Professional Documents
Culture Documents
ہلکے سے بریوزی رپگ کے چوڑے میں نفاست سے م نک اپ کتے کایوں میں ک ندن چ ھمکے
پہتے بڑی بڑی پلکیں گالوں بر چ ھکاۓ ت ھرے سے گداز ہوپ ٹوں بر سرخی سجاۓ ۔ وہ
ب
مخملی سی وہ گالب سی گم صم سی یٹ ھی ت ھی
دروازے کے دھماکے سے کھلتے بر اس تے پلکوں کی چ ھالر ات ھاٸ اور بڑی بڑی سرمٸ
آپکھوں میں حیرت واضح نظر آ سکتی ت ھی ۔ چو ار پبہ کے ہویق تپے جہرے اور ہاتھ میں پکڑے
کاغز کی وجہ سے آٸ ت ھی ۔
” اد پبہ ت ھاگ گ نا وہ خی یث “ ار پبہ تے روہانسی آواز میں کہا ۔لب کا تپے ہوۓ برنشان
صورت کے ساتھ ۔ اس کا جہرہ زرد ت ھا مطلب نہ یو وہ کوٸ مزاق کر رہی ت ھی اور نہ ہی
چ ھوٹ یول رہی ت ھی انسی چالت یو سچ یو لتے والوں کی ہی ہوا کرتی ہے خیسی ات ھی اس کے
سا متے ک ھڑی اس کی چ ھوتی پہن کی ت ھی ۔
” ک نا !!!!“
ار پبہ تے روہانسی آواز میں کہا ۔ کاغز واال ہاتھ اوبر ات ھا کر اپک نظر کاغز بر ڈالی ۔
” دک ھا یو مخ ھے “
اد پبہ تے چلدی سے کاغز کو چ ھ یٹ کر ا تپے ہاتھ میں ل نا ت ھا ۔مہ ندی کے چونصورت
ڈاٸزاٸن سے ر پگے سف ند دودھ خیسے ہاتھ عجلت میں پہہ سدہ کاغز کو ک ھول رہے تھے۔
اد پبہ تے تے خین سی سکل پ نا کر کاغز کو ا تپے جہرے کے آگے ک نا اور تیزی سے
ھ ت ل ک ل
نظریں کاغز بر ھی ظروں بر دوڑتے گی یں ۔
س
دل عج یب سی ہی کف یت اخی نار کر گ نا ۔ دھڑکن تیز ہوتے کے وجہ سے ہٹ ھنلی نسی تے سے
ت ھنگ سی گٸ ت ھی ۔ ک ٹوں انشا اب ک ٹوں ہو رہا ت ھا سمخھ سے پاہر ت ھا ۔ گ ھین سی کس
حیز کی ت ھی ۔
پ نارے اپا !
اسالم علنکم
اپا مخ ھے چاپا ہے اور اب میں ر کتے واال پہیں ۔ مخ ھے اد پبہ سے نکاح پہیں کرپا مخ ھے میری
میزل پک پہیجنا ہے پہلے اس سب کے لتے نہ سادی نہ نکاح ات ھی نہ سب کخھ میں
پہیں کر سک نا ۔ ہو سکے یو مخ ھے معاف کر دیں۔
آنکا بی نا
میسم مراد
چ ند فقرے تھے چو وہ اپتی صفاٸ میں لکھ کر چ ھوڑ گ نا ت ھا ۔ اد پبہ تے گہری سانس لی اور
کاغز کو ہاتھ میں لے کر وہ ڈ ھتے کے سے اپداز میں کرسی بر ت ھر سے بیٹھ گٸ ۔
” اد پبہ “
ار پبہ تے مدھم سی آواز میں کہتے ہوۓ اس کے ک ندھے کو ت ھاما ت ھا ۔ پاہر شور ہوتے لگا
ت ھا ۔ ساٸد اب سب کو حیر ہو گٸ ت ھی ۔
ہ
” ممم !!!“
ب
اد پبہ کی آواز کہیں پہت دور سے آتی ہوٸ س ناٸ دی ۔ وہ بر شوچ اپداز لتے کرسی بر یٹھی
ت ھی ۔
” تم ت ھنک ہو نہ ؟“
ار پبہ تے ہمدردی سے ک ندھے بر گرفت کو مضٹوط ک نا ۔ اور سر تھوڑا سا اس کے کان
کے قرپب چ ھکاپا ۔
” ہاں ہوں “
ب
ونسی ہی شوچوں میں گم سی آواز ت ھی وہ کسی غیر مرٸ نقطے بر نظر چماۓ یٹھی ت ھی ۔
دروازے کے قرپب ت ھر سے قدموں کی چاپ س ناٸ دی ۔ بر اس دفعہ م ٹوجہ صرف ار پبہ
ب
ہوٸ ت ھی چ نکہ وہ یو و نسے ہی ساکن مجسم پتی یٹھی ت ھی ۔
” اد پبہ “
غزرا روہانسی آواز میں کہتی ہوٸ آگے بڑھی ت ھیں ۔ ہلکے سے موپ نا رپگ کے چوڑے میں
یوری طرح پ نار ہوٸ وہ ت ھوڑی دبر پہلے وال برسکون جہرہ اب ک ھو چکی ت ھیں ۔ کخھ دبر پہلے
حب وہ اد پبہ کی پ ناری دپک ھتےکو کمرے میں آٸ ت ھیں یو جہرہ کھل جہرے بر دکھ اور
اصظراب ت ھا ۔اد پبہ کو یوں ساکن اور گم صم سا دپکھ کر مم نا بڑپ ات ھی ت ھی اور رہی سہی
ہمت ت ھی چواب دے گٸ ۔وہ آنسوٶں بر پاپدھے پ ند کو روک پہیں سکی ت ھیں ۔
روتے ہوۓ اپتی ہٹ ھنلی کو اد پبہ کی ت ھورڈی کے یپچے رکھ کر اس کے جہرے کو اوبر ک نا ۔
وہ س ناٹ جہرے اور جشک آپکھوں کے ساتھ اب غزرا کی طرف دپکھ رہی ت ھی غزرا کا دل
ت ھیتے کو آ گ نا ت ھا ۔ دکھ ت ھی یو انشا ت ھا بیتی کے نکاح کے روز ہی اگر دلہا گ ھر سے چال چاۓ یو
اس سے بڑا دکھ ک نا ہو سک نا ہے ۔
” اد پبہ بی نا !!!“
” امی پلیز!!!!!!“
اد پبہ تے چڑتے کے سے اپداز میں کہا ۔ اس کے جہرے بر عج یب سی تے زاری ت ھی ۔
غزرا اور زور سے روتے لگی ت ھیں ۔ اد پبہ تے ما تھے بر پل ڈال کر پاس ک ھڑی ار پبہ کی
طرف مدد طلب نظروں سے دپک ھا۔چو بڑی پہن کی اپک گ ھوری کو ت ھاپپ گٸ ت ھی۔
” امی چلیں آپ “
********
” پاتی “
فہد تے پاتی کو یوپل اس کی طرف بڑھاٸ ۔ چو ک ھڑکی کے پاہر آتے چاتے لوگوں بر نظریں
چماٸے چاموش بیٹ ھا ت ھا۔ برین ملنان س ٹیشن بر پچیس م یٹ کے لتے رکی ت ھی ۔ پ ناس
لگی ت ھی اور چاپ نا ت ھا وہ چود کخھ پہیں کہے گا بر پناس یو اسے ت ھی لگی ہو گی نہ شوچ کر
ہی پاتی کی یوپل لے آپا ت ھا ۔ وہ پاتی کی یوپل آگے بڑھاۓ ک ھڑا ت ھا اور اسے کوٸ حیر پہیں
ت ھی ۔ فہد تے گہری نظروں سے دپک ھا ۔
الٸپگ پنلے اور س ناہ رپگ کی تی سرٹ اور یپچے پنلے رپگ کی حییز بی یٹ پہتے الخ ھے سے
پالوں اور تےزار جہرے کو لتے بیٹ ھا وہ اس کا چگری دوست میسم مراد ت ھا ۔ پ نال سا جسم لم نا
قد سایولی رپگت چازب نظر نقوش بر اگر کوٸ حیز اس کے جہرے کو چاص پ ناتی ت ھی یو وہ
پ
ت ھیں اس کی لم ناٸ رخ بڑی سی گہری یولتی سفاف آ ک ھیں ۔
فہد تے ک ندھے بر دھیرے سے ہاتھ رک ھا ۔ میسم تے گردن کو ہلکا سا چم دپا اور سر کو
اپ نات میں چ ٹیش دی ۔ اس کے ہاتھ سے یوپل پکڑی اور ت ھر سے ک ھڑکی سے پاہر دپک ھنا
سروع کر دپا ۔حب سے گ ھر سے نکلے تھے دویوں کے درم نان ہوتے والی نہ پہلی گف نگو ت ھی
۔
” خط میں ک نا لکھ کر رک ھا “
فہد تے ت ھر سے شوال داعا ۔ میسم کے پاتی کی یوپل کو ک ھو لتے ہاتھ رک گتے تھے ۔ بر فہد
کی طرف پہیں دپک ھا ۔
ت ھنکی سی مشکراہٹ جہرے بر سجاٸ ۔ پاتی کی یوپل مبہ سے لگاٸ گلے کی گلتی تے اوبر
سے یپچے سقر طے ک نا ۔
” اسے مل کر آپا“
میسم تے دھیرے سے پہیں میں سر ہالپا ت ھا ۔ ل ٹوں بر لگے پاتی کو ہاتھ کی نشت سے
صاف ک نا ۔
ہ
” ممم بر چوش ہوں میں ہمت پ ندھی ا پتے آپ کو آزماتے کی “
گہری سانس چارج کی ا نسے خیسے نکل نف کو کم ک نا ہوا ۔ زبردستی کی مشکراہٹ جہرے بر
ت ہ پ لک پ ھ ک پ
سجاٸ جس کا ساتھ آ یں یو ل یں دے رہی ھی ۔
میسم تے گال صاف کرتے ہوۓ آواز کو پارمل رکھ کر کہا ۔ لہجہ تھوڑا سرم ندہ سا ت ھا ۔چود یو
اپک اپجاتی ڈگر پکڑ ہی خکا ت ھا اسے ت ھی ساتھ گھسیٹ خکا ت ھا ۔
فہد تے نظریں چراتے ہوۓ کہا ۔ ک نا کرپا چ ند گ ھی ٹوں میں وہ کہاں سے ا تپے بیسوں کا
اپ نطام کرپا ۔ شوالبہ نظروں سے اب اس کی طرف دپکھ رہا ت ھا ۔چو چاموش ت ھا ۔
” اپک “
پہت مدھم سی آواز ۔ اس کے نعد دویوں نقوس حپ تھے ۔ برین کی سیتی کی آواز کے
ساتھ ہی برین تے دھیرے سے رف نار پکڑ لی ت ھی ۔
*******
پ
م ند ِان نش نگی کی نہ آ ک ھیں امام ہیں
برین کی رف نار دھیرے دھیرے تیز ہو رہی ت ھی ۔ وہ ک ھڑکی کے پاہر نظریں چماۓ بیٹ ھا ت ھا ۔
ہوا پالوں کو ت ھڑ ت ھڑا رہی ت ھی ۔ لب ت ھر سے جشک ہوتے لگے تھے ساٸد ۔ شورج ڈو تپے
کو ت ھا ۔ اور ساتھ ساتھ دل ت ھی عج یب طرح سے ڈوب رہا ت ھا ۔ فہد یو اوبری برتھ بر چا کر شو
خکا ت ھا ۔
پ
بر اس کی آپکھوں سے بی ند کوشوں دور ت ھی ۔ سیٹ کی نشت سے سر نکا کر آ ک ھیں موپد لی
ت ھیں ۔ ذہن ماضی کی قلم کو سروع سے پلے کر بیٹ ھا ت ھا ۔
************
2
” کرموشومز آر “
ک ناب کو فولڈ کتے اپک ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ کو ہوا میں لہراتے وہ برآمدہ نما اس
گ نلری میں چکر لگاتی ہوٸ بڑھ رہی ت ھی ۔ کل پاٸیو کا بیشٹ ت ھا اور وہ خی چان سے
مج یت کر رہی ت ھی ۔ سیز رپگ کی ڈھ نلی سی قم نض اور کیری پہتے پالوں کی اوپچی سی یوتی
پ ناۓ وہ ہر حیز سے تے پ ناز ت ھی وہ حب بڑھتی ت ھی یو یوں ہی ارد گرد سے تے پ ناز ہو چاپا
کرتی ت ھی ۔ ذہین یو ت ھی بر بڑ ھتے کی شوقین ت ھی پہت ت ھی ۔ وہ ت ھی اد پبہ سیراز گول سا
پ
جہرہ ک ھڑی سی چونصورت پاک ت ھورے پال ت ھوری سیزی ماٸل آ ک ھیں جن سے پال کی
ذہاپت پ نکتی ت ھی ۔ سڈول سا پدن ات ھارہ سال کی الہڑ دوسیزہ ۔
پاہر کی طرف کھلتی ک ھڑکی سے اپک عدد گی ند اچ ھلتی ہوٸ اس کے سر کے پاس سے گزرتی
ہوٸ لکڑی کے میز بر بڑے سیسے کے چگ سے پکراٸ ۔ اور چگ چ ھناکے کی آواز سے یوپا
ت ھا ۔
” افقف میرے چدا “
پ
اد پبہ کا دل دھک سے رہ گ نا ۔ تھوری سیزی ماٸل آ ک ھیں ت ھنل سی گٸ ت ھیں اور
گالتی لب مبہ کو وا کتے اب یوتے ہوۓ چگ کی طرف رخ کتے ہوۓ تھے ۔
ب
پلنگ بر یٹھی ار پبہ تے ت ھی ک ناب بر چ ھکا سر چ ھنکے سے ات ھاپا اور ت ھر مبہ کھال رہ گ نا ۔
غزرا ت ھی لگ ت ھگ اسی چالت میں کخن سے پاہر آٸ ت ھیں ۔
غزرا تے یوکھال کر کہااور اپک ہاتھ سیتے بر دھرا ۔ سا متے اد پبہ ہاتھ میں زرد رپگ کی گی ند
پکڑے ک ھڑی ت ھی جہرہ ا نسے سرخ ہو رہا ت ھا خیسے د ہکتے کوٸلوں بر سلگ رہی ہو ۔ پاس ہی
زمین بر سیسے کا چگ زمین یوس اپتی آچری سانسیں لے خکا ت ھا۔ت ھوڑے سے قاصلے بر
ار پبہ مبہ بر ہاتھ ر کھے تے ساحبہ امڈ آتے والی ہیسی کو روک رہی ت ھی ۔ اس کی ت ھوڑی دبر
پہلے والی برنشاتی اب ہوا ہو چکی ت ھی ۔ ک ٹوپکہ مزہ یو اب آتے واال ت ھا اد پبہ کا جہرہ آگے
ہوتے والی چ نگ کا یورا ساماں کیتے ہوۓ ت ھا۔
اد پبہ تے گال ت ھاڑ کر ت ھاری آواز میں لقظ چ نا چ نا کر ادا کتے ۔ لمتی سی گردن بر سر ا نسے
ہی گ ھما رہی ت ھی ۔خیسے خیسے وہ لقظ ادا کر رہی ت ھی اس کے ذکر بر وہ یوپہی ہو چاپا کرتی
ت ھی۔ آتے سے پاہر۔۔۔ ت ھا یو وہ اس سے بین سال بڑا اور گ ھر ت ھر میں بڑا بر وہ غفل
سکل بڑھاٸ ہر حیز میں اسے چود سے چ ھوپا ہی ماپ تی ت ھی
سا متے چو غصے میں ت ھری ک ھڑی پ ناری سی لڑکی ہے نہ اس کے بڑے ماموں کا بڑا بی نا ۔
پچین میں چلنا نعد میں س نک ھا پال پکڑ کر گ ھماپا پہلے آ گ نا ت ھا ۔ فصور سارا چواد چجا کا ت ھا کرکٹ
کے تے اپ نہا شوقین تھے موصوف تے پہت کوشش ت ھی کی کے کسی طرح کرکٹ کو ہی
اپ نا بروقیشن پ نا ڈالیں بر اچمد م ناں نعتی کے چواد کے اپا خصور اور میسم کے دادا خصور اس
کے سخت چالف تھے تھٸ گردن سے دیوچ کر ڈاکیری بڑھاٸ بر ڈاکیر یو مراد کی طرح وہ
ت ھی نہ ین پاۓ ہاں الیبہ دویوں ت ھاٸ بروقیسر صرور ین گتے ۔
س
خی خی درست مخ ھے آپ مراد اچمد ۔۔ میسم کے والد اپہیں کرکٹ سے یو پاپ کی طرح
پہت چڑ ت ھی ل نکن ڈاکیر ین چاتے کا چواب وہ تھی ا تپے اپا کا یورا پہیں کر سکے تھے ۔ یو
چ ناب نہ ڈاکیر بیتے کا چواب یو ات ھی پک اس گ ھر میں کوٸ نہ یورا کر پاپا ت ھا ۔ اس لتے نہ
کوشش اب اگلی نشل بر کی چا رہی ت ھی ۔
اچمد م ناں کے دو سٹوت اور دو عدد ہی بی ناں ت ھیں ۔ بڑا بی نا مراد اچمد جن کے دو بیتے تھے
میسم مراد اور چز نقہ مراد ۔ ت ھر چواد اچمد تھے جن کی سادی ک نا پاکام ہوٸ موصوف تے ت ھر
سادی ہی نہ کی ۔ اپک بیتی عاپدہ چو سادی کے نعد پاہر مفٹم ت ھیں ان کا اپک بی نا اور اپک
بیتی ت ھی اور دوسری بیتی غزرا اچمد چو شوہر کی وقات کے نعد سے م نکے کی ہو کر رہ گٸ
ت ھیں اچمد م ناں تے ان کو مکان کے بیسرے یورشن میں رہاٸش دی ت ھی ۔ اور ان کی
پ ٹی ٹوں کا چرچ دویوں ت ھاٸ مل کر ات ھاتے تھے ۔
س
خی پلکل ت ھنک مخ ھے نہ دویوں غزرا کی ہی پ ٹی ناں ہیں ۔ بڑی اد پبہ سیراز اور چ ھوتی شولہ
سالہ ار پبہ سیراز ۔
یو چ ناب ڈاکیر بیتے کا چواب اب اگلی نشل کے ان چار لوگوں بر آن پہیجا ت ھا ۔ بر ات ھی پک
رنس میں سب سے آگے اد پبہ ت ھی ۔
” ماموں اور پاپا ایو یو پہت غصے میں تھے ل نکن ت ھر مماتی کے پہت کہتے بر آچری چانس دپا
ہے کہ تھٸ کر لو نس میں آرنس کو “
ار پبہ تے ا پتے مخصوص اپداز میں کہا ۔ اور چ ھاڑو سے کاپچ کے پکڑے چتے ۔ خیتی تیزی سے
چ ھاڑو قرش بر چل رہا ت ھا اپتی تیزی سے اس کی زپان چل رہی ت ھی ۔
” کوٸ قاٸدہ پہیں لکھوا لو مخھ سے تھٸ اپ نہاٸ کوٸ پکما انشان ہے آرنس میں ت ھی
تھس ہو گا “
اد پبہ تے چوپخوار لہچے میں نقرت سے کہا ۔داپت بیس کر پاک ت ھالپا۔ خی مفاپلہ یو غروج بر
ت ھا ۔ ات ھی پک یو ہر طرح کی داد وصول کرتے والوں میں پہی م نڈتم سب سے آگے ت ھیں
۔
” اچ ھا زپادہ پکواس نہ ک نا کر “
ً
غزرا تے فورا کہا ۔اسی ملچے وہ ہاب یبہ ہوا اوبر آپا ت ھا ۔ خی پلکل درست اپدازہ لگاپا آ گ نا وہ
ز تپے ت ھالپگ نا اپتی گی ند لی تے میسم مراد !!!
پ نال سا سایولے رپگ بڑی آپکھوں واال نسیتے سے ت ھ نگا ہوا ۔ سانس چڑھا ہوا ۔
اپک نظر سا متے غصے میں ت ھری ک ھڑی اد پبہ کی طرف دپک ھا کان ک ھجاپا ۔ مبہ میں کخھ بڑ بڑاپا
اور ت ھر غزرا کی طرف رخ ک نا ۔
” ت ھٹھو میری گی ند آٸ ہے “
سرٹ کو گلے سے پکڑ کر سیتے کو ہوا د تپے ہوۓ کہا ۔ چور نظر ت ھر سے غصے میں ت ھری
ک ھڑی اد پبہ بر ڈالی چو لگ ت ھگ چڑپل نما سکل اخی نار کرتے کو ہی ت ھی ۔
” ہا۔۔ہاں اد پبہ گی ند دے اس کی “
پ ً
غزرا تے فورا اد پبہ کی طرف دپک ھا اور آ ک ھیں نکال کر کہا ۔ میسم کے معا ملے میں وہ انسی ہی
س
ہو چاتی ت ھیں ۔ خی پلکل درست مخ ھے اد پبہ اور ار پبہ کی شوپ نلی ماں کے خیسی
میسم تے اسی کے اپداز میں کہا ۔ کمر بر ہاتھ دھرے وہ اس وفت میسم یو پہیں معصومہ
زپادہ لگ رہا ت ھا ۔
” پہیں د پتی میں نہ پال یو سام کو ماموں کو ہی ملے گی حب میں بڑ ھتے آوں گی ان سے
“
” اد پبہ !!!!“
غزرا تے کخن سے ت ھر ڈ بیتے کے سے اپداز میں آواز لگاٸ ت ھی ۔ میسم تیر پیجنا ہوا کخن کی
طرف بڑھ گ نا ت ھا ۔ چلو خی الڈ ات ھواتے کا وفت آن پہیجا ۔ اسی پات سے یو وہ چار ک ھاتی
ت ھی پچین سے ۔
پ
” ت ھٹھو د ک ھیں اسے زپاتی کر رہی ہے میرے ساتھ “
میسم تے پجارگی سے غزرا کو کہا اور ت ھر وانس غزرا سم یت ہی وہ کخن سے پاہر آپا ت ھا۔
” پہیں د پتی “
اد پبہ تے بر سکون اپداز میں ہاتھ سیتے بر پاپدھے ۔
” ماموں سے لے لی نا سام کو “
اد پبہ تے مزے سے ا پتے پاچ ٹوں کو دپک ھتے ہوۓ کہا ۔ میسم تے گہری سانس لی ت ھر تیزی
ک
سے پلنگ بر اس کی ک ناب کی طرف بڑھا ۔ وہ تھی پیخ ھے ل نکی ت ھی بر سرٹ ہی پکڑ کر ھییچ
سکی صرف
” ت ھنک ہے “
میسم تے ک ناب کو دویوں ہات ھوں میں یوں پکڑا خیسے اپک ہی جشت میں دو پکڑے کر ڈالے
گا ۔ اد پبہ کی سانس ہی یو جشک ہوٸ ت ھی ۔
” نہ لو مرو پکڑو “
زور سے غصے میں مارتے کے اپداز میں اس تے گی ند کو میسم کی طرف اچ ھاال ت ھا نشانہ یو
اس کے جہرے کا ہی ل نا ت ھا ۔ جسے پہت مہارت سے وہ ا تپے ہاتھ میں لے خکا ت ھا ۔
اد پبہ تے زہر چ ندہ لہچے میں کہا۔ چ نکہ وہ داپت نکال گ نا ت ھا نس ۔ گی ند کو ہاتھ میں اچ ھال نا
ز تپے کی طرف بڑھا ل نکن ت ھر رک کر کخن کی طرف بڑھ گ نا ۔ جہاں غزرا پکوڑے پلتے میں
مصروف ت ھیں۔
” ت ھٹھو کڑی پتی ہے ک نا آج ؟ “
غزرا تے مج یت ت ھرے لہچے میں کہا ۔ میسم پکوڑا ہاتھ میں پکڑے مشکرا پا ہوا پاہر آپا ۔ اپک
ابرٶ اوبر چڑھا کر اد پبہ کی طرف دپک ھا ت ھر سرٹ کا کالر بڑے ت ھرم سے ک ھڑا ک نا
وہ اد پبہ کے چل چاتے بر برسکون ہوپا یپچے ابر رہا ت ھا ۔ حب پیخ ھے سے غزرا کی آواز س ناٸ
دی ۔
***********
پ ُ پ
” ماموں ادھر د ک ھیں ذرا “ اد پبہ تے مراد کے کان میں سرگوسی کی آ ک ھیں سرارت سے
چمک رہی ت ھیں اس کی ۔ نظریں سا متے گاٶ پکتے سے سہارا لتے اپک پاپگ ک ھڑی کر کے
پلنگ بر بیٹ ھے میسم بر پکی ت ھی ۔
مراد چو اد پبہ کے ہاتھ سے اس کی ک ناب پکڑ رہے تھے اس کی پات بر اس کی نظر کا
نعافب ک نا ۔ سا متے میسم ک ناب آگے کتے بیٹ ھا ت ھا چ نکہ اس کے داٸیں ہاتھ میں گی ند
موچود ت ھی جسے وہ ہلکے ہلکے اچ ھال کر پکڑ رہا ت ھا ۔ اور چ ناب کی نظریں ت ھی ک ناب بر پہیں
گی ند کی اوبر یپچے چرکت بر پکی ت ھیں ۔
موصوف تے اب آرنس کے ساتھ اتیرم نڈ پٹ کے امیجان اپک ساتھ د تپے تھے اور بییرز کو
نس لگ ت ھگ دو ماہ کا غرصہ پافی ت ھا اور اسے پارٹ ون اور پارٹ یو دویوں کے مضامین پ نار
کرتے تھے ۔
پ
مراد کی آ ک ھیں سکڑ گٸ ت ھیں اور ما تھے بر سکن آ چکے تھے ۔ گ ھور کر میسم کی طرف دپک ھا
۔ بر وہ یو نظروں کی بیش پک مجسوس پہیں کر سکا ۔ کرپا ت ھی کیسے وہ یو پ نا پہیں کس
م ندان میں کیچ پکڑ رہا ت ھا وہ پہاں ت ھوڑی نہ موچود ت ھا ۔ ہاں جسماتی طور بر ت ھا بر چ ناب
دماغی طور بر یو ۔۔۔۔۔
” میسم !!!!“
مراد تے گرج دار آواز میں چیجتے ہوۓ کہا۔ میسم چو بڑ ھتے کی آڑ میں ک ھنل رہا ت ھا اپک دم
سے گڑ بڑا گ نا ۔ نظر ات ھا کر دپک ھایو پہلی نظر آپکھوں میں سرارت ت ھرے ک ھڑی اد پبہ بر
بڑی چو اب معتی حیز مشکراہٹ جہرے بر سجاۓ مزا لے رہی ت ھی اس ساری سخونشن کا
چ نکہ پافی چپے ت ھی اپتی اپ تی ک نایوں سے سر ات ھا چکے تھے ۔
” خی اپا ؟“
لڑ ک ھڑاتی آواز کے ساتھ کہتے ہوۓ وہ گی ند کو ک ناب کی آڑ میں چ ھنا خکا ت ھا ۔ ت ھوک نگل
کر مراد کی طرف دپک ھا جن کا جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا۔
” پک پیخ ھے کرو“
مراد تے داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ تے کمر کے پیخ ھے ہاتھ پاپدھے اور ل ٹوں کو مبہ کے
اپدر کرتے ہوۓ مشکراہٹ دپاٸ ۔ وہ مراد کے پلکل ساتھ ک ھڑی ت ھی۔ مخصوص اپداز میں
ت ھورے رنسمی پالوں کی اوپچی سی یوتی کتے ۔
” خی !!!!!“
س س
میسم تے معصوم سی سکل پ نا کر پا ھی طاہر کی ۔ خیسے کہ اسے مخھ ہی نہ آپا ہو کہ
مخ
” میں تے کہا ک ناب پیخ ھے کرو “ اب کی پار مراد کی آواز اپتی اوپچی ت ھی کہ میسم کے ہاتھ
سے ک ناب چود نہ چود گر گٸ اور پیخ ھے سے چوہاتھ واضح ہوا اس میں وہ گی ند ت ھامے
ہوۓ ت ھا ۔
مراد اپک چ ھنکے سے کرسی بر سے ا تھے اور ت ھر اپک ہی جشت میں اس کے سر بر ک ھڑے
تھے ۔
مراد تے میسم کے ہاتھ سے گی ند پکڑ کر ک ھڑکی سے پاہر گلی میں اچ ھال دی ۔ میسم کی
نظروں تے پال کے ساتھ ک ھڑکی پک کا سقر ک نا ۔بر گی ند ت ھہری پجاری تے چان حیز نظروں
ت س مخ س
کی پازگشت نہ ھی کی چو کہہ رہی ھیں
مراد تے داپت بیس کر پاک ت ھالتے ہوۓ دپک ھا ۔ وہ سرم ندہ سا ہوا کر سر چ ھکا گ نا ۔ کخھ
چپے ڈرے سے بیٹ ھے تھے اور کخھ میسم کے اپداز بر دتی دتی ہیسی ہیس رہے تھے ۔ اور سب
سے زپادہ داپت نکال کر ہیشتے والی وہ ت ھی اد پبہ سیراز ۔
” بڑھ نا ہے اپا “
گ ھتی سی آواز میں کہا اور سر چ ھکا کر کن اک ھ ٹوں سے اردگرد مبہ بر ہاتھ ر کھے ہیسی دپاتے
لڑکے اور لڑک ٹوں کہ طرف دپک ھا ۔
مراد اپک دم سے داپبہ کی طرف مڑے ۔ وہ چو داپت نکالے ک ھڑی ت ھی چلدی سے مبہ پ ند
کر کے معدب اپداز میں سر ہالتے لگی ۔ میسم کے ین پدن میں آگ لگی گٸ ۔
” ارے کیسے اکٹ ھے بییر دے گا اگر ا نسے بڑھ نا رہا مییرک کا مییرک رہ چاۓ گا “
مراد تے ا تپے ہاتھ کی بین انگل ٹوں کو میسم کے سر بر رکھ کر پیخ ھے کی طرف دھک نال اور وہ
یوں ہی بیٹ ھا ت ھا مبہ ت ھال کر ۔ گردن چ ھکا کر ۔مراد خیسے ہی مڑے کرسی کی طرف ۔ میسم
تے چوپخوار نظر اد پبہ بر ڈالی ۔
” پخ ھے یو اب پک تی اے کر لی نا چا ہتے ت ھا “
ک پ
مراد اپک دم سے ت ھر سے پلتے ۔ وہ چو اد پبہ کو آ یں نکال رہا ت ھا گڑ بڑا کر ظریں چ ھکا گ نا
ن ھ
۔ اد پبہ سم یت پہت سے چپے ک ھی ک ھی کر ا تھے ۔
” اپا !!!“
میسم کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گ نا ۔ اد پبہ چو مراد کے پیخ ھے چلتی ہوٸ چا رہی ت ھی پیخ ھے
مڑ کر زپان پاہر نکالی ۔ اور اپک انگلی کو پاک کے یپچے سے اس اپداز سے گزارا خیسے کہہ
رہی ہو اچ ھا ہوا پخو نم ھارے ساتھ ۔
میسم کو زہر لگی وہ اس وفت دل ک نا اتھ کر پال ہی یوچ ڈالے اس کے ۔ بر اس وفت وہ
کخھ ت ھی یو پہیں کر سک نا ت ھا ۔ چارو پا چار سا متے بڑی ک ناب کو س ندھا ک نا ۔ اور ت ھاری سی
آواز میں بڑھ نا سروع کر دپا ۔ بر دل میں مجنلف اغزاٸم برپ یب دے رہا ت ھا ۔
*********
میسم ہاتھ میں مرا ہوا چوہا پکڑے ہوۓ اس کے پلکل قرپب چ ھکا ہوا ت ھا ۔ وہ دوپہر کو شو
کر وفت صاٸع پہیں کرتی ت ھی پلکہ اس چاموش سے یورشن میں آ چاتی ت ھی اور بڑھتی ت ھی
۔آج ت ھی وہ بڑ ھتے میں ہی مصروف ت ھی ۔ حب وہ چوہے سم یت آ دھمکا
پچین میں اپک دفعہ اسے پاٶں سے چوہے تے کاٹ ل نا ت ھا پب سے اسے زپدہ ک نا مردہ
چوہے سے ت ھی تے اپ نہا چوف آ پا ت ھا ۔ اور یورا گ ھر چاپ نا ت ھا کہ اد پبہ کس قدر چوہے سے
ڈرتی ہے ۔
چوقزدہ آواز میں کہتی ہوٸ وہ اپک طرف کمرے کی دیوار سے چا لگی۔ میسم داپت نکال نا ہوا
ہاتھ میں دم سے چوہا پکڑے اس کی طرف بڑھ رہا ت ھا ۔ آپکھوں میں چوف ناک غزاٸم لتے ۔
گ ھر میں سب لوگ یو دوپہر کو شوتے تھے ۔ مسواۓ مراد اچمد کے چو اس وفت کسی پچی
کا لج میں ل نکچر د تپے چاتے تھے ۔
” گ ھن آ رہی ہے مخ ھے “
سیتے بر ہاتھ رکھ کر اد پبہ تے روہانسی آواز میں کہا ۔ وہ پار پار چ ھرچ ھری لے رہی ت ھی اور
میسم فہقے لگا پا اس کی چالت سے مچزوز ہو رہا ت ھا ۔ نہ سب کر کے اس کی روح کو نشکین
مل رہی ت ھی ۔
” ارے ک ٹوں تھٸ ک ٹوں آ رہی اپ نا پ نارا یو ہے ات ھی ات ھی پازہ پازہ مارا ہے میں تے “
میسم تے مضٹوغی حیراپگی طاہر کی چوہے کی طرف دپک ھا ت ھر بڑے اپداز میں چوہے کو
ک س ً
پ
ہواٸ یوسہ دپا ۔ داپبہ تے فورا مبہ بر ہاتھ رک ھا ۔ اور انکاٸ روکی س ناہ ر گ کا پد ل چوہا ت ھا
جس کی موپخ ھیں کافی بڑی ت ھی ۔ اور وہ اسے یوسے دے رہا ت ھا ۔
میسم کے اس اپداز بر وہ چال ات ھی انکاٸ آ رہی ت ھی پار پار اور وہ یو بڑے مزے سے اسے
ہاتھ میں لتے اسے ڈراتے میں مصروف ت ھا ۔
” چو ت ھی کہو “
میسم تے ت ھ ٹویں اخکا کر پاک ت ھالٸ اسے اس وفت اد پبہ بر کوٸ برس پہیں آ رہا ت ھا ۔ وہ
اور قرپب سے قرپب آ پا ۔ اد پبہ کی چان بر ین گٸ ۔
میسم تے چوہے کو دھیرے سے ہالتے ہوۓ اپک نظر اس بر ڈالی اور ت ھر داپت بیس کر
اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ چو دھیرے دھیرے کاپپ رہی ت ھی ۔
اد پبہ تے ہاتھ چوڑ کر تے چارگی سے کہا ۔ میسم تے داپت نکالے اور چ یب سے سابر نکاال ۔
2
بڑے برسکون اپداز میں کہتے ہوۓ وہ چوہے کو سابر کے اپدر ڈا لتے ہوۓ یوال ۔ اد پبہ تے
سکھ کا سانس ل نا ۔
” میں پاہر چا رہا ہوں ک ھنلتے “
یورے داپت نکال کر اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ اور ت ھ ٹوں کو سرارت سے اوبر یپچے ک نا۔ چ نکہ
ل ٹوں بر قاپجانہ مشکراہٹ ت ھی
“ یو ؟“
اد پبہ تے ابرٶ چڑھاۓ اور اوبر والے ہوپٹ کا کخھ خصہ ت ھی پاگواری سے اوبر ک نا ۔ میسم
س ناہ رپگ کی سرٹ پہن کر اور سایولہ لگ رہا ت ھا ۔ سام ہو دوپہر ہو نس کرکٹ کرکٹ کاال
کوا لگ نا ت ھا اسے وہ ۔ اد پبہ تے پاگوار نظر ڈالی
” یو نہ کہ میری دسمن تم ہو اس یورے گ ھر میں اپا گتے ہوۓ ہیں حیردار چو تم تے نہ
پات ان پک پہیجاٸ “
میسم تے داپت بیس کر کہا اور حیردار کرتے کے اپداز میں سابر کو اوبر ک نا ۔ اد پبہ تے
چ ھرچ ھری لی ۔ اس کا سر زور زور سے اپ نات میں ہلتے لگا ۔
” اگر انشا ہوا یو پاد رک ھنا نہ چوہا نم ھاری ک ناب میں رکھ کر اوبر بیٹھ چاٶں گا “
پ پ
میسم تے تیز تیز کہا وہ یوری آ ک ھیں ک ھولے اد پبہ کے قرپب ہوا ت ھا ۔ اور ت ھر آ ک ھیں
سکیڑے حیردار کر د تپے کے اپداز میں کہہ رہا ت ھا ۔چ نکہ اد پبہ کی آپکھوں کے آگے اس کی
ک ناب میں مشال ہوا چوہا گ ھوم گ نا ۔
” اٶ تپے۔ے۔ے۔ے۔ے۔“
انکاٸ کی آواز نکا لتے ہوۓ مبہ کے آگے ہاتھ رک ھا ۔ اس کی چالت غیر ہو چکی ت ھی اور دل
اس بری طرح م نالپا کہ وہ ت ھاگتی ہوٸ قرپتی پ یت الجال کی طرف بڑھی ۔ میسم ت ھی فہقہ لگا پا
اب اس کے پیخ ھے ہی ت ھا ۔
اد پبہ بری طرح انکاٸ کرتے کے اپداز میں چ ھکی آوازیں نکال رہی ت ھی نمشکل الفاظ ادا
کتے ۔ دل کخھ ہلکا ہوا یو ت ھر غصے سے کلی کرتی پاہر آٸ ۔
” گڈ گرل “
میسم تے مشکرا کر کہا ۔ چ نکہ وہ یو اب ک ھاچاتے والی نظروں سے اسے دپکھ رہی ت ھی ۔
” دفعہ ہو چاٶ۔و۔و۔و۔و۔“
اد پبہ تے اب کی پار اسے دھکا دپا ۔ وہ ہیشتے ہوۓ چ ند قدم پیخ ھے ہوا ۔
میسم تے چود کو گرتے سے سیٹ ھا لتے ہوۓ کہا ۔ ت ھر سیتی پجا پا ہوا مڑا ۔ اد پبہ تے ات ھی
سکون کی سانس ل نا ہی ت ھا کہ وہ ت ھر سے پلنا ۔
مضٹوغی حیراپگی طاہر کرتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ تے روتے خیسے سکل پ نا لی ت ھی چان ہی
پہیں چ ھوڑ رہا ت ھا ڈھ یٹ یو وہ پچین سے ت ھا ۔
” اچ ھا اچ ھا چا رہا ہوں “
معصوم سی سکل پ نا کر کہا اور سابر ک ھول کر ت ھر سے دپک ھا ۔ اور اد پبہ کی طرف سابر اس
اپداز سے بڑھاپا خیسے کہہ رہا ہو لو تم ت ھی دپکھو ۔
” امی!!!!!!!!!“
ت
اد پبہ دویوں ہات ھوں کی مٹ ھاپاں ھییچ کر اس قدر زور سے چیچی کہ اب کی پار وہ وافعی گڑ بڑا
گ نا ۔ ڈر ت ھا کہ غزرا ت ھٹھو کی چگہ اچمد م ناں ہی نہ اتھ چاٸیں ۔
چلدی سے تیز تیز قدم ات ھا پا وہ دوسرے یورشن کے ز تپے ابر رہا ت ھا ۔ اور اد پبہ روہانسی
ہاری ہوٸ صورت پ ناۓ گہرے گہرے سانس لے رہی ت ھی ۔ آپکھوں میں موتے موتے
آنسو اور زپان بر میسم کے لتے نعرنفی الفاپات تھے ۔
*******
” اٶۓ پات شن اس کو چ ھوڑ نہ پہیں ہوتے واال آٶٹ یو دوسرے والے کو اڑا “
ساتھ ک ھڑے لڑکے تے گی ند ہاتھ میں لتے ک ھڑے لڑکے کے کان کے قرپب ہو کر کہا
۔حیر یور کے م ٹوسط ط نقے کے عالقے کے گراٶپڈ میں کرکٹ ک ھنلتے وہ آج پہلی دفعہ ا تپے
دوست کے کہتے بر آپا ت ھا۔ ل نکن پہاں سا متے ک ھڑے میسم پام کے لڑکے تے پ ٹی نگ میں
ذل نل کر دپا ت ھا ۔
وہ اوتیر کھالڑی کے طور بر آپا ت ھا اور پب سے چما ک ھڑا ت ھا ۔ چھ اور چار سکور سے یو کم
پ ناتے کا پام پہیں لے رہا ت ھا نمشکل دو دوسرے کھالڑی آٶٹ کر سکی ت ھی ان کی پٹم بر
سکور ہی میسم کی وجہ سے پہت زپاہ ہو رہا ت ھا ۔
لڑکے تے غصے سے کہتے ہوۓ ت ھوک اپک طرف ت ھی نکا اور ہاتھ میں پکڑی گی ند کو انگل ٹوں
کی گرفت میں سیٹ ک نا ۔ اس کی گی ند پازی کے لتے وہ پہت مشہور ت ھا اس کا دوست
بڑے شوق سے اسے اپتی پٹم کے لتے ک ھنلتے کے الپا ت ھا ۔ بر پہاں میسم کی وجہ سے وہ
برنشان ہو کر رہ گ نا ت ھا ۔
” نہ انشا ہی ہے نس دوسرے چو ساتھ ہیں ان کو سکور ہی پا پ ناتے دے اگر نہ ادھر چا پا
ت ھر ہلنا ہی پہیں “
پ
لڑکے تے آ ک ھیں گ ھماتے ہوۓ اسے مسورہ دپا ت ھا ۔
لڑکے تے لب کا تپے ہوۓ پال پیخ ھے کتے ۔ دوسرے لڑکے تے ت ھی برنشان صورت
پ ناٸ ۔ ا نسے خیسے اس کی پات کی نضدیق کر رہا ہو ۔ وہ ت ھر سے گی ند ہاتھ میں پکڑے میسم
کی طرف بڑھ رہا ت ھا ۔ اور اب کی پار ت ھر وہ چھ سکور کی اوپجاٸ میں گی ند کو اچ ھال خکا ت ھا۔
اور ت ھر وہ ر کتے والوں میں سے پہیں ت ھا ۔ دپک ھتے ہی دپک ھتے وہ اپتی پٹم کو خی نا خکا ت ھا ۔ اور
نہ سب وہ آج پہلے دن پہیں کر رہا ت ھا وہ ہمیشہ سے ک ھنلنا ہی انشا ت ھا ۔ پلے پازی اس قدر
ساپدار ت ھی کے ا چھے اچ ھوں کے چ ھکے چ ھوٹ چاتے تھے ۔ سکول اور کا لج کی طرف سے
ت ھی وہ ہمیشہ مراد سے چ ھپ کر ک ھنلنا ت ھا ۔ اس کو اگر کوٸ پ ندہ سٹورٹ کرپا ت ھا یو وہ تھے
چود اچمد ۔
**********
” ک ٹوں ؟“
میسم تے گردن موڑ کر مصروف سے اپداز میں اد پبہ بر اپک نظر ڈالی اور ت ھر نظریں تی وی
بر چما دیں۔ آج پہت اہم پاکش نان کا میچ ت ھا اور یپچے یو کرکٹ دپک ھنا سجتی سے م نع ت ھا ۔اس
لتے حب ت ھی کرکٹ میچ دپک ھنا ہوپا یو میسم اور چواد اوبر کا ہی رخ کرتے تھے ۔ ک ٹوپکہ اس
یورشن میں بڑے نعتی اچمد م ناں اور مراد پہت کم آتے تھے ۔
” کر لی ہے میں تے پ ناری “
البرواہی سے چواب مال۔ وہ بڑے غور سے میچ دپک ھتے میں مصروف ت ھا۔ پلکہ اپ نا ک ھوپا ہوا ت ھا
خیسے چود اس پلے پاز کی چگہ ک ھنل رہا ہو۔ اد پبہ کو پپ چڑھی ت ھی اس کے اس اپداز بر ۔
” یپچے چا کر دپکھو تی وی “
میسم تے داپت بیس کر اسی کے اپداز میں کہا ۔ اپک یو پچ پجا کر وہ اوبر آپا ت ھا۔ اور اب نہ
آ کر چکم چالتے لگی ت ھی ۔
” اور تم دپکھ پہیں رہی ساٸد کی نا اہم میچ ہے آج اور آواز آہشبہ کروں یو مخ ھے مزا پہیں آ پا
تم اپک کام کرو ذرا “
ہاتھ کو ہوا میں مار کر بڑے اپداز سے کہا ۔ اور اپتی طرف سے پات چٹم کر دی ار پبہ کی
تے ساحبہ ہیسی امڈ آٸ۔ وہ چو کخن سے چاۓ کے دو کپ لتے آٸ ت ھی اب ان دویوں
کی پخث بر داپت نکالتی ہوٸ صوقے بر بیٹھ چکی ت ھی ۔
داپبہ تے گال ت ھاڑ کر چیجتے ہوۓ کہا ۔ ار پبہ ت ھر سے ڈر کر ات ھی ۔ میسم تے گ ھور کر اد پبہ
کی طرف اور ت ھر ار پبہ کی طرف دپک ھا ۔
میسم تے ت ھی اوپچی آواز میں کہا ۔ ار پبہ تے دویوں کی طرف چڑ کر دپک ھا ۔ اب اس کے
جہرے کی چالت ت ھی ان دویوں خیسی ہی ہو چکی ت ھی ۔
” ک نا ہے تم دویوں کو تھٸ ت ھاڑ میں چاٶ میری طرف سے میں یو اپدر چا رہی ہوں “
پ پ
ار پبہ تیر یجتی ہوٸ کمرے کی طرف بڑھ گٸ ۔ چ نکہ وہ دویوں اب آ ک ھیں سکیڑے اپک
دوسرے کو ک ھا چاتے کے اپداز میں دپکھ رہے تھے ۔
” ہاں تھٸ ک نا پ نا ت ھر “
دویوں ہات ھوں کی ہٹ ھنلوں کو مشلتے ہوۓ وہ بر چوش اپداز میں میسم سے یوچھ رہے تھے ۔
وہ اور میسم پاکش نان کے میچ بر ا نسے ہی برچوش ہوتے تھے ۔
میسم تے ہاتھ کا اسارہ اد پبہ کی طرف کرتے ہوۓ کہا ۔ چواد تے اب چا کر اد پبہ کی
موچودگی کو مجسوس ک نا ت ھا ۔
چواد تے اد پبہ کی طرف رخ ک نا۔ وہ اد پبہ کو پ نار سے داتی ہی کہتے تھے ۔ اد پبہ مبہ نسور کر
پ
رہ گٸ تیر یجتی داپت بیشتی وہ چواد کے قرپب آٸ ۔
” ماموں تھٸ آپ یپچے چلے چاٸیں نہ میرا بییر ہے اپتی اوپچی اس چاہل تے آواز کر رک ھی
ہے “
اد پبہ چڑپل کہتے بر پپ گٸ ت ھی ۔ غصے سے میسم کی طرف دپکھ کر کہا ۔ ل نکن وہ اس
وفت مزپد اس کے ساتھ لڑتے کا سارا موڈ برک کتے میچ دپک ھتے میں مصروف ت ھا ۔
” میری پات سٹو گڑپا ۔ تم چاٶ یپچے اپا خی شو رہے ہیں کوٸ پہیں ہے یپچے ت ھات ھی اور
غزرا پازار گٸ ہوٸ میرے کمرے میں چا کر بڑھ ساپاش “
چواد تے پخکارتے ہوۓ اد پبہ سے کہا ۔ اد پبہ تے خفگی ت ھرے اپداز میں دپک ھا یو چواد تے
الیجا کے اپداز میں آپکھوں سے اسے چاتے کا اسارہ ک نا ت ھا ۔ہر دفعہ اس کے ساتھ انشا ہی
ہوپا ت ھا ۔ وہ چ یت چا پا ت ھا ۔
” ماموں !!!!!“
ادپبہ تے تےچارگی سے چواد کی طرف دپک ھا ۔ چواد تے ت ھر پخکارتے کے اپداز میں اس کی
طرف دپک ھا ۔
” چاٶ ساپاش “
وہ ہاتھ کے اسارے سے اسے چاتے کے لتے کہہ رہے تھے ۔ اور وہ چارو پا چار ک ناب ات ھا
کر یپچے چل دی ت ھی چواد ماموں کی وجہ سے اب وہ مراد اچمد کو سکاٸت پہیں لگا سکتی
ت ھی ۔
******
س
میسم کی آواز بر اد پبہ تے سر ات ھا کر اوبر دپک ھا ۔ وہ چاۓ کا بڑا سا مگ ہاتھ میں ت ھامے
اس کے سر بر ک ھڑا ت ھا ۔ چاۓ کا تے چد شوقین ت ھا وہ اور ہمیشہ یوں ہی بڑے سے مگ
ً
میں چاۓ بی نا ت ھا ۔ وہ آج پا ستے کے فورا نعد دوسرے یورشن میں آ گٸ ت ھی چ ناپ نات
کے برپکی نکل کو نس دو ہی دن پافی تھے اور پچرپاتی کاتی کی پہت سی آرتھ ات ھی اس کی
رہتی ت ھیں اس تے شوچا ت ھا کہ آج پ نا کر کے ہی دم لے گٸ اور ا پتے اس غزم میں
ب
وہ صیح سات چپے کی یٹھی دس چپے پک کافی چد پک کام ناب ہو چکی ت ھی ات ھی ت ھی وہ
اسی میں مصروف ت ھی حب وہ آ دھمکا ۔
”میرے پاس وفت پہیں ہے نمہیں نظر پہیں آ رہا ک نا ؟ کاتی پ نا رہی ہوں اپتی“
اس کی طرف د پک ھے پ نا وہ مصروف سے اپداز میں کہہ رہی ت ھی۔ وہ یو ازل سے ڈھ یٹ ت ھا
ہ ٹوز و نسے ہی ک ھڑا ت ھا ۔
میسم تے ت ھ ٹویں اخکا کر اخیتی سی نظر اس کی کاتی بر ڈالی ۔ وہ بڑے اپہماک سے سف ند
کاغز بر چ ناپ نات کی آرتھ پ ناتے میں مگن ت ھی ۔ دودھ نا م ناسب براش کے پاجن والے
ُ
چونصورت ہاتھ بڑی مہارت سے کاتی بر اِ دھر ادھر بیشل کو گ ھما رہے تھے ۔ پالوں کی
مخصوص اپداز میں یوتی پ نل پ ناۓ د ھلے سے جہرے کے ساتھ وہ ہر زی روح سے تے پ ناز
ا تپے کام میں مگن ت ھی ۔ اپک دم سے ہاتھ رکے تھے اسے کوفت ہوٸ ت ھی میسم کے
ت
یوں سر بر ک ھڑے ہوتے سے لب ھییچ کر ت ھر سے سر اوبر ات ھاپا ۔
” یو چاٶ پہاں سے اب “
ً
اوبری لب کو پاگواری سے اوبر چڑھا کر کہا ۔ میسم تے فورا چواتی ردعمل میں داپ ٹوں کی
نماٸش کی ۔
” میری ت ھی قزنکل اپخوکیشن کی کاتی پ نا دو گی“
بڑا دوس نانہ اپداز ت ھا ۔ ا نسے خیسے وہ اس طرح کہتے سے مان چاۓ گی ۔اد پبہ تے اچ ھی تے
سے دپک ھا۔ زپان داپ ٹوں کے پیچ میں گ ھماتے ہوۓ آپکھوں کو سکیڑے اس تے اس اپداز
سے میسم کو دپک ھا خیسے اس کی دماغی چالت بر ساکی ہو ۔
پ نک کر کہا ۔ اور ما تھے بر پل ڈال کر اسے دپک ھا ۔ چو بڑے آرام سے اسے کہہ رہا ت ھا خیسے
سب ت ھولے ک ھڑا ہو کہ ان کی اپک پل کے لتے ت ھی پہیں بیتی ت ھی ۔
” چود پ ناٶ چا کر “
بڑے رغب سے کہا گ نا ۔ چ نکہ وہ چاپ نا ت ھا وہ کٹھی ت ھی کوٸ کام اسے پہیں کہتی ت ھی
اسے چو ت ھی کام ہوپا ت ھا وہ پایو چز نقہ سے کہتی تھی پا ت ھر چواد اچمد سے ۔
” مخ ھے اور تم سے کام “
اد پبہ تے ت ھر سے چ ھکا ہوا سر چ ھنکے سے ات ھاپا ۔ اب کی پار طیز ت ھرا لہجہ ت ھا اور حیرت سے
قلم ل ٹوں میں دپاۓ اب وہ اسے دپکھ رہی ت ھی چو بڑے اپداز سے گردن اکڑاۓ ک ھڑا ت ھا ۔
” ک نا ہو گ نا ہے نمہیں “
اد پبہ تے ہاتھ کا اسارہ کمرے کے دروازے کی طرف ک نا ۔وہ چو چواتی کارواٸ کے طور بر
اس کے سر بر چ یت لگاتے کوآگے بڑھا ا پتے ہاتھ اور چاۓ کے کپ کا یوازن برقرار
ُ
پہیں رکھ سکا اور چاۓ بڑے برتم سے کپ سم یت اد پبہ کی ک ھلی ہوٸ کاتی بر ڈھیر ت ھی ۔
اپک ساتھ ہی دویوں کے مبہ کھلے ۔
” چاہل نہ ک نا ک نا “
اد پبہ کی ہول ناک چیخ ات ھری ۔ چلدی سے اپتی کاتی بر سے کپ کو ات ھاپا ۔ اور داپت بیشتے
ً
ہوۓ ک ھا چاتے والی نظر ا تپے سا متے ک ھڑے میسم بر ڈالی۔ جس تے فورا کھال مبہ پ ندک نا اور
ت ھوک نگال ۔ اس کے اپدر کی کالی ما پا کو چا گتے کی وہ چود دغوت دے خکا ت ھا ۔ یو چ ناب
اد پبہ کا چڑپل کا روپ دھارتے کا وفت آن پہیجا ت ھا ۔
” چان یوچھ کر پہیں ک نا نہ میں تے “
میسم تے گڑ بڑا کر کہا چ نکہ وہ اس کے چ ناالت کے پلکل برعکس صدمے کی چالت میں
روہانسی صورت پ ناۓ ڈپڈاٸ آپکھوں سے اپتی کاتی کو دپکھ رہی ت ھی جس کی تیروتی چلد پک
چراب ہو چکی ت ھی ۔
” میری اپتی مج یت “
اد پبہ کی ت ھنگی سی آواز نکلی اور ساتھ ہی اس کی آپکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ وہ اس کے
سا متے یوں پہلی دفعہ رٶٸ ت ھی۔ وہ چو اس کے اع ناب کا سکار ہوتے کے لتے پلکل پ نار
ک ھڑا ت ھا اچاپک اس کے یوں زاروفطار رو د تپے بر گڑ بڑا ساگ نا ۔
ہڑ بڑاہٹ میں اس کی زپان لڑ ک ھڑا کر لقظ ادا کر رہی ت ھی ۔ اور اد پبہ یو یوں رو رہی ت ھی
خیسے کسی تے اس کی عمر ت ھر کی چمع یوپچی اس سے چ ھین لی ہو ۔
میسم کی آواز میں اچاپک اس کی چالت کی وجہ سے برمی در آٸ ۔اس کی چالت اس وفت
وافعی قاپل رچم ت ھی ۔
دویوں ہات ھوں کو ا تپے سیتے بر رک ھتے ہوۓ وہ ت ھوڑا سا یپچے چ ھکا۔ اور وہ چو پب سے صدمے
کی چالت میں نس نسوۓ ہی پہاۓ چا رہی ت ھی ۔ پٹ ھر کے ک ھڑی ہوٸ ۔
” پکواس پ ند کرو اپتی برشوں میرا برپکی نکل ہے کیسے پ ناٶں گی میں “
اس کے پلکل سا متے ت ھنگے گال لتے وہ ا نسے ک ھڑی ت ھی خیسے ات ھی اس کا مبہ یوچ ڈالے
گی ۔ میسم تے الیجاٸ اپداز میں کخھ کہتے کے لتے ات ھی ہاتھ ات ھاپا ہی ت ھا کہ وہ ت ھن
ت ھنالۓ ت ھر سے ت ھ نکاری ۔
*******
میسم پجلے لب کو داپ ٹوں سے کجلتے ہوۓ تے خین سے ک ھڑا ت ھا ۔ وہ برنشان چال سا س ندھا
فہد کے پاس آپا ت ھا ۔ پار پار آپکھوں کے آگے اد پبہ کا آنسوٶں سے بر جہرہ آ رہا ت ھا۔ آج پہلی
دفعہ اس کی برنشاتی چود کی برنشاتی لگ رہی ت ھی اسے ۔
فہد چو اس کے اد پبہ کے لتے ا نسے برنشان ہوتے بر حیران ک ھڑا ت ھا اس کے روتے کا شن
کر حپ سا ہو گ نا ۔ ک ٹوپکہ آج پک خی تے فصے وہ میسم سے شن خکا ت ھا اور خی نا چود اپتی آپکھوں
سے دپکھ خکا ت ھا ان دویوں کی لڑاٸ میں وہ ہمیشہ میسم کے سانہ نشانہ ک ھڑی ہوتی ت ھی
اور آج پک کٹھی رو کر کمزور پہیں بڑی ت ھی ۔
فہد تے چ یب میں خیتے بیسے تھے نکال کر اپک نظر ڈالی اور ت ھر میسم کی طرف بڑھاۓ چو
اب اپتی چ یب میں ہاتھ ڈالے ک ھڑا ت ھا ۔ فہد تے آج سے پہلے اسے کٹھی اد پبہ کے لتے
یوں برنشان ہوتے پہیں دپک ھا ت ھا ۔ پلکہ وہ یو انشا ت ھا کہ کرکٹ کے عالوہ کٹھی کسی حیز کی
برنشاتی لی نا ہی پہیں ت ھا ۔
میسم تے عجلت میں کہا وہ چلد از چلد اد پبہ کا مسٸلہ چل کر د پنا چاہ نا ت ھا ۔ پاٸک کو
کک لگا اسے س نارٹ ک نا ۔
********
” نہ ک نا ہے “
اد پبہ تے ہاتھ کی نشت سے گال صاف کتے اور میسم کے ہاتھ میں پکڑے لفاقے بر نظر
ب
ڈالی ۔ وہ ات ھی پک وہیں یٹھی رو ہی رہی ت ھی اور اپتی کاتی کو ک ھول چکی ت ھی نمام صفجات
کو الگ الگ کر چکی ت ھی۔
” کاتی ہے نٸ لے لو روٶ مت “
میسم تے برم سے لہچے میں کہا ۔ اب پک رو رو کر اد پبہ کی پاک اور آپکھوں بر شوزش آ
چکی ت ھی ۔ اب وہ چوپخوار نظروں سے مشٹم کو گ ھور رہی ت ھی ۔
” کاتی میں چود ت ھی چرپد سکتی ت ھی میں اس مج یت کے لتے رو رہی ہوں چو میں تے اس بر
کی ت ھی “
اد پبہ تے داپت بیس کر کہا ۔ اور سر کو اپک چ ھ نکا دے کر جہرے کا رخ دوسری طرف
ً
موڑا ۔ اس وفت وہ اسے زہر لگ رہا ت ھا ۔ میسم تے گہری سانس لی اور فورا نٸ کاتی کے
پاٸپ نڈر کے رین کو ک ھوال وہ اس کے سا متے رک ھی کرسی بر بیٹھ خکا ت ھا ۔
” اپک کام کرتے ہیں خیتے پیچز سہی ہیں وہ اس نٸ والی کاتی میں لگا د تپے ہیں “
وہ تیزی سے کاتی میں سے صفجات کو الگ کر کے نکال رہا ت ھا ۔اپداز بڑا مصروف ت ھا ۔
اد پبہ تے روت ھا سا جہرہ اپک پل کے لتے اس کی طرف موڑا اور ت ھر کخھ شو چتے ہوۓ وہ
اس کے ہاتھ سے کاتی لے رہی ت ھی ۔ میسم کے اس اپداز تے اپک ملچے کے لتے حیرت
میں می نال ک نا ت ھا ۔
ڈر گ نا ہو گا کہ اب میں مراد ماموں سے اس کی درگت نہ پ ٹوا دوں ۔کاال کوا کہیں کا ۔ وہ
دل ہی دل میں ات ھی ت ھی اسے کوس رہی ت ھی بر اس وفت مبہ سے اسے کخھ کہ نا ا تپے
پاٶں بر چود کلہاڑی مارتے کے میرادف ت ھا۔
میسم تے ہاتھ کے اسارے سے اسے روکا ۔ وہ اب صفجات کاتی میں برپ یب دے رہا ت ھا
ان آرتھ کی جن کو وہ پ نا چکی ت ھی ۔
” نس اب نمہیں صرف چو چاۓ سے چراب پیچز تھے وہ پ ناتے بڑیں گے ت ھر سے پلکہ میں
ہ نلپ کرپا ہوں ف نل ہوا ہوں دو دفعہ انف انس سی میں بر اپ نا یو کر ہی سک نا ہوں “
اد پبہ تے نس پاک ت ھال کر اسے چ ھکے سر کو دپک ھتے بر ہی اک نفا ک نا ۔ اس کے ما تھے کے
پل ہ ٹوز قاٸم تھے ۔
” آ نسو یو یوپخھ لو “
میسم تے مشکرا کر اس کی طرف دپک ھا ۔ ل نکن وہاں اس مشکراہٹ کا کوٸ ابر پہیں ت ھا ۔
جہرے ات ھی ت ھی سکوہ ک نعاں ت ھا ۔
اد پبہ تے ت ھنگی سی آواز میں کہا اور غصے سے ت ھر یور اپداز میں مشکراتے میسم کی طرف
دپک ھا ۔
” کیسے “
میسم تے ت ھ ٹویں اخکاٸیں ۔ حب کے جہرے بر کوٸ چوف پہیں ت ھا ۔وہ چاۓ سے
چراب ہوۓ صفجات کو لفاقے میں ڈال رہا ت ھا ۔
” کیسے پ ناٶ گی “
اد پبہ تے داپت بیسے اور خیسے ہی چاۓ کے ساتھ چراب ہوۓ صفجات کو دپک ھتے کے لتے
سا متے نظر دوڑاٸ وہ وہاں موچود پہیں تھے ۔ صفجات میسم مشکراتے ہوۓ لفاقے میں ڈال
رہا ت ھا ۔
” کاتی دو وانس “
اد پبہ تے پاک ت ھال کر ہاتھ آگے ک نا۔ جس کو فہقہ لگا کر میسم تے ا تپے ہاتھ سے اپک
طرف ک نا۔ اد پبہ چو ت ھوڑی دبر پہلے اس کی ہمدردی بر حیرت کے سم ندر میں غوطے لگا رہی
پ
ت ھی اب پ نک وفت آ ک ھیں اور مبہ دویوں ک ھول چکی ت ھی ۔
وہ ا تپے لب و لہچے بر وانس آچکی ت ھی اب اس بر چیخ رہی ت ھی ۔ چو مشلشل فہقے بر فہقہ لگا
رہا ت ھا ۔ ت ھوڑی دبر پہلے والی ہمدری ہوا چکی ہو ت ھی ۔
اد پبہ تے خظرپاک غزاٸم سے آ گاہ کرتے ہوۓ ا تپے مبہ بر ہاتھ ت ھیرا ۔
میسم تے لفافہ اوبر ک نا ۔ اور فیجانہ اپداز میں مشکرا کر دپک ھا ۔ وہ چڑ کر تیر پیخ گٸ ت ھی ۔
********
کرتے کے کف کے بین پ ند کرپا وہ تیز تیز قدم ات ھا پا مراد اچمد کے کمرے کی طرف بڑھ رہا
ت ھا ۔کییرپگ والوں کا فون آپا ت ھا وہ وفت یوچھ رہے تھے ۔ پہی پ ناتے کے لتے وہ مراد کے
کمرے پک پہیجا ت ھا حب اپدر سے آتی مجنلف آوازٶں کی پازگشت تے قدم چما دتے تھے ۔
” مراد ت ھاٸ ک ٹوں برنشان ہوتے ہیں اپ نا اد پبہ تے ڈاکیر ین کر پہیں یو رہ نا “
غزرا تے مراد کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ت ھا ۔ وہ سر چ ھکاۓ بیٹ ھے تھے ۔ رزلٹ آ خکا ت ھا اد پبہ
تے انف انس سی میں ساپدار نمیر لتے تھے جس کی چوسی میں گ ھر میں آج چ ھوتی سی
نقرپب کا اہٹمام ک نا گ نا ت ھا ۔ آچر کار اب ڈاکیری کی ڈگری کے لتے سب کی نظریں اد پبہ
سیراز بر پکی ت ھیں ۔ چ نکہ میسم معمولی نمیروں سے صرف پاس ہی ہو سکا ت ھا ۔ مراد کو بڑے
بیتے کو لے کر پہت برنشاتی ت ھی کم از کم ا چھے نمیروں میں پاس ہی ہو چا پا ۔ وہ یو چواد سے
ت ھی چار ہاتھ آگے نکال ت ھا چواد تے کم از کم م نڈ نکل ا چھے نمیروں میں پاس یو ک نا ت ھا ۔
غزرا تے مشکراتے ہوۓ اپک نظر برنشان ک ھڑی رانعہ بر ڈالی اور ت ھر مراد کی طرف دپک ھا ۔
رانعہ شوہر کے غصے سے برنشان چال ک ھڑی ت ھیں۔
مراد تے گہری سانس لی ۔ جہرے بر مایوسی ت ھی ۔ پاہر ک ھڑے میسم بر حیرت کے پہاڑ
س
یوٹ رہے تھے۔ ل نکن نہ ک نا نہ حیرت عج یب سی حیرت ت ھی ۔ جسے مخ ھتے سے وہ قاصر ت ھا
۔
نہ رسبہ پہت پچین میں اچمد م ناں کی چواہش بر طے ک نا گ نا ت ھا ۔ وہ چا ہتے تھے گ ھر کی
بیتی گ ھر میں ہی رہے ۔ اور غزرا کو کٹھی نہ نہ لگے کہ ت ھاٸ اس کی بی تی کو بڑھا کر اس بر
اجشان کر رہا ہے ۔
غزرا تے ت ھر سے نشلی د تپے کے اپداز میں کہا ۔ غزرا کو میسم پہت غزبز ت ھا اور سب سے
بڑا سکون نہ ت ھا کہ بیتی آپکھوں کے آگے ہی رہے گی ۔رانعہ تے آگے بڑھ کر غزرا کو گلے
لگا ل نا ت ھا ۔
وہ جن قدموں بر آپا ت ھا اپہی قدموں سے ک ھوپا ک ھوپا سا وانس لوٹ رہا ت ھا ۔ حب نظر سا متے
بڑی ۔ وہ تیرٹ گرین پ نارسی سے چوڑے میں مشکراتی ہوٸ اوبری ز پبہ یپچے ابرتی ہوٸ آ
رہی ت ھی ۔ آج وہ اسے کسی اور ہی نظر سے دپکھ رہا ت ھا جس نظر سے آج سے پہلے اس تے
کٹھی اسے پہیں دپک ھا ت ھا ۔
پ
سف ند رپگت گالتی گال ت ھری سیز ملی چلی بڑی سی آ ک ھیں پ نصوی جہرہ ک ھڑی چ ھوتی سی پاک
پ نک ھڑی سے ہوپٹ معرور سا اپداز لم نا قد سڈول سا پدن رنسمی ت ھورے ک ندھوں پک آتے پال
۔ وہ وافعی میں اپتی دلکش ت ھی پا آج اسے لگ رہی ت ھی آج سے پہلے اس کی نہ چونصورتی
اس کی نظر ک ٹوں پہیں دپکھ سکی ت ھی ۔ وہ یو کٹھی اسے سف ند چوہ نا لگتی ت ھی ۔ کٹھی چتی
ما پا کٹھی برقاتی چڑپل بر آج یو وہ دل کے ساز ہی چ ھیڑ گٸ ت ھی ۔
” چلن ہو رہی ہے نہ “
ہاتھ پیخ ھے پاپدھ کر دھیرے دھیرے ہلتے ہوۓ وہ شوخ سے اپداز میں اس کے پلکل
سا متے آ کر ک ھڑی ت ھی ۔ اس کے دل میں پجتے والے ساز سے پکسر اپجان ۔ وہ چو اپجاتے
سے سچر میں چکڑا ک ھڑا ت ھا اس کے ا نسے معرور سے اپداز بر مشکراہٹ دپا گ نا وہ اپداز جس بر
اس کے دماغ کی گ ھٹی ناں پجتے لگتی ت ھیں آج دل کی گ ھیتی پج رہی ت ھی ۔ آج اس کی کوٸ
پات ت ھی بری پہیں لگ رہی ت ھی ۔ دلجشتی سے اسے دپک ھا چو اپتی طرف سے تیر چال کر اب
اس کی طرف سے آتے والے تیر کا اپ نطار کر رہی ت ھی۔ میسم کخھ دبر ےو یوپہی دپک ھنا رہا
ت ھر سرارت کی رگ ت ھڑک ہی ات ھی اور وہ ا تپے براتے اپداز کو اپ نا گ نا ت ھا ۔
” ک نا ہے گ ندی سی ہواٸ چ نل “
ہلکا سا فہقہ لگاتے ہوۓ کہا ۔ وہ ہیس رہی ت ھی اور میسم اس کے داپت دپکھ رہا ت ھا ۔
برپ یب سے موپ ٹوں کی لڑی سے داپت ۔ افف نہ سف ند چوہ نا اس قدر جسین ہے میں تے یو
آج سے پہلے کٹھی مجسوس ہی پہیں ک نا ۔ سرارت سے ت ھ ٹویں ات ھا کر اپتی مشکراہٹ
چ ھناٸ ۔
مشٹم تے کالر ک ھڑے کتے تھے ۔ اور اس تے ا تپے مخصوص اپداز میں انگلی کو پاک کے
یپچے سے گزارتے ہوۓ پاک کو سکیڑا ت ھا ۔ آج یو وہ ہواٶں میں اڑ رہی ت ھی۔
” اور پات سٹو ات ھی یو انف انس سی کی ہے ڈاکیر ت ھوڑی نہ ین گٸ ہو چو اپتی اکڑ دک ھا
رہی “
ک
اس کی اس ادا سے پاک چڑھاتے بر میسم تے ساحبہ اس کی پاک پکڑ کر ھییچ خکا ت ھا ۔
” افف پد نمیز “
پ
زور سے اس کا ہاتھ چ ھنکتی خفگی سے اسے د ک ھتی اس کی مشکراہٹ سے تے حیر مبہ میں
بڑ بڑاتی ہوٸ آگے بڑھ رہی ت ھی ۔ چ نکہ وہ اپک ایو کھے سے خضار میں چکڑا وہیں ک ھڑا ت ھا۔
****
***********
تیرہ سالہ چز نقہ تے مبہ بر ہاتھ ت ھیرتے ہوۓ قدم کمرے سے پاہر کی طرف بڑھاۓ ۔
خی یو نہ ہیں چ ناب چز نقہ مراد آج ان کا نعارف ت ھی ہو ہی چاۓ میسم کے آتھ سال نعد
حب مراد اچمد اور رانعہ مایوس ہو چلے تھے یو چ ناب موصوف کی آمد ہوٸ میسم سے پلکل
برعکس چ ناب اچ ھی چاضی ضخت رک ھتے والے گول م ٹول سے مرد نما چپے ہیں۔ اد پبہ کا الڈال
اور میسم کا دسمن ہوتے کا سرف چ ناب کو ت ھی چاصل ہے ۔
میسم چو پاپگیں نشارے صوقے بر لی نا کرکٹ میچ دپک ھتے میں مصروف ت ھا چز نقہ کی دھمکی بر
اچ ھل کر بیٹ ھا ۔
” اوۓ رک رک فٹ پال کہیں کے پہیں یو اپک کک انسی بڑے گی لڑھک نا ہوا چاۓ گا
“
میسم تے پجلے لب کو داپ ٹوں میں چکڑ کر کہا ۔ چزنقہ کمر بر ہاتھ رکھ کر پاک ت ھال کر مڑا ۔
اس کا کوٸ نش ندپدہ شو آتے واال ت ھا اور میسم اسے تی وی پہیں دے رہا ت ھا ۔ اوبر رانعہ اور
غزرا کے ڈرامے کا وفت ت ھا اس لتے وہ میسم سے ہی لڑتے پہیچ خکا ت ھا ۔
” ر نموٹ دو مخ ھے ت ھر “
ما تھے بر پل ڈال کر رغب سے کہا ۔ دویوں کے درم نان عمر کا پہت قرق ت ھا بر لڑاٸ کے
دوران دویوں ہم عمر ہی ہو چاتے تھے ۔ میسم ت ھی اسی کے اپداز میں کمر بر ہاتھ دھر کر
پلکل اس کے سا متے آ گ نا ۔
اس کے داٸیں گال بر چ یت لگاٸ ۔ چز نقہ تے تے ساحبہ ا پتے ت ھولے ہوۓ گال بر
خفگی سے ہاتھ رک ھا ۔ اور گ ھور کر میسم کو دپک ھا ۔
” امی!!!!!!!“
ت
چز نقہ تے مٹ ھناں ھییچ کر یوری فوت سے چال کر کہا۔ نہ ہواٸ قاٸر ت ھا ک ٹوپکہ دویوں
چا تپے تھے رانعہ اس وفت ڈرامہ دپک ھتے اوبر چاتی ہے ۔
پ
” نہ د ک ھیں مار رہا مخ ھے لم ٹو کہیں کا “
چز نقہ تے ت ھر چیخ کر دیواروں سے کہا ۔ ک ٹوپکہ نہ وہ دو چملے تھے چو گ ھر میں ہر آدھے
گ ھیتے نعد گوپجتے تھے ۔
میسم تے ہاتھ سے اسے پاہر کی طرف چاتے کا اسارہ ک نا اور چود ت ھر سے صوقے بر ڈھیر
ہوا۔ اسی ملچے وہ میسم کے دل کی سلط یت بر چکومت کی چ نگ لڑتے والی ہاتھ میں کاغز
ت ھامے کمرے میں داچل ہوٸ ۔
بڑے مصروف سے اپداز میں مدھر سی آواز کے ساتھ چز نقہ کو نکارتی وہ اب دیوں گال کو
سہالتے چز نقہ کے پلکل سا متے ک ھڑی ت ھی ۔ اس کی آواز کایوں میں بڑتے ہی میسم تے
برانس میں گردن گ ھماٸ ۔ مخیرمہ آخکل م نڈ نکل کا لج میں داچلہ بیشٹ کی ت ھریور طر نقے
سے پ ناری کر رہی ت ھیں پہت کم نظر آتی ت ھیں ۔
ہلکے سے زرد رپگ کے چوڑے میں ک ندھے بر چ ھو لتے دو تپے اور پالوں کی یوتی پ نل میں وہ
سادہ سی ت ھی آج میسم کے دل کو اچ ھی لگ رہی ت ھی ۔ کمیخت نظر چو اپک پل کو کرکٹ
کے میچ سے ہیتی پہیں ت ھی آج میچ بر وانس پہیں چا رہی ت ھی ۔
نظر چو کاغز سے اوبر ات ھی ت ھی آپکھوں میں آنسو لتے ک ھڑے چز نقہ بر بڑی اد پبہ تے مج یت
سے چز نقہ کی ت ھورڈی سے پکڑ کر اس کے جہرے کو اوبر ک نا ۔
پ
” ادی د ک ھیں نہ پہیں دے رہا ر نموٹ میرا ڈرامہ گزرا چا رہا ہے “
پ
وہ پچین سے اد پبہ کہتے میں پاکام ہوا آج پک اد پبہ کو ادی ہی کہ نا ت ھا ۔ اد پبہ تے آ ک ھیں
سکیڑ کر میسم کی طرف دپک ھا چو پہلے سے ہی دلجشتی سے اد پبہ کو دپکھ رہا ت ھا ۔ اور ت ھر برتم
سے چز نقہ کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔
چز نقہ کو نشلی د تپے ہوۓ وہ اس کے گال ت ھنک کر اب میسم کی طرف پلتی ۔ بڑے
آرام سے اب وہ ا تپے موپاٸل کے کٹمرہ کو میسم بر سیٹ کر رہی ت ھی ۔
” ک نا کر رہی ہو نہ “
ت پ
میسم تے آ ک ھیں سکیڑیں ۔ ل ٹوں کو ھییچ کر اس کے بر سکون اپداز سے ات ھتے والی خظرپاک
غزاٸم کی یو کو شوپگ ھا ۔
بڑے اپداز سے اپتی آگے آٸ ہوٸ یوتی کے پالوں کو انگلی میں رول ک نا ۔ لب ت ھی مجنلف
زاوتے پدل رہے تھے ۔
” ک ٹوں ؟“
میسم اپتی چگہ سے اتھ اور صوقے کی نشت سے ت ھالپگ کر اب اد پبہ کے سا متے ت ھا ۔
” نم ھارا کل ان تی انس بیشٹ ہے نہ اور نم ھاری پ ناری کا پ ٹوت یو د پنا ہو گا نہ ماموں کو
“
پلکوں کو مضٹوغی اپداز میں پار پار چ ھنکتے ہوۓ وہ برسکون اپداز میں کہہ رہی ت ھی ۔
” حیردار چو نہ ک نا تم تے “
میسم تے آگے بڑھ کر موپاٸل اس کے ہاتھ سے لی نا چاہا چو وہ چلدی سے ا تپے پیخ ھے کر
چکی ت ھی ۔
اد پبہ تے اپک ہاتھ آگے بڑھاتے ہوۓ ا پتے خظرپاک غزاٸم سے اسے آ گاہ ک نا ۔ چو قدم
قدم اس کی طرف بڑھ رہا ت ھا ۔
اد پبہ تے داپت بیس کر ت ھر سے دھمکی دی ۔ میسم تے پاک ت ھال کر ر نموٹ آگے ک نا ۔
” پکڑو “
وہ یوری پ ٹیسی کی نماٸش کر گٸ ت ھی ۔ موپ ٹوں خیسے داپت گالتی ل ٹوں کے اپدر سے
واضح ہوۓ تھے ۔
ھاۓ۔ے۔ے۔ے۔
م
اس کی ادا میسم کے دل بر یٹھی سی صرب پاپت ہوٸ ت ھی ۔ کمیخت زچم بر زچم ک ھا رہا ت ھا
خظرہ ت ھا کخھ ہی غرصے میں چ ھلتی چ ھلتی ہو چاۓ گا ۔ وہ ر نموٹ کو ت ھامے اس کو زپان
نکال کر چڑاتی پاہر چا رہی ت ھی اور میسم کا ہاتھ اپ جاتے میں ہی دل بر آ خکا ت ھا ۔
********
” کون ہے “
ار پبہ تے دروازے کے قرپب سے آواز دی ۔ وہ اور غزرا دوپہر کو یپچے آٸ ہوٸ ت ھیں ۔
حب دراوزے بر گ ھیتی پجتے بر وہ گ یٹ بر گٸ ت ھی ۔ پاہر کخھ دبر کی چاموسی کے نعد
کوٸ دروازے کے اور قرپب ہوا ت ھا ۔
” خی میں فہد “
گال صاف کرتے کے نعد معدب اپداز میں کہا قسمت تے آج ساتھ دپا ت ھا اور وہ دروازے بر
ت ھی ۔ گو کےمیسم کا اور فہد کا گ ھر آ متے سا متے ت ھا اور وہ میسم کا واچد چگری دوست ت ھا
بر ت ھر ت ھی ان کے گ ھر پال نکلف آپا چاپا پہیں ت ھا ۔ ار پبہ کے ساتھ فہد پچین میں اپک ہی
سکول میں بڑھ نا ت ھا ۔ اور پچین میں یو ک ھنال ت ھی ساتھ کرتے تھے بر بڑے ہوتے ہی نہ
صرف ک ھنل نا چ ھوٹ گ نا ت ھا پلکہ کالچز ت ھی الگ الگ ہو گتے تھے ۔ ل نکن فہد ار پبہ کے لتے
اپتی مجسوسات نہ پدل سکا ت ھا ۔ ل نکن سلشلہ صرف اسے دپک ھتے کی چد پک ہی ت ھا ۔ اور وہ
ت ھی صرف فہد کی طرف سے پک طرفہ ہی ت ھا ۔
” خی؟ “
ار پبہ تے تیروتی دروازے کی اٶٹ سے ہی شوالبہ لہجہ اپ ناتے ہوۓ کہا ۔
فہد تے ت ھوڑا سا آگے ہوتے ہوۓ کہا ۔ ار پبہ تے سر بر دو پبہ درست کرتے ہوۓ دروازہ
ک ھوال ۔ وہ سا متے برپاتی کی پ نلٹ ت ھامے ک ھڑا ت ھا ۔ سکل بر وہی سرافت طاری کتے چو وہ
ہمیشہ ار پبہ کو دپکھ کر کرپا ت ھا ۔
” وہ میسم گ ھر بر ہے “
ار پبہ تے سر بر دو پبہ درست کرتے ہوۓ کہا ۔ اور ت ھر سے دروازہ پ ند کرپا چاہا ۔
” اپڈمیشن کے سلسے میں چوار ہو رہا ہے کسی یوپ ٹورستی میں میرٹ لشٹ میں پام ہی پہیں آ
رہا “
” خی ۔۔۔“
ت
فہد تے ت ھر یور نظر ڈا لتے ہوۓ معدب اپداز میں کہا ۔ ار پبہ تے لب ھییچ کر سر ہالپا اور
دروازہ پ ند کرتے کے لتے ہاتھ آگے بڑھاپا حب غزرا اوبر چاتے کے غرض سے وہاں
آٸیں۔ اور ار پبہ کو دروازے بر دپکھ کر رکیں ۔
ار پبہ تے کہتے ہوۓ گردن موڑ کر اپک نظر اس بر ڈالی چو اب پاٸک س نارٹ کر رہا ت ھا ۔
فہد کا پام سیتے ہی غزرا کے ما تھے بر سکن تھے ۔ آواز اپتی اوپچی ت ھی کہ پا آساتی فہد پک چا
پ
سکتی ت ھی۔ ار پبہ تے غزرا کو آ ک ھیں نکالیں اور چور سی نظر فہد بر ڈالی چو اب چلدی چلدی
پاٸک کو کک لگا رہا ت ھا ۔ اور پاٸک ت ھا کہ س نارٹ پہیں ہو رہا ت ھا ۔
غزرا کو یو فہد سروع سے ہی نش ند پہیں ت ھا ۔ داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ کا م نڈ نکل
کا لج میں اپڈمیشن ہو گ نا ت ھا بر میسم کے نمیر ا تپے کم تھے کہ کسی ت ھی کا لج میں میرٹ
ا چھے مضمون کے لتے پہیں ین رہا ت ھا ۔ چ نکہ مراد یو پہی چا ہتے تھے وہ اب کسی ا چھے
مضمون میں تی انس کر لے ۔
فہد کے دادا کے زماتے سے ان کا سہر میں اپک چ ھوپا ہوپل ت ھا ۔ اور اب وہ ہوپل فہد کے
والد چالتے تھے ۔
ار پبہ تے خفگی سے غزرا کی طرف دپک ھا ۔ چو تے پ نازی سے سر کو چ ھنک چکی ت ھیں۔ ار پبہ
پل یٹ کو پکڑے کخن کی طرف بڑھ گٸ ۔
” یو سیتے دے “
غزرا ہاتھ کو ہوا میں مارتی بڑ بڑاتی ہوٸ اوبر چا رہی ت ھیں ۔
***********
اد پبہ تے داپت بیشتے ہوۓ میسم کے کان کے قرپب ہو کر کہا۔ چو چان یوچھ کر آہشبہ
سی رف نار میں پاٸک چال رہا ت ھا۔
ب
وہ تے زار سی سکل پ ناۓ میسم کے پیخ ھے یٹھی ت ھی ۔ و نسے یو اسے چ ھوڑتے اور لے
چاتے کا کام چواد اچمد کا ت ھا ل نکن آج چواد کو کسی کام کے سلشلے میں سہر سے پاہر چاپا
بڑ گ نا جس کی وجہ سے اد پبہ کو کا لج چ ھوڑتے کی زمہ داری میسم کے ک ندھوں بر برانشقر ہو
گٸ ت ھی ۔ جسے وہ اپتی طرف سے یو پا چوتی پٹ ھا رہا ت ھا ل نکن اد پبہ اس سے م نقق پہیں
ت ھی اسے لگ رہا ت ھا وہ چان یوچھ کر پاٸک آہشبہ چال رہا ہے ۔
میسم تےہلکی سی گردن موڑ کر کہا ۔ جس بر وہ اور سرخ ہو چلی ت ھی ۔ مبہ پ نا کر کالٸ بر
پ ندھی گ ھڑی بر اپک نظر ڈالی ۔ اس کا پہال ل نکچر گزر رہا ت ھا ۔
ً
” نقی نا نم ھارا کا لج ل یٹ لگ نا ہو گا “
” ہاں انشا یو ہے “
میسم تے بر سکون لہچے میں صفاٸ دی۔ اب اسے اد پبہ کے غصے بر غصہ پہیں آ پا ت ھا ۔
دل کمیخت تے انماتی کر گ نا ت ھا ۔ اور قلعے کے دروازے اد پبہ کی فوج کے لتے ک ھول خکا
ت ھا ۔اور اب ت ھی وافعی ہی اس کے چ نال سے اپتی رف نار کو قایو کتے ہوۓ ت ھا ۔
اد پبہ تے چڑ کر داپت اپک دوسرے کے ساتھ کجکجاۓ ۔ اپک یو اس کے پات نہ پات
داپت نکا لتے سے وہ اور چڑ رہی ت ھی ۔ اد پبہ کی پات بر وہ تے ساحبہ فہقہ لگا گ نا ۔ اور ت ھر
سرارت سے ت ھوڑا سا جہرے کو چم دپا ۔
مضٹوغی حیرت طاری کرتے ہوۓ ل ٹوں کو پاہر نکاال ۔ اد پبہ تے غرور سے پاک ت ھالٸ ۔
ک چ ُ
ل ککڑا ہیں کا ۔
” نس “
بڑی ادا سے سر کو چ ھ نکا۔ میسم کی سرارت کی رگ ت ھڑکاتے کے لتے نہ ادا کافی ت ھی۔
” یو ت ھنک ہے “
میسم تے ک ندھے اخکاۓ اور ت ھر اپک دم سے پاٸک آسمان سے پابیں کرتے لگی ۔
پ
اد پبہ کی چان اپک دم سے چلق میں آٸ ۔ آ ک ھیں ت ھیتے کو ت ھیں ۔ چلدی سے میسم کے
ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔ اور چود کو گرتے سے سیٹ ھاال۔
” میسم !!!!“
چلق سے گ ھتی سی چیخ نما آواز نکلی پاٸک کہ رف نار ہی اپتی تیز ت ھی ۔ اس کا سانس جشک
ہو گ نا ت ھا ۔ وہ یو کخھ شن ہی پہیں رہا ت ھا نس داپت نکالے پاٸک کی رف نار تیز سے تیز کر
رہا ت ھا ۔
میسم تے فہقہ لگاپا ۔ اور آواز کو اوپجا ک نا ۔ اد پبہ کٹھی دو پبہ سیٹ ھالتی کٹھی چود کو سیٹ ھالتی
پاگل ہو چلی ت ھی ۔ چلدی سے میسم کی کمر کے گرد پازو چاٸل کتے اور سر اس کی بیٹھ
سے نکا دپا ۔
افقف ! اپک اور صرب چ ناب پہلی دفعہ وہ اس کے لمس سے آسانہ ہوا یو پبہ چال کہ
انشان میں ت ھی ارتھ ہوا کرپا ہے میٹ ھا سا کرپٹ ت ھا جس کا ارتھ س ندھا دل بر گدگدی کر رہا
ت ھا ۔ وہ نشت کے ساتھ جہرہ چ نکاۓ کمر کے گرد پازو چاٸل کتے اس کی سرٹ کو
مضٹوطی سے پکڑے ہوۓ ت ھی ت ھوڑی دبر پہلے واال غرور ہوا ہو گ نا ت ھا میسم کے لب چود نہ
چود مشکرا دتے ۔
جہرہ اوبر ات ھا کر الیجا کے اپداز میں اس کے کان میں ت ھر سے کہا ۔ چاہل کا لقظ چزف ک نا
ُ
ت ھا ک ٹوپکہ اس وفت وہ اس کے کے رچم و کرم بر ت ھی ۔
میسم تے سرارت سے چود ساحبہ سرگوسی کی چو وہ پہیں شن سکتی ت ھی ۔ اور پاٸک کی
رف نار اور بڑھا دی ۔ پال ہوا میں ت ھڑ ت ھڑا رہے تھے اور دل سیتے میں ۔
********
پ مخ س
” امی رانعہ مماتی میرے لتے نہ سب ھی ہیں میں “
اد پبہ تے چوڑا ات ھا کر حیرت سے کہا۔ پہت ہی پ نارا سا سیز رپگ کا چوڑا ت ھا پلنگ بر چوڑپاں
دو عدد اور چوڑے ۔ م نک اپ کا سامان پک ھرا ہوا ت ھا چو ات ھی ات ھی رانعہ اس کی ع ند کے پام
بر دے کر گٸ ت ھیں ۔ ع ند القظر کو کخھ دن ر ہتے تھے ۔ بر وہ یو حیرت میں ڈوتی ک ھڑی
ت ھی آج سے پہلے یو رانعہ کٹھی اس کے لتے یوں ع ند پہیں الٸ ت ھیں ۔
” ع ند ہے نم ھاری “
غزرا تے مشکرا کر کہا اور ت ھر سے بر شوق نگاہوں سے حیزیں دپک ھنا سروع کی ۔ اد پبہ چوڑا
اپک طرف رک ھا اور الخھ کر غزرا کی طرف دپک ھا
” مطلب ؟“
ہ ہ مخ س
ش یمس
اپداز پا ھی واال ت ھا اپک نظر مشکراتی غزرا بر ڈالی اور دوسری تی یسی ی تی ار پبہ بر ۔۔
” لو خی مطلب سمخ ھاٶ اب ان مخیرمہ کو چاتے نہ چاتے گل ہی نہ چاتے پاغ یو سارا
چاتے ہے “
ار پبہ تے امرود کو ہاتھ میں گ ھماتے ہوۓ معتی حیز اپداز میں کہا ۔ آپکھوں میں سرارت
ت ھری ت ھی۔ اد پبہ تے ما تھے بر پل ڈالے اور رخ سارا ار پبہ کی طرف موڑا ۔
” ارے تھٸ ہوتے والی ساس اپتی پہو کے لتے سادی سے پہلے پہت چاٶ سے ع ند التی
ہیں یو خی وہی آٸ ہے اس دفعہ نم ھاری ماساہللا سے م نڈ نکل کا لج میں اپڈمیشن چو ہو گ نا
ہے “
غزرا تے ڈ بی تے کے اپداز میں کہا ۔ ما تھے بر ہلکے سے سکن ڈالے اب وہ اس کےتے زار
سے اپداز بر اپتی خفگی کا اظہار کر رہی ت ھیں ۔
” امی!!!!“
اد پبہ کی روہانسی آواز نکلی ت ھی ۔ اور ت ھر وہ یو خیسے ساکن سی ہو گٸ ۔ اپک نظر مزے
سے امرود ک ھاتی ار پبہ بر ڈالی چو اس کے دپک ھتے ہی یوری پاچ ھیں ت ھنالۓ مشکرا دی ت ھی ۔
مطلب مشٹم ۔۔۔۔
” کہاں چا رہی ہو اب “
غزرا پیخ ھے سے آوازیں د تپے رہ گٸ ت ھیں ل نکن وہ کہاں کخھ شن رہی ت ھی ۔ قدم تیز تیز
میسم کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے اور ت ھر پال نکلف وہ اس کے کمرے کا دروازہ
ک ھولتی اس کے سا متے ک ھڑی ت ھی ۔
وہ بی نان پہتے پاول پالوں میں چال پا سیتی پجا پا اپک دم سے اسے یوں سا متے دپکھ کر چوپک
گ نا۔ پالوں میں پاول سم یت چلنا ہاتھ لمجہ ت ھر کے لتے ت ھم گ نا ۔ وہ سرخ ہویق جہرہ لتے
اس کے سا متے ک ھڑی ت ھی چو پہت دن سے اس کی رایوں کی بی ندیں چرام کتے ہوۓ ت ھی
۔
” میسم “
ت ھولی سانس کے ساتھ اسے نکارتی اب پلکل اس کے مفاپل ک ھڑی ت ھی ۔ آپکھوں میں
پ
آ ک ھیں ڈالے ۔
” ک نا ہوا تھٸ “
میسم اس کے جہرے کی اڑی ہوٸ ہواٸپاں دپکھ کر برنشان سا ہوا ۔ پاول کو گلے میں
ڈا لتے ہوۓ اچ ھی تے سے شوال ک نا ۔
” ہاں پبہ ہے “
میسم تے پارمل سے اپداز میں ل ٹوں کو ت ھوڑا سا پاہرنکال کر کہا۔ دل ہی دل میں یو وہ اد پبہ
کی چالت بر ہیسی دپا رہا ت ھا ۔
اد پبہ تے بیشاتی بر سکن ڈالے ا تپے سیتے بر ہاتھ ر کھے لقظ چ نا چ نا کر ادا کتے ۔
میسم تے گہری سانس لے کر ا نسے کہا خیسے اس خیشا مطلوم اور قرمابرادر انشان کوٸ پہیں
دپ نا میں ۔
اد پبہ تے پاک ت ھال کر داپت بیشتے ہوۓ اس کے جہرے کو حیرت سے دپک ھا ۔ میسم کا
ت مخ س
ردعمل اس کی شوچ کے پلکل برعکس ت ھا ۔ وہ یو ھی ھی وہ یخ ا ھے گا یورے ھر یں
م گ ت چ
” آۓ ۔ہے۔ہے ۔ہے “
میسم تے ہاتھ پجا کر مبہ چڑاتے کے اپداز میں کہا۔ اد پبہ تے ما تھے بر پل ڈال کر حیرت
سے دپک ھا ۔
میسم تے ک ندھے اخکاۓ اور گ نال پاول اس کے سر بر رکھ دپا ۔ اد پبہ تے چ ھیجال کر پاول
اپک طرف اچ ھاال۔ گ نال پاول اب پ نڈ بر ڈھیر ت ھا۔
اد پبہ تے تے خین سے اپداز میں اسے پاور کرواپا ت ھا ۔ وہ ت ھر سے سیتی پجا پا اب کرسی بر
اسیری سدہ سرٹ کو پہن رہا ت ھا ۔ اس کی پات بر سرٹ کے بین لگاتے ہاتھ اپک ملچے
کے لتے ُرکے ساتھ ہی سیتی پجاتے لب ت ھی رک گتے تھے ۔
” یو کر دیں “
میسم کی البرواہی غروج بر ت ھی ۔ ہاتھ اب ت ھر سے سرٹ کے بین پ ند کر رہے تھے اور لب
ت ھر سے گول سکل اخی نار کتے سر پلے سے اپداز میں سیتی پجا رہے تھے ۔ وہ سیتی ت ھارت
کے مشہور س نگ یت
”ارے رے ارے نہ ک نا ہوا “ کی دھن پجا رہا ت ھا۔ چو اسے آخکل اپتی کف یت کے پلکل
م ناسب لگ نا ت ھا۔
” ہا۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ مخھ سے مخھ سے کہہ رہے سادی کرتے کا پاگل انشان جسے تم
اپک پل کے لتے ت ھی برداست پہیں کرتے ساری عمر کیسے کرو گے مخ ھے برداست “
اد پبہ تے حیران سی صورت پ نا کر سیتے بر ہاتھ دھرے۔ سا متے ک ھڑے سخص کی دل کی
چالت سے پکسر اپجان ۔
” پات سٹو نہ نم ھارا مسٸلہ پہیں ہے میرا مسٸلہ ہے میں ت ھہرا مرد ذات دوسری
سادی کر لوں گا “
ن
میسم تے ک ندھے اخکا کر کہا اور تیز تیز پالوں میں ک گھی چالٸ ۔ چ نکہ لب تے ساحبہ امڈ
آتے والی مشکراہٹ کو نمشکل روک پاۓ تھے ۔
” ک نا۔ا۔ا۔اا۔!!!!!“
پ پ
اد پبہ کی آ ک ھیں ت ھٹ کر پاہر آتے کو ت ھیں۔ مبہ کھل گ نا ت ھا یو آ ک ھیں سکڑ گٸ ت ھیں۔
میسم اس چد پک کٹھور ہو سک نا ہے اس تے کٹھی شوچا ت ھی نہ ت ھا ۔
صرب ۔۔۔
اد پبہ تے دویوں ہات ھوں کی ہٹ ھنلوں کو اس کے گلے کے قرپب ال کر چوپخوار لہچے میں کہا ۔
اور پاٶں کو تے نسی سے پیجا ۔ چ نکہ وہ یو اس اپداز بر تے ساحبہ فہقہ لگا گ نا ت ھا ۔
میسم تے دویوں ہات ھوں کو گرفت میں لے کر مع تی حیز اپداز میں دپک ھا ۔ بر وہ ات ھی کہاں
ان نظروں میں چ ھتی نٸ یوپلی مج یت کو ب کرھتے کی چالت میں ت ھی ۔
” سٹ اپ کوٸ پ ٹوی ویوی پہیں پ ٹوں گی کٹھی میں نم ھاری چاٶ اور چا کر پ ناٶ سب کو
کہ ہم دویوں کٹھی چوش پہیں رہ سکیں گے “
ً
ادپبہ تے چ ھیجال کر ا تپے ہاتھ چ ھنکے اور فورا سیتے بر ہاتھ ا نسے پاپدھے م نادا وہ ت ھر سے ہاتھ
ت ھام لے گا ۔
” او۔۔۔۔ہ نلو ۔۔۔۔ میرے ک ندھے بر پ ندوق رکھ کر ک ٹوں چالپا چاہتی ہو مخیرمہ چود چا کر
کہو مخ ھے کوٸ قرق پہیں بڑپا سادی کسی سے ت ھی ہو ماٸ قرسٹ اپ نڈ السٹ لو از کرکٹ یویو
؟“
” راسبہ پایو“
اس کو ہاتھ کے اسارے سے کہ نا ہوا وہ پاس سے گزر کر پاہر کی طرف بڑھ گ نا ۔ اد پبہ کا
مبہ اس کے ا نسے معرور ین بر کھلے کا کھال رہ گ نا ۔
” ت ھنک ہے “
********
اد پبہ تے لب کجلے اور ک ناب کو زور سے پ نگ بر پیجا ۔ کل سے سارا سکون عارت ہوا بڑا ت ھا
۔ رات ت ھی کروٹ پد لتے گزر گٸ ت ھی ۔
ماہ رخ تے اس کے ک ناب بر دھرے ہاتھ بر ہاتھ رک ھتے ہوۓ اسے مسورہ دپا۔ جسے شن کر
اد پبہ تے اور تیزار سکل پ ناٸ ۔
” یو اب ک نا کرو گی پار “
” نہ یو پبہ ہے مخ ھے سادی یو حپ چاپ میں اس سے ہرگز پہیں کروں گی ۔ تم دپک ھنا اپ نا
پ نگ کروں گی اسے چود چ ھوڑے گا مخ ھے “
ت
اد پبہ تے لب ھییچ کر بر شوچ اپداز میں سر کو گھماپا۔
**********
” میسم نہ “
پ
فہد تے موپاٸل فون میسم کے سا متے کرتے ہوۓ حیرت سے شوال ک نا۔ آ ک ھیں حیرت
زدہ ت ھیں یو مبہ وا ت ھا۔ وہ کرکٹ ک ھنلتے کے لتے گراٶپڈ میں بیٹ ھے تھے حب فہد تے کال
کرتے کی غرض سےمیسم کا موپاٸل ل نا گو کہ وہ پہلے ت ھی اکیر اس کے موپاٸل کی
چ ھان بین کرپا رہ نا ت ھا اس لتے آج ت ھی پال نکلف اس کے موپاٸل فون کی نضاوبر گ نلری
کو اس کی پ نا اچازت ک ھول خکا ت ھا ۔
گ نلری کھلتے ہی جس صنف پازک کی نضاوبر کھل کر سا متے آٸ ت ھیں اس بر فہد کی
آپکھوں کا حیرت سے ت ھٹ چاپا اور مبہ کا یوں کھل چاپا اچ ھیتے کی پات پہیں ت ھی ۔ اد پبہ
کی نضاوبر سے موپاٸل کی گ نلری ت ھری بڑی ت ھی۔ میسم کی نظر فون بر بڑتے ہی وہ
اچ ھل کر س ندھا ہوا ۔ جہرہ فق ہوا ۔
میسم تے اس کو یوں حیرت زدہ ساکن سا بیٹ ھا دپک ھا یو یوری فوت سے اسکے ک ندھے بر مکا چڑ
دپا ۔ فہد چوپک کر اپتی اس چالت سے وانس آپا۔
” مار ک ٹوں رہا ہے پہلے ت ھی یو ک ھول لی نا ت ھا بر نہ چل ک نا رہا ہے ہاں کخھ پبہ یو چلے “
فہد تے ک ندھے کو سہالتے ہوۓ ت ھ ٹویں اوبر یپچے پجاٸیں ۔ میسم نظریں چرا گ نا ۔
” ک نا مطلب ک نا چل رہا ہے “
میسم تے کان ک ھجاتے ہوۓ ارد گرد ا نسے دپک ھا خیسے اس کا شوال چواب پہیں رک ھنا ۔ فہد
تے دال میں کخھ کالے والے اپداز میں داپ ٹوں کو بیشا اور ت ھوڑا سا اور قرپب ہوا ۔
فہد تے انگلی داٸیں پاٸیں ہوا میں چالتے ہوۓ فقرے کو ادھورا چ ھوڑا۔ اور ت ھر سے
ک ھوچتی نظروں سے میسم کے جہرے کا چاٸزہ ل نا چو مشلشل فہد سے نظریں چرا رہا ت ھا ۔
” ک نا وہی؟“
میسم تے ما تھے بر پل ڈال کر مضٹوغی ال برواہی اپ ناٸ ۔ ل نکن فہد ہ ٹوز اسی اپداز میں گ ھور
رہا ت ھا ۔ جس میں تے نقیتی ت ھی اور خف نفت چان لیتے کی بڑپ ت ھی ۔
میسم تے فہد کے ک ندھے کو پکڑ کر بر سکون لہچے میں کہا ۔ جس بر وہ اپک دم سے چ ھ نکا
ک ھا گ نا ۔
” آہو “
میسم تے ک ندھے اخکا کر جہرے بر اد پبہ کے لتے دل کے چزپات کے آ پار کو آتے سے
نمشکل روکا ۔
” اور یو چوسی چوسی مان ت ھی گ نا اس ر ستے کے لتے اور اس کی پکس سٹو کرتی سروع کر
دیں واہ واہ “
فہد تے طیزنہ اپداز میں اس کی پات بر نقین نہ کرتے ہوۓ ہاتھ کو ہوا میں پجاپا ۔
میسم تے گڑ بڑا کر پات سیٹ ھالی ۔ جس بر فہد کے ما تھے کے سکن اور بڑھ گتے ۔
فہد تے میسم کے جہرے کو ت ھورڈی سے پکڑ کر اپتی طرف گ ھماپا ۔ نہ نظریں ک ٹوں پہیں مال
رہا فہد تے کمی نگی سے اپک آبرٶ چڑھا کر شوچا ۔ میسم تے یوری پ ٹیسی نکالی ل نکن اس کا
ت ھی فہد بر کوٸ ابر پہیں ہوا ۔
اپک چ ھنکے سے میسم کے جہرے کو داٸیں طرف گ ھماپا ۔ اور ت ھر میسم چو پچین سے لے کر
آج پک اس سے کوٸ پات پہیں چ ھنا سکا ت ھا اد پبہ کے لتے دل میں امڈتے والے مج یت
کے س نالب کو ت ھی فہد سے نہ چ ھنا سکا ت ھا۔
***********
غزرا اور ار پبہ کی مدھم سی آوازوں اور ہلکے ہککے فہقوں سے اس کی آپکھ کھلی ت ھی ۔ یوپ ٹورستی
سے آ کر اپ نا ت ھک چاتی ت ھی کہ آتے ہی نسیر بر شوتے کی غرض سے ڈھیر ہو چاتی ت ھی
اب ت ھی سام کے چار چپے آپکھ کھلی ت ھی آج حب وہ یوپ ٹورستی سے آٸ یو غزرا اور ار پبہ
دویوں گ ھر میں نظر پہیں آٸ ت ھیں ۔ اب ان کے فہقوں بر آپکھ کھلی ۔
ب
پالوں کا تے برپ یب سا چوڑا پ ناتی وہ برآمدہ نما الوپج میں آٸ یو غزرا اور ار پبہ پخت بر یٹھی
ً
ت ھیں ۔عال نا وہ پازار سے آٸ ت ھیں ۔ سا متے کا م نظر دپک ھتے ہی اسے اپدازہ ہو گ نا ت ھا ۔
” نہ ک نا ہے سب اب “
اد پبہ تے ت ھ ٹویں اخکا کر چ ھوتی سی پاک ت ھالٸ اور پاگواری سے پل نگ نما پخت بر پک ھری
حیزوں کی طرف دپک ھا ۔ پخت بر مجنلف مردانہ حیزیں پک ھری ہوٸ ت ھیں۔ کڑھاٸ ک نا ہوا
مردانہ کرپا ۔ مردانہ برف ٹوم واٸلٹ چ نہیں غزرا پ نگم بڑے بر شوق اپداز میں ات ھا کر پاس
ب
یٹھی ار پبہ کو دک ھا رہی ت ھیں ۔
غزرا تے خفگی سے اس کی پاگواری کو دپک ھتے ہوۓ کہا ۔ اور اپتی پات کی پاٸپد کے لتے
ً
اپک نظر ار پبہ کی طرف ڈالی چو فورا اپ نات میں سر مارتے لگی ت ھی ۔
” چلو خی “
اد پبہ تے گہری سانس لے کر کمر بر ہاتھ دھرے ۔ معامال کخھ زپادہ ہی سیجندگی اخی نار کرپا
چا رہا ت ھا ۔ اور اس کے لتے ہر گزرپا دن شوہان روح بی نا چا رہا ت ھا ۔
اد پبہ کی ک ھوٸ ک ھوٸ سی آواز ات ھری ۔ اور غزرا کے حیزیں سم ٹیتے ہاتھ لمجہ ت ھر کے لتے
ت ھم گتے ۔ سر ات ھا کر اد پبہ کی طرف شوالبہ اپداز میں دپک ھا ۔ ل نکن وہ ت ھر سے حپ ک ھڑی
ت ھی ۔
ممہم
” مم یولو“
غزرا تے کخھ دبر اس کے یو لتے کا اپ نطار ک نا ۔ اور ت ھر ہاتھ حیزوں کو ساپ نگ پ نگ میں
ڈال رہے تھے ۔
” کخھ پہیں “
اد پبہ تے کخھ ت ھی کہتے کا اردہ برک کر دپا ۔ اور چاموسی سے وہاں سے چل دی ۔ قدم اور
دل دیوں ہی یوچ ھل تھے ۔
*************
میسم تے ار پبہ کے سر بر چ یت لگاٸ اور صوقے بر ڈ ھتے کے سے اپداز میں بیٹ ھا ۔ افطار
ن ً
ِ ھل چ
کے نعد قرپ نا روز ہی اد پبہ کی ا ک ک سے دل کو سیر کرتے وہ اوبر آچا پا ت ھا ۔ اور آج
پ
ب
یو اسے سا متے پا کر دل کھل سا گ نا ۔ دویوں صوقے بر یٹھی ت ھیں ار پبہ کا دھ نان تی وی
ب
بر ت ھا چ نکہ وہ قلم مبہ میں دپاۓ اپتی موتی سی ک ناب بر نظریں چماۓ یٹھی ت ھی ۔
اد پبہ تے پخوت سے میسم کی طرف دپک ھا ۔ چو اچ ھل کر اس کے برابر میں بیٹھ خکا ت ھا ۔
بیٹ ھتے پک کی نمیز پہیں چاہل کو اد پبہ تے داپت بیس کر دل میں شوچا۔ اور تیزی سے
اپتی ک نایوں کو سم ٹی نا سروع ک نا ۔ آخکل اس کی نظروں میں آتے میں ت ھی الخ ھن ہوتی ت ھی
اسے ۔
” میں؟؟ “
ار پبہ تے سیتے بر ہاتھ رکھ کر کوفت ت ھرے اپداز میں میسم کی طرف دپک ھا چو اس کے پلکل
پ
تی وی سرپل کے وفت آن دھمکا ت ھا اور ت ھر اپک دم سے اس کی آ ک ھیں سرارت سے
چمکیں ۔ل ٹوں بر سربر سی مشکراہٹ ال کر اد پبہ کی طرف دپک ھا
ار پبہ تے سرارت سے مشکراتے ہوۓ ذومعتی چملہ اچ ھالہ ۔جس بر تے ساحبہ میسم تے
اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ ار پبہ کے اس چملے بر اد پبہ کے ک نابیں سم ٹیتے ہاتھ لمجہ ت ھر کے لتے
رکے چ نکہ میسم اس کی اس چالت سے مچزوز ہوپا ہوا مشکراہٹ دپا گ نا ۔ اد پبہ اب ک ھا
چاتے کے اپداز سے ار پبہ کو دپکھ رہی ت ھی چو تے ساحبہ زپان داپ ٹوں میں دپا چکی ت ھی۔
میسم تے سرارت سے ار پبہ کی طرف مشکراہٹ دپاتے ہوۓ دپک ھا ۔ اور ت ھر نظر ت ھر کر
اد پبہ کو دپک ھا چو سرخ ہوتے جہرے کے ساتھ صنط کی آچری سیڑھی بر ت ھی ۔ اور ت ھر وہ
ت ھتی ۔۔۔
اد پبہ تے داپت بیشتے ہوۓ ک ھا چاتے والی نظر میسم بر ڈالی۔
” ارے ارے تم دویوں اب اس پات بر مہا ت ھارت نہ سروع کر د پنا چا رہی ہوں میں
پ ناتے اد پبہ تم نہ پ نا دو تم پ ٹو گی ک نا چاۓ “
ار پبہ تے ہاتھ کے اسارے سے دویوں کو رام کرتے ہوۓ کہا ۔ اور سلییر پاٶں میں
اڑاۓ۔
اد پبہ تے زہرپلی سی مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاۓ ار پبہ کی طرف دپکھ کر فقرہ اچ ھالہ چ نکہ
اسارہ میسم کی طرف ت ھا۔ چو تے ساحبہ مشکرا دپا ۔ اب یو اس طالم کی ہر ادا دل کو ت ھاتی
ت پ
ت ھی ۔ نہ پخوت ھری آ یں ۔ نہ تے زاری سے گول ہوتے لب ۔ نہ فارت سے ھولی
ت خ ھ ک
پاک اور زہر اگلتی زپان کخھ ت ھی یو برا پہیں لگ نا ت ھا اب اس کمیخت دل کو چ ناب وہ ک نا
کہتے ہیں پیجاتی میں گوڈے گوڈے ڈوب خکا ت ھا دل اس کی مج یت میں ۔
اس سے پہلے کہ اد پبہ ات ھتی میسم تے ت ھوڑا سا آگے چ ھک کر راسبہ روک دپا سر نمشکل
پکراتے پکراتے پجا ۔
میسم تے ہاتھ کو سیتے بر دھر کر ت ھوڑا سا سر کو چ ٹیش دی ۔ ار پبہ ہیشتے ہو کخن کی طرف
بڑھ گٸ جس کے چاتے ہی اد پبہ داپت بیشتی ہوٸ میسم کی طرف پلتی ۔ اور دویوں
ہات ھوں سے اسکا چود بر چ ھکا وچود پیخ ھے کو دھک نال
” میسم دپکھو میری پات سٹو ہم دویوں کا کوٸ چوڑ ہی پہیں کسی طرح ت ھی “
” مطلب؟“
میسم تے اس کے جہرے بر ت ھریور نظر ڈالی ۔ سف ند سفاف جہرہ مالٸم سی چمکتی چلد اور تیر
تیر یولتی زپان ۔
اد پبہ تے چ ھیجال کر ہاتھ ہوا میں ات ھاۓ اور ت ھر گراۓ ۔ میسم کے دپک ھتے کا اپداز عج یب سا
لگ ا ۔
” اور دل ؟“
ت ھاری سی چماری میں ڈوتی آواز ت ھی ۔ اد پبہ تے چوپک کر اس کی طرف دپک ھا اور اپک
اپجان سا چوف ربڑھ کی ہڈی میں سراٸپت کر گ نا ۔ ک نا ہو گ نا اس کو ؟ اس کی نظریں
ً
عخب ہی رپگ ڈھ نگ لتے ہوۓ ہیں ۔ اد پبہ تے اپک آبرٶۓ چڑھاۓ شوچا ۔ ت ھر فورا سر
چ ھ نکا چو خظرے کا ساٸرن پجا رہا ت ھا ۔
” حب ذہن پہیں کر رہا یو دل ک نا چاک کرے گا “
ت ھوڑا سا پیخ ھے ہوتے ہوۓ مدھم سی آواز میں کہا ۔چ نکہ ہاتھ تے ساحبہ گلے میں ل نا دو پبہ
درست کر رہے تھے ۔ آج سے پہلے میسم کی نظروں میں انشا پہیں ت ھا چو آج ت ھا ۔ دماغ پار
پار اسے علط اپدازہ نشلٹم کر کے چ ھنک رہا ت ھا ۔
” دپکھو چا ہتے ہم دویوں ہی پہیں اپک دوسرے سے سادی کرپا بر پلیز میں پہت مج ٹور
ہوں تم انکار کر دو “
اد پبہ تے نظریں چراتے ہوۓ کہا اپداز ات ھی ت ھی الیجا ت ھرا ہی ت ھا ۔ بر میسم کا اپداز الخ ھن کا
سکار کر رہا ت ھا ۔
تے چود سے لہچے میں تے ساحبہ وہ ا تپے دل کی مج ٹوری زپان بر لے آپا۔اد پبہ تے پپ کر
دپک ھا ل نکن اگلے ہی ملچے ت ھر سے م یت ت ھرے اپداز میں کہا ۔
روہانسی آواز میں غصہ صنط کرتی وہ انگلی کو اکڑاۓ ات ھی میسم ل ٹوں بر انگل ناں نکاۓ
مشکراہٹ دپا رہا ت ھا ۔ ماٸ ڈبر چوہ نا نہ چود غرض انشان یو اب ساری عمر نمہیں برداست کرپا
ہے ۔ وہ دل ہی دل میں شوچ کر سرسار ہو گ نا ۔
ن
” سکل ہے نہ غفل نہ علٹم “
زور زور سے ک ناب بر ک ناب مارتی وہ اوپچی آواز میں اسے س نا رہی ت ھی ۔ اور اس چملے بر
وافعی میسم کے ل ٹوں بر موچود مشکراہٹ عاٸب ہوٸ ۔ جسے پ نا یونس کتے وہ یولے چارہی
ت ھی ۔
***********
گ ھر کا دروازہ ک ھلتے ہی سف ند رپگ کے قم نض سلوار میں نقیس سا ادھیڑ عمر سخص گ ھر میں
داچل ہوا جن کے پیخ ھے پیخ ھے مراد اچمد چواد اچمد اور اپک طرف میسم چلتے ہوۓ گ ھر میں
داچل ہو رہے تھے ۔
نہ ہیں میسم کے دادا خصور اور اد پبہ کے پاپا ایو ان کی سخضیت ہی پارغب پہیں ان کا
گ ھر ت ھر میں پہت رغب اور دپدپا ہے ۔
” ع ند م نارک پاپا خی “
اد پبہ مشکراتی ہوٸ آگے بڑھی میرون رپگ کے چوڑی دار پازو والے تیروں پک آتے
گ ھیرے دار قراک کو ز پب ین کتے وہ مشٹم کی دل بر پجلی گراتی آگے بڑھ رہی ت ھی چالف
معمول ہلکا سا م نک اپ جہرے کو اور چازب نظر پنا رہا ت ھا اور وہ اد پبہ کے جشن کی پاب
نہ التے ہوۓ وہیں ک ھڑ ا کہ ک ھڑا رہ گ نا ۔ اد پبہ اچمد م ناں سے نعل گیر ہوٸ چو اسے
دپک ھتے ہی پاہیں ت ھنال چکے تھے ۔
اد پبہ کے سر کو ت ھنکتے ہوۓ وہ مج یت سے سرسار لہچے میں یولے ۔ اد پبہ و نسے ت ھی آخکل
ان کی چاص مج یت کے زبر ابر ت ھی آچر کو دوسری تیڑھی میں وہی یو ت ھی چو ڈاکیری بڑھ کر
ان کا چواب یورا کر رہی ت ھی ۔ اور شوتے بر سہاگا میسم کی دلہن ین کر اسی گ ھر میں رہ نا
ت ھا ۔ نہ پات اچمد م ناں کو بر سکون کتے ہوۓ تھی
” ع ند م نارک ماموں “
اد پبہ اب مراد کی طرف بڑھی اور پاس ک ھڑی ار پبہ اچمد م ناں کے گلے لگ گٸ ۔ مراد
سے نعل گیر ہوتے کے نعد وہ ت ھوڑا ٕپخ ھے ہوٸ۔ یو کایوں سے سرگوسی پکراٸ ۔
” ع ند م نارک “
میسم کان کے قرپب ہو کر دھٹمے سے مج یت ت ھرے لہچے میں کہ نا ہوا آگے ہوا ۔ لمجہ ت ھر
کے لتے کخھ دن پہلے واال چوف ت ھر سے امڈ آپا ۔ اد پبہ تے چوپک کر میسم کی طرف دپک ھا چو
اب کان ک ھجا پا اپک طرف چل دپا ۔
اد پبہ تے ک ندھے اخکاۓ اور مشکراتی ہوٸ اچمد م ناں کی طرف پلتی ۔ چو بڑی چوش دلی
سے اب سب کو ع ند دے رہے تھے ۔ غزرا اور رانعہ کخن میں مصروف ت ھیں اور پاہر اب
ع ند لیتے کا شور برپا ت ھا سب سے ع ند لے کر بڑے اپک طرف بیٹھ چکے تھے اور وہ سب
الوپج میں موچود تی وی کے آگے برچمان ہو چکے تھے ۔
” ع ندی “
اچاپک پاپچ شو کے یوٹ کو ہاتھ میں ت ھامے میسم اس کے ک ندھے کے قرپب چ ھکا ۔ اد پبہ
تے چوپک کر دپک ھا وہ پاپچ شو کا یوٹ آگے کتے مشکرا رہا ت ھا۔ چالف معمول آج پک ھرا پک ھرا سا
لگ رہا ت ھا اور وہی ہلکے پنلے رپگ کا کرپا ز پب ین ک نا ت ھا چو غزرا اد پبہ کو اس دن دک ھا رہی
ت ھیں ۔ س ناہ پال پک ھر کر ت ھوڑا سا مات ھا ڈ ھکے ہوۓ تھے ۔
” پدنمیز “
” ازل سے “
” میری ع ند“
ات ھی وہ اد پبہ کے ساتھ موچود صوقے بر بیٹ ھا ہی ت ھا حب خفگی سے مبہ ت ھالۓ چز نقہ اس
کے آگے ہاتھ کتے آ کر ک ھڑا ہوا ۔ میسم تے مخصوص اپداز میں اپک آپکھ کے آبرٶ چڑھاۓ
چز نقہ تے بڑے الڈ سے کہا ۔ جس بر میسم تے مبہ ک ھول کر ا نسے حیراتی طاہر کی خیسے
اس تے کوٸ ایوک ھی ہی پات کر دی ہو ۔
میسم تے ہاتھ کا اسارہ چزنقہ کی طرف کرتے ہوۓ اوبر سے یپچے کی طرف ک نا اور اوبری
ت
لب کو طیزنہ گول ک نا ۔ جس بر چز نقہ ا تپے مخصوص اپداز میں مٹھی ھییچ کر گہرے گہرے
سانس لیتے لگا ۔
”ار پبہ میرے کام کرتی ہے وہ واچد میری ع ندی کی خفدار ہے “ میسم تے سہیشاہی اپداز
میں ہاتھ ہوا میں ک ھڑا کرتے ہوۓ کہا ۔ اور کن اک ھ ٹوں سے اد پبہ کی طرف دپک ھا چو پہلے
سے ہی اس کی نفل ا پارتے میں مصروف ت ھی ۔
اد پبہ تے مبہ چڑاتے ہوۓ کہا ۔ اور پالوں کو ہاتھ سے چ ھ نکا ۔
میسم تے آبرو چڑھا کر طیز ک نا ۔ اد پبہ تے گ ھور کر پہلے میسم کی طرف اور ت ھر پاس ک ھڑے
چز نقہ کی طرف دپک ھا چو اب اور تیز تیز سانس لیتے لگا ت ھا ۔
چز نقہ پ نک کر آگے ہوا اس کی سانسیں مزپد تیز ہو چکی ت ھیں ۔ بر اس کے اس اپداز کا
سا متے بیٹ ھے میسم بر رتی ت ھر ابر نہ ہوا ۔
” پخ ھے فٹ پال “
مشٹم تے مشکرا کر بر سکون لہچے میں کہا اور اپک ہاتھ سے ت ھر سے اسے ا تپے سا متے سے
ہ ناپا ۔
اد پبہ تے بڑی سان سے گردن اکڑاۓ ہزار کا یوٹ چز نقہ کی طرف بڑھاپا ۔
” چلو تم اب “
اد پبہ تے گردن کو داٸیں پاٸیں چ ٹیش دی اور چ ھوتی سی پاک اوبر چڑھاٸ جس بر چلتے
کے پجاۓ وہ فہقہ لگا رہا ت ھا ۔
” میری ع ند “
” نہ لو تم ت ھی “
اد پبہ تے میسم کی طرف دپک ھتے ہوۓ معرور اپداز میں اس کے ہاتھ بر ت ھی ہزار کا یوٹ دھر
دپا اور اب کی پار میسم کا مبہ کھال ت ھا ۔
وہ اپک دم سے اتھ کر سا متے آ گ نا ۔ اور ہٹ ھنلی اد پبہ کے آگے کی۔ آپکھوں میں پال کی
سرارت لتے وہ گہری نظریں اس کے دلکش سراتے بر گاڑے ک ھڑا ت ھا۔ اد پبہ کی چ ھتی
جس آالرم دے رہی ت ھی کخھ یو عج یب ت ھا میسم کے اپداز میں ۔
*************
” آہم۔۔۔آہم۔ “
فہد تے مبہ کے آگے ہاتھ دھر کر گال صاف کرتے کی آواز نکالی وہ میسم کے کمرے کے
دروازے کے درم نان میں ذومعتی مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاۓ ک ھڑا ت ھا ۔ میسم بڑ ھتے میں اپ نا
مگن ت ھا کہ فہد کی آمد کا اجشاس ہی پہیں ہوا ۔ اب اس کی آواز بر سر ات ھا کر دپک ھا ۔
” یو “
ن
فہد کو دپک ھتے ہی چلدی سے ک ناب پ ند کی ۔ اس دن اد پبہ کی سکل غفل اور علٹم والی
پات انسی دل بر لگی کہ دل تے نہ پہبہ کر ل نا کہ اب یو تی اے ا چھے نمیروں میں ہی
پاس کرپا ہے ۔ بین دن سے وہ مشلشل بڑ ھتے میں مصروف ت ھا ۔ چتی کہ پاہر چاتے کا
ت ھی ہوش نہ رہا ۔
” خی میں ہوں آپ کا دوست فہد حیرپت بین دن ہو گتے آپا پہیں ک ھنلتے “
فہد معتی حیز اپداز میں کہ نا ہوا اب میسم کے سا متے پ نڈ بر بیٹھ خکا ت ھا ۔ اور حیرت سے پ نڈ
بر پک ھری ک نایوں کو دپکھ رہا ت ھا۔
میسم تے کان ک ھجاپا ۔ اور چور سی نظر فہد بر ڈالی جسے غش بڑتے واال ہی ت ھا ۔
” ک نا ہے “
فہد تے عج یب سے اپداز میں دپک ھا اور ت ھر آگے بڑھ کر میسم کے ما تھے بر ہاتھ رک ھا ۔
فہد کی حیرت ہ ٹوز قاٸم ت ھی ۔ اور اسے اب میسم کی ذہتی چالت بر سک گزر رہا ت ھا ۔
” ہاں ت ھنک ہے “
میسم تے اس کے ہاتھ کو ا پتے ما تھے بر سے ہ ناپا ۔اور گہری سانس لی۔ کخھ دن سے اد پبہ
کی آپکھوں میں ا تپے لتے مج یت دت ھکتے کی طلب ہوتے لگی ت ھی ۔ نس اسی طلب تے اس
کے قاپل بیتے کی پ ناس خگا دی ت ھی ۔
” ہوا ک نا ہے “
فہد وجہ چاتے پ نا چان چ ھوڑتے والوں میں سے ت ھا ہی پہیں۔ میسم تے مشکرا کر سر چ ھ نکا
پ
بر چواب پہیں دپا ۔ فہد تے آ ک ھیں سکوڑ کر دپک ھا۔
” اد پبہ ؟ راٸٹ “
فہد اپک دم سے س ندھا ہوا اور شوالبہ اپداز میں میسم کی طرف دپک ھا ۔ میسم تے ما تھے بر پل
ڈالے ۔
” یو چا پار کل سے آٶں گا “
” اچ ھا چا پا ہوں “
فہد تے ات ھتے ہو ۓ گ ھور کر دپک ھا اور ت ھر کمر بر ہاتھ رکھ کر اقسوس سے میسم کی طرف دپک ھا
۔ میسم تے شوالبہ اپداز میں نظر ات ھاٸ
” یو گ نا کام سے پار “
فہد تے ہاتھ کو ہوا میں مارا ۔ میسم تے ک ناب ات ھا کر اس کی طرف ت ھی نکی جس کا نشانہ
س ندھا فہد کے مبہ کی طرف ت ھا جسے اس تے پازو آگے کر کے بروفت روکا ۔ اور ک ناب کو
کیچ ک نا اور ت ھر وانس میسم کی طرف اچ ھاال جس تے بڑی مہارت سے اسے کیچ ک نا ۔
” کمیتے پاد رک ھ ٹو نہ لڑک ناں دوستی چٹم کروا د پتی ہیں “
اپگشت انگلی ہوا میں چالتے ہوۓ فہد تے حیردار کرتے کے اپداز میں کہا ۔
فہد سر مارپا ہوا کمرے سے پاہر نکل آپا بڑ بڑا پا ہوا چ ھکے ہوۓ سر کے ساتھ تیروتی
دروازے کی طرف بڑھ رہا ت ھا حب ز تپے کے پاس سے وہ بری طرح کسی سے پکراپا کوٸ
پہت تیزی سے ز تپے ابر رہا ت ھا اس لتے اس کو سا متے سے گزرپا پہیں دپکھ سکا ۔ فہد تے
نمشکل گرتے والے پازک سے سراتے کو سیٹ ھاال ار پبہ اپک دم سے س ندھی ہوٸ ۔
” اوہ شوری “
” انس اوکے “
ار پبہ تے مشکراتے ہوۓ کہا ۔ اور چاتے کے لتے قدم آگے بڑھاۓ بر پلکل۔سا متے فہد
راسبہ پ ند کتے ک ھوپا ک ھوپا سا ک ھڑا ت ھا ۔
” آپ کو لگی ک نا “
” اوہ ہاں خی خی “
فہد اپک دم سے اپک طرف ہوا۔ اور وہ تیزی سے اسے یوں ہی ک ھڑا چ ھوڑ کر اپک طرف سے
نکل گٸ ۔
********
بی ٹوں نقوس یوپ ٹورستی کے وسنع الن میں ک ھڑے تھے ۔
رکیں رکیں
آپ لوگ شوچ رہے ہوں گے نہ کون آ گ نا سف ند رپگت واال چوبرو سا لڑکا چو اد پبہ کو
قاٸل پکڑا رہا ہے وہ ت ھی مشکرا کر یو چ ناب نہ اد پبہ کا کالس ف نلو ہے روسان چمداتی ۔
ذہین چوش سکل ۔ اس کی پہت سی خصوص نات اسے یوری چماغت میں نماپاں کرتی ت ھیں
۔
روسان تے لب ت ھییچے اور بی یٹ کی چ یب میں ہاتھ ڈالے ماہ رخ اور اد پبہ تے سکر گزار
نظروں سے کم حیران کن نظروں سے زپادہ دپک ھا ۔ مج نصر سی پات کے نعد اب روسان وہاں
سے ان کو حیرت زدہ چ ھوڑ کر آگے بڑھ گ نا ۔
روسان چمداتی تے آج ان سے پات کی ت ھی وہ ت ھی اس اپداز میں ان دویوں کا حیران ہوپا
یو بی نا ت ھا ۔ وہ پہت اکڑو مشہور ت ھا وجہ اس کی چاموش طی نعت اور ہر وفت بڑھاٸ میں
ڈوتے رہ نا ت ھا ۔ اس کا نہ یو کوٸ دوست ت ھا اور نہ وہ عام و چاص کسی سے پات کرپا پاپا
چا پا ت ھا ۔ اد پبہ بر نہ مہرپاتی ت ھی دو سال نعد اچاپک ہوٸ حب وہ اور ماہ رخ اپک
اساٸنم یٹ کو لے کر برنشان ہو رہی ت ھیں اور وہ قرپب ہی بیٹ ھا ت ھا ۔ اور چود آ کر اس تے
وہ اساٸنم یٹ کی قاٸل اد پبہ کی طرف بڑھا دی ۔
” اچ ھا ہے پار “
ماہ رخ تے اد پبہ کے ساتھ روسان کو دور پک چاتے دپک ھا ۔ وہ اسی طرح خی ٹوں میں ہاتھ
ڈالے لمتے لمتے ڈگ ت ھرپا چا رہا ت ھا ۔
” مچیتی ت ھی پہت ہے “
اد پبہ اب اس کے یونس دپکھ رہی ت ھی ۔ خیسے خیسے وہ ضخقے پلٹ رہی ت ھی و نسے و نسے
پ
س ناٸش سے آ ک ھیں ت ھنلتی چا رہی ت ھیں۔ اس کے یونس اس کی ذہاپت کا مبہ یول نا پ ٹوت
تھے ۔
ت مخ س
پ ھ
” میں یو تی ھی اکڑو سا ہو گا بر آج د ک ھا تم تے کیسے یوالٸٹ وے میں پات کر رہا
ت ھا “
اد پبہ تے م نابر کن لہچے میں کہا اور پاٸپدی نظر ماہ رخ بر ڈالی۔ چو ات ھی ت ھی پار پار دور
چاتے روسان کو دپکھ رہی ت ھی ۔
اد پبہ تے گہری سانس لی اور مشکرا کر قدم آگے بڑھاۓ ۔ ماہ رخ ت ھی سر کو ہالتی اس
کے ساتھ ہی ت ھی ۔
*******
فہد تے کمر بر ہاتھ دھر کر ڈ بیتے کے اپداز میں کہا ۔ وہ میسم کے سر بر ک ھڑا سرخ جہرہ لتے
اسے ڈاپٹ رہا ت ھا اور وہ مشکرا کر سر اوبر ات ھاۓ اسے دپکھ رہا ت ھا جس بر فہد کو مزپد
کوفت ہو رہی ت ھی ۔ وہ گ ھر کے پاس ہی وافع پارک میں موچود تھے جہاں فہد کے آتے سے
ت ھوڑی دبر پہلے میسم ک ناب گود میں ر کھے بڑ ھتے میں مصروف ت ھا ۔
” چل اگر تیرے کہتے بر مان ت ھی لی نا ہوں یو مخ ھے پ نا ہے ک نا ہوگا ت ھر وہی سارا دن برپکیس
“
میسم تے ک ناب کو پ ند کر کے اپک طرف رک ھا اور ہات ھوں کے سہارے پیخ ھے ہوتے ہوۓ
گ ھاس بر پاپگیں س ندھی کی ۔ سر کو اوبر ات ھا کر پاراض سے ک ھڑے فہد کی طرف دپک ھا ۔ چو
کخھ وہ اس سے کہہ رہا ت ھا صیح سے وہ نہ ساری پابیں پہت سے لوگوں سے شن خکا ت ھا
” نہ موفع نمہیں کم از کم پہیں چ ھوڑپا چا ہتے میرا نہ چ نال ہے ۔ ارے نہ یو دپکھ برنش نل پک
نم ھاری می ٹیں کر رہا ہے “
” فہد ت ھر وہی پات پار پار نمہیں پ نا ہے امیجان سر بر آتے والے اور مخ ھے اس دفعہ ا چھے
نمیر لیتے ہیں “
میسم تے ا پتے موفف بر اڑ کر ت ھر سے وہی پات دہراٸ چو وہ کب سے فہد کو سمخ ھا رہا ت ھا
۔ وہ اس دفعہ پہت ا چھے نمیروں میں اور پہلی کوشش میں ہی تی اے پاس کرپا چاہ نا ت ھا
۔ جس کے لتے اب اس کے پاس چ ند ماہ کا ہی غرصہ ت ھا ۔
” یو مطلب یو ا تپے کا لج کے لتے پہیں ک ھنلے گا پاگل پخص نل ل ٹول کا میچ ہے پخ ھلی دفعہ
کی طرح سان سے چ یت کر آٸیں گے “
” ارے ت ھاڑ میں چاۓ سان اور چ یت پار پ نا ہے نہ سکول میں ک نا کرتے رہے ہیں
سٹورنس کے پام بر میرے ساتھ پیچرز آت ھویں چماغت میں مخ ھے معلوم ہے سر ارسد تے
صرف پٹم کے لتے چان یوچھ کر ف نل کر ڈاال کہ اپک سال اور سکول کی طرف سے چاۓ
گ ا نہ “
” نس کر پار پ نا ہے مخ ھے کیسے بییر ہوۓ تھے اور تیرا مقضد یو ت ھول گ نا ہے ساٸد کرکٹ
تیری چان تیری پہجان ہے حب سے اد پبہ کو امیرنس کرتے کے چکر میں بڑا ہے “
فہد تے ت ھی برابر ما تھے بر سکن ڈالے ۔ اور ہوا میں ہاتھ پاگواری سے چالتے ہوۓ اس کی
پات کو رد ک نا ۔اور وہ ت ھا کہ اد پبہ کا پام شن کر ت ھریور طر نقے سے مشکرا گ نا ۔
” کرکٹ ات ھی ت ھی میری چان ہے بر ک نا ہے نہ میرا اس میں کوٸ ف ٹوچر پہیں اپا اور دادا
کٹھی مخ ھے اس ف نلڈ میں چاتے پہیں دیں گے یو ک ٹوں نہ دوسری چان کے لتے کخھ کر ل نا
چاۓ “
میسم تے آپکھ کا کوپا دپاپا اور ت ھر فہقہ لگاپا ۔ بر سا متے ک ھڑے فہد کو اس کی پات تے ذرا
مزہ پہیں دپا ت ھا ۔ اس کی خفگی ہ ٹوز قاٸم ت ھی۔
” ارے میرے ت ھاٸ نہ لڑک ناں کہاں چوش ہوتی ہیں پارے پک یوڑ التے کی پات کرتی
ہیں “
فہد اب بی یٹ کے پا چپے اوبر کرپا ہوا اس کے برابر بیٹھ خکا ت ھا ۔ اس کا مشکراپا فہد کو اب
زہر لگ رہا ت ھا ۔
” میں اپک سال یورا صاٸع کر خکا ہوں اب اپک سال ک نا کخھ ماہ ہیں مخ ھے بڑھ نا ہے“
میسم تے دو یوک لہچے میں کہا ۔مطلب وہ ہر گز ت ھی آمادہ پہیں ہوتے واال ت ھا ۔ فہد تے
گ ھور کر دپک ھا ۔
” یو غسق میں پکما ہو گ نا ہے “
فہد تے گہری سانس لی اور ہاتھ سے گ ھاس کو یوچ ڈاال ۔ جہرے بر اب غصے کی چگہ خفگی
تے لے لی ت ھی۔ بر اس خفگی کا ت ھی اس عاشق بر کوٸ ابر پہیں ہوا ت ھا۔
” ت ھر یو علط ہے دپکھ غسق میں پکما پہیں ہوا میں پلکہ بڑھ رہا ہوں“
میسم تے داپت نکالے اور ک ناب کو اوبر ک نا چ نکہ فہد ونسی ہی صورت پ ناۓ اسے دپکھ رہا
ت ھا۔
***********
ماہ رخ تے چ ٹوپگم مبہ میں رک ھی ۔ اور آپکھوں کی پ نل ٹوں کو پجاپا ۔ وہ یوپ ٹورستی کے الن میں
گ ھاس بر براچمان ت ھیں ۔
” ارے پہیں پاپا ڈراٶ مت مخ ھے کوٸ مج یت کرے یو ک نا ا نسے ہر پات بر انشلٹ کرپا ک نا
اس کی “
اد پبہ تے زور زور سے سر نفی میں ہالپا ۔ ا نسے خیسے وہ ماہ رخ کے ساتھ ساتھ چود کو ت ھی
پاور کروا رہی ہو کہ میسم اس سے مج یت پہیں کرپا ہے ۔
اد پبہ تے آچری پات بر زور د تپے ہوۓ روہانسی صورت پ ناٸ ۔ اوبر سے ماہ رخ کی
مشکراہٹ اس کا چون جشک کر رہی ت ھی ۔
پ ممہم
” مم یو انکار ک ٹوں ہیں کر رہا ت ھر “
ماہ رخ نہ ت ھ ٹویں اوبر یپچے کرتے ہوۓ چ ٹوپگم کو مبہ میں گ ھماپا ۔
” پاس ہو گ نا ک نا وہ “
ماہ رخ تے اسے ہال کر شوال ک نا ۔ وہ اپک دم سے چ ناالت سے پاہر آٸ ۔ کخھ دن پہلے ہی
تی اے میں وہ پہت ا چھے نمیروں کے ساتھ پاس ہوا ت ھا ۔ اد پبہ کے ساتھ ساتھ سب گ ھر
والے حیران ہوۓ تھے ۔
اد پبہ تے گہری سانس لی ۔ اور ک نایوں کو تے دلی سے سمی نا ۔ پاس سے گزرتے روسان
تے ہاتھ ہال کر مشکراہٹ کا پ نادلہ ک نا ۔ جس کا چواب ان دویوں تے ہاتھ ہال کر دپا ۔وہ
اب ان سے کخھ قاصلے بر بیٹ ھا اپتی ک نابیں ک ھول خکا ت ھا ۔ ماہ رخ تے کن اک ھ ٹوں سے
ب
برنشان صورت پ ناۓ یٹھی اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔
” نہ روسان کا ک نا چکر ہے “
ماہ رخ تے سرگوسی کے سے اپداز میں اد پبہ کے پاس ہوتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ تے
مخ س
پ چ م
پا ھی کے اپداز یں گردن کو م دے کر ماہ رخ کی طرف د ک ھا ۔
ماہ رخ تے سرارت ت ھرے اپداز میں آپکھوں کو پجاپا ۔ چ ٹوپگم کو مبہ میں گ ھماپا چ نکہ لب
مشکراہٹ کو معتی حیز اپداز میں دپا رہے تھے ۔
اد پبہ تے خفگی سے دپک ھتے ہوۓ پاک ت ھالٸ ۔ جس کا ماہ رخ بر کوٸ ابر پہیں ہوا ۔ وہ
ہ ٹوز اسی اپداز میں فہقے بر فہقہ لگا رہا ت ھی ۔
” یو چرج ک نا ہے پاگل پلکہ میں یو کہتی ہوں اگر اس کا بریوزل چاۓ گا گ ھر نم ھارے یو
ساٸد گ ھر والے کخھ شوچ ہی لیں “
ماہ رخ تے اس کے ہاتھ بر ہاتھ دھر کر رازدار اپداز اپ ناپا۔ اد پبہ تے مضٹوغی پ ٹیسی نکالی
اور ت ھر غصے سے اس کے ہاتھ کو ات ھا کر اس کی گود میں ت ھی نکا ۔
” پہیں انشا کخھ ت ھی پہیں ہوتے واال میرے گ ھر میں پلکہ ان سب کو نہ نظر آ رہا ہے کہ
میسم سے سادی کے نعد اپک عدد ڈاکیر ان کے گ ھر میں ہو گی “
اد پبہ تے پ نگ کی زپ زور سے پ ند کی ۔ ماہ رخ اب بر شوچ اپداز میں سر کو ہال رہی ت ھی
ب
چ نکہ وہ برنشان چال یٹھی ہوٸ ت ھی ۔
**********
اد پبہ تے ز تپے کے چ نگلے سے میسم کے ہاتھ کو ہ ناپا ۔ وہ بیسرے یورشن سے یپچے چا رہی
ت ھی حب درم نان والے یورشن کے ز تپے بر میسم راسبہ روک کر ک ھڑا ہو گ نا ۔ اور اس کی
نظریں اد پبہ کو گ ھیراہٹ کا سکار کر گٸ ۔ وہ پال چواز اس کا راسبہ روکے مشکراۓ چا رہا
ت ھا ۔ جس سے اد پبہ کو چڑ ہو رہی ت ھی ۔ گ ھر میں پکے ر ہتے کی وجہ سے کافی چد پک پک ھر
گ نا ت ھا ۔گہرے پنلے رپگ کی الٸپگ سرٹ کے یپچے برایوزر پہتے وہ عام سے چلتے میں ت ھا ۔
ہاں الیبہ آپک ھوں کی چمک آج معمول کے چالف ت ھی ۔
” پہیں “
اد پبہ تے سیتے بر ہاتھ پاپدھ کر جہرے کا رخ موڑا۔ ک نا ہے اس کو یوں ک ٹوں د پک ھے چا رہا
ہے ۔ اد پبہ تے چور نظر ت ھر سے میسم بر ڈالی چو مشکراہٹ دپاۓ ک ھڑا ت ھا ۔
” یو “
میسم تے سرگوسی نما ہلکی سی آواز میں اگال شوال داعا ۔ جس بر اد پبہ چ ھیجال ہی یو گٸ ۔
” کخھ پہیں راسبہ یو چ ھوڑ دو “
ت ھر سے میسم کے پازو کو چ ھ نکا۔ اور بیشاتی بر اب سکن اور بڑھ گتے تھے ۔ دل عج یب طرح
کے چ ناالت بیتے لگا ت ھا ماہ رخ کی پابیں ذہن میں گوپجتے لگی ت ھیں ۔
” تم سے پات کرتی ہے “
” کرو “
اد پبہ تے لہچے کو چان یوچھ کر سخت رک ھا۔ ت ھوک نگال ۔ سر ت ھاڑ دوں گی اس کا اگر اس
تے کوٸ انسی ونسی پات کی ۔ دل میں پہبہ کرتی وہ چود کو پ نار کر چکی ت ھی ۔
” ا نسے کیسے “
پ
میسم تے ہلکا سا فہقہ لگاپا ۔ اد پبہ چو آ ک ھیں ت ھیرے ک ھڑی ت ھی چوپک کر میسم کی طرف دپک ھا
۔ فصول میں پ نگ کر رہا ہے ۔ کوٸ انسی پات پہیں سکر ہے ۔ نہ کر ہی پہیں سک نا
مج یت مخھ سے ا تپے دل کو نشلی دے کر وہ کافی چد پک پارمل ہو چکی ت ھی ۔
میسم تے کخھ شو چتے کے سے اپداز میں کہا اور سیتے بر ہاتھ پاپدھے
” پات ک نا ہے میسم “
اد پبہ تے ت ھ ٹویں اخکا کر دپک ھا ۔ لب اپتی سجتی سے پ ٹوست کر ر کھے تھے کہ ات ھی اگر اس
تے کخھ انشا ونشا کہا یو ت ھٹ بڑے گی ۔
” چاص پات “
میسم تے ت ھوڑا سا قرپب ہو کر کہا اور ت ھر تیزی سے ز پبہ ت ھالپگ نا ہوا اوبر چال گ نا اور وہ چز بز
سی وہیں ک ھڑی رہ گٸ ۔
**********
” میسم اوبر ہو ک نا “
اد پبہ تے چ ھت کے پ ند دروازے بر ہلکی سی دس نک دی پجسس میں ڈوتی وہ سات پج کے
پ ندرہ م یٹ بر چ ھت بر آ چکی ت ھی ۔ معرب کے نعد کا وفت ت ھا ہلکی ہلکی سی روستی ت ھی
ات ھی بیسرے یورشن کے نعد چ ھت ت ھی جہاں وہ لوگ پہت کم آتے تھے ۔ بڑے یو پلکل
پہیں آتے تھے الیبہ چپے کٹھی بڑ ھتے اور کٹھی ک ھنلتے آ چاتے تھے ۔ چ ھت بر دو کمرے
تھے جہاں کاتھ ک ناڑ بڑا ت ھا اپک چ ھوال چ ھت کے درم نان میں ت ھا جس کا چال پارشوں تے
برا کر رک ھا ت ھا ۔
” نہ ۔۔ نہ سب “
اد پبہ کو اپتی آواز کہیں دور سے آتی ہوٸ مجسوس ہوٸ ۔
” نہ سب نم ھارے لتے “
میسم مشکرا پا ہوا آگے بڑھا ۔ اد پبہ تے چوف سے ت ھوک نگال ۔اس کی نظریں سب ڈر سچ
پاپت کر رہی ت ھیں ۔
زپان لڑ ک ھڑا سی گٸ۔ میسم اب پلکل سا متے آ خکا ت ھا ۔ گہری مج یت ت ھری نظریں اس بر
ڈالے ۔ مشکراہٹ دپاۓ۔
م
” ک ٹوں ا ممم!!!“
ت ھورڈی بر انگلی ت ھیرتے ہوۓ سربر سے اپداز میں مشکراپا ۔ اور چ ند قدم اور آگے بڑھاۓ ۔
وہی یو اد پبہ ت ھی جسے ہوش سیٹ ھا لتے ہی ہمیشہ ساتھ دپک ھا ت ھا ۔ ت ھر آج دل کی دھڑک ٹوں کا
یوں تے برپ یب ہوپا زپان کا دل کے چزپات کا ساتھ نہ د پنا ہر طرح کی پکواس کر چاتے
والی لڑکی کے سا متے آج مج یت کا اظہار اپ نا مشکل ہو رہا ت ھا
” شوال یو اچ ھا ہے “
میسم ہلکا سا فہقہ لگا پا اور قرپب ہوا ۔ اد پبہ تے ل ٹوں کا زاونہ پ ندپل کرتے ہوۓ قدم پیخ ھے
کتے ۔ وہ اب سرماتے ہوۓ کان ک ھجا رہا ت ھا ۔ اور پار پار ل ٹوں کو مبہ کے اپدر لے کر
گہرے سانس لے رہا ت ھا ا نسے خیسے زپدگی کے سب سے مشکل الفاظ ادا کرتے واال ہو ۔
اوہ میرے چدا ۔ ۔۔۔۔ اوہ میرے چدا ۔۔۔۔ ک نا یو لتے واال ہے نہ اد پبہ تے پجلے لب کے
کوتے کو تے خیتی سے داپ ٹوں میں دپاپا ۔
” اد پبہ میں تم سے “
م
میسم تے نمشکل لقظوں کو ادا ک نا اس سے پہلے کہ وہ اظہار کمل کرپا اد پبہ تے داٸیں
ہاتھ کو اس کے سیتے کی س ندھ میں ک ھڑا ک نا ۔
” میسم پلیز “
ت
لب ھییچ کر سجتی سے کہا ۔ میسم اپک دم سے حپ ہوا ۔
” دپکھو تم سب کے ساتھ اس پات کو لے کر کے پہت سرنس ہو گتے ہو بر میرا دل
ات ھی ت ھی اس ر ستے کے لتے “
اد پبہ تے فقرہ ادھورا چ ھوڑا اس کا جہرہ سرخ ہو گ نا ۔ ما تھے بر سکن نمودار تھے اور جہرے بر
وہی تے زاری ۔ مشٹم چاموش ہی رہا ۔
” مطلب پلیز میں تم سے سادی پہیں کر سکتی کسی ت ھی صورت اور مسٸلہ نہ ہے انکار
ت ھی پہیں کر سکتی “
میسم تے گہری سانس لی اور برسکون لہچے میں کہتے ہوۓ سیتے بر ہاتھ پاپدھے۔ اد پبہ تے
ً
اپک نظر ڈالی اور ت ھر فورا رخ موڑ ل نا۔ دوسری طرف چاموسی چ ھا گٸ ۔ مشٹم اپ نطار میں
ک ھڑا ت ھا ۔ت ھر وہ یولی ۔
” ک نا !!!! پ ناٶ یو مخ ھے “
ھ پیخ ک
میسم تے نمشکل فہقےبر قایو پا کر مشکراہٹ دپاٸ ۔ اور سانس ھے کو تے ہوۓ سربر
جی ی
اد پبہ تے ہاتھ کو اس کے سا متے کرتے ہوۓ ک ندھے اخکاۓ ۔ نظریں ات ھی اس سے
پ
مالتے سے کیرا رہی ت ھی ۔ مالتی ت ھی کیسے میسم کی آ ک ھیں اپتی گہراٸ لتے ہوٸ ت ھیں کہ
ان میں دپکھ کر پات کرپا مشکل ہو رہا ت ھا۔
اد پبہ گڑبڑا کر س ندھی ہوٸ ۔ اور لہچے میں سجتی کا ع نصر الٸ ۔
اد پبہ اس کے وانس اپتی چگہ بر آتے پک چاموش رہی چ ھت کا م نظر آپکھوں کو حیرہ کر رہا
ت ھا جشتے ہی وہ ت ھر سے اس کے سا متے آ کر ک ھڑا ہوا پب پک وہ لقظوں کو برپ یب دے
چکی ت ھی ۔
” عج یب دھونس ہے نم ھاری “
مبہ ک ھول کر ہات ھوں کو ک ندھوں پک ال کر پاگواری سے کہتی اب وہ ت ھر یور طر نقے سے سرخ
ہو چکی ت ھی۔
” دھونس پہیں مج یت ہے “
ہ ٹوز وہی برسکون لہجہ وہی مشکراہٹ وہی گہری مج یت کے سم ندر کو سمیتے نظریں ۔
ہ ٹوز وہی پاگواری وہی تے زاری وہی چڑاچڑا ین ۔ میسم تے دھیرے سے ہاتھ ت ھاما یو وہ
ک ً
کرپٹ ک ھا کر پیخ ھے ہوٸ ۔ فورا سے پہلے ہاتھ پیخ ھے ھییجتے کی کوشش کی بر گرفت مضٹوط
ت ھی۔
” ہاتھ چ ھوڑو میرا اور انکار کرو“
دوسرے ہاتھ کا زور ت ھی لگا ڈاال بر پاکامی ۔ میسم تے اپک دم سے ہاتھ بر سے گرفت کو
چٹم ک نا اور چ ند قدم پیخ ھے لتے ۔
وہ ت ھر سے اپتی ازلی ڈھ ناٸ میں وانس آ کر یوال اد پبہ تے پاک ت ھال کر گہرے سانس لتے
ت ھرتیر پیخ کر تیزی سے ز تپے کی طرف ت ھاگی ۔اور وہ اپتی سجاٸ ہو چ ھت بر کمر بر ہاتھ
دھرے اب چاپد کو دپکھ رہا ت ھا ۔
************
” میسم ک نا مسٸلہ ہے “
ادپبہ تے چ ھیجال کر سر اوبر ات ھاپا وہ اب اس کے ہاتھ سے چ ھیتی ہوٸ قلم لتے سرارت
سے مشکرا رہا ت ھا ۔ وہ یونس میں سر دتے بڑ ھتے میں مصروف ت ھی اور ہاتھ میں پکڑے قلم
کو دھیرے دھیرے گ ھما رہی ت ھی حب اچاپک کسی تے قلم چ ھی نا سر اوبر ات ھاپا یو میسم سر
بر ک ھڑا ت ھا ۔
اس کا اب پہی کام ت ھا بین دن سے چ ھت والے وافع کے نعد سے اور اد پبہ کی چڑ ہ ٹوز
قاٸم ت ھی ۔ اب ت ھی ار پبہ اور غزرا یپچے ت ھیں یو وہ اوبر آ گ نا ۔
” کخھ پہیں “
اچ ھل کر پ نڈ بر ڈھیر ہوا اور سر پکتے بر رک ھا ۔ اد پبہ داپت بیشتے ہوۓ پیخ ھے ہوٸ اور اپتی
یکھ
ک ناب اس کے یپچے سے چی ۔ جس بر وہ بڑے مزے سے ڈھیر ہوا ت ھا ۔
ی
اد پبہ تے پازو کو لم نا کرتے ہوۓ دروازے کی طرف اسارہ ک نا ۔ چ نکہ پاک کے پٹ ھتے غصے
سے ت ھول رہے تھے ۔ ڈھ یٹ کہیں کا ۔ ک ھا چاتے والی نظر اس بر ڈالی وہ بڑے مزے
سے پکتے بر سر ر کھے اسے مج یت سے دپک ھتے میں مصروف ت ھا ۔ حب سے اپتی مج یت کا اظہار
ک نا ت ھا سیر ہی ہو گ نا ت ھا ۔ وہ بین دن سے پچ رہی ت ھی جہاں وہ ہوپا کیرا کر وہاں سے نکل
چاتی ت ھی ۔
لہچے میں اس دن کی ہی سجتی ت ھی اور میسم کی آپک ھوں میں ہ ٹوز وہی برمی ۔
بر سکون لہچے میں کہا ۔ اور کہتی کے پل سر کو ہاتھ بر نکاپا ۔ گہری آپکھوں کی بیش وہ ا تپے
جہرے بر پا آساتی مجسوس کر سکتی ت ھی ۔
” پہت سی ہیں “
اد پبہ تے داپت بیسے ۔ نظریں چراٸیں ۔ دل کر رہا ت ھا پہاں سے ت ھاگ چاۓ وہ دپک ھنا ہی
ا نسے ت ھا ۔
ً
” م نال “
اگال شوال ۔ وہی مخصوص مشکراہٹ جہرے بر سجاۓ ۔ اد پبہ تے صنط کرتے ہوۓ گہری
سانس لی اور ت ھر گھور کر دپک ھا ۔
” تم چاٶ پہاں سے “
چیجتے کے سے اپداز میں کہا ۔ ل نکن وہاں کوٸ ابر پہیں ت ھا اس کے ہر ردعمل کا چواب پا
یو مشکراہٹ ہوتی ت ھی پا ت ھر فہقہ
” پہیں یولو ک نا میری صورت“
وہ اپک دم سے س ندھا ہو کر بیٹ ھا ۔ ہاتھ گالوں بر ر کھے ہلکی سی سٹو بڑھی ہوٸ ت ھی ۔ رپگ
اب کاال یو پہیں رہا ت ھا ہاں الیبہ رپگت گ ندمی ہی ت ھی۔
ت ھوڑا سا آگے ہو کر آٸ تپے میں اپتی آپکھوں کا چاٸزہ ل نا ۔ اد پبہ تے تےزاری سے اس
کی اٶٹ پ ناپگ چرک ٹوں کو دپک ھا ۔ مخ ھے ہی چاپا بڑے گا پہاں سے دل میں پہبہ کرتی اب وہ
ک نابیں سم یٹ رہی ت ھی ۔
ن
” اور پاک دپکھو کیتی پ کھی نم ھاری طرح ت ھیتی سی پہیں “
پ
اب وہ اپتی پاک کو پکڑے سرارت سے کہہ رہا ت ھا ۔ اد پبہ تے ت ھی تی کے لقظ بر آ ک ھیں
سکوڑی ۔
” ہ ٹو میسم “
اد پبہ تے چڑ کر ک ندھے سے پیخ ھے ک نا اور وہ اب ہیس رہا ت ھا ۔ اس طرح چڑتی ہی یو اسے
پ ناری لگتی ت ھی وہ ۔ چ ھوتی سی پاک کو اوبر چڑھاۓ آپکھوں کو سکوڑے مبہ کو ت ھالۓ ۔
اسے پ نار سے دپک ھتے ہوۓ مشکرا دپا اور سرارت کی رگ ت ھر سے ت ھڑک ات ھی ۔
” پہیں تھٸ پ ناٶ نہ اچ ھا بڑھاٸ ہی ت ھر ک نا ربزن یو ا تپے ا چھے یو نمیر آۓ ہیں تی اے
میں “
اب وہ ت ھورڈی بر انگلی ر کھے مضٹوغی حیراپگی سے کہہ رہا ت ھا ۔ مقضد صرف اد پبہ کو پ نگ
کرپا ت ھا اور کخھ پہیں ۔
اد پبہ تے طیز سے سرکو ہوا میں مارا ۔ اور ل ٹوں کو پخوت سے اوبر چڑھاپا ۔
م
” ا ممم سٹو سنکالوخی میں ماسیرز کرپا ہوں اور ت ھر پاگلوں کا ڈاکیر ین چا پا ہوں “
اد پبہ کے قرپب ہو کر بڑی سیجندہ سکل پ ناٸ ۔ جس بر اد پبہ کا پارہ اور چڑھ گ نا ۔ وہ اب
ک نایوں کو سم یٹ کر ک ھڑی ہو چکی ت ھی اور میسم گھوم کر سرارت سے سا متے آ گ نا ۔
” کیشا ؟“
سرارت سے ت ھ ٹوں کو اوبر یپچے پجاپا ۔ حب کے پ جال لب داپ ٹوں تے چکڑا ہوا ت ھا ۔
میسم تے فہقہ لگاپا ۔ جس بر اد پبہ اب مبہ میں بڑ بڑاتی کمرے سے پاہر چا رہی ت ھی اور وہ
پیخ ھے پیخ ھے آ رہا ت ھا
اپتی پات یوری کتے وہ ک ھڑا سرارت سے مشکرا رہا ت ھا ۔ اد پبہ پاک ت ھال کر مڑی اور ت ھر تیزی
سے وانس کمرے میں چا کر دروازہ پ ند کر ل نا ۔
**********
” امی ک نا ہوا “
اپک نظر غزرا کے برنشان جہرے بر ڈالی اور دوسری سا متے لگی گ ھڑی بر چو رات کے دو پجا
رہی ت ھی ۔
” اپا خی کی طی نعت پہت چراب ہو گٸ ہے میں چواد اور مراد کے ساتھ ہسی نال چا رہی
ہوں “
ب
غزرا تے برنشان سے لہچے میں کہا ار پبہ ت ھی آپک ھوں کو ملتی اتھ یٹھی ت ھی۔ اب غزرا کے
جہرے والی برنشاتی ان دویوں کے جہرے بر ت ھی موچود ت ھی۔
اد پبہ اچ ھل کر نسیر سے یپچے ابری اور تیزی سے سلییر پاٶں میں اڑاۓ چ نکہ ہاتھ دو پبہ
درست کر رہے تھے ۔
چادر کو سر بر درست کرتی وہ پ نا پیخ ھے د پک ھے ار پبہ کو ہداپت کرتی عجلت سے ز تپے کی طرف
بڑھ گٸیں ۔
” خی امی “
ار پبہ برنشان سی صورت پ ناۓ تیزی سے ات ھی ۔ اد پبہ ت ھی اب یپچے کی طرف چا رہی ت ھی ۔
************
اد پبہ تے پجارگی سے غزرا کی طرف دپک ھا جن کی پات تے اس کے سر بر نمب تھوڑ ڈاال ت ھا
۔ اچمد م ناں کو دل کی نکل نف ہوٸ ت ھی اور اب پاٸ پاس کے نعد وہ اد پبہ اور میسم کے
نکاح کرتے کی صد لگا بیٹ ھے تھے ۔ چ ند دن میں ہی نکاح کرتے کا کہہ رہے تھے ۔
” برنشان ہیں اپتی طی نعت کو لے کر کہتے ہیں نہ چوسی دپک ھنا چا ہتے ہیں چلد از چلد “
غزرا تے گ ھور کر اد پبہ کی طرف دپک ھا اور ہاتھ میں پکڑی سرٹ کو اپک طرف رک ھا ۔
” امی “
اد پبہ تے تے خیتی سے لقظ کا لم نا ک ھییجا ل نکن وہ یو خیسے شن ہی پہیں رہی ت ھیں ۔ اسیری
یخ ھ ت جی یکھ
کا پلگ تی وہ اب کمرے کی طرف بڑ ھ رہی یں چ نکہ اد پبہ تے تی سے ان کے
پیخ ھے چل رہی ت ھی ۔
وہ پ نا اس کی طرف د پک ھے مصروف سے اپداز میں گوپا ہوٸیں ۔ اد پبہ سکتے میں آ گٸ ۔
عاپدہ ت ھی ا تپے پخوں سم یت آٸ ہوٸ ت ھی اور اب نکاح کی وجہ سے وانسی روک دی ت ھی ۔
عجلت میں ار پبہ کو کہتی وہ واش روم کی طرف بڑھ گٸ ت ھیں ۔ اور ار پبہ داپت نکالتی
اب سرارتی نظروں سے اس کی طرف دپکھ رہی ت ھی چو تے چال سی ک ھڑی ہات ھوں کی
انگلناں مڑوڑ رہی ت ھی ۔
********
اد پبہ تے ما تھے بر پل ڈال کر غصے سے گ ھورا اور سر یپچے چ ھکا کر گ ھاس کو یوچا ۔
” چلو خی نکاح کو چ ند دن پافی ہیں وہ مخیرم بری طرح نم ھارے غسق میں می نال ہیں اور تم
ات ھی ت ھی اپک ہی لکیر پ یٹ رہی ہو “
ماہ رخ تے گہری سانس لی ۔ اور اقسوس ت ھری نظروں سے اد پبہ کی طرف دپک ھا چو رو د تپے
کو ت ھی ۔
” ت ھر ؟“
” ت ھر ک نا کوٸ پات ہی پہیں سی نا میری مزاق مزاق نس اور اب یو دپک ھنا ا نسے ہے کہ “
اد پبہ تے ل ٹوں کو پاہر نکال کر روہانسی صورت پ ناٸ جس بر ماہ رخ کا فہقہ امڈ آپا ۔
” ہاۓ۔ے۔ے۔ے۔“
دل بر ہاتھ رکھ کر ماہ رخ تے آپکھ کے کوتے کو دپاپا ۔ اور سرارت سے ا پتے سا متے تے
ب
نس سی یٹھی اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔
” تم ت ھی کم پہیں ہو میں برنشان ہوں پہاں اور تم ہو کہ مزے لے رہی فصے شن شن
کر “
” سٹو میری پات گہری سانس لو اور نہ دپکھو اس کی نہ والی پک اور شوچو اسے “
ماہ رخ تے موپاٸل سکرین آگے بڑھاٸ ۔ جس میں وہ س ناہ سرٹ میں مشکرا رہا ت ھا ۔ لمتی
پ
پلکیں اور گہری کالی آ یں سایولی ر گت بر چچ رہی یں ۔
ھ ت پ ھ ک
اد پبہ تے ہاتھ سے موپاٸل پیخ ھے ک نا ۔ جہرے بر وہی تے زاری ت ھی ۔ ماہ رخ تے مبہ
ک ھول کر غصے سے دپک ھا
” رکھ دپا “
اد پبہ تے گہری سانس لے کر گود میں ہاتھ دھرے چ نکہ نظریں سکرین بر ت ھیں جہاں میسم
مشکرا رہا ت ھا ۔
” اب دپکھو اسے “
” کخھ ت ھی پہیں “
ماہ رخ تے اس کے ک ندھے کو دھکا دپا اور ت ھر سے میسم کی نصوبر کو دپک ھا ۔ چ نکہ وہ اب
اتھ کر ک ھڑی ہو چکی ت ھی ۔
” چاکل یٹ “
میسم تے ہاتھ میں پکڑی چاکل یٹ اس کی آپک ھوں کے آگے کی ت ھی۔ وہ چو گ ھیتے بر ت ھورڈی
ب
انکاۓ اداس سی یٹھی ت ھی چوپک کر دپک ھا ۔ وہ ہاتھ میں چاکل یٹ پکڑے آپکھوں میں مج یت
ت ھرے ک ھڑا مشکرا رہا ت ھا ۔
”پہیں چا ہتے “
اد پبہ تے تے زاری سے جہرے کا رخ موڑا ۔ نکاح کو دو دن پافی تھے غزرا تے یوپ ٹورستی
چاپا پ ند کر دپا ت ھا اسکا ۔
” مخ ھے نہ نش ند پہیں ہے “
چاکل یٹ بر اپک نظر ڈال کر پخوت سے چواب دپا ۔ اور خفا سا جہرہ ت ھر موڑ ل نا جس بر وہ دل
و چان سے ڈھیر ہوا ۔ ہلکے سے سہد رپگ کے چوڑے میں اداس سی وہ اس کے دل میں
ابر رہی ت ھی ۔
” چ ھوٹ نہ نم ھاری ف ٹورٹ ہے پبہ ہے مخ ھے “
” تم ک نا چاہتی ہو یولو “
پ نار سے یوچ ھا ۔ چاکل یٹ کو اپک طرف رکھ کر اد پبہ بر نظریں گاڑیں ۔ اد پبہ تے کوٸ چواب
پہیں دپا ۔ وہ یو اس کے اپداز میں الخھ گٸ
اگال شوال۔ اور وہاں ہ ٹوز وہی چاموسی ت ھی ۔ اچاپک سے میسم کا نہ برم سا روپ نہ سیجندہ سا
رونہ عج یب سا لگا ۔
” پہیں “
اد پبہ تے دو یوک اپداز میں کہا ۔ چ نکہ ذہن عج یب کسمکش کا سکار ت ھا ۔
” نم ھارے دل کے ہر ہر زچم بر مرہم رک ھوں گا وعدہ ہے میرا نم ھاری برنشاتی پہیں ہے مخ ھے
نمہیں سیٹ ھال لوں گا “
برم سی مشکراہٹ کے ساتھ تے چود سی آواز میں کہا ۔ اد پبہ تے حیران سا ہو کر اس کے
جہرے کی طرف دپک ھا ۔ک نا نہ اپتی مج یت کرپا ہے مخھ سے اس کی آپک ھوں میں موچود نمی
اد پبہ کے دل کو میٹ ھا سا سرور د تپے لگی ۔
” میسم ت ھاٸ “
پدا تے کمر بر ہاتھ دھر کر غصے سے دپک ھا ۔ وہ اور ار پبہ سرارت سے ک ھڑی مشکرا رہی ت ھیں
۔ پدا عاپدہ کی بیتی ت ھی۔ اور وہ اور ار پبہ ان دویوں کی یوری پگراتی میں ت ھیں آخکل ۔
” نکلیں پاہر نکلیں “
پدا تے آگے بڑھ کر میسم کو پازو سے پکڑ کر ات ھا دپا ۔ ار پبہ ت ھی ہیس رہی ت ھی اب میسم ت ھی
ب
فہقہ لگا رہا ت ھا اد پبہ ساکن سی یٹھی نس میسم کے جہرے کو دپکھ رہی ت ھی ۔
” ک نا ہے تم لوگوں کو “
وہ ہیشتے ہوۓ اب ان کے د ھکے ک ھا رہا ت ھا ۔ اور پاہر کی طرف چا رہا ت ھا ۔ وہ پ نارا لگ رہا ت ھا
۔
” امی مخ ھے چ نکی کابیں اد پبہ مشکرا رہی ہے ہللا نہ لڑکی مشکرا رہی ہے “
پ
ار پبہ تے حیرت سے آ ک ھیں ت ھنال کر غزرا کی طرف دپک ھا ۔ اد پبہ نکاح کاچوڑا پہتے مشکرا رہی
ت ھی ۔
چوڑا کخھ دبر پہلے ہی یوپ نک سے آپا ت ھا جس کو اد پبہ پہن کر چ نک کر رہی ت ھی ۔ وہ آج
ب
ا تپے دن نعد مشکراٸ ت ھی ۔ غزرا اور ار پبہ سا متے پلنگ بر یٹھی ت ھیں اور وہ اب سا متے
س نگہار میز کے آٸ پتے میں چود کو دپکھ رہی ت ھی غزرا تے اپک خفگی ت ھری نظر ار پبہ بر ڈالی
اور ت ھر سرسار سی مج یت ت ھری نظر اد پبہ بر ڈالی چو نکاح کے چونصورت چوڑے میں دمک رہی
ت ھی ۔ اور اس کے گالتی گال اور دلکش مشکراہٹ اسے اور جسین پ نا رہی ت ھی۔
اس کی نہ مشکراہٹ کل رات سے اس کے جہرے بر سچی ت ھی ل نکن ار پبہ اور غزرا تے
پ
اب د کھی ت ھی۔
ار پبہ کو ڈ بیتےکےاپداز میں اپک چ یت لگا کر گھورتی اب وہ اتھ کر اد پبہ کو ا تپے ساتھ لگا
چکی ت ھیں ۔ اد پبہ ان کے گرد پاہوں کا گ ھیرا مضٹوط کتے ت ھر یور طر نقے سے مشکرا دی ۔
ساری رات وہ میسم کو اور اس کی پایوں کو شوچتی رہی اور ت ھر وہ چ یت گ نا اور پاج پہن کر
پخت بر براچمان ہوا
” میسم پہت اچ ھا ہے “
غزرا تے دھیرے سے کان میں سرگوسی کی یو وہ مشکرا دی ۔ غزرا تے برمی سے اسے چود
سے الگ ک نا اپتی آپک ھوں میں آٸ نمی کو انگلی کے یور سے صاف ک نا ۔ اد پبہ کے ما تھے بر
یوسہ ل نا ۔
اد پبہ کے گال کو آہشبہ سا ت ھ نکا ار پبہ ت ھاگ کر ان دویوں کے درم نان میں آ گٸ ت ھی
اب بی ٹوں تے ت ھر سے اپک دوسرے کو ساتھ لگا ل نا
********
فہد تے پاٸپک سے ابر کر ہوا میں ہاتھ ات ھاۓ اور ک ندھے اخکاۓ ۔ مشٹم تے خفگی
ت ھری نظر ڈالی ۔ اور ا نسے فہد کی طرف دپک ھا خیسے اس کی ذہتی چالت بر سبہ ہو۔
الہور میں مشہور کرکیر زتیر اکیر تے پاکش نان ل نگ کے لتے الہور پٹم میں بین تپے لڑکے
لیتےکے لتے آڈنشن رک ھا ت ھا ۔ سر ابرار میسم کو پچین سے چا تپے تھے اپہیں حب اس آڈنشن
کی حیر ہوٸ یو اپہوں تے پہلے چود میسم سے رانطہ ک نا بر حب میسم کی طرف سے کوٸ
بیش رفت پہیں ہوٸ یو اپہوں تے ت ھر سے فہد کے ہاتھ پ نعام ت ھیجا کہ میسم کو نہ موفع ہر
گز پہیں گ ٹواپا چا ہتے ۔
” اور و نسے ت ھی کہاں مابیں گے گ ھر والے چواد چاچو کے عالوہ اپا کا پ نا ہے کیتی نقرت
ہے اپہیں کرکٹ سے “
میسم تے کمر بر ہاتھ دھر کر ما تھے بر پل ڈالے۔ وہ نہ بیش کش بین دن پہلے رد کر خکا
ت ھا۔ چواد کے نقش قدم بر چلتے ہوۓ وہ ت ھی کرکٹ کو اپک شوق کی چد پک رک ھتے بر گ ھیتے
پ نک خکا ت ھا ۔
” ک نا موفع تھٸ “
میسم تے طیزنہ مشکراہٹ کے ساتھ دپک ھتے ہوۓ سر کو ہوا میں مارا اور سا متے موچود
پالزے کو ک ھوچتی نظروں سے دپک ھا ۔
فہد تے گ ھور کر خفگی سے دپک ھا ۔ میسم تےساحبہ فہقہ لگا گ نا ۔ چاپ نا ت ھا نہ خفگی اور غصہ
فہد کی مج یت ہے اس کے لتے ۔
” آٸیں “
پ
فہد کی آ ک ھیں حیرت سے اپل بڑی ت ھیں ۔ جس بر وہ بڑے غزم سے مشکرا دپا ۔
ل ٹوں کو مبہ کے اپدر کتے آبرو کو اوبر یپچے کرپا ہوا وہ پاٸپدی نظروں سے سا متے ک ھڑے فہد
پ
کی طرف دپکھ رہا ت ھا اور اس کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔ فہد اب پاک ت ھالۓ آ ک ھیں سکیڑے
گ ھور رہا ت ھا ۔ اور وہ مشلشل مشکراہٹ دپا رہا ت ھا چو فہد کی اس چالت کو دپکھ کر تے قایو ہو
رہی ت ھی ۔
ُ
” ہاں یو ادھر بیٹھ کر لوگوں کے چ ھکے چ ھڑاۓ گا نس کر دے ت ھاٸ “
فہد تے ک ندھا چ ھنک کر میسم کے ہاتھ کو گراپا اور معافی کے اپداز میں اس کے آگے ہاتھ
چوڑے ۔
” اد پبہ اد پبہ اد پبہ ارے او ت ھاٸ کوٸ پات پہیں صروری پہیں ڈاکیر ین گٸ لڑکی یو
ڈاکیر سے ہی ہو سادی “
فہد تے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ ما تھے بر سکن ال کر کہا ۔
” وہ یو پہی چاہتی ہے نہ “
فہد تے فہقہ لگاتے ہوۓ ہاتھ کا اسارہ میسم کے جہرے کی طرف ک نا ۔ جس بر میسم تے
ساحبہ اس کی گردن بر چ یت لگاٸ ۔
” آج کل لوگ جسماتی سے زپادہ زہتی مرنض ہیں پ ٹوفوف اد پبہ سے اچ ھا کماٶں گا میں “
میسم تے بڑی سان سے سرٹ کے کالر پکڑ کر آبرٶ چڑھاۓ ۔ وہ دوکان کا دروازہ ک ھول
کر اپدر داچل ہو چکے تھے ۔
**************
چواد اچمد کے چ ھیخوڑتے بر کسمشا کر وہ س ندھا ہوا ۔ وہ اس کے اوبر چ ھکے ہوۓ تھے ۔ میسم
ل ک ک شم ن ھ ک چھ پ
تے بی ند سے یو ل آ یں ل ھو یں ۔
” خی چاچو “
اپگڑاٸ لی نا ہوا وہ بی ند سے یوچ ھل آواز میں کہ نا ہوا پکتے کے سہارے ت ھوڑا سا اوبر ہوا ۔
حیرت سے یوچ ھنا اب وہ کم نل کو چود بر سے ات ھا پا سلییر کو پاٶں میں آڑا رہا ت ھا ۔ کل
نکاح ت ھا اور غزرا تے یو چار دن سے اسے گ ھر بیٹ ھا رک ھا ت ھا ۔
چواد تے اسے چلدی کرتے کا اسارہ کرتے ہوۓ مصروف سے اپداز میں کہا ۔
وہ واش روم کی طرف بریوزر پ ندپل کرتے کی غرض سے بڑھ رہا ت ھا حب اسے غفب سے
چواد کی آواز س ناٸ دی پ نا د پک ھے سر ہال پا وہ واش روم میں گھس گ نا ت ھا
***********
پ
” واہ واہ میشتی آپکھوں میں نمی د کھی اور نس ہو گٸ کلین یولڈ “
پ
ماہ رخ تے اد پبہ کے ک ندھے بر چ یت لگاٸ ۔ اد پبہ تے سرارت سے آ ک ھیں نکالیں ۔ اور
مشکراتے ہوۓ قدم آگے بڑھاۓ ۔ نہ یوپ ٹورستی کی لمتی سی راہداری ت ھی جس کے ارد گرد
کمرہ چماغت تھے۔ ماہ رخ تے ت ھی اد پبہ کے ساتھ ساتھ قدم بڑھا دتے ۔ وہ آقس سے پاہر
کام نم ناتے کے نعد نکلی یو ماہ رخ کو ا تپے اور میسم کے پارے میں پ نا رہی ت ھی ۔ جس بر ماہ
رخ حیراپگی اور چوسی کے ملے چلے ابرات میں اس کی طرف دپکھ رہی ت ھی۔
” اچ ھا خی۔ی۔ی۔ی۔ اور ک نا “
ماہ رخ تے اس کے جہرے کا نغور چاٸزہ لیتے ہوۓ سرارت سے یوچ ھا ۔ اد پبہ تے
سرماتے کے سے اپداز میں کایوں کے پیخ ھے پالوں کی آوارہ لٹ کو قایو ک نا ۔
اد پبہ تے چمکتی آپک ھوں کے ساتھ مشکرا کر ماہ رخ کی طرف دپک ھا ماہ رخ مشکراتے ہوۓ
دلجشتی سے ت ھ ٹوں کو چ ٹیش دی خیسے اس سے اب صیر پہیں ہو رہا ت ھا ۔
اد پبہ تے گالتی ہوتے گالوں کے ساتھ سرسار سے اپداز میں کہا ۔ وہ ا تپے دن نعد اپتی
برسکون ہوٸ ت ھی ۔ تے خین سی روح کو خیسے سکون آپا ت ھا ۔
ماہ رخ تے بر چوش اپداز میں پاہوں کا گ ھیرہ اد پبہ کے گرد ک نا ۔ جس تے کخھ بر شوچ سے
اپداز میں آپکھوں کو سکوڑ کر ماہ رخ کی طرف دپک ھا ۔
” پبہ پہیں ک نا ہے مج یت ہے پا کخھ اور بر اچ ھا لگ رہا کل سے سب “
اد پبہ تے بر سکون اپداز میں سانس ل نا ۔ سر کو چ ھکا کر راہداری کے قرش بر ات ھتے ا تپے
قدموں کی طرف دپک ھا ۔
ماہ رخ تے سیتے بر ہاتھ رکھ کر ت ھوڑا سا چ ھکتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ کے جہرے بر سے
مشکراہٹ اپک دم سے عاٸب ہوٸ ۔ نظریں حیرت سے سا متے گ ھی ٹوں میں سر دتے
نقوس بر ت ھیں ۔
” اپک م یٹ “
اد پبہ تے چلتے چلتے اپک دم سے ماہ رخ کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔ نہ البربری کے قرپب
اوبری میزل کا ز پبہ ت ھا چو کخھ چاموش چگہ ت ھی پہاں طلبہ پہت کم دک ھاٸ د تپے تھے ۔
وسنع ز تپے کے چ نگلے کے قرپب روسان چمداتی گ ھی ٹوں میں سر دتے بیٹ ھا ت ھا۔ وہ آج پہت
دن نعد یوپ ٹورستی میں نظر آپا ت ھا ۔
” نہ روسان چمداتی ہے “
اد پبہ تے انگلی کا اسارہ البربری کے قرپب سیڑھ ٹوں کی طرف ک نا ۔ ماہ رخ تے انگلی کے
اسارے کی طرف گردن گ ھماٸ ۔ اب اس کے جہرے بر ت ھی مشکراہٹ کی چگہ حیرت اور
سیجندگی تے لے لی ت ھی ۔ وہ روسان چمداتی ہی ت ھا۔
ماہ رخ تے ت ھوڑا سا یپچے چ ھک کر برم سے لہچے میں یوچ ھا روسان تے چوپک کر سر اوبر ات ھاپا
ً
۔ جہرہ آنسوٶں سے بر ت ھا ۔ وہ سرم ندہ سا ہو کر فورا گالوں بر موچود آنسو صاف کرتے لگا ۔
” روسان آپ آپ رو ک ٹوں رہے ہیں؟ “
ماہ رخ تے گ ھیرا کر یوچ ھا ۔ اد پبہ ت ھی حیران سی اور برنشان سا جہرہ لتے اس کی طرف دپکھ
پ
رہی ت ھی روسان کا جہرہ اور آ ک ھیں بری طرح شوخی ہوٸ ت ھیں ۔
” نہ پہیں یو “
آنسوٶں میں ت ھنگی آواز میں روسان تے چلدی سے گال دوپارہ صاف کتے ۔ اد پبہ اور ماہ
رخ تے اپک دوسرے کی طرف دپک ھا ۔
اد پبہ تے ت ھی برنشان سے لہچے میں برمی سے یوچ ھا ۔ روسان کخھ دبر چاموش رہا اس کی
نظر قرش بر پکی ت ھی ۔
روسان تے مبہ ک ھول کر نکل نف سے سانس چارج ک نا ۔ آپکھوں میں موچود آنسو چو وہ روکے
ہوۓ ت ھا ت ھر سے پہتے لگے ۔
َ َّ َ َّ
” اوہ ِإپا لِلهِ َوِإپـا ِإل ْب ِہ َرا ِخغون"
اد پبہ اور ماہ رخ تے پک لخت اپک ساتھ الفاظ ادا کتے ۔ روسان کے اپدر کی نکل نف اس
کی چالت سے واضح ت ھی مرد چاہے خی نا ت ھی مضٹوط ہو مم نا اپک انسی نعمت ہے جس کا
چ ھن چاپا اپدر کاٹ د پنا ہے ۔
اد پبہ قاٸل کو گود میں رک ھتی کخھ قاصلے بر اسی ز تپے بر بیٹھ چکی ت ھی ۔ جہاں روسان بیٹ ھا
ت ھا ۔ دویوں چاپتی ت ھیں روسان کا کوٸ دوست پہیں ہے۔ اور اس ملچے اسے دالسہ د پنا
ان کا قرض ت ھا ۔ روسان کے آنسو لگا پار پہہ رہے تھے ۔
ماہ رخ تے برنشان سے لہچے میں کہتے ہوۓ اپک نظر روسان بر ڈالی اور تیز تیز قدم راہداری
کی طرف بڑھا دتے ۔ وہ تیز تیز قدم ات ھاتی کی ٹین کی طرف چارہی ت ھی حب سا متے سے آتے
میسم بر نظر بڑی ۔ ماہ رخ مشکراتی ہوٸ میسم کی طرف بڑھی
ماہ رخ تے انگلی کا اسارہ کر کے روکا ت ھا ۔ میسم حیران سا رکا اور ت ھر مشکرا کر اپ نات میں
سر ہالپا ۔ گو کہ وہ اد پبہ کی بیشٹ قرپ نڈ ت ھی ل نکن دویوں کا اپک دوسرے کے گ ھر آپا چاپا
اپ نا زپادہ پہیں ت ھا جس کے پاغث میسم کی اور اس کی پاقاعدہ مالقات کٹھی پہیں ہوٸ ت ھی
۔
ماہ رخ تے بر چوش اپداز میں مشکراتے ہوۓ کہا ۔میسم چو حیران سا رکا ت ھا اور ذہن بر زور
یھ ت
دے رہا ت ھا کہ اس تے کہاں دپک ھا ہے اسے اپک دم سے لب یچ کر دھیرے سے م کرا
ش
دپا ۔
میسم تے سالم کے نعد ارد گرد نظر دوڑاتے ہوۓ یوچ ھا ۔ وہ اسے لیتے کے لتے یو آ گ نا ت ھا
عجلت میں بر پہاں آ کر پاد آپا کہ وہ اپ نا فون گ ھر ت ھول آپا ہے اب پاہر بیٹھ کر اپ نطار
کرتے کے پجاۓ وہ یوپ ٹورستی کے اپدر آ خکا ت ھا ۔
ماہ رخ تے ہاتھ کے اسارے سے اسے راسبہ پ ناپا اور چود مشکراتی ہوٸ کی ٹین کی طرف بڑھ
گٸ ۔ میسم تے مشکراہٹ کے چواب میں مشکرا کر دپک ھا اور قدم اسی طرف بڑھا دتے
جس طرف ماہ رخ تے اسارہ ک نا ت ھا ۔ وہ بی یٹ کی چ یب میں ہاتھ ڈالے راہداری سے گزرپا
ہوا ت ھوڑا سا آگے ہی آپا ت ھا حب اس کے قدم اپک طرف کے م نظر تے چکڑ لتے ۔ پاٸیں
ب
طرف ز تپے بر موچود لڑکا بری طرح رو رہا ت ھا اور اد پبہ اس کے ک ندھے بر ہاتھ ر کھے یٹھی
ت ھی جہرے بر کرب ت ھا نکل نف ت ھی ۔
قدم یو خیسے زمین میں پ ٹوست ہو گتے تھے۔ دل میں عج یب سی گ ھین کا اجشاس بڑ ھتے لگا
ت ھا ۔
قدم پیخ ھے پلیتے لگے تھے ۔ دھیرے دھیر ے رخ پلنا پہیں ت ھا بر قدم پیخ ھے چاتے لگے تھے ۔
بی یٹ کی خی ٹوں سے ہاتھ پاہر نکل رہے تھے ۔
” اور میری چوسی “ اد پبہ کے الفاظ کی پازگشت ذہن کی دیواروں بر ہٹھوڑے چال رہی ت ھی ۔
وہ چو لڑکا اس کے سا متے بیٹ ھا اس کی مج یت میں آنسو پہا رہا ت ھا اس سے الکھ درخے پہیر ت ھا
۔
دل میں بیس ات ھی ۔ آہ ۔۔۔
پ
اپک چٹ ھن سی مرخیں خیسے آپکھوں میں ڈال دے کوٸ آ ک ھیں چل گٸ ت ھیں۔ میٹ ھناں
ت
ھییچ لی ت ھیں کہ ساٸد اس سے دل کی نکل نف کم ہو گی ۔
سف ند رپگت ت ھرا جسم براٶن پال اور ڈاکیر ل ٹوں کو ت ھییچے وہ بزل نل سے لرزتے وچود کو لتے
یوپ ٹورستی کے مین گ یٹ کی طرف بڑھ رہا ت ھا ۔ آپک ھوں کے آگے وہ م نظر میخم ند ہو گ نا ت ھا
اد پبہ کا سف ند ہاتھ اس لڑکے ک ندھے بر ت ھا ۔
ماہ رخ تے روسان کی طرف پاتی کی پاپل بڑھاٸ ۔ روسان تے ت ھنگی پلکیں اوبر ات ھاٸیں
اور پاتی کی پاپل پکڑی ۔
ج چ
میسم مراد یو نہ ہے وہ شول نڈ ربزن جس کو پ ناتے کے لتے وہ تی رہی وہ کسی اور سے
ک ھ
مج یت کرتی ہے اور وہ کوٸ اور اس سے اپتی مج یت کرپا ہے کہ اس کے سا متے آنسو پہا رہا
ت ھا ۔ اور اس کی آپکھ سے گرتے والے ہر آنسو کی نکل نف اد پبہ سیراز کے جہرے بر موچود
کرب سے چ ھلک رہی ت ھی ۔
” چلیں “
میسم کے کایوں سے مدھم سی پازگشت پکراٸ چوپک کر دپک ھا یو وہ طالم جہرے بر زبردستی کی
مشکراہٹ سجاۓ ا تپے اپدر کے کرب کو چ ھناۓ ک ھڑی ت ھی ۔
یکھ
میسم تے چاموسی سے گہری سانس اپدر چی اور سر ال پا اب وہ گاڑی کا دروازہ ھول رہا
ک ہ ی
ت ھا اور وہ گھوم کر گاڑی کے دوسرے دروازے پک آ چکی ت ھی ۔
گاڑی کو چال پا سیجندہ سی سکل پ ناۓ وہ اسے آج اپ نا مجنلف ک ٹوں لگ رہا ت ھا اس کے
ما تھے بر آۓ ت ھوڑے سے پال اس کی آپکھوں بر چ ھکی لمتی پلکیں بڑھی ہوٸ سٹو سایولی
رپگت ۔ ت ھرے سے چونصورت براش کے لب ان کے کویوں کے قرپب اور گالوں کے
ہلکے سے گڑھے ۔ سییرپگ بر چمے مضٹوط ہاتھ ت ھوڑے کف فولڈ کتے ہوۓ پازو ان بر
موچود پال گردن سے ات ھرتی چ ھوتی سی گلتی ۔ پ نک ھا سا پاک ۔
” میسم “
مدھر سی آواز کی پازگشت تے گاڑی میں موچود دویوں نقوس کے درم نان کی چاموسی کو یوڑا
۔ میسم چو چ ناالت کے الوے میں چلنا ہوا پہہ رہا ت ھا چوپک کر دپک ھا ۔ وہ سر چ ھکاۓ ا تپے
ب
ہات ھوں بر نظریں نکاۓ یٹھی ت ھی ۔ پالوں کی آوارہ ل ٹیں جہرے کے اطراف کو ڈ ھکے ہوۓ
ت ھیں ۔
گلے میں کوٸ گوال سا اپک رہا ت ھا جسے نگلتے ہوۓ اس تے نمشکل مج نصر لقظ ادا کتے ۔ گلے
کی گلتی تے اوبر یپچے سقر طے ک نا صنط کے اجشاس کو پجاری ہی یو قایو کتے ہوۓ ت ھی
دل یو ع نقرپب خیسے ت ھی تے کو ت ھا ۔
اد پبہ تے دھڑ کتے دل کے ساتھ مشکراہٹ دپا کر کہا ۔ دل اس تیزی سے دھڑکا ت ھا کہ
گردن سر کا یوچھ پہیں ات ھا پا رہی ت ھی ۔ اب وہ تے پاتی سے میسم کی طرف سے کوٸ
چواب سیتے کی می نظر ت ھی ۔
اس کی الفاظ بر چونکا اوہ اد پبہ ک ٹوں دے رہی ہو نہ قرپاتی میسم تے سییرپگ بر گرفت اور
مضٹوط کی گاڑی کی رف نار اپک چ ھنکے سے بڑھی ۔
افف اپتی چوسی اد پبہ تے ڈنش یورڈ سے ہاتھ نکا کر چود کو سیٹ ھالہ میسم کے گاڑی کی رف نار
بڑھا د تپے بر تے ساحبہ اد پبہ تے اپک ہاتھ ا پتے مبہ بر رک ھا چ نکہ دوسرا ہاتھ ات ھی ت ھی
ڈنش یورڈ کو ت ھامے ہوۓ ت ھا ۔ سرم سے جہرہ گالتی ہو رہا ت ھا جسے وہ ا تپے ہات ھوں سے
ڈھک چکی ت ھی ۔ میسم کے گاڑی کی رف نار بڑھا د تپے بر اد پبہ کو اس دن اس کے پاٸپک
کی رف نار بڑھا د تپے کا وافع پاد آپا ۔ لب تے ساحبہ اس دن کی قرپت بر مشکرا دتے ۔
نمہیں صرورت پہیں اد پبہ پلکل پہیں اپتی مج یت قرپان کرتے کی صرورت پہیں میں میں
یوڑ دوں گا سب کے دل میں دے دوں گا سب کو دکھ میں ین چاٶں گا سب کی نظروں
میں برا بر نمہیں وہ سخص صرور ملے گا تم اس سے سچی مج یت کرتی ہو میں ک ٹوں زبردستی کا
رسبہ قاٸم کروں میں میسم مراد تے سک تم سے تے اپ نہا مج یت کرپا ہوں اپتی مج یت کے
ان بین سالوں میں نم ھارے لتے سب ت ھول گ نا ل نکن میں چود غرض پہیں ہر گز پہیں ۔
گاڑی کے تیزی سے گ ھو متے پہ ٹوں کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں شوخیں گھوم رہی
ت ھیں ۔ اپک نظر اد پبہ بر ڈالی یو وہ دویوں ہات ھوں سے جہرہ ڈ ھکے رو رہی ت ھی ۔
افف زور سے گاڑی کی نشت بر سر دے مارا ۔ ک ٹوں دے رہا ہوں اسے اپ نا دکھ میں ۔
گاڑی اپک چرچراہٹ سے رکی ت ھی ۔ اد پبہ تیزی سے گاڑی سے یپچے ابری ت ھی اور تیز تیز
قدم ات ھاتی گ ھر کے تیروتی گ یٹ سے اپدر چل دی ۔
دل کی دھڑک ٹوں کی نہ تے بربی تی سیٹ ھالے پہیں سیٹ ھل رہی ت ھی ۔ ت ھاگتی ہوٸ مشکراہٹ
دپاتی وہ گ ھر میں داچل ہوٸ ۔ اپک سکون ت ھا آج تے سک پاپا ایو کا ف نضلہ علط پہیں ت ھا ۔
لب کے کوتے کو داپ ٹوں میں دپاۓ مشکراتی اوبر کے ز تپے چڑھ رہی ت ھی ۔ افف کیتی
پاگل ت ھی میں ہیشتے ہوۓ ل ٹوں کو پاہر نکال کر ا تپے ہی سر بر چ یت لگا ڈالی ۔
*******
” چاپا کہاں ہے پہلے پہاں ہے کوٸ چا تپے واال رات کیسے گزارتی ہے آڈنشن یو گزر خکا
ھ ک ص پ
اب یح د یں گے ک نا کرپا ہے “
فہد تے کمر بر ہاتھ دھر کر سڑک کے داٸیں اور پاٸیں برنفک بر نظر دوڑاٸیں س ٹیشن
سے پاہر نکل کر وہ اب سڑک بر ک ھڑے تھے ۔ سڑک گزرتی برنفک کی چلتی بی ٹوں سے
روشن ت ھی ۔
” پہیں انشا کوٸ چاص پہیں دور کے رسبہ دار جن کی طرف چا پہیں سک نا اور اپک دوست
کا کزن بڑھ نا پہاں بر ات ھی موپاٸل پ ند ہی رک ھنا ہے “
میسم تے آبرٶ بر انگلی ت ھیرتے ہوۓ اداسی سے کہا ۔ ت ھر گردن گھما کر فہد کی طرف دپک ھا
چو اب بر شوچ اپداز میں لب کجل رہا ت ھا ۔
” ہیں بر سٹم براپلم چل کوٸ پہیں کرتے ہیں کخھ اپ نطام پہلے کخھ ک ھا لیتے ہیں “
فہد تے ت ھنکی سی مشکراہٹ کے ساتھ اس کی بی ٹھ بر ہاتھ رک ھا۔ اگر میں ت ھی اسی کی طرح
برنشان ہوپا رہوں گا یو نہ ہمت ہارے گا ۔ فہد تے دل میں شوچ کر ل ٹوں بر مشکراہٹ کو
اور بڑھاپا
میسم تے نظریں چراتے ہوۓ گہری سانس پاہر چارج کی ۔ اور مرپل سے قدم فہد کے
ساتھ مالۓ ۔ چو اب ساٸد شواری کی پالش میں ارد گرد نظریں دوڑا رہا ت ھا۔
ہ
” ممم چل ت ھر فوڈ سیرپٹ “
فہد تے برشوچ اپداز میں کہا۔ اور کخھ دور ک ھڑے ر کسے کو ہاتھ کا اسارہ دپا ۔
************
مراد تے ت ھر سے اچمد م ناں کی طرف دپک ھتے ہوۓ کہا چو سر یپچے گراۓ اپتی عمر سے
کہیں زپادہ صع نف لگ رہے تھے ۔ پبہ پہیں ک نا شوخے چا رہے تھے دوپہر سے سر چ ھکاۓ
مراد کخھ دبر ان کو ا نسے ہی دپک ھتے رہے ت ھر اتھ کر گ ھیتے بر ہاتھ رک ھتے ک ھڑے ہوۓ ۔
ا نسے خیسے ہمت چواب دے گٸ ہو۔ قدم کمرے کے تیروتی دروازے کی طرف بڑھاۓ
ت ھر رک کر کرسی بر بیٹ ھے چواد اچمد کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔
” چواد م نڈنشن پہیں لے رہے ہیں تم اور عاپدہ زبردستی کرو مخھ میں ہمت پہیں ہے “
ت ھکے سے لہچے میں کہتے ہوۓ پاہر نکلے برآمدہ اپدھیرے میں ڈوپا ہوا ت ھا کسی تے آج بی ناں
ہی پہیں روشن کی ت ھیں برآمدے کی بی ناں چالتے مرپل قدموں سے ا تپے کمرے کی
طرف بڑھے جہاں موچود دو نقوس اسی اداسی کا سکار تھے جس میں گ ھر کا ہر قرد می نال ت ھا ۔
” رانعہ رانعہ چدا کا واسطہ ہے اب نس کر دو روپا پٹمار بڑ چاٶ گی کیسے سیٹ ھالو گا میں “
ب
مراد اچمد تے تے زار سے لہچے میں کہتے ہوۓ سا متے یٹھی رانعہ کی طرف دپک ھا چو مشلشل
پ
سا متے بڑے ک ھاتے سے تے پ ناز روۓ چا رہی ت ھی ۔ آ ک ھیں اور لب شوج رہے تھے پاک
سرخ ہو رہی ت ھی ۔ غزرا پار پار ا تپے آنسو یوپخ ھتی اس کے ک ندھے بر ہاتھ رکھ رہی ت ھی ۔
رانعہ تے ت ھاری سی آواز میں کہتے ہوۓ پازو لم نا ک نا اور خفگی ت ھری نظر مراد بر ڈالی چو اب
غصے سے گ ھور رہے تھے ۔
” چ ھوپا دودھ بی نا پجہ پہیں ہے وہ چاٸیں لے کر آٸیں اسے پ نعیرت تے فون صیح سے
پ ند کر رک ھا ہے مخ ھے ک نا پبہ کہاں ہے “
مراد اچمد ت ھٹ ہی یو بڑے تھے ۔ جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا ۔ صنط سے لب ت ھییچے ہوۓ تھے ۔
پاک پٹ ھتے ت ھول رہے تھے
*******
ار پبہ کی پاہر سے آتی آواز بر اس تے گ ھی ٹوں میں دپا سر اوبر ات ھاپا ۔
وہ صیح سے کمرے میں چود کو پ ند کتے ہوۓ ت ھی۔ زیور ا پار چکی ت ھی کیڑے پ ندپل کر چکی
ت ھی ہر حیز م نا دی مبہ ت ھی رگڑ رگڑ کر دھو ڈاال ت ھا ت ھر ت ھی سب کخھ ت ھنک پہیں ہو رہا ت ھا
۔ اپک ت ھانس سی ت ھی اپک چلش تے نقی تی حیراتی صیح سے اب پک آنسو یو پہیں نکال ت ھا
ب
نس ما تھے بر سکن ڈالے وہ حیران سی یٹھی ت ھی۔ آچر وہ ک ٹوں گ نا کل حب اس تے کار
میں اظہار ک نا وہ چوش ت ھا پار پار اسی ملچے کو پاد کر کر کے دماغ سل ہوتے لگا ت ھا ۔
ار پبہ مشلشل دروازہ پجا رہی ت ھی ۔ اس کی آواز اس کی اد پبہ کے لتے برنشاتی طاہر کر رہی
ک ل ً
ت ھی ۔اد پبہ دھیرے سے پال سم ٹیتی ات ھی اور ت ھر دروازے کی ک نڈی ھو تی فورا وانس تی
ل پ
ار پبہ اور اد پبہ تیزی سے کمرے میں داچل ہوٸ ت ھیں ۔ ار پبہ کے ہاتھ میں برے ت ھی ۔
دویوں ک ھوچتی سی نظروں سے اد پبہ کو دپکھ رہی ت ھیں گ ھر میں ہر سخص کا جہرہ ابرا ہوا ت ھا ۔
” کخھ ک ھا لو “
ار پبہ تے برے پ نڈ ساٸپڈ بی نل بر رک ھی اور پلتی ۔ پدا چاموش برنشان سا جہرہ لتے لب کجلتی
اد پبہ کو دپکھ رہی ت ھی۔اد پبہ تے نظریں چراٸیں ۔ اور زبردستی چود کو پارمل طاہر ک نا ۔
گ ھتی سی آواز ت ھی ۔ وہ پ نڈ کی چادر بر دھیرے سے ہاتھ ت ھیر رہی ت ھی ا نسے خیسے سب پارمل
ہے ار پبہ اب اس کے پاس پ نڈ بر بیٹھ چکی ت ھی ۔
چڑ چڑے سے اپداز میں چواب د پتی اب سیتے بر ہاتھ پاپدھ چکی ت ھی ار پبہ تے پ نڈ بر بڑے
اس کے فون کو ات ھاپا ۔
” فون پ ند ہے اس کا ر ہتے دو “
اد پبہ تے س ناٹ جہرے کے ساتھ گھورتے ہوۓ کہا ۔ وہ صیح سے ہزار پار اس کا فون
براٸ کر چکی ت ھی ۔ دل کر رہا ت ھا نس وہ اپک دفعہ فون ات ھاۓ اور وہ ت ھٹ بڑے اس بر
گال ٹوں کی یوچ ھاڑ کر دے
” تم ت ھنک ہو “
اد پبہ تے ک ندھے کو چ ھ نکا اور ما تھے بر پل ڈالے ۔ جہرے بر پاگواری تے زاری ت ھکاوٹ
ت ھی ۔
اد پبہ تے پ نڈ کی چادر درست کرتے ہوۓ چود کو مصروف طاہر ک نا ۔ وہ دویوں اپک
پ
دوسرے کو د ک ھٹیں کمرے کے دروازے کی طرف بڑھیں ۔
************
”میسم پار وہ “
فہد تے فون کان سے یپچے کرتے ہوۓ سرم ندہ سے اپداز میں لب کو کجال ۔مطلب وہ
جہاں فون کر رہا ت ھا وہاں ان کے شوتے کا اپ نطام پہیں ہو سکا ت ھا ۔ ک ھاپا ک ھاتے بر پاپچ شو
لگ خکا ت ھا ۔ اور فوڈ سیرپٹ پک دو شو کرانہ مطلب سات شو لگ خکا ت ھا اور ات ھی الہور
آۓ ان کو چ ند گ ھیتے ہی گزرے تھے ۔
” چ ھوڑ پات شن “
ت
میسم تے اس کے ک ندھے بر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ اور ل ٹوں کو ھییچ کر سا متے فٹ پاتھ کی
طرف اسارہ ک نا جہاں فطار میں پہت سے آدمی تے سدھ شو رہے تھے ۔چادر سروس پک
پاتے دپ نا ماف نا سے تے حیر
” رات ہی گزراتی ہے یو “
میسم تے قدم فٹ پاتھ کی طرف بڑھا دتے ۔ فہد کا مبہ کھلے کا کھال رہ گ نا ت ھا ۔
فہد تیزی سے اس کی طرف ل نکا جہرے بر حیراپگی اور خفارت ت ھی ۔ چ نکہ وہ برسکون اپداز
میں اب چگہ پالش کر رہا ت ھا ۔
” ا تپےلوگ شو رہے ہیں دپکھ و نسے ت ھی دو پج رہے ہیں وفت ہی کی نا پافی اب ا نسے
پ نگ سر کے یپچے رکھ کر “
میسم اب فٹ پاتھ بر بیٹھ کر پ نگ کو سر کی طرف یپچے یوں سیٹ کر رہا ت ھا خیسے وہ پکبہ ہو
۔
” بی نا کہاں سے ہو “
ساتھ لیتے سخص تے سر سے چادر ا پاری میسم تے گڑ بڑا کر دپک ھا اس سخص کا اپداز ہی
انشا ت ھا اچاپک سے چادر ا پار کر ان سے شوال کر رہا ت ھا وہ پجاس سال کے لگ ت ھگ
سخص ت ھا سر اور داڑھی کے پہت سے پال سف ندی لتے ہوۓ تھے ۔ وہ جہرے سے کوٸ
ت ھنگی پا نسے کر کے لی نا ہوا سخص ہر گز پہیں لگ رہا ت ھا ۔
” حیر یور سے خی “
میسم تے پ نگ کے ابر سر کو نکاتے ہوۓ مشکرا کر چواب دپا ۔ اس یوڑھے سخص کا
چلبہ اس کی سرافت کا گواہ ت ھا ۔ میسم تے اپک نظر فہد کی طرف دپک ھا چو مبہ ت ھالۓ اب
اس کے ساتھ پ نگ رکھ رہا ت ھا ۔
” بڑی دور سے آۓ ہو “
پاپا خی تے مج یت ت ھرے لہچے میں کہا اور اتھ کر بیٹھ گتے ۔ اک ٹوبر کی بیس پارپخ ت ھی ۔
حب وہ حیر یور سے چلے تھے یو اپدازہ ہی پہیں ت ھا پیجاب میں رات اپتی ت ھنڈی ہو سکتی ہے
۔
” خی “
میسم تے مج نصر چواب دپا ۔ اور پازو بر ہاتھ کو مشال اس سے گرمی کا اجشاس ت ھوڑا بڑھ گ نا
ت ھا ۔ اوبر سے فٹ پاتھ کر قرش ت ھی ت ھنڈا ت ھا۔
پاپا خی کے لہچے میں حیرت اور پجسس ت ھا ۔ میسم کے پازو کو رگڑتے ہاتھ رک گتے تھے ۔ فہد
ا تپے پ نگ سے اپک اور سرٹ نکال کر پہن رہا ت ھا ۔
” واہ “
یوڑھا سخص تے ساحبہ ہیس دپا اس کے ک ندھے دھیرے دھیرھ ہل رہے تھے ۔ میسم اور
فہد ت ھی مشکرا دتے ۔
” پہت اچ ھی ک ھنلنا ہے پاپا خی دعا کریں چانس لگ چاۓ الہور پٹم کے لتے “
فہد تے کہتی کے پل ہاتھ بر سر نکا کر اوبر ہوتے ہوۓ دلجشتی سے کہا ۔ یوڑھا سخص
ت ھریور طر نقے سے مشکرا دپا ۔
وہ مصروف سے اپداز میں کہتے ہوۓ پاس ک ھڑے ر کسے کی طرف بڑھا اور سر اپدر ڈال کر
ت ھوڑی دبر نعد دو چ نک دار موتی چادروں کے ساتھ پاہر نکال ۔
چ نکی وافعی بڑھ رہی ت ھی جس میں نمی ت ھی سامل ت ھی۔ دویوں اب یوریوں کو پخ ھا رہے تھے
۔
” ارے بی نا کیشا اجشان رکشہ چال پا ہوں گ ھر اب بی ٹوں کا اور ان کے پخوں کا ہے چگہ
پہیں ہوتی میرے لتے وہاں سارا دن رکشہ چال پا ہوں اور سام کو پہیں شو چا پا ہوں “
میسم تے نظر ات ھا کر ر کسے کی طرف دپک ھا جشبہ چال سا اور ت ھر سا متے بیٹ ھے ادھیڑ عمر سخص
کی طرف دپک ھا چو اب ت ھر سے ل یٹ رہا ت ھا ۔
میسم تے چادر کو ا تپے گرد ل ٹی نا ت ھکاوٹ اپتی ہو چکی ت ھی کہ چادر چود بر پا تپے ہی کب بی ند
تے اپتی آغوش میں ل نا حیر پہیں ہوٸ ۔
***************
ت ھر سے گال کو رگڑا آواز ت ھاری ہو رہی ت ھی ۔ ماہ رخ پلکل چاموش ت ھی ۔ بر جہرے بر اد پبہ
کی نکل نف کا اجشاس موچود ت ھا ۔
” اس کو اپ نا کہتی رہی میں بین سال سے چاٶ انکار کر دو کر دو انکار تم پہیں کرتے مخھ
سے مج یت بر وہ یو “
ت
وہ رکی ت ھی ۔ ما تھے بر پاگوار سے پل بڑے ۔ ماہ رخ تے لب ھییچ کر اس کے ہاتھ بر ہاتھ
رک ھا ۔
” میں تے کہا اسے ماہ رخ میں تے کہا اسے میں نکاح کے لتے راضی ہوں وہ اس وفت
ت ھی چوش ہوا “
اد پبہ پخوں کی طرح پار پار اپک ہی فقرہ دہراتے ہوۓ پ نا رہی ت ھی ۔ ماہ رخ کے جہرے بر
ت ھی الخ ھن بڑھ گٸ ۔
اد پبہ تے پخوں کی طرح پازو چ ھنکے اور ت ھر گ ھی ٹوں کو سم یٹ کر ان بر جہرہ رکھ ل نا ۔ ماہ رخ
تے اب ہاتھ مج یت سے اس کے گ ھیتے بر رکھ دپا ۔
” اد پبہ سیٹ ھالو چود کو دپکھو کخھ دن پہلے پک یو تم ت ھی پہیں چاہتی ت ھی نہ اس سے سادی
یو پہی شوچو نم ھاری وہ چواہش یوری ہوٸ “
ماہ رخ تے برم سے لہچے میں دالسہ دپا ۔ اد پبہ تے عج یب سی نظروں سے دپک ھتے ہوۓ
گ ھی ٹوں بر سے جہرے کو ات ھاپا ۔
” نمہیں پبہ ہے صرف ان دو رایوں میں میں تے اسے کی نا شوچا اپ نا شوچا کہ اس کے
ساتھ اپتی ساری زپدگی شوچ ڈالی “
سیٹ ھلنا ہے س نا تم تے “
” ماہ رخ میرے دل تے پہلی دفعہ کسی لڑکے کے پارے مجسوس ک نا ت ھا اور سدت سے
ک نا “
اد پبہ تے س ناٹ سے لہچے میں غیر مرٸ نقطے بر نظر چماتے ہوۓ کہا ۔ ماہ رخ حپ ہو
گٸ ۔ اور ت ھر آگے ہو کر چ ھنکے سے اسے اد پبہ کے تے چان سے وچود کو ا پتے ساتھ لگا
ل نا خیسے ہی اس کی نشت بر ہاتھ رک ھا اد پبہ ت ھوٹ ت ھوٹ کر رو دی ۔
**********
ادھیڑ عمر سخص چاۓ کے دو کپ ت ھامے پاس آپا ۔ وہ دویوں فٹ پاتھ کے قرپب ہی تپے
چاۓ کے ڈھاتے میں بیٹ ھے تھے۔ ات ھی دویوں پا ستے سے قارغ ہوۓ تھے حب رات واال
ادھیڑ عمر سخص چاۓ کے دو کپ برے میں سجاۓ ان کے قرپب آپا وہی برم سی
مشکراہٹ جہرے بر سجاۓ ۔ آپکھوں میں سقفت لتے
” ارے آپ “
ً
میسم تے فورا آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے برے کو پکڑا۔ وہ ان کے پاس بڑی کرسی کو
ک
ھییچ کر اب دویوں کے ساتھ بیٹھ خکا ت ھا نشکر ت ھری نظروں سے دویوں تے پاری پاری
سا متے بیٹ ھے سخص کو دپک ھا اور گرم گرم چاۓ کے کپ کو ات ھاپا ۔
ُ
اک ٹوبر کی ہلکی سی چ نکی لتے اس صیح میں ت ھاپ اڑاتے چاۓ کے ک ٹوں کا یوں مل چاپا
غیٹمت ت ھا ۔ چاۓ چٹم کرتے کے نعد میسم تے بیسے د تپے کی غرض سے چ یب میں ہاتھ
ڈاال یو سا متے بیٹ ھے سخص تے ہاتھ سے میسم کے پازو کو پکڑ کر روک دپا ۔
س
” کخھ پہیں بی نا یوں مخھو کہ میرے مہمان ہو تم دویوں “
ً
یوڑھے سخص تے مشکرا کر میسم کی طرف دپک ھا ۔میسم تے نشکر آمیز نظر ڈالی نقی نا وہ ان
کے یوں فٹ پاتھ بر رات نسر کرتے بر سمخھ خکا ت ھا کہ دویوں کے پاس بیسوں کی قلت
ہے ۔
فہد کے امیر رسبہ داروں تے گ ھر میں رک ھتے سے انکار کر دپا ت ھا ل نکن اپک تےگ ھر رکشہ چالتے
والے تے ان کی انسی مہمان یوازی کی دویوں م نابر ہوۓ پ نا پہیں رہ سکے سچ کہتے ہیں
مہمان یوازی کے لتے دل کے بڑے ین کی صرورت ہوتی ہے دل میں چگہ ہو یو گ ھروں
میں چود پخود ین چاپا کرتی ہے ۔
” اور اپک دن حب تم پہت بڑے کرکیر ین چاٶ گے یو ت ھر مخ ھے چوسی ہو گی نہ میرا مہمان
ت ھا “
وہ ہلکے سے فہقہ لگا پا ہوا یوال ۔ میسم اور فہد تے ساحبہ اس کی پات بر مشکرا دتے ۔ فہد تے
میسم کی پلے پازی کی اپتی نعرنف کی کہ سا متے بی ٹ ھا سخص بر نقین ہو گ نا کہ اپک دن وہ
فومی پٹم کا پہیرین کرکیر ہو گا ۔
میسم کے ک ندھے بر ہاتھ رکھ کر مج یت سے گہری پات کہہ گ نا ت ھا وہ سخص ۔ میسم تے
ک ندھے بر ر کھے اس کے ہاتھ کو ا تپے ہاتھ میں ت ھاما
مانسم تے گہری سانس لیتے ہوۓ اس سخص کے ر کسے کی طرف دپک ھا۔ جس بر وہ چوش
سے سر ہال گ نا ۔ ت ھر اچاپک اپگشت انگلی ا تپے سر کے پاس کرتے ہوۓ رکا ۔
” اپک سرط بر “
یوڑھے سخص تے بر شوچ اپداز میں اپک آبرٶ چڑھاپا ۔ وہ دویوں ک ندھوں بر ا تپے پ نگ ل نکا
رہے تھے ۔
” خی یولیں “
میسم تے مشکراہٹ کا پ نادلہ ک نا۔ اب وہ سخص آگے چا رہا ت ھا اور میسم اور فہد اس کے
پیخ ھے چلتے ہوۓ ر کسے پک پہیچے۔
” کرانہ پہیں لوں گا میں تم حب کرکیر ین چاٶ یو آ کر ا نسے ہی اپک چاۓ کا کپ پال د پنا
“
” م نظور ہے “
فہد اور میسم تے مشکرا کر اپک دوسرے کی طرف دپک ھا ۔ ر کسے میں بیٹ ھے اور رکشہ بیش نل
کرکٹ اک نڈمی کی طرف رواں دواں ت ھا ۔
کخھ دبر میں ہی رکشہ بیش نل کرکٹ اک نڈمی الہور کے سا متے ک ھڑا ت ھا میسم عمارت بر نظریں
چماۓ سر پاہر نکال پا ہوا ر کسے سے ابرا ۔ اپک گہری سانس لی اور آسمان کی طرف دپک ھا ۔
پیجاب کرکٹ یورڈ تے پاکش نان سیر ل نگ میں الہور قلندر کی پٹم کے لتے اپک اور ملنان کی
پٹم کے لتے دو تپے کھالڑی سلنکٹ کرتے تھے جس کے لتے آج آڈنشن کا دوسرا دن ت ھا
۔
اور وہ اسی آڈنشن میں اپتی قسمت آزماتے آپا ت ھا کل برین میں بیٹ ھتے ہی اپہوں تے سر ابرار
کو پ نا دپا ت ھا کہ وہ پہلے آڈنشن کے وفت پک الہور پہیں پہیچ پاٸیں گے اپہوں تے ا تپے
ابرو روشوخ کے ذر نعے میسم کا پام لشٹ میں داچل کروا دپا ت ھا گو کہ وہ اب ملنان ہوتے
تھے ل نکن پیجاب کرکٹ یورڈ میں موچود اپک کوچ کے ساتھ ان کی گہری سالم دعا ت ھی
۔
میسم عمارت کو گ ھور رہا ت ھا حب غفب سے فہد کی آواز س ناٸ دی چو اس ادھیڑ عمر سخص
سے اس کا پام یوچھ رہا ت ھا ۔ اچاپک اسے ت ھی عج یب سا لگا کہ وہ کل سے اس کے ساتھ
تھے اور دویوں ات ھیں نس پاپا خی کہہ کر مجاطب کرتے رہے پام یوچ ھنا دویوں کو پاد پہیں
رہا ت ھا ۔
” ع ندالط نف “
ع ندالط نف تے مشکرا کر مج یت سے میسم کی طرف دپک ھتے ہوۓ اپ نا پام پ ناپا میسم تے اخی نار
آگے بڑھا اور ان سے نعل گیر ہو گ نا ۔
” پاپا خی وعدہ ہے آپ سے اگر فومی پٹم میں سلنکٹ ہوا یو ملتے آٶں گا اپک دن “
ت
میسم تے الگ ہو کر چزب کے عالم لب ھیجتے آپک ھوں میں سا متے ک ھڑے سخص کے لتے
تے پ ناہ غزت ت ھی ع ندالط نف تے سر کو اپ نات میں چ ٹیش دی اور مشکرا دپا ۔
” چاۓ کا کپ پالتے “
میسم تے ہاتھ کو سر پک لے چا کر سکرنہ ادا ک نا اور دویوں تے اک نڈمی کی طرف قدم بڑھا
دتے ۔
لمتی داچلی راہداری سے آگے آ کر مجنلف سیز گ ھاس میں ڈ ھکے م ندان تھے جن میں سے
سرخ ابی ٹوں کی راہداری گزر کر سا متے بڑی سی سرخ ابی ٹوں کی پ تی عمارت ت ھی ۔ جس بر
بڑے سے س نارے بر پاکش نان اور یپچے کرکٹ یورڈ س نہری چروف میں ات ھرا ہوا ت ھا خیسے ہی وہ
گ
تیروتی دروازے سے اپدر داچل ہوۓ یو وہاں کی گہما ہمی آڈنشن کا پبہ دے رہی ت ھی ۔
م ندان راہدارپاں لڑکوں سے ت ھری بڑی ت ھیں انشا لگ رہا ت ھا ان بین تپے کرکٹ کھالڑی کی
سلنکشن کے لتے یورا پاکش نان امڈ آپا ہو ۔
وہ چو ر کسے سے ابرتے پک پہت بر ام ند ت ھا پہاں ا تپے لوگوں کو دپکھ کر اپ نا اعٹماد ک ھو گ نا
۔ پجارگی سے فہد کی طرف دپکھ کر گردن نفی میں ہال دی ۔ فہد تے زور سے ک ندھے بر ت ھنکی
خ م ش یھ ت
دی اور لب یچ کر م کراتے ہوۓ گردن کو اپ نات یں یش دی ۔
سب سے پہلے اپہیں مین یورڈ بر لگی لشٹ میں سے اپ نا پام اور آڈنشن نمیر دپک ھنا ت ھا یورڈ بر
سلنکشن کے نمام اصول و صوانط ت ھی پچربر تھے ۔
ہر قرپجااٸز چو پاکش نان ل نگ کی مجنلف پٹمز کو س نانسر کر رہی ت ھیں ہر اپک کو یوپل پاپچ شو
اپک کھالڑیوں میں سے شولہ کھالڑی ات ھاتے تھے ۔ جن میں صرف پاکش نان کے کھالڑی
ن
سامل پہیں تھے پلکہ اتیربیش نل کھالڑی ت ھی ت ھی ۔ جن کو مجنلف اقشام میں قشٹم ک نا گ نا
ت ھا ۔ گولڈ سلور پالبیٹم انمرچ نگ اور س نلٹمییری ۔
اب الہور قلندر پٹم میں اپک اور ملنان پٹم کے لتے دو س نلمییری پ ٹو کھالڑی کی سل نکشن ت ھی
جس کے لتے بین چوش قسمت مجنلف اصولوں بر یورے ابرتے ہوۓ مییخب کتے چاتے
تھے ۔
جن میں عمر ،اوسط ،سیراٸپک ر پٹ ،اور آل روپڈر خیسے کخھ ک نگیری بر یورا ابرتے ہوۓ
کھالڑی کو مییخب ک نا چاپا ت ھا ۔ میسم کا پام لشٹ میں موچود ت ھا ۔ اس سارے غرصے میں
پہلی دفعہ میسم کے ل ٹوں بر ت ھریور مشکراہٹ ات ھری ۔ ساتھ ک ھڑا فہد ت ھی جہک ات ھا اور اچ ھل
کر میسم کو گلے لگاپا ۔
ا تپے کاغزات چمع کرواتے کے نعد وہ ھال میں پہیچ چکے تھے جہاں پاری پاری نمام
کھالڑیوں کو بیشٹ ک نا چاپا ت ھا ۔ پاپچ گ ھیتے کے اپ نطار کے نعد میسم کی پاری آٸ ت ھی ۔
اپتی کرسی سے ات ھتے ہی اپک ملچے کے لتے یو میسم کی پاپگوں میں ہلکی سی لرزش آٸ ۔
ل نکن اگلے ہی ملچے وہ گہری سانس چارج کرپا ا تپے اپدر کا نمام چوف پاہر نکال خکا ت ھا ۔
ف ٹیس بیشٹ پاس کر تے کے نعد اسے اپک کٹ دی گٸ جس میں موچود نمام حیزیں
ز پب ین کرتے کے نعد اسے اپک م ندان میں پال پکڑا کر ت ھیج دپا گ نا ابرار تے اس کے
قارم میں پلے پاز کے آنشن بر درس نگی کا نشان لگاپا ت ھا۔
پیجاب کرکٹ یورڈ حیرمین عادل غزبز پہت سے ستیٸر اور راٸپابرڈ کھالڑی بیٹ ھے ہوۓ
تھے ۔ جن میں پاکش نان سیر ل نگ کے ملنان اور الہور کے چتے ہوۓ کی نان ت ھی سامل تھے
۔
دھڑ کتے دل کے ساتھ گہری گہری سانس لی نا ہ نلمٹ کو سر بر درست کرپا ہات ھوں کے
ک
دس نایوں کو ھییچ کر اوبر کرپا اب وہ وک ٹوں کےپلکل سا متے پلے کو زمین بر رکھ کر یوزنشن
لے خکا ت ھا ۔
گی ند پاز اب دوڑپا ہوا اس کی طرف آ رہا ت ھا ۔ ما تھے بر نسیتے کے نمودار ہوتے کا اجشاس ہوا
گی ند پاز کا ہاتھ گ ھوم رہا ت ھا بر میسم کی نظر اس کی انگل ٹوں کی چ ٹیش بر ت ھی جن میں وہ
گی ند کو ت ھامے ہوۓ ت ھا اگلے ہی ملچے گی ند گی ند پاز کے ہاتھ سے نکل کر گولی کی سی رف نار
سے اس کی طرف آ رہی ت ھی ۔
پ
میسم تے آپکھوں کو سکوڑ کر گ ھومتی گی ند کو دپک ھا گی ند کے پاس ہیجتے پک وہ پلے کو
درست یوزنشن بر ال کر پال گ ھما خکا ت ھا ۔ ت ھک کی آواز ت ھی مطلب گی ند پلے سے پکرا چکی
ت ھی میسم کا گ ھوم نا جسم رکا پازو پلے سم یت یپچے کی طرف آۓ نظریں گی ند بر چمی ت ھیں
سارے کٹمرے گی ند کی طرف گ ھوم گتے تھے گی ند اڑتی ہوٸ گی ند پاز کے سر کو ت ھالپگتی
پاٶپڈری الٸن سے آگے چا کر گری ت ھی ۔
سلنکشن پٹم کی گردبیں اپک دوسرے کی طرف مڑتے لگی ت ھیں ۔میسم تے گہری سانس
لی اور آسمان کی طرف دپک ھا ۔وفت اور قسمت اس کا ساتھ دے چکی ت ھی ۔
**********
دویوں ہات ھوں کو انگل ٹوں کو اپک دوسرے میں پ ٹوست کرتے وہ نظریں چرا کر گوپا ہوٸ۔
اچمد م ناں تے ت ھوڑا سا اوبر ات ھتے ہوۓ اس کے چ ھکے سر کو دپک ھا ۔
ہ
” ممم میرے پاس آٶ ادھر “
ا تپے نسیر بر ا تپے سا متے چگہ بر ہاتھ مارتے ہوۓ وہ برمی سے اسے دپکھ رہے تھے ۔ اد پبہ
ب
سر بر دو پبہ درست کرتی ریوٹ کی طرح چل کر اب ان کے پلکل سا متے یٹھی چکی ت ھی ۔
سف ند رپگ کے چوڑے میں گالتی جہرہ بین دن میں ہی زردی ماٸل ہو چال ت ھا پلکوں کے
پلکل پیخ ھے پ ٹوتے شوخے ہوۓ سرخ ہو رہے تھے ہر دم پ نک ھڑی کی نمی لتے ل ٹوں بر تیڑی
کی پہہ صاف واضح ت ھی اد پبہ کی نظریں اب سف ند چادر بر چمی ت ھیں ۔
نفاہت سے کابیتی آواز کایوں میں بڑی اور یوڑھے ہاتھ کی برماہٹ سر بر مجسوس ہوٸ
م ل س ک ھ ک چل پ
پ
اد پبہ تے تی آ یں پ ند یں ا ک کون سا ان کے ہاتھ کے مس سے سر یں
سراٸپت کر رہا ت ھا۔ وہ سرخ گالب کی بی ٹوں سے لدی چ ھت کے پیچ میں ک ھڑا مشکرا رہا
ت ھا سف ند قم نض سلوار پہتے آپکھوں میں تے پ ناہ مج یت سموۓ گہری دل میں ابرتی نظروں
پ پ
سے دپک ھنا ہوا دل میں ت ھر سے بیس ات ھی اد پبہ تے تم آ ک ھیں ک ھولیں چلتی آ ک ھیں اب
ت ھنڈی سی ہو گٸ ت ھیں کویوں میں پاتی آ چاتے کا اجشاس ت ھا ۔
کابیتی سی مدھم آواز ت ھر سے کایوں کے بردوں سے پکراٸ اد پبہ تے بڑپ کر سر اوبر ات ھاپا
اچمد م ناں کی آواز ہی پہیں سر لب ہاتھ سب کخھ لرز رہا ت ھا دھیرے دھیرے ۔ پاٸ پاس
کے نعد سے وہ ک نک ناہٹ کا سکار ہو چکے تھے ۔
” پاپا ایو آ پ ک ٹوں ہو رہے ہیں سرم ندہ انشا مت کہیں پلیز “
چلدی سے سر بر ر کھے ان کے ہاتھ کو ات ھا کر اپتی دویوں ہٹ ھنلوں کے درم نان میں دپاپا ۔
یوڑھے سے چ ھری دار ہات ھوں کی چلد ہڈیوں کو چ ھوڑے ہوۓ ت ھی ۔
” شوچا ت ھا تم تے میرا چواب یورا ک نا ہے اور پہیں نمہیں ا تپے پاس رک ھوں گا ہمیشہ اپتی
نظروں کے سا متے “
پ
اچمد م ناں کی یوڑھی چ ھری دار آپک ھوں میں نمی چ ھلکتے لگی ت ھی ۔ غی نک کے پیخ ھے سے آ ک ھیں
سف ندی میں سرخ دھاریں واضح کر رہی ت ھیں ۔ جن کے اوبر نمی چمک رہی ت ھی
اد پبہ تے چ ھک کر ان کے ہاتھ بر یوسہ دپا اور ا تپے گال سے لگا ل نا ۔ چ نکہ وہ ل ٹوں کو
پاہر نکالے پخوں کی طرح روہانسی سکل پ نا کردپکھ رہے تھے ۔
” میں پلکل ت ھنک ہوں آپ سب تے رسبہ ک نا ہوا ت ھا میں مان گٸ ت ھی اب وہ یوڑ گ نا
ہے یو اس میں میرا اور آپ کا ک نا فصور “
اد پبہ تے ان کے گال بر پہتے آنسو اپتی انگلی کی یوروں سے صاف کتے ۔ وہ پلکوں کو
چ ھ نکاتے آنسوٶں کو صنط کر گتے
” ساپاش ا نسے ہی پہادر رہ نا ہے اور آچری سال ہے میری بی تی کا یوپ ٹورستی چاٶ کل سے “
اب وہ ا تپے ہات ھوں سے ت ھی ا تپے گال صاف کر رہے تھے چ نکہ اد پبہ لب ت ھییچے زبردستی
کی مشکراہٹ جہرے بر سجاۓ زور زور سے پخوں کی طرح اپ نات میں سر ہال رہی ت ھی ۔
” خی پاپا ایو“
مدھم سی آواز میں کہ تی وہ اچمد م ناں کے سیتے بر سر رکھ چکی ت ھی ۔ اوتی شوتیر سے ان کے
گرم سیتے کی ت ھاپ تے خیسے گال چال دپا ۔وہ اد پبہ کے سر بر ہاتھ ت ھیر رہے تھے اور
سا متے لگی کرسی بر بیٹ ھے میسم تے دھیرے سے آپکھ کا کوپا دپاپا ۔
پ
اد پبہ تے زور سے آ ک ھیں پ ند کیں بر م نظر عاٸب نہ ہوا وہ طالم اب مشکراہٹ دپا رہا ت ھا
۔۔۔
************
بیش نل کرکٹ اک نڈمی کی سرخ ابی ٹوں والی عمارت کے اپدر داچلی دروازے سے ہو کر
رنش ٹیشن کی اپک طرف سیز رپگ کے وسنع یونس یورڈ کے گرد چ ھمگ نا ڈالے پہت سے لڑکوں
کے سروں میں سے اپک سر ما تھے بر پال پک ھیرے میسم کا سر ت ھا پجال لب داپ ٹوں میں دپا
پ
ت ھا اور لمتی پلکوں سے ڈھکی آ ک ھیں ا پتے چخم سے زپادہ بڑی ہورہی ت ھیں پار پار ک ندھے کو
دھکا ملتے بر وہ پیخ ھے کو ہوپا اور ت ھر چود کو اس دھکم پ نل میں آگے کرپا بر نظریں ہ ٹوز سا متے
سف ند رپگ کی کم ٹوبراٸز لشٹ بر چمی ت ھیں ۔
پجاس کھالڑی چتے گتے تھے جن کا اب آچری اپک مفاپلہ ہوپا ت ھا ۔ اک نڈمی کی گراٶپڈ
میں ہی ساری رات نسر کرتے کے نعد اب وہ صیح دس چپے لگتے والی لشٹ کے آگے
ک ھڑے تھے ۔ میسم کی نظریں تیزی سے لشٹ بر موچود پاموں بر سے گزر رہی ت ھیں اور لب
آہشبہ آہشبہ پام دھرا رہے تھے ۔ آج بین دن نعد لشٹ لگی ت ھی
ارسالن اسلم
اچمد سکور
امجد پٹ
مہب سلمان
سہزاد وچ ند
پ
افققف کوٸ بیسری دفعہ وہ آ ک ھیں ت ھاڑے لشٹ بر لم ناٸ کے رخ پاٸپ کتے ہوۓ
پام دپکھ رہا ت ھا ۔ سر ت ھیتے کو ت ھا ۔ کل رات سے کخھ پہیں ک ھاپا ت ھا جشک ل ٹوں بر تے
خی تی سے انگلی ت ھیری ۔ دل کی ڈب ڈب کی آواز کے شور تے کایوں کی لو پک گرم کر
رک ھی ت ھی ۔
” مخ ھے لگ نا پہیں ہے پام “
دھیرے سے فہد کے کان میں سرگوسی کی آواز ا نسے ت ھی خیسے کسی ک ٹویں سے برآمد ہوٸ
ہو ۔
” پیخ ھے یو ہو نہ پار ا نسے ہی پہیں ہے نہ ک نا پات ہوٸ بین کی بین پال پاٶپڈری سے پاہر
گٸ ت ھیں “
فہد تے آگے ہو کر اسے ت ھوڑا پیخ ھے ک نا اور اب وہ چود پلکل اسی یوزنشن میں ک ھڑا لشٹ بر
نظریں دوڑا رہا ت ھا جس میں ت ھوڑی دبر پہلے میسم ت ھا ۔
میسم کی گ ھتی سی آواز ت ھر سے فہد کے کایوں سے پکراٸ ت ھی ۔ وہ بری طرح مایوس ہو خکا
ت ھا سر چکراتے لگا ت ھا انشا لگ رہا ت ھا ات ھی قے آ چاۓ گی کخھ دبر کے نعد فہد تے ت ھی
گردن مایوسی سے موڑی ت ھی ۔ جہرہ زرد ہو رہا ت ھا اور اب وہ میسم سے نظریں چرا رہا ت ھا ۔
” پہیں ہے “
گہری دکھ ت ھری آہ ت ھرتے ہوۓ وہ پیخ ھے ہوا میسم اب ت ھیڑ میں سے نکل کر اپک طرف ک ھڑا
ت ھا ۔ کمر بر ہا تھے دھرے اس مشاقر کی طرح جس کی آچری برین ت ھی چ ھوٹ گٸ ہو اور
اس کے نعد کوٸ برین نہ آتی ہو ۔
پاس بڑے بییچ بر چود کو سیٹ ھا لتے ہوۓ وہ گرتے کے سے اپداز میں بیٹ ھا ۔ جہرے کو
دویوں ہات ھوں سے ڈھاپپ کر سر کو یپچے چ ھکا دپا ۔ پاس ک ھڑے فہد تے دھیرے سے
ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔تے خیتی سے لب چ نا پا وہ اردگرد دپکھ رہا ت ھا پہت سے لڑکے میسم کی
طرح ہی مایوس سے ک ھڑے تھے ل نکن کسی کی ت ھی چالت میسم خیسی پہیں ت ھی ک ٹوپکہ ان
میں سے کوٸ گ ھر سے ت ھاگ کر پہیں آپا ت ھا کوٸ ت ھی اپتی مج یت کو پاتے کی میزل کو
پلکل آچری قدم بر چ ھوڑ کر پہیں آپا ت ھا ۔ک ٹوپکہ ان میں سے کوٸ ت ھی دس لوگوں کی مج یت
کو روپد کر پہیں آپا ت ھا اور کخھ ا نسے تھے چو جہک رہے تھے ۔ اپ ٹوں کے گلے لگ رہے تھے
۔ فہد تے گہری سانس لی ۔ میسم کی نکل نف اسے چود ت ھی مجسوس ہو رہی ت ھی پ نا بیسوں پ نا
ک ھاتے کے بین رایوں کی تے سکوتی وہ ت ھی ساتھ ہی چ ھنل خکا ت ھا ۔ اسے مشکراتے
ہوۓ سارے لوگ دسمن لگ رہے تھے اور بییچ بر دیوں ہ ٹ ھنلوں میں جہرہ دتے بیٹ ھا اپ نا
پار نکل نف دے رہا ت ھا ۔ دل کر رہا ت ھا پجس پجس کر دے سب ۔ وہ الخ ھا سا ک ھڑا ارد گرد
دپکھ رہا ت ھا سب چٹم ت ھا اور اب میسم کو سیٹ ھال نا پہت مشکل لگ رہا ت ھا ۔
رنسیشن سے آگے مجنلف آقس کمروں کی راہداری ت ھی بین س ناہ ت ھری بیس شوٹ میں
مل ٹوس آدمی اس راہداری سے ہوتے ہوۓ یونس یورڈ کی طرف بڑھ رہے تھے بی ٹوں آنس
میں گف نگو کرتے ہوۓ ہاتھ میں پکڑے سف ند کاغز کو دپک ھتے ہوۓ آگے بڑھ رہے تھے ۔
یونس یورڈ کے قرپب آ کر اب وہ لڑکوں کو پیخ ھے ہوتے کا کہہ رہے تھے وہ ساٸد اس
لشٹ کو ت ھی یونس یورڈ بر لگاتے آۓ تھے ۔
” نہ نہ کونسی لشٹ ہے اب “
فہد تے ساتھ ک ھڑے لڑکے سے یوچ ھا اس تے ل ٹوں کو پاہر نکال کر ک ندھے اخکاۓ
مطلب وہ ت ھی پہیں چاپ نا ت ھا چ نکہ داٸیں طرف سے آواز ات ھری ۔
اپک لڑکے تے انگلی کا اسارہ یونس یورڈ کی طرف ک نا ۔ اوہ فہد تے اب پہلے والی لشٹ کی
سرچ ٹوں بر دھ نان دپا جس بر پہلے اپک دفعہ ت ھی دویوں میں سے کسی تے دھ نان پہیں دپا
ت ھا ۔ جہاں تھوڑے سے بڑے چروف میں لک ھا ت ھا کہ اب ملنان کے دو کھالڑی ان پجاس
لوگوں میں سے چتے چاٸیں گے مطلب نہ سارے لوگ اب صرف ملنان کے لتے الگ
سے مفا پلے میں چاٸیں گے ۔اور الہور کے اپک س نلٹمییری کھالڑی کے لتے پچیس لڑکے
چتے گتے تھے جن کا الگ سے مفاپلہ ت ھا ۔ بی ٹوں آدمی لشٹ کو یونس یورڈ بر لگا چکے تھے ۔
ان کے نکلتے ہی ت ھر سے لڑکے مک ھ ٹوں کی طرح یونس یورڈ سے چ نکتے لگے تھے جن میں سے
اپک اب فہد ت ھی ت ھا ۔ الہور کے چتے گتے پچیس لڑکوں کی لشٹ میں سب سے اوبر میسم
پ
مراد کا پام ت ھا ۔ فہد کا مبہ اور آ ک ھیں کھل گٸ ت ھیں ۔ چوسی سے آواز پہیں نکل رہی
ت ھی ۔
” ک نا ہے تھٸ پیخ ھے ہو “
ساتھ ک ھڑے لڑکے کےک ندھے کو برچوش اپداز میں پیخ ھے کرپا ہوا وہ ت ھوڑا سا آگے ہوا اور
ت
ہاتھ کا اسارہ میسم کی طرف ک نا چو سر چ ھکاۓ مایوس بیٹ ھا ت ھا ۔فہد تے لب ھییچ کر ہاتھ کو
یپچے ک نا اور مبہ کے گرد ہاتھ کو گ ھوما کر آواز د تپے کے اپداز میں رک ھا ۔
وہ چیجا میسم کا چ ھکا سر اپک چ ھنکے سے اوبر ہوا حیرت سے فہد کی طرف دپک ھا جس تے
برچوش اپداز میں زور زور سے سر کو اپ نات میں ہالپا ۔ فہد کی آپکھوں کی چمک ہی پ نا رہی ت ھی
کہ وہ سچ یول رہا ھے میسم ت ھا گتے کے سے اپداز میں بییچ سے اتھ کر آپا ۔ اور پاگلوں کی
طرح لڑکوں کی ت ھیڑ میں سے گزرپا ہوا یونس یورڈ بر نظریں دوڑا پا فہد پک پہیجا ۔
فہد تے میسم کے جہرے کو پکڑ کر گ ھماپا اور رخ الہور قلندر کے چتے گتے پچیس کھالڑیوں
والی لشٹ کی طرف ک نا۔ فہد کی پاچ ھیں کھلی ہوٸ ت ھیں ۔
” پیخ ھے ہو ت ھوڑا “
میسم تے ت ھیسے ہوۓ ک ندھے کو پیخ ھے دھک نلتے ہوۓ آگے بڑھ کر لشٹ بر نظر ڈالی ۔اور
ت ھر ساکن ہو گ نا ۔ دل تیزی سے دھڑ کتے لگا ت ھا اس کا پام لشٹ کی پاپ بر ت ھا ۔ دل
اپتی رف نار سے دھڑک رہا ت ھا کہ اس کا جہرہ اسکے گال گرم ہو گتے تھے ۔
ک
میسم مراد اس کا پام الہور قلندر کی قاٸپل م ٹی ٹیشن کی لشٹ میں سب سے اوبر چمک رہا
پ ھ ت ل ت ھ ک پ
ک
ت ھا ۔ آ یں ٹوں بر م سی ہوتے گی یں ۔ سر آت ھا کر آسمان کی طرف د ک ھا ۔
” اتے پار “
فہد اچ ھل کر پیخ ھے سے اوبر چڑھا یو خیسے اسے ہوش آپا ۔ فہد پاگلوں کی طرح اس کی نشت بر
چڑھا پیخ ھے سے اس کی گردن کو موڑ کر اسے یوسے دے رہا ت ھا ۔ میسم کے داپت پاہر تھے
بر آپکھوں میں نمی ت ھی ۔
ت ھر دویوں پاگلوں کی طرح اپک دوسرے کے گلے لگے فہقے لگا رہے تھے۔
***********
” تم لوگ چاٶ “
اد پبہ تے سیجندہ سے لہچے میں کہہ کر سر چلدی سے ک ناب بر ت ھر سے چ ھکا ل نا م نادہ وہ
اس سے زبردستی کرے ۔ آچری ل نکچر قارغ ت ھا یو چماغت کے کخھ دوسٹوں تے مل کر
روسان کے گ ھر چاتے کا م نصونہ پ ناپا اس کی والدہ کی نعزپت کے لتے ۔ سب لوگ کمرہ
چماغت سے پاہر نکل چکے تھے ل نکن اد پبہ ات ھی ت ھی اپتی نسشت بر ہی براچمان ت ھی ۔
” اد پبہ !!!!“
ب
ماہ رخ چیجتے کے سے اپداز میں کہتے ہوۓ اس کے برابر رک ھی کرسی بر یٹھی ۔ ک نایوں کو
زور سے کرسی کے پازو بر مارا بر اد پبہ ت ھر ت ھی م ٹوجہ پہیں ہوٸ اد پبہ تے چود کو ت ھریور
طر نقے سے مصروف طاہر کرتے کے لتے اب قلم ات ھا لی ت ھی ۔ ماہ رخ تے پاک ت ھالپا اور
داپت بیس کر دپک ھا
” تم ک نا اب روگ لگا لو گی “
ماہ رخ تے ما تھے بر پل ڈالے ڈ بیتے کے اپداز میں کہا اور ا تپے گردن پک آتے پالوں کو
کایوں کے پیخ ھے کرتے ہوۓ خفگی سے جہرہ موڑ کر سیتے بر ہاتھ پاپدھے بر اد پبہ بر اس
کی خفگی کا ت ھی کوٸ ابر پہیں ہوا وہ سیجندگی سے اب کخھ لک ھتے میں مصروف ت ھی ۔ماہ رخ
تے نظریں ت ھیر کر اس کی طرف دپک ھا ت ھر گہری سانس چارج کی ۔ اور س ندھی ہوٸ
” تم دپ نا کی پہلی لڑکی یو پہیں پہت ساری لڑک ٹوں کے ر ستے یوٹ چاتے ہیں لڑکے دھوکا
دے کر چاتے ہیں سادپاں اور م نگی ناں چٹم ہو چاتی ہیں “
ماہ رخ ہات ھوں کو ہوا میں گ ھماتی اسے سمخ ھا رہی ت ھی ۔ لہچے میں پال کی سجتی ت ھی ۔
” اور جن کا دل یوٹ چا پا ہے “
اد پبہ تے اپک دم سے جہرہ اوبر ات ھاپا اور ماہ رخ کی آپک ھوں میں چ ھانکا ۔ماہ رخ کا کھال مبہ
اپک دم سے پ ند ہوا ۔
” نمہیں ک نا لگ نا ہے میں اسے ت ھالتے کی کوشش پہیں کرتی میں پارمل ہوتے کی
کوشش پہیں کرتی “
اد پبہ تے پجارگی سے ماہ رخ کی طرف دپک ھا چو اب دم سادھے اسے شن رہی ت ھی پہی یو وہ
چاہتی ت ھی وہ زپادہ سے زپادہ اپدر کے ع نار کو پاہر نکالے ۔ حپ نہ رہے گم صم سی اپدر ہی
اپدر گھلتی ہوٸ ۔
ک ندھے اخکا کر روہانسی سی صورت پ ناٸ ۔ ا نسے خیسے وہ چود ت ھی چود سے تےزار ہو چکی ہو ۔
” میرے کمرے میں پ نڈ بر لی نا سیڑھ ٹوں میں راسبہ روکے ہوۓ ۔ تی وی الوپج میں ر نموٹ
پکڑے بیٹ ھا گلی میں کرکٹ ک ھنلنا ہوا رانعہ مماتی کی آپکھوں میں تیرتے پاتی میں مراد
ماموں کے اداس جہرے میں میری امی کی آہوں میں یوپ ٹورستی کے پاہر ک ھڑا ہوا ہر ہر چگہ
ہر ۔۔۔ہر۔۔۔ چگہ “
اد پبہ تے اپک ہی سانس میں چیجتے کے سے اپداز میں کہا ت ھٹ ہی یو بڑی ت ھی وہ ہر کوٸ
اپک ہفتے سے اسے سمخ ھاتے بر پال ت ھا بر اس کے چزپات کوٸ ک ٹوں پہیں سمخھ پا رہا ت ھا
ٰ
اس کے نس میں کخھ ت ھی پہیں ت ھا وہ چان یوچھ کر ل نلی پہیں پتی ت ھی ۔ دل تے جس
رات میسم کے سر بر پاج سجا کر اسے دل کے پخت بر اپ نا مالک پ نا کر بیٹھاپا ت ھا پب سے
ہی سارے اخی نارات ک ھو دتے تھے میسم کے چزپات کی فوج اپتی مضٹوط ت ھی کہ اس کی
سالوں کی نقرت کو اپک رات کی چ نگ میں ہی ڈھیر کرتے کے نعد اس بر قانض ہو چکی
ت ھی اسے یو ہات ھوں میں زپخیریں پہ نا کر ف ند کر دپا گ نا ت ھا وہ یو اسی دن اس کی کییز ین
چکی ت ھی ۔آپک ھوں میں ت ھر سے نمی تیرتے لگی ۔ چلدی سے ماہ رخ سے نظریں چراٸیں چو
اب مشکرا رہی ت ھی ۔
ماہ رخ تے برمی سے کہا اد پبہ تے رخ اس کی طرف موڑا ۔ ت ھوک نگل کر آنسوٶں کو ا پکے
گولے کو نگال ۔
” سب لوگ نم ھاری وجہ سے نم ھاری اداسی کی وجہ سے ا نسے ہیں نمہیں دپکھ دپکھ کر ان کا
دل دک ھنا ہے پلیز چود کو پارمل کرو “
ت
ماہ رخ تے لب ھییچ کر سیجندہ سے لہچے میں کہا جس بر وہ کخھ بر شوچ سے اپداز میں ماہ
پ
رخ کو ک ھتی رہی ت ھر دھیرے سے سر اپ نات میں ہال دپا ۔
***********
چز نقہ کی سانس ت ھولی ہوٸ ت ھی دھپ دھپ کرپا سیڑھ ناں ت ھالپگ نا اوبر چڑھ رہا ت ھا موتے
پ
موتے گال اور تی سرٹ میں ت ھیشا پ یٹ ہل رہا ت ھا بیسری میزل بر ہیجتے ہی وہ تیزی سے
الوپج میں بڑے تی وی کی طرف بڑھا ۔ ار پبہ ساٸد معرب کی نماز کے نعد قارغ ہو کر
کمرے سے پاہر آ رہی ت ھی دو پبہ ات ھی ت ھی سر کے گرد لی نا ہوا ت ھا اور اد پبہ اسیری س ٹی نڈ بر
چ ھکی کیڑے اسیری کر رہی ت ھی چز نقہ کی چالت انسی ت ھی کہ دویوں اس کی طرف م ٹوجہ
ہوتے بر مج ٹور ہو گٸ ت ھیں ۔
وہ گردن ارد گرد گ ھما پا ہوا تی وی کے ر نموٹ کو پالش کر رہا ت ھا اپداز میں انسی عجلت ت ھی
کے ار پبہ تے ساحبہ آگے بڑھی اور صوقے بر بڑے کشن کے یپچے سے تی وی کا ر نموٹ
نکال کر تی وی آن ک نا چز نقہ تے چ ھ یٹ کر ر نموٹ چ ھی نا اور تیزی سے خی نل پد لتے لگا اور
ت ھر اپک چگہ رکا ۔
تی وی میں یپچے پچربر نظر آ رہی ت ھی اور سا متے فطار میں ک ھڑے پہت سے کھالڑیوں میں
میسم ک ھڑا ت ھا ۔
ٓ
”اپڈنشن کا اعاز 12دسمیر کو میجدہ غرب امارات (یو اے ای) میں ہوگا چ نکہ ایوپٹ کے
ب ن ک م م ٓ
ھ
اچری 8یچ پاکش نان یں لے چا یں گے۔“
پیخ ھے اپ نکر کی آواز کی پازگشت ت ھی اور آگے پ نل ٹوبژن کی سکرین بر پاکش نان سیر ل نگ کی
پ
مجنلف پٹمیں دک ھاٸ چارہی ت ھیں۔ بی ٹوں نقوس کی آ ک ھیں اب تی وی بر چمی ت ھیں اد پبہ
کا جہرہ سف ند بڑ رہا ت ھا چ نکہ چز نقہ کے جہرے بر چوسی چ ھلک رہی ت ھی ار پبہ کٹھی تی وی
سکرین کی طرف دپکھ رہی ت ھی اور کٹھی اد پبہ کے جہرے کی طرف۔
”تی انس اپل کی پتی ڈراقی نگ میں ہر پٹم کو ا تپے 10کھالڑیوں کو برقرار رک ھتے کی اچازت
ہوگی ل نکن ان میں سے صرف 2کھالڑی غیر ملکی ہوں گے۔“
سکرین بر اب ت ھر سے الہور پٹم کے کھالڑی دک ھاۓ چا رہے تھے وہ ت ھی ک ھڑا ت ھا سیجندہ سا
پ
جہرہ بڑھی سی سٹو اداس سی آ ک ھیں خیسے ہی کٹمرہ اس بر ت ھہرا اد پبہ کی دھڑکن کی رف نار
پ
تے قایو ہوٸ ۔ لمتی پلکوں والی آ ک ھیں سکیڑے اس تے کٹمرے کی طرف ا نسے دپک ھا کہ
اد پبہ کو لگا اس کو دپکھ رہا ہے
”ل نگ کی نمام پٹمیں ڈرافٹ کے عمل کو عام برپ یب سے کرتے بر م نقق ہیں جس کا
مطلب ہے کہ سب سے پہلے کھالڑی کا اپیجاب کا ف نضلہ کسی چاص برپ یب سے پہیں
ہوگا چ نکہ پٹموں میں مفامی کھالڑیوں کی سرح کا ف نضلہ ات ھی پہیں ہوا۔“
اپ نکر ا تپے مخصوص اپداز میں رواتی میں یول رہی ت ھی ۔ میسم کے ساتھ ک ھڑے لڑکے تے
ساٸد اس کے کان میں کخھ کہا میسم تے ساحبہ مشکراپا۔
” پ ند کرو چز نقہ “
اد پبہ تے پاک ت ھال کر تیز تیز سانس لیتے ہوۓ اوپچی آواز سے کہا ۔ اس کی مشکراہٹ بر
دل میں بیس ات ھی چز نقہ چو برچوش سا ک ھڑا ت ھا اپک دم سے مڑا ۔ ر نموٹ صوقے بر ت ھی نکا ۔
وہ سر کے پاس چ نکی پجا پا تیزی سے ز تپے کی طرف ت ھاگا ۔ ار پبہ تے آگے بڑھ کر چلدی
سے تی وی کو پ ند ک نا ۔ چور سی نظر اد پبہ بر ڈالی اد پبہ ہاتھ میں اسیری سدہ قم نض پکڑے
وہیں ک ھڑی ت ھی ۔
طالم مشکرا دپا کیسے مشکرا دپا دل کو خیسے کوٸ مٹھی میں دیوچ رہا ت ھا ۔خیسے خیسے گرفت بڑھ
رہی ت ھی آپکھوں کا م نظر دھ ندلہ ہو رہا ت ھا ۔
ار پبہ تے پاس آ کر اس کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا یو وہ خیسے ہوش میں آٸ گڑ بڑا کر ارد گرد
پالچواز نظریں گ ھماٸیں نمشکل آپکھوں سے چ ھلک چاتے والے آنسوٶں کو روکا
” پہیں “
مدھم سی آواز میں کہتی تیزی سے ا پتے کمرے کی طرف بڑھی۔ دھماکے سے دروازہ پ ند ہوا
پ
اور ار پبہ تے زور سے آ ک ھیں پ ند کیں
ک ٹوپکر ل ِ
ب قاصد سے ،پ نعام ادا ہوپا
ه
چ یت کی ہوس واغظ ،تے چا ہے کہ عاشق ہوں
ف
ہے صلح عدو تے خط ،ت ھی چ نگ علط ہمی
ُ
دیواتے کے ہاتھ آپا کب پ ن ِد ف نا اس کا
آج دو ہفتے کے نعد یو دل کخھ کخھ سیٹ ھال ت ھا ۔ اور اب اس کی چ ھلک اسے زپخیروں میں
چکڑے گھش ٹیتے ہوۓ ت ھر سے اسی پ ند کوت ھڑی میں لے آٸ ت ھی جس کی ہر دیوار بر وہ
نقش ت ھا کہیں مشکرا پا کہیں فہقے لگا پا کہیں گہری نظروں کو اس بر گاڑپا ۔ دھڑ دھڑ دھڑا
دھڑ دروازہ پ یٹ ڈاال آہ و نکا ت ھی پہیں شن رہا ت ھا کوٸ درپان۔
آج ت ھر ساری رات پکبہ ت ھ نگا ت ھا۔ اور اس کی وہی چ ھلک بڑے بڑے یوسیروں کی سکل
میں ہر طرف معلق ہوۓ نظر آ رہی ت ھی ۔ وہ مشکرا رہا ت ھا ۔
*********
” مخ ھے چاپا ہو گا اب “
آہ وہ یو چا رہا ت ھا اپ ٹوں کے پاس ۔ دل میں عج یب سی بڑپ ات ھی سب پاد آ رہے تھے اور
سب سے زپادہ یو وہ پاد آتی ت ھی جسے روز پہاتے سے دپک ھتے اوبر چا پا ت ھا۔ تے قرار دل کو
سکون آ چا پا ت ھا اس کی مدھر سی آواز کایوں میں بڑتی یو دل گدگدا چا پا ت ھا برم سا سف ند جہرہ
جسے گہری نظریں دپکھ کر سیر کرتی ت ھیں چود کو اور ت ھر یپچے کمرے میں آ کر پکبہ اس میں
ت
ڈھل چا پا ت ھا جسے ساتھ لگا کر ھییچ ڈال نا ت ھا وہ ۔ رانعہ کی مج یت ان کے ھاتھ کے تپے
ک ھاتے چز نقہ سے لڑاٸ ار پبہ سے سراربیں چواد چاچو کے ساتھ گپ سپ دادا ایو کی ڈاپٹ
ان کی مج یت پلکوں کو چ ھ نکا کر نمی کو چ ھلکتے سے روکا اور فہد کی طرف دپک ھا چو اس کے
جہرے بر چ ھلکتے دکھ کو دپکھ کر اداس سا ک ھڑا ت ھا ۔
میسم تے فہد کےجہرے کو ا تپے دویوں ہات ھوں میں لے کر مج یت سے کہا۔ وہ قاٸپل
مفاپلہ بڑے ساپدار اپداز میں چ یت کر الہور قلندر کی پٹم کا س نلٹمیری کھالڑی ین خکا ت ھا
۔فہد کو پہاں آۓ بین ہفتے سے زپادہ کا غرصہ ہو چال ت ھا اس دوران وہ ا تپے گ ھر والوں
سے رانطہ کر کے ان سے معافی ماپگ خکا ت ھا اور وانس آتے کا وعدہ کر خکا ت ھا ۔ وہ ا تپے
والدین کا اکلوپا سٹوت ت ھا ان کو یو معاف کرپا ہی ت ھا ۔ اصل مسٸلہ یو میسم کے گ ھر
والوں کا ت ھا۔
میسم کی اداسی ہ ٹوز ت ھی ۔ جہرہ بژمردہ سا ت ھا رایوں کو نہ شوتے کی وجہ سے آپک ھوں کے
چلقے واضح تھے ۔
” دپکھ تم کہ نا سارا فصور اسکا ت ھا میرا کوٸ فصور پہیں مخ ھے زبردستی ا تپے ساتھ گھسیٹ ل نا
ت ھا اس تے “
میسم تے فہد کو دویوں ک ندھوں سے ت ھام کر چوش سے کہا فہد کا چاپدار فہقہ گوپجا ۔
فہد تے ت ھریور اپداز میں مشکراتے ہوۓ کہا ۔ اور میسم اسے ت ھر سے گلے لگا خکا ت ھا ۔
*********
” آپ کے بیتے کی وجہ سے ہوا ہے نہ سب اسی تے بی ناں بڑھاٸ ہوں گی میرے ت ھییچے
کو “
غزرا تے ما تھے بر پل ڈال کر آگے ہوتے ہوۓ کہا۔ فہد تے کخھ یو لتے کے لتے مبہ ک ھوال
ت ھا کہ فہد کے والد آگے ہوۓ
بڑے پخمل سے کہتے ہوۓ وہ غزرا کے غصے کو ت ھنڈا کر رہے تھے ۔ بر وہ یو خیسے پٹ ھری
ک ھڑی ت ھیں ۔ چوپخوار نظروں سے فہد کو گ ھور رہی ت ھیں ۔
ار پبہ ہابیتی ہوٸ دروازے بر آٸ ۔ چز نقہ تے آ کر اسے پ ناپا ت ھا کہ کل رات فہد گ ھر آ گ نا
ہے اور غزرا ت ھٹھو ان کے گ ھر پہیچ چکی ہیں ۔
چجل سا ہو کر گردن ک ھجاتے ہوۓ چواب دپا اور نظریں چ ھکا لیں ۔ ار پبہ چلدی سے آگے
بڑھی ۔
” امی چلیں پات سمخھ ک ٹوں پہیں آتی آپکو آپ کے انشا کرتے سے میسم وانس آ چاۓ
گا ک نا کٹھی پہیں چلیں آپ “
ار پبہ تے آگے بڑھ کر غزرا کے پازو کو ت ھر سے گرفت میں ل نا اور اپک پاگوار نظر فہد بر ڈالی
ُ
۔ وہ چو اس کو آج ا تپے گ ھر میں دپکھ کر عج یب سی چوسگوار ک نف یت سے دوچار ہوا ت ھا ۔
نقرت ت ھری نگاہ س ندھا دل بر چا لگی ۔
جس کی طرف سے ہمیشہ اپک مج یت ت ھری نظر کا می نظر رہ نا ت ھا آج اگر اس تے دپک ھا ت ھی
یو نقرت ت ھری نظروں سے ۔ وہ غزرا کو پکڑے گ یٹ کی طرف بڑھ رہی ت ھی اور فہد کے قدم
تے ساحبہ ان کے پیخ ھے تھے ۔
ار پبہ بڑی مشکل سے غزرا کو تیروتی دروازے پک الٸ اور حب وہ بڑبڑاتی ا تپے دروازے کی
طرف بڑھی یو ار پبہ پاک ت ھال کر مڑی ۔ وہ چو اس کی نشت بر پک ھرے اس کے پالوں کو
مج یت سے دپک ھتے میں مگن ت ھا اس کے یوں پلیتے بر گڑ بڑا سا گ نا ۔
داپت بیس کر چوپخوار نظر فہد بر ڈالی ۔ آپک ھوں کو سکوڑے پاک ت ھالۓ پلکل اپتی اماں کے
اپداز میں اسے دپکھ رہی ت ھی ۔ فہد تے نمشکل دل کی چالت کو سیٹ ھاال ۔
گہری سانس لی اور مشکرا کر سیتے بر ہاتھ پاپدھے ۔ اور غور سے اس کے سرخ ہوتے
جہرے کو دپک ھا جس بر وہ دپ نا ت ھر کی نقرت سمیتے ک ھڑی ت ھی ۔
ار پبہ تے مبہ بر ہاتھ ت ھیرا ۔ اور اپک چ ھنکے سے دو پبہ سر بر اوڑ ھتے کے لتے ہوا میں اچ ھاال
چو غزرا کو قایو کرتے ہوۓ سر سے ڈھلک گ نا ت ھا ۔ دو پبہ ہوا میں ات ھا اور اس کا پلو فہد
کے جہرے سے مس ہوتے ہوۓ آگے ہوا ۔
ک
وہ گہری سانس کو اپدر ھییچ گ نا ۔اپک مسخور کن سا اجشاس ت ھا چو پاک کے پٹ ھ ٹوں سے
گھس کر دل بر گدگدی کر گ نا۔ اور اس کے سیجندہ سے ل ٹوں بر مشکراہٹ پک ھر گٸ ۔ وہ
اب تیز تیز قدم ات ھاتی ا تپے گ ھر کی طرف چا رہی ت ھی۔
چود سے سرگوسی کرپا ہوا وہ مشکرا دپا ۔ اور دروازے کو چمٹ کر جسرت سے اس کی گ ھر
ک پ
کے اپدر داچل ہوتی آچری چ ھلک د ھی ۔
*******
سر ابرار تے گرم چوسی سے میسم کو ساتھ لگاپا اور اس کی بیٹھ کو ت ھ نکا۔ میسم تے سرسار
سے اپداز میں آپک ھوں کو موپد کر ل ٹوں بر مشکراہٹ پک ھیری ۔
مج یت سے مشکرا پا ہوا ان سے الگ ہوا۔ پٹم کی سلنکشن کے نعد اب دبٸ رواپگی سے
پہلے ان کی دن رات برپکیس چل رہی ت ھی ۔ وہ الہور کی پٹم میں اک نال پ نا کھالڑی ت ھا اس
لتے کسی کے ساتھ ات ھی اپتی یول چال پہیں ہوٸ ت ھی ۔ وہ سر ابرار کے دوست اسفاق
علی کی سفارش کے ساتھ اک نڈمی کے ہاس نل میں اپک لڑکے کے ساتھ کمرہ پاپٹ رہا ت ھا
ل نکن اس میں پہت دفت ت ھی جس کا گاہے نہ گاہے ان سے کہہ رہا ت ھا اور آج وہ اسی
سلشلے میں ملنان سے الہور آۓ تھے ۔
ابرار تے گردن اکڑا کر فچر سے کہا ۔ اور اس کے پازو بر گرفت مضٹوط کی جس بر وہ سر
چ ھکا گ نا چ نکہ ل ٹوں بر برم سی مشکراہٹ ت ھی ۔ نہ اسفاق علی کا ہی آقس ت ھا جہاں اس
وفت وہ دویوں ک ھڑے تھے۔
نشکر آمیز نظروں سے ابرار کی طرف دپک ھا ۔ سف ند رپگ کی ڈھ نلی سی تی سرٹ اور بڑھی ہوٸ
سٹو میں وہ ت ھکا سا ل نا سا مشاقر لگ رہا ت ھا ۔
” اچ ھا سٹو نم ھاری رہاٸش کا اپ نطام ادھر اک نڈمی کے ہاس نل میں کر دپا ہے میں تے اور
کسی طرح کی کوٸ “
م
ابرار تے سر اپ نات میں ہالتے ہوۓ میسم کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ات ھی پات کمل پہیں
کر پاۓ تھے کہ سا متے سے آتے ستیٸر کرکٹ کوچ اسفاق علی کو دپکھ کر گرم چوسی
سے مشکراتے ہوۓ آگے بڑھے ۔
اسفاق علی فہقہ لگاتے ہوۓ آگے بڑھے اور ابرار سے نعل گیر ہوۓ ۔
ابرار سے الگ ہو کر مشکراتے ہوۓ میسم کی طرف دپک ھا چو بی یٹ کی خی ٹوں میں ہاتھ ڈالے
ک ھڑا اس نعرنف بر ت ھوڑا سرماتے کے سے اپداز میں نظریں چ ھکا گ نا ۔
م پ
” نس پچین سے اس کے اپدر وہ حیز د کھی ہوٸ ت ھی میں تے ہی ہیز یج نکل پاور ان ہز
پ ٹی نگ ما سا ہللا “
ابرار تے فچر سے کہتے ہوۓ میسم کی بیٹھ کو ت ھر سے ت ھ نکا جس بر ل ٹوں کو پاہر نکال کر
اپ نات میں سر ہالتے ہوۓ اسفاق علی تے پاٸپد کی ۔
اسفاق علی تے بر چوش اپداز میں کہا اور ت ھر بی ٹوں کا فہقہ اس پات بر گوپجا ۔
**********
” وہ چا رہی ہےکا لج ک نا “
میسم کان کو فون لگاۓ آگے بڑھا اور ک ھڑکی کو ک ھوال ت ھنڈی ہوا بردوں کو ہالتی کمرے میں
چ نکی ت ھر گٸ یومیر کی سرد رات ت ھی بر دل کی گ ھین کے ہات ھوں مج ٹور ہو کر ک ھڑکی کو
ک ھول نا بڑا ۔ نہ ہاس نل کا پ نگ سا کمرہ ت ھا جہاں دو پلنگ لگے تھے ۔ اپک کمرے میں دو لوگ
ر ہتے تھے ۔ پہلے جس کمرے میں وہ رہ رہا ت ھا وہاں پہلے سے دو لڑکے موچود تھے
دوسری طرف سے فہد کی آواز بر وہ ت ھنکی سی مشکراہٹ جہرے بر سجاۓ اب آسمان کی
طرف دپکھ رہا ت ھا ۔ساتھ واال لڑکا چواب چرگوش کے مزے لوٹ رہا ت ھا ۔ اس لتے اس کے
ہلکے ہلکے چراتے کمرے میں گوپج رہے تھے ۔
ہ
” ممم “
چ یب میں ہاتھ ڈال کر ڈ ھتے کے سے اپداز سے ک ھڑکی سی پ نک لگاٸ ۔ اب چاپد میں اد پبہ
کا جہرہ دمک رہا ت ھا ۔گداز سا برم سا سف ند سفاف ۔ دل میں سدت سے اسے دپک ھتے کی چاہ
ات ھری ذہن کو چ ھ نکا ۔
” دادا ایو کیسے ہیں “
سیجندہ سے لہچے میں اگال شوال یوچ ھا ۔دل کو بری طرح سرزنش کی وہ اد پبہ اب کہاں اس
کی ت ھی۔ اب یو وہ چوش ہو گی چو چاہتی ت ھی وہی ہوا ۔
اچ ھا چل رک ھنا ہوں فون ت ھر پات ہو گی کل دبٸ کے لتے نکل رہا ہوں وہاں ساٸد پات
نہ ہو سکے “
اداس سی آواز میں کہتے ہوۓ فون پ ند ک نا ۔ اور ت ھر سے سیتے لر ہاتھ پاپدھ کر چاپد کی
طرف دپک ھا ۔
**********
” ت ھنک ٹو روسان “
اد پبہ تے ہاوس چاب کا اپاٸپٹم یٹ لییر ہاتھ میں لے کر نشکر آمیز نظروں سے سا متے
ک ھڑے روسان چمداتی کی طرف دپک ھا ۔ چو اپتی مخصوص بر وقار مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاۓ
مشکرا دپا ۔ اس کے ساتھ ک ھڑی ماہ رخ ت ھی برچوش اپداز میں ا تپے لییر بر نظریں دوڑا رہی
ت ھی۔
روسان کے ماموں الہور کے پہت بڑے سرکاری ہسی نال میں سرجن تھے .جہاں ات ھوں
تے روسان کے ساتھ ساتھ اد پبہ اور ماہ رخ کی ت ھی ہاٶس چاب کروا دی ت ھی ۔
ان کے قاٸپل امیجاپات ہو چکے تھے اور روسان تے ان دویوں کی ہاٶس چاب کرواتےکی
س
بیشکش اپہیں چود دی ت ھی اس دن یو وہ اس بیشکش کو اس کا بڑا ین ھی ھیں صرف
ت مخ
ل نکن اس تے یو وافعی ہی دویوں کی ہاٶس چاب نہ صرف کروا دی ت ھی پلکہ آقیشل لییر
ت ھی لے آپا ت ھا چو کل رات اس کے ماموں تے اسے م نل کتے تھے ۔
” انس اوکے “
روسان تے مشکرا کردویوں کی طرف دپک ھا ۔ ماہ رخ تے برچوش اپداز میں ل ٹوں کو داپ ٹوں میں
دپا کر اد پبہ کی طرف دپک ھا ل نکن اس کے جہرے بر ات ھی الخ ھن اور چوسی کے ملے چلے
ابرات تھے ۔ اس تے یو اس پات کا گ ھر میں اتھی پک ذکر ت ھی پہیں ک نا ت ھا ۔ اور مراد
اچمد ات ھی اس کی اچ ھی چگہ ہاٶس چاب کی کوشش میں سرگرداں تھے ۔
” نس تم دویوں چواٸپگ کی پ ناری کرو اور کخھ پہیں کوٸ ت ھنکس پہیں کخھ پہیں “
روسان تے دوس نانہ اپداز میں خفگی سے دویوں کی طرف دپک ھا چو نشکر کے اجشاس سے لیربز
اس کی طرف دپکھ رہی ت ھیں ۔ اس پات بر دویوں تے ساحبہ مشکرا دی ۔روسان دویوں کی
طرف اچازت طلب نظروں سے دپک ھنا ہوا آگے بڑھا یو ۔ماہ رخ تے ت ھ ٹویں اخکا کر اد پبہ کی
برنشاتی کا چواز طلب ک نا ۔
پجلے لب کو تے خیتی سے داپ ٹوں میں دپاۓ اب وہ ماہ رخ کی طرف دپکھ رہی ت ھی۔
” ا نسے ہی پہیں مابیں گے ارے پار اپ نا اچ ھا ہاسی نل قسمت والوں کی وہاں ہاوٸس چاب
ہوتی ہے “
ماہ رخ تے اسے ک ندھوں سے پکڑ کر ہالپا اور ما تھے بر اس طرح سکن ڈالے خیسے اس کی
دماغی چالت بر سک گزرا ہو ۔ اد پبہ تے بر شوچ اپداز میں سانس ل نا ۔ یوپ ٹورستی کے ان
آچری مہی ٹوں میں روسان ان کے پہت قرپب ہو خکا ت ھا بی ٹوں اپک ساتھ نظر آتے تھے ہر
چگہ ۔
ہم
” ممم چلو و نسے مان چاٸیں گے نس امی کا ہے اداس ہوں گی وہ “
ماہ رخ تے اس کے گرد پازو چاٸل کٸے ۔ اور قدم آگے بڑھا دتے وہ آج روسان
کے کہتے بر ہی یوپ ٹورستی آٸ ت ھیں اور اب وانسی تیروتی گ یٹ کی طرف قدم بڑھا دتے ۔
اد پبہ تے مشکرا کر اس کی طرف دپک ھا ۔ اور ت ھر برسکون سے اپداز میں سانس ل نا ۔اس کے
ڈاکیر ین چاتے بر یورے ڈھاٸ ماہ نعد یو گ ھر میں چوسی کی لہر آٸ ت ھی ۔ میسم کے چاتے
اور کرکٹ چواٸن کرتے کے عم کو سب ت ھال کر اس کی اس چوسی کی طرف م ٹوجہ ہوۓ
تھے ۔
ً
” نقی نا آپ مخیرمہ زپادہ شوچ رہی ہیں “
***********
” مخ ھے میسم کو اوتیر ت ھیجنا ہے “
قراز تے پاس ک ھڑے اسد کی طرف دپک ھا چو سر میں پاول چال پا اپک دم سے ت ھم گ نا ۔ وہ
لوگ دبٸ سٹورنس چم میں موچود تھے جہاں ان کی یوری پٹم موچود ت ھی اسد تے حیرت
سے کخھ دور و پٹ لقی نگ کرتے میسم کو دپک ھا اور ت ھر سا متے ک ھڑے قراز چاوپد کو تے سک
میسم کی پلےپاز ساپدار ت ھی چو وہ سب لوگ دپکھ چکے تھے ل نکن وہ ات ھی سی نلمیییری کھالڑی
ت ھا پلکل پ نا اسد تے کخھ کہتے کے لتے مبہ ک ھوال ل نکن سا متے الہور پٹم کا کی نان ت ھا قراز
چاوپد جس کی ہر پات پٹ ھر بر لکیر ہوتی ت ھی ۔ اسد الہور قلندر کا وکٹ کییر ت ھا ۔اور وہ ت ھی
قراز کی طرح گولڈن پیج میں ت ھا۔
پاتی کی یوپل کو یپچے کرتے ہوۓ قراز تے انگلی کا اسارہ میسم کی طرف ک نا ۔ اور
دوسرے ہاتھ سے مبہ صاف ک نا اسد تے برشوچ اپداز میں دپک ھا اور ت ھر سر ہال پا ہوا میسم
کی طرف بڑھ گ نا اور ت ھوڑی دبر نعد ہی میسم قراز کے سا متے ک ھڑا ت ھا ۔
” میسم تم فواد کے ساتھ اوتیر چاٶ گے کل کے میچ میں “
قراز تے میسم کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا میسم تے چوپک کر دپک ھا ۔ کل الہور قلندر کا میچ
کراخی ک نگ کے ساتھ ت ھا ۔ نہ ات ھی ان کی پٹم کا دوسرا ہی میچ ت ھا سیر ل نگ کے لتے جس
ت
میں قراز تے اسے اوتیر کھالڑی ھیجتے کا ف نضلہ کر ل نا ت ھا اور نہ پات میسم کے لتے پہت
بڑی پات ت ھی ۔
” سر میں “
حیرت سے سیتے بر ہاتھ رکھ کر ارد گرد ا نسے دپک ھا خیسے اس کے عالوہ ت ھی کوٸ وہاں موچود
ہو ۔ ات ھیں دبٸ آۓ ات ھی دوسرا ہفبہ ت ھا ۔
” ہاں ک ٹوں “
قراز تے مشکرا کر اس کے ک ندھے بر دپاٶ ڈاال ۔ میسم ات ھی ت ھی ہ ٹوز حیرت میں می نال ت ھا ۔
قراز تے مشکراتے ہوۓ ت ھر سے ک ندھے بر دپاٶ ڈاال ۔
” خی سر “
سیبہ اپک دم سے چوڑا ہوا اور پاک کے پٹ ھ ٹوں سے سانس نکال اور لب مشکرا دتے ۔ یو میسم
مراد نہ نم ھاری پہلی چ یت ت ھہری دل تے دماغ سے سرگوسی کی ۔
” بیشٹ آف لک “
قراز تےمیسم کے ک ندھے بر ت ھنکی دی ۔ اور اپتی چم کٹ ات ھا کر آگے بڑھ گ نا چ نکہ وہ
وہیں ک ھڑا مشکرا رہا ت ھا ۔ اپک عج یب سی چوسی ت ھی ۔ دل اچ ھل رہا ت ھا ۔
***********
سازل وچ ند تیز تیز قدم ات ھا پا ہوپل کے کمروں کی راہداری میں سے گزرپا اب قرازچاوپد کے
کمرے کے پلکل سا متے ک ھڑا ت ھا ۔ نہ دبٸ کا ساپدار ہوپل ت ھا جہاں پاکش نان سیر ل نگ
کے نمام کھالڑیوں کو ت ھہراپا گ نا ت ھا
سازل کا جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا جس بر بزل نل کا عکس موچود ت ھا قراز کے کمرے کے پ ند
دروازے کے سا متے ک ھڑے ہو کر اس تے گہری سانس لی ل نکن تے شود ت ھا سب اس کا
ت
غصہ کم پہیں ہوا ت ھا ہاتھ ات ھا کر لب ھییجتے ہوۓ دس نک دی دس نک کے نعد کمرے
سے اپدر آتے کی اچازت ملتے ہی وہ دروازہ ک ھول کر لمتے لمتے ڈگ ت ھرپا سا متے صوقے بر
بیٹ ھے قراز کے سر بر ک ھڑا ت ھا ۔ قراز اچ نار بر نظریں چماۓ ہوۓ بیٹ ھا ت ھا سا متے میز بر
پا ستے کے لوازامات موچود تھے ۔ سازل کے یوں سر بر آ کر ک ھڑے ہوتے بر نظر ات ھا کر
اوبر دپک ھا ۔
تے “
قراز تے اپک آپکھ کے آبرو چڑھاۓ اور برسکون لہچے میں کہا ۔ سازل کا چلدی اٶٹ ہو چاپا
اب معمول بی نا چا رہا ت ھا وہ نمشکل کخھ اورز ک ھنل پا پا ت ھا ۔ اب اس کی پلے پازی کی وہ
الٸن پہیں رہی ت ھی کہ قراز اسے تی یوبی تی میچ میں اوتیر کھالڑی کے طور بر ت ھیجنا اور میسم
کو وہ آڈنشن کے دن سے یوٹ کر خکا ت ھا ۔
” وہ کارکردگی صرف برپکیس میں دک ھا پا ہے وہاں گراوپڈ میں قرسٹ پاٸم قیس کرپا سب
کے نس کی پات پہیں “
” مخ ھے لگ نا ہے کر لے گا “
قراز تے گہری سانس لی اور گود میں ر کھے اچ نار کو فولڈ ک نا۔
” ہن۔ن۔ن۔ن نہ انشلٹ ہے میری چلیں میری چگہ ابراہٹم آ پا پا طلجہ یو اور پات ت ھی
آپ تے ات ھا کر اپک س نلمیییری کھالڑی کو اوتیر پ نا دپا “
سازل تے پاک چڑھا کر ت ھر یور خفگی دک ھاٸ ۔ اسے نہ سب اپتی بزل نل لگ رہی ت ھی ۔
” مخ ھے لگ نا تم رول ت ھول رہے ہو پہلے کھالڑی کو مییخب کرتے کے کوٸ رولز پہیں ر کھے
گتے کہ وہاں س نلمیییری کھالڑی پہیں چا سک نا ہے “
قراز تے میز بر پکڑی قاٸل ات ھا کر سازل کے سا متے کرتے ہوۓ کہا ۔ سازل تے اپک
غص نلی نظر قاٸل بر ڈالی ۔
” چلیں دپکھ لی نا ہوں میں ت ھی ک نا چ ھنڈے گاڑ پا ہے وہ آج کہ میچ میں کراخی ک نگز کوٸ
معمولی پٹم پہیں ہے “
قاٸل بر اپک خفارت ت ھری نظر ڈال کر وہ تیزی سے مڑا اور لمتے لمتے ڈگ ت ھرپا اب وہ
میسم کے کمرے کی طرف چا رہا ت ھا ۔ پ نا اچازت دروازے کو دھک نل کر اپدر داچل ہوا میسم
اسد کی کسی پات بر مشکرا رہا ت ھا پہاں اس وفت دو بین اور کھالڑی موچود تھے ۔حب
سازل غصے میں ت ھرا اس کے سا متے آ کر ک ھڑا ہوا ۔
” م نارک ہو میری چگہ لی تے کے لتے “
پ
سازل تے طیزنہ اپداز میں میسم کی آپک ھوں میں آ ک ھیں ڈال کر کہا۔ میسم تے چجل سا ہو کر
ارد گرد پافی لوگوں کی طرف دپک ھا سازل کے یوں چیجتے خیسے اپداز بر سب لوگ اپک دم سیجندہ
ہو گتے تھے ۔
” میں کسی کی چگہ پہیں لے رہا ہوں اپتی چگہ پ نا رہا ہوں نس “
میسم تے مشکرا کر اسد کی طرف دپک ھا اور ت ھر سا متے ک ھڑے سازل کی طرف اپداز دوس نانہ
لک پ ک ً
ت ھا سازل اس سے سییر ت ھا اس لتے وہ فورا اتھ کر ھڑا ہوا اب وہ اس کے ل سا متے
ک ھڑا ت ھا ۔
پاک کو اوبر چڑھا کر سازل تے طیزنہ اپداز اپ ناپا ۔ اور اپگشت انگلی میسم کی آپک ھوں کے
یمٹ ت ھ
درم نان میں اکڑاٸ ۔اپداز اور الفاظ ھ نک آمیز تھے ۔ میسم تے دھیرے سے ھناں چی
ی
ت ھیں ۔ حیڑے اپک دوسرے کے ساتھ پ ٹوست ہو گتے تھے ۔
” میں تے آپ سے پات پہیں سروع کی سر آپ چود آۓ ہیں اور میں پہاں پٹم کے
ک ٹین کی مرضی کا پاپ ند ہوں وہ مخ ھے کسی ت ھی چگہ بر رک ھیں “
میسم تے بر سکون اپداز میں ا تپے گر پنان بر موچود اس کے ہاتھ کو ت ھاما اور یوری فوت سے
یپچے ک نا ۔
میسم تے ہ ٹوز برسکون لہچے میں کہا۔ سازل تے پاک ت ھالٸ خفارت ت ھری نظر سب بر ڈالی
اور تیز تیز قدم ات ھا پا پاہر نکل گ نا ۔
***********
پاک کو پار پار سکوڑتے کی آواز بر اد پبہ تے پ نگ کے زپ پ ند کرتے ہاتھ روکے اور گردن
ب
موڑ کر پیخ ھے دپک ھا ۔ غزرا سا متے پل نگ بر یٹھی مشلشل آنسو پہا رہی ت ھیں ۔
اد پبہ تے غزرا کے جہرے کو اوبر ک نا اور ا تپے ساتھ لگاپا غزرا تےزور سے ا تپے پاس ک ھڑی
اد پبہ کی کمر کے گرد پازو چاٸل کتے اد پبہ تے مج یت سے ان کے سر بر ہاتھ ت ھیرا اور
سر بر یوسہ دپا ۔ آج صیح سے وہ یوں روۓ چا رہی ت ھیں ۔
” نس کریں اب الہور چا رہی ہوں وہ ت ھی ہاوس چاب کے لتے چاب پہیں کروں گی ا تپے
سہر میں برنشان نہ ہوں آپ “
ت ھوڑا سا پیخ ھے ہوتے ہوۓ پ نار سے غزرا کے جہرے کو اوبر ک نا ۔ اد پبہ پہلی دفعہ ان سے
اپ نا دور چا رہی ت ھی ۔ ان کی پہت زپادہ مجالفت کے پاوچود مراد اور اچمد م ناں تے اد پبہ کو
ت
الہور ھیجتے کا ف نضلہ کر ل نا ت ھا ۔ اد پبہ پا صرف ان کی پہلی اوالد ت ھی پلکہ ان کے دکھ سکھ
کی سات ھی ت ھی ت ھی وہ پہت چ ھوتی سی عمر سے رایوں کو اتھ اتھ کر اپتی ماں کے آنسو
صاف کرتے لگی ت ھی اور اس کی پٹھی ہٹ ھنلوں کا لمس غزرا کو سارے عم ت ھال د پنا ت ھا ۔
اور ت ھر اد پبہ کو کٹھی اپہوں تے چود سے دور کرتے کا نصور ت ھی پہیں ک نا ت ھا ۔ پچین سے
میسم کے ساتھ ک نا گ نا رسبہ ان کے دل کو برسکون کر د پنا ت ھا کہ اد پبہ ہمیشہ ان کی
نظروں کے سا متے رہے گی
ار پبہ تے آ کر دروازے بر ک ھڑے ہوتے ہوۓ ہاتھ کا اسارہ پاہر کی طرف ک نا جہاں مراد
اچمد اسے س ٹیشن چ ھوڑتے کے لتے پ نار ک ھڑے تھے حیر یور سے الہور وہ بزر نعہ رپل گاڑی
ً
چا رہی ت ھیں چو نقرپ نا دس گ ھیتے کا سقر ت ھا ۔ غزرا کو اس کا اور ماہ رخ کا اک نلے چاپا ت ھی
م نظور پہیں ت ھا اس لتے چواد اچمد ساتھ چا رہے تھے ۔
”آ گٸ ماموں نس آ گٸ “
ہاتھ کے اسارے سے ان کو صیر کی پلقین کرتی وہ چلدی سے گاڑی کی پخ ھلی سیٹ کی
طرف بڑھی ۔
*********
فواد تے پلے کو پاپگوں کے درم نان میں دے کر دس ناتے درست کرتے ہوۓ میسم کی
طرف دپک ھا ۔ وہ دیوں دبٸ اتیربیش نل کرکٹ اسی نڈتم کے وسنع غرنض م ندان کے وسط
میں موچود پچ بر ک ھڑے تھے۔ کراخی کی پ ٹم پاس ہار چکی ت ھی اور الہور قلندر تے پہلے پلے
پازی کا ف نضلہ ک نا ت ھا ۔ کی نان قراز چاوپد کے ف نضلے کے مطایق میسم فواد اچمد کے ساتھ
اوتیر کھالڑی کے طور بر م ندان میں آ خکا ت ھا ۔ اور اب فواد اسے آہشبہ ک ھنلتے کا کہہ رہا ت ھا
۔
” ارے دماغ زپادہ مت لگا پار سلو ک ھنل کہہ رہا ہوں نہ “
فواد تے پاپگوں کے درم نان سے پلے کو نکاال اور میسم کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا ۔ فواد الہور
قلندر کا پاٸب کی نان ت ھی ت ھا میسم تے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہالپا ۔فواد وکٹ کے
آگے چگہ لے خکا ت ھا اور وہ دوسری طرف ک ھڑا ت ھا ۔
کمیییری بی نل زور شور سے میچ کی کمیییری کر رہا ت ھا ۔ فواد اچمد کو پہلی گی ند کروا دی گٸ
ت ھی ۔ پہلی گی ند بر ہی فواد اچمد تے پاوپڈری الٸن کو چ ھوتی گی ند کے زر نعے چار سکور کتے
تھے۔ ت ھر اپک سکو ر کے نعد میسم اس طرف آپا ت ھا ۔ اور فواد تے اسے ت ھر سے سلو ک ھنلتے
کا اسارہ دپا میسم تے اپک سکور ک نا ۔ اسی طرح دویوں کے اپک اپک کر تے بر میسم کے
چار سکور کرتے کے نعد ت ھر سے فواد سا متے ت ھا۔
” اور نہ فواد اچمد کے پلے کو چ ھوتی ہوٸ گی ند لگنا ہے نہ اپک اور ساپدار پاٶپڈری ہے فواد
غطٹم کی “
کمیییری بی نل سے برچوش آواز ات ھر رہی ت ھی دوسرے اور کی دوسری گی ند بر فواد اپک اور
پ
چوکا لگا خکا ت ھا۔ میسم تے آ ک ھیں سکیڑ کر فواد کی طرف دپک ھا وہ چود ک ٹوں پاٶپڈربز لگا رہا ت ھا
اور اسے اپک اپک سکور کا کہہ رہا ت ھا۔ پات کخھ سمخھ سے پاہر ت ھی اور عج یب ت ھی ۔
فواد تے بیسرا چوکا لگاپا ت ھا سی نڈتم میں بیٹ ھے لوگ اچ ھلتے لگے تھے ۔ فواد تے اس کے نعد
اپک سکور ل نا اور اب میسم وکٹ کے سا متے چگہ پ ناۓ ک ھڑا ت ھا۔
” پلے پازی کے لتے وکٹ کے سا متے موچود ہیں میسم مراد تپے کھالڑی پلے پاز “
کمیییری کی پازگشت بر میسم تے گہرا سانس ل نا ۔ صرف چار سکور ان لقظوں بر ذہن انکا۔
پلے بر گرفت مضٹوط کی ۔ گہرا سانس ل نا پلے سے زمین بر لکیر کا نشان پ ناپا ۔
” اور نہ گی ند پاز اپتی یوزنشن لے چکے ہیں کراخی ک نگ کے پاٸب کی نان علٹم سع ند
پہیرین گی ند پاز “
میسم کے سا متے گی ند کو ہوا میں اچ ھال نا علٹم ت ھا ۔ ( علٹم کی اپک ت ھی پال پہیں ک ھنل پاٶ
گے تم ) سازل کے کہے گتے الفاظ ذہن کی دیواروں سے پکراتے لگے تھے ۔ علٹم ت ھاگ نا
ہوا آ رہا ت ھا اور ت ھر اس کے ہاتھ سے گی ند نکل چکی ت ھی ۔ میسم تے پلے کو گی ند کی یوزنشن
میں درست ک نا ۔
کمیییری کی پازگشت کایوں سے پکراٸ اور گی ند کے پاس آتے ہی میسم تے ل ٹوں کو گول
کرتے ہوۓ درست چگہ بر یوری فوت سے ہٹ لگاٸ اور پازو کو لم ناٸ کے رخ میں چ ھ نکا
دپا جس کی وجہ سے گی ند زپادہ اوبر یو پہیں گٸ ت ھی الیبہ اس کی رف نار اسے پاوپڈری
الٸن سے پاہر لے چا رہی ت ھی ۔
” اور نہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ “
کمی ٹ یییر تے ت ھی حیران سی آواز نکالی ک ٹوپکہ گی ند گولی کی رف نار میں سقر کرتی ہوٸ کھالڑیوں
کے سروں کے اوبر سے گزرتی ہوٸ سی نڈتم کی نسسٹوں کو پار کر چکی ت ھی ۔
” ارے واہ ساپدار ہوا میں اڑتی ہوٸ گی ند پاٶپڈری سے آگے انکل ٹور میں اور نہ اب پک کا
ساپدار چھ ہے میسم مراد کی کی طرف سے “
کمی ٹ یییر کی بر چوش آواز اور سی نڈتم میں بیٹ ھے ساقین کا شور نہ اس میچ کا پہال اور یورے
پاکش نان ل نگ کے ہوتے والے اب پک کے میچز کا سب سے بڑا چ ھکا ت ھا ۔ فواد تیزی سے
میسم کے قرپب آپا ۔ جہرے بر سیجندگی ت ھی ۔
فواد تے داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ میسم تے مشکرا کر دپک ھا اور سر چ ھکاپا ۔
” اوکے سر “
پ
میسم تے قرمابرداری سے سر کو چ ٹیش دی ۔ بر آ ک ھیں ساتھ پہیں دے رہی ت ھیں ۔
فواد تے سرگوسی کے سے اپداز میں کان کے قرپب ہو کر کہا اور گ ھی ٹوں پک تیروں کو لے
چا پا دوسری طرف چل دپا ۔ میسم تے دس ناتے درست کتے اور وکٹ کے آگے یوزنشن لی ۔
” علٹم گی ند کو پکڑے آگے بڑ ھتے ہوۓ اور سا متے تپے کھالڑی میسم مراد “
کمیییری کی پازگشت ۔ میسم تے آپکھوں کو سکوڑا ۔ علٹم تے گی ند کرواٸ ۔ اور اب کی پار
ت ھر اس کے پازوٶں تے اسی طرح لم ناٸ کے رخ میں درم ناتی اوپجاٸ میں چ ھ نکا دپا ۔
کمیییری بی نل سے کمیٹ یییر کی بر چوش آواز ات ھری ۔ میسم تے مشکرا کر دپک ھا فواد تے اقسوس
ت ھری نظروں سے میسم کی طرف دپک ھا ۔ میسم تے دھیرے سے کایوں کو ہاتھ لگاپا ۔
اور ت ھر اگلی گی ند بر چار سکور تھے ۔ میسم تے فواد کی گ ھوری بر ت ھر سے کایوں کو ہاتھ
لگاۓ ۔ علٹم تے ا تپے سر کو دویوں ہات ھوں میں چکڑ کر میسم کی طرف دپک ھا چو اب ت ھر
سے وکٹ کےسا متے ک ھڑا ت ھا ۔
کمی ٹ یییر میں سے اپک تے کہا اور اب بی نل میں موچود دویوں کمی ٹ یییر فہقہ لگا رہا تھے ۔
*******
” نہ پ نا لڑکا یو الہور کو خی نا دے گا “
لڑکے تے چوش سے کہا ۔ ساتھ والے لڑکے تے ت ھی موپاٸل بر نظر چماٸ ۔ ملنان
س ٹیشن بر رپل گاڑی رکی ت ھی حب سا متے بیٹ ھے دو لڑکوں میں سے اپک لڑکے کی آواز اد پبہ
کے کایوں میں بڑی ۔
اد پبہ کی رپگ زرد بڑا اس کے پام سے دل کے پاروں کا اپک عج یب ہی رسبہ اسٹوار ت ھا
کوٸ پام لی نا یو دل خیسے کوٸ مٹھی میں چکڑ لی نا چود کو سیٹ ھالے ساری مج یت بر پاتی ت ھر
چا پا ت ھا۔چواد تے چوپک کر اد پبہ کی طرف دپک ھا ماہ رخ تے نظریں چرا کر پالوں کو کایوں
کے پیخ ھے ک نا ۔دویوں لڑکے چوش و چروش سے موپاٸل بر الٸیو میچ دپکھ رہے تھے اور
ً
میسم کی پلے پازی بر نعرنفی کلمات کہہ رہے تھے دویوں کا نعلق عال نا الہور سے ت ھا اس
لتے ان کا چوش و ولولہ دپدتی ت ھا ۔
ً
اد پبہ تے فورا گردن گ ھما کر ک ھڑکی سے پاہر دپک ھا س ٹیشن بر لوگوں کی ت ھیڑ ت ھی کخھ مشاقر
تھے یو کخھ لوگ مشاقروں کو لی تے آۓ تھے اور کخھ چ ھوڑتے آۓ تھے بر ہر کوٸ چوش ت ھا
اسے انشا لگا خیسے اس خیشا دک ھی کوٸ پہیں ان میں ۔ چواد تے اپک چور سی نظر اد پبہ بر
ڈالی ت ھر سا متے بیٹ ھے لڑکوں کی طرف دپک ھا ۔
چواد تے برم سے لہچے میں سا متے بیٹ ھے دویوں لڑکوں کو مجاطب ک نا ۔ دویوں تے مصروف
سے اپداز میں چواد کو دپک ھا ۔ اور ت ھر اپک دوسرے کو ۔
جس لڑکے کے ہاتھ میں موپاٸل ت ھا اس تے ا تپے داٸیں طرف اسارہ ک نا۔ چواد اچمد
ل نک کر ساتھ براچمان ہوۓ اور تےخیتی سے سکرین بر نظریں گاڑیں ۔ اد پبہ تے پاک
ت ھال کر چواد کو دپک ھا اور اپک چ ھنکے سے سیٹ بر سے ات ھی ۔
” تم کہاں چا رہی ہو “
ً
ماہ رخ تے فورا سے اد پبہ کا پازو ت ھاما ۔ شوال کے چواب کا علم ہوتے کے پاوچود یوچھ ڈاال
چواد تے ت ھی سرم ندہ سی سکل پ نا کر اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ یورے گ ھر میں میسم کی اس
کام ناتی بر اگر کوٸ چوش ت ھا یو وہ چواد اچمد اور چز نقہ تھے ۔
اد پبہ تے تےزار سی صورت پ ناٸ ۔ ماہ رخ تے ف ًورا ہاتھ کی گرفت اس کے پازو سے چ مٹ
کی ۔ وہ تیز تیز قدم ات ھاتی ڈتے کے تیروتی دروازے کی طرف بڑھی ۔ انشا لگ رہا ت ھا سی ٹوں
بر بیٹ ھے برت ھوں بر لیتے سب لوگ اسے گ ھور رہے ہیں اس کو برسی نگاہوں سے دپکھ رہے
ہیں ۔
چواد اچمد تے سر کے اسارے سے ماہ رخ کو ساتھ چاتے کے لتے کہا وہ چو اد پبہ کی
ب
چالت سے برنشان سی یٹھی ت ھی تیزی سے اپ تی چگہ سے ات ھی اور اس کے پیخ ھے چل دی ۔
” ت ھییجا ہے میرا نہ میسم مراد میں دک ھا پا ہوں ا تپے موپاٸل میں پکس اس کی “
چواد اچمد تے چوش سے ساتھ بیٹ ھے لڑکے سے کہا ۔ لڑکوں تے حیران ہو کر چواد کی طرف
گردبیں گ ھماٸیں آپکھوں میں تے نقیتی ت ھی ۔ چواد تے چلدی سی موپاٸل میں سے میسم
کی نضاوبر نکال کر سا متے کیں سیبہ چوش سے ت ھول رہا ت ھا یو پاچ ھیں کھلی ہوٸ ت ھیں
دپک ھتے ہی دپک ھتے لوگوں کا چ ھمگ نا سا ین گ نا چواد اچمد کے گرد ۔
*******
علٹم تے پاسط کمال کی طرف دپکھ کر برنشاتی سے سر کو پیخ ھے ک نا پاسط کمال کراخی پٹم کا
کی نان ت ھا ۔ اور علٹم پاٸب کی نان میسم سییچری کر خکا ت ھا اس کے ساتھ کے چار
کھالڑی ساتھ چ ھوڑ کر یوپلین چا چکے تھے ۔ فواد ،طلجہ ،سازل اور عاپد اب اس کے ساتھ
ابراہ ٹم پلے پازی کر رہا ت ھا جسے دوسری طرف وہ آتے ہی پہیں دے رہا ت ھا ۔ اپتی پلے
پازی سے کراخی ک نگ کے ہاتھ پاٶں ت ھال دتے تھے اس تے ۔
علٹم تے برنشاتی سے پالوں میں ہاتھ ت ھیرا ۔ پاسط تے بر شوچ اپداز میں کمر بر ہاتھ
دھرے آپکھوں کو سکوڑ کر ارد گرد دپک ھا ۔
پاسط تے گی ند کو بی یٹ بر رگڑتے ہوۓ کہا اور سنلی کو گی ند پکڑاٸ ۔ میسم کا اٶٹ ہوپا
اب ان کی پٹم کے چ ٹیتے کے لتے پہت صروری ت ھا۔
” ” okkkk I understand
پ
س نلی تے آ ک ھیں سکوڑی اور برشوچ اپداز میں سر ہال پا ہوا پچ کی طرف بڑھا جہاں میسم وکٹ
کے سا متے پلے کو ہوا میں پ نک ھے کی طرح چال رہا ت ھا ۔
پاسط تے کن اک ھ ٹوں سے میسم کی طرف دپک ھا اور ت ھر علٹم کی طرف چو مشکرا پا ہوا سر ہال رہا
ت ھا۔
” اور نہ انگلی نڈ کے مشہور کھالڑی س نلی وسٹم پہت پہیرین گی ند پاز اس اٶور کو ک ھنلیں
گے “
کمیییری گوپچی میسم تے سر ات ھا کر دپک ھا ۔ دس ناتے درست کتے پلے بر گرفت مضٹوط کی ۔
جہرہ پپ رہا ت ھا جسماتی طور بر ت ھک خکا ت ھا بر چوش مدھم پہیں بڑا ت ھا ۔
” ووک ٹوں کے سا متے میسم مراد اپ تی پلے پازی سے سب کو برنشان کتے ہوۓ میسم مراد
تے اس میچ میں بی نالیس گی ندوں بر دس چ ھکوں اور پارہ چوکوں کی مدد سے اپک شو ات ھارہ
ربز سکور کتے۔ نہ کسی ت ھی پاکش ناتی کی چاپب سے اس قارم یٹ میں پ ناتی چاتے والی سب
سے تیز برین سییچری ہے اور الہور قلندر تے اب پک چار وک ٹوں کے نقضان بر اپک شو
اکہیر سکور ک نا ہے “
میسم تے س نلی کے ہات ھوں بر نظر کو نکاپا اس کی کالٸ کے گ ھو متے بر اسے گی ند کی سمت
کا نعین کرپا ت ھا ۔ س نلی ہاتھ میں گی ند پکڑے ت ھاگنا ہوا اب اس کی طرف آ رہا ت ھا ۔
میسم تے ہ نلمٹ بر ہاتھ مارا نسیتے کی یوپدیں چو اپکی ت ھیں یپچے کو لڑھکی ۔ دبٸ میں
پاکش نان کی نسیت کم سردی ت ھی پہی وجہ ت ھی نسیبہ آ رہا ت ھا ۔ سرٹ کا اوبری خصہ سیتے
سے چ نک رہا ت ھا ۔
س نلی ت ھر سے علٹم سے گی ند پکڑ کر اب ت ھاگ نا ہوا آ رہا ت ھا ۔ میسم تے گردن کو چ ھ نکا دپا
آپکھوں کو سکوڑا لب ت ھوڑے سے کھلے تھے گی ند کی پخ ھلی یوزنشن کو ذہن میں رک ھا ۔
لوگوں تے سر بر ہاتھ دھر لتے تھے۔ اٶ۔و۔و۔و۔ کی پازگشت ت ھٹی ناہٹ کی طرح گوپج
گٸ ۔
سازل تے پاس بیٹ ھے فواد کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا دویوں تے داپت نکال کر اپک دوسرے
کی طرف دپک ھا اور ت ھر دلجشتی سے م ندان کی طرف دپک ھا ۔
”وپلڈن س نلی ک یپ اٹ اپ “
علٹم تے س نلی کی بیٹھ ت ھنکی اور گی ند اسے پکڑاٸ ۔ س نلی تے غرور سے گردن اکڑاٸ گی ند
کو پاپگ بر مس ک نا ۔
کٹمیییری گوپچی
کمیییری کی پازگشت اور لوگوں کا شور میسم کے کایوں میں بڑ رہا ت ھا گال پپ رہے تھے ۔
میسم تے پلے کو درم نان میں عارضی طور بر درست ک نا اس دفعہ چکما د تپے کی پاری اس
کی ت ھی ۔ اور س نلی تے بیسری دفعہ ت ھر اسی اپداز کی گی ند پازی کی ۔بر اب کی پار وہ پہیں
ہوا چو پخ ھلی دو گی ندوں میں ہوا ت ھا ۔
” اور نہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ وہی براپا اپداز اس اٶور کی بیسری گی ند بر میسم مراد کی ساپدار
پاٶپڈری لگ نا ہے چار سکور ہوں گے “
بر چوش آواز میں کہہ کر اب کمی ٹ یییر دوسرے سات ھی کے ساتھ مل کر فہقہ لگا رہا ت ھا ۔
گی ند پلے سے پکرا کر تیز رف ناری سے پیخ ھے سے نکلتی ہوٸ پاوپڈری الٸن کی طرف بڑھ رہی
ت ھی ۔
” اور نہ چار “
گی ند ا تپے پیخ ھے ت ھا گتے ف نلڈرز کو مبہ چڑاتی پاوپڈری الٸن سے پکرا چکی ت ھی ۔ اور ت ھر میسم
مراد کے پلے کو کوٸ پہیں روک سکا۔
میسم تے پال گ ھماپا سا متے ک ھڑے کھالڑی کو ہاتھ سے سکور لیتے سے روکا
میسم کا پال گ ھما ۔ ت ھر گ ھما اگلی گی ند بر ت ھر گھما اپک کھالڑی اور پ ٹولین کی طرف چا رہا ت ھا
”گرا دوں گا ۔۔۔ گرا دوں گا۔۔۔ گرا دوں گا “
سازل تے برنشاتی سے ما تھے بر ہاتھ ت ھیرا ساتھ بیٹ ھے فواد تے دویوں ہات ھوں کو چوڑ کر ل ٹوں
بر رک ھا
وہ ت ھاگ رہا ت ھا ۔ پلے کو زمین سے مس کرپا زمین بر یورا ل یٹ گ نا بر اٶٹ پہیں ہوا
گی ند ہوا میں اڑتی نسسٹوں کے اوبر سے ہوتی ہوٸ چ ھت بر چا گری لوگوں کی گردیوں کے
اوبر سر گ ھوم گتے
”اور نہ اپک اور چ ھکا میسم مراد کے پلے سے “ کمیییری گوپج رہی ت ھی ۔ ” دوشو سیر سکور
کا چدف الہور قلندر کی طرف سے میسم مراد ڈپل سییچری سے کخھ ہی دوری بر تھے “
اور نہ گی ند میسم مراد کے ہات ھوں میں اور کراخی ک نگ کے اپک اور پلے پاز کو پ ٹولین کی راہ
دک ھا دی
” اور آج کے مین آف دی میچ ہیں میسم مراد “ ماٸک پکڑے آصف تے مشکرا کر میسم کی
طرف دپک ھا
اور وہ اب سر چ ھکاۓ مشکرا پا ہوا سییج کی طرف آ رہا ت ھا ۔
************
” اد پبہ کہاں ہے آج پاہر چلتےہیں کہیں ک ھاپا ک ھاتے حب سے الہور آۓ ہیں نس کام
میں ہی لگے ہیں “
روسان تے سف ند کوٹ کی چ یب میں قلم رک ھتے ہوۓ چوسگوار اپداز میں سا متے ک ھڑی ماہ رخ
کو دپک ھا ۔ آج انفاق سے بی ٹوں کی سفٹ اپک ساتھ آٸ ت ھی اور وہ ت ھی دن کے اوقات میں
اسی پات سے قاٸدہ ات ھا پا روسان ل نڈبز س ناف روم میں آپا ت ھا اور اب ماہ رخ کے سا متے
ک ھڑا ت ھا چو کخھ دبر پہلے ہی ڈیوتی سے قارغ ہو کر آٸ ت ھی ۔
ماہ رخ تے ت ھریور مشکراہٹ جہرے بر سجاٸ ۔ وافعی اپہیں الہور آۓ بین ہفتے ہو چلے
تھےاور ات ھی پک وہ کہیں ت ھی گ ھو متے کی غرض سے پہیں گٸ ت ھیں ۔
ماہ رخ آگے بڑھ کر پلتی اور اسکے قدم کے ساتھ قدم مالۓ اپداز پہت بر چوش سا ت ھا ل نکن
دوسری طرف اس چوش کا کوٸ ابر دک ھاٸ پہیں بڑ رہا ت ھا
” ک ٹوں ؟“
اد پبہ تے ت ھکے سے اپداز میں سر بر ہاتھ ت ھیر تے ہوۓ پک ھرے پالوں کو سمی نا ۔ چو چ ھوتی
چ ھوتی ل ٹوں کی صورت میں جہرے بر آ کر الخھن کا سکار کر رہے تھے ۔
” ک ٹوں ک نا تھٸ بین ہفتے ہو گتے ہاس نل سے ہاسی نل ہاسی نل سے ہاس نل چلو نہ گھوم
کر ت ھی آٸیں گے کہیں“
ماہ رخ تے الڈ سے اس کے پازو کے گرد ا تپے پازو کو چاٸل ک نا بر دوسری طرف ہ ٹوز
ت ھکاوٹ اور تے زاری ت ھی
” ماہ رخ معلوم ہے نمہیں میری ڈیوتی آج ڈاکیر نمرہ کے ساتھ ت ھی اوتی میں اور نمہیں پ نا
ہے وہ کس قسم کی ہیں پہت ت ھک گٸ ہوں تھٸ “
پجارگی سے ماہ رخ کی طرف دپک ھا اور اس کا بر چوش جہرہ اپک دم سے سیجندہ ہوا اور ت ھر اگلے
ہی ملچے وہ ت ھر سے اسی برپک بر ت ھی
خفگی کے سے لہچے میں کہتے ہوۓ اد پبہ کے پازو کو چ ھوڑ کر س ندھی ہوٸ اد پبہ اپک دم
سے رکی گ ھوم کر رخ ماہ رخ کی طرف موڑا چو الیجاٸ نظروں سے اسے دپکھ رہی ت ھی ۔
اد پبہ تے چ ھنکے سے پ نگ اس کے ہاتھ سے ل نا اور ک ندھے بر ڈاال جس بر وہ فہقہ لگا گٸ
********
نہ الہور کے ونسین ہوپل کی چونصورت عمارت ت ھی ۔ اور اس وفت اس میں نہ ساپدار یوقے
پاکش نان سیر ل نگ کی نمام پٹمز کے لتے م نعفد ک نا گ نا ت ھا ۔
ہلکی سی پجتی موسنفی میں برپ ٹوں کی پجتے کی ک ھنک ت ھی ہلکے ہلکے سے فہقے گوپج رہے تھے ۔
وہ اپتی پل یٹ کو ت ھامے مجنلف ک ھایوں سے سچی فطار کے آگے ک ھڑا ت ھا حب ا پتے غفب
سے اسے آواز س ناٸ دی ۔ آواز کی پازگشت کا نعین کرتے ہوۓ میسم تے گردن گھماٸ ۔
وہ اس وفت س ناہ رپگ کے ت ھری بیس شوٹ میں مل ٹوس ت ھا ۔ کسرت کرتے کی وجہ سے
سیبہ اور پازو چوڑے ہو گتے تھے۔ پالوں کی اپک لٹ فولڈ ہو کر ما تھے بر موچود ت ھی اور
پ
آ ک ھیں اور جہرہ سیجندگی لتے ہوا ت ھا ۔
” ہتے!!!میسم کم ہیر “
پاکش نان کرکٹ یورڈ کے حیر مین عادل غزبز تے بر چوش اپداز میں میسم کو ہاتھ کے
اسارے سے پاس پالپا ۔ میسم مشکرا پا ہوا قرپب آپا ۔ الہور قلندر سٹمی قاٸپل میں پہیچ چکی
ت ھی ۔ اور اب قاٸپل سے پہلے اپک م نگا ایوپٹ رک ھا گ نا ت ھا جس میس نمام پٹمز سامل ت ھیں
۔
” ساپدار پ ٹی نگ چوان “
عادل غزبز تے میسم کی نشت کو ت ھ نکا ۔ اور ا تپے سا متے ک ھڑے جہابز پب کی طرف دپک ھا وہ
ت ھی بر س ناٸش نظروں سے میسم کی طرف دپکھ رہا ت ھا ۔ جہابز پب سییر پاکش نان کرکٹ
کوچ میں سے اپک ت ھا ۔
” ت ھی نک ٹو سر “
میسم تے سرماتے کے سے اپداز میں لب ت ھییچے یو گالوں کے گڑھے واضح ہوۓ ۔ ت ھوڑی
دبر مجنلف پایوں کے پ نادلے کے نعد وہ اچازت طلب کرپا ہوا وہاں سے چل بڑا
” جہابز پب لڑکے میں دم ہے “
جہابز پب تے فہقہ لگاپا ان کے ک ندھے ہل رہے تھے ۔ اب دویوں نقوس ہیس رہے تھے
عادل تے ت ھر سے پات کا رخ میسم کی طرف موڑا اور دور ک ھڑے کھالڑیوں کے پیچ مشکراتے
میسم کو دپک ھا
” چلو دپک ھتے ہیں قراز چاوپد سے ت ھی پات کرپا ہوں میں “
***********
روسان تے کار کو ونسین ہوپل کے سا متے روکا اد پبہ چو روسان کے ساتھ قرپٹ سیٹ بر
براچمان ت ھی گردن گ ھما کر ک ھڑکی سے پاہر دپک ھا ۔
ہ
” ممم یو گرلز ہو چاۓ یوقے؟ “
روسان تے اد پبہ کی طرف دپکھ کر لب ت ھییچے اور شوالبہ اپداز میں ت ھ ٹویں اخکاٸ ۔ ت ھر
گردن کو ت ھوڑا چم دپا اور پخ ھلی نسشت بر موچود ماہ رخ کی طرف دپک ھا دویوں تے ک ندھے
اخکاۓ ۔ روسان تے مشکرا کر دویوں کو گاڑی سے ابرتے کا اسارہ ک نا ۔ وہ لوگ آج الہور
اپکسٹو سیییر کی اگیزپ ٹیشن کے نعد ک ھاتے کے لتے آۓ تھے ۔ اور ک ھاپا روسان کھال رہا ت ھا
اس لتے وہ اپتی مرضی کی چگہ بر لے کر آپا ت ھا ۔
روسان الہور میں ا تپے ماموں کے ساتھ ان کے گ ھر میں رہاٸش بزبر ت ھا اور اس وفت وہ
لوگ جس گاڑی میں گ ھوم رہے تھے نہ ت ھی روسان کو اس کے ماموں کی ہی ع ناٸپت
کردہ ت ھی ۔
پ
گاڑی کو الک کر کے وہ لوگ ات ھی ہوپل کے داچلی دروازے پک ہیجتے ہی والے تھے
حب سک ٹورتی گارڈ تے دور سے ہی ر کتے کا اسارہ ک نا ۔ وہ لوگ یوقے کاربر کی طرف چا
رہے تھے ک ٹوں کہ اس ہوپل کا یوقے پہت ساپدار ت ھا ۔ روسان اسی غرض سے اپہیں
پہاں الپا ت ھا ۔
روسان تے دویوں کو وہیں ر کتے کا کہا اور چود سک ٹورتی گارڈ کی طرف بڑھ گ نا اور ت ھر کخھ
دبر میں چ یب میں ہاتھ ڈالے سر مارپا ہوا وانس آپا ۔
روسان تے لب پاہر نکال کر کخھ اقسوس زدہ اپداز میں سر کو داٸیں پاٸیں مارا چ ٹوری
کے سروع کے دن تھے اور چ نکی اس قدر بڑھ چکی ت ھی کہ وہ دویوں ت ھٹ ھر رہی ت ھیں اد پبہ
ہات ھوں کو اپک دوسرے کے ساتھ مس کر رہی ت ھی خیسے ہی روسان تے کرکٹ پٹم کا پام
ت ً
ل نا اس کے ہات ھوں کی چرکت کو برپک لگی کرکٹ کی لقظ بر فورا ماہ رخ تے ھی اد پبہ کے
جہرے کی طرف دپک ھا جس بر سے مشکراہٹ اپک جشت میں عاٸب ہوٸ ۔
روسان گاڑی کی طرف بڑ ھتے ہوۓ البرواہی سے کہہ رہا ت ھا وہ اد پبہ کی چالت سے پکسر
اپجان ت ھا ۔ اد پبہ وہیں ک ھڑی اب ہوپل کی عمارت کی طرف دپکھ رہی ت ھی ۔ ماہ رخ تے
گ ھیرا کر اسے دپک ھا
ہ
” ممم سہی “
ت
ماہ رخ تے اد پبہ کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا اور لب ھییچ کر چلتے کا کہا ۔ اد پبہ تے اپک نظر
ماہ رخ بر ڈالی یو دھیرے سے نفی میں سر ہال رہی ت ھی مطلب وہ چان چکی ت ھی کہ اد پبہ
اس وفت ک نا شوچ رہی ہے اور ڈر ت ھا کہ چزپات کی رو میں پہہ کر وہ اپدر کی طرف نہ چل
دے ۔ اد پبہ تے سر چ ھکاپا اور چاموسی سے گاڑی کی طرف بڑھ گٸ ۔
یو آج وہ ہو گا اپدر دل یو ک نا سارے پ ندھ یوڑ کر اپدر چاۓ اور اسے گر پنان سے پکڑ کر
چ ھیخوڑ ڈالے اور یو چھے ک ٹوں ک ٹوں چلے گتے تھے ۔ روسان تے اس کے لتے گاڑی کا
ب
دروازہ ک ھوال اور وہ مجسم کی طرح اپدر یٹھی ۔
میں تے حب ہاں کر دی ت ھی ۔ کہہ دپا ت ھا کہ میں پ نار ہوں یو ت ھر اسی وفت ک ٹوں پہیں
پ ناپا مخ ھے کہ تم چا رہے ہو تم تے شوچ رک ھا ہے ہم سب کو چ ھوڑ کر چاپا ۔ گاڑی کا پخ ھال
دروازہ ت ھی پ ند ہوا ماہ رخ کے بیٹ ھتے ہی روسان تے گاڑی س نارٹ کر دی ت ھی ۔
ل نکن تم یو نقرت میں اپ نا آگے چا چکے تھے تم تے نہ شوچا پک پہیں کہ تم میرے چزپات
سے ک ھنل رہے ہو ۔ گاڑی سڑک بر چل رہی ت ھی ۔ اور ہوپل کی عمارت دور سے دور ہو
رہی ت ھی وہ عمارت جس کے الن میں وہ اس وفت یورن قاٸر بر نظر چماۓ اداس سا ک ھڑا
ت ھا ۔ آگ کے سعلے اچ ھل اچ ھل کر ارد گرد گر رہے تھے کھالڑی اپک دوسرے کے ساتھ
مشتی میں لگے شور و عل کر رہے تھے ۔
اور اسے اپک دم سے کسی اجشاس تے چکڑا ت ھا ۔ سا متے ک ھڑی ل نڈبز کرکٹ کی کھالڑی
کوچ جس لڑکی سے پات کر رہی ت ھی وہ ہیس رہی ت ھی اس کے ہیشتے سے ہی اسے اد پبہ کی
کھلکھالتی ہیسی پاد آ گٸ ساٸد اس لڑکی کا اپداز ت ھا پا کخھ اور ت ھا اس ملچے میں کہ اد پبہ
سدت سے پاد آٸ ت ھی ۔گہری سانس لی تے ہوۓ آسمان کی طرف دپک ھا چودہویں سب کا چاپد
چمک رہا ت ھا۔
ہوا اد پبہ کے پالوں کی اڑا رہی ت ھی وہ گاڑی کی ک ھڑکی کو ک ھولے سر کو ت ھوڑا سا پاہر کی
طرف نکاۓ ہوۓ ت ھی ۔
ُ
نہ ک نا کہ روز اپک سا عم ،اپک سی ام ند
ت ُ
رپج تےچمار کی ،اب اِ پ نہا ھی ہو
اِ س ِ
ک ٹوں مخ ھے اس کے ذکر سے نکل نف ہوپا کم پہیں ہوتی ک ٹوں میں اسے ت ھول پہیں چاتی ۔
ک ٹوں ہے انشا ۔ لوگ یو کہتے ہیں وفت مرہم ہے انشا مرہم چو ہر زچم ت ھر د پنا ہے یو میرا
گ ھاٶ ک نا اپ نا گہرا ہے کہ ت ھر پہیں سک نا ۔ میں ک ٹوں نکل پہیں پا رہی اس دلدل سے مخ ھے
نکلنا ہے ہاں نس اب نکلنا ہے
اس تے گہری سانس لی اور آسمان کی طرف دپک ھا ۔ چودہویں رات ت ھی آج چاپد کی ۔
ب
وہ کھوٸ ک ھوٸ سی یٹھی اس پات سے پلکل تے حیر ت ھی کہ اس کے ساتھ بیٹ ھا نقوس
کیتی ہی دفعہ کن اک ھ ٹوں سے مج یت ت ھری نظر اس بر ڈال خکا ہے
************
سابزہ تے ار پبہ کے ک ندھے بر ک ندھا مارا اور ل ٹوں کو مبہ کے اپدر لے چا کر آپک ھوں سے
سا متے بیٹ ھے فہد کی طرف اساراہ ک نا ۔ چو کب سے اس کے اور ار پبہ کی طرف د پک ھے چا رہا
ت ھا۔ ار پبہ تے اپک براٸو پٹ کا لج سے تی انس سی کے نعد اب ا تپے بڑے ماموں کے
نقسے قدم بر چلتے ہوۓ ماسیرز آف کٹمسیری میں داچلہ ل نا ت ھا ۔
یوپ ٹورستی کا آج بیسرا دن ت ھا اور اچاپک سے اسی یوپ ٹورستی میں آج اس کا فہد سے آم نا سام نا
ہو گ نا وہ لوگ ک ٹیٹین بر کخھ ک ھاتے کی غرض سے آٸ ت ھیں اور سا متے بیٹ ھے فہد کی یو
خیسے ار پبہ کو دپکھ کر ع ند ہو گٸ پال وجہ داپت نکالے وہ پار پار اسے دپکھ رہا ت ھا۔
” اچ ھا!!!!!!“
سابزہ تے سرارت سے ار پبہ کی طرف دپکھ کر مع تی حیز اپداز میں اچ ھا کو لم نا ک ھییجا ۔ اور اپک
نظر سا متے بیٹ ھے لڑکے بر ڈالی چوش سکل چوبرو سا لڑکا ت ھا ۔
” انشا معتی حیز اچ ھا کرتے کی صرورت پہیں مخ ھے اس سے نقرت اور میری ماں اور گ ھر
والوں کو سدپد نقرت ہے “
ار پبہ تے کولڈڈرپک کا سپ لیتے ہوۓ پخوت سے پاک چڑھاٸ اور پالوں کو ال برواہی سے
چ ھ نکا ۔
سابزہ تے سرارتی اپداز میں پجلے لب کو داپ ٹوں میں دپاپا اور شوالبہ نظروں سے ار پبہ کی طرف
دپک ھا ۔ ار پبہ تے آپکھوں کو غصے سے ات ھاپا ۔
” ہاں ا نسے ت ھی کخھ کمال لوگ ہوتے ہیں معصوم سکل اور سنطاتی دماغ رک ھتے ہیں مخیرم
ان میں سے ہی اپک پاپاب بیس ہیں “
ار پبہ تے طیزنہ لہچے میں فہد کی سان میں نعرنفی کلمات کہے ۔ سابزہ یو مشلشل اس کی
طرف د پک ھے چا رہی ت ھی ۔فہد اب کان ک ھجا پا ہوا اپتی نسشت سے اتھ کر ان کی طرف آ رہا
ت ھا ار پبہ اس کی طرف نشت کتے ہوۓ ت ھی اس لتے اسے حیر پہیں ہوٸ
سابزہ تے سرگوسی کی۔ اور چجل سی ہو کر داٸیں پاٸیں دپک ھا ار پبہ کا مبہ کھل گ نا اور
ب
پاک ت ھول گ نا ۔ آپکھوں کو سکوڑ کر سا متے یٹھی سابزہ کو گھورا
ار پبہ تے میز بر دھرے سابزہ کے ہاتھ بر چ یت لگاٸ ۔ فہد ان کے سر بر پہیچ خکا ت ھا ۔
مبہ کے آگے ہاتھ رکھ کر گال صاف کرتے خیسی آواز نکالی ار پبہ تے سر ات ھاپا م ناسب
پہیں سمخ ھا
” اسالم عل نکم “
فہد تے گ ھوم کر ار پبہ کے سا متے آ کر چوش دلی سے کہا۔ پ ٹیسی پاہر ت ھی ۔ کرمزی رپگ
کی تی سرٹ کے یپچے حییز بی یٹ پہتے ت ھوڑے سے پک ھرے سے پالوں میں وہ گلی والی
چالت سے پہت الگ لگ رہا ت ھا ۔
” وعلنکم سالم “
ار پبہ تے داپت نکالتی سابزہ کو گ ھور کر دپک ھا اور داپت بیس کر سیجندہ سے اپداز میں سالم کا
چواب دپا ۔
فہد تے مدھم سی آواز میں پات آگے بڑھاٸ ۔ ل ٹوں بر ت ھر یور مشکراہٹ سجاۓ وہ اس دن
والی ار پبہ کو ساٸد ت ھول گ نا ت ھا جس تے مبہ بر ہاتھ ت ھیر کر اسے کہا ت ھا دپکھ لوں گی
نمہیں میں ۔
” سابزہ ات ھو “
ار پبہ تے چلدی سے آدھی کولڈ ڈرپک کو میز بر رک ھا اور ما تھے بر پل ڈالے اتھ کر ک ھڑی
ہوٸ ۔
” ارے ارے اپ نا غصہ ک ٹوں کر رہی ہیں مخ ھے یو چوسی ہوٸ نہ دپکھ کر آپ کا اپڈمیشن اس
یوپ ٹورستی میں ہوا ہے “
فہد تے ہاتھ کے اسارے سے ار پبہ کو رو کتے ہوۓ کہا ۔ جس بر اس تے اور چوپخوار نظروں
سے اسے دپک ھا ۔
ً
” خی بر آپ پہاں ؟؟؟ بڑھاٸ میں یو عال نا آپ میسم سے ت ھی چار ہاتھ اوبر تھے “
ار پبہ تے ت ھورڈی بر انگلی رک ھتے ہوۓ طیزنہ اپداز اپ ناپا ۔ وہ میسم سے بین کالس پیخ ھے ت ھا وہ
میسم سے عمر میں چ ھوپا ت ھا بر گلی میں کرکٹ ک ھنلتے کی وجہ سے دویوں کے درم نان گہری
دوستی ت ھی ۔ ار پبہ سہی کہہ رہی ت ھی بڑھاٸ میں وہ ت ھی انشا ونشا ہی ت ھا اس لتے اب چا کر
یوپ ٹورستی پک آپا ت ھا ۔
فہد تے ہاتھ مودپانہ اپداز میں پاپد ھتے ہوۓ برجشبہ چواب دپا جس بر دویوں کی گردبیں اپک
دم سے ک ٹی ٹین کی طرف گ ھومیں براپا سی ڈھانہ نما ک ٹی ٹین ت ھی ۔
” ک نا!!!!“
ار پبہ تے پاگوار سی نظر سا متے ک ھڑے شوپڈ یوپڈ فہد بر ڈالی ۔ جن کا اچ ھا چاصہ مشہور ہوپل
ت ھا سہر میں۔ اور وہ اس جشبہ چال ک ٹی ٹین کو چال پا ت ھا ۔
ار پبہ تے اپک ابرو چڑھا کر (مخ ھے کوٸ اتیرسٹ پہیں نہ چا تپے میں )خیشا جہرہ پ ناپا اور سابزہ
کا ہاتھ ت ھامے آگے بڑھی ۔ چ نکہ وہ ڈھی ٹوں کی طرح اب ت ھی پیخ ھے آ رہا ت ھا ۔
ار پبہ کے پیخ ھے پیخ ھے چلتے ہوۓ بڑے دوس نانہ اپداز میں کہا ۔ار پبہ اپک چ ھنکے سے ُرکی
ت م ُ
داپت بیسے اور ما تھے بر پل ڈال کر مڑی ۔ وہ ا تپے چوپخوار اپداز یں اسے د کھ رہی ھی کہ
پ
اس سے یوں تے نکلفی سے پات کرتے کی ساری ہمت ہوا ہو گٸ فہد ت ھوک نگل کر
رہ گ نا ۔ بر وہ ہ ٹوز و نسے ہی ک ھڑی ت ھی ۔
فہد تے ت ھر ہاتھ ک ھڑا ک نا اور اسے برسکون ہوتے کا اسارہ کرپا وہ وانس پلٹ گ نا ۔ غفب
سے سابزہ کا بر زور فہقہ کایوں سے پکراپا ۔
**********
” ک نا کول ڈاٶن عادل غزبز کو دپک ھا ت ھا اس رات پارتی میں کیسے اس کے ک ندھے ت ھنک
رہا ت ھا “
ک ندھا چ ھنک کر سازل تے ہاتھ کو ہوا میں ات ھا کر نقرت آمیز اپداز اپ ناپا ۔ فواد اور وہ اپک
ساتھ کرکٹ میں آۓ تھے اپک ہی سہر سے نعلق رک ھتے کی وجہ سے دویوں کی آنس میں
دوستی ت ھی ت ھی ۔
فواد تے چجل سا ہوپا ہوۓ نظریں چراٸیں اور میسم کی نعرنف کتے پ نا پا رہ سکا ۔
سازل تے داپت بیشتے ہوۓ ا پتے سر کے قرپب ہاتھ ال کر ہوا میں گ ھوماپا ۔ ا تپے ہی
دوست سے میسم کی نعرنف شن کر وہ اور آگ پگولہ ہو گ نا ت ھا ۔
فواد اپتی چگہ سے ک ھڑا ہوا ۔ اور کمر بر ہاتھ دھر کر نقرت کی آگ میں چلتے سازل کی طرف
دپک ھا ۔
” تم سمخھ پہیں رہے کل الہور قلندر اس کے دم بر خیتی یو سمخھ وہ گ نا بیش نل پٹم میں
“
سازل تے ما تھے بر پل ڈالے برشوچ اپداز میں اسے قاٸل کرتے کی کوشش کی ۔
” نہ علط ہے برو “
فواد کی آواز مدھم ت ھی ۔ کمر بر ہاتھ دھرے وہ اب پار پار نفی میں سر ہال رہا ت ھا ۔
” کخھ علط پہیں دپکھ یو ک ھنل کل کے میچ میں میں ک ھنلوں گا سٹمی قاٸپل ہمارے دم
بر خیتے گی کل الہور قلندر اس کے پہیں “
سازل تے ک ھڑے ہو کر اس ک ندھے بر دپاٶ ڈاال ۔ فواد تے تے نقی تی سے سازل کی طرف
دپک ھا چو اب کمیتی سی ہیسی ہیس رہا ت ھا ۔
ہ
” ممم ت ھنک ہے “
کخھ دبر شو چتے کے نعد فواد تے ت ھورڈی بر ہاتھ ت ھیر کر کن اک ھ ٹوں سے سازل کی طرف
دپک ھا ۔ کہہ یو وہ ت ھنک رہا ت ھا سیر ل نگ کے ہر میچ میں وہ چ ھاپا ہوا ت ھا۔ ا تپے ساتھ والے
کھالڑی کو یو پہت کم ک ھنلتے د پنا ت ھا ۔
*********
چم کا سیسے سے پ نا دروازہ ک ھول کر فواد اپدر داچل ہوا اور ارد گرد نظر دوڑا کر میسم کو پالش
ک نا ۔ رات ت ھر وہ سازل کی پات بر غور کرپا رہا اور ت ھر ان دویوں کے ساطر دماغ تے اپک
م نصونہ پ نار ک نا جس کی پدولت وہ میسم کو ا تپے چال ت ھیشا سکتے تھے ۔ کخھ دبر پالش
کرتے کے نعد ہی اپک چگہ چا کر نظروں کی پالش چٹم ہوٸ ۔
میسم و پٹ لقی نگ میں مصروف ت ھا جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا اور لب و پٹ کے اوبر یپچے کرتے
بر مجنلف زاوتے پدل رہے تھے کسرتی مضٹوط پازو سل ٹو لس سرٹ میں اس کی مج یت کا
واضح پ ٹوت تھے اب وہ پ نال سا کمزور سا میسم پہیں رہا ت ھا
فواد لمتے لمتے ڈگ ت ھرپا اس پک آپا اور اس کے سر کی طرف ک ھڑا ہوا ۔ وہ نظریں چ ھکاۓ
کسرت میں اپ نا مصروف ت ھا کہ اسے فواد کا پاس آ کر ک ھڑے ہوتے کا ت ھی پ نا پہیں چال ۔
فواد تے پجارگی سے آوازار صورت پ ناٸ ۔ آواز میں ت ھی نفاہت کا پابر بیش ک نا میسم چو ا تپے
جہرے کو پاول سے دھیرے دھیرے ت ھیٹ ھنا رہا ت ھا اپک ملچے کے لتے رکا برنشان سی نظر
فواد بر ڈالی ک ٹوپکہ کل سٹمی قاٸپل میں وہ دویوں ہی اوتیر تھے ۔ اور پہلی پارتیر سپ کا
مضٹوط ہوپا چ یت کے لتے پہت مع تی رک ھنا ت ھا
میسم تے برنشان سے لہچے میں کہا ۔ فواد تے مشکراتے ہوۓ سر کو اپ نات میں ہالپا ۔ بر
جہرے بر وہی ت ھکاوٹ کے اظہار کو برقرار رک ھا ۔
” اور س ناٶ پہت برپکیس ہو رہی آخکل ماساہللا پار پہت م نابر ہوا ہوں نم ھاری اپ نگز سے
نقین چایو “
فواد تے ت ھ ٹویں اخکا کر س ناٸسی نظروں سے میسم کی طرف دپک ھا میسم ا پتے مخصوص اپداز
میں ت ھوڑا سا سرما کر نظریں چ ھکا گ نا ۔ اور ت ھر پاس بڑی اپتی چم کٹ سے اپ تی ہڈ کو نکاال
میسم تے ہڈ کو چڑھاپا اور مشکراہٹ کو دپاتے ہوۓ سا متے ک ھڑے فواد کو دپک ھا ۔ فواد تے
ہلکا سا فہقہ لگاپا ۔
********
” اچ ھا “
ب
اد پبہ تے مدھم سے لہچے میں البرواہی برتی اور صوقے بر ڈ ھتے کے سے اپداز میں یٹھی ۔
پ
صوقے کی نشت سے سر نکا کر آ ک ھیں موپدیں ۔ وہ یو پہت کخھ پدل د تپے کی طافت رک ھنا
ت ھا اپک رات میں میرے دل کی دپ نا پدل سک نا ہے یو الہور قلندر کی شوٸ قسمت ت ھی پدل
سک نا ہے ۔ دل میں عج یب سی گ ھین ہوٸ ۔
ماہ رخ تے کان ک ھجاتے ہوۓ چ ھوتی مشکراہٹ جہرے بر سجاٸ اور چور نظر اد پبہ بر ڈالی
۔ چو اب س ناٹ جہرہ لتے روسان کی طرف دپکھ رہی ت ھی ۔
” یو وتے۔ےے۔ے۔“
اد پبہ اپک دم سے ات ھی اور پاس بڑے سف ند کوٹ کو ات ھاتی تیز تیز قدموں سے س ناف روم
سے پاہر نکل گٸ چ نکہ ماہ رخ تے زپان کو داپ ٹوں میں دپا ل نا اور روسان ہویق پ نا
دروازے کی طرف دپکھ رہا ت ھا جس سے ت ھوڑی دبر پہلے اد پبہ پاہر گٸ ت ھی ۔
وہ اس رات سے اد پبہ کے ساتھ وفت گزارتے کے پہاتے پالش کرپا رہ نا ت ھا اور آج ت ھی
اسی وجہ سے بین پکیس لے کر آپا ت ھا ۔ بر جس کے لتے اس تے اپتی مشکل سے نہ
پکیس لی ت ھیں اس کا ردعمل عج یب ت ھا ۔
” اسے ک نا ہوا “
مایوس سے آواز میں کہہ کر گردن ماہ رخ کی طرف موڑی ۔ چو پہلے سے اس اپ نطار میں ت ھی
کہ کب وہ اس چالت سے پاہر آ کر اس کی طرف د پک ھے ۔
” مطلب “
مخ س
پ م
روسان تے کخھ پا ھی کے اپداز یں ماہ رخ کی طرف د ک ھا جس تے گہری سانس لی
س
” مطلب کخھ پہیں تم پہیں مخھو گے سٹو تم چاٶ ہم ت ھر کہیں چلیں گے نم ھارے ساتھ
“
روسان چلدی سے ت ھوڑا آگے ہوا اور بر چوش اپداز میں ماہ رخ کو قاٸل کرتے کی کوشش
کی ۔
ماہ رخ تے ل ٹوں کو چ نا کر سرگوسی خیشا اپداز اپ ناپا ۔ روسان کخھ دبر برنشان چال سا ک ھڑا رہا
ت ھر مرپل قدم ات ھا پا پاہر کی طرف بڑھ گ نا ۔
**********
میسم کے پاٶں میں چوگر پہیتے ہاتھ رک گتے ۔ وہ ہی نڈ قری کایوں میں گھشاۓ یپچے چ ھکا
چوگر پہی ناچم کے لتے پ نار ہو رہا ت ھا فہد کی پات بر دل کی دھڑکن میخمد ہوٸ ۔ فہد اسے
اد پبہ کے پارے میں پ نا رہا ت ھا کہ وہ الہور کے کسی ہاسی نل میں ہاٶس چاب کر رہی ہے
۔ اور اسے پہاں آۓ مہیتے سے اوبر ہو خکا ہے ۔ تے ساحبہ ہی وہ ہاسی نل کا یوچھ بیٹ ھا
خیسے اسے ملتے پہیچ چاۓ گا ۔
” نہ یو معلوم پہیں “
ت
فہد کی مایوس سی آواز تے اس کے دل کی ھمی دھڑک ٹوں کو پجال ک نا ۔ ساکت سا لمجہ ت ھر
سے مچرک ہوا ۔ ک نا مخ ھے چاپا چا ہتے اس کے پاس اور یوچ ھنا چا ہتے کہ اب وہ چوش ہے نہ
چو وہ چاہتی ت ھی میں تے وہ کر دپا وہ چاہتی ت ھی ر ستے سے انکار میری طرف سے ہو ۔
” پ نا کر “
مدھم سی دور سے آتی آواز میں فہد سے کہا ۔ اگر یوچ ھوں گا پہیں یو دور سے دپکھ ہی لوں گا
کہ وہ چوش ہے نہ اب ۔ ذہن م نصوتے پ نا رہا ت ھا اور دل کی رف نار تیز سے تیز ہو رہی ت ھی ۔
دل کا یوں دھڑک نا پ نا گ نا ت ھا کہ میسم مراد مج یت ات ھی مری پہیں ہے اسی آب و پاب سے
رگوں میں چون ین کر دوڑ رہی ہے اسی لتے اس کی اپک چ ھلک کو دپک ھتے کا شوچ کر دل
کے نمپ ہوتے کی رف نار بڑھا دی ت ھی رگوں میں پہتے چون تے ۔
” ک ٹوں ؟“
فہد تے معتی حیز اپداز میں یوچ ھا ۔ جس بر وہ ت ھی خیسے ہوش میں آپا ۔ وہ کہاں اب اس کی
ت ھی کہ وہ فہد سے نہ کہ نا کہ اس کا دپدار کرتے چاۓ گا ۔ ا تپے دل کو سکون د تپے
چاۓ گا ۔
” ہاں و نسے سہی کہہ رہا یو ک ٹوں ک ٹوں یوچھ رہا ہوں میں ہاسی نل کا “
گہری سانس چارج کی اور تے پاب سے دل کو سرزنش ک نا ۔ دوسری طرف فہد ت ھی کخھ دبر
کے لتے چاموش ہوا
فہد تے چلدی سے اداسی کو دور کرتے ہوۓ جہکتی سی آواز میں کہا ۔ آج دوپہر میں سٹمی
قاٸپل ت ھا ۔ چم سے وانس آ کر ان کی پٹم م ٹی نگ ت ھی اور اس کے نعد س نڈتم کے لتے
رواپگی ۔
میسم تے خفگی ت ھرے لہچے میں مبہ ت ھالپا ۔ اس کی زپدگی کے ا پتے بڑے دن میں اس کا
کوٸ اپ نا اس کے ساتھ پہیں ت ھا پہت دل ت ھا کہ فہد ہی آ چا پا بر وہ ت ھی پہیں آ رہا ت ھا۔
فہد تے پجارگی سی ا تپے پا آتے کا چواز بیش ک نا ۔ دوسری طرف چاموسی سی ت ھی ۔ ہاں
سب گ ھر والے ا نسے ہی ہوتے ہیں۔ اس کے گ ھر والوں کے پاس ات ھی پک اس کا نہ پ نا
نمیر ت ھی پہیں ت ھا جس کے پارے میں اس تے فہد کو سجتی سے م نع ک نا ت ھا کہ وہ کسی کو
نمیر پہیں دے گا ات ھی اس کا ۔
س ممہ
م
” م مخھ سک نا ہوں “
آہشبہ سی آواز اور اداس سا لہجہ ۔ گ ھر والے سدت سے پاد آۓ تھے ۔سب کی مچی ٹیں
ذہن میں گھوم گٸ ت ھیں اپ نا غرصہ یو کٹھی دور پہیں رہا ت ھا وہ سب سے ۔ سدت سے
گ ھر کی درو دیوار پک پاد آ گٸ ت ھیں۔
ت ھوک نگال گلے کی گلتی تے صنط کا مطاہرہ کرتے ہوۓ اوبر سے یپچے سقر ک نا چلدی سے
اتھ کر ک ھڑا ہوا ۔ تم آپک ھوں کو چ ھ نکاپا ۔
فہد تے برچوش اپداز میں کہا جس بر دویوں تے فہقہ لگاپا اور ت ھر فون پ ند کرتے کے نعد وہ
سر پکڑ کر پ نڈ بر ڈھے سا گ نا ۔ سب پاد آ رہے تھے سب سب ۔ فون بر رانعہ کا نمیر
ڈاٸل ک نا ۔ فون کی رپگ چا رہی ت ھی ۔
” ہ نلو “
دوسری طرف چز نقہ کی آواز ات ھری ۔ رانعہ کا فون اکیر اوقات اسی کے پاس ہوپا ت ھا وہ گٹم
ک ھنلنا ت ھا اس بر وہ پار پار ہ نلو کہہ رہا ت ھا ۔ دل ک نا فون سے نکال کر چز نقہ کو سیتے سے لگا
لے آپک ھوں میں پاتی چمک گ نا اور سا متے کا م نظر دھ ندلہ بڑ گ نا ۔ وہ چزنقہ چو اسے اپک آپکھ
پ
پہیں ت ھا پا ت ھا بین ماہ سے اسے دپک ھتے کو آ ک ھیں برس گٸ ت ھیں۔
*********
” میسم شن پار نہ پال اپک ک ھنلوں گا اور ادھر آ چاپا طی نعت کخھ ت ھنک پہیں لگ رہی “
فواد تے میسم کے کان کے قرپب ہوتے ہوۓ کہا ۔ اور پلے کو زمین بر مارا آواز ت ھی ت ھکی
سی ت ھی ۔ وہ لوگ الہور س نڈتم میں اسالم آپاد یوپاٸپ نڈ کے دو شو چالیس پک کے دتے
گتے چدف کے چالف پلے پازی کر رہے تھے ۔ ات ھی نہ بیسرا ہی اٶور ت ھا حب فواد تے
اس کی سروعات میں ہی اس سے اپ تی طی نعت پاساز ہوتے کی پات کی ۔ میسم تے
برنشاتی سے فواد کے ابرے جہرے کی طرف دپک ھا ۔
” کوٸ پات پہیں فواد ت ھاٸ آپ اپک سکور کے لتے ت ھی نکو گی ند میں ک ھنلنا ہوں ت ھر زپادہ
ل نکن ات ھی پارتیر سپ پا یوتے ہماری “
فواد تے ت ھر سے پاد دھاتی کرواٸ میسم تے مشکرا کر نشلی آمیز نظروں سے دپک ھا ۔
” اوکے “
میسم تے مشکرا کر ہاتھ کا اسارہ دپا اور پچ کی مجالف سمت کی طرف گ نا ۔ فواد پلے پازی
کے لتے وکٹ کے آگے چا کر ک ھڑا ہوا ۔
” فواد وکٹ کے آگے چگہ سیٹ ھال ہوۓ الہور قلندر کو دو شو چالیس کے چدف کا سام نا “
ک
کمیییری کی گوپج میں ک ھجا ھچ ت ھرے س نڈتم کا شور ت ھا ۔ میسم کو اب فواد کی طی نعت کی قکر
ہو رہی ت ھی ۔
کمیییری کی پازگشت بر میسم تے ت ھوڑا سا پیخ ھے ہو کر کمر بر ہاتھ رک ھا اور گی ند پاز بر نظریں
چماٸیں ۔
پ ٹوزی لی نڈ کا کھالڑی قرپڈ گی ند کو ہاتھ میں ت ھامے اپتی چگہ سیٹ ھال خکا ت ھا قرپڈ پہت اچ ھا
سییر گی ند پاز ت ھا ۔ قرپڈ تے پازو کو پیخھے لے چا کر گ ھماپا اور گی ند اڑتی ہوٸ فواد کی طرف
بڑھی ۔ فواد تے پال گ ھماپا میسم تے کمر بر سے ہاتھ ہ ناپا اور ت ھا گتے کے لتے چود کو پ نار ک نا ۔
” اور نہ فواد کے پلے سے گی ند پکراتی م ندان میں آصف گی ند کے پیخ ھے ت ھا گتے ہوۓ “
فواد تے پازو کو کم لجک دے کر گی ند کو قرپب ہی ت ھی نکا۔ اب اسالم آپاد پٹم کا ف نلڈر گی ند
ً
کے پیخ ھے ت ھاگ رہا ت ھا ۔ فواد تے میسم کی طرف دپک ھا اور میسم تے فورا فواد کی طرف دوڑ لگاٸ
۔ گی ند تیزی سے م ندان بر لڑھکتی ہوٸ چا رہی ت ھی اور رفبہ رفبہ رگڑ سے اس کی رف نار کم ہو
رہی ت ھی ۔
” اوہ نہ علط ک نا میسم تے میسم کو سکور کے لتے وکٹ کی طرف پہیں ت ھاگ نا چا ہتے “
کمی ٹ یییر کی آواز کایوں میں بڑ رہی ت ھی ل نکن چ نال صرف فواد کی طی نعت کا ت ھا ۔ وہ اپتی
یوری فوت لگا کر ت ھاگ کر اب پچ کے درم نان میں پہیچ خکا ت ھا ل نکن نہ ک نا سا متے فواد تے
ت ھر سے پیخ ھے کی طرف دوڑ لگا دی ۔اور وکٹ کے پاس وانس پہیچ کر اب ہاتھ کے اسارے
سے وہ میسم کو پیخ ھے چاتے کے لتے کہہ رہا ت ھا ۔
” اور نہ ک نا فواد روک رہے ہیں میسم کو اور پیخ ھے چاتے کا کہہ رہے “
کمی ٹ یییر کی الخھی سی آواز ات ھری سب لوگوں کا شور زپادہ ہو گ نا ت ھا۔ میسم کو اپک ملچے کے
لتے سمخھ پہیں آپا ک نا کرے بر فواد وانس چا خکا ت ھا اب اس کو ت ھی پیخ ھے کی طرف ہی دوڑ
لگاتی ت ھی ۔
ف نلڈر گی ند کو ہاتھ میں ت ھامے تیزی سے مڑا ۔ میسم تے اپتی یوری چان لگاٸ ت ھا گتے میں
اس کا جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا ۔ دماغ سل ہو گ نا ت ھا اب کخھ ت ھی سمخھ پہیں آ رہا ت ھا ۔
کمیییری اور لوگوں کی آوازٶں کا شور میسم کے کایوں کے بردوں سے پکرا رہا ت ھا ۔
ً
آصف تے فورا گی ند کو وک ٹوں کی طرف ت ھی نکا ۔ میسم تے وکٹ سے ت ھوڑی دوری بر ہی پازو
کو لم نا ک نا اور چ ھالپگ لگاتے کی سکل میں زمین بر گھش ٹی نا ہوا آگے آپا ۔ پک کی آواز سے
گی ند وک ٹوں سے پکراٸ اور اس کے اوبر بڑی ولز اڑتے ہوۓ دور چا گرے ۔
” او۔و۔و۔۔و۔و۔وور نہ “
کمی ٹ یییر کی اقسردہ آواز کے ساتھ یورے س نڈتم میں الہور کی غوام کی مانمی آہ اپک ساتھ
گوپچی اب سب کی نظریں اپک ساتھ ام ناٸر کی طرف ات ھیں ۔ جس تے بر شوچ اپداز
میں دویوں ہات ھوں سے ہوا میں چکور نشان پ ناپا ۔ کخھ لوگوں تے سروں بر ہاتھ رکھ لتے تھے
کخھ پاجن چ ناتے لگے تھے اور کخھ الخ ھے سے بیٹ ھے تھے ۔
کمیییری گوپچی اور میسم کے ساتھ ساتھ سب کے دل دھڑ کتے لگے ۔ میسم تے برنشاتی سے
نظریں ت ھرڈ ام ناٸر سکرین بر چماٸیں ۔
” ارسالن کخھ کہا پہیں چا سک نا ات ھی آصف تے پہت ساپدار طر نقے سے وک ٹوں کا نشانہ لگا
ڈاال “
علی کی ت ھی الخھی سی آواز ات ھری ۔ میسم تے سا متے ک ھڑے فواد بر اپک نظر ت ھی پا ڈالی بر
دماغ کی نسیں ت ھو لتے لگی ت ھیں۔
کمیییری کی پازگشت گوپچی یورڈ سکرین بر پار پار وک ٹوں سے پکراتی گی ند اور پلے کی یوزنشن کو
دک ھاپا چا رہا ت ھا ۔
” پال ہوا میں مجسوس ہو رہا ہے ارسالن الہور قلندر کو اپک پہت بڑا نقضان “
علی کی اقسوس سے ت ھری آواز گوپچی لوگوں تے روتے خیسی سکلیں پ ناٸیں ۔ت ھرڈ ام ناٸر
تے آٶٹ کا لقظ سکرین بر دک ھاپا۔ اور میسم تے زور سے پلے کو ہوا میں چالپا ۔
” اور نہ اٶٹ “
کمیییری کی آواز گوپچی ۔ چ ند لوگوں کا شور گوپجا چو چوش ہو رہے تھے اسالم آپاد کی پٹم کے
لوگ اپک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے ہاتھ بر ہاتھ مار رہے تھے میسم مراد آٶٹ ہو خکا
ت ھا ۔
کمیییری گوپج رہی ت ھی سارے لوگ اقسردہ صوریوں سے بیٹ ھے ہوۓ تھے ۔ فواد ت ھاگ نا ہوا
میسم کے پاس آپا ۔
فواد تے میسم کے ک ندھے بر ہاتھ رکھ کر اقسردہ سی آواز میں کہا میسم تے چ ھکی پلکیں اوبر
پ
ات ھاٸیں آ ک ھیں سرخ ہو رہی ت ھیں ۔ فواد کی نظروں میں نظریں گاڑیں میسم کی نظروں میں
کخھ انشا ت ھا کہ فواد چجل سا ہو کر نظریں چرا گ نا ۔
” سکور ہو سک نا ت ھا فواد ت ھاٸ ہم سیر ل نگ چ یت سکتے تھے “
س ناٹ جہرے کے ساتھ مدھم سی آواز میں کہہ کر وہ مڑا اور ت ھر سر چ ھکا کر پ ٹولین کی
طرف بڑھ گ نا ۔
کمی ٹ یییر کی پازگشت سے دل عج یب سا تیزار سا ہوا پلے کو دیوں ہات ھوں میں پکڑ کر ہوا میں
گ ھما ڈاال ۔
” علی نہ الہور قلندر کو پہت بڑا نقضان ہوا ان کا پہیرین پلے پاز سٹمی قاٸپل میں پہیں
ک ھنل سکا “
ارسالن کی اقسوس ت ھری آواز گوپچی ۔ ابراہ ٹم پلے کو پکڑے داٸیں پاٸیں پازو چال پا ہوا
نسسٹوں کے درم ناتی میں موچود ز تپے کو ابر رہا ت ھا ۔
” میرے چ نال سے اب فواد اور ابراہ ٹم کو پارتیر سپ کو الپگ السی نگ پ ناپا چا ہتے ک ٹوپکہ
میسم کے نعد اب اپ نا پارگٹ مشکل ہے ان کے لتے “
علی تے ارسالن کو مجاطب ک نا ۔ میسم ت ھاری ت ھاری قدم ات ھا رہا ت ھا ہر سخص چاپ نا ت ھا آٶٹ
ہوتے میں اس کی کوٸ علطی پہیں ت ھی ل نکن ت ھر ت ھی وہ چود کو ہی فصور وار سمخھ رہا ت ھا ۔
ارسالن تے اپتی راۓ کا اظہار ک نا۔ میسم چلدی سے خییجنگ روم کی طرف چا رہا ت ھا ۔ اور
ت ھر الہور قلندر برے طر نقے سے سکشت ک ھا کر سٹمی قاٸپل سے پاہر ہوٸ ۔
***********
” چاۓ “
روسان تے چاۓ کے دو کپ اد پبہ کے سا متے میز بر ر کھے ۔ اد پبہ چو گردن بر ہاتھ ر کھے
اسے ہلکا ہلکا دپا رہی ت ھی مشکراتی ہوٸ س ندھی ہوٸ ۔ وہ ہاسی نل سے کخھ دوری بر ہی موچود
اپک کے انف سی میں بیٹ ھے تھے ۔
” ت ھنک ٹو “
اد پبہ تے چاۓ کے کپ کو ہات ھوں میں ت ھاما روسان اب اس کے پلکل سا متے کرسی کو
پ
پیخ ھے کرپا ہوا براچمان ہوا ۔ وہ ات ھی ہاسی نل ہیچی ہی ت ھی حب کخھ دبر نعد روسان آپا اس کی
سفٹ چٹم ہوٸ ت ھی اور چاۓ بیتے کی آقر اد پبہ کو کی جسے وہ رد پہیں کر سکی ک ٹوپکہ ات ھی
ڈاکیر نمرہ آٸ پہیں ت ھیں جن کے ساتھ اس کی ڈیوتی ت ھی آج آبرنشن میں ۔
ماہ رخ وپک اپ نڈ بر حیر یور گٸ ت ھی ل نکن اد پبہ پہیں گٸ ت ھی۔ اور اسے یوں اک نلے ال کر
روسان کو چوسگوار سا اجشاس ہو رہا ت ھا ک ٹوپکہ اس سے پہلے ماہ رخ کے ہوتے ہوۓ اسے
نہ موفع کٹھی میسر پہیں آ پا ۔
اد پبہ تے چاۓ کے کپ کو یپچے ک نا اور مشکراتے ہوۓ معتی حیز اپداز میں نظریں
ات ھاٸیں ک ٹوپکہ ڈاکیر نمرہ کے پارے میں سب چا تپے تھے وہ کسی کو ت ھی کٹھی ت ھی کوٸ
پاسک دےد پتی ت ھیں اور ہاٶس چابییز کی یو زپادہ درگت بیتی ت ھی ان کے ہات ھوں
” اوہ آٸ سی “
روسان تے ہلکا سا فہقہ لگاپا۔ اور گہری نظروں سے دپک ھتے ہوۓ ت ھر سے چاۓ کا سپ ل نا
۔
” اور آپ ؟ “
اد پبہ تے شوالبہ اپداز میں دپک ھا ۔ روسان کے جہرے بر موچود مشکراہٹ اپک دم سے
عاٸب ہوٸ ۔ روسان تے کوٸ چواب پہیں دپا ۔
” مطلب ؟ “
مخ س
ت
اد پبہ تے پا ھی سے ھ ٹویں اخکاٸیں ۔
” اٸ اٸ اتم شوری “
اد پبہ تے سرم ندہ سے لہچے میں گڑ بڑا کر کہا ۔ روسان کی ک نف یت عج یب سی ہو گٸ
ت ھی اس کے والد کے یوچ ھتے بر اد پبہ برنشان سی ہوٸ ۔
” انس اوکے “
گ ھتی سی آواز میں کہہ کر روسان تے گال صاف ک نا ۔ اور ت ھر چاۓ بر نظر چماٸ
روسان کی دکھ ت ھری آواز بر اد پبہ تے چوپک کر چ ھکا ہوا سر اوبر ات ھاپا ۔ اس کے جہرے بر
کرب ت ھا
” میں پہت چ ھوپا ت ھا حب میرے تیربیس میں علیجدگی ہوٸ میری مدر ڈاکیر ت ھیں قادر ت ھی
پہت بڑے ہارٹ س ٹیشلشٹ ہیں “
روسان تے زبردستی کی ت ھنکی سی مشکراہٹ جہرے بر سجا کر اد پبہ کی طرف دپک ھا چو اب
ب
دک ھی سی یٹھی ت ھی ۔
اد پبہ تے برم سے لہچے میں یوچ ھا روسان آج پہلی دفعہ اسے ا پتے پارے میں پ نا رہا ت ھا ۔ اور
وہ شن کر اس کے دکھ کو مجسوس کر سکتی ت ھی یو پہی وجہ ت ھی اپتی ماں کے گزر چاتے
کے نعد وہ اس بری برح یوپا ت ھا ک ٹوپکہ وہ سنگل تیرپٹ چاٸلڈ ت ھا ۔ اد پبہ کے ذہن تے
کڑی سے کڑی مالٸ ۔
ت ھنکی سی مشکراہٹ اور اداس آپک ھوں میں پہت کخھ ادھورا سا ت ھا ۔ جس کو وہ مجسوس کر
سکتی ت ھی ا چھے سے پاپ کے پ نا خی نا کی نا کٹ ھن ہے نہ وہ ت ھی چاپتی ت ھی ۔
” اور اب “
چ
اد پبہ تے ھجکتے ہوۓ ت ھر سے شوال کر ڈاال ۔
” اب وہ پہاں پاکش نان میں پہیں ہوتے پاہر ہیں ان کی فٹم نلی ہے وہ چوش ہیں اپتی زپدگی
میں “
روسان تے گہری سانس چارج کرتے ہوۓ پیخھے ہو کر کرسی کی نشت سے سر نکاپا ۔
” اور ڈاکیر عاپد میرا مطلب ہے نم ھارے ماموں کی فٹم نلی میں کون کون ہے “
” ماموں کی اپک بیتی ہے پاہر ہے سادی کے نعد اب مماتی اور ماموں اور میں “
روسان تے سرارتی سے اپداز میں مشکراہٹ دپاٸ ۔ چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کن اک ھ ٹوں
سے اد پبہ کی طرف دپک ھا اد پبہ تے حیرت سے ذہن بر زور د تپے خیسے اپداز سے آپکھوں کو
سکوڑا ۔
حیراپگی سے ذہن بر زور د تپے ہوۓ شوال ک نا ۔ روسان اس کی حیرت بر تے اخی نار مشکرا
دپا ۔
” یو وتے۔ے۔ے۔ے “
” دویوں کی برس نالتی کیتی مجنلف ہے میرا مطلب ڈاکیر عاپد ا تپے سافٹ اور وہ “
اد پبہ ات ھی ت ھی حیران سی ت ھی ۔ اور روسان مشلشل اس کی حیراپگی بر ہیس رہا ت ھا۔
” وہ انسی صرف ہاسی نل میں ہیں گ ھر میں پہت اچ ھی یوالٸٹ ل نڈی ہیں کٹھی گ ھر چلنا
تم اور ماہ رخ “
” ارے پہیں ڈر لگ نا ہے “
اد پبہ تے چوف سے نفی میں سر ہالپا ۔ اور ت ھر اپک دم سے ک ھڑی ہوٸ ۔
”اور پاد آپا تم سے پایوں میں پ نا ہی پہیں چال وفت کا ڈاکیر نمرہ چان نکال دیں گی میری “
عجلت میں اپ نا پ نگ ک ندھے بر ڈال کر روسان کو چلدی کرتے کا اسارہ ک نا ۔ چو مشکرا پا
ہوا اب ساتھ چل بڑا ت ھا ۔
************
ار پبہ تے سابزہ اور غفت کو پیخ ھے ک نا اور آگے ہوتے ہوۓ سا متے ک ھڑے لڑکے سے پ نک
کر کہا چو اب پدنمیزی کی چدیں ع ٹور کرپا چا رہا ت ھا ۔
مخ س
” مسٸلہ یو آپکی دوست کے ساتھ کے ہے نہ چود کو ھتی ک نا ہے “
لڑکے تے داپت بیشتے ہوۓ سرخ جہرہ سابزہ کی طرف موڑا ۔ چو پہلے سے ہی سانس
ت ھوالۓ ک ھڑی ت ھی ما تھے بر سکن تھے اور صورت روہانسی ہو رہی ت ھی جس بر بزل نل کا
اجشاس صاف واضح ت ھا ۔
وہ لوگ برزبی ٹیشن کے نعد ات ھی ھال میں سے نکلے ہی تھے حب سابزہ تے اس لڑکے کو
روک ل نا ت ھا چدپد پامی نہ لڑکا ان کی کالس کا سب سے پدنمیز اور اک ھڑ لڑکا ت ھا ۔ ان کے پہلے
سمسیر کی قاٸپل بربزپ ٹیشن ت ھی یوری کالس کو نہ پات معلوم ت ھی کہ سابزہ کو سییج کا
سام نا کرپا اپ نہاٸ کٹ ھن لگ نا ہے ۔ اور سابزہ تے سب سے درچواست ت ھی کی ت ھی کہ حب
وہ سییج بر چاۓ یو سب کالس ف نلو اس کا چوصلہ بڑھاٸیں ۔ل نکن نہ لڑکا اور اس کا
گروپ چاص طور بر سابزہ کو برنشان کرتے کے لتے اپک عدد انشا س ناہ جسمہ لے کر آپا ت ھا
جس میں اپک طرف سیشہ ت ھا اور اپک طرف پہیں ت ھا خیسے ہی سابزہ سییج بر گٸ اور یول نا
سروع ک نا یو چدپد تے وہ جسمہ پہن ل نا اب اس کے دوست چو کہ اس کے ارد گرد بیٹ ھے
تھے وہ ت ھی اس کا ت ھریور ساتھ دے رہے تھے سابزہ کی نظر اس بر بڑی یو معمول کے
مطایق اس کے ذہن اس کی زپان کا ساتھ چ ھوڑتے لگا ت ھر اس لڑکے تے پدنمیزی کی چد
پہاں پک ہی مجدود پہیں رک ھی پلکہ ا لتے س ندھے شوال کرتے سروع کر دتے ۔ اور وہ
جس پات سے ڈر رہی ت ھی وہی ہوا اس کی قاٸپل بربزپ ٹیشن میں وہ اچ ھی کارکردگی پہیں دک ھا
سکی ۔اور اب حب پاہر نکلتے ہی سابزہ تے اسے روک کر اس کی اس پدنمیزی کی پاز ُبرس
کی یو وہ ہٹ ھے سے ہی اک ھڑتے لگا ۔ سابزہ کے ساتھ ک ھڑی ار پبہ تے حب اسے روہانسی
صورت پ نا کر ہارتے دپک ھا یو چود آگے ہوٸ ۔
” آپ برزبی ٹیشن کے دوران اس طرح کی چرک ٹیں کریں گے ار رپل ٹوپٹ کونسخن کریں گے
مزاق اڑاٸیں گے یو س ٹیں گے ت ھی اپک کالس ف نلو ہوتے کے پاطے آپکو سٹورٹ کرپا
چا ہتے کہ “
ار پبہ تے داپت بیس کر سجتی سے کہا۔ جس بر وہ اب سابزہ سے رخ موڑ کر ار پبہ کی طرف
س ندھا ہوا اس کے جہرے بر موچود کمی نگی دپکھ کر ار پبہ کے الفاظ درم نان ہی دم یوڑتے لگے
۔
” میری مرضی میرا جہرہ ت ھا میں چاہے یوپا جسمہ پہ ٹوں پا کخھ ت ھی کروں آپ کو ک نا
مسٸلہ ہے “
وہ اب ار پبہ کے ساتھ ت ھی اسی پدنمیزی سے بیش آ رہا ت ھا جس سے وہ کخھ دبر پہلے سابزہ
سے آ رہا ت ھا۔ چدپد کی اکڑ کی اپک وجہ ان کے گروپ میں کسی لڑکے کا نہ ہوپا ت ھی ت ھا ۔
یوری کالس میں واچد ان کا گروپ ت ھا جس میں کوٸ لڑکا ممیر پہیں ت ھا غفت سرغی بردہ
کرتی ت ھی سابزہ و نسے ہی ت ھوڑی دیو سی گاٶں کی لڑکی ت ھی سابزہ تے گ ھیرا کر ساتھ ک ھڑی
غفت کی طرف دپک ھا ت ھر ار پبہ کے ک ندھے بر ہاتھ رک ھا۔ اپداز انشا ت ھا خیسے کہہ رہی ہو دفعہ
کرو ک نا اس کے مبہ لگ نا ۔
” آپ خیسی چ ھوتی ذہی یت کے لوگ ہوتے ہیں چو چود یو کسی قاپل ہوتے پہیں آ پا چا پا
چاک پہیں ل نکن کسی اور کو ت ھی اس مفام بر پہیں دپکھ سکتے “
ار پبہ تے سابزہ کے ہاتھ کو ک ندھے بر سے ا پار کر غصے سے آگے ہوتے ہوۓ کہا ۔ جس
بر چدپد کے ما تھے بر سکن کی لکیریں اور بڑھ گٸ۔ وہ پٹھر کے پاک ت ھال گ نا ۔
” ک نا ہو رہا ہے نہ “
غفب سے آتی آواز بر سب مڑے تھے فہد ا تپے چند ہم چماغت کے ساتھ ک ھڑا سرٹ کے
پازو اوبر چڑھا رہا ت ھا سا متے ک ھڑے چدپد کو چوپخوار نظروں سے گ ھور ا ۔ سییرز کو دپکھ کر چدپد
ت پ ک ً
کے ساتھ ک ھڑے کخھ لڑکے یو فورا ھ ک تے ھے۔ قزکس ڈ پنار م یٹ کا نہ یج و نسے ھی
ن ت ل ش
یوری یوپ ٹورستی میں مشہور ت ھا ۔ فہد یو اب ار پبہ کو دپک ھتے کے لتے کٹمسیری ڈ پنارنم یٹ آ پا ت ھا
۔
” ہاں ک نا مسٸلہ ہے “
چدپد تے بڑے اپداز سے ا تپے دویوں پازو کو چ ھنک کر ساتھ ک ھڑے لڑکوں کا ساتھ
چ ھڑواپا ۔ ار پبہ تے حیراپگی سے فہد کی چاپب دپک ھا چو آج کخھ مجنلف ہی اپداز لتے ہوۓ
ت ھا۔ فہد کا اسی وفت پہیجنا ار پبہ کو سکون دے گنا ۔ انشا لگا خیسے کوٸ پہت ہی اپ نا آ گ نا
ہو۔
فہد تے ار پبہ کی طرف رخ ک نا اور ہاتھ کی انگل ٹوں کو ہلکی سی چ ٹیش د تپے ہوۓ دویوں کو
وہاں سے چاتے کے لتے کہا ۔ اس کا نہ اپ ناٸپت ت ھرا اپداز عج یب طرح سے دل کو ت ھاپا
وہ الخھ سی گٸ ۔ الخھی الخھی سی پیخ ھے ہوٸ۔
چدپد تے پاک ت ھال کر سابزہ کی طرف دپکھ کر ڈھ ناٸ سے چ ھوٹ یوال۔ فہد کے ساتھ
ک ھڑے مضٹوط لڑکے ت ھی قدم قدم اب چدپد کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
” ت ھاٸ چ ھوٹ یول رہا نہ مہ۔۔میں تے انشا کخھ ت ھی پہیں ک نا “
” س ٹیں “
گ ھتی سی آواز بر دویوں تے گردن ات ھا کر سا متے ک ھڑے چدپد کی طرف دپک ھا۔ جس کے
جہرے بر ت ھوڑی دبر پہلے والی کوٸ اکڑ موچود پہیں ت ھی ۔
سابزہ تے آپکھ کے پ ند کرتے ہوۓ سرارت سے ار پبہ کو چ ھیڑا۔ ار پبہ تے س ٹی نا کر ارد گرد
دپک ھا م نادہ اس کے یوں فہد کو اسکا ہیرو کہتے والی پات کسی کے کایوں میں نہ بڑ گٸ ہو
۔
ار پبہ تے مبہ ت ھال کر گ ھور کر دپک ھا جس بر وہ اور غفت فہقہ لگا گٸیں چ نکہ وہ اب
ا تپے دوسٹوں کے ساتھ اپک طرف بیٹ ھتے فہد کی طرف دپکھ رہی ت ھی۔
**********
” یو چو پہیں ک ھنل رہا اپ نا اچ ھا اسے نکال دو آسیرپل نا کے ساتھ سیربز ک ھنلتے چا رہے ہیں ہم
کوٸ معمولی پات یو پہیں ہے نف پٹم ہے وہ ہمیں ا تپے بیشٹ لے کر چاتے ہوں گے
“
عادل غزبز تے میز بر کہی ٹوں کے پل پازو رکھ کر ویوق سے سا متے بیٹ ھے فومی پٹم کے
کی نان یوفیر عامر کی طرف دپک ھا ۔
آسیرپلنا کے ساتھ سربز میچ سے پہلے کرکٹ یورڈ کے حیرمین عادل غزبز تے اپک م ٹی نگ
طلب کی ت ھی جس کا بی نل اس وفت حیر مین آقس کے میز کے گرد رک ھی گٸ نسسٹوں
بر براچمان ت ھا عادل غزبز مشٹم مراد کو آسیرپل نا کی سربز کے لتے رپکم نڈ کر رہا ت ھا ۔
” یو ت ھنک ہے نہ اس لشٹ میں موچود چو پ ٹیس مین پہلے آسیرپلنا کی سربز کے لتے
سلنکٹ ت ھا اسے نکال کر میسم مراد کا پام ڈال دو “
عادل غزبز تے آپک ھوں بر پکے جسمے کو ت ھوڑا یپچے کرتے ہوۓ ۔ لشٹ بر نظریں چماٸیں
اور ت ھر گہری سانس لے کر اپ نا ف نضلہ س ناپا ۔
” اوکے سر سازل کو نکال د تپے ہیں ت ھر اس سربز کے لتے پخ ھلے دو سال سے کوٸ
کارکردگی پہیں ہے اس کی ۔ “
قراز تے سر ہالتے ہوۓ کہا جس بر یوفیر تے پاٸپد کی اور ت ھریور طر نقے سے ساتھ دپا۔
” اور لییر پ نار کریں میسم مراد کے لتے اور آپ لوگوں میں سے کسی کو میری اس پ ندپلی بر
اغیراض ہو یو پات کریں “
عادل غزبز تے کن اک ھ ٹوں سے ا تپے سا متے بیٹ ھے بی نل بر نظر دوڑاٸ ۔ سب تے نفی میں
سر ہالپا ۔
” گڈ “
عادل غزبز تے مشکرا کر جہابز پب کی طرف دپک ھا ۔ سیر ل نگ کا قاٸپل اسالم آپاد یوپاٸپ نڈ
کوٸنہ سے چ یت گ نا ت ھا ۔ ل نکن میسم مراد الہور قلندر کی ہار کے پاوچود پہت سے دلوں بر
ً
چ ھا گ نا جن میں سے اپک عادل غزبز تھے ۔اسی لتے سیر ل نگ کے فورا نعد ک ھنلے چاتے
والے یورپام یٹ میں اپہوں تے میسم کو فومی پٹم میں سامل کرتے کا ف نضلہ کر ل نا ۔
********
ماہ رخ تے دی س ناٸل م نگزین بر تپے میسم کے بڑے سے یوسیر کو س ناٸسی نظروں سے
ب
دپک ھتے ہوۓ تے ساحبہ کہا اس کے پلکل برابر یٹھی اد پبہ چو پال چواز ا تپے موپاٸل سکرین
بر انگلناں چال رہی ت ھی تے ساحبہ م نگزین بر نظر دوڑا گٸ ۔
میسم سیز رپگ کے فومی کرکٹ یوپ نفارم میں مشکرا رہا ت ھا حب سے پاکش نان آسیرپل نا سربز
چ یت کر آ پا ت ھا میسم مراد یورے پاکش نان کا ہیرو ین گ نا ت ھا ۔ اور اب ت ھی پاکش نان کے اس
مشہور م نگزین میں اس کا اتیریو چ ھنا ت ھا جس کے ساتھ چ ناب کا پہت بڑا یوسیر ت ھا ۔
کی نا پدل گ نا ت ھا وہ جسم ت ھر گ نا ت ھا پازو کسرتی مضٹوط ہو گتے تھے جہرہ پک ھر گ نا ت ھا ۔ اد پبہ
تے اپک ت ھر یور نظر یوسیر بر ڈالی اور ت ھر تے برپ یب ہوتی دھڑک ٹوں بر قایو پاتے ہوۓ
نظریں چراٸیں ۔
مدھم سی آواز میں کہتی ہوٸ س ندھی ہوٸ ۔ چود بر پہت چد پک قایو پاپا وہ س نکھ چکی ت ھی ماہ
رخ تے اس کی تیزاری مجسوس کرتے ہی چلدی سے سرم ندہ سا ہوتے ہوۓ م نگزین کو
پ ند ک نا ۔ ت ھر کخھ پاد آتے بر اس کے ل ٹوں بر مشکراہٹ پک ھر گٸ سرارت سے اد پبہ کے
صنط کرتے جہرے کی طرف دپک ھا ۔
ہ
” ممم اچ ھا شن سام کا ک نا پلین ہے ت ھر “
اد پبہ تے پخوت سے پاک چڑھاٸ ۔ اور پازو کو اوبر کرتی ہوٸ حت ل یٹ کر چ ھت کو دپک ھا ۔
ماہ رخ الماری میں ل نکتے سرخ رپگ کے قراک کو لے کر مڑی نہ وہ قراک ت ھا چو ات ھی کخھ
دن پہلے ہی ماہ رخ تے اسے گفٹ ک نا ت ھا ۔ خی نا وہ اس دن اس مہ نگے سے قراک کو گفٹ
کرتے بر خفا ہوٸ ت ھی اس سے ت ھی زپادہ خفگی ت ھری نظر وہ اب ماہ رخ بر ڈال رہی ت ھی۔
اد پبہ کے ما تھے بر خفگی ت ھرے سکن تھے یو مبہ حیرت سے کھل گ نا۔ چ نکہ وہ مشکراہٹ
دپاۓ آپکھوں میں چمک لتے ک ھڑی ت ھی ۔
” عام سا ڈبر یو پہیں روسان سٹیشالٸزنشن کے لتے چا رہا اس کی اپتی بڑی چوسی ہے “
ماہ رخ تے مضٹوغی خفگی طاری کرتے ہوۓ اسے گ ھورا ۔ روسان کے قادر تے اس کو
پاہر س ٹیشالٸزنشن کے لتے پلوا ل نا ت ھا اور وہ اس پات بر اد پبہ کے پہت سمخ ھاتے بر راضی
ہوا ت ھا ۔ ان کی ہاٶس چاب کو چھ ماہ کا غرصہ ہو خکا ت ھا ۔ اور اس دوران روسان اب
اس سے اپتی ہر طرح کی پات شٸر کرتے لگا ت ھا ۔
” اچ ھا یو اس کی اپتی بڑی چوسی بر میں نہ رپڈ رپگ کا ڈرنس پہن کر چلی چاٶں دماغ
ت ھنک ہے ک نا نم ھارا “
” خی خی پلکل ت ھنک ہے “
ماہ رخ تے سر کو زور زور سے ہالپا اور گ ھما کر قراک کو پلنگ بر ڈھیر ک نا ۔ سرخ رپگ کا
کل ٹوں واال چونصورت قراک ت ھا جس کے گلے بر سیسے کا کام ت ھا ۔
اد پبہ تے اپک نظر قراک بر ڈالی اور ت ھر عج یب تے نقین سی نظر ماہ رخ بر ڈال کر سر کو
زور زور سے نفی میں ہالپا ۔
” چا رہی ہو “
پ
ماہ رخ تے آ ک ھیں نکالیں ۔ اور ت ھر سے الماری کی طرف مڑی ۔ اب وہ اپ نا کوٸ چوڑا مییخب
کر رہی ت ھی ۔ وہ مشلشل گاتے گ نگ نا رہی ت ھی جہک رہی ت ھی ۔
” نمہیں ہوا ک نا ہے “
ماہ رخ تے اس کے برنشان ہوتے بر ہلکا سا فہقہ لگاپا جس بر وہ اور پاک ت ھال چکی ت ھی ۔
” ک نا ؟ “
اسے ا پتے ساتھ لگاپا اور پیخ ھے ہو کر پ نڈ بر بڑے قراک کو ات ھا کر زبردستی اس کے ہات ھوں
میں دپا ۔ اور اسے واش روم کی طرف دھکا دپا ۔
وہ عجلت میں کہتی ہوٸ اب ا تپے چوڑے کو ہی نگر میں سے نکال رہی ت ھی ۔ اد پبہ ک ندھے
اخکاتی آگے بڑھ گٸ ۔
*******
مدھم سرپتی سی روستی میں ڈوپا ہوپل کا برقسوں ماچول جس میں لوگوں کی مدھم مدھم سی
آوازیں اور برپ ٹوں کے پج تے کی آوزیں گوپج رہی ت ھیں ۔ نہ الہور کے مہ نگے برین ہوپلز میں
سے اپک ت ھا۔
کار اپک چراراہٹ سے پارک نگ اٸرپا کے آگے رکی ت ھی ۔ اور میسم تے ہڈ کی ملخقہ یوتی کو
ات ھا کر سر بر لے کر آگے سے ک ھییجا ۔ کار کی پخ ھلی سیٹ سے وہ نکال ت ھا اور اب قرپٹ
ڈور ت ھی پ ند ہو رہے تھے ۔
ب
وہ روسان کے پلکل سا متے کرسی بر یٹھی ت ھی ۔ سرخ رپگ کے چوڑے میں دمکتی ہوٸ
گلے بر لگے نقیس سے سیسے کا کام اس کے جہرے بر اپ نا عکس ڈال کر اسے ماوراٸ جشن
دے رہا ت ھا ۔ ماہ رخ چود یو پک سک سے پ نار ہوٸ ہی ت ھی ساتھ اسے ت ھی کر ڈاال ت ھا ۔
اور اب وہ واش روم کا کہہ کر اسے روسان کو اکنال میز بر چ ھوڑ گٸ ت ھی۔
” اد پبہ !!!!“
روسان تے دویوں کے درم نان موچود چاموسی کو یوڑا وہ چو ا تپے موپاٸل بر سکرین کو اوبری
طرف اچ ھال رہی ت ھی روسان کے پالتے بر اس کی طرف م ٹوجہ ہوٸ ۔ ت ھاری پلکوں کو
مشکارہ تے اور چار چاپد لگا دتے تھے ۔
ہوپل کا دروازہ دھک نل کر وہ اپدر داچل ہوا ۔ ہڈ سے جہرے کو چ ھناتے کے سے اپداز میں
ساتھ موچود دو لڑکوں کا چلبہ ت ھی ملنا چل نا ہی ت ھا ۔ خی ٹوں میں ہاتھ تھے اور پاٶں میں چوگرز
” مخ ھے تم سے کخھ کہ نا ہے “
روسان تے الخ ھے سے اپداز میں پہم ند پاپدھی ۔ اور ت ھر نظر چ ھکاٸ اد پبہ اس کے اپداز بر
حیران سی ت ھی ۔ اب یو ان میں اپتی تے نکلفی ت ھی ت ھر آج روسان اپ نا شوچ شوچ کر ک ٹوں
یول رہا ت ھا ۔
” خی “
ل مخ س
ھ پ یب
اد پبہ تے پا ھی کے اپداز میں سا متے ٹ ھے روسان کی طرف د ک ھا ۔ اور مد م سے ہچے میں
گوپا ہوٸ ۔
طلجہ اور ابراہ ٹم کے پیخ ھے وہ ا تپے موپاٸل بر نظریں چماۓ مییخب کردہ میز کی طرف بڑھ رہا
ت ھا حب اچاپک پاٸیں طرف لگے میز کے م نظر تے قدموں کو اس سے آگے بڑ ھتے سے
روک دپا۔
وہی ت ھی سرخ قراک میں سچی سٹوری ہوش رپا جشن کو دوپاال کتے ہوۓ اس کی نظریں
کیسے دھوکا ک ھا سکتی ت ھیں اور سا متے بیٹ ھا وہ لڑکا ت ھی وہی ت ھا ۔ یوپ ٹورستی کے اس م نظر کو وہ
کٹھی پہیں ت ھال سکا ت ھا ان چ ند ماہ میں جسے اس کے ذہن تے پاراہ دہراپا ت ھا ۔
لڑکا کوٸ پات کر رہا ت ھا اد پبہ سے ۔ میسم کخھ ہی قاصلے بر ساکن سا ک ھڑا ت ھا ۔ لڑکے کی
آواز مدھم سی ت ھی چو سہی سے اسے س ناٸ پہیں دے رہی ت ھی ۔
روسان تے سر چ ھکا کر ہمت چمع کرتے ہوۓ دل کی پات کی ۔اد پبہ چو الخھی سی
ھ ت ت مخ س
م
ھتے کو کوشش یں سرگرداں ھی اس کی رسبہ یجتے کی پات بر گڑ بڑا سی گٸ ۔
” خی!!!!!“
پ
آ ک ھیں ت ھنال کر حیرت سے روسان کی طرف دپک ھا ۔
میسم کا دل اس دن کی طرح ہی گ ھین کا سکار ہوتے لگا دپدار پار اگر ا تپے غرصے نعد ہوا
ت ھی یو کیسے ہوا ۔لڑکے کے اپداز سے صاف طاہر ت ھا کہ وہ اد پبہ کو بر یوز کر رہا ہے ۔
س
” علط مت مخ ھتے گا پلیز پلیز “
ً
روسان اسکے حیران سے جہرے کو دپکھ کر فورا گ ھیرا کر یوال۔اس کا حیران ہوپا بی نا ت ھا ک ٹوپکہ
روسان تے آج سے پہلے ک ٹھی اساروں میں ت ھی اسے نہ پاور کرواتے کی کوشش پہیں کی
ت ھی کہ وہ اسے نش ند کرتے لگا ہے ۔
ت
” مخ ھے آپ اچ ھی لگتی ہیں آپ کے گ ھر ڈاٸرپکٹ رسبہ ھیجتے سے پہلے آپ کو برس نلی بریوز
کرپا چاہ نا ت ھا “
روسان تے چ ھی یپ کر چ یب میں ہاتھ ڈاال اور سرخ رپگ کی مخمل کے کور والی ڈپ نا کو میز
بر رک ھا ۔ اد پبہ تے چوپک کر اپک نظر روسان کو اور ت ھر ڈپ نا کی طرف دپک ھا ۔
سرخ رپگ کی ڈتی خیسے ہی اس لڑکے تے میز بر رک ھی میسم کا لگاپا گ نا اپدازہ نقین میں پدل
گ نا وہ وافعی اپک دوسرے سے رسبہ پ ناتے چا رہے تھے ۔
آہ ۔ دل سے اپک بیس ات ھی بر لب مشکرا دتے آچر کار اس کی قرپاتی رپگ الٸ ۔ چلو کسی
کو یو کسی کی مج یت ملی ۔
روسان تے گہری نظروں اور برم سی مشکراہٹ کے ساتھ یوچ ھا ۔ اد پبہ یوکھال سی گٸ۔ ک نا
کر رہا ہے نہ میں تے یو اسے کٹھی ۔ اد پبہ تے الخھ کر شوچا ۔
” میں “
اد پبہ تے برنشان سے اپداز میں گردن بر ہاتھ دھر ا ۔ ماہ رخ کہاں مر گٸ ہے ۔ماہ رخ
کو دپک ھتے کی غرض سے گردن کو چو گ ھماپا یو لمجہ خیسے ت ھم گ نا ۔ دسمن چاں دل کی سلط یت
کا چکمراں ۔ زپدان میں ڈال کر ت ھول چاتے واال سا متے ک ھڑا ت ھا ۔ جسم کے رواں رواں میں
خیسے سیشتی سی دوڑ گٸ ۔ لمجہ ت ھر یو کو زپان گنگ ہوٸ یورے وچود میں نس دل ہی
مچرک ت ھا ۔
” میسم !!!!!!“
دورررر کسی وبراتے کی پ ند کوت ھڑی سے آتی ہوٸ آواز ت ھی۔ وہ ت ھا خف نفت میں ت ھا اب کی
پار پجنل سے براسا ہوا میسم پہیں ت ھا۔ اد پبہ کی چود بر نظر بڑتے کی دبر ت ھی میسم تے پجلی
کی سی تیزی سے ہوپل کے تیروتی دروازے کی طرف قدم بڑھاۓ ۔
” اپک م یٹ روسان “
ً
اد پبہ تے ہڑ بڑاہٹ میں کرسی کو پیخ ھے دھک نال اور نقرپ نا ت ھاگتی ہوٸ تیروتی دروازے سے
نکلتے میسم کے پیخ ھے دوڑی ۔ روسان چو اد پبہ کے جہرے کے پابرات بڑ ھتے کی کوشش میں
ت ھا میسم کو دپکھ ہی نہ پاپا کہ اد پبہ اس کے پیخ ھے ت ھاگی ہے ۔
وہ لمتے لمتے ڈگ ت ھرپا اب ہوپل کے دو طرفہ الن کے درم نان موچود سرخ ابی ٹوں کی راہ
داری بر چلنا ہوا ہوپل کے مین گ یٹ کی طرف چا رہا ت ھا ۔
” میسم میسم “
سیسے کے دروازے کو دھک نل کر پاہر آتے ہی اد پبہ تے چیجتے کے اپداز میں میسم کو آواز
دی اس کے قدم ت ھم گتے تھے بر وہ مڑا پہیں ۔ اد پبہ ت ھولتی سانسوں کے ساتھ تیز تیز
قدم ات ھاتی اس پک آٸ ۔ اور پازو سے پکڑ کر اپک چ ھنکے سے میسم کو اپتی طرف گ ھماپا ۔
لمجہ ت ھم گ نا ت ھا ۔ چوالٸ کی گرمی اور خیس زدہ رات میں انشا لگا ہوا کے ساتھ سب ت ھم گ نا
ہو ۔ میسم تے گہری بڑ پتی نظر ا تپے سا متے ک ھڑی اد پبہ بر ڈالی ۔ دمکتی رپگت ہوش رپا جشن
کخھ ت ھی یو پہیں پدلہ ت ھا اس آتھ یو ماہ کے غرصے میں ۔ دھڑکن اپتی رف نار بڑھا چکی ت ھی ۔
پ
وہ چو شوچا ت ھا ملے گا یو ت ھیڑوں کی برسات کر دے گی اس کی آ ک ھیں یوچ ڈالے گی اس
کا سر ت ھاڑ دے گی اب حب وہ لمجہ ت ھا یو دل ک نا گ ھی ٹوں کے پل ڈھے چاۓ اس کے
قدموں میں اور ت ھوٹ ت ھوٹ کر رو دے اپتی تے نسی بر
گ ھتی سی آواز خیسے گلے میں کخھ اپک رہا ہو ۔ وہ چو اس کی جہرے بر چوسی کی پالش میں
کوساں ت ھا صنط سے آنسو مشکراہٹ میں چ ھناۓ ۔
” تم چوش ہو نہ؟“
میسم تے ت ھنکی سی مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاۓ گ ھتی سی آواز میں یوچ ھا ۔ شوال کخھ ت ھا یو
چواب کخھ اد پبہ تے بڑپ کر سا متے ک ھڑے اس طالم کی طرف دپک ھا چو ت ھول بیتے سے
پہلے ہی مج یت کی کلی کو ا نسے مشل کر گ نا ت ھا کہ اس کلی کی چوسٹو اس کی روح سے
آج پک پا چا سکی ت ھی ۔
” تم تے میرے ساتھ گ ھر والوں کے ساتھ اپ نا بڑا دھوکا ک نا اگر یوں چاپا ت ھا یو حب پار پار
میں نمہیں کہتی رہی پب ک ٹوں پہیں انکار ک نا تم تے ؟“
” یولو اپتی نکل نف اپتی ذلت نمہیں سرم ت ھی نہ آٸ ہم میں سے کسی بر برس ت ھی نہ آپا “
س
وہ رو رہی ت ھی آواز ت ھٹ رہی ت ھی میسم تے پا ھی کے اپداز یں ما ھے بر کن ڈالے اسے
س ت م مخ
اد پبہ تے آگے بڑھ کر اب اس کی پ نلی سی تی سرٹ نما ہڈی کے گر پنان کو دویوں
ہات ھوں میں ت ھام ل نا ۔ اد پبہ کے یوں چود بر چ ھٹیتے بر وہ نمشکل چود کو گرتے سے سیٹ ھال
پاپا ۔ وہ پار پار اپک ہی شوال کر کے اس کو چ ھیخوڑ رہی ت ھی ۔ وہ اپتی زپدگی کا اپ نا اہم لمجہ
چ ھوڑ کر نہ ڈرامہ ک ٹوں کر رہی ت ھی ۔ میسم کا دماغ سل ہوتے لگا ۔ اپک دم سے صنط چٹم
ہوا
میسم تے اسے ک ندھوں سے پکڑ کر اپک چ ھ نکا دپا ۔ بڑ پنا وچود ت ھم سا گ نا اد پبہ تے حیرت
سے آپک ھوں کو سکوڑا ۔
” میری چاطر “
میسم کے گر پنان بر گرفت ڈھ نلی ہوٸ ۔ افف یو میسم مراد وہ چو میں چار سال پک رٹ
لگاتی رہی دل تے دھڑک نا پ ند ک نا ۔ حیرت سے ا تپے سا متے ک ھڑے میسم کی طرف دپک ھا
میسم تے مدھم سی آواز میں کہا ۔ اور وہ اس کی غفل بر ماتم ک نعاں ت ھی ۔ اپک دم سے
ما تھے بر سکن ات ھرے
اد پبہ تے غصے سے داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ میسم تے دکھ ت ھری مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاٸ
” واٹ !!!!!!“
اد پبہ کا مبہ کھل گ نا ت ھا آپکھوں کو چ ھنک کر میسم کی کہی ہوٸ پات کو ت ھر سے ذہن میں
دہراپا
” مخ ھے لگ نا ت ھا میں تم سے اپتی مج یت کرپا ہوں کہ تم سب ت ھول چاٶ گی ل نکن میں علط
ت ھا “
میسم تے خی ٹوں میں ہاتھ ڈال کر آسمان کی طرف جہرہ ک نا اور آپکھوں سے امڈ آتے والے
ُ
آنسوٶں کو اپکھوں کے اپدر ہی چزب ک نا۔ وہ اسی چالت میں ہویق سی پتی حیرت کے
سم ندر میں غوطہ زن ت ھی ۔
اد پبہ تے الخ ھتے ہوۓ آہشبہ سی آواز میں شوال ک نا ۔ وہ ک نا کہہ رہا ت ھا کس سے مج یت
کونسی مج یت کس کی پات کر رہا ت ھا وہ ۔
” اد پبہ ک ٹوں کر رہی ہو نہ سب ک ٹوں کسی اور کو دل میں رکھ کر تم مخھ سے نکاح کرتے
چلی ت ھی مخ ھے کہتی یو اپک دفعہ اس کا پ ناتی یو نہ مخ ھے ت ھا گتے کی صرورت بڑتی اور نہ نمہیں
ا نسے رو رو کر زبردستی میرا ساتھ ف ٹول کرتے کی “
میسم تے اپک ہی سانس میں سب کخھ کہہ دپا اور سا متے ک ھڑی اد پبہ بر حیرت کے پہاڑ
یوٹ رہے تھے ۔
” مخ ھے سے ؟“
میسم تے چوپک کر اد پبہ کے جہرے کی طرف دپک ھا چو آنسوٶں سے بر ت ھا ذہن اپک دم
سے ساٸیں ساٸیں کرتے لگا ۔ ک نا ت ھی اس کے سا متے ک ھڑی نہ لڑکی اپدر بیٹ ھا وہ
سخص جس کی چاطر پہلے نہ مخھ سے انکار کرواتے بر نضد ت ھی اور اب میسم تے حیرت سے
اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ وہ اب معصوم یت سے آنسو پہا رہی ت ھی ۔ اور اس کے ذہن میں
ہٹھوڑے چل بڑے اس کے اچاپک مج یت کے اظہار بر اور دماغ تیزی سے دوڑتے لگا ۔
ُ
ت ھوڑی دبر پہلے اگر میں پہاں نہ آ پا یو نہ اس کے پام کی اپگوت ھی پہن رہی ہوتی اور
اب۔۔۔۔۔۔
یو پہلے ت ھی یو میں ہی میسم ت ھا جس سے اسے اپ تی نقرت ت ھی مخ ھے اپک نظر پہیں دپک ھنا
چاہتی ت ھی چار سال پک مخھ سے انکار کرتے کی ت ھنک ماپگتی رہی اور آج کہہ رہی ہے کہ
اسے۔۔۔۔۔
پہیں پہیں اس وفت کے میسم میں اور آج اس کے سا متے ک ھڑے میسم میں زمین
آسمان کا قرق ہے یو ک نا اب اسے میری کام ناتی سے اوہ چدا ۔۔۔
میسم تے غور سے اد پبہ کا جہرہ دپک ھا کی نا معصوم جہرہ ت ھا ل نکن کیتی چود غرض ت ھی وہ ۔ حب
میں پ نکار ت ھا یو اسے اس لڑکے کے ساتھ مج یت ت ھی اس کے ک ندھے بر ہاتھ ر کھے رو رہی
ُ
ت ھی اور آج اگر میں دسیرس میں نہ آ پا یو اس کی ہوتے ھی چا رہی ھی اور اب حب یں
م ت ت
کام ناب ہو گ نا یو میسم تے اقسوس سے اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ میسم مراد نہ ہے وہ لڑکی جس
کی چاطر تم تے سب کخھ قرپان کر ڈاال ۔ میسم بر اد پبہ کی اپ تی طرف سے گ ھڑی ہوٸ
خف نفت دوسری دفعہ آسکار ہو رہی ت ھی ۔
میسم تے طیز ت ھری مشکراہٹ سجا کر سا متے ک ھڑی معصوم جہرے والی چود غرض جسیبہ کو
دپک ھا چو ساٸد صرف بیسے سے مج یت کرتی ت ھی ۔ انشایوں کی ان کے دل کی ساٸد کوٸ
وفعت ہی پہیں ت ھی اس کی نظر میں۔ اد پبہ نظریں چ ھکا گٸ ۔
ُ
” اسی رات سے حب تم میرے پاس آۓ تھے اور نم ھاری آپکھوں میں “
میسم تے زور سے فہقہ لگاپا فہقہ اپ نا زور کا ت ھا کہ آپکھوں میں نکل نف سے آنسو آ گتے ۔ دل
کو خیسے کوٸ روپد رہا ت ھا ۔ ک نا اوقات تیری کخھ ت ھی پہیں ۔ کخھ ت ھی پہیں سب ک ھنل
ہے بیسے کا سہرت کا میسم کی شوچ کے گ ھوڑے دوڑ رہے تھے ۔
میسم تے بی یٹ کی خی ٹوں میں ہاتھ ڈالے اور طیزنہ مشکراہٹ ل ٹوں بر سجاٸ ۔
” مخ ھے اب تم سے مج یت پہیں رہی “
ک ندھے اخکا کر ا تپے اپدر ہوتے والی نکل نف کو چ ھناپا ۔
” وہ چو اپدر بیٹ ھا ہے اب چدارا اسے میری خیسی اذ پت سے مت دوچار کرپا چاٶ اور چا کر
اس کا بریوزل اپکسی یٹ کرو “
میسم تے داپت بیشتے ہوۓ خفارت ت ھری اپک نظر اد پبہ بر ڈالی ۔ وہ حیرت سے گ نگ
ک ھڑی ت ھی ۔ وہ ک نا کہے چا رہا ت ھا انشا ک ٹوں کر رہا ت ھا ۔
” پاۓ “
میسم تے لب ت ھییچے حیڑے اپک دوسرے میں ا نسے پ ٹوست تھے کہ جہرے بر الٸن ین
گٸ ت ھی ۔ اد پبہ کو وہیں حیران سا چ ھوڑ کر وہ تیز تیز قدم ات ھا پا آگے بڑھ گ نا ۔ وہ چو
عج یب کسمکش کا سکار ت ھی اچاپک ہوش میں آ کر میسم کے پیخ ھے ت ھاگی ۔
وہ اپ نا اوپجا چیخ رہی ت ھی ارد گرد سے گزرتے لوگ گردبیں گ ھما گ ھما کر اسے دپکھ رہے تھے
کان کو موپاٸل لگاۓ ہوپل کے گ یٹ سے پاہر نکل گ نا۔ اد پبہ روہانسی سی ہو کر دویوں
ت
ہات ھوں کی مٹ ھناں ھییچ کر رکی چو وہ یو لتے کی فوت لگاتے کے لتے پ ند کتے ہوۓ تھے ۔
ت ھر تیز تیز قدم ات ھاتی وانس ہوپل کے ھال میں آٸ جہاں ماہ رخ اور روسان برنشان سے
میز بر بیٹ ھے تھے ک ھاپا لگ خکا ت ھا چو چوں کا یوں ان کے آگے دھرا ت ھا اد پبہ نسیتے میں
ت ھنگی ہوٸ ت ھی اور جہرہ آنسوٶں سے بر ت ھا ۔ ماہ رخ اور روسان اسے اسظرح کی چالت میں
دپکھ کر برنشان سے ہو گتے ۔
” ماہ رخ مخ ھے گ ھر چاپا ہے “
اد پبہ تے ہاتھ کی نشت سے آنسو گال بر سے رگڑ ڈالے اور چور سی تے زار نظر روسان بر
ڈالی ۔
” ک نا ہوا اد پبہ ؟ “
ماہ رخ یوکھال ہٹ کا سکار ہو ٸ ات ھی پک یو وہ پہی شوچ رہی ت ھی کہ اد پبہ پاہر صرف کخھ
دبر روسان کے بریوزل کو شو چتے گٸ ہے اور کخھ دبر میں ف نضلے کے ساتھ وانس آۓ
گی بر اس کی چالت یو اسے برنشان کر گٸ ت ھی ۔
” ماہ رخ پلیز مخ ھے ہاس نل چاپا ہے اسی وفت “
اد پبہ تے ہاتھ کے اسارے سے نظریں چراتے ہوۓ روسان کو روکا اور ت ھر ماہ رخ کی طرف
رخ کتے سخت لہجہ اپ ناپا ماہ رخ س ٹی نا کر ات ھی اپک سرم ندہ سی نظر روسان بر ڈالی جس تے
آج کے دن کے لتے اپ نا اہٹمام ک نا ت ھا چتی کہ چو قراک اد پبہ پہتے ہوۓ ت ھی وہ ت ھی
خف نفت میں روسان کی طرف سے ہی دپا گ نا گفٹ ت ھا
ماہ رخ تے چلدی سے پ نگ کو ات ھا کر اد پبہ کے پیخ ھے قدم بڑھا دتے چ نکہ روسان ہارے
ہوۓ کھالڑی کی طرح سرخ ڈپ نا بر نظریں چماۓ ک ھڑا ت ھا ۔
*************
اد پبہ تے سرخ جہرے کے ساتھ روتے ہوۓ میسم کی عج یب و غرپب پابیں پ ناٸیں۔
جس بر ماہ رخ کا رد عمل ت ھی پلکل وہی ت ھا چو کخھ دبر پہلے میسم کے سا متے اس کی پابیں
شن کر اد پبہ کا ت ھا ۔
” پکواس کر رہا سب “
ب
ماہ رخ حیران سی ہو کر پلنگ بر اس کے پاس ی ٹھی ۔ وہ سرخ قراک میں اب سرخ جہرہ
ب
لتے یٹ ھی ت ھی ۔
” پ ناپا ہے “
” ک نا کہ نا ت ھر “
ماہ رخ تے پجسس ت ھرے اپداز میں اگال شوال داعا ۔
اد پبہ تے آنسوٶں کو بیتے ہوۓ میسم کے الفاظ دھراۓ ۔ ماہ رخ تے حیرت اور اقسوس
سے مبہ بر ہاتھ رک ھا ۔
اد پبہ تے گ ھی ٹوں کو سم یٹ کر سر اس بر رکھ دپا ۔ کخھ ت ھی سمخھ میں پہیں آ رہا ت ھا ۔
ماہ رخ کا دھ نان اچاپک روسان کی طرف گ نا یو ڈ بی تے کے سے اپداز میں کہا ۔ اد پبہ تے
چ ھنکے سے سر اوبر ات ھاپا ۔
” پلیز ماہ رخ “
غصے سے ت ھری نظر ماہ رخ بر ڈالتی وہ اب اتھ کر واش روم کی طرف بڑھ گٸ ت ھی ۔
*********
نہ پہت ہی چونصورت دو کمروں کا اپارٸنم یٹ ت ھا جس کے اپک طرف چونصورت اوین کخن
اور الوپج ت ھا۔ داٸیں طرف کے کمرے میں لگے پ نڈ بر میسم کان سے فون لگاۓ حت لی نا
ت ھا ۔ نہ اپارٸنم یٹ وہ پخ ھلے دو ہف ٹوں سے طلجہ کے ساتھ شٸبر کر رہا ت ھا ۔
یوروں سے مشال ۔ سر میں سدپد درد ت ھا اور ت ھوک سے برا چال اد پبہ کی وجہ سے وہ اپتی
ت ھوک کے پاوچود ک ھاپا چ ھوڑ آپا ت ھا
ً
چواد اچمد تے زبردستی فہد سے میسم کا نمیر نکلوا ل نا ت ھا ۔ اور اب وہ بین دن سے نقرپ نا روز
ہی فون کر کے میسم کو گ ھر آ کر معافی ما پگتے کی برع یب دے رہے تھے ۔
میسم تے سرم ندہ سی آواز میں وہی فقرہ دہراپا چو وہ ا تپے دن سے کہہ کر چان چ ھڑا رہا ت ھا۔
جن چاالت میں خیسے وہ سب کا دل دک ھا کر آپا ت ھا اب ہمت کہاں سے الۓ ان یوتے
دلوں کو چوڑتے کی ۔
” چاچو پاپا اور دادا ایو ت ھر سے مخ ھے کرکٹ چ ھوڑتے کا کہیں گے اور آپ چا تپے ہیں میں نہ
پہیں کر سکوں گا “
میسم ت ھکی سی آواز میں دل کے ڈر کو زپان بر لے آپا کہ وہ ک ٹوں پہیں آپا چاہ نا گ ھر ۔ پچین
سے ہی گ ھر میں کرکٹ کے پام سے ت ھی نقرت کی چاتی ت ھی اس کی وجہ چواد اچمد ہی تھے
چ نہوں تے کرکٹ کی وجہ سے ڈاکیری پاس پہیں کی ت ھی ۔
” ک نا پ نا وہ انشا نہ کریں دپکھو یو اپک دفعہ آ کر اد پبہ سے سادی نم ھاری پہیں ہو گی نہ
میری گارپتی ہے “
چواد تے برم سے لہچے میں سمخ ھاپا اد پبہ کے پام بر دل بر صرب لگی ۔ کاش کاش میں اس
لڑکی کی خف نفت پہلے چان چا پا یو کٹھی نہ ۔ ۔۔۔۔۔
بر پب میں ک نا گ ھر سے ت ھاگ نا ؟ چود سے ہی شوال کر ڈاال ذہن کیتی ہی ڈوریوں کو
الخ ھاۓ ہوۓ ت ھا جن کا سرا ک ھو گ نا ت ھا ۔
” چو ہوپا ت ھا وہ ہوا ک نا تم تے علط بر سکر ہے ہللا کا کہ اس کا بییجہ چدا تے اچ ھا نکاال “
وہ ہم ین گوش حت لی نا چ ھت کو گ ھور رہا ت ھا اور چواد اچمد کی پابیں شن رہا ت ھا۔ گ ھر والے
اسے ت ھی سدت سے پاد آتے تھے ۔دل ان سے ملتے کے لتے ہمک رہا ت ھا بر اپک ڈر کہ ان
کو پا کر ت ھر سے کرکٹ کو چ ھوڑپا بڑے گا ۔اور اس پام بر آ کر چو اس تے اپتی تیزی سے
کماپا ت ھا اب وانسی مشکل ت ھی پہت مشکل ۔
گہری سانس لی اور پات ادھوری چ ھوڑ دی ۔ سارا مسٸلہ یو ان کا ت ھا اد پبہ سے سادی یو
اب کسی صورت پہیں ہو سکتی ت ھی اور نہ وہ کرپا چاہ نا ت ھا ۔
چواد اچمد تے ت ھر سے ا تپے ساتھ ہوتے کا چوصلہ دپا ۔ میسم تے گہری سانس لی ل ٹوں بر
ت ھنکی سی مشکراہٹ ات ھری دل چاتے کی ہمت پاپد ھتے لگا ۔
*********
” میں چ ھوڑ د پنا ہوں “
فہد تے قرپب آ کر مہدب اپداز میں کہا ۔ ار پبہ تے چوپک کر گردن موڑی یو فہد شن گالسز
لگاۓ ل ٹوں بر مخصوص مج یت ت ھری مشکراہٹ س جاۓ پاس ک ھڑا ت ھا ۔ دل عج یب ہی طرز
سے دھڑکا وہ گ ھیرا گٸ
ار پبہ کا آیو یوپ ٹورستی کے گ یٹ کے آگے ک ھڑا ت ھا جسے آیو واال پار پار چالتے کی پاکام کوشش
کر رہا ت ھا ۔ بر وہ ت ھوڑی سی آواز نکال کر پ ند ہو رہا ت ھا ۔
ار پبہ ہاتھ میں پکڑی قاٸل سے پار پار چود کو ہوا دے رہی ت ھی حب یوپ ٹورس تی سے نکلتی کار
میں سے فہد کی نظر اس بر بڑی ۔
فہد تے گردن کو ت ھوڑا سا چم د تپے ہوۓ ذہن بر زور د تپے کے سے اپداز کو اپ ناپا ۔
” آپ سمخھ رہے ہیں کہ آپ تے اس دن میری اور میری دوست کی مدد کی یو میں آج
آپ کی گاڑی میں بیٹ ھتے کے لتے پ نار ہو چاٶں گی “
ار پبہ تے پاک چڑھا کر مطلب سمخ ھاپا جس بر وہ تے ساحبہ مشکرا دپا ۔ اس کی مشکراہٹ
ت ھی اس کے جہرے کی طرح معصوم یت لتے ہوۓ ت ھی ۔
ت پ
” پہیں یو پلکل پہیں اپتی گرمی ہے د یں اور آیو چراب ہے یں تے ھی یو و یں چاپا
ہ م ھ ک
ہے آ چاٸیں “
فہد تے گاڑی کی طرف اسارہ ک نا ۔ ار پبہ تے دل کو قایو میں ک نا اور گھور کر دپک ھا
داپت بیس کر کہا اور سڑک بر آتے آیو کو ہاتھ کے اسارے سے روکا ۔
طیز ت ھرے اپداز میں کہہ کر وہ آیو میں بیٹھ گٸ چ نکہ وہ کمر بر ہاتھ دھرے اب ہویق سا
ک ھڑا ت ھا ۔
*******
اد پبہ تے دویوں ہات ھوں سے پالوں کو سم یٹ کر چوڑے کی سکل د تپے ہوۓ یوچ ھا ۔ ار پبہ
ل پ پہ چ ت ً ن ً
ک پ ک
چو قرپ نا خن کے دروازے ک یچ کی ھی فورا تی ۔ مر بر ہاتھ رک ھا
اد پبہ پجلی کی سی تیزی سے صوقے بر سے ات ھی اور پاٶں میں چ نل اڑاٸ اپداز عجلت اور
یوکھالہٹ لتے ہوۓ ت ھا۔ اس دن سے خین کہاں ت ھا شوچ شوچ کر دماغ تے کام کرپا
چ ھوڑا رک ھا ت ھا آچر کو میسم کے دل اور ذہن میں ک نا چل رہا ہے وہ ک ٹوں ا نسے کر رہا ہے ۔
” پہیں خی یپچے یو ت ھنکتے پہیں دپا ات ھی پک ماموں مراد تے سا متے ہے ا پتے جہی تے فہد کے
گ ھر “
ار پبہ تے ت ھر سے معتی حیز چملہ ادا کرتے ہوۓ گردن داٸیں پاٸیں گ ھماٸ ہوۓ ۔
چواد اچمد تے اسے س ندھا گ ھر آتے سے م نع کر دپا ت ھا ۔ وہ کل دوپہر سے فہد کے گ ھر میں
ت ھا اور گ ھر میں اس کو لے کر اپک سرد چ نگ چل رہی ت ھی جس میں اچمد م ناں اور مراد
اچمد کی مجالف پٹم میں رانعہ ،چواد ،اور غزرا سامل تھے ۔ چو مراد اور اچمد م ناں سے میسم کو
معاف کرتے کا کہہ رہے تھے ۔
ک
اد پبہ تے اسیری کے میز بر بڑے دو تپے کو اپک ہاتھ سے ھییچ کر اوڑھا اور تیزی سے
پجلے ز تپے کی طرف بڑھی ۔
” تم کہاں چل دی “
” آتی ہوں “ تیزی سے کہتی ہوٸ آگے بڑھی اور ت ھر ت ھپ ت ھپ ز تپے ابرتے کی آواز
ار پبہ کے کایوں میں بڑی اس تے اقسوس سے گردن ہالٸ اور ت ھر سے آ کر تی وی کے
سا متے لگے صوقے بر براچمان ہوٸ ۔
” اس کو ک نا ہوا پاولی ہو گ نا ہے ک نا “
غزرا کی غفب سی آتی آواز بر ار پبہ تے گردن موڑی ان کے اپداز سے واضح ت ھا کہ سیڑھ ٹوں
میں ان کی مالقات اد پبہ سے ہوٸ ہے ۔
ار پبہ تے ر نموٹ پکڑے ہاتھ کو داٸیں پاٸیں گھماتے ہوۓ ت ھنڈی سانس لی۔ غزرا تے
ذہن بر زور ڈاال
” ک نا مطلب“
غزرا ت ھولی سانسوں کو پجال کرتی ار پبہ کے ساتھ ہی صوقے بر براچمان ہوٸیں ۔ ار پبہ
تے ہاتھ سے فہد کے گ ھر کی طرف اسارہ ک نا ۔ غزرا اپک دم سے ما تھے بر پل ڈال کر
س ندھی ہوٸیں
ُ
” پلوا اسے کوٸ صرورت پہیں فہد کے گ ھر چاتے کی “
غزرا پ نگم تے پ نک کر کہا ۔ ار پبہ تے تےزار سی سکل غزرا بر ڈالی جہاں فہد کا پام سیتے
ہی ازلی نقرت امڈ آٸ ت ھی ۔ پ نا پہیں اب اسے غزرا کے مبہ سے فہد کے لتے نکلتے نعرنفی
کلمات ا چھے پہیں لگتے تھے ۔
” ر ہتے دیں کخھ پہیں ہوپا اور حیر پجش دیں اب چان اس فہد کی ت ھی آ گ نا ہے آنکا راج
دالرا کل پک گ ھر ت ھی آ چاۓ گا “
ار پبہ تے غزرا کے غصے کو کم کرتے کے اپداز میں کہا ۔اور پات کا رخ پدلہ ۔
”کہاں ت ھنک ہے مراد چاتے ت ھی پہیں دے رہا اسے سا متے والوں کے گ ھر میسم سے ملتے
“
غزرا تے دکھ سے آہ ت ھری ۔ بی نا آتھ ماہ نعد گ ھر آۓ اور ماں اس سے مل نہ سکے اس سے
بڑھ کر ک نا نکل نف ہو سکتی ت ھی ۔
ار پبہ تے غزرا کے برنشان جہرے کو دپکھ کر نشلی دی ۔ وہ ت ھی بر شوچ سے اپداز میں سر
ہال گٸیں ۔
*********
اے سی میں ر ہتے کی اپتی عادت ہو چکی ت ھی کہ اب فہد کی بیٹ ھک میں گرمی لگ رہی ت ھی
وہ تی سرٹ کو ا پارے پ نک ھے کے پلکل یپچے صوقے بر پاپگ بر پاپگ چڑھاۓ لی نا ت ھا ۔
حب دروازہ دھماکے سے کھلتے کی آواز بر گردن گھماٸ اور سا متے ک ھڑی اد پبہ کو دپکھ کر
اچ ھل کر س ندھا ہوا۔ وہ پاک ت ھالۓ اپدر داچل ہو رہی ت ھی ۔
میسم تے عجلت کے اپداز میں پاس بڑی تی سرٹ کو پہی نا سروع ک نا ۔ چ نکہ وہ یو کخھ
س
ت ھی شو چتے ھتے کی چالت یں یں ھی ۔
ت ہ پ م مخ
” ک ٹوں کرتی “
حب پک اس تے سرٹ کے گلے میں سے سر پاہر نکاال وہ لمتے لمتے ڈگ ت ھرتی اس کے
سر بر ک ھڑی ت ھی ۔ ساٸد پہت تیز تیز چل کر آٸ ت ھی سانس چڑھا ت ھا اور گال سرخ ہو
پ
رہے تھے آ ک ھیں ت ھکان سے یوچ ھل سی ت ھیں ۔ جن بر پلکوں کی چ ھالر گری ہوٸ ت ھی
نمشکل آدھ کھلی سی ۔
اد پبہ تے س ناٹ لہچے میں کہا جس بر میسم کے ل ٹوں بر طیز ت ھری مشکراہٹ ات ھری ۔
اد پبہ تے سیتے بر پازو پاپدھے اور س ناٹ لہچے میں پاک ت ھالپا ۔ پاس بڑے گلدان بر اپک
نظر ڈالی جسے وہ پجنل میں ات ھا کر میسم کے سر بر مار چکی ت ھی۔
میسم تے طیزنہ اپداز میں مشکراتے ہوۓ آپکھوں کو سکوڑا ۔ اد پبہ تے اس کے جہرے کو
غور سے دپک ھا ۔سٹو بڑھی ہوٸ ت ھی مخصوص اپداز میں ۔ پنلے اور سف ند رپگ کی دھاریوں والی
تی سرٹ کے آدھے پازوٶں میں سے اس کے کسرتی پازو اس کی ان ماہ میں کی گٸ
مج یت کا واضح پ ٹوت تھے ۔
” تم کس سے مج یت کی پات کر رہے تھے میں کس سے کرتی ہوں مج یت ہاں “
اد پبہ تے ما تھے بر سکن ڈال کر داپت بیشتے ہوۓ یوچ ھا ۔ اپداز انشا ت ھا خیسے اس کے پال
یوچ ڈالے گی ۔
ُ
” اسی لڑکے سے چو سا متے بیٹ ھا ت ھا نم ھارے اب پک یو ڈاکیر ت ھی ین گ نا ہو گا ہے نہ “
میسم تے صنط سے حیڑے پ ٹوست کتے ۔ اور مضٹوغی چوش ت ھرے اپداز میں کہا ۔ اد پبہ
کا سر گ ھوم گ نا اس کی پات بر ۔
اد پبہ کی نسیں ت ھول گٸ ت ھیں اپگشت انگلی میسم کے سا متے اکڑا کر کہا ۔ اب وہ اس
کی انگلی کو دپکھ کر ڈرتے خیسے اپداز میں پیخ ھے ہوا ۔
طیز ت ھرا کڑوا لہجہ اپ ناپا جہرے بر چلن پدگماتی نقرت خفارت کے آ پار واضح تھے ۔ دل چو اد پبہ
کو سا متے دپکھ کر پار پار ہمک رہا ت ھا اسے کی تے ہی گ ھو نسے وہ چڑ خکا ت ھا ۔
اد پبہ تے داپت بیشتے ہوۓ کہا اور ت ھر روہانسی صورت پ نا کر میسم کو دپک ھا۔ بر وہ اب
چ ھت بر چلتے پ نک ھے کو دپکھ رہا ت ھا ۔ اسی پ نک ھے میں دے دوں نم ھارا سر اد پبہ تے داپت
بیشتے ہوۓ شوچا ۔ اد پبہ کی چاموسی کو مجسوس کر کے سر یپچے ک نا ۔
میسم تے ہاتھ سیتے بر پاپدھ کر اپداز انشا پ ناپا خیسے یوری طرح م ٹوجہ ہو اس کی طرف ۔ اد پبہ
تے بیشاتی کے سکن کم کتے ۔
نظر اس بر ڈالی ۔ لب اپک دم چاموش ہوۓ تھے ۔ کیسے نقین دالٶں نمہیں دل خیسے
کسی تے مٹھی میں ل نا ۔
میسم تے مزاق اڑاتے خیسے اپداز میں طیز ک نا ۔ اور ت ھر سے نظریں چراٸیں
” نہ کہ ۔۔۔“
اد پبہ تے آنسوٶں کے ا پکے گولے کو یپچے ک نا بر الفاظ سمخھ پہیں آۓ ک نا کہے الخھ کر
پجارگی سے میسم کی طرف دپک ھا ۔ آپکھوں میں تے پ ناہ مج یت لتے ۔ تم ت ھی بڑھ لو نہ میری
ھ ک پ ن ھ ت م خ ھ ک پ
آ یں یسے یں تے اس رات بڑھ لی یں م ھاری آ یں ۔ دل تے تے اخی نار چواہش
کی۔ چلدی سے چود کو سیٹ ھاال
اد پبہ تے الیجاٸ اپداز میں میسم کی طرف دپک ھا ۔ چو اب قدرے بر سکون اپداز میں اسے دپکھ
رہا ت ھا ۔
” سچ “
اد پبہ کے جہرے بر مشکراہٹ ات ھری ۔ سا متے ک ھڑا سخص آج دپ نا کا جسین برین مرد لگ
رہا ت ھا ۔ اس کے دل کا چکمراں ۔ اس کی روح میں نشتے واال ۔
میسم تے کمر بر ہاتھ دھر کر پارمل سے اپداز میں کہا اد پبہ تے مشکراتے ہوۓ سکھ کا
سانس ل نا ۔
وہ جہکتے خیسے اپداز میں گوپا ہوٸ ۔ سکر ہے میسم کا سک دور ہوا دل کی نکل نف کم ہوٸ ۔
” میسم “
دروازے بر ہاتھ ر کھے فہد تے میسم کو مجاطب ک نا یو دویوں تے اپک ساتھ رخ فہد کی طرف
موڑا
ہ
” ممم“
فہد تے شوالبہ اپداز میں فہد کی طرف دپک ھا چو حیرت سے اد پبہ کو پہاں دپکھ رہا ت ھا۔
اد پبہ تیزی سے پلٹ کر دروازے کی طرف بڑھی ۔ فہد حیران سا اس کی طرف دپکھ رہا ت ھا ۔
فہد تے حیرت میں ک ھوۓ سے اپداز سے یوچ ھا اور الخھ کر میسم کی طرف دپک ھا ۔ چو اب
صوقے کے یپچے سے اپتی چ نل نکا لتے میں مصروف ت ھا ۔
سر چ ھکاۓ ہاتھ بڑھا کر چنل پاہر نکالی اور تیروں میں پہیتے ہوۓ اخیتی سی نظر سر بر
ک ھڑے فہد بر ڈالی جس کی پاچ ھیں ِکھل گٸ ت ھیں ۔
” ک نا سچ “
برچوش اپداز میں چوش ہوتے ہوۓ میسم کی طرف دپک ھا جس کے ل ٹوں بر ت ھنکی سی
مشکراہٹ در آٸ ۔
” زپادہ چوش مت ہو مخھ سے پہیں ہوا مشہور کرکیر میسم مراد سے ہوا ہے “
فہد کے گال بر ہلکی سی چ یت لگا پا وہ داچلی دروازے کی طرف بڑھ گ نا ۔ اور وہ گال بر
س
ہاتھ ت ھیرپا ہوا اس کی پات کو دہرا کر مخ ھتے کی کوشش کر رہا ت ھا ۔
*********
خیسے ہی گ ھر کے گ یٹ سے اپدر داچل ہوا یو رانعہ تے بڑپ کر اسے سیتے سے لگاپا اور روپا
سروع کر دپا ۔ میسم تے پاہوں کا گ ھیرا اور پ نگ کنا ۔ کی نا سکون مال ت ھا ۔ ماں کی چوسٹو اور
لمس دپ نا کی پاپاب برین نعمت ہے ۔ انشا سکون کٹھی کہیں پہیں مل سکا ت ھاخی نا ماں کی
پ
آغوش میں ملال ت ھا راحت سے آ ک ھیں پ ند کتے کیتے ہی ملچے وہ رانعہ کے گلے لگا رہا ۔ ت ھر
غزرا اور چز نقہ سے نعل گیر ہوا ۔
چواد تے اپدر کی طرف اسارہ ک نا یو سر چ ھکاۓ اچمد م ناں کے کمرے میں آپا جہاں مراد
اچمد پہلے سے موچود تھے ۔ مراد اچمد تے خفگی سے جہرہ ت ھیرا چواد تے اسے اچمد م ناں کے
پلنگ کے سا متے بڑی نسشت بر بیٹ ھتے کے اسارہ ک نا ۔ وہ سر چ ھکاۓ اب کنہرے میں
ک ھڑے مچرم کی طرح کرسی بر بیٹ ھا ت ھا ۔ اچمد م ناں کخھ دبر یو اسے یوپہی گ ھورتے رہے ت ھر
گال صاف ک نا ۔
اچمد م ناں کی نفاہت ت ھری آواز تے کمرے کے سکوت کو یوڑا ۔ سب لوگوں کی نظر اب
میسم بر پکی ت ھی چو ہ ٹوز سر چ ھکاۓ بیٹ ھا ت ھا ۔ کخھ دبر نعد میسم تے سر اوبر ات ھاپا ۔
” دادا خی “
ت
لب ھییچ کر الیجاٸ نظر ان بر ڈالی اس کی نظروں میں صاف انکار ت ھا ۔ اچمد م ناں تے
غصے سے دپک ھا ۔ سب لوگ ساکن تھے ۔
” ک نا دادا خی دادا خی اپ نا سب چا ہتے ہو سب ت ھنک ہو ہم ت ھی گلے لگا لیں اور چود اپتی
ت ھی من ماپ ناں کرتے ت ھرو “
اچمد م ناں کا سانس ت ھو لتے لگا رانعہ تے روہانسی صورت پ ناۓ دو پبہ مبہ بر رک ھا۔
” دادا ایو آپ شوخیں یو اپک دفعہ وہ ڈاکیر ہے میں کرکیر ک نا چوڑ ہے ہمارا “
میسم تے برم سے لہچے میں قاٸل کرتے کے لتے دل نل دی ۔ اچمد م ناں تے ت ھر سے
گ ھور کر دپک ھا ۔
اچمد م ناں تے کابی نا ہوا ہاتھ ہوا میں اس کی طرف ات ھاپا اور غصے سے کہا ۔ میسم تے تے
چارگی سے سب بر اپک نظر ڈالی ۔ بر سب پاری پاری نظر چرا گتے ۔
” دادا ایو میری طرف سے یو پہیں ل نکن اد پبہ کے ساتھ زپاتی ہے نہ اس کی سادی کسی
ڈاکیر سے ہی ہوتی چا ہتے “
میسم تے اپتی طرف سے دوپارہ اپک مضٹوط دل نل بیش کی ۔ وفت مشکلیں اور ت ھاپت
ت ھاپت کے لوگوں سے مالپ اسے پہت کخھ س نک ھا گ نا ت ھا ۔ آج وہ پلکل چ ھجک پہیں رہا ت ھا
پات کرتے ہوۓ ۔
” تم اپ نا دماغ زپادہ مت چالٶ میری پچی ہر اس چال میں چوش رہے گی جس میں ہم اسے
رک ھیں گے “
اچمد م ناں تے طیز ت ھرے لہچے میں کہا ۔ میسم تے گہری سانس لی
دو یوک نہ ڈر اپداز میں کہا ۔ وہ ڈریوک سا میسم یو کہیں پیخ ھے چ ھوڑ آپا ت ھا ۔
” ہاں الیبہ آپکو ت ھٹھو کی کسی بی تی سے کرپا ہی ہے رسبہ یو ت ھر میرا ار پبہ سے کر دیں اد پبہ
ہی ک ٹوں “
ت ھ ٹویں اوبر چڑھا کر اس تے ا نسے ک ندھے اخکاۓ خیسے کوٸ عام سی پات کی ہو ۔ سب
کی طرف نظر دوڑاٸ یو سب کے مبہ حیرت سے کھلے تھے ۔ کوٸ ت ھی کخھ ت ھی پہیں کہہ پاپا
ت ھا ۔
لب ت ھییچے اور پاپگوں بر ہاتھ دھر کر وہ دھیرے سے ات ھا اور کمرے سے پاہر نکال ت ھٹ ھکا اور
رکا اد پبہ ہویق جہرہ لتے دیوار کے ساتھ لگی ہوٸ ت ھی ۔
*************
ا تپے دن نعد ا تپے کمرے میں آپا ت ھا ہر حیز کو ہاتھ ت ھیر ت ھیر کر دپکھ رہا ت ھا ۔ کمرہ صاف
سٹ ھرا ت ھا ہر حیز برپ یب سے ت ھی ۔ل ٹوں بر ہلکی سی مشکراہٹ ات ھری ۔
پ
دروازہ ت ھاہ سے پجا میسم چوپک کر پلنا ۔ وہ سرخ آ ک ھیں لتے تےچال سی ک ھڑی ت ھی ۔ پال
پک ھرے ہوۓ ہوپٹ شوخے سے پاک سرخ ۔
آنسوٶں میں ت ھنگی آواز میں کہتی آگے بڑھی میسم کا دل کسی تے مٹھی میں چکڑا ۔ پجنل
ت
میں ت ھاگ کر اد پبہ کو پاہوں میں ھییچ ڈاال چلدی سے پجنل کے دلدل سے چود کو پاہر نکاال
دل کو سرزنش ک نا اور دماغ کو چاصر ک نا ۔
” ک نا سب ؟ “
سخت لہچے میں کہا اور رخ ت ھیرا ۔ وہ اب پاقاعدہ رو بڑی ت ھی ساٸد میسم تے نظریں
چراٸیں ت ھی نس اس ششکی دل بر ہٹھوڑے چال رہی ت ھی ۔ بر دماغ چکومت کی کرسی بر
براچمان ت ھا ۔
” نہ سب چو کہہ کر آۓ ہو سب کے سا متے “
پخوں کی طرح لب پاہر کو نکالے ت ھاری سی آواز میں کہتی وہ آگے ہوٸ ک نا کر رہی ت ھی
ک ٹوں کر رہی ت ھی کخھ حیر پہیں ت ھی نس ت ھا یو سا متے ک ھڑا سخص ت ھا ہر چگہ ۔
میسم ا تپے ہی قدم پیخ ھے ہوا اور پازو کو لم نا کرتے ہوۓ نظریں چرا کر کہا ۔ اد پبہ تے بڑپ
ل ک ک ھ ک پ
پ
کر آ یں زور سے پ ند یں ۔ یسے لٹ کے لے آٶں وہ سب مچے کاش کاش چدا تے
اگر دلوں کو مالتے کا معمال رک ھا ہی ہے یو دیوں دلوں میں مج یت ڈا لتے کا وفت ت ھی اپک سا
مقرر کر د پنا ۔
مدھم سی سرم ندہ سی آواز ۔ میسم تے رخ موڑا وہی لمجہ ذہن میں گ ھوم گ نا حب وہ سیڑھ ٹوں
ب
میں اس لڑکے کے سا متے روہانسی صورت پ ناۓ یٹھی ت ھی ۔ اس کے سا متے ا نسے ہی
روتی ہو گی ۔ دماغ میں ہٹھوڑے چلتے لگے حیڑے پاہر کو نکلتے لگے ۔
” ک ٹوں اب ک نا ہے ؟“
سجتی اپک دم سے بڑھی ۔ اب وہ پک ر پنک میں اپتی ک نابیں دپکھ رہا ت ھا اپداز انشا ت ھا خیسے
اد پبہ کے پہاں ہوتے کی اسی برواہ پک پہیں ہے۔
” اب اب میں کرپا چاہتی ہوں سادی “
” ک ٹوں ؟“
ک ٹوں اپتی کمزور ہو رہی ت ھی وہ اس کے آگے ۔ دل ک ٹوں مان پہیں رہا ت ھا ۔ ک ٹوں اس کی
می ٹیں کر رہی ت ھی چود بر ہی نف کہتے کو دل ک نا۔ آنسوٶں کو تی کر ت ھر یو لتے کی ہمت
کی ۔
” ک ٹوں کہ مخ ھے “
” میسم میں نمہیں پ نا چکی ہوں میں تم سے مج یت کرتے لگی ہوں پلکل ونسی خیسی تم مخھ
سے کرتے ہو“
چدھر چدھر میسم چا رہا ت ھا اد پبہ اس طرف رخ موڑ موڑ کر اپتی صفاٸ د تپے ہوۓ روہانسی ہو
رہی ت ھی ۔ وہ ا تپے کیڑے ہی نگ کر رہا ت ھا اپداز مصروف ت ھا ۔
چو ت ھی ت ھا اد پبہ اس کی پہلی مج یت ت ھی اس کا یوں می ٹیں کرپا عج یب طرح کی نکل نف
دے رہا ت ھا ک ٹوں کر رہی ہے نہ سب اور زپادہ گرا رہی ہے چود کو میری نظروں میں ۔
صنط کرتے ہوۓ شوچا اور ت ھر اپک دم سے پلکل اس کے سا متے آ کر ک ھڑا ہوا ۔
” ِلشن میں تم سے ونسی مج یت پلکل پہیں کرپا خیسی تم مخھ سے کرتی ہو اور سادی میں
تم سے پہیں کرپا چاہ نا“
اپتی پاک تے غرض مج یت کو وہ اس کی چود غرض مطلتی مج یت سے کیسے مال د پنا ۔ اد پبہ
تے بڑپ کر کخھ کہتے کے لتے لب ک ھولے
کمر بر ر کھے ہاتھ ہوا میں ات ھاۓ اور نقرت ت ھرے لہچے میں نظریں چراتے ہوۓ کہا ۔
” میسم !!!!“
اد پبہ کی ت ھکی سی آواز نکلی ۔ اقسوس ہی اقسوس ت ھا نس میسم تے پاول ات ھاپا اور واش
روم کی طرف بڑھا ۔
اد پبہ کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گ نا ۔ واش روم کا دروازہ اپتی زور سے پ ند ہوا جس بر
ک ھ ک پ
اسے انشا مجسوس ہوا خیسے اس کے مبہ بر پ ند ہوا ہو ۔ آ یں زور سے پ ند یں۔
*********
میسم تے کوک کا سپ لیتے ہوۓ کہا ۔ اور سا متے ک ھڑے فہد کو دپک ھا ۔
” ک نا پات کی “
فہد تے شوالبہ سے اپداز میں ت ھ ٹویں اخکاٸیں۔ اور یوپل مبہ کو لگاٸ ۔
” میں تے کہا اگر ت ھٹھو کی بیتی سے رسبہ کرپا ہی ہے یو ار پبہ سے کر دیں میرا اد پبہ ہی
ک ٹوں “
م
میسم تے اپک ہی سانس میں خیسے ہی پات کمل کی فہد کے مبہ سے یوپل کا فورا پاہر کو
نکل آپا اور ک ھانسی کا اپ نک انشا ہوا کہ سیتے بر ہاتھ دھرے اپ نا ک ھانشتے بر ت ھی نکل نف کم
پہیں ہوٸ ۔میسم تے برنشان سا ہو کر اس کی طرف دپک ھا ۔ ک ھانس ک ھانس کر فہد کی
آپکھوں میں پاتی آ گ نا ۔
” ک نا ہوا پخ ھے “
پ
میسم تے آگے ہو کر اس کی بیٹھ ت ھنکی ۔ فہد مشکل سے چود کو سیٹ ھال پاپا ۔ آ یں
ھ ک
” کہ کہ کخھ پہیں “
مبہ کو صاف کرتے ہوۓ ہاتھ کا اسارہ دپا اور چور سی نظر میسم بر ڈالی ۔ چو بڑے بر
سکون اپداز میں اس بر تم ت ھوڑ کر چود ت ھر سے یوپل کے سپ لے رہا ت ھا ۔ وہ گلی میں
موچود اپک سٹور کے پاس لگی کرسٹوں بر براچمان تھے ۔
گرمی یو ت ھی ہی ل نکن فہد کو اب لگ رہا ت ھا خیسے کسی تے اسے چلتے پ ندور میں ت ھی نک دپا ہو
اور آگ سب سے پہلے دل کو بڑی ہو ۔
میسم تے یوپل کو اپک طرف رکھ کر غیر مرٸ نقطے بر نظر چماٸ ۔ اد پبہ کی ساری پابیں
ت ن ً
ذہن میں گھوم گٸیں ۔ اگر شوچ میں بڑ گتے ھے یو قی نا کخھ شوچ ہی یں گے ۔ اور
ل
شوچ وہ انشا ہی لیں گے ۔ فہد کا دماغ ساٸیں ساٸیں کرتے لگا ۔ ت ھوک نگال ۔ دل
کوٸ آری سے کاٹ رہا ت ھا۔
اور ار پبہ اوہ دل اور تیزی سے کا بیتے لگا ۔ وہ کونشا مخ ھے چاہتی ہے وہ ت ھی مان چاۓ گی
گ ھر والوں کے کہتے بر ۔ نف ہے فہد پخھ بر اپتی زپدگی کے دس سال گال دتے اپک لڑکی
سے اظہار مج یت پہیں کر سکا ۔ چود کو لع یت مالمت کرتے کے شوا اب اس کے پاس پجا
ہی ک نا ت ھا ۔
” نہ پہیں یو “
سرٹ کا گر پنان پکڑ کر اسظرح آگے پیخ ھے ک نا خیسے گ ھین ہو رہی ہو۔ میسم ت ھر سے یوپل
بیتے میں مگن ہوا ۔
میسم سے پات کروں ؟ بر کیسے کروں ؟ ک نا شوخے گا وہ اسکا دوست ہو کر اسی کی کزن
بر نظر ر کھے ہوۓ ت ھا ۔ ک نا کروں؟ ما تھے سے نسیبہ ر پنگتے لگا ت ھا۔
ان گ یت شوال ذہن میں امڈ رہے تھے ۔ دل گ ھیراہٹ کا سکار ہو رہا ت ھا ۔ پچین سے لے
کر آج پک ار پبہ کے عالوہ کسی اور کے پارے میں شوچا ت ھی یو پہیں ت ھا۔
غفب سے چز نقہ کی آواز آتے بر میسم سے زپادہ چوپک کر فہد تے دپک ھا دل اچ ھل کر چلق
میں آپا ۔ مطلب شوچ ل نا گ ھر والوں تے ۔ چز نقہ داپت نکا لتے ہوۓ آگے آپا ۔
چز نقہ نقرت آمیز لہچے میں کہ نا ہوا فہد کے دل بر ہٹھوڑے بر ہٹھوڑا چال رہا ت ھا۔ میسم چلدی
سے اپتی چگہ سے ات ھا ۔ اور سرٹ کو درست کرپا ہوا چز نقہ کے ساتھ آگے بڑھ گ نا چ نکہ وہ
وہیں ہویق پ نا بیٹ ھا ت ھا۔ آدھی ت ھری یوپل بر نظر چماۓ ۔ زور سے یوپل بر ہاتھ مارا یوپل یپچے
گری اور چ ھناکے کی آواز سے یوتی ۔
چز نقہ تے خفگی ت ھرے اپداز میں ہاتھ ہوا میں مارتے ہوۓ کہا ۔ ۔ میسم تے تے ساحبہ
اس کی گردن بر چماٹ چڑا ۔
چز نقہ تے مبہ ت ھال کر گردن کو سہالپا ۔ وہ چو کل میسم کے آ چاتے بر سب سے زپادہ بر
چوش ت ھا آج اس کے ف نضلے بر دل برداسبہ ہوا بڑا ت ھا ۔
گ ھر والوں تے ک نا رصام ند ہوپا ت ھا ہوپا یو وہی ت ھا جس بر اچمد م ناں ہاں کہہ دیں یو ات ھوں
تے اپ نا ف نضلہ ہاں میں دے دپا ت ھا ۔ سارے گ ھر والوں کے مبہ ابرے ہوۓ تھے۔ رانعہ
ب
پاراض سی یٹھی ت ھیں اد پبہ تے چود کو کمرے میں پ ند کر ل نا ت ھا ۔ ار پبہ الگ نسوے پہا
رہی ت ھی ۔بر اچمد م ناں تے بین دن نعد ہی نکاح کرتے کا چکم صادر کر دپا ت ھا ۔ جس بر
سب تے سر نشلٹم چم ک نا ۔
**********
یوپ ٹورستی پہیچ کر ات ھی کار سے ابر کر وہ کار کو الک ہی کر رہا ت ھا حب پیخ ھے سے مدھر سی
آواز ات ھری ۔
” پات کرتی ہے آپ سے “
فہد تے بڑپ کر پیخ ھے دپک ھا یو دس ِمن چاں بیشاتی بر سکن ڈالے ک ھڑی ت ھی ۔ پاک کا اوبری
خصہ سرخ ت ھا آپکھوں کے یوتے ت ھی شوزش کا سکار تھے۔ س ناہ رپگ کے چوڑے میں زرد
جہرہ لتے ۔
” خی “
نمشکل اسے دپک ھتے بر دل کی غیر ہوتی چالت کو سیٹ ھاال ۔ وہ یو خیسے یورے غزم سے آٸ
ت ھی ۔ پ نک کر گوپا ہوٸ ۔
” مخ ھے نش ند کرتے ہیں “
س ناٹ جہرہ سیجندہ دو یوک لہجہ ۔ فہد گڑ بڑا گ نا ۔ وہ ا تپے دو یوک لہچے میں اس سے مج یت کا
اظہار کرواۓ گی کٹھی شوچا ت ھی پہیں ت ھا ۔
”ہاں “
آہشبہ سی آواز میں لڑک ھڑاتی زپان سے کہا دل اچ ھل اچ ھل کر پاہر آتے کو ت ھا ۔ ار پبہ تے
پ
گ ھور کر دپک ھا ۔ آ ک ھیں غصے سے ت ھری بڑی ت ھیں۔
سیتے بر ہاتھ پاپدھ کر سر کو شوالبہ اپداز میں چ ٹیش دی حب کے پاک غصے اور صنط سے
کٹھی ت ھول رہا ت ھا کٹھی سکڑ رہا ت ھا ۔
ت ھ ٹو کہیں کا دوست سادی کرتے چا رہا ہے اس کی نش ند سے اور چ ناب کو کوٸ برواہ ہی
پہیں ۔ ار پبہ کا دل ک نا چ ھیخوڑ ڈالے اسے ۔
” نہ پہیں پہیں “
مطلب کرپا ہے مخ ھے نش ند پاڑ پاڑ کر میرے دل کو پار پار کر ڈاال اور اب میری سادی کسی
اور سے ہو رہی یو چ ناب کو کوٸ لی نا د پنا ہی پہیں ار پبہ کو روتے سے زپادہ غصہ آ رہا ت ھا ۔
اب دویوں طرف چاموسی ت ھی ۔
دل یو اس کے لہچے بر زور زور سے دھڑ کتے لگا ت ھا بر چالت بر قایو پاپا اور غصے سے فہد کو
گ ھورا۔
” پہیں پہیں کروں گی ک ٹوپکہ غورت اپک نکاح میں ہوتے ہوۓ دوسری سادی پہیں کر
سکتی “
ار پبہ تے سخت لہچے میں روہانسی صورت پ نا کر کہا ۔ فہد کے ل ٹوں بر اس کے اس خفا سے
اپداز بر تے ساحبہ مشکراہٹ ات ھر آٸ ۔ مطلب مخیرمہ کو اس پات بر غصہ ہے ۔ کہ میں
تے کوٸ اپکشن ک ٹوں پہیں ل نا ات ھی پک ۔
” مطلب میں اگر میسم سے پات کروں یو یو ک نا ت ھر میں اپتی اماں کو ت ھیخوں گ ھر؟ “
گہری نظروں سے دپک ھتے ہوۓ برم سی آواز میں ت ھوڑا سا چ ھکتے کے سے اپداز میں یوچ ھا ۔
پجنل میں ار پبہ کا سرماپا سا جہرہ سا متے آپا ۔
” ہیں !!!!“
اس کا اپداز پلکل برعکس ت ھا ۔ دل چو پجنل میں بڑی بڑی موچ ھوں والے آدمی کے ڈھول
بر لڈپاں ڈال رہا ت ھا ڈھول والے تے ڈھول ہی گ ھما کر سر میں دے مارا ۔
” میں یوپ ٹورستی آتے ہی نم ھارے پاس آٸ ہوں نمہیں ک نا لگا ایو پٹیشن دے رہی ہوں ا تپے
نکاح کا “
ار پبہ تے سر ت ھاڑ د تپے خیسے اپداز میں ت ھوڑا سا آگے ہو کر کہا ۔ وہ چو مشکین سی سکل پ نا
خکا ت ھا اپک دم سے اس کے اس چق ت ھرے اپداز بر ت ھر سے جہرہ کھل ات ھا ۔
” ” مطلب تم ۔۔۔“
ل ٹوں بر ت ھریور مشکراہٹ سجا کر فقرہ ادھورا چ ھوڑا ۔ اور مج یت ت ھری نظر اپتی مبہ ت ھٹ جسیبہ
بر ڈالی
” نکال ل نا مطلب یو ت ھر روکیں میسم کو گ ھر والے مان گتے ہیں اب صرف میسم ہی انکار
کرے یو کرے “
ار پبہ تے ہاتھ س ندھا کر کے درم نان میں چاٸل ک نا اپداز طیز ت ھرا ت ھا ۔
” سٹو “
فہد تے چلدی سے ہوا میں ہاتھ ات ھا کر روکا ۔ ار پبہ وانس مڑی۔ اپداز وہی ت ھا خفا سا ت ھوال
برنشان جہرہ ۔
” تم روٸ ت ھی ک نا “
کان ک ھجاتے ہوۓ برم سے لہچے میں یوچ ھا ۔ ار پبہ کے ما تھے بر ت ھر سے سکن نمودار ہوۓ
۔ غصے سے گ ھورا ۔
ار پبہ ت ھر سے پلتی ل ٹوں بر مج یت ت ھری مشکراہٹ ت ھی ۔ اور وہ تے چال سا شوچوں میں گم
وہیں گاڑی سے پ نک لگاۓ ک ھڑا ت ھا۔
**********
فہد تے موپاٸل کو چ یب میں رک ھا ۔ ذہن میں لقظوں کو برپ یب دپا ۔ گال صاف ک نا اور
ہمت چمع کر کے لب یو لتے کے لتے ک ھولے ۔
فہد تے چور سی نظر میسم کے جہرے بر ڈالی ۔ وہ چو ا تپے موپاٸل بر مصروف ت ھا پ نا د پک ھے
ت ھنڈی آہ ت ھری۔
آواز ت ھکی سی ت ھی تے زار سی ۔ وہ گ ھر رانعہ کو راضی کرتے میں لگا ت ھا چو اد پبہ کو انکار
ک م پ
کرتے بر اس سے سخت خفا ت ھیں وہ پچین سے اد پبہ کو ہی اپتی پہو کے روپ یں د تی
ھ
آٸ ت ھیں اد پبہ ار پبہ کے مفا پلے میں کم گو اور ساٸسبہ ت ھی ات ھیں پچین سے ہی اد پبہ
ار پبہ کے مفا پلے میں زپادہ نش ند ت ھی وہ ات ھی رانعہ کے پاٶں دپا دپا کر ان کی خفگی دور کر
ہی رہا ت ھا کہ اسی دوران اسے فہد کی کال آٸ کہ وہ کوٸ صروری پات کرپا چاہ نا ہے اس
سے چلدی گ ھر آۓ اس کے ۔ اسی لتے وہ اب اس کے سا متے ان کی بیٹ ھک میں بیٹ ھا
ت ھا ۔
میسم تے فون والے ہاتھ کو ہی داٸیں پاٸیں چ ٹیش د تپے ہوۓ سیجندگی سے کہا ۔ فہد
کے موپل بر ت ھر سے مشیج یون ہوٸ ۔
” بر مج یت یو پہیں کرتی “
ً
فہد تے فورا سے کہہ کر اس کی پات کو کاپا وہ اپک ملچے کے ل نا رکا۔ اور ت ھر صوقے کی
نشت سے بیٹھ نکاٸ ۔
آہشبہ سی آواز میں کہہ کر سر ت ھر سے موپاٸل بر چ ھکا ل نا۔ فہد تے چلدی سے ا تپے
موپاٸل بر کخھ پاٸپ ک نا اور ت ھر سے میسم کی طرف م ٹوجہ ہوا ۔
موپاٸل اپک طرف رکھ کر میسم اب اس کی طرف یوری طرح م ٹوجہ ہوا ۔ آپکھوں کو ا تپے
مخصوص اپداز میں سکوڑ کر آبرٶ چڑھاپا ۔
میسم تے ما تھے بر پل ڈال کر ک ھو چتے خیسے اپداز کو اپ ناپا ۔ فہد س ٹی نا کر س ندھا ہوا ۔ موپاٸل
کو ت ھر سے چ یب میں رک ھا ۔ میسم تے ت ھورڈی بر ہاتھ ت ھیرتے ہوۓ کن اک ھ ٹوں سے اس
کی چ یب کی طرف دپک ھا ۔
میسم تے اچ ھل کر اس کی گردن دیوخی ۔ فہد اب بری طرح اپتی چ یب بر ہاتھ ر کھے ہوۓ
ت ھا ۔جہاں مشلشل ار پبہ کے پ نعامات آ رہے تھے ۔ وہ حب سے یوپ ٹورستی سے آپا ت ھا
مشلشل دویوں را نطے میں تھے ۔ اب ت ھی وہ اسے پار پار پ نعامات ت ھیج رہی ت ھی جس میں وہ
میسم کو قاٸل کرتے کے مف ند مسورے دے رہی ت ھی ۔
” موپاٸل دے اپ نا “
میسم تے اسے نشت سے بری طرح دیوچا ہوا ت ھا اور اب اس کے پازو کو موڑ کر اس کی
نشت سے لگاپا ۔
” کہ ک ٹوں “
فہد تے نکل نف کے زبر ابر لب زور سے ت ھییچے اور چود کو چ ھڑواتے کی کوشش کی ۔ چو
اس کے مضٹوط جسم کے آگے کخھ پہیں ت ھی ۔
” دے موپاٸل تیری یو “ میسم تے زور سے کمر بر پاپگ ماری وہ لڑک ھڑا گ نا ۔ میسم تے اس
کی چ یب میں ہاتھ ڈال کر موپاٸل نکاال اور اب پازو اوبر کتے مشیج اپ ناکس ک ھول خکا ت ھا ۔
فہد سرم ندہ سی صورت پ ناۓ کمر بر ہاتھ ر کھے اپک طرف ہوا ۔ میسم تے سیجندہ سے اپداز میں
سارے پ نعامات بڑ ھتے کے نعد پازو یپچے کتے اور فون فہد کی طرف بڑھاپا جسے اس تے
چ ھنکے سے پکڑا بر نظریں چ ھکی ہوٸ ت ھیں ۔
” ڈھکن کہیں کے “
اپک زوردار ت ھیڑ فہد کی گال بر بڑا فہد تے یوکھال کر میسم کی طرف دپک ھا ۔ وہ اب اس کی
گردن کو دیوچ کر اس کے پ یٹ میں ا پتے گ ھیتے مار رہا ت ھا ۔ نمشکل فہد تے اسے قایو ک نا ۔
نکل نف سے آواز ت ھی نمشکل نکل رہی ت ھی میسم بری طرح اسے مار رہا ت ھا ۔
” میں پخھ سے ہر پات شٸبر کروں اور یو کمیتے کہیں کے اپتی بڑی پات چ ھناٸ “
اپک اور گ ھونشا بڑا ۔ فہد اچ ھل کر دور ہوا ۔ بر وہ یو خیسے ہوش میں پہیں ت ھا ۔
” پات شن پات شن “
فہد تے پ یٹ بر ہاتھ رکھ کر اپک ہاتھ سے اسے آگے بڑ ھتے سے روکا اور چود پیخ ھے ہوا۔
” یول کمیتے “
میسم تے مضٹوغی خفگی دک ھاٸ ۔ اور مشکراہٹ دپاٸ ۔ اسکے ل ٹوں بر مشکراہٹ دپکھ کر فہد
کی چان میں چان آٸ سکھ کا سانس ل نا ۔
” پچین سے !!!“
” ہاں “
آہشبہ سی آواز ت ھی۔ میسم اب برنشان سی صورت پ ناۓ کمرے میں چکر لگا رہا ت ھا ۔
تےسک سارے پا چوش تھے بر اچمد م ناں کے چکم کی وجہ سے نکاح کی پ نارپاں ہو چکی
ت ھیں۔
” یو اب ک نا کریں “
فہد تے پجارگی سے کہا اور چاموسی یوڑی ۔ میسم تے چ ھنکے سے سر ات ھاپا اور غصے سے دپک ھا
۔ فہد تے ت ھر سے سرم ندہ سی سکل پ ناٸ ۔ میسم مشلشل ما تھے بر ہاتھ ت ھیر رہا ت ھا ۔
داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ فہد تے برنشان سی صورت پ ناٸ پجارگی سے میسم کی طرف دپک ھا ۔
” ار پبہ کا پہیں پ نا ت ھا پار اس تے یو آج اظہار ک نا نہ “ برنشان سے لہچے میں کہا اور کمر بر
ہاتھ دھرے ۔ میسم اب ت ھر سے شوچ میں ڈوب خکا ت ھا ۔
*********
” مزاق سمخھ رک ھا ہے ک نا “
مراد اچمد تے غصے سے میسم کا ہاتھ گ ھیتے بر سے ہ ناپا ۔ اور پ نڈ سے اتھ کر ک ھڑے ہوتے
ہوۓ گھور کر سا متے مچرم سی پتی ک ھڑی رانعہ کی طرف دپک ھا چو چلدی سے سر چ ھکا گٸ
۔
مراد اچمد تے رانعہ کی طرف دپک ھا اور انگلی سے میسم کی طرف اسارہ ک نا آواز غصے سے
کاپپ رہی ت ھی ۔
ُ
” ہو پہو اسی خیشا دماغ اس خیتی غفل میں یو کہ نا ہوں دویوں پج ٹوں کو پجا لیں اس سے
“
مراد اچمد تے پخوت سے پاک چڑھاٸ اور میسم اب گردن گراۓ دویوں ہات ھوں کی انگل ٹوں
کو اپک دوسرے میں ت ھیشاۓ چاموش بیٹ ھا ت ھا ۔ دوسری طرف چاموسی کو مجسوس کر کے
سر ات ھاپا ۔
” انسی کوٸ پات پہیں ہے پہت شوچا میں تے ت ھر لگا کہ اد پبہ ت ھنک ہے کر دیں اسی
سے سادی اور ات ھی ت ھوڑی دبر پک یو آپ سب ت ھی مبہ ل نکاۓ ہوۓ تھے “
میسم تے نظریں چراتے ہوۓ کہا ۔ جس بر مراد اچمد ت ھیڑ لگاتے خیسے اپداز میں اس کی
طرف بڑھے چ نہیں نمشکل رانعہ تے آگے بڑھ کر روکا ۔
”تم کرو اپا خی سے پات ا تپے الڈلے کے لتے میں یو پہیں کرپا “
مراد اچمد تے سیتے بر ہاتھ پاپدھے اور جہرے کا رخ دوسری طرف موڑ ل نا ۔ مشہور کرکیر میسم
مراد ت ھوڑی دبر پہلے ا تپے پاپ کے ہات ھوں بڑتے والے زور دار چماٹ سے پال پال چپے
تھے ۔ اور اب یپچے گردن گراۓ بیٹ ھا ت ھا ۔
” نہ چود ہی کرے چا کر “
رانعہ تے ت ھی خفگی ت ھرے لہچے میں کہا اور آپکھوں سے میسم کو اچمد م ناں کے کمرے
میں چاتے کا اسارہ ک نا ۔ میسم دویوں بر اپک نظر ڈال نا ہوا ات ھا اور کمرے سے نکل کر اچمد
م ناں کے کمرے کا رخ ک نا ۔
فہد اور ار پبہ کے لتے نہ سب کرپا ہی ت ھا پہیں یو پہت کخھ علط ہو چا پا ۔ اور اد پبہ کو یو
دپکھ لوں گا میں ۔ اپتی شوچوں میں الخ ھا اب اچمد م ناں کے کمرے کے دروازے کے
سا متے ک ھڑا ت ھا۔
*******
گہری چاموسی سب نقوس ہم ین گوش تھے ۔ اچمد م ناں کے ف نضلے کا اپ نطار کرتے ہوۓ
چو نقرپ نا دس م یٹ سے حپ بیٹ ھے نس میسم کو گ ھورے ہی چا رہے تھے ۔
اچمد م ناں تے غصے سے کابیتی آواز میں رغب سے کہا ۔ جہرہ سرخ ہو رہا ت ھا ۔ سب لوگوں
تے نظر ات ھا کر دپک ھا اوبر اور ت ھر سر چ ھکاپا۔ میسم ت ھی سا متے سر چ ھکاۓ بیٹ ھا ت ھا ۔
اچمد م ناں کی آواز بر سب تے چوپک کر ت ھر سے سر ات ھاپا ۔رانعہ اور غزرا کے جہرے ِکھل
ا تھے چ نکہ مراد اچمد اور اچمد م ناں ات ھی ت ھی س ناٹ جہرہ لتے ہوۓ تھے ۔ میسم سادی کی
پات بر س ٹی نا گ نا اور ہاتھ آگے بڑھا کر ات ھی لب ک ھولے ہی تھے ۔
” نس حپ “
ً
اچمد م ناں تے گ ھور کر رغب دار آواز میں کہا وہ فورا لب پ ند کر کے سر چ ھکا گ نا ۔ اچمد
م ناں کخھ دبر اس کے چ ھکے سر کو گ ھورتے رہے ت ھر گردن موڑی ۔
” غزرا “
اچمد م ناں تے کابی نا سا ہاتھ غزرا کی طرف ات ھاپا ۔ غزرا چو کل سے اد پبہ کے دکھ میں گھل
رہی ت ھیں اب آسمان کی طرف دپکھ کر سکر ادا کر رہی ت ھیں ۔
” خی خی اپا خی “
اچمد م ناں تے رغب سے کہا ۔ میسم تے چوپک کر سب کی طرف دپک ھا ۔ کہ کوٸ یو پجاٶ
سادی کا یو شوچا ت ھی پہیں ت ھا نہ ک نا ہو گ نا بر پہاں اب سارے اس کے چالف ہی تھے ۔
اچمد م ناں تے ا تپے دویوں ہاتھ گود میں دھرے اور گردن اکڑاٸ ۔ اب سب کے سب
پ
اپک دوسرے کی طرف دپک ھتے لگے تھے ۔ حیرت سے آ ک ھیں کھل گٸ ت ھیں ۔
” اپا خی “
مراد اچمد تے پات سروع کرتے کے لتے نکارا ۔ اچمد م ناں تے رغب سے ہاتھ ک ھڑا ک نا ۔
” ارے تھٸ اس کا ک نا اغی نار ات ھی کمرے سے نکلے ت ھر ت ھاگ چاۓ “
اچمد م ناں تے دو یوک لہچے میں کہا اور سب لوگ پاری پاری کمرے سے نکل گتے اور وہ
الخ ھا سا بیٹ ھا ت ھا ۔
**********
چ ھت بر پ نک ھا یوری رف نار سے چل رہا ت ھا ت ھر ت ھی جہرہ پکتے میں دتے ہوتے کی وجہ سے
نش ٹیتے میں سرایور ت ھا ۔ پالوں کی کیتی ہی ل ٹیں گردن سے چ نکی ہوٸ ت ھیں ۔ بیسرا یورشن
و نسے ت ھی چون چوالٸ میں پ ندور ین چا پا ت ھا نہ سارے مہیتے وہ زپادہ وفت یپچے ہی گزارا کرتی
ت ھیں ۔ اب ت ھی دو دن سے وہ اک نلی ہی اوبر ت ھی پافی سب یپچے ہی شوتے تھے ۔ یپچے چار
کمروں میں اٸبر ک نڈنشن ت ھا ۔ جن میں سے اپک کمرے میں وہ بی ٹوں شوتی ت ھیں ۔
یو میسم مراد نہ ت ھی وہ مج یت چو مخ ھے اس روز نم ھاری آپک ھوں میں نظر آٸ ت ھی۔ میرا دل اپ نا بڑا
پ
دھوکا کیسے ک ھا سک نا ہے ۔ وہ تم مج یت ت ھری آ ک ھیں کیسے چ ھوتی ہو سکتی ہیں۔ تم مج یت
کرتے ہو میں چاپتی ہوں بر نہ چو عج یب سا سک کرتے لگے ہو ہمارے درم نان سب چٹم
کر گ نا سب ۔
دھیرے سے کوٸ سر بر ہاتھ ت ھیر رہا ت ھا لمس مجسوس ہوتے ہی اد پبہ تے سر اوبر ات ھاپا ۔
غزرا تے برم سی مشکراہٹ ل ٹوں بر مزین کی ۔
غزرا تے برمی سے سر بر ہاتھ ت ھیر کر مج یت سے اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔وہ اپک چ ھنکے سے
ب
اتھ کر یٹھی ۔ تے نقیتی سے غزرا کی طرف دپک ھا ۔
” ک نا کہا آپ تے ات ھی امی “
ب پ
اد پبہ تے حیرت سے آ ک ھیں ت ھنال کر ا تپے سا متے یٹھی غزرا کی طرف دپک ھا۔ غزرا ت ھر سے
مشکرا دیں ۔
” ہاں میسم مان گ نا ہے چلو مبہ ہاتھ دھو لو نکاح ہے نکاح چواں پہیجناہی ہو گا “
غزرا تے اسکے جہرے بر آۓ پال ہاتھ سے سمیتے ۔ اس کے دویوں ہات ھوں کو ا تپے ہات ھوں
ب
میں لے کر سقفت ت ھرا یوسہ دپا حب کے وہ یو مجسم پتی یٹھی ت ھی نہ اچ ھا نماسہ ت ھا اس
سخص کا ۔ اد پبہ تے تے زاری سے غزرا کے ہات ھوں سے ا تپے ہاتھ چ ھڑواۓ ۔
” امی میں کوٸ کھلوپا ہوں کہ حب چاہے آنکا ت ھییجا ت ھکرا دے حب چاہے اپ نا لے “
جہرہ بزل نل کے اجشاس سے زرد بڑ رہا ت ھا ۔بیشاتی بر سکن نمودار ہوۓ ۔ ل نکن آواز صدیوں
کی ت ھکی ہوٸ لگ رہی ت ھی ۔
” نہ دپکھ “
غزرا تے دویوں ہات ھوں کو معافی کی سکل میں چوڑ کر اد پبہ کے آگے ک نا ۔ ان کی آواز اپتی
اوپچی ت ھی کہ اد پبہ گ ھیرا گٸ۔
” نہ دپکھ میری ماں تم اور میسم پجش دو میرے یوڑھے پاپ کو پہلے اس تے سب ک نا اب
تم “
غزرا تے غصے سے ہات ھوں کو چوڑ کر اد پبہ کے جہرے کی طرف ک نا ۔ اد پبہ تے س ٹی نا کر
نظر ان کی طرف ات ھاٸ ۔
غزرا تے ڈ بی تے کے اپداز میں کہا ۔ اد پبہ تے روہانسی صورت پ نا کر دپک ھا بر غزرا کے جہرے
بر سجتی کے عالوہ اور کخھ پہیں ت ھا ۔ الماری سے اس کا سادہ سا چوڑا نکال کر رک ھا ۔اور مڑ
ب
کر غص نلی آپک ھوں سے اد پبہ کو گ ھورا چو اب حپ سی یٹھی ت ھی ۔
وہ ت ھنک ہی یو کہہ رہی ت ھیں بین دن سے گ ھر میں نماسہ ہی یو لگا ہوا ت ھا اور بڑے سب
برنشان چال تھے ۔نہ کسی تے ک ھاپا سہی سے ک ھاپا ت ھا اور نہ کوٸ ہیشا ت ھا ۔
وہ بڑ بڑاتی ہوں پاہر نکل گٸ اور اد پبہ برانس کی صورت میں اتھ کر کیڑے ات ھاتی
واش روم کی طرف بڑھی ۔ وافعی اب میسم سب کو اپ نا پ نگ کر خکا ت ھا کہ اگر مزپد وہ کرتی
یو نس ت ھر ۔ بر اب وہ ک ٹوں راضی ہوا ذہن الخھ رہا ت ھا ۔
***********
پ
اے سی کی ت ھنڈک میں اچمد م ناں آ ک ھیں موپدے لیتے تھے اور وہ پلکل سا متے کرسی بر
بیٹ ھا ت ھا ان دویوں کے عالوہ کمرے میں کوٸ موچود پہیں ت ھا ۔ موپاٸل بر ساٸد فہد کے
پ نعامات آ رہے تھے وہ چ یب میں وابر پٹ کر رہا ت ھا ۔ بر ڈر کے مارے وہ موپاٸل پہیں
نکال رہا ت ھا ۔ اچمد م ناں کا کوٸ اغی نار پہیں ت ھا وہ اس سے اسکا موپاٸل ت ھی لے سکتے
تھے ۔
لگ نا ہے شو گتے میسم تے اپک آبرٶ چڑھا کر اچمد م ناں کی طرف دپک ھا ۔ سکر ہے شو گتے
اب پاہر چا پا ہوں چواد چاچو کہاں چلے گتے ہیں آج ۔ میسم تے کرسی کے پازو ت ھامے اور
ا تپے جسم کو ت ھوڑا سا اوبر ات ھاپا۔
اچمد م ناں تے میسم کو کرسی سے ات ھتے دپکھ کر رغب سے کہا۔ میسم س ٹی نا کر ت ھر سے
بیٹ ھا اور تے زار سی سکل پ ناٸ آدھا گ ھیبہ ہو خکا ت ھا۔ اسے یوں کرسی بر بیٹ ھے ۔
نفاہت ت ھری آواز میں کا بیتے ہاتھ سے واش روم کی طرف اسارہ ک نا ۔میسم دل مسوس کر
رہ گ نا۔
” خی “
میسم سر چ ھکا ۓ واش روم کی طرف بڑھا اپدر چاتے ہی چلدی سے فہد کے نمیر بر وانس
اپپ پ نعام ت ھیجا ۔
”ہ نلو “
ً
میسم تے پ نعام ات ھی ت ھیجا ہی ت ھا کہ فورا دوسری طرف سے چواتی پ نعام آپا ۔
اس کا پ نعام بڑ ھتے ہی میسم کے ما تھے بر پل بڑے ۔ سہزادہ چان بر پتی ہے میسم تے
داپت بیسے
” اوۓ چل تیری چان بر پتی چان بر یو میری پتی ہے پہاں نکاح ات ھی اسی وفت ہو رہا میرا
“
” ک نا نہ کر پار “
ادھر سے فہد تے چوف ت ھری سکل کے کے ساتھ چواتی پ نعام ت ھیجا ۔ وہ سمخھا ت ھا کہ ار پبہ
سے ہی ہو رہا نکاح اب وہ روتے والے انموخی ت ھیج رہا ت ھا ۔
میسم تے سر کو ہوا میں گ ھماپا خیسے اس کی غفل بر اقسوس کر رہا ہو ۔ گرمی اور خیس سے
اسے نسیبہ آتے لگا ت ھا ۔
میسم ” خی “
فہد ” یو کر لے ک نا ہے اس میں “
میسم ” سٹ اپ نمہیں ک نا پ نا پار کرکٹ میں ت ھی کھالڑی کی وپل ٹو کم ہوتے لگتی سادی کے
نعد سب کو نہ لگ نا کہ برقارمیس بر قرق بڑپا “
فہد ” فصول پات انشا کخھ پہیں ہو گا اور و نسے ت ھی میں اس میں ک نا مدد کر سک نا ہوں
نم ھاری “
میسم “ ہاں مدد ک نا کر سکے گا میری ف ند ک نا ہوا دادا ایو تے ا پتے کمرے میں مخ ھے “
فہد ”اوہ “
پاہر سے آوازیں آتے لگیں ت ھیں۔ اپک دم سے خیسے پہت سے لوگ کمرے میں آ گتے
ہوں ۔
میسم تے اپک ت ھریور نظر اس بر ڈالی ۔ مخیرمہ یو چوش ہو گٸ چو چاہتی ت ھی وہی ہو رہا ۔
میسم تے پاک ت ھال کر شوچا
اچمد م ناں تے گ ھور کر میسم کی طرف دپک ھا چو پ نا پازو والی تی سرٹ ز پب ین کتے ہوۓ
اب اد پبہ کو پاڑتے میں مصروف ت ھا۔
اچمد م ناں تے خفارت سے میسم کی طرف اسارہ کرتے ہوۓ کہا ۔ میسم گ ھیرا کر پاہر
چاتے کے لتے آگے ہوا یو اچمد م ناں تے اسے اسارے سے پاہر چاتے سے م نع ک نا اور
رانعہ کی طرف اسارہ ک نا کہ وہ چاۓ اور سرٹ ال کر دے اسے ۔
” خی اپا خی “
رانعہ قرمابرادری سے سر کو اپ نات میں ہالتی پاہر کی طرف بڑھی ۔ اور ت ھر وہاں موچود لوگوں
میں اد پبہ سیراز پ یت سیراز مییر میسم مراد کے نکاح میں آ گٸ ۔
ادپبہ کو رانعہ اور غزرا کمرے سے لے کر چا چکی ت ھیں اب سب مبہ میٹ ھا کر رہے تھے
اور میسم کے گلے لگ رہے تھے ا تپے دن نعد یو کہیں چا کر مسواۓ میسم کے سب کے
جہرے بر مشکراہٹ نظر آ رہی ت ھی ۔ وہ یو تے چال سا بیٹ ھا ت ھا ۔
” مراد اور چواد سب پات شن لو میری غور سے دو دن نہ گ ھر سے پاہر پہیں چاۓ گا اور
رات کو ادھر میرے کمرے میں شوۓ گا ۔“
اچمد م ناں تے اپتی اوپچی آواز میں کہا کہ میسم کے قدم ت ھم گتے ۔ پجاری صورت پ ناٸ ۔
اپتی تے اغی نار ی ۔
*******
گ ھر کی دوسری میزل میں وہ اک نڈمی کی کرسی بر اپک پاپگ ر کھے طلجہ سے پات کر رہا ت ھا
پٹم میں سب سے زپادہ دوستی اس کی طلجہ اور اسد سے ہی ہوٸ ت ھی اسد و نسے یو سییر ت ھا
ُ
اور عمر میں ت ھی اس سے بڑا ت ھا ل نکن اس کی عادات پہت اچ ھی ہوتے کی وجہ وہ پہت
چلد اس سے گھل مل گ نا ت ھا
ل نکن طلجہ ک ٹوپکہ اس کے ساتھ اپارٸنم یٹ ت ھی شٸبر کر رہا ت ھا اس لتے طلجہ کے ساتھ
وہ اپتی ہر پات کر لی نا ت ھا اب ت ھی وہ اسے اپتی اچاپک ہوتے والی سادی کا پ نا رہا ت ھا ۔ چو
اس کے لتے پہت بڑی برنشاتی ین چکی ت ھی ۔
وہ طلجہ سے پات کرتے میں ہی مگن ت ھا حب پیخ ھے سے کسی کے قدموں کی چاپ بر
گردن موڑ کر دپک ھا ۔ اد پبہ یپچے سے ساٸد اوبر چا رہی ت ھی ۔
ُ
سب لوگوں کا یپچے اپ نا شور ت ھا کہ اس کا ذہن ت ھیتے لگا ت ھا چو پہلے ہی ان گ یت شوالوں
سے گ ِھرا ہوا ت ھا ۔ سب سے چان چ ھڑا کر وہ اوبر چاتے کے لتے ات ھی دوسری میزل بر
پ
ہیچی ت ھی جہاں چ ناب پہلے سے ہی موچود تھے ۔ دل مجل سا گ نا کہ کرسی بر بڑا لکڑی کا
واٸٹ یورڈ ڈسیر ات ھاۓ اور چا کر میسم کے سر میں دے مارے حب نکاح کرپا ہی ت ھا یو
اپ نا ک ٹوں ڈرامہ ک نا ۔
اد پبہ تے نظر ات ھا کر دپک ھا اور دھک ہی یو رہ گٸ ۔ وہی اپداز وہی خفارت وہی نقرت ۔ وہ
چو مج یت ت ھری نظروں کی می نظر ت ھی اس کی نظروں میں وہی سک دپکھ کر پپ گٸ ۔
آہ ۔۔ وہ مج یت ت ھری نظریں کہاں گٸیں چو دل کی دپ نا پدل گٸ ت ھیں اپک رات میں
۔
ً
اد پبہ تے فورا قدم آگ بڑھاۓ اپداز انشا ت ھا کہ خیسے کہہ رہی ہو مخ ھے نم ھاری کوٸ پات
پہیں سیتی ۔ میسم تے اس کی کالٸ کو گرفت میں لے کر پہلو سے نکلتے سے روکا ۔
میسم تے س ناٹ سے لہچے میں مدھم سی آواز رک ھتے ہوۓ کہا ۔ اد پبہ چو پب سے پلکیں
گراۓ پاک ت ھالۓ ک ھڑی ت ھی چ ھنکے سے پلکیں ات ھاٸیں اور اقسوس سے میسم کی طرف
دپک ھا ۔چو بڑی تے زار سی نظر ڈالے ک ھڑا ت ھا ۔
” میں کوٸ اِ برا پہیں رہی میں تے امی کو صاف انکار کر دپا ت ھا کہ مخ ھے پہیں کرتی تم
سے سادی “
اد پبہ تے پخوت سے پاک چڑھاٸ اور اس سے ت ھی زپادہ تے زاری جہرے بر سجا کر کہا ۔
اگر انسی اکڑ ہے چ ناب کی یو انشا ہی سہی چاہ نا ک نا ہے کہ میں ساری عمر ا نسے ہی اس کی
می ٹیں کرتی ت ھروں ۔ اجشان کر دپا ہے مخ ھے اپ نا کر ۔ اد پبہ تے کسمشا کر پازو چ ھڑواتے کی
کوشش کی بر میسم کی گرفت اور مضٹوط ہو چکی ت ھی ۔
” میں ت ھی صرف پاپا ایو کی وجہ سےہی راضی ہوٸ ہوں پازو چ ھوڑو میرا اب “
اد پبہ تے نکل نف کے زبر ابر جہرے کے زاوتے کو پ ندپل ک نا اپتی زور سے کالٸ ت ھامے
ہوۓ ت ھا اب نکل نف ہوتے لگی ت ھی ۔۔میسم تے ہاتھ کی گرفت چٹم کی اد پبہ کی کالٸ بر
اس کی مضٹوط انگلناں ا پتے سرخ رپگ کی چ ھاپ چ ھوڑے ہوۓ ت ھیں ۔ سف ند برم پازک
کالٸ سرخ ہو رہی ت ھی میسم گ ھیرا گ نا ۔ جہرے کی سجتی اپک ملچے میں ہوا ہوٸ دل میں
موچود مج یت تے دماغ کو اپک چ ھاتیڑ رس ند ک نا ۔
برنشان سی صورت پ ناۓ اد پبہ کی کالٸ کو ت ھاما اور نشایوں بر ا نسے انگل ناں ت ھیریں خیسے
انشا کرتے سے ساٸد نشان چٹم ہو چاٸیں ۔
نف ہے مخھ بر میرے دل بر اس کی ساری خف نفت ساری ڈرامے پازی چا تپے ہوۓ ت ھی
اپل اپل کر پاہر ک ٹوں آتے کی کوشش کرپا ہے ۔
مس اد پبہ سیراز آپکو سب ملے گا میرا پام میری سہرت بر میری مج یت پہیں پب نمہیں
اجشاس ہو گا دلوں سے ک ھنل نا اور پل ت ھر میں مچی ٹیں پ ندپل کرپا ک نا ہوپا ہے ۔ جہرہ ت ھر سے
س ناٹ ہو خکا ت ھا ۔
*********
دوپہر کے دو چپے شور کی آواز شن کر اس کی آپکھ کھلی اور وہ پاہر آپا یو پاہر کا م نظر ہی
عج یب ت ھا پہت سے قرپتی رسبہ دار ا تپے چ نگڑ یویوں(پال پخوں) سم یت گ ھر میں گ ھوم رہے
تھے ۔
برآمدےمیں لگے پخت نما پلنگ بر مخیرمہ مسز اد پبہ میسم ابین لگوا رہی ت ھیں ل ٹوں بر قاپجانہ
ب
مشکراہٹ ت ھی ۔ دویوں پازو سہزادیوں کی طرح ساتھ یٹھی لڑک ٹوں کے دے ر کھے تھے چو رگڑ
رگڑ کر ابین مل رہی ت ھیں اس کو ات ھی اور گورا ہوپا ہے ک نا میسم تے آبرو چڑھاۓ حیرت
سے اد پبہ کی طرف دپک ھا چو پنلے رپگ کے چوڑے میں دمک رہی ت ھی کل اس کا مایوں ت ھا
اور آج رات مہ ندی ت ھی چز نقہ ت ھی پاس بیٹ ھا برابر ابین کو ا تپے ت ھولے ہوۓ گالوں بر
مشل رہا ت ھا ۔ کل صیح مسواۓ اس کے سب کی س ٹیشل ع ند ت ھی ۔
چز نقہ تے داپت نکال کر میسم کی طرف ابین میں لت پٹھ ہاتھ بڑھاۓ ۔ میسم تے ت ھ ٹویں
چڑھا کر کراہ یت سے اس کے ہات ھوں کو دپک ھا ۔
” یو ر ہتے دے میرے ت ھاٸ اور اگر لگاپا ہی ہے یو نہ اپتی کالی گردن بر لگا نہ جہاں سالوں
براتی م نل چمع ہے “
ب
میسم تے آگے بڑھ کر اس گردن بر زور کا ت ھیڑ رس ند ک نا اد پبہ کے اردگرد یٹھی ساری
دوسیزاٸیں کھلکھال ات ھیں چ نکہ مسز اد پبہ میسم نس مشکراہٹ دپا کر ہی رہ گٸیں ۔
پ
” ایو ۔و۔و۔و امی د ک ھیں مار رہا ہے نہ “
چز نقہ تے نکل نف سے چیخ کر رانعہ کو کہا چو غزرا کے ساتھ پایوں میں مصروف ت ھیں۔
ت ھوک سے تے چال ہوپا ہوا وہ کخن میں آپا یو ار پبہ بڑے سے دپگچے میں چاۓ چڑھا کر
ک ھڑی ت ھی میسم کو دپک ھتے ہی نظریں چراٸیں ۔ فہد اور اس کا راز کھلتے کے نعد وہ اب اس
کے سا متے آٸ ت ھی ۔میسم کی سرارت کی رگ ت ھڑکی ۔
” پات شن ذرا “
میسم تے گال صاف کرتے ہوۓ معتی حیز اپداز میں کہا ۔ ار پبہ کا جہرہ اپک دم سے ت ھ نکا
بڑا ۔افف نہ کہاں سے آ گ نا ۔ ار پبہ تے زپان داپ ٹوں پلے دپاٸ فہد اسے یوری داس نان س نا
خکا ت ھا کہ میسم تے سارے پ نعام بڑھ لتے ہیں۔
ار پبہ تے مضٹوغی مشکراہٹ جہرے بر سجا کر چجل سی ہو کر گردن ک ھجاٸ ۔ چ نکہ وہ یو
سارے پدلے خکاتے کے موڈ میں ت ھا۔
” تی لوں گا تی لوں گا “
میسم کی پات بر ار پبہ چو چو لہے کی آگ پ ند کرتے کے لتے چ ھکی ہوٸ ت ھی چوپک کر اوبر
دپک ھا اور ت ھر چوف سے ارد گرد ۔
ممہم
” م ہوں “
سرم ندہ سی مدھم سی آواز میں چواب دپا۔ میسم سخت جہرہ پ نا کر ک ھڑا ت ھا۔
” گڈ “
میسم تے بی یٹ کی خی ٹوں میں ہاتھ ڈالے اور کخن کے دروازے کے ساتھ پ نک لگاٸ ۔
میسم تے کان ک ھجاتے ہوۓ سیجندہ لہجہ اپ ناپا ۔ بر اب کی پار وہ اپتی مشکراہٹ پہیں چ ھنا
سکا ت ھا ۔ ار پبہ تے مشکراہٹ دپا کر دپک ھا ۔
” تم سے ت ھی زپادہ ؟“
ار پبہ کے دل میں چو ڈر ت ھا میسم کو لے کر کہ کیشا ردعمل ہو گا وہ میسم کی مشکراہٹ
دپکھ کر چ ھٹ سے چٹم ہوا ۔ اب وہ ا تپے مخصوص اپداز میں وانس آ چکی ت ھی ۔
” پدنمیز “
” میسم ت ھاٸ “
” خی خی ت ھاٸ صرور “
ار پبہ داپت بیشتی ہوٸ آگے بڑھی ۔ میسم مشکراہٹ دپا کر کمرے کی طرف بڑھا ۔ گ ھور کر
اد پبہ کی طرف دپک ھا ۔ چو چ ھی یپ گٸ ۔اس کے دپک ھتے بر اور جہرہ گالتی ہوا ۔
چز نقہ کی گردن بر ت ھر سے چ یت لگاٸ چو اب پاک ت ھال کر تیز تیز سانس لے رہا ت ھا چلدی
سے ات ھا اور میسم کے مبہ بر ا تپے دویوں ابین والے ہاتھ رکھ دتے ۔ ت ھر ک نا ت ھا زبردستی
سب تے مل کر میسم کو ابین سے زرد کر دپا اور وہ روتے خیشا ہو گ نا ۔
************
م نڈپا والے پاگل ہو رہے تھے ۔ میسم برنشان چال سییج بر بیٹ ھا ت ھا ۔ ھال ک ھجا ک ھچ لوگوں
سے ت ھرا ہوا ت ھا جس کے اپک طرف فہد ل ٹوں بر مشکراہٹ سجاۓ موپاٸل بر چ ھکا ت ھا۔
میسم سا متے صوقے بر س ناہ کوٹ بی یٹ پہتے پجل ناں گرا رہا ت ھا اد پبہ ات ھی براٸپڈل روم میں
ہی ت ھی۔ جسے کخھ دبر پک ال کر میسم کے ساتھ بیٹ ھاپا ت ھا ۔
فہد کو پالپا غوریوں والے خصے میں میسم تے ت ھا ل نکن وہ آ کر ا تپے اہم کام میں لگ خکا
ت ھا۔ جس کو دپکھ دپکھ کر میسم اب غصے سے پہلو پدل رہا ت ھا۔
ار پبہ کی پاٸ بر پانش ندپدگی بر فہد گڑبڑا گ نا ۔ اور چواتی پ نعام ت ھیجا ۔
ار پبہ ” ارے ارے پہیں مزاق کر رہی ت ھی پہت ا چھے لگ رہے ہو “
فہد ” ت ھنک ٹو “
ار پبہ ” امی دپکھ رہی ہیں نمہیں “
فہد تے س ٹی نا کر گردن ارد گرد گھماٸ ۔ ار پبہ تے تے ساحبہ ل ٹوں بر ہاتھ رکھ کر فہقہ روکا
اور مشیج پاٸپ ک نا۔
میسم کی ہمت چواب دے گٸ ت ھی خی یث ت ھریور طر نقے سے اپخواٸنم یٹ میں لگا ہوا ہے
۔ میسم تے داپت بیس کر شوچا ۔
” ہمم برو “
فہد تے آ کر بڑے اپداز میں پاٸ درست کرتے ہوۓ کہا ۔میسم تے گھور کر دپک ھا۔ اب وہ
اس کے پاس صوقے بر بیٹھ خکا ت ھا۔
” برو کے چپے میری پہاں چان بر پتی ہے اور یو ا تپے اپخواٸم یٹ میں لگا ہے “
میسم تے داپت بیشتے ہوۓ کہا ۔ فہد تے سرماتے کے اپداز میں کان ک ھجاپا ۔
” میرے دادا کو پہیں چاپ نا یو نمہیں ت ھی پکڑ کر ادھر ہی زپح کر ڈالیں گے “
” میخوس صرف اور صرف تیری چاطر آج ادھر ت ھیشا ہوں اور اوبر سے نہ م نڈپا والے ان کو
کیسے حیر ہو گٸ مضی یت “
میسم تے برنشاتی سے اردگرد دپک ھا۔ اور مضٹوغی داپت نکالے ت ھر پاٸ کی پاٹ کو گ ھماپا چو
گلے کا ت ھندا لگ رہی ت ھی لگ نا ت ھا مراد اچمد تے پاپد ھتے ہوۓ کوٸ پدلہ ہی ل نا ت ھا ۔ وہ کوٹ
بی یٹ پہیتے بر راضی پہیں ت ھا مراد اچمد تے زبردستی پگراتی میں پ نار ک نا ت ھا اسے۔
” پ نعیرت چود غرض انشان “ میسم دل مسوس کر رہ گ نا ۔ سا متے نظر ات ھی اور ت ھر چ ھنکی
پہیں وہ آج سے پہلے اپتی جسین کٹھی نہ لگی ت ھی ۔
اد پبہ کو غزرا اور ار پبہ دویوں اطراف سے پکڑ کر سییج کی طرف ال رہی ت ھیں ۔ گولڈن اور آف
واٸپٹ مالپ کا چونصورت لہ نگا پہتے چونصورت روتی برل لگے زیور سے مزین ہوۓ سر
چ ھکاۓ وہ معلبہ دور کی سہزادی لگ رہی ت ھی ۔
عام چاالت میں وہ زیور پہت کم پہیتی ت ھی اس لتے آج کخھ الگ ہی رپگ و روپ ت ھا کہ
سا متے بیٹ ھا میسم اس کے اس ماوراٸ جشن کو آپکھ چ ھنکے پ نا دپکھ رہا ت ھا ۔ اس کا ات ھنا ہر
قدم دل بر چمی سک کی دیوار بر صرب لگا رہا ت ھا ۔
پاس ک ھڑے چواد اچمد تے اسے پازو سے پکڑ کر ہالپا یو خیسے ہوش کی دپ نا میں وانس آپا ۔
آس پاس ک ھڑے رسبہ دار اس کی چالت سے لطف اپدوز ہوتے ک ھی ک ھی کر ا تھے ۔ میسم
ت ھوڑا سرم ندہ سا ہوپا ہوا ات ھا ۔
چالت اس ملچے و نسے ہی غیر ہو رہی ت ھی خیسے ہی براٸپڈل روم سے ھال میں داچل ہوٸ
یو سا متے چ ناب س ناہ شوٹ میں مل ٹوس تے زار سی صورت پ ناۓ چلوہ گر تھے ۔ دل تے یو
وہیں سے لرزپا سروع کر دپا ت ھا رہی سہی کیر اب چ ناب کے ہاتھ کے لمس تے یوری کی
ت ھی اب یو سارا پدن لرزتے لگا ت ھا ۔
اد پبہ گہری لرزتی پلکوں سم یت آہشبہ سے اوبر آٸ اور ت ھر اسے میسم کے پہلو میں بیٹ ھا دپا
گ نا ۔
عج یب ہی لمجہ ت ھا اور عج یب ہی طافت ت ھی نکاح کے اس دو یول میں کہ ساتھ بیٹ ھا میسم
آج اسے اپ نا سب کخھ لگ رہا ت ھا ۔ وہ دپ نا کا چونصورت برین مرد پا ہوتے ہوۓ ت ھی آج
اسے یوری کاٸپات سے زپادہ غزبز بر ت ھا ۔
********
دروازہ کھلتے کی آواز بر پلکوں بر ت ھر سے کسی تے پٹ ھر دھر دتے تھے اس لتے گالوں بر
لرزتے لگی ت ھیں ۔ مردانہ کلون کی چوسٹو اپک پل میں ہی یورے کمرے کو مہکاتے لگی
ت ھی ۔
پاٸ کی پاٹ ڈھ نلی ت ھی جس کی وجہ سے وہ گلے میں چ ھول رہی ت ھی پازو میں فولڈ کر کے
ڈالے ہوۓ کوٹ کو آہشبہ سے اپک طرف صوقے بر رکھ کر وہ اب الماری کی طرف بڑھ
گ نا ۔
اد پبہ تے چور سی نظر میسم بر ڈالی س ناٹ جہرہ پ ناۓ الماری میں سے کیڑے نکال رہا ت ھا ۔
ً
خیسے ہی وہ مڑا اد پبہ تے فورا پلکیں ت ھر سے گراٸیں ۔
ت ھک سے پاتھ روم کا دروازہ پجتے کی آواز بر اد پبہ تے ت ھر سے پلکیں ات ھاٸیں اپکی سانس
کو پجال ک نا ۔ چوسٹو کیتی پ ناری ت ھی پاہر کا کوٸ کلون لگ رہا ت ھا ساٸد اد پبہ تے گہری
پ
سانس لی چوسٹو پاک سے گھشتی دل میں چزب ہوٸ ۔ اد پبہ تے مشکراتے ہوۓ آ ک ھیں
موپدی ۔
چ
پاتھ روم کے دروازے کی یجتی کے یپچے ہوتے کی آواز بر تیزی سے پلکیں ت ھر سے
گراٸیں ۔
ب
یٹھی رہو ا نسے ہی نعتی کے قل پ نکج چا ہتے م نڈم کو ۔ میسم تے ڈھ نلی سی سرٹ کے یپچے
برایوزر پہ نا ہوا ت ھا ۔
م
افف دل یوری رف نار سے دھڑکا وہ پ نڈ کی طرف آ رہا ت ھا ۔ اد پبہ کے سارے جسم میں یٹھی
سی شوٸپاں چٹھ گٸیں ۔ بر نہ ک نا وہ چ ھکا پکبہ ات ھاپا اور اب صوقے کی طرف چا رہا ت ھا
۔ اد پبہ تے چوپک کر نظریں ات ھاٸیں اور حیرت سے دپک ھا ۔
پ
چ ناب ڈھ نلے ڈھالے برایوزر سرٹ میں مل ٹوس اب صوقے بر آ ک ھیں موپدے لیتے تھے ۔
افف تم کیتی جسین لگ رہی ہو ۔ اد پبہ مار ڈالو گی میسم کو آج ۔مارتے کا ارادہ ہے ک نا
دولہا ت ھاٸ کو ۔ میسم یو گ نا آج کام سے نہ وہ سارے فقرے تھے چو سام سے اس کے
کایوں میں بڑ رہے تھے اور رزلٹ صقر سرپاج خی پ نا کوٸ نعرنفی کلمات کہے پ نا کوٸ مبہ
دک ھاٸ دتے صوقے بر ڈھیر تھے ۔
بزل نل کے اجشاس سے جہرہ سرخ ہوا ۔ سمخ ھنا ک نا ہے چود کو غصے سے ات ھی ۔ تیز تیز قدم
ات ھاتی صوقے کے پاس آٸ ۔
ک م پ
اپک کشن کو گود میں ر کھے اور برسکون اپداز یں آ یں موپدے ا نسے لی نا ہوا ت ھا یسے اس
خ ھ
کے عالوہ اور کوٸ نقس کمرے میں موچود ہی نہ ہو ۔
وہ سر بر ک ھڑی ہے اسے مجسوس ہو رہا ت ھا ۔ اب ت ھر سے وہی چ ھوٹ کا پلندہ ک ھول لے
گی میسم میں پہت مج یت کرتی ہوں آپ سے میسم نہ میسم وہ ہین۔ہ۔ہ۔ہ۔
میسم ذہتی طور بر چود کو پ نار کر خکا ت ھا ۔ جہرے بر اور سیجندگی طاری کی ۔
ک
اد پبہ تے اس کے گود میں بڑے کشن کو چ ھنکے سے ک ھییجا اور یوری فوت سے ھییچ کر
میسم کے جہرے بر دے مارا
” اوچھ ۔۔۔۔“
اچ ھل کر س ندھا ہوا ۔ چ نکہ وہ یو دویوں ہات ھوں سے لہ نگا سیٹ ھالتی اب واش روم کی طرف چا
رہی ت ھی ۔ اپک ملچے کے لتے یو سمخھ پہیں آپا کہ آچر ہوا ک نا ہے ت ھر پاتھ روم کا دروازہ
دھماکے سے پ ند ہوا ۔
اکڑ کس حیز کی دک ھا رہی ہے ۔ میسم تے کشن کو ت ھر سے گود میں رک ھا اور گھور کر واش
روم کے پ ند دروازے کی طرف دپک ھا ۔
افف پہت زور سے لگا ت ھا کشن میسم تے جہرے بر ہاتھ ت ھیرا جہاں چلن کا ابر ات ھی ت ھی
ت ھا ۔
ت ھوڑی دبر نعد وہ سادہ سے چوڑے میں د ھلے جہرے کے ساتھ پاہر آٸ ۔ میسم کی کھلی
گ ھورتی آپکھوں سے البرواہی برپتی آرام سے پ نڈ بر چا کر لیتی ۔ اور گردن پک چادر کو پان ل نا ۔
سر کو چ ھ نکا افف نہ روسان کا سک کہاں سے گھشا ہے اس کے دماغ میں چ ھیجال کر پازو
کو سر بر رک ھا ۔
اپ نا لم نا ت ھا وہ پاپگیں ساری صوقے سے یپچے ل نک رہی ت ھیں ۔ کیسے شوٶں گا ساری رات
ا نسے ۔ صوقے بر اے سی کی ہوا ت ھی کم لگ رہی ت ھی ۔ اس کو یو تیز اےسی کی ہوا کے
پلکل یپچے ل ٹیتے کی عادت ت ھی چو پہاں اپک طرف لگے صوقے بر یو پلکل پہیں آ رہی ت ھی
۔اپک آپکھ ک ھول کر چور سے نظر سے اد پبہ کی طرف دپک ھا ت ھر گ ھڑی کی طرف رات کا اپک
پج رہا ت ھا ۔
اپک نظر میسم بر ڈالی چ ناب بڑے مزے سے اپتی والی چادر کو پاپگ کے یپچے دتے لی تے
ہوۓ تھے ۔ ارد گرد نظر دواڑی پ نڈ کے ساٸپڈ میز بر بڑے اے سی کے ر نموٹ کو ات ھاپا
۔
” نہ ک نا کر رہی ہو ؟“
پ
میسم تے اے سی کی پ یپ کی آواز بر آ ک ھیں ک ھولیں چ نہیں زبردستی موپدے لی نا ہوا ت ھا ۔
اد پبہ پ نڈ بر ک ھڑی اےسی کا ر نموٹ ہاتھ میں پکڑے ہوۓ ت ھی ۔ اور بین برنس کرتے
ہوۓ اس کی رف نار کو کم کر رہی ت ھی۔
” ک ٹوں؟ “
میسم اتھ کر پاس آپا اور ر نموٹ اد پبہ کے ہاتھ سے چ ھنکے کے اپداز میں چ ھی نا۔ ت ھر اپک نظر
اس بر ڈالی اب وہ پخوں کی طرح مشکین سکل پ ناۓ ک ھڑی ت ھی ۔ گ ھتے پال دویوں سایوں
ً
بر پک ھرے ہوۓ تھے کاچل ا چھے سے آپکھوں سے نکال پہیں ت ھا ۔ میسم تے فورا مجلتے دل
کو سرزنش ک نا ۔ اور نظریں چراٸیں ۔
” اچ ھا اپک کام کرو تم صوقے بر چلی چاٶ وہاں ت ھنڈک کم ہے میں پ نڈ بر ل یٹ چا پا ہوں
“
نظریں چراتے ہوۓ برم سے لہچے میں کہا ۔ مقضد پیخ ھے اپ نا الو ت ھی س ندھا کرپا ت ھا ۔ اد پبہ
تے اپک نظر صوقے بر ڈالی اور ت ھر غصے سے میسم کی طرف دپک ھا ۔
کمر بر ہاتھ رکھ کر سر ہالتے ہوۓ کہا وہ ہ ٹوز اسی اپداز میں ات ھی پک پ نڈ بر ک ھڑی ت ھی ۔
میسم تے ما تھے بر پل ڈال کر رغب سے کہا ۔ اور وہاں یو اس کے رغب کا کوٸ ابر ہی
پہیں ت ھا ۔
” نہ پہیں “
اد پبہ کی پات بر شو واٹ کا چ ھ نکا لگا ت ھا ۔ اد پبہ تے روہانسی صورت پ نا کر دپک ھا ۔ میسم تے
برشوچ اپداز میں کمرے کا چاٸزہ ل نا ۔
میسم تے سیتے بر ہاتھ پاپدھ کر اسارے سے شوتے کا رخ پ ناپا ۔ اد پبہ تے مبہ ک ھول کر
حیرت سے دپک ھا مسٸلہ ک نا ہے اس کو آپک ھوں کو سکوڑا نہ دوری پ نا کر پاپت ک نا کرپا
چاہ نا غصہ ہی یو آ رہا ت ھا میسم کی چرک ٹوں بر ۔
”ت ھنک ہے “
اد پبہ تے خفگی سے مبہ ت ھالپا اور پکبہ زور سے پ نڈ کی دوسری طرف ت ھی نکا ۔ میسم تے اے
سی کی رف نار کو کم ک نا چود بر اس کی سمت سیٹ کی کمرے کی مین الٸٹ پ ند کی چ نکہ
اپک طرف چ ھت بر لگا چ ھوپا سا پلب کمرے میں مدھم سی روستی کتے ہوۓ ت ھا۔ اد پبہ کے
پاٶں کی طرف پکبہ درست ک نا اور ل یٹ گ نا ۔
ک ٹوں انشا کر رہے ہو میسم اد پبہ تے مجالف سمت میں رخ پدلہ ۔ دل میں گ ھین سی ہوٸ
۔ ک نا ہے میسم آپکو کس پات کا پدلہ ہے نہ کہ زپدگی کی اپتی جسین رات اور ہم ا نسے اپک
دوسرے سے تے رخی برت رہے ہیں ۔
اپتی ت ھکاوٹ کے پاوچود بی ند آتے کا پام پہیں لے رہی ت ھی ۔ اچاپک ذہن میں آتے والے
چ نال کے زبر ابر ل ٹوں بر سربر سی مشکراہٹ ات ھری آہش نگی سے س ندھی ہو کر کن اک ھ ٹوں
ُ
سے میسم کی طرف دپک ھا وہ ت ھی پلکل اسی اپداز میں اس کی طرف نشت کتے ہوۓ ت ھا ۔
اد پبہ تے دھیرے سے پاٶں ات ھا کر مشکراہٹ دپاتے ہوۓ زور سے میسم کے سر بر
دے مارا ۔
” آہ اد پبہ “
” ک نا ہوا “
ک پ
اد پبہ تے مصغوم یت سے آ یں ھ نکاٸیں ۔ وہ پاک بر ہاتھ ر ھے ٹ ھا ت ھا ۔
یب ک چ ھ
” پاک ت ھوڑ ڈاال یوچھ رہی ہو ک نا ہوا “
” اوہ شوری پبہ پہیں چال رات کو ا نسے اکیر پاپگیں مارتی ہوں میں “
پال کی مصوم یت جہرے بر طاری کرتے ہوۓ مشکراہٹ کو جہرے بر امڈ آتے سے روکا ۔
” چلو س ندھی لی ٹو ت ھر “
میسم تے داپت بیشتے ہوۓ انگلی سے اپ تی طرف کا اسارہ ک نا ۔ گدھی نکلی نہ یو دل میں
داپت بیشتے ہوۓ شوچا اور غصے سے اد پبہ کو دپک ھا اد پبہ تے داپت نکالے اور چلدی سے
پکبہ ات ھا کر میسم کے پکتے کے ساتھ رک ھا ۔
اس کے پلکل برابر ل یٹ کر برچوش اپداز میں کہا ۔میسم کے جسم سے ات ھتے والی چوسٹو تے
دھڑک ٹوں کی رف نار بڑھا دی ت ھی اور گال بی تے لگے تھے ۔
ت ھر سے وہی کرپٹ یورے جسم میں دوڑ گ نا ت ھا ۔ ساتھ ل ٹیتے کو کہا ت ھا وہ یو اپ نا پاس ل یٹ
گٸ ۔
” یپچے گر چاٶں ک نا ؟ “
اد پبہ تے میسم کی چالت سے مچزوز ہوتے ہوۓ مضٹوغی خفگی دک ھاٸ ۔ پ نا پہیں ک ٹوں
پ نگ کرتے میں مزہ آتے لگا ت ھا ۔
میسم تے ہاتھ کے اسارے سے اد پبہ کے پہلو میں موچود چگہ کی طرف اس کی یوجہ دالٸ ۔
اد پبہ تے گردن بر پک ھرے پالوں کو چ ھ نکا دپا پال ہوا میں اچ ھل کر پکتے بر پک ھرۓ ۔ مدھم
سی روستی میں ت ھی اس کی رپگت دمک رہی ت ھی ۔
افقف دل کی دعا پازی سروع ہوتے والی ت ھی میسم تے چلدی سے رخ موڑا اور چادر مبہ
پک پان لی ۔ ک نا مضی یت ہے میسم کو چود بر ہی غصہ آ رہا ت ھا ۔ ہر پات مان رہا ہوں اس
کی ۔ دل اور دماغ اپک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑپا سروع ہو چکے تھے بی ند کس کمیخت کو
آتی ت ھی اس چالت میں ۔
ک
چادر دھیرے سے اس بر سے سرک رہی ت ھی ۔ اد پبہ اب اس کی چادر کو ھییچ رہی ت ھی ۔
ک
” چادر ک ٹوں ھییچ رہی ہو اب “
میسم تے داپت بیشتے ہوۓ غصے سے رخ اس کی طرف موڑا دویوں کا سر پکراتے پکراتے
پجا ۔
” سردی لگ رہی ہے “
” افقف ک نا مضی یت ہے “
میسم تے زور سے ما تھے بر ہاتھ رک ھا ۔ تیزی سے ات ھا پنگے پاٶں چل نا ہوا الماری کے پاس پہیجا
۔ اور ت ھر اپتی اپک عدد سرٹ ہاتھ میں پکڑے ہوۓ وانس آپا ۔
” نہ ک نا ہے “
” پہ ٹو اس کو “
سرٹ اد پبہ کے طرف بڑھاٸ ۔ اد پبہ تے شوالبہ سے اپداز میں میسم کی طرف دپک ھا ۔
” پہ ٹو اسے “
” گڈ پیخ ھے ہو ت ھوڑا سا اب “
ہاتھ کے اسارے سے پاک چڑھاتے ہوۓ اسے پیخ ھے ہوتے کا کہا ۔ اد پبہ تے گ ھور کر
دپک ھا ۔ پدنمیز سمخ ھنا ک نا ہے چود کو ۔
مخ س
” اب مخ ھے شوپا ہے ھی “
انگلی اس کے جہرے کے پلکل سا متے ک ھڑی کرتے ہوۓ غصے سے کہا ۔ اد پبہ کا جہرہ
سرخ ہوا ۔
” مخ ھے ت ھی “
پ
غصے سے سر کو پکتے بر مار کر رخ موڑا اور زور سے آ ک ھیں پ ند کیں سرٹ سے ات ھتی ت ھیتی
ت ھیتی سی چوسٹو اور گرماہٹ میں وافعی کب بی ند آٸ پبہ ت ھی نہ چال ۔
ک ندھے بر ت ھر سے کخھ برم سا وزن مجسوس ہوا یو میسم تے داپت بیشتے ہوۓ رخ پدلہ اور
ت ھر خیسے لمجہ ت ھم گ نا وہ شو رہی ت ھی
ا تپے ہوش رپا جشن کے چلوے پک ھیرتے ہوۓ وہ ہر حیز سے تے حیر ت ھی ۔میسم تے
دھیرے سے اس کے پازو کو چود بر سے ہ ناپا ۔
ا تپے پازو کو ا تپے سر کے یپچے دے کر غور سے اس کے معصوم جہرے کو دپک ھا۔ دل میں
کیتی ہی چواہسیں سر ات ھاتے لگی ت ھیں
ً
اسے کے جہرے کے ہر نقش کو چ ھو لیتے کی چواہش ۔ فورا س ندھا ہو کر سر کو کتے بر زور
پ
سے مارا ۔ پکبہ ات ھاپا اور ت ھر سے صوقے بر چا کر ڈھیر ہو گ نا ۔ چار پج رہے تھے ۔ اور ت ھر
جس صوقے بر دو گ ھیتے پہلے بی ند آتے کا نصور مجال ت ھا وہ وہیں شو گ نا ت ھا ۔
********
” آٶ آٶ ادھر بیٹھو “
اچمد م ناں تے دروازے بر ک ھڑے میسم کو ہاتھ کے اسارے سے پاس پالپا۔ وہ ا تپے پ نڈ
بر بیٹ ھے تھے اور پہلو میں وہ پارپچی پیچ رپگ کے کام سے ت ھرے چوڑے میں سچی سٹوری
ب
یٹھی ت ھی و لٹمے کی نقرپب کے نعد وہ لوگ ات ھی کخھ دبر پہلے ہی گ ھر پہیچے تھے ۔
” خی “
میسم معدب اپداز میں سر کو چ ھکاۓ ان کے قرپب آپا ۔ اچمد م ناں تے ہاتھ کا اسارہ ا تپے
پہلو کی طرف ک نا ۔ وہ اب ان کے دوسرے پازو کی طرف بیٹھ خکا ت ھا ۔ اد پبہ بر اپک نظر
ب
ڈالی چو الڈلی پتی یٹھی فیح کا چ ھنڈا لہرا رہی ت ھی ۔ سب کخھ چ یت لو گی بر میری مج یت پہیں
۔ میسم تے گ ھور کر دپک ھا ۔ جس بر اس تے پاک چڑھاٸ۔
” چوش ہوں پہت اپتی زپدگی میں اپتی اوالد کی اوالد کی چوسی دپکھ لی میں تے “
اچمد م ناں تے مشکرا کر ک نک ناتی آواز میں کہا ۔ اور ت ھر میسم کی طرف دپک ھا ۔
” خی “
معدب اپداز میں خی کہتے ہوۓ گردن اور چ ھکا دی ۔ اچمد م ناں تے اد پبہ کو پازو سے پکڑ
کر ساتھ لگاپا ۔
ب
” نہ حب چ ھوتی سی ت ھی یو غزرا اپک دن میرے پاس یٹھی رو دی کہتی اپا خی ہللا تے
کوٸ بی نا ت ھی نہ دپا چلو اپک بی نا ہوپا اور اپک بیتی “
اچمد م ناں نفاہت سی کابیتی آواز میں یول رہے تھے اور وہ دویوں ہم ین گوش تھے ۔ میسم
تے آج گرے چ نک میں ت ھری بیس شوٹ ز پب ین ک نا ہوا ت ھا جس میں وہ آج کل سے
ت ھی زپادہ چوبرو لگ رہا ت ھا ۔ اد پبہ تے چور سی نظر ڈالی
اچمد م ناں تے گردن گھما کر میسم کی طرف دپک ھا ۔ میسم تے چلدی سے مشکراہٹ کا ل نل
سجاپا ۔
اد پبہ کے ہاتھ کو ات ھا کر میسم کے ہاتھ بر رک ھا ۔ دویوں تے اپک ساتھ اپک دوسرے کی
طرف دپک ھا ۔ دل کی دھڑکن کے پار دویوں طرف برابر پج ا تھے تھے ۔
اچمد م ناں تے میسم کے ہاتھ کو پ ند ک نا اور دپاٶ ڈاال۔ اد پبہ چ ھی یپ گٸ۔ ہاتھ کے لمس
سے میٹ ھا سا کرپٹ یورے وچود میں سراٸپت کر رہا ت ھا ۔
” خی “
میسم نے معدب انداز میں سر ہالنا ۔ احمد م یاں کا ہاتھ اب دونوں کے ہات ھوں پر ت ھا ۔
میسم کے ہاتھ کی گرمی جیسے ہت ھیلی میں جزب ہوتی محسوس ہو رہی ت ھی۔ شادی کے بعد یہ
پہال لمس ت ھا جس سے اس نے نوازاہ ت ھا۔ اور اس میں ت ھی ج یاب کی خواہش کہاں شامل
ت ھی یہ نو بس نانا انو نے ہی۔۔۔۔ اد ینہ نے دل میں ات ھتی ٹیس کو دنانا ۔
احمد م یاں نے میسم کی طرف سوالنہ انداز میں دنک ھا ۔ میسم نے سر کو آہس یگی سے ہالنا ۔
نازک سے ہاتھ کی پرماہٹ جیسے دل کو گدگدانے لگی ت ھی ۔ نے شاخنہ انک بظر شا منے
ٹ
یتھی اد ینہ پر ڈالی وہ اب بظریں ح ھکاۓ احمد م یاں کے سینے سے لگی ہوٸ ت ھی ۔ نلکیں
گالوں پر لرز رہی ت ھیں ۔
خوڑے کا رنگ چہرے پر عکس ح ھوڑے ہوۓ ت ھا ۔ ییچ رنگ میں اس کا چہرہ کھال ہوا ت ھا ۔
آج کل کی بسبت زنور ہلکا ت ھا شلور گولڈ کی ح ھوتی سی ی یدنا ما تھے پر دمک رہی ت ھی ۔ وہ نال
کی جسین ت ھی ۔
1
” جی دادا انو “
اب احمد م یاں دونوں کو شاتھ لگاۓ ہوۓ تھے ۔ انک دفعہ اد ینہ کے سر پر نوسہ دنا اور
ت ھر میسم کے سر پر۔
میسم نے دھیرے سے ہاتھ کو ک ھییچا ۔ اور کان ک ھچا نا ہوا س یدھا ہوا ۔ نوں لگ رہا ت ھا مزند اگر
کچھ دپر اور ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہا نو دل نوری طرح ناغی ہو کر دماغ کے جالف ج یگ کا
کھال عالن کر دے گا ۔اور دل کی ج بت مطلب اد ینہ کی ج بت
اد ینہ نے دھیرے سے احمد م یاں کے سینے پر سے سر ات ھانے ہوۓ اجازت طلب انداز
ای یانا ۔
2
” احمد م یاں نے مسکرانے ہوۓ میسم کی طرف اشارہ ک یا ۔ میسم نے ت ھ نویں اچکا کر ا بسے
دنک ھا جیسے کہہ رہا ہو خود جاۓ میں ک یا گود میں لے جاٶں گا ۔ اد ینہ احمد م یاں کی نات کو
ستی ان ستی کرتی میسم کو بظر انداز کرتی و بسے ہی اسے ٹیت ھا ح ھوڑ کر ناہر بکل گٸ ۔
آج و لتمے کی نوری بقریب میں صرف قونو سوٹ کے وقت وہ شاتھ آنا ت ھا اس کے بعد انک
دفعہ ت ھی سییج پر آ کر اس کے شاتھ پہیں ٹیت ھا ت ھا ۔
رابعہ نے ا نیے شاتھ صوفے پر ہاتھ کا اشارہ ک یا ۔ اد ینہ دھیرے سے جلنے ہوۓ اب ان
کے پراپر میں ٹیتھ جکی ت ھی ج یکہ وہ مسلسل اس کے چہرے کو دنکھ رہی ت ھیں گو کے بظر
پہت پرم سی ت ھی پر پہت ک ھوجتی سی ت ھی ۔
” اد ینہ یہ خو مرد ذات ہے یہ ا نیے جزنات پر قانو نانے میں پہت ماہر ہونا ہے “
3
رابعہ نے دھیرے سے اس کے پرم سے ہاتھ کو ا نیے ہاتھ میں ل یا ۔
” ل یکن میری جان ی نوی کی مچ بت جاہت ای یاٸیت میں پہت طاقت ہوتی ہے “
میت ھے سے لہجے میں نولتی ہوٸ وہ اس کے سر کو ا نیے ک یدھے کے شاتھ لگا جکی ت ھیں
کیتی ای یاٸیت ت ھی ان کے انداز میں وہ بچین سے ہی اس سے ابسی ہی مچ بت کرتی ت ھیں
وہ اکیر ان کے اس والہایہ ین پر پربسان ت ھی ہو جانا کرتی ت ھی ۔
” میں پہیں جایتی وہ ک نوں ابسا کر رہا ہے ل یکن ای یا جایتی ہوں کسی اور لڑکی کا کوٸ جکر
پہیں بس اس ر سنے کو ق نول پہیں کر نا رہا ہے ات ھی شاتھ رہے ہو یہ تم لوگ ہمیشہ نو
شاٸد پہ نوں کی طرح سمچ ھیا رہا ہو “
4
رابعہ اب اس کے سر کو ہلکے ہلکے سے ت ھیک رہی ت ھیں ۔ اد ینہ کے دل میں ٹیس ات ھی
ت ھی ۔ مماتی آنکو ک یا ی یاٶں کہ ک یا ہے آ نکے الڈلے کے دل میں اد ینہ نے دھیرے سے
نلکوں کو ی ید ک یا ۔ وہ نول رہی ت ھیں۔
” تمہیں اس کے دل میں جگہ ی یاتی ہے ہمت سے کام لی یا ہے تم ھارا سوہر ہے تم ھارا خق
ہے اس پر تم جاہو نو اس کے دل کی ملکہ ین شکتی ہو اور تم جاہو نو اس کے ناٶں کی
خوتی ت ھی یہ رہو “
وہ ایتی مچ بت سے سمچ ھا رہی ت ھیں کہ ہر نات اد ینہ کے دل میں موخود ناراضگی کو دھو رہی
ت ھی ۔
ُ
” ل یکن سوہر کے دل میں ای یا مقام ایتی جگہ ی یانے کے لنے مچ بت اور نوجہ میں اسی کی
پہل کا ای ٹطار کرنے والی لڑک یاں ایتی انا میں پہت کچھ ک ھو د یتی ہیں “
رابعہ نے دھیرے سے اسے س یدھا ک یا اور اس کے چہرے کو ا نیے دونوں ہات ھوں میں لے
کر کہا ۔
5
ت ھوڑا شا ییجے ہو کر اس کی ح ھکی نلکوں سے سوال ک یا ۔ اد ینہ نے نلکیں ات ھاٸیں اور لب
ت ھییجے سر کو دھیرے سے ہالنا ۔
” اور یہ کم یل “
” کچھ دپر پہلے آنا ت ھا میرے ناس کہہ رہا ت ھا اد ینہ کو سردی لگتی رہتی رہی کل رات نو مما
نلیک بٹ دے دیں “
” مطلب پرواہ ہے بس مچ بت ت ھی ی یدا کر لو اور آج جیسے اداس شا چہرہ ت ھا تم ھارا ابسا ت ھر یہ
دنکھوں میں عزرا ت ھی پربسان سی ت ھی “
رابعہ نے سرم یدہ سے لہجے میں کہا ۔ اد ینہ نے جلدی سے بفی میں سر ہالنا ۔ ان کی نانوں
سے دل کو خوضلہ ہوا ت ھا ۔
” جی “
6
مدھم سی آواز میں کہنے ہوۓ سر کو مزند ح ھکانا ۔
ک
” اور اس کے کان ت ھی ھییچنے کو کہا ہے میں نے تم ھارے ماموں سے “
وہ مسکرا رہی ت ھیں آنکھوں میں نے ی یاہ مچ بت ت ھی اد ینہ ح ھیکے سے رابعہ کے گلے لگی ۔
کچھ دپر اس کی ٹیتھ ت ھیکنے کے بعد وہ آہس یگی سے کہتی ہوٸ ات ھیں اور ناہر جلی گٸیں
پر اد ینہ کے ل نوں پر مسکراہٹ ح ھوڑ گٸیں ۔
**********
7
ناسنہ کرنے کے بعد وہ اب خوس کا مگ ہاتھ میں ت ھامے ٹیت ھا ت ھا ۔ آج ع ید کے ٹیسرے
روز دور سے آۓ ہوۓ ت ھی سب رسنہ دار وابس جا جکے تھے ۔ سب گ ھر والے انک شاتھ
تی وی الوبج میں ٹیت ھے تھے چہاں زور و سور سے ہر ی نوز جی یل پر میسم کی شادی کی خیر جل
رہی ت ھی ۔ ار ینہ اور جز بفہ کا نو خوش سے پرا جال ت ھا ۔ البنہ مراد احمد س یاٹ چہرہ لنے ہی
ٹیت ھے تھے ۔
ت ھر سے وہی محسوشات دل ہلکے سے ردھم پر ت ھر کنے لگا دماغ نے گ ھور کر دل کو دنک ھا اور
ٹ
مستم نے ح ھیچال کر شا منے صوفے پر یتھی اد ینہ کی طرف خو مسلسل اسے مچ بت ناش
بظروں د نک ھے ہی جا رہی ت ھی ۔ ناسنہ کرنے ہوۓ نو انک دو نار اسے لگا و بسے ہی دنکھ رہی
ہے ل یکن اب نو مسلسل اس کی بظروں کی ٹیش محسوس ہو رہی ت ھی ۔ خو اندر نوڑ ت ھوڑ کر
رہی ت ھی ۔
وہ خب سو کر ات ھا نو وہ کمرے میں موخود پہیں تھی ۔ اور خب ناہر آنا نو محیرمہ ہلکے سے
پر یٹ گرین رنگ کے خوڑے کو ز یب ین کنے ہلکے سے م یک اپ سے چہرے کو جار جاند
لگاۓ مراد احمد اور رابعہ کی الڈلی یتی ان کے درم یان میں پراحمان ت ھی ۔ اور ت ھر اکت ھے ناسنہ
کرنے ہوۓ اور اب خوس ٹینے ہوۓ وہ مسلسل نے سرمی سے اسے ناڑنے میں مصروف
ت ھی ۔
8
اد ینہ کے آج مسلسل نوں دنک ھنے پر اجساس ہوا کہ خب لڑکے مسلسل کسی لڑکی کو
ناڑنے ہوں گے نو اس کی ک یا جالت ہوتی ہو گی ۔ ناز ہی پہیں آ رہی ت ھی وہ ۔ ک یا کروں۔
میسم نے اردگرد دنکھ کر الپرواہی پریتی پر نے سود اس کی بظر ات ھی ت ھی خود پر محسوس ہو رہی
ت ھی ۔
میسم نے ما تھے پر نل ڈالے گ ھور کر دنک ھا نو اد ینہ نے سرارت سے انک آنکھ کا کویہ دنا دنا
۔
ھ ک ن
ابسا ح ھ ٹکا لگا کہ خوس ح ھلک گ یا ۔ اور وہ اب ارد گرد خور بظروں سے د تی ہوٸ منہ پر ہاتھ
ر کھے ہیس رہی ت ھی ۔
اسے ک یا ہو گ یا ہے آج خو ا بسے چظرناک وار کر رہی ہے ۔ میسم نے تمشکل دھڑ کنے دل کو
تیڑی پر سبٹ ک یا ۔ خوس کا مگ انک طرف رک ھا ۔ اور موناٸل پر ی ٹعام لک ھا۔
9
” کون شا مسٸلہ مطلب ک یا ہے اس نات کا “
اد ینہ نے سرارت سے دنک ھا اور س یڈ کا ٹین دنانا ۔ دوسری طرف ج یاب نے ت ھ نویں
اچکاٸیں اور گ ھور کر دنک ھنے ہوۓ شکرین پر بظر ڈالی ۔ اور ت ھر ابگل یاں خواتی ی ٹعام ناٸپ
کر رہی ت ھیں ۔ سف ید اور نلیک رنگ کی الٸی یگ ڈربس سرٹ اور خییز پہنے اد ینہ کی سرارنوں
سے پربسان ہونا اسے وہ پہت اح ھا لگ رہا ت ھا و بسے ت ھی رابعہ کی رات کی نانوں نے خوضلے
نلید کر ر کھے تھے ۔ اور دل کو بقین ت ھا وہ اس سے نے ی یاہ مچ بت کرنا ہے بس ندگماتی ہے
دل میں جس کے نادل اس کی مچ بت کی وجہ سے جلد ح ھٹ جاٸیں گے ۔
اد ینہ نے ی ٹعام پڑھ کر ہیسی روکی ۔ اور خواب لک ھا۔ ہلکے سے پڑھے ناخن پر ی یازی رنگ کی
ناخن نالش لگا رک ھی ت ھی خو سف ید دودھ جیسے ہات ھوں کو اور دلکش ی یا رہی ت ھی مسیج لک ھنے
ہوۓ کالٸ میں پہنے سونے ک یگن انک دوسرے میں بج کر مدھر شا شاز بچا رہے تھے ۔
ن
” نو میری آ ک ھیں ہیں میری مرضی ہے میں جدھر ت ھی دنکھوں “
میسم نے خواب پڑھا انک آپرٶ جڑھا کر دنک ھا اد ینہ نے گردن کو ج نیش دی میسم نے ما تھے
پر شکن ڈالے اور خواب لک ھا ۔
10
” سب ٹیت ھے ہوۓ ناگل اور تم نے آنکھ ماری ات ھی مچ ھے “
اد ینہ نے سرارت سے ارد گرد سب کو دنک ھا خو تی وی پر جلتی خیروں کو پرخوش انداز میں
دنک ھنے میں مصروف تھے۔
” خق ہے میرا تھٸ میرا سوہر ہے میں پہیں دنکھوں گی نو کون د نک ھے گا آنکھ ہی ماری
ہے کوٸ اور نا ز ییا جرکت نو پہیں کی “
مسکرا کر ی ٹعام ت ھیچا اور ت ھر سے و بسے ہی دنک ھیا سروع ک یا۔ میسم نے خواب دنکھ کر ارد گرد
دنک ھا اور ت ھر ابگلیاں شکرین پر دوڑنے لگیں۔
مہم
” اح ھا جی پڑی نات پہیں کہہ دی آپ نے اور م ق “
خ م
خواب لک ھا۔ اد ینہ نے بچلے لب کو دای نوں میں دنا کر سرارت سے خواب ناٸپ ک یا ۔
” جی نلکل خق “
ن
گردن اکڑا کر میسم کی طرف دنک ھا خو اب آ ک ھیں شکیڑ کر کچھ سوچ رہا ت ھا ۔
11
میسم نے سرارت سے مسکرا کر دنک ھا اد ینہ نے دھڑ کنے دل کے شاتھ ا بسے ک یدھے
اچکاۓ جیسے کہہ رہی ہو کچھ ت ھی ۔ میسم نے خوس کا جالی مگ شاٸنڈ میز پر رک ھا اور اتھ
مچ س
ن
کر ناہر بکال۔ اد ینہ نے نا ھی سے اسے ناہر جانے د ک ھا ۔
اوہ جدانا !!!! ت ھوڑی دپر بعد ج یاب ای یا کلف لگا سف ید قم ٹض شلوار نکڑے مسکرانے ہوۓ
الوبج میں داجل ہوۓ اور ال کر کیڑے اد ینہ کے شا منے کنے ۔ وہ ا حھے سے جای یا ت ھا کہ
اد ینہ کو کیڑے اسیری کرنے نلکل بس ید پہیں تھے اور کلف لگے کیڑے نو اگر کتھی
علطی سے ت ھی اسے کوٸ کرنے کو کہہ د ییا ت ھا اس کی جان پر ین جانا کرتی ت ھی ۔
” یہ کیڑے پربس کر کے دو “
آواز میں رعب ت ھا ۔آنکھوں میں سرارت اور لب مسکراہٹ ح ھیا رہے تھے ۔ اد ینہ نے
ن
ت ھوک بگل کر ارد گرد ٹیت ھے لوگوں کو دنک ھا ۔ رابعہ نے اد ینہ کے چہرے کی پربساتی د ک ھی نو
ً
قورا ایتی جگہ سے ات ھیں ۔
” الٶ میں کر د یتی ہوں “ جلدی سے آگے پڑھ کر کیڑے میسم کے ہاتھ سے لنے۔
” وہ کر دے گی امی آپ ک نوں “
12
” دماغ ت ھیک ہے تم ھارا دو دن کی دلہن ہے “
رابعہ نے چقگی ت ھرے انداز میں گ ھورا ۔ اور ت ھر سے کیڑے نکڑنے کی کوشش کی ۔
ت ھا جس میں سوہر ایتی ی نوی کو ی یگم کہہ کر بکارنا ت ھا نو اد ینہ اس سے پہت جڑتی ت ھی ۔ کہ
ی یگم کی یا عچ بب لفظ ہے ۔
” ہاں ہاں اد ینہ ہی کرے گی سوہر کے شارے کام ی نوی کو ہی کرنے جا ہنے ات ھو اد ینہ
“
ُ
عزرا نے جلدی سے میسم کے خوشگورا رونے کو دنکھ کر شکر ادا ک یا اور اس کی وکالت میں
نولی۔ اد ینہ نے گ ھور کر میسم کی طرف دنک ھا خو اب زنان کو اوپر کنے اسے جڑانے کے انداز
میں ہیس رہا ت ھا ۔
” جی نلکل “
13
اد ینہ نے دایت ٹیسنے ہوۓ ح ھیکے سے میسم کے ہاتھ سے کیڑے لنے ۔ اور گود میں
ٹ
دھرے ۔ پر و بسے ہی یتھی رہی۔
میسم نے اسے نوں ہی ٹیت ھے دنکھ کر ت ھر سے مچ بت سے کہا ۔ اور ک یدھا ہالنا اد ینہ نے
ن ت ھ ت ت ن ش ھ ک ن
آ یں کیڑ کر د ک ھا اور ھر منہ ال کر ا ھی ۔ مر ل قدم ات ھاتی اسیری کے میز پر آٸ
میسم اس کے ییچ ھے ہی ناہر آ گ یا ۔ وہ اب بچارگی سے گدھے کی اوپری جلد کی طرح اکڑے
قم ٹض کی طرف غصے سے دنکھ رہی ت ھی خب کان میں سرگوسی ہوٸ وہ نلکل ییچ ھے ک ھڑا ت ھا
۔
وہ نو طلم ڈھا کر جا چکا ت ھا پر وہ نے پری بب ہوتی شابسوں کو سیت ھالتی کیڑوں سے الچھ رہی
ت ھی ۔
14
*********
فہد نے ابگلی کا اشارہ کرنے ہوۓ روہابسی صورت ی یا کر شا منے ٹیت ھے میسم کی طرف دنک ھا
ن
۔میسم نے سر سے ناٶں نک اسے آ ک ھیں شکیڑ کر دنک ھا ۔ وہ آج ت ھر جان نوحھ کر رات
دپر نک فہد کے شاتھ ٹیت ھا ت ھا۔ اور فہد اسے گ ھر میں اشکی اور ار ینہ کی نات جالنے کا کہہ
رہا ت ھا ۔
میسم نے بخوت سے ناک جڑھاٸ ۔ فہد نے بخوں کی طرح منہ ت ھال کر چقگی سے دنک ھا ۔
غصے سے ما تھے پر شکن ڈالے اور ہوا میں ہاتھ ات ھا کر شان نے ی یازی سے مستم نے
شارے ہویٹ ناہر بکال کر اس کی طرف دنک ھا ۔
15
فہد نے میسم کے آگے ہاتھ خوڑے جس پر وہ فہفہ لگا گ یا ۔
ہ
” ممم ت ھیک ہے و بسے کل دغوت پر غقل اسٹعمال کرنا یہ ت ھتھو کو ت ھی انواٸٹ کرنا “
” ڈر پہت لگ یا نار“
” پہیں کر انواٸٹ ان کو ت ھی ای تی امی کو ت ھیج صیح گ ھر اور وہ جاص طور پر ت ھتھو کا کہہ
کر آٸیں کہ وہ ت ھی سرنک ہوں دغوت پر “
میسم نے کرسی کی بست سے ی یک لگاٸ موناٸل پر وقت دنک ھا انک بج رہا ت ھا ۔ فہد اب
سوچ میں پڑ گ یا ت ھا ت ھر پر خوش انداز میں اس کی طرف دنک ھا ۔
” اح ھا “
16
فہد نے خچل شا ہو کر گردن پر ہاتھ ت ھیرا چہاں میسم کے ت ھیڑ کی جلن ہو رہی ت ھی ۔
*************
انک طرف لگے صوفے پر انک عدد کیری اور ی یگ پڑا ت ھا ۔ ی یڈ پر دو ینہ پڑا ت ھا اور اد ینہ
دو نیے سے نے ی یاز قون کان کو لگاۓ ییل نالش رگڑتی نات کر رہی ت ھی۔
اد ینہ نے چقگی ت ھری لہجے میں قون کے دوسری طرف موخود ماہ رخ سے کہا ۔ وہ شادی میں
سرنک پہیں ہو شکی ت ھی جس پر اد ینہ اس سے چقا ت ھی ۔ وہ لوگ ہر شال اشالم آناد ا نیے
یت ھال میں ع ید کرنے جانے تھے اور جس دن اد ینہ کی اسے کال گٸ شادی کی دغوت
کے لنے وہ لوگ اشالم آناد کے لنے بکل جکے تھے ۔
17
ماہ رخ نے بخوں کی طرح الڈ ات ھانے والے انداز میں کہا ۔ پر ادھر نو جیسے اور ت ھی پہت
سے غم تھے ۔ رونے جیسی صورت ی یاۓ وہ نے دردی سے ناخن رگڑ رہی ت ھی ابگل یاں
گالتی ہو گٸ ت ھیں ۔
اد ینہ نے ا نیے مخصوص انداز میں ل نوں کو ناہر بکا لنے ہوۓ اعیراض ک یا ۔
ماہ رخ ایتی صقاٸناں دے رہی ت ھی اور وہ اداسی سے شا منے ا نیے ی یگ کی طرف دنکھ رہی
ت ھی ۔
اداس سے لہجےمیں کہا ۔ اور ی یل نالش انک طرف لگے میز پر رک ھی۔
ک نوں ک یا ہوا؟“
ماہ رخ نے خیرت سے نوح ھا ک نونکہ انک دن پہلے اس نے ی ٹعام ت ھیچا ت ھا کہ وہ میسم کے
شاتھ رہے گی اب الہور میں ۔
18
” ات ھی جا رہے ہیں ج یاب ناہر کہیں سیرپز ک ھیلنے نو “
اد ینہ نے گہری شابس لی ۔ ک نونکہ آج صیح ہی میسم نے سب کے شا منے ابکار ک یا کہ ات ھی
وہ اد ینہ کو شاتھ پہیں لےجاشک یا ہے ۔ وابسی پر آ کر وہ الگ رہاٸش کریں گے۔
” نو ناگل تم ک نوں پہیں جا رہی شاتھ کھالڑی کی ی نوی کے پہی نو مزے ہونے ہیں ملکوں
ملکوں گ ھومتی ہیں “
ماہ رخ نے خیران ہونے ہوۓ مسورہ دنا جس پر اد ینہ کے ل نوں پر ت ھیکی سی مسکراہٹ
ات ھری ۔
اد ینہ نے ما تھے پر شکن ڈالے کل رات ت ھی خب آنکھ لگی یب ہی آنا ت ھا وہ اور آج نو دنوں
کی وابسی ت ھی الہور کے لنے اد ینہ کی ح ھی یاں جتم ہو گٸ ت ھیں اور میسم کو ابگلی یڈ جانا ت ھا
۔ جار راٹیں کمرے میں اجیتی ین کر گزار جکے تھے دونوں۔
19
ہلکی سی آواز میں کہا کمرے کا ہی یڈل گ ھوما ۔ اور میسم نے دروازہ ک ھوال ۔
اد ینہ نے دروازہ کھلنے پر جلدی سے کہہ کر قون یید ک یا ۔اور انک طرف ی یڈ پر اح ھاال وہ خو
ُ
کمرے میں داجل ہوا نو اسے عچلت میں قون رک ھنے دنکھ کر ت ھت ھک گ یا ۔ اد ینہ نے بظریں
ح ھکا کر کانوں کے ییچ ھے نال اڑاۓ ۔ میسم کچھ دپر ک ھڑا بغور اسے دنک ھیا رہا ۔
دلخوٸ کر رہی ہوں گی محیرمہ ڈاکیر ضاخب کی ۔ سینے میں عچ بب سی جلن ہوٸ اب ی نوی
ین گٸ ت ھی نو جلن میں اضافہ ہو گ یا ت ھا ۔
میسم نے الماری کی طرف جانے ہوۓ نے زار سے لہجے میں کہا ذہن میں نار نار اس کا
موناٸل انک طرف رک ھنے کا انداز آ رہا ت ھا ۔
” کر لی ہے میں نے “
اد ینہ نے چقا سے لہجے میں کہا ۔ اور ناس پڑے م یگزین کو ات ھانا ۔انداز اس سے نوری طرح
الپرواہی پری یا ہوا ت ھا ۔ صیح سے بکلے محیرم اب بسربف الۓ تھے اور جکم ا بسے جال رہا ت ھا جیسے
یھ ک
چی
اد ینہ نے شابس اندر نے ہوۓ ضٹط ک یا ۔
20
” اور میری ؟“
ن
کمر پر ہاتھ دھر کر غصے سےمڑا ۔ گ ھورتی غصے سے ت ھری آ ک ھیں اد ینہ پر گڑی ت ھیں ۔
اد ینہ نے د نک ھے ی یا نے زار سے لہجے میں کہا غصہ نو دو رانوں کا ت ھا شارا دن و بسے نات
پہیں کرنا ت ھا۔ اور رات کو ج یاب دو جبے آنے خب نک اس کی بس ہو جکی ہوتی اور وہ سو
جاتی ۔
اد ینہ نے ناک ت ھال کر روہابسی آواز میں کہا ۔ جس پر میسم کے خیڑے ناہر کو بکلے تمشکل
جیسے غصہ ضٹط کر رہا ہو ۔
21
” وہی میسم جا ہنے جس نے نوری ح ھت ت ھولوں سے سچا دی ت ھی میرے لنے “
اد ینہ نے میسم کے ہاتھ سے ہاتھ ح ھڑانے کی کوشش پرک کرنے ہوۓ آنکھوں میں
ن
آ ک ھیں ڈالیں۔
میسم نے طیز ت ھری مسکراہٹ ل نوں پر سچاٸ ۔اور ہاتھ کو ت ھر سے ح ھ ٹکا دے کر اسے
قریب ک یا ۔
روہابسی صورت ی یا کر مصوم بت سے اس کی آنکھوں میں دنک ھا خو غصے سے ت ھری پڑی ت ھیں
۔ کیتی عچ بب قریت ت ھی ۔ جس میں لمس میں کوٸ پرمی پہیں ت ھی ۔
ناک ت ھول رہا ت ھا اد ینہ کے نالوں کی لٹ کو کان کے ییچ ھے ک یا اد ینہ نے دھیرے سے
ن
آ ک ھیں ی ید کیں اور ک ھولیں ۔
” معلوم پہیں “
22
اد ینہ نے ح ھی بپ کربظریں ح ھکا دی ت ھیں ۔ میسم نے آگے ہونے ہوۓ ای یا چہرہ اس کے
کان کے نلکل ناس ک یا ۔اگر میسم نے ہاتھ یہ ت ھام رک ھا ہونا نو شاٸد وہ ایتی قریت کے زپر
اپر زمین پر گر جکی ہوتی ۔ گال ٹینے لگے تھے اور دل کے دھڑ کنے کی آواز اب زور سے
س یاٸ دے رہی ت ھی ۔
” مچ ھے معلوم ہے “
کمر پر ہاتھ دھرے اور کڑوے سے لہجے میں اد ینہ کے کان کی لو کے قریب سرگوسی کی ۔
وہ سمٹ سی گٸ پڑپ کر لہجے کی سچتی کو محسوس کرنے ہوۓ میسم کی آنک ھوں میں
ح ھابکا ۔ اور محسم ہوٸ ۔
23
زہر میں ڈونا ہوا فقرہ آگ پرشا نا ہوا لہحہ اد ینہ کے کان کے شاتھ شاتھ دل ت ھی جل ات ھا اور
وہ لمنے لمنے ڈگ ت ھرنا ناہر بکل گ یا ۔
اور اس کے بعد یہ سقر میں کوٸ نات کی اد ینہ شارا رسنہ ان گ بت سوخوں میں الچ ھتی ہی
رہی آجر کو ہوا ک یا ہے میسم کو نوں اجانک ایتی سچتی پر نیے لگا ۔ اٸپر نورٹ سے اپر کر
میسم نے اسے علیچدہ ی یکسی کروا کر دی اس کا شامان اس میں رک ھا اور اسے ٹیت ھنے کا کہہ
کر خود دوسری طرف جل دنا ی یکسی ہاس یل کی طرف رواں دواں ت ھی ۔
*************
ڈاکیر سعدیہ نے اد ینہ کے ی یگ میں بچنے موناٸل کی طرف اشارہ ک یا .وہ ات ھی راٶنڈ سے
وابس آٸ ت ھی اور جیسے ہی س یاف روم میں داجل ہوٸ نو سعدیہ نے موناٸل کے کافی دپر
سے بچنے کی اطالع دی ۔
اد ینہ نے ی یگ سے قون بکاال نو میسم کا نام شکرین پر جگمگا رہا ت ھا ۔ ان کو الہور آۓ آج
ٹیسرا دن ت ھا ۔ اور اس دوران یہ میسم کی پہلی قون کال ت ھی خو اس کے قون پر آٸ ت ھی۔
” ہ یلو “
24
آہسنہ سی آواز میں سیچیدگی سے کہا ۔ دوسری طرف شاٸد قون یہ ات ھانے کا غصہ ت ھا ۔
” ایتی دپر سے قون کر رہا ہوں کوٸ صروری نات ہو شکتی ہے کہاں ت ھیں تم “
اد ینہ نے ت ھی اسی سچتی سے خواب دنا دوسری طرف جاموسی ہوٸ ۔ت ھر کچھ دپر بعد آواز
آٸ ۔
اد ینہ کے قون نا ات ھانے پر دل عچ بب طرح سے پربسان ہوا ت ھا ۔ اور اس کے قون ات ھانے
ہی وہ پربساتی میں اسے ح ھاڑ گ یا ت ھا پر اس کے خواتی حملے نے خپ کروا دنا ۔
25
” ک نوں ؟ “
دل پر اور لہجے کی خوسی پر قانو نانے ہوۓ نوح ھا ۔ اور صوفے کی بست سے ی یک لگاٸ ۔
شا منے سے ماہ رخ مسکراتی ہوٸ س یاف روم میں داجل ہوٸ ۔ جس کے سوخ سے سوالنہ
انداز پر اد ینہ نے صرف ہاتھ ہالنا کا اشارہ ک یا وہ اب پرخوش انداز میں اد ینہ کے شاتھ ٹیتھ
جکی ت ھی ۔
میسم نے سیچیدہ سے لہجے میں ا نیے قون کرنے کی وجہ ی یان کی اشد نے ا ینے گ ھر میں اس
کی شادی کی خوسی میں دغوت رک ھی ت ھی ۔ میسم کے پہت م ٹع کرنے کے ناوخود اشد نے
پہت اسرار ک یا اور ت ھر اشد کی ی نوی نے جاص طور پر قون کے ذر بعے میسم سے نات کی اور
آنے کے لنے آمادہ ک یا ۔
اد ینہ نے گہری شابس لی نو اح ھا اس لنے ج یاب کو میری ناد آٸ اور کوٸ وجہ پہیں ت ھی
دل ت ھر سے اداس ہوا ۔
ہ
” ممم “
26
اد ینہ نے ہلکی سی آواز بکالی ۔ دوسری طرف جاموسی ت ھی۔ اد ینہ نے خود کو نارمل ک یا رابعہ
مماتی کے نانوں نے ذہن میں نازگست کی ۔
نارمل لہجے میں سوال ک یا ۔ دوسری طرف شاٸد اسی کے سوال کا ای ٹطار ہو رہا ت ھا ۔
” رات شات جبے میں ک بب لے کر آ جاٶں گا ہاس یل کے شا منے کال کروں گا ناہر آ
جانا “
اد ینہ نے ک یدھے اچکاۓ اور موناٸل وابس ی یگ میں رک ھا ۔ چہرے پر کوٸ خوسی کی
رمق موخود پہیں ت ھی ۔
27
” واہ “
ماہ رخ نے سوخ سے انداز میں ہاتھ کو ہوا میں ات ھا کر سر کو لہرانا ۔ اد ینہ نے چقگی ت ھری
بظر ڈالی ۔
اد ینہ نے خیزیں سمیتی اور ی یگ کو ک یدھے پر رک ھا ۔ماہ رخ نے مسکرانے ہوۓ اس کے
ہاتھ پر بسلی کے انداز میں ت ھیکی دی ۔ دو راٹیں وہ یہ خود سوٸ ت ھی یہ ماہ رخ کو سونے
دنا ت ھا ۔ شاری رات بس میسم کے رونے کو لے کر دونوں بحث میں لگی رہیں ماہ رخ کا
ج یال رابعہ مماتی کے نلکل پرعکس ت ھا اس نے اد ینہ کو میسم کو پراپر اکڑ دک ھانے کے
مسورے دنے ۔
28
ماہ رخ نے آنکھ دنا کر اس کی افسردگی جتم کرنے کے لنے اسے ح ھیڑا وہ دھیرے سے
مسکرا دی ۔ اور ت ھر پژمردگی سے آگے پڑھ گٸ ۔
***********
ی یا نے خیرت سے میسم کی طرف دنک ھا ۔ وہ لوگ اشد کے گ ھر ک ھانا ک ھانے کے بعد اب الوبج
ٹ
میں جاۓ تی رہے تھے خب اشد کی ی نوی ی یا اور اد ینہ کچھ قاضلے ہر یتھی آبس میں گف یگو
کر رہی ت ھیں ۔ اور میسم اشد کے شاتھ گف یگو میں مصروف ت ھا ۔
” جی “
میسم مسکرا نا ہوا م نوجہ ہوا ۔ انک بظر ت ھر سے اد ینہ پر ڈالی خو یب سے نار نار نے شاخنہ اس
پر اتھ رہی ت ھی ۔ وہ سیز رنگ کے خوڑے میں غضب ڈھاتی اس کی بظر کو نار نار ات ھنے پر
مچ نور کر رہی ت ھی ۔ نال نلکل س یدھے کھلے ح ھوڑ کر ک یدھے پر ڈال ر کھے تھے اور کانوں
میں نارنک سے لمنے اٸپر رنگ پہن ر کھے تھے ۔
29
ی یا نے گ ھور کر میسم کی طرف دنک ھا وہ شاٸد اب ابگلی یڈ میں ک ھیلے جانے والی سرپز کی نات
کر رہی ت ھیں جس کے لنے ات ھیں ٹین دن بعد بکلیا ت ھا ۔ میسم نے خونک کر اد ینہ کی طرف
دنک ھا خو اب ڈر کر سر ح ھکا گٸ ت ھی ۔ اور ت ھر بظر ات ھا کر معزرت طلب بظروں سےمیسم
کی طرف دنک ھا ۔
” وہ “
میسم نے بظروں ہی بظروں میں اد ینہ سے شکوہ ک یا کہ ک نوں اس نے اس نات کا ذکر ک یا
۔ اد ینہ خود ت ھی مسز اشد کے اس انداز پر س نی یا گٸ ت ھی۔ ک نونکہ وہ نانوں ہی نانوں میں
اس سے پہت کچھ نوحھ جکی ت ھیں اسے اندازہ پہیں ت ھا کہ وہ نوں میسم کی کالس لے
لیں گی ۔
ی یا نے چقگی سے میسم کی طرف دنک ھا اور اب اشد ت ھی میسم کے چہرے کی طرف سوالنہ
ً
انداز میں دنکھ رہا ت ھا ک نونکہ بقری یا کھالڑی ایتی قتملیز کو شاتھ لے کر جارہے تھے ۔ اور میسم
کی نو نٸ نٸ شادی ہوٸ ت ھی ۔
30
میسم نے سرم یدہ سے لہجے میں کہنے ہوۓ کان ک ھچانا ۔ اور ت ھر چقا سی بظر اد ینہ پر ڈالی ۔
اشد نے ت ھی ڈ ٹینے کے انداز میں میسم کو گ ھورا ۔ اور ی یا ت ھی اب افسوس سے سر ہال رہی
ت ھی
ی یا نے چقا سی بظر میسم پر ڈالی اور ت ھر مسکرا کر اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ وہ نو پربسان جال
بچال لب کچلتی میسم کے چہرے کے ند لنے زاونے دنکھ رہی ت ھی ۔
میسم نے ایتی طرف سے خواز ٹیش کرنے ہوۓ اد ینہ کی طرف دنک ھا کہ وہ ناٸند کرے ۔
” ہاں ر ہنے دیں مسز اشد ت ھر ی یکسٹ ناٸم سہی انکخولی ات ھی نو گ ھر والوں کو ت ھی پہیں ی یانا
ہم نے “
اد ینہ نے میسم کی نات پر زور زور سے ناٸند میں سر ہالنا ۔ اور گڑ پڑا کر انک عدد ا نیے سے
خواز گڑھا ۔
” ک نوں تھٸ نٸ نٸ شادی ہے شاتھ ہتی مون نوور جیسا ہو جاۓ گا تم دونوں کا “
31
ی یا نے بفی میں زور سے سر ہالنا اور دنوں کی نات کو رد ک یا ۔
ی یا نے اد ینہ کے گرد نازو جاٸل کرنے ہوۓ مچ بت سے کہا اد ینہ نے خور سی بظر ضٹط
کرنے ہوۓ چہرے کے شاتھ ٹیت ھے میسم پر ڈالی ۔ خو اب پہلو ندل رہا ت ھا ۔
میسم نے اگال خواز ٹیش ک یا۔ جس کا ی یا کے ارادے پر کوٸ اپر پہیں پڑا ت ھا ۔ وہ ہ نوز اسی
انداز میں بفی میں سر ہال گٸ ۔
ی یا نے ناٸند کے لنے اد ینہ کی طرف دنک ھا اد ینہ خو ان کوپہلے ان کی نانوں میں الچھ کر ی یا
جکی ت ھی کہ ہاوٸس جاب میں مل جاتی ہے ح ھی یاں اب اس کی ناٸند پر گڑ پڑا کر سر
ہال گٸ ۔
” جی “
میسم نے ضٹط سے مصنوغی مسکراہٹ چہرے پر سچاٸ ج یکہ خیڑوں کا ناہر کو واضح ہونا
اس کے ضٹط کا ی یا دے رہا ت ھا ۔ اد ینہ نے ال خولہ وال کا ورد سروع کر دنا ۔
32
**********
اور وہی ہوا جس کا ڈر ت ھا ۔ ک بب میں اد ینہ کے شاتھ ییچ ھے ٹیت ھنے ہی وہ سروع ہو چکا ت ھا ۔
اد ینہ خو اس کے ای یا قریب ہونے پر اس کے کلون کی مہک سے م یاپر ہو رہی ت ھی اس
کے حملے پر گہری شابس لی ۔
میسم نے غصے سے گ ھورنے ہوۓ تمشکل آواز کو آہسنہ رک ھنے ہوۓ اد ینہ سے خواب طلب
ک یا ۔ اد ینہ نے ت ھوک بگل کر ڈر کو جتم ک یا اورت ھر خود کو نارمل کرنے ہوۓ گھور کر میسم
کی طرف دنک ھا ۔
” ک نوں کرتی؟ “
33
” نو کہہ دیں ان کو یہ سب میرا سر ک نوں ک ھا رہے ہیں مچ ھے ت ھی کوٸ جاص سوق پہیں
جانے کا “
اد ینہ نے دایت ٹیس کر سینے پر ہاتھ ناندھے اور چہرے کا رخ چقگی سے کار کے سیسے کی
طرف موڑا ۔ اور اب دوسرے ہی ملجے وہ جانے کا اردہ پرک کر جکی ت ھی ۔
اد ینہ نے ما تھے پر شکن ڈال کر روہابسی آواز میں صقاٸ دی ۔ اب اس کو کیسے سمچ ھاتی
کہ ی یا انک نکی غمر کی غورت ت ھی اسے سمچھ ت ھی پہیں آٸ وہ کیسے کیسے نانوں میں الچ ھا کر
اس سے سب کچھ اگلوا جکی ت ھی بعد میں وہ کیسگ م یکر ہوتی ایتی کہی ہوٸ نانوں سے۔
34
میسم نے طیز ت ھرے انداز میں ناک ت ھالنا ۔ اد ینہ نے ت ھ نویں اچکا کر خیرت سے اس کے
اس انداز کو دنک ھا دل خو آج اس کے نار نار دنک ھنے پر ت ھوڑا شا خوش ہوا ت ھا پر اب ت ھر اس
کے اس رو کھے رونے پر افسردگی کا سکار ہو گ یا ت ھا ۔
اد ینہ نے آبسوٶں کے ا نکے گولےکو بگال اور ضٹط سے میسم کی آنکھوں میں دنک ھا ۔ گہری
ب لہ ل ن ھ گ ک ن
دل میں اپرتی آ یں مڑی ہوٸ تی یں کی سی پڑھی ہوٸ نو ھرے سے خو صورت
ت س ک ھ
ہویٹ وہ ای یا خوپرو ت ھا یہ اس کے دل کی دی یا کا نادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی داسی
ین جکی ت ھی ۔
ت ھ نویں اوپر جڑھا کر سوال ک یا ۔ اد ینہ کے ل نوں پر ت ھیکی سی مسکراہٹ ات ھری غور سے
میسم کی چہرے کی طرف دنک ھا ۔
مدھم سے لہجے میں کہا ۔ جس پر وہ نل ت ھر کے لنے بس اد ینہ کی طرف دنک ھیا ہی رہ گ یا۔
35
ٹ
سچ ہی نو کہہ رہی ت ھی کیسے کہہ جا نا ہوں میں شا منے یتھی اس لڑکی سے خو میرے وخود
میں میرا دل ین کر دھڑکتی ہے کہ مچ ھے اس سے اب مچ بت پہیں رہی ۔ نا ک یا جانے میں
کہاں کہاں جزنات پر قانو پہیں نا رہا ۔ بس میں ہارنا پہیں جاہ یا اس دوعلی جسبنہ کے آگے
۔
” ح ھوٹ ہے یہ “
اد ینہ جاموسی سے اپری اور ی یا میسم کی طرف د نک ھے گ بٹ کے اندر گم ہو گٸ ج یکہ اب وہ
بظر موڑے اس کے اندر جانے کا ای ٹطار کر رہا ت ھا جیسے ہی اد ینہ اندر گٸ میسم نے ی یکسی
والے کو اشارہ ک یا جانے کا ۔ ۔
*********
36
” م یارک ہو شادی کی پرو “
وہ حم کٹ کی زپ ی ید کر رہا ت ھا خب کسی نے ٹیتھ ت ھیکی میسم نےرخ موڑا نو قواد نلکل
ییچ ھے ک ھڑا ت ھا ہی نوں پر طیز ت ھری مسکراہٹ سچاۓ ۔
میسم نے ضٹط سے پرم سی مسکراہٹ ل نوں پرسچاٸ سن گالسز آنکھوں پر بکاۓ اور حم
کٹ کو ک یدھے پر ل ٹکانا ۔ ج ید قدم آگے پڑھاۓ خب ییچ ھے سے ت ھر آواز آٸ ۔
طیز سے ت ھرا کڑوا شا لہحہ ت ھا میسم کے قدم وہیں ت ھم گنے ۔ دوسری طرف جاموسی ت ھی میسم
خیڑے انک دوسرے میں ی نوست کنے ضٹط کے عالم میں ییچ ھے مڑا ۔
ناکس یان کرکٹ یتم کے کی یان نوقیر عامر نے میسم کے شاتھ اوتیر کھالڑی اپراہتم کو کر دنا
ت ھا ۔ نوقیر میسم کو آسیرنلیا کی سیرپز ج نینے کے بعد سے پہت اہم بت د نیے لگا ت ھا اور وکٹ
کییر اشد سے شازل اور قواد کی پہلے سے ہی ایتی پہیں ٹیتی ت ھی اور وہ آچکل میسم کے پہت
37
قریب ت ھا اس لنے قواد کو اس سب میں میسم کا ہاتھ لگ یا ت ھا ۔اور کچھ شازل اس کا دماغ
جراب کر چکا ت ھا ۔
داٸیں ہاتھ سے سن گالسز ا نارے انک آپرٶ بقرت آمیز انداز میں اوپر جڑھاۓ قواد کی
طرف دنک ھا خو اب ناول سے گردن ضاف کرنا ج ید قدم جل کر میسم کے نلکل شا منے آ گ یا
ت ھا ۔ آج رات اپہیں ابگلی یڈ کے لنے بکلیا ت ھا ۔ اس لنے وہ آج حم میں ت ھوڑا وقت لگا کر
وابس جا رہا ت ھا ۔
ہ
” ممم اشد سے کافی دوستی ہے یہ نو “
قواد نے ک یدھے اچکا کر طیز ت ھرے انداز میں ل نوں کو ناہر کی طرف ات ھارا ۔ میسم کی رگیں
ین گٸیں سیر ل یگ کا ستمی قاٸنل ت ھر سے دماغ میں گھوم گ یا ۔
” میں نے سب کی طرف ہی دوستی کا ہاتھ پڑھانا ت ھا کسی نے پڑھ کر ت ھام ل یا نو کسی نے
ایتی شازسوں کی بظر ک یا ۔ “
ن
میسم نے مسکرا کر طیز ت ھرے لہجے میں خواب دنا ۔ قواد نے خونک کر دنک ھا میسم کی آ ک ھیں
لہجے کی طرح ہی سرد ت ھیں اور ل نوں پر کڑوی سی مسکراہٹ ۔
38
قواد کچھ ت ھی پہیں نول سکا ۔ میسم نے سن گالسز ت ھر سے آنکھوں پر سچاۓ ۔
سیچیدہ سے لہجے میں کہا اور شان سے رخ موڑے حم سے ناہر بکل گ یا ج یکہ قواد وہیں ہونق
ی یا ک ھڑا ت ھا۔
**********
ج نوب مسرفی ابگلی یڈ میں موخود دی اوٶل کرکٹ اس یڈتم کے وسٹع عربض م یدان میں میسم
مراد سیز رنگ کی کرکٹ وردی میں مل نوس وک نوں کے آگے ک ھڑا دھواں دار نلے نازی میں
ٹ
مصروف ت ھا ۔ اور شا منے لگی ناطرین کی بشسنوں میں وہ ی یا کی بعل میں یتھی آج ای یا سب
سے نابس یدندہ ک ھیل پہت زنادہ بس یدندگی اور دلحستی سے دنک ھنے میں مصروف ت ھی ۔ اور وجہ
وک نوں کے شا منے ک ھڑا وہ سخص جس کے آگے وہ ای یا سب کچھ ہاری ت ھی دل انا عرور سب
جتم ت ھا ۔
وہ لوگ کل ابگلی یڈ پہیجے تھے چہاں تمام کھالڑنوں کو ان کی قتملیز کے شاتھ انک شاندار
ہونل میں ت ھہرانا گ یا ت ھا۔
میسم اور اد ینہ کے لنے نوقیر عامر نے انک پہت خوبصورت ہتی مون سو یٹ نک کروانا ت ھا۔
39
” واہ ک یا شاندار ک ھیل رہا ہے “
م
ی یا نے مسکرا کر اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ اد ینہ نے خواب میں یتھی سی مسکراہٹ کای یادلہ
ک یا ۔ آج ابگلی یڈ کے شاتھ ناکس یان کا پہال ون ڈے میچ ت ھا ۔اور میسم ہمیشہ کی طرح
سییچری کے بعد اب آجری اٶورز نک وکٹ کے آگے حما ہوا ت ھا پر ابگلی یڈ نے کافی مشکل
وقت دنا ت ھا نلے نازی میں اس لنے ناکس یان کی ج بت ایتی بقیتی پہیں ت ھی ۔ اپہیں پہت
پڑے جدف کا شام یا ت ھا
اد ینہ نے ہوا سے اڑنے نالوں کو ابگلی کی نوروں سے سم نینے ہوۓ کہا ۔ گال گالتی ہو
رہے تھے اس شارے شکون کی انک وجہ یہ ت ھی ت ھی کہ میسم کھالڑنوں کے شا منے اد ینہ
کے شاتھ پہت اح ھا رویہ ای یاۓ ہوۓ ت ھا ہر ہر خیز میں پرواہ کر رہا ت ھا کل سے اور اد ینہ
اس کی ای تی سی اہم بت د نیے پر ہی ہواٶں میں ی یکھ ت ھیالنے لگی ت ھی ۔
ی یا نے سرپر سی بظروں سے دنک ھنے ہوۓ کہا ۔اد ینہ ہلکا شا فہفہ لگا گٸ ۔ میسم نے انک
شکور ل یا ت ھا اور اب وکٹ کے شا منے دوسرا کھالڑی آ گ یا ت ھا ۔ عزپر انک گی ید ناز ت ھا اس
40
لنے سب کی جان پر ین آٸ ت ھی اس سے گی ید ک ھیلیا مشکل ہو رہا ت ھا۔ اور وہ گی ید پر گی ید
ضاٸع کر رہا ت ھا
کمی ن بییر کی نازگست گوبخی اور اد ینہ نے جلدی سے ہات ھوں کی ہت ھیل نوں کو دعا کی صورت
ٹ
میں گول ک یا ۔ پہی جالت اب شاتھ یتھی ی یا کی ت ھی ک نونکہ میسم اگر نلے نازی کی طرف
ہونا نو کوٸ قکر پہیں ت ھی ۔ مستم اب عزپر کو کچھ سمچ ھا رہا ت ھا۔ سرٹ شاری بسینے سے
ت ھیگی ہوٸ ت ھی ۔
اد ینہ نےانک بظر میسم کے پربسان سے چہرے پر ڈالی خو ی یا پہیں نازو کو لم یا کنے عزپر کو
ک یا سمچ ھا رہا ت ھا اور ت ھر مدھم سی آواز میں ی یا کی طرف دنکھ کر روہابسی سکل ی یاٸ
” ج بت جاۓ گا ہے یہ میسم “
” ان شا ہللا “
41
ن
اد ینہ نے بخوں کی طرح آ ک ھیں ی ید کنے دعا کی ۔ عزپر نے انک شکور ل یا ۔ اب آجری گی ید
پر انک ح ھکا جا ہنے ت ھا سب لوگوں کی جان پر یتی ت ھی اور ام یدیں جڑی ت ھیں میسم مراد سے
۔
” And this mess with Masum Murad hitting a six and
”winning Pakistan
“ اور یہ میسم مراد کے انک ح ھکے کی مار اور ناکس یان میچ ج بت جاۓ گا“
کم ن بییر ہیسنے ہوۓ کہہ رہا ت ھا ۔ ک نونکہ میسم کے شاتھ کے کھالڑی نے تمشکل انک شکور ک یا
ت ھا اور اب دوسری طرف وکٹ کےشا منے ت ھر سے میسم ک ھڑا ت ھا ۔ گراٶنڈ میں لگی شکرین
پر اب اد ینہ دعا مانگتی ہوٸ بظر آ رہی ت ھی اد ینہ نے دعا کرنے ہوۓ ای یا آدھا چہرہ ایتی
ہت ھیلوں میں ح ھیا رک ھا ت ھا ۔
” کمیرہ نارنار میسم کی ی نوی کو قوکس کر رہا ہے خو چہرہ ہات ھوں میں ح ھیاۓ دعا مانگ رہی ہیں
“
42
کمی ن بییر نے فہفہ لگانا اب دونوں کمی نبییر فہفہ لگا رہے تھے اور تمام کتمرے نار نار اد ینہ کی
طرف مڑ رہے تھے ۔ سب لوگ اد ینہ کی جالت سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ میسم نے
بظر ات ھا کر شکرین کی طرف دنک ھا ۔ دل کو عچ بب سی خوسی ہوٸ یہ وہ لمحہ ہونا ہے جس کی
خواہش ہر کھالڑی کرنا ہے کہ وہ جس لڑکی کو دل سے جاہ یا ہو وہ نوں اس کو ک ھیلیا د نک ھے
اور اس کی ج بت کے لنے دعا گو ہو ۔
انک کمی ن بییر نے فہفہ لگا کر دوسرے سے سوال ک یا۔ جس پر دوسرے کا ت ھی جاندار فہفہ
گوبچا ۔ اب اس نات پر بشسنوں پر ٹیت ھے تمام لوگ ہیس رہے تھے ۔ کتمرہ اب میسم کا چہرہ
دک ھا رہا ت ھا شکرین پر خو مسکراہٹ کو سرمانے کے سے انداز میں دنا رہا ت ھا ۔
دوسرےنے ناٸند کی اور شاتھ شاتھ م یارک ناد ٹیش کی شادی کی ۔ میسم نے ت ھرنور
انداز میں م یارک ناد پر سر ہالنا سب لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے اور ہیس رہے تھے۔ میسم
43
ت
نے نال اد ینہ کی طرف ک یا اور ل نوں کو ھییچنے ہوۓ ت ھوڑا شا اوبچا ک یا سب لوگوں کا سور
گوبج گ یا اد ینہ نلش ہو رہی ت ھی نار نار شکرین پر اس کا چہرہ آ رہا ت ھا کمی ن بییر اس کے نارے
میں نات کر رہے تھے ۔
میسم اب وکٹ کے آگے ک ھڑا ت ھا اور گی ید ناز نلکل شا منے ی یار ت ھا ۔سب لوگ اد ینہ سم بت
دھڑ کنے دل کے شاتھ ٹیت ھے تھے ۔
گی ید ناز نے گی ید میسم کی طرف اح ھالی اور میسم نے وکٹ سے کچھ قدم آگے پڑھ کر گی ید
ن یھ ک
ن
کو نازو یچنے لے سے ہٹ کرنے ہوۓ لید ک یا ۔
” اورررررر یہ میسم مراد نے ا نیے انداز میں انک شاندار ح ھکا لگانا اور ناکس یان ابگلی یڈ کے شاتھ
ک ھیلے جاتی والی سیرپز کا پہال میچ ج بت چکا ہے “
کمبییری کی گوبج کے شاتھ بشسنوں پر پراحمان ناکس یاتی شاٸقین ایتی ایتی جگہوں سے اح ھلے
ٹ
تھے ۔ اد ینہ نے پر خوش انداز میں شاتھ یتھی ی یا کو شاتھ لگانا اب وہ اور ی یا ک ھڑے ہو کر
نال یاں ی بٹ رہی ت ھیں ۔
44
**********
ونڈسر کیسل کی خوبصورت غمارت کے سچر میں جکڑی وہ میسم کے شاتھ قدم سے قدم
مالۓ جل رہی ت ھی ۔
یہ ابگلی یڈ میں د نک ھے جانے والی ان کی آجری جگہ ت ھی وہ لوگ صرف قریتی جگہوں پر ہی
گ ھوم ت ھر رہے تھے دو ون ڈے میچ جنینے کے بعد وہ میسم کے رونے میں پہت سی می بت
ی یدنلیاں دنکھ رہی ت ھی ۔ ل یکن ات ھی ت ھی کوٸ ت ھابس ت ھی خو انک جاتی ت ھی وہ خب ت ھی
اد ینہ کے قریب آ نا نو کسی گہری سوچ میں پڑ جا نا ۔ دو دن نو وہ میچ کے بعد ای یا ت ھک چکا
ت ھا کہ ٹین کلر لینے ہی ڈھیر ہو جا نا ت ھا ۔ اور کل صیح ات ھنے ہی وہ لوگ نافی کھالڑنوں کی
قتملیز کے شاتھ کیسل دنک ھنے آۓ تھے ۔ یہ ٹین روزہ ون ڈے سرپز ت ھا جس میں دو دن
کا گ بپ رک ھا گ یا ت ھا اسی لنے وہ کل سے گ ھوم ت ھر رہے تھے اور آج ات ھیں وابس جانا ت ھا اور
ٹیسرا اور آجری ون ڈے میچ ک ھیلیا ت ھا ۔
میسم کتمرہ ہاتھ میں نکڑے بصوپریں لینے میں مصروف ت ھا خب غقب سے بسواتی پر خوش
آواز ات ھری ۔ میسم کے شاتھ اد ینہ نے ت ھی رخ موڑا ۔
” میسم مراد “
45
انک پہودی لڑکی خوش سے سرخ ہونے چہرے کے شاتھ ک ھڑی ت ھی۔ اس کی آنکھوں میں
خیرت ت ھی ۔ ہاف تی سرٹ اور خییز میں مل نوس وہ لڑکی خوشگوار خیرت چہرے پر سچاۓ
آگے آٸ ۔
افف میرے جدا میں پہت پرخوش ہوں آنکو نوں ا نیے شا منے دنکھ کر میں آنکی پہت پڑی
پرس یار ہوں “
لڑکی نے ناگلوں کی طرح گالوں پر ہاتھ ر کھے میسم کے نلکل شا منے ہونے ہوۓ والہایہ
انداز میں ایتی نے قراری ی یان کی ۔ میسم خیرت سے مسکرا دنا ۔ ج یکہ اد ینہ کا چہرہ انک نل
َ
کھ
میں ہی سیچیدہ ہوا ۔ لڑکی کا ل یاس اور اس کا انداز اد ینہ کو پری طرح ل گ یا ت ھا ۔
ناکس یان کی پہت سی لڑک نوں میں یہ واال خوش وہ خود کے لنے پہت دفعہ دنکھ چکا ت ھا اس
ت ھوڑے سے عرصے میں پر نوں انک عیر ملکی لڑکی کو خود کے لنے پرخوش ہونے ہوۓ وہ
پہلی دفعہ دنکھ رہا ت ھا ۔ اور اس نات پر میسم کے لب نے اجی یار مسکرا دنے کہ عیر ملکی
ت ھی اسے ای یا بس ید کرنے ہیں ۔
46
”مچ ھے انک س یلفی لیتی ہے آپ کے شاتھ نلیز “
وہ لڑکی نوکھالہٹ میں ا نیے ی یگ سے ای یا قون بکال رہی ت ھی ۔میسم نے شارے ی نیسی ناہر
بکالی اد ینہ نے سی نے ہر ہاتھ ناندھ کر چقگی ت ھری بظر میسم پر ڈالی جس کا ج یاب پر کوٸ
ُ
اپر پہیں ت ھا ۔ وہ لڑکی اس وقت اس کی پرس یار ت ھی اور وہ صرف اسی بظر سے اس سے
ٹیش آ رہا ت ھا۔
”سیٸور “
میسم نے پڑے انداز میں سن گالسز ا نارے اور تھوڑا شا آگے ہوا لڑکی اب ل یک کر میسم
کے نلکل شاتھ آ ک ھڑی ہوٸ اور ہاتھ پڑھا کر کتمرہ اوبچا ک یا انک عدد س یلفی لی ۔ اد ینہ نے
زنان کو منہ کے اندر گ ھومانے ہوۓ ارد گرد نے زاری سے دنک ھا ۔ دل جاہا میسم کا نازو
چی یکھ
ت ھامے اور تی ہوٸ انک طرف لے جاۓ ۔
” ون مورررر نلیز “
ا نیے ہاتھ کی دو ابگل نوں کی نوروں کو خوڑے لڑکی نے الیچاٸ انداز میں میسم کی طرف دنک ھا خو
مسکرا نا ہوا سر کو ای یات میں ہال نا ت ھر سے س یدھا ہو چکا ت ھا ۔ لڑکی نے ل نوں کو ناہر بکال کر
نوسے کی سکل میں گول ک یا۔ کچھ دور ک ھڑی اد ینہ کا منہ خیرت سے کھال کمیتی کہیں کی
م ک ن
دایت ٹیس کر خود سے سرگوسی کی اور آ یں کوڑ کر م کو ھورا ۔ لڑکی کے اس انداز
گ س ی ش ھ
47
پر میسم نے انک خور سی بظر اد ینہ پر ڈالی جس کا چہرہ سرخ ہو رہا ت ھا اور ناک ت ھول گ یا ت ھا
۔
” آہ ت ھیک نو “
لڑکی خوش میں میسم کے گلے لگ گٸ ۔ اد ینہ کا ضٹط خواب دے چکا ت ھا میسم کو لڑکی کی
اس نے ناکی کا اندازہ پہیں ت ھا وہ س نی یا گ یا لڑکی اب شکریہ ادا کرتی بصوپر کو خوش سے
ض ت س یم ت ج ھ ک ن
ک س ن
د تی ا ک طرف جا کی ھی ۔ م ھی م کرا نا ہوا وابس کچھ ہی قا لے پر ھڑی اد ینہ
کے ناس آنا ۔ جس کے چہرے کے رنگ ڈھ یگ ہی ندلے ہوۓ تھے ۔ منہ ت ھول کر ک یا
ن
ہوا ت ھا نو آ ک ھیں ا نیے خچم سے ح ھوتی ہو رہی ت ھیں ۔
” ک یا ہوا تمہیں “
48
میسم نے آگے پڑھ کر نازو سے نکڑ کر اد ینہ کا رخ ایتی طرف ک یا ۔ پر وہ نو بخوں کی طرح
ضد پر اپری ہوٸ ت ھی ۔
ن
” د ک ھتی رہیں “
اد ینہ نے چقگی سے کہا اور زور سے میسم کی گرقت سے نازو ح ھڑوانا ۔ میسم کے ل نوں پر
نے شاخنہ مسکراہٹ ات ھری ۔ ایتی جلن
میسم نے انک آنکھ کا آپرو ذومعتی انداز میں اوپر جڑھانا اور اد ینہ کے شاتھ قدم مالدۓ ۔ خو
چقا سی بس سیز گ ھاس کے درم یان موخود راہدارنوں میں جل رہی ت ھی ۔ت ھر انک دم سے رکی
اور رخ میسم کی طرف ک یا ۔
اد ینہ نے روہابسی آواز میں کہا میسم نے نے شاخنہ نلیدونانگ فہفہ لگانا ۔
ت ھوڑا شا ییجے ح ھک کر اد ینہ کی چقا سی آنکھوں میں ح ھابکا ۔ وہ اس وقت اسظرح خق ج یاتی
اس کی دل میں موخود دماغ کی جکومت کے جالف مچاز ک ھول جکی ت ھی ۔ دل نے ایتی قوج
49
کو ہت ھیار ات ھانے کا جکم دے کر دماغ کے جالف کھلی ج یگ کا اعالن ک یا ۔ وہ خو غصے
میں ت ھری ک ھڑی ت ھی میسم کے نوں دنک ھنے پر خیران سی ہوٸ وہ کی یا ندلہ ندلہ لگ رہا ت ھا ۔
مچ بت ناش بظروں سے دنک ھنے ہوۓ اد ینہ سے کہا خو پہلے ہی نے بقیتی کے عالم میں ک ھڑی
ب م سحم ت ُ
ی
ھی ۔ اسی طرح م سی خیرت یں ڈوتی اس کی ظروں کے وار سے پڑ نے دل کو لے کر
میسم کے شاتھ جل دی ۔
*********
ار ینہ نے جاۓ کا سپ ل یا اور ح ھت پر ر کھے ح ھولے کا رخ ک یا۔ غصر کے بعد کا وقت ت ھا
اور وہ فہد کے مسیج کرنے پر ح ھت پر آٸ ت ھی ۔ اور اب اس سے قون پر نات کر رہی ت ھی
ت ت
خو اسے رسنہ ھیچنے کی اطالع دے رہا ت ھا کہ وہ گ ھر رسنہ ھیچنے واال ہے۔
50
” ک نونکہ نوسی یل ہے یہ ت ھی امی تمہیں نلکل ت ھی بس ید پہیں کرتی ہیں معلوم ہے یہ تمہیں
“
اد ینہ نے جاۓ کا سپ ل یا اور سرارت سے کہا ۔ دوسری طرف ت ھوڑی دپر کے لنے
جاموسی ح ھا گٸ ۔
فہد نے مدھم سے لہجے میں ڈرنے ہوۓ کہا ک نونکہ ار ینہ اسے ضاف ضاف ی یا جکی ت ھی کہ
وہ گ ھر میں کوٸ نات پہیں کرے گا وہ رسنہ ت ھیجے گا اور گ ھر والے ق نول کریں گے اس
میں وہ میسم کی مدد لے شک یا ہے نو ت ھیک ہے ل یکن اس کےعالوہ وہ کسی سے ت ھی نات
پہیں کرے گی ۔
ت
” نلکل پہیں آپ رسنہ ھیچیں گے “
ار ینہ نے دونوک انداز میں ت ھر سے م ٹع ک یا ۔ دوسری طرف فہد نے گہری شابس لی۔ بس
ت
انک عزرا کا خوف ت ھا خو اسے نلکل بس ید پہیں کرتی ت ھیں ۔ ات ھی انک دفعہ رسنہ ھیچنےکا
مسورہ اسے میسم نے ہی دنا ت ھا ۔
51
” اح ھا جلو تماز کا وقت ہو گ یا ہے ت ھر نات کرنا ہوں “
فہد نے نے جارگی سے کہا ار ینہ نے شاخنہ مسکرا دی ۔ قون ی ید ک یا اور دل ہی دل میں دعا
کرتی ییجے کی طرف جل دی ۔
***********
” اد ینہ “
انک طرف سے جاتی پہچاتی آتی آواز پر وہ رکی اور گردن گ ھماٸ اور شاکن رہ گٸ ۔ روشان
چہرے پر ت ھرنور مسکراہٹ سچاۓ ک ھڑا ت ھا ۔ انک ملجے کے لنے نو جیسے سر جکرا شا گ یا ۔ یہ
کہاں سے آ گ یا ت ھا ۔ پر ت ھر ذہن نے ہی ات ھرنے سوال کا خواب دنا کہ وہ پہیں نو
س نیسالپز بسن کے لنے آنا ہوا ہے اور کرکٹ کا نو وہ و بسے ت ھی س یداٸ ت ھا نو آج صرور وہ
قاٸنل دنک ھنے آنا ہو گا ۔
اد ینہ نے گ ھیرا کر شاتھ ک ھڑے میسم کی طرف دنک ھا ۔ اور اس کے اندازے کے عین
مطانق میسم کا چہرہ سیچیدگی کی آجری جدوں کو ح ھو رہا ت ھا ۔
وہ لوگ آج ٹین روز ون ڈے میچ کا قاٸنل ج نینے کے بعد س یڈتم سے ناہر بکل رہے تھے۔
چہاں ان کو کار میں ٹیتھ کر ہونل کے لنے روایہ ہونا ت ھا ۔
52
روشان کا انداز پہت پر خوش ت ھا وہ مسکرا نا ہو آگے پڑھا ۔وہ پہت مشکل سے میسم نک
پ
ہیچنے میں کام یاب ہوا ت ھا ۔ اس کے والد کے اپر و رسوخ کی وجہ سے وہ نوں آج میسم کے
شا منے ک ھڑا ت ھا ۔
” اے سر میسم مراد “
روشان نے پرخوش انداز میں میسم کی طرف مصاچفے کے لنے ہاتھ پڑھانا ۔ میسم نے ضٹط
کرنے چہرے کے شاتھ پر سوچ انداز میں سن گالسز ا نارے ۔ چہرہ ی یا ہوا ت ھا ۔ ذہن زور
زور سے دل پر لع بت مالمت کر رہا ت ھا جس کے ہات ھوں مچ نور ہو کر وہ آج ڈاٸم یڈ رنگ جرند
النا ت ھا خو اسے آج رات اد ینہ کو پہ یاتی ت ھی اور ای تی کی گٸ شاری زنای نوں کی معافی مانگتی
ت ھی ۔
53
روشان نے دایت بکا لنے ہوۓ اد ینہ کی طرف دنک ھا خو سف ید لت ھے جیسا چہرہ لنے خیران سی
ک ھڑی ت ھی۔ انک دم سے روشان کی نات پر نوکھال کر میسم کی طرف دنک ھا ۔
” یہ یہ ۔۔۔“
م
گلے میں جیسے کچھ انک شا گ یا ۔ اس سے پہلے کہ وہ فقرہ کمل کرتی میسم کی کرخت سی
آواز ات ھری ۔
میسم کا چہرہ س یاٹ ت ھا ۔ خیڑے اور دماغ کی رگیں ضاف یتی ہوٸ محسوس ہو رہی ت ھیں۔
دل نو جاہ رہا ت ھا کہ روشان کا پہیں نازو گھما کر اسے زمین پر ییخ ڈالے ۔
روشان نے خوش ہو کر انک بظر اد ینہ کی طرف دنک ھا اور ت ھر میسم کی طرف ۔ روشان کو ماہ
رخ کے ذر بعے اد ینہ کی شادی کا ینہ جل چکا ت ھا اد ینہ نے کتھی ت ھی اسے ایتی طرف سے
کوٸ ابسی ام ید پہیں دالٸ ت ھی کہ وہ اس کے عسق کا روگ لگا ٹیت ھیا ۔ ہاں وہ انک شال
کے اندر اد ینہ سے نے ی یاہ مچ بت کرنے لگا ت ھا ل یکن یہ مچ بت نک طرفہ ت ھی یہ وہ اح ھی
طرح جان چکا ت ھا ماہ رخ سے ۔
54
” جی پہت اح ھی طرح “
میسم نے دایت ٹیسے اور آنکھوں کو جاص انداز میں شکیڑا ۔ اد ینہ سے ا بسے نے رجی پرتی
جیسے وہ پہاں موخود ہی یہ ہو ۔
” گڈ اد ینہ نے ی یانا ہو گا “
روشان نے مسکرا کر اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ خو ہونق یتی بس میسم کے چہرے کے ند لنے
زاونے دنکھ رہی ت ھی ۔ وہ میسم خو نابچ دن سے بظر آ رہا ت ھا انک نل میں ہی ک ھو گ یا ت ھا ۔
کیتی مچ بت اور مچ بت سے وہ میسم کی آنکھوں میں ت ھر سے وہ ی یار النے میں کام یاب ہوٸ
ت ھی اور آج لگ یا ت ھا سب ڈھیر ہو چکا ت ھا ۔
میسم نے طیزیہ انداز میں ہویٹ ناہر بکال کر گردن کو داٸیں ناٸیں ج نیش دی۔ دھوکا
دھوکا صرف دھوکا اس کو ت ھی نلوا ل یا پہاں اور مچھ سے سخی مچ بت کے دغوی ت ھی دن رات
کرتی ہے ۔ میسم کا دماغ جیچنے لگا ۔
55
روشان نے خوش میں بعربفی کلمات کہے جس پر میسم کے ل نوں پر کڑوی سی مسکراہٹ در
آٸ کن اک ھ نوں سے اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
گہری شابس لی اور کوٹ کو درست ک یا۔ اد ینہ کو لفظوں کی جت ھن ضاف محسوس ہوٸ دل
میں گ ھین پڑ ھنے لگی ۔
” اف نو ڈویٹ ماٸی یڈ اٸ ی یک ون نک “
روشان نے ج بب میں ہاتھ ڈالے الیچاٸ انداز میں کہا ۔ میسم نے زہرنلی سی مسکراہٹ
ل نوں پر سچاٸ اور خوبخوار بظر پربسان جال سی ک ھڑی اد ینہ پر ڈالی۔
میسم نے مصنوغی مسکراہٹ کے شاتھ طیزیہ انداز ای یانا ۔ اور انک طرف ہوا ۔
” یہ پہیں آپ کے شاتھ سر “
روشان اب موناٸل کو ہاتھ میں نکڑے میسم کے قریب آچکا ت ھا ۔ میسم نے گہری شابس
لی ضٹط سے رگیں ات ھر رہی ت ھیں ۔
ہ
” ممم “
56
س یاٹ سے چہرے کے شاتھ روشان کے شاتھ بصوپر ی نواٸ اور سن گالسز ت ھر سے
جڑھاۓ ۔
” ت ھیک نو سو مچھ “
روشان مسکور شا ہونا ہوا انک طرف ہوا اور مسکرا کر اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
میسم نے نے رجی سے ک ھردری آواز میں کہا اور قدم آگے پڑھاۓ اد ینہ س نی یا گٸ ۔
گ ھتی سی کاٹیتی آواز میں کہتی وہ اب تیز تیز قدم میسم کے قدموں کے شاتھ مال رہی ت ھی ۔
*************
ت ھولی نے پری بب شابسوں کے شاتھ وہ تیز تیز قدم ات ھاتی اب میسم کے ییچ ھے کمرے کی
طرف پڑھ رہی ت ھی ۔ میسم نے کارڈ سواٸپ ک یا کمرہ کھوال اور س یدھا کمرے کے درم یان
میں جا کر ک ھڑا ہوا دونوں ہات ھوں کمر پر دھرے وہ جاموش ک ھڑا ت ھا بس اد ینہ دروازہ ی ید
کرتی اب نلکل ییچ ھے آ ک ھڑی ہوٸ ۔
57
اد ینہ نے ت ھوک بگل کر آواز کو قدرے نارمل رک ھنے ہوۓ کہا وہ آجر کو ای یا ک نوں گ ھیرا رہی
ہے وہ کوٸ خور نو پہیں کار میں ہونل نک کے سقر کے دوران وہ خود کو پہت کچھ سمچ ھا
جکی ت ھی ۔ اور اب کچھ دپر میسم کے نو لنے کا ای ٹطار کرنے کے بعد وہ نول پڑی ت ھی ۔
ن
میسم نے کوٹ ا نارا اور زور سے ی یڈ پر ییخ ڈاال اد ینہ نے خوف سے آ ک ھیں ی ید کیں اور ت ھر
تیزی سے میسم کے نلکل شا منے آٸ ۔
” میسم لسن نو می “
میسم کے نازو کو نکڑا اور پرمی سے کہا ۔ میسم نے نک ھرے سے انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا
۔
” تم ھاری پہی نو پرانلم ہے تم کچھ ت ھی پہیں نوح ھنے مچھ سے بس خود سے سوچ لی نے ہو سب
اور بس “
58
اد ینہ نے ت ھر سے میسم کے نازو نکڑے اور ح ھیخوڑ کر کہا ۔ میسم نے دایت ٹیسنے ہوۓ
نلکیں اوپر ات ھاٸیں ۔ پرمی سے اس کے ہاتھ خود سے دور کنے
ن
” اح ھا میں خو ت ھی سوج یا ہوں وہ میری آ ک ھیں دنکھ جکی ہوتی ہیں “
میسم نے ناک ت ھالنے ہوۓ یتی ہوٸ رگوں کے شاتھ اد ینہ کی آنکھوں میں دنک ھا ۔
م ھ ک ن ک ن
” تم ھاری آ یں ک یا د تی یں ابسا ک یا م “
س ی ہ ھ
اد ینہ نے ح ھیچال کر اس کے نازو ح ھوڑے وہ ت ھکی سی لگ رہی ت ھی ۔ اب پرداست جتم ہو
رہی ت ھی ۔
” اح ھا اس دن تمہیں پہیں ی یا ت ھا “
59
اد ینہ نے ح ھیچال کر جیچنے کے سے انداز میں کہا۔ دل جاہ رہا ت ھا نا نو خود کچھ سر میں دے
مارے نا میسم کا سر ت ھوڑ دے ۔
ہ
” ممم اح ھا ی نوقوف ی یا رہی ہو مچ ھے پہت اح ھا بس اب اور پہیں ٹی یا مچ ھے “
” میسم تم سب سب علط سمچھ رہے ہو اور میں اب ت ھک جکی ہوں تمہیں صقاٸ د نیے
د نیے “
اد ینہ ی یک کر ت ھر سے اس کے آگے ہوٸ میسم اب گلے میں لگی ناٸ کو نے دردی سے
داٸیں ناٸیں گ ھما رہا ت ھا۔
” نو مت دو “
” ک نوں یہ دوں ی یار کرتی ہوں تم سے سوہر ہو تم میرے اور روشان کچھ ت ھی پہیں میرا
میں نے کتھی سوجا نک پہیں اس کے نارے میں “
اد ینہ کا گال ت ھٹ رہا ت ھا ۔ ک نوں سمچھ پہیں آتی اس سخص کو کوٸ ت ھی نات ۔
60
” بس کرو نار سوجا نک پہیں سوجا نک پہیں بکاح سے انک دن پہلے نوی نورستی میں وہ رو رہا
ت ھا تم ھارے لنے اور تم آبسو ضاف کر رہی ت ھی اس کے “
میسم نے دایت انک دوسرے میں ی نوست کنے اس کی طرف دنک ھا جس پر خیرت کا پہاڑ
نوٹ پڑا ت ھا ۔
” میسم “
اد ینہ کی آواز کہیں دور سے آتی ہوٸ محسوس ہوٸ ۔ وہ کس دن کی نات کر رہا ت ھا دماغ
شاٸیں شاٸیں کرنے لگا وہ الزام ہی نو لگا رہا ت ھا ۔ اس نے کس دن کب اور کہاں
روشان کے آبسو ضاف کنے تھے۔
ُ
” ہاں میں نے دنکھ ل یا ت ھا اس دن تمہیں اور اسے “
میسم کا چہرہ ی یا ہوا ت ھا ۔ لب اس قدر زور سے ت ھییجے ہوۓ تھے کہ وہ اس کے ضٹط کا ینہ
دے رہے تھے ۔ اد ینہ خیرت کے سم یدر میں غوطہ زن شاکن محسم یتی ک ھڑی ت ھی ۔
ک یا ہوا ت ھا بکاح سے انک دن پہلے ذہن پر زور دنا ۔ وہ نوی نورستی گٸ ت ھی اور روشان اوہ
روشان سیڑھ نوں میں ت ھا ۔ شارا م ٹظر بظروں کے آگے گ ھوم گ یا نو ک یا اس دن میسم یہ سمچ ھا
کہ روشان میرے بکاح کی وجہ سے رو رہا ہے اور میں خو اسے بسلی دے رہی ت ھی اوہ
61
میرے جدا اد ینہ کا ہاتھ نے شاخنہ اس کے ما تھے پر گ یا۔ گلے میں کا نیے سے جتھ گنے ۔
ما تھے پر ہاتھ دھرے ہی وہ ت ھر سے آگے ہوٸ ۔
اد ینہ نے میسم کے نازو پر ہاتھ رک ھا ۔ اور افسوس سے سر ہالنے ہوۓ کہا۔ وہ نو دنکھ ت ھی
پہیں رہا ت ھا آنکھوں کو شا منے دنوار پر گاڑے نیے ہوۓ چہرے کے شاتھ ا بسے البعلق ک ھڑا
ت ھا جیسے شا منے ک ھڑی اس لڑکی سے اسکا کوٸ بعلق ہی یہ ہو ۔
میسم نے انک ح ھیکے سے ا نیے نازو پر سے اس کے ہاتھ کو دور ک یا ۔ اد ینہ نے پڑپ کر
اس کی طرف دنک ھا ۔ ابقاق ابسا ہوا ت ھا ہر دفعہ کہ اس کے دل میں موخود شک بقین میں
ندل گ یا ت ھا ۔
اد ینہ نے ی یار سے اس کے شا منے آ کر کہا دل کے شارے جدشات دھل گنے تھے ۔ وہ
اسے بکاح کے روز صرف اسی وجہ سے ح ھوڑ گ یا ت ھا کہ وہ شاٸد روشان سے مچ بت کرتی
ہے اور ت ھر اس کے اظہار کو اسی لنے سمچھ پہیں سکا ت ھا ۔
62
ن س
پر میسم اس وقت کسی ت ھی نات کو مچ ھنے کے لنے ی یار پہیں ت ھا۔ اس کی آ ک ھیں سرخ ہو
رہی ت ھیں ۔
” اوہ م یڈتم بس کرو سب ی یا مچ ھے تم پہلے اس کے شاتھ ت ھی ک نونکہ تمہیں بظر آ رہا ت ھا کہ
وہ انک ڈاکیر نیے گا اور میں یب تم ھارے لنے کچھ ت ھی پہیں ت ھا “
س
میسم نے دور ہونے ہوۓ بقرت آمیز لہجے میں زہر اگال اد ینہ نے نا ھی کے سے انداز میں
مچ
میسم نے کمر پر ہاتھ دھر کر طیز ت ھری مسکراہٹ ل نوں پر سچاٸ اد ینہ کے ارد گرد کی شاری
خیزیں گ ھو منے لگی ت ھیں صرف وہ خود ہی وہیں ک ھڑی ت ھی۔ وہ نو زہر اگل کر آرام سے ک ھڑا
ت ھا ایتی گ ھی یا سوچ لے کر اس کی مچ بت کو اس نے ا نیے ذہن میں اس قدر گ ھی یا مقام
دے رک ھا ت ھا ۔ اد ینہ کو ابسا لگا جیسے کسی نے زمین میں گاڑ دنا ہو اسے ۔
کچھ نل کے لنے دونوں طرف قیرس یان جیسی جاموسی ت ھی ۔ اد ینہ کو ا نیے کانوں پر بقین
پہیں آ رہا ت ھا دماغ ت ھٹ رہا ت ھا آجر کو اس نے سمچھ ک یا ل یا ت ھا مچ ھے جی یا ت ھی کچڑ اح ھال یا
63
رہے گا میں خپ رہوں گی جاموش رہوں گی اب بس نات اب صرف مچ بت پر کنے گنے
شک کی پہیں ت ھی نات عزت بفس کی ت ھی ۔ اد ینہ نے جاموسی کو نوڑا ۔
” مسیر میسم مراد اب اس کے بعد میں تمہیں کتھی کوٸ وضاخت پہیں دوں گی یہ ایتی
مچ بت کی یہ ایتی سچاٸ کی یہ میری اور تم ھاری آجری نات ج بت ت ھی “
سرد لہجے اور س یاٹ چہرے کے شاتھ کہا ۔ میسم نے چہرے کا رخ ناگواری سے موڑا ۔ دل
میں اس کی نے رجی کی اس دفعہ کوٸ بکل ٹف پہیں ہوٸ ۔ اد ینہ ناک جڑھا کر ین کر
آگے ہوۓ ۔
” تمہیں ا نیے ذہن میں ت ھرے اس ج یاس کے شاتھ جی یا ہے جینے رہو میں اب اس کو
ضاف پہیں کروں گی “
اد ینہ نے آبسوٶں کو رگڑ کر گال سے ضاف ک یا اور گلے میں ا نکے گولے کو ییجے ک یا ۔ اب
بس مچ بت کی ت ھیک مانگ یا گڑگڑانا جتم میسم اس پری طرح اس کی بظروں سے گرا ت ھا کہ ۔
خود ا نیے آپ سے بقرت ہونے لگی ت ھی کہ اس سخص سے نوٹ کر ی یار ک یا اس نے ۔
” مچ ھے جا ہنے ت ھی پہیں میں ت ھی ت ھک چکا ہوں اور میرے ذہن میں خو ت ھرا ہے وہ سچ
ہے ج یاس پہیں ہے “
64
میسم نے سرد لہجے میں کہا اور تیز تیز قدم ات ھا نا کمرے سے ناہر جا چکا ت ھا ۔ اور وہ نوپہی
ک ھڑی ت ھی ۔ میسم صرف شک کی نات ہوتی نو میں ابگاروں پر جل کر ت ھی تم ھاری مچ بت کی
جاطر اس کو جتم کرنے کی کوشش کرتی پر تم نے میرے نارے میں ای یا گ ھی یا امیج ی یا رک ھا
ت ھا کہ میں اب صرف تم سے تم ھاری کام یاتی تم ھاری دولت اور سہرت کی وجہ سے جڑی
ہوں ۔ میسم مراد تم نے نو مچ ھے میری ہی بظروں میں گرا دنا آج ۔
شاری رات میسم کمرے میں پہیں آنا ت ھا ۔ اور وہ شاری رات نوں ہی سرد کمرے میں
شلگتی رہی مگر اب کی دفعہ کا شلگ یا راکھ یہ کر سکا ت ھا اسے ۔
**********
آسمان کی اس اوبچاٸ میں ٹیتھ کر ت ھی نوں لگ رہا ت ھا وہ پہت ییجے ہے زمین میں دھیسی
ہوٸ ذلت اور بستی میں
ن
میسم نلکل شاتھ ٹیت ھا ت ھا آ ک ھیں موندے سبٹ کی بست سے سر بکاۓ پر وہ اس سے
کوسوں دور ت ھا ۔ اس کا سب کچھ ہو کر ت ھی اس کا کچھ ت ھی پہیں ت ھا وہ ۔
رات کے بعد دونوں میں کوٸ نات پہیں ہوٸ ت ھی اور صیح آ کر میسم نے اسے ناکس یان
وابسی کا جکم ضادر کر دنا ت ھا ۔ نافی شاری یتم کا ات ھی دو دن اور ر کنے کا م ٹصویہ ت ھا ج یکہ
میسم کسی کا کام کا پہایہ ی یا چکا ت ھا ۔
65
اد ینہ نے جاموسی سے ی یگ ی یک ک یا ت ھا ۔ میسم نے ییجے سے ناسنہ آرڈر ک یا ت ھا جسے ک ھانے
سے اس نے ضاف ابکار کر دنا ت ھا ۔ کچھ دپر وہ ک ھڑا اسے ک ھانے کا کہ یا رہا ل یکن اد ینہ نے
انک بظر ات ھا کر ت ھی دنک ھیا گوارا پہیں ک یا ت ھا ۔ اور اب اس ملجے چہاز میں ٹیت ھے دل عچ بب
طر بفے سے م یلی کا سکار ہو رہا ت ھا اور سر جکرا رہا ت ھا ۔
” جی متم “
اٸپر ہوسیس نے قریب آ کر ح ھکنے ہوۓ مہدب انداز میں کہا ۔ اد ینہ نے ت ھکی سی بظر
اٸپر ہوسیس پر ڈالی خو ل نوں پر میزنان مسکراہٹ سچاۓ ک ھڑی ت ھی ۔
اد ینہ نے گ ھیراٸ سی آواز میں کہا میسم نے خونک کر گردن موڑ کر اد ینہ کی طرف دنک ھا
چہرے پر انک دم سے پربساتی در آٸ ۔
66
میسم نے ت ھوڑا شا س یدھے ہونے ہوۓ پربسان سے لہجے میں نوح ھا ۔ اد ینہ نے ال بعلفی پرتی
ا بسے جیسے اس نے س یا ہی پہیں کہ میسم نے کچھ نوح ھا ہے اس سے۔
اد ینہ نے گ ھیراٸ سی صورت ی یا کر شا منے ک ھڑی اٸپر ہوسیس سے کہا خو اب مسکرانے
ت
ہوۓ سرہال رہا ت ھی میسم نے لب یچ کر صے سے اد ینہ کی طرف د ک ھا نوقوف نے کچھ
ی ن غ یھ
ت ھی پہیں ک ھانا کل رات سے اجانک ناد آنے پر میسم نے افسوس سے سر کو ہوا میں مارا ۔
” شسیر و یٹ اپہوں نے کچھ ت ھی پہیں ک ھانا ہے صیح سے کچھ ک ھانے کے لنے ال دیں
پہلے “
میسم نے ہاتھ کے اشارے سے اٸپر ہوسیس کو روکا اس نے انک بظر اد ینہ کے زرد
چہرے پر ڈالی اور ت ھر میسم کی طرف دنکھ کر سر ہالنا۔
67
” شسیر مچ ھے کچھ ت ھی پہیں ک ھانا نلیز م یڈبسن ال دیں “
اد ینہ نے ما تھے پر شکن ڈال کر سچتی سے کہا ۔ میسم کے ما تھے پر ت ھی نل تمودار ہو جکے
تھے ۔
” مچ ھے ت ھوک پہیں ہے “
اد ینہ نے سرد لہجے اور س یاٹ چہرے کے شاتھ خواب دنا ۔
” متم سر ت ھیک کہہ رہے ہیں میں آپ کے لنے خوس التی ہوں آپ وہ تی لیں اس کے
بعد م یڈبسن لیچینے گا “
اٸپر ہوسیس نے اد ینہ کے ک یدھے پر ہاتھ دھر کر پرمی سے کہا ۔اس سے پہلے کہ اد ینہ
کچھ نولتی میسم نے قورا نول کر اس کی نات کاتی ۔
میسم نے الیچاٸ مسکراہٹ کے شاتھ کہا اٸپر ہوسیس نے سر کو ای یات میں ہالنا اور جل
دی ۔
68
” مچ ھے آنکی کسی نوجہ اور قکر کی صرورت پہیں ہے آپ میرے معامالت میں نلیز دجل مت
دیں “
اد ینہ نے شا منے سبٹ کی بست کو گ ھورنے ہوۓ سحت لہجے میں کہا ۔
” میری ذمہ داری پر میرے شاتھ آٸ ت ھی تمہیں ناچقاظت ناکس یان لے کر جانا قرض ہے
میرا اس سے زنادہ اور کچھ ت ھی پہیں “
میسم نے دایت ٹیسنے ہوۓ اس سے ت ھی زنادہ سحت لہحہ ای یانا ۔ اٸپر ہوسیس خوس اور
سی یڈوچ ال جکی ت ھی ۔
” شسیر آپ جاٸیں “
میسم نے پرے اد ینہ کے شا منے کرنے ہوۓ مصنوغی مسکراہٹ چہرے پر سچا کر کہا ۔
اٸپر ہوسیس مسکراتی ہوٸ وہاں سے جل دی
س
” سراقت سے ک ھاٶ کچھ مچ ھے کوٸ بچرے پہیں دنک ھنے تم ھارے ھی م “
ت مچ
69
” میں بچرے کر ت ھی پہیں رہی “
اد ینہ نے ح ھ بٹ کر پرے ایتی طرف کی اور سی یڈوچ کے اوپر جڑھے رتیر کو ا نارا ۔ میسم
نے سر کو طیزیہ انداز میں ج نیش دی اور ت ھر سے چہرے کا رخ موڑ ل یا ۔ سی یڈوچ کے
نکڑے زہر لگ رہے تھے ۔ خوس کے سپ کے شاتھ گلے میں ت ھیسے آبسوٶں میں ا نکنے
ہوۓ ییجے جا رہے تھے۔
70
ُ ُ ُ
یہ اداس اداس اداس یاں !
71
میرے درد درد کا عالج ہے !!
************
ار ینہ نے دھیرے سے قریب ہونے ہوۓ دروازے کے شاتھ کان ج ٹکاۓ ۔ وہ دنوار
کے شاتھ لگ کر ک ھڑی ت ھی جیسے ہی کان قریب ک یا اندر ہونے والی گف یگو ضاف س یاٸ
د نیے لگی ۔
” عزرا لڑکا ای یا ت ھی پرا پہیں دنک ھا ت ھاال ہے بچین سے شا منے نال پڑھا ہے “
ٹ
مراد احمد نے دھیرے سے سر اوپر ات ھانا اور شا منے یتھی عزرا کی طرف دنک ھا خو نے زار سی
ٹ
صورت ی یاۓ یتھی ت ھی۔احمد م یاں کے کمرے میں لگی کرسنوں پر سب گ ھر کے پڑے
پراحمان تھے۔
م ب
” ت ھاٸ پر ہے نو ال پرواہ نا اور کوٸ نوکری پہیں علتم ت ھی کمل پہیں “
72
عزرا نے ناگواری سے ناک جڑھاٸ فہد کے والدین ار ینہ کا رسنہ لے کر آۓ تھے خن کے
جانے کے بعد اب سب پڑے ٹیت ھے اس پر غور و قکر کر رہے تھے ۔ اور عزرا سرے سے
ہی ابکار کر جکی ت ھی کہ اسے فہد کے شاتھ ار ینہ کا رسنہ م ٹظور پہیں ہے ۔ ل یکن مراد احمد
اس کے ق ٹصلے کی پردند کرنے ہوۓ اسے قاٸل کر رہے تھے ۔
” عزرا یہ سب ناٹیں نو اب نالخواز ہیں تم ھاری اکلونا لڑکا ہے ا نیے ماں ناپ کا اور ای یا پڑا
کارونار ہے “
ٹ
مراد نے افسوس سے شا منے یتھی عزرا کی طرف دنک ھا ۔ عزرا نے چقگی ت ھری بظروں سے
دنک ھا پر نولی کچھ پہیں۔
” میں نو کہ یا ہوں کوٸ پراٸ پہیں ر سنے میں اور ناس ہو گی ہمارے بظروں کے شا منے
نلکل اد ینہ کی طرح “
مراد احمد نے ت ھر سے سب کی طرف بظر دوڑاٸ احمد م یاں خو نکنے کے سہارے ی یڈ سے
ی یک لگاۓ ٹیت ھے تھے دھیرے سے سر کو ای یات میں ج نیش د نیے ہوۓ مراد احمد کی
نات کی ناٸند کرنے لگے ۔
73
مراد احمد نے ت ھوڑا شا رخ موڑا اور نوری نوجہ احمد م یاں کی طرف مرکوز کی ۔ احمد م یاں نے
گہری شابس لی نوڑھے ہات ھوں سے ٹیساتی کو پرسوچ انداز میں رگڑا ۔
” رسنہ اح ھا ہے آچکل کہیں ت ھی ناہر رسنہ کریں گے نو ح ھان ٹین کے ناوخود لڑکے کا ی یا
پہیں ہو گا وہ کیسا ہے “
احمد نے ک یک یانے سے لہجے میں کہنے ہوۓ عی یک کی اٶٹ سے بغور عزرا کا جاٸزہ ل یا خو
پہلو ندل کر رہ گٸ۔ چہرے پر ات ھی ت ھی وہی نے زاری ت ھی فہد ات ھیں بچین سے ہی
نابس ید ت ھا اس کی وجہ شاٸد میسم کا پہت زنادہ ڈایٹ ک ھانا ت ھا میسم ان کا الڈال ت ھا اور فہد
میسم کا واجد دوست ت ھا اور خب ت ھی میسم کو گ ھر میں ڈایٹ پڑتی ت ھی عزرا شارا الزام فہد پر
دھر د یتی ت ھیں کہ میرا ت ھییچا نو معصوم ہے موۓ فہد کا فصور ہو گا سب ۔ اور اب اسی
موۓ فہد کو وہ کیسے ا نیے داماد کے روپ میں دنکھ شکتی ت ھیں ۔
احمد م یاں نے عزرا کی طرف دنک ھنے ہوۓ کہا خو اب گہری سوچ میں ڈوب جکی ت ھی۔ سب
لوگ اب عزرا کی طرف ہی م نوجہ تھے ۔ کچھ دپر جاموسی رہی ت ھر عزرا نے مراد احمد کی
طرف دنک ھا۔
74
” ت ھاٸ ضاخب آپ نے مچھ سے زنادہ دی یا دنکھ رک ھی ہے آپ کی ذمہ داری ہیں میری
دونوں ٹی یاناں اگر آنکو م یاسب لگ یا ہے نو میں راضی ہوں “
*********
میسم نے قاٸل پر سے سر کو ات ھانا اور شا منے ٹی ت ھے سخص کی طرف دنک ھنے ہوۓ ای یات
میں سر ہالنا ۔
شا منے ٹیت ھے سخص نے مسکرا کر پرخوش انداز میں ایتی گود میں دھری قاٸل کو ات ھانا اور
ک ھول کر میسم کے شا منے ک یا ۔ میسم نے قاٸل کو شا منے میز پر رک ھا ۔ اس سخص نے
جلدی سے قلم میسم کی طرف پڑھانا ۔ وہ اتیرٹیس یل پرق نوم انڈوبچر کے لنے میسم کو پر ییڈ
ام نیسڈرز ی یانے کی ٹیسکش لے کر آنا ت ھا ۔ ابگلی یڈ کی سیرپز ج بت کر آۓ ہوۓ ات ھی اسے
انک ہقنہ ہوا ت ھا خب اسے مچیلف اس تہارات کے ٹیسکش آنے لگی ت ھیں وہ نورے ناکس یان
کا دل ین کر دھڑ کنے لگا ت ھا ۔
75
ناہر بکلیا نو لوگوں کی ت ھیڑ اکتھی ہو جاتی ۔ اس سب سے بچنے کے لنے ناکس یان آنے ہی
اس نے سب سے پہال کام کار لی نے کا ک یا ت ھا ۔ کرکٹ کی جان ت ھا نو ناکس یاتی لڑک نوں کے
نک نوں کے ییجے اس کی بصاوپر ت ھیں۔ خوان کرکٹ کا ج نون رک ھنے والے لڑکوں کی م یاپر کن
سخصبت ت ھا نو کرکٹ کے س یداٸنوں کی مچ بت ین گ یا ت ھا ۔ خیروں سے لے کر گلی میں
کرکٹ ک ھیلنے لڑکوں نک سب کی زنانوں پر میسم مراد کی بعربف ت ھی ۔ وہ یہ صرف دھواں
دار نلے ناز ت ھا نلکہ اس کی سخصبت اس کی پرس یالتی کی وجہ سے پڑے پڑے پر ییڈز کی
ن ل ت ُ
طرف سے اسے اس تہارات کی ٹیسکش ہونے گی ھی خو اسے منہ ما گی مت د نیے کے لنے
ت ق
ی یار تھے۔
ہ
” ممم پر مچ ھے زنادہ انکی یگ پہیں کرتی آتی “
میسم نے کاتیرنکٹ پر دسیخط کنے اور ہیسنے ہوۓ سر اوپر ات ھانا ۔شا منے ٹیت ھا سخص فہفہ لگا
گ یا ۔
” آپ قکر یہ کریں بس ت ھوڑی سی کرتی پڑے گی نافی آنکی کوس یار سیت ھال لے گی “
شا منے ٹیت ھے سخص نے مسکرانے ہوۓ کہا اور میسم کے ہاتھ سے قاٸل کو ل یا ۔
ہ
” ممم ت ھر ت ھیک ہے “
76
میسم نے مسکرانے ہوۓ سر ہالنا ۔ وہ ات ھی طلحہ کے شاتھ ہی رہاٸبش پزپر ت ھا ۔ اور اس
وقت وہ اسی انارٸتم بٹ کے الوبج میں آ منے شا منے ٹیت ھے تھے ۔
” ت ھیک نو سو مچھ سر “
آدمی نے مسکور بظروں سے میسم کی طرف دنک ھا اور ی یگ میں سے ج یک نک بکالی ۔ ج یک کو
ج یک نک سے علیچدہ ک یا ۔
” یہ انڈوابس ج یک آبکا “
میسم کی طرف ج یک پڑھانا ۔ میسم نے لب ت ھییجے سر کو ای یات میں ہالنا ۔ اور ج یک کو نکڑا ۔
وہ آدمی قاٸلز کو ی یگ میں رکھ کر ات ھا .میسم سے مصافحہ ک یا ۔ اور دروازے کی طرف پڑھ
گ یا ج یکہ میسم دو الکھ کے ج یک کی طرف دنکھ رہات ھا ۔ ل نوں پر عچ بب سی مسکراہٹ ت ھی ۔
77
مممم
میں ہوں مفسو ممم
********
” ک یا ی یاتی کہ جس کے لنے تم ھارے شا منے ہر نل شسکی ہوں وہ ا نیے ذہن میں میرا یہ
مقام رک ھیا ہے “
ن
اد ینہ نے سرد لہجے میں کہا آواز ت ھاری ہو رہی ت ھی ۔آ ک ھیں سرخ ت ھیں ۔ اس کی اور ماہ رخ
کی ڈنوتیز کا وقت انک شاتھ یہ ہونے کی وجہ سے دونوں کی نات ج بت کم ت ھی اور آج انک
ہفنے بعد اد ینہ اسے سب ی یا رہی ت ھی ۔
ماہ رخ نے ما تھے پر نل ڈالے غصے سے کہا ۔ اد ینہ نے طیزیہ مسکراہٹ ل نوں پر سچاٸ ۔
ُ
” پہیں ہے میرے ناس اور مچ ھے اسے کوٸ صقاٸ پہیں د یتی اب تم کچھ ت ھی پہیں کہو
گی “
78
” نکواس ی ید کرو تمیر دو اس کا میں کوٸ صقاٸ پہیں دوں گی اس کا دماغ ت ھکانے
لگاٶں گی سمچ ھیا ک یا ہے خود کو پہت ذہین ہے نا ع بب کا علم رک ھیا ہے “
ماہ رخ نے دایت ٹیسنے ہوۓ کہا اور اد ینہ کے ناس پڑا موناٸل ات ھانا ۔
میسم کا تمیر بکاال اور شکرین اد ینہ کے شا منے کی ۔ اد ینہ نے گ ھی نوں پر سے سر ات ھانا اور
ای یات میں دھیرے سے سر ہالنا ۔ شکرین پر میسم کا تمیر ت ھا ۔ خو شادی کے بعد اس نے
ہیزٹی یڈ کے نام سے موناٸل میں مخقوظ ک یا ت ھا ۔
ماہ رخ نے ا نیے موناٸل سے یتمر ڈاٸل کرنے ہی موناٸل کو کان سے لگانا ۔ اد ینہ
نے سر ح ھکانا پر دوسری طرف جاموسی ہی ت ھی ماہ رخ ات ھی نک قون کان کو ہی لگاۓ
ک ھڑی ت ھی ۔
ماہ رخ نے اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ اور آنکھوں کو شکوڑ کر بفی میں سر ہالنا ۔
79
اد ینہ نے آہسنہ سی آواز میں خواب دنا اور تمیر ی ید ہونے کا سن کر پربسان شا چہرہ ی یانا ۔
ٹ
ماہ رخ نے گہری شابس لی اور ی یڈ پر اد ینہ کے شاتھ ڈ ھنے کے سے انداز میں یتھی ۔ جیسے
شارا خوش ت ھیڈا پڑ گ یا ہو ۔
اد ینہ نے نک ھرے نالوں کو خوڑا ی یانا اور خود کو نارمل طاہر ک یا ۔ ماہ رخ نے ما تھے پر شکن
ڈالے اور غصے سے اسے گ ھور کر دنک ھا نک ھرے سے نال روک ھا شا چہرہ وہ انک ہفنے میں ہی
ابسی پژمردگی کی سکار ہوٸ ت ھی کہ لگ ہی پہیں رہا ت ھا وہ نٸ نونلی شادی شدہ ہے ۔
ماہ رخ نے ڈ ٹینے کے انداز میں کہا ۔ اد ینہ نے نے بقیتی سے دنک ھا کچھ ت ھی پہیں ہونے
واال شک میسم کے دماغ میں جڑیں نکڑ چکا ت ھا ۔ اد ینہ نے ت ھیکی سی مسکراہٹ کو ل نوں پر
سچا کر سوجا ۔
ماہ رخ نے آگے پڑھ کر نازو سے نکڑ کر اسے ات ھانا ۔ خو نے زار سے صورت ی یاۓ ات ھی
ت ھی۔
80
***********
انڈو ییچر کلون کے شاندار سبٹ پر وہ ان کے دنے گنے کوسیتم کو ز یب ین کنے ک ھڑا ت ھا
ڈاٸرنکیر اسے اس تہار کا م ٹظر سمچ ھانے میں مصروف ت ھا خب انک طرف سے ات ھرتی پر خوش
آواز نے دونوں کو بظر ات ھانے پر مچ نور ک یا ۔
پرہنہ ک یدھوں والی تی سرٹ کے ییجے ی یگ خییز پہنے م یک اپ سے لیس چہرہ لنے ناز عالم
نورے دایت ناہر بکالے پر خوش انداز میں ک ھڑی ت ھی ۔ میسم نے گردن کو ت ھوڑا شا حم دنا
وہ لمنے قد اور شانولی رنگت کی پرکشش لڑکی ناکس یان کی مشہور ماڈل ت ھی خو پڑی نے ناکی سے
اب نلکل میسم کے قریب آ کر پرخوش انداز میں اس کے گلے لگ کر اس کے گال سے
ای یا گال خوڑ جکی ت ھی ۔ میسم اس نے ناکی پر گڑپڑا شا گ یا ۔ وہ اب مسکرانے ہوۓ ییچ ھے
ن
ہوٸ ۔ آ ک ھیں خوسی سے حمک رہی ت ھیں ۔
ڈاٸرنکیر نے مسکرا کر میسم سے ناز کا بعارف کروانا ۔ وہ کچھ دپر پہلے ہی دبٸ میں
سوٹ کے لنے پہیچا ت ھا۔ ناز عالم انڈو ییچر کلون کی ل یڈی پر ییڈ ام نیسڈر ت ھی ۔
81
” جی جای یا ہوں “
میسم نے مسکرا کر سر کو ای یات میں ہالنا ۔ ناز کو کون پہیں جای یا ت ھا وہ یہ صرف ناپ
ماڈل ت ھی نلکہ پہت سے سیرنلز میں ادکاری کے خوہر ت ھی دک ھا جکی ت ھی ۔
ناز نے پرخوش انداز ای یانا اس کی آنکھوں سے ہی میسم کے لنے نے ی یاہ بس یدندگی بظر آ رہی
ت ھی۔
ناز نے شاخنہ چہکنے ہوۓ کہہ گٸ میسم خچل شا ہونے ہوۓ مسکرا کر رہ گ یا ج یکہ
ناس ک ھڑے ڈاٸرنکیر کا قلک سگاف فہفہ گوبچا۔ جس پر اب ناز ت ھی انداز دلرناٸ سے ہیس
رہی ت ھی ۔
ڈاٸرنکیر نے ہاتھ کا اشارہ سبٹ کی طرف کرنے ہوۓ دونوں سے درخواست کی۔
82
” رکیں انک سرط پر میسم اس کے بعد میرے شاتھ کافی پر جلیں گے ک نوں میسم“
ناز نے چہکنے ہوۓ ہاتھ کے اشارے سے ڈاٸرنکیر کو روکا اور میسم کی طرف دنک ھا ۔ اب
میسم کے شا منے ک ھڑے دونوں بقوس میسم کی طرف م نوجہ تھے ۔ میسم نے مسکرانے ہوۓ
سر کو ای یات میں جنیش دی
گ ممہم
” م اور آپ دبٸ ھماٸیں گی “
خوشگوار انداز میں ناز کی طرف دنک ھا ۔ ناز نے کھلکھال کر ای یات میں زور زور سے سر ہالنا۔
وہ خوسی سے کہنے ہوٸ میسم کے شاتھ قدم سے قدم مالتی سبٹ کی طرف جل دی ۔
**********
اس نیتھ شکوپ کو گلے کے گرد سے ا نارتی وہ ت ھکی سے س یاف روم میں ات ھی داجل ہی ہوٸ
ت ٹ
ت ھی خب شا منے یتھی ڈاکیر روسنہ کی آواز پر ھت ھکی ۔
دنک ھا ۔
83
” پہیں ک یا ہوا“
ت ھکے سے لہجے میں کہتی وہ اب روسنہ کے قریب آ جکی ت ھی۔ خو پڑی دلحستی سے موناٸل پر
کچھ دنکھ رہی ت ھی اس کو ناس ک ھڑے دنک ھا نو مسکرا کر ہاتھ آگے پڑھانا
روسنہ کے موناٸل پر انڈو ییچر کلون کا اس تہار جل رہا ت ھا جس میں ناز عالم میسم کے نلکل
قریب ک ھڑی میسم کی گردن پر ابگلی ت ھیر رہی ت ھی ۔ ین ندن میں جیسے آگ لگی ۔ دل میں
دھواں شا ت ھرنے لگا میسم اس کی آنکھوں میں مچ بت ت ھری بظروں سے دنکھ رہا ت ھا ناز عالم
گہرے گلے والی م یکسی ز یب ین کنے ہوۓ ت ھی اس کا انداز دلکسی کی آجری جدوں کو ح ھو
رہا ت ھا ۔
84
میسم کے ل نوں پر انوک ھی سی مسکرا ہٹ ت ھی خو اد ینہ کو اس وقت زہر لگ رہی ت ھی۔ دل
میں ت ھرنے دھویں کی جت ھن اب آنکھوں نک آنے لگی ت ھی۔
روسنہ نے فہفہ لگانے ہوۓ نوجہ دالٸ جس میں اس تہار کے آجر میں ناز عالم میسم کے نلکل
شا منے ک ھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں دنکھ رہی ت ھی۔ اور وہ ادکاری سے زنادہ چف ٹقت
لگ رہی ت ھی۔
اد ینہ نے ت ھیکی سی مسکراہٹ چہرے پر سچا کر روسنہ کا قون اس کے ہاتھ میں دنا ۔ ای یا
قون ہونا نو شاٸد وہ اب نک دنورا میں مار جکی ہوتی ۔ آنکھوں کے کونے تم ہونے لگے تھے
۔
” ہاں اد ینہ آنو گراف نکس تھٸ ہم ت ھی نو دک ھاٸیں سب کو ہماری کول یگ کا ہیزٹی یڈ ہے
ہم کلوزلی جا نیے ہیں اس کو “
85
روسنہ نے ت ھی چہکنے ہوۓ سچر کا شاتھ دنا ۔ اد ینہ نے زپردستی کی مسکراہٹ چہرے پر
سچاۓ دونوں کی طرف دنک ھا ۔ ماہ رخ خو کچھ دور جاۓ کے تی ی یگ کو کپ میں نار نار
ڈنک یاں دال رہی ت ھی غور سے سینے ہوۓ اب شاری نات سمچھ جکی ت ھی۔
روسنہ اب زنادہ ہی پرخوش ہو جکی ت ھی ۔اد ینہ نے بظر ات ھا کر ماہ رخ کی طرف دنک ھا ۔ ماہ
رخ ایتی جگہ سے ات ھی اور قریب آٸ ۔
ماہ رخ نے اد ینہ کے ک یدھے پر ہاتھ ر کھے اس کے شاتھ ٹیت ھنے ہوۓ مسکرا کر پہلے دونوں
کی طرف دنک ھا اور ت ھر ی یار سے اد ینہ کی طرف ۔
” ہاۓ کی یا مزہ آۓ گا میں ا نیے ح ھونے ت ھاٸ کو ت ھی شاتھ الٶں گی مرنا ہے وہ میسم پر
“
ٹ
روسنہ پرخوش انداز میں چہکی اد ینہ نے چقگی ت ھری بظر شاتھ یتھی ماہ رخ پر ڈالی جس نے
ل نوں کو ت ھییجے سر کو آہس یگی سے ہالنا ۔
*********
86
” امی یہ والی کڑھاٸ پہت زنادہ ہے لڑکوں کو ای تی اح ھی پہیں لگتی کڑھاٸ “
ُ
ار ینہ نے ڈنے میں ی ید بسواری رنگ کے کرنے کو ناگواری سے ات ھا کر انک طرف ک یا ۔ وہ
ن ُ ٹ
مردایہ کیڑوں کی دوکان میں لگی کرسنوں پر یتھی کڑھاٸ والے کرنے د ھنے میں صروف
م ک
ت ھیں ۔
عزرا نے نے زار سی سکل ی یاٸ ار ینہ کے ڈنوں کو ات ھا کر جابچنے ہاتھ رکے افسوس سے
ٹ
ا نیے شاتھ یتھی عزرا کی طرف دنک ھا ۔ دو دن بعد اس کی اور فہد کی بکاح کی بقریب ت ھی اور
عزرا کی بقرت ہ نوز قاٸم ت ھی ۔ فہد کے والدین نے نو م یگتی کی رسم ادا کرنے کے کہا ت ھا
جس پر احمد م یاں نلکل رضام ید پہیں ہوۓ تھے ان کے مطانق م یگتی کوٸ جاٸز رسنہ
پہیں ت ھا اور فہد کو وہ بچین سے جا نیے تھے اس لنے ات ھوں نے بکاح کرنے کا ق ٹصلہ کر
ل یا ت ھا ۔
ار ینہ نے چقگی سے کہنے ہوۓ روہابسی صورت ی یا کر عزرا کی طرف دنک ھا عزرا نے نے
جیتی سے پہلو ندلہ ۔
87
” اح ھا جل خو بچ ھے بس ید ہے وہ کر لے میں نو ان لوگوں کی وجہ سے کہہ رہی ت ھی ٹی یڈو سے
ہیں زنادہ کڑھاٸ بس ید کریں گے “
عزرا نے ت ھر ناگواری سے ناک جڑھاٸ ۔ ار ینہ نے ما تھے پر زور سے ہاتھ رک ھا اور سر کو بفی
میں ہالتی اب وہ عزرا کی طرف دنکھ رہی ت ھی۔
” امی کوٸ ٹی یڈو و ییڈو پہیں ہیں وہ لوگ ا حھے جاصے ہم سے زنادہ ٹیسے والے ہیں اور آنکو
ا نیے ہی نابس ید تھے نو رسنہ ک نوں ک یا “
نے زاری سے ہات ھوں کو گود میں دھرا جس دن سے نات طے ہوٸ ت ھی وہ عزرا کی اس
طرح کی ناٹیں سن رہی ت ھی ۔ عزرا ار ینہ کی ایتی ناراضگی پر س نی یا سی گٸیں ۔
” اح ھا جل سوری کر بس ید“
ار ینہ کے چہرے پر غصہ دنکھ کر عزرا نے منہ کا زاویہ بگاڑنے ہوۓ کہا ۔ ار ینہ نے ت ھر
سے نوجہ ڈنوں میں ی ید کاین کے ُکرنوں کی طرف میزول کی ۔
88
ی ی ُ
گ ن
ار ینہ کے ہاتھ میں گہرے گرے رنگ کے کرنے کو د کھ کر عزرا م ھر سے خود کو
ت
کچھ کہنے سے پہیں روک شکی ت ھیں ۔ ار ینہ نے دایت ٹیسنے ہوۓ گردن موڑ کر عزرا کی
طرف دنک ھا ۔
” اح ھا اح ھا کر بس ید “
عزرا نے ار ینہ کے ک یدھے کو زور سے ہالنا انداز ابسا ت ھا جیسے کہہ رہی ہوں اب میں کچھ
پہیں نولوں گی ۔
ار ینہ نے انک غص یلی بظر عزرا پر ڈالی اور ت ھر شا منے ک ھڑے آدمی سے کہا خو اب ڈنے
بکال بکال کر ار ینہ کے شا منے رکھ رہا ت ھا ۔
**********
ٹ
گالتی گداز ل نوں کو کچلتی اد ینہ بچنے موناٸل پر بظریں گاڑے یتھی ت ھی ۔ شکرین پر
”ہیزٹی یڈ “ کے القاظ جگمگا رہے تھے اور موناٸل کا ت ھرک یا دل میں ہتھوڑے کی طرح
صرب لگا رہا ت ھا آج نورے ٹین ہفنے بعد ج یاب کو اس کی ناد آٸ ت ھی پر کس لنے اد ینہ کا
دل ت ھی نے کو ت ھا اور اب قون ی ید ہو کر ٹیسری دفعہ بچنے لگا ت ھا ۔ قون بج رہا ت ھا اور وہ اسے
89
ففط گ ھور رہی ت ھی۔ میسم کے زہر جیسے لفظوں کی نازگست ذہن کی دنواروں سے سر ییخ رہی
ت ھی ۔
جیسے جیسے قون کی نل جارہی ت ھی میسم کا غصہ پڑھ رہا ت ھا ۔ ال یا غصہ دک ھانے لگی ت ھیں
محیرمہ غصے سے سوجا اور قون ی ید ک یا ۔ اور اب لب ت ھییجے ابگلیاں ی ٹعام لکھ رہی ت ھیں جای یا
ت ھا کہ وہ جان نوحھ کر قون پہیں ات ھا رہی ہے ۔
ی ٹعام اد ینہ کی سوچ کے نلکل مطانق ت ھا ۔ اد ینہ نے کوٸ خواب پہیں دنا ۔ قون اب ت ھر
ٹ
سے بج رہا ت ھا اور اد ینہ و بسے ہی یتھی ت ھی محسم ین کر ۔
میسم نے زور سے موناٸل انک طرف ییچا ال یا خور کونوال کو ڈا ینے ۔ ت ھر کچھ سو جنے ہوۓ
موناٸل ات ھانا اور ی ٹعام لک ھا ۔
90
” اد ینہ قون ات ھاٶ میرا مچ ھے معلوم ہے تم جان نوحھ کر پہیں ات ھا رہی “
وہ ی ٹعام پڑھ رہی ت ھی خب قون ت ھر سے بج ات ھا اد ینہ نے قون انک طرف رکھ دنا ۔ اور گ ھینے
میں چہرہ دنا مسیج نون پر سر ات ھانا اور شاتھ ہی موناٸل ت ھی ات ھانا ۔
” اوکے قاٸن کل صیح ی یار رہ یا نابچ جبے بکلیں گے خیر نور کے لنے “
ی ٹعام پڑ ھنے ہی اد ینہ کی ٹیساتی شکن آلودہ ہوٸ ۔ ار ینہ کے بکاح کے لنے اسے اور ماہ رخ
کو کل کوچ سے جانا ت ھا اور ج یاب آج ا ینے شاتھ جانے کا جکم ضادر کر رہے تھے ۔ قون
ت ھر سے بج رہا ت ھا اد ینہ نے قون ات ھا کر کان کو لگانا اور س یاٹ لہجے میں گونا ہوٸ ۔
چہرہ سچتی لنے ہوۓ ت ھا دایت انک دوسرے میں ی نوست تھے ۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ
نول یا اد ینہ نے ایتی نایت کی ۔
” دماغ ت ھیک رک ھو ای یا دادا انو نے کہا ہے ا نیے سوق سے پہیں لے جا رہا میں “
91
ً
غصے سے ت ھاری آواز میں کہا اورقورا قون ی ید ک یا۔
میسم کی رعب دار آواز اس سے ت ھی زنادہ سچتی لنے ہوۓ تھے ۔ اد ینہ کے چہرے پر پزل یل
کا عکس واضح ہوا وہ قون ی ید کر چکا ت ھا ۔ اد ینہ نے غصے سے انک طرف موناٸل ییچا۔ ماہ
رخ خو ات ھی ات ھی واش روم سے ناہر آٸ ت ھی اس کا انداز پ کرھنے ہوۓ آگے ہوٸ ۔
ماہ رخ نے ک ھوجتی سی بظر موناٸل پر ڈا لنے ہوۓ سوالنہ بظر اد ینہ پر ڈالی خو ضٹط سے
گزرنے ہوۓ سرخ ہو رہی ت ھی ۔ اد ینہ کچھ دپر خپ رہی ت ھر ماہ رخ کی طرف دنک ھا۔
” کہہ رہا ہے کل صیح میرے شاتھ جانا خیر نور جکم ضادر کر رہا ت ھا “
اد ینہ نے ناک ت ھالنے ہوۓ گ ھور کر موناٸل کی طرف دنک ھا ۔ جیسے موناٸل کو ہی کچا
ج یا جاۓ گی ۔
ُ
” ہاں نو ت ھیک ہے یہ اسی کے شاتھ جاٸیں گے “
ن
ماہ رخ نے جلدی سے کہا اور پرسوچ انداز میں آ ک ھیں شکیڑے اس کے شاتھ ی یڈ پر
پراحمان ہوٸ ۔
**********
92
”اشالم عل یکم “
س یاہ رنگ کی کروال کی بچ ھلی سبٹ کا دروازہ ک ھول کر ماہ رخ نے سر اندر ک یا اور س یاٹ لہجے
میں ڈراٸنونگ سبٹ پر ٹیت ھے میسم کو شالم ک یا ۔ وہ نابچ جبے کا کہہ کر نورے حھ جبے ان
کے ہاس یل کے شا منے ک ھڑا ت ھا اد ینہ قریٹ سبٹ پر ٹیتھ جکی ت ھی ۔ ماہ رخ نے شاری رات
لگا کر اسے سمچ ھانا ت ھا کہ وہ کچھ ت ھی پہیں کرے گی بس جاموسی سے تماسہ د نک ھے گی ۔
میسم کا دماغ وہ خود ا نیے طر بفے سے درست کرے گی ۔
” وعلیکم شالم “
میسم نے مہدب انداز میں ماہ رخ کے شالم کا خواب دنا اور انک اجیتی سی بظر اد ینہ پر ڈالی
ٹ
خو س یاٹ چہرہ لنے شاتھ یتھی ت ھی ۔ س یاہ رنگ کے خوڑے میں سقاف سے چہرے کے
شاتھ وہ اس صیح کے ملگجے اندھیرے میں ت ھی دمک رہی ت ھی ۔
” میسم ت ھاٸ “
وہ خور بظر سے اد ینہ کا جاٸزہ لی نے ہوۓ سبٹ ی یلٹ ناندھ رہا ت ھا خب غقب سے ماہ رخ
کی آواز کانوں میں پڑی ۔
” جی “
93
گردن کو ت ھوڑا حم دنے معدب انداز ای یانا ۔ ماہ رخ نے سبٹ کی بست کو نکڑے ت ھوڑا شا
آگے ہونے ہوۓ کہا ۔
ماہ رخ کا انداز پڑا خق ج یا نا ہوا پر س یاٹ شا ت ھا ۔ وہ نوری طرح شالی ہونے کا کردار یت ھا رہی
ٹ
ت ھی ۔ میسم نے ت ھر سے انک بظر اد ینہ پر ڈالی خو نے رجی سے گردن موڑے یتھی ت ھی ۔
” اوکے “
ماہ رخ نے رعب سے کہا اور ییچ ھے ہونے ہوۓ سبٹ کے شاتھ سر بکانا ۔ اد ینہ نے
چہرے کا رخ موڑ کر ماہ رخ کی طرف دنک ھا اور ت ھر ما تھے پر شکن ڈالے ۔
نے رجی سے کہا ۔ میسم نے خونک کر دنک ھا ۔ کار اب موپر وے کے ر سنے کی طرف رواں
دواں ت ھی۔
94
میسم نے لب ت ھییجے ت ھ نویں اچکا کر کہا اور سوالنہ بظر اد ینہ پر ڈالی ۔ خو اب منہ میں کچھ
ُپڑ ُپڑا رہی ت ھی ۔
کار میں ٹین بقوس کے ہونے ہوۓ ت ھی ق یام و طعام نک کا سقر ای تہاٸ جاموسی سے طے
نانا ت ھا ۔
گاڑی ق یام طعام کے وسٹع نارک یگ میں رکی ۔ اور میسم نے سبٹ ی یلٹ ا ناری وہ اب سن
ک
گالسز لگاۓ ہوۓ ت ھا۔ ہڈ کی نوتی کو ھییچ کر منہ کو ڈھکا
جلیں ت ھر “
ٹ
گاڑی سے اپرنے ہوۓ گہری شابس لے کر ییچھے ی تھی ماہ رخ سے کہا اور ت ھر انک بظر
غصے میں ت ھری اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ ماہ رخ بکلنے کے بعد اب زپردستی اد ینہ کو ا نار جکی
ت ھی ۔
ہونل میں ناسنہ کے آرڈر کے بعد میسم اور ماہ رخ جیسے ہی بشسنوں پر پراحمان ہوۓ اد ینہ
اتھ کر ربسٹ روم کی طرف پڑھ گٸ ۔
َ
” اس دن میں ت ھی اس کو اور روشان کو نوں ہی اک یال ح ھوڑ کر واش روم گٸ ت ھی “
95
ُ
وہ اد ینہ کو جا نا دنک ھنے میں مصروف ت ھا خب ماہ رخ کی سرد سی آواز پر خونک کر اس کی
طرف دنک ھا ۔
” جی“
س
میسم نے نا ھی کے انداز میں ماہ رخ کی طرف د ک ھا ۔ ماہ رخ کا چہرہ س یاٹ ت ھا اور انداز طیز
ن مچ
سے ت ھرا ت ھا ۔
ت م ن م ن ُ
” جی اس دن ہو ل یں خب آپ نے دونوں کو د ک ھا ت ھا نو یں وہاں ان کے شاتھ ھی
اور میں جان نوحھ کر واش روم میں گٸ ت ھی “
ماہ رخ نے سحت لہجے اور س یاٹ چہرے کے شاتھ میسم کی طرف دنک ھا ۔ میسم کے چہرے پر
ً
قورا سیچیدگی طاری ہوٸ ۔ ل نوں کو ت ھییجے ما تھے پر شکن ڈال کر ارد گرد دنک ھا ۔
میسم نے ناک کے یت ھنے ت ھالنے ہوۓ ک ھردرے سے لہجے میں کہا ۔ اور نےزاری سے
ٹ
شا منے یتھی ماہ رخ کی طرف دنک ھا جس کے ل نوں پر اب افسوس کرنے جیسی مسکراہٹ
ت ھی ۔
96
س
” جی نلکل مفصد ہے ک نونکہ آپ خو کچھ ت ھی آج نک مچ ھنے آۓ ہیں روشان اور اد ینہ کے
س
نارے میں وہ سب علط مچ ھنے آۓ ہیں “
ماہ رخ نے طیز ت ھرے انداز میں سحت چہرے کے شاتھ نات کی وضاخت دی جس پر
مستم نے ضٹط کرنے کے انداز میں انک بظر شا منے ماہ رخ کی طرف دنک ھا اور ت ھر ارد گرد
بظر دوڑاٸ ۔ ابسا محسوس ہو رہا ت ھا وہ تمشکل وہاں ٹیت ھا ہے ۔
س یاٹ چہرے کے شاتھ نے زار لہحہ ای یانا ۔ ماہ رخ نے طیزیہ ہیسی کے شاتھ افسوس سے
سر کو ہوا میں مارا ۔
ماہ رخ نے ما تھے پر شکن ڈالے میسم سے ت ھی زنادہ سحت لہجے میں کہا ۔ میسم نے کچھ
نو لنے کے لنے لب ک ھولے جسے ماہ رخ نے ہاتھ کے اشارے سے روکا ۔
” اس دن خب آپ نوی نورستی آۓ تھے اور میں نے آنکو اد ینہ کا ی یانا ت ھا نو میں ان دونوں
کے ناس سے اتھ کر گٸ ت ھی روشان کے لنے ناتی لینے کے لنے “
97
ماہ رخ نے دایت ٹیسنے ہوۓ میسم سے کہا خو اب چہرے کا رخ موڑے ضٹط کرنے کے
سے انداز میں ٹیت ھا ہوا ت ھا ۔ چہرہ ضاف ی یا رہا ت ھا وہ ماہ رخ کی ت ھی کسی نات پر بقین پہیں
کر رہا ہے ۔
” جی ہاں وہ رو رہا ت ھا ل یکن اس کی وجہ اد ینہ پہیں اس کی مدر ت ھیں خن کی ربسی یلی ڈ یتھ
ہوٸ ت ھی “
م م
ماہ رخ نے تیزی سے ایتی نات کمل کی وہ ا نیے خوش میں ت ھی کے نات کمل ہونے پر
اس نے میز پر زور سے ایتی ہت ھیلی کو مارا ۔ میسم اب خونک کر ماہ رخ کی طرف دنکھ رہا ت ھا
۔
” اور اد ینہ اور میں صرف اسے بسلی دے رہے تھے اور اد ینہ اس دن میرے کہنے پر
نوی نورستی آٸ ت ھی یہ کہ روشان کے کہنے پر “
ماہ رخ اب اوبخی آواز میں نول رہی ت ھی اور میسم اب نلکل جاموسی سے سن رہا ت ھا ۔ چہرے
کی سچتی قدرے کم ہوٸ۔
98
” اد ینہ نے اسی دن مچ ھے ی یانا کہ وہ میسم کو جا ہنے لگی ہے “
ماہ رخ نے نے جارگی سے کہا آواز سے سچتی ت ھوڑی سی کم ہوٸ ۔ وہ میسم کو سمچ ھانے
سمچ ھانے روہابسی ہو جلی ت ھی اد ینہ کی جالت دماغ میں گ ھوم رہی ت ھی ۔میسم نے غور سے
ماہ رخ کی طرف دنک ھا اور گہری شابس لی ۔
” یہ کہاتی پہیں ہے میسم ت ھاٸ آپ اجانک مچ بت ہو جانے یہ بقین رک ھنے ہوں نا پہیں
ل یکن میں رک ھتی ہوں اور اد ینہ کو آپ سے مچ بت ا بسے ہی بکاح سے دو دن پہلے ہو جکی ت ھی
“
ماہ رخ نے سچتی سے س یاٹ چہرے کے شاتھ کہا وہ ضٹط سے تیز تیز شابس لے رہی ت ھی۔
میسم نے آپرو جڑھا کر دنک ھا ۔ ماہ رخ اب ا نیے ی یگ سے موناٸل بکال رہی ت ھی ۔
99
ن
” اور اب ت ھی آنکو میری کسی نات کا بقین پہیں ہے نو یہ د ک ھیں میری اور روشان کی
ج بٹ “
ا ہنے موناٸل کو غصے سے میسم کے آگے ک یا ۔ میسم نے قون ہاتھ میں نکڑا اور اب میسم
ن
کا انگوت ھا اس کے قون کی شکرین کو اوپر کی طرف اح ھال رہا ت ھا ۔ آ ک ھیں ت ھیل رہی ت ھیں ۔
پ ن ُ
” اس میں میں نے اسے ی یانا ہے سب کہ اد ینہ نے اس کا پرنوزل نوں ا ی بٹ یں
ہ کس ک
ک یا ت ھا ک نونکہ وہ ا نیے کزن میسم سے مچ بت کرتی ہے آپ شاری ج بٹ پڑھ شکنے ہیں وقت
اور دن ت ھی نوٹ کریں اد ینہ کو پرنوزل کا ت ھی پہیں ینہ ت ھا سب اس ج بٹ سے واضح ہو
جاۓ گا آنکو “
جیسے جیسے میسم ج بٹ پڑھ رہا ت ھا و بسے سر ییجے کی طرچ ح ھک یا جا رہا ت ھا گردن کی اکڑاہٹ جتم
ہو رہی ت ھی نلکیں سرم یدگی کے زپر اپر ح ھکتی جا رہی ت ھیں۔ دل میں دھواں شا ت ھرا ت ھا اور
ذہن شاٸیں شاٸیں کرنے لگے ت ھا ۔
اد ینہ کی الیچاٸیں می نیں صقاٸناں سب ناد آنے لگی ت ھیں اس کی ہر ہر نات سچ ت ھی ۔
روشان اور ماہ رخ کی شاری ج بٹ سے ضاف طاہر ت ھا کہ اد ینہ کو روشان کی مچ بت کا علم
نک پہیں ت ھا ۔
س
” میسم ت ھاٸ خو ت ھی آپ ھنے رہے سب کچھ علط ت ھا سب سب “
مچ
100
ماہ رخ کے لہجے میں اب میسم کے چہرے کے زاونے دنکھ کر سچتی جتم ہو جکی ت ھی ۔ میسم
کے چہرے پر اب سرم یدگی اور دکھ کے آ نار تھے ۔بظریں اوپر پہیں اتھ رہی ت ھیں۔
” اد ینہ ہر نات مچھ سے کرتی ہے اور اگر اس دن وہ روشان سے ملنے کے لنے آتی نو ک یا
میں آنکو وہاں ت ھیج د یتی ی یاٸیں مچ ھے “
ماہ رخ نے سر کو ت ھوڑا ییجے کرنے ہوۓ میسم کے ح ھکے چہرے کی طرف دنک ھا ۔ پر وہاں نو
چہرہ سف ید پڑا ہوا ت ھا ۔
” آپ نے اد ینہ سے نوح ھا ت ھی پہیں انک نار ت ھی اور خود سے ازنوم ک یا اور جل دنے “
ماہ رخ نے افسوس سے میسم کی طرف دنک ھا ۔ میسم اب موناٸل انک طرف ر کھے سر کے
نالوں کو ہات ھوں سے جکڑے ٹیت ھا ت ھا ۔ افف ک یا کر ٹیت ھا ت ھا وہ خود پر غصہ آنے لگا ت ھا ۔
اور اد ینہ پر نے بچاسہ ی یار
ماہ رخ کا آواز مدھم ہو گٸ ت ھی ۔ میسم نے چہرے کو ا نیے ہات ھوں سے ڈھک ل یا گالوں
سے ٹیش بکلنے جیسا اجساس ہو رہا ت ھا ۔ اور غصاب ک ھچ رہے تھے ۔ وقت اب وابس پہیں آ
شک یا ت ھا ۔
101
” آپ نے اسے پہت اذ یت دی ہے پہت پہت زنادہ “
ماہ رخ نے گہری شابس لی آواز میں افسوس ت ھا دکھ ت ھا ۔ وہ کرسی کو ییچ ھے دھک یلتی ہوٸ
ات ھی ۔
ماہ رخ نے آہس یگی سے کہا اور ناہر بکل گٸ ۔ میسم سرم یدہ شا چہرہ لنے شاکن ٹیت ھا ت ھا
۔جس سے ایتی مچ بت کی اسے ہی ایتی بکل ٹف دی ابچانے میں ۔ دل کوٸ دونوچ رہا ت ھا
۔اور دل دماغ کی ی نوقوق نوں پر ماتم ک ٹعاں ت ھا ۔
ہونل کے دروازے سے ناہر بکل کر ماہ رخ نے ارد گرد بظر دوڑاٸ نو شا منے الن میں لگی
ٹ
کرسنوں پر اد ینہ یت ھی بظر آٸ ۔ سر سیز الن میں انک طرچ بخوں کے لنے ح ھولے لگے تھے
چہاں ٹین جبے ح ھولے لینے میں مصروف تھے ۔ صیح کے آتھ بج رہے تھے اور ہلکی ہلکی ہوا
جل رہی ت ھی ۔
ماہ رخ مسکراتی ہوٸ الن میں اپرنے ز نیے اپر کر اس نک آٸ وہ شا منے بخوں کو ح ھوال لی نے
ت پ ک ت ن
دنکھ کر مسکرا رہی ھی۔ آ یں م کراہٹ کا شاتھ یں دے رہی یں ۔
ھ ہ س ھ
102
ماہ رخ نے اس کی بظروں کا بعاقب ک یا اور گہری شابس لینے ہوۓ کمر پر ہاتھ دھرے ۔
” ات ھو اندر جلو “
ماہ رخ کی آواز پرشکون ت ھی اد ینہ نے ہوا سے اڑنے نالوں کو سم نینے ہوۓ گردن گ ھما کر
ماہ رخ کی طرف دنک ھا خو ت ھرنور انداز میں مسکرا رہی ت ھی ۔ اور کب اس کے ناس آ کر ک ھڑی
ہوٸ ینہ ہی نا جال ۔
س یاٹ لہجے میں کہنے ہوۓ اد ینہ نے بظریں ت ھر سے بخوں پر حماٸیں ۔ اندر وہ ٹیت ھا ت ھا
جزنانوں کا قا نل ۔ دل میں ٹیس ات ھی ۔
” ات ھو ابسا دماغ ت ھکانے لگانا ہے تم ھارے م یاں ضاخب کا جا کر جالت ج یک کرو ہیرو کی
“
ماہ رخ نے آگے پڑھ کر اد ینہ کا ہاتھ ت ھاما اور ات ھانے کے لنے نازو کو ک ھییچا ۔ انداز اور لہحہ
ہر خوش ت ھا وہ ایتی ج بت پر چہک رہی ت ھی ۔
103
” نو میں ک یا کروں میرے آبسو میرے دن رات ہر اذ یت ہر بکل ٹف کا ازالہ نو پہیں ہو
شک یا یہ اور سب سے پڑی نات مچھ پر نو پہیں بقین ک یا یہ دوسروں کے ی نوت د نیے پر ک یا
“
اد ینہ نے نے رجی سے نازٶ ک ھییچا اور چہرہ موڑا ۔ معصوم سے چہرے پر ناگواری کے سوا اور
کچھ پہیں ت ھا ۔
” رہے سرم یدگی میرے دل سے نو مقام اپر چکا ہے یہ اس گ ھی یا نات کے بعد سے مچ ھے
اب کوٸ پرواہ پہیں اکڑ دک ھاٸیں نا سرم یدہ ہوں “
اد ینہ نے آنکھوں کو شکوڑے ماہ رخ کی طرف دنک ھا اد ینہ کے چہرے پر خوسی کی کوٸ رمق
موخود پہیں ت ھی۔ دماغ میں نار نار ابگلی یڈ کی اذ یت ت ھری رات آ رہی ت ھی ۔
” اح ھا کرتی رہو غصہ جی یا کرنا ہے نلکہ میں نو خود یہ جاہتی ہوں اح ھی سزا دو ج یاب کو “
ٹ
ماہ رخ ی یار سے کہتی ہوٸ اد ینہ کے گ ھینے نکڑ کر گ ھاس پر یتھی ۔
”میرا دل پہیں “
104
اد ینہ نے روہابسی صورت ی یاٸ آبسو ت ھر سے امڈ آنے کو ی یار تھے۔ ج تہیں تمشکل روکے
ہوۓ ت ھی ۔
خود پر میسم کی بظریں محسوس کرنے ہوۓ اد ینہ نے نے رجی سے بظریں گ ھماٸیں ۔ ماہ
رخ اب اد ینہ کے لنے کرسی ییچ ھے کر رہی ت ھی ۔
ماہ رخ نے میسم کی سرم یدگی دور کرنے کے لنے نارمل سے انداز میں کہا ۔
105
گ ھتی سی آواز میں کہا ۔ اور لمنے لمنے ڈگ ت ھرنا ناہر بکل گ یا ۔ خیر نور نک کا شارا سقر گہری
جاموسی میں ک یا ۔ دل دماغ کو ل یاڑ رہا ت ھا اور وہ جس پر نے وجہ طلم ڈھا نا رہا نے رجی سے
ن
چہرہ موڑے ک ھڑکی سے ناہر د ک ھتی رہی ۔
ای یا از یت ت ھرا سقر کتھی زندگی میں یہ ک یا ت ھا ۔ دل سرم یدہ ت ھا ناالں ت ھا اور خو ایتی مچ بت پر
ت
عرور کرنا ت ھا آج خود پر بف ھیچنے کو دل ک یا۔
********
احمد م یاں کے کمرے سے اتھ کر آۓ ہوۓ اسے گ ھبنہ ت ھر ہو جال ت ھا ۔ وہ لوگ معرب
کے بعد گ ھر پہیجے تھے ۔ اور اب رات کے گ یارہ بج رہے تھے اد ینہ ک ھانے کے بعد رابعہ
کے کمرے میں جلی گٸ ت ھی اور وہ احمد م یاں کے کمرے سے اتھ کر ا نیے کمرے
میں آنا ت ھا ۔
دل نے دماغ کو غمر ق ید کی سزا س یا کر جکومت خود سیت ھال لی ت ھی اور اب وہ انک گ ھینے
میں خود پر لع بت مالمت کرنا یہ ق ٹصلہ کر چکا ت ھا کہ ایتی شاری زنای نوں شاری نانوں کا ازالہ
کرنا ہے ۔ پر اد ینہ کمرے میں آ ہی پہیں رہی تھی ۔
کتھی جلے تیر کی نلی کی طرح کمرے میں جکر لگا رہا ت ھا نو کتھی ٹیتھ کر نانگ ہال رہا ت ھا۔ آ
ک نوں پہیں رہی ۔ اسی طرح انک گ ھبنہ اور ی بت گ یا ت ھک کر وہ کمرے سے ناہر بکال ات ھی
106
ت ھی سقر والے ہی کیڑے تی سرٹ اور خییز ز یب ین کنے ہوۓ ت ھا جتی کہ خوگرز ت ھی
پہیں ا نارے تھے کچھ ت ھی کرنے کا دل ہی پہیں ت ھا دل و دماغ پر اگرسوار ت ھی نو اد ینہ
اور اس کی ناراضگی
سب لوگ ا نیے ا ینے کمروں میں گھس جکے تھے اور الوبج کی الٸٹ ت ھی ی ید ہو جکی ت ھی ۔
کمرے سے ناہر بکل کر کمر پر ہاتھ ر کھے ارد گرد دنک ھا ۔
اد ینہ رابعہ کے ی یڈ پر سر نک جادر اوڑھے سمتی سی لیتی ت ھی اور رابعہ شاتھ لیتی ت ھیں
ً
میسم کی آواز پر وہ ہاتھ کے سہارے سے قورا اوپر ہوٸیں ۔
107
” شششش سو گٸ ہے “
رابعہ نے ہوی نوں پر ابگلی دھر کر میسم کو نو لنے سے روکا اور اد ینہ کی طرف اشارہ ک یا ۔ میسم
اب کمرے کے درم یان میں پہیچ کر ی یڈ کے نلکل ناس اد ینہ کے سر پر ک ھڑا ت ھا ۔ نازک
شا سرانا جادر میں ل نی یا اس کے شارے م ٹصونوں کو منہ جڑا رہا ت ھا ۔
رابعہ نے حمار آلودہ آواز میں کہا وہ ت ھی شادی ٹی ید میں جانے ہی والی ت ھیں خب وہ کمرے
میں داجل ہوا ۔ میسم نے نے جارگی سے اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔ خو نے خیر سو رہی ت ھی ۔
دل نے اجانک بچیل میں اد ینہ کی کمر کے ییجے ہاتھ دھرے اور نازوٶں میں ات ھانا اور
کمرے سے ناہر بکل گ یا ۔
108
رابعہ نے میسم کو ڈ ٹینے کے انداز میں کہا اور گ ھور کر دنک ھا ۔
ممہم
” م“
کمر ہر ہاتھ دھر کر س یدھا ہوا ۔اور پر سوچ انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
” جاٶ اب “
رابعہ نے آواز کو آہسنہ رک ھنے ہوۓ غصے سے میسم کو گ ھورا ۔ خو کان ک ھچا کر رہ گ یا ۔
نے شاخنہ کوٸ ڈھ یگ کا پہایہ ت ھی یہ گڑھ سکا ۔ رابعہ نے افسوس سے گ ھور کر دنک ھا ۔
” وہ الہور میں شاتھ ت ھی تم ھارے ک یا وہاں ت ھی نو خود ہی کرنے تھے یہ شارے کام “
غقب سے رابعہ کی آواز آٸ ۔ مرنل سے قدم ات ھا نا ا نیے کمرے میں آنا ۔ شدت سے ان
لمخوں کا اجساس ہوا خب اد ینہ اس کا ای ٹطار کرتی ت ھی اور وہ جان نوحھ کر دو ٹین جبے
کمرے میں آ نا ت ھا ۔
109
ی یڈ پر آ کر ڈ ھنے کے سے انداز میں لی یا اور ح ھت کو گ ھورا ۔ دل نے جین ت ھا ۔ سرم یدہ ت ھا۔
بس مسیر میسم مراد اب میں ایتی اور ایتی مچ بت کی سچاٸ کی کوٸ صقاٸ پہیں دوں گی
دماغ میں اد ینہ کے مچیلف فقروں کی نازگست ت ھی اور آنک ھوں کے آگے اس کا چہرہ۔
***********
قون کی نل مسلسل بچنے پر آنکھ کھلی ت ھی ۔وہ رات خوگرز ا نارے خییز کی ٹی بٹ میں ہی
پر حھے رخ ی یڈ پر لی یا ت ھا اور اب ت ھی ہ نوز اسی انداز میں ت ھا۔
نوح ھل سی آنکھوں کو تمشکل ک ھوال اور ٹی بٹ کی ج بب سے موناٸل بکاال ۔ فہد کا نام جگمگا رہا
ت ھا۔ قون کو آن کنے کان سے لگانا ۔
” ہ یلو “
ت ھاری سی ٹی ید کی حمار میں ت ھری آواز سے کہا اور تمشکل ہاتھ کا سہارا لے کر ات ھا ۔ جسم
درد کر رہا ت ھا ۔
” عچ بب نار ہے نو تھٸ “
110
دوسری طرف سے فہد کی ناراض سی آواز ات ھری ۔
میسم نے گردن کو داٸیں ناٸیں ح ھیکے دنے جس سے رگوں کے جیچنے کی آواز ات ھری ۔
” وقت دنکھ ی ٹعیرت ابسان نازار جانا تیرے شاتھ کچھ ت ھی پہیں ل یا سوجا ت ھا تم ھارے شاتھ
جاٶں گا“
فہد نے اس کے طیز پر غصے سے کہا ۔ میسم نے انک ہاتھ سے انگڑاٸ لی نے ہوۓ شا منے
لگے کالک پر وقت دنک ھا گ یارہ ٹیس بج رہے تھے ۔
111
” نکواس یہ کر وہ میں لے چکا ہوں اس کے شاتھ ناٸ اور سوز لینے ہیں “
فہد کو نا سنے کا کہہ کر قون ی ید ک یا اور واش روم کا رخ ک یا ۔ قربش ہو کر ناہر آنا نو تی وی
جل رہا ت ھا اور اد ینہ عزرا اور ار ینہ سے ناٹیں کرتی ہوٸ ہیس رہی ت ھی جیسے ہی میسم پر بظر
پڑی ہیسی انک دم سے عاٸب ہوٸ ۔
” اد ینہ ناسنہ ی یا دو “
میت ھے سے لہجے میں اد ینہ کے سر پر ک ھڑے ہو کر کہا۔ اد ینہ نے س یاٹ چہرہ ی یانا ج یکہ عزرا
نے اد ینہ کے نازو کو ہال کر ات ھنے کا کہا ۔ اد ینہ ہ نوز اسی انداز میں ک ھڑی ہوٸ ۔ میسم اب
عزرا کے پراپر ٹیتھ چکا ت ھا ۔
112
اد ینہ نے سرد سے لہجے میں ا بسے نوح ھا جیسے کہہ رہی ہو زہر ک ھانا ہے نا گولی میسم نے
مسکرا کر دنک ھا ۔
” پرات ھا “
اد ینہ نے الیچاٸ انداز میں رابعہ کی طرف دنک ھا۔ رابعہ نے مسکرانے ہوۓ ای یات میں سر
ہالنا اور ات ھی ہی ت ھی خب میسم نے پہلو ند لنے ہوۓ کہا ۔
اد ینہ نے گ ھور کر دنک ھا ۔ اور کچن کی طرف پڑھ گٸ ۔ کچن میں ات ھی وہ آمل بٹ ہی
ت ھی بٹ رہی ت ھی خب میسم کچن میں داجل ہوا ۔ اد ینہ نے الپرواہی سے آگے ہو کر خو لہے
کے ییجے آگ جالٸ ۔ ج یکہ وہ اب پربسان سی صورت ی یاۓ اب نلکل شا منے س یلف سے
کمر بکاۓ ک ھڑا ت ھا ۔
113
اد ینہ کے ما تھے پر نل تمودار ہوۓ ۔میسم کی بظروں سے الچ ھن ہوٸ رہی ت ھی ۔ قراٸ ٹین
میں آٸل ڈال کر وہ ت ھر سے انڈا ت ھی بٹ رہی ت ھی ۔ نالوں کی لٹ اب چہرے پر آ رہی
ت ھی ۔
اد ینہ نے انک ح ھیکے سے ا نیے چہرے کے قریب آۓ ہوۓ میسم کے ہاتھ کو ییچ ھے ک یا اور
آنکھوں کو شکوڑے س یاٹ چہرے کے شاتھ دنک ھا ۔ میسم نے دی یا چہان کی معصوم بت
چہرے پر طاری کی ۔ خو اس وقت اد ینہ کے دل پر ذرہ پراپر ت ھی اپر یہ کر شکی ۔
آہسنہ سی آواز میں کہا ۔ اد ینہ نے نے رجی سے چہرہ موڑا اور ناٶل میں ت ھنینے گنے امل بٹ
کو قراٸ ٹین میں انڈنال ۔ ملک بت ہوں یہ نواب کی خب جاہ دھ ٹکار دنا خب جاہا جاہ نیں ل یانے
آ گنے ۔ اد ینہ نے دای نوں کو نے دردی سے انک دوسرے کے شاتھ ی نوست ک یا ۔
” میرے ہاتھ ہیں نونے ہوۓ پہیں ہیں خود کر شکتی ہوں میں “
اد ینہ نے ک ھردرے سے نلخ لہجے میں کہا ۔ پر میسم پر بظر ڈال یا گوارا پہیں ک یا ۔میسم نے
دھیرے سے ای یات میں سر ہالنا ۔ میسم مراد علطی ایتی ح ھوتی پہیں ہے پہت روالنا ہے
114
ایتی مچ بت کو ابچانے میں دل نے دماغ کو س یاٸ ۔جس پر دماغ خود کو چطا کار مان کر
سر ح ھکا گ یا اب وہ کتھی اس کے ہات ھوں کی طرف اور کتھی اس کے چہرے کی طرف
دنکھ رہا ت ھا۔ ام یلٹ ی یا کر نل بٹ میں رک ھنے کے بعداس نے نوسیر کی نل کی آواز پر نوسٹ
ناہر بکالے۔ اور نل بٹ میں ر کھے ۔ ہلکے سے ت ھورے رنگ کے نوسٹ کو پری بب سے نل بٹ
میں رکھ کر اب وہ امل بٹ نل بٹ میں بکال رہی ت ھی ۔ سف ید نازک سے ہاتھ خن کی ابگل نوں
کی نوریں گالتی ت ھیں ہلکے سے پڑھے سقاف ناخن خوبصورت پراش لنے ہوۓ تھے ۔ نے
شاخنہ دل نے ان نازک اندام گداز ہات ھوں کو ح ھونے کی خواہش کر ڈالی ۔
میسم نے انک بظر نوسنوں کی بعداد پر ڈال کر گہری بظروں سے اد ینہ کی طرف دنک ھا اس
نے صرف جار نوسٹ گرم کنے تھے ۔
لہحہ نے ای تہا سچتی اور نے مروتی لنے ہوۓ ت ھا ۔ اور اس دوران اس نے انک دفعہ ت ھی
میسم کی طرف پہیں دنک ھا ۔ اد ینہ کی ایتی نے رجی پرداست سے ناہر ت ھی اب اجساس ہو
رہا ت ھا کہ اس کی نے رجی اد ینہ کے نازک سے دل پر کی یا اپر کرتی ہو گی ۔ دل آج اس
کی ہر بکل ٹف محسوس کر رہا ت ھا نے اجی یار شا ہو کر آگے پڑھا اور اس کا ہاتھ ت ھاما جس پر
115
گ ھتی نلکوں کی ح ھالر ات ھاۓ اب وہ پر شکوہ بگاہوں سے میسم کو ک ھا جانے کا انداز لنے گ ھور
رہی ت ھی ۔
” میرے ی یا کر ل یا آج ناسنہ “
ً
میسم نے نلکل س یدھا ہو کر اد ینہ کے سر کے شاتھ ای یا سر خوڑا ۔ اد ینہ نے قورا کمر
شلف کے شاتھ بکا کر خود کو گرنے سے روکا چہرے کے رخ کو ناگواری سے موڑا ۔
” سوری اد ینہ “
116
اد ینہ نےانک ہاتھ سے دھکا دنا اور کالٸ کو نوری قوت سے میسم کے ہاتھ سے ح ھڑوانے
کے لنے مڑوڑا ۔ پر وہ نو معصوم روہابسی چطا کار سی صورت ی یاۓ اسے دنکھ رہا ت ھا ۔ ت ھاری
شا وخود اس کے ہاتھ کے نازک د ھکے سے ت ھوڑا شا دور ہوا۔
د ھکے کا اپر کچھ نل کے لنے ہوا ت ھا قریت ت ھر سے قاضلے جتم کنے ہوۓ ت ھی۔ آج میسم
کی قریت دل میں ت ھرے غصے کی دنوار کو نار پہیں کر نا رہی ت ھی ۔ پزل یل اور ذلت کے
اجساس نے ٹین ہف نوں میں مل کر مچ بت کے سم یدر کے آگے سیشہ نالٸ دنوار ی یا ڈالی ت ھی
خو اس قریت سے دل کے ناروں کو بچنے پہیں دے رہی ت ھی ۔ مارنل کے ک یارے لنے
ہوٸ کچن س یلف کمر میں جت ھنے لگی ت ھی ۔ اد ینہ نے تمشکل بظر گھماٸ نو قراٸ ٹین میں پڑا
حمچ بظر آنا ۔
” ٕبچ ھے ہ نیں اور ہاتھ ح ھوڑیں وریہ یہ گرم حمچ لگا دوں گی “
اد ینہ نے ناس پڑے حمچ کو دوسرے ہاتھ سے ات ھانا اور دایت ٹیسنے ہوۓ میسم کے ہاتھ
کی طرف اشارہ ک یا خو کالٸ کو ات ھی نک ت ھامے ہوۓ ت ھا۔
117
اد ینہ کی غصے سے ت ھری آنکھوں میں ح ھا نکنے ہوۓ مسکراہٹ دناٸ پر یہ مسکراہٹ ات ھی
غصے کے ع یار کو جتم کرنے کے لنے ناکافی ت ھی میسم کی بظروں میں الیچا ت ھی وہی ت ھولوں
ن
میں ت ھری ح ھت پر ک ھڑے میسم جیسی آ ک ھیں ت ھیں پر آج دل پزل یل کے دھویں سے ت ھرا
ت ھا صرف ۔
” یہ طلم ات ھی کم ہے “
آہسنہ سی آواز میں کہا اور گرم حمچ میسم کے ہاتھ پر دھر دنا جس پر ق ًورا ھاتھ کی گرقت ج مت
ہوٸ ۔ میسم کے ما تھے پر جلن کی وجہ سے شکن تمودار ہوۓ ۔ ت ھاری وخود کا وزن جتم
ہونے ہی س یلف کی جت ھن کم ہوٸ
” اففففف“
وہ ناگواری سے میسم کے سینے پر ہاتھ رک ھتی اسے دور کرتی کچن سے ناہر جا جکی ت ھی اور وہ
ہاتھ کی جلن کی پرواہ کنے ی یا بس محسم ی یا ک ھڑا ت ھا ۔ کیسے ازالہ کروں شاری ذل نوں کو نازک
وخود کا لمس میت ھے سے ارتھ کی طرح دل میں رفص کرنے لگا ۔
**********
118
فہد نے پرا شا منہ ی یا کر میسم کی طرف دنک ھا خو ہوی نوں پر ابگلی دھرے کب سے ییجے رک ھی
دو انگوت ھ نوں پر بظر حماۓ ٹیت ھا ت ھا دونوں ڈاٸم یڈ رنگ ت ھیں انک میں صرف انک ہیرا لگا
ت ھا خو ت ھوڑا اوپر کو ات ھرا ہوا ت ھا اور دوسرے میں تھول کی سکل میں نابچ ہیرے جڑے
تھے ۔
اب محیرم سے ق ٹصلہ کرنا مشکل ہو رہا ت ھا کہ ان کی زوجہ محیرمہ کے نازک اندام گداز مچملی
ہات ھوں میں کوبسی انگوت ھی زنادہ جخے گی ۔ فہد اس کے شاتھ نے زار سی صورت ی یاۓ ٹیت ھا
س یم ت ت یٹ ت ت ً
ن
ت ھا یہ عال یا خو ھی خولیر شاپ ھی چہاں وہ لوگ ھے ھے۔ م ا ک جبے اس کی طرف آنا
ت ھا اور اب یب سے وہ فہد کو شاتھ لنے پہلے اد ینہ کی منہ دک ھاٸ کے لنے ڈاٸم یڈ رنگ
ڈھونڈ رہا ت ھا خو ج یاب کے ناک کے ییجے پہیں آ رہی ت ھی ۔
میسم نے فہد کی طرف ی یا د نک ھے ڈ ٹی نے کے انداز میں کہا ۔جس پر فہد نے نےزار صورت ی یا
کر اس کی طرف گ ھور کر دنک ھا ۔
ُ
” نار کیسی رنگ جا ہنے بچ ھے اس کے لنے “
کچھ دپر اور ای ٹطار کرنے کے بعد ت ھی خب میسم کو اسی جالت میں ٹیت ھے دنک ھا نو ت ھک کر
ت ھر سے گ ھڑی کی طرف دنک ھا خو اب جار بچا رہی ت ھی۔ میسم نے کہتی کے نل ہاتھ کو قولڈ
119
کرکے ا نیے سر کے ییجےرک ھا اور عیر مرٸ بفطے کو گ ھورنے ہوۓ کھوۓ سے انداز میں کہا
۔
ُ
” نازک سی اس کے ہات ھوں جیسی “
صیح میں محسوس ک یا ہوا اس کے ہات ھوں کا لمس ناد آ نا خو روٸ کے گالے جیسا محسوس ہوا
ت ھا ۔ فہد نے رونے جیسی سکل ی یاٸ ۔
میسم نے افسوس سے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا ۔ اس رنگ کو وہ اسی رات وابس ییچ آنا ت ھا اور
فہد ناک جڑھاۓ ٹیت ھا ت ھا ۔
” نو غقل کے ناخن لی یا یہ “
فہد نے ناگواری اور نے زاری سے کہا ۔ میرے سنیسل دن پر ت ھی ی ٹعیرت کو ایتی تی ل نی یڈ
سہاگ رات کی پڑی ہے فہد نے چقگی سے منہ ت ھالنا ۔
میسم نے ت ھیڈی آہ ت ھری اور انک بظر ہاتھ کے اوپر سرخ بسان پر گٸ ۔ کم ہے یہ طلم
ت ھی اد ینہ کی آواز گوبخی نو ل نوں پر مسکراہٹ نک ھر گٸ ۔
120
” ت ھاٸ ضاخب نات کر کے کلیر کرنے کا ت ھی انک آبسن ہونا ہے خو ت ھول گنے تھے
شاٸد آپ “
فہد نے دایت ٹیسے اور یہ نات ت ھول گ یا کہ وہ خود ت ھی اس آبسن کا مسورہ اسے دپر سے
ہی دے رہا ہے ۔
” ہاں یہ صرور علط ک یا اگر پہلی دفعہ میں ہی نوحھ لی یا نو ابسا کچھ ہونا ہی پہیں “
” اح ھا اب جلدی بس ید کر لے ان میں سے “
فہد نے رونے جیسی سکل ی یاٸ نے جیتی سے گ ھڑی کی طرف دنک ھا۔ اور ت ھر کچھ دور پڑی
انک ڈاٸم یڈ رنگ ات ھا کر میسم کے شا منے کی جس پر انک دل کے بسان میں ہیرا جڑا ت ھا ۔
” یہ کیسی ہے “
انداز چہکنے واال ت ھا ایتی طرف سے اس نے انک ابسی رنگ ات ھاٸ ت ھی خو شاٸد میسم کی
بظروں سے اوح ھل رہی ت ھی ۔
” اوں ہوں “
121
” ڈھکن ایتی خواٸس ج یک کر سہی عزرا ت ھتھو بچ ھے ٹی یڈو کہتی ہیں “
میسم نے ناک جڑھا کر انگوت ھی انک طرف کی ۔ فہد پرا شا منہ ی یا کر رہ گ یا ۔ میسم ت ھر سے
ق ٹصلہ کرنے میں ج یا ت ھا ۔
ن
” او ت ھاٸ میرے ابگلی یڈ والی پہیں ملتی پہاں پر ک یا انک گ ھینے سے آ ک ھیں ت ھاڑے ٹیت ھا
ہے “
” اگر رات کو بکاح پر وقت پر یہ پہیچا نو تیرے گ ھر والوں نے سمچ ھیا ہے یہ ت ھی بکال دوست
جیسا ہی ت ھاگ گ یا بکاح ح ھوڑ کر “
فہد نے چقگی ت ھرے لہجے میں کہا اور سر کا ہوا میں مارا ۔ میسم نے گھور کر اس کی طرف
دنک ھا ۔
” میرے بکاح والے دن کی ایتی ی ٹعیری یاں ناد ہیں گن گن کر خن خن کر ندلے لوں گا
“
ن
میسم نے منہ پر ہاتھ ت ھر کر آپرٶ جڑھاۓ ۔ اور فہد کی آ ک ھیں اور ت ھیل گٸیں ۔
” یہ کر دیں “
122
میسم نے نابچ نازک سے ہیروں والی انگوت ھی ات ھا کر خولیر کی طرف پڑھاٸ۔ فہد نے ہاتھ دعا
کے انداز میں اوپر ات ھاۓ ۔
” شکر ہے “
اور ہات ھوں کو منہ پر ت ھیرا ۔ میسم نے فہفہ لگانا اور انک ج بت اس کی گردن پر دھری ۔
*******
میسم نے سرٹ کا آجری ٹین لگا کر ناٸ کو میز پر سے ات ھانا اجانک ہاتھ پرسوچ انداز میں
رکے ۔ وہ خب گ ھر وابس آنا ت ھا نو اد ینہ شاٸد ار ینہ کے شاتھ نارلر گٸ ہوٸ ت ھی
ات ھی اس کے فہفے کی آواز پر اس کے آنے کی خیر ملی وہ ناہر الوبج میں کسی کی نات پر
ہیس رہی ت ھی ۔ دل نے شاخنہ اسے دنک ھنے کو مچلنے لگا ۔ دل کی اس جاٸز خواہش پر اس
نے مسکرانے ہوۓ ناٸ کو ٹی بٹ کی ج بب میں رک ھا اور ناہر بکال نو لڑ ک ھڑا شا گ یا وہ دل
سچن شا منے گہرے جامتی رنگ کے ا نلس کے کل نوں والے قراک کو ز یب ین کنے
کانوں میں پڑے سے ح ھمکے پہنے ق یل کر د نیے کی جد نک جسین لگ رہی ت ھی ۔ نالوں کو
خوڑے کی سکل دے رک ھی ت ھی شل ٹفے سے ک یا ہوا م یک اپ چہرے کو نے جد جسین ی یا رہا
ت ھا ۔
123
میسم پر بظر پڑنے ہی فہفہ کہیں عاٸب ہوا اور چہرہ ت ھر سے س یاٹ ہوا ۔ پر شکوہ بگاہ ڈال
کر گردن کو حم دنا ۔ میسم نے ارد گرد بظر دوڑاٸ اور عزرا کو شا منے دنک ھنے ہی مسکراہٹ
دناٸ ۔
ت ھوڑی سی اوبخی آواز میں کہا اور اد ینہ کے چقا سے چہرے کی طرف دنک ھا۔ جس پر اب
غصے کے آ نار بظر آ رہے تھے ۔
” مچ ھے ک یا ینہ کہاں ہو گی “
اد ینہ نے دایت ٹیسے میسم کی آنکھوں میں ت ھری سرارت ضاف بظر آ رہی ت ھی ۔ سروع ہیں
ج یاب اب مچی نیں ل یانے کے مسن پر ک یا سمچ ھیا ہے خود کو خب جاہے گا میں اسیر ہو
جاٶں گی اس کی ۔ اد ینہ نے دل کو سرزبش ک یا خو اسے ی یلی سرٹ اور ڈربس ٹی بٹ میں
دنکھ کر ڈھیر ہو رہا ت ھا ۔
عزرا نے ڈ ٹی نے کے انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا اد ینہ نے نے جارہ شا منہ ی یا کر عزرا کی
ک ن
طرف دنک ھا جس پر عزرا نے آ یں بکا یں ۔
ل ھ
124
” جی “
اد ینہ نے ناک ت ھال کر ٹیساتی پر نل ڈالے اور کمرے کے دروازے کی طرف قدم پڑھاۓ
خب میسم کے نازو نے نک لحت آگے آنے ہوۓ راسنہ روکا اور ہاتھ ت ھر صیح کی طرح
مصنوط ہاتھ کی گرقت میں ت ھا۔
” جانے دیں “
اد ینہ نے نوری قوت سے نازو کو ح ھ ٹکا دنا ۔ دایت ٹیسے اور بظریں دوسری طرف ت ھیریں ۔
کلون کی مہک نورے کمرے میں ت ھیلی ہوٸ ت ھی ۔ اور اب اس کے وخود میں اپر رہی ت ھی
۔
” اح ھا سنو سنو نو “
125
نازو کو بس انک ح ھ ٹکا ہی نو لگا ت ھا اور شارا قاضلہ جتم ت ھا مصنوط نازو کمر کے گرد جاٸل
تھے دل کے دھڑ کنے کی رق یار دونوں طرف ہی پڑھ جکی ت ھی ۔ شادی کی بعد یہ پہلی نے
ناک قریت ت ھی ۔
” پہیں سی یا مچ ھے کچھ “
اد ینہ نے کسمسا کر آزادی جاہی ۔ نلکیں چہرے پر لرز رہی ت ھیں پر لہجے میں سچتی ت ھی ۔
میسم نے مسکراہٹ دناٸ اور چہرے کو بغور دنک ھا ہر بفش دل میں اپر رہا ت ھا ۔
سرگوسی میں الیچا ت ھی لمس میں ی یار ۔ اد ینہ نے ناگواری سے چہرے کا رخ موڑا ۔ گرقت
سے آزاد ہونے کی کوشش مسلسل جاری ت ھی جسے مسلسل ناکام ی یانا جا رہا ت ھا ۔
مچ بت ت ھرے لہجے میں الیچا کی اد ینہ نے کوشش روکی اور آنکھوں میں ح ھابکا ۔ اس کا میسم
لوٹ چکا ت ھا وہی نے ی یاہ مچ بت لنے ۔ پر دل میں کینے ہی شکوے تھے دکھ ت ھا ذلت ت ھی
اس کی سوچ پر افسوس ت ھا ۔
” نا سی یا آپ سے ہی س یک ھا ہے میں نے “
126
لہحہ سحت ت ھا نو چہرہ س یاٹ ۔ میسم کی مسکراہٹ ت ھیکی پڑی سہی ہی نو کہہ رہی ت ھی جی تی
بکل ٹف دی ت ھی اسے اس کا یہ رویہ بچا ت ھا ۔ ت ھیڈی آہ ت ھری ۔ بظر اس کے کان میں
ل یکنے ح ھمکے پر رکی ۔
ہم
” ممم جای یا ہوں جای یا ہوں “
ح ھمکے کو دھیرے سے انک نازو ات ھا کر ابگلی کی نور سے ہالنا اففف رپڑھ کی ہڈی میں
کریٹ دوڑا اد ینہ نے نے پری بب دھڑک نوں کو سیت ھالہ دل کو ل یاڑا اور بخوت سے ناک
جڑھاٸ اور آزادی کے لنے ت ھر سے قوت لگاتی سروع کی ۔
” ت ھر ح ھوڑیں مچ ھے “
اد ینہ نے زور سے میسم کے ہاتھ کو نکڑ کر الگ کرنا جاہا ہاتھ شاٸد وہی ت ھا نے شاخنہ
میسم کے منہ سے آہ بکلی ۔ اد ینہ نے پڑپ کر ہاتھ ات ھانا جلے کے بسان اب ت ھوڑا کاال ہو
رہا ت ھا ۔
چقگی اور نے رجی سے کہا دل میں اس کے زحم کو دنکھ کر بکل ٹف ہوٸ اور خود پر غصہ آنا
ک یا صرورت ت ھی ای یا درد د نیے کی ۔
127
” پہیں ا بسے ہی ر ہنے دو سزا ہے یہ سزا پرمرہم کیسا “
میسم نے ت ھر سے قاضال جتم ک یا ۔ اد ینہ خو ملجے ت ھر کے لنے پرم پڑی ت ھی سزا کے لفظ پر
ت ھر سے ما تھے پر شکن ات ھرے ۔
” اوکے قاٸن “
ً
زور سے ہاتھ پر ت ھر سے ہاتھ رکھ کر دنانا اب کی نار نو میسم پڑپ گ یا قورا گرقت ڈ لی ہوٸ
ی ھ
اد ینہ نازو کے داٸرے سے بکلتی ت ھاگ کر دروازے کی طرف ل یکی۔ اسے ا بسے ہی پڑ ییا
ح ھوڑ کر وہ ناہر بکل گٸ ۔
ہاتھ پر انک بظر پڑی نو اد ینہ کا ناخن شاٸد جلے کی جگہ پر ہی ی نوست ہوا ت ھا جس کی وجہ
سے پرم سی ہوٸ جلد انک جگہ سے ہٹ کر اب ییجے سے خون واضح ہو رہا ت ھا اب نو جلے
کی بکل ٹف اور پڑھ گٸ ت ھی ۔
ڈربس یگ میز سے ناٸ ات ھا کر لگاٸ اور ناہر آ گ یا ۔الوبج میں صوفے لگا کر شا منے میز رک ھی
گٸ ت ھی فہد آ چکا ت ھا اور اب نک ھرا نک ھرا شا شا منے صوفے پر ٹیت ھا م یالسی بظروں سے میسم
کو ہی ک ھوج رہا ت ھا ۔ میسم جا کر اس کے بعل میں ٹیت ھا ۔ ناٸ کو درست ک یا اور انک بظر فہد
پر ڈالی ۔ فہد نے ت ھ نویں اچکاٸیں ۔ میسم نے سوالنہ انداز سے ا بسے دنک ھا ۔ جیسے نوح ھا ہو
ک یا بکل ٹف ہے
128
” کیسا لگ رہا ہوں ؟ “
س
فہد نے اس کے نا مچ ھنے پر ت ھوڑا شا قریب ہو کر نوح ھا ۔ میسم نے انک بظر اسے سر سے
ناٶں نک دنک ھا اور گہری شابس لی ۔
” انک دم نکواس“
ن
سیچیدہ سے لہجے میں کہا جس پر فہد کی آ یں ا نے م سے ھوتی ہوٸیں وہ لو ندل کر
ہپ ح خچ ی ھ ک
رہ گ یا۔
فہد نے کان کے قریب سرگوسی جس پر میسم نے ت ھ نویں جڑھا کر سٹطاتی انداز میں ا بسے
دنک ھا جیسے کہہ رہا ہو دنک ھیا جا بخو ۔ فہد کے موناٸل پر ی ٹعام کی رنگ بخی وہ اب موناٸل
دنکھ رہا ت ھا ۔
ً
” تم ھاری رچصتی ک نوں قورا کر دی ت ھی تم ھارے دادا انو نے “
فہد نے کان میں ت ھر سے سرگوسی کی شاٸد ار ینہ نے قون پر ایتی بصوپر ت ھیج دی ت ھی
جس کی وجہ سے ج یاب رچصتی کے لنے نے ناب ہو جلے تھے ۔
129
میسم نے اسی کے انداز میں قریب ہو کر سرگوسی کی فہد انک دم سے س نی یا کر س یدھا ہوا۔
” اوہ “
سر کو زور زور سے بفی میں ہالنا جس پر میسم نے مصنوغی مسکراہٹ سچا کر اس کی طرف
دنک ھا اور ت ھر ارد گرد بظر دوڑا کر اد ینہ کو نالش ک یا کہاں ہیں اب اجیتی سی بظر نورے الوبج
ت ھ ت
میں ڈالی اور اجانک انک جگہ می چہاں وہ عزرا سے نات کر رہی ھی ا ک ہاتھ یں
م ن
موناٸل نکڑا ت ھا میسم نے ت ھیڈی آہ ت ھری اور ت ھر فہد کی طرف دنک ھا ۔
مسیج سی یڈ کرنے ہی اد ینہ کی طرف دنک ھا اد ینہ نے قون کی شکرین پر دنک ھا اور ت ھر نے
س
شاخنہ میسم پر بظر پڑی کوٸ خواب د ییا م یاسب نا مچ ھنے ہوۓ موناٸل والے ہاتھ کو ت ھر
سے ییجے ک یا ۔ میسم نے گہری بظر ڈالی دلکش سرانا نوری طرح نے اعی یاٸ پرت رہا ت ھا خو
اب جزنات کو گراں گزر رہا ت ھا اگال ی ٹعام لک ھا۔
130
میسج ت ھیج کر ت ھر سے اد ینہ کی طرف دنک ھا وہاں ہ نوز وہی انداز ت ھا س یاٹ نے صرر چہرہ کوٸ
خواب پہیں میسم نے ت ھر سے ی ٹعام لک ھا ۔
ت ھوڑی ہی دپر میں اد ینہ ہلکے سے مسیرڈ گولڈن رنگ کے خوڑے میں دلہن یتی ار ینہ کو
لے کر آٸ جسے فہد کے شاتھ صوفے پر ٹیت ھا دنا ۔ سب لوگ اب بصاوپر ی یانے میں
مصروف تھے ۔ اد ینہ کو مسلسل خود پر بظریں محسوس ہو رہی ت ھیں ۔ ک یا ہے ا بسے دنک ھنے
رہیں گے نو ۔ اد ینہ نے خود کو عزرا کے ییچ ھے ح ھیانا۔ موناٸل پر ت ھر سے ہیزٹی یڈ کے نام
کا مسیج جگمگانا۔ ی ٹعام ک ھوال ۔ اور دل ت ھم گ یا
131
میری بگاہ سوق ت ھی کچھ کم پہیں مگر
**********
ٹ
وہ عزرا کی گود میں سر ر کھے لیتی ت ھی ۔ ار ینہ ناس س یگہار میز کے شا منے یتھی زنور ا نار رہی
ت ھی ۔ اور شاتھ شاتھ عزرا کی اور ار ینہ کی فہد کے گ ھر والوں کو لے کر نوک ح ھونک جاری
ٹ
ت ھی۔ رابعہ بس عزرا کو سمچ ھانے میں لگی ت ھیں وہ کمرے میں لگے صوفے پر یتھی ت ھیں
وہ سب کو دنکھ کر مسکرا رہی ت ھی خب اس کے موناٸل پر ت ھر سے ی ٹعام کی رنگ نون
بخی قون ات ھانا ہیزٹی یڈ کا نام جگمگا رہا ت ھا ۔ مسیج کھوال ۔
132
اد ینہ نے گہری شابس لی اور موناٸل ی ید ک یا ۔ ات ھی موناٸل ر کھے کچھ دپر ہی ہوٸ ت ھی
ج یاب اب کمرے میں آ کر رابعہ کے پراپر صوفے پر ٹیتھ جکے تھے اد ینہ نے چہرے پر
سیچیدگی طاری کی ۔ اگال ی ٹعام آنا ۔ اد ینہ نے چقگی سے موناٸل کی شکرین کو آنک ھوں کے
شا منے ک یا۔
اد ینہ نے میسج پڑھا دل نے ز ییچروں سم بت ہی ییجے غوطہ لگانا اور ت ھر سے ایتی جگہ پر آنا ۔
جلدی سے ی ٹعام لک ھا ۔
133
” خو دل جاہے میری ی یگم کا صیح جالنے پر افف بکال ت ھا اب نو افف ت ھی یہ کریں گے “
اد ینہ نے تمشکل نلش ہونے گالوں کو ح ھیانے کے لنے رخ موڑا ۔ ک یا ہے ک یا ہے ک یا
ہے مچ ھے ؟ وہی اکڑو ہے خو نورے انک شال سے پڑنا رہا دل کو سرزبش ک یا ۔ ی ٹعام کی نل
نون پر ت ھر سے ی ٹعام ک ھوال ۔
” اد ینہ ات ھو اد ینہ “
” ارے تھٸ ک نوں خود ہی اسے ت ھی نو ی یدنل کرنے کیڑے اد ینہ ات ھو اب جاٶ ا نیے
کمرے میں میسم ای ٹطار کر رہا ہے “
134
وہ کمرے سے بکل رہا ت ھا خب غقب سے عزرا کی آواز س یاٸ دی ۔ کمرے میں آ کر ٹی بٹ
کی جی نوں میں ہاتھ ڈالے کمرے کے کینے جکر لگا ڈالے کیڑے ی یدنل کنے پر وہ پہیں
آٸ ناہر بکل کر ت ھر سے عزرا کے کمرے میں ح ھابکا وہاں نو اب رابعہ ت ھی پہیں ت ھی ۔ تیز
تیز قدم ات ھا نا رابعہ کے کمرے میں گ یا وہاں جز بفہ اور رابعہ سو رہے تھے ت ھر احمد م یاں
کے کمرے میں گ یا چہاں وہ سو رہے تھے ۔ او ر انک طرف خواد اور مراد لی نے تھے ۔کہاں
ن
جا شکتی ہے تھٸ ۔ اجانک ج یال آنے ہی آ یں اوپر ا یں اور ھر سیڑھ یاں ال گ یا وہ
ن ھ ت ت ھ ت ھ ک
اوپر ت ھا ۔
اندازہ درست ت ھا محیرمہ ا ینے کمرے میں ت ھیں ۔ ڈھ یلے سے قم ٹض شلوار میں مل نوس ی یڈ پر
لیتی ت ھیں ۔میسم دنے ناٶں اب ی یڈ کے ناس ک ھڑا ت ھا ۔
” اح ھا نو پہاں ہو “
میسم نے سینے پر ہاتھ ناندھے اگست کے دن تھے گرمی اور جیس ات ھی پرقرار ت ھا ۔ اور اوپر
زنادہ گ ھین ت ھی۔
135
” پہیں ایتی ت ھی پہیں اب مچ ھے پہیں سونا ہے آپ جاٸیں ییچیں “
سحت لہجے میں کہا ۔ میسم نے کچھ دپر اس کی طرف دنک ھا خو نکنہ درست کر رہی ت ھی ۔
میسم نے تیزی سے کہا اور نکنہ دوسری طرف ت ھی ٹکا ۔ اد ینہ س نی یا گٸی اح ھل کر ی یڈ
سے ییجے اپری ۔
اد ینہ نے چہرے کا رخ موڑا ۔ اور سینے پر ہاتھ ناندھے ۔ دل کی آواز کان ت ھاڑنے لگی
ت ھی۔
” پہیں سونا ہے مچ ھے “
میسم نے نکنے پر زور سے سر مارا ۔ مسکراہٹ دناٸ ۔ انک خور سی بگاہ اس پر ڈالی سرارت
کی رگ پڑھکی
” و بسے پہاں ت ھیک ہے ناس آٶں گا زپردستی م یاٶں گا تم مارو گی جیخو گی کوٸ سنے گا
ت ھی پہیں گڈ ہے تھٸ “
136
میسم نے پرشکون لہجے میں کہا اد ینہ نے خونک کر دنک ھا اور تیزی سے داجلی دروازے کی
طرف قدم پڑھاۓ ۔
میسم کمرے میں آنا نو وہ الٸٹ ی ید کنے گت ھڑی سی یتی ی یڈ پر لیتی ت ھی ۔ مسکرا نا ہوا ی یڈ
کے قریب آنا کچھ دپر نوپہی گہری ہوتی مسکراہٹ کے شاتھ کم یل میں خود کو ح ھیاۓ اد ینہ
کو دنک ھنے کے بعد اح ھل کر ی یڈ پر لی یا پر ادھر کوٸ ردغمل پہیں ت ھا ۔
ن
افف اد ینہ نے زور سے آ ک ھیں ی ید کیں ۔ کم یل سے کچھ بظر ت ھی پہیں آ رہا ت ھا ۔ ک یا
ح ھالنگیں لگا رہے ہیں ی یڈ پر آنکھوں کو کم یل کے اندھیرے میں گ ھمانے ہوۓ سوجا ۔
137
میسم نے مسکراہٹ دنا کر کم یل کے انک کونے کو نکڑ کر آہسنہ سے ای تی طرف ک ھییچا ۔
کم یل سرک رہا ت ھا اد ینہ نے غصے سے سر ناہر بکاال آنکھوں میں چقگی ت ھی ۔ گ ھور کر دنک ھا
میسم سرارت سے ت ھری آنکھوں کے شاتھ ل نوں کو انک دوسرے کے شاتھ مالۓ کہتی
کے انک نل ی یڈ پر لی یا ت ھا ۔ اد ینہ کے سر ناہر بکا لنے ہی دھیرے سے آنکھ کا کونا دنانا ۔
اور پہی وہ لمحہ ت ھا خب اد ینہ کو ایتی پہلی رات میں کی گٸ تمام سرارٹیں ناد آٸیں اور
میسم کی نے اعی یاٸناں دل خو دھڑک رہا ت ھا آہسنہ آہسنہ ت ھر سے رق یار میں کمی آٸ ۔ مچ ھے
کیسے دھ ٹکارنے رہے تھے ا نیے س یگدل ینے تھے اور اب خود یہ شارے وار کر کے مچ ھے
بقین دال رہے ہیں کہ نواب کہیں پر علط پہیں تھے بس ابچانے میں ہوا سب ۔
” ک یا ہے “
اد ینہ نے سحت لہجے میں کہ نے ہوۓ کم یل کو زور سے ایتی طرف ک ھییچا ۔ پر میسم کی مصنوط
گرقت سے کم یل ک ھییچیا ای یا آشان پہیں ت ھا ۔ وہ اسی طرح گہری بظروں سے اد ینہ کے
چہرے کو دنک ھنے میں مصروف ت ھا ۔
گ ھنے نال ک یدھوں پر نک ھیرے ہوۓ تھے دھال شا سقاف چہرہ کمرے کے ملگجے سے
اندھیرے میں ت ھی دمک رہا ت ھا اس کا روپ ہوش و جرد سے مقلوج کر رہا ت ھا۔
” سردی لگ رہی ہے “
138
میسم نے معصوم سی صورت ی یا کر حمار سے ت ھاری ہوتی ہوٸ آواز میں سرگوسی کی گہری
بظریں اس کے چہرے پر گاڑے وہ کیتی آشاتی سے اس سے معافی اور سب کچھ ت ھول
جانے کا طلب گار ی یا ٹیت ھا ت ھا ۔
” پہیں ہے “ میسم نے سرگوسی کے انداز میں کہا جس پر اد ینہ نے ارد گرد بظریں
گ ھماٸیں جادر وافعی پہیں ت ھی ۔ میسم کی آنکھوں میں دنک ھیا مچال ہو رہا ت ھا ۔
139
” نو کچھ یہ کرو کس نے کہا تم کچھ کرو“ میسم نے گہری بظروں سے دنک ھا ۔ ہاتھ اس
کے نال سنوارنے کے عرض سے آگے پڑھانا جسے اد ینہ نے انک ح ھیکے سے دور ک یا ۔ انک
ن
نل میں ہی آ ک ھیں دماغ کی ڈگر پر جل کر جلنے لگیں ت ھیں ۔
اد ینہ نے آبسوٶں میں ڈوتی ت ھاری سی آواز میں کہا ۔ ابگلی یڈ کی رات کی شاری نلخ ناٹیں
میسم کا رویہ سب ناد آنے لگا ت ھا ۔ میسم وہیں ت ھم گ یا ۔ چہرہ انک دم سے پربسان ہوا وہ اب
رو رہی ت ھی ۔ آج اس کا ہر آبسو دل پر گر رہا ت ھا ۔ اد ینہ کا ا بسے رو د ییا پڑنا گ یا ت ھا خود پر
غصہ آنے لگا ت ھا کہ ک نوں ای یا علط سوج یا رہا ۔
میسم نے مدھم سی آواز میں کہا اور نکنہ ات ھا کر صوفے کی طرف پڑھ گ یا اد ینہ نے زور سے
نکنے پر سر مارا اور رخ موڑا ۔ آبسو اب ت ھمنے کا نام پہیں لے رہے تھے ج یاب نے ای یا روالنا
نو ک یا انک ملجے کی دلخوٸ سے سب دھو دوں میں ۔ یہ کچھ نوح ھا یہ ی یانا بس مچ ھے معاف
کردو مچ ھے معاف کر دو
140
***********
شازل نے شگر یٹ کا کش لگا کر دھواں ہوا میں ح ھوڑا ۔ اور ت ھر دھویں کے ٹینے ح ھلوں پر
بظریں مرکوز کیں ک ٹفے کی مدھم سی روستی میں ہلکی سی موسٹفی بج رہی ت ھی ۔ شا منے ٹیت ھا
قواد موناٸل پر بظریں حماۓ شگر یٹ تی رہا ت ھا ۔
ج یکہ شازل طیز ت ھری مسکراہٹ ل نوں پر سچا کر میز پر ہاتھ دھرنا ت ھوڑا شا آگے ہوا ۔
شازل نے طیزیہ انداز میں سر کو ہوا میں ناگواری سے مارا ۔ قواد نے موناٸل پر سے بظر ات ھا
کر شازل کی طرف دنک ھا ۔ تی نوٹی تی ورلڈ کپ سروع ہونے والے ت ھا جس کے لنے آج وہ
لوگ انک ناک سو میں اکت ھے ہوۓ تھے چہاں نوقیر نے میسم کی نے بچاسہ بعربف کی ت ھی
۔خو شازل کو ہضم پہیں ہو رہی ت ھی ۔
” نوقیر کا ہی پہیں خیرمین کا نورے ناکس یان کا چہی یا ہے جدھر ت ھی جاٶ میسم میسم ہو رہا
کس کس کا منہ ی ید کرے گا “
قواد نے شازل کی جالت پر افسوس کرنےہوۓ کہا اور ت ھر سے موناٸل پر بظر حماٸ ۔
” سب کا سب کا منہ ی ید کروں گا “
141
ن
شازل نے گہری سوچ میں ڈوب کر کہا اس کی آ ک ھیں شکڑی ہوٸ کسی عیر مرٸ بفطے پر
حمی ت ھیں ۔
” کل میرا ٹی یا مچ ھے کہ یا نانا آپ اح ھا پہیں ک ھیلنے ہیں میسم مراد جیسا ک ھیال کریں۔ بقین جانو
روح نک جل گٸ میری “
قواد نے مصروف انداز میں موناٸل شکرین کی طرف دنک ھنے ہوۓ کہا اور فہفہ لگانا ۔ ج یکہ
شازل ہ نوز اسی جالت میں ٹیت ھا ت ھا ۔
شازل نے گہری بظروں سے قواد کی طرف دنک ھا اور ت ھر کرسی کی بست کے شاتھ سر بکا کر
ح ھت کو گ ھورا ۔
گ ھتی سی آواز میں کہا ۔ قواد اس کی نات پر اب اس کی طرف دنک ھنے پر مچ نور ہو گ یا ت ھا ۔
قواد نے بسلی د نیے کے انداز میں کہا۔ میسم سے بچ ھلی سیرپز سے اسے ت ھی پہت جڑ ہو
گٸ ت ھی ۔ ل یکن وہ شازل کی طرح جزناتی پہیں ت ھا ۔
142
” مچ ھے ایتی کارکردگی دک ھانے سے زنادہ اس کی کارکردگی جتم کرنے میں اتیرسٹ ہے “
شازل نے انک دم س یدھے ہو کر میز پر ہاتھ رک ھا ۔ قواد نے شگر یٹ کا دھواں ہوا میں ح ھوڑا
مچ س
ن
۔ اور نا ھی کے انداز میں شازل کی طرف د ک ھا۔
” ک یا مطلب وہ کیسے “
سر کو ہاتھ کی متھی پر رکھ کر کہتی کو میز پر بکانا ۔ شازل اب ایتی ج بب سے کچھ بکال رہا
ت ھا ۔
” وہ ا بسے “ سف ید رنگ کی گول نوں کا ینہ میز پر دھرا قواد نے خیرت میں ڈونے انداز میں
م یڈبسن کو ات ھا کر آنکھوں کے شا منے ک یا ۔
” یہ یہ “
نام پڑ ھنے ہی قواد کی آواز گ ھٹ سی گٸ ت ھی خیرت سے شازل کی طرف دنک ھا۔ خو اب
کمیتی سی ہیسی ہیس یا ہوا مسکرا رہا ت ھا ۔
143
شازل کی سرگوسی تما آواز پر قواد نے خیرت سے ت ھر ہاتھ میں نکڑی م یڈبسن کی طرف دنک ھا ۔
ج یکہ وہ اب ناگلوں کی طرح فہفے لگا رہا ت ھا ۔
***********
جز بفہ نے تی وی پر سے بظر ہ یا کر میسم کی طرف دنک ھا انداز الیچاٸ ت ھا ۔ تی وی پر میسم اور
ناز عالم انڈو ییچر کلون کے اس تہار میں بظر آ رہے تھے ۔ اور شا منے ٹیت ھے جز بفہ کے دل میں
موخود جسرت اس کے زنان پر آٸ ت ھی ۔ شاتھ ٹیت ھے خواد احمد اور ار ینہ نے جز بفہ کی نات پر
فہفہ لگانا ۔
میسم نے جز بفہ کی طرف دنکھ کر سیچیدہ سے انداز میں کہا جس پر سب کا فہفہ ت ھر سے
گوبچا ت ھا پر جز بفہ ایتی نے عزتی کے پرواہ نا کرنے ہوۓ اب اور پرخوش ہو چکا ت ھا ۔
” ک یا تھٸ آپ کے شاتھ کام ک یا اور آپ خود ہی نو ی یا رہے تھے کہ آنکی قین بکلی یہ ت ھی
مچ ھے انک بصوپر ی نواتی اس کے شاتھ “
144
جز بفہ نے چقا سے انداز میں ر تموٹ نکڑے ہاتھ کو ہوا میں مارنے ہوۓ میسم سے ضد کی
میسم نے مسکرانے ہوۓ بظر شا منے ات ھاٸ نو ت ھم گٸ اد ینہ نالوں کا خوڑا ی یاتی الوبج
میں داجل ہو رہی ت ھی نازو اوپر ات ھا ر کھے تھے رات کے طلم کے بعد اب بظر آ رہی ت ھیں
محیرمہ خب آنکھ کھلی نو کمرے میں موخود پہیں ت ھیں اد ینہ کی تی وی شکرین پر بظر پڑنے
ہی ٹیساتی پر نل پڑے اس تہار کا اجی یام جل رہا ت ھا اور ناز عالم اب میسم کے شا منے ک ھڑی
ب س یم ت ن ھ ک نک م ن
چ ن
آ ھوں یں آ یں ڈالے د کھ رہی ھی ۔ م نے ا ک ظر اد ینہ کے ہرے پر در آنے
والی ناگواری کی طرف دنک ھا اور ت ھر ت ھوڑی سی آواز کو اوبچا کرنے ہوۓ جز بفہ کے سوال کا
خواب دنا ۔
میسم نے خور سی بظر اد ینہ پر ڈالی خو اب س یاٹ چہرے کے شاتھ تی وی پر بظریں حماۓ
ہوٸ ت ھی ۔ میسم کی مسکراہٹ گہری ہوٸ ۔ میسم کی نات پر نورے ندن میں آگ لگی ت ھی
دل پر کوٸ ہتھوڑے جالنے لگا ت ھا ۔ کیتی قریب ہو گی اور اوپر سے یہ لگ ت ھی ا نیے
ی یارے رہے ہیں ۔ اد ینہ کا دل گ ھیراہٹ کا سکار ہوا ۔
145
جز بفہ نے پرخوش ہو کر اد ینہ کی طرف دنک ھا اد ینہ نے ناگوار سی سکل ی یاٸ ۔ ناز عالم جز بفہ
کی بس یدندہ اداکارہ ت ھی اسی لنے وہ کچھ زنادہ ہی پرخوش ت ھا ۔
اد ینہ ناک جڑھا کر کہا اور ا نیے موناٸل پر بظر حماٸ ۔ میسم نے سرپر سی بظر اس کے
سرانے پر ڈالی ۔ خو اب جلن کے مارے ناک ت ھال کر موناٸل کی شکرین پر غصہ ا نار رہی
ت ھی ۔
ار ینہ نے تمکو منہ میں رکھ کر خیرت سے اد ینہ کی طرف دنک ھا۔ اد ینہ نے موناٸل پر بظریں
حماۓ ت ھر نور ال پرواہی کا مطاہرہ ک یا۔ ا بسے جیسے س یا ہی یہ ہو ۔
” انڈ آ گ یا ت ھر سے انڈ آ گ یا خپ خپ سب “
146
خواد احمد نے ہاتھ کو ہوا میں ات ھانے ہوۓ داد د نیے کے انداز میں کہا ۔ اد ینہ نے جل
ن
کر پہلو ندلہ میسم نے ہیسی دناٸ اور آ ک ھیں اب مخصوص انداز میں حمکنے لگی ت ھیں ۔ خو نار نار
اد ینہ پر جا رہی ت ھیں کیسے سمچ ھا نا اس واٸٹ ماٸس کو جس بحت پر وہ پراحمان ہے دل
پر وہاں نا ج یات اب کوٸ جگہ پہیں لے شکتی ۔
میسم نے نالی بچا کر سب کو م نوجہ ک یا اور خور سی بظر اد ینہ پر ڈالی خو منہ ت ھالۓ ا بسے
ٹ
یتھی ت ھی جیسے اس نے س یا ہی یہ ہو اسے مزند ی یگ کرنے پر دل نار نار اکسا نا ت ھا اور ناز
عالم کے لنے جلن میں اس کا ی یار ہی نو ح ھلک رہا ت ھا ۔
ُ
” خب یہ ادھر دبٸ میں سنوڈنو آٸ اور آ کر و بسے ہی گلے لگ گٸ میرے جیسے یہ
سوپز کے لوگ ملنے آبس میں “
” خب میرے ناس آٸ ناز اور گال سے گال خوڑے مچ ھے نو ہوش یہ رہا فسم سے “
147
مسکراہٹ دنانے ہوۓ ی ٹعام ت ھیج کر اب اد ینہ کے چہرے کی طرف دنک ھا جس پر ضٹط کی
لکیریں ضاف واضح ت ھیں۔
” مچ ھے انک نات پہیں سمچھ آتی لوگ آجر اس کے دنوانے ہیں ک نوں بس قد ہی نو ہے یہ
رنگ یہ سکل “
اد ینہ نے بخوت سے ناک جڑھا کر کہا ۔ سب اب اد ینہ کی طرف دنکھ رہے تھے میسم نے
ت ھر سے ی ٹعام لک ھا ۔
اد ینہ نے ی ٹعام پڑھ کر ناک ت ھال کر شا منے دنک ھا ۔ دل کو جیسے کسی یہ گ ھوبشہ مارا ہو ینہ
پہیں ک یا ک یا اداٸیں دک ھاتی رہی ہو گی کمیتی ان کو ۔ ذہن میں ناز عالم کا نے ناک ل یاس
گ ھوم گ یا ۔
ار ینہ نے اس کی نات کی بفی کرنے ہوۓ کہا ۔ اد ینہ نے ح ھیکے سے ار ینہ کی طرف
گردن گ ھماٸ ۔
148
ناک جڑھا کر منہ کا زاویہ ندلہ ۔ میسم نے تمشکل فہفہ روکا ۔ غصے سے الل ہوتی اس کے
دل کو نے ناب کر رہی ت ھی وہ ۔
ن
” ارے پہیں تھٸ رٸنل میں د کھی ہے میں نے پہت کمال لگتی ہے اور ایتی قری یڈلی
ہے کہ نوح ھو مت “
میسم نے مسکراہٹ ح ھیا کر سیچیدگی سے سب کی طرف دنک ھنے ہوۓ کہا ۔ مسواۓ اد ینہ
کے سب لوگ اب اسی یاق سے میسم کی طرف دنکھ رہے تھے ۔ میسم نے گود میں
دھرے موناٸل پر ت ھر سے مسیج ناٸپ ک یا ۔
مسیج پڑھ کر اد ینہ کا چہرہ ضٹط سے زرد پڑا ح ھیکے سے ایتی جگہ سے ات ھی اور ی یا ییچ ھے د نک ھے
ناہر بکل گٸ ۔ میسم نے نے اجی یار امڈ آنے والے فہفے پر تمشکل قانو نانا اور سب پر بظر
ڈال یا کان ک ھچا نا ناہر آنا ۔ وہ کہیں ت ھی پہیں ت ھی کمرے میں آنا نو وہ رو تھے سے انداز میں
ی یڈ پر لیتی موناٸل کی شکرین پر ناز عالم کی بصوپر کو دنکھ رہی ت ھی ۔
ک یا ت ھا اس ناز عالم ابسا ناز کی بصوپر کو زوم کنے وہ خود سے موازیہ کر رہی ت ھی ۔
149
ٹ
میسم نے شکرین پر انک بظر ڈال کر مسکراہٹ دناٸ ۔ اد ینہ خو ک ھوٸ سی یتھی ت ھی میسم
کی آمد کا ی یا ہی یہ جال جلدی سے موناٸل شکرین آف کی ۔
اد ینہ نے سر اوپر ات ھانا اور رخ موڑ کر نکنے پر سر کو زور سے مارا ۔ میسم کہتی کے نل قریب
ہوا سف ید گردن پر گہرے ت ھورے نال نک ھرے تھے ۔ خن سے گداز سے سف ید جلد ح ھلک
رہی ت ھی گردن سے بظر تھسل کر اب کان پر پڑی ت ھی جس میں ح ھونے سے س تہری
ی یدے جگمگا رہے تھے میسم نے اس کے کان کے قریب ح ھک کر سرگوسی کی۔
لب کان کے ا نیے قریب تھے کے تمشکل کان کی لو کو ح ھونے سے جبے تھے ۔ گرم
سرگوسی نے دل کی رق یار پڑھاٸ ت ھی انک ملجے کو اد ینہ نے سمٹ کر نانگوں کو موڑا ۔ دل
کو قانو میں ک یا اور دماغ کو جاصر ک یا ۔
” نو جاٸیں روکا کس نے “
نے رجی سے سرد سے لہجے میں کہا ۔ میسم نے نے اجی یار گردن پر نک ھرے نال ہ یاۓ ۔
150
ٹ
میسم نے الیچاٸ انداز میں کہا اد ینہ ی یک کر اتھ کر یتھی۔
اد ینہ نے روہابسی سکل ی یا کر دنک ھا وہ خو ہوش کی دی یا سے ناہر ت ھا انک نل میں وابس آنا اور
اب سیچیدہ سے انداز میں س یدھا ہوا ۔
” اد ینہ مای یا ہوں پہت پہت علط کرنا رہا پر سب ابچانے میں ہوا تم سروع سے ابکار کرتی
رہی “
میسم نے سرم یدگی میں ڈوتی آواز میں کہنے ہوۓ بچارگی سے دنک ھا۔
” وہ شاری ناٹیں انک طرف میسم اگر صرف وہی سب ہونا نو وہ نو میں کب کا معاف کر
جکی ت ھی ک نونکہ اس میں میری علطی شامل ت ھی “
ن
اد ینہ نے کی آ ک ھیں ت ھر سے تم ہونے لگی ت ھیں اور پہی میسم کی کمزوری ت ھیں اب ۔ وہ
کیسے ت ھول جاتی ایتی جلدی وہ پزل یل ت ھرے القاظ خو ابگلی یڈ میں میسم نے کہے تھے ۔
151
” ل یکن آپ نے میرے نارے میں ای یا گ ھی یا سوجا ک یا آپ مچ ھے پہیں جا نیے تھے ہم نے
انک شاتھ بچین گزارا آپ کو ک یا میں ایتی گ ھی یا لگتی ت ھی کہ ٹیسے کی جاطر کسی کے ت ھی
ییچ ھے لگ جاتی “
اد ینہ کی آواز ت ھٹ رہی ت ھی۔ ہاں آج اس کا وقت ت ھا اور شا منے ٹیت ھا سخص آج ناالں ت ھا
ا نیے کنے پر
گ ھتی سی آواز میں کہا ۔ اور سر کو ح ھکانا یہ نات وافعی میں ک یا وہ ایتی جلدی ت ھول جاتی یہ
اس کی کردار کسی ت ھی ۔
اد ینہ نے نلخ لہجے میں کہا اور ناگواری سے چہرے کا رخ موڑا ۔
میسم نے جلدی سے آگے ہو کر الیچاٸ انداز ای یانا ۔ اور اس کے گود میں دھرے ہات ھوں پر
ہاتھ رک ھا۔
152
اد ینہ نے س یاٹ لہجے میں کہا اور ت ھر سے رخ موڑے ل بٹ گٸ ۔
میسم نے کچھ دپر نوں ہی اسے دنک ھنے ر ہنے کے بعد داجلی دروازے کی طرف قدم پڑھاۓ ۔
ٹ
میسم کے جانے کے بعد وہ دھیرے سے اتھ کر یتھی ت ھی اور ت ھر گ ھی نوں کو سم بٹ کر
ان پر سر دھرا ۔ گردن پر ات ھی ابگل نوں کا لمس ت ھہر گ یا ت ھا اور کان کی لو ت ھی گرم
شابسوں کی ٹیش کو نار نار محسوس کر رہی ت ھی ۔ت ھیک کر رہی ہوں نا علط دل میں انک
ت ھابس ت ھی ۔
پر دماغ ت ھا کا کسی ت ھی صورت معاف کرنے پر راضی پہیں ہو رہا ت ھا ۔ ہر نار وہی پزل یل
ت ھری نازگست ذہن میں گوبچنے لگتی ت ھی ۔اور ت ھر میسم کوٸ ت ھی نات کنے ی یا صیح جار جبے
الہور کی طرف روایہ ہو گ یا ت ھا ۔ اسے تی نوٹی تی ورلڈ کپ کے لنے کسی م نی یگ میں سرکت
کرتی ت ھی اور اد ینہ کو ماہ رخ کے شاتھ جانا ت ھا دو دن بعد۔
*******
153
آٸ اور اکت ھے جلنے کے لنے کہا۔ اس کی نو شاٸد آج ناٸٹ سقٹ ت ھی ل یکن وہ اب اس
کے ناس آ کر اسے جلنے کا کہہ رہی ت ھی ۔
اد ینہ نے خیرت سے دنک ھنے ہوۓ ناس پڑے ی یگ کو ک یدھے پر ل ٹکانا ماہ رخ دھیرے سے
مسکراٸ اور خواب د نیے کے بچاۓ سر کو ای یات میں ہالنا ۔ وہ ت ھی ای یا ی یگ ات ھا رہی ت ھی۔
اپہیں الہور وابس آۓ ہوۓ آج ٹیسرا دن ت ھا ۔
” جی نلکل “
ماہ رخ نے گہری شابس لینے ہوۓ کہا اور ی یگ کو ک یدھے پر ڈال کر س یدھی ہوٸ ۔ اد ینہ
مچ س
س م
نے نا ھی کے انداز یں ک یدھے اچکاۓ اور م کرا دی ۔
154
الہور آنے ہی ت ھر سے وہی جال ت ھا یہ کوٸ مسیج یہ کوٸ کال اد ینہ نار نار قون ات ھا کر
مسیج کا ای ٹطار کرتی رہتی ت ھی ۔ ناراضگی اور نے اعی یاٸ ایتی جگہ پر دل میں موخود نے ی یاہ
مچ بت پر ی ید ناندھ یا ای یا آشان پہیں ت ھا ۔
اا نیے مخصوص انداز میں ہڈ اور سن گالسز لگاۓ ٹی بٹ کی جی نوں میں ہاتھ ڈالے نک ھرا نک ھرا
شا وہ اب ان کے ناس پہیچ چکا ت ھا ۔ ل نوں پر جان ل نوا مسکراہٹ سچاۓ اد ینہ کے نلکل
شا منے ک ھڑا ت ھا
” اشالم عل یکم “
ً
مسکرا کر شالم ک یا اد ینہ نے قورا ماہ رخ کی طرف دنک ھا خو اب میسم کو دنکھ کر ت ھرنور طر بفے
سے مسکرا رہی ت ھی ۔ اد ینہ نے نے رجی سے چہرہ دوسری طرف موڑا ۔
ماہ رخ نے خوشدلی سے شالم کا خواب دنا میسم اب ل نوں پر گہری ہوتی مسکراہٹ کے
شاتھ اد ینہ کی طرف دنکھ رہا ت ھا ۔ خو موی یا رنگ کے خوڑے میں کھل رہی ت ھی ۔ اور چقگی
اس قدر ت ھی کہ شالم کا خواب ت ھی یہ دنا ۔
155
میسم نے بظر اد ینہ پر سے ہ یاٸ اور ماہ رخ کی طرف دنکھ کر خوشگوار لہجے میں خواب دنا ۔
اد ینہ ا بسے طاہر کر رہی ت ھی جیسے اس کے لنے پہاں ک ھڑے ہونا اب پہت دسوار ت ھا ۔
” میں ت ھی ت ھیک “
ماہ رخ نے چہکنے جیسے انداز میں بچلے لب کو دای نوں میں ل یا ۔ اور خور سی بظر چقا سی ک ھڑی
اد ینہ پر ڈالی خو نوری طرح نے اعی یاٸ پرت رہی ت ھی ۔
” پہیں میں پہت ت ھکی ہوٸ ہوں نو آرام کرنا مچ ھے ہاس یل جا کر میں کہیں پہیں جا شکتی
“
اد ینہ نے س یاٹ سے لہجے میں کہا اور ت ھر ماہ رخ کی طرف گ ھور کر دنک ھا انداز ابسا ت ھا جیسے
کہہ رہی ہو جلو اب پہاں ک ھڑی ک نوں ہو ۔
156
میسم نے ت ھ نویں اچکا کر ناٸندی بظر ماہ رخ پر ڈالی ج یکہ اد ینہ ت ھرنور طر بفے سے اب سر کو
بفی میں ہال رہی ت ھی ۔
ماہ رخ نے چہکنے ہوۓ خواب دنا اور آگے پڑھ کر کار کی بچ ھلی سبٹ کا دروازہ ک ھوال ۔
اد ینہ نے منہ ک ھول کر ماہ رخ کو گ ھورا ۔ پر اس پر کوٸ اپر پہیں ت ھا ۔
اد ینہ نے ماہ رخ کے نازو کو نکڑ کر زور کا ح ھ ٹکا دنا اور آنکھوں کو شکوڑ کر ا بسے گ ھورا جیسے
کہہ رہی ہو تمہیں نو میں نوح ھتی ہوں
157
مچ س
طرف دنکھ رہا ت ھا اد ینہ نے خیرت اور نا ھی یں منہ ھول کر دونوں کو د ک ھا اور جلدی
ن ک م
سے کار کا دروازہ ک ھو لنے کی کوشش کی پر میسم دروازے الک کر چکا ت ھا ۔
اد ینہ نے ح ھیچال کر میسم کی طرف دنک ھا ۔ میسم نے اس کی نات ستی ان ستی کی اور گاڑی
کا ت ھوڑا شا سیشہ ییجے کرنے ہوۓ ماہ رخ کی طرف دنک ھا ۔
” ت ھیک نو ماہ رخ “
ت ھرنور مسکراہٹ چہرے پر سچا کر کہا ماہ رخ مسکرا کر سر ہال رہی ت ھی اد ینہ نے ک ھا جانے
والی بظروں سے ماہ رخ کو گ ھورا جس پر اب وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر معافی مانگ رہی ت ھی
میسم نے فہفہ لگانے ہوۓ کار س یارٹ کی
اد ینہ نے اب سچتی سے کہنے ہوۓ میسم کی طرف چہرے کا رخ موڑا۔میسم نے خواب
د نیے کے بچاۓ مسکرانے ہوۓ کار کی رق یار کو پڑھانا ۔
158
اد ینہ نے شا منے ڈبش نورڈ پر ہاتھ ر کھے اور شکن آلودہ ٹیساتی کے شاتھ میسم پر پرشکوہ بگاہ
ڈالی
میسم نے آنکھ دنا کر سرارت سےکہا ۔ اد ینہ کے ما تھے پر نل مزند گہرے ہوۓ ۔ پر ج یاب
نو آج کسی اور ہی خون میں تھے۔
اد ینہ نے غصے سے آواز کو اوبچا کرنے ہوۓ کہا ۔ میسم نے مسکرانے ہوۓ رق یار اور
پڑھاٸ مصنوط ہاتھ سییری یگ پر حمے تھے لب مسکرا رہے تھے گالوں پر ڈم یل گہرے ہو
ن
رہے تھے آ ک ھیں سرارت سے حمک رہی ت ھیں ۔
” اففف میسم “
اد ینہ نے تمشکل خود کو سیت ھا لنے کے لنے شا منے نورڈ کو ت ھاما پر ج یاب نو درج نوں کے
درم یان موخود سڑک پر گاڑی کو ت ھاگا رہے تھے ۔
159
میسم نے فہفہ لگانے ہوۓ کہا اد ینہ اس کے بعد کچھ ت ھی پہیں نول ناٸ ۔ کار اب کسی
رہاٸبسی سوشاٸتی کے گ بٹ سے اندر داجل ہوٸ ت ھی ۔ اور سقاف نارکول میں لیتی
سڑکوں پر گ ھومتی گاڑی انک جگہ خوبصورت سے دو میزلہ گ ھر کے شا منے رکی ت ھی ۔ میسم
اب کار سے اپر کے اس کی طرف کا دروازہ ک ھول کر ک ھڑا ت ھا ۔
” اپرو “
دروازہ ک ھول کر پرم سے لہجے میں جکمایہ انداز میں کہا۔ اد ینہ نے چہرے کا رخ دوسری
طرف موڑا ۔ ذہن الچھ رہا ت ھا کر ک یا رہے ہیں آجر یہ ۔
” اپرو یہ “
میسم نے نازو سے نکڑ کر ناہر بکاال ۔ اور انک ہاتھ سے کار کے داروازے کو ی ید ک یا ۔
گرے رنگ کا گ بٹ ت ھا اور میسم اب اسے نازو سے ت ھامے زپردستی گ بٹ کے ناس لے آنا
ت ھا ۔
160
نورچ سے اندر کی طرف کھلنے والے دروازے کو انک ہاتھ سے ک ھوال وہ مسلسل اد ینہ کی
چقگی سے الپرواہی پرنے ہوۓ ت ھا
ُ
سف ید ناٸلز کے قرش واال قرٹیسڈ گ ھر ت ھا چہاں دروازہ ک ھلنے ہی شا منے خوبصورت قرییچر سے
مزین الٶ بج ت ھا اور انک طرف ڈراٸنگ روم ت ھا دونوں کے ییچ میں سے خوبصورت ز ینہ
اوپری میزل کی طرف جا رہا ت ھا ڈراٸنگ روم میں ٹیش قتمت بقیس سے صوفے پڑے تھے
ہلکے ییلے اور سف ید رنگ کے مالپ سے سچا ڈراٸنگ روم آنکھوں کو انک بظر میں ہی بسکین
بحش رہا ت ھا الوبج کی انک دنوار کے شاتھ ح ھونا شا جار کرسنوں پر مستمل سیسے کے گول
میز واال ڈاٸنگ ٹی یل ت ھا ۔ الوبج کے انک طرف انک ی یڈ روم کا دروازہ ت ھا اور شاتھ ہی سف ید
کبییز واال اوین کچن ت ھا گ ھر میں صرورت کی ہر خیز موخود ت ھی ۔ اد ینہ کی بظریں نے شاخنہ
گ ھوم کر شارے گ ھر کا جاٸزہ لے جکی ت ھیں ۔
میسم کی آواز اسے ا نیے غقب سے س یاٸ دی ۔ اد ینہ کچھ دپر جاموسی سے ک ھڑی رہی افف
کی یا خوبصورت گ ھر ت ھا دل نے نے اجی یار جاہ کہ نلنے اور اس کے خوڑے سینے سے جا لگے
ا بسے ح ھونے سے خوبصورت گ ھر کی خواہش نو اسے بچین سے ت ھی خو اس کا ای یا ہو ایتی ماں
کو شاری زندگی نے گ ھر دنک ھا ت ھا اس لنے آج دل خوسی میں ناگل ہو گ یا ت ھا ۔
161
پر میسم پر ایتی خوسی کا نوں اظہار کر د ییا اس کی اس نات کی بصدنق کر د نیے جیسا لگا خو
اس نے ابگلی یڈ میں کی ت ھی اسی سوچ کے زپر اپر س یاٹ چہرے کے شاتھ رخ میسم کی
طرف موڑا ۔
ُ
” آپ کو ک یا لگ یا ہے یہ سب کریں گے نو میں معاف کر دوں گی آپ کو اس شاری نات
کے لنے “
سرد لہحہ ای یانا ۔ میسم خو اس کے خواب کا می ٹظر ک ھڑا ت ھا اس کی ناراضگی پرقرار دنکھ کر ہوا
میں ہاتھ ات ھا کر گہری شابس لینے ہوۓ ییجے کی نے
مچ بت ت ھرے لہجے میں اردگرد دنک ھنے ہوۓ کہا اور ت ھر چقا سی اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
ً
” ہاس یل ح ھوڑ کر آٸیں مچ ھے قورا “
اد ینہ نے غصے سے کہا اور قدم آگ پڑھاۓ ۔ میسم نے نازو آگے ک یا اور راسنہ روکا ۔
162
میسم نے پرشکون لہجے میں کہا جس پر اب وہ منہ ک ھولے خیرت سے دنکھ رہی ت ھی ۔ یہ
ُ
سب ماہ رخ کا کام ت ھا اسی لنے اس نے اسے ناٸٹ ڈنوتی کا کہا اور خود میسم کے شاتھ
مل کر اس کی ی یک یگ کرتی رہی ۔
میسم نے انک ہاتھ سے کمرے کی طرف اشارہ ک یا ت ھر ی یار سے اد ینہ کے گال ت ھیت ھیا کر
وہ آگے پڑھا ۔
اد ینہ نے گ ھور کر انک بظر میسم پر ڈالی اور مطلویہ کمرے کی طرف پڑھی جیسے ہی کمرے
کا دروازہ ک ھوال شا منے کا م ٹظر شکوت طاری کر د نیے واال ت ھا کمرے میں مچیلف جگہوں پر
سف ید سرخ گالب اور روم ڈنکور کی یڈل ت ھیں س یگہار میز کے ناس پڑے سیسے کے میز پر
انک پڑے سے سیسے کے ت ھال میں ت ھول کی ٹی یاں اور کی یڈل تیر رہی ت ھیں کی یڈل کے
جلنے سے ان کے اندر موخود خوسنو نورے کمرے میں ت ھیلی ہوٸ ت ھی خو انک خوشگوار
اجساس ی یدا کر رہی ت ھی کمرہ ا نیے خوبصورت انداز میں سچانا گ یا ت ھا کہ نل ت ھر کے لنے وہ
بظریں ہ یانا ت ھول جکی ت ھی ۔ نو ج یاب آج نوری ی یاری کنے ہوۓ ہیں ۔ ایتی جلدی پہیں
ج یاب اد ینہ نے بچلے لب کو دای نوں میں دناۓ بظروں کو پر اسی یاق انداز میں ارد گرد گ ھومانا
۔
163
آہسنہ سے جلتی ہوٸ اندر داجل ہوٸ ی یڈ کے شاتھ ملخفہ ٹی یلز پر ت ھی دندہ ز یب کی یڈل
ک
جل رہی ت ھیں ی یڈ روم کا می نیسین آف واٸٹ اور ہلکے ت ھورے رنگ کا ت ھا آف واٸٹ
رنگ کے ی بٹ کے پردے اور لکڑی کا دندہ ز یب قرییچر کمرے کے ماخول کو فسوں خیز ی یا
رہا ت ھا کمرے سے ملخفہ ڈربس یگ روم میں نوری دنوار میں لکڑی کی الماری بسب ت ھی ۔ ارد گرد
کمرے کی خوبصورتی کو جابچتی وہ اب الماری ک ھولے ہوۓ ت ھی جس میں اس کے کیڑے
شل ٹفے سے ہی یگ تھے ۔
” ک ھانا لگ گ یا ہے ی یگم “
میسم کی غقب سے آتی آواز پر وہ الماری کے دروازے کو ت ھامے مڑی وہ داجلی دروازے
ن
سے ی یک لگاۓ سینے پر ہاتھ ناندھے گہری مچ بت سے لیرپز آ ک ھیں لنے مسکرا نا ہوا اسے
دنکھ رہا ت ھا ۔
” مچ ھے ت ھوک پہیں “
اد ینہ نے آہسنہ سی آواز میں کہا اور چہرہ ت ھر سے الماری کی طرف موڑا ۔ دل کی جالت میسم
سے ح ھیانا الزم ت ھا ۔
” اح ھا “
164
میسم نے سر کو ییچ ھے سے گردن ح ھکا کر ک ھچانا خب کے لب مسکراہٹ دنانے میں لگے
تھے ۔ محیرمہ کو کچھ ت ھی امیربس پہیں کر نانا ت ھا ک یا کروں سرارت سے سوج یا آگے پڑھا اور
” میسم !!!!!!!“
گلے سے جیخ تما آواز پرآمد ہوٸ گرنے کے ڈرے سے جلدی سے میسم کی سرٹ کو ہات ھوں
سے نکڑا ۔ اور آنک ھوں کو خوف سے ی ید ک یا ابسا لگ رہا ت ھا ات ھی گر جاۓ گی دل کمیحت
و بسے ہی غوطے لگانے کا سعل قرمانے لگا ت ھا وہ اب مسکرا نا ہوا کمرے سے ناہر آ چکا ت ھا
۔ چہاں ڈاٸنگ ٹی یل کی کرسی پر ال کر اس نے اد ینہ کو پرمی سے ٹیت ھانا ۔ وہ نلش ہونے
چہرے کے شاتھ شابس بچال کرتی اس کی نے ناتی کو ہوا دے رہی ت ھی ۔ میز پر ہاتھ
دھر کر ت ھوڑا ح ھک کر چہرہ اس کے کان کے قریب ک یا۔
” پہاں پہی سب ہو گا ی یگم ک نونکہ پہاں یہ تم ھاری امی ہیں یہ میری امی ہیں “
کان کے قریب سرگوسی کرنے کے بعد وہ سرارت سے مسکرا نا ہوا س یدھا ہوا
165
ت
ل نوں کو ھییچ کر ت ھ نوں کو سرارت سے اوپر ییجے بچانا اد ینہ کے شاتھ کی کرسی کو ک ھییچا اور
ٹیتھ گ یا ۔
اد ینہ نے ٹیساتی پر نل ڈال کر نوح ھا۔ میسم نے ی یکن کو ح ھاڑنے ہوۓ فہفہ لگانا ۔
” آف کورس “
ہاتھ کو ہوا میں ات ھا کر سرارت سے آپرٶ جڑھانا اور سر کو ح ھکانا ۔ اح ھا نو یہ نات ہے اد ینہ
نے دایت ٹیسنے ہوۓ سوجا ۔
” میسم “
نالنے کا انداز چقگی لنے ہوۓ ت ھا ۔ میسم خو اس کے شا منے نل بٹ رکھ رہا ت ھا مصروف سے
انداز میں بظریں ات ھاٸیں ۔
” جی ی یگم “
ً
قورا ی یار سے کہا اور ڈش کو اد ینہ کی طرف پڑھانا ۔ اد ینہ نے غصے سے شا منے رک ھی نل بٹ کو
ایتی طرف ک ھییچا ۔ کچھ ت ھی کہنے کا اردہ پرک کرتی اب وہ ک ھانا ک ھانے پر مچ نور ہو جکی ت ھی
166
ک ھانا شاٸد کہیں سے آرڈر ک یا ت ھا جس کی خوسنو اد ینہ کی ت ھوک کو پڑھا جکی ت ھی اور ناراضگی
کے مقا نلے میں نلڑا ت ھاری کر جکی ت ھی
ک ھانے کے بعد خب وہ کیڑے ی یدنل کرنے کے بعد ناہر آٸ میسم پہلے سے کمرے میں
موخود ت ھا ۔ مسکراہٹ دنا نا ییچ ھے ہاتھ ناندھے اد ینہ کی طرف پڑھا وہ وہیں رک گٸ ۔ راہ
قرار کے آگے وہ جاٸل ت ھا
آہسنہ سی آواز میں کہ یا وہ اب نلکل شا منے ک ھڑا ت ھا ۔ اد ینہ کے ہاتھ آگے نا کرنے پر وہ
اب ح ھک کر اس کےہاتھ کو ت ھام چکا ت ھا ۔ نازو گ ھما کر دوسرے ہاتھ سے رنگ کو آگے
ک
ک یا وہ طلسم ت ھونک چکا ت ھا جس کے سچر میں جکڑی وہ اس ملجے ہاتھ ییچ ھے پہیں ھییچ شکی
ت ھی ڈاٸم یڈ رنگ کو اد ینہ کے ہاتھ میں پہ یا کر مچ بت سے اس کی خیرت سے کھلی آنک ھوں
میں دنک ھا ۔
” یہ منہ دک ھاٸ “
آہسنہ سی جزنات میں ڈوتی آواز ت ھی اد ینہ نے انگوت ھی کی طرف دنک ھا دل نے اس کے
اییچاب کی داد دی ۔ اور شادی کے پہلی رات ذہن میں گھوم گٸ غورت کا پہی المنہ
167
ہے ہر ملجے کا موازیہ ٹینے لمچات سے صرور کرتی ہے اور وہ ت ھی اس وقت ذہن میں پہی کر
رہی ت ھی ۔
” اد ینہ مانا پہت علط سوج یا رہا پہت دکھ د ییا رہا پر تم سے ی یار پہت کرنا ہوں اور ی یا پہیں
کب سے کرنا ہوں “
مصنوط ہت ھیلی نے اد ینہ کی گال کو ح ھوا ۔ لمس میں نے ی یاہ جاہت ت ھی اور میسم کے
چہرے پر الیچا ۔
” اور شک ت ھی ک یا “
اد ینہ نے مدھم سی آواز میں کہنے ہوۓ شکوہ ک یا ۔ آنکھوں میں ذہن کے اندر ہونے والی
کسمکش کی لکیریں ت ھیں ۔
” اد ینہ ذہن نے سب کچھ خود سے ہی گڑھ ل یا اور جاالت ا بسے ٹینے جلے گنے کہ “
168
بچارگی سے کہنے ہوۓ رکا اب وہ دوسری ہت ھیلی کو اس کے دوسرے گال پر رکھ چکا ت ھا ۔
مچ بت سے چہرہ ت ھام کر سر ح ھکانا۔ میسم کے چہرے کو قریب آ نا دنکھ کر رپڑھ کی ہڈی میں
سیس یاہٹ ہوٸ ۔ نوکھال کر میسم کے دونوں ہاتھ ا نیے گال پر سے ہ یاۓ
لہجے کو ذہن کے مطانق ڈھاال وہ اب بچارگی سے اد ینہ کے چہرے کی طرف دنکھ رہا ت ھا ۔
ہمت پہیں ہارتی میسم مراد دل کی دس یک پر ت ھر سے آگے پڑھا
اد ینہ کے سر سے ای یا سر خوڑے روہابسی سی آواز میں کہا ۔ اد ینہ نے دنوں ہات ھوں کو
میسم کے سینے پر رکھ کر آہس یگی سے ا نیے سے دور ک یا ۔
” اد ینہ ک یا ہے نار “
الیچاٸ انداز میں کہنے ہوۓ اب وہ ک یدھے گراۓ ک ھڑا ت ھا ۔ ک یا ہے اور کیتی سزا نافی ت ھی
اب اس کی نے رجی پرداست سے ناہر ہو رہی ت ھی ۔
” مچ ھے وقت جا ہنے “
169
اد ینہ نے رخ دوسری طرف موڑا ۔ ات ھی سہی وقت پہیں ہے معاف کرنے کا ات ھی اگر
معاف ک یا نو میسم کو لگے گا ان سب خیزوں کے لنے ک یا آنکھوں کو زور سے ی ید کنے دل
کو سمچ ھانا ۔
” کی یا؟ “
” معلوم پہیں “
” ت ھیک ہے جی یا ت ھی وقت جا ہنے دوں گا پر تمہیں ادھر رہ یا میرے ناس ہاس یل میں
پہیں “
میسم نے گزارش کے انداز میں کہا بظریں اس کے بست پر نک ھرے نالوں پر ت ھیں ۔
” ت ھیک ہے “
” سو پہاں شک یا ہوں “
170
” پہیں “
ُ
اد ینہ نے دل پر ہاتھ دھرے اسی لہجے میں خواب دنا ۔
” ”ت ھیک ہے “
ت
ت ھیکی سی مسکراہٹ چہرے پر سچاٸ لب ھییچ کر کمرے پر بظر گ ھماٸ اور ت ھر آہسنہ ا لنے
ناٶں جلیا ہوا ناہر بکل گ یا ۔ اد ینہ نے آہسنہ سے رخ موڑا ۔
” سوری میسم “
ل نوں کو بخوں کی طرح ناہر بکالے خود شاخنہ سرگوسی کی دل اس کو نوں نار نار دھ ٹکار کر
اب پرم پڑ چکا ت ھا غصے کا طوقان سیشہ نالٸ دنوار کو ہال چکا ت ھا ۔
******
ی یا نے شکوہ کرنے ہوۓ اد ینہ کے ک یدھے پر ہاتھ رک ھا ۔ وہ لوگ الہور اٸپر نورٹ پر
ک ھڑے تھے چہاں وہ میسم کو الوداع کرنے آٸ ت ھی اس کی طرح اور ت ھی پہت سی قومی
کرکٹ یتم کے کھالڑنوں کی ی یگمات ا نیے سوہر چصرات کو الوداع کرنے آٸ ت ھیں اور
پہت سی شاتھ جا رہی ت ھیں۔
171
” جی پر مچ نوری ہے ہاٶس جاب کے السٹ میتھ جل رہے ہیں نو ح ھتی پہیں مل شکی “
اد ینہ نے مسکرا کر ی یا کی نات کا خواب دنا اور ت ھر سے انک بظر کچھ قاضلے پر ک ھڑے میسم
پر ڈالی خو اشد اور طلحہ کے شاتھ نانوں میں مشغول ت ھا ۔
دو دن میسم پری طرح پرنک نیس میں مصروف رہا ت ھک کر گ ھر آ نا ت ھا اور اوپر موخود دوسرے
ی یڈ روم میں سو جا نا ت ھا اب ٹیسرے دن ان کی آسیرنل یا کے لنے قالٸیٹ ت ھی چہاں شڈتی
میں ان کا پہال تی نوٹیتی میچ آسیرنل یا کے شاتھ ت ھا۔
ہ
” ممم اٸ کین ای یڈرس نی یڈ “
ی یا اب ہلکا شا فہفہ لگانے ہوۓ کہہ رہی ت ھی ۔ اد ینہ نے دھیرے سے سر ہالنا ۔ میسم اب
اس کی طرف آ رہا ت ھا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا اداسی دھواں ین کر نورے وخود میں
ت ھرنے لگی ت ھی آنک ھوں میں جلن سی ہوٸ اور شا منے سے آ نا میسم دھ یدلہ شا پڑا نورے
بچیس دن تھے خو اسے میسم کے ی یا گزارنے تھے ۔ ی یا میسم کو آ نا دنکھ کر انک طرف جل
دی ت ھی اب وہ نلکل شا منے آ کر ک ھڑا ت ھا چہرے پر وہاں ت ھی اداسی ت ھی ۔
172
” ای یا ج یال رک ھیا “
آہسنہ سی آواز میں کہا شابس کو ضٹط کرنے کے انداز میں اندر ک ھییچا اور ت ھر ج بب میں
سے کرنڈٹ کارڈ بکال کر اد ینہ کی طرف پڑھانا ۔ اد ینہ نے اداسی سے کارڈ کو دنک ھا
” پہیں جا ہنے “
آہسنہ سی آواز میں کہنے ہوۓ آبسوٶں کو ح ھیانا۔ خو پری طرح ح ھلکنے کو ی یار تھے ۔
” ت ھر ت ھی رک ھو صرورت پڑ شکتی ہے “
میسم نے رعب سے ڈ ٹینے کے انداز میں کہا ۔ اور کارڈ والے ہاتھ کو زور سے ہالنا ۔
ہ
” ممم “
اد ینہ نے آہسنہ سی آواز میں کہنے ہوۓ کارڈ کو ت ھاما ۔ وہ س یاہ رنگ کے سقون خوڑے میں
اداس سی اس کے دل کو نے قرار کر گٸ ت ھی دل کے ہات ھوں مچ نور ہو کر نے شاخنہ
آگے پڑھ کر اسے انک طرف سے بعل میں ل یا اور ل نوں کو اس کے سر پر رکھ دنا اد ینہ نے
ن
زور سے آ ک ھیں ی ید کی نو آنک ھوں کے ک یاروں پر موخود آبسوٶں لڑھک گنے جلدی سے اس
کے سینے میں منہ ح ھیا کر آبسو ضاف کنے ۔ میسم کے دل کے دھڑ کنے کی آواز کان ضاف
سن شکنے تھے ۔ اٸپر نورٹ پر ان کی قالٸٹ کی اناونٸسمی بٹ گوبج رہی ت ھی ۔
173
” اح ھا جلیا ہوں “
میسم نے آہسنہ سے اسے خود سے الگ ک یا ۔اور ت ھر تیز تیز قدم ات ھا نا آگے پڑھ گ یا سر کی
مانگ ات ھی ت ھی اس کے لمس سے آس یاٸ لنے ہوۓ ت ھی جیسے وہ خود نو جال گ یا پر ای یا شارا
اپر سر کی مانگ پر حھوڑ گ یا اد ینہ خود کو سیت ھالتی اس وقت نک وہیں ک ھڑی رہی خب نک
وہ بظروں سے اوح ھل پہیں ہوا ۔ میسم اب اور ناراض پہیں رہ شکتی میں آپ سے خود سے
سرگوسی کرتی نوح ھل سے قدم ات ھاتی آگے پڑھ گٸ ۔
********
174
” اوکے نو آپ لوگ جلیں ت ھر ل بب میں “
نوقیر نے کاعز کو ی ید کرنے ہوۓ کہا ۔ میسم سر ہال نا ہوا اب اپراہ تم اور صقدر کے شاتھ
آگے پڑھا کچھ قاضلے پر ہی اٸ ۔سی۔سی کی ل بب میں ان کے نورین شام یل لینے کے بعد
ات ھیں وابس ت ھیج دنا گ یا ۔ "
******
قراز نے ت ھولی شابس کے شاتھ نوقیر کو مچاظب ک یا ۔ نوقیر نے گردن گ ھما کر قراز کی طرف
دنک ھا جس کا چہرہ پربساتی لنے ہوۓ ت ھا ۔
” ک یا “
نوقیر خیرت سے ک ھڑا ہوا ۔ قراز کی طرح اب اس کے چہرے پر ت ھی خیرت کے شاتھ شاتھ
پربساتی در آٸ ت ھی ۔ وہ ا نیے کمرے میں جاۓ ٹینے میں مصروف ت ھا خب قراز نوکھالنا شا آنا
۔
ن
” جی نلکل ابسا ہوا ہے یہ رنورٹ د یں “
ھ ک
175
قراز نے آہسنہ سے سرم یدہ آواز میں کہنے ہوۓ ۔ ہاتھ میں نکڑا سف ید کاعز نوقیر کی طرف
پڑھانا ۔ نوقیر کی بظریں اب کاعز پر دوڑ رہی ت ھیں چہاں ضاف ضاف لک ھا ت ھا کہ میسم مراد
نے ای یا اپرجی ل نول پڑھانے کے لنے م یڈبسن لی ہے ۔
ً
” میسم کہاں ہے قورا نالٶ اسے “
بچلے لب کو نے دردری سے دای نوں میں لے کر ک ھییچا اور قراز کی طرف دنک ھا ۔ قراز گردن
ہال نا ہوا انک طرف پڑھ گ یا۔
********
تی وی پر جلتی خیر پر وہ خیران سی ہوتی ناس پڑے صوفے پر انک طرف ٹیتھ گٸ ت ھی۔
اس کی آج ناٸٹ سقٹ ت ھی ات ھی ہاسی یل پہیچ کر وہ ڈاکیر عاند کے شاتھ راٶنڈ پر ہی ت ھی
ت م چی س ک ھی
خب ماہ رخ اسے زپرد تی تی ہوٸ س یاف روم یں لے آٸ ھی چہاں شا منے تی وی
شکرین پر ای یکر پرنک یگ ی نوز د نیے میں مصروف ت ھی۔
ٓ ین
”قومی یتم کے اوتیر یسم نین میسم مراد کا ڈوپ ٹیسٹ می بت اگ یا ،تی سی تی کی انک
کمیتی اس خوالے سے بخف ٹقات کر رہی ہے ۔“
176
ای یکر کے ہر لفظ پر اد ینہ کے ما تھے کے نل خیرت سے اور پربساتی سے پڑھ رہے تھے۔ ابسا
کتھی ہو ہی پہیں شک یا ت ھا دل کو میسم پر اندھا اع تماد ت ھا ۔ تی وی شکرین پر نار نار پربسان
سے میسم کو دک ھا رہے تھے خو شاٸد ہاتھ ات ھا کر کسی سخص سے نات کر رہا ت ھا جس میں
وہ نے جد پربسان لگ رہا ت ھا ۔ اد ینہ کے دل کو جیسے کسی نے متھی میں ل یا میسم کی
پربساتی اس کا پربسان چہرہ دل کو بکل ٹف دے رہا ت ھا ۔
ٓ
”میسم مراد کا ڈوپ ٹیسٹ می بت انے کے ناعث ا یں نابچ ماہ نا اس سے زاند وقت کی
ہ پ
نای یدی کا شام یا کرنا پڑشک یا ہے۔ج یال رہے کہ نورڈ بخف ٹقات کرے گا کہ اپہوں نے
کوبسی مم نوعہ دوا کب اور ک نوں اسٹعمال کی ناہم میسم مراد کو ت ھی موفف ٹیش کرنے کا
موفع دنا جانے گا ت ھر ان کی سزا کا بعین ہوگا۔“
ٹ ٹ
ای یکر نول رہی ت ھی اد ینہ نے جیتی سے ہوی نوں پر ہاتھ ر کھے یتھی ت ھی ناس یتھی ماہ رخ کی
پربساتی کا ت ھی کچھ پہی جال ت ھا ۔ نار نار شکرین پر ی نوز کو دہرانا جا رہا ت ھا اور میسم کی پربسان
صورت دک ھاٸ جا رہی ت ھی۔
ٓ
”واضح رہے کہ اتی سی سی نے نومیر 2015میں ناکس یاتی ل یگ اسییر ناسط گل کو ڈو ییگ
پر معطل کر دنا ت ھا ،اپہیں 3شال کی نای یدی ت ھگی یا پڑی ت ھی خب کہ ناکس یان کے ارشد
177
ٓ
علی ،عاند درند ،اخیر علی اور وجاہت جسن کا تھی ماضی میں ڈوپ ٹیسٹ می بت ا چکا
ہے۔“
ٹ
ی نوز ای یکر رواتی سے نول رہی ت ھی اد ینہ نے روہابسی سی صورت ی یا کر ناس یتھی ماہ رخ کی
ٹ
طرف دنک ھا خو خود خیرت زدہ شا پربسان چہرہ لنے یتھی ت ھی ۔
********
میسم نے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور پربسان سے لہجے میں شا منے ٹیت ھے نوقیر عامر کی طرف
دنک ھا خو اس سے ت ھی زنادہ پربسان صورت ی یاۓ ٹیت ھا ت ھا ۔ ہاتھ میں رنورٹ کا کاعز نکڑے
وہ نار نار رنورٹ پر بظر ڈال رہا ت ھا ۔ انکواٸری روم میں اب صرف وہ دو لوگ موخود تھے ۔
انکواٸری یتم اب اتھ کر جاجکی ت ھی ۔
” آبکا ٹیسٹ نوز ینو ہے اب کیسے بقین دالٸیں سب کو اوپر سے کل میچ میں صرف
تم ھاری وجہ سے ج بت ممکن ہوٸ ت ھی تم نے ای یا شکور ک یا یہ صرور آسیرنل یا کی یتم نے آٸ
سی سی پر تم ھاری ڈو ییگ کا سنہ طاہر ک یا ہے “
178
نوقیر نے کاعز کی طرف بظریں حماٸیں ۔ میسم نے نے بقی تی سے نوقیر کی طرف دنک ھا ک یا
وہ ت ھی اس کا بقین پہیں کر رہے تھے وہ صیح سے صقاٸ دے دے کر ت ھک چکا ت ھا ۔
میسم نے ہاتھ کا اشارہ ٹییر کی طرف ک یا گال نار نار جسک ہو رہا ت ھا ٹیساتی پر ذہن پر نار نار زور
ڈا لنے کی وجہ سے شکن پڑے ہوۓ تھے۔
نوقیر نے آہسنہ سی آواز میں کہا اور ت ھر گہری شابس لینے ہوۓ کرسی کی بست سے سر
بکانا ۔
” نوقیر سر مچ ھے میرا موفف ٹیش کرنے دیں میں ح ھوٹ پہیں نول رہا مچ ھے ابسا لگ یا ہے یہ
ڈرگز مچ ھے دھوکے سے دی گٸ ہیں “
میسم نے پربسان سے لہجے میں الچھ کر کہا نوقیر اب غور سے میسم کی طرف دنکھ رہا ت ھا ۔
” میسم ذہن پر زور ڈالو بچ ھلے کچھ دنوں میں یتمار ہوۓ ہو نو دواٸ ناہر سی لی ہو“
179
نوقیر نے پرسوچ انداز میں اسے ذہن پر زور ڈا لنے کا کہا وہ پہلے سے ہی ا نیے سر کو دونوں
ہات ھوں میں جکڑے ٹیت ھا ہوا ت ھا ۔
میسم نے پربسان سے لہجے میں کہنے ہوۓ ذہن پر زور ڈاال ل یکن ابسا کچھ ت ھی ناد پہیں آ رہا
ت ھا ۔ دل عچ بب طرح گ ھین کا سکار ت ھا ۔ دماغ شاٸیں شاٸیں کر رہا ت ھا سرم یدگی الگ
سے ت ھی۔ نوقیر اب کرسی پر سے اتھ کر ک ھڑا ہو چکا ت ھا ۔
” اح ھا پربسان یہ ہو ہللا پہیر کرے گا اگر یہ سب تم ھارے جالف شازش ہے نو پہت جلد
نے بقاب ہو گی “
نوقیر نے میسم کے ک یدھے پر ہاتھ ر کھے کہا اور ت ھر کمرے سے ناہر بکل گ یا ۔ اور وہیں
جالی انکواٸری روم میں سر ح ھکاۓ ٹیت ھا ت ھا۔
*********
مراد احمد تی وی شکرین پر تمام ی نوز جی یل ند لنے ند لنے انک پر رک گنے تھے ۔ شارے گ ھر
والے اداس صورت ی یاۓ تی وی کے شا منے ٹیت ھے تھے ۔ رابعہ عزرا نو ناقاعدہ رو رہی ت ھیں
کوٸ ضچافی سڑک جلنے مچیلف لوگوں سے میسم کی ڈو ییگ پر اظہار راۓ لے رہا ت ھا ۔
180
” میں نو پہلے ت ھی سوج یا ت ھا کہ ایتی ناور ایتی اپرجی دال میں کچھ نو کاال ہے “
کمر پر ہاتھ دھرے جالیس کے لگ ت ھگ سخص ماٸک میں کہہ رہا ت ھا ۔ شکرین ندلی ۔
سر کو زور زور سے ہال کر ادھیڑ غمر سخص نے مسکرانے ہوۓ کہا ۔شکرین ندلی ۔
ناٸبس شالہ لڑکا خوش میں ماٸک پر ح ھکا نول رہا ت ھا ۔ شکرین ندلی
” اوہ نات س نیں سر ناکس یاتی دو تمیر کام میں ہے ہی آگے کس کس کو نکڑو بچ ھلے ورلڈ
کپ میں ناسط ت ھا اس میں یہ جس سے ام ید خوڑ لو شاال وہی ابسا بکل آ نا “
181
نان کی بخکاری مار کر ج ت ھیس شالہ لڑکے نے خوش سے کہنے ہوۓ ما تھے پر شکن ڈالے ۔
*********
خوبصورت سے الوبج میں لگی پہت پڑی قل بٹ ٹی یل تی وی شکرین پر بظریں حماۓ وہ
ٹ
اداس سی یت ھی ت ھی آبسو آنکھوں میں حمک رہے تھے ۔
” ح ھنیس شالہ میسم مراد کا س یارہ گردش میں ڈوپ ٹیسٹ می بت ہونے کی وجہ سے اٸ سی
سی اور تی سی تی نے ان پر قلچال نابچ ماہ نک کسی ت ھی طرح کی اتیرٹیس یل اور ڈومیس یک
ت
کرکٹ ک ھیلنے پر نای یدی عاٸد کر دی ہے اور ات ھیں ناکس یان وابس ھیچنے کا ق ٹصال کر دنا گ یا
ہے “
ای یکر نے ہاتھ ناندھ کر شا منے ر کھے میز پر دھرے اور رواتی سے خیر کو پڑھا ۔ میسم کو اٸپر
نورٹ پر دک ھانا جا رہا ت ھا وہ سرم یدہ شا سر ح ھکاۓ ہوۓ ت ھا ۔
” میسم مراد سیرل یگ سے پہیرین کارکردگی دنک ھا کر قومی یتم کا چصہ ٹینے والے واجد کھالڑی
ہیں “
182
ای یکر رواتی سے نول رہا ت ھا شاتھ شاتھ میسم کی بچ ھلے میچز کی کاکردگی دک ھاٸ جا رہی ت ھی ۔ اور
کتھی انک طرف پربسان جال میسم خو اٸپر نورٹ پر وابسی کے لنے ک ھڑا ت ھا ۔ اد ینہ نے
گال پر لڑھک آنے والے آبسو ضاف کنے ۔ اور جی یل ندلہ
” ات ھی نک وہ نابچ ٹیسٹ دس ون ڈے اور ٹیس تی نوٹی تی ک ھیل جکے ہیں خن میں وہ
پہیرین کارکردگی دک ھانے ہوۓ نورے ناکس یان میں ای یا نام ی یا جکے ہیں “
” نابچ ماہ کی نای یدی میں بخف ٹقات کے بعد ان کے خق میں قاٸنل ق ٹصلہ اٸ سی سی
دے گی “
ای یکر نے سیچیدہ سی سکل میں کہا ۔ اد ینہ نے جلدی سے تی ی ید کر دنا بس اب اور دنکھا
پہیں جا رہا ت ھا ۔
********
” میسم دنکھ دل ح ھونا نلکل پہیں کرنا بخف ٹقات ہونے دے مچ ھے ی یا ہے کہ کوٸ فصور
پہیں تم ھارا “
183
اشد نے میسم کے ک یدھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور ت ھر زور سے گلے لگانا ۔ وہ ہاتھ میں کیری
ی یگ کا ہی یڈل ت ھامے اداس سی سکل ی یاۓ ک ھڑا ت ھا ۔ سنو ان ٹین دنوں میں زنادہ پڑھ
گٸ ت ھی۔
” کوٸ نات پہیں سب سب کلیر ہو جاۓ گا ا بسے پہت سے ورلڈ کپ اور آٸیں گے
میری جان “
طلحہ نے زور سے گلے لگانا۔ میسم کے ل نوں پر ت ھیکی سی مسکراہٹ ات ھری ۔ خود کو طلحہ
سے الگ ک یا ۔
پہت دور سے آتی ہوٸ آواز ت ھی ۔ ضٹط کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو رہا ت ھا ۔
184
*******
ماٸک ت ھامے آدمی اد ینہ کے نلکل شا منے آ گ یا ت ھا وہ ات ھی ہاسی یل سے ناہر ہی بکلی ت ھی
خب شا منے سے دو لڑکے اس کی طرف لیکے انک کے ہاتھ میں ماٸک ت ھا نو دوسرا کتمرہ
کو کاندھے پر بکاۓ ہوۓ ت ھا وہ کسی جی یل سے تھے شاٸد ۔
”متم نلیز آپ ک یا کہتی ہیں ا نیے ہیزٹی یڈ کے ڈو ییگ ابسو کے نارے میں “
ضچافی نے اد ینہ کے شاتھ قدم مالنے ہوۓ تیزی سے کہا ۔ اد ینہ نے سر ح ھکا کر قدموں
کی رق یار اور تیز کر دی ۔ ٹیساتی پر شکن تمودار ہوۓ تھے
دوسی طرف سے اجانک انک اور جی یل کا ضچافی تمودار ہو ا اد ینہ انک دم سے رکی ناگواری سے
دونوں کی طرف دنک ھا ۔
185
” مچ ھے میرے سوہر پر نورا بقین ہے میرے سوہر کتھی ابسا پہیں کر شکنے ان کے جالف
شازش ہے یہ سراسر شازش “
” انکسک نوزمی “
اد ینہ نے ک یدھے کو ت ھوڑا شا حم دے کر سر ح ھکانا اور قدم آگے پڑھاۓ پر ضچافی شاتھ
شاتھ جلیا سروع ہو جکے تھے ۔
ضچافی نے تیزی سے کہنے ہوۓ اد ینہ کے چہرے کے شا منے ت ھر سے ماٸک ک یا۔ اد ینہ
کے جلنے قدم ت ھر سے ت ھم گنے ۔ ہاسی یل کے گارڈ اب اد ینہ کی مدد کے لنے وہاں پہیچ
جکے تھے ۔ آس ناس کے لوگ ت ھی م نوجہ ہو جکے تھے اور ضچاق نو کے گرد اک ھیا ہونے لگے
تھے ۔
186
ن
اد ینہ نے پرشکون لہجے میں کتمرے کی آنک ھوں میں آ ک ھیں ڈال کر کہا ۔ اور دل جای یا ت ھا وہ
سچ کہہ رہی ہے گ ھر کی ٹیسری میزل نک گی ید صرف اسکا میسم ہی پہیچانا کرنا ت ھا ۔ اس نے
جلنے سے پہلے نلے کو درست نوزبسن میں نکڑنا س یکھ ل یا ت ھا ۔ پڑھاٸ کے وقت ت ھی خو ک یانوں
میں ح ھیا کر گی ید سے ک ھیلیا رہ یا ت ھا وہ اس ک ھیل سے عداری کیسے کر شک یا ت ھا ۔
اد ینہ نے گردن کو ت ھوڑا اوپر ک یا اس کی آواز میں اس کا عتماد اس کا ی یار ح ھلک رہا ت ھا۔
آنکھوں میں میسم کی بکل ٹف اس کے دکھ کی وجہ سے تمی ت ھی ۔
” متم ت ھر ڈوپ ٹیسٹ ک نوں نوز ینو آنا اس کے نارے میں ک یا کہیں گی آپ “
اد ینہ نے پر اعتماد اندز میں کہا ۔ اور تیزی سے قدم آگے پڑھا دنے گارڈ اب اد ینہ کے ارد
گرد جل رہے تھے اور ضچاق نوں کو دور کر رہے تھے ۔
187
” نو یہ نو آپ آٸ سی سی کو علط کہہ رہی ہیں متم ؟“
ضچافی نے شاتھ شاتھ قدم مالنے ہوۓ تیزی سے کہا۔ اد ینہ نے جل یا اور تیز کر دنا ت ھا
گال ٹینے لگے تھے ۔
ضچافی نار نار اسی سوال کو دہرا رہا ت ھا۔ اور ہاسی یل کی گ بٹ سے لے کر سڑک نک کی
راہداری پر وہ تیز تیز قدم اد ینہ کے شاتھ ات ھا رہے تھے ۔ اد ینہ ک بب کو پہلے سے ہی نلوا
جکی ت ھی خو کب سے ای ٹطار میں ت ھی ۔
اد ینہ نے ہاتھ ہوا میں ات ھانے ہوۓ تیزی سے کہا ک بب شا منے ہی ک ھڑی ت ھی جلدی
سے اس میں ٹیتھ کر ڈراٸنور کو جلنے کا اشارہ ک یا اور سر سبٹ کی بست سے بکا دنا ۔ آبسو
اب پہنے سے اور زنادہ پہیں رک شکنے تھے ۔ اگر مچ ھے ای یا دکھ ایتی بکل ٹف ہو رہی ہے نو میسم
کا ک یا جال ہو گا دل کو کوٸ متھی میں ت ھر کر دنوچ رہا ت ھا ۔ گرم س یال آنکھ سے پہہ کر
گال ت ھگو رہا ت ھا ۔
188
*******
وہ جیسے ہی اٸرنورٹ سے ناہر بکال نو پہت سے ای ٹطار میں ک ھڑے ضچافی ل یک پڑے تھے
اسی نات کے ٹیش بظر تی سی تی نے میسم کو اٸپر نورٹ پر شک نورتی قراہم کی ت ھی ٹین
گارڈ میسم کے آگے ییچ ھے اسے بچافظ دنے ہوۓ تھے اور اب آگے پڑ ھنے ضچاق نوں کو ت ھی
میسم سے دور رک ھنے کے لنے نازو جاٸل کر رہے تھے میسم س یاہ گالسز لگاۓ سر ح ھکاۓ
شا منے ک ھڑی گاڑی کی طرف پڑھ رہا ت ھا۔ جس نے اسے بچافظ سے گ ھر نک پہیچانا ت ھا ۔
” سر سر کچھ کہ یا جاہیں گے آپ “
ضچافی تیز تیز قدم شاتھ مال رہے تھے ۔ میسم لب ت ھییجے جاموسی سے جل رہا ت ھا ۔ شک نورتی
گارڈز نازو آگے کرنے ہوۓ میسم کو گ ھیرے ہوۓ جل رہے تھے۔
دوسرا ضچافی نول رہا ت ھا اور اس طرح کے ڈھیروں دل کو ح ھلتی کر د نیے والے سواالت ارد
گرد سے اس پر کیچڑ کی طرح اح ھالے جا رہے تھے ۔ چہرہ پزل یل کے اجساس سے سرخ پڑ
رہا ت ھا اس نے کتھی سوجا ت ھی پہیں ت ھا اسے ا بسے وقت کا ت ھی شام یا کرنے پڑے گا ۔
189
” سر کون لوگ ہیں آ نکےج یال میں اس سب کے ییچ ھے اور آ نکے شاتھ کوٸ ک نوں ابسا
کرے گا “
میسم کار نک پہیچ چکا ت ھا ۔ جلدی سے بچ ھلی سبٹ کا دروازہ ک ھوال ۔ اس کے کار میں ٹیت ھنے
ہی اب گارڈ کار کے شا منے لگی ت ھیڑ کو ہ یا رہے تھے ۔
” سر سر نات س نیں “
ضچافی اب کار کی ک ھڑک نوں سے ح ھانک رہے تھے ۔ سیشہ اوپر جڑھ رہ ت ھا اور ضچافی دونوں
اطراف سے ہاتھ رک ھنے ہوۓ سیسوں کو اوپر ہونے سے روک رہے تھے ۔ کار آہسنہ سے
آگے پڑ ھنے لگی ت ھی ۔
” سر انک م بٹ “
ضچافی اب کار کے ییچ ھے جل رہے تھے کار کی رق یار جیسے ہی تیز ہوٸ شارے مانوس سی
سکل ی یاۓ ا نیے ا نیے کتمروں کے آگے ک ھڑے ہو جکے تھے ۔
*******
190
الٶ بج میں لگے صوفے پر ٹیت ھا ت ھا اد ینہ ک ھانے کے میز پر پرین رک ھنے ہوۓ نار نار میسم کی
طرف دنکھ رہی ت ھی ۔ وہ کچھ دپر پہلے ہی گ ھر پہیچا ت ھا ۔ بظریں جرا نا شا سرم یدہ شا ت ھکا شا وہ
ففط شالم کرنے کے بعد کمرے میں جال گ یا ت ھا اور اب کیڑے ی یدنل کرنے کے بعد وہ
انک گ ھینے سے تی وی کے شا منے ٹیت ھا ت ھا ک ھونا شا نک ھرا شا جس کو دنکھ دنکھ کر اد ینہ کے
دل میں ٹیس اتھ رہی ت ھی ۔
ہاں وہ ناتی ذہن میں جیسے ح ھماکہ ہوا شڈتی س یڈتم میں سییچری کے بعد اسے ناتی نالنے آنا
ت ھا کوٸ لڑکا ہاتھ میں نونل ت ھی اور نازو پر ناول نونل س یل ی ید ت ھی ہاں س یل ی ید ت ھی اس
کا ک بپ میں نے ہی کھوال ت ھا پر ناتی کا ٹیسٹ عچ بب ت ھا پر ی یاس کی وجہ سے تی گ یا ت ھا
میں اوہ جدانا ۔
اد ینہ کی آہسنہ سی آواز پر وہ ج یالوں سے ناہر آنا ذہن میں جیسے ہتھوڑے جلنے لگے تھے
مطلب خو کوٸ ت ھی ت ھا وہ ناکس یاتی یتم میں سے ت ھا ۔ح ھماکے سے قواد کا اور شازل کا چہرہ
بظروں کے شا منے گ ھوم گ یا ۔
” ت ھوک پہیں ہے تم ک ھا لو “
191
ک ھوٸ سی آواز میں اد ینہ کی طرف د نک ھے ی یا اسے خواب دنا ۔ اد ینہ نے اداس سی صورت ی یا
کر دنک ھا ۔ انک بظر شا منے جلنے تی وی پر ڈالی تی وی شکرین پر مچیلف لوگ میسم کے
جالف نول رہے تھے ۔ ک نوں دنکھ رہے ہیں یہ سب اد ینہ نے بچارگی سے تی وی کی
طرف دنک ھا ۔
ن
” میسم یہ مت د یں یہ زنادہ پربسان ہوں گے آپ “
ھ ک
اد ینہ نے آہسنہ سی آواز میں کہنے ہوۓ ت ھوڑا شاآگے ہو کر میسم کے چہرے کی طرف دنک ھا
۔ پر وہ نو و بسے ہی ٹیت ھا ت ھا ۔ چہرے پر نال کی پربساتی ت ھی نو ٹیساتی پر شکن تھے ۔
اد ینہ نے میسم کے ہاتھ سے ر تموٹ ک ھییچا ۔ اور تی وی ی ید کر دنا ۔ وہ خو سوخوں میں الچ ھا
ٹیت ھا ت ھا انک دم سے جیسے دماغ ت ھینے پر آنا ۔
غصے سے دھاڑا ۔ وہ خو تی ی ید کرنے کے بعد مڑی ہی ت ھی میسم کی ایتی اوبخی آواز پر لرز
گٸ ۔ وہ آنکھوں میں خون شا ت ھرے ما تھے پر نل ڈالے اسے ناگواری سے گ ھور رہا ت ھا ۔
192
غصے سے اد ینہ کے ہاتھ سے تی وی کا ر تموٹ ک ھییچا اور ت ھر سے تی وی آن ک یا ۔ اد ینہ
کا دل جیسے کسی نے آری سے کاٹ دنا ت ھا بکل ٹف اس کے اس رونے کی پہیں اس
کے دکھ کی ت ھی ۔وہ پہت پربسان ت ھا اور اس کی پربساتی اد ینہ کے لنے سوہان روح ت ھی ۔
ُ ن
اد ینہ کچھ دپر ک ھڑی نوں ہی اسے د ک ھتی رہی ت ھر ک ھانے کے میز پر لگے پرین سم بٹ کر
جاموسی سے کمرے کی طرف پڑھ گٸ ۔
ات ھوں نے ِس یل ی ید نونل میں م یڈبسن کس طرح ڈالی ہو گی ۔ ت ھورڈی پر نے جیتی سے
ہاتھ ت ھیرا ۔ نے جیتی سے لب کچلنے تی وی کے جی یل ی یدنل کنے اور انک جگہ ہاتھ ت ھم
گنے ۔ اد ینہ شکرین پر ماٸک کے آگے نول رہی ت ھی۔
” مچ ھے میرے سوہر پر نورا بقین ہے میرے سوہر کتھی ابسا پہیں کر شکنے ان کے جالف
شازش ہے یہ سراسر شازش “
193
میسم نے سرم یدگی سے سر ح ھکا ل یا ۔ اد ینہ کی آنکھوں میں حمکنے آبسو اور ان میں تیرتی اس
ن
کے لنے مچ بت ضاف بظر آ رہی ت ھی۔ آ ک ھیں تم ہونے لگی ت ھیں ۔
اس کے القاظ تھے پر وہ جای یا ت ھا یہ صرف القاظ پہیں تھے اس کے منہ سے بکال ہر لفظ
اس کے دل پر مرہم رکھ رہا ت ھا ہر اس زحم پر خو ٹین دن سے اس کے دل پر لگ رہے
تھے۔
میسم نے آسمان کی طرف دنک ھا آنکھوں کو ح ھ ٹکا اور تی وی ی ید ک یا صوفے کی بست سے سر
بکانا ۔ گود میں پڑے کسن کو انک ہاتھ سے ات ھا کر انک طرف مارا اور کمرے کی طرف قدم
پڑھاۓ ۔
194
اس کے گود میں دھرے سر کی طرف دنک ھا وہ بخوں کی طرح نانگوں کو سم بٹ کر انک ہاتھ
ن
سے اد ینہ کے گ ھی نے کو ت ھام کر آ ک ھیں ی ید کنے لی یا ہوا ت ھا ۔
اد ینہ نے ہاتھ کو میسم کے سر پر رک ھا اور ت ھر دھیرے سے مچروطی ابگل نوں کو نالوں میں
ت ھیرا ۔ میسم نے سر کو اوپر ک یا اور چہرے کا رخ اس کی طرف موڑ کر چہرے کو شاتھ
لگانے ہوۓ ح ھیا ل یا ۔ اد ینہ نے ح ھی بپ کر ییجے دنک ھا پر وہ کمر کے گرد نازو جاٸل کنے
چہرے کو ح ھیاۓ ہوۓ ت ھا۔
اس کے مچملی گداز ابگل یاں میسم کے نالوں میں جل رہی ت ھیں ۔ اور آغوش کی گرمی ایتی
بسکین بحش ت ھی کہ ٹین رانوں سے آنکھوں سے روت ھی ٹی ید ی یار سے دس یک دے جکی ت ھی ۔
میسم کے گہرے گہرے شابس لینے کی آواز پر اجساس ہوا جیسے وہ سو گ یا ہے ۔ ح ھک کر
ییجے دنک ھا وہ چہرہ ی بٹ کے رخ ح ھیاۓ ہوۓ ت ھا پر شابسوں کے اجساس سے ضاف طاہر
م
ت ھا وہ سو گ یا ہے۔ یتھی سی مسکراہٹ ت ھی خو اد ینہ کے ل نوں پر ت ھیل گٸ ت ھی ۔
ک
اد ینہ نے دھیرے سے دوسرے ہاتھ کی مدد سے کمر کے ییجے نکنہ رک ھا ۔ کم یل کو ھییچ کر
میسم کے اوپر اح ھاال ۔ اور ت ھر خیر پہیں ہوٸ کس ملجے وہ میسم کے نالوں میں نوں ہی ہاتھ
ت ھیرنے ت ھیرنے خود ت ھی سو جکی ت ھی ۔
195
اجانک آنکھ کھلی نو عچ بب شا اجساس ہوا اد ینہ کا ہاتھ نالوں میں ت ھیسا ت ھا اور اس کا ای یا
سر اس کی گود میں ت ھا آنکھوں کو اوپر ات ھا کر دنک ھا نو وہ سر کو انک طرف ڈھلکاۓ سو رہی
ت ھی ۔ سر ات ھا کر گ ھڑی کی طرف دنک ھا رات کے دو بج رہے تھے افف وہ ٹین گ ھینے سے
ٹ
نوں یتھی ت ھی
چہرے پر ہوا پڑنے کے اجساس پر آنکھ کھلی نو اد ینہ کے چہرے کو خود پر ح ھکا نانا ۔ وہ
شاٸد کچھ پڑھ کر اس پر تھونک رہی ت ھی ۔ دو ینہ تماز پڑ ھنے کے انداز میں سر پر اوڑھے
ہوۓ نک ھری نک ھری سی وہ اس کے دل کی بسکین کا ناعث ین رہی ت ھی ۔ پڑ نیے دل کو
قرار شا آ گ یا ت ھا رات سے
میسم کے نوں دنک ھنے پر وہ اب چہرے پر نلکیں لرزانے لگی ت ھی ۔ میسم نے اس کے گود
میں دھرے ہاتھ کو ت ھاما ۔
196
” میں نے تم ھاری مچ بت پر ای یا شک ک یا ت ھا یہ اس کی سزا ہے اد ینہ “
مدھم سی آواز نے کمرے کے شکوت کو نوڑا ۔اد ینہ نے پڑپ کر اوپر دنک ھا
” پہیں “
جلدی سے دوسرے ہاتھ کو میسم کے ل نوں پر رک ھا ۔ اور گردن کو بفی میں ہالنا
اد ینہ بظریں ح ھکاۓ پرم سے لہجے میں نول رہی ت ھی اور وہ ہم ین گوش ت ھا ۔ ہاتھ انک
دوسرے کو مچ بت کی سچاٸ کا اجساس دال رہے تھے ۔
” آپ ایتی سہرت میں گم ہوۓ اس ذات کو ت ھول گنے جس نے انکی فسمت میں یہ
سب ایتی آشاتی سے مل یا لک ھا “
197
ت ن
اد ینہ نے آ ک ھیں ات ھا کر میسم کی آنکھوں میں دنک ھا۔ میسم نے لب ھییچ کر سر کو ای یات
میں ہالنا ۔
” تم مچ ھے معاف کر دو “
الیچاٸ انداز میں اد ینہ کی آنکھوں میں دنک ھا۔ وہ پرمی سے مسکرا دی۔
” تم تماز پڑھ کر آٸ ہو “
پرم سے لہجے میں کہنے ہوۓ گہری بظروں سے اس کے چہرے کو دنک ھا ۔ اد ینہ مسکرا دی ۔
سر کو ای یات میں ہالنا ۔
” جی “
198
” ات ھی وقت ہے “
ات ھر کر گ ھڑی پر بظر ڈالی۔ اور سوالنہ انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
” جی ہے “
” مچ ھے تماز پڑھتی ہے “
میسم نے کم یل کو انک طرف ک یا اد ینہ نے خوش ہو کر انک طرف ہو کر میسم کو اپرنے کا
ٹ
راسنہ دنا ۔ وہ وصو کے عرض سے واش روم جا چکا ت ھا ۔ اور وہ وہیں یتھی مسکرا رہی ت ھی۔
*********
199
ان کے اہل جایہ کی راۓ لے رہے تھے ۔ مچلے کے تمام لوگ میسم کے تمام ہم حماعت
اس یاد سب حمع تھے سب میسم کے خق میں ی یان دے رہے تھے ۔
” مچ ھے میری پری بت پر ت ھروسہ ہے میرے نونا نلکل ت ھیک کہہ رہا ہے اسے ت ھیسانا جا رہا
ہے ڈرگز کا نے ٹی یاد الزام لگانا جا رہا ہے “
احمد م یاں نے اعتماد کے شاتھ گردن اوپر کرنے ہوۓ پر بقین لہجے میں کہا ۔ ضچافی اب
مراد احمد کی طرف مڑ گنے تھے کتمرے وعیرہ ت ھی ان کی طرف سبٹ کر دنے گنے تھے
۔
” یہ شازش ہے میرے ٹینے کے جالف میں نے اسے بچین سے ک ھیلیا دنک ھا ہے کرکٹ
اس کا ج نون ہی پہیں اس کی جاہت ہے اور کوٸ ایتی جاہت سے دو تمیری پہیں کرنا
“
مراد احمد نے پرشکون لہجے میں کتمرے کی طرف دنک ھنے ہوۓ کہا ۔ اس کے بعد خواد احمد
ماٸک کو ت ھامے ہوۓ تھے ۔
” خب سے وہ یتم میں شلیکٹ ہوا ہے کچھ لوگوں کو و بسے ہی کت ھک رہا ہے میری ای
سی سی سے ای یل ہے وہ بخف ٹقات کریں میرا ت ھییچا اس طرح کا انل ٹگل کام پہیں کر شک یا
ہے “
200
خواد احمد کا انداز پر بقین ت ھا ۔
اب کتمرہ مین اور ضچافی فہد کی طرف پڑھ گنے تھے خو پہلے سے ہی سب سے زنادہ دل
پرداسنہ ٹیت ھا ہوا ت ھا ۔
************
کمرے کی الٸٹ جلنے دنکھ وہ کمرے میں آٸ نو مسکرا کر رہ گٸ میسم اوپر والے ی یڈ
روم میں تماز عسا ٕ ادا کر رہا ت ھا ۔ آہسنہ سے کمرے کا دروازہ ی ید کرنے ہوۓ ناہر آٸ ۔
ً
آج شاٸد اِ دھر ہی سونا ہو گا میسم کو ۔ ذہن میں قورا ج یال آنا
201
کیسے کہوں ان کو کہ آنکی وہ سزا جتم ہے اب میں ناراض پہیں آپ سے بچارگی سے
کمرے کے ی ید دروازے کی طرف دنک ھا اور ت ھر مرنل سے قدم کے شاتھ ز نیے اپرنے لگی ۔
” اے ہللا مچ ھے معاف کر دے تیری نار گاہ رحمت میں ہاتھ ات ھاۓ ہوۓ بچھ سے معافی
کا طل ٹگار ہوں “
میسم نے ہات ھوں کی لکیروں پر بظریں گاڑے دعا مانگتی سروع کی ۔ آج پہت عرصے بعد
ا نیے خوش و چصوع سے وہ دعا مانگ رہا ت ھا ۔ تماز نو وہ پڑھ ہی لی یا ت ھا اکیر پر دعا کے لنے
ہاتھ ات ھا کر کتھی ایتی لگن سے اور خوش و چصوع سے دعا پہیں مانگ یا ت ھا ۔
” نے شک نو ہی ہے ہر ذی روح کو ی یدا کرنے واال رزق د نیے واال عزت د نیے واال اور
سہرت د نیے واال “
دل ربخور ت ھا غم سے ت ھٹ رہا ت ھا ۔ آبسوٶں کا گولہ گلے میں انک رہا ت ھا ۔ وہ پہلے خب
ناہر بکلیا ت ھا نو لوگ کیسے اس پر مچی نیں ل یانے تھے اس کی بعربقیں کرنے تھے اور آج
کیسے لوگ اس پر حملے کس رہے تھے ۔
” میرے مالک میرے دل میں اگر کتھی ت ھی ابچانے میں نا جان نوحھ کر میری سہرت کو
لے کر نکیر آنا ہو نو مچ ھے اس پر معاف قرما دے میرے پروردگار “
202
اسے سب مل جانے پر لگ یا ت ھا کہ وہ نلید بحت ہے قومی یتم میں ایتی جلدی مییحب ہوا
اوتیر نلے ناز ی یا سہرت ملی مچ بت ملی دولت ملی عزت ملی ۔ ابچانے میں ہی وہ خود کو
س
مفسوم مچ ھنے لگا ت ھا ۔ پر یہ ت ھول گ یا ت ھا یہ فسمت د نیے واال ہللا ہے وہ جسے جاہ یا ہے
عزت د ییا ہے اور جسے جاہ یا ہے ذلت ۔
پر دل ات ھی ت ھی ا نیے اس زوال کو ہللا کی آزماٸش مان رہا ت ھا ۔ وہ قرش سے عرش پر النا
نو اجساس ہوا وہ نو جدا کو قراموش کنے ہوۓ ت ھا اد ینہ کے سمچ ھانے کے بعد آج نابچ وقت
تماز پڑ ھنے کے بعد دل پہت جد نک پرشکون ہو چکا ت ھا ۔ دل پر ر کھے من من ت ھر کے یت ھر
جدا کے آگے ح ھکنے سے ہی سرک کر گر جکے تھے ۔ ک نونکہ وہ جای یا ت ھا کہ وہ گ یاہ گار پہیں
ہے ہاں صرف چطا کار ہے کہ خود کی فسمت پر نکیر ت ھرے القاظ اسٹعمال کنے کہ وہ
مفسوم ہے بحت ہے
” مچ ھے معاف قرما میرے نکیر کرنے پر خود کو مفسوم کہنے پر نےشک میرا مفسوم ہونا نا یہ
ہونا تیرے کن کا مچیاج ہے “
جیسے جیسے وہ جدا سے نات کرنا جا رہا ت ھا دل کے زحم ت ھرنے جا رہے تھے ۔ خب وہ جاۓ
م
تماز سے ات ھا وہ کمل طور پر پرشکون ہو چکا ت ھا ۔ سب جدا پر ح ھوڑ چکا ت ھا ۔
203
جاۓ تماز کو سم بٹ کو انک طرف رک ھا اور سر سے نوتی ا نارنے ہی اد ینہ کا ج یال آنا آج شارا
دن وہ اتیری بٹ پر ڈو ییگ کے م ٹعلق مچیلف چقاٸق نالش کرنا رہا ت ھا اور دونوں کے
درم یان کوٸ جاص گف یگو پہیں ہوٸ ت ھی اب رات ہوٸ نو کل کی رات ناد آٸ اس کی
م
گود اس کا ی یار سے نالوں میں ہاتھ ت ھیرنا انک یت ھی سی مشکان ل نوں پر در آٸ ت ھی نو دل
کے دھڑ کنے کی رق یار میں ت ھی اضافہ ہوا ت ھا ۔ اد ینہ سے شارا دن الپرواہی پری یا رہا ت ھا اور
اب ذہن میں ج یال آ رہے تھے کہ اس کا دل ت ھی نو دک ھانا ت ھا یہ اس کو ت ھی نالخواز اشکے
خق سے مچروم رک ھا یہ ت ھی نو گ یاہ ہی کرنا رہا اس سے ت ھی نو ہللا کی ناراضگی مول لی ایتی ناک
ناز ی نوی پر شک کرنا رہا ۔ بس اب اور پہیں اپہی سوخوں میں گم وہ کمرے میں آنا نو اد ینہ
ٹ
ی یڈ پر یتھی ت ھی میسم کو کمرے میں دنکھ کر جلدی سے س یدھی ہوٸ نکنے سے ی یک جتم
ٹ
کی۔ وہ نو پہی سوچے یتھی ت ھی کہ میسم آج اوپر سوٸیں گے اسے کمرے میں دنکھ کر
جلدی سے نانگیں خو وہ الپرواہی سے ت ھیالۓ ہوٸ ت ھی سے سمی نیں ۔
میسم الماری سے پرانوزر سرٹ بکال کر واش روم میں گھس گ یا ۔ افف ک یا پہاں سوٸیں
گے آج جلدی سے اتھ کر س یگہار میز کے شا منے آٸ ای یا جاٸزہ ل یا دو نیے اور نالوں کو
درست ک یا واش روم کے الک کھلنے کی آواز پر دل زور زور سے دھڑ کنے لگا ت ھا جلدی سے
204
س یگہار میز پر پڑی نوکری میں نالخواز کچھ نالش کرنے کی عرض سے ہاتھ ت ھیرنے سروع
کر دنے
میسم ناہر بکال نو وہ س یگہار میز کے اوپر ح ھکی مصروف سے انداز میں کچھ نالش کر رہی ت ھی ۔
کچھ دپر نوپہی اس پر بظریں حماۓ ک ھڑا رہا پر وہ نو بچانے ک یا نالش کر رہی ت ھی خو نالش
جتم ہونے پر ہی پہیں آ رہی ت ھی ۔ ت ھک کر نلکل اس کے ییچ ھے جا ک ھڑا ہوا
” جلو ٹیتھو “
نلکل غقب سے کان کے قریب میسم کی آواز پر اس کے ناشکٹ میں جلنے ہاتھ ت ھم گنے۔
رپڑھ کہ ہڈی میں سیس یاتی سی انک لہر نے تیزی سے اوپر سے ییجے کا سقر ک یا
” ک یا ؟“
گ ھتی سی آوز میں سوال ک یا وہ بکلل ییچھے ت ھا نلکیں ات ھاۓ پہیں اتھ رہی ت ھیں ۔ ہلکے سے
پرنوزی رنگ کے خوڑے میں وہ موم کی گڑنا لگ رہی ت ھی خو اس کے نوں ییچ ھے آ کر ک ھڑے
ہونے پر نگھلنے جیسے انداز میں ح ھوٸ موٸ ہو کر سمیتی جا رہی ت ھی ۔بظر ات ھا کر شا منے
آٸ نیے میں اس کا لچانا شا سرانا دنک ھا وہ گالتی ہونے گالوں اور لرزتی نلکوں میں دی یا کی
جسین پرین مورت لگ رہی ت ھی۔ ابسی مورت جس پر شاری مچی نیں ل یانے کو دل جاہے
میسم نے دل میں ہوتی گدگدی کے زپر اپر اس کے کان کے قریب ح ھکا
205
” جلو ٹیتھو کل کی طرح تم ھاری گود میں سر رکھ کر سونا ہے مچ ھے “
م
یتھی سی سرگوسی تما آواز کان کے قریب ہوٸ ۔ دل نو جیسے بسل نوں کی دنواریں نوڑ کر ناہر
ن
آنے لگا اد ینہ نے زور سے آ ک ھیں ی ید کیں ۔
افف نورا وخود دل ین کر دھڑ کنے لگا ت ھا اد ینہ نے آنکھوں کو اور زور سے ی ید ک یا ہاتھ شا منے
خو س یگہار میز پر نکے تھے میز کو ا بسے مصنوطی سے ت ھام جکے تھے جیسے وہ ات ھی ڈھے جاۓ
ن
گی اگر اس کو ح ھوڑا نو ۔ اد ینہ کے نوں ت ھیگی نلی کی طرح آ ک ھیں ی ید کرنے پر میسم کی
سرارتی رگ اور ت ھڑ کنے لگی ت ھی۔
میسم نے ہات ھوں کو س یگہار میز کے شاتھ بکا کر ت ھوڑا شا آگے ہونے ہوۓ اس کے چہرے
پر بظروں کو گ ھمانا بظروں نے ہر ہر بفش کو دل میں سمونا لمتی گ ھتی لرزتی نلکیں ح ھونا شاک
ناک ت ھرے سے گالتی ہویٹ دمکتی ج یدن رنگت
206
میسم کی نات پر اد ینہ نے نے شاخنہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو دنانا ۔ میز پر ہات ھوں کی
ن
مصنوطی اور قاٸم کی خن پر ہلکا ہلکا شا بسبنہ آنے لگا ت ھا ۔ گو کہ آ ک ھیں ی ید ت ھیں پر میسم
کی بظروں کی ٹیش وہ نا خوتی ا ینے چہرے پر محسوس کر شکتی ت ھی
م
” ہیسے جا رہی ہو مزاق پہیں کر رہا میں ایتی یتھی ٹی ید آج سے پہلے مچ ھے کتھی پہیں آٸ “
ہاتھ سے اد ینہ کی ت ھورڈی کے ییجے ہاتھ رک ھنے ہوۓ ی یار سے اس کے ح ھکے چہرے کو
اوپر ک یا اد ینہ کی نلکیں اب پری طرح گالوں پر لرزنے لگی ت ھیں پر لب اب ت ھی مسکرا
رہے تھے ۔
میسم نے ت ھورڈی کے ییجے ر کھے ہاتھ کے انگو تھے سے اس کے مالٸم سے گال کو ح ھوا ۔
جیتی وہ آنکھوں سے دنک ھنے پر ت ھیڈک د یتی ت ھی ای یا ہی ح ھونے پر دل کو شکون دے رہی
ت ھی ۔
” جلو ٹیتھو یہ جا کر “
207
اس کی ی ید آنکھوں اور عیر ہوتی جالت سے مچزوز ہونے ہو ضد کے انداز میں بخوں کی طرح
کہا ۔ ج یکہ انگوت ھا ات ھی ت ھی اس کے گال کا طواف کر رہا ت ھا ۔ پر اد ینہ کو نو جیسے ح ھو کر
س
کسی نے محسم ی یا دنا ہو میسم نے اس کی جالت کو مچ ھنے ہوۓ ہاتھ کو ییچ ھے ک یا ۔
گ ھمییر سی آواز میں سرگوسی کی ۔ اد ینہ نے س یگہار میز کے ک یاروں پر ر کھے ہات ھوں کو
مصنوط ک یا جیسے کہ خود کو ڈھے جانے سے بچانا ہو
گ ھتی لچاٸ سی آواز میں میسم کی طرف د نک ھے ی یا خواب دنا خو اس نات پر نے شاخنہ ہلکا شا
فہفہ لگا گ یا ۔
” ایتی سی بکل ٹف ت ھی پرداست پہیں کر شکتی میرے لنے کیسی مچ بت ہوٸ ی یگم “
گہری بظروں اور گہری ہوتی مسکراہٹ سے کہا ۔ اد ینہ نے خونک کر نلکیں ات ھاٸیں
بظروں کا بصادم ہوا دونوں طرف آنکھوں میں مچ بت کا سم یدر موجزن ت ھا
” سب پرداست ہے “
208
پرم سی آواز میں کہا ۔ ہاں شا منے ک ھڑے اس سخص سے نے ی یاہ مچ بت ت ھی اسے وہ سف ید
رنگ کی تی سرٹ کے ییجے ج یک واال ڈھ یال شا پرانوزر ز یب ین کنے ہوۓ ت ھا سنو معمول
سے زنادہ پڑھی ہوٸ ت ھی ل یکن چہرہ کل کی طرح اپرا ہوا پہیں ت ھا شکون ت ھا چہرے پر اس
کے چہرے کا یہ شکون اد ینہ کے اندر نک شکون ا نار گ یا ت ھا اس کا پربسان چہرہ دل کو
بکل ٹف د ییا ت ھا اور آج نو میسم کی آنکھوں میں ی یار ت ھا سرارت ت ھی حماری ت ھی ی یا پہیں
ک یا ک یا ت ھا ۔
میسم نے مسکراہٹ دنانے ہوۓ نوح ھا اد ینہ نے ت ھر سے نلکیں ات ھاٸیں سرارت ت ھری
بظروں کا بصادم ہوا اد ینہ نے بخوں کی طرح لب ناہر بکال کر ک یدھے اچکاۓ ۔
”ابسا ہی کچھ ہے “
میسم نے فہفہ لگانا ۔ سرارت آنکھوں سے نوری طرح ع یاں ت ھی وہ اس وقت کیتی معصوم
لگ رہی ت ھی
209
” آپ مچ ھے بکل ٹف دے ہی پہیں شکنے “
اد ینہ نے مچ بت سے آنکھوں میں ح ھا نکنے ہوۓ الڈ سے جسم کو ح ھالنا گردن کو اکڑنا کی یا ناز
ت ھا اسے آج میسم کی نے ی یاہ مچ بت پر
سے ی یک جتم کی اور آگے پڑھا اد ینہ کے ہاتھ کو ت ھاما ۔ اد ینہ نے مسکرا کر اوپر دنک ھا
” سمچ ھا نا ہوں سب آٶ “
210
تیری آنکھوں کی
211
***********
اد ینہ نے خو لہے کی آبچ آہسنہ کی اور قون کو نکڑا ہاتھ ی یدنل ک یا ۔ اور دوسرے ہاتھ سے
قون کو نکڑ کر کان سے لگانا ۔
” اشکو لے کر آ جا پہاں ٹی یا گ ھر آ جا “
احمد م یاں کی پربسان سی آواز قون میں سے ات ھری ت ھی ۔ اد ینہ نے مسکرانے ہوۓ
دھیرے سے گردن کو ہالنا وہ جاہے جیتی ت ھی سچتی پر نیے رہیں میسم سے وہ نے ی یاہ مچ بت
کرنے تھے ۔ انک بظر شا منے ٹیت ھے میسم پر ڈالی خو شا منے الٶ بج میں لگے صوفے پر ٹیت ھے فہد
کے شاتھ نانوں میں مصروف تھے ۔میسم کو آۓ ہوۓ ہقنہ ت ھر ہو جال ت ھا اور گ ھر سے روز
کسی یہ کسی کا قون آجا نا ت ھا خوان کو خیر نور آنے کا کہہ رہے تھے
اد ینہ نے بسلی د نیے کے انداز میں کہا۔ انک ہاتھ سے شا منے نکنے شالن میں حمچ جالنا ۔
212
اد ینہ نے پرشکون لہجے میں کہا۔ اور کچن کی شل ٹف کو نکڑ کر اس کے شاتھ ی یک لگاٸ ۔
میسم پہت جد نک سیتھل چکا ت ھا تماز اب وہ گ ھر کے بچاۓ مسچد میں پڑ ھنے جانے لگا ت ھا
۔ روز شام کو وہ ناہر واک کی عرض سے جانے تھے اد ینہ ہاسی یل سے آتی نو انک نل کے
لنے ت ھی اسے اک یال پہیں ح ھوڑتی ت ھی اد ینہ کی سرارٹیں اور ناٹیں ہی ت ھیں جس سے وہ آدھا
دن سیربس سے ناہر رہ یا ت ھا ۔
” اس کا پہت ج یال رک ھیا ٹی یا پہت زنادہ اور فہد ت ھی اسی لنے آنا ہے پہاں اسے اک یال
پہیں ح ھوڑنا کسی ت ھی ملجے “
احمد م یاں کے لہجے سے ان کی میسم کے لنے نے ی یاہ مچ بت اور قکر ح ھلک رہی ت ھی ۔ فہد
ا نیے ٹییرز سے قارغ ہونے ہی الہور آ گ یا ت ھا ۔
اد ینہ نے خولہا ی ید ک یا ۔ اور اتیرین کو انک ہاتھ سے کمر کے ییچ ھے سے ک ھوال ۔
213
احمد م یاں نے دعا دی جس پر اد ینہ نے امین کہا اور ت ھر مسکرانے ہوۓ قون ی ید ک یا ۔
ہاتھ ضاف کرتی ہوٸ کچن سے ناہر آٸ
مسکرانے ہوۓ الٶ بج میں آ کر میسم کی طرف دنکھ کر نوح ھا ۔ میسم نے سرارت سے فہد
کہ طرف اشارہ ک یا ۔
” ہم سے ک یا نوح ھتی ہو ی یگم ہمیں نو ت ھوکا ت ھی شال دیں گی نو افف یہ کریں گے ا نیے
پہ نوٸ سے نوح ھو پرونوکول دو تھٸ پہلی دفعہ آۓ ہیں ہمارے گ ھر وہاں نو ت ھتھو کوٸ
عزت پہیں د یتی نو جلو ہم ہی سہی “
فہد نے فہفہ لگانا ۔ جس پر میسم ت ھی مسکرا دنا۔ اد ینہ نے مصنوغی چقگی سے گ ھورا دونوں کو
خو ایتی مسیرکہ شاس کی ناٹیں کر کے اسے ح ھڑنے رہے تھے آج شارا دن
اد ینہ نے مصروف سے انداز میں کہا اور ت ھر سے کچن کی طرف پڑھ گٸ ۔
***********
214
ٹی یگ کی ڈور کی طرف پڑھ یا یت ھا شا ہاتھ دس شالہ جبے کا ت ھا خو اس نات سے نکسر ابچان
ت ھا کہ اس کا آدھے سے زنادہ وخود نالکوتی سے ناہر ہے ۔ جیسے ہی ٹی یگ کی ڈور کو یت ھے
سے ہاتھ نے ت ھاما نوازن ابسا نگڑا کہ وہ ٹیسری میزل سے گرنا س یدھا ییجے الن میں آ گرا سر
پری طرح ک یاری سے نکرانا ۔
ہول یاک انداز میں جیچیا ناہوں میں جبے کو ات ھاۓ اس کے پہنے خون سے لت یت وہ اندر
ٹ
داجل ہوا ۔ الوبج میں یتھی پہت سی خواٹین کی گردٹیں انک شاتھ آواز کے بعاقب میں
گ ھومی ت ھیں ۔اور ت ھر ان میں سے انک غورت ناگلوں کی طرح ت ھاگتی گارڈ کی طرف ل یکی
ت ھی ۔
” بسام۔م۔م۔م۔م۔م۔م۔“
مم یا کی پڑ یتی آواز نے مچل تما گ ھر کی درو دنوار ہال کر رکھ دی ت ھیں ۔
215
*********
وہ ناگلوں کی طرح نوکھالنا شا اب شا منے ک ھڑی غورت کے ک یدھوں کو نکڑ کر ح ھیخوڑ رہا ت ھا ۔
خو اسے دنک ھنے ہی آپربسن ت ھییر کے ناہر لگے ییچ پر سے اتھ کر اس کی طرف ت ھاگی ت ھی ۔
” میرا بحہ “
اس نے ا ینے شاتھ لگی غورت کو خود سے علیچدہ ک یا اور ت ھر سے ک یدھوں سے نکڑ کر نوح ھا
۔ وہ نو جیسے ہوش و خواس میں پہیں ت ھی
اس نے آقرین کے ک یدھے زور سے نکڑ کر ہالۓ ۔ وہ رونے رونے ت ھر تمشکل خپ ہوٸ
216
” کچھ پہیں ی یا رہے کچھ ت ھی پہیں “
آقرین نے ناگلوں کی طرح رونے ہوۓ کہا ۔ اد ینہ نے آپربسن ت ھییر کا دروازہ ک ھوال اور قدم
ناہر بکالے ۔
اد ینہ کو شا منے دنکھ کر لمحہ ت ھر کو وہ سخص وہیں ت ھت ھک کر رک گ یا ۔ انداز ابسا ت ھا جیسے وہ
ذہن پر زور ڈال رہا ہو پہچان کے لنے اس نے اد ینہ کو اس سے پہلے کہاں دنک ھا ہے
دوسری طرف اد ینہ کا ت ھی کچھ ابسا جال ہی ت ھا اد ینہ کے ت ھی ان دونوں م یاں ی نوی کی
طرف آنے قدم آہسنہ سے آہسنہ ہوۓ ۔ ہاٶس جاب نوری ہونے کے بعد ڈاکیر عاند نے
اد ینہ کو اسی ہسی یال میں ڈاکیر کے طور پر اناٸیٹ کر ل یا ت ھا ۔ اور آج اس کی ڈنوتی
ً
اتمرجیسی میں ت ھی چہاں کل یہ خون میں لت یت بحہ پہیچا ت ھا ۔ آقرین بقری یا ت ھاگتی ہوٸ
پ
اد ینہ نک ہیخی
آقرین نے پڑپ کر اد ینہ سے نوح ھا خو اس وقت شا منے ک ھڑے سخص کو گ ھور کر دنک ھنے
میں مصروف ت ھی ۔ وہ ت ھی اب نوح ھل سے خیران سے قدم ات ھا نا ایتی ی نوی کے شاتھ آ کر
ک ھڑا ت ھا ۔ وہ اد ینہ کو پہچان چکا ت ھا ابگلی یڈ سیرپز ک ھیلنے ہوۓ اد ینہ س یڈتم میں سب کی
217
بظروں میں آٸ ت ھی اسے کون پہیں پہچای یا ت ھا ۔ کہ وہ مشہور نلے ناز میسم مراد کی ی نوی
ہے ۔
ن
” قواد سر د ک ھیں ات ھی سر پر خوٹ ہے پہت کری ٹکل ک یڈبسن ہے خون پہت پہہ چکا ہے
ہماری کوشش ہے خون سر کے اندر حمع یہ ہو کچھ کہ یا مشکل ہے پر آپ پربسان یہ ہوں
نلیز ہللا سے دعا کریں “
اد ینہ نے س یاٹ چہرے کا رخ قواد غظ تم کی طرف موڑنے ہوۓ پرشکون لہجے میں کہا۔ دو
ہف نوں سے وہ میسم کے منہ سے نار نار قواد اور شازل کا ذکر سن جکی ت ھی میسم اسے شارے
فصے س یا چکا ت ھا کہ کس کس طرح دونوں سروع سے میسم سے جار ک ھانے رہے ہیں اور
اب ت ھی اس سب شازش کے ییچ ھے میسم کو ان دونوں پر شک ہے ۔ اد ینہ کے منہ سے
ای یا نام سن کر قواد خونک گ یا ۔ ابگلی سے اد ینہ کی طرف اشارہ ک یا
قواد نے آہسنہ سی آواز میں نوح ھا وہ انک آپرٶ جڑھاۓ ک ھڑا ت ھا ۔ اد ینہ نے بغور اسے دنک ھا
218
اد ینہ نے طیز ت ھری مسکراہٹ چہرے پر سچاۓ اور گہری شابس لینے ہوۓ سینے پر ہاتھ
ناندھے ۔ قواد نے س نی یا کر ارد گرد دنک ھا ۔ ینہ پہیں اد ینہ کی آنکھوں میں ک یا ت ھا کہ لمحہ ت ھر
کو ابسا لگا جیسے وہ سب جایتی ہو کہ اس نے اور شازل نے شازش کے شاتھ میسم کو
ڈو ییگ میں ت ھیسانا ہے ۔
اد ینہ نے طیز ت ھری مسکراہٹ سچاۓ بطاہر پر شکون لہجے میں کہا ۔ قواد کی گ ھیراہٹ اور
بظریں جرانا سب واضح کر چکا ت ھا کہ میسم ان پر سہی شک کر رہا ہے ۔ قواد نے خونک کر
اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔
اد ینہ کا سرد لہحہ شا منے ک ھڑے قواد کو نوکھالہٹ سکار کر چکا ت ھا ۔ وہ اب ہونق ی یا اد ینہ
ت ک مچ س
کے چہرے کی طرف دنکھ رہا ت ھا اور آقرین نا ھی کے انداز میں ھی اد ینہ کے چہرے کو
دنکھ رہی ت ھی اور کتھی قواد کی طرف دنکھ رہی ت ھی ۔
219
” ہم کسی پر طلم ڈھانے کسی نے گ یاہ کو تھسانے سے پہلے یہ ک نوں ت ھول جانے ہیں
ٹ
کہ اوپر ت ھی انک ذات یتھی ہے خو ہماری ت ھی اس رگ پر ہاتھ رکھ شکتی ہے جس سے
ہماری شابس ی ید ہو جاٸیں“
اد ینہ کے القاظ تھے نا زہر نلے تیر خو شا منے ک ھڑے قواد کے س یدھا دل میں ی نوست ہو رہے
تھے اور اس کی گردن ح ھکتی جا رہی ت ھی ۔ اوہ نو میسم کو ہم پر شک ہو گ یا ہے ۔ قواد کے
ذہن میں شاٸیں شاٸیں ہونے لگی ت ھی اد ینہ نے انک بظر قواد پر ڈالی اور خیرت میں
ی ھ ت ک ُ
س ی
ڈوتی ھڑی اس کی نوی کے ک یدھے پر کی دی اور ا نیے ف ید کوٹ کو درست کرتی
آگے پڑھ گٸ ۔
” ک یا ہوا قواد یہ ابسی ناٹیں ک نوں کر رہی ت ھی یہ ک یا میسم کی واٸف ہے وہی کھالڑی
جس پر دو ہفنے پہلے ڈو ییگ کا کیس پڑا ہے “
آقرین نے قواد کے نلکل شا منے ک ھڑے ہونے ہوۓ خیرت سے نوح ھا ۔ قواد کے چہرے کی
ہواٸناں اڑی ہوٸ ت ھیں ۔ وہ شاکن ک ھڑا ت ھا چہرہ زرد ت ھا دل جدا کے خوف سے کایپ گ یا
۔ بسام اس کا اکلونا ٹی یا ت ھا ۔ دل جیسے کوٸ آری سے کاٹ رہا ت ھا قدم نے جان ہو رہے
تھے ۔
220
آقرین کے کے ک یدھے پر ہاتھ رکھ کر کہ یا وہ ق ًوار نلیا اور تیز تیز قدم ات ھا نا راہداری سے اب
ہاسی یل کے تیروتی دروازے کی طرف رواں دواں ت ھا ۔
***********
وہ الوبج میں تی وی دنک ھنے میں مصروف ت ھا خب ناہر ڈور نل کی آواز پر وہ ات ھا گ بٹ
ک ھو لنے ہی سر پر خیرت کا پہاڑ نونا شا منے نوکھالنا شا قواد ک ھڑا ت ھا ۔ یہ پہاں کیسے ات ھی نو ورلڈ
کپ نورنام بٹ جل رہا ت ھا ۔ میسم نے خیرت سے دنک ھنے ہوۓ قواد کو اندر آنے کی جگہ دی ۔
قواد اندر داجل ہوا جیسے ہی میسم گ بٹ کا دروازہ لگا کر نلیا اس نے رونے ہوۓ میسم کے
آگے ہاتھ خوڑے اورسر ح ھکا ل یا ۔ میسم خیرت سے قواد کو دنکھ رہا ت ھا اس کے القاظ سن کر
شاکن ہو گ یا ۔ ک یا جدا نوں ت ھی دعاٸیں ق نول کرنا ہے ۔
” میرا ٹی یا زندگی اور موت کی کسمکش میں ہے میسم وہ تم ھاری ی نوی والے ہاسی یل میں
اتمرجیسی میں ہے “
قواد اب ا ینے جڑے ہات ھوں پر ہویٹ ر کھے پری طرح رونے ہوۓ الیچا کر رہا ت ھا ۔ اس کے
ٹینے کی جالت سیچیدہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ دپر پہلے ہی وابس ناکس یان آنا ت ھا ۔
221
میسم کو ہر خیز ہر نات خیران کر رہی ت ھی اسے کچھ ت ھی سمچھ پہیں آ رہا ت ھا یہ سب ہو ک یا
رہا ہے پر قواد کے منہ سے اس کے ٹی نے کا اور اد ینہ کا ذکر سن کر وہ خونک کر ج یاالت
سے ناہر آنا اور سر ح ھیک کر آگے پڑ ھنے ہوۓ قواد کے ہات ھوں کو ا ینے ہات ھوں میں ت ھاما
۔
” قواد ت ھاٸ نلیز ہللا یہ کرے آپ کے ٹینے کو کچھ ہو پربسان یہ ہوں وہ نلکل ت ھیک ہو
جاۓ گا ان شا ہللا “
میسم نے قواد کے معافی کے انداز میں جڑے دونوں ہات ھوں کو ک ھول دنا ۔ قواد نے بخوں کی
طرح آبسوٶں کو بگل کر میسم کی آنک ھوں میں دنک ھا ۔
” میں میں پربس کابقربس نلواٶں گا میں ی یان دوں گا سب ی یاٶں گا تم ھاری نے گ یاہی
نایت کروں گا “
قواد نے پر عزم انداز میں کہا ۔ میسم نے زور زور سے بفی میں سر ہال کر قواد کی نات کی
پردند کی۔
” رکیں رکیں جلد نازی پہیں ی نوت کے ی یا کچھ ت ھی پہیں قواد ت ھاٸ “
222
میسم نے پر سوچ انداز میں ما تھے پر ٹین ابگلیاں جالٸیں ۔ وہ پڑھی سنو کے شاتھ رات
والے ہی پرانوزر سرٹ میں مل نوس ت ھا گردن کو سوچ میں ڈونے ہوۓ انداز میں ارد گرد
گ ھمانا ۔ اور ت ھر قواد کی طرف دنک ھا
” نات س نیں شازل کو ناکس یان آ لینے دیں ت ھر میں خو کہوں گا وہ کریں گے آپ “
میسم نے قواد کے ک یدھے پر ہاتھ ر کھے بسلی د نیے کے انداز میں کہا ۔ قواد نے زور زور سے
ناٸند میں سر کو ہالنا ۔
قواد نے ت ھر سے روہابسی آواز میں الیچا کی ۔جس پر میسم نے ل نوں پر دوس یایہ مسکراہٹ سچا
کر سر کو ای یات میں ہالنا ۔
میسم نے قواد کے ک یدھے پر بسلی آمیز ت ھیکی دی ۔ قواد نے ای یات میں زور سے سر ہالنا ۔
********
” میسم آ جاٸیں اب گ ھر “
223
ٹ
اد ینہ نے کوقت سے ناک جڑھاٸ وہ ی یڈ پر قون کان کو لگاۓ یتھی ت ھی ۔ قواد کے ٹی نے
کے آپربسن کام یاب ہونے کے اور قواد کے مدد کرنے کے اعیراف کے بعد میسم پہت پر
شکون ہوا ت ھا اور اسی لنے وہ اس ونکی یڈ پر خیر نور آۓ تھے ۔ ناکہ سب گ ھر والوں سے مل
لیں ان کا پہاں ٹین دن ر کنے کا پروگرام ت ھا ۔
میسم صیح سے نا سنے کے بعد ناہر بکال ت ھا اور اب رات کے گ یارہ بج جکے تھے ای ٹطار کرنے
کرنے اد ینہ کی اب ہمت خواب دے جکی ت ھی اور اسی لنے وہ اب میسم کو قون کر رہی
ت ھی نار نار اور گ ھر آنے کا کہہ رہی ت ھی۔
” ی یگم دراضل شارے پرانے دوست ٹیت ھے ہیں انک گ ھبنہ مزند لگے گا“
میسم نے پرم سے لہجے میں درخواست کی ۔ اد ینہ کا چہرہ غصے سے الل ہوا ۔ الہور میں
ک نونکہ دو ہفنے سے میسم کی نوری نوجہ کا مرکز وہ تھی اس لنے یہ نے اعی یاٸ زنادہ ہی کھل
رہی ت ھی ۔
اد ینہ نے چقگی ت ھرے لہجے میں کہا ٹیساتی پر نل تھے ۔ دل پری طرح کوقت میں می یال ہوا
اب نو ٹی ید ت ھی پہیں آتی ت ھی دوسری طرف سے ج یاب نے گہری شابس لی جیسے پہت
224
ی یگ ہوں ۔ پہاں آنا نو دوسنوں نے ملنے کا پروگرام رکھ دنا اور اب ت ھی وہ رات کا ک ھانا ک ھا
رہے تھے ناہر کسی ہونل میں چہاں اد ینہ نار نار قون کر رہی ت ھی۔
” اح ھا بس کچھ دپر اب مسیج یہ کرنا یہ ہی قون کرنا اوکے آ نا ہوں بس نلکہ سو جاٶ جان آ
کر چگا دوں گا “
پڑے میت ھے سے لہجے میں کہا اد ینہ کے ین ندن میں اور آگ لگی آنکھوں کو شکیڑ کر قون کو
دور کنے گ ھورا اور غصے سے ی یا کچھ کہے قون ی ید کر دنا ۔ قون کو زور سے ی یڈ پر ییچا۔ گالتی
رنگ کے خوڑے میں چہرہ سرخ ہو رہا ت ھا ۔
ایتی الپرواہی یہ ی یار ہے ک یا صیح سے رات ہو گٸ ج یاب کو ات ھی نک میری ناد پہیں آٸ
اور پر شکون دنکھو کیسے ہیں محیرم( تم سو جاٶ جان) اد ینہ نے منہ ی یانے ہوۓ میسم کے
القاظ دہراۓ اور ناس پڑا کسن ات ھا کر زور سے قرش پر ت ھی ٹکا ۔ کچھ دپر نوپہی ما تھے پر نل
ٹ
ڈالے یتھی رہی ت ھر
پ
غصے میں ات ھی زور زور سے ییگے ناٶں قرش پر مارتی کمرے کے داجلی دروازے نک ہیخی
اور دروازہ الک کر دنا اور خود آ کر غصے سے ی یڈ پر ل بٹ گٸ ۔ اس غصے میں ٹی ید نو جاک
آتی ت ھی ۔ قون ات ھاکر جان نوحھ کر ت ھر سے میسم کو کال کی دوسری طرف سے کال کٹ
ہوٸ۔
225
چہرہ ٹینے لگا ت ھر سے کال کی ت ھر سے کال کٹ کی منہ ت ھال کر ت ھر سے تمیر مالنا۔ میسم پر
غصہ آنے لگا ت ھا ۔ کہاں گنے وہ الڈ شارے آنکھوں میں آبسو آنے لگے
قون سے ات ھرتی آواز پر خون ک ھول گ یا ۔ زور سے قون کو انک طرف اح ھاال ۔ میسم نے نار نار
قون آنے سے ی یگ آ کر قون کو سوٸچ آف کر دنا ت ھا ۔
ات ھی اسی طرح الچ ھنے گ ھبنہ ہی گزرا ت ھا خب دروازے پر میسم کی آواز کے شاتھ دس یک
ہوٸ ۔ ج یاب مین گ بٹ کی جاتی شاتھ لے کر گنے تھے ل یکن اب آگے اد ینہ نے کمرے
کا دروازہ الک ک یا ہوا ت ھا ۔
ت ھوڑی دپر دس یک دی پر دوسری طرف سے کو ردغمل نا طاہر ہونے پر اد ینہ کے تمیر پر
قون ک یا وہ قون پہیں ات ھا رہی ت ھی ۔ کرنے رہیں کال اد ینہ نے دایت ٹیس کر بچنے قون
کو دنک ھا شکون اپر گ یا سینے میں قون کو بچنے دنکھ کر
میسم نے گہری شابس لی قون کو کان سے ہ یانا سب ی یا ت ھا وہ جاگ رہی ہوگی اس لنے قون
ی ید ک یا اور مسیج لک ھا ۔
226
ت
وبس ایپ مسیج ھیچنے ہی ت ھک سے سین ہوا نو اس کا مطلب یہ ت ھا کہ محیرمہ موناٸل
ٹ
ہاتھ میں ت ھامے یتھی ہیں ۔اد ینہ نے غصے سے شکرین کو گ ھورا پہیں ک ھولوں گی دل میں
عزم ک یا
کوٸ خواب پہیں آنا مطلب دروازہ پہیں ک ھولے گی ۔ میسم نے ت ھ نویں اچکاٸیں ۔
میسم نے مسکرانے ہوۓ اگال مس یج ت ھیچا ۔ سین ہوا پر ہ نوز وہی ردغمل ۔ میسم نے لب
ن
ت ھییجے کچھ دپر سوجا اور ت ھر ذہن میں آنے والے ج یال سے آ ک ھیں سرارت سے حمک
ات ھیں ۔
جلو ت ھیک ہے ناہر الٶ بج میں ل بٹ جا نا ہوں ناز عالم کو ونڈو کال کرنا ہوں پہت مس کر
رہی ہے وہ ا نیے عرصے سے رات ت ھی کٹ ہی جاۓ گی اس سے ناٹیں کرنے ہوۓ
“
ت
میسم نے سرارت سے مسکراہٹ دنانے ہوۓ مسیج ناٸپ ک یا ھچینے ہی سین ہوا ک نونکہ
محیرمہ آن الٸن ہی ت ھیں یب سے ۔
227
ً
قورا سے کمرے کا دروازہ کھوال میسم ٹی بٹ کی ج بب میں ہاتھ ڈالے مسکرا نا ہوا اندر داجل
ہوا ۔اد ینہ اسے ی یا د نک ھے اب تیز تیز قدم ات ھاتی ی یڈ کی طرف جا رہی ت ھی۔
” افف ای یا غصہ “
میسم نے سرارت سے مسکراہٹ دنا کر کہا اور شا منے صوفے پر ٹیتھ کر جاگرز ا نارنے سروع
کنے ۔
ح ھکے سر کے شاتھ مچ بت ت ھرے لہجے میں کہا۔ اد ینہ نے غصے سے ناک ت ھالنا اور کم یل
منہ نک نان کر ل بٹ گٸ ۔ کیڑے بکالتی ہے میری خوتی دایت ٹیسے
میسم نے سر ات ھانا وہ کیڑے بکا لنے کے بچاۓ آرام سے ل بٹ جکی ت ھی ۔ کان ک ھچانا پہت
ناراض ہے ۔
228
” اد ینہ گ یدی ی یگم ین رہی ہو دنکھ لو “
گہری ہوتی مسکراہٹ کے شاتھ کہا ڈربس سرٹ کے کف ٹین ک ھول یا الماری کی طرف پڑھا
پرانوزر سرٹ بکال کر وابس نلیا ۔
ہ
” ممم رکو ی یا نا ہوں تمہیں کیڑے ندل لوں “
سرارت سے اس پر انک بظر ڈالی خو گت ھڑی یتی لی تی ت ھی اور واش روم میں گھس گ یا ۔وہ خو
غصے کی ای تہا پر ت ھی اس کے اس فقرے پر دل زور سے دھڑکا۔
کچھ دپر بعد ناہر بکال نو محیرمہ اسی جالت میں ت ھیں ۔ اح ھل کر ی یڈ پر کہتی کے نل لی یا اور
اس کے چہرے سے کم یل کو ک ھییچا ۔ آج سنو ی یاۓ وہ پہت دنوں کے مقا نلے میں پہت
نک ھرا شا اور نازہ دم ت ھا ۔
229
غصے سے یت ھر کر طیز ت ھرے لہجے میں کہا اور کمیل کو ت ھر سے ک ھییچا خو میسم ایتی گرقت
میں لنے اب سرارت ت ھری بظروں سے مسکراہٹ دناۓ اسے گ ھور رہا ت ھا ۔
” اح ھا نو وہ اجسان ت ھا ک یا “
اد ینہ نے آنکھوں کو شکوڑ کر گ ھور کر دنک ھا اور چقگی سے نکنے پر سر کو مارا ۔ وہ س یدھا لی یا ت ھا
اد ینہ کے ل نینے ہی ح ھٹ سے کہتی کے نل چہرہ اوپر ک یا ۔
ی یار سے اد ینہ کے غصے سے ت ھرے چہرے کو دنک ھنے ہوۓ ہاتھ آگے پڑھانا اد ینہ نے
ح ھیکے سے نازو دور ک یا ۔
اد ینہ نے چقگی ت ھرے انداز میں کہا اور رخ دوسری طرف موڑا ۔ میسم نے شاخنہ فہفہ لگا کر
اب کان کے قریب ہوا ۔
230
انک ح ھیکے سے اد ینہ کے اوپر سے شارا کم یل ک ھییچا ۔
” میسم۔م۔م۔م۔م۔م۔“
***********
”
اد ینہ بسام کے اوپر ح ھکی اسکا روٹین ج یک اپ کر رہی ت ھی وہ اب پہت پہیر ہو چکا ت ھا نازو
پر قرنکچر ت ھا جس کی وجہ سے وہ ات ھی ہاسی یل میں ہی انڈمٹ ت ھا ۔ وہ روز ہاسی یل میں آنے
ہی پہلے اسے دنک ھنے کے لنے آتی ت ھی ۔
مسز میسم “
غقب سے قواد کی آواز پر اد ینہ نے ییچ ھے مڑ کر دنک ھا قواد پرم سی مسکراہٹ ل نوں پر سچاۓ
ک ھڑا ت ھا ۔ خب وہ بسام کا ج یک اپ کرنے آٸ ت ھی اس وقت وہ پہاں موخود پہیں ت ھا
صرف آقرین ت ھی ۔
ن
” پہت پہت شکریہ میری آ ک ھیں ک ھو لنے کے لنے “
231
قواد نے سرم یدہ سے لہجے میں کہا اور مچ بت سے بسام کی طرف دنک ھا آقرین نے ت ھی سر ییجے
ح ھکا ل یا قواد اسے ت ھی سب ی یا چکا ت ھا اد ینہ نے ی یارے سے مسکرا کر بسام کے گال پر
ہاتھ رک ھا ۔اور ت ھر گہری شابس لیتی قواد کی طرف مڑی۔
”ابس اوکے قواد ت ھاٸ ہللا نے آپ کے ٹینے کو زندگی دی اور اگر آپ میسم سے معافی مانگ
کر اس کی مدد کے لنے ی یار یہ ت ھی ہونے میں ت ھر ت ھی بسام کی پر یٹ م بٹ اسی طرح ہی
کرتی “
اد ینہ نے ت ھرنور مسکراہٹ چہرے پر سچا کر کہا اور ت ھر سے بسام کے سر پر مچ بت سے
ہاتھ ت ھیرا ۔ وہ ان کچھ دنوں میں اد ینہ اور میسم سے پہت زنادہ مانوس ہو چکا ت ھا میسم ہر
شام اس سے ملنے آ نا ت ھا ۔
بسام نے آہسنہ سی آواز میں نوح ھا اد ینہ ہیستی ہوٸ ت ھوڑا شا اس کے اوپر ح ھکی ۔ آقرین اور
قواد ت ھی مسکرا کر بسام کی طرف دنکھ رہے تھے وہ کی یا خوش ت ھا کہ وہ جس کھالڑی کا
پرس یار ت ھا وہ اسے روز ملنے آ نا ت ھا ۔
232
اد ینہ نے بسام کے ناک کو مچ بت سے ح ھوا قواد کے چہرے پر ت ھی گہری مسکراہٹ ات ھری
۔ اد ینہ ہیس تی ہوٸ س یدھی ہوٸ
بسام نے قواد کی طرف دنکھ کر خوش سے کہا ۔ جس پر قواد ت ھرنور طر بفے سے مسکرا نا ہوا
آگے پڑھا اور اس کے ناس ٹیت ھا ۔
” نلکل جان صرور ک ھیلیا ات ھی میرا ٹی یا کچھ دن نک نلکل ت ھیک ہو جاۓ گا ت ھر ک ھیلیں
گے ان کے شاتھ “
قواد نے مسکرانے ہوۓ کہا ۔ قواد اب ا نیے ٹینے پر ح ھکا اسے ی یار کر رہا ت ھا اد ینہ کچھ دور
ن ٹ
یتھی آقرین کی طرف اجازت طلب بظروں سے د تی ہوٸ آگے پڑھ گٸ ۔
ھ ک
******
تی وی شکرین پر جلتی ونڈنو نورا ناکس یان دنکھ رہا ت ھا ۔ قواد الٸنو پربس کابقربس کر رہا ت ھا جس
میں وہ اب ی نوت کے طور پر پروج یکیر کے ذر بعے پہت پڑی شکرین پر ونڈنو دنک ھا رہا ت ھا خو
اس نے کل شام شازل سے مل کر چف یا طور پر ی یاٸ ت ھی۔ شازل ہونل کی کرسی پر ٹیت ھا
فہفہ لگا رہا ت ھا خب قواد کی آواز ات ھری ۔
233
” اح ھا مچ ھے ات ھی نک یہ نات پہیں سمچھ آٸ کہ نو نے ڈرگز اسے دی کیسے ت ھیں “
قواد نے بحشس کے انداز میں سوال نوح ھا ۔ یہ شارا طربفہ کار میسم نے قواد کو سمچ ھانا ت ھا وہ
ی نوت کے ی یا کسی طور پر ایتی سچاٸ دی یا کے شا منے پہیں النا جاہ یا ت ھا ۔
قواد کے سوال پر شازل نے کمیتی سی مسکراہٹ کو ل نوں پر سچانا اور میز پر ہاتھ دھرنا ہوا
ت ھوڑا شا آگے ح ھکا ۔
” ی یا نا ہیسی جا رہا ہے “
قواد نے ت ھر سے پرشکون لہجے میں نوح ھا جس پر شازل اب فہفہ لگا گ یا ۔اور ت ھر تمشکل فہفہ
روک کر س یدھا ہوا ۔ اس کے قرسنوں کے ت ھی علم پہیں ت ھا کہ قواد اس وقت اس کی
ربکارڈنگ کر رہا ہے ۔
” آسیرنلیا کے میچ میں خب اسے ناتی دنا گ یا سییچری کے بعد اس س یل ی ید نونل کے ڈھکن
کے نلکل ییجے سے میں نے ابچکیسن کے ذر بعے م یڈبسن کا مچلول داجل کر دنا ت ھا “
شازل نے کمی یگی سے آنکھ کے کونے کو دنانا ۔ اور ت ھر ییچ ھے ہونے ہوۓ کرسی سے ی یک
لگاٸ ۔ ان گ بت تی وی جی یل اس ونڈنو کو پراہ راست اس وقت ا ینے جی یلز کے ذر بعے
دی یا نک پہیچا رہے تھے ۔
234
” بس ت ھر گ یا وہ نے جارا نوری دی یا کے ہیرو سب کی بظروں میں زپرو ی یا دنا میں نے
ی نوقوف غوام “
شازل اب فہفہ لگا رہا ت ھا۔ قواد نے ت ھوڑا شا رخ پروج یکیر کی طرف موڑ کر ونڈنو کو ی ید ک یا اور
س یدھا ہوا ۔ تمام ضچافی نوری دی یا کی طرح منہ ک ھو لے ٹیت ھے تھے ۔ نورے ی یڈال میں
سرگوس یاں ات ھرنے لگی ت ھیں ۔ قواد نے ت ھوڑا شا آگے ہونے ہوۓ ا نیے شا منے لگے
ڈھیروں ماٸک میں نول یا سروع ک یا ۔
قواد نے اعتماد سے کہا۔ ضچاق نوں کے قلم جلنے لگے تھے نو ی نوز جی یل والے پراہ راست نوری
دی یا میں اس کی پربس کابقربس جال رہے تھے ۔
قواد نے سیچیدہ سے لہجے میں کہا ۔ اور ت ھر ا نیے دونوں ہات ھوں کو مال کر سر کو ت ھوڑا شا ح ھکانا
۔ ہللا بعالی نے اس کے ٹی نے کو دوسری زندگی دی ت ھی اور اس نے دل سے نویہ کی ت ھی ہر
اس گ یاہ سے خو وہ کرنا رہا ۔
235
” مچھ سے پہت پڑی علطی ہوٸ میں شاذل کی نانوں میں آنا دو دوفعہ اور میسم کو دھوکا دنا
“
م
نات کمل کرنے کے بعد قواد نے سر اوپر ات ھانا ۔ اور نورے ی یڈال کی طرف بظر دوڑاٸ ۔
” پر اب اور پہیں “
گہری شابس جارج کی ۔ بظریں ا نیے ہات ھوں پر گاڑیں اسے کی یا شکون مال ت ھا یہ سب کر
کے دل پر سے نوحھ اپر گ یا ت ھا ۔
” میری ای یل ہے میسم کو ت ھر سے یتم میں اور دلوں میں وہی مقام دنا جاۓ خو اس کا پہلے
ت ھا “
*****
236
ابگل سنوربس جی یل کے سبٹ پر شا منے لگی کرسنوں پر ییچاب کرکٹ نورڈ کے خیرمین نوقیر
اور میسم ٹیت ھے تھے۔
لع مچ س
” پہیں پہیں نوں ھیں پہت پڑی طی ہوٸ م سے “
ہ
ییچاب کرکٹ نورڈ کے خیرمین نے زور زور سے سر بفی میں ہالنے ہوۓ تی وی ای یکر کی
طرف دنک ھا ۔ خو شاٸد ییچاب کرکٹ نورڈ کے نافص ای ٹطام پر خیر مین کو س یا رہا ت ھا ۔
ای یکر نے کوٹ کو درست کرنے ہوۓ ما تھے پر نل ڈالے کر کرکٹ نورڈ کے خیرمین کی
طرف دنک ھا ۔ میسم اور نوقیر نے ت ھی دھیرے سے بظروں کا رخ اب خیر مین کی طرف موڑا۔
ن
” جی د ک ھیں نات یہ ہے کہ پہلے کتھی ابسا ہوا پہیں اس دفعہ کی ہے ہم نے پرمتم
شازل کو یہ صرف معطل ک یا گ یا ہے نلکہ ت ھاری جرمایہ ت ھی عاٸد ک یا گ یا ہے اور آگے
مزند اقدامات کریں گے “
خیر مین نے اعتماد کے شاتھ کتمرے میں دنک ھنے ہوۓ کہا۔میسم اور نوقیر نے ت ھی سر
ح ھکا کر ای یات میں سر ہالنا ۔ ای یکر نے ای یات میں سر ہالنا اور رخ میسم کی طرف موڑا ۔
237
” میسم آپ کو م یارک ہو آٸ سی سی نے آپ پر سے ٹین کو ک ھول دنا “
تی وی ای یکر نے مسکرا کر میسم کی طرف دنک ھا خو اب گہری ہوتی ہوٸ مسکراہٹ کے شاتھ
س یدھا ہوا۔ ہلکے ییلے رنگ کی ڈربس سرٹ کے اوپر س یاہ کوٹ پہنے ہلکی سی پڑھی ہوٸ سنو
کے شاتھ وہ پرشکون انداز میں ٹیت ھا ہوا ت ھا آزماٸش جتم ہو جکی ت ھی ہللا نے اسے ت ھر سے
اس کی وہی عزت اور سہرت ل یا دی ت ھی ل یکن اس دفعہ اس کی آنکھوں میں عرور کی جگہ
عاجزی نے لے لی ت ھی ۔
َ
” جی الچ ْم ُد ِهلل “
ن
پرشکون لہجے میں کہا آ ک ھیں حمک رہی ت ھیں چہرے پر شکون ت ھا ل یکن انداز عاجزی ت ھرا ت ھا۔
تی وی ای یکر نے ت ھرنور مسکراہٹ کے شاتھ کہا جس پر میسم کھلکھال کر ہیس پڑا ۔ ہیسی کو
قانو نا کر ت ھوڑا شا س یدھا ہوا ۔
” جی ان شا ہللا ک نوں پہیں دراضل میرا خود پر کوٸ کییرول پہیں میں ک ھیل ہی و بسے شک یا
ہوں “
238
میسم نے مسکرانے ہوۓ ت ھوڑا شا سرماۓ سے لہجے میں کہا گال پر خوبصورت گڑھے
ات ھرے خیرمین اور نوقیر اس نات پر ت ھرنور انداز میں مسکرا دنے ۔
******
” جاۓ پٸیں گے ؟ “
میسم نے ت ھوڑا شا ح ھک کر ع یدالظ ٹف کے کان میں کہا ۔ وہ ر کسے پر ح ھکا شاٸد کچھ کر رہا
ت ھا ۔ میسم کی آواز پر خیرت سے نل یا ۔ا نیے شا منے میسم کو ک ھڑا دنک ھا کر انک ملجے کے لنے
شاکن شا ہوا ۔ وہ کیسے میسم کو ت ھول شک یا ت ھا ڈپڑھ شال سے وہ اس ای ٹطار میں ت ھا کہ
کب میسم اسے ملنے آۓ گا کتھی نو مانوس ہو جا نا ت ھا کہ شاٸد وہ اسے ت ھول گ یا ہے ل یکن
ت ھر ت ھی انک بقین ت ھا کہ انک دن وہ صرور آۓ گا ۔
” ارے تم “
خیرت اور خوش کے شاتھ شاتھ اس کی ناح ھیں کھل ات ھی ت ھیں ۔ انک دم جیسے وہ خوسی
سے ناگل ہو گ یا ۔
239
جیچیا ہوا میسم کو وہاں ح ھوڑ کر شاتھ نیے جاۓ کے ڈھانے کی طرف ت ھاگا۔ انداز ابسا ت ھا
جیسے ی یا پہیں اس نے ک یا ج بت ل یا ہو ۔
ع یدالظ ٹف کی آواز خوسی اور خوش سے کایپ رہی ت ھی ۔ پہت سے لوگ اب ڈھانے میں
سے اور اردگرد سے اکت ھے ہو گنے تھے سب کی آنکھوں میں خیرت ت ھی ۔ ع یدالظ ٹف اب
مسکرا نا ہوا خوش سے میسم کی طرف پڑھا ۔
نوکھالۓ سے انداز میں ی یار سے میسم کی طرف دنکھ کر کہا کینے ہی لوگ پرسوق بگاہیں لنے
اب میسم کے گرد حمع ہو جکے تھے سب کے دایت ناہر تھے اور سب خوسی سے ناگل ہو
رہے تھے ان کے درم یان میسم مراد موخود ت ھا ۔
ع ید الظ ٹف نے فچر سے گردن کو اکڑا کر ارد گرد دنک ھا ۔ سب لوگ خیرت میں ڈونے تھے ۔
” صرف جاۓ ٹینے پہیں آنا ہوں آنکو انک نوکری کی آقر د نیے ت ھی آنا ہوں “
240
میسم نے گہری ہوتی مسکراہٹ کے شاتھ ع یدالظ ٹف کے ک یدھے پر ہاتھ دھرا ۔ع یدالظ ٹف
نے خیرت سے میسم کی طرف دنک ھا ۔ وہ جس دن سے تماز پڑھ یا سروع ہوا ت ھا ع یدالظ ٹف کا
ج یال اس دن سے ہی دل میں ت ھا اور آج صیح ماری یگ واک کے بچاۓ وہ پہاں اچکا ت ھا ۔
میسم نے ع یدالظ ٹف کی آنک ھوں میں اپرتی تمی کو دنکھ کر ی یار سے کہا ۔وہ گ یگ ک ھڑا ت ھا ۔
خیران شا
” آنکو ٹیس ہزار کے شاتھ گ ھر کے اندر نیے کوارپر میں رہاٸش ت ھی ملے گی نولیں ک یا آپ
کریں گے “
241
میسم نے جلدی سے آگے پڑھ کر ااسے سی نے سے لگانا۔ اب وہ ت ھوٹ ت ھوٹ کر رو دنا ت ھا
اردگرد ک ھڑے لوگ ناگلوں کی طرح ا ینے ا ینے موناٸلوں میں ربکارڈنگ کر رہے تھے ۔
کچھ دپر کے بعد میسم نے ع یدالظ ٹف کو خود سے الگ ک یا اور پرمی سے اس کے ک یدھے پر
ہاتھ رک ھا ۔
گہری مسکراہٹ کے شاتھ ح ھک کر کہا ۔جس پر ع یدالظ ٹف زور زور سے سر کو ای یات میں
ہال گ یا ۔
*******
اد ینہ جاۓ کا کپ ات ھا کر کرسی کو ییچ ھے دھک یلتی ہوٸ ک ھانے کے میز پر سے ات ھی ۔
انک خور سی بظر میسم پر ڈالی وہ اب موناٸل پر ح ھکا مصروف شا کچھ دنکھ رہا ت ھا شا منے
جالی جاۓ کا کپ پڑا ت ھا ۔ شام کی جاۓ کے پہانے وہ آج اکت ھے ٹیت ھے تھے میسم جاۓ
جتم کر چکا ت ھا اور اس نے جان نوحھ کر آدھا کپ ی یا ت ھا بس ۔ اد ینہ نے ابگلی کی نور
ڈال کر جاۓ کو ج یک ک یا ت ھیڈی ہو جکی ت ھی ۔
242
کرسی سے آگے ہونے ہوۓ مسکراہٹ دنا کر شاری جاۓ میسم کے ک یدھے پر انڈنل دی
۔ وہ خو مصروف شا ٹیت ھا ت ھا نوں اجانک جاۓ گرنے پر انک دم اح ھل کر س یدھا ہوا۔
” اوہ نار “
جلدی سے اتھ کر موناٸل ک ھانے کے میز پر رکھ کر ک ھڑا ہوا ۔ اد ینہ نے تمشکل ہیسی ح ھیا
کر چہرے پر سیچیدگی طاری کی ۔
اد ینہ نے پربسان سی صورت ی یا کر دو ابگل نوں کو خوڑے ہوۓ میسم کے آگے ک یا ۔ جس
پر میسم سر ہال نا ہوا سرٹ کو انک طرف رکھ کر ت ھر سے کرسی پر پراحمان ہوا ۔ اد ینہ سرارت
ت ھری انک بظر اس پر ڈال تی کمرے کی طرف پڑھی ۔
اد ینہ نے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھ کر آواز کو ت ھوڑا اوبچا ک یا ج یکہ چہرے پر انوک ھی
سی سرارت ت ھی ۔
243
” ی یگم خو لے آٶ گی وہ دوڑے گا “
میسم نے موناٸل پر بظریں حماۓ خواب دنا ۔ اد ینہ نے مسکرا کر میسم کی طرف دنک ھا اور
قدم الماری کی طرف پڑھاۓ الماری میں سے ی یک ک یا انک گقٹ بکاال مچ بت سے اسے دنک ھا
اور ت ھر مسکراہٹ دناتی ناہر کی طرف آٸ میسم ہ نوز اسی انداز میں ٹیت ھا ت ھا ۔ نل نو خییز ز یب
ین کنے ک ھانے کے میز پر کہی نوں کے نل ہاتھ میں موناٸل نکڑے ۔
” یہ لیں “
اد ینہ نے مسکراہٹ کو ح ھیا کر ییلے رنگ کے خوبصورت سے گقٹ ر یپ میں لی یا ڈیہ میسم
کی طرف پڑھانا ۔ میسم نے موناٸل سے بظر ات ھا کر اد ینہ کے ہات ھوں میں نکڑے ڈنے کی
طرف دنک ھا
” ہیں گقٹ “
244
م
میسم نے موناٸل انک طرف رکھ کر کرسی پر سے خود کو کمل طور پر اد ینہ کی طرف گ ھمانا
۔ اور ل نوں کو داد د نیے کے انداز میں ناہر بکال کر اد ینہ کے نلش ہونے چہرے کی طرف
دنک ھا۔
اد ینہ نے سرارت سے گردن اکڑا کر ح ھوتی سی ناک اوپر جڑھاٸ ییلے رنگ کے خوڑے میں
ن
وہ شادہ سے د ھلے چہرے کے شاتھ کھل رہی تھی ۔ میسم نے خیرت سے آ یں کیڑ کر
ش ھ ک
دنک ھا ۔ انک انوک ھی سی حمک اور سرارت لنے آنکھوں کے شاتھ وہ میسم کو دنکھ رہی ت ھی ۔
” اوہ ابسا ک یا؟ مطلب ڈاٸم یڈ رنگ یہ گ ھر اور ناہر ک ھڑی کار سب “
” جی سب سب نے کار ہے “
اد ینہ نے مسکراہٹ دناٸ اور آنک ھوں میں سرارت ت ھر کر دنک ھا ۔
245
میسم نے خیرت سے ی یک کی طرف دنک ھا اور گقٹ ر یپ ا نارنے کے لنے ہاتھ پڑھاۓ ۔
ٹیساتی پر بحشس کے ہلکے سے نل تمودار ہوۓ ۔
اد ینہ نے عچلت میں میسم کے گقٹ کی طرف پڑ ھنے ہاتھ روک دنے جلدی سے ا نیے گلے
میں لی یا سکارف تما ح ھونا شا دو ینہ ا نارا۔
ہ ل ک ت ک م ہ ھ ک ن
” آ یں ی ید کرتی یں اور خب یں ہوں ھر ھو تی یں اوکے “
آگے پڑھ کر میسم کی آنکھوں کے گرد دو نیے کو ناندھ دنا وہ اد ینہ کی ابسی بخگایہ جرکت پر
فہفہ لگانے میں مصروف ت ھا خیرت ہ نوز پرقرار ت ھی ۔ آنکھوں کے اوپر دو ینہ ناند ھنے کے بعد
اد ینہ ت ھوڑا شا ییچ ھے ہوٸ ۔ اور میسم کے ہاتھ کو ات ھا کر گقٹ پر رک ھا ۔ خو اب ت ھرنور
مسکراہٹ ل نوں پر سچاۓ رتیر ا نارنے میں مصروف ت ھا ۔
تی سرٹ کے کے اوپر ہاتھ ت ھیرنے ہوۓ سوالنہ انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا خو ت ھرنور
طر بفے سے مسکرا رہی ت ھی۔ گال گالتی ہو رہے تھے ۔
246
اد ینہ نے میسم کے نالوں میں ہاتھ کو ت ھیر کر اس کے نال نک ھراۓ۔ میسم نے مسکرا کر
سر پر سے اد ینہ کے ہاتھ کو نکڑا ۔
ن
” نو ابسا ہے ی یگم کہ میں خب آ ک ھیں ی ید کر لوں ت ھر کچھ ت ھی پہیں کر شک یا پہ یاٶ مچ ھے
سرٹ “
میسم نے سرارت سے مسکرانے ہوۓ رخ اد ینہ کی طرف ک یا اور نازو اوپر کنے ۔ اد ینہ نے
فہفہ لگا کر مصنوغی چقگی کے شاتھ ک یدھے پر ج بت لگاٸ ۔
اد ینہ نے سرٹ کی پہہ کو جتم کرنے ہوۓ س یدھا ک یا اور میسم کے شا منے میز پر بچ ھانا۔
” پہ نیں اب “
میسم کے ہاتھ ات ھا کر سرٹ کے اوپر ر کھے ۔ خو اب پہلے سرٹ پر ہاتھ ت ھیر رہا ت ھا ۔آجر کو
یہ کر ک یا رہی ہے ذہن میں سوال امڈ رہے تھے ۔
ہ
” ممم ک یا یہ سونے کے ناروں سے ی یاٸ گٸ سرٹ ہے ناطرین مچ ھے پہت بحشس ہو رہا
ہے ابسا ک یا ہے اس سرٹ میں “
247
میسم نے ہیسنے ہوۓ ی نوز پڑ ھنے کے انداز میں کہا اور سرٹ پہتی خب کہ اد ینہ مسلسل
نلش ہونے چہرے کے شاتھ منہ پر ہاتھ ر کھے ہیسی کو ح ھیا رہی ت ھی ۔
ہ
” ممم نو اب ک یا کرنا ہے جا ِتم ؟“
ک ھڑے ہو کر ی بٹ سے نکڑ کر سرٹ کو ییجے ک یا اور سرارتی انداز میں اد ینہ سے نوح ھا۔
اد ینہ نے نازو سے نکڑ کر س یدھا ک یا اور خود ییچ ھے ہونے ہوۓ بست سے دھکا د نیے کے
انداز میں میسم کو آگے پڑھانا ۔
میسم نے دونوں نازو شا منے کی طرف ک ھول کر ہوا میں جالنے ہوۓ اندھوں کی طرح کہا ۔
” جلیں جلیں “
اد ینہ نے آگے ہو کر انک نازو کو نکڑا میسم نے نازو اوپر کرنے ہوۓ اسے بعل گیر ک یا ۔
اد ینہ نے مسکراہٹ دنانے ہوۓ س یگہار میز کی طرف قدم پڑھاۓ ۔
میسم نے بحشس ت ھری آواز میں کہنے ہوۓ سرٹ پر ہاتھ ت ھیرا ۔
248
” پہاں ک ھڑۓ ہو جاٸیں “
اد ینہ نے نلکل آٸ نیے کے شا منے میسم کو ک ھڑے کرنے ہوۓ کہا ۔
اد ینہ نے گہری ہوتی مسکراہٹ کے شاتھ کہا ۔ اور ت ھوڑا شا ییچ ھے ہونے ہوۓ میسم کی
طرف دنک ھا ۔
میسم کا منہ خیرت سے کھال ت ھا وہ نار نار کتھی شا منے اور کتھی گردن ح ھکا کر سرٹ پر لک ھے
القاظ کو دنکھ رہا ت ھا ۔ اد ینہ نے نلش ہونے چہرے کے شاتھ مسکراہٹ کو گہرا ک یا۔ میسم
کی خوسی نے اندر نک شکون ا نار دنا ت ھا ۔ خیرت میں ڈونا وہ اد ینہ کی طرف مڑا ۔
249
” سیربسلی ؟ “
ت
خوشگوار خیرت سے سوالنہ انداز میں اد ینہ کی طرف دنک ھا ۔اد ینہ نے لب ھییچ کر حمکتی
آنکھوں کے شاتھ سر کو زور زور سے ای یات میں ہالنا ۔
میسم کی زنان لڑک ھڑا گٸ ت ھی وہ خوسی میں نوکھال شا گ یا ت ھا ۔انک عچ بب انوک ھی سی خوسی
ت ھی جس سے پہلی نار آس یاٸ ت ھی ۔ بقین پہیں آ رہا ت ھا ۔
” میسم ک یا ہو گ یا آنکو “
اد ینہ نے میسم کے عچ بب سے سوال پر فہفہ لگانے ہوۓ کہا ۔ میسم نے ح ھی بپ کر کمر
پر ہاتھ دھرے ۔
فہفہ لگا کر گردن ک ھچا نا اد ینہ کے ناس ہوا۔ خو اب مچ بت ناش تم آنکھوں سے میسم کی
طرف دنکھ رہی ت ھی ۔
250
اد ینہ نے سرماۓ سے انداز میں سرٹ پر ہاتھ ت ھیرا ۔ ج یکہ میسم اب شاٸس یگی سے مسکرا نا
اس کے چہرے کی طرف دنکھ رہا ت ھا وہ دی یا کی خوبصورت پرین غورت ہونے کے شاتھ
شاتھ انک خوبصورت دل کی مالک ت ھی وہ سہی کہہ رہی ت ھی اس کا ہر مہ یگے سے مہ ٹگا
گقٹ اد ینہ کے اس گقٹ کے آگے ماند ت ھا نے کار ت ھا اوالد کی دولت سے پڑھ کر کوٸ
دولت پہیں ہوتی ۔
” آٸ لو نو ی یگم “
میسم نے سر کو ح ھکا کر اد ینہ کے دونوں ہات ھوں کو غف یدت سے ا ینے ہات ھوں میں ل یا ۔
اد ینہ نے مچ بت سے مسکرانے ہوۓ میسم کی طرف دنک ھا۔
” آٸ اتم سو سو سو ہیتی “
لفظوں پر زور دنا اور ہات ھوں پر گرقت مصنوط کی ۔ اد ینہ نے ی یار سے ناک جڑھاٸ ۔ کی یا
م
شکون ت ھا شا منے ک ھڑے سخص کی مچ بت میں جس نے کمل کر دنا ت ھا اسے انک ی یارا شا
اجساس گدگدا گ یا ت ھا۔
” می نو “
251
آنکھوں میں دی یا چہان کا ی یار سموۓ میسم کی طرف دنک ھا ۔ میسم نے ہاتھ ح ھوڑ کر ناہیں
ت ھیالٸیں ۔
********
میسم نے شا منے سے آتی ڈاکیر اور اد ینہ کی طرف دنک ھنے ہوۓ کہا ۔ خو مسکراتی ہوٸ ج یک
م
اپ روم سے ناہر آ رہی ت ھیں وہ دونوں ہفنے بعد ہی ڈاکیر سے کمل ج یک اپ کے لنے
آۓ تھے ۔ اد ینہ کی بسلی میسم کے کسی کام پہیں آ رہی ت ھی وہ الہور کی ٹیسٹ ڈاکیر سے
ج یک اپ کے لنے اسے آج ہفنے بعد ہی لے آنا ت ھا ڈاکیر س ن بنہ انک پہت ہی بچریہ کار غمر
ربسدہ اور مشہور ڈاکیر ت ھیں ۔ جس کے نارے میں اپہیں ی یا نے آ گاہی دی ت ھی۔
ڈاکیر س ن بنہ نے سرارت سے مسکرانے ہوۓ جسمے کی اوٹ سے میسم کی طرف دنک ھا
۔میسم نے خیرت سے اد ینہ کی طرف کی طرف رخ ک یا خو گالتی ہونے چہرے کے شاتھ
اب ل نوں پر ہاتھ ر کھے نلش ہو رہی ت ھی ۔
” مطلب ؟“
252
میسم نے گردن گ ھما کر سوالنہ انداز میں ڈاکیر کی طرف دنک ھا خو ہ نوز سرارت ت ھری مسکراہٹ
ٹ
چہرے پر سچاۓ یتھی ت ھیں ۔
ڈاکیر نے ت ھرنور مسکراہٹ کے شاتھ کہا اور اد ینہ کی طرف دنک ھا ج یکہ میسم کا منہ خیرت
سے ت ھوڑا شا کھال ت ھا ۔
” جی ما شا ہللا “
ڈاکیر نے خیران سے میسم کی طرف دنکھ کر کہا ۔میسم اب نار نار اد ینہ کی طرف دنکھ رہا ت ھا
۔ ڈاکیر اب جسمے کو ناک پر ت ھوڑا شا آگے کنے کاعز پر کچھ لکھ رہی ت ھی۔
” آپ قکر یہ کریں “
میسم نے مسکرا کر کاعز کو ت ھاما ۔ اب ڈاکیر مچیلف اجی یاط ی یانے میں مصروف ت ھی ۔ خن
سے اد ینہ ت ھی ناخوتی وافف ت ھی ۔ ل یکن میسم کو اس معا ملے میں اد ینہ پر کوٸ اعی یار
پہیں ت ھا وہ زور زور سے سر ہال نا ہوا ڈاکیر سے تمام ہداٸنات سینے میں مصروف ت ھا ۔
253
********
میسم نے ہاتھ کو ہوا میں جالنے ہوۓ کہا ۔ سب لوگ فہفہ لگا کر ہیسنے لگے س یاہ رنگ کی
سیراواتی میں مل نوس فہد نے خیرت سے ما تھے پر نل ڈال کر میسم کی طرف دنک ھا اور اس
کے قریب ہوا۔
فہد نے دایت ٹیسنے ہوۓ میسم کے کان میں سرگوسی کی خو نافی سب دوسنوں کے شاتھ
نانوں میں مصروف ت ھا ۔ شارے فہد کے گ ھر کے ڈراٸنگ روم میں ٹیت ھے آڑے پر حھے
صوقوں پر ڈھیر تھے کوٸ ت ھی ات ھی فہد کو ح ھوڑنے پر رضام ید پہیں ت ھا ۔
” نو ؟ “
میسم نے پرشکون لہجے میں کہنے ہوۓ آنکھ کے انک آپرٶ کو جڑھانا ۔ فہد نے ما تھے پر نل
ڈال کر گ ھورا ۔
بچارگی سے الیچاٸ لہجے میں کہا ۔ ج یکہ میسم نے کمی یگی سے دنک ھا ۔
254
“ نو ؟ “
” یہ ای یا ر تم نو س یا پہت اح ھا گانا گا نا ہے “
میسم نے گال ضاف کرنے ہوۓ دایت بکا لنے نے سرے ر تم نو کی طرف اشارہ ک یا ۔
” ر تم نو جل سروع ہو جا تھٸ “
255
راشد عرف ر تم نو اب ایتی نے سری آواز میں اوبخی اوبخی گانا گانے میں مصروف ہو چکا ت ھا
فہد نے روہابسی صورت ی یا کر میسم کی طرف دنک ھا ۔
غصے والی سکل کے شاتھ مسیج دنکھ کر فہد نے غصے سے مستم کی طرف گ ھور کر دنک ھا خو
شا منے ک ھڑے ر تم نو کے نے سرے گانے کو ت ھرنور طر بفے سے ابخواۓ کر رہا ت ھا ۔
” ار ینہ ناگل ہو گٸ ہو ک یا “
ار ینہ کو مسیج ت ھیچا ۔ جس پر کچھ دپر میں ہی خواتی میسیج آنا
فہد نے نے جارگی سے سب دوسنوں کی طرف دنک ھا خو موج مستی میں لگے فہفے لگا رہے تھے
اور ت ھر ار ینہ کو خواتی مسیج ناٸپ ک یا
256
گ ھور کر شاتھ ٹیت ھے دایت بکا لنے میسم کی طرف دنک ھا خو اب ہوی نوں کو نوسے کی انداز میں
ناہر بکالے فہد کو ی یگ کر رہا ت ھا ار ینہ کا خواتی مسیج آنا نو بظریں موناٸل کی طرف
ح ھکاٸیں ۔
ار ینہ کا میسج پڑھ کر فہد نے موناٸل ییجے ک یا میسم اور نافی سب اب لہک لہک کر نے
ُسرے ر تم نو کا گانا سن رہے تھے۔
” میں نے تم ھاری گاگر سے کتھی ناتی ی یا ت ھا ی یاشا ت ھا گوری ناد کرو تم سرما کر ت ھوڑا شا نل
ک ھاٸیں ت ھیں وہ دن ناد کرو“
ر تم نو لہک لہک کر نازو آگے ییچ ھے کرنا ہوا گانا گا رہا ت ھا۔
میسم کے قون پر اد ینہ کی کال آنے پر وہ قون کان کو لگاۓ انک طرف ہوا ۔
” ہ یلو ی یگم “
گردن ک ھچانے ہوۓ ی یار سے کہا ۔ ا بسے جیسے اسی کے قون کے ای ٹطار میں ٹیت ھا ہوا ت ھا ۔
257
اد ینہ نے چقگی سے غصے واال لہحہ ای یانا ۔ میسم نے جلدی سے گ ھڑی کی طرف دنک ھا ۔ رات
کا انک بج رہا ت ھا۔ جان پر ین گٸ اس کا ح ھیا ماہ جلنے کی وجہ سے وہ اس کا ج یال ت ھی
پہت رکھ رہا ت ھا پر اب پہاں آ کر فہد اور ار ینہ کی شادی کی وجہ سے ت ھوڑی الپرواہی پرت
گ یا ت ھا ۔
جلدی سے کہا اور موناٸل ی ید ک یا ۔ اد ینہ آچکل ح ھوتی ح ھوتی نات کو پہت محسوس کرتی
ت ھی ۔
فہد نے میسم کے ک یدھے پر ہاتھ رک ھا ۔ میسم نے مسکرا کر دنک ھا اور فہد کے منہ کو ا نیے
ہات ھوں میں ل یا ۔
فہد کا چہرہ انک طرف کرنے ہوۓ فہفہ لگانا ۔ فہد نے اح ھل کر میسم کی گردن کو دنوجا ۔
258
” کمبنہ ابسان اب ایتی والی کا قون آنا نو کیسے الٸن ہی ندل گ یا “
فہد نے زور سے میسم کی بست پر مکا جڑا۔ جس پر اب وہ انک ہی دفعہ میں اس کے نازو کو
گ ھما کر س یدھا ہو چکا ت ھا ۔
” سمچ ھا کر نار تیرے والی کا ینہ پہیں میرے والی نو کمرے کا دروازہ ہی پہیں ک ھولتی ت ھر
“
” میری والی سن اس کی شادی کی پہلی رات ح ھوڑ کر م یکے جانے کی دھمکی دے رہی “
فہد نے بچارگی سے کہا اور ت ھر دونوں جلدی جلدی سب کو بکا لنے میں مصروف ہو گنے ۔
**********
فہد نے گہری بظروں سے دنک ھنے ہوۓ ار ینہ کے ہاتھ میں ات ھی ات ھی پہ یاۓ گنے پرس یلٹ
ٹ
کی طرف دنک ھا۔ سرخ رنگ کے ت ھاری ت ھکرم خوڑے میں وہ زنور اور م یک اپ سے لیس یتھی
دل کو نے ناب کر رہی ت ھی۔
” کوبسی دھمکی “
259
ار ینہ نے ابچان ٹی نے ہوۓ نلکیں ات ھا کر فہد کی آنکھوں میں ح ھابکا ۔ س یاہ سیرواتی میں
گہری بظروں سے دنک ھیا ہوا دل کے نار ح ھیڑ گ یا ت ھا ۔
فہد نے سرارت سے س یدھے ہونے ہوۓ کہا ۔ سیرواتی کے اوپر والے چصے کو ک ھول کر
ناس پڑے صوفے پر رک ھا ۔ ار ینہ نےتمشکل مسکراہٹ کو ح ھیانا ۔
” ہاں آپ آ ہی پہیں رہے تھے نو ک یا کہتی ت ھر اور صرف کہک ہی پہیں رہی ت ھی سچ میں
جلی جاتی “
فہد نے کان ک ھچانا اور نلکل شا منے آ کر ٹیت ھا۔ ار ینہ نے کچھ دپر بظروں میں دنک ھا اور ت ھر
ً
اس کی آنکھوں میں موخود نے ی یاہ جزنات کی ناب نا النے ہوۓ قورا بظریں ح ھکاٸیں۔
الڈ سے کہا ۔ ج یکہ بظریں ہ نوز ییجے ح ھکی ت ھیں۔ فہد کا نوں دنک ھیا جالت کو عیر کر رہا ت ھا ۔
” یہ نو مشکل ہے ت ھوڑا “
260
فہد نے کان ک ھچانا ار ینہ نے خونک کر دنک ھا ۔ آنکھوں کو شکوڑ کر گھورا۔ یہ ک یا کہ ک یا یہ
ا بسے ہی ی یگ کرنے رہیں گے مچ ھے یہ
” ک یا مطلب “
” مطلب تم نو ا بسے ہی ناراض ہو جاتی ہو ح ھوتی ح ھوتی نات پر نو ہر نات پر ت ھاگ جانا کرو
گی شا منے م یکے میں “
ار ینہ نے ت ھولے منہ سے غصے سے کہا۔ فہد اب اس کے انداز سے مچزوز ہو رہا ت ھا ۔
فہد نے ار ینہ کے چہرے کو ت ھورڈی سے نکڑ کر شا منے س یگہار میز کی طرف موڑا ۔
” ہاں نو ا بسے ہی منہ ت ھولے گا یہ کوٸ بعربف کی یہ کچھ گ یا ت ھاڑ میں بچاس ہزار “
ار ینہ نے گردن کو افسوس کے انداز میں ح ھالنا ۔ فہد نے خیرت سے منہ ک ھوال ۔
261
” اوہ تیری بچاس ہزار میں ی یار ہوٸ “
فہد نے اح ھلنے کے انداز میں کہا۔ ار ینہ نے گ ھور کر ک ھاجانے والی بظر سے دنک ھا
فہد گڑ پڑا گ یا ۔ ار ینہ جلدی سے لہ ٹگا سیت ھالتی ی یڈ سے ییجے اپرنے کے انداز میں آگے ہوٸ
۔
فہد نے خیران ہونے ہوۓ کہا خو اب ی یڈ سے ییجے اپر ک ھڑی ہو جکی ت ھی
262
ار ینہ نے چقگی سے کہا چہرے کا رخ موڑ کر ہیسی دناٸ ۔ فہد نے اس کی مسکراہٹ کو
دنکھ کر ح ھٹ سے اس کا ہاتھ ت ھام کر ک ھڑا ہوا ۔
” ارے ارے “
پرمی سے نازو نکڑ کر قاضلہ جتم ک یا ۔ ار ینہ ح ھی بپ گٸ شاری اکڑ ایتی سی قریت میں ہوا
ہو گٸ ت ھی ۔
ی یار سے ار ینہ کے چہرے کے قریب ح ھکنے ہوۓ کہا جس پر وہ پری طرح سرما جکی ت ھی ۔
*******
” جلو کمی ت ھی نو ان کی “
احمد م یاں نے خواد احمد کی طرف اشارہ کرنے ہوۓ کہا خو اب مزند سر ح ھکا گنے تھے ۔
سب پڑے احمد م یاں کے کمرے میں حمع تھے ٕار ینہ کے ونلتمے کی بقریب کے بعد ات ھی
وہ گ ھر پہیجے ہی تھے خب سب سر ح ھکاۓ احمد میاں کے کمرے میں آ گنے تھے ۔
263
” انا جی شازیہ کی ٹی تی ت ھی انک کہہ رہی ت ھی پہلے ٹیتی کی شادی کروں گی ت ھر ا ینے بکاح
کے نارے میں سوخوں گی اس لنے پہلے ذکر پہیں ک یا کتھی میں نے “
وہ جس بخی کا لج میں شام کو پڑھانے جانے تھے وہاں انک ی نوہ پروقیسر جانون آتی ت ھیں
خواد احمد ان سے بکاح کرنا جا ہنے تھے جس کے لے وہ اب احمد م یاں کے شا منے ٹیت ھے
اجازت مانگ رہے تھے ۔
احمد م یاں نے گ ھور کر خواد احمد کی طرف دنک ھا ۔ خو اب مزند سر ح ھکا گنے تھے ۔
264
” پہیں پہیں انا جی کوٸ ق ٹصلہ آ نکے جکم کے ی یا کیسے کر شکنے ہیں کوٸ ق ٹصلہ پہیں ہوا
بس راۓ دے رہے ہیں “
مراد احمد نے جلدی سے بفی میں سر ہالنا اب سب کی گردٹیں بفی میں ہل رہی ت ھیں ۔
احمد م یاں نلکل جاموش ٹیت ھے تھے ۔ میسم کی ایتی سہرت کے بعد دل میں کیتی دفعہ یہ
ج یال آ نا رہا کاش خواد احمد کو ت ھی اپہوں نے اس کی مرضی پر جلنے دنا ہونا نو آج وہ ت ھی
انک کام یاب اور پرشکون ابسان ہونا ۔ اس کی شادی ت ھی اس کی مرضی کے جالف کرواٸ
خو زنادہ عرصہ جل پہیں شکی اب خب وہ پہت یتمار ر ہنے لگے تھے ہر وقت خواد کی قکر
ک ھاتی ت ھی کہ وہ اک یال ہے پر آج شکون ہو گ یا ت ھا ۔ عزرا نو ی نی نوں میں خوسی نالش کر لیتی
ت ھی پر وہ اک یال ت ھا اس کا یہ اک یال ین احمد م یاں کو کھل جا نا ت ھا ۔ اپہوں نے پرشکون
شابس لی سب کی طرف دنک ھا
احمد م یاں نے مسکرا کر خواد احمد کی طرف دنک ھا خو اب ت ھاگ یا ہوا ان کے گلے لگ چکا ت ھا ۔
سب کے چہروں پر مسکراہٹ نک ھر گٸ ت ھی ۔
**********
265
” ڈاکیر میری مسز ت ھیک ہیں “
م
ڈاکیر کی م یارک ناد ات ھی کمل پہیں ہوٸ ت ھی خب میسم نے نے جین ہو کر سوال ک یا ۔
عزرا اور رابعہ ت ھی جلدی سے ڈنل نوری روم کے ناہر لگی بشسنوں پر سے اتھ کر ناس آ جکی
ت ھیں اور اب انک ٹی یا اور انک ٹیتی کی ی یداٸش کی خیر پر خوسی سے انک دوسرے کے
گلے لگ جکی ت ھیں ۔
ڈاکیر س ن بنہ نے مسکرا کر میسم سے کہا ۔ خو اب گہری شابس لینے ہوۓ آسمان کی طرف
دنکھ رہا ت ھا ۔ احمد م یاں کے اجانک ای ٹقال کی وجہ سے اد ینہ پہت زنادہ پربسان رہی ت ھی
اسکا آجری ماہ جل رہا ت ھا اسی وجہ سے وہ پہت کمزور ہو گٸ ت ھی ۔ اور اس انک گ ھینے
میں میسم کی جان سولی پر ل یکی ہوٸ ت ھی ۔
اد ینہ ات ھی ڈنل نوری روم میں ہی ت ھی میسم نے نے جیتی سے نوح ھا ڈاکیر نے جیسے ہی
مسکرا کر ای یات میں سر ہالنا میسم ت ھاگ کر اندر داجل ہوا ۔
266
ن
وہ ڈنل نوری روم میں شا منے ی یڈ پر زرد چہرہ لنے یتم دراز ت ھی آ ک ھیں میسم کے آنے پر آہس یگی
سے کھلیں ۔ کاٹ میں لیتی دو یتھی جانوں سے نے ی یازی پری یا وہ تیزی سے آ کر اد ینہ پر
ح ھکا ۔ ہلکے ییلے رنگ کے ہاسی یل گاٶن میں وہ ییڈ پر ت ھکی سی لیتی ت ھی ۔ آنک ھوں کے
ییجے گہرے جلفے واضح تھے ۔
میسم کے کان میں سرگوسی ہونے پر چہرہ مسکرانے ہوۓ اوپر ک یا اور اد ینہ کے ہاتھ کو
ت
پرمی سے ا ینے ہاتھ میں ل یا ۔ ہاتھ کے اشارے سے لب ھییچ کر نوح ھا ت ھیک ہو نا کوٸ
بکل ٹف نو پہیں دی ان دو ح ھیکوں نے اد ینہ نے ہیسنے ہوۓ ای یات میں سر ہالنا ۔ نو
267
گہری شابس لے کر دل پر ہاتھ رک ھا اور اوپر دنک ھا ۔ میسم کے نوں اشاروں میں نات کرنے
پر وہ ت ھرنور طر بفے سے مسکرا دی ۔
میسم اب س یدھا ہوا اور کاٹ کی طرف پڑھا چہاں دو ح ھونے سے گالتی اور سف ید رنگت والے
میس ن
خوبصورت بحہ اور بخی لی نے ہوۓ تھے ۔ ان کو دنک ھنے ہی نے شاخنہ م کی آ یں م
ت ھ ک
گردن موڑ کر روہابسی آواز میں اد ینہ سے کہا خو ہوی نوں کو ناہر بکالے رونے کے انداز میں
مسکرا دی ۔ اور گردن کو ای یات میں ہالنا ۔
268
اد ینہ نے ت ھیگی سی آواز میں کہا اد ینہ کو شدت سے وہ رات ناد آ ٸ خب وہ احمد م یاں کو
بخوں کے نام ی یا رہی ت ھی اور اپہوں نے یہ دو نام بس ید کنے تھے ٹینے کا نام دمیر میسم اور
ٹیتی کا نام ارما میسم
اد ینہ کی روہابسی آواز پر میسم نے سر اوپر ات ھانا ۔ اور مسکرا نا ہوا اس کے ناس آنا ۔
ہ
” ممم پہت خوش ہوں گے “
ی یار سے اد ینہ کے گال کو ت ھیت ھیانا پرس اور ڈاکیر اب اندر داجل ہو جکی ت ھیں اد ینہ کو اور
بخوں کو کمرے میں سقٹ کرنا ت ھا۔
*********
ابگلی یڈ کا ابحیز ناٶل کرکٹ سی یڈتم لوگوں سے ک ھچاک ھچ ت ھرا ہوا ت ھا ۔ ابسا لگ رہا ت ھا جیسے
نوری دی یا پہاں امڈ آٸ ہو ۔ لوگوں کے سور میں کمییری گوبخی ۔
269
” سی نو انڈنا اور ناکس یان کا میچ نو انک ج یگ کی طرح مانا جا نا ہے لوگوں کے چہرے دنکھو “
انک کم ن بییر نے دوسرے سے کہا ۔ ی یا پہیں کہاں کہاں سے لوگ میچ دنک ھنے آ پہیجے تھے
پہت سے ناکس یاتی اور انڈنا کے لوگ قریتی ممالک سے آ پہیجے تھے ۔ اور اب سب ا بسے ٹیت ھے
تھے جیسے زندگی موت کا معمالہ ہو ۔ اور یہ جال پہاں س یڈتم نک مچدود پہیں ت ھا ۔ نوری دی یا
میں ت ھا اس وقت
کمییری کی آواز جاروں اطراف میں گوبج رہی ت ھی ۔ میسم نے ہ یلمٹ کو درست کو اور ہات ھوں
پر دس یانے جڑھاۓ ۔ سیز رنگ کی وردی میں مل نوس وہ ات ھی ی نولین میں موخود ت ھا ۔
270
” زنادہ بس یدند یتم انڈنا کو مانا جا رہا ہے اور انڈنا نے ٹین سو سیر کا پہیرین جدف دے کر ایتی
ج بت کو بقیتی ت ھی ی یا ل یا ہے “
کمییری کی نازگست پر میسم نے گردن کو داٸیں ناٸیں ح ھ ٹکا دنا ۔ اور نلے کو دنوں
ہات ھوں میں نکڑ کے کہی نوں کو ناہر کی طرف بکال کر داٸیں ناٸیں جرکت دی۔
” پر انک نات ت ھول رہے ہیں آپ خوخو اس دفعہ ناکس یاتی یتم کا کی یان کوٸ اور پہیں
میسم مراد ہے میں مای یا ہوں ناکس یان کی نلے نازی ت ھارت کے مقا نلے میں جاص پہیں پر
میسم کا کوٸ ت ھروسہ پہیں “
کمییری گوبج رہی ت ھی اور میسم نال ہاتھ میں نکڑے س یڈتم کے م یدان کی طرف پڑھ رہا ت ھا۔
انڈنا نے ٹین سو سیر کا جدف دنا ت ھا اور آج میسم کو ای یا پہیرین ک ھیل ٹیش کرنا ت ھا ۔ پر یہ
م
سب ہللا کی مدد کے ی یا ممکن پہیں ت ھا ۔ اور اسے جدا پر کمل ت ھروسہ ت ھا ۔
271
“This is also becareful to India. Let’s see India has
given Pakistan the best target of three hundard
seventy after the first bating in the World Cup
”final.
” یہ نات انڈنا کو ت ھی خوک یا کنے ہوۓ ہے جلیں دنک ھنے ہیں ہو گا ک یا جی نو ورلڈ کپ
قاٸنل میچ میں انڈنا پہلے نلے نازی کرنے کے بعد ناکس یان کو ٹین سو سیر کا پہیرین جدف
دے جکی ہے “
کمییری گوبج اور لوگوں کے سور میں سے گزرنے وہ اور نلے ناز سم ٹع اب بچ کی طرف پڑھ
رہے تھے ۔
” اوتیر میں میسم مراد اور سم ٹع اکرم نلے نازی کے لنے ی نولین سے م یدان کی طرف آنے
ہوۓ “
میسم نے ہاتھ کے اشارے سے سم ٹع کو ناس آنے کا کہا وہ ی یا نلے ناز ت ھا خو پہت اح ھا
ک ھیلیا ت ھا اور میسم ہی اسے آگے لے کر آنا ت ھا ۔
272
” دنکھو حم کے ک ھیلیا ہے گ ھیرانا نلکل پہیں ہار ج بت سب ہللا کے ہاتھ میں ہے “
ت ھارت کے شاتھ ک ھیلنے پر و بسے ہی شاری یتم پہت زنادہ دناٶ کا سکار ہو رہی ت ھی وجہ قوم
کے جزنات تھے خو اس ک ھیل سے جڑے تھے۔ ناکس یاتی غوام اس کو ک ھیل سے زنادہ ج یگ
سمچھ لیتی ہے اپہیں وہاں ک ھیلنے والی کھالڑی قوجی لگنے لگنے ہیں ۔
میسم نے اس کے ک یدھے پر ت ھیکی دی اور خود ناٶں کو گ ھی نوں نک ات ھا نا ت ھاگ یا ہوا اب
وک نوں کے شا منے ک ھڑا ت ھا ۔
” میسم مراد ناکس یان کے پہیرین نلے ناز اور کی یان اس وقت وکٹ کے شا منے نوزبسن لینے
ہوۓ “
273
میسم نے ا ینے مخصوص انداز میں آنکھوں کو شکوڑ کر گی ید ناز کے ہات ھوں پر بکانا۔ منہ کو
انک دفعہ ک ھول کر ہ یلمٹ کی سر کے ناس ہوتی جت ھن کو کم ک یا ۔
دوسری طرف ی یلی وردی میں مل نوس ت ھارت کا گی ید ناز اب گی ید کو ہاتھ میں ت ھامے ت ھاگ یا
پ
ہوا آ رہا ت ھا ۔ گی ید میسم نک ہیچنے ہی میسم اس پر نال گ ھما چکا ت ھا ۔ انک شکور کے لنے گی ید
م یدان میں گھومتی ہوٸ جا رہی ت ھی اور ی یلی وردی میں مل نوس کھالڑی ییچ ھے ت ھاگ رہے تھے
۔
274
کم ن بییر آبس میں نات کر رہے تھے۔ میسم نے پہلی دو گی ید آرام سے ک ھیلنے کے بعد اب
ٹیسری نال پر ح ھکا لگا دنا ت ھا جس پر رام اب سر نکڑ کر ک ھڑا ت ھا اور میسم اور سم ٹع ہات ھوں
کی مت ھ نوں کو ی ید کنے انک دوسرے کے شاتھ مال رہے تھے ۔
” جی گی ید ناز کی گی ید نازی کو پہلے پہت غور سے دنک ھنے ہیں ت ھر ک ھیلنے ہیں انک پہیرین
نلے ناز کو ابسا ہی ہونا جا ہنے “
دوسرے کمین بییر نے خواب دنا ۔ میسم ت ھر ایتی جگہ لے چکا ت ھا ۔ ت ھر وہ اسی طرح ہی
ک ھیل رہا ت ھا ہر ٹیسری نا خوت ھی نال پر انک خوکا اور ح ھکا لگانا صروری ت ھا ک نونکہ ت ھارت کا
جدف پہت زنادہ ت ھا ۔ سم ٹع اس کے شاتھ دس اٶور ک ھیل چکا ت ھا اور اب وہ ت ھارت کے
سییر گی ید ناز اچے کی گی ید پر کلین نولڈ ہوا ت ھا ۔
“Out yes out Sami are out on Ajay’s first ball Ooh
Sami Akram out on a very good partnership at
”ninth score
275
” آٶٹ یہ آٶٹ ہیں سم ٹع اچے کی پہلی گی ید پر ہی آٶٹ ہیں اوہ پہت اح ھی نارپرپر سپ
نوے شکور پر سم ٹع اکرم آٶٹ “
276
” یہ میسم مراد کی ٹی تی ہیں شاٸد ابگلی یڈ کی سیرز ناد کروا رہے ہیں خب میسم کی واٸف
نلکل اسی طرح دعا گو ت ھیں “
کمی ن بییر نے ہیسنے ہوۓ کہا ۔ک نونکہ اب انک طرف ابگلی یڈ کی سیرپز کا مشہور کلپ جل رہا
ت ھا جس میں اد ینہ نابچ شال پہلے نوں ہی میسم کے لنے دعا مانگ رہی ت ھی ۔ اور انک طرف
شکرین پر ارما کو دکھانا جا رہا ت ھا ۔ نورا س یڈتم ہیسنے لگا ت ھا پر میسم نے آج ایتی ٹیتی کی طرف
ہواٸ نوسہ اح ھاال ت ھا خو پڑی شکرین پر میسم کو دنکھ کر خوسی سے اح ھل پڑی ت ھی دعا مانگ یا
ت ھول کر وہ اب اد ینہ سے میسم کے ناس جانے کی ضد کرنے لگی ت ھی ۔
آجری کھالڑی تھے اب وہ اور اسرف اور انک گی ید پر دو شکور جا ہنے تھے ۔ اسرف گی ید ناز
ت ھا اور اس وقت وکٹ کے آگے وہی ک ھڑا ت ھا ناکس یای نوں کے منہ ل یک جکے تھے ۔ پر میسم
نے اسرف کو ہاتھ سے اشارہ ک یا کہ کچھ پہیں ہونا بس ک ھیل جا ۔
کمییری کی آواز گوبخی لوگ اب ل نوں پر ہاتھ ر کھے پربسان جال ٹیت ھے ہوۓ تھے ۔
277
” اوہ پہت پہت پربسان کن جاالت دونوں طرف “
کمییری کی گوبج اور دھڑ کنے دل سب کے اسرف نار نار بسبنہ ضاف کر رہا ت ھا ۔
” سوم بت س یگھ گی ید نازی کے لنے آگے پڑ ھنے ہوۓ دوسری طرف اسرف وکٹ سیت ھالے
ہوۓ “
ت ھارت کے نلے ناز نے گی ید اسرف کی طرف ت ھی یکی اسرف نے ہللا کا نام ل یا اور آگے پڑھ
کر نال گ ھمانا گی ید کچھ ہی دوری پر گری میسم نے ت ھاگ یا سروع ک یا پر دل زور زور سے دھڑک
رہا ت ھا ۔
ات ھی انک شکور ہوا ت ھا کہ گی ید ان کے کھالڑی کے ہاتھ میں آ جکی ت ھی میسم نے دوسرے
شکور کے لنے دوڑ لگاٸ اسرف خیران ہوا اور ت ھاگ پڑا ت ھارت کے کھالڑی نے دونوں کی
طرف دنک ھا اور ت ھر زور لگا کر گی ید کو میسم کی طرف ت ھی ٹکا پہی وہ علطی کر گ یا اسرف کی
طرف ت ھی یک یا نو شاٸد وہ ج بت جانے پر اسے پہی لگا ت ھا میسم ت ھکا ہوا ہے وہ ای یا تیز پہیں
پ
ت ھاگ شکے گا پر یہ صرف اس کی سوچ ت ھی گی ید کے وکٹ نک ہیچنے سے پہلے وہ مفسوم
ین چکا ت ھا ۔
278
ناکس یان ج بت چکا ت ھا ۔
*********
وہ لوگ ات ھی شک نورتی کے داٸرے میں آگے پڑھ رہے تھے خب ییچ ھے سے نازگست ات ھری
۔ اد ینہ نے دمیر کو گود میں ات ھا رک ھا ت ھا ج یکہ ارما میسم کے نازو پر ت ھی ۔ دونوں نے انک
شاتھ گردن کو حم دنا نو روشان ت ھاگ یا ہوا قریب آنا۔
روشان نے ناح ھیں بکا لنے ہوۓ ت ھولی شابسوں کے شاتھ کہا ۔ اس کی آنکھوں پر جسمے کا
اضافہ ہو چکا ت ھا اد ینہ نے خونک کر میسم کی طرف دنک ھا خو انک آپرٶ جڑھاۓ روشان کو
دنکھ رہا ت ھا۔ اور روشان کے پڑھے ہاتھ کو پرسوچ انداز میں ت ھاما ۔
” اد ینہ کیسی ہو “
روشان نے مسکرانے ہوۓ اد ینہ کی طرف دنک ھا خو ات ھی ہونق یتی میسم کی طرف دنکھ رہی
ت ھی۔ افف یہ کہاں سے آ گ یا اد ینہ کا دل عچ بب گ ھین سے ت ھرنے لگا ۔
279
روشان نے جلدی جلدی موناٸل بکاال اور ناس ہوا میسم نے ت ھرنور مسکراہٹ چہرے پر
سچاٸ اور قریب ہوا ۔ کن اک ھ نوں سے اد ینہ کو دنک ھا اس کے انداز پر ہیسی ح ھیاٸ وہ کیتی
ی یاری لگ رہی ت ھی اس طرح ڈرتی ہوٸ ۔
” شٸنور “
مسکراہٹ دنا کر انک بظر ت ھر گ ھیراٸ سی اد ینہ پر ڈالی خو اب ارد گرد دنکھ رہی ت ھی روشان
کے شاتھ س یلفی ی یانے کے بعد س یدھا ہوا ۔
خوشدلی سے مسکرا کر روشان سے کہا جس کا منہ خوشگوار خیرت میں کھل گ یا ت ھا ۔ اد ینہ
نے خیرت سے میسم کی طرف دنک ھا جس پر میسم نے مسکرانے ہوۓ انک آنکھ دناٸ ۔
********
” میں پہیں تم ت ھول گٸ ہو شادی ک یا ہوا ج یاب کی یہ کوٸ قون یہ کوٸ خیر دو شال
ہو گنے “
اد ینہ نے قون کان کو لگاۓ چقگی سے کہا۔ ناہر سے آ نا سور پڑ ھنے لگے ت ھا ۔ دوسری
طرف ماہ رخ موخود ت ھی جس کی شادی کراجی ہوٸ ت ھی ۔
280
” دور ہی پہت جلی گٸ ہوں نار “
ماہ رخ نے ت ھیڈی شابس لی اور اداسی سے کہا۔ الن سے اب دمیر کے رونے جیسی
آوازیں آنے لگی ت ھیں اد ینہ نے ٹیساتی پر نل ڈالے ۔
” ماہ رخ انک م بٹ میں تمہیں ت ھر کال کرتی ہوں کچھ دپر میں “
عچلت میں ماہ رخ کو خواب د نیے کے بعد وہ تیز تیز قدم ات ھاتی ناہر آٸ ۔ الن میں دمیر اور
میسم پری طرح لڑ رہے تھے ۔
” یہ تم ھارا ٹی یا ٹین دفعہ آٶٹ کر چکا ہوں اسے مچ ھے نال د نیے پر ی یار پہیں یہ “
281
” نو ؟ اس وقت میرے شاتھ ک ھیل رہا نو ابصاف کرے “
میسم نے منہ ت ھال کر کہا جس پر دمیر نے کمر پر ہاتھ رکھ کر غصے سے دنک ھا ۔
اد ینہ نے اجانک کہا میسم نے آپرٶ جڑھاۓ وہ سرارت سے مسکرا رہی ت ھی ۔
” مما آپ “
وہ آوازیں لگا نا اندر گ یا اور ت ھر اگلے ہی ملجے شات شالہ ارما نوتی لہراتی دایت بکالے ناہر آٸ
ت ھی ۔ اد ینہ نے گی ید س یدھی میسم کے منہ کی طرف اح ھالی جسے میسم نے نال ک ھڑا کر کے
جلدی سے روکا اد ینہ نے دمیر کو اشارہ ک یا خو اب ناس پڑا گی ید سے ت ھرا ناکس ات ھا کر اد ینہ
کے ناس آ چکا ت ھا ۔
” اد ینہ یہ ناونٸسر ہے ج نی یگ ہے یہ “
” نو ک ھیلں اس کو ت ھی “
282
اد ینہ نے انک اور گی ید چہرے کی طرف ت ھی یکی میسم پہت ت ھرتی سے نال کو روک رہا ت ھا
اد ینہ اب ات ھا ات ھا کر اندھا دھ ید گی ید ت ھی یک رہی ت ھی ۔
زور سے انک گی ید ت ھی یکی میسم فہفہ لگا رہا ت ھا ۔ اور گی ید تمشکل روک رہا ت ھا
” یہ ناز عالم کے شاتھ انک اور پر ییڈ کا انڈ شاٸن کرنے کے لنے “
” ی یگم “
میسم جیچا ۔ ک نونکہ لگا نار گی ید پر گی ید آ رہی ت ھی جبے ات ھا ات ھاکراد ینہ کو گی ید دے رہے تھے
۔
انک اور ت ھی یکی ۔ میسم اب ک ھیل یا ہوا آگے پڑھ رہا ت ھا۔
283
” تم ھاری نو رکو “
” مما ت ھاگیں “
جتم شد ۔۔۔
284