو ساری رات خوب انجواے کر سکتے ہًیں کسی کو کانوں کان خبر‬
‫نھی ھوگی ۔‬
‫عظمی تجسس کا شکار ھوے بولی‬
‫بتاو بھی کیا کریں۔‬
‫میں نے اہستہ سے منہ عظمی کے کآن کے پاس لیجا کر کہا‬
‫نشے کی گولیاں آنٹی کو کھال دیتے ہیں پھر آنٹی صبح ھی اٹھے گی ۔‬
‫عظمی منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی‬
‫ھاےےےے میں مرگئی ۔ نہ بابا نہ مینوں مروانا ای ۔‬
‫توبہ توبہ توبہ‬
‫میں نے جھال کر کہا۔‬
‫گل تے پیلے پوری ُسن لے‬
‫پیلے ای توں مرن والی ہو جانی ایں ۔‬
‫عظمی پھر نہ نہ نہ ۔‬
‫کر رھی تھی ۔‬
‫میں نے غصے سے کہا‬
‫وڑ پانڈے وچ نئی تے نہ سئی۔‬
‫جدوں گل ای نئی پوری سننی تے پتہ میرے لن دا لگنا اے۔‬
‫عظمی میرا برا سا منہ دیکھ کر نقاب کے اوپر ھی منہ پر ھاتھ رکھ کر ہنسنے لگ پڑی ۔‬
‫تو میں غصے سے چلتا ھوا اس سے آگے نکل گیا۔‬
‫عظمی بھاگ کر میرے ساتھ شامل قدم با قدم ھوئی‬
‫اور بولی ۔‬
‫اچھا بتاو کیا کہنے لگے تھے۔‬
‫میں نے کہا کچھ نئی یار چھڈ سارا موڈ ای خراب کردیا ھے ۔‬
‫عظمی بڑی ادا سے مجھے کندھا مارتے ھوے بولی‬
‫رات ہونے دو جناب کا موڈ سہی کردوں گی ۔‬
‫رات کا سن کر میں پھر واپس اپنی ٹون میں آگیا اور عظمی کے دوبارا اسرار کرنے کا انتظار کرنے لگا ۔‬
‫مجھے خاموش دیکھ کر عظمی پھر بولی بتا بھی دو سکول بھی آنے واال ھے‬
‫پھر نہ گھر کے رہیں گے نہ کھیت کے رہیں گے ۔‬
‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا‬
‫اور بوال‬
‫رات کو چاے کون کون پیتا ھے‬
‫عظمی بولی سب ھی پیتے ہیں ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫بناتا کون ھے ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫کبھی میں کبھی عظمی اور کبھی امی بھی بنا لیتی ھے ۔‬
‫میں نے کہا تو سمجھو اپنا کام تو ھوگیا۔‬
‫عظمی حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫وہ کیسے جی۔‬
‫میں نے کہا‬
‫رات کو میں جب آوں گا تو تمہیں چپکے سے گولیاں پکڑا دوں گا تم آنٹی کے کپ میں ڈال دینا اور جب آنٹی سوجائیں گی‬
‫تو تم چپکے سے دوسرے کمرے میں آجانا۔‬
‫عظمی بولی اور نسرین ۔‬
‫میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور ساتھ ھی میرے منہ سے ھای بھی نکلی‬
‫اور کہا کہ اسکا تو مجھے یاد ھی نھی‬
‫تم دونوں کے کپ میں ڈال دینا‬
‫اور میں ماتھے کو دبانے لگا۔‬
‫عظمی نے پوچھا کیا ھوا‬
‫میں نے کہا وہ چوٹ کی جگہ پر ہاتھ لگ گیا تھا‬
‫عظمی بولی دھیان سے رھا کرو نہ‬
‫میں نے کہا‬
‫جب ایسا پرزہ ساتھ ھو تو پھر دھیان کہیں اور کیسے جاے ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫چل شوخا۔‬
‫اتنی دیر میں ہم سکول والی گلی میں داخل ہوے اور بوائز سکول کے گیٹ کے سامنے سے گزرے تو میں نے عظمی کی‬
‫طرف دیکھا جو وھاں سے چلنے کی سپیڈ تیز کر کے اور گبھراے انداز سے چل رھی تھی ۔‬
‫میں نے بھی اسے کچھ نھی کہا کہ بات خامخاہ کہیں اور نکل جاے گی ۔‬

‫)‪Update no ,(75‬‬
‫عظمی کو سکول چھوڑ کر میں دکان پر چال گیا ۔‬
‫دکان ابھی بند ھی تھی‬
‫میں نے باھر سے صفائی وغیرہ کی ۔‬
‫کچھ دیر بعد انکل بھی آگئے۔‬
‫اور دکان کھول کر دکان کی بھی صفائی وغیرہ کی اور پھر میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھ کر کسٹمر کا انتظار کرنے لگا‬
‫کچھ دیر بعد جنید بھی آگیا‬
‫اور انکل اور مجھ سے سالم دعا لینے کہ بعد میرے پاس ھی بیٹھ گیا ۔‬
‫اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے‬
‫اچانک میرے ذہن میں آیا کہ‬
‫عظمی کو گولیوں کا کہہ تو دیا ھے مگر گولیاں الوں گا کہاں سے میرا تو کوئی واقف بھی نھی ھے اور نشہ آور گولیاں‬
‫کوئی میڈیکل سٹور واال دے بھی کہ نہ دے ۔‬
‫میں نے جنید سے پوچھنے کا سوچا کہ یہ تو شہر میں ھی رہتا ھے اور‬
‫اسکا کا شاید کوئی میڈیکل سٹور واال واقف ھو۔‬
‫میں نے جنید سے پوچھا یار ایک کام ھے اگر تو کر دے تو تیری مہربانی ھے ۔‬
‫جنید ایک دم میری طرف دیکھتے ھوے بوال۔‬
‫کہیں موٹر سائیکل تو نھی سیکھنی ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے اسکی کمر پر ہاتھ مارتے ھوے کہا‬
‫نھی یار‬
‫موٹر سائیکل نے تو میرے کانوں کو ھاتھ لگا دیے ہیں ۔‬
‫جنید بوال تو پھر اور کیا کام ھے۔‬
‫میں نے کہا یار مجھے نیند کی گولیاں چاہیے‬
‫اسد حیران ھوتے ھوے بوال۔‬
‫خیر ھے کوئی بچی تو نھی پھنسا لی ۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ھوے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫واہ یار بڑا تجربہ ھے تیرا‬
‫تجھے کیسے پتہ ۔‬
‫جنید بڑے فخر سے سینہ چوڑا کر کے بوال۔‬
‫تیرے ویر نے بہت بچیاں ساری ساری رات بجائی ہیں ۔‬
‫میں نے کہا واہ یار بڑی گل اے ۔‬
‫تم تو ُچھپے رستم نکلے‬
‫تو وہ آہستہ سے دوسرے لڑکے کی طرف اشارہ کرکے بوال‬
‫یار اسے مت بتانا یہ بات صرف تم میں اور مجھ میں ھی رھے ۔وہ بڑا چغل خور ھے ۔اس نے انکل کو بتا دینا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کیسی باتیں کررھا ھے‬
‫میں یاروں کا یار ھوں‬
‫سوچنا بھی نہ کہ تمہاری بات لیک آوٹ ھوگی‬
‫اور میں بھی تم پر یقین کرتے ھوے ھی تم سے بات کی ھے کہ تم یہ بات اپنے تک ھی محدود رکھو گے ۔‬
‫جنید بوال یار تم بھی بےفکر رہو۔‬
‫میں نے پھر کہا بتایا نھی کہ گولیاں مل جائیں گی ۔‬
‫جنید بوال کتنے لوگوں کو کھالنی ہیں ۔‬
‫میں نے کہا دو کو‬
‫جنید بوال‬
‫جب ہم کھانا لینے ہوٹل پر جائیں گے تو میرا دوست ھے میڈیکل سٹور پر ۔میری گلی کا ھی ھے‬
‫اس سے تجھے ایک پتہ ال دوں گا‬
‫اس میں سے دو گولیاں چاے یا دودھ میں حل کر کے ان دونوں کو پالدینا‬
‫بس پھر وہ صبح سے پہلے نھی اٹھتی‬
‫۔‬
‫میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا یار تیرا یہ احسان زندگی بھر نھی بھولوں گا‬
‫جنید بوال چھڈ یار‬
‫یہ بھی کوئی کام ھے ۔‬
‫اتنے میں ایک کسٹمر اندر داخل ہوا تو جنید اٹھ کر کسٹمر کو ڈیل کرنےلگ گیا۔‬
‫اور میں پھر باہر کی طرف متوجہ ھوکر اپنے خیالوں میں بیٹھا رھا۔‬
‫میری سوئی ایکدم اسد پر اٹک گئی کہ سالے نے عظمی کے ساتھ اچھا نھی کیا‬
‫اگر عظمی اس سے پیار کرتی ھی تھی چاھے دولت کی ھی اللچ میں تو اسد جیسے اسکو پیار کا دعوٰی اور شادی کی اللچ‬
‫دیتا رھا‬
‫۔‬
‫اگر اس سے شادی نھی کرنی تھی یا پھر پیار ھی نھی تھا تو اسے دھوکے سے بال کر اسکے ساتھ یوں زبردستی تو نہ کرتا۔‬
‫اگر عظمی اپنی رضا مندی سے اسکے ساتھ جو مرضی کرتی وہ الگ بات تھی‬
‫مگر اسے ایسے ایک بدمعاش کے ڈیرے پر لیجا کر اسکی عزت پر ہاتھ ڈالنا‬
‫تو سرا سر بدمعاشی ھے۔‬
‫میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور منہ میں ھی بڑبڑایا۔‬
‫اچھا اسد اسکا حساب تیری بہن سے چکتا کروں گا‬
‫اور پھر تجھے احساس ھوگا کہ کیسے کسی کے ساتھ ذبردستی کی جاتی ھے ۔‬
‫مگر میں ذبردستی نھی کروں گے بلکہ تیری بہن خود میرا لن پکڑ کر اپنی کنواری پھدی میں لے گی ۔‬
‫کچھ دیر بعد دکان میں کافی کسٹمر اگئے اور میں بھی کسٹمر ڈیل کرنے میں مصروف ھوگیا ۔‬
‫مصروفیت میں پتہ ھی نھی چال کہ کب دوپہر ھوگئی ۔‬
‫اور پھر میں اور جنید ہوٹل سے کھانا لینے چلے گئے ۔‬
‫راستے جنید بوال بچی کیسی ھے جس کی لینی ھے ۔میں نے جھوٹ بولتے ھوے کہا نھی یار بچی نھی بلکہ آنٹی ھے ۔‬
‫اسکا شوہر الہور میں کام کرتا ھے‬
‫اور وہ اپنی ساس اور نند کے ساتھ ہماری دوسری گلی میں رہتی ھے ۔‬
‫بس ایسے ھی اس سے آنکھ مٹکا ھوگیا‬
‫اور اس نے آج رات ملنے کا کہا اور ساتھ میں مجھے گولیاں النے کا بھی کہا‬
‫مجھے تو یہ پتہ نھی کہ یہ گولیاں ھوتی کیسی ہیں اور کہاں سے ملتی ہیں‬
‫اس لیے میں کل سے پریشان تھا اور ڈرتا تجھ سے پوچھ نھی رھا تھا۔‬
‫جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کندھے کو دباتے ہوے بوال چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا۔‬
‫تم مجھے کل ھی بتا دیتے یہ کونسی گیدڑسنگی تھی جو ملنی نھی تھی ۔‬
‫ایسے ھی ہم باتیں کرتے ھوے میڈیکل سٹور پر پہنچے تو جنید مجھے باہر کھڑے ھونے کا کہہ کر اندر گیا اور کچھ دیر بعد‬
‫باہر آیا اور مجھے چلنے کا کہا۔‬
‫مجھ سے رھا نہ گیا اور بےصبری سے اس سے پوچھنے لگ گیا کہ‬
‫مل گئی ۔‬
‫جنید نے برا سا منہ بنا کر کہا نھی یار وہ کہتا ھے کہ کل لے جانا آج ختم ھوگئی ہیں ۔‬
‫میں چلتا ھوا ایک دم رک گیا‬
‫اور اسکی طرف پریشان حال ھوکر دیکھتے ھوے بوال‬
‫نئی یار‬
‫جنید بوال چل کل پر رکھ لینا پروگرام کونسا قیامت آجانی ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار پہلے ھی تو بڑی مشکل سے کام بنا ھے اور آج رات کا ھی موقع ھے‬
‫اور میں افسردہ سا ھوکر چلنے لگا ۔‬
‫جنید میرے چہرے کی طرف دیکھ کر جیب میں سے ہاتھ ڈال کر کاغذ والے چھوٹے سے لفافے میں لپٹا گولیوں کا پتہ‬
‫مجھے دیتے ھوے ہنستا ھوا بوال ۔‬
‫لے فیر یار کی یاد کریں گا ۔‬
‫میرے ہاتھ میں گولیوں کا پیکٹ آتے ھی میرے چہرے پر ایسے رونق آئی جیسے مجھے کوئی خزانہ مل گیا ھوں ۔‬
‫میں نے پیکٹ پکڑ کر جلدی سے جیب میں ڈالتے ھوے‬
‫جنید کے بازو پر مکا مارتے ھوے کہا۔‬
‫ماما مینوں ڈرا ای دتا سی ۔‬
‫ہم ایسے ھی ہنستے ھوے ہوٹل پر پہنچے اور کھانا لے کر دکان پر چلے گئے کھانا وغیرہ کھا کر فری ہوے اور پھر‬
‫کسٹمرز میں مصروف ہوے شام ہونے کا نام ھی نھی لے رھی تھی ۔ آخرکار وقت وصل قریب آیا اور میں گھر پہنچا تو امی‬
‫نے بتایا کہ تیری آنٹی اکیلی ھے‬
‫تم آج رات انکے گھر سو جانا‬
‫میں نے منہ بسور کر اچھا کیا‬
‫اور کھانا وغیرہ کھا کر‬
‫عظمی کے گھر پہنچ گیا۔‬
‫جاتے ھی آنٹی فوزیہ کو سالم کیا‬
‫تینوں ماں بیٹیاں صحن میں ھی بیٹھی کھانا کھا رھی تھیں ۔‬
‫مجھے دیکھ کر فوزیہ اور عظمی کے چہرے پر ایک الگ ھی خوشی نظر آئی۔‬
‫میں انکے پاس ھی بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے کھانے کا کہا مگر میں نے کہا کہ میں گھر سے کھا کر آیا ہوں ۔‬
‫تو آنٹی ناراض ہوتے ھوے بولی تمکو کہا بھی تھا کہ رات ادھر سونا ھے تو کھانا بھی ادھر ھی کھا لیتے ۔‬
‫میں نے کہا کوئی بات نھی آپکے اور ہمارے گھر کا کونسا کوئی فرق ھے ایک ھی بات ھے ۔‬
‫پھر کچھ دیر ادھر ادھر کیا باتیں چلتی رھی ۔‬
‫نسرین بیچاری تو پھدی کی لیکج کو لے کر افسردہ سی بیٹھی کھانا کھا رھی تھی‬
‫اور عظمی رات کو پھدی چودوانے کے لیے بے چین تھی‬
‫اور آنٹی فوزیہ کا بھی من کر رھا تھا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاے ۔‬
‫آنٹی فوزیہ کے آج تیار شیار ہونے سے ھی اسکے ارادوں کا پتہ چل رھا تھا ۔‬
‫آنٹی فوزیہ نے پیج کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا‬
‫جس میں اس کا گورا رنگ اور بھی کھل رھا تھا ۔‬
‫میں آنٹی کے پاس ھی بیٹھا ھوا تھا ان کے جسم سے صابن کی بھینی بھینی سے خوشبو اٹھ رھی تھی جیسے کچھ دیر پہلے‬
‫ھی نہائی ھو۔‬
‫میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا کہ کب واپس آئیں گے تو آنٹی بولی کل کا کہہ کر گئے تھے کہ الزمی آجاوں گا۔‬
‫میں نے ہممم کیا ۔‬
‫عظمی بار بار مجھے آنکھوں سے اشارے کر کے گولیوں کا پوچھ رھی تھی میں نے اسے آنکھ مار کر مطمئن کردیا۔‬
‫اور آنٹی کے سامنے بیٹھ کر اسکے جسم کا نظارا کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا‬
‫اور وہ چارپائی پر ایک ٹانگ کو فولڈ کرکے گھٹنا اوپر کئے اور دوسری ٹانگ کو نیچے فولڈ کر کے پیر پھدی کے ساتھ‬
‫لگاے بیٹھی ھوئی تھی‬
‫جبکہ عظمی اور نسرین دوسری چارپائی پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی‬
‫کھانا کھانے میں مصروف تھیں ۔‬
‫آنٹی جب جھک کر روٹی کے نوالے کو پلیٹ سے سالن لگاتی تو آنٹی کے آدھے ممے گلے سے نظر آتے‬
‫اور آنٹی کو بھی پتہ تھا کہ میں اس کے مموں کا نظارا کررھا ھوں ۔‬
‫وہ بھی جان بوجھ کر ذیادہ جھکتی ۔‬
‫کچھ دیر بعد کھانا ختم کیا اور آنٹی نے عظمی کو برتن سمیٹنے کا کہا‬
‫نسرین اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی اور‬
‫عظمی برتن سمیٹ کر‬
‫نلکے کے پاس لے گئی اور دھونے میں مصروف ھوگئی‬
‫میں نے آہستہ سے آنٹی کو کہا‬
‫آج میرا نمبر لگ جاے گا کہ نھی ۔‬
‫تو آنٹی نے جلدی سے میرا ھاتھ دباتے ھوے عظمی کی طرف اشارہ کیا‬
‫تو میں نے آہستہ سے کہا وہ تو اتنی دور بیٹھی ھے اسکو‬
‫ہماری آواز کہاں سننی ھے ۔‬
‫آنٹی بولی صبر کرلو‬
‫اتنے بے صبرے مت بنو۔‬
‫میں نے کیا ۔آنٹی آپ کے ممے دیکھ کر ھی میں بےصبرا ھوگیا ھوں‬
‫اور اپنے لن کو پکڑ کر کہا یہ دیکھو‬
‫کیسے بےچین ھے ۔‬
‫آنٹی نے گبھرا کر اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارا کیا مگر میں کہا چپ رہنے واال تھا۔‬
‫میں نے پھر پوچھا بتا تو دیں کہ میں انتظار کروں آپ کا ۔تو آنٹی آہستہ سے بولی ۔‬
‫میں کوشش کروں گی‬
‫اب چپ ھوجاو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے آنٹی چارپائی سے اٹھی اور جوتا پہنتے ھوے اپنی گانڈ میں پھنسی قمیض کو نکال کر عظمی کو برتن‬
‫اچھی طرح دھونے کا کہتی ھوئی اسکی طرف چلی گئی ۔‬
‫میں اب اکیال بیٹھا ھوا تھا‬
‫میں بھی اٹھ کر اندر کمرے میں نسرین کے پاس چال گیا اور جاکر اس سے اسکی طبعیت کا پوچھنے لگ گیا ا کچھ دیر بعد‬
‫ھی آنٹی برتنوں کی ٹوکری اٹھاے کمرے میں داخل ھوئی ۔‬
‫اور آنٹی کے پیچھے ھی عظمی بھی اندر آگئی ۔‬
‫عظمی نے اندر آتے ھی مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا‬
‫تو میں پیشاب کرنے کے بہانے باہر نکل آیا اور واش روم میں چال گیا اور دروازہ بند کر کے اندر کھڑا ھوگیا اور جیب سے‬
‫گولیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیں ۔‬
‫اور لکڑی کے دروازے کی دراڑ سے آنکھ لگا کر صحن میں دیکھنے لگا تو‬
‫عظمی دیگچی اٹھاے کمرے سے نکلی اور چولہے کی طرف جانے لگی تو میں جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکال اور‬
‫چلتا ھوا عظمی کے قریب پہنچا اور اسکے ہاتھ میں گولیوں کا پتہ‪ .‬دیتے ھوے کہا ایک ایک گولی دونوں کی پیالی میں ڈال‬
‫دینا اور اسکا جواب سنے بغیر پھر کمرے کی طرف چال گیا۔‬
‫‪.‬کچھ دیر بعد عظمی چاے لے کر اندر داخل ہوئی تو میں نے اسکی طرف دیکھ کر آنکھوں کے اشارے کام ہوجانے کا پوچھا‬
‫تو عظمی نے پلکوں کو جھکا کر اثبات میں جواب دیا۔‬
‫اور پھر عظمی نے ایک پیالی آنٹی کو پکڑائی ایک مجھے اور پھر نسرین کو‬
‫ہم چاے پیتے ھوے گپیں مارتے رھے ۔‬
‫ساتھ میں نسرین کے ساتھ بھی چونچ لڑتی رھی اور جوابًا اسکی جلی کٹی باتیں سن کر قہقہے لگاتے رھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے آنٹی سے پوچھا کہ میں نے کہاں سونا ھے ۔تو آنٹی بولی چلو میں ساتھ والے کمرے میں تمہارا بستر لگا‬
‫دیتی ہوں ۔‬
‫عظمی اور نسرین بھی لیٹ گئی تھیں میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چال گیا۔‬
‫میرے پیچھے ھی آنٹی گانڈ مٹکاتی ہوئی آگئی ۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے آنٹی کو کس کر جپھی ڈال لی‬
‫اور آنٹی کے ہونٹوں کو چومنے لگ گیا‬
‫آنٹی میرے اچانک یوں جپھی ڈالنے سے گبھرا گئی اور مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے آہستہ سے بول رھی‬
‫تھی‬
‫یاسر چھوڑو‬
‫پاگل ھوگئے ھو وہ دونوں جاگ رھی ہیں کوئی ادھر آگئی تو مجھے مرواو گے میں آنٹی کو تسلی دیتے ھوے کچھ نھی ہوتا‬
‫آنٹی وہ سونے لگی ہیں اب نھی آتی باہر‬
‫کہتے ھوے آنٹی کی ہونٹ چوم رھا تھا اور آنٹی منہ ادھر ادھر کر رھی تھی‬
‫آنٹی کے دونوں بازو میرے سینے اور آنٹی کے مموں کے درمیان تھے اور میرا لن فل ٹائٹ ھو کر آنٹی کی پھدی کے ساتھ‬
‫رگڑ رھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر آنٹی احتجاج کرتی رھی مگر جب لن نے پھدی کو گرم کردیا اور میرے ہونٹوں کے لمس نے آنٹی کے جسم میں‬
‫ہوس جگا دی تو آنٹی نے بھی اپنے بازوں سینے سے نکال کر میری کمر کے گرد ڈال لیے اور اپنے ممے میرے سینے میں‬
‫جزب کر لیے‬
‫میں نے آنٹی کا اوپر واال ہونٹ منہ میں ڈال کر چوسنے لگ گیا جبکہ آنٹی نے میرا نچال ہونٹ قابو کر لیا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی موٹی گانڈ کی پھاڑیوں کو ھاتھوں میں جکڑا ھوا تھا‬
‫اور ھاتھوں کا دباو ڈال کر گانڈ کو آگے کی طرف دھک رھا تھا‬
‫اور میرا لن آنٹی کے نرم پٹوں کے درمیان پھدی کے ساتھ رگڑ کھا رھا تھا‬
‫جس سے آنٹی بھی فل انجواے کرتی ھوئی‬
‫اپنے پٹوں کو آپس میں بھینچ رھی تھی ۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی کرتا رھا ہم دونوں اتنا مستی میں ڈوبے ھوے تھے کہ یہ بھی خیال نہ رھا کہ کمرے کا دروازہ کھال‬
‫ھوا ھے اور‬
‫عظمی یا نسرین میں سے کوئی بھی اندر آسکتی ھے ۔‬
‫مگر جب منی دماغ پر سوار ھو تو سب اندھے گونگے بہرے ھی نظر آتے ہیں ۔‬
‫ایسا ھی حال ہمارا اس وقت تھا۔‬
‫بس کمرے کی الئٹ بند تھی شاید اس وجہ سے دماغ بھی کچھ مطمئن تھا‬
‫میں نے ھاتھ آگے کیا اور آنٹی کی قمیض کے اندر سے ھاتھ ڈال کر آنٹی کے نرم نرم مموں کو پکڑ کر دبانے لگا ۔‬
‫میں یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ آنٹی نے بریزیر بھی نھی پہنا ہوا تھا ۔‬
‫جبکہ جب میں آیا تھا تو میں نے آنٹی کے کپڑوں میں خود اپنی آنکھوں سے کالے رنگ کے بریزیر کا عکس دیکھا تھا ۔‬
‫جب میرا ہاتھ آنٹی کے ننگے ممے پر گیا اور جاتے ھی میں نے آنٹی کے تنے ھوے نپل کو انگلیوں میں مسال تو آنٹی کے‬
‫منہ سے سییییییی کی آواز نکلی‬
‫میں نے تھوڑی دیر ھی مموں کو باری باری جلدی جلدی مسل کر چھوڑ دیا۔‬
‫اور آنٹی کو پیچھے دھکیلتے ھوے دیوار کے ساتھ لگا دیا اور ساتھ ھی اپنا ھاتھ آنٹی کی السٹک والی شلوار میں ڈال کر‬
‫پھدی پر رکھ دیا‬
‫پھدی تو ایسے مالئم تھی جیسے آج ھی اسکی صفائی کی ھو ۔‬
‫یعنی آج صبح سے ھی آنٹی کا چدوانے کا موڈ تھا۔ میرا ھاتھ پھدی کو کیا چھوا پھدی نے میرا ھاتھ ھی گیال کردیا میری‬
‫انگلیاں چپ چپ کرنے لگ گئی‬
‫آنٹی نے پھدی کو ھاتھ لگتے ھی اپنی ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا اور سییییییی آہہہہہہہہہ کیا میرا ھاتھ آنٹی کے چڈوں میں‬
‫ھی پھنس گیا‬
‫میں نے کوشش کر کے ہاتھ باہر نکاال اور آنٹی کا منہ دوسری طرف کرنے کے لیے آنٹی کی کمر میں بازو ڈال کر آنٹی کو‬
‫گھما دیا انٹی آہستہ سے بولی کیا ھے میں نے کہا بتاتا ھوں منہ تو دوسری طرف کرو اور آنٹی نے‬
‫لےےےےےےے کیا اور منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال شلوار کو ڈھیال کیا تو شلوار میرے پاوں میں گر گئی ۔‬
‫)‪Update no( 76‬‬
‫اور پھر آنٹی کی قمیض گانڈ سے اوپر کی اور شلوار پکڑ کر گانڈ سے نیچے کرنے لگا تو آنٹی نے جلدی سے شلوار پکڑ لی‬
‫اور گھوم کر پھر سیدھی ھوگئی‬
‫اور مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر پاگل تو نھی ھوگئے‬
‫اور ساتھ ھی کمرے سے باہر نکل گئی میرے منہ سے بس اتنا ھی نکال بات تو سنننننن۔۔‬
‫اور میں لن ھاتھ میں پکڑے آنٹی کو جاتا دیکھتا رھا۔‬
‫مجھے غصہ تو بہت آیا کہ سالی خود تو فارغ ھوگئی مگر مجھے ادھورا چھوڑ کر چلی گئی‬
‫میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی اور ناال باندھ کر کھڑے لن کے ساتھ ھی چارپائی پر بیٹھ گیا‪ .‬۔‬
‫سالی بستر بھی نھی لگا کر گئی تھی‬
‫ویسے ھی چارپائی پڑی تھی جس پر میں بیٹھا‬
‫سوچ رھا تھا اور نیچے سے میرا لن مجھے‬
‫وکھرا منہ چڑھا رھا تھا ۔‬
‫میں کچھ دیر بیٹھا دل ھی دل میں آنٹی فوزیہ کو گالیاں دیتا رھا‬
‫مجھے غصے میں دیکھ کر لن بھی ڈر کر بیٹھ گیا۔‬
‫میں اٹھا اور باہر نکل کر واش روم کی طرف چال گیا ۔‬
‫پیشاب کر کے میں باہر آیا تو میں انکے کمرے کی طرف چل پڑا اور دروازے کہ قریب کھڑا ھوکر کان لگا کر اندر کے‬
‫حاالت معلوم کرنے لگ گیا ۔‬
‫مگر اندر مکمل سکوت طاری تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں ادھر ھی کھڑا رھا پھر یہ سوچ کر دوسرے کمرے کی طرف چل پڑا کہ لگتا ھے آنٹی جاتے ھی سوگئی ھے‬
‫اور نسرین تو پہلے ھی سوگئی ھوگی اور عظمی سونے کا ناٹک کر رھی ھوگی۔‬
‫بس ایسے ھی قیاس آرائیوں سے دل کو دالسے دیتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور الئٹ جال کر بستر ڈھونڈ کر خود ھی بستر‬
‫کیا اور پھر الئٹ بند کر کے پنکھا چال کے لیٹ گیا اور عظمی کا انتطار کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی کے آنے کی تو اب امید ھی نھی تھی‬
‫کیونکہ گولیاں اب تک اپنا اثر کرچکی ہونگی ۔‬

‫اور ویسے بھی آنٹی کی پھدی ایک دفعہ مینہ برسا چکی تھی اور ایسی حالت میں ویسے ھی نیند بہت جلد آجاتی ھے‬
‫کافی دیر تک میں ایسے ھی سوچوں میں گم رھا‬
‫کہ مجھے باہر سے کسی کے قدموں کی آواز آئی جیسے وہ کمرے کی طرف آرھا ھو ۔‬
‫میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے اور عظمی کو تنگ کرنے کے لیے میں جلدی سے آنکھیں موند کر سونے کی‬
‫ایکٹنگ کرنے لگا۔‬
‫۔قدموں کی آواز کی سمت کان لگائے میں آنکھیں موند کر لیٹا رھا اور قدموں کی آواز جب بلکل کمرے کے دروازے کے پاس‬
‫آگئی تو میں سونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے آہستہ آہستہ خراٹے مارنے لگ گیا۔‬
‫اور عظمی کو دفعتًا ڈرانے کے لیے تیار کرنے لگ گیا۔‬
‫عظمی نے اندر آتے ھی دروازہ بند کیا اور آکر چارپائی کے قریب کھڑی ہوگئی ۔‬
‫میرا لن تو اسکے قدموں کی آواز سن کر ھی اس کے آنے کی خوشی میں سر اٹھاے شلوار کو تمبو بنا کر اسکو تمبو کے‬
‫ساے تلے بیٹھانے کا بندوبست کرچکا تھا۔‬
‫عظمی‬
‫کچھ دیر کھڑی مجھے ہاتھ سے ہالتی رھی تو میں جو پہلے سیدھا لیٹا ھوا تھا اسکے ہالنے سے کروٹ لے کر اسکی طرف‬
‫پیٹھ کر کے لیٹ گیا‬
‫عظمی چارپائی سے اٹھی اور الئٹ جال کر پھر میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی‬
‫وہ خود اتنی ڈر رھی تھی کہ اسکی ہمت نھی ھورھی تھی کے مجھے آواز دے کر اٹھاے‬
‫اس نے چارپائی پر بیٹھ کر مجھے پھر ہالیا مگر میں نے پھر بھی اسکی طرف منہ نھی کیا‬
‫عظمی میرے ساتھ لیٹ گئی‬
‫اور میرے کان کے پاس منہ کر کے میرے کان پر ہلکی سے دندی کاٹ لی ۔‬
‫میں نے سیییییی کرتے ھوے‬
‫کان کو مسال‬
‫اور غصے سے اسکی طرف گھوم کر کہا سسییییی‬
‫عظظظظظظظظظظظ‬
‫آآآ آ آ آ آ‬
‫بس اتنا ھی میرے منہ سے نکال‬
‫اور آآ کی چیخ نکلی‬
‫اور میں نے آنکھوں کو ملتے ھوے ناقابل یقین سے پوری آنکھیں کھول کر جب دیکھا تو وہ عظمی نھی بلکل آنٹی فوزیہ‬
‫تھی‬
‫اور میں خود کو سنبھالتے ھوے عظظظظ کو‬
‫اظظظظالمیں کہہ کر مکمل کیا‬
‫میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنٹی کو آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا تھا‬
‫کہ یہ سالی آنٹی فوزیہ ھی ھے کہیں کوئی چڑیل تو نھی‬
‫کیونکہ مجھے تو پکا یقین تھا کہ‬
‫آنٹی اور نسرین تو بےہوشی کی نیند سوگئی ہوں گی‬
‫مگر یہ بال کہاں سے نازل ہوگئی‬
‫انکھیں بھی وہ ھی ناک بھی وہ ھی ہونٹ بھی وہ سوٹ بھی پیج کلر ھی ھے ہاتھ پیر بھی سیدھے ھی ہیں‬
‫اگر یہ آنٹی ھے تو‬
‫عظمی کدھر گئی ۔‬
‫مجھے یوں حیران پریشان دیکھ کر آنٹی مجھے کندھے سے ہالتے ھوے بولی‬
‫خیر اے میں ای آں‬
‫کی ڈیلے پاڑ پاڑ ویکھی جاناں ایں ۔‬
‫آنٹی کی آواز سن کر مجھے کچھ حوصلہ ھوا‬
‫میں نے کہا آآنٹیییی آپپپپپ‬
‫تو آنٹی نے مجھے پھر کندھے سے ہالتے ھوے‬
‫کہا‬
‫او کاکا ہوششش کر‬
‫میں ای آں‬
‫اینا ڈریاں ہویاں کیوں ایں ۔‬
‫میں نے جب دوبارا آنٹی کی آواز سنی تو مجھے یقین ھوا کہ واقعی یہ چڑیل نھی آنٹی فوزیہ ھی ہے۔‬
‫میں نے خود کو کنٹرول کرتے ھوے کہا‬
‫وہ میں سو گیا تھا ۔اور آپ نے میرے کان پر کاٹا تو میں ڈرگیا‬
‫آنٹی ہنستے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی جا اوے کوئی حال نئی تیرا۔‬
‫پورا پائی بن گیا ایں پر فیر وی اندروں بچہ ای ایں ۔‬
‫اب میں کافی ریلیکس ھوچکا تھا۔‬
‫اور دل کو سمجھا بیٹھا تھا‬
‫کہ چلو‬
‫کڑی نئی تے اودھی ماں ای سئی۔‬
‫آپاں تے پانی ای کڈنا اے‬
‫موٹر نئی تے ڈونکی پمپ ای سئی۔‬
‫میں نے آنٹی کو جپھی ڈال کر چارپائی پر لیٹاتے ھوے کہا۔‬
‫جان من آج اس بچے کا کمال تو دیکھنا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے آنٹی کہ ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے‬
‫اور ہونٹ چوسنے لگ گیا۔‬
‫میرے دماغ میں پھر عظمی آگئی کہ یہ نہ ھو کہ وہ سالی اوپر سے آجاے‬
‫اور میں نہ ماں کو چود سکو ں نہ اسکی بیٹی کو۔‬
‫میں نے آنٹی کے لبوں سے اپنے لب ہٹاے اور آنٹی سے پوچھا کہ عظمی اور نسرین سوگئی‬
‫تو آنٹی بولی وہ تو کب کی سوگئی ہیں‬
‫میں نے تو انکو دو تین دفعہ آوازیں بھی دیں مگر وہ تو پتہ نئی کون سا نشہ پی کر سوئی ہیں ۔‬
‫میں عجیب ھی کشمکش میں تھا کہ یہ ساال ھو کیا رھا ھے یہاں تو سب کچھ ھی الٹ ھوگیا‬
‫بیٹی کو چودنے کی خاطر‬
‫ماں کو سالنے کہ لیے گولیاں کھالئیں‬
‫مگر یہاں ماں بیٹی کو سال کر خود چدنے آگئی‬
‫واہ ****؛تیرے کیا رنگ ہیں۔‬
‫لن جو موتر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا‬
‫انٹی کی پھدی کو قریب دیکھ کر پھر سے انگڑائی لے کر آنٹی کے چڈوں میں سر دے چکا تھا‬
‫میں نے بھی سب خیالوں کو لن پر کنڈوم کی طرح چڑھا کر ۔‬
‫سر کو جھٹکا اور‬
‫پھر سے‬
‫میرے انتظار میں کھڑے گالبی ھوتے ھوے ہونٹوں پر پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور انکو چوسنے لگ گیا۔‬
‫آنٹی بھی گرم ہوچکی تھی‬
‫میں نے آنٹی کو سیدھا کیا اور انٹی کی قمیض کو اوپر کر کے مموں کو باہر نکاال‬
‫‪100‬‬
‫واٹ کے بلب کی گولڈن الئٹ میں آنٹی کے ممے چمکتے ھوے باہر آے اور مجھے ٹوٹ پڑنے کا دعوت نامہ پیش کرنے‬
‫لگے‬
‫جسے میں نے خوش دلی سے قبول کیا اور مموں پر ہاتھ صاف کرنے لگا‬
‫جیسے جیسے مموں کو میں چوستا آنٹی کندھے اٹھا اٹھا کر ممے میرے منہ کے اندر گھسانے کی کوشش کرتی اور ایک‬
‫ہاتھ سے مما پکڑ کر میرے منہ میں ایسے دیتی جیسے مجھے دودھ پال رھی ھو‬
‫اور چھت کی طرف منہ کر کے بند انکھوں سے سسکاریاں بھرتی ۔‬
‫کچھ دیر مموں کی چنگی تسلی کی ۔‬
‫اور پھر میں اٹھ کر آنٹی کی ٹانگوں کے درمیان آگیا۔‬
‫پہلے میں نے خود کو کپڑوں سے آزاد کیا اور مادر زاد ننگا ھوگیا اور پھر آنٹی کا بازو پکڑ کر کھینچتے ھو اسے بھی اٹھا‬
‫کر بیٹھا لیا اور اسکی قمیض بھی اتار دی بریزیر تو پہلے ھی نھی جسم پر تھا‬
‫آنٹی کا ننگا جسم بلب کی گولڈن الئٹ میں دیکھ کر میری تو باچھیں کھل گئیں‬
‫کیا جسم تھا آنٹی کا‬
‫چٹا سفید گولڈن سیب‬
‫میرا رنگ بھی کافی سفید تھا مگر‬
‫آنٹی کے اوپر لیٹا ھوا میں‬
‫نان پر کباب ھی لگ رھا تھا‬
‫انٹی کی گوری چمکتی رنگت کے سامنے میرا سفید رنگ بھی مانند پڑگیا۔‬
‫میں نے آنٹی کی قمیض اتار کر آنٹی کو پھر لیٹا دیا اور پھر شلوار کو پکڑا کر پھدی اور گانڈ سے نیچے کرتے ھوے‬
‫پیروں سے بھی الگ کردیا۔‬
‫اب دونوں‬
‫الف ننگے تھے‬
‫ایک کچی جوانی اور ایک پکی ُک ھنگ جوانی۔‬
‫آپس میں ٹکرانے کے لیے بے چین تھیں‬
‫دونوں کی سانسیں بے ترتیبی سے چل رھی تھیں‬
‫پھدی لن کو اور لن پھدی کو گھور رھا تھا‬
‫قارئین اضطراب کا شکار تھے‬
‫رات ابھی آدھی باقی تھی‬
‫حوصلے دونوں کے بلند تھے‬
‫مجھے اپنی جوانی اور جنون کا غرور‬
‫آنٹی کو اپنے تجربہ اور قوت برداشت کا تکبر‬
‫جیت کس کی ھوتی‬
‫یہ اختتام جنگ کے بعد ھی معلوم ہونا تھا۔‬
‫میں نے آنٹی کی پھدی کی طرف دیکھا تو‬
‫پھدی شیشے کی پلیٹ کی طرح چمک رھی تھی‬
‫میں نے دو انگلیوں کو جوڑا اور انکو پھدی کے لبوں کی درمیان گھسیڑ کر اندر کردیا‬
‫آنٹی کے کندھے چار پائی سے اوپر کو اٹھے اور ھائیییییی کی آواز آئی‬
‫اور پہلی شاٹ پر جنون کا پوائنٹ بڑھا‬
‫اور قوت برداشت صفر پر‬
‫انگلیاں میں نے جڑ تک اندر کردیں ۔‬
‫پھدی ابھی اتنی گیلی نھی تھی‬
‫اس لیے آنٹی کو ہلکی سی تکلیف ھوئی‬
‫جسکا اظہار انکی ہائیییییی سے ہوا۔‬
‫میں آنٹی کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھا‬
‫اپنے ھاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑے پھدی کے اندر باہر کرنے لگا‬
‫آنٹی کی اہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی‬
‫اس سے پہلے کے آنٹی کو پہلے ھی اوور میں صفر پر آوٹ کر دیتا‬
‫آنٹی کا تجربہ کام آیا اور آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔‬
‫اور نھی میں سر ہال کر پھدی سے انگلیاں باہر نکال دیں ۔‬
‫مجھے پہال وار خالی جانے پر دکھ ہوا خیر‬
‫ابھی تو گیم شروع ھوئی تھی ۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی پھدی سے میری انگلیاں نکالنے کے بعد تیز سانس لے کر میری طرف مستانی آنکھوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے‬
‫پھر انگلیوں کو پھدی کی جانب بڑھایا تو آنٹی نے جلدی سے میری انگلیوں کو ھی پکڑ لیا ۔‬
‫میں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو‬
‫آنٹی نے نفی میں سر ہالتے ھوے روکا اور انگلیوں کو کھینچ کر آنکھوں کے اشارے سے اور سر کو خم دے کر مجھے‬
‫اپنے اوپر آنے کا کہا۔‬
‫مگر میرا ابھی پھدی کے ساتھ مستی کرنے کو دل کررھا تھا۔‬
‫میں ایک دفعہ تو آنٹی کا دل رکھتے ھوے ۔‬
‫اسکے اوپر سے سیدھا اسکے چہرے کے پاس منہ کر کے اسکے اوپر ھی لیٹ گیا اور میرا لن پھدی کے اوپر لگ گیا‬
‫آنٹی نے جلدی سے چالکی کھیلتے ھوے ۔ اپنی ٹانگوں کو کھوال۔‬
‫اور گانڈ کو نیچے سے اوپر کی طرف جھٹکا دیا کہ لن اندر چال جاے ۔‬
‫مگر میں نے لن کو اس انداز سے کر لیا کہ لن پھدی سے سلپ ھو کر انٹی کی گانڈ کی طرف چال گیا۔‬
‫آنٹی نے تین یکے بعد دیگرے گانڈ اٹھا کر لن کو گھسے مارے مگر میں ہر دفعہ پھدی کا وار خالی جانے دیتا۔‬
‫میں تو لمبی سیریز کھیلنے کے موڈ میں تھا مگر آنٹی تو بس ٹی ٹونئٹی میں ھی کام نپٹانا چاھتی تھی ۔‬
‫میں نے آنٹی کے ہونٹوں کو چوسا اور نیچے کھسکنے لگا تو آنٹی بولی‬
‫یاسر اندر کرو نہ‬
‫میں نے کہا صبر رکھیں ۔کرتا ھوں ۔‬
‫آنٹی بولی نھی صبر ہوتا‬
‫سارااااا ایییی کردو‬
‫میں نیچے کھسکتے ھو ے بوال‬
‫میری جان سارا ھی کروں گا‬
‫بس دومنٹ ۔‬
‫میں کھسکتا ھوا آنٹی کے مموں کے پاس پہنچا تو‬
‫مموں نے میرا راستہ روک لیا‬
‫کہ‬
‫کدرررررر۔‬
‫میں نے وھاں ٹھہر کر کچھ دیر دونوں مموں کو سمجھایا‬
‫اور پھر نیچے کی طرف آگیا۔‬
‫مموں کو منہ میں بھرتے ھی آنٹی نے مجھے مذید ساتھ چپکا لیا اور مموں کو اوپر کر کر کے مجھ سے چوسا لگوانے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫میں نے مموں کو انکا حصہ دیا‬

‫)‪.Update no (77‬‬
‫میں نے مموں کو انکا حصہ دیا‬
‫اور واپس اپنی منزل کی طرف لوٹتے ھوے نیچے کھسکنا شروع ہوگیا۔‬
‫آنٹی نے مجھے نیچے جانے کے لیے پھر روکا مگر میں کیسے رکتا‬
‫پھدی میرا انتظار کررھی تھی‬
‫میں انٹی کے پیٹ کو چومتا ھوا ناف سے نیچے آیا اور‬
‫پھدی کے لبوں کو چوما اور پھر دوزانوں ہوکر پھدی کے سامنے بیٹھ گیا‬
‫میں نے پھدی کے اوپر دونوں ہاتھ رکھے اور دونوں انگوٹھوں کی مدد سے پھدی کے لب کھولے اور پھدی کے اندر کا‬
‫منظر دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫پھدی اندر سے سرخ تھی‬
‫اور پھدی کی سرخی پھدی میں لگی ہوئی آگ کی وضاحت کر رھی تھی ۔‬
‫میں پھدی کو غور سے دیکھ کر اندر کے حاالت معلوم کررھا تھا‬
‫آنٹی آنکھیں بند کر کے سی سی کر رھی تھی ۔‬
‫پھدی کے اندر جاکر اندھیری سرنگ شروع ہو جاتی تھی‬
‫جس سے آگے کچھ نظر نھی آرھا تھا ۔‬
‫پھدی کے اندر نرم ریشوں پر پھدی سے گرنے والی شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔‬
‫میں نے سر پھدی کی جانب بڑھایا ۔‬
‫انٹی ٹانگوں کو فولڈ کر کے گھٹنے اوپر کر کے پھدی کو میرے سامنے ایسے کھول کرلیٹی ہوئی تھی جیسے بچہ پیدا کرتے‬
‫وقت عورت ٹانگیں کھول کر لیٹتی ھے ۔‬
‫میں نے پھدی کے قریب منہ کیا اور اپنی زبان نکال کر پھدے کے مٹر جتنے دانے کو زبان کی نوک سے چھیڑا ۔تو‬
‫آنٹی نے سییییییییی کیا اور دونوں ٹانگیں جوڑ کر چڈوں میں میرا سر بھینچ کر چھوڑ دیا ۔‬
‫آنٹی کی تڑپ دیکھ کر مجھے آنٹی کا چور سوئچ مل گیا میں نے دانے کو زبان سے رگڑنا شروع کیا‬
‫تو آنٹی تڑپنے لگ گئی اور بار بار اپنے چڈوں میں میرا سر بھینچ کر چھوڑتی‬
‫آنٹی کی بےچینی اور سسکاریوں نے مجھے جوش چڑھایا تو میں نے پھدی کے دانے کو جھلی سمیت منہ میں ڈال کر‬
‫چوسنے لگا‬
‫آنٹی چارپائی سے اچھلی اور‬
‫ایک ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھا کر میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں دبوچ لیا اور‬
‫دوسرا ھاتھ چارپائی پر مارنا شروع کر دیا اور سسکاریاں مارتے ھوے اپنا سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی‬
‫میں جیسے جیسے پھدی کے دانے کو زور زور سے چوستا آنٹی اتنی ھی زور سے میرے بالوں کو مٹھی میں دبوچتی ھوئی‬
‫چارپائی پر تڑپتی ھوئی سسکاریاں مارنے لگ جاتی‬
‫آنٹی کی یہ حالت میرے جوش میں اضافہ کررھی تھی ۔‬
‫کہ آنٹی کا جنون حد سے تجاوز کرنے لگا‬
‫آنٹی کا جسم اکڑنا شروع ھوگیا‬
‫میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی‬
‫انٹی کی لمبی سسکاری نکلی‬
‫سسسیہہہہہ مممممممم اممممم یاھھھھھھھھ یاسررررررر میں گگگگئییییییییی‬
‫اور ساتھ ھی‬
‫آنٹی نے میرا سر پورے ذور سے پھدی کے اوپر دبا دیا‬
‫اور گانڈ کو نیچے سے اٹھا کر پھدی کو میرے منہ کے ساتھ دبا کر اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ لیں جس سے میرا سر آنٹی کے‬
‫چڈوں میں پھنس گیا‬
‫آنٹی نے کے جسم نے ایک ذورداد جھٹکا لیا اور آنٹی کی پھدی نے میرے منہ کے اندر باہر ناک آنکھوں کو منی سے بھر‬
‫دیا ۔‬
‫میرا سانس بند ھورھا تھا‬
‫میں سر پیچھے کھینچنے کی کوشش کررھا تھا‬
‫مگر آنٹی نے میرے سر کے بال مٹھی میں بھرے ھوے تھے اور چڈوں کو ذور سے بھینچ رکھا تھا‬
‫آنٹی کی تیز سانسیں اور جھٹکے جاری تھے‬
‫میری جب جان نکلنے والی ھوگئی اور جب تک آنٹی کی سانسیں درست ہونی تھی‬
‫میری سانسیں رک جانی تھی ۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ آنٹی کے چڈوں پر رکھے اور پورا زور لگا کر اپنا سر آنٹی کے چڈوں سے نکالنے میں کامیاب ھوگیا‬
‫آنٹی اپنے مزے میں ڈوبی میری حالت سے بے خبر لمبے لمبے سانس لے رھی تھی اور میرے بال ھاتھ سے نکلتے ھی آنٹی‬
‫نے ہاتھ پھدی پر رکھ کر پھر چڈوں کو بھینچ لیا تھا اور ہلکے ہلکے جھٹکے جاری تھے ۔‬
‫میں سر باہر نکال کر لمبا سانس لے کر کھانسنے لگا گیا‬
‫میرا سر آنٹی کے چڈوں سے ایسے نکال جیسے پھدی سے نومولود بچہ باہر آتا ھے‬
‫اور میرا سارا منہ پھدی کے پانی اور منی سے ایسے بھرا ھوا تھا جیسے پھدی سے نکلنے کے بعد بچے کا منہ اور سر پانی‬
‫سے بھرا ھوتا ھے میں کھانستے ھوے‬
‫منہ کو بھی صاف کررھا تھا‬
‫آنٹی کچھ ٹھنڈی ہوئی اور ساتھ ھی ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی آنٹی کا ھاتھ اب بھی پھدی پر ھی تھا۔‬
‫میں انٹی کے قدموں میں بیٹھا‬
‫اسکی چٹی سفید گانڈ کو دیکھ رھا تھا‬
‫جو سائڈ لے کر لیٹنے کی وجہ سے باھر کو نکل آئی تھی ۔‬
‫میں اپنا منہ اچھی طرح صاف کر کے آنٹی کے ساتھ آنٹی کی کمر کے ساتھ لگ کر لن آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر لیٹ‬
‫گیا اور ایک ھاتھ آنٹی کی بغل سے گزار کر آنٹی کا مما پکڑ لیا ۔‬
‫اور ممے کو دباتے ھوے کہا‬
‫مزہ آیا ۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫بوتتتتتتتتتت‬
‫‪.‬میں نے آنٹی کو کہ‬
‫کہ آپ نے اپنے مزے کے چکر میں آج بچے کی جان لے لینی تھی ۔‬
‫آنٹی بولی بچہ نہ ُپٹھے کم کرے ۔‬
‫میں نے کہا جان من تم نے پھدی کو سپیشل میرے لیے تیار کیا تھا‬
‫اگر میں اس کی تیاری کو سراہتا نہ تو یہ پھدی کے ساتھ ذیادتی ہونی تھی ۔‬
‫آنٹی نے ہاتھ پیچھے کر کے میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا۔‬
‫بے شرم‬
‫شرم نھی آتی گندی باتیں کرتے ھوے ۔‬
‫میں نے کہا لو جی اب میں نے کیا گندی باتیں کردی‬
‫تو آنٹی بولی ایک تو گندی حرکتیں کرتے ھو اور پھر کیسے چسکے لے لے کر اپنی حرکتوں کی وضاحت کرتے ھو ۔‬
‫میں آنٹی سے گفتگو کے دوران لن کو انٹی کی گانڈ کے دراڑ میں مین اندر باھر بھی کر رھا تھا ۔‬
‫میں نے باتوں کے دوران ھی ھاتھ نیچے کیا اور لن کو پکڑ کر ٹوپے کو گانڈ کی موری پر سیٹ کر چکا تھا‬
‫اور آنٹی کو باتوں میں لگا کر‬
‫جیسے ھی گھسا مار کر لن آنٹی کی ُبنڈ میں اتارنے لگا تو انٹی جھٹکے سے آگے ہوئی اور میرا ٹوپا موری سے سلپ ھوکر‬
‫پھدی سے رگڑتا ھوا آگے چال گیا۔‬
‫آنٹی گردن گھما کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی بے شرم یہ کیا کرنے لگے تھے‬
‫مجھے مارنا تھا کیا‬
‫ابھی اندر چال جاتا تو میری چیخ پورے محلے نے ُسننی تھی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کچھ نھی ہوتا بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔‬
‫آنٹی بولی‬
‫نئی یاسر یہ بھی کوئی کرنے کی جگہ ھے‬
‫آگے سے کرو‬
‫میں نے کہا نھی مجھے پیچھے سے ھی کرنا ھا ۔‬
‫کچھ بھی نھی ھوتا‬
‫انٹی بولی نئی یاسر مجھ سے برداشت نھی ھونا۔‬
‫میں نے کہا کیوں ۔‬
‫کیا انکل نے پیچھے سے کبھی نھی کیا۔‬
‫تو آنٹی آہ بھر کر بولی ۔‬
‫اس بیچارے سے تو اب آگے سے بھی نھی ھوتا‬
‫پیچھے سے کیا کرے گا۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا۔‬
‫وہ کیوں جی ۔‬
‫تو آنٹی بولی چھوڑو کن باتوں کو لے کر بیٹھ گئے ھو ۔‬
‫مگر میرا یہ جاننے کے لیے تجسس بڑھ گیا کہ ایسا کیا ھے کہ انکل سے کچھ بھی نھی ھوتا ۔‬
‫اور اتنی حسین اور ایسی سیکسی فگر کی مالک بیوی کو دیکھ کر بوڑھوں کے بھی لن کھڑے ھوجائیں تو پھر انکل نے‬
‫ایسی سیکسی لیڈی کو چودنا کیوں چھوڑ دیا ۔‬
‫میں نے انٹی کو پھر کہا کہ بتائیں نہ کہ انکل نے کب سے آپ کے ساتھ سیکس نھی کیا اور کیوں نھی کیا اسکی وجہ کیا‬
‫ھے ۔‬
‫آنٹی بولی بیچارا اب تو بوڑھا ھوگیا ھے ایک تو پہلے ھی مجھ سے دس سال بڑا تھا ۔‬
‫میری تو جب سے شادی ھوئی ھے اسکے ساتھ‬
‫شروع شروع میں میرے ساتھ کرتا رھا‬
‫اور‬
‫جب عظمی اور نسرین ہیدا ھوئی تو اس کے ایک سال بعد تمہارا انکل بلکل ھی فارغ ھوگیا‬
‫پہلے تو اسکا جلدی کھڑا ھی نھی ھوتا تھا اگر ھوتا بھی تو بس ایک دو گھسے مار کر فارغ ھو جاتا‬
‫اور میں ادھوری رھ جاتی‬
‫بچیاں ھونے کے بعد سوال سال میں نے کیسے گزارے مجھے پتہ ھے‬
‫بس بچیوں کو اور اپنے ماں باپ کی عزت کو دیکھتے ھوے اپنی جوانی گنوا کر حالت سے سمجھوتا کرلیا تھا‬
‫اور میں تو سیکس نام کی چیز کو بھی بھول چکی تھی‬
‫میرے ماں باپ کے غلط فیصلے نے میری جوانی رول دی۔‬
‫میں نے جب آنٹی کی یہ باتیں سنیں تو میرا تو حیرت کے مارے برا حال ھوگیا کہ پندرہ سولہ سال سے آنٹی لن کو ترستی‬
‫رھی اور اس کا حوصلہ کہ کیسے صبر کر کے ایک نامرد کے ساتھ گزارا کرتی رھی اور کبھی کسی غیر مرد کی طرف‬
‫آنکھ اٹھا کر بھی نھی دیکھا ۔‬
‫میں دل ھی دل میں آنٹی کے حوصلے اور صبر کو داد دینے لگا۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے انٹی سے پوچھا ۔‬
‫کہ اس دوران آپکا کبھی دل نھی کیا تھا تو آنٹی بولی دل تو بہت کرتا تھا مگر خالی دل کے کرنے یا نہ کرنے کا کیا کرتی‬
‫جب آگے کچھ نظر ھی نھی آتا تھا ۔‬
‫یا پھر اس سے طالق لے لیتی یا پھر باہر منہ کاال کرواتی ۔‬
‫آنٹی کی باتیں سن کر میرے ذہن سے ایک دفعہ تو سیکس نکل چکا تھا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫۔پھر بھی جب اپکا بہت ذیادہ دل کرتا تھا تو کیا کرتی تھی ۔‬
‫تو آنٹی بولی ۔یاسر سہی بتاوں تو پہلے پہل مجھے بہت پریشانی ھوئی میں اس بات کو لے کر دن رات سوچتی رھتی تھی‬
‫مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‬
‫میری قوت برداشت بڑھتی گئی اور پھر آہستہ آہستہ سیکس نام کی چیز ھی میرے دل دماغ سے نکل گئی اسکی سب سے بڑی‬
‫وجہ‬
‫میری جرواں بیٹیاں تھی‬
‫جنہوں نے مجھے مصروف رکھا‬
‫اور پتہ ھی نھی چال کہ کب سوال سال گزر گئے۔‬
‫اور جوانی کب گئی یہ بھی احساس تک نہ ھوا۔‬
‫وہ تو اس دن تم میرے ساتھ مزاق مزاق میں میرے پیچھے لگے تو‬
‫تم نے سوال سال پرانی بجھی آگ کو چنگاری دے دی اور وہ آگ ایسی جلی کہ مجھے یہ بھی احساس نہ رھا کہ تمہاری اور‬
‫میری عمر کا کتنا فرق ھے ۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ آنٹی اب کچھ ذیادہ ھی اموشنل ھورھی ھے تو میں نے سنجیدہ ماحول کو خوشگوار بنانے اور آنٹی کو‬
‫دوبارا سیکس کی طرف راغب کرنے کے لیے آنٹی کے ممے کو دباتے ھوے کہا۔‬
‫فوزیہ جان جوانی تو اب آئی ھے تم پر ۔‬
‫تم تو اب بھی کسی نوجوان لڑکی سے کم نھی ھو تمہیں پتہ ھے کہ‬
‫میں نے جب پہلی دفعہ تمہارے سیکسی جسم کو دیکھا تھا اور تمہاری پھدی کے اندر اپنا لن کیا تھا تو میں خود حیران ھوگیا‬
‫تھا کہ‬
‫تم کسی حساب سے بھی دو جوان بچیوں کی ماں نھی لگتی ھو۔‬
‫آنٹی نے پھر میرے سر پر چپت مارتے ھوے کہا‬
‫چل بےشرم‬
‫کیسی گندی باتیں کرتا ھے۔‬
‫بہت تیز ھوگیا ھے ۔‬
‫میں نے مذید انٹی کے ساتھ جڑتے ھوُے کہا‬
‫جان من اب تو اجازت ھے ۔‬
‫اور لن کو پکڑ کر پھر گانڈ کی موری پر سیٹ کیا تو‬
‫آنٹی نے آگے سے اپنا ھاتھ پھدی کے اوپر سے لیجاکر‬
‫لن کو پکڑ کر پھدی کے سوراخ کے اوپر رکھا‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یا کرتا‬
‫آنٹی نے گانڈ کو جھٹکے سے پیچھے کیا اور لن کو گانڈ میں لے کر سسیییییی کیا‬
‫اور سسکتے ھوے بولی‬
‫ایس شیر دی جگہ ایتھےےےےےےےے اےےےےے ھاےےءءءءءءءء‬
‫اور لن اندر لے کر آنٹی نے گانڈ میرے ساتھ چپکا دی‬
‫اور پھر بولی یاسر ایسے ھی کرو نہ جلدی۔‬
‫میں نے بھی ُبنڈ مارنے کا ارادہ ملتوی کیا اور پیچھے سے ھی سٹروک لگانے لگا ۔‬
‫آنٹی مزے سے سسک رھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ‬
‫آہیں بھر رھی تھی اور مجھے مذید ذور سے کرنے کا کہتے ھوے‬
‫آہہہہہ سیییی افففففف‬
‫زور سے یاسرررر ذور سے‬
‫ہاں ایتھے سٹ مار ایتھے‬
‫میں انٹی کی ایسی باتیں سن کر مزید جوش میں اگیا اور آنٹی کے کندھوں پر دونوں ھاتھ رکھ کر‬
‫پورے ذور سے گھسے مار رھا تھا‬
‫پھدی سے پانی نکل نکل کر لن کو فراوانی مہیا کر رھا تھا‬
‫میرے شدید گھسوں سے‬
‫آنٹی کے ممے آگے سے ہل ہل کر آنٹی کی ٹھوڑی تک جارھے تھے‬
‫کمرے میں تھپ تھپ اور آنٹی کی سسکاریوں‬
‫اور‬
‫ایتھے سٹ مار یاسر‬
‫ھاں اینج ای اینج ای‬
‫ہٹ ہٹ کہ مار ہٹ ہٹ کے مار‬
‫سارا کردے اج ساراااااااا کردےےےےے‬
‫کی آوازیں پورے کمرے میں گونج رھی تھیں‬
‫ہم دونوں ہر چیز سے بیگانے ھو کر لن پھدی کا مزہ لے رھے تھے‬
‫نہ اندر کی خبر نہ باہر کی‬
‫آنٹی کی آوازیں اتنی بلند تھی کہ اگر کوئی دروازے کے باہر کھڑا ھوتا تو آسانی سے سن لیتا‬
‫مگر ہمیں کسی کی پرواہ نھی تھی ۔‬
‫میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا‬
‫آنٹی کے شور اور آہوں نے وہ ھی کیا جسکا مجھے ڈر تھا‬
‫کہ؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫اچانک‬
‫)‪Update no (78‬‬
‫اچانک میرے جھٹکوں کی سپیڈ تیز ھوگئی‬
‫لن کی رگیں پھولنا شروع ھوگئیں ۔‬
‫آنٹی کےجوش اور سیکسی آوازوں نے اور آنٹی کی دھکتی بھٹی کے آگے میں ذیادہ دیر ِٹک نھی سکا اور میرے لن نے آنٹی‬
‫کی پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنی شروع کردیں اور اسی دوران آنٹی نے بھی اپنی گانڈ کو میرے ساتھ چپکا دیا اور‬
‫پھدی کو بھینچ کر میرے لن کو سارا نچوڑنے لگی ۔‬
‫اور پھر مجھے اپنے ٹوپے پر پھدی کے اندر سے انٹی کی منی کی دھاریں گرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔‬
‫میں اور آنٹی اکھٹے ھی فارغ ہوگئے‬
‫آنٹی بھی کروٹ لیے بے سدھ ہوکر لیٹ گئی اور میں میں بھی کروٹ لیے آنٹی کے ساتھ چپک کر جھٹکے کھاتا ھوا آنٹی کو‬
‫جپھی ڈالے لیٹا رھا‬
‫کچھ دیر بعد میرا لن شِلنگ ہوکر پھدی سے باہر نکل آیا اور آنٹی بھی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو بازو سے پکڑ کر پھر اپنے اوپر کھینچنا چاھا تو آنٹی بولی بس یاسر ٹائم کافی ھوگیا ھے عظمی یا نسرین اٹھ‬
‫نہ جائیں ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور آپ جانے کی بات کررھی ھو۔‬
‫انٹی اپنا بازو چھڑواتے ھوے بولی‬
‫تمہارا جی نھی بھرنا‬
‫اگلے کی چاھے بس ھو جاے ۔میری کمر درد کرنے لگ گئی ھے‬
‫آنٹی بلکل ننگی چارپائی سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی ھوئی تھی اور میں کروٹ لے کر اسکی گانڈ کے ساتھ اپنا سویا ھوا لن‬
‫لگا کر لیٹا ھوا تھا‬
‫آنٹی بولی‬
‫اب مجھے جانے دو ۔‬
‫میں نے آنٹی کا ھاتھ پکڑ کر‬
‫کہا ایک دفعہ تو اور کرنے دو‬
‫ابھی تو میرا جی بھی نھی بھرا ۔‬
‫آنٹی نے جلدی سے اپنا ھاتھ کھینچا اور کھڑی ھوگئی ۔‬
‫آنٹی کی پھدی سے میری اور آنٹی کی منی مکس ھوکر پانی بن کر ٹانگوں سے بہہ کر آنٹی کے پیروں تک آگئی تھی ۔‬
‫اور ٹانگوں پر پانی ٹانگوں پر پانی چمک رھا تھا۔‬
‫آنٹی جب کھڑی ہوئی تو اسکی گانڈ میری طرف تھی‬
‫انٹی کی گانڈ عظمی کی گانڈ کی طرح بلکل گول مٹول اور باہر کو ابھری ہوئی تھی‬
‫مجھے گانڈ دیکھ کر‬
‫اسپر بے اختیار پیار آیا تو میں نے گانڈ کی طرف اپنا پاوں بڑھایا اور پیر کے انگھوٹھے کو گانڈ کی دراڑ میں ڈال دیا۔‬
‫آنٹی جو میری طرف گانڈ کر کے کھڑی اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے بال سنوار رھی تھی‬
‫گانڈ کی دراڑ میں انگوٹھا لگتے ھی تڑپ کر آگے کو ھوئی اور ہاتھ سے میرے پاوں کو جھٹکتے ھوے بولی‬
‫بتمیززززز۔‬
‫اور چارپائی سے دور ہٹ کر اپنے کپڑے پہننے لگ گئی‬
‫میں نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔‬
‫میں ُہن ناں ای سمجھاں۔‬
‫تو آنٹی ایک ٹانگ اٹھا کر شلوار پہنتے ہوے شوخی سے بولی ۔‬
‫توں تے رجناں نئی مینوں مروائیں گا۔‬
‫اور پھر شلوار اوپر کر کے‬
‫قمیض کو درست کرتے ھوے بولی‬
‫چل اٹھ کے کپڑے پہن لے اور دروازہ اندر سے بند کرلے میں جارھی ھوں ۔‬
‫اور آنٹی میرا جواب سنے بغیر آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر جھانک کر‬
‫نکل گئی‬
‫اور میں آنٹی کو جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ننگا لیٹا رھنے کے بعد میں اٹھا اور اپنے کپڑے درست کر کے الئٹ بند کی اور پھر چارپائی پر لیٹ گیا۔‬
‫اور کچھ دیر بعد نیند کی آغوش میں چال گیا ۔‬
‫صبح مجھے آنٹی نے ھی اٹھایا اور میں جلدی سے اٹھ کر اپنے گھر گیا اور نہا دھو کر ناشتہ کیا‬
‫اور پھر واپس آنٹی کے گھر آگیا ۔‬
‫جب گھر میں داخل ھوا تو صحن میں بیٹھی صدف کو دیکھ کر چونک گیا‬
‫اس نے بھی میری طرف ایک نظر دیکھا‬
‫میں نے اسے نظر انداز کیا اور اسکو مخاطب کیے بغیر اسکے پاس سے گزر کر اندر کمرے کی طرف چال گیا۔‬
‫عظمی اور نسرین دونوں ھی سکول کے لیے تیار بیٹھی تھیں ۔‬
‫میں نے عظمی کو گھورتے ھوے دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر شرمندہ سی ھوگئی اور سر جھکا کر میرے پاس سے‬
‫گزر کر باہر چلی گئی میں نے نسرین کو کہا‬
‫جناب نے بھی جانا ھے سکول ۔‬
‫نسرین غصے سے بولی‬
‫جانا اے ۔تینوں کوئی تکلیف اے ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫مجھے کیوں تکلیف ھونی ھے مجھے تو خوشی ھے کہ‬
‫تمہاری طبعیت بہتر ھوگئی ھے ۔۔‬
‫نسرین‬
‫ہنکارا بھر کر میرے پاس سے گزر کر باہر چلی گئی‬
‫میں نے نسرین کی گانڈ کو غور سے دیکھا تو اسکی گانڈ کی دراڑ میں مجھے کو چیز ابھری سی نظر آئی‬
‫جیسے اس نے گانڈ کی دراڑ میں کچھ پھنسایا ھوا ھو ۔‬
‫میں بڑے تجسس سے اسکی گانڈ کو دیکھتا ھوا اسکے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر آگیا‬
‫عظمی اور صدف بیرونی دروازے کے پاس کھڑی نسرین کو جلدی جانے کا کہہ رھی تھی ۔‬
‫نسرین بھی تیز تیز قدموں سے چلتی ھوئی انکے پاس پہنچی‬
‫اور تینوں گھر سے نکل پڑیں‬
‫میں بھی انکے پیچھے پیچھے چل رھا تھا‬
‫میں صدف کی وجہ سے انسے کچھ فاصلے پر چل رھا تھا۔‬
‫ایسے ھی چلتے ھوے‬
‫ہم شہر پہنچ گئے راستے میں کچھ خاص بات نھی ھوئی ۔‬
‫وہ تینوں آپس میں باتیں کرتی رہیں مگر میں نے انکی کسی بات میں مداخلت نھی کی ۔‬
‫انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں ۔‬
‫دکان پر چال گیا‬
‫صفائی وغیرہ کرنے کے بعد‬
‫کچھ دیر کسٹمروں میں مصروف رھے‬
‫مجھے اچانک یاد آیا کہ ضوفی نے لہنگا پارلر سے لے کر جانے کا کہا تھا یہ خیال آتے ھی میں نے انکل سے پوچھا جو‬
‫لہنگا رینٹ پر دیا تھا کیا وہ واپس آگیا ھے انکل نے کہا‬
‫بیٹا تجھے پتہ ھو‬
‫مجھے تو کوئی واپس نھی دے کر گیا ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کوئی بات نھی ۔ادھر ساتھ ھی انکا گھر ھے میں دوپہر کو جاکر لے آوں گا۔‬
‫میں نے انکل کو نھی بتایا کہ وہ پالر والی ھے ۔‬
‫انکل کو یہ علم تھا کہ نھی‬
‫‪I don't know‬‬
‫۔انکل بولے ٹھیک ھے یاد سے لے آنا ۔‬
‫میں نے جی اچھا کیا اور پھر کام میں مصروف ھوگیا‬
‫کام میں مصروفیت کی وجہ سے وقت کا پتہ ھی نھی چال اور دو بج گئے‬
‫جنید نے مجھے کھانا النے کے لیے ساتھ چلنے کا کہا‬
‫تو میں جوتا پہن کر انکل سے کھانے کے پیسے لے کر اسکے ساتھ ہوٹل کی طرف چل پڑا۔‬
‫جنید راستے میں مجھ سے وصل یار کے حاالت معلوم کرتا رھا ۔‬
‫جو میں نے اسے مختصرًا بتا دیے ۔‬
‫باتوں باتوں میں‬
‫میں نے ضوفی کا ذکر چھیڑ لیا کہ‬
‫اسکے گھر میں کون کون ھے‬
‫تو جنید نے بتایا کہ‬
‫وہ تین بہنیں ھیں ایک چھوٹی ھے اور بڑی کی شادی ھوگئی ھے اور اسکا پارلر ھے‬
‫اور انکا بھائی کوئی نھی ھے‬
‫اور باپ بھی نھی ھے‬
‫ماں بوڑھی ھے‬
‫اس لیے گھر کی ساری ذمہ داری ضوفی پر ھی ھے ۔‬
‫میں نے جنید کو ضوفی کا نام نھی بتایا تھا‬
‫وہ اس لیے پھلجھڑی بلبل پٹاخہ جیسے نام لے کر اسکا ذکر کر رھا تھا۔‬
‫میں نے ضوفی کے بارے میں مذید معلومات لینے کی کوشش کی مگر جنید کو بس اتنا ھی علم تھا‬
‫کہ وہ بڑی سیکسی ھے سارے محلے کے لڑکے اس کے سمیت‬
‫اس پر الئن مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کسی کو لفٹ نھی کرواتی سالی بڑی مغرور ھے ۔‬
‫اور پھر ٹھنڈی اہ بھر کر بوال خوش قسمت ھی ھوگا وہ جسکو اس قیامت کی پڑیا کا سیکسی جسم نصیب ھوگا۔‬
‫جنید کی اس طرح کی باتیں سن کر میرے اندر ضوفی کی قربت پانے کا تجسس بڑھتا گیا۔‬
‫اور سوچتا ھوا واپس دکان کی طرف آگیا‬
‫کہ آج اس پر ٹرائی مار کر دیکھوں‬
‫گا۔‬
‫اگر ہنس پڑی تو سمجھو پھنس گئی‬
‫ورنہ کہہ دوں گا باجی ڈر گئی باجی ڈر گئی‬
‫‪.‬میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ منہ دھوکر بال بناے‬
‫دوستو میرے بال کافی سلکی تھے اور اجے دیوگن کی طرح میرا قدرتی پف بنا ھوا تھا ۔‬
‫اور میرا رنگ تو قدرتی سفید تھا اور اکثر میں شیشے کے سامنے کھڑا ھوکر بالوں کو سنوارتا ھوا خود ہولی ووڈ کا ہیرو‬
‫تصور کرتا ھوتا تھا۔‬
‫چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اور مونچھیں بھی نکل آئی تھیں‬
‫جنید اکثر مجھے پٹھان کہتا تھا‬
‫کہ تمہارا رنگ پٹھانوں اور کشمیریوں جیسا چٹا سفید ھے‬
‫اسی لیے مجھے آنٹی فوزیہ اور گلی کی دیگر خاتون شہزادہ کہتی تھیں ۔‬
‫خیر میں بھی کیا اپنے منہ میاں مٹھو بن رھا ہوں۔۔‬
‫میں اپنے آپ کو تیار شیار کررھا تھا‬
‫تو انکل میری طرف حیرانگی سے دیکھتے ھوے مجھے چھیڑتے ھوے بولے‬
‫خیر ھے کدھر کی تیاری ھو رھی ھے ۔‬
‫میں شیشے میں انکل کو دیکھ کر جھینپ سا گیا۔‬
‫اور بات بناتے ھوے بوال۔‬
‫کچھ نھی انکل جی بس ایسے ھی منہ پر مٹی پڑی تھی تو منہ دھولیا۔‬
‫انکل پھر شرارت سے بولے‬
‫میں تو سمجھا کہ‬
‫منڈا ویا تے چال اے ۔‬
‫میں ہنستے ھوے بوال‬
‫نھی انکل جی ایسی تو کوئی بات نھی ھے ۔‬
‫ماحول کی نذاکت کو دیکھتے ہوے اب مجھے حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ انکل کو لہنگا النے کا کہوں ۔‬
‫کچھ دیر میں بیٹھا انتطار کرتا رھا کہ انکل خود ھی مجھے کہیں تو میں لہنگا لینے کے بہانے ۔دیدار ُحسن کے لیے جاوں۔‬
‫میں نے کچھ دیر انتظار کیا مگر انکل اپنے کام میں مصروف رھے ۔‬
‫تو میں اٹھا اور لہنگوں والی الماری کے پاس جاکر لہنگوں کو سیٹ کرنے لگا۔‬
‫اور انکل سے کہا انکل وہ شاکنگ پنک کلر کا لہنگا ھی گیا تھا نہ ۔۔‬
‫انکل بولے ھاں وہ ھی گیا ھے ۔اور انکل نے کالک کی طرف دیکھتے ھوے کہا تم نے تو کہا تھا کہ دوپہر کو خود ھی‬
‫جاکر لہنگا لے آوں گا ۔‬
‫تم میں چونکنے کے ڈرامائی انداز سے بوال ۔اوووووو سوری انکل میرے تو دماغ سے ھی نکل گیا‬
‫میں ابھی جاتا ھوں ۔‬
‫انکل بولے ھاں جلدی لے آ‬
‫اگر ذیادہ دن ھوگئے تو‬
‫شادی بیاہ میں مصروف یہ لوگ رینٹ والی چیز کی احتیاط نھی کرتے‬
‫میں انکل کا آڈر ملتے ھی جلدی سے کاونٹر سے اترا اور جوتا پہن کر شیشہ کے پاس سے گزرتے ھوے‪،‬آئنے میں پھر اپنا‬
‫معائنہ کیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرتا ھوا سیٹی بجاتا دکان سے باہر نکل کر شاہین مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں شاہین مارکیٹ کی بیس منٹ میں سیڑیاں اترتا ھوا چال گیا ۔‬
‫نیچے پہنچا تو دیکھا‬
‫ایک ھی الئن میں تین پارلر تھے ۔‬
‫اب مجھے کنفیوژنگ ھونے لگ گئی کہ ان میں سے ضوفی کا پارلر کون سا ھے ۔‬
‫اچانک مجھے یاد آیا کہ ضوفی نے اپنا کارڈ دیا تھا‬
‫میں نے جیب میں ھاتھ مارا اور اپنا بٹوا نکاال اسکو کھول کر دیکھنے لگ گیا تو خوش قسمتی سے مجھے کارڈ مل گیا۔‬
‫میں نے کارڈ پر پارلر کا نام دیکھا تو آخری پارلر ضوفی کا ھی تھا‬
‫جسکا نام کاجل بیوٹی پارلر تھا۔‬
‫میری انکھیں چمک اٹھی‬
‫اور میں پارلر کی طرف اپنے پف کو سنوارتا ھوا چل پڑا‬
‫پارلر کے گالس ڈور کے پاس پہنچ کر میں رک گیا اور کانپتے ھاتھ کے ساتھ ڈور پر ناک کیا تو‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫شیشے کے آگے سے پردہ سرکا اور سانولی سی لڑکی کا چہرہ نمودار ھوا‬
‫اور اس نے مجھے دیکھا اور پھر ڈور کھول کر‬
‫سر باہر نکاال اور باقی سارا جسم پردے کی اوٹ میں کرکے بولی‬
‫جی فرمائیں۔‬
‫میں پہلے ھی کنفیوژن کا شکار تھا ۔اس لڑکی کی جی سن کر‬
‫ہکالتے ھوے بوال‬
‫وہہہ ضوفففی میڈم سے ملنا ھے ۔‬
‫اس لڑکی نے مجھے سر سے پاوں تک بڑے غور سے دیکھا اور میرا نام پوچھا تو میں نے نام بتا دیا‬
‫اور لڑکی‬
‫پھر پردے کے پیچھے غائب ہوگئی ۔۔۔‬
‫میں باہر کھڑا دوسرے پارلروں کا جائزہ لینے لگ گیا ۔‬

‫)‪Update no( 79‬‬


‫کچھ ھی دیر بعد پھر پردہ سرکا تو‬
‫اس حسینہ کا چہرہ شیشے کے ُاس پار نظر آیا‬
‫اور ضوفی نے مجھے دیکھتے ھی‬
‫دروازہ کھوال اور مجھے بڑی گرمجوشی سے ویلکم کیا حال احوال کے بعد میں نے کہا جی وہ میں لہنگا لینے آیا تھا تو‬
‫ضوفی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر مجھے اندر آنے کی دعوت دی جسے میں نے باخوشی‬
‫قبول کیا اور میں اندر داخل ھوگیا‬
‫اندر داخل ہوتے ھی میں پارلر کو چاروں طرف سے دیکھنے لگ گیا دیواروں پر بڑے بڑے شیشے لگے ھوے تھے‬
‫ایک طرف تین بڑے بڑے کیبن تھے دیوارں پر مختلف ماڈلز اور انڈین اداکاروں کے پوسٹر چسپا تھے‬
‫تین صوفے ایک طرف دیوار کے ساتھ رکھے ہوے تھے ضوفی نے مجھے صوفے کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے کا کہا‬
‫اور اس سانولی لڑکی کو آہستہ سے کچھ کہا تو وہ باہر نکل گئی‬
‫وہ لڑکی ابھی کچی کلی تھی‬
‫تیرا چودہ سال کی تھی‬
‫شاید پارلر کی صفائی وغیرہ کے لیے اسے رکھا ہوا تھا۔‬
‫لڑکی کے جانے کے بعد ضوفی اپنے بڑے بڑے ابھرے ھوے مموں کو میرے سامنے لہراتے ھوے بڑی ادا سے میرے پاس‬
‫آکر بیٹھ گئی اور اپنے گلزار کو ہالتے ھوے بولی‬
‫کیسا لگا میرا غریب خانہ‬
‫میں نے کہا‬
‫جانے دیں یہ غریب خانہ ھے‬
‫اتنا پیارا ماحول بنایا ھوا کافی خرچہ کیا ھوا ھے آپ نے سیٹنگ پر‬
‫تو وہ ہنستے ھوے بولی‬
‫سیٹنگ اچھی ھو تو ھی کسٹمر مطمئن ھوتا ھے‬
‫جتنی اچھی شاپ کی ُلک ھوگی اتنا ھی اچھا کسٹمر آتا ھے‬
‫ورنہ تو پینڈو منہ اٹھا کر اندر داخل ھوجاتے ھیں اور ریٹ سن کر بھاگ جاتے ہیں ۔ضوفی کی پینڈوں کے بارے میں راے‬
‫اور حقارت آمیز لہجے کو دیکھ کر مجھے غصہ تو بہت آیا‬
‫مگر میں پھر بھی خود پر کنٹرول کرتے ھوے برداشت کرگیا ۔‬
‫کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور وہ لڑکی میرے لیے کولڈ ڈرنک لے آئی‬
‫میں نے کچھ دیر میں ڈرنک ختم کی اور جانے کی اجازت مانگی تو ضوفی بولی اتنی جلدی کیا ھے‬
‫میں نے کہا نھی جلدی تو نھی‬
‫ضوفی بولی آئیں آپکو سارا پارلر دیکھاتی ہوں اور یہ کہہ کر ضوفی‬
‫اٹھی‬
‫اور کیبن کی طرف جانے لگی‬
‫ضوفی نے شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی جس میں اسکی گول مٹول گانڈ بہت ھی دلکش نظارا پیش کررھی تھی‬
‫میں بھی اسکی گانڈ کو تاڑتا ھوا اسکے پیچھے کیبن کی طرف چل پڑا ۔‬
‫۔ضوفی چلتی ہوئی پہلے کیبن میں داخل ہوئی میں بھی اسکے پیچھے ہی کیبن میں داخل ہوگیا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫یاسر یہ برائڈل روم ہے یہاں دلہن کو تیار کیا جاتا ہے ۔۔‬
‫کیبن کی سیٹنگ واقعی کسی روم کی طرح کی گئی تھی ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا کیا دلہا بھی تیار کردیتی ہیں آپ ۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر کھلکھال کر ہنس پڑی اور بولی‬
‫کیوں تم نے تیار ہونا ہے‬
‫میں نے کہا میری ابھی قسمت کہاں ابھی تو میری اتنی عمر ہی نھی ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫چلو خیر ہے جب تمہاری شادی ہوگی تو میں تمہاری دلہن کو فری میں تیار کردوں گی۔‬
‫میں ہنس کر بوال‬
‫اور مجھے‬
‫ضوفی بولی تمہیں بھی تیار کردوں گی ۔‬
‫میں نے کہا واہ جی واہ اتنی اچھی آفر پھر تو مجھے جلد ہی شادی کرلینی چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫بڑی جلدی ہے شادی کرنے کی ۔کہیں منگنی شگنی تو نھی کروا رکھی یا گرل فرینڈ تو نھی بنا رکھی ہے ۔‬
‫میں نے کہا ایسی بات نہی ہے ۔‬
‫میں تو آپکی آفر کو دیکھتے ہوے کہہ رہا تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫واقعی یاسر تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے‬
‫میں نے کہا‬
‫جی واقعی ہی نہیں ہے‬
‫میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کسی لڑکی کی طرف اتنا راغب ہوا ہوں۔‬
‫ضوفی بڑی حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ہوے بولی‬
‫بڑی بات ہے جی‬
‫تمہاری عمر کے لڑکے تو جس خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہیں اسکے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں اور تم ہو کہ ابھی تک‪.‬‬
‫فری ہینڈ‬
‫ہو۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا۔‬
‫خوبصورت لڑکی کے پیچھے پڑ تو گیا ہوں ۔‬
‫ضوفی نے دفعتًا میری طرف دیکھتے ہوے کہا۔‬
‫کیا کہا۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا کچھ نہیں۔‬
‫تو ضوفی میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوے بولی‬
‫بہت نوٹی ہو۔‬
‫میں نے سن لیا ہے‬
‫جو تم نے کہا ہے۔‬
‫میں نے گبھرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوے کہا۔‬
‫میں نے تو کچھ نہیں کہا جی ۔‬
‫ضوفی ُبرا سا منہ بنا کر بولی ۔‬
‫تم بہت تیز ہو جیسے اوپر سے شریف اور معصوم لگتے ہو اندر سے اتنے ہی بدمعاش ہو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نے تو کچھ نہیں کہا اب آپ نے پتہ نہیں کیا سن لیا ہے۔‬
‫میں ضوفی کے ساتھ کافی فرینگ ہوچکا تھا۔‬
‫میری ججھک بھی ختم ہوگئی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا چھوڑو چلو تمہیں مینی پیڈی کیور روم دیکھاتی ہوں ۔‬
‫میں نے حیرانگی سے ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫او کی بال اے۔‬

‫ضوفی پھر چونک کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی کیا کہا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میرا مطلب ہے کہ مینی پیڈی کیور کیا چیز ہے ۔‬
‫ضوفی ہنس کر بولی چلو دیکھاتی ہوں۔‬
‫اور ضوفی اور میں کیبن سے نکل کر دوسرے کیبن میں اگئے ۔‬
‫اس کیبن میں ایک سٹریچر پڑا ہوا تھا اور دو کرسیاں تھی جن کے پاوں کی طرف ٹپ بنے ہوے تھے جن میں پانی تھا۔‬
‫ضوفی مجھے بتانے لگ گئی کے‬
‫مینی پیڈی کیور کیسے کیا جاتا ہے ہاتھ اور پاوں کو گرم پانی میں کچھ لیکویڈ چیزوں کو مال کر ہاتھ پاوں کو دھویا جاتا ہے‬
‫اور کیسے پورے جسم پر ویکس کے ذریعے غیر ضروری بالوں کو اتارا جاتا ہے ۔‬
‫میری سمجھ میں کچھ باتیں تو آرہیں تھی اور کچھ میرے سر سے گزر رہیں تھی۔‬
‫میں تو بس ضوفی کے سیکسی فگر کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کررھا تھا۔‬
‫میں نے کہا ضوفی جی کیا میری ویکس بھی ہوسکتی ہے ۔‬
‫ضوفی پھر ہنسنے لگ گئی‬
‫اور شوخی سے بولی چلو کپڑے اتارو اور سٹریچر پر لیٹو کرتی ہوں تمہاری ویکس۔‬
‫میں نے ڈرنے کے انداز میں اپنی بغلوں میں ہاتھ لیتے ہوے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا ۔‬
‫ننننھی نھی‬
‫میں نے ویکس کروانی ہے‬
‫وڈا اپریشن نہیں۔‬
‫میری حالت اور میری جگت سن کر ضوفی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر میرے سامنے ُج ھکے کھلکھال کر ہنستی رہی ۔‬
‫اور میں اسکے جھکنے کی وجہ سے کھلے گلے سے آدھے ننگے مموں کا نظارہ کرتے ہوے اپنے ہوش گنوا بیٹھا اور‬
‫میرے لن نے بھی سر اٹھا لیا‬
‫ضوفی کے چٹے سفید موٹے نرم نازک مموں کے درمیان والی لکیر اور مموں کا کچھ حصہ میری آ نکھوں کے سامنے تھا‬
‫اور میں بغلوں میں ہاتھ دئیے ٹکٹکی باندھے مموں کو دیکھی جارھا تھا‬
‫اچانک ضوفی کو احساس ہوا کے میں اس کے گلے میں تاڑ رہا ہوں تو ضوفی جلدی سے سیدھی ہوگئی اور اسکی نظر جب‬
‫میرے نیچے شلوار میں بو بناے ہوے لن پر پڑی تو گبھرا کر نظریں پھیر لیں اور دوسری طرف دیکھتے ہوے بولی ۔‬
‫تو پھر کیا پروگرام ہے ۔‬
‫میں نے جلدی سے لن کو اپنی ٹانگوں میں بھینچ لیا اور ضوفی کو مخاطب کرتے ہوے‬
‫کہا جو آپ کا پروگرام ہے وہ ہی میرا پروگرام ہے ۔‬
‫ضوفی پھر میری طرف دیکھتے ہوے شوخی سے بولی چلو اتارو کپڑے‬
‫میں نے کہا شلوار بھی ۔‬
‫ضوفی پھر ہنستے ہوے بولی چل بے شرم‬
‫میں قمیض کی بات کررھی ہوں ۔‬
‫اور ساتھ ہی ضوفی نظر چرا کر میرے لن کی طرف بھی دیکھتی جو اب وہاں سے غائب ہوچکا تھا اور اس کے چہرے پر‬
‫حیرانگی کے ایثار بھی نمایاں ہوے ۔‬
‫ضوفی کی بات سنتے ہی‬
‫میں جلدی سے قمیض کے بٹن کھولنے لگا تو‬
‫ضوفی گبھرا کر جلدی سے بٹن پر رکھے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوے بولی‬
‫رہنے دو رہنے دو بھئی تم تو سچی میں تیار ہوگئے میں تو مزاق کررھی تھی ۔‬
‫میں منہ بسور کر دوبارا بٹن بند کرنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی میرے منہ کو دیکھ کر صدف کی طرح میری گال پر چٹکی کاٹتے ہوے بولی‬
‫سو کیوٹ کتنے پیارا منہ بنا لیا ہے ۔‬
‫میں نے گال کو مسلتے ہوے پھر ویسے ہی منہ بناتے ہوے کہا ۔‬
‫آپ نے میرا دل توڑ دیا‬
‫ضوفی مسکرا‬
‫کر بولی‬
‫پاگل ابھی کسی وقت بھی کوئی کسٹمر آسکتا ہے‬
‫اگر تم نے واقعی ویکس کروانی ہے تو تم جمعہ کو آجانا‬
‫میں جمعہ کو فری ہوتی ہوں‬
‫میں نے ہنستے ہوے کہا‬
‫نئی ضوفی جی میں بھی مذاق کررھا تھا‬
‫میں بھال عورتوں والے کام کیوں کروں‬
‫ضوفی بولی یاسر‬
‫تم میری ایک بات مانو گے ۔‬
‫میں نے کہا جی حکم کریں ۔‬
‫ضوفی مسکرا کر بولی‬
‫تم اگر کلین شیو کرلو نہ تو بہت پیارے لگو گے‬
‫جیسی تمہاری کلین سکن ہے تو دیکھنا ہر لڑکی تم پر مرے گی‬
‫اور شلوار قمیض کی بجاے پینٹ شرٹ پہنا کرو۔‬
‫بہت ہینڈ سم لگو گے‬
‫میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے کہا‬
‫نہ بابا نہ‬
‫کیوں گاوں میں میرا مزاق بنانا ہے ۔‬
‫ضوفی حیرانگی سے بولی‬
‫یاسر تم گاوں میں رہتے ہو۔‬
‫میں نے کہا جی بلکل ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری شکل صورت تو گاوں والوں جیسی نہیں ہے۔‬
‫میں نے کہا آپ کبھی گاوں گئی ہو۔‬
‫ضوفی بڑی حقارت سے بولی توبہ میں کیوں جاوں گی گاوں‬
‫وہاں تو ڈسٹنگ اور ہر طرف سمیل ہی ہوتی ہے‬
‫چھی چھی‬
‫مجھے ضوفی کے ایسے گاوں کے متعلق حقارت امیز جملے کسنے پر غصہ بہت آیا مگر میں خود پر کنٹرول کرگیا اور‬
‫میں نے برا سا منہ بناتے ہوے‬
‫کہا گاوں کے لوگ اتنے بھی برے نھی ہوتے۔‬
‫کبھی آپ آو ہمارے گاوں اور دیکھو کہ وہاں کتنا پیار ملتا ہے آپکو کتنا سبزا ہے وہاں کتنی آب ہوا صاف ہے‬
‫کتنا سکون ہے‬
‫۔کتنا چاہنے والے لوگ ہیں ۔‬
‫ضوفی میری باتیں سن کر شرمندہ سی ہوگئی اور بولی‬
‫سوری یاسر میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوئی‬
‫اور پھر مسکراتے ہوے بولی‬
‫تم جمعہ کو آو گے‬
‫میں نے کہا جمعہ کو مجھے چھٹی ہوتی ہے‬
‫ضوفی بولی‬
‫کچھ نھی ہوتا بس تم نے جمعے کو آنا ہے اور دیکھنا میں تمہارا روپ ھی بدل دوں گی ۔‬
‫میں نے مسکراتے ہوے کہا‬
‫اوکے دیکھوں گا اگر کوئی ضروری کام نہ پڑا تو آجاوں گا‬
‫اور یہ نہ ہو کہ میں آوں اور آپ کا پارلر ھی بند ہو‬
‫ضوفی میری گال پر پھر چٹکی کاٹتے ہوے بولی‬
‫بے فکر ہوکر آجانا۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے جی ۔‬
‫اور جانے کی اجازت مانگی تو ضوفی بولی ۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬میں کیبن سے باہر نکلنے لگا تو ضوفی نے مجھے آواز دی‬
‫یاسرررر‬
‫میں نے مڑ کر دیکھا‬
‫اور پوچھا جییی‬
‫ضوفی بولی وہ لہنگا تو لیتے جاو‬
‫مجھے بھی باتوں اور ضوفی کی قربت میں لہنگا بھول گیا تھا‬
‫میں بوال اووووو سوری مجھے یاد ہی نھی رہا۔‬
‫ضوفی تیسرے کیبن میں گئی اور لہنگے کا شاپر ال کر مجھے دیا اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوے بولی جمعہ کو الزمی آجانا‬
‫میں نے جی کہا اور پارلر سے نکل کر سیدھا دکان پر پہنچا اور انکل کو بتایا کہ لہنگا لے آیا ہوں‬
‫انکل بولے اچھی طرح چیک کرلیا میں نے کہا جی انکل میں نے ادھر ھی چیک کرلیا تھا۔‬
‫جنید میری طرف دیکھ کر آنکھ مار کر ہنسنے لگ گیا ۔‬
‫پھر دکان پر تو کچھ خاص نہ ہوا اور شام کو گھر پہنچا‬
‫اور وہ ہی روٹین کے مطابق کھانا وغیرہ کھایا اور کچھ دیر امی ابو کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگائی اور پھر اپنے بستر پر‬
‫لیٹ کر ضوفی کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گیا۔‬
‫صبح اٹھا ناشتہ وغیرہ کر کے آنٹی کے گھر پہنچا‬
‫تو پتہ چال کہ عظمی اور نسرین کے پیپر ختم ہوگئے ہیں لحاظ انہوں نے اب پندرہ بیس دن سکول نہیں جانا ۔‬
‫آنٹی سے کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد میں اکیال ہی شہر چال گیا ۔‬
‫صدف کا نہ میں نے پوچھا اور نہ ہی کسی نے میرے ساتھ اسکی بات کی ۔‬
‫دکان پر پہنچا اور وہ ہی روزمّر ہ کے کام کر کے دکان کے فرنٹ پر بیٹھ گیا ۔‬
‫آج جمعرات تھی اس لیے صبح صبح دکان پر رش شروع ہوگیا‬
‫دوپہر کب ہوئی نھی پتہ چال۔‬
‫جنید نے کھانا النے کا کہا اور ہم بازار چلے گئے‬
‫ہم دونوں باتیں کرتے ہوے ہوٹل کی طرف جارہے تھے کہ اچانک پیچھے سے کسی نے میرا نام لے کر مجھے پکارا‬
‫تو میں نے پلٹ کر دیکھا‬
‫تو اسد کی مما تھیں ۔‬
‫میں انکو دیکھ کر رک گیا اور ان سے سالم دعا کے بعد حال احوال پوچھا‬
‫تو آنٹی بولی کیا بات ہے کبھی گھر چکر نہیں لگایا ۔‬
‫میں نے کہا بس کام میں مصروفیت ہے اس لیے وقت نہیں مال ۔‬
‫آنٹی بولی اتنی بھی کیا مصروفیت ہوئی کہ کسی اور کہ لیے وقت ھی نہیں‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی دراصل میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔‬
‫اور میں ایک ہفتہ تو ہسپتال اور گھر ھی رھا‬
‫آنٹی میرے ایکسیڈنٹ کا سن کر کافی پریشان ہوئی اور مجھ سے گلہ کرنے لگ گئیں کہ ہمیں پھر غیر ہی سمجھا کہ بتانا‬
‫بھی پسند نہیں کیا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے تو خود اپنا ہوش بھی نہیں تھا ۔‬
‫اور نہ ہی اسد یا مہری سے مالقات ہو سکی اس وجہ سے نہیں بتا سکا ۔‬
‫انٹی کچھ دیر گلے شکوے اور میری خیریت معلوم کرتی رہیں ۔‬
‫اور پھر بولی یاسر وہ سامنے مارکیٹ میں میرا بوتیک ہے ۔‬
‫تم نے کبھی بوتیک پر بھی چکر نہیں لگایا میں نے کہا جی آنٹی وقت نکال کر آپ کے بوتیک پر چکر لگاوں گا ابھی تو‬
‫میں دوست کے ساتھ ہوٹل سے کھانا لینے جارہا ہوں‬
‫تو آنٹی نے الزمی آنے کی تاکید کی اور میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوے چلی گئیں‬
‫جنید آنٹی کو بڑے غور سے دیکھتا اور کبھی میری طرف ۔‬

‫)‪.Update no (80‬‬
‫آنٹی جب چلی گئیں تو‬
‫جنید میرے بازو ہر تھپڑ مار کر بوال‬
‫اوے تم اسے کیسے جانتے ہو‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے پوچھا کیا مطلب‬
‫میرے دوست کی امی ھے ۔‬
‫تو جنید کچھ سوچ کر چپ کرگیا۔‬
‫مگر مجھ سے اسکی خاموشی ہضم نہ ہوئی تو‬
‫میں نے کہا‬
‫تم کیوں اتنے حیران ہوکر کہہ رھے ہو کہ‬
‫میں اسے کیسے جانتا ہوں۔‬
‫تو جنید پھر جان چھڑواتے ہوے بوال‬
‫کچھ نہیں یار ۔انکا بوتیک ہے اس مارکیٹ میں ۔‬
‫میں اس لیے پوچھ رہا تھا۔‬
‫میں نے جنید کو کہا مجھے گولی مت دے جو اصل بات ہے وہ بتا‬
‫دوستی میں جھوٹ نہیں بولتے۔‬
‫جنید کچھ دیر خاموش رھا تو میں نے پھر اسے کہا تو جنید بوال‬
‫یار تیرے دوست کی امی ہے‬
‫تو تم ناراض مت ہونا۔‬
‫میں نے کہا لن تے چڑ گیا دوست‬
‫اتنا خاص بھی نھی ہے‬
‫تو بتا کیا بات ہے ۔‬
‫جیند بوال‬
‫یار یہ ایک نمبر کی بچے تاڑ ہے ۔‬
‫میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے ہوے بوال کیا مطلب‬
‫بچے تاڑ ہے ۔‬
‫جنید بوال‬
‫یہ سالی ینگ ینگ لڑکوں کو پھنسا کر ان سے چدواتی ہے اور انکو اپنے پاس سے پیسے بھی دیتی ہے اور عیش بھی‬
‫کرواتی ہے‬
‫میں تو سمجھا شاید تم بھی اسکے چکر میں آگئے ہو تو اس لیے میں نے پوچھا تھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو ۔‬
‫میں حیران پریشان ہوکر جنید کی باتیں سن رھا تھا ۔میں نے کہا‬
‫تجھے کیسے پتہ کہ یہ بچے تاڑ آنٹی ھے ۔‬
‫جنید بوال۔‬
‫یار یہ پوری مارکیٹ کو پتہ ہے‬
‫اور میرے دوست نے اسکی کتنی دفعہ لی ہے تجھے نھی یقین تو میں تجھے اسکے منہ پر کروا دیتا ہوں ۔‬
‫سالی ینگ لڑکوں کو چوستی ہے‬
‫تبھی تو اس عمر میں بھی جوان لگتی ہے ۔‬
‫ینگ خون چوس چوس کر خود بھی ینگ ہے ۔‬
‫مجھے خیال آیا کہ تبھی سالی پہلی مالقات میں ھی مجھے بڑی ہوس بھری نظروں سے دیکھ رھی تھی اور آج بھی یہ مجھے‬
‫اسی لیے بوتیک پر آنے کا کہہ رھی تھی ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار یہ تو پھر بڑی چھپی ہوئی آئٹم ہے‬
‫تو جنید ہنس کر بوال‬
‫یار یہ تیرے لیے چھپی ھے ویسے تو ہر دوسرے بندے کو اس کے کریکٹر کے بارے میں علم ھے ۔‬
‫میری بات پلے باندھ لے یہ تجھے بھی معاف نھی کرے گی ۔‬
‫اور تم اس سے بچ کر رہنا‬
‫ورنہ اپنی جوانی گنوا بیٹھو گے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں یار پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ میرا انکے ساتھ گھریلو تعلق ہے‬
‫اور اگر ایسا اس نے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو مجھ سے بےعزتی کرواے گی ۔‬
‫جنید ہنستے ہوے بوال‬
‫یار تو بھی کمال ہے ۔‬
‫یہ بڑی آئیٹم ھے‬
‫یہ جس بچے کو بھی پھنساتی ہے اسکے ساتھ گھریلو تعلق ھی بناتی ھے ۔‬
‫اسکی ایک بیٹی بھی ھے ۔ نہ ۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے کہا ہاں یار ھے اسکی بیٹی‬
‫مگر تجھے اسکے بارے میں کیسے پتہ ۔‬
‫تو جنید ہنستے ہوے بوال‬
‫ماما یہ آنٹی اپنی بیٹی‪ .‬کو دیکھا کر بچے پھنساتی ہے‬
‫لڑکا اسکی بیٹی کے چکر میں‬
‫اس کی ہر بات مان لیتا ھے‬
‫مگر سالی نے کبھی کسی کو بیٹی کے قریب نھی جانے دیا بس دور دور سے ھی درشن اور ہلکی پھلکی ہیلو جاے تک‬
‫محدود رکھتی ہے ۔‬
‫مجھ پر تو جیسے بم گر گیا تھا‬
‫میرا دماغ چکرا گیا ۔‬
‫میں نے جیند کو کہا یار‬
‫تجھے اتنی معلومات کیسے ہے ۔‬
‫جنید بوال‬
‫یار تجھے بتایا تو ھے کہ میرے دوست کی اسکے ساتھ سیٹنگ تھی اور وہ کتنی دفعہ انکے گھر بھی گیا تھا‬
‫تو یہ جان بوجھ کر اپنی بیٹی کو اپنے شکار کے سامنے التی‬
‫اور شکار اسکی بیٹی کے حسن کو دیکھ کر پھنس جاتا ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار اسکی بیٹی بھی اسکی طرح دونمبر ھے کیا ۔‬
‫جنید بوال‬
‫اسکا مجھے علم نھی‬
‫کہ وہ کس طرح کی سوچ رکھتی ھے‬
‫ہوسکتا ھے کہ وہ بھی اپنی ماں کی طرح ھو یا یہ بھی ہو سکتا ھے کہ وہ اپنی ماں کی کرتوت اور اسکے شکار کرنے کے‬
‫طریقہ سے ناواقف ہو‬
‫مگر اتنا کنفرم ھے کہ کوئی لڑکا اسکی بیٹی تک پہنچ نہیں سکا ۔‬
‫میرے دل کو کچھ تسلی بھی ہوئی اور میرے تجسس میں اضافہ بھی‬
‫کہ مہری کہیں مجھے الو تو نہیں بنا رہی‬
‫یا پھر سچ میں وہ میرے ساتھ سریس ہے ۔‬
‫یہ تو اب اس سے مالقات کے بعد ھی معلوم ہونا تھا ۔‬
‫کیوں کہ میرا اگال پالن‪ .‬مہری کی پھدی چیک کرنے کا تھا کہ سیل پیک ھے یا پھر؟؟؟؟؟؟؟‬
‫‪.‬میں دکان پر آکر بھی مہری اور اسکی مما کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ دنیا میں کتنے رنگوں کے لوگ‬
‫رہتے ہیں۔‬
‫بظاہر کچھ نظر آتے ہیں مگر اندر سے کچھ ۔‬
‫گھر جا کر بھی میری حالت کچھ ایسی ھی رھی‬
‫اگلے دن جمعہ تھا‬
‫اور میں وقت سے پہلے ہی اٹھ گیا‬
‫جبکہ ہر جمعرات کو یہ ھی سوچ کر سوتا تھا کہ صبح چھٹی ھے تو جی بھر کر سووں گا مگر صبح ہوتے ھی معاملہ سوچ‬
‫کے برعکس ہوتا تھا۔‬
‫میں اٹھ کر نہانے چال گیا اور پھر ناشتہ کرکے امی کو کہا کہ میں نے شہر جانا ھے تو امی نے حیران ہوتے ہوے پوچھا کہ‬
‫خیر ھے پہلے تو جمعے کو چھٹی کرتے تھے ۔‬
‫میں نے امی کو دوست سے ملنے کا بہانہ کیا اور امی کے طرح طرح کے سوالوں کے جواب دے کر امی کو مطمئن کر‬
‫کے ان سے اجازت لے کر آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا کیوں کہ ابھی صبح صبح کا ھی وقت تھا تو میں نے اتنی جلدی‬
‫ضوفی کے پارلر پر جانا مناسب نھی سمجھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی اسکا پارلر کھال بھی نھی ہوگا ۔‬
‫تو ایسے فضول میں ادھر خوار ہونا پڑنا تھا ۔‬
‫اپنے گھر تو میں بس سونے کے لیے ھی آتا تھا‬
‫کیوں کہ گھر میں امی ابو نازی اور بڑے بھائی کے عالوہ کوئی اور تھا نھی‬
‫امی ابو کے پاس میں اتنا بیٹھتا نھی تھا‬
‫نازی سے میری ویسے ھی نہیں بنتی تھی ۔‬
‫اور بڑے بھیاء ویسے ھی سڑیل سے تھے اور وہ ذیادہ وقت اپنی کریانے کی دکان پر ھی دیتے تھے‬
‫تو اس لیے میں گھر سے بھاگنے کی جلدی کرتا‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر میرا دل لگا رھا تھا‬
‫اور وقت بھی اچھا پاس ہوجاتا تھا۔‬
‫خیر میں آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی صحن میں جھاڑو لگا رھی تھی‬
‫آنٹی پاوں کے بل بیٹھی‬
‫گانڈ سے قمیض اٹھاے بیرونی دروازے کی طرف گانڈ کیے بیٹھی ہوئی تھی‬
‫میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو اکیلی آنٹی کو صحن میں دیکھ کر اور انکی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر مجھے شرارت‬
‫سوجھی ۔‬
‫میں دبے پاوں چلتا ہوا آنٹی کے قریب پہنچ گیا آنٹی میری آمد سے بےخبر اپنی مستی میں جھاڑو لگا رھی تھی ۔‬
‫میں نے پہلے چاروں طرف دیکھ کر اچھی طرح تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو نہیں۔‬
‫اور آنٹی کی گانڈ کے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوکر تھوڑا سا جھکا اور ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گانڈ میں چال چڑھا دیا ۔‬
‫آنٹی ایکدم گبھرا گئی اور چیخ مار کر گھٹنوں کے بل کوڈی ہوکر گرتے گرتے بچی‬
‫ورنہ آنٹی نے منہ کے بل گرنا تھا۔‬
‫آنٹی نے جب مجھے دیکھا تو ہاتھ میں پکڑا جھاڑو مجھے مارتے ہوے بولی بتمیز‬
‫یہ کیسا مزاق ھے میری جان نکال دی‬
‫میں جھاڑو سے بچتے ہوے ایک طرف بھاگا‬
‫آنٹی جھاڑو پکڑے میرے پیچھے پیچھے بھاگ رھی تھی اور میں آنٹی کے آگے اگے صحن کا چکر لگا رھا تھا۔‬
‫آنٹی کی چیخ سن کر عظمی اور نسرین بھی کمرے سے باہر نکل آئیں‬
‫انکو باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا تھا شاید وہ سو رھی تھیں ۔‬
‫انکے چہرے پر کافی گبھراہٹ تھی ۔‬
‫مگر جب انہوں نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوے دیکھا تو دونوں ہنسنے لگ گئی‬
‫اور عظمی نے آنٹی سے کہا کیا ہوا امی صبح صبح اس بیچارے کی شامت کیوں آئی ہوئی ھے ۔‬

‫آنٹی بولی‬
‫تمہارے‬
‫اس بیچارے نے میری جان نکال دی‬
‫آنٹی تھک کر کھڑی ہوکر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔‬
‫نسرین غصے سے بولی یاسر تمہیں شرم آنی چاہیے‬
‫ایسے کسی کو ڈراتے ہیں ۔‬
‫میں نے نسرین کو منہ چڑاتے ہوے کہا۔‬
‫تمہیں کوئی تکلیف ھے‬
‫یہ میری اور آنٹی کی بات ہے تم خامخواہ‬
‫بیچ میں چوہدرانی نہ بنو ۔‬
‫تو نسرین مجھے منہ چڑھا کر جا دفعہ ہو کہہ کر اندر چلی گئی اور عظمی مسکراتی ہوئی کھڑی رھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں آنٹی کے قریب آیا اور انکو سائڈ سے جپھی ڈال کر سوری کرنے لگ گیا‬
‫کچھ نخرے دیکھانے کے بعد آنٹی‬
‫مان گئی اور میں اندر کمرے میں چال گیا جہاں سڑیل نسرین اور میری دلربا عظمی بیٹھی ہوئی تھیں ۔‬
‫عظمی مجھ سے پوچھنے لگ گئی خیر ھے آج کدھر کی تیاری ھے اتنی صبح صبح۔‬
‫میں نے کہا کہ شہر جارھا تھا تو سوچا آنٹی سے پوچھتا جاوں کہ کچھ منگوانا تو نھی ۔‬
‫عظمی بولی خیریت ھے جمعہ کو تو تم چھٹی کرتے ھو ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫دکان پر لڑکا ھے میرا دوست ھے اس سے ملنے جانا ھے‬
‫عظمی بولی کیوں روز ملتے نھی اس سے ۔‬
‫میں نے کہا روز ملتا ہوں ۔‬
‫مگر آج جمعہ ھے تو ہم نے کہیں گھومنے پھرنے جانا ھے ۔‬
‫عظمی کچھ کہنے لگی تھی کہ آنٹی کمرے میں آگئی تو عظمی کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئی ۔‬
‫آنٹی نے اندر آتے ھی میرے سر پر چپت لگاتے ہوے کہا ۔‬
‫یاسر بہت بتمیز ہوگئے ہو قسم سے میری جان نکال دی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی میں نے تو بس واو کیا تھا اور آپ ڈر گئی ۔‬
‫آنٹی مجھے گھوری ڈالتے ہوے بولی‬
‫تیرے واو نے میری جان کڈ لینی سی ۔‬
‫میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی بولی وہ دوسرے کمرے میں سو رھا ھے‬
‫ساری رات کھانستا رھا ھے نہ خود سویا نہ مجھے سونے دیا۔‬
‫میں کچھ دیر مذید آنٹی کے گھر بیٹھا گپیں لگاتا رھا‬
‫نسرین اور آنٹی کی وجہ سے میں عظمی سے گولیوں کا معاملہ نھی پوچھ سکا‬
‫کہ آنٹی اور نسرین کو گولیاں دی تھی یا پھر مجھے گولی دے دی تھی ۔‬
‫خیر میں آنٹی سے اجازت لے کر دس گیارہ بجے کے دوران گھر سے نکل کر شہر کی طرف چل پڑا‬
‫آدھے گھنٹے میں شہر پہنچا اور راستے میں ایک حمام سے منہ پر اور سر پر شاور سے پانی مار کر راستے میں پڑی دھول‬
‫کو صاف کیا اور بال بنا کر ضوفی کے پارلر کی طرف چل پڑا ۔‬
‫مارکیٹ کے پاس پہنچا تو ساری مارکیٹ کو بند دیکھ کر میں پریشان سا ہوگیا کہ کہیں مجھے فضول چکر تو نہیں پڑگیا ۔‬
‫میں حوصلہ کر کے بیس منٹ کی سیڑیاں اترنے لگا تو یہ دیکھ کر دل کو سکون مل گیا کہ‬
‫ضوفی کا پارلر کھال ہوا ھے اور اسکے ساتھ واال چھوڑ کر تیسرا پارلر بھی کھال ہوا تھا‬
‫باقی ساری مارکیٹ کی دکانیں بند تھیں ۔‬
‫میں سیڑیاں اتر کر سیدھا ضوفی کے پارلر کے پاس پہنچا اور ڈور کو ناک کیا تو وہ ھی سانولی کچی کلی نمودار ہوئی ۔‬
‫اور مجھے دیکھ کر کچھ کہے سنے بغیر ھی پردے کے پیچھے غائب ہوگئی ۔‬
‫کچھ دیر بعد پھر وہ ہی لڑکی نمودار ہوئی اور ڈور کھول کر مجھے اندر آنے کا کہا۔‬
‫میں بالجھجک اندر چال گیا‬
‫مگر جیسے پالر کے اندر‬
‫انٹر ہوا‬
‫تو سامنے دیکھتے ھی میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رک گئی اور میرے اٹھتے قدم رک گئے میں‬
‫بت بنا کھڑا سامنے دیکھ رھا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬سامنے مجسمہ حسن ملکہ حسن شربتی ہونٹ جھیل سی آنکھیں‬
‫پتلی کمر‬
‫صراحی دار گردن‬
‫گلے کو پھاڑ کر باہر کو نکلنے کے لیے بےتاب ابھار‬
‫۔‬
‫حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں‬
‫ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‬
‫اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن‬
‫دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں‬
‫وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف‬
‫پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں‬
‫پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا‬
‫ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہی‬
‫‪.‬وہ حسن کی دیوی آج میرا قتل کرنے کے درپے تھی ۔‬
‫ضوفییییی ہاں ضوفی‬
‫ایک ہاتھ کمر پر رکھے‬
‫سلیو لیس پنک شرٹ جو مجھ سے پرچیز کی تھی پہنے ہوے نیچے سکن فٹنگ لیکرا سٹف میں ٹراوزر جس میں اسکی سڈول‬
‫پنڈلیاں اور سائڈ سے سڈول پٹ نمایاں نظر آرھے تھے‬
‫کیا قیامت ڈھانے کے ہر تول رھی تھی‬
‫کس جنم کا بدال وہ ظالم مجھ سے لے رھی تھی‬
‫کیوں آج پہلی نظر میں مجھے بہکنے کی دعوت دے رھی تھی‬
‫میں بت بنا کھڑا دل ھی دل میں اس مجسمہ حسن پر پوری غزل کہہ گیا‬
‫اور وہ حسینہ میری حالت کو دیکھ کر مذید مغرور ہوگئی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میری طرف بڑھی جیسے‬
‫کوئی ماڈل میم سٹیج پر کیٹ واک کرتی چلی آرھی ھو۔‬
‫میرے قریب آکر‬
‫اس سیکس کی پڑیا نے اپنا نازک سا ہاتھ اٹھایا‬
‫اور ہاتھ کی لکیریں میری آنکھوں کے سامنے یوں کی جیسے کہہ رھی ہو دیکھو اور ڈھونڈو اپنی قسمت کی لکیر ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میری نظر اپنی قسمت کی لکیر پر پڑتی اس ظالم نے ہتھیلی میری آنکھوں کے سامنے ہالتے ہوے‬
‫اپنے گل گلزار کو کھوال اور ایک سریلی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔‬
‫ہیلوووو مسٹر‬
‫کدھر کھو گئے‬
‫میں ہوش میں ھی کہاں تھا جو ہوش میں آتا‬
‫اب کیسے اسکو بتاتا کہ کہاں کہاں سے ہوکر کہاں کہاں کھوگیا ہًو ں‬
‫میں اسے کیا بتاتا کہ‬
‫وہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے‬
‫کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے‬
‫میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو‬
‫بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے‬
‫بہ رنگ عود ملے گی اسے میری خوشبو‬
‫وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جالئے مجھے‬
‫میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں‬
‫برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے‬
‫وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا‬
‫جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے‬
‫میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا‬
‫جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے‬
‫زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا‬
‫گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے‬
‫وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم‬
‫دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے‬
‫وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا‬
‫وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے‬
‫میں اپنی ذات میں نیالم ہو رہا ہوں یاسر‬
‫غم حیات سے کہہ دو خرید الئے مجھے۔‬
‫ضوفی نے پھر میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا کہ‬
‫جناب کدھر گم ہو۔‬
‫میں ایکدم ہوش میں آیا اور‬
‫اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر بوال‬
‫بنانے والے نے بھی آپکو کیا خوب بنایا ھے ۔‬
‫ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫واہ واہ خیر ھے آج ناشتہ شاعری کا کر کے آے ہو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اس مجسمہ حسن کو دیکھ کر کس کمبخت کو بھوک لگے۔‬
‫جو خود سر سے پاوں تک شاعری ہو تو اسپر اس نکمے کی شاعری کیا لگے ۔‬
‫ضوفی ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی مارنے کی انداز میں بولی‬
‫واوووو تو جناب چھپے رستم نکلے‬
‫جسکو ہم سادہ لوح سمجھتے تھے‬
‫وہ ھی قاتل جاں نکلے ۔‬
‫میں نے کہا واہ شاعرہ تو آپ بھی ہو۔‬
‫ضوفی ہنستے ہوے بولی ۔ایسی بھی بات نھی‬
‫بس ہ‬
‫تمہاری کیفیت دیکھ کر منہ سے چند الفاظ شعر بن کر نکلے مگر جناب تو پورے شاعر ہین ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں جناب‬
‫یہ تو آپ کے حسن کا کمال تھا کہ آپکی تعریف میں میرے منہ سے آپکے حسن جمال پر غزل کی صورت میں میرے دل کی‬
‫بات نکل آئی‬
‫ورنہ ہم گاوں کے سادہ سے لوگ اس قابل کہاں ۔‬
‫تو ضوفی‬
‫مسکرا کر بولی اگر جناب کو شاعری سے فرصت مل گئی ہو تو‬
‫اندر تشریف رکھیں گے‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا میں تو پہلے ھی اندر ہوں‬
‫تو ضوفی ہنستے ہوے بولی‬
‫اندر تو ہو مگر دروازے کے پاس کھڑے ھو ۔‬
‫میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف بڑھا اور‬
‫صوفے پر بیٹھ گیا صوفی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی‬
‫مجھے یقین تھا کہ تم الزمی آو گے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫دیکھ لیں میں نے آپکے یقین کو ٹوٹنے نہیں دیا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم باہر کھڑے‬
‫کھڑے سوکھ جاو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا نقصان ہوگیا۔‬
‫ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی‬
‫نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا کر لوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نوکر جناب کا ۔‬
‫ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔‬
‫یاسر ایک بات کہوں ۔‬
‫میں نے کہا حکم کریں ۔‬
‫تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی طرف دیکھا‬
‫جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں محو تھی ۔‬
‫ضوفی نے اسے کہا‬
‫ثریا تم جا کر اندر کیبن میں بیٹھو ۔‬
‫وہ اٹھی اور کیبن میں چلی گئی ۔‬
‫ضوفی نے میری طرف دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬سامنے مجسمہ حسن ملکہ حسن شربتی ہونٹ جھیل سی آنکھیں‬
‫پتلی کمر‬
‫صراحی دار گردن‬
‫گلے کو پھاڑ کر باہر کو نکلنے کے لیے بےتاب ابھار‬
‫۔‬
‫حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں‬
‫ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‬
‫اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن‬
‫دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں‬
‫وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف‬
‫پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں‬
‫پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا‬
‫ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہی‬
‫‪.‬وہ حسن کی دیوی آج میرا قتل کرنے کے درپے تھی ۔‬
‫ضوفییییی ہاں ضوفی‬
‫ایک ہاتھ کمر پر رکھے‬
‫سلیو لیس پنک شرٹ جو مجھ سے پرچیز کی تھی پہنے ہوے نیچے سکن فٹنگ لیکرا سٹف میں ٹراوزر جس میں اسکی سڈول‬
‫پنڈلیاں اور سائڈ سے سڈول پٹ نمایاں نظر آرھے تھے‬
‫کیا قیامت ڈھانے کے ہر تول رھی تھی‬
‫کس جنم کا بدال وہ ظالم مجھ سے لے رھی تھی‬
‫کیوں آج پہلی نظر میں مجھے بہکنے کی دعوت دے رھی تھی‬
‫میں بت بنا کھڑا دل ھی دل میں اس مجسمہ حسن پر پوری غزل کہہ گیا‬
‫اور وہ حسینہ میری حالت کو دیکھ کر مذید مغرور ہوگئی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میری طرف بڑھی جیسے‬
‫کوئی ماڈل میم سٹیج پر کیٹ واک کرتی چلی آرھی ھو۔‬
‫میرے قریب آکر‬
‫اس سیکس کی پڑیا نے اپنا نازک سا ہاتھ اٹھایا‬
‫اور ہاتھ کی لکیریں میری آنکھوں کے سامنے یوں کی جیسے کہہ رھی ہو دیکھو اور ڈھونڈو اپنی قسمت کی لکیر ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میری نظر اپنی قسمت کی لکیر پر پڑتی اس ظالم نے ہتھیلی میری آنکھوں کے سامنے ہالتے ہوے‬
‫اپنے گل گلزار کو کھوال اور ایک سریلی سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔‬
‫ہیلوووو مسٹر‬
‫کدھر کھو گئے‬

‫)‪Update no (81‬‬
‫میں ہوش میں ھی کہاں تھا جو ہوش میں آتا‬
‫اب کیسے اسکو بتاتا کہ کہاں کہاں سے ہوکر کہاں کہاں کھوگیا ہًو ں‬
‫میں اسے کیا بتاتا کہ‬
‫وہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے‬
‫کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے‬
‫میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو‬
‫بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے مجھے‬
‫بہ رنگ عود ملے گی اسے میری خوشبو‬
‫وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جالئے مجھے‬
‫میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں‬
‫برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے‬
‫وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا‬
‫جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے‬
‫میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا‬
‫جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے‬
‫زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا‬
‫گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے‬
‫وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم‬
‫دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے‬
‫وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا‬
‫وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے‬
‫میں اپنی ذات میں نیالم ہو رہا ہوں یاسر‬
‫غم حیات سے کہہ دو خرید الئے مجھے۔‬
‫ضوفی نے پھر میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا کہ‬
‫جناب کدھر گم ہو۔‬
‫میں ایکدم ہوش میں آیا اور‬
‫اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر بوال‬
‫بنانے والے نے بھی آپکو کیا خوب بنایا ھے ۔‬
‫ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫واہ واہ خیر ھے آج ناشتہ شاعری کا کر کے آے ہو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اس مجسمہ حسن کو دیکھ کر کس کمبخت کو بھوک لگے۔‬
‫جو خود سر سے پاوں تک شاعری ہو تو اسپر اس نکمے کی شاعری کیا لگے ۔‬
‫ضوفی ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی مارنے کی انداز میں بولی‬
‫واوووو تو جناب چھپے رستم نکلے‬
‫جسکو ہم سادہ لوح سمجھتے تھے‬
‫وہ ھی قاتل جاں نکلے ۔‬
‫میں نے کہا واہ شاعرہ تو آپ بھی ہو۔‬
‫ضوفی ہنستے ہوے بولی ۔ایسی بھی بات نھی‬
‫بس ہ‬
‫تمہاری کیفیت دیکھ کر منہ سے چند الفاظ شعر بن کر نکلے مگر جناب تو پورے شاعر ہین ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں جناب‬
‫یہ تو آپ کے حسن کا کمال تھا کہ آپکی تعریف میں میرے منہ سے آپکے حسن جمال پر غزل کی صورت میں میرے دل کی‬
‫بات نکل آئی‬
‫ورنہ ہم گاوں کے سادہ سے لوگ اس قابل کہاں ۔‬
‫تو ضوفی‬
‫مسکرا کر بولی اگر جناب کو شاعری سے فرصت مل گئی ہو تو‬
‫اندر تشریف رکھیں گے‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا میں تو پہلے ھی اندر ہوں‬
‫تو ضوفی ہنستے ہوے بولی‬
‫اندر تو ہو مگر دروازے کے پاس کھڑے ھو ۔‬
‫میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف بڑھا اور‬
‫صوفے پر بیٹھ گیا صوفی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور بولی‬
‫مجھے یقین تھا کہ تم الزمی آو گے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫دیکھ لیں میں نے آپکے یقین کو ٹوٹنے نہیں دیا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم باہر کھڑے‬
‫کھڑے سوکھ جاو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا نقصان ہوگیا۔‬
‫ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی‬
‫نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا کر لوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نوکر جناب کا ۔‬
‫ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔‬
‫یاسر ایک بات کہوں ۔‬
‫میں نے کہا حکم کریں ۔‬
‫تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی طرف دیکھا‬
‫جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں محو تھی ۔‬
‫ضوفی نے اسے کہا‬
‫ثریا تم جا کر اندر کیبن میں بیٹھو ۔‬
‫وہ اٹھی اور کیبن میں چلی گئی ۔‬
‫ضوفی نے میری طرف دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔۔‬
‫۔میں نے آنکھیں کھول کر ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کہ ضوفی ہوگئی ویکس۔‬
‫تو ضوفی اچانک بوکھال کر مجھ سے نظریں چرا کر بولی نننن نھی ابھی ٹانگوں کی رہتی ہے‬
‫میں نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھ کر پوچھا‬
‫کیا ہوا پریشان کیوں ہو ۔‬
‫طبعیت تو سہی ہے ۔‬
‫ضوفی خود کو سنبھالتے ہوے زبردستی مسکرا کر بولی ہاں ہاں‬
‫ٹھیک ہوں بھال مجھے کیا ہونا ہے۔‬
‫میں نے اٹھتے ہوے کہا کہ پریشان کیوں ہو ۔‬
‫تو ضوفی جھٹکے سے اٹھی اور مجھے اٹھنے سے منع کرتے ہوے بولی‬
‫لیٹے رہو‬
‫ساری ویکس خراب ہو جانی ہے ۔‬
‫میں اسکے حکم کی تعمیل کرتے ہوے لیٹ گیا‬
‫ضوفی جب جھٹکے سے میری طرف ہاتھ کے اشارے مجھے روکتے ہوے اٹھی تو اس کے دودھ کے مٹکے ایسے ابھرے‬
‫جیسے ابھی گلے سے نکل کر باہر نکل کر گر جائیں گے ۔‬
‫ضوفی کی پریشانی دیکھتے ہوے میرے لن نے بھی کچھ سمجھداری کا کام کیا اور کچھ نرم ہوکر سر جھکا لیا مگر ابھی‬
‫بھی ابھار کے اثرات واضع نظر آرھے تھے ۔‬
‫میں پھر سیدھا لیٹ گیا مگر میں نے ضوفی سے نظر بچا کر آہستہ سے لن کو نیچے کر کے چڈوں میں دبا لیا‬
‫کیوں کے میں نہیں چاہتا تھا کہ ضوفی پہلی مالقات میں ہی میرے بارے میں غلط تاثرات نہ لے لے‬
‫کیوں کہ اسکی نظر میں‬
‫میں ایک سیدھا سادھا پینڈو لڑکا تھا‬
‫اور وہ میری سادگی اور میری خوبصورتی کی وجہ سے میری طرف راغب ہوئی تھی‬
‫ورنہ تو سینکڑوں لڑکے اسکی راہ میں آنکھیں بچھاے صبح دوپہر شام بیٹھے رہتے تھے ۔‬
‫تو میں نہیں چاہتا تھا کہ گرم گرم ھی نگھل لوں ۔‬
‫ضوفی کو بس لن کا سائز دیکھانا تھا‬
‫وہ دیکھا دیا تھا‬
‫جو عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ھے ۔چاہے عورت کتنی بھی پاکباز ہو‬
‫بڑے اور تگڑے لن کو دیکھ کر ایک دفعہ تو اسکی پھدی سے پانی کا قطرہ گر ھی جاتا ھے ۔‬
‫ضوفی کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کر کے اٹھی اور پھر باول پکڑ کر مجھ سے کچھ فاصلے پر ہوکر‬
‫میری ناف کے نیچے اور میری کالئیوں پر لیپ کر کے پھر میری ٹانگوں کی طرف بڑھی اور بولی یاسر اپنی ٹانگوں کو‬
‫فولڈ کر کے کھڑی کرلو میں نے گھٹنے اوپر کر کے ٹانگیں فولڈ کیں‬
‫تو میرا لن چڈوں سے آزاد ہوگیا مگر‬
‫تھا ابھی تک نارمل حالت میں‬
‫نہ چھوٹا نہ بڑا۔‬
‫ضوفی نے میری پنڈلیوں سے شلوار اوپر کرنی شروع کی اور میرے گھٹنوں تک لے آئی اور پھر گھٹنوں سے اوپر کرنے‬
‫لگی تو میرے پہنچہ میرے پٹ میں پھنس گیا‬
‫ضوفی نے اپنے ہاتھ کے دونوں انگوٹھے میرے پہنچے میں پھنسا کر تھوڑا سا زور لگایا تو اسکا ایک ہاتھ جو میری ٹانگوں‬
‫کے بیچ تھا وہ سلپ ہوا اور انگوٹھا پہنچے سے نکل گیا اور ضوفی کا ہاتھ سیدھا میرے لن پر جا لگا‬
‫لن نے بھی ہلکا سا جھٹکا مارا ضوفی نے گبھرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ اوپر کر لیا اور گبھراے ہوے ھی آنکھ چرا کر میری‬
‫طرف بھی دیکھا‬
‫ضوفی کا رنگ تو پہلے ھی پنک تھا لن کو چھوتے ہی اسکا رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ ہوگیا‬
‫ضوفی نے دوبارا پہنچے کو ہاتھ نھی لگا اور باول پکڑ کر میری ٹانگوں پر‪ .‬برش سے ویکس کا لیپ کرنےلگ گئی‬
‫ضوفی کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔‬
‫اور وہ جلدی جلدی اپنا کام نپٹانے میں لگی ہوئی تھی‬
‫کچھ دیر میں ضوفی نے میری ٹانگوں پر لیپ مکمل کردیا اور پھر جا کر صوفے پر بیٹھ گئی ۔‬
‫مجھے ایسے محسوس ہو رھا تھا جیسے میرا جسم اکڑنے لگ گیا ہو‬
‫مجھے عجیب سی الجھن محسوس ھورھی تھی‬
‫ضوفی میری حالت دیکھتے ہوے بولی‬
‫بس کچھ دیر لیٹے رھو ابھی صاف کر دیتی ہوں ۔‬
‫اور پھر ضوفی اٹھی اس نے جینز کا کپڑا پکڑا اور میرے پیٹ اور سینے کے اوپر چپکانے لگ گئی‬
‫جب اچھی طرح اس نے لیپ کے اوپر کپڑا چپکا دیا تو‬
‫پھر کپڑے کے دونوں کونوں کو پکڑا اور مجھے کہنے لگی کہ یاسر ہلکی سی درد ہوگی برداشت کر لینا ۔‬
‫اور میرا جواب سنے بغیر اس نے جھٹکے سے کپڑے کو کھینچا۔‬
‫اور سارے کپڑے کو ایک ھی جھٹکے میں میرے سینے اور پیٹ سے الگ کردیا۔‬
‫میری تو ایک دفعہ جان نکل گئی میرے منہ سے آئیییییی اور سسییییییی نکال ۔‬
‫تو ضوفی بولی بس بس بس‬
‫ہوگیا۔‬
‫اور پھر میری آنکھوں کے سامنے کپڑا کر کے دیکھاتے ہوے بولی یہ دیکھو‬
‫میں نے جب کپڑے کی طرف دیکھا تو سارا کپڑا بالوں سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫میں نے کپڑے کو دیکھ کر اپنے سینے سے پیٹ تک ہاتھ پھیرا تو میرا جسم ایسے سوفٹ اور کلین تھا جیسے لڑکیوں کا ہوتا‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے تین چار دفعہ ایسے ھی ہاتھ پھیرا اور‬
‫ضوفی کی طرف بڑی ستائش نگاہ سے دیکھتے ہوے کہا‬
‫واہ ضوفی جی‬
‫ایک ھی جھٹکے میں سب کچھ صاف کردیا‬
‫ضوفی مسکرا کر بولی دیکھ لو پھر میرا کمال۔‬
‫مان گئے نہ پھر۔‬
‫میں نے کہا مان تو آپ کو پہلے دن ھی گیا تھا ۔‬
‫ضوفی‬
‫مسکراتی ہوئی میری ٹانگوں کی طرف آئی اور پھر اسی عمل کو دھرایا اور ٹانگوں سے بھی بال صاف کردئیے‬
‫کچھ دیر بعد اس نے ایک لوشن پکڑا اور اسکو اپنی ہتھیلی پر لگا کر میرے سینے سے لے کر پیٹ کی طرف مساج کرتے‬
‫ہوے میری ناف کی طرف ہاتھ لیجانے لگی اس کی نرم مالئم ہتھیلیوں کا میرے نرم مالئم جسم پر لمس کا ہونا ھی تھا کہ‬
‫بس۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬
‫‪.‬لن نے پھر انگڑائی لی مگر میں نے ٹانگوں کو اکھٹی کر کے لن کی انگڑائی کو راستے میں ھی روک لیا [‪]size/‬‬
‫ضوفی میری ٹانگوں کو اکھٹا ہوتے ہوے یکلخت چونکی اور اپنی آنکھوں کو گھما کر میری ٹانگوں میں چھپے رستم کو‬
‫دیکھا اور پھر میرے پیٹ اور سینے پر لوشن کا مساج کرنے لگ گئی‬
‫ضوفی کے ہاتھ اتنے نرم تھے اور مساج کا انداز اتنا زبردست تھا کہ میرے سارے جسم میں بجلی کی لہریں دوڑ رہیں تھی‬
‫اور میرا دل کر رھا تھا کہ بس ضوفی کا ہاتھ چلتا رھے اور میں ایسے ھی ساری ذندگی لیٹا رہوں ۔‬
‫ضوفی کی انگلیاں جب رینگتی ہوئی میری ناف کے نیچے جاتیں تو میرا لن میری ٹانگوں کو دھکے دے کر باہر نکلنے کی‬
‫کوشش کرتا ۔‬
‫میری برداشت دم توڑ رھی تھی میرا خود پر سے کنٹرول ختم ہو رھا تھا‬
‫مگر میں حیران تھا‬
‫ضوفی کی برداشت پر‬
‫کہ وہ اپنی کیفیت کو مجھ پر ذرہ بھی ظاہر نہیں ہونے دے رہی تھی جبکہ اسکے چہرے کی اللی اور آنکھوں سرخ ڈورے‬
‫کھل کر اعالن کر رھے تھے‬
‫کہ‬
‫لگی ہے آگ دونوں طرف۔‬
‫اگر میں ضوفی آنکھوں کے سامنے اسکے تنے ہوے مموں اور اسکے ہاتھ کے لمس کو برداشت نھی کرپارھا تھا‬
‫تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ضوفی میرے تنے ہوے لن کو دیکھ کر اور میرے جسم سے اٹھتی ہوئی گرمی کو ہاتھ پر محسوس‬
‫کرتے ہوے بھی اپنے آپ سے باہر نہ ہو رھی ہو‬
‫یقینََا اسکی پھدی سے کچھ نہ کچھ تو بوندیں گری ہی ہوں گی ۔‬
‫ضوفی جان بوجھ کر میرے صبر کا امتحان لینے کے لیے بار بار اپنی ہتھیلی کو سرکاری ہوئی انگلیوں کو میری نالے کے‬
‫ساتھ ٹچ کرتی اور پھر واپس اپنے ہاتھ کو میری ناف کے اوپر لے جاتی ۔‬
‫مجھے ایک پالن سوجھا کہ شاید جلتی پر تیل کا اثر ہو‬
‫اور میں نے اپنے چڈوں میں خارش کرنے کے بہانے سے ہاتھ نالے کی گانٹھ کے اوپر سے لیجا کر چڈوں میں خارش کرنے‬
‫لگا جس سے ضوفی نے اپنا ہاتھ ادھر سے ہٹا لیا‬
‫اور میں نے انگلیوں کی مدد سے نالے کے سرے کو اس انداز سے کھینچا کہ ضوفی کو ذرا سا بھی شک نہ ھو کہ میں‬
‫خارش کر رھا ہوں یا ناال کھول رہا ہوں ۔‬
‫میں نے کچھ سیکنڈ میں ھی اپنا ناال کھول کر شلوارا کے اندر کی طرف ھی کردیا کہ اسے یہ بھی محسوس نہ ھو کہ ناال‬
‫کھال ہوا ھے‬
‫اس دوران مجھے یہ بینیفٹ مال کہ ضوفی کیبن کے دروازے کی طرف متوجہ ہوگئی تھی‬
‫اور اسی دوران میں نے اپنے پری پالن کو عملی جامعہ پہنایا اور اس میں سو فیصد کامیاب بھی رھا۔‬
‫جب میں نے ہاتھ پھر اپنی ٹانگوں کے پاس سٹریچر پر رکھ لیا تو‬
‫ضوفی نے پھر بوتل سے تھوڑا سے تیل نما لوشن ہتھیلی پر ڈاال اور پھر میرے سینے اور پیٹ پر مساج شروع کر دیا‬
‫میں نے جان بوجھ کر سسکاری بھری تو ضوفی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بڑی شوخی سے بولی‬
‫مزہ آرھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ان مخملی ہاتھوں کا جادو اثر کررھا ھے ۔‬
‫تو ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫اچھا جی ۔‬
‫دیکھنا کہیں یہ جادو تمہارے دماغ پر اثر نہ کرجاے‬
‫میں نے کہا‬
‫تم دماغ کی بات کرتی ہو‬
‫یہ پتہ نہیں کہاں کہاں پر اثر کر چکا ھے ۔‬
‫ضوفی میرے سینے پر میرے چھوٹے سے معصوم نپل پر ہلکی سی چٹکی کاٹ کر بولی‬
‫بتانا پسند کرو گے کہ کہاں کہاں پر اثر ہوا ھے ۔‬
‫میں نے سیییییی کیا اور کہا خود ہی معلوم کرلو ۔‬
‫ہاتھ تمہارا ہے جادو کا اثر تمہارا ھے ۔‬
‫تو پتہ بھی تمہیں ھی ہونا چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا جی دیکھتی ہوں کہ کہاں کہاں اثر ہوا ھے ۔‬
‫اور پھر مسکراتے ہوے نشیلی آنکھیں کے ڈورے میری آنکھیں میں ڈال کر ہتھیلی سے منتر پڑھ پڑھ کر آنکھوں سے مجھ‬
‫پر پھونکتے ہوے‬
‫میری ناف کی طرف بڑھنا شروع ہوئی‬
‫اور میری ناف کے چھوٹے سے سوراخ میں اپنی باریک سی انگلی ڈال کر گھماتے ہوے بولی یہاں تو نہیں جادو ہوا‬
‫اور ساتھ ھی اسے زبردست جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔‬
‫جب ضوفی نے میری ناف میں انگلی پھیری تو مجھے اچانک اتنی ذبردست گدگدی ہوئی جسکو برداشت نہ کرتے ہوے میں‬
‫اوپر کو اچھال اور میرا ایک ہاتھ جو ضوفی کی پھدی کے بلکل قریب تھا وہ اوپر آتے ہوے ضوفی کی پھدی کے اوپر سے‬
‫رگڑکھاتا ہوا اسکی ناف سے ٹچ ہوکر اسکے ایک ممے کو چھو کر واپس بھی اسی حالت میں جاتے ہوے اپنا کام کرکے‬
‫ضوفی کی نرم کالئی کو پکڑ لیا‬
‫ضوفی اس اچانک رگڑ سے ایک دم اچھلی اور اپنا آپ تھوڑا سا پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر تب تک ہاتھ نے اپنا کام‬
‫پورا کرلیا تھا‬
‫میں نے ایسے ظاہر کرتے ہوے ضوفی کی کالئی کو پکڑتے ہوے کہا نہہہہہہ کرو ضوفییی اسکو یہ محسوس ہوا جیسے یہ‬
‫سب غیر ارادی طور پر ھوا ھو‬
‫اور ہوا بھی یہ سب غیرارادی طور پر ھی تھا‬
‫اگر ضوفی میری ناف میں انگلی نہ گھسیڑتی تو‬
‫میری اتنی جرات کہاں تھی کہ اس حسینہ کے جسم کو اسکی اجازت کے بغیر چھو لیتا۔‬
‫ضوفی نے بھی کوئی ایسا ریکٹ نہ کیا کہ جس سے لگا ہو کہ اسے برا فیل ہوا ھے ۔‬
‫اور میری اس حالت پر ہنستے ہوے بولی‬
‫اب مزہ آیا نہ بچو۔‬
‫میں نے کہا نہ کرو یارررر‬
‫بہت گدگدی ہوتی ہے‪.‬‬
‫ضوفی نے اپنی فنگر میری ناف سے باہر نکالی پھر سے میرے پیٹ پر مساج کرتے ہوے ناف کے نیچے ہاتھ کو سرکانے‬
‫لگی‬
‫میں نے بھی اسکی کالئی چھوڑ دی تھی۔‬
‫اب اسی موقعہ کا مجھے انتظار تھا کہ آگے کیا ہوتا‬
‫کیونکہ اچانک ہلنے سے میرا لن بھی میرے چڈوں سے ازاد ہو چکا تھا اور اب وہ فری ہینڈ تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے ھی حساب سے اپنی انگلیوں کو سرکاتے ہوے جیسے ھی میرے نالے کی طرف لے گئی اور اسکا ٹارگٹ تو‬
‫ناال تھا کہ جیسے ھی اسکی فنگر سے نالے لی گانٹھ ٹچ ہو تو اسے پتہ چل جاے کے آگے خطرناک عالقہ شروع ہوجاتا ھے‬
‫مگر اب تو اس خطرناک عالقے کی سرحد پر سے باڑ ہٹ گئی تھی اور انگلیاں اپنی مستی سے آگے کی آگے سرکتی ہوئی‬
‫جیسے ھی میرے ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟‬
‫‪.‬جیسے ہی ضوفی کی انگلیاں میری چوؤں سے ٹکراتے ہوئی میرے لن کی جڑ سے ٹکرائیں۔‬
‫ضوفی نے ہائییییی کیا اور ہاتھ باہر کھینچ کر آنکھیں پھاڑے میری ُک ھلی شلوار کی طرف دیکھتے ہوے اپنی انگلیوں کو‬
‫دوسرے ہاتھ سے مسلتے ہوے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔‬
‫میں بھی تھوڑا سا گبھرا گیا کہ اب پتہ نہیں کیا ہوگا اور ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں ساری گیم الٹ ہی نہ ہوجاے ۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ہوے انجان بن کر چونکنے کے انداز میں ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کیا ہوا۔‬
‫ضوفی غصے اور حیرت ہونے کے ملے ُج لے لہجے میں میری شلوار کی طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے بولی‬
‫یہیہیہ تتتم نے شششلوار کب اتاری‬
‫میں نے حیران ہوکر شلوار پکڑ کر کہا کہ‬
‫کیا ہوااااشلوار تو پہنی ہوئی ہے‬
‫ضوفی بولی مممیرا مطلب ھے کہ ننناال کیوں کھوال۔‬
‫میں پالن کے مطابق‬
‫بات کو مزاق میں ڈالتے ہوے بوال‬
‫اپنی ناف کے نیچے والے بالوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ‬
‫میں نے اس لیے کھوال تھا‬
‫کہ ادھر والے بال بھی تو اتارنے ہیں ۔‬
‫ضوفی کا رنگ ٹماٹر کی طرح ہوگیا تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫نننھی بھئی میں یہاں سے کیسے کرسکتی ہوں‬
‫تتم جلدی سے اسے باندھو‬
‫یہ میں نہیں کرسکتی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ضوفی کیا ہوا یار ۔‬
‫کیا دوستی میں اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتی ۔‬
‫مرضی ہے تمہاری‬
‫خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی سے سب کچھ کررھی تھی‬
‫جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔‬
‫اور میں نے ُبرا سا منہ بناتے ہوے روٹھنے کے انداز میں‬
‫اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے لگ گیا ۔‬
‫ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔‬
‫میں نے ناال باندھ کر اپنی شلوار کے پوہنچوں کو بھی پکڑ کر نیچے کرلیا اور سٹریچر سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر جوتا پہننے‬
‫لگا تو ۔‬
‫ضوفی جیسے ہوش میں آئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس لیٹاتے ہوے بولی ۔‬
‫کدھر چلے ہو ابھی تو ٹانگوں پر لوشن لگانا ہے‬
‫ورنہ الرجی ہوجاے گی سکن خراب ہوجاے گی ۔‬
‫میں نے موڈ بناے ہوے کہا‬
‫رہنے دو کچھ نہیں ہوتا‬
‫میں چلتا ہوں‬
‫ضوفی چہرے پر مصنوعی غصہ التے ہوے مجھے کندھے سے پیچھے دھکیلتے ہوے بولی ذیادہ شوخاااااااااا‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر گری۔‬
‫اور شوخا نہ بن اس کے منہ میں ہی اٹک گیا۔‬
‫کیونکہ‬
‫ضوفی نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا تھا تو میں جان بوجھ کر پیچھے گرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوے ضوفی کی کمر کو‬
‫پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے اوپر ھی سٹریچر پر لےگیا۔‬
‫اب میری اور ضوفی کی ٹانگیں نیچے تھیں‬
‫اور میں سٹریچر کے اوپر اور میرے اوپر ضوفی تھی‬
‫ضوفی کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا اتنا سا اوپر تھا کہ اسکی گرم سانسیں میرے منہ پر پڑ رہیں تھیں‬
‫اور ضوفی کے گول مٹول سڈول ممے میرے ننگے سینے کے ساتھ دبے ہوے تھے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ ضوفی کی کمر کے گرد تھے اور ضوفی کے دونوں ہاتھ میرے ننگے شولڈر پر شولڈروں کو تھامے‬
‫ہوے تھے‬

‫)‪Update no (82‬‬
‫ضوفی کا پیٹ میرے ننگے پیٹ کے ساتھ لگا ہوا تھا‬
‫اور اسکی پھدی اور میرے نیم کھڑے لن کا پہال مالپ ہورھا تھا۔‬
‫ضوفی یوں اچانک میرے اوپر گرنے سے کافی گبھرا گئی تھی اور چند لمحوں میں اسی حالت میں میرے اوپر لیٹی بولی‬
‫یاسر بہت بتمیز ہو ابھی‬
‫تم نے خود بھی سٹریچر سے نیچے گرنا تھا اور مجھے بھی گرانا تھا۔‬
‫میں نے ضوفی کی کمر کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوے اسکے نرم جسم اور موٹے مموں کو مذید خود کے‬
‫ساتھ چپکاتے ہوے کہا۔‬
‫نہیں ضوفی جی‬
‫دھکا تو آپ نے دیا تھا‬
‫میں نے تو اپنے آپ کو سمبھاال تھا اور سمبھالتے ہوے آپ بھی میرے ساتھ ہی میرے اوپر گرگئی‬
‫مگر میرے بازو اتنے کمزور نہیں کہ آپ کو نیچے گرنے دیتا‬
‫۔‬
‫آپ نے اگر مجھ خوش نصیب کو دوست کہا ھے تو پھر یہ سوچنا بھی نہ کہ آپکا یہ غریب دوست کبھی آپکو گرنے دے گا۔‬
‫ضوفی نے سوفٹ سٹف کا ڈریس پہنا ہوا تھا اور اوپر سے اس کا جسم اتنا نرم تھا‬
‫کہ میرا لن تو اپنے پورے عروج پر آگیا تھا‬
‫اور ضوفی کی کنواری پھدی نے بھی پہلی دفعہ لن کا لمس پاتے ہی‬
‫لن کو ویلکم کیا اور لن ضوفی کی پھدی سے رگڑ کھاتا ہوا ضوفی کے چڈوں میں گھس گیا۔‬
‫ضوفی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے ھوے بولی‬
‫شوخے میں سب سمجھتی ہوں تم نے جان بوجھ کر مجھے اپنے اوپر گرایا ھے ۔‬
‫تمہارے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔‬
‫میں نے بھی ضوفی کی گمنام جزیرے جیسی آنکھوں میں گم ہوتے ہوے کہا۔‬
‫ضوفی جی میں نے آپکو اپنے اوپر ھی گرایا ھے‬
‫نیچے تو نہًیں۔‬
‫اور کس کم بخت کے ارادے غلط ہیں ۔‬
‫یہ آپ کا وہم ہے ۔‬
‫بس آپ کے حسن اور آپ کے سیکسی فگر کو دیکھ کر اور آپ کے نرم اور ریشم کی طرح مالئم ہاتھوں کے لمس سے یہ‬
‫ناچیز سیدھا سادھا پینڈو مرنے واال ہوگیا ھے جنکے ارادے غلط ہوتے ہیں وہ اتنا نذدیک آکر وقت ضائع نہیں کرتے ۔‬
‫آپ شریف لڑکی ہیں‬
‫تو میں بھی شریف لڑکا ھی ہوں ۔‬
‫مگر کیا کروں‬
‫آگ کے سامنے گھی کب تک جما رہ سکتا ہے ۔‬
‫ضوفی نے میرے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر پیار سے میری گال پر ہلکی سی چپت لگائی اور بولی‬
‫باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کی کمر کو مذید کستے ہوے‬
‫ضوفی کے منہ سے ہلکی سی ہائیییی نکالتے ہو ے‬
‫کہا‬
‫اور مجھ جیسے سیدھے سادہ کو بہکانا بھی کوئی آپ سے سیکھے۔‬
‫ضوفی میری آنکھوں میں اپنی مستانی آنکھیں ڈال کر بولی‬
‫اب چھوڑ بھی دو میں تھک گئی ہوں ۔‬
‫میں نے نفی میں سرہالیا‬
‫ضوفی مسکین سا منہ بنا کر بولی پلیززززززز‬
‫جبکہ مجھے واضح محسوس ہورھا تھا کہ ضوفی میرے لن کو اپنے چڈوں میں لیے ہلکا ہلکا سا دبا کر پھدی کے اوپر لن کا‬
‫دباو بڑھا رھی تھی ۔‬
‫مگر اوپر اوپر سے نخرے کررھی تھی ۔‬
‫میں نے لوہا گرم دیکھ کر‬
‫ایک چوٹ لگانے کا سوچا اور‬
‫ضوفی کو کہا ایک شرط پر چھوڑوں گا‬
‫ضوفی اپنے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو کو انگلی سے ہٹاتے ہوے بڑی شوخی سے بولی ۔‬
‫اب کون سی شرط ھے جناب کی ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫میرے نیچے والے بال بھی تم ھی اتارو گی‬
‫ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم مجھے اس قابل ہیں نہیں سمجھتی ۔‬
‫ضوفی کے چہرے پر یکلخت سارے جہاں کی شرم حیاء ٹپک پڑی اور‬
‫ضوفی بالوں کی شرارتی لٹ کو پھر اسی انداز میں چہرے سے ہٹاتے ہوے بولی‬
‫اگر نہ کروں تو۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫تو میں یہ ھی سمجھوں گا کہ میں ابھی تمہاری دوستی کے الئق نہیں ہوں ۔‬
‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ہوے اور نیچے سے اپنے چڈوں کو بھینچتے ہوے بولی‬
‫شرم تو نہیں آتی ایسی بات کہتے ہوے ۔‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوے بولی‬
‫چلو چھوڑو مجھے‬
‫کرتی ہوں جناب کے نیچے والے بالوں کی بھی صفائی ۔‬
‫دوست مال بھی تو الڈال۔‬
‫اور یہ کہتے ہوے ضوفی اوپر کو ہوئی تو میں نے بھی اپنے بازو ضوفی کی نرم گوشت سے بھری کمر کو چھوڑ دیا۔‬
‫اور ضوف اٹھ کر کھڑی ہوئی تو اسکی نظر میرے لن ہر پڑی جو پورے جوبن میں‬
‫پھدی کی برسات سے بچنے کے لیے شلوار کو چھتری بناے کھڑا تھا۔‬
‫ضوفی ساتھ ساتھ اپنی شرٹ کو بھی سہی کررھی تھی جو لن نے اسکے چڈوں میں گھسا دی تھی اور ساتھ ساتھ میرے لن کو‬
‫بھی ُک ن اکھیوں سے دیکھ رھی تھی۔‬
‫میں نے بھی ٹانگیں‪ .‬پھر اوپر کرلیں اور ضوفی کو مذید ترسانے کے لیے لن کو چڈوں میں دبا لیا ۔‬
‫ضوفی نے چونک کر میری طرف ایسے دیکھا جیسے ۔‬
‫میں نے اسکا بہت بڑا نقصان کردیا ہو۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی پھر دوسری طرف منہ کر کے اپنی گول مٹول نرم گانڈ کو میری طرف کرکے باول اٹھانے چلی گئی‬
‫اور‬
‫دوسری طرف منہ کیے باول میں پھر ویکس تیار کرنے لگ گئی‬
‫دو تین منٹ ضوفی مجھے اپنی گانڈ کا دلکش نظارہ کروانے کے بعد اچانک میری طرف گھومی اور مجھے اپنی گانڈ کو‬
‫تاڑتے دیکھ کر بڑی معنی خیز آنکھوں سے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے اپنے شربتی لبوں پر سیکسی سی سمائل ال کر‬
‫آنکھوں سے اشارا کر کے مسکرا دی‬
‫کہ خیر ھے میری گانڈ کو کیوں دیکھ رھے تھے۔‬
‫اور کولہوں کو مٹکاتی ہوئی باول میں برش سے ویکس کے لیکوڈ کو مکسچر کرتے ہوے میری طرف بڑھی‬
‫اور‬
‫بولی ۔‬
‫تم ابھی تک ایسے ہی لیٹے ہوے ھو ۔‬
‫میں نے سوالیا نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫تو کیا کروں ۔‬
‫ضوفی بولی بالوں کی جگہ کو ننگا کرو‬
‫اور صرف بالوں کی جگہ کو ھی ننگا کرنا ھے سمجھے ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالتے ہوے جلدی سے ناال کھوال‬
‫اور شلوار نیچے کرنے لگا تو‬
‫ضوفی نے مجھے رکنے کا کہا اور خود آگے بڑھی‬
‫اور میری شلوار کو ڈرتے ڈرتے دو انگلیوں سے پکڑ کر بس تھوڑا سا نیچے کیا‬
‫اور میرے غیر ضروری بالوں کو ھی بس ننگا کیا‬
‫جبکہ اتنی شلوار نیچے کرنے سے بھی ضوفی کی انگلی میرے ننگے لن کے ساتھ ٹکرا چکی تھی‬
‫جس کی وجہ سے ضوفی نے جلدی شلوار کو چھوڑ دیا تھا۔‬
‫میں اب بھی ٹانگوں کو فولڈ کیے ہوے لن کو چڈوں میں دباے ہوے تھا۔‬
‫ضوفی شلوار نیچے کرنے کے بعد بولی اب ٹانگیں تو سیدھی کر کے گھٹنے نیچے کر لو ایسے کیسے میں ویکس کروں گی‬
‫میں نے جیسے ھی ٹانگیں سیدھی کیں تو لن پھر آزاد امیدوار بن کر جھومنے لگ گیا‬
‫ضوفی ایک دم چونکی اور بڑے غور سے میرے کھڑے لن کو اور ناف کے نیچے گولڈن بالوں کو دیکھنے لگ گئی تھی ۔‬
‫میں نے اسے یوں اپنے لن اور بالوں کو دیکھتے ہو‬
‫دیکھا تو میں نے کہا ضوفی جی ذیادہ بڑا تو نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔‬
‫بالوں کا سائز۔۔۔۔‬
‫تو ضوفی نے چونک کر میری طرف دیکھتے ہوے کہا نننہیں‬
‫اور یہ کہتے ہوے ضوفی نے باول سے برش نکال کر بالوں پر ویکس کا لیپ کرنے لگ گئی ۔‬
‫اس کا ہاتھ کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔‬
‫میں نے کہا ضوفی جی ایسے تو میری شلوار بھی گندی ہوجاے گی تو ضوفی گبھرا کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی‬
‫تھوڑی سے اور نیچے کرلو میں ٹشو لگا دیتی ہوں‬
‫اور ضوفی یہ کہتے ھی ٹشو لینے چلی گئی ۔‬
‫میں نے جلدی سے شلوار ایسے نیچے کردی‬
‫کہ میرے لن کی جڑ اور ٹٹوں کی جھلک ضوفی کو نظر آجاے ۔‬
‫ضوفی جب ٹشو لے کر میرے قریب آئی‬
‫تو ضوفی نے جیسے ھی ٹشو کو میری شلوار کے نیچے میں لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ضوفی کی جب نظر میرے ننگے‬
‫موٹے تگڑے لن کی تگڑی جڑ اور ٹٹوں پر نظر پڑی تو ضوفی نے یکلخت۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھیں بند کیے دیکھ کر ہاتھ کو پیچھے کھینچ لیا‬
‫۔جبکہ میں نے آنکھ کا پردہ ہلکا سا کھوال ہوا تھا۔‬
‫میں نے اسی حالت میں ضوفی کو کہا کہ ٹشو اچھی طرح لگا دینا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھی طرح ھی لگا دیا ھے‬
‫اور پھر کچھ دیر بعد ضوفی نے جینز کا کپڑا پکڑ کر پھاڑا اور اسکا ٹکڑا میری ناف کے نیچے لگانے لگی‬
‫ضوفی کانپتے ہاتھوں سے کپڑا چپکا رہی تھی‬
‫اس دوران تین چار دفعہ ضوفی کا ہاتھ میرے لن سے ٹکرایا تو لن نے بھی اتنے ھی جھٹکے لگا کر ضوفی کو اپنی بےچینی‬
‫بتائی۔‬
‫ضوفی کپڑا چپکا کر میری طرف دیکھتے ہوے بولی‬
‫یاسر ادھر سے درد ذیادہ ہوگی برداشت کرلو گے ۔‬
‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔‬
‫تمہارے ہاتھ سے تو ہر درد مزے میں بدل جاتا ھے ۔‬
‫ضوفی بولی اچھا لگ جاتا ھے پتہ ۔‬
‫اور اس کے ساتھ ھی ضوفی نے لن والی سائڈ سے کپڑے کو پکڑا‬
‫ضوفی کا ناخن میرے لن پر چبھا اور ساتھ ھی ضوفی نے جھٹکے سے کپڑے کو کھینچا تو‬
‫سییییی کرکے کھڑی ہوگئی۔‬
‫ضوفی کی گانڈ میرے منہ کی طرف تھی ۔‬
‫ضوفی میرے لن کی طرف منہ اور میرے منہ کی طرف اپنی گوشت سے بھری گانڈ کر کے کھڑی تھی ۔‬
‫اور میرا ھاتھ اسکی گانڈ کے بلکل پاس تھا‬
‫ضوفی نے جیسے ھی کپڑا کھینچا‬
‫درد کے مارے میرا برا حال ہوگیا‬
‫مگر انا کی وجہ سے اپنے منہ سے چیخ نھی نکلنے دی‬
‫بلکہ سییییی کرکے ضوفی کی گانڈ کی ایک موٹی پھاڑی کو اپنی ُمٹھی میں بھر لیا‬
‫ادھر میری سییییی نکلی‬
‫اور دوسری طرف ضوفی کی سیییی نکلی اور وہ جھٹکے سے سیدھی کھڑی ہوگئی اور جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹک‬
‫دیا۔‬
‫ضوفی نے میری طرف دیکھا اور بولی سناو بچو نکلی نہ جان‬
‫اور ساتھ میں میری بھی نکال دی نہ جان۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں ضوفی یہ درد نھی بلکہ مزے کی سیییی تھی ۔‬
‫ضوفی نے حیران ہوکر میری طرف دیکھا اور بولی‬
‫یاسر واقعی تم کو درد نہیں ہوا۔‬
‫اب میں اسے کیا بتاتا کہ میری تو گانڈ پھٹنے والی ہوگئی تھی ۔‬
‫میں نے اعلی نسل کا ڈھیٹ بنتے ہوے کہا نہیں یار سچ میں مجھے درد نہیں مزہ آیا تھا۔‬
‫تو ضوفی اپنی گانڈ کو مسلتے ہوے بولی‬
‫بتمیز پھر میرے ادھر سے کیوں اتنی ذور سے پکڑا تھا۔‬
‫میں نے ذبردستی ہنستے ہوے کہا۔‬
‫یار مزے کی شدت ہی اتنی تھی کہ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔‬
‫میں نے ساتھ ہی اپنا ہاتھ اپنی ناف کے نیچے پھیرنا شروع کیا میری سکن تو ایسی سوفٹ تھی جیسے کنواری لڑکی کی پھدی‬
‫سوفٹ ہوتی ھے ۔‬
‫تو ضوفی بولی ٹھہرو ابھی ہاتھ نہ لگاو‬
‫اور اس نے میرا بازو پکڑ کر اوپر کھینچا تو میری انگلیوں کے ساتھ شلوار بھی میرے لن سے اوپر اٹھ کر لن سے نیچے گر‬
‫گئی میرا میرا تنا ہوا لن جو درد کی وجہ سے نرم پڑ گیا تھا مگر سائز اتنا ھی تھا‬
‫سر جھکائے ضوفی کی نظروں کے سامنے کھڑا تھا‬
‫میرے لن کو دیکھ کر ضوفی کے چہرے کا امپریشن کیسا تھا میں یہ تو نہیں دیکھ سکا کیوں کے ضوفی کا منہ میرے لن کی‬
‫طرف تھا ۔‬
‫مگر ضوفی کا سر ایک جگہ ھی رک گیا تھا جس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ ضوفی میرے لن کو ٹکٹی‬
‫باندھے دیکھ رھی ھے۔‬
‫ضوفی کچھ دیر اسی حالت میں ھی رھی۔‬
‫میں نے ھی اسکا سکتہ توڑا اور کہا‬
‫یار ادھر بھی مساج کردو تو ضوفی کو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ مجھے کیسے کہے کہ میرا لن ننگا ہوگیا ھے ۔‬
‫وہ بنا کچھ کہے‬
‫الماری میں رکھے لوشن کی طرف چلی گئی ۔‬
‫شاید وہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ اسکی واپسی تک میں خود ھی لن اندر کرلوں گا۔‬
‫مگر میرے جیسا ڈھیٹ کوئی روز روز پیدا ہونا تھا۔‬
‫میں بھی ویسے ہی نیم آنکھیں بند کیے لیٹا رھا ۔‬
‫ضوفی کچھ دیر بعد لوشن لے کر پلٹی تو میرے ننگے لن کو اسی حالت میں پایا جس حالت میں چھوڑ کر گئی تھی ۔‬
‫ضوفی کا قدم وہیں رکا اس نے میری طرف دیکھا اور مجھے پھر آنکھیں بند کیے پایا تو‬
‫آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے لن کی طرف بڑھی ۔۔۔‬
‫مجھے لیٹے لیٹے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا‬
‫اور ایک گھنٹے سے مسلسل ضوفی کے ہاتھ کا لمس اسکے جسم کا لمس اسکے مموں کا لمس اور اسکی گانڈ کے لمس کو‬
‫انجواے کرکر کے میرا تو حال برا ہورھا تھا مگر میں پہل کرنے سے ڈر رھا تھا ۔‬
‫ورنہ ابھی تک میرا لن ضوفی کی پھدی پھاڑ چکا ہوتا۔‬
‫میں سٹریچر پر بلکل سیدھا چت لیٹا ھوا میرے دونوں بازو بھی بلکل سیدھے سٹریچر پر تھے ۔‬
‫ضوفی میرے چہرے کو غور سے دیکھتی ہوئی میرے لن کے پاس آکر کھڑی ہوگئی ۔‬
‫اور لوشن کو ہاتھ پر ڈال کر میری ناف کے نیچے مساج کرنے لگ گئی‬
‫ضوفی کی پھدی واال حصہ سٹریچر سے تھوڑا اوپر میرے ہاتھ کے بلکل قریب تھا ۔‬
‫میری انگلیوں اور ضوفی کی پھدی کے درمیان بس ایک انچ کا فاصلہ تھا اگر میں ہاتھ کو ذرہ سا بھی پھدی کی طرف سرکاتا‬
‫تو میری انگلیاں ضوفی کی پھدی کے ساتھ الزمی ٹچ ہوجاتیں ۔‬
‫کیوں کے ضوفی جب مساج کرتے ہوے ھاتھ کو ہالتی تو اسکی سوفٹ شرٹ میری انگلیوں کے ساتھ لگتی ۔‬
‫میں ضوفی کے حوصلے کو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ کیسے میرے ننگے لن کو دیکھ کر بھی اس کے کچھ فاصلے پر‬
‫مساج کررھی ھے اور‬
‫اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔‬
‫پتہ نہیں اب ضوفی کے دل میں کیا تھا‬
‫یا وہ بھی فل گرم تھی‬
‫بس پہل کرنے سے گبھرا رھی تھی ۔‬
‫ضوفی نے جیسے ہے ھی میرے لن کے نذدیک اپنا نرم مالئم ہاتھ دھیرے سے رکھا میرے لن نے انگڑائی لی ۔جب اس نے‬
‫ہاتھ کو سرکاتے ہوے مساج شروع کیا اور اسکی انگلیوں کے پورے میرے لن سے ٹکراے تو لن فل کھڑا ہوکر‬
‫یس میم کہنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی نے چند سیکنڈ کے بعد ھی‬
‫اپنی پھدی کو سٹریچر کے ساتھ چپکانہ شروع کردیا‬
‫میں نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ہتھیلی کے بل انگوٹھا ضوفی کی پھدی کی طرف کردیا اور‬
‫ہاتھ کو سرکاتے ھوے انگوٹھے کو پھدی کے بلکل ساتھ لگا دیا۔‬
‫ضوفی پتہ نہیں کس مستی میں ایک جگہ ہی بڑے پیار سے اور سلو موشن سے مساج کررھی تھی ۔‬
‫اسے یہ احساس تک نہیں ہوا کہ میرے ہاتھ کا انگھوٹھا اسکی پھدی کے ساتھ لگ چکا ہے ۔‬
‫کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ ضوفی پھدی کو خود انگوٹھے کے ساتھ لگا رھی ھے تو میرا بھی حوصلہ بڑھا اور میں‬
‫نے ہتھیلی کو سیدھا کیا اور اپنے ہاتھ کی چاروں انگلیوں کو سیدھا کر کے پھدی کی طرف کردیا۔‬
‫ضوفی کے ھاتھ کی گردش کچھ سخت ہوتی جارھی تھی ۔‬
‫اور ضوفی نے اپنی پھدی کو میری انگلیوں کے ساتھ لگا کر آہستہ آہستہ گانڈ کو دائیں بائیں کرنا شروع کردیا‬
‫اور میری انگلیاں اسکی نرم پھدی کے ساتھ رگڑ کھانے لگ گئیں ۔میں نے بھی تھوڑا سا حوصلہ مذید کیا اور انگلیوں کی مدد‬
‫سے ضوفی کی شارٹ شرٹ کو اوپر کرنا شروع کردیا کچھ دیر کی محنت کے بعد میری انگلیاں اب ٹراوزر کے کپڑے کے‬
‫اوپر سے پھدی کو ٹچ کرنے لگ گئیں‬
‫پھدی کی جگہ سے ٹراوزر پہلے ھی گیال تھا جو انگلیوں کو بھی گیال کرچکی تھیں ۔‬
‫میری انگلیاں جیسے ہیں ریشمی ٹراوزر کے اوپر سے پھدی کے ساتھ لگیں تو ضوفی نے اپنی ٹانگوں میں میری انگلیوں کو‬
‫بھینچ کر چھوڑتے ہوے سسکاری بھری‬
‫میں نے ساتھ ھی سینٹر والی لمبی انگلی کو تھوڑا سا خم کیا اور ٹراوزر کے اوپر سے ھی پھدی کے لبوں کے درمیان رکھ‬
‫کر انگلی کو پھدی کی طرف دبا دیا تو‬
‫ضوفی نے سییییییییییی کیا اور ساتھ ھی میرے لن کو اپنی مٹھی میں پھر کر دبا لیا اور سر اوپر کر کے جھت کی طرف‬
‫کرلیا۔‬
‫اندھا کو اور کیا چاھیے‬
‫میں نے ساتھ ھی تین انگلیاں پھدی کے اوپر رکھ کر انگلیًو ں کو پھدی پر دبا کر پھدی کو رگڑنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی میرے لن کو مٹھی میں دباے جارھی تھی‬
‫اور اسکی سسکاریاں بڑھتی جارہی تھی‬
‫ضوفی کبھی اپنے چڈوں کو بھینچ کر میری اس انگلیوں کو بھی‬
‫پھدی کے ساتھ دبا لیتی تو کبھی گانڈ کو آگے پیچھے کر کے انگلیوں پر گھسے مارنے لگ جاتی‬
‫میری برداشت بھی ختم ہوچکی تھی‬
‫میں نے چاروں انگلیاں پھدی پر رکھیں اور انگوٹھے کو اوپر ٹراوزر کے نیفے میں اڑایا اور السٹک والے ٹراوزر‪ ،‬میں‬
‫انگوٹھا پھنسا کر ٹراوزر نیچے کی طرف کھینچا اور جھٹکے سے چاروں انگلیاں اس کے ٹراوزر میں گھسا کر ضوفی کی‬
‫پھدی پر رکھ دیں‬
‫ضوفی کی پھدی تھی کہ روئی کو گوال تھا چو پانی سے بھیگا ہوا تھا پتہ نہیں کب سے اسکی پھدی پانی چھوڑی جارہی تھی ۔‬
‫جیسے ہی میری انگلیاں اسکی ریشم جیسی مالئم کلین پھدی کے ننھے ننھے سوفٹ ہونٹ میری انگلیوں کی گرفت میں آے تو‬
‫ضوفی کو ایک ذبردست جھٹکا لگا اور اسکے ساتھ ھی اس نے ۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟‬
‫۔ضوفی کی پھدی کو جیسے ہی میری انگلیوں نے بھینچا ضوفی کو ایک جھٹکا لگا اور ضوفی نے لمبی سسکاری بھری اور‬
‫ساتھ ھی اس نے میرے لن کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا اور پورے ذور سے مٹھی کو بھینچ دیا اور اپنے چڈوں کو بھینچ کر‬
‫میری انگلیوں کو پھدی کے اوپر ھی جکڑ لیا اور میرے لن کو پکڑے اور چڈوں میں میرا ھاتھ لیے‬
‫اپنے ممے میرے پیٹ پر رکھ کر دھری ہوتی میرے اوپر لیٹ گئی اور میں نے بھی اپنی انگلیاں پھدی کے اوپر دبا دیں ۔۔ اور‬
‫انگلیوں کو پھدی پر دبا کر انگلیوں کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا‬
‫میں نے کوئی پانچ چھ دفعہ ھی ایسے کیا تو‬
‫ضوفی نے ٹانگوں کو پورے ذور سے بھینچا اور لمبی سی سسسسسسسس کرتے ہوے‬
‫نننننہہہہہیی یاسسسسسررررررر ممممممم گگگگگگگءییییی اففففففففف آہہہہہہہہہ‬
‫کرتے ہوے جسم کو جھٹکے لگاتے ہوے اوپر کا پورا وزن میرے اوپر ڈال کر ایسے مجھ سے چپک گئی جیسے میرے جسم‬
‫میں ھی اسکا جسم جزب ہو جانا ھو ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی اسی حالت میں میرے اوپر لیٹے جسم کو جھٹکے لگاتی رھی اور سسکاریاں بھرتی رھی ۔‬

‫)‪.Update no (83‬‬
‫اسکی پہلی گرم گرم منی کی برسات نے میری انگلیوں کو سارا گیال کردیا تھا ۔‬
‫اور منی اسکی ٹانگوں سے بہہ کر اسکے پیروں تک چلی گئی تھی ۔‬
‫ضوفی جب اچھی طرح فارغ ہوئی اور اسے جب ہوش آیا کہ وہ کس کنڈیشن میں میرے اوپر لیٹی ھے اور میرا اکڑا ھوا لن‬
‫اسکی مٹھی میں اور اسکی پھدی میری مٹھی میں ھے ۔تو ضوفی کو ایک ذبردست جھٹکا لگا اور اس نے جلدی سے میرے‬
‫لن کو چھوڑا اور میری کالئی کو پکڑ کر میرا ھاتھ اپنے ٹراوزر سے نکال دیا اور جلدی سے کھڑی ہوکر اپنے کپڑے درست‬
‫کرتے ہوے‬
‫دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اور باہر بھاگ گئی ۔‬
‫ضوفی نے نہ مجھ سے کوئی بات کی نہ ھی میری طرف دیکھا‬
‫بس پریشان حال بھاگتی ہوئی کیبن سے نکل کر باہر چلی گئی اور میں ننگا لیٹا ہوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔‬
‫اسکی حالت اور یوں اسکے بھاگنے سے مجھے یقین ہو چال کہ ضوفی اب اندر نہیں آے گی ۔‬
‫میں نے کچھ دیر بیکار سا انتظار کیا مگر ضوفی اندر نہیں آئی ۔‬
‫تو میں نے کپڑے پہنے اور اپنا حلیہ درست کیا اور کیبن سے باہر آیا تو‬
‫وہ سانولی کچی کلی‬
‫کاونٹر پر بیٹھی ہوئی تھی ۔‬
‫اس کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی تو اس نے بڑے غور سے سوالیا نظروں سے مجھے دیکھا جیسے‬
‫اس نے میری چوری پکڑ لی ہو۔‬
‫میں باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھتے ہوے ضوفی کو دیکھا تو ضوفی مجھے پورے پارلر میں نظر نہ آئی میں دوسرے‬
‫کیبنوں میں دیکھ آیا مگر ضوفی کا نام نشان تک نہ نظر آیا۔‬
‫مجھے یوں پھرتا دیکھ کر وہ لڑکی بولی‬
‫بھائی‬
‫باجی چلی گئیں‬
‫ہیں‬
‫اور وہ کہہ کر گئیں تھیں کے آپ باہر آو تو آپ کو بتا دوں کہ انکو گھر میں ضروری پڑگیا ھے اس لیے وہ جارھی ہیں‬
‫اور آپ انکا انتظار مت کریں ۔‬
‫لڑکی کے چہرے پر سیکسی سی سمائل تھی ۔‬
‫میں نے اس سے پوچھا کہ‬
‫کب گئیں تھی تو وہ لڑکی بولی‬
‫انکو تو دس منٹ ہوگئے ہیں‪،‬‬
‫میں نے اس سے ذیادہ تفصیل نہیں پوچھی کیونکہ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ وہ کیوں گئی ھے ۔‬
‫گھر کا تو بہانہ تھا ۔۔۔‬
‫اصل وجہ تو ضوفی کو اپنے کئے پر شرمندگی تھی جو وہ جنون میں کرگزری تھی ۔‬
‫میں باہر نکلنے لگا تو وہ لڑکی بڑے سٹائل سے مجھے مخاطب کر کے بولی‬
‫بات سنیں ۔‬
‫میں باہر نکلتے اسکی طرف گھوم کر دیکھتے ہوے بوال جی فرمائیں ۔‬
‫تو وہ لڑکی بولی‬
‫آپ نے باجی کو کچھ کہا تھا تو میں نے کہا کیوں کیا ہوا ۔‬
‫تو وہ کہنے لگی باجی روتے ہوے گئی تھی ۔‬
‫میں نے اسکو جواب دینے کی بجاے باہر کا راستہ اختیار کیا اور چپ کر کے پارلر سے نکال اور مارکیٹ سے نکل کر میرا‬
‫رخ اسد کے گھر کی طرف ہوگیا‬
‫کچھ دیر بعد میں اسد کے گھر کے باہر کھڑا بیل بجا رھا تھا‬
‫‪.‬کچھ دیر بعد اسد نے دروازہ کھوال اور جیسے ہی اس نے سر دروازے سے باہر نکال کر مجھے دیکھا تو اسکے منہ سے‬
‫بس اتنا ھی نکال تتتتممم اور پھر اسکی آنکھیں باہر کو نکل آئیں اور رنگ زردی مائل ہوگیا۔‬
‫اور وہ سکتے کے عالم میں کھڑا مجھے دیکھنے لگ گیا۔‬
‫میں نے بڑے شوخ لہجے سے اسے مخاطب کرتے ہوے کہا۔‬
‫اوے ماما ہاں میں ای آں پر‬
‫تیرے منہ تے باراں کیوں وجے ہوے نے ۔‬
‫تو اسد‬
‫پھر ہلکاتے ہوے بوال ۔‬
‫مممیرا مطلب ککہ تتتم اچانک آے ہو۔‬
‫اور بات کرتے ہوے اسد مجھے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھ رھا تھا‬
‫شاید وہ فیصلہ نہیں کر پارھا تھا کہ‬
‫مجھے عظمی والے واقعہ کا علم ھے کہ نہیں ۔‬
‫میں آگے بڑھا اور اسکا کان پکڑتے ہوے اسے پیچھے دھکیل کر اندر داخل ہوگیا‬
‫اور اسد کو کہا‬
‫گانڈو‬
‫کس دنیا میں پہنچا ہوا ھے‬
‫کیا ہوا ھے تجھے اتنا ڈرا سہماں کیوں ہے ۔‬
‫اسد کو یقین ہوچکا تھا کہ مجھے عظمی کہ واقعہ کا علم نہیں ھے‬
‫اور نہ ھی میں نے اپنے رویے سے اسے ظاہر ہونے دیا کہ مجھے واقعی سب کچھ علم ھے ۔‬
‫اسد بوال ککچھ نہیں یار بس رات سے میری طبعیت خراب ھے چلو اندر چلو اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔‬
‫میں آگے ٹی الونج کی طرف بڑھ گیا اور اسد گیٹ بند کرنے لگ گیا۔‬
‫میں چلتا ہوا ٹی الونج میں پہنچا تو مہری کمرے سے نکلتی ہوئی دیکھائی دی‬
‫نظروں سے نظریں ملیں دل کے تار چھڑے اور مہری کی آنکھوں سے محبت بھرا پیغام مال‬
‫مہری کا چہرہ گالب کی طرح کھال اور اس کے گالبی ہونٹوں پر مسکان آئی اور وہ چلتی ہوئی میرے قریب سے قریب تر‬
‫ہوئی اور اپنا مخملی ہاتھ میری طرف بڑھا کر بڑی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا ۔‬
‫میں جو اس کے چونتیس سائز کے گول مٹول تنے ہوے مموں اور صراحی دار لہراتی ہوئی کمر میں گم تھا اسکے یوں اپنے‬
‫سامنے ہاتھ کرنے سے چونک پڑا اور اپنا ھاتھ اسکے ھاتھ میں دے کر راضی نامے کا اظہار کیا۔‬
‫مہری میری ہتھیلی میں انگلی پھیر کر اور میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چہک کر بولی خیر ھے آج چاند کدھر سے نکل آیا ۔‬
‫میں نے اسے کچھ کہنے سے پہلے گردن گما کر پیچھے دیکھا تو اسد کو آتا دیکھ کر چپ کر گیا اور‬
‫اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑواتے ہوے‬
‫کہا بس ویسے ھی بازار آیا تھا تو سوچا کہ بےوفا الپرواہ لوگوں سے ملتا جاوں ۔‬
‫مہری نے میری طرف چونک کر دیکھا اور بولی‬
‫جناب ہم کیسے بےوفا اور الپرواہ ٹھہرے۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫بیٹھنے کی اگر اجازت ہو تو‬
‫بیٹھ کر بتا دوں ۔‬
‫مہری جھینپ کر بولی‬
‫اوووو سوری‬
‫تشریف رکھیے۔‬
‫میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔‬
‫مہری ایک منٹ کہہ کر کچن کی طرف چلی گئی اور اسد آکر میرے سامنے بیٹھ گیا وہ اب بھی کنفیوژ تھا‬
‫اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔‬
‫میں نے شوخی سے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ہوے کہا‬
‫ہیلوووووو‬
‫اسد نے چونک کر میری طرف نظریں کیں ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کیا ھوا پریشان لگ رھے ھو سب خیریت تو ھے ۔‬
‫اسد بوال ۔‬
‫ککچھ نہیں یار بس ایسے ھی طبعیت خراب تھی‬
‫میں نے کہا اسکا مطلب ھے میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا ۔‬
‫اسد ذبردستی سے مسکراتے ہوے بوال۔‬
‫نہیں یار کیسی باتیں کررھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تو ماما موڈ سہی کر ایسے منہ بنایا ھوا ھے جیسے کسی فوتگی پربیٹھا ھو۔‬
‫اسد خود کو سنبھالتے ہوے بوال‬
‫اور سنا کیا حال چال ھے‬
‫کام کیسا جارھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫تمہیں کیا لگے کوئی مرے یا جیے۔‬
‫اسد بوال کیا مطلب ۔‬
‫اتنی دیر میں مہری بھی ٹرے میں کولڈ ڈرنک لے کے چلی آرھی تھی ۔‬
‫میں نے مہری کی طرف دیکھتے ہوے کہا جو میرے ھی طرف بڑی نشیلی آنکھوں سے دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں بوال‬
‫بھائی تم امیر لوگ ہو ہم غریب مر بھی جائیں تو تم کو کیا فرق پڑے گا ۔‬
‫اسد جوخود کو سنبھال چکا تھا ۔‬
‫اپنی ٹون میں آکر بوال ۔‬
‫ماما اگے وی پونک ہویا کی اے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میرا ایکسیڈنٹ ھوگیا تھا ۔‬
‫اور میں پندرہ دن ہسپتال اور گھر پڑا رھا مگر جناب کو خبر تک نہ ہوئی ۔‬
‫اسد تو کچھ خاص حیران پریشان نہ ھوا مگر مہری ایک دم چونک کر بولی ھاے****** کب ہوا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا کیوں‬
‫ہوا‬
‫مہری کی پریشانی میں اپنا پن تھا مگر اسد کی حیرانگی میں بناوٹ تھی‬
‫اسد نے بھی ایسا ھی کچھ ریکٹ کیا۔‬
‫میں نے ٹرے سے گالس اٹھاتے ہوے ۔‬
‫چسکی لے کر ساری روداد سنا دی ۔‬
‫میں نے اسد کو یہ بھی ظاہر نہ کیا کہ میں نے اسے بازار میں دیکھا تھا۔‬
‫مہری اور اسد مجھ سے اکسیوز اور گلہ بھی کرنے لگے کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں ۔‬
‫میں تھوڑا حیران بھی ھوا کہ کل آنٹی کو بتایا تھا تو اس نے ان کو نھیں بتایا۔‬
‫کچھ دیر ایسے ہی ہم باتیں کرتے رہے ۔‬
‫میں نےآنٹی کا پوچھا تو اسد نے بتایا کہ آج وہ الہور گئی ہیں دکان کے لیے کچھ سامان خریدنا تھا ۔‬
‫میں ہمممم کرکے خاموش ہوگیا ۔‬
‫اتنے میں جمعہ کی اذان ہونی شروع ہوگئی ۔‬
‫تو اسد بوال چلو یاسر جمعہ پڑھ کر آتے ہین۔‬
‫میں نے کہا یار میں تو ‪ 1:30‬واال پڑھ آیا ہوں ۔اسد نے ٹائم دیکھتے ہوے کہا ٹھیک ھے تم بیٹھو میں جمعہ پڑھ کر ایا پھر بیٹھ‬
‫کر باتیں کرتے ہیں ۔‬
‫اور یہ کہتے ہوے ۔‬
‫اسد باہر نکلتے ہوے مہری کو کہہ گیا کہ گیٹ بند کرلے اور کچھ دیر بعد اسد کی گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور کچھ‬
‫دیر بعد گیٹ الک ہونے کی آواز سنتے ھی میرے لن نے یہ کہتے ہوےانگڑائی لی کہ‬
‫ہن موجاں ای موجان‬
‫‪.‬مہری گیٹ بند کر کے ٹی وی الونج میں آتے ہی بڑی حیرانگی سےبولی ۔‬
‫یاسر آج تو معجزہ ہوگیا۔‬
‫میں نے سوالیا نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا۔‬
‫کیوں کیا ھوا۔‬
‫مہری میرے پاس صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔‬
‫یار اسد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گیا ھے۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے کہا کیوں ۔۔۔‬
‫کیا پہلے نھی جاتا تھا۔‬
‫مہری نے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا‬
‫نہیں یار اس نے تو کبھی *****‬
‫کا منہ نہیں دیکھا۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور کہا چلو اچھی بات ھے‬
‫کچھ تو سدھرا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫مہری تمہیں واقعی نہیں پتہ تھا‬
‫کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔‬
‫مہری قسم اٹھا کر بولی نھی یاسر‬
‫کیا تم یہ سوچ بھی سکتے ھو کہ مہری کو تمہارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلے اور مہری آرام سے بیٹھی رھے‬
‫مجھے اگر علم ھوتا تو میں اڑتی ہوئی تمہارے پاس آجاتی ۔‬
‫یہ کہتے ہوے مہری نے اپنے دونوں بازو سائڈ سے میری کمر کے گرد ڈال کر اپنے ممے میرے بازوں کے ساتھ چپکا کر‬
‫میرے کندھے پر سر رکھ کے مجھے بازوں کے احصار میں لے لیا۔‬
‫میں نے پیار سے اسکی روئی جیسے گال پر ہاتھ رکھا اور گال کو تھپتھپا کر ہاتھ کی انگلیوں کو اسکے کان کے اوپر آے‬
‫ہوے ریشمی بالوں میں سرکاتے ہوے‬
‫ہاتھ کو اسکے سر کے پیچھے لے گیا اور مسلسل ایسے کرتا رھا اور مہری کی طرف غور سے دیکھ کر اسکی اصلیت‬
‫جاننے کی کوشش کرتا رھا۔‬
‫مگر سواے اس کے چہرے پر خلوص محبت اور معصومیت کے سوا کچھ نظر نہیں آرھا تھا ۔‬
‫میں مسلسل اس کے حسین چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رھا تھا‬
‫مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں سے اٹھایا اور میرے ہاتھ پر اپنا مخملی ہاتھ رکھا اور میرے ہاتھ کو پیار سے سہالتے‬
‫ہوے بولی‬
‫کیا دیکھ رھے ہو۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے ہوے نفی میں سر ہالیا کہ کچھ نہیں ۔‬
‫مہری‬
‫بولی کچھ تو دیکھ رہے ہو‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں شہوت طاری ہوتی دیکھ کر رومینٹک انداز میں مہری کے بالوں کو سہالتے ہوے کہا‬
‫دیکھ رہا ہوں کہ کتنی فرصت سے تم کو بنانے والے نے بنایا ھے‬
‫تمہارا ایک ایک انگ میرے جزبات کو چنگاری دیتا ھے ۔‬
‫مہری تم حسن کی دیوی ہو۔‬
‫مہری میرا دل کرتا ہے کہ تمہارے جسم کے ایک ایک ذرے کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر اپنی خواہش کو امر کرلوں ۔‬
‫مہری کے گالبی گال سرخی مائل ہورھے تھے ۔‬
‫مہری نے میری بات سن کر میری کمر کے گرد سے بازو ہٹاے اور مجھ سے الگ ہوکر میرے سامنے کھڑی ہوگئی اور‬
‫اپنے گلے میں ڈاال ہوا دوپٹہ اتار کر شیشے کے میز پر پھینک کر بازو پھیال کر آنکھیں بند کر کے رومینٹک انداز سے‬
‫بولی۔‬
‫یاسر آو اپنی خواہش کو آج جی بھر کر پورا کرلو‬
‫یہ جسم یہ جان سب کچھ تمہارا ھے ۔‬
‫ضوفی کے ہوا میں کھلے بازوں سے اسکے گول مٹول ممے بھی ہوا میں لہراتے ہوے نظر آے‬
‫اسکی فٹنگ والی شارٹ شرٹ میں اسکے مموں کا ابھار ایسے تھا جیسے ابھی دونوں ممے اسکی شرٹ پھاڑ کر باھر آجائیں‬
‫گے ۔‬
‫یہ سیکسی منظر دیکھتے ہی‬
‫میرے تو ہوش و ہواس گم ہوگیے‬
‫اور میرا دماغ مہری کے سیکسی فگر کو دیکھتے ہی تمام شد ہوگیا۔‬
‫مہری کے مموں کے سحر میں جکڑا‬
‫میں بےاختیار اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫اور اسکے سامنے اسکے نزدیک اسکے ابھاروں کے قریب اپنا سینہ کر کے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ اسکے گالب کی کلی کی طرح کھلتے ہوے چہرے کی طرف بڑھاے‬
‫اور اسکی روئی جیسی نرم اور ریشم جیسی مالئم گالوں پر اپنے ہاتھوں کی ۔ہتھیلیاں رکھیں اور ہاتھوں کی انگلیوں کو مہری‬
‫کے کانوں کی لوں کے ساتھ لگا کر‬
‫اس معصوم چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیا۔‬
‫اور اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوے اپنا چہرہ چودویں کے چاند کی طرف بڑھایا۔‬
‫مہری کے چمبیلی جیسے کھلتے ہونٹوں کے پاس اپنے ہونٹ ال کر اپنی زبان کو پھر اپنے ہونٹوں پر پھیرتے ہوے زبان کو‬
‫مزید لمبا کیا اور زبان کی نوک کو مہری کی گالبی پنکھڑیوں پر پھیرنے لگ گیا۔‬
‫مہری کے جسم کو ایک جھٹکا لگا‬
‫میری نے بھوکی شیرنی کی طرح منہ کھول کر میری زبان پر حملہ کیا اور زبان کو اپنی پنکھڑیوں میں جکڑ کر اندر‬
‫کھینچنے کی کوشش کرنے لگ گئی۔‬
‫شیرنی کی تڑپ دیکھ کر شیر بھی ہوش کھو بیٹھا اور شیر کے پنجے شیرنی کی گالوں کو اپنے شکنجے میں لے کر شیرنی‬
‫کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھینچنے لگیا۔‬
‫آگ تھی کہ دونوں طرف بھڑک اٹھی‬
‫نہ اسے ہوش رھا نہ مجھے‬
‫منہ کے اندر مہری کی اور میری زبان آپس میں ذور آزمائی کررہیں تھی‬
‫اور باہر دونوں کے ہونٹ آپس میں گتھم گتھا تھے‬
‫دونوں میں سے کوئی بھی ہار تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔‬
‫کچھ دیر بعد ہونٹوں سے ہونٹ اور زبان سے زبان الگ ہوئی‬
‫تو میں نے مہری کی شرٹ کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر کی طرف کرنے لگا‬
‫مہری نے بھی باخوشی اپنی شرٹ اتارنے میں میری مدد کرتے ہوے شرٹ کو اپنے مخملی گورے گالبی شفاف بدن سے الگ‬
‫کر کے اپنے دوپٹےکے اوپر رکھ دیا۔‬
‫مہری کے گورے بدن کو دیکھ کر میری آنکھیں تڑپ اٹھیں ہونٹ پر خشکی چھانے لگی زبان بے اختیار ہونٹوں کی طرف‬
‫بڑھی اور انکو ہوش دالنے کے لیے اپنے لباب سے ہونٹوں کو تر کرتے ہوے حوصلہ دینے لگی ۔‬
‫مہری کےگالبی مموں پر گالبی بریزیر اسکے بدن کا حصہ ہی لگ رہا تھا‬
‫ظالم نے کیا میچنگ کی تھی اپنے رنگ کے ساتھ‬
‫میرا سر خم ہوا اور‬
‫اسکے بریزیر سے باہر کے حصے کی طرف میرے ہونٹ بڑھے اور اس مخمل کو ہونٹوں نے چوم لیا‬
‫مہری کے منہ سے سسکاری بلند ہوئی ۔‬
‫میں نے ہونٹوں کو مہری کے ننگے گالبی مموں کے حصے کوچومنا شروع کردیا‬
‫میرے ہونٹوں کا لمس مہری کو تڑپا رھا تھا سسکا رھا تھا ۔‬
‫مہری کی انگلیاں میرے سر کے بالوں کو سہال رہیں تھیں ۔‬
‫میرے ہونٹ مہری کو تڑپا رھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے دونوں ہاتھ مہری کی کمر کے پیچھے کیے اور اسکی سوفٹ پنک کلر کی برا کو کی ہک کو کھول دیا‬
‫اور اسکے ممے بریزیر سے آزاد ہوتے ہی چھلک کر بریزیر سے باہر آنے کو بےتاب ہوگئے‬
‫میں نے مہری کی کمر سے سڑیپ کھولنے کے بعد اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو اسکی مخملی کمر پر سرکاتے ہوے‬
‫اسکے مموں کی طرف النے لگا‬
‫مہری کی سانسیں اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگ گئی‬
‫اور میں اپنی انگلیوں کو اسکی کمر سے سرکاتا ہوا اسکے مموں کے پاس ال کر اسکے بریزیر کو انگلیوں سے اسکے جسم‬
‫سے الگ کیا تو بریزیر نیچے ہمارے پاوں میں گر گیا۔‬
‫اسکے دودھیا ممے ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے ۔‬
‫اسکی گالبی مموں پر گالبی دائرے میں گالبی نپل اکڑے ہوے تھے‬
‫میں نے اپنا منہ مموں کے قریب کیا اور پھر سے زبان کی نوک سے اسکے مموں کے اکڑے نپلوں کو چھیڑنے لگ گیا‬
‫مہری تھی کہ اب مری ۔‬
‫میری زبان کی نوک نپل کا چاروں طرف سے طواف کررھی تھی اور مہری اپنے ہونٹوں کو زبان سے تر کرتے ہوے‬
‫ہونٹوں کو بھینچ بھینچ کر سییییییی ممممممممم کر کے میری زبان کی چھیڑ خانیوں کو برداشت کرنے کی ناکام کوشش‬
‫کررھی تھی ۔‬
‫‪.‬مہری کے مموں پر میری زبان کی نوک اپنا جادو پھونک رھی تھی‬
‫مہری نیچے سے اپنی ٹانگوں کو آپس میں بھینچے ہوے سسکاریاں بھر رھی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں کو چبا رھی‬
‫تھی میں نے اسکے ایک ممے کو مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور اسکے نپل کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیان دبوچ کو مسل‬
‫رھا تھا اور دوسرے ممے کے نپل کو زبان کی نوک سے سک کررھا تھا‬
‫میں مہری کے نپل کو کبھی ہونٹوں میں بھر کر چوستا تو کبھی آدھے سے کم ممے کو منہ میں ڈال کر اندر کی طرف کھینچتا‬
‫مہری کے ممے اتنے سوفٹ تھے‬
‫کہ میرے چوسنے کی وجہ مہری کے ممے کا نپل اور نچلے واال حصہ سرخ ہوچکا تھا۔‬
‫میں باری باری دونوں مموں کے ساتھ اپنی مرضی سے کھیل رھا تھا‬
‫مہری کے مموں تھے ھی اتنے سیکسی کے انکو چھوڑنے کا میرا من ھی نھی کررھا تھا مگر ساال صاحب کے آنے کے ڈر‬
‫کی وجہ سے میں۔‬
‫کچھ دیر اور ممے چوسنے کے بعد کھڑا ہوا اور مہری کو ایک ہگ کیا اور فرنچ کس کرنا شروع کردی تو مہری میرے‬
‫ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈال کر میرے ہونٹوں کو چوستی ہوئی مجھے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوے اپنے کمرے کی طرف‬
‫لیجانے لگی ۔‬
‫میں بھی اس کا ارادہ بھانپتے ہوے اپنے قدموں کو پیچھے کی طرف لیجانے لگا میں ساتھ ساتھ مہری کی نرم گانڈ کی پھاڑیوں‬
‫کو بھی اپنے دونوں ھاتھوں میں دبوچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ننگی مخملی کمر پر بھی ہاتھ پھیرتا ھوا پیچھے کی طرف‬
‫چلتا جارھا تھا اور مہری میرےہونٹوں کو چوستی ہوئی ایک ہاتھ میری گردن کے بالوں میں پھیرتے ھوے اور ایک ہاتھ‬
‫میرے سینے پر رکھے ہوے مجھے پیچھے کو دھکیلتے ھوے کمرے کے دروازے کے پاس لے گئی اور پھر کمرے کے‬
‫اندر لیجا کر مہری نے مجھے بیڈ کے قریب پہنچا دیا اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے میری قمیض کے بٹن کھولنا شروع‬
‫کردیے ۔‬
‫میں نے مہری کی بےچینی دیکھتے ہوے اسکی کمر سے ہاتھ ہٹاے اور اسکو ذور لگا کر خود سے الگ کیا اور اپنی قمیض‬
‫پکڑ کر اتار دی‬
‫مہری ترسی نگاہوں سے مجھے قمیض اتارتے ہوے دیکھ رھی تھی‬
‫پھر جیسے ھی میں نے بنیان کو اتارنے کے لیے پکڑا تو‬
‫مہری سے صبر نہ ہوا تو اس نے خود اپنے ہاتھ بنیان کی طرف بڑھا کر میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بنیان اتارنے میں‬
‫میری مدد کی۔۔۔‬
‫میں نے جیسے ھی بنیان اتاری تو مہری کی نظر جب میری کلین باڈی پر پڑی تو مہری کے منہ سے بےاختیار نکال‬
‫واووو سو سیکسی باڈی یار۔‬
‫اور ساتھ ھی اس نے اپنے ہونٹ میرے بالوں سے پاک سینے پر رکھ دیے اور ساتھ ھی اس نے لمبا سانس اندر کو کھینچا‬
‫اور ہونٹ ہٹا کر میری طرف بڑی حیرانگی سے دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر‬
‫تم ویکس کروا کر آے ھو ۔میں نے حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫ہممممم‬
‫مگر تمہیں کیسے پتہ چال۔‬
‫تو مہری مسکرا کر بولی تمہارے سینے سے آفٹر ویکسنگ لوشن کی سمیل آرھی ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫وا جی بڑی بات ھے لگتا ھے تم بھی ویکسنگ کرواتی ھو ۔‬
‫مہری بولی ہاں کرواتی ہوں‬
‫مگر میں حیران ہوں‬
‫کہ تم بھی ویکس کرواتے ہو‬
‫تو میں نے کہا‬
‫چھوڑو یار کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ھو اور اس سے پہلے کہ مہری کوئی اور بات کرتی‬
‫میں نے مہری کو اپنے باہوں کے احصار میں لے لیا اور اپنے ننگے جسم کے ساتھ اسکا ننگا نرم نازک جسم لگا کر مہری‬
‫کے ساتھ چپک کر کھڑا ھوگیا‬
‫مہری کے مالئم ممے میرے ننگے سینے میں پیوست ھوگئے اسکے اکڑے نپل سینے پر لگے مہری کے گرم ہونے کی دلیل‬
‫پیش کررھے تھے ۔‬
‫مہری نے کچھ کہنے کے لیے جیسے ھی منہ کھوال تو میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی آواز کو اپنے منہ‬
‫کے اندر ھی نگھل کر ہضم کرگیا اسکے گالبی ہونٹوں کو چوستے ہوے مین نے مہری کو گھما کر اسکی گانڈ بیڈ کی طرف‬
‫کی اور اپنا وزن اسپر ڈالتے ہوے اسکو پیچھے کی طرف ُپش کیا تو مہری کمر کے بل پیچھے بیڈ پر گرتی گئی اور میں‬
‫اسکے سینے کے ساتھ چپکا ہوا اسکے اوپر ھی گرتا چال گیا۔‬
‫ہم دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے کے اوپر ایک جسم بنے ھوے تھے اور‬
‫میرا لن فل اکڑ کر مہری کی شلوار سمیت اسکے چڈوں میں گھس کر اسکی پھدی کو رگڑیں لگا کا چدنے کے لیے اکسا‬
‫رھا تھا‬
‫مہری نے بیڈ پر گرتے ھی میری کمر کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا ڈال لیا اور میری کمر پر ہاتھ رکھ لیے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ مہری کی کمر کے نیچے تھے ۔‬
‫میرے اور مہری کے ہونٹ اب بھی ملے ھوے تھی کہ مہری نے اپنا منہ دوسری طرف کیا اور مجھے بیڈ کےاوپر آنے کا‬
‫اور خود بھی اوپر ہونے کا کہا۔‬
‫میں مہری کے اوپر سے ھی پلٹ کر اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگیں اوپر کر کے بیڈ پر ہوگیا۔‬
‫مہری نے بھی ٹانگیں اوپر کیں اور سیدھی ہوکر بیڈ کی ٹیک کی طرف تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور میں بھی اسکی‬
‫بغل میں سرہانے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔‬
‫تو مہری میری طرف منہ کر کے سائد کے بل ہوئی اور گھوم کر میرے اوپر آگئی اور میرے سینے پر اپنے ممے اور میرے‬
‫لن کو اپنے چڈوں میں لے کر میرے اوپر لیٹ گئی ۔‬
‫میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ مہری نے‬
‫اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھ کر شییییییی کہہ کر مجھے خاموش رہنے کا کہا‬
‫میں وی سرکاراں دا حکم من کے چپ کرگیا۔۔‬
‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چہرے کی طرف کیے اور دونوں ہاتھوں کو میری آنکھوں پر پھیرتے ہوے مجھے آنکھیں‬
‫بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔‬
‫مجھے بھی حکم ماننا پڑا اور جیسے ھی مہری کے دونوں ہاتھوں کے نیچے چھپی میری آنکھوں پر سے اسکی ہتھیلیاں‬
‫سرکتی ہوئی میری گالوں طرف جاتے ہوے میری آنکھوں سے اپنی نازک ہتھیلیوں کا پردہ ہہٹایا تو جناب کے حکم کی تعمیل‬
‫ہوئی اور میری آنکھوں کو بند پایا ۔۔۔‬
‫تو مہری نے اپنے نرم ہونٹوں کو میرے ماتھے پر ٹکا کر میرے ماتھے کو چوما اور پھر میری آنکھوں کو باری باری چوما‬
‫اور میرے گالوں کو چومتی ہوئی ہونٹوں پر آئی تو‬
‫مہری تھوڑا سا نیچے کو کھسکی اور میری ٹھوڑی کو چومتے ہوے میرے گلے پر اپنی گالبی پنگھڑیوں‬
‫کو پھیالتے ھوتے‬
‫مذید نیچے کو کھسکتی گئی اور‬
‫میرے سینے کو چومنا شروع کردیا‬
‫مزے سے میرے منہ سے سیییییی نکال اور میں نے ہاتھ نیچے کر کے مہری کی دونوں مسمیوں کو پکڑ کر مسلنا شروع‬
‫کردیا‬
‫میرا لن مہرے کے پیٹ کے ساتھ لگا ہوا اسکے نرم پیٹ کو اندر دھکیلے ہوے تھا‬
‫مہری میرے مالئم سینے پر کبھی زبان پھیرتی تو کبھی چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتی ہوئی میرے سینے پر چھوٹے سے نپلوں‬
‫کی طرف متوجہ ہوئی اور‬
‫زبان نکال کر میرے زبان کی نوک سے میرے سینے پر نپلوں کو چھیڑنے لگ گئی میں مزے کی ایک نئی لذت سے واقف‬
‫ہوتے ہوے سسک پڑا اور ساتھ ھی میری آنکھیں جب کھلیں تو‬
‫مہری آنکھیں کو کھولے نظریں میرے چہرے کی طرف ٰک ئے ہوے تھی ۔‬
‫آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کی آنکھوں میں ہوس ایک دوسرے سے متعارف ہوئی‬
‫تو مہری نے آنکھوں کے اشارے سے ھی آنکھوں کو پیغام بھیجا کہ بند ہو جاو ۔‬
‫آج مجھے اس سے سارے اگلے پچھلے حساب چکتا کرنے ہیں‬
‫تو میری آنکھیں مہری کی آنکھوں کا حکم سنتے ہی دوبارا بند ہوگئیں ۔‬
‫مہری کچھ دیر باری باری میرے دونوں نپلوں کو چومنے کے بعد‬
‫اپنی زبان کو نکال کر میرے سینے کے درمیان پھیرتے ہوے میرے گلے تک الئی اور پھر زبان کو میرے سینے سے‬
‫سرکاری ہوئی‬
‫اور خود بھی نیچے کو سرکتی ہوئی میرے پیٹ پر زبان کو ال کر پیٹ کے چاروں اطراف پھیرنے لگ گئی‬
‫مہری کے نیچے کھسکنے کی وجہ سے اسکے ممے میرے ھاتھ سے نکل گئے اور میری انگلیوں میں اسکے نپل آگئے‬
‫جنکو میں نے انگلیوں سے ھی قابو کر لیا اور مسلنا شروع کرد یا۔‬

‫)‪Update no (84‬‬
‫مہری ڈوگی سٹائل میں میرے اوپر جھکی میرے پیٹ کو چاٹ رھی تھی‬
‫اور میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اسکی دونوں مسمیوں کی ڈوڈیوں کو پکڑے مسل رہیں تھیں۔‬
‫میں نے اپنے دونوں پیر اوپر کیے اور مہری کی کمر پر اپنی ایڑیاں رکھیں اور پاوں کو اسکی کمر کے اوپر لٹا کر اپنے‬
‫پاوں کے انگوٹھوں کی مدد سے اسکی السٹک والی شلوار کو نیچے کی طرف کھسکانا شروع کردیا۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری کی شلوار اسکی گانڈ سے اتر کر اسکے گھٹنوں تک چلی گئی تھی مہری کی پھدی اور گانڈ‬
‫اب بلکل ننگی تھی ۔‬
‫مہری اپنی مستی میں میرے سارے جسم کو زبان سے چاٹ چاٹ پاگل ہورھی تھی اسکا جنون قابل تسکین تھا ۔‬
‫مہری ننگی گانڈ کو لہراتی ہوئی‬
‫گھٹنوں کے بل تھوڑا اور پیچھے کو کھسکی اور زبان کو میری ناف کے نیچے میرے نالے کی گانٹھ کے قریب لے آئی تو‬
‫میرا اکڑا ہوا لن اسکے گلے ملنے لگا تو مہری نے اپنا ایک ہاتھ میرے لن کی طرف کیا اور ۔۔‬
‫ُ‬
‫‪. .‬مہری میرے لن کو پکڑتے ھی چونکی اور مٹھی کو بھینچ کر لن کی موٹائی کو چیک کرتے ہوے پھٹی آنکھوں سے میری‬
‫طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے نیم بند آنکھوں سے جب مہری کو اپنی طرف دیکھتے ہوے دیکھا تو آنکھ کھول کر اسکی طرف دیکھ کر آنکھ مار‬
‫دی۔‬
‫مہری میرے لن کو مٹھی میں بھینچتے ہوے بولی‬
‫یاسررررررر‬
‫اتنا موٹا اور اتنا لمبا اففففففففف‬
‫میں نے مسکرا کر کہا۔‬
‫پسند نہیں آیا‬
‫مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں پر بچھاتے ہوے اثبات میں سر ہال کر لن کو پسند کرنے کا اظہار کیا اور مہری نے‬
‫پھر زبان باہر نکال کر میری ناف کے نیچے پھیرنا شروع کردی‬
‫مزے کی شدت سے میرا جسم تھر تھرا رھا تھا ۔‬
‫مہری نے لن کو چھوڑا اور میرے نالے کی گانٹھ کو کھولنا شروع کردیا‬
‫میں مہری کے اس جنون کو دیکھ کر حیران پریشان ھوگیا کہ‬
‫میرے کرنے والے کام آج مہری خود ھی نبٹا رھی ھے ۔‬
‫مہری نے گانٹھ کے سرے کو پکڑا کر کھینچا‬
‫اور ناال کھول دیا۔‬
‫ناال کھول کر مہری نے شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچا تو میں نے بھی اپنی گانڈ اوپر کی تو شلوار آسانی سے نیچے میرے‬
‫گھٹنوں تک چلی گئی‬
‫میرا لن شیش ناگ کی طرح پھن پھیالئے تن کر کھڑا تھا۔‬
‫مہری کچھ دیر لن کو ہر ذاویعے سے دیکھتے رھی‬
‫پھر مہری نے میرے ننگے پھنئر سانپ کو مٹھی میں بھر کر دبانے لگی ۔‬
‫مہری کی نرم ہتھیلی اور مخملی انگلیاں جیسے ھی میرے لن کے ساتھ لگیں تو میرے لن نے ایک ذور دار جھٹکا مارا اور‬
‫مہری کی مٹھی میں میرے لن کی رگیں پھولنا شروع ہوگئی رگیں تھیں کہ اب پھٹیں۔‬
‫مہری نے دوسرا ہاتھ بھی لن پر رکھا اور ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ لیا اور دوسرا ہاتھ اوپر ٹوپے سے نیچے رکھ کر‬
‫لن کی پیمائش کرنے لگ گئی‬
‫مہری تو مزے سے نہال ہورھا تھا‬
‫اور سوچ رھا تھا کہ جس حسن کی دیوی کی مٹھیاں اتنی سوفٹ ہیں تو اسکی پھدی اور گانڈ کا سوراخ کتنا سوفٹ ہوگا ۔‬
‫مہری کچھ دیر میرے لن کو دونوں مٹھیوں میں لے کے دباتی رہی ۔‬
‫تو میں نے مہری کو کہا ۔‬
‫مہری ۔‬
‫اسکو کس تو کرو ۔‬
‫مہری نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر اپنے ہونٹ لن کے ٹوپے پر رکھ کر چھ سات چھوٹی چھوٹی‬
‫پاریاں کرتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی بسسسس۔‬
‫مہری کے ہونٹوں کے لمس نے میرے منہ سے سسکاری نکال دی تھی‬
‫مہری کے بس کہنے پر‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا‬
‫اور بوال تھوڑا سا منہ میں ڈال کر چوسو۔‬
‫مہری نے مجھے سیکسی انداز میں گھورا اور پھر اپنے ہونٹوں کو کھول کر لن کے ٹوپے کو منہ میں بھر کر ٹوپے پر تین‬
‫چار چوسے لگا کر ٹوپا منہ سے نکال کر میری طرف دیکھتے ہوے پھر بولی بسسسسسس‬
‫میں نے سسکاری مارتے ہوے کہا‬
‫سسسسسس نننھیی تھوڑا اور چوسو مہری۔‬
‫مہری نے پھر ہونٹ لن کے ٹوپے پر رکھے اور پھر پورے ٹوپے کو چوسنے لگ گئی۔‬
‫اس سے پہلے کہ مہری ٹوپا منہ سے نکالتی میں نے دونوں ہاتھوں سے مہری کا سر پکڑ کر ٹوپے کی طرف دبا کر نیچے‬
‫سے گانڈ اٹھا کے لن مہری کے منہ کے اندر کرتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا ۔‬
‫مہری میرے ایسا کرنے سے گبھرا گئی تھی اور سر کو پیچھے کر کے لن منہ سے نکالنے کی کوشش کرتے وقت‬
‫غوں غوں غوں پھپپپ پھپ‬
‫کی آوازیں نکال رھی تھی‬
‫چند سیکنڈ ہی مہری لن کو منہ میں برداشت کرسکی‬
‫اور پھر ایک جھٹکا مار کر سر کو پیچھے کر کے لن منہ سے نکال کر تیز تیز سانس لیتے ہوے کھانستے ہوے بولی ۔‬
‫یاسرررر کے بچے میرا سانس بند کردیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار تمہارے لبوں کے لمس کا مزہ ھی اتنا آرھا تھا کہ دل کر رھا تھا کہ بس ایسے ھی کرتا رھوں ۔‬
‫مہری گھٹنوں کے بل میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھی لمبے لمبے سانس لیتی نے میری ٹانگ پر چپت مارتے ھوے کہا‬
‫تمہارے مزے کے چکر میں میری جان نکل جانی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری ریلیکس ہوئی‬
‫اور میری ناف کے نیچے اپنے سوفٹ ہاتھ پھیر کر بولی ۔یاسر کتنی سوفٹ ھے تمہاری سکن ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫تم سے ذیادہ تو نہیں ۔‬
‫تمہاری سکن تو مخمل جیسی نرم نازک ھے‬
‫یہ کہتے ہوے میں نے مہری کے دونوں بازوں کو کالئیوں سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچا تو مہری میرے اوپر لیٹتی گئی‬
‫مہری جب مکمل طور پر میرے اوپر لیٹ گئی اور میرا لن اسکی پھدی کے اوپر رگڑیں لگانے لگا تو میں نے مہری کی‬
‫کمر کے گرد بازوں ڈالے اور مہری کا گھما کر اپنے نیچے کیا اور خود اسکے اوپر آگیا‬
‫اب میری پوزشین‬
‫ایسی تھی کہ‬
‫میری دونوں ٹانگیں مہری کی ٹانگوں کے درمیان تھیں اور‬
‫اور میرے لن کا نشانہ سیدھا مہری کی پھدی کیطرف تھا۔‬
‫میں مہری کا ماتھا آنکھ گال ٹھوڑی چومتا ہوا گھٹنوں کے بل ہوتا جارھا تھا‬
‫اور میری گانڈپیچھے کو نکلتی جارھی تھی‬
‫میں مہری کے دونوں تنے ھوے گالبی مموں کو باری باری چوستا ھوا مہری کے روئی جسے نرم پیٹ سے ہوتا ھوا مہری‬
‫کی ناف سے نیچے السٹک والی شلوار کے قریب جا پہنچا اور مہری کی ناف کے نیچے زبان پھیرنے لگ گیا۔‬
‫مہری کی سانسیں اکھڑنیں شروع ھو چکی تھیں ۔‬
‫اسکی حالت دیکھ کر لگ رھا تھا کہ مہری انھی فارغ ہونے ھی والی‬
‫اسکی اس حالت میں میرا ہر کام آسانی سے بن سکتا تھا‬
‫مہری اپنے ہوش ہواس کھو بیٹھی تھی‬
‫اور سینے کو چھت کی طرف بلند کر کے لمبے لمبے سانس بھر رھی تھی‬
‫اممممم یاسررر نہ کرو نہ‬
‫پلیززززز یاسر پلیزززز‬
‫مہری کی مدہوش آواز مجھے مزید گرما رھی تھی اور میں بھی اسکی ناف کے نیچے زبان پھیرتا ھوا اسکی شلوار اتارنے‬
‫میں مشغول تھا۔‬
‫میں نے شلوار کی السٹک میں اپنی انگلیاں پھنسا کر مہری کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے شلوار کو نیچے کھینچا‬
‫تو مہری نے گانڈ اٹھا کر شلوار اتارنے کی اجازت دے دی‬
‫اجازت نامہ ملتے ہی میں نے شلوار نیچے کھینچ کر گانڈ سے اتار کر مہری کے گھٹنوں تک کر دی اور پھر گھٹنوں سے‬
‫نیچے کرتا ھوا مہری کے پاوں کے پاس لیجا کر شلوار کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا مہری اب مادر زاد ننگی میرے‬
‫سامنے لیٹی ہوئی تھی اور‬
‫میں اسکے گورے گالبی مخملی بدن کو دیکھ کر اپنی پیاسی آنکھوں کو سیراب کر رھا تھا۔۔‬
‫مہری کےسارے ننگے جسم کو آج میں پہلی دیکھ رھا مہری کا جسم اتنا کلین اور پنک کلر کا تھا کہ‬
‫میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔‬
‫۔مہری کے ننگے مموں کو دیکھتا ہوا میں اسکی پھدی کی طرف جب متوجہ ہوا تو اسکی چھوٹے سائز کی چٹی سفید پھدی‬
‫کے ننھے ننھے گالبی ہونٹ پھدی سے نکلنی والی شبنم کے قطروں سے چمک رھے تھے ۔۔‬
‫دوستو پھدیاں تو بہت دیکھیں تھیں بہت مگر مہری کی پھدی کی بات ہی کچھ اور تھی‬
‫مہری کی پھدی کی شیپ دیکھ کر ھی پتہ چل رہا تھا کہ ابھی اس معصوم کو لن نصیب نہیں ہوا ۔‬
‫ہاےےےےےےے کیا سین تھا کیا چمکتی مالئم پھدی تھی‬
‫مجھے اپنے لن کی قسمت پر رشک آنے لگا‬
‫کہ سالے نے کیا قسمت پائی ھے ۔‬
‫مہری اپنی آنکھوں پر بازو رکھے آنکھوں کو چھپاے لیٹی ہوئی تھی کہ‬
‫مہری کی چھٹی حس نے کام کیا اور اس نے اپنے بازو جھیل سے اٹھاے اور اپنی بڑی لمبی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر‬
‫میری طرف دیکھا‬
‫اور مجھے اپنی پھدی کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھتے ہوے پایا‬
‫تو‬
‫مہری نے گالب کی پنکھڑیوں کو کھوال اور اپنی مدبھری آواز میں بولی‬
‫یاسر ررررر‬
‫اس سے پہلے کہ پھدی کو میری نظر لگ جاتی میری نظریں پھدی ہٹ کر مہری کی طرف گئیں‬
‫آنکھوں سے آنکھیں ملیں‬
‫مہری بولی‬
‫بےشرمممممممم‬
‫اور ساتھ ھی مہری نے اپنے دونوں ہاتھ اس معصوم پر رکھ کر اپنی ٹانگوں کو بھینچ کر‬
‫میری للچائی نظروں سے اپنی پھدی کو چھپا لیا۔‬
‫میں نے اسکے آپس میں جڑے گھٹنوں کو چوما اور اپنے دونوں ہاتھ مہری کے گھٹنوں پر رکھ کر انکو ذور لگا کر کھولنے‬
‫لگا تو مہری ہنستے ہوے گھٹنوں کو دائیں بائیں کرنے لگ گئی ۔‬
‫اور ساتھ نفی میں سر ہال کر مجھے منع کرتے ہوے بولی نہ کرو بے شرم انسان ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫پلیززز مہری آج مجھے نہ روکو آج مجھے بےشرم ھی ہونے دو آج کوئی شرم کوئی ججھک ہمارے درمیان مت آنے دو۔۔‬
‫مہری نے میری مسکین سی شکل دیکھ کر اپنے گھٹنوں کو ڈھیال کردیا اور میں دوزانوں بیٹھے نے مہری کے گھٹنے کھول‬
‫کر اسکی پھدی کو ننگا کیا مگر مہری نے اب بھی اپنی معصوم پھدی کو بچانے کے لیے‬
‫پھدی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔‬
‫میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور‬
‫پھدی کے آگے اپنا سر خم کیا اور‬
‫پھدی پر رکھے مہری کے ہاتھوں کو چوم لیا اور پیار سے اسکے ہاتھ پکڑ کر‬
‫اس معصوم کی جان چھڑوائی ۔‬
‫ہاتھ ہٹاتے ھی‬
‫میں نے پھدی کے لبوں کو چوم لیا‬
‫مہری‬
‫کی پھدی پر جیسے ھی میں نے ہونٹ رکھے‬
‫مہری‬
‫تڑپ گئی‬
‫اور بیڈ سے دو فٹ اچھلی اور‬
‫سسسکاری بھر کر بولی‬
‫سسسسسس نھیییییی یاسررررررر‬
‫اممممممم‬
‫پلیزززززز نہ کرو‬
‫مگر میں اس معصوم کا حق کیسے مار سکتا تھا۔‬
‫میں نے زبان نکالی اور پھدی کے لبوں کو زبان کی نوک سے کھول کر پھدی کے اندر زبان کر کے زبان کو اوپر پھدی کے‬
‫اوپر والی ہڈی کی طرف لیجا کر ہڈی کو زبان سے چاٹ لیا۔‬
‫مہری کے منہ سے زورر کی چیخ نکلی اور مہری نے اپنے ہاتھ مجھ سے چھڑوا کر میرے سر کے بالوں کو دونوں ہاتھوں‬
‫سے پکڑ لیا اور میرے سر کو پھدی پر دبا دیا اور نیچے سے اپنی گانڈ کو بھی اٹھا کر پھدی کو میرے منہ کے ساتھ چپکا دیا‬
‫اور‬
‫ھاےےےےےےے مرگئیییییی میں یاسررررررر‬
‫کہتے ہوے‬
‫سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔‬
‫مہری کے اس جنون نے میرے جنون کو بڑھا دیا اور میں پھدی کے چھوٹے سے دانے کو منہ میں لے کر چوستا تو کبھی‬
‫پھدی کے اندر تک زبان کو لیجا کر پھدی کے سارے حصے کو منہ میں بھر لیتا‬
‫تو کبھی پھدی کے گالبی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں بھر لیتا‬
‫مہری کا جسم کانپنا شروع ہوگیا‬
‫میرے بالوں پر اسکے ھاتھوں کی گرفت سخت سے سخت تر ہوگئی ۔‬
‫مہری کی گانڈ ہوا میں بلند ہوئی‬
‫پھدی میرے ہونٹوں کے ساتھ چپکی‬
‫ہاتھوں کا دباو میرے سر پر پھدی کی جانب بڑھا‬
‫مہری کی دونوں ٹانگوں نے میری گردن کو دبوچا‬
‫مہری کا سارا جسم ایکدم اکڑا‬
‫اور مہری کی بس اتنی سی آواز میرے کانوں میں پڑی ۔‬
‫ھاےےےےےےے یسسسسسسس ایم کمنگگگگگگ‬
‫اسکے بعد مجھے کچھ سنائی نہیں دیا بس میرے منہ پر مہری کی پھدی سے منی کی پہلی دھاریں پڑنی شروع ہوگئیں‬
‫میرے کان بہرے ھو چکے تھے ۔‬

‫کیونکہ مہری کے پٹوں نے میرے کانوں کو دونوں اطراف سے گھیر کر جکڑ رکھا تھا‬
‫مہری کی پھدی سے آبشار کا آخری قطرہ جب میرے منہ پر گرا تو مہری نے یکلخت اپٰن ی ٹانگوں کو ڈھیال چھوڑ کر میرے‬
‫سر کو آزاد کیا‬
‫اور اپنی ٹانگوں کو ایسے بیڈ پر پھینکا جیسے ان میں سے جان نکل گئی ہو۔‬
‫مہری کے پٹ ھی اتنے نرم تھے‬
‫مہری کے پٹوں میں مجھے اپنا سر ایسے لگ رھا تھا‬
‫جیسے‬
‫کسی نے میرے کانوں کے دونوں اطراف وکی سرہانے رکھ کر میرے سر کو تکیوں میں جکڑا ھوا تھا۔‬
‫مہری لمبے لمبے اکھڑے سانس لے رھی تھی اور اب بھی اسکا جسم وقفے سے ایک آدھا جھٹکا کھاتا‬
‫اور مہری کا پورا جسم لرزتا۔‬
‫مہری بےجان ہوکر بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی‬
‫اور میں گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں بیٹھا‬
‫اس کے فارغ ھوتے وقت کا جنون دیکھ رھا تھا‬
‫مہری نے اب دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر ہاتھوں کے بیچ میں‬
‫افففففففف ھاےےےےےے کر رھی تھی‬
‫کہ اتنے میں۔۔۔‬
‫‪ .‬اتنے میں میرے لن نے جھٹکا مار کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا‬
‫کہ جناب میرا کی قصور اے۔۔۔‬
‫میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسے حوصلہ دیا‬
‫اور اسکو ہاتھ میں پکڑے گھٹنوں کے بل آگے ہوا‬
‫مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی تھی ۔‬
‫مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی تھی ۔‬
‫میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے گیلے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔‬
‫مہری نے ایکدم چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی یاسر کیا کرنے لگے ہو‬
‫میں نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اسے شیییییییی کر کے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔‬
‫اور ٹوپے کو پھدی کے دانے سے رگڑنے لگ گیا۔‬
‫مہری کے منہ سے سییییییی نکلی اور بولی‬
‫یاسررررر اندر مت کرنا ۔‬
‫میں نے اسکی بات سنی ان سنی کی اور ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کر کے‬
‫ہاتھوں کے بل مہری کے اوپر جھکا اور اپنے ہونٹ مہری کے ہونٹوں پر رکھ کر ہونٹ چوسنے لگ گیا‬
‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے لن کے پاس ھی پٹوں پر رکھ لیے تاکہ میں لن پھدی میں نہ اتار سکوں ۔‬
‫میرے تو دماغ پر اس وقت مہری کی پھدی کا نشہ سوار تھا‬
‫اور مرد کی طاقت سے ذیادہ ہوس اور شہوت کی طاقت ذیادہ ہوتی‬
‫ورنہ تو مرد بے جان ہوتا ھے ۔‬
‫جب منی سر پر سوار ہو تو انسان کی طاقت میں دگنا اضافہ ھو جاتا ھے ۔‬
‫اور وہ ھی ھوا‬
‫میں نے اپنے سینے کو جھکا کر مہری کے مموں پر رکھا اور پیٹ مہری کے پیٹ کے ساتھ مالیا اور مہری کے ہونٹوں کو‬
‫اچھی طرح اپنے ہونٹوں میں بھرا‬
‫اور ایک جاندار گھسا مارا‬
‫اور آدھا لن مہری کی کنواری ٹائٹ مگر گیلی پھدی میں اتار دیا‬
‫گھسا کیا مارا مہری کہ جان ہلک میں اٹکا دی‬
‫جیسے ھی ایک جھٹکے میں آدھا لن مہری کی کنواری پھدی کو چیرتا ہوا پھدی کے نرم ریشوں کو زخمی کرتا ہوا اندر گھسا‬
‫پھدی کے شکنجے میں میرا آدھا لن پھنسا ھوا تھا اور میرے لن کے گرد پھدی کا گھیرا اتنا تنگ تھا کہ مجھے ایسے لگ رھا‬
‫تھا کہ کسی شے نے میرے لن کو دبوچ لیا ھے‬
‫میری تھائیوں پر رکھے مہری کے دونوں ہاتھ بھی میرے جھٹکے سے پیچھے ھوگئے اور مہری کے دونوں ھاتھوں نے‬
‫میری تھائیوں کو اسکا قدر بھینچا کے مہری کے ناخن میری سکن کو زخمی کرتے ہوے اندر دھنس گئے‬
‫مہری نے کمر اٹھا کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا دیے اور‬
‫میرے ہونٹوں میں اسکے ہونٹ ہونے کی وجہ سے‬
‫مہری کی آواز بس اتنی سی نکلی‬
‫مممممم غوں غوں آبببب ھھگگگگ ھاااااا‬
‫مہری کا رنگ ٹماٹر جیسا سرخ اور جھیل کے کناروں سے بہتے آنسو‬
‫اسکی تکلیف کا ثبوت پیش کررھے تھے ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں مہری کی درد اور اسکی تکلیف کو دیکھ کر پگھل جاتا میں نے‬
‫لن کو باھر کھینچا‬
‫اور ٹوپا اندر ھی رہنے دیا‬
‫اور دوسرا جھٹکا مار کر لن کو پھدی کی گہرائیوں میں اتار دیا۔‬
‫مہری نے پورے زور سے میرے ہونٹوں سے ہونٹ نکالے اور میری ٹانگوں سے ہاتھ ہٹا کر میرے سینے پر رکھ کر پورے‬
‫زور سے مجھے پیچھے کو دھکیلتے ہو ے اونیچی آواز میں چیخی ہاےےےےے‪-‬ےے مر گئیییییییییییییییییی‬
‫مممممااااااااااا جییییییییی‬
‫اور ساتھ ھی مہری بےجان ہوکر واپس بیڈ پر گر گئی ۔‬
‫مہری کو یوں بے جان گرتے دیکھ کر میں بھی ڈر گیا اور لن کو واپس کھینچا تو مہری کا جسم جھٹکے سے ہال۔‬
‫اور پھر بےجان ہوگیا۔‬
‫لن کو باہر نکال کر میں نے لن کو دیکھا تو لن خون سے لتھڑا ھوا تھا اور پھدی سے خون بہہ کر بیڈ کی چادر کو سرخ کرتا‬
‫جارھا تھا۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور مہری کے چہرے کے پاس آکر مہری کی گالوں کو تھپتھانے لگا‬
‫اور مہری مہری کہہ کر آوازیں دینے لگا مگر مہری بےسدھ لیٹی ہوئی تھی‬
‫میں نے اسکے ممے پر کان لگا کر مہری کے دل کی دھڑکن کو سنا تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا کہ مہری زندہ ھے اور‬
‫صرف بےہوش ھی ھوئی ھے ۔‬
‫میں چھالنگ مار کر بیڈ سے اترا‬
‫اور ننگا ھی باہر کچن کی طرف بھاگا‬
‫کچن میں پہنچ کر فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور بھاگ کر‬
‫کمرے میں پہنچا تو مہری ویسے ھی بیڈ پر ٹانگیں پھالے بےہوش پڑی تھی اور اسکی پھدی اور پھدی کے دونوں اطراف کی‬
‫جگہ بیڈ کی چادر سمیت خون سے سرخ ہوچکی تھیں‬
‫پھدی سے اب بھی خون جاری تھا۔‬
‫میں نے بوتل کا ڈھکن کھوال اور بیڈ پر چڑھ کر مہری کے چہرے کے اوپر اپنا ہاتھ کیا اور بوتل میں سے ٹھنڈا پانی ہاتھ پر‬
‫ڈال کر‬
‫مہری کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگ‪ ،‬گیا‬
‫کچھ دیر چھینٹے مارنے اور مہری کو آوازیں دینے سے مہری نے کراہتے ھوت آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنا شروع کیں ۔‬
‫تو میری جان میں جان آئی ۔‬
‫میں نے بوتل سائڈ ٹیبل پر رکھی اور مہری کے بالوں کو سہالتے ھوے اسے آوازیں دینے لگا۔‬
‫مہری مہری‬
‫ہوش کرو‬
‫اٹھو مہری اٹھو۔‬
‫مہری نے آنکھیں کھولیں‬
‫اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگ گئی ۔‬
‫جیسے جیسے مہری مجھے پہچانتی گئی اسکی آنکھوں میں نفرت اور غصے کے شعلے بڑھکتے گئے ۔‬
‫کچھ دیر بعد جب مہری جب بہتر ھوئی تو مہری نے دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھتے ھوے مجھے پورے ذور سے دھکا‬
‫دیا اور زور سے چیخی‬
‫گیٹ الس ایڈیٹ‬
‫آئی ِکل یو باسٹڈ‬
‫میں مہری کے اوپر جھکا ھوا تھا‬
‫مجھے ذرہ بھی مہری اس ریکشن کی امید نھی تھی‬
‫اس لیے اسکے اچانک یوں دھکا دینے سے‬
‫میں پیچھے کو ہوا اور میں جو پہلے ھی بیڈ کے کنارے سے پر بیٹھا ھوا تھا‬
‫اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ھوے پیچھے کو قالبازی کھا کر کارپٹ پر جا کر گرا‬
‫مہری مجھے متواتر انگلش میں پتہ نہیں کیا کیا گالیاں دیئے جارھی تھی ۔‬
‫میں نیچے گرتے ھی‬
‫خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور پھر مہری کی طرف بڑھا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے لگا تو‬
‫مہری نے قہر آلود نظروں سے مجھے دیکھتے ہوے میرے ہاتھ کو ہوا میں ھی اپنے ہاتھ سے جھٹک دیا۔‬
‫اور بولی دفعہ ھو جاو ذلیل کمینے انسان جانور پینڈو ۔۔‬
‫میں نے کہا مہری بات تو سنو۔‬
‫مہری پھر ذور سے چالئی آئی سے گیٹ السسسسسسس‬
‫بلیڈی فوووولللللل‬
‫اور رونے لگ گئی‬
‫مہری کی آنکھوں سے آگ برس رھی تھی ۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ مہری‬
‫اب کسی طور بھی میری بات سننے کے لیے تیار نہیں‬
‫تو میں نے جلدی سے اپنے کپڑے پہننا شروع کردئے۔‬
‫اور مہری کو یوں ھی بیڈ پر خون سے لتھڑا ہوا چھوڑ کر‬
‫کمرے سے باہر نکل آیا اور گیٹ کی طرف چل دیا ۔‬
‫اس سے پہلے کے میں گیٹ کھول کر باہر نکلتا‬
‫میں نے ابھی گیٹ کی طرف ھاتھ بڑھایا ھی تھا کہ اچانک???????۔‬
‫۔مجھے پیچھے کمرے سے دھڑام کی آواز آئی جیسے کوئی چیز گری ہو‬
‫گیٹ کی طرف بڑھتا ھوا میرا ہاتھ رک گیا اور میرے دماغ میں مہری آگئی کہ کہیں وہ تو نہیں گری میں الٹے پاوں کمرے‬
‫کی طرف بھاگا‬
‫اور ٹی وی الؤنج سے ہوتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو مہری بیڈ سے نیچے قالین پر گری ہوئی تھی اور وہ بیڈ کو پکڑ کر‬
‫اٹھنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫میں بھاگ کر مہری کے پاس پہنچا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگا تو مہری نے اپنے کندھے مجھ چھڑوانے کی‬
‫کوشش کرتے ہوے‬
‫غنودگی کی حالت میں مجھے پھر برا بھال کہنے لگی میں نے اسکی گالیوں کہ پرواہ نہ کرتے ھوے‬
‫مہری کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور اسکو کھڑا کر کے بیڈ پر بیٹھا دیا ۔‬
‫مہری کا رنگ پیال پڑ چکا تھا‬
‫بیڈ کی چادر پر خون کا بڑا سا دھبہ بنا ہوا تھا‬
‫مہری کی پھدی بھی خون سے سرخ ہوچکی تھی اور پھدی سے پاوں تک دونوں ٹانگوں پر خون کی لکیریں بنی ہوئی تھیں ۔‬
‫مہری بیڈ پر بیٹھی تو پھر آگے کو گرنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا تو مہری میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے سینے‬
‫پر مکے مارتے ھوے مدہوشی میں بولی جارھی تھی اور رو رھی تھی‬
‫یاسررر تم نے ایسا کیوں کیا‬
‫میرے یقین کو کیوں توڑا میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا‬
‫مہری پھوٹ پھوٹ کر رو رھی تھی ۔‬
‫میں مہری کو کندھے سے لگا اسکے بالوں کو سہالتے ھوے اس سے معافیاں مانگنے لگ گیا۔‬

‫)‪Update no(85‬مہری چپ ہونے کا نام ھی نہیں لے رھی تھی اور مجھے ماری جارھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر تک یہ ھی سین چلتا رھا ۔‬
‫میں بھی مہری کے ریلیکس ہونے کا انتظار کرتا رھا۔‬
‫پندرہ بیس منٹ گزر گئے مجھے اسد کے آنے کا بھی ڈر تھا کہ وہ نہ آجاے‬
‫اتنی جلدی تو مہری سے بھی نہیں سنبھال جانا تھا اور بیڈ کی حالت بھی کچھ ایسی تھی کے کمرے میں داخل ہونے والے کی‬
‫سیدھی نظر بیڈ پر لگے خون کے بڑے سے دھبے پر جانی تھی ۔‬
‫مہری کچھ دیر رونے اور مجھے پیٹنے کے بعد ریلیکس ھوئی تو میں نے اسے اسکی شلوار پکڑی اور اسکے قدموں میں‬
‫بیٹھ کر اسکی شلوار مہری کے پاوں میں ڈال کر اوپر اسکے گھٹنوں تک کردی اور مہری کو بازوں سے پکڑ کر کھڑا کیا‬
‫تو مہری دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر میرے سینے پر سر رکھ کر سہارہ لے کر کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے مہری کی شلوار پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو‬
‫مہری آہستہ سے بولی‬
‫مجھے واش روم جانا ھے ۔‬
‫میں نے مہری کی شلوار واپس نیچے کر کے اہنے پیر کی مدد سے اسکے پیروں سے نکال دی اور پھر مہری کو مادر زاد‬
‫ننگی حالت لے کر‬
‫اسی حالت میں ھی سینے سے لگاے مہری کی کمر میں بازو ڈالے‬
‫واش روم کی طرف لے کر چل پڑا‬
‫مہری سے چلنا دشوار تھا وہ ٹانگوں کو کھول کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رھی تھی مہری نے ایک ہاتھ ناف کے نیچے اور‬
‫پھدی کے اوپر رکھا ھوا تھا‬
‫مہری کی حالت دیکھ کر میں نے اسے کہا کہ میں اٹھا کر لے جاوں تمہیں‬
‫مہری نے نفی میں سر ہال کر کہا نہیں میں نے ایسے ھی جانا ھے‬
‫مہری بلکل معصوم بچوں کی طرح اپنی بات منوانے کی ضد کررھی تھی‬
‫میں مہری کو لے کر واش روم کے دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھول کر اسکے ساتھ اندر جانے لگا تو‬
‫مہری بولی چھوڑ دو مجھے اور جاو میں نے کہا مہری تم پھر گر جاو گی‬
‫مہری بولی‬
‫گرنے دو مجھے‬
‫مرنے دو مجھے‬
‫میرے پاس اب بچا ھی کیا ھے‬
‫میں نے جی کر کیا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے مہری کو کہا‬
‫مہری مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتہ چال بس سب کچھ اچانک ھوگیا تھا ۔‬
‫میں ہوں نہ مجھے جو چاھے سزا دے دو میں تمہارا مجرم ہًو ں مگر پلیز ایسی بے رخی مت دیکھاو۔‬
‫اور خود کو سنبھالو‬
‫اسد کسی وقت بھی آسکتا ھے ۔‬
‫اگر اس نے تمہاری یہ حالت دیکھ لی تو اسکو کیا جواب دوگی ۔‬
‫مہری بلکل نیم بےہوشی کی حالت میں تھی اور میرے سینے کے ساتھ لگی‬
‫مجھے وقفے وقفے سے مکے ماری جارھی تھی‬
‫میں بھی اسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کررھا تھا ۔‬
‫تاکہ مہری کا سارا غصہ اتر جاے اور اس کی حالت سنبھل جاے ۔‬
‫میں نے مہری کو پکڑ کر واش روم کے اندر لے گیا اور اسے کمپاوڈ کا ڈھکن اٹھا کر اسکے اوپر بیٹھا دیا‬
‫مہری سرخ اور نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رھی تھی‬
‫مہری پھر بولی یاسر جاو باہر‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫مہری پلیز ایک دفعہ مجھے تسلی ھوجاے کہ تمہاری طبعیت سہی ھوگئی ھے‬
‫تو میں خود ھی چال جاوں گا مگر‬
‫ابھی میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا‬
‫اتنی دیر میں مہری کی پھدی سے پیشاب کی دھار نکلی تو مہری کے منہ سے ھاےےےےےے سیییییییی کی آواز نکلی اور‬
‫مہری نے ناف کے نیچے رکھے ھاتھ سے اس جگہ کو دبانے لگ گئی ۔‬
‫مہری کی حالت اور اسکی تکلیف دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا‬
‫کہ میں واقعی انسان نھی جانور ھی ھوں اگر میں آرام سے کرتا تو مہری کو اتنی تکلیف بھی نہیں ہونی تھی اور‬
‫مہری کی نظروں سے بھی نہیں گرنا تھا ۔‬
‫میں دل ھی دل میں اپنی بےغیرتی کو کوس رھا تھا۔‬
‫مہری نے جیسے تیسے پیشاب کیا اور پھر مسلم شاور کو پکڑ کر پھدی کی طرف کر کے بٹن کو پریس کیا تو شاور سے‬
‫پانی نکل کر پھدی پر پڑنے لگا‬
‫مہری کو پانی سے بھی جلن ہورھی تھی‬
‫اور اس کے منہ سے اب بھی ھاےےےےے سییییی نکل رھا تھا اور ساتھ میں مجھے بھی نفرت سے دیکھ رھی تھی ۔مہری‬
‫نے جب پھدی کو واش کرلیا تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو میں آگے بڑھا اور مہری کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا‬
‫اور شاور کو پکڑا کر مہری کی پھدی کی طرف کر کے دوبارا اسکی پھدی اور ٹانگوں پر لگے خون کو دھونے لگا‬
‫میں نے ہاتھ مہری کی پھدی کی طرف کیا اور پھدی کی دونوں اطراف کی جگہ کو مل مل کر دھونے لگا ایسے ھی اسکی‬
‫دونوں ٹانگوں کو ہاتھ سے مل کر خون صاف کیا میری نظر جب مہری کی پھدی پر پڑی تو‬
‫پھدی کے ہونٹ کافی سوجے ھوے تھے‬
‫اور ہونٹوں کے شروع میں مجھے ہلکا سا کٹ لگا نظر آیا‬
‫شاید پھدی چھوٹی تھی اور لن زیادہ موٹا تھا تو لن نے مہری کی پھدی کو چیر دیا تھا ۔‬
‫پھدی بیچاری بھی مجھے لعن طعن کررھی تھی ۔‬
‫ٹانگوں کو صاف کرتے وقت مہری میرے ہاتھوں کو جھٹک رھی تھی مگر مِیں ڈھیٹ بن کر لگا رھا اور مہری کی پھدی اور‬
‫ٹانگوں کو اچھی طرح واش کیا اور پھر مہری کو لے کر واش روم سے باہر آگیا‬
‫مہری اب کافی بہتر محسوس کررھی تھی‬
‫مگر وہ اب بھی ٹانگوں کو کھول کر ھی چل رھی تھی ۔‬
‫کمرے میں آکر میں نے مہری کو بیڈ پر جیسے ھی بٹھایا‬
‫‪..‬تو مہری پیچھے کو گرتی بیڈ پر لیٹ گئی ۔ اور دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر پھر رونے لگ گئی‬
‫مہری کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکی ہوئی تھیں‬
‫اور باقی سارا جسم بیڈ پر ڈھیر تھا ۔‬
‫میں نے مہری کو بازو سے پکڑ کر ہالیا‬
‫اور بوال مہری یار اب بس بھی کرو‬
‫اور کپڑے پہن لو‬
‫اسد کسی وقت بھی آسکتا‬
‫ھے‬
‫مہری منہ سے ہاتھ ہٹا کر غصے سے چیختے ھوے بولی‬
‫مجھے نہیں پہننے کپڑے آنے دو جسے بھی آنا ھے ۔‬
‫میں نیچے جھکا اور کارپٹ پر پڑی مہری کی شلوار کو اٹھا کر اسکے قدموں میں بیٹھ گیا اور‬
‫شلوار کو مہری پاوں سے گزار کر اسکی پھدی کے قریب کر دی‬
‫مہری نے تھوڑی بہت مزاحمت کی تھی مگر میں نے ذبردستی اسے شلوار پہنا کر ھی دم لیا ۔‬
‫شلوار اوپر کرنے کے بعد میں نے مہری کی دونوں کالئیوں کو پکڑا اور اسکو اوپر کھینچا تو مہری نا چاہتے ھوے بھی اٹھ‬
‫کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے مہری کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور شلوار اسکی گانڈ سے اوپر کر کے پھر پھدی سے بھی اوپر کردی ۔‬
‫شلوار پہنتے ھی مہری پھر بیڈ پر بیٹھ گئی تو میں نے ہاتھ لمبا کر کے مہری کی بریزیر‬
‫‪.‬پکڑی اور بیڈ پر چڑھ کر مہری کی کمر کے پیچھے بیٹھ گیا‬
‫اور بریزیر کو آگے لیجاکر مہری کے دونوں بازوں میں سے بریزیر کے اسٹرپ گزارے اور بریزیر کو‬
‫اسکے کندھوں تک لے آیا۔‬
‫پھر اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اور مموں کے اوپر آے ھوے بریزیر کے کپ کو پکڑ کر مموں کے اوپر کیا‬
‫یسے ھی مہری کے مموں کو میرا ہاتھ چھوا میرے اندر پھر شہوت کے کیڑے جھر جھری لی‬
‫اور میں نے مہری کے دونوں مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر کر دبا دیا ۔‬
‫مہری کے منہ سے سییییییییی نکلی اور مہری نے بازو پیچھے کر کے میرے پیٹ میں کہنی مارتے ھوے کہا۔‬
‫اب کوئی کسر رھتی ھے جو پوری کرنی ھے‬
‫اور پھر مہری نے مموں کو پکڑے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے گلے کے ساتھ لگا کر دباتے ھوے کہا‬
‫ویسے ھی میرا گال دبا دو‬
‫مار دو مجھے اپنے ھاتھ سے ھی مار دو۔‬
‫اور ساتھ ھی مہری نے پھر اونچی آواز میں رونا شروع کردیا۔‬
‫میں نے جلدی سے اس سے اپنے ہاتھ چھڑواے اور پیچھے سے سٹریپ کی ہک بند کرتے ھوے‬
‫اسکے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکے کان میں دھیرے سے بوال‬
‫مہری میں کیا کروں تم چیز ھی ایسی ھو‬
‫تمہارا ایک ایک انگ مجھے بہکنے پر مجبور کردیتا ھے ۔‬
‫قصور میرا نھی تمہارے اس مخملی بدن کا ھے‬
‫تم سر سے پاوں تک آب حیات ہو‬
‫جس کو پی کر میں ہمیشہ کے لیے امر ھونا چاہتا تھا‬
‫مہری نے میری بات سنتے ھی مجھےپیچھے کو دھکا دیا اور آگے سے اپنے بریزیر کو سیٹ کرتی ھوئی کھڑی ہوئی اور‬
‫پلٹ کر مجھے غصے سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫تم ہوس کو پیار کا نام دیتے ھو‬
‫تم ایک ہوس کے پجاری ھو‬
‫اور تمہاری انہیں باتوں میں آکر میں اپنی عزت گنوا بیٹھی ھوں ۔‬
‫یاسرررردد اگر تم اپنی خیریت چاھتے ھو تو ابھی کہ ابھی دفعہ ھوجاو یہاں سے‬
‫اور آج کے بعد مجھے شکل مت دیکھانا‬
‫تم نے میرے اعتبار کو توڑا ھے‬
‫میرے جزبات سے کھیلے ھو تم‬
‫میں نے کہا مہرررر‬
‫ابھی میرے منہ میں اتنا ھی لفظ نکال تھا کہ مہری‬
‫پھر چنگاڑ کر بولی‬
‫شٹ اپ‬
‫اور دروازے کی طرف انگلی کرتے ھوے ۔‬
‫بولی ۔گیٹ الس فرام ہاوس‬
‫یں بھی کب سے اس کی بکواس سن رھا تھا‬
‫اور اسکو برداشت کررھا تھا‬
‫مہری سے انگریزی بےعزتی کرواتے ھی میں چھالنگ مار کر غصے سے بیڈ سے نیچے اترا اور اپنا جوتا پہن کر کمرے‬
‫کے دروازے کے پاس پہنچ کر‬
‫گردن گھما کر مہری کی طرف دیکھا جو میری ھی طرف دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے مہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں‬
‫نظروں سے نظریں ملیں‬
‫دونوں کی نظروں میں غصہ تھا‬
‫آگ تھی‬
‫قہر تھا‬
‫میں دھاڑتے ھوے گرجا‬
‫اور رعب دار آواز نکالتے ھوے‬
‫مہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال۔‬
‫مہریییییییییی‬
‫مہری میری گرجدار آوا ز سن کر سہم گئی‬
‫اور ایکدم اسکے چہرے پر غصے کی بجاے ڈر جھلکنے لگ گیا۔‬
‫میں پھر غصہ سے دھاڑا‬
‫مہرییییی میں جارھا ہوں اور میری بات کان کھول کر سن لو کہ ‪،،‬۔‬
‫یاد‪..‬؟؟ ؟؟؟؟؟؟‬
‫مہرییییی میں جارھا ہوں اور میری بات کان کھول کر سن لو کہ ‪،،‬۔‬
‫یاد‪..‬‬
‫سے بیڈ کی چادر بدل لینا یہ نہ ھو کہ تمہاری امی یا اسد آکر کمرے کا نظارہ دیکھ لیں ۔۔۔‬
‫میں غصے میں بھی مہری کو مذاق کر کے باہر کی طرف چل دیا مہری میری بات سن کر دانت بھینچ کر رھ گئی ۔‬
‫میں گیٹ کے پاس پہنچا اور گیٹ کھول کر باہر جھانکا تو گلی میں بچوں کو کھیلتے دیکھ کر میں باہر نکال اور بازار کی‬
‫طرف چل دیا‬
‫گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا‬
‫اور باہر نکل گیا کچھ دیر گلی کے دوستوں کے ساتھ گپیں مارنے کے بعد واپس گھر آگیا‬
‫اگلے دن دکان پر بھی کچھ خاص نہ ہوا‬
‫عظمی اور نسرین کو سکول سے چھٹیاں تھیں اور صدف کو ویسے ھی میں ساتھ نہیں لے کر جاتا تھا ۔‬
‫اس لیے مجھے اکیلے ھی جانا پڑتا‬
‫تقریبََا ایک ہفتہ ایسے ھی گزر گیا‬
‫ضوفی بھی ان دنوں میں دوبارا دکان پر نہیں آئی اور نہ ھی مجھے اسکا سامنا کرنے کی ہمت ہوئی ۔‬
‫ہفتہ پورا ھی میرا کام میں مصروفیت کی وجہ سے بغیر پھدی کے ھی گزر گیا ۔‬
‫ایک دن شام کو انکل سجاد نے مجھے بتایا کہ یاسر بیٹا کل‬
‫میں نے مال لینے الہور جانا ھے اور تم دکان پر ذرہ ہوشیار رہنا اور توجہ سے دکان داری کرنا‬
‫میں نے کہا جی انکل آپ بےفکر ہوکر جانا میں سنبھال لوں گا ۔‬
‫دوسرے دن میں انکل سجاد کے گھر گیا تو انکل سجاد مجھ سے پہلے ھی چلے گئے تھے اور دکان کی چابیاں گھر ھی دے‬
‫گئے تھے میں نے گھر سے چابیاں لیں اور دکان پر چال گیا‬
‫دکان پر پہنچا تو انکل کی موٹر سائکل دکان کے باہر ھی کھڑی تھی میں نے دکان کے شٹر کھولے اور دکان کی صفائی‬
‫کرنے لگ گیا کچھ دیر بعد ساتھ والی دکان کا لڑکا مجھے موٹرسائیکل کی چابی دے گیا اور ساتھ میں انکل کا میسج بھی دے‬
‫دیا کہ موٹر سائیکل یاسر کو کہنا موٹر سائکل کو لے کر کہیں جاے نہ ھی کسی اور کے دے‬
‫میں نے اچھا کہہ کر اس سے چابی لی اور دراز میں رکھ دی ۔‬
‫کچھ دیر بعد جنید آگیا‬
‫مگر دوسرا لڑکا شاہد ابھی تک نھی آیا تھا‬
‫جنید نے آتے ھی انکل کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ انکل تو الہور مال لینے گئے ہیں ۔‬
‫جنید نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫کل انکل نے تو ہمیں بتایا ھی نہیں ۔‬
‫میں نے کہا شاید انکا اچانک پروگرام بنا ھو ۔‬
‫ایسے ھی ھم باتیں کرتے رھے‬
‫کسٹمرز کی بھی آمد شروع ھوگئی‬
‫شاہد دکان پر نھی آیا ۔‬
‫اسنے شاید چھٹی کرلی تھی ۔‬
‫مجھے اسپر غصہ بھی بہت چڑھا کہ‬
‫انکل بھی دکان پر نہیں ھیں اور یہ ساال بھی چھٹی کرکے بیٹھ گیا ھے ۔‬
‫دوپہر کا وقت ہوا تو جنید کھانا لینے چال گیا اور میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھ گیا ۔‬
‫کچھ ھی دیر گزری تھی کہ فرحت برقعہ پہنے اپنی امی کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی اور بڑی شوخی سے مجھے سالم کیا‬
‫اور دکان کے سینٹر میں ھی بیٹھ گئی ۔‬
‫فرحت کی امی کافی ضعیف العمر خاتون تھی‬
‫جس عمر کی سٹیج پر فرحت کی امی تھی اس عمر میں نظر بھی کافی کمزور ھوجاتی ہے‬
‫اس لیے فرحت اپنی امی کا ہاتھ پکڑے ھوے چلتی تھی ۔‬
‫بینچ پر بیٹھتے ھوے فرحت بڑی شوخ نظروں سے مجھے دیکھ کر بولی‬
‫یاسر کوئی نئی ورائٹی آئی ھے دکان پر تو دیکھا دو۔‬
‫میں بھی ان کے پاس پہنچ چکا تھا اور‬
‫انکا حال احوال پوچھنے کے بعد ۔‬
‫فرحت کو بوال آپ آگے آجائیں تو بہتر ھے ساری ڈزائنگ آگے پڑی ھے ۔‬
‫فرحت اپنی امی کو ادھر ھی بیٹھے رھنے کا کہہ کر دکان کے آخر میں چلی گئی ۔‬
‫اور بینچ پر بیٹھتے ھوے آہستہ سے بولی‬
‫آج کل کدھر مصروف رہتے ھو ۔‬
‫کبھی چکر ھی نھی لگایا ۔‬
‫میں نے کہا بس دکان پر کام کا ذور ھے اس لیے رات کو‬
‫بھی لیٹ ھی جاتا ھوں اس لیے تھکا ھوتا ھوں تو ٹائم نھی مال‬
‫اور آپ نے بھی تو دوبارا رابطہ نہیں کیا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫جناب میں اسی لیے آج سپیشل آئی ہوں کہ نواب ساب کو یاد کروا دوں کہ ہم بھی تمہاری راہ دیکھنے والوں میں سے ہیں ۔‬
‫فرحت نے یہ بات بڑی دومعنی انداز سے کی تھی ۔‬
‫میں نے چونک کر فرحت کی طرف دیکھا‬
‫اور کہا‬
‫دیکھنے والوں کا کیا مطلب ۔‬
‫فرحت ہنس کر بولی کچھ نہیں ۔‬
‫میں نے تو ویسے ھی کہا ھے‬
‫تم تو ایسے چونکے ھو جیسے‬
‫واقعی کوئی بات ھے ۔‬
‫میں نے الماری سے سوٹ نکال کر فرحت کے اگے کھولتے ھوے کہا‬
‫جناب میں تو آپ کے اشارے کا منتظر تھا‬
‫مگر آپ کو تو اشارا کرنے کی بھی فرصت نہی تھی ۔‬
‫فرحت بولی ۔‬
‫لو پھر میں اشارہ کرنے ھی آئی ھوں کہ اگر وقت ملے تو آج رات کو حسین بنانے کے لیے میں نے یہ سنتے ھی ہاتھ میں‬
‫پکڑے ہوے سوٹ کو اس انداز میں کھول کر فرحت کے چہرے کی طرف پھینکا کے سوٹ کا کنارہ جا کر فرحت کے منہ پر‬
‫لگا اور فرحت کا نقاب آدھا اتر کر اسکے ہونٹوں تک آگیا‬
‫فرحت اپنی امی کی طرف دیکھتے ھوے آہستہ سے بولی‬
‫ذیادہ شوخا نہ بن امی بیٹھی ہوئی ہین۔‬
‫میں نے فرحت کی امی کی طرف دیکھا جو باہر کی طرف دھیان کر کے آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے کی ناکام کوشش‬
‫کررھی تھی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫شوخا تو آج رات کو بنوں گا‬
‫جب تمہاری ٹانگیں چھت کی طرف کیں ۔‬
‫فرحت شرماتے ھوے اپنا نقاب صحیح کرتے ھوے بولی ۔‬
‫شرم کر بےشرما۔‬
‫اور ساتھ ھی سوٹ کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اور پھر بولی‬
‫یاسر کوئی اور اچھا سا ڈزائن دیکھاو‬
‫میں نے فرحت کی طرف شرارتی انداز میں دیکھتے ھوے اپنی قمیض آگے سے اٹھا کر نیم کھڑے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫فرحت کی طرف کرتے ھوے کہا‬
‫یہ ڈیزائن کیسا ھے ۔‬
‫فرحت شرمندہ سی ہوکر میری طرف مکا لہراتے ہوے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫تمہارے اس ڈیزائن کی رات کو ایسی کی تیسی کروں گی بےشرم انسان جگہ تو دیکھ لیا کرو۔‬
‫میں نے ٹرائی روم کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا‬
‫جگہ بھی دستیاب ھے اگر موڈ ھے تو ادھر ھی ایک شارٹ سا میچ ھوجاے۔‬
‫فرحت نے ٹرائی روم کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی اور‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے مصنوعی غصے سے بولی‬
‫میرا مرنے کا ارادہ نہیں۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا‬
‫یقین کرو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا بس تھوڑی دیر کے لیے جلدی جلدی کرلیں گے ۔‬
‫فرحت کی آنکھیں بتا رھی تھی کہ وہ بھی اندر سے راضی تھی بس اوپر اوپر سے مشرقی خاتون بننے کی ایکٹنگ کررھی‬
‫ھے۔‬
‫فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی امی بیٹھی ہین۔‬
‫میں نے جب فرحت کی رضامندی اور بناوٹی انکار کو دیکھا تو ۔‬
‫میں نے تھوڑا سیریس ھوتے ھوے کہا ۔‬
‫یار کچھ نہیں ھوتا بس دو منٹ لگنے ہیں‬
‫آج انکل بھی نھی ہین اور لڑکے بھی چھٹی پر ہین ۔‬
‫فرحت بولی نہ بابا نہ مجھے ڈر لگتا ھے تم رات کو ھی آجانا ۔‬
‫میں نے کہا یار رات کو بھی کرلین گے‬
‫ابھی بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے لن کو پکڑتے ھوے اسے دیکھاتے ھوے کہا یہ دیکھو تمہیں دیکھ کر ھی بےچین ھوگیا ھے‬
‫فرحت بے چین سی ہوکر ادھر ادھر دیکھتے ھوے بولی‬
‫نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫تم اپنی امی کو بہانہ لگاو کہ میں سوٹ پہن کر چیک کرلوں کہ فٹنگ سہی ھے کہ نہیں۔‬
‫تو تم اندر چلی جانا اور موقع دیکھ کر میں بھی اندر آجاوں گا۔‬
‫یقین کرو کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہونی ۔‬
‫فرحت کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی یاسر کہیں پھنسوا نہ دینا ۔‬
‫میں نے کہا یار اگر کوئی ٹینشن والی بات ھوتی تو میں نے تمہیں کہنا ۔‬
‫ھی نہیں تھا۔‬
‫اسلیے بے فکر رھو اور مجھ پر بھروسہ رکھو ۔‬
‫فرحت کچھ دیر بیٹھی مذید سوچتی رھی اور اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر انگلیوں کو آپس میں‬
‫مسلتی رھی‬
‫میں نے اسے ششوپن پڑا دیکھ کر کہا‬
‫یار اٹھو اور یہ لو سوٹ اور اپنی کو بہانا بنا کر اندر چلی جاو‬
‫فرحت نے میرے ھاتھ سے سوٹ پکڑا اور اٹھ کر اپنی گانڈ میں پھنسا ہوا برقعہ نکالتے ھوے‬
‫اپنی امی کی طرف جانے لگی ۔‬
‫میری بے چینی مذید بڑھتی جارہی تھی اور میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارھا تھا کتنے دنوں سے پھدی کی شکل بھی‬
‫نھی دیکھی تھی تو منی لن کے ٹوپے پر اٹکی ہوئی تھی‬
‫میرا لن مجھ سے بھی ذیادہ جلدی میں تھا ۔‬
‫فرحت اپنی امی کو سوٹ دیکھاتے ھوے اس کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کررھی تھی اور اسکی امی سوٹ کو آنکھوں کے‬
‫قریب کرکے سوٹ کو پسند کرنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نے اپنی امی سے سوٹ پکڑا اور اٹھ کر میری آنکھوں نشیلے انداز سے دیکھتی ھوئی میرے پاس سے‬
‫گزرتے ھوے مجھے مکا دیکھاتے ھوے ٹرائی روم میں چلی گئی اور میں باہر کی طرف دیکھ کر اٹھنے ھی لگا تھا کہ‬
‫جنید شیطان کی طرح ٹپک پڑا اور کھانا ہاتھ میں پکڑے سیٹی بجاتا دکان میں داخل ہونے لگا‬
‫جنید کو دیکھتے ھی مجھے پھدی ھاتھ سے جاتے نظر آنے لگ گئی ۔‬
‫مگر منی میرے دماغ پر سوار تھی‬
‫میں نے جلدی میں ایک پالن سوچا اور اٹھ کر جنید کے پاس چال گیا‬
‫اور اسکو آہستہ اے بوال‬
‫یار ٹرائی روم میں ایک پوپٹ آنٹی سوٹ پہن کر چیک کرنے گئی ھے اور وہ میرے ساتھ کافی فری بھی ھورھی تھی‬
‫میرا تو دل کررھا ھے کہ اس کے پیچھے ھی اندر جاکر اس کو جپھی ڈال لوں ۔‬
‫جنید حیرانگی سے کبھی میری طرف دیکھتا تو کبھی ٹرائی روم کی طرف تو کبھی اماں کی طرف ۔‬
‫میں نے اسے یوں سکتے کے عالم میں دیکھا تو اسکو کندھے سے ہالتےھوے کہا ۔‬
‫ماما توں کیڑیاں سوچاں وچ پے گیا ایں ۔‬
‫میں کی کیا اے۔‬
‫جنید ہڑبڑا کر بوال‬
‫دیکھنا یار اپنے ساتھ ساتھ مجھے پھنسوا نہ دینا‬
‫میں نے کہا یار تو بےفکر ھوجا‬
‫اس آنٹی نے مجھے فل لفٹ کروائی ھے‬
‫تم بس دکان کو سبھالنا اور اس اماں کو باتوں میں لگاے رکھنا اسکی ویسے بھی نظر کمزور ھے‬
‫میں بس گیا اور آ یا‬
‫اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا میں اسکا کندھا تھپتھپا کر ٹرائی روم کی طرف چل دیا‬
‫اور دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے ہلکا سا درواز اندر کو پش کیا تو‬
‫فرحت ہاتھ میں سوٹ پکڑے دیوار کے ساتھ لگی بڑی بےچین نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں اندر گیا اور دروازے کو الک کیا اور‬
‫جاتے ھی فرحت کے ھاتھ سے سوٹ پکڑ کر نیچے پھینکا اور اسکے دونوں ممے مٹھیوں میں بھر لیے‬
‫فرحت نے سییییییی کر کے اپنے دونوں ھاتھ مموں پر رکھے میرے ھاتھوں پر رکھ دیے ۔‬
‫اور بولی‬
‫سیییییییی یاسر آرام سے‬
‫میں نے دو تین دفعہ مموں کو دبایا اور پھر فرحت کا برقعہ پکڑ کر اتارنے لگا ۔‬
‫فرحت برقعہ اتارتے ھوے بولی‬
‫اگر کوئی کسٹمر آگیا تو ۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں آتا اگر آیا بھی تو چال جاے گا ۔‬
‫فرحت نے برقعہ اتار کر ایک طرف رکھا اور میں نے فرحت کو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کردیا‬
‫کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے فرحت کے آگے سے قمیض اوپر کرنے لگ گیا اور قمیض کو مموں سے اوپر کر‬
‫دیا فرحت نے سکن کلر کی بریزیر پہنی ھوئی تھی میں نے بریزیر کو بھی پکڑ کر مموں کو آزاد کر دیا‬
‫فرحت کے چٹے سفید بڑے بڑے ممے میرے سامنے بلکل ننگے تھے میں تھوڑا سا جھکا اور دونوں مموں کو‬
‫ہاتھوں میں پکڑ کر چوسنے لگ گیا میں باری باری دونوں مموں کو منہ بھرتا تو کبھی اکڑے ھوے براون نپلوں کو ہونٹوں‬
‫میں لے کر چوستا‬
‫فرحت سسکاریاں مار کر میرے بالوں کو سہالنے میں مصروف تھی ۔‬
‫کچھ دیر میں ایسے ھی مموں کو چوستا رھا‬
‫میرا لن فل اکڑا ھوا تھا‬
‫اور پھدی میں جانے کے لیے بےچین تھا ۔‬
‫میں نے مموں کو چھوڑا اور فرحت کو گھما کر اسکا منہ دیوار کی طرف کیا‬
‫اور پیچھے سے اسکی قمیض گانڈ سے اوپر کر کے اسکے السٹک والی شلوار کو کھینچ کر نیچے کیا تو فرحت نے گردن‬
‫گھما کر میری طرف دیکھا میں میں اسکی نظروں کا مطلب سمجھے بغیر نیچے جھکا اور اسکی ُبنڈ کی دونوں پھاڑیوں کو‬
‫باری باری چومنے لگا اور پھر کھڑا ھو کر جلدی سے اپنی شلوار کا ناال کھوال تو میری شلوار میری پیروں میں گر گئی‬
‫میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑ کر جیسے ھی فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں ڈاال فرحت نے گانڈ کو بھینچ کر میرے لن کو‬
‫راستے میں ھی روک کر آگے کو ھوئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی کیا کرنے لگے ہو۔‬
‫میں نے کہا سیدھی تو اندر ھی کرنے لگا ہوں۔‬
‫فرحت بولی پیچھے سے نھی کرنا ۔‬
‫میں نے کہا نھی یار آگے سے ھی کروں گا‬
‫تم سیدھی تو ھو جاو‬
‫فرحت پھر دیوار کی طرف منہ کر کے گانڈ میری طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں تھوڑا سا پیچھے ھوا اور فرحت کی گانڈ کو پکڑ کر پیچھے کیا تو فرحت آگے کو جھک گئی اور اسکی گانڈ پیچھے کو‬
‫ھوگئی‬
‫میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑا اور اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا فولڈ کر کے نیچے ھوا اور سر نیچے کر کے ہاتھ فرحت کی پھدی‬
‫پر رکھ کر پھدی کو دیکھنے لگ گیا‬
‫پھدی پانی سے گیلی ھوچکی تھی‬
‫میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے قریب کر کے فرحت کے پیچھے سے ھی ٹوپا پھدی پر رگڑنے لگا‬
‫فرحت سسکاری مار کر اور جھک گئی اور دونوں ھاتھ دیوار پر رکھ کر گانڈ پیچھے کو نکال کر کھڑی ھوگئی‬
‫مذید جھکنے سے فرحت کی گانڈ مین سے پھدی نظر آنے لگ گئی‬
‫میں نے لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی کے پانی سے ٹوپے کو اچھی طرح گیال کیا‬
‫اور ٹوپا پھدی پر سیٹ کر کے‬
‫دونوں ھاتھوں سے‬
‫فرحت کی گانڈ کے اوپر سے کمر کو پکڑ لیا‬
‫اور ہلکا سا دھکا مار کر لن اندر کیا تو پھدی کے گیلے ھونے کی وجہ سا لن کافی اندر چال گیا‬
‫فرحت نے ایک ہاتھ پیچھے کرتے ھوے میرے پیٹ پر رکھ کر ھاےےےےے کیا اور بولی‬
‫ہولیییی یاسرررر۔‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا‬
‫اور دوسری دفعہ فرحت کی کمر کو پکڑ کر پورے زور سے گھسا مار کر لن کو پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا ۔‬
‫فرحت نے ہاےےے مرگئی‬
‫اففففففف سییییییی کیا اور گردن گھما کر غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫آرام نال نئی ہندا‬
‫جانور جیا۔‬
‫میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے ھوے لن کو واپس کھینچا اور پھر دوسری دفعہ بھی ویسے ھی سپیڈ سے لن اندر‬
‫کردیا فرحت کے منہ سے پھر آہہہہہہہہہہہ مرگئی نکال۔‬
‫اور ھاےےےےے کرتی بولی‬
‫توں باز نئی آنا۔۔‬
‫میں نے اسکی بات کو سنی ان سنی کرتے ھوے‬
‫فرحت کی کمر کو پکڑ کر گھسے مارنے شروع کردئیے فرحت ھاےےےء ہمممم سییییی ہولی ہولی ہولی کرتی رھی‬
‫میرے گھسوں کی سپیڈ تیز ھوتی گئی‬
‫فرحت کے ممے اچھل اچھل کر اسکے منہ کی طرف جارھے رھے‬
‫اسکی گانڈ کے ساتھ جب میری رانیں ٹکراتی تو فرحت کی گانڈ چھلک چھلک جاتی‬
‫کچھ دیر مذید گھسے مارے تو فرحت کی پھدی نے منی اگلنا شروع کردی اور فرحت نے لمبے سانس لیتے ھوے گانڈ میری‬
‫رانوں کے ساتھ چپکا کر لن پورا اندر لے لیا اور پھدی سے لن کو جکڑنے لگی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے پھر گھسے‬
‫مارنے شروع کردیے اور پھدی کی گرمی اور میرے اندر کی گرمی نے مجھے ذیادہ دیر ٹکنے نہیں دیا اور میرے آخری‬
‫جھٹکوں نے فرحت کا پورا جسم ہال کر رکھ دیا اور روم میں کچھ دیر تھپ تھپ تھپ کی آوازیں اور فرحت کی آہیں گونجیں‬
‫اور میرے لن نے فرحت کی پھدی کے اندر ھی اپنا سارا غبار نکال دیا اور میں فرحت کی کمر کو پکڑے ھوے فرحت کی‬
‫گانڈ کے ساتھ جڑ کر اسکے اوپر ھی اوندھا لیٹ گیا اور اس کی کمر کو چومنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر میں فرحت کے اوپر ایسے ھی جپھی ڈالے لیٹا رھا میرا لن سکڑ کر خود ھی پھدی سے باہر آگیا اور میں بھی فرحت‬
‫کے اوپر سے ہٹ کر سیدھا ھوگیا‬
‫فرحت جب سیدھی ہوئی تو اسکی پھدی سے میری منی پانی بن کر بہنے لگی اور اسکی رانوں سے لے کر پاوں تک منی کی‬
‫لکیر بن گئی فرحت نے مجھے گھورتے ھوے کہا یاسر تم بڑے ظالم ھو‬
‫میں نے ہنستے ھوے اپنی شلوار اوپر کر کے ناال باندھتے ھو ے کہا‬
‫سیکس میں ظالم نہ بنو تو پاٹنر کو مزہ ھی نہی آتا فرحت بھی اپنی شلوار اوپر کرچکی تھی اور کپڑے درست کرتی ہوئی‬
‫بولی مجھے ایسا مزہ نھی چاہیے‬
‫میں اگے بڑھ کر فرحت کے ہونٹ چوم کر بوال‬
‫تو میری جان کو کیسا مزہ چاہیے۔‬
‫فرحت میری ناک پر انگلی رکھ کر مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی رات کو آو گے نہ تو بتاوں گی کہ مجھے کیسا مزہ‬
‫چاھیے ۔‬
‫میں نے ایک بار پھر فرحت کے ہونٹوں پر کس کی اور بوال اچھا دیکھ لیں گے جب وقت آیا‬
‫ابھی میں باہر جا رھا ہوں جب میں دروازہ ناک کروں تو تم باہر آجانا‬
‫فرحت نے اثبات میں سر ہالیا اور میں نے دروازہ کھوال اور باہر آگیا‬
‫باہر نکال تو جنید ایک کسٹمر کو سوٹ دیکھا رھا تھا اور مجھے باہر نکلتا دیکھ کر جنید نیچے سر کر کے ہنسنے لگ گیا ۔‬
‫میں نے اہنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور باہر نکل کر فرشی کاونٹر پر چڑھ کر چلتا ھوا‬
‫جنید کے پاس گیا تو جنید آہستہ سے مسکراتے ھوے بوال‬
‫بن گیا کام‬
‫میں نے کہا ہممممم‬
‫جنید بوال‬
‫اب میں جاوں اندر‬
‫میں نے کہا ابھی نہیں‬
‫پہلے مجھے اچھی طرح اس سے سیٹنگ کر لینے دو پھر تیرے لیے بھی اسکو راضی کرلوں گا‬
‫پھر مین نے کہا جلدی سے اس کسٹمر کو بشیر حسین کر دے ۔‬
‫دوستو ہماری یہ زبان ھوتی تھی کہ جس کسٹمر کو بھگانا ھو یا سوٹ نہ دیکھانے ھوں تو ہم آپس میں کہتے تھے کہ یہ‬
‫ہوکا پارو ھے اسکو بشیر حسین کردو‬
‫یا لیکاں کردو‬
‫اور جو اچھا کسٹمر ھوتا تھا یا خوبصورت بچی ھوتی تھی تو اسے دیکھ کر کہتے تھے کہ اسکو چوکس کرو یا چوکس بچی‬
‫ھے ۔‬
‫یہ ہمارے کوڈ ورڈ ہوتے تھے ۔‬
‫خیر‬
‫جنید نے جلدی ہی کسٹمر کو بشیر کر دیا‬
‫اور میں نے فرحت کی امی کی طرف دیکھا تو وہ بیچاری بیٹھی بیٹھی سوگئی تھی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر‬
‫آنکھیں بند کئےبیٹھی اونگ رھی تھی ۔‬
‫میں نے جنید کو کہا تم ذرہ سائڈ پر ھو جاو آنٹی کو اندر سے نکلنے دو پھر اجانا ایسے وہ ڈرجاے گی کہ تمہیں سب کچھ پتہ‬
‫ھے‬
‫اور یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے متنفر ہوجاے ۔‬
‫جنید سر ہالتا ھوا دکان سے نکل گیا‬
‫تو میں جلدی سے دروازے کے پاس پہنچا اور دروازے کو ناک کر کے جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر سوٹ طے کرنے‬
‫لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد ھی فرحت برقعہ پہنے اور نقاب کیے سوٹ ہاتھ میں پکڑے باہر آگئی ۔‬
‫اور آکر سیدھی اپنی امی کے پاس گئی اور اپنی امی کو کندھے سے ہالتے ھوے اٹھاتے ھوے بولی‬
‫امی آپ سو گئی ھو‬
‫تو اسکی امی نے آنکھیں کھولتےھوے کہا‬
‫پتر مینوں پتہ ای نئی لگیا کیڑے ٹیم میری اکھ لگ گئی‬
‫فرحت نے اپنی امی کو بتایا کہ کوئی سوٹ اسے فٹ نھی آیا اور ڈزائنگ بھی اچھی نھی لگی‬
‫فرحت اپنی امی کو لے کر مجھے رات کو آنے کا اشارہ کرکے چلی گئی‬
‫دکان سے نکلتے وقت ھی جنید بھی آگیا اور اس نے فرحت کو بڑے غور سے دیکھا اور میری طرف انگلی اور انگوٹھے‬
‫سے گول دائرہ بنا کر اشارہ کیا کہ بڑا پوپٹ مال ھے۔‬
‫فرحت چلی گئی اور جنید شروع ہوگیا کہ یار آنٹی تو بڑی ذبردست ھے‬
‫کیسے پھنسا لی‬
‫اور اندر جاکر کیا کیا کرتے رھو ھو میں نے جنید کو مختصرا بتایا کہ بس‬
‫اس کے ممے دباے اور کسنگ کی‬
‫اصل بات میں حزف کرگیا ۔‬
‫جنید نے بڑی کوشش کی مگر میں نے اسکو منگڑت کہانی سنا کر مطمئن کر دیا اور کہا کہ اگلی دفعہ اسکی پھدی مارنے کی‬
‫کوشش کروں گا ۔‬
‫شام تک ہم وقفے وقفے سے فرحت کو لے کر باتیں کرتے رھے اور پھر سات بجے انکل بھی آگئے اور میں انکل کے ساتھ‬
‫ھی دکان بند کرکے گھر آیا‬
‫گھر آکر نہا دھو کر فریش ھوا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کچھ دیر باہر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتا رھا تقریبََا‬
‫‪ 9‬بجے میں گھر آیا تو سب گھر والے سو رھے تھے‬
‫اور صرف بھائی کمرے میں جاگ رھے تھے‬
‫میں کمرے سے ہوتا ھوا بیٹھک میں جانے لگا تو بھائی نے مجھے آواز دی کہ آجا میرے پاس بھی بیٹھ جایا کر یار‬
‫میں مجبورًا بھائی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫اور ایک دوسرے کے کاروبار کے متعلق باتیں شروع کردیں‬
‫ایک گھنٹہ ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے ۔‬
‫تو بھائی نے کہا چنگا یار توں وی سو جا کل دکان تے جانا اے تے مینوں وی نیندر آرئی اے‬
‫میں نے شکر ادا کیا کہ ٹیم نال ای ویرے نوں نیندر آگئی اور‬
‫بیٹھک میں چال گیا اور بھائی کے خراٹوں کا انتظار کرنے لگ گیا ۔‬
‫دس پندرہ منٹ ھی گزرے تھے کہ‬
‫کمرا بھائی کے خراٹوں سے گونجنے لگ گیا ۔‬
‫میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر کمرے اور صحن کا چکر لگا تسلی کر کے واپس بیٹھک میں آگیا کہ کوئی جاگ تو نہیں رھا مگر‬
‫سب ھی گہری نیند سے ھوے تھے‬
‫میں نے مزید کچھ دیر اور انتظار کیا اور پھر کمرے کی طرف والے دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور‬
‫تاال اٹھایا جو میں نے ایک خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھا تھا‬
‫اور چپکے سے باہر کا دروازہ کھوال اور گلی میں سر نکال کر دیکھا تو گلی میں گھپ اندھیرا تھا دوررر سے پہرے دار کی‬
‫وقفے وقفے سے آواز آرھی تھی‬
‫جاگدے رووووو‬
‫میں نے باہر نکل کر بیٹھک کو باہر سے کنڈی لگا کر فرحت کے گھر کا رخ کیا‬
‫ہر طرف ہو کا عالم تھا‬
‫میں ڈرتا ہوا چال جارھا تھا‬
‫کہ کہیں کسی پہرے دار سے میرا ٹاکرا نہ ہوجاے‬
‫کچھ دیر چلنے کے بعد میں فرحت کی گلی میں داخل ہوا‬
‫اتو گلی میں بھی کافی اندھیرا تھا‬
‫مجھے چلتے چلتے ایسے لگتا جیسے میرے پیچھے کوئی آرھا ھے‬
‫اور میں ایکدم پیچھے گھوم کر دیکھتا تو کسی کو بھی نہ پاتا‬
‫بس میرا وہم مجھے ڈراے جارھا تھا ۔‬
‫مشکل سے میں فرحت کے گھر کے پاس پہنچا ھی تھا کہ‬
‫مجھے پیچھے سے‬
‫مجھے اپنے پیچھے سے کتے بھونکتے ہوے اپنی طرف دوڑتے نظر آے میں تو پہلے ھی اندر سے ڈرا ہوا تھا کتوں کو اپنی‬
‫طرف آتے دیکھ کر میں نے جلدی سے بیٹھک کے دروازے کو اندر دھکیال اور دروازہ حسب وعدہ کھال ہونے کی وجہ سے‬
‫اندر کو کھلتا گیا اور میں دوڑ کر اندر داخل ہوگیا ۔‬
‫سامنے ھی فرحت چار پائی پر لیٹی ہوئی تھی مجھے یوں اچانک اندر داخل ہوتے ھوے گبھرا کر سینے پر ہاتھ رکھتے ہوے‬
‫اٹھ کر بیٹھتے ہوے بولی ۔‬
‫ہاےےےے***کون اےےےےےےے‬
‫جب فرحت کی مجھ پر نظر پڑی تو کچھ سنبھل گئی اور گبھراے ھوے بولی‬
‫خریت تو ھے یاسر کیا ھوا‬
‫میں نے لمبے لمبے سانس لیتے ھوے کہا وہ کتے میرے پیچھے پر گئے تھے‬
‫فرحت ہنس کر میری طرف ھاتھ سے اشارہ کرتے ھوے بولی‬
‫جا اوے کوئی حال نئی تیرا میری تے جان ای کڈ دتی سی ۔‬
‫میں نے دروازے کو اندر سے الک کیا اور فرحت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اپنی تیز چلتی ہوئیں سانسوں کو درست کرنے‬
‫لگ گیا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫اتنی دیر کردی آنے میں‬
‫میں نے کہا‬
‫بس یار میں نے جلدی آجانا تھا مگر بیٹھک میں بارے وقت بھائی نے مجھے پاس بیٹھا لیا تھا اور ادھر ادھر کی باتوں میں‬
‫کافی وقت لگ گیا تھا اور ویسے بھی دکان سے بھی لیٹ آیا تھا‬
‫اس وجہ سے دیر ہوگئی ۔‬
‫فرحت بولی میں تو سمجھی شاید نواب صاب کا دل بھر گیا ھوگا‬
‫میں نے فرحت کے پٹ پر ھاتھ پھیرتے ھوے اسکی نرم نرم جلد کو مٹھی میں بھر کر کہا‬
‫دل بھر جاے اور وہ بھی تم جیسی سیکسی اور خوبصورت حسن کی دیوی سے ۔‬
‫کدییییی ویییی نئییییی‬
‫فرحت اپنے پٹ پر رکھے میرے ھاتھ کو پکڑتے ھوے سیییییی کرتی ہوئی بولی‬
‫مسکے لگانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔‬
‫میں نے برا سا منہ بناتے ھوے روٹھنے کے انداز میں کہا‬
‫میرا پیار تمہیں مسکا لگتا ہے‬
‫جاو میں نہیں بولتا۔‬
‫فرحت میری کمر کے گرد بازو ڈال کر اپنے ممے میرے ساتھ لگا کر بولی ۔‬
‫چچچچچچ میرا کاکا ناجججج ہوگیا اےےےے۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کاکے کو اب دودھو پالو گی تو کاکا مانے گا۔‬
‫فرحت بولی چل آ میرا کاکا‬
‫میں اپنے کاکے کو گودی میں بٹھا کر دودھو پالتی ہوں ۔‬
‫)‪..Update no (86‬‬
‫میں نے ہنستےہوے کہا کاکے نے گودی میں نئی بلکہ اوپر لیٹ کر دودھو پینا ھے ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا تو فرحت بھی ہنستی ھوئی چارپائی سے اتر کر کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا تو فرحت بتایا کہ آج میں نے انکو نیند کی گولی دے دی ھے انکی طرف سے‬
‫بےفکر رھو‬
‫اور یہ کہتے ھوے ہم دونوں بیٹھک سے نکل کر فرحت کے کمرے کی طرف چل دئیے۔‬
‫کمرے میں پہنچ کر فرحت نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود ایک منٹ آئی کہہ کر باہر چلی گئی‬
‫میں جوتا اتار کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔‬
‫دس پندرہ منٹ میں بیٹھا فرحت کا انتظار کرتا رھا تو محترمہ مجھ غریب پر بجلیاں گرانے کے لیے جلوہ گر ہوئی تو میں اس‬
‫سیکسی لیڈی کو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا ۔‬
‫بلیک کلر کی سوفٹ سلک میں نائٹی پہنے اپنے لمبے بال کھولے ھوے ھاتھ میں ٹرے پکڑے جس میں ایک جگ اور گالس‬
‫تھا‬
‫مستانی چال چلتی کولہوں کو ہالتی چلتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی اور میری للچائی نظروں کو اپنے سیکسی جسم کا ایکسرا‬
‫کرتے دیکھ کر گالبی پنکھڑیوں پر مسکان التے ھوے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫رومینٹک انداز سے بولی دیکھنا نظر نہ لگا دینا۔‬
‫میں نے آہہہہہہہہ بھری اور میرے لب ہلے‬
‫کچهـ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے‬
‫جب تک ہمارے پاس رہے‪ ،‬ہم نہیں رہے‬
‫پھر‬
‫میں نے کہا بیشک تم اتنی حسین ھو کہ میری کہیں نظر نہ لگ جاے‬
‫فرحت سائڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر بڑے الڈ سے میری ناک کو پکڑ کر ہالتے ھوے بولی تم بھی ناں۔۔۔۔‬
‫میں بے اختیار بول پڑا‬
‫دھیان میں آ کر بیٹھ گئی ہو تم بھی ناں‬
‫مجھے مسلسل دیکھ رہی ہو تم بھی ناں‬
‫دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے‬
‫جیسے پہلی بار ملی ہو تم بھی ناں‬
‫ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں‬
‫مجھ میں ایسے آن بسی ہو تم بھی ناں‬
‫عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا‬
‫اب تو تم بھی کہہ دیتی ہو تم بھی ناں‬
‫فرحت میرے پاس بیڈ پر بیٹھتے ھوے میرے ہاتھوں کو ہاتھ میں لے کر بولی‬
‫خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں‬
‫آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں‬
‫بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو‬
‫اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں‬
‫میں نے فرحت کے ہاتھوں کو اوپر کیا اور اسکے گورے ہاتھوں کو چوم کر بوال‬
‫میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتی ہو‬
‫مجھ کو اتنا جان چکی ہو تم بھی ناں‬
‫فرحت شرما کر اٹھ کر مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر باہر جانے کے لیے اٹھی‬
‫تو میں اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرحت سیدھی میری لمبی کی ہوئی ٹانگوں کے اوپری‬
‫حصے رانوں پر لیٹتی گئی تو میں اسکے بالوں کو سہالتے ھوے بوال‬
‫مانگ رہی ہو رخصت اور خود ہی‬
‫ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھی ہو تم بھی ناں‬
‫فرحت کر سر میرے لن کے اوپر تھا اور اسکے لمبے گیسو بیڈ پر اپنے ہر پھالے ھوے تھے فرحت کی ٹانگیں بیڈ سے‬
‫نیچے تھیں‬
‫اور میں فرحت کے بالوں کو سہالتا ھوا‬
‫اسکی بڑی بڑی آنکھوں اور گالبی پنکھڑیوں کے نشیب وفراز کو دیکھ کر انپر شاعری کے توڑ جوڑ لگا رھا تھا۔‬
‫فرحت‬
‫بھی کسی کنواری دوشیزہ کی طرح ناز نخرے دیکھا کر میرے جزبات کو مذید گرما رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت میری رانوں سے سر اٹھاتے ھوے اور اپنے گیسوؤں کو کو اپنی انگلیوں سے سہالتی ہوئی اٹھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫یاسر پہلے دودھ پی لو ۔‬
‫میں نے ہاتھ اوپر کر کے پیچھے سے فرحت کی بغلوں ڈال کر آگے کی طرف کر کے اسکے تنے ھوے دونوں مموں کو پکڑ‬
‫کر دباتے ھوے کہا‬
‫میں تو ان پیالوں کو منہ لگا کر دودھ پیوں گا ۔‬
‫فرحت میرے ہاتھوں پر ھاتھ رکھتے ہوے منہ چھت کی طرف کر کے بولی‬
‫سییییییییی‬
‫اور پھر سر نیچے کرے میری طرف شراب کے نشے سے چور آنکھوں کا وار کرتے ھوے بولی‬
‫میری جان پہلے جگ واال دودھ تو ختم کرلو پھر ان پیالوں کو بھی جی بھر کر پی لینا۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے فرحت اٹھی اور اسکی سلکی نائٹی سے اسکے مموں سے پھسلتے ھوے میرے ہاتھ اسکے پیٹ سے ہوتے‬
‫ھوے اسکی گانڈ تک آگئے اور فرحت آگے کو ہوئی تو‬
‫فرحت کی گانڈ بھی میرے ھاتھوں سے نکل گئی اور فرحت گول مٹول کو گانڈ کو لہراتی ھوئی‬
‫بیڈ کے سائڈ ٹیبل کی طرف گئی اور جگ میں سے دودھ کو گالس میں ڈال کر میری طرف گالس بڑھایا میں نے گالس پکڑ‬
‫کر منہ کو لگا کر ایک ھی سانس میں گالس خالی کیا تو فرحت نے گالس میں پھر دودھ ڈال کر میری طرف بڑھا دیا‬
‫میں نے انکار کیا تو فرحت نے ذبردستی مجھے دوسرا گالس بھی پالدیا‬
‫دودہ نیم گرم تھا اور اس میں بادام کی گریاں ڈالی ہوئیں تھی‬
‫میں بھی مزے لے کر پی گیا ۔‬
‫اور گالس خالی کر کے فرحت کی طرف بڑھاتے ھوے کہا بسسسسس‬
‫فرحت ہنس کر بولی ایک گالس تو اور پی لو۔‬
‫میں منہ میں بڑبڑایا۔‬
‫کہ توں کیڑا اندر رہن دینا اے جنا مرضی پی لواں‬
‫فرحت نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی کیا کہا۔‬
‫میں نے کہا کچھ نھی جناب ۔۔۔۔‬
‫میری کیا مجال کہ میں کوئی گستاخی کرسکوں۔‬
‫فرحت بولی تم بھی ناں بہت پہنچی ھوئی روح ھو۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا‬
‫واقعی جتھے کوئی نئی پہنچ سکتا اوتھے اے روح پہنچ جاندی اے‬
‫کچھ دیر مذید ہم آپس میں طنز و مذاح کرتے رھے ۔‬
‫پھر فرحت اٹھی اور دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور پردہ آگے کو کھسکا کر میری طرف کیٹ واک کرتی ہوئی آئی ۔۔۔‬
‫فرحت بلیک نائٹی میں بہت ھی سیکسی لگ رھی تھی اور اسکا گورا رنگ کالے لباس میں بلکل کوئلے کی کان میں چمکتے‬
‫ھوے ہیرے جیسا لگ رھا تھا‬
‫اوپر سے چھتیس سائز کے تنے ھوے ممے ‪ 38‬سائز کی گول مٹول گانڈ‬
‫تیس کی کمر‬
‫ہلکا سا باہر کو نکال پیٹ‬
‫اس وقت وہ کسی ماڈل گرل سے کم نھی لگ رھی تھی ۔‬
‫ایک تو اس کا سیکسی جسم دیکھ کر میرا پہلے سے ھی دماغ خراب ہوچکا تھا‬
‫اوپر سے گرم دودھ پی کر میرا تو برا حال تھا ھی مگر میرا گھوڑا تو سر اٹھاے میری شلوار کو پھاڑ کر باہر نکلنے کے‬
‫لیے بے چین تھا۔‬
‫دودہ پی کر مجھ پر عجیب سا نشہ سوار ھو رھا تھا اور میرا حلق خشک ھورھا تھا‬
‫میری آنکھوں سے اور کانوں سے سینک نکل رھا تھا ۔‬
‫میرا دل کررھا تھا کے ابھی اپنے سارے کپڑے اتار کر پھینک دوں ۔‬
‫فرحت آکر بیڈ پر چڑھی اور ٹانگوں کو پھیالتے ہوے میرے ساتھ بیٹھ کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔۔۔۔‬
‫میری طرف دیکھتے ہوے فرحت بولی‬
‫یاسر مجھے اس حالت میں دیکھ کر تم میرے بارے میں کچھ غلط مت سوچنا‬
‫میں صرف تمہارے لیے تیار ہوئی ہوں اور یہ نائٹ ڈریس اس مالقات کو حیسن بنانے کے لیے صرف تمہارے لیے ھی پہنا‬
‫ھے اور زندگی میں پہلی دفعہ مجھے شوق پیدا ھوا ھے کہ میں ایسا لباس پہنوں‬
‫اور وہ بھی صرف اور صرف تمہارے ھی لیے‬
‫یاسر مجھے خود نہیں پتہ کہ میں تمہاری طرف کیوں کھینچی چلی آئی‬
‫جبکہ تم مجھ سے بہت چھوٹے ھو‬
‫مگر تم میں ایک ایسے مرد جیسی خصوصیات ہیں کہ کسی بھی لڑکی کو تم اپنا دیوانہ بنا سکتے ھو ۔‬
‫اور اسکا منہ بولتا ثبوت میں خود ہوں‬
‫نہ چاہتے ھوے بھی میرے قدم تمہاری طرف بڑھے ہیں ۔‬
‫میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرے ھاتھ سے اسکا ھاتھ سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫فرحت میں نے جب پہلی دفعہ تمہارا جسم دیکھا تھا تو تب سے میرے اندر تمہیں پانے کی تڑپ پیدا ھوگئی تھی‬
‫مگر میں ڈرتا تھا کہ کہیں‬
‫تم میرے گھر میری شکایت نہ لگا دو‬
‫مگر جب پہلی دفعہ تم سے سیکس کیا تو‬
‫میری برسوں کی پیاس اور تمہیں پانے کی آرزو تمہارے ساتھ سکیس کرنے کے بعد ختم ھونے کی بجاے مذید بڑھتی گئی ۔‬
‫میرا تو دل کرتا ھے کہ میری ہر رات تمہارے پہلو میں گزرے‬
‫تمہارے ان گیسووں کی چھاوں میں ساری رات گزاروں تمہارے اس نازک جسم کو ساری رات اپنی باہوں میں بھر کر‬
‫تمہارے اس مخملی جسم کا لمس پاوں ۔‬
‫تمہارے یہ بڑے بڑے دودھ کہ پیالوں کو اپنے لبوں سے لگا کر رات بھر انکو پیتا رھوں‬
‫اور تمہیں بے لباس کر کے تمہارے اس ریشم جیسے مالئم جسم کے ہر اعضاء کو چومتا چاٹتا رھوں ۔‬
‫میں فرحت کے جسم کی تعریف اور اس سے رومینٹک باتیں کرتا ھوا‬
‫اس کے ہر ہر اعضاء کو سہالتا جاتا۔‬
‫فرحت میری باتیں سن کر بے چین ہوکر مجھ سے لپٹ گئی ۔‬
‫اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ بھر کر مجھے اپنے ساتھ بیڈ پر دراز ہوگئی ۔‬
‫ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے سے چمٹے ھوے تھے فرحت کہ ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے میرا‬
‫اکڑا ھوا لن میرے کپڑوں سمیت فرحت کی سلکی نائٹی کو بھی لے کر فرحت کی رانوں میں پھدی کو رگڑتا ہوا گھسا ھوا‬
‫تھا اور فرحت نے اپنی رانوں میں میرے لوہے کے راڈ کو جکڑا ھوا تھا‬

‫)‪.Update no (87‬‬
‫ہم دونوں کے بازو ایک دوسرے کی کمر کے گرد لپٹے ہوے تھے ۔‬
‫دو جسم ایک جسم ہونے جارھے تھے ۔‬
‫آگ تھی کہ دونوں کہ اندر جل رھی تھی ۔‬
‫بےچینی تھی کہ دونوں کو تڑپا رھی تھی ۔‬
‫پیاس تھی کے بجھنے کا نام نھیں لے رھی تھی ۔‬
‫وقت تھا کہ تھم گیا تھا‬
‫ہونٹوں میں ہونٹ جکڑے زبانوں کی لڑائی جاری تھی ۔‬
‫پھدی کی بے چینی اور لن کی تڑپ دیدہ زیب تھی ۔‬
‫فرحت کا جنون کسی کنواری کنیا سے کم نہ تھا ۔‬
‫فرحت آج اپنی ساری حسرتیں پوری کرنے کے پر تول رھی تھی ۔‬
‫میرے دماغ سن ہوتا جارھا حلق خشک اور لن سخت ہوچکا تھا ۔‬
‫کچھ دیر دو جسم بیڈ پر سانپوں کے ملن کی طرح ایک دوسرے سے لپٹے پورے بیڈ پر گھومتے رھے‬
‫کبھی فرحت میرے اوپر تو کبھی میں فرحت کے اوپر ۔‬
‫بیڈ کی چادر ایسے ہوچکی تھی جیسے اسپر گھمسان کی جنگ ہوچکی ھو ۔‬
‫آخر کار فرحت کے جسم کو چند جھٹکے لگے اور اسکی رانوں نے اپنے بیچ پھنسے میرے پھٹتے ھوے لن کا کچومر‬
‫نکالنے کی کوشش کی مگر لن اسکی جکڑ کی پرواہ نہ کرتے ھوے ویسے کا ویسا راڈ بنا رھا‬
‫اور فرحت میرے نیچے لمبے لمبے سانس لیتی اپنی ہار مان گئی‬
‫اور میرے لن نے اسکی پھدی کو دبا کر دھول چٹانے کا اعالن کردیا۔‬
‫فرحت کی آنکھیں بند تھی اور ہاااااا آہہہہہہہہ ھمممممممم کر کے لمبے لمبے سانس لے رھی تھی ۔‬
‫اسکی پھدی میرے لن کی سختی کو دیکھ کر اپنے سارے آنسو بہا چکی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں گھٹنوں کے بل فرحت کی رانوں کے اوپر بیٹھ گیا اور فرحت میرا وزن اٹھاے ٹانگیں سیدھی کئے بلکل‬
‫سیدھی لیٹی رھی ۔‬
‫میں نے فرحت کی نرم رانوں پر بیٹھے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور قمیض اور بنیان کو ایک ساتھ ھی اتار دیا ۔‬
‫اور فرحت کے پیٹ پر نائٹی کی بیلٹ کی لگی گانٹھ کو کھول کر نائٹی کے دونوں پٹ کھول کر فرحت کے گورے گورے‬
‫جسم کو ننگا کر دیا ۔‬
‫فرحت نے بریزیر بھی نہیں پہنا ھوا تھا جسکی وجہ سے فرحت کے گول مٹول چٹے سفید ممے چمکتے ھوے نمودار ھوے‬
‫اور اسکے مموں پر براوں دائرے کے اوپر تنے ھوے گول نپل میری طرف دیکھ کر مسکراتے ھوے نظر آے ۔‬
‫میں نے فرحت کی رانوں پر بیٹھے ھوے ھی اپنےدونوں ھاتھ آگے کی طرف بڑھاے اور دونوں ھاتھوں میں فرحت کے‬
‫دودھ سے بھرے پیالوں کو مٹھیوں میں بھر لیا ۔‬
‫آہہہہہہہہہہہہ ھااااااا کیا نظارہ تھا کیا نرم مالئم ممے تھے جیسے میری مٹھیوں میں روئی کے دوگولے ہوں ۔‬
‫ادھر میری مٹھیاں فرحت کے ممے کو بھینچتی ادھر فرحت میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر منہ چھت کی طرف کئے سر‬
‫کو مزید اوپر کر کے‬
‫اففففففف سییییییییی کرتی ھوئی‬
‫آہیں بھرتی ۔‬
‫فرحت تو برسوں سے پیاسی ہونے کا منظر پیش کررھی تھی‬
‫اسکی ہر ہر ادا‬
‫مجھے جلد بازی کرنے پر اکسا رھی تھی‬
‫مگر میں آج اب کچھ ٹھہر ٹھہر کر کرنا چاہتا تھا ۔‬
‫ساری رات پڑی تھی‬
‫نہ کسی کے آنے کا ڈر اور نہ جانے کی جلدی ۔‬
‫آج وقت بھی میرا تھا اور پہلو نشین صنم کا جسم بھی میرا تھا‬
‫تو پھر بھی اپنی مرضی نہ کرتا تو‬
‫مجھ سے بڑا‬
‫ُپھدو کون ہونا تھا۔‬
‫فرحت نے جو آگ میرے اندر بھڑکائی تھی‬
‫اسے اب ساری رات اسی آگ میں جلنا تھا ۔‬
‫میں نے کچھ دیر فرحت کے مموں کو سہالتےھوے‬
‫فرحت کی سسکاریاں نکالی ۔‬
‫اور پھر اسکی رانوں سے کھسکتا ھوا اپنی گانڈ کو پیچھے لے گیا اور اسکے اوپر ھی الٹا لیٹ گیا‬
‫فرحت کی نائٹی کا اپر کھل چکا تھا نیچے بس سلکی ٹراوزر تھا جس میں چھپی اسکی گیلی پھدی اور اسکے اوپر میری‬
‫شلوار میں چھپا لوھے کا راڈ جو پھر اسکی رانوں میں گھس گیا تھا‬
‫اوپر سے دونوں کت ننگے جسم پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے تھے ۔‬
‫میں تھوڑا سا اور پیچھے کو کھسکا اور‬
‫اپنا منہ فرحت کے گول مٹول تنے ہوے مموں پر لے ایا اور پہلے ایک پیالے کو منہ لگا کر جی بھر کر پینے لگا مگر من‬
‫کی پیاس مذید برھتی جارھی تھی ۔‬
‫جب ایک سے جی نہ بھرا تو اس سے ہونٹ ہٹاے اور دوسرے پیالے کو ہونٹ لگا کر جی بھر کر پینے لگ گیا‬
‫فرحت کی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رھی تھی‬
‫اور وہ کمر کو اٹھا کر اپنے مموں کو میرے منہ کے ساتھ چپکا رھی تھی‬
‫فرحت کا بس نہیں چل رھا تھا کہ اپنا سارا مما میرے منہ کے اندر ڈال دیتی ۔‬
‫مگر میرا منہ چھوٹا تھا اور فرحت کا مما بڑا تھا‬
‫مگر ممے کی سوفٹنس اتنی تھی کے‬
‫میرے منہ کت اوپر فرحت کا مما ایسے دب جاتا جیسے میں نے مممے کا ماسک اپنے منہ پر پہنا ھو۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نے مجھے کندھوں سے ہکڑ کر ایک طرف کیا تو میں اسکے اوپر سے پلٹ کر اسکے ساتھ سیدھا لیٹ‬
‫گیا تو فرحت اٹھی اور اپنی نائٹی کو اہنے کندھوں سے اتارتے ھوے بازوں سے نکال کر ایک طرف رکھ دیا اور پھر میرا‬
‫ناال پکڑ کر اسکی گرا کھول دی اور شلوار کو ڈھیال کر کے نیچے کھینچنے لگ گئی میں نے بھی گانڈ اٹھا کر شلوار‬
‫اتارنے میں فرحت کی مدد کی ۔‬
‫فرحت نے میری شلوار اتار کر ایک طرف رکھ دی‬
‫میں اب مادر ذاد ننگا لیٹا ہوا تھا جبکہ فرحت ٹراوزر پہنے میرے لن کے پاس دوزانوں بیتھی میرے اکڑے اور چھت کے‬
‫طرف منہ کئے ایسے تنے ھوے لن کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رھی تھی‬
‫جیسے پہلی دفعہ میرا لن دیکھ رھی ھو‬
‫اور میرا لن اسے سٹیٹ کھڑا تھا جیسے باڈر پر کوئی فوجی احساس حالت میں‬
‫الرٹ کھڑا ھو ۔‬
‫اور حاالت بھی کچھ ایسے تھے‬
‫کسی وقت بھی لن اور پھدی کی جنگ چھڑ سکتی تھی ۔‬
‫فرحت دوزانوں بیٹھی گھٹنوں کے بل پیچھے کو ہو کر میرے لن کو متھی میں پکڑ کر ہالتے ھوے‬
‫منہ سی اففففففففف‬
‫کرتے ھوے اپنے سر کو جھکا کر میرے لن کی طرف الئی اور اپنی گالبی پنکھڑیوں کو کھول کر فوجی کی ٹوپی پر رکھ‬
‫کر ایک بوسا لیا ۔‬
‫فرحت کے ہونٹوں کا لمس میرے لن کے ٹوپے کو مزید پھولنے پر مجبور کر رھا تھا‬
‫مزے کی لہر نے میرے منہ سے بھی سسکاری نکال دی ۔‬
‫فرحت نے پتہ نہیں کس انگریجی میم کی مووی دیکھی تھی جو آج وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ھورھی تھی ۔‬
‫فرحت نے ٹوپے کو ایک بار چوما اور دوسری دفعہ ٹوپے کو کناروں تک ہونٹوں میں بھر کر ایک لمبا سا چوسا لے کر‬
‫ہونٹوں کو ڈھیال چھوڑ کر پھر ہونٹوں کی گرپ ٹوپے کے گرد سخت کرتے ھوے ایسے چوسا لگایا جیسے‬
‫گرمیوں میں برف والے گولے کو چوسا لگاتے ہیں ۔‬
‫پھر فرحت نے ٹوپے کو ہونٹوں میں بھرے ھوے اپنی زبان کی نوک کو ٹوپے کی ہونٹوں کے بیچ پھیر کر ٹوپے کے ہونٹوں‬
‫کو چھیڑنے لگ گئی ۔‬
‫افففففففففف آہہہہہہہہہہہہہہہ سییییییییی ۔میرے منہ سے بےاختیار نکلنے لگ گئیں‪.‬‬
‫فرحت بڑے سلو موشن سے میرے ٹوپے کے ساتھ کھیل رھی تھی ۔‬
‫میری برداشت دم توڑ رھی تھی‬
‫ٹوپا پھول پھول کر پھنکار رھا تھا‬
‫میرے لن کی رگیں پھٹنے والی ہو چکی تھی ۔‬
‫فرحت کی نرم ہتھیلی میرے لن کا آحاطہ کیے ھوے تھی‬
‫کچھ دیر میرے لن اور فرحت کے ہونٹوں کا کھیل جارھی رھا مجھ سے اب صبر نہ ھو رھا تھا‬
‫تو میں نے فرحت کی ٹانگوں کو کھینچ کر اپنے منہ کی طرف کیا اور ایک ہاتھ سے ھی اپنی انگلیاں اسکے السٹ والے‬
‫ٹراوز میں پھنسا کر انگلیوں کی مدد سے اس کے ٹراوزر کو نیچے کھینچنے لگا تو فرحت نے دوسری طرف سے خود ھی‬
‫ٹراوز کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور اسکی چٹی سفید گانڈ میرے سامنے تھی اور اسکی گانڈ کے دونوں پٹ میرے منہ کی‬
‫طرف تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کے ٹراوزر کو اسکے ٹانگوں سے بھی کھینچ کر اتار دیا اور اسکی ایک ٹانگ کو پکڑ کر اپنے اوپر سے‬
‫گزار کر فرحت گانڈ کو اپنے منہ کے اوپر لے آیا‬
‫اب فرحت کی پھدی میرے منہ کے اوپر تھی اور فرحت کے ممے میرے پیٹ کے ساتھ لگ رھے تھے اور فرحت میرے لن‬
‫کو منہ میں لیے میرے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی ۔‬
‫میں نے فرحت کی پھدی کو غور سے دیکھا تو پھدی پانی سے فل گیلی تھی اور پھدی کے سمیل میرے نتھنوں میں داخل‬
‫ھورھی تھی ۔‬
‫میں نے لمبی سانس اندر کھینچ کر پھدی کی سمیل کو اہنے دماغ میں اتار لیا ۔‬
‫اور فرحت کی دونوں رانوں کو پکڑ کر اپنی زبان باہر نکالی اور پھدی کے دانے کو زبان کی نوک سے چھیرڑنے لگ‪،‬‬
‫گیا ۔‬
‫جیسے ھی میری زبان نے فرحت کی پھدی کے دانے کو چھوا‬
‫فرحت نے مزے سے سسکاری بھرتے ھوے لن کو ہونٹوں میں ذور سے بھینچ لیا اور ذور ذور سے لن کو چوستے ھوے‬
‫میرے منہ کے اوپر ھی اپنی گانڈ کو ہالنے لگی ۔‬
‫ادھر جیسے ھی فرحت نے میرے لن کو ذور ذور سے چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے میں نے پھدی کے دانے کو‬
‫ھی منہ میں بھر لیا اور اسے چوسنے لگا گیا ۔‬
‫ادھر میری زبان سے پھدی کا مزہ اور سواد فرحت میرے لن پر نکالتی ۔‬
‫ادھر فرحت کے منہ میں اپنے لن کا مزہ اور سواد میں فرحت کی پھدی کے دانے اور اسکی پھدی کی ہڈی کے اوپر لٹکی‬
‫جھلی کو زبان سے چاٹ چاٹ ۔‬
‫کر نکالتا ۔‬
‫قسمت کب دھوکا دیتی ھے‬
‫انسان کو نہیں پتہ چلتا‬
‫ابھی میں پھدی چاٹنے میں مصروف ھی تھا کہ اچانک ۔۔۔‬
‫ابھی پھدی چاٹنے سے میرا دل بھی نہیں بھرا تھا ابھی میری پیاس بھی نہیں بھجی تھی ابھی میں پھدی کو مذید چاٹنا چاہتا تھا‬
‫مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا‬
‫میرے سارے ارادے پر پھدی سے نکلنے واال پانی پھر گیا اور پھدی سے پانی کا فواراہ چھوٹا جس نے میرا سارا منہ بھر دیا‬
‫اور فرحت نے دوسرا ظلم یہ کیا کہ اپنی گانڈ کا وزن میرے منہ پر ڈال دیا اور ظلم پر ظلم کہ ادھر میرے لن پر دانت گاڑ‬
‫ٰد یے ۔‬
‫اففففففف یارو سی دسو بھئ اینج دا وی کی مزہ کہ اگلے دی پین نوں لن وڑ جاوے تے جناب دا ُچھٹن دا سٹائل بن جاوے ۔‬ ‫ُت‬
‫دوستو‬
‫اوپر سے میرا سانس بند اور نیچے سے میرے لن میں درد ۔‬
‫مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے پھدی کے ہونٹوں کو ھی اپنے دانتوں میں بھینچ کر اپنے لن کی جان چھڑوائی‬
‫اور فرحت ہاےےےےےےےےے مرگئییییییی کرتی ہوئی میرے لن کو چھوڑ کر اپنی چوت کو چھڑوانے کے لیے گانڈ اوپر‬
‫کر کے جھٹکا مار کر میرے اوپر سے اٹھتی ہوئی میرے ساتھ گری اور ٹانگوں کو پھیال کر پھدی کو ھاتھ سے مسلتے ھوے‬
‫سیییییییییییی اور پھدی ہر پھونکیں مارتے ھوے پھووووو پھووووووو پھوووووو کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں بھی جلدی سے ایک ہاتھ سے اپنا منہ صاف کرتے ھوے اور ایک ھاتھ سے اپنے لن کو۔مسلتے ھوے‬
‫فرحت کے سٹائل میں ٹانگیں پھیال کر بیٹھ کر سیییییییی کرنے لگ گیا۔‬
‫ادھر پھدی زخمی تھی‬
‫ادھر لن زخمی تھا ۔‬
‫قصور سارا جنون کا تھا۔‬
‫نہ فرحت میری طرف دیکھ رھی تھی نہ میں فرحت کی طرف‬
‫اسے اپنی پھدی کی اور مجھے اپنے لن کی پڑی تھی ۔‬
‫مگر میں حیران تھا کہ‬
‫میرے لن پر فرحت کے دانت لگنے کی وجہ سے جلن اور درد کے باوجود بھی میرے لن کی آکڑ نھی ٹوٹی تھی‬
‫ساال ویسے کا ویسا ھی تن کر کھڑا تھا ۔‬
‫کچھ دیر ہم یوں ھی بیٹھے رھے ۔‬
‫فرحت کی جلن کچھ کم ھوئی تو میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسر کیا ھوگیا تھا تمہیں‪.‬‬
‫میں نے اہنے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا‬
‫جو تمہیں ھوا تھا ۔‬
‫فرحت گبھرا کر میرے لن کو اہنے سپنوں کے شہزادے کو کو دیکھنے لگ گئی‬
‫ٹوپے سے تھوڑا نیچے ایک جگہ سے لن سرخ ھوچکا تھا ۔‬
‫فرحت ایک ھاتھ اپنی پھدی ہر رکھے دوسرے ہاتھ سے میرا لن پکڑا کر انگلیوں سے سہالنے لگی‬
‫اور مجھ سے ایکسیوز کرنے لگی کہ مزے کی شدت سے مجھے پتہ نہیں چال۔‬
‫میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا۔‬
‫جناب تواڈا مزہ بن جانا سی‬
‫تے میرا نصیب وڈیا جانا سی۔‬
‫فرحت کھل کھال کر ہنس پڑی اور میرے ہونٹوں کو چومتے ھوے بولی ۔‬
‫تیرا ایویں نصیب اے‬
‫بلکہ‬
‫اے میرا نصیب اے ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد ھی ہم لن پھدی کی درد کو بھول کر پھر ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے میں مصروف‬
‫ھوگئے ۔‬
‫ایک دوسرے سے لپٹے ھوے ھی میں نے فرحت کو گھما کر اپنے نیچے کیا اور گھٹنوں کے بل ھوکر اسکی گوری گوری‬
‫ٹانگوں کے درمیاں بیٹھ گیا۔‬
‫میں نے فرحت کی پنڈلیوں کو ہکڑا اور اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر فرحت کی ایڑیوں کو اہنے کندھوں پر رکھ کر اپنے‬
‫کندھوں کو اسکے کندھوں کے پاس لے گیا فرحت کی پھدی میرے لن کے سامنے تھی اور اور اسکے پیر اسکے سر کے‬
‫پاس پہنچ کر فرحت کا جسم دھر ھوچکا تھا ۔‬
‫میں نے ہاتھ لمبا کر کے تکیہ پکڑا اور اسے اٹھا کر فرحت کی گانڈ کے شروع میں ریڑھ کی ہڈی کے نیچے رکھ دیا۔‬
‫فرحت حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫پکے پیٹھے ھو۔‬
‫میں نے مسکراتے ھوے اسکی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ لن کی طرف لیجا کر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں می‪ .‬سیٹ کیا‬
‫لن کو گیال کرنے کی ضرورت ھی نہیں تھی‬
‫کیونکہ پھدی سے ھی اتنی برسات ھوچکی تھی کہ جس کا کیچڑ ابھی تک سوکھا نہیں تھا ۔‬
‫مزید لن کو گیال کر کے‬
‫چپ چپ اور پچ پچ پچ ھی کرنی تھی‬
‫اس لیے سوکھا لن ھی پھدی کے گیلے ہونٹوں میں رکھا‬
‫تو فرحت نےمیعے ارادے کو جانچتے ہوے اپنے دونوں ہاتھ میری رانوں پر رکھ کر التجائی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫یاسررررر پلیزززز آرام سے کرنا اتنا بڑا مجھ سے ایکدم برداشششششششششششش ہاےےےےےےےےےے میں‬
‫مرگئییییییییی اوے ظالماں ھاےےےےےےےےے میں اندررررررررر پاٹ گیا۔‬
‫اور فرحت دائیں بائیں سر مارنے لگ گئی‬
‫فرحت کی آنکھیں ابھل کر باہر آنے کو تھیں چہرہ سرخ اور آنکھوں میں نمی تیر آئی تھی ۔‬
‫فرحت کی ادھوری بات میں میرے جاندار گھسے نے اسکی آنکھوں کے آگے تارے بچھا دئے تھے ۔‬
‫میرا پہال گھسا ھی اتنا جاندار تھا کا پورا لن فرحت کی پھدی کی گہرائی میں جاکر بچے دانی میں گھس گیا تھا اور ٹانگیں‬
‫زیادہ اونچی ہونے کی وجہ سے لن کی ضرب فرحت کی ریڑھ کی ہڈی پر لگی تھی‪.‬‬
‫ایک پھدی گیلی تھی دوسرا لن فل ٹائٹ تھا دھکا مارتے ھی‬
‫لن بنا کسی رکاوٹ کے پھدی کے نرم ریشوں کو رگڑتا ھوا جڑ تک اندر چال گیا تھا ۔‬
‫فرحت کے چہرے کے تاثرات اسکے قرب کی گواہی دے رھے تھے‬
‫مگر اس درد کی ذمہ دار وہ خود تھی‬
‫اونوں کنے کیا سی کہ گرم دودھ پال کہ بلدی تے تیل ُسٹے‬
‫فرحت نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجوں سے میری رانوں کے گوشت کو بھینچا ھوا تھا‬
‫اور مجھے پیچھے کرنے کو زوڑ لگاتے ھوے‬
‫اپنی ٹانگیں میرے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫مگر میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکے بازوں پر رکھ کر اسے قابو کیا ھوا تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں گھسا مار کر ادھر ھی رکا رھا‬
‫اور پھر میں نے لن کو آدھا باہر کھینچا اور پھر دھڑم سے اندر کردیا‬
‫فرحت پھر‬
‫بولی‬
‫ہاےےےےےےے وے یاسرررااااا ہولییییییی‬
‫میں نے کہا‬
‫چپ کر ہن جان دے ہولی ہولی‬
‫ہن نہ بولی۔‬
‫اور میں گھسے مارنا شروع ھوگیا‬
‫دے گھسے تے گھسا دے گھسے گھسا ۔‬
‫فرحت کا رنگ سرخ سے سرخ تر ھوتا جارھا تھا‬
‫آنکھوں سے پانی کی لکیریں‬
‫اسکے کانوں کی لو تک جارہیں تھی‬
‫ممے اسکے ہلتے ھوے اسکے منہ کے پاس جاکر اسے تسلیاں دے رھے تھے‬
‫فرحت میرے ہر گھسے پر‬
‫ھاےےےءء مرگئی‬
‫گھساااا‬
‫ھاےےےےے مرگئی۔۔‬
‫گھسا‬
‫ھاےےےےےے مرگئیییی۔‬
‫گھسا‬
‫ھاےےےےےےےے مرگئیءءءءء‬
‫اففففففف آہہہہہ آہہہہہہ آہہہہہہہ‬
‫فرحت کی آہوں اور مزے والی درد کی آوازوں سے میرا جوش میرے سر چڑھ رھا تھا‬
‫اور میں اسکے ہاےےےےے مرگئییییییی‬
‫پر اگال گھسا مذید ذور سے مارتا اور لن کو پھدی کی گہرائی میں لیجا کر اسکی ریڑھ کی ہڈی پر مارتا ۔‬

‫)‪Update no (88‬‬
‫مجھے مزہہہہ بہت آرھا تھا‬
‫منی لن کی ٹوپی میں اٹکی ہوئی تھی مگر باہر نکلنے کا نام نہیں لے رھی تھی‬
‫فرحت مجھ سے جان چھڑوانے کے سارے حربے استعمال کررھی تھی ۔‬
‫مگر‬
‫اسکے ہر حربے کا جواب میں ذور دار گھسے سے دیتا ۔‬
‫میں پانچ منٹ لگاتار فرحت کو ایک ھی سٹائل میں چودتا رھا‬
‫درد اور تکلیف کہ باوجود فرحت کی پھدی پھر پانی چھوڑ چکی تھی‬
‫۔‬
‫آخر کار‬
‫آخر کار فرحت کی پھدی نے میرے لن کے گرد گرفت سخت کی اور ساتھ ھی فرحت نے میرے کندھوں کو مظبوطی سے‬
‫پکڑ لیا اور آہہہہہہہہہ یاسسسسسر ممممم گئییییی کہتے ھی فرحت کے جسم نے جھٹکے لینے شروع کردئے‬
‫فرحت کی پھدی سے گرم منی میرے گھسوں سے باہر نکل رھی تھی‬
‫اور اس کی منی سے میرا لن لتھڑ گیا تھا‬
‫اب پھدی میں ُپچ ُپچ شروع ھوچکا تھا‬
‫فرحت کی پھدی اتنی گیلی ہوگئی تھی کہ میرا سارامزہ کرکرا ھوگیا۔‬
‫فرحت نے بھی جسم ڈھیال چھوڑ دیا اور میں نے بھی اسکی ٹانگوں کو کندھوں سے اتار دیا اور اپنا لن باہر نکال کر فرحت‬
‫کی ٹانگوں کے درمیان پھدی کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا۔‬
‫فرحت کی سانسیں بحال ہوئی تو فرحت نے مجھے یوں منہ اٹھا کر بیٹھے دیکھا تو سوالیا نظروں سے میری طرف دیکھا میں‬
‫نے لن کی طرف اشارہ کیا کہ میرا لن تمہاری پھدی کی برسات سے بھیگ چکا ھے‬
‫فرحت نے ھاتھ لمبا کر کے سائڈ ٹیبل کے دراز کو کھوال اور اس میں سے کپڑا نکال کر میری طرف بڑھایا ۔‬
‫میں نے کپڑے سے اچھی طرح لن صاف کیا اور پھر فرحت کی پھدی کو اچھی طرح کپڑے سے خشک کیا ۔‬
‫اور فرحت کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا کر بٹھایا ۔‬
‫فرحت کمر پر ہاتھ رکھ کر ھاےےےےے کرتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی اسکی حالت سے لگ رھا تھا کہ وہ کافی تھکی تھکی‬
‫لگ رھی ھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو چھیڑتے ھوے کہا‬
‫کہ اتنی جلدی تھک گئی ھو‬
‫فرحت میرے تنے ھوے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے بولی ۔‬
‫تمہارے اس سانڈ نے میری مت مار دی ھے میری کمر میں درد شروع ہوگیا ھے ۔‬
‫ایک تو تم اتنی ذور سے کرتے ھو دوسرا یہ اتنا بڑا میرے آگے جاکر لگتا ھے ۔‬
‫میں بیڈ کی ٹیک کی طرف لیٹتے ھوے بوال‬
‫چل آجا میرے اوپر‬
‫ابھی تو ساری رات پڑی ھے تم ابھی سے تھک گئی ۔‬
‫فرحت میری رانوں کے اوپر اپنی ٹانگوں کو دونوں اطراف کرتے ھوے لن سے تھوڑا پیچھے بیٹھ گئی میں نے فرحت کے‬
‫گول مٹول مموں کو ہاتھوں میں بھر کر مموں کو اپنی طرف کھینچا تو فرحت بھی ساتھ میرے اوپر جھکتی گئی اور اپنے‬
‫دونوں ہاتھ میرے کندھوں کے آگے لیجا کر میٹریس پر رکھ کر میرے اوپر جھک گئی فرحت کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر‬
‫آگیا اور فرحت کے لمبے بالوں نے دونوں اطراف سے ہم دونوں کے کے چہرون کو چھپا لیا فرحت کے ممے میرے سینے‬
‫کے اوپر تھے اور مموں کے نپل میرے سینے کو چھو رھے تھے‬
‫میں نے بازو لمبے کیے اور فرحت کے کولہوں کو پکڑ کر تھوڑا اوپر کیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا لن کو پھدی کے لبوں پر‬
‫سیٹ کیا اور ہاتھ واپس لیجا کر فرحت کے دونوں چوتڑوں کو پکڑ کر نیچے سے گانڈ اٹھا گھسا مارا تو لن بھی سوکھا پھدی‬
‫بھی خشک کچھ نہ کچھ تو ہونا ھی تھا۔‬
‫جیسے ھی میں نے گھسا مارا فرحت کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫ھاےےےےےے امییییییی مرگئی اور فرحت آدھے سے بھی کم لن کو پھدی سے باہر نکالتے ھوے آگے کو ہوئی اور فرحت‬
‫کے ممے میرے سینے سے ھوتے ھوے میرے منہ پر آگئے۔‬
‫فرحت غصے سے بولی یاسررررر کے بچے انسان بن جانور نہ بن ۔‬
‫پہلے گیال تو کرلے میری جان نکال دی ھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو پچکارتے ھوے پھر اسی پوزیشن پر لے آیا اور ہاتھ کو اپنے منہ کے پاس ال کر انگلیوں پر تھوک لگا کر‬
‫ہاتھ کو لن کی طرف لیجا کر تھوک کو ٹوپے پر مل دیا اور پھر گیلی انگلیوں کو پھدی کے لبوں کے درمیان پھیر کر پھدی کو‬
‫بھی تر کیا۔‬
‫اور لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی کے لبوں میں پھنسا کر آہستہ سے اوپر کو ہوکر لن کو اندر کیا‬
‫فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور آدھا لن اندر۔۔۔۔۔‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا‪ ،‬اور پھر آہستہ سے اندر کردیا اس دفعہ پہلے سے کچھ ذیادہ لن پھدی میں اتر گیا ۔‬
‫فرحت نے پھر سسکاری بھری ۔‬
‫تین چار دفعہ ایسے کرنے سے سارا لن پھدی کے اندر تک چال گیا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ پر رکھے ھوے تھے اور ہاتھوں سے فرحت کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو دبوچا ھوا تھا‬
‫اور نیچے سے گانڈ اٹھا اٹھا کر گھسے مار رھا تھا‬
‫لن اب فراوانی سے اندر باہر ھورھا تھا‬
‫فرحت کے بڑے بڑے ممے ذور ذور سے ہل رھے تھے فرحت کے بال لہرا رھے تھے‬
‫گھسوں کا ردھم جاری تھا کہ ۔‬
‫فرحت نے نے بھی آہ آہ آہ ذور نال ذور نال سارااااا اندر کر دے یاسر بڑا مزہ آریا اے ھاں ھاں اینج ای اینج ای آہ آہ آہ اففففف‬
‫بوتتتتت مزا آریا اے یاسر‬
‫یاسر آئی لو یو یاسر آئی لو یو‬
‫آہ آہ آہ آہ ہمممممم ممممممممم گگگگگگئی یاسررررررررر‬
‫کرتے ھوے پھدی کو لن پر دبا کر لن کو بچے دانی تک لے گئی اور پھدی کے اندر سے فرحت کی منی میرے ٹوپے سے‬
‫ٹکراتی ھوئی مجھے محسوس ھونے لگی اور فرحت نے میری گردن کے گرد بازو ڈال کر اپنے ممے میرے سینے سے‬
‫چپکا کر مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور فرحت کا جسم کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد ڈھیال ھوگیا فرحت بےجان ھوکر میرے‬
‫اوپر ھی ڈھیر ھوگئی ۔‬
‫فرحت کا سینہ ذور ذور سے دھڑک رھا تھا اسکی دل کی دھڑکن مجھے اپنے سینے پر محسوس ھورھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر فرحت میرے اوپر ھی لیٹی رھی۔‬
‫میں نے فرحت کی کمر کے گرد بازو ڈالے ھوے تھے تو اور میں اسکی کمر کو سہال رھا تھا۔‬
‫جب فرحت نارمل ھوئی تو میں نے فرحت کی کمر کو تھپتھپاتے ہوے اسے اوپر ھونے کو کہا تو فرحت تھکی تھکی سی‬
‫ھاےےےےےے کرتی ھوئی اوپر ھوئی ۔‬
‫تو میں نے اسے پھر اسی پوزیشن پر کر کے‬
‫گیلی پھدی میں ھی گھسے مارنے شروع کردئے کچھ دیر ایسے ھی گھسے مارتا رھا‬
‫فرحت کا اور میرا جسم پسینے سے شرابور ھوچکا تھا‬
‫مگر میرا لن چھوٹنے کا نام نھی لے رھا تھا ۔‬
‫فرحت نڈھال ھوچکی تھی اور مجھے‬
‫بس کرنے کا کہی جارہی تھی‬
‫مگر میرا جوش ویسے کا ویسا تھا ۔۔‬
‫مجھے آدھا گھنٹہ ہوچال تھا مسلسل گھسے مارتے ھوے‬
‫فرحت بےجان ھوکر میرے اوپر گری ھوئی تھی فرح نے اپنا چہرہ میرے کندھے پر رکھا ھوا تھا‪ ،‬اور اس کے خاموش آنسو‬
‫میرے کندھے کو گیال کررھے تھےاور وہ بڑے صبر سے میرے گھسوں کی شدت برداشت کررھی تھی ۔‬
‫مجھے ایک دم جوش چڑھا اور میں نے فرحت کی کمر کو دبوچ کر پوری جان سے گھسے مارنے شروع کردیے میرے ان‬
‫گھسوں سے‬
‫فرحت کا صبر دم توڑ گیا اور فرحت ھاےےےےے جھٹکے سے اوپر ہوئی اور مجھے سے علیحدہ ھوتے ھوے میرے اوپر‬
‫سے مجھ سے علیحدہ ہوکر میرے ساتھ گر گئی اور ایک ہاتھ اپنی ناف کے نیچے رکھ کر دبانے لگ گئی اور دوسرے ھاتھ‬
‫سے اپنی پھدی کو دباتے ھوے رونے لگ گئی ۔‬
‫میں نے کروٹ بدلی اور فرحت کے بہتے آنسو صاف کرتے ھوے اسے چپ کروانے لگ گیا۔‬
‫فرحت بس ھاےےےے مرگئی کرتے ھوے اپنی ناف کو اور پھدی کو دباے جارھی تھی ۔‬
‫میں کافی دیر فرحت کو چپ کرواتا رھا ۔‬
‫میری نظر اچانک کالک پر پڑی تو ٹائم دیکھ کر پریشان ھوگیا‬
‫دو بج چکے تھے مجھے حیرانگی ھورھی تھی کے تین گھنٹوں سے فرحت کو چود رھا ہوں اور ابھی تک فارغ کیوں نھی‬
‫ھورھا۔‬
‫فرحت اب کافی حد تک نارمل ھوچکی تھی ۔‬
‫میں لن کو پکڑ کر سیدھی لیٹی فرحت کے اوپر آیا اور گھٹنوں کہ بل فرحت کی ٹانگوں میں بیٹھ گیا۔‬
‫فرحت بولی نہی یاسر مجھ میں ہمت نہیں ھے اب میرے نیچے بہت جلن اور درد ھورھی ھے ۔‬
‫میں نے اب نھی کروانا۔‬
‫میں نے بہت کوشش کی مگر فرحت نے پھدی سے ہاتھ نہیں ہٹایا۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ اب فرحت پھدی میں لن لینے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تو میں نے فرحت کی ٹانگ کو پکڑ کر‬
‫دوسری طرف لیجا کر دونوں ٹانگوں کو مال دیا اور فرحت کو ٹیڑھا کر دیا اب فرحت سائڈ کے بل دوسری طرف منہ کر کے‬
‫پھدی پر ھاتھ رکھے لیٹی تھی اور میں اسکی موٹی گول مٹول گانڈ کے پاس لن ھاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔‬
‫میں نے فرحت کی گانڈ پر ھاتھ پھیرنا شروع کردیا‬
‫اور فرحت کی کمر کے ساتھ لگ کر سائڈ کے بل لیٹ گیا میرا لن فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں لگ رہا تھا‬
‫میں نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا اور اسکو لن پر مسل دیا اور پھر ھاتھ پر تھوک لگا کر فرحت کی گانڈ کے دراڑ میں‬
‫انگلیاں گھسا کر بنڈ کی موری پر تھوک مل دیا‬
‫جیسے ھی میری انگلیاں فرحت کی موری پر لگیں تو‬
‫فرحت کو کرنٹ لگ اور وہ جلدی سے گانڈ کو اگے کھسکا کر گردن میری طرف گھما کر بولی‬
‫ذیادہ شوخا نہ بن آرام نال رے ۔‬
‫پیلے ای میری درد نال جان نکلن دئی اے‬
‫تے توں نویں جگہ لب لئی اے ۔‬
‫مینوں مارنا ای ۔‬
‫میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا‬
‫بس آرام آرام سے کروں گا ۔‬
‫فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی۔‬
‫توں پاویں آرام نال کر یا تیز کر جدوں میں کروانا ای نئی تے فیرررررر۔‬
‫مجھے اس پر غصہ چڑھی جارھا تھا‬
‫کہ سالی خود تین چار دفعہ فارغ ھوچکی ھے اور مجھے ایک دفعہ بھی فارغ نہیں ھونے دے تھی ۔‬
‫میں نے تین چار دفعہ فرحت کی مذید منت ترال کیا مگر وہ نہ آگے سے کرنے دے رھی تھی نہ پیچھے سے ۔‬
‫میں نے غصے سے اسکی گانڈ پر ہاتھ رکھتے ھوے اسے آگے کو دھکا دیا اور کہا۔‬
‫لن تے چڑ نئی تے نہ سئی‬
‫آپ مزے لے لو کہ ہن رون لگ پئی ایں‬
‫ایویں ڈرامے کرن لگی ہوئیں این ۔‬
‫میں یہ کہہ کر اٹھا اور بیڈ سے نیچے اتر کر شلوار پہننے کے لیے بیڈ پر پڑی شلوار پکڑنے لگا تو فرحت نے میری شلوار‬
‫کو پکڑ کر کھینچا تو میں بھی شلوار کے ساتھ کھینچا ھوا بیڈ پر جاگرا ۔‬
‫کچھ زور فرحت نے لگایا تھا اور کچھ گرنے کا ڈرامہ میرا تھا‬
‫کیونکہ جانے کا ارادہ تو میرا بھی اندر سے نہیں تھا بس اوپر اوپر سے ڈرامہ کررھا تھا۔‬
‫فرحت شلوار کھینچتے ھوے بولی‬
‫جان دینی آں تینوں ۔آرام نال بے جا ۔‬
‫میں بیڈ پر اوندھا گرا اسکی طرف دیکھتے ھوے اجازت نامہ ملنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔‬
‫فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی کیڑی ماں کول چالں ایں ۔‬
‫میں نے منہ بناتے ھوے کہا جب تم نے کرنے ھی نہیں دینا تو میرا ادھر رکنے کا کیا فائدہ ۔‬
‫فرحت دوسرا ھاتھ میرے بالوں میں پھیرتے ھوے بولی میری کاکا ناج ھوگیا اے ۔‬
‫میں نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ھوے کہا‬
‫چھوڑو یار مجھے جانے دو دیر ھورھی ھے ۔‬
‫فرحت میرا ھاتھ کھینچتے ھوے سیدھی ھوکر بولی آرام سے ادھر آو میرے اوپر ۔‬
‫میں بھی شریف بچا بن کر فرحت کے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگیں کھول کر لن پر تھوک لگا کر پھدی کے اوپر سیٹ کیا اور‬
‫گھسا مار کر لن سارے کا سارا اندر کر دیا فرحت نے ھاےےےےےےےے ہولی وےےےےےےے منڈیاااا۔۔۔۔‬
‫کیا اور میری رانوں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔‬
‫میں نے بھی سارا غصہ دوسرے گھسے پر نکال دیا فرحت میرے دوسرے جاندار گھسے سے تڑپ اٹھی اور مجھے پیچھے‬
‫دھیکلنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر میں نے اب فرحت کو کندھوں سے پکڑ کر قابو کیا ھوا تھا اور اس کے رونے اور‬
‫واویال مچانے کی پرواہ کیے بغیر‬
‫ذور ذور سے گھسے مارتا جارھا تھا‬
‫دس پندرہ منٹ فرحت کو میں چودتا رھا فرحت روتی رھی مجھے بس کرنے کا کہتی رھی‬
‫ھاےےے مرگئیییی‬
‫کہتی رھی مگر میں مسلسل گھسے مارتا رھا‬
‫بالخره فرحت کی سنی گئی اور میری ٹانگوں سے سارا خون لن کی طرف جمع ہونا شروع ھوگیا‬
‫اور میرے آخری گھسے مذید شدت اختیا کر گئے فرحت کی بھیگی آنکھیں مجھ سے رحم کی اپیل کررھیں تھی فرحت کے‬
‫ممے چھلک رھے تھے کمرہ تھپ تھپ تھپ اور فرحت کی آہوں سے گونج رھا تھا‬
‫کہ فرحت کی آنکھوں کی اپیل منظور کرتے ھوے میرے لن نے فرحت کی پھدی میں پچکاریاں مارنی شروع کردیں۔‬
‫اور میرے جسم نے جھٹکے کھاے اور فرحت کی پھدی کو منی سے بھر دیا فرحت نے بھی سکھ کا سانس لیا‬
‫میں بھی نڈھال ہوکر فرحت کے اوپر گر گیا۔‬
‫۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی لیٹے رہنے کے بعد میں نے پھدی سے لن نکاال تو یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ لن ابھی تک ویسے کا‬
‫ویسا ھی اکڑا ھوا تھا ۔‬
‫میں اس تبدیلی پر حیران رھ گیا کہ‬
‫میرے اندر ایسی تبدیلی کیسے آگئی‬
‫ورنہ تو لن فارغ ھوتے ھی چھوارہ بن جاتا ھے مگر لن صاب تو ابھی ویسے کہ ویسے ھی کھڑے تھے جیسے جناب نے‬
‫کچھ کیا ھی نہ ھو۔‬
‫میں نے کالک کی طرف دیکھا تو ساڑھے تین بج چکے تھے میں جلدی سے اٹھا تو میرا لن فرحت کی آنکھوں کے سامنے‬
‫لہرانے لگ گیا فرحت آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھتے ھوے اپنے ایک ھاتھ سے اپنے دونوں کانوں کو باری باری چھو‬
‫کر توبہ توبہ کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے فرحت کو یوں لن کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫کیا پروگرام گے ایک بازی اور ھوجاے۔‬
‫فرحت آنکھیں باہر نکالتے ھوے میرے سامنے دونوں ھاتھ جوڑتے ھوے بولی ۔‬
‫میں نے کل کا سورج دیکھنا ھے ابھی ۔‬
‫میں ہنستا ھوا بیڈ سے نیچے اترا اور‬
‫اپنے کپڑے پہننے لگ گیا کپڑے پہن کر میں نے فرحت کو آواز دی کی میں نے جانا ھے تم بھی جلدی سی کپڑے پہن لو ۔‬
‫فرحت جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی ہوئی تھی‬
‫ھاےےےےےےکرتی ہوئی اٹھی اور کپڑے سے اپنی پھدی کو صاف کرنے لگ گئی اور پھر کپڑے پہن کر بیڈ سے اتری تو‬
‫لڑکھڑا کر گرنے لگی میں نے فرحت کو کندھوں سے پکڑ کر سہارا دے کر گرنے سے بچا لیا‬
‫فرحت بولی یاسر تم نے آج ساری اگلی پچھلی کسریں نکال دیں ہیں مجھ سے تو کھڑا بھی ہونا دشوار ھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت کچھ نارمل ھوئی تو پاوں گھسیٹتی ھوئی دروازے کی طرف بڑھی میں نے آگے بڑھ کر خود دروازہ‬
‫کھول دیا اور جلدی سی باہر نکال اور بیرونی دروازے کے پاس پہنچ کر دروازہ کھول کر باہر گلی میں دیکھنے لگ گیا‬
‫گلی بلکل سنسان تھی‬
‫اتنی دیر میں فرحت بھی میرے پاس پہنچ گئی میں نے فرحت کی گالوں کو دونوں ھاتھوں میں تھاما اور اسکے ہونٹوں پر‬
‫لمبی سی کس کی اور پھر باہر جھانک کر گلی میں نکل گیا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا گھر کے‬
‫دروازے پر پہنچا اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر اندر داخل ھوا تو مجھے دوسرے کمرے سے کسی کے چلنے کی آواز آئی‬
‫۔‬
‫میں ایکدم ڈر گیا کہ لگتا ھے کہ بھائی اٹھ گیا ھے ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں بستر پر لیٹتا بیٹھک کا اندرونی دروازہ ذور ذورے بجا ۔‬
‫میرا تو رنگ اڑ گیا ۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں کیا کروں‬
‫ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا کہ۔۔‬
‫دوبارا دروازہ ذور سے کھڑکا اور بھا قیصر کی آواز آئی‬
‫اوے یاسر دروازہ کھول جلدی کر۔‬
‫میں نے نیند کی کیفیت میں ایکٹنگ کرتے ھوے کہا‬
‫کیا ھے بھا اتنی بھی کیا مصیبت آن پڑی ھے ۔‬
‫بھا قیصر کی پھر آواز آئی دروازہ تو کھول دسنا اے۔‬
‫میں نے دروازہ کھوال‬
‫اورآنکھیں ملتا ھوا‬
‫بھا قیصر کی طرف دیکھتےھوے بوال کیا ھے۔‬
‫بھا قیصر نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا‬
‫اور بوال‬
‫کہ یار کب سے دروازہ کھڑکا رھا ہوں تو گھوڑے بیچ کر سویا ھوا ھے ۔‬
‫اوپر سے اندر سے کنڈی لگائی ہوئی ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫بھا میں تھکا ھوا تھا اس لیے گہری نیند سویا ھوا تھا۔‬
‫بھا قیصر بوال ۔‬
‫میں دکان کے لیے دودھ لینے جارھا ہوں‬
‫کل کی مویشی منڈی لگی ھوئی ھے‬
‫میں نے حیران ھوکر پوچھا کہ‬
‫بھا اتنی صبح صبح ابھی تو اذانیں بھی نہیں ھوئیں‬
‫تو بھا بوال‬
‫پہلے پہنچوں گا تو ٹائم سے دودھ لے کر دکان پر آجاوں گا ۔‬
‫میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی اور سر ہالتا ھوا اسکے پیچھے چل پڑا۔‬
‫بھا نے اپنا سائکل نکاال اور پیچھے دودھ کی ڈرمیاں رکھیں اور‬
‫سائکل باہر نکال کر مجھے کہا کہ چل دروازہ بند کرلے میں نے بھی بھا کو کہا کہ دھیان سے جانا‬
‫اور وہ مجھے جواب دئیے بغیر سائکلپر چڑھ کر نکل گیا ۔‬
‫میں نے بھی دروازہ بند کیا اور آکر‬
‫بیٹھک کی بجاے بھا قیصر کے بستر پر ھی ڈھیرھوگیا اورکچھ ھی دیربعد نیند کی وادیوں میں چال گیا۔‬
‫صبح امی نے مجھے اٹھایا کہ پتر اٹھ جا ٹیم دیکھ کی ہوگیا اے دکان تےنئی جاناں ۔‬
‫میں نے آنکھیں ملتے ھوے کالک کیطرف دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے ۔‬
‫میں جلدی جلدی تیار ھوکر ناشتہ کرکے دکان کی طرف چل دیا۔‬
‫میں نے گلی کراس کی اور جیسے ھی سڑک سے کھیتوں کی طرف بڑھا مجھے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی‬
‫یاسررررر رکو۔۔۔۔۔‬
‫میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو صدف تیز تیز قدم اٹھاتی میری طرف چلی آرھی تھی ۔‬
‫میں نے جب اسےدیکھا تو ۔‬
‫مجھے اسکا تھپڑ اور اپنی بےعزتی یاد آگئی ۔‬
‫میں نے بس ایک جھلک اسے دیکھا اور منہ سیدھا کر کے تیز تیز قدم اٹھاتے نہرکی طرف چل دیا۔‬
‫مجھے دو تین دفعہ صدفنے آوازیں دیں مگر میں اسکی باتوں کو سنی ان سنی کر کے چلتا رھا ۔‬
‫جب میں مکئی کی پگڈنڈی پر گیا تو مجھے پیچھے سے دوڑتے قدموں کی آوازسنائی دی ۔‬
‫اور پھر میرے دونوں کندھوں کو نرم ھاتھوں نے دبوچ لیا اور صدف کی روہانسی آواز آئی ۔‬
‫یاسرررر میری بات تو سن لو‬
‫کیامیں اتنی ھی بری ھوگئی ھوں کہ مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کررھے۔‬
‫میں نے نفرت سے اسکی طرف دیکھا‬
‫صدف نے نقاب کیا ھوا تھامگر اسکی آنکھیں آنسووں سے نم تھی ۔‬
‫میں نے اسکے آنسوؤں کو بھی نظر انداز کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کندھوں پر رکھے صدف کے ہاتھوں کوپکڑ‬
‫کر جھٹک دیا اورپھر چلنے لگ گیا ۔‬
‫صدف نے دوڑ کر پھر میرے کندھے کو پکڑنا چاھا مگر میں نے ہوا میں ھی اسکے ہاتھ کو جھٹک دیا اور بنا کچھ بولے‬
‫تیز تیز قدموں سے صدف کے آگے چلنے لگا صدف نے دوڑ لگائی اور میری سائڈ سے آگے نکل کر میرے سامنے آکر‬
‫کھڑی ھوگئی ۔‬
‫اور میرا راستہ روک کر بولی‬
‫یاسر *****کا واسطہ ھے میری ایک دفعہ بات تو سن لو‬
‫پھر چاھے تو میری شکل بھی نہ دیکھنا۔‬
‫میں نے صدف کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا اور اسکو بازو سے پکڑ کر ایک طرف کرتے ھوے بوال ۔‬
‫مجھے دکان پر جانے دو میرے پاس فضول وقت نھی ھے کہ تمہاری فضول باتیں سنوں‬
‫اور یہ مکر کسی اور کو دیکھانا ۔‬
‫یہ کہتےھوے میں نے اسکو ایک طرف کیا اور پھر آگے چلنے‬
‫لگ گیا‬
‫صدف اونچی آواز میں روتے ھوے بولی یاسر مجھ سے کون سی غلطی ھوگئی ھے جو تم مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگ‬
‫گئے ھو اور صدف پھر بھاگتی ھوئی میرے سامنے آگئی ۔اور ہاتھ جوڑ کر میرے آگے کھڑی ھوگئی بولی یاسر مجھے معاف‬
‫کردو مجھے مار لو مجھے گالیاں دے لو جو تمہارا دل کرتا ھے وہ میرے ساتھ کرلو مگر میری بات تو سن لو ۔‬
‫میں نے صدف کو دونوں کندھون سے پکڑا اور اونچی آواز میں چیختے ھوے کہا‬
‫میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں مین تم سے نفرت کرتا ھوں نفرت کرتا ھوں نفرت کرتا ھوں سمجھ آئی میری بات مجھے‬
‫تمہاری کوئی فضول بات نہیں سننی خبردار اب تم نے میرا راستہ روکا یا مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے‬
‫برا کوئی نہیں ھوگا ۔‬
‫میں ایک ھی سانس میں سب کچھ بول کر صدف کو ایک طرف جھٹک کر آگے نکل گیا کہ‬
‫اچانک پیچھے سے صدف کی ہچکیوں میں آواز آئی ۔۔‬
‫یاسر میری بات فضول نہیں ھے‬
‫میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ھوں اگر تم نے مجھ سے اتنی ھی نفرت کرتےھو تو میں تمہارے سامنے نہر میں‬
‫چھالنگ لگا کر خودکشی کرلینی ھے ۔‬
‫صدف کے منہ سے ماں بننے کے الفاظ سنتے ھی میرے قدم ایسے رک گئے جیسے زمین نے میرے قدم پکڑ لیے ھوں ۔‬
‫میں نے گھوم کر صدف کی طرف دیکھا تو صدف پگڈنڈی پر پیروں کے بل بیٹھی میری طرف دیکھ کر رہے جارھی تھی ۔‬
‫میں بھاری قدموں سے چلتا ھوا اسکی طرف بڑھنے لگ گیا ۔‬
‫صدف کے پاس پہنچ کر میں نیچے جھکا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا تو صدف سر جھکائے میرے سامنے کھڑی‬
‫زاروقطار روئی جارھی تھی ۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں اس سے کیا بات کروں ۔‬
‫میرے کانوں میں بس ایک ھی آواز گونجے جارھی تھی کہ‬
‫یاسر میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ھوں ماں بننے والی ھوں ماں بننے والی ہوں ۔‬
‫میرے دماغ میں ہتھوڑے برس رھے تھے ۔‬
‫میں صدف کے کندھوں کو پکڑے ہکالتے ھوے بوال ۔‬
‫کککیا کہا تتتم نے ۔۔‬
‫صدف نظریں اور سرجھکاے بس روئی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے دو تین دفعہ اپنی بات دھرائی‬
‫مگر صدف سواے رونے کہ کچھ نہیں بولی ۔‬
‫میں نے صدف کے کندھوں کو ہالکر چیخ کر کہا۔‬
‫بولوووووو کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔‬
‫صدف نے سر اوپر کیا اور نظریں اٹھائیں اور میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫ییییاسر میں پریگنٹ ہوں ۔‬
‫اور تم میرے ہونے والے بچے کے باپ ھو ۔‬
‫اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو میرے ابو یہ کہ کر صدف پھر رونے لگ گئی ۔‬
‫صدف کی بات سنتےھی‬
‫میں نے صدف کے دونوں کندھے یکلخت چھوڑے اور اس سے دوقدم پیچھے ہٹ کرکھڑا ھوگیا اور دونوں ہاتھ اپنے منہ پر‬
‫رکھ کرنفی میں سر ہالتا ہوا نہر کی طرف بھاگ کھڑا ھوا ۔‬
‫مجھے کچھ نہیں سمجھ آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں کدھر جارھا ھوں مجھے صدف کےپاس ٹھہرکر اس سے بات کرنی‬
‫چاھیے تھی اسے حوصلہ دینا چاھیے تھا ۔‬
‫مگر مجھے تو ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے ابھی صدف کا باپ کلہاڑی لے کر میرے ٹوٹے ٹوٹے کردے گا ۔‬
‫میرے اندر کا خوف مجھے بزدل بنا کر میری دوڑ لگوا رھا تھا‬
‫اور میں کسی کمزور اور ڈرپوک انسان کیطرح بس دوڑی جارھا تھا۔‬
‫مجھے نہیں پتہ چال کہ میں نے کب نہر کراس کی کب میں شہر پہنچا اور کب میں دکان کے آگے جاکر دکان کے تھڑے پر‬
‫بیٹھا‬
‫لمبے لمبے سانس لے رھا تھا ۔‬
‫مجھ پر عجب سا خوف طاری تھا ۔‬
‫مجھے ہر آتا جاتا شخص صدف کا باپ یا بھائی لگ رھا تھا ۔‬
‫ابھی تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ انکل کی موٹر سائیکل دکان پر آکر رکی‬
‫میری یہ کیفیت تھی کہ میں انکل کو دیکھ بھی رھا تھا مگر اپنی جگہ پر بت بنا بیٹھا ھوا تھا ۔‬

‫انکل مجھے یوں بت بنے بیٹھے دیکھ کر حیران ھوتے ھوے موٹر سائیکل سے اترے اور چلتے ھوے میرے قریب آکر‬
‫میرے سر پر ہاتھ رکھ کر سر ھو ہالتے ھوے بولے یاسر پتر کتھے پہنچیا ھویاں ایں‬
‫سب خیر تے ہے ناں ۔۔۔۔‬
‫میں ایکدم چونکا اور ایسے کھڑا ھوا جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ھوں ۔‬
‫انکل نے پھر میرے کندھے کو ہالتے ھوے کہا‬
‫یاسررررر پتر کی گل اے ۔‬
‫میں ایکدم ھوش میں آتے ھوے ہکالتے ھوے بوال کککچھ نہیں انکل جی اور انکل سے چابیاں لے کر میں دکان کھولنے لگ‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔‬
‫دوستو میں نہ تو کمزور تھا اور نہ ھی ڈرپوک‬
‫اصل میں اس وقت میرا بچپنا ھی تھا اورمیں ابھی میچور تو نہ تھا کہ موقع کی مناسبت سے حالت کو سمجھ کر اسے دماغ‬
‫سے ہینڈل کرتا‬
‫جبکہ یہ بات بھی واضع تھی کہ صدف کے عالوہ یہ بات کسی اورابھی تک معلوم نہیں تھی‬
‫اور صدف تو میری منتیں کررھی تھی کہ اسکا کوحل نکالیں‬
‫مگر میرا بچپنا تھا کہ اس کے انجام تک فٹا فٹ پہنچ کر وھان سے دوڑ لگا دی ۔۔۔۔۔۔‬
‫خیر۔‬
‫میں نے صفائی وغیرہ کی مگر میں بار بار باہر کی طرف ھی دیکھتا رھا کہ اب صدف کا باپ کلہاڑی یا بندوق پکڑے نمودار‬
‫ھوگا اور‬
‫مجھے قتل کردے گا ۔‬
‫میں نے جیسے تیسے صفائی کی اور پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھنے کی بجاے بلکل اینڈ پر ٹرائی روم کے پاس بیٹھ کر ایسے‬
‫ھی لہنگوں کو نکال کر سیٹ کرنے لگ گیا اور چور اکھیوں سے باہر کی جانب بھی دیکھتا رھتا۔‬
‫کچھ دیر میں بیٹھا لہنگے بار بار سیٹ کرتا رھا ۔‬
‫کہ میری نظر باہر کی طرف گئی تو میری گانڈ پھٹنے والی ہوگئی میری سانسیں رکنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ صدف چلتی ھوئی انکل کے پاس آئی اور انکل کو سالم کر کے ان سے سر پر پیار لینے کے بعد انکے پاس‬
‫ھی کاونٹر پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ ان سے باتیں کرنے لگ گئی میں پہلے الماری کی طرف منہ کر بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫اور صدف کو انکل کے پاس بیٹھے دیکھ کر میں اپنی پشت بازار کی طرف کر کے بیٹھ گیا کہ جیسے صدف سمیت مجھے‬
‫کوئی دیکھ نہ سکے ۔‬
‫دل مضطرب تھا حلق خشک تھا بیٹھے کی میری ٹانگیں کانپ رھیں تھی اس وقت کے نزا کو پچھتا رھا تھا اور اندر ھی اندر‬
‫خود کو کوس رھا تھا اپنے آپ کو لعن طعن کئے جارھا تھا کہ چند سیکنڈ کے مزے نے مجھے زندگی اور موت کے بیچ ال‬
‫کھڑا کردیا ھے‬
‫پتہ نہیں اب کیا ہوگا‬
‫صدف کے گھر والوں کو پتہ چال تو بھی موت پکی‬
‫میرے گھر والوں کو پتہ چال تو میرے ساتھ ساتھ میری امی اور بہن کا پتہ نھی کیا بننا تھا‬
‫اگر گاوں میں یہ بات نکلتی تو پنڈ کی پنچائت نے ھی مجھے چوک کے چوراھے پر الٹا لٹکا کر میرے ٹکڑے ٹکڑے کردینے‬
‫تھے ۔‬
‫وسوسوں نے مجھے کچھ ھی دیر میں نفسیاتی مریض بنا دینا تھا‬
‫میرے کان انکل اور صدف کی دھیمی گفتگو کی طرف ھی تھے مگر مجھے سنائی کچھ نہیں دے رھا تھا‬
‫بس میرے دماغ میں قیاس آرائیاں چل رہی تھی‬
‫کہ صدف انکل کو اب کچھ بتا رھی ھو گی ۔‬
‫اب انکل میرے ابو کو بالئیں گے اور ان سے بات کریں گے ۔‬
‫میرے ابو کا یہ سن کر تو ویسے ھی ہارٹ فیل ھوجانا تھا ۔‬
‫ابھی میری قیاس آرائیاں جاری ھی تھیں کہ‬
‫انکل کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔‬
‫یاسررررر۔‬
‫میں نے انکل کی آواز کو وہم سمجھ کر مذید سوٹوں کی الماری میں سر دے کر ایسے ھی سوٹوں کو الٹ پلٹ کرنے لگ گیا‬
‫کہ‬
‫پھر انکل کی پہلے سے اونچی آواز آئی‬
‫اوے یاسررررررررر بوالں ایں ۔‬
‫میں نے چونک کر وہاں چوکڑی مارے بیٹھے بیٹھے ھی اپنے آپ کو پورا گھمایا اور انکل کی طرف دیکھا تو انکل کچھ‬
‫غصے میں لگ رھے تھے جب کے صدف کی پشت میری طرف تھی اور منہ دوسری طرف تھا ۔‬
‫میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے‬
‫ہکالتے ھوے کہا‬
‫ججججی انکککل ججی۔‬
‫انکل حیرانگی اور تلخی سے بولے‬
‫انکل کے بچے ادھر آیا وہاں کیا آنڈے دئے ہیں جن کہ اوپر بیٹھا ھے ۔‬
‫میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ھوگیا‬
‫میری ٹانگیں کانپی جارہیں تھی ۔‬
‫میں منوں وزن اٹھاے قدموں کو گھسیڑتا ھوا انکل کی طرف چال جارھا تھا ۔‬
‫مشکل سے انکل کے پاس پہنچا تو انکل بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھتے ھوے غصے سے بولے ۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬تینوں خیر تے ہے کیویں سویر دا بوندلیاں پھرداں ایں۔‬
‫کم کتے کرداں ایں تے تیان تیرا کسے ہور پاسے اے۔‬
‫میں نے ہکالتے ھوے کہا۔‬
‫کککچھ نہی انکل جی میری طبعیت نئی سئی ھے ۔‬
‫انکل نے پھر مجھے غور سے دیکھا اور کہا‬
‫طبعیت تو سہی ھے مگر نیت سہی نہیں لگ رھی کوئی پریشانی ھے تو مجھے بتا دے ۔‬
‫شاید میں تیری پریشانی کا کوئی حل نکال سکوں۔‬
‫میں نے پھر اسی انداز میں گبھراے ھوے کہا کہ انکل کچھ نھی ھے بس ایسے ھی سر میں درد ھے ۔‬
‫انکل نے کندھے اچکاتے ھوے کہا کہ مرضی تیری پتر نہ دس ۔‬
‫میں سر جھکائے ناف ہر ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا ۔‬
‫تو انکل پھر بولے چل اینج کر اے کڑی نوں جاننا ایں اے کون اے ۔‬
‫میری تو ایکدم ہوا نکل گئی ۔میں نے پہلے نفی میں سر ہالیا اور پھر اسی وقت اثبات میں سر ہالتے ھوے بوال‬
‫جججججج جی انکل جی ۔‬
‫انکل میری کیفیت دیکھ کر کافی پریشان سے ہورھے تھے ۔‬
‫انکل بولے جا پیلے ٹھنڈے پانی دے منہ تے چھٹے مار کے آ تینوں کج ہوش آوے‬
‫کسی ناں وچ ُمنڈی ہالنا ایں تے کدی ہاں وچ ۔‬
‫میں بونگا بن کر سچ میں کولر کی طرف چل دیا‬
‫تو انکل نے پیچھے سے آواز دی کہ ہن کتھے چلیاں ایں‬
‫میرے چلتے کدم وہیں رک گئے اور روبورٹ کی طرح گھوم کر انکل کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫وووہ جی انکل جی منہ دھونے چال تھا ۔‬
‫انکل اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولے کوئی حال نئی تیرا کاکا ۔‬
‫سویرے کروں نہا کے نئی آیا‬
‫میں نے پھر پہلے نفی میں اور پھر اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا جججی نہا کر آیا تھا ۔‬
‫تو انکل بولے تے نہا کہ ہوش نئی آئی سی جیڑا ھن فیر منہ تون چالں ایں‬
‫میں نے جنید کی طرف دیکھا جو منہ پر ہاتھ رکھ کر میری طرف دیکھ کر ہنسی جارھا تھا‬
‫جبکہ صدف کی پیٹھ میری طرف تھی اس لیے اسکا مجھے نہیں پتہ کہ وہ ہنس رھی تھی یا رو رھی تھی ۔‬
‫میں انکل کی بات سن کر جھینپ گیا اور‬
‫سر جھکائے پھر انکل کے پاس ناف پر ھاتھ باندھے کھڑا ھوگیا۔‬
‫انکل بولے‬
‫گل سن میری کن کھول کے‬
‫میری پھر ہوا نکل گئی ۔‬
‫کہ پتہ نھی‪ .‬اب انکل کیا کہیں گے ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫تو انکل بولے‬
‫اوکاکا‬
‫تینوں منڈے والے ویکھن آے نے جیڑاں شرما کہ سر َت ھلے ُسٹیا ہویا اے ۔‬
‫جنید کھلکھال کر ہنس پڑا انکل نے گھور کر اسکی طرف دیکھا تو اسکی ہنسی وہیں رک گئی جبکہ مجھے محسوس ھورھا‬
‫تھا کہ صدف بھی ہنس رھی ھے ۔‬
‫مجھے جنید پر تو نھی صدف پر غصہ آنے لگ گیا کہ میری یہاں جان پر بنی ھوئی ھے اور اس سالی کی دندیاں نکل رھیں‬
‫ہیں۔‬
‫انکل بولے ادھر میری طرف دیکھ ۔‬
‫میں نے سر اٹھا کر انکل کی طرف دیکھا تو انکل بولے‬
‫اینج کر پنڈ جا تے نالے ایس ُک ڑی نوں ایسے کار چھڈ آویں تے نالے کار جاکہ اج دن چنگی طراں سو کے گزاریں تے کل ای‬
‫نا تو کے دکان تے آویں ۔‬
‫جا میرا پتر ۔‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے کاونٹر سے نیچے اترا اور جوتا پہننے لگ گیا۔‬
‫تو انکل نے جیب سے سو روپے مجھے نکال کر دئے کہ تانگے پر چلے جانا اور اگر تمہاری طبعیت واقعی خراب ھے تو‬
‫ڈاکٹر سے دوائی لے کر گھر جانا ۔‬
‫سمجھ آئی کہ اگلی وی گئی ۔میں نے نہ چاھتے ھوے بھی انکل سے سو روپے پکڑے اور جیب میں ڈالتے ھوے جی انکل کہا‬
‫اور سپیڈ سے دکان سے باہر نکل کر چل پڑا ۔‬
‫کہ میرے کانوں میں انکل کی پھر آواز گونجی‬
‫اوے ہن کتھے چلیاں ایں ۔‬
‫میں انہی قدموں واپس مڑا اور کہا ججججی گھر ۔۔۔۔۔‬
‫انکل پھر ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے صدف کی طرف اشارہ کرتے ھوے بولے ۔‬
‫ایس باجی نوں تے نال لے جا کہ کالں ای جائیں گا ۔‬

‫)‪Update no (89‬‬
‫میں خود کو کوستے ھوے جھینپ کر صدف کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ نواب زادی خود ھی اٹھ کر آجاے یا مجھے اسے‬
‫اٹھا کر لیجانا ھے ۔‬
‫انکل نے صدف کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا جاپتر اپنے ویر نال چلی جا‬
‫تے اپنے ابے نوں میرا سالم کویں نالے اونوں کویں کہ کسی دکان تے مل ای جایا کرے‬
‫اپنے لنگوٹیے یار نوں۔‬
‫صدف اثبات میں سر ہالتے ھوے جی انکل کہتے ھوے میری طرف چل پڑی‬
‫اور جنید نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری کہ‬
‫بچی ٹیٹ اے۔‬
‫میں اوس سالے نوں کی دس دا کہ ایس بچی نے ای میری ِٹبری ٹیٹ کیتی ہوئی اے ایدی وجہ توں ای تے میرے ہوش گواچے‬
‫ھوے نے تے میری مت وجی ھوئی اے ۔۔۔‬
‫میں جیند کو نظر انداز کرتے ھوے صدف کو یہ سوچتے ھوے ساتھ لے کر چل پڑا کہ سالی نے پتہ نھی انکل کو کیا بین‬
‫سنائی ھے جو انکل نے مجھے اسکے ساتھ اس چڑیل کو گھر چھوڑنے کے لیے بھیج دیا ھے ۔‬
‫میری تو سمجھ سے باہر تھی ساری گیم ۔‬
‫میں ایکدم صدف سے آگے ھی چل رھا تھا اور صدف میرے پیچھے پیچھے چلی آرھی تھی‬
‫تانگے والے چوک تک ہمارا سفر خاموشی سے گزرا‬
‫جیسے ھی میں‪ .‬چوک کی طرف مڑنے لگا تو صدف نے آگےبڑھ کر میرا بازو پکڑ کر مجھے چوک کے ساتھ ایک گلی کے‬
‫طرف کھینچ کر لیجانے لگی اور بولی کہ میں تمہارے پیچھے تانگے کا سفر کرنے کے لیے نہیں آئی‬
‫چپ چاپ میرے ساتھ چلو ورنہ بہت برا ھوگا۔‬
‫میں تو پہلے ھی ڈرا ھوا تھا‬
‫صدف کی بات مانتے ھوے اسکی تقلید میں گلی کیطرف چل دیا ۔‬
‫گلی میں کچھ آگے جاکر محلہ شروع ھوجاتا تھا اور اس محلے سے ایک گلی باہر مین سڑک پر کھلتی تھی اور سڑک سے‬
‫آگے ہمارے گاوں کی طرف جاتی کچی سڑک شروع ھوجاتی تھی جس سے ہم روز شہر آتے تھے ۔‬
‫صدف اور میں خاموشی سے چلے جارھے تھے ۔‬
‫محلے سے گزر کر مین سڑک کراس کی اور پھر گاوں کی طرف جاتی شارٹ کٹ کچی سڑک پر چلتے ھوے ہم نہر کے پل‬
‫پر جا پہنچے‬
‫پل پر پہنچ کر صدف مکئی کیطرف جانے کی بجاے نہر کے کنارے پر ٹرین کی پٹری کے پل کی طرف چل پڑی میں بھی‬
‫خاموشی سے اسکے ساتھ ساتھ چال جارھا تھا‬
‫کچھ دور جاکر صدف رک گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی‬
‫جب اسے تسلی ہوگئی کہ ادھر کوئی نہیں دیکھ رھا تو صدف نے میرا ھاتھ پکڑا اور نہر کے کنارے سے نیچے دوڑتی‬
‫ھوئی مجھے بھی ساتھ لے کر مکئی میں داخل ھوگئی ۔‬
‫مکئی کے بیچوں بیچ لیجاکر جب ہم آگے نکلے تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ‬
‫یہ تو وہ ھی جگہ ھے بچھڑے تھے ہم جہاں سے ۔‬
‫میں حیران ھوکر صدف کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ اسے کیسے اتنے شارٹ کٹ راستے کا پتہ ھے حاالنکہ اس راستے‬
‫کا مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ ادھر سے بھی ٹاہلی کے پاس پہنچ سکتے ہیں ۔‬
‫ٹاہلی کے پیچھے پہنچ کر صدف نے مجھے بیٹھنے کا اشارا کیا اور خود چوکڑی مار کر ایسے بیٹھ گئی جیسے گھر میں بیڈ‬
‫یا چارپائی پر بیٹھی ھو‬
‫اس سے پہلے کہ میں بیٹھتا کہ ۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬میں نے چاروں اطراف نظر دوڑا کر تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو نہیں‪.‬‬
‫تسلی کرنے کے بعد میں صدف کے سامنے چوکڑی مار کر بیٹھ گیا صدف میرے چہرے کی طرف نم آنکھوں سے دیکھی‬
‫جارہی تھی اور میں اس سے نظریں چرا رھا تھا ۔‬
‫اوراپنے ھاتھوں کی انگلیوں کو چٹخ رھا تھا۔‬
‫آخرکار صدف نے ھی خاموشی توڑی اور اپنا نقاب اتار کر برقعے کا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا اور میرا ھاتھ پکڑ کر‬
‫بولی‬
‫یاسر اتنی بھی کیا بے رخی ھے کہ تم مجھ سے یوں دور بھاگ رھے ھو ۔‬
‫بیشک میری غلطی ھے میں نے تمہاری انسلٹ کی تھی‬
‫مجھے اپنے کئے پر بہت پچھتاوا ھے‬
‫بہت دفعہ میں نے کوشش کی کہ تم سے معافی مانگوں مگر مجھ میں ہمت نہیں ہورھی تھی کہ تمہارا سامنا کس منہ سے‬
‫کروں ۔‬
‫پلیز مجھے معاف کردو‬
‫صدف میرا ھاتھ چھوڑ کر میرے سامنے ھاتھ جوڑے رونے لگ گئی ۔‬
‫مجھ سے بھی اب صدف کا رونا دیکھا نہیں گیا میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑ کر ھاتھوں کو چومتے ھو روہانسی آواز‬
‫میں اسے کہا‬
‫صدف میرا قصور‪ .‬کیا تھا جو تم اتنی سخت دل ہوگئی تھی ۔‬
‫صدف اور ذور سے رونے لگ گئی اور بس یہ ھی کہتی رھی‬
‫مجھ سے غلطی ھوگئی تھی یاسر مجھ سے غلطی ھوگئی تھی یاسر‬
‫مجھے معااااااففففف کردو‬
‫میرا بھی رونا نکل گیا میں نے آگے ھوکر صدف کو گلے لگا لیا‬
‫ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بازوں میں جکڑا ھوا تھا‬
‫اور دونوں کے آنسو جاری تھے‬
‫میں بھی صدف سے معافی مانگ رھا تھا اور صدف مجھ سے دونوں لپٹے ھوے ھی گلے شکوے کررھے تھے‬
‫صدف نے دونوں ھاتھوں سے میرا چہرہ پکڑا اور میرے ہونٹوں کو گالوں کو ماتھے کو چومنے لگ گئی اور ساتھ ساتھ بولی‬
‫جارھی تھی‬
‫یاسر آئی لو یو یاسر اب مجھے چھوڑ کر نہ جانا یاسر میں تمہارے بنا ادھوری ھوں آئی لو یو یاسر آئی لو یو۔‬
‫میں نے بھی صدف کی گالوں کو ھاتھ میں پکڑلیا اور روتے ھوے بوال۔‬
‫لو یو ٹو صدف لو یو ٹو۔‬
‫تم بھی اب میرے ساتھ نہ لڑنا‬
‫بہت تڑپایا ھے تمہاری بے رخی نے بہتتتت۔‬
‫ہم دونوں کے ڈائلگ کافی دیر چلتے رھے ۔‬
‫کبھی صدف میرے ہونٹوں کو چومتی تو کبھی میں صدف کے ہونٹوں کو چومتا۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں کا جنون کچھ کم ھوا تو ۔‬
‫صدف ایکدم گم سم ھوگئی‬
‫میں نے اسے یوں گم سم ھوتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ کیا ھوا صدف۔۔۔۔۔‬
‫صدف اپنے برقعے کے دوپٹے سے اپنی آنکھیں اور گالوں کو صاف کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے بیس دن ھوگئے ہیں ماہواری نہیں آئی ۔‬
‫اور میرا ہر وقت دل خراب ھوتا رھتا ھے‬
‫کچھ بھی کھانے کو دل نہی کرتا بلکہ چار پانچ دنوں سے مجھے الٹیاں آئی جارہی ہیں ۔‬
‫میری فرینڈ نے مجھے بتایا ھے کہ ایسا تو تب ہوتا ھے جب لڑکی ماں بننے والی ھوتی ۔‬
‫میرا تو تب سے برا حال ھے کہ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ میں پریگنٹ ھوں تو میرے ساتھ ساتھ وہ تم کو بھی‬
‫جان سے ماردیں گے ۔‬
‫صدف کی بات سن کر میری پھری گانڈ پھٹنے والی ھوگئی ۔‬
‫ساری عاشقی ایکدم نکل گئی ۔‬
‫خوف پھر میرے دماغ پر سوار ھوگیا۔‬
‫میری بیٹھے کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوگئی ۔‬
‫صدف میری حالت دیکھ کر‬
‫بولی یاسر گبھرانے یا بھاگنے سے اس پریشانی کا حل نہیں نکلنا ۔‬
‫ریلیکس ہوجاو‬
‫اور کچھ سوچو کہ کیا کریں جس سے‬
‫ہم دونوں کی جان بھی بچ جاے اور ہمارے گھر والوں کی عزت بھی بچ جاے ۔‬
‫میں نے کہا صصصدف میں کیا کرسکتا ھوں ۔‬
‫مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرھا۔‬
‫صدف میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی‬
‫یاسر کولڈ ڈاون پلیزززززز‬
‫میں لڑکی ھوکر اتنا نھی گبھرا رھی جتنا تم لڑکے ھوکر گبھرا رھے ھو‬
‫ایسے تو ہم دونوں پھنس جائیں گے صدف کی باتوں سے میں کچھ ریلیکس ھوگیا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میرے‬
‫دماغ میں فرحت آئی کہ اگر اس کو ساری حقیقت بتا دوں تو ہو سکتا ھے وہ اس پرابلم کا حل نکال سکے ۔‬
‫پھر میرے دماغ میں منفی خیاالت نے جنم لیا کہ وہ بڑی خرافہ عورت ھے‬
‫کہیں حسد میں کچھ الٹا سیدھا نہ کردے ۔‬
‫میں دونوں ھاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا سوچوں میں گم تھا ۔‬
‫کہ صدف بولی یاسر اب کیا ھوگا‬
‫میں نے کہا یار صبر کرو کچھ سوچنے دو کوئی نہ کوئی حل تو نکلے گا ھی ۔‬

‫میں نے اچانک چونکتے ھوے کہا کہ صدف تمہاری سہیلی کو پتہ ھے کہ تم پریگنٹ ھو ۔‬
‫صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہیں اسے نہی‪ .‬پتہ میں نے تو بس ایسے ھی باتوں باتوں میں اس سے ساری معلومات‬
‫لی تھی ۔‬
‫میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے ان باتوں کا ۔‬
‫صدف بولی وہ شادی شدہ ھے اس کے تین بچے ہیں سالئی سکول میں وہ سالئی کا کام سیکھاتی ھے ۔‬
‫ھے تو میری ٹیچر مگر میری دوست بن گئی تھی اس لیے اس سے پوچھ لیا ۔‬
‫میں ہممممم کر کے پھر خاموش ھوگیا اور ھاتھ پر مکا مارتے ھوے پھر سوچنے لگ گیا ۔‬
‫اور پھر میرے دماغ میں جنید آیا کہ شاید وہ کوئی بہتر مشورہ دے سکے یہ سوچ کر میں نے صدف کو حوصلہ دیتے ھوے‬
‫کہا کہ‬
‫تم پریشان مت ھو میں کل ھی اسکا کوئی نہ کوئی حل تالش کرلوں گا ۔‬
‫تم یہ بات کسی سے مت کرنا اور ذیادہ پریشان مت رہنا یہ نہ ھو کی تمہارے گھر والوں کو شک پڑ جاے۔‬
‫صدف نے دونوں ھاتھوں میں میرا ھاتھ پکڑا اور بولی‬
‫یاسر پلیززززز کچھ کرو جیسے جیسے دن گزرتے گئے بہت بڑا مسئلہ بن جانا ھے ۔‬
‫میں نے دوسرا ھاتھ اس کے ھاتھوں پر رکھ کر اسے تسلی دی کہ یار اب کچھ دن تو صبر کرنا ھی پڑے گا ۔‬
‫فٹافٹ تو یہ مسئلہ حل نھی ھونے واال۔‬
‫کچھ دیر مذید ہم مشاورت کرتے رھے‬
‫ہمیں ایک گھنٹہ ادھر بیٹھے ھوگیا تھا۔‬
‫میں نے کہا صدف اب تم نے گھر جانا ھے یا شہر ۔۔صدف بولی ابھی تو کافی وقت پڑا ھے ابھی گھر گئی تو امی نے سو‬
‫سوال کرنے ہیں۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور کہا کہ پھر ادھر ھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو صدف نے بھی اثبات میں سر ہال کر ہاں کہہ دی ۔‬
‫اب ہم دونوں کافی نارمل ھوچکے تھے اور ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے‬
‫میری نظر صدف کے تنے ھوے مموں پر پڑی جو برقعے میں پھنسے ھوے تھے اور برقعہ بھی سوفٹ سٹف میں تھا جس‬
‫میں صدف کے ممے بہت سیکسی لگ رھے تھے ۔‬
‫مموں کو دیکھتے ھی میرے دماغ میں شیطان نے پھونکیں مارنا شروع کردیں‬
‫میں آہستہ آہستہ کھسکتا ھوا‬
‫صدف کے قریب ھوتا گیا ۔‬
‫اور فرحت کی بغل میں اسکے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا اور اپنا ایک بازو اسکے کندھوں پر رکھ ھاتھ اسکے ممے کے اوپر اس‪،‬‬
‫انداز سے رکھ دیا جیسے یہ سب اچانک اور غیر ارادی طور پر ھورھا ھو۔۔میرے ہاتھ کی انگلیاں صدف کے ممے کو چھو‬
‫رھیں تھی‬
‫بظاہر میں صدف سے ادھر ادھر کی باتیں کررھا تھا مگر میرا دھیان اسکے ممے پر رکھے اپنے ھاتھ کی طرف تھا ۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر موضوع تبدیل کرتے ھوے‬
‫صدف سے پوچھا‬
‫کہ صدف تمہارا دل نہیں کیا دوبارا کرنے کو۔‬
‫صدف میرے اس اچانک سوال پر چونک کہ میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫میری جان پر بنی ھوئی ہے اور تم دل کرنے کی بات کررھے ھو۔‬
‫میں نے کہا یار میں اب کی بات نہیں کر رھا‬
‫یہ تو تمہیں کچھ دن پہلے پتہ چال ھے مگر ہمیں کئے ھوے تو دو مہینے ھوچکے ہیں ۔‬
‫میں پہلے کی بات کررھا ھوں۔‬
‫صدف شرما کر سر نیچے کر کے بولی مجھے نہیں پتہ ۔۔۔‬
‫میں نے کہا تو کسے پتہ ھے ۔‬
‫صدف میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی تمہیں پتہ ھوگا۔‬
‫‪.‬میں نے صدف کو کندھے سے پکڑے مذید ساتھ لگاتے ھوے کہا۔‬
‫مجھے تو اپنا پتہ ھے‬
‫کہ میرا بہتتتتتتتت دل کرتا تھا ۔‬
‫مگر میں تمہارے دل کا حال جاننا چاھتا ھوں‬
‫کہ میری جان کا دل کیا کرتا تھا۔‬
‫صدف نے سر اٹھایا اور دونوں ھاتھوں کے پنجے کھول کر میرے گلے کو پکڑ کر مجھے پیچھے کی طرف دھکیل کر‬
‫پیچھے گراتے ھوے اور خود بھی میرے ساتھ ھی میرے اوپر لیٹے ھوے بولی میرا تو دل تمہارا گال دبانے کو کرتا تھا ۔‬
‫میں نے صدف کی کالئیوں کو پکڑا اور کہا لو اب اپنی حسرت پوری کر لو اور دبا دو میرا گال۔‬
‫میں گھاس پر بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے گلے پر دونوں ھاتھ رکھے سائڈ کے بل آدھی میرے اوپر لیٹی ھوئی‬
‫تھی اور اسکے دونوں تنے ھوے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ رھے تھے۔‬
‫صدف بولی یہ ھی تو میں کر نہیں سکتی ورنہ اس دن جو تم میرا حال کرکے گئے تھے میں تمہیں گولی مار دیتی اور جناب‬
‫نے مڑ کر میری خبر بھی نہ لی کہ میں زندہ ھوں یا مرگئی ھوں ۔‬
‫میں نے چومی لینے کے انداز میں ہونٹ صدف کی طرف کرتے ھوے اپنے ھاتھ سے صدف کی گردن کو پکڑ کر نیچے کر‬
‫کے اسکے ہونٹوں کو چوما اور کہا تم نھیں مر سکتی صدف میرا گال چھوڑ کر میری قمیض کے بٹنوں سے کھیلتی ھوئی‬
‫میری طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫تم نے تو مجھے مارنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ایسے بھی بھال کوئی کرتا ھے جیسے تم میرے ساتھ کرکے بھاگ‬
‫گئے تھے اگر مجھے کچھ ھوجاتا ۔‬
‫میں صدف کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے انکو سہالتے ھوے کہا‬
‫پیار میں تکلیف نہ ھو تو پیار پیار نہیں ھوتا ۔‬
‫صدف میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بڑے الڈ سے بولی مجھے نہیں چاہیے ایسا پیار ۔‬
‫صدف کی اس ادا پر میں فدا ھوتا گیا اور پھر اسکی گردن پر ھاتھ رکھ کر اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کے قریب کر کے‬
‫چومتے ھوے بوال۔‬
‫میری جان کو کیسا پیار چاھیے۔‬
‫صدف نے میری آنکھوں آنکھیں ڈالیں اور پھر اپنی پلکوں کو جھکا کر میری قمیض کے بٹنوں کو انگلیوں سے مروڑتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫جس میں سکون ھی سکون ھو اپنا پن ہو دکھ تکلیف میں ساتھ ساتھ ھوں۔‬
‫صدف کے جسم کا لمس پاتے ھی میرا لن کھڑا ھوچکا تھا۔‬
‫کچھ دیر پہلے کا رونا دھونا پریشانی دونوں کے دماغ سے نکل چکا تھا ۔‬
‫میں نے صدف کی کمر میں ھاتھ ڈال صدف کو اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے کہا‬
‫تو کیا مجھ سے سکون نہیں ملتا اپنا پن نھی ملتا۔‬
‫صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی ۔‬
‫تم گندے ھو ظالم ھو مجھے تکلیف دے کر تم خوش ھوتے ھو۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اپنے کان پکڑ کر کہا‬
‫اگر معافی کی گنجائش ھو تو تمہارہ یہ خادم دوبارا یہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ کرتا ھے ۔‬
‫صدف ہنستے ھوے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر میرے کانوں سے ہٹاتے ھوے بولی ۔‬
‫ڈرامے باز بہتتتت تیز ھو تم ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے صدف نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔‬
‫اور میرا ھاتھ صدف کی گردن کو اپنے حصار میں لے کر گردن کو سہالنے لگا اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں‬
‫جزب ہونے کی کوشش کرنے لگ گئے‬
‫میرا لن شلوار کے اندر ھی جھٹکے کھانے لگ گیا۔‬
‫کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے‬
‫صدف کی ٹانگیں اور گانڈ گھاس پر تھی اور باقی کا اوپر جسم میرے اوپر تھا صدف کے ممے میرے سینے کے ساتھ ملن کر‬
‫رھے تھے اور صدف کا پیٹ میرے پیٹ کے اوپر تھا اور سائڈ کے بل ھونے کی وجہ سے صدف کی پھدی میری ران کے‬
‫ساتھ لگی ھوئی تھی ۔‬
‫اور ہم ہر شے سے بیگانے ھوکر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے ۔‬
‫سہی کہتے ہیں کہ‬
‫‪.‬خلوت میں نیند اور شہوت موقع محل نہی دیکھتیں انسان چاھے جس حال مین بھی ھو جس جگہ بھی ھو یہ دونوں سر پر‬
‫سوار ھوجائیں تو سب کچھ بھال دیتی ہیں ۔‬
‫ہمیں دو گھنٹے ھو چلے تھے اس جگہ پر آے ھوے مگر ہم وقت اور جگہ کو بھولے ھوے اپنی ہوس میں ڈوبے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ چوسی جارھے تھے۔‬
‫میں نے ہاتھ آگے کر صدف کے برقعے کے اوپری بٹن کھولنے شروع کردیے صدف بھی فل تیار ہوچکی تھی اور جیسے وہ‬
‫پھدی کو میری ران کے ساتھ مسل رھی اس سے اسکے گرم جزبات اور پھدی سے بہتے پانی کا اندازہ مجھے ہوچکا تھا اس‬
‫لیے میں نے موقع کی مناسبت سے اگال قدم بڑھایا اور صدف کے برقعے کو اتارنے لگ گیا جس میں اس نے میری مدد‬
‫کرتے ھوے خود ھی برقعے کو اپنے سیکسی جسم سے الگ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔‬
‫اب صدف گہرے رنگ کے سوٹ میں تنے ھوے مموں کے ساتھ میرے اوپر پھر لیٹ چکی تھی ۔‬
‫اور میں صدف کے مموں کو ہاتھوں میں بھر کر بھینچ رھا تھا اور صدف کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔‬
‫صدف کے گول مٹول سوفٹ ممے دبانے میں مجھے بہت مزہ آرھا تھا اور صدف بھی ممے دبوانے کا مزہ سسکاریاں بھر‬
‫بھر لے رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے صدف کو اپنے اوپر سے اٹھا کر اپنے ساتھ سیدھا لیٹا کر خود اسکے اوپر آگیا اور اسکی قمیض کو‬
‫پکڑ کر اوپر کرکے مموں کو قمیض سے آزاد کروا دیا۔‬
‫صدف کے چٹے سفید ممے کالے بریزیر میں چمک رھے تھے میں نے جلدی سے بریزیر کو مموں سے ہٹایا تو صدف کے‬
‫چٹے ممے میرے سامنے بلکل ننگے جگ مگ جگ مگ کر رھے تھے ۔‬
‫میں نے جی بھر کر مموں کو چوسا میرے چوسے سے ممے سرخی مائل ہو چکے تھے اور صدف مزے کی شدت سے‬
‫آنکھیں بند کیے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ھوے لیٹی سسکاریاں بھر رھی تھی ۔‬
‫میں نے مموں پر ہاتھ صاف کیا اور پھر صدف کی ٹانگوں کو کھول کر ان میں دوزانوں بیٹھ گیا اور صدف کی السٹک والی‬
‫شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچنے لگا تو صدف نے گانڈ اوپر کر کے شلوار اتارنے میں میری مدد کی‬
‫میں نے شلوار ایک ٹانگ سے نکال دی اور صدف کی دوسری ٹانگ میں شلوار رہنے دی اور جلدی سے اپنی قمیض اوپر کر‬
‫کے اپنا ناال کھوال اور شلوار نیچے کر کے لن کو پکڑ کر صدف کی گیلی پھدی کے لبوں کے درمیاں پھیرنے لگ گیا صدف‬
‫مزے میں دھری ھو رھی تھی گانڈ کو اٹھا کر پھدی کو جلدی سے لن اندر لینے کا اشارا کر رھی تھی ۔‬
‫صدف کی بے چینی دیکھتے ھوے میں نے صدف کی گوری گوری نرم رانوں پر ھاتھ رکھا کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور‬
‫گھسا مار کر لن اندر کردیا آدھا لن پہلے ھی گھسے میں صدف کی ٹائٹ پھدی میں چال گیا‬
‫صدف کے منہ سے آہہہہہہہہہ نکال اور بولی‬
‫آراااممممم نال یاسسسسر‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا اور پھر گھسا مار کر پورا لن پھدی میں اتار دیا اور خود گھٹنوں کے بل صدف کے اوپر ھوگیا ۔‬
‫پورا لن جاتے ھی صدف کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور میں نے ساتھ ھی اپنے ہونٹ صدف کے ہونٹوں پر رکھ دیے‬
‫اور آرام آرام سے گھسے مارنے لگ گیا‬
‫صدف پہلے تو کچھ دیر ھاے ھاے ھاے کرتی رھی صدف کی پھدی کافی ٹائٹ تھی جس نے میرے لن کو پوری طرح اپنے‬
‫قابو میں کر کے دبوچا ھوا تھا صدف نے دونوں بازو میری کمر کے گرد ڈالے ھوے تھے اور میری کمر کو اپنے ناخنوں‬
‫سے کھرچ رھی تھی اور میں گھسے پے گھسے ماری جارھا تھا‬
‫کچھ ھی دیر بعد صدف نے مجھے بازوں میں بھینچا‬
‫اور مجھے زور ذور سے کرنے کا بولی‬
‫میں نے بھی گھسوں کی سپیڈ تیز کردی ۔‬
‫صدف ھاےےےےےے ممممممم تیز تیز تیز کرو یاسر ھاں ہااااااں‬
‫‪.‬ایسےےے ھییی آہ آہ آہ مممممم گئی گگگگگئییییییییییی‬
‫کہتی نے مجھے ذور سے اپنے بازوں میں بھینچ کر پھدی کو لن کے گرد جکڑ بند کر کے منی کے فوارے چھوڑنے شروع‬
‫کردئے‬
‫صدف کی پھدی کے اندر اتنی گرمی تھی کہ میں بھی مذید ٹک نہ پایا اور چند تیز تیز گھسوں کے بعد میں بھی صدف کی‬
‫پھدی کے اندر ھی اپنا سارا مادہ گرا کر صدف کے اوپر ھی لیٹ گیا۔‬
‫دوستو جلدی جلدی سیکس کرنے کا بھی اپنا ھی مزہ ھوتا ھے ۔‬
‫جب میں نے منی کا آخری قطرہ بھی صدف کی پھدی کے اندر بہا دیا تو صدف میرے سینے پر مکے مارتے ھوے بولی پھر‬
‫اندر فارغ ھوگئے ھو نہ ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫کملیئے ہن کیڑا بچہ اوتے بچہ ہونا اے اگلے دا بندو بست ھو لین دے فیر اندر نئی فارغ ہوندا۔‬
‫صدف پھر مجھے مکا مارتے ھوے بولی بڑا پتہ اے تینوں ۔۔۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں نے اپنی شلواروں کو اوپر کیا اور کپڑوں کو درست کر کے گاوں کی طرف چل دیے راستے میں بھی‬
‫صدف مجھے بار بار یاد دھانی کراتی رھی اور صبح اکھٹے شہر جانے کا کہتی رھی۔۔۔۔۔‬
‫میں صدف کو گھر چھوڑ کر جب اپنی گلی میں داخل ھوا اور آنٹی کے گھر کے پاس سے گزرنے لگا تو آنٹی دروازے پر‬
‫کھڑی تھی مجھے دیکھتے ھی غصے سے بولی‬
‫ننگ جا ننگ جا‬
‫چپ کر کے ۔‬
‫میں شرمندہ سا ھوکر آنٹی کی طرف چل دیا اور آنٹی سے سالم لے کر اندر داخل ھوا تو نسرین دروازے کے پاس ھی بیٹھی‬
‫برتن دھو رھی تھی اور عظمی شاید کمرے میں تھی میں نے کے پاس سے گزرتے ھوے اسکے سر پر چپت لگاتے ھوے‬
‫اسے چھیڑا اور آنٹی کی طرف منہ کر کے بوال‬
‫آنٹی اے کم والی مائی کدوں رکھی اے۔‬
‫نسرین سٹیل کے گالس کو دھو رھی تھی اس نے ہاتھ میں پکڑا گالس مجھے مارنے کے لیے میری طرف پھینکا‬
‫میں اس کے ارادے کو جانتے ھوے پہلے ھی تیار تھا میں نے گالس کو ہوا میں ھی کیچ کر لیا اور گالس میں جو تھوڑا سا‬
‫پانی تھا وہ نسرین پر پھینک کر اندر کمرے کی طرف بھاگ گیا۔‬
‫نسرین برتنوں کو وہیں چھوڑ کر ایک اور گالس میں پانی ڈال کر گالس پکڑے میرے پیچھے بھاگی‬
‫آنٹی ہنستے ھوے اسے منع کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں بھاگتا ھوا کمرے میں داخل ھوا تو عظمی چارپائی پر بیٹھی دوپٹے پر کڑھائی کا کام کررھی تھی مجھے یوں اچانک‬
‫دیکھ کر چونک کر میری طرف متوجہ ھوئی اس سے پہلے کہ عظمی کچھ بولتی پیچھے ھی نسرین پانی کا بھرا ھوا گالس‬
‫لیے کمرے میں داخل ھوئی اور آتے ھی ہاتھ لمبا کر کے گالس کا پانی میری طرف اچھاال میں نے جلدی سے چارپائی پر پڑا‬
‫تکیہ اٹھا کر آگے کردیا پانی کی کچھ چھینٹیں میرے منہ پر پڑیں اور باقی پانی تکیہ پر گرا اتنے میں آنٹی اندر داخل ہوئیں‬
‫تو نسرین کو بولنے لگ گئیں کہ تم بہت بتمیز ھو گئی ھو یہ بھی کوئی طریقہ ھے کیا۔‬
‫نسرین نے ہاتھ میں پکڑا ھوا گالس ذور سے نیچے پھینکا اور روتے ھوے بولی‬
‫اپنے اس الڈلے کو کچھ نہیں کہنا اس نے پہلے مجھے کیوں مارا تھا‬
‫شیطان کسے تھاں دا‬
‫چنگا پال سکون سی کتھوں نازل ھوگیا۔‬
‫یہ کہتے ھوے نسرین پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی ۔‬
‫میں اور عظمی ہنس ہنس کے دھرے ھو رھے تھے۔‬
‫آنٹی بولی‬
‫یاسر تم بھی اس چڑیل کو نہ چھیڑا کرو پتہ بھی ھے کہ کتنی بتمیز ھے‬
‫میں نے کہا کچھ نھی ھوا آنٹی ایسا چلتا رہتا ھے آپ نے خوامخواہ بیچاری کو ڈانٹ دیا۔‬
‫آنٹی بولی‬
‫اچھا دفعہ کرو اسے‬
‫یہ بتاو جناب اتنے دنوں سے کہاں مصروف تھے نہ کوئی خیر نہ کوئی خبر۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی آجکل سیزن چل رھا ھے تو دکان سے فرصت ھی نہیں ملتی پہلے تو عظمی اور نسرین کو ساتھ لے‬
‫‪.‬کر جانا ھوتا تھا اس لیے میں آجاتا تھا‬
‫آنٹی بولی اچھا اس کا مطلب ھے کہ جناب کو کوئی مجبوری ہوگی تو ھی ہمارے گھر تشریف الئیں گے میں نے کہا نہیں آنٹی‬
‫جی ایسی بھی کوئی بات نہیں میں بس آنے ھی واال تھا‬

‫)‪.Update no (90‬‬
‫آنٹی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔‬
‫تم تو اب بھی سیدھے اپنے گھر جارھے تھے اگر میں نہ دیکھتی تو تم نے کب آنا تھا۔‬
‫میں آنٹی کے قریب ھوا اور آنٹی کو سائڈ سے جپھی ڈال کر الڈ سے آنٹی کے ساتھ جھولتے ھو بوال نہیں آنٹی جی آپ نہ بھی‬
‫ھوتی تو میں نے آجانا تھا ۔‬
‫آنٹی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے بولی ۔‬
‫خیر ھے آج بڑی جلدی آگئے دکان سے ۔‬
‫میں نے برا سا منہ بنا کر ایکٹنگ کرتے ھوے کہا۔‬
‫شکر ھے آنٹی جی کہ آپ کو میری فکر ھوئی ورنہ جب سے آیا ھوں جھاڑ ھی سن رھا ہوں ۔‬
‫آنٹی ایکدم پریشان ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر طبعیت تو سہی ھے تمہاری۔‬
‫میں صدیوں سے بیمار ھونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے آنٹی کو چھوڑ کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ھاےےےےےے کرتا ھوا‬
‫چارپائی پر بیٹھ گیا آنٹی مذید پریشان ھوکر میرے ساتھ بیٹھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ھوے اور میرے ماتھے پر الٹا ھاتھ‬
‫لگاتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر بتاو بھی ۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی چھوڑو کیا بتاو۔‬
‫آنٹی مذید ششوپن کا شکار ھوتے ھوے بولی یاسر بتاو نہ کیا ھوا ھے سب خیریت ھے نہ ۔‬
‫میں چہرے کو مذید لٹکا کر رونے واال منہ بنا کر آنٹی کی طرف دیکھنے لگ گیا عظمی بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف‬
‫دیکھنے لگ گئی‬
‫آنٹی میری گال کو تھپتھپا تے ھوے بولی یاسر بولوووووو میرا دل بیٹھا جارھا ھے ۔‬
‫میں نے سارے جہاں کا حوصلہ اکھٹا کیا اور رونے واال منہ بنا کر بوال؟؟؟؟؟؟‬
‫آنٹی جی میں صبح دکان پر گیا جاکر میں نے صفائی شروع کردی کچھ دیر بعد میرا دل گبھرانے لگ گیا میرا سر چکرانے‬
‫لگ گیا مجھ سے کھڑا ھونا دشوار ھوگیا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔اور میں نیچے گرا تو انکل دوڑے آے‬
‫اور مجھے اٹھا کر بولے ۔۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی اور عظمی بڑے غور سے میری لمبی تمہید سن رہیں تھیں اور انکے چہرے کے تاثرات بدلتے جارھے تھے‬
‫میں چپ ھوگیا تو آنٹی بولی پھر ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے رونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا‬
‫پھر میں نے انکل کو کہا انکل جی انکل جی انکل جی‬
‫مجھے اپنی آنٹی کی بہت یاد آرھی ھے‬
‫انکل بولے جا ُپترررر جاااا اپنی آنٹی کو مل آ اور میرا دوڑا آپ کے پاس چال آیا‬
‫آنٹی نے مجھے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور بولی جا دفعہ ھو بغیرت میری جان ای کڈ دتی سی میں آنٹی کے دھکے سے‬
‫پیچھے چارپائی پر گر گیا‬
‫اور قہقہ لگا کر ہنسنے لگ گیا عظمی بھی ہنسنے لگ گئی آنٹی غصہ سے کھڑی ھوگی اور نیچے جھک کر جوتا اٹھا کر‬
‫میری ٹانگوں پر مار نے لگ گئی اور ساتھ ساتھ بولتی جارھی تھی ہن تنگ کریں گے بے شرماں‬
‫میں ہوا میں ٹانگیں چال رھا تھا اور ہاتھ آگے کر کے اپنا بچاو کر رھا تھا ۔‬
‫تبھی نسرین برتنوں کی ٹوکری اٹھاے ھوے اندر داخل ھوئی تو مجھے مار پڑتے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی اور بولی امی‬
‫اسے اور مارو بلکہ دو چار میرے حصے کی بھی لگا دو ۔‬
‫آنٹی نے جوتا نیچے پھینکا اور بولی‬
‫شہر جاکر تم بڑے بدمعاش ھوگئے ھو ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی کچھ کھانے پینے کو بھی ملے گا یا بس چھتروں سے ھی میرا پیٹ بھرنا ھے ۔‬
‫آنٹی کو سانس چڑھا ھوا تھا آنٹی بولی‬
‫کیا کھانا ھے میرے شہزادے نے‬
‫میں نے کہا جو بھی پکا ھے لے آئیں قسم سے بڑی بھوک لگی ھے شہر سے دوڑ کر آیا ھوں‬
‫آنٹی ہنستے ھو پھر جوتا اٹھانے کے لیے نیچے جھکی اور بولی ٹھہر جا دسنی آں تینوں ۔۔۔ آنٹی کے جھکنے سے آنٹی کے‬
‫ُک ھلے گلے سے انکے چٹے سفید ممے صاف نظر آرھے تھے چند سیکنڈ ھی مموں کی جھلک دیکھنے کو ملی پھر آنٹی‬
‫سیدھی ھوگئی اور بولی‬
‫ھاتھ منہ دھو لے ابھی روٹی التی ھوں ۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی روٹی لے آئیں‬
‫شیراں دے ہتھ منہ توتے ای ہندے نے ۔‬
‫نسرین بولی شیر ویکھو بغیر پوش توں ۔۔۔‬
‫آنٹی ہنستی ھوئی باہر چلی گئی اور نسرین الماری میں برتن سیٹ کرنے لگ گئی‬
‫عظمی پھر کڑھائی کرنے میں مصروف ھوگئی ۔ اور میں بیٹھا کبھی عظمی کو چھیڑتا رھا تو کبھی نسرین کو کچھ دیر بعد‬
‫آنٹی روٹی لے کر اندر داخل ھوئی میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور شام تک بیٹھا گپ شپ کرتا رھا اور پھر گھر چال‬
‫گیا ۔‬
‫اگلے دن میں ٹائم سے اٹھا اور تیار ھو کر صدف کے گھر چال گیا صدف کی امی نے مجھ سے کافی گلے شکوے کیے کہ‬
‫اب آتے نہیں‬
‫میں نے بھی بس ہوں ہاں میں جواب دیا اور صدف کو لے کر شہر کی طرف چل دیا‬
‫راستے میں بھی بس وہ ھی پرانی باتیں ہوتی رہیں اور صدف مجھے پھر یاد دہانی کراتی ھوئی اپنے سکول کی طرف چلی‬
‫گئی میں نے بھی اسے کہا کہ تم بھی کوشش کرو میں بھی کوشش کرتا ھوں جلد ھی کوئی بہتر نکل آے گا ۔‬
‫میں سیدھا دکان پر پہنچا تو انکل نے دکان کھولی ھوئی تھی مجھے دیکھ کر انکل بولے آ گئے جناب‬
‫میں نے سالم دعا کے بعد اپنی طبیعت بہتر ھونے کا بتایا اور پھر دکان کی سیٹنگ کرنے میں مصروف ھوگیا کچھ دیر بعد‬
‫جنید بھی دکان پر آگیا اور آکر میرے پاس ھی بیٹھ گیا اور کل کے بارے میں مجھ سے پوچھنے لگ گیا کہ‬
‫مجھے کیا ھوا تھا میں نے اسکو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ فارغ وقت میں تفصیل سے بتاوں گا ۔‬
‫دوپہر کو میں اور جنید کھانا لینے کے لیے بازار گئے تو میں نے جنید کو ساری تفصیل بتا دی اور اس راز کو راز رکھنے‬
‫کے لیے اس سے قسم لی‬
‫جنید بھی پریشان ھوگیا اور بوال ماما تینوں ایڈی کادی اگ لگی ھوئی سی بار فارغ ھوجاندا یا ساتھی چڑھا لیندا ۔‬
‫میں نے کہا بس یار میری قسمت ماڑی تھی غلطی ھوگئی تیری مہربانی ھے میرے سر سے یہ بوجھ ہٹا دے ورنہ میں نے‬
‫پاگل ھوجانا ھے ۔‬
‫جنید بوال یار پریشان مت ھو میں ہوں نہ کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ۔‬
‫میں نے کہا یار وقت بہت کم ہے اور اگر مزید دن اوپر گزر گئے تو بہت مسئلہ بن جاے گا‬
‫اس سے پہلے کہ اسکے گھر والوں کو پتہ چلے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاھیے اور تمہارے سوا میرا کوئی مسیحا نہیں ھے ۔۔۔‬
‫جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپا کر بوال یار پریشان مت ھو میں ہوں نہ ۔اور یہ کہتے ھوے جنید مجھے لے کر‬
‫اپنے دوست کے میڈیکل سٹور کی طرف چل پڑا اور مجھ سے ساری تفصیل پوچھ لی کہ کتنے دن کی پریگنینسی ھے ۔‬
‫میں نے اسے سب کچھ بتا دیا دکان پر پہنچ کر جنید نے مجھے دکان کے باہر کھڑے ھونے کا کہا‬
‫اور خود اندر چال گیا دس پندرہ منٹ بعد جنید باہر نکال اور میرے پاس آکر بوال‬
‫یار کام سمجھو ھوگیا‬
‫مگر یار وہ پیسے بہت مانگ رھا ھے تمہیں تو پتہ ھے کہ میں بھی نوکری کرتا ھوں ورنہ میں اپنے پاس سے سارے پیسے‬
‫دے دیتا ۔‬
‫میں نے پوچھا کتنے پیسے کی میڈیسن ھے ۔‬
‫تو جنید بوال چار ہزار کی ۔‬
‫میں چار ہزار کا سن کر پریشان ھوگیا کہ اتنے پیسے میں کہاں سے الوں گا میری تو تنخواہ بھی پندرہ سو ھے‬
‫جنید مجھے سوچ میں پڑا دیکھ کر بوال بتا اب کیا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔‬
‫اسے کہہ کچھ کم کرلے جنید بوال‬
‫یار اس نے میری وجہ سے یہ میڈیسن دینی ہیں ورنہ وہ اس معاملے میں کسی کو میڈیسن نہیں دیتے چاھے کوئی دس ہزار‬
‫بھی دے ۔‬
‫میں نے کہا یار اسکو کہہ دو کہ پیسے تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گا ۔‬
‫جنید کچھ دیر سوچتا رھا اور پھر بوال ایک منٹ رک میں آتا ھوں یہ کہہ کر جنید پھر دکان کے اندر چال گیا‬
‫اور کچھ دیر بعد ایک لڑکا اسکے ساتھ بایر آیا اور آکر مجھ سے ہاتھ مالیا تو جنید نے اس سے میرا تعارف کروایا اور اسکا‬
‫مجھ سے ۔ کہ یہ سنی ھے میری گلی میں رہتا ھے وغیرہ۔۔۔‬
‫سنی بوال یاسر بھائی یہ میڈیسن میں صرف جنید کی وجہ سے آپ کو دے رھا ہوں جنید نے مجھے ساری بات بتائی ھے اور‬
‫آپ کی مالی حالت کا بھی تو‬
‫میرے بھائی تم دوہزار پہلے دے دو اور باقی کا دوہزار اگلے مہینے دے دینا ۔‬
‫اور اسکی ضمانت بھی جنید ھی دے رھا ھے میں نے اس سے ھی لینے ہیں ۔‬
‫جنید بوال یار سنی تو پریشان نہ ہونا یہ بھی اپنا جگر ھی ھے ۔تجھے پیسے وقت پر مل جائیں گے ۔‬
‫میں نے جنید کو ایک طرف لیجا کر کہا یار میرے پاس تو ابھی دوہزار بھی نہی ہیں‬
‫ایسا کر شام کو انکل سے ادھارے لے کر دے دوں گا ۔‬
‫جنید بوال ٹھیک ھے تو پھر شام کو ہم میڈیسن بھی لے لیں گے ۔‬
‫میں نے اوکے کیا ۔‬
‫جنید نے سنی سے میری بات دھرائی تو سنی بوال‬
‫تم میڈیسن ابھی لے جاو‬
‫شام کو میڈیکل سٹور کا مالک جو ڈاکٹر ھے وہ آجاتا ھے پھر اس کے سامنے میں یہ والی میڈیسن نہیں دے سکتا۔‬
‫جنید نے کہا ٹھیک ھے میں شام کو تجھے گلی میں ھی پیسے دے دوں گا تو میڈیسن ابھی دے دے یہ کہہ کر دونوں اندر‬
‫چلے گئے اور کچھ دیر بعد جنید میڈیسن کا شاپر پکڑے باہر آیا‬
‫اور شاپر کھول کر مجھے سمجھانے لگا کہ کون سی ٹیبلٹ کب اور کتنی کھانی ہیں ۔‬
‫میں نے اچھی طرح سمجھ لیا اور شاپر پکڑ کر شلوار والی جیب میں ڈال لیا ۔‬
‫شاپر میں تین قسم کی گولیاں تھیں جن کی تعداد کوئی پندرہ تھیں‬
‫میں حیران تھا کہ اتنی مہنگی میڈیسن ھے ۔‬
‫مگر مجبوری تھی کیا کرتا ۔‬
‫جب کہ فرحت سے یہ کام میں فری کروا سکتا تھا مگر ۔مجھے اسپر بھروسہ نہیں تھا ۔‬
‫اور ایسے صدف کی بھی بدنامی کا ڈر تھا ۔‬
‫ہم دکان پر پہنچے تو انکل کی کچھ سڑی باتیں سننے کو ملی کہ پیچھے سے دکان پر رش پڑ گیا تھا اور تم دونوں نے اتنی‬
‫دیر لگا دی ۔‬
‫پتہ نہیں کہاں آوارہ گردی کرتے رھے ھو۔‬
‫ہم نے ہوٹل پر رش کا بہانہ لگا کر بات کو گول مول کردیا اور کھانا وغیرہ کھا کر ہم پھر دکان پر کسٹمرز میں مصروف‬
‫ھوگئے‬
‫شام کو انکل کو مسکے شسکے لگا کر دوہزار لے کر میں نے جنید کو دیا اور اگلے دن دکان پر آتے ھوے میں نے میڈیسن‬
‫صدف کو دیں اور اسکو ساری تفصیل سمجھا دی ۔‬
‫صدف کافی خوش ھوگئی ۔‬
‫اور پوچھنے لگ گئی کہ میڈیسن کیسے لی اور کتنے کی لی میں نے کہا بس چھوڑو تم آم کھاو بس۔‬
‫صدف بولی یاسر ڈاکٹر نے کوئی پرہیز تو نہیں بتایا۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ہفتے میں دو دفعہ تسلی سے پورا لن اندر لینا جس سے جلدی یہ مسئلہ حل ھوجاے گا‬
‫صدف نے میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے کہا‬
‫چل شوخا جیا‬
‫ہر ویلے اپنا الو سدھا کردا ریا کر ۔‬
‫ایسے ھی ہنسی مزاق میں ہم شہر پہنچے میں نے اسے سکول چھوڑا اور خود دکان پر چال گیا ۔‬
‫دوستو ایسے ھی تین چار دن مذید گزر گئے جن میں ایسا کچھ خاص نہ ھوا جسکو بیان کرنا ضروری ہے ۔طوالت کے ڈر‬
‫سے سٹوری کو تھوڑا آگے بڑھا رھا ھوں ۔‬
‫جمعرات کا دن تھا میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫کہ ایک برقعہ پوش لڑکی نقاب کیے دکان میں داخل ھوئی اور میرے پاس سے گزرتے ھوے بولی یاسر بھائی میری بات‬
‫سنیں اور یہ کہتے ھوے وہ دکان کے اندر داخل ھوگئی‬
‫دکان میں پہلے بھی دو تین کسٹمر بیٹھے ھوے تھے‬
‫میں اس لڑکی سے اپنا نام سن کر ایکدم چونک گیا کہ یہ کون ھے جو میرے نام سے بھی واقف ھے ۔‬
‫کہ اچانک میرے دماغ میں جھماکہ ھوا کہ ۔۔‬
‫‪.‬مجھے اس لڑکی آواز جانی پہچانی سی لگی میں اسکے پیچھے ھی دکان میں چال گیا وہ لڑکی باقی کسٹمرز کے آگے سے‬
‫گزرتی ہوئی دکان کے آخر میں جاکر بینچ پر بڑے کانفیڈینس کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئی میں چلتا ھوا اس کے‬
‫سامنے پہنچا تو وہ نقاب میں آنکھوں مٹکا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر بھائی کیا حال ہیں میں اسکو فورن پہچان گیا کہ یہ تو وہ ھی کچی کلی ھے جو ضوفشاں کے پارلر پر کام کرتی ھے۔‬
‫میں نے حال احوال پوچھنے کے بعد کہا جی فرمائیں تو وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھتے ھوے سامنے الماری کی طرف اشارہ کر‬
‫کے بولی بھائی وہ واال سوٹ دیکھا دیں میں نے سوٹ نکاال اور کھول کر اسے دیکھانے لگ گیا ۔‬
‫مجھ سے کچھ فاصلے پر جنید بیٹھا کسٹمر کو سوٹ دیکھا رھا تھا کچی کلی بار بار جنید کی طرف دیکھی جارہی تھی شاید وہ‬
‫مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی اور جنید کی وجہ سے گبھرا رھی تھی ۔‬
‫اور جنید بھی بار بار کبھی میری طرف دیکھتا تو کبھی کچی کلی کی طرف۔‬
‫میں سوٹ کھول کر اسکے قریب ھی بیٹھ گیا اور سرگوشی میں اس سے ضوفی کا پوچھا کہ کیسی ھے وہ اور کدھر‬
‫مصروف رہتی ھے ۔‬
‫کچی کلی بھی ادھر ادھر دیکھتے ھوے سرگوشی میں بولی کہ باجی نے ھی مجھے میسج دے کر بھیجا کہ آپ فری ھوکر‬
‫پارلر پر آکر انکی بات سن جائیں۔‬
‫میں نے کہا ابھی تو میرے پاس ٹائم نہیں البتہ میں فری ہوکر آجاوں گا‬
‫اپنی باجی کو کہنا میرا انتظار کرلے یہ نہ ھو کہ میں آوں اور تمہاری باجی کہیں گئی ھو۔‬
‫کچی کلی سر ہالتے ھوے کہنے لگی ٹھیک ھے بھائی میں کہہ دوں گی آپ الزمی آنا باجی نے کوئی ضروری بات کرنی‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے اوکے کہا تو کچی کلی اٹھ کر باہر نکل گئی جنید بڑے غور سے اسے جاتی ھوئی کو دیکھنے کے بعد پھر میری‬
‫طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کیا چکر ھے ۔‬
‫میں سوٹ کو تہہ کرتے ھوے بوال ۔‬
‫ایویں بشیر حسین سی ۔۔۔۔‬
‫جنید میرے چہرے کو بڑے غور سے دیکھ رھا تھا جیسے وہ اصل حقائق جاننا چاہتا ھو۔‬
‫مگر میں نے اسے رتی برابر بھی محسوس نہیں ہونے دیا اور سوٹ کو تہہ کر کے الماری میں لگا کر واپس باہر آکر بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد باقی کے کسٹمرز بھی چلے گئے ۔‬
‫جب میں نے دیکھا کہ اب فارغ اوقات ھے تو میں نے انکل کو پیشاب کرنے کا بہانہ کیا اور شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا ۔‬
‫مارکیٹ پہنچ کر میں بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ھوے چاروں اطراف کا جائزہ لینے لگا اور بڑے محتاط انداز سے ضوفی‬
‫کے پارلر کے سامنے پہنچ کر دروازہ ناک کیا کچھ دیر بعد کچی کلی پردے سے نمودار ہوئی اور مجھے دیکھ کر ہنس کہ‬
‫پردے کے پیچھے غائب ہوگئی۔۔۔‬
‫کچھ ھی دیر میں ضوفی نے ڈور کھوال اور میری طرف دیکھ کر محبت بھری مسکان دی اور اپنا حسین چہرہ باہر نکال کر‬
‫دونوں اطراف دیکھ کر مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا میں جلدی سے اندر داخل ھوا‬
‫تو ضوفی نے دروازہ الک کر کے دکان بند ھے کی پلیٹ پلٹ کر باہر کی طرف کردی ۔۔‬
‫میں اندر داخل ہوکر صوفے کی طرف بڑھا تو ضوفی نے مجھے کیبن میں چلنے کا کہا ۔‬
‫کچی کلی کاونڑ پر بیٹھی میری طرف دیکھ کر ایویں ای ہنسی جارھی تھی کملی کسے تھاں دی۔۔۔‬
‫میں کیبن کی طرف چلدیا۔‬
‫ضوفی میرے آگے آگے چل رھی تھی بلیک فٹنگ میں پہنے ہوے سوٹ اسکی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے میں‬
‫اسکے پیچھے پیچھے کیبن میں داخل ہوا۔‬
‫ضوفی مجھے آخری کیبن میں لے گئی ۔‬
‫جس میں تھری سیٹر صوفہ پڑا تھا شاید اس کیبن کو ویٹنگ روم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا میں ضوفی کے سیکسی جسم کو دیکھتا ھوا بیٹھ گیا ضوفی نے گلے میں دوپٹہ‬
‫ڈاال ھوا تھا اور دوپٹے کے دونوں پلو مموں کے اوپر تھے کندھوں تک ڈائی کئے ھوے سنہری بال چہرے پر ہلکا سا میک‬
‫اپ الئٹ کلر کی لپسٹک لمبی پلکیں تھوڑے سے موٹے ہونٹ تیکھا ناک لمبی صراحی دار گردن چھتیس کے تنے ھوے ممے‬
‫تیس کی کمر اڑتیس کی گانڈ ضوفی بلکل بےبی ڈول لگ رھی تھی ۔‬
‫ضوفی کی قربت مجھے خوش نصیب ثابت کرتی تھی ۔‬
‫ضوفی کیٹ واک کرتی میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر گھٹنے پر دونوں ہاتھ باندھ کر میری‬
‫طرف بڑے غور سے دیکھتے ھوے بولی ۔جناب کدھر مصروف تھے اتنے دن ۔‬
‫میں نے کہا واہ جی واہ ٹائم خود نہیں تمہارے پاس الٹا مجھے کہہ رھی ھو ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫میں نے کہاں مصروف ہونا ھے میں تو خود تمہارا انتظار کرتی رھی کہ تم خود ھی پارلر پر چکر لگا لو گے مگر مصروف‬
‫بندے ھو اتنا وقت کہاں کہ کسی اور کی پرواہ ھو۔‬
‫میں نے بڑے غور سے ضوفی کی طرف دیکھا اور بوال ۔‬
‫مجھے بہت پرواہ ھے تمہاری ضوفی میں تو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی سوچتا رھتا ہوں ۔‬
‫مگر اس دن تم جیسے مجھ کو اکیلے پارلر پر چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔‬
‫اور دوبارا مجھ سے رابطہ بھی نہیں کیا میں سمجھا شاید مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ھے ۔‬
‫اس لیے تم مجھے اگنور کررھی ھو۔‬
‫ضوفی نے اپنے گھٹنوں سے ھاتھ اٹھاے اور میرا ھاتھ پکڑ کر بولی ۔‬
‫یاسر میں خود حیران ہوں کہ تم میں ایسی کون سی بات ھے کون سی ایسی چیز ھے جو مجھے تمہاری طرف کھینچتی‬
‫جارھی ھے ۔‬
‫میں کافی دنوں سے تمہاری دکان پر آنے کا سوچ رھی تھی مگر میں اس دن کی اپنی حرکت سے شرمندہ تھی کہ تم پتہ نہیں‬
‫کیا سوچتے ھوگے ۔‬
‫بس اسی شرمندگی کی وجہ سے میں تمہارا سامنا نہیں کرسکی ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھتے ھوے اس کے ہاتھ کو سہالتے ھو کہا۔‬
‫یار کیسی باتیں کررھی ھو ۔‬
‫میرے لیے تو یہ ھی کافی ھے کہ تم میری دوست ھو اور اس سے بڑ کر میری خوش نصیبی اور کیا ھوگی‬
‫کہ تم نے اس دیسی پینڈو کو اپنے نرم گوشے میں جگہ دی ھے‬
‫میں تم سے ناراض ہونے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری انہیں باتوں نے تو مجھے تمہارا گرویدہ کرلیا ھے ۔‬
‫باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ کو پکڑے اوپر کیا اور اسکی نازک انگلیوں کو چوم لیا ضوفی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور ضوفی‬
‫نے شرما کر سر نیچے کر لیا اور اپنا ہاتھ میرے ھاتھ سے آہستہ سے سرکاتے ھوے کھینچ لیا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر کل دکان پر آنا ھے یا چھٹی کرنی ھے میں نے کہا کل تو جمعہ ھے چھٹی ھے ۔‬
‫اگر میرے لیے کوئی حکم ھے تو بتا دو خادم حاضر ھے ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی بس بس اتنے بھی فرمابردار مت بننے کی کوشش کرو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میں جھوٹ نہیں کہہ رھا ھے کبھی ازما کر دیکھ لو کبھی خدمت کا موقع دے کر دیکھ لو خدمت میں رتی برابر کمی پیش آے‬
‫تو جو مرضی سزا دے دینا۔‬
‫ضوفی میری باتیں سن کر صوفے پر بیٹھی ھی پیٹ پر ھاتھ رکھے ہنس ہنس کر دھری ھو رھی تھی ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫جناب میں نے کوئی خدمت نہیں کروانی ۔دراصل میں نے کل الہور جانا تھا پارلر کا سامان لینے کچھ کاسمیٹکس کی میں‬
‫الہور جانے کا سن کہ میرا چہرہ ایکدم کھل اٹھا اور میرے اندر لڈو پھوٹنے لگ گئے۔‬
‫پھر اپنی مالی حالت کا سوچ کر چہرہ مرجھا گیا۔‬
‫ضوفی میرے چہرے کو غور سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫کیا ھوا یاسر پریشان کیوں ہوگئے ھو۔‬
‫اگر میرے ساتھ جانے میں کوئی پرابلم ھے یا کوئی کام ہے تو ڈونٹ ویری یار میں اکیلی بھی چلی جاوں گے جیسے پہلے‬
‫بھی جاتی رہتی ہوں ۔‬
‫وہ تو بس ایسے ھی تمہیں کہہ دیا کہ چلو سفر اچھا گزر جاے گا۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا نہیں یار ایسی بات نہیں ھے میری تو خوش قسمتی ھے کہ تم نے مجھے اس‬
‫قابل سمجھا ۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر بولی پھر پریشان کیوں ھو۔‬
‫میں نے سر جھکاے ہوے کہا کچھ نہیں بس ایسے ھی ساتھ ہی میں اموشنل ھوگیا مجھے آج اپنی غریبی اور بے بسی پر‬
‫غصہ آرھا تھا اور احساس ندامت سے میری آنکھوں سے نکلنے کو تھے ۔‬
‫ضوفی میرے پریشان چہرے کو دیکھتے ھوے میرے ھاتھ کو اپنی نرم مالئم انگلیوں سے سہالتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر ادھر میری طرف دیکھو میں نے آہستہ سے سر اٹھایا اور ضوفی کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ضوفی بولی کیا بات ھے‬
‫یاسر پریشان کیوں ھو۔‬
‫میں اب ضوفی کو کیا کہتا کہ میرے پاس الہور جانے کے لیے نہ تو نئے کپڑے ہیں اور نہ ھی نیا جوتا بلکہ میرے پاس تو‬
‫کرایہ بھی نہیں ھے ۔‬
‫میں منہ سے تو کچھ نہ بوال ۔مگر میری آنکھوں سے ساون کی جھڑی نے میری خاموشی کے سارے پول کھول دئے۔‬
‫ضوفی مجھے روتے دیکھ کر جلدی سے کھسک کر میرے قریب ہوگئی اور میری گالوں کو اپنے نازک ھاتھوں میں لے کر‬
‫بولی یاسسسرررر کیااااا ھوا رو کیوں رھے ھو اور ساتھ ساتھ اپنی روئی جیسی نرم انگلیوں سے میرے آنسو صاف کرنے‬
‫لگ گئی ۔‬
‫مجھ سے کچھ بھی نہیں بوال جارھا تھا ۔‬
‫دل تو کہہ رھا تھا ۔‬
‫کہ چیخ چیخ کر ضوفی سے اپنے دل کا حال کہوں مگر میری زبان میرے دل کا ساتھ نہیں دے رھی تھی ۔‬
‫دل کا درد آنکھوں کے راستے سے پگھل کر بہہ رھا تھا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو ضوفی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے بولی یاسر تم مجھے اپنی دوست سمجھتے ھو کہ‬
‫نہیں ۔‬
‫میں نے نم آنکھوں سے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی ایسے نہیں بول کر بتاو۔‬
‫میں جی کہا۔‬
‫ضوفی میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی ۔‬
‫کیا جی۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا جی دوست ھی سمجھتا ھوں ۔‬
‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی بس دوست ھی ۔‬
‫میں نےچونک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں پیار تھا شرارت تھی بہت سے سوال تھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوبتے ھو نفی میں سر ہالیا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یعنی تم مجھے دوست نہیں سمجھتے ۔۔‬
‫میں نے مجبورًا ہنستے ھوے کہا میں تو تمہیں اپنا سب کچھ سمجھتا ھوں میرے لیے جو تم ھو اس کے لیے دوستی بہت‬
‫چھوٹا سا لفظ ھے ۔‬
‫مگر ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟‬
‫ضوفی میرے خاموش ھونے پر بولی‬
‫مگر کیا۔۔۔۔۔‬
‫میں نے رک رک کر بولتے ھوے کہا۔‬
‫مگر میری غریبی اور میری سادگی مجھے طعنے دیتی ھیں کہ تم اپنی اوقات میں رہو کہاں تم ھو اور کہاں میں ہوں ۔۔۔۔‬
‫ضوفی شاید میرے اندر والی بات کی تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے سر پر چپت لگاتے ھوے بولی ۔‬
‫اڈیٹ۔۔۔۔۔‬
‫مجھے سب کچھ بھی سمجھتے ھو اور یہ امیری اور غریبی کا فرق بھی رکھتے ھو ۔‬
‫اور پھر ضوفی ایکدم سریس ہوتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تمہیں پتہ ھے کہ میں تمہارے اتنا قریب کیوں ہوگئی ھوں ۔‬
‫صرف تمہاری سادگی اور تمہاری صاف دلی کی وجہ سے ۔‬
‫ورنہ اس شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکے ھیں جو خوبصورت بھی ھیں اور پیسے والے بھی ۔‬
‫میرے ایک اشارے پر وہ میرے آگے پیچھے پھریں ۔‬
‫مگر میں نے آج تک کسی نامحرم کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ لوگ چاہیں میرے بارے میں کچھ بھی سوچیں کچھ بھی‬
‫کہیں ۔‬
‫مگر یہ مجھے پتہ ھے میرا ضمیر مطمئن ھے کہ میں پاکباز ھوں ۔‬
‫میری زندگی میں تم پہلے لڑکے ھو جس نے مجھے چھوا ھے اور جس کہ قریب میں خود ھوگئی ھوں ۔‬
‫میں نے بھی غریبی دیکھی ھے میرا کوئی بھائی نہیں ھے میرے ابو بھی فوت ھوچکے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری مجھ پر‬
‫ھے میں آج یہاں تک صرف اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے پہنچی ہوں آج شکر ھے کہ میرے پاس پیسہ بھی اور عزت‬
‫بھی ھے مگر کبھی اپنا برا وقت نہیں بھولی ہوں ۔‬
‫آج کہ بعد دوبار اگر تم نے ایسی بات سوچی بھی نہ تو میں نے تم سے کبھی بات نہیں کرنی۔‬
‫اوکےےےے میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔۔‬
‫ضوفی پھر بولی ۔‬
‫اچھا یہ بتاو کہ کل تمہیں گھر پر کوئی کام تو نہیں ھے ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫ضوفی بولی اور کیا تمہارے گھر والے تمہیں الہور جانے کی اجازت دے دیں گے ۔‬
‫یں نے کہا اجازت تو میں لے لوں گا کسی نہ کسی طریقے سے ۔‬
‫مگر۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫پھررررر مگر۔‬
‫میں دل پر پتھر رکھتے ھوے ایک ھی سانس میں بول پڑا۔‬
‫مگر ضوفی میرے پاس الہور جانے کے لیے نہ پیسے ہیں اور نہ ھی ڈریس۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ہوے بولی‬
‫بس اتنی سی بات پر میری جان نے اتنے قیمتی آنسو بہا اینوں۔۔۔‬
‫بھی نہ ایک نمبر کے بدھو ھو۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی اٹھی اور ایک منٹ کا کہہ کر باہر نکل گئی اور میں پھر اپنی بے بسی کو کوسنے لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی ہاتھ پیچھے گانڈ پر رکھے بڑے غصے سے اندر داخل ھوئی اور مجھ سے بولی کھڑے ھوجاو۔۔۔۔۔‬
‫میں ایکدم گبھرا کر ایسے کھڑا ھوا جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ہوں اور میں پھٹی آنکھوں سے حیران پریشان کھڑا‬
‫ضوفی کے چہرے کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔‬
‫ضوفی تیز تیز قدم اٹھاتی ھوئی میرے پاس آئی اور میرے سامنے کھڑی ھوکر مجھے گھورنے لگ گئی‬
‫میری تو ایکدم جان نکل گئی کہ اسے پتہ نہیں اچانک کیا ھوگیا ھے ۔۔‬
‫چنگی پلی تے بار گئی سے بار جا کہ پتہ نئی کیڑا سپ لڑ گیا اینوں۔۔۔‬
‫ضوفی نے گانڈ پر رکھے ہاتھوں میں سے اپنا ایک ھاتھ تیزی آگے کیا اور ہاتھ کو کھول کر میرے منہ کی طرف ایسے الئی‬
‫جیسے مجھے ذور دار تھپڑ مارنے لگی ھو ۔‬
‫میرا تو مارے حیرت کے ہلک خشک ہوگیا میری ٹانگوں سے جان نکل گئی‬
‫ضوفی نے ہتھیلی کو کھول کر پورے زور سے میرے۔۔۔؟؟؟؟‬
‫‪.‬سینے پر رکھ کر مجھے پیچھے کو دھکا دیا‬
‫میں تو پہلے سے ھی ڈرا ھوا اور گبھرایا ھوا ششوپن میں کھڑا تھا‬
‫ضوفی کے دھکے سے میں لڑکھڑاتا ھوا پیچھے صوفے پر جاگرا اور آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں ضوفی کو دیکھی‬
‫جارھا تھا ضوفی جلدی سے آگے بڑھی اس سے پہلے کے میں خود کو سنبھالتا یا کچھ سوچتا ضوفی اپنی ٹانگوں کو کھول‬
‫کر میری رانوں کے دونوں اطراف کرلے میرے بے ہوش لن کے اوپر بیٹھ گئی میں صوفے کی ٹیک کے ساتھ کمر لگاے‬
‫بیٹھا تھا۔‬
‫اور ضوفی میری رانوں پر ایسے بیٹھی تھی جیسے میرا گال دبانے لگی ھو ضوفی نے اپنا دوسرا ہاتھ جو ابھی تک اسکی‬
‫کمر پر تھا اسکو آگے ایسے لے کر آئی جیسے ہاتھ میں خنجر ھو اور میرے سینے میں خنجر اتارنے لگی ھو میں نے‬
‫گبھرا کر اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اسکے ہاتھ میں پالسٹک کا انچی ٹیپ تھا ۔‬
‫میں سمجھا ضوفی میرے گلے میں انچی ٹیپ ڈال کر میرا گال دبانے گی ۔‬
‫دوستو میری تو سچی میں گانڈ پھٹنے والی ہوگئی ۔‬
‫اور ضوفی نے کیا بھی وہ ھی جو میں سوچ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی نے انچی ٹیپ کو سیدھا کیا اور دونوں ہاتھوں میں اسکے سرے پکڑ کر ایسے گھمانے لگ گئی جیسے رسی کو وٹ‬
‫چڑھاتے ہیں ۔‬
‫اور ضوفی نے انچی ٹیپ کو گھماتے گھماتے اچانک میرے سر کے پیچھے کیا انچی ٹیپ میری گردن پر جا لگا ضوفی کے‬
‫ہاتھ میں انچی ٹیپ کے دونوں سرے تھے اور اس نے انکو ایسے پکڑا ھوا تھا جیسے گھڑ سوار کے ہاتھ میں گھوڑے کی‬
‫لگامیں ہوتی ہیں ۔‬
‫اور ہے بھی کچھ ایسا ھی تھا ضوفی کے ہاتھ میں میری گردن کی لگامیں تھیں ۔‬
‫ضوفی میرے لن پر اپنی نرم مولٹی فوم جیسی گانڈ کو رکھے ھوے میری لگامیں پکڑے سواری کررھی تھی‬

‫)‪.Update no (91‬‬
‫میں ابھی تک ڈرا سہما ضوفی کو آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا سب کچھ خاموشی سے ھورھا تھا نہ میں نے کوئی بات‬
‫کی نہ ھی ضوفی نے ۔۔۔‬
‫ضوفی نے لگاموں کو کھینچا تو میری گردن پر فیتے کا ذور پڑا تو میرا سر آگے کو ہوگیا اور آہ کے ساتھ میرا منہ کھال‬
‫ضوفی ساتھ ھی آگے کو جھکی اور میرے کھلے ہونٹوں پر اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو رکھ کر میرے اوپر والے ہونٹ کو‬
‫اپنے منہ میں بھر لیا اور ضوفی کا نچال ہونٹ میرے منہ میں خود بخود آگیا‬
‫میری تو آنکھیں مذید ابھل کر باہر نکلنے کو آگئیں ۔‬
‫ضوفی نے فیتے کو چھوڑا اور اپنے مخملی ہاتھوں کو میری گردن کے دونوں اطراف رکھ کر میرے ہونٹ کو بے دردی‬
‫سے چوس رہی تھی‬
‫ضوفی میری لن کے اوپر گانڈ رکھے اپنے ہاتھوں کی مخملی ہتھیلیاں میرے کانوں کے نیچے رکھے اپنی نرم نازک انگلیوں‬
‫کو میری گردن کا احصار کر سہالتے ھوے اور اپنے انگوٹھوں کو میرے کانوں کی لو کے گرد مساج کے انداز سے پھیرتے‬
‫ھو میرے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے جنگلی بلی بنی چوسی جارھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میرا ڈر میرا خوف ہوس میں بدل گیا اور نیچے سے میرے لن نے انگڑائی لی اور میرے دونوں ھاتھ ضوفی کی‬
‫تقلید میں اسکی گردن اور اسکے کانوں کے اوپر ریشمی بالوں کو سہالنے لگے اور میں بھی جنونی حالت میں ضوفی کی‬
‫پنکھڑیوں کا رس چوسنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫فیتہ ابھی تک میرے گلے میں ھی تھا۔‬
‫ضوفی نے پھر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ کئے اور ہاتھ کا وزن میرے سینے پر ڈال کر‬
‫خود پیچھے ہوگئی اور پھر سے فیتے کو پکڑ کر میرے کندھوں پر لگا کر درزی کی طرح سائز لینے لگ گئی سائز لے کر‬
‫فیتے پر ایک نظر ڈالی اور پھر فیتے کے سرے کو پکڑ کر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ممے پر رکھ دیا میں نے ہاتھ میں‬
‫ضوفی کا مما پکڑ لیا اور ممے کو دبانے لگ گیا ضوفی نے سسکاری بھرتے ھوے اپنا ہاتھ لمبا کیا اور فیتے کو میرے‬
‫کندھے سے لگا کر دوسرے ھاتھ سے فیتہ پکڑ کر اپنے ممے کے پاس لیجا کر میری کالئی پر رکھ کر میرے بازو کا سائز‬
‫کرنے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں ضوفی کے اس نئے انداز سے حیران تو ھو ھی رھا تھا مگر مجھے مزہ بہت آرھا تھا ۔‬
‫بازو کا سائز لینے کے بعد ضوفی نے میری کالئی کا بھی سائز کیا اور پھر میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے ممے سے ہٹایا اور میرے‬
‫ھاتھ کو پکڑے اپنے ہونٹوں کے پاس لے گئی اور باری باری میری پانچوں انگلیوں کو چوسا اور ہاتھ واپس نیچے لیجا کر‬
‫چھوڑتے ھوے پھر فیتے کو پکڑ کر میری گردن میں ڈال کر میرے سر کو صوفے کی ٹیک سے لگا دیا میرا منہ چھت کی‬
‫طرف ھوگیا‬
‫ضوفی آگے کو ھوئی اور اپنی زبان بایر نکال کر میری شہ رگ پر رکھی اور ادھر سے زبان پھیرتے ھوے میری ٹھوڑی‬
‫تک لے آئی اور پھر میرے ہونٹوں کو چوم کر واپس سیدھی ھوکر بیٹھ گئی میرا لن فل تنا ھوا تھا اور ضوفی کی نرم گانڈ کی‬
‫دراڑ میں اور پھدی کے نیچے دبا ھوا جھٹکے مار کر اٹھنے کی کوشش کررھا تھا۔‬
‫ضوفی میرے گلے کو زبان سے چاٹ کر سیدھی ھوکر بیٹھی اور فیتے کو پکڑ کر میری گردن کے گرد لپٹ کر میری گردن‬
‫کا سائز لیا اور فیتے پر ایک نظر مار کر میرے گلے سے فیتہ کھینچ کر نکال دیا۔۔‬
‫ضوفی فیتہ کھینچے ھوے ساتھ ھی میری رانوں سے اتر گئی اور میرے سامنے کھڑی ھوکر مسکراتے ھوے نشیلی آنکھوں‬
‫سے میری طرف دیکھ کر اپنے دونوں بازو پھیال کر ہاتھ میری طرف کیئے اورانگلیوں کے اشارے سے مجھے ہاتھ تھام کر‬
‫اٹھنے کو کہا میں نےاپنی طرف بڑھے ضوفی کے دونوں ھاتھوں کو تھاما تو ضوفی نے میرے ھاتھوں کو اپنے نازک ہاتھوں‬
‫میں بھینچ کر زور سے اپنی طرف کھینچا تو میں اٹھ کر کھڑا ھوگیا اور میرا لن بھی میری شلوار میں قمیض کا تمبو بنا کر‬
‫سامنے نمودار ھوا۔۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے کھڑا کرتے ھی کھینچ کر اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے میرے ھاتھوں کو چھوڑ کر میری بغلوں سے‬
‫اپنے بازوں گزار کر مجھے اپنے بازوں میں بھر لیا‬
‫میرا لن کپڑوں سمیت ضوفی کے چڈوں میں گھس چکا تھا‬
‫اور ضوفی کی پھدی کو رگڑ لگا رھا تھا۔۔اور ضوفی بھی چڈوں کو بھینچ کر لن کو پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی‬
‫ضوفی مجھ سے لپٹی ہوئی پھر میرے ہونٹؤں کو چوسنے لگ گئی اور ساتھ ساتھ پیچھے سے فیتے کو سیدھا کر کے دونوں‬
‫ہاتھوں میں پکڑا کر مجھ سے علیحدہ ھوکر میری کمر کے گرد فیتے کو ڈال کر نیچے جھک کر پاوں کے بل بیٹھ گئی اور‬
‫میری ناف کے نیچے سے فیتے کے دونوں سروں کو مال کر فیتے پر میری ویسٹ کا سائز چیک کر کے ساتھ ھی فیتہ میری‬
‫کمر سے اوپر میرے سینے پر لے گئی اور سینے کا سائز لیتے ھی فیتے کو میری کمر کے گرد سے کھینچ لیا۔۔۔ اور ساتھ‬
‫ھی ضوفی پھر پیروں کے بل بیٹھ گئی‬
‫میرا لن بلکل تن کر کھڑا ضوفی کے منہ کو سالمی دے رھے تھا میرے تمبو کو دیکھ کر ضوفی کی آنکھوں میں چمک سی‬
‫آئی ۔‬
‫اور ضوفی نے پاوں کے بل بیٹھی نے ھی پھر فیتے کا سرا ایک ہاتھ میں پکڑا اور اسی ہاتھ سے میرے لن کو پکڑ کر‬
‫مسلنے لگ گئی میرے منہ سے سسسسییییی نکلی ضوفی کے نرم ہاتھ میرے لن کو مذید تڑپنے پر مجبور کررھے تھے اور‬
‫لن نے ساتھ ھی پھنکارنا شروع کردیا ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی نے میرے لن کو مسال‬
‫اور پھر میری قمیض کو آگے سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور میرے لن کو مٹھی میں بھر کر اپنی انگلیوں میں فیتہ پھنسا کر‬
‫میرے نالے کے ساتھ لگایا اور فیتے کے دوسرے حصے کو دوسرے ہاتھ سے میرے پاوں کو لگا کر میری شلوار کی لمبائی‬
‫چیک کرنے لگ گئی ضوفی نے اوپر سے میرے لن کو بھی پکڑا ھوا تھا اور فیتے کا سرا انگلیوں سے میرے نالے کے‬
‫ساتھ بھی لگایا ھوا تھا اور میرے لن کو انگھوٹھے اور ایک انگلیوں کے درمیان گول دائرے سے بھینچ بھی رھی تھی‬
‫میں مزے سے جھت کی طرف منہ کر کے سسکاریاں بھر رھا تھا۔‬
‫کچھ دیر اسی حالت میں رہنے کے بعد ضوفی کھڑی ھوئی اور فیتے کو ایک طرف پھینک کر میرے ساتھ لپٹ کر میرے‬
‫ہونٹوں کو چوستے ھوے مجھے پھر صوفے پر گرا دیا اور میرے ساتھ بیٹھ کرمیرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ھوے میری‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی مزہ آیا ۔۔۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکے گالوں کو پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر لمبی کس کرتے ھوے کہا مزہہہہ تو بہت آیا مگر ایک‬
‫دفعہ تو تم نے میری جان نکال دی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی جان تو میں پہلے ھی نکال چکی ھوں‬
‫ضوفی میری شہ رگ پر انگلی پھیرتے ھوے بولی اب یہ جان میری جان ھے ۔‬
‫ضوفی ساتھ ساتھ اپنے پیر کو میری پیر پر ہھیرتے ھوے میرے پیر سے چپل اتارنے لگ گئی اور کچھ دیر بعد میرے ننگے‬
‫پیر پر اپنا ننگا پیر پھیرنے لگ گئی ضوفی کا پاوں انتہائی نرم تھا اسکے پاوں کا لمس ھی میری جان نکال رھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی یوں ھی میری پیر کو مسلتی رھی اور پھر مجھ سے بولی‬
‫یاسر تم نے کل صبح چھ بجے ادھر پارلر پر ہونا ھے ۔‬
‫اور ہم کل الھور جارھے ہیں میں تمہارا انتظار کروں گی ۔۔‬
‫میں نے کہا مگر۔۔۔۔۔۔ضوفی میرے ہونٹوں ہر ہونٹ رکھ کر بولی اگر مگر کچھ نہیں‬
‫تم نے کل آنا ھے تو بس آنا ھے ۔۔‬
‫اگر نھی آنا تو مجھے ابھی بتا دو۔۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر خاموش رینے کے بعد اثبات میں سر ہال کر بوال ٹھیک ھے ۔۔آجاوں گا۔۔۔‬
‫ضوفی خوش ھوکر مجھ سے لپٹ گئی اور میرے سارے چہرے کو چومنے کے بعد بولی تھینکیو۔۔۔۔۔‬
‫مجھے اچانک خیال آیا کہ میں تو انکل کو ہیشاب کرنے کا بہانہ کرکے آیا تھا لے کاکا ہن تیری خیر نئی میں جلدی سے اٹھا‬
‫اور ضوفی سے ایکسیوز کیا کہ مجھے دکان سے آے کافی دیر ھو چکی ھے انکل ناراض ہوں گے اس لیے مجھے اجازت‬
‫دے ۔۔۔‬
‫ضوفی پھر مجھ سے لپٹ کر میرے ھونٹوں کو چومتے ھو بولی اوکے‬
‫مگر صبح جلدی آجانا میں چھ بجے ادھر ھی ہوں گی اور گھر بتا کر آنا میں نے ہممممم کیا اور پارلر سے نکل کر دکان پر‬
‫پہنچ گیا۔۔۔‬
‫انکل کی چند باتیں اور نصحتیں سننے کے بعد کام میں مصروف ھوگیا اور شام کو گھر پہنچ کر کھانا وغیرہ کھا کر امی کو‬
‫جھوٹی کہانی سنا کر منا لیا اور رات کو الہور دیکھنے کی خوشی میں سوچتے سوچتے سوگیا ۔‬
‫‪.‬صبح میں پانچ بجے اٹھا اور تیار ہوکر کھیت کے راستے کی بجاے میں چوک کی طرف چل دیا کہ شاید کوئی سواری مل‬
‫جاے اور میں جلدی سے شہر پہنچ جاوں ۔‬
‫دوستو مجھے ضوفی کے ساتھ سفر کرنے سے ذیادہ الہور دیکھنے کا تجسس تھا میں چوک میں پہنچا تو وہاں کوئی تانگہ‬
‫نہیں کھڑا تھا تو میں سڑک پر ھی شہر کی جانب چل پڑا اتنے میں پیچھے سے مجھے موٹر سائکل آنے کی آواز آئی تو میں‬
‫نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو ہمارے گاوں کا ھی ایک شخص موٹر سائکل پر آرھا تھا میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو‬
‫اس نے بریک لگا کر مجھے لفٹ دے دی میں اسکا شکریہ ادا کرتا ھوا اس کے پیچھے بیٹھ گیا پانچ منٹ میں شہر پہنچ گیا‬
‫اتفاقًا اس آدمی نے بھی بازار کی طرف سے جانا تھا جس کا مجھے فائدہ ھوا کہ میرا کافی وقت ضائع ہونے سے بچ گیا۔‬
‫میں اپنی دکان کے سامنے اتر گیا اور اس کا پھر شکریہ ادا کیا‬
‫جب وہ شخص میری نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا۔‬
‫میں ابھی کچھ پیچھے ھی تھا کہ مجھے مارکیٹ کے باہر ضوفی رکشے سے اتر رھی تھی ۔‬
‫ضوفی نے رکشے والے کو کرایہ دیتے ھوے گردن گھما کر میری طرف دیکھا تو ایک سیکسی مسکراہٹ میری طرف‬
‫پھینکتے ھوے مجھے ہاتھ ہال کر ہاے کیا ۔‬
‫میں نے بھی جوابًا مسکرا دور سے ہاتھ ہالیا‬
‫رکشے واال چال گیا۔‬
‫ضوفی ادھر ھی کھڑی تھی ۔میں جب ضوفی کے پاس پہنچا تو اس کے جسم سے پرفیوم کی دھیمی سی خوشبو میرے نتھنوں‬
‫سے ٹکرائی اورضوفی نے مسکراتے ھوے ہاتھ میری طرف بڑھایا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو بازار سنسان ھی تھا تقریبًا‬
‫ساری دکانیں بند تھیں‬
‫میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کا ہاتھ تھاما اور ضوفی کے ساتھ بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ھوے ضوفی بولی ٹائم کے بڑے‬
‫پابند ہو میں نے کہا میں تو اس خوشی میں ھی ساری رات سویا ہی نہیں کہ تمہارے ساتھ سفر کرنے کا موقع مل رہا ھے‬
‫ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے بولی مسکے بہت لگاتے ھو تم میں نے کہا سچ کہہ رھا ہوں یار ایسے ھی ہم باتیں کرتے‬
‫ھوے پارلر کے پاس پہنچے ضوفی نے الک کھوال اور ڈور کھول کر ہم دونوں اندر داخل ہوگئے ضوفی نے دروازہ الک کر‬
‫کے دکان بند ھے کی پلیٹ باہر کو کر دی اور ضوفی نے اوپر لی چادر اتار کر صوفے پر پھینکی اور سینے کو آگے کر‬
‫کے دونوں ھاتھوں سے بالوں کو سنوارتے ھوے آئینے میں دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اففففففففففدف ضوفی نے جیسے ھی چادر اتاری تو اس کی ڈریسنگ دیکھ کر میں سکتے میں آگیا ضوفی نے ڈارک لپسٹک‬
‫ہلکا سا میک اپ اور بلیک سوفٹ جینز کی پینٹ اور پنک کلر کی شاٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی شرٹ کا کپڑا بھی اتنا سوفٹ تھا‬
‫کہ ضوفی کے تنے ہوے ممے ایسا منظر پیش کررھے تھے ۔جیسے ضوفی بغیر کپڑوں کے کھڑی ھو ۔ ایک تو ضوفی کے‬
‫ممے تنے ھوے تھے دوسرا جب ضوفی نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے سینے کو آگے کی طرف کیا تو افففففففففففف کیا‬
‫ھی نظارہ تھا ممے ایسے آگے کو ھوے جیسے ابھی شرٹ کو پھاڑ کر باہر آجائیں گے ۔‬
‫میرا تو خود سے کنٹرول ختم ھو رھا تھا میرا تو دل کر رھا تھا کہ ضوفی کے مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر لوں ۔‬
‫جب ضوفی نے میری طرف کمر کی اور چہرہ آئینے کی طرف کر کے بال بنانے لگی تو پیچھے سے ضوفی کی گانڈ بھی‬
‫کیا ذبردست نظارہ پیش کررھی تھی میرا ھی حوصلہ اور برداشت تھی کی ایسا ظلم برداشت کررھا تھا میری جگہ اگر کوئی‬
‫سو ساال بوڑھا بھی ھوتا تو وہ بھی اپنا ہتھیار ہاتھ میں پکڑ لیتا۔‬
‫ضوفی کچھ دیر بعد مجھے بولی یاسر ادھر آو اور پالر چیئر پر بیٹھو میں نے کہا کیوں خیر ھے‬
‫ضوفی بولی یار ٹائم کم ھے جلدی کرو‬
‫میں تجسس کا شکار ہوتے ھوے کندھے اچکا کر کرسی پر بیٹھ گیا ضوفی نے دراز کھوال اور تاول نکال کر میرے سینے پر‬
‫ایسے رکھ دیا جیسے نائی شیو کرنے کے دوران رکھتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کیا کرنے لگی ھو۔‬
‫ضوفی اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر شیییی کرتے ھوے بولی ۔‬
‫چپ کر کے بیٹھ جاو میں ضوفی کا حکم مانتے ھوے ھوے چپ کر کے بیٹھ گیا ۔۔ضوفی نے ایک بوتل سے جل نکال کر‬
‫میرے چہرے پر لگائی اور پھر ریزر پکڑ کر میری شیو کرنے لگی تو میں نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھوال ھی تھا کہ‬
‫ضوفی نے مجھے گھور کر دیکھا تو میں سہم کر بیٹھ گیا ۔‬
‫ضوفی بڑی احتیاط سے میری شیو کرنے لگ گئی میں نے بھی آنکھیں بند کرلیں کہ جو ھوگا دیکھا جاے گا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی نے شاور سے میرے چہرے پر پانی مارا اور ٹشو سے میرا چہرہ صاف کر کے بولی واووووووووو‬
‫سو کیوٹ یار اور ساتھ ھی ضوفی نے میری دونوں گالوں پر چٹکیاں کاٹ دیں‬
‫میں نے جیسے ھی آنکھیں کھول کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئیں ۔‬
‫میں تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر ھی اپنے آپ پر نہال ھورھا تھا‬
‫کلین شیو میں گورا رنگ میں تو بلکل لڑکیوں جیسا لگ رھا تھا ۔‬
‫مجھے یقین نہیں ھورھا تھا کہ یہ میں ہی ہوں میں آنکھیں پھاڑے شیشے میں اپنے چہرے کو دیکھی جارھا تھا۔‬
‫ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫ایسے نہیں میں تم پر مر مٹی تھی ۔‬
‫ہیرے کی پہچان جوہری ھی کرسکتا ھے ۔‬
‫ضوفی کرسی کے پیچھے کھڑی میرے گلے میں باہیں ڈال کر میرے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر اپنے نرم گال کو میرے نرم‬
‫اور سوفٹ گال کے ساتھ رگڑتے ھوے بولی ۔‬
‫ابھی تو میرا شہزادہ تیار ھوگا تو دیکھنے والے دیکھتے رھ جائیں گے‬
‫یہ کہتے ھوے ضوفی نے میری گال کو چوما اور کیبن کی طرف چلی گئی میری گال پر ضوفی کی لپسٹک کے ہونٹ بن‬
‫گئے تھے ۔‬
‫میں نے ٹشو پکڑ کر اپنی گال سے لپسٹک صاف کی اور پھر آئینے میں اپنے حسن کو دیکھنے لگ گیا کچھ دیر بعد ضوفی‬
‫کی آواز آئی بس کرو میرے شہزادے کو نظر نہ لگا دینا۔‬
‫میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا تو ضوفی ہینگر ہاتھ میں پکڑے ہوے کھڑی تھی میں نے کرسی سے اٹھتے ھوے‬
‫گھوم کر دیکھا تو ضوفی کے ہاتھ میں جینٹس پینٹ شرٹ پکڑی ہوئی تھی‬
‫الئٹ پنک کلر کی شرٹ اور بلیک ڈریس پینٹ بلکل ویسی کلر میچنگ جیسی ضوفی نے خود پہنی ھوئی تھی میں حیران‬
‫ہوکر پوچھنے لگا یہ کیا ھے‬
‫ضوفی بولی یہ تمہارے لیے ھے ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫نہیں یار میں یہ نہیں پہن سکتا کم از کم مجھ سے پوچھ تو لیتی ایسے فضول میں پیسے لگاے اور یہ مناسب بھی نہیں کہ میں‬
‫تمہارے پیسوں سے کپڑے پہنوں ضوفی بولی ۔‬
‫تم میں اور مجھ میں فرق ھے ۔‬
‫بہت دکھ ھوا یاسر تمہاری بات سن کر میں نے اپنی خوشی اور شوق سے تمہارے لیے یہ پینٹ شرٹ خریدی ھے اور تم ھو‬
‫کہ ۔۔۔۔۔‬
‫چلو جلدی سے کیبن میں جاکر چینج کرو ہمیں دیر ھو رھی ھے ۔‬
‫سات بجے ہم نے نکلنا ھے ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھو ضوفی نے میرے ھاتھ میں ہینگر پکڑایا اور مجھے دھکا لگاتے ھوے کیبن میں چھوڑ آئی ۔‬
‫میں نے بھی چاروناچار دل کو سمجھا کر کپڑے اتار کر پہلے شرٹ پہنی اور پھر انڈر ویر پین کر پینٹ پہن کر باہر آیا تو‬
‫ضوفی مجھے دیکھ کر ہنس کر بولی تم بھی نہ یار اور جلدی سے میرے قریب آکر میری شرٹ کو پینٹ کے اندر کیا اور‬
‫بیلٹ لگا کر ایک شاپر سے بلیک اور پنک الئنگ والی ٹائی نکال کر میرے گلے میں باندھ دی اور پھر الماری کے دراز سے‬
‫ایک شاپر نکاال اس میں سے ایک ڈبہ نکال کر بلیک نوک دار کوٹ شوز نکال کر مجھے بازو سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا‬
‫اور خود میرے قدموں میں بیٹھ گئی میں ضوفی کے جزبے اور شوق کو دل ھی دل میں سہرا رھا تھا ۔‬
‫کہ پاگل کتنا پیار کرتی ھے مجھ سے ۔‬
‫اور کتنا خرچا کردیا ۔‬
‫ضوفی نے اسی شاپر سے سوکس نکال کر خود ھی میرے پاوں میں پہنا کر پھر شوز میرے پاوں میں پہنانے لگ گئی‬
‫ضوفی مجھے ایسے تیار کررھی تھی جیسے بچے کو سکول کے لیے تیار کیا جاتا ھے ۔‬
‫پھر ضوفی نے ہیئر برش پکڑ کر میرے بال بنانے لگ گئی ۔‬
‫بال بنا کر مجھے بازو سے پکڑ کر دیوار پر لگے بڑے سے آئنے کے پاس لے آئی اور میرے پیچھے کھڑے ہوکر میری‬
‫کمر کر گرد باہیں ڈال کر ھاتھ میرے پیٹ پر باندھ کر اپنے ممے میری کمر کے ساتھ لگا کر میرے کندھے پر ٹھوڑی رکھ‬
‫کر آئینے میں دیکھتے ھوے بولی ‪++++++‬نظر نہ لگ جاے اور ضوفی نے اپنی چھوٹی فنگر کو اپنی آنکھ سے لگا کر‬
‫فنگر پر آنکھ سے کاجل لگا کر میری گردن پر ٹیکہ لگا دیا۔‬
‫‪.‬میں آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر پھولے نہیں سما رھا تھا اور مجھے یقین ھی نہیں ھو رھا تھا کہ یہ میں ھی ھوں‬
‫)‪Update no (92‬‬
‫پینٹ شرٹ میں ایک پینڈو‬
‫ہینڈ سم ُگ ڈ ُلکنگ سمارٹ بواے بن گیا تھا جسے جو لڑکی بھی ایک نظر دیکھ لے تو پلکیں جھکانا بھول جاے اور بس اپنا دل‬
‫تھام کر بیٹھ جاے ۔‬
‫ایک ان پڑھ پینڈو‬
‫اب ایک گریجویٹ ینگ مین بن چکا تھا ۔‬
‫ضوفی میرے پیچھے کھڑی تھی اور مجھے بڑے غور سے آئینے میں سے دیکھی جارھی تھی‬
‫ضوفی نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر گھما کر اپنی طرف کیا اور بولی تمہارا آئینہ ادھر ھے‬
‫اور مجھے سر سے لے کر پاوں تک دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسررررررر قسم سے تمہاری جیسی ُلک میں نے دماغ میں بیٹھائی ھوئی تھی تم تو اس سے بھی کہیں ذیادہ ُگ ڈُلکنگ نکلے‬
‫یارررررر‬
‫سہی پوچھو تو میں تمہاری بیوٹی سے جیلس ھورھی ہوں ۔‬
‫اور خود کو خوش نصیب بھی سمجھ رھی ہوں کہ میں نے الکھوں میں جو ہیرا چنا ھے وہ واقعی انمول ہیرا ھے ۔‬
‫آئی لو یو یاسررررررد یہ کہتے ھوے ضوفی مجھ سے لپٹ گئی اور بڑے ذور سے مجھے ہگ کیا۔‬
‫اور مجھ سے علیحدہ ھوتے ھوے میری گالوں کو اپنی ہتھیلیوں سے سہالتے ھوے بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کہ‬
‫کوئی تم کو مجھ سے چھین نہ لے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھوں پر اپنے ھاتھ رکھتے ھوے نفی میں سر ہالتےھوے بوال نہیں ضوفی‬
‫یہ یاسر آج سے تمہارا ھے صرف تمہارا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر اگر تم نے مجھے دھوکا دیا نہ تو میں تمہاری بھی جان لے لوں گی اور اپنی بھی جان دے دوں گی‬
‫تمہارہ یہ روپ دیکھ کر مجھے ڈر لگنے لگ گیا ھے ۔‬
‫کہیں کوئی تم کو مجھ سے چھین کر نہ لے جاے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ھاتھوں کو سہالتے ھوے کہا نہیں ضوفی میرا یہ روپ تمہارا دیا ھوا ھے میں اتنا بھی سیلفش نہیں ہوں‬
‫کہ تمہارے اس احسان کو بھول جاوں ۔‬
‫ضوفی کافی اموشنل ھورھی تھی‬
‫ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہیں یاسر یہ احسان نہیں میرے پیار کو میرے خلوص کو میری محبت کو میرے جزبے‬
‫کو احسان کا نام مت دو ۔‬
‫میرا بس چلے تو میں تمہارے لیے ساری دنیا کی خوشیاں اکھٹی کر کے تمہارے قدموں میں رکھ دوں ۔‬
‫تم نہیں جانتے یاسر کہ تم میرے لیے کیا ۔‬

‫)‪Update no (93‬‬
‫ضوفی کی آنکھوں میں نمی آگئی اور وہ اموشنل ھوتی ھوئی میری گالوں کو سہالتے ھوے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‬
‫ایک ھی سانس میں بولی‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں‬
‫میرے لیئے تم کون ہو‬
‫تم دھڑکنوں کا گیت ہو‬
‫جیون کا تم سنگیت ہو‬
‫تم زندگی‬
‫تم بندگی‬
‫تم روشنی‬
‫تم تازگی‬
‫تم ہر خوشی‬
‫تم پیار ہو‬
‫تم پریت ہو‬
‫من میت ہو‬
‫آنکھوں میں تم‬
‫سانسوں میں تم‬
‫آہوں میں تم‬
‫نیندوں میں تم‬
‫خوابوں میں تم‬
‫تم ہو میری ہر بات میں‬
‫تم ہو میرے دن رات میں‬
‫تم صبح میں‬
‫تم شام میں‬
‫تم سوچ میں‬
‫تم کام میں‬
‫میرے لیئے پانا بھی تم‬
‫میرے لیئے کھونا بھی تم‬
‫میرے لیئے ہنسنا بھی تم‬
‫میرے لیئے رونا بھی تم‬
‫اور جاگنا سونا بھی تم‬
‫جاْو ں کہیں‬
‫دیکھوں کہیں‬
‫تم ہو وہاں تم ہو وہیں‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں‬
‫تم بن تو میں کچھ بھی نہیں‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمھیں میرے لیے تم کون ہو‬
‫یہ جو تمہارا روپ ہے‬
‫یہ زندگی کی دھوپ ہے‬
‫چندن سے ترشا ہے بدن‬
‫بہتی ھے جس میں اک اگن‬
‫یہ شوخیاں ‪،‬یہ مستیاں‬
‫تم کو ہواْو ں سے ملیں‬
‫زلفیں گھٹاْو ں سے ملیں‬
‫ہونٹوں میں کلیاں کھل گئیں‬
‫آنکھوں کو جھیلیں مل گئیں‬
‫چہرے میں سمٹی چاندنی‬
‫آواز میں ہے راگنی‬
‫شیشے کے جیسا انگ ہے‬
‫پھولوں کے جیسا رنگ ہے‬
‫ندیوں کی جیسی چال ہے‬
‫کیا حسن ہے کیا حال ہے‬
‫یہ جسم کی رنگینیاں‬
‫جیسے ہزاروں تتلیاں‬
‫تمہارے جسم کا یہ لمس‬
‫یہ نگریاں ہیں خواب کی‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں‬
‫حالت دل بیتاب کی‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں میرے لیے تم کون ہو‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں۔۔۔۔‬
‫میرے لیئے تم دھرم ہو‬
‫میرے لیئے ایمان ہو‬
‫تم ہی عبادت ہو میری‬
‫تم ہی تو چاہت ہو میری‬
‫تم ہی میرا ارمان ہو‬
‫تکتی ہوں میں ہو پل جسے‬
‫تم ہی تو وہ تصویر ہو‬
‫تم ہی میری تقدیر ہو‬
‫تم ہی ستارا ہو میرا‬
‫تم ہی نظارا ہو میرا‬
‫کس حال میں میرے ہو تم‬
‫جیسے مجھے گھیرے ہو تم‬
‫پورب میں تم‬
‫پچھم میں تم‬
‫اتر میں تم‬
‫دکھن میں تم‬
‫سارے میرے جیون میں تم‬
‫ہر پل میں تم‬
‫ہر چھل میں تم‬
‫میرے لیئے رستہ بھی تم‬
‫میرے لیئے منزل بھی تم‬
‫میرے لیئے ساگر بھی تم‬
‫میرے لیئے ساحل بھی تم‬
‫میں دیکھتی تو تم کو ہوں‬
‫میں سوچتی تو تم کو ہوں‬
‫میں جانتی تو تم کو ہوں‬
‫میں مانتی تو تم کو ہوں‬
‫تم ہی میری پہچان ہو‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں‬
‫دیوتا ہو تم ۔۔ میرے لیے‬
‫میرے لیئے بھگوان ہو‬
‫کیسے بتاْو ں میں تمہیں میرے لیے تم کون ہو‬
‫ضوفی بولتی گئی میں سنتا گیا آج پہلی دفعہ میرا دل دھڑکا اور اس دھڑکن میں ضوفی کے لیے سچی محبت تھی جس میں‬
‫ہوس نہیں تھی‬
‫‪.‬صرف پیار تھا سچا جذبہ تھا ضوفی کا جنون ضوفی کی محبت ضوفی کے اخالص نے میرے دل میں گھر کرلیا آج مجھ میں‬
‫تبدیلی آگئی تھی جو فیلنگ میرے اندر ضوفی کے لیے جاگی وہ پہلے کبھی کسی لڑکی کے لیے نہیں جاگی تھی پہلے بس‬
‫لڑکیوں کے جسم کی کشش مجھے اپنی طرف مائل کرتی مگر آج ضوفی نے میری ظاہری حالت کے ساتھ ساتھ میرا باطن‬
‫بھی بدل کے رکھ دیا ۔‬
‫ضوفی کی آنکھیں اسکی سچی محبت کی گواہی دے رہیں تھیں ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ضوفی مجھ پر نہال ہوتی رھی اور میں اسکے پیار کے بندھن میں مزید بندھتا گیا ۔‬
‫آخر کار ضوفی کو احساس ھوا کہ الہور کی بس نکل جانی ھے تو ضوفی مجھ سے علیحدہ ھوئی اور جلدی سے اپنے ہینڈ‬
‫بیگ میں کچھ ضروری سامان رکھنے لگ گئی ۔‬
‫اور پھر ضوفی کیبن میں گئی اور جب باہر آئی تو اس نے گاون پہنا ھوا تھا جو مجھے بھی اچھا لگا ورنہ شاید اس لباس میں‬
‫اسے یوں سرعام لے کر پھرنا مجھے اچھا نہیں لگتا اور ایسی فیلنگ بھی پہلی دفعہ میرے اندر پیدا ھوئی تھی‬
‫شاید مجھے بھی ضوفی سے سچا پیار ھوگیا تھا‬
‫ورنہ تو میرا یہ ھی شوق ھوتا کہ ضوفی ایسے ھی اپنے مموں کا نظارا مجھے کرواتی جاتی ۔‬
‫خیر ہم پارلر سے باہر نکلے اور رکشہ پر بیٹھ کر الری اڈے پہنچے ۔‬
‫بس اسٹینڈ پر الہور جانے والی کوسٹر منی بس تیار کھڑی تھی ۔‬
‫ضوفی جلدی سے گاڑی کے پاس کاونڑ پر بیٹھے شخص سے ٹکٹ لینے لگ گئی اور پرس سے پیسے نکال کر دینے لگی‬
‫تو مجھے پھر اپنی غربت اور بےبسی پر غصہ آنے لگ گیا‬
‫مگر سواے اندر ھی اندر ُک ڑھنے کے کر بھی کیا سکتا تھا‬
‫ہمیں آخر کی چار سیٹوں میں سے دو سیٹیں ملیں مجبوری تھی بیٹھنا پڑا ورنہ دو گھنٹے بعد دوسری گاڑی جانی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد گاڑی اڈے سے نکل پڑی‬
‫ضوفی شیشے والی سائڈ پر بیٹھی تھی اور ضوفی کے ساتھ میں بیٹھا ھوا تھا اور میرے ساتھ ایک بزرگ اور اس کے ساتھ‬
‫اماں جی بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫ضوفی نے نقاب کیا ھوا تھا اور بلیک سن گالسس لگاے ھوے تھے کچھ دیر بعد میں نے ضوفی سے پوچھا یار ایک بات تو‬
‫بتاو‬
‫ضوفی جو شیشے کے باہر دیکھنے میں مصروف تھی میری طرف متوجہ ھوکر بولی ہممممم بولو۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار تمہیں میری پینٹ شرٹ کے سائز اور میرے جوتے کے سائز کا کیسے پتہ چال۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی دیکھ لو چاہنے والے سب کچھ معلوم کرلیتے ہیں ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ھوے ہاتھ کو سہالتے ھوے کہا۔‬
‫ضوفی سچ بتاو نہ یار کیسے پتہ چال۔۔۔‬
‫ضوفی بولی چھوڑو یار ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا نہیں یار بتاو نہ ۔‬
‫ضوفی بولی کل جو کچھ ہورھا تھا تو میں تمہارا سائز ھی لے رہی تھی ۔‬
‫میں نے چونکتے ھوے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال۔‬
‫لو جی میں ایویں سمجھتا رھا کہ تم میرے ساتھ رومانس کر رھی تھی‬
‫ضوفی ہنستی ھوئی سرگوشی میں بولی ۔‬
‫پاگل اگر میں تمہیں سیدھی طرح کہتی کہ تمہارے لیے پینٹ شرٹ لینی ھے اس لیے اپنا سائز دو تو تم نے کبھی بھی نہیں‬
‫ماننا تھا اس لیے مجھے ایک تیر سے دونشانے لگانے پڑے رومانس کا رومانس اور سائز کا سائز۔۔۔‬
‫میں نے کہا بڑی تیز ھو تم ۔۔۔ضوفی مجھے کندھا مارتے ھوے بولی تمہارا کچھ تو اثر مجھ پر پڑنا ھی تھا۔‬
‫میں نے آہستہ سے ضوفی کے کان میں کہا ضوفی صرف کپڑوں کا ھی سائز لیا تھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی میری ادھوری بات پر چونکتے ھوے بولی‬
‫کیا مطلب میں سمجھی نہیں ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں ۔‬
‫ضوفی نے مجھے کہنی مارتے ھوے کہا ۔‬
‫بتاو نہ یاسر تنگ نہ کرو‬
‫میں نے کہا‬
‫جسکو ھاتھ میں پکڑ کر مسل رھی تھی اسکا سائز نہیں کیا۔‬
‫ضوفی میری بات سمجھتی ھوے میرے بازو پر چٹکتی کاٹتے ھوے بولی ۔‬
‫شوخےےےےےےے آرام نال ۔۔۔‬
‫میں نے کہا اب بتاو نہ ۔‬
‫ضوفی بولی شرم کرو یاسر ہم گھر پر نہیں گاڑی میں ہیں ۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا کان میں بتا دو ۔۔‬
‫ضوفی بھی میری نقل اتارتے ھوے اسی انداز میں بولی گھر جاکر بتاوں گی۔۔‬
‫میں نے کہا میرے گھر ۔‬
‫ضوفی بولی نہیں جی میرے گھر۔‬
‫میں نے کہا کیا مطلب ۔‬
‫ضوفی بولی کیوں کہ ہمیں واپسی پر رات کافی ھوجانی ہے اور تم اتنی رات کو گھر کیسے جاو گے اس لیے رات میرے گھر‬
‫ھی رکنا۔‬
‫میں نے کہا مگر یار میں تو گھر نہیں بتا کر آیا کہ میں رات کو نہیں آوں گا میری امی تو پریشان ھوں گی ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری گلی میں کسی کے گھر فون لگا ھے ۔‬
‫میں نے کہا گھر میں تو نہیں بلکہ ہمارے چوک میں ایک دکان پر فون ھے پورے گاوں کے فون ادھر ھی آتے ہیں اور‬
‫جسکا فون ھو وہ لڑکے کو بھیج کر انکے گھر بتا دیتا ھے ۔‬
‫ضوفی ھاتھ پر ھاتھ مارتے ھوے بولی لو پھر اپنا کام تو ھوگیا تم اب بےغم ھوجاو۔ الہور پہنچ کر گھر فون کر کے بتا دینا‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔‬
‫اور میں نے جیسے ھی آگے والی سیٹ پر بیٹھے لڑکے کی طرف دیکھا تو میرا چہرہ ۔۔۔۔‬
‫‪.‬میرا چہرہ غصے سے الل ہوگیا وہ لڑکا بار بار گردن گھما کر ضوفی کو دیکھ رھا تھا میں پہلے تو اسے اتفاق سمجھ رھا‬
‫تھا مگر وہ بہانے بہانے سے گردن گھما کر پیچھے دیکھتا۔‬
‫کچھ دیر میں برداشت کرتا رھا مگر وہ لڑکا باز نہ آیا۔‬
‫ضوفی نے بھی شاید یہ بات نوٹ کی تھی اور ضوفی میرا ریکشن بھی دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا کہ اس چول نے مجھ سے چھتر کھا لینے ہیں کیسے بار بار گردن گھما کر تمہیں دیکھ رھا ھے ۔‬
‫ضوفی میرا ہاتھ دباتے ھوے بولی دفعہ کرو دیکھنے دو کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ھے ایسے ھی ہر لڑکی کو گھورنے کی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫مجھے اچھی طرح ایسے لوگوں کو سیدھا کرنا آتا ھے ۔‬
‫اب اگر اس نے دوبارا یہ حرکت کی تو میں نے سالے کی ُمنڈی مروڑ دینی ھے ۔‬
‫ضوفی بولی دفعہ کرو یاسر ایسے تماشہ بنے گا ۔‬
‫میں نے کندھے اچکاتے ھوے کہا بننے دو ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ اس لڑکے نے پھر گردن گھمائی اور ضوفی‬
‫کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫میں نے پیچھے سے اسکی گردن کو پکڑ کر گھما کر کہا ۔‬
‫اوے پھدی دیا اپنی پین ول کی بار بار ویکھن لگیا ہویا ایں ۔‬
‫تیرے کولوں سدھا ہوکہ نئی بیٹھیا جاندا۔‬
‫لڑکا ایکدم گبھرا گیا اور ممممم کرنے لگ گیا کہ میں نے کب دیکھا ھے ۔‬
‫میں نے پھر غصے اور اونچی آواز میں دھاڑتے ھوے کہا۔‬
‫سالیا میں کدوں دا تیرے ولی ای ویکھی جاندیاں واں پر توں باز نئی آریا ۔‬
‫اتنے میں کنڈیکٹر بھی بھاگا پیچھے آیا اور میرے ساتھ بیٹھا ھوا بزرگ بھی مجھے چپ کروانے لگ گیا کنڈیکٹر اور دیگر‬
‫سواریوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا ۔‬
‫لڑکا بھی اب انسان کا بچہ بن کر بیٹھ گیا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر میں نے کہا بھی تھا کہ دفعہ کرو ایسے خوامخواہ تماشا بنا دیا۔‬
‫میں نے کہا یار مجھ سے نہیں برداشت ھوتا کہ کوئی تمہیں یوں گندی نظروں سے دیکھے میں اس پین یک دیا اکھاں نہ کڈ‬
‫دیواں ۔‬
‫ضوفی میرا ھاتھ تھام کر سہالتے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر بولی ۔‬
‫اتنا پیار کرتے ھو مجھ سے ۔۔۔۔‬
‫میں بھی سینہ چوڑا کر کے بوال ۔‬
‫میرا بس چلے تو تم سات پردوں میں چھپا کر رکھوں کہ تمہارا کوئی بال بھی نہ دیکھ سکے ۔‬
‫ضوفی میرے کندھے سے سر اٹھا کر مجھے کندھا مارتے ھوے بولی اوے ھوے میرا دیوداس۔۔۔۔۔‬
‫ایسے ھی باتوں باتوں میں ہمیں پتہ بھی نہ چال کہ کب الہور آیا اور گاڑی رک گئی تو کنڈیکٹر نے آواز دی کے الری اڈا آگیا‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫سب سواریاں اتر گئی تو ہم آخر میں اترے ۔۔‬
‫گاڑی سے باہر نکلے تو مجھے وہ لڑکا کہیں نظر نہ آیا جو ضوفی پر الئن مار رھا تھا۔۔۔‬
‫اتنے میں ہمارے قریب ایک رکشہ رکا تو ضوفی نے اسے شاہ عالم مارکیٹ جانے کا کہا اور اس سے کرایہ طے کر کے ہم‬
‫رکشے میں بیٹھ گئے۔۔‬
‫رکشے میں بیٹھتے ھی ضوفی نے اپنے پرس سے دوہزار روپے نکال کر مجھے دیے کہ یاسر یہ جیب میں ڈال لو مجھ سے‬
‫بار بار پرس نہیں کھوال جاتا تم خود ھی کرایہ وغیرہ دیتے رہنا میں انکار کیا مگر ضوفی ذبردستی میری پیٹ کی جیب میں‬
‫ڈال دیے ۔۔۔‬
‫میں رکشے میں بیٹھا بڑے شوق سے باہر کا نظارا کر رھا تھا‬
‫رنگ برنگی کاریں اونچی اونچی عمارتیں ۔۔۔‬
‫کہ اتنے میں میری نظر مینار پاکستان پر پڑھی تو میں نے خوشی سے تالی بجاتے ھوے ضوفی کو کہا کہ ضوفی وہ دیکھو‬
‫مینار پاکستان افففففف کتنا بڑا ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی مارکیٹ سے فارغ ہوکر ہم ادھر بھی آئیں گے اور اوپر بھی چڑھیں گے ۔‬
‫میں خوش ھوتے ھوے ضوفی کا ھاتھ پکڑ کر بوال سچیییییی ضوفی بولی ُمچییییی ۔‬
‫میں نے دونوں ُمٹھیاں بھر کر یاااااا کیا اور پھر دور سے ھی مینار پاکستان کو دیکھنے لگ گیا رکشہ شاید مینار پاکستان کے‬
‫گرد ھی گھوم رھا تھا کیونکہ کتنی دیر دی ایک ھی لوکیشن نظر آے جارھی تھی ۔‬
‫کہ اتنے میں میری نظر دوسری طرف پڑی تو مجھے پرانی سے تاریخی عمارت نظر آئی میں نے ضوفی سے پوچھا یہ کس‬
‫کا گھر ھے اتنی اونچی اونچی دیواریں ہیں ۔‬
‫ضوفی میری بات سن کر کھلکھال کر ہنس پڑی اور میرے سر پر چپت لگاتے ھوے بولی ۔‬
‫پینڈو یہ گھر نہیں بلکہ بادشاہی قلعہ ھے اور وہ سامنے جو مینار نظر آرھا ھے وہ بادشاہی ****ھے ۔۔‬
‫میں نے جھینپ کر ہممممم کیا اور پھر سے شاہی قلعہ کو دیکھنے لگ گیا کچھ ھی دیر بعد یہ منظر میری آنکھوں سے غائب‬
‫ہوگیا میں پھر رکشہ سے سر باہر نکال کر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے لگ گیا۔‬
‫کہ رکشے واال بوال۔‬
‫سوہنے ِس ڑ اندڑ کڑلے ایویں کوئی نال ای لے جاوے گا۔‬
‫ضوفی نے مجھے بازو سے کھینچتے ھوے کہا یاسر سر اندر کرلو کیا دیکھ رھے ھو۔‬
‫میں شرمندہ سا ھوکر بوال کچھ نہیں اور پھر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد میری نظر سامنے دربار پر پڑی تو ضوفی نے بتایا کے یہ الہور کا مشہور دربار ھے ۔۔‬
‫میں بڑی حسرت سے دیکھتا رھا کچھ دیر مذید سفر کے بعد ہم مارکیٹ پہنچے تو میں نے جیب سے ہزار روپیہ نکال کر‬
‫رکشے والے کو دیا جو بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا ۔‬
‫اور شاید یہ سوچ رھا ھو کہ ۔‬
‫پینڈو بتیاں ویکھن آے نے ۔۔۔‬
‫ہزار کا نوٹ دیکھ کر رکشے واال بوال ۔‬
‫ویڑے سویڑے سویڑے ہزار کتھوں کھال کرواں گا ۔‬
‫ضوفی نے پرس کھوال اور اس کا مطلوبہ کرایہ دے کر مجھے ہزار جیب میں ڈالنے کا کہا اور ۔۔۔۔‬
‫ہم مارکیٹ کے اندر انٹر ھوگئے مارکیٹ میں بھاگم بھاگ پڑی ھوئی تھی ہر طرف رش ھی رش تھا۔‬
‫میں اتنا رش دیکھ کر پریشان ھورھا تھا کہ جمعہ کو بھی اتنا رش ھے تو آگے پیچھے کیا ھوتا ھوگا ۔‬

‫)‪Update no (94‬‬

‫مختلف بازاروں سے ھوتے ھوے ہم ایک پالزے پر پہنچے جہاں صرف کاسمیٹک کے ھی پروجیکٹ تھے ضوفی نے اپنی‬
‫مطلوبہ چیزیں لیں اور اسکو ایک بڑے سے کارٹن میں پیک کروا کر دکاندار کو پیمنٹ کر کے اپنے پارلر کا نام اور لوکیشن‬
‫کا بتایا جسکو وہ دکاندار ایک پرچی پر لکھتا گیا ۔‬
‫اور پھر ضوفی نے اسے کہا کہ بھائی اسکو احتیاط سے بلٹی کروا دینا تو دکاندار نے بھی خوش اسلوبی سے ھامی بھری‬
‫اور ہم واپس اسی جگہ آگئیے ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر انارکلی بازار چلیں ادھر سے میں نے اپنے لیے اور چھوٹی سسٹر کے لیے کچھ شاپنگ کرنی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کندھے اچکا کر کہا چلو ۔۔۔‬
‫مجھے تو بس الہور دیکھنا تھا اور اوپر سے اتنا حسین ساتھ ۔‬
‫میں تو ہواؤں میں اڑ رھا تھا ۔‬
‫ہم دوبارا رکشے میں بیٹھے اور انار کلی بازار پہنچے تو ابھی کافی دکانیں بند ھی تھیں ۔‬
‫رکشہ سے اتر کر میں نے پھر جھٹ سے ہزار کا نوٹ نکال کر رکشے والے کی طرف بڑھایا تو رکشے والے نے پھر‬
‫مجھے وہ ھی الہوڑی سنا دی ۔۔‬
‫ضوفی نے مسکراتے ھوے پھر پرس سے پیسے نکال کر رکشے والے کو دیے‬
‫تو میں نے جنجھال کر دوسرا نوٹ بھی نکال کر ضوفی کو پکڑاتے ھوے کہا یار یہ مجھے کیوں دئیے تھے اگر ہر جگہ تم‬
‫نے ھی پیسے دینے ہیں ضوفی ہنستے ھوے میرے بڑھاے ھوے ھاتھ کو واپس کر کے کہ بولی ۔‬
‫سونے ابھی تو بہت جگہ پھرنا ھے اسے اپنے پاس ھی رکھو ۔‬
‫جہاں بڑا خرچا ھوا وہاں تمہاری جیب سے ھی لگواوں گی ۔‬
‫ضوفی کے اس بڑے پن پر مجھے اس پر بڑا پیار آیا کہ ایسے کہہ رھی ھے جیسے یہ پیسے واقعی میرے ہی ہیں ۔۔۔میں نے‬
‫منہ بسورتے ھوے پیسے واپس اپنی جیب میں ڈال لیے ۔‬
‫ضوفی بولی چلو یاسر پہلے ہم ناشتہ کرلیں مجھے تو بھوک بہت لگی ھے ۔‬
‫بھوک تو مجھے بھی لگی تھی کیونکہ ناشتہ میں نے بھی نہیں کیا تھا۔‬
‫ہم ایک دیسی ہوٹل کی طرف چل پڑے اندر لیڈیز کے لیے علیحدہ پردہ لگا ھوا تھا ہم ایک کیبن میں گھس گئے اور کچھ دیر‬
‫بعد ایک بچہ کندھے پر کپڑا رکھے آڈر لینے آیا ضوفی نے اس سے پوچھا کہ کیا پکا ھے تو اس نے ایک ھی سانس میں‬
‫پانچ چھے ایٹم گنا دیں جن میں سے مجھے تو دو کی ھی سمجھ آئی کہ سری پائے اور مرغ چنے ۔۔‬
‫ہم نے ناشتہ کا آڈر دیا اور کچھ دیر بعد ناشتہ کر کے ہم باہر نکلے تو میں جلدی سے کاونٹر کی طرف بڑھا اور ہزار روپیہ‬
‫نکال کر اسکی طرف بڑھایا اور شکر ادا کیا کہ اس نے الہوڑی نہیں سنائی۔۔۔‬
‫اس نے پیسے کاٹ کر باقی مجھے دے دئیے۔۔۔۔‬
‫ہم ہوٹل سے نکلے اور بازار میں چلنے لگے کافی دکانیں کھل چکی تھیں ہم ایک لیڈیز بوتیک میں داخل ھوے تو میں ورائٹی‬
‫دیکھ کر دنگ رہ گیا ہر سوٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھا ضوفی بولی یاسر پسند کرو کون سا سوٹ اچھا ھے ۔‬
‫میں کافی ڈریس دیکھنے کے بعد چار پانچ سوٹوں کو سلیکٹ کیا جسکو ضوفی نے بھی بہت پسند کیا اور میری پسند کی داد‬
‫دینے لگ گئی ۔۔‬
‫ضوفی نے سوٹ پیک کروا کر پیمنٹ کی اور ہم دکان سے باہر نکلے تو ضوفی مجھے لے کر ایک جینٹس پینٹ شرٹ والی‬
‫دکان میں داخل ہوئی تو میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے پوچھا کہ ادھر سے کس کے لیے شاپنگ کرنی ھے تو‬
‫ضوفی بولی چلو تو سہی بتاتی ہوں ۔۔اس دکان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک پینٹ شرٹ پینٹ کوٹ شیروانی دلہا ڈریس کی‬
‫ورائٹی تھی ۔۔‬
‫ضوفی میری ویسٹ کے حساب سے پینٹیں دیکھنے لگ گئی ضوفی نے چھ سات پینٹیں پسند کرلیں جن میں کچھ جینز کی‬
‫تھیں اور کچھ کاٹن کی اور انکے ساتھ شرٹس بھی کافی اچھی ڈیزائننگ کی تھیں ۔‬
‫ضوفی نے کو پیک کروایا اور بل ادا کر کے پہلے والے سوٹ اور پینٹ شرٹس ادھر ھی جمع کروا دئیے کہ ہم واپسی پر لے‬
‫جائیں گے اور رسید لے کر ہم دکان سے باہر نکل پڑے ۔‬
‫جہاں تک مجھے یقین تھا کہ ضوفی نے میرے لیے ھی پینٹ شرٹس خریدیں ہیں ۔۔۔‬
‫کیونکہ ضوفی کہ گھر میں کوئی بھی میل نہیں تھا ۔‬
‫میں پھر بھی بار بار ضوفی سے پوچھتا رھا کہ اتنا خرچہ کس کے لیے کررھی ھو مگر ضوفی ہر دفعہ مجھے خاموش‬
‫رہنے کا کہہ دیتی ۔۔۔‬
‫ہم چلتے ھوے انار کلی بازار سے باہر آگئے وھاں سے ہم رکشہ لیا اور مینار پاکستان آگئے ۔۔۔‬
‫وہاں کچھ خاص رش نہیں تھا‬
‫کیونکہ الہور دن کو سوتا ھے اور رات کو جاگتا ھے دن کے وقت اکثریت سیرو تفری کے لیے آے ھوے دور دراز کے‬
‫عالقًو ں کے لوگ ھی تفریحی مقامات پر ھوتے تھے ۔‬
‫۔ہم لفٹ کے ذریعے مینار پاکستان پر چڑھے اور اوپر کھڑے ہوکر خوب انجوائے کیا ۔‬
‫وہاں ایک کام یہ ھوتا تھا جو شاید اب بھی ھوتا ھو کہ دور بین والے ذبردستی دور بین پکڑا دیتے تھے اور بعد میں اس کے‬
‫چارجز اپنی مرضی کے وصول کرتے تھے ۔۔‬
‫خیر ہمارے ساتھ بھی ایسا ھوا‬
‫کیونکہ انکا انداز ھی ایسا تھا جیسے فری میں دے رھے ھوں۔‬
‫ہم نے کافی انجواے کیا میں نے تو جی بھر کر اوپر سے نیچے کا نظارا کیا نیچے چلتے ھوے لوگ اور گاڑیاں چیونٹیوں‬
‫جتنی نظر آتی تھی یہ منظر مجھے بہت اچھا لگا ۔‬
‫اور پھر دور سے چھوٹی چھوٹی عمارتیں افففففف کیا ھی دلفریب نظارہ تھا ہم دو گھنٹے اوپر ھی رھے پھر نیچے آکر پارک‬
‫میں کچھ دیر بیٹھ کر کولڈ ڈرنک اور ساتھ میں چپس وغیرہ کھائی اور ایسے ھی ہم نے شاہی قلعہ اور اردوگرد کے مقامات‬
‫کی کی سیرو تفریح کرتے رھے اور خوب انجوائے کیا ۔۔۔‬
‫شام ڈھلنے لگی وقت کا پتہ ھی نہیں چال ۔‬
‫تو ضوفی بولی یار میں تو تھک گئی ھوں کیا پروگرام ھے اب واپس چلیں ۔‬
‫تھک تو میں بھی گیا تھا میں نے کہا چلو واپس چلتے ہیں ۔۔‬
‫مجھے اچانک خیال آیا کہ گھر کال کر کے بتا دوں میں نے ضوفی کو بتایا تو ضوفی بولی انارکلی بازار سے کسی پی سی او‬
‫سے کال کرلیں گے ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور ہم پھر رکشہ میں بیٹھ کر انار کلی بازار کی طرف روانہ ہوگئے ۔۔۔‬
‫دوستو میں حیران تھا کہ سارا دن ضوفی کے ساتھ گزارنے اور وہ بھی اتنے قریب سے اسکے ساتھ رہنے کے باوجود میرے‬
‫دماغ میں ایک دفعہ بھی ضوفی کے متعلق غلط خیال نہیں آیا کہ اسکے جسم کو جسن بوجھ کر ٹچ کروں یا اسکی گانڈ کو یا‬
‫مموں کو چھوؤں۔‬
‫پتہ نہیں اب‬
‫الہور دیکھنے کا نشہ وجہ تھی ۔‬
‫میری ظاہری تبدیلی وجہ تھی‬
‫یا پھر‬
‫مجھے ضوفی سے سچا پیار ھوگیا تھا ۔‬
‫خیر ہم انار کلی پینچے اور ادھر سے کال کر کے میں نے دکان والے کو اپنا تعارف کروایا اور اسے کہا کہ میرے گھر پیغام‬
‫بھیج دے کہ میں نے رات کو گھر نہیں آنا کہ الہور سے لیٹ ھوجاوں گا۔۔۔‬
‫اور پھر ہم اپنی کی ہوئی شاپنگ کے بیگ پکڑ کر وہاں سے ھی رکشہ میں بیٹھ کر الری اڈے پہنچے اور سیالکوٹ کی‬
‫گاڑی میں بیٹھ گئے سیٹوں پر بیٹھتے ھی ہم نے ٹھنڈی آہ بھری اور تھکاوٹ کا اظہار کرتے ھوے ایک دوسرے سے باتیں‬
‫کرتے رھے کچھ دیر بعد گاڑی بھی چل پڑی باہر کافی اندھیرا ھوچکا تھا اور مجھے لگ رھا تھا کہ ہم دس بجے سے پہلے‬
‫نہیں پہنچیں گے ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد ضوفی میرے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی اور میں ضوفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہالتے ھوے‬
‫سوچوں میں گم پتہ نہیں کب سوگیا۔‬
‫ایسے ھی کبھی آنکھ کھلتی کبھی بند ھوجاتی ضوفی نے تو اچھے طریقے سے نیند پوری کر کے تھکاوٹ اتار لی ۔‬
‫سارا سفر خاموشی سے ھی گزرا ۔‬
‫آخر کار ہم واپس اپنے شہر سیالکوٹ پہنچے اڈے سے رکشہ لیا اور سیدھا ضوفی کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔۔ضوفی کا گھر باہر‬
‫سے اچھا بنا ھوا تھا اور ڈبل سٹوری لگ رھا تھا مگر تھا چھوٹا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا یار تم اپنے گھر کیا بتاو گی تو ضوفی بولی تم بے فکر رھو میرے گھر والوں کی ٹینشن مت لینا اور‬
‫اسے اپنا گھر ھی سمجھنا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو ذیادہ کریدا نہیں۔۔۔‬
‫ضوفی نے گھر کی ڈور بیل دی تو کچھ دیر بعد اندر سے کسی لڑکی کی پیاری سی آواز آئی کون ۔۔۔‬
‫ضوفی نے آواز دی ماہی دروازہ کھولو۔۔‬
‫دروازہ کھال تو سامنے جو چہرہ دیکھا تو ایسے ھی لگا کہ ضوفی ھی کھڑی ھے ہو باہو ضوفی کی ہم شکل اسکی چھوٹی‬
‫بہن کھڑی حیرانگی سے مجھے دیکھی جارہی تھی ۔‬
‫ضوفی اندر گئی اور مجھے بھی اندر آنے کا کہا اور میں بھی جھجھکتا ھوا اندر چال گیا ۔ ماہی نے دروازہ بند کیا اور‬
‫حیرانگی سے میرے پیچھے چلتی ھوی ٹی وی الونج میں آگئی ضوفی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور ماہی سے میرا تعارف‬
‫کرواتے ھوے بولی یہ یاسر ھے جسکا تمہیں بتایا تھا‬
‫اور یاسر یہ ماہ نور ھے جسے میں پیار سے ماہی کہتی ہوں ۔۔‬
‫اتنے میں کمرے سے ایک عمر رسیدہ آنٹی ھی کہہ لیں تقریبًا پچاس سال کے لگ بھگ عمر تھی برآمد ہوئیں اور مجھے‬
‫حیرانگی سے دیکھتے ھوے ضوفی کے سر پر پیار دیا میں نے بھی اٹھ کر انکو سالم کیا تو انہوں نے میرے سر پر بھی پیار‬
‫دیا۔۔۔‬
‫ضوفی نے آنٹی کا تعارف مجھ سے کروایا کہ یہ میری امی ہیں اور اپنی امی سے میرا تعارف کروایا کہ یہ یاسر ھے اور‬
‫ضوفی نے مجھے آنکھ مارتے ھوے کہا ‪.‬‬
‫‪.‬میری دوست ثانیہ ھے نہ اسکا کزن ھے ادھر گاوں میں رھتا ھے میرے ساتھ الہور گیا تھا تو رات ہونے کی وجہ سے میں‬
‫اسے اپنے ساتھ ھی لے آئی کیونکہ رات کو انکے گاوں کی سواری نہیں ملتی‬
‫آنٹی مجھے سر سے پاوں تک ایسے دیکھ رھی تھی جیسے انکو یقین نہ آرھا ھو کہ میں کسی گاوں کا رہنے واال ھوں ۔۔‬
‫آنٹی شاید نیند سے بیزار ھوکر آئی تھیں انہوں نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نہیں کی اور مجھے دعائیں دیتی ھوئی واپس اپنے‬
‫کمرے میں چلی گئی ۔‬
‫ماہی نظر نہ آئی شاید وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھا یا پھر کچن میں ۔۔‬
‫کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ضوفی اٹھی اور مجھے اپنے ساتھ اوپر آنے کا اشارہ کرتے ھوے سیڑھیاں چڑھنے لگ گی‬
‫میں بھی اسکے پیچھے اوپر چھت چھت پہنچا تو اوپر بھی ایک کمرہ تھا ضوفی کمرے میں داخل ھوئی تو میں بھی اسکے‬
‫پیچھے ھی کمرے میں داخل ھوا کمرے کی اچھ سیٹنگ کی گئی تھی بیڈ اور صوفے رکھے ھوے تھے کارنر میں ڈریسنگ‬
‫ٹیبل اور ایک طرف اٹیچ باتھ تھا۔۔۔ضوفی کا گھر تین کمروں پر ھی مشتمل تھا‬
‫ایک کمرہ نیچے تھا اسکے آگے ٹی وی الونج تھا اور اس سے آگے گیراج اور ایک طرف بیٹھک تھی ۔۔‬
‫ضوفی بولی یہ میرا اور ماہی کا کمرہ ھے ۔۔‬
‫میں ہمممم کرتے ھوے کمرے کا چاروں اطراف سے جائزہ لینے لگ گیا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم بیٹھو میں چینج کرلوں اور کھانے کا بھی کچھ کروں ماہی گئی تو ھے کچن میں‬
‫میں ذرہ اسکی بھی ہیلپ کروا دوں ۔۔۔‬
‫ضوفی جانے لگی تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑ لیا ضوفی نے گردن گھما کر میری طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کے اشارے‬
‫سے پوچھا کیا ھے۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگا کر باہوں میں بھرتے ھوے کہا‬
‫ابھی چینج مت کرنا ابھی تو میں نے جی بھر کہ دیکھا ھی نہیں ۔‬
‫ضوفی نے دونوں بازوں فولڈ کر کے میرے سینے پر رکھے تھے ضوفی میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی چھوڑو‬
‫پاگل ماہی اوپر آگئی تو کیا سوچے گی ۔۔۔۔میں نے کہا سوچنے دو جو کوئی سوچتا ھے ۔۔‬
‫تم نے چینج نہیں کرنا۔۔‬
‫ضوفی بولی اچھا بابا نہیں کرتی اب چھوڑ تو دو کیوں مروانا ھے ۔۔‬
‫میں نے بازوں کا گھیراو ڈھیال کیا تو ضوفی میرے بازوں سے نکل کر میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے ہنستی ھوی باہر کی‬
‫طرف بھاگ گئی اور میں اسے جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔‬
‫ضوفی کے جانے کہ بعد میں صوفے پر بیٹھ کر کمرے کا جائزہ لیتے ھوے سوچنے لگ گیا کہ ایسی کیا بات ھے کہ ضوفی‬
‫نے میرا سب کچھ بدل کر رکھ دیا ایک ھی دن میں ضوفی میری روح میں اتر چکی تھی ۔‬
‫ضوفی سے ایک منٹ کی بھی دوری اب مجھ سے برداشت نہیں ھورھی تھی‬
‫مجھے بے چینی سی ھورھی تھی کہ ضوفی جلدی سے واپس کمرے میں آجاے اور میں اسے سامنے بیٹھا کر بس دیکھتا‬
‫رہوں ۔۔۔‬
‫کیا اسی کا نام پیار تھا ۔‬
‫یا عشق تھا جنون تھا‬
‫تھا تو آخر کیا تھا ۔‬
‫جس نے مجھے اتنا بے چین کرکہ رکھ دیا تھا‬
‫اور کمال کہ بات کہ ماہی بھی اتنی خوبصورت تھی مگر ضوفی کی موجودگی میں میرا اسکی طرف دھیان ھی نہیں گیا تھا۔‬
‫ہر خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر جس یاسر کے منہ سے الریں ٹپکنا شروع ھوجاتیں تھی آج ضوفی کے حسن کے عالوہ‬
‫کسی اور حسینہ کا حسن اس پر اثر نہیں کر پارھا تھا ۔‬
‫ماہی کا جسم بھی بہت سیکسی تھا رنگ گورا قد کاٹھ کی بھی ٹھیک تھی جسم بھی بھرا بھرا ابھری چھاتیوں کے ساتھ دل کو‬
‫مو لیتا مگر میری نظریں اسکو دیکھ کر بھی نہ ڈگمگائیں ۔‬
‫ضوفی کے حسن اور اسکی محبت کے سحر نے تو الہور کی ایک سے بڑھ کر ایک بچی کی طرف بھی مجھے آنکھ اٹھا کر‬
‫دیکھنے نہ دیا ۔‬
‫اففففف ھاےےےےےے یہ‬
‫۔کمبخت عشق ساال پتہ نہیں آگے کتنا رالے گا۔۔۔۔‬
‫میں اپنے ھی خیالوں میں گم تھا کہ ماہی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی اور کھانا ٹیبل پر لگانے لگ گئی‬
‫ماہی اپنے سڈول سینے کو میرے سامنے جھکاے میرے آگے رکھے ٹیبل پر کھانا لگا رھی تھی اور میری نظریں بجاے‬
‫اسکے گلے میں جھانکنے کے اپنے پیروں کو دیکھ رہیں تھی ۔‬
‫ماہی کے کچھ ھی دیر بعد ضوفی بھی اندر آگئی جسکو دیکھتے ھی میراچہرہ کھل اٹھا۔۔۔‬
‫ضوفی آکر میرے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی اور میں حیران ھوا کہ ماہی نے اسکا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ سر جھکائے ضوفی‬
‫سے بولی آپی آپ کھانا کھاو میں نیچے چاے بنا لوں ضوفی بولی تم بھی آجاو تو ماہی بولی نہیں آپی میں نے کھانا کھا لیا‬
‫ھے آپ کھاو میں چاے بنا کر التی ھوں اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو آواز دے دینا ۔‬
‫ضوفی نے پھر اصرار کیا مگر ماہی انکار کرتی ھوئی نیچے چلی گئی ۔۔‬
‫میں نے کہا ضوفی یار ماہی کو بھی ساتھ بیٹھا لیتی‬
‫ضوفی بولی یہ بہت شرمیلی ھے تمہاری وجہ سے نہیں بیٹھی ورنہ یہ میرے بغیر کھانا کھاتی ہی نہیں ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار اسے بال الو پھر ایسے اچھا نہیں لگے گا۔۔‬

‫)‪.Update no (95‬‬
‫ضوفی بولی کوئی فائدہ نہیں مجھے پتہ ھے یہ نہیں آے گی ۔‬
‫اور ضوفی ساتھ ساتھ کھانا میرے سامنے پیش کرنے لگ گئی‬
‫میں چپ کر کے کھانا کھانے میں مصروف ھوگیا۔‬
‫تقریبًا آدھے گھنٹے کے بعد ماہی چاے لے کر کمرے میں داخل ہوئی تب تک ہم نے کھانا کھا لیا تھا۔۔۔‬
‫میں نے کھانے کی تعریف کرتے ھوے ماہی کا شکریہ ادا کیا ۔‬
‫تو ماہی منہ سے تو کچھ نہ بولی بس مسکرا کر میری طرف ایک نظر دیکھ کر سر نیچے کرکے ٹیبل پر چاے رکھنے لگ‬
‫گئی ۔۔‬
‫میں نے پہلی دفعہ ماہی کو مخاطب کرتے ھوے مزاق کے ساتھ کہا چاے پی لیں کہ وہ بھی نیچے جاکر اکیلی ھی ٰپ ئیں گی ۔۔۔‬
‫ماہی نے تو کوئی جواب نہ دیا مگر‬
‫ضوفی ہنس کر بولی ماہی یاسر سے کیسی شرم کررھی ھو ۔‬
‫یہ بھی اب ہماری فیملی کا حصہ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اتنا کہہ کر ضوفی خاموش ہوگئی میں نے بھی چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا۔‬
‫ضوفی ساتھ ھی بات کو بدلتے ھوے بولی ۔‬
‫گھر آے مہمان سے شرماتے نہیں ورنہ مہمان سمجھے گا کہ شاید میزبان کو اس کے آنے کی خوشی نہیں ھوئی‬
‫ماہی سر نیچے کئے ھی بولی نہیں آپی ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی بیٹھو ادھر ھی پھر ۔‬
‫ماہی سر نیچے کئے دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی تو ضوفی نے چاے کا کپ اسکی طرف بڑھایا تو اس نے کپ کو پکڑا مگر‬
‫بیٹھی اسی حالت میں رھی جیسے لڑکے والے اسے دیکھنے کے لیے آے ھوں اور وہ شرماتے ھوے سر نہیں اٹھا رھی ۔۔۔‬
‫چاے ختم کی تو ضوفی بولی ماہی نیچے جو شاپر پڑے ھیں اوپر لے آو تمہارے لیے سوٹ الئی ہوں ۔‬
‫ماہی بچوں کی طرح خوش ھوکر نیچے بھاگ گئی اور کچھ ھی دیر بعد سارے شاپر ھاتھ میں پکڑے اوپر آئی ۔‬
‫اور سب شاپر کو بیڈ پر رکھ دیا ضوفی نے شاپر کھول کر اپنے اور ماہی کے سوٹ نکال کر اسے دیکھانے لگ گئی ماہی‬
‫سوٹ دیکھ کر بہت خوش ہورھی تھی ماہی بولی ان میں سے میرے کون سے ہیں ۔‬
‫ضوفی بولی تمہیں جونسے پسند ہیں لے لو ۔‬
‫ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی پسند ہیں بہت ھی اچھی چوائس ھے آپکی ۔‬
‫ضوفی بولی یہ میری نہیں یاسر کی چوائس ھے ۔‬
‫ماہی نے میری طرف دیکھا اور پھر ہنستے ھوے بولی بہت اچھی چوائس ھے آپکی ۔‬
‫میں نے تعریف کرنے کا شکریہ ادا کیا ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی پسند ہیں‬
‫ضوفی پیار سے ضوفی کے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی‬
‫میرا بچہ سارے لے لے تم سے سوٹ اچھے ہیں‬
‫میں دونوں بہنوں کے پیار کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی واقعی ھی چھوٹی عمر میں بڑے دل کی مالک تھی اور اسکا ظرف اور اسکا بڑا پن دیکھ کر مجھے اسپر اور پیار‬
‫آنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی کو اسکے گھر کے حاالت نے میچور کردیا تھا ویسے تو اس عمر کی لڑکیوں کو تو اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں ھوتی ۔‬
‫اور ضوفی گھر میں باپ بھائی بہن بیٹی کا رول ادا کررھی تھی ۔۔‬
‫ضوفی کے اس مقام کو دیکھ کر میرے دل میں اسکی عزت بڑھتی جارہی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد ماہی نے سارے سوٹ پیک کیے اور لے کر نیچے چلی گئی ۔‬
‫تو ضوفی بولی یاسر تھک گئے ھوگے آرام کرلو ۔‬
‫میں نے کہا تمہیں دیکھ کر میری ساری تھکاوٹ دور ھو گئی ھے ضوفی بولی صبح کا مجھے اب دیکھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا تمہارا یہ روپ اب ھی دیکھا ھے ضوفی حیران ھوکر بولی کون سا روپ میں نے کہا ۔‬
‫ماہی کے ساتھ جس شفقت اور پیار سے تم پیش آرھی تھی ۔‬
‫وہ واال روپ ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر ماہی میری بہن ھی نہیں بلکہ ایک بہت اچھی دوست بھی ھے اور میں تو اسے اپنا بچہ سمجھتی ہوں ۔‬
‫بہت پیار کرتی ھے مجھ سے ۔۔‬
‫میں نے کہا نظر نہ لگے تم بہنوں کے پیار کو ۔۔۔سدا ایسے ھی محبت پیار سے رھو۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم ادھر لیٹ جاو میں اور ماہی نیچے لیٹ جاتے ہین ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑتے ھوے کہا ۔‬
‫جان من میرا سب کچھ چھین کر اب مجھے اکیال چھوڑ کر جارھی ھو۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫یاسر دل تو میرا بھی نہیں کررھا ۔۔‬
‫مگر ماہی کیا سوچے گی اور اگر امی اٹھ گئی تو مجھے تمہارے ساتھ یوں ایک کمرے مین دیکھ کر کیا سوچیں گی ۔‬
‫اس لیے مجبوری ھے پلیزززززز ناراض مت ھونا۔۔‬
‫میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا تم صبح جلدی نیچے چلی جانا اور ماہی کو سمجھا دینا وہ سمجھ جاے گی‬
‫پلیززززززز یہ وقت دوبارا پتہ نہیں کب آنا ھے ابھی تو میں تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں ھے ۔۔‬
‫ضوفی کچھ دیر خاموش رھ کر سوچتی رہی پھر بولی اچھا تم لیٹو میں کچھ دیر بعد اوپر آجاتی ھوں ۔‬
‫میں نے کہا پرامس ضوفی بولی کوئی شک میں نے نفی میں سر ہالیا تو ضوفی نے مسکرا کر میری گال پر چٹکی کاٹی اور‬
‫سوکیوٹ کہتی ھوئی دروازے کی طرف بڑھی تو میں نے پیچھے سے آواز دی ۔۔ضوفی ۔۔۔۔‬
‫ضوفی نے رک کر پیچھے کو مڑ کر دیکھا تو میں نے کہا کپڑے نہیں تبدیل کرنے ابھی ۔۔۔‬
‫ضوفی مسکرا کر میری طرف ہاتھ سے جا اوے کا اشارا کرتے ھوے اثبات میں سر ہالتے ھوے سیڑھیاں اترتی نیچے چلی‬
‫گئی ۔‬
‫اور میں دھڑام سے بیڈ پر گرا اور ضوفی کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔۔۔‬
‫آدھے گھنٹے بعد ضوفی کمرے میں داخل ہوئی تو میں چونک کر اٹھ کر بیٹھ گیا ضوفی نے دروازہ الک کیا اور میرے پاس‬
‫آکر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر بولی تم ابھی تک ویسے ھی بیٹھے ھو کم ان یار جوتے اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھو اور یہ ٹائی‬
‫تو اتار دو۔۔ اور کیا پینٹ پہن کر ھی سوؤ گے ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔تم آگئی ھو تو اب سب کچھ اتر ھی جاے گا ۔۔‬
‫ضوفی میرے پیٹ پر گد گدی کرتے ھوے بولی ۔‬
‫میرے گھر میں میری ھی عزت لوٹنے کی دھمکی دے رھے ھو۔۔۔‬
‫میں نے کہا ایسی حسین بچی اکیلی کمرے میں ھو اور میرے جیسا پینڈو پھسلے نہ یہ کیسے ھو سکتا ھے ۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی شوخے جلدی سے یہ ٹائی اور جوتے اتارو اور اوپر ھوکر بیٹھو۔۔‬
‫میں نے ٹائی ڈھیلی کی اور گلے سے اتار کر شوز بھی اتارے اور بیڈ کے اوپر بیٹھ کر بیک سے ٹیک لگا لی ۔‬
‫ضوفی بھی اوپر ھوکر میرے ساتھ ھی ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔۔ میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور چومتے ھوے بوال ضوفی تم‬
‫کتنی اچھی ہو جتنی تم خوبصورت ھو اس سے بھی ذیادہ تمہاری سیرت خوبصورت ھے تمہاری سوچ اور تمہارا بڑا پن دیکھ‬
‫کر تمہاری میرے دل میں اور عزت بڑھ گئی ھے ۔‬
‫ضوفی بولی ایسی بھی بات نہیں ھے ذیادہ مسکے مت لگاو۔۔‬
‫کچھ دیر بیٹھے ہم باتیں کرتے رھے ضوفی نے اپنے بارے میں بتایا کہ اس کے ابو اسکے بچپن میں ھی فوت ہوگئے تھے‬
‫اور اسکی والدہ نے کیسے محنت مزدوری کر کے انکو پاال اور کیسے اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ بٹایا اور پارلر کا کام سیکھ‬
‫کر آہستہ آہستہ کیسے ترقی کی ۔‬
‫ضوفی کی داستاں سن کر میرا تو دل بھر آیا میرے ساتھ ساتھ ضوفی بھی باتیں کرتی کرتی اموشنل ھوگئی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو دالسا دیا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر ہم دونوں لیٹ گئے ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے سائڈ‬
‫کے بل لیٹے ھوے تھے ۔‬
‫ضوفی میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹی ھوئی تھی اور میں اسکے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر رھا تھا ۔‬
‫ضوفی کی سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھیں ضوفی کے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ رھے تھے اتنے قریب ھونے کے‬
‫باوجود بھی مجھ میں نہ شہوت آرھی تھی نہ ھی ہوس تھی بس مجھے ضوفی پر پیار آئی جارھا تھا اور میرا دل کررھا تھا کہ‬
‫بس ساری عمر ضوفی ایسے ھی میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے ساتھ لیٹی رھے اور میں اسکو بس دیکھتا رہوں ۔۔۔‬
‫میں ٹکٹی باندھے ضوفی کے چہرے کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی نے پلکوں کی جھالر آنکھوں سے ہٹائی اور میری طرف دیکھتے ھوے اپنے خوبصورت ہونٹوں کو کھوال اور بولی‬
‫کیا دیکھ رھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ میں کتنا خوش قسمت ھوں کہ تم میرے پہلو میں لیٹی ھو ۔‬
‫میرا تو دل کرتا ھے ضوفی کے میری عمر تمہیں یوں ھی دیکھتے گزر جاے ۔‬
‫تم یوں ھی میرے سامنے رھو ایک پل بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ھو۔۔‬
‫مجھے ڈر ھے کہ یہ رات بیت نہ جاے صبح کا اجاال نہ ھو جاے ۔‬
‫کاش یہ وقت میرے بس میں ھوتا یہ لمحے میرے بس میں ھوتے تو کبھی انکو گزرنے نہ دوں ۔‬
‫ضوفی میرے ہونٹوں کو چومتی ہوئی بولی یاسر مجھے اتنے خواب مت دیکھو کہ جن کے ٹوٹنے کے ڈر سے میں کبھی‬
‫آنکھیں نہ کھول سکوں ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ماتھے کو چوما اور اسکے سنہری سلکی بالوں کو سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫ضوفی کاش تم میرے اندر جھانک سکو کاش تم میرے دل کو چیر کر دیکھ سکو کاش تم میری سانسوں کو محسوس کر سکو‬
‫کہ یہ دل صرف تمہارے لیے دھڑک رھا ھے یہ سانسیں صرف تمہارے نام ہیں ۔‬
‫تم میرے ظاہر باطن کی مالک بن چکی ھو میرے سپنوں کی ملکہ بن چکی ھے ۔‬
‫ضوفی میری بات سن کر ۔‬
‫مجھ سے مذید چپک گئی اور مجھے گھما کر نیچے کر کے میرے اوپر اوندھی لیٹ گئی اور میرے ماتھے پر آے میرے پف‬
‫کو انگلیوں سےسہالتے ھوے ماتھے سے ہٹا کر میرے ماتھے کو چوما پھر میری آنکھوں کو میرے گالوں کو اور پھر میرے‬
‫ہونٹوں پر اپنے شربتی ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫ضوفی کے مموں سمیت اسکا سارا جسم میرے جسم کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔‬
‫مجھے نہیں پتہ کہ کب میرے لن نے پینٹ میں ابھار بنا لیا تھا اور ضوفی کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی پاگلوں کی طرح میرے چہرے کو اور میرے ہونٹوں کو چومی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کے مولٹی فوم جیسے نرم جسم کے گرد بازو ڈال کر ضوفی کی کمر کو سہالنے لگا ۔‬
‫ایک تو ضوفی کا جسم بہت نرم تھا اوپر سے ضوفی نے ریشمی شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی جو میرے اوپر لیٹنے کی وجہ‬
‫سے اسکی گانڈ سے اوپر ھوکر کمر کے کچھ حصے کو ننگا کر چکی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا جیسے ضوفی کی کمر‬
‫بلکل ننگی ھے میں مزے سے ضوفی کی فرنچ کسنگ کا جواب بھی دے رھا تھا اور ساتھ ساتھ ضوفی کی نرم مالئم کمر کو‬
‫بھی سہال رھا تھا ضوفی بھی فل گرم ھوچکی تھی نہ اسے پتہ تھا کہ وہ کیا کررھی ھے اور نہ مجھے ہوش تھا کہ میں کس‬
‫حد تک جارھا ھوں ۔‬
‫دونوں کے ہوش و حواس گم ھوچکے تھے دو جسم ایک دوسرے کے جسموں میں سمانے کی کوشش کررہے تھے ۔‬
‫میرے گستاخ ہاتھوں نے ضوفی کی شرٹ کو مذید اوپر کر کے اسکی کمر کو آدھا ننگا کردیا تھا ۔‬
‫میرے ہاتھ جب ضوفی کی نرم مالئم کمر کو سہالتے ہوے اسکی ابھری ھوئی گول مٹول ڈبل روٹی پر جاتے تو میں ڈبل‬
‫روٹی کے دونوں پیسوں کو الگ الگ مٹھی میں بھینچ لیتا جب میں ضوفی کی گانڈ کو بھینچتا تو ضوفی اپنی پھدی کو میرے‬
‫لن کے ابھار پر دباو دے کر رگڑتی جس سے میرا لن مذید اوپر کو آنے کی کوشش کرتا مگر بےچارا دو چیزوں میں قید تھا‬
‫انڈر ویئر اور پینٹ میں ۔‬
‫ضوفی نے تو پینٹ ھی اتنی سوفٹ اور فلیکس ول پہنی ھوی تھی کے اسکی گانڈ اور پھدی بلکل ننگی محسوس ھورھی تھی‬
‫میری بے چینی بڑھتی جارھی تھی تمام حدیں توڑنے کی طرف میں بڑھتا جارھا تھا اور ان حدوں کا راستہ ضوفی ہموار‬
‫کرتی جارھی تھی ۔‬
‫کہ اتنے میں ضوفی مجھ سے الگ ہوئی اور میرے لن کے اوپر ھی اپنا پورا وزن ڈال کر بیٹھ گئی اور میری شرٹ کے بٹن‬
‫کھولنے لگ گئی میں نے بھی اپنی طرف گھورتے ھوے ضوفی کے گول مٹول مموں کو مٹھیوں میں بھر لیا ضوفی نے منہ‬
‫چھت کی طرف کر کے سسکاری بھری ۔‬
‫اور میری شرٹ کے ایک ایک کر کے سارے بٹن کھول دیے ادھر میں نے بھی ضوفی کی شرٹ پکڑ کر اسکے مموں سے‬
‫جیسے ھی اوپر کی تو ضوفی نے جلدی سے ۔۔‬
‫‪.‬اپنی شرٹ پکڑ کر لہراتے ھوے ایک طرف پھینک دی ضوفی کے سرخ رنگ کے بریزیر میں چٹے سفید ممے دیکھ کر‬
‫میری تو آنکھیں ابھل کر باہر گرنے کو تھیں میں نے ضوفی کی کمر پر ھاتھ رکھے اور اسے اوپر سے پلٹ کر اپنے نیچے‬
‫لے آیا جب ضوفی کو میں نے بیڈ پر پھینکا تو اسکے ممے اسے چھلکے جیسے بریزیر کو پھاڑ کر باہر نکل جایں گے ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو اپنے نیچے گراتے ھی اسکے اوپر آکر اسکے چٹے سفید مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے ضوفی کے ممے‬
‫اتنے سوفٹ تھے کہ مجھے ایسے لگا جیسے میں نے روئی پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے ھیں اتنی سوفٹنس تھی کہ اففففففف کیا‬
‫بتاوں یارو کہاں سے وہ الفاظ الوں جو اس قابل ہوں کہ ضوفی کے مموں کی تعریف بیان کرسکیں ۔۔‬
‫میں بریزیر سے باہر والے حصے کو چوم چوم کے سرخ کر چکا تھا اور ضوفی کی سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رہیں‬
‫تھیں ۔‬
‫میرا تو دل کررھا تھا کہ انکو کھا جاوں اپنے اندر نگھل جاوں ۔‬
‫میں کافی دیر ضوفی کے مموں کے اوپری حصے کو چومتا رھا چاٹتا رھا دانتوں میں لے کر ہلکا سا کاٹتا رھا ۔‬
‫ضوفی کی سسکاریاں گونجتی رہیں اس کے دونوں ھاتھ میرے سر کو اپنے احصار میں لے کر مموں پر دباتے رھے ۔‬
‫میں نے جوش میں آکر ضوفی کے بریزیر کو پکڑ کر مموں سے الگ کرنے لگا تو ضوفی نے میرے ھاتھ پکڑ لیے میں نے‬
‫ضوفی کی طرف دیکھا تو ضوفی نے نفی میں سر ہالیا اور بولی نہیں یاسر اس سے آگے نہیں ۔‬
‫ورنہ دونوں بہک جائیں گے اور پھر ہم میں وہ محبت وہ چاہت وہ تڑپ باقی نہیں رھے گی اگر تم یہ چاہتے ھو کہ ہماری یہ‬
‫مالقات آخری مالقات ھو تو ضوفی نے ہاتھ ہٹاتے ھوے کہا جو تمہارا دل کرتا ھے وہ کرلو ۔‬
‫میں نے ضوفی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تو نجانے کیوں میں نے ضوفی کے مموں سے ہاتھ ایسے ہٹاے جیسے مموں میں‬
‫کرنٹ آگیا ھو ۔‬
‫افففففف‬
‫سہی کہا کہنے والے نے‬
‫جو مزہ تکرار میں ھے وہ اقرار میں نہیں۔‬
‫غالب شوق بڑھتا گیا ان کی نہیں نہیں میں۔‬
‫میں نہیں چاہتا تھا کہ میں ضوفی کے ساتھ زبردستی کروں یا اسکی رضامندی کے خالف جاوں‬
‫میں تو اس حسن مجسمہ کا پجاری تھا میں تو اس کا خادم تھا اسکا عاشق تھا وہ میری روح کی مالک تھی میرا انگ انگ‬
‫اسکے سحر میں جکڑا ھوا تھا اسکی غالمی میرے تن من نے قبول کر لی تھی اور ایک خادم اپنے مالک کے حکم کے‬
‫خالف اسکی مرضی کے خالف کیسے جاسکتا تھا۔‬
‫میں ایک جھٹکے سے ضوفی کے اوپر سے اترا اور ضوفی کے ساتھ لیٹ کر چھت کی طرف گھورتے ھوے لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گیا ۔ضوفی سائڈ کے بل میرے اوپر ھوئی اور میرے ننگے سینے کو چومتے ھوے بولی یاسر ناراض ہوگئے‬
‫ھو ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا‬
‫ضوفی مذید میرے اوپر آئی اور اپنے ننگے جسم کو میرے ننگے سینے اور پیٹ پر رکھتے ھوے اپنی گالب کی پنکھڑیوں‬
‫کو میرے ہونٹوں کے قریب کرتے ھوے اپنی گرم سانسوں کو میرے چہرے پر پھینک کر مجھے مذید اکساتے ھوے میرے‬
‫اندر کی آگ کو مذید سلگاتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسرررر میں نے جو اسکی گرم سانسوں کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیں تھیں آنکھیں کھول کر اسکی جھیل میں ڈبکی لگاتے‬
‫ھوے اپنے لرزتے ہونٹ ہالے اور بڑی مشکل سے بوال جججی جان ضوفی میرے ہونٹوں پر اپنی پنکھڑیوں کو رکھ کر ایک‬
‫لمبی کس کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ایسے کیوں منہ بنا لیا ھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے چاند پر آے ھوے سرخ دھکتے ھوے بادلوں کی لہروں کو ہٹاتے ھوے کہا نہیں جان میں تم سے ناراض‬
‫ہوجاوں میری سانسیں نہ رک جایں‬
‫ضوفی نے تڑپ کر میرے ہونٹوں پر اپنے مخملی ہاتھ کو رکھ کر کہا سانسیں بند ھوں تمہارے دشمنوں کی آئیندہ ایسی بات‬
‫منہ سے نکالی تو جان نکال دوں گی ۔‬
‫میں نے کہا جان کہاں مجھ باقی ھے میری ہر سانس تو تم نے چھین لی ھے تمہاری ہر سانس کے ساتھ تو میری سانس چل‬
‫رھی ھے ۔‬

‫)‪.Update no (96‬‬
‫ضوفی نے چھ سات دفعہ میرے ہونٹوں کو سپیڈ سے چوما اور گھوم کر میرے اوپر آگئی اور پھر پہلی پوزیشن بنا کر میرے‬
‫سخت لن کے اوپر اپنی نرم گانڈ رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر اپنے بریزیر کی ہک کھولنے لگی ضوفی کے‬
‫ایسے کرنے سے ضوفی کے ممے مذید تن کر میرے سامنے آگئے ۔ مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا میں نے آنکھیں بند کیں اور‬
‫اپنے دونوں ہاتھ اسکے ابھرے ھوے مموں کی طرف بڑھاے اور ایک ھی جھٹکے میں ۔۔‬
‫‪.‬میں نے ضوفی کے بازوں کو پکڑ لیا اور نفی میں سر ہالتے ہوے اسکو بریزیر کی ہک کھولنے سے منع کیا ضوفی کی‬
‫آنکھوں میں خمار چھایا ہوا تھا اسکی نشہ سے چور آنکھیں نیم بند تھیں ضوفی نے پلکوں کو کھوال اور میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫کیوں کیا ہوا۔ اب میں اپنی مرضی سے اتار رھی ہوں تو اب مجھ روک کیوں رھے ھو ۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں ضوفی میں تمہیں ایسے ھی دیکھنا چاہتا ہوں ۔‬
‫تمہارا حسن مجھے لباس میں ھی اچھا لگتا ھے بے لباس ہوگئے تو بہک جائیں گے اور اگر بہک گئے تو حد سے گزر جائیں‬
‫۔۔۔‬
‫میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔‬
‫ضوفی خماری میں ڈوبی میرے اوپر مذید جھکی اور میرے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ کر کے نشیلی آنکھوں کو میری‬
‫آنکھوں میں ڈالتے ہوے مدہوشی کے عالم میں بولی یاسررررر میرا بہکنے کو دل کررھا ھے ۔‬
‫میں نے اپنا سر اوپر کر کے ضوفی کے ہونٹوں کی طرف اپنے ہونٹ بڑھاے اور ضوفی کے مدمست ہونٹوں کو چومنے لگا‬
‫تو ضوفی نے اپنا سر پیچھے کو کیا جس سے میرے اور ضوفی کے ہونٹوں کا فاصلہ بڑھ گیا میرے ہونٹ ہوا میں ھی رھ‬
‫گئے ضوفی شرارت بھرے انداز سے مسکرا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی مجھے بے لباس ہونے دو یاسر پلیزززز‬
‫مجھے آج بہکنے دو مجھے نہ روکو یاسرررررر‬
‫میرے ہاتھ ضوفی کی کمر پر تھے اور انگلیاں ضوفی کے بریزیر کے سٹریپ پر لگی ہک پر تھیں میرے دماغ اور میرے دل‬
‫کی جنگ جاری تھی دماغ پر ہوس سوار تھی اور دل میں ضوفی کے لیے سچی محبت کا چراغ روشن تھا دماغ مجھے‬
‫بریزیر کی ہک کھولنے پر مجبور کررھا تھا کہ یاسر کھول دو کیا سوچ رھے ان دودھ کے پیالوں سے جی بھر کر اپنی‬
‫پیاس بجھا لو یہ موقع دوبارا نہیں ملنا پکا ھوا پھل تیری جھولی میں خود گر رھا ھے ساری حدیں پار کردو آج توڑ دے سیل‬
‫اسکی اور بہت سی مل جائیں گیں دماغ کی مانتے ہوے میں جیسے ہی انگلیاں ہک کو کھولنے کے لیے حرکت میں التا تو‬
‫میرادل سے آواز آتی ٹھہر جاو یاسر تمہیں چاہنے والی بے لوث سچی محبت کرنے والی ایسی لڑکی دوبارا نہیں ملے گی یہ‬
‫بس دو منٹ کا مزہ ھے پھر نہ اسے تیری طلب رہنی ھے اور نہ تجھے اسکی میں ششوپن کا شکار تھا ادھر ضوفی مجھے‬
‫اکسا رھی تھی ضوفی کےچٹے سفید ادھ ننگے ممے میری آنکھوں میں چبھ رھے تھے آخرکار دل کی جیت ہوئی اور میں‬
‫نے نفی میں سرہالتے ھو کہا نہیں ضوفی آج ہم ایسے ھی پیار کریں گے ضوفی برا سا منہ بنا کر مدہوشی میں ڈوبی میرے‬
‫اوپر اوندھی لیٹ گئی‬
‫میں ضوفی کے کی کمر کو سہال رھا تھا میرا ناسمجھ منہ ذور لن وکھرا ای پینٹ میں ابھار بناے ضوفی کی پھدی سے چھیڑ‬
‫چھاڑ کررھا تھا۔‬
‫ضوفی بولی یاسررر میں کیا کروں مجھ سے کنٹرول نہیں ہورھا میں تم میں سمانا چاہتی ہوں میرے انگ انگ کو نچوڑ دو‬
‫آج۔‬
‫ضوفی اپنی پھدی والے حصہ کو میرے لن پر رگڑتے ھوے مدہوشی میں بولی جارھی تھی‬
‫یاسررررر پلیززز کچھ کرو نہ کرو پلیزززز میں ہر درد سہنے کو تیار ھوں مجھے ادھورا نہ چھوڑو یاسرررررر‬
‫آہہہہہہہہۃہہہہہہہ کرتے ھوے ضوفی نے پورے ذور سے اپنی پھدی کو میرے لن پر دبا دیا ۔۔‬
‫اور ضوفی نے میرے کندھے پر دانت گاڑ دئیے ۔۔‬
‫کچھ دیر جھٹکے لینے کے بعد ضوفی میرے اوپر ھی ڈھے گئی اور میں اسکی کمر کو سہالتے ھوے اسے ریلیکس کرنے‬
‫لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر ہم خاموشی سے ایسے ھی لیٹے رھے میں نے ضوفی کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈالے اور بازوں میں اسکی‬
‫ننگی کمر کو بھینچ کر اسکو گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود ضوفی کے اوپر آگیا اور ساتھ ھی اسکے ہونٹوں پر ہونٹ‬
‫رکھ کر چوسنے لگ گیا ضوفی بھی فرنچ کسنگ میں میرا برابر کا ساتھ دے رھی تھی ۔‬
‫ضوفی نے میری کھلی شرٹ کو آگے سے پکڑ کر میرے بازوں سے نکال دیا اب دو ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫چپکے ھوے تھے ۔‬
‫کچھ دیر میں ضوفی پھر گرم ہوگئ اور‬
‫ضوفی کبھی میری کمر پر اپنے ناخن چبھوتی اور ساتھ ھی اپنی پھدی کو میرے لن کے ساتھ مسلتی ۔‬
‫جس سے میرے اندر شہوت کو مذید چنگاری ملتی ۔‬
‫اور میں بےدردی سے ضوفی کے ہونٹوں کو چوستا اور کبھی اسکی زبان کو اپنے منہ میں جکڑ کر چوس کر اسکا لباب‬
‫اپنے اندر اتارتا۔ضوفی بھی مجھ سے پیچھے نہ تھا وہ بھی اس جنونی کسنگ میں برابر میرا ساتھ دے رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ہماری کسنگ چلتی رھی ۔‬
‫جب دونوں تھک گئے تو ضوفی نے اپنے ہونٹ ہٹانے میں پہل کی اور اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انکو سہالنے لگ گئی‬
‫میری نظر جب ضوفی کے ہونٹوں پر پڑی تو اسکے ہونٹ کافی سوجھے سوجھے محسوس ہوے ۔‬
‫میں نے ایک نظر ضوفی کے ہونٹوں پر ڈالی جو اس وقت ٹماٹر کی طرح سرخ ہورھے تھے ۔‬
‫میں نے ان گالب کے پھولوں پر ہلکا سا بوسا لیا اور کھسکتا ھوا۔‬
‫۔ضوفی کے اوپر سے اسکے گے کی طرف گیا اور اپنی زبان نکال کر اسکی شہ رگ پر رکھی اور نوک کو دباتے ہوے ۔‬
‫زبان کو اوپر اسکی ٹھوڑی کی طرف لیجانے لگا ضوفی کے منہ سے سییییییی نکلی اور اس نے ساتھ ہی منہ چھت کی طرف‬
‫اٹھا کر سر کو پیچھے کی جانب‬
‫‪.‬خم دے کر اپنی صراحی دار گردن کو مذید لمبا کر دیا ۔‬
‫میں نے ضوفی کے گلے کے ہر ہر حصے کو زبان سے سیراب کیا اور پھر چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتا ھوا مذید نیچے کی‬
‫جانب کھسکتا ھوا اس کے دودھیا رنگ کے ادھ ننگے مموں کی دراڑ میں زبان ڈال دی ضوفی کے ممے تھے کہ افففففففف‬
‫اتنی سوفٹنس توبہ کیا بتاوں یارا۔۔۔‬
‫میری ساری زبان اس کے مموں کی دراڑ میں چلی گئی اور میں زبان کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا جیسے زبان سے ممے‬
‫چود رھا ھوں ۔‬
‫میں کبھی اسکے مموں کو چومتا تو کبھی چاٹتا میری تھوک سے اس کے ممے چمکنے لگ گئے تھے ۔۔میرا بس نہیں چل‬
‫رھا تھا کہ ابھی ان دودھ کے پیالوں سے ڈھکن اتار کر ان پیالوں کو منہ کے ساتھ لگا کر ایک ھی سانس میں سارا دودھ پی‬
‫جاوں بلکہ ان مموں کو ھی اپنے منہ کے اندر بھر کر اندر ھی نگھل جاوں ایک تو ممے انتہا کے چٹے تھے دوسرا سرخ‬
‫رنگ ان پر قیامت ڈاھ رھا تھا ۔‬
‫میرا سچا پیار ھی میرے جزبات کو بہکنے نہیں دے رھا تھا‬
‫ورنہ تو کب کی ٹانگیں میرے کندھوں پر ھوتی اور لن پھدی کو چیڑ پھاڑ کر گہرائیوں میں اترا ہوتا ۔‬
‫مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا ۔‬
‫گھی‪ .‬جلتی آگ پر بھی پگھلنے کا نام نہیں لے رھا تھا۔‬
‫مموں کے ننگے حصے کو اپنی مرضی سے ہر ہر جگہ سے چوم چاٹ کر میں نیچے پیٹ کی جانب بڑھا اور جیسے ھی‬
‫ہونٹ پیٹ پر رکھی ضوفی تڑپی اور اسکا اندر کی طرف گیا پیٹ تھرتھرایا ۔‬
‫ضوفی نے بیڈ کی چادر کو دونوں مٹھیوں میں بھینچا اور سر دائیں بائیں مارتے ھوے سییییییی اففففففف کرنے لگ گئی مگر‬
‫میری زبان اور ہونٹ اسکے روئی کے گولے جیسے نرم پیٹ کو بھی چوم چاٹ رھے تھے ۔‬
‫جب میں مذید نیچے ناف سے بھی نیچے گیا تو ضوفی کندھوں سمیت اوپر کو اچھلی اور ھاےےےےےےےے مممممممم‬
‫سیییییییی کرتی ھوئی اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے بالوں کو دبوچ کر مجھے پیچھے کرنے لگی مگر میں کب باز‬
‫آنے واال تھا خود ھی تو ضوفی نے کہا تھا کہ کچھ بھی کرو میں ہر درد برداشت کرنے کو تیار ھوں مگر یہ تو مزہ تھا درد‬
‫تو ابھی باقی تھا ۔‬
‫ضوفی میرے سر کو جتنے ذور سے پیچھے کرتے ھوے اپنے گانڈ کو دائیں بائیں کر کے میرے نیچے سے نکلنے کی‬
‫کوشش کرتی میں اتنے ھی جنون سے اسکی ناف کے نچلے حصے کو زبان سے زدوکوب کرتا‬
‫ضوفی کی برداشت دم توڑ گئی ضوفی نےپورا ذور لگا کر میرا سر پیچھے کرتے ھوے بولی ننننہیییں یاسررررررررررر‬
‫نننننہ کروووووو ہاےےےےےےے امییییییی اور میں پیچھے ھوگیا تو ضوفی گھٹنوں کو اوپر کر کے گھٹنوں پر سر رکھ کر‬
‫کانپنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کہ بازو کو پکڑا تو ضوفی نے میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر ذور سے دبا دیا اور سر اٹھا کر سرخ آنکھوں اور‬
‫گالبی گالوں اور رسیلے ہونٹوں سے میری طرف دیکھنے لگ گئی اور پھر اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو ہالتے ھوے بولی‬
‫یاسررررررر میری جان نکال دی۔‬
‫میں اسکے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بوالتمہاری جسن تو کب کی نکل چکی ھے اور اب تمہاری جان تو میرے‬
‫اندر ھے‬
‫اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ کر کہا یہ دیکھو یہ دل تمہارے لیے دھڑک رھا ھے ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر آئی لو یو اور یہ کہتے ھوے وہ اٹھ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر مجھ سے چمٹ گئی ۔۔‬
‫اور میری گردن میرے کان میری گال کو چومتے ھوے بار بار آئی لویو یاسر آئی لو یو یاسر کہتی جارھی تھی ۔۔‬
‫دوستو آپ بھی سوچتے ھوگے کہ بار بار بس چوما چاٹی ھی ھو رھی ھے تو دوستو جس سے سچا پیار ھوتا ھے تو بس دل‬
‫یہ ھی کرتا ھے کہ محبوب بس آنکھوں کے سامنے بیٹھا رھے اور عاشق اسے دیکھتا رھے ۔‬
‫اور جب معشوق ایسا حسین ھو ایسا دلربا ھو تو پھر عاشق تو اس کے جسم کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرتا ھے ۔‬
‫میرا بھی اس وقت یہ ھی حال تھا میرا تو بس یہ ھی دل کررھا تھا کہ بس ضوفی یوں ھی مجھ سے لپٹی رھے اور وقت نزا‬
‫تک یوں ھی مجھ سے لپٹی رھے مجھے عجیب سا سکون مل رھا تھا میں نے بھی اسکے کمر کے گرد بازو ڈال لیے اور ہم‬
‫ایسے ھی پھر لیٹ گئے ۔‬
‫کتنی دیر لیٹے رھے۔۔‬
‫نہیں معلوم۔۔‬
‫کتنی دیر ہونٹوں میں ہونٹ رھے نہیں معلوم ۔۔۔‬
‫‪.‬کتنی دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو دیکھتے رھے‬
‫نہیں معلوم ۔۔۔۔‬
‫وقت کتنا گزرا نہیں معلوم کب نیند کی وادیوں میں گئے‬
‫نہیں معلوم ۔۔۔‬
‫ہوش تب آیا جب سورج کو ہوش آیا‬
‫آنکھ تب کھلی جب سورج نے آنکھ کھولی ۔‬
‫میرے کانوں میں پر ترنم گونجی یاسررر اٹھو میں نے آنکھیں کھولی تو ضوفی نہا کر کپڑے بدل کر تیار ھوچکی تھی ۔‬
‫میں انگڑائی لیتے ھوے اٹھ کر بیٹھ گیا اور حسرت بھری نگاہوں سے ضوفی کو ایسے دیکھنے لگ گیا جیسے اسے مدتوں‬
‫بعد دیکھا ھو‬
‫پتہ نہیں کم بخت نے کون سے تعویز ڈال دیے تھے کہ اسکے سوا اب کچھ دکھتا ھی نہیں تھا۔۔‬
‫‪.‬میں آنکھیں کھولے ضوفی کے کھلے کھلے چہرے کو دیکھی جارھا تھا اس کے گیلے بالوں سے اٹھتی ہوئی خوشبو رات کا‬
‫افسانہ بیان کررھی تھی ضوفی نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ھو ے کہا ۔‬
‫جناب کدھر پہنچے ھوے ھو میں ادھر ہوں۔۔‬
‫میں نے ضوفی کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو ضوفی مموں کے بل میرے اوپر گر گئی میں نے ساتھ ھی اسکی کمر‬
‫کے گرد بازو ڈالے اور بازوں کو بھینچ کر اسکے گیلے بالوں میں منہ چھپا کر لمبا سانس اندر کو کھینچا ۔ اور آہہہہہہہہ کیا ۔۔‬
‫کیا ھی مدمست خوشبو اٹھ رھی تھی ضوفی کے بالوں میں سے افففففففف‬
‫ضوفی میرے سینے پر ممے رکھتے ہوے اور منہ میرے منہ کے اوپر کرتے ھوے بولی رات کو کوئی کسر باقی رھ گئی‬
‫تھی جو اب پوری کرنے کا ارادہ ھے اٹھ جاو کب کی صبح ھوگئی ھے ٹائم دیکھو ۔‬
‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے ضوفی کے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے کہا میری صبح تو ابھی ہوئی ھے‬
‫تمہارے اس حسین چہرے کی کرنوں سے ۔‬
‫ضوفی بولی بڑے ھی تم وہ ھو۔۔۔چھوڑو مجھے کوئی اجاے گا دروازہ کھال ھوا ھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما جو نہانے کی وجہ سے کھلتے گالب کی پنکھڑیوں کی طرح چمک رھے تھے‬
‫اور ضوفی کو چھوڑ دیا ۔‬
‫ضوفی جلدی سے میرے اوپر سے اٹھی اور دونوں ھاتھ اوپر لیجا کر انگلیوں کو اپنے بالوں میں پھیرتے ھوے سینے کے‬
‫ابھاروں کو مذید ابھارتے ھوے بولی اٹھ جاو اور نہا کر فریش ھوجاو میں ناشتہ لگاتی ہوں ۔‬
‫میں نے کہا میرا ناشتہ تو ہوگیا۔‬
‫ضوفی حیران ہوکر میری طرف دیکھتے ھوے بولی وہ کیسے جناب ۔‬
‫میں نے چمی لینے کے انداز سے ہونٹوں کو کرتے ھوے اشارے سے بتایا کہ تمہارے گالب کا رس پی کر ۔۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے میری طرف اشارہ کرتے ھوے بولی چل شوخا ۔اور ساتھ ھی اپنی گول مٹول گانڈ کو ڈگمگا کر چلتے‬
‫ھوے کمرے سے باہر نکل گئی اور میں دل کو تھام کر اسے جاتے ھوے دیکھنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی کے جانے کے کچھ ھی دیر بعد میں اٹھا اور واش روم میں گھس گیا کچھ ھی دیر میں‬
‫میں نہا کر فریش ھوکے واش روم سے باہر نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں برش پھیر رھا تھا ۔‬
‫کہ ضوفی ناشتے کی ٹرے لیے ھوے کمرے میں داخل ھوئی اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی اففففف یاسر تم نے پھر وہ‬
‫ھی پینٹ شرٹ پہن لی ۔‬
‫کوئی حال نہیں تمہارا‬
‫مگھر نے کہا تو اور کیا پہنتا میرے کپڑے تو پارلر پر پڑے ہیں ضوفی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی ۔‬
‫جناب عالی کل جو پینٹ شرٹز خریدی ہیں وہ کیا میں نے پہننی ہیں ۔‬
‫مجھے تو پہلے ھی شک کیا بلکہ یقین تھا کہ ضوفی نے میرے لیے ھی شاپنگ کی ھی ۔‬
‫میں نے روٹھنے کے انداز میں کہا ضوفی تم نے بہت ذیادتی کی ھے یہ سب کرکے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے میں اٹھا‬
‫نہ سکوں ۔‬
‫ضوفی ناشتے کے ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چلتی ھوئی میرے پاس آئی اور میں جو اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں آتا ھوا‬
‫دیکھ رھا تھا‬
‫ضوفی نے میرے قریب آکر مجھے پیچھے سے جپھی ڈالتے ھوے اپنے دونوں ھاتھ میرے پیٹ پر باندھ کر میرے ساتھ لگ‬
‫کر کھڑی ھوکر میرے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آئینے میں دیکھتے ھوے بولی ۔۔‬
‫کون سا بوجھ ۔‬
‫کیا میں تم پر بوجھ ہوں ۔‬
‫میں نے اپنی سائڈ تبدیل کی اور ضوفی کے رو برو کھڑا ھوکر ضوفی کو باہوں میں بھر کر بوال۔‬
‫نہیں ضوفی میں نے یہ تو نہیں کہا تم تو میرا غرور ھو میری جان ھو تم نے تو مجھے ایک نئی زندگی دی جینے کا ہنر‬
‫سیکھایا ھے مجھے انسان بنایا ھے ۔‬
‫تمہارا یہ ھی احسان میں مرتے دم۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا بکواس بند کرو خبردار اب یہ فضول بکواس کی مریں تمہارے دشمن ۔‬
‫چلو پہلے ناشتہ کرو اور پھر کپڑے تبدیل کرو اور میرے ساتھ ھی پارلر پر چلو مجھے ادھر چھوڑ کر تم دکان پر چلے جانا ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں پر پھر ایک کس کی اور بوال ضوفی تم ہر لحاظ سے پرفیکٹ ھو مجھے تو اپنی قسمت پر ناز ھو‬
‫رھا ھے کہ مجھے تمہارا پیار مال ۔‬
‫ضوفی نے بھی میرے ہونٹوں کو چوما اور بولی اچھا اچھا اب ذیادہ مسکے نہ لگاو ناشتہ ٹھنڈا ھورھا ھے ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے ضوفی مجھ سے الگ ھوئی اور ہم دونوں ایک ساتھ ھی ناشتے کی ٹیبل کیطرف بڑھنے لگے‬
‫ناشتہ کر کے ضوفی نے اپنی پسند کی پینٹ شرٹ نکالی بلو جینز اور اورینج ہاف بازو شارٹ شرٹ ۔‬
‫جب میں نے پہنی تو ضوفی میری بالئیں لینے لگ گئی اور چوم چوم کر ساری لپسٹک سے میرے گال بھر دیے ۔‬
‫اور پھر خود ھی تاول کو گیال کر کے میرے گال صاف کرنے لگی اور ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھول کر پھر لپسٹک لگا کر‬
‫گاون پہن کر اور میری پینٹ شرٹس کا شاپر پکڑے ہم دونوں سیڑیاں اتر کر نیچے آے تو ضوفی کی امی مجھے بڑے غور‬
‫سے دیکھنے لگ گئی جیسے لڑکی کی ماں اپنے ہونے والے جمائی کو دیکھتی ھے ۔‬
‫میں نے انکے پاس پہنچ کر انکو سالم کیا تو آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور میرا ماتھا چومتے ھوے مجھے دعائیں دیتے‬
‫ھوے آتے جاتے رہنے کا کہنے لگی اور میں بھی اثبات میں سر ہالتا ھوا ان سے اجازت لے کر ضوفی کے ساتھ گھر سے‬
‫نکال اور ہم پیدل ھی چلتے ھوے پارلر کی طرف جانے لگے ۔‬
‫میں نے ایک بات نوٹ کی کہ جس چوک سے بھی گزرتے وہاں کھڑے لڑکے مجھے اور ضوفی کو ایسے دیکھتے جیسے‬
‫کوئی‬
‫چڑیا گھر کی نایاب چیز ادھر سے بھاگ کر بازار میں آگئی ھو۔۔‬
‫میں کچھ کو نظر انداز اور کچھ کو گھوریاں ڈالتے ھوے بازار پہنچا ۔‬
‫میں نے راستے میں ضوفی کو کہا ضوفی میری ایک بات مانو گی ۔‬
‫ضوفی بولی دو منوا لو ۔‬
‫میں نے کہا نہیں بس ایک ھی ۔‬
‫ضوفی بولی حکم جناب ۔‬
‫میں نے کہا حکم نہیں گزارش ھے اور وہ یہ ھے کہ تم نے اب نہ تو اکیلی گھر جایا کرنا ھے اور نہ ھی اکیلی نے گھر سے‬
‫آیا کرنا ھے ۔‬
‫ضوفی نے حیران ھوتے ھوے پوچھا وہ کیوں جی ۔‬
‫تو میں نے کہا بس مجھے اچھا لگے گا اگر تم خوشی سے میری بات مانو تو ٹھیک ھے ورنہ میری کوئی ذبردستی نہیں‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر وہ تو ٹھیک ھے مگر میں کس کے ساتھ آیا جایا کروں گی ۔‬
‫میں نے سینے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا۔‬
‫میں میں میں جو ہوں تمہارا خادم تمہارا نوکر ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر چپت لگاتے ھوے بولی شوخے آرام نال ۔‬
‫ایسی باتیں کرکے مجھے گناہ گار نہ کر ۔‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم شاہین مارکیٹ پہنچے تو مارکیٹ کی کارنر والی ایک جیولری کی دکان سے ایک بڑا ممی‬
‫ڈیڈی لڑکا بڑی شوخی سے باہر آیا اور مجھے گھور گھور کردیکھنے لگ گیا میں نے اسے نظر انداز کیا اور ضوفی کو پھر‬
‫ایک بار پوچھا کہ جواب نہیں دیا ۔‬
‫ضوفی بولی جواب ضرور سننا ھے‬
‫مجھے خوشی ھوگی اگر تم مجھے پک اینڈ ڈراپ کرو گے‬
‫میں نے کہا تو کتنے بجے آوں ضوفی بولی چھ بجے میں نے ہمممم کیا اور اسے باے باے کرتا دکان کی طرف چل دیا اور‬
‫شکر ادا کیا کہ ہماری دکان آٹھ بجے بند ہوتی ھے اور مجھے دو گھنٹے کا وقت فری میں مل گیا ۔‬
‫جیولری واال لڑکا اپنی دکان کے باہر کھرا مجھے پیچھے سے بھی گھورتا رھا میں نے دو تین دفعہ گھوم کر پیچھے دیکھا تو‬
‫وہ لڑکا ادھر ھی کھڑا میری طرف دیکھ رھا تھا۔‬
‫میں دکان پر پہنچا تو دکان کھلی ھوئی تھی ۔‬
‫جب میں دکان کے اندر داخل ھوا تو انکل مجھے ناقابل یقین نظروں سے سکتے کہ عالم میں دیکھتے ھوے ایکدم کھڑے‬
‫ھوگئے میں انکی حالت کو دیکھ کر دل ھی دل ہنستے ھوے انکے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا تو انکل نے بڑا لمبا سالم کا‬
‫جواب دیا ۔‬
‫]اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے اور میرے لباس کو دیکھتے ھوے حیرانگی سے بولے اوےےےےے یاسررررر‬
‫پتر تینوں کی ھوگیا اےےےےمیں نے کہا کچھ نہیں انکل جی بس کل ایک دوست کے ساتھ الہور گیا تھا تو سوچا اپنے لیے‬
‫بھی پینٹ شرٹ لے لوں ۔‬
‫۔انکل بولے واہ بھئی واہ منڈا تے الہوری بابو بن گیا اے ہن تے پیشانیا وی نئی جاندا ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا انکل جی کیسا لگ رھا ہوں ۔‬
‫تو انکل انگلی سے اشارہ کرتے ھوے بولی‬
‫ایکدم ہیرو لگ رھا‬
‫نظر سے بچاے جیتے رھو‬
‫[‪] size/‬میں شوز اتار کر کاونٹر پر چڑھا اور جھاڑن سے کپڑوں کو جھاڑنے لگ گیا کہ جنید دکان میں داخل ھوتے ھوے‬
‫میری طرف دیکھ کر دونوں ھاتھ منہ پر رکھ کر حیرانگی سے آنکھوں کو پھاڑے میری طرف آیا اور ۔‬
‫بوال اوے یاسر تینوں کی ھوگیااااااا۔‬
‫میں نے کہا کیوں میرے وچ کیڑا تانگہ وجا اے ۔‬
‫جنید بوال نئی یار بڑی ٹور شور کڈی ھوئی اے خیر تے اے ۔‬
‫میں نے اسے بھی دوست کے ساتھ الہور والی فلم سنا کر جان چھڑوائی ۔‬
‫جنید گھنٹہ بھر میری تعریفیں کرتا رھا اور مجھے کندھے مار مار کہتا رھا کہ اب اس شہر کی بچیوں کی خیر نئی ۔۔۔۔‬
‫سارا دن دکان پر مصروفیت میں اور ہنسی مزاق میں گزر گیا چاربجے کے بعد میری بےچینی میں اضافہ ہوتا گیا چار سے‬
‫چھے بجے کہ درمیاں میں نے کوئی سو دفعہ ٹائم دیکھا کہ چھے بجنے میں ابھی کتنا وقت درکار ھے ۔‬
‫آخر کار چھے بجے اور میں انکل سے پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا مارکیٹ پہنچا تو وہ ھی‬
‫جیولری واال لڑکا دکان کے باہر بیٹھا تھا اسکی نظر جیسے ھی مجھ پر پڑی تو ایک دم چونکا اور بڑے غور سے مجھے سر‬
‫سے پاوں تک دیکھنے لگ گیا میں اسکو ایک نظر دیکھ کر اگنور کرتا ھوا سیڑیاں اتر کر نیچے چال گیا اور پارلر پر ناک‬
‫کیا تو شیشے کے آگے سے پردہ سرکا اور وہ ھی کچی کلی نمودار ہوئی اسکی نظر جیسے جی مجھ پر پڑی تو ایکدم وہ بھی‬
‫سکتے کے عالم میں مجھے دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے اشارا کر کے اسے ڈور کھولنے کا کہا تو وہ ڈور کھولنے کی بجاے پردے کے پیچھے غائب ہوگئی کچھ ھی دیر بعد‬
‫اس نے ھی دروازہ کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا میں پارلر کے اندر گیا تو ضوفی اپنا ہیند بیگ سنبھال رھی تھی مجھے‬
‫دیکھ کر اس نے محبت بھری مسکراہٹ میری طرف پھینکی اور جواب میں نے بھی مسکرا دیکھتے ھوے آداب بجا الیا۔‬
‫ضوفی بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو ۔‬
‫میں نے کچی کلی کی طرف دیکھا جو بونگی بنی مجھے دیکھی جارھی تھی اور آہستہ سے بوال ۔‬
‫مجھے تو دکان پر جاتے ھی چھ بجنے کا شدت سے انتظار تھا ضوفی مسکراتے ھوے کچی کلی کی طرف متوجہ ہوئی اور‬
‫اسے چھٹی کرنے کا کہا وہ جلدی سے جی باجی کہتی ھوئی اپنی چادر اوڑھ کر سالم کرکے کے نکل گئی ۔‬
‫ضوفی میرے قریب آئی اور مجھ سے لپٹ گئی اور پھر ہونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ جنگ جاری ہوگئی کچھ دیر ہم دونوں‬
‫ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رھے اور پھر ضوفی مجھ سے الگ ہوئی اور اپنے گلے میں ڈالے‬
‫ہوے دوپٹے سے اپنے ہونٹوں کو ٹکور دیتے ھوے بولی یاسر تم تو میرے ہونٹوں کی مت مار دیتے ھو دیکھو کیسے جلن‬
‫ہورھی ھے ۔‬
‫میں ضوفی کے قریب ھوا اور اسکی کمر کے اطراف میں ہاتھ ڈال کر اسکو اپنی طرف کھینچا اور پیار سے آرام سے سلو‬
‫موشن میں اسکی گالب کی پنکھڑیوں کو چوم کر بوال لو مرہم لگا دی اب جلن نہیں ہوگی ۔۔۔‬
‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی بہت تیز ھو ہر کام میں اپنا مطلب آگے رکھ لیتے ھو۔‬
‫میں نے کہا جان جی یہ مطلب نہیں میرا پیار ھے میرا جنون ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی مجھ سے الگ ہوکر گاون پہن کر کندھے پر شولڈر بیگ لٹکاتے ھوے بولی چلیں اور ساتھ ھی ضوفی نے ایک بڑا سا‬
‫شاپر میری طرف بڑھایا کہ یہ تمہاری پینٹ شرٹ اور کل والے کپڑے ہیں ۔‬
‫میں نے شاپر پکڑتے ہوے سینے پر ھاتھ رکھ کر کسی دربان کی طرح جھکا اور دوسرا بازو اسکی راہ میں بچھاتے ھوے‬
‫بوال چلیں ضوفی اتراتی ھوئی ہرنی کی چال چلتی ھوئی میرے آگے سے گزرتے ھوے میرے سر پر چپت لگا کر بولی ۔‬
‫بہت شوخے ھو۔۔۔‬
‫اور ساتھ ھی دروازہ کھول کر باہر نکلی تو میں بھی اسکے پیچھے پیچھے باہر نکال ضوفی نے پرس سے چابی نکال کر‬
‫مجھے پکڑائی میں نے ڈور الک کیا اور ہم باتیں کرتے ھوے سیڑھیاں چڑھتے ھوے جب اوپر پہنچے تو وہ ھی لڑکا پھر‬
‫ادھر ھی کھڑا تھا اور اپنے بالوں کو سنوارتا ھوا ضوفی کی طرف دیکھ رھا تھا ۔‬
‫میں نے اسے پھر نظر انداز کیا اور ہم اسکے آگے سے گزرتے ھوے ضوفی کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔‬
‫ضوفی کو اسکے گھر چھور کر میں واپس دکان پر آیا ضوفی بڑا اصرار کیا کہ اندر آو مگر میں نے دکان کا بہانہ کیا اور‬
‫باہر سے ھی واپس آگیا۔ دکان پر پہنچا تو انکل میرے ھاتھ میں شاپر دیکھ کر پوچھنے لگ گئے کہ یہ کیا ھے میں نے بتایا‬
‫کہ پینٹ شرٹس ہیں انکل نے اور جنید نے پینٹ شرٹس دیکھ کر کافی تعریف کیں ۔‬
‫انکل مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگ گئے تھے شاید یہ سوچ کر کہ میری اتنی حثیت نہیں تھی ایسے کپڑیں خریدنے‬
‫کی جنید نے بھی باتوں باتوں میں مجھے سنا دیا تھا کہ ویسے تو تم کہتے ھو کہ ہمارے حاالت سہی نہیں ہیں اور کپڑے اتنے‬
‫مہنگے کیسے خرید لیے ۔‬
‫میں نے اسے ٹال مٹول کر کے بہانہ بنا دیا ۔‬
‫گھر پہنچا تو گھر والے بھی مجھے عجوبہ سمجھ کر میرے ارد گرد اکھٹے رھے امی میری بالئیں لیتی رہیں ۔‬
‫جبکہ آپی میرا مزاق اڑاتی رھی کبھی کھسرا کہہ کر چھیڑتی تو کبھی کچھ ۔‬
‫آنٹی کے گھر جانے کا موقع نہیں مال ۔‬
‫اگلے دن جب میں پھر نئی پینٹ شرٹ پہن کر گلی سے گزرا تو گلی کی آنٹیاں جو باہر کھڑیں تھیں مجھے ایسے دیکھ رہیں‬
‫تھیں جیسے میں کوئی خالئی مخلوق ہوں اور آپس میں چے مگوئیاں کرنا شروع ھوگئیں میں الپرواہی سے چلتا ھوا صدف‬
‫کے گھر پہنچا تو صدف کی امی نے پہلے مجھے پہچانا نہ‬
‫اور ایک دم بولی کیڑاں ایں ایویں منہ ُچ ک کے اندر وڑی جاناں ایں مگر جب میں انکے قریب پہنچا تو وہ بھی میرا منہ متھا‬
‫چوم کر مجھے دعائیں دیتی ھوئی تبدیلی کی وجہ پوچھنے لگ گئی میں نے بھی بس منگھڑت کہانی سنا کر انکے سوالوں کا‬
‫جواب دیا اور جب صدف نے مجھے دیکھا تو اسکی بھی حالت دیکھنے کے قابل تھی ۔۔‬
‫اس نے بھی تعریفوں اور سوالوں کی اخیر کردی۔۔۔۔‬
‫خیر ہم شہر کی طرف چل دیے اور صدف بہت خوش نظر آرھی تھی اور اس نے بتایا کہ مجھے بلیڈنگ ھوگئی ھے ۔ اور‬
‫ساتھ میں اس نے ایک بری خبر بھی دی کہ اسکا کورس مکمل ہوگیا ھے یہ آخری سال ھے‬
‫میں نے بھی شکر ادا کیا کہ پیسے ظائع نہیں گئے اور اسکے کورس مکمل ہونے کو میں نے ذیادہ سیریس نہیں لیا۔۔۔‬
‫میں دکان کی بجاے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا اور دروازہ ناک کیا کچھ دیر بعد اندر ضوفی کی آواز آئی کون۔۔‬
‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا آپ کا چاہنے واال ۔۔‬
‫اندر سے کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی ۔‬
‫اور پھر دروازہ کھال تو میرا رنگ اڑ گیا دروازے پر ضوفی نہیں بلکہ ماہی تھی ۔۔‬
‫اور وہ کالج کے یونیفارم میں کھڑی میری طرف شرارت بھری نظریں ڈال کر بولی آجائیں آپی تیار ھو رہی ہیں ۔‬
‫ماہی کی شکل تو شکل آواز اور بولنے کا انداز بھی بلکل ضوفی جیسا تھا ۔۔‬
‫میں شرم سے پانی پانی ھوتے ھوے اندر داخل ہوا اور آہستہ سے بوال سوری ماہی دراصل مجھے لگا کہ ضوفی ھے ۔۔‬
‫ماہی نے بس مسکرا کر ھی میری سوری کو قبول کیا۔۔‬
‫میں شرمندا سا چلتا ھوا ٹی وی الونج میں جاکر بیٹھ گیا تو آنٹی کمرے سے نکلی تو میں انکو دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور سالم‬
‫کرنے کے بعد ان سے سر پر پیار لیا ۔‬
‫آنٹی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود میرے ساتھ والے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی اور میرا حال احوال پوچھنے کے بعد‬
‫بولی بیٹا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ ضوفی کو خود گھر چھوڑنے اور لے کر جانے کی ذمداری سنبھال لی ۔‬
‫ضوفی نے مجھے رات کو بتایا تھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی ۔‬
‫جیتے رھو ۔‬
‫آنٹی نے پھر میرے سر پر پیار دیا اور پھر کہنے لگ گئیں کہ زمانہ بہت خراب ھے مجھے تو بس اسکی فکر رہتی تھی کہ‬
‫بیچاری اکیلی جاتی ھے اور اکیلی ھی آتی ھے ۔‬
‫بیٹا تم اسے اپنا گھر ھی سمجھو جب تمہارا دل کرے بالجھجھک چلے آیا کرو ۔‬
‫میں سر نیچے کر کے بڑے شریفانہ انداز سے بیٹھا اپنے پیروں کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫اور آنٹی کی ہر بات پر فرمابرداری سے سر ہالتے ہوے جی جی کررھا تھا ۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد میری جان میری دلربا میری سانسوں کی مالک میری ضوفی سیڑیاں اترتی ہوئی مجھے نظر آئی میری‬
‫آنکھیں جو اٹھیں تو جھکنا بھول گئیں جب محبوب اتنا پیارا ھو اتنا سیکسی ھو تو پھر اس دیکھ کر نظر جھکانے کا گناہ کون‬
‫کرے ۔۔۔ضوفی کی نظر بھی مجھ پر پڑی تو اپنے حسین ہونٹوں کو بکھیرتے ہوے ایک مسکان میرے نام کی ۔‬
‫ضوفی کب میرے پاس پہنچی یہ اسکے سالم لینے سے مجھے پتہ چال ورنہ مجھے تو وہ ابھی بھی سیڑیاں اترتے ھی نظر‬
‫آرھی تھی ۔‬
‫میں نے چونک کر اس کے سالم کا جواب دیا‬
‫ضوفی اور آنٹی نے مجھے ناشتے کا کافی کہا مگر میں نے ناشتہ کرلیا ھے کہہ کر ٹال دیا اور ہم دونوں پریمی ہنسوں کی‬
‫جوڑی‬
‫بازار کی طرف چل دیے ۔‬
‫جب ہم شاہین مارکیٹ پہنچے تو وہ ھی لڑکا پھر ادھر ھی کھڑا ضوفی کو بڑی عجیب نظرون سے دیکھنے لگ گیا مجھے‬
‫غصہ تو بہت چڑھا مگر خود پر کنٹرول کرتے ھوے میں‬
‫ضوفی کو پارلر پر چھوڑ کر دکان کی طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو انکل دکان کھول ھی رھے تھے‬
‫میں نے سالم دعا کے بعد دکان کھلوا کر صفائی وغیرہ کی اور پھر جنید بھی آگیا اور ہم کام میں مصروف ہوگے سارا دن‬
‫ایسے ھی گزر گیا ۔‬
‫شام کو میں پھر بہانہ لگا کر ضوفی کے پارلر پر پہنچا اور ضوفی سے ڈھیر سارا پیار کرنے کے بعد اسے گھر چھوڑ کر‬
‫آگیا ۔۔‬
‫دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے اتفاق سے میں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی نہ جاسکا پالر پر آتے جاتے کارنر والی دکان کا‬
‫لڑکا مسلسل مجھے اور ضوفی کو گھورتا رہتا تھا اس دوران کوئی ایسا خاص واقعہ پیش نہ آیا جسکو لکھنا ضروری‬
‫سمجھوں ۔۔۔‬

‫)‪.Update no (97‬‬
‫ایک ہفتہ مزید گزر گیا ۔‬
‫میں ضوفی کے گھر والوں کے ساتھ کافی فرینک ہوچکا تھا ماہی بھی مجھے بھائی بھائی کہتے نہ تھکتی تھی آنٹی بھی میری‬
‫ہر وقت بالئیں لیتی رہتیں تھیں ضوفی کے ساتھ جب بھی موقعہ ملتا میں موقع ضائع نہیں جاتا یعنی چوما چاٹا جپھی شپھی‬
‫ہوجاتی ۔۔۔‬
‫دوستو۔۔‬
‫میں نے نوٹ کیا کہ انکل مجھے ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے جیسے میں چور ہوں پتہ نہیں انکے دل میں میرے‬
‫متعلق کیا شک تھا پہلے والی بات نہیں رہی تھی ان میں چھوٹی چھوٹی بات پر مجھ سے تلخی سے بولتے تھے ۔‬
‫میں انکے رویہ سے خود حیران تھا۔‬
‫ایک دن غالبََا بدھ کا دن تھا میں جنید کے ساتھ کھانا لے کر دکان پر آیا تو انکل کے پاس وہ ھی لڑکا بیٹھا ھوا تھا جو شاہین‬
‫مارکیٹ کی کارنر والی دکان کا تھا ۔میں اسے دیکھ کر چونکا اس لڑکے نے جب مجھے دیکھا تو اسی وقت انکل سے اجازت‬
‫لے کر کھسک گیا۔‬
‫میری چھٹی حس نے فورن کام کیا کہ ہو نہ ہو یہ ساال میری شکایت لگانے آیا ھے ۔۔‬
‫جب میں اندر داخل ہوا تو انکل بھی مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگ گئے میرا شک یقین میں بدل گیا ۔‬
‫میں نے انکل سے کوئی بات نہ کی اور نہ ھی اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا کرنے آیا تھا ۔۔۔‬
‫دن ایسے ھی گزر گیا شام کو میں انکل سے پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر جانے لگا تو انکل بڑی تلخی سے بولے ۔‬
‫اوے کاکا توں کی نواں کم پھڑیا ہویا اے ۔‬
‫روز ایس ٹیم پیشاپ دا بہانہ بنا کہ آوارہ گردی کرن نکل جاناں ایں ۔‬
‫بے جا آرام نال کتے نئی جاناں ۔۔‬
‫میں ہکا بکا ہو کر انکل کی طرف دیکھنے لگ گیا‬
‫کہ اسے کیا ھوا میرے دماغ میں فورن اسی لڑکے کا آیا کہ یہ سب ڈرامہ اسی سالے کی وجہ سے ھو رھا ھے ۔‬
‫۔دوستو انسان جب دل کا سچا اور کسی کے ساتھ مخلص ھو تو وہ ھی اگر اس طرح کی بےرخی یا شک کرے تو پھر آپ‬
‫سب سمجھدار ہیں کہ کیا ہوتا ھے ۔۔‬
‫جی بلکل سہی سمجھے۔۔‬
‫مجھے بھی غصہ آگیا میں بھی تھوڑے تلخ لہجے میں بوال۔‬
‫انکل جی توانوں کنے پین یائی اے کہ میں آوارا گردی کرن جاناں ایں ۔‬
‫انکل بھی تلخی سے بولے ۔‬
‫تمیز نال گل کر تے نالے اپنی اوقات وچ رہ۔ اوس بازاری عورت دی خاطر میرے اگے بولن دی تیری جرات کیویں ہوئی‬
‫دوستو ۔۔میں سب کچھ برداشت کر لیتا سہہ لیتا مگر اس گانڈو نے ضوفی کو گالی دے کر میرے دل میں چھرا گھونپ دیا بس‬
‫پھر کیا تھا‬
‫میرا تو پارا چڑھ گیا کہ اس گانڈو کی میں نے ایمانداری اور مخلص ھو کر اتنی کم تنخواہ میں نوکری کی ھے اور ڈیوٹی بھی‬
‫سب سے ذیادہ اور کام بھی سب سے ذیادہ کرتا ھوں اور آج یہ مجھے میری اوقات بتا رھا ھے ۔‬
‫میں غصے سے کھڑا ہوگیا اور پہلے الفاظ بڑے پیار سے کہے کہ ۔‬
‫ویسے توں ہے تے بڑا ای لن لینی دا ایں ۔‬
‫پھر میری آواز دور دور تک سنائی دی ۔۔کسے گشتی دیا بچیا زبان سنبھال اپنی نئی تے ُگ تھی وچوں ِکھچ کے کتیاں اگے پا‬
‫دیواں گا ۔۔‬
‫میں تیرے واسطے اینی جان ماری تیرا نوکر بن کے ریاں تیرے بعد پوری ذمہ داری تے پوری ایمانداری نال کم کرداں ریاں‬
‫تے توں اج مینوں اے سال دے ریاں ایں ۔‬
‫اس گانڈو‬
‫نےغصے میں گز اٹھایا اور مجھے مارنے کے لیے آگے بڑھا تو جنید نے دوڑ کر پیچھے سے گز پکڑ لیا اور اسے بھی پکڑ‬
‫کر کھڑا ہوگیا ۔‬
‫ہماری اونچی آواز سن کر ادھر ادھر کے دکان دار اور راہ چلتے لوگ بھی اکھٹے ہوگئے ۔‬
‫وہ ساال مجھے گندی گندی گالیاں نکالنے لگ گیا میرے منہ میں بھی جو آیا میں نے کہہ دیا۔۔‬
‫اس نے کہا خبردار میری دکان تے پیر وی رکھیا ۔ ۔‬
‫میں نے بھی کہا میں لن توں واری تیری دکان تے تینوں وی ۔‬
‫وہ مجھے مارنے کے لیے دوڑتا میں اسے مارنے کے لیے دوڑتا مجھے بھی تین چار لوگوں نے پکڑا ھوا تھا اور اسے‬
‫بھی ۔‬
‫خیر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی کافی رش پڑ گیا کچھ لڑائی کو مذید بڑھانے والے تھے اور کچھ معاملہ رفع دفع کروانے‬
‫والے خیر تقریبًا ایک گھنٹہ ہماری منہ ماری ہوتی رھی اور میں غصے سے پیر پٹختہ ہوا شاہین مارکیٹ کی طرف چل دیا‬
‫غصے سے میرا رنگ سرخ ہورھا تھا ۔‬
‫دوستو میری عمر تو اس وقت انیس سال تھی مگر میرا قد چھ فٹ کے قریب تھا اور جسامت بھی میری گاوں کے گبھرو جوان‬
‫جیسی تھی ۔۔‬
‫میں جب شاہین مارکیٹ پہنچا تو میری نظر سیدھی کارنر والی دکان پر ھی تھی ۔‬
‫اس لڑکے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ ساال مجھے نظر نہیں آیا ۔‬
‫ورنہ آج یا وہ نہیں تھا یا میں نہیں ۔‬
‫میری شرٹ پر جگہ جگہ مجھے پکڑنے والوں کے ہاتھوں کے نشان لگے ھوے تھے میری شرٹ کے دو بٹن بھی ٹوٹ‬
‫چکے تھے میری حالت دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ میری کسی کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی ھے ۔‬
‫میں بھاگتا ھوا سیڑیاں اتر کر پارلر پر پہنچا اور بغیر دروازہ ناک کئے دروازے کو ذور سے کھول کر اندر داخل ہوا ۔‬
‫میرے دماغ نے یہ بھی کام نہ کیا کہ ہوسکتا ھے کہ اندر کوئی لیڈیز نہ ھو مگر غصہ عقل کو کھا جاتا ۔‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل‬
‫‪,,,,,,,‬ھوا تو‬
‫اتفاق سے پارلر میں اکیلی ضوفی ھی تھی اور وہ بھی گاون پہن کر تیار بیٹھی میرا ھی انتظار کررھی تھی ۔‬
‫مجھے یوں اچانک دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔‬
‫اور گبھراے ہوے میری طرف دوڑ کر آئی اور مجھے بازوں سے پکڑ کر ہالتے ھوے بولی کیاااااا ھوا یاسر یہ کیا حالت‬
‫بنائی ہوئی ھے کسی سے لڑائی ہوئی ھے کیا بولووو کیا ھوا ۔‬
‫ضوفی رونے والی ہوچکی تھی اسکی آواز میں حقیقی دکھ تھا تکلیف تھی تڑپ تھی بے چینی تھی اپنا پن تھا ۔‬
‫میں نے ضوفی کے کندھوں کو پکڑ کر اسے صوفے کی طرف لیجاتے ھوے آرام سے صوفے پر بیٹھایا اور اسے ریلیکس‬
‫کرتے ھوے کہا کچھ نہیں ھوا ۔۔‬
‫مجھے ایک گالس پانی کا دو ضوفی جلدی سے اٹھی اور بھاگم بھاگ پانی لے کر آئی اس کا رنگ پریشانی سے سرخ ہوچکا‬
‫تھا ۔‬
‫میری طرف سوالیا نظروں سے دیکھی جارہی تھی ۔‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں پانی کا گالس ختم کیا ضوفی نے اور پانی الوں کہا تو میں نے اثبات میں سر ہالیا ضوفی پھر‬
‫جلدی سے پانی لے آئی اور مجھے گالس پکڑا کر میرے ساتھ ھی صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫اور میرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ھوے مجھے دیکھنے لگ گئی ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو میں نے ضوفی کو ساری سٹوری بتا دی اور جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اسکا بھی بتا‬
‫دیا ۔۔‬
‫ضوفی سابقہ انکل کو اور اس لڑکے کو گالیاں اور بدعائیں دینے لگ گئی ۔‬
‫ضوفی ایکدم غصے سے اٹھی اور اپنی چادر پکڑ کر اوپر لینے لگ گئی میں نے پوچھا کدھر جارھی ھو تو ضوفی بولی اس‬
‫کنجر کا منہ توڑنے جو فساد کی جڑا ھے ۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور اسے پکڑ کر دوبارا صوفے پر بٹھاتے ھوے کہا نہیں ضوفی ابھی نہیں ۔اسکو مزہ میں چکھاوں گا‬
‫مگر موقع آنے پر ابھی نہیں ۔‬
‫ابھی خامخواہ ہم دونوں کا تماشا بنےگا میں نے بڑی مشکل سے ضوفی کو سمجھا بجھا کر بٹھایا اور اب پانی پالنے کی میری‬
‫باری تھی اور بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے کی بھی ۔۔۔۔‬
‫خیر کچھ دیر بعد ہم دونوں پارلر سے نکلے اور جب اوپر پہنچے تو وہ لڑکا دکان بند کر کے جاچکا تھا شاید اسے اس‬
‫ہنگامے کی خبر مل چکی تھی یا پھر ویسے ھی چال گیا تھا‬
‫‪I don't know‬‬
‫ضوفی اسکی بند دکان کو ھی گھورنے لگ گئی‬
‫اور ضوفی نے ادھر سے آدھی اینٹ اٹھا کر اسکے بند شٹر پر دے ماری اور اسکو گالیاں اور بدعائیں دیتی ھٰو یی آگے چل‬
‫پڑی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کہ اسکی دکان اپنی ھے یا کراے پر ھے اور کیا اسے جانتی ھو ضوفی‬
‫نے بتایا کہ یہ ہماری پچھلی گلی میں رہتا ھے اور کراے دار ھی ھے جبکہ مارکیٹ کا مالک بہت اچھا اور نیک ھے ۔‬
‫مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ھے اور انکے گھر تو ہمارا آنا جانا بھی ھے ۔میرے دماغ میں ایکدم اس گانڈو سے بدلہ لینے کی‬
‫سوجی ۔‬
‫اور میں دماغ میں ھی پوری فلم تیار کرنے لگ گیا۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے سوچ میں پڑے دیکھ کر کہا یاسر مجھے معاف کردو میری وجہ سے تمہاری اتنی بےعزتی بھی ہوئی اور‬
‫دکان سے بھی چھٹی ہوگئی ۔۔‬
‫میں نے کہا کیسی باتیں کرتی ھو تمہاری قسم مجھے نہ تو اپنی بےعزتی کا دکھ ھے اور نہ ھی دکان سے چھٹی ہونے کا ۔‬
‫مجھے تو دکھ ھے کہ اس گانڈو نے اس گشتی کے بچے کے پیچھے لگ کر تمہیں گالی دی ۔‬
‫ضوفی میں سب کچھ برداشت کرسکتا ھوں مگر کوئی تم پر انگلی تو کیا آنکھ بھی اٹھاے وہ مجھ سے برداشت نہیں ھوگا ۔‬
‫ہم ایسے ھی باتیں کرتے جارھے تھے اور میں دماغ میں ہوتا پالن بنا چکا تھا کہ اس گشتی کے بچے سے کیسے بدلہ لینا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی پھر بولی یاسر اگر اس بڈھے نے تمہارے گھر جاکر شکایت لگادی تو کیا ھوگا۔۔۔‬
‫میں نے الپرواہی سے کہا لگادے لگاتا ھے تو ۔‬
‫مجھے نہیں پرواہ کسی کی بھی ۔‬
‫دوستو۔۔یہ ساال عشق بھی نہ بسسسسسس‬
‫اپنے معشوق کی خاطر پورے زمانے سے لڑنے کے لیے جتنا بہادر بنا دیتا ھے نہ ۔‬
‫تو اپنے معشوق کے کھوجانے کے ڈر سے اتنا بزدل بھی بنا دیتا ھے ۔۔‬
‫جبکہ قبل مریض عشق گھر والوں سے ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹنے لگ جاتی تھی مگر یہاں اب معاملہ ھی الٹ تھا ۔۔‬
‫سارا زمانہ ایک پلڑے میں اور معشوق ایک پلڑے میں پھر بھی کونسا پلڑا بھاری۔۔۔۔۔‬
‫جی بلکل سہی سمجھے معشوق کا محبوب کا ۔۔۔۔‬
‫ہاےےےےےے رے مرگ عشق۔۔‬
‫ضوفی کی آواز نے مجھے پھر خیالوں سے ال باہر کیا اور وہ بولی ۔یاسررر اب کیا ھوگا مجھے تو ڈر لگ رھا ھے کہ کہیں‬
‫تمہارے گھر والے بھی میں جو پہلے ھی اندر ھی اندر غصے سے کہڑ رھا تھا۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی کی بات سن کر اونچی آواز میں بوال اور یہ بھول گیا کہ ہم بازار سے گزر رھے ہیں جہاں لوگوں کی آمدورفت ھے ۔‬
‫میں ایکدم چیختے ھوے بوال تو کیا نکال دیں گے نہ میرے گھر والے مجھے گھر سے تو نکال دیں میں فٹ پاتھ پر سوجاوں‬
‫گا پیار کیا ہے تم سے کوئی ڈاکہ تو نہیں ڈاال کسی کا خون تو نہیں کیا ۔‬
‫ہمارے سامنے سے ایک بزرگ اور ایک اماں آرھیں تھی ۔‬
‫میں انکے سامنے رک گیا اور میاں جی کو کندھوں سے پکڑتے ھوے روہانسی مگر اونچی آواز سے بوال ۔‬
‫بابا جی آپ ھی بتاو پیار کرنا جرم ھے کیا‬
‫بابا یوں میرے ایکدم سامنے آنے اور ایسے چیخ کر سوال کر نے سے گبھرا گیا اور میری طرف دیکھتے ھوے نفی میں‬
‫سرہالیا میں نے پھر اماں جی سے پوچھا اماں جی آپ ھی بتاءیں کیا پیار کرنا جرم ھے گناہ ھے ۔۔‬
‫اماں جی بھی نفی میں سر ہالتے ھوے مجھ سے جان چھڑوا کر چل دیے شاید وہ مجھے نشے میں سمجھ بیٹھے تھے کا پاگل‬
‫سمجھ بیٹھے تھے قریب سے گزرتے اور کھڑے لوگ مجھے آنکھیں پھاڑے دیکھےجارھے تھے ۔‬
‫مجھ میں اتنا حوصلہ اتنا جزبہ میں اتنا نڈر کیسے ھوگیا سمجھ سے باہر ۔۔‬
‫شاید یہ میرے سچے پیار کی طاقت تھی ۔۔۔‬
‫ضوفی میرے اس رد عمل پر پہلے تو سہم گئی پھر ایکدم اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے کہا‬
‫یاسرررر ہوش کرو کیا ھوگیا ھے تمہیں ۔‬
‫میں پاگل ہوچکا تھا میں نے بھی نشے کی سی حالت میں ضوفی کے منہ کے قریب منہ کر کے کہا تم سے پیار ھوگیاھے۔‬
‫اور میں پھر اونچی آواز میں دھاڑا‬
‫ھاںااااااااں تم سے پیار ھوگیا ھے اگر کوئی میرے پیار کے بیچ میں آیا تو اس سالے کو جان سے ماردوں گا ہاں سن لو سب‬
‫جان سے ماردوں گا ۔‬
‫ضوفی میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے مجھے کھینچتے ھوے ایک چھوٹی سے سنسان گلی میں لے گئی اور وھاں مجھے‬
‫کھڑا کر کے غصے سے بولی یاسر یہ کیا بےہودگی ھے کیوں اپنا اور میرا تماشہ بنا رھے ھو یہ گاوں نہیں شہر ھے شہر‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫میں حیران ھوکر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال ۔۔‬
‫ضوفی تم بھی مجھے غلط کہ رھی ھو ۔‬
‫تم بھی تم بھی ۔‬
‫ضوفی کچھ نارمل ھوکر بولی یاسر پلیز سمجھنے کی کوشش کرو چلو گھر چل کر بات کرتے ہیں میں نے ذور سے اپنا بازو‬
‫اس سے چھڑوایا اور غصے سے بوال ۔نہیں گھر نہیں ادھر ھی بتاو تم مجھ سے پیار کرتی ھو کہ نہیں یہاں سب کے سامنے‬
‫بتاو ۔۔‬
‫دوستو ۔۔میں نہ تو نشے میں تھا اور نہ ھی پاگل تھا۔۔‬
‫میں گاوں کا سادہ صاف دل اور سچا مخلص ہونے کی وجہ سے اپنا اعتبار اور اپنے آپ پر چوری کا الزام اور ضوفی کو‬
‫بازاری عورت سننے اور دکان سے چھٹی ہونے اور گھر جاکر پتہ نہیں کیا ہوجانے کی وجہ سے دل برداشتہ اور ڈپریشن‬
‫کی وجہ سے دل کی بھڑاس دل کی بات کو الفاظوں میں ڈھال کر سارے زمانے کے سامنے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی‬
‫کوشش کررھا تھا ۔‬
‫مگر کیا کہوں کہ‬
‫منافقوں کی بستی میں اپنے ڈیرے ہیں‬
‫تیرے منہ پر تیرے میرے منہ پر میرے ہیں ۔۔۔‬
‫ان منافقوں کے سامنے دل کا حال بتانا اپنا تماشہ بنانے جیسا تھا‬
‫یا یہ کہہ لیں‬
‫کہ‬
‫اندھوں کی بستی میں آئینے ببیچنے کی بیوقوفانہ حرکت تھی ۔‬
‫ضوفی ہوش میں تھی اس لیے وہ بھی سچی تھی ۔‬
‫مگر میں ضوفی پر ھی پھٹ پڑا‪ .‬۔۔‬
‫ضوفی رونے لگ گئی اور میرے آگے ھاتھ جوڑتے ھوے بولی یاسر پلیزززز گھر چلو ادھر جاکر مجھے جو مرضی کہہ لینا‬
‫۔‬
‫مگر میں اسی بات ہر بضد تھا کہ ادھر ھی بتاو سب کے سامنے مجھ سے پیار کرتی ھو کہ نہیں ۔‬
‫ضوفی تھک ہار کر بولی ہاں کرتی ھوں پیار کرتی ھوں اب تو چلو‬
‫لوگ ہمارے اردگر اکھٹے ہوکر ہمارا تماشہ دیکھ رھے تھے ۔‬
‫ضوفی مجھے بازو سے پکڑ کر گھر کی طرف لیے جارھی تھی‬
‫ہاےےےےےےے رے یہ ساال کم بخت عشق کیا کیا رنگ دکھالے گا۔۔۔۔‬
‫‪.‬ضوفی میرا بازو پکڑے مجھے گھر کی طرف لیجارھی تھی اور ساتھ ساتھ مجھے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رھی‬
‫تھی ۔‬
‫کچھ دور جاکر میں کافی حد تک نارمل ہوچکا تھا گھر کے پاس جاکر میں واپس آنے لگا تو ضوفی نے مجھے بازو سے‬
‫پکڑ لیا اور ساتھ ھی ڈور بیل بجا دی کچھ دیر بعد ماہی نے پوچھ کر دروازہ کھوال اور میرے الکھ انکار کرنے پر بھی‬
‫ضوفی مجھے ذبردستی اندر لے گئی۔‬
‫میں نے بھی ماہی کی وجہ سے ذیادہ ڈرامہ نہ کیا اور چپ چاپ اندر داخل ہوگیا ۔‬
‫ماہی میری حالت دیکھ کر پریشان ھوگئی اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی کیا ھوا تو ضوفی نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ‬
‫کیا ضوفی سیدھا مجھے اوپر والے کمرے میں ھی لے گئی ۔۔‬
‫اوپر جاکر میں صوفے پر نیم دراز ھوگیا ۔‬
‫ضوفی مجھے بیٹھا کر نیچے چلی گئی اور کچھ دیر بعد چینج کرلے اوپر آئی تب تک میں بلکل نارمل حالت میں ہوچکا تھا‬
‫ضوفی نے مجھے پانی کا گالس ہیش کیا اور میرے سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ھوے بولی غصہ ٹھنڈا ھوا جناب کا‬
‫کہ نہیں اورساتھ ھی شرارت بھرے انداز میں ھاتھ کو کانوں کی لو کے ساتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسرر تمہیں اتنا غصہ بھی آتا ھے اففففف میں تو یقین کرو ڈر گئی تھی کہ پتہ نہیں کیا کرگزرو گے ۔۔‬
‫میں صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے ھوے لمبا سانس لیتے ھوے بوال ۔‬
‫ضوفی جب انسان سچے دل کا ھو اور منافقت سے پاک ھو تو پھر وہ ذیادتی برداشت نہیں کرتا ۔‬
‫میں اس سالے کو چھوڑوں گا نہیں ۔‬
‫اسکی قسمت اچھی تھی جو وہ مجھے نظر نہیں آیا ورنہ اسکو ایسا سبق سکھاتا کہ ساری زندگی یاد رکھتا کہ کس سے پنگا لیا‬
‫ھے ۔۔‬
‫ضوفی مجھے پھر ریلیکس کرتے ھوے بولی دفعہ کرو کتوں کا کام ھے بھونکنا ۔۔‬
‫میں کچھ دیر اس گانڈو کو گالیاں دیتا رھا ۔‬
‫اورضوفی مجھے ٹھنڈا کرتی رھی ۔‬
‫میں نے پالن کے مطابق جو میں پہلے سوچ چکا تھا‬
‫ضوفی کو کہا کہ ضوفی میں نے اس لڑکے کو سبق سکھانا ھے اور اس میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ھے ۔‬
‫ضوفی بولی میری مدد کی وہ کیسے ۔۔‬
‫میں نے کہا پہلے تم وعدہ کرو کے میرا ساتھ دو گی ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تمہارے لیے میری جان بھی حاضر ھے ۔‬
‫تم بتاو تو سہی کہ مجھے کیا کرنا ھے ۔‬
‫اور پہلے یہ اپنی حالت درست کرو اور یہ کہتے ھوئے ضوفی میری شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی اور ساتھ ساتھ میرے‬
‫شرٹ پر پڑی سلوٹوں کو بھی‬
‫درست کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫مارکیٹ کا جو مالک ھے ان کے ساتھ تمہارے گھریلو تعلقات ہیں نہ ۔‬
‫ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے بولی ہمممممم۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫بس تو پھر صبح تم نے مارکیٹ کے مالک کے گھر جانا ھے اور اسکو کہنا ھے کہ یہ لڑکا روز مجھے تنگ کرتا ھے اور‬
‫مذید اپنے پاس سے مرچ مصالحہ لگا کر انکو اس کے خالف کرنا ھے ۔‬
‫اور شام کو یہ لڑکا اپنی عادت کے مطابق تمہیں دیکھے گا اور تم نے بس اس کو ایک گالی نکالنی ہے اور ساتھ میں تم نے‬
‫یہ کہنا ھے کہ تم کیا روز مجھے تنگ کرتے رہتے ہو بس اسکے بعد میں جانوں اور وہ لڑکا۔۔‬
‫ضوفی گبھرا کر بولی یاسر ایسے تم کچھ غلط نہ کر گزرنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے ۔‬
‫میں نے کہا یار تم پریشان مت ھو اگر میں نے اسکو سبق نہ سیکھایا تو میں اندر ھی اندر مرجاوں گا ضوفی ایکدم اٹھ کر‬
‫میرے پاس آئی اور میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی مریں تمہارے دشمن ۔۔۔‬
‫میں نے اسکا ھاتھ منہ سے ہٹاتے ھوے کہا تو ضوفی پھر تمہیں میری مدد کرنا ھوگی ۔‬
‫ضوفی بولی اس کا فائدہ کیا ھوگا میں نے کہا اسکے دو فائدے ھوں گے ایک تو اسکو یہ سبق مل جاے گا کہ کیسے کسی‬
‫کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی کرتے ہیں اور دوسرا مارکیٹ کا مالک اس سے دکان خالی کروا لے گا ۔‬
‫اور اسکو سبق ملے گا کہ کیسے کسی کی روزی میں ٹانگ مارتے ہیں ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر دکان واال کام تو میں انکل کی بیگم کو کہہ کر کروا لوں گے‬
‫تو پھر اس کتے کے منہ ضرور لگنا ھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کا پکڑا ہوا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ھوے کہا ضوفی تمہیں میری ضرورت ھے کہ نہیں ضوفی بولی یاسر‬
‫کیسی باتیں کررھے ھو ۔ تمہارے بغیر ایک پل بھی رہنا مجھ سے دشوار ھے اور تم۔۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی بات کاٹتے ھوے کہا‬
‫تو پھر جو میں کہہ رھا ہوں وہ کرو ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر مجھے تمہاری فکر ھے کہ تم کچھ الٹا سیدھا نہ کر بیٹھو۔‬
‫میں نے کہا اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تب میں نے کچھ الٹا سیدھا کربیٹھنا ھے۔۔‬
‫دوستو باالخر‬
‫میں نے ضوفی کو اپنی جان کی قسم دے کر مجبورًا راضی کرلیا۔‬
‫اور اسے صبح آنے کا کہہ کر اس سے اجازت لے کر ان کے گھر سے نکل آیا ۔ضوفی اور آنٹی نے بہت کوشش کی کہ میں‬
‫کھانا کھا کر جاوں مگر میں نے لیٹ ھونے کا بہانہ بنا کر وھاں سےنکل آیا اندھیرا کافی ھوچکا تھا ۔‬
‫میں سارے راستے صبح کی پالنگ اور گھر جاکر گھر والوں کے سوالوں کے جواب کے بارے میں سوچتا رھا اور گھر‬
‫پہنچنے سے پہلے ہی کافی لمبی چوڑی پالننگ تیار کرچکا تھا۔‬
‫گھر پہنچا تو سب کچھ نارمل ھی تھا شاید ابھی تک وہ گانڈو ُبڈھا دکان سے واپس نہیں آیا تھا ۔‬
‫ورنہ تو گھر داخل ھوتے ھی سب مجھ پر چڑھ دوڑتے ۔۔‬
‫میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور گھر سے نکل کر باہر دوستوں کی طرف چال گیا ۔‬
‫گاوں میں میرا ایک جگری دوست تھا شاہد جسکو شادا شادا کہتے تھے چھ فٹ قد چوڑا سینہ ورزشی جسم بڑی بڑی‬
‫مونچھیں اور بڑا دلیر اور مخلص یاروں کا یار تھا اسکا پہلے اس لیے ذکر نہیں کیا کیوں کہ اسکا کوئی رول نہیں تھا ۔‬
‫اس نے مجھے کہا یار آج تو بڑا پریشان لگ رھا ھے ۔‬
‫میں نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا مگر وہ پوچھنے پر بضد رھا ۔‬
‫میں نےضوفی کے معاملے کو گول کرکے اسکو ساری ہسٹری بتا دی ۔‬
‫وہ تو آپے سے باہر ھوگیا اور مجھے ابھی شہر چلنے کا کہنے لگا کہ اس پین یک دی ُبنڈ وچ فیر مارنا اے ۔‬
‫میں نے بڑی مشکل اسے سمجھا بجھا کر بٹھایا اور اسکو کہا کہ کل تم نے چھ بجے سے پہلے شاہین مارکیٹ کے باہر ہونا‬
‫ھے اور بس میرے پاس کسی اور کو نہیں آنے دینا اس پین یک نوں میں آپ پننا وا۔۔‬
‫شادا بوال توں فکر نہ کر جے ہور بندیاں دی لوڑ ہوئی تے او وی آ جان گیں ۔‬
‫میں نے کہا ضرورت تو نہیں پڑے گی باقی پھر بھی تم تین چار لڑکوں کو ساتھ لے آنا اور وہاں دیکھنے والوں کو یہ شک‬
‫بھی نہ ہو کہ تم میرے لیے آےھو اور میری وجہ سے لڑ رھے ھو ۔۔اور تم میں سے کوئی بھی لڑکا اس پین یک کو ہاتھ نہ‬
‫لگاے اسکو میں خود نپٹاوں گا۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر بعد کہا یار مجھے اس بابے کی ٹینشن ھے وہ ساال میرے گھر شکایت نہ لگا دے‬
‫شادا بوال کویں تے ایس بابےدا وہ پٹکا پوا دینے آں میں نے کہا نہیں یار وہ پھر بھی میرا استاد ھے ۔اسے چھوڑ اور جو میں‬
‫نے کہا ھے اسے ذہن نشین کرلو‬
‫شادا بوال‬
‫پر یار جے اونے تیرےکار شکایت ال دتی تے فیر۔‬
‫میں سوچ میں پڑ گیا۔۔‬
‫تو شادا بوال‬
‫یاسرے بابے دا تے حل اے ھی اے کہ میں اونوں تیرے کار جان توں پیلے ای سمجھا دیواں میری گل اودی عقل وچ آجاوے‬
‫گی نئی تے فیر اونوں میرا پتہ ای اے‬
‫میں نے شادے کی بات سن کر کہا ھاں یار ہن تے او دکان توں آگیا ہناں اے ۔‬
‫شادا بوال چل فیر چلیے ایدھا تے منہ ٹھپ کرئیے۔‬
‫میں نے کہا چل فیر ۔‬
‫میں شادا اور دو تین اور لڑکے‬
‫ہم سب دکان والے کے گھر کی طرف چل دئیے اپنے گھر کے سامنے سے گزر کر ہم سجاد کے گھر کے سامنے جا پہنچے‬
‫شادے نے مجھ سمیت دوسرے لڑکوں کو گھر سے کچھ پیچھے جانے کو کہا میں ان لڑکوں کو اپنے گھر کی بیٹھک کے پاس‬
‫لے ایا۔۔اور ادھر کھڑے ہوکر ہم شادے کو دیکھنے لگ گئے شادے نے دروازہ کھوال تو‬
‫بابا ھی باہر نکال۔‬
‫ان دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی‬
‫‪I don't know‬‬

‫)‪.Update no (98‬‬
‫شادا میری طرف اشارے کر کر اس سے باتیں کررھا تھا اور جب انکی بات مکمل ھوئی تو شادے نے سجاد کے کندھے پر‬
‫ھاتھ رکھ کر اس سے کچھ سختی سے بات کی اور ہماری طرف آنے لگ گیا جبکہ سجاد کچھ دیر کھڑا شادے کو دیکھتا رھا‬
‫اور پھر ذور سے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی شادے نے آتے ھی خوشخبری دی کہ اسکی عقل میں بات آگئی ۔‬
‫مگر یاسرے اے پالر والی کون اے میں نے ہنستے ھوے کہا تیری پرجائی اے ہور کون اے ۔‬
‫شادا میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بوال وا یار شہری بابو بن دے ای شہر دی بچی وی پھنسا لی ۔‬
‫میں اسکے پیٹ میں مکا مارتے ھوے بولو پھدی دیا تیری پرجائی اے ادب نال نام لے ۔‬
‫شادا قہقہہ مار کر ہنستے ھوے بوال ۔‬
‫ہن تے اوس پین یک دی خیر نئی ساڈے ویر دی پسند وچ لت اڑائی ایدی ماں دا پھدا ۔‬
‫میں نے اسکے کندھے پر ھاتھ رکھ کر اسے ٹھنڈا کیا کہ اسکو تم لوگوں نے ہاتھ نہیں لگانا ۔‬
‫یہ کام بس میرا ھے ۔‬
‫تم لوگوں نے بس کسی کو ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آنے دینا ۔‬
‫ہم کچھ دیر مذید باتیں کرتے رہے اور پھر صبح ملنے کا کہہ کر ہم اپنے اپنے گھر آگئے ۔‬
‫صبح میں اٹھا اور پینٹ شرٹ یا شلوار قمیض پہننے کی بجاے ٹراوزر شرٹ اور نیچے جوگر پہن کر شہر کی طرف چل دیا‬
‫میں سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولی لگتا ھے کہیں میچ کھیلنے جارھے ھو میں‬
‫نے کہا میچ ھی کھیلنا ھے ضوفی پھر مجھے سمجھانے لگی مگر میں نے اسکی ایک نہ سنی اور ہم دونوں گھر سے نکل‬
‫کر مارکیٹ کے مالک کے گھر کی طرف چل دیے راستے میں ضوفی مجھ سے پوچھتی رھی کہ اب کدھر کام کرنا ھے اور‬
‫سارا دن کدھر گزارو گے میں بس ایسے ھی اسکی بات کو سنی ان سنی کرتا رھا ضوفی نے مجھے پالر میں دن گزارنے کا‬
‫بھی کہا مگر میں نے ایک دوست سے ملنے کا بہانہ کر کے اسے ٹال دیا ایسے ھی باتیں کرتے ھوے ہم شاہین مارکیٹ کے‬
‫مالک کے گھر کے دروازے پر پہنچے انکا گھر شاہین مارکیٹ سے پچھلی گلی میں ھی تھا‬
‫ضوفی گھر میں داخل ھوتے ھوے بولی یاسر تم جاو میں آنٹی سے بات کر کے پارلر پر چلی جاوں گی میں نے اسے آواز‬
‫دے کر اندر داخل ہونے سے روکتے ھوے کہا کہ تم آنٹی سے میرا بھی کچھ تعارف کروا دینا کزن بنا کر ضوفی بولی تم یہ‬
‫سب مجھ پر چھوڑ دو اور بے فکر ھو کر جاو ضوفی کو ادھر چھوڑ کر میں بازار کی طرف چل دیا دکان کے سامنے سے‬
‫گزرا تو سجاد اور جنید اپنے کام میں مصروف تھے میں نے بس ایک نظر ڈالی اور آگے گزر گیا جب میں ایک مشہور‬
‫مارکیٹ کے سامنے سے گزرنے لگا تو میرے دماغ میں اچانک اسد کی مما کے بوتیک کا آیا میرے پاس ویسے بھی ابھی‬
‫سارا دن پڑا تھا ۔‬
‫اسد کی مما کا خیال آتے ھی میں مارکیٹ کے اندر داخل ھوگیا اور کچھ آگے گیا تو مجھے آنٹی کا بوتیک نظر آگیا ۔‬
‫بوتیک کا ڈور کھال ھوا تھا مارکیٹ میں کچھ دکانیں ابھی بند ہیں تھیں اور کچھ کھلی ھوئی تھیں ۔۔‬
‫میں بوتیک کے پاس پہنچ کر بوتیک کے کھلے ھوے ڈور پر ھی ناک کرنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی ھی دروازے پر آئی اور مجھے دیکھ کر ایکدم چونکی اور منہ پر ھاتھ رکھ کر بڑی حیرانگی سے مجھے‬
‫سر سے پاوں تک دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی مجھے جی صدقے کرتی ھوئی اندر لے گئی اور بوتیک کا دروازہ بند کردیا۔‬
‫میری چھٹی حس نے فورن خطرے کا االرم بجایا ۔‬
‫کہ لے کاکا ہن تیری خیر نئی ۔۔‬
‫‪.‬میں بوتیک کے اندر داخل ہوتے ھی چاروں اطراف دیکھ کر بوتیک کا جائزہ لینے لگ گیا آنٹی نے کافی خرچہ کیا ھوا تھی‬
‫بوتیک کی سیٹنگ اور ڈسپلے کمال کا تھا ورائٹی بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھی ۔‬
‫آنٹی دروازہ بند کرکے مجھے بیٹھنے کا کہنے لگی میں کاونٹر کے پاس رکھے ھوے صوفے پر بیٹھ گیا آنٹی میرے پاس سے‬
‫گزر کر میرے بلکل سامنے رکھی ایزی چیئر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫آنٹی نے سرخ کلر کی باریک کپڑے میں بلکل سادہ سی شرٹ اور نیچے بلیک ٹائٹس پہنا ہوا تھا اور باریک سا شفون کا دوپٹہ‬
‫گلے میں لٹکایا ھوا تھا جس کے دونوں پلوؤں نے آنٹی کے بڑے سائز کے سڈول مموں کو اور سے ڈھانپ رکھا تھا۔‬
‫آنٹی کے بڑے بڑے ممے فٹنگ والی شرٹ کی وجہ سے مذید ابھرے ھوے تھے‬
‫صاف لفظوں میں‬
‫آنٹی کی جوانی پاٹ رھی تھی‬
‫دو جوان بچوں کی ماں ہونے کے باوجود بھی آنٹی کا فگر کمال کا سیکسی تھا ۔‬
‫آنٹی نے شرٹ بھی شارٹ پہنی ہوئی تھی اور نیچے پنسل ہیل پہننے کی وجہ سے گانڈ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور پیچھے‬
‫سے شرٹ کو بھی اوپر کیا ھوا تھا چلتے ھوے پیچھے سے گانڈ جب ہلتی تو بڑوں بڑوں کا ناال ڈھیال ہوجاتا‪،‬‬
‫گول مٹول سڈول گانڈ بہت ھی سیکسی تھی ۔‬
‫آنٹی جب میرے سامنے سے گزر کر کرسی کے جانب مڑی تو آنٹی کی گانڈ دیکھ کر ھی میرے لن میں کھجلی شروع ھوگئی‬
‫تھی ۔‬
‫اور جب آنٹی جاکر کرسی پر بیٹھی تو آنٹی کے ممے مجھے گھور کر منہ چڑھانے لگے اور جب آنٹی نے ٹانگ پر ٹانگ‬
‫رکھی اور دو مست رانیں ایک دوسرے کے اوپر آکر ٹائیٹس کو مذید ٹائٹ کرنے لگیں تو یہ منظر دیکھ کر میرا حلق خشک‬
‫اور لن ُپھرت ہوگیا۔۔‬
‫جیسے ھی میرے لن نے انگڑائی لی میں نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سالے کی ِگچی مروڑ دی ۔‬
‫آنٹی نے سرخ لپسٹک گوری گالوں پر ہلکا سا میک اپ آنکھوں میں کاجل پلکوں پر بلش اون لگا کر خود کو ایک سیکس کی‬
‫پڑیا بنایا ھوا تھا آنٹی کے سیکسی فگر کو دیکھتے ھی میرے دماغ سے لڑائی جھگڑا اور سارا غصہ نکل گیا اس کی ایک اہم‬
‫وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے پندرہ بیس دن سے پھدی نصیب نہیں ہوئی تھی اور ضوفی کے ساتھ رات گزارنے کے باوجود اس‬
‫سے کچھ نہیں کیا سواے رومانس کے ضوفی کا سیکسی جسم دیکھنے اور چومنے چاٹنے کے باوجود بھی ادھورا رھا اب یہ‬
‫ظالم اپنے سیکسی جسم کی نمائش کر کے میرے صبر کا امتحان لے رھی تھی اب خلوت میں ایسی بمب آنٹی ہر لحاظ سے‬
‫دعوت دے رھی ھو اور اپنے سیکسی جسم کا ہر ذاویعے سے نظارہ کرا رھی ھو تو پھر اس ننھی جان پر ظلم کا پہاڑ نہیں‬
‫تو اور کیا ھے ہن ۔ تسی دسو‬
‫ساال یاسر کیا کرے ہن ٹھنڈا پانی پی مرے۔‬
‫آنٹی نے میری آنکھوں کا تعاقب کرتے ھو اور میری نظروں میں ہوس کو تاڑتے ھوے بازوں اوپر کو اٹھاے اور سر سے‬
‫اوپر لیجا کر ایک ظالم انگڑائی لی اور انگڑائی لیتے ھی اپنے گلے سے دوپٹہ اتار کر کاونٹر پر رکھتے ھوے بالوں کو‬
‫سنوارتے ھوے بولی‬
‫ُک‬
‫واووو یاسر تم نے تو اپنا حلیہ ھی بدل لیا اور پھر گھٹنے پر ہنی رکھ کر اور الٹے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھ کر آگے جھکی‬
‫اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی‬
‫خیر ھے اس تبدیلی کی وجہ پوچھ سکتی ھوں کہیں کوئی لڑکی تو نہیں پھنسا لی ۔‬
‫میں نے شرماتے ھوے کہا نہیں آنٹی جی ایسی تو کوئی بات نہیں بس ایسے ھی کچھ دوستوں زبردستی میری کلین شیو کروا‬
‫دی‬
‫آنٹی ہنستے ھوے بولی بہت خوب اچھا کیا ۔‬
‫تمہاری تو ُلک ھی تبدیل ہوگئی ھے بلکہ تمہارے چہرے سے تو نسوانیت جھلک رھی ھے ۔‬
‫زبردست ۔‬
‫مجھے خوشی ہوئی تمہیں دیکھ کر ۔‬
‫اور سناو مصروفیت کیسی جارھی ھے ۔‬
‫میں نے کہا شکر سب ٹھیک چل رھا ھے ۔‬
‫آنٹی پھر گھر نہ آنے کا شکوہ کرنے لگ گئی میں نے کاروباری مصروفیات کا عزر پیش کیا ۔‬
‫کچھ دیر باتوں کے بعد آنٹی ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی افففففف تمہارے آنے کی خوشی ھی اتنی ہوئی کہ میں تمہاری‬
‫مہمان نوازی ھی بھول گئی اور اٹھ کر بوتیک کے ایک طرف بنے دروازے کی طرف چل پڑی میں نے آنٹی کو کافی کہا کہ‬
‫میں ناشتہ وغیرہ کر کے آیا ہوں مگر آنٹی نے میری کوئی بات نہ سنی اور اپنی مست گانڈ کو ہالتی ہوئی دروازہ کھول کر‬
‫اندر چلی گئی اور کچھ ھی دیر بعد مشروب کا گالس پکڑے باہر نکلی اور بڑی ادا سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور‬
‫مجھے گالس پکڑا کر پھر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی ۔‬
‫میں نے چسکیاں لیتے ھوے ڈرنک ختم کیا اور گالس کاونٹر پر رکھ دیا اس دوران بس نارمل باتیں ہوتی رہیں ۔‬
‫پھر آنٹی بولی ۔‬
‫یاسر کیسا لگا میرا بوتیک ۔‬
‫میں نے شرارت بھرے انداز سے کہا آپ کی طرح آپ کا بوتیک بھی خوبصورت ھے ۔‬
‫اپنے حسن کی تعریف سنتے ھی آنٹی کی آنکھوں میں چمک اور گالوں پر اللی آئی ۔‬
‫آنٹی بولی اچھا جی مجھے تو آج پتہ چال کہ میں بھی خوبصورت ہوں ۔‬
‫میں نے کہا اس میں کون سا شک ھے آپ واقعی ای بہت خوبصورت ہیں ۔‬
‫آپ کو دیکھ کر تو یہ بھی نہیں لگتا کہ آپ شادی شدہ ھو ۔‬
‫آنٹی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی اب ایسی بھی بات نہیں اتنے بھی مجھے مسکے نہ لگاو ۔‬
‫میں نے کہا نہیں آنٹی یہ مسکے نہیں بلکہ حقیقت ھے ۔۔‬
‫آنٹی بولی اچھااااا جی میں نے بھی اسی انداز میں کہا ھاااااں جی ۔‬
‫آنٹی کچھ سوچنے لگ گئی اور پھر ایکدم اٹھی تو اس کے ممے ایسے اچھلے جیسے ابھی گال پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔‬
‫آنٹی بولی یاسر کل میں نے کچھ نیو ورائٹی منگوائی ھے ۔‬
‫زرا دیکھنا کیسی ھے میں بھی اثبات میں سر ہالتے ھوے اٹھ کر کھڑا ھوگیا‬
‫میں جیسے ھی کھڑا ھوا تو میرا لن مجھ سے پہلے کھڑا ہوگیا اور ٹراوزر کو آگے سے اٹھا کر اچھا بھال ابھار بنا دیا۔‬
‫میں نے انڈرویئر نہیں پہنا ھوا تھا اس لیے کچھ ذیادہھی ابھار بن گیا بلکہ میرے پھولے ھوے ٹوپے کا ڈیزائن ٹراوزر میں‬
‫صاف نظر ارھا تھا ۔‬
‫آنٹی کی جب نظر میرے ابھرے ھوے ٹراوزر پر پڑی تو آنٹی نظر ہٹانا بھولی گئی اسکی آنکھوں میں چمک آئی اور تھوک‬
‫نگھلتے ھوے ہونٹوں پر زبان پھیر کر خشکی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو یوں محو لن دیکھا تو میں نے کھنگارا بھرا اور بولی کدھر ہے ورائٹی ۔‬
‫تو آنٹی ایکدم چونکی ۔‬
‫اور جھینپتے ھوے بولی وہ وہہہ آو دیکھاتی ہوں ۔۔اور ساتھ ھی آنٹی مجھ سے آگے اگے چل پڑی اور میں اسکی موٹی گانڈ‬
‫کے ہلنے کا نظارہ کرتا ھوا اسکے پیچھے چل دیا بوتیک کافی بڑا تھا اور آنٹی نے سیٹنگ کچھ ایسی کی ہوئی تھی کہ ایک‬
‫طرف ٹرائی روم اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا کچن نما کیبن اور ایک طرف سٹور بنایا ھوا تھا جہاں اضافی مال رکھا‬
‫جاتا تھا باقی سارے حال میں لیڈیز سٹیچو رکھ کر انپر مختلف ڈزائننگ کا ڈسپلے کیا ھوا تھا ۔‬
‫آنٹی چلتے چلتے پھر رکی اور گھوم کر بڑی نشیلی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی یاسر تم وہ سامنے سٹور میں چلو میں‬
‫ایک کال کر کے آئی ۔‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے سٹور روم کی طرف چل دیا آنٹی کاونٹر کے پاس گئی اور پی ٹی سی ایل سے رسیور اٹھا کر‬
‫نمبر ڈائل کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں ایک نظر آنٹی کو دیکھ کر روم میں داخل ھوا تو اندر کافی بڑے بڑے شاپر پڑے ھوے تھے جو ایک طرف دیوار کے‬
‫ساتھ اوپر نیچے رکھ کر جوڑے ھوے تھے اور ایک طرف نیچے قالین بچھا ھوا تھا جہاں بیٹھ کر شاید پیکنگ وغیرہ یا پھر‬
‫مال نکال کر چیک کیا جاتا تھا ۔۔‬
‫خیر میں ابھی سٹور کا جائزہ ھی لے رھا تھا کہ‬
‫کچھ ھی دیر میں آنٹی واپس سٹور روم میں آگئی ۔‬
‫اور آتے ھی بولی سوری وہ کسی کو ضروری کال کرنی تھی ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا ۔‬
‫تو آنٹی نے ایک بڑے سے شاپر کو کھوال اور اس میں سے کچھ سوٹ نکال کر کھول کھول مجھے دیکھانے لگ گئی اور‬
‫میں آنٹی کی پسند اور پرچیزنگ مینیجمنٹ کی تعریفیں کرنے لگا گیا آنٹی ہر سوٹ کو اپنے ساتھ لگا لگا کر دیکھاتی اور میں‬
‫تعریفوں کے پل باندھتا کہ یہ سوٹ آپ پر بہت جچ رھا ھے آنٹی نے ایک سوٹ نکاال اور اپنے ساتھ گا کر بولی یار یہ کیسا‬
‫لگ رھا ھے میں نے کہا واووووو آنٹی جی زبردست یہ آپ پہن لو تو جوان لڑکیاں آپ سے جیلس ہونے لگ جائیں سوٹ تھا‬
‫بھی کمال کا ہلکے پیچ کلر کا سلیو لیس شرٹ اور بلکل شارٹ اور نیچے باریک کپڑے کا ٹراوزر جس پر امبرائڈ کی تھی ۔‬
‫آنٹی بولی پہن کر دیکھاوں ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی کیوں مجھے بےہوش کرنا ھے ۔‬
‫آنٹی مذید پھول گئی اور بولی میں ابھی پہن کر دیکھاتی ہوں اور سوٹ پکڑ کر سٹور روم سے باہر نکلی اور میں بھی اسکے‬
‫پیچھے ھی باہر نکل آیا ۔‬
‫آنٹی ٹرائی روم میں داخل ہوئی اور دروازہ کھال ھی چھوڑ دیا‬
‫میرا دماغ اور لن ایک ساتھ فل گرم ھو چکے تھے ۔‬
‫میرا تو بس نہیں چل رھا تھا کہ آنٹی کے پیچھے جی ٹرائی روم میں داخل ھوجاوں اور آنٹی کے سارے کپڑے پھاڑ کر آنٹی‬
‫کا ریپ کردوں ۔۔‬
‫میں باہر کھڑا ھی امیجینشن کرنے لگ گیا کہ اب آنٹی نے شرٹ اتاری ھوگی تو ایسا جسم ھوگا اب ٹائٹس اتارا ھوگا تو آنٹی‬
‫کی ٹائٹ گانڈ کیسے باہر کو نکلی ھوگی اس کے ممے بریزیر میں کیسا نظارا پیش کررھے ہوں گے ۔‬
‫میں ابھی ان ھی خیالوں میں گم تھا کہ آنٹی نے دروازے سے سر نکاال اور مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آنا ایک منٹ ۔‬
‫میں نے چونک کر ٹرائی روم کی طرف دیکھا اور میرے قدم خود باخود دروازے کی جانب اٹھنا شروع ھوگئے ۔‬
‫میں جیسے ھی ٹرائی روم میں داخل ہوا تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے اٹک گیا۔‬
‫آنٹی نے سوٹ پہنا ھوا تھا اور کمال کی سیکسی لگ رھی تھی ۔‬
‫مجھے یوں منہ کھولے کھڑا دیکھ کر آنٹی نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے ھوے بولی ہیلو مائی ڈیئر کدھر گم ہو ۔۔‬
‫میں نے چونک کر آنٹی کی طرف دیکھا اور انگلی سے گول دائرہ بنا کر بوال آنٹی جی کمال لگ رہی ہیں سوپر سے بھی اوپر‬
‫ذبردست ۔‬
‫آنٹی نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گھوم کر پیٹھ میری طرف کرتے ھوے بولی یہ پیچھے سے زپ تو بند‬
‫کردو میں کھلی زپ کے اندر کا نظارہ دیکھ کر ھی مذید گرم ہوگیا آنٹی کی چٹی سفید گالبی رنگ کی مانند اففففففف اس پر‬
‫کالے بریزیر کا سٹریپ ھاےےےےےےےے کیا ھی سیکسی سین تھا اس وقت کا وہ نظارا اور میری کیفیت کا حال کیا‬
‫لکھوں یاروووووو۔۔‬
‫میری تو بس ہوگئی ۔۔۔۔‬
‫برداشت کی۔‬
‫میں نے کانپتے ھاتھ زپ کی طرف بڑھاے اور زپ کی ہک کو پکڑ کر تھوڑا سا اوپر ھی کیا تھا کہ میری انگلی آنٹی کی‬
‫گوری چٹی نرم مالئم کمر کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔بس پھر کیا تھا میرے لن نے ایک ذبردست جھٹکا مار کر مجھے ہوشیار کیا‬
‫اور ساتھ ھی زپ کی ہک اوپر جانے کی بجاے نیچے چلی گئی اور میرے دونوں ھاتھ کھلی زپ کے اندر سے ہوتے ھوے‬
‫آنٹی کے بڑے بڑے مموں پر چلے گئے اور میرا لن انٹی کی گانڈ کی دراڑ میں چال گیا اور میرے ھاتھوں کی مٹھیوں نے‬
‫آنٹی کے فٹ بال جتنے مموں کو اپنی گرفت میں لے کر بھینچ دیا اور آنٹی کے منہ سے بس یہ ھی نکال ھاےےےےےےے‬
‫میں مرگئی یاسرررررر یہ کیا کر رھے ھو ۔۔۔‬
‫)‪Update no (99‬‬
‫اففففففدفف دوستو‬
‫آنٹی کی چٹی نرم کمر کے ساتھ جیسے ھی میری انگلی ٹچ ھوئی میرے اندر شہوت کو مذید چنگاری ملی میں نے بے اختیار‬
‫زپ کی ہک کو اوپر لیجانے کی بجاے نیچے کھینچ دیا اور بڑی پھرتی اور بے صبری سے آنٹی کی کھلی زپ میں دونوں‬
‫ہاتھ ڈال کر اسکی بغلوں سے گزارتا ھوا آگے لے گیا اور آنٹی کے سڈول مموں کو مٹھیوں میں بھینچ کر پیچھے سے اپنا لن‬
‫آنٹی کی موٹی اور سڈول باہر کو ابھری ھوئی گانڈ کے ساتھ لگا کر لن کے ٹوپے کو گانڈ کی دراڑ میں گھسیڑ کر پیچھے‬
‫سے آنٹی کے ساتھ چمٹ گیا اور اپنی ٹھوڑی آنٹی کے کندھے پر رکھ کر آنٹی کی گال کو چومنے لگ گیا۔‬
‫میری اس افراتفری میں گئی حرکت سے آنٹی نے گبھرا کر شرٹ کے اوپر سے ھی میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا میرے ہاتھ‬
‫شرٹ کے اندر بریزیر کے اوپر مموں کو پکڑے ھوے تھے اور آنٹی نے شرٹ کے اوپر سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر‬
‫بھینچ لیا اور گبھرائی ہوئی آواز میں ھاےےےےےے میں مرگئی یاسررررر یہ کیا کیا ۔‬
‫اور آگے کو جھک گئی جس سے آنٹی کی گانڈ پیچھے سے باہر کو نکل گئی ۔۔‬
‫میں آنٹی کی گھبراہٹ کو نظر انداز کرتےھوے ۔‬
‫پاگلوں اور ازل سے ترسے ہوے کی طرح آنٹی کی گال اور گردن کو چومتے ھوے اسکے مموں کو بریزیر سے اوپر ھی‬
‫دباتے ھوے پیچھے سے لن کو آنٹی کی سیکسی اور موٹی گانڈ کے ساتھ چپکاے آنٹی کو والہانہ انداز سے چمٹا ھوا چوم رھا‬
‫تھا ۔‬
‫آنٹی بولی یاسررر کیا بتمیزی ھے ۔‬
‫شرم کرو چھوڑو مجھے ۔‬
‫مگر میں خاموشی سے بنا کچھ بولے اپنا کام کرتا رھا۔‬
‫آنٹی اپنے مموں سے میرے ہاتھ ہٹانے کی بس ہلکی پھلکی کوشش کررھی تھی اور ساتھ ساتھ نہیں یاسر نہ کرو یاسر‬
‫پلیززززز چھوڑ دو‬
‫میں تمہاری آنٹی ہوں شرم کرو نہ کرو بس کرو کوئی آجاے گا میں بدنام ھوجاوں گی ۔‬
‫میں ایسی نہیں ھوں وغیرہ وغیرہ ۔‬
‫کہی جارہی تھی جبکہ میرا کام جاری تھا ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی کی مزحمت اور زبان بند ھوئی تو میں نے اپنے بازوں کو تھوڑا کھوال اور بریزیر کے کپوں کو مموں‬
‫سے اوپر کر کے مموں کو بریزیر سے آزاد کر کے ننگے مست سڈول مموں کو مٹھی میں بھرا تو چررررررررر کی آواز‬
‫کے ساتھ آنٹی کی پیچھے سے زپ والی جگہ سے شرٹ پھٹ گئی اور میرے ہاتھ جو پہلے شرٹ میں پھنسے ھوے تھے اب‬
‫انکو اپنا کام کرنے کے لیے کافی آسانی مہیا ہوگئی ۔‬
‫آنٹی نے جب شرٹ پھٹنے کی آواز سنی اور ادھر سے اپنے ننگے مموں پر میرے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا تو آنٹی نے‬
‫ڈبل مائنڈڈ ہوکر ہاےےےےے میری شرٹ کے ساتھ ھی سیییییییی کرتے ھوے سسکاری بھر دی ۔‬
‫ایک طرف شرٹ پھٹنے کا دکھ تو دوسری طرف ممے دبوانے کا مزہ‬
‫آخر مزہ دکھ پر بھاری ثابت ھوا‬
‫مزے نے آنٹی کو شرٹ کا دکھ بھالدیا اور آنٹی شرٹ کو بھول کر ممے دبوانے کا انجواے کرتے ھوے سسکاریاں بھرنے‬
‫لگ گئی اور ساتھ ساتھ شرٹ کے اوپر سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر دبانے لگ گئی ۔۔‬
‫لوھا گرم ھوچکا تھا آگ دونوں طرف بھڑک چکی تھی ۔‬
‫بس اگال قدم بڑھانا تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں اسی حالت میں ممے دباتے ھوے پیچھے سے لن کو گانڈ کی دراڑ میں مسلتا رھا اور آنٹی مستی بھری‬
‫سسکاریاں نکالتی رہیں ۔۔‬
‫پھر آنٹی مدہوشی میں بولی یاسررر شرٹ میں میرا سانس بند ھورھا ھے ۔‬
‫میں نے یہ سنتے ھی بازو پیچھے کو کھینچے اور ہاتھ شرٹ سے نکال لیے ۔۔‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی کو گھما کر اسکا منہ اپنی طرف کیا اور آگے سے آنٹی کو جپھی ڈال لی اور پھر ہونٹوں میں ہونٹ اور‬
‫زبانوں کی آپس میں جنگ شروع ھوگئی نیچے سے لن پھدی کے ساتھ صالح مشورہ کرنے میں مصروف تھا پیچھے سے‬
‫میرے ھاتھ آنٹی کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑے مسل رھے تھے اور آنٹی اپنا تجربے کو مدنظر رکھتے ہوے سارے‬
‫حربے استعمال کررھی تھی آنٹی تو فرنچ کسنگ میں عمران ہاشمی کی بھی استاد ثابت ہوئی اس اس انداز سے وہ کبھی‬
‫میرے ہونٹوں کو چوستی اور کبھی میری زبان کو اپنے منہ کے اندر کھینچ کر چوستی میں تو حیران رھ گیا‬
‫‪.‬سالی واقعی ھی پوری منی تنی استاد ھے ۔۔‬
‫آنٹی مجھے کسنگ کےدوران کب ٹرائی روم سے باہر لے آئی اور کب میں الٹے قدموں سے چلتا ھوا باہر آیا مجھے تب پتہ‬
‫چال جب میری ٹانگوں کےساتھ صوفہ ٹکرایا اور میں پیچھے صوفے پر گرا آنٹی نے صوفے کے پاس ال کر میرے سینے پر‬
‫دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں صوفے پر گرتا گیا۔۔‬
‫آنٹی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی ھوئی آگے بڑھی اور میری رانوں پر دونوں اطراف اپنی ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی‬
‫۔‬
‫اور میری گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر میرے اوپر ایسے جھک گئی جیسے ڈریکوال خون چوستا ھے آنے کے شارٹ کٹ‬
‫ریشمی بالوں نے میرے چہرے کو دونوں اطراف سے ڈھانپ لیا اور آنٹی میرے کانوں کے نیچے میری گردن کے دونوں‬
‫اطراف ھاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو بےدری سے چوسنے لگ گئی ۔‬
‫اور ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو میرے لن کے اوپر رکھ کر پھدی سے لن کو رگڑنے لگ گئی آنٹی کے مموں کی نوک میرے‬
‫سینے کے ساتھ ٹچ ھونے لگ گئیں ۔‬
‫میں ساال اسکی عزت لوٹنے کا سوچ رھا تھا اور وہ رنڈی میری ھی عزت لوٹنے کے درپے تھی ۔‬
‫اور میں معصوم بنا بیٹھا بس آنٹی کی کمر کو سہال رھا تھا۔۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا پھر آنٹی کو میرے ہونٹوں پر ترس آیا اور آنٹی میرے اوپر سے سیدھی ہوئی اور میری رانوں‬
‫پر وزن ڈال کر بیٹھتے ھوے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انکو درست کیا اور تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی شرٹ کو پکڑا‬
‫کر اتار دیا افففففففففففففففف‬
‫کیا نظارا تھا چٹے سفید دودھ کے پیالے ھاےےےےےےےے مممممممم‬
‫کیا ھی پلے ھوے ممے تھے اس سے پہلے کے آنٹی شرٹ کو بازوں سے نکالتی میں بےصبروں کی طرح آنٹی کے مموں پر‬
‫ٹوٹ پڑا اور دونوں مٹھیوں میں مموں کو دبوچ کر منہ مموں کی طرف بڑھایا اس سے پہلے کے میرا منہ مموں کے پاس جاتا‬
‫آنٹی نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی اور پھر مجھ پر جھک کر اپنے دونوں بات میرے سر کے دونوں اطراف صوف پر‬
‫رکھ دیے جس سے آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ کے پاس خود ھی آگئے اور مموں نے میرے منہ کو آپنی آغوش میں‬
‫لے لیا‬
‫مموں کے درمیان میرا منہ تھا اور مموں نے میرے منہ پر چھاوں کی ہوئی تھی میں نے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھرا‬
‫اور باری باری انکو چوسنے لگ گیا آنٹی منہ چھت کی طرف کئے سسکاریاں بھر رھی تھی ۔‬
‫اور مموں کو میرے منہ پر دبا رھی تھی آنٹی کے ممے بہت ھی نرم تھے اور ان پر براون دائرے اور ان پر لگے دو انگور‬
‫الگ ھی نظارا پیش کررھے تھے ۔‬
‫میں ان موٹے اور تنے ھوے انگوروں کو منہ میں لے کر جتنی ذور سے چوستا آنٹی کے اندر اتنا ھی جوش بڑھتا ۔۔۔‬
‫کافی دیر تک میں مموں کو چوستا رھا آنٹی ایک دفعہ مستی میں فارغ ھوتے ھوے مجھے دبوچ کر اپنی پھدی سے منی کا‬
‫سیالب نکال چکی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی میرے اوپر سے اٹھی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور میرے ٹروازر کی ڈوری کے سرے کو پکڑ کر‬
‫کھینچ دیا اور مجھے اوپر ہونے کا اشارہ کیا ۔‬
‫میں نے گانڈ اوپر اٹھائی تو آنٹی نے میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کیا اور میرے پیروں میں کر دیا میرا لن آزاد ھوتے ھی ہوا‬
‫میں لہرایا آنٹی نے جب میرے موٹے ٹوپے اور تگڑے لن کو دیکھا تو آنٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی جیسے زندگی‬
‫میں پہلی بار اتنا تگڑا لن دیکھ رھی ہو ۔‬
‫آنٹی کتنی دیر میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دیکھتی اور کبھی میری طرف اپنی پلکوں کو اٹھا کر دیکھتی رھی ۔‬
‫میں نے خاموشی توڑی اور بوال آنٹی جی کیسا لگا ۔۔ آنٹی بڑی ستائش نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی واووووو‬
‫امیزنگ یاسررر کیا ہتھیار ھے تمہارا اففففففف میں تو سپنے میں بھی اتنے بڑے لن کا کبھی سوچا نہیں تھا ۔‬
‫میں نے کہا تو پھر اپنے اس سپنوں کے راج کمار کو پیار ھی کرلو آنٹی بولی کیوں نہیں اور یہ کہتے ھی آنٹی نے اپنی زبان‬
‫منہ سے نکالی اور پیروں کے بل میرے قدموں میں بیٹھی میرے لن کے ٹوپے کے ہونٹوں پر زبان کی نوک پھیرنے لگ گئی‬
‫اور پھر زبان کو ٹوپے کے چاروں اطراف پھیرتے ھوے ہوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بھی دیکھتی جیسے آنکھوں کے‬
‫اشارے سے پوچھ رھی ھو مزہ آرھا ھے ۔۔۔‬
‫مزہہہہہ تو کیا میری ٹانگوں سے سارا خون میرے لن کی طرف دوڑ پڑا تھا ۔‬
‫آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن پر زبان پھیر رھی تھی ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر کبھی اسطرف کرتے ھوے ٹوپے سے‬
‫جڑ تک زبان پھیرتی تو کبھی لن کو دوسری طرف کر کے ٹوپے سے زبان پھیرتے ھوے زبان کو ٹٹوں تک لے جاتی ۔‬
‫تو کبھی جتنا لن منہ میں لے سکتی اتنا لے کر چوستی میں آنکھیں بند کیے مزے سے سر کبھی صوفے کی بیک کے ساتھ‬
‫مارتا تو کبھی دائیں بائیں مارتے ھوے سسکاریاں بھرتا آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن کا چوپا لگا رھی تھی میرا آدھا لن‬
‫آنٹی اپنے حلق تک لیجا کر اسے منہ میں رکھ کر جب چوستی تو مجھے ایسے لگتا جیسے میں ابھی فارغ ہونے لگا ہوں‬
‫زندگی میں پہلی باری ایسا ایکسپرٹ چوپا لگانے والی آنٹی ملی تھی ۔‬
‫آنٹی کوئی پندرہ بیس منٹ مسلسل لن کو ہر زاویعے سے چومتی چاٹتی رھی ۔۔۔‬
‫میں تو بلکل چھوٹنے واال ہوگیا تھا آنٹی نے اس بار پھر لن کو منہ میں ڈاال اور ہلک تک کھینچ کر لے گئی بس مجھ سے‬
‫برداشت نہ ھوا میں آگے کو جھکا اور آنٹی کے سر کو ذور سے پکڑا اور لن پر دبا دیا اور ساتھ ھی میرے لن سے منی کے‬
‫فوارے چھوٹتے ھوے آنٹی کے گلے میں اترنے لگے جب لن نے پہلی پچکاری چھوڑی تو آنٹی نے سر کو اوپر جھٹکا دیا کہ‬
‫لن منہ سے باہر آجاے مگر مرد کے اندر جتنا جوش اور جتنی طاقت چھوٹتے وقت آتی ھے اتنی طاقت عام حالت میں نہیں‬
‫آتی ۔‬
‫آنٹی کے سر کو دبا کر آنٹی کے جھٹکے کو وہیں دبا دیا اور ساری منی آنٹی کے منہ میں نکالی اور جیسے ھی میں نے آنٹی‬
‫کا سر چھوڑا آنٹی نے جھٹکے سے لن منہ سے نکاال اور کھانستی ھوئی کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔‬
‫میں ادھر ھی بیٹھا لن کو آنٹی کی شرٹ کے ساتھ صاف کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫چار پانچ منٹ کے بعد آنٹی منہ پر دونوں ہاتھ رکھے باہر نکلی اور بولی بتمیز بتا تو دیتے کہ فارغ ھونے لگے ھو اپنا سارا‬
‫مال میرے منہ کے اندر ھی نکال دیا میں ایسے ھی نیم مرجھاے ھوے لن کے ساتھ اٹھا اور ٹراوز کو پاوں سے نکال کر ننگا‬
‫ھی آنٹی کی طرف بڑھا اور انکو سینے کے ساتھ لگا کر سوری کرنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر مسکے لگانے کہ بعد آنٹی کا موڈ سہی ھوا تو میں ایسے ھی آنٹی کو لے کر صوفے کے پاس آیا اور اسکو صوفے‬
‫پر گرا کر اسکے اوپر جھک گیا اور مموں کو چوسنے لگ گیا کچھ ھی دیر میں میرا لن پھر ٹائٹ ھوگیا آنٹی کی اور میری‬
‫ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں ۔۔‬
‫میرا لن جب اپنے جوبن میں آیا تو میں کھڑا ھوا اور آنٹی کے ٹائٹس کو پکڑ کر کھینچنے لگا تو آنٹی نے نخرے کی فارمیلٹی‬
‫پوری کرتے ھوے نہیں نہیں کرتے ھوے اپنے ٹائٹس کو پکڑ لیا مگر میں نے آنٹی کے ہاتھوں کو جھٹک کر ٹائٹس کھینچ کر‬
‫اسکے پیروں سے نکال پھینکا اور آنٹی کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسکو صوفے پر سیدھا لیٹایا اور خود بھی دوزانوں ہو کر آنٹی‬
‫کی چکنی پھدی کے سامنے لن ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا آنٹی کی پھدی پانی سے گیلی ہوچکی تھی اور بلکل مالئم بالوں سے‬
‫پاک موٹی پھدی کو دیکھ کر میرا لن مذید جھٹکے کھانے لگ گیا۔۔‬
‫میں نے اپن پوزیشن سنبھالی اور آنٹی کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور‬
‫آنٹی کی ٹانگوں کو فولڈ کرتے ھوے اسکے کندھوں تک لے گیا۔۔۔‬
‫اور ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر پھدی کے موٹے اور گیلے لبوں میں پھیر کر لن کو پھدی کے پانی سے گیال کیا اور ٹوپے‬
‫کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کرکے ایک جاندار گھسا مارا تو پہلے ھی گھسے میں لن آدھے سے ذیادہ پھدی میں اتر گیا‬
‫جیسے ھی لن پھدی کے اندر گیا آنٹی نے دونوں ہاتھوں سے میری رانوں کو دبوچ کر ھاےےےےےےے مرگئی‬
‫آہہہہہہہہہہہہہی‬
‫یاسررررررر کے بچےےےےےےےےے آرام نال کر سارا ایییییی اندر کردتا اییییی‬
‫میں نے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا اور یہ کہتے ھوے پھر ذوردار جھٹکے سے سارا لن جڑ تک اندر کردیا کہ آنٹی جی‬
‫ابھی تو آدھا گیا ھے آدھا باقی ھے ۔ جیسے ھی لن کا ٹوپا آنٹی کی بچے دانی میں گھسا تو‬
‫درد سے آنٹی کا رنگ سرخ ھوگیا اور آنٹی ھاےےےےےےے کرتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔میں بغیر رکے‬
‫گھسے مارنے لگ گیا آنٹی کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی پتہ نہیں کونسا نسخہ استعمال کرتی تھی سالی ۔‬
‫آنٹی میرے ہر گھسے سے ھاےےےےےے ہولی کر ہاےےےےےے ہولیییییی‬
‫کر رھی تھی میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا آنٹی کے ممے آنٹی کے سینے پر رقص کررھے تھے دس پندرہ منٹ میں‬
‫اسی سٹائل میں انٹی کو چودتا رھا آنٹی فل مزے میں سسکاریاں بھر رھی تھی آنٹی نے میری رانوں کو چھوڑ کر اب میری‬
‫کمر کے گرد بازو ڈال لیے تھے میرا ہر گھسا آنٹی کی بچے دانی تک زرب لگا رھا تھا آنٹی مزے لے لے کر چدوا رھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ یس یس یس فاسٹ فاسٹ کری جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی درد میں پنجابی اور مزے میں انگلش بولی جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی کی سیکسی آوازیں اور ڈانس کرتے ممے میرا جوش بڑھائی جارھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر مزید چودنے کے بعد آنٹی کی آہیں سسکیاں اور کم ان کم ان ایم کم ان کی آوازوں کے ساتھ آنٹی نے پھدی کو اوپر‬
‫کر کے لن کو پورا ہضم کیا اور جھٹکے کھاتے ھوے فارغ ھوگئی میں نے کچھ دیر آنٹی کے جسم کے جھٹکوں کو رک کر‬
‫انجواے کیا ۔‬
‫آنٹی کی پھدی نے جب میرے لن کو بھینچنا کم کیا اور آنٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی‬
‫میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن آنٹی کی منی سے لتھڑا ھوا تھا ۔‬
‫میں نے نیچے ہاتھ کر کے آنٹی کا ٹائٹس پکڑا اور لن کو صاف کرنے لگ گیا ۔‬
‫آنٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ھوئی تھی ۔۔۔‬
‫میں صوفے سے نیچے اترا اور آنٹی کا بازو پکڑ کر آنٹی کو کھینچا تو آنٹی سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫اٹھی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو کھڑا کیا اور صوفے کے کنارے کے پاس لیجا کر آنٹی کا منہ دوسری طرف کر کے آنٹی کو جھکنے کا کہا‬
‫آنٹی بغیر کچھ کہے گانڈ میری طرف کر کے ضوفے کے اوپر ہاتھ رکھ کر گھوڑی سٹائل میں جھک گئی آنٹی کی گانٹ‬
‫میرے سامنے تھی‬
‫میں تھوڑا سا نیچے کو ہوا اور گانڈ کے دراڑ کو کھول کر آنٹی کی موری دیکھنے لگ گیا اورانگلی آنٹی کی گانڈ کی موری‬
‫کے اوپر رکھ کر موری کو مسلنے لگ گیا آنٹی جھٹکے سے سیدھی ھوئی تو میرا انگلی آنٹی پھاڑیوں میں پھنس گی آنٹی نے‬
‫بھی پورے ذور سے گانڈ کو بھینچ کر انگلی کو سزا دی ۔۔‬
‫آنٹی سیدھی ھوتے ھی میری طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کر رھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا کچھ بھی نہیں ۔‬
‫اور آنٹی کو پھر اسی پوزیشن پر کرنے کے لیے آنٹی کی کمر کو دبایا تو آنٹی جھکتے ھوے بولی یاسر پیچھے سے نہ کرنا۔۔‬
‫تمہارا اتنا بڑا مجھ سے برداشت نہیں ہونا میں نے کہا نہیں کرتا الٹی تو ھوجاو ۔‬
‫آنٹی پھر گھّو ڑی بن کر گانڈ کو مٹکاتے ھوے میرے لن کے سامنے سیٹ کرنے لگ گءی ۔‬
‫میں نے ٹانگوں کو تھوڑا سا خم کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں اڈجسٹ کرکے آنٹی کی کمر کو پکڑ کر گیلی پھدی‬
‫میں لن اتار دیا‬
‫آنٹی نے سر اوپر اٹھا کر ھاےےےےےےےے کیا اور ساتھ ھی سییییییییی کی آواز نکال کر ایک ہاتھ پیچھے میری ران پر‬
‫رکھ کر بولی آرام سے نہیں کیا جاتا‪ ،‬۔‬
‫ایک ھی بار میں جان نکال دیتے ھو ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی کو تسلی دی اور پھر کمر کو پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا آنٹی‬
‫آہہہہہہہ افففففف مممممم‪ .‬کی آوازیں نکال رھی تھی اور میری جاندار گھسوں کی وجہ سے آنٹی کے ممے اسکے منہ کی‬
‫طرف اچھل اچھل کر جارھے تھے پیچھے سے آنٹی کی گانڈ میرے گھسے سے چھلک چھلک جارھی تھی ۔‬
‫مزے کی انتہا تک مجھے سرور آرھا تھا آنٹی کی سسکیاں آہیں اور تھپ تھپ کی آوازیں میرے مزے کو دوباال کررھیں‬
‫تھی ۔۔‬
‫میں مسلسل ایک ردھم میں آنٹی کو چودے جار رھا تھا دس منٹ مذید چودنے کے بعد آنٹی کی پھدی نے پھر منی نکال دی‬
‫اور آنٹی گانڈ پیچھے کو نکالے صوفے کے بازوں کے اوپر ھی ممے رکھ کر ڈھیر ھوگئی میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن‬
‫پھر منی اور پانی سے لتھڑا ھوا تھا آنٹی کے جھکنے کی وجہ سے آنٹی کی گانڈکا سوراخ بلکل میرے سامنے تھا اور سوراخ‬
‫بھی گیال ھوچکا تھا میں نے موقع ضائع کیے بغیر گیلے لن کو سوراخ پر رکھا اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ سمجھتی ہے ا‬
‫اٹھنے کی کوشش کرتی میں نے آنٹی کی کمر پر دونوں ھاتھ رکھ کر دبایا اور گھسا مار کر لن گانڈ میں اتار دیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ھی لن نان سٹاپ آنٹی کی گانڈ میں گھسا آنٹی باکاں مارن لگ گئی ۔‬
‫نال ای پنجابی کا نزول ھوا ۔‬
‫آنٹی کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی بولی ۔۔‬
‫ہاےےےےےےےےےے میریییییییی بنڈ پاڑ دتی اووووو کنجرا ھاےےےےےے وےےےے تیرا ککھ نہ روے کی کردتا ای‬
‫ظالماں‬
‫ھاےےےےےے نی میریے مائیں ھاےےےےےےےے میں مرگئی‬
‫پچھے ہٹ جا کھوتےدے لن والیا‬
‫ھاےےےےےےے۔‬
‫آنٹی کا برا حال تھا شاید پہلی دفعہ لن گانڈ میں لیا تھا آنٹی جتنا ذور اوپر کو اٹھنے کے لیے لگاتی میں اتنا ھی ذور سے آنٹی‬
‫کو نیچے دبا دیتاااااا۔۔‬
‫آنٹی مجھے پنجابی میں ھی بد دعائیں دیتی ھاےےے مر گئی کری جا رھی تھی ۔‬
‫میں نے لن باہر نہ نکاال اور ایک ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گردن پر رکھا اور آنٹی کے سر کو صوفے کے فوم پر دبا دیا‬
‫جس سے آنٹی کی آوازصوفے میں ھی دب گئی ۔۔۔‬
‫اور میں نے ساتھ ھی گھسے مارنے شروع کردیے مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے اتنا جنون آگیا اور میں آنٹی کو نیچے دباے‬
‫اسکی ُبنڈ مارے جارھا تھا اور آنٹی کی غوں غوں کی آوازیں آرہیں تھیں آنٹی نے الکھ کوشش کی کہ میرے نیچے سے نکل‬
‫جاے مگر میں نے اسے جکڑا ھی اسطرح تھا کہ بچاری ہلنے سے قاصر تھی ۔۔‬
‫میں بڑی بے دردی سے گھسے ماری جارھا تھا آنٹی نڈھال ہوکر اوندھی لیٹی سسکیاں لے کر رو رھی تھی مگر میں پورے‬
‫جوش سے اسکی ُبنڈ کی دھجیاں اڑا رھا تھا ۔۔‬
‫بیس منٹ مسلسل آنٹی کی گانڈ چدتی رھی آنٹی سسکتی رھی بلکتی رھی مگر اسکی سسکیوں میں مجھے مزہ آرھا تھا‪ ،‬میں‬
‫گھسے پر گھسا ماری جارھا تھا آنٹی کی بنڈ کی موری بھی کافی کھل چکی تھی میرا لن ایسے روانی سے چل رھا تھا جیسے‬
‫اسکی پھدی کو چود رھا ہوں بنڈ اور پھدی میں فرق ختم ھو چکا تھا آنٹی کا احتجاج تمام شد ھوچکا تھا کہ میرے ٹانگوں سے‬
‫ساراخون میرے لن کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا میرے گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی ہوگئی میرے جسم سے‬
‫پسینہ آنٹی کی کمر پر گرنے لگا آنٹی نیم بے ہوشی میں گئی میرے آخری گھسے نے آنٹی کو ہوش میں الیا ادھر میرا آخری‬
‫گھسا انتہائی جاندار تھا ادھر آنٹی کے منہ سے ھاےےےےےےے نکال‬
‫ادھر میرے لن سے بنڈ میں منی کا فوارہ نکال ۔‬
‫اور آنٹی کی ہودی کو بھرتا گیا بھرتا گیا میں نڈھال ھوکر آنٹی کے اوپر گر گیا ۔۔۔آنٹی کو ہوش آیا آنٹی نے غصے سے مجھے‬
‫پیچھے دھکا دیا اور ساتھ ہی پلٹ کر صوفے پر گر گئی اور دونوں ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر ایسے مچلنے لگ گئی‬
‫جیسے اسکی گانڈ میں کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں ۔۔۔میں دھکا لگنے سے پیچھے ہوکر کھڑا آنٹی کے تڑپنے کا نظارہ دیکھ‬
‫رھا تھا میری جیسے ھی نظر سامنے دیوار پر پڑی میں تو ایکدم۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬
‫‪.‬سالی واقعی ھی پوری منی تنی استاد ھے ۔۔‬
‫آنٹی مجھے کسنگ کےدوران کب ٹرائی روم سے باہر لے آئی اور کب میں الٹے قدموں سے چلتا ھوا باہر آیا مجھے تب پتہ‬
‫چال جب میری ٹانگوں کےساتھ صوفہ ٹکرایا اور میں پیچھے صوفے پر گرا آنٹی نے صوفے کے پاس ال کر میرے سینے پر‬
‫دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں صوفے پر گرتا گیا۔۔‬
‫آنٹی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی ھوئی آگے بڑھی اور میری رانوں پر دونوں اطراف اپنی ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گئی‬
‫۔‬
‫اور میری گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر میرے اوپر ایسے جھک گئی جیسے ڈریکوال خون چوستا ھے آنے کے شارٹ کٹ‬
‫ریشمی بالوں نے میرے چہرے کو دونوں اطراف سے ڈھانپ لیا اور آنٹی میرے کانوں کے نیچے میری گردن کے دونوں‬
‫اطراف ھاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میرے ہونٹوں کو بےدری سے چوسنے لگ گئی ۔‬
‫اور ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو میرے لن کے اوپر رکھ کر پھدی سے لن کو رگڑنے لگ گئی آنٹی کے مموں کی نوک میرے‬
‫سینے کے ساتھ ٹچ ھونے لگ گئیں ۔‬
‫میں ساال اسکی عزت لوٹنے کا سوچ رھا تھا اور وہ رنڈی میری ھی عزت لوٹنے کے درپے تھی ۔‬
‫اور میں معصوم بنا بیٹھا بس آنٹی کی کمر کو سہال رھا تھا۔۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا پھر آنٹی کو میرے ہونٹوں پر ترس آیا اور آنٹی میرے اوپر سے سیدھی ہوئی اور میری رانوں‬
‫پر وزن ڈال کر بیٹھتے ھوے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انکو درست کیا اور تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی شرٹ کو پکڑا‬
‫کر اتار دیا افففففففففففففففف‬
‫کیا نظارا تھا چٹے سفید دودھ کے پیالے ھاےےےےےےےے مممممممم‬
‫کیا ھی پلے ھوے ممے تھے اس سے پہلے کے آنٹی شرٹ کو بازوں سے نکالتی میں بےصبروں کی طرح آنٹی کے مموں پر‬
‫ٹوٹ پڑا اور دونوں مٹھیوں میں مموں کو دبوچ کر منہ مموں کی طرف بڑھایا اس سے پہلے کے میرا منہ مموں کے پاس جاتا‬
‫آنٹی نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی اور پھر مجھ پر جھک کر اپنے دونوں بات میرے سر کے دونوں اطراف صوف پر‬
‫رکھ دیے جس سے آنٹی کے بڑے بڑے ممے میرے منہ کے پاس خود ھی آگئے اور مموں نے میرے منہ کو آپنی آغوش میں‬
‫لے لیا‬
‫مموں کے درمیان میرا منہ تھا اور مموں نے میرے منہ پر چھاوں کی ہوئی تھی میں نے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھرا‬
‫اور باری باری انکو چوسنے لگ گیا آنٹی منہ چھت کی طرف کئے سسکاریاں بھر رھی تھی ۔‬
‫اور مموں کو میرے منہ پر دبا رھی تھی آنٹی کے ممے بہت ھی نرم تھے اور ان پر براون دائرے اور ان پر لگے دو انگور‬
‫الگ ھی نظارا پیش کررھے تھے ۔‬
‫میں ان موٹے اور تنے ھوے انگوروں کو منہ میں لے کر جتنی ذور سے چوستا آنٹی کے اندر اتنا ھی جوش بڑھتا ۔۔۔‬
‫کافی دیر تک میں مموں کو چوستا رھا آنٹی ایک دفعہ مستی میں فارغ ھوتے ھوے مجھے دبوچ کر اپنی پھدی سے منی کا‬
‫سیالب نکال چکی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی میرے اوپر سے اٹھی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور میرے ٹروازر کی ڈوری کے سرے کو پکڑ کر‬
‫کھینچ دیا اور مجھے اوپر ہونے کا اشارہ کیا ۔‬
‫میں نے گانڈ اوپر اٹھائی تو آنٹی نے میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کیا اور میرے پیروں میں کر دیا میرا لن آزاد ھوتے ھی ہوا‬
‫میں لہرایا آنٹی نے جب میرے موٹے ٹوپے اور تگڑے لن کو دیکھا تو آنٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی جیسے زندگی‬
‫میں پہلی بار اتنا تگڑا لن دیکھ رھی ہو ۔‬
‫آنٹی کتنی دیر میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دیکھتی اور کبھی میری طرف اپنی پلکوں کو اٹھا کر دیکھتی رھی ۔‬
‫میں نے خاموشی توڑی اور بوال آنٹی جی کیسا لگا ۔۔ آنٹی بڑی ستائش نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی واووووو‬
‫امیزنگ یاسررر کیا ہتھیار ھے تمہارا اففففففف میں تو سپنے میں بھی اتنے بڑے لن کا کبھی سوچا نہیں تھا ۔‬

‫)‪.Update no (100‬‬
‫میں نے کہا تو پھر اپنے اس سپنوں کے راج کمار کو پیار ھی کرلو آنٹی بولی کیوں نہیں اور یہ کہتے ھی آنٹی نے اپنی زبان‬
‫منہ سے نکالی اور پیروں کے بل میرے قدموں میں بیٹھی میرے لن کے ٹوپے کے ہونٹوں پر زبان کی نوک پھیرنے لگ گئی‬
‫اور پھر زبان کو ٹوپے کے چاروں اطراف پھیرتے ھوے ہوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بھی دیکھتی جیسے آنکھوں کے‬
‫اشارے سے پوچھ رھی ھو مزہ آرھا ھے ۔۔۔‬
‫مزہہہہہ تو کیا میری ٹانگوں سے سارا خون میرے لن کی طرف دوڑ پڑا تھا ۔‬
‫آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن پر زبان پھیر رھی تھی ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر کبھی اسطرف کرتے ھوے ٹوپے سے‬
‫جڑ تک زبان پھیرتی تو کبھی لن کو دوسری طرف کر کے ٹوپے سے زبان پھیرتے ھوے زبان کو ٹٹوں تک لے جاتی ۔‬
‫تو کبھی جتنا لن منہ میں لے سکتی اتنا لے کر چوستی میں آنکھیں بند کیے مزے سے سر کبھی صوفے کی بیک کے ساتھ‬
‫مارتا تو کبھی دائیں بائیں مارتے ھوے سسکاریاں بھرتا آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن کا چوپا لگا رھی تھی میرا آدھا لن‬
‫آنٹی اپنے حلق تک لیجا کر اسے منہ میں رکھ کر جب چوستی تو مجھے ایسے لگتا جیسے میں ابھی فارغ ہونے لگا ہوں‬
‫زندگی میں پہلی باری ایسا ایکسپرٹ چوپا لگانے والی آنٹی ملی تھی ۔‬
‫آنٹی کوئی پندرہ بیس منٹ مسلسل لن کو ہر زاویعے سے چومتی چاٹتی رھی ۔۔۔‬
‫میں تو بلکل چھوٹنے واال ہوگیا تھا آنٹی نے اس بار پھر لن کو منہ میں ڈاال اور ہلک تک کھینچ کر لے گئی بس مجھ سے‬
‫برداشت نہ ھوا میں آگے کو جھکا اور آنٹی کے سر کو ذور سے پکڑا اور لن پر دبا دیا اور ساتھ ھی میرے لن سے منی کے‬
‫فوارے چھوٹتے ھوے آنٹی کے گلے میں اترنے لگے جب لن نے پہلی پچکاری چھوڑی تو آنٹی نے سر کو اوپر جھٹکا دیا کہ‬
‫لن منہ سے باہر آجاے مگر مرد کے اندر جتنا جوش اور جتنی طاقت چھوٹتے وقت آتی ھے اتنی طاقت عام حالت میں نہیں‬
‫آتی ۔‬
‫آنٹی کے سر کو دبا کر آنٹی کے جھٹکے کو وہیں دبا دیا اور ساری منی آنٹی کے منہ میں نکالی اور جیسے ھی میں نے آنٹی‬
‫کا سر چھوڑا آنٹی نے جھٹکے سے لن منہ سے نکاال اور کھانستی ھوئی کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔‬
‫میں ادھر ھی بیٹھا لن کو آنٹی کی شرٹ کے ساتھ صاف کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫چار پانچ منٹ کے بعد آنٹی منہ پر دونوں ہاتھ رکھے باہر نکلی اور بولی بتمیز بتا تو دیتے کہ فارغ ھونے لگے ھو اپنا سارا‬
‫مال میرے منہ کے اندر ھی نکال دیا میں ایسے ھی نیم مرجھاے ھوے لن کے ساتھ اٹھا اور ٹراوز کو پاوں سے نکال کر ننگا‬
‫ھی آنٹی کی طرف بڑھا اور انکو سینے کے ساتھ لگا کر سوری کرنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر مسکے لگانے کہ بعد آنٹی کا موڈ سہی ھوا تو میں ایسے ھی آنٹی کو لے کر صوفے کے پاس آیا اور اسکو صوفے‬
‫پر گرا کر اسکے اوپر جھک گیا اور مموں کو چوسنے لگ گیا کچھ ھی دیر میں میرا لن پھر ٹائٹ ھوگیا آنٹی کی اور میری‬
‫ٹانگیں صوفے سے نیچے تھیں ۔۔‬
‫میرا لن جب اپنے جوبن میں آیا تو میں کھڑا ھوا اور آنٹی کے ٹائٹس کو پکڑ کر کھینچنے لگا تو آنٹی نے نخرے کی فارمیلٹی‬
‫پوری کرتے ھوے نہیں نہیں کرتے ھوے اپنے ٹائٹس کو پکڑ لیا مگر میں نے آنٹی کے ہاتھوں کو جھٹک کر ٹائٹس کھینچ کر‬
‫اسکے پیروں سے نکال پھینکا اور آنٹی کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسکو صوفے پر سیدھا لیٹایا اور خود بھی دوزانوں ہو کر آنٹی‬
‫کی چکنی پھدی کے سامنے لن ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا آنٹی کی پھدی پانی سے گیلی ہوچکی تھی اور بلکل مالئم بالوں سے‬
‫پاک موٹی پھدی کو دیکھ کر میرا لن مذید جھٹکے کھانے لگ گیا۔۔‬
‫میں نے اپن پوزیشن سنبھالی اور آنٹی کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا اور اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور‬
‫آنٹی کی ٹانگوں کو فولڈ کرتے ھوے اسکے کندھوں تک لے گیا۔۔۔‬
‫اور ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر پھدی کے موٹے اور گیلے لبوں میں پھیر کر لن کو پھدی کے پانی سے گیال کیا اور ٹوپے‬
‫کو پھدی کے لبوں میں سیٹ کرکے ایک جاندار گھسا مارا تو پہلے ھی گھسے میں لن آدھے سے ذیادہ پھدی میں اتر گیا‬
‫جیسے ھی لن پھدی کے اندر گیا آنٹی نے دونوں ہاتھوں سے میری رانوں کو دبوچ کر ھاےےےےےےے مرگئی‬
‫آہہہہہہہہہہہہہی‬
‫یاسررررررر کے بچےےےےےےےےے آرام نال کر سارا ایییییی اندر کردتا اییییی‬
‫میں نے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا اور یہ کہتے ھوے پھر ذوردار جھٹکے سے سارا لن جڑ تک اندر کردیا کہ آنٹی جی‬
‫ابھی تو آدھا گیا ھے آدھا باقی ھے ۔ جیسے ھی لن کا ٹوپا آنٹی کی بچے دانی میں گھسا تو‬
‫درد سے آنٹی کا رنگ سرخ ھوگیا اور آنٹی ھاےےےےےےے کرتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔میں بغیر رکے‬
‫گھسے مارنے لگ گیا آنٹی کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی پتہ نہیں کونسا نسخہ استعمال کرتی تھی سالی ۔‬
‫آنٹی میرے ہر گھسے سے ھاےےےےےے ہولی کر ہاےےےےےے ہولیییییی‬
‫کر رھی تھی میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا آنٹی کے ممے آنٹی کے سینے پر رقص کررھے تھے دس پندرہ منٹ میں‬
‫اسی سٹائل میں انٹی کو چودتا رھا آنٹی فل مزے میں سسکاریاں بھر رھی تھی آنٹی نے میری رانوں کو چھوڑ کر اب میری‬
‫کمر کے گرد بازو ڈال لیے تھے میرا ہر گھسا آنٹی کی بچے دانی تک زرب لگا رھا تھا آنٹی مزے لے لے کر چدوا رھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ یس یس یس فاسٹ فاسٹ کری جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی درد میں پنجابی اور مزے میں انگلش بولی جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی کی سیکسی آوازیں اور ڈانس کرتے ممے میرا جوش بڑھائی جارھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر مزید چودنے کے بعد آنٹی کی آہیں سسکیاں اور کم ان کم ان ایم کم ان کی آوازوں کے ساتھ آنٹی نے پھدی کو اوپر‬
‫کر کے لن کو پورا ہضم کیا اور جھٹکے کھاتے ھوے فارغ ھوگئی میں نے کچھ دیر آنٹی کے جسم کے جھٹکوں کو رک کر‬
‫انجواے کیا ۔‬
‫آنٹی کی پھدی نے جب میرے لن کو بھینچنا کم کیا اور آنٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی‬
‫میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن آنٹی کی منی سے لتھڑا ھوا تھا ۔‬
‫میں نے نیچے ہاتھ کر کے آنٹی کا ٹائٹس پکڑا اور لن کو صاف کرنے لگ گیا ۔‬
‫آنٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ھوئی تھی ۔۔۔‬
‫میں صوفے سے نیچے اترا اور آنٹی کا بازو پکڑ کر آنٹی کو کھینچا تو آنٹی سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫اٹھی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو کھڑا کیا اور صوفے کے کنارے کے پاس لیجا کر آنٹی کا منہ دوسری طرف کر کے آنٹی کو جھکنے کا کہا‬
‫آنٹی بغیر کچھ کہے گانڈ میری طرف کر کے ضوفے کے اوپر ہاتھ رکھ کر گھوڑی سٹائل میں جھک گئی آنٹی کی گانٹ‬
‫میرے سامنے تھی‬
‫میں تھوڑا سا نیچے کو ہوا اور گانڈ کے دراڑ کو کھول کر آنٹی کی موری دیکھنے لگ گیا اورانگلی آنٹی کی گانڈ کی موری‬
‫کے اوپر رکھ کر موری کو مسلنے لگ گیا آنٹی جھٹکے سے سیدھی ھوئی تو میرا انگلی آنٹی پھاڑیوں میں پھنس گی آنٹی نے‬
‫بھی پورے ذور سے گانڈ کو بھینچ کر انگلی کو سزا دی ۔۔‬
‫آنٹی سیدھی ھوتے ھی میری طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کر رھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا کچھ بھی نہیں ۔‬
‫اور آنٹی کو پھر اسی پوزیشن پر کرنے کے لیے آنٹی کی کمر کو دبایا تو آنٹی جھکتے ھوے بولی یاسر پیچھے سے نہ کرنا۔۔‬
‫تمہارا اتنا بڑا مجھ سے برداشت نہیں ہونا میں نے کہا نہیں کرتا الٹی تو ھوجاو ۔‬
‫آنٹی پھر گھّو ڑی بن کر گانڈ کو مٹکاتے ھوے میرے لن کے سامنے سیٹ کرنے لگ گءی ۔‬
‫میں نے ٹانگوں کو تھوڑا سا خم کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں اڈجسٹ کرکے آنٹی کی کمر کو پکڑ کر گیلی پھدی‬
‫میں لن اتار دیا‬
‫آنٹی نے سر اوپر اٹھا کر ھاےےےےےےےے کیا اور ساتھ ھی سییییییییی کی آواز نکال کر ایک ہاتھ پیچھے میری ران پر‬
‫رکھ کر بولی آرام سے نہیں کیا جاتا‪ ،‬۔‬
‫ایک ھی بار میں جان نکال دیتے ھو ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی کو تسلی دی اور پھر کمر کو پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا آنٹی‬
‫آہہہہہہہ افففففف مممممم‪ .‬کی آوازیں نکال رھی تھی اور میری جاندار گھسوں کی وجہ سے آنٹی کے ممے اسکے منہ کی‬
‫طرف اچھل اچھل کر جارھے تھے پیچھے سے آنٹی کی گانڈ میرے گھسے سے چھلک چھلک جارھی تھی ۔‬
‫مزے کی انتہا تک مجھے سرور آرھا تھا آنٹی کی سسکیاں آہیں اور تھپ تھپ کی آوازیں میرے مزے کو دوباال کررھیں‬
‫تھی ۔۔‬
‫میں مسلسل ایک ردھم میں آنٹی کو چودے جار رھا تھا دس منٹ مذید چودنے کے بعد آنٹی کی پھدی نے پھر منی نکال دی‬
‫اور آنٹی گانڈ پیچھے کو نکالے صوفے کے بازوں کے اوپر ھی ممے رکھ کر ڈھیر ھوگئی میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن‬
‫پھر منی اور پانی سے لتھڑا ھوا تھا آنٹی کے جھکنے کی وجہ سے آنٹی کی گانڈکا سوراخ بلکل میرے سامنے تھا اور سوراخ‬
‫بھی گیال ھوچکا تھا میں نے موقع ضائع کیے بغیر گیلے لن کو سوراخ پر رکھا اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ سمجھتی ہے ا‬
‫اٹھنے کی کوشش کرتی میں نے آنٹی کی کمر پر دونوں ھاتھ رکھ کر دبایا اور گھسا مار کر لن گانڈ میں اتار دیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ھی لن نان سٹاپ آنٹی کی گانڈ میں گھسا آنٹی باکاں مارن لگ گئی ۔‬
‫نال ای پنجابی کا نزول ھوا ۔‬
‫آنٹی کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی بولی ۔۔‬
‫ہاےےےےےےےےےے میریییییییی بنڈ پاڑ دتی اووووو کنجرا ھاےےےےےے وےےےے تیرا ککھ نہ روے کی کردتا ای‬
‫ظالماں‬
‫ھاےےےےےے نی میریے مائیں ھاےےےےےےےے میں مرگئی‬
‫پچھے ہٹ جا کھوتےدے لن والیا‬
‫ھاےےےےےےے۔‬
‫آنٹی کا برا حال تھا شاید پہلی دفعہ لن گانڈ میں لیا تھا آنٹی جتنا ذور اوپر کو اٹھنے کے لیے لگاتی میں اتنا ھی ذور سے آنٹی‬
‫کو نیچے دبا دیتاااااا۔۔‬
‫آنٹی مجھے پنجابی میں ھی بد دعائیں دیتی ھاےےے مر گئی کری جا رھی تھی ۔‬
‫میں نے لن باہر نہ نکاال اور ایک ہاتھ آگے کر کے آنٹی کی گردن پر رکھا اور آنٹی کے سر کو صوفے کے فوم پر دبا دیا‬
‫جس سے آنٹی کی آوازصوفے میں ھی دب گئی ۔۔۔‬
‫اور میں نے ساتھ ھی گھسے مارنے شروع کردیے مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے اتنا جنون آگیا اور میں آنٹی کو نیچے دباے‬
‫اسکی ُبنڈ مارے جارھا تھا اور آنٹی کی غوں غوں کی آوازیں آرہیں تھیں آنٹی نے الکھ کوشش کی کہ میرے نیچے سے نکل‬
‫جاے مگر میں نے اسے جکڑا ھی اسطرح تھا کہ بچاری ہلنے سے قاصر تھی ۔۔‬
‫میں بڑی بے دردی سے گھسے ماری جارھا تھا آنٹی نڈھال ہوکر اوندھی لیٹی سسکیاں لے کر رو رھی تھی مگر میں پورے‬
‫جوش سے اسکی ُبنڈ کی دھجیاں اڑا رھا تھا ۔۔‬
‫بیس منٹ مسلسل آنٹی کی گانڈ چدتی رھی آنٹی سسکتی رھی بلکتی رھی مگر اسکی سسکیوں میں مجھے مزہ آرھا تھا‪ ،‬میں‬
‫گھسے پر گھسا ماری جارھا تھا آنٹی کی بنڈ کی موری بھی کافی کھل چکی تھی میرا لن ایسے روانی سے چل رھا تھا جیسے‬
‫اسکی پھدی کو چود رھا ہوں بنڈ اور پھدی میں فرق ختم ھو چکا تھا آنٹی کا احتجاج تمام شد ھوچکا تھا کہ میرے ٹانگوں سے‬
‫ساراخون میرے لن کی طرف تیزی سے دوڑنے لگا میرے گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی ہوگئی میرے جسم سے‬
‫پسینہ آنٹی کی کمر پر گرنے لگا آنٹی نیم بے ہوشی میں گئی میرے آخری گھسے نے آنٹی کو ہوش میں الیا ادھر میرا آخری‬
‫گھسا انتہائی جاندار تھا ادھر آنٹی کے منہ سے ھاےےےےےےے نکال‬
‫ادھر میرے لن سے بنڈ میں منی کا فوارہ نکال ۔‬
‫اور آنٹی کی ہودی کو بھرتا گیا بھرتا گیا میں نڈھال ھوکر آنٹی کے اوپر گر گیا ۔۔۔آنٹی کو ہوش آیا آنٹی نے غصے سے مجھے‬
‫پیچھے دھکا دیا اور ساتھ ہی پلٹ کر صوفے پر گر گئی اور دونوں ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر ایسے مچلنے لگ گئی‬
‫جیسے اسکی گانڈ میں کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں ۔۔۔میں دھکا لگنے سے پیچھے ہوکر کھڑا آنٹی کے تڑپنے کا نظارہ دیکھ‬
‫رھا تھا میری جیسے ھی نظر سامنے دیوار پر پڑی میں تو ایکدم۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬
‫‪.‬۔۔ اچانک میرے دماغ میں خیال آیا کہ یاسر ابھی موقع نہیں برداشت کرلے ۔۔‬
‫یہ سوچتے ہی میں سیڑیوں کی جانب بڑھا اور بڑی تیزی سے سیڑھیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا ۔میں نے اپنے آپ کو نارمل‬
‫کیا اور دروازہ ناک کیا تو ضوفی نے ھی پردہ سرکا کر دیکھا اور عادت کے مطابق پیاری سی سمائل دی اور دروازہ کھول‬
‫دیا میں اندر داخل ہونے لگا تو اچانک میری نظر سیڑھیوں کی طرف پڑی تو ساال ساب اوپر کھڑے مجھے اندر جاتا دیکھ‬
‫رھا تھا ۔‬
‫میں اس پر ایک نظر ڈال کر اندر چال گیا اور جاتے ھی ضوفی سے پہال سوال یہ ھی کیا کہ کیا بنا ضوفی میرے قریب آئی‬
‫اور میرے بازوں کے نیچے سے بازو گزار کر مجھ سے لپٹ گئی اور پھر فرنچ کس کے بعد ۔‬
‫بولی کام ہوگیا ھے ۔۔‬
‫میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔‬
‫میں نے کہا تفصیل سے بتاو کہ کیا ھوا ضوفی بولی میں نے آنٹی اور انکل سے بات کی کے یہ جو جیولری واال لڑکا ھے‬
‫بہت دنوں سے مجھے آتے جاتے تنگ کرتا ھے میں نے اسے کئی بار سمجھایا بھی ھے مگر اس نے آگے سے بتمیزی کی‬
‫اور جب بھی میں گزرتی ہوں تو لڑکوں کو کھڑا کر کے انکے ساتھ مل کر مجھ پر آوازیں کستا ھے ۔‬
‫آنٹی تو اسی وقت تیار تھی میرے ساتھ چلنے کو کہ ابھی اسکا سامان اٹھا کر باہر مارتی ہوں مگر انکل نے کہا میں خود اس‬
‫سے بات کروں گا اور اس کو ایک مہینے کا نوٹس بھی دے دوں گا کہ دکان خالی کردے ۔‬
‫میں نے پھر روتے ھوے کہا کہ وہ سفارشیں کرواے گا ۔‬
‫تو آنٹی نے انکل کو سختی سے کہا کہ اگر آپ نے اس سے دکان خالی نہ کروائی تو میری آپ کے ساتھ لڑائی ہو جانی ھے‬
‫اور میں خود جاکر اسکا سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکوں گی پھر نہ مجھے کہنا اور آنٹی مجھے ساتھ لگا کر کہنے لگی تم‬
‫میری بیٹی ھو اس لیے پریشان مت ھونا ۔‬
‫میں نے ضوفی کی بات کاٹ کر کہا کہ میرا بھی بتایا کہ نہیں ۔۔‬
‫ضوفی بولی سنو تو۔۔۔‬
‫پھر میں نے انکو بتایا کہ میری کزن کے ساتھ منگنی ھوگئی ھے اور میرا کزن مجھے لینے اور چھوڑنے آتا ھے تو یہ اسکو‬
‫بھی گھورتا ھے‬
‫اگر لڑائی ہوگئی تو پھر سارا بازار تماشا دیکھے گا ۔‬
‫آنٹی بولی کہ تم نے اپنے منگیتر کو کہنا تھا کہ اس کنجر کا منہ توڑتا‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی اسی لیے تو آپ کے پاس آئی ھوں کہ پھر آپ نے کہنا تھا کہ ہمیں تو بتاتی ۔‬
‫تو انکل کہنے لگے بیٹا تم پریشان نہ ھو بس ایک دو دنوں میں اسکا حل نکالتا ھوں تو آنٹی انکل کو گھورتے ھوے بولی حل‬
‫کیا نکالنا ھے اسکو نوٹس دو کہ دکان خالی کرے نہیں تو میں جاتی ہوں اس کے پاس ۔‬
‫انکل نے کہا کہ کرتا ہوں کچھ اسکا ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو جپھی ڈالی اور دس بیس ُچ میاں لیں اور کہا بس اپنا کام بن گیا ابھی وہ گشتی کا بچہ باہر ھی کھڑا ھے اور‬
‫تمہیں دیکھے گا ضرور بس تم ایک دفعہ اسکو سنا دینا اور پھر دیکھنا تماشا ۔۔‬
‫ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے مجھ سے لپٹ کر بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کہ کچھ غلط نہ ھوجاے ۔‬
‫میں نے کہا جتنا میرے ساتھ غلط ھوا ھے اس سے ذیادہ نہیں کرتا بس تم بے فکر رھو اور جو کہا ھے وہ کرنا اور ھاں‬
‫ڈرنے اور گبھرانے کی ضرورت نہیں‬
‫ضوفی نے میرے گال پر کس کی اور مجھ سے علیحدہ ہوکر گاون پہننے لگ گئی ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد ہم پارلر بند کر کے سیڑھیوں کی جانب بڑے تو وہ کنجر ادھر ھی کھڑا تھا ہمیں آتا دیکھ کر پیچھے ہوگیا‬
‫ورنہ وہ نیچے ھی جھانک رھا تھا ۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر ضوفی کا ہاتھ پکڑ لیا ‪.‬‬
‫‪.‬میں اور ضوفی سیڑیاں چڑھ کر جب اوپر پہنچے تو اس گانڈو کی قسمت ماڑی کے وہ دکان کے باہر کھڑا تھا اور اس نے‬
‫عادت کے مطابق ضوفی کو گھورنا شروع کیا میں نے ضوفی کا ہاتھ دبایا کہ موقع اچھا ھے ۔‬
‫ضوفی نے اس لڑکے کی طرف گھورا جسکا نام نسیم تھا اور ضوفی تیزی سے اسکی طرف گئی اور جاتے ھی ضوفی نے‬
‫ایک زوردار تھپڑ نسیم کے منہ پر دے مارا اور اونچی آواز میں بولی بغیرت کے بچے تیرے گھر میں ماں بہن نہیں ھے جا‬
‫انکو دیکھ نسیم نے ہکا بکا ہو کر اپنی گال پر ہاتھ رکھا اور جیسے ھی دوسرا ہاتھ اٹھا کر ضوفی کو تھپڑ مارنے لگا تو میں‬
‫بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور اسکے اٹھے ھوے ہاتھ کو ہوا میں ھی پکڑ لیا اور بوال‬
‫تیری پین دا پھدا گشتی دیا بچیا لڑکی تے ہتھ چکنا ایں ۔‬
‫اس سے پہلے کہ نسیم کچھ بولتا میں دوسرے ھاتھ کا مکا بنایا اور اسکے منہ پر جڑ دیا اور ساتھ ھی ایک زور دار الت‬
‫اسکے پیٹ میں ماری نسیم کے پیٹ میں جب الت پڑی تو وہ پیچھے کی طرف گرا ۔‬
‫اسی اثنا میں اسکی دکان سے دو لڑکے بھاگے باہر آے اور جیسے ھی میری طرف بڑھے تو ان میں سے ایک لڑکے کے تو‬
‫آتے ھی میں نے پیٹ میں ٹانگ ماری ۔‬
‫وہ لڑکا وہاں سے ھی پیچھے کی طرف گرا اور دوسرے لڑکے کو مجھ تک پہنچنے کا موقع ھی نہیں مال اسکو شادے نے‬
‫دبوچ لیا اور اسکی گردن کو اپنی بغل میں لے کر اسکے پیٹ میں اور میں پر مکوں کی بارش کردی ضوفی گبھرا کر ایک‬
‫طرف جا کھڑی ہوئی ۔‬
‫نسیم ابھی اٹھ ھی رھا تھا کہ میں دوڑ کر اسکے سر پر پہنچا اور پھر ایک زوردار ٹھوکر اسکے پیٹ میں ماری وہ بلبال کر‬
‫پیچھے کو قالبٰا زی کھاتا ھوا گرا ۔‬
‫دوسرے لڑکے کو جنید نے پکڑ لیا اور دونوں گتھم گتھا ہوکر ایک دوسرے پر مکوں کی بارش کرنے لگ گئے میں نے‬
‫نسیم کے سر کت بالوں کو پکڑا اور اسکے بالوں کو کھینچتا ھوا اسے باہر سڑک پر لےآیا‬
‫ایکدم مجمع اکھٹا ھوگیا دو تین دکاندار میری طرف بڑھے تو میرے باقی دوستوں نے انکو بھڑکیں مارتے ھوے وہیں روک‬
‫دیا ۔‬
‫میں نسیم کو بالوں سے پکڑے گھسیٹتا ھوا سڑک پر لے آیا اور اسکو کھڑا کر کے اسکے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی‬
‫اس نے بھی تین چار مکے مجھے مارے مگر میں اس پر بھاری تھا ۔‬
‫ہم دونوں کو چھڑانے کے لیے کوئی اگے نہیں بڑھ رھا تھا‬
‫میرے یار مجھ پر ساے کی طرح کھڑے تھے ۔‬
‫نسیم کے ہاتھ رک چکے تھے اور میرے مکے اور ٹانگیں بجلی کی سپیڈ سے اس پر برس رہی تھیں ۔‬
‫نسیم کو بھی میرے دوستوں کا علم ھوچکا تھا اور اس کی کتے والی حالت کی وجہ سے وہ نڈھال ھوکر نیچے گرتا تو میں‬
‫اسکو بالوں سے پکڑ کر کھڑا کرتا اور پھر اسکے منہ پر مکا مارتا تو وہ پھر پیچھے جا کر گرتا‬
‫نسیم کی ناک پر مکے پڑنے سے‬
‫اسکی ناک سے خون بہنے لگ گیا ۔‬
‫میں نے اسے بالوں سے پکڑا اور پھر کھڑا کر کے ایک ذوردار ٹھوکر اسکی ٹانگوں کے بیچ ماری‬
‫نسیم کے منہ سے ایک دردناک چیخ نکلی اور وہ دونوں ھاتھ اپنے لن پر رکھتا ھوا دھرا ہوکر گھٹنوں کے بل سڑک پر بیٹھ‬
‫گیا میں پھر اسکی طرف بڑھا تو نسیم نے دونوں ہاتھ میرے آگے جوڑے اور بوال مینوں معاف کردے میرے کولوں غلطی‬
‫ھوگئی ہن نئی کردا بس اک واری معاف کردے اور پھر میرے پیروں کو پکڑ کر اونچی آواز میں رونے لگ گیا اور معافیاں‬
‫مانگنے لگ گیا۔‬
‫‪.‬میں نے جھک کر پھر اسکے بالوں کو پکڑا اور اسے کھڑا کر کے ایک ذور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تو اسکی آنکھیں‬
‫ایسے بند ہوئی جیسے وہ بےہوش ہونے لگا ھو میں نے اسکے بالوں کو پکڑے اسکے سر کو جنجھوڑا اور بولی‬
‫پین دی پھدی کھانیا۔‬
‫اپنی باجی نوں کیوں چھیڑدا سی ۔‬
‫نسیم کی ناک سے خون منہ سے خون اور تھوک بہہ کر اسکے آگے سے سارے کپڑے گیلے کر چکا تھا ۔‬
‫نسیم بوال‬
‫پا جی میں نئی چھیڑیا مینوں اپنی ماں دی قسمیں پیو دی قسمیں نئی چھیڑیا ۔‬
‫دوستو میں نے اسے یہ ظاہر ھی نہیں ہونے دیا کہ میں اسکو شکایت لگانے کی وجہ سے مار رھا ھوں نہیں تو سب دیکھنے‬
‫والوں نے مجھ کو اور ضوفی کو ھی قصوروار ٹھہرانا تھا ۔‬
‫نسیم مجھ سے معافیاں مانگی جارھا تھا ادھر اسکے دونوں ساتھیوں کا بھی حال اس کے جیسا ہوچکا تھا ۔‬
‫میں نے نسیم کو گریبان سےپکڑا اور اسے کھینچتا ھوا ضوفی کی طرف لے گیا‬
‫ضوفی کا رنگ اڑا ھوا تھا اور وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ مجھے اور نسیم کو دیکھی جارہی تھی ۔‬
‫میں نسیم کو کھینچتا ہوا ضوفی کے پاس لے گیا اور نسیم کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا اور بوال‬
‫معافی منگ اپنی پین دے پیراں وچ پے کے ۔‬
‫نسیم کسی فرمابردار کی طرح ضوفی کے پیروں میں گرا اور ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی کے پیروں میں جب نسیم گرا تو ضوفی ایکدم پیچھے کو ہٹی ۔‬
‫نسیم کچھ دیر اسی حالت میں نیچے بیٹھا معافیاں مانگتا رھا ۔‬
‫ادھر اس کے دو ساتھیوں کا بھی حال برا تھا وہ بھی نیچے ایسے بیٹھے تھے جیسے پولیس والوں نے مجرموں کو مار مار‬
‫کر بٹھایا ھوتا ھے ۔‬
‫میں نے شادے کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے نکلنےکا اشارا کیا ۔‬
‫میں نے ایک زوردار ٹھوکر نسیم کی کمر پر ماری نسیم فٹ بال کی طرح گھومتا ھوا سڑک کے درمیان میں چال گیا اور‬
‫اونچی آواز میں رونے لگ گیا اور دیکھنے والوں سے التجائیں کر نے لگ گیا‬
‫مینوں بچا لو میں مرجاواں گا مینوں بچا لو ۔‬
‫مگر میرے دوستوں سے ڈرتا کوئی منہ نہیں کھول رھا تھا اور نہ ھی آگے بڑھ رھا تھا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو چلنے کا کہا‬
‫ضوفی جلدی سے میرے آگے چلنے لگی اور ہجوم نے ہمیں خود ھی راستہ دے دیا میں جیسے ھی کچھ آگے گیا تو‬
‫اچانک ۔۔۔؟؟؟‬
‫‪.‬پیچھے سے شور سنائی دیا ۔‬
‫میں نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا تو دنگل مچا ہوا تھا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا کہ تم گھر جاو میں آتا ہوں۔‬
‫ضوفی نے میرا بازو پکڑا اور بولی نہیں یاسر تم نے نہیں جانا ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑ کر اپنا بازو ُچ ھڑوایا اور گرجدار آواز میں بوال تمہیں سنا نہیں میں نے کیا کہا جاو گھر ۔۔‬
‫ضوفی ایکدم سہم گئی ۔‬
‫میں نے ضوفی کی اگلی بات نہیں سنی اور واپس مارکیٹ کی طرف دوڑ لگا دی ۔‬
‫جب میں وھاں پہنچا تو چار پانچ لڑکے اور دو بڑی عمر کے انکل ٹائپ میرے دوستوں کے ساتھ گتھم گتھا تھے ۔‬
‫نسیم بھی اب شیر بنا ھوا تھا‬
‫نسیم کی جب نظر مجھ پر پڑی تو چیخ کر بوال او آگیا جے پین چود پھڑ لو اینوں وی ۔‬
‫انکل ٹائپ میرے طرف بڑے غصے سے بڑھا اور میرے منہ کی طرف مکا لہرایا میں نے اسکے مکے کو ایک ھاتھ سے‬
‫روکا اور جست لگا کر ٹکر اسکے ناک پر ماری انکل منہ پر ھاتھ رکھ کر ادھر ھی ُدہرا ہوکر گھٹنوں کے بل نیچے گرا نسیم‬
‫کو میرے ایک دوست نے نیچے گرایا ھوا تھا اور اس کے منہ پر مکوں کی بارش کررھا تھا شادا بھی دو لڑکوں کے ساتھ لڑ‬
‫رھا تھا کبھی ایک کے مکے اور ٹکریں مارتا کبھی دوسرے کے جنید بھی دوسرے انکل کے ساتھ گتھم گتھا تھا میرے باقی‬
‫کے چار دوست بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ لڑ رھے تھے ۔‬
‫انکل شاید نسیم کا باپ تھا ۔‬
‫وہ منہ پر دونوں ھاتھ رکھے سڑک پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا کہ میں نے اسکے بیٹھے پر ھی مکوں اور التوں کی بارش‬
‫کردی ۔‬
‫اتنے میں میرے پیچھے سے کسی نے میرے سر میں ڈنڈا مارا ۔‬
‫میری آنکھوں کے سامنے تو ایک دفعہ تارے گھومنے لگ گئے ۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ سر پر رکھے اور چکرا کر نیچے گر گیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی قالبازی کھاتا ھوا سیدھا ھوا تو سامنے والے نے دوسرا وار میری ٹانگ پر کیا اور پھر تیسرا وار کرنے ھی‬
‫واال تھا کہ میرا ایک دوست اس پر جھپٹا اور اسکے ہاتھ سے ڈنڈا پکڑ کر اس سے ڈنڈا چھین لیا ۔‬
‫اور اسی ڈنڈے سے اس پر وار کرنے لگ گیا ۔‬
‫میں خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور دوست کی طرف لپکا جو ڈنڈے سے اس لڑکے کی پٹائی کر رھا تھا میں نے دوست کے‬
‫ھاتھ سے ڈنڈا چھینا اور اس لڑکے کے سر میں دے مارا وہ لڑکا بلبالتا ھوا سر پر ھاتھ رکھے نیچے گرا ۔‬

‫)‪Update no (101‬‬
‫ًا‬
‫اسکے سر سے خون نکلنا شروع ھوگیا میں اسکی حالت کی پروا کیے بغیر اسکی ٹانگوں اسکے بازو مختصر اندھا دھند‬
‫اس پر ڈنڈے برسانے لگا اور وہ لڑکا نیچے بانکیں مار مار واویال کرنے لگ گیا‬
‫ھاےے او میں مر گیا جے ھاے اوے او مینوں بچاو کوئی ۔‬
‫جب میں نے چنگی تسلی کر لی اور وہ بھی نیم بے ہوش ھوگیا ۔‬
‫تو میں نسیم کو تالش کرنے لگ گیا میری نظر جب اس پر پڑی تو وہ خون میں لت پت نیچے پڑا تھا اور اس کے اوپر جنید‬
‫سوار تھا جو اس کے پیٹ میں سینے پر مکوں کی بارش کررھا تھا ۔‬
‫نسیم کے باپ کے منہ سے بھی خون نکل رھا تھا اور وہ جنید کو اوپر سے مار رھا تھا میں اس کی طرف بھاگا ۔‬
‫اور جاتے ھے ایک فالئنگ کک نسم کے باپ کی کمر میں ماری تو وہ قالبازی کھا کر جنید سے دور جاگرا ۔‬
‫شادا جن دو لڑکو ں کو مار رھا تھا‬
‫وہ بھی خون سے لت پت تھے میرے سر سے بھی خون بہہ کر میرے کپڑوں کو رنگین کر چکا تھا۔‬
‫میرے ایک اور دوست کا بھی سر پھٹ گیا تھا ۔‬
‫اس کے کپڑے بھی خون سے رنگین تھے ۔‬
‫میں نے ھاتھ میں پکڑا ھوا ڈنڈا نسیم کی ٹانگوں پر برسانا شروع کردیا ۔۔‬
‫نسیم اونچی اونچی بانکیں مارنے لگ گیا نسیم کے پیٹ پر جنید سوار تھا جو اسکے مکے برسا رھا تھا جبکہ میں کھڑا نسیم‬
‫کی ٹانگوں پر ڈنڈے برسا رھا تھا‬
‫بازار میں ایک جنگ کا سماں تھا ۔‬
‫تماشائی سہمے ھوے لڑائی دیکھ رھے تھے کہ اچانک شادے کو پتہ چال کہ کسی نے پولیس کو اطالع کردی ھے ۔‬
‫شادا بھاگ کر میرے پاس آیا اور بوال یاسرے نکلو سب پولیس پے جانی جے ۔۔‬
‫میں نے جنید کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر نسیم سے الگ کیا نسیم نیم بے ہوش پڑا تھا اور اس کے ساتھ بھی زخمی حالت‬
‫میں پڑے تھے جبکہ دو لڑکے بھاگ گئے تھے ۔‬
‫ہم سب اکھٹے ادھر سے نکلے اور گلیوں میں سے بھاگتے ھوے گاوں کی طرف جانے لگ گئے مجھے شارٹ کٹ راستوں‬
‫کا علم تھا اس لے میں آگے تھا اور باقی سب میری تقلید میں میرے پیچھے بھاگ رھے تھے ہم جہاں سے گزرتے لوگ‬
‫حیران ھوتے ھوے ہم سب کی طرف دیکھتے‬
‫خیر اوکھے سوکھے ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ھوے کسی طرح نہر پر پہنچے اور پل کراس کر کے میں ان سب کو مکئی‬
‫میں لے گیا اور کھالے کے پاس پہنچ کر مجھے ٹاہلی والی جگہ کا خیال آیا کہ اس وقت اس سے محفوظ جگہ کوئی اور نہیں‬
‫میں نے شادے کو اسطرف آنے کا کہا شادا بوال دفعہ کرو ادھر نہیں بیٹھنا چلو ہمارے ڈیرے پر چلتے ہیں ۔‬
‫میرے باقی سب دوستوں نے بھی اسی بات پر اتفاق کیا تو میں نے جیب سے پیسے نکالے اور ایک لڑکے کو کہا کہ تو گاوں‬
‫جا اور ادھر سے مرہم پٹی کا سامان لے کر شادے کے ڈیرے پر پہنچ ہم ادھر ھی ملیں گے اور گاوں میں کسی سے بات نہ‬
‫کرنا کہ ہماری لڑائی ھوئی ھے ۔‬
‫وہ لڑکا پیسے لے کر گاوں کی طرف چل پڑا جبکہ ہم فصلوں کے بیچو بیچ سے شادے کے ڈیرے پر چلے گئے ادھر جاکر‬
‫کچھ دیر ہم نے سانس لی ۔میرے سر سے خون بہہ بہہ کر خود ھی بند ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے کے سر سے ابھی بھی‬
‫خون رس رھا تھا شادے نے اور جنید نے ٹیوب ویل سے کپڑا گیال کیا اور ہم دونوں کے سر اور منہ صاف کرنے لگ گئے‬
‫اتنے میں وہ لڑکا بھی مرہم پٹی کا سامان لے کر پہنچ گیا شادے نے اور جنید نے ہم دونوں کی مرہم پٹی کی شادا ساتھ ساتھ‬
‫مجھے گالیاں بھی نکال رھا تھا کہ‬
‫پین یکہ جدوں تینوں میں جو کیا سی کہ نکل جا تے توں واپس بنڈ مراون ضرور آنا سی اسی سارے ای بوت سی ۔‬
‫میں نے کیا بس یار میں تم لوگوں کو کیسے اکیال چھوڑ سکتا تھا ۔‬
‫ایسے ھی ہم بیٹھے باتیں کرتے رہےاندھیرا کافی ہوچکا تھا ہم نے ٹیوب ویل سے اپنے کپڑے دھو کر وہیں سوکھنے کے لیے‬
‫ڈالے ھوے تھے ہمیں ادھر تین گھنٹے ہو چکے تھے کہ اتنے میں شادے کا مالزم ہانپتا ھوا آیا اور بوال بھا شادے چاچے نوں‬
‫تے یاسر دے ابے نوں پولیس پھڑ کے لے گئی اے ۔۔‬
‫ہم سب ایک دم گبھرا گئے اور گاوں کی طرف بھاگے ۔‬
‫شادا بوال یاسرے چوہدری دے ڈیرے تے چلنے آں‬
‫چوہدری اے ہن ساڈے کم آ سکدا اے ۔‬
‫میں نے بھی ہمممم کیا اور ہم سیدھا چوہدری نواب دین کے ڈیرے پر پہنچے ۔‬
‫چوہدری شادے کی بہت عزت کرتا تھا کیونکہ شادا اسکے پیچھے کئی جگہ پنگے لے چکا تھا ۔‬
‫چوہدری نواب دین نے جب ہم سب کو دیکھا تو حقہ پیتے ھوے چونک کر کھڑا ھوگیا شادا اس سے گلے مال اور ہم سب نے‬
‫بھی باری باری سالم دعا لی ۔‬
‫چوہدری بوال خیر اے ُمنڈیو کیویں کبراے ھوے او سب خیر تے ہے ناں ۔‬
‫شادے نے ساری روداد چوہدری کو سنا دی ۔‬
‫چوہدری کچھ دیر سوچتا رھ پھر ہنکارا بھرا اور بولی کوئی گل نئی پتر شادے پریشان نہ ھو اے کیڑا کم اے میں تے سمجھیا‬
‫کہ کوئی بندا پھڑکا دتا اے جیڑا اینے کبراے ھوے او۔‬
‫یہ کہہ کر چوہدری نے اپنے مالزم کو آواز دی کے جیپ نکال ۔‬
‫کچھ ھی دیر میں ہم سب جیپ میں سوار تھانے کی طرف نکل پڑے کچھ ھی دیر میں جیپ تھانے میں رکی اور ہم سب باری‬
‫باری جیپ سے اتر کر چوہدری کے پیچھے اندر چل دئیے ۔‬
‫جب ہم تھانے کے برامدے میں پہنچے تو ہماری مخالف پارٹی کے لوگ ادھر بیٹھے ھوے تھے جن میں دو تین تو وہ تھے‬
‫جنکی مرمت ھوئی تھی باقی شاید انکے رشتہ دار تھے یا محلے دار ۔‬
‫چوہدری ہم کو ادھر ھی کھڑا کر کے شادے کو لے کر اندر چال گیا ۔‬
‫مخالف کھڑے ہمیں گھور رھے تھے اور ہم انکو مگر بول کچھ نہیں رھے تھےبس نظروں کی لڑائی ھو رھی تھی ۔‬
‫ہم تقریبًا ایک گھنٹہ ادھر ھی کھڑے رھے کہ اندر سے ایک اہلکار باہر آیا اور مجھے اور جنید کو اندر آنے کا کہا اور‬
‫مخالف پارٹی کے بھی دو افراد کو اندر بلوایا ۔‬
‫اندر ایس ایچ او بیٹھا تھا ھوا تھا ۔‬
‫ایس ایچ او نے بتایا کہ انکے دو بندوں کی ناک کی ہڈی ٹوٹی ھے اور دو ٹانگوں کی ہڈیاں فیکچر ھوئی ہیں اور ساتھ میں‬
‫انکی دکان سے ایک الکھ کے قریب رقم بھی چوری ھوئی ھے ۔‬
‫شادے نے کہا لڑائی میں ہڈیاں تو ٹوٹتی ہی ہیں مگر یہ پیسوں والی بات بلکل جھوٹی ھے ۔‬
‫خیر کافی دیر بحث مباحثہ ھوتا رھا بل آخر چوہدری نے دس ہزار پولیس والوں کو رشوت دے کر صلح صفائی کروا دی اور‬
‫ہم سب شادے کے ابو اور میرے ابو اور جنید کے بھائی کو تھانے سے لے کر نکلے ۔‬
‫جنید اور اسکا بھائی اپنے گھر کی طرف چلے گئے جبکہ ہم سب جیپ میں سوار ہوکر گاوں پہنچے ۔‬
‫گھر آکر میری اچھی کالس لگی ۔‬
‫ابو سے دو تین تھپڑ اور امی سے چنگی گالیاں پڑی کہ پتر جوان ھوکہ باپ دی باں بندے نے تے توں جوان ھوکہ پیو نوں‬
‫تھانے ویکھاندا ایں ۔‬
‫بارہ بجے سے ایک بجے تک میری کالس لگتی رھی اور میں چنگی بےعزتی کروان توں بعد لمے ہوگیا‬
‫یعنی سوگیا ۔۔۔۔‬
‫صبح میں کافی لیٹ اٹھا مجھے کسی نے اٹھایا ھی نہیں اور میں بھی تھکاوٹ اور سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے گہری‬
‫نیند سویا رھا۔‬
‫میں بستر سے اٹھنے لگا تو میرے سر میں ذبردست درد کی چیسیں اٹھیں اور جب میں ٹانگ کو ہالنے لگا تو ادھر بھی ایسے‬
‫ھی درد ہوئی ۔‬
‫میں کراہتا ھوا اٹھا اور چارپائی پر ھی بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ سر کو دبانے لگ گیا ۔‬
‫اتنے میں امی جان اندر داخل ہوئیں تو غصے سے میری طرف دیکھ کر بولیں ۔‬
‫اٹھ گیاں میرا بدمعاش پتر ۔‬
‫میرے چہرے پر درد کے اثار تھے امی نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تو سارا غصہ بھول کر ممتا جاگی اور امی‬
‫میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر میرا ماتھا چومتے ھوے بولی‬
‫ھاے ******میرے پتر نوں کناں تیز بخار چڑیا ھویا اے ۔‬
‫اور ساتھ ھی میرے سر پر لگے زخم کو دیکھ کر مخالف پارٹی کو گالیاں اور بددعائیں دینے لگ گئی ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی امی الڈ کرتی رھی اور پھر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر ہاتھ سے میرے سر کے بالوں کو سہالنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫دوستو۔یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔‬
‫کہ جو سکون ماں کی آغوش میں ملتا ھے ویسا سکون پوری کائنات کی کسی بھی چیز میں نہیں ملتا ۔‬
‫ساری کائنات کی محبت ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور ماں کی محبت کا چوتھائی حصہ دوسرے پلڑے میں رکھ دو ۔‬
‫تو ماں کی محبت کا وہ پلڑا بھاری ھوگا ۔‬
‫میں اس شخص کو اس دنیا کا سب سے بڑا بدقسمت انسان سمجھتا ہوں جو ماں کی حیات میں اسکی خدمت سے محروم رھا‬
‫ھو ۔‬
‫اور دنیا کا سب سے بڑا ذلیل اور بیغیرت انسان اسکو سمجھتا ہوں جو بیوی یا گرل فرینڈ کے پیچھے لگ کر اپنی ماں کے‬
‫ساتھ برا سلوک کرتا ھے اور اسے بڑھاپے میں نظر انداز کرتا ھے ۔‬
‫اور دنیا کا سب غلیض اور اس دھرتی کا گند اسے سمجھتا ھوں جو اس پاک رشتے پر گندی سٹوریاں لکھتا ھے ۔‬
‫دوستو امی کی گود اور سر پر انکے شفقت بھرے ہاتھ سے مجھے ساری تکلیف بھول گئی اور میں نہ جانے کب سوگیا ۔‬
‫محبوب کی آغوش میں ہوس ھوتی ھے‬
‫اور ماں کی آغوش میں جنت کا سکون ۔‬
‫خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنکی ماوں کا سایہ انکے سر پر سالمت ھے ۔‬
‫میں پھر نیند کی وادیوں میں چال گیا میری تب آنکھ کھلی جب امی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے میرے سرہانے کے پاس‬
‫بیٹھی میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے مجھے اٹھا رھی تھی ۔‬
‫میں نے آنکھ کھولی تو سامنے میری جنت مسکرا رھی تھی امی نے شفقت سے کہا اٹھ میرا الل اٹھ کے روٹی کھا لے ۔‬
‫میں اٹھا اور امی کے کندھے کے ساتھ سر لگا کر بیٹھ گیا امی روٹی کے نوالے میرے منہ میں ڈالنے لگ گئی ۔‬
‫کھانا ختم کر کے امی اٹھی اور کچھ دیر بعد دودھ گرم کر میرے لیے لے آئیں ۔‬
‫امی مجھے پھر نصیحتیں کرنے لگ گئیں کہ ہم غریب اور عزت دار لوگ ہیں ۔‬
‫ایسے لڑائی جھگڑے ہمیں زیب نہیں دیتے ۔‬
‫میں فرمانبرداری سے سر ہالتا رھا۔۔پھر اچانک امی نے پوچھا پتر اے پالر والی کون اے جدے پچھے توں لڑیا سی ۔۔‬
‫میں ایک دم چونکا اور امی کے سوال کہ جواب کے لیے الفاظ تالش کرنے لگ گیا۔‬
‫امی مجھے خاموش اور یوں گبھراے ہوے دیکھ کر بولی دیکھ پتر میں تیری ماں ہوں اور ماں سے کچھ بھی نہیں چھپاتے ۔‬
‫دوستو اس میں کوئی شک نہیں اس دھرتی پر سب سے اچھا اور مخلص دوست ماں ھی ھے ۔۔‬
‫میں نے ہکالتے ھوے کہا کہ ووووہ میرے دوست کی بہن ھے ۔۔‬
‫امی بولی جھوٹ کیوں بول رھا ھے ۔‬
‫میں پھر بوال نننہیں امی ممممیں کیوں جھوٹ بولوں گا ۔‬
‫امی بولی مرضی تیری اگر تو ماں سے بھی سچی بات نہیں کرنا چاہتا۔‬
‫میں نے امی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کو چومتے ھوے بوال ۔‬
‫لے دس امی میں تیرے نال کیوں چوٹھ بوالں گا۔‬
‫امی بولی‬
‫پتر میں تینوں جمیا اے توں مینوں نئی ۔‬
‫میں نے تھوڑا شرماتے ھوے کہا امی جججی ووہہ مجھے پسند کرتی ھے ۔‬
‫امی ہنستے ھوے بولی اور تم ۔۔۔‬
‫میں نے بھی شرمیلی مورت بنتے ھوے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫امی مجھے ساتھ لگاتے ھوے میرا ماتھا چومتے ھوے بولی ۔‬
‫میرا پتر جوان ھوگیا اے ۔‬
‫چل مینوں نئی ملوایں گا میری نو نال ۔‬
‫میں نے خوش ھوتے ھوے امی کی گال کو چوما اور بوال ۔‬
‫ملواوں گا ضرور ملواوں گا ۔‬
‫امی بولی کب ملواو گے میں نے کہا جب آپ کہیں میں اسکو گھر لے آوں گا ۔‬
‫امی بولی ابھی کچھ دن صبر کر تیرے ابا کا موڈ جب سہی ھوا تو میں تجھے بتاوں گی پھر لے آنا میں خوش ھوکر امی کے‬
‫ساتھ چمٹ گیا کتنی دیر تک ایسے ھی امی کے ساتھ ضوفی کے بارے میں اور اس کے گھر کے بارے میں باتیں کرتا رھا‬
‫امی کو یہ بات کسی سے نہ کرنے کا بھی کہا اور خاص کر آنٹی فوزیہ اور نازی سے امی نے مجھے تسلی دی اور ۔۔‬
‫پھر امی چلی گئی اور میں بھی اٹھا اور کپڑے بدل کر ۔‬
‫گاوں کے ھی ایک ڈاکڑ کے پاس گیا اس سے سر پر پٹی کروائی اور دوائی لی اور پھر گھر کی طرف چل دیا‬
‫شام ہونے والی تھی ابھی شہر تو جا نہیں سکتا تھا ۔‬
‫اور ضوفی کو دیکھنے کا دل بھی بہت کر رھا تھا۔‬
‫میں چلتا ھوا ۔‬
‫سیدھا آنٹی فوزیہ کہ گھر گیا ۔۔میں جیسے ھی اندر داخل ھوا ۔‬
‫آنٹی صحن میں ھی چارپائی پر بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر چونکی اور جب انکی نظر میرے سر پر بندھی پٹی پر پڑی تو‬
‫چھالنگ مار کر چارپائی سے اتری‬
‫اور تیزی سے میری طرف بڑھتے ھوے میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا کر بولی ۔‬
‫کی حال کیتا اے کنجراں نے تیرا کیویں سٹ لگوائی اے میں تے کل دی پریشان آں کنی واری تیرے کار وی گئی پر توں ُستا‬
‫ہویا سی‬
‫آنٹی ایک ھی سانس میں بولی جارھی تھی‬
‫آنٹی کی آواز سن کر عظمی اور نسریں بھی دوڑی باہر آئیں میری حالت دیکھ کر وہ بھی کافی گبھرا کر میرے پاس کھڑی‬
‫ھوگئیں اور تینوں ماں بیٹیاں پوچھنے لگ گئیں کہ کیسے چوٹ لگی ۔‬
‫میں نے کہا مینوں بیٹھن تے دیو دسنا آں کوئی ایڈی خطرے والی گل نئی ۔‬
‫انٹی بولی‬
‫اینی وڈی لڑائی ہوئی تے توں کیناں ایں خطرے والی گل نئی ۔‬
‫مجھے یہ ٹینشن پڑ گئی کہ کہیں آنٹی کو بھی ضوفی کا نہ پتہ چل گیا ھو کہ اسکی وجہ سے لڑائی ھوئی ھے ۔‬
‫پھر انٹی نے جب یہ پوچھا کہ کون تھا وہ کنجر اور کیسے لڑائی ھوئی تو مجھے کچھ حوصلہ ھوا کہ آنٹی حقیقت سے العلم‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے آنٹی کو ایسے ھی منگھڑت کہانی سنائی کہ میرے دوست کی بہن کو وہ تنگ کرتا تھا اور دوست بھی جنید ھی بتایا ۔‬
‫اس وجہ سے اس سے مار پیٹ ھوئی آنٹی بھی بدعائیں دینا شروع ھوگئی کچھ دیر بعد انکل بھی آے انکو بھی یہ ھی سٹوری‬
‫سنائی ۔‬
‫انکل کچھ دیر بعد اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے‬

‫)‪ Update no (102‬عظمی اور نسرین پہلے تو سیرئس ہوکر بیٹھی رہیں جب ماحول کچھ بدال تو نسرین میرے چہرے کو‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫اے کی کھسرا بن گیا آں ۔‬
‫جبکہ عظمی زبردست کے اشارےکرتی رھی‬
‫آنٹی نے نسرین کی اچھی بھلی بےعزتی کردی ۔‬
‫نسرین بےعزتی کروا کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔‬
‫آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا اور پھر جب میں اور آنٹی کمرے میں رھ گئے تو انٹی جو میرے ساتھ ھی چارپائی پر‬
‫بیٹھی ھوئی تھی دروازے کی طرف دیکھتے ھوے میری گال کو چوم کر بولی میرا شزادہ تے ہیرو بن گیا ھے ۔‬
‫********۔‬
‫بہت سونا لگ ریاں ایں ****نظر تو بچاے‬
‫مجھے بھی شرارت سوجی میں نے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے آنٹی کے تنے ھوے ممے پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا‬
‫تو پھر کیا پروگرام ھے ۔‬
‫آنٹی نے سیییییی کیا اور میرے ہاتھ کو اپنے ممے سے جھٹکتے ھوے بولی ۔اس حال میں تو باز آجا ۔‬
‫میں نے کہا اتنی سیکسی آنٹی سامنے ھو تو مردہ بھی زندہ ھوجاتا ھے میرے تو بس ہلکی پھلکی چوٹ لگی ھے ۔‬
‫آنٹی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے نیم تنے ھوے لن کو مٹھی میں بھینچ کر چھوڑدیا اور بولی ۔‬
‫دل تو بہت کرتا ھے پر تمہارے پاس ھی اب ٹائم نہیں ھوتا اب تو تم شہری بابو بن گئے ھو اب ہم جیسے پینڈوں کے گھر آنا‬
‫بھی پسند نہیں کرتے ۔‬
‫آنٹی نے جیسے ھی میرے لن کو پکڑ کر چھوڑا تو میرا لن جھٹکے سے کھڑا ھوگیا ۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی بس کام کا سیزن ھے اس وجہ سے لیٹ ہوجاتا ھوں انٹی بولی جمعہ کو تو چھٹی ھوتی ھے تو میں نے‬
‫بتایا کہ جمعہ کو میں الھور گیا تھا دوست کے ساتھ۔‬
‫آنٹی الہور کا سن کے بہت خوش ھوئی اور بولی اکیلے اکیلے الہور دیکھ آے ھو‬
‫میں نے تنے ھوے لن سے قمیض اٹھا کر کہا آپکو ادھر ھی الھور دیکھا دیتا ھوں ۔‬
‫انٹی ہنستےھوے میرے لن پر چپت لگا کر بولی بےشرم کڑیاں اندر آجان گیاں ۔‬
‫میں نے جلدی سے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور لن پر رکھ دیا آنٹی کہ منہ سے بھی الریں ٹپک رھیں تھی اور پکا پھدی بھی لیک‬
‫کرگئی ھوگی آنٹی نے دروازے کی طرف دیکھتے ھوے لن کو مٹھی میں بھینچ لیا ۔‬
‫اس سے پہلے کہ آنٹی لن کو چھوڑتی کہ اچانک دروازے سے‪ ،،،،،‬۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬قدموں کی چاپ سنائی دی آنٹی نے بجلی کی سی تیزی سے ہاتھ میرے لن سے کھینچا ادھر آنٹی کا ہاتھ میرے لن سے ہٹا‬
‫ادھر عظمی ہاتھ میں چاے کی ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔‬
‫میں نے اور انٹی نے بچ جانے پر شکر ادا کیا عظمی چاے ہمیں پیش کر کے ۔دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی‬
‫اور بڑی سیکسی نظروں سے مجھے دیکھنے لگ گئی میں بھی آنٹی سے نظر چرا کر اسے دیکھ لیتا ۔‬
‫میں کافی دیر ادھر بیٹھا انکے ساتھ گپ شپ کرتا رھا ۔‬
‫عظمی نے بتایا کے اگلے ہفتے ہمارا رزلٹ آجانا ھے ۔‬
‫پھر ہم نے کالج میں ایڈمیشن لے لینا ھے ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا پاس ھوگی تو ھی کالج جاو گی عظمی بولی *****فرسٹ آوں گی دیکھ لینا۔۔‬
‫میں نے کہا چلو لگ جاے گا پتہ کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں آنٹی لوگوں سے اجازت لے کر نکال اور گھر آگیا‬
‫ابو کا موڈ خراب تھا اور ناذی مجھے طنزیں کر رھی تھی میری اسکے ساتھ ہلکی پھلکی منہ ماری ہوئی رات کو امی نے‬
‫مجھے باہر نہیں جانے دیا اور میں بھی تھکاوٹ محسوس کررھا تھا اس لیے جلد ھی سوگیا‬
‫اگلے دن بھی میں گھر پر ھی رھا امی نے مجھے شہر جانے سے سختی سے منع کیا کہ ابھی دو چار دن شہر نہیں جانا میرا‬
‫بہت دل کررھا تھا کہ ضوفی کو ایک بار دیکھو پتہ نہیں وہ کس حال میں ہوگی مگر امی کسی قمیت پر نہیں مان رھی تھی‬
‫میں نے بہت منتیں کی مگر ابو کا سختی سے آڈر تھا کہ اسے ابھی شہر نہیں جانے دینا ۔‬
‫گھر میں سارا دن بور ھوتا رھا‬
‫شام کو امی سے پوچھ کر آنٹی کے گھر گیا وھاں بھی کچھ خاص بات نہ ہوئی مگر ایک خوشخبری ملی کہ صبح آنٹی نے‬
‫اور نسرین نے شہر ڈاکٹر کے پاس نسرین کی نظر چیک کروانے جانا ھے ۔‬
‫آنٹی نے مجھے ساتھ چلنے کا کہا مگر میں نے طبعیت خراب ہونے کا بہانہ بنایا اور عظمی کو بھی آنکھوں آنکھوں میں‬
‫اشارے سے سمجھا دیا کہ تیار رہنا۔‬
‫میں آنٹی کے گھر سے واپس آگیا اور رات ضوفی کے سپنوں میں گزری ۔‬
‫صبح آنٹی نے دس بجے شہر جانا تھا جبکہ انکل صبح صبح ھی اپنی زمینوں پر نکل جاتے تھے اور شام کو ھی واپس آتے‬
‫تھے اور آنٹی اور نسرین کم از کم بھی ایک دو بجے سے پہلے واپس نہیں آنے والی تھیں‬
‫پیچھے عظمی اکیلی رھ گئی تو اس کے لیے مجھے بےچینی لگی ھوئی تھی کہ کب دس بجیں میرے کان گلی کی ھی طرف‬
‫تھے کہ کب تانگے کی آواز آے میں کبھی صحن میں جاتا تو کبھی کمرے میں جب ساڑھے نو بجے تو میں بیٹھک میں چال‬
‫گیا اور کھڑکی کھول کر کھڑکی کے پاس کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور ریڈیو چال کر گانے سنتے ھوے نظر باہر کو رکھی ۔‬
‫تقریبًا ایک گھنٹے کے بعد مجھے نسرین اور آنٹی گلی سے گزرتیں ہوئی نظر آئیں ۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور باہر کے دروازے کا ایک پٹ تھوڑا سا کھوال اور آنکھ لگا کر دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫۔ آنٹی اور نسرین ہمارے گھر سے آگے چلی گئ میں نے شکر ادا کیا کہ کہیں ہمارے گھر ھی نہ اجائیں ورنہ مجھے انکے‬
‫ساتھ جانا پڑنا تھا ۔‬
‫میں نے پانچ دس منٹ مذید انتظار کیا اور پھر صحن میں اگیا امی کو باہر چوک میں جانے کا کہا تو امی نے دوہزار نصحتیں‬
‫کی پھر مجھے باہر نکلنے کی اجازت ملی میں سیدھا چوک کی طرف گیا کہ کہیں انٹی لوگ واپس ھی نہ آگئے ھوں یا پھر‬
‫ابھی چوک میں ھی نہ کھڑی ہوں مگر میری خوش قسمتی کے وہ تانگے میں جاچکی تھیں ۔‬
‫میں نے دوسرے تانگے والے سے کنفرم کیا اور واپس آنٹی کے گھر کی طرف اگیا ۔‬
‫میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا میں نے درواز ناک کیا کچھ دیر بعد عظمی کی آواز آئی کون ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫چورررررر۔‬
‫عظمی بولی ۔‬
‫گھر میں کوئی بھی نہیں ھے چور ساب‬
‫میں نے کہا اسی لیے تو چوری کرنے آیا ہوں ۔‬
‫میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھی نظریں دوڑا رھا تھا کہ گلی کی کوئی چغل خور عورت تو نہیں کھڑی ۔‬
‫عظمی بولی میں نے نہیں کھولنا دروازہ ۔‬
‫میں نے بھی اب ذیادہ دیر باہر ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا حاالنکہ ایسی بات بھی کوئی نہ تھی اگر کوئی دیکھ بھی لیتا تو کوئی‬
‫فرق نہی پڑنا تھا مگر اپنے دل میں چور ھو تو پھر سب پولیس والے ھی نظر آتے ہیں‬
‫میں نے تھوڑا سیریس ہوتے ھوے کہا یار کھول وی دے کہ جدوں گلی دی کسے ُبڈی نے ویکھ لیا فیر کھولیں گی‬
‫عظمی کو بھی احساس ھوا اس نے جلدی سے دروازہ کھوال تو میں بھی پھرتی سے اندر داخل ھوا ۔‬
‫اور اس مکا بنا کر عظمی کے نرم نازک گگلے سے پیٹ میں ہلکے سے مار کر ِڈشواں کیا اور سیدھا کمرے میں چال گیا‬
‫عظمی بھی دروازہ بند کرکے کمرے میں آگئی میں نے اسے کمرے کا دروازہ بند کرنے کو کہا عظمی نے کمرے کا دروازہ‬
‫بھی بند کیا اور ۔‬
‫مڑنے لگی تو میں نے اسے دروازے کے پاس ھی بانہوں میں بھر لیا عظمی اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی بے صبرے تھوڑی‬
‫دیر صبر کرلے امی حالے چوک وچ ای ہوے پاویں ۔‬
‫میں نے کہا جان من میں تسلی کر کے ھی آیا ہوں ۔‬
‫اور ساتھ ہی میں نے عظمی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے عظمی کچھ دیر مزاحمت کرتی رھی جیسے پہلی دفعہ ملی ھو ۔‬
‫پھر میں نے جب گول مٹول مموں کو دبایا اور اسکے شربتی ہونٹوں کا رس چوسا تو کچھ ھی دیر میں وہ بھی گرم ھوگئی‬
‫اور ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے بل میری گردن میں اپنے نرم مالئم ہاتھ ڈال کر کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے‬
‫ٹراوز پہنا ھوا تھا جو میں رات کو پہن کر سوتا تھا‬
‫ٹراوزر میں میرا لن فل ٹائٹ ھوکر عظمی کی رانوں میں گھسا ھوا تھا اور عظمی کا قد مجھ سے چھوٹا تھا اس لیے وہ پنجوں‬
‫کے بل ھوکر لن کو پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی ۔‬
‫ہم دونوں یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے‬
‫دروازے سے چارپائی تک کا سفر کر کے چارپائی کے قریب پہنچے ۔‬

‫)‪.Update no (103‬‬
‫میں نے عظمی کو اسی پوزیشن میں چارپائی پر لیٹایا اور خود بھی اسکے اوپر لیٹ گیا عظمی کو جسم بھرا بھرا تھا اور‬
‫ممے تو اسکے کمال کے تھے گول مٹول اور تنے ھوے ۔‬
‫عظمی کے ممے میرے سینے سے لپٹے ھوے تھے کچھ دیر میں عظمی کے اوپر لیٹا اسکے ہونٹ چوستا رھا ۔‬
‫پھر اسکی ٹانگوں کو چارپائی پر کیا اور اسکا سر تکیہ پر رکھا ۔‬
‫اور خود اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔۔‬
‫میں عظمی کی ٹانگوں کے درمیان اسکی پھدی کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چھت کی طرف تنے ھوے مموں کے ساتھ‬
‫سیدھی لیٹی ھوئی عظمی کے گول مٹول مموں کو دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا ۔‬
‫عظمی سینے کو اوپر کر کے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھ کر منہ کو پیچھے لیجاتے ھوے لمبی لمبی سسکاریاں‬
‫بھرنے لگ گئی میں بھی اسکی سیکسی اداوں اور مزے سے بھر پور سسکاریوں کو فل انجواے کرتے ھوے اسکے ممے‬
‫ذور ذور سے دبانے لگ گیا۔۔۔۔‬
‫میرا لن فل اکڑ کر ٹراوزر سے باہر نکلنے کے لیے اوپر کو چھالنگے مار رھا تھا‪.‬‬
‫کچھ دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا عظمی کے مموں کا مساج کرتا رھا اور عظمی مزے سے سسکاریاں بھرتی ھوی پھدی سے‬
‫پانی کا سیالب نکال کر میرے لن کو متاثر کرتی رھی ۔‬
‫میں نے عظمی کے مموں کو چھوڑا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اوپر کو کھینچا اور اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا ۔‬
‫اور عظمی کی قمیض پکڑ کر اتارنے لگا تو عظمی بولی نہیں یاسر قمیض نہیں اتارنی کوئی آگیا تو اتنی جلدی سنبھال نہیں‬
‫جانا میں نے کہا یار کوئی نہیں آتا عظمی بولی ایسے ھی اوپر کر لو مگر میرے اصرار پر اسے ہار ماننی پڑی اور یہ کہتے‬
‫ھوے اس نے بازو اوپر کردیے کہ مرواو گے مجھے‬
‫میں‬
‫نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض پکڑ کر اوپر کر کے اسکے سر سے نکال دی باقی کی اس نے خود ھی بازوں سے نکال کر‬
‫سیدھی کر کے دوسری چارپائی پر پھینک دی میں نے جلدی سے اپنی شرٹ اتاری اور اسکی قمیض کی طرف پھینکنے لگا‬
‫تو عظمی نے میری شرٹ راستے میں ھی کیچ کر کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا کر کے پھر اپنی قمیض کے اوپر پھینک‬
‫دیا ۔‬
‫عظمی کا دودھیا ممے کالے بریزیر میں چمک رھے تھے۔‬
‫کافی عرصے کے بعد عظمی کا جسم دیکھا تھا تو عجیب سی کیفیت ھورھی تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا گورا جسم دیکھ رھا‬
‫ھوں عظمی نے جب میری نظروں کو اپنے مموں کو گھورتے دیکھا تو بریزیر کی طرف اشارہ کر کے بولی اسے بھی اتار‬
‫دوں کہ ایسے ھی کام چل جاے گا ۔‬
‫عظمی کی طنز پر مجھے ہنسی آگئی میں نے مسکراتے ھوے کہا‬
‫اتار دو گی تو مہربانی ۔‬
‫عرصہ دراز سے ان دودھ کے پیالوں کا درشن نصیب نہیں ھوا۔۔‬
‫عظمی طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے ھاتھ پیچھے کمر کی طرف لیجاکر بریزیر کی ہک کھولتے ھوے مموں پر آے اپنے‬
‫سلکی اور لمبے بالوں کو جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوے بولی لو کرلو درشن تم خوش ھو جاو۔‬
‫اس کے ساتھ ھی بریزیر کی ہک کھلی اور بریزیر نے مموں کو رھائی دی ۔‬
‫اور عظمی نے بڑے نخرے اور ادا سے بریزیر کو بازوں سے باری باری نکاال اور بڑا احسان کرتے ھوے مموں کے آگے‬
‫سے پردہ ہٹا کر مموں کو جلوہ گر کیا۔‬
‫اففففففف کیا چٹے سفید ممے گول مٹول اوپر ہلکے براون رنگ کا گول دائرہ اوپر چھوٹا سا مگر تنا ھوا نپل مموں پر بریزیر‬
‫کے نشان مموں کے احساس نرم نازک ھونے کی دلیل پیش کررھے تھے ۔‬
‫بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے پیچھے تکیے پر سر کو گراتے ھوے جب لیٹی تو‬
‫اففففففففففف کیا سین تھا کیا نظارا تھا کیا غضب ڈھاتے ھوے ممے چھلکے جیسے ابھی سارا دودھ باہر کو گر جاے گا۔‬
‫۔عظمی جس انداز سے پیچھے کو گری اسکے گول مٹول نرم ممے بھی اپنے بڑے اور جوان ھونے کا احساس دالتے ھوے‬
‫چھلک رہے تھے۔‬
‫مموں کا یہ منظر دیکھ کر میرے ھاتھ خود با خود مموں کی طرف بڑھے اور میرے ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں کو‬
‫مٹھیوں میں بھینچ لیا اففففففف کیا سوفٹنس تھی کیا سیکسی ممے تھے میں مزے لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں بھینچ رھا‬
‫تھا اور ساتھ ساتھ انگوٹھوں سے مموں پر لگے انگور کے دانوں پر مساج کر رھا تھا عظمی پھر تتڑپنے لگ گئی اسکی‬
‫آنکھوں میں نشے کے ڈورے تیرنے لگ گئے آنکھوں اور گالًو ں کی اللی بڑھنا شروع ھوگئی عظمی کی سانسیں تیز اور منہ‬
‫سے سسکاریاں بلند ہونا شروع ھوگئی ۔‬

‫)‪Update no (104‬‬
‫عظمی کی بے چینی اور یوں سیکس میں تڑپ میرے اندر لگی آگ کو مزید تیز کررھی تھی میں مموں کو چھوڑ کر عظمی‬
‫کے اوپر جھکا اور دودھ کے پیالوں سے ہونٹ لگا کر من کی پیاس جو بھجانے کی کوشش کرنے لگ گیا ۔‬
‫پیاس بھجنے کی بجاے بڑھتی جارہی تھی بڑھتی جارہی تھی آخر اتنی پیاس بڑھی کے مموں کو منہ میں لیے ھی اپنا ٹراوز‬
‫نیچے کیا اور عظمی کی شلوار کھینچ کر اسکے گھٹنوں تک کی اور جلدی سے اوپر ھوا اور اسکی ٹانگوں کو اوپر کیا اسکی‬
‫شلوار کو اتارنا بھی گوارہ نہ کیا عظمی کی شلوا اسکے گھٹنو تک تھی میرا ٹراوزر بھی میرے گھٹنوں تک تھا ۔‬
‫میں نے لن کو جڑ سے پکڑا نہ پھدی کے ساتھ ٹوپے کو رگڑ کر گیال کیا نہ تھوک لگایا یوں ھی سوکھا لن گیلی پھدی کی نرم‬
‫ہونٹوں کے درمیان پھنسایا اور ہلکا سا جھٹکا مار کر عظمی کی ٹائٹ پھدی میں ڈال دیا عظمی کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫ھاےےےےےےے امییییی جی مگر دوسرے گھسے نے اسے ابا بھی یاد کروا دیا کیوں کہ‬
‫۔آہووووو‬
‫سارا لن پھدی کی گہرائی میں اتر چکا تھا عظمی سر دائیں بائیں مار مار رو رھی تھی مجھے پیچھے دھکیل رھی تھی مگر‬
‫میں ٹھہرا نہ بلکل گھسے مارنا شروع کردیے عظمی کی پھدی نے چند گھسوں کے بعد ھی میرے لن کو روانی دے دی لن‬
‫بھی پھدی کے پانی سے تر ھوکر فروانی سے چل رھا تھا کچھ ھی دیر میں عظمی کی آہو پکار سسکیوں میں بدل گئی میرے‬
‫گھسوں سے عظمی کے ممے چھلک چھلک کر اسکے منہ کی طرف جارھے تھے ۔‬
‫عظمی اب گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن بچے دانی تک لے رھی تھی‪.‬‬
‫کچھ ھی دیر بعد عظمی کا جسم اکڑنا اور پھدی سکڑنا شروع ھوئی اور عظمی کی انکھیں نیم بے ہوشی کا منظر پیش کرنے‬
‫لگی اس کے منہ سے‬
‫ساراااا کردے یاسرررر اندر تک کردےےےےے ساراااااا ایییییی سارررااااا اییییییی یاسررررررررر کرتی ھوئی نے ہاتھوں‬
‫سے میرے کندھوں کو اور ٹانگوں سے میری کمر کو اور پھدی سے میرے لن کو جکڑ کر جسم کو جھٹکے مارنا شروع‬
‫کردیے ۔۔ عظمی کی پھدی سے گرم گرم منی میرے لن پر گر نا شروع ھوگئی عظمی کا جسم جھٹکے کھا رھا تھا اور اسکی‬
‫ٹانگیں بری طرح کانپ رھی تھیں کہ اچانک اسکا جسم ڈھیال ھوا اور اسکے ھاتھوں نے میرے کندھوں کو ٹانگوں نے میری‬
‫کمر کو اور پھدی نے میرے لن کو چھوڑا اور عظمی نڈھال ھوکر جسم کو ڈھیال چھوڑے لیٹی رھی۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی لن پھدی میں رھا تو میں نے عظمی کی ٹانگیں اوپر کی اور لن باہر نکال کر عظمی کی شلوار کو پکڑ کر‬
‫گھٹنوں سے نیچے کر کے اتارنے لگا ابھی میں نے شلوار کو ہاتھ ھی لگایا تھا کہ عظمی کو ایکدم جھٹکا لگا اور اس نے‬
‫بجلی کی سی تیزی شلوار کو پکڑ لیا اور مجھے اتارنے سے منع کرنے لگ گئی میں اسکے اس ردعمل پر حیران ھوگیا کہ‬
‫اسے اچانک کیا ھوا اب پیچھے بچا ھی کیا ھے جو یہ چھپا رھی ھے ۔‬
‫میں شلوار کو نیچے کھینچتا مگر عظمی شلوار کو اوپر کھینچتی ۔‬
‫عظمی بس یہ ھی کہی جارہی تھی کہ میں نے ساری شلوار نہیں اتارنی ایسے ھی کرلو اگر کرنا ھا ۔‬
‫میرا تجسس بڑھتا جارھا تھا کہ آخر کیا وجہ ھے پہلے تو کبھی اس نے اتنی مزاحمت نہیں کی ۔‬
‫میں نے آخر کار بڑی مشکل سے اسکے ہاتھوں سے شلوار چھڑوائی اور ذبردستی اسکی شلوار کھینچ کر جب ٹانگوں سے‬
‫علیحدہ کی تو عظمی چیخ مار کر اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے اسکے رونے کی پروا کیے بغیر اسکی ٹانگوں کو اوپر کیا اور لن کو پکڑ کر پھدی کی طرف لیجانے لگا جیسے ھی‬
‫میری نظر اسکی پھدی پر پڑی اور جب میں نے غور سے دیکھا تو میں ایکدم جھٹکے سے ایسے پیچھے کو گرا جیسے‬
‫مجھے چالیس ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا ۔‬
‫عظمی اونچی آواز میں روے جارھی تھی ۔‬
‫پھدی دیکھ کر میرا سرچکرانے لگا میں ایک جھٹکے سے اٹھا اور عظمی کے منہ پر ایک ذور دار تھپڑ مارا اور پوچھا کہ‬
‫یہ پھدی کو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬
‫‪ ..‬میں نے دوبارا ایک نظر عظمی کی پھدی پر ڈالی عظمی نے دونوں ہاتھ پھدی پر رکھ کر ٹانگوں کو جوڑ کر ایک طرف‬
‫اکھٹی ھوگئی میں غصے سے چارپائی سے اتر کر کھڑا ہوگیا اور عظمی کے بالوں کو پکڑا اور بالوں کو جنجھوڑ کر بوال‬
‫گشتی جھوٹی مکار یاروں کے نام لکھوانے کے لیے پھدی ھی ملی تھی ۔‬
‫عظمی اونچی آواز میں روتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر مجھے معاف کردو ۔‬
‫بے قصور ہوں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ھے ۔‬
‫میں نے عظمی کے سر کے بالوں کو جھٹکا دے کر چھوڑا بوال بکواس بند کر خرافہ مکار عظمی بولی مار لو مجھے جتنا‬
‫تمہارا دل کرتا ھے کہہ لو جو کہنا ھے میں ہوں ھی اسی الئک اسی لیے میں تم سے دور بھاگتی تھی مجھے پتہ تھا کہ تم‬
‫سارا الزام مجھ پر ھی لگاو گے ۔‬
‫میں نے ایک اور تھپڑ عظمی کے منہ پر دے مارا اور ٹراوز اوپر کرکے ڈوری باندھتے ھوے بوال بکواس بند کر کتیا۔۔۔‬
‫اب میں تیرے مکر میں نہیں آوں گا ۔‬
‫اور میں باہر کی جانب لپکا ۔‬
‫عظمی ننگی ھی جمپ مار کر چارپائی سے اتری اور بھاگ کر مموں کو چھلکاتی ھوئی میرے پیچھے آئی اور مجھے‬
‫دروازے سے پیچھے ھی روک کر میرے سامنے ھاتھ جوڑ کر روتے ھوے بولی یاسر میری بات تو سن لو مجھے ایک‬
‫موقعہ تو دو کہ میں اپنی صفائی پیش کرسکوں ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫پیچھے ہٹ جا بے غیرت جھوٹی ورنہ تجھے جان سے ماردوں گا ۔‬
‫عظمی نے میرے ھاتھ پکڑے اور اپنے گلے پر رکھتے ھوے بولی ۔‬
‫مارو مجھے مار دو مجھے میرا گال دبا دو‬
‫میں زندہ بھی نہیں رہنا چاہتی ۔‬
‫میں نے جھٹکے سے اپنے ھاتھ اس سے چُھڑواے اور اسے پیچھے کو دھکا دیتے ھوے بوال ۔‬
‫جا اپنے یاروں کے پاس جا اس کو کہہ کہ تیرا گال دباے جن کے نام پھدی پر لکھواے پھر رھی ھو گشتی عورت کیا میرا لن‬
‫کم پڑ گیا تھا جو دو دو یار بنا لیے رنڈی ہو تم رنڈی ۔‬
‫عظمی جو میرے دھکے سے پیچھے جاگری تھی نیچے ھی گھیسی کر کے میری ٹانگوں کی طرف بڑھی اور میری ٹانگوں‬
‫کو بازوں میں بھر کر ٹانگوں سے چمٹ گئی اور بولی یاسر میں بے قصور ہوں بے قصور ھوں میری ایک دفعہ بات تو سن‬
‫لو ۔‬
‫میں نے ٹانگیں چھڑواتے ھوے کہا‬
‫میں نے تیری کوئی بات نہیں سننی چھوڑ میری ٹانگیں‬
‫تم ایک پلید عورت ھو رنڈی ھو تم رنڈی ۔‬
‫عظمی بولی ۔‬
‫ایسے میں تمہیں نہیں جانے دوں گی جب تک تم میری بات نہیں سنو گے ۔‬
‫مجھے بس ایک موقع دے دو ۔‬
‫اس کے بعد جو تمہارا دل کرے وہ کرنا میں کچھ نہیں کہوں گی‬
‫عظمی کی حالت دیکھ کر مجھے ترس بھی آنے لگ گیا جیسے وہ میرے پیر پکڑے گڑگڑا رھی تھی بلبال رھی تھی‬
‫مگر اسکی پھدی پر لکھے دو نام میرا دماغ خراب کر رھے تھے ۔‬
‫باالخر میں نے کہا ہاں کرو بکواس کیا کرنی ھے بولو جھوٹ کیا بولنا ھے بناو نئی کہانی کیا بنانی ھے ۔‬
‫مگر ایک بات یاد رکھنا اب میں تیرے مکر میں نہیں آوں گا۔۔‬
‫عظمی بولی ۔‬
‫یاسر بس ایک دفعہ میری بات سن لو پھر تم یقین کرنا یا نہ کرنا مجھے اسکی پرواہ نہیں مگر میں تمہیں سچ بتا کر اپنے دل‬
‫سے یہ بوجھ ہٹانا چاہتی ھوں۔‬
‫تم جو سزا میرے لیے تجویز کرو گے میں ہنس کر قبول کروں گے ۔‬
‫نہ یقین کرو گے تو مجھے پھر بھی دکھ نہیں ھوگا ۔‬
‫مگر میرا ضمیر مطمئن ھوجاے گا میرے دل پر سے یہ پہاڑ ہٹ جاے گا جس کے بوجھ سے ہر وقت میرا سانس رکتا ھے‬
‫اورمیں اندر ھی اندر سے صبح شام مرتی جارھی ہوں ۔‬
‫میں تھوڑا سا نرم ھوا ۔‬
‫اور بوال ھاں بتاو کیا بتانا ھے ۔‬
‫عظمی کھڑی ھوئی اور بولی چلو ادھر چارپائی پر بیٹھو بتاتی ہوں سب ۔‬
‫میں نے کہا ادھر بتاو۔‬
‫عظمی میرا بازو پکڑ کر کھینچتے ھوے بولی چلو تو بیٹھ کر بتاتی ھوں ۔‬
‫میں بوجھل قدموں سے چارپائی کی طرف چل پڑا ۔‬
‫اور عظمی کو کہا کہ پہلے کپڑے پہنوں مجھے تمہارے اس ننگے وجود سے گھن آرھی ھے ۔‬
‫عظمی اثبات میں سر ہالتے ھوے ناچارگی سے اپنے کپڑے پہننے کے بعد بولی‬
‫)‪Update no(106‬‬
‫مگر مجھ کو ایک انجانے سے خوف نے گھیرا ھوا تھا۔‬
‫اسد نے جب مجھے سوچ میں پڑے دیکھا تو‬
‫جلدی سے کار کے آگے سے گھوم کر میری طرف آیا اور خود ھی میری سائڈ کا دروازہ کھول کر مجھے بازو سے پکڑ کر‬
‫باہر آنے کا کہا‬
‫میں نے پھر کہا اسد پلیز چلو یہاں سے مجھے بہت ڈر لگ رھا‬
‫تو اسد نے مجھے پھر بہالتے ھوے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے جو تم ایسے کررھی ھو میرا دوست کیا سوچے گا ۔‬
‫کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔‬
‫یاسر مجھ سے یہاں سے بس غلطی ہوئی جو میں نے اسد کے منہ سے جب بھابھی کا لفظ سنا تو‬
‫میرا سارا ڈر اور خوف ایکدم سے جاتا رھا اور میں بدنصیب اسی میں ھی خوش ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی بیوی‬
‫بنانے کا بھی سوچ لیا ھے اسی لیے تو میں اس کے دوست کی بھابھی ہوئی ۔‬
‫میں باہر نکلی اور اسد کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔‬
‫اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور‬
‫میری طرف اپنی سرخ بڑی بڑی سی آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد سے بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور اسد کا حال‬
‫احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫اس دوران بھی اس کی نظریں مجھ پر ھی جمی ھوئی تھیں‬
‫اور بڑی ہوس بھری نظروں سے مجھکو سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا۔‬
‫میں اسکی نظروں کی تاب نہ التے ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی‬
‫مگر اب بھی مجھے ایسے محسوس ھورھا تھا کہ‬
‫اس آدمی کی آنکھیں میری بیک میں ُچبھ رھی ہیں ۔‬
‫اسد سے گلے ملتے ھوے وہ شخص ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا‬
‫اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے مجھے دوسری طرف منہ کیے کھڑے ھوے دیکھا‬
‫تو مجھے مخاطب کر کے بوال‬
‫عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری جموں ہے‬
‫اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ‬
‫مگر اپنا جگری یار ھے‬
‫اور اکری یہ میری ہونے والی بیگم اور تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔‬
‫اکری نے پھر مجھے سر سے پاوں تک دیکھا اور‬
‫بوال واہ یارا‬
‫کیا بھابھی ڈھونڈی ھے‬
‫ہیرا ھے ہیرا‬
‫خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی‬
‫اسد بوال‬
‫یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا ھے‬
‫یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے‬
‫تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں‬
‫پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے جانا ھے ۔‬
‫اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال‬
‫او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے‬
‫جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی مار‬
‫سکتی ۔‬
‫‪.‬اور اکری پھر بڑے غور سے میرے سینے کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫چلیں بھابھی جی آپکو آپکا کا کمرہ دیکھاوں ۔‬
‫یاسر میری جب بھی نظر اکری کی سرخ اور خطرناک آنکھوں پر پڑتی تو میرا جسم کانپ جاتا‬
‫اور جب میں بھابھی جیسا شبد اس کے منہ سے سنتی تو مجھے کچھ حوصلہ ہو جاتا۔‬
‫اکری بڑی شان سے ہمارے آگے چلتا ھوا‬
‫حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف بڑھنے لگا‬
‫اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے سے دروازے کو کھول کر اندر داخل ھوا‬
‫میں جب اندر داخل ھوئی تو حیرانگی سے اندر بڑے سے حال کو دیکھنے لگ گئی‬
‫باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ رھی تھی‬
‫عظمی حیرانگی سے چاروں طرف دیکھے جارھی تھی‬
‫حویلی میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا اعالن کررھی تھی ۔‬
‫حال کے اندر کافی سارے دروازے تھے‬
‫جو شاید کمروں کے تھے ۔‬
‫اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا جس کا دروازہ باقی کمروں کے مقابلے میں بڑا‬
‫تھا جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے چاروں طرف کا جائزہ لیا مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رھی‬
‫ہوں‬
‫کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور سامنے بڑی سی الماری جس میں فل سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا تھا‬
‫اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں‬
‫مہنگے سے مہنگا ایک سے بڑھ کر ایک ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا تھا اسد نے مجھے یوں حیران ہوتے دیکھا تو آگے بڑھا‬
‫اور مجھکو کندھوں سے پکڑ کر قریب کرتے ھوے‬
‫ہاتھ میرے منہ کی طرف لیجا کر میرا نقاب ہٹا دیا‬
‫اور بوال‬
‫عظمی یہ کمرہ تو کچھ بھی نہیں ھے میں نے تو اس سے بھی بڑھ کر تمہارے لیے کمرہ تیار کیا ھوا ھے جس میں تم دلہن‬
‫بن کر جاو گی ۔‬
‫یاسر مجھے میرے اللچ اور اونچے خوابوں نے سب کچھ بھال دیا اور میں پھر اسکی چکنی باتوں میں آکر خوشی سے اس‬
‫کے ساتھ چمٹ گئی ۔۔‬
‫اسد نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور مجھے یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ میں ابھی آیا ۔‬

‫)‪Update no (107‬‬
‫میرے پاگل دماغ نے پھر بھی کام نہ کیا کہ یہ مجھے چھوڑ کر باہر کیوں گیا ھے ۔‬
‫میں اسد کے جانے کے بعد ۔بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئی کہ ایسے نرم بیڈ پر میں یاسر کی دلہن بن کر بیٹھوں گی اور‬
‫اسکے ساتھ سہاگ رات منانے کا کتنا مزہ آے گا اور پھر میری نظر ایک کونے میں پڑے شاندار ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جس‬
‫پر بڑے سائز کا شیشہ لگا ہوا تھا میں بے اختیار ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گئی‬
‫کہ ایکدم میرے ضمیر نے مجھے جنھجوڑا‬
‫کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے جارھی ھے‬
‫کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے تاکہ اسے‬
‫پہلے ہی پتہ چل جاے کہ تو کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے‬
‫پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا ہرگز ھی نھی‬
‫اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ جاے گی اسد تجھے چودنے کے بعد تجھ پر تھوکے گا بھی نھی‬
‫آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر اس سے شادی‬
‫کے خواب دیکھ رھی ھے‬
‫کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے والی معمولی سی لڑکی‬
‫اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم سے‬
‫شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔‬
‫یاسر میں اپنے ضمیر کی جھاڑ سن کر جیسے ھی مڑنے لگی کہ مجھے اچانک اپنے کندھوں پر ھاتھ محسوس ھوے میں نے‬
‫جلدی سے گھوم کر دیکھا تو اسد کھڑا مسکرا رھا تھا‬
‫اسد میرے اتنا قریب تھا کے ہم دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ رھی تھیں اور میرا سینہ اسد کے سینے کے‬
‫ساتھ لگ رھا تھا میں ایکدم گبھرا کر پیچھے ھوئی تو ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ لگ گئی‬
‫اسد میرے اور قریب ھوا اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال‬
‫جان من شیشے میں اپنے حسن کا جائزہ لے رھی تھی‬
‫کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا پروگرام ھے ۔‬
‫میں گبھرا کر اسد کو پیچھے کرتے ھوے پھر دروازے کے پاس آگئی اور‬
‫بند دروازے‬
‫کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫مجھے لگا جیسے دروازہ کھال ھوا ھے‬
‫جب اسد واپس میری طرف مڑا تو میں نے اسد سے کہا کہ کنڈی تو لگا دو‬
‫اسد ہنس کر بوال‬
‫جان یہ آٹوالک ھے‬
‫انکی کنڈیاں نھی ہوتی‬
‫میں نے جب غور سے دیکھا تو واقعی دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی تھی ۔‬
‫میں شرمندہ سی ہوگئی‬
‫اپنے پینڈو پن پر ۔‬
‫اسد پھر میرے پاس آکر کھڑا ھوگیا‬
‫اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی مجھ سے کیسی شرم‬
‫اور پھر مجھکو کو ساتھ لگانے لگا تو میں نے اسکو روکتے ھوے کہا ۔ ایک منٹ رکو تو سہی‬
‫اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا‬
‫میں نے اسے کہا ایک بات تو بتاو‬
‫اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں کرنے کا نھی ھے‬
‫باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی ھے‬
‫مگر میں اسد کو پیچھے کرتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گئی‬
‫اور اسد‬
‫میرا منہ تکتا رھ گیا۔‬
‫اسد بوال کیا ھے یار‬
‫ایسے کیوں کررھی ھو۔میں نے کہا‬
‫اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے‬
‫تم تو ایسے کررھے ھو جیسے‬
‫میں کہیں بھاگی جارھی ہوں‬
‫ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔‬
‫اسد کے چہرے پر غصہ جھلک رھا تھا مگر وہ کنجر غصے پر قابو کرتا ھوا کندھے اچکا کر میرے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫اور پھر مسکہ لگاتے ہوے میرا ہاتھ پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔‬
‫میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا‬
‫کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے‬
‫ہم لیٹ نہ ہو جائیں‬
‫میں دیوار پر لگے کالک کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے‬
‫بہت ٹائم پڑا ھے ۔‬
‫اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے جناب کی مرضی‬
‫پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر ھورھی ھے‬
‫پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔‬
‫میں مسکرا کر اسد کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫نھی کہتی جی۔‬
‫جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے‬
‫اب خوش‬
‫مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔‬
‫اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے‬
‫بولو کیا پوچھ رھی تھی‬
‫اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو‬
‫میں نیچے جھک کر سکول شوز اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔‬
‫اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور مجھکو کو بھی اپنے قریب لیٹنے‬
‫کا کہا۔‬
‫میں چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫‪.‬اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے انداز میں ہوا اور مجھکو کو بھی اپنے قریب لیٹنے‬
‫کا کہا۔‬
‫میں چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو اتار دو۔‬
‫میں نے اسے ٹالتے ھوے کہا اچھا اتارتی ھوں‬
‫اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔‬
‫اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر میرے ساتھ ُج ڑ کر بیٹھ گیا۔‬
‫اور آہہہہ بھر کر بوال‬
‫جی بولو‬
‫میں اسکے طنزیہ انداز سے‬
‫جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫اسد تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو‬
‫کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے لیے بالیا تھا‬
‫کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق ھی رکھنا چاھتے ھو۔‬
‫اسد نے مجھے جب روہانسے انداز میں بولتے ھوے دیکھا‬
‫تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ھوے بوال‬
‫نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے‬
‫۔کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی ھے‬
‫میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا چاھتا ہوں‬
‫میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں گے وہ کریں گے‬
‫میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں گے ۔‬

‫)‪Update no(108‬‬
‫میں اس کنجر کی باتوں میں پھر آ گئی اور اس پر بھروسہ کرتے ھوے اپنے ضمیر کو ھی برا کہنے لگی کہ اسد نے میری‬
‫گردن میں بازو ڈال کر میری گال پر ہاتھ رکھتے ھوے ۔‬
‫میرا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگا تو‬
‫میں نے جلدی سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا‬
‫اور اسد کے ہونٹ میرے ہاتھ کو چومتے ھوے واپس پلٹے اور‬
‫اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫یار یہ کیا حرکت ھے‬
‫کیا میں اس الئک بھی نھی کہ‬
‫تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں‬
‫میں نے پیار سے اسے کہا نھی ابھی نھی‬
‫جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح بھی تمہارے قبضے میں ھوگی‬
‫مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔‬
‫اسد حیران ہوتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا وقت‬
‫ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا‬
‫میں نے اسد کے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو‬
‫تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے‬
‫میں نے کہا شک نھی مگر تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں‬
‫اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے کہا‬
‫ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے پیار کرتا ھوں میں نے کہا‬
‫مجھ سے شادی کرو گے نہ‬
‫اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے ھوے کہا۔‬
‫ماں قسم کروں گا۔‬
‫میں نے پوچھا‬
‫کب‬
‫اسد بوال‬
‫جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی‬
‫میں نے کہا‬
‫تو ایسا نھی ھوسکتا۔‬
‫کہ ہم جسمانی تعلق‬
‫سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔‬
‫یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے کی ایک لہر آکر گزرگئی‬
‫مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور‬
‫پھر مجھکو اپنی طرف کھینچتے ھوے بوال‬
‫شادی سے پہلے بھی میں نے ھی کرنا ھے‬
‫اور شادی کے بعد بھی میں نے ھی کرنا ھے‬
‫تو پہلے اور بعد میں کیا فرق‬
‫میں نے کہا فرق ھے نہ‬
‫میرا دل کہتا ھے کہ ہم جو بھی کریں گے سہاگ رات کو ھی کریں گے اس سے پہلے کچھ نھی کریں گے ۔‬
‫اگر تم مجھ سے سچا پیار کرتے ھو اور شادی کرنا چاھتے ھو تو تمہیں میری بات ماننا پڑے گی‬
‫اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا ھوں‬
‫مگر میری بھی ایک شرط ھے‬
‫میں خوش ھوکر بولی‬
‫میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں‬
‫اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے‬
‫مگر آج موقع ھے‬
‫مجھے پیار تو کرنے دو۔‬
‫کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا لہجہ روہانسہ ہوگیا‬
‫جیسے ابھی رونے لگا ھو۔‬
‫میں نے جلدی سے اسد کے گالوں پر ھاتھ رکھا اور اپنے ہونٹ اسد کے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے‬
‫لگ گئی‬
‫‪.‬ہم دونوں کافی دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے‬
‫اسد سے ذیادہ میں تجربہ استعمال کر رھی تھی جو یاسر تم سے سیکھا تھا اور بڑی مہارت سے اسد کے ہونٹ کو چوستی تو‬
‫کبھی اسکی زبان کو اپنی زبان سے پکڑنے کی کوشش کرتی مجھ کو اپنی مہارت دیکھانا مہنگی پڑی‬
‫اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی سمجھ رھا تھا‬
‫وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔‬
‫ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر رھا ھوگا ۔‬
‫تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے‪ .‬۔‬
‫اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور ساتھ ساتھ سوچوں میں گم وہ میرے مموں کو ایک ھاتھ سے باری باری پکڑ کر دبا رھا‬
‫تھا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسد کا سر پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے اپنے ہونے والے شوہر کے ہونٹ چوس رھی تھی‬
‫کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے ھو ے مجھکو بھی ساتھ لیٹانے لگا‬
‫میں بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے‬
‫کے ہونٹوں کو چوس رھے تھے‬
‫اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے لیے بے چین تھا اور میری پھدی کے ساتھ لگ رھا تھا میں بھی مزے میں ڈوب چکی‬
‫تھی اور کچھ دیر پہلے کی سوچ میرے دماغ سے نکل چکی تھی‬
‫میرا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا اعالن کررکھا تھا‬
‫اسد نے آہستہ اہستہ مجھکو سیدھا لیٹا دیا اور میری قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر میرےبپیٹ پر پھیرنے لگ گیا‬
‫میرے سرور میں اور اضافہ ہوگیا‬
‫اور میں اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے پر ُت ل گئی اسد نے جب میرا یہ جنون دیکھا کہ میں اب فل گرم ھوگئی ھوں تو‬
‫اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا شروع کردیا‬
‫اور آخر کار اسد کا ہاتھ میرے مموں تک پہنچ گیا‬
‫اور اسکا ہاتھ میرے مموں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گیا میں اسد کے ہاتھ کے لمس سے مزید بے چین ھوکر اپنی پھدی کو‬
‫اسکے پینٹ کے ابھار پر رگڑنے لگی‬
‫اسد کو بھی علم ھوگیا کہ‪ .‬لوہا اب مکمل گرم ھو چکا ھے‬
‫تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے لیجا کر اپنے پینٹ کی زپ کھولی اور‬
‫انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ سے باہر نکال لیا‬
‫اور پھر ھاتھ اوپر کر کے میرے مموں کو دبانے لگا‬
‫میں اپنی مستی میں گم تھی‬
‫مجھے پتہ ھی نھی چال کہ‬
‫نیچے کیا واردات ھونے والی ھی‬
‫اسد نے لن میری شلوار کے اوپر سے ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا‬
‫میں نے لن کو اپنے چڈوں میں بھینچ لیا اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی‬
‫اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ نیچے لیجا کر میری السٹک والی شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر رکھ دیا پھدی تو‬
‫پہلے نکو نک بھری ہوئی تھی جیسے ھی اسد کی انگلیاں میری پھدی سے ٹکرائیں میرے منہ سےلمبی سسکاری نکلی‬
‫اور میں نے سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی گھوم کر اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے اپنے بازوں میں جکڑ کر کس لیا اور ساتھ‬
‫ھی چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو جکڑ لیا‬
‫اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور میری سانسیں اکھڑنے لگی‬
‫اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں بھی تھم گئی‬
‫اور میراجسم ڈھیال پڑ گیا‬
‫اسد نے جلدی سے میری گیلی پھدی سے ھاتھ ہٹایا اور میری شلوار سے ھی ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے مجھے اپنے‬
‫ساتھ چمٹی ھوئی کی گانڈ سے شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے نیچے کی‬
‫اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے لگا‬
‫جیسے ھی میری پھدی کے ساتھ اسد کا لن ٹچ ہوا‬
‫تو مجھے ایکدم ہوش آگیا اور میں نے اسد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے سینے پر‬
‫رکھتے ھوے اسے زور سے دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور‬
‫اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا کرنے لگے تھے‬
‫میرے اچانک دھکے سے‬
‫اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا‬
‫اور غصے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات سے مجھے گھورنے لگ گیا ۔‬
‫اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے‬
‫عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے تھے‬
‫تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا کر وعدہ کیا تھا‬
‫کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں گے‬
‫مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اسد ۔ غصے سے بوال‬
‫یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ اتنی پارسا بن رھی ھو۔‬
‫میں اسد کی پارسا والی بات سن کر حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫اسد کیا مطلب ھے تمہارا‬
‫۔اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب صاف ھے کہ‬
‫تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ کروانے لگی ھو۔‬
‫یاسر بیشک تم نے میرے ساتھ بہت دفعہ کیا تھا مگر نجانے کیوں‬
‫میرا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا‬
‫اور میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصے سے بولی‬
‫کیا بکواس کر رھے ھو اسد‬
‫تو اسد ہنستے ھوے بوال بکواس نھی سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے میرے ساتھ کسنگ کر رھی تھی‬
‫کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔‬
‫میں اسد کی بات اور طعنہ سن کر رونے والی ھوگئی‬
‫اور روتے ھوے بولی‬
‫اسد بکواس بند کرو‬
‫میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر پیار کیا کر لیا‬
‫تو تم‬
‫میری محبت میرے پیار میرے اعتماد‬
‫کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے‬
‫ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔‬
‫میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں آگئی‬
‫اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی آئی‬
‫خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی شکل بھی دیکھائی‬
‫جھوٹے مکار‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے اپنی چادر اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔‬
‫تو‬
‫اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال‬
‫جا کدھر رھی ھو جان من‬
‫میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل نھی رہو گی‬
‫اور‬
‫ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو مگر جاو گی میری مرضی سے‬
‫چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو‬
‫مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا‬
‫کہ میںن نے ایک ذور دار تھپڑ اسد کے منہ پر مارا‬
‫اور روتے ھوے بولی‬
‫جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام زادے‬
‫میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا سب ڈرامہ کیا تھا‬
‫میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک کر دیکھاو ۔‬
‫دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے‬
‫میں یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا‬
‫اس نے‬
‫مجھے بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا‬
‫اور خود میرے پیٹ پر سوار ھوگیا اور میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے میں ٹانگیں چال رھی تھی اور اونچی آواز میں اسد کو‬
‫گالیاں دے کر ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی‬
‫اسد نے جیسے تیسے میرے دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک ھاتھ میں کیں‬
‫اور ایک ذور دار تھپڑ میرے منہ پر مارتے ھوے بوال‬
‫ُچپ کر گشتئے‬
‫تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی‬
‫آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے‬
‫آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے والی‬
‫تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی بیڈ پر چودتا ھوں‬
‫اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا‬
‫پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب برابر ھوگا ۔‬
‫ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں دو لن جائیں گے‬
‫اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ‬
‫اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے‬
‫تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی میں اسد کا تھپڑ کھانے اور اسکی دھمکیاں سننے کے بعد‬
‫سہم گئی اور انکھیں پھاڑے اسد کو دیکھی جارھی تھی‬
‫اسد کے خاموش ہوتے ھی میں اسپر چالئی‬
‫چھوڑ مجھے کتے‬
‫میں یاسر کو بتاوں گی‬
‫اور اپنے ابو کو بھی‬
‫تو اسد غصے سے بوال‬
‫جا دس دے جنوں دسنا ای‬
‫لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی‬
‫میں خود کو بے بس محسوس کرنے لگ گئی تھی‬
‫ایک تو انجان جگہ دوسرا میں اکیلی جان‬
‫اوپر سے مجھے یہ خوف کہ‬
‫اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا لیا میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات کا اثر نھی ھورھا تو‬
‫میں نے پھر روتے ھوے اسد کی منتیں شروع کردیں اور‬
‫بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ مجھے جانے دو‬
‫۔تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا بیتے گی‬
‫میری عزت نہ خراب کرو‬
‫میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں گے‬
‫اسد نے میری بات سنی ان سنی کی اور پیچھے ھو کر میری ٹانگوں کے پاس پہنچ کر میری شلوار پکڑ کر نیچے کھینچ دی ۔‬
‫میں نے ایک ذور دار چیخ ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ آگے کی اور پورے زور سے اپنی ٹانگ اسد کے لن پر ماری ۔‬
‫اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا‬
‫اور ایک ذور دار چیخ مارے‬
‫ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی باہر کا‬
‫دروازہ دھڑم سے کھال اور اکری ایکدم اندر داخل ھوا اور پہلے اس نے مجھے دیکھا اور پھر جب اسکی اسد پر نظر پڑی‬
‫جو بیڈ سے نیچے گرا تڑپ رھا تھا تو وہ مجھے گھورتا ھوا اسد کی طرف بھاگا‪ .‬اور جاکر اسد کوپکڑ کر کھڑا کرنے لگ‬
‫گیا ۔‬
‫میں نے موقع غنیمت جانا اور چادر ھاتھ میں پکڑی اور ننگے پاوں باہر کی طرف بھاگی ۔‬
‫مگر میں جیسے ھی دروازے سے باہر نکلی تو سامنے ایک بڑی بڑی مونچھوں واال بدمعاش ہاتھ میں گن لیے میرے سامنے‬
‫آکر کھڑا ہوگیا اور میرے قریب پہنچ کر ایک زوردار تھپڑ میرے منہ پر مارا تو میں الٹی واپس کمرے کے اندر گری تو اس‬
‫نے ساتھ ھی دروازہ باہر سے بند کردیا ۔‬
‫اور میری جیسے ھی پیچھے نظر پڑی تو میری جان حلق میں اٹک گئی کہ ‪...‬‬
‫‪........‬‬
‫‪..‬میں بڑے غور سے عظمی کی بات سن رھا تھا ۔‬
‫عظمی ایکدم اونچی اونچی رونے لگ گئی ۔‬
‫میں جو پہلے اسکی یہ سب باتیں سن چکا تھا ۔‬
‫تو میں جھنجھال کر غصے سے بوال بس یہ ھی بکواس سنانی تھی جو پہلے بھی سنا چکی ھو ۔‬
‫اور میں ساتھ ھی کھڑا ہوگیا عظمی روتے ھوے ایکدم چپ ھوگئی اور بولی پوری بات تو سن لو ۔‬
‫میں غصے سے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے دوبارا بیٹھ گیا ۔‬
‫عظمی بولی ۔‬
‫میں نے جب پیچھے مڑکر دیکھا تو اکری میری طرف بڑے غصے سے بڑ رھا تھا‬
‫اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر دوبارہ دروازے کی طرف بڑھتی اکری نے مجھے سر کے بالوں سے پکڑا اور مجھے کھڑا‬
‫کرتے ھوے بوال بڑی جلدی ھے تجھے اکری کے پنجرے سے آزاد ہونے کی ۔‬
‫یہاں ہر لڑکی اپنی مرضی سے آتی ھے مگر جاتی اکری کی مرضی سے ھے ۔‬
‫یہ کہتے ھوے اکری نے مجھے بالوں سے پکڑے بیڈ کی طرف گھسیٹتے ہوے لے گیا اور میں بے بس الچار روتی ہوئی‬
‫اسکی منتیں کرتی ہوئی اس کے آگے گڑاگڑاتی رھی مگر اس ظالم اور سفاک شخص نے میری ایک نہ سنی اور مجھے‬
‫گھسیٹتا ہوا بیڈ کے پاس لے گیا اور پھر ایک ذوردار تھپڑ میرے منہ پر مارا مجھے ایسے لگا جیسے میری گال پر کسی نے‬
‫ہتھوڑا ماردیا ھو اس کا ہاتھ کم اور لوھا ذیادہ تھا ۔‬
‫میں تھپڑ کھاتے ھی لڑکھڑا کر بیڈ پر جاگری ۔اور اس کو واسطے دینے لگی پھر گڑگڑانے لگی کہ شاید اس کے دل میں‬
‫رحم آجاے مگر وہ نشے کی حالت میں جھوم رھا تھا اسکی نشے سے چور بڑی بڑی خوفناک آنکھیں میرے سینے پر ٹکی‬
‫ہوئیں تھی ۔‬
‫۔دوستو آگے سٹوری میں سیکس کی منظر کشی اور سٹوری میں عظمی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس نے سادہ الفاظ میں‬
‫مجھے بتایا تھا مگر اس سین کو مذید سیکسی بنانے کے لیے عظمی کی بات کو میں اپنے انداز‬
‫کروں گا ‪ explain‬میں‬
‫امید ھے آپکو اعتراض نہی ھوگا یہ تبدیلی صرف آپ کی انٹرٹینمنٹ کے لیے کررھا ھوں‪.‬۔‬
‫ادھر اسد بھی کھڑا ھوگیا تھا اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے مسل رھا تھا اور ساتھ میں اکری کو کہہ رھا تھا ۔‬
‫اکری اج اے گشتوڑ ایتھوں ُسکی نہ جاوے ایدی پھدی نوں اج ُپھدا بنا کے پیجنا اے ۔‬
‫یہ کہتے ھوے اسد بھی بیڈ کی دوسری سائڈ سے میری طرف بڑھنے لگا ۔‬
‫اب ایک طرف اکری کھڑا تھا اور دوسری طرف اسد ۔‬
‫اکری اپنی مکرو شکل کو مذید بگاڑتے ھوےمونچھوں کو تاو دیتے ہوے بدمعاشی انداز میں قہقہہ لگا کر ہنسا تو اس کے‬
‫گندے دانت نظرے آنے لگے اور وہ بوال ۔‬
‫او توں فکر نہ کر اینا ذبردست تے مست مال میں ُسکا کیویں جان دیواں گا ۔‬
‫پنڈ دی پلی ہوئی جوانی اج میرے ہتھے چڑی اے تے نالے لگدے ہتھ تیرا بدلہ وی لینا اے ۔‬
‫جیڑے لن تے اینے لت ماری سی اج او ھی لن ایسے منہ وچ جاوے گا تے اے چوسے گی ۔‬
‫ھا ھا ھا ھا ھا ۔‬
‫اسد بوال ۔‬
‫ہاں اکری یار اس سالی نے میرے لن پر ٹانگ ماری تھی یہ تو شکر ھے کہ اس گشتی کا پیر میرے ٹٹوں پر نہی لگا ورنہ‬
‫میں تو گیا تھا۔‬
‫چل آج اسکی سہاگ رات کا ارمان سہاگ دن کو پورا کر دیتے ہیں ۔۔اور ایک لن کے ساتھ ایک لن منہ دیکھائی میں گفٹ بھی‬
‫دیں گے‬
‫ھا ھا ھا ھا ھاھا ۔‬
‫میں سہمی ہوئی بیڈ پر سمٹی ہوئی کبھی اکری کی طرف س دیکھتی تو کبھی اسد کی طرف ۔‬
‫مگر دونوں کی طرف سے مجھے کوئی رحم کی امید نظر نہ آرھی تھی بلکہ‬
‫دو دو لن ایک ساتھ لینے کی یقین دہانی کرائی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے جب دونوں کے دل کہ ارمان انکی زبانوں سے سنے تو میرا حلق خشک ھوگیا خوف کے مارے میرا جسم کانپنے‬
‫لگ گیا میرے ہونٹ ایسے تھرتھرانے لگے جیسے دسمبر کی راتوں میں بارش میں بھیگ جانے کے بعد سردی سے‬
‫تھرتھراتے ہیں ۔‬
‫میں مذید سمٹتی ھوئی پیچھے بیڈ کی ٹیک کے ساتھ جا لگی اور اونچی آواز میں چالنے لگی بچاو مجھے بچاو بچاو ۔‬
‫میں مدد کے لیے چال رھی تھی اور وہ دونوں میں میرا تمسخر اڑاتے ھوے ایک ساتھ قہقہے لگا رھے تھے اور ساتھ ساتھ‬
‫مجھے اکسا رھے تھے اور اونچی آواز میں مدد کے لیے بالو اور اونچی چالو شاید کو آجاے تمہیں بچانے ۔‬
‫ھا ھا ھا ھا‬
‫اکری بوال‬
‫مگر کان کھول کر سن لے تیری آواز اس حویلی سے باہر تو دور کی بات ھے اس کمرے کے باہر کھڑے میرے گن مین بھی‬
‫نہیں سن سکتے ۔‬
‫سمجھی‬
‫پھر بھی تو چال کر اپنا شوق پورا کر اور ہم تیری مست جوانی کے ساتھ من مستیاں کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں‬
‫ھا ھا ھا ھا‬
‫آہستہ آہستہ ان دونوں کے قہقہے بلند ہوتے گئے اور میری آواز دبدتی گئی بالخره انکے مکرو قہقہوں میں میری پکار دب‬
‫گئی اور دونوں ایک ساتھ میرے دائیں بائیں بیڈ پر بیٹھے اور دونوں کے ہاتھ میرے جسم کی طرف بڑھے ۔‬
‫میں نے جب ان دونوں کو اپنے اتنے قریب دیکھا تو اٹھ کر سامنے کی طرف بھاگنے لگی تو میرے ایک بازو کو اکری نے‬
‫پکڑ لیا اور میرے دوسرے بازو کو اسد نے پکڑ لیا اور کھینچ کر مجھے واپس بیڈ پر پھینکا تو میں بلکل سیدھی بیڈ پر آکر‬
‫گری میرے جسم پکو صرف سکول یونیفارم تھا ۔‬
‫میری چادر پہلے ھی اتر چکی تھی ۔‬
‫جب میں پیچھے کو گری‬
‫تو میرے بڑے بڑے تنے ہوے ممے ذور سے ہلے ۔‬
‫میرے ہلتے ھوے چھلکتے ھوے مموں کو اکری نے جب دیکھا تو ۔‬
‫اس نے سییییییییی افففففففففف ھوے اوے کیا ُببے ہیں اور دوسرا ہاتھ میرے ممے پر رکھ کر میرے ممے کو اپنے بڑے سے‬
‫ہاتھ میں لے کر دباتے ھوے بوال‬
‫اسد یار کیا مال گھیر کر الے ھوے دل خوش کردیا اسکے ممے اتنے ذبردست ہیں تو اسکی پھدی اور گانڈ کیسی کمال‬
‫ہوگی ۔‬
‫واہ یار آج تو تم نے دل خوش کردیا اب سمجھ لے تو میرا خاص بندا ھے ۔‬
‫اسد نے کسی خادم کی طرح سینے پر ہاتھ رکھ کر سرخم کیا۔‬
‫اکری نے میرے بڑے سائز کے ممے کو اپنی مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور دبا دبا کر مزے سے‪ .‬افففففففف یارررررر کیا فوم‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫میں چیخ چیخ کر تھک چکی تھی میرا گال بیٹھ گیا تھا ۔مجھے اب پورا یقین ھو چکا تھا کہ میں کسی صورت میں دولن لیے‬
‫بغیر ۔یہاں سے نہیں جاسکتی ۔‬
‫مجھے اسد سے ذیادہ اس دیوقامت اکری سے خوف آرھا تھا ۔‬
‫جسکا قد اتنا بڑا جسکے ھاتھ اتنے بڑے کہ میرے اتنے بڑے ممے کو پورا ھی ہاتھ میں لے لے اسکا لن کتنا بڑا ھوگا ۔‬
‫مارے خوف کے اے سی والے کمرے میں مجھے پسینہ آرھا تھا ۔‬
‫اتنے میں اکری نے اسد کو کہا کہ یار کیمرا تو پکڑ کے ال اس پھلجڑی کی ساتھ فلم بھی بناتے ہیں ۔‬
‫بچی ٹائٹ ھی مشکل وقت میں کام آے گی ۔‬
‫اور جب چدتے ھوے اسکی فلم ہمارے پاس ھوگی تو جب چاہیں گے یہ مٹیار دوڑی چلی آے گی ۔۔۔‬
‫ورنہ تو یہ‬
‫‪ُ.‬پھر ہوجاے گی ۔‬
‫ایسا مال بار بار ہاتھ نہیں آتا۔‬
‫میں نے جب اپنے چدنے کی فلم بننے کا سنا تو میں نے پھر پھٹی آواز میں چالنا شروع کردیا مگر کون تھا جو میری پکار‬
‫سنتا اسد میرا بازو چھوڑ کر کمرے میں بنے ایک اور دروازے کی طرف بڑھا میں نے جب اسد کو کیمرہ لینے جاتے دیکھا‬
‫تو میں نے پورا زور لگا کر اکری سے اپنا بازو ُچ ھڑوانے کے لیے ذور لگایا مگر میرے بازو پر اسکی گرفت ایسی تھی‬
‫کے میرا سارا ذور لگانا بھی میرے کام نہ آیا۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ اب میرا بچنا نہ ممکن ھے تو میں نے اکری کو ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کردیں ۔‬
‫اکری ہنستا ہوا ایکدم سیریس ھوا اور وہ اپنے دیوقامت جسم کے ساتھ بیڈ پر چڑھا اور میرے سامنے آتے ھی اس نے میرے‬
‫منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا اور بوال گشتی کی بچی مجھے گالی دیتی ھے اکری جمو کو گالی دیتی ۔‬
‫اسکے ساتھ ھی پھر میرے منہ پر تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی اکری نے میرے دونوں بازوں کو کالئیوں سے اپنے ایک‬
‫ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا اور مجھے گندی فاحشہ گالیاں دیتا ھوا ماری جارھا تھا ۔‬
‫اکری کے تھپڑ کھا کر میری زبان اور میری آنکھیں بند ھوگئیں اور میں نڈھال ھوکر پیچھے کو گرنے لگی ۔‬
‫مگر اکری نے میری کالئیوں کو پکڑا ھوا تھا تو میں ہوا میں ھی جھول رھی تھی ۔‬
‫اکری نے جب میری حالت دیکھی تو میری کالئیوں کو چھوڑ دیا ۔‬
‫میں بے جان سی ھوکر پیچھے گری اور کچھ دیر نیم بےہوشی کی حالت میں پڑی ۔‬
‫مجھے اسد کی آواز نے دوبارا ہوش دالیا۔‬
‫جب وہ اکری سے کہہ رھا تھا ۔‬
‫استاد اسے کیا کردیا ۔‬
‫سالی پہلے تو بڑا ُپھڑپھرا رہی تھی ۔‬
‫کہیں اس کے پر تو نہیں کاٹ دیے ۔‬
‫اکری کی آواز میرے کانوں میں پڑی کہ ابھی تو اسکو ایک جھلک دیکھائی ھے باقی کی فلم تو باقی ھے ۔‬
‫میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور جب میری اکری پر نظر پڑی تو مجھے اکری سے پڑے تھپڑوں کی تکلیف بھول گئی‬
‫اور اپنی پھدی کی فکر پڑ گئی ۔‬
‫اکری اپنا لمبا اور موٹا لن پکڑےمیرے منہ کے قریب بیٹھا تھا ۔‬
‫اکری کے جسم پر صرف بنیان ھی تھی باقی کے سارے کپڑے اتار چکا تھا ۔‬

‫)‪Update no (109‬‬
‫اکری کا لن دیکھ کر میری نیم کھلی آنکھیں ایکدم پوری کھل گئیں اور میرا حلق خشک اور زبان گنگ ہوگئ ۔‬
‫میں سکتے کے عالم میں پھٹی انکھوں سے اکری کے تگڑے لن کو دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫اتنے میں مجھے دوسری طرف بھی کسی کی موجودگی کا احساس ھوا ۔تو میں نے سکتے کے عالم میں ھی نظروں کو گھما‬
‫کر جب دوسری طرف دیکھا تو اسد بھی مادر ذاد ننگا میرے بائیں طرف گھٹنوں کے بل اپنا لمبا لن لہراتے ہوے ہاتھ میں ایک‬
‫چھوٹا سا ویڈیو کیمرا پکڑے میرے منہ کی طرف کر کے بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫مجھے ایکدم ہوش آیا مجھ سے اور تو کچھ نہیں ہوسکا میں نے جلدی سے اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنے چہرے کو‬
‫چھپا لیا اچانک میری دونوں کالئیوں کو دو ہاتھوں نے پکڑا اور میرے چہرے سے میرے ہاتھ ہٹتے گئے میں پھر چیخنا چاہ‬
‫رھی تھی مگر میرے حلق سے آواز نہیں نکل رھی تھی میرا ایک ہاتھ اکری نے اور دوسرا اسد نے پکڑا ھوا تھا میں نے‬
‫چیخنے کے لیے جیسے ھی منہ کھوال تو اسکے ساتھ ھی اکری گھٹنوں کے بل ھی اگے کو کھسکا اور اس نے ہاتھ میں‬
‫پکڑے ہوے اپنے تگڑے لن کے موٹے ھوے ٹوپے کو میرے کھلے منہ میں ٹھونس دیا میرے منہ میں اکری کے لن کا صرف‬
‫ٹوپا ھی گیا تھا کہ ٹوپے سے ھی میرا منہ بھر گیا میں نے ابھی یہ سوچ کر اکری کہ ٹوپے پر دانت رکھے ھی تھے کہ‬
‫ٹوپے کو کاٹ لوں کہ اکری نے کرخدار آواز میں کہا آرام سے ٹوپا چوس لے اگر کچھ الٹا سیدھا کیا تو اس حویلی کے سارے‬
‫نوکروں سے تجھے ُچدواوں گا ۔۔۔‬
‫اکری کی دھمکی سن کر میں مذید سہم گئی اور ٹوپے کو کاٹنے کا ارادہ مسترد کرتے ھوے میں نے دانتوں کو ٹوپے سے‬
‫ہٹایا اور ہونٹوں کو ٹوپے کے نچلے حصہ پر رکھ کر لن کو ہونٹوں میں بھر لیا اب لن کا موٹا ٹوپا میرے منہ کے اندر تھا اور‬
‫میرے ہونٹوں نے موٹے لن کو اپنے احصار میں لیا ہوا تھا ۔‬
‫اکری ہنستے ھوے بوال شاباش سمجھدار ھوگئی ھو ۔‬
‫چلو شاباش اب اسے میٹھا گنا سمجھ کر چوسو اور تب تک چوستی رہو جب تک میں خود نہ تمہیں روکوں ۔‬
‫اور کان کھول کر سن لو میں بات کو دھرانے کا عادی نہیں ہوں آگے تم خود سمجھدار ھو ۔‬
‫اس کے ساتھ ھی اکری نے میری کالئی کو بھی چھوڑ دیا ۔‬
‫میں ٹوپے کو منہ میں لیے لن کو ہونٹوں میں دباے ھوے پھٹی آنکھوں سے اکری کی طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی بات‬
‫ختم ھوتے ھی میں نے فرمانبرداری سے ٹوپے کو منہ کے اندر کھینچتے ھوے اور لن کے گرد ہونٹوں کا گھیرا تنگ کیا اور‬
‫اکری کے لن کا چوپا لگانے لگ گئی اکری کے منہ سے سسکاری نکلی اور وہ آنکھیں بند کر کے منہ چھت کی طرف‬
‫کرکے چوپا لگوانے کا مزہ لے رھا تھا اور میں ناچاہتے ھوے بھی اسکے موٹے اور کالے شیش ناگ کو منہ میں لے کر‬
‫چوسی جارھی تھی اکری نے اپنا ایک ھاتھ آگے بڑھایا اور میرا تنا ھوا گول مما ہاتھ میں پکڑا کر دبانے لگ گیا اور دوسرا‬
‫ھاتھ میرے سر کے نیچے لیجا کر میرے سر کو مزید اوپر کردیا اور میرے سر کو اوپر کرتے ھوے لن کو مزید میرے منہ‬
‫کے اندر باھر کرنے لگ گیا جب لن تھوڑا اور میرے منہ کے اندر گیا اور ٹوپا میرے ہلک کے قریب پہنچا تو مجھے ابکائی‬
‫آنے لگ گئی اور میرا سانس بند ہونے کو ھوگیا۔‬
‫میں نے اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ کے قریب کیا اور اکری کے موٹے گنے کو جڑ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف دھکیلنے لگ‬
‫گئ۔‬
‫اکری مزے میں لن کو میرے منہ کے اندر کرنے کی کوشش کرتا میں سانس بند ہونے کی تکلیف سے اسکے لن کو پکڑے‬
‫پیچھے کی طرف دھکیلتی ادھر اسکا ھاتھ مسلسل میرے ممے کو اپنی گرفت میں لے کر پمپنگ کررھا تھا ۔‬
‫مجھے اسد اور اسکے ہاتھ میں پکڑا ہینڈی کیم بھول گیا تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں چوپا لگانے کی اذیت سے دوچار رہی میرا رنگ ٹماٹر کی طرح سرخ اور میری آنکھوں سے پانی کا سیالب چل‬
‫رھا تھا بالخره اکری کو میری اذیت کا احساس ھوا یا پھر اس کا چوپے سے دل بھر گیا تھا ۔‬
‫خیرا اس نے اپنے ہتھیار کو میرے منہ سے نکاال تو مجھے سکھ کا سانس آیا اور میں لمبے لمبے سانس لے کر کھانستے‬
‫ھوے منہ دوسری طرف کر کے کروٹ لے کر لیٹ گئی ۔۔ کھانستے کھانستے میرا دھیان جب سامنے پڑا تو میری آنکھوں‬
‫کے سامنے اسد کا لن لہرا رھا تھا ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میری کھانسی رکتی اسد نے اپنے تنے ھوے لن کو میرے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔‬
‫میں منہ ادھر ادھر کرنے کی کوشش کرنے لگی اسد بوال استاد سالی پھر نخرے کرنے لگ گئی ھے اسد کی بات سنتے ھی‬
‫اکری نے پھر اسی انداز میں کہا ۔‬
‫لگتا ھے کہ تجھے ایک بار کہی بات جلدی بھول جاتی ھے‬
‫میں نے چاروناچار پھر منہ کو کھوال اور اسد کے موٹے لن کو منہ میں بھر لیا اکری کے لن کی نسبت اسد کا لن چھوٹا تھا‬
‫اور موٹائی میں بھی کم تھا ۔‬
‫اس لیے اسد کے لن کا چوپا لگانے میں مجھے ذیادہ مشکل پیش نہیں آرھی تھی ۔‬
‫میری گانڈ اکری کی طرف تھی اور میں سائڈ کے بل اسد کی طرف منہ کر کے لیٹی ھوئی اسد کے لن کا چوپا لگا رھی تھی‬
‫اور اسد بھی مزے لے لے کر سسکاریاں بھر رھا تھا۔۔‬
‫اتنے میں مجھے اپنے پیچھے گانڈ پر اکری کا لن محسوس ھوا اور اسکے ساتھ ھی اکری سائڈ کے بل میری پیٹھ کی طرف‬
‫منہ کر کے میرے ساتھ لگ گیا اور میری شرٹ کو میرے پیٹ سے اوپر کر میرے ننگے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ھوے قمیض‬
‫کے اندر سے میرے مموں کی طرف لیجاتے ھوے شلوار کے اوپر سے ہی لن کو میری موٹی گانڈ کی دراڑ میں ڈالنے لگ‬
‫گیا۔‬
‫میں گبھرا کر تھوڑا سا کسمکسائی تو اکری نے میرے ممے کو پکڑ کر دبا کر مجھے شانت رہنے کا سگنل دیا ۔‬
‫میں بیچاری بے بس ہوا کی بیٹی کیا کرتی چپ کر کے لیٹی ایک لن کو منہ میں لیے اور دوسرے لن کو گانڈ کی دراڑ میں‬
‫گھستے برداشت کررھی تھی ۔‬
‫‪.‬میں جیسے ھی شانت ہوئی تو اکری نے اسد کو کہا بچے اب بس بھی کر کے اس بیچاری کا منہ ھی چودنا ھے ۔اسد نے جی‬
‫استاد کہا اور لن کو میرے سے کھینچ کر باہر نکاال اور میں نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔‬
‫سانس کیا لینا تھا کہ اکری نے اسی وقت مجھے سیدھا کیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھا کہ بٹھا دیا۔‬
‫اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر کرنے لگ گیا میں نے تھوڑا سا احتجاج کیا مگر اکری نے جب مجھے گھور کر دیکھا تو‬
‫اسکی سرخ خوفناک آنکھوں کو دیکھ کر میں ہینڈزاپ کیا تو اکری نے شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر التے ھوے میری قمیض‬
‫کو اوپر کرتے ھوے میرے سر سے نکال کر میرے بازوں سے نکال دی ۔‬
‫اور بیڈ سے نیچے پھینک دی ۔‬
‫اکری کی نظر جب میرے دودھیا جسم پر اور کالے بریزیر میں قید چٹے سفید بڑے بڑے گول مٹول تنے ھوے مموں پر پڑی‬
‫تو اسکی آنکھیں مزید کھل گئیں اور اس کے منہ سے الریں ٹپک پڑی جیسے پہلی دفعہ اس نے اتنا گورا جسم اور اتنے‬
‫تندرست ممے دیکھے تھے میں نے جب اسے اپنے مموں اور جسم کو گھورتے دیکھا تو میں نے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں پر‬
‫رکھ کر بازوں میں اپنی ادھ ننگی جوانی کو چھپا لیا۔۔مگر اس کمبخت نے اسی وقت میری کالئیوں کو پکڑا اور جھٹکے سے‬
‫میری جوانی کو عیاں کرتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے نفی میں سر ہالتے ہوے مسکرا کر بوال ۔‬
‫میری جان من اس حسین نظارے کو چھپانے کے لیے تمہیں ننگا نہیں کیا ۔‬
‫بےبسی سے میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔‬
‫مگر اس جانور کو کیا میرے آنسووں سے اکری نے میرے مموں کی الئن میں دو انگلیاں ڈالیں اور ایک جھٹکے سے میرے‬
‫بریزیر کو کھینچا تو بریزیز آگے سے دو حصوں میں تقسیم ھوگیا اور میں بھی جھٹکے سے ھاےےےے کرتی ھوئی اکری‬
‫کے سینے کے ساتھ لگ کر واپس اپنی جگہ پر آئی میرے ممے آگے سے ننگے ھوچکے تھے اکری نے پھٹے ھوے بریزیر‬
‫کو میرے بازوں سے اتارا اور نیچے پھینک کر میرے دونوں مموں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔‬
‫اکری کی گرفت اتنی سخت تھی کے میرے نازک مموں پر اسکی انگلیوں کی نشان پڑ گئے اور میں درد سے‬
‫ھاےےےےےےےےےے کر کے اکری کے سخت ھاتھوں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر التجائی نظروں سے اسکی طرف‬
‫دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اسد بیڈ سے نیچے اتر کر ننگا کھڑا تھا اور ایک ھاتھ میں اپنا لن پکڑ کر مسل رھا تھا اور دوسرے ھاتھ سے میری اور اکری‬
‫کی فلم بنا رھا تھا۔‬
‫اکری میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا میرے مموں کو سختی سے پکڑ کر دبوچ رھا تھا اور میں اسکے ھاتھوں پر ھاتھ‬
‫رکھے درد سے سییییی اور ھاےےےےے کر رھی تھی ۔‬
‫اکری نے کچھ دیر میرے مموں کو بےدردی سے دبایا اور پھر مموں کو پکڑے ھی مجھے پیچھے دھکیل دیا اور خود میری‬
‫ٹانگوں کے درمیان آگیا ۔‬
‫میں پیچھے کی طرف لیٹ گئی میرا سر تکیےپر تھا اور میری ٹانگیں کھلی ھوئی تھی اور اکری میری ٹانگوں کے بیچ‬
‫گھٹنوں کے بل بیٹھا میرے ممے دبا رھا تھا ۔‬
‫اکری پھر پیچھے کو کھسکا اور اپنے دیو قامت جسم کو میرے اوپر کرتے ھوے میرے ایک ممے کو اپنے بڑے سے منہ‬
‫میں لے کر چوسنے لگ گیا ۔‬
‫اکری نے جیسے ھی میرے ممے کو منہ میں بھرا اور میرے نپل کو منہ کے اندر ھی زبان سے چھیڑا تو میرے جسم میں‬
‫کرنٹ سا دوڑا اور میرے منہ سے بےاختیار سییییییییی نکال ۔‬
‫اکری نے میری سسکاری سنتے ھی آنکھیں اٹھا کر میرے منہ کی طرف دیکھا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا کہ میں‬
‫نے سیییی کیوں کیا مگر میں کیا کرتی کب سے دو لنوں کو چوس رھی تھی آخر میں بھی جوان تھی نپل کا چوسا لگتے ھی‬
‫مزے کی لہر نے سارے دکھ درد بھالدیے اور بےساختہ منہ سے سسکاری نکل گئی سسکاری سنتے ھی اکری کو بھی‬
‫جوش آگیا اور وہ میرے نپل کو کبھی دانتوں میں لے کر مسلتا تو کبھی ہونٹوں میں لے کر چوستا میں خود پر بڑا کنٹرول کر‬
‫رھی تھی مگر پھر بھی لزت میرے دماغ پر سوار ھوتی جارھی تھی ۔‬
‫اکری کافی دیر باری باری میرےمموں کو چوستا رھا ۔‬
‫پھر وہ سیدھا ھوا اور اپنی بنیان اتار دی اسکے جسم کو سیاہ بالوں نے چھپا رکھا تھا جیسے ریچھ کے جسم پر بال ہوتے ہیں‬
‫بنیان اتار کر وہ پھر میرے اوپر جھکا اور میرے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ کیے اور میں نے منہ دوسری طرف کرلیا‬
‫اسکے منہ سے شراب کی اور سگریٹ کی گندی بو سے مجھے الٹی آنے والی ھوگئی اکری مجھے منہ دوسری طرف کرتے‬
‫دیکھ کر بوال ۔‬
‫شہزادی لن سے تو اچھا ھے میرا منہ اور اس کے ساتھ ھی اس نے زبردستی میرا منہ سیدھا کیا اور اپنے گندے کالے موٹے‬
‫ہونٹ میرے گالب جیسے سرخ نرم مالئم ہونٹوں پر رکھ کر میرے ہونٹ چوسنے لگ گیا اور آنکھوں سے مجھے دھمکی‬
‫دیتے ھوے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے ہالتے ھو ے مجھے فرنچ کسنگ کرنے کا کہنے لگ گیا ۔‬

‫)‪Update no (110‬‬

‫مجبورًا مجھے بھی اسکا ساتھ دینا پڑا ۔‬


‫اکری میری ننگے جسم کے ساتھ اپنا ننگا جسم لگا کر مزے لے لے کر میرے ھونٹ چوستا تو کبھی میری زبان کو اپنے منہ‬
‫میں بھر کر کھینچ کر چوستا مجھے مزے کی بجاے درد ھو رھا تھا اسکے منہ کی بدبو اس کے لباب کے ذریعے میرے اندر‬
‫سما چکی تھی ۔مگر پھر بھی مجھے الجھن ہورھی تھی اسکی بڑی بڑی مونچھیں میرے ہونٹ کے اوپر والے حصہ پر کانٹوں‬
‫کی طرح ُچبھ رہیں تھی ۔۔‬
‫بس ایک چیز میرے اندر کی گرمی کو میرے دماغ پر سوار کرنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫جی بلکل‬
‫وہ تھا اکری کا تگڑا موٹا لوڑا جو میری پھدی کےاوپر دباو ڈالے ھوے تھا ۔‬
‫بس لن اور پھدی کے درمیان میری شلوار آڑ بنے ھوے تھی ورنہ اکری کا لوڑا میری پھدی کو پھدا بنانے میں ایک سیکنڈ‬
‫بھی نہ لگاتا مگر میں پھر بھی خود پر کنٹرول کررھی تھی کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت نہ ھو جس سے اکری کو لگے کہ‬
‫میں چدنے کے لیے تیار ھوں ۔‬
‫میں ایسے ھی ریکشن کررھی تھی جیسے بڑی مجبوری سے اکری کا ساتھ دے رھی ہوں اور یہ حقیقت بھی تھی کہ واقعی‬
‫میں مجبوری میں ھی سب کچھ کررھی تھی ورنہ ایسے بدصورت شخص پر تھوکنا بھی گوارہ نہ کرتی۔‬
‫خیر اکری لن کو میرے پھدی کے اوپر دباے ھوے میرے مموں‬
‫پر اپنا سینہ رکھے مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ھوا میرے نازک ہونٹوں کیایسی تیسی کررھا تھا اور میں بھی اس ُپچ ُپچ‬
‫میں اسکا ہلکا پھلکا ساتھ دے رھی تھی۔‬
‫کچھ دیر بعد اکری میرے اوپر سے اٹھا اور میری شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچنے لگا ۔‬
‫تو میرے اندر پھر غیرت شرم حیاء کا مادہ پیدا ھوگیا اور میں نے جلدی سے شلوار کو السٹک والے حصے سے پکڑ لیا اور‪.‬‬
‫اونچی آواز میں رونے لگی گڑاگڑانے لگی ۔‬
‫واسطے دینے لگی اکری شلوار نیچے کرنے کی کوشش کرتا مگر میں شلوار کو مضبوطی سے پکڑے اوپر کھینچتی اور‬
‫اسکی منتیں کرتی ۔‬
‫پتہ نہیں مجھ میں اتنا ذور کہاں سے اگیا تھا ۔‬
‫اسی تگ ودو میں میرے سینے کےابھار چھلک رھے تھے اور جب اکری نے دیکھا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکل‬
‫رھا تو اکری نے میری شلوار کو چھوڑا اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے ابھرے ھوے ممے پر مارا اور گرجدار آواز میں‬
‫بوال سالی کو پیار کی زبان سمجھ میں نہیں آتی جب تو چدنے کے لیے ھی یہاں آئی ھے تو پھر نخرے کیوں کررھی ھے‬
‫ممے پر تھپڑ پڑتے ھی میں درد سے بلبال اٹھی اور ہاےےےےےے امی جیییییی کرتے ھوے شلوار کو چھوڑ کر اپنے ممے‬
‫کو پکڑ کر سہالتے ھوے تھپڑ کی جلن کو دور کرنے لگی ۔‬
‫ادھر میرے ھاتھ ممے کی طرف بڑھے ادھر اکری کے ھاتھ میری شلوار پر پہنچے اور پھر ایک جھٹکے سے میری شلوار‬
‫میرے گھٹنوں میں پہنچ گئی اور میری کلین شیو پھدی اکری کی آنکھوں کے سامنے تھی اورشلوار اترنے کے غم میں‬
‫میں ممے سے ہاتھ ہٹا کر اپنے منہ پر رکھ کر رانوں کو بھینچ کر پھدی کو رانوں میں چھپا کر رونے لگ گئی ۔‬
‫اکری نے میرے رونے کی پروا نہ کرتےھوے میری شلوار کو کھینچ کر میرے پیروں سے نکال کر نیچے پھینک دیا۔‬
‫اور میرے گھٹنوں کو پکڑ کر میری ٹانگوں کو کھولنے لگا مگر میں نے پورے ذور سے ٹانگوں کو بھینچا ھوا تھا ۔‬
‫اکری نے آخر زور لگا کر میری ٹانگوں کو کھول دیا اور بوال‬
‫گشتوڑ میں نے تو سوچا تھا کہ خود بھی مزے سے کروں گا اور تجھے بھی مزے دوں گا مگر تو بڑی شانی بنتی ھے اب‬
‫تیری سیل توڑوں گا نہیں بلکہ پھاڑوں گا اور وہ بھی ایک ھی جھٹکے میں۔۔۔‬
‫میں پھر اس سے رحم کی اپیلیں کرنے لگ گئی اور اسکو آرام سے کرنے کا بھی کہنے لگ گئی کیونکہ چدنا تو اب الزم بن‬
‫گیا تھا تو پھر آرام سے ھی چدنا بہتر تھا بجاے کہ پھدی پڑوانے کے۔۔۔‬
‫اکری ٹوپا میری پھدی پر سیٹ کرنے لگا اور بوال سالی پہلے ھی موڈ نہ خراب کرتی اب جو ترلے کررھی ھے ۔‬
‫اچانک اسکو پھدی میں پتہ نہیں کیا نظر آیا ک اس نے پھدی سے لن کو ایکدم پیچھے ہٹا لیا اور اسد کی طرف منہ کرکے‬
‫بڑے غصے سے بوال اوےےےے گانڈو۔۔۔‬
‫‪.‬اسد اکری کو یوں غصے میں دیکھ کر ہڑبڑا کر بوال یس باس ۔‬
‫اکری بوال پھدی دیا توں کیندا سی اے سیل پیک بچی اے ۔‬
‫اسد منہ کھولے اکری کی طرف بڑھا اور بوال ۔‬
‫باس مجھے تو ایسے ھی لگ رھا تھا ۔‬
‫اسد جیسے ھی اکری کے قریب آیا تو‬
‫اکری نے اسد کو گردن سے پکڑ کر اسکا چہرہ میری پھدی کی طرف کر کے بوال یہ دیکھ اس گشتی کی پھدی پر جھلی باہر‬
‫کو آئی ھوئی ھے اور جھلی سیل پیک بچی کی باہر نہیں ہوتی یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کافی دفعہ چد چکی ھے اور تو اسے‬
‫سیل پیک کہہ رھا تھا ۔‬
‫اسد آنکھیں پھاڑے میری پھدی کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫اور پھر اسد نے میری پھدی پر ذور سے تھپڑ مارا اور بوال مجھے پہلے ھی شک تھا کہ یہ اپنے یار اس پینڈو سے چدواتی‬
‫رھی ھے۔‬
‫پھر اسد اکری کی خوشامد کرتے ھوے بوال واہ استاد کیا تجربہ ھے تیرا بغیر لن اندر کیے ھی پتہ لگا لیا کہ یہ سالی پہلے‬
‫کی چدی ھوئی ھے ۔‬
‫مگر اب کیا پروگرام ھے باس‬
‫اکری اسد کی خوشامد سے تھوڑا نرم ہوا اور پھر بوال چل جا اپنا کام کر جو کررھا ھے ۔‬
‫اس سالی نے خوار ہی اتنا کیا ھے کہ اب اسکو چودے بغیر نہیں جانے دینا۔‬
‫ورنہ اکری نے آج تک کبھی جوٹھا نہیں کھایا۔‬
‫مگر اب اسکی پھدی کو سزا تو ضرور ملے گی ۔‬
‫یہ کہتے ھی اکری نے میری ٹانگیں کندھوں پر رکھی اور ٹوپا میری پھدی کے ہونٹوں میں پھنسایا اس سے پہلے کہ میں‬
‫کچھ سمجھتی یا بولتی‬
‫اکری نے ذوردار گھسا مارا اور میری پھدی کچھ گیلی تھی مگر اکری کا لن خشک تھا لن پھدی کو چیرتا ھوا میری بچے‬
‫دانی کے اندر چال گیا‬
‫میرے منہ سے دردناک چیخ نکل کر پورے کمرے میں گونجی میں داڑھیں مار مار رونے لگی ھاےےےےےےے امی میں‬
‫مرگئی جے ھاےےےےےےےےے میرا اندر پاٹ گیا اےےےےےے ھاےےےےےےےے اووووو کنجراں دیا دلیا حرامدیا‬
‫کتی دیا بچیا پچھے ھوجا بار کڈ لے تینوں تیری ماں دا واسطہ اییییییی‬
‫ھاےےےےے او میری پھدییییی پاٹ گئی جے ھاےےےےےےے مرگئیییییی‬
‫میں پیچھے کو ھونے کی کوشش کرتی مگر میرا سر بیڈ کی ٹیک کے ساتھ لگ چکا تھا آگے کو ھو نہیں سکتی تھی اس دیو‬
‫کے نیچے سے نکل نہیں سکتی تھی ۔تو بے بسی میں چال چال کر اپنے درد کو بیان کر کے جو منہ میں آرھا تھا کہی جارھی‬
‫تھی‬
‫اکری کو مذید غصہ چڑھا اس نے لن کو پیچھے کھینچا اور بس ٹوپا ھی اندر رہنے دیا اور دوسرا گھسا اس سے بھی ذور دار‬
‫مارا مجھے ایسے لگا جیسے اکری کا لن میری بچے دانی کو بھی پھاڑ چکا تھا ۔‬
‫میری پھر دلدوز چیخ کمرے کی دیواروں سے ٹکرائی اور پھر اکری کے گھسوں اور میرے چیخوں سے پورا کمرا‬
‫گونجنےلگ گیا۔‬
‫میں درد سے جتنا ذیادہ چالتی اکری اتنی ھی ذور سے گھسا مارتا اکری کے گھسوں سے میرے ممے میرے سینے پر بھاگ‬
‫دوڑ کررھے تھے اکری ایک ردھم سے گھسے ماری جارھا تھا میری پھدی میں جلن اور ٹیسیں اٹھ رھی تھیں مجھے لگ‬
‫رھا تھا جیسے کسی نے مرچوں واال ڈنڈا میری پھدی میں گھسیڑ دیا ھے چال چال کر میری آواز بیٹھ گئی تھی آخر میں نے‬
‫اپنے آپ کو اکری کے حوالے کردیا‬
‫دس منٹ لگا تار چودنے کے بعد اکری نے ایکدم اپنا لن باہر نکاال اور میرے مموں کی طرف ٹوپا کر کے ُمٹھ مارنے لگ گیا‬
‫۔‬
‫میرے سانس اکھڑے ھوے تھے درد سے میری جان نکل رھی تھی میرا ھاتھ میرے پیٹ پر تھا کہ اکری کے ٹوپے سے منی‬
‫کی دھار نکل کر میری ٹھوڑی پر پڑی اور پھر وقفے وقفے سے منی نکلتی ھوئی میرے مموں اور پیٹ پر پڑتی گئی ۔‬
‫اور اکری فارغ ھوتے ھی ایک طرف لڑھک گیا اور سیدھا لیٹ کر لمبے لمبے سانس لینےلگ گیا۔‬
‫میں دھواں دھار چدائی کے بعد دونوں ھاتھ اپنے منہ پر رکھ کر سکتے ھوے اسد کو اور اپنے آپ کو کوسنے لگ گئی کچھ‬
‫دیر بعد اسد میرے قریب آیا اور ایک کپڑا میرے منہ پر دے مارا اور بوال‬
‫چل گشتی اپنے ممے صاف کر باس نے ابھی تیری گانڈ بھی بجانی ھے ۔۔‬
‫میں روتے ھوے سسکتے ھوے کپڑے سے اپنا منہ اور ممے صاف کرنے لگ گئی ۔‬
‫اور اچھی طرح اکری کی منی کو اپنے جسم سے صاف کیا۔‬
‫اور اٹھ کر بیٹھنے لگی تو اکری جو میرے ساتھ لیٹا ھوا تھا اس نے مجھے پھر بستر پر گرا دیا۔‬
‫اور مجھے گھما کر سائڈ کے بل کرتے ہوے میری گانڈ کو اپنی طرف کردیا اور پیچھے سے میرے ساتھ چپک کر ھاتھ آگے‬
‫لیجا کر میرے ممے کو پکڑ لیا ۔‬
‫میں نے پھر ہلکا پھلکا احتجاج کیا ۔‬
‫مگر اکری کی دھمکی سن کر پھر سہم گئی اور چپ کر کے لیٹی اپنے ممے دبواتی رہی اکری کا لن پھر اکڑ گیا تھا اور‬
‫میری گانڈ کی دراڑ میں گھس چکا تھا ۔‬
‫اکری نے جب میری گانڈ کے سوراخ پر اپنے لن کا ٹوپا سیٹ کیا تو میں پہلی دفعہ اس سے مخاطب ہوئی اور تھوڑا آگے‬
‫کھسک کر بولی ۔‬
‫پلیز پیچھے سے نہ کرنا مجھ سے برداشت نہیں ھوگا میں مرجاوں گی ۔‬
‫میری عزت تو تم نے لوٹ ھی لی ھے اگر پھر بھی کرنا ھی ھے تو پلیز میری اتنی سی بات مان لو اور آگے سے کر لو ۔‬
‫اکری بوال پہلے تم نے کون سا آرام سے کروایا ھے سارا مزہ خراب کردیا سالی ایسے تڑپ رھی تھی جیسے پہلی دفعہ لن‬
‫لے رھی ھو۔۔۔۔‬
‫میں نے محسوس کیا تھا کہ اکری خوشامد سے جلدی بات مان لیتا ھے تو میں نے بھی اکری کی کمزوری کو پکڑتے ھوے‬
‫اسکی خوشامد کرتے ھوے کہا ۔‬
‫آپ کا تو لن ھی اتنا بڑا ھے کہ میرا سارا اندر ہل گیا آپ واقعی مرد ھو ۔‬
‫اور آپ جیسا مرد قسمت والوں کو ملتا ھے میں تو آپکی غالم بن گئی ھوں ۔‬
‫اور اسکے ساتھ ھی میں سیدھی ھوگی اور سیدھے ھوتے ھی میں نے اکری کا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور لن کو سہالنے لگی ۔‬
‫اکر کا چہرہ ایک دم خوشی سے کھل اٹھا تعریف چیز ھی ایسی ھے بندے کی سوچ بدل دیتی ھے چاھے وہ جھوٹی تعریف‬
‫ھی کیوں نہ ھو۔۔‬
‫اکری نے مونچھوں کو تاو دیتے ھوے کہا ۔‬
‫شاباش یہ ھوئی نہ بات ۔۔‬
‫اکری سے جو لڑکی ایک دفعہ چد جاتی ھے وہ دوبارا اکری سے چدنے کے خواب دیکھتی ھے ترستی ھے پھر اکری کی‬
‫مرضی کہ وہ اسے چودے یا نہ چودے ۔‬
‫چل جا تیری ایک خواہش پوری کی ۔‬
‫اب پھدی چدوانے میں میرا ساتھ دے اور اگر دوبارا ڈرامہ کیا تو پھر سمجھ لینا کہ تیری گانڈ پھٹنے سے تجھے کوئی نہیں‬
‫بچا سکتا۔۔۔‬
‫میں نے شکر ادا کرتے ھوے جلدی سے اثبات میں سر ہالیا اور لن کو ہالتے ھوے اکری کی طرف دیکھ کر مسکراتے‬
‫ھوے شکریہ ادا کیا ۔‬
‫اکری میری مسکراہٹ پر قربان ھوتا ھوا میرے اوپر جھکا اور ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا میں بھی اسے خوش‬
‫کرنے کے لیے اور اس کے احسان کا بدلہ چکانے کے لیے اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی اور اسکے لمبے بالوں میں‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے اسکو یہ احساس دالنے لگی کہ اب میں تجھے پورا مزہ دوں گی۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر ہم دونوں مزے لے لے کر کسنگ کرتے رھے اکری ایک دم رومینٹک ہوگیا اسکا حیوان مرگیا ان وہ انسانوں کی‬
‫طرح میرے ساتھ سیکس کررھا تھا میرے جسم پر آہستہ آہستہ انگلیوں کی کنگی بنا کر پھیرتا تو کبھی میرے مموں کے نپلوں‬
‫کو باری باری مسلتا رھا ۔‬
‫مجھے اکری کی تبدیلی صاف محسوس ھورھی تھی ۔‬
‫میرے دماغ میں اچانک ایک پالن آیا اور اس پالن کو عملی طور پر جامعہ پہنانے کے لیے اس وقت کا انتظار کرنے لگ گئی‬
‫۔۔‬
‫اکری میرے پورے جسم پر ھاتھ پھیر رھا تھا‬
‫‪.‬اور میں بھی مصنوعی سسکاریاں بھر کر اسکو مذید جوش چڑھا رھی تھی ۔‬
‫اکری مجھے پاگلوں کی طرح چوم رھا تھا اور میں اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے سییییی اففففف آہہہہہہ کررھی تھی‬
‫۔۔‬
‫مجھے بھی اب ہلکا سا مزہ آنے لگ گیا تھا ۔‬
‫کہ اکری نے میری پھدی کے دانے کو انگلیوں میں پکڑ لیا اور مسلنے لگ گیا ۔‬
‫میرے جسم مین ایک دم کرنٹ دوڑا اور شہوت جاگی ۔‬
‫میں نے سیییییییییی کرتے ھوے اپنا سر اٹھا کر دوبارا تکیے پر دے مارا ۔‬
‫اور ہاتھ نیچے لیجا کر اکری کے ھاتھ کو پکڑ لیا ۔اورھاتھ کو پھدی پر دباتے ھوے گانڈ کو اٹھا کر منہ اے لمبی سسکاریاں‬
‫نکالتی جس سے اکری کو اور جوش چڑھتا اور وہ مذید سختی سے میری پھدی کو مسلتا ۔۔‬
‫میرے اندر شہوت کی چنگاریاں پھوٹنا شروع ھویں اور میرا جسم اکڑنے لگا اکری نے ساتھ ھی بڑی انگلی پھدی کے اندر‬
‫کی اور پھدی کے دانے کو انگلی کے نیچے دبا کر انگلی کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگ گیا ۔۔۔ادھر میری جان حلق میں‬
‫اٹکی ہوئی تھی انگلی چار پانچ دفعہ ھی اندر باہر ھوئی تھی کہ میری پھدی سے منی چھوٹ پڑی اور میں نے‬
‫ھاےےےےےء سییییییی میں گئییییییییی کیا اور اکری کی انگلی کو پھدی مین اور اسکے ھاتھ کو چڈوں میں جکڑ لیا ۔۔۔اور‬
‫جسم جھٹکے کھاتا ھوا کچھ دیر بعد بےجان ھوگیا۔۔۔‬
‫اکری میرے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ الیا اور میرے ہونٹوں کو چوم کر بوال واہہہہ یار تو تو بڑی گرم چیز ھے ۔۔۔‬
‫اور اسکے ساتھ ھی اکری میری ٹانگوں کے بیچ آیا اور میری ٹانگوں کو پکڑ کر فولڈ کیا اور میرے گھٹنوں کو میرے پیٹ‬
‫کے ساتھ لگا دیا۔۔‬
‫اور لن کا ٹوپا میری پھدی کے اوپر رکھ کر اندر کرنے لگا تو میں نے ایک نطر اسد کی طرف دیکھا جو ہماری فلم بنا رھا‬
‫تھا ۔۔اور پھر میں نے اکری کے مضبوط بازوں کو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنے اوپر لیٹنے کا کہا اکری جیسے‬
‫ھی میرے اوپر ایا میں نے اسکے کان میں اہستہ سے کہا کہ جان اسکو تو باہر بھیجو پھر ہم کھل کر انجواے کریں گے اکری‬
‫نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور بوال پکی رانڈ اے توں ۔۔۔۔۔اور پھر اسد کی طرف دیکھ کر بوال چل بجے تھوڑی‬
‫دیر واسطے بار چال جا ۔‬
‫اسد نے کیمرہ انکھ سے ہٹاتے ھوے حیران ھوکر اکری کی طرف دیکھا اور بوال کیوں۔۔۔۔۔۔اکری نے غصے سے کہا‬
‫پھدی دیا تینوں دنیا نئی بار چال جا ۔۔اگوں سوال جواب کرن لگ پیاں ایں ۔‬
‫اسد نے برا سا منہ بنایا اور کیمرہ سائڈ ٹیبل پر رکھ کر اپنے کپڑے اٹھا کر باہر کی طرف نکل گیا اور دروازہ کھول کر بڑے‬
‫غصے سے بند کردیا۔۔۔‬
‫اکری میری آنکھوں میں دیکھتے ھوے بوال ۔‬
‫اب خوش ۔۔‬
‫میں نے سر اٹھا کر اکری کے ہونٹوں کو چوما اور اسکا شکریہ ادا کیا۔۔‬
‫اکری پھر پیچھے ھوا‪ ،‬اور لن کو پکڑ کر پھدی پر سیٹ کیا اور جھٹکا مارنے لگا تو میں نے اسکی رانوں پر ھاتھ رکھتے‬
‫ھوے کہا جانو آرام سے کرنا اکری نے ہلکا سا جھٹکا مارا تو ٹوپا پھدی میں گھس گیا مجھے ہلکی سی تکلیف ھوئی مگر‬
‫ظاہر ذیادہ کرتے ھوے‬
‫آئییییییییییی کیا تو اکری بوال اب بھی درد ھوا ۔‬
‫میں نے ھاں میں سر ہالیا ۔۔۔‬
‫اکری نے پھر ہلکا سا گھسا مارا میں نے پھر آہہہہہہہہہہ کیا اور تیسرے گھسے میں لن پھدی کی گہراءیوں میں اتر گیا میں‬
‫نے اوکھے سوکھے لن کو برداشت کرلیا اور اکری کے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا اکری اب گھسے مارنا سٹارٹ‬
‫ھوچکا تھا اورمیری آہوں کا سلسلہ بھی شروع ھوچکا تھا ۔‬
‫اکری تھوڑا سا اوپر ھوا اور میرے گھٹنوں کو پکڑ کر گھسے مارنے لگ گیا میرے‬
‫‪.‬ممے ذور ذور سے ہلنے لگ گیے میں آہ آہ اہ آہ آہ آہ سیییییییی ھاےےےےے کرنے لگ گئی کچھ دیر بعد اکری کے‬
‫گھسون سے مجھے مزہ آنے لگ گیا اور میری آہیں سسکاریوں میں بدل گئیں ۔‬
‫اور میں چہرہ ایک طرف کیے سییییی آہ آہ کرنے لگ گئی اکری کا لمبا لن میرے اندر جاکر جب لگتا تو مجھے عجیب سا‬
‫مزہ آتا اور میں چہرہ اوپر کر کے آہہہہہہہہ کرتی اور اکری میرے اس مزے کو مذید دوباال کرتا ھوا بار بار اسی جگا اپنے‬
‫لن کو مارتا جہاں سے میں مزے کی گہراءیوں میں چلی جاتی ۔‬
‫)‪Update no(111‬‬
‫اکری کی سپیڈ تیز ھوگئی میری سسکاریاں بلند ھوگئیں میں اسے مذید تیز کرنے کا کہتی اور ساتھ آہہہ آہہہہہہہ اور تیز ھاں‬
‫ادھر ھی کرو ھاں ادھ ھی ھاااااااا آہہہہہ ممممممممم میں گگگگئییییی اکککککری کرتے ھوے میں اچھل کر اکری کے ساتھ‬
‫چمٹ گئی اور گانڈ کو اٹھا کر پھدی کے اندر سارررااااا لن لے لیا اور میرا جسم جھٹکے کھانے لگ گیا اور پھر پھدی کی‬
‫برسات شروع ھوگئی ۔۔۔۔۔۔‬
‫اور کچھ ھی دیر میں جسم بےجان ھوکر بستر پر گر گیا۔۔۔‬
‫اکر چند لمحے ٹھہر کر میری تیز سانسوں سے ابھرتے مموں کا نظارہ دیکھتا رھا اور پھر میرے مموں کو دونوں ھاتھوں‬
‫میں پکڑ کر دوبارا گھسے مارنے لگ گیا ۔‬
‫گھسوں سے میرا سارا جسم ہل رھا تھا اور تھپ تھپ کی آواز گونج رھی تھی بیس منٹ کی چدائی کے بعد اکری نے ایک‬
‫جاندار گھسا مارا جس سے میری چیخ نکلی اور ساتھ ھی اکری نے لن باہر نکال کر میری پھدی کے اوپر ھی ساری منی بہا‬
‫دی ۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر چھالنگ مار کر بیڈ سے نیچے اترا اور واش روم کی طرف چال گیا ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ جب اکری نے واش روم کا دروازہ بند کرلیا ھے تو میں نے جلدی سے کیمرہ اٹھایا‪ ،‬اور اسکو دیکھنے لگ‬
‫گئی کے اسکی کیسٹ کہاں ڈلتی ھے میرے ھاتھ کانپ رھے تھے اور میری نظریں بار بار واش روم کے دروازے کی طرف‬
‫تھیں ۔۔‬
‫اچانک مجھے کیسٹ والی سائڈ مل گئی میں نے بٹن دبایا تو کیسٹ والی سائڈ کھل گئی میں نے جلدی سے ایک چھوٹی سی‬
‫کیسٹ نکالی اور کیسٹ والی ڈبی کو بند کرکے کیمرہ ادھر ھی رکھ دیا اور جلدی سے واپس اپنی جگہ پر آکر کیسٹ کو‬
‫تکیے کے نیچے رکھ دیا۔۔‬
‫اور کپڑا پکڑ کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی اتنی دیر میں اکری واش روم سے باہر نکال ۔‬
‫اور میرے قریب اکر بیٹھتے ھوے بوال ۔‬
‫مزہ آیا چدوانے کا۔‬
‫میں نے شرماتے ھوے سر نیچے کر کے اثبات میں ہال دیا ۔‬
‫اکری بوال اب اسد سے بھی ایک دفعہ چدوا لے ۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫نہیں میں بس اپکی ہوں مجھے اس سے سخت نفرت ھے اکری نے قہقہ لگاتے ھوے کہا ۔‬
‫واہ عورت ذات تجھ میں کتنے چلتر ہیں ۔‬
‫پہلے اس سے محبت تھی اور اب مجھ سے ھا ھا ھا ھا‬
‫چل شاباش اب اس سے چدوالے اور یہ میرے ساتھ پیار شیار کے ڈرامے مت کر ۔‬
‫میں نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا تم انسان ھو کہ جانور ھو تمہارے سینے میں دل نہی ھے کیا۔۔‬
‫اکری کا چہرہ ایکدم سرخ ھوگیا اور وہ جلدی سے کھڑا ھوا اور میرے سر کے بالوں کو پکڑ کر جھنجھوڑتے ھوے بوال‬
‫ایک تو سالی کی زبان بہت چلتی ھے اسکے ساتھ ھی اس نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا میں بیڈ پر گری اور اکری ننگا ھی‬
‫دروازے کی طرف بڑھا اور درواز کھول کر باہر منہ نکال کر اسد کو آواز دی تو کچھ ھی دیر بعد اسد کمرے میں داخل‬
‫ھوا ۔‬
‫اور آتے ھی قہر بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی اس نے جھٹ پٹ سے اپنے کپڑے اتارے اور اکری کو کہا چل استاد آج اسکی دونوں طرف سے ایک ساتھ‬
‫بجاتے ہیں ۔‬
‫میں سہم کر پیچھے کو‬
‫‪.‬کھسکی تو دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ھوے ہنسے اور اکری بوال سالی مجھے پاگل بنا رھی تھی میں نے‬
‫تو جان بوجھ کر اسے باہر بھیجا تھا کہ تو میرا مزہ نہ خراب کر اکری ایک عورت کے پیچھے یار نہیں چھوڑتا ۔‬
‫اور پھر دونوں ایک ساتھ بیڈ کی طرف بڑھے اور اکری نے میرے بازو کو پکڑ کر کھینچا تو میں کسی کھلونے کی طرح‬
‫اسکی طرف آگئی اور اکری ساتھ ھی بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔‬
‫اور پھر میرے ساتھ چمٹ کر مجھے چومنے لگ گیا اور میری دوسری طرف اسد آکر لیٹ گیا وہ پیچھے سے میری گانڈ کو‬
‫مسلنے لگ گیا۔‬
‫میرا منہ اکری کی طرف تھا اور میری گانڈ اسد کی طرف ۔‬
‫اور میں دونوں کے درمیان سینڈوچ بنی ھوئی تھی ۔‬
‫دو مردوں کے ہاتھ میرے جسم پر پھر رھے تھے‬
‫کچھ دیر میرے جسم کو سہالنے کے بعد اکری نے اپنا لن پکڑ کر میری پھدی کے اوپر رکھ کر میرے چڈوں میں گھسا دیا‪،‬‬
‫اور مجھے کس کر جپھی ڈال لی ادھر پیچھے سے اسد نے لن میرے چوتڑوں میں گھسادیا اور دونوں کے لنوں کے ٹوپے‬
‫میری ٹانگوں کے بیچ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا گئے ایک لن پھدی پر اور دوسرا لن گانڈ کی دراڑ میں‬
‫پہلے تو مجھے بہت عجیب سا لگا ۔اور میں احتجاج کرتی رھی‬
‫مگر کچھ ھی دیر میں میرے اندر بھی شہوت جنم لینے لگ گی‪،‬‬
‫اتنے میں اکری نے مجھے بازوں میں بھرا اور اپنے اوپر کر لیا میں اکری کا لن چڈوں میں لیے اسکے سینے پر ممے رکھ‬
‫کر لیٹ گئی اور اکری نے وقت ضائع کیے بغیر ہاتھ نیچے لیجا کر لن کو پکڑ کر پھدی میں سیٹ کیا اور میری ٹانگوں کو‬
‫کھول کے گانڈ اٹھا کر جھٹکا مارا اور لن پھدی مین اتار دیا میں درد سے ھائییییییییی کیا ۔‬
‫تین چار گھسے مارنے کے بعد اسد میرے پیچھے آیا اور اپنے لن پر تھوک لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر ٹوپے کو رکھا ۔‬
‫میں اکری کے اوپر گھوڑی بنی اسکا لن پھدی میں لیے ھوے تھی کہ پیچھے سے اسد نے ایک ذور دار جھٹکا مارا اور اسکا‬
‫لن میری گانڈ کو چیرتا ھوا اندر چال گیا میں نے ایک چیخ ماری اور آگے ھونے لگی تو اکری نے مجھے کندھوں سے پکڑ‬
‫کر پیچھے دھکیل دیا اسد کا پورا لن میری گانڈ مین اور اکری کا پورا لن میری پھدی میں تھا ۔‬
‫میری گانڈ میں بہت درد ھورھا تھا ۔‬
‫چند لمحوں کے بعد دونوں نے آہستہ آہستہ گھسے مارنا شروع کردیے ۔۔‬
‫میں آہ آہ آہ مرگئییییی افففففف سییییی بہت درد ھورھی ھے پلیز مجھے چھوڑ دو میں مرجاوں گی‬
‫کری جارھی تھی ادھر وہ دونوں اپنی مستی سے میری پھدی اور گانڈ کو چود رھے تھے میرے ممے اچھل اچھل کر اکری‬
‫کے منہ کے پاس جارھے تھے جب اسد کے گھسے سے میرا مما ہلتا ہوا اکری کے منہ کے پاس جاتا تو اکری میرے نپل کو‬
‫ہونٹوں میں بھر کر ایک چوسا لگاتا اور ممے کو چھوڑ دیتا ۔۔‬
‫پانچ منٹ بعد ھی اسد کی گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز ھوتی گئی اور میرے ممے ہلتے ھوے اکری کے منہ پر تھپیڑے‬
‫مارنے لگ گئے پھر اسد نے میری کمر کو ذور سے بھینچا اور ایک زوردار گھسا مارتے ھوے پورا لن میری گانڈ میں کر‬
‫کے میرے اوپر ھی لیٹ گیا مجھے اپنی گانڈ میں اسد کی منی کے فوارے صاف محسوس ھورھے تھے ۔‬
‫اسد جب میرے اوپر لیٹا تو میں اسکے وزن کے ساتھ اکری کے اوپر لیٹ گئی اکری میرے نیچے اور میں اسد کے نیچے تھی‬
‫ایک منٹ ایسے ھی ہم لیٹے رھے ۔‬
‫تو اسد نے جھٹکے سے لن میری گانڈ سے نکاال اور واش روم کی طرف بھاگ گیا ۔‬
‫پھر اکری نے مجھے پندرہ بیس منٹ چودا میں مرنے والی ھوچکی تھی دو تین گھنٹے کی چدائی نے میرا برا حال کردیا تھا‬
‫اکری بھی لن نکال کر میرے اوپر ھی فارغ‬
‫‪.‬ہوگیا‪ ،‬میں کچھ دیر ایسے ھی پڑی رھی بے جان ۔‬
‫کچھ دیر بعد جب میری آنکھ کھلی تو اسد ہاتھ میں ایک گن کی طرح مشین ھاتھ میں لیے کھڑا تھا جس کے آگے سوئی لگی‬
‫ھوئی تھی ۔‬
‫اکری بوال چل یار جلدی سے میرے اور اپنے نام کی مہر اسکی پھدی پرلگادے تاکہ یہ جب بھی پھدی کو دیکھے اسکو ہماری‬
‫یاد آے اور جب اسکو ہماری یاد آے گی تو پھر اسکو اپنی چدائی کی فلم بھی یاد آے گی ۔‬
‫میں ابھی تک مہر کا مطلب نہ سمجھ سکی کہ یہ کام سی مہر لگانے کی بات کررھے ہین ۔‬
‫جب اکری نے میری ٹانگوں کو پکڑا اور اسد مشین کو چلس کر میری طرف بڑھا اور میری پھدی کے اوپر والے حصہ‬
‫پرسوئی رکھ کر کچھ لکھنے لگ گیا تو مارے درد کے میری جان نکلنے لگی اکری مجھے دھمکیاں دیتا ھوا مجھے برداشت‬
‫کرنے کا کہ رھا تھا دو تین منٹ کی تکلیف دینے کے بعد اسد ہنستا ھوا پیچھے ہٹا اور بوال چل گشتیے کپڑے پہن لے اور‬
‫ایک دفعہ پھدی کو غور سے دیکھ لے ۔اور دونوں نام یاد رکھنا ۔‬
‫اکری &‪،‬اسد‬
‫‪.‬میں کافی دیر پھدی اور گانڈ کے درد سے روتی رھی ۔‬
‫اکری کپڑے پہن کر باہر چال گیا اور اسد کپڑے لے کر واش روم چال گیا ۔‬
‫کمرہ خالی ھوا تو میرے دماغ میں ایکدم ویڈیو کیسٹ کا آیا میں جلدی سے اٹھی اور بریزیر پہن کر کیسٹ تکیہ کے نیچے‬
‫سے نکال کر بریزیر میں رکھی اور جلدی سے پہلے قمیض پہن لی اورپھر بڑی مشکل سے شلوار پہن ھی رھی تھی کہ‬
‫کمرے میں ایک مونچھوں واال داخل ھوا جسکو دیکھ کر میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی اور چادر پکڑ کر جلدی سے اوپر‬
‫اوڑھنے لگی ۔‬
‫مونچھوں واال بدمعاش کندھے پر بندوق لٹکاے دروازے پر کھڑا میری طرف دیکھی جارھا تھا میں چادر اوڑھ کر کھڑی‬
‫کبھی اسکی طرف دیکھتی کبھی واش روم کے دروازے کی طرف ۔‬
‫کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد وہ بدمعاش بوال چلو لڑکی ساب جی بوال رھے ہیں میں پاوں گھسیٹتے ہوے دروازے کی‬
‫طرف چل پڑی جب میں کمرے سے باہر نکلی تو باہر دو تین گن مین بڑی بڑی مونچھوں والے کھڑے تھے اور اکری ایک‬
‫صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا مونچھوں کو تاو دے رھا تھا ۔‬
‫اور اس کے گارڈ اسکے ارد گرد کھڑے تھے اکری نے مجھے آتا دیکھا تو مجھے اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کا کہا ۔‬
‫میں نے اسے نفرت سے گھورتے ھوے دیکھ کر کہا مجھے گھر جانا ھے ۔‬
‫اکری قہقہہ لگا کر ہنسا اور بوال ۔چلی جانا میں کون سا تجھے اس حویلی میں قید کرنے لگا ہوں اتنے میں اسد بھی کمرے‬
‫سے باہر نکال اور بوال باس اب اسکا کیا کرنا ھے ۔‬
‫اکری بوال کرنا کیا ھے تو جا اور اسکو میرا مالزم اسکے سکول چھوڑ آتا ھے ۔‬
‫اسد کندھے اچکا کر باہر نکل گیا اور اکری مجھے دھمکاتے ھوے بوال تمہارا جسکو جی کرے بتا دینا مجھے اسکی کوئی‬
‫پریشانی نہیں ۔‬
‫اور یاد رکھنا کہ تیرے چدتے ھوے کی پوری فلم میرے پاس ھے اور جب بھی تجھے میرا پیغام پہنچے بنا کسی پریشانی‬
‫کے ادھر چلی آنا ۔‬
‫اس کے ساتھ ھی اس نے ایک گن مین کو کہا کہ یہ جہاں جانا چاھے اسے چھوڑ آنا اور اسکا پورا خیال رکھنا ۔‬
‫یہ کہتےھوے اکری صوفے سے اٹھا اور باہر کی طرف چل پڑا اسکے پیچھے اسکے گن مین بھی باہر نکل گئے اور پھر وہ‬
‫بدمعاش مجھے سکول چھوڑ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی اپنی داستاں سنا کر اونچی اونچی آواز میں رونے لگ گئی اور میں مارے حیرت کے سکتے کے عالم میں اس کی‬
‫طرف دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫مجھے ایکدم ہوش آیا اور میں نے ۔‬
‫بڑی سنجیدگی کے ساتھ عظمی سے پوچھا ۔‬
‫عظمی تم نے مجھ سے پہلے جھوٹ کیوں بوال تھا ۔‬
‫عظمی بولی یاسر وہ بڑا خطرناک بندا ھے میں ڈر گئی تھی کہ کہیں تم اس کے ساتھ لڑنے نہ چلے جاو اور مجھ میں یہ سب‬
‫بتانے کہ ہمت بھی نہ تھی ۔‬
‫یاسر مجھ پر بہت ظلم کیا ھے ان لوگوں نے جسکی تکلیف آج بھی مجھے ہوتی ہے‬
‫میں نے کہا وہ کیسٹ کہاں ھے ۔‬
‫عظمی بولی وہ میں نے توڑ کر نہر میں پھینک دی تھی۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بوال ۔‬
‫کیا تم کو راستہ یاد ھے کہ اس کا ڈیرہ کس طرف ھے ۔‬
‫عظمی بولی یاسر مجھے یاد ھے مگر میں تمہیں بتاوں گی نہیں۔‬
‫میں نے چیخ کر عظمی کو کہا بکواس بند کرو اور جو میں نے کہا ھے اسکا جواب دو ۔‬
‫عظمی میرے سخت رویہ سے سہم گئی اور میرے آگے ھاتھ جوڑ کر بولی یاسر وہ بڑے خطرناک لوگ ہیں‬
‫تم بھول کر بھی اسطرف مت جانا ۔‬
‫میں نے کہا تم اس بات کو چھوڑو مجھے پتہ ھے میں نے کیا کرنا ھے تم بس مجھے وہ راستہ سمجھا دو کہ کسطرف ھے‬
‫باقی میں اسے خود ڈھونڈ لوں گا اور جو تمہارے ساتھ ان لوگوں نے کیا ھے ۔‬
‫اس سے بڑھ کر انکے ساتھ برا نہ کیا تو میں بھی اپنے باپ کا نہیں ۔‬
‫اور اس اسد کو اب حساب برابر کا چکتا کرنا پڑے گا اب یہ روز جیئے گا اور روز مرےگا ۔‬
‫عظمی کے ساتھ مجھے دلی ہمدردی ھوگئی تھی اسکی بس یہ ھی غلطی تھی کہ اللچ میں آکر اسد کے چنگل میں پھنس گئی‬
‫اور اس گشتی کے بچے نے اسکے ساتھ یہ ظلم کیا ۔‬
‫عظمی کچھ دیر انکار کرتی رھی مگر جب میں نے ذیادہ سختی کی تو اس نے مجھے سارا اڈریس سمجھا دیا میں‪ .‬نے اس‬
‫سے حویلی کے اندر کا سارا نقشہ بھی پوچھ لیا اور کتنے افراد ہیں وہ بھی پوچھ لیے ۔۔۔‬
‫اور عظمی کو چھوڑ کر میں اپنے گھر آگیا عظمی کے ساتھ جو ظلم ھوا تھا ۔‬
‫اسکی باتیں میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رھیں تھی ۔‬
‫میں رات دیر تک جاگتا رھا اور اسد اور اکری سے کیسے بدلہ لینا ھے اسکے بارے میں پالننگ کرتا رھا ۔‬
‫ضوفی میرے دماغ سے نکل چکی تھی‪ .‬۔‬
‫رات کو بستر پر لیٹا سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی ۔‬
‫صبح لیٹ اٹھا اور امی سے بڑی مشکل سے اجازت لے کر شہر کی طرف چل دیا ۔۔‬
‫جب میں نہر پر پہنچا تو ادھر ھی بیٹھ گیا ۔۔۔‬
‫اور بس ایسے ھی ادھر ادھر کی سوچتا رھا جب مجھے دو گھنٹے ادھر بیٹھے ھوے تو میں اٹھ کر شہر کی طرف چل دیا ۔‬
‫شہر پہنچ کر میں سیدھا جنید کی طرف گیا دکان کے باہر کھڑے ہوکر میں نے جنید کو آواز دی تو جنید مجھے دیکھ کر‬
‫خوشی سے چھالنگیں لگاتا ھوا‬
‫۔میری طرف آیا اور آتے ھی مجھے گلے لگا کر بڑی گرمجوشی سے مال ۔‬
‫اور مجھے دکان کے اندر آنے کا کہا مگر میں نے اسے منع کرتے ھوے اس سے اس دن کی معذرت کی کہ میری وجہ سے‬
‫تمہارے گھر والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جنید بوال کمال ھے یار ایک طرف مجھے یار کہتے ھو دوسری طرف‬
‫ایسی باتیں کرتے ھو ۔‬
‫کچھ دیر ہم کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کرتے رھے جنید نے بتایا کہ شاہین مارکیٹ کے مالک نے نسیم کو دکان خالی‬
‫کرنے کا کہہ دیا ھے اور اسے ایک مہینے کا نوٹس دے دیا ھے میں نے خوش ھوتے ھوے کہا اس کے ساتھ ایسا ھی ھونا‬
‫چاہیے تھا اسے بھی احساس ھو کہ کیسے کسی کی روزی میں ٹانگ مارتے ہیں ۔۔کچھ دیر مذید باتیں کرنے کے بعد جنید سے‬
‫اجازت لے کر ضوفی کی طرف چل پڑا جنید نے مجھے منع بھی کیا کہ ابھی ادھر نہ جاو مگر میں ضوفی کے دیدار کے‬
‫لیے بےچین تھا ۔‬

‫)‪Update no(112‬‬
‫بازار میں داخل ھوتے ھی مجھے عظمی بھول گئی اور ضوفی کو دیکھنے کی بےچینی بڑھ گئی ۔۔‬
‫میں چلتا ھوا شاہین مارکیٹ پہنچا تو مارکیٹ میں کسٹمرز کا کافی رش تھا تو اس لیے میری طرف کسی کا دھیان نہیں پڑا‬
‫ادھر ادھر کے دکاندار اپنے اپنے کام میں مصروف تھے مین سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا ۔‬
‫اور پارلر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ ھی دیر بعد پردہ سرکا اور وہ کچی کلی نمودار ھوئی اور مجھے دیکھ کر‬
‫ایسے اس کا چہرہ کھال جیسے وہ میری معشوق ھو‬
‫اور اسی وقت وہ پردے کے پیچھے غائب ہوئی کچھ ھی دیر بعد ضوفی دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر اسکا چہرہ کھل‬
‫اٹھا اور حال احوال اور گلے شکوے کے بعد بولی ۔‬
‫اندر کسٹمرز ہیں تم تھوڑی دیر رکو میں آتی ھوں اور گھر چلتے ہیں میں بھی اسکی مجبوری کو سمجھ کر ہمممم کر کے‬
‫باہر ھی کھڑا ھوکر انتظار کرنے لگ گیا تقریبا دس منٹ بعد ضوفی گاون پہنے اور نقاب کیے باہر نکلی اور بولی چلو ۔‬
‫مًیں نے کہا وہ کسٹمر ۔‬
‫ضوفی بولی تم سے عزیز نہیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے چلنے کا کہا۔۔‬
‫میں ضوفی کے ساتھ باہر نکال اور ہم نے کچھ اگے جاکر رکشہ لیا اور ضوفی کے گھر کی طرف روانہ ھوگئے۔‬
‫راستے میں کچھ خاص بات نہ ھوئی گھر پہنچ کر ضوفی نے ڈور بیل دی تو ماہ نور ماہی نے دروازہ کھوال اور مجھے‬
‫دیکھ کر ماہی کافی خوش ہوئی اور کافی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا ۔‬
‫ضوفی نے ماہی سے امی کا پوچھا تو ماہی نے بتایا کہ امی سوئی ھوئی ہیں ۔‬
‫ضوفی مجھے سیدھا اوپر والے کمرے میں لے گئی اور اندر داخل ھوتے ھی ضوفی نے دروازہ الک کیا اور پھر میرے ساتھ‬
‫ایسے جپھی ڈالی جیسے پتہ نہیں کتنے سال بعد ملی ھو ۔‬
‫ضوفی مجھ سے لپٹ کر رونے لگ گئی اور میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پاگلوں کی طرح چومنے لگ گئی‬
‫ضوفی روتی ھوئی میرے چہرے کو چومی جارھی تھی ۔‬
‫اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی تم مجھے چھوڑ کر دوبارہ کیوں لڑنے گئے تھے اگر تمہیں کچھ ھوجاتا میں تو جیتے جی‬
‫مرجاتی‪ .‬پھر پلٹ کر میرا حال بھی نہ‪ .‬پوچھا آج چار دنوں کے بعد آے ھو پتہ ھے میں کتنا روتی رھی کتنا یاد کرتی رھی‬
‫تمہارے گھر آنے لگی تھی مگر امی نے روک دیا کہ پتہ نہی تمہارے گھر والے کیا سوچیں ۔۔۔‬
‫ضوفی کی تڑپ بےچینی بےتابی میرے لیے اتنا پریشان ہونا مجھے یوں پاگلوں کی طرح چومنا‬
‫اور اسکے یوں رونے پر مجھے اسپر پیار آنے لگ گیا اور خود پر فخر ھونے لگا کہ مجھے اتنا چاہنے واال میرے لیے یوں‬
‫پریشان ھونے واال بھی کوئی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے ضوفی کی نرم گالوں پر ھاتھ رکھے اور انگوٹھے سے اسکے آنسوں صاف کرتے ھوے اسے چپ‬
‫کروانے اور تسلی دینے لگ گیا کہ مجھے کچھ بھی نہیں ھوا ۔‬
‫لڑائی میں اتنی معمولی سی چوٹ تو لگ ھی جاتی ھے ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے ضوفی کے آنسووں کو اپنے ہونٹوں سے ُچ ننے لگ گیا اور پھر اسکے نمکین آنسووں کو اپنے‬
‫ہونٹوں پر لگا کر ضوفی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے لگ جاتا‬
‫کافی دیر میں ضوفی کو ایسے ھی الڈ پیار سے نارمل کرنے کی کوشش کرتا رھا اور ایسے ھی اسکو لے کر میں بیڈ پر بیٹھ‬
‫گیا‬
‫ضوفی اب چپ ھوکر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے ۔‬
‫مجھے دیکھی جارھی تھی‬
‫پاگل لڑکی۔۔۔‬
‫جب ضوفی مجھے یوں دیکھتی تو میں اسکو آنکھ ماردیتا‬
‫ضوفی میرے سینے پر مکا مارتی اور چل شوخا کہتے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے کندھے کو چومتی اور کچھ‬
‫دیر دوبارا سر اٹھا کر مجھے دیکھنے لگ جاتی ۔‬
‫۔بھی ہمارے الڈ جاری تھے کہ دروازے پر دستک ھوئی ۔‬
‫ضوفی جلدی سے اٹھی اور دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کرتے ھوے دروازے کے پاس گئی اور دروازہ کھول دیا ۔‬
‫ماہی ہاتھ میں ٹرے پکڑے کھڑی تھی جس میںں کولڈ ڈرنک تھی ۔‬
‫ضوفی دروازہ کھول کر واپس میری طرف آگئی اور ماہی ضوفی کے پیچھے پیچھے چلتی ھوئی ٹیبل پر ٹرے رکھ کر اس‬
‫میں سے ایک گالس اٹھا کر مجھے پکڑا کر ضوفی کی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگ گئی‪.‬‬
‫اور پھر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫بھائی آپی کو کیا ھوا ھے ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔راستے میں ضد کررھی تھی کہ برف واال گوال کھانا ھے میں نے کھانے سے منع کیا کہ تمہارا گال‬
‫خراب ھوجاے گا تو گھر آکر رونے لگ گئی اور‬
‫اس لیے بےچاری رو رھی ھے‬
‫ضوفی جو سنجیدہ حالت میں بیٹھی ھوئی تھی میری بات سن کر ہنس پڑی اور مجھے مارنے کے لیے میری طرف دوڑی‬
‫میں جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور بھاگ کر ماہی کے پیچھے آگیا ۔‬
‫میں جیسے ھی ماہی کے پیچھے آیا تو ۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬میں جیسے ماہی کے پیچھے اپنا بچاو کرنے کے لیے کھڑا ھوا تو ماہی بھی ہنستے ھوے ضوفی کے اٹھے ہاتھ کو پکڑنے‬
‫لگ گئی۔‬
‫میں ماہی کو کندھوں سے پکڑ کر دائیں بائیں ہو رھا تھا اور ضوفی بھی ماہی کے آگے کھڑی مجھے مارنے کے لیے مکا‬
‫لہراتے ھوے کبھی دائیں طرف سے مجھ پرحملہ آور ہوتی تو کبھی بائیں طرف سے ۔‬
‫ماہی بولی آپی بس کریں کہ میرے بھائی کو مار کر ھی رہیں گی ۔‬
‫ضوفی بولی تمہارا یہ بھائی بہت بگڑ گیا ھے۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی مجھے گھورتے ھوے واپس صوفے پر جا بیٹھی اور میں بھی ماہی کے کندھوں کو چھوڑ کر جاکہ بیڈ پر‬
‫جا بیٹھا ۔۔‬
‫ماہی کچھ دیر بیٹھ کر کھانا بنانے کا کہہ کر چلی گئی ۔ میں بھی بیڈ کے اوپر ہوکر ایسے بیٹھ گیا جیسے میرا گھر ھو ۔‬
‫تھا بھی کچھ ایسا ھی مجھے ضوفی کے گھر میں آکر اپنائیت کا احساس ھوتا تھا ۔‬
‫میری بلکل جھجک ختم ھو چکی تھی ۔۔‬
‫میں بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ھوا تھا اور ضوفی صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھی مجھ سے باتیں‬
‫کررھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی سے پوچھا کہ جب میں واپس گیا تھا تو تم گھر چلی گئی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی میں تمہیں چھوڑ کر کیسے جاسکتی میں بھی تمہارے پیچھے آگئی تھی مگر وھاں ہجوم اتنا تھا اور مار دھاڑ‬
‫اتنی ھو رھی تھی کہ ۔میں آگے نہ جاسکی میرا تو دل گبھرا رھا تھا میں نے کافی کوشش کی کہ کسی طریقے سے آگے جاکر‬
‫دیکھوں مگر وھاں ہر طرف آدمی ھی کھڑے تھے تھک ہار کر میں ایک دکان کے باہر کھڑی ھوگئی تھی مجھے بس شور‬
‫اور چیخوں کی آوازیں آرھی تھی ۔جب تم لوگ وھاں سے بھاگے تھے تو تمہیں خون سے لت پت دیکھ کر میری چیخ نکل‬
‫گئی میں نے تمہیں بہت آوازیں دیں پیچھے بھی بھاگی مگر تم نے میری طرف دھیان ھی نہ دیا۔‬
‫جب تم لوگ وھاں سے نکلے ھی تھے کہ کچھ دیر بعد وھاں پولیس آگئی تھی اور پھر ایمبولینس آگئی ۔۔‬
‫میں نےبڑی کوشش کی کہ کسی طرح تم سے رابطہ ھوسکے مگر میں ناکام رہی ۔‬
‫میں نے کہا مارکیٹ کے مالک کو کیسے پتہ چال لڑائی کا اور اس نے کیا کہا تھا۔‬
‫ضوفی بولی میں ادھر سے سیدھی انکے گھر چلی گئی تھی اور میں نے ساری غلطی نسیم کی ھی نکالی اور انکو خوب ان‬
‫لوگوں کے خالف بڑھکایا ۔‬
‫نسیم کی ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور اس کے والد کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور اسکے چاچا کا بازو فیکچر ھوگیا تھا‬
‫باقی لڑکوں کے بھی کافی چوٹیں آئیں تھی ۔‬
‫اس کے باوجود بھی آنٹی نے انکل کو کہا کہ اگلے مہینے مجھے دکان خالی چاھیے ۔‬
‫اور انکل نے انکی ایک بھی نہ سنی اور ایک مہینے کا نوٹس دے دیا ۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی ویسے یاسر تم بہت ظالم ھو اس طرح بھی کوئی کسی کو مارتا ھے ان بیچاروں کا کتنا‬
‫برا حال کیا تم نے اور تمہارے دوستوں نے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ایسے لوگوں کا یہ ھی حال ھو تو ھی انکو سمجھ آتی ھے پیار کی زبان یہ لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔۔‬
‫ضوفی بولی پھر یاسر اگر ان میں سے کوئی مرجاتا تو کیا ھوتا۔‬
‫میں نے مکا بنا کر بازو کو ضوفی کی طرف کرتے ھوے مکے کو اوپر کرتے ھوے کہا لن تے چڑدے مردا تے مرجاندا۔۔۔۔‬
‫ضوفی منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کو دباتے ھوے بولی ھوووو ھوے کتنے سنگدل ھو۔۔۔۔‬
‫مجھے تو تم سے ڈر لگنے لگ گیا ھے ۔۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔‬
‫تو پھر کیا سوچا ۔۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتی ھوئی بولی‬
‫کیا مطلب ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا مطلب کہ میں پھر اپنی چھٹی سمجھوں ۔۔۔ضوفی میری طرف دونوں بازو سیدھے کر کے ھاتھوں کو کھول کر‬
‫تیزی سے آئی اور‬
‫میرے گلے کو پکڑ دباتے ھوے بولی تمہاری جان لے لینی ھے میں نے جو دوبارا یہ بات سوچی بھی۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی کالئیوں کو پکڑا اور اپنے گلے سے ہاتھ ہٹاتے ھوے اسکو کھینچ کر اپنے سینے پر لیٹا کر اسکے بازو‬
‫اپنے سر کے اوپر لے گیا۔‬
‫ضوفی کے ممے میرے سینے پر دب گئے تھے اور اسکا چہرہ میرے چہرے کے اتنا قریب تھا کہ اسکی سانسیں میرے‬
‫چہرے پر پڑ رھی تھیں ۔‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سکتے کے عالم میں ایک دوسرے دیکھے جارھے تھے دونوں کی سانسوں رفتار تیز سے تیز ھوتی‬
‫جارھے تھی ہونٹ ہونٹوں کو چھونے کے لیے بےچین ھورھے تھے دونوں پلکیں جھپکنا بھول گئے تھے۔‬
‫بالخر سکتہ ٹوٹا ہونٹوں نے اگے بڑھنے کی جرات کی اور پھر سب کچھ بھول کر ہونٹ ایک دوسرے سے ُگ تھم گتھا ھوگئے‬
‫زبانیں آپس میں ٹکرانے لگیں لباب دھن ایک دوسرے کے اندر اترنے لگا ۔‬
‫میرے ھاتھ ضوفی کی گردن کے پیچھے اسکے ریشمی سلکی بالوں کو سہالنے لگے ضوفی کی تڑپ بے چینی اس کے‬
‫کسنگ کرنے کا والہانہ انداز مجھے مذید گرمانے لگا ۔‬
‫ہونٹ تھے کے ایک دوسرے سے جدا ھونے کو نام نہیں لے رھے تھے جسم تھے کے ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش‬
‫کررہے تھے ضوفی کے نرم جسم کو میرے سہالتے ھوے ہاتھ اسکی گالب کی پنکھڑیوں کا رس چوستے میرے ہونٹ اسکی‬
‫گرم زبان سے ٹکراتی میری زبان مجھے جنت کی وادیوں میں پہنچا رہیں تھی‬
‫محبوب کے گیسوں میں عجب سی مستی چھاے جارھی تھی ۔‬
‫ضوفی کی گردن کے پیچھے اسکے ریشمی سلکی بالوں کو سہالنے لگے ضوفی کی تڑپ بے چینی اس کے کسنگ کرنے کا‬
‫والہانہ انداز مجھے مذید گرمانے لگا ۔‬
‫ہونٹ تھے کے ایک دوسرے سے جدا ھونے کو نام نہیں لے رھے تھے جسم تھے کے ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش‬
‫کررہے تھے ضوفی کے نرم جسم کو میرے سہالتے ھوے ہاتھ اسکی گالب کی پنکھڑیوں کا رس چوستے میرے ہونٹ اسکی‬
‫گرم زبان سے ٹکراتی میری زبان مجھے جنت کی وادیوں میں پہنچا رہیں تھی‬
‫محبوب کے گیسوں میں عجب سی مستی چھاے جارھی تھی ۔‬
‫ضوفی کی گردن سے سرکتے ھاتھ اسکی کمر کو ناپتے ضوفی کی ابھری گانڈ کی طرف بڑھتے جارھے تھے ضوفی کی‬
‫مستی اسکا جوش بڑھتا جارہا تھا کہ اسی سمے ہمارے کانوں میں ماہی کے کھنگارنے کی آواز پڑی ۔‬
‫زبان نے زبان کو چھوڑا ہونٹوں نے ہونٹوں کو بچھڑنے کی اجازت دی ۔جسم جسم سے جدا ھوے ضوفی کی گانڈ کو سہالتے‬
‫میرے ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے ہٹے اور ضوفی گھوم کر سیدھی ہوئی اور جلدی سے اٹھی اور ہاتھ اہنے ہونٹوں پر رکھ‬
‫کر سر نیچے کر کے شرمندہ سی ھوکر بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے بھی جلدی سے خود کو سمیٹا اور مارے شرمندگی کے سر اٹھا کر ماہی کی طرف نہ دیکھا ۔۔۔۔۔‬
‫اتنے میں ماہی کی شوخی بھری آواز ہم دونوں کے کانوں میں پڑی ۔‬
‫سوری ۔۔وووووہ کھانا الئی تھی ۔۔۔‬
‫بندا کم از کم دروازہ ھی بند کرلیتا ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی نے سر نیچے کیے آہستہ سے کہا ٹیبل پر رکھ دو کھانا اور تم جاو۔‬
‫ماہی نے جلدی سے ٹیبل پر کھانا رکھا اور الٹے قدموں باہر کو بھاگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں ٹانگیں فولڈ کر کے تکیہ پر ُک ہنی رکھے سائڈ کے بل سر نیچے کیے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے ھوے دیکھ تھا‬
‫جبکہ ضوفی میرے پیٹ کے ساتھ گانڈ لگا کر دوسری طرف منہ کیے بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکاے اپنے ھاتھوں کی انگلیوں‬
‫کو چٹخاتے ھوے شرمندہ سی بیٹھی تھی ۔۔۔‬
‫ماہی کے جاتے ھی میں نے پیچھے سے ضوفی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکے پیٹ پر رکھے اور اسکو اپنی طرف کھینچ‬
‫لیا ضوفی چھت کی طرف منہ کیے میرے اوپر آگئی اور جلدی سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے نرم نازک پیٹ سے ہٹانے‬
‫اور اوپر اٹھنے کی کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔۔‬
‫یاسر چھوڑو ماہی پانی لینے گئی ھے ابھی آتی ھوگی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ابھی تو وہ نیچے بھی نہیں پہنچی ھوگی ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی پلیززززز یاسر مجھے پہلے ھی بہت شرمندگی ھورھی ھے کہ اس نے ہمیں اس حال میں دیکھ لیا ۔‬
‫نہ جانے کیا سوچے گی ۔۔۔‬
‫میں نے ہاتھوں کی گرفت سخت کرتے ھوے کہا ۔‬
‫کیا سوچے گی کہ جیجا جی اپنی ڈیوٹی پوری کررھے ہیں ۔۔۔‬
‫ضوفی نے پورا ذور لگاتے ھوے اییییییی‬
‫کیا اور میرے ہاتھ اپنے پیٹ سے کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بولی جیجا جی کے بچے اب چھوڑ بھی دو‬
‫وہ بچی ھے ہمیں یوں دیکھ کر برا اثر لے گی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔۔‬
‫بچی نہیں وہ بھی جوان ھوگئی ھے اور سمجھدار بھی ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی زور ازمائی کے بعد اپنی ہار مانتے ھوے اپنے پیٹ پر بندھے میرے ہاتھوں پر اہنے نرم مالئم ہاتھ رکھ کر میرے‬
‫ھاتھوں کو سہالتے ھوے بولی اچھا چھوڑو بابا کھانا ٹھندا ھورھا ھے ۔‬
‫میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ سیڑیاں چڑھتے قدموں کی آواز آئی تو میں نے جھتکے سے ھاتھ کھینچ کر ضوفی کو آزاد‬
‫کردیا۔۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی اور بولی اب بھی نہ چھوڑتے ۔‬
‫اس کے ساتھ ھی ماہی کمرے میں داخل ھوئی اور ہماری طرف دیکھتے ھوے شرارت سے بولی لگتا ھے کہ کھانا کھانے کا‬
‫موڈ نہیں ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتے ھوے بولی ۔۔‬
‫تمہارا بھائی کہتا ھے کہ ماہی کے ساتھ بیٹھ کر ھی کھانا کھائیں گے اس لیے تمہارا انتظار کررھے ہیں ۔۔۔‬

‫)‪Update no (113‬‬
‫ماہی مسکراتے ھوے بولی واہ جی واہ‬
‫ابھی سے سالی کی اتنی اہمیت ھوگئی ۔۔۔‬
‫ضوفی ھاتھ لہراتے ھوے بولی ذیادہ بکواس نہ کر ماروں گی ایک ۔۔۔‬
‫ماہی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫لو جی میں نے کیا غلط کہہ دیا ۔۔‬
‫چلو ٹھیک ھے نہیں بنتی سالی‪.‬‬
‫اور پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ دباتے ھوے بولی لگتا ھے کہ اب بھائی کی چھٹی ھوگئی ھے ۔۔‬
‫ضوفی ایکدم سیریس ھوگئی اور غصے سے ماہی کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔‬
‫تم کچھ ذیادہ ھی سر پر نہیں چڑھ رھی جو منہ میں آتا ھے بکواس کری جارھی ھو پانی رکھو ادھر اور دفعہ ھوجاو ۔۔۔۔‬
‫ماہی نے ضوفی کی بات کو خاصہ محسوس کیا اور ایکدم اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور پانی ٹیبل پر رکھ کر واپس بھاگی میں‬
‫جو ان دونوں بہنوں کی نوک جھونک سے لطف اندوز ھورھا تھا ۔‬
‫ماہی کو یوں روتے دیکھ کر جمپ مار کر اسکو آواز دیتا ھوا بیڈ سے نیچے اترا اور اسکو دروازے پر ھی جالیا۔۔‬
‫ماہی رو رھی تھی میں نے اسکے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور اسکے سر کو اہنے کندھے سے لگاتے ھوے اسے واپس‬
‫کھانے کے ٹیبل کی طرف النے لگا اور ضوفی کی طرف گھورتے ھوے بوال ۔‬
‫یار بولتے وقت کچھ تو خیال کیا کرو ۔۔‬
‫بیچاری نے اتنے شوق سے ہمارے لیے کھانا بنایا ھے اور تم اسکی محنت کا یہ صلہ دے رھی ھو ۔‬
‫بہت بتمیز ھو تم ضوفی ایسے ھی میری گڑیا کو روال دیا ۔‬
‫ماہی اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کرتی میرے کندھے سے لگی صوفے کے پاس آئی اور میں نے اسے بازوں سے‬
‫پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی بیٹھ گیا ۔‬
‫اور ماہی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا چلو کھانا پلیٹوں میں ڈالو آج میں اپنی گڑیا کے ساتھ ھی کھانا کھاوں گا‬
‫۔‬
‫یہ اکیلی ھی کھاے کھانا اس کی یہ ھی سزا ھے ۔۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتی ھوئی ہمارے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر مذید مسکے لگانے کے بعد ماہی کا موڈ صحیح ھوا اور ضوفی نے بھی ماہی سے سوری کی اور اسکی گال پر ایک‬
‫بوسا بھی لیا ۔۔۔‬
‫اور پھر ہم خوشگوار موڈ میں کھانا کھانے لگ گئے ۔۔‬
‫کھانا کھانے کہ بعد میں مذید کچھ دیر ادھر بیٹھا رھا اور پھر نیچے آکر آنٹی سے انکی بیمار پرسی کی اور تقریبًا شام ڈہلنے‬
‫لگی تو میں ان سے اجازت لے کر گھر سے نکل آیا ضوفی نے دو تین دفعہ آہستہ سے مجھے رات رہنے کا کہا مگر میں‬
‫گھر بتا کر نہیں آیا تھا اس لیے میرا جانا ضروری تھا اور گھر کا ماحول بھی خراب تھا اگر میں رات کو گھر نہ جاتا تو ابو‬
‫سے چنگی پلی بےعزتی ھو جانی تھی ۔‬
‫ضوفی کے گھر‬
‫سے نکل کر میں سیدھا گاوں پہنچا اور گھر چکر لگا کر کھانا وغیرہ کھا کر میں باہر نکال اور سیدھا چوک کی طرف چلدیا‬
‫دور سے ھی مجھے شادا اور باقی کا گروپ چوک میں لگے بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھے نظر آگئے ۔۔‬
‫جب میں انکے پاس پہنچا تو خوب گرمجوشی سے ملے شادا میرے گھر والوں کے رویعے کے بارے میں پوچھنے لگ گیا‬
‫میں نے سب اوکے کہا ۔‬
‫کچھ دیر بیٹھے خوب ہال گال کرتے رھے ایک دوسرے کو جگتیں مارتے اور قہقہے لگاتے رھے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے شادے سے اکری کے بارے میں پوچھا کہ تم اسے جانتےھو تو شادے نے نفی میں سر ہالیا اور‬
‫پوچھنے لگ گیا کہ کون اکری ۔‬
‫میں نے جب اسے لوکیشن بتائی تو وہ ایک دم کھڑا ہوگیا اور میری طرف دیکھتے ھوے بڑے گبھراے ھوے لہجے سے بوال‬
‫اوے توں اکری جموں دی گل کرریاں ایں ۔۔‬
‫میں نے بڑے اطمینان سے سرہال کر ہاں کی ۔۔‬
‫تو اکری میرے سر کو ہالتے ھوے بوال‬
‫اوے توں اودے کولوں کی لینا اے ۔‬
‫او بڑا پین یک بندا اے اودے پچھے بڑے وڈے ہتھ نے پولیس تھانہ کچہری اودی جیب وچ اے۔۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے اسکا ھاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر بٹھاتے ھوے کہا۔‬
‫پین یکہ بے تے جا تیری کیوں ُبنڈ پاٹ گئی اودا ناں سندے ھوے ۔۔۔‬
‫شادا نیچے بیٹھتے ھوے بوال‬
‫پھدی دیا توں ناں ای اوس بندے دا لیا اے بنڈ تے پاٹنی ای اے ۔۔۔‬
‫میں نے شادے کی حالت دیکھتے ھوے اندازہ لگا لیا کہ یہ میری مدد نہیں کرے گا اسکی گانڈ تو اسکا نام سنتے ھی پھٹ‬
‫گئی ۔۔۔۔‬
‫جب اس سے پنگے کا سنے گا تو ساال ویسے ھی بھاگ نہ جاے اور کہیں یہ بات اکری تک نہ پہنچ جاے۔۔۔‬
‫میں نے بات کو مزاق میں ڈالتے ھوے کہا ۔‬
‫یار میں نے تو ویسے ھی پوچھا تھا کہ یہ کون ھے اسکا نام بہت سنا ھے شہر میں ۔۔‬
‫تو شادے نے لمبا سانس لیا اور شکر ادا کرتےھوے بوال کہ میں سمجھا شاید اس کے ساتھ کوئی تیرا روال پڑ گیا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫پھدی دیا میں ہن روز رولے ای پانے نے ۔۔۔‬
‫میں نے اکری کے معاملے کو فلحال موخر کرنے کا سوچا کہ سہی وقت پر سہی موقع ملتے ھی کچھ کروں گا چاھے مجھے‬
‫کسی بھی حد تک نہ جانا پڑے ۔۔۔‬
‫دوستو میں عمر کے اس دور میں تھا جب ایک منٹ میں مرنے مارنے پر اتر آتا تھا ایک دفعہ ہر پھڈے میں ٹانگ اڑا دینی‬
‫بس بعد میں جو ہوگا دیکھا جاے گا ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر مذید ادھر بیٹھا اکری کے بارے میں معلومات لیتا رھا۔‬
‫شادا اسکی بہادری کے قصے سناتا رھا کی فالں وڈیرے کا ہاتھ اس کے سر پر ھے اس نے فالں بندے کو مارا ھے فالں کو‬
‫مارا ھے شادے نے مجھے کوئی دس پندرہ بندے گنا دیے جنکو اس نے قتل کیا تھا یا کروایا تھا مگر ثبوت نہ ملنے اور اس‬
‫کے سٹرونگ بیک گراونڈ کی وجہ سے پولیس کی گرفت میں نہی آیا اور نہ ھی کسی سر پھرے نے اس پر ہاتھ ڈاال تھا مگر‬
‫ایک بات میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی کہ ۔۔‬
‫ساال جتنا بڑا بھی بدمعاش ھے مگر ھے تو انسان ھی ۔‬
‫اسپر کونسا کوئی گولی اثر نہیں کرتی یا اس کے اندر خنجر نہیں اترتا۔۔۔‬
‫جو بھی ھے سالے کو ایک دن تو مرنا ھی ھے ۔ اور ایسے بندے اندھی گولی کا شکار بنتے ہیں ۔‬
‫یا پھر پتہ نہی چلتا کہ کون اسکو مار گیا ۔۔‬
‫خیر میں قیاس آرائیاں کرتا رھا اور پھر سب ادھر سے اٹھے اور اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ھوگئے ۔۔۔‬
‫گھر آکر بھی رات دیر تک بستر پر کروٹیں لیتا ھوا اکری کے بارے میں سوچتا رھا کہ کیسے میں اس تک پہنچ سکتا ھوں‬
‫اور کبھی اسد پر سوئی اٹک جاتی کہ کیسے اسد کو ایسی موت ماروں جس سے ساال روز جیے اور روز مرے ۔۔۔‬
‫اچانک میرے دماغ میں‬
‫ایک پالن آیا جس سے ایک تیر سے دو نشانے لگانے جاسکتے تھے ۔ ۔‬
‫اور پھر اس پالن کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے قیاس آرائیاں کرتا رھا اور بالخرہ پالن کے تحت عملی طور پر قدم اٹھانے‬
‫کا سوچتے ھوے سو گیا‪.‬‬
‫‪.‬صبح میں جلدی اٹھا اور تیار ہوکر شہر پہنچا اور سیدھا جنید کے گھر پہنچا ۔‬
‫دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد جنید نے ھی دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر حیران رھ گیا اور سالم دعا کے بعد‬
‫بیٹھک کا دروازہ کھولنے چالگیا‬
‫اور کچھ ھی دیر میں میں جنید کی بیٹھک میں بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫جنید بوال خیریت ھے آج صبح صبح چاند نکل آیا ۔۔‬
‫میں نے کہا یار بس فارغ رھ کر تھک گیا ھوں سارا دن بوریت میں گزرتا ھے ۔‬
‫اگر کوئی دکان ھے تو مجھے ادھر رکھوا دو جنید بوال میری جان میں نے تجھ سے پہلے ھی ایک دکان والے سے بات‬
‫کررکھی ھے مجھے پتہ تھا کہ تم اب گاوں میں نہیں رھ سکتے ویسے تو انکل سجاد بھی تجھے یاد کرتے ہیں اور نسیم کو‬
‫بھی گالیاں دیتے ہیں کہ اسکے پیچھے لگ کر تمہارے ساتھ ذیاتی کی ۔۔‬
‫اگر تم کہو تو میں انکل سے اپنے طور پر بات کروں ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار مجھے اس بندے سے نفرت ھوگئی ھے میں اسکے ساتھ جتنا مخلص تھا‬
‫اس سالے نے میری قدر نہ کی ۔‬
‫جنید بوال چھوڑ یار پھر بھی وہ تیرا استاد ھے اور استاد تو باپ کی جگہ ہوتا ھے اگر اس نے غصہ میں کچھ کہہ دیا تو دفعہ‬
‫کر غصہ تھوک دے ۔۔‬
‫وہ ویسے بھی اپنے کیے پر شرمندہ ھے ۔‬
‫اور اس کی باتوں سے لگتا ھے کہ وہ دل سے چاہتا ھے کہ تم دکان پر واپس آجاو۔‬
‫میں نے کہا یار میرا دل نہی مانتا جنید بول چل ماما ہن توں کڑیاں ونگوں نخرے کر ریاں ایں ۔۔‬
‫میں آج ھی انکل سے بات کرتا ہوں بلکہ تو میرے ساتھ ھی چل میں سنبھال لوں گا سب ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار ایسے وہ سمجھے گا کہ پتہ نہی مجھے کہیں کام نہی مال اس وجہ بےشرموں کی طرح واپس آگیا ھے ۔۔۔‬
‫تو ایسا کر آج اس سے بات کرلے اور اسکو کہنا کہ رات کو ہمارے گھر آکر مجھے کہے ۔۔۔‬
‫جنید بوال چل سہی ھے جیسے تو خوش اگر وہ آگیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں دوسری دکان پر تجھے کل ھی رکھوا دوں گا ۔۔۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا اور پھر میں نے جنید سے کہا کہ یار ایک اور کام ھے اگر تو کردے تو ساری زندگی تیرا احسان نہیں‬
‫بھولوں گا ۔۔‬
‫جنید بوال‬
‫ماما نالے مینوں ویر وی کیناں ایں رے نالے اے احسان کرن والیاں چوالں وی مارن دیاں ایں ۔‬
‫حکم کر ۔۔‬
‫میں نے کہا یار مجھے کچھ دنوں کے لیے ایک کیمرہ چاہیے جس سے ویڈیو فلم بنتی ھو اور کیمرہ بھی چھوٹا سا ہو ۔۔‬
‫جنید بوال خیر ھے کس کی فلم بنانی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار بس وہ تیری پرجائی کی فرمائش ھے کہ ہم دونوں کی اکھٹے بیٹھے ھوے کی فلم بنے ۔۔۔‬

‫)‪Update no (114‬‬
‫جنید ہنستے ھوے بوال ۔‬
‫واہ یار یہ بھابھی کب سے بن گئی چپ کر کے شادی تے نئی کروا لی ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار بھابھی مطلب میری ایک سہیلی ھے اسکی فرمائش ھے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫کہیں وہ پالر والی تو نہیں ۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور پھر خود کو سنبھالتے ھوے بوال نہیں یار گاوں کی ھے دیکھاوں گا تجھے کسی‬
‫دن ۔‬
‫بس یہ بتا کہ میرا کام ھوجاے گا ۔۔‬
‫جنید بوال یار کام مشکل ھے مگر ناممکن نھی بڑا کیمرہ چاہیے تو چل ابھی لے دیتا ھوں مگر یہ چھوٹے سائز واال کیمرہ بہت‬
‫کم لوگوں کے پاس ھے ۔۔‬
‫مگر پھر بھی تو پریشان مت ھو میں جلد ھی تجھے ڈھونڈ دوں گا ۔‬
‫ہے اپنے یار کافی سارے ۔۔۔‬
‫کسی نہ کسی کے گھر تو ھوگا ھی‬
‫ویسے تجھے چاہیے کب میں نے کہا مجھے چاھے آج ھی دے دو اگر آج نہی تو کم از کم دو تین دن کے اندر تو الزمی دے‬
‫دینا ۔۔۔‬
‫جنید بوال تو واپس کب دو گے ۔‬
‫میں نے کہا تم ایک مہینے کا کہہ دینا کیونکہ ہمیں جب بھی موقع مال تب ھی فلم بنانی ھے ہو سکتا ھے میں تجھے ایک ہفتے‬
‫میں ھی واپس کردوں۔۔۔‬
‫جنید بوال ٹھیک ھے میں کوشش کرتا ھوں کہ جلد ھی مل جاے باقی تم صبح دکان پر آنے کے لیے تیار رہنا میں نے کہا انکل‬
‫آے گا تو ھی میں آوں گا ۔۔‬
‫جنید بوال یہ مجھ پر چھوڑ دو اسکو میں آج فلم ھی ایسی سناوں گا کہ وہ پہلے تیرے پاس جاے گا پھر اپنےگھر جاے گا ۔۔۔‬
‫میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا دکان پر کب جانا ھے تو اس نے بتایا کہ بس میں تیار ھوں چلو اکھٹے ھی‬
‫نکلتے ہیں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور میں اٹھ کر بیٹھک سے باہر ایا اور جنید نےدروازہ بند کیا اور مین دروازے سے باہر آیا اور ہم بازار‬
‫کی طرف چل دیے ۔۔‬
‫جنید کا گھر بھی ضوفی کے محلے میں ھی تھا ۔۔‬
‫میرا دل تو بہت کیا کہ میں ضوفی کے گھر جاوں مگر جنید کی وجہ سے دل پر پتھر رکھ کر محبوب کی گلی سے انجان بن‬
‫کر گزرگیا۔۔۔‬
‫بازار پہنچ کر میں جنید سے علیحدہ ھوا اور ایسے ھی ادھر ادھر گھومنےلگ گیا ۔۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ کدھر جاوں ۔‬
‫جانے کے لیے جگہ تو بہت تھیں مگر دل کہیں بھی جانے پر مطمئن نہیں ھورھاتھا ۔۔۔۔‬
‫خیر میں یوں ھی چلتا ھوا گاوں کی طرف نکل گیا اور نہر کےکنارے پر جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔‬
‫اور کنارے پر بیٹھا میں اپنے پالن پر ہر پہلو سے غور کرنےلگ گیا اور اسکو بہتر انداز میں سرانجام دینے کے لیے مذید‬
‫مغز ماری کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫مجھے بیٹھے کوئی ایک گھنٹہ ھی ہوا ھوگا کہ مجھے شہر کی مین سڑک والے پل کی طرف سے ایک‬
‫موٹر سائکل سوار آتا نظر‬
‫آیا جس کے پیچھے کالے رنگ کے برقعہ میں کوئی عورت بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫اور وہ بڑے آرام آرام سے ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھتے ھوے آرھا تھا میں اسے دیکھی جارھا تھا وہ کبھی رکتا اور پھر‬
‫موٹرسائیکل آگے بڑھاتا اور کچھ آگے آکر پھر رک جاتا ۔‬
‫مجھے اسکی حرکات مشکوک لگیں ۔‬
‫کیونکہ اکثر لڑکے شہر کی لڑکیوں کو ورغال کر نہر پر ڈیٹ مارنے لے آتے تھے اور موقع پاکر نہر کے اطراف میں لگی‬
‫مکئی کی فصل میں گھس کر چدائی بھی کرلیتے تھے ۔۔۔‬
‫میری چھٹی حس نےفورن کام کیا کہ‬
‫یاسر پتر اے پھدی دا کیس اے تے ہوشیار ھوجا۔۔۔‬
‫وہ آدمی مجھ سے کافی فاصلے پر تھا اس نےمجھےدیکھا تھا یا نہیں‬
‫‪I don't know‬‬
‫مگر میں اسکی حرکات کو نوٹ کرکے چوکس ھوچکا تھا ۔۔‬
‫میں جلدی سے کنارے پر ھی لیٹ گیا نہر کا کنارہ ایک جگہ سے اونچا تھا اور کوئی دو تین فٹ کی جگہ جو پانی کے قریب‬
‫تھی اور نیچے تھی جس جگہ بیٹھ کر عورتیں کپڑے دھوتی تھیں ۔‬
‫میں کھسکتا ھوا اس جگہ پر پہنچ گیا ۔ اور کچھ دیر ایسے ھی کمانڈو سٹائل میں الٹا لیٹا رھا کچھ دیر بعد میں نے جب‬
‫سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے موٹر سائکل سوار نظر نہ آیا‬
‫میں نے مذید سر اٹھایا تو مجھے پھر بھی کوئی نظر نہ آیا ۔‬
‫میں یہ سوچ کر اوپر ھونے لگا کہ شکار نکل گیا ھے ۔‬
‫میں اٹھ کر کھڑا ھوا تو مجھے سامنے کوئی بندا نہ بندے کی ذات نظر آئی ۔۔‬
‫میں مایوس ہوکر کنارے سے اتر کر نیچے گاوں کی طرف جانے ھی لگا تھا کہ مجھے کچھ فاصلے پر درختوں کے بیچ‬
‫کھڑی موٹر سائکل کی سرخ رنگ کی ٹینکی کی ایک جھلک نظر آئی ۔ میں جلدی سے وہیں بیٹھ گیا اور الٹے پاوں واپس‬
‫کنارے پر جانے لگا ۔۔۔‬
‫مجھے اب سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں کیسے ان تک پہنچوں کہ انکو پتہ بھی نہ چلے خیر میں ان کو کچھ وقت دینے کی‬
‫سوچ کر وہیں بیٹھ گیا کہ وہ کچھ کرنے لگ جائیں تو ھی اوپر چھاپا ماروں ۔۔‬
‫میں نے کوئی دس منٹ انتظار کیا اور پھر آگے ھو کر دیکھا تو موٹر سائیکل ابھی بھی کھڑی تھی ۔۔‬
‫میں دبے پاوں جھک کر کنارے سے نیچے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ھوا ۔۔‬
‫موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگ گیا بارہ بجے کا ٹائم تھا ہر طرف سناٹا تھا ۔۔میں چلتا ھوا موٹر سائکل کے پاس پہنچ گیا‬
‫موٹر سائیکل بڑے طریقے سے چھپا کر کھڑی کی ہوئی تھی مگر دیکھنے والے دیکھ ھی لیتے ہیں ۔۔۔‬
‫میں بڑی احتیاط سے موٹر سائیکل کے چاروں اطراف دیکھنے لگ گیا مگر وھاں کچھ بھی نہیں تھا ۔‬
‫یعنی شکار مکئی کے اندر گھسا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میں بڑی احتیاط سے دبے پاوں جھک کر چلتا ھوا مکئی کے اندر داخل ھوا اور پاوں کے بل کیاری میں بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫اور سامنے دیکھنے لگ گیا مجھے دور تک کیاری میں کچھ بھی نظر نہ ایا ۔۔۔‬
‫میں پاوں کے بل بیٹھا ھوا ھی آگے بڑھنے لگا میں بڑی احتیاط سے آگےبڑھ رھا تھا کہ مکئی کے پتوں کی آواز نہ پیدا‬
‫ھو ۔۔۔‬
‫میں کچھ ھی آگے گیا تھا کہ میرے کانوں میں نسوانی آواز آئی ۔۔‬
‫اب کر بھی لو کہ کوئی آے گا تو ھی کرو گے ۔‬
‫اور پھر ساتھ ھی مردانہ آواز آئی یار اسے کھڑا تو کرلوں اور ادھر اس وقت کوئی نہیں آتا نوٹینشن۔۔۔‬
‫میں فل چوکس ہوگیا اور آواز کی سمت چہرہ گھمایا تو تو مجھے ساتھ والی کیاری میں بالوں والی گانڈ نظر آئی میں جلدی‬
‫سے آگے بڑھا تو گانڈ نمایاں نظر آنے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫اور جب کچھ اور آگے بڑھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی ۔۔۔۔‬
‫‪.‬سامنے کا سین کچھ ایسا تھا کہ آدمی لڑکی کی ٹانگوں میں اسکی پھدی کے سامنے گھٹنوں کے بل بالوں سے بھری گانڈ‬
‫میری طرف کر کے بیٹھا ھوا تھا اور اس نے پینٹ اتار کر ایک طرف رکھی ہوئی تھی اور لڑکی کی گوری ٹانگیں اسکی‬
‫کمر کے دونوں اطراف نظر آرھیں تھی لڑکی کے پاوں اتنے سفید اور سرخی مائل تھے جیسے اسکے پیروں کے تلووں میں‬
‫خون اتر آیا ھو اور اسکی چٹی سفید پنڈلیوں سے لگ رھا تھا کہ بچی کافی صحت مند ھے ۔۔‬
‫آدمی لن کو پکڑے شاید مٹھ ماررھا تھا کیونکہ اسکے بازو کے ساتھ اسکی گانڈ بھی ہل رھی تھی ۔۔۔‬
‫لڑکی کا برقعہ اور شلوار بھی ایک طرف پڑے تھے اور انہوں نے نیچے چادر بچھائی ہوئی تھی یعنی کے‬
‫پورے پار نال آے نے‬
‫میں انکا جائزہ لے رھا تھا کہ کیسے انکو للکاروں ۔۔‬
‫جبکہ لڑکی اسے جلدی کرنے کا کہہ رھی تھی اور لڑکا اسے حوصلہ رکھنے کا کہہ رھا تھا جہاں تک میرے قیاس کے‬
‫مطابق لڑکے کا لن کھڑا نہیں ھورھا تھا‬
‫مردانه کمزوری ھوگی یا پھر خوف۔۔۔‬
‫میں نے دماغ میں پالن اور ڈائلگ سوچ لیے جو مجھے بولنا تھے ۔۔‬
‫اگر میرے ڈائلگ انپر اثر کرگئے تو لڑکے کو تو پتہ نہی مجھے اس شہری پوپٹ بچی کی پھدی کا شرف حاصل ھوجانا تھا‬
‫اور پھدی کے اندر لن ڈالنے کی رسائی بھی حاصل ھوجانی تھی ۔‬
‫خیر میں نے اپنے آپ کو تیار کیا اور کھڑا ہوکر ایک گرجدار اور رعب دار آواز نکالتے ھوے بوال اوے کنجرو اے کی کرن‬
‫دیو او ۔‬
‫اور اس کے ساتھ ھی میں نے آگے بڑھ کر لڑکی اور لڑکے کے کپڑے بھی اٹھا کر اپنے قبضے میں کرلیے ۔۔۔میں نے یہ‬
‫سب اتنی پھرتی سے کیا کہ انکو سنبھلنے کا موقع ھی نہ مال ۔‬
‫میری آواز سنتے ھی لڑکے نے حیران پریشان ہوکر گردن گھمائی اور وہیں سکتے کہ عالم میں لن ھاتھ میں پکڑے بیٹھا رھا‬
‫جبکہ کہ لڑکی کے منہ سے ہلکی سی‬
‫چیخ کے ساتھ ھاےےےے‬
‫*****‬
‫نکال اور لڑکی بھی آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں مجھے دیکھنے لگ گئی‬
‫اور انکے ساتھ لڑکی پر نظر پڑتے مجھ پر بھی سکتہ طاری ھوگیا۔۔۔‬
‫‪..‬اففففف لڑکی تھی کہ آسمان سے اتری حور‪ .‬چٹی سفید تیکھے نین نقش باریک سے ہونٹ تیکھی ناک لمبی پلکوں کے نیچے‬
‫بڑی بڑی آنکھیں جو خوف سے مزید بڑی ہوگئیں تھی ۔میں تو لڑکی کو دیکھ کر ھی اپنے اگلے ڈائلگ بھول گیا ۔‬
‫لڑکی کی قمیض اسکے مموں سے اوپر کی ہوئی تھی اور اسکے چونتیس سائز کے گالبی رنگت کے ممے اور انپر ہلکے‬
‫براون رنگ کے چھوٹے سے تنے ھوے نپل تھے ۔‬
‫لعنت اس بھگوڑے پر جو اس پھلجھڑی کو کھیت میں چودنے کے لیے الیا تھا۔۔‬
‫ایسی نایاب چیز کو تو کھیت کی بجاے پھولوں کے بستر پر ہونا چاہیے تھا۔۔‬
‫اور اوپر ظلم کہ‬
‫ایسی کمال بچی کے اتنے سیکسی ننگے جسم کو دیکھ کر اور چھو کر بھی اس گانڈو کا لن کھڑا نہیں ھورھا تھا‬
‫ایسا کمال فگر لباس میں دیکھ کر بندہ چھوٹنے واال ھوجاے اور یہ ساال بدنصیب اس کو بےلباس کر کہ بھی ابھی تک لن‬
‫ھاتھ میں پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا جا اوے پھدی دیا۔۔۔‬
‫لڑکی کے حسن کہ سحر میں جکڑا میں سکتے کے عالم میں لڑکی کے جسم کو دیکھی جارھا تھا کہ لڑکا ایک دم جمپ مار‬
‫کر لڑکی کی ٹانگوں کو چھوڑ کر کھڑا ہوگیا جبکہ لڑکی نے ہوش میں آتے ھی سب سے پہلے اپنے مموں پر قمیض کر کے‬
‫حسین مموں کو میری نظر نہ لگنے کے ڈر سے چھپا لیا۔۔‬
‫مجھے بھی ایک دم اپنے ڈائلگ یاد آے اور میں گرج کر بوال‬
‫اوے پھدی دیا تینوں پھدی مارن واسطے ساڈی فصل ای لبی سی میں تیری بنڈ وچ فائر مارنا ایں ۔‬
‫اوےےےےے چھادے تے چھیدو جلدی آ و اےےے اے بچ کے نہ جاوے ۔۔‬
‫یہ کہتے ھی میں نے اپنے نیفے میں ایسے ھاتھ ڈاال جیسے ریوالور نکالنے لگا ہوں ۔۔‬
‫اس لڑکے کا رنگ زردی مائل ہوگیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ میں کسی اور کو بھی بال رھا ہوں اور ساتھ میں نیچے‬
‫سے ہتھیار نکالنے لگا ہوں اور میں اسکی طرف بڑھ رھا ہوں تو وہ گانڈو ننگا ھی ادھر سے بھاگ کھڑا ھوا اس نے لڑکی‬
‫کو چھوڑ کر مکئی میں ھی دوسری طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔‬
‫میں اسکے پیچھے دوڑنے کے انداز میں تین چار قدم آگے بڑھا اور لڑکی کے سر پر جا پہنچا اور ساتھ ھی میں نے للکار‬
‫ماری‬
‫اوے چھیدے چھیتی آ بندا پج چال ایییییی پھڑو اوے اینوں پین یک نوں ۔‬
‫لڑکی چند لمحوں میں مکئی کے اندر غائب آگیا سالے کی دوڑنے کی سپیڈ ھی بہت تھی‬
‫لڑکی اٹھنے کی کوشش کررھی تھی کہ میں نے اسکو بازو سے پکڑ لیا اور دھمکی دیتے ھوے بوال بے جا ایتھے آرام نال‬
‫جے پجن دی کوشش کیتی تے میری اک آواز تے ایتھے سارا پنڈ اک منٹ وچ اکھٹا ھو جانا اے ۔۔‬

‫)‪Update no (115‬‬
‫تے فیر تیرا جو حال ہونا اے تینوں پتہ ای نئی ۔۔‬
‫لڑکی مجھے کالج کی لگ رھی تھی کیونکہ اس نے سفید یونیفارم پہنا ھوا تھا ۔‬
‫لڑکی سہم کر اسی جگہ پاوں کے بل بیٹھ گئی۔‬
‫اور اس حسن کی دیوی نے اپنے نرم نازک ہاتھ میرے آگے جوڑے ۔اور بولی پلیززز مجھے جانے دو پلیزز مجھے معاف‬
‫کردو ۔۔۔‬
‫لڑکی کے ہاتھ بھی کانپ رھے تھے اور اسکی گالب کی پنکھڑیاں بھی ۔۔۔۔میں نے اسے پھر دھمکاتے ھوے کہا ۔۔‬
‫آرام سے بیٹھی رھو میرے آدمی ابھی تمہارے یار کے پیچھے گئے ہیں اسکو پکڑ کر التے ہیں تو پھر سوچتا ھوں کیا کرنا‬
‫ہے تم لوگوں کا ۔۔‬
‫لڑکی کانپی جارھی تھی ۔‬
‫اور پھر اچانک اس نے میرے پاوں پکڑ لیے اور رونے لگ گئی مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ھوگئی آئندہ نہیں کروں‬
‫گی ۔‬
‫اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے مجھے جان سے مار دینا ھے‬
‫تمہیں فالں کا واسطہ فالں کا واسطہ ۔‬
‫میں نے کہا اگر تجھے اتنا ھی گھر والوں کا ڈر تھا تو پھر اس گانڈو کے ساتھ ادھر منہ کاال کروانے کیوں آئی تھی اور جس‬
‫گانڈو کے ساتھ تو اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر آئی ہو وہ تو تجھے یہاں ننگی کو چھوڑ کر بھاگ گیا اور ساال اپنی پینٹ‬
‫بھی ادھر چھوڑ گیا ۔۔‬
‫میں نے اس لڑکے کی پینٹ اس کو دیکھاتے ھوے کہا۔۔۔۔‬
‫لڑکی بولی ۔۔‬
‫مجھ سے غلطی ھوگئی بس ایک دفعہ معاف کردو میں اسکی باتوں میں اگئی تھی مجھ سے غلطی ھوگئی پلیززززز مجھے‬
‫جانے دو ۔۔ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو میں مرجاوں گی مرجاوں گی ۔۔۔۔۔‬
‫یہ کہتے ھوے وہ میرے پیروں میں سر رکھ کر رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں دوقدم اس کے سر سے پیچھے ھوا اور بوال یہ ڈرامے بازی میرے ساتھ نہ کرو گھر سے پڑھنے آتی ھو اور پھر یہاں‬
‫پھدی مروانے آجاتی ھو اور اب تجھے اپنی عزت کا بڑا خیال آرھا ھے ۔۔‬
‫بس دومنٹ رک جاو ابھی میرے دوست تیرے یار کو پکڑ کر التے ہیں تو پھر تم دونوں کو گاوں لیجا کر تیرے گھر والوں کو‬
‫بال کر انکے حوالے کروں گا ۔۔‬
‫لڑکی نے جب یہ سنا تو اور اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔‬
‫اور پھر میری منتیں کرتے ھوے بولی پلیز یہ ظلم مت کرنا میرے گھر والوں نے مجھے مار دینا ھے ۔۔۔تم جو پلیز میرے‬
‫گھر والوں کو نہ بلوانا۔۔۔‬
‫میں نے کہا اوکے پھر میری ایک شرط ھے اگر تم مان لو تو پھر میں وعدہ کرتا ھوں کہ تم کو حفاظت کے ساتھ شہر پہنچا‬
‫کرآوں گا اور یہ راز ادھر ھی دفن ھوجاے گا۔۔‬
‫‪.‬لڑکی میری بات سنتے ھی میرے آگے ھاتھ جوڑتے ھوے بولی ۔‬
‫مجھے تمہاری ہر شرط منظور ھے ۔۔‬
‫مگر پلیز میرے گھر والوں کو نہ بلوانا ۔‬
‫میں نے کہا سوچ لو پھر مکر نہ جانا تو لڑکی ہچکی لیتے ھوے بولی ۔‬
‫نہیں مکرتی ******قسم‬
‫مجھے میری ماں کی قسم نہیں مکرتی‬
‫تم جو کہو گے میں وہ کرنے کو تیار ھوں ۔‬
‫مجھ سے جو مرضی قسم لے لو ۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ پھل تو تھوڑی سی محنت سے ھی جھولی میں گر رھا ھے تو میں لڑکی کی شلوار اور برقعہ اور‬
‫لڑکے کی پینٹ اپنے پیچھے کر کے پاوں کےبل لڑکی کے سامنے بیٹھ گیا اور نرم لہجے میں بوال تمہارا نام کیا ھے لڑکی‬
‫تھوڑا رک کر بولی سسسسسویرا ۔۔۔۔میں نے تعریفانہ انداز میں‪****** ،‬کہا‬
‫اور پھر بوال جو میں پوچھوں گا سچ سچ بتانا اگر میرے ساتھ کوئی ہوشیاری کی تو پھر اسکی ذمہ دار تم خود ھوگی اور میں‬
‫نے پھر نہ تو تیرا رونا دیکھنا ھے اور نہ ھی تیری کوئی بات سننی ھے ۔۔‬
‫لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کرتے ھوے اثبات میں سرہالیا۔۔‬
‫میں نے کہا تمہاری عمر کتنی ھے وہ بولی انیس سال میں نے کہا کونسی کالس میں پڑھتی ھو ۔۔وہ بولی‬
‫سیکنڈ ایئر میں میں نے ہمممم کیا اور پھر بوال پہلے اس گانڈو سے کتنی بار چدوا چکی ھو سویرا بولی دو دفعہ میں نے‬
‫کہا کس جگہ تو وہ ایک دفعہ اسکے دوست کے گھر اور ایک دفعہ اسی جگہ ۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔‬
‫اور پھر بوال ۔‬
‫سویرا میری بات دھیان سے سنو اور میں بار بار اپنی بات کو دھرانے کا عادی نہیں ہوں ۔‬
‫اگر تمہیں میری شرط منظور ھوئی تو ہاں کردینا ورنہ میں نے تمہاری منتیں نہیں کرنی ۔۔۔‬
‫سویرا نے سر اٹھا کر میری طرف سوالیا نظروں سے دیکھا کہ میں کون سی شرط کا کہنے لگا ھوں ۔۔مجھے خاموش دیکھ‬
‫کر بولی ۔‬
‫میں نے کہا نہ کہ میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں ۔‬
‫بس مجھے میرے کپڑے دے دیں اور ادھر سے جانیں دیں ۔۔۔‬
‫میں نے کہا تو پھر سنو۔۔‬
‫مجھے ایک دفعہ کرنے دو اور کرنے کے دوران نہ کوئی نخرہ کرنا ھے نہ کوئی چوں چراں کرنی ھے ۔‬
‫بلکہ چدواتے وقت اور جیسے جیسے میں کروں گا ویسے ھی تم نے میرا برابر کا ساتھ دینا ھے ۔۔مجھے یہ محسوس نہ ھو‬
‫کہ میں تم سے ذبردستی کررھا ھوں اور تم بھی مجبوری سے کروا رھی ھو۔۔۔‬
‫جلدی بولو منظور ھے کہ نہیں اور سوچ سمجھ کر جواب دینا ۔‬
‫سویرا نے سر نیچے کیا اور سوچنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫جب وہ کچھ ذیادہ ھی سوچ میں پڑگئی ۔‬
‫تو میں یہ کہہ کر اٹھنے لگا ۔‬
‫کہ اوکے جیسے تمہاری مرضی تو سویرا ایک دم خیالوں سے باہر آئی ۔۔اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے بیٹھنے کا کہتے ھوے‬
‫بولی مجھے منظور ھے منظور ھے منظور ھے ۔‬
‫میں پھر واپس بیٹھ گیا ۔۔سویرا بولی میری ایک ریکویسٹ ھے وہ مان لیں میں آپکو شکایت کا موقع نہیں دوں گی ۔‬
‫میں نے کہا بولو ۔‬
‫سویرا بولی ۔آپ میرے اندر فارغ نہ ھونا اور آپ کے عالوہ مجھے کوئی اور ھاتھ بھی نہ لگاے ۔۔۔میں ایسی لڑکی نہیں ھوں‬
‫بس اس کتی کے بچے کی باتوں میں آگئی اور مصیبت کے وقت میں وہ مجھے یہاں چھوڑ کر خود اپنی جان بچا کر بھاگ گیا‬
‫۔۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے مجھے تمہاری دونوں باتیں منظور ہیں ۔‬
‫میرا کوئی نوکر بھی تمہارے پاس بھی نہیں آے گا اور میں فارغ بھی باہر ھی ھو جاوں گا ۔‬
‫مگر ہم ادھر نہیں کریں گے کیونکہ میرے نوکر تمہارے یار کو پکڑ کر ادھر ھی الءیں گے اس لیے تم میرے ساتھ چلو میں‬
‫تمہیں ایک محفوظ جگہ لے کر چلتا ھوں ۔۔‬
‫سویرا گبھرا کر بولی ننننہیں ادھر ھی کرلو ۔‬
‫میں نے کہیں نہیں جانا۔۔‬
‫میں نے تھوڑا غصے سے کہا ۔‬
‫ہم گاوں کے لوگ زبان کے پکے ھوتے ہیں جب تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لی ھے تو جان بھی چلی جاے مگر تم پر کسی‬
‫کی گندی نگاہ بھی نہیں پڑنے دوں گا ۔‬
‫اپنے یار پر یقین کر کے بھی دیکھ لیا اب اس پینڈو پر بھی یقین کر کے دیکھ لو ۔‬
‫تمہیں خود پتہ چل جاے گا ۔۔‬
‫ہمیں باتیں کرتے دس پندرہ منٹ ھوچکے تھے میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھی نظریں دوڑا رھا تھا کہ سویرا کا ییندڑ واپس نہ‬
‫آجاے ۔‬
‫مگر اسکا کہیں نام نشاں نظر نہیں آرھا تھا ۔‬
‫سویرا میری بات سن کر خاموش ھوگئی میں نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر میرے بندے ادھر پہنچ گئے تو پھر معاملہ خراب‬
‫ھوجانا ھے ۔۔‬
‫سویرا بولی میری شلوار مجھے دو میں پہن لوں ۔۔‬
‫میں نے شلوار اسکی طرف بڑھاتے ھوے کہا ۔‬
‫میری بات یاد ھے نہ کہ کوئی بھی چاالکی نہیں کرنی ۔‬
‫سویرا سرہالتے ھوے بولی بے فکر رھو تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی‬
‫میں نے یہ سوچتے ھوے شلوار اسکی طرف بڑھائی کے ایک دفعہ میرا لن پھدی میں لے لو گارنٹی ھے کہ میرے لن کو‬
‫بھی نہیں بھولو گی ۔۔‬
‫سویرا نے جلدی سے شلوار پہنی‬
‫میری نظر اسکی گوری گوری ٹانگوں ہر تھی ۔۔‬
‫شلوار پہن کر سویرا نے نیچے بچھی ھوئی چادر اٹھائی اور مجھ سے برقعہ مانگا تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا ۔۔‬
‫تم بس یہ چادر ھی اوپر لو اور چلو میرے ساتھ ۔‬
‫میں نے آگے بڑھ کر اسکا ہینڈ بیگ بھی اپنے قبضے میں کر لیا اور لڑکے کی پینٹ ادھر ھی پھینکی اور سویرا کو لے کر‬
‫میں مکئی کے اندر سے ھی اپنی پرانی جگہ کی طرف لے کر چل پڑا ۔۔‬
‫لڑکا نہر کی طرف بھاگا تھا جبکہ میں اسے مخالف سمت لے کر جارھا تھا ۔۔‬
‫سویرا ڈرتے ڈرتے میرے اشاروں پر میرے آگے آگے چلی جارہی تھی جبکہ میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی گانڈ کا معائنہ‬
‫کرتا ھوا چل رھا تھا ۔‬
‫سویرا کا قد کوئی پانچ فٹ چھ انچ کا تھا‪ .‬جبکہ اسکی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی اور کمر بھی بلکل پتلی تھی اور جسم اسکا‬
‫بھرا بھرا تھا بڑا ھی سیکسی فگر تھا ۔۔۔‬
‫میں سویرا کو لیے کافی آگے پہنچ چکا تھا سویرا بار بار پوچھ رھی تھی کہ اور کتنا آگے جانا ھے ۔‬
‫میں اسے بس تھوڑا سا اور آگے کہتا ھوا اسے چلتے رہنے کا کہتا ھوا اسکے پیچھے چل رھا تھا ۔‬
‫آخر کار ہم منزل مقصود پر پہنچ ھی گئے‬
‫‪.‬کھالے کے قریب پہنچ کر میں نے سویرا کا ہاتھ پکڑا اور اسے درختوں کی طرف لے کر چل دیا سویرا کا ہاتھ پکڑتے ھی‬
‫میرے جسم میں سیکس کا طوفان سر اٹھانے لگا سویرا کا ہاتھ تھا کہ بغیر ہڈی کے گوشت اتنا سوفٹ اتنا سوفٹ کہ اففففففف‬
‫کیا بتاوں یارا‪ ،،،‬۔‬
‫سویرا سہمی ہوئی تھی اور اسکی حالت بتا رھی تھی کے وہ فل ڈری ہوئی ھے ۔اسکا بازو کانپ رھا تھا درختوں کی اوٹ میں‬
‫جاکر میں نے اسے پھر کہا کہ دیکھو سویرا تمہیں یہاں ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ اپنی زمینیں ہیں یہاں میری اجازت کے‬
‫بغیر کوئی نہیں آسکتا اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یہ نہ ھو کہ میرا موڈ خراب ہوجاے ۔۔۔‬
‫سویرا خود کو سنبھالتے ھوے بولی ججی ٹھیک ھے آپ فکر نہ کریں میری طرف سے آپکو شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور گڈ گرل کہہ کر اسے نیچے چادر بچھانے کا کہا اور خود کان لگا کر چاروں اطراف کی سن گھن لینے‬
‫لگا کہ کہیں کسی طرف سے مکئی کے پتوں کی سرسراہٹ تو نہیں ھورھی جس سے کسی کے آنے کا سگنل مل جاے مگر‬
‫ہر طرف امن امان کا ھی سگنل مال ۔‬
‫میں نے تسلی کر کے جب سویرا کی طرف دیکھا تو وہ نیچے چادر بچھا کر کھڑی میری طرف بڑے غور سے دیکھ رھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوے سویرا نے نظریں جھکا لیں ۔۔‬
‫میں نے کہا کیا دیکھ رھی ھو ۔‬
‫سویرا بولی میں نے آپ کو کہیں دیکھا ھے مگر مجھے یاد نہیں آرھا ۔۔‬
‫میں نے چونک کر اسکو مزید غور سے دیکھا مگر مجھے تو یہ کہیں سے جانی پہچانی نہیں لگ رھی تھی ۔‬
‫میں نے کہا ہوسکتا ھے کہیں آتے جاتے دیکھا ھو ۔‬
‫سویرا بولی نہیں میں نے آپ کو بڑے قریب سے پہلے کہیں دیکھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا اچھا بیٹھو جب یاد آجاے تو بتا دینا ابھی ان فضول باتوں کے لیے میرے پاس وقت نہی ھے ۔‬
‫سویرا مجھے دیکھتی ھوئی نیچے بیٹھ گئی سویرا سفید سوٹ میں لمبے سیاہ بالوں میں گوری رنگت کے ساتھ واقعی سویرا‬
‫لگ رھی تھی ۔۔۔‬
‫چہرے پر مصومیت دیکھ کر لگتا ھی نہیں تھا کہ یہ چداکڑ ھے اور اس کے بقول دو دفعہ چدوا بھی چکی ھے ۔۔‬
‫سویرا کے نیچے بیٹھتے ھی‬
‫میں بھی اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا ۔‬
‫اتنے کانفیڈینس کے باوجود مجھے اسکے جسم کو چھونے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی ۔‬
‫میں کچھ دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا رھا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہالتا رھا ۔‬
‫اور پھر ہمت کرکے میں نے اپنا ایک ہاتھ اسکے ممے کی طرف بڑھایا اور سویرا کا چونتیس سائز کا گول مٹول مما پکڑ کر‬
‫دبا دیا اور پھر اس کو مٹھی میں بھر کر ممے کوکبھی دباتا تو کبھی سہالنے لگ جاتا ۔‬
‫سویرا کوئی ریکشن نہیں دے رھی تھی بلکل بت بنے بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے میں کسی سٹیچو کا مما دبا رھا ھوں ۔۔کچھ دیر میں سویرا کے دونوں مموں کو دباتا رھا‬
‫کافی تنے ھوے ممے تھے اور ایسے سڈول مموں کو سکول یونیفارم کے اوپر سے دبانے کا الگ ھی مزہ ہوتا ھے ۔‬
‫سویرا نے بریزیر بھی بہت سوفٹ پہنا ھوا تھا میں جب بھی ممے کو ُمٹھی میں بھر کر دباتا تو مما میری مٹھی سے سلپ‬
‫ھوکر مٹھی سے نکلنے کی کوشش کرتا ۔‬
‫میرا لن تو فل تن چکا تھا مگر سویرا کے گرم ھونے کا ابھی تک دور دور تک نشان نہیں تھا ۔‬
‫اگر پاٹنر سیکس میں ساتھ نہ دے تو سارے مزے کی ایسی کی تیسی ھوجاتی ھے ۔‬
‫اور ایسا ھی میرے ساتھ ھورھا تھا ۔‬
‫میں اکیال ھی بس سویرا کے مموں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رھا تھا جبکہ وہ بس میری طرف دیکھی جارھی‬
‫تھی اسکی آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی جب میں اسکی آنکھوں میں دیکھتا تو مجھے اسکی آنکھوں میں کئی سوال نظر‬
‫آتے اسکی آنکھیں اسکی مجبوری کی گواہی دے رہیں تھی ۔‬
‫میں اسکی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر کچھ تالش کرنے کی کوشش کرتا تو نجانے کیوں میری آنکھیں زیادہ دیر تک اسکی‬
‫آنکھوں کا سامنا نہ کرپاتی اور میں جلدی سے نظریں پھیر کر اسکے مموں کی طرف دیکھنے لگ جاتا یا اس کے گالبی‬
‫ہونٹوں کی طرف ۔‬
‫آخر مجھ سے مذید صبر نہ ھوا تو میں نے سویرا کو بانہوں میں بھر کر پیچھے کی طرف لٹا کر اسکے اوپر لیٹ گیا۔‬
‫)‪Update no (116‬‬
‫میرا اکڑا ھوا لن سویرا کی ران کی ساتھ لگ گیا اور اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ لپٹ گئیے میں نے اپنے ہونٹ سویرا‬
‫کے ہونٹوں پر رکھ دیے سویرا بےجان سی لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫اور اس نے اپنے ہونٹوں کو کوئی حرکت نہ دی میں نے ذبردستی اپنے ہونٹوں کی مدد سے اسکے ہونٹ کھولے اور آنکھیں‬
‫بند کر کے اس کے نرم مالئم ہونٹوں کا رس پینے لگ گیا ۔‬
‫سویرا نے اپنے دونوں بازو ڈھیلے چھوڑ کر گھاس پر رکھے ھوے تھے ۔‬
‫اسکا ایک ھاتھ میرے لن کے بلکل قریب تھا میں نے جلدی سے ایک ھاتھ نیچے لیجا کر اپنا ناال کھوال اور شلورا سے لن کو‬
‫نکاال اور سویرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھا سویرا نے پہلے تو ویسے ھی میرے لن پر ہاتھ رکھا مگر میں نے اسکے‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر اسکی مٹھی کو بند کرکے لن اسکی گرفت میں کردیا ۔‬
‫میں ساتھ ساتھ سویرا کے ہونٹ چوسی جارھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی مٹھی کو اپنے لن پر دبا رھا تھا ۔‬
‫میں نے آنکھیں کھول کر سویرا کی آنکھوں کو دیکھا تو اسکی آنکھیں بند تھیں ۔‬
‫ادھر جب میرے لن کے گرد سویرا کی ہتھیلی اور انگلیوں کی گرفت پڑی تو سویرا نے اچانک میرے لن کو دبایا اور پھر‬
‫جھٹکے سے چھوڑ کر ایکدم آنکھیں کھول کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے پھر اسکا ھاتھ پکڑ کر لن پر رکھ کر اسکی مٹھی کو بند کردیا ۔‬
‫سویرا نے پھر لن کو آہستہ سے دبا کر لن کی موٹائی چیک کی اور پھر ہاتھ سرکاتی ھوئی پہلے ٹوپے کی طرف الئی اور‬
‫پھر ہاتھ کو سرکاری ھوئی جیسے ھی لن کی جڑ تک گئی تو اسکی کھلی آنکھوں میں ایک چمک سے آئی اور ساتھ ھی‬
‫خوف کے اثار بھی اور اس نے جھٹکے سے لن کو چھوڑا اور میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ آذاد کروا کر میرے سینے پر‬
‫دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے ذور سے پیچھے دھکا دیا میں اسکے دھکے سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا اور سیدھا زمین پر لیٹتا‬
‫گیا وہ بڑی سپیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور میر لن مکئی کے ٹانڈے کی طرح آسمان کی طرف منہ‬
‫کر کے تنا تن کھڑا تھا ۔‬
‫سویرا بیٹھتے ھی میرے لن کو پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی اور پھر اس نے دونوں ھاتھ منہ پر رکھ لیے اور ناقابل یقین‬
‫انداز سے نفی میں سر ہالتے ھوے آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھی جارہی تھی ۔۔‬
‫میں پہلے تو سمجھا کہ یہ بھاگنے لگی ھے مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ تو میرے لن کے سائز کے خوف سے تبق کر اٹھی‬
‫ھے تو میں مذید اپنے چڈے کھول کر اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر کے اسکو مکمل سائز چیک کروانے لگ گیا ۔‬
‫سویرا کا رنگ سرخ ٹماٹر جیسا الل ھوچکا تھا اور وہ چہرے پر ھاتھ رکھے سر کو نفی میں ہالے جارھی تھی اور میں‬
‫اسکی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔‬
‫میں نے سویرا کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر واپس اپنے پہلو میں لٹا دیا ۔سویرا گم صم سی میرے ساتھ پھر لیٹ گئی ۔‬
‫میں نے اسکے ھاتھ اسکے چہرے پر سے ہٹاے تو اسکے چہرے پر گبھراہٹ دیکھ کر میں اسکے اوپر جھکا اور اسکے‬
‫بالوں کو سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫کیا ھوا اتنا گبھرا کیوں گئی ھو۔۔‬
‫سویرا نے صرف نفی میں سرہالنے پر ھی اکتفاء کیا۔میں نے پھر پوچھا کیا ھوا بولو تو سہی ۔‬
‫سویرا بولی وووہہ تمہارا اتنا بڑا ھے ۔‬
‫مجھ سے نہیں لیا جانا۔۔‬
‫میں نے کہا تمہارے یار کا اتنا بڑا نہیں تھا کیا ۔۔‬
‫سویرا نفی میں سر ہال کر بولی نہین۔‬
‫میں نے کہا اسکا کتنا ھے ۔‬
‫وہ بولی اس سے آدھا۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫میرا لن لوگی تو تم کو سیکس کا اصل مزہ آے گا ۔‬
‫سویرا بولی مجھ سے برداشت نہی ھونا میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ اتنا بڑا بھی ہوتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا اب تو دیکھ بھی لیا ھے اب تو یقین کرلو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے دوبارا اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سویرا کی قمیض‬
‫کو اسکے پیٹ سے اوپر کرکے اسکے نرم مالئم پیٹ پر ہاتھ پھرنے لگ گیا ۔‬
‫سویرا پتہ نہیں کیوں گرم نہیں ہورھی تھی بلکل بےجان گڑیا کی طرح لیٹی ھوئی مجھے ہر کام کی اجازت دے رھی تھی نہ‬
‫روک رھی تھی نہ میرا ساتھ دے رھی تھی ۔‬
‫میں ہاتھ کو سرکاتا ھوا قمیض کے اندر سے ھی اسکے مموں پر لے آیا اور بریزیر کے نیچے سے ہاتھ سیدھا کر کے اسکے‬
‫ننگے ممے کو مٹھی میں بھرا تو پہلی دفعہ سویرا کے منہ سے سیییییییی نکال اور اس نے میرے ھاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ‬
‫لیا۔‬
‫سویرا کے ممے کی سوفٹنس میں الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا اففففففففف کیا روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے مالئم ممے‬
‫تھے ۔‬
‫مگر جب میری انگلی میں اسکے ممے کا نپل آیا تو نپل فل ہارڈ ھوچکا تھا اور نہل کو جب بھی مسلتا سویرا کے منہ سے‬
‫سسکاری ضرور نکلتی مجھے اسکا چور سوئچ مل چکا تھا ۔‬
‫سویرا کی جان اسکے ممے کے نپل میں تھی ۔‬
‫کچھ دیر میں ھی سویرا نے میرے نچلے ہونٹ کو پہلی دفعہ کھینچ کر چوسنا شروع کیا تو مجھے اپنی محنت کا پھل ملتا‬
‫محسوس ھونے لگ گیا ۔‬
‫اور میں بار بار اسکے دونوں نپلوں کو ھی کبھی مسلتا تو کبھی سہالتا سویرا آہستہ آہستہ جوبن میں آتی جارھی تھی ۔‬
‫میں چاہتا تو آتے ھی اسکی شلوار نیچے کر کے لن گھسیڑ دیتا مگر ایسا سیکس کیا تو پھر کیا کیا ۔‬
‫سیکس کا اصل مزہ ھی تب آتا ھے جب دونوں پاٹنر برابر میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور دونوں کے اندر برابر کی آگ‬
‫لگی ھو ۔‬
‫تب ھی چدائی کا حق ادا ھوتا ھے ۔۔‬
‫بے شک سویرا کو میں نے بلیک میل کیا تھا اور وہ مجبوری میں سب کچھ کروا رھی تھی مگر اسکے باجود بھی میں اس‬
‫سے ایک لور پاٹنر کی امید رکھ رھا تھا‬
‫سویر نے میرے نچلے ہونٹ کو قابو کر لیا تھا اور اسے چوسنے لگ گئی اور اسکے ساتھ ھی اسکا ھاتھ اٹھا اور میری گردن‬
‫کو سہالتے ھوے میرے سر کو مذید نیچے کی طرف دبا کر میرا نچال ہونٹ چوستی ۔‬
‫سویرا کے ایکشن میں آنے کی دیر تھی کہ میرا بھی پارا چڑھ گیا اور میں نے بھی والہانہ انداز میں اسکے ممے کو دبانا اور‬
‫اسکے اوپری ہونٹ کو چوسنا شروع کردیا ۔۔۔‬
‫مجھے سویرا کی سیکس کی بھوک کا اندازہ اسکی والہانہ کسنگ اور کمر اٹھا اٹھا کر میرے ساتھ چپکنے سے ہورھا تھا‬
‫اور ساتھ میں جس انداز سے وہ میری گردن کو سہالتے ھوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی ۔‬
‫اس سے میرے اندر انتہاء کا جوش بڑھ رھا تھا ۔‬
‫اور میرا لن فل ٹائٹ ہو کر پھٹنے واال ھوچکا تھا میرا دل کررھا تھا کہ ابھی سویرا کی شلوار اتار کر ایک ھی جھٹکے میں‬
‫سارا لن اسکی پھدی میں اتار دوں ۔۔‬
‫مگر میں سویرا کو پورا تیار کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی رضامندی سے مجھے پھدی میں لن ڈالنے دے ۔۔‬
‫اس لیے میں لگاتار مسلسل اسکے مموں پر اور نپلوں پر انگلیوں سے منتر پڑھ کر اسکے اندر سیکس کی بھوک کو بڑھا رھا‬
‫تھا اور اس میں قدرے کامیاب بھی ہورھا تھا ۔۔‬
‫کچھ دیر ہم دونوں کے ہونٹوں کا دنگل جارہی رھا ۔‬
‫اور بالخره میں نے سویرا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگوں کو کھول کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا‬
‫۔۔‬
‫سویرا میرے سامنے ٹانگیں کھولے لیٹی ھوئی تھی اور اسکی قمیض اسکے پیٹ سے اوپر اور مموں سے نیچے تھی ۔۔۔‬
‫سویرا کا پیٹ چٹا سفید تھا اور روشنی میں چمک رھا تھا پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اسکی جلد میں شائنگ تھی ایسے جیسی‬
‫ویکس کی ھو بال کی ایک لوں تک نہ دکھ رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے اسکے پیٹ کو دیکھا تو بے اختیار میں اسکے پیٹ پر سجدہ ریز ھوگیا اور ہونٹ اسکے پیٹ پر رکھے اور پیٹ کا‬
‫بوسا لے کر اسکے حسن کی تعریف کی ۔۔۔۔میرے ہونٹ سویرا کے پیٹ پر لگے تو سویرا کے پیٹ کی جلد وائبریشن ہونے‬
‫لگ گئی اور سویرا نے گھاس سے کندھے اٹھا کر سر کو پیچھے خم دے کر سسکاری بھرتے ھوے میرے بالوں میں‬
‫‪..unglian pherni shorro kar den‬‬
‫‪.‬میں نے تین چار چھوٹی چھوٹی پاریاں سویرا کے پارے سے پیٹ پر کیں ۔‬
‫اور ساتھ ھی اپنی زبان کو نکال کر ناف میں ڈال دی اور ناف کے دائرے میں چاروں اطراف زبان کی نوک کو پھیرنے لگ‬
‫گیا سویرا ایکدم مچل اٹھی اور میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر لیا اور لمبی لمبی سسکاریاں لیتی ھوئی سر دائیں بائیں‬
‫مارنے لگ گئی ۔۔‬
‫اور ساتھ ھی سیکسی آوازوں میں پلیزززز نہ کرو پلیزززز نہ کرو مجھ سے برداشت نہیں ہورھا پلیزززززز ۔۔۔‬
‫سویرا کی نہیں نہیں سے میرا شوق بڑھتا گیا اور میں زبان کا جادو پیٹ پر چالنے کی تگ ودو میں لگ گیا ۔۔‬
‫‪.‬میں کبھی زبان کی نوک کو ناف کے چھوٹے سے سوراخ کے اندر ڈالتا تو کبھی سوراخ کے کناروں پر نوک کو گھماتا ۔‬
‫اور پھر سلو موشن میں زبان کو سرکاتا ھوا ناف کے نیچے االسٹک تک لے جاتا ۔‬
‫سویرا کی حالت ایسی تھی کہ جیسی ابھی ہلک سے جان نکل جاے ۔۔۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی اس کے پیٹ پر زبان اور ہونٹوں کا کھیل جاری رھا ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں زبان کو سرکاتا ھوا اسکے مموں کی طرف لے گیا اور مموں پر قمیض ہونے کی وجہ سے بریزیر کی‬
‫السٹک تک ھی زبان لیجا سکا ۔۔‬
‫اور پھر ادھر والے حصے کو چوم کر سر اٹھا کر میں پھر سی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔‬
‫تو سویرا نے شکر ادا کیا اور لمبا سانس بھر کر میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے اسکے دونوں‬
‫ھاتھوں کو پکڑا اور ھاتھوں کو اوپر کی جانب کیا اور اپنے سر کو نیچے جھکا کر اسکے ریشم سے مالئم اور روئی سے‬
‫نرم ہاتھوں کو چوم کر ھاتھوں کو ہلکے سے اپنی طرف کھینچ کر سویرا کو اٹھ کر بیٹھنے کا کہا۔۔‬
‫سویرا کسی جادوگر کے سحر میں جکڑی میرے اشارے پر چلتی ھوئی بے جان مورت کی طرح اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔میں نے‬
‫اس کے ھاتھوں کو اسکے سر کے اوپر لیجا کر بازوں کو اوپری جانب کر کے اسکے ہاتھوں کو چھوڑ دیا سویرا کسی‬
‫مجسمے کی طرح وہیں اپنے بازوں کو کھڑا کر کے میری طرف عجیب سی نظروں سےدیکھی جارھی تھی ۔۔‬
‫دوستو سہی بتاوں تو مجھے اسکے یوں اپنی طرف دیکھنے سے خوف محسوس ھونے لگ جاتا تھا کہ پتہ نہی اس پر جنات‬
‫کا اثر تو نہیں ۔۔‬
‫خیر‬
‫میں نے اسکی قمیض کو دونوں اطراف سے پکڑ کر اوپر کیا اور اسکے مموں کو ننگا کرتے ھوے اسکے سر سے قمیض‬
‫نکالی اور بازوں میں لیجاکر چھوڑ دی ۔۔‬
‫بازوں سے قیمیض اس لیے نہیں نکالی تھی کہ باقی کا کام سویرا خود کر لے گی یعنی بازوں سے قمیض خود نکال لے‬
‫گی ۔۔۔کیونکہ قمیض اتارتے ھوے بھی اس نے مجھے روکا نہیں تھا اور نہ ھی کوئی احتجاج کیا تھا ۔‬
‫بلکہ بلکل ایک سٹیچو کی طرح ہاتھ سر سے اوپر کر کے بازو بلکل سیدھے اوپر کی طرف کیے بیٹھی تھی ۔۔‬
‫جب میں نے اسکی قمیض اسکے جسم اور سر سے نکال کر اسکے بازوں میں چھوڑی تو اس نے ایکدم بازو نیچے کو گراے‬
‫اور میری طرف یوں بازو کردیے کہ جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ یہ بھی خود ھی اتار دو ۔‬
‫اور اسکی نظریں ویسے ھی مجھکو دیکھ رہیں تھی ۔‬
‫پتھر سی آنکھیں جیسے اسکی آنکھیں جھپکتی ھی نہ ھوں ۔‬
‫مجھے یہ لڑکی حسن کی مورت لگ رھی تھی ۔۔‬
‫یا پھر نفسیاتی مریض ۔۔۔‬

‫)‪Update no (117‬‬
‫میں نے اسکی بازوں سے قمیض نکال کر ایک طرف چادر پر رکھ دی میری جیسے ھی نظر اسکی ننگے جسم اور ہلکے‬
‫بلیو کلر کے بریزیر میں چھپے مموں پر پڑی ۔۔‬
‫دوستو قسم سے اس حسن مجسمہ کو دیکھتے ھی مجھ پر سکتہ طاری ھوگیا ۔‬
‫میں پلکوں کو جھپکانا بھول گیا سانس اندر باہر کھینچنا بھول گیا‬
‫اسکو دوبارا پیچھے کی جانب لیٹانا بھول گیا ۔۔‬
‫میرے ھاتھ اسکی رانوں پر تھے تو وہیں رک گئے میری کھلی آنکھیں پتھر ہوگئی میرا سانس جہاں تھا وہیں رک گیا ۔۔۔‬
‫اففففففففففففففف کیا اس ظالم کے حسن کی تعریف لکھوں کاش اسکے جسم کی بناوٹ اور اسکی خوبصورت گالبی رنگت کو‬
‫الفاظوں میں ڈھال کر آپ دوستوں کے سامنے پیش کرسکتا۔۔۔‬
‫سویرا بت بنی میرے چہرے کو دیکھی جارہی تھی اور میں بت بنا سویرا کے چٹے سفید گالبی رنگت کے چمکتے جسم کو‬
‫دیکھ رھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر اسی حالت میں بےجان دو جسم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رھے۔‬
‫پھر یوں ہوا کہ مجھے ہوش آیا اور میرے ھاتھوں نے اٹھنے کی جرات کی اور اس حسن کی دیوی کے گول مٹول تنے ھوے‬
‫چٹے سفید مموں کو بریزیر کے اوپر سے پکڑ لیا اور ایک دفا دباتے ھی اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور وہ مورت‬
‫میری طرف دیکھتی ھوئی پیچھے کی جانب گرتی گئی اور گھاس کے اوپر بچھی چادر کے اوپر لیٹ گئی اور میں اسکو‬
‫پیچھے لیٹاتا ھوا اسکے ننگے جسم کے اوپر جھکتا گیا اور اس کے مموں کے درمیاں لکیر کے اوپر اپنے ہونٹ اس انداز‬
‫سے رکھ دیے کہ میرے ہونٹوں کا ایک طرف کا حصہ اسکے ایک طرف کے روئی سے نرم ممے پر تھا اور ہونٹوں کی‬
‫دوسری سائڈ اسکے دوسرے ممے کو چھو رھی تھی ۔‬
‫اور میرے ہونٹ اس مخمل میں دھنستے گئے افففففففففف یارا کیا سوفٹنس تھی کیا مالئمت تھی کیا کشش تھی ۔‬
‫میں تو اس کو اپنے سحر میں جکڑنا چاہتا تھا مگر سالی کے جسم کا نظارا کرتے ھی میرا سارا حساب کتاب ھی بگڑگیا۔۔‬
‫الکھ پالننگ سوچی تھی اسکو ننگا کر کے چودنے کی ۔‬
‫سالی نے صرف مموں کے جلوے سے ھی میرا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا۔‬
‫میں تو دور سے اسکے ممے اور گورا جسم دیکھ کر سکتے میں آگیا اب تو پھر بھی یہ گورا جسم حسن کی مورت میری‬
‫آنکھوں کے سامنے اور میری دسترس میں تھا ۔۔‬
‫تو پھر میری تو ایسی کی تیسی ھونی ھی تھی ۔۔‬
‫خیر میرا کچھ خمار کم ھوا تو میں نے سویرا کے مموں سے پردہ اٹھا کر اوپر کر کے مموں کو جلوہ گر کیا اور اسکے‬
‫روئی سے نرم مموں پر بے صبروں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔‬
‫اور سویرا کے منہ سے سسکاریوں کا طوفان نکل پڑا ۔‬
‫نہ مجھے کوئی روکنے واال تھا اور نہ سویرا کی سسکاریاں رکنے والی تھیں ۔‬
‫مین مموں کے چھوٹے سے اکڑے ھوے نپل کو کبھی دانتوں میں بھینچتا تو کبھی انہوں ہونٹوں میں لے کر چوستا‬
‫سویرا سر اٹھا اٹھا کر مجھے اپنے ممے چوستی دیکھتی اور ساتھ میں سسکاریاں بھرتی ھوئی میرے سر پر ھاتھ رکھ کر‬
‫مموں پر دباتی اور کبھی سر پیچھے لیجا کر کندھوں کو اٹھا کر مموں کو مزید اونچا کرتی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر یہ کھیل چلتا رھا ۔‬
‫اور جب سویرا کے ممے سرخ ھوگئے اور میرے لباب سے تر ھوگئے اور سویرا کی سانسیں اکھڑنے کے بعد تھم گئی اسکا‬
‫جسم اکڑنے کے بعد بےجان ھوگیا اور مجھے اسکی پھدی گیلی ہونی کا یقین ھوچال تو تو میں اس کے مموں کو چھوڑ کر‬
‫پھر سے اسکی ٹانگوں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور اپنی شلوار کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور پھر‬
‫سویرا کی شلوار‪ .‬کو السٹک والی جگہ سے پکڑ کر اسکی سڈول اور گوری چٹی بالوں سے پاک گانڈ سے نکال کر اسکی‬
‫ٹانگوں سے کھینچتا ھوا اسکے پیروں پر لے آیا اور پھر شلوار کو اسکے پیروں سے باری باری نکال دیا اور پھر اپنی‬
‫قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی اب دو جسم مادر ذاد ننگے تھے اور سویرا کے جسم پر صرف بریزیر تھا جو اسکے‬
‫مموں سے اوپر کی جانب اکھٹا ھو کر مموں کو ننگا کیے ھوے تھا۔۔‬
‫میں نے سویرا کی پھدی کا غور سے معائنہ کیا تو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ بلکل کنواری پھدی کی طرح تھی پھدی کی‬
‫ہونٹ اندر کی جانب ایک دوسرے سے چپکے ھوے تھے اور نہ ھی پھدی کی جھلی لٹک رھی تھی ۔‬
‫جس طرح سویرا کے چہرے پر معصومیت جھلک رھی تھی بلکل اسی طرح سویرا کی پھدی پر بھی معصومت جھلک رھی‬
‫تھی ۔۔۔‬
‫پھدی کے باریک سے ہونٹوں پر بس شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔۔‬
‫میں نے سویرا کی پھدی پر انگلی پھیری تو سویرا ایک دم کانپی اور اپنی ٹانگوں کو آپس میں مال کر میرے ہاتھ کو ٹانگوں‬
‫کے بیچ جکڑ کر سر اٹھا کر سسکاری ماری ۔۔۔‬
‫میں نے اسکی روئی سی نرم رانوں میں پھنسے ھاتھ سے ھی انگلی کو حرکت دیتے ھوے پھدی سے چھیڑ چھاڑ شروع‬
‫کردی کچھ دیر تو سویرا سر دائیں مارتے ھوے سییییہہہی افففففف کرتی ھوئی مجھے فنگرنگ کرنے سے منع کرتی رھی‬
‫مگر میں تو اسکی گرم پھدی کی گرمائش سے اپنی انگلی کو ٹکور دے رھا تھا اور پھدی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کی‬
‫کوشش کررھا‬
‫‪.‬کچھ دیر میں ایسے ھی انگلی کی مدد سے سویرا کی پھدی کو چھیڑتا رھا تو‬
‫کبھی پھدی کے چھوٹے سے پھولے ھوے دانے کو مسلتا رھا کہ سویرا کو ایک دم جوش چڑھا اور اس نے گانڈ اٹھا کر‬
‫میرے انگلی کو پھدی کے اندر لیا اور پھر زور سے رانوں کو آپس میں بھینچ کر گانڈ کو اوپر نیچے کرتے ھوے سییییییی‬
‫یس یس یس یس کرتی ھوئی ایک دم اکڑ کر ڈھیلی ھوئی اور پھدی سے گرم الوہ بہتا ھوا نکلنے لگا اور پھدی کے اندر میری‬
‫میری انگلی پر منی کی گرم دھاریں پڑتی رہیں ۔۔۔‬
‫سویرا فارغ ھوتے ھی ٹانگوں کو کھول کر پھر بےجان مورت بن کر میری طرف دیکھنے لگ گئی۔۔‬
‫سالی کو پھر پتہ نہیں کیا ھوا کہ اسکی آنکھیں پتھرا سی گئیں اور مجھے یوں دیکھنے لگ گی جیسے مجھے پہچاننے کی‬
‫کوشش کررھی ھو یا مجھ پر قربان جارھی ھو یا پھر اپنی مجبوری ظاہر کر رھی ھو ۔‬
‫کئی سے سوال اسکی انکھیں کررھیں تھی جنکو سمجھنے کی کوشش میں کرتا تو پاگل ھوجاتا ۔‬
‫میں نے کچھ پل اسکی آنکھوں کو دیکھا اور پھر سے اسکی پھدی کی طرف متوجہ ھوکر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں کے‬
‫درمیان ٹوپے کو پھنسانے لگا اور ٹوپے کو پھدی کے درمیان ٹوپے کو اڈجسٹ کر کے سویرا کے اوپر جھکا ۔‬
‫اور ایک جھٹکا مارا تو اسکی پتھرائی آنکھیں بھیگ گئیں اور اسکے منہ سے اتنا ھی نکال امییییییییییی جییییییییییی ۔‬
‫پھدی کو چیرتا ھوا لن آدھا اندر گھس چکا تھا اور سویرا کے ہاتھوں نے میرے بازوں کو جکڑ لیا تھا ۔‬
‫اور اس نے پیچھے کھسکنے کی کوشش کی تھی مگر میرے ھاتھ اسکے کندھوں کو اپنے شکنجے میں لیے ھوے تھے ۔‬
‫میرا لن ایسے تھا جیسے کسی آگ کی بھٹی میں گھس گیا ھو اور پھدی کی جکڑ ایسی تھی جیسے کسی نرم چیز نے پوری‬
‫طاقت سے میرے لن کو اپنے احصار میں لے کر جکڑا ھو ۔۔۔‬
‫سویرا نے نہ اوہہہہہہہ کی نہ ھاےےےےےےےے کی بس امی کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگ‬
‫گئی ۔۔۔‬
‫میں نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ھی دوسرا گھسا مار کر اسکی ننھی سی پھدی کی گہرائی کو لن سے ناپ لیا ۔۔‬
‫اور میرے ٹٹے اس کی گانڈ سے جا لگے اففففففف کیا ھی پھدی کی گرمائش تھی مجھے لگ رھا تھا کہ بس دوسرے گھسے‬
‫میں ھی میں فارغ ھوجاوں گا۔۔۔‬
‫دوسرا گھسا جب مارا تو لن پھدی کی گہرائی میں چال گیا اور سویرا نے پھر امی کو بڑی شدت سے یاد کیا ۔‬
‫اور اسکی آنکھیں باہر کو ابھلنے والی ھوگئیں سویرا سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے میری رانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھے‬
‫پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے امییییییی جی مرگئیییییی پلیزززززز مجھے چھوڑ دو اسے باہر نکال لو میں مرجاوں‬
‫گی ۔۔۔۔‬
‫‪.‬مجھ سے برداشت نہیں ھورھا‪.‬‬
‫خاموش گڑیا جو شروع سے ایک مجسمہ ایک بت ایک مورت ایک سٹیچو بنا ھوا تھا میرے لن نے اندر جاتے ھی اس بے‬
‫جان مجسمے میں جان ڈال دی اسکی زبان چلی تو رکنے کا نام نہ لی ۔‬
‫جس مورت کو دی زباں ہم نے وہ بولے تو ہم پر ھی برس پڑے۔۔۔۔‬
‫سویرا مجھے دھکے دینے کی کوشش کررھی تھی مجھ کو برا بھال کہنے پر اتر آئی ۔‬
‫مگر میں نے لن اندر سے باہر نہ نکلنے دیا کچھ دیر تڑپنے کے بعد سویرا ڈھل گیا ہر طرف خاموشی چھاگئی ۔۔‬
‫اور مین نے سویرا کے خاموشی کو اسکی برداشت کا نام دے کر آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔‬

‫‪/Update no /118‬‬
‫سویرا پھر سے میرے ہر گھسے پر امی کو یاد کرتی ۔‬
‫ماں بیٹی میں کافی پیار لگ رھا تھا جو اسے اس موقع پر امی کی یاد شدت سے آرھی تھی ۔۔‬
‫میں نے آہستہ آہستہ گھسوں کی رفتار تیز کردی اب میرے گھسے سے اس کے ممے ہلنا شروع ھوچکے تھے دودھ کے‬
‫پیالے چھلکنے لگ گئے تھے اسکے پیٹ کی جلد پر بھی وائبریشن ہورھی تھی ۔‬
‫اسکے آنسوں اب بھی بہہ رھے تھے ۔‬
‫پانچ منٹ بعد سویرا کو امی بھی بھول گئی اور آنسو بھی تھم گئے مموں نے ہلتے ھوے اوپر کو اٹھنا شروع کردیا سویرا کے‬
‫ھاتھ جو مجھے پیچھے کی طرف دھکیل رھے تھے اب میری رانوں کے آگے سے ہٹ کر میری رانوں کے پیچھے چلے‬
‫گئے اور اسکی آہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی ۔‬
‫میرے گھسوں کی بھی رفتار بھی ساتھی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بڑھ گئی سویرا نے ٹانگوں کو خود ھی مذید اوپر کیا‬
‫اور میری کمر کے گرد ٹانگوں کا شکنجا ڈال کر گاند کو اوپر اٹھاتے ھوے یس یس یس یس ایم کمنگ فاسٹ فاسٹ فک می‬
‫فک می کرتے ھوے ایکدم مجھ سے کسی چمگادڑ کی طرح چمٹ گئی اور پھدی سے منی کا مینہ برسنا شروع ہوگیا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد سویرا بےدم ھوکر لیٹ گئی میں تھوڑا وقفہ دیا اور پھر سے چپو چالنا شروع کردیا تقریبًا‬
‫پانچ سات منٹ بعد ھی مجھے لگا کہ میں چھوٹنے واال ھوگیا ھوں تو میں نے آخری جاندار گھسا مارتے ھوے سویرا کو پھر‬
‫امی کی یاد دالئی جس کا ثبوت اس نے ھاےےےے امییییی کر کے دیا اور میں نے لن کو جھٹکے سے باہر نکاال اور اسکی‬
‫روئی سے نرم ران کے اوپر لن کو رکھ کر سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں جکڑ کر اسکے ہونٹوں کا رس‬
‫پیتے ھوے لن سے منی کے فوارے چھوڑتا ھو چھوٹنے کا مزہ لیتا رھا ۔۔۔‬
‫‪.‬جیسے جیسے میرے لن سے منی نکل کر سویرا کی ران پر بہتی جاتی میرے جسم کو جھٹکے لگتے اور میں مذے کی اتھاہ‬
‫گہرائیوں میں ڈوبتا ھوا سویرا کے اوپر لیٹا ھوا اسکے جسم میں سمانے کی کوشش کرتا ۔‬
‫سویرا بھی میرے بالوں کو سہالتی ھوئی میرے مزے کو دوباال کررھی تھی ۔‬
‫ُل‬
‫کچھ دیر میں مذید سویرا کے اوپر ھی لیٹا رھا اور پھر اسکے اوپر سے ایک طرف ڑھک کر اسکے ساتھ ھی لیٹ کر لمبے‬
‫لمبے سانس لینے لگ گیا ۔۔‬
‫سویرا جلدی سے اٹھی اور اپنے پرس سے ٹشو نکال کر اپنی پھدی اور ران کو صاف کرنے لگ گئی ۔‬
‫اور مجھے ایک دم جھٹکا لگا جب سویرا نے ٹشو سے میرا لن صاف کرنا شروع کردیا ۔۔‬
‫میری آنکھیں بند تھیں جیسے ھی سویرا نے میرے لن کو پکڑا تو جھٹکے سے میری آنکھیں کھلیں اور میں سویرا کے اس‬
‫عمل پر حیران رھ گیا ۔‬
‫سویرا بڑے غور سے میرے نیم تنے ھوے لن کو دیکھ رھی تھی اور ساتھ ساتھ ٹشو سے لن کو صاف کری جارھی تھی ۔‬
‫مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ھوے سویرا نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور مسکرا کر پھر لن کو ایک ھاتھ سے پکڑ کر‬
‫دوسرے ہاتھ سے ٹشو کے ساتھ لن کو صاف کرنے میں مصروف ھوگئی ۔۔۔‬
‫میں سویرا کو مخاطب کرتے ھوے بوال ۔۔۔‬
‫سویرا‬
‫سویرا نے نظریں گھما کر بڑی ادا سے میری طرف دیکھا ۔‬
‫میں اسکی سحرانگیز آنکھوں میں دیکھتے ہوے بوال مزہ آیا ۔‬
‫سویرا نے آنکھیں بند کر کے میرے سوال کا جواب دے دیا اور پھر میرے لن کو پکڑ کر ہالنے لگ گئی اور بڑے غور سے‬
‫لن کو ہر زاویے سے دیکھنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے پھر سویرا کو کہا سویرا کیسا لگا میرا ہتھیار ۔‬
‫سویرا نے لب ہالے اور آہستہ سےبولی ۔‬
‫بہت ھی پیارا ھے‬
‫میں نے کہا کتنا پیارا ھے اور ساتھ ھی میں نے سویرا کے ممے کو ہاتھ میں لے لیا اور نپل کو انگوٹھے کے پورے سے‬
‫مسلنے لگ گیا ۔‬
‫سویرا نے سیییییی کیا اور میری طرف نشیلی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی واقعی تم اصلی مرد ھو‬
‫میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنا بڑا بھی ھو سکتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا اگر واقعی تمہیں پسند ھے تو پھر اسے پاری نہیں کروگی ۔‬
‫سویرا نے ہونٹوں پر مسکراہٹ التے ھوے پلکوں کو جھپکا کر اثبات میں سر ہالیا اور پھر میرے نیم مردہ لن کو پکڑ کر‬
‫ہالیا اور اسے ہوش میں النے کی کوشش کرتے ہوے زبان نکال کر ٹوپے پر پھیرنے لگ گئی ۔‬
‫سویرا سر جھکا کر ٹوپے پر زبان پھیرتی تو اسکے کے سلکی بال اسکے چہرے کو چھپانے کی بار بار کوشش کرتے تو‬
‫سویرا ٹوپے سے منہ ہٹا کر ایک ہاتھ سے سلکی بالوں کو بڑی ادا سے اٹھا کر اپنے کان کے پیچھے کردیتی مگر جب سویرا‬
‫سر جھکا پھر زبان ٹوپے پر رکھتی تو وہ ظالم پھر کان کے پیچھے سے نکل کر سویرا کے چہرے کو ڈھانپ دیتے ۔۔‬
‫میں لیٹا ھوا سویرا کے بالوں کی بدمعاشیاں دیکھ رھا تھا ۔‬
‫بالخره مجھے بیچ میں ٹپکنا پڑا تو میں نے سویرا کے ممے کو چھوڑا اور اسکے بالوں میں انگلیاں ڈال کر انکو کو سہالتے‬
‫ھو سویرا کے سر کے پیچھے لے گیا ۔‬
‫اور اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر بالوں کو وہیں ٹکا دیا۔‬
‫سویرا بڑی مہارت سے ٹوپے کے اطراف میں زبان پھیرتی تو کبھی زبان کی نوک سے ٹوپے کے لبوں کو کھول کر زبان‬
‫کی نوک اندر ڈال کر زبان کی نوک کو دبا دیتی ۔‬
‫اففففففف سویرا کی زبان کا جادو میرے لن پر حاوی ھو رھا تھا سویرا کی زبان نے میرے لن میں پھر سے جان ڈال دی اور‬
‫لوڑے کو ایک نئی زندگی ملی اور ساتھ میں نیا مزہ ۔۔‬
‫تو لوڑا ساب پھنکارتے ھوے تن کر کھڑے ھوے ۔‬
‫تو سویرا نے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بڑی فاتحانہ انداز میں دیکھا ۔‬
‫اور ساتھ ھی ہونٹوں کو کھول کر ٹوپے کو منہ کے اندر لے کر چوسا لگا کر اپھاااااا کر کے منہ سے نکاال ۔‬
‫سویرا کسی ماہر چدکڑ کی طرح لن کو چوس رھی تھی کبھی ٹوپے کو منہ میں لے کر چوستی تو کبھی ٹوپے پر زبان‬
‫پھیرتے ھو زبان کو نیچے جڑ تک لے جاتی اور پورے لن پر زبان پھیرتی ۔‬
‫میں تو مزے کی وادیوں میں کھو چکا تھا ۔‬
‫میرے ھاتھ کی انگلیاں سویرا کے سر کے بالوں کو سہال رھی تھیں اور میرے منہ سے آہہہہ سییی نکل رھا تھا کچھ دیر‬
‫سویرا میرے لن کو چوستی چاٹتی رھی اور پھر میری طرف دیکھتے ھو لن کو منہ سے نکاال ۔‬
‫میں نے سویرا کے بازوں کو پکڑ کر اسے اپنے اوپر آنے کا کہا‬
‫تو سویرا جھٹ سے میرے لن کے اوپر اپنی پھدی کرتے ھوے میری رانوں کے اوپر آگئی اور گھٹنوں کے بل ھوکر اپنی‬
‫ٹانگوں کو میری ٹانگوں کے دونوں اطراف کرلیا ۔اور میرے اوپر گھوڑی بن گئی۔۔‬
‫سویرا کا منہ میرے منہ کے اوپر تھا اور اسکے چٹے سفید ممے میرے سینے کے اوپر لٹک رھے تھے اور اسکے مموں کی‬
‫نپل میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھورھے تھے ۔‬
‫سویرا میری نظروں میں نظریں ڈال کر بولی آپ کا نام کیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یاسر ۔‬
‫سویرا بولی رئیل نیم ھے یا پھر فیک ۔‬
‫میں نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں ۔۔‬
‫سویرا بولی یاسر تم نے مجھے پہلی دفعہ ھی اپنا دیوانہ بنا لیا ھے ۔‬
‫میں نے سواے اپنے فرینڈ کے کبھی کسی اور کے بارےمیں کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔‬
‫پتہ نہیں تم میں کون سی ایسی کشش ھے کہ نہ چاہتے ھوے بھی میں تم پر دل ہار بیٹھی ھوں ۔‬
‫میں نے کہا تمہارے فرینڈ کا اب کیا بنے گا‪ .‬وہ ساال تو گانڈو نکال سالے نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ تم اکیلی رھ‬
‫گئی ھو ۔‬
‫اور وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا ۔‬
‫سویرا ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔‬
‫میں اس کتے کے بچے کہ منہ پر اب تھوکوں گی بھی نہیں ۔‬
‫گھٹیا انسان نکال۔۔‬
‫مجھ سے شادی کے دعوے کرتا تھا میرے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں اس نے ۔‬
‫لعنتی کتا بغیرت ۔۔۔‬
‫سویرا اپنے آپ سے ھی باتیں کررھی تھی خودخیالی میں بولی جارھی تھی کہ میں نے ھاتھ نیچے لیجا کرلن کو پکڑ کر‬
‫سویرا کی پھدی میں سیٹ کیا تو پھدی پر لن کو محسوس کرتے ھی سویرا ایکدم خیالوں سے باہر آئی اور خمار آنکھوں سے‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر تم اندر مت کرنا میں خود کروں گی میں اسکی ادا پر ھی ُج م ھوگیا اور ساتھ ھی اپنے‬
‫لن سے ہاتھ ہٹا لیا۔‬
‫سویرا نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا اور ہاتھ نیچے لیجا کر لن پر تھوک کو لگا کر لن کو اچھی طرح گیال کیا اور پھر لن‬
‫کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں سیٹ کر کے تین چار دفعہ لن کو پھدی کے دانے کے ساتھ مسال اور پھر آہستہ سے نیچے‬
‫بیٹھتے ھوے لن کو پھدی کے اندر لینے لگ گئی اور ساتھ ھی اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے سسییییی کیا آدھا لن اندر کر‬
‫کے سویرا نے پھر گانڈ کو اوپر کیا اور لن کو باہر نکال کر پھر واپس لن پر بیٹھتے ھوے لن کا پورا مزہ لیتے ھوے‬
‫آہہہہہہہہہ سیییییی کرتی ھوئی پورا لن پھدی کے اندر ہڑپ کرگئی ۔‬
‫جیسے ھی لن سویرا کی بچے دانی کے اندر داخل ھوا سویرا نے ذور سے آنکھیں بند کر کے آہہہہہہہہہہ آیییییییی کیا اور‬
‫مجھے ایسے محسوس ھوا جیسے میرے ٹوپے کو کسی بہت ھی نرم چیز نے جکڑ لیا ھو ۔‬
‫سویرا نے دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھے اور پورے لن کو پھدی کے اندر لے کر منہ آسمان کی طرف اٹھا کر پھدی کو‬
‫مسلتے ھوے گانڈ میری رانوں پر آگے پیچھے کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫اور ساتھ ساتھ افففففف آہہہہہہہہ سسییییییی کرتے ھوے چدائی کا فل مزہ لینے لگ گئی‬
‫سویرا جیسے جیسے گانڈ کو آگے پیچھے کرتی سویرا کے ممے ویسے ویسے اسکے سینے پر ڈانس کرتے میری آنکھوں‬
‫کے سامنے سویرا کے ہلتے ممے اور سویرا کا بڑھتا جنون میرے اندر کی آگ کو مذید بڑھکا رھا تھا ۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور سویرا کے مموں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا اور مموں کو دبانے لگ گیا‬
‫کیا ھی سوفٹنس تھی سویرا کے مموں کی ۔۔‬
‫سویرا کی سپیڈ تیز سے تیز ھوتی جارھی تھی ۔‬
‫میں نیچے بلکل آرام سے لیٹا ھوا سویرا کا انداز چدائی دیکھ رھا تھا ۔‬
‫واقعی بڑی گرم بچی تھی اور پکی چداکڑ تھی ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد سویرا کی سانسیں اکھڑنا شروع ھوگئیں اور ساتھ ھی اسکی سپیڈ بھی تیز ھوگئی‬
‫سویرا مسلسل تیزی سے لن کے اوپر بیٹھی گانڈ کو آگے پیچھے کرکے فارغ ھونے کے قریب ھوتی جارھی تھی اور مزید‬
‫دومنٹ کے بعد سویرا ایکدم مجھ پر جھکی اور میرے سینے پر اپنے نرم مالئم ممے رکھ کر ٹانگوں جو پیچھے لیجا کر بلکل‬
‫سیدھی ھوکر میرے اوپر الٹی لیٹ گئی اور سانپ کی طرح اپنی کمر کو بل دے کر گانڈ کو ہالنے لگی میں نے بھی ہاتھ‬
‫پیچھے لیجا کر اسکی گول مٹول نرم چوتڑوں پر رکھ لیے سویرا کی سانسیں اور اسکی کمر کے بل مذید تیز ھوگئے اور‬
‫سویرا ایم کمنگ یاسرر ایم کمنگ یاسر لو یو لو یو اففففف آہہہہہ سیییییی ھاےےےےے گگگگگگگگگئی کرتی ھوئی نے گانڈ‬
‫کو پورے ذور کے ساتھ لن پر دبا کر لن کو پھدی کے اندر لے کر پھدی کو بھینچ لیا اور جھٹکے مارتے ھوے سویرا نے‬
‫دانت میرے شولڈر گاڑھ دیے درد سے میری جان نکلنے والی ھوگئی سالی نے کاٹا ھی اتنی ذور سے تھا ۔۔۔‬
‫میرے منہ سے بھی ٰآ ییییییییی نکل گیا مگر اس کمبخت کو کہاں ہوش تھا ۔‬
‫جیسے جیسے سویرا کی پھدی کی گرفت میرے لن سے ڈھیلی ہوتی گئی ویسے ویسے میرے کندھے کی جلد پر اسکے‬
‫دانتوں کی گرفت بھی ڈھیلی ھوتی گئی ۔‬
‫سویرا کی پھدی سے گرم منی میرے لن سے بہتی ھویی میرے ٹٹوں کو بھی گیال کرتی ھوئی نیچے چادر پر گر رھی تھی ۔‬
‫اور سویرا میرے اوپر بےجان ھوکر گری ھوئی تھی میرے ھاتھ اسکی کمر کو سہال رھے تھے ۔‬

‫‪Update no 119‬‬
‫میرے کندھے پر بہت جلن ھو رھی تھی مگر میں نے سویرا کو محسوس نہیں ھونے دیا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد سویرا سنبھلی اور میرے اوپر سے اٹھنے لگی مگر میں نے اسکی کمر کو پکڑ کر اسے وہیں روک لیا اور ہاتھ‬
‫نیچے لیجا کر اسکی رانوں کو پکڑ کر آگے کی طرف کھینچ کر اسے گھوڑی سٹائل میں گھٹنوں کے بل کیا اور اسکی گانڈ‬
‫کو پکڑ کر نیچے سے گانڈ اٹھا کر گھسے مارنے شروع کردیے‪ .‬۔‬
‫سویرا کے منہ سے پھر آہیں نکلنا شروع ھوگئیں ۔‬
‫اسکی آہیں بڑھتی گئیں میرے گھسے تیز ھوتے گئے سویرا آہہہہہہک پلیز آرام سے کرو یاسر پلیززززز اندر جا کر لگ رھا‬
‫ھے پلیززززز آہہہہہہ یاسرررر پلیزززززز‬
‫مگر اسکی یہ باتیں میرا جوش بڑھا رہیں تھیں اور میں بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورے ذور سے گھسے مارتا اور اسکے ہلتے‬
‫مموں اور اسکی آہوں کا فل انجواے کرتا کچھ دیر ایسے ھی میں سویرا کو چودتا رھا اور جوش میں آکر اسکی گانڈ پر ذور‬
‫ذور سے تھپڑ بھی مارتا رھا ۔‬
‫کافی دیر ایسے چودتے ھوے میری بھی بس ھوگئی تو میں نے سویرا کو اپنے اوپر ہٹایا اور اسکے نیچے سے نکل کر اسے‬
‫پکڑ کر پھر گھوڑی بنا دیا اور میں اسکے پیچھے لن کو لہراتا ھوا آیا ۔۔‬
‫سویرا کہنیوں کے بل آگے کو جھک کر گانڈ اٹھاے میرے سامنے گھوڑی بنی ھوئی تھی میں گھٹنوں کے بل اسکی گانڈ کے‬
‫سامنے بیٹھ گیا اور لن کو پکڑ کر اسکی پھدی پر سیٹ کی اور اسکی کمر کو پکڑ کر گھسا مار کر لن ایک ھی دفعہ سارا‬
‫اندر تک کردیا ۔‬
‫سویرا کے منہ سے ہلکی سی چیخ کے ساتھ سسکاری بھی نکلی ۔‬
‫اور سر گھما کر پیچھے دیکھتے ھوے بولی ظالم آرام سے بھی کرلیا کرو اتنا بڑا ایک ھی دفعہ میں اندر کردیتے ھو ۔۔۔‬
‫میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کچھ وقفہ دے کر اسکی کمر کو پکڑ کر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫اچانک میری نظر سویرا کی گانڈ میں چھوٹے سے سوراخ پر پڑی جو گھسًو ں سے کبھی کھلتا تو کبھی بند ھوتا ۔۔‬
‫میں نے ایک ھاتھ اسکی کمر سے ہٹایا اور اسکے چوتڑے پر رکھ کر انگوٹھا اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر سوراخ کو‬
‫مسلنے ھی لگا تھا کہ سویرا جھٹکے سے آگے کو ھوئی تو میرا لن اسکی پھدی سے نکل گیا اور گانڈ بھی ھاتھ سے جاتی‬
‫رھی ۔۔‬
‫سویرا بولی یہ کیا کررھے ھو میں نے کہا کچھ بھی نہیں بس تمہاری حسین گانڈ کے حسین سوراخ کو پیار کررھا ھوں سویرا‬
‫بولی ۔‬
‫کچھ غلط نہ کرنا‬
‫میں نے اسے واپس اسی سٹائل میں کرتے ھوے کہا ۔‬
‫میری چیز ھے میرا جو دل کیا کروں گا ۔۔‬
‫سویرا واپس گھوڑی بنتے ھوے بولی نہیں یاسر میں نے پہلے کبھی ادھر سے نہیں کروایا اور تمہارا اتنا بڑا ھے کہ مجھ‬
‫سے آگے بھی نہیں لیا جاتا تو پیچھے تو بہت درد ھوگی ۔‬
‫میں نے لن واپس پھدی میں ڈال کر گھسا مارتے ھوے کہا جتنی درد ادھر ھو رھی ھے اتنی ھی پیچھے ھوگی ۔‬
‫سویرا آہہہہہہہہ کرتے ھوے بولی یہیں کرتے رھو نہ ۔۔۔‬
‫میں نے پھر گھسا مارا اور بوال سویرا میں اندر فارغ ھونا چاھتا ھوں باہر نکال کر فارغ ھونے میں مزہ نہیں آتا اس لیے‬
‫پیچھے کرنے دو اگر آگے فارغ ھوا تو کچھ ھوجاے گا ۔‬
‫سویرا بولی ۔‬
‫نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے پلیز ادھر ھی کرتے رھو کتنا مزہ آرھا ھے ھے آہہہہہہہہ ۔‬
‫میں گھسے مارتے ھوے بوال پیچھے بھی ایسے ھی مزہ آے گا کروا کر تو دیکھو ۔‬
‫سویرا بولی آہہہہہہ آہہہہہہ ننننہیں یاسرررر بہت درد ھوگا ۔‬
‫میں بھی گھسے مارتا ھوا مزے سے بوال کچھ بھی نہیں ھوتا جانننننن۔‬
‫سویرا بولی‬
‫آہہہہہہ آہہہہہہ یاسرررر پھر تھوڑا سا کرنا جب میں کہوں پھر اور کرنا آہہہہہ آہہہہہ‬
‫میں نے خوشی سے تیز گھسا مارا اور لن کو پھدی سے نکال کر گانڈ کے سوراخ پر رکھا سویرا بے آئییییییی کیا اور بولی‬
‫اتنا مزہ آرھا تھا یاسرررررر ۔‬
‫میں نے سویرا کی گانڈ پر تھپڑ مارا اور سویرا کو ایسے ھی الٹا لیٹنے کا کہا ۔‬
‫‪.‬کیوں کے گھوڑی سٹائل میں سالی نے ٹوپا ہی اندر لیتے بھاگ جانا تھا ۔۔‬
‫سویرا میری طرف بڑے موڈ سے دیکھتی ھوئی لیٹتے ھوے بولی افففففف تم بھی نہ بڑے ضدی ھو ۔۔۔‬
‫اور ساتھ ھی الٹی لیٹ گئی ۔‬
‫میں نے سویرا کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو کھوال اور اسکے گالبی سوراخ پر تھوک کا گوال پھینکا اور لن کو پکڑ کر‬
‫ٹوپے کو موری کے اوپر رکھا اور سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور منہ اسکے کان کے پاس لیجا کر بوال تھوڑی سی درد ھوگی‬
‫برداشت کرلینا۔۔‬
‫سویرا بولی پلیزززز یاسر آرام سے کرنا ۔۔‬
‫میں نے اسے دالسا دیا کہ آرام سے ھی کروں گا بس تم گانڈ کو ڈھیلی چھوڑے رکھنا ورنہ درد ذیادہ ھوگا۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے چادر کا پلو اکھٹا کر کے سویرا کے منہ کے پاس کیا اور اسے کہا اسے منہ میں ڈال لو کہیں‬
‫تمہاری چیخ نہ نکل جاے سویرا نے منہ کھوال تو میں نے چادر کو مروڑ کر اسکے منہ میں دے دیا ۔۔‬
‫اور پھر ہلکا سا گھسا مارا تو پڑووووچ کر کے ٹوپا موری کے اندر گھس گیا اور سویرا کے منہ سے غوںںںںںں غوں کی آواز‬
‫نکلی اور اس نے ایک ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں بھینچ لیا اور دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر مجھے پیچھے کرتے ھوے سر‬
‫نفی میں ہالتے ھوے مجھے روکنے کا اشارا کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں وہیں رک گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد سویرا کی درد کچھ کم ھوئی تو اس نے جیسے ھی ہاتھ میری ران سے ہٹایا تو میں نے پھر ایک گھسا مارا تو لن‬
‫کافی اندر اتر گیا ۔‬
‫سویرا نے ذور سے چادر کو دانتوں میں بھینچ لیا اور مجھے پیچھے کو دھکے دینے لگ گئی اسکی حالت بتا رھی تھی کے‬
‫اسے بہت درد ھورھا ھے ۔‬
‫میں نے وقت ضائع کیے بغیر اگال گھسا مارا کر لن سارا ھی سویرا کی گانڈ میں اتار دیا سویرا بن پانی کے مچھلی کی طرح‬
‫تڑپنے لگ گئی ۔‬
‫اور ایک ذور دار دھکا مار کر میرے نیچے سے نکل کر گھوم کے چادر کو بھی ساتھ اکھٹا کرتے ھوے ایک طرف ھو کر‬
‫اپنی گانڈ کو پکڑ کر رونے لگ گئی ۔‬
‫اچانک جاندار دھکے سے میں سویرا کے اوپر سے ہٹ کر ایک طرف ُلڑھک گیا تھا اور سویرا ذور ذور سے ٹانگیں گھاس‬
‫پر مار کر گانڈ کے سوراخ پر انگلیاں رکھ کر دباے جار رھی تھی اور ساتھ ساتھ ھاےےےےھ امییی جییییی مرگئی کرے‬
‫جارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے پیار سے اسکی گال پر ھاتھ رکھا تو سویرا نے غصے سے میرا ھاتھ جھٹک دیا اور بولی جاہل جنگلی پیچھے ہٹو ۔۔۔‬
‫ڈونٹ ٹچ میں اور ساتھ ھی رونے لگ گئی ۔۔‬
‫مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا کہ میں نے بےچاری کے ساتھ غلط کیا جب وہ خود رضامندی سے چدوا رھی تھی تو اتنی‬
‫جلدبازی کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر میں خاموشی سے سویرا کو دیکھتا رھا اور پھر اسے پیار سے پچکارتے ھوے سیدھا ھی لیٹا دیا اور کچھ دیر مذید‬
‫اسکی منت سماجت اور خوشامد کے بعد میں نے سویرا کی ٹانگیں اٹھا کر کندھوں پر رکھی اور لن کو پھدی میں ڈال کر‬
‫گھسے مارنا شروع ھوگیا سویرا اب بھی گانڈ کے درد سے رو رھی تھی مگر میں پھر بھی اسکی پھدی چودے جارھا تھا ۔۔‬
‫کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد سویرا کو بھی گانڈ کا درد بھول گیا اور اسکا رونا سسکیوں میں بدل گیا میں نے اسکی‬
‫ٹانگوں کو کندھوں سے نیچے کیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اسکے ہونٹوں کو چوستے ھو ے گھسے مارنے لگ گیا سویرا‬
‫نے اب خود ھی ٹانگوں کو اوپر کیا ھوا تھا اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے مزے لے لے کر میرے ھونٹ چوس‬
‫رھی تھی اور گانڈ اٹھا اٹھا کر چدوا رھی تھی ۔۔‬
‫میرے گھسوں کی رفتار تیز ھوتی جارھی تھی میں چھوٹنے کے قریب ھوتا جارھا تھا ادھر سویرا بھی چھوٹنے جے قریب‬
‫تھی اور اس نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹاے اور آہہہہہہہ سیییییک افففففف کرتے ھوے بولی جارھی تھی تیز یاسر ساراااا‬
‫اندر کردو سارراااا آہہہہ فج فک فک فک فک می یاسررررر آہہہہہ ایم کمنگ یاسر یاسسررررر میں بھی سویرا کو چومی‬
‫جارھا تھا اور بولی جارھا تھا سارااااا ایییی کردیا اندر سارااا ایییی اندر ھء فارغ ھونے لگا ھوں جان اندر ھی‬
‫‪.‬سویرا بھی بولی جارھی تھی ھاں یاسررررر اندر ھی ھو جاو اندر ھی‪ .‬میں گولی کھا لوں گی‪ .‬آہہہہہہہہہ یسسسسسسس اس‬
‫کے ساتھ ھی سویرا کا جسم اکڑا اور ادھر میری ٹانگیں اکڑی میرا آخری جاندار گھسا لگا اور لن کو اندر تک کرتے ھوے‬
‫پھدی کے اندر ھی پچکاریاں مارنی شروع ھوگیا ادھر سویرا نے بھی منی چھوڑنا شروع کردی ہم دونوں کی سانسیں اکھڑی‬
‫ھوئی تھیں لمبے لمبے سانس لیتے ھوے ایک دوسرے کے ساتھ چچمٹے ھوے تھے ۔۔۔‬
‫‪.‬کچھ دیر بعد سانسوں کا طوفان تھما اور میرا لن بھی سکڑ گیا جسے سویرا کی پھدی نے ُاگھل کر باہر پھینک دیا‬

‫‪Update no 120‬‬
‫میں نے سویرا کے ہونٹوں پر لمبی کس کی اور اس سے پوچھا مزہ آیا سویرا نے میری گردن کے گرد بازوں کا احصار‬
‫ڈالتے ھوے بازوں کو کس کر میرے ہونٹوں پر زورررررر سےُچ ما لیا اور مستی سےبولی ُبتتتتتت مزہ آیا ۔۔۔‬
‫میں نے بھی سویرا کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر دباتے ھوے اسکے ہونٹوں کو چوم کر بڑے رومینٹک انداز سے‬
‫کہا کتنا مزہ آیا ۔۔‬
‫سویرا نے بازوں میری گردن سے نکالے اور بازوں کو سر سے اوپر لیجا کر پہلے ایک سیکسی انگڑائی لی اور پھر بازوں‬
‫کو پھیال کر بولی اتناااااااااااا مزہ آیا اور ساتھ ھی بازوں کو میری کمر میں ڈال کر مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔‬
‫میں نے پھر سویرا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبی کس کی اور سویرا کے اوپر سے ہٹ گیا ۔‬
‫سویرا کچھ دیر لیٹی بڑی عجیب نظروں سے مجھے دیکھتی رھی اور میں اپنے دھیان کپڑے پہننے لگ گیا ۔۔‬
‫سویرا اب بھی پیاسی نظروں سے مجھے دیکھ رھی تھی ۔‬
‫جیسے سالی پتہ نہیں کتنے عرصہ سے سیکس کی بھوکی تھی ۔‬
‫جو ابھی تک اسکی پیاس نہیں ُبجھی تھی ۔‬
‫میں نے سویرا کو کہا کپڑے پہن لو سویرا ایسے بےفکر ھوکر لیٹی ھوئی تھی جیسے اپنے گھر میں لیٹی ھو‬
‫کپڑے پہننے کا سن کر سویرا نے نفی میں سر ہالیا ۔۔‬
‫مجھے تو یہ ٹینشن لگ گئی تھی کہ ہمیں ادھر دو گھنٹے ھو چکے تھے ۔‬
‫اورکوئی بھی ادھر آسکتا تھا ۔‬
‫اور میں سویرا کو یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ جلدی کرو کوئی آجاے گا‪.‬‬
‫میں تو پہلے ھی اس کے ساتھ بڑی بڑی ُپھکریاں مار چکا تھا ۔‬
‫کہ یہ میری زمینیں ہیں میری اجازت کے بغیر ادھر کوئی آنہیں سکتا وغیرہ ۔۔۔‬
‫مگر مجھے اب اندر سے ڈر لگنے لگ گیا تھا کہ کوئی پانی لگانے واال مالزم ھی نہ ادھر آن ٹپکے ۔۔۔‬
‫میں کپڑے پہن چکا تھا جبکہ سویرا ابھی تک ننگی ھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی پیاسی نظروں سے مجھے دیکھی جارھی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے دو تین دفعہ اسے کہا کہ کپڑے پہن لو تمہیں شہر چھوڑ آوں مگر وہ سالی ہر دفعہ نفی میں سر ہال دیتی ۔۔‬
‫میرے دماغ میں اچانک ایک پالن آیا کیونکہ اب ادھر مذید رکنا پھنسنے والی بات تھی اس لیے‬
‫میں اچانک کھڑا ھوا اور ایسے کان لگا کر ایسے سننے لگا جیسے کسی کے آنے کی آہٹ کو محسوس کرنے لگا ہوں ۔‬
‫میں نے چہرے پر گبھراہٹ کے اثار التے ھوے کہا ۔‬
‫سویرا جلدی کپڑے پہنوں لگتا ھے کوئی اس طرف آرھا ھے ۔‬
‫یہ نہ ھو کہ کوئی گاوں واال راہگیر اسطرف ھی آجاے ۔۔‬
‫میں نے تو بڑے کانفیڈینس اور بڑی گبھراہٹ سے سویرا کو ڈرایا تھا ۔‬
‫مگر اسکا پھر نفی میں سر ہلتا دیکھ کر میری گانڈ پھٹنے والی ھوگئی ۔‬
‫میں جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گیا اور اسکا بازو ہالتے ھوے بوال سویرا پاگل مت بنو ایسے کوئی آگیا تو دونوں پھنس جایں‬
‫گے ۔‬
‫سویرا بولی آنے دو جسے آنا ھے ۔‬
‫میں حیران ھوتے ھوے بوال یار تمہاری بدنامی ھوگی ۔‬
‫سویرا بولی ہونے دو مجھے نھیں ڈر بدنامی کا۔‬
‫دوستو یقین کرو ۔۔میری تو گانڈ پھٹنے والی ھوگئی سویرا کا پاگل پن دیکھتے ھوے ۔۔‬
‫میں دل ھی دل میں سوچنے لگ گیا کہ لے کاکا اے کڑی تے تیرے گل پے گئی۔۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ سویرا پر میری کسی بات کا اثر نہیں ھورھا تو میں نے تھوڑا غصے سے کہا ۔‬
‫سویرا جلدی سے کپڑے پہنو نہیں تو میں جارھا ھوں بعد میں مجھ سے نہ گال کرنا ۔‬
‫اور میں ساتھ ھی اٹھنے لگا ۔تو سویرا ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی اور شلوار پکڑ کر سیدھی کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ڈر گئے نہ ھاھا ھا ھا ھا‬
‫میں نے گبھراے ھوے لہجے سے کہا ۔‬
‫پاگل مجھے تمہاری عزت کی فکر ھے اگر کسی گاوں والے نے دیکھ لیا تو تمہیں نہیں پتہ کہ ہمارے گاوں والے اسکے ساتھ‬
‫کیا کرتے ہیں ۔۔‬
‫میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔‬
‫پھر کبھی کرلیں گے کسی اور جگہ اور جتنی دیر تم کہو گی میں اتنی دیر تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔‬
‫سویرا شلوار میں ٹانگ ڈالتے ھوے بولی ۔‬
‫پکا‬
‫میں نے کہا۔‬
‫ہاں یار پکا۔۔‬
‫سویرا دوسری ٹانگ شلوار میں ڈالتے ھوے بولی ۔‬
‫کھاو قسم کہ میں جب بھی کہوں گی تم آو گے ۔‬
‫میں نے قسم کھاتے ھوے کہا ہاں یار جب بھی تم کہو گی میں پہنچ جاوں گا۔۔‬
‫سویرا شلوار کو گانڈ سے اوپر کرتے ھوے بولی ۔‬
‫مگر میں تم کو ملوں گی کیسے یا تم تک میسج کیسے پہنچے گا ۔۔‬
‫میں بھی اسکے اس سوال پر پریشان ھوگیا ۔۔‬
‫کہ واقعی مجھے تو اسکے گھر کا بھی نہیں پتہ کہ یہ رہتی کہاں ھے ۔‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا تم مجھے اپنا اڈریس بتا دو میں تمہیں خط لکھ دیا کروں گا ۔‬
‫یا تم جس ٹائم کالج جاتی ھو وہ ٹائم بتا دو میں تم کو اس ٹائم مل لیا کروں گا اور جب تمہارا موڈ ھو مجھے بتا دینا میں جگہ کا‬
‫ارینج کرلوں گا ۔۔‬
‫سویرا بریزیر مموں کے اوپر کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ٹھیک ھے میں صبح آٹھ بجے کالج جاتی ھوں فالں راستے سے ۔۔‬
‫اور دو بجے چھٹی ھوتی ھے تو اسی راستے سے واپس جاتی ھوں ۔۔‬
‫میں نے کہا اور تم رہتی کہاں ھو ۔۔۔سویرا نے جیسے ھی اپنے محلے اور گلی کا بتایا تو ۔‬
‫میرے پیروں تلے سے تو ایکدم زمین نکل گئی ۔۔۔کیونکہ اس محلے میں اور اسی گلی میں تو مہری کا گھر تھا ۔‬
‫مجھے یوں حیران دیکھ کر سویرا قمیض پہن کر قمیض کو مموں سے سہی کرتے ھوے مموں کو ہالتے ھوے بولی کیا ھوا ۔‬
‫پریشان کیوں ہوگئے۔۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا کچھ نہیں بس ایسے ھی ۔۔۔‬
‫سویرا گھاس سے چادر اٹھا کر جھاڑتے ھوے بولی ۔۔سچ بتاو یاسر میرے محلے کا سن کر تم پریشان کیوں ہوگئے ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں یار بس ایسے ھی ۔‬
‫سویرا چادر تہہ کرتے ھوے بولی مرضی ھے تمہاری اگر نہیں بتانا چاھتے تو ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔‬
‫بس ایسے ھی ۔۔‬
‫اور پھر میں نے برقعہ اٹھا کر سویرا کی طرف بڑھاتےھوے کہا لو یہ پہن لو اور جلدی کرو ۔‬
‫سویرا برا سا منہ بناتے ھوے برقعہ میرے ھاتھ سے پکڑ کر بولی ۔‬
‫اوہوووو اتنی بھی کیا جلدی پڑ گئی تمہیں ۔۔‬
‫اور سویرا برقعہ پہننے لگ گئی برقعہ پہن کر سویرا نے چادر شولڈر بیگ میں رکھ کر بیگ کی زپ بند کی اور بیگ کو‬
‫کندھے پر لٹکاتے ھوے بولی چلیں میں نے کہا ہممممم اور سویرا دو قدم آگے بڑھی اور پھر ممجھ سے لپٹ کر مجھے ہگ‬
‫کیا اور پھر ہم دونوں آگے پیچھے نہر کی طرف چل دیے ۔۔‬
‫نہر کے پل کے پاس پہنچ کر میں نے اس جگہ کی طرف دیکھا جہاں سویرا کے چودو کی موٹرسائیکل کھڑی تھی مگر اب‬
‫وھاں موٹرسائیکل کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی کے چودو ساب فرار ھو چکے تھے میں نے سویرا کو کہا کہ تمہارا فرینڈ‬
‫تو تمہیں چھوڑ کر فرار ھوچکا ھے ۔‬
‫سویرا اپنے چودو کو گندی گندی گالیاں دیتے ھوے پل کراس کر کے شہر کی طرف چل پڑی میں بھی اسکے ساتھ ساتھ چلتا‬
‫ھوا شہر پہنچا اور پھر سویرا کو رکشہ کروا کر اس میں بیٹھا کر میں پھر ملنے کا وعدہ کرکے کے واپس گاوں کی طرف‬
‫چل پڑا ۔۔‬
‫گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا اور پھر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل دیا ۔‬
‫آنٹی کے گھر پہنچا تو حسب معمول آنٹی چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا رھی تھی اور نسرین آنٹی کے پاس بیٹھی کھانا‬
‫بنوانے میں انکا ہاتھ بٹوا رھی تھی ۔‬
‫جبکہ عظمی مجھے نظر نہ آئی میں نے گھر میں داخل ھوتے ھی سالم کیا تو آنٹی اور نسرین نے چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا تو آنٹی نے مسکراتے ھوے اور نسرین نے برا سا منہ بناتے ھوے میرے سالم کا جواب دیا ۔۔‬
‫میں آنٹی کے پاس پہنچا اور نسرین کے سر پر چپت مارتے ھوے کہا ۔‬
‫اج بڑیاں مینتاں ہو ریاں نے ۔۔‬
‫نسرین غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی‪.‬‬
‫تمیز نال ۔‬
‫آندے ای شوخا بن گیا آں ۔۔‬
‫آنٹی ہنستے ھوے نسرین کو ڈانٹنے لگ گئی ۔‬
‫اور میری طرف دیکھ کر بولی آج چاند کدھر سے نکل آیا لگتا ھے کہ اب تمہارا دل نہیں کرتا ہمارے گھر آنے کو ۔‬
‫میں نے نسرین کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫آنٹی جی دل تو بہت کرتا ھے مگر آپ کے گھر میں چڑیل کا سایہ ھے اور جب میں آپ کے گھر آتا ھوں وہ چڑیل مجھے‬
‫چمٹ جاتی ھے ۔‬
‫نسرین نے چمٹا پکڑا اور میری ٹانگ پر مارتے ھوے رونے والے انداز میں بولی ۔‬
‫امی دیکھ لو ہن‪ .‬فیر تسی مینوں بولن لگ پیندے او ۔۔‬
‫ایویں بکواس کری جاندا اے‪ .‬۔‬
‫میں نے ھائییییی کیا اور آنٹی کی طرف دیکھتے ھوے کہا دیکھ لیں آنٹی میں نے کہا تھا نہ کہ آپکے گھر چڑیل کا سایہ ھے ۔‬
‫آتے ھی چڑیل نے مجھ پر حملہ کردیا نہ ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں بھاگ کر اندر کمرے میں چال گیا اور نسرین مجھے برا بھال کہتی رھی ۔‬
‫کمرے میں پہنچا تو عظمی چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کسی ناول پڑھنے میں مصروف تھی میری طرف دیکھتے ھی‬
‫اس نے ناول ایک طرف رکھا اور بڑے سیریس انداز میں مجھے سالم کیا میں اسکے سیریس ھونے کی وجہ جانتا تھا مگر‬
‫میں نے اسے احساس نہیں ہونے دیا اور اپنی عادت کے مطابق اسے چھیڑتے ھوے بوال ۔‬
‫خیر ھے پڑھائی مکمل ہوگئی ھے جو ناول پڑھنے شروع کردیے ۔۔‬
‫عظمی سر جھکا کر بولی نہیں بس ایسے ھی فارغ بیٹھی ھوئی تھی توٹائم پاس کرنے کے لیے ناول پڑھنا شروع کردیا ۔‬
‫میں عظمی کے پاس بیٹھا کچھ دیر اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رھا ۔‬
‫اور پھر آنٹی اور نسرین بھی کمرے میں آگئیں اور آنٹی بتانے لگ گئی کہ نسرین کی نظر کمزور ہوگئی ھے اسے کل ڈاکٹر‬
‫کے پاس لے کر گئی تھی ۔‬
‫میں نے چونک کر انجان بنتے ھوے کہا کہ آنٹی آپ مجھے بتاتی میں ساتھ چال جاتا ۔‬
‫آنٹی بولی کوئی بات نہیں ہم تانگے پر ھی چلی گئیں تھیں میں نے ہمممم کیا اور انٹی نے کھانا لگا دیا اور پھر ہم سب نے مل‬
‫کر کھانا کھایا اور پھر میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر واپس اگیا ۔۔۔۔۔‬
‫ابھی میں گھر آکر صحن میں بیٹھا ھی تھا کہ باہر کے دروازے سے انکل سجاد اندر داخل ہوے اور میری طرف دیکھ کر‬
‫مسکراتے ھوے میرے پاس آے میں انکو دیکھ کر احترامًا کھڑا ہوگیا ۔۔‬
‫انکل نے میرے سر پر پیار دیا اور میں نے انکو چارپائی پر ھی بیٹھنے کا کہا ۔‬
‫اتنے میں امی اور ابو بھی آکر انکل کے پاس بیٹھ گئے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انکل نے مجھے کہا یاسر پتر‬
‫دکان پر کیوں نہی آرھے ۔‬
‫ابو بولے اسکی کرتوتیں ہیں دکان پر جانے والی ۔‬
‫انکل بولے بھائی آپ خاموش رہیں یاسر میرا بھی بیٹا ھے اور میں اسے آپ سے ذیادہ جانتا ہوں ۔‬
‫وہ سب کچھ بس غلط فہمی میں ھوا تھا اس میں یاسر کا کوئی قصور نہیں ھے ۔‬
‫میں حیران و پریشان ھوکر انکل کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫کہ اچانک میرے دماغ میں جنید کی کہی بات آئی کے میں انکل کو فلم ھی ایسی سناوں گا کہ انکل خود تمہیں راضی کرنے‬
‫گھر آئیں گے ۔‬
‫میں مزید سینہ چوڑا کر کے بیٹھ گیا ۔‬
‫انکل کچھ دیر بیٹھے میری صفائیاں دیتے رھے اور پھر مجھے کہنے لگے کے صبح تم نے دکان پر آنا ھے نہیں تو میںنے‬
‫کان سے پکڑ کر لے جانا ھے میں نی جی اچھا کہا تو انکل اجازت لے کر اپنے گھر چلے گئے ۔‬
‫کچھ دیر ہم سب بیٹھے باتیں کرتے رھے ابو کا موڈ بھی میرے ساتھ بہتر ھوگیا تھا ۔۔‬
‫اور پھر میں سونے کے لیے بیٹھک میں چال گیا۔‬

‫‪..Update no 121‬‬
‫اگلے دن میں صبح ٹائم سے اٹھا اور دکان کے لیے تیار ھوکر گھر سے نکل پڑا ۔‬
‫دکان پر پہنچا تو انکل نے دکان کھول لی تھی ۔‬
‫میں نے دکان کی جھاڑ پونچھ کی اور کچھ ھی دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوا اور بڑی‬
‫گرمجوشی سے میرے گلے مال ۔‬
‫سارا دن کام میں مصروف رھے کچھ خاص نہ ھوا شام کو میں ضوفی کی طرف بھی نہیں گیا اور انکل کے ساتھ ھی گھر‬
‫آگیا۔‬
‫دو تین دن میں نے جم کر دکان پر ٹائم دیا ۔‬
‫ایک دن جنید نے مجھے خوشخبری دی کے تیرا کیمرے واال کام ھوگیا ھے ۔‬
‫میں نے خوش ھوکر پوچھا کہ کدھر ھے کیمرا جنید نے بتایا کی آج شام کو مل جاے گا‬
‫پھر ہم کام میں مصروف ہوگئے شام کو ایک لڑکا دکان پر آکر جنید کو منی سائز کا ہینڈی کیم دے گیا ۔‬

‫‪Update no 122‬‬

‫میں نے جنید سے کیمرا چالنے اور زومنگ کرنے کا طریقہ سیکھنے لگ گیا جنید نے تفصیل سے مجھے سارے فنکشن‬
‫سمجھا دیے میں نے کیمرہ ایک شاپر میں ڈال کر دکان میں ایک الماری میں چھپا کر رکھ دیا اور جب شام کے چھ بجے تو‬
‫میں انکل سے چھٹی لے کر شاہین مارکیٹ کی طرف اپنے محبوب کا دیدار کرنے کے لیے چل پڑا ۔‬
‫شاہین مارکیٹ پہنچا تو میں نے نسیم کی دکان دیکھی تو وہ بند تھی میں سیڑھیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا اور پارلر پر پہنچ‬
‫کر دروازے کو ناک کیا تو کچھ دیر بعد شیشے کے آگے سے پردہ سرکا تو میرا چاند مجھے نظر آیا ۔‬
‫ضوفی نے جیسے ھی مجھے دیکھا تو اسکے چہرے پر ایکدم رونق آگئی اور اس نے جلدی سے دروازہ کھوال ۔‬
‫اور میں بنا اسکے اشارے سے ھی اندر داخل ھوگیا ۔ اور اندر کا جائزہ لینے لگ گیا کہ اچانک مجھے پیچھے سے‬
‫ضوفی نے جپھی ڈال لی۔‬
‫اور ایڑیاں اٹھا کر میرے کان کے قریب منہ کر کے میرے کان کو منہ میں ڈال کر کان پر کاٹتے ھوے بولی الپرواہ کتنے‬
‫دنوں بعد آے ھو ۔‬
‫میں نے سیییی کرتے ھوے گھوم کر ضوفی کی طرف منہکیا اور اسے باہوں میں بھر کر بوال تمہیں کون سا میری یاد آئی کہ‬
‫آکر بندے کا حال ھی پوچھ لیتی ۔‬
‫ضوفی ایکدم سیریس ھوکر میری گالوں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر بولی کیا ھوا سب خیریت تو ھے ۔‬
‫ضوفی کی بےچینی یوں ایکدم گبھراہٹ اور فکر مندی میں اپنا‪ .‬پن تھا‬
‫مجھے ضوفی پر بےاختیار پیار آیا اور‬
‫میں نے بھی ضوفی کی کمر سے ھاتھ نکالے اور اسکی روئی سی نرم اور ریشم سی مالئم گالوں کو تھام لیا اور اسکے‬
‫ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا ۔‬
‫کچھ نہیں ہوا میری جان ۔‬
‫ضوفی برا سا منہ بنا کر بولی تو پھر اتنے دنوں سے آے کیوں نہیں پتہ ھے میں کتنی پریشان ھوجاتی ھوں تمہیں ذرہ سی‬
‫بھی میری فکر نہیں ۔‬
‫میں نے پھر ضوفی کے ہونٹوں کو چوما اور کہامیری جان گھر میں کچھ ضروری کام تھا اس لیے میں شہر نہیں آیا اب‬
‫میری جان کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا ۔‬
‫کیونکہ میں دوبارا اسی دکان پر واپس آگیا ھوں ۔‬
‫ضوفی کا چہرہ ایکدم گالب کی طرح کھل اٹھا اور میری کمر میں بازو ڈال کر میرے ساتھ چمٹتے ھوے بولی ۔‬
‫یہ تو بہت اچھا کیا تم نے یاسر میں اس بات کو لے کر بہت پریشان تھی کہ میری وجہ سے تمہاری نوکری گئی ۔‬
‫میں نے کہا ایسی الکھ نوکریاں اپنی جان پر وار دوں کیسی باتیں کرتی ھو ۔‬
‫ضوفی مذید میرے ساتھ چمٹتے ھوے بولی ۔‬
‫لویو یاسر ۔‬
‫میں نے بھی لو یو ٹو کہااور میرے بازوں نے بھی ضوفی کی کمر کے گرد گھیرا ڈال لیا ۔‬
‫اور دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں گتھم گتھا ھوگئے ۔‬
‫‪.‬ضوفی تو ایسے ترسوں کی طرح میرے ہونٹوں کو چوس رھی تھی جیسے کوئی سال بعد مجھ سے ملی ھو ۔‬
‫ضوفی ایڑیاں اٹھا اپنی رانوں کو میری رانوں کے ساتھ مال کر پھدی والے حصے کو میرے نیم تنے لن کے ساتھ رگڑ رھی‬
‫تھی ۔‬
‫دوستو پتہ نہیں کیوں ضوفی کی قربت میں میرا لن کیوں نہیں اکڑتا تھا نہ میرے دماغ پر شہوت سوار ھوتی تھی بس دل کرتا‬
‫تھا کہ ضوفی کے جسم کو اپنے جسم کے اندر سما لوں میرے عالوہ کوئی اور آنکھ ضوفی کو نہ دیکھے ۔‬
‫میرا بس چلتا تو ضوفی کو سات پردوں میں چھپا کر رکھوں ۔۔‬
‫کچھ ددیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رھے اور پھر ضوفی مجھ سے الگ ھوئی اور بولی ایک گڈ نیوز ھے ۔‬
‫میں نے حیران ھوکر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا وہ کیا جان ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی نسیم دکان چھوڑ گیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا اتنی جلدی‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫اسکو ایک مہینے کا نوٹس دیا تھا انکل نے تو انکو شاید کہیں اور دکان مل گئی ھے اس لیے وہ پہلے ھی دکان چھوڑ کر‬
‫چلے گئے ۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔۔۔‬
‫تو ضوفی برقعہ پہنتے ھوے بولی یاسر میرے دماغ میں ایک آئیڈیا ھے اگر تم میرا ساتھ دو تو میرے دل کی تمنا بھی ھے‬
‫اور میرا شوق بھی ۔‬
‫میں نےکہا۔‬
‫حکم کرو جان ۔۔‬
‫ضوفی بولی گھر چل کر بتاوں گی ۔‬
‫میں نے بے صبری سے کہا ابھی بتاو نہ ضوفی مسکراتی ھوئی میرے قریب آئی اور میری گال پر چٹکی کاٹتےھوے بولی‬
‫میرے مجنوں گھر تو چلو پھر تسلی سے بات کرتے ہیں ۔‬
‫اور ہاں آج رات کو میں نے تمہیں جانے نہیں دینا اس لیے پہلے ھی گھر کال کر کے بتا دو۔۔‬
‫میں نے بازو سر سے اوپر کر کے انگڑائی لی اور بڑے رومینٹک اندازسے انگڑائی لیتے ھوے بوال ۔‬
‫خیر ھے کہیں آج ساری رات ہمممممممم‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی ٹھہر جا شوخے ۔‬
‫میں سییییییی کرتے ھوے اپنے بازو کو مسلنے لگ گیا تو ضوفی مجھے دھکا لگاتے ھوے دروازے کی طرف لیجاتے ھوے‬
‫بولی گھر چلو ایک دفعہ بتاتی ھوں تمہیں ۔۔۔۔‬
‫میں نے ٹھنڈیآہہہہہہ بھری اور ضوفی کہ آگے لگ کر چلتا ھوا پارلر کے دروازے سے باہر نکال میں جیسے ھی پارلر سے‬
‫باہر آیا تو اچانک میری نظر سیڑیوں پر پڑی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکلتی گئی ۔۔۔ ۔‬
‫‪..‬سیڑیوں کی طرف دیکھ کر ایک دفعہ تو مجھےجھٹکا لگا کہ انکل سجاد اوپر سے نیچے اتر تے ھوے آرھے ہیں میں‬
‫آنکھیں پھاڑے غور سے آنے والے کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫مگر جب وہ آدھی سیڑیاں اترا تو اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ یہ تو کوئی اور ھی ھے جسے میں انکل سجاد‬
‫سمجھ رھا تھا دور سے بلکل ہو با ہو آنے واال انکل سجاد کی فوٹو کاپی لگ رھا تھا اتنی ھی جسامت ویسے ھی آدھا سر گنجا‬
‫چھوٹی سی سفید داڑھی ۔۔۔‬
‫میں نے ایک لمبی سانس لے کر چھوڑی اور شکر ادا کیا کہ آج رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے بچ گیا۔۔‬
‫اتنی دیر میں ضوفی بھی پارلر سے باہر نکل آئی اور دروازہ الک کر کے مجھے چلنے کا کہنے لگ گئی میں سیڑھیاں‬
‫چڑھتا ھوا پھر اس آدمی کیطرف غور سے دیکھنے لگ گیا جس سالے کو دیکھ کر میرے ٹٹے شارٹ ھوگئے تھے ۔۔‬
‫اور پھر ہم دونوں بیسمنٹ سے باہر نکل کر گھر کی طرف چل پڑے باہر نکلتے وقت میں نے نسیم کی دکان کو پھر غور‬
‫سےدیکھا تو باہر سے بھی بلکل خالی تھی جو شوکیس باہر پڑا ھوا تھا وہ بھی نہیں تھا اسکا مطلب تھا کہ سچ میں دکان خالی‬
‫ھوچکی تھی ۔۔‬
‫ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے ھوے بازار سے نکلے اور ایک گلی میں داخل ھوے تو مجھے اچانک گھر فون کرنے کا‬
‫خیال آیا میں نے ضوفی سے پوچھا کے ادھر کوئی پی سی او ھے تو بتاو پہلے میں گھر اطالع کردوں کہ میں نے آج رات‬
‫اپنی جانو کے ساتھ جپھی ڈال کر سونا ھے ۔۔۔ اس لیے گھر نہیں آنا۔۔‬
‫ضوفی میرے بازو پر تھپڑ مارتے ھوے بولی آرام سے بڑے شوخے ھو تم یاسر‬
‫میں نے مصنوعی غصہ سے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا اسکا مطلب ھے کہ میں نے اکیلے نے ھی سونا ھے ۔‬
‫ضوفی نقاب میں آنکھوں می ںشوخی التے ھوے بڑی ادا سے اثبات میں سر ہال کر بولی ہممممم‬
‫میں وہیں رک گیا جیسے میرے پیر زمین نےپکڑ لیے ھوں ۔‬
‫میں نے رکتے ھی کہا‬
‫نہ پائی میں تے چال ایں ایتھوں ای پینڈ واپس ۔‬
‫اور میں گھوم کر واپس جانے لگا تو ضوفی نے ہنستے ھوے میرا بازو پکڑا اور بولی شوخےماروں گی ایک سیدھی طرح‬
‫گھر چلتے ھو کہ ۔لگاوں ایک ۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫واہ جی واہ‬
‫نالے کلے وی سوانا اے تے نالے بدمعاشیاں وی ۔۔‬
‫۔ضوفی ہنستے ھوے دھری ہوتی جارھی تھی ۔‬
‫ضوفی میرا بازو کھینچ کر مجھے واپس لیجاتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسرتنگ نہ کرو چلو اگلی گلی میں پی سی او ھے گھر کال کرکے بتادو۔۔۔‬
‫میں نے رونے والے انداز سے کہا ۔‬
‫میں کلے نئی سونااااااااااآا‬
‫ضوفی پھر ہنستے ھوےبولی‬
‫اچھا بابا نہ سونا اب تو چلو ۔‬
‫میں بچے کو عیدی ملنے کی خوشی کیطرح خوشی سے اچھل پڑا اور سڑک پر ھے بھنگڑا ڈالتے ھوے کہنے لگا آہااااااااا‬
‫اے ہوئی نہ گل ۔۔۔۔‬
‫یہ تو شکر تھا کہ گلی میں کوئی سیانہ بندا نہیں تھا بس چھوٹے سے بچے کھیل رھے تھے ۔‬
‫ضوفی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫ھوووووو ھاے‬
‫یاسر تم بھی نہ واقعی ای پاگل ھو ۔۔۔۔‬
‫جگہ تو دیکھ لو بیچ بازار ھی ناچنے لگ گئے ھو ۔‬
‫میں ایکدم سیریس ھو کر ضوفی کے قریب ھوا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسکا ھاتھ پکڑ کر بوال ۔‬
‫کیا کروں جانے من تم نے مجھے پاگل کردیا ھے اب اس میں میرا کیا قصور ھے ۔‬
‫ضوفی اپنا ھاتھ چھڑواتے ھوے بولی مجنو ساب آگے چوک آنے واال ھے باقی کے ڈائالگ گھر جاکر بول لینا ۔‬
‫میں نے سامنے دیکھا تو واقعی ہم چوک کے قریب آگئے تھے میں سریس ہوکر ضوفی کے ساتھ چلنے لگ گیا ۔۔‬
‫چوک کراس کر کے کچھ ھی آگے ایک پی سی او تھا میں نے پی سی او میں جاکر گاوں کا نمبر مالیا اور دکاندار سے کہا کہ‬
‫میرے گھر پیغام بھیج دے کہ میں نے آج گھر نہیں آنا کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ھے ۔‬
‫دکاندار سے تسلی بخش جھوٹ بول کر میں نے کال بند کی اور پی سی او سے باہر نکل کر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیے‬
‫راستے میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ گلی میں کافی چہل پہل تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔‬
‫ضوفی نے ڈور بیل دی تو کچھ ھی دیر بعد ماہی کی آواز آئی‪ .‬کون ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا آپ کے جیجا جی ۔۔۔‬
‫ضوفی نے میرے کندھے پر چپت مارتے ھوے کہا ۔‬
‫کسی کو تو معاف کردیا کرو۔۔‬
‫اتنے میں ماہی نے دروازہ کھوال ۔‬
‫اور مسکرا کر ہم دونوں کا سواگت کیا ۔‬
‫پہلے ضوفی اندر داخل ھوئی تو جب میں اندر داخل ھونے لگا تو ماہی نے کسی دربان کی طرح جھک کر ھاتھ آگے کرتے‬
‫ھوے کہا آئیے جیجا جی اندر تشریف لے آئیں ۔۔‬
‫ضوفی نے مڑ کر ماہی کا انداز دیکھا تو کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی‬
‫دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو ۔۔‬
‫میں سینہ تان کر بڑے رعب سے چلتا ھوا اندر داخل ھوا تو میری نظر سامنے ٹی وی الونج میں پڑی تو آنٹی بیٹھی ھوئی‬
‫تھیں میں ایکدم بلکل معصوم سا بن کر چلتا ھوا آنٹی کے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور گلے‬
‫شکوے کرنا شروع ھوگئیں کہ میری اتنی طبعیت خراب رھی اور تم نے خبر لینا بھی مناسب نہیں سمجھا مجھے واقعی اپنی‬
‫الپرواھی پر شرمندگی ھونے لگ گئی کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ماہی نے بتایا بھی تھا کہ امی کی طبعیت خراب ھے ۔۔‬
‫میں نے انٹی سے سوری کی اور اپنی کچھ منگھڑت مجبوری بتائی ۔‬
‫تو آنٹی نے چلو کوئی بات نہیں جیتے رھو کہہ کر میرے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگ گئی ۔‬
‫ضوفی اوپر کمرے میں چینج کرنے چلی گئی ۔‬
‫اور ماہی کچن میں چلی گئی ۔‬
‫میں اور انٹی بیٹھے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے کچھ دیر بعد ضوفی چینج کر کے نیچے آگئی اور میرے‬
‫سامنے صوفے پر بیٹھ گئی باتوں کے دوران جب بھی میری نظر ضوفی کی نظر سے ملتی تو میں اسے اوپر چلنے کا اشارہ‬
‫کرتا ۔‬
‫ضوفی مشکل سے ہنسی کو کنٹرول کرتی ھوئی ہونٹوں کو دانتوں تلے دبانے لگ جاتی اور ساتھ میں آنکھوں کو کھول کر‬
‫مجھے گھور کر سر نیچے کرلیتی ۔۔‬
‫ہم کچھ دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ماہی کھانا لے کر آگئی تو آنٹی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی‬
‫اور ماہی کو کمرے میں ھی کھانا لے کر آنے کا کہا میں نے آنٹی کو بہت کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ھی کھانا کھا لو مگر‬
‫آنٹی بولی بیٹا مجھ سے ذیادہ دیر بیٹھا نہیں جاتا اس لیے میں بستر پر ھی ٹیک لگا کر کھانا کھا لوں گی ۔‬
‫آنٹی کے جانے کے بعد ہم تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔‬
‫اور پھر ضوفی اورماہی نے برتن سمیٹے اور ضوفی بولی چلو یاسر چاے اوپر چل کر پیتے ہیں ۔۔‬
‫میں تو کب کا اوپر جانے کے لیے بےچین بیٹھا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں جا پہنچا میرے پیچھے ھی ضوفی بھی آگئی ۔۔‬

‫‪..Update no 123‬‬
‫میں صوفے پر بیٹھ گیا اور ضوفی بھی میرے ساتھ ھی جڑ کر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫ضوفی میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی یاسر میرا ایک مشورہ ھے تمہیں اگر تم مجھے اپنا سمجھتے ھو تو انکار نہیں کرو گے ۔‬
‫۔ضوفی ہنستے ھوے دھری ہوتی جارھی تھی ۔‬
‫ضوفی میرا بازو کھینچ کر مجھے واپس لیجاتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسرتنگ نہ کرو چلو اگلی گلی میں پی سی او ھے گھر کال کرکے بتادو۔۔۔‬
‫میں نے رونے والے انداز سے کہا ۔‬
‫میں کلے نئی سونااااااااااآا‬
‫ضوفی پھر ہنستے ھوےبولی‬
‫اچھا بابا نہ سونا اب تو چلو ۔‬
‫میں بچے کو عیدی ملنے کی خوشی کیطرح خوشی سے اچھل پڑا اور سڑک پر ھے بھنگڑا ڈالتے ھوے کہنے لگا آہااااااااا‬
‫اے ہوئی نہ گل ۔۔۔۔‬
‫یہ تو شکر تھا کہ گلی میں کوئی سیانہ بندا نہیں تھا بس چھوٹے سے بچے کھیل رھے تھے ۔‬
‫ضوفی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫ھوووووو ھاے‬
‫یاسر تم بھی نہ واقعی ای پاگل ھو ۔۔۔۔‬
‫جگہ تو دیکھ لو بیچ بازار ھی ناچنے لگ گئے ھو ۔‬
‫میں ایکدم سیریس ھو کر ضوفی کے قریب ھوا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسکا ھاتھ پکڑ کر بوال ۔‬
‫کیا کروں جانے من تم نے مجھے پاگل کردیا ھے اب اس میں میرا کیا قصور ھے ۔‬
‫ضوفی اپنا ھاتھ چھڑواتے ھوے بولی مجنو ساب آگے چوک آنے واال ھے باقی کے ڈائالگ گھر جاکر بول لینا ۔‬
‫میں نے سامنے دیکھا تو واقعی ہم چوک کے قریب آگئے تھے میں سریس ہوکر ضوفی کے ساتھ چلنے لگ گیا ۔۔‬

‫‪...Update no 124‬‬
‫چوک کراس کر کے کچھ ھی آگے ایک پی سی او تھا میں نے پی سی او میں جاکر گاوں کا نمبر مالیا اور دکاندار سے کہا کہ‬
‫میرے گھر پیغام بھیج دے کہ میں نے آج گھر نہیں آنا کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ھے ۔‬
‫دکاندار سے تسلی بخش جھوٹ بول کر میں نے کال بند کی اور پی سی او سے باہر نکل کر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیے‬
‫راستے میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ گلی میں کافی چہل پہل تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔‬
‫ضوفی نے ڈور بیل دی تو کچھ ھی دیر بعد ماہی کی آواز آئی‪ .‬کون ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا آپ کے جیجا جی ۔۔۔‬
‫ضوفی نے میرے کندھے پر چپت مارتے ھوے کہا ۔‬
‫کسی کو تو معاف کردیا کرو۔۔‬
‫اتنے میں ماہی نے دروازہ کھوال ۔‬
‫اور مسکرا کر ہم دونوں کا سواگت کیا ۔‬
‫پہلے ضوفی اندر داخل ھوئی تو جب میں اندر داخل ھونے لگا تو ماہی نے کسی دربان کی طرح جھک کر ھاتھ آگے کرتے‬
‫ھوے کہا آئیے جیجا جی اندر تشریف لے آئیں ۔۔‬
‫ضوفی نے مڑ کر ماہی کا انداز دیکھا تو کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی‬
‫دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو ۔۔‬
‫میں سینہ تان کر بڑے رعب سے چلتا ھوا اندر داخل ھوا تو میری نظر سامنے ٹی وی الونج میں پڑی تو آنٹی بیٹھی ھوئی‬
‫تھیں میں ایکدم بلکل معصوم سا بن کر چلتا ھوا آنٹی کے پاس پہنچا اور انکو سالم کیا آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور گلے‬
‫شکوے کرنا شروع ھوگئیں کہ میری اتنی طبعیت خراب رھی اور تم نے خبر لینا بھی مناسب نہیں سمجھا مجھے واقعی اپنی‬
‫الپرواھی پر شرمندگی ھونے لگ گئی کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ماہی نے بتایا بھی تھا کہ امی کی طبعیت خراب ھے ۔۔‬
‫میں نے انٹی سے سوری کی اور اپنی کچھ منگھڑت مجبوری بتائی ۔‬
‫تو آنٹی نے چلو کوئی بات نہیں جیتے رھو کہہ کر میرے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے لگ گئی ۔‬
‫ضوفی اوپر کمرے میں چینج کرنے چلی گئی ۔‬
‫اور ماہی کچن میں چلی گئی ۔‬
‫میں اور انٹی بیٹھے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھوگئے کچھ دیر بعد ضوفی چینج کر کے نیچے آگئی اور میرے‬
‫سامنے صوفے پر بیٹھ گئی باتوں کے دوران جب بھی میری نظر ضوفی کی نظر سے ملتی تو میں اسے اوپر چلنے کا اشارہ‬
‫کرتا ۔‬
‫ضوفی مشکل سے ہنسی کو کنٹرول کرتی ھوئی ہونٹوں کو دانتوں تلے دبانے لگ جاتی اور ساتھ میں آنکھوں کو کھول کر‬
‫مجھے گھور کر سر نیچے کرلیتی ۔۔‬
‫ہم کچھ دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ماہی کھانا لے کر آگئی تو آنٹی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی‬
‫اور ماہی کو کمرے میں ھی کھانا لے کر آنے کا کہا میں نے آنٹی کو بہت کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ھی کھانا کھا لو مگر‬
‫آنٹی بولی بیٹا مجھ سے ذیادہ دیر بیٹھا نہیں جاتا اس لیے میں بستر پر ھی ٹیک لگا کر کھانا کھا لوں گی ۔‬
‫آنٹی کے جانے کے بعد ہم تینوں نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔‬
‫اور پھر ضوفی اورماہی نے برتن سمیٹے اور ضوفی بولی چلو یاسر چاے اوپر چل کر پیتے ہیں ۔۔‬
‫میں تو کب کا اوپر جانے کے لیے بےچین بیٹھا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں جا پہنچا میرے پیچھے ھی ضوفی بھی آگئی ۔۔‬
‫میں صوفے پر بیٹھ گیا اور ضوفی بھی میرے ساتھ ھی جڑ کر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫ضوفی میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی یاسر میرا ایک مشورہ ھے تمہیں اگر تم مجھے اپنا سمجھتے ھو تو انکار نہیں کرو گے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا ۔‬
‫حکم کرو جان ۔‬
‫میری کیا جرات کے میں انکار کردوں ۔۔‬
‫ضوفی میرے ھاتھ کو سہالتے ھوے بولی یاسر مزاق نہیں میں سیریس بات کرنے لگی ھوں اور میری بات کو مزاق میں مت‬
‫لینا ۔‬
‫اس میں ہمارا بہتر مستقبل بن سکتا ھے ۔۔اگر تم میرا ساتھ دو تو ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے اسکا ھاتھ چوما اور بوال ۔‬
‫بولو جان میں سیریس ھی ھوں ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر میرا ایک سپنا ھے کہ تمہاری اپنی دکان ھو اپنا کاروبار ھو اور تم ایک نواب کی طرح رہو ۔‬
‫**********میں نے مسکرا کر کہا ۔‬
‫۔تمہارا یہ سپنا ضرور پورا ھوگا‬
‫اگر‬
‫*******‬
‫نے چاھا تو ضرور کوئی نہ کوئی سبب بن جاے گا ۔‬
‫مگر اس کے لیے کچھ وقت تو لگے گا ۔‬
‫ابھی تو میری اتنی حثیت نہیں کہ اپنا کاروبار شروع کرسکوں۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر‬
‫میری ایک تجویز ھے اگر تم برا نہ مانو تو کہوں ۔‬
‫میں نے سوالیہ نظروں سے ضوفی کی طرف دیکھا اور مسکراتے ھوے بوال ۔۔‬
‫جی جان کہو۔۔‬
‫میں بھال کیوں برا مانوں گا۔۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫یاسر وہ نسیم والی دکان جو خالی ھوئی ھے اگر تمہیں وہ دکان مل جاے اور تم ادھر بوتیک کا کام کرلو ۔تمہیں تجربہ تو ھے‬
‫پہلے ھی ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا میری جان میں پہلے یہ ھی بات کررھا تھا کہ میری ابھی اتنی حثیت نہیں ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر کیا میری اور تمہاری میں کوئی فرق ھے ۔‬
‫میں نے کہا نہیں جان ۔‬
‫میرا سب کچھ تمہارا ھے ۔۔‬
‫جتنا کہ میرے پاس ھے وہ سب کچھ تمہارے نام ھے میری ہر سانس کی مالک تم ھو ۔۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی ۔‬
‫اور میرا سب کچھ وہ کسکا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا تمہارا سب کچھ بھی میرے نام ھے ۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫تو پھر یہ جو تم نے بار بار حثیت نہیں ھے حثیت نہیں ھے لگا رکھی ھے پلیز اسکو بند کرو۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں ضوفی جو حقیقت ھے وہ میں تم سے چھپانا نہیں چاہتا ۔۔‬
‫میں حقیقت پسند ھوں سپنوں کی زندگی بسر نہیں کرتا ۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر میری بات کیوں نہیں سمجھ رھے میں کچھ اور کہنا چاھ رھی ہوں اور تم پھر وہ ھی باتیں لے کربیٹھ گئے‬
‫ھو ۔‬
‫میں نے تو پھر تم کھل کر بتا دو میں واقعی تمہاری بات کو نہیں سمجھا۔۔‬
‫ضوفی بولی دیکھو یاسر ۔‬
‫اگر ہم وہ دکان لے لیں تو کیا تم اکیلے دکان کو سنبھال لو گے ۔۔‬
‫میں نے کہا یار مسئلہ تو پھر وہ ھی ھے کہ لیں گے کیسے ۔۔‬
‫ضوفی بولی ہم دونوں لیں گے ۔‬
‫میرے پاس کچھ پیسے سیو ہیں جو میں نے ماہی کی شادی کے لیے رکھے ہیں اور کچھ زیور بھی ھے اتنے پیسے تو آسانی‬
‫سے ھو جائیں گے کہ ہم دکان کی اچھی سیٹنگ کرکے مال ڈال سکیں رہی دکان لینے کی بات تو میں نے آنٹی سے دکان کی‬
‫بات کی تھی تو آنٹی نے کہا جب تمہارا دل کرے چابی لے لینا۔۔‬
‫میں ہکا بکا ھو کر ضوفی کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے یوں سکتے کے عالم میں دیکھا تو میرے بازو کو ہالتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسررررررر۔۔۔‬
‫میں ایکدم چونکہ‬
‫اور بوال‬
‫ننننننہیں‪ .‬ضوفی میں اتنا بھی گرا ھوا نہیں کہ تم سے پیسے لے کر کاروبار شروع کروں تمہارا تو پہلے ھی مجھ پر اتنا بڑا‬
‫احسان ھے جسکو میں عمر بھر نہیں چکا سکتا اور اوپر سے تم یہ دکان اور وہ بھی ماہی کی شادی کے پیسوں سے نہ نہ‬
‫نہ ۔‬
‫ضوفی تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے ۔۔‬
‫کیوں مجھے اپنی نظروں سے گرا رھی ھو۔۔۔۔‬

‫‪...Update no 125‬‬
‫ضوفی بولی اوہووووو میری بات تو پوری سن لو پہلے ھی اپنا لیکچر جھاڑنا شروع کردیا۔‬
‫میں نے کہا نہیں ضوفی پلیززز اس ٹاپک پر مجھ سے بات مت کرو ۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسررر ایک دفعہ میری پوری بات تو سن لو پھر تمہارا جو دل کرے وہ کرلینا۔۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا ھاں بولو۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫دیکھو میں جتنے پیسے بھی دکان کے لیے دوں گی وہ تم ادھار سمجھ کر رکھ لینا‬
‫ویسے بھی تو وہ پیسے بنک میں ھی پڑے ہیں ہمارے کونسا کام کے ہیں ابھی ۔‬
‫اور زیور بھی ویسے ھی پڑا ھے ۔‬
‫ماہی کی ابھی چار پانچ سال تو شادی نہیں کرنی ابھی اسکی پڑھائی چل رھی ھے ۔۔‬
‫اتنے عرصہ میں تم کمیٹیاں ڈال کر مجھے پیسے واپس کردینا ۔۔‬
‫یہ ھی سمجھو کہ تم نے کسی سے ادھار پیسے لیے ہیں ۔۔‬
‫مجھے تو تم اپنا سمجھتے نہیں ۔‬
‫ضوفی کا ساتھ ھی لہجا گلوگیر ہوگیا۔۔‬
‫میں نے اسکی بھرائی آواز سنی تو چونک کر اسکی گالوں کو پکڑ لیا اور اسکے بہتے آنسو انگوٹھے سے صاف کرتے‬
‫ھوے بوال ۔۔‬
‫ضوفی میری جان تمہیں کیا پتہ کہ تم میرے لیے کیا ھو‬
‫میرا تو مرنا جینا بھی تمہارے لیے ھے ۔‬
‫میں تو تمہاری ہر سانس کے ساتھ سانس لیتا ھوں ۔‬
‫اور تم کہتی ھو کہ میں تمہیں اپنا نہیں سمجھتا ۔‬
‫تم میری مجبوری کو بھی سمجھو نہ اگر کاروبار نہ چال تو میں کیسے اتنے پیسے واپس کروں گا ۔‬
‫کیوں مجھ پر اتنا بڑا بوجھ ڈال رھی ھو جسکو میں اٹھا نہ سکوں ۔۔۔‬
‫ضوفی بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔‬
‫یاسر مجھے پورا یقین ھے کہ تم بہت جلد ترقی کرو گے مجھے تم پر بھروسہ ھے تو میں تمہیں یہ سب کچھ کرنے کا کہہ‬
‫رھی ھوں اور دکان بھی بڑے موقع کی ھے ۔‬
‫اگر میں نے آنٹی کو روکا نہ ھوتا تو دکان خالی ہونے سے پہلے ھی کرایہ پر چڑھ جانی تھی یہ تو انکی مہربانی ھے کہ‬
‫انہوں نے کسی کو دکان نہیں دی ۔۔‬
‫لوگ بینک سے الن لے کر بھی تو کاروبار کرتے ہیں نہ ۔‬
‫تم یہ ھی سمجھ لینا کہ بنک سے الن لیا ھے ۔‬
‫اور رھی کام چلنے کی بات تو دکان مین بازار میں ھے یہ تو ممکن ھی نہیں کہ کام نہ چلے اور اوپر سے تمہاری ڈیلنگ‬
‫بھی بہت اچھی ھے ۔‬
‫پلیززززززز یاسر میں نے بڑے مان سے تمہیں کہا ھے ۔۔‬
‫میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رھا ۔‬
‫اور پھر بوال ضوفی آنٹی اور ماہی کیا سوچیں گی ۔۔۔‬
‫اتنے میں ماہی چاے لے کر اندر داخل ھوئی اور مسکراتےھوے بولی ۔‬
‫ماہی یہ سوچے گی کہ اسکے بھائی کی اپنی دکان بن گئی اور امی یہ سوچیں گی کہ انکا بیٹا اپنا کاروبار کرنے لگ گیا۔۔‬
‫میں آنکھیں پھاڑے ماہی کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے میرا ھاتھ پکڑ کر دباتے ھوے بولی سن لیا کیا سوچیں گی ۔‬
‫دیکھ لو یاسر تم سے کتنے لوگوں کی امیدیں وابسطہ ہیں ۔‬
‫میں ماہی کی طرف گھورتے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫تم بھی اس پاگل کی باتوں میں آگئی ۔۔‬
‫ماہی ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫جیجا جی ۔‬
‫یہ آپی کا نہیں بلکہ میرا اور امی کا پالن ھے ۔۔‬
‫آپی تو پہلے ھی کہہ رھی تھی کہ آپ نے نہیں ماننا ۔‬
‫مگر ہمارے مجبور کرنے سے آپی نے آپ کے ساتھ بات کی ھے ۔۔۔‬
‫میں اوففففففف کرتے ھوے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے کوہالتے ھوے بولی ۔‬
‫اب تو کوئی بہانہ نہیں جناب کے پاس ۔‬
‫میں نے سر اوپر اٹھایا اور ضوفی کیطرف دیکھتے ھوے بھرائی ھوئی آواز میں بوال ۔‬
‫ضوفی مجھے اپنی قسمت پر یقین نہیں ھورھا کہ آپ لوگوں جیسی فرشتہ صفت فیملی کے ساتھ میں اٹیچ ھوگیا ھوں ۔‬
‫ضوفی پلیز زززز ایک دفعہ پھر سوچ لو‬
‫میں بہت غریب گھرانے اور سادہ سے ماحول سے تعلق رکھتا ھوں ۔‬
‫میری اتنی اوقات نہیں ھے جتنا آپ لوگ مجھ پر مہربان ہورھے ھو ۔۔‬
‫یہ کہتے ھوے میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرکے آ نسو گرنے لگ گئے۔۔‬
‫ضوفی نے گبھرا کر میری گالوں کو تھاما اور بولی پاگل ھوگئے ھو عورتوں کی طرح رونے لگ گئے ۔۔‬
‫کون کہتا ھے کہ تم غریب ھو ۔‬
‫انسان پیسے سے نہیں دل سے امیر ھوتا ھے ۔‬
‫پیسہ تو ہر کوئی کما لیتا ھے ۔‬
‫مگر نیک دل اورانسانیت کسی کسی کو نصیب ھوتی ھے اور تم خوش نصیب ھو کہ تمہارے پاس صورت کے ساتھ ساتھ‬
‫اچھی سیرت بھی ھے ۔‬
‫میں ایسے ھی نہیں تم پر لٹو ھوگئی تھی ۔۔‬
‫جتنی غریبی میں نے دیکھی ھے تم سوچ بھی نہیں سکتے یاسر ۔‬
‫میں نے لڑکی ھوکر اپنے گھر کو سنبھاال اور آج ہمارے پاس سب کچھ ھے اور یہ سب کچھ میں نے مرد بن کر کمایا ھے‬
‫اور مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ھے ۔‬
‫لوگوں کی باتیں سنیں طعنے سنے مگر کسی کی پرواہ نہیں کی ۔‬
‫آج سب کے منہ بند ہیں ۔۔‬
‫جو باتیں کرتے تھے آجمیری مثالیں دیتے ہیں اور تم ایک مرد ھوکر عورتوں کی طرح آنسو بہا رھے ھو ۔کم ان یار ۔۔۔۔‬
‫ضوفی کی باتیں سن کر میں نے اپنے آپ کو سنبھاال اور ماہی جو کھڑی ہم دونوں کا الڈ پیار دیکھ رھی تھی ہنستے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫اگر دونوں کے پاس وقت ھے تو مجھ غریب پربھی ترس کھا لو کب کی ٹرے ھاتھ میں لیے کھڑی ھوں ۔۔‬
‫میں روتا ھوا ہنس پڑا اور ٹرے سے چاے کا کپ اٹھایا اور پھر ضوفی نے بھی ۔‬
‫تو ماہی نے چھت کی طرف منہ‬
‫۔ماہی نے چھت کی طرف منہ کر کے شکر ادا کیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چاے کا کپ اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫پھر ضوفی بولی تو پھر صبح آنٹی سے دکان کی چابی لے لوں ۔‬
‫ماہی شوخی سے بولی لے لینا آپی بھائی کی طرف سے میں ہاں کرتی ھوں ۔‬
‫ماہی کی بات سن کر میں ناچاہتے ھوے بھی ہنس پڑا ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی ٹھیک ھے پھر کل ھی میں چابی لے لیتی ھوں اور یاسر تم ایک دو دن میں دکان کی سیٹنگ کی تیاری شروع‬
‫کروا دینا ۔۔‬
‫میں نے آہستہ سے اثبات میں سر ہال دیا ۔۔‬
‫ماہی میرا ہلتا ھوا سر دیکھ کر تالی مارتےھوے بولی یہ ھوئی نہ بات ایسے ھی نہیں کہتے کہ سالی آدھے گھر والی ۔‬
‫تھینکیو جیجا جی ۔۔۔۔۔‬
‫اب تو میں پہلے جیجا جی سے پارٹی کھاوں گی پھر دکان کا کام شروع کرنے دوں گی ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی یہ کونسی بات ھے میری بہن جب کہے میں حاضر ھوں ۔۔‬
‫پھر ہم مذید کچھ دیر ہنستے کھیلتے باتیں کرتے رہے اور ماہی سونے کا کہہ کر اٹھ کر چلی گئی کہ آپ باتیں کریں مجھے تو‬
‫نیند آرھی ھے ۔‬
‫ماہی کے جاتے ھی ۔میں اٹھ کر دروازے کی طرف دوڑا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے الک کر دیا ضوفی ہنستے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫پاگل ابھی ماہی نیچے بھی نہیں پہنچی ھوگی‬
‫کیا سوچےگی۔۔۔‬
‫میں نے باہوں کو ہوا میں پھیالیا اور ضوفی کی طرف بڑے رومینٹک انداز سے چلتا ھوا بوال‬
‫یہ ھی سوچے گی کہ جیجا جی اپنی ڈیوٹی پوری کرنے لگے ہیں اور اسکے ساتھ ھی‬
‫‪.‬میں سیدھا ضوفی کی طرف بڑھا جو صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوچکی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کے پاس پہنچتے ھی اسے باہوں میں بھر لیا اور کس کے جپھی ڈال کر اسے اوپر اٹھا کر گھمانے لگا ضوفی‬
‫نے مجھے کندھوں سے پکڑا ھوا تھا اور چال رھی تھی چھوڑو یاسر میں گر جاوں گی امییییییی جی‬
‫میں ضوفی کو گھماتا ھوا بیڈ کی طرف لے گیا اور دھڑام سے اسے بیڈ پر گرایا اور خود اسکے اوپر گرا ضوفی میرے‬
‫نیچے اور میں اسکے اوپر میرے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھوں پر مکے مارتے ھوے بولی بہت شوخے ھو تم یاسر ایک منٹ میں میری مت مار دیتے‬
‫ھو ۔۔‬
‫میں نے ہونٹ ضوفی کی گالب کی پنکھڑیوں پر رکھے اور پنکھڑیوں کا رس چوس کر بوال ۔‬
‫تم چیز ھی ایسی ھو ضوفی تمہیں دیکھتے ھی بس تم میں سما جانے کو جی چاہتا ھے ۔۔‬
‫لو یو جانی ۔‬
‫اور پھر میں نے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور کتنی دیر میں ضوفی کے اوپر لیٹا ھوا اسکے ہونٹوں کا رس پیتا رھا ۔‬
‫اور ضوفی بھی مجھ سے پیچھے نہ تھی وہ بھی برابر میں میرا ساتھ دیتے ھوے کبھی میرا نچال ہونٹ چوستی تو کبھی اوپر‬
‫واال اور کبھی ہم دونوں کی زبانیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ۔‬
‫ضوفی کسنگ کے دوران پاگل ھوجاتی تھی اسکا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ میرے ہونٹوں کو ھی کھاجاے ۔‬
‫ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں میرا لن ضوفی کی پھدی کے بلکل اوپر تھا اور ہلکی سی تڑ کے ساتھ ضوفی کی‬
‫پھدی کو دباے ھوے تھا میرا سارا جسم ضوفی کے نرم جسم کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں ضوفی کے اوپر سے اٹھا اور بیڈ سے نیچے کھڑا ہوگیا۔‬
‫ضوفی بھی ٹانگیں اوپر کر کے بیڈ پر سیدھی ھوکر لیٹ گئی ۔‬
‫میں نے قمیض کے بٹن کھولے اور قمیض اتار کر صوفے پر پھینکی اور پھر ضوفی کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا ضوفی بلکل‬
‫سیدھی لیٹی ھوئی تھی میں سائڈ کے بل لیٹ کر ضوفی کے اوپر جھک گیا اور اسکے سلکی ریشمی بالوں کو سہالتے ھو‬
‫اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫ضوفی کی آنکھیں سرخی مائل ہوچکی تھیں میں ان آنکھوں کی اس سرخی میں ڈوبتا جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی پلکوں کو جھپکا کے بولی ۔‬
‫اب میں جاوں ۔‬
‫میں نے اسکے شربتی ہونٹوں پر انگلی رکھی اورنفی میں سرہالتے ھوے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھی انگلی کے قریب‬
‫کیے‬
‫اور بڑے رومینٹک انداز سے بوال‬
‫۔ابھی تو نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬
‫میرے پہلو میں یوں ھی لیٹی رھو ابھی رات بہت ہے‬
‫جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں تسکین ہو کچھ تو‬
‫مت کرو جانے کی بات کہ ابھی رات بہت ہے‬
‫کب پو پھٹے کب رات کٹے کون یہ جانے‬
‫مت چھوڑ کے جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬
‫رہنے دو ابھی چاند سا چہرہ میرے سامنے‬
‫اپنے شربتی ہونٹوں سے‬
‫مے اور پالؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬
‫کٹ جائے یوں ہی پیار کی باتوں میں ہر اک پل‬
‫کچھ جاگو جگاؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬
‫۔ضوفی نے ساتھ ھی آنکھیں بند کرلیں اور میری غزل میں کھو گئی میں انگلی ضوفی کے ہونٹوں سے ہٹائی تو ضوفی کے‬
‫ہونٹ کانپ رھے تھے اسکا اوپر نیچے ھوتا ھوا سینہ اسکی تیز سانسوں کی گواہی دے رھا تھا‬
‫اسکی دل کی دھڑکن میرے سینے پر محسوس ہورھی تھی ۔‬
‫میں نے ہونٹوں کو ضوفی کے بند آنکھوں کی طرف بڑھایا اور اسکی آنکھوں کو چوم کر ہونٹ اسکے ماتھے پر لے گیا‬
‫ماتھے کو چوما تو ہونٹ اسکی روئی سی گالوں میں پوست ھوگئے ۔‬
‫ضوفی کے منہ سے سسکاری نکلی آہہہہہہ سیییییی اور پلکیں اٹھیں آنکھوں میں نشہ پھر دکھا اور میرے ہونٹ ہلے اس شب‬
‫وصل پر ایک اور شعر کہہ دیا‬
‫گزرنے ہی نہ دوں آج یہ رات۔۔‬
‫کہو تو‬
‫رکھ دوں ھاتھ گھڑی پر‬
‫۔ضوفی نے پھر پلکوں کو واپس آنکھوں پر بیچھا دیا۔‬
‫اور میں ضوفی کے روئی سے نرم جسم پر سوار ہوکر نیچے سرکتا ھوا اپنے چہرے کو ضوفی کے ابھرے ھوے سڈول‬
‫مموں پر لے آیا اور اسکے ُک ھلے گلے سے نظر آتی مموں کی درمیانی چٹی سفید لکیر پر ہونٹ کیا رکھے ضوفی کے جسم‬
‫میں کرنٹ لگ گیا ضوفی نے مموں کو اوپر کرتے ھوے لمبی سیییییییی سسکاری بھری اور مجھے کندھوں سے پکڑ کر‬
‫اپنے اوپر سے دھکا دے کے اپنے پہلو میں گرا لیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنی قمیض پکڑ کر جلدی سے اتار کر ایک‬
‫طرف پھینک دی ۔‬

‫)‪Update no (126‬‬
‫میری نظر جیسے ھی ضوفی دودھیا جسم پر پڑی‬
‫اففففففففففدفففففففففففففففففففففففففف۔‬
‫کس کافر نے سانس لینا گوارہ کیا ھو ۔‬
‫آہہہہہہہہہہہہہ۔‬
‫کیا ریشم سا بدن تھا کیا بدن کی بناوٹ تھی ظلم پر ظلم کہ گورے مموں پر سرخ بریزئیر ۔‬
‫کون کافر بہکے نہ کون کافر جو پلکوں کو جھپکاے ۔‬
‫میرے ہاتھ ضوفی کے مموں کی طرف بڑھے تو ضوفی نے میرے ھاتھوں کو وہیں روک دیا اور ہاتھوں کو پکڑ کر واپسی‬
‫کا راستہ دیکھاتے ھوے میری بنیان پر ال رکھا۔۔‬
‫میں ضوفی کا اشارا سمجھتے ھوے اٹھا اور بنیان پکڑ کر اتارنے لگا اور بنیان میرے منہ اور آنکھوں کو ڈھانپ کر میرے‬
‫سر سے کیا نکلی میرے تو جسم سے جان ھی نکل گئی۔‬
‫میری روح پرواز کر گئی ۔‬
‫۔‬
‫سارا ظلم مجھ پر ہی کیوں‬
‫رحم بھی کوئی شے ھے‬
‫ظالم نے میری روح قبض کرلی جب میری آنکھیں ضوفی کے ننگے مموں کی زیارت کو گئیں ۔‬
‫افففففففففففف آہہہہہہہہہہہ‬
‫کیا بتاوں یارو کیا تعریف کروں اس سنگ مرمرکی جسے بنانے والے نے فرصت سے بنایا تھا ۔‬
‫کہاں سے الوں وہ الفاظ جو اس کمبخت کے حسن کی تعریف پر پورے اتر سکیں‬
‫گالبی رنگت کے تنے ھوے گول مٹول ممے اففففففف اور مموں پر گالبی رنگ کے ھی چھوٹے سے تنے ھوے نپل‬
‫آہہہہہہہہہہہہہہہ۔‬
‫ممے دیکھ کر مجھے تو جو جھٹکا لگا سو لگا میرے لن کو مجھ سے بھی ذیادہ جھٹکا لگا اور جناب ایک ھی دفعہ میں سب‬
‫احترام بھول کر تن کر کھڑے ھوگئے ۔۔‬
‫بنیان اتارتے ھوے بنیان نے میری آنکھوں کے آگے پردہ کیا کیا ادھر۔‬
‫صاحب نے موقع غنیمت جانا اور مموں سے پردہ ہٹا دیا‬
‫ھاےےےےےےے رے ظالم گھائل کرنے کی تیری یہ ادا۔۔‬
‫۔مجھے یوں سکتے کہ عالم میں دیکھ کر ضوفی نے دونوں مموں پر ہاتھ رکھے اور مموں کو مٹھی میں بھر کر زبان باہر‬
‫نکال کر ہونٹوں پر پھیرتے ھوے ۔‬
‫گھٹنوں کے بل میری طرف بڑھی‬
‫میں بھی ٹانگیں پیچھے کیے ھوےبیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے دونوں مموں کو پکڑے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ھوے گھٹنوں کے بل رینگتی ھوئی میرے بلکل قریب آئی اور‬
‫مموں کو چھوڑ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر ایسے غرائی جیسے جنگلی بلی شکار کو دیکھتے ھوے حملہ کرنے سے‬
‫پہلے غراتی ھے اور ساتھ ھی اس جنگلی بلی نے سیدھا میرے دائیں کان پر حملہ کیا اور کان کو منہ میں ڈال کر ہلکی سی‬
‫کاٹی کی ۔‬
‫میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں ۔۔۔‬

‫)‪Update no (127‬‬
‫جیسے ھی ضوفی نے میرے کان کو منہ میں ڈال کر ہلکا سا کاٹا اور پھر اپنی گرم سانس کو میرے کان میں چھوڑا۔۔‬
‫مینوں تے اینج کمبنی چھڑی جیویں سردیاں وچ نہا کے بندا کمبدا اے۔۔۔‬
‫میرا سارا جسم کانپ گیا اور دوسرا ظلم مجھ غریب پر یہ ھوا کہ ضوفی کے ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ لگے اور‬
‫ننگے بازو میری گردن کے ساتھ لگے‬
‫اففففففففففففففف مرگیا غریب دا بال۔۔۔۔۔‬
‫میرے ھاتھ کانپنے لگے میری ٹانگیں کپکپانے لگی ضوفی نے دائیں کان کو چھوڑا تو پھر بائیں کان کو منہ میں ڈال کر ہلکا‬
‫سا کاٹ کر گرم سانس میرے کان میں چھوڑی تو ۔‬
‫میرا صبر جواب دے گیا ۔‬
‫میرے اندر پینڈو جاگ پڑا‬
‫میں نے ایکدم ضوفی کے مموں کو پکڑا اور ذور سے دبا کر ضوفی کو بیڈ پر گرا کر خود ضوفی کے اوپر چڑھ گیا اور‬
‫پاگلوں کی طرح ضوفی کے چہرے کو چومنے لگ گیا کبھی آنکھوں کو تو کبھی ماتھے کو تو کبھی گالوں کو تو کبھی‬
‫ہونٹوں کو تو کبھی ٹھوڑی کو تو کبھی نیگ کو تو کبھی کانوں کی لو کو ۔۔‬
‫ضوفی میرا پاگل پن دیکھ کر خود بھی پاگل ھوگئی اور وہ بھی میرے چہرے کو جگہ جگہ سے چومنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں کھسکتا ھوا ضوفی کے اوپر لیٹ چکا تھا میرا تنا ھوا لن ضوفی کے چڈوں میں گھس چکا تھا ۔‬
‫ضوفی بھی اپنی رانوں کو آپس میں بھینچ کر میرے لن کو جکڑ رھی تھی اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے ساتھ مسل‬
‫رھی تھی ۔‬
‫میں بھی ایسے ھی گھسے ماری جارھا تھا ۔۔۔‬
‫۔ضوفی کا جوش بڑھتا جارھا تھا ضوفی نے میرے اوپر والے ہونٹ کو منہ میں ڈال لیا اور بڑے ذور سے چوستے ھوے گانڈ‬
‫اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے ساتھ رگڑ رھی تھی اور ضوفی کے ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے تھے میں‬
‫بھی اپنے آپ سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ادھر ضوفی کے گانڈ اٹھانے کی سپیڈ تیز ھوئی ادھر میرے گھسوں کی بھی سپیڈ تیز‬
‫ھوگئی ضوفی نے یکلخت میرے ہونٹ کو دانتوں کے بیچ لے کر پورے زور سے کاٹ لیا میں نے پورے ذور سے ضوفی‬
‫کے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں لے کر کاٹ لیا ضوفی کے ناخن میری کمر میں پوست ھوتے گئے میرے بازوں کی گرفت‬
‫اسکی کمر کے گرد سخت ھوتی گئی ادھر ضوفی کا جسم اکڑا ادھر میری ٹانگوں سے جان نکلی ادھر ضوفی کے جسم نے‬
‫جھٹکے کھاتے ھوے پھدی سے منی شلوار نکلنا شروع ہوئی ادھر میرے لن سے منی کی پھوار شلوار میں ھی نکلنا شروع‬
‫ھوئی‬
‫دونوں کے جسم ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش کرتے ھوے کانپے لگے‬
‫دونوں کے ہونٹ زخمی ہوگئے میری کمر کو ضوفی کے ناخنوں نے چھیل ڈاال ۔‬

‫)‪Update no (128‬‬

‫لن اور پھدی کی برسات تھمی دونوں کہ جسم ایک دوسرے پر بےجان ھوکر گرے دونوں کی تیز چلتی سانسیں ایک دوسرے‬
‫کے اندر پہنچی ۔‬
‫کچھ دیر بعد دونوں کو ہوش تب آیا جب ایک دوسرے کےخون کا ذائقہ منہ میں آیا ۔‬
‫پھر نظروں سے نظریں چرا کر جھٹکے سے الگ ھوے اور پھر ۔۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬دونوں شرمسار ہوکر ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئے ۔‬
‫کچھ دیر خاموشی سے گزری ۔‬
‫آخر کار میں نے ہمت کر کے کروٹ لی تو ضوفی بریزیر پہن کر دونوں بازو مموں پر رکھ کر سمٹ کر دوسری طرف لیٹی‬
‫ھوئی تھی ۔‬
‫میرے منہ میں خون کا ذائقہ اب بھی آرھا تھا میں نے ہونٹوں پر ہاتھ لگا کر ہاتھ کو دیکھا تو میری انگلیوں پر خون لگ گیا ۔‬
‫اور میرے نچلے ہونٹ پر شدید جلن کا احساس بھی ھوا‬
‫میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کے بازو کو چھونا چاھا مگر مجھ میں ہمت نہ ھوئی میں نے ہاتھ راستے میں سے ھی واپس‬
‫کھینچ لیا ۔‬
‫اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی گیلی شلوار کو دیکھنے لگ گیا میرا لن بھی سکڑ چکا تھا۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا رھا کہ مجھے اپنی کمر پر ضوفی کا ھاتھ سرکتا ھوا محسوس ھوا میں نے گردن گھما کر دیکھا‬
‫تو ضوفی سیدھی ھوکر میری کمر کو سہال رھی تھی ۔‬
‫اور ضوفی کے اوپر والے ہونٹ سے بھی خون رس رھا تھا ۔۔‬
‫میں ضوفی کے ہونٹ کو دیکھ کر چونکہ اور جلدی سے ضوفی کی طرف منہ کر کے بیٹھتے ھوے اسکے ہونٹ کو انگلی‬
‫سے چھوتے ھوے ۔‬
‫کہا یہ کیا ھوا ضوفی ۔۔‬
‫میری انگلی لگتے ھی ضوفی نے سیییی کیا اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ھوے میرے ہونٹ پر انگلی رکھتے ھوے‬
‫کہا ۔۔‬
‫سوری یاسر مجھے پتہ نہیں چال ۔۔‬
‫میں نے کہا سوری تو مجھے بولنا چاھیے کہ تمہارے نازک ہونٹ کو زخمی کردیا ۔۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی زخمی تو میں نے کیا تھا تم نے تو بدلہ لیا ھے ۔‬
‫میں نے سر جھکا کر کہا ۔‬
‫ضوفی آج جو کچھ بھی ھوا اچھا نہیں ھوا ۔‬
‫پتہ نہیں مجھے کیا ھوگیا تھا ۔‬
‫تمہارے جسم میں کشش ھی اتنی ہے کہ میں خود سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫یاسر مجھے شرمندہ مت کرو اصل قصور تو میرا ھے ۔‬
‫میں خود بہک گئی تھی پتہ نہیں کیوں تمہیں دیکھتے ھی مجھ پر نشہ سا سوار ھو جاتا ھے اور دل کرتا ھے کہ تم میں سما‬
‫جاوں ۔۔‬
‫میں نے کہا میری جان میرا بھی یہ ھی حال ھے ۔‬
‫مگر پلیز ہمیں خود پر کنٹرول کرنا چاھیے ۔۔‬
‫ضوفی بولی ایسا بھی کچھ نہیں ھوا جو تم اتنا گبھرا گئے ھو ۔۔‬
‫میں نے اپنی گیلی شلوار ضوفی کو دیکھاتے ھوے کہا ۔‬
‫یہ دیکھو کیا ھوا ھے ۔۔‬
‫ضوفی میری گیلی شلوار دیکھ کر ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫افففففف تم بھی نہ اتنی جلدی گیلے ھوگئے ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی پھدی والے حصہ سے شلوار کو پکڑ کر کہا ۔‬
‫جان جی میں اکیال نہیں اپنی بھی شلوار ذرہ دیکھو۔۔۔‬
‫ضوفی کی شلوار پکڑتے ھوے میری انگلیاں ضوفی کی پھدی کے ساتھ ٹچ ھوئیں تو مجھے ایکدم جھٹکا لگا اور ساتھ میں‬
‫ضوفی کا جسم بھی کانپا ۔‬
‫اور میری بات سن کر ضوفی شرمندہ سی ہوگئی اور جلدی سے ٹانگوں کو اکھٹا کر کے گیلی شلوار کو رانوں کے بیچ کر‬
‫لیا ۔۔‬
‫اور بولی نہیں جی یہ بھی تم نے ھی گیال کیا ھے‬
‫ضوفی کا اوپر واال حصہ اب بھی ننگا ھی تھا بس مموں پر بریزیر ھی تھا ۔۔‬
‫میں نے جلدی سے ہاتھ آگے کیا اور ضوفی کا گھٹنا پکڑ کر اسکی ٹانگوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بوال اب چھپا‬
‫کیوں رھی ھو ۔‬
‫ضوفی نے اور ذور سے ٹانگوں کو آپس میں مال لیا اور ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫نہہہہی کرو بتمیز چھوڑو مجھے ۔‬
‫میں نے بھی ذور آزمائی شروع کردی ضوفی ہنسی جارھی تھی اور ٹانگوں کو کبھی دائیں طرف کرتی تو کبھی بائیں طرف‬
‫اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی چھوڑو یاسر نہ کرو پلیززززز امیییییی جییییی‬
‫یاسر پلیزززز میں جان بوجھ کر ہلکا سا زور لگا رھا تھا اور ضوفی کی ٹانگیں کھولنے کی کوشش کرتے ھوے کہہ رھا تھا‬
‫اب دیکھنے تو دو مجھے کہ میں نے گیال کیا ھے یا تم خود گیلی ھوگئی ھو۔۔۔‬
‫ضوفی بھی پوری زور ازمائی کرتے ھوے ٹانگوں کو بھینچ کررکھےھوے تھی اور ہاتھوں سے میرے ھاتھ پیچھے کررھی‬
‫تھی کچھ دیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ساتھ زور آزمائی کرتے رھے ۔‬
‫اور پھر ضوفی نے ہار مانتے ھوے کہا اچھا چھوڑو میں خود دیکھاتی ھوں ۔۔‬
‫میں نے جیسے ھی ضوفی کی ٹانگوں کو چھوڑا تو ضوفی اٹھ کر بیٹھ گئی اور پھر تیزی سے اٹھ کر بھاگنے لگی تو میں نے‬
‫پیچھے سے ھی ضوفی کی کمر میں بازو ڈال کر ھاتھ اسکے ننگے پیٹ پر لیجا کر اسکو کس کے پکڑتے ھوے قابو کرلیا‬
‫اور ساتھ ھی اسکو کھینچ کر اپنے اوپر التے ھوے میں بھی پیچھے کی طرف لیٹ گیا ۔۔‬
‫اب میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور ضوفی میرے اوپر کمر کے بل چھت کی طرف منہ کیے ھوے لیٹی تھی اور میرے ھاتھ‬
‫اسکے ننگے پیٹ پر تھے اور ضوفی کی گانڈ میرے لن پر تھی ۔۔‬
‫اور اسکی ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر بلکل سیدھی تھیں ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے ھاتھوں کو پکڑ کر اپنے پیٹ سے ہٹا کر میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔‬
‫میں نےاپنی گرفت کو اسکے نازک سے پیٹ پر مذید کستے ھوے کہا‬
‫جھوٹی مجھے چکما دے کر بھاگنے لگی تھی ۔‬
‫اور ساتھ ھی میں نے انگلیوں سے ضوفی کے پیٹ پر گدگدی شروع کردی ۔‬
‫ضوفی نے ذوردار چیخ ماری اور کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی نننننننہ کرو یاسرررررر کے بچے‪ .‬آےےےےےےےے‬
‫ےےےےےے امییییییی جیییییی‬
‫میں نے کہا اب بتاو بھاگو گی ضوفی بولی نہیں بھاگتی پلیزززززز یاسر‪ .‬نہ کرو میری پھرچیخ نکل جانی ھے ۔ ۔‬
‫میں نے کہا تم نے پھر بھاگ جانا ھے اور میں ساتھ ساتھ ضوفی کے پیٹ پر گدگدی بھی کری جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی کا ہنس ہنس کے برا حال ھورھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر ٹانگوں سے سائکل چال کر ہاتھوں‬
‫سے میرے ہاتھ پکڑ کر زور لگا کر میری گرفت سے نکلنے کی کوشش بھی کر رھی تھی ۔‬
‫جب ضوفی تھک گئی تو آخری حربہ استعمال کرتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تمہیں میری قسم چھوڑ دو نہیں بھاگتی ۔۔‬
‫ضوفی کے منہ سے قسم نکلتے ھی میں نے ھاتھ اسکے پیٹ سے الگ کرلیے ۔‬
‫ضوفی اسی حالت میں منہ چھت کی طرف کرکے ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔‬
‫اور ساتھ میں اففففف کرتے ھوے بولی بہت ببدمعاش ھو تم یاسر بہت تنگ کرتے ھو ۔۔۔‬
‫میری جان نکلنے والی ھوگئی تھی ۔۔‬
‫میں نے ہاتھ دوبارا اسکے پیٹ پر رکھ کر انگلیوں سے پیانو بجاتا ھوا ہاتھ کو اسکے مموں کے اوپر لے آیا اور بریزیر کے‬
‫اوپر سے ھے اسکے مموں کو پکڑ کو دباتے ھوے بوال ۔‬
‫تنگ تو تم کرتی ھو پہلے ھی آرام سے دیکھا دیتی ۔۔‬
‫ضوفی کے منہ سے ایکدم سسکاری نکلی اور اس نے میرے ھاتھوں کے اوپر ھی اپنے ہاتھ رکھے اور بولی کیا دیکھنا‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے کان کی لو پر زبان پھیرتے ھوے ایکدم ھاتھ نیچے لیجا کر اسکی گیلی شلوار پر رکھ کر انگلیوں کو‬
‫دباتے ھوے ضوفی کی پھدی کو سہال دیا ۔۔‬
‫ضوفی کو ایک ھی وقت میں دو جگہ سے مزہ مال ایک کان کی لو سے دوسرا پھدی پر پہلے مرد کے ہاتھ کے لمس کا۔‬
‫ضوفی نے جلدی سے پھدی پر رکھے میرے ھاتھ کے اوپر ہاتھ رکھا اور ٹانگوں کو اوپر کر کے آپس میں بھینچ لیا اور کان‬
‫کی لو کو سر ایک طرف کر کے میرے منہ سے دور کرتے ھو ے کانپتے جسم کے ساتھ سییییییییءیی کیا ضوفی کی سی‬
‫نے میرے اندر جوش پیدا کردیا اور میں نے اسکی ٹانگوں کے بیچ پھنسے ھاتھ کی انگلیوں کو مزید پھدی پر دبا دیا گیلی‬
‫شلوار کی وجہ سے مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے ضوفی کی پھدی بلکل ننگی میرے ہاتھ کے نیچے ھے ۔‬
‫اور دوسرا ھاتھ میرا ضوفی کے ممے پر تھا ۔۔‬
‫اورضوفی کی نرم مولٹی فوم جیسی گانڈ کا لمس پاتے ھی میرا لن بھی انگڑائیاں لینے پر مجبور ھوگیا ۔‬
‫ضوفی کا سر میرے کندھے سے لڑھک چکا تھا اور اسکا ایک کان میرےمنہ کے پاس تھا اور ضوفی سر پیچھے لڑھکاے‬
‫چھت کی طرف آنکھیں بند کے سسکاریاں بھری جارھی تھی ۔‬
‫اور میری انگلیاں پھدی کو مسلنے اور ایک ھاتھ ممےکو مسلنے اور میری زبان ضوفی‬
‫کے کان کی لو کو چھیڑتے ھوے اور لن نیچے گانڈ کی دراڑ میں گھسنے کی کوشش کرے جارھا تھا ۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا کہ اچانک ضوفی کا جسم پھر اکڑا اسکی سسکاریاں پورے کمرے میں گونجنے لگیں اور‬
‫ضوفی نے ایک ھاتھ پیچھے لیجاکر میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھرا اور ایک چیخ مارتے ھوے میرے بالوں کو‬
‫کھینچتے ھوے ۔‬
‫پھر پھدی سےگرم گرم منی کا اخراج کرتے ھوے میری انگلیوں کو مذید گیال کرنے لگ گئی ۔‬
‫ضوفی کا جسم جھٹکے کھانے کے بعد ڈھیال ھوا اور بےجان ھوکر میرے اوپر ھی ڈھے گئی ۔‬
‫جبکہ میرالن فل ٹائٹ ھوکر ضوفی کی گانڈ کی دراڑ میں گھسا ھوا تھا ۔۔‬
‫اس سے پہلے کہ ہم سنبھلتے یا اگال قدم اٹھاتےکہ اچانک کمرے کا دروازہ ذور ذور سے بجنے لگ گیا ۔۔‬
‫ہم دونوں ایسے ایک دوسرے سے الگ ھوے جیسے کتا گیینڈ چھڑوا کر بھاگتا ھے ۔۔‬
‫‪.‬ہم دونوں کے رنگ اڑ گئے کہ اس وقت یوں اچانک کون آگیا۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬ضوفی جھٹکے سے میرے اوپر سے ہٹ کر ایک طرف لڑھک کر گری اور میں نے بھی جلدی سے اپنے کپڑوں کی طرف‬
‫ھاتھ بڑھایا اتنے میں دروازہ پھر زور زور سے بجایا جانے لگا ۔‬
‫ضوفی نے بریزیر اٹھا کر بیڈ کے نیچے پھینکا اور قمیض پہنتے ھوے کانپتی اور تلخ آواز میں پوچھا کون ھے ۔۔۔‬
‫دوسری طرف سے ماہی کی گبھرائی ہوئی آواز آئی آپی مما کو پتہ نہیں کیا ھوگیا ھے دروازہ کھولی ماہی کی آواز روہانسی‬
‫تھی ۔‬
‫ماہی کی بات سنتے ھی میں اور ضوفی گبھرا گئے اور جلدی سے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور ضوفی نے بھاگ کر دروزہ‬
‫کھوال۔‬
‫تو ماہی کھڑی روے جارھی تھی ۔میں بھی بیڈ سے چھالنگ لگا کر دروازے کی طرف بھاگا ۔‬

‫)‪Update no (129‬‬
‫ماہی مذید کچھ کہے نیچے بھاگ گئی اسکے پیچھے ضوفی اور میں تیزتیز سیڑیاں اترتے ھوے آنٹی کے کمرے میں پہنچے‬
‫تو آنٹی چارپائی پر بے ہوش پڑی ھوئی تھی ۔۔‬
‫ضوفی بھاگ کر آنٹی کے پاس پینچی اور امی امی کہہ کر آنٹی کو ہالنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں بھی آنٹی کے پاس پہنچا اور آنٹی کی ناک کے پاس ہاتھ کیا تو آنٹی کی سانس چل رھی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا حوصلہ کرو یار کچھ نہی ھوا آنٹی کو تم دوسری طرف جاکر آنٹی کی ہتھیلی کو ملو یہ کہتے ھوے‬
‫میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور ہتھیلی پر تیز تیز مالش کرنے لگ گیا میں نے ماہی کو کہا ماہی جلدی سے پانی الو ۔۔‬
‫ماہی کچن کی طرف بھاگی آنٹی کا جسم برف کی مانند ٹھنڈا ھوگیا تھا ۔۔‬
‫ضوفی اور میں آنٹی کی ہتھیلیوں پر مالش کررھے تھے ۔‬
‫ماہی پانی لے کر آئی تو میں نے پانی کا گالس پکڑ کر اسے آنٹی کے پاوں پر مالش کرنے کا کہا ۔‬
‫اور میں آنٹی کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی نے آنکھیں کھولنا شروع کردیں ۔‬
‫ہم سب نے شکر ادا کیا اور میں آنٹی کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی سے بات کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی آنٹی کے بازو اور ماہی آنٹی کی ٹانگیں دبانے میں لگی تھیں ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی کی طبعیت کافی بہتر ھوگئی ۔‬
‫آنٹی نے بتایا کہ انکا بلڈ پریشر لو ہوگیا تھا ۔۔‬
‫پیشاب کرنے کے لیے اٹھی تو چکرا کر گرگئی یہ تو شکر ھے کہ ماہی کمرے میں ھی تھی اور جاگ رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا کہ میں رکشہ لے کر آتا ھوں ۔‬
‫میں اٹھنے لگا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ لیا اور بولیں کہ نہیں بیٹا میں اب بلکل ٹھیک ھوں جیتے رھو ۔۔‬
‫میں نے کافی دفعہ کہا کہ ہسپتال ایک دفعہ چیک کروا آتے ہیں ۔‬
‫مگر آنٹی نہ مانی اور ویسے بھی بارہ ایک بج چکا تھا اس وقت کونسا ڈاکٹر ملنا تھا ۔‬
‫کچھ دیر مذید ہم بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔‬
‫ضوفی نے آنٹی کو بتایا کہ یاسر کو ہم نے منالیا ھے دکان کے لیے آنٹی بہت خوش ہوئیں ۔‬
‫اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیتی رہیں ۔۔‬
‫پھر آنٹی بولی جاو تم لوگ سوجاو صبح دکان پر بھی جانا ھے مجھے بھی نیند آرھی ھے اور میری طبعیت اب بلکل ٹھیک‬
‫ھے ۔۔‬
‫ماہی بولی آپی آپ بیٹھک میں سوجائیں بھائی اوپر سوجاے گا ۔‬
‫اور میں امی کے پاس ھی لیٹ جاتی ہوں ۔۔‬
‫ماہی ہم دونوں سے بات کرتے ھوے چونک کر کبھی ضوفی کے ہونٹ کی طرف دیکھتی تو کبھی میرے ہونٹ کی طرف ۔‬
‫ہم دونوں کو بھی اسکے چونکنے کا اندازہ ھوچکا تھا اس لیے میں اور ضوفی بہانے سے کبھی چہرہ دوسری طرف کرتے تو‬
‫کبھی بہانے سے ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لیتے ۔‬
‫ماہی ہمیں سونے کی جگہ بتاتے ھوے میری طرف دیکھ کر بولی ٹھیک ھے نہ بھائی آپ کو اوپر نیند آجاے گی ناں۔اااااا‬
‫ماہی کی ناااااں کو لمبا کرنا اور شرارتی انداز ۔‬
‫میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کیوں کہہ رھی ھے ۔کیونکہ ضوفی کو نیچے سونے کا جو کہا ھے ۔۔‬
‫میں نے شرمندہ سا ھوکر کہا ہہہہہااں ہاں میں سوجاوں گا ڈونٹ ویری ۔‬
‫‪.‬اور اسکے ساتھ ھی‬
‫میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر آنٹی کے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر انکی خیریت دریافت کی اور انکے ماتھے کا بوسا لیا۔۔‬
‫نجانے کیوں آنٹی سے مجھے ممتا کی خوشبو آتی تھی ۔‬
‫آنٹی تھی بھی بڑی نرم دل اورمحبت کرنے والی مجھے دیکھ کر انکر چہرہ ایسے کھل جاتا جیسے میں انکا اصلی بیٹا ھوں ۔‬
‫اور آنٹی سے مل کر مجھے لگتا جیسے آنٹی میری سگی ماں ہیں ۔۔۔‬
‫خیر۔‬
‫میں کمرے سے نکال اور سیڑھیاں چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں چال گیا اور دروازہ ویسے ھی بند کردیا الک نہ کیا ۔‬
‫اور سیدھا اٹیچ واش روم میں چال گیا اور کپڑے اتار کر پہلے شلوار کو اچھی طرح صابن سے دھویا اور پھر نہا کر قمیض‬
‫پہنی اور شلوار کو ویسے ھی ہاتھ میں پکڑے باہر آگیا۔۔‬
‫واش روم سے باہر نکلتے ھوے میری نظر بیڈ کے نیچے جھکی ضوفی پر پڑی ۔‬
‫وہ گھٹنوں کے بل گانڈ پیچھے کیے ھوے بیڈ کے نیچے ہاتھ مار کر کچھ تالش کررھی تھی ۔۔‬
‫واش روم کا درواز کھلنے کی آواز سے ضوفی بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں قمیض پہنے شلوار ہاتھ میں پکڑے باہر آگیا ۔‬
‫اور مسکرا کر ضوفی کی طرف دیکھتے ہوے بوال کیا تالش کررھی ھو ۔۔‬
‫ضوفی بولی ووووہ میرا ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا کیا تمہاراااا۔‬
‫ضوفی شرمندہ سی ھوکر مجھے جواب دینے کی بجاے ۔پھر نیچے سر کرکے جھکی اور بازو بیڈ کے نیچے گھسا کر کچھ‬
‫پکڑنے کی کوشش کرنے لگی ۔‬
‫مگر شاید وہ اسکے ہاتھ کی پہنچ سے دور تھا ۔۔‬
‫میں ضوفی کے قریب آیا اور پاوں کے بل بیٹھ گیا اور شلوار بیڈ پر رکھ کر اسکو کہا پیچھے ہٹو میں نکال دیتا ھوں ۔۔‬
‫ضوفی بولی ننننہیں رہنے دو میں صبح نکال لوں گی ۔۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا کیاااااا‬
‫ضوفی مجھے دھکا مارتے ھوے بولی ۔۔‬
‫تم اتنے چوچچچچے کیوں بنتے ھو ۔‬
‫جیسے کسی چیز کا پتہ نہ ھو ۔۔‬
‫میں پہلے ھی پنجوں کے بل ضوفی کے سامنے بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫ضوفی نے جب مجھے دھکا دیا تو میں توازن برقرار نہ رکھ سکا اور باہیں پھالتا ھوا پیچھے جاگرا‪.‬‬
‫گرتے وقت میری قمیض آگے سے اوپر ہوگئی اور میری ناف سے پیروں تک کا حصہ ننگا ھوگیا ۔۔‬
‫ضوفی کی نظر جیسے ھی میرے لن پر پڑی تو ضوفی نے جلدی سے دونوں ھاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور کھڑی ھوکر منہ‬
‫دوسری طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔۔‬
‫میں ویسے ھی سٹیچو کی طرح ٹانگیں اوپر کو کھولے اور بازوں چھت کی طرف کیے لیٹا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫بڑی ظالم ھو ایک تمہاری مدد کرو اوپر سے دھکے بھی کھاو ۔‬
‫اور دھکا دے کر اٹھانے کی بجاے منہ مروڑ کر کھڑی ھوگئی ھو ۔۔‬
‫ضوفی دوسری طرف منہ کر کے ھی بولی ۔‬
‫بہت ڈرامے باز ھو اتنی ذور سے تو نہیں میں نے دھکا دیا تھا جتنی تیزی سے تم گرے ھو۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف باہیں پھیال کر کہا اچھا اب اٹھا تو دویار۔۔‬
‫ضوفی بولی میں نے نہیں اٹھانا بےشرم کمرے میں بھی ننگے پھر رھے ھو دروازہ تو الک کرلیتے ۔۔۔‬
‫میں ھاےےےےے کرتا ھوا نیچے سے اٹھا اور بوال دروازہ کھال تو تمہارے لیے چھوڑا تھا مجھے پتہ تھا کہ تم آو گی ۔‬
‫اگر دروازہ بند ھوتا تو تم نے دروازے سے ہی پلٹ جانا تھا ۔۔‬
‫ضوفی بولی کیوں جی مجھے کمرے میں بلوا کر کیا کرنا تھا اب میں اٹھ کر کھڑے ھوتے ھوے بوال ادھورا کام مکمل کرنا‬
‫تھا۔۔‬
‫ضوفی گھوم کر میری طرف دیکھ کر مصنوعی غصے سے بولی ۔‬
‫کیڑا ادھورا کممممممم‬
‫میں نے باہیں ضوفی کی طرف پھیالئیں اور اسکی طرف سلو موشن میں چلتاھوا بوال۔‬
‫بتاتا ھوں جان من ۔۔‬

‫)‪Update no (130‬‬
‫ضوفی پلٹ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی تو میں سلوموشن میں چلتا ھوا بجلی کی سی تیزی سے بھاگا اور ضوفی کو‬
‫پیچھے سے جپھی ڈال لی ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫چھوڑو مجھے بدمعاش کہیں کے ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫ایسا موقع کون سا جلدی نصیب ھوتا ھے ۔‬
‫ضوفی بولی نصیب کے بچے دروازہ تو بند کرنے دو ۔‬
‫میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو واقعی دروازہ کھال ھوا تھا میں نے جلدی سے ضوفی کو چھوڑا ضوفی آہستہ آہستہ چلتی‬
‫ھوئی دروازے کی طرف بڑھی میں ادھر ھی کھڑا اسے دروازے کی طرف جاتے دیکھ رھا تھا ضوفی دروازے کے پاس‬
‫پہنچی اور ہینڈل کو پکڑ کر میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ اوپر کر کے ٹا ٹا ٹا کر کے جلدی سے باہر نکلی اور‬
‫سیڑھیاں اترتی ھوئی نیچے بھاگ گئی ۔‬
‫اور میں وہیں بت بنا اسے جاتا دیکھتا رھا۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں مایوسی سے چلتا ھوا دروازے کے پاس گیا اور دروازہ ویسے ھی بند کر کے بیڈ کے پاس پہنچ کر بیڈ پر‬
‫اپنے آپ کو گرا دیا ۔‬
‫کافی دیر میں ایسے ھی لیٹا سوچوں میں گم رھا پھر اٹھ کر شلوار پہنی اور اچھے بچے کی طرح چپ کر کے لیٹ گیا۔۔۔۔‬
‫صبح مجھے ضوفی نے اٹھایا کہ جلدی اٹھ جاو ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ۔۔‬
‫میں نے انگڑائی لیتے ھوے آنکھیں کھولیں تو ضوفی میرے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسکے گیلے بالوں سے پانی کی‬
‫بوندیں میرے منہ پر گررہیں تھیں ۔‬
‫میں نے آنکھوں کو پورا کھوال اور انگڑائی کے لیے اٹھے بازوں کو ضوفی کی گردن میں ڈال کر اسکے کھلتے گالب جیسے‬
‫چہرے کو اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور اسکی ہونٹوں پر کس کی اور بوال رات کو مجھے بیوقوف بنا کر بھاگ گئی تھی‬
‫نہ ۔‬
‫کوئی گل نئی۔۔‬
‫ضوفی نے میرے ہونٹوں کو چوما ۔‬
‫ضوفی کا ہونٹ اب بھی ہلکا سا سوجا ھوا تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے ہونٹ پر انگلی سے مساج کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ظالم یہ دیکھو تم نے رات کو کتنا برا کاٹا تھا ۔‬
‫ماہی نے دو تین دفعہ مجھے پوچھا ھے کہ ہونٹ پر کیا ھوا ھے ۔۔‬
‫میں نے اپنے نچلے ہونٹ کو باہر نکال کر کہا یہ دیکھو تم نے کونسا مجھے بخشا تھا۔۔‬
‫ضوفی میرے ہونٹ کو انگلی سے سہالتے ھوے سوری بولنے لگی ۔‬
‫میں نے اسکی گردن کو مزید نیچے کرتےھوے کہا خالی سوری سے کام نہیں چلنا‬
‫زخم دیا ھے تو اس پر ملہم لگا کر عالج بھی کردو۔‬
‫ضوفی نے اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو میرے ہونٹ پر رکھ کر پنکھڑیًو ں کا عرق لگایا اور بولی بس اور میں نے سر اٹھا کر‬
‫اسکے ہونٹ کو چوما اور اسکی گردن سے بازو نکال لیے ۔‬
‫تو ضوفی سیدھی ھوکر گیلے بالوں کو دونوں ھاتھوں سے جھٹک کر پیچھے کرتے ھوے بولی اب اٹھ کر فریش ھوجاو میں‬
‫ناشتہ لگاتی ھوں اور یہ کہتی ھوئی ضوفی کمرے سے باہر چلی گئی اور میں لیٹا لمبے لمبے سانس کھینچ کر اسکے گیلے‬
‫جسم اور گیلے بالوں سے اٹھتی دھیمی دھیمی مہک کو اپنے اندر کھینچتا رھا ۔۔ی‬
‫اور پھر اٹھا اور نہا کر فریش ھوا اور نیچے چال گیا اور کچھ دیر آنٹی کے پاس بیٹھا انکی طبعیت کے بارے میں پوچھتا‬
‫رھا ۔‬
‫اور پھر ماہی نے ناشتہ کرنے کا کہا میں اٹھ کر باہر ٹی وی الونج میں آگیا اور پھر ہم نے ناشتہ کیا اور کچھ ھی دیر بعد میں‬
‫اور ضوفی بازار کی طرف نکل پڑے ضوفی نے مارکیٹ مالک کے گھر چھوڑنے اور دوپہر کو آنے کا کہا میں ضوفی کو‬
‫مالک دکان کے گھر چھوڑ کر خود دکان پر پہنچا دکان کھلی ھوئی تھی ۔‬

‫)‪.Update no (131‬‬
‫انکل اور جنید دکان پر تھے ان سے سالم دعا کے بعد کام میں مصروف ھوگئے ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے علیحدہ ھوکر جیند سے دکان لینے اور کام کرنے کا کہا تو جنید حیران پریشان ھوگیا کہ ایکدم اتنی بڑی‬
‫تبدیلی کیسے میں نے کہا بس یار جب اوپر واال مہربان ھوتا ھے تو ہر ناممکن کام ممکن ھوجاتا ھے ۔‬
‫جنیدمجھ سے پوچھتا رھا کہ پیسے کہاں سے آے میں نے اسے گاوں کے دوست کا بتایا کہ اس نے پیسے لگانے ہیں اور کام‬
‫میں نے کرنا ھے ۔۔‬
‫خیر کافی باتوں کے بعد جنید کو یقین ھوگیا اور وہ بہت خوش ھوا اور مجھے مبارک باد دینے لگ گیا کہ یار بڑے خوش‬
‫قسمت ھو کہ اوپر والے نے اتنی جلدی تیری سن لی ۔۔‬
‫اور دوپہر کو میں سیدھا پارلر پر پہنچا تو ضوفی بڑی خوش نظر آئی اور اندر جاتے ھی مجھ سے لپٹ گئی اور خوشی سے‬
‫میری آنکھوں کے سامنے دکان کی چابی لہرانے لگی ۔۔‬
‫اور کچھ دیر ہم بیٹھے باتیں کرتے رھے ۔‬
‫پھر ضوفی نے مجھے کہا کہ میرے ساتھ بنک تک چلو وھاں سے پیسے نکلوانے ہیں ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم بنک پہنچے ضوفی نے ایک چیک مجھے پکڑایا اور بولی یہ کیش کروا لو ضوفی ایک طرف بیٹھ گئی میں‬
‫کاونٹر ۔پر گیا اور پچاس ہزار کی رقم نکلوا کر چھ سات دفعہ گنتی کی اور پیسے پورے کر کے کاونٹر سے واپس ضوفی کی‬
‫طرف آگیا اتنی بڑی رقم میں نے پہلی دفعہ دیکھی تھی اتنے پیسے ہاتھ میں پکڑ کر میری فیلنگ ھی الگ تھی ۔۔‬
‫پیسے میں نے ضوفی کی بڑھاے تو ضوفی بولی جناب اسے جیب میں ڈالو اور صبح سے دکان کی سیٹنگ شروع کروا دو ۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں ضوفی اتنے ذیادہ پیسے مجھ سے نہیں سنبھالے جانے تم انکو اپنے پاس رکھو جتنے پیسوں کی ضرورت‬
‫ہوئی میں تم سے لیتا رہوں گا ۔۔۔‬
‫ضوفی نے اوکے کیا اور پیسے پکڑ کر اپنی اے ٹی ایم مشین میں رکھ لیے اور ہم بنک سے نکل کر مارکیٹ پہنچے میں نے‬
‫دکان کا تاال کھوال اور شٹر اوپر کیا تو آس پاس والے دکاندار چونک کر میری طرف اور ضوفی کی طرف دیکھنے لگ‬
‫گئے ۔۔‬
‫‪.‬ہم دونوں نے دکان کا اندر سے جائزہ لیا اور ۔پھر فرنیچراور دکان کو کیسے ڈیکوریٹ کرنا ھے ایک دوسرے سے مشورہ‬
‫کرنے لگ گئے ۔‬
‫تقریبا ایک گھنٹے کے سوچ بچار کے بعد حتمی پالن کیا اور دکان سے نکل کر ہم نے شٹر بند کیا اور نیچے پارلر میں آگئے۔‬
‫ضوفی سے اجازت لی اور دکان کا فرنیچر بنوانے والے کی طرف جانے کا کہہ کر میں نکلنے لگا تو ضوفی نے مجھے پانچ‬
‫ہزار دیا کہ ان سے بات پکی کر کے انکو بیانہ دے دینا اور ان سے سامان لکھوا لینا جو جو چاہیے وہ کل لے آنا آج تو لیٹ‬
‫ھوجاو گے ۔۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور پیسے پکڑ کر دکان کی طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو انکل کچھ تلخی سے بولے کہ اتنی دیر کہاں لگا‬
‫دی دکان پر اتنا رش پڑ گیا تھا ۔‬
‫یار کچھ تو اپنے آپ خیال کرلیا کرو۔۔‬
‫میں نے کہا انکل جی میں اپنے لیے دکان کی بات کرنے گیاتھا ۔‬
‫میں اپنی دکان بنانے لگا ہوں ۔‬
‫انکل کا منہ ایکدم کھلے کا کھال رھ گیا ۔۔‬
‫اور پھر جنید کی طرح انکو بھی سمجھانا پڑا مگر فرق صرف یہ تھا کہ انکو شہر کے کسی دوست کا بتایا جس کے ساتھ کام‬
‫شروع کرنا تھا ۔‬
‫انکل اوپر اوپر سے خوش دیکھائی دیے مگر اندر سے انسے حسد کی بو ارھی تھی ۔‬
‫پہلے تو وہ یہ کہتے رھے کہ تم سے ابھی کام نہیں ھونا ابھی تم اس قابل نہیں ھوے نقصان اٹھاو گے کام ایسے اتنی جلدی‬
‫نہیں چلتے اپنے دوست کا نقصان کرو گے وغیرہ وغیرہ ۔‬
‫مختصرا خوب ساڑ بکا۔۔۔۔‬
‫چار بجے میں نے جنید کو کہا یار مجھے کچھ دن کے لیے تمہاری مدد کی ضرورت ھے ۔‬
‫اگر تم مناسب سمجھو تو ۔۔‬
‫جنید مجھے مکا مارتے ھوے بوال‬
‫چوالں نہ ماریا کر یار ۔۔‬
‫سدھی بکواس کریا کر کہ میرے واسطے کی حکم اے ۔۔‬
‫میں نےکہا یار مجھے دکان کے سیٹنگ کے لیے اچھے کاریگر چاہیے اور تجھے تو کافی عرصہ ھوگیا ھے اس فیلڈ میں اور‬
‫انسے پیسے وغیرہ بھی طے کر سکتے ھو اور کون اچھا کام کرتا ھے یہ بھی تجھےعلم ھوگا ۔‬
‫جنید بوالبسسسسسس‬
‫اے کیڑا کم اےیار ۔‬
‫میں بوال۔‬
‫سالیا ہور میں تیرے کولوں بندا مروانا اے۔‬
‫جنید بوال یار لوڑ پئی تے بندا وی مار دیواں گے بندیاں نوں وی بندے ای ماردے نے۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا۔‬
‫‪.‬بےجاماما‬
‫ایڈا توں اکری بدمعاش۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫اکری میرے لن تو واریا اودی پین دے پچھے تیرااااااا۔‬
‫جنید ایکدم چپ ھوگیا۔۔۔‬
‫میں نے بھی اکری کی بہن کا سن کر چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔‬
‫اور بڑے تجسس سے جنید سے پوچھا کیا ھے اکری کی بہن کو ۔۔۔‬
‫جنید گبھرا کر بوال کش نئی بس ایویں مزاق چ منہ وچوں نکل گیا۔۔‬
‫میں نے کہا ماما ہن میرے کولوں وی گالں لکاویں گا بس اے ھی یاری اے ۔۔۔‬
‫جنید بوال نہیں یار ایسی بات نہی ھے میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے کہا تو پھر بتا کیا ھے اسکی بہن کو ۔‬
‫کہیں اسکے ساتھ تیرا چکر تو نہیں چل رھا ۔۔‬
‫جنید گبھرا کر میرے پٹ پر ہاتھ رکھ کر دباتے ھوے بوال‬
‫سالیا ہولی پونک کیوں مینوں مروانا اے ۔۔‬
‫میں نے آہستہ سے پوچھا بتا پھر ۔۔‬
‫جنید بوال سالیا تیرے کولوں صبر نئی ہوندا اینج کرن لگ پیاں ایں جیویں او تیری باجی اے ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا پھدی دیا میری باجی تیری وی تے باجی ای لگی ۔۔۔‬
‫جنید بوال تے فیر ُمٹھ رکھ جدوں کلے ہوے دس دیواں گا ۔۔۔‬
‫میں نے بھی پھر ذیادہ اس موضوع پر گفتگو نہ کی ۔‬
‫اور پھر جنید بوال چل فیر اک مستری ھے اودے کول چلدے آں۔۔۔‬
‫اور پھر ہم دونوں انکل کی موٹر سائیکل لے کر ایک مستری کے پاس گئے اسےساتھ لےکر ہم شاہین مارکیٹ پہنچے ۔‬
‫کاریگر نے دکان کا جائزہ لیااور میں اسے سیٹنگ کا نقشہ سمجھانے لگ گیا‬
‫کچھ ڈریکشن جنید اور مستری نے بھی دی جو مجھےکافی پسند آئی جس سے دکان کی سیٹنگ مذید اچھی بن سکتی تھی ۔۔‬
‫پھر جنید نے کاریگر سے اسکی مزدوری طے کی جو میری اور ضوفی کی سوچ سے کافی کم تھی ۔۔‬
‫میں نے چار ہزار اسکو بیانہ دیا اور اس نے پندرہ دن‬
‫کا ٹائم لیا کہ اتنے دن لگ جانے ہیں ۔‬
‫اور پھر اس سے سارے سامان کی لسٹ لکھوائی ۔‬
‫کاریگر کہتا رھا کہ میں ساتھ چلوں گا سامان لینے ۔‬
‫مگر جنید نے مجھے آنکھ ماردی تھی کہ اسے خود ھی النے کا کہہ دے میں نے اسے بہانہ کیا کہ میرے چاچو کی اپنی دکان‬
‫ھے اس لیے تم پریشانی مت لو جو چیز نہ پسند ہو وہ واپس کردیں گے اس لےتو کل اپنے ہتھیار وغیرہ لے کر دکان پر پہنچ‬
‫جانا ۔۔‬
‫باقی سامان کل دس گیارہ بجے پہنچ جاے گا۔۔‬
‫مستری سے اوکے کر کے ہم دکان پر پہنچے تو انکل کی سڑی سڑیجنید کو سننے کو ملی‬
‫وہ کہتے ہیں نہ کہ کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو ۔‬
‫انکل سنا مجھے رھے تھے اور بول جنید کو رھے تھے ۔۔۔‬
‫خیر ہم دکان میں بیٹھ گئے ۔۔‬
‫میں نے جنید سے سوری کی کہ یار میری وجہ سے تیری بےعزتی ھوئی ۔‬
‫جنید بوال‬
‫ماما پیلے کیڑا میرے تے چادراں چڑدیاں نے ۔‬
‫اینی تے روز کروں کرا کے آنا ایں ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوےکہا‬
‫اچھااااا‬
‫چلو فیر خیر اے۔۔‬
‫جنید مجھے ٹانگ مارتے ھوے بوال‬
‫سالیا اک میری بےعزتی ھوئی الٹا خیر اے کہہ کے جان چھڑوان دیاں ایں ۔۔‬
‫میں وی تیرے کول ای آجانا اے ۔‬
‫بنڈ مار اے ھو جئے مالک دی ۔۔‬
‫میں نےکہا‬
‫‪.‬سوواری آ یارا‬
‫تیری اپنی دکان اے ۔۔۔‬
‫میرا بھی ذہن تھا کہ جنید کو اپنے پاس رکھ لوں گا بڑا کام کا یار تھا‬
‫اور مخلص بےلوث۔۔۔‬
‫اور جنید نے میرے دل کی بات کردی ۔‬
‫میںنے جنید کو کہا تو بس پھر تیار رہنا بلکہ تم اسی مہینے اس سے حساب کرلینا ۔۔‬
‫جنید نے بھی اوکے کیا ۔۔‬
‫اور میں نے جنید کو کہا کہ یار وہ کیمرہ تم فلحال گھر لے جاو ۔‬
‫جب مجھےضرورت پیش آئی تجھے بتا دوں گا کیوں کہ اب کچھ دن تو میں بہت مصروف رہوں گا ۔۔‬
‫جنید بوال چل یہ بھی سہی ھے میں‪ .‬اسے کیمرہ واپس کردیتا ھوں جب ضرورت ھوئی تو اس لے لوں گا ۔‬
‫میں نے کہا یار یہ نہ ھو کہ وقت پڑنے پر کیمرہ ھی نہ ملے جنید بوال نوٹینشن یار وہ بھی اپنا جگر ھے۔۔‬
‫آدھی رات کو بھی ضرورت پڑی تو وہ ساال خود دے کر جاے گا ۔۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور جنید کے ساتھ کل کا پروگرام بنایا اور شام چھ بجے انکل سے پکی پکی چھٹی اور ان سے کمی‬
‫کوتاہی کی معافی مانگ کر الوداع کہہ کر زندگی کے نئے سفر کی طرف چل پڑا۔ ۔‬

‫)‪Update no (132‬‬
‫میں سیدھا ضوفی کے پاس پہنچا اسے ساری تفصیل بتائی اور سامان کی لسٹ بھی دیکھائی ضوفی کافی خوش ہوئی کے بڑے‬
‫مناسب پیسے طے کئے ہیں کاریگر سے ۔۔‬
‫اور کچھ دیر میں ضوفی کے پاس بیٹھا دکان کے مطلق باتیں کرتا رھا ۔‬
‫اور پھر ضوفی کو گھر چھوڑا اور آنٹی سے انکی صحت دریافت کرنے کے بعد میں گاوں پہنچا امی پہلے تو کافی غصے‬
‫ھوئیں اور گھر داخل ھوتے ھی برس پڑیں کہ تجھے کسی کی فکر نہیں ھے جب دل کرتا ھے رات باہر رہنے لگ جاتا ھے‬
‫اور نواب ساب فون کر کے اطالع بھجوا دیتا ھے ۔‬
‫میں ساری رات نہیں سوئی تیری فکر لگی رھی ۔‬
‫امی سے چنگی تسلی بخش بےعزتی کروانے کے بعد میں امی کے گلے میں باہیں ڈال کر امی کو دکان کی خوشخبری سنانے‬
‫لگ پڑا امی پہلے تو حیران پریشان ناقابل یقین انداز سے میری طرف دیکھتی رہیں اور پھر جب میں نے امی کو قسمیں کھا‬
‫کر یقین دلوایا تو امی خوشی سے نہال ہونے لگ گئیں اور ابو اور آپی کو آواز دے کر انکو خوشخبری سنانے لگ پڑیں ۔‬
‫ابو اور آپی کا بھی وہ ھی حال تھا کہ‬
‫جیسے کھسرے کے گھر بچہ ھوگیا ھو ۔‬
‫انکو بھی بڑی مشکل سے یقین دالیا ۔۔‬
‫امی ابو خوشی کے ساتھ کچھ پریشان بھی ھوے کہ تم بہت بڑا رسک لے رھے ھو اگر کچھ الٹا سیدھا ھوگیا تو ہماری تو اتنی‬
‫اوقات بھی نہیں ھے کہ ہم اتنے پیسے بھر سکیں ۔‬
‫میں نے کافی محنت مشقت سے انکو یقین دلوایا کہ دکان بڑی موقع کی ھے مین بازار میں ھے کام بہت اچھا چلے گا بس آپ‬
‫دعا کریں کے کسی کی نظر نہ لگے ہماری خوشیوں کو اب بہت جلد ہمارے اچھے دن شروع ھونے والے ہیں ۔‬
‫ایسے ھی ہم رات گئے تک شیخ چلی کے سپنے سجاتے رھے‬
‫پکا اور گلی میں سب سے اونچا مکان ٹیلی فون بیٹھک میں صوفے دیواروں پر پردے موٹرسائکل آپی کی دھوم دھام سے‬
‫شادی پھر کوٹھی کار وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔‬
‫خیر صبح میں جلدی اٹھا اور فریش ھوکر ناشتہ کرکے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا اسے ساتھ لیا اور واپس مارکیٹ پہنچ کر‬
‫اس سے پیسے لے کر میں واپس ضوفی کے محلے کی طرف چل دیا کیونکہ جنید ابھی گھر ھی تھا اسے ساتھ لے کر میں‬
‫پھر واپس مارکیٹ پہنچا دکان کھول کر خالی دکان کا پھر جائزہ لینے لگ گئے۔‬
‫کچھ دیر بعد کاریگر بھی کھوتی ریڑی پر اپنا سامان الدھے پہنچ گیا ۔‬
‫اسکا سامان اتار کر دکان کے اندر رکھوایا ادھر ادھر کہ دکاندار مجھے مبارک باد دینے آے ۔‬
‫کہ بڑی اچھی دکان ملی ھے اور کام کا سن کر سب نے ھی کہا کہ یہ کام بہت اچھا چلے گا ۔۔‬
‫خیر کاریگر کو چھوڑ کر ہم سامان لینے چلے گئے ۔‬
‫تین چار دکانوں سے سارے سامان کا بل بنوایا اور پھر ایک دکان کا سب سے مناسب ریٹ لگا تو اس سے الماریوں کے لیے‬
‫شیٹیں اور شیشے اور باقی کا سارا چھوٹا موٹا سامان لیا شیشے ابھی ادھر ھی رکھوا دیے کے بعد میں لے جائیں گے اور‬
‫باقی کا سارا سامان ریڑھی پر رکھوا کر دکان پر پہنچایا ۔۔‬
‫پیسے کم پڑ گئے تھے ضوفی نے مزید پیسے نکلوا کر مجھے دیے ۔۔ایسے ھی دن گزرتے گئے ۔۔‬
‫ان دنوں میں میری ساری توجہ دکان کی طرف تھی میں سب کچھ بھول کر صرف دکان کی سیٹنگ کروانے اور جلد ازجلد‬
‫کام شروع کرنے پر فوکس کیے ھوے تھا ۔۔۔‬
‫ضوفی کے گھر رات رہنے کا موقع نہیں مال ویسے اس سے ہلکی پھلکی کسنگ جپھی شپھی ھوجاتی ۔‬
‫ان دنوں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی نہیں جاسکا ۔۔‬
‫صدف کا تو ویسے ھی اتا پتا نہیں تھا کیوں کہ وہ بھی سکول چھوڑ چکی تھی ۔‬
‫اور نہ ھی کافی دنوں سے فرحت کے ساتھ مالقات ھوسکی ۔۔‬
‫ان تمام دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا طوالت کے ڈر سے جسکو لکھنا ضروری نہیں سمجھتا‬
‫خیر چند ھی دنوں بعد دکان کی شاندار سیٹنگ ھوگئی ۔۔‬
‫‪.‬ان تمام دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا طوالت کے ڈر سے جسکو لکھنا ضروری نہیں سمجھتا‬
‫خیر چند ھی دنوں بعد دکان کی شاندار سیٹنگ ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے دکان کا شٹر آدھا بند ھی رکھا ۔۔‬
‫کہ ساری سیٹنگ کرکے مال وغیرہ ڈال کر جب افتتاح کروں گا تو تب ھی سب دکان کو اندر سے دیکھیں گے ۔۔‬
‫بوتیک کی سیٹنگ ایسی تھی کہ پورے بازار میں ایسی سیٹنگ کسی بوتیک کی بھی نہیں تھی ۔مہری کی مما کے بوتیک کی‬
‫سیٹنگ بھی میں نے دیکھی ھوئی تھی جو کہ بڑی شاندار تھی مگر میں نے اس سےبھی اچھی سیٹنگ کروائی تھی کیونکہ‬
‫الہور جب ہم شاپنگ کے لیے انار کلی گئے تھے تو ادھر میں نے کچھ بوتیک دیکھے تھے بس اندازے سے ان سے ملتی‬
‫جلتی ساری سیٹنگ کروائی۔۔‬
‫جس میں ٹرائی روم ایک سٹور شاندار الماریاں جو تقریبًا شیشے کی تھیں سٹیچو کے لیے بڑے بڑے ریک باقی ہینگرز کے‬
‫لیے ایک طرف ہکیں باہر بھی ایک بڑے سائز کا شوکیس جس میں سٹیچو کھڑے کرنے تھے ۔۔‬
‫فرنٹ پر بھی سارا فریم شیشے کا‬
‫مختصرًا کہ اس دور کے حساب سےاپنی اوقات سے بڑھ کر سیٹنگ کی ۔‬
‫دوستو ان دنوں میں ایک الکھ کے قریب صرف سیٹنگ پر ھی خرچہ آیا جو آج کے دور میں بڑی خطیر رقم بنتی ھے ۔۔‬
‫اور سارا خرچہ ضوفی کا ھی ھورھا تھا ۔جسے وہ خوش ھو کر اور مجھ سے بھی ذیادہ شوق سے لگا رھی تھی ۔۔‬
‫دوستو سفید پوش لوگ ایسے ھی ھوتے ہیں دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں اسکے پاس کتنا پیسہ ھے مگر اندر‬
‫کے معامالت کا اسے ھی پتہ ہوتا ھے کچھ لوگ یہ بھی سمجھ رھے تھے کہ میں بہت امیر ھوں کچھ دکاندار یہ بھی سمجھ‬
‫رھے تھے کہ پالر والی نے مجھے امیر سمجھ کر پھنسایا ھوا ھے اور مجھ سے مال کھا رھی ھے ۔‬
‫جتنا جسکا ظرف تھا اتنا وہ ہمارے بارے میں سوچ رھا تھا ان میں سے ایک انکل سجاد بھی تھے جو یہ سوچ رھے تھے کہ‬
‫میں نے اور جنید نے مل کر انکی پھٹی لکھی ھے اور انکی دکان کو لوٹ کر اب خود کی دکان بنا لی ھے ۔۔‬
‫مختصرا ہر کو نیگٹیو ھی سوچ رھا تھا‬
‫خیر‬
‫جنید نے میرا بڑا ساتھ دیا میری وجہ سے اس بےچارے کی انکل سجاد کے ساتھ منہ ماری بھی ھوگئی دکان سے غائب رہنے‬
‫کی وجہ سے ۔‬
‫جنید نے انکل سے حساب کرلیا تھا اور اسکو دکان سے جواب دے دیا تھا۔۔‬
‫جنید کے جواب دینے کے بعد انکل سجاد نے ادھر ادھر کے دکانداروں کے ساتھ کافی ساڑ بکا تھا ۔۔‬
‫مجھے جب جنید نے بتایا کہ دکان سے فارغ ھوگیا ہوں تو میں نے اسی دن‬
‫ضوفی سے مشورہ کرنے کے بعد اسکی اجازت سے میں نے جنید کو اپنے پاس آنے کی آفر کردی اور معقول تنخواہ بھی‬
‫رکھ دی جسے اس نے خوشی سے قبول کیا اور پھر۔۔‬
‫ضوفی کے ھی کہنے پر میں اور جنید الہور گئے مارکیٹ اور دکانوں کا ہمیں پہلے ھی ایسے پتہ تھا کہ ۔‬
‫ہم نے انکل کی دکان پر مال کے بلوں پر سے مارکیٹ کے نام اور دکانوں کے نام نوٹ بھی کرلیے تھے اور ذہن نشین‬
‫بھی ۔۔۔۔۔۔‬
‫جب میں الہور کے لیے نکال تو میرے پاس مال لینے کے جو پیسے تھے اتنے پیسے تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہ‬
‫دیکھے تھے ضوفی نے سارا زیور بھی بیچ دیا تھا اور بنک میں سے ساری جمع پونجی نکال کر مجھے دے دی تھی‬
‫میں نے ضوفی سے ھی بنیان کے اندر کیطرف ااوپر نیچے کر کے دو تین جیبیں لگوالیں تھی اس لیے پیسے تو بلکل سیو‬
‫تھے مگر اتنے ذیادہ پیسوں کا پاس ھونے کا احساس مجھے خوف زدہ کیے ھوے تھا خیر اوپر والے پر بھروسہ کر کے گھر‬
‫سے امی ابو اور شہر سے آنٹی کی نصیحتوں اور دعاوں کے ساتھ جنید کو لیے الہور روانہ ھوا‬
‫جس کے ساتھ دو ماوں کی دعائیں اور اوپر والے پر بھروسہ ھو تو وہ کیسے ناکام ھوسکتا ھے ۔‬
‫الہور پہنچ کر ہم پہلے سے طے شدہ پالن کے مطابق پہلے انار کلی بازار میں گھومتے رھے جو سب سے اچھے بوتیک‬
‫تھے ان میں گھس کر ورائٹی نکل کرتے رھے اور پھر وہیں سے ہم رنگ محل گئے ادھر سے کچھ ورائٹی لی پھر اعظم‬
‫مارکیٹ ادھر سے ہمیں پتہ چال کہ انار کلی میں بھی ایک گلی میں بوتیک کی ہول سیل دکانیں ہیں ہم ادھر اعظم مارکیٹ سے‬
‫واپس پھر انار کلی بازار گئے ادھر سے بھی کافی اچھی اور بارعایت ورائٹی ملی ۔‬
‫ہم نے پرچیزنگ میں بڑی محنت کی مال ہم نے سارا بلٹی کروا دیا اور واپسی پر ہمارے پاس صرف کرایہ یا مزید کچھ پیسے‬
‫ھی بچے ۔۔۔۔‬
‫گھر میں آتے ھی بتا آیا تھا کہ میں الھور مال لینے جارھا ھوں‬
‫اس لیے رات کو گھر نہیں آوں گا ۔۔‬
‫ہمیں الہور ھی آٹھ بج گئے ہم نے انار کلی میں ھی رات کو کھانا کھایا ۔۔‬
‫خیر سیالکوٹ کی بس میں سوار ھوگئے تھکن اتنی تھی کہ ہم الہور الری اڈہ میں کھڑی ھی بس میں سوگئے اور پھر‬
‫سیالکوٹ الری اڈہ میں کھڑی ھی بس میں کنڈیکٹر نے ااٹھایا کہ ویرو اٹھ جاو کار آگیا جے ۔۔۔‬
‫ہم آنکھیں ملتے ھوے حیران پریشان خالی بس کو دیکھنے لگ گئے میں نے کنڈیکٹر کو کہا یار ابھی تک بس نہیں بھری ۔۔‬
‫کنڈیکٹر ہنستا ھوا بوال ویر جی بس سیالکوٹ الری اڈے وچ کھڑی اے ۔۔۔‬
‫میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اور جنید میری طرف اور میں جنید کیطرف دیکھ کر حیران پریشان بیٹھے تھے کہ کنڈیکٹر پھر‬
‫بوال‬
‫ویرو ہن اتر وی جاو کہ ایتھے ای بسترے ال دیواں یا فیر واپس الہور جانا اے ۔‬
‫نئی یقین ہوندا تے بار نکل کے اڈہ پشان لو اپنا ای اے ۔۔۔۔‬
‫جنید بوال ہن بس وی کر ماما ایویں ِنرلے کالجے بےعزتی کری جاناں ایں ۔۔۔‬
‫کنڈیکٹر آجو آجو آجو کہتا ھوا دروازے کی طرف چال گیا اور ہم بھی اسکے پیچھے بس سے نیچے اترے اور چاروں طرف‬
‫دیکھ کر پہچاننے لگے کہ واقعی ہمارا ھی شہر ھے ۔۔۔‬
‫ادھر سے ہم نے رکشہ کروایا جنید کے محلے کا ۔۔‬
‫جنید کو گھر اتارا تو جنید نے کافی اصرار کیا کہ رات اسکے پاس رکوں مگر مجھے تو کہیں اور جانے کی جلدی تھی میں‬
‫نے اسے گھر الزمی جانے کا کہا ۔۔‬
‫اور اسے رکشہ سے اتار کر رکشے والے کو واپس چلنے کا کہا رکشے والے نے کہا کدھر جانا ھے باو جی‪ .‬میں کیا چل‬
‫تے سئی دسنا ایں ۔۔‬
‫کچھ آگے موڑ تھا موڑ مڑ کر میں نے کہا بس بس بس ادھر اتار دے رکشے واال بوال باو جی کوئی چیز تے نئی ُپل آے‬
‫اوتھے کیندے او تے واپس موڑ لواں‪.‬‬
‫میں نے او نئی یار میرا ایتھے کااار اے ۔۔۔‬
‫رکشے واال ہمممم کر کے چپ ھوگیا میں نے اسے کرایہ دیا اور پھر سجن کی گلی میں چل دیا ۔۔‬

‫)‪Update no (133‬‬
‫سجن کے گھر پہنچا بیل دی پہلی بیل کے چند سیکنڈ بعد ھی سجن کی کانوں سے ٹکراتی ھوئی سیدھا دل پر لگی آواز سن کر‬
‫ساری تھکاوٹ اتر گئی اور جب دیدار ماہی (ضوفی) کا ہوا تو رہتی تھکاوٹ بھی اتر گئی ۔‬
‫ضوفی کا چہرہ دیکھتے ھی جسم کو توانائی مل جاتی تھی ۔‬
‫ضوفی بڑی گرمجوشی سے دروازے پر ھی گلے ملی اور پھر ہم چلتے ھوے ٹی وی الونج میں پہنچے اور جب میری نظر‬
‫کالک پر پڑی تو ایک بج چکا تھا ۔‬
‫میں نے ماہی اور آنٹی کا پوچھا تو ضوفی نے اشارے سے بتایا کہ وہ تو کب کی سوگئی ہیں ۔۔‬
‫پھر ضوفی نے مجھے اوپر جانے کا کہا اورخود کھانا کھانے کا کہہ کر کچن کی طرف چلی تو میں نے کہا یار کھانا نہیں‬
‫بس چاے بنا دو‬
‫ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔‬
‫نواب ساب کھانا کھا آے میں نے اثبات میں سر ہالیا ضوفی برا سا منہ بناتے ھوے بولی ۔اور میں ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا کیا میں ۔۔‬
‫ضوفی نفی میں سر ہال کر افسردہ سی کچن کی طرف چل دی ۔‬
‫میں کچھ سوچتے ھوے اپنے ماتھ پر ہاتھ مارا‬
‫او تواڈی پین نو۔۔۔۔‬
‫‪.‬ضوفی کچن میں چلی گئی تھی اور مجھے اپنی غلطی کا احساس جب ھوا تو میں بھاگا ھوا ضوفی کے پیچھے کچن میں جب‬
‫داخل ھوا تو ضوفی شیلف پر رکھے چولہے کے سامنے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھوں‬
‫کو صاف کرتے ھوے چاے کی کیتلی چولہے پر رکھ رھی تھی ۔‬
‫میں جب کچن میں داخل ہوا تو ضوفی نے گردن گھما کر ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر دوسری طرف منہ کر کے کھڑی‬
‫ہوگئی ۔‬
‫ضوفی کو روتا دیکھ کر میں اپنے آپ کو کوسنے لگ گیا اور چلتا ھوا ضوفی کے پیچھے پہنچا اور اسکی کمر کے گرد بازو‬
‫ڈال کر ھاتھ اسکے مخمل سےنرم پیٹ پر رکھ کر تھوڑا سا جھکا اور اسکے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر بوال ۔‬
‫میرا چھونا ناج ھو دیا اے ۔۔‬
‫ضوفی روہانسے لہجے میں بولی تمہیں کیا لگے کسی سے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا میری جان میں تو مزاق کررھا تھا میں تو خود صبح سے خالی پیٹ مارکیٹ میں گھومتا رھا اور اسی خوشی میں‬
‫بھوک ھی نہیں لگی کہ آج اپنی جان کے ھاتھ کا بنا ھوا کھانا کھاوں گا ۔۔‬
‫اور تم اتنی کنجوس ھو کہ ایک دفعہ صلح مار کر جان چھڑوا کر جلدی سے کچن میں بھاگ آئی ھو ۔۔۔‬
‫ضوفی ایکدم چونک کر گھومی اور میری طرف منہ کر کے دونوں بازوں میرے سینے پر الکر دونوں ہاتھوں سے میرے‬
‫سینے پر مکے مار کر بولی ۔‬
‫شوخے پہلے کیوں نہیں بتایا میں صبح سے تمہارے اتنظار میں بھوکی ھوں کچھ بھی نہیں کھایا ۔‬
‫کہ تم آو گے تو ھی تمہارے ساتھ کھانا کھاوں گی اور جناب نے آتے ھی کہہ دیا کہ کھانا کھا کر آیا ھوں ۔۔‬
‫میں ضوفی کی کمر سے ھاتھ ہٹاے اور اسکی روئی سی گالوں کو تھام کر اسکی نم آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی‬
‫پلکوں پر سجے شبنم کے قطروں کو اپنے ہونٹوں سے چنا اور بوال ۔‬
‫پاگل ھو تم بھی قسمت سے تو تمہارے ھاتھ کا بنا کھانا کھانے کو موقع ملتا ھے اور میں پاگل ھوں جو اپنی جان کے ساتھ‬
‫کھانا کھانے کا یہ قیمتی موقع ضائع کرتا ۔۔‬
‫اور پھر میں نے ضوفی کے مخملی ہاتھوں کو پکڑا اور ہاتھوں کو چومتےھوے بوال‬
‫اب جلدی سے ان پیارے سے ہاتھوں سے کھانا بناو اور اپنے ہاتھ سے کھالو قسم سے بہت بھوک لگی ھے ۔۔‬
‫ضوفی بولی بڑے مسکے لگانا جانتے ھو۔‬
‫چلو جا کر نہا کر فریش ھوجاو میں ابھی کھانا لے کر آتی ھوں ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ہاتھ چھوڑا اور اسکے کندھوں کو پکڑ کر بڑے رومینٹک انداز سے بوال ۔‬
‫جان فریش تو تمہیں دیکھتے ھی ھوگیا ۔قسم سے تمہارے چہرے پر نظر پڑتے ھی ساری تھکاوٹ اتر گئی تھی‬
‫ضوفی بڑے غور سے آنکھیں جھپکاتے ھوے میری بات سن رھی تھی ۔‬
‫میں نے بڑے سسپنس سے کہا جان میری ایک بات مانو گی ۔ضوفی جو پہلے ھی میری باتوں میں کھوئی ھوئی تھی میرے‬
‫یوں سوال پرچونک کر بولی‬
‫حکم کرو جان ۔میں نے بڑا مسکین سا منہ بنایا اور بوال‬
‫ضوفی اگر تم مجھے‬
‫پہلے نہانے واال تو کردو تو پھر میں نہا بھی لوں گا۔۔‬
‫اور یہ کہہ کر میں باہر کی طرف بھاگا‬
‫ضوفی پیر پٹختی ھوئی کھانے کا چمچہ پکڑ کر میرے پیچھے بھاگی شوخےےےےےےےےٹھہر جا ابھی کرتی ھوں تجھے‬
‫نہانے واال ۔۔‬
‫میں بھاگتا ھوا اوپر کمرے میں آگیا ضوفی بس کچن کے دروازے سے ھی واپس مڑ گئی ۔۔‬
‫میں کمرے میں دَاخل ھوا اور شرٹ اتار کر بیڈ پر ایسے پھینکی جیسے یہ کمرہ میرا اور ضوفی کا بیڈ روم ھو اور کمرے‬
‫میں آکر میری فیلنگ بھی کچھ ایسی ھی ھو جاتی تھی ۔‬
‫میں سیٹی بجاتا ھوا واش روم میں گھس گیا اور نہانے لگ گیا نہا کر فریش ھوکر پینٹ پہن کر واش روم سے باہر نکال اور‬
‫پھر شرٹ پہنی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ھوکر سیٹی بجاتے ھوے بالوں میں برش پھیرنے لگ گیا۔۔‬
‫کہ ضوفی کے ہنسنے کی آواز آئی تو میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ضوفی کھانے کی ٹرے پکڑے ہنستے ھوے کہہ رھی‬
‫تھی ۔‬
‫واہ واہ لگتا ھے میرے شہزادے کو الہور کی ہوا لگ گئی ھے خیر ھے بڑے موڈ میں ھو ۔‬
‫میں جھینپ کر سر نیچے کر کے اپنے پیروں کو دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی میری حالت کو دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی اور ٹرے ٹیبل پر رکھتے ھوےبولی او ہوووووو میرے چھونے کو‬
‫چھماں آگیاں ہیں ۔۔‬
‫میں نے سر اٹھایا اور مسکراتا ھوا ضوفی کی طرف چلتا ھوا آیا اور بوال ۔‬
‫چھمیں تو اب اتارنی پڑیں گی اور ساتھ ھی میں نے پینٹ کی بیلٹ پر ہاتھ رکھا اور بیلٹ کو کھولنے لگ گیا ۔‬
‫ضوفی ایکدم گبھرا کر میری طرف بھاگ کر آئی اور میرے ھاتھوں کو پکڑکر بولی ۔‬
‫بس بس بس ذیادہ شوخے مت بنو ۔۔‬
‫چلو کھانا کھا مجھے بہت بھوک لگی ھے ۔۔‬
‫میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف چل پڑا۔۔‬
‫ضوفی بھی میرے ساتھ بیٹھ گئی اور ہم ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالتے ھوے کھانا کھانےلگ گئے۔۔۔‬
‫میں ساتھ ساتھ ضوفی کو مال لینے کی ڈٹیل بتاتا رھا اور جنید نے جیسے میرے ساتھ محنت کرکے مختلف جگہ سے ورائٹی‬
‫اور کلر سکیم لی اسکی بھی ساری ڈٹیل بتاتا رھا ۔‬
‫اچانک ضوفی بھولی یاسر ایک بات کہوں میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا اوربوال ہاں جان بولو ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر جنید کو میرے اور تمہارے ریلیشن کاپتہ ھے ۔‬
‫میں نےنفی میں سر ہالیا ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫یاسر پہلے کی بات اور تھی اب جنید بھائی تمہارے ساتھ ہوگا اور میں نہیں چاہتی کہ وہ ہم دونوں کی محبت اور اس رشتہ‬
‫کو غلط نام دے‬
‫اس لیے تم اسے سب بتا دو مگر یہ راز ہمیشہ اپنے دل میں چھپاے رکھنا کہ تم نے کس سے پیسے لے کر کام کیا ھے ۔‬
‫یاسر مجھے غلط مت سمجھنا دوستی میں دراڑ پڑتے دیر نہیں لگتی میں یہ نہیں کہتی کہ جنید بھائی غلط ھے یا وہ تمہارے‬
‫ساتھ مخلص نہیں مگر میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکوں گی کہ کوئی تمہیں یہ پیسوں کا طعنہ دے ۔‬
‫راز وہ ھی ہوتا ھے جو اپنے دل میں ھو ایسے ہم راز دوست جب علیحدہ ھوتے ہیں تو جگہ جگہ بدنام کرتے ہیں اس لیے تم‬
‫جنید کو صرف میرے اور اپنے رشتے کے بارے مین بتا دینا تاکہ وہ ہم دونوں کے بارے میں غلط راے نہ قائم کرے ۔۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے جان تم نے بلکل سہی کہا مجھے اسکو بتا دینا چاہیے ۔‬
‫یہ نہ ھو کہ وہ تم پر ھی الئن مارنا شروع کردے ۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔‬
‫میں اودھی بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے ول اکھ وی چک کے ویکھیا۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔۔‬
‫مزاق کر رھا ھوں یار ۔‬
‫جنید ایسا لڑکا نہیں ھے یاروں کا یار ھے ۔‬
‫وہ تمہاری عزت بھابھی سمجھ کر ھی کرے گا ۔‬
‫تم بے فکر رھو ۔‬
‫مین اسکو اچھی طرح جانتا ھوں ۔۔‬
‫اور میں موقع ملتے ھی اسے بتا دوں گا اس لیے اسکی طرف سے بےفکر رھو ۔‬
‫ضوفی نے ہممممم کیا ۔‬
‫اور پھر‬
‫کچھ دیر میں ہم نے کھانا ختم کیا اور ضوفی برتن اٹھاتے ھوے بولی یاسر وہ سامنے ٹراوزر لٹکا ھوا ھے وہ پہن لینا میں‬
‫چاے بنا کر التی ھوں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا ضوفی برتن اٹھا کر باہر نکل گئی اور میں نے دیوار پر ہینگر میں لٹکے ٹراوزر کو اتارا اور جلدی سے‬
‫پینٹ اتار کر ٹراوزر پہنا۔‬
‫اور بیڈ پر تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی چاے لے آئی اور بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر چاے رکھ کر میرے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ گئ۔‬
‫ہم دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور ہم دونوں کی رانیں ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫ملی ہوئیں تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں کی طرف ال کر ضوفی‬
‫کے ہاتھ کی الٹی سائڈ کو چوما اور بوال جان دروازہ تو بند کردو ضوفی نے چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی کیوں جی‬
‫دروازہ بند کرکے کیا کرنا ھے ۔۔۔میں نے ضوفی کے کندھے پر سر رکھا اور ھاتھ کو پھر چومتے ھوے بوال ۔‬
‫جپھی ڈالنی ھے ۔۔۔ضوفی بولی ۔‬
‫اوے ھوے‬
‫چپ کر کے اچھے بچوں کی طرح سوجاو پہلے ھی سارے دن مارکیٹنگ کرکے اور پھر سفر میں تھکے ھوے ھو اور صبح‬
‫دکان کی سیٹنگ بھی کرنی ھے‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا اور نیچے کھسکتا ھوا ضوفی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور ضوفی کے ھاتھ کو اپنے سینے‬
‫پر رکھ کر ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے بوال ۔‬
‫میں نے تو تمہاری گود میں سر رکھ کر سونا ھے ۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے دوسرے ہاتھ سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تنگ کیوں کرتے ھو ۔سمجھا کرو ایسے تمہاری طبعیت خراب ھوجاے گی ۔‬

‫)‪Update no (134‬‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ کو چوما اور نظریں اسکے چاند کی طرح چمکتے ھوے چہرے کی طرف کرتے ھوے کہا کہ‬
‫تمہاری قربت میں میرے اندر شکتی بڑھتی ھے تم سے جدا ہوکر میں کمزور پڑجاتا ھوں تم میرے پہلو میں ہو تو میں ساری‬
‫زندگی جاگ کر گزار سکتا ھوں ۔۔‬
‫ضوفی ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھی ھوئی تھی اور میں ٹانگوں کو دوسری طرف کرکے سر ضوفی کی گود میں رکھ کر لیٹا‬
‫ھواتھا‬
‫ضوفی میرے اوپر جھک کر میرے ہونٹوں کو چومتی ھوئی بولی ۔‬
‫اوے ھوے میرے مجنوں ۔۔‬
‫چلو اٹھو پہلےچاے پیو پھر میں اپنے کاکے کو لوری سناکر سالتی ہوں ۔۔‬
‫میں جھٹکے سے ضوفی کی گود سے سر اٹھا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور بڑے جوش سے خوش ہوکر بوال سچییییییی ضوفی بھی‬
‫میری نکل اتارتے ھوے بولی ُمچییییییی۔‬
‫‪.‬اور پھر ضوفی نے چاے کا کپ اٹھا کر مجھے پکڑایا اور خود بھی چسکیاں لے کر چاے پینے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے جلدی سے چاے پی اور سائڈ ٹیبل پر کپ رکھنے کے بہانے بیڈ سے نیچے اترا اور کپ رکھ کر تیزی سے دروازے‬
‫کی طرف بڑھا اور دروازہ بند کر کے الک کر کے بھاگ کرجمپ لگا کر ضوفی کے قدموں کی طرف بیڈ پر چڑھ گیا ۔۔ اور‬
‫الٹا لیٹ کر کہنیوں کے بل ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ضوفی کو دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی نے جلدی سے ٹانگیں سیدھی کیں اور چوکڑی مار کر بیٹھتے ھوے مجھے گھور کر دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫بہت ضدی ہو تم یاسر بہت تنگ کرنے لگ گئے ھو ۔۔‬
‫میں نے کہا اور کس کے ساتھ ضد کروں کس سے اپنی بات منواوں ایک تم ھی تو ھو جس پر اپنا حق جتانا مجھے اچھا لگتا‬
‫ھے ۔۔‬
‫ضوفی بولی چلو اٹھو میرے پیروں کی طرف مت لیٹو کیوں مجھے گناہ گار کرتے ھو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے ضوفی نے میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے اوپر کی طرف کھینچا اور میں گھٹنوں کے بل چلتا ھوا ضوفی کے‬
‫ساتھ جاکر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫ضوفی نے بھی چاے ختم کرکے کپ رکھ دیا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے لیٹ گئے ۔‬
‫ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ ہماری سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہیں تھی میں نے‬
‫ایک بازو ضوفی کے سر کے نیچے کیا ھوا تھا اور دوسرا بازو اسکی بغل سے گزار کر ہاتھ اسکی کمر پر رکھا ھوا تھا‬
‫ضوفی کا سینہ میرے سینے کے ساتھ لگا ھوا تھا ہم دونوں کی رانیں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ھوئی تھیں میں ضوفی کی‬
‫آنکھوں میں انکھیں ڈال کر اسکی آنکھوں میں کھویا ھوا تھا ضوفی نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کہ کیا دیکھ رھے‬
‫ھو ۔‬
‫میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ ان آنکھوں میں‪ .‬میرے لیے کتنا پیار ھے ضوفی بولی پیار آنکھوں میں نہیں دل میں ہوتا ھے‬
‫آنکھیں دھوکا دے دیتی ہیں اور دل کبھی دھوکا نہیں دیتا میرا دل صرف تمہارے لیے دھڑکتا ھے کاش تمہیں اپنا سینہ چیر کر‬
‫دیکھا سکتی کہ تم سے کتنا پیار کرتی ہوں ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما اور اسکی کمر کو سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫جان تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں میں تو اپنی قسمت پر ناز کر رھا ھوں کہ مجھے تم جیسا جیون ساتھی مال تم اوپر‬
‫سے جتنی خوبصورت ھو اندر سے اس سے دگنی خوبصورت ھو‬
‫اوپر والے نے تمہیں صورت کے ساتھ سیرت سےبھی نوازہ ھے ۔‬
‫پتہ نہیں مجھ سے کون سی ایسی نیکی ھوئی جس کے بدلے اوپر والے نے تمہارا ساتھ مجھے دیا ۔‬
‫ورنہ میں تو اتنا گناہ گار ھوں کہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی تم میرے قریب آجاو گی اور اتنی جلدی میں اپنے‬
‫پیروں پر کھڑا ھوجاوں گا ۔‬
‫ضوفی بولی خوش قسمت تو میں ہوں کہ مجھے اتنا چاہنے واال جیون ساتھی مال ۔‬
‫یاسر کبھی کبھی تو مجھے بہت ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم ۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی ایکدم چپ ھوگئی اور اسکے چہرے پر افسردگی چھا گئی ۔‬
‫میں نے کہا کیا۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی بولی کچھ نہیں ۔‬
‫میں نے کہا بولو نہ جان کیا کہنے لگی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم ساری زندگی مجھے یوں ھی پیار کرتے رھو گے نہ۔‬
‫میں نے کہا کوئی شک ھے۔‬
‫ضوفی بولی یاسر پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی مجھے اس زمانے سے ڈر لگنے لگ جاتا ھے کوئی تیسرا ہمارےبیچ نہ آجاے ۔۔‬
‫میں نے کہا پاگل ھو کیا ۔‬
‫میری ہر سانس تمہاری مقروض ھے تمہیں دیکھ دیکھ کر تو جیتا ھوں ۔‬
‫یہ سوچنا بھی نہ کہ کوئی اور تمہاری جگہ لے سکتا ھے تم سے بےوفائی کروں اس سے پہلے میں مر۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی نے جلدی سے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر پیار کا تاال لگا دیا ۔‬
‫اور پاگلوں کی طرح میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی اور اپنے جسم کو میرے جسم کے ساتھ چپکا کر مجھ میں سمانے کی‬
‫کوشش کرنے لگ گئی ۔۔‬

‫)‪Update no (135‬‬
‫ضوفی کے جسم کا لمس پاتے ھی مجھ پر بھی خمار چھانے لگ گیا میں بھی کسنگ کی ضوفی برابر ساتھ دینے لگ گیا ۔۔‬
‫کتنی دیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے لیٹے رھے ۔۔‬
‫اور بیچ میں کبھی ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتے ھوے پورے بیڈ کی سیر کرتے رھے ۔‬
‫ضوفی کا جسم اتنا نرم اور سوفٹ تھا کہ میں اسکے جسم کے جس اعضاء پر بھی ہاتھ رکھ کر انگلیوں کو دباتا میری انگلیاں‬
‫اندر دھنس جاتی ۔‬
‫ضوفی ہر لحاظ سے فٹ تھی ۔۔‬
‫بنانے والے نے کسی چیز کی کمی اس میں نہیں رکھی تھی ۔‬
‫ضوفی دیکھ کر بس دل کر تا تھا کہ دیکھی جاوں میری نظریں اسکو دیکھ دیکھ کر نہ تھکتی تھی ۔‬
‫اور جب اسکا قرب حاصل ھوتا تو دل کرتا کہ اسکو اپنے جسم میں سمو لوں اسکے ہونٹوں کو کھا جاوں اسکے جسم کو‬
‫ہاتھوں سے نچوڑ دوں ۔‬
‫کافی دیر کے بعد ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں کی جان چھوڑی اور دونوں سیدھے ھوکر لیٹ گئے اور لمبے لمبے سانس‬
‫لینے لگ گئے ۔ضوفی بولی یاسر تم میری مت مار دیتے ھو ۔‬
‫میں نے سایڈ کے بل بوتے چہرہ ضوفی کی طرف کیا اور بوال اصل مت تو شادی کے بعد ماروں گا ۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔۔کہیں مت مارتے مارتے مجھے ھی نہ مار دینا ۔‬
‫میں نے کہا تمہیں مار کر میں نے خود مرنا ھے‬
‫‪.‬بھی تو جینا سیکھا ھے اور مجھے ابھی لمبی زندگی جینا ھے ۔‬
‫اورتمہارے بغیر جینا مشکل ھی نہیں ناممکن ھے ۔‬
‫یہ میرا پیار ھے میرا جنون ھے میرا بس چلے تو تم کو اپنے اندر سمو لوں ۔۔‬
‫ضوفی نے بھی میری طرف سایڈ بدلی اور میرےبالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھ سے کیوں اتنا پیار کرتے ھو کیوں مجھے پاگلًو ں کی طرح چومتے چاٹتے ھو ۔‬
‫میں نے کہا ضوفی تم چیز ھی ایسی ھو جسے سواے دیکھنے اور چومنے کہ اور کچھ کرنے کو دل ھی نہیں کرتا ۔‬
‫ضوفی نے پھر مجھے جپھی ڈال لی اور ہم کتنی دیر ایک دوسرے میں سمانے کی کوشش کرتے رھے اور اسی کوشش مًیں‬
‫پتہ نہیں کب آنکھ لگی اور آنکھ تب کھلی جب کوئی مجھے ۔۔۔۔‬
‫‪.‬صبح مجھے جنجھوڑ کر اٹھاتے ہوے ضوفی کی ُمدھ بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اٹھ بھی جاو جان اور کتنی دیر‬
‫سونا ھے دس بج چکے ہیں ۔۔‬
‫میں نے آنکھیں کھولیں تو میری آنکھوں کے سامنے میری صبح کا سورج چمک رھا تھا ۔‬
‫میں نے ایک سیکسی سی انگڑائی لی اور ضوفی کو بازوں سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ کر لیٹا لیا اور بازوں میں کس کر‬
‫ساری سستی ضوفی پر اتاری ضوفی ھاےےےےےے کر کے رھی گئی اور میرے بازو ڈھیلے ھوتے ھی جلدی سے میرے‬
‫اوپر سے اٹھ کر دروازے کی طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫تم بھی نہ یاسرکوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔۔‬
‫میں نے اٹھتے ہوے کہا ایسے مواقع کون سا روز روزملتے ہیں جو میں الپروائی کر کے ان قیمتی مواقع کو ہاتھ سے‬
‫جانے دوں ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی باتوں میں ویسے تم سے کوئی نہیں جیت سکتا ۔‬
‫چلو شاباش اٹھو جلدی سے اور تیار ھو جاو پہلے ھی بہت دیر ھوگئی ھے تین دفعہ جناب کو اٹھا کر گئی ھوں ۔‬
‫مگر جناب گھوڑے بیچ کر سوے ھوے تھے ۔‬
‫اب پھر نہ سوجانا میں ناشتہ لینے جارھی ہوں اور میرے آنے تک تم تیار ھو۔۔۔‬
‫میں نے فرمانبرداری سے جھکتے ھوے کہا جو حکم سرکار کا ۔۔‬
‫ضوفی کے یوں رعب جھاڑنے اور ڈانٹنے میں بھی اپنا پن تھا جس پر میں فدا ھوجاتا تھا ۔‬
‫ضوفی مسکراتی ھوئی کمرے سے نکل کر نیچے چلی گئی اور میں نے کالک کی طرف دیکھا تو واقعی دس بج چکے تھے‬
‫میں جلدی سے واش روم کی طرف بھاگا اور نہا دھو کر فریش ھوکہ باہر نکال اور ضوفی کے آنے سے پہلے ھی کپڑے‬
‫تبدیل کرکے بال بنا کر سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا آنٹی ٹی وی النج میں بیٹھی ہوئیں تھی مجھے دیکھ کر انکے چہرے پر‬
‫محبت اور شفقت بھری مسکراہٹ آئی میں نے آنٹی کو سالم کیا اور ان سے سر پر پیارلیا اور ڈھیر ساری دعائیں لے کر‬
‫انکے پاس ھی بیٹھ کر انکی صحت کے بارے میں پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫آنٹی نے بتایا کہ اب انکی طبعیت ٹھیک ھے بس کبھی کبھی بلڈ پریشر کبھی لو ھو جاتا ھے تو کبھی ہائی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کو کہا کہ کسی دن میرے ساتھ ہسپتال چلیں آپ کا اچھی طرح چیک اپ کروا کر الوں گا ۔۔‬
‫مگر آنٹی ٹال مٹول کرتی رہیں اتنے میں ضوفی ناشتہ لے آئی میں نے ماہی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کالج چلی گئی ھے‬
‫۔‬
‫میں ہممم کر کے ناشتہ کرنے میں مصروف ھوگیا اور ساتھ ساتھ آنٹی سے دکان اور مال کی باتیں ہوتیں رہیں ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں مارکیٹ کی طرف چل دیے مارکیٹ پہنچے تو دکان کے باہر جنید بیٹھا ہوا تھا ۔۔‬
‫مجھے ضوفی کے ساتھ دیکھ کر چونک کہ کھڑا ھوگیا اور منہ کھولے حیرانگی سے پھٹی آنکھوں سے کبھی میری طرف‬
‫دیکھتا تو کبھی ضوفی کی طرف ضوفی نے بھی یہ بات نوٹ کی اور مجھے کہنی مار کر جنید کی حالت کیطرف متوجہ کیا‬
‫میں تو پہلے ھی اسکی طرف دیکھ رھا تھا ۔۔‬
‫ضوفی سیدھی نیچے بیسمنٹ میں اتر گئی ۔‬
‫جبکہ میں باہر دکان کی طرف بڑھا جہاں جنید کھڑا اب بھی سیڑھیوں کی طرف دیکھ رھا تھا ۔‬
‫میں نے جاکر اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالیا اوربوال ۔‬
‫سالیا بس وی کر کے ہن نظر النی اے ۔۔‬
‫جنید ایکدم چونک میری طرف دیکھتے ھوے بوال ۔‬
‫گانڈو توں کی شےایں ۔‬
‫روز ای کوئی نہ کوئی حیران پریشان کرن واال کم کری جاناں ایں ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫چل دکان کھول کر اندر چل کر بات کرتے ہیں ۔‬
‫اور میں نے جیب سےچابیاں نکالیں اور دکان کا شٹر آدھا کھول کر اندر داخل ھوا اور جنید بھی میرے پیچھے ھی اندر داخل‬
‫ہوگیا ۔۔‬
‫اندر جاتے ھی جنید نے میری گردن کو دبوچ لیا اور بوال سالیا کال ای موجاں ماری جاناں ایں ۔۔۔‬
‫اس سے آگے جنید کچھ بولتا‬
‫کہ‬
‫میں نے جھٹکے سے گردن چھڑوائی اور اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے بولنے سے روکتے ھوے بوال ۔‬
‫بسسسسسس اگے کش نہ بولیں‬
‫اے تیری پرجائی اے سمجھیا ۔۔‬
‫جنید بوال مگر یار یہ تو وہ ھی ھے نہ پالر والی جو ہمارے محلے میں رہتی ھے جسکی ہم اس دن بات کررھے تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا ہاں یاروہ ھی ھے ۔‬
‫مگر اسکے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ یہ تیری بھابھی اور میری عزت ھے ۔۔‬
‫جنید حیران پریشان ھوتا ھوا دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر کرسی پر ڈھے گیا ۔۔۔‬
‫میں اسکی حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بوال ۔‬
‫پانی پالواں ۔۔‬
‫جنید بوال سالیا پانی دیا ۔‬
‫اے کدوں دا چکر چلن دیا اے جیڑا گل ایتھوں تک وی پونچ گئی ۔۔‬
‫میں نے کہا یار صبر تے کر سب ُک ش دس دیناں ایں مرن واال کیوں ہوگیاں ایں ۔‬
‫جنید بوال‬
‫ماما توں کم ای ایویں دے کرنا ایں اک دم ای چن چڑاناں ایں ۔۔۔‬
‫میں ہنستے ھوے جنید کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور اسکو مختصرًا یہ بتا دیا کہ میں اور ضوفی ایک دوسرے سے‬
‫سچا پیار کرتے ہیں اور عنقریب ہم شادی کرنے والے ہیں ۔‬
‫ُ اور ضوفی نہایت شریف اور خاندانی لڑکی ھے بس مجبوری سے بےچاری پارلر کا کام کرتی ھے جو شادی کے بعد‬
‫چھوڑ دے گی ۔۔‬
‫جنید بوال یار وہ سب تو ٹھیک ھے میں یہ بھی جانتا ھوں کہ یہ واقعی بہت شریف ھے کیونکہ میں تو اسکو بچپن سے جانتا‬
‫ھوں مگر یہ تیرے چکر میں آئی کیسے ۔‬
‫اس نے تو بڑے بڑے مگرمچھوں کو گھاس نہیں ڈالی ۔‬
‫میں نے کہا بس یار نصیب کی بات ھے اوپر والے نے ہم دونوں کی جوڑی بنانی تھی سو ایک دوسرے کے دل میں محبت‬
‫پیدا کردی ۔۔‬
‫کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے جنید کو یقین دال ھی دیا کہ واقعی ضوفی اورمیں شادی کرنا چاھتے ہیں ۔‬
‫جنید اس بات کو لے کر کافی دیر مجھ پر برستا بھی رھا کہ اسے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔‬
‫میں نے ضوفی کی دنامی اور اس کی دی ھوئی قسموں کا بہانہ بنا کر جنید سے سوری کر کے اسکو منایا ۔۔‬
‫بارہ بجے ریڑھی پر بلٹی آگئی ۔۔‬
‫پلے دار نے مال کے بورے اور سٹیچوؤں کی پیٹیاں اور کچھ کارٹن وغیرہ دکان کے اندر رکھے ۔۔‬
‫میں نے ریڑھی والے کو بلٹی کے پیسے دے کر روانہ کیا اور پھر آدھا شٹر نیچے کر کے ۔‬
‫میں اور جنید بورے کھول کر اندر سے شاپر نکالنے لگ گئے ۔۔‬
‫اور ساتھ ساتھ ہنسی مزاق بھی کرتے رھے ۔۔‬
‫پھر ہم نے سٹیچووں کی پیٹیاں کھولیں اور جہاں جہاں سٹیچوں رکھنے تھے وھاں سیٹ کیے جنید گانڈو لڑکیوں کے‬
‫سٹیچووں کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا رھا کبھی انکے مموں کو پکڑتا کبھی انکی گانڈ پر ھاتھ پھیرتا تو کبھی انکے ساتھ جپھیاں‬
‫ڈالتا ۔‬
‫میں اسکی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہنسی جارھا تھا ۔‬
‫ایسے ھی ہنسی مزاق کے دوران ہم نے دکان کے اندر کافی حد تک سیٹنگ کرلی ہمیں وقت کا تب احساس ھوا جب باہر‬
‫اندھیرا ھونا شروع ھوگیا ۔۔‬
‫میں نے ٹائم دیکھا تو سات بج چکے تھے میں نے جنید کو کہا کہ یار باقی کا کل کر لیں ابھی تیری بھابی کو گھر بھی‬
‫چھوڑنے جانا ھے اور میں نے گاوں بھی جانا ھے۔۔‬
‫جنید نے بہت کہا کہ یار کل جمعہ ھی ھے ساری رات میں سیٹنگ مکمل کرلیں گے اور کل چھٹی ھی ھے دن ٹائم سو کر نیند‬
‫پوری کرلیں گے میں نے کہا نہیں یار پہلے ھی کل کی تھکاوٹ نہیں اتری ۔‬
‫کچھ دیر ہماری بحث چلتی رھی آخر کار جمعہ کو دن کے وقت بقیہ سیٹنگ کرنے اورہفتہ کو بوتیک کا افتتاح کرنے کا ڈن‬
‫ھوا اور ہم دکان سے باہر نکلے اور شٹر بند کیا جنید ضوفی کے متعلق مجھے چھیڑتا ھوا اپنے گھر کی طرف چل دیا اور‬
‫میں نیچے سیڑیاں اترتا ھوا پارلر کی طرف چلدیا ۔۔‬
‫پارلر بند کر کے ہم اوپر آے تو ضوفی نے دکان کی سیٹنگ دیکھنے کا کہا میں نے شٹر کھوال اور ہم بوتیک میں داخل ھوے‬
‫ضوفی دکان کے اندر داخل ہوکر چاروں اطراف دیکھتے ھوے بہت خوش ہورھی تھی بوتیک کا فرنیچر اور سیٹنگ اور‬
‫ورائٹی دیکھ کر ضوفی تعریفوں کے پل باندھی جارھی تھی ۔‬
‫اور میری محنت لگن اور پرچیزنگ کو سراہ رھی تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر ہم بوتیک میں رھے اور پھر دکان بند کر کے میں ضوفی کو گھر چھوڑنے چال گیا کچھ دیر ضوفی کے گھر‬
‫ٹھہرنے کے بعد میں واپس اپنے گھر گاوں آگیا۔۔‬
‫امی ابو آپی بھا مجھے مبارکیں دے رھے تھے میں نے انکو ہفتہ کو بوتیک کے افتتاح پر آنے کا کہا آپی اور امی کو میں نے‬
‫اگلے دن ھی جمعہ کو بوتیک دیکھنے کا کہا ۔۔‬
‫اور امی کے کان میں انکو انکی بہو سے ملوانے کا بھی کہہ دیا ۔۔‬
‫اگلے دن میں امی اور آپی کو تانگے پر لے کر سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا‬

‫)‪Update no (136‬‬
‫امی کو راستے میں ھی بتا دیا کہ ہم پہلے ضوفی کے گھر جائیں گے آپ اسکی امی کی خیریت بھی دریافت کرلینا اور اپنی‬
‫بہو سے بھی مل لینا‪ ،‬اور آپی کو بھی ساری تفصیل بتا دی ۔‬
‫اور اسکو سختی سے منع بھی کردیا کہ ابھی یہ بات کسی سے نہیں کرنی ۔‬
‫خاص کر آنٹی فوزیہ اور انکی بیٹیوں سے ۔‬
‫امی نے بھی آپی کو سختی سے منع کردیا ۔‬
‫خیر تانگہ ضوفی کے گھر کے سامنے رکا ہم سب تانگے سے نیچے اترے ۔۔‬
‫میں نے ڈور بیل دی تو ضوفی کی آواز آئی کون ۔۔‬
‫میں نے دروازے کے پاس منہ کر کے آہستہ سے کہا مگر تیز تیز کہا۔۔‬
‫تمہارےسسرال والے آے ہیں جلدی دروازہ کھولو۔۔ امی نے پیچھے سے میری گردن پر تھپڑ مارا کہ کتنے بتمیز ھو ایسے‬
‫بولتے ہیں ۔‬
‫اتنی دیر میں‬
‫ضوفی نے دروازہ کھوال اور غصے سے میری طرف دیکھ کر کچھ بولنے لگی کہ اسکی نظر امی اورآپی پر پڑ گئی ضوفی‬
‫وہیں ُگ نگ ہوکر کھڑی آنکھیں پھاڑے کبھی میری طرف دیکھتی کبھی امی لوگوں کی طرف ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی حالت دیکھی اور اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالتے ھوے بوال ۔۔۔‬
‫ہیلووووو‬
‫تمہاری ساس اورنند ہیں ۔۔۔‬
‫پریشان کیوں ہوگئی ہو ۔۔‬
‫ضوفی ایک دم سکتے سے باہر آئی اور سارے جہاں کی مسکراہٹ چہرے پر التے ھوے امی اور آپی کو اندر آنے کا کہا ۔‬
‫اوردروازے کے اندر داخل ہوتے ھی امی اور آپی سے بڑی گرمجوشی سے گلے ملی ۔۔‬
‫میں بعد میں اندر داخل ھوا آپی سے ملنے کے بعد ضوفی نے میری طرف گھور کر دیکھا تو میں بھی باہیں کھول کر ضوفی‬
‫کے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھا تو آپی منہ پھاڑے مجھے دیکھنے لگ گئی اور ضوفی شرما کر سر نیچے کیے انکو لے‬
‫کر اندر چلی گئی ۔۔‬
‫امی اور آپی کو دیکھ کر تو ضوفی کے پاوں زمین پر نہیں لگ رھے تھے ۔۔‬
‫خوشی کے مارے وہ نہال ہوئی جارھی تھی ۔۔‬
‫امی اور آپی کو اندر بیٹھا کر ضوفی آنٹی کو کمرے سے لینے چلی گئیں کچھ ھی دیر میں آنٹی بڑی خوش دوڑتی ھوئی‬
‫کمرے سے باہر آئہی اور بڑی گرمجوشی سے امی اور آپی سے ملیں ضوفی کچن میں گئی میں بھی اسکے پیچھے ھی کچن‬
‫میں چال گیا‬
‫موقع ملتے ھی ضوفی مجھ پر برس پڑی کے کم ازکم مجھے پہلے بتا تو دیتے کہ امی نے آنا ھے یوں اچانک ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے بات کاٹتے ھوے کہا کچھ نہیں ہوتا بغیر میک اپ کے اگر تمہیں دیکھ لیا ۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی ۔‬
‫الو میں اس لیے کہہ رھی تھی کے گھر کی صفائی وغیرہ کرلیتی سب کچھ بکھرا پڑا ھے ۔‬
‫میں نے کہا جان وہ تمہیں دیکھنے آے ہیں گھر کو نہیں ۔‬
‫اور پھر میں نے ساتھ ھی پلٹی مارتے ھوے ضوفی کو چھیڑا کہ ویسے بھی امی آنٹی کی خبر لینے آئیں ہیں ۔۔۔‬
‫تم ذیادہ خوش نہ ھو ۔۔۔‬
‫ضوفی گالس مجھے مارنے کے سٹائل سے میری طرف بڑھی تو میں پلٹ کر پیچھے بھاگا اور کچن سے نکل کر امی اور‬
‫آنٹی کے پاس جا بیٹھا ۔‬
‫امی مجھے گھورے جارھی تھی ۔‬
‫کہ میں ایسے بھاگا پھر رھا ہوں جیسے اپنا گھر ہو۔‬
‫میں امی کے گھورنے پر بڑا شریف بچہ بن کر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫امی اور آنٹی کچھ ھی دیر میں کافی ُگ ھل مل گئیں تھیں ضوفی نے پہلے کولڈ ڈرنک پیش کی اور کچھ دیر امی کے پاس بیٹھ‬
‫کر امی کا حال احوال پوچھتی رہی ضوفی بڑے سلجے انداز میں امی اور آپی کو ٹریٹ کر رھی تھی اور کچھ دیر بعد ضوفی‬
‫کھانا بنانے کا کہہ کر آپی کو ساتھ لے کر کچن میں چلی گئی ۔‬
‫ماہی کالج گئی ھوئی تھی ۔‬
‫ورنہ وہ بھی امی اور آپی کو مل کر بہت خوش ہوتی ۔۔‬
‫آنٹی امی کے سامنے میری تعریفوں کے ُپل باندھی جارھی تھی ۔‬
‫میں مزید کچھ دیر بیٹھا اور پھر امی اور آنٹی کو دکان کی سیٹنگ کا بتایا کہ ابھی کچھ کام رہتا ھے اور آج جنید نے بھی آنا‬
‫تجا وہ انتظار کر رھا ھوگا اس لیے میں چلتا ھوں آپ لوگ باتیں کریں اور پھر ان سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور‬
‫ضوفی کو کہا کہ جب فری ھوجاو تو سب کو لے کر بوتیک پر آنا ۔۔۔‬
‫ضوفی نے اچھا جی کہا ۔۔‬
‫اور میں اسے آنکھ مار کر کچن سے باہر نکل گیا باہر نکلتے وقت میری نظر جب آپی پر پڑی تو آپی ہاتھ منہ پر رکھے‬
‫ہاےےےےے ***** کر رھی تھی ۔۔‬
‫میں ہنستہ ھوا باہر دروازے کی طرف بڑھا اور پھر گلی میں نکل کر دکان کی طرف چل دیا ۔۔۔‬
‫دکان پر پہنچا تو جنید پہلے سے وھاں موجود تھا ۔‬
‫مجھے دیکھ کر ایڑیاں اٹھا کر میرے پیچھے دیکھتے ھوے بوال بھابھی نہیں آئی ۔۔‬
‫میں نے امی اور آپی کا بتایا کہ وہ کچھ دیر بعد ان کے ساتھ آے گی دکان دیکھنے ۔۔‬
‫جنید بڑا حیران ھوکر بوال واہ جی واہ تے گل ایتھے تک پہنچ گئی اے ۔اب امی اور آپی بھی بھابی کو دیکھنے پہنچ گئیں ۔۔‬
‫میں نے کہا بس دیکھ لو یار اوپر واال جب مہربان ہوتا ھے تو سب ٹھیک ہو جاتا ھے ۔‬
‫جنید نے مجھ سے چابی لے کر دکان کا شٹر کھوال ۔‬
‫دوستو‬
‫جنید کا یوں میرے دکان پر آنے کا انتظار کرنا اور جب وہ دکان کے تالے کھول رھا تھا تو مجھے اپنے دن یاد آگئے کہ میں‬
‫کیسے انکل کا انتظار کیا کرتا تھا اور ان سےچابیاں لے کر دکان کھوال کرتا تھا ۔۔‬
‫اوپر والے کا شکر ادا کیا جس نے اتنی جلدی عزت سے نوازہ ۔۔میں جنید کے پیچھے دکان میں داخل ہوا اور صفائی کرنے‬
‫لگا تو جنید بوال رہنے دو میں کر لیتا ھوں ۔‬
‫جنید کی بات سن کر میں ہنستے ھوے بوال نہیں یار میں اپنی اوقات نہیں بھولنا چاہتا اور ہاں تم کبھی بھی مجھ میں اور اپنے‬
‫آپ میں فرق نہ سمجھنا جیسے ہم پہلے دوست تھے اب بھی ویسے ھی ہیں ۔‬
‫میں تمہیں مالزم نہیں بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر رکھا ھے ۔۔‬
‫جنید میرے پاس آیا اور مجھ سے جپھی ڈال کر بوال ۔‬
‫شکریہ یار جو تم نے مجھے اتنی عزت دی ۔۔‬
‫میں نے بھی اسکو بازوں میں کسا اور بوال ۔‬
‫بس یہ بات ذہن نشین کرلو کہ یہ تمہاری اپنی دکان ھے اور ہم نے مل کر اسے سٹینڈ کرنا ھے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫بلکل اوپر والے نے چاھا تو بہت جلد ہماری دکان کا نام ھوگا ۔۔۔پھر ہم ایک دوسرے سے علیحدہ ھوے اور جو سیٹنگ رھ‬
‫گئی تھی وہ سیٹنگ کرنی شروع کردی ۔‬
‫کام میں وقت کا ھی پتہ نہیں چال ۔کہ کب ایک بج گیا *****‪،‬کی آواز سن کر جنید بوال یار میں نے جمعہ پڑھنا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے یار کام تو مکمل ھوچکا ھے تم ایسا کرو گھر چلے جاو اور میں نے امی لوگوں کا انتظار کرنا ھے ۔‬
‫جنید نے یممم کیا اور مجھ سے مل کر گھر چال گیا ۔۔‬
‫میں دکان کی صفائی کرنے لگ گیا جو شاپر وغیرہ بکھرے پڑے تھے انکو اٹھانے میں مصروف ھوگیا ۔۔‬
‫ایک گھنٹے بعد بوتیک کا شیشے کا دروازہ کھال اور پہلے امی اندر داخل ہوئیں اور آنکھیں پھاڑے حیران پریشان بوتیک کو‬
‫چاروں طرف دیکھنے لگ گئی امی کے پیچھے آنٹی اور پھر آپی اور ماہی ضوفی ۔۔۔‬
‫سب کے سب بوتیک کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہورھے تھے امی اور آنٹی نے میرا ماتھا چوما اور ڈھیر ساری دعائیں‬
‫دینے لگ گئیں نازی ماہی ضوفی بھی مجھے مبارکباد دینے لگ گئیں ۔۔۔‬
‫سب ھی بہت خوش تھے ۔۔۔‬
‫میں انکو بیٹھا کر باہر دے کولڈ ڈرنک لے آیا اور کافی دیر ہم ہنسی مزاق کرتےرھے ۔‬
‫امی اور نازی آنٹی لوگوں سے ایسے گھل مل گئے تھے جیسے ایک ھی فیملی ھو ۔۔۔‬
‫نازی بار‪ ،‬بار مجھے ضوفی کی طرف آنکھوں سے اشارے کر کے ھاتھ سے بہت پیاری ھے کہہ رھی تھی ۔‬
‫ناذی ماہی اور ضوفی کے ساتھ ایسے فرینک ہوگئی تھی جیسے وہ انکی کزنیں ھوں ۔۔‬
‫‪.‬۔۔‬
‫ماہی بولی بھائی اب تو آپ کی طرف پارٹی بنتی ھے خالی بوتلوں سے ہمیں نہ ٹرکا دینا ۔۔‬
‫میں نے کہا جب کہیں کھال دوں گا ۔۔‬
‫آنٹی ماہی کو جھڑکتے ھوے بولی ۔‬
‫شرم کرو ماہی ابھی اسکو کام تو شروع کرنے دو ۔۔‬
‫امی بیچ میں بولیں ۔۔‬
‫آپاں پھر کیا ھوا وہ اتنے پیار اور مان سے کہہ رھی ھے ۔‬
‫ایسا کرتے ہیں کل آپ ہماری طرف آئیں سب ۔‬
‫ہمارا گاوں بھی دیکھ لینا اور ہمارا غریب خانہ بھی ۔۔‬
‫آنٹی بولی جی ضرور آئیں گے کیوں نہیں مگر کل تو مشکل ھے اگلے جمعہ کو ہم آپکے گھر آئیں گے تب ضوفی اور یاسر‬
‫کو بھی چھٹی ھوگی ۔۔۔‬
‫سب نے یہ تجویز پسند کی ۔۔‬
‫ضوفی ورائٹی دیکھ دیکھ کر بہت ھی خوش ھو رھی تھی اور میری پسند کی داد دے رھی تھی ۔۔‬
‫کہ اتنے کم پرائس میں اتنی عمدہ ورائٹی ۔۔۔‬
‫خیر شام تک سب دکان میں ھی رھے پھر امی نے جانے کی اجازت مانگی تو میں دو رکشے لے آیا دکان بند کی اور ضوفی‬
‫کو صبح افتتاح کرنے کا کہا ضوفی نے میری بات سمجھتے ھوے چپکے سے میری پینٹ کی جیب میں پیسے ڈال دیے ۔۔‬
‫پھر ہم گاوں آگئے اور آنٹی لوگ اپنے گھر چلے گئے ۔‬

‫)‪Update no (137‬‬
‫امی اور نازی آنٹی لوگوں سے مل کر بہت خوش تھیں سارے رستے ان سب کی تعریفیں کرتی رہیں ۔۔۔گھر آکر بھی انکی ھی‬
‫باتیں ہوتی رہیں ۔۔‬
‫امی نے ابو کو جب دکان کی سیٹنگ اور ورائٹی کے بارے میں قصیدے سناتے تو ابو بھی بہت خوش ھوے ۔۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر گھر رہنے کے بعد آنٹی فوزیہ کے گھر انکو دکان کی خوشخبری سنانے چال گیا ۔‬
‫‪No 2.‬‬
‫آنٹی کے گھر پہنچا تو انکا دروازہ بند دروازہ ناک کیا تو کچھ دیر بعد آنٹی کی آواز آئی کون میں نے کہا آنٹی یاسر ہوں ۔۔‬
‫آنٹی نے دروازہ کھوال اور بڑے موڈ میں بولی مل گیا ٹائم آگئی یاد ۔۔میں ہنستا ہوا اندر داخل ھوا اور آنٹی کی گالوں پر چٹکی‬
‫کاٹ کر ہالتے ھوے بوال ۔‬
‫آپ کو خوشخبری سنانے آیا ھوں ۔۔‬
‫آنٹی ہاےےے کرتی ھوئی اپنی گالوں سے میرے ہاتھ ہٹاتے ھوے بولی ۔۔‬
‫شادی تونہیں کروانے لگے ۔۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی ابھی اپنے پاوں پر تو کھڑا ھوجاوں پھر شادی کا بھی سوچیں گے ۔۔‬
‫آنٹی دروازہ بند کرتے ھوے آہستہ سے بولی ۔‬
‫سب کچھ تو کھڑا ہوگیا ھے اور اب کیا کھڑا کرنا باقی ھے ۔۔‬
‫میں بولنے ھی لگا تھا کہ نسرین کمرے سے نکل کر باہر آتے ھوے بولی امی کون ھے باہر۔۔۔اور مجھ پر نظر پڑتے ھی‬
‫مجھے گھور کر دیکھتے ھوے بولی ۔۔‬
‫امی یہ کون اندر آگیا ۔۔‬
‫میں چلتا ھوا نسرین کے پاس پہنچا اور بوال ۔۔‬
‫نظر کمزور تھی پہلے لگتا ھے اب رہتی نظر چلی گئی ھے ۔‬
‫نسرین بولی او پائی کون ایں کدر منہ ُچ ک کے اندر وڑی جاناں ایں ۔۔۔‬
‫آنٹی میرے پیچھے ہنستے ھوے بولی ۔۔‬
‫ویسے تمہارے ساتھ ہونا ایسے ھی چاہیے ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپکا اعتراض بنتا ھے آپکا غصہ بھی بجا ھے ۔‬
‫مگر پہلے مجھے کچھ کہنے کا موقع تو دیں ۔۔‬
‫نسرین بولی ہم تمہیں جانتے ھی نہیں تو پھر بات کیوں سنیں ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا بکواس بند کرو آئی وڈی کار دی مالکن ۔۔۔‬
‫اور میں یہ کہتا ھوا کمرے میں داخل ھوگیا نسرین میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑتے ھوے مجھے روکتے ھوے بولی ۔‬

‫او ہیلو پائی کدھر منہ اٹھاے کمرے میں جارھے ھو ۔۔۔۔‬
‫مجھے اب واقعی غصہ آگیا تھا ۔۔‬
‫میں نے غصے سے نسرین کی طرف دیکھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے بازو سے جھٹک دیا اور غصے سے واپس باہر‬
‫کیطرف چل دیا ۔۔‬
‫آنٹی نے مجھے یوں غصے سے جاتے ھوے دیکھا تو ۔‬
‫نسرین کو گالیاں دیتی میرے پیچھے بھاگی اور مجھے بازو سے پکڑ کر واپس کمرے کی طرف کھینچتے ھوے لیجانے‬
‫لگی ۔۔‬
‫شور سن کر عظمی بھی کمرے سے باہر آگئی ۔۔۔‬
‫نسرین بھی مجھے غصے میں دیکھ کر شرمندہ سی ہوگئی ۔۔‬
‫آنٹی مجھے کھینچتے ھوے کمرے میں لیجانے لگی ۔۔‬
‫میں بھی نخرے کرتا ھوا آنٹی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا۔۔‬
‫آنٹی مجھے کمرے میں پڑی لکڑی کی کرسی پر بٹھاتے ھوے بولی ۔‬
‫آرام سے بیٹھ جا اب ۔‬
‫اس ُک تی کے بھونکنے کی وجہ سے موڈ خراب کررھے ھو پتہ تو ہے تمہیں اسکا منہ پھٹ ھے ۔۔‬
‫مجھے نسرین پر بہت غصہ چڑھی جارھا تھا نہ جانے کیوں ۔‬
‫پہلے بھی نسرین میرے ساتھ ایسے ھی کرتی تھی پہلے میں نے کبھی بھی اسکی بات کا برا نہیں مانا تھا ۔۔‬
‫مگر آج مجھے پتہ نہیں کیوں اپنی بےعزتی محسوس ہوئی ۔‬
‫نسرین بھی سر جھکائے میرے سامنے کھڑی تھی اوراسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رھے تھے ۔‬
‫میں سر جھکائے چپ کر کے بیٹھا اپنے ہلتے پاوں کی طرف دیکھی جارھا تھا ۔۔‬
‫آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا تو میں نے چاے پینے سے انکار کردیا ۔۔‬
‫مگر انٹی نے مجھے ڈانٹتےھوے کہا ان بس بھی کرو اتنا غصہ بھی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔‬
‫میں نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا نہیں آنٹی ایسی بات نہیں میں گھر سے چاے پی کر ایا ھوں ابھی دل نہیں کررھا ۔۔‬
‫انٹی نے عظمی کو ڈانٹتے ھوے کہا تینوں ُسنیا نئی ہالے تک اوتھے ای ُبن وٹا بن کے کھڑی ایں‪ .‬چھیتی جا تے ویر واسطے‬
‫چا بنا کہ لیا۔۔۔‬
‫آنٹی کے منہ سے ویر سن کر میں نے چونک کر عظمی کی طرف دیکھا تو عظمی میری نظر کو محسوس کرکے شرمسار‬
‫سی ھوکر باہر چلی گئی ۔۔‬
‫نسرین ابھی تک وہیں دروازے کے پاس بت بنی کھڑی تھی آنٹی نے نسرین کی طرف دیکھا اور غصے سے بولیں‪.‬‬
‫ہن توں ایتھے ای کھڑی رہنا اے ۔‬
‫جا بار دفعہ ھوجا‬
‫جا کہ پین نال چا بنوا ۔۔۔‬
‫نسرین آنسو صاف کرتی چپ کرکے باہر نکل گئی ۔۔۔‬
‫آنٹی دوسری کرسی میرے پاس کر کے میرے ساتھ بیٹھتے ھوے میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے بولی ۔‬
‫میرے شہزادے کا‬
‫اب غصہ ٹھنڈا ھوا کہ نہیں میں نے خود کو نارمل کرتے ھوے مسکراتے ھوے کہا ۔‬
‫نہیں آنٹی مجھے کیوں غصہ آنا ھے آپ نے خامخواہ نسرین بیچاری کو ڈانت دیا ۔۔‬
‫آنٹی بولی یاسر یہ لڑکی بہت بتمیز ھوتی جارھی ھے بہت منہ پھٹ ھے کسی بڑے چھوٹے کا لحاظ نہیں کرتی تم بھی اچھی‬
‫طرح اس پاگل کی عادتوں سے واقف ھو ابھی تک اس میں بچپنا ھے ۔۔‬
‫میں نے دل میں کہا اسکا بچپنا تو اب مجھے ختم کرنا ھی پڑے گا ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔‬
‫کوئی بات نہیں آنٹی اتنا غصہ کرنے کا حق تو اسکا بھی بنتا تھا میں بھی تو اتنے دنوں سے نہیں آیا تھا ۔۔‬
‫آنٹی بولی اچھا بتاو کون سی خوشخبری سنانے لگے تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی میں نے اپنی علیحدہ دکان بنا لی ھے سلے سالے لیڈیز سوٹوں کی ۔۔۔‬
‫آنٹی حیرت سے گنگ ھوگئی اور پھر بولی واقعی اییییییی سچ کہہ رھے ھو تم یاسر ۔‬
‫میں نے کہا قسم اے آنٹی اسی لیے تو میں اتنے دن آ نہیں سکا کل میری دکان کا پہال دن ھے ۔۔‬
‫آنٹی خوشی سے اٹھ کر میرے منہ ماتھا چومنے لگ گئی اور دعاءیں دینے لگ گئی ۔۔‬
‫اچانک آنٹی نے سنجیدہ ھوتے ھوے پوچھا مگر یاسر تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آے ۔۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی جب اوپر واال مہربان ہوتا ھے تو بہت سے اسباب بنا دیتا ھے ۔۔‬
‫انٹی بولی وہ تو ٹھیک ھے مگر پھر بھی پتہ تو چلے کہ اسباب کیسے بنے ۔‬
‫میں نے آنٹی کو اپنے دوست کی منگھڑت کہانی سنائی ۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی میری بین سن کر یقین کرتے ھوے بڑی خوش ہوئی اور میرے دوست کو دعاءیں دینے لگ گئی ۔۔‬
‫عظمی بھی کافی خوش ہوئی اور نسرین نے بس خاموش رہنا ھی مناسب سمجھا ۔۔‬
‫میں نے انٹی لوگوں کو دکان پر انے کی دعوت دی اور انکو دکان کا اڈریس بھی سمجھایا ۔۔‬
‫آنٹی نے کہا جب بھی بازار کا چکر لگا الزمی آئیں گے ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور پھر کافی دیر تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے ۔‬
‫عظمی کسی نہ کسی بات میں حصہ لے لیتی مگر نسرین سڑی بھلی بیٹھی رھی ۔۔۔‬
‫میں نے بھی اسکو ذیادہ لفٹ نہیں کروائی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ اسکی طبعیت نہیں سہی وہ دوائی کھا کر شام سے ھی سویا ھوا ھے ۔۔‬
‫کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں نے آنٹی سے کہا میں چلتا ھوں آکر دروازہ بند کرلیں ۔‬
‫ساتھ ھی میں‪ .‬نے اآنٹی کو آنکھ ماردی ۔۔‬
‫آنٹی بھی شاید میری آنکھ کا اشارہ سمجھ گئی تھی ۔۔‬
‫میں اٹھ کر کمرے سے باہر نکال اور صحن میں کھڑا ھوکر چاروں طرف نظریں گھما کر جائزہ لینے لگ گیا۔۔‬
‫رات ہوچکی تھی کافی اندھیرا تھا صحن میں ۔۔‬
‫آآنٹی بھی کمرے سے باہر نکل کر میرے پیچھے آگئی میں کچھ آگے گیا اور اندھیرے میں کھڑا ہوگیا آنٹی میرے پاس آئی تو‬
‫مین نے انٹی کو بازوں میں بھر لیا اور کس کے جپھی ڈال لی آنٹی آہستہ سے بولی نہ کرو یاسر بچیاں جاگ رہی ہیں ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی بہت دل کررھا ھے آج کتنے دن یوگئے ہیں ۔۔۔‬
‫کچھ کرو نہ کہ ابھی میرا کام بن جاے آنٹی بولی پاگل ھوگئے ھو عطمی نسرین جاگ رہی ہیں ۔‬
‫میری نظر اچانک سیڑیوں پر پڑی ۔‬
‫اور پھر کمروں کے اوپر چاروں اطراف کیے اونچے پردوں‬
‫پر پڑی ۔۔‬
‫میں نے فٹ انٹی کو کہا انٹی اگر میں چھت پر چال جاوں اور آپ کسی طرح چھت پر آجاو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔‬
‫آنٹی بولی پاگل مسئلہ تو بچیوں کا ھے وہ جاگ رھی ہیں ۔‬
‫میں بچوں کی طرح ضد کرتے ھوے کہا مجھے نہیں پتہ انٹی جی کچھ کرووووو۔‬
‫آنٹی کچھ سوچتے ھوے بولی تم مرواو گے مجھے ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں ھوتا بس کچھ ھی دیر کی تو بات ھے ۔۔‬

‫)‪Update no (138‬‬
‫آنٹی بولی چلو پھر دھیان سے اور آرام آرام سے سیڑیاں چڑھتے ھوے اوپر جانا ۔۔‬
‫اور سٹور والی چھت ہر ھی رہنا دوسرے کمرے کی چھت پر مت جانا نہیں تو بچیاں چھت پر چلنے کی آواز سن لیں گی ۔۔‬
‫میں نے مزید کس کر اانٹی کو جپھی ڈالی اور انٹی کے ہونٹوں کو چومتے ھوے تھینکیو کیا اور بڑے سلو موشن میں سیڑیاں‬
‫چڑھتا ھوا چھت پر چال گیا اور ایک طرف پردے کی چاردیواری کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنٹی کا انتظار کرنے لگ‬
‫گیا ۔۔‬
‫مجھے بیٹھے آدھا گھنٹا گزر گیا مگر آنٹی کا دور دور تک نام نشان نہ تھا ۔‬
‫مجھے گھر جانے کی ٹینشن تھی گھر بھی میں ابھی آیا کہہ کر آیا تھا ۔۔‬
‫جب انتظار کی حد ھوگئی تو میں آیستہ سے اٹھا اور پردے سے سر اٹھا کر صحن میں جھانکا تو مجھے آنٹی واش روم سے‬
‫نکلتی نظر آئی اور پھر آنٹی انکل کے کمرے کی طرف جاتی نظر آئی ۔۔‬
‫میں انٹی کو کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر دل میں آنٹی کو گالیاں دینے لگ گیا کہ سالی مجھے چھت پر سوکھنے ڈال کر‬
‫پھر کمرے میں گھس گئی ھے ۔‬
‫میں واپس جانے کا سوچ ھی رھا تھا کہ آنٹی کمرے سے بڑے آرام آرام سے نکل کر چلتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف آتی‬
‫نظر آئی آنٹی نے ہاتھ میں کوئی کپڑا یا گدا پکڑا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میں خوشی سے یسسسسسسس کر کے جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد آنٹی چھت پر نمودار ھوئی اور تھوڑا ُج ھک کر چلتی ھوئی میرے پاس آئی اور ہاتھ میں پکڑا گدا کچی چھت‬
‫پر بچھا دیا اور منہ پر انگلی رکھ کر شییییی کرتے ھوے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔‬
‫اور گدے پر بیٹھتے ھوے مجھے بھی اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔۔۔‬
‫میں جلدی سے انٹی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھنے لگ گیا کہ اتنی دیر کردی میں تو واپس جانے لگا تھا ۔‬
‫آنٹی بولی جو جاگ رہیں تھیں انکو سال کر ھی آنا تھا ۔‬
‫میں نے کہا سوگئیں تو آنٹی بولی انکو جھڑک جھڑک کر سال کر کمرے کی باہر سے کنڈی لگا کر آئی ہوں ۔۔‬
‫میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی نے کہا وہ تو بےہوش پڑا ھے نیند کا سیرپ پی کر ۔۔۔‬
‫میں نے انٹی کا دوپٹہ اسکے گلے سے نکال کر ایک طرف رکھا اور آنٹی اپنے لمبے بالوں کو پیچھے سے اکھٹا کر کے انپر‬
‫پونی چڑھاتے ھوے پیچھے کیطرف لیٹ گئی ۔۔‬
‫میں بھی انٹی کی ٹانگوں کے بیچ آنٹی کی ٹانگوں کو پھیالتا ھو اسکے اوپر لیٹ گیا انٹی کا نرم نرم جسم اور موٹے موٹے‬
‫ممے مجھے میٹرس پر لیٹنے کا احساس دال رھے تھے ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے اوپر لیٹتے ھی انٹی کے ہونتوں کو اپنے یونٹوں میں جکڑ لیا اور ایک ہاتھ سے ایک مما پکڑ کر دبانے لگ‬
‫گیا اور دوسرا بازو انٹی کے سر کے نیچے ڈال کر آنٹی کی گردن بازو پر رکھ لی میرا لن انڈر ویئر اور پینٹ کو ہھاڑ کر‬
‫باہر نکلنے کے لیے بےچین ہوکر آنٹی کی پھدی کے اوپر دباو ڈالے ھوے تھا ۔۔‬
‫آنٹی بھی پتہ نہیں کتنے دنوں کی پیاسی تھی ۔‬
‫جو بڑے جوش سے کسنگ میں میرا ساتھ دیتے ھوے میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر‬
‫پھدی کو میری پینٹ کے ابھار کے ساتھ مسل رہی تھی ۔‬
‫کچھ دیر ہم اسی پوزیشن میں ایک دوسرے کے ہونٹ اور زبانوں کو چوستے رھے ۔۔‬
‫انٹی کی تڑپ بےچینی اور جوش بتا رھا تھا کہ آنٹی کی پھدی ایک دفعہ اپنی گرمی باہر پھینک چکی ھے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں انٹی کے اوپر سے اٹھا اور آنٹی کے بازوں کو پکڑ کر آنٹی کو اوپر اٹھایا اور آنٹی کے نہ نہ کرنے کے‬
‫باوجود بھی قمیض کو پکڑ کر ذبردستی انکے بدن سے الگ کر دی آنٹی کے چٹے مموں کا اوپر واال حصہ کالی رات اور‬
‫کالے بریزئیر میں چمک رھا تھا میں نے جلدی سے آنٹی کی کمر پر ہاتھ لیجا کر بریزیر کی ہک کھول کر مموں کو قید سے‬
‫ازادی دال دی ۔۔‬
‫انٹی کے چٹے ممے اندھیرے میں بھی چمک رھے تھے ۔۔‬
‫انٹی نخرہ دیکھاتے ھوے بولی بہت تیز ھو تم یاسر کتنی جلدی میں مجھے ننگا کر کے رکھ دیا ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے چٹے سفید ننگے کندھوں کو چوما اور کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انٹی کو پیچھے کی طرف دھکیل کر لیٹا‬
‫دیا ۔۔‬
‫ہماری گفتگو سرگوشی میں ھی ھو رھی تھی ۔۔‬
‫انٹی سیدھی لیٹی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے انٹی کے سینے پر پھیل گئے ۔۔‬
‫میں نے اپنی شرٹ اتاری اور پھر بنیان بھی اتار کر ایک طرف رکھی اور آنٹی کے ننگے جسم کے اوپر اپنا ننگا جسم رکھ‬
‫کر لیٹ گیا اور پھر انٹی کی ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہونٹوں کو چھوڑ کر کھسکتا ھوا انٹی کے مموں کی طرف آیا اور دونوں ھاتھوں میں انٹی کے گول مٹول بڑے‬
‫بڑے مموں کو پکڑ کر باری باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا ۔۔‬
‫آنٹی کے بڑے سائز کے نپل فل اکڑے ھوے تھے اور انٹی مزے لے لے کر سسکاریاں بھرتے ھوے اپنے ممے چسوا رھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫مموں کو اچھی طرح چوس کر لباب سے گیال کردیا اور پھر میں کھڑ ہوا اور جھک کر اپنی پینٹ اور انڈر ویئر اتار کر تنے‬
‫ھوے لن کے ساتھ آنٹی کے ننگے پیٹ پر اپنی ننگی گانڈ رکھ کر بیٹھ گیا اور انٹی کے دونوں مموں کو پکڑ کر لن انٹی کے‬
‫مموں کے درمیان گھسا دیا اور ساتھ ھی آنٹی کو ممے پکڑ کر ساتھ مالنے کا کہا ۔‬
‫آنٹی نے میری تقلید کرتے ھوے اپنے دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں مال لیا اور میں آنٹی کے مموں میں لن گھسا کر‬
‫گھسے مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫انٹی کے نرم مالئم مموں کو چودنے کا مزہ ھی الگ آرھا تھا ۔‬
‫میرا ٹوپا انٹی کی ٹھوڑی کے ساتھ لگ رھا تھا اور لن روانی سے مموں کے درمیان سپیڈ سے چل رھا تھا ۔۔‬
‫آنٹی بھی اس نئے طریقہ کو انجواے کررھی تھی میں لن کو مذید اگے کرتے ھوے ٹوپا انٹی کے ہونٹوں کے پاس لے جاتا ۔‬
‫انٹی ہونٹوں کو بھینچ کر منہ ادھر ادھر کرنے لگ جاتی ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے سر کو پکڑا اور سر کو اوپر کرتے ھوے کہا آنٹی اپنے اس دیوانے کو تھوڑا سا چوم ھی لو ۔۔‬
‫انٹی اوں ہوں کرنے لگ گئی میرے اصرار پر انٹی نے ہلکا سا ہونٹوں کو کھوال اور جب ٹوپا ہونٹوں کے پاس آتا تو انٹی‬
‫ٹوپے کو ہونٹوں میں بھر کر چوسا لگا کر چھوڑ دیتی ۔‬
‫انٹی جب ٹوپے کو چوسا لگاتی میری تو مزے سے جان نکلنے والی ھوجاتی ۔۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی سین چلتا رھا ۔۔‬
‫پھر انٹی نے سر پیچھے کرتے ھوے کہا کہ بس یاسر تھک گئی ھوں ۔۔‬
‫میں نے بھی پیچھے ہٹنے کا سوچا اور آنٹی کے مموں سے لن نکال کر انٹی کی ٹانگوں میں گھٹنوں کے بل بیتھ گیا ۔۔۔‬
‫اور آنٹی کی شلوار پکڑ کر اتارنے لگا تو شلوار نیچے نہیں ھورھی تھی آنٹی ہنستے ھوے بولی ناال تو کھول لو ۔۔۔‬
‫میں نے غور کیا تو انٹی نے السٹک کی بجاے ناال باندھا ھوا تھا میں نے ٹٹول کر نالے کی گرا کا سرا پکڑا اور سرے کو‬
‫ذور سے کھینچ دیا ۔‬
‫میرا تو لن پھٹنے واال ھو چکا تھا اتنے دنوں سے بیچارے کو پھدی کا دیدار بھی نصیب نہیں ھوا تھا ۔‬
‫وہ کہتے ہیں نہ کہ‬
‫کالیاں اگے ٹوے۔۔۔۔‬
‫ایسا ھی کچھ میرے ساتھ ھوا ۔‬
‫پھدی میں لن ڈالنے کی بے صبری اور جلد بازی میں نالے کی گرا کے دوسرے سرے کو ذور سے کھینچ دیا گانٹھ کھلنے کی‬
‫بجاے مزید ٹائٹ ہوگئی ۔۔۔‬
‫میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا لن وکھری بدعائیں دینے لگ گیا ۔۔۔‬
‫میں پھر جلدی جلدی میں گانٹھ کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا مگر سالی کھل ھی نہیں رھی تھی ۔۔۔‬
‫تھک ہار کر دیسی نسخہ استعمال کرتے ھوے ۔‬
‫میں پھدی کے پاس منہ لیجا کر جھکا اور پھدی سے نکلنے والی منی کی مہک کو نتھنوں میں کھینچتے ھوے نالے کی گانٹھ‬
‫کو دانتوں میں لے کر ڈھیال کرنے لگ گیا اور آخر کار کامیابی نے میرے قدم چومے اور میں ناال کھولنے میں کامیاب‬
‫ھوگیا۔۔‬
‫انٹی میری جدوجہد دیکھ کر ہنسی جارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ناال ڈھیال ھوتے ھی شلوار پکڑ کر نیچے کھینچی تو آنٹی نے بھی ہنستے ھوے جلدی سے گانڈ اتھا کر شلوار کو‬
‫اترنے کے لیے راستہ دیا ۔‬
‫شلوار اتار کر ایک طرف رکھی اور آنٹی کی ٹانگوں کو اتھا کر کندھوں پر رکھا تو انٹی دوہری ھوگئی ۔۔اور میں نے لن کو‬
‫پکڑ کر پھدی کے اوپر سیٹ کیا تو‬
‫اانٹی نے جلدی سے دونوں بازو سیدھے کیے اور میری رانوں پر ہاتھ رکھ دیے کے میں ایک ھی دم سارا اندر نہ کردوں ۔۔‬
‫اور اسکا اظہار آنٹی نے زبان سے بھی کیا کہ یاسر ایکدم اندر نہ کرنا آرام آرام سے کرنا ۔۔۔‬
‫میں نے اچھا کہتے ھوے ہلکا سا دھکا مارا تو لن کا ٹوپا ۔‬
‫بھڑوووم کی آواز کے ساتھ پھدی میں گھس گیا اور انٹی کی انگلیوں نے میری رانوں کو گرفت میں لیتے ھوے میری ران‬
‫کے گوشت کو دبا کر آنٹی نے منہ سے سییییییییییی کیا ۔۔‬
‫میں نے پھر دوسرا ہلکا سا جھٹکا مارا تو لن تھوڑا سا اور اندر چال گیا‬
‫آنٹی کے منہ سے پھر کنوری بچی کی طرح اففففففففف سییییییی ہولییییییی نکال ۔۔۔‬
‫میں نے تیسرا گھسا مارا تو ادھا لن پھدی کے اندر چال گیا ۔‬
‫آنٹی کی پھدی ایکدم ٹائٹ تھی ۔۔‬
‫یاں فیر آنٹی نے چپیییٹ وٹی ہوئی سی ۔۔۔۔‬
‫لن کے گرد پھدی کی کافی گرفت تھی ۔۔‬
‫آنٹی ساتھ ھی سر پیچھے لیجا ۔ھاےےےےےےےے کرتی ھوئی بولی‬
‫یولی وےےےےےےےے ۔‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا اور ٹوپا اندر ھی رہنے دیا اور پھر لن کو تھوڑا سا اندر کرتا اور پھر بایر نکال لیتا چھ سات‬
‫دفعہ ایسے ھی کرکے آنٹی نوں آرے الیا ۔‬
‫اور پھر ایک زوردار گھسا مار کر لن کو پھدی کے اندر گہرائی میں اتار دیا ۔‬
‫آنٹی کی انکھیں ُابل کر باہر اگئیں اور آنٹی‬
‫اوپھھھھھھھھھھھھھ مممممممممم مر دتا اییییییییی کرتی ہوئی ہونٹوں کو ذور سے بھینچ کر سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی‬
‫اور میری رانوں پر رکھے ھاتھوں کو ذور دے کر مجھے پیچھے کرتے ھوے گانڈ کو ہال کر میرے نیچے سے نکلنے کی‬
‫کوشش کرنے لگ گئی مگر ۔۔‬
‫میں نے انٹی کی ٹانگوں کو اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا‪ .‬۔۔‬
‫کیسے نکلتی ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر رکا اور پھر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫انٹی میرے ہر گھسے پر‬
‫آہ آہ آہ آہ آہ آہ ہولی وےےےے ہولی وےےےےے‬
‫بوت درد ُہندی پئی اے ۔‬
‫ھاےےےےےے آہ آہ اہ ۔۔‬
‫کر رھی تھی جس سے مجھے مزید جوش چڑھ رھا تھا ۔۔‬
‫پانچ منٹ کی چدائی کے بعد ھی انٹی کی ٹون چینج ھوگئی ۔۔‬
‫اور آہیں سسکیوں میں بدل گئیں‬
‫ناں ناں‬
‫ہاں ہاں میں بدل گئی‬
‫ہولی ہولی تیزتیز میں بدل گئی‬
‫میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی انٹی کے ممے میرے تیز گھسوں سے سینے پر ڈانس کرنے میں مصروف تھے میرے گھسوں‬
‫سے تھپ تھپ اور پھدی کے گیلے پن کی وجہ سے چپ چپ کی آواز رات کی خاموشی کو توڑ رھی تھی ۔۔‬
‫ہم دنیا مافیا سے بیگانے چدائی میں لگے ھوے تھے ۔‬
‫انٹی اب میرے ہر گھسے پر سسکاری بھرتے ھوے ۔۔‬
‫سارا کردے سارا کردے سارا کردے ۔‬
‫ہاں ہااااں اینج ای اینج ای مار‬
‫ذور نال مار یاسرے ذور نال میری جان ۔‬
‫ہٹ ہٹ کے مار میرے چن ہت یٹ کے مار ۔۔‬
‫انٹی کی سیکسی آوازوں نے مجھے مذید ٹکنے نہ دیا ادھر آنٹی کی پھدی نے میرے لن کو جکڑا ادھر میرا لن پھوال‪.‬‬
‫آنٹی کی پھدی نے پہل کی اور منی کی پہلی دھار میرے لن کے ٹوپے پر پھینکی ۔‬
‫تو ساتھ ھی میرے لن نے بھی پھدی کے اندر ھی پچکاری ماری پھر دونوں اطراف سے منی کی برسات ھونا شروع ھوگئی ۔‬
‫انٹی نے مجھے اور میں نے انٹی کو بازوں میں جکڑا ھوا تھا اور دونوں کی سانسیں بےترتیبی سے چل رہیں تھی اور کچھ‬
‫دیر بعد ھی نڈھال ایک دوسرے کے اوپر چمٹے بےجان پڑے تھے کہ ۔۔۔۔۔‬
‫میرے لن نے آخری قطرہ بھی آنٹی کی پھدی میں ھی بہایا۔۔‬
‫آنٹی بھی لمبے لمبے سانس لے کر نارمل ہوچکی تھی‬

‫)‪Update no (139‬‬
‫آنٹی میرے بالوں کو سہالتی ہوئی بولی بسسسس اب خوش ۔۔‬
‫میں نے کہا ایک دفعہ اور کرنا ھے آنٹی جی بیت دنوں سے رکا ہوا ہوں آنٹی برا سا منہ بنا کر بولی چپ کر کے کپڑے پا‬
‫تے نکلدا ھو۔۔‬
‫اپنے ساتھ مجھے بھی پھنسواو گے ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا آنٹی جی ادھر کون سا کسی نے آنا سب سے ھوے ہیں ۔‬
‫آنٹی بولی نہ نہ تم پھر جلدی فارغ نہیں ہوتے میری مت ماردیتے ھو ۔‬
‫میں نے قسم سے ذیادہ دیر نہیں لگاتا ۔۔‬
‫آنٹی بولی یاسر ضد نہ کیا کرو کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔‬
‫میں نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا اس وقت اتنے اندھیرے میں ہمیں کس نے دیکھنا ھے عظمی نسرین تو ویسے بھی نہین‬
‫آسکتی باہر سے کنڈی لگی ھے اور انکل گہری نیند سوے ھوے ہیں ۔‬
‫آنٹی پھر نخرے کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے بھی آنٹی کو منا کر ھی دم لیا اور پھر آنٹی بولی اچھا پیچھے تو ہٹو صاف کر لوں نیچے سے سارا گیال کردیا ھے پتہ‬
‫نہیں کتنا مال اکھٹا کیا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں آنٹی کے اوپر سے اٹھتا ھوا بوال ۔‬
‫خود ھی حساب کرلیں کتنی دیر ہوگئی ھے کیے ھوے ۔۔۔‬
‫آنٹی اٹھ کر کپڑے سے اپنی پھدی صاف کرتے ھوے شرارت بھرے لہجے سے بولی ایڈا توں رہن واال ۔۔‬
‫میں نے کہا سچی آنٹی تب سے رکا ہوا ھوں جب اس رات آپ سے کیا تھا ۔۔۔‬
‫آنٹی سر ہالتے ھوے بولی جاندے جاندے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا مرضی ھے آپکی نہ مانو۔۔۔‬
‫انٹی نے پھدی کو اچھی طرح صاف کیا اور کپڑا ایک طرف رکھنے لگی تو میں نے مرجھایا ھوا لن آنٹی کی طرف کرتے‬
‫ھوے کہا ۔‬
‫آنٹی جی اسے بھی صاف کردیں ۔۔آنٹی مسکراتے ہوے کپڑا میرے لن پر رکھ کر صاف کرتے ھوے بولی بہت تنگ کرتے‬
‫ھو یاسر۔۔۔۔۔۔‬
‫اور لن کو اچھی طرح صاف کر کے آنٹی نے کپڑا ایک طرف رکھا اور بالوں کو پیچھے کی طرف پھیالتے ھوے پھر لیٹ‬
‫گئی میں بھی انٹی کی طرف منہ کرکے سائڈ کے بل ہوکر لیٹ گیا اور مرجھایا ھوا لن آنٹی کی ران کے ساتھ لگا کر آنٹی کے‬
‫ممے کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ گیا ۔‬
‫آنٹی بھی آہہہہہہ سییییی کرنا شروع ھوگئی میں نے آنٹی کو مزید گرم کرنے کے لیے آنٹی کی دھکتی بھٹی انگلی ڈال کر‬
‫جلتی آگ پر تیل پھینک دیا ۔۔‬
‫پھدی کے دانے پر انگلی کا پورا رکھتے ھی آنٹی نے چہرہ اوپر کو کر کے لمبی سسکاری بھری اور ساتھ ھی میرے لن کو‬
‫مٹھی میں بھر لیا اور لن پر مٹھیاں بھرنے لگ گئی ۔۔‬
‫لن میں آہستہ آہستہ جان پڑ رھی تھی ۔‬
‫میں آنٹی کے دونوں مموں کو باری باری چوسی جارھا تھا اور ساتھ میں آنٹی کی پھدی کے دانے کو انگلی اور انگوٹھے کے‬
‫پوروں میں لے کر مسلتا تو کبھی پھدی کی اوپری ہڈی پر انگلی رکھ کر دبا کے مسلتا آنٹی مزے میں ڈوبی سسک رھی تھی‬
‫اور میرے لن کو مٹھی میں بھر کر دباے جارھی تھی ۔‬
‫لن ساب بھی جوبن میں آچکے تھے اور آنٹی کی مٹھی میں پھنکاریں مار مار کر آنٹی کو تیار ہونے کا سگنل دے رھا تھا ۔۔‬
‫ادھر آنٹی کی پھدی سے پانی ٹپکنا شروع ھوچکا تھا آنٹی گانڈ اٹھا اٹھا کر پوری انگلی پھدی کے اندر لے رھی تھی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔‬
‫انٹی کی پھدی کو انگلی سے چود چود کر میرا بازو درد کرنے لگ گیا تھا کچھ دیر مزید پھدی میں فنگرنگ کرنے کے بعد‬
‫میں نے آنٹی کو گھوڑی بننے کا کہا۔۔‬
‫آنٹی بولی نہیں ایسے ھی کرو مجھ سے نہیں الٹا ہوا جاتا ۔‬
‫بہت درد ھوتی ھے‬
‫میں نے کہا آنٹی الٹی تو ہوجاو دیکھنا کتنا مذہ آتا ھے اور میں نے آنٹی کی ٹانگ پکڑ کر آنٹی کو الٹا کر الٹا کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی بھی ھار مانتے ھوے الٹی ھوتے ھوے بولی ۔۔‬
‫اففففففف تم بھی نہ یاسر ۔‬
‫ُبڈھے وارے میرے کولوں کی ُپٹھے سدھے کم کروانا ایں ۔۔‬
‫مین نے آنٹی کی گانڈ کی پھاڑی کو پکڑ کر دباتے ھوے کہا۔‬
‫کون کہتا ھے ۔‬
‫کہ آپ بوڑھی ھو ۔‬
‫اب ھی تو آپ پر جوانی آئی ھے ۔۔۔‬
‫کیا سیکسی جسم ھے آپ کا ۔۔۔۔۔۔‬
‫ساتھ ھی میں نے آنٹی کے گانڈ پر ذور سے تھپڑ مارا آنٹی نے آہہہہہہہی کر کے گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور بولی‬
‫بتمیزززز اتنی ذور سے تھپڑ مارا ھے جلن شروع یوگئی ھے ۔‬
‫میں نے گانڈ جو سہالتے ھوے کیا‪.‬‬
‫آنٹی جی آپ کی گانڈ ھے ھی اتنی مست کہ کیا بتاوں ۔۔۔۔دل کرتا ھے دندیاں کاٹوں ۔۔۔۔۔‬
‫اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل لن کو پکڑ کر آگے کی طرف کھسکا اور آنٹی کی گانڈ کے ساتھ ُج ڑ کر ہاتھ آگے لیجا کر‬
‫آنٹی کے کندھے ہر رکھ کر نیچے کی طرف دباتے ھوے آنٹی کے کندھے نیچے جھکا دیے‬
‫آنٹی نے کتے کے طرح بازو پھیال کر ہاتھوں پر چہرہ رکھ کر گانڈ کو مزید باہر نکال کر چدوانے کے لیے پوزیشن بنالی ۔۔۔‬
‫سر نیچے کرنے سے آنٹی کی گانڈ ۔‬
‫گوبھی کے پھول کی طرح ُک ھل گئی تھی ۔‬
‫آنٹی کی گانڈ کا سوراخ دراڑ میں صاف نظر آرھا تھا ۔۔‬
‫میں نے لن پر تھوک پھینکا اور لن کو گیال کر کے پھدی پر ٹوپا رکھا اور آنٹی کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہلکا سا‬
‫ُپش کیا تو لن بنا رکاوٹ کے پھدی میں اتر گیا اور ساتھ ھی دوسرا گھسا مار کر لن سارا اندر کردیا ۔۔‬
‫آنٹی ھاےےےےے ہولیییییی وےےےے کرتی ہوئی آگے کو ہونے لگی مگر آنٹی کی کمر میری گرفت میرے قبضے میں‬
‫تھی ۔‬
‫تو آنٹی کیسے آگے جاتی ۔۔۔‬
‫میں نے لن اندر رکھ کر کچھ وقفہ دیا اور وہیں رک کر آنٹی کی کمر کو سالنے لگا ۔۔‬
‫اور کمر کو سہالتے ہوے میں نے ہلکے ہلکے گھسے مار کر لن اندر باہر کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫اور آہستہ آہستہ سے سپیڈ بڑھتی گئی اور پھر آنٹی کی کمر کو ہاتھوں میں دبوچ کر دے گھسے تے گھسا شروع ھو گیا ۔‬
‫اور تھپ تھپ کی دہمک کے ساتھ آنٹی کی آہ آہ آہ آہ سییییییی سییییی کی سریلی آواز رات کے سناٹے کو توڑنے کی کوشش‬
‫کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں گھسے مارتا ھوا ایک ھاتھ کو کمر سے کھسکا کر آنٹی کے چوتڑے پر لے آیا ۔۔۔‬
‫اور اس ہاتھ کا انگوٹھا گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر سوراخ کے اوپر رکھ دیا اور گھسوں کے ساتھ ساتھ آنٹی کی گانڈ کے‬
‫سوراخ کو بھی مسلی جارھا تھا اور انگوٹھا آہستہ آہستہ سوراخ کو نرم کرتا ھوا اندر گھستا جارھا تھا آنٹی نے دو تین دفعہ‬
‫ہاتھ پیچھے کر کے گانڈ سے میرا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی مگر میں اپنی ضد پر قائم رھا ۔۔‬
‫اور انگوٹھے کوآیستہ اہستہ اندر کرنے میں کامیاب ھوگیا ۔۔‬
‫میرا انگوٹھا گانڈ کے اندر پھدی میں چلتے لن کے ساتھ ٹچ ھورھا تھا ۔‬
‫پھدی میں لن گانڈ میں انگوٹھا ایک ھاتھ انٹی کی کمر کو پکڑے ہر گھسے پر آنٹی کے ہلتے ممے تھرتھراتی گانڈ اوپر سے‬
‫انٹی کی‬
‫آہہہہہ آہہہہہہ آہہہہہہہ کرتی آوازیں ۔‬
‫افففففففف کیا نظارہ تھا کیا مزے تھے ۔۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد آنٹی خود گانڈ کو پیچھے کر کر کے لن پھدی میں لینے لگی اور پھر کچھ دیر میں انٹی کی سسکیاں تیز‬
‫ھوئیں اور آنٹی نے پورے زور سے گانڈ میری رانوں کے ساتھ لگائی اور چڈوں کو بھینچ کر جھٹکے کھاتی ھوئی الٹی ھی‬
‫لیٹتی گئی اور میں بھی انٹی کے اوپر لیٹتا گیا ۔‬
‫اور آنٹی کی پھدی سے گرم گرم نکلتی منی کو لن پر محسوس کرنے لگ گیا ۔۔۔اب آنٹی الٹی لیٹی ھوئی تھی اور میں آنٹی کے‬
‫اوپر پیچھے سے لن پھدی میں ڈالے الٹا لیتا ھوا تھا ۔۔۔‬

‫)‪Update no (140‬‬
‫کچھ دیر میں آنٹی نارمل ھوئی تو مین نے دو چار گھسے مارے تو پھدی میں منی کی بارش کی وجہ سے بہت کیچڑ ھو چکا‬
‫تھا ۔۔‬
‫چپ چپ کی آواز مجھے نہ بھائی تو مین نے لن باہر نکاال اور انٹی کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر ہلکا سا پش کرتے ھوے‬
‫ٹوپا گانڈ میں چال گیا۔۔۔۔‬
‫میں نے یہ سب اتنی تیزی اور بغیر اجازت سے کیا کہ آنٹی کو پتہ ھی تب چال جب ٹوپا گانڈ میں گھس گیا آنٹی نے ہلکی سی‬
‫چیخ ماری ھاےےےےےےے مر گئی ۔۔‬
‫بار کڈ وے ھاےےےےے‬
‫آنٹی میرے نیچے کسمکسا رھی تھی گانڈ کو دائیں بائیں کرتے ھوے ٹوہا باہر نکالنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کو اپنے نیچے اچھی طرح قابو کیا ھوا تھا ۔۔‬
‫اور آنٹی کو تسلیاں دے رھا تھا بس بس بس ہلو مت ذیادہ اندر چال جاے گا ۔۔‬
‫آنٹی درد سے کراہ رھی تھی بول رھی تھی میں نے آنٹی کے بولنے کو اگنور کیا اور ہلکا سا پش کیا تو آدھا لن گانڈ میں اتر‬
‫گیا ۔۔۔‬
‫آنٹی کا جسم کانپ اٹھا اور انٹی کے منہ سے بس اتنا ھی نکال ۔۔‬
‫ھائییییییییییییییییییییییی میری بنڈ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے تیسرا گھسا مار کر لن سارا ھی اندر کردیا اور لن اندر کرتے ھی آنٹی کے اوپر آنٹی کے ساتھ چمٹ گیا اور آنٹی کے‬
‫منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے انٹی کی آواز کو دبانے لگ گیا ۔۔‬
‫مگر آنٹی‬
‫مرگئی میں ھاےےےےےے بار کڈ لے ۔‬
‫بس اک واری کڈ لے ۔۔‬
‫تینوں ***** دا واسطہ ایییییی میری بند پاٹ گئی اےےےےے‬
‫وے یاسراااا تیرا بیڑہ ترے کی کیتا اییییییی ۔۔۔‬
‫میں انٹی کے بین ہاتھ سے چپ کروا رھا تھا ۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔۔۔‬
‫آنٹی رو دھو کر چپ ہوئی تو میں نے ہلکے ہلکے گھسے مارنے شروع کردیے آنٹی پھر ھاےےےے ھولی وے ھاےےےے‬
‫کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫پانچ منٹ تک انٹی کی گانڈ نے لن کو سویکار کیا اور لن اور گاند کی دوستی ھوگئی اور لن آسانی سے گاند میں اندر باہر‬
‫ہونے لگ گیا آنٹی بھی اب شانت ھوکر لیٹی لن کو گانڈ میں لے کر انجواے کررھی تھی ۔۔‬
‫مزید گھسوں کے بعد جب آنٹی پرسکون ھوئی تو میں نے ایک ھاتھ آنٹی کے پیٹ سے ناف کی طرف نیچے کیا اور انگلیاں‬
‫پھدی میں ڈال کر گانڈ کو چودنے لگ گیا پھدی کے اندر میری انگلیوں سے لن ٹکرا رھا تھا بس لن اور انگلیوں میں ایک‬
‫پردہ تھا اور وہ گانڈ کا پردہ لن نے اوڑھا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میں گھسوں کے ساتھ ساتھ پھدی میں دو انگلیاں ڈال کر پھدی کو بھی انگلیوں سے مسل رھا تھا ۔۔۔‬
‫آنٹی گانڈ اور پھدی کی ایک ساتھ چدائی کو سسکاری مارتے ھوے انجواے کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫انٹی اب گانڈ کو اوپر کر کے لنڈ پورا اندر لینے کی کوشش کرتی ۔‬
‫آنٹی کی پھدی بھی پانی چھوڑی جارھی تھی میری انگلیاں پھدی کے پانی سے گیلی ہوچکی تھی ۔۔‬
‫گھسے مارتے ھوے جب میری رانیں‬
‫آنٹی کے نرم اور موٹے چوتڑوں کے ساتھ لگتی تو میرے جسم میں مزے کی ٹیسیں اٹھتی ۔۔۔‬
‫پندرہ بیس منٹ کی لگا تار چدائی کے بعد میری ٹانگیں بھی اکڑی اور ٹانگوں سے جان نکلتی ھوئی لن کی طرف أئی اور دو‬
‫تین جاندار گھسے مارے اور انٹی کی پھر چیخ نکلواتےھوے لن نے منی سے آنٹی کی ہودی بھر دی اور میں آنٹی کے اوپر‬
‫پورا وزن ڈال کر جھٹکے لینے لگ گیا اور آنٹی کی گردن اور کندھوں کو چومنے لگ گیا ۔۔۔۔‬
‫جیسے ھی میرے جھتکے تھمے آنٹی نے جلدی سے سائڈ تبدیل کی تو میں انٹی کے اوپر سے بےجان سا ایک طرف گر گیا‬
‫اور لن بھی گاند سے نکل گیا ۔۔۔۔‬
‫انٹی جلدی سے اٹھی اور مجھے صرف اتنا ھی کہا کہ جلدی کپڑے پہن کر نیچے آجاواورآنٹی نے اپنے کپڑے ایک ہھاتھ‬
‫میں پکڑے اور دوسرا ھاتھ گانڈ کی دراڑ میں دے کر ننگی ھی تقریبََا بھاگتی ہوئی سیڑیاں اترتی ھوئی واش روم میں گھس‬
‫گئی ۔۔۔‬
‫میں منہ کھولے آنٹی کی دوڑ دیکھتا رھا ۔‬
‫اور پھر ادھر سے کپڑااٹھا کر لن کو اچھی طرح صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ گیا کپڑے پہن کر میں سیڑیاں اترتے ھوے‬
‫نیچے صحن میں آیا تو آنٹی بھی واش روم سے نکلی اور میرے قریب آکر غصے سے سرگوشی میں بولی ۔‬
‫یاسر تم بہت بگڑ گئے ھو میری جان نکال کہ رکھ دی ھے ۔۔‬
‫اتنی ذیادہ جلن ھورھی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے انٹی کی گالوں پر ھاتھ رکھا اور آنٹی کے ہونٹوں کو چومتے ھوے بوال ۔‬
‫آنٹی جی آپ کے سیکسی جسم نے ھی مجھے بگاڑا ھے ۔۔۔۔‬
‫آنٹی انکل کے کمرے کی طرف دیکھتے ھوے بولی چلو اب نکلنے کی کرو تمہارے انکل نہ باہر نکل آئیں ۔۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے آنٹی دروازے کی طرف بڑھی اور اہستہ سے کنڈی کھولی اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر سر باہر نکال‬
‫کر دونوں اطراف دیکھا اور پھر مجھے جانے کا کیا میں نے باہر نکلتے وقت آنٹی کے چوتڑے پر چٹکی کاٹی اور بھاگتا ھوا‬
‫گلی میں نکل گیا اور میں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔‬
‫گھر پہنچا امی کے سوالوں کہ جواب دیے کدھر گئے تھے کس کے پاس اتنی دیر لگادی ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ۔‬
‫حاالت سہی نہیں ہیں‬
‫اب آوارہ دوستوں کو چھوڑ دو ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔‬
‫امی کی نصیحتیں سن کر کھانا وغیرہ کھایا اور سوگیا ۔‬
‫صبح ٹائم سے اٹھا اور گاوں میں جو میرے خاص دوست تھے انکو دکان کے افتتاح پر پہنچنے کا کہا اور پھر دکان پر پہنچا ۔‬
‫جنید کے آنے کے بعد مل کر‬
‫افتتاح کے لیے لوازمات کا انتظام کیا اور بچوں کو پڑھنے کے لیے بلوایا ۔‬
‫آس پاس کے دکانداروں کو اور انکل سجاد کو دعوت دی سب کچھ بہت اچھا ھوا ۔‬
‫ابو بھا اور میرے دوست بہت خوش ھوا سب نے مبارک بعد دی انکل سجاد بھی اوپر سے ھی خوش نظر آے خیر پہال دن‬
‫بہت اچھا گزرہ پہلے دن کی سیل بھی اچھی ہوئی ۔۔۔‬
‫پہلے دن دکان ٹائم پر بند کردی اور ضوفی کو لے کر انکے گھر پہنچا ۔۔‬
‫آنٹی کو سارے دن کی سیل دی آنٹی نے کہا کہ یہ تمہارا کاروبار ھے ان پیسوں پر تمہاری امی کا پہال حق ھے ۔۔‬
‫اب یہ تم نے دیکھنا ھے کہ کیسے بچت کرتے ھو اور کیسے آگے بڑھتے ھو ۔۔‬
‫میرے الکھ کہنے کے باوجود آنٹی نے ایک روپیہ بھی نہ لیا ۔۔‬
‫دوستو‬
‫اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ دکان لیٹ نائٹ تک کھلی رکھنی پڑنی تھی اور آٹھ نو بجے کے بعد گاوں جانا خطرے سے خالی‬
‫نہیں تھا جبکہ میرے پاس کوئی اپنی سواری بھی نہ تھی ۔۔۔۔‬
‫توضوفی نے اور آنٹی مجھے اپنے گھر رہنے کا کہا کہ جب تک کوئی سواری کاانتظام‬
‫نہیں ہوتا تب تک تم ہمارے ساتھ گھر رھ لیا کرنا ۔‬
‫میں امی اور ابو کے نہ ماننے کا ُع ذر پیش کیا تو آنٹی بولی تمہارے گھر والوں سے میں اجازت لے لوں گی ۔۔۔‬
‫میرے الکھ انکار پر آنٹی نہیں مانی ۔۔۔‬
‫میں امی سے بات کرنے کا کہہ کر آنٹی لوگوں سے اجازت اور بازار سے آتے ہوے مٹھائی کا ڈبہ آنٹی فوزیہ کے گھر دینے‬
‫کے لیے لے کر گاوں آگیا اور گھر آتے ھی سب سے پہلے ساری سیل امی کے ہاتھ میں تھما دی اور انکو کہا کہ آپ کے‬
‫بیٹے کی پہلے دن کی کمائی ھے ۔۔‬
‫امی اتنے سارے پیسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مجھ سے بولی کہ یہ پیسے میں نے خرچ نہیں کرنے بلکہ ایسے پیسے‬
‫جمع کرتے رہنا اور پھر ان پیسوں سے مذید مال لے آنا ۔۔‬
‫امی کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔۔۔‬
‫پھر کھانا وغیرہ کھا کر میں نے امی سے اپنی مجبوری بیان کی کہ بازار دیر تک کھال رہتا ھے ۔۔‬
‫جب تک میں موٹر سائیکل نہیں لے لیتا تب تک مجھے آنٹی کے گھر رات رکنا پڑے گا ۔۔۔‬
‫امی پہلے تو انکار کرتی رھی کہ انکی جوان بچیاں ہیں ایسے کسی کے گھر نہیں رہتے ۔۔‬
‫مگر میرے الڈ اور پیار سے امی مان گئی اور جلد ھی موٹر سائکل لینے کا کہا۔۔۔‬
‫اور امی نے یہ بھی تاکید کی کہ جب تک موٹر سائیکل نہیں لیتے تب تک اچھی طرح چالنی سیکھ لو۔۔‬
‫میں نے امی کی بات کی تائید کی اور پھر مٹھائی کا ڈبہ لے کر آنٹی کے گھر پہنچا ۔‬
‫آنٹی لوگ بھی بہت خوش ھوے ۔۔۔‬
‫انکل بھی جاگ رھے تھے اس لیے میں نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر ادھر بیٹھنے کے بعد میں گھر آگیا۔۔۔۔۔‬
‫دوستو‬
‫میں سٹوری کو کچھ آگے بڑھا رھا ہوں امید ھے اپکو اعتراض نہیں ہوگا کیوں کے ان دنوں میں ایسا کچھ خاص نہیں ہوا جو‬
‫بیان کرنا ضروری سمجھوں سواے طوالت کے کچھ نہیں ھے۔۔۔۔‬
‫‪So please don't mind‬‬
‫‪After two weeks‬‬
‫دکان کو دو ہفتے گزر گئے ۔۔‬
‫دکان کا بینیفٹ سوچ سے بڑھ کر مال ۔۔۔۔‬
‫اس دوران ایک چکر الہور کا بھی لگا ۔‬
‫اور چند دن ضوفی کے گھر رہنے کے بعد‬
‫اوپر والے نے موٹر سائکل بھی دے دی اور جنید سے میں نے بائک چالنا بھی سیکھ لی اب میں روز موٹر سائیکل پر ھی آتا‬
‫جاتا۔۔۔‬
‫ضوفی کے ساتھ وہ ہی نارمل رومانس چلتا رہتا۔۔‬
‫خیر ایک دن دوپہر کے وقت جنید کھانا لینے گیا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میں اکیال ھی دکان کے باہر بیٹھا ہوا آتی جاتی لڑکیوں اور آنٹیوں کو دیکھ رھا تھا ۔۔۔‬
‫کالج سکول کو چھٹی ہوئی تھی تو سکول یونفارم میں ملبوس بچیوں کے ٹولے گزر رھے تھے ۔۔۔‬
‫کہ اچانک میری نظر ایک جانے پہچانے چہرے پر پڑی ۔‬
‫اور وہ چہرہ میرے سامنے سے گزر گیا ۔۔‬
‫میں اپنی جگہ سے اٹھا اور بھاگ کر اسکے پیچھے گیا اور چند قدموں پر ھی اسے جا لیا ۔۔‬
‫اور اس کے سامنے جا کر کھڑا ھوگیا۔۔۔‬
‫نقاب میں چھپا چہرہ اور آنکھوں میں حیرت ۔۔۔۔‬
‫پلکیں دونوں جھپکانا بھول گئے ۔۔‬
‫اور جب سکتہ ٹوٹا تو ۔۔‬
‫مہری کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ۔۔۔‬
‫میں نے سرگوشی میں کہا مہری میرے ساتھ چلو مجھے تم سے بات کرنی ھے ۔‬
‫مہری بولی نہیں یاسر میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی ۔۔‬
‫میں نے کہا پلیز ایک دفعہ میرے ساتھ چلو وہ سامنے میری دکان ھے وھاں چل کر صرف ایک دفعہ میری بات سن لو پھر‬
‫چاہے تم چلی جانا اور میں کبھی تمہیں اپنا چہرہ نہیں دکھاوں گا۔۔‬
‫مہری بولی پلیز یاسر میں پہلے ھی بہت پریشان ہوں مجھے مزید پریشان مت کرو۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫مہری پلیزززز ایک دفعہ بس ایک دفعہ کچھ ھی دیر کہ لیے میری بات سن لو ۔۔۔۔‬
‫کچھ منت سماجت کے بعد مہری میرے ساتھ بوتک پر آگئ۔۔‬
‫اور بولی ھاں بولو کیا کہنا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار بیٹھو تو سہی ۔۔۔‬
‫مہری کرسی پر بیٹھ گئی اور سر نیچے کر کے اپنی گود میں رکھے بیگ کو دیکھنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں مہری سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا اور مہری کی طرف غور سے دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مہری واقعی پریشان لگ رھی تھی ۔۔۔‬
‫میں کافی دیر خاموشی سے کھڑا مہری کو دیکھتا رھا ۔۔‬
‫اور مہری مجھے یوں خاموش کھڑے دیکھ کر اٹھ کر کھڑی ھونے لگی‬
‫میں جلدی سے آگے بڑھا اور اسکو کندھوں سے پکڑ واپس بیٹھا دیا۔۔‬
‫مہری بولی اگر کچھ بولنا نہیں تو مجھے کیوں یہاں بیٹھایا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار تمہیں جی بھر کہ دیکھ تو لوں ۔۔۔‬
‫مہری نے میری طرف سر اٹھا کر دیکھا اور طنزیہ انداز میں ہنس کر بولی ۔‬
‫باتیںَ خوب بنا لیتے ھو کسی کو بیوقوف بنانے کے لیے ۔۔۔‬
‫میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ جنید کھانا لیے اندر داخل ہوا اور ایک نظر مہری پر ڈالی اور پھر میری طرف دیکھ کر‬
‫اشارے سے پوچھا کہ اے کی چکر اے ۔‬
‫میں نے اسے آنکھ مار کر چپ رہنے کا کہا۔۔‬
‫جنید نے مہری پر پھر ایک گہری نظر ڈالی اور کھانا لے کر کاونٹر کے پیچھے چال گیا ۔۔‬
‫مہری جلدی سے کھڑی ہوئی اور باہر نکلنے لگی ۔‬
‫تو میں جلدی سے اس کے آگے آگیا اور اسکے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔‬
‫اور رونے واال منہ بنا کر بوال ۔‬
‫مہری کیا میں اتنا ھی برا ھوگیا ھوں کہ مجھ سے کچھ دیر بات کرنا بھی پسند نہیں کررھی ۔۔‬
‫مہری بولی تم نہیں میں بری ہوگئی ہوں پلیز راستہ چھوڑو مجھے گھر جانا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ۔۔۔‬
‫مہری میری بات تو پہلے سن لو ۔۔۔‬
‫مہری وہیں ہاتھ بغلوں میں باندھ کر کھڑی ھوکر بولی ۔‬
‫ھااااں جی فرماووووووو۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔‬
‫یار اتنی بھی بےرخی کیسی‬
‫تم میرے ساتھ کس طرح بات کررھی ھو ۔۔‬
‫جیسے میں تمہارے لیے اجنبی ہوں ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسرر پلیزززز مجھے جانے دو گھر کوئی بھی نہیں ھے اور اسد بھی دو دن سے الہور گیا ھوا ھے ۔۔۔‬
‫مہری کی بات سن کر میں اسکا اشارہ فورن سمجھ گیا۔۔۔‬
‫کہ سالی غصے میں بھی دعوت نامہ دے رھی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے انجان بنتے ھوے کہا ۔۔۔‬
‫کوئی بات نہیں آنٹی تو گھر ھی ہوں گی ۔۔‬
‫مہری چونک کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔۔‬
‫مما بوتیک پر ہیں ۔۔۔‬

‫)‪Update no (141‬‬
‫سمجھے اب پیچھے ہٹو اور مجھے جانے دو پہلے ھی اتنی دیر ہوگئی ھے ۔۔۔‬
‫یہ کہتے ہوے مہری مجھے چکما دے کر باہر کی طرف نکل گئی اور دروازے کے پاس پہنچ کر بڑی پیاسی آنکھوں سے‬
‫میری طرف ایک نظر دیکھا اور ۔چلی گئی ۔۔‬
‫چند لمحوں میں مجھے ہوش آیا ۔‬
‫اور استاد نے دماغ کی بتی جالئی ۔‬
‫کہ ماما ُک ڑی تینوں کار آن دی دعوت دے کہ گئی اے توں ایتھے کھڑا امب پھڑن دیاں ایں ۔۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے دراز سے بائک کی چابی نکالی اور جنید کو کہا میں ابھی آیا یار۔۔۔‬
‫جنید بوال کتھے چالں ایں روٹی تے کھا لے ۔۔‬
‫میں نے کہا تم کھا لو مجھے بھوک نہیں ۔۔۔‬
‫اور میں جنید کا جواب سنے بغیر باہر نکال اور بائک سٹارٹ کر کے مہری کے پیچھے نکل گیا ۔۔۔۔‬
‫کچھ ھی دور جاکر ایک گلی میں مہری جاتی نظر آئی ۔۔۔۔‬
‫میں نے اسکے برابر جاکر موٹر سائیکل سلو کی تو وہ اچانک گبھرا کر رک گئی اور جب اس نے مجھے دیکھا تو‬
‫حیرت سے کبھی موٹر سائیکل کو دیکھے تو کبھی مجھے ۔۔۔‬
‫اور یہ کہہ کر چل پڑی کہ اب تم میرا پیچھا کرنے پر اتر آے‬
‫اور پھر چلنے لگی تو میں نے کہا ۔۔‬
‫مہری یار اب بس بھی کرو‬
‫تھوک دو غصہ بیٹھو تمہیں گھر چھوڑ آتا ھوں ۔۔‬
‫مہ‬
‫‪.‬مہری بولی شکریہ میں چلی جاوں گی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا مہری یار بیٹھ جاولوگ دیکھ رھے ہیں کیا سوچیں گے ۔۔۔‬
‫مہری نے بھی یہ محسوس کیا تو چپ کر کے میرے پیچھے مجھ سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے مسکراتے ھوے بائک آگے بڑھائی اور مہری کے گھر کیطرف چلدیا‪ .‬۔‬
‫راستے میں کوئی بات نہ ہوئی ۔۔۔‬
‫میں نے بھی راستے میں مہری سے کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔‬
‫کچھ ھی دیر‬
‫بعد میں نے مہری کے گھر کے سامنے بریک لگائی تو مہری بریک لگانے کے وجہ سے کھسک کر میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے دل میں ھی اپنے آپ کو برا بھال کہا ۔۔‬
‫جا اوےےےے پینڈوا رستے وچ ای بریکاں مار کے کڑی نوں نال ال لیندا ۔۔۔‬
‫مہری اتری اور میری طرف دیکھے بغیر بیگ سے گیٹ کی چابی نکالنے لگ گئی ۔۔‬
‫مہری گیٹ کی طرف منہ کیے گیٹ کی پہلی سیڑھی پر ایک پیر رکھے گھٹنے پر بیگ رکھ کر چابی نکال رھی تھی ۔۔‬
‫میں کھڑا اسکی طرف دیکھی جارھا تھا۔‬
‫مہری نے چابی نکالی گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھوال اور اندر داخل ہونے لگی تو میں نے کہا ۔۔‬
‫مہری ۔۔‬
‫مہری نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا تو میں نے کہا ۔‬
‫میں جاوں تو مہری کچھ بولے بغیر دروازہ کھال چھوڑے اندر چلی گئی ۔۔میں نے بائک کا سٹینڈ لگا یا اور اندر داخل ہوگیا تو‬
‫مہری گیراج میں کچھ آگے کھڑی تھی مجھے دیکھ کر کمرے کی طرف چل دی ۔۔‬
‫اسکی خاموشی ھی سب کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے بڑا گیٹ کھوال اور بائک اندر کر کے گیٹ الک کر کے مہری کے کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔۔‬
‫میں جیسے ھی دروازے کے قریب پہنچا تو سامنے کا سین دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رھ گیا‬
‫۔۔۔۔‬
‫‪.‬مہری شرٹ اتار کر بریزیر اور شلوار میں اپنے سلکی بالوں کو کھولے کسی فاحشہ عورت کی طرح اپنے گاہک کے‬
‫انتظار میں بیڈ پر دروازے کیطرف منہ کر کے بیٹھی دروازے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں بت بنا کھڑا مہری کا یہ روپ دیکھ رھا تھا ۔۔مہری نے مجھے یوں بت بنے کھڑا دیکھا تو ۔۔‬
‫طنزیہ مسکراہٹ سے بولی ۔۔‬
‫آجاو اندر وہاں کیوں کھڑے ھو ۔۔۔‬
‫آو شکار بلکل تیار ھے آو کھیلو میرے جسم کے ساتھ اسی لیے تو آے ھو آو بجھاو اپنی پیاس پوری کر لو اپنی ہوس اور یہ‬
‫کہتے ھوےمہری رونے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں مہری کی باتیں سن کر مذید سکتے کے عالم میں آگیا مہری اٹھی اور چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور میرے کندھوں کو‬
‫پکڑ کر مجھے ہالتے ھوے بولی ۔۔۔‬
‫کیا سوچ رھے ھو اب کسکا انتظار ھے ۔‬
‫کہو تو سارے کپڑے اتار دوں ۔۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے مہری اپنے ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے لیجا کر بریزیر کی ہک کھولنے لگی ۔۔۔‬
‫میں نے ایک زور دار تھپڑ مہری کے منہ پر مارا ۔۔۔‬
‫تو مہری گھوم کر نیچے گری‬
‫میں مہری کو گرتے ہو ایک نظر دیکھ کر دروازے سے واپس پلٹا اور ٹی وی الونج میں ھی پہنچا تھا کہ مہری میرے‬
‫پیچھے بھاگتی ہوئی میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑ کر بولی کیا ھوا ۔‬
‫دل نہیں کر رھا یا پھر مجھ سے دل بھر گیا ھے ۔۔‬
‫میں نے غصے سے پلٹ کر مہری کی طرف دیکھا اور اسکے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور ہاتھ کو وہیں ہوا‬
‫میں روک لیا ۔۔۔‬
‫مہری روے جارھی تھی مہری نے میرا بازو پکڑ اور اپنے چہرے کی طرف کرتے ھوے بولی مارو رک کیوں گئے ھو ۔۔‬
‫مہری کی گال پر میری انگلیوں کے نشان پڑ چکے تھے اسکا رنگ سرخ ٹماٹر کی طرح ہوچکا تھا اسکی آنکھیں سرخی مائل‬
‫اور آنسوؤں سے لبریز تھیں ۔۔۔‬
‫مہری کی حالت دیکھ کر میرا سارا غصہ ہوا ھوگیا ۔۔۔‬
‫میں نے مہری کا ہاتھ پکڑا اور پھر دوسرا ہاتھ پکڑ کر دونوں ہاتھوں کو مال کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگایا اور ہاتھ چومتے‬
‫ھوے بوال ۔۔‬
‫مہری تمہیں کیا ہوگیا ھے ۔‬
‫مجھ سے اتنی بدزن کیوں ہوگئی ہو ۔‬
‫مانا مجھ سے اس دن غلطی ھوگئی تھی ۔۔‬
‫تمہاری قربت نے مجھے پاگل کردیا تھا ۔‬
‫مجھے خود نہیں پتہ چال کہ میں کیا کررھا ھوں ۔۔۔‬
‫میں تو اسی شرمندگی کی وجہ سے تمہارے سامنے آنے سے ڈر رھا تھا ۔‬
‫پلیز مجھے معاف کردو مہری میں تمہارا مجرم ہوں میں تمہارا گناہ گار ہوں ۔۔۔‬
‫مہری بولی ۔۔‬
‫یاسر تم اتنے بے مروت نکلو گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی مگر تم نے‬
‫تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مہری بلک بلک کر رونے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں نے مہری کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔‬
‫اور گالوں کو دباتے ھوے روہانسے لہجے میں نفی میں ار ہالتے ہوئے بوال‬
‫۔۔ نہیں مہری پلیززززز مجھے غلط مت سمجھو میں بھی تمہیں دل سے اپنا دوست سمجھتا ھوں ۔‬
‫مجھ سے غلطی ھوگئی پلیزززززمعاف کردو ۔‬
‫مجھے جو سزا دینی ھے دے لو مجھے منظور ھے ۔۔۔‬
‫اگر تم یہ ھی چاہتی ھو کہ میں کبھی تمہارے سامنے نہ آوں تو میں زندگی بھر کبھی تمہارے آس پاس بھی نہیں دکھوں گا‬
‫۔‬
‫مگر پلیز مجھے غلط مت سمجھو مجھے تمہارے جسم کی بھوک نہیں ھے ۔۔‬
‫اس دن کے بعد میں روز مرتا تھا روز جیتا تھا ۔‬
‫میں نے بہت دفعہ تمہارے گھر آنے کا ارادہ کیا بہت دفعہ تمہارے کالج جانے کا سوچا ۔۔‬
‫مگر مجھ میں تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔۔‬
‫میں بھی انسان یوں غلطیاں انسانوں سے ھی ہوتی ہیں ۔۔۔‬
‫اور ساتھ ھی میں رونے لگ گیا۔۔۔۔۔‬
‫مہری ایکدم چپ ہوگئی اور میرے سینے کے ساتھ لگ کر ۔۔‬
‫میرے ساتھ چمٹ گئی اور رونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫اور شکوہ کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫تم بہت گندے ھو پلٹ کر میرا پتہ بھی نہ لیا کہ میں زندہ ہوں‬
‫یا مرگئی ہوں ۔‬
‫مجھے تمہاری اس بے رخی نے بہت تڑپایا یاسر بہت تڑپایا ۔۔‬
‫کیوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔۔‬
‫ایک دفعہ تو پلٹ کر دیکھتے ایک دفعہ تو میرا حال پوچھنا گوارہ کرتے ۔۔۔‬
‫میں نے ایک ہاتھ اسکی ننگی کمر پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے سر کو اور بالوں کو سہالنے لگا ۔۔‬
‫اور بوال ۔‬
‫میں اگیا ہوں نہ جان اب تو مجھے معاف کردو تمہاری ہر بات سچ ھے مجھ سے غلطی ھوئی میں مان رھا ہوں ۔۔‬
‫کافی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے رھے اور پھر میں نے مہری کو بازوں سے پکڑ کر خود سے علیحدہ کیا اور اسکے‬
‫ہونٹوں کو چوم کر بوال چلو شرٹ پہنو ۔۔‬
‫مہری اثبات میں سر ہالتے ھوے کمرے کی طرف چلی گئی میں بھی اسکے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور بیڈ پر‬
‫بیٹھ گیا مہری اپنی شرٹ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل کر سٹور میں چلی گئی ۔‬
‫اور کچھ ھی دیر بعد ہلکے پیلے رنگ کا الن کا سوٹ پہن کر کھلے بالوں کے ساتھ دوپٹے سے اپنی آنکھیں صاف کرتی‬
‫ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔‬

‫)‪Update no (142‬‬
‫اور آکر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫کچھ دیر ہم دونوں خاموش ھی بیٹھے رھے ۔‬
‫پھر مہری نے میرا ہاتھ پکڑ اور دوسرا ہاتھ میری گال پر رکھ کر میرے چہرے کو اپنی طرف گھمایا میں مہری کی نم‬
‫آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫مہری نے دونوں ہاتھ‬
‫‪ .‬اپنے کانوں کو لگاے اور کانوں کو پکڑ کر کسی معصوم بچے کی طرح نچلے ہونٹ کو باہر نکال کر روہانسے لہجے میں‬
‫بولی سوری ۔۔۔اور ساتھ ھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے اسکے ہاتھ پکڑ کر اسکے کانوں سے الگ کئے اور ۔‬
‫اسکے ہاتھوں کو چوم کر مہری کی گالوں کو پکڑ کر انگوٹھے سے اسکے آنسوں صاف کرتے ھوے بوال ۔۔‬
‫پاگل ہوگئی ہو مہری ۔‬
‫کیوں بچوں کی طرح روئی جارھی ھو ۔۔‬
‫چپ ھوجاو ۔۔۔‬
‫پلیززززز ورنہ میں نے بھی رونے لگ جانا ھے ۔۔۔‬
‫اور پھر میں نے مہری کی گالوں کو پکڑے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور اسکے نرم مالئم یونٹوں پر بوسا لیا اور اپنی‬
‫ہتھیلیوں سے اسکی گالوں سے آنسو صاف کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫مہری پھر مجھ سے لپٹ گئی اور پھر روتے ہوئے کہنے لگ گئی ۔‬
‫مجھے معاف کردو یاسر میں نے تمہیں بہت غلط سمجھا اور نجانے کیا کیا کہہ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے پھر اسکو نارمل کرتے ھوے دالسا دیا کہ ۔‬
‫تمہارا غصہ جائز تھا مہری ۔‬
‫اب بس کرو مجھے تمہاری کوئی بات بری نہیں لگی ۔۔۔‬
‫بس ایک بات بری لگی ۔۔۔‬
‫مہری میرے کندھے سے سر اٹھا کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫کیا برا لگا یاسر بتاو میں اسکی بھی معافی مانگ لیتی ھوں ۔۔‬
‫میں نے کہا رہنے دو دفعہ کرو ۔۔‬
‫مہری نفی میں سر ہالتے ہوے بولی نہیں یاسر بتاو پلہزززززز‬
‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے مہری کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫بتا دوں مہری اثبات میں سر ہالتے ھوے بڑے تجسس سے بولی ہاں بتاو۔۔۔‬
‫میں نے پھر اسی اندازمیں کہا بتا دوں ۔۔‬
‫میرا اندازدیکھ کر مہری تھوڑا مسکرا کر میری شرٹ کے بٹن کو کھولتے ھوے انگلی میں گھماتے ھوے بولی بتاو نہ یاسر‬
‫تنگ نہ کرو۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫جو کام میں نے کرنا تھا وہ کام تم نے مجھ سے پہلے کیوں کیا ۔۔‬
‫مہری نے بڑے تجسس بھرے انداز سے میری طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫کون سا کام ۔۔‬
‫میں نے برا سا منہ بنا کر روٹھنے والے اندازسے پاوں زمین پر مارتے ھوے اور دونوں ہاتھوں کے مکے اپنی رانوں پر‬
‫مارتے ھوے کہا ۔۔‬
‫تم نے میری اجازت کے بغیر شرٹ کیوں اتاری میں نے خود پیار سے اتارنی تھی ۔۔۔‬
‫مہری جو منہ کھولے بڑے غور سے اور بڑی سنجیدہ ھو کر میری بات سن رھی تھی ۔‬
‫میری بات سنتے ھی میرے گلے پر دونوں ہاتھ رکھے اور میرا گال پکڑ کر مجھے بیڈ پر گراتے ھوے بولی ۔‬
‫بتمیززززززززتمہاری جان نکال دینی ھے ۔۔۔‬
‫اور مہری میرے اوپر چڑھ گئی میری ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور مہری میرے اوپر پاوں میرے پاوں کے اوپر رکھے‬
‫اپنی پھدی میرے لن پر دباے میرے گلے کو نرمی سے پکڑے دباے ھوے تھی ۔‬
‫اور چیخ چیخ کر مجھ پر برس رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں پوری کھولیں اور جیسے سانس بند ہونے کی وجہ سے میری جان نکلنے لگی ھو میں نے‬
‫ویسے ایکٹنگ کرتے ھوے ایک دم گردن ایک طرف لڑھک دی ۔۔‬
‫مہری نے گبھرا کر ایک دم میرا گال چھوڑا ۔‬
‫اور بڑی گبھرائی ھوئی آواز میرے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھے ہالتے ھوے آواز دینے لگ گئی یاسر یاسر یاسر اٹھو‬
‫میں مزاق کر رھی تھی ۔‬
‫میں نے دونوں بازو بیڈ پر ایسے پھیالے ھوے تھے جیسے سچ میں میری جان نکل گئی ھو ۔۔‬
‫مہری میرے ہونٹوں کے پاس ہوںٹ الئی اور مجھے ہالتے ھوے یاسر یاسر کہی جارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے اچانک آنکھیں کھولیں اور مہری کو بازوں میں بھر کر گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا ۔۔‬
‫اور ہنسنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫مہری بچوں کی طرح نچال ہونٹ باہر نکال کر میرے سینے پر مکے برسانے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے بڑی مشکل سے مہری کی کالئیوں کو پکڑا اور اسکے بازوں کو کھول کر بیڈ پر پھیال کر دبا کر میٹرس کے ساتھ‬
‫لگا دیا ۔‬
‫اور مہری کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مہری کچھ دیر میرے نیچے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں چالنے کی کوشش کرتی رھی مگر مہری کی ٹانگوں کو میں نے‬
‫اپنی ٹانگوں کے درمیان جکڑا ھوا تھا اور مہری کے بازوں کو کالئیوں سے پکڑے میٹرس کے ساتھ لگا کر دبایا ھوا تھا اور‬
‫میرا لن مہری کی پھدی کے بلکل اوپر تھا‬
‫مگر لن ابھی ڈھیال ھی تھا اس وجہ سے مہری کو لن کا احساس نہیں ہورھا تھا ۔۔‬
‫مہری کچھ دیر بعد تھک کے بلکل شانت ہوکر جسم کو ڈھیال چھوڑ کر لیٹ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔۔‬
‫میں مہری کے پیٹ اور مموں سے کافی اوپر تھا جبکہ میرا نچال حصہ مہری کے نچلے حصے کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں تھوڑا سا جھکا اور مہری کے چہرے کے بلکل اوپر اپنا چہرہ کر کے بوال بس تھک گئی ۔۔۔‬

‫)‪Update no (143‬‬
‫میری سانسیں مہری کے چہرے پر پڑ رھیں تھی ۔‬
‫جبکہ میرے یوں قریب آنے پر مہری کی بھی سانسیں مذید تیز چلنے لگیں اور اسکے سینے کے ابھار اوپر نیچے ھونے لگ‬
‫گئے ۔۔‬
‫میں نے ہونٹ کھولے اور زبان کی نوک باہر نکال کر اپنے سر جو مزید جھکایا اور زبان کی نوک مہری کے کانپتے ہونٹوں‬
‫کے پاس لے گیا مہری نے نے پہلے سر دائیں طرف کیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔‬
‫میں نے اپنے چہرہ وہیں رکھا ۔۔اور زبان کی نوک مہری کے کان کے پیچھے پھیر دی ۔‬
‫مہری نے تڑپ کر سسکاری بھری اور سر کو گھما کر چیرہ بائیں طرف کرلیا میں نے زبان کی نوک مہری کے دوسرے کان‬
‫کے پیچھے پھیر دی مہری نے پھر تڑپ کر سر پیچھے لیجا کر سینہ بلند کیا اور لمبی سسکاری بھر کر چہرہ بلکل سیدھا کر‬
‫لیا اپنے شربتی ہونٹ کھول کر میری زبان کو اپنے ہونٹوں کے اندر سمو لیا اور میں نے زبان مذید لمبی کر کے مہری کے‬
‫منہ میں ڈال دی ۔‬
‫مہری جنونی انداز میں میری زبان کو چوستے ھوے اپنی کالئیوں کو میرے ہاتھوں سے چھڑوانے لگ گئی ۔‬
‫میں نے بھی مہری کی کالئیوں کو جیسے ھی چھوڑا مہری نے بڑی پھرتی سے میری گردن میں ہاتھ ڈال کر میرے سر کو‬
‫مذید اپنے چہرے پر دبانے لگی ۔‬
‫اور میری زبان کو چوستے ھوے کبھی میرے نچلے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اوپر والے کو ۔۔‬
‫کافی دیر ہمارے ہونٹوں کی جنگ جاری رھی ۔۔‬
‫میرا لن بھی حرکت میں اچکا تھا اور میری ڈریس پینٹ کو پھاڑ کر باہر آنے کے لیے باوال ھورھا تھا میں نے ہاتھ نیچے لیجا‬
‫کر پینٹ کی زپ کھولی اور انڈر ویر کو تھوڑا سا کھسکا کر لن کو آزاد کیا لن کو آزادی ملنے کی دیر تھی کہ کمبخت مہری‬
‫کی باریک شرٹ کو اسکی رانوں میں دبا کر پھدی کے ساتھ جپھی ڈال کر رانوں کے بیچ پھدی کے ساتھ چپک گیا اور مہری‬
‫نے رانوں کو اپس میں بھینچ کر میرے لن کو قبول کرتے ہوے باہر نکلنے سے منع کررکھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری نے مجھے بیڈ کے اوپر انے کا کہا تو میں مہری کے اوپر سے ہٹا اور لن کو انڈر ویر میں کر کے بیڈ‬
‫کے اوپر چڑھ گیا اور مہری بھی جلدی سے ٹانگیں اوپر کر کے سیدھی لیٹ گئی ۔۔‬
‫میں مہری کے ساتھ لیٹا اور اسکو پکڑ کر سائڈ کے بل کر کے منہ اپنی طرف کیا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئے‬
‫اور پھر ایک دوسرے کے یونٹ آپس میں بھڑ پڑے۔۔۔‬
‫ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔۔‬
‫میں مہری کے ہونٹ چوستے ھوے ایک بازو اسکی گردن کے نیچے اور دوسرا بازو اسکے بازو کے نیچے سے گزار کر‬
‫ہاتھ اسکی کمر پر لیجا کر مہری کی کمر کو سہالنے لگ گیا ۔۔‬
‫اور کچھ دیر بعد مہری کی شرٹ کو اوپر کر کے اسکی ننگی کمر پر انگلیوں سے مساج کرنے لگ گیا۔۔‬
‫مہری نے بھی میری تقلید کرتے ھوے میری شرت کو اوپر کر کے میری کمر پر اپنا مخملی ہاتھ پھیرتے ھوے اپنی بغیر‬
‫ہڈی کی انگیوں سے میری کمر کو سہالنے لگ گئی ۔۔‬
‫مہری کی انگلیوں میں جادو تھا میرے سارے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگ گیا مجھ پر کپکی طاری ھوگئی ۔۔‬
‫مہری کی انگلیاں اپنی کمر پر مجھ سے برداشت نہیں ہورہیں تھیں میں خود پر سے کنٹرول کھوتا جارھا رھا تھا۔‬
‫دوسری طرف مہری کا حال بھی مجھ سے الگ نہ تھا ۔‬
‫جتنا جوش مجھے چڑھ رھا تھا اتنا ھی مہری ریکٹ کررھی تھی ۔‬
‫ادھر میں میری کی شرٹ کو کھسکاتا ھوا اسکی گردن تک لے آیا ادھر مہری میری شرٹ کو کھسکاتی ھوئی میرے کندھوں‬
‫تک لے آئی ۔‬
‫اب ہم دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔‬
‫مہری کے نرم پیٹ کا لمس مجھے اپنے پیٹ پر پاگل کئے جارھا تھا ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد میں نے لیٹے ھی مہری کی شرٹ اسکے جسم سے الگ کردی اور مہری نے میری شرٹ بھی جلدی سے‬
‫اتار کر ایک طرف پھینک دی اور ہم پھر ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ کر ہوٹنوں میں ہونٹ ڈالے پورے بیڈ پر گھومنے لگے‬
‫کبھی مہری میرے اوپر تو کبھی میں مہری کے اوپر ۔۔‬
‫ہم گھومتے کبھی بیڈ کے اس کنارے پر جاتے تو کبھی ادھر سے پلٹ کر گھومتے ھوے اس طرف کنارے پر اجاتے ۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی کھیل چلتا رھا ۔‬
‫اسی دوران میں نے مہری کے بریزیر کی ہک بھی پیچھے سے کھول دی اور موقع ملتے ھی اسکے بریزیر کو اسکے بازوں‬
‫سے نکال کر ایک طرف پھینک دیا ۔‬
‫اب میں پینٹ میں اور مہری شلوار میں تھی اور دونوں کے اوپری ننگے حصے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ھوے تھے ۔۔‬
‫آخر پلٹیاں کھاتے کھاتے ہم بیڈ کے درمیان رکے اور میں مہری کے اوپر اور مہری میرے نیچے رکی۔‬
‫میں نے مہری کے ہونٹوں کو چھوڑا اور کھسکتا ھوا نیچے ھوا اور مہری کے گالبی رنگ کی مانند گول مٹول تنے ہوے‬
‫مموں پر ٹوٹ پڑا اور کبھی ایک ممے کو منہ میں لے کر اسکے گالبی انگور کو چوستا تو کبھی دوسرے ممے کے گالبی‬
‫تنے ھوے نپل کو چوستا ۔۔‬

‫مہری سسکاریاں بھرتے ھوے سر دائیں بائیں کر رھی تھی اور ساتھ میں میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بالوں کو‬
‫سہال رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر میں ھی مموں کو گالبی سے سرخ کردیا۔۔‬
‫اور پھر سرکتا ھوا مہری کے روئی سے نرم ریشم سے مالئم تھرتھراتے پیٹ پر ہونٹ رکھے تو مہری میٹرس سے اچھل‬
‫کر واپس گری اور آہہہہہہہہہ سییییییییییییی کرتے ھوے‬
‫زور زور سے سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔‬

‫)‪Update no (144‬‬
‫میں ہونٹوں سے پیٹ کو چومتا تو کبھی زبان نکال کر پیٹ کے چاروں اطراف گھماتا ۔‬
‫ہوا جب ناف سے نیچے جاتا تو مہری کی سسکاریا ں چیخوں میں بدل جاتی ۔‬
‫آخر کار میں نے مہری کی شلوار کی السٹک کو پکڑا اور شلوار کو کھینچتا ھوا ایک جھٹکے سے اسکے پیروں میں لے‬
‫گیا ۔‬
‫شلوار کے ساتھ مہری کی پینٹی بھی اتر کر اسکے پیروں میں چلی گئی اور میں نے مذید وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے‬
‫شلوار کو پینٹی سمیت مہری کے پیروں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور مہری کے پیروں کو پکڑ کر اسکی پیروں کو‬
‫چومنے لگ گیا ۔‬
‫مہری کے پیرے کسی نومولود بچے کی طرح نرم سوفٹ اور پنک کلر کے تھے ۔‬
‫میں مہری کے پیروں کو چومتے ھوے اسکی پنڈلیوں سے ہوتا ھوا اسکے گھٹنوں کے پاس آگیا ۔‬
‫مہری کی ٹانگوں تو کیا پورے جسم پر بالوں کا نام نشان تک نہ تھا۔‬
‫اور مہری کی ٹانگوں کی مالئمت اور سوفٹنس ناقابل بیان تھی ۔‬
‫میں نے مہری کی دونوں ٹانگوں کو سیدھا کیا اور اسکے پیروں سے چومتا ھوا اسکی رانوں پر آیا تو جب میری نظر اسکی‬
‫گالبی پھدی پر پڑی جس کے لبوں پر شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔‬
‫تو بے اختیار میرے زبان باہر نکلی اور یونٹوں پر پھرنے کے بعد واپس منہ کے اندر جانا بھول گئی اور اکڑتے ھوے سیدھی‬
‫مہری کی پھدی کو جا لگی ۔۔‬
‫زبان کی نوک نے مہری کی پھدی کے دانے کو کیا چھوا ۔‬
‫کہ مہری کو جیسے ذبیعہ کردیا ھو ۔‬
‫مہری بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتے ھوے‪.‬‬
‫نو نو نو نو نننننہی نہیں یییییاسسسسررررر ممممیں مرگئی اافففففف سیییییییءجج‬
‫کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫مہری کے یوں تڑپنے سے میرے اندر مذید جوش پیدا ھوا اور میں نے مہری کی رانوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور ٹانگوں کو‬
‫کھول کر پھدی کے دانے کو منہ میں بھر لیا اور دانے کو چوسنے لگ گیا ۔‬
‫میری گانڈ اٹھا اٹھا کر نیچے مارتے اور سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے ۔‬
‫چیخ رھی تھی چال رھی تھی مجھے روک رھی تھی ۔‬
‫مگر اسکی منتیں میرا حوصلہ بڑھا رہیں تھیں میرے اندر پھدی کو چوسنے چاٹنے کا جنون پیدا کررھیں تھی ۔‬
‫مہری مزے میں پاگل ھوتی جارھی تھی‬
‫اور میں پھدی چاٹنے اور چوسنے میں پاگل ھوا جارھا تھا ۔‬
‫پھر یکلخت مہری کا جسم اکڑنا شروع ھوگیا مجھے اسکے جسم اکڑنے اور پھدی کے سکڑنے کا جیسے ھی احساس ھوا‬
‫تو میں نے پھدی سے منہ ہٹایا اور ساتھ ھی دو انگلیاں جوڑ کر پھدی میں گھسا دیں ۔‬
‫انگلیاں اندر کیا گئیں مہری نے ایک زور دار چیخ ماری اور گانڈ کو اٹھا کر انگلیوں کو جڑ تک اندر لیا اور ٹانگوں کو آپس‬
‫میں جوڑ کر انگیلوں کو پھدی اور ٹانگوں میں بھینچ لیا اور ساتھ ھی میری انگیلوں پر پھدی سے گرم گرم منی نکل کر‬
‫پڑنے لگی اور مہری کا جسم بری طرح جھٹکے کھانے لگ گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر مہری یوں ھی میری انگلیوں کو پھدی میں لے کر بھینچے ھوے لیٹی رھی اور پھر ایکدم مہری نے ٹانگوں کو‬
‫کھوال تو میں نے انگلیاں پھدی سے باہر کھینچی تو مہری نے پھر ھاےےےےے کیا اور شانت ہوکر لیٹ گئی اور لمبے‬
‫لمبے سانس لیتے ھوے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے ھوے اففففففففففففف کرتے ھوے میری طرف دیکھا اور زبان نکال کر‬
‫مجھے منہ چڑھا کر گنداااااا کہا اور پھر اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر چہرے کو چھپا لیا ۔۔۔‬
‫اور میں مہری کی اس ادا پر فدا ھوگیا ۔۔۔‬
‫اور میں مہری کی اس ادا پر فدا ھوگیا ۔۔۔‬
‫‪.‬مہری اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے لیٹی ہوئی تھی اور میں اس کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھا اسکی اداوں کو‬
‫دیکھ رہا تھا۔۔‬
‫مہری نے اپنے چہرے دونوں ہاتھ اسطرح رکھے ہوے تھے کہ اسکی کہنیاں مموں کو چھپاے ہوے تھیں ۔۔‬
‫میں کچھ دیر بیٹھا مہری کے جسم کے ایک ایک اعضا کو غور سے دیکھتا رھا ۔‬
‫مہری کے جسم کا ہر اعضاء قابل تعریف تھا ۔۔‬
‫چھتیس سائز کے گول مٹول تنے ہوے ممے پتلی کمر اندر کی طرف پیٹ پیچھے کو نکلی گول مٹول گانڈ گالبی رنگت پورے‬
‫جسم پر بالوں کا نام نشان نہیں ریشم کی طرح مالئم سکن ۔۔۔۔۔‬
‫اس قدر سیکسی فگر کے انگ انگ کو چوم چوم کر بھی دل نہ بھرے ۔۔۔‬
‫میں نے مسکراتے ھوے گھٹنوں کے بل بیٹھے ھی پینٹ کی بیلٹ کھولی اور پھر ہک کھول کر کھڑا ھوا اور انڈرویر سمیت‬
‫ھی پینٹ نیچے کر کے اتار دی اور مہری کے سامنے تنے لن کے ساتھ کھڑا تھا ۔۔۔‬
‫مہری آنکھوں کے اوپر رکھی انگلیوں کو کھول کر انگلیوں کی دراڑ میں میرے لن کو دیکھ رھی تھی ۔۔۔‬
‫میں پھر گھٹنوں کے بل بیٹھا اور مہری کے گھٹنوں کو پکڑ کر مہری کی ٹانگیں کھول دیں مہری نے جلدی سے ہاتھ اپنے‬
‫چہرے سے ہٹاے اور میری طرف دونوں ہاتھ کر کے ہالتے ہوے بولی ‪…no no no no‬‬
‫میں نے کہا کیا ہوا مہری۔۔۔۔۔‬
‫مہری سر اوپر اٹھا کر آنکھیں پھاڑے میرے تنے ہوے لن کو دیکھنے لگ گئی جو پھنکاریں مارتا ھوا مہری کی چھوٹی سی‬
‫پھدی کو گھور رھا تھا ۔۔۔‬
‫مہری بولی ‪nnnnno‬‬
‫یاسر تمہارا اتنا بڑا ھے مجھ سے برداشت نہیں ہونا ۔۔‬
‫اس دن جو میرا حال ہوا تھا یاد ھے نہ ۔۔۔‬
‫میں مہری کے اوپر جھکا اور اسکے ہونٹوں کے پاس ہونٹ لیجا کر بوال ۔‬
‫جان اس دن پہلی دفعہ کیا تھا اور تم ورجن تھی اس لیے درد ھوا تھا ۔‬
‫پہلی دفعہ جب سیل ٹوٹتی ھے تو درد ھوتا ھے ۔۔‬
‫اسکے بعد مزے ھی مزے ہیں۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا بڑا اندر کیسے جاے گا ۔۔‬
‫میں نے کہا جیسے پہلے لیا تھا۔۔۔‬
‫مہری جلدی سے اپنی نکی جئی پھدی کو چھپاتے ھوے بولی ۔۔‬
‫نہ بابا نہ ۔۔‬
‫مجھے وہ دن بھوال نہیں جب ایک ہفتہ میرا بخار نہیں اترا تھا ۔۔‬
‫اور مجھے پتہ ھے کیسے گھر والوں سے چھپایا تھا ۔۔‬
‫مما کو تو جیسے شک ہوگیا تھا بڑی مشکل سے مما کو میں نے مطمئن کیا تھا کہ مینسز کی وجہ سے میری طبعیت خراب‬
‫ہوئی ھے ۔۔‬
‫اور اب پھر وہ ھی کرنے لگے ھو ۔۔‬
‫میں نے مہری کے ہاتھوں کو پکڑ کر اسکی پھدی سے ہٹایا اور بوال ۔۔‬
‫جان اب نہ تو خون نکلے گا نہ ھی درد ھوگی ۔۔‬
‫مجھ پر یقین رکھو ۔۔۔‬
‫مہری بولی تو اگر کچھ اور ھوگیا تووووووو۔‬
‫میں نے کہا کیا مطلب ۔۔‬
‫مہری بولی اگر میں پریگنٹ ھوگئی تووووووو۔‬
‫میں نے کہا یار پریگنٹ تب ھوگی جب مین اندر فارغ ھوں گا ۔۔۔خالی اندر کرنے سے تھوڑا پریگنٹ ھوجاوگی ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے ۔۔‬
‫مین نے لن کو پکڑ کر ٹوپے کو مہری کی پھدی کے ساتھ لگا کر پھدی کے لبوں کے ساتھ مسلتے ھوے کہا ۔۔‬
‫جان تم بے فکر رھو میں وعدہ کرتا ھوں کہ درد نہیں ہونے دوں گا بلکہ پیار سے اور آرام آرام سے اندر کروں گا۔۔۔‬
‫مہری بولی ۔‬
‫اگر مجھے درد ہوئی نہ تو دیکھنا پھر تمہیں چھوڑوں گی نہین ۔۔۔‬
‫میں نے ٹوپے کو مہری کی پھدی کے دانے کے ساتھ مسلتے ھوے کہا ۔۔‬
‫جان تھوڑی سی درد تو ہوگی پھر دیکھنا تم خود کہو گی کے سارا اندر کرو۔۔۔‬
‫یہ کہتے ھوے میں نے ٹوپے کو اچھی طرح پھدی سے نکلنے والے پانی سے گیال کرلیا تھا ۔‬
‫اور ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں رکھ کر ہلکا سا ُپش کیا تو ٹوپا پھدی کے اندر چال گیا ۔۔‬
‫مہری کچھ کہنے ھی لگی تھی کہ ٹوپا پھدی کے اندر گھستا محسوس کرتے ھی‬
‫او او او او اوئییییییییییی کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں مہری کے اوپر لیٹ گیا اور اسکے بالوں کو سہالتے ھوے اسکی آنکھوں دیکھتے ھوے کہا ۔۔‬
‫درد ھوا مہری بولی تھوڑا سا ھوا ھے ۔‬
‫میں نے لن کو ہلکا سا اور ُپش کیا تو پھدی کے اندر تھوڑا سا لن گھس گیا مہری نے دونوں ھاتھ میرے سینے پر رکھتے‬
‫ھوے آنکھیں بند اور چہرہ اوپر کو کرتے ھوے اووو اووئییییییییی درد ہور ھا ھے یاسسسسررررررر ۔۔‬
‫میں نے لن اتنا ھی اندر رہنے دیا اور مہری کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا کچھ دیر بعد میں نے مہری کے ہونٹوں سے اپنے‬
‫ہونٹ ہٹاے اور بوال ۔‬
‫جان اب تو درد نہیں ھو رھا ۔۔‬
‫مہری بولی اب کم ھوگیا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے پھر ہلکا سا لن کو ُپش کیا تو آدھا لن مہری کی پھدی میں اتر گیا اور مہری کی پھدی نے میرے آدھے لن کو اپنی‬
‫گرفت میں بھینچ لیا مہری کی پھدی گیلی ھونے کے باوجود بہت ٹائٹ تھی ۔۔‬
‫جیسے ھی لن آدھا آندر گھسا ۔۔‬
‫مہری نے میرے سینے سے ہاتھ ہٹاے اور میرے کندھوں کو ذور سے پکڑا اور پوری آنکھیں کھول کر‬
‫ہائیییییییییی کیا اور با بس بس بس بس بس اس سے ذیادہ نہیں ۔‬
‫کہنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔‬
‫جان برداشت کرو بس کچھ ھی دیر میں تمہیں مزہ انے لگ جاے گا ۔۔‬
‫مہری درد سے سر دائیں بائیں مارتے ھوے بولی نہیں یاسرررر بہتتتت درد ھورھا ھے پلیز ہلنا نہ ۔۔۔‬
‫میں نے کہا اچھا جان نہیں‬
‫‪ .‬نہیں ہلتا ۔‬
‫تم اپنے آپ کو نارمل کرو کچھ بھی نہیں ہوتا بس ایک دفعہ سارا اندر لے لو ۔۔‬
‫پھر درد نہیں ھوگا ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسررررر مجھ سے اتنا بھی برداشت نہیں ھورھا ۔۔۔‬
‫میں آدھا لن ھی اندر کیے ھوے رکا رھا ۔۔۔‬
‫مہری بلکل ساکت لیٹی ھوئی تھی اور اففففففف اففففففف ہااااااااا کررھی تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر اسی حالت میں میں مہری کے اوپر لیٹا رھا ۔۔‬
‫اور جب میری نارمل ہوئی تو میں نے کہا ۔‬
‫جان اب درد کم ھوا ۔۔‬
‫مہری نے اثبات میں سر ہالیا ۔۔‬
‫تو میں نے کہا جان ایک ھی دفعہ سارا کردوں ۔‬
‫بس ہلکی سی درد ھوگی ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسر مجھے کچھ ھو نہ جاے ۔‬
‫میں نے مہری کے ہونٹوں کو چوما اور بوال‬
‫جان مجھ پر بھروسا رکھو ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسر میرے ساتھ لگ جاو اور مجھے کس کر اپنی بانہوں میں لے لو۔۔‬
‫میں نے مہری کی کمر کے نیچے دونوں بازوں ڈالے اور مہری نے میری کمر کے گرد بازوں جا احصار باندھ لیا ۔‬

‫)‪Update no (145‬‬
‫میں نے مہری کے یونٹوں پر ہونٹ رکھے اور اسکا اوپر واال یونٹ منہ ڈاال اور مہری نے میرا نیچے واال ہونٹ منہ ڈاال ۔‬
‫اور ہم دونوں ایک دوسرے کے یونٹ چوسنے لگ گئیے ۔‬
‫مہری کا دھیان اب کسنگ کی طرف ھوچکا تھا اور وہ مزے سے کسنگ کری جارھی تھی اور ساتھ ساتھ نیچے سے آہستہ‬
‫آہستہ گانڈ اٹھا کر لن اندر باہر کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے لوھا گرم دیکھا تو مہری کے ہونٹ کو منہ کے اندر کھینچا اور ساتھ ھی ہلکے جاندار گھسے سے سارا لن پھدی کی‬
‫گہرائی میں اتار دیا ۔۔‬
‫مہری کی آنکھیں پھٹی اسکی چیخ کو میں نے اپنے منہ کے اندر ھی سما لیا ۔‬
‫مہری نے میری کمر پر اپنے نوکیلے ناخن گاڑھ دیے ۔۔‬
‫اور سر ادھر ادھر کرتے ھوے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کی قید سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔‬
‫مہری کا ریکشن اسکی تکلیف کی گواہی دے رھا تھا ۔۔‬
‫مہری کی انکھیں نم ہونا شروع ھوگئیں ۔۔‬
‫میں گھسا مار کر مہری کو اپنے بازوں میں جکڑے اپنے جسم کے ساتھ چپکاے مہری کے اوپر لیٹا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میرے لن کو مہری کی گرم پھدی نے بری طرح جکڑا ھوا تھا ۔‬
‫ماہی کی پھدی اتنی گرم تھی کہ مجھے لگ رھا تھا کہ بس میں ابھی فارغ ہوجاوں گا ۔۔۔‬
‫ویسے بھی پھدی مارے مجھے کافی دن ھوگئے تھے ۔۔‬
‫مگر پھر بھی اپنا دھیان ادھر ادھر بھٹکا کر خود پر کنٹرول کرنے میں کافی کامیاب ھو چکا تھا ۔۔۔‬
‫آخر کچھ ھی دیر میں لن نے پھدی کی ساری گرمی اپنے اندر سمو لی اور لن بھی اب ریلکس ھوکر پھدی کے اندر پھنسا ھوا‬
‫تھا مزید‬
‫کچھ دیر بعد مہری نارمل ہوئی ۔۔‬
‫اور مجھے گھورتے ھوے بولی ۔۔‬
‫بہت گندے ھو تم یاسر ایسے بھی کوئی کرتا ھے کیا ۔‬
‫میری جان نکال کے رکھ دی ۔۔‬
‫میں نے مہری کی گالوں کو چومتے ھوے کہا ۔۔جان بس جتنی درد ھونی تھی ھوگی اب مزے ھی مزے ہیں ۔۔۔‬
‫مہری منہ بسورتے ھوے بولی مجھے نہیں لینا ایسا مزہ ۔۔‬
‫میں نے کہا جان کچھ دیر رکو تو سہی اب ھی تو اصل مزے شروع ھونے ھے ۔۔۔۔‬
‫مہری میری بات سن کر خاموش ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے کہا جان اب درد تو نہیں ھے ۔‬
‫مہری بولی جلن ھورھی ھے درد تو ختم ھوگی ۔‬
‫میں نے کہا بس اب یہ بھی ختم ھوجاے گی اور اسکے ساتھ ھی‬
‫میں نے آہستہ آہستہ گھسے مارنے شروع کردیے ۔۔‬
‫مہری اوہہہہہہ آہہ اہ آہ ۔‬
‫آرام سے آہ آہ آہ آہ ۔‬
‫کرنے لگ گئی ۔‬
‫میرے گھسوں کی سپیڈ آہستہ آہستہ سے تیز ہونا شروع ھوگئی اور میں نے مہری کے کمر کے گرد سے بازو بھی نکال لیے‬
‫اور اس کے اوپر سے اٹھ کر گھٹنوں کے بل ھوگیا اور مہری کی ٹانگوں کو پکڑ کر تھوڑا اوپر کر کے گھسے مارنے لگ‬
‫گیا ۔۔‬
‫مہری اب لن کا مزہ لیتے ھوے سسکیاں بھرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے بھی گھسے مارنا تیز کردیے مہری کی پھدی اب کافی گیلی ہو چکی تھی جس کی وجہ سے لن آسانی سے اندر باہر‬
‫ھورھا تھا پھدی کی ٹائٹنس بھی کم ہوگئی تھی ۔‬
‫میرے گھسوں سے مہری کے ہلتے ممے اور اسکی سسکاریاں میرے اندر مذید جوش پیدا کیے جارھیں تھی ۔۔‬
‫اچانک مہری کا جسم اکڑنا شروع ھوا اور ساتھ ھی مہری کی انکھیں بند ھوگئیں اور مہری پر خمار چھا گیا اور وہ خماری‬
‫میں ‪yes yes yeses fuck me fuck me fast pass fast love u love u love u fuck fuck fuck‬‬
‫کرتے ھوے ایک دم کانپنے لگی اور مہری کی پھدی نے ایک بار پھر میرے لن کو شکنجے میں لیا اور مہری نے گانڈ کو‬
‫اٹھا کر لن کو جڑ تک اندر لیا اور پھر میرے لن کے ٹوپے پر مہری کی پھدی کے اندر منی کی دھاریں گرنے لگ گئی ۔۔‬
‫مہری فل مستی میں چہرہ چھت کی طرف سے پیچھے کو لے گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی میں رک کر مہری‬
‫کی طرف دیکھتے ھوے اس کے فارغ ہونے کا انجواے کرنے لگ گیا۔‬
‫جب مہری ٹھنڈی ہوئی تو آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگ گئی میں نے مسکرا کر کہا ۔مزہ آیا۔۔‬
‫مہری بولی مجھے نہیں پتہ اور ساتھ ھی دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا ۔۔‬
‫میں اسکی معصومیت دیکھ کر مسکرایا اور پھر اسکی ٹانگوں کو کندھوں پر رکھا اور گیلی پھدی میں ھی گھسے مارنے لگ‬
‫گیا ۔‬
‫‪.‬اور چند گھسوں کے بعد ھی میرے لن کی نسیں پھولنا شروع ہوئیں اور میں نے آخری جاندار گھسا مارا جس سے مہری کا‬
‫سارا جسم ہال اور مہری نے ھاےےےےےےےےے کیا اور میں نے جھٹکے سے لن باھر نکاال اور مہری کے پیٹ کی‬
‫طرف لن کا منہ کردیا ۔‬
‫میرے لن سے پہلی پچکاری مہری کے مموں پر پڑی اور پھر پچکاریاں مموں سے پیچھے آتی ہوئی مہری کی پھدی پر رکیں‬
‫اور لن سے قطرے نکل نکل کر مہری کی پھدی پر گرنے لگ گئے ۔۔‬
‫مہری بھی بڑے غور سے لن سے منی نکلتی دیکھ رھی تھی ۔۔‬
‫جیسے ھی لن خالی ھوا تو میں نڈھال ھوکر مہری کے ساتھ بیڈ پر گر پڑا ۔۔۔‬
‫اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا۔۔۔‬
‫مہری جلدی سے اٹھی اور ننگی ھی واش روم کی طرف بھاگ گئی ۔۔‬
‫میں مہری کی ہلتی ھوئی تھرتھراتی گانڈ کو پیچھے سے دیکھنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫اور مہری میری نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔‬
‫میں ٹھنڈی اہہہہہہہہ بھر کر آنکھیں موند کر ٹانگ پر ٹانگ رکھے لیٹ گیا ۔۔۔‬
‫کافی دیر بعد مہری نے میری ٹانگ کو ہالتے ھوے مجھے آوازدی کہ یاسرررررمیں نے آنکھوں سے بازو ہٹایا اور مہری‬
‫کی طرف دیکھا جو نہا کر کپڑے پہنے گیلے بالوں کو کندھوں پر پھیالے کھڑی مسکرا رھی تھی ۔‬
‫مجھے آنکھیں کھولتے دیکھ کر مہری بڑی ادا سے گیلے بالوں کو ہاتھوں سے جھٹکتے ھوے بولی ۔‬
‫سوگئے تھے ۔۔‬
‫میں نفی میں سر ہالتے ھوے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫تو مہری بولی اٹھو نہا کر کپڑے پہن لو میں اتنی دیر چاے بناتی ھوں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور کپڑے پکڑ کر واش روم کی طرف چل دیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد نہا کر کپڑے پہن کر میں کمرے میں آگیا تو مہری چاے لیے ھوے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔‬
‫اور بیڈ پر ھی چاے کی ٹرے رکھ دی ۔۔‬
‫میں نے چاے کا کپ اٹھایا اور چسکیاں لیتے ھوے مہری کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مہری بولی ۔۔‬
‫یاسر دکان کیوں بدل لی ۔۔‬
‫میں نے مسکرا کر کہا جناب وہ میری اپنی دکان ھے میں نے اب اپنا کام شروع کرلیا ھے ۔۔‬
‫مہری بولی واوووووو گڈ یار کب شروع کی دکان ۔۔‬
‫میں نے کہا پندرہ بیس دن ھی ھوے ہیں ۔۔‬
‫مہری بولی ۔‬
‫مبارک ھو یار بہت خوشی ھوئی مجھے بہت اچھی دکان بنائی ھے ۔۔‬
‫اتنی اچھی سیٹنگ تو مما کی بوتیک کی بھی نہیں ھے ۔‬
‫میں نے شکریہ ادا کیا ۔‬
‫اور پھر میں نے مہری سے اسد کا پوچھا کہ وہ الہور کیا کرنے گیا ھے ۔۔۔‬
‫مہری ایکدم سنجیدہ ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے مہری کو پریشان دیکھ کر کہا کیا ہوا مہری پریشان کیوں ھوگئی ھو۔۔۔‬
‫مہری بولی کچھ نہیں بس ایسے ھی ۔۔۔‬
‫میں کھسک کر مہری کے قریب ھوا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر دباتے ھوے بوال ۔‬
‫مہری کچھ تو ھے جو تم مجھ سے چھپا رھی ھو ۔۔‬
‫مہری سر جھکا کر بیٹھی ھوئی تھی اچانک مہری کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے ۔۔۔‬

‫)‪Update no (146‬‬
‫میں مہری کی حالت دیکھ کر پریشان ھوگیا اور چاے ہکڑے کھڑا ھوا اور کپ کو بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھا اور ۔‬
‫مہری کے پاس بیٹھتے ھوے اسکی گالوں کو پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کر کے اپنی طرف کیا تو مہری انکھیں بند کیے ھی‬
‫روے جارھی تھی ۔‬
‫میں نے اسکی گالوں کو ہالتے ھوے کہا ۔‬
‫مہریییییی ۔‬
‫میری نے پلکوں کو اٹھایا تو اسکی بھیگی سرخ آنکھیں بہت سے سوال پیدا کررھیں تھی ۔۔‬
‫میں نے کہا مہری یار کیا ھوا اسد کو ایسا کیا ھے جو مجھ اے تم چھپا رھی ھو ۔۔‬
‫مہری بولی یاسر ہم اسد کی وجہ سے بہت مشکل میں پھنسے ھوے ہیں ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ہوا کیا ھے یار کچھ بتاو گی بھی ۔۔۔۔۔۔‬
‫مہری اپنے انسوں صاف کرتی ھوئی بولی ۔۔۔‬
‫یاسر اسد غلط سوسائٹی میں بیٹھنے لگ گیا تھا ۔‬
‫اور کوئی اکری نامی بدمعاش کے ڈیرے پر دن رات رہتا تھا ۔‬
‫اور ہر وقت نشے کی حالت میں رہتا تھا شراب پی کر گھر آتا اور آکر مما کے ساتھ بتمیزی کرتا تو کبھی مجھے مارتا‬
‫کہ اچانک اسکے دوست اکری کے ڈیرے پر اسکے کسی دشمن نے حملہ کیا اور کافی فائرنگ ہوئی ۔۔‬
‫جس میں اکری کے اور مخالف پارٹی کی بندے مرے ۔‬
‫اور اس دن سے اسد ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مہری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا کیا اس دن سے مطلب کیا ھے اسد کہاں ھے ۔۔‬
‫مہری میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھتے ھوے روتے ھوے نفی میں سر ہالتے ھوے بولی پتہ نہیں کدھر گیا‬
‫ھے ۔۔‬
‫نہ اسکا کوئی پتہ ھے نہ ھی اسکے دوست اکری کا ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تم لوگوں نے پتہ نہیں کروایا ۔۔۔‬
‫‪.‬مہری بولی ۔۔ہمیں تو پتہ ھی نہیں تھا وہ تو پولیس ہمارے گھر ائی تھی اسد کو تالش کرنے تو تب ہمیں ساری صورتحال کا‬
‫پتہ چال مما نے بہت کوشش کی مگر ان دونوں کا کوئی پتہ نہیں ۔۔۔‬
‫پولیس بھی ان دونوں کو تالش کررھی ھے ۔۔‬
‫انپر قتل کا کیس ھے ۔۔۔‬
‫اور جن کے بندے مرے ہیں وہ بھی بہت بڑے بدمعاش ہیں ۔۔۔‬
‫انکے بندے بھی ہمارے گھر آے تھے ۔۔۔‬
‫اور مما کو دھمکیاں دے کر گئے تھے کہ ۔‬
‫اسد کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار اتنا کچھ ھوگیا اور مجھے تم نے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔‬
‫مہری بولی کیسے بتاتی ۔۔‬
‫میں تو ایک مہینہ گھر سے ھی نہیں نکلی ۔۔۔‬
‫میں نے تو چار پانچ دن پہلے کالج جانا شروع کیا ھے وہ بھی میرے فائنل ائیر کے پیر ھورھے ہیں اور پھر میں نے کالج‬
‫بھی نہیں جایا کرنا ۔۔‬
‫میں تو چھپ کر کالج جاتی ھوں ۔۔۔‬
‫میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر بعد کہا۔‬
‫اسد کہاں ھے ۔۔ اور یہ کب ھوا سب ۔‬
‫مہری بولی ایک مہینہ سے اوپر ھوگیا ھے ۔‬
‫اور اسد کا کسی کو بھی علم نہیں اور اس کنجر بےغیرت کتے اکری کا بھی کوئی پتہ نہیں ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫لڑائی کس وجہ سے ہوئی تھی ۔‬
‫مہری بولی مجھے جہاں تک علم ھے کسی لڑکی کا چکر تھا ۔۔‬
‫اور وہ لڑکی شہر کے کسی ایم پی اے کی بیٹی تھی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی یا پتہ نہی‪ .‬کچھ اور تھا ۔۔‬
‫اصل بات کا مما کو پتہ ھے ۔‬
‫میں نے مما سے بہت پوچھا مگر مما نے مجھے ٹال مٹول کردیا۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫جن کی لڑکی تھی وہ لوگ دوبارہ تمہارے گھر نہیں آے ۔۔‬
‫مہری روتے ھوے بولی ۔‬
‫وہ تو مجھے اٹھا کر لیجانے کے لیے آے تھے ۔‬
‫مگر مما کے کوئی تعلق والے ہیں جن کا تعلق اس ایم پی اے کے ساتھ تھا ۔‬
‫انہوں نے بیچ میں پڑ کر ہماری جان بخشوائی مگر انہوں نے اسد کو معافی نہیں دی اور مما کے جو تعلق والے تھے انہوں‬
‫نے ایک ہفتہ پہلے ہمیں گارنٹی دی کہ تم بے فکر ھوکر جدھر مرضی جاو تم ماں بیٹی کی طرف وہ لوگ آنکھ اٹھا کر بھی‬
‫نہیں دیکھیں گےط۔‬
‫مگر اسد کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اگر آپ لوگوں کا اس سے رابطہ ھو بھی تو اسکو کہنا اس شہر میں بھول کر‬
‫بھی قدم نہ رکھے ۔۔۔‬
‫مہری پھدی بلک بلک کر رونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں حیران پریشان بیٹھا اس ساری فلم کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ ۔۔‬
‫یہ کیا ھوگیا ۔۔‬
‫بدلہ تو میں نے لینا تھا مگر یہ کیا ھوا سارا کام ھی خراب ھوگیا ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر مذید بیٹھا مہری کو دالسا دیتا رھا اور پھر آنے کا کہہ کر نکلنے لگا تو مہری بولی یاسر مما کو نہ بتانا کہ تم‬
‫گھر آے تھے یا تمہیں اسد کے بارے میں علم ھے کہ اسکے ساتھ کیا ھوا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور مہری کو بے فکر رہنے کا کہہ کر مہری سے ہگ کیا اور اس کے یونٹوں پر لمبی کس کی اور گھر‬
‫سے نکل کر دکان پر پہنچا تو دکان پر رش لگا ھوا تھا اور جنید بےچارا اکیال ھی پھنسا ھوا تھا مجھے دیکھ کر جیند مجھ پر‬
‫برس پڑا کہ پتہ بھی ھے میں اکیال ھوں مگر تم الپرواہ ھوکر دکان سے غائب ھو۔۔۔‬
‫میں نے سوری کیا اور کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا ۔‬
‫‪.‬مجھے دیکھ کر جیند مجھ پر برس پڑا کہ پتہ بھی ھے میں اکیال ھوں مگر تم الپرواہ ھوکر دکان سے غائب ھو۔۔۔‬
‫میں نے سوری کیا اور کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫کام میں مصروفیت کی وجہ سے پتہ ھی نہیں چال کہ کب شام ڈھل گئی ۔‬
‫جب سب کسٹمر چلے گئے تو میں کاونٹر پر آکر چئیر پر بیٹھ گیا ۔‬
‫جنید میرے پاس آیا اور بوال کدھر گئے تھے اور وہ لڑکی کون تھی ۔‬
‫میں نے کہا یار ایسی بات نہیں ھے جیسا تم سوچ رھے ھو وہ میرے دوست کی بہن تھی ۔‬
‫جنید بوال ماما مینوں ُپھدو نہ بنا ۔‬
‫ایسے تو نہیں وہ تمہارے ساتھ غصے سے بات کررھی تھی میں نے کہا یار سچی ایسی بات نہیں ھے جیسا تم سوچ رھے‬
‫ھو‬
‫جنید بوال تو پھر سچی بات کیا ھے اتنی دیر کہاں لگا کر آے ھو ۔‬
‫مًیں نے کہا یار بریک تے پیر رکھ دسنا ایں سب ۔۔۔‬
‫تو جنید بوال چلو رکھ دیا پیر بریک پر ۔‬
‫اب بولو ۔۔‬
‫میں نے کہا یار پہلے یہ بتا کہ اس دن جو تم کہہ رھے تھے کہ اکری بدمعاش کی بہن کے ساتھ تمہارا چکر چل رھا ھے‪.‬‬
‫کیا واقعی تم سچ کہہ رھے ھو ۔۔‬
‫جنید بوال ماما اوس کڑی نال اکری دی پین نال میرے چکر دا کی واسطہ ۔۔گل کیوں بدلن دیاں اے سدی طراں کے کہ دسنا نئی‬
‫۔۔۔‬
‫میں نے جنید کی ٹانگ پر پاوں مارتے ھوے کہا ماما پیلے پوری گل تے سن لے فیر پونکیں ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫چل دس فیر۔۔‬
‫میں نے کہا پہلے بتا کہ تیرا اکری کی بہن کے ساتھ چکر ھے ۔۔‬
‫جنید بوال ہاں ھے مگر صرف اکھ مٹکا ھی ھے ابھی بات چیت تک نہیں پہنچا۔۔‬
‫میں نے کہا وہ رہتی کہاں ھے مطلب کے اکری کا گھر کدھر ھے اور تیرا اس کے ساتھ کیسے‬
‫اکھ مٹکا چال۔۔‬
‫جنید بوال یار سیدھی بات کر تو کہنا کیا چاہتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار جنید ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ھے ۔‬
‫اور اس مسئلہ میں کتنی سچائی ھے یہ تب پتہ چل سکتا ھے کہ جب مجھے تیرے اور اکری کی بہن کے رلیشن کا تفصیل‬
‫سے پتہ ھوگا ۔۔۔‬

‫)‪Update no (147‬‬
‫جنید ایکدم گبھرا گیا ۔‬
‫اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ھوے بوال‬
‫او پھدی دیا کوئی نواں کٹا تے نئی کھول لیا میں تے ہالے اودا ہتھ پھڑ کے وی نئی ویکھیا۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا جا اوے لن لینی دیا ۔‬
‫تینوں اپنی پے گئی اے ۔۔‬
‫میں گل کوئی ہور کرن دیاں ایں ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫یار تو پھر پوری بات ایک ھی دفعہ بتا دے پہیلیاں کیوں بھجوا رھا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا اکری کی بہن کو ملے کتنے دن ھوگئے ہیں تمہیں ۔۔‬
‫جنید کرسی سے اٹھتے ھوے اپنے سر کو پیٹتے ھوے بوال ۔‬
‫او میرے باپ میں پونک تو رھا ہوں کہ میرا اسکے ساتھ صرف دیکھنے کی حد تک چکر ھے اور تو ملنے مالنے کی بھی‬
‫بات کری جارھے ھو ۔‬
‫میں نے جنید کی حالت کو نظر انداز کرتے ھوے کہا ۔‬
‫چل یہ ھی بتا کہ اسے دیکھے کتنے دن ہوگئے ہیں ۔‬
‫جنید بوال اسے دیکھے تو تین چار مہینے ھوگئے ہیں ۔‬
‫میں نے جنید کو گھورتے ھوے کہا ۔‬
‫پھدی دیا اے کیڑا چکر اے جیڑا معشوق نوں ویکھے ای تن مہینے ھوگئے نے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔۔‬
‫یار ہمارے ہمسایوں کی شادی تھی تو وہ انکی شادی میں آئئ تھی تو وہاں اسکے ساتھ اکھ مٹکا ھوا ۔‬
‫پھر اسکے بعد دو تین دفعہ وہ انکے گھر آئی تھی تو بس آنکھوں کے اشارے سے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیتے‬
‫تھے ۔۔‬
‫‪.‬مگر اب کافی دنوں سے وہ انکے گھر نہیں آئی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ کہ وہ اکری کی ھی بہن ھے ۔‬
‫جنید بوال میری کزن نے بتایا تھا ۔‬
‫ہمارے ہمسایوں کی لڑکی اسکی دوست ھے تو اس وجہ سے اسکا ان کے گھر آنا جانا ھے میں نے کہا یار تم تو دکان پر‬
‫ہوتے تھے پھر اسے کیسے دیکھتے تھے ۔۔‬
‫جنید بوال ماما میری کزن بتا دیتی تھی کہ اس نے آنا ھے تو میں اس دن دکان سے چھٹی کرلیتا تھا اور میرا ہمسایوں کے گھر‬
‫آنا جانا ھے میں بالجھجھک انکے گھر چکا جاتا ھوں تو اسکو دیکھنے کے لیے بہانے سے چال جاتا تھا ۔۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔۔‬
‫تو جنید بوال اب بتا کیا بات ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا یار میرا ایک دوست ھے اسکا اکری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ھے اکری کی کسی کے ساتھ لڑائی ھوئی ھے اور کافی‬
‫خون خرابہ بھی ھوا ھے ااور میرا دوست بھی اس لڑائی میں ملوث ھے اور اس وقت میرا دوست اور اکری دونوں مفرور ہیں‬
‫۔‬
‫اور یہ لڑکی میرے دوست کی بہن ھے ۔‬
‫اور اس وقت یہ بیچارے بری طرح پھنسے ھوے ہیں ۔‬
‫مخالف پارٹی بھی تگڑی ھے اپنا ایم پی اے ھے اکری کے مخالف ۔۔۔‬
‫جنید میری بات سن کر پریشان ھوگیا ۔‬
‫اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بوال ۔‬
‫تو اکری کی بہن کا اس معاملے میں کیا لینا دینا ۔‬
‫میں نے کہا یار اس سے یہ پتہ کروانا تھا کہ واقعی یہ بات سچ ھے کہ ایسے مجھے ماموں تو نہیں بنا رھے ۔۔۔‬
‫جنید بوال ھوسکتا ھے سچ ھی ھو اسکو کیا ضرورت ھے تم سے جھوٹ بولنے کی ۔‬
‫جنید کی بات سن کر میں بھی سوچنے لگ گیا کہ مہری مجھ سے جھوٹ کیوں بولے گی ۔۔۔‬
‫خیر میں نے جنید کو کہا کہ کسی طرح پتہ تو کروا اکری کی بہن سے کہ اکری کہاں مفرور ھے ۔‬
‫جنید قہقہہ لگا کر ہنسا اور بوال ۔‬
‫ماما پہلی بات تو یہ ھے کہ اکری کی بہن سے بات کرنا بہت مشکل ھے اور اگر ایسا ھو بھی جاے تو بھال وہ کیسے سچ‬
‫بتانے گی کہ اسکا بھائی کس جگہ گیا ھے ۔۔‬
‫میں نے ہممممممم کیا۔۔‬
‫اور جنید کو کہا‬
‫ویسے گل تے تیری ُسٹن والی نئی‬
‫پر‬
‫تیرے ُسٹن والی اے ۔۔‬
‫پھدی دیا اپنی کزن نوں کہ کے اپنی سیلی نوں کوے کہ اودے کولوں اگلوا لے ساری گل ۔۔‬
‫کڑیاں اک دوجے نوں راز دیاں گالں وی دس دیندیاں نے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫میں وعدہ نہیں کرتا کوشش کروں گا کہ بات بن جاے باقی ویکھی جاوے گی جو ھوے گا ۔۔۔‬
‫‪.‬کچھ دیر بعد پھر کسٹمرز کی آمد شروع ہوگئی‬
‫رات آٹھ بجے میں نے دکان بند کی ۔۔‬
‫ضوفی اب میرے ساتھ دکان بند ہونے کے بعد ھی جاتی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو بائک پر بیٹھایا اور ضوفی کے گھر کی طرف چل دیے ۔۔۔‬
‫ضوفی کام کے بارے میں پوچھتی رہی کہ آج کا دن کیسا رھا ۔۔‬
‫میں نے شکر ادا کرتے ھوے کہا کہ بہت اچھا رھا ۔۔۔‬
‫باتوں کے دوران ھی ضوفی کا گھر آگیا ۔۔‬
‫میں ضوفی کو ڈراپ کر کے آنے لگا تو ضوفی بولی یاسر ۔‬
‫کل ماہی کی برتھ ڈے ہے اگر تم آنٹی اور نازی کو لے آو ۔۔۔‬
‫میں نے کہا میں وعدہ نہیں کرتا مگر کوشش کروں گا اگر ابو نے اجازت دے دی ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔۔۔‬
‫اگر کہو تو میں تمہارے ساتھ جاکر ابو کو منا لیتی ہوں ۔۔‬
‫میں نے کہا۔۔‬
‫نننہیں نہیں کیوں مروانا ھے ابو سے ابھی بات نہیں ھوئی تمہارے اور میرے رشتہ کی اور تم یوں میرے ساتھ گئی تو تمہیں‬
‫نہیں پتہ کہ ہماری گلی کے لوگوں کے ھی منہ نہیں بند ہونے ۔‬
‫اور تمہارے بارے میں کوئی بات کرے گا تو مجھ سے برداشت نہیں ہونا۔۔۔۔‬
‫اس لیے میں کوئی نہ کوئی بہانہ مار کر امی اور نازی کو لے آوں گا ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی ٹھیک ھے جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔‬
‫میں نے بائک اسٹارٹ کی اور ۔‬
‫گاوں کی طرف چل دیا۔۔۔۔‬
‫گھر پہنچا فریش ہونے کے بعد امی سے ماہی کی سالگرہ کی بات کی تو امی نے بھی ابو کے ناراض ہونے کا عذر پیش کیا‬
‫۔میں نے بہت کوشش کی کہ امی مان جاے مگر امی نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جب تک تمہارے رشتے کی بات تمہارے ابو‬
‫سے نہیں کر لیتی تب تک ان کے ہاں آنا جانا ممکن نہیں‬
‫اگر دن کا وقت ہوتا تو شہر جانے کا کوئی بہانہ بنا لیتی مگر رات کا فنکشن ھے ۔‬
‫تمہارے ابو نے کسی حال میں بھی اجازت نہیں دینی ۔‬
‫تم اکیلے چلے جاو ۔۔‬
‫اور ان لوگوں سے میری طرف سے معذرت کر لینا۔۔‬

‫)‪Update no (148‬‬
‫میں نے بھی پھر ذیادہ اصرار نہیں کیا‬
‫۔۔‬
‫اگلے دن سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ضوفی آنٹی اور ضوفی نے امی لوگوں کا پوچھا کہ رات کو آئیں گے کے نہیں میں نے‬
‫امی کی طبیعت خراب ھونے کا بہانہ بنا کر آنٹی سے معذرت کی ضوفی کافی ناراض ھورھی تھی اور مجھے بولی جارھی‬
‫تھی کہ تم جان بوجھ کر نہیں لے کر آے وغیرہ وغیرہ ۔۔‬
‫میں نے کافی صفائیاں دینے کے بعد اسکو مطمئین کرلیا کچھ دیر بعد میں ضوفی کو ساتھ لے کر دکان پر آیا ۔۔۔‬
‫اور ضوفی نیچے پارلر پر چلی گئی اور میں دکان کھولنے میں مصروف ہوگیا ۔‬
‫جنید ابھی تک نہیں آیا تھا ۔‬
‫میں نے دکان کھولی اور صفائی وغیرہ میں مصروف ھوگیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد جنید بھی آگیا ۔۔‬
‫جنید نے آتے ھی مجھے بتایا کہ میں نے اپنی کزن کو اکری کی معلومات کے بارے میں لگا دیا ھے دو تین دن میں ساری‬
‫رپورٹ مل جاے گی ۔۔۔‬
‫میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا ۔‬
‫اور پھر ہم سیٹنگ وغیرہ میں مصروف ھوگئے۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد کسٹمرز کی آمد شروع ھوگئی آدھا دن کام میں ھی گزر گیا ۔‬
‫دوپہر کو میں سامنے والی دکان پر گیا اور ان سے کمیٹی ڈالنے کی بات کی تو پتہ چال کہ اگلے مہینے نئی کمیٹی شروع‬
‫ھونی ھے ۔‬
‫دوستو اصل میں میرا ذہن تھا کہ کمیٹیاں ڈال کر ضوفی کے پیسے جتنی جلدی ہوسکے واپس کردوں ۔‬
‫اس لیے میں نے سامنے والے انکل سے بات کی کیوں کے وہ بڑی کمیٹیاں ڈالتے تھے تو میں نے ان سے اپنی ایک کمیٹی‬
‫رکھنے کا اڈوانس کہہ دیا کمیٹی ایک ہزار روزانہ کی تھی اور ایک سال کی کمیٹی تھی تین الکھ ساٹھ ہزار کی ۔‬
‫میں نے یہ بات بھی سب سے چھپا کر ھی رکھنی تھی کہ میں نے کمیٹی ڈالنی ھے ۔۔۔‬
‫خیر سامنے والے انکل سے میں بات پکی کر کے واپس بوتیک پر آیا ۔۔‬
‫اورجنید کو کھانا لینے بھیجا اور خود دکان کے اندر ھی بیٹھ کر گالس ڈور سے باہر دیکھنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫سکول و کالج کی چھٹی کا ٹائم تھا ۔‬
‫لڑکیاں گزرنا شروع ھوگئیں ۔۔۔‬
‫اور جس بات کو میرا دل مان رھا تھا کہ مہری الزمی آے گی تو وہ ھی ھوا مہری میری دکان کے سامنے رکی اور دکان کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے اندر داخل ہوئی اور بڑی شوخی سے مجھے سالم کرتے ھوے بولی خیر ھے جناب اندر چُھپ کر بیٹھے‬
‫ہیں میں نے کہا بس ایسے ھی کچھ سیٹنگ کرنی تھی ۔۔۔‬
‫مہری پوری دکان میں گھوم پھر کر دکان جائزہ لینے لگ گئی اور ورائٹی اور دکان کی سیٹنگ کی تعریفیں کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے مہری کو کھانے پینے کا منگوانے کا کیا تو اس نے انکار کردیا اور گھر جانے کا کہا ۔۔۔‬
‫آج میں مہری کے دکان میں اتنی دیر بیٹھنے اور یوں اسکے فرینگ ھونے سے گبھرا رھا تھا ۔۔‬
‫کہ کہیں ضوفی نہ آجاے ۔۔‬
‫اور وہ کیا سوچے گی ۔‬
‫کیوں کہ مہری کالج یونیفارم میں تھی اس لیے اسکو شک پڑ جانا تھا ۔‬
‫اب میں مہری کو جانے کا بھی نہیں کہہ سکتا تھا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری بولی اچھا میں چلتی ھوں یاسر ۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے کہا ۔‬
‫مہری میں چھوڑ آوں ۔۔۔۔‬
‫میں نے تو یہ اوپر سے ھی مہری کو کہا تھا کہ میں چھوڑ آتا ہوں ۔‬
‫کہ مہری کہے گی کہ میں خود ھی چلی جاوں گی ۔۔‬
‫مگر سارا معاملہ ھی الٹ ھوگیا۔‬
‫مہری بولی ۔‬
‫اگر جناب کی دکانداری ڈسٹرب نہیں ھوتی تو چھوڑ آو۔۔۔‬
‫‪.‬میں دل ھی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگ گیا ۔۔۔‬
‫میں نے کہا اچھا تم بیٹھو لڑکا کھانا لینے گیا ھے وہ آتا ھے تو چلتے ہیں ۔‬
‫مہری بولی کتنی دیر تک آے گا میں نے کہا بس کچھ ھی دیر میں آجاے گا ۔۔۔‬
‫مہری بولی مجھے ایسے ادھر بیٹھنا مناسب نہیں لگتا ۔‬
‫دیکھنے والے کیا سوچیں گے ۔۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا ۔‬
‫کہ اچھا تو تم ایسا کرو آہستہ آہستہ چلتی جاو جیسے ھی لڑکا آیا میں اسی وقت آجاوں گا ۔۔۔‬
‫مہری بولی ٹھیک ھے میں کچھ آگے جاکر تمہارا انتظار کروں گی ۔۔‬
‫میں نے اوکے کہا ۔۔‬
‫تو مہری دکان سے نکل کر گھر کی طرف چلی گئی ۔‬
‫اور میں نے ایک لمبا سانس بھر کر چھوڑا ۔۔۔۔‬
‫کہ جنید کے آنے سے پہلے ھی مہری چلی گئی ورنہ سالے نے پھر پوچھ پوچھ میری مت مار دینی تھی ۔۔۔‬
‫مہری کے جانے کے کچھ ھی دیر بعد جنید کھانا لے کر آگیا ۔۔۔‬
‫میں اب سوچنے لگ گیا کہ اسکو اب کیا بہانہ بناوں ۔۔۔۔‬
‫پھر میں نے حوصلہ کیا اور جنید کو کہا یار میں ایک منٹ میں آیا ۔۔‬
‫جنید بوال یار اب کس دوست کی بہن کا دکھ سننے جا رھے ھو۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔‬
‫گانڈو میں ایڈا ویال وی نئی ۔‬
‫جنید بھی میرے ھی انداز میں بوال‬
‫تے ایڈا مصروف وی نئی ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا اچھا یار میں ابھی آیا ۔‬
‫جنید بوال‬
‫روٹی کھا لواں کہ اتنظار کراں ۔‬
‫میں نے کہا کھا لینا یار ۔۔‬
‫اور جنید کی بات سنے بغیر میں باہر نکال اور بائک سٹارٹ کر کے مہری کے گھر کی طرف بھگا دی ۔۔‬
‫کچھ آگے جاکر گلی کے نکڑ پر مہری کھڑی مجھے آتا دیکھ رھی تھی میری بھی نظر اس پر پڑ گئی تھی ۔‬
‫میں نے مہری کے پاس جاکر بریک لگائی اور مہری جلدی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے جھتکے سے بائک آگے بڑھا کر ہلکی سے بریک لگائی تو مہری بریک لگنے کی وجہ سے آگے کو کھسک کر‬
‫میری کمر کے ساتھ لگ گئی مہری کا مما مجھے اپنی کمر پر محسوس ھورھا تھا ۔۔‬
‫مہری میرے کندھے پر تھپڑ مارتے ھوے بولی ۔‬
‫انسان بنو ۔‬
‫مجھے گرا نہ دینا ۔۔۔‬
‫میں نے کہا اگر ذیادہ ڈر لگ رھا ھے تو جپھی ڈال لو ۔۔۔‬

‫)‪Update no (149‬‬
‫مہری نے ایک ھاتھ سے میرے کندھے کو پکڑا ھوا تھا تو اس نے میرے کندھے پر چٹکی کاٹی اور بولی ۔‬
‫کل کا جی نہیں بھرا جپھیاں ڈال ڈال کر جو اب کسر رہتی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا سونے وہ والی جپھی نہیں میں دوسری جپھی یعنی کس کر پکڑنے کا کہہ رھا ھوں ۔‬
‫وہ جپھی تو گھر جاکر ڈالوں گا ۔۔‬
‫مہری بولی ۔۔‬
‫ہممممممم تو اسی لیے مجھے چھوڑنے آے ھو ۔۔۔‬
‫میں نے کیا نہیں یار اب تم میرے ہوتے ھوے پیدل جاو تو یہ مناسب تو نہیں ۔۔۔‬
‫‪.‬اچانک میرے زہن میں آیا کہ انکے پاس تو کار بھی تھی وہ کدھر گئی ۔۔‬
‫میں نے مہری سے پوچھ ھی لیا کہ یار اسد کی کار کدھر گئی ۔‬
‫کیوں کہ کل میں نے گیراج میں کھڑی نہیں دیکھی تھی ۔‬
‫مہری بولی ۔‬
‫وہ کار اسد کی نہیں اکری کی تھی ۔‬
‫مگر رہتی اسد کے پاس ھی تھی ۔‬
‫جھگڑے کے وقت کار بھی ادھر انکے ڈیرے پر ھی تھی ۔‬
‫پتہ نہیں کیا بنا کار کا ۔‬
‫مجھے تو باس اپنے بھائی کی فکر ھے ۔‬
‫دفعہ ھوں کاریں ۔۔‬
‫بس میرا بھائی واپس آجاے۔۔‬
‫میں ہونٹوں کو بھینچتا ھوا اپنے آپ سے ھی مخاطب ہوا اسکو واپس آنا پڑے گا جیسے بھی ۔۔‬
‫مہری بولی کیا کہا۔۔‬
‫میں نے چونکتے ھوے کہا ۔‬
‫کچھ نہیں مجھے بھی بہت شدت سے اسد کا انتظار ھے ۔‬
‫پتہ نہیں بیچارہ کس حال میں ھوگا ۔۔‬
‫مزید کوئی بات ھوتی کہ مہری کا گھر آگیا ۔۔‬
‫مہری کے گھر کے سامنے بریک لگائی ۔۔تو مہری اترتے ھوے بولی آجاو اندر یاسر ۔۔‬
‫مہری کے مموں کا لمس اور یونیفارم میں اسکا سیکسی فگر دیکھتے ھی ۔‬
‫مجھے دکان بھول گئی ۔۔‬
‫میں نے کنفرم کرنے کے لیے مہری سے اس کی مما کا پوچھا تو مہری بولی مما تو رات کو ھی آتی ھے بوتیک سے ۔۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے مہری گیٹ کی طرف بڑھی اور الک کھول کر اندر داخل ھوئی میں ابھی سوچ ھی رھا تھا کہ اندر جاوں‬
‫کہ نہ جاوں ۔‬
‫کہ مہری نے مین گیٹ کھول دیا ۔‬
‫میں گیٹ کھال دیکھ کر سب سوچوں کو ایک طرف رکھتے ھوے گیئر لگایا اور ہینڈل گیٹ کی طرف گھما کر کلچ چھوڑتے‬
‫ھوے بائک اندر لے گیا۔۔۔‬
‫بائک اندر جاتے ھی مہری نے گیٹ بند کیا اور الک کر کے میرے پاس سے گزرتے ھوے ۔‬
‫میری کمر پر چٹکی کاٹ کر گول مٹول گانڈ مٹکاتے اندر چلی گئی اور میں سییییی کر کے بائک کا سٹینڈ لگاتے ھوے بائک‬
‫سے اترا اور مہری کے پیچھے چل پڑا۔۔‬
‫مہری سیدھی کمرے میں چلی گئی میں بھی اسکی تقلید میں چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا ۔‬
‫مہری نے بیگ کندھے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر آج شلوار قمیض کیوں پہنی‬
‫ھے پینٹ شرٹ تمہیں زیادہ اچھی لگتی ھے میں نے کہا بس کبھی پینٹ شرٹ پہن لیتا ھوں تو کبھی شلوار قمیض مہری نے‬
‫ہمممم کیا اور پھر بولی میں ابھی آئی تم بیٹھو یہ کہہ کر مہری باہر چلی گئی میں بیڈ پر بیٹھا کمرے کا جائزہ لینے لگ گیا ۔۔‬
‫اور چاروں طرف دیکھتے ھوے سوچنے لگ گیا کہ اگر مہری کو چودتے ھوے ویڈیو بنائی جاے تو کیمرہ کس جگہ چھپایا‬
‫جاے کہ پورا بیڈ کیمرے میں آجاے مگر کمرے کی سیٹنگ ھی ایسی تھی کہ کہیں بھی مجھے وہ جگہ نظر نہ آئی جہاں سے‬
‫کیمرہ مہری کی نظر میں آے بغیر رکاڈنگ کرے ۔۔‬
‫کچھ سوچتے ھوے میں نے اس پالن کو کوئی اور رنگ دینے کا سوچا اور مہری کے آنے کا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری ہلکے پنک کلر کے سوٹ میں ملبوس ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کی ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ھوئی۔۔‬
‫مہری نے فٹنگ میں بلکل شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی اور شفون کا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر مموں کے اوپر کیا ھوا تھا‬
‫۔۔‬
‫‪.‬اور گولڈن کلر کے سلکی بال جو اسکے کندھوں سے تھوڑا سا نیچے تھے انکو کچھ اپنے آگے اور کچھ پیچھے کیے ھوے‬
‫بڑی ادا سے چلی آرھی تھی‬
‫مہری پر پنک کلر بہت ھی جچ رھا تھا ۔۔‬
‫میں نے مہری کی طرف غور سے دیکھتے ھوے تعریفی کلمات کہے ۔۔‬
‫مہری کے گالبی ہونٹوں پر مسکان آئی اور مہری بڑی ادا سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی اچھا جی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫خوبصورت چیز کو دیکھ کر تعریف خود با خود منہ سے نکل جاتی ھے ۔۔‬
‫مہری ٹرے میرے سامنے کرتے ھوے بولی ۔‬
‫تعریف تو ایسے کررھے ھو جیسے پہلی دفعہ دیکھا ھے ۔‬
‫میں ٹرے سے گالس اٹھاتے ھوے بوال ۔۔‬
‫مہری تم ہو ہی اتنی خوبصورت کہ تمہیں جب بھی دیکھوں تو ایسے لگتا ھے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رھا ھوں ۔۔‬
‫میرا تو دل کرتا ھے کہ تم ہر وقت میرے سامنے ھو ۔۔‬
‫کسی فلمی ایکٹر کی طرح تمہارا فگر ھے ۔‬
‫مہری میرے پاس بیٹھتے ھوے بولی ۔‬
‫اچھا جی‬
‫میں نے کہا ھاں جی ۔‬
‫مہری میرے کندھے پر کہنی رکھتے ھوے بولی ۔‬
‫ذرہ بتانا پسند کرو گے کہ کون سی ایکٹر کے جیسی لگتی ھو۔۔‬
‫میں نے مہری کی طرف غور سے دیکھا اور اسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر اسکے نچلے گالبی ہونٹ پر انگوٹھا پھیرتے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫مادھوری ڈکشٹ کی طرح تمہارے ہونٹ اور تمہاری مسکان ھے ۔‬
‫مہری تعریف سن کر مذید شوخی میں بولی ۔‬
‫اور تم شاہ رخ ھو ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔‬
‫تو پھر ہماری بھی ایک فلم بننی چاہیے ۔۔‬
‫مہری ہنستے ھوے بولی اور فلم بننے سے پہلے ھی فالپ ھوجاے ۔۔۔‬
‫میں نے ڈرنک ختم کر کے گالس رکھتے ھوے ۔‬

‫)‪Update no (150‬‬

‫مہری کی کمر میں ھاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگاتے ھوے کہا ۔‬
‫ہماری فلم لوگوں کے دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ ہم دونوں کے ھی دیکھنے کے لیے بنے گی ۔۔۔‬
‫مہری بولی اسکا کیا فائدہ ۔۔‬
‫میں نے مہری کی گردن پر ہونٹ رکھتے ھوے کہا ۔‬
‫اسکا یہ فائدہ ھوگا کہ ہماری مالقات کی یادیں ویڈیو میں قید ھوجائیں گی جب بھی ان یادوں کو تازہ کرنے کا دل کیا تو ویڈیو‬
‫دیکھ لیا کریں گے ۔۔۔‬
‫مہری سیییییییییی کرتے ھوے بولی ۔۔‬
‫بس بس بس تم تو پکے ھی ھوگئے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تو میں کب مزاق کررھا ھوں ۔۔‬
‫مہری میری طرف غور سے دیکھتے ھوے بالوں کو پیچھے جھٹک کر بولی ۔۔‬
‫اسکا مطلب ھے کہ تم سچ میں اپنی ویڈیو بنانے کی بات کررھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا ھاں جان ۔‬
‫کیوں تمہیں شوق نہیں کہ ہماری ہر مالقات یادگاری کے طور پر ہمیشہ ہمارے پاس رھے ۔۔۔‬
‫مہری ہنستے ھوے کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوے بولی‬
‫توبہ توبہ کیوں بدنام کرنے کا پالن بنا رھے ھو ۔‬
‫میں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ھوے کہا۔‬
‫کیا مطلب مہری ۔۔‬
‫‪.‬میری بولی کہ مطلب صاف ھے کہ اگر کسی نے ویڈیو دیکھ لی تو سوچو پھر میری کتنی بدنامی ہوگی ۔۔۔‬
‫میں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ھوے مہری کو کہا ۔‬
‫بہت دکھ ھوا مہری تمہاری بات سن کر تم نے مجھے اتنا گھٹیا سمجھ لیا کہ میں تمہیں بدنام کروں گا ۔‬
‫تمہاری ویڈیو لوگوں کو دیکھاتا پھروں گا ۔۔‬
‫مہری میں نے تو صرف اپنی مالقاتوں کو یادگار بنانے کے لیے اپنے دل کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور تم تم تم ۔۔۔‬
‫میں یہ کہتے ھوے اٹھ کھڑا ھوا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔‬
‫میرا تیر بلکل نشانے پر لگا ۔۔‬
‫اور مہری بھاگتی ھوئی میرے پیچھے آئی اور میرا‬
‫ہاتھ پکڑ کر کھینچ کر مجھ روک کر بولی ۔۔۔‬
‫یاسر بات تو سنو ۔‬
‫میں نے کہا نہیں مہری جب تم کو مجھ پر بھروسہ ھی نہیں تو پھر میرا یہاں رکنا بیکار ھے ایسے میری وجہ سے تم بدنام‬
‫ھوگی ۔۔‬
‫مہری چند قدم آگے بڑھی اور میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی ۔‬
‫یاسر میری بات کا تم نے الٹ مطلب لے لیا ۔۔میں نے یہ تو نہیں کہا کہ تم مجھے بدنام کرو گے یا تم میری ویڈیو کسی کو‬
‫دیکھاو گے ۔۔۔‬
‫میں تو یہ کہنا چاہ رھی تھی کہ اگر کسی نے ویڈیو دیکھ لی یا کسی کے ہاتھ لگ گئی تو ہم دونوں کی بدنامی ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا چھوڑو مہری تم نے تو میرا دل ھی توڑ کر رکھ دیا ۔‬
‫میں تو ویسے ھی بات کررھا تھا میں کون سا کیمرہ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا ۔۔۔‬
‫تم میرا دل رکھنے کے لیے ھی کہہ دیتی ۔۔۔۔‬
‫مہری بولی ۔۔‬
‫یاسر تمہاری قسم تم پر مجھے پورا بھروسہ ھے میرا سب کچھ تو تم نے دیکھ لیا ایک لڑکی کے پاس سب سے قیمتی چیز‬
‫اسکی عزت عصمت ھی ھوتی ھے جب وہ ھی تمہیں دے چکی ھوں تو میرے پاس بچا ھی کیا ھے جو میں تم پر بھروسہ نہ‬
‫کروں تم پر بھروسہ تھا تو تمہیں اپنے قریب آنے دیا اور سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ھوے مہری چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر‬
‫گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتے ھوے رونے لگ پڑی ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر کھڑا مہری کو دیکھتا رھا ۔۔‬
‫اور پھر آگے بڑھ کر مہری کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اسکے ہاتھوں کو پکڑ کر اسکے چہرے سے ہٹایا اور مہری‬
‫کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے مہری کی کمر کو سہالنے لگا ۔۔۔۔‬
‫مہری کچھ دیر میرے سینے کے ساتھ لگی روتی رھی اور پھر مجھ سے الگ ہوئی اور ۔۔۔‬
‫میرا ہاتھ پکڑ کردوسرے ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتی ھوئی ۔‬
‫بیڈ کی طرف لیجانے لگی ۔‬
‫‪.‬میں خاموشی سے اسکے ساتھ چلتا ھوا بیڈ کے قریب پہنچا ۔‬
‫مہری نے میرے دونوں بازوں کو پکڑا اور مجھے بیڈ پر بیٹھاتے ھوے بولی ادھر بیٹھو یاسر ۔۔‬
‫میں مہری کی طرف دیکھتے ھوے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫مہری میرے بازو چھوڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل گئی ۔۔‬
‫میں حیرانگی سے اسے جاتا دیکھتا رھا اور سوچنے لگ گیا کہ یہ اب کیا کرنے گئی ھے ۔۔۔‬
‫کچھ ھی دیر میں مہری جب کمرے میں داخل ھوئی تو اسکے ھاتھ میں ہینڈی کیم تھا ۔۔۔‬
‫مہری تیز تیز قدم اٹھاتی میرے سامنے آکر کھڑی ھوگئی اور کیمرے واال ھاتھ میری طرف بڑھاتے ھوے بولی یہ لو یاسر ۔۔‬
‫اپنے دل کی خواہش پوری کر لو ۔۔‬
‫میں نے مہری کی طرف بڑے غور سے دیکھا مہری کے چہرے پر معصومیت دیکھ کر ۔۔۔‬
‫ضمیر ساب نے میری چھترول شروع کردی ۔۔۔۔‬
‫شرم کرو یاسر اسد کی غلطی کا بدال اسکی بہن سے لے رھے ھو اسکا بیچاری کا کیا قصور ھے ۔‬
‫یہ تو اپنے بھائی کی کرتوت سے العلم ھے ۔‬
‫اگر تم بھی اسد کی بہن کی ویڈیو بنا کر اسکو بدنام کرو گے یا بلیک میل کرو گے تو تم میں اور اسد میں کیا فرق رھ جاے گا‬
‫۔‬
‫مرد بنو عورت کا سہارہ لے کر لڑنا مردوں کا نہیں ہجڑوں کا کام ھے ۔‬
‫اگر اسد سے بدلہ لینا ھی ھے تو مرد بن کر اسکا اور اکری کا مقابلہ کرو ۔‬
‫ورنہ خاموشی اختیار کرلو ۔۔۔‬
‫اسد نے بھی عظمی کو دھوکا دیا تھا ۔‬
‫اور تم اسد کی بہن کو دھوکا دے کر کون سا تیر مار لو گے ۔۔۔‬
‫میں اپنے ضمیر سے چنگی چھترول کرواتے ھوے سوچ میں گم تھا کہ مہری نے میرے کندھے کو ہالتے ھوے کہا کیا ھوا‬
‫یاسر کس سوچ میں گم ھو ۔‬
‫میں غصے سے نہیں اپنی رضامندی سے تمہیں کہہ رھی ھوں ۔۔‬
‫پکڑو کیمرہ اور بتاو کیسے ویڈیو بنانی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے مہری کے ہاتھ سے کیمرہ پکڑا اور کیمرہ کو بیڈ پر پھینکتے ھوے مہری کے دونوں بازوں کو پکڑ اپنی طرف‬
‫کھینچا تو مہری میرے اوپر آکر گری اور میں مہری کو سینے کے ساتھ لگاتے ہوے پیچھے کی طرف لیٹ گیا ہم دونوں‬
‫کے پاوں بیڈ سے نیچے تھے مہری میرے اوپر لیٹی ھوئی تھی اور میں مہری کے نیچے ۔۔۔‬
‫مہری کے ممے میرے سینے کے ساتھ اور پھدی میرے لن کے اوپر ااور مہری کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا‬
‫مہری کے سلکی بالوں نے آگے آکر ہم دونوں کے چہروں کو چھپا لیا تھا ۔۔۔‬
‫مہری میری آنکھوں میں اور میں مہری کی آنکھوں کھویا ھوا تھا ۔‬
‫ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھی جارھے تھے ۔۔۔‬
‫مہری کے ہونٹ ہلے ۔‬
‫کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رھے ھو ۔۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا ۔‬
‫دیکھ رھا ھوں کہ تم کو مجھ پر کتنا یقین ھے ۔۔‬
‫مہری میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔‬
‫کیوں کوئی شک ھے ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا۔۔‬
‫مہری بولی ۔‬
‫‪.‬تو پھر کیا سوچ رھے ھو۔۔‬
‫میں نے کہا اگر میں واقعی تم کو بدنام کردوں تو ۔‬
‫مہری مسکرا کر بولی کردو۔‬
‫میں نے کہا اگر میں ویڈیو لوگوں کو دیکھا دوں تو ۔۔‬
‫مہری بولی دیکھا دینا ۔۔‬
‫اگر تمہیں ایسا کرنا اچھا لگے گا اور اس سے تمہیں سکون ملے گا تم خوش ھوگے تو ۔‬
‫میں تمہاری اس خوشی کے لیے بدنام ھونے میں بھی فخر محسوس کروں گی کے میری بدنامی سے تمہیں خوشی مل رھی‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫مہری کے اس جواب نے مجھے الجواب کردیا ۔۔‬
‫اور میرے ہونٹ بے اختیار مہری کے ہونٹوں کی طرف بڑھے اور پھر میں نے گالب کی پتیوں کا رس پینا شروع کردیا ۔۔۔‬
‫مہری بھی میرے ساتھ چمٹی ھوئی کسنگ میں میرا برابر کا ساتھ دے رھی تھی ۔‬
‫دس پندرہ منٹ ہم اسی حالت میں لیٹے ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے ۔‬
‫میں کسنگ کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ مہری کی گردن میں ڈال کر اسکے بالوں کو سہال رھا تھا اور دوسرا ھاتھ مہری کی نرم‬
‫ابھری ھوئی گانڈ پر لیجا کر شارٹ شرٹ کو گانڈ سے ہٹاکر گانڈ کی ایک پھاڑی کو پکڑ کر مٹھی میں بھینچے ھوے گانڈ کی‬
‫دراڑ میں کبھی انگلی پھیرتا تو کبھی پورا چپہ ۔۔۔۔۔‬
‫شلوار میں میرا لن تن چکا تھا اور میری قمیض مہری کے اوپر آنے کی وجہ سے لن سے اوپر ھو چکی تھی اور مہری کی‬
‫شرٹ تو پہلے ھی شارٹ تھی جس کی وجہ سے ہم دونوں کی قمیضیں لن اور پھدی سے اوپر تھیں جسکی وجہ سے میرا لن‬
‫شلوار کو تمبو بناے مہری کے چڈوں میں گھسا ھوا تھا۔۔۔‬
‫مہری کی شلوار کا کپڑا بہت ھی سوفٹ اور مالئم تھا ۔ مٹھی میں بھینچا ھوا‬
‫مہری کی گانڈ کا ایک حصہ ایسے لگ رھا تھا جیسے بلکل ننگا ھو‬
‫ایک کپڑا ریشم کی طرح مالئم دوسرا مہری کی گانڈ بھی ریشم کی طرح مالئم اور روئی سے نرم اففففففففف کیا ھی مزہ‬
‫تھا ۔۔۔۔‬
‫اور نیچے شلوار میں سے لن کا مہری کے مالئم چڈوں میں پھدی کے ساتھ رگڑنا ھاےےےےےےےےےےے کیا مزے‬
‫کی کیفیت تھی کاش میں لفظوں میں اس مزے کی کیفیت کو بیان کرسکتا۔۔۔‬
‫خیر ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے گھوم کر مہری کو اپنے نیچے کیا اور اسکے اوپر سے ہٹ کر بیڈ سے نیچے کھڑا ھوگیا۔۔‬
‫اور اپنی قمیض اور بنیان اتارنے لگ گیا مہری بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکاے مجھے قمیض اتارتے دیکھنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے قمیض اتار کر ایک طرف رکھی اور مہری کے اور تھوڑا سا جھکا اور مہری کی دونوں کالئیوں کو پکڑ کر مہری‬
‫کو اپنے سامنے کھڑا کرلیا ۔۔۔‬
‫اور مہری کی شرٹ کو پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو مہری نے دونوں بازو چھت کے طرف سیدھے اوپر کھڑے کرلیے ۔۔‬
‫میں نے مہری کی شرٹ اتار کر اسکے بازوں سے نکالی اور ایک طرف رکھ دی ۔‬
‫مہری اب پنک کلر کی برا میں ننگی میرے سامنے کھڑی تھی ۔‬
‫مہری نے برا بھی اپنے جسم کے کلر جیسا ھی پہنا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫مہری اس حالت میں بہت ھی سیکسی لگ رھی تھی ۔‬
‫مہری کا فگر دیکھ کر میرا لن تو جھٹکے مارتا ھوا پھٹنے واال ھوگیا ۔۔۔‬
‫میں نے مہری کے جسم کا جائزہ لیا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا مہری نے میرے لن کو مٹھی میں بھرا اور‬
‫چھوڑ دیا اور میری طرف دیکھ کر افففففففففففف کیا میں نے پھر مہری کا ہاتھ لن پر رکھا اور اسکو دبانے کا کہا ۔‬
‫مہری میری آنکھوں میں نشیلی آنکھوں سے دیکھتے ھوے لن کو دبانے لگ گئی ۔۔‬
‫‪.‬میں نے ہاتھ اپنے نالے پر لیجا کر نالے کی گانٹھ کو کھول دیا اور شلوا کو تھوڑا ڈھیال کیا تو شلوار میرے پیروں کی طرف‬
‫جانے کی بجاے مہری کے ہاتھ میں پکڑے لن کے ساتھ اٹک گئی میں نے مہری کا ھاتھ لن سے چھڑوایا تو شلوار میرے‬
‫پیروں میں چلی گئی اور میرا لن پھنکارتا ھوا مہری کے ننگے پیٹ کے سامنے جھومنے لگ گیا۔۔۔‬
‫مہری سر جھکا کر آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫اور افففففففففف اتنا بڑا او مائی ۔۔۔۔‪ ،‬کہتے ھوے میرے لن کو ڈر ڈر کر ایسے ہاتھ لگانے لگ گئی جیسے پہلی دفعہ لن دیکھ‬
‫رھی ھو ۔۔۔‬
‫میں نے کہا مہری کیسا لگا ۔۔۔‬
‫مہری بولی یاسر مجھے تو یقین ھی نہیں ھورھا کہ اتنا بڑا میں نے اندر لے کیسے لیا تھا ۔۔۔‬
‫میں نے مہری کی پھدی پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا اسکی اب میرے لن کے ساتھ دوستی ھوگئی ھے اس لیے سارا اندر لے لیا‬
‫تھا ۔۔۔‬
‫مہری بولی ۔۔‬
‫یاسر تم یر لحاظ سے فٹ ھو ۔۔۔‬
‫خوش قسمت لڑکی ہوگی جس کے ساتھ تمہاری شادی ھوگی ۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے موضوع تبدیل کرتے ھوے کہا ۔۔‬
‫مہری اسے پیار نہیں کرو گی ۔۔۔‬
‫مہری میری طرف دیکھتے ھوے مسکرائی اور اثبات میں سر ہال کر مجھے بازوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا اور خود میرے‬
‫قدموں میں پاوں کے بل بیٹھ گئی اور میرے لن کو جڑ سے پکڑ کر ہالنے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر لن تو پھٹنے واال‬
‫ھوا تھا کیسے ہلتا وہ تو ایک دم تن کر کھڑا تھا ۔‬
‫اور ٹوپا ایسے پھوال ھوا تھا جیسے ۔‬
‫سوجا ھو ۔‬
‫)‪Update no (151‬‬
‫مہری کچھ دیر لن کو دونوں ہاتھوں میں لے کر سہالتی رھی‬
‫مہری کے روئی سے نرم ہاتھوں میں جادو تھا میرا لن تو اپنے آپ سے باہر ھونے لگ گیا تھا ۔۔۔‬
‫بہت ھی نرم اور مالئم ہاتھ تھے مہری کہ ۔۔۔‬
‫مہری بڑے سلو موشن میں لن جو سہال رھی تھی اور شرارتی انداز سے کبھی لن کی موٹائی چیک کرتی تو کبھی لن کی‬
‫لمبائی چیک کرتے ھوے اپنی نشیلی آنکھیں میری طرف کر کے اشارے سے واوووووو کیا بات ھے کہتی ۔۔۔۔۔‬
‫پھر مہری نے اپنی سرخی مائل زبان نکالی اور لن کو ٹوپے سے پکڑ کر لن کی جڑ سے زبان پھیرتے ھوے اوپر کی طرف‬
‫النے لگی ۔‬
‫اور ٹوپے کے کنارے سے زبان کو واپس لن کی جڑ تک لے جاتی ۔۔‬
‫اور کبھی ٹوپے کے چاروں اطراف زبان کو پھیرتے ھوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف دیکھ کر آنکھوں کی زبان سے‬
‫پوچھتی کہ سہی چوپا لگا رھی ھوں نہ مزہہہہ آرھا ھے نہ ۔۔۔‬
‫میں اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرا کر ہاں کہہ دیتا۔۔۔‬
‫مہری پانچ منٹ تک لن کو مختلف زاویوں سے چاٹتی اور چوستی رھی اور پھر میری طرف دیکھ کر بڑی معصومیت سے‬
‫بولی ۔۔‬
‫بس میں نے کہا ہمممممم ۔‬
‫اور پھر مہری کھڑی ھوئی تو میں بھی کھڑا ھوگیا اور شلوار جو پیروں سے نکاال اور مہری کے ساتھ ایک جپھی ڈال کر‬
‫اس کے یونٹوں کو چوم کر‬
‫چوپا لگانے کا شکریہ ادا کیا اور مہری کو گھما کر دوسری طرف منہ کیا اور پھر مہری کو آگے کی طرف جھکنے کا کہا‬
‫مہری نے سوالیاں نظروں سے میری طرف دیکھا مگر مین نے اسکے کندھوں کو پکڑ کر آگے کی طرف جھکا دیا مہری‬
‫نے جھک کر بیڈ کے میٹرس پر ہاتھ رکھ لیے ۔۔۔‬
‫میں نے مہری کی شلوار کی السٹک میں انگوٹھے پھنساے اور نیچے کو ذور لگاتے ھوے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کر‬
‫کے چھوڑ دی شلوار مہری کے قدموں میں جاگری ۔‬
‫اور مہری کی چمکتی گول مٹول چٹی سفید گالبی مانند گانڈ میرے سامنے تھی ۔۔۔‬
‫‪.‬میں نے لن پر تھوک پھینکا اور تھوڑا سا جھک کر مہری کی پھدی میں ٹوپا اڈجسٹ کرنے لگا ۔۔‬
‫مہری تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکی گانڈ کو سہالتے ھوے اسے تھاپی دی ۔۔۔‬
‫اور ٹوہا اسکی گیلی پھدی کے لبوں میں پھنسا کر اسکی پتلی کمر کو پکڑ کر ہلکا سا گھسا مارا‪ ،‬۔۔‬
‫میری ہاےےےےےےے کرتی ھوئی آگے کو ھونے لگی مگر میں نے اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا اس لے اس سے آگے‬
‫نہیں ھوا گیا ۔۔‬
‫پہلے گھسے میں ٹوپا ھی پھدی کے اندر گھسا تھا ۔‬
‫باقی کا لن ابھی باہر ھی تھا۔۔‬
‫میں نے کچھ وقفہ دیا اور پھر گھسا مارا تو آدھا لن اندر گھس گیا مہری ھاےےےےےےےےے مییییممی ممی کرتے ھوے‬
‫آگے ھونے کی کوشش کرنے لگی میں نے اسی وقت تیسرا گھسا مار کر لن سارا ھی اندر گھسا دیا ۔۔‬
‫مہری نے ذوردار چیخ ماری ۔‬
‫آئیییییییییییییی مرگئی ۔۔۔‬
‫یاسسسسررررررر باہر نکالو‪ .‬ظالم ماردیا ۔۔۔۔۔‬
‫اففففف ھاےےےےےےےےےے پلیززززززز یاسررررر باہر نکالو ۔۔‬
‫مہری پوری کوشش کررھی تھی کہ کسی طرح لن باہر نکل جاے مگر اسکی پتلی نازک کمر میری گرفت میں تھی ۔۔‬
‫میری ھاےےےےےے مما ھاےےےے مما جی ۔‬
‫کری جارھی تھی ۔۔‬
‫میں کچھ دیر رک کر اسے نارمل کرتا رھا ۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری نارمل حالت ھوگئی ۔۔۔۔تو میں نے ہلکے ہلکے گھسے مارنے شروع کردیے مہری اب بھی آہ اہ آہ آہ آہ آہ‬
‫آہ آہ آہ آہ آہ سی سی سی سیییییاففاففا‪ .‬اففف اف اف اف آہ آہ آہ ھاےےے ھاےےے کر رھی تھی مہری کی سیکسی آوازیں‬
‫مجھے بہت مزہ دے رہیں تھی ۔۔‬
‫میرے گھسوں کی رفتار تیز ھوتی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے اب مہری کی کمر کو چھوڑ کر اسکے سلکی بالوں کو اکھٹا کر کے مٹھی میں بھر لیا تھا جس سے میری کا چہرہ‬
‫اوپر اٹھ گیا تھا ۔‬
‫اور دوسرے ھاتھ سے میں نے مہری کے بریزیر کے بیک چورس سٹرپ کو پکڑ لیا تھا ۔‬
‫اور مہری میرے آگے گھوڑی بنی ھوئی تھی اور میں اس پوپٹ گھوڑی کی لگامیں پکڑے چود رھا تھا ۔‬
‫مہری کی آہیں اب سسکاریوں میں بدل چکی تھیں ۔۔‬
‫مہری اب پیچھے ہو یو کر گانڈ میری رانوں کے ساتھ مارتے ھوے چدائی کا فل مزہ لے رھی تھی ۔۔‬
‫چدائی زورو شور سے جاری تھی کمرے میں تھپ تھپ کی آوازوں کے ساتھ مہری کی سیکسی آوازیں ۔‬
‫آہ آہ یس یس یس ‪yes yesssss yesssss fuck fuck fuck yasir ahhhhhhhh ufffffff yesssssss‬‬
‫کی آوازیں گونج رہیں تھی کہ یکلخت مہری کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے لگی اور مہری پورے زور زور سے پیچھے کو‬
‫ھونے لگی اور ‪m coming m coming yaaaaaa fasttttttt ahhhhhhhh yassssssir‬‬
‫کرتے ھوے جھٹکے کھانے لگ گئی اور مہری کی پھدی سے منی کی برسات ہونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری نارمل ھوئی تو میں نے لن باہر نکالنے کی زحمت گوارا نہ کی اور ویسے ھی پھر گھسے مارنے لگ گیا‬
‫اور دس بیس گھسے مار کر میں جیسے ھی چھوٹنے واال ہوا میں نے جلدی سے لن باہر نکاال اور مہری کی گانڈ کے اوپر‬
‫ٹوپا کر کر مٹھ مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫‪.‬اس سے پہلے کہ میرے لن سے منی نکلتی ۔‬
‫مہری کو پتہ نہیں کیا سوجی ۔‬
‫مہری یکلخت گھومی اور میرے لن کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئی اور میرا ہاتھ لن سے ہٹا کر خود لن کو پکڑ کر مٹھ‬
‫مارنے لگ گئی اور پھر جب لن سے منی پھوٹی تو مہری نے ٹوپے کا منہ اپنے گلے کی طرف کر دیا اور منی کی پچکاریاں‬
‫مہری کے گلے پر گرنے لگ گئیں اور پھر بریزر سے باہر ننگے مموں کے حصہ کے اوپر منی کی چند پچکاریاں گریں ۔۔۔‬
‫اور مہری کے گلے سے منی بہتی ھوئی اسکے مموں کی دراڑ میں جانے لگی ۔۔۔‬
‫میں ابھی لمبے لمبے سانس لے ھی رھا تھا کہ اچانک ۔‬
‫باہر گیٹ کی بیل بجی ۔۔‬
‫مہری نے جھٹکے سے میرا لن چھوڑا اور میں بھی سانس لینا بھول گیا کہ ۔۔۔۔۔‬

‫)‪Update no (152‬‬
‫باہر گیٹ پر کسی کی موجودگی سے مہری کا رنگ بھی اڑ گیا اور میرا بھی ۔۔۔‬
‫مہری نے جلدی سے اپنا دوپٹہ پکڑا اور اپنے گلے اور مموں سے منی صاف کرنے لگ گئی اور مہری نے مجھے بھی‬
‫جلدی سے کپڑے پہننے کا کہا ۔۔‬
‫میں بھی جتنی جلدی ھوسکتا تھا اتنی سپیڈ سے کپڑے پہننے لگ گیا اس دوران چار سے پانچ دفعہ بیل بج چکی تھی ۔۔‬
‫ہم دونوں نے جلدی سے کپڑے پہنے تو مہری کانپتی آواز میں بولی یاسر اگر مما ھوئی تو کیا ھوگا ۔۔‬
‫میں نے کہا یار حوصلہ رکھو ایسے گبھراو گی تو جو کوئی بھی ھوا اسکو شک پڑجاےگا ۔‬
‫مہری بولی یاسر تم بیٹھک میں چلے جاو اور اگر میں کچھ دیر نہ آئی تو سمجھ لینا کہ مما ھے اور تم بیٹھک کا بیرونی‬
‫دروازہ کھول کر نکل جانا ۔‬
‫اور دس پندرہ منٹ بعد باہر کے گیٹ کی بیل دینا ۔‬
‫میں مما کو مطمئن کر لوں گی کہ تم بائک ادھر کھڑی کر کے کہیں گئے تھے ۔۔۔‬
‫اور اگر کوئی اور ھوا تو پھر میں جلد ھی تمہیں بتا دوں گی ۔۔‬
‫مہری ایک ھی سانس میں ساری پالننگ مجھے سمجھاتےھوے بیٹھک کی طرف مجھے لیجانے لگی ۔‬
‫بیٹھک کے دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے مہری کو تسلی دی اور‬
‫میں جلدی سے بیٹھک میں داخل ھو کر دروازے کے پاس ھی پردے کی اوٹ میں کھڑا ھوگیا اور کان گیراج کی طرف لگا‬
‫لیے ۔‬
‫کچھ دیر میں مہری کی آواز آئی کون ۔ باہر والے کی آواز مجھے نہیں سنائی دی ۔۔‬
‫ڈر کے مارے میری بھی ٹانگیں کانپ رھی تھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو میرا دل ذور ذور سے دھڑکنے لگ گیا ۔‬
‫اور پھر مہری کے ہنسنے کی آواز کے ساتھ دوسری آواز میرے کانوں میں پڑی تو آواز سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے کہ‬
‫یہ آواز تو جانی پہچانی ھے ۔‬
‫میں دماغ پر ذور دینے لگ گیا ۔‬
‫آنے والی لڑکی تھی اور مہری کی فرینڈ تھی جو بڑی بےتکلفی سے مہری سے بات کرتے ھوے کہہ رھی تھی کہ‬
‫یار کب کی بیل دے رھی ہوں کدھر مصروف تھی ۔۔‬
‫میں تو واپس جانے لگی تھی ۔‬
‫اورمہری اسے اوپر والی منزل پر ہونے کا بہانہ لگا رھی تھی ۔‬
‫دونوں کی آوازیں دروازے کے قریب سے ھوکر دور ہوتی گئیں ۔۔۔‬
‫میں نے شکر ادا کیا کہ مہری کی مما نہیں ھے ورنہ بہت مسئلہ بن جانا تھا ۔‬
‫خیر میں لڑکی کی آواز کو پہچاننے کی کوشش کررھا تھا ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد مہری بیٹھک میں داخل ہوئی اور خوشی سے چہک کر بولی ۔‬
‫شکر ھے بچ گئے ۔‬
‫میں نے کہا کون تھا ۔‬
‫مہری بولی میری کالس میٹ ھے ادھر گلی میں ھی رہتی ھے ۔‬
‫اچانک میرے دماغ میں سویرا کا آیا کہ ہو نہ ھو یہ وہ ھی ھے ۔‬
‫میں نے مہری سے پوچھا کہ اب میں کیا کروں تو مہری بولی میں اسے کمرے میں بٹھا کر آئی ہوں ۔۔‬
‫تم جلدی سے بائک باہر نکال کر چلے جاو اور گیٹ بڑے آرام سے کھولنا اور اور ویسے ھی آرام سے بند کردینا میں جاکر‬
‫اسے باتوں میں لگاتی ہوں ۔۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور مہری بولی ایک منٹ رکو اور مہری باہر نکل کر جائزہ لیتے ھوے پردا سرکا کر اشارے سے مجھے‬
‫نکلنے کا کہا میں جلدی سے گیراج سے ھوتا ھوا گیٹ کی طرف بڑھا اور آرام سے گیٹ کھوال اور بائک باہر نکال کر گیٹ‬
‫ویسے ھی بند کر کے جلدی سے بائک سٹارٹ کر کے دکان کی طرف چل پڑا ۔‬
‫دکان پر پہنچا تو جنید ساب کی سڑی باتیں سننے کو ملیں ۔۔‬
‫مشکل سے اسے چپ کروایا اور پھر کام میں مصروف ہوگیا ۔۔‬
‫جنید وقفے وقفے سے مجھے سمجھا رھا تھا کہ یار یہ اچھی بات نہیں ھے دکان سے اتنی دیر غائب ہونے لگ گئے ھو ۔‬
‫اب تمہاری اپنی دکان ھے مالزمت نہیں کہ جب دل کیا جدھر مرضی چلے گئے ۔‬
‫اگر اوپر والے نے تمہاری سنی ھے تو میرے بھائی اس ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھاو ۔۔۔‬
‫میں نے جنید سے وعدہ کیا کہ یار بس غلطی ھوگئی ۔۔‬
‫آئیندہ احتیاط کروں گا۔۔‬
‫شام کو ہم نے دکان جلدی بند کی اور میں ضوفی کو لے کر گھر جانے کے لیے نکال تو ضوفی نے کہا کہ‬
‫یاسر کالونی کی طرف چلنا ھے میں نے کیا ادھر کیا کرنے جانا ھے ۔‬
‫ضوفی بولی میری فرینڈ ھے اسکو ساتھ لے کر گھر جانا ھے اس کو النے واال کوئی نہیں ھے ۔‬
‫اور اس نے ماہی کی برتھ ڈے پر آنا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا یار کالونی تو بہت دور ھے ہمیں آدھے گھنٹے سے ذیادہ وقت لگ جانا ھے ادھر جاتے جاتے اور خیر سے اتنی‬
‫دور تمہاری‬
‫کون سی سہیلی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے پہلے تو کبھی نہیں تم سے سنا کہ اتنی دور بھی تمہاری کوئی خاص سہیلی رہتی ھے ۔۔‬
‫ضوفی بولی چلو تو سہی تم اسے جانتے ھو ۔۔‬
‫میں نے بائک کالونی کی طرف موڑی اور حیرانگی سے کہا کون سی ھے یار مجھے یاد نہین آرھا ۔۔‬
‫ضوفی میرے پیچھے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنا مما میری کمر کے ساتھ لگا کر چپک کر بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫ضوفی نے میرے پیٹ پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا۔۔‬
‫بونگے ایک ھی تو میری سہیلی ھے ۔‬
‫جو پہلی دفعہ میرے ساتھ تمہاری دکان پر آئی تھی سوٹ لینے ۔۔۔‬
‫میں نے لمبا سااااا اچھااااااا کیا ۔‬
‫اور بوال ۔‬
‫ہاں یاد آیا اسکا نام ثانیہ ھے نہ ۔۔۔‬
‫ضوفی نے پھر میرے پیٹ پر چٹکی کاٹی اور بولی ۔‬
‫بڑی بات ھے نام بھی یاد ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫اس دن تم نے ھی تو اسکو اسی نام سے پکارا تھا ۔‬
‫۔ضوفی بولی میں تو اسے اسکے نک نیم سے پکارتی ہوں‬
‫اصل نام کا تمہیں کیسے پتہ ۔‬
‫میں نے کہا یار تم نے اسے ثانیہ ھی کہا تھا ضوفی بولی نہیں جناب میں اسے ثانی کہہ کر ھی مخاطب کرتی ھوں پھر خود‬
‫ھی ضوفی بولی ھوسکتا ھے کہ میں نے ثانیہ ھی کہا ھو ۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر بعد پھر پوچھا‬
‫کہ یار وہ تھی کدھر میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں ۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔۔‬
‫ثانی شادی ہوگئی تھی ۔‬
‫یاد ھے تم سے لہنگا کراے پر لیا تھا ۔۔۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا ۔‬
‫ضوفی بولی تب اسی کی شادی تھی ۔۔‬
‫میں نے کہا مگر تم نے تو کسی اور کی شادی کا کہا تھا ۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫ثانی نے مجھے منع کیا تھا کہ تمہیں اسکا نہ بتاوں۔۔۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ھوے پیچھے گردن گھما کر ضوفی کی طرف ایک نظر ڈال کر پوچھا کہ مجھے بتانے سے کیوں منع‬
‫کیا تھا اس نے میری کون سا وہ سہیلی تھی ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی بڑا شوق ھے سہیلیاں بنانے کا ۔‬
‫میں نے جلدی سے اپنی صفائی دیتے ھوے کہا ۔‬
‫میرا مطلب کہ میری کونسا وہ واقف تھی جو اس نے منع کیا۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫بس ایسے ھی اس نے کہا تھا کہ تم کیا سوچو گے کہ وہ اتنے غریب ہیں کہ لہنگا بھی نہیں لے سکتے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔۔‬
‫لوجی آج کل تو اچھے بھلے امیر لوگ بھی لہنگے کراے پر لے جاتے ھیں کہ یہ کونسا بعد میں پہنا جانا ھے ۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫ہمممممم بات تو سہی ھے بس ایسے ھی بےچاری نے اپنا بھرم رکھنے کی وجہ سے کہا تھا۔۔‬
‫میں نے کہا۔۔‬
‫ضوفی اسے تمہارے اور میرے ریلیشن کا پتہ ھے ۔‬
‫ضوفی بولی ھاں پتہ ھے اور اس نے ھی تو تمہاری تعریفیں کر کر کے میری توجہ تمہاری طرف دالئی تھی ۔۔‬
‫میں نے شوخی سے کہا‬
‫واہ جی واہ‪ .‬پھر تو ثانیہ میری محسن ٹھہری کہ اس نے میری زندگی بدل دی اور تمہارے جیسی ۔‬
‫حسن کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی ۔۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر سر رکھ کر بولی ۔‬
‫بہت باتیں بناتے ھو ۔۔‬
‫اور میں مہربان نہیں بلکہ تم پر لٹو ھوگئی ہوں سمجھے ۔۔۔‬
‫تقریبََا آدھے گھنٹے سے بھی ذیادہ وقت میں‬
‫ہم کالونی پہنچے تو مہری مجھے راستہ بتانے لگی اور کچھ ھی دیر میں ہم ایک نارمل سے گھر کے سامنے رکے ۔۔‬
‫ضوفی بائک سے اتری اور دروازے پر ناک کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ایک دس بارہ سال کی لڑکی نے دروازہ کھوال ۔۔‬
‫لڑکی کو دیکھتے ھی مجھے پتہ چل گیا کہ یہ ثانیہ کی بہن ھے ۔۔‬
‫ضوفی بچی کو پیار کرتی ھوئی اندر داخل ھوگئی ۔۔۔‬
‫اور میں باہر بائک پر ھی کھڑا ۔‬
‫گلی کا جائزہ لینے لگ گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد وہ ھی بچی باہر آئی اور مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی ۔‬
‫انکل اندر آجائیں ۔۔۔‬
‫میں نے بائک سٹینڈ پر لگائی اور بائک کو الک کر کے گھر میں داخل ھوگیا ۔‬
‫گھر اندر سے بھی سادہ سا بنا ھوا تھا چھوٹا سا صحن اور سامنے دو کمرے اگے برآمدہ ایک طرف کچن اور ایک سائڈ پر‬
‫واش روم تھا ۔۔‬
‫میں بچی کے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا تو ثانیہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوئی اور سالم دعا کے بعد مجھے‬
‫دکان کی مبارکباد دینے لگ گئی اور اتنے میں ایک عمررسیدہ خاتون اندر داخل ھوئی جو ثانیہ کی والدہ تھی ثانیہ نے میرا‬
‫تعارف ضوفی کے کزن اور منگیتر ھونے کا کروایا ۔۔‬
‫آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا اور دعائیں دیتے ھوے کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔‬
‫ثانیہ کی فیس بیوٹی کافی بدل چکی تھی جیسے پہلے وہ بڑی شوخ اور چنچل تھی مگر اب بڑی سلجھی اور سلیقہ مندی سے‬
‫پیش آرھی تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر بیٹھے ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے جس میں میری خاموشی شامل تھی ۔۔‬
‫اور پھر ثانیہ نے اپنے کپڑے شولڈر بیگ میں رکھے کہ ضوفی کے گھر جاکر بدل لے گی اور وہیں تیار ھوجاے گی ۔۔‬
‫ثانیہ لوگ بھی ۔‬
‫تین بہنیں اور ایک بھائی اور اسکے والد بھی فوت ہوچکے تھے اور گھر کا گزارہ اسکا بھائی جو کسی فیکٹری میں جاب‬
‫کر کے اور اسکی امی کپڑے سی کر کرتے تھے ثانیہ کی بڑی بہن بھی شادی شدہ تھی اور ایک چھوٹی تھی جو ابھی پڑھ‬
‫رھی تھی ۔۔۔‬
‫میں آنٹی سے اجازت لے کر باہر نکل آیا اور کچھ دیر بعد ھی ضوفی اور ثانیہ بھی باہر اگئیں ۔۔‬
‫میں نے بائک سٹارٹ کی اور میرے پیچھے ضوفی بیٹھ گئی اور اسکے پیچھے ثانیہ ۔۔‬
‫میں تقریبََا ٹینکی پر پہنچ چکا تھا ۔۔‬
‫ثانیہ کا جسم بھی تھوڑا ِنگھر تھا‬
‫اور میرے والی کا تو آپ دوستو کو پتہ ھی ھے ۔۔‬
‫ضوفی بلکل میری کمر کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔‬
‫میں انکو لے کر ضوفی کے گھر پہنچا ۔۔‬
‫اور انکو اتار کر میں نے ضوفی سے سامان کی لسٹ لی تو ضوفی نے مجھے پیسے دینے کی الکھ کوشش کی مگر میں نے‬
‫اس سے لسٹ پکڑی اور وہیں سے بازار کی طرف بائک بھگا دی ۔۔۔‬

‫)‪Update no (153‬‬
‫۔بازار پہنچ کر میں نے کیک کا آڈر دیا اور سیدھا حمام پر پہنچا شیو اور بالوں کی سیٹنگ کروا کے میں نے لسٹ کے‬
‫مطابق لوازمات کی چیزیں لیں اور پھر بوتیک پر آیا اور دکان کھول کر ماہی کے لیے اور ضوفی کے لیے بوتیک میں سب‬
‫سے اچھے برانڈ کے سوٹ لیے ماہی کے لیے پنک اور ضوفی کے لیے بلیک ریشمی امبرائڈڈ میں ۔۔‬
‫اور ایک گفٹ سینٹر سے ماہی کا سوٹ پیک کروایا اور ماہی کے لیے ایک خوبصورت واچ بھی پیک کروا لی پھر لیڈیز شوز‬
‫کی دکان پر جاکر ضوفی کے سوٹ کے ساتھ پنسل ہیل والے سینڈل میچ کر کے لیے اور ماہی کے بھی اسی طرح کے پنک‬
‫کلر کے سینڈل لیے ضوفی کے جوتے کے سائز کا تو مجھے علم تھا تو ماہی کا بھی اسی سائز میں لے لیا اور پھر ایک‬
‫گارمنٹس کی دکان سے اپنے لیے ایک بلیک پینٹ اور ضوفی کے سوٹ پر جس کلر کی امبرائڈ تھی اس کلر کی شرٹ خریدی‬
‫کیونکہ کہ میرے کپڑے گندے ہوچکے تھے اور مجھے کپڑوں سے سمیل بھی آرھی تھی دو تین گھنٹوں میں ساری شاپنگ‬
‫کر کے بیکری سے کیک لینے کے بعد میں سامان سے لدی بائک کے ساتھ ۔‬
‫ضوفی کے گھر تھا ۔۔‬
‫سب ابھی تیار ھورھے تھے ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کا سوٹ اور سینڈل اسے دکھاے اور اسے پسند آنے کا پوچھا ضوفی نے پہلے تو میری چوائس کی بہت‬
‫تعریف کی مگر جب میں نے اسے بتایا کہ یہ تمہارے لیے ھے اور تم نے ابھی پہننا ھے تو ضوفی مجھ پر برا پڑی کہ ایسے‬
‫فضول خرچی کرنے کی کیا ضرورت تھی گھر میں کونسا شادی رکھی ھے جو اتنا خرچہ کرآے وغیرہ وغیرہ ثانیہ بھی‬
‫سوٹ اور سینڈل کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ھوے بہت خوشی کا اظہار کرنے لگ گئی آنٹی اور ماہی کو بھی ضوفی کا‬
‫سوٹ اور سینڈل بہت پسند آیا ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کا لیکچر سننے کہ بعد پھر اسے پہننے کا کہا تو‬
‫ضوفی پھر انکار کرنے لگ گئی اور مجھ پر کافی ناراض بھی ہوئی مگر پھر میری اموشنل بلیک میلنگ کے بعد اسے سوٹ‬
‫لینا پڑا۔‬
‫ماہی چہکتے ھوے بولی بھائی میرا برتھ ڈے گفٹ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔‬
‫تمہارے لیے فیڈر پیک کروا کے الیا ھوں ۔۔‬
‫سب میری بات سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ گئے ۔۔‬
‫ماہی برا سا منہ بنا کر کمرے میں جانے لگی ۔۔‬
‫تو میں نے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکا اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے بوال ۔۔‬
‫لو جی میری بہن تو ناراض ھوگئی ۔۔‬
‫یہ ھوسکتا ھے کہ میں اپنی بہن کی سالگرہ پر اسے گفٹ نہ دوں ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے شاپر سے تین پیک کیے ھوے گفٹ اسکی طرف بڑھاتے ھوے کہا ۔۔‬
‫یہ ھے میری الڈو کے لیے ۔۔‬
‫ضوفی پھر مجھے گھورنے لگی اور پھر بولی ۔‬
‫کر آے ھو گے نہ فضول خرچی تم بھی نہ ۔۔۔‬
‫میں نے اسے گھورتے ھوے کہا ۔۔‬
‫تم اپنا منہ بند رکھو میں اپنی بہن کے لیے الیا ہوں تم کیوں سڑ رھی ھو ۔۔‬
‫آنٹی بھی کہنے لگ گئی کہ اس میں کیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا آپ سب چپ رہیں یہ میرا اور ماہی کا معاملہ ھے میں جو مرضی اپنی بہن کو گفٹ‪ .‬دوں ۔۔‬
‫ماہی بھی پوچھنے لگ گئی کہ بھائی اتنے سارے گفٹ النے کی کیا ضرورت تھی ۔۔‬
‫اور ان میں ھے کیا ۔۔‬
‫میں نے کہا سرپرائز ھے اگر پہلے بتا دیا تو کیا فائدہ ۔۔‬
‫اور میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے ماہی کے کان کے پاس منہ لیجاکر آہستہ کہا مگر اتنی آواز میں کہ ضوفی بھی‬
‫سن لے ۔‬
‫کہ چپ ھو جاو اور یہ اندر بند کمرے میں کھولنا نہیں تو تمہاری آپی نے گفٹ دیکھ کر سڑ جانا ھے ۔۔‬
‫ضوفی نے جب یہ بات سنی تو ہاتھ میں پکڑا ھوا سوٹ مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگی میں بھاگ کر آنٹی کے‬
‫پیچھے چال گیا اور آنٹی کے کندھوں کو پکڑ کر پیچھے چھپنے لگ گیا ۔۔‬
‫سب کھلکھال کر ہنس رھے تھے ۔۔۔آنٹی نے ضوفی کو ڈانٹا کہ بس کرو ۔۔۔‬
‫اور جلدی سے تیار ھو جاو ۔‬
‫پہلے ھی ٹائم کافی ھوچکا ھے ۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کی آنکھوں میں حسرت اور جلن دیکھی جیسے اس سے میرا ان سب سے یوں فرینک ھونا اور گفٹ النا‬
‫برداشت نہ ھورھا ھو ۔‬
‫مگر میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا۔۔‬
‫اور پھر ماہی ضوفی اور ثانی اوپر چلی گئیں تیار ھونے اور‬
‫میں بھی نہانے کے لیے نیچے ھی واش روم میں گھس گیا اور میں نے جلدی سے نہا کر پینٹ شرٹ پہنی اور ان سب سے‬
‫پہلے تیار ہوکر ٹی الونج میں ٹیبل پر کیک اور دوسری چیزیں سیٹ کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫اور پھر میں وہیں صوفے پر بیٹھ کر انکا انتظار کرتے ھوے سیڑھیوں کی طرف بار بار دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد سب سے پہلے‬
‫ضوفی تیار ھوکر جب سیڑھیاں اترتے ھوے نیچے آنے لگی تو میری نظر جیسے ھی اس سراپا حسن پر پڑی تو اسے دیکھ‬
‫کر ۔‬
‫میں اپنی جگہ سے خود باخود اٹھ کہ کھڑا ھوگیا ۔۔ سیڑیاں اترتے اس کے ہر قدم پر میرا دل دھڑکنا بھول جاتا‬
‫بلیک سوٹ میں چمکتا چودھویں کا چاند آسمان سے اتر کر نیچے آرھا تھا ۔‬
‫ضوفی نے میک اپ کے شیڈ بھی سوٹ پر کی کڑھائی کے کلر کے ساتھ میچ کیے ھوے تھے اور لپسٹک ایسے لگائی ھوئی‬
‫تھی کہ لگتا ھی نہیں تھا کہ لپسٹک ھے یا ضوفی کے گالبی ہونٹوں کا اوریجنل کلر ھے ۔‬
‫افففففففففف‬
‫میں آنکھیں پھاڑے ضوفی کے حسن میں کھویا اسے دیکھی جارھا تھا اور ضوفی بھی میری طرف دیکھ کر میری پرسنیلٹی‬
‫سے کافی امپریس ھو رھی تھی ۔۔‬
‫ضوفی سیڑھیاں اتر کر میرے پاس آئی اور گالب کی پنکھڑیوں پر مسکان التے ھوے بڑی ادا سے میری آنکھوں کے‬
‫سامنے ہاتھ ہالتے ھوے بولی ہیلو ووووو میرا ہیرو کدھر کھویا ھوا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو نہ پاکر ضوفی کا مخملی ھاتھ پکڑا اور ہاتھ کو اپنے لبوں کے پاس الکر ہاتھ‬
‫پر لب رکھ اور اپنی پلکیں اٹھا کر ضوفی کے کی آنکھوں میں جھانکتے ھوے ۔‬
‫بوال۔۔۔‬
‫تیری قربت بھی یاد آ رہی ہے‬
‫تیری فرقت بھی دل کو بہا رہی ہے‬
‫نہ جانے حال کیسا ہو گیا ہے‬
‫کہانی اب الجھتی جا رہی ہے۔‬
‫ضوفی نے مسکرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور آنٹی کے کمرے کی طرف دیکھتے ھوے میری گالوں پر اپنے‬
‫مخملی ھاتھ رکھ کر بولی ۔‬
‫شاعر صاحب کہیں خود کو نظر نہ لگوا لینا۔۔‬
‫اور ضوفی نے اپنی چھوٹی انگلی سے اپنی آنکھ سے کاجل انگلی ہر لگایا اور میرے کان کے نیچے کاال تلک لگا دیا ۔۔‬
‫اور میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫کمال لگ رھے ھو ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تم سے تو کم ھی لگ رھا ھوں ۔۔‬
‫تم تو آج میری جان لے کر رھو گی ۔۔‬
‫ضوفی نے پیار سے میری گال کر چپت مارتے ھوے کہا ۔‬
‫چل گندا بات تو سوچ سمجھ کر کیا کرو جان جاے تمہارے دشمنوں کی ۔۔۔‬
‫اتنے میں اوپر سے سیڑھیاں اترنے کی آواز آئی تو ہم جلدی سے ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ھوگئے ۔۔‬
‫میں نے اوپر نظر دوڑائی تو آگے ثانی اور پیچھے ماہی نیچے آرھی تھی دونوں ھی پیاری لگ رہیں تھی ۔‬
‫مگر میرے محبوب سے کم ھی ۔۔۔۔‬
‫اور پھر آنٹی بھی اپنے کمرے سے نمودار ھوئیں ۔۔۔‬
‫اور سب میز کے گرد اکھٹے ھوکر کھڑے ہوگئے ۔۔‬
‫اور پھر ماہی نے کیک کاٹا اور سب نے تالیاں بجاتے ھوے ماہی کو برتھ ڈے وش کیا ۔۔۔‬
‫ماہی نے کیک کا پیس کاٹ کر سب کے منہ میں ڈاال ۔‬
‫مگر جب میرے منہ میں ڈالنے لگی تو ماہی نے شرارت سے کافی سارا پیس میرے منہ میں ڈال دیا ۔‬
‫جس سے کریم کے ساتھ میرا منہ بھر گیا ۔۔‬
‫سب کھلکھال کر ہنس پڑے ۔۔‬
‫اور ہم صوفے پر جا بیٹھے اور ماہی پلیٹوں میں کیک کے پیس ڈال کر سب کو پیش کرنے لگ گئی ۔‬

‫)‪Update no (154‬‬
‫اس کے بعد کولڈ ڈرنک اور سموسے کھاے اور کافی دیر بیٹھے ہنسی مزاق کرتے رھے آنٹی سونے کا کہہ کر اپنے کمرے‬
‫میں چلی گئی ۔۔‬
‫میں نے پھر غور کیا کہ ثانی بار بار مجھے دیکھ رھی ھے اسکی آنکھوں میں عجب سی کشش تھی جب بھی میری اور‬
‫اسکی نظریں ملتی تو ثانیہ نظروں کو عجیب انداز میں گھما کر پھیر لیتی ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد وہ پھر مجھے دیکھنے لگ جاتی اور جب مجھے اسکی نظروں کا احساس ھوتا تو میں اچانک اسکی طرف‬
‫دیکھتا تو وہ بڑی ادا سے نظروں کو گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتی ۔۔‬
‫میرے دماغ میں ثانیہ کے بارے میں رتی برابر بھی غلط خیال نہیں تھا ۔‬
‫جبکہ اسکا فگر بھی کافی سیکسی تھا خوبصورت تھی ۔‬
‫جوان تھی اسکا جسم بھی کافی ِنگھر تھا ۔۔‬
‫دیکھنے واال اسپر پہلی نظر میں فدا ھوجاتا ۔۔۔‬
‫مگر اس کے باوجود بھی میں نے ابھی تک اسکو غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔‬
‫مگر اسکا یوں مجھے بار بار دیکھنا میری توجہ اسکی طرف دال رھا تھا ۔‬
‫اور میرے دماغ میں اسکے بارے میں کئی سوال جنم لے رھے تھے ۔‬
‫پہلے تو میں نے اسکے یوں دیکھنے کو اتفاق سمجھا مگر یوں بار بار دیکھنا اور ٹک ٹکی لگا کر دیکھتے رہنا ۔‬
‫دال میں کچھ کاال ثابت کررھا تھا ۔‬
‫مگر پھر بھی میں اسے اگنور کررھا تھا ۔‬
‫اور اپنی جان کو دیکھ دیکھ کر اپنی قسمت کو داد دے رھا تھا ۔۔۔‬
‫خیر کافی دیر تک ہم باتیں کرتے رھے اور باتوں کے دوران ھی کھانا کھایا ۔۔۔‬
‫اور پھر ثانی ضوفی سے کہنے لگی کہ مجھے گھر جانا ھے کافی دیر ھوگئی ھے امی گھر اکیلی ہیں ۔۔۔‬
‫ضوفی کہنے لگی ۔‬
‫اتنی رات کو گھر جاو گی ادھر ھی سوجاو۔۔‬
‫تو میں نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا اور جب ضوفی کی اور میری نظریں ملیں تو میں نے منہ بسور کر اسے آنکھ‬
‫مار کر اسے جانے کا کہا ۔۔۔‬
‫‪.‬ضوفی بھی میرا اشارہ سمجھ چکی تھی اس لیے اس نے بھی ذیادہ ثانیہ کے رکنے کا اصرار نہیں کیا ۔۔۔‬
‫اور پھر ضوفی بولی چلو میں اور یاسر تمہیں گھر چھوڑ آتے ہیں ۔۔۔‬
‫تو مہری ایکدم بولی آپی امی سوگئی ہیں اور مجھے اکیلی کو ڈر لگنا ھے ۔۔‬
‫آپ نہ جاو ۔‬
‫بھائی‬
‫آپی ثانیہ کو چھوڑ آتیں ہیں ۔۔۔‬
‫ماہی کی بات سن کر ثانیہ کے چہرے پر ایک دم سرخی آئی مگر اس نے اپنی فیلنگ کو چھپانے کی کوشش کرتے ھوے‬
‫بناوٹی انکار کرنے لگ گئی کہ نہیں ضوفی تم بھی ساتھ چلو ۔۔۔‬
‫مگر ماہی بھی بضد تھی کہ اگر آپی جائیں گی تو میں اکیلی نہیں رہوں گی مجھے بھی ساتھ لے کر چلو ۔۔‬
‫کافی دیر بحث مباحثے کے بعد آخر کار یہ طے پایا کہ میں اکیال ھی یہ ذمہ داری قبول کرتے ھو ثانی کو آدھی رات میں‬
‫اسکے گھر چھوڑ کر آوں ۔۔۔‬
‫اور پھر ضوفی مجھے کہنے لگی کہ یاسر اگر تمہیں برا محسوس نہ ھو تو ثانیہ کو اسکے گھر چھوڑ آو گے ۔۔۔‬
‫یہ سن کر ثانیہ کی آنکھیں پھر چمکیں ۔۔۔‬
‫میں نے بھی مجبوری میں حامی بھری ۔۔۔‬
‫اور اٹھ کے کھڑا ھوگیا۔۔۔‬
‫ثانیہ کے فگر کا پہلے ذکر کرچکا ھوں مگر پھر بھی بتاتا چلوں ۔‬
‫کہ ثانیہ کا قد تقریبََا پانچ فٹ تین انچ اور تیس کی کمر اور چالیس کی گانڈ اور چھتیس کے ممے تھے اور اسکا جسم شادی‬
‫کے بعد پہلے کی نسبت بھر گیا تھا اور اسکی گانڈ جو تھی گول مٹول مگر اب کچھ ذیادہ باہر نکل آئی تھی ۔‬
‫پتہ نئی سالی ُبنڈ مرواندی رئی اے اپنے بندے کولوں ۔‬
‫پر سانوں کی ۔۔۔۔‬
‫اودی چیز اے جیویں مرضی ورتے ۔۔۔‬
‫کیوں سجنوں سئی کیا اے ناں۔۔۔۔‬
‫خیر میں نے بائک باہر نکالی اور چہرے پر بڑی مجبوری اور الچاری التے ھوے بائک پر سوار ھوا ۔۔‬
‫اور میرا یہ ریکشن رئیل میں تھا ۔۔۔‬
‫کیونکہ ثانی کے بارے میں میری کوئی غلط نیت نہیں تھی ۔۔‬
‫جب آنکھوں کے سامنے حسن کی دیوی اور جان نچھاور کرنے والی محبوبہ ھو تو کون کافر کسی اور کی طرف بری نظر‬
‫سے آنکھ بھی اٹھا کر دیکھے ۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی اور ماہی گیٹ تک ثانی کو چھوڑنے آئیں اور ثانی بڑی احتیاط سے مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے پیچھے بیٹھ‬
‫گئی ۔‬
‫اور دروازے پر کھڑی ماہی اور ضوفی کو باے باے کرنے لگ گئی اور ضوفی مجھے دھیان سے جانے اور جلدی واپس‬
‫آنے کا کہنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور گئیر لگا کر بائک آگے بڑھائی اور آہستہ آہستہ بائک چالتے ھوے گلی سے نکال ۔۔‬
‫ہم دونوں ابھی تک خاموش ھی تھے ۔۔‬
‫آگے جاکر گلی میں ایک بڑا بے ترتیبا سپیڈ بریکر آیا جس پر مجھے اچانک بریک لگانا پڑی تو بریک لگتے ھی ثانی‬
‫جھٹکے سے کھسک کر میرے ساتھ لگ گئی اور ثانیہ نے آئییییییی کیا اور دھیان سے یاسررررر کہتے ھوے میرے کندھے‬
‫کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔۔‬
‫اور میں یہ محسوس کر کے حیران رھ گیا کہ ثانیہ میرے ساتھ چپکنے کے بعد پیچھے نہ ہٹی بلکہ اسی حالت میں میرے‬
‫کندھے کو پکڑے بیٹھی رھی ۔۔۔‬
‫مجھے جیسے ھی اپنی کمر پر ثانیہ کے نرم اور تنے ھوے ممے کا احساس ھوا جو تقریبا میری کمر کے ساتھ پریس ھوچکا‬
‫تھا ۔۔‬
‫تو میرے اندر شہوت کی گھنٹیاں بجنے لگ گئیں ۔۔‬
‫اور نہ چاہتے ھوے بھی میرا دھیان ثانیہ کے نرم موٹے گول مٹول ممے کی طرف ہوگیا ۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی میں بتا چکا‬
‫ہوں کہ‬
‫کالونی کا فاصلہ کافی تھا اور ضوفی کے گھر سے تو اور ذیادہ وقت لگ جانا تھا کیوں کہ گلیوں محلوں سے ہوکر جانا پڑنا‬
‫تھا ۔‬
‫اوپر سے رات کے بارہ ایک بجنے والے تھے ہر طرف ہوووو کا عالم تھا ۔۔۔‬
‫)‪Update no (155‬‬
‫کوئی ایک آدھ موٹر سائکل یا کار نظر آتی ۔۔۔‬
‫مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ کوئی چور ڈاکو ھی نہ راستہ روک لے ۔مگر پھر بھی حوصلہ کرکے میں آرام آرام سے بائک‬
‫چالتے ھوے جارھا تھا ۔۔‬
‫ثانیہ نے پیچ کلر کا سلک کا سوٹ پہنا ھوا تھا اور چائنہ سلک میں جسم جتنا سیکسی لگتا ھے شاید ھی کوئی کپڑا ایسا ھو‬
‫جس میں عورت کا جسم اتنا سیکسی نمایاں ھوتا ھو ۔۔‬
‫اس کپڑے میں ملبوس کوئی پچاس سال کی آنٹی بھی ھو تو اسکے جسم پر اگر ہاتھ پھیرو تو جوان بچی کے جسم جیسا لطف‬
‫آتا ھے ۔۔‬
‫تو سجنوں ۔‬
‫جد بچی بھی جوان ھو زیب تن بھی چائنہ سلک ھو ۔‬
‫رات بھی آدھی ھو۔‬
‫راستہ بھی سنسان ہو ۔‬
‫بچی بھی ساتھ چپکی ھو‬
‫تو پھر‬
‫ُتسی ای ی ی دسو‬
‫یاسر ایتھے ُبنڈ دیوے ۔۔۔۔۔‬
‫خیر ایک دو گلیوں میں بار بار بریکیں لگانے سے ثانیہ کی ران اور گانڈ ایک حصہ بھی میرے ساتھ لگ چکا تھا ۔‬
‫مختصرا کہ ران سے کمر اور کمر سے ایک مما میری کمر کے ساتھ لگا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫ابھی تک سواے‬
‫دھیان سے یاسرررر کے عالوہ میری اور ثانی کی کوئی بات نہ ہوئی تھی ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد ثانیہ نے ھی خاموشی کو توڑا اور بولی ۔‬
‫اور سناو یاسر دکان کیسی چل رھی ھے میں نے مختصرًا جواب دیا کہ بہت اچھی جارھی ھے ۔‬
‫اور پھر ثانیہ بولی‬
‫اور ضوفی کے ساتھ خوب مزے ھورھے ہیں ۔۔۔۔‬
‫میں ایکدم چونک کر بوال کیا مطلب ۔۔۔‬
‫تو ثانیہ کچھ ہڑبڑا کر بولی ۔‬
‫ممم میرا مطلب کے تمہاری اور اسکی فرینڈشپ کیسی چل رھی ھے میں نے کہا آپ کے سامنے ھی ھے ۔۔۔‬
‫ثانیہ بولی ۔‬
‫‪.‬ثانیہ بولی ۔‬
‫ہمممم وہ تو میں نے دیکھا ھی ھے بات کافی آگے بڑھ چکی ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا جی ایسا ھی کچھ ھے ۔۔۔‬
‫ثانیہ ٹھنڈا ہو کا بھر کر بولی چلو اچھی بات ھے ۔‬
‫مزے کرو۔۔۔‬
‫میں نے موضوع بدلتے ھوے پوچھا ۔‬
‫کہ ثانیہ جی آپ نے بڑی جلدی شادی کرلی پتہ بھی نہیں چلنے دیا ۔۔۔‬
‫ثانیہ کچھ سنجیدہ سی ھوکر بولی بسس جو قسمت کو منظور ھو ۔‬
‫انسان تو اچھے کے لیے سب کچھ کرتا ھے مگر آگے قسمت کو کچھ اور ھی منظور ھوتا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے چونک کر کہا کیا مطلب ۔۔‬
‫ثانیہ بولی چھوڑو دفعہ کرو تم سناو کب شادی کررھے ھو ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫آپ نے بات بدل لی اگر بتانا پسند نہیں کرتی تو ٹھیک ھے جیسے آپکی مرضی ۔۔۔‬
‫ثانیہ بولی ۔‬
‫نہیں یاسر ایسی بات نہیں ھی بس سسسسسس کیا بتاوں اپنی قسمت پر رونا آتا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا کیا ھوا قسمت کو ۔۔‬
‫کیا آپ شادی کر کے خوش نہیں ۔‬
‫ثانیہ بولی خوش رہنے کے لیے ھی شادی کی تھی مگر جب مقدر میں خوشی ھو ھی نہ تو بندا کیا کرے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ثانیہ اگر آپ برا نہ مانیں تو پلیززز ذرہ وضاحت کردیں گی کہ ۔‬
‫کیا وجہ ھے جو آپ اتنی پریشان ہیں ۔۔۔‬
‫ثانیہ میرے کندھے پر سر ٹکا کر ۔‬
‫لمبا سانس کھینچ کر چھوڑتے ھوے سر اٹھا کر بولی ۔۔‬
‫یاسر میں تو ابھی پڑھنا چاھتی تھی تمہیں بتایا بھی تھا کہ میں کالج میں سیکنڈ ائیر میں پڑھ رھی یوں ۔‬
‫بس میری قسمت خراب کے گھر والوں کو ایک رشتہ کروانے والی مائی نے اپنی چٹ پٹی باتوں میں الکر میرا رشتہ طے‬
‫کروا دیا کہ لڑکا دبئی میں اچھی جاب کر رھا ھے اور ابھی وہ چھٹی پر پاکستان آیا ھے اور شادی کر کے اس نے واپس جانا‬
‫ھے اور پھر تین مہینہ بعد لڑکی کو بھی ساتھ لے جاے گا ۔۔۔‬
‫میرے گھر والے اس خرافہ عورت کی باتوں میں آگئے اور رشتہ طے کردیا ۔۔‬
‫اور منگنی کے دس دن بعد ھی سادگی سے میرا نکاح کر دیا ۔۔‬
‫اور شادی کے ہفتہ گزرنے کے بعد ھی میرا خاوند ۔۔‬
‫مجھے یہ کہہ کر امی کے گھر چھوڑ گیا کہ میں تین مہینہ بعد تمہارا ویزہ بھیجوں گا اور تمہیں بھی بلوا لوں گا مگر ۔۔۔۔۔‬
‫ثانیہ کی آواز روہانسی ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے کہا مگر کیا۔۔۔‬
‫ثانیہ اپنے آنسو صاف کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ویزہ تو کیا بھیجنا تھا ۔‬
‫اس نے جا کر میرا حال پوچھنا بھی گوارا نہ کیا ۔۔۔‬
‫مہینہ گزرنے کے بعد ایک خط آیا جس میں سواے تسلی دینے کے کچھ نہیں تھا اور پھر تین مہینے گزر گئے جس میں دو‬
‫خط مذید آے اور پھر نہ انکا کوئی خط آیا نہ ھی انہوں نے کوئی خرچہ بھیجا ۔میں سسرال گئی ۔‬
‫مگر سسرال والوں نے بھی مجھے کوئی لفٹ نہ کروائی اور نہ ھی میری انسے کوئی بات کروائی بلکہ الٹا مجھے قصور وار‬
‫گردانتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا بیٹا واپس نہیں آیا نہ ھی اسکا کوئی فون یا خط آیا ھے ۔۔۔‬
‫مگر مجھے اپنے سسرال والوں کے ہمسایہ سے پتہ چال کہ یہ لوگ جھوٹ بول رھے ہیں انکے لڑکے کی پہلے بھی دو‬
‫شادیاں ھوچکی ہیں ۔۔‬
‫جو اسی وجہ سے طالقیں ہوئیں ہیں ۔۔۔میں نے ثانیہ کی بات کاٹتے ھوے کہا کہ کتنی دیر ھوگئی ھے شادی کو۔۔‬
‫ثانیہ بولی دوسرا سال ختم ھونے کو ھے ۔۔۔‬
‫میں نے دکھ کر اظہار کرتے ھوے کہا ۔‬
‫بیت دکھ ھوا ثانیہ آپکے ساتھ تو بہت ظلم ھوا ۔۔‬
‫اور پھر ثانیہ نے بتایا کہ ابھی تک اسے نہ طالق ملی ھے اور نہ ھی اسکا شوہر واپس آیا ھے اور نہ ھی سسرال والوں نے‬
‫گھاس ڈالی ھے ۔‬
‫بلکہ وہ اپنی امی کے پاس ھی رھ رھی ھے ۔‬
‫اور کپڑے سالئی کرکے گزارہ کررھے ہیں بھائی جو الہور میں کسی فیکٹری میں مالزم ھے جو پندرہ دن بعد گھر چکر‬
‫لگاتا ھے ۔۔‬
‫ثانیہ کی سٹوری سن کر مجھے دلی دکھ ھوا کہ ۔‬
‫بیچاری کے ساتھ اتنی چھوٹی عمر میں ھی کتنا بڑا ظلم ھوا ھے ۔۔‬
‫خیر ایسے ھی باتیں کرتے ھوے ہم کافی سفر طے کرچکے تھے ۔‬
‫میں بائک بہت سکون سے چال رھا تھا ۔۔‬
‫ثانیہ مجھ سے پھر پوچھنے لگ گئی کہ ضوفی کے ساتھ ریلیشن شپ کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے‬
‫ہماری کبھی لڑائی نہیں ھوئی ۔۔‬
‫تو ثانیہ بڑے طنزیہ انداز میں بولی ۔۔‬
‫لڑائی کیسے ھونی ھے ۔‬
‫انکی موجیں لگی ہوئی ہیں ۔۔۔‬
‫میں نے چونک کر گردن گھما کر ثانی کی طرف ایک نظر ڈالی اور پھر سامنے دیکھتے ھوے بوال کیا مطلب میں سمجھا‬
‫نہیں ۔۔‬
‫ثانی بولی ۔‬
‫کچھ نہیں ۔۔۔‬
‫میں نے پھر کہا ۔۔‬
‫ثانی پلیز بات مکمل کیا کرو ایسے بندہ غلط فہمی کا شکار ھوجاتا ھے ۔۔۔‬
‫ثانی بولی ۔‬
‫کچھ نہیں یاسر ایسے تم برا مان لو گے اور اگر ضوفی کو پتہ چال تو وہ الگ سے ناراض ہوگی ۔۔۔‬
‫میں بچہ تو نہیں تھا ۔‬
‫کہ ثانیہ کی عیاری نہ سمجھ سکتا ۔۔‬
‫دوسری طرف کالونی بھی قریب آنے والی تھی میں نے نظریں ادھر ادھر دوڑانی شروع کی تو مجھے سڑک کے ایک طرف‬
‫کچھ درخت نظر آے تو میں نے درختوں کے پاس پہنچ کر بریک لگا دی چاروں طرف سناٹا ھی تھا دور دور تک کوئی بھی‬
‫شے نظر نہیں آرھی تھی بریک لگاتے ھی‬
‫میں‪ .‬نے ثانیہ کے اندر سے اسکے دل کا غبار اگلوانے کے لیے ۔‬
‫پتہ پھینکا ۔‬
‫اور بوال ۔‬
‫دیکھو ثانیہ جیسے ضوفی میری دوست ھے میں ویسے ھی تمہیں بھی دوست سمجھتا ھوں ۔‬
‫اور میری یہ عادت نہیں کہ ادھر کی بات سن کر ادھر جاکر کروں ۔۔۔‬
‫میں نے ساتھ ھی بائک کا سوئچ بھی اوف کردیا ۔۔‬
‫جس سے ہیڈ الئٹ بھی بند ھوگئی ۔۔‬
‫)‪Update no (156‬‬
‫ثانیہ کچھ گبھرا سی گئی اور بولی ییییی تم نے بائک کیوں روک دی ۔۔وہ بھی اتنی سنسان جگہ پر ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔‬
‫یار ڈرو نہ میں تمہارے ساتھ ھوں گبھرا کیوں رھی ھو۔۔‬
‫ثانی بولو نہیں یاسر میں تم سے نہیں اس ویرانے سے گبھرا رھی ھوں اگر کسی نے ہمیں اس وقت یہاں رکے دیکھ لیا تو‬
‫کوئی ایسے مسئلہ بن جاے گا اس لیے چلو راستے میں بات کرلیتے ھیں ۔۔‬
‫میں نے کہا کچھ دور کالونی رھ گئی ھے بات کیا ھونی ھے ۔۔‬
‫ثانی بولی کوئی بات نہیں ہم پھر کسی دن بات کر لیں گے مگر ابھی چلو ادھر سے ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔‬
‫یار میں تو تمہیں اپنا دوست سمجھتا تھا مگر تم تو ڈرہوک نکلی تمہاری جگہ اگر ضوفی ھوتی تو اسکو چاہے میں جنگل میں‬
‫لے جاتا اس نے اففففف تک نہیں کرنی تھی ۔۔۔‬
‫میرا تیر بلکل نشانے پر لگا۔۔۔‬
‫اور ثانیہ بولی ۔۔‬
‫ایسی بھی بات نہیں ضوفی سے تو میں الکھ گنا بہادر ھوں ۔۔‬
‫اسکو تو تم سے مطلب ھے اس لیے ایسا کر سکتی ھے مگر مجھے ایسی کوئی اللچ نہیں ۔مگر پھر بھی ٹھیک ھے بولو کیا‬
‫ہوچھ رھے تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا یہ یہ جو ابھی تم نے کہا ھے کہ ضوفی کو مجھ سے اللچ ھے میں سمجھا نہیں ۔۔‬
‫ثانیہ بولی ۔۔‬
‫چھوڑو یاسر تم نے یقین نہیں کرنا ۔۔‬
‫میں نے کہا میں نے تم کو کہا ھے نہ کہ میں جیسے ضوفی کو اپنا دوست سمجھتا ھوں تم بھی میرے لیے ویسی ھی دوست‬
‫ھو ۔۔۔‬
‫تو ثانیہ نے بڑے نخرے سے ہنکارہ بھرتے ھوے کہا۔۔۔‬
‫جانے دو کیوں جھوٹ بول رھے ھو اگر ایسی ھی بات ھوتی تو ۔‬
‫اگر ضوفی کے لیے سوٹ اور سینڈل ال سکتے تھے تو میرے لیے بھی التے ۔۔۔‬
‫مگر مجھے ضرورت بھی نہیں ان چیزوں کی ۔۔‬
‫اگر تم لے کر بھی آتے تو میں نے رکھنے ھی نہیں تھے ۔‬
‫ضوفی کی طرح نخرے بھی دیکھاے اور رکھ بھی لیے ایسا کچھ نہیں ھے مجھ میں ۔۔۔‬
‫میں ثانیہ کی باتوں سے اسکی نفسیات کے طے تک پہنچ گیا ۔۔‬
‫کہ یہ سالی مجھے ان فرشتہ صفت لوگوں اے بدزن کر کے اپنے جال میں پھنسانا چاھتی ھے ۔۔۔‬
‫ثانیہ بائک سے اتر کر مجھ سے کچھ فاصلے پر میری طرف منہ کر کے کھڑی تھی جبکہ میں بائک پر ھی بیٹھا ھوا تھا‬
‫۔‬
‫ثانیہ کی بات سن کر میں نے کہا ۔۔‬
‫اوووو سوری یار میں تو اس لیے نہیں الیا کہ تم کہیں برا نہ محسوس کرو اور کہیں ضوفی تمہارے بارے میں غلط نہ سوچے‬
‫۔۔۔‬
‫ثانیہ بولی اچھا کیا تم نہیں الے ورنہ اس نے کچھ اور ھی سمجنا تھا ۔‬
‫اور ویسے بھی میں نے کونسا سوٹ لینا تھا ۔۔میرے پاس تو اپنے بڑے اچھے اچھے سوٹ پڑے ہیں ۔۔‬
‫میں نے دل میں سوچا سالی کتنی ڈرامے باز ھے ابھی راستے میں اپنی غربت کے رونے رو رھی تھی اور اب کیسے‬
‫شیخیاں مار رھی ھے وہ بھی‬
‫شیخو کے سامنے ۔۔۔‬
‫‪.‬خیر میں نے کہا اچھا دفعہ کرو انہیں اور بتاو کہ تم نے یہ کیوں کہا کہ ضوفی کی موجیں لگی ہوئی ہًیں۔‬
‫میں تو اس سے شادی کرنے کا سوچ رھا ہوں مگر تم نے تو مجھے ڈرا ھی دیا ھے ۔۔۔‬
‫ثانیہ اپنا مقصد پورا ہوتے دیکھ کر تھوڑا میرے قریب ہوئی اور ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا جو بھی کرنا ھے ۔۔‬
‫میں نے بھی ادھر ادھر گردن گھما کر بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا ثانیہ تم اگر مجھے اپنا دوست سمجھتی ھو تو پلیز‬
‫میری مدد کرتے ھوے مجھے ان لوگوں کے بارے میں بتا دو ۔۔‬
‫ثانیہ بولی یہاں کیسے اتنی تفصیل سے بات کروں ۔۔‬
‫میں نے ایسے ھی چاروں طرف نطر دوڑائی ۔۔۔‬
‫جگہ تو میں پہلے ھی دیکھ چکا تھا جہاں ہم چھپ کر بیٹھ سکتے تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا چلو ادھر چل کر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔‬
‫اور یہ کہہ کر میں ثانیہ کی بات سنے بغیر بائک کے اوپر بیٹھا ھی پیروں سے بائک کو آگے بڑھاتا ھو درختوں کے پیچھے‬
‫جانے لگا ثانیہ نے بس یہ ھی کہا بات تو سنو ادھر کہاں جارھے ھو مگر میں آگے چل پڑا تھا تو ثانیہ بھی اپنا سلکی فراک‬
‫ہاتھوں میں اٹھاے جھاڑیوں کو پھالنگتی ھوئی ۔۔‬
‫میرے پیچھے پیچھے آنے لگ پڑی ۔۔‬
‫یاسررر رکو تو بات سنو‬
‫آیستہ آہستہ سے کہتی ھوئی میرے پیچھے پیچھے درختوں کے جھنڈ میں آگئی ۔۔۔‬
‫میں نے بائک سٹینڈ پر لگائی اور بائک کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ھوگیا ۔‬
‫ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں کافی سارے گھنے درخت تھے اور دوسری طرف دیوار تھی شاید کوئی نئی کالونی بن رھی‬
‫تھی جس کی چاردیواری کی گئی تھی ۔‬
‫مگر جگہ بلکل سنسان تھی ۔‬
‫اور سڑک کی جانب سے ہم درختوں کی اوٹ میں ہوگئے تھے اگر کوئی رک کر ہماری طرف الئٹ مار کر دیکھتا تو پھر‬
‫شاید ہم اسے نظر آجاتے ورنہ اگر کوئی راہگزر موٹرسائیکل یا گاڑی واال ہمیں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔‬
‫دوستو اے طے توانوں چنگی طراں پتہ اے کہ تواڈا ویر جگہ لبن وچ پورا کھرانٹ اے ۔۔۔۔‬
‫خیر ثانیہ میرے سامنے آکر کھڑی ھوگئی اور مموں پر بازو باندھ کر ہاتھ بغلوں میں دے کر مصنوعی غصے سے بولی ۔‬
‫یاسر یہ کیا پاگل پن ھے بھال یہ بھی کوئی جگہ ھے رکنے کی ۔۔‬
‫میں نے کہا ثانیہ یار ادھر ہمیں کھڑے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس لیے بلکل ریلیکس ہوکر بتاو ۔۔۔‬
‫ثانیہ بولی ہاں پوچھو کیا پوچھنا تھا۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫یار وہ ھی ان لوگوں کا پوچھنا تھا کہ کیسے لوگ ہیں۔‬
‫تم تو انکو کافی عرصہ سے جانتی ھو۔۔‬
‫ثانیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر دیکھو تم ایک اچھے لڑکے ھو مجھے تم اچھے بھی لگتے ھو میں نہیں چاہتی کے تم دھوکے میں رھو ۔‬
‫یہ ضوفی لوگ اچھے لوگ نہیں ہیں ۔۔‬
‫میں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ھوے کہا۔۔‬
‫کیااااا‬
‫کھل کر بتاو ثانیہ میرا تو دل بیٹھا جارھا ھے ۔۔‬
‫میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سینے کو مسلتے ھوے کہا۔۔۔‬
‫ثانیہ نے لوھا گرم دیکھ کر ایک اور چوٹ ماری‬
‫بولی ۔‬
‫یاسر یہ لوگ دوسروں کو بیوقوف بنا کر مال کھاتے ھیں ۔‬
‫ایسے تو نہیں انہوں نے پکا مکان بنا لیا وہ بھی ڈبل سٹوری نہ انکا کوئی بھائی ھے نہ انکے سر پر باپ ھے ۔۔‬
‫اکیلی ضوفی ھی کماتی ھے ۔۔‬
‫تم نے نیا نیا کاروبار شروع کیا ھے ۔‬
‫انکی تو موجیں لگ گئیں ہیں ۔۔‬
‫‪.‬اگر یوں ھی تم ان پر لوٹاتے رھے تو‬
‫یہ تمہیں بہت جلد کنگال کردیں گی ۔سہی پوچھو تو مجھے بہت دکھ ہورھا ھے کیسے تم سے اتنے مہنگے گفٹ اور اتنی‬
‫چیزیں لے رہیں تھی ۔‬
‫ذرہ بھی شرم نہیں ھے ان کو ۔‬
‫تم کیسے محنت کر کے کماتے ھو ۔۔‬
‫اور وہ کیسے بے شرمی سے تمہیں اجاڑ رہی ہیں اور مجھے تو انکی ماں پر غصہ آرھا تھا کہ کیسے وہ بھی بیٹیوں کے‬
‫ساتھ مل کر تم کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ۔۔۔‬
‫میں نے سارے جہاں کا دکھ درد اپنے چہرے پر اکھٹا کیا اور ثانیہ کا بازو کالئی سے پکڑا جو اس نے اپنے مموں پر رکھا‬
‫ہوا تھا کالئی کو پکڑتے ھوے میری انگلیاں ثانی کے ممے پر لگ گئیں جس سے ثانی کا جسم ہلکا سا کانپا۔‬
‫مگر میں تو دکھی تھا پریشان تھا تازہ تازہ دل ٹوٹا تھا‬
‫کسی سہارے کی تو ضرورت تھی نہ۔۔۔‬
‫اور اس وقت بہترین سہارہ ثانی ھی تھی میری محسن میرا خیال رکھنے والی ۔۔۔‬
‫میرا احساس کرنے والی ۔۔۔۔‬
‫میں نے ثانی کی کالئی پکڑ کر اسکے مموں سے ہٹائی اور کالئی سے ھاتھ کھسکا کر اسکے نرم ہاتھ کو پکڑ کر دوسرا ھاتھ‬
‫اسکے ہاتھ پر رکھ کر روہانسے لہجے میں بوال۔‬
‫ثانی تم نے تو میری آنکھیں کھول دی ۔مجھے لٹنے سے بچا لیا ۔تمہارا یہ احسان کیسے اتاروں گا۔۔‬
‫ثانی مذید کچھ آگے بڑھی اور دوسرا ھاتھ میرے کندھے پر رکھا اور پھر میری گال پر رکھ کر گال کو سہالتے ھوے بولی ۔‬
‫حوصلہ کرو یاسر ۔۔‬
‫ابھی کچھ نہیں بگڑا۔۔‬
‫دیر آے درست آے۔۔۔‬
‫میں نے مذیڈ غمگین ھوتے ھوے اپنی گال پر رکھے ثانج کے ھاتھ کو پکڑ کر اسکے ہاتھ سے اپنی گال کو سہالتے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫کیسے حوصلہ کروں میں میرا تو دل ٹوٹ گیا ھے میں کیا کروں گا ۔۔‬
‫ثانی مذید آگے بڑھی اور دوسرا ھاتھ بھی میری گال پر رکھ کر مجھے حوصلہ دیتے ھوے بولی صبر کرو یاسر میں ھوں نہ‬
‫تم کیوں پریشان ھو رھے ھو ۔‬
‫میں نے ثانیہ کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنی گالوں سے ہٹاتے ھوے پیچھے اپنی گردن پر لیجا کر چھوڑے اور ہاتھ نیچے ال‬
‫کر ثانیہ کی کمر کے گرد ڈال کر اس کو اپنی طرف کھینچ کر ساتھ لگا لیا اور آہستہ آواز میں رونے لگا بین کرنے لگ گیا۔۔۔‬

‫)‪Update no.(157‬‬
‫ثانیہ میری گردن کے بالوں کو سہالتے ھوے مجھے چپ کروانے لگ گئی ثانی کے نرم نرم ممے میرے سینے کے ساتھ‬
‫لگے ھوے تھے ۔۔۔‬
‫میں نے پھر کہا۔۔‬
‫ثانیہ تم بہت اچھی ھو تم نے تو میری آنکھیں کھول دی تم ھی میری بیسٹ فرینڈ ھو ۔۔‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ہونٹ ثانی کے کان کے نیچے گردن پر رکھ دیے اور تھوڑی سی زبان نکال کر اسکی گردن کو چاٹ‬
‫لیا ثانی کے جسم کو ذور دار جھٹکا لگا اور اس نے سییییییییی کرتے ھوے مجھے مذید اپنے ساتھ لگا لیا‬
‫اور ایک ہاتھ میری کمر پر اور دوسرا ہاتھ میری گردن پر رکھے مجھے دالسا دیتے ھوے چپ کروانے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کی کمر کے گرد بازوں کا گھیرا ڈاال اور اسے اپنے ساتھ لگا کر اسکی کمر کو سہالنے لگ گیا۔۔‬
‫میرے آنسو تو نکل نہیں رھے تھے بس آواز کے ساتھ رونے کی ایکٹنگ کری جارھا تھا اور ثانیہ کے سیکسی جسم کے لمس‬
‫کا انجواے کررھا تھا ۔۔۔‬
‫ثانی کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ھوے مجھے بہت مذہ آرھا تھا اور نیچے سے میرا لن بھی ٹائٹ ھوکر پینٹ میں ابھار بناے ثانی‬
‫کی ناف کے ساتھ لگا ھوا تھا۔۔‬
‫میں نے ثانی کی گردن سے ہونٹ ہٹاے اور اسکے ہونٹوں کے سامنے ہونٹ لیجا کر بوال ثانی تم کتنی اچھی ھو ۔‬
‫بڑے وقت پر تم نے مجھے سب بتا دیا اور میں بات کرتے ھوے ہونٹ ثانی کے ہونٹوں کے بلکل قریب لے گیا ثانی کا جسم‬
‫ہلکے سے کانپ بھی رھا تھا اور اسکے ہونٹ بھی کپکپا رھے تھے ۔‬
‫میں نے ثانی کی پوزیشن دیکھی اور ساتھ ھی ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔۔‬
‫ثانی نے ایک دم اپنی پوری آنکھیں کھولیں اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہنے ھی لگی تھی کہ میں نے اسکا‬
‫نیچے واال ہونٹ منہ میں ڈال کر اسکی بولتی بند کردی ۔‬
‫اور ثانیہ نے بھی آنکھیں بند کرلیں اور دونوں ھی ہر چیز سے بیگانے ھوکر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے لگ گئے‬
‫۔‬
‫میں نے ساتھ ھی ثانیہ کی کمر سے ہاتھ پھسالتے ھوے نیچے گانڈ کی طرف لیجانا شروع کردیا‬
‫ثانیہ نے النگ ہیل پہنی ھوئی تھی اسکے باوجود بھی وہ اوپر کو ہوکر میرے ساتھ کسنگ کررھی تھی ۔۔۔‬
‫میرا ھاتھ سرکتا ھوا ثانیہ کی گانڈ پر پہنچا اور اسکے نرم نرم چوتڑوں کو مٹھی میں بھرتے ھی‬
‫۔‬
‫میرے دماغ پر فل شہوت طاری ہوگئی ۔۔‬
‫اور میری کسنگ میں شدت پیدا ھوگئی اور ساتھ ھی ثانیہ کی گانڈ کو دبوچ کر آگے طرف ذور لگا کر تھوڑا سا نیچے ھوکر‬
‫لن کے ابھار کو ثانیہ کی پھدی کے ساتھ لگا کر مسلنے لگ گیا۔۔۔‬
‫ثانیہ بھی فل گرم ھوچکی تھی پتہ نہیں کتنے عرصہ سے لن کی پیاسی تھی ۔۔۔‬
‫‪.‬وہ بھی اپنی گانڈ کا ذور آگے کی طرف لگا کر گانڈ ہالتے ھوے میرے لن کے ابھار پر پھدی کو مسل رھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے کچھ ھی دیر بعد ثانیہ کی فراک کو انگلیوں کے ساتھ اوپر کھینچتے ھوے اسکی فراک گانڈ سے اوپر کر دی اور پھر‬
‫فراک گانڈ سے اوپر کر تے ھی ہاتھ اسکے چست پجامے میں ڈال کر اسکی مالئم اور نرم گانڈ کو مٹھی میں بھینچنا شروع‬
‫کردیا۔۔‬
‫ثانیہ کے منہ سے ایکدم سییییییی نکال اور وہ زور لگا لگا کر مجھے اپنے جسم کے ساتھ چپکانے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے آہستہ آہستہ ثانیہ کے تنگ پجامے کو اس انداز سے گانڈ سے نیچے کرنا شروع کر دیا کہ اسے احساس بھی نہ ہوا کہ‬
‫میں اسکا پجامہ گانڈ سے نیچے کر کے اتار رھا ہوں ۔۔‬
‫اسکو یہ ھی لگ رھا تھا کہ مجھے اسکی پوری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے میں پرابلم ہورھی ھے ۔‬
‫اس وجہ سے اسکا پجامہ میرے ھاتھ کی گردش سے خود ھی نیچے جارھا ھے ۔۔‬
‫ثانیہ کا پجامہ اسکی گانڈ سے نیچے کرنے کے بعد میں نے ہاتھ اسکی گانڈ سے ہٹایا اور ہاتھ کو آگے ال کر ثانیہ کی پھدی پر‬
‫رکھ دیا ۔۔۔‬
‫اففففف کلین شیو پھدی اور پھدی کا ابھار ھاےےےےےے ۔‬
‫میں نے جیسے ھی پھدی پر انگلیاں رکھیں۔۔‬
‫ثانیہ نے آہہہہہہہہہہہ کرتے ھوے اپنے چڈوں کو آپس میں بھینچ لیا اورپھر چڈوں کو ڈھیال کرتے ھوے پھدی کو میرے ہاتھ‬
‫کے ساتھ مسلنے لگ گئی۔۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کا چست پاجامہ آگے سے بھی نیچے کردیا اور پاجامہ ثانیہ کے گھٹنوں تک چال گیا ۔۔‬
‫ثانیہ کا النگ فراک مجھے تنگ کر رھا تھا ۔‬
‫آگے سے بھی فراک اکھٹا کر کے اپنی کالئی پر رکھا ھوا تھا اور ہاتھ اسکی پھدی پر رکھ کر انگلیوں سے پھدی کے لبِو ں‬
‫اور موٹے دانے کے سے چھیڑ چھاڑ کر رھا تھا‬
‫ثانیہ کی پھدی کافی گیلی تھی ۔‬
‫اور میری انگلیوں کا لمس پانے کی وجہ سے مذید پانی چھوڑے جارھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر پینٹ کے اوپر سے ھی لن پر رکھا ۔‬
‫ثانیہ نے مستی میں لن کے ابھار کو مٹھی میں بھینچا اور پھر یکدم ایسے چھوڑا جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ھو ۔۔۔۔میں نے‬
‫پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر لن کے ابھار پر رکھ دیا۔۔‬
‫ثانیہ نے ہچکچاہٹ کے ساتھ لن کو پکڑا اور پھر مٹھی بھر بھر کے ابھار کو ٹولنے لگ گئی جیسے اسکو یقین نہ آرھا ھو‬
‫کہ پینٹ کے اندر واقعی لن ھی ھے ۔ثانی جب میرے لن کو مٹھیاں بھر بھر ٹولنے لگی تو ۔‬
‫میں نے اگال وار ثانیہ کے مموں پر کیا اور ایک ہاتھ پھدی پر اور دوسرا ہاتھ ممے پر رکھ دیا اور ممے کو مٹھی میں بھر کر‬
‫دبانے لگ گیا ۔‬
‫ثانیہ کے ممے فل تنے ھوے تھے اور کافی ابھرے ھوے بھی ۔‬
‫اور اوپر سے سلک کے کپڑے میں قید اففففف کیا ھی سوفٹنس تھی مموں کی میں پھدی میں فنگر کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں‬
‫مموں کو باری باری دبا رھا تھا ۔‬
‫اور ثانیہ میرے لن کو پکڑے چہرہ آسمان کی طرف اٹھاے سسکاریاں بھر رھی تھی‬
‫ثانیہ کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے میری دو انگلیاں آسانی سے پچ پچ پچ کرتے اندر باہر ھو رہیں تھی ۔‬
‫چند ھی لمحوں میں ثانیہ کا جوش بڑھنے لگا اور ثانیہ آہہہہہہہہ سیییییییی کرتے ھوے میرے لن کو ذور ذور دے دباتے ھوے‬
‫چڈوں کو بھینچنے لگی اور پھر ایک دم ثانیہ چڈوں میں میرے ہاتھ کو اور پھدی میں میری انگلیوں کو بھینچ کر جھکتی ھوئی‬
‫ھاےےےےےےےے ممممممم گئییییییییی کرتے ہوے نیچے کی طرف بیٹھتی گئی اور اسکا جسم ایک دم کانپا اور پھدی سے‬
‫منی نکلنا شروع ھوگئی میری انگلیاں اسکی پھدی میں پھنسی ھوئیں تھی اور پھدی کی گرمائش بتا رھی تھی کہ ثانیہ سیکس‬
‫کی کتنی پیاسی ھے ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ثانیہ نارمل ہوئی تو میں نے پھدی سے ہاتھ نکاال اور ثانیہ کو بازوں سے پکڑ کر اٹھایا تو ثانیہ مارے شرم کے‬
‫سر جھکائے نظریں نیچے کیے اٹھ کر کھڑی ھوگئی ۔۔‬
‫اور میں نے اسکو پیچھے کرتے ھوے اسکی گانڈ بائک کی سیٹ کے ساتھ لگائی اور اسکا فراک پکڑ‬
‫کر اوپر کرنے لگا تو ثانیہ بولی پلیز یاسر یہ نہیں کرنا جتنا ھوگیا ھے وہ ھی کافی ھے ۔۔‬
‫پلیز نہ کرو یاسر میں نے اپنے خاوند کے عالوہ کبھی کسی اور مرد کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔‬
‫پلیززز چلو مجھے گھر جانا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا جان کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔ثانیہ میرے ھاتھوں میں پکڑے فراک کو نیچے کرنے کی کوشش کرتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫پلیزززز یاسر مجھے پہلے ھی خود پر ندامت ھورھی ھے کہ تم نے مجھے کہاں کہاں سے چھو لیا پلیزززز اور نہیں ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا جان بس دومنٹ میں تمہارا دوست ھوں کوئی انجان تو نہیں۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے تھوڑا ذور لگا کر ثانیہ کا فراک اوپر کرنا شروع کر دیا اور مموں سے اوپر لیجا کر اسکے‬
‫ممے بریزیر سمیت فراک سے باہر نکال دیے اور فراک اکھٹا کر کے اسکو پکڑنے کا کہا ثانیہ نے نخرے دیکھاتے ھوے‬
‫بہت ضدی ھو تم یاسر بھال ایسے بھی کوئی کرتا ھے کہتے ھوے فراک اپنے مموں کے اوپر اکھٹا کر کے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔‬
‫‪ .‬میں ثانیہ کے بلکل سامنے کھڑا ھوکر دونوں ھاتھ اسکے مموں کی طرف لے کر گیا اور اسکے بریزیر کو پکڑ کر اسکے‬
‫ممے سے اوپر کردیا ۔۔‬
‫ممے کافی موٹے اور سڈول تھے ۔‬
‫جس کی وجہ سے بریزیر میں پھنسے ھوے تھے ۔‬
‫میں جب مموں کو باہر نکاال تو ممے چھلک کر باہر نکلے اور اندھیرے میں بھی دودھیا رنگ کے ممے چمک رھے تھے ۔۔۔‬
‫میں ثانیہ کے ننگے مموں کو دیکھتے ھی انکو مٹھیوں میں بھینچ لیا۔۔‬
‫ثانیہ نے سیییییییییی کرتے ھوے کہا۔۔‬
‫آہستہ یاسرررر درد ھوتی ھے ۔‬
‫ثانیہ کی بات سنتے ھی میرے ھاتھوں کی گرفت ڈھیلی ھوگئی ۔۔‬
‫اور میں پیار پیار سے مموں کو دبانے لگ گیا ۔‬
‫اور پھر آگے کو ھوا اور جھک کر پہلے ایک ممے کو منہ میں ڈال کر اچھی طرح چوسا اور پھر دوسرے ممے کو اچھی‬
‫طرح سلیقے سے چوسنے لگ گیا ۔۔‬
‫ثانیہ پھر گرم ھوگئی تھی ۔۔‬
‫اور گانڈ سیٹ پر رکھے ایک ھاتھ میں فراک اوپر کر کے پکڑے دوسرے ھاتھ سے میرے سر کے بال سہال رھی تھی‬
‫اور چہرہ کبھی آسمان کی طرف اٹھا کر سییییییی آہہہہہہہ مممممممم کرتی تو کبھی مموں کو چوستے ھوے مجھے دیکھ کر‬
‫آہہہہہہہ سارا منہ میں ڈالو ھاں یاسررررررررر آہہہہہہہہہ‬
‫کہتی ۔‬

‫)‪Update no (158‬‬
‫ثانیہ کے گول مٹول مموں کی جی بھر کر چوسا اور ۔‬
‫اسکا پجامہ جو پہلے ھی گھٹنو تک تھا اسکو مذید نیچے کر کے پینٹ کی بیلٹ کھولی اور پھر انڈر ویر اور پینٹ کو ایک‬
‫ساتھ ھی نیچے کردیا ۔۔۔‬
‫اور لن پکڑ کر جیسے ھی ثانیہ کی پھدی کے ساتھ لگایا تو ۔‬
‫ثانیہ نے جلدی سے پھدی پر ہاتھ رکھ لیا اور نفی میں سر ہالتے ھوے بولی نہہہہہہہیں یاسرررررر یہ کیا کرنے لگے ھو ۔۔۔‬
‫پلززززززز مجھے برباد مت کرو جتنا کرلیا اتنا ھی کافی ھے۔۔۔‬
‫میں نے کہا جان کچھ نہیں ھوتا بس دومنٹ کی بات ھے ۔۔۔‬
‫ثانیہ پھر نخرے دیکھاتے ھوے بولی ۔‬
‫نہییییں یاسر اگر کچھ ہوگیا تو میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہوں گی ۔۔۔‬
‫پلیزززز میری زندگی برباد مت کرو۔۔۔‬
‫میں نے کہا جان کچھ بھی نہیں ھوگا مجھ پر یقین رکھو ۔۔‬
‫ثانیہ بولی اگر کچھ ھوگیا۔۔‬
‫میں نے کہا یار ہوگا تب نہ جب میں اندر فارغ ھووں گا ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر پھدی سے ہٹایا اور تھوڑا سا جھک کر لن کو پکڑ کر ٹوپا پھدی کے لبوں میں‬
‫سیٹ کرنے لگ گیا ۔‬
‫اندھیرے کی وجہ سے ثانیہ میرے لن کو سہی طرح سے دیکھ نہیں پارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھوال اور ٹوپا پھدی کے لبوں میں رکھا اور ثانیہ کی کمر کو پکڑ کر گھسا مارا تو کافی‬
‫لن ثانیہ کی گیلی پھدی میں چال گیا ثانیہ نے آہہہہہہہہہہہہہ کرتے ھوے میرے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔‬
‫اور سیییییی کرتے ھوے بولی آرااااممممممم سے یاسررررررر درد ھورھا ھے ۔‬
‫میں گھسا مار کر ادھر ھی رک گیا مجھے اس پوزیشن میں سہی طرح سے کھڑا نہیں ھوا جارھا تھا ۔‬
‫میں نے لن واپس کھینچا تو ثانیہ کے منہ سے پھر ھاےےےےےے نکال۔‬
‫اور میں نے جھک کر ثانیہ کا پاجامہ اسکے پیروں میں کر کے ایک پیر سے نکال دیا۔۔‬
‫ثانیہ بولی یاسر یہ کیا کررھے ھو اگر کوئی آگیا تو میں کیسے اتنی جلدی پاجامہ پہنوں گی ۔۔‬
‫مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا۔۔‬
‫میں نے کہا یار ایسے ڈر رھی ھو اتنی رات کو ادھر کس نے آنا ھے ۔۔‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ثانیہ کی ایک ٹانگ پاجامے سے آزاد کردی اور پھر اسکی ٹانگ اٹھ کر اوپر کی تو ثانیہ نے دونوں‬
‫بازو پیچھے کر کے دونوں ہاتھ بائک کی سیٹ پر رکھ لیے ۔‬
‫اب پوزیشن کچھ بہتر ہوگئی تھی‬
‫میں نے ثانیہ کی ٹانگ اوپر کی اور لن پکڑ کر پھر پھدی کے پاس کیا اور پھر ایک گھسا مار کر لن آدھا اندر کر دیا ۔۔۔‬
‫ثانیہ پھر ھاےےےےےے امیییییی کر کے سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے ایک ھاتھ ثانیہ کی کمر پر رکھ کر اسکی کمر کو پکڑا ھوا تھا اور دوسرے ھاتھ سے اسکی ایک ٹانگ اٹھائی ھوئی‬
‫تھی ۔۔‬
‫لن آدھا پھدی کے اندر تھا۔۔۔۔‬
‫میں نے لن تھورا سا پیچھے کھینچا اور پھر گھسا مارا تو لن سارا ھی اندر چال گیا۔۔‬
‫ثانیہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور ثانیہ اپنی آواز کو دباتے ھوے مجھ سے ٹانگ چھڑوانے کی کوشش کرتے ھوے‬
‫بولی ۔۔‬
‫ھاےےےےےےےے مرگئی یاسررررررررر اتنا بڑا ھے تمہارا۔۔۔ھاےےےے میرا اندررررر گیا ھاےےےےےے باہر‬
‫نکالو اففففدفففف آہہہہہہہہہہہہہہہ‬
‫مگر میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر اسکی ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑا اور گھسے مارنے لگ گیا۔۔‬
‫ثانیہ ھاےےےےے آءء‬
‫آہہہہہہہیہ امممممممممن اففففففف کرتے ھوے گھسے برداشت کررھی تھی ۔۔‬
‫‪.‬مجھ سے اس پوزیشن مین بھی چدائی کرتے ھوے تھکن محسوس ھورھی تھی اور مزہ بھی کم آرھا تھا ۔۔‬
‫میں نے چند گھسوں کے بعد ھی ثانیہ کی ٹانگ چھوڑی اور لن باھر نکاال ۔‬
‫تو ثانیہ نے لمبا سانسسسس لیا۔۔‬
‫اور اففففففففف یاسررررررر تم نے تو مار ھی ڈاال کہہ کر سیدھی کھڑی ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اسکی کمر کو پکڑ کر اسکا منہ دوسری طرف کرنے لگا تو ثانیہ بولی اب کیا‬
‫ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا یار ایسے مجھ سے ھو نہیں رھا تم دوسری طرف منہ کر کے سیٹ ک‬
‫پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن جاو ۔۔‬
‫ثانیہ بڑ بڑ کرتی دوسری طرف منہ کر کے سیٹ پر ھاتھ رکھ کر جھکی تو اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی ۔۔‬
‫میں نے ثانیہ کا فراک جو اسکی گانڈ پر آچکا تھا پکڑ کر پھر اوپر کر کے اسکی گانڈ ننگی کی اور اسکے کندھے کو پکڑ کر‬
‫اسکو مذید جھکنے کا کہا۔۔‬
‫تو ثانیہ بائک کے سیٹ پر کہنیاں رکھتے ھوے ۔‬
‫اپنا ماتھا سیٹ پر ٹکا لیا جس سے اسکی گانڈ کافی باہر کو نکل آئی اور کمر اندر کی طرف چلی گئی‬
‫میں نے اپنی ٹانگوں کو ہلکا سا خم دیا اور نیچے ھوکر لن کو پکڑ کر پھدی میں اڈجسٹ کیا تو ثانیہ بولی یاسر پلیزززززز‬
‫آرام سے کرنا تمہارا بہت بڑا ھے میری پہلے ھی جان نکال کر رکھ دی تم نے ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور پھدی میں لن سیٹ کر کے ہلکا سا پش کیا تو ٹوپا پھدی میں گھس گیا۔‬
‫ثانیہ سییی کرتے ھوے تھوڑا سا کسمکسائی ۔‬
‫تو میں نے اپنی پوزیشن مضبوط کر کے ثانیہ کی کمر کو پکڑا اور دوسرا گھسا مارا تو لن آدھا اندر چال گیا ۔۔‬
‫ثانیہ پھر ھاےےےےےے کر بولی ۔آراممممم سےےےےےےے۔‬
‫میں نے لن کو پیچھے کھینچا اور پھر تھوڑا ذوردار گھسا مارا تو لن سارا اندر اتر گیا اور ثانیہ پھر اپنے چیخ کو دباتے ھوے‬
‫آگے کو ھونے کی کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔‬
‫ماررر ڈاالاااا ظالم ۔۔۔‬
‫ھاےےےےےے بہت درد کرادی یاسرررررر‬
‫میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر گھسے مارنے شروع کردیے ۔‬
‫ثانیہ میرے ہر گھسے پر ھاےےےےے امی ھاےےےےے امی آہہہہہہہ آہہہہہہہ کررھی تھی جس سے مجھے مذید جوش‬
‫چڑھ رھا تھا اور میں لگاتار گھسے ماری جارھا تھا۔۔۔‬
‫تقریبًا دس منٹ چودنے کے بعد ثانیہ پھر چھوٹنے والی ھوگئی اور سسکاریاں مارتے ھوے گانڈ پیچھے کر کر کے لن اندر‬
‫لینے لگ گئی ۔۔‬
‫اور ساتھ ۔‬
‫میں آہ آہ آہ یس یس یس یس یاسررر سارا ای کردو سارااااا ایییییییی ہاں ہاں ایسے ھی آہ آہ آہ اویییییی افففففف ممممممم‬
‫آہہہہہہہہ مممممم گگگگگگئییییی یاسررررر کرتے ھوے ثانیہ نے پھدی کو سکیڑ کر لن کے گد گرفت سخت کی اور چڈوں‬
‫کو آپس میں مال کر جسم کو جھٹکے مارتے ھوے ۔‬
‫لو یو یاسرررر لو یو یاسررررررر تم میرےےےےےے ہوووووووو کرتے ھوے پھدی سے منی کا بہاو شروع کردیا ۔۔۔‬
‫میں وہیں سٹاپ کرگیا ۔۔‬
‫اور ثانیہ کے چھوٹنے کا انتظار کرنے لگ گیا۔۔‬

‫)‪Update no (159‬‬
‫چند لمحوں بعد ھی ثانیہ کی سانسیں درست ھونا شروع ھوئیں تو مین نے پھر گھسے مارنے شروع کردییے ۔۔‬
‫اور گیلی پھدی میں چپ چپ چپ تھپ تھپ تھپ کی آواز رات کے سناٹے میں گونجنے لگ گئی اور پھر کچھ جاندار گھسوں‬
‫کے بعد میں نے پھرتی سے لن باہر نکاال اور ثانیہ کی موٹی گانڈ کی دراڑ گھسا کر ثانیہ کے اوپر ھی جھکتا گیا اور میرے‬
‫لن سے منی نکلی اور ساتھ ھی ایک نسوانی آواز میں ذوردار چیخ نے میرے پاوں تلے سے زمین نکال دی ۔۔۔۔۔‬
‫‪.‬چیخ اتنی ذوردار تھی کہ اگر کوئی آس پاس ہوتا تو ضرور سنتا۔۔‬
‫میں جو فارغ ہونے کے مزے میں ڈوبا ہوا تھا ۔‬
‫چیخ کی آواز سے ایک دم گبھرا گیا۔‬
‫اس سے پہلے کہ میرے ہوش وحواس قائم ہوتے کہ دوسری چیخ کے ساتھ ھی ثانیہ کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔‬
‫آآآآآآآآآآآآئی مرگئ ییییییییییییی ھاےےےےےےےے میری ُبنڈ پاٹ گئی ۔۔۔‬
‫امیییی جییییییی میں مرگئ جے ےےےےےےے‬
‫اور ثانیہ نے پورے ذور سے مجھے پیچھے کو دھکا دیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی ُپچ کے آواز کے ساتھ میرا لن ثانیہ کی گانڈ کی موری سے نکل گیا۔۔۔‬
‫تو مجھے ایک سیکنڈ میں سارا ماجرا سمجھ آگیا۔‬
‫کہ چھوٹتے وقت میں نے لن ثانیہ کی گانڈ کے دراڑ میں ڈاال تھا اور سارا وزن اس پر ڈال کر مزے میں ڈوبا اپنی گانڈ کا ذور‬
‫آگے کو لگا بیٹھا جس کی وجہ سے منی سے چکنی ثانیہ کی گانڈ کی موری میں لن گھس گیا۔۔۔۔‬
‫ثانیہ کے دھکے سے‬
‫میں گبھراے ھوے پیچھے کو گرتا گرتا بچا ۔‬
‫اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔‬
‫ثانیہ گانڈ پر ھاتھ رکھے گانڈ کو بائک کی سیٹ کے ساتھ لگا کر آگے کو جھکی رو رھی تھی ۔۔‬
‫میں کچھ دیر پریشانی کی عالم میں کھڑا کبھی ثانیہ کی طرف دیکھتا تو کبھی چاروں اطراف دیکھتا کہ کسی نے ثانیہ کہ چیخ‬
‫نہ سن لی ھو۔۔‬
‫مگر چاروں اطراف ہو کا عالم تھا ۔‬
‫رات کے اندھیرے نے ہر طرف سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی ۔‬
‫میں نے جلدی سے پہلے اپنی پینٹ اوپر کی اور بیلٹ باندھ کر‬
‫ثانیہ کی طرف بڑھا ۔‬
‫جو ابھی تک جھکی ھوئی ھاےےےےے مر گئی کرتے ھوے رو رھی تھی ۔۔اور ساتھ ساتھ گانڈ کو سیٹ کے ساتھ مسل رھی‬
‫تھی ۔میں آگے بڑھا‬
‫اور اسے کے کندھوں کو پکڑ کر اسے سیدھا کرتے ھوے سوری بولنے ھی لگا تھا کہ ثانیہ نے جھٹکے سے میرے ھاتھوں‬
‫کو پیچھے جھٹکتے ھوے بولی ۔‬
‫دور رھو مجھ سے ۔جاہل گنوار خبردار مجھے چھوا بھی ۔۔‬
‫میں ہکا بکا پیچھے ہٹ کر کھڑا ھوگیا ۔۔‬
‫ثانیہ مجھے برا بھال کہہ کر نیچے جھک کر اپنا پاجامہ اوپر کرنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے پھر دور کھڑے ھی کہا ۔‬
‫ثانیہ سوری یار مجھے پتہ نہیں چال غلطی سے ہوگیا۔۔‬
‫ثانیہ پھر غصے سے بولی بکواس بند کرو ایڈیٹ ۔۔‬
‫مجھے اسپر غصہ تو بہت آیا مگر میں خود پر کنٹرول کرتے ھوے بوال ۔‬
‫ثانیہ تمہارا غصہ بجا ھے جو مرضی کہہ لو جتنی مرضی گالیاں دے لو ۔‬
‫مگر قسم سے میں نے جان بوجھ کر اندر نہیں کیا ۔‬
‫بس غلطی سے اندر چال گیا۔۔‬
‫میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتا ھوں پلیز غصہ تھوک دو۔۔‬
‫ثانیہ اپنا دوپٹہ سر پر لے کر دوپٹے کو درست کرتے ھوے بولی ۔‬
‫مجھے پہلے پتہ ھوتا کہ تم ابھی بھی جاہل کہ جاہل ھی ھو تو تم کو کبھی پاس نہیں آنے دیتی ۔‬
‫چلو مجھے گھر چھوڑ کر آو ۔۔۔ اور یہ کہتے ھوے بڑی حقارت سے میری طرف دیکھ کر درختوں سے نکل کر سڑک کی‬
‫طرف جانے لگ گئی‬
‫ثانیہ کی بات سن کر میرے اندر غصے کی چنگاریاں سلگنے لگ گئیں کہ گشتی کی بچی میں آکڑ کتنی ھے ۔‬
‫میرا دل تو کررھا تھا کہ اس گشتوڑ کو ادھر ھی چھوڑ کر گھر چال جاوں ۔‬
‫مگر پھر ضوفی کا خیال آتے ھی میں نے غصے سے ہنکارا بھرا اور بائک کو بغیر سٹارٹ کیے ثانیہ کے پیچھے پیچھے‬
‫چل پڑا۔۔‬
‫سڑک پر پہنچ کر میں نے بائک سٹارٹ کی تو ثانیہ بڑے آرام سے گانڈ سیٹ ہر رکھ کر میرے پیچھے مجھ سے فاصلہ رکھ‬
‫کر بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی ۔‬
‫اور بائک آگے بڑھائی اور کالونی کی طرف چل پڑا میں اب بائک سپیڈ سے چال رھا تھا اور کچھ ھی دیر میں ۔‬
‫میں ثانیہ کے دروازے پر تھا ۔‬
‫ثانیہ خاموشی سے اتری اور ٹانگیں چوڑی کرکے چلتی ھوئی دروازے پر پہنچی میں کھڑا اسے دیکھ رھا تھا ۔کہ یہ گھر میں‬
‫داخل ھوجاے تو ھی میں جاوں‬
‫ثانیہ نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور غصے سے بولی ۔‬
‫اب جاو بھی ادھر کھڑے کیا کررھے ھو ۔‬
‫میں نے غصے سے ایک نظر اس پر ڈالی اور بڑی پھرتی سے بائک کو ادھر کھڑے کھڑے ھی گھمایا اور بڑی سپیڈ سے‬
‫بائک کو بھگا کر اسکی گلی سے نکال ۔‬
‫میں نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ ثانیہ اتنی رات کو سنسان گلی میں اکیلی باہر کھڑی ھے ۔‬
‫میں گلیوں سے نکل کر مین روڈ پر آیا تو فل سپیڈ سے بائک کو بھگاتا ھوا ضوفی کے گھر کی طرف جانے لگا۔‬
‫میں کوئی دس پندرہ منٹ میں ۔‬
‫ضوفی کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔‬
‫میں نے بائک روکی اور بائک سے اتر کر گیٹ کی طرف بڑھا اور میں ابھی بیل پر ہاتھ لیجانے ھی لگا تھا کہ گیٹ کھال اور‬
‫ضوفی کا مسکراتا ھوا چہرہ مجھے نظر آیا۔۔‬
‫میری جب ضوفی سے نظر ملی تو ضوفی بولی اتنی دیر لگا دی ۔۔‬
‫میں نے کہا یار بائک پنکچر ھوگئی تھی ۔۔۔اور بڑی مشکل سے پٹرول پمپ پر پینکچر والے سے پنکچر لگوایا۔‬
‫اور میں ضوفی کا جواب سنے بغیر ھی واپس مڑا اور بائک اندر لے آیا ضوفی نے گیٹ بند کیا ۔۔‬
‫تو میں اور ضوفی آگے پیچھے چلتے ڈرائنگ روم میں پہنچے تو میں نے ماہی کا پوچھا تو ضوفی بولی وہ تمہاری الڈلی‬
‫اوپر تمہارے دیے ھوے گفٹ دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں تو کب کی نیچے بیٹھی تمہارا انتظار کررھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا چلو اوپر ھی چلتےہیں ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں اور ضوفی آگے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے ھوے کمرے میں پہنچے تو ۔‬

‫)‪Update no (160‬‬
‫ماہی بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کر کے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے نیم دراز ہوکر بک پڑھ رھی تھی ۔‬
‫ہمیں دیکھ کر ماہی نے جلدی سے اپنی ٹانگوں کو سمیٹا اور بک بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔‬
‫اور بولی ۔‬
‫یاسر بھائی اتنی دیر کہاں لگا دی ۔۔‬
‫میں نے پنکچر والی بین اسے بھی سنائی ۔۔۔‬
‫تو ماہی بولی ۔‬
‫بائک‬
‫پنکچر تو ہونی ھی تھی ساتھ جو کرماں والی گئی تھی ۔۔۔‬
‫ضوفی ماہی کو جھاڑتے ھوے بولی ۔‬
‫ماہی تمیز نہیں ھے تمہیں بات کرنے کی ۔۔‬
‫وہ میری فرینڈ ھے اور ہماری مہمان بھی تھی ۔۔۔‬
‫ماہی بولی ۔‬
‫آپی مجھے تو وہ ذہر لگتی ھے ندیدی ھے ایک نمبر کی اور شوخی بھی بہت ھے پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ھے آپکو پتہ‬
‫نہیں اس میں کیا نظر آتا ھے ۔۔‬
‫آپ نے دیکھا نہیں تھا کیسے بھائی کو بار بار گھور گھور کر دیکھ رھی تھی ۔۔‬
‫ماہی کی بات سن کر میں ایک دم چونکا ۔‬
‫کہ اسے کیسے پتہ چل گیا کہ باتوں کے دوران ثانیہ مجھے بار بار دیکھ رھی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫ماہی شرم کرو شرم یاسر کیا سوچے گا ۔۔۔‬
‫وہ میری فرینڈ ھے اور میں اسے تم سے ذیادہ جانتی ھوں ۔‬
‫وہ ایسی چھچھوری لڑکی نہیں ھے ۔۔‬
‫میں نے موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ھوے جلتی پر تیل ڈالنے کا سوچا ۔‬
‫کیوں کہ میں بھی اب نہیں چاہتا تھا کہ ضوفی اس سے ملے یا وہ انکے گھر آے ۔۔‬
‫کیونکہ اسکے دل میں ان فرشتہ صفت لوگوں کے لیے جو میل تھی وہ میں دیکھ چکا تھا۔۔۔‬
‫میں جلدی سے بوال ۔۔‬
‫ضوفی ۔۔ماہی صحیح کہہ رھی ھے مجھے بھی وہ لڑکی صحیح نہیں لگی بہت اوور ایکٹ کررھی تھی ۔‬
‫اور مجھے ایسی لڑکیوں سے سخت نفرت ھے ۔۔‬
‫تو ماہی جلدی سے بولی دیکھا آپی اب یقین آگیا اب تو بھائی نے بھی گواہی دے دی ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری طرف حیرانگی سے دیکھتی ھوئی بولی ۔‬
‫مگر یاسر مجھے تو وہ ایسی لڑکی نہیں لگتی میں تو بہت عرصہ دراز سے اسے جانتی ہوں وہ بیچاری تو پہلے ھی بڑی‬
‫پریشان ھے اپنے خاوند کی وجہ سے ۔۔۔‬
‫۔میں نے کہا یار کچھ بھی ھے مگر وہ مجھے بلکل بھی پسند نہیں ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی سنجیدہ سی ھوکر میرے قریب آئی اور میرے کندھے کو پکڑ کر بولی ۔۔‬
‫کیا ھوا یاسر اس نے راستے میں کوئی بات کی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے آخری وار کیا۔۔‬
‫اور بوال دفعہ کرو ضوفی‪ .‬میں نہیں چاہتا کہ تمہاری اس کے ساتھ منہ ماری ھو اس لیے بہتر یہ ھی ھے کہ تم اس سے جتنا‬
‫دور رھو اتنا ھی بہتر ھے ۔۔۔‬
‫میرے سسپنس سے ضوفی مذید پریشان ھوگئی اور ماہی بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫ضوفی نے دوسرا ہاتھ بھی میرے کندھے پر رکھا اور میرے کندھوں کو ہالتے ھوے بولی ۔۔‬
‫یاسر بتاو کیا بات ھوئی ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں یار دفعہ کرو۔۔۔‬
‫ضوفی کا منہ رونے واال ھوگیا اور روہانسے لہجے میں بولی ۔۔‬
‫‪.‬یاسر پلیززز بتاو کیا ھوا ھے اس نے کیا کہا ھے تمہیں ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کے کندھوں کو پکڑا اور بوال کچھ نہیں ھوا یار ایسے پاگل مت بنو فضول میں بات کو بڑھا رھی ھو ۔۔۔‬
‫ضوفی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرتے آنسو گرنے لگے اور اسکے دونوں ہاتھ میرے کندھوں سے میری گالوں پر آگئے اور‬
‫میری گالوں کو سہالتے ھوے میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر مجھ سے تم کچھ چھپا رھے ھو ۔۔۔‬
‫پلیززز بتاو کیا بات ھے میرا دل بیٹھا جارھا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے ضوفی کی گالوں کو تھاما اور اسکے آنسو صاف کرتے ھوے بوال۔۔‬
‫ہے ناں پاگل رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں تو مزاق کر رھا تھا ۔۔۔‬
‫اور میں نے ماہی کی طرف دیکھتے ھوے کہا دیکھو ماہی تمہاری آپی بچوں کی طرح رو رھی ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میرے ھاتھ اپنی گالوں سے ہٹاتے ھوے بولی ۔۔‬
‫یاسر میں مزاق کے موڈ میں نہیں ھوں تمہیں میری قسم بتاو اس نے تمہیں کیا کہا ھے ۔۔۔‬
‫دوستو ضوفی سے مجھے واقعی سچا پیار تھا ۔۔‬
‫بیشک میں اس فرشتہ کے الئک نہیں تھا ۔‬
‫اور باہر بھی منہ ماررھا تھا ۔‬
‫مگر ضوفی کے بارے میں میری فیلنگ بلکل ایک سچے عاشق جیسی تھی ۔‬
‫سچے سے مراد کہ مجھے اس کے جسم کی طلب نہیں تھی نہ ھی اس کو دیکھ کر میرے اندر شہوت جنم لیتی تھی ۔۔‬
‫ضوفی کو دیکھ کر مجھے سارے جہاں کا سکون مل جاتا تھا اور اس میں مجھے اپنائیت سچا پیار خلوص محبت صدق دلی‬
‫دیکھائی دیتی تھی ۔۔۔‬
‫یہ ھی وجہ تھی کہ ضوفی نے جب مجھے اپنی قسم دی تو مجھے ایک دم جھٹکا لگا اور اس بات کا احساس ہوا کہ جلتی پر‬
‫تیل پھینکنے سے انسان خود بھی آگ کی لپٹ میں آجاتا ھے‬
‫اب میں سوچنے لگ گیا کہ ضوفی نے مجھے اپنی قسم دے دی ھے اب اسے کیا بتاوں ۔۔‬
‫میں ان ھی سوچوں میں گم تھا کہ ضوفی پھر مجھے جھنجھوڑتے ھوے بولی یاسررررررر بتاو اس نے کیا کہا ھے تمہیں ۔۔۔‬
‫اگر نہ بتایا تو میرا مرا ھوا منہ دیکھو گے ۔۔‬
‫ضوفی کے منہ سے مرا ھو کا لفظ سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے دل پر کسی نے چھری سے وار کردیا ھو ۔۔‬
‫میں نے تڑپ کر اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اور روہانسے لہجے میں بوال مریں تمہاریں دشمن ۔۔۔‬
‫پاگل لڑکی اب ایسی بکواس کی تو میں نے تم سے کبھی بات بھی نہیں کرنی ۔۔۔‬
‫تو ضوفی بولی ۔‬
‫پھر بتاو کیا کہا ھے اس نے تمہیں جو تم اس سے اتنے بدزن ھوگئے ھو ۔۔‬
‫ماہی بھی ماحول کی سنجیدگی کو دیکھتے ھوے بیڈ سے نیچے اتر کر ہم دونوں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ھوگئی تھی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھاتے ھوے کہا اچھا بیٹھو بتاتا ھوں ۔۔۔‬
‫اور ماہی کو کہا کہ جاو پانی لے کر آو۔۔‬
‫ماہی جلدی سے سیڑیاں اترتی ھوئی نیچے چلی گئی اور میں ضوفی کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر ہاتھ سے اسکے آنسو صاف‬
‫کرنے لگ گیا۔۔‬
‫ُ چند لمحوں بعد ھی ماہی پانی کا گالس لے کر کمرے میں داخل ھوئی اور گالس ضوفی کی طرف بڑھایا تو میں نے ماہی‬
‫سے گالس پکڑ کر ضوفی کے لبوں سے لگایا تو ضوفی نے ایک گھونٹ بھرا اور گالس خود پکڑ کر پانی پینے لگ گئی ۔۔‬
‫ماہی کھڑی ہمیں دیکھ کر مسکرا رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ماہی کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔‬
‫تیریاں کیوں دندیاں نکلن دیاں نے ۔۔۔‬
‫‪.‬پین تیری نوں رونا آئی جاندا اے تے تینوں ہاسے پئئے آندے نے ۔۔۔‬
‫مہری منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر ہنسی کو دباتے ھوے دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ھوگئی ۔۔۔‬
‫میں نے پھر ضوفی کو مخاطب کرتے ھوے کہا۔۔‬
‫دیکھو ضوفی‬
‫اس دور میں ہر ہاتھ مالنے واال دوست نہیں ھوتا ۔‬
‫بیشک تم مجھ سے ذیادہ سمجھدار ھو پڑھی لکھی ھو اور زندگی کے تلخ دور سے بھی گزر چکی ھو تمہارا تجربہ بھی مجھ‬
‫سے ذیادہ ھے ۔‬
‫مگر دھوکا وہ ھی کھاتا ھے جو ہرکسی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرلیتا ھے ۔۔‬
‫تم جسے اپنی دوست سمجھ رھی ھو ۔‬
‫اس کے دل میں تمہارے لیے بہت بغض حسد ھے ۔‬
‫وہ تمہاری ترقی سے ھی بہت جیلس ھے ۔‬
‫راستے میں میرے ساتھ تمہاری برائیاں ھی کرتی جارھی تھی ۔‬
‫کہ تم سہی لڑکی نہیں ھو تمہارے پاس اتنی دولت کیسے آئی ۔‬
‫اور میں تم سے بچ کر رھوں وغیرہ وغیرہ۔۔‬
‫میری باتیں سن کر ضوفی کا گالبی چہرہ سرخ ٹماٹر کی مشابہت اختیار کرتا جارھا تھا۔۔‬
‫میری بات مکمل ھوتے ھی ۔۔‬
‫ضوفی ایکدم کھڑی ھوئی ۔‬
‫اور غصے سے پھنکارتے ھوے بولی ۔۔‬
‫آ لین دے ایس سوراں یاؤن نوں ایدا ُچ وتھا میں ُپناں گی ۔۔‬
‫گندی رن کسے تھاں دی ۔۔۔‬
‫میں ضوفی کے منہ سے پنجابی میں گالیاں سن کر حیران پریشان اسکا منہ دیکھنے لگ گیا۔۔‬
‫اور ماہی بھی دونوں ھاتھ منہ پر رکھ کر ہنستے ھوے بولی‬
‫اووووو ھاےےےےےے آپی کیا ھوگیا ھے آپ کو‬
‫توبہ توبہ توبہ ۔‬
‫ویری بیڈ لینگوئج ۔۔۔‬
‫ضوفی نے غصے سے ماہی کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔‬
‫بےجا ایڈی توں انگریز دی تی۔۔۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا۔۔۔‬
‫واہ جی واہ میری بیگم نوں تے پنجابی وی بالی چنگی آندی اے‬
‫میں تے جماں ای نئی ُک سکاں گا اپنی بیگم دے اگے ۔۔۔‬
‫ضوفی میرا سٹائل دیکھ کر غصے میں بھی ہنس پڑی ۔۔۔‬
‫اور سر پکڑ کر صوفے پر ڈھیر ہوگئی ۔۔۔۔‬
‫ماہی بھی صوفے پر ھی بیٹھ گئی ۔‬
‫اور کچھ دیر ثانیہ کے ٹاپک پر ہات ھوتی رھی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو فل اسکے خالف بھڑکا دیا تھا اور اس سے وعدہ بھی لیا تھا کہ وہ اس سے کوئی بھی ایسی ویسی بات‬
‫نہیں کرے گی بلکہ اسے اس طریقہ سے چھوڑے گی کہ اسے محسوس بھی نہ ھو اور اس سے جان بھی چھوٹ جاے ۔۔۔‬
‫پھر میں‪ .‬نے ماہی سے گفٹ پسند آنے کا پوچھا تو ماہی نے بڑی گرمجوشی سے میرا شکریہ ادا کیا۔۔‬
‫اور میری چوائس اور میچنگ کو دل سے سراہا۔‬
‫اور شرارتی انداز میں بولی ۔‬
‫بھائی ویسے‬
‫سب باتیں ایک طرف آپی بہت خوش قسمت ہیں جن کو آپ جیسا شوہر ملے گا آپی کی تو موجیں ہیں گھر بیٹھے ھی سب کچھ‬
‫مل جایا کرے گا وہ بھی اعلی سے اعلی ۔۔۔‬
‫میں‪ .‬نے ہنستے ھوے کہا ۔۔‬
‫کوئی ناں میری بہن پریشان نہ ھو تیرے لیے بھی کوئی ایسا ھی لڑکا تالش کرلیں گے ۔۔۔‬
‫ماہی میری بات سن کر شرمائی ۔‬
‫اور منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر بھائییییییییی آپ بھی ناں کہتے ھوے باہر کی طرف بھاگ گئی میں اسے آوازیں دیتا رھ گیا کہ‬
‫بات تو سنو ۔۔‬
‫مگر ماہی تیزی سے سیڑھیاں اترتے ھوے نیچے چلی گئی ۔۔۔‬

‫)‪Update no (161‬‬
‫ماہی کے جانے کے بعد ۔۔‬
‫میں اٹھا اور دروازہ ویسے ھی بند کیا تو ضوفی جلدی سے صوفے سے اٹھی اور بولی کیا کرنے لگے ھو ۔۔۔۔میں نے کہا‬
‫کچھ نہیں بس دروازہ بند کرنے لگا ھوں ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی ۔۔‬
‫‪.‬میں بھی جارھی ھوں نیچے ۔۔‬
‫میں نے کہا کیوں ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫ویسے ھی ۔۔‬
‫میں چلتا ھوا اسکے قریب آیا اور اسکی کمر کے گرد بازوں کا احصار باندھتے ھوے اسے اپنے ساتھ لگاتے ھوے ۔۔‬
‫ضوفی کے ہونٹوں پر کس کی تو ضوفی مجھے آرام سے پیچھے کرتے ھوے بولی ۔۔‬
‫آرام سے اب سوجاو صبح دکان بھی کھولنی ھے ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ھے ۔‬
‫میں نے کیا پھر کیا ھوا ٹائم ھوگیا ھے ۔‬
‫اور میں نے ساتھ ھی کالک کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے ۔‬
‫میں نے پھر بھی ضوفی کو پکڑے رکھا تو اپنی کمر کے گرد سے میرے بازو ہٹاتے ھوے بولی ۔۔‬
‫چھوڑو یاسر مجھے بھی نیند آرھی ھے اور میں نے صبح دو برائڈل تیار کرنی ہیں ۔۔‬
‫اس لیے تم بھی سو جاو اور میں بھی سونے جارھی ھوں ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو کس کر اپنے ساتھ لگایا اور کچھ دیر اسکی گالب کی ہتیوں کا رس چوسا ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد اسے چھوڑ دیا ۔۔۔‬
‫ضوفی کے نیچے جانے کے بعد میں بیڈ پر لیٹتے ھی سوگیا۔۔۔‬
‫صبح مجھے ضوفی نے اٹھایا ‪.‬‬
‫ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد میں اور ضوفی دکان پر آگئے۔۔۔‬
‫جنید پہلے سے ھی بوتیک کے باہر کھڑا انتظار کررھا تھا ۔‬
‫جنید نے مجھ سے چابیاں لیں اور دکان کھولی اور ہم دونوں مل کر صفائی وغیرہ کرنے میں مصروف ھوگئے۔۔‬
‫سارا دن کام میں مصروف رھے میری طبعیت بھی سارا دن سست رھی ایک تو کل دو پھدیاں وجایاں سی دوسرا رات کو‬
‫لیٹ سویا تھا۔۔‬
‫جنید نے بھی میری سستی کی وجہ پوچھی مگر میں نے طبعیت ناساز ہونے کا بہانہ بنایا ۔۔‬
‫رات کو حسب معمول میں ضوفی کو گھر چھوڑنے کے بعد گاوں پہنچا ۔‬
‫امی نے پوچھا کہ یاسر پتر ۔‬
‫تیری آنٹی ناراض تو نہی ھوئیں کہ ہم ماہی کی سالگرہ پر نہیں آے ۔۔‬
‫میں نے کیا ۔‬
‫کہ ناراض تو نہیں ہوئیں مگر گلہ کر رہیں تھی کہ آپ لوگوں کو آنا چاہیے تھا ۔۔‬
‫مگر میں نے انکو مطمئن کر لیا تھا ۔۔۔‬
‫امی بولی ۔پتر دل تو میرا بھی کررھا تھا مگر تجھے اپنے ابے کا پتہ ھی ھے کہ وہ ایسے ھی لڑنے لگ جاتے ہیں میں نہیں‬
‫چاھتی تھی کہ ایسے ان لوگوں کو لے کر ہمارے گھر میں کوئی جھگڑا ھو ۔۔‬
‫کوئی نہ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ھوجاے گا ۔‬
‫میں بس کچھ دنوں میں ھی تیرے ابا سے تیرے اور ضوفی کے رشتے کی بات کروں گی ۔‬
‫مجھے تو وہ لوگ بہت بھلے لگے اور ضوفی بھی کافی سلجھی اور سمجھدار بچی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے الڈ سے امی کے گلے میں بازوں ڈال کر امی کے ساتھ جھولتے ھوے کہا۔۔۔‬
‫بس سلجھی اور سمجھدار ھی ھے ۔‬
‫امی نے حیران ھوکر میری طرف دیکھتے ھوے کہا۔۔‬
‫لے دس ہور سانوں کی چایے دا اے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا میرا مطلب کہ سونی شونی نئی اے ۔۔۔‬
‫امی نے میری گال پر چپت مارتے ھوے کہا۔۔‬
‫تیرے نالوں تے سونی ای اے ۔۔‬
‫میں نے منہ بسورتے ھوے کہا۔‬
‫لو جی بہو گھر میں آئی بھی نہیں اور بیٹا برا بھی لگنے لگ گیا۔۔۔‬
‫‪.‬امی نے ہنستے ھوے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ھوے میرا ماتھا چوما اور بولیں ۔‬
‫میرے پتر توں ود سونا کوئی ھے ایس دنیا تے ۔۔۔‬
‫اور میں امی کے ساتھ لپٹ گیا۔۔‬
‫کچھ دیر مقں بیٹے کا الڈ پیار چلتا رھا ۔‬
‫پھر امی نے کہا چل میرا الل منہ ہتھ دھو لے میں تیرے لیے روٹی پکاتی ہوں ۔۔۔‬
‫میں منہ ہاتھ دھو کر فریش ھوکر کھانا کھانے کے بعد ۔۔‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا ۔۔‬
‫گھر داخل ہوا تو صحن خالی تھا ۔۔‬
‫میں سیدھا کمرے میں جاپہنچا ۔‬
‫کمرے میں سب لوگ بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔‬
‫میں نے کمرے میں داخل ہوتے سالم کیا ۔۔تو انکل مجھے دیکھ کر بولے آ بھئی یاسر پتر ۔‬
‫شکر ھے تیرا چہرہ بھی دیکھنے کو مال۔‬
‫تم تو اب امیر بندے ھوگئے ھو ۔‬
‫میں چلتا ھوا انکل کے پاس جاکر چارپائی پر بیٹھتے ھوے بوال ۔‬
‫نہیں انکل جی ایسی تو کوئی بات نہیں بس دکان سے ھی بہت لیٹ گھر آتا ھوں آج تھوڑا جلدی آگیا تو سوچا آپ لوگوں سے‬
‫مل لوں ۔‬
‫آنٹی جو میری طرف دیکھ کر مسکرا رھی تھی ۔‬
‫بولی ۔‬
‫مہربانی جو ہم کو یاد رکھا۔۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫اب جانے بھی دیں آنٹی جی کیوں ایسی باتیں کر کے مجھے شرمندہ کررھیں ہیں ۔‬
‫اور پھر میں عظمی اور نسرین کا حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫جو انکل کی وجہ سے بہت شریف بچیاں بن کر خاموشی سے بیٹھیں ہوئیں تھی ۔۔‬
‫عظمی اور نسرین نے بتایا کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ھوگئیں ہیں اور اب وہ کالج میں اڈمیشن لیں گی اور روز تانگے پر‬
‫ھی آیا جایا کریں گی ۔۔‬
‫میں نے انکو مبارکباد دی ۔‬
‫اور آنٹی سے بوال۔‬
‫دیکھ لیں آنٹی آپ میری دکان دیکھنے نہیں آئیں ۔۔‬
‫اور نہ ھی یہ دونوں چڑیلیں آئیں ہیں ۔‬
‫آنٹی بولی بس ٹائم ھی نہیں مال آنا تھا ۔‬
‫تیرے انکل کی طبعیت سہی نہیں رہتی ۔‬
‫ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انکا الہور سے چیک اپ کروائیں ۔‬
‫بس اسی پریشانی کی وجہ سے گھر سے نکال نہیں جارھا ۔‬
‫تمہیں تو پتہ ھے کہ اب جوان بچیاں اکیلی چھوڑ کر میں کیسے انکو لے کر جاوں ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپ انکی پریشانی کیوں لی رہی ہیں ۔‬
‫انکو ہمارے گھر چھوڑ جائیں وہ بھی تو آپکا ھی گھر ھے ۔‬
‫مشکل وقت میں ہم آپ کے کام نہیں آئیں گے تو کون آے گا۔۔‬
‫آنٹی بولی جیوندا رھ ۔‬
‫میں نے تو تیرے انکل کو کہا تھا مگر یہ ھی نہیں مان رھے کہ تمہارے ابو کیا سوچیں گے ۔۔۔‬
‫میں نے انکل کی طرف منہ کیا اور انکی ران پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا۔۔‬
‫انکل جی آپ ایسا کیوں سوچ رھے ہیں کیا ہم آپ کے اپنے نہیں ہیں ۔۔‬
‫انکل نے کھانستے ھوے کہا ۔‬
‫نہیں یاسر پتر ایسی بات نہیں بس ایسے ھی سوچ رھا تھا کہ جوان بچیاں ہیں ایسے ھی لوگ باتیں نہ کریں ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے نسرین کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔۔‬
‫لو جی آپ کے لیے جوان ھوں گی ۔۔‬
‫میرے لیے تو ابھی بھی یہ ناک بہتی بچیاں ھی ہیں ۔۔‬
‫آپ بے فکر ھوکر اپنا اچھے سے چیک اپ کروایں اور انکی ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں ۔۔‬
‫‪.‬اور اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو بالجھجھک مجھے کہنا ۔‬
‫انکل نے میرے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرتے ھوے ھاتھ میری کمر پر لیجا کر کمر کو تھپتھپایا اور بولے ۔‬
‫جیوندہ رہ پتر تم لوگ ھی تو ہمارے اپنے ھو اور تم تو ویسے بھی ہمارے گھر کے فرد ھو ہم نے تو تمہیں کبھی بھی غیر‬
‫نہیں سمجھا ۔‬
‫تو میں نے کہا۔۔‬
‫تو پھر میرے ھوتے ھوے فکر کس بات کی کرتے ہیں ۔۔‬
‫اگر کوئی پیسوں کی پرابلم ھے تو بتائیں آپ کے بیٹے پر اوپر والے کا بڑا کرم ھے ۔‬
‫انکل کھانستے ھوے بولے ۔‬
‫نہیں پتر جیوندہ رھ پیسے تو ہیں بس ان بچیوں کی فکر تھی کیوں کہ الہور میں پتہ نہیں کتنے دن لگ جائیں ۔۔‬
‫زمانہ خراب ھے بس یہ ھی ڈر تھا ۔‬
‫اور اب تیری وجہ سے وہ بھی پریشانی ختم ھوگئی ۔۔‬
‫میں تو یہ سوچ بیٹھا تھا کہ ہمارا شہزادہ اب امیر بندہ ھوگیا ھے‬
‫پتہ نہیں اب ہمیں لفٹ کرواتا ھے کہ نہیں ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی انکل ۔‬
‫اب ایسی بھی بات نہیں میں آپ کے لیے وہ ھی پرانا یاسر ھوں جسکو آپ کندھوں پر بیٹھا کر کھالیا کرتے تھے۔‬
‫انکل نے پھر میرے سر پر پیار دیتے ھوے مجھے دعائیں دیں ۔۔‬
‫اورپھر میں نے پوچھا انکل جی الھور آپ رہیں گے کہاں ۔‬
‫انکل بولے تیری آنٹی کے بھائی کے سسرال الہور میں رہتے ہیں ۔‬
‫انسے بات ھوئی ھے ۔‬
‫وہ تو کب کے کہہ رھے ہیں کہ آجاوں مگر بچیوں کی وجہ سے انکو ٹال مٹول کررھے ہیں ۔۔‬
‫آنٹی بولی ۔‬
‫چلو اب چھوڑ بھی دو بچیوں کی فکر یاسر نے تسلی دے تو دی ھے ۔‬
‫بس اب آپ ایک دو دنوں میں الہور چلنے کی تیاری کریں ۔‬
‫میں کل ھی بھائی سے بات کرتی ھوں کہ ہم آرھے ہیں ۔۔‬
‫میں کچھ دیر مذید انکے پاس بیٹھا رھا ۔‬
‫اور پھر ان سے اجازت لینے کے بعد میں گھر واپس آگیا۔۔۔‬
‫اگلے دو تین دن بھی ایسے ھی گزر گیے ان دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا ۔۔‬
‫بس وہ ھی روز مرہ کے معامالت ۔۔‬

‫)‪Update no (162‬‬
‫چوتھے دن میں گھر سے سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا ۔‬
‫اور بیل دی تو ماہی نے دروازہ کھوال ۔‬
‫میں نے مسکراتے ھوے پوچھا خیر ھے پتر آج کالج کیوں نہیں گئی ۔‬
‫تو ماہی کچھ پریشانی سے بولی کککچھ نہیں بھائی بس ایسے ھی ۔‬
‫میں نے اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ھوے پیار سے پوچھا کیا ھوا ماہی پریشان‬
‫کیوں ھو ۔۔‬
‫تو ماہی ایک دم میرے کندھے کے ساتھ لگ کر اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں ماہی کے یوں رونے سے پریشان ھوگیا اور میرا دھیان فورن آنٹی کی طرف گیا کہ کہیں انکی طبعیت نہ خراب ھو ۔۔‬
‫میں نے سنجدیگی سے ماہی کے سر کو سہالتے ھوے پوچھا ۔‬
‫کیا ھوا بیٹا کیوں رو رھی ھو گھر میں سب خیریت تو ھے ۔۔‬
‫اتنے میں ضوفی بھی گیراج کی طرف چلتی آئی ۔۔‬
‫اورماہی کو یوں روتےھوے اسکے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگ گئے۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫‪.‬ضوفی کیا ھوا اسے یہ کیوں رو رھی ھے اور تم بھی کیوں پریشان ھو کوئی مجھے کچھ بتاے گا بھی کہ نہیں‬
‫میں نے ضوفی کو دیکھتے ھوے ایک ھی سانس میں ڈھیر سارے سوال کردیے ۔۔‬
‫ضوفی ایکدم خود کو سنبھالتے ھوے میرے قریب آئی اورماہی کو پکڑ کر اسکے سر کو اپنے کندھے سے لگا کر اسکی گال‬
‫تھپتھپا لر اسے چپ کرواتے ھوے ۔‬
‫ڈرائنگ روم کی طرف لیجاتے ھوے بولی کچھ نہیں ھوا ۔‬
‫بس ایسے ھی پاگل ھے یہ فضول میں روے جارھی ھے ۔۔‬
‫میں ضوفی کے پیچھے حیران ھوتا ھوا چلتا ڈرائنگ روم میں پہنچا تو ضوفی نے ماہی کو صوفے پر بیٹھایا اور اسکے ساتھ‬
‫بیٹھ کر اسکے آنسو صاف کرتے ھوے اسے چپ کروانے لگ گئی ۔‬
‫ماہی بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رھی تھی ۔۔‬
‫میں نے نظر چاروں طرف دوڑا کر آنٹی کو دیکھا کہ اتنے میں آنٹی بھی پریشان سی کمرے سے نکلی اور میری طرف ایک‬
‫نظر ڈال کر وہ بھی بھاگی ھوئی ماہی کی طرف گئی اور کیا ھوا میری بچی کو کرتی ھوئی انکے ساتھ ھی بیٹھ کر ماہی کو‬
‫چپ کروانے لگ گئی ۔۔‬
‫ماہی کے ایک طرف ضوفی اور دوسری طرف آنٹی بیٹھی تھی‬
‫جبکہ میں انکے سامنے منہ کھولے کھڑا باری باری تینوں کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫مجھے معاملہ کافی سنجیدہ لگا ۔۔‬
‫میں نے پھر آنٹی جی کو مخاطب کرتے ھوے کہا۔‬
‫آنٹی جی ہوا کیا ھے مجھے بھی تو کچھ بتائیں ۔سب خیریت تو ھے ماہی کیوں رو رھی ھے اور آپ سب کیوں پریشان ہیں۔‬
‫اس سے پہلے کہ آنٹی کچھ بولتی ۔‬
‫ماہی میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫بھائی میں نے اب کالج نہیں جایا کرنا مجھے روز ۔۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی نے ماہی کے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے اس کی آواز کو دبا دیا۔۔‬
‫اور غصے سے ماہی کو گھورتی ھوئی بولی ۔۔۔‬
‫منہ بند رکھو تمہیں رات کو بھی سمجھایا تھا ۔۔‬
‫آنٹی کا رنگ بھی اڑ گیا تھا۔۔‬
‫میں ان سب کی حالت دیکھ کر مذید پریشان ھوگیا اور آگے بڑھا اور ماہی کی کالئی کو پکڑا اور اسے کھینچ کر ان دونوں‬
‫کے بیچ میں سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اسکو بازو سے پکڑے ایک طرف لیجا کر کھڑ کیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر‬
‫ہالتے ھوے بوال ۔‬
‫بولو پتر کیا بات ھے کیا ھوا ھے جو تم کالج نہیں جانا چاہتی کسی نے کوئی بات کی ھے کیا۔۔۔۔‬
‫ماہی آنٹی اور ضوفی کی طرف دیکھے جارھی تھی ۔۔۔‬
‫اتنے میں ضوفی جلدی سے اٹھی اور میرے قریب آکر کھڑے ھوکر بولی ۔‬
‫یاسر کچھ بھی نہیں ھوا یہ تو پاگل ھے ایسے ھی کہہ رھی ھے ۔‬
‫کالج میں ٹیچر نے اسے ڈانٹا ھے تو بس اس بات کو لے کر ۔۔۔‬
‫میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ھوے کہا چپپپپ۔۔۔‬
‫میں بچہ نہیں ہوں جو تم مجھے یوں بیوقوف بنا رھی ھو ۔۔‬
‫جاو تم ادھر جا کر بیٹھو ۔۔‬
‫میں اپنی بہن سے خود بات کرتا ھوں ۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔مگر یاس۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے گرجدار آواز میں ضوفی کی بات کو ٹوکتے ھوے کہا ۔‬
‫تمہیں سنا نہیں ۔۔کہ ادھر جا کر بیٹھ جاوووووووو۔‬
‫ضوفی ایک دم کانپی اور سہم کر مجھ سے دور ہٹ کر کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میرا رنگ غصہ سے سرخ ھوچکا تھا۔۔۔‬
‫میں نے پھر ماہی کی طرف دیکھا اور اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ھوے کہا۔۔‬
‫ماہی تم مجھے اپنا بھائی سمجھتی ھو کہ نہیں۔‬
‫ماہی نے اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا جی۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تو پھر اپنی پریشانی بھائی سے چھپاتے ہیں کیا۔۔۔۔۔ماہی نے نفی میں سرہالتے ھوے کہا نہیں۔۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫چلو پھر بتاو کیا بات ھے کہ میری بہن کالج کیوں نہیں جانا چاہتی ۔۔‬
‫ماہی نے پھر ضوفی اور آنٹی کی طرف دیکھا تو میں نے ماہی کو کہا ۔‬
‫ماہی ادھر میری طرف دیکھو اور بتاو کیا بات ھے ورنہ میں یہ ھی سمجھوں گا کہ تم مجھے اپنا بھائی نہیں بلکہ غیر‬
‫سمجھتی ھو ۔۔۔‬
‫‪.‬ماہی نے الچارگی سے میری طرف دیکھا اور پھر اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے شروع ھوگئے ۔۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر اسکے بولنے کا انتظار کیا تو پھر میں نے اس کے کندھوں کو چھوڑا اور بوال ۔۔۔‬
‫ٹھیک ھے اگر تم مجھے اپنا بھائی نہیں سمجھتی اور پھر میں نے غصے سے آنٹی اور ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اور اس گھر والے بھی مجھے اپنا نہیں سمجھتے تو میرا یہاں رکنا فضول ھے ٹھیک ھے جیسے تمہاری مرضی ۔‬
‫اور میں گلوگیر آواز میں بولی ۔‬
‫اوکے میں چلتا ھوں ۔۔۔‬
‫یہ کہہ کر میں مڑ کر واپس گیراج کی طرف جانے لگا تو ۔۔‬
‫ماہی دوڑ کر میرے پیچھے آئی اور میرا بازو پکڑتے ھوے بولی ۔۔‬
‫رکو بھائی میں بتاتی ھوں ۔۔۔‬
‫میں وہیں رک گیا ۔۔۔‬
‫تو ماہی بولی ۔۔‬
‫بھائی تین چار لڑکے ہیں پتہ نہیں کون ہیں میں انکو نہیں جانتی وہ روز کالج تک میرے پیچھے آتے ہیں اور طرح طرح کی‬
‫آوازیں کستے ہیں ۔۔‬
‫کل تو ان میں سے ایک لڑکے نے میرا بازو پکڑ لیا تھا ۔۔۔‬
‫ماہی کی بات سن کر میرا رنگ مذید سرخ ہوگیا غصے سے میری آنکھوں میں خون تیرنے گا ۔‬
‫میرا جسم ہلکا ہلکا کانپنے لگ گیا۔۔۔‬
‫میں نے تھرتھراتی آواز میں ماہی سے پوچھا۔‬
‫کب سے وہ تمہارا پیچھا کررھے ہیں اور کس وقت کس جگہ سے تمہارے پیچھے لگتے ہیں اور کس چیز پر سوار‬
‫ھوتےہیں ۔‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں سارے سوال کردیے ۔۔‬
‫ماہی بولی ۔‬
‫بھائی وہ پانچ چھ دنوں سے میرا پیچھا کررھے ہیں ۔‬
‫پہلے تو میں انکو اگنور کرتی رھی مگر کل تو ۔۔۔۔۔‬
‫ماہی پھر زارو قطار رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے اسکے سر پر پیار دیا اور اسے اپنے کندھے کے ساتھ لگا کر ۔‬
‫دالسا دیتے ھوے کہا ۔‬
‫چپ کر میرا پتر‬
‫تیرا بھائی ابھی زندہ ھے ۔ تو مجھے پہلے دن ھی بتا دیتی تو یہاں تک نوبت ھی نہیں انی تھی ۔۔‬
‫چل میرا پتر چپ کر اور بتا کہ تم ان کو پہچان لو گی ماہی اثبات میں سر ہالتے ھوے بولی ۔۔‬
‫ہممممم‬
‫میں نے کہا بس آج کا دن تو کالج سے چھٹی کر اور ویسے بھی اب کالج کا ٹائم ختم ھوگیا اس لیے آج تو گھر رھ کل میں‬
‫تیرے ساتھ جاوں گا اور پھر تم دیکھنا تیرابھائی کیا کرتا ھے ۔‬
‫اس کے بعد کوئی بھی تیری طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا کر دیکھے گا ۔۔۔‬
‫یہ کہتے ھوے میں ماہی کو واپس ڈرائنگ روم میں لے آیا آنٹی اور ضوفی ماہی پر بڑھک اٹھیں کہ مجھے کیوں بتایا اب‬
‫کوئی خون خرابا نہ ھو جاے ۔۔‬
‫ضوفی ذیادہ ڈری ھوئی تھی کیوں کے وہ پہلے میرا پاگل پن اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی اور ضوفی کو تھوڑا نرم لہجے میں سمجھایا کہ آپ پریشان نہ ھوں کچھ بھی نہیں ھوتا ایسی لفنڈروں کو جس‬
‫زبان میں سمجھایا جاتا ھے وہ مجھے اچھی طرح آتی ھے ۔‬
‫انٹی بولی پتر مجھے ڈر لگ رھا ھے اس پاگل کو سمجھایا تھا کہ تجھے نہ بتاے مگر اسکے پیٹ میں بات نہ رھی ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی ماہی میری بلکل ایسے ھی بہن ھے جیسے نازی میری بہن ھے آپکی عزت میری عزت ھے ۔‬
‫میں نے اس گھر کا نمک کھایا ھے اور آپ لوگوں کی وجہ سے میں اس مقام پر ھوں ۔‬
‫اور میری بہن کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو مجھ سے یہ برداشت نہیں ھوگا ۔۔‬
‫ان بہن چودوں کی وجہ سے میری بہن پڑھائی نہیں چھوڑے گی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر مذید ہم اسی ٹاپک پر بات کرتے رھے آنٹی مجھے بار بار لڑائی سے منع کرتی رھی ضوفی بھی مجھے سمجھاتی‬
‫رھی اور پھر میں اور ضوفی دکان پر آگئے راستے میں بھی ضوفی مجھ سے وعدے لیتی رھی کہ لڑنا نہیں ھے بس پیار‬
‫سے سمجھا دینا ۔۔‬
‫میں ہوں ہاں میں اسکی باتوں کا جواب دیتا رھا ۔۔۔۔‬
‫دکان پر پہنچا مجھے پریشان دیکھ کر جنید نے وجہ پوچھی تو میں نے اسے ساری تفصیل بتادی ۔۔۔‬
‫‪.‬جنید کا پارا بھی چڑھ گیا‪ ،‬اور وہ مجھے ابھی چلنے کا کہنے لگ گیا میں نے اسے سمجھا بجھا کر رلیکس کیا کہ اب وہ‬
‫سالے ُپھکرے ہمیں نہیں ملیں گے اس لیے کل صبح صبح تم تیار رہنا بونی ان سے ھی کریں گے ۔۔۔اور ویسے بھی کافی دن‬
‫ھوگئے ہین ہاتھ گرم نہیں کئے ۔۔‬
‫جنید نے بھی کل لڑنے کی پوری تیاری کس لی ۔۔۔‬
‫اور پھر کسٹمرز کی آمد کے بعد ہم کام میں مصروف ہوگئے ۔۔‬
‫رات کو میں نے جنید کو ٹائم اور جگہ کا بتایا اور پھر ضوفی کو گھر چھوڑا اور ماہی کو حوصلہ دیا کہ صبح تم کالج کے‬
‫لیے تیار رہنا اور پیدل ھی اکیلی جانا ۔۔‬
‫ہم فالں جگہ پر کھڑے ھوں گے اور بلکل بھی نہ گبھرانا ۔۔۔۔ماہی پہلے مجھے منع کرتی رھی آنٹی بھی الکھ سمجھاتی رھی ۔‬
‫مگر میری ضد کے سامنے سب کو ہار ماننا پڑی ۔۔‬
‫میں پھر انکے گھر سے نکال اور سیدھا گاوں پہنچا اور گھر سے کھانا وغیرہ کھا کر باہر چوک کی طرف چل پڑا اور حسب‬
‫منشا میرے لفنڈر یار چوک میں بوڑھ کے نیچے ڈیرہ جماے بیٹھے تھے ۔۔‬
‫مجھے دیکھ کر سب ھی بہت خوش ھوے ۔۔۔‬
‫سب ھی مجھے طرح طرح سے ُج گتیں مار مار کر چھیڑ رھے تھے کہ آج کل خوب شہری پوپٹ بچیاں دیکھ رھا ھے ۔‬
‫کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ ۔۔۔‬
‫شادا بھی انکا ساتھ برابر دے رھا تھا ۔۔‬
‫ہم ایسے ھی ایک گھنٹہ بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے رھے ۔۔۔‬
‫پھر میں نے سب کو مخاطب کرتے ھوے کہا کہ کل کیا مصروفیت ھے ۔۔‬
‫شادا بوال توں حکم ال کی کرناں ایں ۔۔‬
‫میں نے کہا بندا مروانا ھے مار دیویں گا ۔۔۔‬
‫شادا شوخی سے بوال مار دیواں گے بندا وی بندے ای ماردے نے ۔۔۔‬
‫میں نے تھوڑا سنجیدہ ھوتے ھوے کہا ۔۔‬
‫یار ایک مسئلہ ھے ۔۔‬
‫تم سب کو صبح سات بجے میرے ساتھ شہر جانا ھے ۔۔‬
‫شادا بوال خیر تے ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫یار ُک ش ُمنڈے پھینٹنیں نے ۔‬
‫شادا بوال لے دس اے وی کوئی کم اے ۔‬
‫پھینٹ دیاں گے ۔۔‬
‫میں نے کہا بس پھینٹنے ھی ہیں سر نہیں پھاڑنے ۔‬
‫بس ُگ جیاں سٹاں مارنیاں نے ۔۔‬
‫سب ایک ساتھ بولے کوئی روال ای نئی ۔۔‬
‫میں نے پھر سب کو ساری حقیقت بتائی مگر آدھی کیوں کہ ماہی کو میں نے جنید کی بہن بتایا ۔۔‬
‫شادا مجھے چھیڑتے ھوے بوال ۔‬
‫پھدی دیا توں ہمیشہ ُک ڑیاں پچھے ای سانوں لڑایا کر‪ .‬کسی اپنے واسطے وی سانوں حکم الدیا کر۔۔‬
‫میں نے کیا یار وہ لڑکی میری بہن جیسی ھے ایسی کوئی بات نہیں میرا دوست ھے نہ جو اس دن ہمارے ساتھ لڑا تھا جنید ۔۔‬
‫سب نے ہاں ھاں ھاں کہا ۔‬
‫میں نے کہا اب وہ میرے پاس کام کرتا ھے وہ لڑکی اسکی بہن ھے ۔‬
‫تو سب کا ھی پارا چڑھ گیا اور پھر شادے نے کہا کہ کل دو کو تم موٹر سائکل پر بٹھا لینا اور باقی کو میں ٹریکٹر پر لے‬
‫چلوں گا ۔۔‬
‫میں مذید ایک گھنٹہ ادھر بیٹھا رھا اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے ۔۔‬
‫اگلے دن سب وقت پر چوک میں جمع ھوگئے میں نے دو لڑکوں کو بائک پر بٹھایا اورباقی کے چار لڑکے شادے کے ساتھ‬
‫ٹریکٹر پر سوار ھوگئے ۔۔‬
‫ڈنڈے ہم نے ٹریکٹر پر ھی رکھ لیے تھے اور ہمارا دو سواریوں کا قافلہ شہر کی طرف روانہ ھوگیا ۔۔۔‬

‫)‪Update no (163‬‬
‫اگلے دن سب وقت پر چوک میں جمع ھوگئے میں نے دو لڑکوں کو بائک پر بٹھایا اورباقی کے چار لڑکے شادے کے ساتھ‬
‫ٹریکٹر پر سوار ھوگئے ۔۔‬
‫ڈنڈے ہم نے ٹریکٹر پر ھی رکھ لیے تھے اور ہمارا دو سواریوں کا قافلہ شہر کی طرف روانہ ھوگیا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم مقررہ جگہ پر پہنچے تو جنید بھی دو لڑکوں کو ساتھ لے کر موٹرسائیکل پر پہلے ھی اس جگہ موجود‬
‫تھا ۔۔۔۔‬
‫ہم سب باری باری جنید اور اسکے دوستوں سے ملے ہم جس جگہ کھڑے تھے ہماری وجہ سے وھاں کافی ہجوم سا لگ گیا‬
‫تھا ۔۔۔‬
‫میں نظر اسطرف تھی جدھر سے ماہی نے آنا تھا ۔۔۔‬
‫اور ماہی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ لڑکے اس جگہ سے ھی میرے پیچھے لگتے ہیں ۔۔‬
‫مگر مجھے ابھی تک نہ تو ماہی آتی نظر آئی اور نہ ھی کوئی لڑکے ایسے نظر آے جو مشکوک ھوں ۔۔۔‬
‫میں ابھی یہ سوچ ھی رھا تھا کہ مجھے دور سے تین موٹر سائکلوں پر سوار چھ لڑکے پینٹیں پہنیں بال شال بنا کر سن‬
‫گالسس لگاے بڑے ہیرو بنے آہستہ آہستہ موٹر سائیکلوں کو چالتے آتی جاتی لڑکیوں کو تاڑتے ھوے ہماری طرف آتے‬
‫دیکھائی دیے ۔‬
‫انکو دور سے دیکھتے ھی‬
‫میری چھٹی حس نے فورن کام کیا کہ ہو نہ ہو یہ سالے وہ ھی ُپھکرے ہیں اور فورن میرے دماغ نے کام کیا کہ اگر انہوں‬
‫نے ہمیں اکھٹے کھڑے دیکھ لیا تو سارا کام بگڑ جانا ھے ۔۔‬
‫ایک تو انکے کھڑے ھونے کی جگہ بھی یہ ھی تھی دوسرا‬
‫ہم ڈشکروں کے سامنے وہ سب ابھی بچے تھے ۔۔‬
‫۔۔۔ممی ڈیڈی بچے ۔۔۔‬
‫اور ہم سب کو ایک ساتھ دیکھ کر انکو ُک ھڑک جانی تھی کہ‬
‫‪.‬اج ساڈے کھڑکن گیاں ‪.‬‬
‫‪.‬میں نے سب کی توجہ ان دور سے آنے والے لڑکوں کی طرف دالئی اور شادے کو کہا کہ تم ٹریکٹر کو آگے لے جاو اور‬
‫کچھ فاصلے پر کھڑے ھوجاو اور جنید کو بھی کہا کہ تم ٹریکٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ھوجانا تاکہ انکو شک نہ ھو کہ‬
‫ہم سب ایک ساتھ ہیں ۔۔۔‬
‫اور اگر ان مین سے کوئی بھاگنے لگے تو جنید تم آگے سے انکو گھیر لینا اور جب تک میں نہ کہوں تب تک ان کو کچھ‬
‫نہیں کہنا ۔۔۔‬
‫ہم نے جلدی سے پالن تیار کیا اور اس سے پہلے کہ وہ لڑکے ہمارے قریب پہنچتے شادا اور جنید آگے نکل گئے اور میں‬
‫اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں کھڑا ھوگیا اور دوستوں کو بھی سمجھا دیا کہ تم ان کی طرف مت دیکھنا اور ہم ایسے کھڑے‬
‫ھوگئے جیسے مجھے میرے دوست راستے میں راہ چلتے ملے ہوں اور ہم کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کررھے ھوں ۔۔۔‬
‫میرے دوست بیچارے پینڈوں ٹائپ اور سادہ سے میلے کپڑوں میں تھے ۔۔‬
‫خیر‬
‫وہ لڑکے سلو موشن میں بائک کو چالتے سیٹیاں بجاتے ہمارے قریب آکر رک گئے اور باری باری تین پیچھے بیٹھے لڑکے‬
‫اتر کر پینٹوں میں ہاتھ دے کر بڑے ہیرو بن کر کھڑے ہوکر ادھر ادھر دیکھ کر سکول‪ .‬وکالج کی لڑکیوں کو تاڑنے لگ‬
‫گئے ۔۔‬
‫ہم اپنے دھیان کھڑے باتیں کررھے تھے ۔‬
‫کہ ان میں سے ایک ہیرو ہماری طرف بڑھا اور بڑے رعب سے بوال ۔۔‬
‫اوےےے ہیلو ادھر کھڑے کیا کررھے ھو چلو کھسکو ادھر سے ۔۔‬
‫میرا ایک دوست اسکی طرف بڑھنے لگا تو میں نے اسکی کالئی کو پکڑا اور اسے روک لیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے‬
‫کہا ۔‬
‫اچھا بھائی چلے جاتیں ہیں ناراض کیوں ھورھے ھو۔۔‬
‫تو دوسرا لڑکا بھی اسکے پاس آکر بوال چلو چلو شاباش نکلو یہاں سے ۔۔۔‬
‫میں اسکی طرف دیکھتے ھوے پاوں سے ھی بائک کو چالتے آگے کی طرف لے گیا اور دوستوں کو بھی آنے کا کہا ہم ان‬
‫لڑکوں سے کافی آگے جاکر کھڑے ہوکر پھر باتیں کرنے لگ گئے میرے دوست مجھے برا بھال کہی جارھے تھے کہ میں‬
‫نے انہیں کیوں روکا ۔۔‬
‫میں نے انہیں صبر کرنے کا کہا اور جس طرف سے ماہی نے آنا تھا اسطرف دیکھنے لگ گیا۔۔۔‬
‫وہ لڑکے ابھی تک وہیں کھڑے تھے اور اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر گزری تھی ۔۔‬
‫کہ مجھے دور سے نقاب میں ماہی آتی ھوئی نظر آئی ۔۔‬
‫میں نے لڑکوں کی طرف دیکھا تو وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے آپس میں کوئی بات کر رھے تھے اور انکا دھیان بھی‬
‫ماہی کی طرف ھی تھا ۔۔‬
‫جیسے جی ماہی انکے قریب سے گزری ان میں سے ایک لڑکے نے جس نے ہمیں وہاں سے بھاگنے کا کہاں تھا اس نے‬
‫ماہی پر کوئی جملہ کسا ماہی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور جب اسکی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے انگلی منہ پر‬
‫رکھ کر اسے خاموش رہنے کا کہا تو ماہی میرا اشارہ پاتے ھی آگے چلتی ھوئی ہمارے قریب پہنچی اور ماہی کے پیچھے‬
‫ھی وہ سب لڑکے موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر پیچھا کرتے ھوے ماہی کے پیچھے پیچھے آنے لگ گئیے۔۔‬
‫ماہی ہم سے کچھ فاصلے پر ھی تھی کہ ان میں سے ایک موٹر سائکل سوار ماہی کے برابر آیا اور اسکے پیچھے بیٹھے‬
‫لڑکے نے ہاتھ آگے بڑھا کر ماہی کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو ماہی جو پہلے سے ھی ہوشیار تھی اس نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کیا‬
‫اور سڑک کے کنارے پر کھڑی ھوکر انکو گالیاں دینے لگ گئی ۔‬
‫موٹر سائکل سوار نے بریک لگائی تو پیچھے بیٹھا لڑکا موٹر سائکل سے چھالنگ مار کر اترا اور ماہی کی طرف بڑھا ۔۔‬
‫ہم تینوں کھڑے یہ سب ماجرہ دیکھ رھے تھے ۔‬
‫مجھے بس اسی موقع کا انتظار تھا ۔‬
‫‪.‬میں نے اپنے دونوں دوستوں کو کہا کہ تم ابھی ادھر ھی رکو اور یہ کہتے ھوے میں تیزی سے بائک کو سٹینڈ پر لگایا اور‬
‫اس سے پہلے کہ وہ لڑکا ماہی کے پاس پہنچتا میں بجلی کی سی تیزی سے بھاگ کر لڑکے اور ماہی کے درمیان میں کھڑا‬
‫ھوگیا۔۔۔‬
‫ماہی میرے پیچھے کھڑی تھی اور لڑکا میرے آگے ۔۔۔‬
‫لڑکے نے جب مجھے یوں کباب میں ہڈی بنتے دیکھا تو ۔۔بڑے غصے سے میری طرف دیکھا اور میرا گریبان پکڑتے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫گانڈو تجھے پہلے بھی کہا تھا کہ ادھر سے نکل لے ۔۔۔‬
‫مگر تو ساال بیچ میں ہیرو بننے آگیا ھے ۔‬
‫جانتا نہیں مجھے کیا کہ میں کون ہوں ۔۔۔‬
‫میں نے اسکی باتوں کو نظر انداز کرتے ھوے کہا کہ ۔‬
‫اس لڑکی کو تنگ کیوں کررھے ھو۔۔‬
‫اس کے باقی ساتھ بھی بڑی شوخی سے مجھ اکیلے کو دیکھ کر میرے ارد گرد کھڑے ھوگئے تھے ۔۔‬
‫تو وہ لڑکا قہقہہ لگاتے ھوے میرے گریبان کو جھنجھوڑتے ھوے بوال ۔۔‬
‫کیوں تیری بہن ھے یا پھر توں اسکا ٹھوکو ھے ۔۔۔‬
‫لڑکے کی بات سنتے ھی میرا دماغ گھوم گیا اور میں نے اسکی کالئی کو پکڑا جس سے اس نے میرا گریبان پکڑا ھوا تھا ۔‬
‫اور ایک ذوردار جھٹکے سے اسکی کالئی کو مروڑا تو چٹخ کی آواز آئی جیسے اسکی کالئی کا جوڑ اکھڑ گیا ھو ۔‬
‫لڑکے کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی اور ساتھ ھی میں نے ٹانگ فولڈ کی اور ذوردار کک اسکے پیٹ میں ماری ۔‬
‫لڑکا بلکتا ھوا پیچھے کھڑے لڑکے کے اوپر جاگرا ۔‬
‫پیچھے کھڑا لڑکا اپنی موٹر سائکل کے آگے کھڑا تھا‬
‫ٹانگ کھانے واال لڑکا جب پیچھے کھڑے لڑکے کے اوپر گرا تو دونوں پیچھے بائک پر گرے اور بائک کو ساتھ لیتے ھوے‬
‫سڑک پر جاگرے ۔۔‬
‫اتنے میں باقی چاروں لڑکے ممی ڈیڈی بھڑکیں مارتے ھوے مجھ پر یلغار ھوے اس سے پہلے کے لڑکے مجھ تک پہنچتے‬
‫ان سے پہلے میرے دوست ان کے سر پر آ پہنچے اور ساتھ ھی ٹریکٹر اور جنید بھی آ پہنچا بس پھر انکو پتہ بھی نہ چال کہ‬
‫کہاں کہاں سے انکو پڑنا شروع ہوگئیں ہیں ۔۔‬
‫میں نے پھر اسی لڑکے کو گریبان سے پکڑا اور ہجوم سے باہر کھینچتا ھوا لے آیا یہ وہ ھی لڑکا تھا جس نے ماہی کا ہاتھ‬
‫پکڑنے کی کوشش کی تھی ۔‬
‫اور جسکی کالئی کا جوڑ اکھڑا تھا۔۔۔‬
‫ماہی گبھرائی ہوئی ایک طرف کھڑی دونوں ہاتھ منہ پر رکھے ۔‬
‫ان لڑکوں کی پٹائی دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں اس لڑکے کو کھینچتا ھوا ماہی کے سامنے لے آیا اور ماہی کے سامنے ھی اسپر التوں اور گھونسوں کی بارش کردی وہ‬
‫بلکتا رھا چالتا رھا معافیاں مانگتا رھا مگر میں نے اسکی ایک نہ سنی اور مسلسل اسکی ٹھکائی کرتا رھا ۔‬
‫جب وہ لڑکا بےجان ہوکر نیچے گرا تو میں اس‪ ،‬پر ہاتھ نرم کیا اور اسکے پیٹ پر ایک زور دار ٹھوکر ماری تو اسکے منہ‬
‫سے دلدوز چیخ نکلی اور وہ پیٹ پر ھاتھ رکھے سڑک پر لیٹیاں لینے لگ گیا۔‬

‫)‪Update no (164‬‬
‫میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا تو لڑکے کے منہ سے خون اور تھوک ٹپک رھا تھا ۔‬
‫سالے کی ایک منٹ میں ساری ہیرو گری نکل گئی تھی میں نے اسکے سر کے بالوں کو جنجھوڑا اور ماہی کی طرف انگلی‬
‫کرکے کہا پکڑ ہاتھ اسکا گشتی کے بچے اور پھر میں نے اسکا وہ ھاتھ پکڑا جسکا شاید جوڑ اکھڑ چکا تھا ۔۔اور اسکے ہاتھ‬
‫کو پھر مروڑ کر بوال ۔‬
‫یہ ھی ہاتھ میری بہن کی طرف اٹھا یا تھا نہ ۔‬
‫لڑکا ذور ذور سے چیخ کر مجھ سے اور کبھی ماہی سے رحم کی بھیک مانگ رھا تھا ۔۔۔‬
‫میں نے کچھ دیر اسکا ہاتھ مروڑ کر رکھا لڑکا نیم بےہوشی کی حالت جا چکا تھا اور آہستہ آہستہ بول رھا تھا ۔۔‬
‫مجھے معاف کردو مجھے معاف کردو ۔‬
‫اور پھر میں نے اس کے پیٹ میں اپنا گھٹنا مارا تو لڑکا پھر بلبالتا ھوا دھرا ھوا ۔‬
‫تو میں نے اسکی گردن کو پکڑ کر ماہی کے پیروں اسکو پھینکا اور بوال مانگ معافی اپنی بہن سے اور کہہ کہ تو میری بہن‬
‫ھے ۔‬
‫‪.‬لڑکا ماہی کے سکول جوگر کو ہکڑ کر انپر ماتھا رکھ کر ۔‬
‫روتے ھوے بوال ۔‬
‫آپی مجھے معاف کردیں مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز میری جان بچالیں یہ مجھے ماردے گا ۔‬
‫پلیزززز آپی آپ میری بہن ھو میری توبہ آج کے بعد کبھی بھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا ۔‬
‫بس ایک بار مجھے معاف کردیں ۔۔۔‬
‫ماہی کو بھی اسپر ترس آگیا اور اپنے پاوں پیچھے کرتے ھوے میری طرف دیکھتے ھوے بولی بھائی چھوڑ دیں اسے بہت‬
‫ھوگئی اسکے ساتھ ۔۔۔‬
‫میں نے پھر زوردار ٹھوکر اسکی ٹانگوں پر ماری تو وہ کالبازیاں کھاتا ھوا ایک طرف کو چال گیا ۔۔۔۔اسے چھوڑ کر‬
‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا‬
‫تومیرے دوستوں نے ان پانچوں کو مار مار کر باندر بنا دیا تھا ۔۔۔‬
‫اور شادا ان سب کومرغا بننے کا کہہ رھا ۔‬
‫شادے کے ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا پکڑا ھوا تھا ۔۔‬
‫اور پانچوں لڑکے جن کی آنکھوں پر نیل پڑے ھوے تھے مگر کمال کی مار تھی کہ خون کسی کے بھی نہیں نکل رھا تھا ۔‬
‫دوستو۔۔۔‬
‫پینڈواں دی مار تے سٹ ُگ جی ُہندی اے ۔‬
‫جدیاں پیڑاں بڑھاپے وچ وی نکل پیندیاں نے ۔۔۔‬
‫میرے دوستوں نے ایسا ھی کچھ ان پانچوں کا حال کیا تھا سر اور منہ چھوڑ کر انکے نچلے دھڑوں پر ڈنڈے برسائے‬
‫تھے ۔۔۔ لڑکے سڑک پر لیٹیاں لے رھے تھے اورکوئی اپنے بازو کو تو کوئی اپنی ٹانگوں کو پکڑے روئی جارھے تھے ۔۔‬
‫انکی ساری ہیرو گیری نکل چکی تھی ہیرو سے اب مٹی کے باندر بنے ھوے تھے ۔۔‬
‫شادا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے باری باری سب کو مار کر انکو کان پکڑنے کا کہہ رھا تھا۔۔‬
‫میں نے ماہی کو کہا چلو تمہیں پہلے کالج چھوڑ آوں ۔‬
‫ماہی سر جھکائے میرے پیچھے چل دی میں نے بائک پکڑی اور دوستوں کو انکے حال پر چھوڑ کر ماہی کو پیچھے بٹھایا‬
‫اور کالج چھوڑ کر واپس اسی جگہ پہنچا تو ۔۔‬
‫سب لڑکے کان پکڑے سڑک پر مرغا بن کر چل رھے تھے اور شادا انکی گانڈ پڑ باری باری ڈنڈے برسا رھا تھا ۔۔‬
‫چاروں طرف کافی لوگ جمع تھے اور ان کا تماشا دیکھ رھے تھے ۔۔۔‬
‫میں نے وہاں پہنچتے ھی سب کو نکلنے کا کہا کہ بس اتنا ھی کافی ھے ۔‬
‫اور پھر شادے نے باری باری پانچوں کو ٹھڈے مارے اور میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا اور پھر باقی دوستوں کو لے کر‬
‫گاوں کی طرف چل دیا گاوں پہنچ کر میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہیں سے واپس شہر آیا ایک حمام سے اپنا حلیہ‬
‫درست کیا اور وہاں سے سیدھا ضوفی کہ گھر پہنچا ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی یاسر اتنی دیر کہاں لگا دی ماہی کب کی کالج گئی ھے ۔‬
‫اور تم اب آرھے ھو‪.‬‬
‫۔میں نے جان بوجھ کر حیران ھوتے ھوے کہا۔‬
‫اچھااااااااا تم نے اسے اکیلی کو کیوں جانے دیا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫وہ کہہ رھی تھی کہ تم اسے راستے میں ملو گے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا چلو کوئی بات نہیں آجاے گی کچھ نہیں ھوتا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا‪ ،‬ھے چلو پہلے ماہی کے کالج چلتے ہیں ۔۔‬
‫میں نے بھی جلدی سے کہا ہاں ہاں چلو چلو ۔۔۔‬
‫اور ضوفی بھاگتی ھوئی باہر کی طرف لپکی اور میں مسکراتا ھوا اسکے پیچھے باہر نکال ۔۔۔‬
‫کہ اچانک ضوفی کی نظر میری مسکراہٹ پر پڑی تو مجھے گھورتے ھوے بولی ۔‬
‫میری جان پر بنی ھوئی ھے اور تم دندیاں نکال رھے ھو ۔۔‬
‫میں نے کہا تم نکال لو تمہیں کسی نے روکا ھے ۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر قسم سے میں مزاق‪ ،‬کے موڈ میں نہیں ھوں میرا دل گبھرا رھا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا چلو کسی جوا کارنر پر تمہیں جوس پالتا ھوں ۔۔۔تمہارے دل کی گبھراہٹ ختم ھو جاے گی ۔۔۔‬
‫ضوفی پیر پٹختے ھوے بائک کے قریب پہنچی اور انگلی کے اشارے سے حکم صادر کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ہاسر چپ کر کے کالج کی طرف چلو۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا کیوں اب کالج میں اڈمیشن تو نہیں لے لیا۔۔‬
‫میرے ہنسنے اور بےجا مزاق کرنے پر ضوفی چونکی اور میری طرف گھورتے ھوے بولی ۔‬
‫تم ماہی کو کالج چھوڑ کر آے ھو ناں ۔۔‬
‫میں نے الپروائی سے جواب دیتے ھوے کہا ۔۔‬
‫ی‬
‫ہاں ۔۔‬
‫ضوفی بائک پر بیٹھتے ھوے میری کمر تھپڑ مارتےھوے بولی ۔۔‬
‫‪.‬گنداااااااا۔‬
‫پہلے کیوں نہیں بتایا ۔‬
‫ایسے میں میرا کلو خون کم کر کے رکھ دیا۔۔۔‬
‫میں نے بائک سٹارٹ کی اور گئیر لگا کر جھٹکے سے کلچ چھوڑا تو ضوفی نے ایکدم پیچھے سے مجھے جپھی ڈالتے ھوے‬
‫کہا۔۔۔‬
‫بتمیززززززز میں ابھی گرنے لگی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا۔‬
‫میں اپنی جان کو گرنے دیتا ھوں ۔۔۔‬
‫تو ضوفی میرے کندھے پر سر رکھتے ھوے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھے بولی ۔‬
‫یاسر نہ تنگ کیا کرو ۔۔‬
‫تم بہت بگڑ گئے ھو۔۔‬
‫میں نے کہا تم نے ھی تو بگاڑا ھے ۔۔‬
‫ضوفی میرے پیٹ کو اپنی نرم انگلیوں سے سہالتی ھوئی بولی ۔‬
‫وہ کیسے جی ۔‬
‫میں نے کہا دور رھ رھ کر اور ترسا ترسا کر ۔۔۔‬
‫ضوفی میرے پیٹ پر چٹکی کاٹنتے ھوے بولی شوخے جب بھی موقع ملتا ھے تم باز آتے ھو پھر بھی ایسی باتیں کررھے‬
‫ھو۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫اتنے تھوڑے ٹائم میں تو تمہیں دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملتا باقی تو اور کیا کرنا میں نے ۔۔‬
‫ضوفی میری کمر پر ٹکر مارتے ھوے بولی ۔‬
‫اور کیا کرنا ھے تم نے ۔۔‬
‫میں نے کہا جب موقع دو گی تب پتہ چلے گا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی تو پھر جلدی سے امی کو ہمارے گھر بھیج دو ۔‬
‫اور جلدی سے شادی کرلو پھر جو چاھے کرلینا ۔۔۔میں نے لمبا سا سانس لے کر چھوڑا اور بوال ۔‬
‫پتہ نہیں وہ حسین رات کب آنی ھے ۔۔‬
‫ضوفی تھوڑا سنجیدگی سے بولی ۔۔‬
‫اتنے جلد باز مت بنو پہلے سٹینڈ ھوجاو پھر شادی بھی کرلیں گے ۔‬
‫میں نے جلدی سے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور پیٹ سے ہٹا کر اہنے لن پر رکھتے ھوے کہا یہ دیکھو تمہیں دیکھتے ھی تو‬
‫سٹینڈ ھوجاتا ھے اب اور کتنا سٹینڈ کرنا ھے ۔۔۔۔ضوفی نے ذور سے میرے لن کو دبایا اور شرمندہ سی ھوکر ہاتھ جلدی سے‬
‫واپس کھینچا اور میری کمر پر ذور سے مکا مارا اور بولی ۔‬
‫گندااااا جاو میں نہیں بولتی تم سے ۔۔۔۔میں نے ہنستے ھوے ضوفی کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پیٹ پر رکھا مگر ضوفی نے‬
‫پھر واپس ہاتھ کھینچ لیا ۔‬
‫ایسے ھی شرارتیں کرتے ہم دکان پر پہنچے ۔‬
‫جنید ابھی تک دکان پر نہیں آیا تھا‪ ،‬ضوفی پارلر پر چلی گئی ۔‬
‫تو میں نے دکان کھولی اورصفائی وغیرہ کرنے میں مصروف ھوگیا ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا۔۔‬
‫جنید آتے ھی مجھ پر برس پڑا ۔‬
‫اور سٹک پکڑ کر مجھے مارنے کے لیے میرے پیچھے بھاگا ۔۔‬
‫میں بھاگتا ھوا‪ ،‬کاونٹر کے پیچھے چال گیا اور بوال یار ھوا کیا ھے بتاو تو سہی ۔‬
‫جنید بوال ماما میری کیڑی پین اے جنوں او منڈے چھیڑدے سی ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا اچھاااا تو یہ بات ھے ۔‬
‫تمہیں کس نے کہا ھے کہ میں نے یہ کہا ھے ۔۔‬
‫جنید پھر میری طرف سٹک لہراتے ھوے بوال ۔‬
‫ماما جناں نو نال لے کے آیا سی اوناں نوں کی کیا سی کہ او میری پین نوں چھیڑدے سی تے ایس لئی اوناں نو ماریا اے ۔۔۔‬
‫میں قہقہے لگا کر ینسنے لگ گیا ۔‬
‫تو جنید مذید چڑ گیا اور میری ٹانگوں پر آہستہ سے سٹیکیں مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ہنستے رھے پھر میں نے کہا‬
‫یار تیری پین تے میری پین وچ کوئی فرق اے جنید بوال ماما او تے تیری سالی اے ۔‬
‫میں نے کہا بیشک یار مگر پھر میں اسے اپنی بہن ھی سمجھتا ھوں ۔۔‬
‫پھر جنید بھی کچھ رلیکس ھوا اور بوال ٹھیک ھے یار ودائی جا میریاں پیناں ۔۔۔‬
‫میں نے کہا چل کوئی نہ یار اے بس آخری پین ای سمجھ ۔۔‬
‫پھر ہم ان لڑکوں کی چھترول کے بارے میں‪ ،‬باتیں کر کر کے ہنسنے لگ گئے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد کسٹمرز آنے شروع ھوگئے اور ہم دونوں کام میں مصروف ھوگئے ۔۔۔‬
‫رات کو دکان بند کی اور میں ضوفی کو ساتھ لے کر گھر پہنچا ۔۔‬
‫تو ماہی بڑی خوش تھی جبکہ آنٹی کافی پریشان تھی ۔۔‬

‫)‪Update no (165‬‬
‫ماہی بھاگتی ھوئی ضوفی کے گلے ملی اور پھر ساری لڑائی حرف بحرف مزے لے لے کر ہاتھ پاوں مارتے ھوے سنانے‬
‫لگ گئی ۔۔۔‬
‫‪.‬جبکہ ضوفی کا رنگ بدلتا گیا ۔۔‬
‫اور پھر میری طرف دیکھتے ھوے غصے سے بولی ۔‬
‫جناب اتنا کچھ کر آے اور مجھے بھنک بھی نہ لگنے دی ۔۔‬
‫یاسر تم باز آجاو کیوں میری جان لینی ھے ۔‬
‫کیوں ایسے دشمنیاں بڑھا رھے ھو ۔‬
‫پتہ نہیں وہ لڑکے کون تھے اور اب وہ بدلہ نہ لیں ۔‬
‫اور پھر ماہی پر ضوفی بھڑک اٹھی اور اسے بولنے لگ پڑی کہ اب سکون مل گیا تمہیں مجھے پہلے ھی اسی بات کا ڈر تھا‬
‫اسی لیے تمہیں منع بھی کیا تھا کہ اس پاگل کو نہ بتانا ۔‬
‫ورنہ یہ انکو جان سے مارنے پر اتر آے گا مگر تمہارے رونے ھی نہیں ختم ھوے اور نتیجہ دیکھ لیا وہ ھی ھوا نہ جسکا ڈر‬
‫تھا ۔۔‬
‫میں نے کہا ضوفی اب بس بھی کرو اس بیچاری کا کوئی قصور نہیں اگر انکی طنعیت صاف نہ ھوتی تو وہ سالے ُپھکرے‬
‫اس کو روز تنگ کرتے اور آج بھی میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے اسکو تنگ کیا اور اسکا ھاتھ پکڑنے کی کوشش‬
‫کی تھی ۔۔‬
‫میں نے تو پھر بھی اسے پیار سے سمجھایا کہ بات نہ بڑھے مگر اس نے آگے سے گندی گالی دے دی باس پھر ۔۔۔۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔‬
‫پھر جناب پر جن نازل ھوگیا ھوگا اور مار دھاڑ شروع کردی ھوگی۔۔‬
‫میں نے کہا تو بتاو اور میں کیا کرتا ایک بھائی کے سامنے اسکی بہن کا سرے بازار ھاتھ پکڑا جاے اور پھر منع کرنے پر‬
‫آگے سے گالی سننے کو ملے تو ۔‬
‫پھر میرا مرنا ھی بہتر تھا اگر کچھ کرتا نہ ۔‬
‫ضوفی نے جلدی سے میرے منہ پر ھاتھ رکھا اور بولی ۔‬
‫مریں تمہارے دشمن ۔‬
‫یاسر میں تو یہ کہنا چاھ رھی تھی کہ ایسے دشمنی بڑھتی ھے ۔‬
‫میں نے کہا بڑھتی ھے تو بڑھنے دو دیکھ لوں گا جو بھی ھوا ۔‬
‫مگر میری غیرت زندہ ھے بےغیرت نہیں ھوں میں ۔‬
‫شکر کرو کہ وہ لڑکا بچ گیا جس نے میری بہن کا ہاتھ پکڑا تھا ابھی تو اسکا وہ ھاتھ ھی ٹوٹا تھا ۔‬
‫جان سےنہیں گیا ۔۔‬
‫ضوفی نے دونوں ھاتھ منہ پر رکھتے ھوے کہا ہووووووو ھاےےےےےے میں مرگئی ۔۔‬
‫یاسر تم نے اسکا ھاتھ توڑ دیا ۔۔‬
‫تو ماہی بڑی شوخی سے سٹائل بنا کر بتاتے ھوے بولی ۔‬
‫آپی اس نے بھائی کا گریبان پکڑا تو بھائی نے ایسے کر کے ایک ھی جھٹکے میں اسکی کالئی مروڑ دی اور اسکا ہاتھ ُٹنڈا‬
‫ھوگیا اور پھر ماہی نے ٹنڈے کی ایکٹنگ کرتے ھوے کہا پھر وہ ایسےایسے چلتا ھوا میرے قدموں میں گر کر مجھ سے‬
‫معافی مانگنے لگ گیا ۔۔‬
‫باجی اک واری معاف کردے باجی مینوں معاف کردے ۔۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی ٹھہر بتاتی ھوں تجھے کیسے چسکے لے لے کر نقلیں اتار رھی ہے ۔۔‬
‫ضوفی ماہی کو مارنے کے لیے اسکے پیچھے بھاگی تو ماہی بھاگتی ھوئی سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی گئی ۔۔‬
‫آنٹی میرے پاس آئی اور میرے سر پر پیار دے کر میرا ماتھا چوما اور اپنے آنسو صاف کرتے ھوے بولی یاسر بیٹا مجھے‬
‫آج تم پر فخر ھورھا ھے کہ تم اس گھر کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ھو بیٹا مجھے اب اپنی بیٹیوں کی فکر نہیں تم جیسا‬
‫بیٹا مجھے مل گیا مجھے اور اب کسی چیز کی ضرورت نہیں اوپر واال تیری لمبی عمر کرے اور ہر بال سے محفوظ رکھے‬
‫اور نظر بد سے بچاے میرے بچے کو ۔۔‬
‫آنٹی کی شفقت اور محبت دیکھ کر میں نے آنٹی کو گلے لگا لیا اور آنٹی کے سر پر بوسا لیا اور بوال ۔‬
‫آنٹی جی میں اسے اپنا گھر سمجھتا ھوں اور میرے ھوتے ھوے اس گھر کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر میں آنٹی اور ضوفی سے باتیں کرتا رھا جبکہ ماہی اوپر چلی گئی تھی ۔‬
‫اور پھر میں ان سے اجازت لے کر نکلنے لگا تو آنٹی اور ضوفی مجھے دروازے تک چھوڑنے آئیں اور نصیحتیں کرتے‬
‫ھوے مجھے اجازت دی ۔‬
‫ضوفی بار‪ ،‬بار دھیان سے جانا دھیان سے جانا کہے جارھی تھی ۔‬
‫میں ادھر سے نکال اور سیدھا گاوں آیا گھر داخل ھوا تو سامنے عظمی اور نسرین کا دیدار ھوا ۔‬
‫سالم دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد پتہ چال کہ‬
‫آنٹی اور انکل الہور چلے گئے ہیں ۔۔‬
‫اور ان دونوں کو ہمارے گھر چھوڑ گئے ہیں ۔۔‬
‫میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور پھر باہر نکل گیا عظمی اور نسرین سے کوئی خاص بات نہ ھوئی ۔‬
‫باہر نکل کر میں چوک کی طرف چال گیا اور وہاں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مزاق اور آج کی کاروائی پر باتیں کرتے‬
‫ھوے گھنٹہ گزگیا گیا اور پھر میں ان سے اجازت لے کر گھر آیا ۔۔‬

You might also like