You are on page 1of 20

‫​اسکول کے رشتے قسط ‪2‬‬

‫(انسیسٹ کہانی)‬
‫ہماری کالس میں اسوقت کوئی‬
‫پینتالیس کے قریب اسٹوڈنٹس‬
‫تھے جن میں سے پندرہ سولہ‬
‫لڑکیاں باقی سب لڑکے تھے۔‬
‫لڑکیوں کی کرسیوں کی صف‬
‫بندی ایک طرف تھی ںیچ میں‬
‫کچھ جگہ گزرنے کےلئے خالی او‬
‫اسکے عقب میں لڑکوں کی‬
‫چیئرز تھیں ۔‬
‫کالس میں میرے چار پکے‬
‫دوست تھے ۔‬
‫شازل ‪ ،‬دانیال ‪ ،‬زہیر اور زمان ۔‬
‫امی ہماری کالس میں بریک کے‬
‫بعد پونے گیارہ بجے دو پیریڈز‬
‫لیا کرتی تھیں اور پونے بارہ‬
‫بجے کالس سے چلی جاتی‬
‫تھیں پھر انکے میٹرک میں دو‬
‫پیریڈز ہوتے تھے۔‬
‫شازل میرا سب سے اچھا‬
‫دوست تھا۔‬
‫وہ اور میں ساتھ بیٹھتے تھے ۔‬
‫ہم لوگ تیسری الئن میں بیٹھتے‬
‫تھے‪ ،‬میں شازل اور دانیال ایک‬
‫ساتھ بیٹھتے تھے ‪ ،‬زہیر اور‬
‫زمان پیچھے بیٹھتے تھے۔‬
‫سب سے اگلی الئن میں ہمیشہ‬
‫کالس کے سب سے اچھے پڑھنے‬
‫والے لڑکے ہی بیٹھا کرتے ہیں ۔‬
‫سب سے فرنٹ سیٹ پر تین‬
‫اچھے پڑھنے والے لڑکے بیٹھتے‬
‫تھے پھر اسکے بعد ترتیب سے‬
‫پھر ہم تیسری الئن ‪ ،،‬یہاں اس‬
‫چیز کا تذکرہ کرنا اہم ہے‬
‫کیونکہ یہیں سے اصل چیز کی‬
‫شروعات ہوئی تھی۔۔‬
‫بریک میں ہم پلے گراونڈ میں‬
‫جاکر خوب مستی کرتے اور‬
‫کھیلتے تھے‪ ،،،‬ہمارا اسکول‬
‫ٹھیک ٹھاک بڑا تھا۔‬
‫کھیلنے کے لئے پلے گراونڈ بھی‬
‫تھا ۔‬
‫کالسں تقریبًا ایک ہی طرز پر‬
‫بنائیں گئیں تھیں ۔‬
‫بریک میں ہاف ٹائم کے بعد ہم‬
‫لوگ کالس میں آکر بھی خوب‬
‫تفریح کرتے تھے ۔‬
‫میں ہمیشہ پوزیشن لیتا تھا‬
‫لیکن ہماری کالس میں‬
‫کمپیٹیشن بہت ٹف تھا ۔‬
‫اسلئے میں اکثر تھرڈ یا سیکنڈ‬
‫آتا تھا فرسٹ آنا بہت مشکل‬
‫ہوتا تھا۔۔۔۔‬
‫ایک دن ہم بریک سے واپس‬
‫کالس میں آکر یونہی شور مچا‬
‫کر تفریح بازی کررہے تھے اتنے‬
‫میں امی کالس میں پیریڈ لینے‬
‫آگئیں ۔‬
‫سب گڈ مارننگ کہنے کےلئے‬
‫کھڑے ہوئے ۔‬
‫اور پھر بیٹھ گئے۔۔‬
‫سب نے اپنی اردو کی کتاب‬
‫نکالی اور پھر امی پڑھانے لگیں‬
‫۔‬
‫امی نے شازل کو ریڈنگ کےلئے‬
‫کھڑا کیا ۔‬
‫اور سب بچے کتاب پر دیکھنے‬
‫لگے۔‬
‫امی اپنی کرسی پر بیٹھی ہوتی‬
‫تھیں اور انکی ٹیبل پر انکی‬
‫کالس فائل اور کچھ پرسنل‬
‫چیزیں رکھی ہوتی تھیں ۔‬
‫دوستوں جو لوگ اسکول الئف‬
‫سے گزرے ہیں انہیں اندازہ ہی‬
‫ہوگا کالس میں ہمیشہ شریف‬
‫لڑکوں کے ساتھ کچھ آوارہ‬
‫لونڈے اور حرامی لڑکے بھی‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬ہماری کالس کا بھی‬
‫یہی سین تھا۔‬
‫کتاب پر سر اٹکائے بے دھیانی‬
‫میں میری نظر پیچھے گئی تو‬
‫میں نے دیکھا کہ کامران اور‬
‫باسط آپس میں کچھ کھسر‬
‫پھسر کررہے تھے ‪ ،‬ساتھ ساتھ‬
‫وہ کتاب میں چور نظروں سے‬
‫دیکھ رہے تھے اور بار بار آگے‬
‫دیکھ رہے تھے ‪ ،‬میں نے غور‬
‫طلب نظروں سے دیکھا تو وہ‬
‫امی کی جانب دیکھ کر کچھ‬
‫کھسر پھسر کررہے تھے‪ ،‬میں نے‬
‫ایک بار امی کو دیکھا اور‬
‫ترچھی نگاہوں سے انکی طرف‬
‫دیکھا تو باسط نے زبان کتے کی‬
‫طرح باہر نکالی اور جیسے کتا‬
‫گوشت کی تالش میں رال‬
‫ٹپکاتا ہے ‪ ،‬امی کی طرف دیکھا‬
‫اور اپنی زبان کو ذرا سا ہالیا‬
‫اور پھر اندر کرلیا‪ ،،‬پھر باسط‬
‫اور کامران دونوں ہنسنے لگے۔۔۔‬
‫امی ان سب سے بے خبر کتاب‬
‫میں مگن تھی اور شازل کھڑا‬
‫کتاب میں ریڈنگ کررہا تھا‬
‫باقی بچوں کا دھیان بھی کتاب‬
‫پر ہی تھا۔۔۔‬
‫لیکن ابھی ابھی جو حرکت‬
‫ہوئی تھی اس نے میرے اندر‬
‫غّص ے کی آگ بھڑکا دی تھی۔۔‬
‫باسط اور کامران جو حرکت‬
‫کریے تھے امی کی طرف دیکھ‬
‫کر میرے لئے یقین کر پانا‬
‫مشکل ہورہا تھا‪ ،‬کیونکہ یہ‬
‫جانتا تو میں بھی تھا یہ‬
‫دونوں امی کو گندی نظروں‬
‫سے دیکھ رہے تھے اور پھر‬
‫آپس میں کھسر پھسر کر کے‬
‫ہنس رہے تھے ‪،،‬‬
‫مجھے یہ یقین نہیں ہوریا تھا‬
‫کہ آخر کسطرح یہ دونوں اپنی‬
‫ٹیچر کے بارے میں ایسا سوچ‬
‫سکتے ہیں ۔‬
‫لیکن چونکہ میں بھی بلوغت‬
‫میں داخل تھا اور کئیں بار دل‬
‫تو میرا بھی بھٹکا تھا لڑکیوں‬
‫کو دیکھ کر یا بڑی عمر کی‬
‫آنٹیوں کو دیکھ کر۔‬
‫لیکن بات جب میری امی پر آئی‬
‫تو میں طیش میں آگیا لیکن‬
‫صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا‬
‫اور سوچا بعد میں ان کی خبر‬
‫لونگا۔‬
‫اتنے میں امی کی آواز آئی‬
‫جنہوں نے باسط کو کہا ‪ :‬تم‬
‫کیا ہنس رہے ‪ ،‬تمہاری ہنسی بند‬
‫نہیں ہوگی ۔‬
‫چلو کھڑے ہوجاو اور جہاں سے‬
‫شازل نے چھوڑا وہیں آگے سے‬
‫ریڈنگ کرو۔‬
‫آس پاس والے لڑکے ہنسنے لگے ‪،‬‬
‫شازل بیٹھ گیا اور باسط کھڑا‬
‫ہوا لیکن اس کو معلوم ہی نہیں‬
‫تھا کہ شازل کہاں پڑھ رہا تھا‬
‫۔۔‬
‫پھر امی نے اسکو ڈانٹتے ہوئے‬
‫کہا‪ :‬ایک تو تم پڑھنے میں‬
‫ناالئق ہو اوپر سے کالس میں‬
‫بیٹھ کر ہاہاہا ہو ہی ہی کرتے‬
‫رہتے ہو ‪ ،‬کوئی فکر نہیں تمہیں‬
‫اپنی اور گھر والوں کے پیسوں‬
‫کی ۔‬
‫اب کتاب اٹھاؤ اور السٹ میں‬
‫جاکر کھڑے ہوجاو۔‬
‫مجھے بہت مزہ آیا جب امی نے‬
‫اسکو یہ سزا دی اور وہ السٹ‬
‫الئن کے پیچھے جاکر کتاب ہاتھ‬
‫میں پکڑ کے کھڑا ہوگیا ۔۔۔‬
‫اردو کا پیریڈ اسی طرح ختم‬
‫ہوگیا ۔‬
‫پھر امی میتھ کا پیریڈ لینے‬
‫کےلئے کھڑی ہوئی ۔‬
‫میتھ کا کام تو وہ بورڈ پر ہی‬
‫کرواتی تھیں ۔‬
‫پھر ہم نے میتھ کی بکس نکالی‬
‫۔‬
‫میں اپنے پین میں انک (سیاہی)‬
‫بھر رہا تھا لیکن میری انک بھی‬
‫ختم ہوگئی تھی پھر میں نے‬
‫شازل سے لی۔‬
‫کام کرتے کرتے اکثر میری عادت‬
‫سی بن گئی تھی کہ میں اکثر‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا۔‬
‫میں نے گردن گھما کر آخر میں‬
‫کھڑے باسط کو دیکھا تو وہ‬
‫آخری الئن میں بیٹھے لڑکوں کے‬
‫ساتھ تفریح بازی کررہا تھا۔۔۔‬
‫اچانک میری نظر زہیر اور زمان‬
‫پر پڑی تو وہ بھی آپس میں‬
‫باتیں کررہے تھے۔‬
‫زمان نے زہیر کو کہنی مار کا کر‬
‫اشارہ کیا کہ آگے دیکھ ۔‬
‫ہوا یہ تھا کہ ایک دم سے امی‬
‫کے ہاتھ سے چاک گری اور وہ‬
‫اٹھانے کےلئے نیچے جھکی تو‬
‫اوپر اٹھتے ہی قمیض کے انکے‬
‫کولہوں میں پھنس گئ تھی ۔‬
‫یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی‬
‫زمان نے زہیر کو کہنی ماری تو‬
‫دونوں نے ایک ساتھ آگے دیکھا‬
‫اور میں نے بھی آگے دیکھا اور‬
‫جو آگے کا منظر تھا اسکو‬
‫دیکھ کر واپس ان دونوں کی‬
‫طرف دیکھا تو زمان اپنے‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا اور‬
‫ایک ہاتھ اسکا اپنی پینٹ کے‬
‫اوپر تھا جس سے وہ اسکو دبا‬
‫رہا تھا۔‬
‫پھر ایک دم سے زہیر نے زمان‬
‫کے کان میں کوئی سرگوشی‬
‫کی جس سے زمان نے میری‬
‫طرف دیکھا اور ڈر کر منہ نیچے‬
‫کتاب میں کر لیا۔‬
‫زمان اور زہیر نے ایک بار میری‬
‫طرف دیکھا میں نے دونوں کو‬
‫خونخوار نظروں سے دیکھا تو‬
‫وہ پھر سے ڈر کے مارے کتاب‬
‫میں دیکھنے لگے۔۔۔‬
‫اس دن کا پیریڈ تو جیسے‬
‫تیسے کرکے گزر گیا۔‬
‫(جاری ہے)‪........‬‬

You might also like