You are on page 1of 842

‫ع‬

‫اسالم لیکم !!!‬


‫ہماری ویب سایٹ پر سا ئع ہونے والے تمام ناولز اور مواد تمعہ مصنفہ‪ /‬مصنف کے نام سے محفوظ ہیں‪.‬‬
‫ئغیر اجازت کوئی ب ھی شحص ان تمام ناولز نا مواد سے م نعلق مسودہ ویب سایٹ نا مصنفہ‪/‬مصنف کی اجازت کے ئغیر ئقل نہیں‬
‫کرسکیا‪.‬‬
‫ئقل سدہ مواد نکڑے جانے کی صورت میں م نعلفہ فرد‪/‬نالگ‪/‬ویب سایٹ کو درپیش آنے والے مسانل کا وہ خود ذمہ دار ہوگا‪.‬‬
‫نوٹ‪:‬‬
‫ہمیں اینی ویب سایٹ کالسک اردو میٹیرنل کے ل یے لکھارنوں کی ضرورت ہے‪ .‬اگر آپ ہماری ویب سایٹ پر اییا‬
‫ناول‪/‬ناولٹ‪/‬افسانہ‪/‬کالم‪/‬آری نکل ‪/‬ساعری سائع کروانا جا ہ یے ہیں نو اردو میں نایپ کر کے میدرجہ ذنل ذرا ئع کا اسنعمال‬
‫ب‬
‫کرنے ہونے ہمیں ھیج سک یے ہیں‪.‬‬
‫‪Email Address‬‬
‫‪bestreadingmaterial@gmail.com‬‬
‫‪Classicnovels04@gmail.com‬‬
‫‪Facebook Group: Classic Urdu Material‬‬
‫‪Facebook Page: https://www.facebook.com/ClassicUrduMaterial/‬‬
‫ان ساءہللا آنکی تحرپر انک ہفتہ کے اندر اندر ویب سایٹ پر سا ئع کر دی جانے گی‪.‬‬
‫مزند ئفصیالت کے ل یے اوپر دنے گ یے ای میل انڈریس پر رائطہ کریں‪.‬‬
‫سکرنہ‬
‫ای نظامتہ کالسک اردو میٹیرنل‬

‫‪-1-‬‬
‫دید ِار محبوب کا ہجر‬
‫ل‬‫ق‬
‫از م نشال عزیز‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"سوز فراق یار میں مریا نہیں کمال‪،‬‬


‫ِ‬
‫مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے۔"‬

‫ت‬ ‫ُ‬
‫"تھینک یو سو مچ آپی۔۔۔ا نی ئیر کرنے کے لیے ہماری۔۔۔"‬
‫ک‬
‫یارہ سالہ یائمہ کے کہیے یر عندلیب چویکی‪،‬‬

‫ُ‬
‫"ارے لڑکی۔۔۔م نع کنا تھا یا کہ ہم فرتنڈز ہیں اور فرتنڈشپ میں یو سوری یو تھینک یو۔۔۔اچھا‬
‫اب یہ لو۔۔۔ارنشہ جب اتھ جانے یو اسے دے د ت نا۔۔۔"‬

‫‪-2-‬‬
‫اسے پیسیری کے تنکیس یکڑانے عندلیب یولی ساتھ ہی اتنی الپی گنی سایرز میں سے اور تھی‬
‫جیزیں نکال کر سبھی بچوں میں یا پییے لگی‪،‬‬

‫"آپی مجھے یہ والی جاکلییس جا تیے۔۔۔"‬


‫ان میں سے ایک بچہ عندلیب کے النے دوسرے سایر کو کھول کر یوال‪،‬‬

‫"معاذ یاگل ہو گیے ہو۔۔۔یہ جاکلییس ہمارے لیے نہیں ہیں۔۔۔"‬


‫اس بچے کو ڈ پییے یائمہ نے یڑین کا مظاہرہ کر کے کہا‪،‬‬

‫"تھر کس کی ہیں۔۔۔"‬
‫وہ معصومیت سے یوچھا تھا‪،‬جس یر عندلیب کے تنکھڑی کے ماتند گالپی لب مشکرانے‪،‬‬

‫"یہ جاکلییس گرتنی ُد ّریہ کے گھر لے کر جاپیں گی آپی۔۔۔تھول گیے کنا۔۔۔"‬


‫تبھے ہاتھ سے معاذ کے سر یر ہلکی سی چ یت لگانے یائمہ نے تنایا‪،‬‬

‫"اوہ۔۔میں یو تھول گنا۔۔۔سوری آپی۔۔۔"‬


‫‪-3-‬‬
‫یہ کہیے معاذ تھوڑا اپ سیٹ ہوا اور عندلیب کو اسکا اداس ہویا زرا اچھا یہ لگا‪،‬‬

‫"کوپی یات نہیں گرتنی ُد ّریہ کی جاکلییس یو نہت ساری ہیں۔۔۔انشا کرنے ہیں اس میں سے‬
‫کجھ جاکلییس ہم معاذ کو د تیے ہیں۔۔۔تھنک ہے معاذ۔۔۔؟"‬
‫چوش دلی سے یوری یات کہیے وہ آخر میں معاذ سے یاتندی لینا جاہی تھی جس کا چہرہ اب ِکھل‬
‫چکا تھا‪،‬‬

‫عندلیب کی یات یر وہ جلدی سے اتنات میں سر ہالیا تھر سایر میں سے چند جاکلییس نکال کر‬
‫عندلیب معاذ کی طرف یڑھاپی‪،‬‬

‫ُ‬ ‫ُ‬
‫"تھینک یو آپی۔۔۔یو آر دی پیسٹ۔۔۔"‬
‫مشکراکر چوسی سے چھومنا ‪ 6‬سالہ معاذ چوکلییس ہالنے ہونے یوال اسے مشکرایا دیکھ عندلیب‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ط‬‫م‬
‫ین سی ہوکر ا ھی ھر یرایر یں ر ھے یوکیٹ کو اتھاکر ساتھ ہی سایر ہا ھوں یں تھامی‪،‬‬

‫"جلو بچوں اب میں گرتنی کے گھر جارہی ہوں۔۔۔یو جلدی سے تناؤ وہ اتھی کہاں ہے۔۔۔"‬
‫ی‬
‫جاکلیٹ کھانے بچوں کو د کھنی وہ یآواز یوچھی‪،‬‬
‫‪-4-‬‬
‫"کون آپی؟"‬
‫ایک یار تھر معاذ چو کھانے میں مگن تھا سوالیہ نظروں سے عندلیب کو دیکھا‪،‬‬

‫"اوہو معاذ۔۔۔تم کییے تھلکڑ ہو۔۔۔آپی اس کا یوچھ رہی ہیں۔۔۔وہ کھڑوس۔۔۔!"‬


‫اس مرتیہ پیبم جانے کی شب سے ت ناخہ ‪ 9‬سالہ ایوشہ تھی‪،‬‬

‫"اوووووہ۔۔۔وہ کھڑوووس۔۔۔!!"‬
‫چ‬
‫ہوت بوں کو گول کیے معاذ عندلیب کو دیکھیے یوال‪،‬وہ ھیینی تھی‪،‬‬

‫"اس وقت یو نہیں تھے گارڈن میں اب دیکھ کر تناپی ہوں۔۔۔"‬


‫ّ‬
‫انگلی تھوڑی کے تیچے رکھ کر یاد کرنے ہونے ایوشہ یولی ساتھ ہی پیبم جانے کے بجھلے چصے کی‬
‫جاتب تھاگی‪،‬یہ پیبم جایہ زیادہ یڑا نہیں یر نےجد چونصورت تھا‪،‬عندلیب نہاں یر کافی سالوں سے‬
‫آرہی تھی‪،‬اورفوتیچ کے بچوں کو وہ نےجد عزیز ہوجکی تھی چود اسے تھی بچے نہت نسند تھے کجھ‬
‫اسکا دل تھی نہل جایا وریہ ہوسنل میں یڑھاپی کرنے کرنے یور ہوجاپی تھی وہ‪،‬پیبم جانے کے‬
‫یلکل تیجھے کافی یڑے ر قیے یر ایک چھویا مگر نہاتت چونصورت گھر تھا‪،‬وہ گھر چھویا ضرور تھا مگر‬
‫‪-5-‬‬
‫ٰ‬
‫سلی نقے سے پییے اور ہر جیز اعلی معنار کی ہونے کے یاعث اس عالقے میں اتنی منال آپ‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬
‫تھا‪،‬اس گھر کے بجھلے چصے میں تنا ریگ یر یگے تھولوں اور اعلی قسم کے یودوں سے تھرا گارڈن‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫بجھ چ ّ‬
‫پیبم جانے کے لے صے یں نی ھوپی دیوار سے صاف د ھنا ا ھی ھی ایوسے ا بول رکھ کر‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫خڑھی ساتھ ہی وہاں سے چھا یکیے کے نعد تیچے ایرپی وانس یاہر کی جاتب تھاگی‪،‬‬

‫"آپی آپی۔۔۔وہ کھڑوس گارڈن میں ہے اتھی۔۔۔لگنا ہے تھر آج گندگی ہونے والی ہے گارڈن‬
‫میں ک بویکہ وہ وہاں یر کافی ساری لکڑیاں کاٹ رہے ہیں۔۔۔اور وہ تھی اس زور سے کے کان‬
‫میں آواز لگ رہی ہے۔۔۔"‬
‫ہاتھ جال جال کر تناپی ایوسے کی یات یر عندلیب نے آیرو اچکاپی‪،‬‬

‫"اونس۔۔۔مظلب آج تھر موڈ خراب ہے۔۔۔جلو دیکھیے ہیں کنا ہویا ہے۔۔۔"‬
‫زی ِر لب یڑیڑاپی وہ مڑی‪،‬‬

‫"آپی آج نہیں جاؤ غصے میں لگ رہے ہیں وہ نہت۔۔۔"‬


‫یائمہ گ ھیراپی ہوپی یولی‪،‬‬

‫‪-6-‬‬
‫"وہ کب غصے میں نہیں ہویا۔۔۔"‬
‫یلٹ کر عندلیب اس سے کہیے ہونے مشکراپی‪،‬‬

‫"وہ آیکی اتنی انشلٹ کرد تیے ہیں۔۔۔ہر وقت غصہ ہونے رہیے ہیں۔۔۔کبھی کسی سے ا چھے‬
‫سے یات نہیں کرنے ا تیے یرے ہیں تھر تھی آپ ا یکے یاس کبوں جاپی ہو۔۔۔؟"‬
‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫جب سے اسے د نی ایوسے میہ ت ناکر یو ھی‬

‫"کوپی تھی انشان یرا نہیں ہویا نس کجھ جاالت انشان کو یرا پییے یر مح بور کرد تیے ہیں۔۔۔"‬
‫اسکے چواب میں عندلیب کندھے اچکاکر یولی‪،‬‬

‫"ہییییں۔۔۔مظلب وہ تھی نہلے ا چھے تھے۔۔۔"‬


‫ی‬
‫آ کھیں تیینانے معاذ یوچھا تھا جس یر عندلیب نے اتنات میں سرہالیا‪،‬‬

‫"یر مجھے یو وہ اب تھی نہہہہت ا چھے لگیے ہیں۔۔۔"‬


‫تھوڑی کو ہبھنل بوں کے تیچے رکھ کر کھونے ہونے لہچے میں کہیے والی یہ ‪ 8‬سالہ نِسمہ تھی‪،‬جس‬
‫شخص سے اورفوتیچ کا ہر بچہ ڈریا تھا یہ اس شخص کی دیواپی تھی نقول نسمہ کے وہ آج یک اس‬
‫‪-7-‬‬
‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫کہ نہ ی‬
‫جیشا وجاہت سے تھریور انشان یں یں د ھی ھی‪،‬اکیرو پیسیر وہ اورفو یچ کے لے صے یں‬
‫م‬
‫یاپی جاپی‪،‬وخہ تھی نہی کہ نس جب وہ گارڈن میں ہویا تنایلک چھ نکانے اسے دیکھیے رہنی‪،‬اسکی‬
‫یات سینی عندلیب نفی میں سرہالکر ہیسی‪،‬جاتنی تھی وہ سروع سے انسی ہی تھی‪،‬‬

‫"گرتنی نے کہا تھا وہ نہلے نہت اچھا تھا۔۔۔تھر۔۔"‬


‫کجھ سوچ کر کہنی عندلیب رکی‪،‬شب چو نسمہ کے آہ تھرنے یر اسے دیکھ رہے تھے اب عندلیب‬
‫کی طرف م بوخہ ہونے‪،‬‬

‫"تھر تھر۔۔۔۔تھر کنا۔۔۔"‬


‫نغور اسکی یات سینی ایوسے بجسس کے مارے جلدی سے یوچھی‪،‬‬

‫"تھر کجھ نہیں۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔دیر ہوجانے گی۔۔۔اتھی نہت سارا پیسٹ تھی یاد کریا‬
‫ہے مجھے وریہ کل میری مس نے بجسنا نہیں ئمہاری آپی کو۔۔۔"‬
‫ایوسے کے یال نگاڑ کر یو لیے وہ مشکراکر مڑی‪،‬اب اسکا رخ یاہر کی جاتب تھا‬

‫‪-8-‬‬
‫پیبم جانے سے نکل کر کجھ قدم کا راشیہ طے کر کے وہ اس گھر کے سا میے آپی تھر گہرا سانس‬
‫تھرپی گیٹ کے یاس گنی‪،‬دو تنل یر ہی گیٹ کھال تھا‪،‬‬

‫"اسالم وعلنکم گرتنی۔۔۔"‬


‫چہرے یر ہم شہ کی طرح ناری سی کان جانے وہ ی ُ‬
‫ولی‪،‬د ّریہ تنگم نے ایک نظر اسے سر یاپیر‬ ‫مس ش‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫دیکھا‪ ،‬ہلکے ت نلے ریگ کی قم نض سلوار یر دو تیے کو مفلر کی طرح گلے میں ڈال کر یالوں کی اوبچی‬
‫یوپی ت نانے وہ ہر طرح کی زتب و آرانش سے یاک سرخ و سفند جسین چہرے یر مشکراہٹ‬
‫شجانے انہیں دیکھ رہی تھی‪،‬دودھنا گال دھوپ یڑنے سے ہلکے گالپی ہونے لگے چنکہ مشکرانے‬
‫سے گال یر یڑیا ڈمنل اسکی چونصورپی میں اصافہ کررہا تھا‪،‬مگر جسین چہرے میں شب سے زیادہ‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫مفایل کو منایر اسکی آ کھیں کرپیں‪،‬کابچ سی چمکنلی آ کھیں‪،‬نہلی نظر میں دیکھا جانے یو یوں‬
‫معلوم ہویا کہ وہ کوپی موم کی یازک سی گڑیا ہے‪ ،‬جسے زرا سا چھو لو یو یوٹ کر یکھر جانے‬
‫گی‪،‬آیکھوں ہی آیکھوں میں اسکی نظریں ایارپی ُد ّریہ تنگم نے چہرے کے یایرات یاراض تنانے‪،‬‬

‫"ایک یو نہلے ہی ہفیے میں ایک مرتیہ آپی ہو اویر سے آج یورے دو گھییے لیٹ ہو۔۔۔"‬
‫سالم کا چواب دے کر وہ چفگی سے یولیں‪،‬‬

‫‪-9-‬‬
‫"اوووہ۔۔۔یو عندلیب کا ات نظار تھی کنا جایا ہے۔۔۔"‬
‫سنانسی نظروں سے انہیں دیکھ کر کہنی وہ آگے یڑھ کر ا یکے گلے لگی‪،‬‬

‫"سوری گرتنی۔۔۔ت نا ہے۔۔۔یہ تھول مل کر نہیں دے رہے تھے آج نس اسی لیے تھوڑی دیر‬
‫ہوگنی۔۔۔"‬
‫ان سے دور ہوکر وہ یوکیٹ آگے کرپی یولی ساتھ ہی آگے قدم یڑھاپی جاکلییس کی سایر پینل یر‬
‫رکھی‪،‬‬

‫س‬
‫م‬
‫ل نے گارڈن یں‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫"لڑکی ئمہیں م نع تھی کنا تھا ا تیے تھول یہ الیا کرو۔۔۔نہاں یو آلریڈی‬
‫کییے تھول لگوانے ہیں۔۔۔"‬
‫یوکیٹ کو پینل یر آرام سے رکھییں دریہ تنگم یولیں‪،‬‬

‫"کوپی نہیں یہ تھول تھی لگادیں گے گارڈن میں۔۔۔آج یو میں اس کھڑوس کی ایک نہیں‬
‫سبوں گی۔۔۔ا تیے ہاتھوں سے لگاؤں گی انہیں۔۔۔"‬
‫ہفیے میں ایک دن جب وہ نہاں آپی تب اسکا موڈ کافی چوسگوار ہویا‪،‬آج تھی اسی موڈ کے ساتھ‬
‫چہک کر کہنی وہ کچن کا رخ کی‪،‬‬
‫‪- 10 -‬‬
‫"جلیں شب سے نہلے آج ہم کجھ تنانے ہیں۔۔۔"‬
‫اپیرین کی ڈوری یایدھ کر سوچنی وہ یولی تھر اجایک چنکی بجاپی‪،‬‬

‫"سینڈوخز تنانے ہیں۔۔۔ک بوں گرتنی۔۔۔؟"‬


‫چوسی سے یول کر وہ یاتند جاہی جس یر دریہ ت نگم مشکرانے ہونے ات نات میں سر ہالپیں‪،‬‬

‫"پی پی۔۔۔مجھے تیہ تھا آج آپ کا تھر کچن خراب کرنے کا یلین ہے تبھی میں نے نہلے ہی‬
‫صفاپی کر رکھی تھی۔۔۔"‬
‫اسے خڑانے کے عرض کہیے والی یہ دریہ تنگم کی یراپی جادمہ اور فرمان کی ت بوی اسماء تھی‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔آپ جلنی ہو میرے ہیر سے۔۔۔"‬


‫یاک خڑھاکر اسے چواب د تنی عندلیب نے فربج سے ایڈے نکالے تھر یریڈ کے لیے نظر‬
‫دوڑاپی‪،‬دریہ تنگم کو ہمیشہ سے اسکا یہ فری ایداز نہت تھایا‪،‬یوں ا یکے گھر آکر وہ اکیر کوپی یہ کوپی‬
‫ِڈش تناپی‪،‬‬

‫‪- 11 -‬‬
‫آدھا گھییہ لگاکر وہ سینڈوخز تنار کی تھی اور اس آدھے گھییے میں چو کچن کا جال اس نے کنا‬
‫اسماء اتنا سر تھام کر رہ گنی‪،‬‬

‫ّ‬
‫دریہ تنگم کو سینڈوچ د تیے کے نعد اب یلیٹ یر ایک سن ِڈوچ ر ک ھے اسکا رخ گھر کے بجھلے چصے‬
‫نعنی کہ گارڈن کے جاتب تھا چہاں سے مشلشل ک ھٹ تٹ کی پیز آواز آرہی تھی یوں مجسوس ہویا‬
‫جیسے وہ لکڑیاں کاٹ کم اور اتنا غ ّصہ زیادہ ا یاررہا ہو یر شچ تھی نہی تھا جب غصے میں وہ ہویا یو‬
‫یونہی کریا‪،‬‬

‫ی‬‫پ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬


‫"آج تھر اسکا موڈ خراب ہے۔۔۔ م یں جاؤ نی۔۔۔"‬
‫ہ‬
‫عندلیب کی صدی عادت کو جان کر تھی دریہ تنگم اتنی سی کوشش کی تھیں اسے رو کیے کی‪،‬‬

‫"اوہو گرتنی۔۔۔کنا کرلے زیادہ سے زیادہ۔۔۔چیچے گا ڈا تیے گا۔۔۔کوپی نہیں سن لوں گی اسکی‬
‫ڈاتٹ تھی۔۔۔"‬
‫ُ‬
‫ایک ہاتھ کو ہوا میں لہرا کر نےتنازی سے کہنی وہ یلنی‪،‬دریہ ت نگم نے یاسف سے اس دیواپی کی‬
‫نست کو دیکھا‪،‬‬

‫‪- 12 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ایک ہاتھ میں یلیٹ تھامے یو دوسرے میں الل کھلیے یازہ گالب تھامے وہ دنے یاؤں آپی تھی‬
‫وہاں‪،‬گالپی لب کو دات بوں میں دیاکر اس نے آہسنگی سے گارڈن میں ایک طرف تیے پییچ یر‬
‫ن ی‬
‫تھول اور یلیٹ رکھی تھر سندھی ہوپی سا میے کی طرف غور د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫واتٹ سرٹ کی آسیی بوں کو کہی بوں یک فولڈ کیے وہ مضبوط ہاتھوں میں کلہاڑی تھامے مشلشل‬
‫ِسل یر رکھی لکڑی یر ماررہا تھا‪،‬کلہاڑی یر شخت گرقت ہونے کے یاعث سفند آہنی یازو میں اتھرپی‬
‫نسیں ئمایاں ہورہی تھیں‪،‬نسییے سے سرایور کشادہ پیشاپی یر یکھرے گنلے گہرے تھورے یال‪،‬رخ‬
‫یرچھا ہونے کے یاعث کنارے سے نظر آنے جد سے زیادہ سرخ وچنہہ چہرے یر یایرات یال کے‬
‫تبھر یلے تھے کہ مفایل ایک یل کو الزمی ڈگمگایا اور نہی اتھی عندلیب کے ساتھ ہوا اسکے ہر ایک‬
‫خرکت یر نظر ر ک ھے عندلیب کا دل نےساجیہ دھڑک کر رہ گنا جب وہ ا تیے ہاتھ روک کر سندھا‬
‫ہوا‪،‬چوڑی کسرپی نست موڑ کر وہ رخ اسکی جاتب کنا‪،‬سرٹ کے دو اویری پین کھلے رہیے کے‬
‫یاعث کشادہ سییہ صاف دکھ رہا تھا‪،‬اتنی سایدار شخضیت سے مفایل کو زیر کرنے کی صالچ یت‬
‫م‬ ‫س‬
‫رکھنا لسینل ُمراد واقعی تھریور وجاہت کا مالک ایک کمل شخص ہویا اگر کو اس میں ایک کمی یہ‬
‫ہوپی‪،‬۔۔۔کمی۔۔۔‪،‬ہاں اس شخص میں نس ایک کمی تھی‪،‬‬
‫‪- 13 -‬‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫اور وہ کمی اسکی آ کھیں تھیں۔۔۔ہاں وہ آت بوس ریگ آ کھیں ہمیشہ کی طرح آج تھی جالی‬
‫ی‬ ‫م ُ‬
‫تھیں‪،‬جیسے اسکے ذہین دماغ یں یے والے سارے ین چواب ان آ ھوں یں یں دفن‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫جس‬ ‫ی‬‫پ‬
‫ٰ‬
‫ہو جکے ہوں‪،‬ایک پیناپی یہ ہونے کی وخہ سے وہ شب کجھ چھوڑ چکا تھا چنی کہ ا تیے چوایوں کی‬
‫ٰ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ل ھی یرک کردی‪،‬ا نی گر نی کے الوہ دتنا کے ہر ایک فرد سے فرت کریا تھا وہ نی کے‬ ‫م‬
‫چود سے تھی یاراض رہنا‪،‬اسکے غصے کا تھی کجھ تنا نہیں تھا کب کہیں کسی تھی وقت اجایک آیا‬
‫اور انشا آیا کہ مفایل جب یک اسے تنہا یہ چھوڑد ت نا تب یک غصہ کم یہ ہویا‪،‬‬

‫"کنا ہے۔۔۔؟"‬
‫تھاری شخت مگر دل دھڑکا د تیے والی آواز یر لبھ مار لہچہ تھا کہ عندلیب چو تنایلک چھ نکانے اس‬
‫سایدار شخص کو دیکھیے میں مچو تھی یکدم ہوش میں آپی یری طرح یوکھالپی‪،‬تبھی گہرا سانس تھرپی وہ‬
‫وت سماعت رکھنا تھا وہ کہ دنے یاؤں آنے کے یاوچود‬‫ایک یار تھر نظر اسکی طرف کی‪،‬آخر کیسے ف ِ‬
‫اسکی موچودگی سے ہمیشہ واقف ہوجایا‪،‬تھوڑی دیر یو عندلیب کو الفاظ کے اتیجاب میں لگی‪،‬اس‬
‫انشان کے سا میے کجھ تھی یولنا اسے کافی ہمت واال کام لگنا‪،‬‬

‫"ہا۔۔۔کجھ جاص نہیں میں یو نس گرتنی سے ملیے آپی تھی یو سوجا ئمہیں تھی دیکھ ہی لوں۔۔۔"‬
‫‪- 14 -‬‬
‫لہچے کو نےیرواہ تنانے کی تھریور کوشش کرپی وہ نغور اسکی جالی آیکھوں کو یک رہی تھی‪،‬‬

‫"دیکھ لنا۔۔۔اب جاؤ۔۔۔"‬


‫سناٹ لہچے میں کہہ کر وہ مڑا اور عندلیب کا میہ کھال‪،‬‬

‫"و نسے۔۔۔آ۔۔۔یہ کنا کررہے ہو۔۔۔؟"‬


‫س‬
‫ہر طرف یکھری اپیر جالت میں کنی لکڑیوں کو دیکھ وہ یوچھی یر دوسری جاتب لسینل کی کشادہ‬
‫پیشاپی یاگواری سے سکن آلود ہوپی‪،‬ا تیے کام میں اسے کسی قسم کی مداجلت نسند یہ تھی جاص‬
‫کر جب وہ لڑکی آپی تب یو اس کا اور چون جل جایا‪،‬‬

‫"چہاں یک مجھے تنا ہے کہ پیناپی میری نہیں ہے یر آج یہ تھی معلوم ہوگنا کہ میرے ساتھ‬
‫ساتھ تم تھی ایدھی ہو۔۔۔"‬
‫وہ اس سے یوں یات کررہا تھا جیسے لفظوں کو ادا کم تھینک زیادہ رہا ہو‪،‬اس یار عندلیب ا تیے‬
‫چہرے کو یگڑنے سے یہ روک یاپی‪،‬‬

‫"میں یو نس یونہی یوچھ رہی تھی۔۔۔ت نا نہیں تھا یا اس لیے"‬


‫‪- 15 -‬‬
‫س‬
‫میہ تناکر وہ یولی یو لسینل کے یراسے ہونے عناپی ل بوں یر طیزیہ مشکراہٹ اتھری‪،‬‬

‫"ک بوں۔۔۔ئمہارے جاسوسوں نے اور یایوں سمیت یہ نہیں تنایا تھا کہ میں کنا کررہا ہوں۔۔۔"‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ت ی‬
‫اسکی یات یر عندلیب ا نی آ یں چی ھی‪،‬وہ یسے مجھ جایا تھا ا کی ہر خرکت کو‪،‬نےساجیہ‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫عندلیب نے یرچھی نظروں سے کونے والی دیوار کو دیکھا چہاں یر اب تھی تبھی نسمہ ہبھنل بوں یر‬
‫س‬
‫اتنا چھویا سا چہرہ ر ک ھے مچو سی ہوکر لسینل کو چواب دیدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی‪،‬اسے یوں دیکھ‬
‫عندلیب نے سر چھ نکا‪،‬قلجال یو اسے اتنی چوری یکڑے جانے یر غصہ آرہا تھا‪،‬‬

‫"کھڑوس کہیں کا۔۔۔"‬


‫ی‬
‫میہ تھال کر ہلکی آواز میں یڑیڑانے ہونے وہ ایک نظر پییچ یر رکھی سینڈوچ کی یلیٹ کو د ھی اور‬
‫ک‬

‫یل میں اسکا موڈ وانس چوسگوار سا ہوا‪،‬‬

‫"سبو یہ زرا سینڈوچ کھاکر تناؤ۔۔۔کیسے تیے ہیں۔۔۔ئمہیں تنا ہے میں نے نہت محیت سے‬
‫تنانے ہیں۔۔۔یلیز نعرنف الزمی کریا۔۔۔ک بویکہ تھر مجھے یرا لگے گا۔۔۔اور مجھے یرا لگا یو‬
‫میں۔۔۔میں۔۔۔ہاں۔۔۔میں جلی جاؤں گی نہاں سے۔۔۔"‬

‫‪- 16 -‬‬
‫یلیٹ اتھا کر اسکے سا میے آپی عندلیب ت نارکے یولے جارہی تھی‪،‬وہ چو تھر کلہاڑی واال ہاتھ‬
‫اتھانے لگا تھا ایک دم غصے میں کلہاڑی تھینک کر اتنا تھاری ہاتھ آگے کنا ادھر عندلیب کی‬
‫چوسی کا تھکایہ یہ رہا‪،‬ہر یار اسکی تناپی جیزوں کو اگ بور کرنے واال وہ آج اس سے مایگ رہا تھا‬
‫سین ِڈوچ کی یلیٹ‪،‬‬

‫"یہ لو۔۔۔"‬
‫س‬
‫چہک کر کہیے ہونے اس نے یلیٹ لسینل کے تھاری ہاتھ میں رکھی تنا اسکے یایرات کا یونس‬
‫لیے لنکن اگلے ہی لمچے عندلیب کا میہ کھال کا کھال رہ گنا‪،‬جب وہ یلیٹ تھوڑے دور زور سے‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫تھی نکا‪،‬اتنی محیت سے تناپی گنی اتنی سی نڈوچ کی یاقدری کو وہ ساکی نظروں سے د ھی ھی‪،‬‬

‫"یہ۔۔۔کنا۔۔۔"‬
‫صدمہ انشا لگا کہ ئمسکل وہ دو الفاظ ادا کرسکی‪،‬‬

‫"کردی نعرنف۔۔۔۔اب گم کرو چود کو نہاں سے۔۔۔۔"‬


‫ی‬
‫سرد سیسنی جیز لہچہ ہوا تھا مفایل کا جس جس یر عندلیب روہانسی ہوپی اسے د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫‪- 17 -‬‬
‫"رزق کی یوں نےخرمنی نہیں کرنے۔۔۔۔"‬
‫دھبمی آواز میں یول کر وہ قدم اتھاپی تیچے گری یلیٹ اور سینڈوچ کی طرف گنی تھر چھک کر‬
‫انہیں اتھانے کے نعد پییچ یر رکھی‪،‬اقسردہ ہوکر وہ اتھی جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اجایک نظر‬
‫پییچ یر ر ک ھے گالب یر یڑی اور نس‪،‬ایک یار تھر عندلیب کا بجھا ہوا چہرہ ِکھال‪،‬‬

‫"آہاں۔۔۔یہ یو ت نایا تھول ہی گنی ئمہیں کہ میں نے یہ چونصورت گالب لیے تھے نہاں آنے‬
‫سے نہلے۔۔۔اور جا تیے ہو انہیں اگر ہم اس گارڈن ایریا میں لگاپیں یو آگے جاکر چند دیوں میں‬
‫گارڈن کا وہ چصہ کینا مہکے گا ان چونصورت گالیوں کی چوسبو سے۔۔۔۔لو یہ تم لگادو۔۔۔یلکہ‬
‫نہیں۔۔۔تم یو تھر تھینک دو گے۔۔۔انشا کرپی ہوں یہ میں چود ہی لگاد تنی ہوں۔۔۔"‬
‫س‬
‫تھر سے عندلیب کا یان سناپ یولنا سروع ہوچکا تھا ادھر لسینل اسکی یایوں کو سن کر ا تیے‬
‫ایدر یک کڑواہٹ گھلنی مجسوس کرنے لگا‪،‬بجھلی یار کی کنی یذلنلوں کے یاوچود اب تھر اسکا ا تیے‬
‫س‬
‫نےکار گالب الیا لسینل کو غصہ دالیا تھا‪،‬‬

‫اتنی پیز سماع بوں سے ع ندلیب کے قدموں کی جاپ کا ایدازہ لگایا وہ اسکے یاس گنا‪،‬عندلیب چو‬
‫س‬
‫یڑے مگن سے ایداز میں یولنی یاغ کے ایک کنارے یر آپی تھی لسینل کو اجایک ا تیے یرایر‬
‫س‬ ‫مج‬‫س‬
‫میں دیکھ چویکی اس سے نہلے وہ کجھ ھنی لسی ل ہاتھ یڑھایا تھر جیسے ہی تھاری شخت ہاتھوں‬
‫ن‬

‫‪- 18 -‬‬
‫س‬
‫میں تم تھولوں کی یرمی مجسوس ہوپی انہیں دیوچ کر تیچے تھینکنا لسینل ا تیے چویوں یلے کجال‬
‫تھا ان گہرے الل ریگ کے جسین گالیوں کو‪،‬‬

‫ک‬‫ت ی‬
‫تیچے اسکے چویوں یلے کجلے ا تیے تھولوں کو دیکھ عندلیب یاوچود کوشش کہ اس یار ا نی آ یں م‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫ہونے سے نہیں روک یاپی‪،‬‬

‫"یہ۔۔۔ک بوں۔۔۔کنا۔۔۔؟"‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫تھن یک س س‬
‫چ‬
‫ل کے وچنہہ ہرے یر سرد یایرات د کھ وہ یولی‬ ‫گی آ ھوں میت‬

‫"یلکل ئمہاری طرح ایکی تھی نہی اوقات تھی۔۔۔آ تندہ مجھے یہ یات رپی یٹ یہ کرپی یڑے کہ ا تیے‬
‫نےکار تھولوں کو نہاں نہیں لگاسکنی تم۔۔۔"‬
‫گالیوں کے ساتھ اسے تھی یل میں دو کوڑی کا کریا وہ اسکے یرایر سے گزرا‪،‬تبھی لہچے کو ئمسکل‬
‫ہلکا تھلکا تنانے وہ یولی‪،‬‬

‫"جیر۔۔۔تھنک ہے نہیں کروں گی آ تندہ کبھی یہ گسناخی۔۔۔قلجال میں جاپی ہوں گرتنی کے‬
‫یاس۔۔۔"‬
‫‪- 19 -‬‬
‫ھ‬ ‫ت ت‬ ‫س‬
‫یہ یات کہیے وہ یوری کوشش کی تھی ہیسیے کی‪ ،‬لسینل کے آیرو ھر یں‪،‬کبوں ا نی نےعزپی‬
‫ت‬ ‫چ‬‫ی‬
‫کے نعد تھی وہ اس سے یوں یات کرپی جیسے کجھ ہوا ہی یہ ہو‪،‬‬

‫چونصورت آیکھوں سے چھلکیے کو نےیاب آنسوؤں کو ایدر ہی دھکنلنی وہ سینڈوچ کی یلیٹ اتھاپی‬
‫وہاں سے وانس گھر کے ایدر آپی‪،‬کچن میں یلیٹ رکھ کر اتھی وہ یلنی ہی تھی کہ گرتنی سا میے‬
‫دکھیں‪،‬یاسف تھری نظروں سے وہ عندلیب کو ہی دیکھ رہی تھیں‪،‬آنسو رو کیے کے جکر میں اس‬
‫کے سرخ ہونے گال اور یاک دیکھ وہ یرمی سے یولیں‪،‬‬

‫"ک بوں ہر یار اتنی انشلٹ کروانے جلی جاپی ہو لڑکی اسکے یاس۔۔۔۔"‬
‫وہ چو گرتنی کو دیکھ زیردسنی مشکرانے لگی تھی اجایک آیکھوں میں تھر آنسو آنے یر نگاہ ت ھیری‪،‬‬

‫"کبھی یو اسے اجشاس ہوگا یا گرتنی۔۔۔"‬


‫آہسنگی سے کہہ کر وہ یلنی‪،‬اسکا لہچہ جینا دل گرفیہ تھا دریہ تنگم کو اتنا ہی دکھ ہوا‪،‬‬

‫"یرک کردو یہ کوشسیں پینی۔۔۔چو تم جاہنی ہو وہ الجاصل ہے۔۔۔"‬


‫اقسردگی سے یو لیے ہونے وہ اسکے یاس آ پیں‪،‬‬
‫‪- 20 -‬‬
‫"الجاصل وہ تب ہویا جب میں اسے جاصل کریا جاہنی۔۔۔۔یر میں یو انشا کجھ نہیں‬
‫جاہنی۔۔۔ہاں یر دل ضرف اتنی چوانش رکھنا ہے کہ وہ سبمگر اتنی نکال نف مجھ سے یاتٹ‬
‫لے۔۔۔۔گرتنی۔۔۔وہ چوش رہ لے۔۔۔میرے لنا اتنا ہی نہت ہے۔۔۔میں اسے ضرف مشکرایا‬
‫دیکھنا جاہنی ہوں۔۔۔اس سے ڈھیر ساری یاپیں کریا جاہنی ہوں۔۔۔نس اور کجھ نہیں۔۔۔"‬
‫ُیر اذ تت لہچے میں کہنی وہ آخری میں ہیسی‪،‬اسکی ہیسی میں جیسے یڑپ تھی‪،‬دریہ تنگم نے نفی میں‬
‫سر ہالیا‪،‬‬

‫"اوہ ہو۔۔۔یہ اسماء کو یو میں سینڈوچ کھالیا ہی تھول گنی۔۔۔رکیں گرتنی میں زرا انہیں دیکھ‬
‫لوں۔۔۔کہاں ہیں۔۔۔اسماء۔۔۔"‬
‫اجایک ہی موڈ تھنک کر کے وہ یارملی یات یدل کر یولنی ا یکے یرایر سے ہوکر نکلی ساتھ ہی اسماء‬
‫کو نکارنے لگی‪،‬دریہ تنگم نے یرچم تھری نظروں سے اس یادان لڑکی کو دیکھا چو اتنی معصوم محیت‬
‫کے جکر میں ا یکے یونے سے اکیر و پیسیر ذلنل ہونے رہنی‪،‬‬

‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬


‫"یہ اداس اداس اداسناں‪،‬‬
‫اور دور دور کی دوریاں‪،‬‬
‫‪- 21 -‬‬
‫مجھے اسک اسک یک ھیرکے‪،‬‬
‫تھر ہیس ہیس کر سم یینا۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"یو ِمس قاریہ۔۔۔عندی کے معا ملے میں کوپی کویاہی نہیں جاہوں گی۔۔۔اتھی اسکی عمر ہی‬
‫ُ‬
‫کنا ہے۔۔۔ضرف ت ندرہ سال۔۔۔اسے آپ کسی تھی یِرپ یر لے کر نہیں جاپیں گی۔۔۔گ ھر سے‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫ُ‬
‫س‬
‫دور دوسرے شہر جاکر یڑھ نا اس کا سوق تھا۔۔۔ کندر کی یارا گی کے یاوچود یں نے ا کے سوق‬
‫کو ِمدنظر رکھ کر اسے جانے دیا۔۔۔مگر اب وہاں یر وہ ہر یات یر اتنی مرضی نہیں کرسکنی‬
‫گی۔۔۔۔میں نے آپ یر تھروشہ کر کے آپ کے ذمے کنا تھا اسے۔۔۔امند ہے کوپی سکاتت‬
‫کا موقع نہیں دیں گی آپ مجھے۔۔۔۔"‬
‫کال یر یات اتنی چھوپی پینی کی پینی سے یات کرپی مہناز ت نگم تھوڑی یرہم ہوپی تھیں‪،‬وخہ ہمیشہ‬
‫کی طرح ایکی الایالی پینی کی فرمانش۔۔۔‪،‬اسکول کی طرف سے اب اسے یرپ یر جایا تھا اور پینی کو‬
‫اس نے ساتھ جانے سے م نع کنا تھا جس کے نعد اب شہناز ت نگم نے اسے صاف انکار کردیا تھا‬
‫یرپ یر جانے سے‪،‬‬

‫‪- 22 -‬‬
‫"ماما۔۔۔ماما۔۔۔"‬
‫یک یک کرپی ہنلز کی آواز کے ساتھ وہ دیدیاپی ہوپی مہناز تنگم کے روم میں داجل ہوپی‪،‬گیٹ‬
‫دھاڑ سے کھلیے یر وہ چو فون یر پینی سے یایوں میں مچو تھیں چویکی‪،‬آنے والی کوپی اور نہیں یلکہ‬
‫ایکی ‪ 18‬سالہ یڑی مگر سر تھری پینی ِقلذہ سکندر تھی‪،‬‬

‫"میں آپ سے نعد میں یات کروں گی۔۔۔"‬


‫ِقلذہ کے غصنلے یایرات دیکھ کر جیران ہوپیں وہ کال یر کہہ کر فون رکھی تھیں‪،‬‬

‫"کنا ہوا سوپینی۔۔۔"‬


‫تنڈ سے اتھ کر اسکے یاس آ پیں وہ نسونش تھرے لہچے میں یوچھیے لگی‪،‬‬

‫"وہاں اتنا شب ہوگنا اور آپ یوچھ رہی ہیں کہ کنا ہوا۔۔۔"‬


‫ہاتھ کے اسارے سے یاہر کی طرف اسارہ کر کے قلذہ نے یلند آواز میں کہا‪،‬‬

‫"کہاں کنا ہوگنا۔۔۔؟"‬


‫مہناز تنگم اسکے اجایک غصے کی وخہ سمجھ نہیں یارہی تھیں‪،‬‬
‫‪- 23 -‬‬
‫"گرتٹ۔۔۔مظلب ہمارے گھر کی اتنکسی میں کوپی آرہا ہے رہیے اور ِمس مہناز کو یہ یات‬
‫معلوم ہی نہیں۔۔۔راتٹ۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫ان کی یا ھی یر کاری طیز کرپی وہ آپیرو اچکاپی ھی‪،‬‬

‫ادھر مہناز تنگم کو اب معاملہ سمجھ میں آیا تھا‪،‬آہسنگی سے سر اتنات میں ہالپی وہ یولیں‬

‫"ہاں وہ ئمہارے ڈیڈ کے کوپی دوشت ہیں۔۔۔انکا پینا یڑھاپی کے سلشلے میں آیا ہے دوسرے‬
‫شہر سے۔۔۔۔"‬
‫ی‬
‫ان کی یات یر ِقلذہ کی آ کھیں سکڑیں‪،‬گھور کر انہیں دیکھیے کے نعد وہ یولی‪،‬‬

‫"ڈیڈ کے۔۔ضرف دوشت۔۔۔۔یا تھر "عرتب دوشت"۔۔۔"‬


‫اسکے یوں کہیے یر مہناز تنگم نے یاتندی ایداز میں کندھے اچکانے‪،‬‬

‫"اچھا جاصا وہ لڑکا کسی ہویل میں رہیے واال تھا یر ئمہارے ڈیڈ یر یو رچم دلی کا تھوت سوار رہنا‬
‫ہے۔۔۔یالل نا نہاں رہیے کے لیے۔۔۔یر جیر چھوڑو۔۔۔اتنکسی میں ہی رہے گا یا۔۔۔"‬
‫‪- 24 -‬‬
‫مہناز تنگم کی یایوں سے واضح تنا لگایا جاسکنا تھا کہ انہیں چود تھی اس لڑکے کا آیا ساید نسند‬
‫نہیں آرہا تھا‪،‬یر سوہر کے آگے مح بور ہونے کی وخہ سے جاموش تھیں‪،‬‬

‫"اتنکسی میں رہے گا یا چہاں تھی لنکن رہے گا یو ہمارے گھر کے ہی کسی چصے میں۔۔۔۔آپ‬
‫جاتنی ہیں یہ عرتب کس قدر اللچی ہونے ہیں۔۔۔کہیں ہمارے گھر کو دیکھ اسکی ت یت خراب‬
‫ہوگنی یو۔۔۔اور تھر اس گھینا رقاق کی طرح ایک یار تھر چوری ہوگی گھر میں۔۔۔تھر کنا کریں گے‬
‫ہم۔۔۔۔ماما میں اسی لیے کہنی ہوں کہ نفرت ہے مجھے عرت بوں سے۔۔۔یہ جا تیے ہونے تھی ڈیڈ‬
‫ہر جگہ اتنی من ماپی ک بوں کرنے ہیں۔۔۔۔"‬
‫ا تیے ایک یرانے یوکر( جسے چوری کرنے یکڑنے یر سکندر وال سے نکال دیا گنا تھا) کی منال د تیے‬
‫ہونے کنی جدسات میں ِگھر کر وہ زی ِر لب یڑیڑاپی نعد میں مہناز تنگم سے خڑ کر یولی‪،‬‬

‫"گاڈ۔۔۔تم کینا آگے کا سوچنی ہو سوپینی۔۔۔اتنا یو مجھے تھی نقین ہے کہ وہ ئمہارے ڈیڈ کے‬
‫کسی عزیز دوشت کا ہی پی نا ہے۔۔۔وہ انشا نہیں کروانے گا کجھ تھی۔۔۔"‬
‫نےیرواہ ایداز میں کہہ کر انہوں نے تھر ئمیر ڈایل کنا پینی کا‪،‬عندلیب کی قکر انہیں سنارہی تھی‬
‫کہ کہیں مس قاریہ سے نضد ہوکر وہ جلی ہی یہ جانے یرپ یر‪،‬‬

‫‪- 25 -‬‬
‫"تھنک ہے رہیں آپ لوگ یونہی الیرواہ تیے۔۔۔آنے دیں اس لڑکے کو یہ میں نے دو دن میں‬
‫اسے نہاں سے جلنا کنا یو میرا یام تھی قلذہ سکندر نہیں۔۔۔"‬
‫فون ریگ ہونے یر اتنی پی یٹ کی چ یب سے فون نکالنی وہ انہیں یڑخ کر کہنی نکلی تھی روم سے‪،‬‬

‫ُ‬
‫"ہاں یولو مطییہ۔۔ہاں آج ہے۔۔۔جلو تھنک ہے آجاؤ۔۔۔"‬
‫کاریڈور سے گزر کر فون یر یات کرپی وہ اتنی کزن کو یولی ساتھ ہی فون چ یب میں رکھی‪،‬ہر ایوار‬
‫سکندر وال میں پیروپی چصے کے جاتب تیے یلے گراؤیڈ میں وہ نہن تھاپی اور قلذہ کی کزیز یاسکٹ‬
‫یال کھنلیے تھے‪،‬آج تھی اسکی کزن چو کہ قلذہ کی نہیرین دوشت تھی تھی اسے ا تیے آنے کا‬
‫تنارہی تھی‪،‬‬

‫سکندر صاجب شہر کے یامور اور عزت دار یزنس تھے‪،‬یزنس سے زیادہ ایکی شہرت کی وخہ سکندر‬
‫صاجب کا نہیرین اجالق تھا‪،‬اتنی چوش ط نع اور شجاوت کے یاعث اکیر و پیسیر وہ ا تیے شہر اورفوتیچ‬
‫کے جکر لگانے ساتھ ہی وہاں چود سے جینا ہوسکے امداد کرنے‪،‬یزنس میں دن یدن یرفی کی کہیں‬
‫یہ کہیں وخہ یہ تھی تھی کہ انہیں عرت بوں سے لگاؤ نہت تھا‪،‬سکندر صاجب کی جار اوالدیں تھیں‬
‫دو پییے اور دو تییناں‪ ،‬پییے ہیبم اور ہناد کی تندانش میں چند می بوں کا وقت تھا جس کے یاعث وہ‬
‫دویوں ایک دوسرے سے چنی االمکان مما یلت رکھیے‪،‬یر یہ ممالیت ضرف ایکی سکلوں میں تھی‬
‫‪- 26 -‬‬
‫ً‬
‫ک بویکہ قظریا دویوں ایک دوسرے سے یلکل محنلف تھے‪ 21،‬سالہ ہیبم چہاں چوش اجالق اور‬
‫ً‬
‫عادت میں ا تیے یاپ یر گنا تھا وہی ہناد قظریا کافی معرور تھا‪،‬ان دویوں سے پین سال چھوپی قلذہ‬
‫‪ 18‬سال کی اتنی ماں مہناز ت نگم کی کاپی تھی چونصورت وہ یال کی تھی یر اسکی چونصورپی کو ضرف‬
‫ایک جیز ماید کرد تنی اور وہ تھی اس کے ایدر سروع سے تیینی اتنی چھوپی نہن عندلیب کے لیے‬
‫جشد اور معرورتت‪،‬دوسروں کو چویوں کی یوک یر رکھیے والی قلذہ اس یات یر نقین رکھنی تھی کہ‬
‫پیسوں سے ہر جیز خریدی جاسکنی ہے‪،‬عرت بوں سے سدید نفرت کرنے والی قلذہ ابجان تھی ا تیے‬
‫آنے والے کل سے کہ ع نفرتب ہی اسکے دل میں ایک عرتب ہی گھر کرنے واال تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"ہیبم اِ دھر۔۔۔"‬
‫ہناد تھاگنا ہوا پیز آواز میں یوال تھا جس یر ہیبم نے یال کو اسکی جاتب اچھاال‪،‬وہ لوگ دونہر میں‬
‫یلے گراؤیڈ میں یاسکٹ یال کھنل رہے تھے قلذہ اور اسکے یایا ایو کی دویوں تییناں یاذلی اور مطییہ‬
‫ایک تبم میں تھیں چنکہ دوسری جاتب ضرف ہیبم اور ہناد تھے لنکن یہ دویوں ہی ان پی بوں یر‬
‫تھاری یڑ رہے تھے‪،‬ہاتھ میں یال یکڑنے ہی ہناد کے سا میے یاذلی آپی‪،‬‬

‫"ہناد تھاپی۔۔۔یلیز ضرف ایک مرتیہ مجھے کرنے دیں یلیز۔۔۔"‬


‫‪- 27 -‬‬
‫اسکا راشیہ روکے وہ داپیں یاپیں ہونے الجارگی سے یال کو دیکھ کر یولی‪،‬‬

‫"ئمہیں دیا یو ہناد ہار جانے گا۔۔۔اور ہناد کو ہاریا یلکل نسند نہیں یو نکلو نہلی فرصت میں۔۔۔"‬
‫اتنی یات کہیے ساتھ ہناد ہیسنا ہوا اسکے یرایر سے پیزی میں نکال ساتھ ہی اچھل کر یال یاسکٹ‬
‫میں ڈال دی‪،‬‬

‫"آپ نہت یرے ہو تھاپی۔۔۔"‬


‫ت‬
‫غصے میں پیر یحنی وہ میہ تناکر یولی‪،‬یاذلی کو یوں اداس دیکھ ہیبم کو زرا اچھا یہ لگا تبھی اگلی مرتیہ‬
‫ہاتھ میں یال آنے ہی وہ تھاگا ساتھ ہی یال یاذلی کے جاتب اچھالی‪،‬ہناد چونکا تھا اسکے چیینگ‬
‫کرنے یر لنکن تھر تھرپی سے تھاگنا وہ یاذلی کے یاس آیا‪،‬اسے سا میے دیکھ یاذلی چو یال زمین یر‬
‫مارنے لے جانے لگی تھی یوکھالپی‪،‬‬

‫"تھاپی نہیں کریں یا۔۔۔"‬


‫یرنشان ہوکر وہ اور تھی یو لیے لگی تبھی ہناد اسے جکمہ دے کر یال لینا تھاگا‪,‬یاذلی روہانسی ہوپی‬
‫تبھی ہناد چو یال دوڑایا ل بوں یر قابجایہ مشکراہٹ شجانے اسے دیکھیے لگا تھا اجایک یوکھالیا جب ہیبم‬
‫اس سے یال لینا یاسکٹ کی جاتب تھاگا‪،‬‬
‫‪- 28 -‬‬
‫"یاذلی یہ ئمہارے لیے۔۔۔"‬
‫یال اچھا لیے سے نہلے وہ مشکراکر یاذلی کو دیکھ نا یوال ساتھ ہی یاسکٹ میں یال ڈال دی‪،‬ہناد‬
‫یرسکون ہوا کبویکہ چو تھی تھا جییے یو تھر تھی وہی لوگ تھے ادھر یاذلی کھلکھالپی ہیبم کی یات یر‬
‫اور ہیبم کو یوں لگا جیسے نہاتت چونصورت ایدام میں کوپی جلیریگ اسکے کایوں میں سنایا‬
‫تھا‪،‬کھلکھالنے ہونے ‪ 17‬سالہ یاذلی اسے اتنی جسین لگ رہی تھی کہ ایک یل کو یو اسے ا تیے‬
‫دل کی دت نا رکنی ہوپی لگی‪،‬مچو سا اسے دیکھیے وہ تھول چکا تھا کہ کوپی اور تھی ہے چو اسکی ایک‬
‫ن ِظر کرم کے لیے ا تیے دل میں یڑپ ر ک ھے ہے‪،‬جلنی آیکھوں سے ہیبم کو منہوت ہوکر یاذلی کو‬
‫ی‬
‫دیکھیے دیکھ مطییہ نے نےساجیہ آ یں چی‪،‬ایدر یسے وہ انگاروں کے صد یں ھرنے گی‪،‬ک بوں‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اس انشان کو مطییہ کی شچی محیت نہیں دکھنی تھی ا تیے لیے‪،‬ک بوں وہ ابجان تھا اسکی ا تیے لیے‬
‫یالچواز چ بوپی محیت سے‪،‬اس لمچے مطییہ کو اگر کسی کے وچود سے سدت تھری نفرت ہوپی تھی یو‬
‫وہ یاذلی تھی‪،‬وہی یو تھی جس کے یاعث وہ مطییہ کو ایک نظر تھر کر تھی دیکھیے سے انکاری تھا‬
‫جاالیکہ انشا نہیں تھا کہ وہ چونصورت یہ ہو‪،‬جینی کسش یاذلی میں یہ تھی اتنی مطییہ میں تھی‪،‬وہ‬
‫واقعی اتنی جسین تھی کہ کسی کو تھی ا تیے جسن سے اپیر کرلینی یر تھر تھی ہیبم کے دل میں‬
‫لک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫مج‬‫س‬
‫ل‬ ‫م‬
‫ا تیے قدم یاذلی نے ہی چمانے‪،‬یہ یات ھیے سے طییہ میشہ قاضر ر نی کن وہ یہ یات ل‬
‫ہی یاالنے طاق رکھ جکی تھی کہ ہیبم کو کبھی یاذلی کی صورت نے مرعوب نہیں کنا وہ یو سروع‬
‫‪- 29 -‬‬
‫سے اسکی تٹ ک ھٹ خرک بوں اور معصومیت کا دیوایہ تھا‪،‬ایک مرتیہ تھر کنی چنالوں کے زی ِر ایر‬
‫کڑھیے ہونے مطییہ اجایک کھنل چھوڑ کر ایدر جلی گنی تھی‪،‬‬

‫"اسے کنا ہوا۔۔۔"‬


‫ہناد چو اب ہاتھ میں یال لیے اچھال رہا تھا مطییہ کو ایدر جانے دیکھ یآواز یوال‪،‬‬

‫ی‬
‫"رکو میں د کھنی ہوں۔۔۔"‬
‫یاذلی کے ساتھ ساتھ قلذہ تھی جیران ہوپی تبھی یہ کہہ کر ایدر کی جاتب یڑھیے لگی‪،‬‬

‫"ارے ساپی تھاپی۔۔۔"‬


‫ہیبم چوسی سے یوال تھا اور قلذہ کے قدم رکے ذہن میں نےساجیہ مہناز تنگم کی یات آپی"وہ آج‬
‫ہی آرہا ہے۔۔۔سکندر نے تنایا تھا کہ ساپی یام ہے اسکا"‪،‬‬

‫یہ یات یاد آنے ہی قلذہ کے یایرات شخت ہونے غصے میں ہیبم کی نظروں کا نعاقب کیے وہ‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫س ی‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫سا میے د ھی ھی یر ھی چہرے یر نہرے شخت یایرات مچو تت کا یایر اجینار کرگیے‪،‬ا کی آ یں‬
‫ساکت ہوپی تھیں‪،‬‬
‫‪- 30 -‬‬
‫چھ قٹ سے نکلنا قد‪،‬کسرپی جسم کا مالک وہ انشان ت بوی یلو سرٹ اور یلنک پی یٹ میں سا میے کھڑا‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫قلذہ کے دل کی دتنا میں طالطم یریا کرگنا‪،‬آت بوس ریگ ساخر آ یں‪ ،‬ھے قوش‪ ،‬ھڑی عرور یاک‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫اور ہلکی موبجھوں یلے عناپی ل بوں کو مشکرانے دیکھ اسکا دل زور سے دھڑک کر رہ گنا کہ‬
‫نےاجینار قلذہ ایک قدم تیج ھے ہنی‪،‬ایک طلسم تھا مفایل کی شخضیت میں جس میں وہ چود کو یری‬
‫طرح جکڑنے مجسوس کررہی تھی‪،‬کنا کجھ نہیں سوجا تھا اس نے آنے والے کو سنانے کے لیے‬
‫یر مفایل کی یرسینلنی نے اسکے ل بوں کو ایک دوسرے میں ت بوشت کر کے رکھ دیا‪،‬گہرے‬
‫تھورے گھیے یال ہوا پیز ہونے کے یاعث کشادہ پیشاپی یر یکھرنے لگے چنہیں ا تیے ایک ہاتھ‬
‫سے تیجھے کریا وہ یرم مشکراہٹ چہرے یر شجانے آگے یڑھنا ہیبم کے یاس آیا‪،‬‬

‫"یو تم نے نہجان لنا مجھے۔۔۔"‬


‫تھاری دل دھڑکا د تیے والی مسکاپی آواز کے قلذہ یلکیں چھ نکانے یر مح بور ہوپی‪،‬‬

‫"مایا کہ بجھلے ہفیے ہی ڈیڈ نے ہمارا فون یر رانطہ کروایا ہے یر میری یادداشت اتنی کمزور تھی‬
‫نہیں۔۔۔"‬

‫‪- 31 -‬‬
‫ہیس کر کہنا ہیبم گرم چوسی سے گلے لگا تھا ساپی کے‪،‬بجھلے ہفیے ہی سکندر صاجب نے شب کو‬
‫ا تیے ایک دوشت کے پییے ساپی کی آمد کا تنایا تھا جس یر گھر میں کسی کو کوپی جاص چوسی‬
‫نہیں ہوپی تھی سوانے ہیبم کے‪،‬وہ سکندر صاجب سے اس ہی دن ئمیر لنا تھا ساپی کا اور تھر‬
‫ایک ہفیے میں ہی دویوں کی اچھی جاضی دوسنی ہوجکی تھی‪،‬‬

‫"یو تم ہو ساپی۔۔۔!"‬
‫نےیایر لہچے میں کہیے واال یہ ہناد تھا جشکی آواز یر ساپی اسکی طرف م بوخہ ہویا مشکراکر اتنات میں‬
‫سرہالیا‪،‬ہیبم چو ا تیے تھاپی کا سرد لہچہ سمجھ چکا تھا جلدی سے ماچول ہلکا کرنے کے لیے چوش‬
‫اسلوپی سے یوال‪،‬‬

‫ی۔۔۔قلذہ۔۔میری نہن اور یہ۔۔۔"‬ ‫ِ‬ ‫"ساپی تھاپی یہ ہناد ہے میرا تھاپ‬
‫ی‬
‫یو لیے ہونے ہیبم رک ہی گنا جب اسکی نظر یاذلی یر یڑی چو اتنی آ کھیں تھنالنے نغور ساپی کو‬
‫ی‬
‫دیکھ رہی تھی‪،‬وہ تپ کر کھنکھارا تھا جس یر ہوش میں آپی یاذلی اسے د ھی یر ا لے ہی مچے‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ک‬

‫مشکراہٹ دیاپی ہیبم کا موڈ خراب ہونے دیکھ‪،‬‬

‫"تھاپی یہ میری کزن ہے۔۔۔یاذلی۔۔۔"‬


‫‪- 32 -‬‬
‫چفگی سے یاذلی کو د یکھے وہ یوال‪،‬اسے یاذلی کی یہ عادت نہت یری لگنی کہ چہاں وہ کسی‬
‫س‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چونصورت لڑکے کو د نی یو آس یاس کی دتنا ھول ہی جاپی‪،‬اکیر و پیسیر وہ ا کی اس عادت یر‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫یاراصگی کا اظہار تھی کریا رہنا یر یاذلی کا ایک ہی چواب ہویا کہ آ تندہ انشا کبھی نہیں کروں گی یر‬
‫یہ چواب ضرف تب یک مجدود رہنا جب یک تھر کوپی لڑکا یہ دکھ جایا اسے‪،‬‬

‫"تم سے مل کر چوسی ہوپی ہناد۔۔۔"‬


‫یرمی سے مشکرانے وہ اتنا ہاتھ آگے یڑھایا‪،‬ہناد نے سناٹ یایرات سمیت اسکے تھاری ہاتھوں کو‬
‫دیکھ جاموسی سے اس سے ہاتھ مالیا‪،‬‬

‫"اب سے لگ تھگ ایک سال یک یہ ہمارے گھر میں رہیے والے ہیں۔۔۔ہیں یا ساپی‬
‫تھاپی۔۔۔"‬
‫جلد ہی اتنا موڈ تھنک کیے ہیبم یرچوسی سے کہنا ساپی کو دیکھا جس یر وہ مشکرایا اتھی ساپی کجھ‬
‫یول ہی رہا تھا کہ ہناد یوال‪،‬‬

‫"ہمارے سکندر وال میں نہیں ہیبم۔۔۔نہاں کی اتنکسی میں۔۔۔"‬

‫‪- 33 -‬‬
‫یہ چنانے ہونے وہ طیزیہ مشکراہٹ اچھاال ساپی یر‪،‬اسکے لہچے میں عرور تھرا تھا جسے مجسوس کرنے‬
‫ت‬
‫ساپی کے عناپی ل بوں یر سے مشکراہٹ چند یل کے لیے ھمی تھی لنکن تھر مخصوص ایداز میں‬
‫مشکرانے وہ کہا‪،‬‬

‫"ضحیح کہہ رہے ہو۔۔۔ات نکسی میں رہوں گا۔۔۔یر ایک سال کے لیے نہیں یلکہ چند مہی بوں کے‬
‫لیے۔۔۔جیسے ہی نہاں مجھے مناشب قبمت میں قلیٹ مل جانے گا میں جال جاؤں گا۔۔۔"‬
‫اسے چواب دے کر ساپی ہیبم سے مجاطب ہوا‪،‬‬

‫"کنا تم مجھے اتنکسی دکھادو گے۔۔۔مجھے کسی مالزم نے تنایا تھا کہ تم نہاں ملوگے مجھے تبھی‬
‫ڈسیرب کردیا تم لوگوں کو آکر۔۔۔۔"‬
‫وہ جیسے جیسے ا تیے الفاظ ادا کررہا تھا قلذہ کی دھڑکییں اتنی ہی نےیرت یب ہونے لگی‪،‬انشا نہلے یو‬
‫کبھی نہیں ہوا تھا اسکے ساتھ‪،‬تھر ک بوں اس سایدار انشان کے آگے وہ ا تیے سییے میں عح یب‬
‫لے یر دھڑ کیے دل کو نےنس مجسوس کررہی تھی‪،‬‬

‫"ڈسیرب نہیں کنا آپ نے تھاپی۔۔۔آ پیں میں آپ کو اتنکسی دکھاؤں۔۔۔"‬

‫‪- 34 -‬‬
‫ہناد کی یات یر سر چھنکنا ہیبم چوش اجالفی سے کہیے ہونے ساپی کو لیے وہاں سے گنا‪،‬ہناد کی‬
‫سیحندہ آیکھوں میں یاگواری سی گھلی تھی ہیبم کو اس قدر اس عرتب لڑکے سے گھل مل کر یات‬
‫کرنے دیکھ‪،‬نےسک ‪ 22‬سالہ ساپی کی یرسینلنی مفایل کو منایر کر د تنی ل نکن نہاں ہناد نے‬
‫اسکی یرسینلنی کے بجانے سیییس دیکھا تھا‪،‬چنکہ قلذہ کا دل یکدم بجھا‪،‬وہ ایک مرتیہ تھی اسکے‬
‫جاتب نہیں دیکھا تھا کنا وہ انشا ہی نےتناز تھا یا اسے لگاؤ ہی یہ تھا لڑک بوں میں ک بویکہ اتنا یو وہ‬
‫تھی یوٹ کی تھی کہ اسکے ساتھ ساتھ وہ یاذلی کو تھی ایک نظر یہ دیکھا‪،‬مفایل کی یہ عادت اسکا‬
‫مفام اور یلند کر گنی قلذہ کے دل میں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"مجھے تم سے کجھ یات کرپی ہے۔۔"‬


‫رات کو یاذلی سونے کی ت ناری کررہی تھی تبھی مطییہ گیٹ کھو لیے اس کے روم میں داجل ہوکر‬
‫سیحندگی سے یولی‪،‬‬

‫"اوف آپی۔۔۔کل پیسٹ ہے میرا۔۔۔اتھی سونے دیں ہم کل یات کرلیں گے۔۔۔"‬

‫‪- 35 -‬‬
‫ایک نظر دیوار یر نسب گھڑی کو دیکھ وہ نےجاری سی سکل تنانے یولی ساتھ ہی لیٹ کر کمفریر‬
‫ت‬ ‫کم کھی‬
‫اوڑھیے لگی‪،‬مطییہ تپ کر آگے یڑھی اور چھنکے سے فریر نی یرایر یں کی‪،‬‬
‫ن‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫م‬ ‫ح‬‫ی‬

‫"آپی کنا ہوگنا ہے۔۔"‬


‫یاذلی یل میں گ ھیراپی تھی اسکے چہرے یر عیر معمولی سیحندگی دیکھ‪،‬اس یات کا اس نے کوپی‬
‫جاص یونس نہیں لنا کہ مطییہ اتنا ایک ہاتھ نست یر چھناپی تھی‪،‬‬

‫"ئمہاری اتھی عمر کنا ہے۔۔۔؟"‬


‫اجایک وہ یوچھی ادھر اسکے یایرات سے ڈرپی یاذلی جلدی سے یولی‪،‬‬

‫"‪ 17‬سال۔۔۔لنکن آپ۔۔۔"‬

‫"ہیبم کی عمر کنا ہے۔۔؟"‬


‫یاذلی کے سوال کو کانے وہ تھر یوچھی‪،‬‬

‫"‪ 21‬سال۔۔۔یر یہ شب ک بوں یوچھ رہی ہیں آ۔۔۔"‬


‫‪- 36 -‬‬
‫"یہ عمر ہے ئمہاری عسق عاسفی لڑانے کی۔۔۔"‬
‫وہ چو جیران یرنشان سی اتنی یڑی نہن کو دیکھ کر یوچھیے لگی تھی مطییہ کے اجایک چیحیے یر‬
‫گ ھیراپی تیجھے ہوپی‪،‬‬

‫"آپی۔۔۔!"‬
‫ی‬
‫آ کھیں یل میں تم ہوپی ساتھ ہی لب آہسنگی سے تھڑتھڑانے‪،‬‬

‫"ہیبم کو یول د ت نا کہ اتنی جدود یہ تھولے۔۔۔ماما زیدہ نہیں ہیں یو کنا ہوا۔۔۔یایا یو ہیں یا۔۔۔یو‬
‫کم از کم ایکی عزت کا چنال کرلو۔۔۔جب اتنی عمر کو نہیچوگی تب دل تھر کر کرلینا اتنی اداؤں‬
‫سے شب کو مرعوب۔۔۔۔قلجال کے لیے چبم کرو یہ ڈرامہ تم دویوں۔۔۔"‬
‫یہ دونہر میں ہیبم کی یاذلی کے لیے کی گنی ع ناتت یر تھری تھڑاس ہی تھی چو وہ اب یلند آواز‬
‫میں اس یر ایار رہی تھی‪،‬ادھر یاذلی کی ہجکناں تندھی مطییہ کی یایوں کے زی ِر ایر‪،‬‬

‫"میں۔۔۔میں کجھ نہیں کہنی آپی۔۔۔و۔۔۔وہ چود میرے تیج ھے۔۔۔ا۔۔اور۔۔۔وہ نسند کر۔۔کریا‬
‫ہے کہنا ہے کہ جب میں یڑی ہوجاوں گی یو ش۔۔ساد۔۔"‬
‫‪- 37 -‬‬
‫"یکواس تند کرو۔۔۔"‬
‫یاذلی اور تھی کجھ یو لیے لگی تھی تبھی مطییہ یڑخ کر اسکی یات کاپی‪،‬کان اگلی یات سییے سے‬
‫انکاری تھے‪،‬اسے یوں لگا تھا جیسے اسکی روح ق نض ہونے کا یروایہ سنارہی ہے یاذلی‪،‬‬

‫مج‬ ‫س‬
‫"اب کوپی یکواس نہیں کروگی تم۔۔۔ ھی۔۔۔سراقت سے ا تیے‬
‫اس۔۔۔عا۔۔۔عاش۔۔۔عاسق کو کہہ د ت نا کہ اتنی یہ خرکییں تند کرے نہیں یو میں یایا کو کہہ‬
‫کر ئمہارا جاخی کے گھر جایا تند کروا دوں گی۔۔۔"‬
‫یاجا ہیے ہونے تھی مطییہ کا لہچہ کنکنانے لگا‪،‬دل میں اس قدر یرا درد اتھا کہ اسکا چہرہ سفند چہرہ‬
‫سرخ ہونے میں ایک یل لگا‪،‬انگلی اتھا کر یاذلی کو وارن کرپی وہ ا لیے پیر تیجھے ہوپی ساتھ ہی‬
‫چھنکے سے مڑ کر نکلی روم سے‪،‬اسکے جانے کے نعد یاذلی چو اتنی یڑی نہن کے اجایک ید لیے‬
‫ی‬
‫رونے سے ڈر کر رونے لگی تھی اب آنسو یوچھ کر لینی ساتھ ہی آ کھیں میچے سونے کی کوشش‬
‫کرنے لگی‪،‬سییے میں رکھا تبھا دل نہت چوفزدہ ہوا تھا مطییہ کے عح یب وجست تھرے لہچے یر‪،‬‬

‫ا تیے کمرے میں آنے ہی مطییہ نے داپیں ہاتھ میں چھنایا جافو زور سے تنڈ یر تھی نکا‪،‬گیٹ تند‬
‫پ‬
‫کر کے وہ تنڈ یر یبھی گہرے سانس تھرنے لگی‪،‬یاذلی کی یایوں سے اسکے سر میں سدت سے درد‬
‫‪- 38 -‬‬
‫ہونے لگا تھا‪،‬یو کنا وہ شچ میں یاذلی سے سادی کا چواہسم ند تھا اگر کو کبھی انشا ہوا یو مطییہ‬
‫چہایگیر چود کو جان سے مار ڈالے گی‪،‬ہاں وہ نہیں خی یانے گی ا تیے یڑے عم کے ساتھ‪،‬آخر کو‬
‫ہیبم سکندر اسکی محیت تھا وہ چ بون کی جد یک جاہنی تھی اسے تھر کیسے اتنی ہی نظروں کے‬
‫سا میے اسے کسی اور کا ہونے دیکھ لینی یر ہانے یہ زیدگی کے سبم کہ وہ کسی اور کوپی اور نہیں‬
‫یلکہ چود اس ہی کی چھوپی نہن تھی‪،‬ک بوں وہ انشان اسکی بچین کی جالص محیت سے عاقل‬
‫تھا‪،‬ک بوں اسے زرا یرایر اجشاس نہیں ہویایا تھا کہ کوپی اسکی یوخہ اور محیت کا تھوکا تھا وہی یوخہ‬
‫اور محیت چو اکیر و پیسیر ہیبم چہایگیر ا تیے لفظوں سے یاذلی یر بجھاور کریا‪،‬صیح کا واقعہ سوچے ایک‬
‫یار تھر مطییہ کے دل میں درد کی پیس اتھی‪،‬ایدر کی گھین یڑھیے لگی یو وہ اتھ کر جلدی سے‬
‫کھڑکی کے تٹ وا کی‪،‬اسکا دل جاہا چیخ کر رونے‪،‬ساری دتنا کو اعالن کرے کہ وہ کس قدر آگے‬
‫یڑھ جکی ہے ہیبم سکندر کی محیت میں یر وہ انشان اسکی نےلوث محیت سے ابجان اتنی دتنا میں‬
‫ی‬
‫چوش تھا‪،‬یہ سوچیے اسکی آ کھیں کب تھنگی مجسوس یہ ہوا مطییہ کو‪،‬تھراپی نظروں سے وہ تنڈ یر‬
‫ی‬
‫تھینکے گیے جافو کو د کھی تھی‪،‬کاش کہ وہ تھوڑی اور ہمت کرلینی‪،‬کاش۔۔۔‪،‬اگر کو آج چود میں‬
‫ہمت تندا کیے وہ یاذلی کو مار ڈالنی یو تھر اسکے اور ہیبم کے تیچ کوپی یہ ہویا‪،‬اس طرح کی نہت سی‬
‫وجست تھری سوجیں اسکے ذہن میں آنے لگی تھیں‪،‬‬

‫‪- 39 -‬‬
‫"اے جدا۔۔۔آپ یو ہر اجینار رکھیے ہیں یا۔۔۔یو یلیز میری یہ دعا سن لیں۔۔۔یاذلی ہٹ جانے‬
‫میرے را سیے سے۔۔۔کاش کہ وہ مرجانے کاش۔۔۔میں اسے چود نہیں مارسکنی۔۔۔یر وہ اگر‬
‫زیدہ رہی یو کبھی ہیبم میرا ہو تھی نہیں یانے گا۔۔۔وہ مرجانے میرے رب وہ مرجانے۔۔۔"‬
‫یکھرے جلیے میں ا تیے یال جکڑ کر یری طرح رونے وہ یآواز یڑیڑانے لگی‪،‬اسکے لہچے میں یڑیا د تیے‬
‫واال کرب تھا‪،‬اذ تت سے دوجار ہیبم کی جاہ میں دیوایہ وار یہ یددعا د تیے وہ تھول جکی تھی کہ‬
‫مفایل کوپی اور نہیں اس ہی کی سگی نہن ہے۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آج اسکا پیسٹ کجھ جاص اچھا نہیں ہوا تھا‪،‬ہاسنل سے کجھ دور ایک یارک میں وہ اداس سی‬
‫پ‬
‫یبھی ا تیے پیسٹ کے یارے میں سوچ رہی تھیخب جب وہ یرنشان یا آپ سیٹ ہوپی تب اس‬
‫یارک میں آجاپی‪،‬اتھی تھی نہاں پیبھ کر وہ نہی سوچ رہی تھی کہ الشٹ اپیر تھا اسکا‪،‬پئیرز فرتب‬
‫تھے یر تناری یلکل نہیں‪،‬کرپی تھی کیسے وہ تناری یورا دھ نان یو ہر یل اس انشان یر لگا رہنا‪،‬ک بوں‬
‫تھا وہ انشا اتنا عح یب۔۔‪،‬شب سے الگ تھلگ رہیے واال‪،‬ضرف ایک پیناپی یہ ہونے سے کوپی‬
‫کیسے دتنا سے اتنی چوسبوں سے کنارہ کسی کرسکنا تھا‪،‬کبوں وہ اوروں کی طرح زیدگی جینا نہیں‬
‫ضرف گزاریا تھا‪،‬کون ہوگا جس نے اسکے ساتھ اتنا یرا کنا ہوگا‪،‬وہ یہ یات سوچ کر کافی جیرت میں‬
‫س‬
‫مینال تھی یر اس سے تھی زیادہ جیرت عندلیب کو یہ سوچ کر ہوپی کہ یاجانے لسینل اس‬
‫‪- 40 -‬‬
‫انشان کا کنا جسر کرے گا جب اسکی پیناپی وانس آجاپیں گی۔۔۔لنکن پیناپی آنے گی تھی‬
‫کیسے‪،‬گرتنی نے یو تنایا تھا کہ ڈاکیر نے جانسز کافی کم تناپیں ہیں یر تھر تھی وہ دعا گو تھی کہ‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ج‬
‫ل کی پیناپی لد وانس آجانے‪،‬اس سایدار انشان کو یوں نےنس د کھ اکیر وہ د ھی ہوجاپی‪،‬‬
‫انہیں سوچوں میں گھری عندلیب تب چویکی جب نظر کجھ دور رکھی دوسری پییچ یر یڑی‪،‬وچنہہ‬
‫چہرے یر ہمیشہ کی طرح تبھر یلے یایرات‪،‬کھڑی معرور یاک اور ایک دوسرے سے ت بوشت عناپی‬
‫لب‪،‬اسے دیکھیے ہی عندلیب کا بجھا چونصورت چہرہ یل میں کھال‪،‬وہ نہاں یر تھا یو عندلیب کو اب‬
‫کجھ اور سوچیے کی ضرورت ہی نہیں تھی‪،‬تھرپی سے اتھ کر وہ پیز قدم اتھاپی اس پییچ یر گنی جس‬
‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫یر پیبھا وہ یاجانے کونسی دتنا میں گم تھا‪،‬آت بوس ریگ آ یں میشہ کی طرح جالی د کھ عندلیب کو‬
‫ہ‬ ‫ھ‬
‫ایک یار تھر دکھ نے آلنا مگر جلد ہی چود کو کم بوز کرپی وہ چہکی‪،‬‬

‫"کیسے ہو۔۔؟"‬
‫پ‬ ‫س‬
‫یوچھ کر وہ پییچ یر لسینل کے یرایر میں کافی قاصلے یر یبھی‪،‬دوسری جاتب اسکی چونصورت دل‬
‫س‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫ل کو دتنا کی شب سے یری آواز گی‪ ،‬مچے یں فا ل کو‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کو مسرور کرد تیے والی ُسریلی آواز‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫س‬ ‫ھ‬ ‫م‬
‫ل کے وچنہہ گر سناٹ چہرے یر یاگواری لی‪،‬کشادہ پیشاپی کن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اسکی آواز سے نہیجا تیے‬
‫آلود چنکہ عناپی لب تھیچے تھے‪،‬‬

‫‪- 41 -‬‬
‫"کیسے ہو۔۔۔؟"‬
‫مفایل کے سرد یرین یایرات دیکھ وہ ایک مرتیہ تھر یوچھی‪،‬‬

‫"تم سے مظلب۔۔؟"‬
‫وہی دل دھڑکا د تیے والی آواز مگر لبھ مار لہچہ ع ندلیب کو ایک یل کے لیے جپ کراگنا‪،‬‬

‫"نہاں کنا کررہے تھے۔۔؟"‬


‫اسکے رو ک ھے لہچے کو نظر ایداز کیے وہ ہلکے تھلکے ایداز میں دوسرا سوال کی‪،‬‬

‫"پیبھا ہوا تھا یر اب۔۔۔"‬


‫زی ِر لب یڑیڑایا وہ رکا ساتھ ہی ہاتھ یڑھا کر ایدازے سے یرایر میں رکھی اتنی اسینک یکڑی‪،‬اسے‬
‫کھڑا ہویا دیکھ عندلیب کے تنکھڑی ماتند ل بوں یر نہری یرم مشکراہٹ سمنی‪،‬‬

‫"ارے تم میری وخہ سے یرنشان مت ہو۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔تم پیبھو۔۔۔"‬


‫س‬
‫جلدی سے کھڑی ہوکر وہ یہ الفاظ یولی جس یر لسینل کجھ دیر یو یونہی کھڑا رہا تھر جاموسی سے‬
‫پیبھ گنا‪،‬صاف اسارہ تھا کہ وہ نہی جاہنا ہے‪،‬عندلیب ایک آزردگی تھری نظر اس یر ڈالنی وانس‬
‫‪- 42 -‬‬
‫س‬
‫اتنی پییچ یر آپی تھر وہی سے لسینل کو دیکھیے لگی‪،‬انشا کیسے ہوسکنا تھا کہ وہ انشان نہاں ہو اور‬
‫عندلیب جلے جانے‪،‬قاصلے یر ہی شہی یر وہ اسے اتھی خی تھر کر دیکھنا جاہنی تھی‪،‬ہبھنلی یر‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫مشلش س‬
‫ل کو د ھیے زی ِر لب کہا‪،‬‬ ‫تھوڑی ر ک ھے اس نے ل‬

‫"میرے رب اگر میری ایک قظرہ کے ماتند تنکی تھی آپ کو اچھی لگی ہو۔۔۔یو اسکے یدلے‬
‫س‬
‫لسینل کی پیناپی وانس آجانے۔۔۔"‬
‫یہ دعا کرنے نےساجیہ اسکی سرمنی آیکھوں کے کنارے تھنگے تھے‪،‬ک بوں وہ انشان اسے اس‬
‫قدر عزیز ہوچکا تھا‪،‬ک بوں اسکے لیے وہ اتنی یاگل ہوجکی تھی‪،‬روز یہ سوال وہ ا تیے سفاف دل سے‬
‫کرپی یر چواب ہمیشہ کی طرح یدارد ہویا‪،‬‬

‫"چن ِال یار اسے جا دسنک دیا‪،‬‬


‫وہ وسوسوں کی طرح چھنک دیا‪،‬‬
‫چوالہ دیکھو میرے کافر دل کا‪،‬‬
‫م‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫اتھا ھر ا کی یاد یں دھڑک دیا۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 43 -‬‬
‫"جلدی کرو یاشیہ۔۔۔تم لیٹ ہورہی ہو۔۔"‬
‫یاذلی کا تنگ اسکے یرایر والی جئیر یر رکھنی مطییہ مصروف ایداز میں یولی‪،‬کل رات والی نکل نف اور‬
‫بخث کا ساتیہ یک یہ تھا دویوں کے چہروں یر‪،‬انسی ہی یو تھیں وہ دویوں یل میں بخث ہوپی اور‬
‫اگلے ہی یل یوں رہنی جیسے کجھ ہوا ہی یہ ہو‪،‬‬

‫"آپی میں کیسے کروں گی۔۔۔آج کا سیحنکٹ یو کجھ جاص یاد تھی نہیں کریاپی۔۔۔"‬
‫نےجارگی سے یولنی یاذلی چوس کا گالس میہ سے لگاپی‪،‬‬

‫"لڑکی ت ییسن مت لو۔۔۔چود کو سیرنس دوگی یو یرنشاپی میں لکھ تھی نہیں یاؤ گی۔۔۔یلکل ریلنکس‬
‫رہو۔۔۔"‬
‫یریڈ یر چبم لگاکر اسے یکڑاپی وہ رسات یت سے کہہ کر مشکراپی ساتھ ہی اتنی جئیر سے اتھی ک بویکہ‬
‫چہایگیر صاجب آقس کے لیے تنار سیڑھ بوں سے ایر کر تیچے آرہے تھے‪،‬‬

‫"پیبھیں یایا۔۔۔میں یاشیہ۔۔۔"‬

‫‪- 44 -‬‬
‫"آہاں۔۔۔یہ بچہ۔۔۔۔۔یاشیہ نہیں۔۔آج لیٹ ہوگنا ہوں ام بورت یٹ میینگ ہے۔۔۔آپ دویوں‬
‫یاشیہ کر کے جاؤ یڑھیے۔۔۔اور ہاں یازو۔۔۔پئیر ا چھے سے کریا۔۔۔"‬
‫محیت سے کہیے وہ آخر میں یاذلی کے یاس آکر اسکی پیشاپی چومیے یرمی سے یولے جس یر وہ چہک‬
‫کر سر اتنات میں ہالپی‪،‬‬

‫"کوپی لیٹ نہیں ہورہے۔۔۔مالک ہیں آپ ورکر نہیں۔۔۔اور و نسے تھی یڑے یایا نے کونشا‬
‫غصہ ہوجایا ہے۔۔۔وہ جا تیے ہیں آپ ہمیشہ سے تنکچول رہے ہو۔۔۔نس آج ہی کجھ میٹ‬
‫لیٹ ہوگے۔۔۔اب جلدی سے پیبھیں نہاں۔۔۔"‬
‫چہایگیر صاجب کا یازو ا تیے دویوں ہاتھ میں تھام کر انہیں جئیر یر پیبھاپی مطییہ مسنفل یو لیے‬
‫آخر میں رکی جب نظر گھر داجلی دروازے یر کھڑے ہیبم یر یڑی‪،‬یراون پی یٹ یر واتٹ پی سرٹ‬
‫ساتھ ہی اس یر گرے ُہڈی نہیے وہ یاریک ل بوں یر چونصورت مشکراہٹ شجانے قدم یڑھاکر ان‬
‫لوگوں کے یاس آیا‪،‬اس کے ُیرکسش چہرے کے کھلے نقوش دیکھ مطییہ نےساجیہ نگاہ ت ھیرنے‬
‫یر مح بور ہوپی اس ڈر سے کہ کہیں چھنل ریگ آیکھوں میں امڈنے کنی چونصورت محیت کے ریگ‬
‫وہاں پیبھے نقوس کے سا میے آسکار یہ ہوجانے‪،‬صیح صیح اس شخص کو نہاں دیکھ اس کا دل‬
‫نےجد مسرور ہوا تھا‪،‬‬

‫‪- 45 -‬‬
‫"آ تیے یرچوردار۔۔۔؟"‬
‫اسے دیکھ کر چہایگیر صاجب چوش یاش سے کہیے اسارہ کیے جئیر کی جاتب‪،‬واصع تھا کہ وہ اسے‬
‫یا سیے یر مدعو کررہے ہیں‪،‬انہیں ہیبم کو وہاں دیکھ جیرت نہیں ہوپی کبویکہ اکیر وہ کسی یہ کسی‬
‫نہانے چہایگیر ہاؤس آیا رہنا‪،‬‬

‫"نہیں جاچو آج نہیں۔۔۔تھر کبھی۔۔۔میں یو نس یوپی کے لیے نکل رہا تھا یو سوجا نہاں کا تھی‬
‫جکر لگانے جاؤں۔۔۔"‬
‫ایک نظر سر چھکاپی یاذلی یر ڈا لیے وہ مشکراکر شہولت سے انکار کنا‪،‬‬

‫"آ۔۔۔یاذلی۔۔۔ئمہارا پئیر ہے یا آج۔۔۔لیٹ نہیں ہورہی۔۔۔"‬


‫پ‬
‫وہ چو اتنی یلیٹ یر یاجانے کنا یالش کرنے میں مگن سرچھکانے یبھی تھی ہیبم کے یو لیے یر‬
‫ل بوں کو دات بوں میں دیاپی اتنا چہرہ اتھاپی‪،‬اسکی اس ادا یر ہیبم تنار ہونے لگا‪،‬دوسری جاتب مطییہ‬
‫کے چہرے یر چو ہیبم کی موچودگی کے یاعث دھبمی مسکان شج جکی تھی یکدم عاتب ہوپی‪،‬چھنل‬
‫ریگ آیکھوں میں یاگواری چھاپی مفایل کو یرم مشکراہٹ سمیت یاذلی کو دیکھیے دیکھ‪،‬‬

‫"لیٹ۔۔۔یو۔۔۔ہورہی ہوں۔۔۔یر۔۔"‬
‫‪- 46 -‬‬
‫یاذلی کو کل رات والی مطییہ کی ڈاتٹ یاد آپی یو اسے ایک چور نظر دیکھ کر ہلکی آواز میں یولی‪،‬‬

‫"یو جلو۔۔۔میں یوپی جارہا ہوں۔۔۔ئمہیں تھی کالج ڈراپ کردوں گا۔۔۔"‬
‫وہ یو جیسے می نظر تھا اس چملے کا تبھی چ ھٹ سے یوال‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔میں ڈرات بور کے ساتھ۔۔۔"‬

‫"ارے پینا وہ جب کہہ رہا ہے کہ ئمہیں ڈراپ کردے گا یو جلی جاؤ۔۔۔"‬


‫یاذلی چو نہلے ہی ڈری تھی ہیبم کی آفر یر اب چہایگیر صاجب کے یات کاٹ کر یرمی سے کہیے یر‬
‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫شچ میں یرنشان ہوپی مطییہ کو د ھی جس کے یایرات ل یں سناٹ ہونے ھے‪،‬‬
‫ت‬ ‫م‬

‫"یو جلیں۔۔۔"‬
‫اسکی جاموسی یر ہیبم چوسی سے یوال اب یو چہایگیر صاجب نے تھی اجازت دے دی تھی‪،‬یاذلی‬
‫آہسنگی سے اتنات میں سر ہالپی جئیر کھسکا کر اتھی ساتھ ہی یرایر رکھی جئیر یر سے اتنا تنگ‬
‫اتھایا‪،‬‬

‫‪- 47 -‬‬
‫"مطییہ۔۔۔آپ نے تھی جایا ہے یا یوپی۔۔۔"‬
‫اجایک چہایگیر صاجب نے یا سیے سے ہاتھ روک کر کہا جس یر مطییہ کی نظریں ہیبم کے جاتب‬
‫اتھیں‪،‬اسکی مشکراہٹ عاتب ہوپی تھی چہایگیر صاجب کی اس یات یر تبھی چہرے یر یدمزگی‬
‫النے وہ یاذلی کو دیکھیے لگا‪،‬‬

‫"نہیں یایا۔۔۔آج یوپی نہیں جایا مجھے۔۔۔"‬


‫نےیایر لہچے میں کہہ کر اس نے کچن کا رخ کنا‪،‬دوسری جاتب ہیبم چوسی سے سرسار ہوا‪،‬‬

‫"ہیں۔۔۔یر آپی آپ نے یو کہا تھا کہ جایا۔۔۔"‬

‫"چھوڑو یاذلی۔۔۔اگر وہ نہیں جایا جاہ رہی یو ہم صد تھوڑی کرسکیے ہیں۔۔۔اسکا موڈ نہیں‬
‫ہوگا۔۔۔جلو ئمہیں ڈراپ کرد ت نا ہوں۔۔۔دیر ہوجانے گی وریہ۔۔۔"‬
‫یاذلی چو خزیز کا سکار کچن میں جاپی مطییہ کو یول رہی تھی یکدم اسکی یات کاتنا ہیبم چہایگیر‬
‫صاجب کا لجاظ کر کے مشکرایا آخر میں اسے دیکھ کر داتت پیسے یوال‪،‬تھر جلدی سے چہایگیر‬
‫صاجب سے اجازت لینا یاذلی کے ساتھ یاہر آیا‪،‬‬

‫‪- 48 -‬‬
‫"پیبھیں منڈم۔۔۔"‬
‫مشکراکر کار کا گیٹ کھولے وہ ادب سے تھوڑا چھک کر یو لیے کی ایکینگ کنا جس یر کھلکھالپی‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫یاذلی فرتٹ سیٹ یر ھی‪،‬یاذلی کے ھیے ہی وہ گیٹ تند کیے چوسی سے یالوں یں ہاتھ ھیریا‬
‫دوسرے جاتب آیا گیٹ کھول کر پیبھا‪،‬یہ م نظر کچن کی کھڑکی(چو کہ یورچ کے جاتب کھلنی)‬
‫سے مطییہ نے جلنی آیکھوں سے دیکھا‪،‬اس وقت جس قدر تھاتبھڑ اسکے ایدر جل رہے تھے اسکا‬
‫سدت سے دل جاہا کہ ان سے یاذلی چہایگیر کو جالکر رکھ دے‪،‬ک بوں وہ اس سے چھوپی ہونے یر‬
‫تھی مفایل کی محیت کی نہلی چفدار تنی تھی‪،‬ک بوں اس کی یاک نےلوث محیت یکظرفہ ہی رہ گنی‬
‫ن ً‬
‫تھی اور قینا اس کی یہ محیت ظرفہ ہی ر نی ھی جس یں م کندر ا نی ع ناتت کے چند کے‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫تھی نہیں ڈا لیے واال تھا‪،‬اقفف۔۔۔۔‪،‬کس قدر نےنس تھی وہ‪،‬جاہ کر تھی ا تیے جذیات مفایل یر‬
‫آسکار نہیں کرسکنی تھی‪،‬آنسو کب چھنل سی آیکھوں سے یوٹ کر رجشار یر تھشلے وہ اتنی اذ ت بوں‬
‫کے یدولت مجسوس ہی یہ کرسکی‪،‬یورچ یر کار سنارٹ ہونے کی آواز سے اسکا مچور یویا‪،‬چہایگیر‬
‫صاجب تھی اب جارہے تھے‪،‬ایکی کار کو جایا دیکھ وہ یلٹ کر کچن سے نکلی‪،‬‬

‫ُمردہ قدموں سے ا تیے کمرے میں داجل ہوپی وہ وارڈروب کے جاتب یڑھی‪،‬ایک مرتیہ تھر ا تیے‬
‫یڑ تیے کرب تھرے جذیایوں کو لفظوں کے یام د تیے‪،‬جاپی سے الک ہوپی ڈرار کھول کر اس‬

‫‪- 49 -‬‬
‫نے اتنی ڈایری نکالی‪،‬ایک سفاف موپی یوٹ کر اس ڈایری یر گرا‪،‬وہ دویوں کار میں ایک ساتھ‬
‫ہوں گے اتھی‪،‬یہ سوچ آنے ہی وہ نےساجیہ ششکی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"کنا ہوا موڈ کو۔۔۔؟"‬


‫پ‬
‫کار ڈرات بو کرنے ہیبم چو ہر تھوڑی دیر میں ایک نظر یرایر میں یبھی اتنی مکی ِن دل یر ڈال رہا تھا‬
‫اسے جاموش سیسے سے یاہر دیکھیے یارملی یوچھا‪،‬اسکے سوال یر یاذلی چو کل کی مطییہ کی خرکت کا‬
‫سوچ رہی تھی اجایک چویکی‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔!"‬
‫ایک لفظی اسکا یام لینی وہ جپ ہوپی‪،‬اسے سمجھ یہ آیا کہ ہیبم کو وہ یات تنانے یا نہیں۔۔‪،‬یر‬
‫مطییہ کی وارتنگ چو اسے واضح الفاظوں میں ہیبم کو کہیے کا یولی تھی یہ سوچ کر وہ کہیے لگی‪،‬‬

‫"آپ اس طرح سے یہ کنا کریں۔۔۔"‬


‫اسکی نےیکی یات یر ہیبم کار سلو کریا اسے دیکھا‪،‬‬
‫‪- 50 -‬‬
‫"میں نے کنا ِکنا منڈم۔۔۔"‬
‫ایک آیرو آچکا کر وہ یرم نظروں سے یاذلی کو دیکھ کر یوچھا‪،‬‬

‫"آپ۔۔۔آ۔۔۔کنا ہوجانے گا اگر آپ میرے لیے ا تیے جذیایوں کا اظہار شب کے سا میے کھل‬
‫کر یہ کریں یو۔۔۔"‬
‫نہت ہمت محبمع کر کے وہ یہ یات ایک ہی سانس میں پیزی سے یولی یو ہیبم جیرت تھری‬
‫نظروں سے اس کو دیکھا‪،‬‬

‫"ک بوں یہ کروں میں ا تیے جذیایوں کا اظہار تم یر۔۔۔یاگل محیت کریا ہوں تم سے۔۔۔اور و نسے‬
‫تھی میرے دل میں ئمہارے لیے جذیات سے سبھی واقف ہیں۔۔۔"‬
‫روڈ یر نظریں چمانے وہ رسات یت سے یو لیے ہونے یاذلی کے گال سرخ ہونے یر مح بور کرگنا‪،‬اسکی‬
‫نےیاک یات سے ئمبمایا چہرہ موڑے وہ ل بوں یر سرمگیں مشکراہٹ شجاپی تھی تھر تبھی کجھ سوچ‬
‫کر اس کے ل بوں سے تھشال‪،‬‬

‫"یر آپی غصہ ہوپی ہیں۔۔۔"‬


‫‪- 51 -‬‬
‫اور یہ یات کہیے چہاں یاذلی نے دات بوں یلے زیان دیاپی وہیں ہیبم چھنکے سے کار روکا تھا‪،‬وہ خی تھر‬
‫کر جیران ہوا تھا یاذلی کی اس یات یر‪،‬‬

‫"کنا۔۔۔"‬
‫گہری جاموسی کے نعد اس نے اچھییے سے یوچھا‪،‬‬

‫"وہ۔۔۔وہ ہیبم۔۔۔آپی غصہ ہوپی ہیں۔۔۔مظلب کہ انہوں نے کہا۔۔۔کہ۔۔۔اچ۔۔اچھا‬


‫نہیں۔۔لگنا۔۔انہیں یہ شب۔۔۔میرا مظلب۔۔۔کہ۔۔۔ان کا۔۔مظلب ہے‬
‫کہ۔۔۔وہ۔۔۔انہوں نے کہا تھا۔۔۔کہ جب میں یڑی ہوجاوں گی یو۔۔۔قلوقت آپ جد میں‬
‫رہیں۔۔نہیں۔۔۔مظلب میں کیسے۔۔۔"‬
‫وہ تھریور کوشش کرنے لگی تھی اسے سمجھانے کی یر ساتھ ہی ہیبم کا دل مطییہ کی طرف سے‬
‫خراب یہ ہو اس لیے یایوں کو یوزپی بوو ایداز میں کہیے لگی لنکن آخر میں چود ہی اتنی کہی یایوں میں‬
‫الجھنی یرنشان ہوکر جپ ہوگنی‪،‬‬

‫"نہلے یو مجھے یہ ت ناؤ کہ تم ہو کینی چھوپی۔۔۔سیرہ کی ہو۔۔۔دو پین سال نعد اپیس پیس کی‬
‫ہوجاو گی۔۔۔یو اس میں اتنی تھی بچی نہیں ہو۔۔۔اور چہاں یک یات ہے مطییہ کے غصہ‬
‫‪- 52 -‬‬
‫ہونے کی یو اس سے میں چود ہی یات کرلوں گا۔۔۔کنا اچھا لگنا ہے کنا نہیں قلجال تم یہ یہ‬
‫ہی سوچو یو نہیر ہے۔۔۔اور کنا یرا لگنا ہے۔۔۔کونسی ولگر خرکت کی ہے میں نے شب کے‬
‫سا میے چو یہ یات کی اس نے تم سے۔۔۔"‬
‫ہیبم کا سدید چون کھوال تھا یاذلی کے یوں یو لیے یر تبھی دھبمے لہچے میں اسے چھڑکنا وہ تپ کر‬
‫ی‬‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اسنفشار کرنے لگا‪،‬اسکے یوں چھڑ کیے یر یاذلی کی آ یں ل یں ڈیڈیا یں یں اور م کے ایدر‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫امڈیا سارا غصہ چھاگ کی طرح پیبھا‪،‬‬

‫"یاذلی۔۔۔آہ۔۔۔یاذو۔۔۔یار تم رو ک بوں رہی ہو۔۔۔اچھا تھنک ہے۔۔۔سوری۔۔۔"‬


‫وہ سمجھا تھا کہ اسکا لہچہ یاذلی کی چونصورت آیکھوں میں الیا ہے تبھی یدامت تھرے لہچے میں کہنا‬
‫وہ چ یب سے رومال نکالنا اسکی جاتب یڑھایا‪،‬سوں سوں کرپی یاذلی نے نہلے یو یاراض نظروں سے‬
‫اسے دیکھا تھر چھیییے کے ایداز میں رومال لینی دوسری جاتب میہ کرگنی‪،‬واصع یاراصگی کا اظہار‬
‫تھا‪،‬‬

‫"یاذلی سوری۔۔۔"‬
‫اسکی یاراصگی یر نےجین ہویا ہیبم نسبمان لہچے میں یوال‪،‬اسے مطییہ یر نہت غصہ آرہا تھا جس‬
‫کے یاعث وہ یاذلی کو ڈاتٹ گنا‪،‬آخر کیسے وہ اتنی م ن ِ‬
‫اع جاں کو ڈاتٹ سکنا تھا‪،‬اس قدر غصہ‬
‫‪- 53 -‬‬
‫کیسے آگنا تھا اسے وہ چود یہ جان یایا‪،‬ساید وخہ ہی نہی تھی کہ یاذلی نے اسکے یرم جذیایوں کے اکیر‬
‫و پیسیر کیے جانے والے اظہار کو یرا کہا تھا‪،‬‬

‫"میرا پئیر ہے آج۔۔۔لیٹ ہورہی ہوں۔۔۔مج ھے کالج چھوڑ دیں یلیز۔۔۔"‬


‫کجھ دیر نعد یاذلی کی یاراض آواز یر وہ گہرا سانس تھرکر کار سنارٹ کنا تھا‪،‬اسے کالج ڈراپ کرنے‬
‫کے نعد ہیبم نے تھی یوپی کا رخ کنا‪،‬جب یاذلی نے اسے مطییہ کی کہی یات ت ناپی یو ایک یل کو‬
‫ہیبم کا دماغ مییسر ہوا تھا‪،‬آخر مطییہ کے ساتھ یرایلم کنا تھی چو وہ یاذلی کو یہ یات کہہ رہی‬
‫تھی‪،‬ہوسکنا ہے وہ یڑی نہن ہونے کے یاعث اسکی قکر کررہی ہو‪،‬یر اس نے یو کبھی یاذلی کے‬
‫ساتھ کوپی یری خرکت نہیں کی چو وہ اسے جد میں رہیے کی وارتنگ یاذلی کے ذر نعے کی تھی‪،‬تھر‬
‫ک بوں اس نے یوں یوال‪،‬ان سوچوں سے سر چھ نک کر ہیبم نے یاذلی کو جلد منانے کا ارادہ کیے‬
‫یوت بورسنی میں اتنی کار روکی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ اتھی اتھی ِچم سے وانس آیا تھا‪،‬اب اسکا ارادہ یاشیہ کرنے کے نعد یوپی جانے کا تھا‪،‬پیزی‬
‫میں اتنی پی سرٹ ایار کر الؤبج کے صوقے یر تھینکنا وہ کچن کا رخ کنا‪،‬چوس وہ لییے آیا تھا چم‬
‫سے وانسی یر ا تیے ساتھ‪،‬اب ایڈے نکال ہی رہا تھا فربج سے جب کسی اجشاس کے بخت‬
‫‪- 54 -‬‬
‫چونکا‪،‬فربج تند کر کے اس نے گیٹ کی جاتب دیکھا چہاں ِقلذہ کھڑی دلجسپ نظروں سے اسے‬
‫دیکھ رہی تھی‪،‬اسے یاد آیا کہ جلدی میں وہ اتنکسی کا گیٹ تند کریا تھول گنا تھا‪،‬‬

‫"میں نے ڈسیرب یو نہیں کنا۔۔۔"‬


‫ک‬‫ی‬
‫مشکرانے ہونے کہہ کر وہ چ ند قدم آگے آپی نغور اسکے کسرپی چوڑے سییے کو د ھی‪،‬یرہیہ یازو‬
‫میں اب یک نسییے کی چمک تھی‪،‬چنہیں دیکھ قلذہ کی دھڑکییں یڑھیں‪،‬‬

‫"کوپی کام تھا آپ کو۔۔"‬


‫آت بوسی آیکھوں میں یاگواری گھلی تھی قلذہ کے یوں دھڑلے سے آنے یر تھر تھی سیحندہ نظروں‬
‫ٰ‬
‫سے اسے دیکھنا وہ لہچے کو چنی االمکان یار ل ر ھے یوال ساتھ ہی ضبوط قدموں میت اوین کچن‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫م‬

‫سے نکلنا صوقے یر سے اتنی پی سرٹ اتھا کر نہن ِا‪،‬قلذہ چو مفایل کے شجر میں کھوپی تھی یکدم‬
‫چویکی جب وہ چنکی بجایا اسکے آگے‪،‬‬

‫"ہا۔۔ہاں وہ میں نے ئمہیں اتھی یاہر سے آنے دیکھا۔۔۔کنا تم ِچم گیے تھے۔۔۔"‬

‫‪- 55 -‬‬
‫چود کو کم بوز کرپی وہ کھلے لہلہانے یالوں کو کان کے تیج ھے کرکے یوچھی‪،‬مفایل کے سا میے چودبچود‬
‫ل بوں یر مشکراہٹ یکھرے جارہی تھی‪،‬یدئمیز لہچہ یو کہیں کھو ہی گنا تھا وہ نہت سانسنگی سے‬
‫یات کررہی تھی ساپی سے‪،‬‬

‫"خی۔۔۔"‬
‫مح نصر چواب دیا تھا اس نے‪،‬لڑک بوں سے زیادہ یات ہی یہ کریا تھا وہ‪،‬اور اگر کبھی انشا انفاق ہویا‬
‫تھی یو نہاتت مح نصر چملے ہونے اسکے‪،‬‬

‫ن‬ ‫ی‬‫س‬‫ی‬‫ی‬ ‫م‬‫چ‬


‫بم۔۔۔تم ہی‬ ‫"ہے۔۔۔تم ایکسرسایز کے لیے یاہر ک بوں جانے ہو۔۔۔سکندر وال میں ہے‬
‫کرلنا کرو ایکسرسایز۔۔۔"‬
‫فرتنک ہوکر یولنی وہ نگاہ ت ھیری‪،‬مفایل کی آت بوسی آیکھوں کا شجر اسے ا تیے الفاظ تھال دے رہا‬
‫ی‬
‫تھا‪،‬کس قدر جسین آ کھیں تھی اسکی‪،‬کیشا طلسم تھا مفایل میں چو ِقلذہ جیسی یولڈ لڑکی کو تھی تھلے‬
‫ایک ہی یل کے لیے مگر یوکھالرہا تھا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔۔انکل نے مجھے نہاں یر رہیے کے لیے جگہ دی۔۔۔یہ ہی نہت ہے۔۔۔میں اتنی‬
‫ذات سے کسی کو یرنشان کریا نہیں جاہوں گا۔۔۔"‬
‫‪- 56 -‬‬
‫شہولت سے اسے انکار کریا وہ دویوں یازو سییے یر یایدھا‪،‬اسارہ صاف تھا قلذہ کے لیے کہ اور‬
‫کجھ۔۔۔‪،‬یازو فولڈ کرنے یر ان یر اتھرپی رگوں کو دیکھ قلذہ یلک چھنکیے یر مح بور ہوپی تھی‪،‬‬

‫"کہیں جارہے تھے۔۔۔؟"‬


‫وہ تھی صدا کی ڈھیٹ تھی‪،‬مفایل کے لہچے میں ا تیے لیے کوپی مبھاس یو کنا یرمی یک یہ مجسوس‬
‫پ‬
‫ہوپی تھر تھی یونہی یبھی اوین کچن کے جاتب ایک نظر ڈالے یوچھی‪،‬‬

‫"ہاں یوپی جانے کی تناری کررہا تھا۔۔۔لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔"‬


‫اس یار لہچے میں تنا لجک کے وہ یوال ساتھ ہی ایک نظر وال کالک یر ڈالی‪،‬‬

‫"یاشیہ ہمارے گھر میں کرلو۔۔۔اگر دیر ہورہی ہے یو۔۔۔"‬


‫قلذہ کا اتھی کوپی موڈ نہیں ہورہا تھا اسکے یاس سے جانے کا تبھی یایوں کو ظول د تنی وہ کھڑی‬
‫ہوکر کچن کی طرف آپی‪،‬ساپی کی پیشاپی یر ایک یاگوار یل یڑا تھا‪،‬لڑکبوں سے اسے نہلے ہی الرخی‬
‫تھی اور اب قلذہ کا یوں قصول میں فرتنک ہویا اسے یلکل یہ تھایا‪،‬‬

‫"میں نہلے ہی نہت لیٹ ہوچکا ہوں۔۔۔یاشیہ نہیں کروں گا۔۔۔"‬


‫‪- 57 -‬‬
‫ت‬
‫اسے کسی تھی طرح نہاں سے ھیحیے کے جکر میں ساپی سفند چھوٹ یوال‪،‬جاالیکہ اسے سدید تھوک‬
‫لگ رہی تھی یر اب دیر ہونے کے یاعٹ اسکا ارادہ یدل چکا تھا‪،‬‬

‫دوسری جاتب ِقلذہ کو اب مفایل کے لہچے میں یاگواری مجسوس ہونے لگی تبھی مشکراکر سر‬
‫اتنات میں ہالپی یولی‪،‬‬

‫"تھر تھنک ہے۔۔۔رات کے ڈیر یر میں ئمہیں سکندر وال مدعو کرپی ہوں۔۔۔امند ہے کہ تم اس‬
‫کے لیے کم از کم انکار یہ کرو۔۔۔"‬
‫ی‬
‫ُیرسوق نظروں سے اسکے تنکھے نقوش کو د نی وہ آس سے یو ھی جس یر ساپی نے زیرد نی ل بوں‬
‫س‬ ‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫یر مشکراہٹ شجاپی‪،‬‬

‫"اگر فری ہوا یو ضرور آؤں گا۔۔۔"‬


‫اسکے اتنات میں انکار سامل ہونے یر تھی قلذہ کو فرق یہ یڑا‪،‬وہ یو ایک مرتیہ تھر مچو ہوپی تھی‬
‫مفایل کے ل بوں یر شچی ہلکی مشکراہٹ دیکھ‪،‬دل نے ایک ِت یٹ ِمس کی‪،‬جس یر گ ھیراکر نگاہ‬
‫ً‬
‫ت ھیرنے وہ اتنکسی سے نکلی‪،‬ادھر ساپی نے اسکے جانے کے نعد فورا گیٹ تند کنا تھر تنار ہونے‬
‫کے لیے روم کا رخ کنا‪،‬‬
‫‪- 58 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کنا میں ایدر آسکنی ہوں۔۔؟"‬
‫وہ چو ا تیے کمرے میں ہاتھ کے ایدازے کی مدد سے دیوار یر ِکنل تھویک رہا تھا تیجھے سے آپی‬
‫مایوس آواز یر خی تھر کر پیزار ہوا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔"‬
‫ہمیشہ کی طرح سرد لہچہ‪،‬ع ندلیب گہرا سانس تھرپی ایدر داجل ہوپی‪،‬‬

‫"کنا کررہے ہو۔۔۔؟"‬


‫دپیز کارت یٹ کی یرمی یلووں یر مجسوس کرپی وہ یوچھی جس یر مشلشل ِکنل یر ہبھوڑی سے ہلکی‬
‫س‬
‫ضرپیں لگایا لسینل کا تھاری ہاتھ ایک یل کو ُرکا‪،‬‬

‫ِ"دکھ نہیں رہا۔۔۔؟"‬


‫النا سوال مگر غصنلے لہچے میں کہ عندلیب تھوڑا یوکھالپی‪،‬‬

‫‪- 59 -‬‬
‫"کجھ یات کرپی تھی۔۔۔؟"‬
‫س‬
‫وہ اس یار آہسنگی سے یوچھی یو لسینل ہاتھ روک کر یلنا‪،‬اسکی جالی آیکھوں کو دیکھ عندلیب کے‬
‫دل میں ہمیشہ کی طرح ایک ِپیس سی اتھی جسے ایدر دیاپی وہ چود کو کم بوز کیے یولی‪،‬‬

‫"کل ایوار ہے۔۔۔ڈاکیر سے ایواپیبمیٹ۔۔۔یاد ہے یاں۔۔۔"‬


‫س‬
‫یہ یات کہیے اسے لسینل کے یایرات سے صاف سمجھ میں آیا کہ وہ تھول گنا ہے‪،‬تھر کجھ‬
‫سوچ کر وہ اتنات میں سر ہالنے یرایر سے اسینک یکڑیا تنڈ یر آکر پیبھا‪،‬اسکے یایرات یارمل دیکھ‬
‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫عندلیب ل بوں یر زیان ت ھیرپی تھوڑے قاصلے یر ر ک ھے یو سئیر صوقے یر ھی‪،‬‬

‫"ئمہارے کالج میں یڑھاپی نہیں ہوپی کنا۔۔۔؟"‬


‫ُ‬
‫کجھ دیر کی جاموسی کے نعد وہ اسکی تھاری آواز اتھری اور عندلیب ششدہ سی ہوکر اسے دیکھیے‬
‫لگی‪،‬ان دو سالوں میں نہلی مرتیہ وہ چود اس سے کوپی سوال یوچھا تھا‪،‬‬

‫"ہا۔۔۔ہاں۔۔ہاں۔۔۔ہوپی ہے۔۔۔"‬
‫جلدی سے چود کی چوسی سے چھومنی دھڑک بوں یر قایو یاپی وہ مشکرانے ہونے یولی‪،‬‬

‫‪- 60 -‬‬
‫"یو تھر ہر ہفیے میہ اتھاکر نہاں ک بوں آجاپی ہو۔۔۔"‬
‫س‬
‫اور اس یات یر عندلیب کی ساری چوسی یل میں دفن ہوپی‪،‬اسکا میہ ل نکا تھا‪،‬تپ کر لسینل‬
‫کے یاگوار یایرات دیکھ وہ یولی‪،‬‬

‫"گرتنی سے ملیے آپی ہوں۔۔۔وریہ مج ھے کوپی سوق تھوڑی ہے اتنی یڑھاپی خراب کرنے کا۔۔۔"‬
‫س‬
‫اسکے یوں یو لیے یر لسینل طیزیہ ایداز میں مشکرایا‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔نہت یڑھاکو ہو تم۔۔۔"‬


‫وہ طیز کنا تھا اس یر‪،‬عندلیب نے سلگ کر ایک نظر تھر اسے دیکھا اور نس۔۔۔‪،‬ایک نظر کا‬
‫دیکھنا تھا کہ وہ دیکھنی رہ گنی‪،‬مفایل مشکرایا تھا‪،‬تھلے طیزیہ یر وہ مشکرایا یو تھا‪،‬ہاں وہ نہت مک‬
‫مشکرایا یر جب مشکرایا یو دیکھیے والے کی دھڑکییں مییسر کرد ت نا‪،‬اور اتھی نہی جال عندلیب کا‬
‫ہوا تھا‪،‬ئمسکل اتنی سور مجاپی دھڑک بوں کو نظرایداز کرپی وہ یولی‪،‬‬

‫"ان شب یایوں کو چھوڑو یہ ت ناؤ کہ کل اگر ڈاکیر نے کہہ دیا کہ ئمہاری پیناپی جلد وانس آجانے‬
‫گی۔۔۔یو تھر ئمہاری کوپی انسی ِوش ہوگی چو تم شب سے نہلے یوری کریا جاہو گے۔۔۔"‬

‫‪- 61 -‬‬
‫یات یدلنی وہ مزے سے یوچھی‪،‬نہلی یار مفایل اسے اتنی اہمیت دے رہا تھا کہ اس سے کم از‬
‫کم چند ہی دیر یر یات یو کنا تھا اور یہ یات عندلیب کے لیے کسی چوسی سے کم تھوڑی تھی‪،‬‬

‫ِ"وش۔۔۔"‬
‫اسکے یاریک یراسے لب تھڑتھڑانے تھے‪،‬ماضی کے دردیاک مناطر ذہن میں گھومیے اسکی پیشاپی‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫کی رگیں ھوال گیے‪،‬جیڑیں نےساجیہ یچے ھے‬
‫ت‬ ‫ت‬

‫"تناؤ تھی کنا ِوش ہے۔۔۔؟"‬


‫عندلیب اسکی جاموسی یر نضد ہوپی جس یر مفایل کے نےیایر چہرے یر ہلکی سی اذ تت اتنی‬
‫چھلک دکھا کر عاتب ہوپی‪،‬‬

‫"میری ِوش نہی ہے کہ نس میری پیناپی وانس آجانے۔۔۔تھر اسکے نعد میں ان لوگوں کو‬
‫نےبجاشہ یڑیاوں گا چنہوں نے مجھے یڑیانے ہونے ایک لمچے تھی رچم یہ کھایا۔۔۔۔"‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ک س‬
‫ل کے ہچے یں اس قدر تھنڈا یایر سفاکیت لیے تھا کہ عندلیب ایک ل کو‬ ‫یہ یات ہیے‬
‫چھرچھری لییے یر محبور ہوپی‪،‬ایدھے ہونے کے یاوچود اس انشان کی شخضیت انسی تھی کہ مفایل‬

‫‪- 62 -‬‬
‫یات کرنے سے نہلے کنی مرتیہ سوچے‪،‬یاجانے جب اسکی پیناپی تھی تب وہ کیشا ہویا ہوگا‪،‬یہ‬
‫سوچ ہمیشہ کی طرح اب تھی عندلیب کے دماغ میں آپی جسے وہ جلد ہی چھنکی‪،‬‬

‫"اچھا چھوڑو۔۔۔یہ ت ناؤ ئمہارا نسندیدہ جایور کونشا ہے۔۔؟"‬


‫س‬
‫یایک جییج کرپی وہ یونہی یوچھی‪ ،‬لسینل کے یراسے ہونے ل بوں یر سرد مشکراہٹ آنہری اس‬
‫سوال یر‪،‬‬

‫"میرا نسندیدہ جایور۔۔۔۔ت ھیڑیا۔۔۔وہ مجھے نےجد نسند ہے۔۔"‬


‫اسکے چواب یر عندلیب کاتنی تھی‪،‬دماغ یکدم گھوما‪،‬اس انشان کے ہر چواب ا تیے چوقناک ک بوں‬
‫س‬
‫ہونے‪ ،‬لسینل کی جالی آیکھوں کو دیکھ نےساجیہ وہ یہ سوچیے یر مح بور ہوپی کہ کس نے اس‬
‫وجاہت کے ساہکار کے ساتھ انشا کنا ہوگا‪،‬اور گر کو اسکی پیناپی وانس تھی آگنی یو کنا ابجام‬
‫کرے گا وہ اس انشان کا‪،‬‬

‫"تم۔۔۔اب جاؤ نہاں سے۔۔۔"‬


‫س‬ ‫ُ‬
‫وہ چو سوچوں میں گم تھی لسینل کی سرد آواز یر چویکی‪،‬‬

‫‪- 63 -‬‬
‫"ک بوں۔۔۔اتھی یو آپی ہوں۔۔۔"‬
‫اجایک اسکے وچنہہ چہرے یر اذ ت ییں رقم دیکھ وہ جیرت سے یوچھی‪،‬‬

‫"میں نے کہا جاؤ نہاں سے۔۔۔"‬


‫ًس‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫جلد ہی عندلیب کو اجشاس ہوا کہ وہ یہ سوال کر کے علظی کرجکی ہے ک بویکہ چوایا‬
‫ا تیے مضبوط ہاتھ میں یکڑی ہبھوڑی سا میے دیوار یر مارنے ہونے دھاڑا تھا چو کہ وہاں نسب ایل‬
‫ای یر لگیے ہی چھناکے کی آواز سمیت ایل ای ڈی یوڑ گنی‪،‬عندلیب گ ھیراکر اتھی ساتھ ہی تیج ھے‬
‫ہنی‪،‬‬

‫"م۔۔۔می۔۔میں جا۔۔جارہی ہوں۔۔۔"‬


‫یآواز کہیے ہونے وہ گیٹ کی طرف یڑھی یر نکلیے سے نہلے ایک نکل نف تھری نظر اس مضبوط‬
‫انشان یر ڈالنا یہ تھولی چو اکیر و پیسیر اتنی نےنسی کا غصہ عندلیب یر ان طرنقوں سے ایار د ت نا‬
‫اور وہ ہمیشہ اسکے غصے کو جاموسی سے یرداشت کرلینی۔۔۔‪،‬آخر کو اس سے محیت چو کرپی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪- 64 -‬‬
‫"یاذلی۔۔"‬
‫پ‬
‫وہ دونہر کو ا تیے کمرے میں یبھی اگلے پئیر کی تناری کررہی تھی چبھی مطییہ ایدر داجل ہوپی‬
‫اسے نکاری‪،‬‬

‫"خی آپی۔۔"‬
‫ک‬‫ی‬
‫مطییہ کے ت نفر تھرے یایرات وہ سوالیہ نظروں سے د ھی‪،‬‬

‫"لو۔۔۔ہیبم کو یات کرپی ہے تم سے۔۔۔"‬


‫ئمسکل لہچہ نےیرواہ رکھیے وہ یولی‪،‬‬
‫کم عمری کے یاعث چہایگیر صاجب نے قلجال یاذلی کو مویایل رکھیے کی اجازت نہیں دی‬
‫تھی‪،‬اسے چو تھی کام یا یات اتنی کسی دوشت سے کرپی ہوپی وہ ہمیشہ مطییہ کے فون سے ہی‬
‫کرپی‪،‬ادھر اسکے یاس فون یہ ہونے کی وخہ سے ہیبم تھی جب ا تیے دل کی نےفراری سے مح بور‬
‫ہویا یو مطییہ کے ئمیر یر کال کر کے یاذلی سے یات کریا‪،‬اتھی تھی اس نے مطییہ کو کال کی‬
‫یر ہمیشہ سے ہٹ کر آج مطییہ کو اسکا لب ولہچہ چود سے یات کرنے کافی سرد لگا تھا‪،‬یاذلی کو‬
‫فون یکڑا کر وہ ا تیے دل کی یڑتنی دہات بوں کو نظرایداز کرپی یاہر کے جاتب گنی یر نےجینی جد سے‬
‫سوا ہونے کے یدولت یاہر گیٹ سے ہی تنک لگاکر کھڑی رہ گنی‪،‬‬
‫‪- 65 -‬‬
‫"تم کالج سے ڈرات بور کے ساتھ گھر جلی گنی اور مجھے تنایا یک ضروری یہ سمج ھا۔۔۔"‬
‫اسکے ہنلو یو لیے ہی دوسری جاتب سے ہیبم نے یاراصگی کا اظہار کنا یر یاذلی کے تھر تھی جاموش‬
‫رہیے یر وہ نےساجیہ مشکرایا‪،‬‬

‫"اب یک یاراض ہو۔۔؟"‬


‫اتنہاپی یرم لہچے میں یوچھا تھا کہ یاذلی کی دھڑکییں نےیرت یب ہوپیں‪،‬‬

‫"سوری۔۔۔"‬
‫یاجا ہیے ہونے تھی یاذلی کے لب مشکرانے اسکے یوں یو لیے یر‪،‬‬

‫"یار یات یو کرو۔۔۔"‬


‫مسنفل جاموسی کھلیے یر وہ نےفراری سے یوال‪،‬‬

‫"میں نہیں کرپی معاف آپ کو۔۔۔"‬


‫کجھ سوچیے ہونے وہ ایراکر یولی‪،‬‬
‫‪- 66 -‬‬
‫"یوچھ سکنا ہوں وخہ۔۔۔"‬
‫اسکا سرارت تھرا لہچہ ہیبم کو یرسکون کرگنا تبھی مشکرانے ہونے یوچھا‪،‬‬

‫"کل صیح آپ جب مجھے کالج کے لیے یک کرنے آ پیں گے یو شب سے نہلے میرے لیے میری‬
‫ق بورٹ ڈھیر ساری جاکلییس لے کرآ پیں گے۔۔۔تھر سوچوں گی میں کہ آپ کو معاف کنا‬
‫جاسکنا ہے یا نہیں۔۔۔"‬
‫یزاکت تھرے لہچے میں کہنی وہ ہیبم کو ہیسیے یر مح بور کی تھی‪،‬‬

‫"چو جکم مخیرمہ۔۔۔"‬


‫وہ جس قدر یانعداری سے کہا تھا یاذلی نےاجینار کھلکھالپی اور نس مطییہ کی یرداشت نہی یک‬
‫تھی‪،‬چھنکے سے ایدر آپی وہ یاذلی کے سر یر کھڑی ہوپی‪،‬‬

‫"فون دو۔۔۔"‬
‫یاذلی چو اسکے آنے یر چویکی تھی اجایک مطییہ کے ہاتھ یڑھا کر ضنط سے یو لیے یر جیران ہوپی‪،‬‬

‫‪- 67 -‬‬
‫"یر آپی۔۔۔"‬

‫"مجھے کام ہے دو فون۔۔۔"‬


‫غصے میں کہنی وہ چھینی تھی یاذلی کے ہاتھ سے فون ساتھ ہی پیزی میں کال کٹ کرپی اسے‬
‫نفرت سے گھورپی نکلی روم سے‪،‬ہیبم چو کال یر اجایک ہونے والی بخث یہ سن یایا تھا کال کییے‬
‫یر چونکا‪،‬‬

‫"کال ک بوں کاٹ دی۔۔۔"‬


‫زی ِر لب یڑیڑایا وہ دویارہ ئمیر ڈایل کنا تھا مگر دوسری جاتب سے اس یار کال رنسبو نہیں کی‬
‫گنی‪،‬دو پین مرتیہ کال کرنے کے یاوچود جب دوسری جاتب سے جاموسی رہی یو ہیبم فون ساتنڈ‬
‫میں رکھ کر گہرا سانس تھرا تھا‪،‬یاذلی نے اسے جاکلییس النے کو کل کہا تھا یر وہ ذہن میں کجھ‬
‫اور ہی سوچ کر مشکرایا ا تیے روم سے نکال‪،‬‬

‫ک‬ ‫ُ‬
‫ادھر یاذلی اداس ہوپی تھی‪،‬یڑھاپی سے یکدم دل اجاٹ ہوا‪،‬کنا یں یرایر یں ر نی تنڈ سے تنک‬
‫ھ‬ ‫م‬ ‫پ‬
‫لگانے مطییہ کے رونے کا سوچیے لگی‪،‬یہ نہیں تھا کہ مطییہ اس سے محیت نہیں‬
‫کرپی۔۔‪،‬مطییہ کی چود کے لیے کئیر دیکھ وہ ا چھے سے جاتنی تھی کہ اسکے ماں کے جانے کے نعد‬
‫‪- 68 -‬‬
‫ایک مطییہ ہی ہے چو اس کا چ نال چہایگیر صاجب سے تھی زیادہ رکھنی تھی مگر کبھی کبھی اسکا‬
‫رویہ یاذلی سے اس قدر یرا ہوجایا کہ یاذلی الجھ کر رہ جاپی‪،‬اتھی تھی اسکی آیکھوں میں ا تیے لیے‬
‫نفرت دیکھ یاذلی ہمیشہ کی طرح چوفزدہ ہوپی تھی‪،‬نےساجیہ اسے رویا آیا‪،‬اس معصوم کا چھویا دماغ‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫مج‬‫س‬
‫م‬
‫اس یات کو ھیے سے عاری تھا کہ اس کی گی ہن جس یں یاذلی اکیر ا نی ماں کو د نی وہ‬
‫نہن اس سے جشد کا سکار ہوجکی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کنا کہا ہے ڈاکیر نے۔۔۔؟"‬
‫وہ یاہر پییچ یر اسینک ہاتھ میں تھامے پیبھا تھا‪،‬کجھ دیر نہلے ہی چنک اپ کرواکر وہ ایدر سے نکال‬
‫تھا‪،‬چبھی عندلیب چو ایدر ڈاکیر سے یات کررہی تھی اسکے نکلیے یر قدموں کی آہٹ تھاپینا یوچھا‪،‬‬

‫س‬
‫لسینل کے سوال یر عندلیب نے مایوس نظروں سے اسکی آت بوس ریگ جالی آیکھوں کو دیکھا تھر‬
‫ٰ‬
‫چنی االمکان لہچے کو یارمل رکھ کر یولی‪،‬‬

‫"امکایات ہیں۔۔کہ جلد۔۔۔پی ناپی۔۔۔"‬

‫‪- 69 -‬‬
‫"چھوٹ مت یولو۔۔۔"‬
‫یاوچود کوشش عندلیب کا لڑکھڑایا لہچہ اسے یاور کراگنا تھا کہ مفایل کھڑی لڑکی اسے چھوپی امند‬
‫دالرہی تھی‪،‬تبھی شحنی سے اسکی یات کایا تھا وہ‪،‬‬

‫"جانسس نہیں ہیں یاں میری پیناپی وانس آنے کے۔۔۔"‬


‫اس کا لہچہ یہ یات کہیے تھی اتنا سرد تھا عندلیب نے نےساجیہ سر چھکایا‪،‬‬

‫"جانس ہے۔۔۔یر نہت کم۔۔۔"‬


‫س‬
‫ل‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اب کی یار اس نے شچ یولنا ہی مناشب سمجھا‪،‬اس نے سنا تھا شچ کڑوا ہویا ہے یر یہ شچ‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫مراد سے زیادہ عندلیب کو کڑوا لگا تھا‪،‬کرب سے آ کھیں موید کر وہ چود کو کم بوز کرپی وانس آ کھیں‬
‫س‬ ‫ی‬
‫وا کی‪،‬اور کابچ سی آ کھیں جیرت سے تھنلیں جب نظر لسینل مراد کے یراسے گیے عناپی ل بوں‬
‫یر یڑی‪،‬وہ مشکرارہا تھا‪،‬ہاں وہ طیزیہ مشکراہٹ ل بوں یر شجایا تھا‪،‬جیسے اتنی نےنسی کا چود ہی مذاق‬
‫ک‬‫ی‬
‫اڑارہا ہو‪،‬اسکی یہ مشکراہٹ عندلیب سے زیادہ دیر یک د ھی یہ نی یو وہ جلدی سے نگاہ ھیر‬
‫ت‬ ‫گ‬
‫گنی‪،‬‬

‫‪- 70 -‬‬
‫تبھی چھ نکے سے اتھنا وہ اسینک کے شہارے وہاں سے نکلیے لگا‪،‬عندلیب اسکے تیجھے پیز قدموں‬
‫سمیت گنی‪،‬یاہر آکر اسے بجانے کار میں پیبھیے کہ یونہی تندل جانے دیکھ وہ یرنشان ہوپی‪،‬‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل۔۔۔!"‬
‫عندلیب کی نکار یر تھی وہ یہ رکا اور یاک کی سندھ میں جلنا گنا‪،‬اسکی یہ کارواپی نہلے یو عندلیب‬
‫س‬
‫یہ سمجھ یاپی یر جب لسینل اجایک روڈ کے تیچوں تیچ کھڑا ہویا اتنی اسینک دور تھی نکا تھا تب‬
‫عندلیب کے چہرے یر سے ہواتناں اڑی‪،‬یوں مجسوس ہوا جیسے کجھ ہی دیر میں اسکا دل کٹ کر‬
‫س س‬
‫ل کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫گرجانے گا‪،‬فرتب ہی ایک نس پیزی میں اس طرف آرہی تھی جس کی آواز ییے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫غ‬ ‫ع‬ ‫سم ً‬
‫وچنہہ چہرے یر سے مشکراہٹ نی‪،‬معا م و صے کے سدید عا م یں وہ ا تیے دویوں یازو ھ الیا‬
‫م‬
‫کھ‬
‫تھا تبھی نس کے فرتب آنے یر عندلیب چھنکے سے اسکا ہوا میں معلق یازو یکڑ کر چی ھی‪،‬ان‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫ی‬

‫کے یلکل فرتب سے ہوپی نس گزری‪،‬کجھ دیر یو ع ندلیب سکیے کے عالم میں زمین کو گھورپی‬
‫رہی‪،‬تھر زرا سیبھلیے یر نظر اتھاکر دیکھا‪،‬وہ سا میے سرخ چہرہ لیے کھڑا تھا‪،‬جیسے یہ مداجلت اسکے‬
‫غضب کو ہوا دے گنی ہو‪،‬‬

‫"تم یاگل ہو۔۔۔"‬

‫‪- 71 -‬‬
‫عندلیب جلق کے یل جالپی تھی‪،‬کیشا تھا وہ انشان چود موت کے فرتب جارہا تھا‪،‬اگر کو اسے‬
‫اتھی کجھ ہوجایا یو۔۔۔‪،‬یہ سوچ عندلیب کو اذ ت بوں میں چھویکی تھی‪،‬آنسو پیزپیں لڑھکے تھے اسکے‬
‫س‬
‫ی‬
‫ل نکا ک دہاڑا‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫سرخ عارض یر‪،‬چنکہ اسکی آواز سینا‬

‫"ہاں ہوں میں یاگل۔۔۔ہوں یاگل۔۔۔یر تم۔۔تم کون ہوپی ہو مج ھے بجانے والی۔۔۔۔ئمہاری‬
‫ہمت کیسے ہوپی میرے کام میں مداجلت کرنے کی۔۔۔"‬
‫اسکی دہاڑ یر آنے جانے لوگ م بوخہ ہونے لگے تھے ان دویوں کی جاتب‪،‬‬

‫"تم جا تیے تھی ہو کنا کرنے والے تھے تم۔۔۔"‬


‫ی‬
‫یات بوں سے تھری آ کھیں تھنالنے وہ یوچھی تھی‪،‬‬

‫"ا چھے سے جاتنا ہوں کنا کرنے واال تھا۔۔۔"‬


‫اگلے ہی لمچے وہ چود کو کافی جد یک سیبھال چکا تھا تبھی یارملی یوال جیسے کوپی یڑی یات یہ ہو‪،‬‬

‫"یہ کرنے ہونے تم کم از کم گرتنی کا یو سوچ لییے۔۔۔"‬


‫وہ یڑپی تھی مفایل کی نےجسی یر تبھی گلے میں اتھرنے تھندے یر قایو یاپی یولی‪،‬‬
‫‪- 72 -‬‬
‫"ہنہہ۔۔۔مجھے نہیں یرواہ کسی کی۔۔۔"‬
‫اس کی یہ یات سییے ہی عندلیب نےنقین ہوپی‪،‬دل میں درد کی اتھنی پیسیں یڑھیں یو وہ چیچی‪،‬‬

‫"واقعی۔۔۔ئمہیں کہاں یرواہ ہے کسی کی۔۔۔تم یو ایک نےجس جذیات سے عاری انشان‬
‫ہو۔۔۔ جسے زرا فرق نہیں یڑیا کہ کون کون یڑت نا ہے اسکے لیے۔۔۔ئمہیں یرواہ ہے یو نس‬
‫اتنی۔۔۔کہ تم تھنک رہو۔۔۔ئمہاری پیناپی آجانے اور اگر پیناپی یہ آنے یو جلو۔۔۔مرنے جلیے‬
‫ہیں۔۔۔ا نسے تھر آزادی مل جانے گی ئمہیں ہر نکل نف سے۔۔۔ہے یاں۔۔۔نہی سوچیے ہو یاں‬
‫تم۔۔۔"‬
‫س‬
‫عندلیب کے مسنفل چیحیے یر آس یاس کھڑے ان دویوں کے مکا لمے کو ھیے کی کوشش‬
‫مج‬
‫کرنے لوگ یرنشان ہونے تھے‪،‬چنکہ ششلینل اب ل بوں کو ایک دوسرے میں شحنی سے تھیچے‬
‫کھڑا تھا‪،‬‬

‫"یر تم جا تیے ہو۔۔۔یوں مر کر اتنا دامن بجانے سے تم یری الزمہ نہیں ہوسکیے۔۔۔ا نسے ضرف‬
‫تم ایک یزدل انشان نصور کیے جاؤں گے۔۔۔چو جاالت سے گ ھیراکر مرنے کو فوق یت د ت نا میہ‬
‫خراگنا۔۔۔"‬
‫‪- 73 -‬‬
‫س‬
‫اور اس یات یر لسینل کی کشادہ پیشاپی سکبوں کے جال سے تھری‪،‬‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫م‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ل مراد۔۔۔۔ م ا ک یزدل صور کیے جاؤ گے۔۔۔اگر مت ہے یو فایلہ کرو اس‬ ‫"ہاں‬
‫جاالت کا۔۔۔جب مجھے یورا نقین ہے کہ ایک دن شب تھنک ہو جانے گا یو تم ک بوں یاامند‬
‫ہونے ہو۔۔۔"‬
‫وہ اب تھکی آواز میں یول کر اسکے یاس آپی تھی‪،‬‬

‫"مجھے نہاں سے لے جلو۔۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫س‬
‫ل نے اتنا تھاری ہاتھ آگے کنا تھا اور وہ ہاتھ عندلیب کے ہاتھ کی یرمی مجسوس‬ ‫اجایک‬
‫کرنے ہی اسکے ہاتھ کو شحنی سے تھام گنا‪،‬تبھی وہ دھبمے لہچے میں یوال‪،‬‬

‫ی‬
‫عندلیب ساکت سی نظروں سے اسکے تھاری ہاتھوں میں چھنا اتنی یازک ہاتھ د کھی تھی‪،‬وہ چود‬
‫ً‬
‫اسکا ہاتھ تھاما تھا‪،‬مفایل کی اس عناتت یر عندلیب کا دل زور سے دھڑک کر رہ گنا‪،‬معا‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫لس‬ ‫یکھ س‬
‫ل کو‬ ‫ئمبمانے گالوں سمیت وہ ایک نظر جاروں طرف کھڑے لوگوں کو چور نظر سے د نی‬
‫لیے وہاں سے نکلی‪،‬کار کے فرتب آنے یک وہ شحنی سے اسکا ہاتھ تھامے رکھا تھا‪،‬عندلیب ئمسکل‬
‫س‬
‫دل کی مییسر ہوپی دھڑک بوں یر قایو یاپی اسے کار میں پیبھاپی تھی‪،‬تبھی لسینل اسکا یازک ہاتھ‬
‫‪- 74 -‬‬
‫چھوڑا‪،‬مفایل کی شخت گرقت میں رہیے کے یاعث عندلیب کو اتنا سرخ ہویا ہاتھ اکڑیا مجسوس‬
‫س‬ ‫س‬
‫ہوا‪،‬دور تھینکی گنی لسینل کی اسینک کو وہ ساتھ ہی اتھاالپی تھی‪،‬آج اسے لسینل کے لہچے‬
‫ت س‬
‫ل کا‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یر چو دکھ نہیجا تھا اسی کے ساتھ ساتھ ایک چوسی تھی ہوپی تھی‪،‬اور وہ چوسی ھی‬
‫اسکے ہاتھ کو یکڑ کر وہاں سے لے جانے کا کہنا‪،‬اتنا یو اسے نقین ہوگنا تھا کہ مفایل تبھر دکھیے‬
‫والے شخص کو عندلیب یر تھروشہ ہونے لگا ہے‪،‬تبھی وہ اب ابجانے میں اس یر یہ واضح‬
‫کرنے لگا تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کو ڈیر کے لیے وہ سکندر ہاؤس میں آیا تھا‪،‬قلذہ کے یو لیے یر اس کا کوپی ارادہ نہیں تھا‬
‫نہاں آنے کا یر سام کو سکندر صاجب نے جب اسے کال کر کے یالخصوص مدعو کنا تب وہ‬
‫انہیں انکار یہ کرسکا‪،‬سکندر صاجب اور ہیبم نے اسکا یرتناک اسنفنال کنا تھا‪،‬یر ہناد کے یایرات‬
‫ہ بوز سرد تھے‪،‬الییہ اسکی یرسینلنی تھاپینی مہناز تنگم تھی کافی جد یک م نایر ہوپی تھیں ساپی‬
‫سے‪،‬قلذہ کی زیاپی اسکی نعرنقوں کے یل سن کر اب انہیں اجشاس ہوا تھا کہ ایکی معرور یہ‬
‫خڑھی پینی کو آخر کیسے ایک عرتب لڑکا اتنا تھایا تھا‪،‬اسکے آنے یر قلذہ تھی ا تیے منک اپ کو‬
‫آخری بچ د تنی تیچے آپی تھی‪،‬جئیز کا ڈ تبم لناس نہیے یالوں کو یوپی میں مفند کیے وہ التٹ سے‬
‫منک اپ میں نہت چونصورت لگ رہی تھی‪،‬نضاد ل بوں یر یکھری مشکراہٹ نے اصافہ کنا تھا‬
‫‪- 75 -‬‬
‫چونصورپی میں مگر اسکی یہ چونصورت مشکراہٹ ماید یڑی جب ساپی نے ایک نظر تھی اسکی طرف‬
‫یہ دیکھا‪،‬‬

‫"ساپی۔۔۔ہمم۔۔۔مراد نے تنایا تھا کہ ئمہیں اتنا یزنس کرنے کا چ بون کی جد یک سوق‬


‫ہے۔۔۔"‬
‫فورک کی مدد سے ِمنل کھانے سکندر صاجب نے مخصوص نہراؤ لہچے میں کہا‪،‬جس یر یاپی کے‬
‫گھوتٹ تھریا ساپی گالس رکھا تھا‪،‬‬

‫"خی یلکل۔۔۔"‬
‫یرم لہچے میں دیا گنا مح نصر چواب تھ ِا‪،‬قلذہ کی نےیاب نظریں اب یک مفایل کو اتنی طرف م بوخہ‬
‫کرنے کے لیے مجل رہی تھیں‪،‬‬

‫"یو تم انشا ک بوں نہیں کرنے کہ۔۔۔یڑھاپی کے ساتھ ساتھ میرے یزنس میں تھوڑا ہاتھ‬
‫تنادو۔۔۔یوں ئمہیں تھوڑا بجریہ تھی ہوجانے گا۔۔۔اور چہاں یک مجھے معلوم ہے۔۔۔اتنی ذہاتت‬
‫کے یدولت تم جلد ہی ہمارے آقس میں ایک ا چھے عہدے یر تھی نہیچ جاؤ گے۔۔۔"‬

‫‪- 76 -‬‬
‫سکندر صاجب کی رسات یت سے کہی گنی اس یات یر چہاں ساپی چونکا وہی ہناد کا چمچ جالیا ہاتھ رکا‬
‫وت سماعت ان دویوں کی یایوں یر مرکوز ہوپیں‪،‬‬
‫تھا‪،‬ف ِ‬

‫ٰ‬
‫"میں مزید اور اجشان نہیں جاہنا چود یر۔۔۔نہلے ہی آپ نے کافی اعلی طرفی کا مظاہرہ کنا ہے‬
‫مجھے نہاں جگہ دے کر۔۔۔"‬
‫یاسیت سے مشکرایا وہ ڈ ھکے چھیے لفظوں میں انکار کرنے لگا‪،‬سکندر صاجب مشکرانے تھے‪،‬‬

‫"یر میں نہیں سمجھنا کہ میں نے کوپی اجشان کنا تم یر۔۔۔یہ ئمہاری قایلیت اور کرپیر ت نانے کی‬
‫ن ً‬
‫جسیچو تھی جس کی یدولت تم نہاں ہو۔۔۔اور قینا ایک دن ہت ا ھے مفام یر ھی ہوگے۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫ن‬
‫وہ اسکے انکار کو سمجھ جکے تھے تبھی اسکی چودداری یر سنانسی نظروں سے ساپی کو دیکھیے گویا‬
‫ہونے‪،‬ہناد کی سرد نظریں اتھ کر ساپی یر مرکوز ہوپیں‪ ،‬تیے جیڑوں سمیت وہ اسے گھورا تھا‪،‬‬

‫"یہ یات یو شچ کہی یایا۔۔۔ساپی تھاپی ہیں نہت قایل اور منایر کن۔۔۔ہے یاں ماما۔۔"‬
‫ہیبم نے تھی گفنگو میں چ ّصہ لنا تھا ساتھ ہی یات کے آخر میں مہناز تنگم سے یاتند جاہی جس یر‬
‫انہوں نے ایک گھوری اسے یوازی‪،‬اس میں کوپی سک نہیں تھا کہ ساپی کی شخضیت نے‬
‫انہیں منایر کنا ہو یر وہ جلد کسی کی نعرنف کرنے والوں میں سے نہیں تھیں‪،‬‬
‫‪- 77 -‬‬
‫"سنلنڈ کی یلیٹ دو گے مجھے۔۔۔"‬
‫نسواپی لہچے کا مجاطب ساپی تھا‪،‬وہ جب سے اب دیکھا تھا ڈاتیینگ پینل یر ا تیے یلکل سا میے‬
‫پ‬
‫یبھی قلذہ کو تھر مشکراکر اتنات میں سر ہالیا ا تیے فرتب رکھی یلیٹ اتھا کر اسکے جاتب‬
‫ن‬ ‫ش ن ً‬
‫یڑھاپی‪،‬قلذہ کے ایدر یک سکون سراتت کرگنا تھا‪،‬وہ اسے دیکھ کر م کرایا یو قینا مظلب ہی تھا‬
‫کہ قلذہ کا جسن اس یر تھی اتنا کام کرنے لگا ہے‪،‬تبھی اتنی مشکراہٹ ل بوں یر کجلنی وہ ایک‬
‫س‬
‫تھریور نظر لسینل یر ڈالی تھی‪،‬‬

‫ڈیر چبم ہونے کے کجھ دیر یک سکندر صاجب سے یات کرنے کے نعد وہ وہاں سے ان کی‬
‫اجازت لینا نکال اور وانس اتنکسی میں آیا تھا‪،‬کیڑے جییج کرنے کے نعد وہ کال یر کجھ دیر یک‬
‫مراد صاجب سے اور تھر گرتنی سے یات کنا تھا‪،‬ا تیے لیے گرتنی کی قکر مندی سینا وہ ایکی یایوں‬
‫م‬
‫یر یار یار مشکراد ت نا‪،‬تھر انہیں یورے دن کی روپین تناکر طمین کریا فون رکھا‪،‬ساتھ ہی کناپیں‬
‫لے کر تنڈ یر پیبھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔‬
‫ً‬
‫"اور ئمہیں تنا ہے وہ مجھے دیکھ کر جب مشکرایا۔۔۔میں سمجھ گنی یار کہ نقینا میرے جسن کا ہی‬
‫جادو ہے چو اس جیسے سایدار شخص کو تھی گھایل کرگنا۔۔۔"‬
‫‪- 78 -‬‬
‫فون کان سے لگانے کھڑکی کے سا میے کھڑی وہ جب سے کال یر ِقلذہ کی یاپیں نےدلی سے‬
‫سن رہی تھی‪،‬‬

‫"ہے۔۔۔مطییہ۔۔۔تم سن رہی ہو یاں۔۔۔"‬


‫یکدم ِقلذہ یولی جس یر چویکنی وہ گویا ہوپی‪،‬‬

‫"ہاں یولو۔۔۔سن رہی ہوں۔۔۔"‬


‫اسے نشلی دے کر ایک مرتیہ تھر مطییہ گم ہوپی تھی ہیبم کے چنالوں میں‪،‬اس وقت اسے ِقلذہ‬
‫ا تیے مفا یلے میں نہت چوش نضیب لگی کہ اگر کو وہ کسی شخص کو نسند کرنے لگی ہے یو تیچ‬
‫میں اسکی چھوپی نہن یہ تھی کہ اسکا مح بوب چھوپی نہن کی جاتب راعب ہو اور ادھر ایک وہ تھی‬
‫کہ جسے جا ہیے لگی اس انشان نے اسکے یدلے اسکی چھوپی نہن کو ُچنا ا تیے لیے‪،‬نےساجیہ یاذلی‬
‫کے لیے اس کے دل میں ایک مرتیہ تھر نفرت نے ایگڑاپی لی تھی‪،‬‬

‫"میں نعد میں یات کرپی ہوں ِقلذہ۔۔۔"‬


‫اجایک کہہ کر کال کٹ کرپی وہ ِقلذہ کو جیران چھوڑ کر کجھ سوخی تھی تھر اتنی سوچ یر عمل‬
‫درآمد کرنے کا ارادہ کرپی روم سے نکلی‪،‬کچن میں جاکر اس نے جلدی سے یاذلی کے لیے روز کی‬
‫‪- 79 -‬‬
‫طرح ایک گالس دودھ تبم گرم کنا تھا‪،‬تھر ذہن میں آپی سنظاپی یرکیب کو ایک مرتیہ تھر سوچیے‬
‫ہی اسکے ل بوں یر ئمسجر تھنال‪،‬ہاتھ میں تھامی انسنکٹ ِکلر کی سیسی چو آنے ہونے مطییہ نے‬
‫اسبور میں سے لی تھی اس سیسی میں سے چند سقوف دودھ میں ڈال کر چمچ سے مالنے کے نعد‬
‫گالس تھامی‪،‬‬

‫ایدر ہی کہیں اس کا ضمیر دہاپی دیا تھا کہ مفایل اسکی چھوپی نہن ہے مگر اتنی چ بوپی محیت کے‬
‫ن‬
‫آگے ایدھی ہوپی وہ کجھ ہی دیر میں یاذلی کے روم میں ہیچی‪،‬گیٹ یاک کرنے ہونے اجایک ڈر‬
‫نے اس کے یورے وچود کو گ ھیرا تھا‪،‬یل میں چوف اس قدر ہوا کہ گیٹ یاک کریا ہاتھ کاتپ کر‬
‫رہ گنا‪،‬ئمسکل ایدر امڈنے ڈر یر قایو یاپی وہ دو یار یاک کے نعد گیٹ کھولنی ایدر داجل ہوپی‪،‬‬

‫"آپی آ پیں یاں۔۔۔"‬


‫دونہر کی یدمزگی کے نعد تھی اتنی یڑی نہن کو یوں اتنا چنال کرکے دودھ کا گالس النے دیکھ‬
‫یاذلی چہکی تھی‪،‬اسے نشلی ہوپی کہ اس کی عزیز نہن کا اجایک خراب ہویا موڈ تھنک یو ہوا‪،‬‬

‫"یہ۔۔۔یہ۔۔۔پی لو۔۔۔"‬

‫‪- 80 -‬‬
‫ل بوں یر زیان ت ھیرپی وہ لڑکھڑانے لہچے میں یولی جس یر یاذلی نے مشکرانے ہونے دودھ کا گالس‬
‫تھاما‪،‬‬

‫"یہ نہن ہے میری۔۔!!"‬


‫ایدروپی مگر دلسوز یڑتنی آواز تھی کہ مطییہ کا سنظاپی دماغی سلب ہوا‪،‬سییے میں دھڑکنا دل چفا ہوا‬
‫تھا دماغ کی جال یر‪،‬ضمیر یری طرح للکارا تھا کہ چود سے ڈرپی گ ھیراپی مطییہ نے چوفزدہ ہوکر یاذلی‬
‫کو ل بوں کے فرتب گالس کرنے دیکھا تبھی چھ نکے سے اس نے وہ گالس چھینا تھا یاذلی کے ہاتھ‬
‫سے کے دودھ کے چند چھ یییے مطییہ کی قم نض یر یڑے‪،‬‬

‫"آپی کنا ہوا۔۔۔؟"‬


‫یاذلی یل میں گ ھیراپی اسے دیکھ کر دریاقت کریا جاہی چو شحنی سے ا تیے ہاتھ میں دودھ کا گالس‬
‫تھامے اسے چوفزدہ نظروں سے اب یک یکے جارہی تھی‪،‬‬

‫"آپی۔۔؟"‬
‫اس نے تھوڑا یلند آواز میں نکارا کہ مطییہ یوکھالکر یاذلی کے جاتب م بوخہ ہوپی‪،‬‬

‫‪- 81 -‬‬
‫"ہاں۔۔۔"‬
‫وہ جیسے اب یک اتنی کی گنی کارواپی یر نےنقین تھی‪،‬‬

‫"وہ۔۔۔وہ۔۔۔یہ دودھ۔۔میں۔۔۔مج ھے یاد آیا۔۔۔ہاں۔۔۔وہ یہ یاں۔۔۔خراب تھا۔۔۔میں تھول‬


‫گنی تھی۔۔۔میں ئمہارے لیے دوسرا گالس لے کر آپی ہوں۔۔۔"‬
‫چونصورت چہرے یر آیا نسییہ اسکے چوف کی غکاسی کررہا تھا تھر تھی چود کو ئمسکل کم بوز کرپی وہ‬
‫ہکالنے ہونے یاذلی کو ت نانے لگی ساتھ ہی یلنی‪،‬‬

‫"آپی رکیں۔۔۔"‬
‫ی‬
‫وہ چو نہاں سے قلجال کہیں نہت دور جلی جایا جاہنی تھی یاذلی کے نکار یر آ کھیں میچی تھر‬
‫ی‬
‫چہرے کے یایرات یارمل کیے اسکی طرف د کھی‪،‬‬

‫"دودھ چھوڑ دیں۔۔۔نس آپ آج نہیں سوجاپیں۔۔۔میرے یاس۔۔۔"‬


‫یاذلی کے یوں یاسیت زدہ لہچے میں کہیے یر مطییہ نے گہرا سانس تھرا تھر اتنات میں سر ہالپی‬
‫گویا ہوپی‪،‬‬

‫‪- 82 -‬‬
‫"تم لی بو میں آپی ہوں تھوڑی دیر میں۔۔۔"‬
‫اتنی یات یر یاذلی کا معصوم چہرہ ِکھلیے دیکھ وہ ئمسکل مشکرانے ہونے یلنی‪،‬‬

‫ِسنک میں دودھ تھینک کر وہ سندھا روم میں آپی‪،‬چود کو آ پییے میں نےنقینی سے د یکھے وہ‬
‫مشلشل نہی سوچ رہی تھی کہ آخر کس جد یک یاگل ہوجکی ہے وہ محیت میں‪،‬ک بوں ایک‬
‫ُ‬
‫ی‬
‫الجاصل شخص کے لیے اتنی نہن کو مارنے یر لی ہے‪،‬اس نہن کو جسے اس کے جذیایوں کی‬
‫جیر یک نہیں‪،‬‬

‫"تم اتنی نےجس نہیں ہو مطییہ۔۔۔"‬


‫پ‬
‫چود کو کہنی وہ گرنے کے ایداز میں تنڈ یر یبھی تبھی ذہن میں یاذلی کی یات آپی جسے سوچ کر وہ‬
‫تنڈ سے اتھی اور وارڈروب سے اتنی سنکرتٹ ڈایری نکالنی یاذلی کے روم کی طرف جل دی‪،‬‬

‫ن ً‬ ‫ی‬
‫ایدر داجل ہونے یر اس نے دیکھا کہ یاذلی آ یں تند کیے تنڈ یر نی ہے‪ ،‬قینا وہ اب جلد‬
‫ی‬‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫سونے والی تھی‪،‬مطییہ تنڈ یر اس کے یرایر میں جاکر پیبھ گنی تھر ہاتھ میں تھامی ڈایری کو‬
‫م‬
‫یاسیت سے دیکھ کر کھولی‪،‬ایک نظر یاذلی یر ڈال کر جب وہ طمین ہوپی تب صفجات کے تیچ‬
‫میں رکھا پین ہاتھ میں لے کر ایک مرتیہ تھر اتنی زیدگی کے اذ تت تھرے لمجات کے ساتھ جب‬
‫‪- 83 -‬‬
‫جب اس نے یاذلی کو مارنے کی کوشش کی ان سبھی یلوں کو سظروں کی سکل میں لکھیے‬
‫لگی‪،‬اتنی یکظرفہ محیت کی اذ تت لکھیے ہمیشہ کی طرح آنسو یوٹ کر یلکوں کی یاڑ یوڑنے صفچہ یر‬
‫گرنے لگے تھے یر تبھی لینڈ الین فون کی آواز یر وہ ہوش میں آپی چویکی‪،‬ایک یار تھر وہ یاذلی کو‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ن‬ ‫گ‬
‫د ھی چو کہ اب ہری پیند یں سورہی ھی اس کے عد دیوار یر نسب ھڑی یر وقت‪،‬اسے آدھا‬
‫گھ ییہ ہوچکا تھا لکھیے ہونے‪،‬ا تیے آنسو صاف کرپی وہ ڈایری ساتنڈ پینل یر رکھنی تنڈ سے اتھی ک بویکہ‬
‫فون مشلشل بج رہا تھا‪،‬‬

‫"ارے تھنی کون ہے۔۔۔ساہدہ کہاں ہو۔۔۔؟"‬


‫ھ‬ ‫چ‬
‫سیڑھ بوں سے تیچے ایرپی مطییہ کو چہایگیر صاجب کی الہٹ ھری آواز سناپی دی یو وہ جلدی‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬
‫سے آگے یڑھنی گویا ہوپی‪،‬‬

‫ی‬
‫"میں د کھنی ہوں یایا۔۔۔"‬
‫اسکے یوں یو لیے یر چہایگیر صاجب چو اب یاقاعدہ ا تیے روم سے نکلیے لگے تھے اتنات میں سر‬
‫ہالنے وانس ایدر جلے گیے‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔۔"‬
‫‪- 84 -‬‬
‫فون کان سے لگانے ہی وہ یولی جس یر کجھ دیر یو دوسری جاتب سے جاموسی رہی تھر کہا گنا‪،‬‬

‫"لڑکی ئمہارے ئمیر یر جب سے کال کررہا ہوں۔۔۔فون کدھر ہے ئمہارا۔۔۔"‬


‫مفایل کی شجر زدہ آواز یر مطییہ کا دل یکدم دھڑکا‪،‬اداس دل میں چوسگواری تندا ہوپی چنکہ لب‬
‫نےساجیہ مشکرانے‪،‬‬

‫"می۔۔میرا فون روم میں ہے اور میں دراصل یاذلی کے روم میں تھی۔۔۔"‬
‫مشکرانے لہچے میں وہ ہیبم کو چواب دی تھی‪،‬‬

‫"اچھا یو تھر انشا کرو میری یاذلی سے جلدی یات کروادو۔۔۔جب سے یاگل ہورہا ہوں کال کر کر‬
‫کے۔۔۔"‬
‫ہمیشہ کی طرح یرسکون لہچہ سمیت وہ یوال یو مطییہ کی چوسی یر اوس سی یڑی‪،‬لب یر سے‬
‫مشکراہٹ سمنی اور نےیرپینی میں دھڑکنا دل اجایک شست رقنار ہوا تھا‪،‬‬

‫"یاذلی سورہی ہے۔۔۔"‬


‫اس نے سناٹ لہچے میں کہا‪،‬‬
‫‪- 85 -‬‬
‫"ہیں۔۔۔اتنی جلدی۔۔۔اچھا انشا کرو اسے اتھادو تھوڑی سی یات کرپی ہے ضرف۔۔۔"‬
‫وہ ساید جلدی میں لگ رہا تھا تبھی مطییہ کا اجایک یدلہ لہچہ سمجھ یہ یایا‪،‬‬

‫"کہا یاں وہ سورہی ہے۔۔۔میں نہیں اتھاوں گی اسے۔۔۔"‬


‫ہر چواب کے ساتھ مطییہ کا لہچہ شخت ہورہا تھا‪،‬‬

‫"طالم لڑکی۔۔۔اتھادو یار ضروری یات ہے۔۔۔"‬


‫دوسری جاتب ہیبم کا موڈ کافی اچھا تھا جس کے یاعث وہ اسکی شحنی کو جاطر میں النے ت نا یوال‪،‬‬

‫"دماغ خراب مت کرو۔۔۔وہ سورہی ہے اور میں کسی ظور اسے نہیں اتھانے والی۔۔۔اب تھر‬
‫کال مت کریا۔۔۔"‬
‫اجایک غصے میں یڑخ کر کہنی وہ فون تیحیے کے ایداز میں رکھیے ہونے ہیبم کو سدید جیران کرگنی‪،‬‬

‫"ہاو ُروڈ۔۔۔؟"‬

‫‪- 86 -‬‬
‫ّ‬
‫ا تیے فون کو جیرت سے دیکھنا وہ زی ِر لب یڑیڑایا تھر چہایگیر ہاؤس کے پیروپی چصے کو نغور‬
‫دیکھا‪،‬یاذلی نے اس سے کل جاکلییس النے کا کہا تھا یر وہ صدا کا دیوایہ اتھی ہی جاکلییس لے‬
‫کر نہاں نہیجا تھا اب اس کا یلین یاذلی کو کال کر کے سریرایز د تیے کا تھا یر مطییہ کے فون‬
‫کٹ کرد تیے یر وہ کجھ سوچنا پیروپی دیوار یر خڑھا تھا‪،‬‬

‫پ‬
‫فون کٹ کرد تیے کے نعد وہ وہی یر صوقے یر یبھی ایک یار تھر دتنا چہاں سے عاقل اس سبمگر‬
‫کی سبم طرنفی کا سوچیے لگی‪،‬اسے ڈا پییے ہونے مطییہ کو نکل نف ہوپی تھی یر دل کا کنا کرپی چو‬
‫کبھی ان دویوں کو ایک ساتھ دیکھیے کا مبمنی یہ تھا‪،‬یاذلی کے لیے تیینی ا تیے دل میں نفرت یر وہ‬
‫ئمسکل قایو یارہی تھی اس یر نضاد اس سبمگر کا یاذلی کی کئیر کریا‪،‬انسی نہت سی سوچوں کے زی ِر‬
‫ایر وہ صوقے سے سر نکاکر اتنی جلنی گرم آیکھوں کو موید گنی‪،‬‬

‫دیوار سے جاکلییس کے تنکٹ سے کودیا وہ بجھلے یاعیچے میں ایرا تھا‪،‬آس یاس نظر ڈال کر اس‬
‫نے نہلے کھڑے ہوکر ایدازہ کنا‪،‬ا تیے سالوں سے آیا جایا رہنا اتنا یو معلوم ہی تھا کہ یاذلی کا روم‬
‫کونشا ہے تبھی اسکے کمرے کی کھڑکی یر نظر رکھنا وہ اس جاتب سے نکلے ایک مونے سے یاتپ یر‬
‫خڑھا تھا‪،‬وہ یار کریا ہیبم سندھا یاذلی کی کھڑکی یر رکا‪،‬سکر تھا کہ کھڑکی کے تٹ وا تھے تبھی ان یر‬
‫ی‬
‫مضبوط قدم چماکر وہ کمرے میں کودا‪،‬لبمپ کی دھبمی روسنی یر نظر دوڑانے ہونے اسکی آ کھیں‬
‫‪- 87 -‬‬
‫ُ‬ ‫م‬
‫منہوت ہوپی تھیں‪،‬تنڈ یر وہ یری وش دت اِن قاپی سے نےجیر یبھی پیند کے مزے لوٹ رہی‬
‫تھی‪،‬ہیبم کے یاریک ل بوں یر زیدگی سے تھریور مشکراہٹ تھنلی تھی اسے دیکھ کر‪،‬دھبمے قدم اتھایا‬
‫وہ اس کی طرف آیا تھر ساتنڈ پینل یر جاکلییس کے تنکٹ رکھنا سوپی ہوپی یاذلی کے یرایر میں‬
‫پیبھا‪،‬‬

‫گ ھئیری یلکوں کی چھالروں کو تھرے تھرے گالوں یر یکھرے دیکھ اس کا دل مجال تھا انہیں‬
‫چھونے کو مگر اتنی محیت کا اجیرام کرنے وہ یہ گسناخی جاہ کر تھی یہ کریایا‪،‬چھونے گالپی ل بوں‬
‫کو ایک دوسرے میں ت بوشت دیکھ وہ نگاہ ت ھیریا ا تیے گسناخ دل کی سرزنش کرنے لگا تھر‬
‫مشکراکر سرگوسی کنا‪،‬‬

‫"جایاں جلدی سے تم یڑی ہوجاو یاکہ میں ئمہیں جلد از جلد یاذلی چہایگیر سے یاذلی ہیبم سکندر‬
‫تنالوں۔۔۔دل یر یو ئمہارا یام پین سال نہلے ہی لکھ چکا تھا اب اتنی نفدیر میں تھی ئمہارے‬
‫قدموں کا می نظر ہوں۔۔۔۔میں یو کافی نہلے سے ئمہارا تھا نس اب ئمہیں جلد اتنا تنانے کی جسیچو‬
‫ہے۔۔۔"‬

‫‪- 88 -‬‬
‫م‬
‫کس قدر غفندت اور محیت تھی اسکے لہچے میں‪،‬یوری یات کمل کریا وہ اس پیند میں عاقل یری‬
‫تنکر کی سایہ قگن گھنی چھالروں یر ایک تھریور نظر ڈالنا اتھا تھر یلٹ کر کھڑکی کی طرف جانے لگا‬
‫لنکن اجایک ہی ہیبم تھبھک کر رکا‪،‬‬

‫کسی اجشاس کے بخت وہ گردن موڑ کر یاذلی کے یلکل یرایر میں دیکھا تھا چہاں یر ایک ڈایری‬
‫النی رکھی ہوپی تھی چنکہ اس ہی کے ساتھ ایک پین رکھا تھا‪،‬نہلے یو ہیبم نے اگ بور کر کے روم سے‬
‫جایا نہیر سمجھا یر یاجانے ک بوں اس ڈایری میں انسی کنا کسش تھی کہ نہلی مرتیہ ایک بجسس سا‬
‫ن‬ ‫س‬‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫ا ھرا تھا م کے ایدر جس یر قایو یا یایا وہ دو قدم یڑھا کر وہ ڈایری آ گی سے اتھایا تھا‪،‬‬

‫نہال صفچہ کھلیے یر وہ چونکا تھا چہاں واضح لفظوں میں اس فرد کا یام لکھا تھا جس کی ملکیت یہ‬
‫ڈایری تھی‪،‬‬

‫"مطییہ چہایگیر۔۔۔"‬
‫زی ِر لب یڑیڑایا وہ صفچہ یلییے لگا‪،‬اسے لگا تھا یہ ڈایری یاذلی کی ہوگی یر مطییہ کا یام دیکھ اسے‬
‫تھوڑی جیرت ہوپی تھی یر ہیبم کی یہ جیرت ہر صفچہ یلییے کے ساتھ ساتھ نےنقینی اور کنی‬
‫چھنکوں میں یدلی‪،‬سدید سکیے کے عالم میں ہر ایک صفچہ یڑھیے وہ ایک نےنقین نظر یاذلی یر ڈاال‬
‫‪- 89 -‬‬
‫تھا‪،‬خرف یہ خرف اس میں مطییہ کی اس کے لیے چ بوپی محیت کے ساتھ ساتھ دل میں سروع‬
‫سے تیینی یاذلی کے لیے نفرت کے یارے میں لکھا تھا‪،‬کنی صفچے یڑھیے وقت کا تنا یہ جال تھا یر‬
‫ص‬
‫ہیبم سکندر کو جیسے اب دت نا چہاں کی یرواہ نہیں تھی‪،‬کافی فچوں کو لٹ کر وہ ہر وہ الین غور‬
‫ن‬ ‫ی‬
‫یڑھ رہا تھا چہاں چہاں مطییہ نے ا تیے دل میں یاذلی کے لیے نفرت کا تنان کنا تھا‪،‬ہیبم کو زرا‬
‫دلجسنی یہ تھی اس لڑکی کی قصول سی محیت کے یارے میں یڑھیے کی ک بویکہ انسی محیت کی ہیبم‬
‫سکندر کے دل میں کوپی جگہ یہ تھی چو کسی دوسرے کو نفضان د تیے کا سیب تیے‪،‬اصل میں‬
‫ُ‬ ‫ی‬
‫یو ہیبم کی آ کھیں ہر ان الفاظوں یر تبھرارہی تھیں جن میں یاذلی کو مارنے کی کوشسیں اور اسکی‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫پ ل‬
‫مرنے کی دعا یں ھی ھی طییہ نے۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہیبم کے یارے میں سوچیے کنی گرم سنال اسکی چونصورت آیکھوں سے نکلیے ُسرخ عارض یر تھشلے‬
‫تھے یر ان سوچوں میں کب اس کی آیکھ لگی تنا ہی یہ جال‪،‬‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اور اب یکدم وہ چھنکے سے آ یں ھو نی سندھی ہوپی ھی‪،‬اجا ک ہی ییے یں مول کی رقنار‬
‫ع‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫سے دھڑ کیے دل میں یڑپ گھلی تھی جیسے کجھ نہت یرا ہوچکا ہے۔۔۔چو نہیں ہویا جا ہیے تھا وہ‬
‫ہوچکا ہے یر کنا۔۔۔!‬

‫‪- 90 -‬‬
‫یہ اس کی سمجھ سے یاالیر تھا لنکن تبھی ذہن کے یک گویہ میں چھماکا سا ہوا اور مطییہ چھنکے‬
‫سے تنڈ سے اتھنی ہوپی سیڑھ بوں کی جاتب تھاگی‪،‬‬

‫سیڑھناں ع بور کرنے سییے میں رکھا دل نہت عح یب ایداز میں دھڑ کیے لگا تھا‪،‬اتنی گ ھیراہٹ یر قایو‬
‫یانے ہونے اس نے یاذلی کے کمرے کا ُرخ کنا مگر ایدر داجل ہونے ہی مطییہ کے قدم زبخیر‬
‫ی‬
‫ہونے تھے‪،‬یاذلی کے تنڈ کے یرایر میں وہ مکی ِن دل کھڑا تھا‪،‬مطییہ کی آ کھیں نےنقینی میں‬
‫تھنلی تھیں اسے نہاں یر دیکھ کر‪،‬ہیبم کو ایک جگہ ہی انسنادہ دیکھ کر وہ سدید جیرت میں عوطہ‬
‫زن کجھ یو لیے ہی لگی تھی یر تبھی مطییہ کی نظریں نےنقینی سے تندیل ہوکر چوف سے‬
‫تھنلیں‪،‬مفایل کے ہاتھ میں وہی جیز دیکھ کر جس کے ڈر سے وہ تھاگ کر روم میں آپی‬
‫تھی‪،‬مطییہ کی ڈایری۔۔۔۔!‬

‫دوسری جاتب ہیبم تھی ساید اس کی موچودگی مجسوس کرچکا تھا تبھی ڈایری کے صفجات یر سے‬
‫نظریں ہنانے سر اتھایا مفایل کھڑی مطییہ کی جاتب دیکھا‪،‬اس کی سرخ ہوپی آیکھوں میں کنا‬
‫کجھ نہیں تھا‪،‬چفارت‪،‬غضب کا غصہ‪،‬سدید نفرت‪،‬پیشاپی یر سکبوں کے جال اور تیے جیڑوں کو‬
‫ی‬
‫دیکھیے ہی مطییہ چوفزدہ آ کھیں تھنالنے نےساجیہ دو قدم تیجھے ہنی تھی‪،‬نظروں میں سکت نہیں‬

‫‪- 91 -‬‬
‫تھی کہ مفایل کی نفرت تھری آیکھوں میں اور دیکھ سکے تبھی تھنگی آیکھوں کو چھکاکر اس کے‬
‫مضبوط ہاتھ میں دیوخی اتنی ڈایری یر مرکوز کی تھیں‪،‬‬

‫اسے چوبچوار نظروں سمیت گھوریا ہیبم اجایک ہی مطییہ کی ڈایری اس زور سے تیچے تھی نکا کہ وہ‬
‫سندھا مطییہ کے قدموں کے فرتب آگری‪،‬نےآواز روپی مطییہ ششک کر رہ گنی‪،‬یوں مجسوس ہوا‬
‫جیسے وہ تنا چھونے اسے نہت یذلنل تھرا طمابچہ مارا تھا‪،‬ہنک کے اجشاس سے مطییہ کا چہرہ‬
‫سرخ ہوا تھا‪،‬ئمسکل اتنی ششکبوں یر ضنط کیے وہ نگاہ چھکانے ڈایری کو دیکھ رہی تھی‪،‬یر تبھی‬
‫ُ‬
‫مطییہ کا دل تھییے کے فرتب ہوا جب قدم یڑھایا ہیبم اس کی ڈایری یر ا تیے یوٹ رکھا تھا‪،‬ا نی‬
‫ت‬
‫ی‬
‫محیت کی اس قدر یذل نل یر وہ کرب سے آ یں یچ نی‪،‬‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اسکے سرخ چھکے چہرے کو نفرت سے دیکھنا ہیبم اسکے یرایر سے گزریا روم سے نکلنا جال گنا‪،‬‬

‫کافی دیر نعد مطییہ کو جب اجشاس ہوا کہ وہ اب نہیں ہے وہاں تب وہ اتنی ُسوخی آیکھوں کو‬
‫آہسنگی سے وا کی تھی‪،‬وہ یوال کجھ نہیں تھا یر ا تیے عمل سے ہی اس کو یاور کراگنا تھا کہ کنا‬
‫چیی یت ہے ہیبم سکندر کی نظر میں اس کی محیت کی‪،‬دل زچم سے چور ہوا یو چود کے قدموں میں‬
‫ُ‬ ‫پ‬
‫جان مجسوس یہ کرپی وہ لڑکھڑانے ہونے تیچے گرنے کے ایداز میں یبھی‪،‬ڈایری کے کھلے فچے یر‬
‫ص‬

‫‪- 92 -‬‬
‫ح‬‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ُ‬
‫اس سبمگر کے یوٹ کے نشایات د نی طییہ ڈایری تند کر کے اسے نی سے ا تیے سییے یں‬
‫م‬ ‫م‬
‫ت‬
‫ھییچ گنی‪،‬روپی ہوپی وہ اتنی آواز ئمسکل دیانے اتھ کر پیزی سے ا تیے روم میں تھاگی‪،‬‬

‫تنڈ یر گرنے کے ایداز سے لیییے ہی وہ تھبھک کر روپی‪،‬درد اب یرداشت سے یاہر ہونے لگا‬
‫تھا‪،‬یوں مجسوس ہورہا تھا جیسے اب وہ مرجانے گی‪،‬جس محیت کو وہ اتنا چھنا کر رکھنی تھی آج اس‬
‫سبمگر یر آسکار تھی ہوپی یو مطییہ چہایگیر کو سرمندہ کراگنی‪،‬اس کی کرب تھری ششکناں رات کی‬
‫جاموسی میں ایک اذ تت تھری کہاپی رقم کرنے لگی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"گھر کب آؤ گی۔۔۔؟"‬
‫وہ صیح ہوسنل سے نکلیے کے لیے تنار ہورہی تھی تبھی قلذہ کی کال آپی تھی‪،‬یات کرنے کے‬
‫دوران وہ عندلیب سے یوچھیے لگی‪،‬‬

‫"ساید تنکسٹ میبھ۔۔!"‬


‫تنڈ یر دویوں پیروں کو س ندھا کیے وہ سوچیے ہونے یولی‪،‬‬

‫‪- 93 -‬‬
‫"ہمم۔۔۔ضحیح۔۔۔اور تناؤ۔۔۔اورفوتیچ کے بچے تھنک ہیں۔۔۔؟"‬
‫گہری سانس تھرپی قلذہ یونہی یوچھی چنکہ ادھر پیبم جانے کا سییے ہی عندلیب کے ذہن میں‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل‬
‫ل کا چنال آیا۔۔۔ بوں یر چو صورت م کراہٹ چی ھی ا کے‪،‬‬

‫" بچے یو تھنک ہیں آپی یر وہ لڑکا جس کے یارے میں آپ کو میں نے ت نایا تھا۔۔۔آپی دعا کرو‬
‫کہ اس کی پیناپی وانس آجانے۔۔۔"‬
‫اس کے چنال میں ع ندلیب یو لیے لگی یو ا تیے دل کی یات یولنی ہی جلی گنی‪،‬‬

‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬


‫"ک بوں اس کی آ یں اب یک ھنک یں ہو یں۔۔۔"‬

‫"نہیں یاں۔۔"‬
‫عندلیب اداسی میں چواب دی تھر کجھ دیر جاموسی کے نعد تھر یولی‪،‬‬

‫"کوپی یونہی کیسے کسی کی زیدگی یریاد کرسکنا ہے۔۔۔‬


‫مظلب آپی وہ ایک اچھا جاصا لڑکا چو کہ یایوں سے کافی ذہین تھی لگنا ہے۔۔۔۔پیناپی یہ ہونے‬
‫کے یاعث نےجارہ کجھ نہیں کریارہا اب۔۔۔گرتنی ُدریہ نے ت نایا وہ بجھلے یابچ سالوں سے ا یکے‬
‫‪- 94 -‬‬
‫ساتھ رہ رہا ہے۔۔۔اس سے نہلے ا یکے پییے کے کسی دوشت کے گھر یر رہنا تھا دوسرے شہر‬
‫میں۔۔۔۔یڑھاپی کی وخہ سے مح بوری تھی۔۔۔تھر وہی یر اس کے ساتھ یہ جادیہ ہوا۔۔۔گرتنی‬
‫کبھی کبھی نہت ُدکھی ہوپی ہیں ا تیے یونے کو دیکھ کر۔۔۔"‬
‫عندلیب اور تھی کجھ یول رہی تھی یر دوسری جاتب ِقلذہ کے ذہن میں یکدم ماضی کا یردہ لہرایا‪،‬‬

‫"میں نے انشا کبھی سوجا ہی نہیں تھا ئمہارے یارے میں۔۔۔یار تم یو نہن جیسی ہو میرے‬
‫لیے۔۔۔"‬
‫ساپی اسے آرام سے سمجھایا تھا‪،‬‬

‫مج‬‫س‬
‫"یر میں ئمہیں تھاپی نہیں ھنی۔۔۔یلیز ساپی میری محیت کو یوں مت دھ نکارو۔۔۔"‬
‫وہ گڑگڑانے لگی تھی اسکے آگے‪،‬ہاتھ نےساجیہ خڑے چنہیں دیکھ کر ساپی چھنکے سے کھڑا ہوا‪،‬‬

‫ف۔۔۔قلذہ۔۔۔کجھ تھی یول رہی ہو۔۔۔دیکھو ہماری دوسنی کو علط وے میں تم لے کر گنی‬‫ِ‬ ‫"ان‬
‫تھی یہ کہ میں۔۔۔اور تنار محیت ان شب کے یارے میں یو میں نے اتھی سوجا تھی‬
‫نہیں۔۔۔مجھے یڑھ نا ہے اتھی اتنا کرپیر سیٹ کریا ہے۔۔۔یلیز آ تندہ مجھ سے اس طرح کی یات‬
‫یہ کریا وریہ یو میں چود ہی جال جاؤں گا انکل کے گھر سے۔۔۔"‬
‫‪- 95 -‬‬
‫اسکے رونے ہونے نفی میں سر ہالنے یر ساپی شخت لہچے میں کہنا مڑ کر نکال تھا وہاں سے‪،‬ادھر‬
‫ُ‬
‫ِقلذہ کے چہرے یر اگلے ہی لمچے عم و غصے کی لکیریں اتھری‪،‬آخر اتنی محیت کا تھکرایا کہاں‬
‫ُ‬
‫یرداشت ہوا تھا اسے‪،‬‬

‫"میری یذلنل کی تم نے ساپی۔۔ا تیے کرپیر کی وخہ سے۔۔۔کرپیر۔۔۔ہنہہ۔۔۔اب میں ئمہارا کرپیر‬
‫تناؤں گی۔۔۔وہ تھی انشا چو تم کبھی نہیں تھول یاؤگے۔۔۔"‬
‫نفرت سے کہنی وہ نےنسی میں پینل یر رکھا گالس اتھا کر تیچے تھینکی تھی‪،‬‬

‫"آپی۔۔۔"‬
‫عندلیب کی آواز یر وہ ماضی سے نکل کر چویکی یری طرح‪،‬‬

‫"کنا۔۔؟"‬

‫س‬ ‫ن‬ ‫م ُ‬
‫"آپی میں کب سے آپ کو یول رہی ہوں کہ کجھ انشا تناؤ کہ یں اس ھڑوس کو ین دال کوں‬
‫ق‬ ‫ک‬
‫کہ ہر محیت سے یات کرنے واال انشان یرا نہیں ہویا۔۔۔وہ یو اتنی گرتنی کے عالوہ کسی سے یرم‬
‫لہچے میں یات یک کریا گوارا نہیں کریا۔۔۔کبھی کبھی یو انہیں تھی سناد ت نا ہے۔۔۔"‬
‫‪- 96 -‬‬
‫س‬
‫اقسردہ ہوکر کہنی وہ ایک یار تھر لسینل کے یارے میں سوچیے لگی تھی‪،‬‬

‫"ئمہیں ہوسنل ماما نے یڑھیے تھیجا تھا یا یہ شب کرنے۔۔۔۔تم نے یو کہا تھا کہ پیبم جانے‬
‫میں تم بچوں کے ساتھ دل نہالنے جاپی ہو تھر یہ کون ہے جس کے جکر میں‬
‫یڑگنی۔۔۔عندی۔۔۔اتنی یڑھاپی یر دھنان دو وریہ میں ماما کو ت نادوں گی شب۔۔۔"‬
‫دماغ میں ماضی یار یار اتنی چھلکناں دکھانے لگا جس سے گ ھیراکر وہ ما تھے یر آیا نسییہ صاف کرپی‬
‫کال یر عندلیب کو ڈ تنی‪،‬ماضی کی کناب میں وہ اس صفچے کو یو عرصہ ہوا تھول جکی تھی یر اب‬
‫ساتھ ہی دل سے ُدعا گو تھی کہ وہ صفچہ کبھی یہ وانس یلیے‪،‬‬

‫"گاڈ۔۔۔آپی آپ یو سنڈریال کی سی یپ شسیرز جیشا پی ہ بو کررہی ہو۔۔۔وہ یو میں ضرف گرتنی سے‬
‫ملیے جاپی ہوں یو اس سے تھی مالقات ہو جاپی ہے۔۔۔اب اگر میں گرتنی سے یہ ِملوں یو انہیں‬
‫دکھ ہوگا کہ پیبم جانے کے فرتب ہی انکا گھر ہے تھر نہی کہیں گی وہ کہ ع ندلیب گھم نڈی‬
‫ہوجکی ہے۔۔۔"‬
‫دات بوں یلے زیان دیانے وہ ِقلذہ کی ڈاتٹ سنی تھی تھر جلدی سے یوکھالکر اسے یو یگے سے چواز‬
‫پیش کرنے لگی‪،‬‬

‫‪- 97 -‬‬
‫"ا نسے کسی انشان کو امیرنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ئمہیں۔۔۔اور تند کرو اس گرتنی کے‬
‫گھر جایا۔۔۔کنا تنا انکا وہ یویا کافی چظریاک ہو۔۔۔"‬
‫اب وہ چود کو کافی جد یک سیبھال جکی تھی تبھی سیح ندگی سے یولی جس یر دوسری طرف عندلیب‬
‫نے اچھییے سے کان سے ہنا کر ا تیے مویایل کو دیکھا تھر کہا‪،‬‬

‫"آپ یو یوں کہہ رہی ہو جیسے میں اسکی کوپی تھولی تھنکی دسمن نہری چو وہ مجھے نفضان نہیجانے‬
‫گا۔۔۔اوہ میری تناری نہنا میں ا چھے سے جاتنی ہوں اس سے مجھے کبھی کوپی چظرہ ہو ہی نہیں‬
‫سکنا۔۔۔"‬
‫تھ یحی‬
‫یہ یات کہیے عندلیب کے لہچے میں جس قدر نقین تھا دوسری جاتب ِقلذہ چویکی تھر لب نی‬
‫یولی‪،‬‬

‫"تم سے جینا کہا ہے ات نا کرو۔۔۔اس سے دور رہو۔۔۔اور یڑھاپی یر دھنان دو۔۔۔نہیں یو ماما سے‬
‫کہہ کر ئمہیں گھر یلوالوں گی"‬
‫عندلیب کو چھڑ کیے کے نعد وہ کال کٹ کردی تھی چنکہ ادھر عندلیب کا چونصورت چہرہ یل تھر‬
‫کے لیے مرچھایا‪،‬‬

‫‪- 98 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫دونہر کو جب وہ یوپی سے وانس آپی تب اس کا دماغ یری طرح مییسر ہورہا تھا یلکل کل رات‬
‫ُ‬ ‫ی‬
‫کی طرح جیسے وہ چود مییسر ہوپی تھی‪،‬رات تھر رونے کے یاعث جس قدر اس کی آ یں سوج‬
‫ھ‬ ‫ک‬
‫ََ‬
‫جکی تھی اس کا زرا دل یہ کنا تھا یوپی جانے کا یر ضروری تھا تبھی مح بوراَ جایا یڑا‪،‬‬

‫گھر میں داجل ہونے ہونے اتھی تھی ذہن اس سبمگر کی نفرت تھری آیکھوں میں الجھا ہوا تھا یر‬
‫اس کا ارنکاز اجایک ہوپی بخث کی آواز یر یویا‪،‬یورچ یار کر کے اس نے ایدر داجل ہونے ہونے‬
‫الؤبج یر قدم رکھا‪،‬سکندر صاجب اور مہناز تنگم کے ساتھ وہ سبمگر اسے صوقے یر پیبھا ِدکھا تھا‪،‬اس‬
‫یر نظر یڑنے ہی مطییہ کا دل جاہا وہ نہاں سے کہی نہت دور جلی جانے‪،‬وہ لوگ چہایگیر صاجب‬
‫کے ساتھ پیبھے کسی یات یر ہیس رہے تھے چو قلجال یو مطییہ کے ذہن سے یرے تھے‪،‬نظریں‬
‫چھکاپی وہ ان لوگوں کو تنا مجاطب کیے جاموسی سے سیڑھ بوں کا ُرخ کرنے لگی یر تبھی مہناز تنگم‬
‫کی اس یر نظر یڑی تھی‪،‬‬

‫"ارے مطییہ پینا۔۔۔آگنی تم یوپی سے۔۔زرا ادھر یو آؤ۔۔۔"‬


‫‪- 99 -‬‬
‫ان کی محیت تھری نکار یر یاجا ہیے ہونے تھی مطییہ کو رک کر یلینا یڑا وریہ ہیبم کے ہونے‬
‫ہونے ہمت ہی نہیں تھی ان کا سامنا کرنے کی‪،‬ادھر ہیبم کے چہرے کے یایرات یل میں‬
‫سرد ہونے تھے اس کا یام سن کر‪،‬‬

‫"خی یاپی امی۔۔۔"‬


‫سکندر صاجب اور انہیں سالم کرپی وہ آہسنگی سے جل کر ان کے یاس آکر یوچھی‪،‬‬

‫"چہایگیر تھاپی اب آپ اتنی اس بچی کا تھی کوپی اچھا سا رشیہ ڈھویڈ لیں۔۔۔وریہ اچھا نہیں لگے‬
‫گا کہ چھوپی نہن کا نکاح ہو اور یڑی نہن کا ک بواری۔۔۔"‬
‫ً‬
‫اس کے گرد یازو جایل کیے مطییہ کی تھوڑی یرمی سے تھام کر مہناز تنگم نے مذاقا یہ یات ہی‬
‫ک‬
‫ی‬ ‫ً‬
‫تھی یر مطییہ کو نفرتنا چھ نکا لگا‪،‬جیران کن نظروں سے وہ چہایگیر صاجب کو د کھی تھی‪،‬اس کی‬
‫آیکھوں میں سوال دیکھ انہوں نے مشکراکر کہا‪،‬‬

‫" بچے سکندر تھاپی اور تھاتھی کا کہنا ہے کہ اس ہفیے ہیبم اور یاذلی کا نکاح کردیا‬
‫جانے۔۔۔۔رچصنی انشاّٰللہ جب ہیبم سینلڈ ہوجانے گا النف میں تب کریں گے۔۔۔"‬

‫‪- 100 -‬‬


‫م‬
‫چہایگیر صاجب کی یات کمل ہونے یک مطییہ کو لگا اس کا وچود ریزہ ریزہ ہو جانے گا اگر وہ کجھ‬
‫دیر اور نہی کھڑی رہی یو‪،‬چھ نل آیکھوں میں نےنقینی تھنلی چنہیں ئمسکل چھنانے وہ ا تیے چون‬
‫ہونے دل کو ڈ تٹ کر جپ کرانے ساکت کھڑی رہی‪،‬چھ نکا تھا ہی اتنا یرا کہ وہ یری طرح‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫ی‬
‫ھناپی ھی‪ ،‬لے ہی م کرب یں ھی چو ا ک اور ساماں تنار کنا جارہا تھا اسے اذ تت کی نی‬ ‫ج‬
‫تھنی میں جالنے کو‪،‬‬

‫"یافی شب یو تھنک ہے نس مجھے نہی قکر کھانے جارہی ہے کہ اتنی جلدی نکاح کی تناری کیسے‬
‫ہوگی۔۔۔"‬
‫اسے تناکر چہایگیر صاجب نے جب سے کہی یات تھر دہراپی‪،‬‬

‫"کوپی یرنشاپی کی یات نہیں۔۔۔آرام سے ہوجانے گا نکاح۔۔۔اور تناری کی قکر آپ نہیں کریں‬
‫چہایگیر تھاپی یہ کام ہم عورپیں ا چھے سے اور نہت جلد کرلینی ہیں۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم نے ہیسیے ہونے انہیں نشلی دی‪،‬ساتھ ہی وہ لوگ اور چوش گی بوں میں لگے تھے تنا یہ‬
‫جانے کے وہاں کھڑے نقوس کی ایدروپی جالت اس وقت کس قدر یدیر ہورہی ہوگی‪،‬ہیبم نے اس‬
‫یورے دورا تیے میں مطییہ یر ایک نگ ِاہ علط یک ڈالنا گوارا نہیں کنا تھا‪،‬شب کو یایوں میں گم‬
‫چھوڑ وہ مردہ قدموں سمیت مڑپی سیڑھناں ع بور کی تھی‪،‬ا تیے روم میں داجل ہونے یر اسے یاذلی‬
‫‪- 101 -‬‬
‫پ‬
‫وہاں تنڈ یبھی نظر آپی‪،‬اس کے معصوم چہرے یر شچی سرمگیں مشکراہٹ اس وقت مطییہ‬
‫م‬
‫چہایگیر کو اتنی شب سے یڑی خرنف لگی‪،‬جلنی نظروں کو ت ھیرپی وہ یاذلی کو کمل نظر ایداز کیے‬
‫تنگ ساتنڈ یر رکھنی واسروم کا ُرخ کی‪،‬اسے سدت سے رویا آرہا تھا یر نہاں یاذلی کے سا میے وہ چود‬
‫کو یک ھیریا ہرگز نہیں جاہنی تھی‪،‬‬

‫"آپی۔۔۔"‬
‫اسے دیکھیے ہی یاذلی چہک کر اتھی تھی ساتھ ہی مطییہ کے گلے رکھیے چوسی سے یولی‪،‬‬

‫"آپی میں کیسے تناؤں آپ کو۔۔۔آج میں کس قدر چوش ہوں۔۔۔تنا ہے آپی سروع میں مجھے لگنا‬
‫تھا کہ ہیبم مذاق کرنے ہیں انہیں کوپی اتنی شچی محیت نہیں ہوسکنی مجھ سے۔۔۔یر آج‬
‫آپی۔۔۔میں نہت چوش ہوں۔۔۔"‬
‫یاذلی نہیں جاتنی تھی کہ اتنی چوسی میں ایدھی ہوپی وہ کس قدر اذ تت تھرے ک بویں میں دھکنل‬
‫جکی تھی‪،‬اب مطییہ کی یرداشت چواب دے گنی‪،‬یکدم یاذلی کو اس نے دھکا دے کر چود سے‬
‫دور کنا‪،‬‬

‫"یو میں کنا کروں تم چوش ہو یو۔۔۔ضروری ہے کہ ہر یات آکر مجھے تناؤ۔۔۔"‬
‫‪- 102 -‬‬
‫یاذلی چو جیران یرنشان سی اس کے رونے کو دیکھ رہی تھی اجایک مطییہ کے چیحیے لہچے یر‬
‫یوکھالپی‪،‬‬

‫"آپی میں یو نس۔۔۔"‬

‫"نکلو نہاں سے۔۔۔"‬

‫"خی۔۔"‬

‫"میں نے کہا جاؤ نہاں سے اتھی۔۔۔میرے سر میں نہلے ہی درد ہورہا ہے۔۔۔"‬
‫اس کا نس نہیں جل رہا تھا کہ یاذلی کو د ھکے دے کر روم سے نکال دے‪،‬ادھر یاذلی قکرم ند‬
‫ہوپی اس کی یات یر‪،‬‬

‫"سر درد ہورہا ہے آپی۔۔۔یو آپ انشا کریں نہاں پیبھیں میں دیادوں۔۔۔"‬
‫کجھ قدم آگے یڑھا کر وہ مطییہ کا ہاتھ تھام کر یرم لہچے میں یولی یر اگلے ہی یل یاذلی ڈری تھی‬
‫جب مطییہ اس کا ہاتھ چھنک کر دپی آواز میں چیچی‪،‬‬
‫‪- 103 -‬‬
‫"یہ قصول چوبجلے مجھے مت دکھایا کرو۔۔۔اتھی کے اتھی نکلو میرے روم سے۔۔۔"‬
‫ہاں وہ ہر یار یاذلی سے اجایک سرد رویہ کر لینی یر آج اس کے لہچے کی چبھن نے یاذلی کو رونے‬
‫یر مح بور کنا تھا‪،‬‬

‫"آپی ک بوں کررہی ہے اس طرح۔۔۔تناپیں یا مجھے۔۔۔کوپی یات۔۔۔"‬


‫م‬
‫روہانسی آواز میں کہنی یاذلی کی اتھی یات تھی کمل یہ ہوپی تھی جب مطییہ اتنی سوچ یر عمل‬
‫ت‬ ‫ن ً‬
‫کرپی اس کا ہاتھ شحنی سے یکڑے دروازے کے یاہر فرتنا دھکا دے کر نکالی ھی اسے‪،‬یاذلی‬
‫سندھا زمین یر گرپی اگر کو وقت یر وہاں سے گزریا ہیبم یہ تھامنا اسے‪،‬وہ یاذلی کے کمرے کے‬
‫جاتب جارہا تھا چو کہ مطییہ کے کمرے کے نعد واال تھا‪،‬‬

‫دویوں ہاتھ سے اتنہاپی آرام سے یاذلی کو سندھا کرنے وہ گھورا تھا مطییہ کو چو اب گ ھیراپی تھی‬
‫اسے وہاں دیکھ‪،‬چنکہ یاذلی یری طرح رونے لگی تھی‪،‬‬

‫ُ‬
‫"یاذلی۔۔۔تم روم میں جاؤ ا تیے۔۔۔"‬

‫‪- 104 -‬‬


‫اس کے یازو کو تھامے وہ دھبمی آواز میں مجاطب یاذلی سے تھا یر شخت نظریں مطییہ کو اب یک‬
‫گھوررہی تھیں‪،‬‬

‫"نہیں ہیبم وہ آپی کی طی نعت تھنک نہیں ہے یو اسی لیے تھوڑا غصہ ہیں۔۔۔"‬
‫تھنگی آواز یر قایو یاپی وہ اتنی طرف سے چواز پیش کرنے لگی ہیبم کو‪،‬ڈر تھا کہ کہیں وہ مطییہ یر‬
‫غصہ یہ ہو‪،‬‬

‫"تم جاؤ روم میں۔۔۔"‬


‫اب کی یار ہیبم سیحندہ نظروں سے اسے دیکھنا یوال یو یاذلی ایک چور نظر مطییہ کے سفند یڑنے‬
‫ً‬
‫چہرے یر ڈالنی مح بورا وہاں سے نی‪،‬‬
‫گ‬

‫اس کے جانے کے نعد ہیبم قدم یڑھایا ایدر داجل ہوا تھا‪،‬مطییہ جس کی سانس نہلے ہی اسے‬
‫دیکھ کر رکی ہوپی تھی یکدم واسروم کا ُرخ کی تھی‪،‬‬

‫‪- 105 -‬‬


‫کل کی قصولنات یڑھ کر نہلے ہی چود کو نظروں سے گراجکی ہو۔۔۔مگر اب اور انسی اوچھی خرکییں‬
‫یہ ہی کرو یو نہیر ہے۔۔۔ا چ ھے لوگوں کے لیے میں جس قدر اچھا ہوں یروں کے لیے اس سے‬
‫کنی زیادہ یرا تھی ہوں۔۔۔‬
‫وہ یہ یو اس کے یاس گنا یہ ہی اسے چھوا‪،‬نس چند لفظوں میں اس کی اوقات اتنی نظروں میں‬
‫تناکر مطییہ کو زمین میں دھیشا کر وہ مڑا تھا‪،‬ہیبم کے جانے کے نعد بجانے واسروم میں جانے‬
‫پ‬
‫کے مطییہ وہی یر یبھنی ہجکبوں سے رونے لگی‪،‬چھنل سی آیکھوں میں اذ تت کا سم ندر چو نہا تھا‬
‫ر کیے کا یام یہ لنا‪،‬‬

‫ہیبم اور یاذلی کی جاموش محیت کا ان کی قبملی میں ہر ایک کو علم تھا‪،‬جس کی وخہ سے وہ‬
‫ج‬ ‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ط‬‫م‬
‫ین سا ہوکر اکیر یاذلی سے ملنا یا اسے یں لے کر ھومیے الجایا‪،‬اسے ا تیے اور یاذلی کے‬
‫رسیے میں سروع سے کوپی رکاوٹ یہ دکھی تھی جس کے یاعث وہ سکندر صاجب کے اس ق نضلے‬
‫یر یرسکون تھا کہ ان دویوں کی سادی تھنک یابچ سال نعد ہوگی لنکن کل رات مطییہ کی ڈایری‬
‫یڑھیے کے نعد وہ نہت ڈسیرب ہوا تھا‪،‬اصل گ ھیراہٹ اسے نہی ہوپی تھی کہ کہیں مطییہ ا تیے‬
‫چ بون میں یاذلی کو نفضان یہ نہیجادے‪،‬نس اس ہی وخہ سے اس نے صیح ہی سکندر صاجب اور‬
‫مہناز تنگم سے یات کی تھی اس ہفیے نکاح کی‪،‬سروع میں یو سکندر صاجب الجھے تھے اس کے‬
‫اتنی جلدی نکاح کی صد یر لنکن مہناز ت نگم کی رصامندی دیکھ انہوں نے کوپی اعیراض یہ کنا اور‬
‫‪- 106 -‬‬
‫اس یات کا زکر جب سکندر صاجب نے چہایگیر صاجب سے کنا یو ہر یاپ کی طرح وہ تھی تھوڑا‬
‫یرنشان ہونے تھے اتنی جلدی نکاح یر‪،‬لنکن مہناز تنگم اور سکندر صاجب کے سمجھانے یر انہوں‬
‫نے زیادہ اعیراصات کریا مناشب یہ سمجھا اور اتنی چوسبودی طاہر کی اس یات یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کہاں سے آرہے ہو دوشت۔۔۔"‬
‫سام کو وہ یاہر سے آیا یو سکندر وال کی اتنکسی کے جاتب اس کا رخ تھا تبھی تیجھے سے آپی آواز یر‬
‫یلنا‪،‬ہناد کو وہاں کھڑے دیکھ ساپی اتنکسی میں جانے کا ارادہ مل بوی کیے اس کی طرف آیا‪،‬‬

‫"یوپی کے نعد یارٹ یاتم جاب کریا ہوں۔۔۔نس وہی سے آرہا ہوں۔۔۔"‬
‫نہلی یار اس کے ا چھے رونے یر ساپی مشکرانے ہونے تنایا تھا‪،‬‬

‫"تم جاب ک بوں کررہے ہو۔۔۔"‬


‫ہناد جیران ہوا تھا‪،‬‬

‫"طاہر سی یات ہے یڑھ رہا ہوں یو فیس تھی یو د تنی ہوگی۔۔۔"‬


‫‪- 107 -‬‬
‫کندھے اچکاکر یارملی چواب دیا گنا تھا‪،‬‬

‫"ک بوں ئمہارے ڈیڈ نہیں د تیے فیس ئمہاری۔۔۔؟"‬


‫اسے سدید جیرت نے آگ ھیرا تھا‪،‬کیسے مفایل اتنا خرخہ چود اتھایا تھا‪،‬ا تیے سیییس میں بچین سے‬
‫رہیے واال وہ نہیں جاتنا تھا کہ مح بوری میں یڑھاپی کے ساتھ ساتھ چوددار لوگ جاب تھی کرنے‬
‫ہیں۔۔۔‬

‫"ڈیڈ اتنا اور گرتنی کا خرخہ اتنی تییسن سے جالنے ہیں۔۔۔اس یر میں ان سے فیس مایگوں یہ‬
‫میری قظرت گوارا نہیں کرپی۔۔۔"‬
‫رسات یت سے کہنا وہ اب یاقاعدہ ہناد کے ساتھ ساتھ جلیے لگا تھا‪،‬الییہ ایک ہاتھ میں تنگ ہ بوز‬
‫تھاما ہوا تھا‪،‬‬

‫"جیرت ہے۔۔کیسے کرلییے ہو یہ شب۔۔۔"‬


‫نہلی مرتیہ ساپی سے مات کر کے اچھا لگا تھا ہناد کو‪،‬‬

‫"عرتت شب سکھاد تنی ہے میرے تھاپی۔۔۔"‬


‫‪- 108 -‬‬
‫ساپی کی اس یات یر وہ گردن موڑ کر یاسیت سے اسے دیکھا تھا ساتھ ہی آسودگی سے مشکرایا‪،‬‬

‫"یاسکٹ یال کھنلیے ہو۔۔؟"‬


‫جلیے جلیے وہ دویوں پیروپی چصے میں آنے تھے تبھی اجایک ہناد یوچھا جس یر ساپی نے ایک نظر‬
‫یلے گراؤیڈ یر ڈالے آپیرو اچکاکر کہا‪،‬‬

‫"نہت نہلے کھنلنا تھا۔۔۔اب یو ساید تھول چکا ہوں گا۔۔۔"‬


‫اس کے یوں یو لیے یر ہناد ہیس کر یوچھا‪،‬‬

‫"ایک مفایلہ ہوجانے تھر۔۔۔"‬


‫اس کے سوال یر ساپی نے نہلے یو ہناد کو دیکھا تھر مشکرانے ہونے اتنات میں سرہالکر تنگ‬
‫یرایر میں تیچے رکھا‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد دویوں میں ایک یاچبم ہونے واال مفایلہ سروع ہوا تھا۔۔۔ہر کسی کو می بوں میں ہرا‬
‫د تیے واال ہناد آج جایا تھا کہ کوپی ہے چو اسے ہر سنکنڈ میں ہرانے کی صالچیت رکھنا تھا‪،‬وہ ہر‬

‫‪- 109 -‬‬


‫یار ہارنے کے نعد جب تھکا یو ایک جگہ رک کر گھی بوں یر دویوں ہاتھ ر ک ھے اتنی سانس م بوایر‬
‫کرنے لگا‪،‬‬

‫"تم چییییس ہو دوشت۔۔۔"‬


‫تھولی ہوپی سانسوں کے درمنان کہنا ہناد ہیشا جس یر ساپی یال ایک جاتب تھینکنا اس کے یاس‬
‫آیا‪،‬‬

‫"تم تھی نہت اچھا کھنلیے ہو۔۔۔"‬

‫"تم سے کم۔۔۔"‬
‫ساپی کی یات کا چواب دے کر وہ کھڑا ہوا یو ساپی کندھے اچکایا‪،‬‬

‫"ہیبم کے نکاح میں آؤ گے۔۔۔"‬


‫اسے تنگ اتھانے دیکھ ہناد یوچھا‬

‫"ہیبم کا نکاح۔۔۔اتنی جلدی۔۔۔"‬


‫‪- 110 -‬‬
‫تنگ ہینگ کریا وہ مڑ کر ہیشا‪،‬‬

‫"اسے جلدی ہے۔۔۔جیر جیران یہ ہو رچصنی کجھ سالوں نعد ہوگی۔۔۔"‬


‫دویوں ہاتھوں کو چ یب میں اڑس کر کہنا ہناد تھی اس کے ساتھ جلیے لگا‪،‬‬

‫"کب ہے۔۔۔"‬

‫"اس ہفیے۔۔۔"‬

‫"آ۔۔۔نہیں آیاوں گا۔۔۔ل نکجر ہے ام بورت یٹ۔۔۔"‬


‫اتنکسی کے جاتب آیا وہ مڑ کر ہناد کو یوال‪،‬‬

‫"اسے میری طرف سے سوری کہہ د ت نا اور منارک یاد الزمی د ت نا۔۔۔"‬
‫ساپی کی مسکاپی آواز میں کہیے یر اس نے ہلکی مشکراہٹ سمیت سر اتنات میں ہالیا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 111 -‬‬
‫آج ایک ہفیے نعد وہ تھر آپی تھی وہاں یر‪،‬اورفوتیچ میں بچوں نے اسے ت نایا تھا کہ آج یورا دن وہ‬
‫ّ‬
‫بجھلے چصے میں تیے گارڈن یر نہیں آیا‪،‬تبھی چود ہی اس کی جیر جیر لییے وہ آپی‪،‬ڈور تنل بجانے‬
‫کی ضرورت اسے پیش یہ آپی ک بویکہ آج گھر کا گیٹ کھال تھا‪،‬ساید فرمان صاجب نے کسی کام‬
‫سے کھولے چھوڑا تھا‪،‬عندلیب ایدر داجل ہوپی ایک نظر ہر طرف ڈالی تھی‪،‬تھر گہرا سانس تھرپی‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ل تب ت‬
‫کچن میں اسماء کو ڈھویڈنے گی یر ھی وہ کی‪ ،‬ل کے کمرے سے آپی یلند آوازوں یر‬
‫ً‬
‫نقینا وہ کسی یات یر غصہ تھا‪،‬‬

‫دروازے کے فرتب آپی عندلیب نے اتھی روم میں جانے کا سوجا ہی تھا جب کایوں یر مفایل‬
‫کے الفاظوں کا یکراؤ ہوا اور وہ قدم روک گنی‪،‬‬

‫"وہ تھی جان یوچھ کر مجھے چھونے دالسے د تنی ہے۔۔۔اور اب آپ تھی وہی کررہی‬
‫ہیں۔۔۔جاالیکہ آپ ا چ ھے سے جاتنی ہیں گرتنی کے میری پیناپی کبھی وانس نہیں آسکنی۔۔۔۔"‬
‫غصے میں چیحنا وہ سدید اذ تت میں مینال لگ رہا تھا‪،‬‬

‫"انشا نہیں ہے میرے بچے۔۔۔ع ندلیب نے تنایا ہے کہ جانسس کم ہیں مگر ہے یو۔۔۔اور پینا‬
‫ی‬
‫مجھے یوری امند ہے کہ ایک دن ئماری آ کھیں ضرور تھنک ہوں گی۔۔۔"‬
‫‪- 112 -‬‬
‫ُد ّریہ تنگم اس کے غصے کو مدنظر رکھ کر یرمی سے سمجھانے لگیں‪،‬‬

‫"امند۔۔۔ہنہہ۔۔۔اس امند یر ہی یو یابچ سال سے یہ نےنس محناج والی زیدگی گزار رہا‬
‫ہوں۔۔۔یر نہیں۔۔۔اب مجھے نقین ہوجال ہے کہ یہ شب یکواس ہے۔۔۔میری پیناپی کبھی‬
‫وانس نہیں آنے گی۔۔۔گرتنی آپ جاتنی تھی ہیں کہ وہ کبم نکل کوپی عام کبم نکل نہیں‬
‫تھا۔۔۔سو میں سے دس یرسیٹ لوگوں کی پیناپی رہنی ہے۔۔۔اور میں ان دس یرسیٹ میں سے‬
‫یاہر ہوں۔۔۔"‬
‫نےاتنہا کرب میں کہیے آخر میں اس کا لہچہ تھکن تھرا ہوا‪،‬‬

‫س‬
‫"تم انہیں دس یرسیٹ میں ہوگے لسینل۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے یاس آکر یرمی سے اس کا چہرہ تھامنی دریہ تنگم نے تم آواز سمیت کہا‪،‬یہ کہیے‬
‫س‬
‫ہونے ان کا چود کا لہچہ کھوکھال ہوا تھا جس یر لسینل جذ اتھاپی مسکان ل بوں یر شجایا تھا‪،‬‬

‫"اسے کہہ دیں اب وہ نہاں یہ آنے۔۔۔"‬


‫اجایک وہ یوال یو دریہ تنگم چویکی‪،‬‬

‫‪- 113 -‬‬


‫"نہاں یر آکر وہ جان یوچھ کر میرے زچموں کو ادھیڑپی ہے۔۔۔مجھ یر یہ واضح کرنے رہنی ہے‬
‫کہ میں ایک الجار انشان ہوں جسے اتنی زیدگی جییے کے لیے کسی کے شہارے کی ضرورت‬
‫ہے۔۔۔۔اور میں انشا نہیں یوں گرتنی۔۔۔"‬
‫دریہ تنگم کے ہاتھوں کو چھنکنا وہ یوری یات کہنا آخر میں دھاڑا‪،‬دروازے یر کھڑی عندلیب‬
‫نےساجیہ ایک قدم تیجھے ہوپی‪،‬‬

‫"پینا اسے ئمہاری قکر ہے۔۔۔"‬

‫ن‬ ‫س‬
‫"نہیں ضرورت مجھے اس کی قکر کی۔۔۔میں ا نسے ہی تھنک ہوں۔۔۔ ل مراد اک ال ہی‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬
‫تھنک ہے گرتنی۔۔۔اسے کہہ دیں اب اگر وہ نہاں آپی یو یا یو میں چود کا نفضان کروں گا یا تھر‬
‫اسے ہی جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔"‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل۔۔۔!!!"‬
‫اس کے چ بوپی ایداز میں کہیے یر دریہ تنگم نے تھنگی نظروں سمیت اسے یوکا ساتھ ہی اس کے‬
‫س‬
‫یاس ہونے لگی لنکن اگلے ہی لمچے انہیں ا تیے قدم تیجھے لیے جب لسینل کمرے میں رکھی ہر‬
‫جیز چو ہاتھ میں آنے گنی اتھا کر ادھر ادھر تھینکیے لگا‪،‬بجھلے دیوں کی ریورٹ آنے کے نعد اسے‬
‫‪- 114 -‬‬
‫نقین ہوجال تھا کہ اب وہ کبھی دیکھ نہیں یانے گا۔۔۔ایک ہفیہ وہ کس کرب میں گزارا تھا یہ‬
‫وہی جاتنا تھا اور آج۔۔۔‪،‬اسے معلوم تھا وہ تھر آنے گی تبھی نہلے ہی دریہ تنگم کو آ گاہ کررہا تھا‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫نہ س‬
‫ل مراد کو‪،‬‬ ‫کہ اس کی موچودگی اب زرا گوارا یں‬

‫"اسے کہیں مت آیا کرے میرے یاس۔۔۔جلی جانے نہاں سے وہ۔۔۔دور۔۔۔نہت دور جلی‬
‫س‬
‫جانے۔۔۔ لسینل مراد کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔آپ تھی جاپیں نہاں سے۔۔۔جلی‬
‫جاپیں آپ۔۔۔"‬
‫وجست تھرے ایداز میں دھاڑیا وہ نہت چ بوپی لگا تھا اس وقت تبھی ا تیے آنسو یہ ر کیے یر دریہ تنگم‬
‫مڑ کر اس کے کمرے سے نکلیں‪،‬دروازے کے یاہر اتنی ششکناں دیانے کھڑی عندلیب کو‬
‫دیکھ وہ یوکھالپی تھیں‪،‬‬

‫"عندلیب پینا۔۔۔وہ اتھی تھوڑا۔۔"‬


‫م‬
‫ان کی یات کمل ہونے سے نہلے ہی عندلیب سکندر یلنی تھی‪،‬جیسے تنا کجھ کہے وہ نہاں آپی‬
‫و نسے ہی جاموسی سے جلی گنی‪،‬اس کے جانے کے نعد دریہ تنگم نفی میں سر ہالپی الؤبج میں‬
‫س‬
‫تیے صوقے یر پیبھیں تھیں‪،‬آیکھوں سے آنسو یوبجھ کر وہ ایک تھکان سی نظر لسینل کے‬
‫کمرے یر ڈالی تھیں چہاں سے اتھی تھی یوڑ تھوڑ کی آواز آرہی تھی‪،‬‬
‫‪- 115 -‬‬
‫س‬
‫"کنا ہوا تنگم صاجیہ۔۔۔ لسینل صاجب تھر غصہ ہیں۔۔۔"‬
‫کواریر سے آپی اسماء نے جب سور سنا یو دریہ ت نگم سے یوچھا‬

‫"مجھ میں اب اتنا دم نہیں ہے اسماء کہ اب یہ شب یرداشت کرسکوں۔۔۔ا تیے چوان یونے کو‬
‫اور یوں نےنس نہیں دیکھ سکنی میں۔۔۔"‬
‫ی‬
‫تھکے ہونے لہچے میں کہہ کر انہوں نے صوقے کی نست سے سر نکا کر آ کھیں مویدی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دن یر لگا کر اڑے تھے‪،‬تناریوں میں کسی کو ہوش ہی یہ رہا تھا۔۔۔مہناز تنگم نے ا تیے کہے کے‬
‫مظایق ایک ہفیے میں تناری کرواپی تھی‪،‬آج یاذلی اور ہیبم کے نکاح کی نفرتب چہایگیر صاجب کے‬
‫کہیے یر چہایگیر ہاؤس میں ہی رکھی گنی تھی‪،‬اس دن کے نعد مطییہ نے ہمیشہ کی طرح یاذلی کے‬
‫ساتھ یارمل رویہ رکھا‪،‬چویکہ یاذلی کو اس کے ا نسے رونے کی عادت ہوجکی تھی تبھی وہ زیادہ یونس‬
‫نہیں لی تھی‪،‬‬

‫‪- 116 -‬‬


‫سفند سلوار قم نض یر الل ریگ کا کامدار دو تیہ سر یر فر تیے سے سیٹ کیے وہ تیچے شب میں‬
‫پ‬
‫گھری یبھی تھی‪،‬نقیس منک اپ اس کے معصوم چہرے یر چوب ججا تھا‪،‬ہیبم کی نگاہ جیراں ہوپی‬
‫تھی اس دس ِمن جاں کا یہ روپ دیکھ‪،‬اس کی ُیرپیش نظریں یاذلی کے گال ہر لمچے دہکانے یر‬
‫یلی تھیں‪ ،‬ہلکے گالپی ریگ کے سوٹ یر سفند دو تیہ سایوں یر تھنالنے وہ منک اب کے یام یر‬
‫ضرف ل بوں یر گالپی لپ سنک لگانے سوگوار روپ میں تھی مفایل کو زیر کرنے کی صالچیت‬
‫رکھنی تھی ُ‬
‫ں‪،‬سرخ سوخی چھنل ریگ آیکھوں کے الل ڈورے ہر دیکھیے والے کو اتنی طرف م بوخہ‬
‫کرد تیے یر شب سے نےتناز وہ ایک جگہ یر کھڑی اتنی ہار یر جاموش سوگ منارہی تھی‪،‬‬

‫اس وقت مطییہ چہایگیر کو سدت سے اتنی محیت ہارپی ہوپی لگی جب نکاح یامے یر ہیبم کے نعد‬
‫یاذلی سے دسیخط لیے گیے‪،‬ا تیے ایدر کی یوڑ تھوڑ کو دیانے وہ مہمایوں کا لجاظ کرپی ئمسکل مشکرارہی‬
‫تھی‪،‬آج مطییہ چہایگیر کو معلوم ہوا تھا کہ جب دل میں اذ ت بوں کا چہان آیاد ہو یو مشکرایا کس‬
‫قدر مسکل عمل لگنا ہے‪،‬تھراپی آیکھوں سمیت مشکراپی وہ جاموسی سے مذاق پییے دیکھ رہی تھی‬
‫اتنی محیت کا‪،‬وہ جاموش محیت اس کے دل میں دفن ہوکر رہ گنی تھی‪،‬یاذلی کے سنگ‬
‫مشکرانے ہیبم کی نگاہ عیر ارادی ظور یر اتھی تھی اس کی طرف‪،‬دویوں کی نظریں یکراپی تھیں‬
‫ایک کی آیکھوں میں کرب تھا یو دوسرے کی آیکھوں میں نفرت‪،‬مطییہ کے تھنگے چہرے کو‬

‫‪- 117 -‬‬


‫دیکھیے ہی وہ اگلے لمچے اتنی نگاہ ت نفر سے ت ھیرا جیسے اس چوسی کے موقع یر کوپی یدمزگی یہ جاہنا‬
‫ی‬
‫ہو‪،‬مطییہ نے شحنی سے آ کھیں میچ کر کھولی تھیں‪،‬‬

‫دوسری جاتب ل بوں یر سرمگیں مشکراہٹ شجانے یاذلی کا جال یرا ہوا تھا جب نکاح کے نعد ہیبم‬
‫نے شب کی موچودگی کے یاوچود اس کا ہاتھ یڑے اسیخفاق سے تھاما‪،‬وہ سرخ ہونے چہرے کو‬
‫سرم سے چھکا گنی تھی جب کان میں ہیبم کی تھاری آواز سناپی دی‪،‬‬

‫"اتنی جاہ بوں کی دیوار کو تم یر اس قدر تنگ کردوں گا کہ کبھی کوپی ید نظر اسے یار کر کے‬
‫ہمارے چونصورت تندھن کو یوڑ نہیں یانے یاذلی ہیبم سکندر۔۔۔"‬

‫اس کے لفظوں کے زی ِر ایر یاذلی کو اتنا آپ نہاتت چوش قسمت لگا۔۔۔سر اتھاکر وہ ایک مسکاپی‬
‫نظر اسکے وچنہہ چہرے یر ڈالنی وانس نگاہ چھکاپی تھی‪،‬یہ م نظر مطییہ چہایگیر کی نظروں سے مخفی‬
‫یہ رہ سکا‪،‬‬

‫"کہاں جارہی ہو۔۔۔"‬


‫اجایک یاذلی کو اتنی جگہ سے اتھیے دیکھ وہ اسکا ہاتھ یکڑے یوچھا تھا‪،‬‬
‫‪- 118 -‬‬
‫"ہیبم میری دوشت آپی ہے۔۔"‬
‫یاذلی کی یات یر ہیبم نے نفی میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"لڑکی یو وہ نہاں آجانے گی۔۔۔تم یو پیبھو۔۔۔"‬


‫مہناز تنگم کی آواز یر ہیبم سمیت یاذلی تھی چویکی‪،‬‬

‫ً‬
‫"یاپی امی۔۔۔وہ اکنلی ہے۔۔۔یروس ہوپی ہے ت ھیڑ میں۔۔۔اسے فورا لے کر آپی ہوں‬
‫میں۔۔گیٹ یر کھڑی ہوگی۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کو دیکھ کر اب کی یار یاذلی نے یوال‬

‫"یر پینا نکاح ہوا ہے ئمہارا اتھی۔۔۔رکو میں کسی۔۔"‬

‫"امی جانے دیں۔۔۔"‬


‫انہیں عح یب لگ رہا تھا یاذلی کا یوں اتھ کر گیٹ یر جایا تبھی یو کیے لگی یر ہیبم کے تیچ میں یو لیے‬
‫یر گہرا سانس تھرنے مشکراکر سر اتنات میں ہالگییں‪،‬‬
‫‪- 119 -‬‬
‫اجازت ملیے یر یاذلی چوسی سے جانے لگی یر گیٹ سے کجھ دور ہی وہ یری طرح یکرانے یر گری‬
‫تھی تیچے‪،‬اسکی چیخ یر شب چو یکے‪،‬دوسری طرف مطییہ سے اس یار یکر نےچنالی میں ہوپی تھی یر‬
‫سا میے پیبھا یاذلی یر نظر ر ک ھے ہیبم کو نہی لگا کہ ہر یار کی طرح مطییہ نے اس مرتیہ تھی یاذلی کو‬
‫نفضان نہیجانے کا کوپی موقع نہیں چھوڑا تھا‪،‬‬

‫"سوری۔۔۔سوری۔۔۔یاذلی۔۔"‬
‫تیچے گری یاذلی کو دیکھ یوکھال کر کہنی مطییہ چھک کر اسے اتھانے کی کوشش کرنے لگی‪،‬‬

‫"ہ بو نہاں سے۔۔۔"‬


‫اجایک تیجھے سے ہیبم اس کے کندھے یر اتنا تھاری ہاتھ شحنی سے ر ک ھے تیجھے کنا‪،‬مطییہ چھ نکا کھا‬
‫ً‬
‫کر رہ گنی تھی اس کے چھونے سے تبھی فورا تیجھے ہوپی‪،‬اجایک ہوپی افرانفری میں کسی نے‬
‫یونس نہیں لنا تھا ہیبم کا مطییہ سے شخت لہچہ‪،‬سبھی م بوخہ ہونے تھے یاذلی کی طرف‪،‬‬

‫"تم تھنک ہو یاذلی۔۔۔؟"‬

‫‪- 120 -‬‬


‫تیچے چھک کر وہ روپی ہوپی یاذلی سے قکرمندایہ لہچے میں یوچھا یر ہیبم کے سوال یر جب وہ مشلشل‬
‫رونے ہونے نفی میں سر ہالپی تب اسے گود میں اتھایا ہیبم صوقے کے جاتب لے گنا‪،‬‬

‫"کیسے گری یاذلی۔۔۔"‬


‫اس کے یاس پیبھیے چہایگیر صاجب یاذلی کے گرد یازو جایل کر کے نفکر سے یو چھے تھے‪،‬‬

‫"تنا نہیں۔۔۔یایا۔۔۔می۔۔میں وہ۔۔ارم کو لییے۔۔جارہی تھی۔۔۔تھر۔۔۔اجایک۔۔"‬


‫چوٹ نہیں لگی تھی اسے یر وہ اجایک اقنادہ یر گ ھیراپی تھی یری طرح تبھی رورہی تھی‪،‬‬

‫"لو یاپی ت بو۔۔۔"‬


‫مہناز تنگم نے ایک گالس یاپی منگواکر اس کے آگے کنا‪،‬ئمسکل دو گھوتٹ پی کر جب وہ کافی‬
‫جد یک سیبھلی تب سکندر صاجب نے کہا‪،‬‬

‫"پینا آپ تھنک ہیں۔۔۔اگر نہیں یو ہم اجینام کرنے ہیں نفرتب کا و نسے تھی نکاح یو ہو ہی چکا‬
‫ہے۔۔۔"‬

‫‪- 121 -‬‬


‫"ہاں۔۔ڈیڈ ضحیح کہہ رہے ہیں نکاح یو ہو ہی چکا ہے تھر جلیے ہیں ہم لوگ گھر۔۔۔"‬
‫ً‬ ‫پ‬
‫قلذہ چو نہلے ہی موڈ ڈل کیے یبھی تھی ساپی کے یہ آنے یر فورا یولی‪،‬‬

‫"نہیں یایا ایو۔۔می۔۔میں تھنک۔۔ہوں۔۔۔"‬


‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ایک نظر ہیبم کے دویوں ہاتھوں میں مفند ا ت یے ہاتھ کو د نی وہ کی آواز یں یولی‪،‬‬
‫م‬ ‫ھ‬

‫"نکا تھنک ہو۔۔۔"‬


‫ہیبم کی آواز میں جد درخہ نفکر گھال تھا جسے مجسوس کرپی یاذلی دھبمی مسکان سمیت اتنات میں سر‬
‫ہالپی‪،‬‬

‫شب کجھ جیسے یل میں یگڑا تھا و نسے ہی یارمل ہوا‪،‬مہناز تنگم یاذلی کے چنال کے عرض اس ہی‬
‫پ‬
‫کے ساتھ یبھی رہی تھیں‪،‬قلذہ چہاں اتنی دوسبوں سے یایوں میں مگن تھی وہی اس کی نظروں‬
‫نے مطییہ کو ڈھویڈ رہی تھیں‪،‬چو شب سے نےنہرہ ہوپی اویر جارہی تھی‪،‬ہیبم کا یاذلی کے لیے‬
‫اس قدر قکرمند ہویا ان دویوں کی نظروں کا ملنا۔۔۔‪،‬یہ سوچ سوچ کر مطییہ کا دماغ تھنا جارہا‬
‫تھا‪،‬وہ اکنلے رہنا جاہنی تھی قلجال‪،‬یورے گھر میں مہمان تھرے تھے تبھی اس نے ا تیے کمرے‬
‫میں جانے کے بجانے چ ھت یر جایا نہیر سمجھا‪،‬سنکنڈ قلور یر آکر اتھی اس نے چ ھت یر جاپی‬
‫‪- 122 -‬‬
‫سیڑھ بوں یر قدم رکھا ہی تھا کہ کسی نے شحنی سے اس کے ل بوں یر اتنا تھاری ہاتھ چماکر یرایر‬
‫میں تیے گیسٹ روم میں کھییجا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ُ‬ ‫ک‬
‫اسے ایدر ھییچ کر مفایل نے دروازہ جس زور سے تند کنا‪،‬دھاڑ کی آواز یر مطییہ کا دل اچھل کر‬
‫جلق میں آیا‪،‬روم میں لبمپ کی مدھم روسنی کے یاعث تبم ایدھیرے میں مطییہ کو کجھ تھنک‬
‫سے دکھاپی یہ دیا یر وہ چوفزدہ ضرور ہوپی تھی مفایل کا ایک تھاری ہاتھ ا تیے ل بوں یر چمے رہیے یر‬
‫یو دوسرا یازک کمر کے گرد جایل مجسوس کیے‪،‬وہ کون تھا مطییہ کو نہیں معلوم تھا یر وہ کسی‬
‫تھی طرح اس کی مضبوط گرقت سے نکلیے کی کوشش کرنے لگی‪،‬جد سے زیادہ مزاچمت کرنے‬
‫یر اس کا دو تیہ گِ را تھا تیچے‪،‬گداز سرایا واضح ہونے لگا یو وہ لرز کر ا تیے یاجن ل بوں یر شحنی سے‬
‫چمے اس تھاری ہاتھ یر گاڑنے لگی یر تبھی مفایل کی گھمئیر چونصورت آواز نے مطییہ کو‬
‫نےنقینی کے ساتھ ساتھ کا پییے یر مح بور کنا‪،‬‬

‫‪- 123 -‬‬


‫"میری یات نغور سبو۔۔۔اگر اب تم نے "میری ت بوی" کو زرا تھی نفضان نہیجانے کی کوشش‬
‫تھی کی مطییہ چہایگیر۔۔۔یو نقین کرو میں ئمہاری جان لییے سے زرا تھی در نغ نہیں کروں‬
‫گا۔۔۔"‬
‫اس کی مایوس آواز یر ہی وہ مفایل کو نہجان گنی تھی‪،‬لفظ ت بوی یر ایک موپی یویا تھا مطییہ کی‬
‫آیکھوں سے اور سندھا مفایل کے تھاری ہاتھ میں جذب ہوا چو کہ اب یک مطییہ کے ل بوں یر‬
‫شحنی سے چما تھا‪،‬اتنا ہاتھ تم ہویا مجسوس ہوا یو ہیبم چھنکے سے اسے چھوڑا اور وہ لڑکھڑانے ہونے‬
‫ئمسکل سندھی ہوپی وریہ تیچے گرپی‪،‬‬

‫ڈرنے ڈرنے مطییہ نے نگاہ اتھاکر دیکھا‪،‬وہ اب یک جسمگیں نظروں سے اسے ہی گھوررہا تھا‪،‬کینی‬
‫نفرت تھی ان آیکھوں میں اس کے لیے‪،‬مطییہ کے دل میں چبھن سی ہوپی‪،‬سرخ چہرہ لیے وہ‬
‫ئمسکل ہکالنے لہچے میں یولی‪،‬‬

‫"می۔۔میری نہن ہے۔۔۔وہ۔۔۔میں کک۔۔۔ک بوں اسے۔۔۔نفضا۔۔ن نہیجاؤں۔۔۔"‬

‫"اوہ رتنلی۔۔۔"‬
‫م‬
‫اس کی یات کمل تھی یہ ہویاپی تھی جب ہیبم تپ کر پیزی میں آگے یڑھنا یوچھا‪،‬‬
‫‪- 124 -‬‬
‫مفایل کی فرتت سے نہلے ہی گ ھیراپی ہوپی مطییہ نے اسے اتنی طرف یڑھیے دیکھ جلدی سے قدم‬
‫ت پی ً‬
‫تیجھے لیے ھے یر یحنا سندھا دیوار سے جا گی‪،‬دوسری جاتب اس کے فرتب آیا م شخت ھوری‬
‫گ‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ل‬

‫سے اسے یوازیا ایک ہاتھ دیوار یر نکا کر تھوڑا چھکا تھا‪،‬چنکہ اتنی سانس ایکنی مجسوس کیے مطییہ‬
‫م‬
‫نے سر کمل دیوار سے لگالنا‪،‬‬

‫"یلکل یہ شچ ہے کہ وہ ئمہاری نہن ہے۔۔۔یر جس قسم کی تم نےجس لڑکی ہو۔۔۔ئمہارا یو نس‬


‫یہ جلے کہ اتھی جا کر مار ڈالو اسے۔۔۔یر ایک یات یاد رکھنا مطییہ چہایگیر۔۔۔وہ اب ئمہاری نہن‬
‫ہونے سے زیادہ میری منکوخہ ہے۔۔۔اور میں یاذلی یر زرا سی آبچ تھی یرداشت نہیں کروں‬
‫گا۔۔۔"‬
‫وہ اور تھی نہت کجھ یول رہا تھا یر مطییہ اس کی چھلشاپی سانسوں سے اتنا چہرہ ئمبمایا مجسوس‬
‫ی‬
‫کیے موڑ گنی‪،‬لنکن ہیبم کے نےجس یو لیے یر وہ یڑپ کر اسے د کھی تھی‪،‬‬

‫مفایل کنا سمجھ رہا تھا اسے۔۔۔وہ نےجس یو یہ تھی۔۔۔وہ تھی یو ایک دل رکھنی تھی۔۔۔چو ہر‬
‫دم اس سبمگر کے لیے دھڑکنا تھر ک بوں وہ اسے نےجس کہا تھا۔۔۔مطییہ کا دل جاہا کہ وہ چیخ‬
‫چیخ کر اس یر واضح کردے کہ وہ علط نہیں ہے۔۔۔اسے علط اس کی چ بوپی محیت نے تناڈاال‬
‫‪- 125 -‬‬
‫ہے۔۔۔وہ یو محیت کرپی ہے اتنی نہن سے تھی۔۔۔ہار یو وہ کجھ دیر نہلے ہی گنی تھی اتنی محیت‬
‫میں‪،‬جب اس سبمگر کا نکاح ہوا تھا اس کی نہن کے ساتھ‪،‬اب ک بوں وہ اس کے زچموں یر‬
‫ا تیے لفظوں سے ئمک چھڑک رہا تھا‪،‬نہت سے سکوے تھے اسے‪،‬‬

‫لنکن وہ جاہ کر تھی کجھ یہ یول یاپی‪،‬قلجال یو وہ اتنی جالت یر یوکھالپی ہوپی رو رہی تھی‪،‬تنا دو تیے‬
‫کے وہ اس کے اس قدر فرتب مطییہ کو لگا وہ سرم سے مرجانے گی اگر سا میے کھڑا سبمگر کجھ‬
‫دیر اور یونہی رہا یو‪،‬‬

‫"مجھے جانے دو۔۔۔"‬


‫ہیبم کی شخت نظروں کی پیش سے اتنا سرخ چہرہ ئمبمایا مجسوس کیے وہ تیجھے دیورا یر ا تیے یاجن‬
‫کھروچنی میرتم آواز میں یولی‪،‬‬

‫"نہلے وعدہ کرو مجھ سے کہ اب یاذلی کو تم کوپی نفضان نہیں نہیجاؤ گی۔۔۔"‬
‫اس کی یوکھالپی جالت یر رچم کھایا ہیبم تھوڑا تیجھے ہوکر اس یار بجمل سے یوچھا‪،‬اب مطییہ کی‬
‫یرداشت چواب دی تھی‪،‬وہ ک بوں اسے یہ اجشاس دالرہا تھا یار یار کہ مطییہ چہایگیر ایک چظریاک‬
‫لڑکی ہے‪،‬‬
‫‪- 126 -‬‬
‫"نہیں کروں گی کوپی وعدہ میں۔۔۔"‬
‫جب سے نہلی مرتیہ وہ یڑخ کر تھنگی آواز میں یولنی ا تیے گال نےدردی سے رگڑی ساتھ ہی‬
‫اس کے یرایر سے نکلیے لگی مگر وہ تھول جکی تھی کہ ابجانے میں وہ اس یار ہیبم کے ئمسکل‬
‫ضنط کیے ہونے غصے کو ہوا دے جکی تھی‪،‬‬

‫اتھی وہ تند دروازے کی طرف جا ہی رہی تھی جب ہیبم نے دیوار یر نسب سنلف یر رکھی پین سو‬
‫ن ً‬
‫پیس ئما چونصورت یویلوں میں سے ایک اتھا کر ڈرنسنگ یر مار کر یوڑی تھر مطییہ کا یازو فرتنا‬
‫دیوچیے ہونے اسے چھنکے سے تنڈ یر تیجا‪،‬شب کجھ جس تھرپی سے ہیبم نے کنا مطییہ کجھ سمجھ‬
‫ہی یہ یاپی‪،‬اور اب چود کے سیب ھلیے یر وہ چوفزدہ نظروں سے ہیبم کے ہاتھ میں کابچ کی یوپی یویل‬
‫کو دیکھیے لگی‪،‬‬

‫چون آسام نظروں سے اسے گھوریا وہ چند قدم کا قاصلہ طے کر کے تنڈ کے فرتب آیا تھا ساتھ ہی‬
‫ایک پیر تنڈ یر رکھ کر چھکا‪،‬مطییہ چو ساکت نظروں سے یویل کو یو کبھی ہیبم کو دیکھ رہی تھی اتنی‬
‫تنڈلی یر اس کا پیر بچ ہونے سے ہی گ ھیراکر تیجھے ہوپی‪،‬ہاتھ میں یویل کی یوک اسکے چونصورت مگر‬
‫ً‬
‫آنسوؤں سے تھنگے چہرے کے فرتب کیے ہیبم نفرتنا عرایا تھا‪،‬‬
‫‪- 127 -‬‬
‫"یکو کہ تم کبھی یاذلی کو کوپی نفضان نہیں نہیجاؤ گی۔۔۔"‬
‫چھنل ریگ جسین آیکھوں کو تھنالنے وہ ا تیے چہرے سے چند ابچ کی دوری یر ہیبم کے وچنہہ‬
‫م‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چہرے کو د ھی ھی‪،‬یو کنا وہ اس قدر بوپی تھا یاذلی کے عا لے یں‪ ،‬طییہ کے ایدر کجھ یویا‬
‫م‬ ‫چ‬
‫تھا‪،‬ساید وہ چھوپی سی امند کہ کبھی یو وہ سبمگر اس کی طرف مایل ہوگا‪،‬‬

‫"یولو۔۔"‬
‫وہ دھاڑا ساتھ ہی کابچ کی یوک جد درخہ فرتب کی‪،‬‬

‫ہلکی سی چبھن گال یر مجسوس کرنے ہی مطییہ چھرچھری لے کر رہ گنی تھر ڈرنے ہونے تم‬
‫لہچے میں ہکالکر یولی‪،‬‬

‫"پ۔۔یلی۔۔یلیز۔۔اسے۔د۔۔دور کرو۔۔۔مج۔۔مجھے درد ہور۔۔ہورہا ہے۔۔۔"‬


‫اس کا یہ یولنا تھا کہ ہیبم یویل دور تھینکنا اس کے دویوں یازوؤں کو جکڑ کر مطییہ کو ا ت یے فرتب‬
‫کیے دھاڑا‪،‬‬

‫‪- 128 -‬‬


‫"میں ئمہیں موت کی تھنک ما یگیے یر مح بور کردوں گا مطییہ چہایگیر اگر تم نے میری یاذلی کو کجھ‬
‫تھی ِکنا یو۔۔۔"‬
‫ہیبم کے زہر یلے لفظوں سے زیادہ وہ اس کے جد سے زیادہ فرتب ہونے یر یڑپی تھی‪،‬‬

‫"چھوڑو مجھے۔۔۔دور رہو مجھ سے تم۔۔۔"‬


‫اتنہاپی کرب میں وہ چیچی جس یر ہیبم چھنکے سے اسے چھوڑا ساتھ ہی جیران ہوکر مطییہ کو دیکھا چو‬
‫دویوں ہاتھوں میں میہ چھنانے یآواز رونے لگی‪،‬‬

‫ہیبم اتھی جیران ہی تھا یر تبھی نظر تیچے یڑے مطییہ کے دو تیے یر گنی اور لمچے کے ہزارویں‬
‫ّ‬
‫چصے میں اس کے چیحیے کی وخہ سمجھنا ہیبم اسے دیکھا چو سرم سے مرنے کے فرتب ہوپی گھی بوں‬
‫کے گرد اب یازوؤں کو یایدھ کر چہرہ چھنانے رورہی تھی‪،‬‬

‫جاہے جیسی تھی یر تھی وہ ایک لڑکی اور ا تیے غصے میں ایدھا ہویا وہ جس قدر اس کے فرتب ہورہا‬
‫تھا مطییہ کا چیحنا بجا تھا‪،‬تبھی اس یر سے نظریں ت ھیریا وہ اب غصہ ضنط کیے یوال‪،‬‬

‫ُ‬
‫"امند ہے چو کہا اس یر عمل تھی کرو۔۔۔"‬
‫‪- 129 -‬‬
‫اتنی یات کہہ کر ہیبم چھک کر تیچے سے دو تیہ اتھایا روپی ہوپی مطییہ کے یاس آیا تھر یرمی سے‬
‫اس کے گرد وہ دو تیہ لی یٹ کر تیج ھے ہنا ساتھ ہی گیسٹ روم سے پیزی میں تنا کجھ اور کہے نکلنا‬
‫جال گنا‪،‬‬

‫دوسری جاتب مطییہ یلند آواز میں رونے لگی تھی‪،‬وہ مح بوب شہی یر کوپی چق نہیں رکھنا تھا اسے‬
‫ُ‬
‫چھونے کا‪،‬وہ یڑپ کر چیچی تھی تب جب چوف مجسوس ہوا تھا اسے کہ کہیں غصے میں ہی مب‬
‫ا تیے ساتھ ساتھ اس کا تھی نفضان یہ کر پیبھے‪،‬آج وہ نےجد چوفزدہ ہوپی تھی ہیبم سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دن ازلی سرد جلیے لگے تھے‪،‬نکاح کے نعد چہاں مطییہ نے ا تیے جذیایوں یر تبھروں سے تندھ‬
‫یایدھ لیے تھے وہی یاذلی کی چوسناں نےجشاب تھیں‪،‬وہ اکیر کالج کے نعد ہیبم کے ساتھ کہی‬
‫یہ کہی گھومیے نکلنی‪،‬ہیبم نے اب اسے ت بو مویایل گفٹ کنا تھا یاکہ دویوں کی یات میں کوپی‬
‫رکاوٹ یہ آنے‪،‬نہلے یو یاذلی چہایگیر صاجب سے مویایل کی اجازت لی تھی دوسری جاتب ان کی‬
‫اس یار رصامندی یر چوش ہوپی‪،‬‬

‫‪- 130 -‬‬


‫ادھر قلذہ کی خی یوڑ کوشسیں کافی جد یک کامناب ہوپی تھیں‪،‬ساپی چو نہلے اس سے زیادہ یات‬
‫یہ کریا اب دوشت کی جد یک اس سے مذاق یا یات چ یت کرلینا اس کی قلذہ سے دوسنی میں‬
‫زیادہ ہاتھ ہناد کا ہی تھا‪،‬چویکہ ہناد اور ساپی کی دوسنی ہر دن یروان خڑھ رہی تھی اس وخہ سے‬
‫اس نے قلذہ کی دوسنی کی آفر کو تھکرانے کے بجانے ق بول کنا تھا‪،‬شب کی نظر میں چہاں یہ‬
‫دوسنی تھی وہی مہناز تنگم قلذہ کے ظور اظوار سے اتنا یو سمجھ جکی تھیں کہ وہ ساپی کے لیے ایک‬
‫الگ اجشاس رکھیے لگی ہے ا تیے دل میں‪،‬قلجال یو انہوں نے اس یات کا ذکر اس سے یہ کنا‬
‫تھا یر وہ جلد اس موصوع یر قلذہ سے یات کرنے کا ارادہ رکھنی تھیں‪،‬‬

‫آج ِقلذہ نے ساپی کو ایک رنسبورتٹ میں یالیا تھا‪،‬نہلے یو ساپی جیران ہوکر انکار کنا تھا یر اس کے‬
‫ضروری یات کا کہہ کر صد کرنے یر ئمسکل مایا‪،‬‬

‫پ‬
‫اتھی قلذہ ہاتھ میں مویایل لیے رنسبورتٹ میں یبھی یار یار اپیرنس یر دیکھ رہی تھی یر تبھی اسے‬
‫ساپی ایدر داجل ہویا ِدکھا‪،‬ہاتھ کے اسارے سے وہ ساپی کی نظر چود یر کرنے سے کامناب ہوپی‪،‬‬

‫"یولو۔۔۔کنا ضروری یات ہے۔۔۔"‬


‫اس کے یاس آکر ساپی کجھ مصروف ایداز میں یوال‪،‬‬
‫‪- 131 -‬‬
‫"پیبھو یو نہلے۔۔۔"‬
‫اس کی گرنس یرسینلنی کو دیکھ وہ مشکراکر گویا ہوپی‪،‬‬

‫"قلذہ میری جاب کا یاتم ہورہا ہے۔۔۔اگر جلدی تنادو یو مہیر ہے۔۔۔"‬
‫ِ‬
‫سیٹ یر پیبھنا وہ ایک نظر ِرشٹ واچ یر ڈالے سیحندگی سے یوال‪،‬‬

‫"کنا تنادوں۔۔۔"‬
‫ٰ‬
‫وہ ساید یایوں کو ظول د ت نا جاہ رہی تھی تبھی معنی جیزی سے مشکرانے ہبھنلی تھوڑی کے تیچے‬
‫رکھ کر یولی‪،‬‬

‫"ضروری یات جس کے لیے یالیا ہے تم نے۔۔۔"‬


‫و نسے یو یزاکت سے یاپیں کریا قلذہ کا جاصہ تھا یر آج ساپی کو اس کے لہچہ اور دیوں کے جشاب‬
‫کجھ عح یب لگا تھا‪،‬‬

‫ہ‬
‫" ممم۔۔۔اگر یہ تناؤں یو۔۔"‬
‫‪- 132 -‬‬
‫ل بوں یر چونصورت مشکراہٹ شجانے وہ اسے ت نگ کی تھی اور ساپی نےساجیہ مشکرایا‪،‬قلذہ کو لگا‬
‫مفایل کو اس کی یہ ادا تھاپی ہے‪،‬تبھی نظریں ایک ادا سے تھیریں‪،‬‬

‫"لڑکی ئموپی لگ رہی ہو۔۔۔۔چو یات ہے جلدی یولو۔۔۔"‬


‫ہیس کر کہنا وہ قلذہ کو مشکراہٹ سم یییے یر مح بور کنا‪،‬مفایل کی دلکش مشکراہٹ سے نگاہ خراپی‬
‫وہ یاراض لہچے میں یولی‪،‬‬

‫"تم یدئمیز۔۔میں ئمہیں ئموپی لگ رہی ہوں۔۔۔"‬

‫"نہیں تم یلکل ئموپی نہیں ہو۔۔۔یر قلجال خرکییں ونسی ہی کررہی ہو۔۔۔"‬
‫اتنی مشکراہٹ دیانے وہ کندھے اچکاکر یوال یو قلذہ یکدم مشکرانے ہونے پینل یر ر ک ھے ساپی کے‬
‫مضبوط ہاتھوں یر ا تیے دویوں ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫"اگر میں تم سے کہوں کہ میں ا تیے ان ہاتھوں کو یونہی ساری زیدگی ئمہارے ہاتھوں میں دیکھنا‬
‫جاہوں گی یو ئمہارا کنا چواب ہوگا۔۔۔"‬
‫قلذہ کے سوال یر ساپی نے ایک نظر ا تیے ہاتھ یر ر ک ھے اس کے ہاتھ کو دیکھا تھر کہا‪،‬‬
‫‪- 133 -‬‬
‫"ساری زیدگی یو دور کی یات ہے۔۔۔کل یک تھی نہیں رکھ یاؤ گی۔۔۔اتھی رات کو یہ رنسبورتٹ‬
‫تند ہو جانے گا۔۔۔"‬
‫ی‬ ‫ً‬
‫ا تیے ہاتھ عیر ارادی ظور یر تیجھے کر کے پینل سے ہنایا وہ مذاقا یوال تھا جس یر قلذہ نے آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫گھماپیں‪،‬‬

‫"میں مذاق نہیں کررہی ساپی۔۔۔سیرپیس ہوں۔۔۔"‬

‫"مجھے یو مذاق ہی لگ رہا ہے۔۔"‬


‫وہ ساید اب تھی اس کی یات کو الپینلی ل نا تھا‪،‬‬

‫ُ‬ ‫ُ‬
‫"ساپی آپی لوو یو۔۔۔لوو یو سو مچ۔۔۔ضرف یہ ہاتھ نہیں رکھنا ئمہارے ہاتھوں میں یلکہ اتنی یوری‬
‫زیدگی ئمہارے ساتھ گزاریا جاہنی ہوں۔۔۔"‬
‫اجایک ہی وہ ایک سانس میں یولی تھی چنکہ ساپی کی مشکراہٹ یوں عاتب ہوپی جیسے کبھی وہ‬
‫مشکرایا ہی یہ ہو‪،‬‬

‫‪- 134 -‬‬


‫"ساپی چواب یو دو۔۔۔"‬
‫نےیاکی سے کہیے کے نعد وہ مفایل کی جاموسی یر نےجین ہوکر یولی‪،‬‬

‫"ئمہیں ہوش تھی ہے کہ کنا یول رہی ہو۔۔۔"‬


‫نکلخت یدال تھا ساپی کا لہچہ‪،‬‬

‫"ہاں ہوش تھی ہے چواس تھی تھنک ہیں۔۔۔اور چو یول رہی سوچ سمجھ کر یول رہی‬
‫ہوں۔۔۔ساپی محیت کرنے لگی ہوں تم سے۔۔۔نےجد‪،‬نےاتنہا۔۔۔انسی محیت چو دن یدن‬
‫میرے چواس سلب کررہی ہے۔۔۔"‬

‫"قلذہ کنا یکواس کررہی ہو یار۔۔۔"‬


‫وہ چو تنارکے یولے جارہی تھی ساپی کے اجایک الجھ کر یو کیے یر رکی‪،‬‬

‫"ئمہیں میری قنلینگز یکواس لگ رہی ہیں۔۔۔"‬


‫ی‬
‫اس کی آ کھیں یل میں تم ہوپی تھیں ساپی کی یات یر تبھی یولی‪،‬‬

‫‪- 135 -‬‬


‫"اور نہیں یو کنا۔۔۔مظلب یار کجھ تھی یول رہی ہو۔۔۔تنا کجھ سوچے۔۔۔یہ مجھ سے کجھ یوچھا‬
‫نس اتنی ہی کہے جارہی ہو۔۔۔"‬
‫ا تیے یالوں یر ہاتھ ت ھیرے نےاجینار ایدر امڈنے اسنعال یر قایو یایا وہ سیحندگی سے یوال‪،‬نہاں وہ‬
‫پ‬
‫اسی لیے آیا تھا کہ مفایل یبھی لڑکی کو دوشت ما تیے لگا تھا یر دوسنی کے نعد اس کا یہ یولنا‬
‫ساپی کو اتنہاپی یاگوار لگا یر دوسنی کا تھرم رکھیے کے یاعث وہ اس یار لہچے کو یرم کرنے کی‬
‫کوشش کیے یوال‪،‬‬

‫"میں نے انشا کبھی سوجا ہی نہیں تھا ئمہارے یارے میں۔۔۔یار تم یو نہن جیسی ہو میرے‬
‫لیے۔۔۔"‬
‫ساپی اسے آرام سے سمجھایا تھا‪،‬‬

‫مج‬‫س‬
‫"یر میں ئمہیں تھاپی نہیں نی۔۔۔یلیز ساپی میری محیت کو یوں مت دھ نکارو۔۔۔"‬
‫ھ‬
‫وہ گڑگڑانے لگی تھی اسکے آگے‪،‬ہاتھ نےساجیہ خڑے چنہیں دیکھ کر ساپی چھنکے سے کھڑا ہوا‪،‬‬

‫ف۔۔۔قلذہ۔۔۔کجھ تھی یول رہی ہو۔۔۔دیکھو ہماری دوسنی کو علط وے میں تم لے کر گنی‬
‫ِ‬ ‫"ان‬
‫تھی یہ کہ میں۔۔۔اور تنار محیت ان شب کے یارے میں یو میں نے اتھی سوجا تھی‬
‫‪- 136 -‬‬
‫نہیں۔۔۔مجھے یڑھ نا ہے اتھی اتنا کرپیر سیٹ کریا ہے۔۔۔یلیز آ تندہ مجھ سے اس طرح کی یات‬
‫یہ کریا وریہ یو میں چود ہی جال جاؤں گا انکل کے گھر سے۔۔۔"‬
‫اسکے رونے ہونے نفی میں سر ہالنے یر ساپی شخت لہچے میں کہنا مڑ کر نکال تھا وہاں سے‪،‬ادھر‬
‫ل ُ‬
‫ِقلذہ کے چہرے یر اگلے ہی لمچے عم و غصے کی کیریں ا ھری‪،‬آخر ا نی محیت کا کرایا کہاں‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ُ‬
‫یرداشت ہوا تھا اسے‪،‬‬

‫"میری یذلنل کی تم نے ساپی۔۔ا تیے کرپیر کی وخہ سے۔۔۔کرپیر۔۔۔ہنہہ۔۔۔اب میں ئمہارا کرپیر‬
‫تناؤں گی۔۔۔وہ تھی انشا چو تم کبھی نہیں تھول یاؤگے۔۔۔"‬
‫نفرت سے کہنی وہ نےنسی میں پینل یر رکھا گالس اتھا کر تیچے تھینکی تھی‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد رنسبورتٹ سے نکل کر وہ رونے ہونے ا تیے فون میں ہناد کا ئمیر ڈایل کی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سام میں وہ آقس کے ایک چھونے سے کیین میں پیبھا اتنا کام کررہا تھا‪،‬اس کے ساتھ چند‬
‫کلنگس تھی تھے چو اگلی میینگ کے چوالے سے بخث و مناجیہ کررہے تھے لنکن ساپی ان سے‬

‫‪- 137 -‬‬


‫ً‬
‫ایکشکبوز کر کے وہاں سے اتھا جب اس کے فون یر ہناد کی کال آپی‪،‬وہ اسے فورا سکندر وال میں‬
‫یالرہا تھا‪،‬ساپی نے انکار کریا جاہا یر تب یک دوسری طرف سے ہناد کال کٹ کرچکا تھا‪،‬‬

‫یاس سے اجازت لینا وہ نکال آقس سے‪،‬تھر اگلے آدھے گھییے نعد سکندر وال کے الوبج میں کھڑا‬
‫تھا‪،‬ہناد اب یک آیا نہیں تھا وہ جیران ہوا تھر ک بوں یالیا گنا تھا اسے‪،‬اتھی جیرت کے دریا میں‬
‫عوطہ زن ساپی کجھ اور سوچ ہی رہا تھا جب وہاں ر ک ھے لینڈ الین فون بجا نہلے یو وہ کسی سروتٹ یا‬
‫گھر کے مکین کے فون اتھانے کے ات نظار میں اگ بور کریا رہا یر جب کوپی یہ آیا اور فون مشلشل بحنا‬
‫الف عادت جاکر اس نے فون اتھایا‪،‬اتھی کان یر لگایا ہی تھا کہ دوسری جاتب نے‬ ‫رہا تب ج ِ‬
‫ایک ُسریلی مگر پیز آواز کان سے یکراپی‪،‬‬

‫"مظلب میں گھر سے دور ہوں یو ویل بو ہی چبم ہوگنی۔۔۔ارے آدھے گھی بوں سے کال کررہی‬
‫ہوں۔۔۔یر نہیں کسی نے فون ہی نہیں اتھایا تھا۔۔۔اب تھی ک بوں رنسبو کنا۔۔۔رکھ دیں۔۔"‬
‫مدھر بخکایہ آواز تھی جیسے کوپی ت ندرہ سولہ سالہ بچی اتنا غصہ ایار رہی ہو‪،‬اس کی یاپیں سینا ساپی‬
‫تییسن میں تھی نےاجینار مشکرایا ساتھ ہی نے آواز "چھوپی" یوال چو یابچ میٹ یک کال کرنے‬
‫کو آدھے گھییے سے مشانہت کررہی تھی‪،‬‬

‫‪- 138 -‬‬


‫"ایک میٹ۔۔۔کنا شچ میں رکھ دیا۔۔۔نہی عزت ہے میری۔۔۔ارے یار کجھ یو یولیں۔۔"‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫ایک یار تھر الہٹ ھری آواز ھی‪،‬ساپی نے ال ھ کھار کر کجھ یولنا جاہا کہ ھر دوسری‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫جاتب سے یوال گنا‪،‬‬

‫ی‬
‫"میں سمجھ گنی۔۔۔ہیبم تھاپی آپ ہو یا۔۔۔د یں تھاپی نی مذاق کا ل موڈ یں ہے میرا‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫لک‬‫ی‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ک بویکہ میں قلجال یو آپ سے یاراض ہوں۔۔۔میرے نعیر نکاح سکاح کرلنا اور و نسے تھی یاذلی آپی‬
‫کو تھی کجھ جاص بجسیے نہیں والی میں۔۔۔"‬
‫اس کے جپ ہونے کا ات نظار کیے ساپی اتھی جاموش تھا کہ کسی نے اجایک اس کے ہاتھ‬
‫سے فون لنا‪،‬سا میے ہناد کو کھڑا دیکھ ساپی مشکرانے ہونے یوال‪،‬‬

‫"سوری یر جب سے فون بج رہا تھا کوپی نہیں تھا یو سوجا۔۔۔"‬

‫"ہنلو۔۔۔"‬
‫م‬
‫ساپی کی یات کمل ہونے سے نہلے ہی وہ فون کان سے لگانے یوال‪،‬‬

‫‪- 139 -‬‬


‫"اوہ یو آپ ہو ہناد تھاپی۔۔۔میں کب سے ا تیے ہی آپ یاپیں کررہی ہوں اور آپ ہو کہ چواب‬
‫ہی نہیں دے رہے آگے سے۔۔۔"‬
‫عندلیب کی یاپیں سینا ہناد ایک سیحندہ نظر ساپی یر ڈاال تھا‪،‬‬

‫"گڑیا تم سے نعد میں یات کریا ہوں۔۔۔"‬

‫"ارے نہیں۔۔۔میں کوپی نعد میں یات نہیں کرنے والی۔۔۔آپ لوگوں سے یاراض ہوں‬
‫اتھی۔۔۔ضرف یہ تنانے کے لیے کال کی تھی کہ اس مس قاریہ نے ایگزئمس کی وخہ سے م نع‬
‫کنا ہے کہ تندرہ یاربخ کو نہیں آؤں گی میں گ ھر۔۔۔"‬
‫اس کا یاراض لہچہ چہاں ہناد کو مشکرانے یر مح بور کنا وہی وہ تھوڑا یرنشان ہوا‪،‬‬

‫"یر لڑکی ایک یو آپی ہی جار مہی بوں میں ایک ہفیے کے لیے اب وہ تھی تند۔۔۔"‬

‫"ضرف اس یار تند۔۔۔اور و نسے تھی اگلے مہییے آجاؤں گی۔۔۔یر آپ لوگوں سے یات سات نہیں‬
‫کرپی میں نے۔۔۔"‬

‫‪- 140 -‬‬


‫ً‬
‫کہہ کر فورا کال کٹ کردی گنی تھی‪،‬اسارہ تھا ازلی یاراصگی کا‪،‬کہ ہیبم کے نکاح کا نعد میں ک بوں‬
‫تنایا گنا اسے‪،‬جاالیکہ یہ مہناز تنگم نے ہی م نع کنا تھا کہ اگر اسے معلوم ہوجایا کہ ہیبم کا نکاح‬
‫ہے یو وہ آکر دم لینی اور مس قاریہ نے انہیں تنایا تھا کہ عندلیب کی یڑھاپی میں کارکردگی کجھ‬
‫جاص اچھی نہیں جل رہی‪،‬‬

‫اس کے کال کا تیے یر ہناد مشکراکر نفی میں سر ہالیا فون رکھا یر نظر جیسے ہی قاصلے یر کھڑے‬
‫ی‬
‫ساپی یر یڑی یو اس کی مشکراہٹ سمنی‪،‬آ کھیں یکدم سیحندہ ہوپیں‪،‬‬

‫"کل میرے کجھ فرتنڈز یارپی رکھ رہے ہیں۔۔۔جلو گے میرے ساتھ۔۔۔"‬
‫یایرات کے یرعکس اس کا لہچہ اتنہاپی ہلکا تھلکا لگا تھا ساپی کو‪،‬‬

‫"آ۔۔"‬

‫"م نع مت کریا۔۔۔تم و نسے تھی یارپی وعیرہ نہیں کرنے جاتنا ہوں لنکن دوشت ہوں میں ئمہارا‬
‫اتنا یو کر ہی سکیے ہو میرے لیے۔۔۔"‬
‫ً‬
‫ساپی یہ جانے کا نہایہ سوچیے کجھ یول ہی رہا تھا کہ ہناد فورا یوال جس یر وہ ہلکا سا ہیسیے یوال‪،‬‬
‫‪- 141 -‬‬
‫"جلو تھر دوشت کے لیے کل جلیے ہیں یارپی میں۔۔۔لنکن ئمہیں کوپی کام تھا ساید مجھ‬
‫سے۔۔۔"‬
‫اجایک ہی ساپی کو یاد آیا کہ ہناد نے کسی کام سے جلد اسے یالیا تھا سکندر وال‪،‬‬

‫"کام یہ ہے میرے دوشت کہ کل کی یارپی کے لیے مجھے کجھ جیزیں لینی ہیں۔۔۔یو جلو اتھی‬
‫میرے ساتھ تھوڑی ساتنگ یر۔۔۔"‬
‫ہناد کی اس یات یر ساپی ہیشا تھا‪،‬‬

‫"سیرپیشلی۔۔۔یہ کام تھا ئمہیں۔۔۔مظلب ہناد ساتنگ کرپی ہے۔۔"‬


‫اسے اتنہاپی نےیکی لگی تھی ہناد کی یہ یات تبھی ت نا ہناد کے سیحندہ یایرات د یکھے وہ یوال‪،‬‬

‫"ک بوں نہیں کرسکنا ساتنگ۔۔۔"‬


‫اجایک وہ یدلے لہچے میں یوال یو ساپی کندھے اچکانے کہیے لگا‪،‬‬

‫"کرسکیے ہو یر۔۔۔"‬
‫‪- 142 -‬‬
‫"یو تھر جلو۔۔۔"‬
‫اس یار ساپی کی یات کاتنا وہ یوال ساتھ ہی اس کے کندھے یر ہاتھ رکھنا یاہر نکال‪،‬ساپی کا یلکل‬
‫موڈ نہیں تھا اس کے ساتھ ساتنگ یر جانے کا یر ہناد صدا کا صدی اتنی م بواکر ہی رہا‪،‬ساتنگ‬
‫کرنے ہونے ہناد نے ا تیے لیے کوپی جاص جیزیں نہیں لیں ہاں مگر ساپی کو ایک یرق بوم ضرور‬
‫گفٹ کنا تھا‪،‬ساپی نے یرقبوم لییے ہونے ایک مرتیہ سم نل کریا جاہا یر ہناد کا کہنا صاف تھا کہ‬
‫جب وہ یارپی میں آنے تبھی وہ لگانے اتھی اسے کھولے تھی یہ‪،‬اس کی یہ یات ساپی کو کجھ‬
‫عح یب لگی یر اس نے زیادہ سوجا یہ اس یارے میں‪،‬‬

‫اس عرصے کے دورا تیے میں ساپی ِقلذہ کے یرویوزل کو یلکل فراموش کرچکا تھا ساتھ ہی ہناد کا‬
‫ا تیے ساتھ کجھ عح یب اور یدال ہوا رویہ تھی یہ یوٹ کرسکا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اس دن کے نعد سے عندلیب ہر ہفیے اورفوتیچ سے ہوکر گرتنی کے یاس آپی ضرور تھی یر فرق یہ‬
‫س‬
‫آیا تھا کہ اب اس نے لسینل سے یات یو کنا ملنا یک یرک کردیا تھا‪،‬یہ نہیں تھا کہ وہ یاراض‬
‫‪- 143 -‬‬
‫س‬
‫تھی اس سے‪،‬یلکہ اس نے وہی کریا جاہا جس سے لسینل کم از کم یرسکون رہے‪،‬اس دن‬
‫س‬
‫لسینل کی یایوں سے عندلیب سمجھ جکی تھی کہ اس کی موچودگی یر ششلینل اررپی یٹ ہویا ہے‬
‫تبھی وہ اب نہیں جاپی تھی اس کے یاس‪،‬‬

‫س‬
‫دوسری جاتب لسینل ریورٹ آنے کے نعد سے ا تیے کمرے یک مجدود ہوکر رہ گنا تھا‪،‬سروع‬
‫میں یو عندلیب کے یہ آنے یر وہ نہی سوجا تھا کہ اب جان چھوپی یر جب عندلیب یورے ایک‬
‫مہییے نعد تھی اس سے ملیے یہ آپی تب ایک الگ ہی نےجینی نے اسے آگ ھیرا‪،‬ہاں وہ عادی تھا‬
‫اسے دھ نکارنے کا یر اب جب وہ نہیں تھی یو الجھن ہوپی‪،‬ہر ہفیے کو الؤبج سے آپی عندلیب کی‬
‫کھنکنی آوازیں اسے عح یب نےکلی میں مینال کرد ت ییں‪،‬وہ کبھی اسماء کی کسی یات یر ہیسنی یو‬
‫کبھی دریہ تنگم سے یان سناپ یاپیں کررہی ہوپی‪،‬نہلے چو اس کی آواز سے یرنشان ہویا تھا اب‬
‫ہفیے کا ات نظار کریا کہ کب وہ آنے اور اتنی چونصورت آواز سے اسے یرسکون کردے‪،‬‬

‫آج دیڑھ مہییے ہو جکے تھے‪،‬ہفیہ تھا وہ جب سے ات نظار کررہا تھا تنڈ یر پیبھا کہ کب وہ مدھر آواز‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تب س‬
‫ل کے یراسے ہونے عناپی لب زیدگی سے ھریور م کرانے جب یاہر سے وہ‬ ‫آنے اور ھی‬
‫سیرتنی آواز آپی اس کے کایوں سے یکراپی‪،‬وہ ابجان نہیں تھا‪،‬چوب سمجھنا تھا ا تیے ایدر تندا ہونے‬

‫‪- 144 -‬‬


‫تیے جذیایوں کو‪،‬یا ساید یہ جذیات ان کی نہلی مالقات میں ہی اس کے دل میں آنے تھے یر وہ‬
‫اس وقت اس شچونسن میں نہیں تھا کہ سمجھ یانے‪،‬‬

‫ک‬‫نسی ی‬
‫"آج میں نے ایک ر نی د ھی ہے۔۔۔وہ یرانے کرپی ہوں۔۔۔"‬
‫مزے سے کہنی عندلیب کچن کے سلیپ یر ہاتھ بجاپی مخصوظ ہوپی‪،‬‬

‫"مظلب ایک یار تھر مجھے یورا دن لگے گا کچن صاف کرنے میں۔۔۔"‬
‫اسماء نے مضبوغی الجارگی دکھاپی‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔یو جیشا کہ نہاں ایک عدد چن ِلس تھی ہے گرتنی۔۔"‬


‫اس کی طرف اسارہ کیے عندلیب نے دریہ تنگم کو کہا جس یر انہوں نے مشکرانے ہونے نفی‬
‫س‬
‫میں سر ہالیا یر ان کی مشکراہٹ عاتب ہوپی جب یک یک کی آواز یر ان کی نگاہ لسینل کے‬
‫روم کی جاتب گنی‪،‬وہ اسینک کے شہارے کچن کی طرف آرہا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫"ارے لسینل۔۔۔پینا کجھ جا ہیے کنا۔۔۔"‬

‫‪- 145 -‬‬


‫عندلیب کی موچودگی میں اس کا غصہ یاد کرکے ہی دریہ ت نگم گ ھیراپی تھیں تبھی جلدی سے اس‬
‫کے یاس جاپی یولیں‪،‬‬

‫"خی۔۔"‬

‫"کنا جا ہیے۔۔۔"‬
‫س‬
‫ان کے سوال یر لسینل کجھ دیر جاموش رہا تھر کہا‪،‬‬

‫"عندلیب سے یات کرپی ہے۔۔۔"‬


‫اور دریہ تنگم کو لگا کہ آج تھر وہ یوڑ تھوڑ کرنے واال ہے۔۔۔‪،‬‬

‫"وہ ضرف مجھ سے ملیے آپی ہے تھر جلی جانے گی تھوڑی دیر میں۔۔۔"‬
‫انہیں ڈر تھا تبھی وہ یرنشاپی سے چواز پیش کرنے لگیں‪،‬یر ان دویوں کی یہ یآواز بخث کچن میں‬
‫کھڑی عندلیب صاف سن رہی تھی تبھی چند قدم اتھاپی وہ کچن سے یاہر دریہ تنگم کے یاس آپی‪،‬‬

‫"مجھے ضرف تندرہ میٹ دیں گی اس سے یات کرنے کے لیے۔۔۔"‬


‫‪- 146 -‬‬
‫س‬
‫اب لسینل یال کے سیحندہ لہچے میں یوال کہ دریہ تنگم نے ایک الجار نظر ا تیے یرایر میں کھڑی‬
‫عندلیب یر ڈالی تھر کہا‪،‬‬

‫ح‬‫ی‬ ‫م تھ‬
‫"تم کمرے میں جاؤ یں نی ہوں اسے۔۔۔"‬
‫س‬
‫ان کے کہیے یر لسینل اسینک کے شہارے مڑیا ا تیے کمرے میں گنا تھا‪،‬‬

‫"دیکھو بچے۔۔۔میں جاتنی ہوں وہ ضرور غصہ ہوگا تم یر۔۔۔لنکن چہاں ئمہیں لگے کہ اس کا‬
‫غصہ یڑھ رہا ہے تم روم سے نکل جایا۔۔کہیں انشا یہ ہو کہ وہ ئمہیں کوپی نفضان نہیجادے۔۔۔"‬
‫دریہ تنگم اسے سمجھانے ہونے وہ دن یاد کرنے لگیں جب وہ غصہ یڑھیے یر کمرے کی جالت‬
‫یدیر کر کے رکھ چکا تھا‪،‬‬

‫"میری تناری گرتنی۔۔۔آپی یو اس کا ا تیے غصے یر قایو نہیں ہے۔۔۔یر یہ تھی جاتنی ہوں کہ وہ‬
‫کبھی مجھے نفضان نہیں نہیجانے گا۔۔۔سو جسٹ ریلنکس۔۔۔"‬
‫س‬
‫گ‬
‫ل کے کمرے کی جاتب نی‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یرنقین لہچے میں کہہ کر مشکراپی وہ‬

‫‪- 147 -‬‬


‫وہ تنڈ یر پیبھا تھا‪،‬عندلیب ایک دو مرتیہ گیٹ یاک کرپی ایدر داجل ہوپی‪،‬اس کی موچودگی مجسوس‬
‫کرنے ہی مفایل کے ل بوں یر ایک دلکش مشکراہٹ اتنی چ ھب دکھالکر عاتب ہوپی‪،‬‬

‫ن‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬


‫کجھ قاصلے یر ر ک ھے صوقے یر نی وہ کھاری‪ ،‬یسے م کھاپی ہو یات کا آعاز چود یں کرے‬
‫ہ‬ ‫س‬‫ق‬ ‫ج‬ ‫ھ‬
‫گی‪،‬‬

‫"‪ 5‬سال۔۔!"‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ی‬
‫ل کی اجا ک ا ھرپی آواز یر‪،‬‬ ‫وہ چو کی‬

‫"‪ 5‬سال سے نےنس ہوں۔۔۔یاجانے اب آگے اور کییے سال یک رہنا ہے۔۔۔ئمہیں تنا ہے‬
‫نےنس رہنا کیشا لگنا ہے۔۔۔؟‬
‫ت‬ ‫م ٰ‬
‫جیسے آپ کا وچود نے عنی ہو۔۔۔دت نا میں ہونے ہونے ھی آپ یہ ہونے کے یرایر ہوجانے‬
‫ہو۔۔۔یہ نےنسی یہ محناخی جب سروع میں مجھے ملی یو میں نہت یڑیا تھا۔۔۔رویا تھی تھا۔۔لنکن‬
‫تھر امند رکھی کہ شب کجھ تھنک ہو جانے گا ایک دن۔۔۔۔ل نکن ایک دن۔۔۔کجھ تھنک یو یہ‬
‫ہوا یر میری امندیں ضرور چبم ہوگنی۔۔۔۔مجھے نقین ہوجال کہ یہ محناخی اب ساری زیدگی میرے‬
‫گلے یر تھندے کی طرح ا یکے رہے گی۔۔۔میں دتنا دیکھنا جاہنا تھا یر مجھ سے یہ چق چھین لنا‬
‫‪- 148 -‬‬
‫گنا‪،‬میں چواب پینا تھا میرے چوایوں کو آیکھوں سے یوچ ڈاال۔۔۔ضرف اس لیے کہ میں عرتب‬
‫ہوں۔۔"‬

‫وہ آج اتنا آپ اس یر آسکار کررہا تھا۔۔۔‪،‬نہلی مرتیہ وہ آج کسی یر اتنا عم اتنی اذ ت ییں کھول رہا‬
‫تھا اور کسی عندلیب سکندر تھی‪،‬وہی ع ندلیب سکندر جس سے کبھی وہ نےبجاشہ نفرت کا دعویدار‬
‫تھا‪،‬‬

‫"تم نے کہا تھا کہ میں ایک یزدل انشان ہوں۔۔۔"‬


‫ی‬
‫اس کا لہچہ ضنط کی اتنہا کی واضح دل نل ت ھا‪،‬عندلیب جس کی آ یں م ہوپی یں اس کی یات‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫سن کر نےساجیہ یولی‪،‬‬

‫"میرا وہ مظلب نہیں۔۔۔"‬

‫"دوسنی میں فرتب کی تھنایک سکل دیکھنا‪،‬کسی کی نظروں میں گریا‪،‬نےقصور ہونے کے یاوچود‬
‫قصوروار نہرایا اور۔۔۔۔"‬

‫‪- 149 -‬‬


‫کرب آمیز لہچے میں یولنا وہ آواز تھاری ہونے یر ُرکا‪،‬عندلیب کے گال تھنگیے لگے تھے‪،‬‬

‫"اور زیدگی کے اتنہاپی نکل نف دہ عرصے میں کسی ا تیے کا ساتھ چھوٹ جایا کہ جس کی وخہ سے‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ُ‬
‫م‬
‫آپ خی رہے ہو‪،‬چواب ین رہے ہو وہ اگر آپ سے اتنا دور ال جانے کہ وا سی یام کنات یں‬
‫سمار ہو اور آپ چود ا تیے نےنس ہوجاو کہ اس کے لیے رو یک یہ سکو یو جاتنی کیشا لگنا‬
‫ہے۔۔۔"‬

‫ہر لفظ کے ساتھ اس کا لہچہ تھنگ رہا تھا آخر میں وہ اجایک یوچھا عندلیب سے‪،‬‬

‫"انشا لگنا ہے کہ نس اب موت کو گلے لگا لنا جانے۔۔۔مگر ان شب اذ ت بوں کو یرداشت کریا‬
‫میں ایک آخری فرد گرتنی کے لیے اس زیدگی کو کاٹ رہا تھا۔۔‪،‬ان شب کے یاوچود اگر تم مجھے‬
‫یزدل کہنی ہو یو تھنک۔۔۔ہوں میں ایک یزدل انشان۔۔۔ک بویکہ تنگ آچکا ہوں انسی زیدگی‬
‫سے۔۔۔"‬

‫‪- 150 -‬‬


‫چبھیے لہچے میں یول کر وہ اجایک جاموش ہوا‪،‬عندلیب کافی دیر یک اسکے وچنہہ چہرے یر رقم‬
‫پ‬
‫کرب کو یکنی رہی تھر ا تیے گال رگڑپی اتھی‪،‬ت نڈ یر اس سے کجھ قاصلے یر یبھنی وہ گہرا سانس‬
‫تھری تھی‪،‬تھر ہمت کر کے کنکنانے ہاتھ کو اس کے تھاری ہاتھ یر رکھی‪،‬‬

‫"سکریہ۔۔۔"‬
‫کجھ دیر کی جاموسی کے نعد وہ یولی‪،‬‬

‫"کس لیے۔۔"‬

‫مج‬‫ی س‬
‫"اتنی کجھ یاپیں مجھ سے سئیر کی۔۔۔مجھے اس ال ق ھیے کے لیے کریہ۔۔۔"‬
‫س‬
‫تم آواز میں مشکراکر یولنی وہ کجھ سوچ کر تھر اجایک کہیے لگی‪،‬‬

‫"تم نے ا تیے دن یک مجھ سے یات یہ کی یو اسی یاعث میں ئمہیں تنا نہیں سکی۔۔"‬

‫"کنا۔۔"‬

‫‪- 151 -‬‬


‫"ئمہیں یاد ہے الشٹ یاتم جب ہم ئمہارا پیسٹ کروانے گیے تھے تب چو ریورٹ ہمیں ملی تھی وہ‬
‫علط تھی۔۔۔ڈاکیر کی کال آپی تھی۔۔۔انہوں نے کہا تھا کہ اس دن ایک اور یالپینڈ پیسیٹ آیا‬
‫ُ‬
‫تھا وہ ریورٹ اس کی تھی۔۔۔انہوں نے مجھے ئمہاری ریورٹ کا تنایا تھا ساتھ ہی ایک گڈت بوز‬
‫ُ‬
‫دی۔۔۔اب گیس کرو وہ گڈت بوز کنا ہوگی۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس کے ہاتھ یر سے ہاتھ ہناپی وہ اب تھریور ہیسیے کی کوشش کرپی یولی‪ ،‬لسینل کجھ یل کی‬
‫جاموسی کے نعد یوال‪،‬‬

‫"کنا۔۔۔"‬

‫"نہی کہ امکایات ہیں اور وہ تھی کافی زیادہ۔۔۔انہوں نے اگلے ہفیے سرخری کے لیے یالیا‬
‫س‬
‫ہے۔۔۔میں یو یہ یات گرتنی کو تنایا ہی تھول گنی۔۔۔ لسینل مظلب سوچو کہ تم اب دیکھ یاؤ‬
‫گے۔۔۔"‬
‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬
‫یاوچود کوشش اس کا لہچہ کھوکھال ہورہا تھا‪ ،‬ل الجھا‪،‬‬
‫ی‬

‫"تم۔۔۔شچ کہہ رہی ہو۔۔۔"‬

‫‪- 152 -‬‬


‫"نہیں یو کنا چھوٹ یولوں گی۔۔۔"‬

‫"میں نہیں مان سکنا۔۔۔"‬

‫"یہ مایو۔۔۔میں جلی گرتنی کو ت نانے۔۔۔"‬


‫مزے سے کہنی وہ تنڈ سے اتھی‪،‬‬

‫"عندلیب۔۔۔!"‬
‫ت‬
‫وہ ھمی تھی مفایل کی نکار یر‪،‬ڈر تھا کہ چھوٹ یہ یکڑایا جانے‪،‬‬

‫"ا نسے کیسے۔۔۔مظلب ا تیے سال یک یو کوپی امکان نہیں تھا تھر اجایک۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل ساید یات کی نہہ جاتنا جاہ رہا تھا‪،‬‬

‫"لفظ معجزہ سنا ہے۔۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫چ س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن ت ی‬
‫ش‬
‫ل طیزیہ م کرایا‪،‬‬ ‫مڑ کر اس کے وچنہہ چہرے کو ظر ھر د نی وہ یو ھی‬

‫‪- 153 -‬‬


‫"ہاں اس دور میں قسمت والوں کے ساتھ ہونے ہیں۔۔۔"‬
‫ا تیے لفظوں سے چود کا ہی مذاق اڑایا تھا وہ‪،‬عندلیب اس کے عناپی ل بوں کی مشکراہٹ سے‬
‫نظریں خراپی تھی‪،‬دل زور سے دھڑکا تھر جلد ہی چود کو کم بوز کرپی یولی‪،‬‬

‫"یو سمجھ لو تم تھی قسمت والے ہو۔۔۔"‬


‫یاسیت زدہ سی مشکراپی وہ یولی‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔میں اور۔۔۔قسمت واال۔۔۔"‬


‫ت نفر سے کہا گنا تھا‪،‬‬

‫"انشا نہیں یو لیے۔۔۔"‬


‫سمجھانے والے ایداز میں کہنی ع ندلیب مڑی‪،‬‬

‫"سبو۔۔۔"‬
‫س‬
‫قدموں کی جاپ سے لسینل کو مجسوس ہوا وہ جارہی ہے تبھی تھر نکارا‪،‬‬

‫‪- 154 -‬‬


‫ہ‬
‫" ممم۔۔۔"‬
‫عندلیب کا قلجال اس کے سا میے رہنا مجال ہورہا تھا‪،‬چو یڑا ق نضلہ وہ چ ند لمچوں میں لے جکی تھی‬
‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫اب ڈر تھا کہ کہیں کجھ دیر اور ھی یو رو ہی یہ دے‪،‬‬

‫"تم۔۔۔ایک اچھی لڑکی ہو۔۔۔"‬


‫جییے سرد لہچے میں وہ عام دیوں میں یات کریا اتھی اتنا ہی یرم لہچہ تھا کہ عندلیب نے نےنقینی‬
‫ی‬
‫میں آ کھیں تھنالنے اسے دیکھا‪،‬وہ نہلی مرتیہ اسے کسی ا چھے چظاب سے یوازا تھا‪،‬دل نےبجاشہ‬
‫نکل نف میں تھی چھوم اتھا تھا‪،‬اتنی تم ہوپی یلکیں چھنکیے وہ کھلکھالپی‪،‬‬

‫"مجھے معلوم ہے کھڑوس۔۔۔"‬


‫س‬
‫اجایک یول کر وہ نکلی روم سے‪ ،‬لسینل ساید ا تیے سالوں نعد کھل کر مشکرایا تھا‪،‬ایک یرم‬
‫یرسکون سی مشکراہٹ چو وہ سالوں ہونے تھول چکا تھا آج اس کے ل بوں یر شچی تھی‪،‬‬

‫م‬ ‫ن‬ ‫نہ س‬


‫م‬ ‫ط‬
‫ل کی جاتب سے ین کرپی وہاں سے‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫دوسری جاتب عندلیب گرتنی سے مل کر ا یں‬
‫نکلی تھی‪،‬اسے اب ہاسینل جایا تھا‪،‬ڈاکیر سے یات کرنے‪،‬اتھی وہ را سیے میں ہی تھی کہ اس کا‬
‫فون ریگ کرنے لگا‪،‬‬
‫‪- 155 -‬‬
‫"ہنلو مام۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کی کال تھی‪،‬‬

‫"عندلیب۔۔۔پینا ئمہارے لیے ایک گڈ ت بوز ہے۔۔۔"‬


‫وہ نہت یرچوش لگ رہی تھیں عندلیب کو‪،‬‬

‫"کنا مام۔۔"‬

‫"پینا اگلے ہفیے میں تم سے ملیے آرہی ہوں۔۔۔"‬


‫ان کے اس سریرایز یر عندلیب جس یری طرح گڑیڑاپی تھی نےاجینار کار روکی تھی‪،‬‬

‫"مام۔۔اگلے ہفیے۔۔مجھ سے ملیے۔۔۔یر ک بوں۔۔"‬


‫وہ چوش ہوپی نہت اگر کو کجھ دیر نہلے واال ق نضلہ یہ لنا ہویا اس نے‪،‬یر اب اسے تنی قکر الچق‬
‫ہوپی تھی‪،‬‬

‫‪- 156 -‬‬


‫"ہاں یلکل۔۔ئمہیں چوسی نہیں ہوپی۔۔"‬
‫انہیں اس کا لہچہ سک میں مینال کنا تھا‪،‬‬

‫"آ۔۔۔یہ۔۔نہیں مام۔۔می۔۔میں نہت چوش ہوں۔۔آپ۔۔آرہی ہیں یو طاہر سی یات ہے‬


‫چوسی یو ہوگی ہی یا۔۔۔"‬
‫انہیں م نع وہ جاہ کر تھی نہیں کرسکنی تھی آخر کو نہلی یار آرہی تھیں اس سے ملیے‪،‬‬

‫"جلو تھنک ہے اب میں رکھنی ہوں۔۔۔مس قاریہ کو تھی کال کر کے تنادوں۔۔۔اور ہاں لڑکی‬
‫سبو۔۔۔یڑھاپی یر زیادہ دھنان دو انہوں نے کہا ہے اس یار تھی کجھ جاص اچھی نہیں جارہی‬
‫ئمہاری تناری۔۔۔"‬
‫یوری یات کہہ کر آخر میں اسے ڈپیییں وہ فون رکھیں‪،‬عندلیب نے یرنشاپی میں سر نےساجیہ‬
‫اسیئیریگ ویل سے نکایا لنکن کجھ ہی دیر نعد وہ چھنکے سے سندھی ہوپی‪،‬‬

‫"مام اگلے ہفیے آرہی ہیں یو ک بوں یہ سرخری اس ہفیے ہوجانے۔۔۔"‬


‫ا تیے آ تنڈنے یر چوش ہوپی وہ جلدی سے کار سنارٹ کی مگر اس سے نہلے مہناز تنگم کے ئمیر یر‬
‫فیس کے یام یر اور رقم مایگنا یہ تھولی‪،‬وہ جاتنی تھی اس کی ماں تھوڑا غصہ ہوں گی۔۔۔یر پیسے‬
‫‪- 157 -‬‬
‫الزمی اس کے اکاؤتٹ میں یرانسفر کروادیں گی۔۔۔ان پیسوں کی اس یار اسے اسد ضرورت‬
‫یڑنے والی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ تنار ہوکر ہناد کے تنانے گیے یار میں آیا تھا‪،‬انسی جگہیں اسے یلکل نسند نہیں تھیں یر دوسنی‬
‫کا تھرم رکھیے کے لیے وہ ہناد کو م نع تھی نہیں کرسکنا تھا‪،‬‬

‫"ہے ساپی۔۔۔"‬
‫ہناد کی نکار یر ساپی چو گیٹ کے یاہر گارڈ کے کجھ یوچھیے یر کھڑا انہیں چواب دے رہا تھا چویک‬
‫کر ایدر دیکھا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"اسے آنے دو۔۔۔"‬
‫ا تیے دوسبوں کے چھنڈ میں گھرا وہ گارڈ کو اسارہ کنا جس یر گارڈ نے سر ہالکر ساپی کو جگہ دی‪،‬‬

‫"نہاں آنے میں کوپی یرویلم یو نہیں ہوپی یا۔۔۔"‬

‫‪- 158 -‬‬


‫اس کا جایزہ لییے ہونے ہناد یارملی یوچھا‪،‬گرے پی سرٹ اور یلنک پی یٹ یر واتٹ چنکٹ نہنا وہ‬
‫یالوں کو کشادہ ما تھے یر یکھرے چھوڑے کہیں سے تھی عرتب نہیں لگ رہا تھا‪،‬اس کی‬
‫یرسینلنی تھی ہی انسی کہ چہاں جایا ہر کوپی مرعوب ہویا‪،‬ہناد کی پیشاپی سکبوں کا جال تنی‬
‫تھی‪،‬تھر زیردسنی مشکرایا وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔"‬
‫مشکراکر کہیے ہونے وہ ہناد کو اب یک یلکل تھنک لگا‪،‬‬

‫"میرا گفٹ یوز کنا تھا۔۔۔"‬


‫ت نفندی نظروں سے اب ساپی کو د یکھے وہ یالچھجک صاف لہچے میں یوچھا‬

‫"یلکل۔۔۔فریگرپیس نہت اچھی ہے۔۔۔"‬


‫ساپی کا مسکانے لہچے میں دیا چواب ہناد کو ہضم یہ ہوا‪،‬‬

‫اسے کجھ گڑیڑ لگی تبھی ساپی کا ا تیے دوسبوں سے نعارف کرواکر اسے ان لوگوں کے ساتھ‬
‫چھوڑکر ایکشکبوز کریا ساتنڈ یر گنا‪،‬ساتھ ہی ایک ئمیر ڈایل کنا‪،‬‬
‫‪- 159 -‬‬
‫"ہنلو۔۔۔"‬
‫دوسری جاتب سے پیند میں تھری آواز اتھری‪،‬‬

‫(ایک جاص قسم کا کبم نکل چو )‪"alkali‬یات سبو۔۔۔تم نے یرق بوم کی سیسی میں الکلی(‬
‫آیکھوں یہ تیے چفاطنی نسوز یر نہت یرا ایرایداز ہویا ہے کہ پیناپی جانے کا چظرہ ہو۔)ڈاال تھا تھی‬
‫یا نہیں۔۔۔"‬
‫ہناد کی شخت آواز یر وہ سنلزیوانے یوکھال کر اتھا‪،‬‬

‫"اوہ سوری سر۔۔۔میں تھول گنا تھا۔۔۔"‬

‫ُ‬
‫"واٹ رانش یو(گالی)۔۔۔تھو لیے کے پیسے نہیں دنے تھے ئمہیں۔۔۔"‬

‫"سو سوری سر۔۔۔می۔۔۔میرے یاس وہ اب یک ہے۔۔۔آپ مجھے کہیں یو اتھی الکر دے د ت نا‬
‫ہوں۔۔۔"‬

‫‪- 160 -‬‬


‫علظی کے مداوے کا سوچیے وہ عاخزی سے یوال‪،‬جس یر ہناد نہلے یو مڑ کر ا تیے دوسبوں سے یاپیں‬
‫کرنے ساپی کو گھورا تھر کہا‪،‬‬

‫"کوپی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ہناد سکندر ہر جیز کا ات نظام نہلے سے کرکے رکھنا ہے۔۔۔"‬
‫کہہ کر وہ کال کٹ کنا ساتھ ہی چ یب میں مویایل رکھنا وانس ساپی کے یاس گنا‪،‬‬

‫"کنا یاپیں ہورہی ہے دوسبوں۔۔۔"‬


‫ساپی کے گلے کے گرد یازو جایل کریا وہ فرت نکلی یوچھا‪،‬‬

‫"زیادہ کجھ نہیں نس پیرے اس دوشت کی آیکھوں کا ریگ نہت چونصورت ہے۔۔۔وہی تنارہے‬
‫تھے اسے۔۔۔"‬
‫اس کے ایک دوشت نے طیزیہ مشکراہٹ سمیت کہا‪،‬‬

‫"ہاں یہ یو ہے۔۔۔"‬
‫ہناد تھی اب ساپی کو دیکھ کر یوال جس یر اس نے ضرف مشکرانے یر اک نفاء کنا‪،‬‬

‫‪- 161 -‬‬


‫"جل میرے دوشت۔۔۔"‬
‫اس کا کندھا ہالنے ہناد کہیے لگا‪،‬‬

‫"کہاں۔۔؟"‬

‫"یارپی میں اور کہاں۔۔۔"‬

‫"یر یارپی کے لیے جگہ یو تم نے یہ تناپی تھی۔۔۔"‬


‫ساپی الجھا تھا اسکی یات یر تبھی یوچھا‪،‬‬

‫م‬
‫"ا ہمم۔۔اصل جگہ یہ نہیں کہیں اور ہے۔۔۔تم جلو یو۔۔"‬
‫اب کی یار ہناد اسے یاقاعدہ ا تیے ساتھ لے کر نکلیے لگا یار سے‪،‬اس کے دوشت تھی ان دویوں‬
‫کے ساتھ ساتھ تھے‪،‬‬

‫ّ‬ ‫ّ‬
‫یار سے نکل کر وہ لوگ بجھلے چصے میں تندل آنے تھے‪،‬داجلی چصے یر جینی رویق ریگییناں اور سور‬
‫تھا نہاں اتنا ہی سنایا اور ایدھیرا ہورہا تھا‪،‬‬
‫‪- 162 -‬‬
‫"ہم نہاں یارپی کرنے والے ہیں۔۔۔"‬
‫جاروں طرف نظر دوڑانے ہونے ساپی گردن موڑ کر ا تیے سایہ نشایہ جلیے ہناد سے یوچھا‪،‬‬

‫"ہاں یلکل۔۔۔اب سروع ہوپی ہے یارپی۔۔۔"‬


‫ئمسجر سے کہنا ہناد چ یب میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوپی سیسی نکاال تھا‪،‬کسی قسم کا سیرے تھا‬
‫وہ‪،‬اس میں کجھ مجلول تھا‪،‬ساپی اتھی جیران کن نظروں سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ ہناد تھر یوال‪،‬‬

‫"ئمہیں دتنا دیکھیے کا سوق ہے۔۔۔؟"‬


‫ہاتھ میں سیسی اچھالنا ہناد سیحندگی سے یوچھا‪،‬‬

‫"نےجد۔۔۔"‬

‫"اگر یہ سوق ضرف سوق ہی رہے یو کنا کروگے تم۔۔"‬


‫ساپی کے چواب یر وہ تھر یوچھا‪،‬‬

‫‪- 163 -‬‬


‫"مظلب۔۔۔"‬
‫ساپی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس قدر عح یب سواالت ک بوں کررہا ہے اس سے‪،‬‬

‫"مظلب۔۔۔اگر تم تھر کبھی دت نا دیکھ ہی یہ سکو۔۔۔یہ سوق سوق ہی رہ جانے یو کنا‬


‫کروگے۔۔۔"‬

‫ً‬
‫"محیت کروں گا۔۔۔اور نقینا دتنا گھوموں گا دیکھوں گا۔۔۔اتنی قایلیت یر اتنا یو تھروشہ ہے‬
‫مجھے۔۔۔"‬
‫رسات یت سے کہنا ساپی ہلکا سا ہیشا‪،‬‬

‫"اور اگر میں ئمہاری یہ قایلیت تم سے چھین لوں تھر۔۔۔"‬


‫س‬ ‫ً‬
‫اجایک ہیبم نفرت سے نفرتنا تھ نکارا تھا اور ساپی کے تنا کجھ اور مجھیے سے نہلے ہی وہ سیسی اسکی‬
‫چ نک ی‬
‫آیکھوں کے فرتب کریا دو پین مرتیہ سیرے کنا‪،‬ساپی کے میہ سے نےاجینار یخ لی‪،‬آ یں یحنا‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫م س‬
‫وہ اتھی اجایک ہونے چ لے کو ھیے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ ہناد جب سے جاموش ھڑے‬
‫ک‬ ‫مج‬
‫ا تیے دوسبوں کو اسارہ کنا تھا‪،‬‬

‫‪- 164 -‬‬


‫اس کا اسارہ کریا تھا اور وہ یابچوں ایک ساتھ ہی ساپی یر یوٹ یڑے‪،‬یری طرح اسے ان لوگوں‬
‫سے پییے دیکھ ہناد قلذہ کا ئمیر ڈایل کنا تھا‪،‬‬

‫"اس کمییے کا جسر دیکھنا جاہو گی۔۔۔"‬


‫اس کے رنسبو کرنے یر وہ یوچھا‪،‬‬

‫"یلکل۔۔۔سدت سے دل جاہ رہا ہے۔۔۔"‬


‫ہناد کے تیجھے ساپی کی چیخ سمیت اس کے دوسبوں کے میہ سے نکلنی گال بوں کی آواز سن کر‬
‫قلذہ یرسکون سی یولی‪،‬‬

‫"یو تھر آجاؤ۔۔۔یار(۔۔۔۔۔) کے تیجھے۔۔۔"‬


‫قلذہ کی آمادگی یر کال کٹ کریا وہ اس طرف دیکھا چہاں ساپی اب ادھ موا ہوچکا تھا ان لوگوں‬
‫سے پییے ہونے لنکن اس کے دوشت تھی ساید اس ہی کی طرح تبھر دل تھے چو اس کی‬
‫دلجراش چیچوں یر تھی اتنا ہاتھ نہیں روک رہے تھے‪،‬سور کی آواز یر یار کے یاہر کھڑے گارڈ اس‬
‫چصے یر آنے تھے یر ہناد نے چند یویوں کے یوسط یڑی جاالکی سے ان کا میہ تند کروایا ساتھ ہی‬

‫‪- 165 -‬‬


‫کجھ ہداتت دیا تھا‪،‬وہ دویوں گارڈ ایک نظر زمین یر یڑے نکل نف میں کرا ہیے ساپی کو دیکھ سر‬
‫ہالنے وہاں سے جلے گیے‪،‬‬

‫"تیج ھے ہ بو۔۔۔"‬
‫وہ چو اب ہاتھ کے نعد اس یر الیوں سے تھوکر ماررہے تھے ہناد کی آواز یر تیجھے ہیے‪،‬‬

‫"انےیار۔۔۔تھوڑا یو اور ہاتھ صاف کرنے دے۔۔۔یڑا مزہ آرہا ہے مارنے میں۔۔۔"‬
‫اس کا ایک دوشت چماد یوال تھا‪،‬ہناد اسے اگبور کریا چون سے یر چہرے میں یڑے ساپی کے یاس‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫جا کر چھکا‪،‬چو اب یک آ یں یچے کراہ رہا تھا‪،‬اس کی آ ھوں سے ھی اب یاقاعدہ چون لیے لگا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"یو دوشت۔۔۔کیشا قنل ہورہا ہے اب۔۔۔"‬


‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ئمسک تب ی‬
‫ہناد کی آواز یر وہ ل م آ یں وا کنا تھا‪،‬دھندال۔۔۔‪ ،‬اتنہاپی دھندال ظر آیا تھا اسے ہناد کا‬
‫ت ی‬
‫چہرہ‪،‬آیکھوں میں مرچ بوں سے تھی یدیر جلن ہورہی تھی جس کے یاعث وہ ھر آ یں یجا‪،‬‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫"کک۔۔ک بوں۔۔کنا۔۔انس۔۔انشا۔۔۔دو۔۔دوشت۔۔۔ما۔۔ماتت۔۔ماتنا تھا۔۔۔تم۔۔"‬


‫‪- 166 -‬‬
‫یاک اور میہ سے نکلیے چون اور درد سے جسم یو تیے کے یاعث وہ ئمسکل یول کر رکا‪،‬ساتھ ہی‬
‫گہرے سانس لییے لگا‪،‬‬

‫"ہا۔۔۔دوشت۔۔۔یہ دوسنی تھی یہ۔۔۔دکھیے میں جینی اچھی لگنی ہے ایدر سے اتنی ہی زہریلی‬
‫ُ‬
‫ن‬
‫ہوپی ہے۔۔۔اور دوشت یو مات نا تھا مجھے۔۔۔میں یو ہیں۔۔۔"‬
‫ساپی کے یالوں کو زور سے جکڑ کر اس کے چہرے کو اوبجا کریا وہ عرایا‪،‬‬

‫"کمییے۔۔۔ہناد سکندر سے یات کرنے کی پیری اوقات نہیں تھی۔۔۔تھر تھی میں نے بجھے‬
‫ُ‬
‫ن‬
‫دوشت تنایا اور یو۔۔۔دوسنی کی آڑ میں میری ہن کے ساتھ یدئمیزی کرنے کی کوشش کریا‬
‫ہے۔۔۔"‬
‫نےتناہ ت نفر سے کہہ کر ہناد کھڑا ہوا ساتھ ہی اس کے ہاتھ یر سوز رکھا‪،‬وہ چو نہلے ہی نکل نف سے‬
‫مرنے کو تھا اس یر ضنط کی اتنہا کو نہیحنا شحنی سے لب تھییجا‪،‬‬

‫ُّ‬
‫"نہلے ڈیڈ کے سا میے اچھا تنا تھر مام اور تھر میری نہن کو تنانے لگا‪،‬بجھے کنا لگنا ہے میں الو‬
‫ُ‬
‫ہوں چو پیری جاالک بوں سے واقف یہ رہ یاؤں گا۔۔۔یو جس گندی ت یت سے سکندر وال آیا‬

‫‪- 167 -‬‬


‫تھا۔۔۔میں نے سوجا ک بوں یاں اس میں دوسنی یامی فرتب ڈال کر بجھے پیری اوقات یاد دالپی‬
‫جانے۔۔۔"‬
‫وہ چو تیچے یڑا یہ سوچ رہا تھا کہ مفایل کھڑا اس کا دوشت نہن کی محیت میں ایدھا ہوا ہے اس‬
‫یر اب آسکار ہوا تھا کہ وہ انشان سروع سے ہی دوسنی کا یایک کررہا تھا اس کے ساتھ‪،‬‬

‫"تھاپی۔۔۔"‬
‫ً‬
‫قلذہ کی آواز یر وہ چو سوز سے نفرتنا اس کے ہاتھ کو کجلیے کی کوشش میں تھا رک کر یلنا‪،‬‬

‫"تم لوگ جاؤ۔۔۔"‬


‫ا تیے دوسبوں کو وہاں سے تھیج کر اب وہ قلذہ کو دیکھ کر ہیشا‪،‬‬

‫"جینا ہوسکا اتنا معزور یو کرچکا ہوں۔۔۔یافی ئمہیں تھی کوپی کسر ایارپی ہے یو ایارلو۔۔۔"‬
‫ہناد کی یات یر وہ چند قدم کا قاصلہ طے کرپی اس کے یاس آپی یو ہناد تھوڑا تیجھے ہوا‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔اس آدھی الش کے ساتھ اب اور کنا ِکنا جاسکنا ہے۔۔۔نس اتنا کہوں گی کہ۔۔"‬

‫‪- 168 -‬‬


‫ی‬
‫یات روک کر ئمسجر اڑاپی نظروں سے ساپی کے وچود کو د نی وہ کی ھر نہاتت ہی د می‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫سرگوسی میں یولی‪،‬‬

‫"امند ہے کہ یاد رہے گا قلذہ سکندر کو تھکرانے کا یہ ابجام۔۔۔"‬


‫م‬
‫اتنا چملہ کمل کرپی وہ چھنکے سے اتھی‪،‬تھر ہناد کو وہاں سے جلیے کا کہہ کر مڑی‪،‬ساپی نے ایک‬
‫آخری مرتیہ تھر آت بوس ریگ چونصورت مگر چون آلود آیکھوں کو ئمسکل کھول کر دھندالپی نظروں سے‬
‫ا تیے سے دور جانے ان دویوں تھاپی نہبوں کو دیکھا تھر نہت مسکل سے یلند آواز میں یوال‪،‬‬

‫"دو۔۔۔دوسنی جیسے چونصورت رشت۔۔رسیے کا مذاق ین۔۔تنایا ہے تم‬


‫نے۔۔۔ہن۔۔ہناد۔۔سکندر۔۔۔یہ۔۔نہت جلد۔۔۔اس کی سز۔۔سزا ئمہ۔۔ئمہیں این۔۔ا تیے‬
‫ہاتھ۔۔ہاتھوں سے دوں گا۔۔۔"‬
‫یال کا کرب تھا اس کے لہچے میں ہناد نےساجیہ قہقہہ لگایا‪،‬‬

‫س‬
‫"مجھے سزا تب د ت نا جب چود دیکھیے الیق ین جاؤ۔۔۔ ل مراد۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬

‫‪- 169 -‬‬


‫س‬
‫وہ کہہ کر مڑا تھا اور لسینل کی آیکھوں میں ہمیشہ کے لیے چھایا ایدھیرا اس کے ذہن میں تھی‬
‫یاریکی کو مدفون کرگنا‪،‬رات تھر وہ ہوش و چواس سے ت نگایہ وہاں تبم مردہ جالت میں یڑا رہا‪،‬صیح‬
‫کجھ لوگوں نے دیکھا یو ائم بولییس کے ساتھ ساتھ یولیس کو تھی کال کی‪،‬‬

‫س‬
‫لسینل کو یو ہاسینل لےجایا گنا تھا یر یولیس نے جب گارڈز سے نفییش کی اس یارے میں یو‬
‫ان کا صاف کہنا تھا کہ کل رات وہ لڑکا ایک لڑکی کے ساتھ زیردسنی کرنے کی کوشش کررہا‬
‫س‬
‫تھا تبھی وہاں یر کجھ لڑکوں نے اسے دیکھا یو ت یٹ ڈاال‪،‬دوسری جاتب گھر یر لسینل کی یاتت‬
‫دریاقت کرنے سکندر صاجب کو جب ہناد نے یہ تنایا کہ وہ رات کو نسے کی جالت میں سکندر‬
‫صاجب کے ایک دوشت کے یار کے پیروپی چصے میں یڑا مال ہے یو انہیں کافی جیرت ہوپی‪،‬اتنی‬
‫س‬
‫جیرت میں وہ ہناد سے یہ یک یوچھیے کا یہ سوچ یانے کہ اسے کیسے جیر کہ لسینل یار کے‬
‫بجھلے چصے میں یڑا مال ہے‪،‬سکندر صاجب نے تنا وقت صا نع کیے اس یار کا رخ کنا تھا تھر گارڈ‬
‫سے شب دریاقت کریا جاہا یو گارڈ نے کل رات ہناد کا ریا ریایا چو یولیس کو تنایا وہی انہیں تھی‬
‫تنادیا‪،‬ان شب کے نعد سکندر صاجب کو جب نقین یہ آیا یو وال میں وانس آنے انہوں نے یہ‬
‫س‬
‫ت‬
‫ل اس کے ساتھ ھی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یات مہناز تنگم کے سا میے رکھی‪،‬تبھی قلذہ نے ایک تیہ تھی نکا کہ‬
‫کینی یار یدئمیزی کرنے کی کوشسیں کرچکا ہے‪،‬پینی کی یات سن کر سکندر صاجب نےنقین‬
‫س‬
‫ہونے کے ساتھ ساتھ نہت ربحندہ تھی ہونے‪،‬انہیں نقین نہیں تھا کہ لسینل اس قسم کا‬
‫‪- 170 -‬‬
‫ہوگا‪،‬ہیبم کو یو کسی ظور اس یات یر نقین یہ آیا تھا یر نہن کی گواہی کے آگے وہ تھی جاموش‬
‫س‬
‫ہوچکا تھا‪،‬کجھ یو لیے کو تھا ہی کنا جب وہ دلیری سے کہہ رہی تھی لسینل علط انشان تھا‪،‬‬

‫اس وا قعے کے دو دن نعد سکندر صاجب نے مراد صاجب کو کال کر کے دوسرے شہر سے‬
‫س‬
‫یلوایا تھا‪،‬ان کے آنے یر وہ مراد صاجب کو اس ہاسینل میں لے کر گیے چہاں لسینل ایڈمٹ‬
‫تھا تھر صاف لفظوں میں انہوں نے مراد صاجب کو کہہ دیا کہ وہ اب ان کے کریکیرلیس پییے‬
‫کو ا تیے گھر یر کوپی جگہ نہیں دے سکیے‪،‬مراد صاجب کو سکندر صاجب کا روکھا لہچہ نکل نف دیا تھا‬
‫کہ وہ دویوں کافی یرانے دوشت تھے‪،‬یر ا یکے شب تنانے کے نعد وہ چود سرمندگی سے جاموش‬
‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬
‫ل کافی جد یک‬ ‫ی‬ ‫تھے‪،‬سکندر صاجب نے ان یر اتنا ضرور اجشان کنا تھا کہ دو ہفیے نعد جب‬
‫ت‬
‫ضخت یاب ہوا یو ہاسینل کا یل چود ادا کنا اور دویوں یاپ پی بوں کو آیاپی شہر ھیحیے کا ات نظام تھی‬
‫چود ہی کنا‪،‬جب سے ڈاکیر نے مراد صاجب کو تنایا تھا کہ ان کے پییے کی پیناپی اب کبھی وانس‬
‫س‬
‫نہیں آسکنی وہ نےجد نکل نف میں تھے‪،‬ا تیے شہر آنے کے نعد انہوں نے لسینل سے یہ کوپی‬
‫سوال کنا یہ اسے ڈاتنا‪،‬وہ نس جاموش ہو گیے تھے‪،‬‬

‫ی‬ ‫س‬
‫دریہ تنگم نے لسینل کی جالت د ھی یو چوب بھک کر رو یں کن ھر ا ہوں نے اس کا‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫پ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬

‫چنال رکھیے میں خی جان لگادی‪،‬اتھی وہ یونے کی جالت کے عم سے ہی یہ نکلی تھیں جب ایک‬
‫‪- 171 -‬‬
‫رات مراد صاجب کو دل کا دورہ یڑا‪،‬اور وہ یونہی جپ جاپ دتنانے قاپی سے کوچ کرگیے‪،‬اس‬
‫س‬
‫یوری رات لسینل رویا تھا‪،‬نےبجاشہ بچوں کی طرح چیخ چیخ کر۔۔۔‪،‬جیسے کوپی قبمنی ایایہ کھوگنا‬
‫ہو۔۔۔اور یہ شچ ہی یو تھا‪،‬جس قدر وہ محیت کریا تھا ا تیے یاپ سے۔۔۔‪،‬ان کا یوں اجایک جلے‬
‫جایا کیسے یرداشت کرلینا‪،‬‬

‫س‬
‫دن گزرے مہییے اور تھر ایک سال۔۔۔‪،‬شب کجھ وقت کی دیکھ ریکھ میں جلنا یر لسینل مراد‬
‫رک چکا تھا‪،‬ا تیے چوایوں سمیت زیدگی کے ایک ہی موڑ یر رک چکا تھا وہ‪،‬زیدگی سے اسے ایک‬
‫نہاتت ہی تھنایک نہلو دکھایا تھا انشا کہ اب وہ چود کجھ دیکھیے الیق یہ رہا تھا‪،‬وچنہہ ہر یل مشکرایا‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چہرہ اب سناٹ ہوچکا تھا‪،‬جالی آ یں ہر دم سرد یو دل یں الگ ہی انگارے لیے‪،‬یدلے کے‬
‫انگارے‪،‬چو ا تیے مجرموں کو جال کر راکھ کرنے کے لیے ا یلیے رہیے ہوں۔۔۔‪،‬وہ اس وقت کا‬
‫س‬
‫می نظر تھا جب یہ موقع اسے قسمت یوازپی‪،‬اور لسینل کو نقین تھا کہ یہ موقع الزمی ملے گا اسے‬
‫ایک دن۔۔‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"کہاں کی ت ناری ہے مام۔۔۔؟"‬


‫‪- 172 -‬‬
‫قلذہ مہناز تنگم کے روم میں آپی تھی یر وہاں انہیں ا تیے اور سکندر صاجب کے لیے مالزمہ سے‬
‫ہینڈ کیری میں کیڑے رکھوانے دیکھ جیرت سے یوچھی‪،‬‬

‫"ئمہاری نہن کے یاس جانے کی۔۔۔"‬


‫مڑ کر انہوں نے مشکرانے ہونے چواب دیا‪،‬‬

‫"یر آپ نے یو یرسوں اسے تنایا تھا کہ اگلے ہفیے جاپیں گی۔۔۔"‬


‫وہ سدید جیرت میں مینال ہوپی‪،‬‬

‫"ہاں۔۔۔یر میں نے سوجا اگلے ہفیے کے بجانے ک بوں یہ اسی ہفیے جاکر سریرایز دوں‬
‫اسے۔۔۔و نسے تھی نہت ِمس کررہی ہوں اتنی بچی کو۔۔"‬
‫ت‬
‫عندلیب کے یارے میں سوچیے ہی وہ کھونے ہونے لہچے میں یولیں‪،‬قلذہ نے لب ھییچ‬
‫لیے‪،‬تنکھے چ بون سے انہیں گھورپی وہ یولی‪،‬‬

‫"کبھی اس پینی کو تھی دیکھ ل نا کریں۔۔۔ہر وقت اسے ہی مس کرپی رہنی ہیں۔۔۔"‬
‫نہت چبھنا ہوا لہچہ تھا اس کا‪،‬مہناز تنگم چویکی تھر یولیں‪،‬‬
‫‪- 173 -‬‬
‫"تم یو ہر وقت نظروں کے سا میے ہوپی ہو میری جان چنکہ وہ ا تیے سوق میں ہم شب سے‬
‫دور۔۔۔"‬
‫اس کے گال یر ہاتھ تھیرپیں مہناز تنگم کے لہچے میں آخر میں اداسی گھلی‪،‬ایک ابجانے جدسے‬
‫سے بجانے ک بوں ان کا دل نہت گ ھیرانے لگا تھا تبھی وہ اگلے ہفیے کی جگہ اس ہفیے جانے کا‬
‫سوخی تھیں‪،‬‬

‫اتنی سوچوں سے نکل کر مہناز تنگم ہوش میں آ پیں جب قلذہ ان کا ہاتھ چھنک کر پیزی میں روم‬
‫سے نکلی‪،‬اس کی خرکت یر نفی میں سر ہالپی وہ مڑی اور مالزمہ کو دوسری ہدایات د تیے لگیں۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫س‬
‫آج ہفیہ تھا‪ ،‬لسینل کی سرخری کا دن‪،‬اس کے کہیے کے مظایق کل رات کو فرمان دریہ تنگم‬
‫ن‬ ‫ی‬‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کو ہا ل لے گنا تھا‪،‬وہ ایڈمٹ تھا رات سے وہاں یر‪،‬اب عندلیب کو‬ ‫کے ساتھ‬
‫تب س‬
‫م‬ ‫ی‬‫س‬
‫ل کی ئمام ریورنس وہ بھال کر ا تیے یرس یں رکھ رہی‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫جلدی تھی ہاسینل جانے کی‪ ،‬ھی‬
‫تھی‪،‬‬

‫‪- 174 -‬‬


‫"آج تھی کالج ت نک کرنے کا ارادہ ہے۔۔۔؟"‬
‫عندلیب کو کالج یوت نفارم میں یہ دیکھ کر اس کی روم میٹ نے یوچھا جس یر عندلیب کا پیزی‬
‫میں جلنا ہاتھ رکا‪،‬ایک اداس مشکراہٹ نے اس کے گالپی ل بوں کا اجاطہ کنا‪،‬اب ساید ہی وہ‬
‫کبھی کالج جاپی‪،‬‬

‫"تناؤ۔۔۔"‬
‫اس کی آواز یر عندلیب چویکی تھر سر چھنک کر یولی‪،‬‬

‫"نہیں۔۔"‬

‫"عندل یب ِمس قاریہ غصہ ہوں گی تم یر۔۔۔ئمہیں تنا ہے یا وہ ئمہاری ہر ایک ریورٹ ئمہاری مام‬
‫یک نہیجاپی ہیں۔۔۔اور آنے والے ہفیے کو یو ئمہاری مام نہاں آ پیں گی۔۔۔تھر کنا چواب دو گی‬
‫انہیں۔۔۔"‬
‫رتیہ کی یان سناپ یایوں یر عندلیب نے کابچ ئما آیکھوں کو گھومایا‪،‬‬

‫"قلجال تم میری مام مت ت بو۔۔۔"‬


‫‪- 175 -‬‬
‫اسے یال تنانے دیکھ وہ یولی ساتھ ہی مویایل ریگ کرنے یر چویک کر رنسبو کی‪،‬‬

‫"خی گرتنی میں نس آرہی ہوں۔۔۔"‬


‫دریہ تنگم کو یولنی وہ فون رکھی تھر جلدی سے یرس اتھاپی روم سے نکلیے لگی‪،‬اسے چوسی یو نہت‬
‫تھی یر ساتھ ہی ڈر تھی نےبجاشہ لگ رہا تھا‪،‬اور وہ ڈر عندلیب سکندر کو ا تیے لیے نہیں یلکہ‬
‫ا تیے مح بوب کے لیے تھا وہ دعا گو تھی کہ چو ق نضلہ وہ کرجکی ہے اس میں تھلے اسے کجھ‬
‫س‬
‫ہوجانے یر لسینل کی پیناپی الزمی وانس آجاپی جا ہیے۔۔‪،‬‬

‫"لڑکی جا کہاں رہی ہو۔۔۔؟"‬


‫چ‬ ‫ً‬
‫اسے گیٹ سے نکلیے دیکھ رتیہ فورا یو ھی‪،‬‬

‫"(۔۔۔۔۔) ہاسینل۔۔۔"‬
‫کنی سوچوں میں گھرے وہ نےدھناپی میں اسے تناپی نکلی‪،‬‬

‫"ہیں۔۔۔یر ہاسینل ک بوں جارہی ہو۔۔۔"‬


‫رتیہ کا سوال ہوا میں ہی اڑا‪،‬وہ جاجکی تھی‪،‬‬
‫‪- 176 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"سرخری نس تندرہ میٹ میں سنارٹ ہوگی۔۔۔آپ پیسیٹ سے اگر ملنا جاہنی ہیں یو ِمل‬
‫لیں۔۔۔ک بویکہ تھر وارڈ میں جایا ہے آپ نے۔۔۔"‬
‫اس کے آنے یر ڈاکیر ہارون نے پیشہ ورایہ ایداز میں کہا‪،‬‬

‫"خی۔۔۔آ۔۔۔ڈاکیر آپ نے پیسیٹ یا ان کے ساتھ آنے والی ریلی بوو کو تنایا یو نہیں یا۔۔۔"‬
‫ا تیے ڈر یر قایو یاپی وہ یوچھی‪،‬‬

‫"نےقکر رہیں انہیں کجھ نہیں معلوم۔۔۔لنکن ایک سوال یوچھنا جاہوں گا۔۔۔"‬
‫م‬
‫ڈاکیر ہارون نے اسے طمین کر کے سیحندگی سے کہا یو عندلیب نے سر اتنات میں ہالیا‪،‬‬

‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬


‫"آپ چو کررہی ہیں سبور ہیں اس کے لیے۔۔۔د یں آپ کی مر ھی چہاں ک گنا ہے ا نی‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ھ‬
‫نہیں۔۔۔"‬

‫"‪ 20‬سال کی ہوں ڈاکیر اور ا تیے ق نضلے چود کرنے جاتنی ہوں۔۔۔"‬
‫‪- 177 -‬‬
‫لہچے کو ُیراعبماد تناپی وہ اتنی عمر ایک سال یڑھا کر تناپی تھی جس یر ڈاکیر ہارون جپ ہونے‪،‬تھر‬
‫سر اتنات میں ہالکر یولے‪،‬‬

‫"پیسیٹ سے مل لیں۔۔۔"‬
‫مح نصر یات کہہ کر وہ گیے تھے‪،‬‬

‫س‬
‫عندلیب نے اس وارڈ کا ُرخ کنا چہاں لسینل ایڈمٹ تھا‪،‬یاہر فرمان کھڑا تھا اس نے تنایا دریہ‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تنگ س‬
‫گ‬ ‫ی‬
‫ل کے ساتھ یں‪،‬عندلیب نے ا ک ہرا سانس ھر کر چود کو یار ل کنا کن یار‬ ‫م ایدر‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫یار آ یں م ہورہی یں اس کی‪،‬‬

‫"ایدر آسکنی ہوں۔۔۔"‬


‫گیٹ تبم وا کرپی وہ لہچے کو یلکل ہشاش نشاش تناکر یولی‪،‬‬

‫"ئمہیں اجازت کی ضرورت ہے لڑکی۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے ہاتھ کو تھامی دریہ تنگم نے مشکراکر کہا یو عندلیب ہلکا سا ہیس کر ایدر داجل ہوپی‪،‬‬

‫‪- 178 -‬‬


‫"یو۔۔۔کنا یات ہورہی ہیں دادی یونے کے درمنان۔۔۔"‬
‫س‬
‫ازلی یرسکون لہچہ تھا‪،‬الییہ کابچ ماتند آیکھوں نے نظر تھر کر لسینل کو دیکھا‪،‬‬

‫"تم لوگ یات کرو۔۔۔میں آپی ہوں۔۔۔"‬


‫دریہ تنگم یرمی سے کہنی وارڈ سے نکلیں‪،‬‬

‫"کیشا لگ رہا ہے۔۔۔؟"‬


‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل سے یوچھا جس یر اس کے لب نہاتت آ گی‬ ‫ان کے جانے کے نعد عندلیب نے‬
‫سے مشکرانے‪،‬‬

‫"چوسی تھی ہے۔۔۔یر ڈر تھی۔۔۔"‬


‫وہ یوال یو عندلیب نے نشلی د تیے کے عرض کہا ساتھ ہی یرمی سے اس کے مضبوط ہاتھ یر اتنا‬
‫ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫"کجھ نہیں ہوگا۔۔۔سرخری زیادہ یڑی نہیں ہے۔۔۔"‬

‫‪- 179 -‬‬


‫"مجھے ا تیے لیے ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔"‬
‫عندلیب کے دالشہ د تیے یر وہ کہا تھا‬

‫"تھر۔۔"‬

‫ً‬
‫"تم وعدہ کرو۔۔۔سرخری کے فورا نعد میرے یاس آؤ گی۔۔۔اور جب یک مجھے ہوش یہ آنے‬
‫میرے ساتھ ہی رہو گی۔۔۔"‬
‫آج نہلی یار اسے عح یب سا ڈر لگ رہا ت ھا جیسے کجھ علط ہونے واال ہو‪،‬تبھی ا تیے ہاتھ یر ر ک ھے‬
‫عندلیب کے ہاتھ یر دوسرا ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دیایا یوچھا‪،‬‬

‫ادھر عندلیب کی جالت عیر ہوپی‪،‬آنسو نےساجیہ نکلے تھے آیکھوں سے اور دل کایوں میں‬
‫دھڑ کیے لگا مفایل کے تھاری ہاتھوں میں مضبوطی سے مفند اتنا ہاتھ دیکھ‪،‬‬

‫"کرو وعدہ۔۔"‬

‫س‬
‫لسینل کی گھمئیر آواز یر وہ ہوش میں آپی یولی‪،‬‬
‫‪- 180 -‬‬
‫"میں ئمہارے ساتھ تھی ہوں اور رہوں گی۔۔۔وعدہ ہے میرا۔۔۔"‬
‫س‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کا پییے دل یر قایو یاکر اس نے آہسنگی سے اتنا ہاتھ چھڑایا جاہا یر تبھی نےاجینار ہوکر‬
‫چھنکے سے اسے اتنی طرف کھییجا تھا اور عندلیب سندھا اسکے سییے سے آلگی‪،‬اسکے گرد دویوں یازوؤں‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫سلسین ن ً‬
‫م‬ ‫ی‬‫ق‬ ‫م‬
‫ل فرتنا یجا تھا اسے چود یں کہ عندلیب نے نی یں ششک کر رہ‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫کو جایل کیے‬
‫گنی‪،‬وہ اسے گلے لگایا تھا ا تیے‪،‬جب یک اتنی نےنقینی سے نکل کر وہ ہوش کی دتنا میں آپی‬
‫س‬
‫لسینل اسے یرمی سے دور کرچکا تھا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"آپی لوو یو۔۔۔"‬
‫ا تیے جذیات کا اظہار اس نے اتنہاپی ہلکی سرگوسی میں کنا تھا یر عندلیب ل بوں کی خرکت سمجھ‬
‫س‬
‫جکی تھی مگر اتھی وہ اس جالت میں نہیں تھی کہ لسینل کو کوپی چواب د تنی‪،‬دل ہی یری‬
‫طرح دھڑک رہا تھا‪،‬ایک جگہ چوسی تھی کہ مفایل نے اس سے اظہار کنا یو دوسری جاتب آنے‬
‫والے وقت کا سوچ کر دکھی تھی‪،‬اصل دکھ نہی تھا کہ اب وہ کبھی ا تیے مح بوب کا یہ دیکھ یانے‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ک‬‫ی‬
‫گی‪،‬ایک مرتیہ تھر وہ دل تھر کر اسے د ھی ھر پیزی یں روم سے لی وریہ یو اسے ین تھا کہ‬
‫ق‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫اب وہ رو دے گی یری طرح‪،‬‬

‫‪- 181 -‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ت‬ ‫ی‬‫پ‬
‫کالس چبم ہونے والی تھی رتیہ ت نگ تنک کیے ھی ہوپی ھی کہ ھی الس روم یں ع ندلیب‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ب‬

‫کی آپی اور مہناز تنگم داجل ہوپیں‪،‬‬

‫"ایکشکبوز می ِمس۔۔۔"‬
‫مس قاریہ نے لنکجر د تنی تیجر کو کہا ساتھ ہی سدید یرنشان کھڑی مہناز تنگم کے ساتھ رتیہ کے‬
‫جاتب آ پیں‪،‬‬

‫"مبم یہ ہیں عندلیب کی کالس میٹ۔۔۔پینا یہ عندلیب کی مدر ہیں۔۔۔"‬


‫رتیہ کی طرف اسارہ کرپی وہ یولیں‪،‬‬

‫"ہنلو آ تنی۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کو دیکھ کر وہ یولی‪،‬‬

‫"مس ہمیں ان سے کجھ یات کرپی ہے۔۔۔"‬


‫‪- 182 -‬‬
‫تیجر کی یرمیسن لے کر وہ لوگ یاہر آ پیں رتیہ سمیت‪،‬‬

‫"پینا کنا آپ جاتنی ہیں عندی کہاں ہے۔۔۔؟"‬


‫مہناز تنگم نے یاہر آنے ہی رتیہ سے یوچھا‪،‬ان کے یایرات سے لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت‬
‫نےجد تییسن میں ہیں‪،‬‬

‫"یو آ تنی۔۔"‬

‫" بچے صیح کالج کے لیے نکلیے سے نہلے عندلیب کی آپ سے کجھ یات ہوپی تھی۔۔۔"‬
‫اور مس قاریہ کی اس یات یر رتیہ کو عندلیب سے کی گنی یات یاد آپی‪،‬‬

‫"خی آ تنی۔۔۔"‬

‫"کنا یات ہوپی تھی۔۔؟"‬

‫"آ تنی زیادہ کجھ نہیں نس اس کا آج ارادہ نہیں تھا کالج آنے کا اور وہ کہیں جارہی تھی۔۔۔"‬
‫‪- 183 -‬‬
‫اتنی اور ع ندلیب کی یات یاد آنے یر وہ یولی‪،‬‬

‫"کہاں جارہی تھی۔۔؟"‬


‫مہناز تنگم کے لہچے میں دتنا چہاں کی نےجینی تھی‪،‬‬

‫"کہاں۔۔۔ہاں آ تنی وہ (۔۔۔۔۔۔) ہاسینل جارہی تھی۔۔۔"‬


‫رتیہ کے چواب یر مہناز تنگم سمیت مس قاریہ تھی اتنہاپی جیران کن نظروں سے اسے دیکھیے‬
‫لگیں‪،‬‬

‫"یر وہ وہاں ک بوں گنی۔۔۔"‬


‫اب کی یار مہناز تنگم کجھ گ ھیراپی تھیں‪،‬ذہن میں نےساجیہ عندلیب کا فیس کے یام یر اتنی‬
‫یڑی رقم مایگنا یاد آیا‪،‬‬

‫"تیہ نہیں آ تنی یہ یو اس نے نہیں تنایا۔۔۔"‬


‫اور مہناز تنگم نے اس چواب کے نعد جلدی سے یرنسنل آقس کا رخ کنا چہاں سکندر صاجب‬
‫یرنشاپی سے جکر لگارہے تھے‪،‬‬
‫‪- 184 -‬‬
‫"سکندر وہ (۔۔۔۔۔) ہاسینل گنی ہے۔۔۔"‬
‫گ ھیراکر انہوں نے سکندر صاجب کو تنایا‪،‬‬

‫"یر عندی وہاں یر کبوں گنی ہے۔۔۔"‬

‫"مجھے نہیں معلوم۔۔۔سکندر جلیں ہم وہی جلیے ہیں ساید کجھ جیر ہو۔۔"‬
‫ان کی یات یر سکندر صاجب اتنات میں سر ہالنے عندلیب کے کالج سے نکلے‪،‬وہ لوگ اسے‬
‫سریرایز د تیے نہاں آنے تھے یر نہاں آکر چود سریرایز تب ہونے جب ِمس قاریہ نے انہیں تنایا‬
‫کہ عندلیب کا کجھ ایا تنا نہیں ہے نہاں یک کہ اس کا فون تھی تند جارہا ہے‪،‬اس وقت وہ‬
‫لوگ نہت یرنشان ہونے مگر جب مس قاریہ نے عندلیب کی روم میٹ کے یارے میں انہیں‬
‫تنایا تب ان لوگوں کا رخ عندلیب کی کالج کے جاتب ہوا تھا‪،‬اور اب رتیہ سے یہ جان کر کہ‬
‫عندلیب ہاسینل گنی ہے وہ لوگ مس قاریہ سمیت وہی یر جارہے تھے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪- 185 -‬‬


‫سرخری سروع ہونے سے تھنک چند میٹ نہلے دریہ تنگم کی یرنشاپی میں جالت یگڑی تھی‪،‬انہیں‬
‫س‬
‫لسینل کو لے کر عح یب گ ھیراہٹ ہورہی تھی‪،‬عندلیب نے یہ دیکھ انہیں گھر جاکر آرام کرنے‬
‫کا کہا‪،‬نہلے یو انہوں نے انکار کنا یر جب عندلیب نے ا تیے وہاں ہونے کا نقین دالکر انہیں‬
‫ی‬ ‫گ‬ ‫ج‬ ‫گ‬ ‫م‬ ‫ط‬‫م‬
‫ین کنا تب وہ فرمان کے ساتھ ھر لی یں‪،‬‬

‫س‬
‫سرخری کامناب نہری تھی‪ ،‬لسینل اتھی دواؤں کے زی ِر ایر نےہوش تھا‪،‬اس کی آیکھوں میں‬
‫تنی ت ندھی تھی چو کجھ مہی بوں نعد ہی ایرپی تھی‪،‬ڈاکیر ہارون اتھی کسی یرس کو ہدایات دے رہے‬
‫تھے جب ہاسینل میں سور سا یریا ہوا‪،‬یاہر آنے یو دیکھا رنسییسن یر سکندر صاجب کسی یات یر‬
‫رنسییسیسٹ سے بخث کررہے تھے‪،‬‬

‫"کنا ہورہا ہے۔۔۔سر اتنی یرایلم۔۔۔؟"‬


‫انہوں نے معا ملے کی نہہ جا تیے کے لیے سکندر صاجب کے یاس جاکر پیشہ ورایہ ایداز میں یوچھا‬

‫"ڈاکیر۔۔۔کنا میں یوچھ سکنا ہوں کہ اس لسٹ میں عندلیب سکندر کا یام ک بوں لکھا ہے۔۔۔؟"‬
‫وہاں ر ک ھے کمی بویر کی جاتب اسارہ کرنے سکندر صاجب ضنط سے یو چ ھے‪،‬‬

‫‪- 186 -‬‬


‫"آپ ک بوں یوچھ رہے ہیں یہ سوال۔۔۔"‬
‫ڈاکیر ہارون نے النا سوال یوچھا‪،‬‬

‫"ک بویکہ نہاں یر جس لڑکی کا یام لکھا ہے وہ میری پینی ہے۔۔۔اب تناپیں گے کہ ک بوں لکھا‬
‫ہے اس کا یام نہاں۔۔کنا وہ نہاں آپی تھی۔۔۔اور اگر آپی تھی تھی یو ک بوں۔۔۔"‬
‫سکندر صاجب کے تنانے یر ڈاکیر ہارون نے نہلے یو جاموسی سے انہیں دیکھا تھر کہا‪،‬‬

‫"ان کا یام نہاں اس لیے لکھا ہے ک بویکہ آج ان کی سرخری تھی۔۔۔"‬


‫ڈاکیر ہارون کی یات یر مہناز تنگم نے نےساجیہ دل تھاما‪،‬‬

‫"سرخری۔۔۔کیسی سرخری۔۔۔؟"‬
‫سکندر صاجب کو چظرے کی گھیی ناں ا تیے اردگرد بحنی مجسوس ہوپیں‪،‬‬

‫ک‬‫ت ی‬
‫"انہوں نے ا نی آ یں ڈوت یٹ کی یں۔۔۔"‬
‫ہ‬ ‫ھ‬
‫پ‬
‫اور سکندر صاجب کی جان نکلی ادھر مہناز تنگم کو لگا وہ کجھ علط سن یبھی ہیں‪،‬‬

‫‪- 187 -‬‬


‫ی‬
‫"یہ کنا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔میری عندی آ کھیں ڈوت یٹ۔۔۔کجھ تھی یول رہے ہیں۔۔۔"‬
‫جب سے جپ وہ اب نےفراری سے یولیں‪،‬‬

‫"ڈاکیر صاجب۔۔۔آپ کنا یول رہے ہیں۔۔۔"‬


‫چود یر جیر کرنے سکندر صاجب یولے یو لگا جیسے ان کی آواز کھاپی سے آرہی ہے‪،‬‬

‫ی‬
‫"د کھیں وہ لڑکی۔۔۔بجھلے دو دن سے اس سرخری کے لیے کہہ رہی تھی۔۔۔میں نے انہیں‬
‫وارن تھی کنا تھا یر وہ نضد تھیں نہیں ماپی اور تھر۔۔۔اتھی کجھ دیر نہلے ہی سرخری ہوپی‬
‫ہے۔۔۔"‬

‫ی‬
‫"ارے یر کس کو ڈوت یٹ کی ہیں اتنی آ کھیں۔۔۔"‬
‫اجایک سکندر صاجب تھڑکے‪،‬‬

‫"ایک لڑکے کو۔۔"‬


‫ان دویوں کو ایک نظر دیکھ ڈاکیر ہارون نے تنایا‪،‬‬

‫‪- 188 -‬‬


‫"چھوٹ یول رہا ہے یہ ڈاکیر۔۔۔میری عندی کبھی انشا کر ہی نہیں سکنی۔۔۔وہ اتھی چھوپی ہے‬
‫اسے کہاں غفل ان شب کی۔۔۔میں جاتنی ہوں۔۔میری بچی انشا کر ہی نہیں سکنی۔۔۔ایک‬
‫میٹ ڈاکیر۔۔۔کہاں ہے میری پینی۔۔۔مجھے اتھی لے جلیں اس کے یاس۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم ا تیے چواس کھونے لگیں تھیں تبھی یڑیڑاکر اب یلند آواز میں ان سے یوچھیے‬
‫لگیں‪،‬مس قاریہ انہیں سیبھا لیے کی کوشش کرپی چود تھی کافی یرنشان تھیں آخر کو ان کی ذمہ‬
‫داری تھی عندلیب‪،‬کیسے وہ اس سے اتنی الیرواہ ہوجکی تھیں‪،‬‬

‫مہناز تنگم کے مشلشل یلند آواز میں یو لیے سے وہاں یر لوگوں میں ہڑیڑ مچی تھی ہاسینل کا ماچول‬
‫یگڑنے دیکھ ڈاکیر ہارون ان لوگوں کو ت ھئیر میں لے کر گیے تھے چہاں عندلیب ہوش و چواس‬
‫سے ت نگایہ لینی تھی‪،‬اس کی آیکھوں یر تنی تندھی تھی‪،‬مہناز تنگم کا دماغ ماؤف ہونے لگا اتنی‬
‫عزیز پینی کو اس جال میں دیکھ وہ نہت یری طرح یرسی تھیں مس قاریہ یر کہ انہیں ذمہ داری‬
‫سوتنی تھی عندلیب کی‪،‬سکندر صاجب کو تھی کم چھ نکا یہ لگا تھا پینی کو ا نسے دیکھ‪،‬ان لوگوں کو‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ل کے ساتھ نہاں آیا‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫دیکھ ڈاکیر ہارون نے یاہر آکر انہیں عندلیب کا بجھلے دیڑھ سال سے‬
‫س‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ل کا یام یں تنایا تھا ان لوگوں کو‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اور اس کے پیسیس کروانے کا تنایا‪،‬الییہ انہوں نے‬

‫"ہم اتنی پینی کو اتھی نہاں سے لے کر جارہے ہیں۔۔۔"‬


‫‪- 189 -‬‬
‫یوری یات سییے کے نعد سکندر صاجب نے تھیچے جیڑوں سمیت کہا‪،‬‬

‫ی‬
‫"یر اتھی وہ اس کنڈنسن میں نہیں ہیں۔۔۔د یں سر آپ دو دن و تٹ کر یں۔۔۔ ھر وہ‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ڈشجارج ہوجاپیں۔۔۔"‬

‫"ہمیں اتھی لے کر جایا ہے اتنی پینی کو نہاں سے۔۔۔ڈاکیر ڈشجارج کے پئیرز اتھی تنار‬
‫کریں۔۔۔"‬
‫اب کی یار سکندر صاجب شخت لہچے میں یولے‪،‬‬

‫ی‬
‫"نہیں۔۔۔ہم اتھی نہیں جاپیں گے۔۔۔ان سے کہیں کہ میری پینی کی آ کھیں وانس دیں‬
‫ی‬
‫اسے۔۔۔کوپی ڈوت یٹ نہیں کرے گی وہ آ کھیں۔۔۔"‬
‫ا تیے آنے میں یہ رہنی مہناز تنگم غصے میں یولیں‪،‬‬

‫م‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬


‫س‬
‫"د یں ا نسے یں ہو کنا۔۔۔ا ھی ا ھی سرخری ہوپی ہے۔۔۔یہ یا کن ہے۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کو چواب د تیے ڈاکیر ہارون اب یرنشان ہونے‪،‬‬

‫‪- 190 -‬‬


‫"یر نہاں سے اتھی اسے لےجایا یو ممکن ہے یا۔۔۔تھلے سیربجر میں لنکن ہمیں اتھی لےجایا‬
‫ہے اسے ڈاکیر۔۔۔"‬
‫چود یر اب کافی جد یک قایو یا جکے تھے سکندر صاجب تبھی یولے‪،‬‬

‫"وہ یو تھنک ہے۔۔۔لنکن ہم تھر ان لوگوں کو کنا چواب دیں گے جن کے ساتھ آپ کی پینی‬
‫آپی تھیں۔۔۔"‬

‫"کہہ د ت نا کہ مرگنی وہ۔۔۔"‬


‫دل میں اتھیے درد کی اتنہا یر مہناز تنگم نےبجاشہ رونے ہونے چیچی تھیں‪،‬‬

‫تھر تھنک دو گھییے نعد وہ لوگ نےہوش ہوپی عندلیب کو ائم بولییس میں ہی وہاں سے لے کر‬
‫گیے تھے‪،‬سکندر صاجب نے اسے دوسرے ہاسینل میں سفٹ کروایا تھا‪،‬ان لوگوں نے اس‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ت ی‬
‫انشان کو دیکھنا یک گوارا یہ کنا تھا جسے ان کی پینی نے ا نی آ یں دی یں‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ھ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪- 191 -‬‬


‫س‬
‫ایک سال ہوچکا تھا ان کے نکاح کو‪،‬درمناپی عرصے میں ہیبم کافی یرنشان رہا تھا لسینل کے‬
‫س‬
‫یاعث‪،‬ہناد کی یات اور قلذہ کے الزام کے یاوچود اسے نقین یہ تھا کہ لسینل کبھی انشا کرسکنا‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ل سے‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہے‪،‬اس کے جانے کے نعد ہیبم نے نہت کوشسیں کیں کہ کسی طرح‬
‫کوپینکٹ ہوجانے مگر نےسود‪،‬دن اور تھر مہییے گزرے یو اس کا ذہن اس جاتب سے ہینا‬
‫س‬
‫گنا‪،‬اب ہیبم ہفیے میں ایک آدھ یار فیسنک یر لسینل کی آپی ڈی چنک کریا یو کبھی اس کا ئمیر‬
‫ڈایل کرلینا مگر وہ ہمیشہ کی طرح تند رہنا اور آپی ڈی یر آف الین‪،‬‬

‫آج ایوار تھا وہ تنڈ یر پیبھا لیپ یاپ یر اسائمیٹ تنار کررہا تھا چو کہ کل ہی سبمٹ کریا تھا تبھی‬
‫اس کا فون ریگ کنا‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔"‬
‫تنا لیپ یاپ یر سے نظر ہنانے وہ فون کان سے لگانے یوال‪،‬‬

‫"ہیبم آپ کو تنا ہے۔۔۔ارم کا چو م نگئیر ہے یا وہ اسے کل ایک نہت چونصورت رنسبورتٹ میں‬
‫لے کر گنا تھا‪،‬وہ رنسبورتٹ سی ساتنڈ یر ہے۔۔۔اور آپ نقین نہیں کریں گے ارم نے مجھے‬
‫جب یک دکھاپی یو مجھے وہ جگہ اتنی نسند آپی اتنی نسند آپی کہ۔۔۔"‬
‫‪- 192 -‬‬
‫"کہ اب ئمہیں تھی وہاں جانے کا دل کررہا ہے۔۔۔"‬
‫وہ چو اس کے ہنلو یو لیے ہی یان سناپ سروع ہوپی تھی ہیبم کی یات اجکیے یر چھی یپ گنی‪،‬‬

‫"ہا۔۔۔ہاں جایا ہے۔۔۔کنا رات کو جلیں۔۔۔؟"‬


‫ازلی معصوم لہچہ کہ ہیبم نےاجینار مشکرایا‪،‬‬

‫"میں ضرور ئمہیں لے جلنا جایاں۔۔۔یر آج اسائمیٹ تنارہا ہوں۔۔۔کل سبمٹ کروایا ہے۔۔۔یو‬
‫انشا کرنے ہیں ہم کل جلیں گے۔۔۔اوکے۔۔۔"‬
‫اسے اتنی مصروق یت تنایا ہیبم آخری میں آ تنڈیا د ت نا یاتند جاہا لنکن یاذلی کا چہرہ ل نکا‪،‬‬

‫"آپ اسائمیٹ جلدی تنالینا۔۔۔تھر رات کو جلیں گے۔۔۔"‬


‫اب کے لہچے میں آس تھی‪،‬ہیبم اس کی معصومیت یر ہیسے تنا یہ رہ سکا‪،‬‬

‫"جایاں نہیں جاسکیے آج۔۔۔"‬


‫ً‬
‫مح بورا وہ اسے نہلے مرتیہ کسی جیز کے لیے م نع کررہا تھا‪،‬‬
‫‪- 193 -‬‬
‫"ارم کا چو منگئیر ہے یا۔۔۔وہ اس کی ہر یات ماتنا ہے۔۔۔اور آپ۔۔۔میری ایک یات نہیں‬
‫مان رہے۔۔۔"‬
‫لہچہ یروتھا ین تنا یو ہیبم اتنی ہیسی دیانے یوال‪،‬‬

‫"اچھا یو ت نایا نسند کریں گی آپ کہ میں نے کب کب آپ کی یات ما تیے سے انکار کنا‬


‫ہے۔۔۔"‬
‫اس کے اس سوال یر یاذلی کو جپ لگ گنی‪،‬یہ شچ تھا کہ وہ ہمیشہ اس کی ہر کہی فرمانش یوری‬
‫کریا۔۔۔کسی یات سے انکار یہ کریا۔۔۔یہ نہلی مرتیہ تھا تبھی وہ یاراض ہورہی تھی‪،‬‬

‫"مجھے یات ہی نہیں کرپی آپ سے۔۔۔یانے۔۔۔"‬


‫جب کجھ یہ سوچھا یو وہ چ ھٹ سے کہنی کال کٹ کردی ادھر ہیبم اسکے یاراض ہونے یر جیران‬
‫ہویا تھر یاذلی کا ئمیر ڈایل کنا‪،‬دو پین مرتیہ یہ عمل دہرانے یر تھی جب وہ کال رنسبو یہ کی یو‬
‫ہیبم نفی میں سرہالیا لیپ یاپ اتھایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 194 -‬‬
‫"مبم صاب۔۔۔میرا مرد تبمار ہے۔۔۔گاوں میں ہے ساس مجھے یالرہی ہے۔۔۔یو اگر ایک مہییے‬
‫کی چھنی مل جاپی یو۔۔۔"‬
‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬ ‫ل ص ٰ‬
‫د ھلے ہونے کیڑے رسی یر ڈا نی عری الجارگی سے یولی یو ھت یر ر ھے ھولے یر ھی طییہ‬
‫م‬ ‫چ‬ ‫ک‬ ‫چ‬
‫اس کی جاتب م بوخہ ہوپی‪،‬‬

‫"اگر تم کسی م نڈ کا ات نظام کردو یو جاسکنی ہو۔۔۔"‬


‫ٰ‬
‫وہ سیحندگی سے یولی یو صعری کا میہ تنا‪،‬‬

‫"کنا مبم صاب۔۔۔آج کل یو میرے جا تیے میں تھی جینی عورپیں ہیں وہ شب کہیں اور کام یر‬
‫لگی ہیں۔۔۔اور میں کون سا ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں چو آپ میری جگہ کسی اور کو لگاپیں‬
‫گی۔۔۔"‬
‫وہ چفگی سے یولی یو مطییہ نے ہوا سے لہلہانے رنسمی یالوں کو چہرے یر سے ہنانے کہا‪،‬‬

‫"یو کنا ایک مہییے یک ہم تنا منڈ کے رہیں ئمہارے ات نظار میں۔۔۔گھر کا یافی کام کیسے ہوگا۔۔۔"‬
‫اس کے سوال یر صعری کو جپ لگی تھر کجھ سوچ کر کہیے لگی‪،‬‬

‫‪- 195 -‬‬


‫"یو ساہدہ ہے یا جب یک وہ کرلے گی۔۔۔"‬

‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ک ی‬


‫ن‬
‫"وہ چن یا د یں۔۔۔ئمہارے ذمے کے کام کرے ھ ک۔۔۔"‬
‫مطییہ کے سیحندگی سے اسنفشار کرنے یر صعری اتنا سا میہ لے کر رہ گنی‪،‬‬

‫"ارے یاذلی پی پی۔۔۔ریلینگ یر یہ خڑھیں گر جاپیں گی۔۔۔"‬


‫ٰ‬
‫صعری کی نظر یاذلی یر یڑی یو وہ گ ھیراکر جلدی سے یولی جس یر مطییہ نے تھی گردن موڑ کر‬
‫یاذلی کو دیکھا چو دویوں ہاتھوں کو قضا میں تھنالنے ریلینگ یر دویوں پیروں کو نکانے کھڑی تھی‪،‬‬

‫ی‬ ‫پ ص ٰ‬
‫"نہیں گرپی میں۔۔۔یلکہ آپ تھی ادھر آ یں عری۔۔۔د یں کینا مزہ آرہا ہے۔۔۔"‬
‫ھ‬ ‫ک‬
‫ٰ‬
‫چہرہ گھوما کر صعری کی طرف دیکھ کر وہ یرچوش سی یولی‪،‬‬

‫ُ‬
‫"یاذلی۔۔۔ایر جاؤ۔۔۔"‬
‫مطییہ نے تھی ایک سیحندہ نظر اس یر ڈال کر کہا‪،‬‬

‫"آپی۔۔۔آپ دویوں یو ا نسے مجھے ایرنے کا یول رہی ہو جیسے میں نے تیچے گر کر مرجایا ہے۔۔۔"‬
‫‪- 196 -‬‬
‫اس کی یات یر ہیسنی یاذلی یولی یو مطییہ ایک ت نفر تھری نظر اس یر ڈالے یڑیڑاپی‪،‬‬

‫"مر ہی جاپی یو نہیر تھا۔۔۔"‬


‫چ‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ل ص ٰ‬
‫وہ زی ِر لب یڑیڑاکر نظر وانس کیڑے ڈا نی عری یر کی ھی‪ ،‬کن اجا ک ہی یاذلی کی یخ یر اس‬
‫ی‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫کی طرف د ھی‪،‬وہ اب وہاں ر لینگ یر یں ھی‪ ،‬طییہ کی آ یں نی یں‪،‬دل نےساجیہ‬
‫چ‬ ‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫کاتنا اور وہ سفند چہرے سمیت چھولے یر سے اتھ کر تھاگی‪ ،‬عری کے میہ سے ھی یخ یرآمد‬
‫ً‬
‫ہوپی تھی‪،‬آخر کو اتنی آیکھوں سے یاذلی کا پیر تھشلیے چو دیکھا تھا‪،‬وہ فورا تیچے تھاگی تھی چہایگیر‬
‫صاجب کو مظلع کرنے‪،‬‬

‫دوسری جاتب ہیبم چو کسی تھی طرح جلدی سے اسائمیٹ رات کی جگہ سام یک کم نلیٹ کر کے‬
‫یاذلی کو سریرایز د تیے کے عرض یازہ تھولوں کا گلدشیہ لیے چہایگیر ہاؤس آیا تھا‪،‬اتھی کار سے ایرا‬
‫ہی تھا کہ اویر سے کوپی وچود پیزی میں آیا تھنک اس کے پیروں سے چند قدم دور گِ را تھا‪،‬ہیبم‬
‫نےساجیہ ایک قدم تیجھے ہنا‪،‬جس پیزی سے وہ وچود گرا تھا اسی پیزی میں اس میں سے چون نکلنا‬
‫کھ‬ ‫کھ‬ ‫ک‬‫ہیب ی‬
‫ارد گرد تھنلیے لگا اور م کی آ یں لی کی لی رہ یں‪،‬ہاتھ یں تھاما گلدشیہ گرا تھا‪،‬وہ اس‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫وچود کو الکھوں میں تھی نہجان سکنا تھا‪،‬دیوایہ وار اس کے یاس تھاگنا ہیبم زمین یر پیبھ کر اسے‬
‫یلنا تھا‪،‬‬
‫‪- 197 -‬‬
‫"یاذلی۔۔!!!!"‬
‫چ ھت یر کھڑی مطییہ کا سکیہ یویا یو وہ جلق کے یل جالپی جس یر ہیبم تبھر ہوپی نظروں کو اویر‬
‫کنا‪،‬مطییہ لبھے کے ماتند سفند چہرے سمیت کھڑی تھی اس کی لرزراہٹ یلکل واضح تھی جیسے‬
‫یری طرح چوفزدہ ہو‪،‬ہیبم نےنقین رہ گنا دل دھک سے ہوا تھا‪،‬یو کنا اتنی نفرت میں وہ اس جد‬
‫یک گر جکی تھی‪،‬اس یر سے نفرت و اسنعال سے نگاہ ت ھیریا ہیبم یاذلی کو دیکھا‪،‬اس کا چوتم چون‬
‫ہوا چہرہ ہیبم کے دل کے یکڑے کرنے کے لیے کافی تھا‪،‬ا تیے کلییے دل کو ئمسکل سیبھال نا وہ‬
‫تنا اور وقت صا نع کیے یاذلی کے نےجان وچود کو یازوؤں میں تھریا اتنی کار کی طرف تھاگا‪،‬یاذلی‬
‫کو کار میں ڈال کر اب ہیبم کا رخ ہاسینل کے جاتب تھا‪،‬وہ کار گنی یو تھی یر تیچے گرے ان‬
‫چونصورت گالیوں کو کجلنی چو وہ یاذلی چہایگیر کے لیے جاص الیا تھا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔‬

‫م‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ن ً‬


‫ی‬ ‫ن‬
‫آج فرتنا ساتھ ییے عد اس کے آ ھوں یر سے نی نی ھی‪،‬یر گزرے بوں یں اسے ا تیے‬ ‫ہ‬
‫لیے زرا تھی چوسی یہ ہوپی‪،‬وہ ان دیوں تھی یا چوش رہنا وخہ ع ندلیب کا اسکے یاس یہ ہویا‪،‬دریہ‬
‫تنگم نے اسے ان مہی بوں میں یہ تنایا تھا کہ وہ کجھ مصروقنات کی تنا یر نہیں آیارہی‪،‬‬

‫‪- 198 -‬‬


‫"ا تیے سالوں نعد وانس دتنا کی ریگیی بوں کو دیکھ کر اب کیشا لگ رہا ہے ئمہیں۔۔۔؟"‬
‫وہ جاموش پیبھا تھا تبھی وارڈ میں داجل ہوپیں دریہ تنگم آسودگی سے مشکراکر یوچھیں‪،‬‬

‫"دتنا کی ان ریگیی بوں سے ہی یو چوف آیا ہے۔۔۔چو ہر دن کے ساتھ اتنا ساتھ یدلنی ہے۔۔۔"‬
‫سیحندہ یایرات سمیت کہنا وہ انہیں نہت یرنشان لگ رہا تھا‪،‬‬

‫"کوپی یات ہے یو تناؤ۔۔۔"‬


‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫پیبھ س‬
‫ت‬
‫ل کے ہاتھ کو ا یے ہا ھوں یں یں وہ یرمی سے یو یں‪،‬‬ ‫اس کے یاس نی‬

‫"گرتنی کب یک مجھ سے چھوٹ یولیں گی۔۔۔صاف صاف تنا ک بوں نہیں رہی ہیں آپ کہ‬
‫عندلیب میرے یاس ک بوں نہیں آرہی۔۔"‬
‫اس کے اجایک یو چھے گیے سوال یر دریہ تنگم کجھ یل کی جاموسی کے نعد یولیں‪،‬‬

‫"ئمہیں تنایا یو ہے وہ کجھ مصروف۔۔۔"‬

‫‪- 199 -‬‬


‫"مصروقنات چند دیوں کی ہوپی ہے۔۔۔یا کہ ا تیے مہی بوں کی۔۔۔گرتنی تناپیں یلیز۔۔۔کنا یات‬
‫ہے۔۔۔ک بوں وہ نہیں آرہی۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫گھ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫چ‬ ‫ن‬
‫ل کے ہچے یں نےفراری لی ھی‪،‬کینا ات ظار تھا اسے عندلیب کے ہرے کو‬ ‫اس یار‬
‫دیکھیے کا‪،‬وہ اکیر سوچنا کہ جس لڑکی کا دل اس قدر چونصورت ہے وہ چود کینی تناری ہوگی‪،‬مگر اب‬
‫س‬
‫اس کا سا میے یہ آیا لسینل کو نکل نف میں مینال کرنے لگا تھا‪،‬‬

‫"جاتنا جا ہیے ہو کبوں نہیں آپی وہ۔۔۔"‬


‫س‬
‫ل سے یوچھا جس یر‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کافی دیر یک جپ رہیے کے نعد دریہ تنگم نے ا تیے اویر ضنط کرنے‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ً‬
‫وہ فورا اتنات یں سر الیا‪،‬‬

‫"وہ آپی تب۔۔۔جب زیدہ ہوپی۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے وچنہہ چہرے یر لگی اس دیواپی کی کابچ ماتند آیکھوں کو دیکھ دریہ تنگم تھنگے لہچے‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ل‬
‫ل یسے کجھ ل کے لیے عا ِم کیے یں الگنا تھا‪،‬یہ وہ‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫میں یولیں‪،‬ان کی یات نغور سینا‬
‫کنا کہہ رہی تھیں‪،‬‬

‫"گرتنی۔۔۔کنا یول۔۔"‬
‫‪- 200 -‬‬
‫"ہاں وہ نہیں رہی۔۔۔وہ جاجکی ہے ہم سے نہت دور اس جگہ چہاں سے وانسی یاممکن ہوپی‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ئمہ ت ی‬
‫ہے۔۔۔اور جا تیے ہو یہ شب کیسے ہوا۔۔۔ک بویکہ اس نے یں ا نی آ یں ڈوت یٹ کی‬
‫تھیں۔۔"‬
‫ی‬
‫تھراپی آواز میں کہنی دریہ تنگم جپ ہوپی ساتھ ہی رونے ہونے ششلینل کو د یں جس کی‬
‫ھ‬ ‫ک‬
‫ی‬
‫کابچ ماتند آ کھیں یل میں سرخ ہوپی تھیں‪،‬دل میں درد کی پیسیں اتھیں‪،‬اسے اتنا یورا وچود یل‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫م ٰ‬
‫میں نے عنی لگا تھا جس کے لیے وہ یازک لڑکی ا نی یڑی فریاپی دے کی ھی‪،‬ہاں اس نے‬
‫ت‬
‫کبھی کہا نہیں تھا یر ا تیے عمل سے اس یر ہر دن یہ طاہر کرپی کہ وہ اس کے لیے ایک‬
‫چونصورت جذیہ رکھنی ہے ا تیے دل میں‪،‬ہاں وہ جاتنا تھا کہ عندلیب اس کی محیت میں گرق نار‬
‫ہوجکی تھی مگر کنا اس قدر آگے یڑھ جکی تھی وہ اتنی محیت میں‪،‬کنا اس نے محیت کی سیڑھناں‬
‫یار کر کے عسق کی اس سیڑھی یر قدم رکھ کنا تھا چہاں یر انشان ا تیے یارے کجھ نہیں‬
‫سوچنا‪،‬اسے ضرف ا تیے محبوب کی چوسی جا ہیے ہوپی ہے‪،‬سکیہ یویا تھا اور کنی آنسو یک تنک‬
‫س‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ع‬
‫ل مراد کی آ ھوں سے رواں ہونے‪،‬وہ یڑپ کر رہ گنا‪،‬کنا وہ لڑکی اس سے ق کرنے‬
‫لگی تھی‪،‬آج اتنا آپ اسے عندلیب کے آگے نہت چھویا لگا‪،‬اتنی فریاپی سے وہ اس یر واضح کرجکی‬
‫س‬
‫تھی کہ اس کے عسق کے آگے لسینل مراد کی محیت کم یڑگنی‪،‬‬

‫‪- 201 -‬‬


‫"وہ نہیں مرسکنی۔۔۔اس نے۔۔۔اس نے وعدہ کنا تھا۔۔۔"‬
‫نےاجینار اس کے دماغ میں عندلیب کا کنا وعدہ آیا یو نقین نےنقینی کی ملی جلی ک نف یت میں‬
‫یڑیڑایا‪،‬‬

‫"گرتنی ا۔۔۔اس نے وعدہ کنا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہے گی۔۔۔اسے کہیں یا مجھے اس کی‬
‫ضرورت ہے۔۔۔یلیز گرتنی۔۔۔"‬
‫اجایک دریہ تنگم کا ہاتھ تھامنا وہ نضد لہچے میں یوال‪،‬‬

‫"کیسے کہوں اسے۔۔۔"‬


‫وہ تھکن زدہ لہچے میں اسنفشار کیں‪،‬یوڑھیں آیکھوں سے آنسو رواپی سے نکلیے لگے تھے‪،‬‬

‫"اسے ُیالدیں۔۔۔یلیز گرتنی۔۔۔۔اس نے انشا ک بوں کنا۔۔۔ک بوں وہ میری یاپیں نہیں ماتنی‬
‫ک بوں وہ اتنی من ماتناں کرپی ہے۔۔۔"‬
‫ک‬‫ی‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫گ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل دریہ م کو ہت یویا ہوا لگا تھا‪ ،‬گی ظروں سے ا کی کابچ آ ھوں‬ ‫یڑ تیے دل سے کہنا‬
‫کو دیکھ وہ میرتم آواز میں یولیں‪،‬‬

‫‪- 202 -‬‬


‫"میرے بچے۔۔۔کہاں سے الؤں اسے۔۔۔۔ڈاکیرز نے جب واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ‬
‫سرخری کے دوران نکل نف یہ یرداشت کرنے ہونے اس کی موت واقع ہوگنی۔۔۔"‬
‫کس قدر مسکل سے انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے تھے‪،‬ا تیے عرصے میں جس قدر انہیں عندلیب‬
‫عزیز ہوپی تھی یہ جیر سن کر انہیں کسی ظور سکون نہیں مال تھا چنکہ دریہ تنگم کی یوری یات‬
‫م‬
‫کمل کرنے یر گیٹ کے یاس کھڑے ڈاکیر نے نگاہ خراپی تھی‪،‬‬

‫س‬
‫دوسری جاتب اذ ت بوں میں ِگھرا لسینل ایکی جاتب دیکھنا نےبجاشہ کرب لیے دھاڑا‪،‬‬

‫ک‬‫مج ی‬
‫"یو نہیں کرپی یاں وہ یہ عناتت مجھ یر۔۔۔۔نہیں جا ہیے تھا اس کا یہ اجشان۔۔۔ ھے آ یں‬
‫ھ‬
‫ی‬ ‫پ‬
‫دے کر چود ہی زیدگی گواں یبھی۔۔۔۔انسی آ کھیں نہیں جا ہیے مجھے۔۔۔"‬
‫یات کے آخر میں وہ پیزی سے ہاتھ مار کر ساتنڈ میں رکھی مسی بوں کو گرایا تھا‪،‬دریہ تنگم نے‬
‫رونے ہونے میہ یر ہاتھ رکھا تھا چنکہ ڈاکیر اس کے چظریاک یایرات اور عمل سے گ ھیرایا روم سے‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ت تھ س‬
‫ن‬ ‫ل‬
‫ل کے یازو یر کن وہ ل ف اسے زرا مجسوس یہ ہوپی‪،‬‬ ‫نکال‪،‬چون کی لکیریں ا ھری یں‬

‫‪- 203 -‬‬


‫دل میں اتھیے کرب ہی یاچبم ہونے والے تھے‪،‬اور یڑت نا ک بوں یہ وہ‪،‬ا تیے مہی بوں سے ات نظار چو‬
‫کررہا تھا اس لڑکی کو دیکھیے کے لیے جس سے نہت عرصے نعد جاکر محیت ہوپی تھی‪،‬یر کنا معلوم‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ت ی‬
‫تھا کہ وہ دیواپی ا نی آ یں ہی فریان کردے گی اس یر‪،‬‬

‫"عندلیب۔۔۔"‬
‫وہ چیجا تھا یری طرح‪ ،‬لہچے میں یونے کابچ سی چبھن تھی‪،‬اگر کو اسے جیر ہوپی کہ وہ دیواپی‬
‫سرخری کے نہانے اس قدر یڑا قدم اتھانے گی یو مر کر تھی ہامی یہ تھریا اس کی یات یر‪،‬‬

‫ک‬‫ی‬
‫"ڈاکیر سے کہیں ایک اور مرتیہ سرخری کریں۔۔۔اور میری یہ آ یں نکال دیں۔۔۔کنا قایدہ ہوا‬
‫ھ‬
‫ی‬
‫اس شب کا۔۔۔جب وہ ہی چھوڑ کر جلی گنی مجھے۔۔۔نہیں جا ہیے یہ آ کھیں مجھے۔۔۔میں نہلے‬
‫ہی تھنک تھا۔۔۔"‬
‫س‬
‫سرخ چہرے سمیت کہنا لسینل نےجد یڑپ لیے یوال‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل۔۔۔میرا بچہ۔۔۔صیر کرو۔۔"‬

‫‪- 204 -‬‬


‫"کیسے کروں صیر گرتنی۔۔۔مررہا ہوں۔۔جب میں اس سے کہنا تھا کہ جلی جاؤ یو جاپی نہیں تھی‬
‫اور اب۔۔۔جب جاہنا تھا کہ ساتھ رہے تب یوں جلی گنی۔۔۔ک بوں آپی تھی تھر وہ میری زیدگی‬
‫میں۔۔۔تھنک تھا یا جیشا تھی تھا۔۔۔"‬
‫اب اس نے دریہ تنگم سے اسنفشار کنا غصے میں جس یر وہ چواب یہ ہونے یر جپ جاپ آنسو‬
‫نہاپی رہیں‪،‬‬

‫"وہ تم سے نہت محیت کرپی تھی میرے بچے۔۔۔اس کی فریاپی رات نگاں نہیں جانے د ت نا۔۔۔"‬
‫نہت دیر یک وارڈ میں جاموسی چھاپی رہی تھر دریہ تنگم نے آہسنگی سے کہہ کر ایک چھویا سا پئیر‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫س‬
‫ل کے ہاتھ یں ھمایا‪،‬‬ ‫ساتھ النے ا تیے یرس سے نکال کر‬

‫"یہ اسماء نے دیا تھا مجھے۔۔۔ئمہارے روم کی صفاپی کے دوران یکیے کے تیچے یڑا تھا۔۔۔ساید‬
‫عندلیب نے رکھا تھا۔۔۔"‬
‫اسے پئیر یکڑا کر وہ وارڈ سے نکل کر یاہر پییچ یر پیبھیں چہاں اسماء اور فرمان کھڑے تھے‪،‬اس‬
‫رات گھر یر وہ آرام کر کے جب دوسرے دن آ پیں یو ڈاکیرز نے چو جیر انہیں دی تھی وہ ان‬
‫کی جان نکال گنی‪،‬عندلیب کی فریاپی یر اسک نہاں انہوں نے جب ڈاکیرز سے اس کی ڈیڈ یاڈی‬
‫دیکھانے کا کہا یو ڈاکیر ہارون نے تنایا کہ عندلیب کے والدین اس کی ڈیڈ یاڈی کے کر گییں‬
‫‪- 205 -‬‬
‫ہیں اور اس کی موت یر نہت غضب زدہ تھے‪،‬یہ سن دریہ تنگم میں اور ہمت یہ تھی کجھ یوچھیے‬
‫کی‪،‬بجا ہی کنا تھا وہ دیواپی جب محیت میں ا یکے یونے کے لیے اتنی قبملی کو تھالنے اتنی یڑی‬
‫فریاپی دے جکی تھی یو وہ کس میہ سے اب اس کے گھر والوں کا یوچھ ان کے یاس جاکر دو‬
‫یول دالسے کے یولییں‪،‬‬

‫دریہ تنگم کے جانے کے نعد اس نے فولڈ ہونے پئیر کو ایک نظر دیکھا‪،‬سا میے یڑے لفظوں میں‬
‫ی‬
‫لکھا تھا "فروم عندلیب"‪،‬اتنی آ کھیں ہاتھ کی نست سے صاف کریا وہ فولڈ پئیر کھوال جس یر لکھا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"جب تم یہ یڑھو گے یو جاتنی ہوں اس وقت یک میں اس جالت میں نہیں ہوں گی کہ کجھ‬
‫دیکھ سکوں تبھی ئمہارے چہرے یر پیناپی وانس آنے کی چوسی نہیں دیکھ یاؤں گی۔۔۔ل نکن میں‬
‫اتنا ضرور جاتنی ہوں کہ تم چوش ہونے کے ساتھ ساتھ نہت غصہ تھی ہوگے مجھ سے میری‬
‫اس خرکت یر۔۔۔لنکن کوپی نہیں مجھے یو عادت ہے ئمہاری ڈاتٹ سییے کی۔۔یر اس یار کی‬
‫ئمہاری ڈاتٹ سن کر میں روں گی نہیں یلکہ چوش ہوں گی کہ تم مجھے میرے لیے ہی ڈات بو‬
‫گے۔۔۔آخر کو مج ھے معلوم ہے۔۔۔کہیں یا کہیں تم تھی میرے لیے وہ جذیات رکھیے ہو یر اظہار‬
‫کریا نہیں آیا ئمہیں۔۔۔یا ساید کریا جا ہیے نہیں۔۔۔جیر زیادہ کجھ نہیں کہوں گی۔۔۔ضرف تم‬
‫‪- 206 -‬‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ی‬
‫سے یہ جاہنی ہوں کہ جن چوایوں کی ل م نی سال لے ا تیے ایدر دفن کر کے ھے۔۔۔ان‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫م‬
‫کو کمل کریا اور ایک نہت ا چھے انشان پینا و نسے تم ا چھے یو ہو یر تھوڑے ُروڈ ہو۔۔۔اور‬
‫ہاں۔۔۔میری آیکھوں کی قکر یہ کریا۔۔۔میں جیسے ہوں ونسی ہی تھنک رہوں گی۔۔۔ایک آخری‬
‫یات۔۔۔میں نے تم سے محیت یو کی ہے نہت لنکن کبھی ئمہیں یانے کا یا سوجا یا جاہا کبویکہ‬
‫میں جاتنی ہوں میں کبھی ئمہیں یا نہیں سکنی۔۔۔اسی لیے تم نےقکر ہوکر ا تیے چواب یورے‬
‫کریا اور چوش رہنا نہت‪"،‬‬
‫"عندلیب"‬

‫ھ‬ ‫ک‬‫ل‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ل نے آخر یں ع ندلیب کی ھی وہ الپیز یڑ یں‪ ،‬جسے یڑھیے ہی اس‬ ‫یورے چط کو یڑھ کر‬
‫ی‬
‫کی جشک آ کھیں تھر تم ہونے لگیں‪،‬‬

‫"تم چہاں تھی ہو جیسے ہو و نسے ہی رہنا‪،‬‬


‫ئمہیں یایا ضروری نہیں ئمہارا ہویا ضروری ہے۔"‬

‫آج اس لڑکی نے واقعی اس یر طاہر کنا تھا کہ وہ اس سے محیت نہیں عسق کرپی تھی‪،‬اتنی تم‬
‫س‬ ‫ی‬
‫ہوپی آ کھیں ایک مرتیہ تھر یوبجھنا لسینل ایک نظر پئیر کے آخر میں عندلیب کے یام کو دیکھا‬
‫‪- 207 -‬‬
‫تھر نہاتت یرمی سے ان لفظوں کو چوم لنا‪،‬نےبجاشہ یڑ تیے دل کو تھوڑی راجت ملی تھی اس‬
‫ی‬
‫دیواپی کی یایوں سے اور ایک تنا عزم کریا وہ ت نڈ سے تنک لگانے آ کھیں مویدا ساتھ ہی وہ لئیر‬
‫ا تیے سییے یر رکھا تھا‪،‬‬

‫پ‬ ‫ُ‬
‫"جب کابچ اتھانے یڑجا یں‪،‬‬
‫تم ہاتھ ہمارے لے جایا‪،‬‬

‫ہ‬ ‫ن‬ ‫مج‬‫س‬


‫جب ھو کہ ساتھ کوپی یں‪،‬‬
‫تم ساتھ ہمارا لے جایا‪،‬‬

‫جب دیکھو کہ تم تنہا ہو‪،‬‬


‫اور را سیے ہیں دسوار نہت‪،‬‬

‫تب ہم کو اتنا کہہ د ت نا‪،‬‬


‫نےیاک شہارا لے جایا‪،‬‬

‫‪- 208 -‬‬


‫چو یازی تھی تم جی بو گے‪،‬‬
‫چو میزل تھی تم یاؤ گے‪،‬‬

‫ہم یاس ئمہارے ہو یہ ہوں‪،‬‬


‫اجشاس ہمارا لے جایا‪،‬‬

‫اگر یاد ہماری آجانے‪،‬‬


‫تم یاس ہمارے آجایا‪،‬‬

‫نس اِ ک مسکان ہمیں د ت نا‪،‬‬


‫تھر جان تھی جاہے لے جایا۔۔۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کا عالج سکندر صاجب ا تیے شہر کے مہنگے یرین ہاسینل میں کروانے لگے تھے‪،‬سرخری کو‬
‫زیادہ وقت یہ ہونے کے یاعث اتھی ڈاکیر نے سکندر صاجب کو ت نایا تھا کہ وہ قلجال کجھ مہی بوں‬
‫ی‬
‫یک اسے دوسری آ کھیں لگانے کا ِرسک نہیں لے سکیے‪،‬اسے ہوش آیا یو سکندر صاجب نے‬
‫‪- 209 -‬‬
‫مہناز تنگم کی یات ما تیے عندلیب سے کجھ زیادہ سواالت یہ یو چھے‪،‬ان دویوں کے لیے نس اتنا ہی‬
‫نہت تھا کہ ڈاکیرز نے امند دالپی تھی کہ کجھ مہی بوں نعد جب سرخری کے یاعث آیکھوں کے‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ی‬
‫کناروں کی سوجن چبم ہوگی یو جلد وہ اسے دوسری آ یں لگادیں گے‪،‬جس ہا ل یں عندلیب‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ھ‬
‫م ت ی‬
‫ایڈمٹ تھی وہاں ہزاروں کی نعداد میں ا نسے پیسییس آنے چو جال ِت یزع یں ا نی آ یں سی کو‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ڈوت یٹ کرنے کی آخری چواہش طاہر کرنے تبھی سکندر صاجب کو اس قکر سے آزادی ملی تھی‬
‫ً‬ ‫ی‬
‫کہ عندلیب کے لیے آ کھیں کون دے گا‪،‬دن یر لگاکر اڑنے لگے اور فرتنا چھ مہییے نعد عندلیب‬
‫کے ت بونے اس قایل ہونے کہ وہ ایک اور سرخری یرداشت کرلیں تھر سکندر صاجب کے کہیے‬
‫یر ڈاکیرز نے تنا وقت صا نع کیے چند دیوں نعد اس کی سرخری کی‪،‬‬

‫سرخری یو کام ناب نہری یر اب کجھ مہی بوں یک اس کی آیکھوں یر تنی تندھی رہنی تھی‪،‬مہناز تنگم‬
‫کے لیے وہ دن نہاتت چوسی کا دن تھا جب عندلیب کی آیکھوں لگی تھیں سرخری کے تنا‬
‫ً‬
‫یر‪،‬اسے نفرتنا ایک سال ہوچکا تھا ہاسینل میں رہیے‪،‬اس عرصے میں قلذہ اور ہناد تھی ہاسینل‬
‫میں اس کی جیر جیر کے لیے آنے رہیے‪،‬سروع میں ان لوگوں کو جب عندلیب کی خرکت کا علم‬
‫ہوا یو وہ لوگ سدید چھنکے میں آنے قلذہ کو چہاں اس جیر سے چوسی ہوپی تھی وہی ماید یڑی اس‬
‫کی چوسی ایک سال نعد عندلیب کی آیکھوں یر سے تنی ہییے دیکھ‪،‬مگر ایک جیز چو اس کے ایدر یک‬

‫‪- 210 -‬‬


‫ی‬
‫گویہ سکون بجسی وہ یہ تھی کہ اب عندلیب کی آ کھیں کابچ ماتند نہیں تھیں‪،‬ان چونصورت کابچ‬
‫ی‬
‫ماتند آیکھوں کی جگہ اب دو گہری کالی مگر سرخ ڈورے والی آ کھیں تھیں چو یلکل نےیایر رہییں‪،‬‬

‫تنی ہییے کے کجھ دن نعد اسے گھر آیا تھا یر اجایک ایک دن اس وارڈ میں جس میں عندلیب تھی‬
‫ڈیوپی کرپی یرس کے میہ سے چیخ یرآمد ہوپی‪،‬جب عندلیب کے میہ سے اجایک چون نکلیے لگا‪،‬وہ‬
‫چون اس قدر نہا تھا کہ عندلیب کے تنڈ یک میں تھنل گنا تھا‪،‬سکندر صاجب اس وقت مہناز‬
‫تنگم کو سکندر وال چھوڑ کر ہاسینل آنے تھے چہاں قلذہ عندلیب کے ساتھ تھی یر وہاں عندلیب‬
‫کی تبم مردہ جالت دیکھ ان کے رو یگیے کھڑے ہونے‪،‬ڈاکیرز نے تنایا تھا کہ کابچ کے کجھ‬
‫چھونے یکڑوں نے اس کے جلق کو یری طرح منایر کنا ہے لنکن وہ کابچ کے یکڑے اس کے‬
‫جلق میں گیے کیسے تھے یہ کوپی جان یہ یایا‪،‬‬

‫عندلیب کا فوری آیرنسن ہوا تھا‪،‬ڈاکیرز نے وہ یکڑے یو اس کی جلق سے نکال دنے مگر ان شب‬
‫میں ایک یری جیر چو سکندر صاجب اور مہناز تنگم یر نہاڑ کی طرح یوپی وہ یہ تھی کہ عندلیب اتنی‬
‫م‬
‫وت گویاپی سے مجروم ہوجکی تھی‪،‬اتنی پینی یر اس طرح صییییں آنے دیکھ سکندر صاجب کی‬ ‫ف ِ‬
‫جالت خراب ہونے لگی تھی‪،‬وہ دن یدن کمزور ہونے لگے‪،‬مہناز تنگم تھی کم ُدکھی یہ تھیں اس‬
‫کی جالت یر‪،‬ہر دم ہیسیے چوش رہیے والی ان کی پینی اب ہر یل جاموش اور تنہا رہنی‪،‬یول یو وہ‬
‫‪- 211 -‬‬
‫سکنی نہیں تھی اب‪،‬لنکن ا تیے گھر والوں سے تھی کنارہ کسی کرنے زیادہ یر وقت ا تیے کمرے‬
‫میں مجدود رہ کر گزارپی‪،‬اس ایک سال میں کینا کجھ یدال تھا سکندر وال میں سوانے عندلیب کے‬
‫دل میں نہرہ د تنی یادوں کے‪،‬وہ اب یک اسے یاد کرپی‪،‬دل کلینا کہ وہ یاجانے اب کیشا ہوگا‬
‫کس جال میں ہوگا‪،‬اس نے یو وعدہ کنا تھا ہمیشہ ساتھ ر ہیے کا تھر کیسے وہ اسے اکنال چھوڑ جکی‬
‫ی‬
‫تھی‪،‬نےیایر آ یں اکیر را یں جاگ کر گزارپی ا تیے مح بوب کی یاد یر‪،‬یادان دل تھا کہ ایک ل‬
‫ی‬ ‫پ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫تھی یاز یہ آیا اسے یاد کرنے سے‪،‬کینی کوشش کی تھی وہ اسے تھالنے کی اور دعا کرپی کہ وہ‬
‫ی‬
‫انشان چہاں تھی ہو جیشا تھی ہو اتنی ہر چواب کو کم نل یک نہیجانے‪،‬اتنی زیدگی کھل کر جییے‪،‬وہ‬
‫چٰ‬
‫جاتنی تھی کہ اب ان دویوں کا ملنا یاممکنات میں سمار ہے تبھی اسے تھو لیے کی نی االمکان‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫چ‬
‫ل مراد کا وچنہہ ہرہ‬ ‫کوشش کرپی مگر اس کی ہر کوشش اس وقت نےسود ہوپی جب‬
‫ذہن کے یردے یر چھلکنا‪،‬‬

‫"یڑا دسوار ہویا ہے______کسی کو یوں ت ھالد ت نا‪،‬‬


‫کہ جب وہ جذب ہوجانے رگوں میں چون کے ماتند۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪- 212 -‬‬


‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ہاسینل میں آیرنسن ت ھئیر کے یاہر سن پیبھا وہ اتنی لینی دت نا یر ماتم کناں تھا‪،‬شب کجھ جیسے یل‬
‫میں چبم ہوا تھا اس وقت جب ڈاکیرز نے اسے تنایا کہ نہاں آنے سے نہلے ہی اس کی مکی ِن‬
‫ی‬
‫دل اتنا دم یوڑ جکی تھی‪،‬کییے ہی آنسو گرے تھے اس کی جاموش آیکھوں سے‪،‬نےیایر آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫زمین یر گڑیں یاجانے کنا یالش رہی تھیں ساید وہ چوسی چو یاذلی چہایگیر کو دیکھ اکیر اسے ہوپی یر‬
‫اع جاں اسے ین تنہا چھوڑ کر چو جلی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫ر‬‫آخ‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫واال‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫رہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ن‬ ‫وش‬ ‫چ‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫اب یو وہ ک‬
‫م ِ‬
‫گنی تھی‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔!!!"‬
‫اجایک آپی سکندر صاجب کی آواز یر وہ اتنا تھاری ہویا سر اتھایا‪،‬ضنط کے یاعث جد سر زیادہ الل‬
‫آیکھوں نے سا میے دیکھا چہاں سے سکندر صاجب اور مہناز تنگم سمیت ہناد قلذہ اور چہایگیر صاجب‬
‫تھی اتھی ہڑیڑاہٹ‬
‫آنے تھے‪،‬‬

‫"ڈاکیرز نے کنا کہا۔۔۔یاذلی تھنک یو ہے یا۔۔۔"‬

‫‪- 213 -‬‬


‫سکندر صاجب نے اس کے یاس آکر یوچھا‪،‬چہایگیر صاجب دل میں کنڈلی مارنے نےبجاشہ ڈر کی‬
‫یدولت جپ کھڑے ہیبم کے یو لیے کے می نظر تھے‪،‬الییہ ان کا گ ھیرایا چہرہ ایدر کے چوف کی‬
‫غکاسی ضرور کررہا تھا‪،‬اتنی پینی کو کھونے کا چوف‪،‬‬

‫"یولو تھی ہیبم۔۔۔کیسی ہے وہ اتھی۔۔۔زیادہ چوٹ یو نہیں آپی یاں۔۔۔"‬


‫اس کی چظریاک جد یک جاموسی یر سکندر صاجب نے یرنشاپی میں ہیبم کا کندھا ہالیا‪،‬‬

‫"یا۔۔۔یا۔۔۔میں یریاد ہوگنا۔۔۔شب۔۔کجھ جت۔۔چبم۔۔ہوگنا۔۔۔"‬


‫یری طرح ہارا ہوا ایداز تھا اس کا‪،‬یونے لہچے میں یولنا وہ آخر میں روہانشا ہوا‪،‬مہناز تنگم نے گ ھیراکر‬
‫چہایگیر صاجب کو دیکھا تھر ان کے تیجھے آپی مطییہ کو جس کا سفند چہرہ یوں لگ رہا تھا جیسے اس‬
‫میں چون کی ایک یوید یہ ہو‪،‬ل بوں یر یار یار زیان ت ھیرپی وہ اتنی یگڑپی جالت یر قایو یانے کی یاممکن‬
‫کوشش کیے چہایگیر صاجب کے یرایر میں کھڑی ہوپی تھی‪،‬‬

‫"ہوا کنا ہے۔۔۔"‬


‫اس کی یاپیں چظریاک جد یک سمجھ آجکی تھی سکندر صاجب کو تھر تھی وہ یرنشان ہوکر یلند آواز‬
‫میں تھر یو چھے یر تبھی ہیبم کی نگاہ چہایگیر صاجب سے چنکے کھڑی مطییہ یر گنی چو کافی گ ھیراپی‬
‫‪- 214 -‬‬
‫ہوپی لگ رہی تھی‪،‬سدید عم و اسنعال اور نفرت کی ایک لہر دوڑی تھی اس کے وچود‬
‫میں‪،‬نےنسی کی اتنہا کو نہیح نا وہ سکندر صاجب کے یرایر سے ہویا مطییہ کے یاس گنا تھر تنا‬
‫کسی کا لجاظ کرنے زور دار ت ھیڑ اس کے گال یر رسند کنا‪،‬وہ چو نہلے ہی چوفزدہ ہوپی تھی اس‬
‫کے چود کو دیکھیے یر اب تھاری ہاتھ کا ت ھیڑ یڑنے ہی یڑپ کر چیچی‪،‬شب نکایک چو یکے‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔یاگل ہو گیے ہو کنا۔۔۔"‬


‫ً‬
‫چہایگیر صاجب نے مطییہ کو فورا چود سے لگاکر غضب تھری آواز میں کہا‪،‬‬

‫"اس نے مار ڈاال میری یاذلی کو۔۔۔جاچو یہ قا یل ہے میری یاذلی کی۔۔۔وہ مرگنی اس کی نفرت‬
‫سے۔۔۔مار ڈاال تم نے۔۔۔"‬
‫سکندر صاجب اور مہناز تنگم چو اس کی خرکت یر ہیبم کو ڈا پییے لگے تھے ہیبم کے الفاظوں نے ان‬
‫شب کو تبھر کر دیا‪،‬چہایگیر صاجب کا ہاتھ نےاجینار ہنا تھا مطییہ کے کندھے سے اور وہ لڑکھڑا‬
‫کر جلدی سے دیوار کو تھامے‪،‬یاذلی کی اجایک موت انہیں سدید نےنقینی میں مینال کی تھی‪،‬قلذہ‬
‫اور ہناد تھی یری طرح چو یکے تھے اس کی یات یر‪،‬چنکہ مہناز تنگم ا تیے پییے کی یوپی جالت دیکھیے‬
‫رہ گییں‪،‬‬

‫‪- 215 -‬‬


‫"کنا علظی تھی اس کی۔۔۔ک بوں مارا تم نے اسے۔۔۔ک بوں۔۔"‬
‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫اجایک مطییہ کو یری طرح ھوڑیا م دھاڑا‪،‬یاذلی کی موت کا سن کر اتنا دماغ ماؤف مجسوس‬
‫ج‬
‫کرپی مطییہ اب یاقاعدہ یلند آواز میں رونے لگی تھی‪،‬وہ چیخ رہا تھا اس یر لنکن وہاں کھڑے نقوس‬
‫میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اب اسے چھڑواسکے ہیبم کی گرقت سے‪،‬تھر چود یر قایو کرپی مہناز‬
‫تنگم آگے یڑھیں اور مطییہ کے یازوؤں کو زیردسنی اس کی شخت گرقت سے آزاد کرپی مطییہ کو‬
‫ی‬ ‫ی‬‫م تھ‬
‫چود یں چی‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔جالت دیکھو اس کی۔۔۔کس قدر ہلکان ہورہی ہے۔۔۔اور تم ہو کہ نےپیناد الزامات‬


‫م‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫چ‬
‫لگارہے ہو۔۔۔ عری نے تنایا یو ہے کہ یاذلی گری ھی ھت سے۔۔۔اس یں طییہ کا کنا‬
‫قصور۔۔۔"‬
‫ا تیے سے لگی مطییہ کو نےبجاشہ رونے دیکھ مہناز تنگم نے اس کی نست شہالکر ہیبم سے کہا‪،‬‬

‫"آپ نہیں جاتنی اسے۔۔۔ماما یہ وہ آسیین کا ساتپ ہے چو اتنی نفرت میں ایدھا ہوکر کجھ تھی‬
‫کرنے کو تنار ہویا ہے۔۔۔اس کی نفرت نے کھالنا میری یاذلی کو۔۔۔وہ معصوم یو محیت کرپی‬
‫تھی اتنی اس نہن سے یر یہ گھینا۔۔۔"‬

‫‪- 216 -‬‬


‫"ہیبم نس کرو۔۔۔ہوش میں تھی ہو کیسے لفظوں کا اسنعمال کررہے ہو"‬
‫اب کی یار سکندر صاجب اس کی یات کاٹ کر یرسے تھے‪،‬‬

‫"وہ یاگل نہیں ہے چو اتنی ہی نہن کو مارے گی۔۔۔یاذلی کو ضرف تم نے ہی نہیں کھویا‬
‫ہے۔۔ضرف تم اکلونے ہی اس سے محیت نہیں کرنے تھے۔۔۔ہم شب دل گرفیہ ہیں ل نکن‬
‫اس کا مظلب یہ یو نہیں تھا کہ اس کی موت کا ذمہ دار کسی کو نہرا کر اس یر اتنا غصہ‬
‫ایاریں۔۔۔اور چہاں یک‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫چن ی‬
‫ی‬ ‫ن‬
‫ف فت د ھی جانے یو م سے زیادہ ل ف طییہ اور چہا گیر کو ہے۔۔۔"‬
‫ان کی یات یر نےنسی تھرے غصے میں وہ مطییہ کو گھورا تھا چو یری طرح لرزنے ہونے مہناز‬
‫تنگم کے سییے سے لگی رورہی تھی‪،‬وہ نہیں جاتنی تھی کہ کبھی انشا تھی ہوگا۔۔۔‪،‬جس کے لیے‬
‫وہ ا تیے عرصے سے دعاپیں کرپی تھی آج وہ ہونے یر مطییہ چہایگیر زرا چوش یہ تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یاذلی کی ڈ تبھ کو دیڑھ سال گزر جکے تھے‪،‬ان دیڑھ سالوں میں دویوں گھروں میں عح یب سوگ سا‬
‫رہنا‪،‬اس کی ڈ تبھ یر عندلیب آپی تھی‪،‬اس کے لیے تھی یاذلی کی یہ یاگہاپی موت کسی صدمے‬
‫سے کم یہ تھی‪،‬چند مہی بوں نعد مس قاریہ کی کال یر مہناز تنگم نے اسے وانس تھیج دیا تھا‪،‬اس‬
‫‪- 217 -‬‬
‫کی موت سے چہاں سبھی سوگوار ک نف یت میں رہیے وہی ہیبم کی دتنا رک جکی تھی‪،‬شب کے سا میے‬
‫اب زیادہ یر جاموش ر ہیے واال ہیبم اکیر رایوں کو اسے یاد کر کے بچوں کی طرح رویا‪،‬اس کے ساتھ‬
‫گزارا ہر وہ معصوم چونصورت لمچہ اس کے ذہن میں چھلک کر آیکھوں کو الل کر ڈال نا‪،‬ان دیڑھ‬
‫سالوں میں اس نے جینی سدت سے یاذلی چہایگیر کو یاد کنا تھا اتنی ہی سدید نفرت اس کے دل‬
‫میں مطییہ چہایگیر کے لیے یڑھی تھی‪،‬نےنسی اتنی تھی کہ وہ جاہ کر تھی اس نےجس لڑکی کا‬
‫کجھ نگاڑ نہیں سکنا تھا‪،‬وخہ چہایگیر صاجب کی خراب ہوپی طی نعت‪،‬یاذلی کی موت سے جس یری‬
‫طرح وہ منایر ہونے تھے اب ایک پینی کا انہیں شہارا تھا اور ہیبم اتنی نفرت میں ان کو نکل نف‬
‫نہیں دے سکنا تھا تبھی نےنسی میں جاموسی کا لنادہ اوڑھ چکا تھا‪،‬‬

‫دوسری جاتب اس عرصے میں مطییہ جینا بجھناپی تھی اتنا کم تھا‪،‬یاذلی کی موت نے اسے یری‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ج‬
‫طرح ھوڑ کر رکھ دیا تھا‪،‬آ ھوں سے فرت کا یردہ ہنا یو اجشاس ہوا کہ ا نی چ بوپی محیت یں وہ‬
‫کس قدر گناہگار نہراپی ہے‪،‬چو وہ جاہنی تھی وہی ہوا تھا‪،‬اس کے اور ہیبم کے تیچ اب یاذلی نہیں‬
‫تھی مگر اس کے یاوچود ایک یل کا سکون اب اسے میسر یہ تھا‪،‬کینی راپیں وہ نےسکوپی میں رو‬
‫کر گزارپی‪،‬ضمیر تھا کہ اس یر مالمت کریا جس سے میہ چھنانے کی کوشش کرپی وہ تھوٹ کر‬
‫رونے لگنی‪،‬اس کے رونے میں کی نا بجھناوا ہویا مگر اب ان شب کا کوپی قایدہ نہیں تھا‪،‬وہ اکیر‬
‫دعا کرپی کہ وقت یلٹ جانے اور یاذلی وانس آجانے مگر یہ دعا دعا ہی رہ گنی‪،‬‬
‫‪- 218 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کنا یکواس ہے۔۔۔!"‬
‫وہ چھنکے سے کھڑا ہویا دھاڑا‪،‬‬

‫آج سکندر صاجب نے اسے ایک ضروری یات کرنے کے لیے ا تیے اِ سنڈی روم میں یالیا‬
‫تھا‪،‬وہاں یر جب سے ان کی یاپیں جاموسی سے سییے ہیبم کے کایوں میں جب ا یکے یہ الفاظ‬
‫گو بچے کہ اگلے مہییے وہ اس کا نکاح مطییہ سے کرنے کا ارادہ رکھیے ہیں یو یہ یات ہیبم کے ایدر‬
‫جسر سا یریا کرگنی اور چود یر قایو یہ یایا وہ تھڑک اتھا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"میری یات نہلے بجمل سے سن لو ہیبم۔۔۔"‬
‫ی‬
‫اس کے ضنط سے سرخ چہرے کو دیکھ انہوں نے آرام سے کہا‪،‬مفایل کی سرخ سوخی آ کھیں‬
‫اور ان کے گرد ہلقے رت جگے کی عمازی کررہے تھے‪،‬ا تیے پییے کی جالت دیکھ ان کو نہت دکھ‬
‫ہویا تھا‪،‬‬

‫‪- 219 -‬‬


‫"یہ یات بجمل سے سییے والی نہیں ہے یایا۔۔۔آپ سوچ تھی کیسے سکیے ہیں انشا۔۔۔یاذلی کی‬
‫ڈ تبھ کو اتھی دن ہی کییے ہونے ہیں۔۔۔اور آپ کو میری دوسری سادی کی یڑ گنی۔۔۔"‬
‫ان کی سوچ یر مالمت سے کہنا ہیبم نےجد دکھی ہوا‪،‬‬

‫"جاتنا ہوں۔۔۔دیڑھ سال ہونے کو ہیں۔۔۔"‬


‫ی‬
‫یرسکون لہچے میں کہیے وہ جئیر سے تنک لگانے الییہ ان کی آ کھیں میں ئمی چھلکی تھی مگر وہ یہ‬
‫یات کرنے اس کے سا میے یرسکون رہنا جا ہیے تھے‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔دکھ ہمیں تھی نہت ہے۔۔۔مگر اس کا مظلب یہ یو نہیں یا کہ ہم اتنی زیدگی ایک ہی‬
‫جگہ روک دیں۔۔۔یا آگے یڑھیں یا تیجھے۔۔۔اور یہ نکاح میں سوق سے نہیں کروارہا ہوں۔۔۔جاتنا‬
‫ہوں ئمہیں سیبھلیے میں اتھی وقت ہے اسی لیے ضرف نکاح۔۔۔"‬

‫ت ُ‬
‫ڈیڈ میں نکاح کا سوچ تھی نہیں سکنا اور وہ ھی اس۔۔۔‬
‫مطییہ کا سوچیے ہی ہیبم کے ایدر یک کڑواہٹ گھلی تبھی رک کر جاموش ہوا‪،‬‬

‫"سکندر ضحیح کہہ رہے ہیں ہیبم۔۔۔اگلے مہییے ضرف نکاح ہوگا۔۔۔رچصنی اتھی نہیں ہوگی۔۔۔"‬
‫‪- 220 -‬‬
‫اسنڈی روم میں داجل ہوپیں مہناز تنگم نے تھی سوہر کی یاتند کرنے سیحندگی سے کہا‪،‬ہیبم نے‬
‫جیرت سے انہیں دیکھا تھر دویوں کی جاتب دیکھنا مالمت سے کہا‪،‬‬

‫"آپ شب نےجس ہیں۔۔۔کسی کو یرواہ نہیں میری یاذلی نےقصور اس نےجس لڑکی کی نفرت‬
‫کا سکار تنی اور آپ لوگ ہیں کہ اس کی موت کو اتھی عرصہ نہیں ہوا اور مجھے اسی نےجس لڑکی‬
‫سے نکاح کا کہہ رہے ہیں۔۔۔نف ہے آپ لوگوں کی سوچ یر۔۔۔"‬
‫عم و غصے کی ک نف یت میں مینال وہ نہلی مرتیہ ا تیے ماں یاپ سے یدئمیزی کررہا تھا مہناز تنگم کی‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫س‬
‫آ یں م ہوپی یں ان دویوں کو د کھ م وہاں سے لیے لگا گر ھی کندر صاجب کے‬
‫الفاظوں یر رکا‪،‬‬

‫"چہایگیر جاہنا ہے یہ۔۔۔وریہ مجھے سوق نہیں کہ ئمہارے زچم چ ھیڑوں۔۔۔"‬


‫ہیبم یلٹ کر سدید جیراپی سے سکندر صاجب کو دیکھیے کے نعد مہناز تنگم کو دیکھا چو اتنات میں سر‬
‫ہالپی اس یات کی نضدیق کیں‪،‬‬

‫"چہایگیر تھاپی کی طی نعت کافی خراب رہیے لگی ہے۔۔۔ایک پینی کا نضیب اچھا تھا یو اس کی‬
‫زیدگی کم۔۔۔مگر اب وہ ڈرنے ہیں اتنی دوسری پینی کے نضیب سے۔۔۔۔ہم نے ہناد سے رسیے‬
‫‪- 221 -‬‬
‫کا کہا یر وہ گ ھیرانے ہیں۔۔۔انہیں تم یر تھروشہ ہے۔۔۔۔تبھی انہوں نے ئمہارا یام لنا۔۔۔وہ‬
‫نہت یرامند ہیں تم سے کہ تم انہیں انکار نہیں کروگے۔۔۔۔یافی ئمہاری مرضی۔۔۔۔اگر جاہو یو‬
‫م نع کرد ت نا انہیں جاکر۔۔۔ک بویکہ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ایک محبور یاپ کو میہ یر یہ کر‬
‫سکیں۔۔۔"‬
‫پ‬
‫یوری یات کہہ کر مہناز تنگم سکندر صاجب کے یرایر میں رکھیں جئیر یر یبھی تھیں‪،‬ہیبم کو ات نا‬
‫کھڑا یک رہنا مجال لگیے لگا تبھی وہاں سے پیزی میں نکلنا وہ یاہر یورچ میں آیا‪،‬اتنی کار میں پیبھ کر‬
‫وہ ا تیے سے دور نہت دور آیا تھا‪،‬کافی دیر کی ڈرات بویگ کے نعد اس نے چھنکے سے کار روکی‪،‬دم‬
‫گھییے یر کار سے نکل کر اس نے کھلی ہوا میں گہرے سانس تھرے تھے‪،‬اس وقت وہ آیادی‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ُ‬
‫ی‬
‫ن‬
‫سے کجھ دور ایک ل یر ھڑا تھا‪،‬چہاں رات کے اس ہر کوپی نی یوح انشان موچود یہ تھا‪ ،‬ل‬
‫ُ‬
‫سے تیچے یاپی دیکھیے اسے لگا کہ ایک موپی آیکھوں سے یوٹ کر دور تیچے یاپی میں گم ہوا تھا اور‬
‫ہیبم کو جلد اجشاس ہوا کہ اس کے گال تھی تھنگے ہونے ہیں‪،‬وہ تھر رورہا تھا‪،‬ہر یار کی طرح‬
‫اس یار تھی وہ ا تیے آنسوؤں کو یوبجھیے کی زچمت یہ کنا تھا‪،‬یاذلی کا معصوم چہرہ یکدم اسے یاپی‬
‫کی ہلکی لہروں میں مشکرایا دکھا تھا اور درد کی سدت سے جب دل تھییے کے فرتب ہوا یو نےاجینار‬
‫ہوکر وہ رونے ہونے چیجا تھا‪،‬‬

‫"یاذلی۔۔۔!!‬
‫‪- 222 -‬‬
‫وانس آجاؤ یار۔۔۔"‬
‫آنسو روکنا وی ِال جاں تنا یو وہ بچوں کی طرح اسے نکاریا وہی پیبھنا جال گنا‪،‬اس کی ششکنی نکار ساید‬
‫یادلوں کو تھی اداس کرگنی تھی‪،‬تبھی اگلے ہی یل یارش کی یوچھاڑ نے یل یر تیچے پیبھ کر رونے‬
‫ہونے ہیبم سکندر کو تھگو کر رکھ دیا‪،‬رات کا ایک ایک نہر گزرنے لگا ساتھ ہی یارش تھی پیز ہوپی‬
‫اع جاں کو یاد کریا رویا رہا‪،‬دل میں عح یب کلس‬
‫گنی مگر وہ ہر جیز سے نےنہرہ وہاں پیبھے اتنی من ِ‬
‫تھی کہ نس ایک مرتیہ وہ سا میے آجانے یو اسے چود میں اس طرح چھنالے کہ کوپی اس کی یاذلی‬
‫کو اس سے دور یہ کرسکے۔۔۔۔یر یاذلی ہوپی یو اس کے یاس آپی‪،‬صیح کی کرپیں نکلیے لگی یو یارش‬
‫تھی کم ہونے لگی مگر یل یر رونے اس عاسق کا جیسے آج ا تیے اسکوں یر قایو نہیں تھا‪،‬‬

‫"ئمہیں معلوم ہے جایاں۔۔!!‬


‫محیت کس کو کہیے ہیں۔۔؟؟‬
‫ئمہیں سوچنا۔۔!‬
‫تھر مشکرایا۔۔!‬
‫اور تھر آنسو نہانے نہانے سوجایا۔۔!!!"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 223 -‬‬
‫"امند ہے تھر مالقات ہوگی۔۔۔"‬
‫معاذ کے یال شہالیا وہ یرم مشکراہٹ سمیت یوال‪،‬‬

‫ہاسینل سے ڈشجارج ہونے آج اسے ایک ہفیہ ہوچکا تھا‪،‬عندلیب کے کہے کے مظایق ا تیے‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫گ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫م‬‫ک‬‫ی‬
‫چوایوں کی ل کے لیے وہ دریہ م کے ساتھ اس شہر سے دور جارہا تھا‪ ،‬ھی لی اور آخری‬
‫مرتیہ عندلیب کی یاد میں اورفوتیچ کا جکر لگانے کا سوجا‪،‬نہاں آکر اس نے جب بچوں سے یاپیں‬
‫کیں یو ان کی معصومایہ یایوں سے زچمی دل تھوڑا نہت یرسکون ہوا تھا‪،‬نہت اچھا وقت گزرا تھا‬
‫اس کا بچوں کے ساتھ‪،‬اب وہاں سے جانے کا ارادہ کریا وہ اتھا تھا‪،‬‬

‫"آپی اب کبھی نہیں آ پیں گی نہاں یر۔۔۔"‬


‫س‬
‫اقسردہ لہچے میں کہیے والی یہ یانفہ تھی‪ ،‬لسینل کے مشکرانے لب سمیے‪،‬نفی میں سرہالیا وہ یانفہ‬
‫کے ایدر اتھنی تھوڑی نہت امند یر تھی اوس ڈال گنا‪،‬‬

‫"آپی ضحیح کہنی تھی۔۔۔آپ یلکل یرے نہیں ہو۔۔۔"‬

‫‪- 224 -‬‬


‫س‬
‫لسینل چونکا تھا معصومیت سے کہنی نسمہ کی یات یر تھر آہسنگی سے مشکرایا چھک کر چود کو‬
‫جب سے مہو تت سے یکنی نسمہ کا ماتھا چوما تھا ساتھ ہی کھڑا ہوا‪،‬‬
‫ان شب سے مل کر وہ نکال تھا اورفوتیچ سے‪،‬‬

‫س‬
‫" لسینل صاجب تنکسی آگنی ہے۔۔۔"‬
‫س‬
‫گھر میں داجل ہویا لسینل فرمان کے کہیے یر اتنات میں سر ہالیا یوال‪،‬‬

‫"سامان رکھ دیا۔۔۔"‬

‫"خی صاجب۔۔۔"‬

‫"ہمم۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫ت س‬
‫ک‬‫ن‬
‫ل ا تیے کجھ ضروری سامان لینا وہاں سے ال‪،‬گیٹ تند کرنے‬ ‫اسکے چواب یر ہ نکارا ھریا‬
‫سے نہلے اس نے چ یب میں ایک مرتیہ عندلیب کے لکھے گیے اس لئیر کے ہونے کی نضدیق‬
‫پ‬
‫کی‪،‬تھر مین گیٹ کی جاپی فرمان کو د ت نا وہ یاہر آیا چہاں دریہ تنگم تنکسی میں یبھی اسے ہی دیکھ‬

‫‪- 225 -‬‬


‫رہی تھیں‪،‬ایدر پیبھ کر وہ ایک جاموش نظر دریہ تنگم یر ڈالی جس یر ایک آسودہ مشکراہٹ سمیت‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫اسے د یں وہ ایک آخری ظر ھر یر ڈالی یں‪،‬‬‫ی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پ‬
‫تنڈ یر تھاری ہونے سر کے ساتھ یبھی وہ کجھ ہی دیر نہلے نےبجاشہ رو کر اب تھوڑا سیبھلی‬
‫تھی‪،‬یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دم گ ھٹ جانے گا اور وہ مرجانے گی‪،‬اور دم ک بوں یہ گھینا اس‬
‫کا‪،‬یہ کمرہ اس کا تھوڑی تھا‪،‬یہ کمرہ یو اس شخص کا تھا چو اس سے نےتناہ نفرت کا دعویدار‬
‫اع جاں کو وہ اگر زرا تھی نفضان‬ ‫م‬
‫تھا‪،‬چو اسے کینی مرتیہ یہ دھ کی دے چکا تھا کہ اس کی من ِ‬
‫نہیجانے گی یو وہ شخص اس کی جان لے ل نگا مگر اب۔۔۔‪،‬‬
‫اب اس ہی کے کمرے میں اس کی ت بوی کی چیی یت سے پیبھنا مطییہ کے لیے وی ِال جاں سے‬
‫کم یہ تھا‪،‬ہاں وہ چواہش مند تھی ہیبم سکندر کو یانے کی مگر اب جب وہ اس کا ہوا تھا یو مطییہ‬
‫چہایگیر کے ایدر و یاہر ضرف ایک ہی جذیہ تھرا تھا اور وہ تھا چوف کا‪،‬جن جاالت میں ان دویوں کا‬
‫نکاح ہوا تھا اس میں یو مطییہ کے ایدر چوسی کی کوپی رمق یہ تھی‪،‬‬

‫اس رات کے نعد جب دوسرے دن ہیبم آقس میں چہایگیر صاجب کے یاس گنا تھا‪،‬یکھرے‬
‫جلیے سمیت وہ انہیں تنا کسی لجاظ کے واضح لفظوں میں مطییہ سے نکاح کے لیے انکار کرچکا تھا‬
‫‪- 226 -‬‬
‫جس یر چہایگیر صاجب نے اس وقت کجھ نہیں کہا یا ساید سرم سے وہ اس قایل نہیں رہے‬
‫تھے کہ اس سے الیجاء کرسکیں چو تھی تھا یر اگلے دو دن یرسکوپی سے گزرنے کے نعد آقس میں‬
‫ہی چہایگیر صاجب کی طی نعت اجایک یگڑی تھی‪،‬جالت اتنی خراب ہوپی کہ انہیں فوری ظور یر‬
‫ہاسینل میں ایڈمٹ کروایا گنا‪،‬ایک ہفیے یک ہاسینل میں رہیے کے یاوچود جب ان کی طی نعت ید‬
‫سے یدیر ہونے لگی یو انہوں نے نہاتت ہی مح بوری میں ہیبم سے الیجاء کی تھی مطییہ سے نکاح‬
‫کی‪،‬ہیبم چو اس وقت تھی انکار کا ارادہ رکھنا تھا ڈاکیرز سے یہ سییے کے نعد کہ ان کے یاس زیادہ‬
‫وقت نہیں اس نے نےنسی میں ا تیے لب سیے تھے‪،‬دوسری جاتب مطییہ چو نہن کے جانے‬
‫کے نعد ایک بجھناوے میں اب یک گ ھٹ رہی تھی یاپ کی جالت یر وہ رو رو کر نےجال ہوپی‬
‫تھی نضاد اس یر ہیبم سے نکاح کا سن کر اسے لگا کہ وہ لوگ اس کی موت کا یروایہ سنارہے‬
‫ہیں اسے‪،‬یاپ کی خراب ہوپی جالت کے پی ِش نظر وہ انکار کے لیے الفاظ کا چناؤ یہ کریاپی کہ وہ‬
‫جاہنی تھی ہیبم سکندر اس کا ہو یر ا نسے۔۔۔‪،‬کبھی تھی نہیں‪،‬ہیبم کی نفرت کا چوف ذہن میں‬
‫اس قدر سوار تھا کہ اب وہ جاہ کر تھی کبھی اس کی زیدگی میں داجل ہونے کی چواہش مند یہ‬
‫تھی‪،‬‬

‫اور تھر آج رات ہی وہ دویوں اس ان جاہے رسیے میں تندھے تھے‪،‬چہایگیر صاجب نے اتنی‬
‫طی نعت کو ِمدنظر رکھ کر اس ہی وقت یونہی سادگی میں رچصنی کی درچواشت کی تھی جس یر مہناز‬
‫‪- 227 -‬‬
‫تنگم اور سکندر صاجب کو کوپی اعیراض نہیں تھا‪،‬ان دویوں نے تھی چہایگیر صاجب کی یات یر‬
‫انفاق کنا تھر رات زیادہ ہونے یر مہناز تنگم قلذہ سمیت مطییہ کو ہاسینل سے ا تیے ساتھ سکندر‬
‫وال لے آ پیں‪،‬ہناد اور سکندر صاجب ہاسینل میں ہی نہرے تھے‪،‬ان سبھی کارواپی کے دوران‬
‫ہیبم چظریاک جد یک جاموش تھا‪،‬اس کا سلگنا دماغ یاجانے کنا م نصویہ تندی کررہا تھا چو وہ نکاح‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ً‬
‫کے فورا نعد سی کی یرواہ کیے عیر ہو ل سے نکلنا الگنا‪،‬‬

‫وہ مہناز تنگم کے ساتھ آج رات رہنا جاہ رہی تھی یر مہناز تنگم نے اسے سمجھا بجھا کر قلذہ کے‬
‫پ‬
‫ساتھ ہیبم کے کمرے میں تھیج دیا تھا‪،‬اب اس کے تنڈ یر ھی طییہ جب سے جاموسی سے‬
‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬

‫اتنی جالی ہبھنلی کو دیکھ رہی تھی‪،‬ذہن یری طرح مییسر ہورہا تھا آج ہونے وا قعے یر‪،‬اس نے‬
‫نظریں اتھاکر دیوار کی جاتب دیکھا چہاں نسب یاذلی کی النعداد نصویریں اسے اجشاس دالرہی تھیں‬
‫کہ وہ نہاں ہوکر تھی کہیں نہیں تھی چنکہ یاذلی چہایگیر نہاں یہ ہوکر تھی ہر طرف تھی‪،‬اتنا وچود‬
‫اسے ان قِٹ لگا تھا اس کمرے میں‪،‬اس کا ضمیر چیخ چیخ کر اسے یاور کرانے لگا کہ وہ ایک‬
‫جاسد لڑکی نہری تھی جس نے اتنی چوسی کے لیے اتنی نہن کو موت کے گھاٹ ایروانے کی دعا‬
‫کی‪،‬یدامت کے دو آنسو یلکوں سے گرے تھے‪،‬‬

‫"مطییہ۔۔"‬
‫‪- 228 -‬‬
‫قلذہ کی آواز یر اس نے چویک کر دروازے کی طرف دیکھا چہاں مالزمہ ہاتھ میں کھانے کی یرے‬
‫لیے کھڑی تھی اس ہی کے یرایر میں ہلکی مشکراہٹ کے ساتھ قلذہ اسے دیکھ رہی تھی‪،‬‬

‫"ماما نے تھچوایا ہے۔۔۔انہوں نے تنایا کہ تم نے صیح سے ہاسینل میں کجھ کھایا نہیں۔۔۔"‬
‫مالزمہ کو یرے رکھیے کا اسارہ کر کے وہ مطییہ کے یاس آنے ہونے یولی‪،‬‬

‫"تھوک نہیں۔۔۔"‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫ن‬ ‫ی‬
‫تنڈ یر ا تیے یاس نی لذہ کو د کھ وہ آ گی سے ی لذہ نے ا ک ظر اسے د کھا چو ل ک سادہ‬
‫ولی‪،‬ق‬ ‫ق‬
‫پ‬
‫سی قم نض سلوار یر سایوں یہ دو تیہ تھنالنے سرخ آیکھوں کو ت ھیرے یبھی تھی ساید آیکھوں میں‬
‫چھلکنی یدامت کو چھنانے کی اتنی سی کوشش کی تھی‪،‬‬

‫"انکل جلد تھنک ہو جاپیں گے مطییہ۔۔۔"‬


‫اس کے ہاتھوں کو یرمی سے تھام کر قلذہ نے سمجھانے والے ایداز میں کہا یو مطییہ نکل نف‬
‫سے اس کی طرف دیکھیے ہونے کہیے لگی‪،‬‬

‫"میں جاتنی ہوں میرے یایا کو کجھ نہیں ہوگا۔۔۔"‬


‫‪- 229 -‬‬
‫اس کے یوں کہیے یر قلذہ جاموسی سے اسے دیکھیے لگی‪،‬مطییہ اس کی دوشت تھی ا چھے سے‬
‫جاتنی تھی کہ وہ کجھ کہنا جاہ رہی ہے اس سے‪،‬‬

‫"یولو تھر کنا یات ہے۔۔۔"‬


‫کجھ دیر یک جاموسی رہی یو قلذہ نے آخر سیحندگی سے یوچھنا ہی ضروری سمجھا‪،‬‬

‫"میرا نقین کرو قلذہ۔۔۔میں نے نہیں مارا یاذلی کو۔۔۔می۔۔میں ماتنی ہوں کہ میں علط۔۔"‬

‫"اوہ گاڈ مطییہ۔۔۔مجھے لگا کوپی یڑی یات ہے۔۔۔اب چھوڑ تھی دو اس یایک کو۔۔۔ہم شب‬
‫کو نقین ہے کہ تم نے نہیں مارا اسے۔۔۔اس کی زیدگی اتنی ہی تھی خی لی۔۔۔اب کنا ہمیشہ‬
‫ہی سوگ منانے رہوگی تم اس کا۔۔۔"‬
‫مطییہ کی یات کاٹ کر وہ پیزاری سے یولی‪،‬مطییہ نے جیرت سے قلذہ کو دیکھا تھر نہاتت بخیر‬
‫سے یولی‪،‬‬

‫"قلذہ۔۔۔نہن تھی وہ میری۔۔۔"‬


‫ِ‬

‫‪- 230 -‬‬


‫ی‬
‫اس کے چملے یر قلذہ نے یو آ کھیں گھوماپی تھیں یر مطییہ کے ایدر جیسے اس کا ضمیر ہیشا تھا‬
‫اس یر‪،‬اب کنا قایدہ تھا یہ اجشاس کرنے کا وہ نہن تھی اس کی‪،‬‬

‫ا تیے چملے یر نےساجیہ چود ہی سرمندہ ہوپی وہ سر چھکاپی تھی یر تبھی یری طرح گ ھیرا کر رہ گنی‬
‫جب دھاڑ کی آواز کے ساتھ روم کا گیٹ کھال تھا‪،‬قلذہ تھی چویک کر سا میے دیکھی چہاں ہی مب‬
‫سرخ چہرہ لیے مطییہ کو سعلہ یار نگاہوں سے گھوررہا تھا‪،‬اس کی نظروں کا چود یر یڑیا تھا کہ مطییہ‬
‫ً‬
‫چوف سے نفرتنا لرزی تھی‪،‬‬

‫"تھاپی یہ میں کھایا۔۔۔"‬

‫"یرے اتھاؤ اور جاؤ نہاں سے۔۔۔"‬


‫مطییہ یر چون آلود نظریں گاڑے وہ قلذہ سے مجاطب ہوا تھا‪،‬‬

‫"یر تھاپی اس نے اتھی کھایا نہیں کھایا۔۔۔"‬


‫قلذہ وہاں رکے رہیے کا چواز پیش کرنے لگی مگر ہیبم کی ایک شخت گھوری یر ہی اس کا میہ تند‬
‫ہوا تبھی ایک چور نظر سفند یڑپی مطییہ یر ڈال کر وہ یرے اتھانے وہاں سے جانے لگی‪،‬‬
‫‪- 231 -‬‬
‫ل۔۔قلذہ۔۔مجھے۔۔آ۔۔۔آ تنی سے کک۔۔کجھ یات کرپی۔۔ہے۔۔"‬ ‫" ِق ِ‬
‫ل‬ ‫ی ن ً‬
‫جلدی سے کھڑی ہوکر وہ قلذہ کا یازو دویوں ہاتھ سے کڑے فرتنا ا یجاتناء ہچے یں یولی‪ ،‬یسے مدد‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫جاہ رہی ہو‪،‬‬

‫"ہا۔۔ہاں ک بوں نہیں۔۔۔ضرور۔۔۔آو میں ئمہیں ماما کے یاس لے جلنی ہوں۔۔تھر ئمہیں چو‬
‫یات کرپی ہو کرلینا۔۔۔"‬
‫ہیبم کے تبھر یلے یایرات دیکھ ِقلذہ تھی مطییہ کی یاتند کرنے ہونے یولی ساتھ ہی اسے ا تیے‬
‫ساتھ آنے کا اسارہ کی‪،‬‬

‫ن‬
‫وہ چو یلکل ِقلذہ سے چنک کر وہاں سے نکل رہی تھی گیٹ یر ہیحیے ہی ہیبم کی گرقت میں اتنا‬
‫یازو مجسوس کیے یوکھالپی‪،‬ادھر ِقلذہ کمرے سے نکل کر اب مطییہ کا یازو ہیبم کو جکڑے دیکھ‬
‫یولی‪،‬‬

‫"تھاپی مطییہ کو۔۔"‬


‫اتنی یات روک کر وہ تھرپی سے تیجھے ہوپی جب ہیبم نے اس کے میہ یر زور سے دروازہ تند کنا‪،‬‬
‫‪- 232 -‬‬
‫"گاڈ۔۔اتھی مجھے لگ جاپی یو۔۔۔"‬
‫زی ِر لب یڑیڑانے وہ سر چھنک کر گنی تھی وہاں سے‪،‬‬

‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ن ً‬


‫دروازہ تند کر کے وہ مطییہ کو فرتنا ھنک کر ھوڑا تھا‪ ،‬می ہوپی ظروں سے اسے د کھ طییہ‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫چ‬
‫نے ِراہ فرار یہ ملیے یر ا تیے قدم تیجھے لیے تھے‪،‬‬

‫"یو۔۔۔کیشا لگ رہا ہے مطییہ چہایگیر۔۔۔اتنی ہی نہن کے چق یر ڈاکہ ڈال کر۔۔۔"‬


‫دویوں یازوؤں کو فولڈ کر کے وہ اسے اسنہفامیہ نگاہوں سے گھورنے ہونے یوچھیے لگا‪،‬‬

‫"اسے۔۔۔مار کر تھی سکون نہیں مال چو میرے نکاح میں آنے کے لیے زرا دیر یہ لگاپی۔۔۔و نسے‬
‫مجھے لگنا ہے تم می نظر ہی ہو گی۔۔۔کہ کب کجھ عرصہ گزرے "میری یاذلی" کی۔۔۔۔۔موت کو‬
‫اور تم اتنا کام کرسکو۔۔۔"‬
‫اتنہاپی ضنط کیے کھڑا تھا وہ وریہ نس نہیں جل رہا تھا کہ سا میے کھڑی لڑکی جان لییے میں زرا‬
‫تھی دیر یہ کرے‪،‬دوسری جاتب ہیبم کے زہر یلے لفظوں کے زی ِر ایر وہ سرمشار سی سر چھکانے‬
‫رونے لگی تھی‪،‬‬
‫‪- 233 -‬‬
‫"جیر۔۔۔یلیینگ یو نہت زیردشت کی تھی تم نے۔۔۔اب دیکھو یا۔۔۔شب کجھ ونشا ہی‬
‫ہوا۔۔۔جیسے تم نے جاہا۔۔۔ہے یا۔۔۔"‬
‫اتنی یات کے اجینام یر وہ اس سے یوں یاتند جاہ رہا تھا جیسے کوپی یارمل یات ہو‪،‬‬

‫"میں نے نہیں مارا یاذلی۔۔۔"‬

‫"یام تھی مت لو ا تیے میہ سے میری یاذلی کا۔۔۔"‬


‫اس کی وصاجت یر تھڑکنا وہ مطییہ کا یازو جکڑ کر چھنکے سے ا تیے فرتب کنا تھا‪،‬ادھر مطییہ اتنا‬
‫ک‬‫ی‬
‫رویا تھولے شہماپی نظروں سے ا تیے سے فرتب مفایل کے وچنہہ چہرے یر شخت یایرات د ھی‬
‫تھی‪،‬‬

‫"نہت کرلی اتنی من ماپی تم نے مطییہ چہایگیر۔۔۔اب میری من ماپی دیکھنا جاہو گی۔۔۔"‬
‫اس کے چوف سے زرد یڑنے چہرے کو گھوریا وہ یوچھا ساتھ ہی مطییہ کو چھنکے سے چھوڑیا‬
‫وارڈروب کی طرف گنا‪،‬‬

‫‪- 234 -‬‬


‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫وہ چو یا ھی سے مفا ل کی کارواپی دیکھ رہی ھی اب یبم کے ہاتھوں میں اتنی سنکرتٹ ڈایری‬
‫دیکھ اسے لگا کہ اتھی اس کی روح یرواز ہونے لگی ہے‪،‬وہ ڈایری اس کے یاس کیسے آپی تھی یہ‬
‫مطییہ کی سمجھ سے یاالیر تھا‪،‬جس رات ہیبم نے وہ ڈایری یڑھی تھی تب سے مطییہ نے اس یر‬
‫ا تیے جذیایوں کو لکھنا چھوڑ دیا تھا مگر وہ اتنا ضرور جاتنی تھی مفایل کے ہاتھ میں اس کی ڈایری‬
‫مطییہ چہایگیر کو اتنی جان سے زیادہ عزیز تھی‪،‬آخر کو اس میں مفایل کے لیے ا تیے دل میں‬
‫تیییے جذیات لکھے تھے‪،‬‬

‫مطییہ کی نےنقین نظریں ڈایری یر چمے دیکھ ہیبم طیزیہ مشکراہٹ سمیت اتنی چ یب سے الپیر نکاال‬
‫تھا‪،‬‬

‫"اتنا شب کجھ ہونے کے نعد تھی تم نے اس یکواس جیز کو رکھا۔۔۔سو ت نڈ۔۔۔اب میں ئمہیں‬
‫اسکی اصل جگہ اور اوقات دکھایا ہوں۔۔۔"‬
‫ئمسجر سے کہنا اجایک آخر میں وہ عرایا ساتھ ہی الپئیر جالیا ڈاپیری کھول کر اس کے صفچے کو‬
‫جالنے لگا‪،‬جب سے سکیے میں کھڑی مطییہ ہوش میں آپی تھی تھر پیزی میں ہیبم کے ہاتھ سے‬
‫ڈایری لییے کے لیے یڑھی مگر وہ ا تیے ہاتھ تیجھے کریا اس کی کوشش کو یاآساپی یاکام تنایا تھا‪،‬‬

‫‪- 235 -‬‬


‫"ہیبم۔۔ہیبم۔۔یلیز انشا مت کرو۔۔۔یلیز۔۔دیکھو تم مجھے مارلو۔۔۔مگر یہ ڈایری نہیں۔۔۔"‬
‫دو صفجات کو جلیے دیکھ ہی مطییہ کی جان نکلیے لگی تھی تبھی رونے ہونے اس سے عاخزایہ لہچے‬
‫میں یولی‪،‬‬

‫"تم اس قایل نہیں کہ تم یر ہاتھ اتھاکر میں ا تیے ہاتھ گندے کروں۔۔۔ہاں یر اس نےکار‬
‫جیز کو جالنے میں مجھے تھوڑا نہت سکون مل ہی جانے گا۔۔۔"‬
‫اور صفجات یر الپئیر سے جالیا وہ آدھی ڈایری جلیے یر اسے تیچے تھی نکا تھا‪،‬مطییہ جلدی سے ڈایری‬
‫کو جلیے سے بجانے کے عرض اسے اتھانے کے لیے چھکی مگر تیج ھے سے اسے گرقت میں لینا ہیبم‬
‫اسے یہ کرنے سے تھی روک گنا‪،‬‬

‫"ہیبم نہیں کرو۔۔۔یلیز۔۔۔"‬


‫یلک کر رونے ہونے وہ مشلشل نفی میں سر ہالپی اتنی جلنی ڈایری کو اتھانے کی کوشش میں‬
‫تھی‪،‬مگر ہیبم کی گرقت اتنی کمر یر شخت یرین ہونے یر یڑپ کر یولی‪،‬‬

‫"قصول جیزیں جل کر جاکسیر کرنے کے لیے ہی ہوپی ہیں مطییہ چہایگیر۔۔۔۔"‬

‫‪- 236 -‬‬


‫اس کی یازک کمر یر یازو کی گرقت شخت کریا ہیبم نفرت سے یوال تھا‪،‬کمرے میں دھواں اتھیے لگا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"اور یلکل اس ہی تم۔۔۔"‬


‫یہ یات کہہ کر وہ چھنکے سے اس کا رخ اتنی جاتب کنا تھا‪،‬‬

‫سوج کر درد کرپی آیکھوں سمیت مطییہ ہیبم کو چوفزدہ نظروں سے دیکھیے لگی‪،‬‬

‫"ئمہاری اوقات تھی یلکل اس ہی طرح ہے۔۔۔تم جل کر جاکسیر ہوجاو گی مطییہ چہایگیر۔۔۔مگر‬
‫ہیبم سکندر کی آیکھوں میں کبھی ا تیے لیے ایک یرم جذیہ یک یہ دیکھ یاؤ گی۔۔۔کجا کہ‬
‫محیت۔۔۔میرے دل یر ضرف یاذلی ہی ملکیت کرپی تھی ہے اور رہے گی۔۔۔تم اس کی جگہ‬
‫کبھی لے ہی نہیں سکنی۔۔۔اور لو گی تھی کیسے۔۔۔ایک معصوم کی جگہ کبھی ایک قا یل لے‬
‫یایا ہے۔۔۔"‬
‫اس کے چہرے کو ہاتھ میں جکڑیا وہ یول نہیں تھ نکار رہا تھا‪،‬ایک طرف گرقت جس قدر شخت‬
‫تھی مطییہ کو لگا اس کا جیڑا یوٹ جانے گا دوسرا ہیبم کے الفاظ اسے لوہے کی گرم سالچوں کی‬

‫‪- 237 -‬‬


‫ی‬
‫طرح ا تیے کایوں میں ڈ لیے مجسوس ہونے یو وہ اذ تت سے آ کھیں میچ گنی‪،‬دل درد سے تھییے کے‬
‫فرتب ہوا تھا تبھی اس کو چھوڑیا وہ پیزی میں ڈرنسنگ روم کی طرف گنا تھا‪،‬‬
‫مطییہ جلدی سے چھکنی اتنی جل کر راکھ ہونے کے فرتب ڈایری یر ہاتھ مار کر ہلکی ہوپی آگ کو‬
‫بجھانے کی کوشش کرنے لگی‪،‬اس کوشش میں اس کی مجروطی انگلناں جل رہی تھی مگر وہ‬
‫جیسے درد سے نےیرواہ نس رونے ہونے اتنی ڈایری کے تھوڑے نہت بچے صفجات کو جلیے سے‬
‫رو کیے میں مصروف تھی‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد ڈرنسنگ روم سے ہیبم نکال یو اس کے ہاتھ میں ایک ہینڈ کیری تھی‪،‬مطییہ اب کافی‬
‫جد یک ان صفجات کو جلیے سے بجاجکی تھی تبھی چور نظر سے ڈرنے ہونے اسے دیکھیے لگی چو اب‬
‫یلکل اس کے سا میے کھڑا تھا‪،‬‬

‫نکاح کر کے چوش یو نہت ہورہی ہوگی تم کہ اب ہیبم سکندر کو یالنا۔۔۔مگر نےقکر رہو۔۔تم نے‬
‫ہیبم سکندر کو نہیں ضرف اس کے یام کو یایا ہے۔۔۔اور اب اسی یام کے ساتھ نہاں اتنی بچی‬
‫کچی زیدگی کایو۔۔۔ک بویکہ ہیبم سکندر کو گوارا نہیں ئمہارے ساتھ ایک یل تھی رہنا۔۔۔‬
‫اسنہزیہ ایداز میں کہنا وہ آخر میں اس دن کی طرح تھر آدھی بچی ڈایری یر ا تیے سوز رکھیے لگا تھا یر‬
‫تبھی مطییہ نے جلدی سے ڈایری کے اویر ا تیے دویوں ہاتھ رکھ دنے‪،‬ا ہیے سوز کے تیچے اس کے‬
‫‪- 238 -‬‬
‫ہاتھوں کو دیکھ ہیبم نفرت سے مطییہ چہایگیر کے تھنگے کرب رقم چہرے یر ایک آخری نظر ڈالنا‬
‫ہیبم کبھی وانس یہ آنے کا ارادہ کیے وہاں سے نکلنا جال گنا‪،‬سکندر صاجب جب نکاح کی فوری‬
‫تناری کررہے تھے وہ اس ہی وقت اتنی پیرس کی قالتٹ یک کروایا تھا‪،‬اس نے سوچ لنا تھا کہ‬
‫م‬
‫اتنی یڑھاپی وہی یر کمل کر کے وہ کوپی چھویا مویا یزنس کرے گا مگر اب کبھی سکندر وال کا‬
‫راشیہ تھولے سے تھی نہیں د یکھے گا‪،‬‬

‫اس کے جانے کے یات مطییہ یری طرح یوٹ کر رونے لگی تھی‪،‬ہبھنلناں جلیے یر تھی اسے وہ‬
‫درد مجسوس نہیں ہورہا تھا دل کے درد کے آگے‪،‬ایک طرف اتنی قسمت یر وہ ماتم کناں تھی یو‬
‫دوسری جاتب یاذلی کے مرنے کا بجھناوا چو اس کا سانس لینا تھی دسوار کررہا تھا‪،‬‬

‫"آپی۔۔۔"‬
‫ی‬
‫مایوس آواز یر مطییہ سر اتھاکر د کھی مگر اس کی چیخ نکلیے نکلیے رہ گنی دیوار کے ساتھ کھڑی یاذلی‬
‫کو دیکھ‪،‬‬

‫"ین۔۔یا۔۔یاذ۔۔لی۔۔"‬
‫ڈر جس قدر سوار ہوا تھا اسکے چواس میں وہ ئمسکل یو لیے کے قایل ہوپی‪،‬‬
‫‪- 239 -‬‬
‫"اتنی نفرت کرپی تھیں آپ مجھ سے۔۔۔مار ہی ڈاال۔۔۔"‬
‫یہ ہیبم کے لفظوں کا جد سے زیادہ ایرایداز ہویا تھا کہ اسکے ذہن کی نصویر میں یاذلی کی نصویر ین‬
‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫کر اس سے یہ اسنفشار کررہی تھی‪،‬اور وہ اسے چف نفت ھنی چوف سے آ ھیں ھنالنے جلدی‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫سے نفی میں سر ہالنے لگی‪،‬‬

‫"یہ۔۔نہی۔۔۔نہیں یا۔۔یاذلی می۔۔میں نے ت۔۔ئمہیں۔۔نہیں۔۔مم۔۔مارا۔۔"‬


‫ہکال کر یو لیے کی سعی کرپی وہ اسے نقین دالرہی تھی اتھی اگر کوپی اسے یونہی ا تیے آپ سے‬
‫س‬ ‫گ‬ ‫ن ً‬
‫یات کریا دیکھ لینا یو قینا یا ل ہی ھنا‪،‬‬
‫مج‬

‫"آپ ہی ہو یا میری قا یل آپی۔۔۔"‬

‫"نہیں ہوں میں قا یل۔۔۔نہیں مارا میں نے ئمہیں۔۔۔میں قسم کھاپی ہوں یاذلی۔۔۔میں نے‬
‫نہیں مارا۔۔کسی کو نہیں مارا میں نے۔۔۔"‬
‫وہ اب یاقاعدہ یاگلوں کی طرح سر نفی میں ہالپی میہ گھی بوں میں چھنانے یلند آواز میں یڑیڑاکر‬
‫رونے لگی تھی‪،‬مگر وہاں اس کی سییے واال کوپی ہویا یو سینا‪،‬‬
‫‪- 240 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دونہر میں سوا پیزے کو نہیچے سورج کی کرپیں اس یڑے سایدار سے آقس کی گالس وال یر یڑپی‬
‫انہیں ئمایاں کررہی تھیں‪،‬ایدر پیبھا وہ راکنگ جئیر کو گالس وال کی جاتب کیے و ققے و ققے سے‬
‫گھمایا سورج کی کریوں کو دیکھ رہا تھا‪،‬کابچ ماتند مگر سرد آیکھوں میں گہری سوچ کی لکیریں اتھری‬
‫ہوپی تھیں‪،‬گزرے ڈھاپی سال اسے یوں مجسوس ہونے تھے جیسے دو دن ہوں۔۔۔‪،‬ان ڈھاپی‬
‫سالوں میں وہ کس قدر محیت کنا تھا‪،‬رات دن ایک کرکے کام کریا‪،‬اتنہاپی لگن اور ذہاتت کی‬
‫یدولت اس کا چھویا سا سروع کنا یزنس نہت جلد وسنع تبمانے یر گنا تھا‪،‬دریہ تنگم اس کو اکیر‬
‫رایوں کو جاگ کر کام کرنے دیکھ آرام کی یلقین کرپیں یر وہ یہ یات انہیں نہیں تنا یایا کہ‬
‫س‬
‫اس دیواپی کی یاد لسینل مراد کو رایوں سونے نہیں د تنی‪،‬اسے الیا یو یاممکن تھا تبھی اتنا ذہن‬
‫کام میں لگاکر وہ دل میں اتھنی نکل نقوں کو کم کرنے کی کوشش کریا‪،‬‬

‫اب ا تیے آقس میں پیبھا وہ تھر یوری دتنا تھالنے گزرے سالوں کو سوچ رہا تھا‪،‬یہ اس کے روز‬
‫کا معمول تھا کہ کام میں دونہر کو تھوڑا یریک لے کر یراپی یادوں کو یازہ کریا‪،‬‬

‫مویایل کی ریگ یر سوچوں کا نشلشل یویا یو وہ کال رنسبو کریا مویایل کان سے لگایا‪،‬‬
‫‪- 241 -‬‬
‫"سر۔۔۔یولیس نفییش کررہی ہے یر انہیں کوپی سراغ ہی نہیں مل یارہا۔۔۔"‬
‫دوسری جاتب اس کا اشسی یٹ غفان تھا‪،‬چو کل رات کی گنی اس کی کاررواپی یر سنانسی لہچے‬
‫ش‬ ‫ُ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س س‬
‫ل‬
‫ل کے یراسے ہونے بوں یر یراسرار م کراہٹ نے‬ ‫میں یول رہا تھا‪،‬اس کی یات ییے‬
‫اجاطہ کنا‪،‬‬

‫"و نسے سر۔۔۔رایوں رات دوسرے شہر جاکر کسی ت ندے کا کام ئمام کریا کوپی آپ سے‬
‫سنکھے۔۔۔آنس کی یات ہے سر۔۔۔اب تناتھی دیں۔۔۔دسمنی کنا تھی آپ کی۔۔۔"‬
‫ا تیے یاس کی جاموسی یر غفان نے رازدارایہ لہچے میں تناکر آخر میں یوچھا‪،‬‬

‫"جاسوسی کرلی۔۔۔؟"‬
‫س‬
‫اجایک لسینل سرد لہچے میں یوچھا‪،‬‬

‫"خی یلکل سر۔۔۔"‬


‫غفان چوسی سے یوال‪،‬‬

‫‪- 242 -‬‬


‫"اب جاکر وہ کرو جس کے لیے تھیجا تھا۔۔۔"‬
‫شخت لہچے میں کہہ کر وہ کال کٹ کنا تھا‪،‬ادھر غفان چو چوسی سے ا تیے لیے نعرنف کے دو‬
‫یول سییے کا می نظر تھا اس کے شخت لہچے میں کہہ کر کال کا تیے یر میہ نسورا‪،‬‬

‫"کبھی چو سندھے میہ یات کرلیں۔۔۔"‬


‫چہرہ نگاڑ کر زی ِر لب یڑڑایا وہ کار میں پیبھا‪،‬‬

‫غفان سے یات کر کے وہ فون رکھا ہی تھا کہ ڈور یاک ہوا‪،‬اجازت ملیے یر ایدر آنے واال اس کا‬
‫سنکریری تھا‪،‬‬

‫"سر اتھی اگلے ایک گھییے یک آپ فری ہوں گے یو عدیل صاجب کے ساتھ مییینگ‬
‫رکھوالوں۔۔۔"‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ی‬
‫ل نے ا ک ظر ہاتھ یں نی‬ ‫پئیر یر اس کا سنڈول یڑھنا اس کا سنکریری یوال جس یر‬
‫رشٹ واچ یر یاتم دیکھا‪،‬آج اسے جلدی جایا تھا گھر‪،‬‬

‫"تھنک ہے۔۔۔"‬
‫‪- 243 -‬‬
‫س‬
‫اجازت ملیے یر وہ نکال تھا تبھی لسینل کا فون تھر بجا‪،‬‬

‫"اتنا وعدہ یاد ہے یا۔۔۔"‬


‫ی‬
‫دریہ تنگم کی آواز یر ہمیشہ کی طرح اس نے سکون سے آ یں مویدی‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫"خی کوشش ہے جلد آؤں۔۔۔"‬


‫جئیر سے تنک لگانے وہ یوال‪،‬‬

‫"کوشش نہیں الزمی آیا ہے۔۔۔نہلے یو اسماء اور عندلیب ہوپی تھی اب یو یلکل ہی یور ہوجاپی‬
‫ہوں اکنلے۔۔۔"‬
‫س‬
‫نےدھناپی میں کہنی دریہ تنگم کی زیان سے تھر وہی چملہ تھشال چو لسینل کو ہمیشہ کرب میں‬
‫مینال کرد ت نا‪،‬اجشاس ہونے یر وہ جپ ہوپی تھیں‪،‬‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل۔۔۔"‬

‫"سام کی جانے ساتھ تیے گے ہم۔۔۔"‬


‫‪- 244 -‬‬
‫ً‬
‫ان کی یات کاتنا وہ سیحندگی سے کہا ساتھ ہی کال کٹ کرکے مویایل نفرتنا پینل یر تھی نکا تھر‬
‫پیشاپی مشلنا ایک مرتیہ تھر یراپی یادوں میں گھرنے لگا‪،‬کس قدر چواہش مند تھا وہ اس مح بوب‬
‫لڑکی کے دیدار کا‪،‬اس کے دیدار میں وہ کییے ہجر کے دن کایا تھا مگر اب‪،‬وہ جاتنا تھا کہ اس کا‬
‫ہجر ہجر ہی رہ گنا ک بویکہ اس کی دل اسیر یو اس سے نہت دور جاجکی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ی‬
‫کھڑکی سے یاہر د کھنی وہ گزرے سالوں کو سوچ رہی تھی‪،‬چھنل آیکھوں کی ویراپی یاقای ِل تناں‬
‫تھی‪،‬یابچ سال ہونے کو تھے اس سبمگر کو گیے ہونے ا تیے کہے کے مظایق وہ واقعی نہیں آیا‬
‫وت گویاپی سے مجرومی نے‬ ‫تھا وانس سوانے ایک مرتیہ کے جب دو سال نہلے عندلیب کی ف ِ‬
‫سکندر صاجب کی نکل نف میں اصافہ کر کے انہیں موت کی گھاٹ ایارا تھا‪،‬ان کی موت کا سن‬
‫کر وہ آیا تھا‪،‬دو ہفیے چو وہ سکندر وال میں رکا تھا اس میں تھی مطییہ چہایگیر اور اس کا کبھی آمنا‬
‫سامنا یہ ہویایا تھا‪،‬ہویا تھی کیسے اسکے جکم یر دو ہف بوں یک مہناز تنگم نے مطییہ کو کمرہ نسین چو‬
‫کردیا تھا‪،‬ان دو ہف بوں میں وہ گیسٹ روم یک مجدود رہ گنی تھی‪،‬مالزمہ آکر کھایا دے جاپی اکیر یو‬
‫وہ تھوکے ہی رہنی اور تھر تھنک دو ہف بوں نعد وہ وانس جالگنا‪،‬مہناز تنگم نے کس قدر رو رو کر‬
‫اسے ر کیے کی میت کی تھی مگر وہ جیسے تبھر دل ہوچکا تھا‪،‬‬

‫‪- 245 -‬‬


‫اس قدر کے ان کے نکاح کی رات جب وہ گ نا یو دوسرے دن چہایگیر صاجب کی ڈ تبھ یر تھی یہ‬
‫آیا‪،‬اس دن مطییہ چہایگیر نہت روپی تھی‪،‬اسے سدت سے اجشاس ہوا تھا کہ ایک جشد کی آگ‬
‫میں چود کے ساتھ اتنی نہن کو تھی جالکر وہ اب اس تھری دتنا میں اکنلی رہ گنی تھی‪،‬کنا ہویا اگر‬
‫وہ جشد یہ کرپی یو یہ ہی یاذلی مرپی یہ ہی چہایگیر صاجب کی طی نعت دن یدن ڈھلنی اور تھر آج وہ‬
‫مج‬‫س‬
‫لوگ زیدہ ہونے‪،‬ان دویوں کی موت کی ذمہ دار چود کو ھنی مطییہ ان دو سالوں میں کینا‬
‫نسبمان ہوپی تھی‪،‬‬

‫"مطییہ پی پی۔۔"‬
‫مالزمہ کی نکار یر وہ ہوش میں آپی چویکی‪،‬‬

‫"پی پی تنگم صاجب کافی مایگ رہی ہیں۔۔"‬

‫"اوہ۔۔۔میں تھول گنی تھی۔۔۔آپی ہوں۔۔"‬


‫اس کی یات یر مالزمہ سر اتنات میں ہالپی وہاں سے گنی یو مطییہ تھی کجھ دیر نعد روم سے‬
‫نکلی‪،‬‬

‫‪- 246 -‬‬


‫سیڑھ بوں سے نےدھناپی میں ایرپی وہ اویر آنے ہناد سے یری طرح یکراپی تھی‪،‬موقع یر ہناد نے‬
‫اس کے دویوں یازو یکڑے نہیں یو وہ گرپی‪،‬‬

‫"سو۔۔۔سوری ہناد تھاپی۔۔میں۔۔"‬


‫یوکھالکر یو لیے ہونے وہ سندھی ہونے لگی مگر مفایل نے جس مضبوطی سے اس کے یازو یکڑے‬
‫تھے مطییہ ہل تھی یہ یاپی‪،‬دوسری جاتب ہناد نغور اس کے یوکھالنے چہرے کو دیکھنا مشکرایا تھر‬
‫یوال‪،‬‬

‫"کوپی یات نہیں لڑکی۔۔ہوجایا ہے کبھی کبھی نےدھناپی میں۔۔"‬


‫مطییہ کو ا تیے یازو چھڑوانے کی کوشش میں دیکھ وہ گرقت ڈھنلی کریا اسے چھوڑا‪،‬جس یر مطییہ‬
‫کیراکر وہاں سے جانے لگی مگر ایک سیڑھی ایر کر ہی وہ رکی جب ہناد نے اجایک اس کی کالپی‬
‫یکڑی‪،‬وہ گ ھیراکر اسے دیکھیے لگی‪،‬‬

‫"لگی یو نہیں ئمہیں۔۔"‬


‫لہچے کو قکرمندایہ ت نانے وہ اتنی گرقت میں مفند اسکی کالپی یر دیاؤ ڈاال‪،‬مطییہ کو یکدم وہاں کی‬
‫قضا چود یر تنگ لگی ہناد کی نظریں اسے ا تیے آر یار مجسوس ہوپیں‪ ،‬تبھی یوکھالکر جلدی سے اتنات‬
‫‪- 247 -‬‬
‫ک‬
‫میں سر ہالپی وہ اتنی کالپی ھییحیے لگی‪،‬ایک تھریور نظر اسکے سرانے یر ڈالنا ہناد چھوڑا تھا مطییہ کی‬
‫کالپی‪،‬‬

‫وہ گ ھیرا کر یلینی پیز قدموں سمیت سیڑھناں ایر کر کچن کی طرف گنی مگر وہاں یک جانے ہونے‬
‫مطییہ کو اتنی نست یر اس کی نظریں مجسوس ہوپی تھی‪،‬وہ بچی یو یہ تھی چو بجھلے کجھ مہی بوں سے‬
‫ہناد کی انسی خرک بوں کو سمجھ یہ یارہی ہو‪،‬وہ نہلے یو انشا یہ تھا تھر ک بوں کجھ مہی بوں سے اس‬
‫طرح کی عح یب خرکییں کررہا تھا‪،‬ہاں وہ یرنشان ہونے کے ساتھ ساتھ اب ہناد سے ڈرنے لگی‬
‫تھی تبھی نہت کم کوشش کرپی اب ا تیے کمرے سے نکلیے کی‪،‬‬

‫دوسری جاتب ہناد جب یک مطییہ کچن میں یہ جلی گنی اس کی نست کو کمینگی سے گھوریا‬
‫رہا‪،‬وہ نہیں تھا انشا یر کجھ مہی بوں نہلے چند ا نسے دوسبوں کی ضحیت میں آیا تھا چو اسے ہر ہفیے دو‬
‫ہفیے میں ریڈ التٹ ایریا لےجانے‪،‬سروع میں یو ہناد کو وہ شب عح یب لگنا تھا لنکن ا تیے مہی بوں‬
‫میں وہ عادی ہوچکا تھا ان شب کا‪،‬اور اب گھر یر اکیر و پیسیر مطییہ کو دیکھ یاجانے کب اس‬
‫کی نظریں یدلی اسے اجشاس یہ ہوا‪،‬اس کے نعد وہ ا تیے عمل سے اکیر مطییہ یر اتنی نظروں کا‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫یدالؤ طاہر کریا جسے دیکھ وہ سروع میں یو ات نا وہم ھی ھی مگر اب کیراپی ھی ہناد کے سا میے‬
‫آنے سے۔‬
‫‪- 248 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫پ‬
‫سام کو سکندر وال کے الن میں یبھی وہ جب سے جاموش جالی نظروں سے ہوا سے لہلہانے یازہ‬
‫گالب کے تھولوں کو دیکھ رہی تھی‪،‬ذہن میں امڈپی سوچوں کا مچور ڈھاپی پین سال تیجھے تھا جب‬
‫س‬
‫وہ یلکل ا نسے ہی یازہ گالیوں کا گلدشیہ لے کر لسینل کے گھر جاپی‪،‬کس قدر چوش رہنی تھی‬
‫س‬
‫وہ ان دیوں‪ ،‬لسینل کی ڈاتٹ سن کر تھی جب وہ ڈھیٹ کی طرح اس کے یاس جاپی یو کینا‬
‫خڑیا تھا وہ اس سے۔۔۔‪،‬اور تھر جب شب تھنک ہونے لگا تھا۔۔۔‪،‬وہ تھی اس سے اظہار محیت‬
‫کنا تھا‪،‬اس وقت نکل نف میں تھی اس کا دل چوسی سے چھومیے کو ہونے لگا تھا مگر اس مح بوب‬
‫کو تھر یہ دیکھ یانے چوف تھا چو اس یر جاوی ہویا اس کی چوسبوں کو مدفون کرگنا‪،‬‬

‫"عندی۔۔۔"‬
‫پ‬
‫مہناز تنگم کی نکار یر وہ چویک کر ان کی جاتب م بوخہ ہوپی چو اس کے سا میے والی جئیر یر یبھی‬
‫تھیں‪،‬‬

‫"میری پینی۔۔۔ک بوں اتنی کھوپی کھوپی رہنی ہو۔۔۔"‬


‫‪- 249 -‬‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کے چونصورت مگر اداس چہرے کو د نی وہ د ھی ہوپی‪،‬گہری سانس ھرکر اس نے فی یں‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ھ‬
‫سر ہالیا‪،‬‬

‫"یاپی امی۔۔۔کافی۔۔"‬
‫کجھ دیر نعد مطییہ الن میں آپی کافی کا مگ مہناز تنگم کے جاتب یڑھا کر یولی‪،‬‬

‫"عندی۔۔۔ئمہارے لیے تھی الؤں۔۔"‬


‫اب مطییہ اس سے مجاطب ہوپی چو ایک مرتیہ تھر ان گالب کے تھولوں کو دیکھیے میں مگن‬
‫ہوپی تھی‪،‬‬

‫مطییہ کے سوال یر اس نے آسودگی سے مشکراکر نفی میں سرہالیا‪،‬‬

‫"مطییہ پیبھو۔۔۔"‬
‫اسے یلٹ کر جانے دیکھ مہناز تنگم نے کہا جس یر مطییہ نے نہلے ایک نظر الن کی طرف کھلیے‬
‫گیٹ کو دیکھا چہاں ہناد کال یر کسی سے یات کررہا تھا‪،‬وہ ساید اتھی آیا تھا ک بویکہ مطییہ جب‬
‫الن میں کافی لے کر آپی تب وہ وہاں یر نہیں تھا‪،‬کال یر یات کرنے ہونے ہناد کی پیز نظریں‬
‫‪- 250 -‬‬
‫اس ہی یر چمی تھیں‪،‬نےساجیہ چھرچھری لینی مطییہ نے وہاں جانے سے نہیر الن میں پیبھیے‬
‫کو یرچیح دیا‪،‬‬

‫"گھر میں نہلے ہی اتنی جاموسی رہنی ہے۔۔۔چوسناں جیسے روتھ جکی ہیں سکندر وال کی درو دیوار‬
‫سے‪،‬اس یر اب تم دویوں تھی یوں اداس و سوگ کے عالم میں رہنی ہو۔۔۔عندی یو یول نہیں‬
‫سکنی۔۔کم از کم تم ہی یات کنا کرو ہیس دیا کرو۔۔۔"‬
‫اس کے جئیر یر پیبھیے ہی مہناز تنگم اقسردگی سے یولیں‪،‬مطییہ نے نس ایک جاموش نظر ان یر‬
‫ڈالی تھی‪،‬‬

‫"میں تھک جکی ہو ان سوگوارتت سے۔۔۔قلذہ اور ہناد کے ساتھ تم کبھی یلے ایریا میں کھنل لنا‬
‫کرو۔۔۔یاسکٹ یال یو تم لوگوں کو نسند تھی نہت ہے۔۔۔"‬
‫مطییہ کی جاموسی یر وہ اور یولیں‪،‬‬

‫"ک بوں نہیں۔۔۔یلکل کھنلیں گے یاسکٹ یال مام۔۔۔۔آخر کو اتنا یاتم ہوگنا وہ کھنلے۔۔۔ہے یا‬
‫مطییہ۔۔۔"‬

‫‪- 251 -‬‬


‫مطییہ کو جئیر یر پیبھیے دیکھ اس طرف آنے ہونے ہناد نے مہناز تنگم کی یات سن لی تھی تبھی‬
‫یآواز کہنا مطییہ کے کندھے یر اتنا رکھ کر یاتند جاہا‪،‬‬

‫وہ چو اسکے آنے سے ہی یرنشان ہوپی تھی اب ہناد کے ہاتھ کا دیاؤ کندھے یر مجسوس کرکے‬
‫یوکھالپی‪،‬مہناز تنگم نے مشکراکر ہناد کو دیکھا‪،‬وہ ساید ہناد کے ہاتھ رکھیے سے مطییہ کے چہرے یر‬
‫رقم چوف نہیں دیکھ یاپی تھیں‪،‬‬

‫اس کا ہاتھ ہنانے کے عرض مطییہ نے جلدی سے اتنات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"و نسے تم لوگوں کے لیے ایک گڈ ت بوز ہے۔۔۔"‬


‫اجایک یاد آنے یر مہناز تنگم چوسی سے یولیں‪،‬‬

‫"کنا۔۔۔"‬
‫ہناد ان کے چوسی سے دمکیے چہرے کو دیکھ یوچھا‪،‬ہاتھ ہبوز گ ھیراپی ہوپی مطییہ کے کندھے یر چما‬
‫تھا‪،‬‬

‫‪- 252 -‬‬


‫"ہیبم آرہا ہے۔۔!"‬
‫ً‬
‫ان کی یات یر مطییہ نفرتنا لرز کر رہ گنی‪،‬ہناد کا ہاتھ نےساجیہ اسکے کندھے یر سے ہنا‪،‬وہ‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫مج‬‫س‬
‫ت‬
‫یا ھی سے مہناز گم کو د کھنا نضدیق جاہا‪،‬‬

‫"کنا شچ میں۔۔!"‬

‫"ہاں یلکل۔۔۔وہ تھی ہمیشہ کے لیے۔۔۔سکر میرے بچے کو اتنی ماں کا اجشاس یو ہوا۔۔۔کل‬
‫رات فون آیا تھا۔۔۔اس نے کہا دو دن میں اتنا تھوڑا نہت کام واپینڈ اپ کر کے آجانے‬
‫گا۔۔۔تم کہیے تھے یا۔۔۔اکنلے اتنا یڑا یزنس سیبھاال نہیں جایا تم سے۔۔۔یو اب نےقکر ہوجاو وہ‬
‫آکر ئمہارا ساتھ دے گا۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم جیسے جیسے چوسی سے ت نارہی تھیں مطییہ کا چہرہ اتنا ہی چوف سے زرد یڑنے لگا‪،‬دوسری‬
‫جاتب ہناد کو کجھ جاص چوسی یہ ہوپی اس کے آنے سے النا اس کا چہرہ یگڑا۔۔۔‪،‬ایک نظر‬
‫مطییہ کو دیکھ وہ تنا کجھ اور کہے گنا تھا الن سے‪،‬‬

‫"اب دیکھنا مطییہ۔۔۔شب تھنک ہو جانے گا۔۔۔"‬

‫‪- 253 -‬‬


‫اس کا تھنڈا یڑیا ہاتھ تھامنی مہناز تنگم نے دالشہ د تیے والے ایداز میں کہا جس یر مطییہ ئمسکل‬
‫اتنات میں سر ہالپی‪،‬ڈر اس قدر جاوی تھا کہ وہ مشکرا تھی یہ یاپی‪،‬‬

‫ادھر وہ چو مہناز تنگم کی یایوں کو سن یاسیت سے مشکرانے لگی تھی ان کے شب تھنک ہو‬
‫جانے گا یو لیے یر یکدم تنکھڑی ماتند لب سمٹ گیے‪،‬کالی آیکھوں میں مح بوب کا چہرہ آیا یو زچمی دل‬
‫میں ہمیشہ کی طرح پیس اتھی‪،‬‬

‫"آج سدت سے______دل جاہ رہا ہے‪،‬‬


‫ت‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫تند آ یں ھولوں یو سا میے م ہو‪"،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ی‬ ‫س‬
‫ا تیے چونصورت مییسن میں کار رو کیے لسینل مراد کی کابچ ماتند آ کھیں یکدم تم ہونے‬
‫لگیں‪،‬اسے جیرت یہ ہوپی ا تیے آیکھوں کے یوں تھنگیے یر‪،‬کبویکہ یہ یو ہمیشہ سے اس کے ساتھ‬
‫ہویا آرہا تھا‪،‬اجایک ہی آیکھوں سے تنا کسی چواز کے کبھی تھی آنسو جاری ہونے‪،‬وہ سروع میں‬
‫ڈاکیرز سے چنک اپ تھی کروایا تھا کہ آخر کبوں اس کی آیکھوں سے یوں کسی تھی وقت آنسو‬
‫نکلیے مگر ڈاکیرز نے کسی قسم کی یرایلم کا نہیں تنایا‪،‬وہ ڈرانس تھی ڈالنا تھا آیکھوں میں مگر تھر‬
‫‪- 254 -‬‬
‫پ‬ ‫س‬
‫تھی یہ آنسو ک بوں نکلیے لسینل کی سوچ سے یاالیر تھا‪،‬وہ نہیں جاتنا تھا کہ دور یبھی اس کی‬
‫ی‬
‫اع جاں جب نکل نف میں ہوپی یو یونہی رونے کے لیے یرسنی مگر کالی آ کھیں ہمیشہ جالی رہنی‬ ‫من ِ‬
‫اتنی کہ ان میں آنسو یک یہ آیانے‪،‬اور اس لڑکی کے ایدر اتھنی درد کی پیسیں اکیر ان کابچ ماتند‬
‫آیکھوں کو تم ہونے کے لیے مح بور کرد ت ییں‪،‬‬

‫"گرتنی۔۔۔"‬
‫ی‬
‫نسو سے آ کھیں صاف کریا وہ دریہ تنگم کو نکارا‪،‬‬

‫"ہاں میرے بچے۔۔۔"‬

‫"جانے ت بواپیں میں فرنش ہوکر آیا ہوں۔۔۔"‬


‫وہ تھکا ہوا تھا مگر ان کے محیت تھرے لہچے یر دریہ تنگم کا ماتھا چوم کر یوال ساتھ ہی ا تیے‬
‫کمرے کے جاتب گنا‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد فرنش ہوکر وہ رف سے جلیے میں یاہر آیا‪،‬‬

‫‪- 255 -‬‬


‫"آج کام نہت تھا۔۔۔"‬
‫جانے کا کپ ہاتھ میں لیے وہ اتھی پیبھا ہی تھا کہ دریہ تنگم نے یرمی سے یوچھا‪،‬‬

‫"خی۔۔"‬

‫"تھک گیے ہو۔۔۔"‬

‫"یلکل۔۔"‬

‫"جایا کب یک ہے۔۔۔"‬
‫اس سے سواالت کرپیں دریہ تنگم اجایک یوچھیں‪،‬وہ سمجھ گنا تھا کہ ان کا اسارہ کس طرف ہے‪،‬‬

‫"اس ہفیے نعد۔۔۔"‬


‫دھواں اڑاپی جانے کے گھوتٹ تھریا وہ چواب دیا‪،‬‬

‫‪- 256 -‬‬


‫"میرا تھی دل نہیں لگ رہا نہاں۔۔۔وہاں جانے کے نعد تم فرمان اور اسماء کو یو یالرہے ہو‬
‫یا۔۔۔"‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ل نے ا ک ظر ا یں‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫دو روز سے دہراپی گنی یات وہ ایک مرتیہ تھر دہراپی تھیں‪،‬جس یر‬
‫دیکھا‪،‬‬

‫"کال کرچکا ہوں۔۔۔ہمارے سفٹ ہونے کے نعد آجاپیں گے۔۔۔"‬


‫انہیں تنایا وہ اب مویایل اتھایا تھا ریگ ہونے یر‪،‬‬

‫غفان کے ئمیر سے دو پین نضاویر موصول ہوپی تھیں اسے‪،‬ایک عالی سان ُیرآسانش ت نگلہ‪،‬اس‬
‫س‬
‫نصویر کو دیکھ لسینل اتھی مویایل وانس رکھ ہی رہا تھا کہ اب کال آنے لگی‪،‬اس نے رنسبو کر‬
‫کے فون کان سے لگایا‪،‬‬

‫"یو سر۔۔۔کیشا کروایا ہے میں نے آپ کا کام۔۔۔"‬


‫ی‬ ‫س‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫ل نے کوقت سے آ یں تند کر کے ھو یں‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یرچوش لہچے میں کہیے غفان کی یات یر‬

‫"ہمم۔۔۔اچھا کروایا ہے۔۔۔"‬


‫‪- 257 -‬‬
‫"سر ایک اور یات۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫غ‬
‫ل نے کال کٹ کرنے کا سوجا گر ھر فان کے یو لیے یر یوچھا‪،‬‬

‫"کنا۔۔"‬

‫"سر میں یہ یوچھ رہا تھا کہ اب اور کییے مہییے رہنا ہوگا مجھے۔۔۔مظلب سر مجھے یو کوپی انسو نہیں‬
‫ہے یر۔۔۔سر دس مہییے ہونے کو ہیں۔۔۔ایا کال یر وانس آنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔"‬
‫م‬
‫سر کھجایا وہ اسے کمل نفصنل تناکر یوچھیے لگا‪،‬‬

‫"اتنی قبملی کو لے کر تم وہی یر سفٹ ہوجاو۔۔۔"‬


‫ً‬ ‫س‬
‫لسینل کی یات یر وہ نفرتنا جکرایا‪،‬‬

‫"مگر سر۔۔۔میں کیسے اتنی قبملی کو لے کر وہاں۔۔۔ہنلو۔۔۔ہنلو سر۔۔۔"‬


‫یوکھالکر وہ یو لیے لگا تھا مگر جلد ہی اسے اجشاس ہوا کہ دوسری جاتب سے کال کٹ ہوجکی ہے‪،‬‬

‫‪- 258 -‬‬


‫"عح یب آدمی ہیں یار۔۔۔"‬
‫ا تیے مویایل کو گھور کر وہ یڑیڑایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صیح کا سورج طلوع ہورہا تھا اور وہ ہر دن کی طرح ایک مرتیہ تھر ہاتھ میں اس فرتم کو تھامے‬
‫یاجانے کب سے یک رہا تھا‪،‬مشکراپی ہوپی معصوم یاذلی کی نصویر‪،‬جس نے ہیبم کی آیکھوں کو‬
‫رات تھر تھگونے رکھا اور اب سوخی تبم وا آیکھوں سمیت اس کی نصویر دیکھ کر وہ اس کے‬
‫ساتھ گزاریں یلوں کو یاد کر کے کبھی مشکراد ت نا یو کبھی اس دن یاذلی کا نےجان چون سے لت‬
‫ُ‬
‫تت چہرہ یاد کر کے یڑ تیے لگنا‪،‬چو تھی تھا ا تیے سالوں میں تھی وہ اسے ال یں یایا تھا‪،‬یلکہ ان‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫گزریں سالوں میں اس قدر سدت سے وہ اسے یاد کریا کہ آخر تھک کر اذ ت بوں میں گھرے رونے‬
‫لگنا‪،‬‬

‫"کاش کہ وقت یلٹ جانے۔۔۔اور تم وانس آجاؤ۔۔۔"‬


‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کی مشکراپی نصویر یر ہاتھ ت ھیریا وہ کرب سے یوال ساتھ ہی آ یں یچ گنا‪،‬نکایک ذہن کے‬
‫ھ‬
‫یردے یر مطییہ چہایگیر کا چہرہ لہرایا اور یل میں اس کی اذ ت ییں دوہری ہوپیں‪،‬‬

‫‪- 259 -‬‬


‫سدت تھری نفرت یورے وچود میں سراتت کرپی اس کی سوخی آیکھوں کو چون کے مات ند سرخ‬
‫کرگییں‪،‬‬

‫"کوشش کریا کہ ہمارا سامنا یہ ہو مطییہ چہایگیر۔۔۔وریہ ہماری مالقات کو اس قدر عیرت ت ناؤں‬
‫گا ئمہارے لیے کہ تھر میرے سا میے آنے سے نہلے موت کو یرچیح دوگی۔۔۔"‬
‫اتنہاپی ت نفر سے کہنا وہ چھنکے سے کھڑا ہوا‪،‬اسے وانس جانے سے نہلے نہاں کے چند کام پینانے‬
‫تھی تھے‪،‬تبھی یاذلی کی نصویر کو ایک مرتیہ تھر نظر تھر دیکھ کر وہ ساتنڈ پینل یر رکھا اور واسروم‬
‫کا رخ کنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"لنکن یہ شب ہوا کیسے۔۔۔؟"‬


‫اسے کال آپی تھی چماد کی جس یر اس نے کل رات اجایک ہوپی یازل کی موت کا تنایا‪،‬اب‬
‫یازل کے گھر یر اس کی میت دیکھنا وہ چماد سے یوچھا‪،‬‬

‫‪- 260 -‬‬


‫"تنا نہیں یار۔۔۔یولیس کا کہنا ہے کہ ایکشڈتٹ نہیں قنل ہے ک بویکہ اس کا کنا ہوا یازو دیکھیے‬
‫سے لگنا ہے کہ کسی نے نےدردی سے کایا ہے یاکہ کار ایکشڈتٹ میں کنا ہے۔۔۔"‬
‫ن ً‬
‫اسکی طرف دیکھنا چماد فصنال تنایا‪،‬‬

‫"یر یہ کرے گا کون۔۔۔اس کی کسی سے لڑاپی ہوپی تھی کنا بجھلے دیوں۔۔۔"‬

‫"نہیں یار۔۔۔ان دیوں یو کسی سے لڑاپی نہیں ہوپی تھی یر دسمن یو جیر نہت تھے اس‬
‫کے۔۔۔ان میں سے ہی کسی ایک کا کام ہوگا۔۔"‬
‫اسے تناکر چماد یکدم جپ ہوا‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬

‫"چو دسمن اس کے تھے ان میں سے ہی کجھ ہمارے تھی ہیں۔۔۔"‬


‫چماد سوچ کر ہی نےساجیہ گ ھیرایا‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔۔پیرا تنا نہیں۔۔۔یر ہناد سکندر کا کوپی کجھ نگاڑ نہیں سکنا۔۔۔"‬
‫‪- 261 -‬‬
‫اسکا لہچہ ازلی گھم نڈی تھ ُا‪،‬یرسکون سا کہہ کر وہ میت اتھانے کا سور سییے ہی چماد کو اسارہ کیے‬
‫جال تھا وہاں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کو الؤبج کے صوقے یر پیبھیں مہناز تنگم یار یار گیٹ کی جاتب دیکھ رہی تھیں‪،‬آج انہوں‬
‫نے کھانے یر نہت جاص اہبمام کروایا تھا ہیبم کے لیے‪،‬آخر کو ا تیے سالوں نعد آرہا تھا‪،‬اس نے‬
‫کہا تھا کہ سام یک وہ آجانے گا مگر اب رات دیڑھ بحیے کو تھے یر اس کا کوپی ایا تنا نہیں‬
‫تھا‪،‬انہوں نے کال کی یو ئمیر تھی تند جارہا تھا‪،‬‬

‫"تھاپی آ گیے۔۔۔"‬
‫یاہر سے آپی قلذہ مہناز تنگم کو صوقے یر پیبھے دیکھ یوچھی تھی‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔ئمیر تھی تند جارہا ہے۔۔۔تنا نہیں کہاں ہوگا۔۔۔"‬


‫ی‬
‫نہاتت یرنشاپی میں کہنی وہ ایک یار تھر گیٹ کی طرف د یں‪،‬قلذہ چو فون یر چیی نگ یں گن‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫تھی یولی‪،‬‬

‫‪- 262 -‬‬


‫ہہ‬
‫"ا ہمم۔۔۔آجاپیں گے وہ۔۔۔آپ سوجاپیں۔۔۔"‬
‫وہ یارپی سے اتھی آپی تھی اور اب دوسبوں کے میسیجز تھے کہ ر کیے کا یام ہی نہیں لے رہے‬
‫تھے‪،‬تبھی انہیں ریالپی کرپی نےیرواہی سے یولی‪،‬‬

‫"ارے مطییہ۔۔۔"‬
‫وہ چو ا تیے کمرے(گیسٹ روم) کی طرف جارہی تھی قلذہ کی اجایک نکار یر چویکی‪،‬‬

‫"یار ئمہیں تنا ہے آج نہت مزہ آیا۔۔۔میں نے ئمہیں صفیرہ کا تنایا تھا یا۔۔۔آج وہ تھی آپی‬
‫تھی۔۔۔اتنا اپییی بوڈ دکھارہی تھی لنکن میں نے تھی اسکی غفل تھکانے لگادی ئمرہ سے چوس کا‬
‫گالس اسکی ڈرنس یر گرواکر۔۔۔یار تم تھی جلنی۔۔۔"‬
‫اسے مزے سے یوری یات تناکر آخر میں قلذہ نے کہا جس یر مطییہ تھنکی مشکراہٹ شجاکر نفی‬
‫میں سر ہالپی‪،‬‬

‫"اچھا سبو یو یار۔۔۔"‬


‫اسکی یات سن کر مطییہ جانے لگی لنکن تھر قلذہ کے یو کیے یر رکی‪،‬‬

‫‪- 263 -‬‬


‫"ایک گالس یاپی یو یالدو۔۔۔یلیز۔۔۔"‬
‫قلذہ کے یو لیے یر مطییہ نے مشکراکر کچن کا رخ کنا‪،‬‬

‫پ‬
‫کجھ دیر نعد وہ یاپی کا گالس الکر صوقے یر مویایل میں مصروف یبھی قلذہ کو یکڑانے لگی تبھی‬
‫یورچ سے آپی ہارن کی آواز یر چویکی‪،‬‬

‫"تنگم صاجیہ۔۔۔ہیبم تھاپی آ گیے۔۔"‬


‫مالزمہ کی یات یر مطییہ کا گالس یکڑا ہاتھ لرزا تھا جس کے پییچے میں تھوڑا یاپی قلذہ یر گرا‪،‬‬

‫"اوہ شٹ۔۔۔یہ کنا کردیا یار۔۔۔"‬


‫ھ‬ ‫چ‬
‫ا تیے مویایل یر یاپی گرنے سے قلذہ نے الکر طییہ کو د کھا یر ا کے زرد ما ل چہرہ د کھ وہ ایدر‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬
‫امڈنے چوف کی وخہ جان گنی‪،‬دوسری جاتب مطییہ نے تنا اسے کوپی چواب دنے گالس پینل‬
‫یر رکھا تھا‪،‬ساتھ ہی گیسٹ روم کی جاتب پیزی میں گنی‪،‬مہناز تنگم نے دکھ سے اس کی نست کو‬
‫دیکھا‪،‬‬

‫‪- 264 -‬‬


‫ی‬
‫کجھ ہی دیر نعد وہ ایدر داجل ہوا تھا‪،‬مہناز تنگم کی نظر اس یر یڑی یو نےساجیہ ان کی آ کھیں‬
‫چھلمالپیں‪،‬آسماپی ریگ کی سرٹ اور یلو پی یٹ نہیے یالوں کو ما تھے یر یکھرے چھوڑے وہ آسیی بوں‬
‫کو کہی بوں یک فولڈ کیے ایک ہاتھ میں ہینڈ کیری یو دوسرے میں ایک چھویا تنگ تھاما ہوا تھا‪،‬سبو‬
‫تھوڑی یڑھی ہوپی ہونے کے یاعث تنکھے نقوش کافی وچنہہ لگ رہے تھے‪،‬مگر سیحندہ آیکھوں کے‬
‫گرد گہرے ہلقے ایدر کے درد کی واضح غکاسی کررہے تھے‪،‬‬

‫"میرا پینا۔۔۔"‬
‫اس کے یاس آنے یر وہ یرمی سے ہیبم کی پیشاپی چوم کر یولیں‪،‬‬

‫"اب مت جایا کبھی۔۔۔"‬


‫ی‬ ‫س‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کے سیحندہ چہرے کو د نی وہ میر م ہچے یں ہیے یں جس یر م زیرد نی م کرایا ا کے‬
‫ش‬ ‫ب‬ ‫گ‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫کندھے کے گرد یازو جایل کیے یوال‬

‫"نہیں جاؤں گا۔۔۔"‬

‫"کیسے ہیں تھاپی۔۔"‬


‫‪- 265 -‬‬
‫قلذہ نے تھی اتنی موچودگی کا اجشاس دالیا‪،‬‬

‫"تھنک۔۔۔"‬
‫لہچے کے یرعکس اس کے الفاظ تھے‪،‬‬

‫"کافی جلدی آنے ہو۔۔۔"‬


‫تیجھے سے آپی آواز یر ان پی بوں نے گیٹ کے جاتب دیکھا چہاں ہناد چہرے یر مسکان شجانے‬
‫کھڑا تھا‪،‬ہیبم کے یاس آکر وہ اس کا کندھا تھیبھنایا‪،‬‬

‫"اب آگے کنا ارادہ ہے۔۔۔؟"‬

‫"طاہر سی یات ہے۔۔۔یایا کا یزنس۔۔۔"‬


‫ہلکی مشکراہٹ سم یت اسے چواب دے کر ہیبم مہناز تنگم کی نکار یر م بوخہ ہوا‪،‬‬

‫"یہ یاپیں نعد میں کریا۔۔۔اتھی جلو فرنش ہو آؤ۔۔۔میں کھایا لگواپی ہوں۔۔"‬

‫‪- 266 -‬‬


‫"امی کھایا کھاچکا ہوں۔۔۔آرام کریا جاہنا ہوں۔۔۔"‬
‫صفاپی سے چھوٹ یولنا وہ سیڑھ بوں کی جاتب گنا۔۔۔‪،‬قلجال اس کا دل اکنلے رہیے کا کررہا‬
‫تھا‪،‬ہیبم کے جانے کے نعد مہناز تنگم نے تھی ا تیے کمرے کا رخ کنا یو قلذہ تھی اویر گنی‪،‬ان‬
‫لوگوں کے جانے کے نعد ہناد کے چہرے یر سے مشکراہٹ عاتب ہوپی‪،‬ت نفر سے ہیبم کی نست‬
‫دیکھنا وہ سکندر وال سے نکال تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آج ایک ہفیے نعد وہ دریہ تنگم کو لے کر اس شہر جارہا تھا چہاں زیدگی نے اسے اتنا ایک تھنایک‬
‫م‬
‫نہلو دکھایا تھا‪،‬غفان کی کال آپی تھی اس نے تنایا تھا کہ چو تھوڑا نہت کام تھا وہ تھی کمل‬
‫س‬
‫ہوچکا تھا‪،‬تبھی اس سے یات کرکے لسینل نے اب ا تیے سنکرپیری کو کال کی تھی‪،‬وہ ایک‬
‫آدھ مہییے نعد اتنا یزنس نہی یر سفٹ کرنے واال تھا آخر کو اب مسنفل اس ہی جگہ یو قنام‬
‫کرنے لگا تھا وہ‪،‬یاکہ یآساپی ہر ایک کا یدلہ چکا سکے‪،‬کار ڈرات بو کریا وہ دریہ تنگم سے کجھ یاپیں کررہا‬
‫ی س‬
‫ل کے بوں یر اس عرصے‬‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تھا تبھی اس کا فون ریگ کرنے لگا‪،‬سکرین یر چھلمالیا یام د کھ‬
‫میں نہلی مرتیہ ایک دلکش مشکراہٹ نے اجاطہ کنا تھا‪،‬‬

‫"کیشا ہے۔۔۔"‬
‫‪- 267 -‬‬
‫کان سے لگایا وہ لب دیانے یوال‪،‬‬

‫"ارے واہ۔۔۔کون ہے کی جگہ ڈایریکٹ کیشا ہے۔۔۔مظلب ئمیر سبوو کرنے کا نکلف کرہی‬
‫لنا۔۔۔"‬
‫ک‬‫سلسین ی‬
‫ش‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫ل آ یں ھمایا م کرایا‪،‬‬ ‫دوسری جاتب سے تھاری دلکش مگر طیزیہ آواز کہ‬

‫"ساید کسی نے چود ہی کنا تھا میرے فون یر اتنا ئمیر سبوو۔۔"‬
‫وہ اسے یاد دالیا تھا جیسے‪،‬‬

‫"ہاں ک بویکہ "کسی" کی جان چو جارہی تھی میرا ئمیر سبوو کرنے ہونے۔۔۔"‬
‫دوسری جاتب سے اس ہی کے ایداز میں ہ بوز طیز کنا گنا‪،‬‬
‫س‬
‫دریہ تنگم نے مشکراکر کار ڈرات بو کرنے لسینل کو دیکھا چو اکیر ایک اسی کال یر اس قدر مشکراکر‬
‫یات کریا‪،‬وہ نہیں جاتنی تھیں کہ اگلی جاتب کون ہے یر دل ہی دل میں مفایل یات کرنے‬
‫شخص کو ہمیشہ دعاپیں ضرور د ت ییں چو ان کے یونے کو اکیر کال کر کے اتنی یایوں سے‬
‫مشکرانے یر مح بور کرد ت نا‪،‬‬

‫‪- 268 -‬‬


‫"سنا ہے سقینگ ہورہی ہے پیری۔۔۔"‬
‫دوسری جاتب سے یوچھا گنا‪،‬‬

‫"غفان نے تنایا۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کو نہلی فرصت میں اتنا اشسی یٹ یاد آیا ک بویکہ وہی تھا چو ان دویوں کی دوسنی سے بچوپی‬
‫واقف تھا‪،‬‬

‫"میرے شہر میں آرہا ہے اور مج ھے ہی نہیں ت نایا۔۔۔"‬


‫دوسری جاتب لہچے کے یلکل یرعکس الفاظوں میں یاراصگی دکھانے کی کوشش تھی‪،‬‬

‫"جاتنا تھا غفان تنادے گا تبھی۔۔۔"‬

‫"ہمم۔۔۔سفٹ ہوجانے گا یو تنایا مجھے۔۔۔"‬

‫"ک بوں۔۔!"‬

‫‪- 269 -‬‬


‫"کمییے کنا کبوں۔۔۔گھر آؤں گا پیرے۔۔۔"‬

‫"ضروری ہے کنا۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کی اس یات یر دوسری جاتب کجھ ل کے لیے جاموسی چھاپی‪ ،‬ل ا نی‬ ‫اور‬
‫مشکراہٹ دیانے اگلی جاتب اس شخص کی گال بوں کا می نظر ہوا‪،‬‬

‫"نہت ضروری ہے۔۔۔ق بوخر میں پیری ہونے والی پینی کا رشیہ کریا ہے ا تیے پییے سے۔۔۔اسی‬
‫سلشلے میں کجھ یات کرپی ہے نس۔۔۔"‬

‫ُ‬
‫"ایک میٹ۔۔۔یو سادی سدہ ہے۔۔۔"‬
‫س‬
‫ان دویوں کے درمنان کبھی اس یایک یر یات یہ ہوپی تھی اور یہ ہی اس نے کبھی لسینل کو‬
‫انشا کجھ تنایا تھا‪،‬تبھی وہ تھوڑا جیران ہوا‪،‬‬

‫"ک بوں بجھے کرپی تھی کنا مجھ سے سادی"‬


‫س‬
‫اس یات یر لسینل چو اتھی اسے گالناں سنانے کے لیے میہ کھول ہی رہا تھا اجایک دوسری‬
‫جاتب سے کال کییے یر ہلکا سا ہیشا‪،‬‬
‫‪- 270 -‬‬
‫"یہ نہیں سدھر سکنا۔۔۔"‬
‫زی ِر لب یڑیڑاکر وہ فون ڈنش یورڈ یر رکھا‪،‬ہناد کی دوسنی کی اس تھنایک سکل کو دیکھیے کے نعد‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل نے ھر ھی سی کو دوشت یہ تنایا تھا‪،‬اس کا ھروشہ م ہوا تھا دو نی یر سے کن‬
‫س‬
‫اس شخص سے جب یزنس کے سلشلے میں اس کی مالقات ہوپی تب سروع میں لسینل اس‬
‫سے ئمسکل تھوڑی نہت یات کریا وہ تھی ضرف کام کی جد یک‪،‬لنکن جب کام یڑھا یو یاپیں‬
‫س‬
‫تھی یڑھیں اور یوں اس شخص اور لسینل کی دوسنی کا آعاز ہوا‪،‬ہناد کے یرعکس اس شخص نے‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل یر دو نی کی چو صورپی واضح کی ھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دو دن ت ہو جکے تھے ہیبم کو نہاں آنے ہونے‪،‬ہناد کے ساتھ آقس جاکر وہ قلجال تھوڑے‬
‫نہت کام سمجھ رہا تھا‪،‬ان دو دیوں میں چہاں ہناد نے مطییہ یر سے اتنی نظریں ہناپی تھیں وہی‬
‫ٰ‬
‫مطییہ نے تھی چنی االمکان کوشش کی ان دویوں تھات بوں کے سا میے یہ آنے کی‪،‬زیادہ یر وہ‬
‫گیسٹ روم میں تند رہنی‪،‬دن میں جب وہ دویوں گھر یر یہ ہونے تب روم سے نکلنی‪،‬‬

‫‪- 271 -‬‬


‫"ماما یہ یو یاانضافی ہے۔۔۔دو دن سے آپ کھانے ضرف ہیبم تھاپی کے ہی نسند کے ت بوارہی‬
‫ہیں۔۔۔"‬
‫رات کے کھانے کے دوران قلذہ میہ نسور کر گویا ہوپی تھی‪،‬‬

‫"لڑکی۔۔۔تھاپی کو اتھی آنے ہونے ہی دو دن ہونے ہیں۔۔اور اگر ئمہیں ا تیے نسند کا کھایا ہی‬
‫جا ہیے یو چود جاکر کچن میں تنادیا کرو مالزمہ کو۔۔۔"‬
‫ایک محیت تھری نظر جاموسی سے کھایا کھانے ہیبم یر ڈال کر وہ قلذہ کو یولی تھیں‪،‬‬

‫"و نسے آج کا کھایا یو مطییہ نے چود تنایا ہے تھاپی کے لیے۔۔۔ہے یا ماما۔۔۔"‬


‫قلذہ نے مسکاپی نظروں سے ہیبم کو چ ھیڑنے کے عرض سے کہا تھا مگر اس کا میہ میں یوالہ‬
‫لےجایا ہاتھ رکا‪،‬مہناز تنگم نے تیینہہ نظروں سے قلذہ کو گھورا مگر وہ یرنشان ہوپیں جب ہیبم‬
‫یلیٹ سرکایا کھڑا ہوا‪،‬‬

‫"پینا کھایا یو یورا کھانے جاؤ۔۔۔"‬


‫ان کے قکرم ند لہچے میں کہی یات یر ہیبم نے تھیچے جیڑوں سمیت انہیں دیکھ کر کہا‪،‬‬

‫‪- 272 -‬‬


‫"مرگنی تھوک۔۔۔"‬
‫لہچہ واضح چنانے واال تھا کہ شب جا تیے یوچھیے اس لڑکی سے کھایا ت بوایا گنا‪،‬‬

‫ی‬
‫اس کے جانے کے نعد مہناز تنگم یاسف سے گردن ہالپی اسے د یں چو جاموسی سے م کو‬
‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫یوں جانے دیکھ اداس ہوپی تھی‪،‬ہناد طیزیہ مشکرایا چنکہ قلذہ کندھے اچکاکر رہ گنی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کا دوسرا نہر تھا ہناد ا تیے روم سے نکلنا ایک نظر جاروں طرف دوڑایا تھا‪،‬یورا وال ایدھیرے میں‬
‫ڈویا تھا‪،‬رات کے سنانے میں گھڑی کی یک یک ہی ضرف کایوں کو سناپی دے رہی تھی‪،‬مالزم‬
‫سارے سروتٹ کواریر میں تھے تبھی اس طرف سے وہ نےقکر رہا‪،‬دنے یاؤں جلیے اس کا رخ‬
‫تیچے گیسٹ روم کی جاتب تھا‪،‬ل بوں یر ازلی کمینگی مشکراہٹ شجانے وہ سیڑھ ناں ع بور کنا اور اگلے‬
‫ہی چند لمچوں میں تھنک گیسٹ روم کے یاہر کھڑا ایک یار تھر تیجھے مڑ کر دیکھا‪،‬وہاں کسی کے یہ‬
‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ط‬‫م‬
‫ہونے یر ین ہوا یو آ گی سے اس نے دروازہ ھوال‪،‬اور کی سی خرخراہٹ کے ساتھ دروازہ‬
‫تبم وا ہوا تھا‪،‬‬

‫‪- 273 -‬‬


‫وہ چو اس سبمگر کی یادوں میں مچو اتھی کچی پی ند میں ہی تھی‪،‬دروازہ کھلیے کی آواز کو وہم سمجھ کر‬
‫اگ بور کر گنی‪،‬‬

‫ادھر ہناد ایدر داجل ہوکر دروازہ تند کر کے مڑیا چناتت تھری نظروں سے تنڈ یر سونے وچود کو‬
‫دیکھا‪،‬تھر چند قدم اتھاکر عین اس کے سر یر کھڑا نغور اس کے نےداغ چہرے کو گھورنے‬
‫لگا‪،‬وہ جاتنا تھا ہیبم کے آنے کے نعد اسے موقع نہیں ملیے واال تبھی دو دن یک جاموسی یریا ل نکن‬
‫مطییہ کو ہ بوز گیسٹ روم میں سونے دیکھ آج وہ جان گنا تھا کہ اس ہی موقع کا وہ منالسی‬
‫ہے‪،‬مطییہ کے چونصورت چہرے کو دیکھ وہ نےاجینار تھوڑا چھکا اور اتنا ہاتھ اس کے یرم گال‬
‫ی‬
‫یر رکھیے لگا‪،‬وہ چو کچی پیند میں چود یر پیز نظروں کی پیش مجسوس کررہی تھی ہٹ سے آ یں وا‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫کی‪،‬‬

‫چود یر چھکے ہناد کو دیکھ وہ نےساجیہ چیحیے لگی یر عین وقت یر اس کے ل بوں یر ہناد اتنا ہاتھ رکھ‬
‫گنا‪،‬مطییہ کو ا تیے جاروں طرف چظرے کی گ ھینی بحنی مجسوس ہوپی‪،‬‬

‫"شسش۔۔۔"‬

‫‪- 274 -‬‬


‫ی‬
‫مطییہ کی چوف سے تھنلیں چھنل آ کھیں اس کے ایدر کے وجسی کو چگانے کے لیے کافی‬
‫تھیں‪،‬‬

‫"ہناد تھاپی۔۔۔"‬
‫اس کا ہاتھ چھنکنی وہ چوفزدہ ہوکر یولی ساتھ ہی تیج ھے سرک کر دوسرے جاتب سے ایری‪،‬اس‬
‫انشان کی چوس تھری نظروں نے مطییہ یر کنکنی طاری کی تھی‪،‬یری طرح گ ھیرانے دل اور چوف‬
‫سے زرد یڑپی وہ رونے کو ہوپی ک بویکہ دو تیہ تنڈ یر یڑا تھا اور وہ قدم یہ قدم اس کی طرف آنے لگا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"مطییہ۔۔۔تم نہاں ہو۔۔۔مجھے لگا کہ ہیبم کے آنے کے نعد تم اس ہی کے کمرے میں سوپی‬
‫ہوگی۔۔۔ایکچولی میرا دل کررہا تھا آج نہاں سونے کا۔۔۔"‬
‫ٰ‬
‫شب کجھ جا تیے یوچھیے وہ ایکینگ کنا تھا ابجان پییے کی‪،‬الییہ معنی جیز نظریں مفایل چوف سے‬
‫لرزنے وچود یر گڑی تھیں‪،‬‬

‫"سوری میں نے ئمہیں ڈسیرب کردیا۔۔۔تم ریلکس ہوکر سوجاؤ۔۔۔میں جال جایا۔۔۔"‬

‫‪- 275 -‬‬


‫"تھاپی د۔دو۔ر۔۔۔رہی۔۔رہیں۔۔۔"‬
‫م‬
‫وہ چو لہچے میں کمل قکرم ندی گھول کر یولنا اس کے فرتب آنے لگا تھا مطییہ کی ہکالپی آواز یر‬
‫یاگل ہونے کو ہوا‪،‬‬

‫"لڑکی تم ڈر ک بوں رہی ہو۔۔۔"‬


‫اجایک آگے یڑھ کر اس کے یازو یر ہاتھ رکھنا ہناد ہیس کر یوال اور نس‪،‬مطییہ کے چواس یکدم‬
‫معظل اور کان ساپیں ساپیں کرنے لگے‪،‬چھنکے سے ہناد کو دھکا د تنی وہ تھاگی تھی کمرے‬
‫سے‪،‬یاہر آکر ماؤف ہونے دماغ میں کجھ یہ سوچھا یو نےاجینار اس کے قدم اویر جاپی سیڑھ بوں یر‬
‫ا تھے‪،‬‬

‫اس کے تیجھے ہناد چو روم سے نکال تھا سیڑھناں ع بور کر کے اب مطییہ کا رخ ہیبم کے کمرے‬
‫کی طرف دیکھ تھوڑا گ ھیرایا مگر جلد ہی وہ چود کو کم بوز کنا کہ جاتنا تھا اس میں کم از کم اتنی ہمت یو‬
‫نہیں ہوگی چو ہیبم کو تناسکے کجھ تھی‪،‬‬

‫‪- 276 -‬‬


‫پیزی میں ہیبم کے روم کا گیٹ چھنکے سے کھول کر وہ زور سے تند کی تھی‪،‬تھر گیٹ کی طرف‬
‫ہی میہ کیے گہرے گہرے سانس تھرنے لگی‪،‬اس کا چہرہ نسییے سے سرایور ہورہا تھا‪،‬چوف اس‬
‫قدر اس یر سوار تھا کہ ماؤف ہونے دماغ میں تیجھے ت نڈ یر پیبھے اس شخص کا تھی چنال یہ آیا‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد وہ تھوڑا نہت سیبھلی یو سانس تھی م بوایر ہوپی‪،‬چوف سے ہ بوز یازک وچود لرزراہٹ کا‬
‫سکار تھا‪،‬آہسنگی سے مڑپی وہ اتنی تند آیکھوں کو وا کی مگر تبھی مطییہ کا دل اچھل کر جلق میں‬
‫آیا‪،‬تنڈ یر ہاتھ میں ایک فرتم لیے وہ چون آسام آیکھوں سمیت مطییہ کو گھور رہا تھا‪،‬یابچ سال نعد‬
‫ان دویوں کا آمنا سامنا ہوا تھا مگر مفایل کے چہرے یر نےرچم یایرات اور سرخ آیکھوں میں‬
‫ا تیے لیے ازلی نفرت نے مط ییہ کو رونے یر مح بور کنا تھا‪،‬کنکنانے ہاتھوں سے اس نے تھر یاب‬
‫یر ہاتھ رکھا یر اب ہمت یہ ہوپی تھی اسے گھمانے کی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اس کو نفرت سے گھوریا ہیبم ہاتھ میں لی یاذلی کی فرتم کو ساتنڈ پی نل یر رکھ کر اتھا تھا تنڈ سے‪،‬‬

‫"ہی۔۔ہیبم۔۔"‬
‫‪- 277 -‬‬
‫یاہر جانے کا رسک وہ نہیں لینا جاہنی تھی تبھی تھنگی آیکھوں سمیت اس کو اتنی طرف یڑھیے‬
‫دیکھ یو لیے کی کوشش کی‪،‬اسے نہیں معلوم تھا کہ اتنی رات یک وہ جاگا ہوگا‪،‬‬

‫"و۔۔وہا۔۔وہاں۔۔۔گ۔۔گیسٹ روم میں۔۔۔می۔۔میں۔۔سورہی۔۔تھ۔۔تھی۔۔۔یو یا۔۔"‬

‫"م نع کنا تھا یا سا میے آنے سے۔۔۔"‬


‫اس سے دو قدم کے قاصلے یر رک کر ہیبم شحنی سے اسنفشار کنا‪،‬چھنل آیکھوں سے تپ تپ‬
‫گرنے اسکوں نے تھی اس کا تبھر دل یرم یہ کنا‪،‬‬

‫"می۔۔میں۔۔۔جان یوچھ۔۔۔کر نہیں۔۔آپی۔۔و۔۔وہاں۔۔ج۔۔جب میں۔۔گگ۔۔گیسٹ‬


‫روم۔۔۔میں سو۔۔سورہی۔۔تھ۔۔تھی یو ہنا۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔"‬
‫وہ چو رونے ہونے ہجکبوں کے دوران اسے ئمسکل تنانے کی کوشش کررہی تھی ہیبم کے یکدم‬
‫یازو دیوچ کر ا تیے فرتب کرنے یر دپی چیخ یرآمد ہوپی تھی اس کے میہ سے‪،‬مفایل کی فرتت جان‬
‫لییے کو ہونے لگی‪،‬چوف اس قدر عالب آیا تھا کہ چہرہ یوں سفند ہوا جیسے چون ہی یہ ہو‪،‬‬

‫‪- 278 -‬‬


‫"جان یوچھ۔۔۔ہنہہ۔۔۔جان یوچھ کر ہی یو آپی ہو میرے سا میے۔۔۔نہلے میرے لیے کھایا تناکر‬
‫مجھے اتنی موچودگی کا اجشاس دالیا اور جب دیکھا کہ وہ طرنفہ تھی کام یہ آیا یو چود ہی جلی آپی‬
‫میرے روم میں۔۔۔یاکہ ئمہیں دیکھ کر شب عم تھالنے ئمہاری طرف مایل ہوجاوں ہے یا۔۔۔"‬
‫اس کے یازو یر گرقت شخت یرین کریا وہ داتت پیس کر یوال ساتھ ہی آخر میں اس کے یازو کو‬
‫چھ نکا دے کر یوچھیے لگا‪،‬‬

‫"یہ۔۔نہیں۔۔ہی۔۔ہیبم۔۔می۔۔میں۔۔جا۔۔جان یوچھ کر نہیں۔۔۔"‬

‫"سروع سے نہی یو کرپی آرہی ہو۔۔۔نہلے یاذلی تھی یو اسے ہنادیا را سیے سے مگر تھر تھی میرے‬
‫دل میں جب ئمہارے لیے زرا تھی یرم گوشہ تندا یہ ہوا یو اب اتنا آپ میرے سا میے پیش کررہی‬
‫ہو۔۔۔"‬

‫"ہیبم۔۔۔!"‬
‫اس کی یات کاتنا وہ مزید یوال‪،‬مفایل کے زہر یلے لفظوں کو ئمسکل سینی وہ آخر میں ا تیے یارے‬
‫میں لفظ "پیش کریا" سن کر یڑپ ہی گنی تبھی چیخ یڑی مگر جلد ہی اسے اجشاس ہوا کہ وہ علط‬
‫کرگنی جب ہیبم اسنعال میں اس کی تھوڑی جکڑا تھا ا تیے ہاتھ میں‪،‬‬
‫‪- 279 -‬‬
‫"آواز تیچے۔۔۔"‬
‫مطییہ کی تھوڑی یر گرقت شخت کیے وہ عرایا‪،‬اس لڑکی کو دیکھیے ہی ایدر و یاہر جیسے سرارے‬
‫تھو تیے لگے تھے‪،‬‬

‫"تم جیسی چود کو پیش کرنے والی لڑک بوں کے ساتھ جاتنی ہو کنا ِکنا جایا ہے۔۔۔میں تنایا‬
‫ہوں۔۔۔"‬
‫وہ جیسے یوری کوشش کنا تھا ا تیے لفظوں سے اسے نکل نف د تیے کی‪،‬نفرت کی آگ میں ایدھا‬
‫ہویا وہ تھول چکا تھا ضحیح علط کا فرق‪،‬دوسری جاتب ا تیے جیڑے سن ہونے مجسوس کرکے‬
‫مطییہ رونے ہونے اس کا ہاتھ تھوڑی سے ہنانے کی کوشش کرنے نفی میں سرہالپی یر تبھی‬
‫تھوڑی یر گرقت اور شخت کیے ہیبم اس کا چہرہ فرتب کنا تھا ساتھ ہی مطییہ کے گداز ہوتبوں‬
‫کو ا تیے ل بوں میں مفند کرگنا‪،‬مطییہ چھ نکا کھاکر رہی تھی‪،‬سدت جذیات سے تھنی آیکھوں سے تھل‬
‫تھل آنسو نہیے لگے چنکہ دل کی دھڑکییں پیزی سے مییسر ہوپیں‪،‬مفایل کا نہال لمس کہیں سے‬
‫تھی اسے یرم یہ لگا‪،‬النا یڑپ کر وہ ہیبم کو دھکا د تیے لگی‪،‬جس یر چھنکے سے اسے چھوڑیا ہیبم‬
‫اسکی یازک کمر یر یازو جایل کریا اسے چود سے فرتب یرین کنا‪،‬‬

‫‪- 280 -‬‬


‫"نہیں۔۔۔!"‬
‫اسے ایک مرتیہ تھر ا تیے ل بوں یر چھکیے دیکھ مطییہ یڑپ کر چہرہ موڑ گنی‪،‬‬

‫"ہی۔۔ہیبم۔۔کنا کررہے ہو۔۔۔"‬


‫اس یار رونے کے ساتھ ساتھ مطییہ کو سدید غصہ آیا تھا تبھی تھراپی آواز میں زچ ہوکر یولی‪،‬‬

‫"وہی۔۔۔چو تم جاہنی ہو۔۔۔"‬


‫کہیے ہی ہیبم اس کی گردن یر چھکا‪،‬ہلکی یڑھی سنف کی چبھن سمیت اس کا لمس اتنی گردن یر‬
‫مجسوس کرنے ہی مطییہ کو مییسر ہوپی دھڑک ییں ا تیے کایوں میں سناپی د تیے لگی تبھی اس یار‬
‫اتنا یورا زور لگاکر اسے دھکا د تنی وہ دور کی تھی‪،‬ساتھ ہی واسروم کی جاتب تھاگی‪،‬اس کو نس کسی‬
‫تھی طرح مفایل کی نظروں سے عاتب ہویا تھا ک بویکہ ہیبم کی سرخ آیکھوں کا قہر تنارہا تھا کہ وہ‬
‫ن‬
‫ا تیے آنے میں نہیں یر معانے قسمت عین واسروم کے دروازے یر ہیحیے ہی ہیبم نے اسے‬
‫ن ً‬
‫تیجھے سے گرقت میں لنا تھا ساتھ ہی تنڈ یر فرتنا یجا‪ ،‬ل رونے ہونے فی یں سر النے وہ‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫ش‬‫م‬ ‫ت‬
‫ش‬
‫تیجھے سرک کر اتنی طرف آنے ہیبم کو ہمی نظروں سے دیکھیے لگی‪،‬‬

‫‪- 281 -‬‬


‫"ت۔تم انس۔۔انشا نہیں۔۔۔کر۔۔کرسکیے۔۔۔ہی۔۔ہیبم۔۔۔تم۔۔تم‬
‫یو۔۔۔نف۔۔نفرت۔۔۔کرنے ہو مجھ سے۔۔۔"‬
‫نےنسی کے عالم میں تھبھک کر روپی وہ اسے یاد دالپی تھی جیسے‪،‬ہیبم کو سرٹ کے پئیز کھو لیے‬
‫دیکھ وہ یوکھال کر تھر تنڈ سے ایرنے لگی مگر اس یار ہیبم نے اس کی نست یر قم نض کو جس زور‬
‫سے یکڑا مطییہ کے چھ نکا کھانے سے وہ سندھ میں تھینی جلی گنی‪،‬نےاجینار مطییہ تنڈ یر جت‬
‫لینی تھی‪،‬ہیبم کو چود یر چھکیے دیکھ اس کے تھوڑے نہت چو چواس بچے تھے وہ تھی سلب‬
‫ہونے لگے‪،‬ان دویوں تھات بوں نے اسے کنا سمجھ رکھا تھا‪،‬وہ کوپی کھلویا یو یہ تھی‪،‬‬

‫"تم مجھ سے زیردسنی نہیں کرسکیے۔۔۔"‬


‫ہیبم کو ا تیے چہرے یر چھکیے دیکھ وہ جلدی سے اسکے ل بوں یر ہاتھ رکھنی یرخ کر شخت لہچے میں‬
‫م‬ ‫ی‬
‫یولی‪،‬تھنگی آ کھیں ِراہ فرار ڈھویڈنے کی کوشش میں تھی مگر وہ دیو کی طرح کمل اس یر جاوی‬
‫تھا‪،‬‬

‫"جب تم مجھ سے زیردسنی سادی کرسکنی ہو۔۔۔۔یو میں ئمہارے ساتھ زیردسنی کبوں نہیں‬
‫کرسکنا۔۔۔"‬

‫‪- 282 -‬‬


‫ل بوں یر رکھا مطییہ کا ہاتھ دیوچ کر مروڑیا وہ تھ نکارا‪،‬ہاتھ میں اتھنی نکل نف یر مطییہ شحنی سے‬
‫ی‬
‫آ کھیں میچ گنی میہ نےساجیہ سے ششکی نکلی اور تبھی اسے مفایل کا ہاتھ ا تیے وچود یر رتنگنا‬
‫مجسوس ہوا‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔نہی۔۔نہیں کرو۔۔۔پ۔۔یلیز۔۔۔ضر۔۔ضرف۔۔ایک موقع دے دو۔۔۔می۔۔میں‬


‫اب۔۔۔کبھ۔۔کبھی سا۔۔سا میے یہ۔۔نہیں آو۔۔۔آوں گی ئمہارے۔۔۔"‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫اس کا دم گھییے لگا تھا‪،‬تبھی ئمسکل سانس نی یولی مگر تھر تھوٹ تھوٹ کر رودی جب مفا ل‬
‫ی‬ ‫ح‬‫ی‬
‫اتنی نفرت کا ایک ایک لمس اس یر چھوڑنے لگا‪،‬وہ ر کیے واال نہیں تھا اور یہ ہی رکا۔۔۔‪،‬مطییہ کی‬
‫فریادیں رات نگاں گنی تھیں‪،‬رات تھر ا تیے نکل نف دہ لمس سے اسے یڑیایا وہ لفظوں سے تھی اسکے‬
‫عزت نفس کو رویدا تھا مطییہ نے زیدگی میں نہلی مرتیہ‬
‫کان میں زہر گھول نا رہا‪،‬جس قدر وہ اس کی ِ‬
‫ا تیے لیے موت مایگی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کے سنانے میں یار کی روسی بوں میں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ آخری نہر ہے‪،‬سراب کے‬
‫نسے میں چور چماد لڑکھڑایا ہوا یاہر نکال تھا‪،‬‬

‫‪- 283 -‬‬


‫"یانے دوشت۔۔۔"‬
‫یاہر کار کی جاتب آیا وہ مڑ کر گارڈز کو ہاتھ ہال کر یوچھل لہچے میں یو لیے لگا‪،‬‬

‫"ہانے دوشت۔۔۔"‬
‫کار کے الک میں کی ڈا لیے کی کوشش کرنے چماد کے کندھے یر اجایک کوپی ہاتھ رکھیے ہونے‬
‫یوال تھا‪،‬‬

‫"دوشت۔۔!"‬
‫یاسمجھ نظروں سے سا میے کھڑے شخص کو دیکھیے کی کوشش کریا وہ دہرایا‪،‬دراز قد یلنک ُہڈی‬
‫سمیت ہاتھوں میں یلنک ہی گلووز لگانے اس شخص کا چہرہ ہڈی کے یاعث چھنا ہوا تھا‪،‬‬

‫"کون دوشت۔۔۔تھنی کون ہو تم۔۔۔"‬


‫جد سے زیادہ سراب پییے کی وخہ سے اس کی آواز یلکل نسے میں گھلی ہوپی تھی‪،‬‬

‫"آو تنایا ہوں۔۔"‬

‫‪- 284 -‬‬


‫ّ‬
‫اجایک ہی اس کے کندھے یر یازو جایل کیے وہ شخص چماد کو یار کے بجھلے چصے کی طرف لے‬
‫کر گنا تھا‪،‬‬

‫"ارے تھنی کون۔۔۔ہ۔۔ہو۔۔"‬


‫مفایل کے پیز قدموں کے ساتھ ئمسکل قدم مالنے وہ یو لیے کی کوشش کنا‪،‬نشہ یری طرح طاری‬
‫ی‬
‫ہونے کے یاعث اس کی آ کھیں یار یار تند ہورہی تھیں‪،‬‬

‫ک‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫لک‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫بجھ چ ّ‬


‫یار کے لے صے یں چہاں اس کی کار ر ھی ھی وہی یر چماد کو ل یچ یں ھڑا کیے وہ کار‬
‫سے کجھ نکاال تھا‪،‬ایک جگہ یر کھڑا چماد یار یار ادھر ادھر لڑھکنا سندھا کھڑے رہیے کی تھریور‬
‫کوشش کررہا تھا‪،‬‬

‫ہاتھ میں ت یپ لیے وہ چماد کے یلکل سا میے کھڑا ہوا تھا ساتھ ہی اجایک ہڈی اتھاپی‪،‬چماد کے‬
‫اوسان چظا ہونے تھے مفایل کھڑے شخص کو دیکھ‪،‬وہ کیسے تھول سکنا تھا اسے‪،‬تھنک اس ہی‬
‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬
‫جگہ یر یو ا تیے کجھ دوسبوں کے ساتھ ہناد کے کہیے یر اسے مارا تھا یری طرح اس نے‪ ،‬ل‬
‫ی‬
‫کی سرد آیکھوں نے اسکے اردگرد چظرے کا االرم بجایا تھا‪،‬‬

‫‪- 285 -‬‬


‫"کک۔۔کون ہو تم۔۔؟"‬
‫نشہ یل میں اڑن چھو ہوا‪،‬اب وہ یوری ایکینگ کرنے لگا تھا ابجان پییے کی‪،‬‬

‫"پیری موت۔۔۔!"‬
‫س‬
‫لسینل کہیے ساتھ ت یپ کھولنا جس تھرپی سے چماد کے میہ یر لییییے لگا وہ سمجھ یہ یایا‪،‬اور جب‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی م‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫ج‬
‫یک ھیے کے قا ل ہوا وہ ا کے میہ یر ھے سے لے کر آگے ک ل طر قے سے ت یپ لگا چکا‬
‫تھا‪،‬تھنی آیکھوں سے مفایل کھڑے سناد کی آیکھوں میں دریدگی دیکھنا وہ وجست میں مینال ہوا‪،‬اتھی‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫چ‬‫ی‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل اس یر یوٹ یڑا‪،‬چماد کی دپی دپی یں ت نارہی یں‬ ‫وہ اسے دھکا د تیے ہی لگا تھا جب‬
‫س‬
‫ل ہی سوچ رہا تھا‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کہ مفایل کا فوالدی ہاتھ اس یر کینا تھاری یڑرہا تھا‪،‬اسے مشلشل ماریا‬
‫س‬
‫کہ اسے مارنے میں شب سے زیادہ ہاتھ اس ہی انشان کا تھا اور نس‪،‬ہاتھ کا سوچیے ہی لسینل‬
‫کے ل بوں یر ایک یراسرار مشکراہٹ در آپی‪،‬چماد کا چون سے تھرا چہرہ دیکھ وہ سینی کی ُدھن بجایا‬
‫بجایا سندھا ہوا تھر اتنی کار کی طرف گنا‪،‬کجھ دیر نعد وہ ہاتھ میں کابچ کی ایک یویل لیے آیا‬
‫تھا‪،‬اس میں کجھ مجلول تھا جسے دیکھ چماد سدید نکل نف کے یاوچود تھی لڑکھڑایا ہوا اتھا‪،‬میہ یر ت یپ‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ت‬
‫ل کے آگے ہاتھ چوڑنے لگا‪،‬گویا ھنک مایگ رہا ہو‬ ‫لگے رہیے کے یاعث وہ رونے ہونے‬
‫زیدگی کی‪،‬مگر مفایل یر جیسے تھوت سوار تھا یدلے کا تبھی اس کے ت یٹ یر الت مارا‪،‬چماد کراہنا‬
‫س‬
‫ہوا تیچے میہ کے یل گِ را اتھی وہ تھر اتھیے کی کوشش میں تھا کہ لسینل یویل کھولنا اس کے‬
‫‪- 286 -‬‬
‫ی‬
‫یاس آیا ساتھ ہی یویل میں موچود مجلول اس کے ہاتھ یر گرانے لگا‪،‬چماد کی آ کھیں ا یلیے کو‬
‫ہوپیں‪،‬مفایل پیزاب گرارہا تھا اسکے ہاتھ یر‪،‬وہ سدت سے چیحنا جاہنا تھا مگر ت یپ جس شحنی سے لگا‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫ل ا ک فارت ھری ظر اس کے‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تھا وہ میہ سے آواز یک یہ نکال یایا‪،‬یویل جالی ہونے یر‬
‫یڑ تیے وچود یر ڈالنا نکال تھا وہاں سے یر جانے ہونے ت یپ اتھایا یہ تھوال‪،‬‬

‫"ممہ۔۔مم۔۔"‬
‫کار میں پیبھیے ہونے چماد کی دپی آواز نے اس کے کشادہ پیشاپی یر ایک سکن الپی تھی‪،‬وہ اب‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫ل کا چون ھوالنے کے لیے کافی ھی‪،‬کابچ ماتند ظروں نے ڈنش‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یک مرا نہیں‪،‬یہ یات‬
‫یورڈ یر نظر ڈالی چہاں ایک چمکنا پیز دھار کا جافو رکھا تھا اور تبھی اس کے ل بوں یر ایک نےرچم‬
‫مشکراہٹ نہری‪،‬‬

‫جافو اتھایا وہ وانس چماد کے یاس آیا چو تھنی آیکھوں سمیت چیحیے کی تھریور کوشش کریا نفی میں‬
‫سر ہالرہا تھا‪ ،‬تیچے گھیبوں یر چھکنا وہ چماد کی گردن یر جافو کی یوک رکھا تھر آہسنگی سے اس یر دیاؤ‬
‫یڑھانے لگا‪،‬قضا میں چماد کی وجست تھری دپی آواز گوبحیے لگی‪،‬میہ سے نکلنا چون ت یپ کو پیزی‬
‫میں ریگین کرگنا‪،‬پیر زوروں سے زپین یر ماریا وہ یری طرح یڑ تیے لگا تھر کجھ ہی دیر میں اس کا‬
‫س‬
‫یڑت نا وچود نےجان ہوا تھا‪ ،‬لسینل نے جب اس کی نےرویق زیدگی سے جالی آیکھوں کو دیکھا یو‬
‫‪- 287 -‬‬
‫ُ‬
‫ہلکا سا ہیس کر جافو گردن سے نکالنا اتھا‪،‬کالی ہڈی میں چون کے چھیییے یڑ کر چھیے تھے‪،‬اس کے‬
‫س‬
‫مردہ وچود کو دیکھ لسینل کو سکون سا مال تھا‪،‬‬

‫"نس۔۔۔جار اور۔۔۔"‬
‫چون سے ریگین جافو کو نغور دیکھنا وہ سفاکیت سے یڑیڑایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صیح نہاکر وہ واسروم سے نکال تھا‪،‬تھنگے یالوں کو ہاتھ سے چھنک کر اس نے تنڈ یر نظر ڈالی چہاں‬
‫تب ی‬
‫وہ نےدم یڑی اب یک ششک رہی تھی‪،‬رات تھر رونے سے سوج کر سرخ ہوپی م وا آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫ہ بوز چ ھت کو گھوررہی تھیں جن سے نکلنا گرم سنال کیینی سے ہویا رنسمی یالوں کو تھگورہا‬
‫تھا‪،‬چند قدم اتھایا ہیبم اس کے سر یر آن کھڑا ہوا تھر چھک کر کمفریر اوڑھی مطییہ کے یال‬
‫شہالنے ہونے یوال‪،‬‬

‫"کنا ہوا سوت یٹ ہارٹ۔۔۔چو جاہنی تھی وہی یو ِکنا ہے تھر یہ سوگ کس یات کا منارہی ہو۔۔۔"‬

‫‪- 288 -‬‬


‫رات سے مشلشل اس کے رونے یر وہ چوٹ کنا تھا‪،‬کل سے اب یک یہ نہال لمس تھا چو اسکے‬
‫یالوں یر وہ یرمی سے اتنی انگل بوں کے یدولت چھوڑرہا تھا‪،‬ہیبم کی یایوں کو سینی وہ کرب سے‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫آ یں یچ نی‪،‬‬

‫"تم ایک نےجس شخص ہو۔۔۔ جسے اتنی نکال نف کے آگے کسی کی اذ تت یک نہیں‬
‫دکھنی۔۔۔ جسے لگنا ہے کہ اس کا درد درد اور دوسروں کا درد یایک۔۔۔ہیبم سکندر۔۔۔ڈرو اس رب‬
‫سے جس کی التھی نے آواز ہے۔۔۔"‬
‫رات تھر ا تیے کردار کے یارے میں اس کی گوہر اقشاپی سییے کے یاعث وہ اب نہاتت کرب‬
‫کے عالم میں یولی تھی جس یر ہیبم ئمسجر سے ہیشا‪،‬یال شہالیا ہاتھ اجایک ہی ان رنسمی یالوں کو‬
‫جکڑا تھا‪،‬وہ چو نہلے ہی زچموں سے چور یڈھال یڑی تھی نےساجیہ نکل نف ضنط کرنے کے لیے‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫لب شحنی سے یچی‪،‬‬

‫"ہنہہ۔۔کس چق سے یہ الفاظ مجھے کہہ رہی ہو۔۔۔ڈریا یو ئمہیں جا ہیے مطییہ چہایگیر۔۔۔جس نے‬
‫اتنی نےجسی کا ت بوت د تیے ہونے اتنی ہی نہن کی چوسناں چھین لیں۔۔۔اسے مار ڈاال کہ اگر‬
‫چود چوش نہیں رہ سکنی یو اسے تھی چق یہ دیا۔۔۔تم جیسی لڑکناں آسیین کے ساتپ ہی ہونے‬

‫‪- 289 -‬‬


‫ٰ‬
‫ہیں چو دسم بوں کی جگہ ات بوں کو نفضان نہیجانے کی چنی االمکان کوشش کرنے ہیں اور جب‬
‫نفضان ہوجایا ہے یو نسوے نہاکر شب سے ہمدردیاں ت بورنے لگیے ہیں۔۔۔"‬
‫اس کے یالوں کو چھ نکا د ت نا وہ دھبمی آواز میں عرارہا تھا‪،‬یر جلد ہی وہ مطییہ کے یالوں کو گرقت‬
‫سے آزاد کنا جب لگا کہ مفایل درد سے چور وچود سمیت یڑی وہ لڑکی یرداشت چبم ہونے یر یکدم‬
‫نےہوش ہوپی تھی‪،‬ایک نظر ت نفر سے اس کے سرخ چہرے یر ڈال کر ہیبم سندھا ہو کر تیجھے‬
‫ہییے ہونے وارڈروب کا رخ کنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چماد کی یاگہاپی موت نے ہناد کو کافی یرنشان کر رکھا تھا‪،‬یہ یات ہی سمجھ سے یاالیر تھی کہ آخر‬
‫کون ہے چو نہلے یازل اور تھر چماد کو مارا تھا‪،‬اتنا یو اس کے پیزی سے جلیے سنظاپی دماغ نے‬
‫جان لنا تھا کہ ہویا ہو ان دویوں کا قا یل ایک ہی شخص ہے‪،‬یر کون۔۔۔‪،‬نہاں آکر وہ الجھ‬
‫جایا‪،‬اتھی تھی دونہر کو اس کے گھر یر کھڑا وہ نہی سوچ رہا تھا‪،‬چماد کے گھر میں کہرام مجا ہوا‬
‫تھا‪،‬چنکہ اس کا یڑا تھاپی یولیس کو جلد سے جلد اس کے قنل کا تنا لگانے کی تیینہات کررہا تھا‪،‬‬

‫"آخری یار یہ کب ملے تھے آپ سے۔۔۔؟"‬

‫‪- 290 -‬‬


‫کجھ دیر نعد چماد کے تھاپی سے اس کے دوسبوں کا یوچھ کر یولیس اس کے یاس آپی تھی چند‬
‫سواالت کے نعد انہوں نے ہناد سے یوچھا‪،‬‬

‫"کل رات کو۔۔۔"‬

‫"رات کو کس یاتم۔۔"‬

‫"دس بچے۔۔"‬

‫"اس کے نعد آپ کہا گیے تھے۔۔۔"‬


‫یولیس جس سک تھری نظروں سے اسے دیکھ کر سواالت کررہی تھی ہناد کے ما تھے یر النعداد یل‬
‫یڑے‪،‬‬

‫"مظلب کنا ہے آپ کا۔۔۔میں نے مارا ہے اسے۔۔۔میں قا یل ہوں۔۔۔"‬


‫اس کی ایا یر چوٹ یڑی تھی تبھی اسنہفامیہ ایداز میں یوال‪،‬‬

‫‪- 291 -‬‬


‫"دیکھو مسیر۔۔۔طر نقے سے سواالت کے چواب دو۔۔۔وریہ یاہر کی ہوا میں یہ چو اکڑ دکھا رہے ہو‬
‫چنل کی ہوا میں ساری اڑ جانے گی۔۔۔"‬
‫اس کے لہچے یر یاگواری طاہر کرنے اقسر نے کہا‪،‬‬

‫"لگنا ہے ہناد سکندر کو جا تیے نہیں ہو۔۔۔"‬


‫طیزیہ مشکراہٹ سمیت کہنا وہ چ یب سے والٹ نکاال ساتھ ہی کجھ یوٹ اس میں سے نکال کر‬
‫اقسر کے آگے یڑھانے‪،‬مظلب صاف تھا کہ پیسے لو اور نکلو‪،‬وہ اتھی کسی تھی سوال کا چواب‬
‫د تیے کے موڈ میں نہیں تھا‪،‬‬

‫"تم جیسے شہریوں کی وخہ سے ملک کا نظام خراب ہویا ہے۔۔۔یہ امیری کا روعب کہیں اور‬
‫چھاڑیا۔۔۔اور اگر اگلی مرتیہ انسی خرکت کی یو ڈایرکٹ ایدر کردوں گا۔۔۔"‬
‫شخت لہچے میں یول کر وہ یولیس اقسر ڈیڈے کی مدد سے اس کے ہاتھ کو تیجھے کنا‪،‬ہنک کے‬
‫اجشاس سے ہناد کا چہرہ سرخ ہوا‪،‬داتت یر داتت چمانے اتنا غصہ ضنط کریا وہ نکال تھا چماد کے‬
‫گھر سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔‬
‫"ماما۔۔۔"‬
‫‪- 292 -‬‬
‫ً‬
‫ہیبم نفرتنا جالیا تھا‪،‬‬
‫وہ اتھی اتھی آقس سے تھکا ہارا آیا تھا یر ا تیے روم میں مطییہ کو آیکھوں یر یازو ر ک ھے سونے دیکھ‬
‫اس کا ایدر یک چون جال جس کے یاعث وہ روم سے نکل کر تیچے آیا مہناز تنگم کو نکارا‪،‬‬

‫"کنا ہوگنا ہے پینا۔۔۔جال ک بوں رہے ہو۔۔۔؟"‬


‫الن کی طرف سے ایدر آپی مہناز تنگم نے اس کی یلند آواز سن کر کہا‪،‬‬

‫"اسے نکالیں میرے روم سے۔۔۔"‬


‫داتت پیس کر کہا تھا وہ‪،‬‬

‫" کسے۔۔؟"‬
‫مہناز تنگم نے یوچھا یو یر اگلے ہی لمچے یات سمجھ آنے یر یولیں‪،‬‬

‫"وہ صیح سے پیز بجار میں تھنک رہی ہے۔۔۔اس جال میں کیسے اسے تیچے الؤں۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کی یات سن کر وہ لب تھییجا تھر کہا‪،‬‬

‫‪- 293 -‬‬


‫"مجھے نہیں معلوم یر کسی تھی طرح اسے نکالیں میرے روم سے۔۔۔"‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫اس کے الکر یو لیے یر مہناز م کے چہرے یر یاگواری کا اپیر طاہر ہوا‪،‬‬

‫"وہ ضرف ئمہارا روم نہیں ہے۔۔۔ئمہاری ت بوی ہونے کے یاعث مطییہ کا تھی چق ہے وہاں‬
‫رہیے کا۔۔۔"‬
‫سیحندگی سے کہہ کر وہ جانے لگیں‪،‬‬

‫"میں نہیں ماتنا اسے اتنی ت بوی۔۔۔"‬


‫ہیبم کے خڑے ہونے ایداز یر وہ رکی تھر مڑ کر چند یل جاموسی سے اسے دیکھیے لگیں‪،‬‬

‫"اگر نہیں ما تیے یو صیح وہ ئمہارے کمرے میں ک بوں تھی۔۔۔"‬


‫ان کی یات سن کر ہیبم نے نگاہ ت ھیری‪،‬‬

‫"رات۔۔۔کو۔۔چود ہی آپی تھی۔۔"‬


‫م‬
‫نہر نہر کر یہ یات کہنا وہ کمل گریز کنا تھا ان سے نظریں مالنے سے‪،‬جاتنا تھا کل رات نفرت‬
‫میں ایدھا ہویا وہ ا تیے ہوش گ بوا پیبھا تھا‪،‬‬
‫‪- 294 -‬‬
‫"رات کو آپی تھی یو رات ہی کو نکال د تیے۔۔۔صیح یک ک بوں رکھا۔۔۔"‬
‫اس یات یر ہیبم ا تیے جیڑے تھییحنا نگاہ خرایا‪،‬چون یو نہت کھوال تھا اس کا مگر اب چواب ہی کنا‬
‫د ت نا‪،‬‬

‫"پینا ت بوی ہے وہ ئمہاری۔۔۔نس کردو۔۔چھ سال کم عرصہ نہیں ہویا کسی کو تھالنے کے‬
‫لیے‪،‬یاذلی کا دکھ ہم شب کو ہے یر اس کا یہ مظلب نہیں کہ ہم زیدگی میں آگے یہ‬
‫یڑھیں۔۔۔جانے والے جلے جانے ہیں ان کے ساتھ جایا نہیں جاسکنا اور یہ ہی رک سکیے‬
‫ہیں۔۔۔اسی لیے زیدگی میں آگے یڑھو۔۔۔چو نہیں ہے اس کا دکھ گلے سے لگانے رکھا ہے اور چو‬
‫ہے اس کی قدر نہیں۔۔۔"‬

‫"وہ ہے قدر کے الیق۔۔۔"‬


‫مہناز تنگم نے مالمت تھری نظروں سے ا تیے پییے کو دیکھا‪،‬‬

‫"اور کینی سزا دو گے اسے۔۔۔نےقصور وہ قصوروار نہراپی ہے۔۔"‬

‫‪- 295 -‬‬


‫"آپ کو کجھ نہیں معلوم امی۔۔۔وہ قا یل ہے یاذلی کی۔۔۔"‬
‫غصے میں وہ یکدم دھاڑا یر اگلے ہی لمچے ان کی آیکھوں میں دکھ کی ئمی چھلکیے دیکھ سرمندہ ہوا ا تیے‬
‫لہچے یر تبھی یلٹ کر وانس اویر کی جاتب گنا‪،‬مہناز تنگم نے یاسف سے اس کی نست کو دیکھا‪،‬‬

‫"ماما۔۔۔"‬
‫ا تیے کمرے سے تھاگ کر آپی انہیں نکارنے والی یہ قلذہ تھی‪،‬‬

‫"یولو۔۔"‬
‫اس کے چہرے یر چوسی کی دمک دیکھ انہوں نے اسنفشار کنا‪،‬‬

‫"ماما۔۔۔میں نے آپ کو سنفی کے یارے میں تنایا تھا یا۔۔۔چو میرے ساتھ یوپی میں یڑھنا‬
‫تھا۔۔۔"‬
‫ان کا ہاتھ تھامنی وہ چوسی سے ت نانے لگی‪،‬‬

‫"ہاں۔۔"‬

‫‪- 296 -‬‬


‫"ماما وہ دو دن نعد ا تیے مام ڈیڈ کو لے کر آرہا ہے۔۔۔میرے رسیے کے لیے۔۔"‬
‫انہیں تناپی وہ جس قدر چوش لگ رہی تھی مہناز تنگم کو اتنی ہی قکر الچق ہوپی‪،‬‬

‫"یر پینا چو یاپیں تم نے تناپیں اس جشاب سے وہ مجھے ضحیح لڑکا نہیں لگنا۔۔۔"‬

‫"اوہ کم آن ماما۔۔۔وہ نہت اچھا لڑکا ہے اور میرے ساتھ اس کا یلکل یرقنکٹ میچ‬
‫ہوگا۔۔۔پیسٹ کنل۔۔۔اب یلیز ماما م نع کر کے میرا موڈ خراب یہ کریا۔۔۔"‬
‫ان کو الڈ سے کہنی وہ مہناز تنگم کے کندھے یر سر رکھی جیسے منایا جاہ رہی ہو‪،‬‬

‫"دعا ہے اچھا نضیب ہو ئمہارا۔۔۔"‬


‫جس طرح کی اس کی ضحیت تھی مہناز تنگم کو ڈر ہی لگا رہنا‪،‬اور اب اس نے یہ تنا سوشہ‬
‫چھوڑا‪،‬وہ واقعی یرنشان ہوپی تھیں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫تنڈ یر آیکھوں یر یازو ر ک ھے وہ لینی صیح ہوپی یایوں کا سوچ رہی تھی‪،‬کچن میں جب وہ ا تیے لیے‬
‫جانے کا یاپی خڑھارہی تھی تبھی مہناز تنگم اسکے یاس آپی‪،‬مطییہ کی صیح سے ڈل طی نعت کو مدنظر‬
‫‪- 297 -‬‬
‫رکھییں وہ اس کا ماتھا چھوپی یر تبھی وہ جیران ہوپیں جب دیکھا کہ اسے پیز بجار ہے‪،‬وہ صیح‬
‫ی‬
‫مطییہ کو ہیبم کے روم سے نکلیے د کھیں تھیں وخہ دریاقت کریا انہوں نے مناشب یہ سمج ھا یر‬
‫کجھ ہی دیر نعد مالزمہ سے مطییہ کا سارا سامان گیسٹ روم سے ہیبم کے روم میں رکھوایا‪،‬وہ ڈری‬
‫تھی نہت لنکن اس کے انکار کرنے یر مطییہ کو نشلی د تنی وہ ہیبم کے روم میں لے‬
‫گییں‪،‬دواپی کھالنے کے نعد اسکی طی نعت کو دیکھ انہوں نے اسے تیینہہ کی تنڈ سے یہ اتھیے‬
‫کی‪،‬اور تب سے اب یک رات ہوجکی تھی مگر وہ نہی یر لینی تھی‪،‬چوف یو اب تھی تھا کہ یاجانے‬
‫وہ آکر کنا ِردعمل طاہر کرے‪،‬‬

‫روم میں داجل ہویا وہ گیٹ تند کیے جاموسی سے تنا اس یر نگ ِاہ علط ڈالے وارڈروب کی طرف گنا‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫مگر اگلے ہی لمچے وہ شخت الیا جب وارڈروب یر آدھے سے زیادہ کیڑے طییہ کے ہینگ‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬
‫ہونے د یکھے‪،‬‬

‫"کنا مسنلہ ہے یار۔۔۔کیڑے ہناؤ وہاں سے ا تیے۔۔"‬


‫خڑیا ہوا وہ تنڈ کی طرف آیا‪،‬مط ییہ کا دل گ ھیرایا مگر چود سوپی پینی وہ یونہی لینی رہی‪،‬‬

‫"ڈرامہ کریا تند کرو۔۔۔"‬


‫‪- 298 -‬‬
‫اجایک اس کا یازو آیکھوں یر سے چھنک کر ہیبم نے یاگوارتت سے کہا‪،‬چوری یکڑے جانے یر‬
‫پ‬
‫اتھ کر یبھنی مطییہ سر چھکاگنی‪،‬‬

‫اس کے جاموسی سے لب کا تیے یر ہیبم کا غصہ یڑھا تبھی وانس وارڈروب کے یاس جایا وہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫عم ی‬
‫مطییہ کے کیڑے نکال کر تیچے تھینکیے لگا‪،‬اس کا یہ ل د نی طییہ پیزی یں ا ھی ھی تنڈ‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫سے‪،‬‬

‫"کنا کررہے ہو۔۔"‬


‫جلدی سے ا تیے کیڑے اتھاپی وہ روہانسی ہوپی‪،‬‬

‫"کمرے میں رہیے کا یہ مظلب نہیں کہ ہر جگہ اتنی جیزیں رکھو۔۔۔آ تندہ میرے وارڈروب میں‬
‫یہ دکھیں یہ کیڑے۔۔"‬
‫کرجت لہچے میں کہہ کر ہیبم یاول لے کر واسروم میں جانے لگا‪،‬‬

‫"میں کہاں رکھوں انہیں۔۔۔"‬


‫ً‬
‫شخت الجارگی کے عالم میں اس نے مح بورا یوچھا‪،‬‬
‫‪- 299 -‬‬
‫"میری یال سے چہاں تھی رکھو سوانے نہاں کہ۔۔۔"‬
‫کندھے اچکا کر وہ واسروم میں گم ہوا‪،‬کجھ دیر سوچیے کے نعد مطییہ کو جب کوپی جگہ سمجھ یہ‬
‫آپی یو ایک تنگ میں ا تیے سارے کیڑے رکھنی وہ تنگ وسنع وارڈروب کے ایدر ایک جالی جانے‬
‫میں رکھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صیح سکندر وال کے یاہر کار روکے وہ گالسز ایاریا نغور اس وال کو دیکھیے لگا‪،‬نہی وہ جگہ تھی چہاں‬
‫سے اس کی یدقسمنی سروع ہوپی تھی‪،‬اس جگہ یر چہاں وہ سکندر صاجب کے اجشان کے یدولت‬
‫آیا تھا‪،‬کجھ اچھی یو نہت سی یری یادوں کو لیے نکال تھا وہ اس وال سمیت شہر سے تھی‪،‬تب وہ‬
‫نےنس تھا کہ ا تیے ساتھ ہونے دھوکے کا یدلہ نہیں کے سکنا تھا مگر اب‪،‬عناپی تھیچے ل بوں یر‬
‫طیزیہ مشکراہٹ تھنلی‪،‬یاہر کھڑے گارڈ نے اسے دیکھا یو ایدر کا رخ کنا تھر کجھ دیر نعد جب وہ‬
‫وانس آیا یو ساتھ مہناز تنگم تھی تھیں‪،‬اس کے کار سے یاہر نکلیے یر چہاں ان کے ما تھے یر سکن‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ل‬‫ن‬ ‫ی‬‫س‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ل ت س‬
‫ل کو د کھ وہی مفا ل کی سایدار یر نی نے ا یں کافی مرعوب‬ ‫آنے گی ھی‬
‫کنا‪،‬مضبوط قدم اتھایا وہ تھنک ان کے سا میے جا کھڑا ہوا‪،‬‬

‫‪- 300 -‬‬


‫"امند ہے یاد رہا ہوں گا۔۔"‬
‫سیحندہ کسی تھی طیز سے عاری لہچہ تھا‪،‬‬

‫"ئمہیں کیسے تھول سکنی ہوں۔۔"‬


‫ان کا اسارہ صاف قلذہ کے دنے تنان کی طرف تھا‪،‬سکندر صاجب کے لفظی وہ ہاسینل سے‬
‫نکل کر جان یو گنا تھا کہ کنا ِکنا الزامات قلذہ اور ہناد نے اس یر عاید کیے ہیں تبھی ان کی‬
‫یات کا مظلب سمجھنا جاموسی سے انہیں دیکھنا رہا‪،‬‬

‫ی‬
‫مہناز تنگم نغور اس کی آیکھوں کو جیرت سے دیکھ رہی تھیں‪،‬کابچ ماتند چونصورت آ یں ل ا کی‬
‫ی‬ ‫لک‬‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫س‬
‫پینی عندی کی طرح۔۔۔‪،‬مگر لسینل کا اس سے کنا نعلق یہ سوچ کر وہ ذہن میں آیا یرا چنال‬
‫چھنک دیں‪،‬‬

‫"بجھلی علط بوں کو سدھاریا جاہنا ہوں۔۔۔کجھ یات کرپی ہے۔۔۔"‬


‫نہرے ہونے لہچے میں وہ جس ایداز میں یات کررہا تھا مہناز تنگم منایر ہونے تنا یہ رہ‬
‫سکیں‪،‬مفایل کی چود اعبمادی اور روعب ہی تھا چو انہیں ہمیشہ سے منایر کریا‪،‬اتنات میں سر‬
‫ہالپی وہ اسے ایدر کا راشیہ دکھاپیں‪،‬‬
‫‪- 301 -‬‬
‫"اقسوس ہوا۔۔۔"‬
‫یایوں کے درمنان جب اسے سکندر صاجب کے یارے میں معلوم ہوا یو یوال‪،‬‬
‫سا میے ہر طرح کی رنفرنسم ییس رکھی تھیں مگر وہ ایک جیز کو تھی ہاتھ نہیں لگایا‪،‬مہناز تنگم یہ‬
‫ی‬
‫ات نظامات کبھی یہ کرپیں مگر وہ دتنا د یں یں اور مفا ل کا یدال ایداز لب و ہچہ اور مزاج ان یر‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫واضح طاہر کررہا تھا کہ سا میے پیبھا وہ روعب دار شخضیت کا جامل شخص ا تیے چوایوں کو چف نفت‬
‫کی سکل د تیے میں کامناب نہرا ہے‪،‬ہاں وہ کامناب ہوا تھا اتنی قایلیت کے یدولت اس چواب‬
‫کی یکث یر جس کا اس نے ساتھ سال نہلے سکندر وال میں ڈیر کرنے ہونے اظہار کنا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫قلذہ چو مہناز تنگم کے یلوانے ہر کجھ دیر نہلے ہی آپی تھی اب سا میے لسینل کو دیکھ وہ نہلے‬
‫چوف میں مینال ہوپی تھی مگر اس کا یارمل یات کرنے کا ایداز دیکھ جیران ہونے کے ساتھ ساتھ‬
‫چوش تھی ہوپی اور اب‪،‬جب وہ مہناز تنگم سے یاپیں کررہا تھا تب قلذہ کو جیسے اور کوپی کام ہی‬
‫نہیں تھا اسے دیکھیے کے سوا‪،‬گرے پی یٹ کوٹ میں یالوں کو چنل سے سیٹ کیے ایک ہاتھ‬
‫صوقے کی نست یر چماکر سیحندہ یایرات سمیت ایک ساخر ہی لگا قلذہ کو چو اسکے گرد اتنا شجر‬
‫تھویک رہا ہو جیسے‪،‬کھڑی معرور یاک تھیچے عناپی لب کے ساتھ ہی سرد آیکھوں میں یرف کا یایر‬
‫جیسے اس کی یرسینلنی کو شب سے الگ تنارہا تھا‪،‬‬
‫‪- 302 -‬‬
‫"ئمہاری آیکھوں کا ریگ کجھ یدال سا ہے۔۔۔"‬
‫پیبھ س‬
‫مہناز تنگم کو جیسے اب یک کھ نکا لگا تھا تبھی آخر کار یوچھ یں‪ ،‬ل کجھ ل جاموش رہا‪،‬‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬

‫"ایک مجسن کا اجشان ہے"‬


‫ہلکے لہچے میں کہہ کر وہ جپ ہوا‪،‬مہناز تنگم کو اس کی یات کجھ سمجھ یہ آپی مگر زیادہ یوچھنا انہوں‬
‫نے مناشب یہ سمجھا‪،‬‬

‫"ساپی تھاپی۔۔۔"‬
‫تیچے آنے ہیبم کی نظر اس یر یڑی یو نےساجیہ مشکراکر وہ نکارا‪،‬ا تیے سالوں یک وہ کینا یالش کنا‬
‫تھا اسے‪،‬اور اب اجایک سا میے یوں دیکھ چوسگوار جیرت میں مینال تھا‪،‬‬

‫"کیسے ہو۔۔۔"‬
‫م‬ ‫ط‬‫م‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫گ ل س‬
‫ل یوچھا‪ ،‬م کے ل بوں یر ھریور م کراہٹ نے اسے ین کنا‬ ‫اتھ کر اس کے لے گنا‬
‫تھا کہ وہ اتنی قبملی جیشا نہیں‪،‬‬

‫‪- 303 -‬‬


‫"تم کجھ ضروری یات کررہے تھے۔۔۔ساپی؟"‬
‫مہناز تنگم نے اسے یاد دالیا‪،‬جس یر کجھ سوچ کر سر ہالیا وہ پیبھا‪،‬ہیبم تھی سا میے صوقے یر پیبھا‬
‫تھا‪،‬‬

‫ا تیے روم سے نکل کر سیڑھ بوں کی جاتب آپی وہ مہناز تنگم کی آواز یر چویکی تھی‪،‬کالی نظریں‬
‫ی‬
‫نےاجینار تیچے گییں اور نس‪،‬وہ آ کھیں انکاری ہوپی تھی اس جگہ سے ہییے کو‪ ،‬تیچے یلکل اس کی‬
‫نظروں کے سا میے وہ پیبھا تھا‪،‬ایک یل کو اسے لگا کہ یہ ساید وہم ہو مگر کجھ یل نعد وہ نقین‬
‫کرنے یر مح بور ہوپی کہ مفایل وہم نہیں یلکہ شچ میں تیچے پیبھا اس کا مح بوب ہے جس کی یاد میں‬
‫اکیر وہ راپیں جاگ کر گزارپی‪،‬اسے لگا تھا کہ زیدگی نے یکدم چوسبوں کی تھوار یرساپی‬
‫ہے۔۔۔‪،‬ڈھاپی سال کی نکال نف کے نعد آج وہ اس کے سا میے تھا‪،‬نےساجیہ اس کا دل جاہا‬
‫کہ جدا کے آگے نہی یر شجدہ ریز ہو جانے جس نے اس کے مح بوب کو ا تیے ظویل ات نظار کے نعد‬
‫ی‬
‫اس کے سا میے الکھڑا کنا تھا‪،‬کالی آ کھیں چوسی میں سدت سے رویا جاہنی تھی مگر آنسو یدار تھے‬
‫تبھی سیڑھ بوں یر قدم رکھنی وہ ان دو سالوں میں نہلی مرتیہ اتنی یرانے ایداز میں زیدگی سے تھریور‬
‫مشکراہٹ تنکھڑی ل بوں یر شجاپی تھی‪،‬دل جس قدر چوش تھا وہ تنان نہیں کرسکنی تھی‪،‬‬

‫‪- 304 -‬‬


‫ں۔۔۔قلذہ کو ا تیے نکاح میں لینا میں لینا جاہنا ہوں۔۔۔امند ہے کہ آپ اعیراض نہیں‬
‫ِ‬ ‫"می‬
‫کریں گی۔۔۔"‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫م ل چٰ‬
‫نہرے ہونے ایداز یں وہ ہچہ نی االمکان یار ل ر ھیے کی کوشش کنا تھا وریہ فا ل ھڑی اس‬
‫م‬
‫لڑکی کو جس سدت سے مارنے کی چواہش نے اس کے سییے میں سر اتھارا تھا وہ نہت مسکل‬
‫ل‬
‫سے چود یر قایو کنا تھا کہ اتھی اسے بجمل سے جلنا ہے۔۔‪،‬اس لڑکی کی موت ھی ھی اس‬
‫ت‬ ‫ک‬
‫س‬
‫کے ہاتھوں مگر اتھی نہیں‪،‬ان سوچوں میں لسینل کا دل اجایک ہی الگ لے یر دھڑکا کہ وہ‬
‫چویک کر رہ گنا‪،‬ا تیے سالوں نعد اس کا دل دھڑکا تھا یر ک بوں وہ سمجھ یہ یایا‪،‬دھڑک بوں نے چھوم‬
‫کر ایک الگ ہی راگ سنایا تھا جیسے کسی ا تیے کی موچودگی کا اجشاس دالرہی ہوں‪،‬ان شب سے‬
‫نےنہرہ تنا وہ مہناز تنگم کے چواب کا می نظر ہوا مگر یہ کنا‪،‬سییے میں دھڑ کیے دل کی جالت کجھ‬
‫عح یب ہونے لگی‪،‬اردگرد قسوں سا پییے لگا‪،‬وہ نہاں موچود کسی جیز سے چوش نہیں تھا مگر اس کا‬
‫دل یاجانے ک بوں اس قدر دھڑ کیے لگا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫ل کو جیرت سے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اس کی یات یر چہاں قلذہ کا میہ کھال تھا وہی ہیبم اور مہناز ت نگم نے‬
‫دیکھا‪،‬اتنا شب ہونے کے یاوچود وہ چود ان سے یہ یات کہہ رہا تھا‪،‬مہناز تنگم کو نعخب نہت ہوا‬
‫مگر جلد ہی چود کو کم بوز کرپیں وہ ہلکا سا مشکراپیں‪،‬‬

‫‪- 305 -‬‬


‫"مجھے ک بوں اعیراض ہوگا۔۔۔"‬
‫یہ مفایل پیبھے شخص کی کامناپی سے مرعوت یت تھی وریہ وہ میہ یر انکار کردیں مگر قلذہ کے لیے‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ق نہ س‬
‫ق‬
‫ل سے ہیر کوپی چوانس یہ گی‪،‬ادھر لذہ ھی یوں چوش ہوپی ھی یسے مدیوں‬ ‫لجال ا یں‬
‫کی مراد یوری ہوگنی ہو‪،‬اتنی چوسی میں وہ تھول ہی گنی تھی کہ ایک دن نعد سنفی کو ا تیے ماں‬
‫یاپ کے ساتھ یالیا تھا اس نے‪،‬‬

‫س‬
‫لسینل زیردسنی مشکرایا کہ ایک مرجلہ طے ہوا مگر دوسری جاتب وہ چو چوسی سے سیڑھناں طے‬
‫س‬ ‫ن‬
‫ل مراد کی اس یات نے اس کے قدم زبخیر کر‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کررہی تھی آخری سیڑھی یر یے ہی‬
‫ح‬‫ی‬‫ہ‬

‫ڈالے‪،‬چھومنی دھڑکییں اجایک رکی تھی اور یوں مجسوس ہونے لگا جیسے ایک مرتیہ تھر اس کی دتنا‬
‫ویران ہوگنی ہو‪،‬وہ شخص یو اس سے محیت کا دعویدار تھا تھر کنا اتنی کمزور محیت تھی اسکی‪،‬اتنی‬
‫س‬
‫نکل نف اسے ان دو سالوں میں نہیں ہوپی تھی جینی ان تھوڑے سے لمجات میں لسینل کے‬
‫لفظوں سے ہوپی‪،‬دل یویا تھا اس کا‪،‬مگر تھر چنال آیا کہ وہ کنا چق رکھنی ہے اس سے کسی تھی‬
‫طرح کے سوال کرنے کی‪،‬وہ یو اس کو جاصل کرنے کی مبمنی یہ تھی تھر ک بوں اس کی‬
‫م‬
‫نےوقاپی یر سوال کرپی‪،‬مگر یادان دل کا کنا کرپی چو یل میں چور ہوا تھا‪،‬مگر اسے کمل نظر ایداز‬
‫کرپی وہ مشکراپی کہ سا میے پیبھا شخص ا تیے جلیے اور ایداز سے واضح کرگنا تھا کہ اس کی فریاپی‬
‫صنا نع نہیں گنی‪،‬‬
‫‪- 306 -‬‬
‫س‬
‫اتنی دلی جالت یر قایو یایا لسینل تھوڑا نےجین تب ہونے لگا جب آیکھوں میں تھر ئمی آنے‬
‫لگی‪،‬اسے شخت غصہ آیا‪،‬ک بوں ہورہا تھا انشا‪،‬کبوں صدی دل تنا کسی چواز کے چوش ہورہا تھا ساتھ‬
‫ی‬
‫آیکھوں کی ئمی تھی کہ یڑھنی جارہی تھی‪،‬ا تیے میہ یر ایک ہاتھ ت ھیریا وہ نسو سے آ یں یو ھنا‬
‫ج‬‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫س‬
‫گردن موڑا‪،‬کابچ آیکھوں نے سندھا سیڑھی یر کھڑی اس لڑکی کو دیکھا تھا اور لسینل مراد تبھر‬
‫ہوا‪،‬سفند سلوار قم نض یر سایوں یر دو تیہ تھنالنے یالوں کو چوپی کی صورت ت ناکر آگے کیے وہ لڑکی‬
‫نہلی نظر میں اسے کوپی مومی گڑیا لگی‪،‬چو زرا سا چھونے یر یوٹ کر یکھرجانے‪،‬سرخ و سفند عارض‬
‫س‬
‫ل مراد کو یوں لگا‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کو چومنی کجھ لییں چھوپی سی سبواں یاک چنکہ تنکھڑی ماتند گالپی لب‬
‫کہ چو نصویر وہ ا تیے ذہن کے یردے یر ا تیے سالوں سے عندلیب کی تنایا آیا تھا مفایل کھڑی‬
‫م‬
‫لڑکی اس نصویر یر کمل ایری ہے‪،‬نضاد اس یر کہ کالی مگر ُسرخ ہوپی آیکھوں کی سوگوارتت نے‬
‫اس کے جسن میں اصافہ کنا تھا‪،‬چونصورت چہرے یر ایک الگ ہی کرب رقم کیے وہ جاموش‬
‫س‬
‫نظروں سے لسینل کو ہی دیکھ رہی تھی‪،‬مگر وہ نےجیر اب تھی یہ جان یایا تھا کہ دل ک بوں‬
‫اس قدر چوش ہے‪،‬ایک قسوں تھا چو ان دویوں کے اردگرد پینا گنا‪،‬اس نے نغور مفایل کی آیکھوں‬
‫س‬
‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل کی سرد آ ھوں یں سوانے زرا سی جیرت کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫میں دیکھیے سناساپی کی رمق ڈھویڈی یر‬
‫کجھ یہ تھا‪،‬‬

‫‪- 307 -‬‬


‫"جیرت کروں‪،‬مالل کروں یا ِگلہ کروں‪،‬‬
‫تم عیر لگ رہے ہو تناؤ میں کنا کروں۔"‬

‫"یہ۔۔"‬
‫س‬
‫نےاجینار کھڑے ہونے لسینل کے ل بوں میں چییش ہوپی‪،‬‬

‫"یہ عنادیہ ہے۔۔۔میری چھوپی پینی۔۔۔تم نہیں جا تیے ہو اسے کبویکہ جب تم ہمارے گھر‬
‫رہیے تھے تب یہ ہوسنل میں اتنی یڑھاپی کے عرض سے تھی۔۔"‬
‫تھ م س‬
‫ج‬
‫ل کے دل نے یسے ان کی یات سے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫مہناز تنگم مشکرانے ہونے اسے تنارہی یں گر‬
‫انکار کنا تھا وہ گواہی دیا تھا اس یات کی کہ سا میے کھڑی لڑکی کو وہ جاتنا ہے نہت ا چ ھے‬
‫سے‪،‬دل کی ک نفنات جد درخہ ید لیے لگیں یو ات نات میں سر ہالیا وہ عنادیہ ہر نظر ر ک ھے ہی یوال‪،‬‬

‫"جلنا ہوں آ تنی۔۔۔کجھ ضروری کام ہے۔۔۔"‬

‫"تھاپی۔۔۔کھایا ساتھ کھاپیں گے۔۔۔رک جاپیں۔۔"‬

‫‪- 308 -‬‬


‫ہیبم نہیں جاہا تھا کہ وہ اتھی جانے مگر اسے شہولت سے انکار کریا وہ نکال تھا وہاں سے‪،‬سییے میں‬
‫س‬
‫دھڑکنا صدی دل لسینل سے شخت یاراض ہوا تھا اس یری وش سے نظریں ہنانے یر‪،‬‬

‫دوسری جاتب عنادیہ اب یک اس گیٹ کی جاتب دیکھ رہی تھی چہاں سے اتھی اتھی وہ اوچھل‬
‫ہوا تھا‪،‬کجھ دیر نہلے ان دویوں کی نظروں کا ظویل ارنکاز وہاں کھڑی قلذہ سے مخفی یہ رہا تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کان یر فون لگانے وہ مشلشل کسی سے یات کریا سکندر وال میں داجل ہورہا تھا مگر سا میے نظر‬
‫س‬
‫ل جب اسے سرد‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کرنے ہی جیسے اس یر سکیہ لگا تھا‪،‬ایک یل کو یو ہناد کو نقین یہ آیا یر‬
‫نظروں سے دیکھنا قدم یہ قدم فرتب آنے لگا تب ہناد کا سکیہ یویا‪،‬نےنقینی نقین میں یدلی ساتھ‬
‫ہی سدید جیرت میں مینال وہ اسے دیکھیے لگا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"یو۔۔"‬
‫وہ ضرف لب ہی ہال سکا‪،‬چھ نکا ہی ات نا یرا لگا تھا‪،‬نےنقینی سے نقین کی ک نف یت میں وہ تب آیا‬
‫س‬
‫جب لسینل اسے نظرایداز کریا یرایر سے گزرنے لگا‪،‬‬

‫‪- 309 -‬‬


‫"پیری ہمت کیسے ہوپی نہاں آنے کی۔۔"‬
‫س‬
‫اس کے غصے میں کہیے یر لسینل رک کر یلنا‪،‬تھر جیرت سے اسے دیکھیے لگا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"تم۔۔کون۔۔ہناد۔۔راتٹ۔۔"‬
‫ہناد کو لگا وہ کھڑے کھڑے طمابچہ مارا ہے اسکے میہ یر‪،‬کنا وہ شچ میں اسے نہیں نہجایا تھا یا تھر‬
‫ابجان ین رہا تھا‪،‬‬

‫"ابجان مت ین۔۔نہت ا چھے سے جاتنا ہوں بجھے۔۔۔"‬


‫ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ل کی سرد آ ھوں یں کی‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اسے چنک کرنے کے عرض ہناد یاگوار لہچے میں یوال‪،‬جس یر‬
‫سی آگ جلی تھی‪،‬عناپی ل بوں یر زہریلی مسکان تھنلی‪،‬‬

‫"جا تیے نہیں ہو۔۔۔جان جاؤ گے۔۔۔نہت جلد۔۔"‬


‫ہناد کا کندھا تھیبھنا کر وہ ازلی سرد مشکراہٹ سمیت یوال ساتھ ہی مڑ کر گالسز نہینا کار میں‬
‫پیبھا‪،‬اس کے جانے کے نعد ہناد جیران یرنشان سا ایدر داجل ہوا‪،‬جا تیے کہ آخر معاملہ کنا‬
‫س‬
‫ہے‪،‬ک بویکہ شب سے زیادہ چھ نکا یو اسے لسینل کی کابچ آیکھوں نے دیا تھا‪،‬‬

‫‪- 310 -‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫چ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ن‬
‫ل کے جانے کے عد وہ وانس ا تیے روم یں آپی ھی‪،‬ا تیے سالوں سے اس ز می دل‬
‫س‬
‫میں یل میں چوسبوں کی تھوار یڑی تھی لنکن اگلے ہی لمچے لسینل کے لفظوں نے ان یر‬
‫انگارے جالنے کا کام کنا‪،‬اس قدر معمولی یو یہ تھی اس کی محیت چو مفایل ضرف ڈھاپی سالوں‬
‫میں اسے تھال چکا تھا‪،‬ہاں وہ اسے تھال ہی چکا تھا تبھی ساید نہجان یہ یایا‪،‬یراپی یادوں میں کھونے‬
‫ہونے کالی آیکھوں کے ڈورے جد سے زیادہ الل ہونے لگے‪،‬‬

‫"عندی۔۔"‬
‫کمرے میں پیزی میں داجل ہوکر اس کی سوچوں کا نشلشل یوڑنے والی یہ قلذہ تھی‪،‬‬

‫"مجھے تم سے کجھ یات کرپی ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫ل‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫وہ ان دویوں کے نظروں کے ارنکاز سے کافی یرنشان ہوپی تھی کہ اس یار وہ ا تیے اور‬
‫کے تیچ کسی قسم کی رکاوٹ نہیں جاہنی تھی‪،‬‬

‫‪- 311 -‬‬


‫پ‬
‫عنادیہ کے اتنات میں سر ہالنے یر وہ تنڈ یہ اس کے یاس آکر یبھی‪،‬‬

‫م‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫رہ‬
‫"وہ۔۔ ل تھا چو کجھ سال لے ا نی یڑھاپی کے ل لے یں نہاں ا سی یں یے آیا‬
‫تھا۔۔۔"‬
‫یاپ یول کر لفظوں کو جینی وہ یات کا آعاز کرنے لگی‪،‬عنادیہ چو سیحندہ نظروں سے اسے دیکھ‬
‫رہی تھی‪،‬اسکی آیکھوں میں جیرت گھلی‪،‬یو مظلب دریہ تنگم نے اسے جس قبملی کا تنایا تھا وہ اس‬
‫س‬
‫ہی کی قبملی تھی چہاں لسینل یڑھاپی کے عرض گنا تھا اور تھر اس کے ساتھ وہ جادیہ پیش‬
‫آیا‪،‬مگر وہ جادیہ یو نہیں تھا‪،‬کسی نے جان یوچھ کر اس کے ساتھ یہ کنا تھا مگر کس نے‪،‬یہ سوچ‬
‫سوچیے ہونے عنادیہ مشلشل قلذہ کے چہرے یر ایار خڑھاؤ نغور دیکھ رہی تھی‪،‬‬

‫"ئمہیں تنا ہے وہ اب مجھ سے سادی کبوں کریا جاہنا تھا۔۔۔"‬


‫ٰ‬
‫چنی االمکان کوشش کی گنی لہچے کو آیدیدہ ت نانے کی‪،‬عنادیہ کی یاسمجھ نظروں کو دیکھ وہ مزید گویا‬
‫ہوپی‪،‬‬

‫"ک بویکہ جب وہ نہاں یڑھیے کے عرض سے آیا تھا تب ہماری فرتنڈ ِشپ ہوگنی تھی۔۔۔میں اسے‬
‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫نہت اچھا انشان ھنی ھی لنکن۔۔۔"‬
‫‪- 312 -‬‬
‫"لنکن ایک دن میری دوسنی اور معصومیت کا قایدہ اتھانے ہونے وہ میرے ساتھ زیردسنی‬
‫کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا اور جاتنی ہو عندی میں نہت مسکل سے اس دن اتنی عزت‬
‫بجاپی تھی وریہ یو۔۔۔"‬
‫م‬
‫کمل رونے کی تناری کرپی وہ یات روک گنی جیسے لہچہ تھراگنا ہو‪،‬عنادیہ کی آیکھوں میں یاگواری‬
‫کے ساتھ ساتھ مالمت اتھرنے لگی‪،‬‬

‫"جیر چھوڑو اس یات کو۔۔۔میں نس یہ تنایا جاہ رہی ہوں کہ وہ اس دن کی علظی یر کافی‬
‫سرمندہ ہے تبھی اب مجھ سے نکاح کریا جاہنا ہے۔۔۔"‬
‫اس کی یات سن کر عنادیہ نے ہاتھ سے اسکی جاتب اسارہ کنا‪،‬گویا یوچھ رہی ہو کہ آپ ک بوں‬
‫تنار ہوپیں نکاح کے لیے گر وہ اتنا یرا ہے۔۔۔‪،‬جس یر قلذہ تھوڑا گڑیڑاپی تھر یولی‪،‬‬

‫"ہم لڑک بوں کو اتنی عزت عزیز ہوپی ہے عندی۔۔۔اب اگر وہ سرم ندہ ہوکر مجھ سے نکاح کریا‬
‫جاہنا ہے یو مجھے اسے ایک موقع یو د ت نا جا ہیے یا۔۔۔"‬

‫‪- 313 -‬‬


‫عنادیہ کے ہاتھ یر ہاتھ رکھنی وہ ساطرایہ ایداز میں چود کو معصوم طاہر کی تھی‪،‬عیر مجسوس طر نقے‬
‫میں عنادیہ قلذہ کے ہاتھ کے تیچے سے اتنا ہاتھ نکالی تھی‪،‬اس کی آیکھوں میں زرا ہمدردی یہ آپی‬
‫ب‬ ‫ی‬‫ت می پ‬
‫ق‬
‫ھی فا ل ھی لذہ کے لیے‪،‬‬

‫"ایکشکبوز می۔۔"‬
‫اجایک ہی سنفی کی کال اس کے ئمیر یر آنے لگی تبھی اس سے ایکشکبوز کرپی یاہر کی راہ لی مگر‬
‫عنادیہ کی مالمت تھری نظروں نے اس وقت یک قلذہ کی نست کو دیکھا جب یک وہ روم سے یہ‬
‫نکل گنی ہو‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔"‬
‫یاہر نکل کر وہ کال رنسبو کرنے یولی‪،‬‬

‫"کیسی ہو ہنی۔۔۔؟"‬
‫ی‬
‫دوسری جاتب سے سنفی کے کہیے یر وہ آ یں کوقت سے تند کی‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫"طاہر سی یات ہے تھنک ہی ہوں گی۔۔۔"‬


‫‪- 314 -‬‬
‫پیزارتت تھرا لہچہ کے سنفی جیران ہوا‪،‬‬

‫"کنا ہوا قلذہ۔۔موڈ خراب ہے کنا۔۔؟"‬

‫"نہیں۔۔تم تناؤ کنا کام ہے۔۔؟"‬


‫اس کا یدال لہچہ سنفی کو چھنکوں کے زد میں لے گنا تھا‪،‬کہاں وہ لڑکی اس کے آگے تیج ھے گھومیے‬
‫والی اور اب کیسے یات کررہی تھی‪،‬‬

‫"ضروری نہیں کہ کام ہو تبھی کال کروں۔۔۔میں یو ئمہیں یہ کہیے کے لیے کال کنا ہوں کہ‬
‫یروس یلکل مت ہویا ایک دن نعد جب مام ڈیڈ آ پیں گے۔۔۔ک بویکہ انہیں میں نے ئمہاری یک‬
‫دکھاپی تھی۔۔۔کافی نسند آپی ہو تم ان دویوں کو۔۔۔"‬
‫جینی چوسی سے وہ تنارہا تھا قلذہ کا اتنا ہی چہرہ یگڑا‪،‬‬

‫"سنفی تم۔۔تم ا تیے مام ڈیڈ کو نہیں تھیچو نہاں۔۔۔"‬


‫کجھ یل کی جاموسی کے نعد وہ یو لیے ہونے سنفی کو سدید جیران کرگنی‪،‬‬

‫‪- 315 -‬‬


‫"مظلب۔۔ک بوں یہ تھیچوں۔۔کوپی یرایلم ہے کنا۔۔۔"‬

‫"نہیں یرایلم نہیں۔۔۔میرا مظلب ہاں۔۔یرایلم یہ ہے کہ ماما کو تم نسند نہیں آنے۔۔۔"‬


‫سوچ سوچ کر چواز پیش کی تھی وہ‪،‬‬

‫"ارے یو یہ کان سی یڑی یات ہے۔۔۔میں منالوں گا آ تنی کو۔۔ئمہارے لیے اتنا یو کر ہی لوں‬
‫گا۔۔۔"‬
‫خ‬ ‫م‬ ‫ُ‬ ‫ج‬ ‫ً‬
‫ش‬ ‫ا‪،‬ق‬
‫وہ فورا ل تنای لذہ کا یکدم دل اجاٹ ہوا تھا اس سے‪،‬ذہن کے یردے یر یار یار وہ عرور ص‬
‫آرہا تھا‪،‬‬

‫"نہیں ماما تھر تھی نہیں ماپیں گی۔۔۔"‬

‫"قلذہ تم نےقکر رہو۔۔میں منالوں گا۔۔۔"‬

‫‪- 316 -‬‬


‫"ارے کہا یا نہیں یو نس نہیں۔۔۔عح یب زیردسنی ہے۔۔۔دیکھو سنفی میں اتنی ماما سے نہت‬
‫محیت کرپی ہوں اور ہمیشہ ان کا کہا گنا ماتنی ہوں اس لیے اگر تم انہیں نسند نہیں یو‬
‫تھر۔۔۔مجھے تھی نسند نہیں۔۔۔اب آ تندہ کال مت کریا مجھے۔۔۔"‬
‫اجایک ہی تھڑک کر کہنی وہ کال کٹ کرگنی ساتھ ہی گہرا سانس تھری کہ جان چھوٹ‬
‫ً‬
‫گنی‪،‬اس کے نعد کینی ہی کالز آ پیں سنفی کی مگر وہ فورا سے لے اس کا میر الک لسٹ یں‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫ڈالی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کے جانے کے نعد وہ اویر ا تیے روم یں آیا‪،‬ارادہ تنار ہوکر آقس جانے کا تھا گر وہ‬
‫تھبھکا جب نظر مطییہ یر یڑی چو آیرن سیینڈ کے یاس کھڑی اس کی ایک سرٹ یرنس کررہی‬
‫تھی‪،‬یازک کمر یر تھنلے تھنگے یالوں نے واضح کنا کہ وہ کجھ دیر نہلے ہی نہاکر نکلی تھی‪،‬تنک‬
‫قم نض سلوار یر نےیرپینی سے دو تیہ لیے وہ اسکی موچودگی سے نےجیر یلکل مصروف تھی ا تیے‬
‫کام میں‪،‬نغور اس کا جایزہ لییے ہیبم کے ما تھے یر سکبوں کا جال تنا‪،‬آہسنگی سے قدم اتھایا وہ‬
‫عین مطییہ کے تیجھے کھڑا ہوا ساتھ ہی اتنا ہاتھ اس کی کمر یر رکھا‪،‬یری طرح چویکنی مطییہ کا ہاتھ‬
‫لرز کر رکا تھا جب مفایل کا ہاتھ اتنی کمر یر رت نگنا مجسوس ہوا‪،‬اتنا سییہ آہسیہ سے اس کی نست‬
‫سے لگایا تھا وہ‪،‬وہ چو مدھم ہوپی سانسوں سمیت اس کی انگل بوں کا گرم لمس یرداشت کررہی تھی‬
‫‪- 317 -‬‬
‫یکدم سانس روکی جب اسیری تھامے مطییہ کے ہاتھ یر وہ اتنا تھاری ہاتھ رکھا‪،‬ایک آنسو نکل کر‬
‫عارض یر گرا مفایل کی یرمی یر‪،‬وہ کینی یرمی سے اتنی سرٹ یر اس کے ہاتھ یر ہاتھ ر ک ھے اسیری‬
‫جالرہا تھا‪،‬مطییہ کے گداز لب مشکرانے تھے مگر اگلے ہی لمچے وہ چیخ اتھی جب اجایک اس کا‬
‫دوسرا ہاتھ یکڑیا وہ اسیری اس یر رکھا‪،‬‬

‫"جپ۔۔۔"‬
‫ً‬
‫فورا اسیری اسیینڈ یر رکھ کر وہ مطییہ کے ل بوں یر تھاری ہاتھ چماکر گویا ہوا‪،‬پیزی سے تھنگنی‬
‫ہیب ی‬
‫آیکھوں سمیت وہ چوفزدہ نظروں سے اتنی نست یر چہرہ موڑے م کو د ھی ھی‪،‬ہاتھ کی نست یر‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫ہوپی جلن جد سے سوا تھی‪،‬درد سے وہ چیحنا جاہنی تھی مگر مفایل کی شخت گھوری نے اس میں‬
‫ہمت تھی تندا یہ ہونے دی‪،‬‬

‫"یہ فرشٹ اور الشٹ وارتنگ سمجھنا کہ آ ت ندہ ا تیے چوپی ہاتھوں سے میری جیزیں داعدار مت‬
‫کریا۔۔۔"‬
‫اس کے ل بوں سے ہاتھ ہناکر وہ چھنکے سے اسے چھوڑا کہ مطییہ چود کو سیبھا لیے کے جکر میں‬
‫سندھا تیچے گری‪،‬اہاتت کا اجشاس اسے نظریں اتھانے نہیں دے رہا تھا‪،‬ا تیے جلے ہاتھ کو شحنی‬
‫ی‬
‫سے یکڑے وہ دپی آواز میں آ کھیں میچ کر یلک کر رونے لگی تھی‪،‬ہاتھ کی نست زیادہ نہیں جلی‬
‫‪- 318 -‬‬
‫تھی مگر اس کی جلن ہی اتنی سدید تھی کہ مطییہ کے آنسوؤں کا ایک مرتیہ تھر یہ چبم ہونے واال‬
‫سلشلہ سروع ہوا‪،‬اس کو ت نفر سے دیکھنا ہیبم اتنی سرٹ آیرن اسیینڈ سے اتھایا ساتھ ہی اسے‬
‫دھونے کے لیے رکھنا دوسری سرٹ نکال کر مالزمہ کو آواز دیا‪،‬اسے سرٹ یکڑایا ہیبم گھورا جب وہ‬
‫یرچم نظروں سے تیچے چہرہ چھکانے روپی مطییہ کو دیکھیے لگی‪،‬ہیبم کی گھوری یر گڑیڑاکر وہ مالزمہ‬
‫سرٹ لے کر یرنس کرنے کے لیے گنی‪،‬‬

‫"یایا۔۔۔!!"‬
‫ہیبم نے واسروم کا رخ کنا چنکہ تیچے تنا آواز کے روپی مطییہ نےساجیہ نکاری‪،‬اسے سدت سے‬
‫چہایگیر صاجب کی یاد آپی تھی چو اتنی تیی بوں کو نےجد جا ہیے تھے‪،‬دل کنا تھا کسی تھی طرح ان‬
‫کے گلے لگ کر تھوٹ تھوٹ کر رونے‪،‬اس کا ایک ایک یل رہنا اب مجال ہونے لگا تھا نہاں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ق‬ ‫ص‬ ‫ش‬ ‫ش‬‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ا تیے آقس میں راکنگ جئیر یر پیبھا وہ آ یں مویدے ل یح ہونے وا عے کا سوچ رہا‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫تھا‪،‬اس کا سکندر وال جایا‪،‬قلذہ سے سادی کا یرویوزل د ت نا‪،‬مہناز تنگم کا چوش ہویا‪،‬اجایک یدلنی دل‬
‫کی جالت اور تھر اس انسرا کا سا میے آیا‪،‬وہ آج یک کسی کے جسن سے منایر یہ ہوا تھا مگر عنادیہ‬
‫کا چونصورت چہرہ دیکھ اسے لگا کہ لفظ جسین تھی کم یڑا ہو اس لڑکی کی سوگوار چونصورپی تنان‬
‫‪- 319 -‬‬
‫کرنے میں‪،‬اس لڑکی کی موچودگی نے اسے عندلیب کا اجشاس دالیا تھا‪،‬وہ دل کی دھڑک بوں کا سور‬
‫مجایا یلکل اس ہی طرح جب عندلیب اس کے یاس ہوپی‪،‬مگر وہ ا تیے دل کی یات یر صاف انکار‬
‫س‬
‫م‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫ل کو ھے ھے اذ بوں کے ھڑوں یں‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کرگنا‪،‬ک بویکہ عندلیب یو مرجکی تھی‪،‬اس سوچ نے‬
‫ڈاال تھا‪،‬‬

‫"یر وہ عندلیب ہی ک بوں لگی تھی۔۔۔"‬


‫س‬
‫دل نے تھوڑی سی کوشش کی تھی تھر سمجھانے کی‪ ،‬لسینل کا سر درد سے تھییے کو ہوا‪،‬تبھی‬
‫پینل کے دراز سے سگرتٹ کی ڈپی کے ساتھ الپئیر نکالنا وہ سگرتٹ سلگایا‪،‬تھوڑی ہی دیر نعد وہ‬
‫میہ سے دھواں چھوڑیا کال رنسبو کنا جب فون بحیے لگا‪،‬‬

‫"سو وہ آدمی اتھی کجھ دیر نہلے ا تیے گھر سے نکال ہے۔۔۔کال یر کسی سے یات کررہا تھا کہ‬
‫رات کو (۔۔۔۔) ہویل میں روم یک کریا ہے۔۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ی‬
‫ل اسے رات ک اس آدمی‬ ‫غفان نے اسے ہناد کے ایک اور دوشت کی جیر دی‪،‬جس یر‬
‫یر نظر رکھیے کا کہنا کال کٹ کنا‪،‬‬

‫"اس کے نعد ضرف پین اور۔۔۔"‬


‫‪- 320 -‬‬
‫یراسرارتت سر مشکرایا وہ زی ِر لب یڑیڑایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اتھی وہ مہناز تنگم سے ظویل بخث کرکے ان کے روم سے نکال تھا‪،‬اسے سدید غصہ آیا تھا یہ سن‬
‫س‬
‫کر کہ لسینل نے قلذہ کے لیے یرویوزل دیا‪،‬اور وہ غصہ مہناز ت نگم کی اس رسیے یر رصامندی‬
‫س‬
‫سے یڑھا تھا‪،‬وہ انہیں وارن کرنے لگا تھا کہ لسینل یہ شب ضرف یدلے کے لیے کررہا ہے‬
‫س‬
‫مگر انہوں نے ہناد کی ایک یہ سنی۔۔۔ لسینل کا اچھا رویہ انہیں اس قدر تھایا تھا کہ اب وہ‬
‫جیسے ایل ہوجکی تھی ا تیے ق نضلے یر‪،‬الو بج میں کھڑا وہ اتنی پیشاپی مشلنا سدید جانے کی طلب‬
‫ہونے یر مالزمہ چو آواز د تیے کے لیے میہ کھول ہی رہا تھا جب نظر سیڑھ بوں سے ایرپی مطییہ یر‬
‫یڑی‪،‬ہناد کا سر درد یل میں عاتب ہوا‪،‬اس نے رشٹ واچ یر نظر ڈالی‪،‬ہیبم چو آقس گیے ایک‬
‫ٰ‬
‫گھییہ ہونے کو تھا تبھی ل بوں یر معنی جیز مشکراہٹ شجانے اس نے مطییہ چو نکارا‪،‬‬

‫وہ چو ہیبم کے آقس جانے کے نعد ہاتھ کی نست یر یریال لگانے ہونے مشلشل رونے میں‬
‫مصروف تھی اب ا تیے آنسو صاف کر کے ہاتھ یکڑے تیچے آرہی تھی مگر ہناد کی نکار یر یوکھال کر‬
‫تیچے الؤبج میں صوقے کے فرتب کھڑے ہناد کو دیکھیے لگی‪،‬‬

‫‪- 321 -‬‬


‫"ایک کپ جانے تنادو گی۔۔۔سر میں نہت درد ہورہا ہے۔۔۔"‬
‫اتنی پیشاپی یر ہاتھ رکھنا وہ نےجارگی سے یوال‪،‬ان کا سامنا اس رات کے نعد سے اب ہوا تھا تبھی‬
‫مطییہ کافی ڈر تھی رہی تھی‪،‬‬

‫"ہناد تھاپی میں فرچندہ سے کہہ د تنی ہوں ک بویکہ مجھے یاپی امی کے لیے کافی تناپی ہے۔۔۔"‬
‫جلدی سے نہایہ سوچنی وہ مالزمہ کا یام لی‪،‬‬

‫"ارے یو کوپی یات نہیں۔۔۔آپ کے ہاتھ کی کافی تھی ق بول ہمیں۔۔۔"‬


‫کمینگی مشکراہٹ سمیت اس کے سرخ چہرے کو دیکھ وہ یرسکون سا کہیے لگا‪،‬مطییہ کو خی تھر‬
‫کر رویا آیا‪،‬آخر ک بوں وہ انشان اس کی جان نہیں چھوڑیا‪،‬‬

‫"ایک میٹ۔۔۔یہ ہاتھ کو کنا ہوا ئمہارے۔۔۔"‬


‫وہ چو اب تیچے آپی سندھا کچن کا رخ کرنے لگی تھی ہناد کے اجایک سا میے آکر کہیے یر گ ھیراکر‬
‫تیجھے ہوپی‪،‬‬

‫"دکھاؤ زرا مجھے۔۔۔"‬


‫‪- 322 -‬‬
‫اس سے نہلے مطییہ اتنا ہاتھ تیجھے کرپی وہ تھرپی سے اس کی کالپی یکڑیا ہاتھ کی نست سا میے‬
‫کنا‪،‬مطییہ کا مایو چون بجڑ کر گالوں یر آیا تھا‪،‬گھیرانے ہونے وہ شہم کر ہناد کو دیکھیے لگی چو زچم‬
‫دیکھیے کے نہانے اس کی کالپی شہالنے میں مگن تھا‪،‬‬

‫"کیسے ہوا یہ۔۔۔"‬


‫نہت قکرم ند لہچہ تنایا تھا وہ‪،‬‬

‫"کپ۔۔کیڑے یرنس۔۔۔کر۔کرنے ہونے۔۔علظی۔۔سے۔۔ہوگنا۔۔"‬


‫مفایل کے ہاتھوں سے زیردسنی اتنا ہاتھ نکال کر وہ ہکالنے ہونے یولی‪،‬‬

‫"مطییہ۔۔۔چنال رکھا کرو اتنا۔۔کینی قکر ہوپی ہے مچہ۔۔"‬

‫"ممہ۔۔میں کافی تناد تنی ہوں۔۔۔"‬


‫وہ چو یایوں کو ظول د تیے کے عرض اس کے فرتب ہورہا تھا مطییہ نے یات کاٹ کر جلدی‬
‫ً‬
‫سے کہا ساتھ ہی کچن کی طرف نفرتنا تھاگی‪،‬‬

‫‪- 323 -‬‬


‫چ‬
‫" ہچہچہ۔۔۔ہا۔۔۔ڈریوک لڑکی۔۔"‬
‫ً‬
‫اس کے تیجھے ہی کچن میں آیا وہ یڑیڑایا‪،‬انفاقا اس وقت کچن میں مطییہ کے عالوہ کوپی تھی‬
‫نہیں تھا‪،‬‬

‫کچن میں آکر مطییہ نے اتھی سکون کا سانس ہی ل نا تھا کہ اجایک اس کا دل گ ھیرایا جب سا میے‬
‫ہی ہناد کو فربج سے ت نک لگانے دیکھا چود کو گھورنے دیکھا‪،‬‬

‫میں نے سوجا کہ اب تم کافی تناکر میرے لیے روم میں النے کا نکلف کروگی یو ک بوں یہ میں‬
‫نہی کھڑے رہوں۔۔۔جب تم کافی ت نالو گی یو میں چود ہی لے لوں گا۔۔۔‬
‫اس کے چونصورت یوکھالنے چہرے کو نظروں میں لیے وہ یوال‪،‬مطییہ نے چواب د ت نا نےسود سمجھا‬
‫کہ جاتنی تھی وہ شخص اب جانے نہیں واال نہاں سے تبھی جاموسی سے کافی تنانے لگی‪،‬کافی‬
‫تنانے کے دوران وہ جد سے زیادہ یرنشان ہوپی تھی ہناد کی نظروں سے‪،‬یار یار اتنا دو تیہ تھنک‬
‫کرپی وہ مڑی تھی ریک سے لییے کے لیے اور تبھی ہناد قدم اتھایا تھنک اس کے عین تیجھے جا‬
‫کھڑا ہوا نغور مطییہ کی نست یر تھنلے رنسمی یالوں کو دیکھ وہ آہسنگی سے ا تیے ہاتھ کی نست ت ھیرا‬
‫تھا اس یر‪،‬وہ چو سفند ما تھے یر سدید یرنشاپی کی سکییں لیے مگ اتھا رہی تھی یکدم اچھل کر رہ‬
‫گنی‪،‬مگ تیچے گر کر یویا چنکہ مطییہ یلٹ کر تیج ھے ہوکر سندھا سلیپ سے جالگی‪،‬‬
‫‪- 324 -‬‬
‫"ڈر گنی۔۔۔؟"‬
‫ہناد ہیسیے ہونے یول کر عور سے اس کی اڑی ہوپی ریگت کو دیکھا‪،‬مطییہ ایدر یک لرزی تھی‬
‫مفایل کی گسناخی یر‪،‬دماغ یری طرح ہال‪،‬‬

‫"آپ۔۔آپ جاپیں نہاں سے۔۔۔"‬


‫اجایک ہی غصہ اس کی رگ و نے میں سراتت کرگنا یو وہ شخت لہچے میں یولی‪،‬‬

‫"میں مذاق کررہا تھا مطییہ۔۔"‬


‫اس کے یایرات میں شحنی گھلیے دیکھ ہناد نے چواز پیش کنا‪،‬‬

‫"میں نے کہا جاپیں نہاں سے۔۔۔مہ۔۔میں کافی تھچوادوں گی فرچندہ سے۔۔۔"‬


‫اس کے دل میں ہول اتھیے لگے تھے‪،‬کسی تھی طرح وہ نس ہناد کی چناتت تھری نظروں سے‬
‫عاتب ہویا جاہنی تھی‪،‬‬

‫"یر مطییہ۔۔۔"‬
‫‪- 325 -‬‬
‫"تھاپی۔۔"‬
‫دویوں چو یکے تھے اس آواز یر‪،‬ہناد نے دیکھا کچن کے داجلی چصے یر کھڑی قلذہ یاگوار نظروں سے‬
‫اسے دیکھ رہی تھی‪،‬کجھ دیر نہلے کی گنی اس کی گسناخی قلذہ کی نظروں سے مخفی یہ رہی‬
‫تھی‪،‬مطییہ کو یک گویہ سکون مال تھا اسے دیکھ کر‪،‬‬

‫"آپ کو ماما یالرہی ہیں۔۔۔"‬


‫یاگوارتت سے کہہ کر وہ ہناد کے جانے کا ات نظار کی‪،‬جب وہ ایک نظر مطییہ یر ڈال کر جاموسی‬
‫سے نکال کچن سے تبھی قلذہ ایدر آپی‪،‬‬

‫"تم تھنک ہو۔۔؟"‬


‫مطییہ کے کندھے یر ہاتھ رکھنی وہ سیحندگی سے یوچھی اور مطییہ کا ضنط یویا‪،‬اس سے گلے لگ کر‬
‫مطییہ تھوٹ تھوٹ کر رونے لگی‪،‬‬

‫‪- 326 -‬‬


‫"میں مرجاؤں گی قلذہ نہاں یر۔۔۔اس شخص نے میرا جینا مجال کردیا ہے۔۔۔مج ھے بجالو یلیز اس‬
‫سے۔۔۔کوپی میری یات کا نقین نہیں کرے گا۔۔۔تم۔۔ضرف تم ہو چو مجھے اس سے بجات‬
‫دالسکنی ہو۔۔۔"‬
‫اس کے گلے لگے وہ جیسے ا تیے دیوں کی تھڑاس نکا لیے لگی تھی‪،‬نکل نف سدید تھی یو آنسو تھی اتنی‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت چھن ی‬
‫ہی رواپی سے نکل رہے ھے‪ ،‬ل آ یں سوج کی ھی گر وہ رویا تند یں کی‪،‬‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫"ریلنکس ہوجاو مطییہ۔۔۔میں ہوں یا۔۔۔کجھ نہیں ہوگا۔۔"‬


‫اسے دور کر کے قلذہ مطییہ کے گال ہر ہاتھ رکھنی نشلی دی‪،‬ا تیے سالوں نعد کسی کو چود سے‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ہمدردی کرنے دیکھ مطییہ کی آ یں یار یار ھرارہی یں ھی وہ ات نات یں سر الپی‪،‬‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ی‬ ‫گ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫گ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫م‬ ‫س‬
‫ل دریہ م کو لے کر گنا تھا کندر وال ہناز م کے النے یر‪،‬اس دن‬ ‫کجھ دن نعد‬
‫س‬ ‫م‬
‫ع‬‫م‬
‫ل کو لوم ہوا کہ ان کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادیہ کمل کمرہ نسین رہی‪،‬یایوں ہی یایوں میں مہناز تنگم سے‬
‫س‬
‫وت گویاپی سے مجروم ہے۔۔یہ یات لسینل کے لیے کسی دھجکے سے کم یہ تھی مگر‬ ‫چھوپی پینی ف ِ‬
‫وہ طاہر کجھ یہ کنا‪،‬جس مفضد سے وہ نہاں آیا تھا اس کا فوکس قلجال اسی یر تھا تبھی دریہ تنگم‬
‫‪- 327 -‬‬
‫س‬
‫نے وہ کہا چو لسینل نے انہیں سمجھایا تھا‪،‬وہ جلد سے جلد نکاح کریا جاہنی تھی یر نہاں مہناز‬
‫تنگم نے اتنی چواہش طاہر کی کہ قلذہ ان کی نہلی پینی ہے جس کی وہ نکاح سے نہلے منگنی کی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫گ‬
‫ل لب یجا وہی دریہ م نے کوپی جاص‬‫ی‬‫ھ‬ ‫رسم الزمی رکھنا جاہنی ہیں‪،‬ان کی یات یر چہاں‬
‫اعیراض یہ کنا‪،‬‬

‫"قلذہ۔۔۔"‬
‫وہ کال یر اتنی دوشت کو ایوات یٹ کررہی تھی منگنی یر تبھی ہناد دیدیایا ہوا اس کے کمرے میں‬
‫آیا‪،‬کال رکھنی قلذہ ہناد کی طرف م بوخہ ہوپی‪،‬‬

‫"میں مام سے تھی یہ یات کنی مرتیہ کہہ چکا ہوں اور ئمہیں تھی تنارہا ہوں۔۔۔وہ آدمی ضرف ہم‬
‫سے یدلہ لییے کے لیے وانس آیا ہے قلذہ۔۔۔یو تند کرو یہ سادی وادی کا ڈرامہ۔۔۔"‬

‫"انف تھاپی۔۔"‬
‫وہ چو شخت لہچے میں اسے ت نانے لگا تھا قلذہ کے یو کیے یر جپ ہوا‪،‬‬

‫‪- 328 -‬‬


‫"آپ ساپی چو نہیں جا تیے۔۔۔اسے اجشاس ہوا ہے میری محیت کا اور و نسے تھی ایک مرتیہ تھر‬
‫میں اسے کھویا نہیں جاہنی یو اتنا یہ لنکجر مجھے مت سناؤ۔۔۔"‬

‫"ہنہہ۔۔۔فرشٹ آف آل ئمہیں ساپی سے کوپی محیت نہیں تم ضرف اس کی یرسینلنی سے‬


‫ہمیشہ منایر رہی ہو اور یہ محیت نہیں صد ہوپی ہے کہ چو آپ کو اچھا لگے وہ آپ کا ہو نہیں یو‬
‫کسی کا تھی نہیں۔۔۔"‬

‫س‬
‫"آپ کو چو سمجھنا ہے ھو۔۔۔آپی ڈوتٹ ئیر۔۔۔"‬
‫ک‬ ‫مج‬
‫ہناد کے آ پییہ دکھانے یر وہ نگاہ خراپی یولی‪،‬‬

‫"آخری مرتیہ وارن کررہا ہوں۔۔۔رک جاؤ۔۔مت ساتھ دو اس شخص کا یدلہ لییے میں۔۔"‬
‫وہ جیسے کسی ظور سمجھایا جاہ رہا تھا قلذہ کو‪،‬‬

‫"تھاپی وہ نسند کریا ہے مجھے۔۔۔"‬


‫اور ہناد نے اسے اور سمجھایا قصول سمجھا‪،‬لب تھییحنا وہ قلذہ کے کمرے سے نکال‪،‬ا تیے ایک اور‬
‫دوشت کے قنل کا سن کر اب وہ نہت زیادہ یرنشان رہیے لگا تھا‪،‬یورچ میں آکر اتنی کار میں‬
‫‪- 329 -‬‬
‫پیبھیے ہونے اس کا سنظاپی دماغ مشلشل سوچ و بجار میں مصروف تھا‪،‬نہلے یازل کی ڈ تبھ تھر‬
‫س‬
‫چماد کی اور اب لسینل کا اجایک آکر قلذہ کے لیے سادی کا یرویوزل د ت نا سادی جلد از جلد‬
‫کرنے کی یات‪،‬اور تھر اس کے ایک اور دوشت کا قنل‪،‬یکدم ہناد کے دماغ میں چھماکا سا‬
‫ن‬ ‫س‬
‫م‬
‫ل کو مارنے یں اس کا‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہوا‪،‬اس کے ضرف انہیں دوسبوں کا قنل ہورہا تھا چو اس رات‬
‫ساتھ دنے تھے اور ہناد چھنکے سے کار روکا‪،‬ایک لمچے میں ہی اس کی پیشاپی نسییے سے سرایور‬
‫ہوپی‪،‬چہرے یر نےنقینی کی چھلکناں دکھیں‪،‬‬

‫"جا تیے نہیں ہو۔۔۔جان جاؤ گے۔۔۔نہت جلد۔۔"‬


‫م‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کے الفاظ کایوں یں گو بچے اور وہ ساکی ف یت یں سر سیٹ کی نست سے نکاگنا‪،‬اگر‬
‫س‬
‫کو وہ چو سوچ رہا تھا شچ ہوا یو نہت یڑی گڑیڑ ہونے والی تھی‪،‬مظلب اس نے لسینل کے‬
‫یارے میں ضحیح ایدازہ لگایا تھا‪،‬مفایل کی جاموسی ایک انہوپی کا تنا تھی چو ایک ایک کر کے اس‬
‫کے دوسبوں کو نگل گنی اور اب یاری اس کے آخری دوشت سارق کی تھی‪،‬اتنا دکھنا سر یکڑیا وہ‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل مراد کا تیہ صاف کرنے کے لیے اور ھی اس کے‬ ‫سوچ کے گھوڑے دوڑانے لگا‬
‫سنظاپی دماغ میں ایک بجلی کا کویدا سا ل نکا‪،‬ہناد کے ل بوں یر نےساجیہ مکروہ مشکراہٹ‬
‫شچی‪،‬جلدی سے مویایل نکالنا وہ ایک ئمیر ڈایل کرنے لگا‪،‬نہلی تنل‪،‬دوسری اور تھر‬
‫پیسری۔۔۔‪،‬کال رنسبو کرلی گنی تھی‪،‬‬
‫‪- 330 -‬‬
‫"کون۔۔؟"‬
‫تھاری دلکش مگر مصروف ایداز میں آواز اتھری‪،‬‬

‫ُ‬
‫"میں ہناد۔۔۔یو ئمیر کب سبوو کرے گا میرا۔۔۔"‬
‫یکدم ہناد کو اس کی عادت یر خی تھر کر غصہ آیا‪،‬‬

‫"اتنا قال بو یاتم نہیں۔۔۔کام یول۔۔"‬


‫اس یار ہناد لب تھییجا تھا مفایل کے لہچے یر‪،‬‬

‫"ضروری نہیں کہ کام ہو تبھی کال کروں۔۔۔"‬

‫ُ‬
‫"اچھا۔۔۔ہمیشہ یو یونہی یات کرنے کے لیے کال کریا ہے یو۔۔۔ہے یا۔۔!"‬
‫مفایل جیسے طیز کنا تھا اس یر‪،‬‬

‫"اچھا یا۔۔سن۔۔"‬
‫‪- 331 -‬‬
‫"تھویک۔۔!"‬
‫اس کے لہچے یر ہناد صیر کے گھوتٹ پی کر رہ گنا‪،‬جاتنا تھا نہی لہچہ اس کی قظرت کا جاصا ہے‬
‫اور سمجھایا نےسود تھا‪،‬‬

‫"ایک۔۔۔کام ہے۔۔!"‬
‫اس نے نہر نہر کر یوال‪،‬‬

‫ُ‬
‫"ہیں۔۔۔بجھے کام کیسے یاد آگنا۔۔یو یو ضرف مجھ سے یات کرنے کے لیے کال کریا تھا یا۔۔"‬
‫ایک مرتیہ تھر طیزیہ لہچہ‪،‬‬

‫"ہاں کام کے لیے ہی کال کریا ہوں نس۔۔"‬


‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫اس یار ہناد الیا‪ ،‬لے م یسن ھی چو وہ ا نی یایوں سے اسے اور یرنشان کررہا تھا‪،‬‬

‫"ہاں اب تھنک۔۔۔تھویک کنا کام ہے۔۔"‬

‫‪- 332 -‬‬


‫"ایک تندے کو اویر نہیجایا ہے۔۔"‬

‫ُ‬
‫"معاف کر یار مگر اس کام کے لیے یو کسی یایلٹ سے رچوع کر۔۔۔ک بویکہ وہی لوگوں کو اویر‬
‫نہیجایا ہے۔۔۔"‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫ی‬
‫نہلے یو ہناد یا ھی سے مویا ل کو د کھا مگر اگلے ہی ل یات مجھ آنے یر اس کا دل جاہا فون ہی‬
‫تیخ ڈالے‪،‬‬

‫"سالے ماریا ہے۔۔"‬

‫"اوہ یو ا نسے یول کے ت نکایا ہے۔۔۔یر کس کو۔۔"‬


‫وہ اب سمجھ آنے والے ایداز میں کہا تھا‪،‬‬

‫"دیکھ تھاپی۔۔۔میری یات یلکل سیحندگی سے سن۔۔"‬

‫"ک بوں بجھے کنا لگنا ہے میں نہت عیر سیحندگی سے یاپیں سینا ہوں۔۔"‬

‫‪- 333 -‬‬


‫ن ت ُ‬
‫" ہیں ھنی یو نہت سیحندہ انشان ہے۔۔۔"‬
‫اتھی وہ اسے یوری یات نہیں سمجھایا تھا اس میں ہی ہناد کا یورا سر ک ھپ گنا تھا یافی یات میں‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫گ‬ ‫ن ً‬
‫ح‬‫م‬
‫یو قینا اسے لگا کہ یا ل ہونے گے گا‪ ،‬ھی صر ایداز یں پیزی سے سروع ہوا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"اب یات سن۔۔۔ایوار کی رات کو بجھے اسے اویر۔۔۔مظلب ماریا ہے۔۔وہ کیسے یہ یو جاتنا ہوگا‬
‫اچھی طرح۔۔۔مگر مجھے کسی تھی طرح اس انشان کی سکل پیر کی صیح نہیں دکھنی جا ہیے۔۔۔"‬

‫"سوری جگرے۔۔۔اطالع کے مظایق بجھے پیر کی صیح تھی اس تندے کی سکل دیکھیے یڑے‬
‫گی۔۔"‬

‫"یر ک بوں۔۔"‬

‫"ک بویکہ ایوار کی رات مجھے ت بوی کو لے کر مووی دیکھیے جایا ہے۔۔۔"‬
‫وہ اتنی مح بوری تنان کنا جس یر ہناد نے میہ یر ہاتھ ت ھیرا‪،‬‬

‫"ایک دن نہیں لے کر جانے گا یو کجھ ہو نہیں جانے گا۔۔"‬


‫‪- 334 -‬‬
‫"ک بوں نہیں ہوگا ضرور ہوگا۔۔"‬

‫"کنا ہوگا۔۔"‬

‫"میری ت بوی مجھے روم سے یاہر نکال دے گی ایک رات کے لیے۔۔۔و نسے منڈے کو تھی مجھے‬
‫اسے الیگ ڈرات بو یر لے کر جایا ہے مگر دوسنی کے لیے اتنا یو کر ہی سکنا ہوں۔۔"‬
‫اتنا دکھڑا رونے مفایل اب یرسکون سا یوال‪،‬‬

‫ُ‬
‫"یو اتنی ت بوی سے ڈریا ہے۔۔۔"‬
‫م‬
‫کجھ دیر کی جاموسی کے نعد ہناد جیرت سے یوچھا‪،‬جس یر دوسری جاتب کمل جاموسی چھاپی تھر‬
‫کہا گنا‪،‬‬

‫"ڈوتٹ آسک یرسنل کوپیسسن۔۔۔!!!"‬


‫اور ہناد کا قہقہہ نےساجیہ تھا مفایل کے سیحندہ لہچے یر‪،‬‬

‫‪- 335 -‬‬


‫ُ‬
‫"اوہ گاڈ یو شچ میں ڈریا ہے۔۔۔"‬

‫"یام تنا اس تندے کا نہیں یو کال کٹ کررہا ہوں۔۔"‬


‫اجایک لہچہ سیحندگی سے یدل کر خڑا تھا جس یر ہناد جلدی سے سیحندہ ہوا‪،‬‬

‫س‬ ‫س‬
‫"اوکے۔۔۔یام لسینل۔۔۔ لسینل مراد۔۔۔ ِیک بجھے سینڈ کریا ہوں۔۔۔"‬

‫"یک نعد میں سینڈ کریا۔۔۔نہلے پیسوں کی یات کر۔۔۔"‬


‫وہ چو اسے ت ناکر اب کال کٹ کرنے لگا تھا اجایک چھ نکا لگیے یر یوال‪،‬‬

‫ُ‬
‫"پیسے۔۔۔یر پیسے ک بوں۔۔یو دوشت ہے میرا۔۔"‬

‫"دوشت ہوں یو کنا مظلب۔۔۔پیسے یہ لوں۔۔دیکھ تھاپی میں دوسنی میں جان د تیے واال انشان‬
‫تھلے ہوں لنکن جب یات پیسوں کی آجانے یو۔۔۔"‬

‫"یو۔۔"‬
‫‪- 336 -‬‬
‫"چھوڑ یا پیسے تنا اب۔۔۔"‬
‫مفایل کی ہمیشہ کی طرح ایوکھی یایوں یر ہناد نےجد کڑا تھر کہا‪،‬‬

‫"میہ مایگی دام دوں گا۔۔۔مگر اسے نس را سیے سے ہنادے۔۔"‬

‫"میں یرنفک یولیس تھوڑی ہوں چو را سیے سے ہناوں گا۔۔۔"‬


‫کہہ کر کال کٹ کردی گنی تھی‪،‬‬

‫"اس تندے سے یات کریا مظلب پیبھے پیبھے ذہنی ورزش کریا۔۔۔"‬
‫یڑیڑاکر ہناد نعد میں آہسنگی سے مشکرایا‪،‬وہ زیادہ یرایا دوشت نہیں تھا ہناد کا‪،‬ایک سال نہلے ہی‬
‫ان کی دوسنی ہوپی تھی مگر اس ایک سال میں وہ انشان اتنی دلجسپ یایوں اور ایو ک ھے ایداز کی‬
‫یدولت ہناد کا پیسٹ فرتنڈ تنا تھا‪،‬نقول ہناد وہ ہر مسکل میں اس کا ساتھ د ت نا‪،‬تبھی اب جب‬
‫کوپی یرنشاپی ہوپی وہ اسے کال کریا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 337 -‬‬
‫س‬ ‫س‬
‫آج پیر کو لسینل اور قلذہ کی م نگنی کی رسم تھی‪،‬چو کہ لسینل نے ایک یڑے تبمانے کے‬
‫چونصورت پینکوت یٹ میں م نعفد کرواپی تھی‪،‬ع نادیہ کا یلکل دل نہیں تھا جانے کا مگر مہناز ت نگم‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ی س تب مح َ َ‬
‫نے اس یار اس کی ا ک یہ نی ھی بوراَ وہ سادہ سی تنار ہوکر ہناد کی یورچ یں ھڑی کار‬
‫پ‬
‫میں جاکر یبھی‪،‬کجھ دیر نعد قلذہ تھی اتنی چند دوسبوں کے ساتھ تنار ہوکر یاہر آپی تھی‪،‬اب وہ‬
‫لوگ و تٹ کررہے تھے یو مطییہ کا‪،‬‬

‫"ہیبم مطییہ کو تم لے آیا اتنی کار میں۔۔۔دیر ہورہی ہے دریہ تنگم کی کینی مرتیہ کالز آجکی‬
‫ہیں۔۔۔"‬
‫آخر کار یرنشان ہوپی مہناز تنگم نے جل نکاال جس یر ہیبم تنا‪،‬‬

‫"ماما میں اسے لے کر نہیں آرہا۔۔۔وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہناد کی کار میں جلی جانے گی میں‬
‫قلذہ کو لے کر آؤں گا۔۔"‬

‫"قلذہ ہمارے ساتھ جلی جانے گی اور اس کی دوسی بوں کو ڈرات بو چھوڑدے گا۔۔۔ہیبم ت بوی ہے‬
‫وہ ئمہاری تند کرو یہ بجرے۔۔۔تم لے آیا اسے۔۔"‬

‫‪- 338 -‬‬


‫ُ‬
‫انہوں نے جیسے ایل لہچے میں کہا تھا‪،‬ڈرات بویگ سیٹ میں پیبھا ہناد کڑ کر رہ گنا تھا اتنی ماں کی‬
‫یات یر‪،‬دوسری جاتب ان لوگوں کے جانے کے نعد ہیبم پییے ہونے ایدر آیا چہاں مطییہ اتھی‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬
‫یک رف جلیے میں تنگ کے یاس ھی ھی‪،‬‬

‫"ئمہارا ہوا نہیں کنا اب یک یا اتھی اور دو پین گھییے لگیے ہیں۔۔۔"‬
‫اسے ا تیے ساتھ لے جانے کا سوچ کر ہی ہیبم چو غصہ آرہا تھا تبھی یرسا‪،‬وہ چو ا تیے دویوں‬
‫ہاتھوں میں ڈرنس لی ہوپی تھی ہیبم کے آنے یر جیران یرنشان سی اسے دیکھیے لگی‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫اس کی جاموسی یر وہ تھڑکا‪،‬‬

‫"آپ لوگ جلے جاپیں۔۔۔میں نہیں جارہی۔۔"‬


‫یہ یات یولنی وہ روہانسی ہوپی‪،‬و نسے یو وہ اکیر روپی ہوپی دکھنی مگر اتھی یوں نےیات کے رویا ہیبم کو‬
‫چونکا گنا‪،‬‬

‫"شب آلریڈی جا جکے ہیں۔۔۔اور۔۔۔تم ک بوں نہیں جارہی۔۔"‬


‫‪- 339 -‬‬
‫اسے تناکر اب وہ تھوڑا شخت لہچے میں یوچھا‪،‬‬

‫"میرے کیڑے چو میں نے یرنس کیے تھے ان یر جانے گرادی آپ نے۔۔۔اور اب میں‬
‫کیڑے نکال کر یرنس کروں گی تھر تنار ہوں گی۔۔یورا یاتم صا نع ہی ہوجانے گا۔۔۔تبھی نہیں‬
‫جاؤں گی میں۔۔"‬
‫م‬
‫اس کا یوچھنا تھا کہ وہ چو رونے کی کمل تناری کر جکی تھی پیزی میں یلند آواز میں یولنی‬
‫گنی‪،‬نہلی مرتیہ اس کا عام ت بویوں واال ایداز ہیبم کو کجھ الگ لگا تھا‪،‬‬

‫"میں نے گراپی نہیں تھی۔۔۔دونہر میں پییے ہونے علظی سے گر گنی تھی۔۔۔"‬
‫نہلی یار وہ اسے وصاجت دے رہا تھا‪،‬‬

‫"ہاں یو اب تناپیں میں کیسے تنار ہوں۔۔۔مج ھے کیڑے سمجھ نہیں آرہے نہییے کو۔۔اور اتھی‬
‫یرنس تھی کریا ہے۔۔۔"‬
‫اس کا رویا یونہی جاری تھا‪،‬ہیبم نے گہرا سانس تھرا تھر چھک کر مطییہ کو یازو سے یکڑ کر اتھایا‪،‬‬

‫"تم جاکر تنار ہو۔۔۔میں۔۔کیڑے۔۔نکال کر۔۔یرنس کرد ت نا ہوں۔۔"‬


‫‪- 340 -‬‬
‫تب چ‬
‫ھ‬ ‫ھج‬
‫یہ شب تھوڑا عح یب لگ رہا تھا اسے ھی کیے ہونے کہا‪ ،‬طییہ کو رویا ہی ھول گنا‪،‬ششدہ‬
‫ت‬ ‫م‬
‫ی‬
‫سی وہ تھنلیں آیکھوں سمیت مفایل ا تیے سوہر کو د کھی چو ساید نہلی مرتیہ اس سے یرمی سے‬
‫یات کررہا تھا یلکہ آفر کررہا تھا کہ وہ اس کے کیڑے یرنس کرے گا۔۔۔‪،‬اسے لگا ساید وہ کجھ‬
‫علط سنی ہے‪،‬‬

‫"جاؤ تھی اب۔۔۔"‬


‫اسے یوں نےنقین دیکھ ہیبم تھوڑا خڑا‪،‬اسے چود ہی نقین نہیں آرہا تھا کہ کیسے اسے یول دیا یہ‬
‫یات‪،‬‬

‫"آپ۔۔۔نہیں۔۔میں چود کرلوں گی۔۔"‬


‫نقین و نےنقینی کی ک نفنات میں گھری وہ یولی‪،‬اور ہیبم کی یرداشت چبم ہوپی‪،‬اس کی کالپی یکڑیا‬
‫وہ مطییہ کو ڈرنسنگ پینل کے سا میے کھڑا کنا‪،‬‬

‫"اب جپ کر کے تنار ہو۔۔"‬


‫سیحندہ یایرات سمیت کہہ کر وہ تنگ کے یاس گنا تھر چھک کر اس کے لیے کیڑے دیکھیے‬
‫لگا‪،‬ایک لمچے کو ہیبم جکرایا تھا‪،‬ا تیے سے تنگ میں ا تیے سارے کیڑے وہ لڑکی کیسے رکھنی‬
‫‪- 341 -‬‬
‫ہوگی‪،‬تھر جلد ہی اتنا سر چھنک کر اس نے ایک چونصورت سے نقیس کڑھاپی والی ہرے ریگ‬
‫کی فراک نکالی‪،‬جس یر گولڈن کام ہوا تھا‪،‬ایک نظر جلدی جلدی تنار ہوپی مطییہ یر ڈال کر وہ‬
‫آیرن سیینڈ کے سا میے جاکھڑا ہوا‪،‬کجھ ہی دیر میں اسے ڈرنس تھمایا وہ مطییہ کے ڈرنسنگ روم‬
‫میں جانے کے نعد اس کے تنگ سے کجھ نکالنا یاہر جاکر اتنی کار میں پیبھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫س‬
‫مہمایوں کی آمد کی جیر اس کے گارڈ نے آکر دی جس یر لسینل یاہر آیا‪،‬کار سے ایرپی قلذہ کو‬
‫ئمسجر سے مشکراکر دیکھنا اس کا ذہین دماغ کجھ اور ہی سوچ رہا تھا‪،‬دوسری طرف وہ چو آج‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کے ہوش اڑانے کا سوچ اپیری یر ا نی دوسبوں کی مدد سے ل کر آرہی ھی‪،‬یکدم‬
‫منہوت ہوپی‪،‬‬

‫گرے سلوار قم نض یر وات یٹ ونس کوٹ نہنا وہ یالوں کو چنل سے سیٹ کیے کابچ ماتند سرد‬
‫آیکھوں میں دتنا چہاں کی معرورتت مدفون کیے کھڑا تھا سندھا قلذہ کے دل میں ایریا اس کا دل‬
‫ن ت ی‬
‫زور سے دھڑکا گنا‪،‬چمکنی آیکھوں سمیت اسے ظر ھر د نی قلذہ کو ھم نڈ سا ہوا تھا چود یر‪،‬جب‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اتنی دوسبوں کی تھی یرسوق نظروں کو مفایل کھڑے معرور شخص یر دیکھا‪،‬تبھی دریہ تنگم اسماء‬
‫کے ساتھ وہاں آ پیں اسے اور مہناز تنگم کو ایدر لے کر گییں‪،‬وہاں کی یر رویق آیکھوں کو چ ندھنا‬
‫‪- 342 -‬‬
‫س‬
‫د تیے والی روسنی اور لوگوں کی ت ھیڑ میں تھی لسینل مراد کی سرد نظریں قلذہ سے ہٹ کر اب‬
‫ان کی کار کی طرف گییں‪،‬وہ منالسی نےجین نظریں سکون میں آپی تھیں اسے کار سے ایرنے‬
‫دیکھ‪،‬گرے ہلکی کامدار قم نض سلوار یر سل نقے سے سر یر دو تیہ اوڑھے ہمیشہ کی طرح کجھ گسناخ‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ب‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل مراد کو لی یار کی طرح ھر سناساپی کا‬ ‫ل بوں کو عارض یر لہرانے چھوڑ وہ سادہ سی‬
‫اجشاس دالپی تھی‪،‬ایک دقعہ تھر اس کے دل کی جالت ید لیے لگی‪،‬صدی دل سدید چواہش کنا‬
‫س‬
‫تھا اس انسرا کو فرتب سے دیکھیے کی اور لسینل قدم یڑھاکر سندھا اس کے یاس آیا تھا‪،‬وہ چو‬
‫کار کا گیٹ تند کرپی ہاتھ میں وہ لئیر(چو گھر سے نکلیے سے نہلے دریہ تنگم کے لیے لکھا تھا) لیے‬
‫سوچ رہی تھی کہ کیسے ان سے الگ مل کر وہ یہ تھمانے انہیں‪،‬اب مڑنے یر یلکل سا میے‬
‫گ‬ ‫ک‬ ‫خ‬
‫ش‬ ‫ق‬‫ن‬ ‫کھ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کو د کھ یو الپی‪،‬اسے ین یہ آیا کہ وہ مح بوب ص اس کے سا میے ھڑا ہے‪ ،‬ھیراکر‬
‫س‬
‫عنادیہ ا تیے لب کھولنی ت ند کی جیسے کجھ کہنا جاہ رہی ہو۔۔‪ ،‬لسینل نے نغور ان تنکھڑی ماتند‬
‫ی‬
‫ل بوں کی خرکت د کھی‪،‬مفایل کی نےیاک نظروں سے گ ھیراپی وہ جلدی سے اس کے یرایر سے‬
‫س‬
‫ہوکر نکلی مگر تبھی لسینل اسے رو کیے کے عرض عنادیہ کی دودھنا کالپی یکڑا اور نس۔۔۔‪،‬‬

‫ل‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ل مراد مچوں یں ڈھاپی سال ھے گنا تھا‪،‬وہ سناسا مس۔۔‪،‬جب عندلیب نے اس کا ہاتھ‬
‫یکڑا تھا نہلی مرتیہ‪،‬وہی اجشاس تھا چو اسے عندلیب کے ہاتھ میں اتنا ہاتھ مجسوس کرنے ہوا‬
‫س‬
‫تھا‪،‬عنادیہ کا ہاتھ چھوڑیا وہ اس کے سا میے آیا‪،‬نغور اس کے چونصورت نفش دیکھنا لسینل ایک‬
‫‪- 343 -‬‬
‫یل کو الجھن کا سکار ہوا لنکن جلد ہی اتنی ک نف یت یر قایو یاکر چود کو کم بوز کنا‪،‬دوسری جاتب‬
‫عنادیہ کی جالت تھی کجھ کم یہ تھی مفایل سے۔۔۔‪،‬آخر کو ا تیے سال نعد وہ دویوں ایک‬
‫دوسرے کے یلکل سا میے کھڑے تھے‪،‬‬

‫"کون ہو تم۔۔۔؟"‬
‫اس کا یہ سوال عنادیہ کو چو یکیے یر مح بور کنا‪،‬کنا واقعی یہ یات مفایل کو تنانے والی تھی کہ کون‬
‫ہے وہ‪،‬کنا وہ نہیں جان سکنا تھا‪،‬‬

‫"جیر چھوڑو۔۔تم آپی "ہماری منگنی" میں۔۔۔اچھا لگا۔۔"‬


‫اتنی یات ہوا میں اڑا کر وہ کجھ جاص لہچے میں یول کر تیج ھے ہوپی عنادیہ کے گاڑی سے لگیے یر‬
‫ایک ہاتھ اتنا کار یر رکھا مگر عنادیہ نے جیسے اس کا لہچہ یوٹ یہ کنا‪،‬وہ یو آیکھوں میں اذ ت بوں کا‬
‫س‬ ‫ی‬
‫چہاں آیاد کیے اسے د کھی تھی‪ ،‬لسینل چو اس کے نگاہ ت ھیرنے یر یہ الفاظ یوال تھا اب عنادیہ‬
‫کی چود یر نظر یڑنے یر نغور اس کی آیکھوں میں دیکھا‪،‬کنا کجھ نہیں تھا‬
‫ی‬
‫وہاں۔۔۔‪،‬نکل نف‪،‬اذ تت‪،‬تھروشہ یو تیے یر چفا نےنقین کالی آ یں جیرت سے اسے د کھ رہی‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫ً‬ ‫س‬
‫تھیں‪ ،‬لسینل کے ہلکے تھلکے کہے گیے چملے عنادیہ کی ان کالی آیکھوں یر نقینا نہلی مرتیہ ئمی‬
‫النے تھے‪،‬کنا وہ شچ میں چوش تھا قلذہ سے سادی یر‪،‬جاہ کر تھی عنادیہ ا تیے دل کو ایک چو‬
‫‪- 344 -‬‬
‫آخری امند تھی وہ تھی یہ دے سکی‪،‬اسی لیے اتنا درد کم کرنے کی چھوپی سی کوشش کے بخت‬
‫ً‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل یر سے نگاہ ہنا کر وہ تیجھے د کھی چہاں نفرتنا سبھی لوگ ایدر جا جکے تھے‪،‬دور پینکوت یٹ کے‬
‫یاہر گارڈز کے عالوہ اب کوپی نہیں تھا‪،‬‬

‫ُ‬ ‫ِ‬
‫ھڑ کے مجھ سے وہ چوش رہ رہا ھے جیرت ھے‪،‬‬ ‫ج‬‫ب‬
‫ُ‬
‫میرے نعد اسے کس نے چوصلے د تیے ہیں؟‬

‫"کجھ کہنا جاہنی ہو۔۔۔؟"‬


‫ل‬ ‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫م‬
‫ل آ گی سے مئیر ہچے یں یوچھا جاتنا تھا‬ ‫اس کو ا تیے عالوہ ہر طرف نظر دوڑانے د کھ‬
‫کہ وہ کجھ یول نہیں سکنی لنکن تھر تھی اسے دیکھیے کے نہانے وہ یہ سوال کررہا تھا ساتھ ہی‬
‫کار یر اب دوسرا ہاتھ رکھ کر تھوڑا اس کے فرتب ہوا‪،‬عنادیہ کی جان یر تنی تھی اسے یزدیک‬
‫ہونے دیکھ‪،‬مفایل اس کے وہاں سے جانے کے ئمام را سیے مشدود کیے مزے سے کھڑا تھا‬
‫س‬
‫ل‬
‫ل کے یازو یر ہاتھ رکھ کر وہ اسے دور کرنے گی یاکہ وہاں سے جانے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫لس‬ ‫تبھی ہمت کر کے‬
‫ج‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫م س س‬
‫ل ھما تھا۔۔۔۔‪،‬ایک مرتیہ ھر وہی مایوس مس اسے ڈھاپی سال ھے‬ ‫کو راشیہ ل کے یر‬
‫لے گنا‪،‬‬

‫‪- 345 -‬‬


‫س‬
‫دوسری جاتب اس کے تیجھے یہ ہییے یر عنادیہ نے ہاتھ تیجھے کر لیے ساتھ ہی زچ ہوکر لسینل‬
‫کو دیکھیے لگی چو ت نا یلک چھ نکانے اتنی کابچ ماتند آیکھوں کو اس کی کالی آیکھوں یر مرکوز کیے تھا‪،‬‬

‫"کون ہو تم۔۔۔؟"‬
‫ُ‬
‫ایک مرتیہ تھر وہی سوال یوچھا تھا وہ‪،‬عنادیہ کے چونصورت چہرے یر دتنا چہاں کا کرب ا ھرا‪،‬کالی‬
‫ت‬
‫سرخ آیکھوں نے نگاہ ہناپی تھی مفایل کھڑے مح بوب کے وچنہہ چہرے یر سے‪،‬‬

‫"ایک سوال۔۔۔!!"‬
‫وہ دھبمی آواز میں یوال یو عنادیہ نے ایک نظر تھر اسے دیکھا‪،‬‬

‫ی‬
‫"ئمہاری یہ آ کھیں۔۔۔۔۔ہر یل ُسرخ ک بوں رہنی ہیں۔۔۔؟"‬
‫نےجد یرم لہچہ کہ عنادیہ ششکیے یر مح بور ہوپی‪،‬دل نکل نف کی جس اتنہا یر نہیجا تھا اس سوال یر‬
‫وہ جاہ کر تھی اسے تنا نہیں سکنی تھی‪،‬ک بوں وہ اس کی آیکھوں میں درد کی لکیروں کو سمجھ نہیں‬
‫یارہا تھا‪،‬کنا اتنی کھوکھلی محیت تھی اسکی‪،‬‬

‫"اتنا یو میرے جال یر اجشان کنا کر‪،‬‬


‫‪- 346 -‬‬
‫آیکھوں سے میرے درد کو نہجان لنا کر۔"‬

‫اس سے نہلے آیکھوں میں چھلمالیا موپی یوٹ کر عارض یر تھشلنا وہ گردن موڑ گنی اور تبھی‬
‫گ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ی‬ ‫ن‬
‫ل کی ظریں ھ ک کر ا ک یار ھر اس کی ضراخی دار گردن یر ان دو د کیے ِ لوں یر نی چو‬
‫ایک دوسرے کے فرتب ہی تھے‪،‬نظروں کا جایا تھا کہ دل گسناخی کرنے کو مجال‪،‬وہ یل کس‬
‫س‬
‫قدر جچ رہے تھے اس کی سفند گردن یر‪،‬اس مرتیہ اتنی دل کی ماتنا لسینل ہاتھ اتھایا تھا تھر‬
‫نہاتت ہی یرمی سے ا تیے ایگو تھے کو عنادیہ کی ضراخی دار گردن یر ان ِیلوں کے اویر رکھنا یرمی‬
‫سے شہالیا‪،‬عنادیہ کرتٹ کھا کر رہ گنی تھی‪،‬یادان دل کی دھڑکییں یل میں نےہنگم ہوپیں‪،‬اسے‬
‫ی‬
‫نہیں معلوم تھا کہ مفایل یہ گسناخی تھی کرے گا‪،‬سلگ کر اس نے آ یں ھ النے ا تیے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫چہرے سے یلکل یزدیک مفایل کے مح بوب وچنہہ چہرے کو گھورا‪،‬‬

‫س‬
‫ان سلگنی آیکھوں کے سرخ ڈوروں میں لسی نل کو اتنا دل ڈوتنا مجسوس ہوا‪،‬ہاتھ تیجھے کیے وہ‬
‫اب جاموسی سے عنادیہ کے گالل تھرے سرخ چہرے کو یکییے لگا‪،‬‬

‫"عندی۔۔۔!"‬

‫‪- 347 -‬‬


‫س‬
‫تیجھے سے آپی شخت آواز یر دویوں کا ہی ارنکاز یویا تھا‪ ،‬لسینل عنادیہ سے چند قدم دور ہوکر مڑا یو‬
‫س‬
‫عنادیہ کی نظر تھی سا میے یڑی چہاں ہناد شخت چ بویوں سمیت لسینل کو گھوررہا تھا‪،‬‬

‫"کنا ہورہا ہے نہاں۔۔؟"‬


‫س‬
‫قدم آگے یڑھاکر وہ عنادیہ کے یاس آیا یوچھا‪ ،‬لسینل کی ُیرپیش نظریں یل میں وانس سرد ہوپی‬
‫تھیں چنکہ وچنہہ چہرہ ایک مرتیہ تھر سناٹ نےیایر‪،‬‬

‫"چو ِدکھ رہا تھا ئمہیں۔۔۔"‬


‫س‬
‫ن‬ ‫ی‬‫ج‬
‫ل کار سے تنک لگاگنا‪،‬عنادیہ نے ایک ا نی ظر اس یر ڈالی‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تھنڈے لہچے میں کہہ کر‬
‫ساتھ ہی وہاں سے جلی گنی‪،‬‬

‫"میری نہن سے دور رہ۔۔۔"‬


‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ً‬
‫ل کو یوازیا ہناد ھی وہاں سے جانے لگا‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫فرتنا عراکر یو لیے ہونے ا ک فر ھری ھوری سے‬
‫مگر اگلے قدم یر ہی وہ لڑکھڑاکر میہ کے یل گِ را‪،‬‬

‫"سیبھل کر۔۔۔"‬
‫‪- 348 -‬‬
‫س‬
‫دویوں یازوؤں کو فولڈ کیے لسینل نےیایر لہچے میں یوال‪،‬جس یر ہناد پیزی میں کھڑے ہوکر ہاتھ‬
‫س‬
‫چھاڑا ساتھ ہی کار سے تنک لگانے لسینل کے سا میے آیا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"ا تیے سالوں سے شب تھنک تھا۔۔۔مگر جب سے یو وانس آیا ہے۔۔۔میرے ہر اس دوشت‬
‫کی موت واقع ہورہی ہے چو اس رات میرے ساتھ تھے۔۔ان کے گھروں میں کہرام مجا‬
‫ہے۔۔۔۔بجھے کنا لگنا ہے۔۔۔میں کجھ سمجھ نہیں یاؤں گا کہ کون کررہا ہے یہ شب۔۔۔"‬
‫اس کے وچنہہ مگر سناٹ چہرے کو نفرت سے گھوریا ہناد داتت پیس کر یوال‪،‬‬

‫"تبھی یو کہا۔۔۔زرا سیبھل کر۔۔۔"‬


‫س‬
‫اب کی یار لسینل کا لہچہ یرف کے ماتند سرد ہوا تھا‪،‬وہ گنا یو ہناد کے کندھے سے اتنا تبھر ماتند‬
‫کندھا یکراکر صاف اسارہ تھا اگلی مرتیہ کے لیے تنار رہیے کا‪،‬ہر وقت یڈر پییے واال ہناد آج نہلی یار‬
‫گ ھیرایا تھا اس کے سرد لہچے سے‪،‬تبھی جلدی سے فون نکال کر وو ئمیر ڈایل کنا‪،‬‬

‫ُ‬
‫ن‬
‫"ہاں یار۔۔۔یو ہیجا پینکوت یٹ۔۔۔"‬
‫اس کی آواز میں گ ھیراہٹ کا اپیر تھا‪،‬‬

‫‪- 349 -‬‬


‫"آدھے گھییے نہلے سے۔۔"‬
‫مفایل کی نےتناز آواز یر ہناد جیران ہوا‪،‬‬

‫ت‬ ‫ُ‬
‫ن‬ ‫گ‬
‫"یو آدھے ھییے سے نہاں ہر ہے اور مجھے کال کر کے تنایا ھی ہیں۔۔۔"‬
‫وہ غصے میں یرسیے کو ہوا‪،‬‬

‫ن‬ ‫ُ‬
‫ب‬ ‫چ‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫"کام پیرا ہے یو یو کال کرے گا۔۔میں ک بوں اتنا یس م کروں۔۔۔"‬
‫اس یات یر ہناد کا دل کنا فون سے ہی اس کے میہ یر ت ھیڑ رسند کرے‪،‬‬

‫"کم از کم مشڈ کال ہی دے د ت نا۔۔۔"‬

‫"مجھے یاد نہیں رہا۔۔"‬

‫"بجھے یہ یو یاد ہے یا کہ کس کام سے آیا ہے نہاں۔۔۔"‬


‫داتت کجکجاکر ہناد اسے یاد دالیا‪،‬‬

‫‪- 350 -‬‬


‫"ہاں تھنی۔۔۔کینی یکواس کریا ہے۔۔۔اب فون رکھ۔۔"‬

‫"رک مارے گا کیسے۔۔۔"‬


‫اجایک یاد یڑنے یر ہناد یوال‪،‬‬

‫"وہ میرا کام ہے پیرا نہیں اب کال کر کے ڈسیرب مت کریا۔۔۔کھایا کھانے دے سکون‬
‫سے۔۔۔"‬
‫ازلی نےیرواہ ایداز ہناد ا تیے مویایل کو گھوریا یوال‪،‬‬

‫"یو قنل کرنے آیا ہے یا کھایا کھانے۔۔۔"‬

‫"انے مرڈر ہی کریا ہے یر اس سے نہلے کھایا یو کھالوں۔۔۔و نسے ات نظام نہت اچھا کروایا ہے‬
‫کھانے کا۔۔۔"‬
‫مفایل جیسے اس کی یالج میں اصاقے کے عرض مزے سے تنارہا تھا‪،‬ہناد کے جیڑے تیے تبھی‬
‫غصے میں وہ کال کٹ کنا‪،‬مگر اس ہی وقت اس ئمیر سے کال آپی‪،‬‬

‫‪- 351 -‬‬


‫"کمییے۔۔۔کال کٹ کریا میرا کام ہے پیرا نہیں۔۔۔آ تندہ میری کال کٹ کنا یو کوپی کام نہیں‬
‫کروں گا پیرا۔۔۔مظلنی انشان۔۔۔"‬
‫اسے اور تھی گوہر اقشاتناں سناکر دوسری جاتب سے کال کٹ کی گنی‪،‬‬

‫"اب تنلیس کم نہیں ہوا اس کا۔۔"‬


‫ا تیے فون کو گھور کر وہ یڑیڑایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سبھی مہمایوں کی آمد کے نعد منگنی کی رسم تھی سروع کردی گنی تھی‪،‬مطییہ سییج یر قلذہ کے‬
‫یلکل یرایر میں کھڑی قلذہ کے چہرے یر شب کجھ یا لییے کی چوسی کی دمک دیکھ رہی تھی‪،‬اس‬
‫پ‬
‫کے دماغ میں کنی طرح کے سوچوں کے چضار تیے کہ سا میے یبھی اس کی دوشت کی قسمت‬
‫کا قدر اچھی ہے۔۔۔ جسے جاہنی تھی آخر کار وہ اسے مل ہی گنا۔۔۔‪،‬جاالیکہ قلذہ کی دل تھینک‬
‫عادت سے وہ واقف تھی تبھی اسے اتنا چنال آیا‪،‬وہ یو دل تھینک یہ تھی‪،‬اس نے یو جب سے‬
‫ہوش سیبھاال تھا تب سے ضرف ایک ہی فرد یر ا تیے دل کے دروازے کھولے تھے‪،‬ایک ہی‬
‫انشان کو چ بون کی جد یک جاہا مگر ہمت کبھی یہ کر یاپی اسے تنانے کی‪،‬تھر تھی۔۔۔‪،‬تھر تھی‬
‫ک بوں وہ اس شخص کی نظروں میں اتنی گری ہوپی ہے۔۔۔ک بوں وہ اس کا ہوکر تھی اس کا‬
‫‪- 352 -‬‬
‫نہیں۔۔۔‪،‬اس طرح کی نہت سی سوچوں کا ارنکاز تب یویا جب اسے اتنا چہرہ کسی کی نظروں کی‬
‫پیش سے جلنا مجسوس ہوا‪،‬وہ سمجھ گنی تھی کہ اسے ا تیے عور سے دیکھیے واال ضرور ہناد ہی ہوگا‬
‫تبھی ایک نظر ت نفر سے اس نے تیچے دوڑاپی مگر ہناد اس کی طرف م بوخہ یہ تھا‪،‬وہ جیران ہوپی یر‬
‫ہیبم یر نظر یڑنے ہی اس کا دل زور سے دھڑک کر رہ گنا مفایل کو مشلشل اتنی طرف دیک ھنا‬
‫یاکر‪،‬یل میں گالپی ہونے عارض یر یلکوں کی چھالریں گراپی وہ نگاہ ت ھیر گنی‪،‬دوسری طرف ہیبم چو‬
‫جاموش نظروں سے مطییہ کے اداس چہرے کو دیکھ رہا تھا اجایک اس کے گال سرخ یڑنے‬
‫دیکھ وہ نظریں ہنایا تھا اس یر سے‪،‬‬

‫ج‬ ‫گ‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل ر م سروع ہو نی ہے پینا لو۔۔۔"‬
‫وہ چو یلر کے یاس کھڑا کال یر کسی سے مچو گفنگو تھا دریہ تنگم کی آواز یر اتنات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"گرتنی رکیں۔۔"‬
‫اسے تناکر دریہ تنگم اسییج یر جانے لگیں تبھی وہ نکارا‪،‬‬

‫"یولو پینا۔۔"‬

‫‪- 353 -‬‬


‫س‬
‫ان کے ر کیے یر لسینل نے ایک نظر اسییج یر مہناز تنگم کے یرایر میں کھڑی عنادیہ یر ڈالی تھر‬
‫آیکھوں سے اس کی طرف اسارہ کریا وہ دریہ تنگم سے یوچھا‪،‬‬

‫"آپ کو نہیں لگنا کہ وہ لڑکی کجھ جاپی نہجاپی سی ہے۔۔۔"‬


‫س‬ ‫س‬
‫لسینل کے اسارے یر دریہ تنگم نے اسییج یر سوگوار روپ میں کھڑی عنادیہ کو دیکھا تھر یا ھی‬
‫مج‬
‫س‬
‫سے لسینل کو دیکھ گویا ہوپیں‪،‬‬

‫"نہیں یو۔۔۔نہلی مرتیہ دیکھ رہی ہوں اسے۔۔۔ک بوں۔۔"‬


‫ی‬‫س‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کے دل یر اوس یڑی‪ ،‬یچے لب میت وہ فی یں سر الیا ا یج کی‬ ‫ان کی یات سے‬
‫طرف گنا‪،‬کجھ عح یب ہی لگیے لگا تھا اسے‪،‬دل گواہی د ت نا کہ وہ کوپی اور نہیں اس کی عندلیب‬
‫ہے مگر دریہ تنگم کی یایوں اور یایرات سے اس یر واضح ہوا کہ انہوں نے نہلی مرتیہ اسے دیکھا‬
‫ہے‪،‬‬

‫ج‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کو ا یج کی طرف جانے د کھ دریہ م کے یایرات یدلے ھے‪،‬دکھ اور چوسی کی لی لی‬
‫ً‬ ‫ی‬
‫ک نف یت میں وہ ا تیے یونے کی نست کو د کھیں‪،‬نقینا اس کی محیت شچی تھی چو وہ عندلیب کے‬
‫ی‬
‫سناسا اجشاس کو نہجان رہا تھا‪،‬ا تیے ہاتھ میں عنادیہ کا دیا لئیر دیکھ ان کی آ کھیں چھلمالپیں‪،‬کینی‬
‫‪- 354 -‬‬
‫چوش ہوپی تھیں وہ اسے زیدہ دیکھ مگر اس لئیر نے ان کی چوسی یل میں مدفون کی‪،‬ایک دقعہ تھر‬
‫انہوں نے اسییج یر دیکھا چہاں عنادیہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی‪،‬دریہ تنگم کو دیکھ وہ عاخزایہ ایداز‬
‫م‬
‫میں نفی میں سرہالپی جیسے م نع کررہی ہو جس یر انہوں نے اسے ین کرنے کے عرض‬
‫م‬ ‫ط‬
‫ی‬
‫آہسنگی سے آ یں موید کر ھولی‪،‬‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫س‬
‫کجھ ہی دیر نعد ایگوتھی نہنانے کی رسم سروع ہوپی‪،‬قلذہ نے لسینل کو جب ریگ نہناپی تب‬
‫س‬
‫لسینل کی سرد نظروں نے سندھا اس کے تیجھے کھڑی یری وش کو دیکھا چو آیکھوں میں الگ ہی‬
‫س‬
‫ل‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کرب چنکہ تنکھڑی ماتند ل بوں یر زیردسنی کی مسکان شجانے اسے دیکھ رہی تھی‪،‬جب یاری‬
‫کی ایگوتھی مہنانے کی آپی تب عنادیہ کی یرداشت چبم ہوپی‪،‬اس کا دم گھییے لگا تھا‪،‬وہ اور نہیں‬
‫س‬
‫دیکھ سکنی تھی یہ تبھی اسییج سے ایر کر سندھا ڈرنسنگ روم کی جاتب یڑھی لسینل کی نظروں‬
‫نے اس کا نعاقب کنا تھا‪،‬‬

‫"نہناؤ تھی۔۔۔"‬
‫س‬
‫ل نے ایک‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اسے ہاتھ میں ریگ یونہی تھامے دیکھ قلذہ نے ہلکی مگر یرچوش آواز میں کہا یو‬
‫سرد نظر اس یر ڈالی تھر طیزیہ مشکراہٹ سمیت اسییج اور لوگوں کی ت ھیڑ سے یلکل دور کونے میں‬
‫س‬
‫اسے دیکھا چو ہاتھ میں گن تھامے لسینل کی جاتب نشایہ لیے کھڑا تھا‪،‬کیپ نہیے رہیے کی وخہ‬
‫‪- 355 -‬‬
‫سے اس شخص کا چہرہ آدھا چھنا ہوا تھا مگر عناپی ل بوں یر طیزیہ مشکراہٹ صاف تنا دے رہی تھی‬
‫س‬
‫کہ کجھ الگ کرنے کا ارادہ کریا ہے وہ‪ ،‬لسینل کا نشایہ لییے وہ گن یکڑے ہاتھ کو اجایک اویر‬
‫کنا تھر تیچ میں لگے چونصورت قایوس یر ر ک ھے یریگر دیایا‪،‬‬

‫تھاہ کی آواز سمیت وہاں لوگوں کا سور یریا ہوا‪،‬قایوس کے دو یلب یونے تھے مگر کجھ ہی دیر میں‬
‫پینکوت یٹ میں چھایا ایدھیرا سور کی آواز سمیت لوگوں میں تھگ دڑ محیے یر مح بور کرگنا‪،‬مہناز تنگم قلذہ‬
‫س‬
‫کو یکڑپی گ ھیراپی تھیں‪،‬دریہ تنگم نے لسینل کو نکارا مگر وہ وہاں ہویا یو ان کی نکار کا چواب د ت نا‪،‬‬

‫"کنا ہوا ہے۔۔۔"‬


‫ت‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫می‬
‫ان کے یوچھیے یر ہیبم جیران ہویا می یٹ کو د ھیے گنا یو ہناد ا تیے اس سا ھی کو ڈھویڈنے لگا‬
‫ک‬ ‫ج‬‫ی‬
‫اسے نقین تھا کہ مفایل نے ضرور کجھ گڑیڑ کردی ہے‪،‬‬

‫پ‬
‫ڈرنسنگ روم میں جئیر یر یبھی عنادیہ گ ھیراپی تھی اجایک ایدھیرا ہونے یر‪،‬اتھی وہ اتھ کر جلدی‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫م تب ت‬
‫ک‬
‫سے دروازے کے یاس جاپی گر ھی کی سی کو ایدر دا ل ہونے د کھ‪،‬اس کا ارادہ مفا ل‬
‫کے یرایر سے ہوکر جانے کا تھا مگر آنے واال ساید یہ نہیں جاہنا تھا تبھی عنادیہ کا یازو یکڑ کر وہ‬

‫‪- 356 -‬‬


‫اسے ایدر کنا ساتھ ہی دروازہ تند کرنے ہونے اس کی جاتب آیا‪،‬ایدھیرے میں عنادیہ کو دسواری‬
‫ہوپی تھی اس شخص کو دیکھیے میں مگر مفایل کا ایداز تنانے لگا تھا کہ کون ہے وہ‪،‬‬

‫تبھی اتنی مبھی میں مفند کو ڈائم نڈ کی چمکنی ریگ نکال کر جیران یرنشان کھڑی عنادیہ کے یلکل‬
‫سا میے آیا‪،‬ساتھ ہی اس کا ہاتھ نہاتت یرمی سے تھاما مگر اگلے ہی لمچے اتنا ہاتھ چھنک کر چھڑواپی‬
‫عنادیہ دروازے کی طرف تھاگی‪،‬‬

‫چ‬ ‫ن ً‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬


‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ک‬
‫ل نے اس کی یازک مر یر ھے سے یازو جا ل کنا اور فرتنا کے‬ ‫ی‬ ‫یاب یر ہاتھ رکھیے ہی‬
‫سے اسکی نست ا تیے سییے سے لگایا‪،‬وہ چو سوچ رہی تھی مفایل کے سا میے سے کسی تھی طرح‬
‫س‬
‫عاتب ہونے کی اجایک یوکھالپی لسینل کی فوالدی گرقت ا تیے گرد مجسوس کر کے‪،‬وہ کنا‬
‫کرنے واال تھا‪،‬اس سوچ نے عنادیہ کا دماغ یل میں ماؤف کنا‪،‬‬

‫"یراپی عادت اب یک نہیں گنی۔۔۔کبھی سندھی طر نقے سے یات نہیں ماتنی۔۔۔"‬


‫عنادیہ کی چود کو چھڑانے کی خی یوڑ مزاچمت یر وہ دھبمی مسکان سمیت یوال‪،‬مفایل کی گھمئیر‬
‫تھاری آواز ا تیے فرتب سے سینی عنادیہ کا دل یری طرح سور کر اتھا‪،‬اتنی نےقایو ہوپی دھڑک بوں‬
‫س‬
‫سے نظریں خراپی وہ رونے کو ہوپی جب لسی نل نے اس کی مزاچمت یر گرقت تھوڑی شخت‬
‫‪- 357 -‬‬
‫کی‪،‬وہ یول کنا رہا تھا اسے۔۔۔‪،‬کنا دریہ تنگم نے اسے شب تنادیا تھا‪،‬نہیں۔۔۔‪،‬عنادیہ نے قسم لی‬
‫تھی ان سے‪،‬اور وہ قسم یوڑنے والوں میں سے نہیں تھیں تھر مفایل ا تیے نقین سے کبوں یہ‬
‫یات یول گنا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫اسے سوچوں میں گم دیکھ لسینل مشکرایا ہوا عنادیہ کا ہاتھ یکڑا‪،‬ہوش میں آپی عنادیہ نے جلدی‬
‫سے اتنا ہاتھ چھڑوایا جاہا مگر کمر کے گرد زیادہ شخت ہوپی گرقت نے اسے ششکیے یر مح بور‬
‫س‬ ‫ی‬
‫کنا‪،‬یڑپ کر وہ اتنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش چھوڑپی آ کھیں میچ گنی‪،‬اور تب لسینل اس کے‬
‫تھک کر گردن چھکا لییے یر ہاتھ میں تھامی وہ ریگ عنادیہ کی انگلی میں نہنایا‪،‬‬

‫"منارک ہو۔۔۔"ہماری منگنی"‪"..‬‬


‫اس کی کالپی کو ایگو تھے سے شہالیا وہ نغور عنادیہ کی مجروطی انگلی یر اتنی نہناپی گنی ریگ کو‬
‫دیکھا‪،‬کنی آنسو یک تنک عنادیہ کی آیکھوں سے نکلے‪،‬مفایل کی فرتت یر نہلے ہی اس کی جان‬
‫س‬
‫جارہی تھی اویر سے اس کی یہ عناتت۔۔۔‪،‬ع نادیہ کا دماغ قلجال کجھ تھی سوچیے ھیے سے‬
‫مج‬
‫یرے تھا‪،‬وہ نہیں سمجھ یارہی تھی اس کے دماغ میں جلیے کھنل کو‪،‬‬

‫‪- 358 -‬‬


‫مسنفل عنادیہ کو سر چھکانے دیکھ وہ اتنی گرقت ڈھنلی کریا اسے چھوڑا تھر آہسنگی سے اس کا‬
‫رخ اتنی جاتب کنا‪،‬‬

‫"کہہ دو کہ تم ہی میری محیت ہو۔۔۔"‬


‫وہ یرمی سے ع نادیہ کے چہرے کو ا تیے ہاتھ میں تھام کر نہاتت ہلکی سرگوسی کنا تھا جس یر یل‬
‫ً‬
‫میں عنادیہ کی آیکھوں سے نکلیے آنسو تھمے‪،‬فورا سے نہلے کالی آیکھوں میں اچیی یت اتھری اور وہ‬
‫سرخ چہرے سمیت نفی میں سرہالپی‪،‬‬

‫م‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ل کا ہاتھ گرا تھا یچے‪ ،‬ل نف یو ہت ہوپی اس کے انکار یر گر صدی دل کی گواہبوں کو‬
‫ّ‬
‫یکدم ڈپینا وہ چود کو لمچے کے ہزارویں چصے میں یوں کم بوز کنا جیسے کبھی کمزور لمچے کے صد میں آیا‬
‫ہی یہ ہو‪،‬‬

‫"یاہر جلیں۔۔۔"‬
‫ھ‬ ‫ن ًک‬
‫اجایک اس کا ہاتھ یکڑیا وہ ازلی سرد لہچے میں یوال ساتھ ہی عنادیہ کو فرتنا یحیے ہونے وہاں سے‬
‫ی‬
‫ً‬
‫لے کر گنا‪،‬ڈرنسنگ روم سے نکلیے کے فورا نعد ساری الپیس اون ہوپی تھیں‪،‬یاہر آکر عنادیہ کا‬

‫‪- 359 -‬‬


‫ہاتھ چھوڑیا وہ تیے جیڑوں سمیت کرجت یایرات لیے دریہ تنگم کے یاس گنا‪،‬اس دوران یار یار وہ‬
‫سناسا لمس سوچ اسے غصہ آیا‪،‬گر کو وہ عندلیب کا ہی لمس تھا یو ک بوں اس نے انکار کنا‪،‬‬

‫ہ‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫گ‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ی‬
‫" ل۔۔۔پینا اس ماچول یں قلذہ ہت ھیرا نی ہے یو ر م م ھوڑ د تیے یں۔۔۔ر گ آپ‬
‫تھچواد ت نا کل سکندر وال۔۔۔"‬
‫س‬
‫اسکے آنے یر قلذہ کو تھامی مہناز تنگم نے لسینل اور دریہ ت نگم کو دیکھیے ہونے کہا‪،‬نہی یو وہ‬
‫جاہنا تھا تبھی اتنات میں سر ہالیا قلذہ کو دیکھا جس کے یایرات سے واضح ہوا تھا کہ وہ ڈری ہوپی‬
‫ت‬ ‫ن ً‬
‫ن‬
‫ہے‪ ،‬قینا اس کا ڈر گولی کی آواز یر ہی کویدا تھا‪،‬ا نی گناہگار ہونے کے عد اگر موت کی آواز آپی‬
‫ن ً‬
‫ہے یو ڈریا یو قینا تھا اس کا‪،‬‬

‫م‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ی‬‫می‬


‫" می یٹ سے یات ہوپی ہے۔۔۔ا ہوں نے کہا ہے شب کو د کھ کر ہی ایدر الیا تھا گر گولی‬
‫کس نے جالپی اس یات سے وہ تھی ابجان ہیں۔۔۔"‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ل کو‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہیبم نے آکر ان لوگوں کو تنایا‪،‬گولی کا سن کر وہاں یر آپی عنادیہ نے یرنشاپی سے‬
‫ی‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ل مراد نے ان کالی آ ھوں یں ا تیے لیے نےتناہ کرمندی د کھ جایا تھا کہ ساید‬ ‫د کھا اور‬
‫ً‬
‫نہیں نقینا سا میے کھڑی لڑکی کوپی اور نہیں اس کی عندلیب ہے۔۔۔‪،‬وہی ایداز تھا قکر‬
‫س‬
‫کا‪ ،‬لسینل نے ئمسکل لب دیاکر اتنی مشکراہٹ چھناپی‪،‬وہ لڑکی کینی کوشش کررہی تھی اس‬
‫‪- 360 -‬‬
‫کے سا میے اچیی یت دکھانے کی مگر ا تیے عمل سے اس کا رواں رواں طاہر کررہا تھا کہ وہ‬
‫عندلیب ہی ہے‪،‬‬

‫"ماما اس سے نہلے کجھ اور ہو۔۔۔جلیں نہاں سے۔۔"‬


‫گولی جلیے یر قلذہ نہت ڈری تھی تبھی اتنی جان کی قکر کرپی وہ یولی اسے کجھ یہ ہونے کی نشلی‬
‫د تنی مہناز تنگم نے دریہ ت نگم سے اجازت لی ت ھر وہ لوگ وہاں سے تھنک اسی طرح نکلے جس‬
‫م‬
‫طرح آنے تھے‪،‬مگر جانے ہونے عنادیہ نے ا تیے دو تیے سے اس ہاتھ کو کمل کوور کرے رکھا‬
‫م‬ ‫ی‬‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫م س‬
‫ی‬
‫ل کی ہناپی نی ر گ ھی‪،‬ہناد کار سنارٹ کرنے سے لے نی کالز الیا اسے‬ ‫ن‬ ‫جس ی ں‬
‫مگر دوسری جاتب سے وہ شخص جیسے کال رنسبو کریا تھول ہی گنا تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وانسی یر کار کی نست سے تنک لگاپی مطییہ مشلشل یاہر کی طرف دیکھ رہی تھی‪،‬اتنی قسمت کی‬
‫سبم طرنفی اس کی سمجھ سے یاالیر تھی‪،‬اس شخص کا اس سے نفرت کا دعویدار ہویا تھر اسے‬
‫اذ ت بوں سے دوجار کریا اور اب۔۔۔‪،‬آج جس یرمی سے اس کا یات کریا‪،‬یر چو تھی تھا مطییہ کو‬
‫آج ہیبم کا رویہ نہت تھایا تھا‪،‬وہ چوش تھی اس سبمگر کی اتنی عناتت یر تھی‪،‬آخر کو محیت چو‬

‫‪- 361 -‬‬


‫کرپی تھی اس سے‪،‬کار کے یریک لگیے یر وہ سوچوں سے نکلنی چویکی‪،‬مطییہ کو سدید جیرت ہوپی یہ‬
‫دیکھ کر کہ وہ گاڑی سکندر وال کی جگہ ساجل سم ندر یر روکا ہے‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔"‬
‫ی‬
‫یاسمجھ نظروں سے ہیبم کے سناٹ چہرے کو د نی وہ نکاری گر یدلے یں اسے کجھ ھی ہیے‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫کے ہیبم سندھا کار سے ایرا‪،‬وہ چو اب یک جیران سی مفایل کو دیکھ رہی تھی اس کے بجھال‬
‫ت‬
‫گیٹ کھول کر سیٹ سے کجھ نکا لیے یر ھبھکی‪،‬وہ جیز کوپی اور نہیں مطییہ کی وہی ڈایری تھی‬
‫جسے ا تیے قہر میں ایدھا ہویا وہ یابچ سال نہلے جالنے کی کوشش کنا تھا مگر مطییہ نے ئمسکل‬
‫آدھے چصے کو بجایا تھا جلیے سے‪،‬‬

‫"یہ۔۔۔"‬
‫اسے ڈایری ہاتھ میں لیے پیزی سے آپی لہروں کے جاتب دیکھ مطییہ گ ھیراپی ساتھ ہی کار سے‬
‫ایر کر تھاگی تھی ہیبم کے تیج ھے‪،‬اس کا ارادہ تھاتپ وہ رو کیے کے عرض نکاری ہیبم کو لنکن مطییہ‬
‫کی نکار کو ان سنا کریا وہ ڈایری تھی نکا تھا یاپی میں‪،‬‬

‫"ہیبم نہیں۔۔"‬
‫‪- 362 -‬‬
‫چیحیے ہونے مطییہ تھاگی یاپی کی جاتب ڈایری اتھانے لنکن اس کا یازو جکڑیا ہیبم یڑی آساپی سے‬
‫اس کی کوشش یاکام تناگنا‪،‬‬

‫"تم سنگ دل انشان۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔"‬


‫اس سے اتنا یازو چھڑوانے کی کوشش کرپی مطییہ یکدم غصے سے جلق کے یل جالپی لنکن وہ یو‬
‫جیسے نےنہرہ تنا جاموسی سے اسے چیحیے ہونے دیکھ رہا تھا‪،‬‬

‫"یہ کنا ِکنا تم نے۔۔"‬


‫پ‬
‫جب کافی دیر یک وہ اسے یونہی یکڑے رکھا تب نےنسی سے تیچے یب ھنی وہ رونے ہونے‬
‫چیچی‪،‬اتنی ڈایری اسے جد درخہ عزیز تھی۔۔۔‪،‬تبھی یو اتنا ہاتھ جال ڈاال تھا اس ڈایری کو جلیے سے‬
‫بجانے کے عرض مگر اب اسے سم ندر کی لہروں میں مدفون سوچ کر ہی مطییہ کی جان نکلیے کو‬
‫ہورہی تھی‪،‬‬

‫"تم ک بوں ا تیے طالم ہو۔۔۔"‬


‫جد سے زیادہ رونے کے یاعث اجایک دماغ کی رگیں سن ہونے لگیں تبھی وہ اتھ کر ہیبم کا‬
‫کالر یکڑنے غصے میں جالپی‪،‬‬
‫‪- 363 -‬‬
‫"چواب دو مجھے۔۔۔"‬

‫"اتنی آواز تیچے رکھو۔۔"‬


‫جب وہ یلند سے یلند یر آواز کرنے لگی تب ہیبم کرچ نگی سے کہا‪،‬‬

‫س‬
‫"نہیں رکھوں گی آواز تیچے۔۔۔ مجھیے کنا ہو چود کو۔۔تم کجھ تھی کرسکیے ہو۔۔۔آخر جا ہیے کنا‬
‫ہو۔۔۔تم نفرت کرنے ہو مجھ سے۔۔۔میں نے کبھی م نع کنا ئمہیں کہ مت کرو مجھ سے‬
‫نفرت۔۔۔ہاں ہوں میں نفرت کے الیق نےسک کرو جینی کرپی ہے کرو نفرت لنکن۔۔۔۔لنکن‬
‫جب میں ئمہاری نفرت کے تیچ کوپی اعیراض نہیں کرپی یو تم کون ہونے ہو میری محیت یر‬
‫اعیراض کرنے والے۔۔۔"‬
‫یہ تھڑاس ہی یو تھی جب سے ایدر دپی چو اب وہ یرداشت چبم ہونے یر مفایل یہ نکال رہی‬
‫تھی‪،‬مطییہ کے لفظوں کے ساتھ ساتھ ہیبم کے یایرات میں شحنی آنے لگی‪،‬‬

‫"کون ہونے ہو تم میری محیت یر اعیراض کرنے والے۔۔۔کنا میں نے کبھی تم سے کبھی کہا‬
‫کہ مجھ سے محیت کرو۔۔۔کنا کبھی تم سے اتنی محیت کا نفاصہ کنا۔۔۔نہیں یا۔۔۔تھر تم ک بوں‬
‫‪- 364 -‬‬
‫یار یار انشا کرنے ہو۔۔۔ک بوں مجھے نکل نف د تیے کا کوپی موقع نہیں چھوڑنے۔۔۔ئمہاری یک طرفہ‬
‫نفرت نفرت ہے۔۔۔اور میری یک طرفہ محیت۔۔۔‪،‬وہ کھنل۔۔۔نےکار جیز۔۔ہے یا۔۔"‬

‫"ہیبم سکندر نس کردو۔۔۔میری محیت کو میرے لیے سزا مت تناؤ۔۔۔مت کرو انشا کہ نفرت ہو‬
‫مجھے اس یات سے کہ میں نے تم سے محیت کی۔۔۔‪،‬مت کرو۔۔۔"‬
‫اتنہاپی کرب میں کہنی وہ ہیبم کو تبھر ہونے یر مح بور کی‪،‬ضحیح یو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔۔‪،‬اس نے‬
‫کب اتنی محیت کا نفاصہ کنا تھا‪،‬وہ لڑکی یو اظہار سے تھی ڈرپی تھی کجا کہ کبھی اس سے کوپی‬
‫نعلق تنانے کا نفاصہ کنا ہو‪،‬تھر وہ ک بوں یار یار اس سے اتنی نفرت کا اظہار کررہا تھا‪،‬ساید کہ وہ‬
‫ت ُ‬
‫ڈر رہا تھا کہ ا تیے تنانے گیے اس نفرت کے کھنل میں اگر زرا سا ھی چوک گنا یو ھر محیت یہ‬
‫ت‬
‫کرپیب ھے۔۔‪،‬ہاں نہی وخہ تھی چو یار یار وہ یہ الفاظ دہرایا کہ اسے مطییہ چہایگیر سے نفرت ہے‪،‬یاکہ‬
‫یاد رہے کہ وہ نفرت ہی کریا ہے اس سے‪،‬‬

‫"تم قا یل ہو یاذلی کی۔۔۔اور قا یل کبھی سکون سے نہیں رہنا۔۔۔یو ا تیے کیے کا الزام مجھ یر‬
‫مت ڈالو۔۔۔"‬
‫ی‬
‫مطییہ نےنقینی سے اس شخص کو د ھی ھی چو اسے نی اذ ت بوں یں ھرا کر اب سارے الزام‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ک‬

‫اس ہی یر عاید کنا ان نکال نف کو اس کے گ ناہوں کی سزا تنایا چود یری الزمہ ہوکر یرسکون سا‬
‫‪- 365 -‬‬
‫مڑا اور کار کی طرف گنا تھا‪،‬پیروں سے یکدم جان نکلی تھی اور وہ لڑکھڑاکر تیچے گری‪،‬یآواز رونے‬
‫ی‬
‫ہونے مطییہ نےنسی سے سم ندر کی آپی جاپی لہروں کو د کھی‪،‬چہاں اس کے جذیایوں سے تھری‬
‫ڈایری کہی گم سی ہوگنی تھی‪،‬‬

‫"چو تھی کنا ضحیح کنا۔۔۔نفرت کریا ہوں اس لڑکی سے میں۔۔"‬


‫کار میں پیبھا وہ روپی ہوپی مطییہ کو دیکھ ایک مرتیہ تھر یڑیڑایا مگر نہلی مرتیہ ہیبم سکندر کو اتنی یہ‬
‫یات کھوکھلی سی لگی‪،‬وہ جیران ہوا تھا مگر جلد ہی سر چھ نک کر نست سے تنک لگاگنا‪،‬کافی دیر یک‬
‫وہ اسے رویا دیکھنا رہا تھر یاتم زیادہ یڑھیے یر نکل کر یاہر آیا‪،‬تم ہوپی منی اور پیز لہروں کے چ ھیییے‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ن ً‬
‫سے فرتنا ھنگ کی ھی‪،‬‬

‫ساری رات نہی رونے کا ارادہ ہے یا گھر تھی جلنا ہے۔۔‬


‫ی‬
‫ہیبم کی شخت آواز یر وہ عم و غصے کی جالت میں اسے د کھی‪،‬‬

‫"نہیں جایا مجھے۔۔۔جاو نہاں سے۔۔"‬


‫وہ ہر دی نکل نف یرداشت کرلینی مگر نہاں اس کے بچین سے لکھے گیے جذیات تھے اس ڈایری‬
‫میں‪،‬وہی غصہ تھا کہ چبم نہیں ہو کہ دے رہا تھا‪،‬‬
‫‪- 366 -‬‬
‫"تھنک ہے۔۔۔تھر رہو نہیں۔۔۔"‬
‫یلند آواز میں کہہ کر وہ وانس گنا کار میں‪،‬کجھ دیر نعد مطییہ نے سر اتھاکر دیکھا‪،‬وہ واقعی جاچکا‬
‫تھا‪،‬ایک تیے سرے سے اس کے ایدر نکل نف کی لہر دوڑی‪،‬کنا اتنی عرزاں تھی وہ کہ مفایل‬
‫ایک مرتیہ تھر یوال تھی نہیں۔۔‪،‬ا تیے تھنگے گالوں کو ہاتھ کی نست سے صاف کرپی وہ اتھی تھر‬
‫تندل جلنی وہاں سے جانے لگی‪،‬ساجل سم ندر سے کافی دور آنے کے نعد جب ایدھیرے روڈ یر‬
‫نکلی تب پیروں میں درد کے ساتھ ساتھ اسے سدید چوف تھی مجسوس ہوا‪،‬رویا الگ آرہا تھا یار یار‬
‫کہ آخر کیسے گھر جانے گی‪،‬اسے یو راشیہ تھی سوچھاپی نہیں دے رہا تھا تبھی ایک رکشہ وہاں سے‬
‫گزرا‪،‬‬

‫"تھاپی رکو۔۔"‬
‫وہ یلند آواز میں نکاری جس یر تھوڑے دور جاکر رکشہ رکا‪،‬سیشان روڈ میں ایک امند دیکھ مطییہ کو‬
‫یک گویہ سکون ہوا‪،‬تبھی جلدی جلدی جلیے ہونے رکسے یک آپی‪،‬سکندر وال کا ایڈرنس تناپی وہ رکشہ‬
‫میں سوار ہوپی‪،‬اتھی رکشہ کجھ دور ہی گنا تھا جب مطییہ چو پیب ھے پیبھے عح یب سی الجھن ہونے‬
‫لگی‪،‬یرنشان ہوپی وہ تم ہوکر چہرے سے چنکے رنسمی یالوں کو ہناپی ایک عیرارادی نظر تنک و ت بو مرر‬

‫‪- 367 -‬‬


‫یر ڈالی اور نہی مطییہ کا دل یری طرح گ ھیرایا‪،‬رکشہ جالنے واال وہ آدمی ہر تھوڑی دیر نعد اسے نغور‬
‫دیکھ رہا تھا‪،‬‬

‫"ر۔۔رکشہ۔۔روکو تھاپی۔۔"‬
‫ت‬ ‫ً‬
‫یوکھالکر وہ فورا یولی گر وہ آدمی ا تیے کڑے جانے یر ھی یڈر پینا رکشہ النے رہا‪،‬‬
‫ج‬ ‫ی‬ ‫م‬

‫"میں نے کہا روکو۔۔۔"‬


‫وہ کمزور نہیں یڑیا جاہنی تھی تبھی ما تھے یر سکییں النے اس یار شحنی سے یولی الییہ گ ھیرانے دل‬
‫کی دھڑکییں چظرے کی گھیی بوں کے مات ند مجسوس ہورہی تھیں‪،‬جب وہ مشلشل یونہی ان س نا رہ‬
‫کر رکشہ جالیا رہا تب مطییہ ہمت کر کے اتنی غضمت بجانے کے عرض کودی تھی رکسے‬
‫سے‪،‬یوں اجایک روڈ یر کودنے سے کنی خراسیں آ پیں تھی اسکے ہاتھ میں‪،‬یازو یر سے قم نض تھنی‬
‫تھی مگر دماغ میں چوف اس قدر سوار تھا کہ ان شب کی قکر کیے تنا وہ اتھیے کی کوشش کرنے‬
‫لگی‪،‬کجھ دور جاکر رکشہ رکا تھر اس میں سے وہ آدمی نکلنا مطییہ کی جاتب آنے لگا‪،‬وہ اب یاقاعدہ‬
‫چ‬
‫رونے لگی تھی‪،‬اتنی رات کے ایدھیرے میں اس سیسنان روڈ یر اگر وہ یحنی تھی یو کوپی ذی روح‬
‫موچود یہ تھا اس کی آواز سییے کو‪،‬پیر مڑنے کے یاعث نکل نف کی وخہ سے اتھا تھی نہیں جارہا‬
‫تھا‪،‬کجھ یہ سمجھ آنے یر وہ نےنسی سے روپی اتنا سر گھی بوں میں چھناگنی‪،‬یاکہ کم از کم اس‬
‫‪- 368 -‬‬
‫انشان کی چوس تھری نظریں یہ د یکھے‪،‬اس آدمی میں اسے ہناد دکھا تھا‪،‬آج اتنی غضمت اسے جاپی‬
‫ہوپی مجسوس ہورہی تھی مگر تبھی کار کے پیز ہارن یر وہ چھنکے سے سر اتھاپی‪،‬یوں لگا جیسے گ ھپ‬
‫ایدھیرے میں زیدگی کی کرن دکھاپی ہو کسی نے‪،‬رکسے واال مفایل کو کار سے ایرنے دیکھ وانس‬
‫تھاگا تھا ا تیے رکسے یر ساتھ ہی اس یر سوار ہویا وہاں سے نکال‪،‬‬

‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫سدید جیرت کا مجسمہ تنی مطییہ اسے د ھی چو کشادہ پیشاپی یر ل لیے اسے ھوررہا رہا تھا‪،‬وہ یو‬
‫گ‬
‫جاچکا تھا۔۔۔‪،‬‬

‫"اب تھی جلنا ہے یا چود جلی جاؤ گی۔۔۔"‬


‫اسے چود کو نےنقینی سے دیکھنا یاکر ہیبم تنا مگر مطییہ کے سر چھکا کر لب کا تیے یر وہ قدم‬
‫اتھایا اس کے فرتب آیا‪،‬‬

‫"جلو۔۔"‬
‫اب کی یار اس نے مطییہ کا ہاتھ یکڑ کر اویر چھ نکا تھا مگر جب وہ یونہی پیب ھے رہی تب چھک کر‬
‫یوال‪،‬‬

‫‪- 369 -‬‬


‫"مسنلہ کنا ہے ئمہارے ساتھ۔۔۔"‬
‫ہیبم کے سوال یر یاپی سے تھرے پین ک بورے اتھانے وہ اسے نےنسی سے دیکھ ا تیے پیر کو‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ی‬ ‫ل‬
‫د ھی چہاں سے کٹ گیے یر چون کی کیریں نی یں‪ ،‬ل یں عملہ مجھ کر وہ لب یجا ھر‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫مج‬‫س‬
‫گہرا سانس تھر کر سندھا ہوا‪،‬وہ چو ھیے گی ھی کہ ا ک مرتیہ ھر اسے ھوڑ کر فا ل جارہا ہے‬
‫م‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫رونے کو ہوپی مگر تبھی اس کے میہ سے چیخ نکلیے نکلیے رہ گنی جب ہیبم تھر سے چھک کر اسے‬
‫ا تیے یاہوں میں تھرا‪،‬تھنی آیکھوں سے اس کے نےیایر مگر وچنہہ چہرے کو دیکھ مطییہ سرم سے‬
‫چہرہ چھکاپی‪،‬‬

‫اسے کار میں پیبھا کر ہیبم دوسری جاتب سے آکر چود تھی پیبھا‪،‬‬

‫"اب تھی ک بوں آنے۔۔۔نہیں آنے۔۔۔ئمہیں یو سوق ہے یا نہلے مجھے مضی یت میں ڈالو تھر‬
‫اچھا ین کر آو۔۔۔یہ تم جانے یہ میرے ساتھ وہ ہویا۔۔۔"‬
‫اس آدمی کی نظروں کو سوچ وہ چھرچھری لییے ہونے تھر روپی‪،‬ہیبم چو جاموسی سے کار سنارٹ‬
‫ک‬‫تھی ی‬
‫کررہا تھا اس کے ایک مرتیہ تھر سروع ہونے یر جیڑے یحنا آ یں تند کر کے ھوال‪،‬‬
‫ک‬ ‫ھ‬

‫"جپ رہو۔۔"‬
‫‪- 370 -‬‬
‫سیحندگی سے یوکا تھا وہ اسے‪،‬جاتنا تھا اس یات علظی چود کی ہی تھی‪،‬‬

‫"جب علظی اتنی ہو یو جپ کرادو۔۔۔اور جب میری ہو یو ڈات بوں سناؤ چیچو۔۔۔اب میرا یولنا ک بوں‬
‫یرا لگ رہا ہے۔۔۔اور یوال تھی کنا میں نے۔۔۔ایک یات ہی یوچھی کہ اب ک بوں آنے۔۔۔جب‬
‫جب ضرورت یڑپی ہے تب ک بوں نہیں آنے۔۔۔آج یڑا چنال ہوا میرا۔۔۔"‬
‫اس آدمی کے ساتھ ساتھ جب ہناد کی کی گییں گسناچناں اور نظریں یاد آ پیں یو وہ اور تھڑکی‪،‬آج‬
‫جیسے تھوڑی تھوڑی دیر میں وہ اتنی تھڑاس نکا لیے کا ارادہ کی ہوپی تھی‪،‬اسے مشلشل یو لیے دیکھ‬
‫ہیبم نے گردن موڑ کر نہلے یو شخت گھوری سے یوازا تھا اسے مگر اتنی گھوری تھی نےسود ہوپی‬
‫ی‬
‫دیکھ وہ چھکا تھا مطییہ کی طرف‪،‬مفایل کو اتنی جاتب چھکیے دیکھ وہ تیجھے ہوپی د ھی گر تب یک‬
‫م‬ ‫ک‬

‫دیر ہوجکی تھی‪،‬وہ اسے کجھ دیکھیے کا موقع دنے تنا مطییہ کے گالپی ل بوں یر ا تیے لب رکھنا اسے‬
‫جپ کراگنا‪ ،‬لمچے میں دل کی دھڑکییں ایک سو پیس کی رقنار سے دھڑکییں لگیں‪،‬س ِ‬
‫دت جذیات‬
‫ی‬
‫میں اتنی آ کھیں میچ کر مطییہ اس کے سییے یر ہاتھ رکھی تھی دھکا د تیے کے عرض مگر اس کی‬
‫ٰ‬
‫کالپی مبھی میں لے کر وہ تند سیسے سے لگاگنا‪،‬کار میں یڑھنی معنی جیز جاموسی یر مطییہ کی‬
‫دھڑکییں واضح سناپی دے رہی تھی‪،‬مفایل کی نےیاک جشارت یر گ ھیراپی وہ سانس ر کیے یر اتنا‬
‫ہاتھ چھڑانے کی تھریور کوشش کرنے لگی اور تبھی اس کی جاں بجسی کریا وہ آہسنگی سے اسے‬
‫چھوڑا‪،‬مطییہ کا الل ئمایر ہوا چہرہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ اتھی سدید چواہش رکھنی ہے اس کی‬
‫‪- 371 -‬‬
‫نظروں سے کہیں نہت دور جلے جانے کی‪،‬ا ت یے سییے یر ہاتھ رکھنی وہ زیرو تم ہوپی سانس کو م بوایر‬
‫کرنے کی کوشش میں تھی چنکہ اس کے چ نا سے ئمبمانے چونصورت چہرے کو دیکھ ہیبم طیزیہ‬
‫مشکراہٹ سمیت کہا‪،‬‬

‫"امند ہے اب جپ رہو گی۔۔"‬


‫اتھی وہ اس جالت میں یہ تھی کہ کوپی چواب دے سکے تبھی چہرہ چھکانے یلکل جاموش‬
‫رہی‪،‬ادھر اس کے یایرات نغور دیکھیے ہیبم کے ل بوں یر ایک دلکش مشکراہٹ اتنی چ ھب دکھالکر‬
‫عاتب ہوپی‪،‬وہ چو چور نظر اتھاکر اب اسے دیکھیے لگی تھی ہیبم کے ل بوں یر زیان ت ھیرنے سے اس‬
‫م‬
‫کے نفیہ ہوش تھی اڑے‪،‬سر چھکا کر اس مرتیہ اس نے کمل گریز کنا مفایل کو دیکھیے سے‪،‬‬

‫مطییہ کو رویا چھوڑ اس کا ارادہ تھا جال جانے وہاں سے مگر کجھ دور جاکر وہ ایک عح یب اجشاس‬
‫کے بخت کار موڑا‪،‬وانس آیا یو دیکھا مخیرمہ تندل ہی وہاں سے کجھ دور جارہی تھی‪،‬کار کو سلو جالیا‬
‫وہ دیکھنا جاہ رہا تھا کہ آخر کہاں یک وہ اکنلے جاسکنی ہے‪،‬تھر اسے رکسے میں سوار دیکھ ہیبم نے‬
‫کار کی ہنڈ التییس آف کیں ساتھ ہی نہاتت ہلکی رقنار میں اس رکسے کا تیجھا کنا‪،‬وہ جاہنا یو یہ‬
‫شب کرنے کے بجانے سندھا اسے لے آیا مگر یاجانے ک بوتنہلی مرتیہ دل کنا تھا اس ڈریوک لڑکی‬

‫‪- 372 -‬‬


‫ہمت دیکھیے کو‪،‬رکسے سے اسے کودیا دیکھ ہیبم کو چھ نکا لگا تھا مگر تبھی رکسے والے کو رکشہ سے ایر‬
‫کر مطییہ کی جاتب آیا دیکھ وہ معاملہ سمجھنا ہارن بجا کر ایرا‪،‬‬

‫وہ ا تیے سالوں یک اس سے نفرت کا دعویدار رہا تھا مگر ان چند مہی بوں میں اس لڑکی کے ساتھ‬
‫رہ رہ کر ہیبم کے دل میں زیادہ نہیں مگر تھوڑا نہت یرم گوشہ تندا کنا تھا مطییہ کے آنسوؤں‬
‫نے۔۔۔‪،‬لنکن چود یر ازلی نفرت کا چول خڑھانے وہ کبھی اس یرم گوسے کو طاہر یہ کریا اور یہ‬
‫ہی جاہنا کہ کبھی یہ طاہر تھی ہو۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مہناز تنگم‪،‬قلذہ اور عنادیہ کو سکندر وال چھوڑیا وہ اسے کال کنا‪،‬اس یار کال رنسبو کرلی گنی تھی‪،‬‬

‫"کہاں مر گنا تھا۔۔۔"‬


‫کال رنسبو ہونے ہی ہناد تھڑکا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"مشڈ کالز سے یو قلجال نہی لگ رہا ہے کہ یو مررہا تھا۔۔۔تنا۔۔۔کنا کام ہے۔۔"‬

‫‪- 373 -‬‬


‫وہ جیسے تنار تھا یلکل طیز کرنے کے لیے‪،‬اس کی ہمیشہ کی طرح جاضر چواپی یر ہناد تپ کر گویا‬
‫ہوا‪،‬‬

‫"کنا کام ہے۔۔۔کمییے بجھے تنا ہے میرا اتھی کینا چون کھول رہا ہے۔۔۔"‬

‫"چون کو چو لہے یر خڑھایا ہے چو کھول رہا ہے۔۔۔"‬

‫گ‬ ‫ُ‬
‫"چون۔۔چو لہے۔۔یر۔۔کنا۔یول رہا۔۔یار یو یا ل ہے کنا۔۔"‬
‫اس کے کجھ تھی یو لیے یر ہناد یرسا‪،‬‬

‫ت‬ ‫ُ‬
‫"یاگل ہوگا یو۔۔۔گدھے ا ھی میرا موڈ نہت خراب ہے۔۔۔یات مت کر۔۔"‬

‫"ک بوں پیرے موڈ کو کنا ہوا۔۔"‬


‫ہناد کو یکدم اتنی یرنشاپی تھول کر مفایل کی قکر ہوپی‪،‬آخر کو پیسٹ فرتنڈ تھا اس کا‪،‬‬

‫‪- 374 -‬‬


‫"بجھے تنا ہے کھایا یو نہت اچھا تھا مگر میب ھے میں گالب جامن رکھوایا اس کمییے نے۔۔۔چو کہ مجھے‬
‫زرا نہیں نسند۔۔۔سارے موڈ کا پیڑا عرق ہوا۔۔۔"‬
‫ہناد کو یوں ت ناکر جیسے کوپی ضروری یات ہو اب وہ چود ہی زی ِر لب یڑیڑایا‪،‬‬

‫"یر یار گالب جامن یو ا چھے ہو۔۔۔ایک میٹ۔۔پیرا موڈ اس لیے خراب ہے۔۔۔"‬
‫وہ چو مفایل کی نےوفوقایہ یات یر اسے وصاجت د تیے لگا تھا اجایک اتنا مدعا یاد آنے یر تپ کر‬
‫رہ گنا‪،‬‬

‫"ہاں یو۔۔"‬

‫ت‬ ‫ُ‬
‫"دیکھ میرے تھاپی۔۔۔اس سے نہلے میں یاگل ہوں یو تنا کہاں یر ہے۔۔۔مج ھے ملنا ہے ا ھی‬
‫بجھ سے۔۔۔"‬
‫سدید تییسن میں وہ یوال تھا۔۔‪،‬تھر اس کے تیہ تنانے یر ہناد نہلے یو اتنا سر یکڑا تھر وانس‬
‫پینکوت یٹ کا رخ کنا‪،‬وہ اب یک وہی یر تھا‪،‬‬

‫‪- 375 -‬‬


‫پینکوت یٹ کے یاہر ہی کجھ دور کار روک کر وہ ایرا‪،‬سا میے دکھیے مندان کی طرف اسے سایہ دکھا‬
‫س‬ ‫ً‬
‫تھا‪،‬نقینا وہی تھا‪،‬ہناد قدم اتھایا اس کے یاس گنا‪،‬آج اچھا موقع تھا لسینل کو مروانے کا مگر وہ‬
‫جاتنا جاہنا تھا اس انشان سے چو ہناد کے دوشت کے درچے یر قایز تھا کہ آخر کای وخہ تھی چو‬
‫وہ سکار کو مارنے کے بجانے میبھے میں گالب جامن کا دکھ لیے کھڑا تھا‪،‬‬

‫"اونے۔۔"‬
‫اسے اتنی کار سے تنک لگانے دیکھ ہناد نکارا‪،‬‬

‫یلو پی سرٹ اور پی یٹ یر واتٹ چنکٹ نہنا کیپ لگانے کھڑا گردن موڑ کر ہناد کو دیکھا تھا‪،‬عناپی‬
‫ل بوں یر ہمیشہ کی طرح طیزیہ مشکراہٹ نے اجاطہ کنا ہوا تھا‪،‬چنکہ ایک داپیں ہاتھ کی انگلی گن‬
‫کو یوں گھمارہی تھی جیسے کوپی کھلویا ہو۔۔۔‪،‬‬

‫"بجھے ایک کام دیا تھا۔۔۔"‬


‫اس کے یاس آیا ہناد غصے میں یوال‪،‬‬

‫"رتنلی۔۔۔ایک کام۔۔"‬
‫‪- 376 -‬‬
‫ئمسجر تھرا لہچہ کجھ یاور کرایا تھا‪،‬‬

‫"مظلب۔۔۔نہت سے۔۔۔کام دنے تھے۔۔شب یاتم یر کنا مگر یہ کام۔۔۔یہ کام یو شب سے‬
‫ایزی تھا۔۔۔ضرف نشایہ کے کر یریگر دیایا تھا۔۔"‬

‫"ہاں یو دیایا یو تھا یریگر۔۔۔"‬


‫ازلی نےتنازی‪،‬‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫نہ س‬
‫ل مراد۔۔۔"‬ ‫"یو تھر مرا ک بوں یں‬
‫آیر تھیچے وہ یوچھا‪،‬‬

‫ُ‬
‫"نشایہ چوک گنا۔۔۔ایک موپی عورت یکراگنی تھی۔۔۔"‬
‫وچنہہ چہرہ نگاڑے چواب دیا گنا‪،‬‬

‫س‬
‫"سیرنشلی۔۔۔ایک عورت کے یکرانے سے گولی لسینل کی جگہ سندھا قایوس یر لگی۔۔۔ایہ یات‬
‫تنا۔۔النف میں نہلے کبھی کسی یر گولی جالپی ہے۔۔۔"‬
‫‪- 377 -‬‬
‫ن‬
‫کسی سک کی تنا یر ہناد فییسی لہچے میں یوچھا‪،‬‬

‫"ہاں یلکل۔۔۔"‬

‫"کیسے۔۔۔"‬

‫"ا نسے۔۔"‬
‫یہ کہیے ہی مفایل ہناد کا نشایہ لینا یریگر دیایا‪،‬تھاہ کی کان جیرنے والی آواز کے ساتھ ہناد کی‬
‫دلجراش چیخ قضا میں یلند ہوپی‪،‬گولی اس کے یازو کو چھوپی ہوپی گنی تھی‪،‬مگر چون پیزی میں نکال‬
‫ساتھ ہی نکل نف کی سدت سے وہ کراہ کر رہ گنا‪،‬‬

‫"کمییے یہ کنا ِکنا۔۔۔"‬

‫ُ‬
‫"چو یو نے کہا تھا۔۔"‬
‫یارملی تنایا تھا وہ جیسے کوپی یڑی یات یہ ہو‪،‬‬

‫‪- 378 -‬‬


‫ن ٰ ُ‬
‫"یار۔۔۔تنام مرضی۔۔۔یو ہے کنا جیز۔۔۔"‬
‫نےبجاشہ غصہ آنے یر ہناد یازو یر شحنی سے ہاتھ چماکر یلمالیا‪،‬‬

‫چ‬
‫"ماں کی نظر میں ان کا الڈال۔۔۔ت بوی کی نظر میں ھورہ اور یاپ کی ظر یں ا ک یافرمان گڑی‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ھج‬
‫اوالد۔۔۔"‬
‫یال کی سیحندگی سمیت وہ یوں تنایا جیسے کوپی اہم معلومات دے رہا ہو۔۔‪،‬‬

‫"انے کمییے۔۔مجھے ہاسینل لے کر جل۔۔"‬


‫ھ‬ ‫چ‬
‫نسنل سے نکلیے دھونے کو جب وہ تھونکا تب ہناد الکر یوال‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬

‫"پئیرول کے پیسے دے گا۔۔۔"‬

‫"یر ک بوں۔۔"‬
‫پ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ہناد کی آ یں جیرت سے ا لیے کو ہو یں‪،‬‬

‫"کام پیرا ہے۔۔۔"‬


‫‪- 379 -‬‬
‫ُ‬
‫"خراب یو یو نے کنا یا۔۔۔"‬
‫ا تیے یازو سے نکلیے چون سے ہاتھ ریگین ہویا دیکھ وہ چیجا‪،‬‬

‫ُ‬
‫ن‬
‫"یر کہا یو یو نے تھا۔۔۔اور میں دوسبوں کا کہا گنا یالنا ہیں ہوں۔۔۔"‬
‫اتنی ایک اور چوپی یڑے یرسوق ایداز میں تنان کی گنی‪،‬‬

‫"یار دے دوں گا میں پیسے۔۔۔اتھی جل جلدی۔۔"‬


‫یازو میں اتھنی نکل نف یڑھیے یر ہناد سکندر ساید زیدگی میں نہلے مرتیہ عاخزی سے یوال تھا جس یر‬
‫تنام ئمسجر سے مشکرایا کار میں پیبھا‪،‬‬

‫"ایک یات تنا۔۔"‬


‫کار کی نست سے تنک لگانے چون کی رواپی رو کیے کی کوشش کریا ہناد یوچھا‪،‬‬

‫"ہمم۔۔"‬
‫گہری یراؤن آیکھوں کو روڈ یر مرکوز کیے وہ ہ نکارا‪،‬‬
‫‪- 380 -‬‬
‫ُ‬
‫"بجھے نہیں لگنا کہ یو کجھ زیادہ ہی اوور کونفنڈتٹ ہے۔۔۔"‬
‫ہناد کے سوال یر عناپی ل بوں یر پیسم تھنال مفایل کو تناد تیے واال‪،‬‬

‫ک ن ُ ُ‬
‫"جس طرح بجھ میں می گی کوٹ کوٹ کر تھری ہے تھنک اسی طرح میں اور اوور کونفنڈتٹ‬
‫ایک دوسرے کے تنا ادھورے ہیں۔۔"‬
‫ی‬
‫اس کا ازلی ت نانے والے ایداز یر ہناد مشکراکر آ کھیں موید گنا‪،‬وہ زیادہ یاراض نہیں تھا اس‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن ٰ‬
‫سے۔۔‪،‬جاتنا تھا اس طرح کے کام کریا تنام مرضی کی ظرت کا جاصا ہے۔۔‪،‬اور و نسے ھی‬
‫نقول ہناد کے وہ دوشت تھا اس کا‪،‬نہیرین دوشت۔۔۔!!!‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ن‬
‫سکندر وال ہیحیے کے نعد یورچ میں کار روکنا وہ مطییہ کی جاتب م بوخہ ہوا چو اب یک سر چھکانے‬
‫دویوں ہاتھوں کی انگلناں مروڑ رہی تھی‪،‬کار سے ایر کر وہ دوسری جاتب آیا گیٹ کھوال‪،‬‬

‫"مہ۔۔می۔۔میں ایر۔۔جاوں گی۔۔"‬


‫‪- 381 -‬‬
‫اسے اتنی طرف چھکیے دیکھ مطییہ یوکھال کر جلدی سے یولی‪،‬‬

‫"اچھا۔۔ایرو تھر۔۔"‬
‫ٰ‬ ‫پ‬
‫وہ جاتنا تھا کہ مفایل یبھی وہ لڑکی اس سے چنی االمکان گ ھیراپی ہوپی ہے‪،‬تبھی سندھا ہویا‬
‫یوال‪،‬اس کے تیجھے ہییے یر مطییہ ایک چور نظر اس یر ڈالنی کار سے قدم یاہر رکھی‪،‬اتھی وہ کھڑی‬
‫ہی ہونے لگی تھی جب ایڑھی یر لگے کٹ نے اسے لڑکھڑانے یر مح بور کنا اور اگلے ہی لمچے وہ ہیبم‬
‫کی یاہوں میں چھولی‪،‬‬

‫"ایرگنی۔۔۔"‬
‫اسے گود میں اتھانے وہ طیز کنا‪،‬چنا سے مطییہ چہرہ چھناگنی اس کے کشادہ سییے میں‪،‬اسے لیے‬
‫ایدر داجل ہویا ہیبم اجایک الو بج میں رکا جب نظر مہناز تنگم یر یڑی‪،‬وہ یرنشان سی الؤبج میں جکر لگا‬
‫رہی تھیں‪،‬‬

‫"کہاں تھ۔۔"‬
‫ان دویوں کو دیکھ وہ چو یو لیے لگی تھیں یکدم جپ ہوپیں‪،‬ساتھ ہی چوسگوار جیرت سمیت‬
‫مشکراپیں‪،‬‬
‫‪- 382 -‬‬
‫"وہ۔۔مط۔۔مطییہ کے پیر میں چوٹ لگی ہے۔۔۔"‬
‫ان کے مشکرانے یر سنکی کا اجشاس ہوا تبھی وہ ہجکجاکر چواز پیش کنا‪،‬دوسری جاتب مطییہ جس‬
‫م‬
‫کی نہلے ہی جان یر تنی تھی مفایل کی یاہوں میں اب وہ کمل سانس روکے یونہی چہرہ چھنانے‬
‫م‬ ‫ی‬
‫رکھی‪،‬سرم سے اس کی آ یں چی یں‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫"ہمم۔۔یہ چوٹ یو تھر مطییہ کے لیے اچھی یاتت ہوپی۔۔۔"‬


‫ان دویوں کی جالت یر وہ چ ھیڑیں یو مطییہ کا ہیبم کی کالر کو تھاما ہاتھ مبھی تنا تھا جس کے‬
‫یاعث ہیبم اتنی کالر اسے دیوچیے دیکھ لب تھییحنا مہناز تنگم کو دیکھا یو وہ ان دویوں کو اور یرنشان‬
‫کرنے کا ارادہ چبم کرپی کہیے لگیں‪،‬‬

‫"اچھا جاؤ تم لوگ۔۔۔اب یہ ہناد کہاں رہ گنا ہے کبھی چو وقت یر آنے۔۔۔ہمیں چھوڑ کر‬
‫یاجانے کہاں جالگنا تھا۔۔۔"‬
‫اسے تناپیں مہناز تنگم تھر گیٹ کی طرف م بوخہ ہوپیں جس یر اتنی جان بجسی ہونے ہی ہیبم‬
‫ٰ‬
‫سندھا اویر گنا‪،‬کمرے میں الکر وہ مطییہ کو ا تیے تنڈ کے بجانے اس کی جگہ نعنی صوقے یر ہی‬

‫‪- 383 -‬‬


‫پیبھایا‪،‬اسے پیبھیے کے یاوچود اتنی سرٹ دیوچے دیکھ ہیبم نے مطییہ کا چہرہ دیکھا چو اب یک دہک‬
‫رہا تھا‪،‬‬

‫"میں نہاں ئمہارے ساتھ سونے نہیں واال۔۔۔"‬


‫اس کی آواز یر مطییہ نے یوکھالکر چھنکے سے ہیبم کا کالر چھوڑا‪،‬سرم سے الل ہونے گال سمیت‬
‫وہ چہرہ موڑ گنی‪،‬تبھی ہیبم کھڑا ہوا‪،‬اس کا رخ ڈرنسنگ روم کی جاتب تھا‪،‬کجھ دیر نعد جییج کر کے‬
‫پ‬
‫وہ یلو پی سرٹ اور گرے یراؤزر میں یاہر نکال یو دیکھا وہ جب سے اب یک یونہی یبھی ہے‪،‬ایڑھی‬
‫یر چون کے سو ک ھے نشان کو دیکھ ہیبم فرشٹ ایڈ یاکس لینا اس کے یاس آیا‪،‬‬

‫"لو۔۔"‬
‫چ‬
‫وہ مطییہ کی طرف فرشٹ ایڈ یاکس یڑھایا یو ھجھک کر اس نے یاکس لنا‪،‬ہیبم کو دروازہ اور التٹ‬
‫تند کر کے تنڈ یر لیی نا دیکھ وہ یاکس کھولی ساتھ ہی کاین کی مدد سے دواپی ایڑھی یر لگانے کی‬
‫کوشش کرنے لگی‪،‬چوٹ یر دواپی لگیے ہی جلن کے اجشاس سے وہ ششک کر رہ گنی تھر‬
‫ئمسکل اس یر یالشٹ لگاپی اتھی‪،‬جلیے سے درد یو نہت ہورہا تھا مگر اسے الجھن ہورہی تھی چ بولری‬
‫میں‪،‬اتھی وہ دو قدم ہی جلی تھی کہ لڑکھڑاکر تیچے گری‪،‬‬

‫‪- 384 -‬‬


‫تنڈ یر جت لیٹ کر چ ھت کو گھوریا ہیبم اتنی سوچوں سے نکلنا چونکا‪،‬‬

‫"کنا مسنلہ ہے ئمہارے ساتھ۔۔۔دواپی لگاکر سوجاؤ۔۔۔اب کنا یار یار آکر ئمہیں گود میں‬
‫اتھاؤں۔۔"‬
‫اسے تیچے گرے دیکھ وہ اجایک تھڑکا جس یر مطییہ کی آیکھوں نے تم ہونے میں زرا دیر یہ‬
‫لگاپی‪،‬مفایل کی ڈاتٹ یر وہ ہنک سے لب دات بوں یلے شحنی سے دیانے صوقے یر ہاتھ رکھ کر‬
‫اتھی‪،‬پیروں میں درد کی جب یری پیسیں اتھیے لگیں تب یرداشت یہ ہونے یر وہ وانس صوقے یر‬
‫پیبھ گنی‪،‬اس سبمگر کی نظریں اب یک چود یر مجسوس کیے مطییہ جلدی جلدی چ بولری ایاری تھر‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ل‬ ‫گ‬ ‫پین کھ ً‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫اسے کوریر ل یر ر نی فورا لیٹ نی‪،‬اس کے ییے ہی م ہاتھ یڑھا کر مپ کا سوبچ آف کنا‪،‬‬

‫اتھی زیادہ وقت یہ گزرا تھا جب کمرے کی جاموسی میں مطییہ کی ہجکناں گوبحیے لگیں‪،‬وہ رورہی‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫تھی‪،‬اتنی سوچوں میں گم ہیبم شخت جھالیا‪،‬ک بوں وہ لڑکی یار یار اسے ا تیے ل سے یرنشان‬
‫م‬ ‫ع‬ ‫ی‬
‫کررہی تھی‪،‬پیزی میں تنڈ سے اتھنا وہ صوقے کے یاس گنا چہاں وہ آیکھوں یر یازو ر ک ھے اس کے‬
‫سر یر کھڑے رہیے سے نےجیر ا تیے رونے کا سعل جاری رکھی تھی‪،‬‬

‫"ئمہارے ساتھ آخر یرایلم کنا ہے۔۔۔"‬


‫‪- 385 -‬‬
‫ک‬‫ی‬
‫اجایک وہ یرسا جس یر گ ھیراکر مطییہ ہاتھ ہنا کر اسے د ھی‪،‬‬

‫"یہ چود سکون سورہی ہو یہ سونے دے رہی ہو۔۔۔"‬


‫اس کی چوفزدہ نظروں کو اگ بور کرنے ہونے وہ مزید یوال‪،‬‬

‫"اب یولو تھی۔۔ک بوں رورہی ہو۔۔۔"‬


‫پ‬
‫وہ جب اتھ کر یبھی تب ہیبم کرچ نگی سے کہا‪،‬‬

‫"مجھے میری ڈایری نہت عزیز تھی۔۔۔"‬


‫ہلکی مگر تھراپی آواز کہ ہیبم داتت یر داتت چمانے ضنط کنا چود یر‪،‬‬

‫"ایک چھوپی سی جیز کے لیے تم ا تیے نسوے نہارہی ہو۔۔۔"‬

‫"وہ چھوپی سی جیز نہیں تھی۔۔۔"‬


‫اس کے یوں یو لیے یر مطییہ یڑپ کر رہ گنی‪،‬‬

‫‪- 386 -‬‬


‫"تھر کنا تھا۔۔؟"‬

‫ک‬‫ل‬
‫"بچین سے لے کر اب یک وہ میرے ساتھ تھی۔۔۔میں اس میں ا تیے جذیات نی ھی۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ھ‬

‫"کس کے لیے۔۔؟"‬

‫"ئمہار۔۔۔"‬
‫اور وہ چو مفایل کے سوالوں کا نےدھناپی میں چواب دے رہی تھی یکدم جپ سی ہوپی‪،‬ہیبم‬
‫جاموش نظروں سمیت اسے دیکھنا پیبھا تھا صوقے یر‪،‬مطییہ کا دل دھڑکا تھا مفایل کو ا تیے فرتب‬
‫پیبھے دیکھ تبھی وہ قاصلہ قاتم کرنے کے عرض سرکی‪،‬اس کی نست یر ہاتھ رکھنا ہیبم اجایک اسے‬
‫فرتب کنا تھا چود کے‪،‬سرخ عارض یر سایہ قگن تھنگی گھنی یلکوں کو دیکھ وہ مطییہ کی تھوڑی‬
‫تھام کر اس کا چہرہ اویر کنا‪،‬اتنی پیز ہوپی دھڑک بوں اور مفایل کی گرم سانسوں سے گ ھیراپی مطییہ‬
‫کی یلکیں اتھیے سے انکاری ہوپیں‪،‬‬

‫"سبو۔۔"‬

‫‪- 387 -‬‬


‫گھمئیر آواز یر تھی جب مطییہ نے تھاری ہوپی یلکیں یہ اتھاپی تب نست یر اس کے ہاتھ کا دیاؤ‬
‫یڑھا جس کے یاعث یاجا ہیے ہونے تھی مطییہ کو ا تیے سے اتنہاپی یزدیک اس کا وچنہہ چہرہ‬
‫دیکھنا یڑا‪،‬چھکی نظریں اتھیں یو سندھا اس سبمگر کی آیکھوں سے یکراپیں‪،‬نظروں کا ملنا تھا کہ‬
‫سلشلہ تھوڑا ظویل ہوا اور تھر ہیبم کی آواز اتھری‪،‬‬

‫"ڈایری یر پین سے لکھیے سے یا جلی ہوپی ڈایری کو بجانے کے جکر میں ہاتھوں کو جالنے سے‬
‫ہیبم سکندر ئمہارا نہیں ہوجانے گا۔۔۔وہ ضرف یاذلی چہایگیر کا تھا اور اسی کا رہے گا۔۔۔چند ایک‬
‫ی‬
‫ہمدردایہ عمل سے یہ یلکل مت سمجھنا کہ میں ئمہارے آنسوؤں سے ل جاؤں گا۔۔۔اسے‬
‫گھ‬

‫ضرف اجشان سمجھ لنا کرو میرا۔۔۔"‬


‫نےیایر لہچے میں مطییہ کے دل میں امڈپی چوش قہم بوں یر یاپی ت ھیر کر یاور کرایا تھا اس نے‪،‬وہ‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫چو آج نے در نے سا میے پیبھے اس سبمگر کی عنایات یر ھیے گی ھی کہ وہ تھنک ہورہا ہے‬
‫مج‬
‫اب اس کے ایدر یکدم کرب تھرا‪،‬مفایل کے سفاک الفاظوں کے یدولت آنسوؤں نے زرا دیر یہ‬
‫کی آیکھوں سے نکلیے میں‪،‬لب دات بوں سے دیاکر اتنی ششکناں روکنی وہ اس سبمگر کے سناٹ‬
‫چہرے کو دھندالپی نظروں سے دیکھیے رہ گنی تبھی اسے چھنکے سے چود سے یرے کریا ہیبم اتھا اور‬
‫سندھا تنڈ یر جالینا‪،‬‬

‫‪- 388 -‬‬


‫"اب آواز یہ آنے ئمہاری۔۔۔"‬
‫تبم ایدھیرے میں اس کی شخت آواز کایوں میں یڑنے ہی مطییہ ل بوں یر شحنی سے ہاتھ رکھ کر‬
‫اتنی ششکبوں کا گال گھو پییے لگی مگر جب چود یر قایو یہ کریاپی یو چہرہ یکیے یر چھنانے سدت سے‬
‫رویڑی‪،‬اسے لگا تھا کہ اب اس کی سزا چبم ہونے لگی ہے مگر ہیبم کی یایوں نے واضح کردیا تھا‬
‫کہ اگر وہ ساری زیدگی تھی یڑنے گی تب تھی سکون اسے نضیب نہیں ہوگا‪،‬اور ہویا تھی کیسے‬
‫نقول ہیبم کے وہ قا یل چو تھی‪،‬اب یو مطییہ کو تھی نقین ہونے لگا تھا کہ وہ قا یل ہی ہے اتنی‬
‫نہن کی تبھی اسے زیدگی ضرف چند یل کی چوسی دے کر ہمیشہ کے لیے یڑ تیے چھوڑد تنی ہے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آج وہ سکندر وال آیا تھا قلذہ کو ساتنگ کے عرض یاہر لے جانے کے لیے‪،‬مہناز تنگم نے قلذہ‬
‫کے ساتھ مطییہ اور عنادیہ کو تھی جانے کا کہا تھا مگر مطییہ نے شہولت سے انکار کردیا‪،‬عنادیہ‬
‫تھی نہیں جایا جاہ رہی تھی لنکن اس معا ملے میں مہناز تنگم نے اس کی ایک یہ سنی‪،‬ان کا کہنا‬
‫ً‬
‫تھا وہ یاہر کے ماچول میں نکلے گی تبھی اس کی تنہاپی میں رہیے والی عادت چبم ہوگی تبھی مح بورا‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل اور قلذہ کے ساتھ جایا یڑا‪،‬اس طرح چو وہ جاہنا تھا آخر کو وہی ہوا‪،‬ساتنگ کے‬ ‫اسے‬
‫دوران قلذہ نے اتنی نسند کی کنی جیزوں کا اتیجاب کنا مگر عنادیہ نے کجھ تھی لییے سے انکار‬
‫س‬
‫کردیا‪،‬ان دویوں کو ایک ساپ یر چھوڑیا لسینل چ بولری ساپ کی جاتب آیا تھا وہاں یر ایک‬
‫‪- 389 -‬‬
‫س‬
‫نقیس سا یرنشلیٹ اسے نےجد تھایا تھا‪،‬اسے تنک کروایا لسینل اتھی یاکٹ میں رکھ کر چ بولری‬
‫ساپ سے نکل ہی رہا تھا جب قلذہ اس کے سا میے آپی‪،‬‬

‫"کنا لے رہے ہو۔۔۔"‬


‫اسے یاکٹ میں یرنشلیٹ کا یاکس ڈا لیے قلذہ نے نہیں دیکھا تھا تبھی یرچوش سی یوچھی‪،‬‬

‫"لے رہا ہوں نہیں۔۔۔تھا۔۔یر کجھ نسند نہیں آیا۔۔"‬


‫ی‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫وال‪،‬ق‬
‫ل ی لذہ مجھ رہی ھی فا ل کا ا یے ساتھ عح یب لب و‬ ‫نےیایر نظروں سے اسے د کھنا‬
‫لہچہ تبھی ل بوں یر زیان ت ھیرپی یرم لہچے میں کہیے لگی‪،‬‬

‫"دیکھو ساپی۔۔۔"‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫" ل۔۔"‬
‫اس کے یو کیے یر قلذہ چند یل جپ ہوپی تھر کہا‪،‬‬

‫‪- 390 -‬‬


‫س‬
‫" لسینل۔۔دیکھو میں جاتنی ہوں تم اب یک اس وا قعے یر یاراض ہو۔۔۔مگر تم نقین کرو میں‬
‫نہت سرمندہ ہوں۔۔میں ماتنی ہوں علظی میری تھی یر۔۔"‬

‫"نہیں۔۔علظی میری تھی سراسر۔۔نہت یڑی علظی کی تھی میں نے۔۔اور اسی علظی کا ہی یو‬
‫مداوا کرنے آیا ہوں میں۔۔۔"‬
‫س‬
‫سناٹ یایرات سمیت کہیے لسینل کا اسارہ قلذہ اور ہناد سے کی دوسنی اور ان دویوں یر تھروسے‬
‫کا تھا لنکن اس کے الفاظوں نے چہاں قلذہ کو چوسگوار جیرت میں مینال کنا تھا وہی قلذہ کے تیجھے‬
‫آپی عنادیہ کو نےنقینی کے گھڑوں میں گھرایا‪،‬وہ اسنل ہوپی تھی۔۔۔‪،‬اسے قلذہ کی کہیں اس‬
‫ت س‬
‫ی‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ل کی یات نے قلذہ کے ہے گیے کی یسے نضد ق‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫دن کی یایوں یر زرا نقین یہ تھا یر ا ھی‬
‫س‬
‫کی تھی‪،‬دیوار کا شہارا لے کر چود کو ئمسکل کھڑا ر ک ھے وہ لسینل کو ششدہ نظروں سے دیکھیے‬
‫لگی‪،‬یو کنا وہ انشان شچ میں انشا تھا‪،‬کنا اتنی محیت میں ایدھی ہوپی وہ واقعی ایک علط شخص کا‬
‫اتیجاب کی تھی‪،‬زچمی دل یڑپ کر چیخ یڑا‪،‬دماغ میں چو یات آپی تھی اس کی جالف ورزی کریا دل‬
‫رویا تھا کہ ایک مرتیہ اس مح بوب شخص سے یہ یات یوچھی جانے‪،‬مگر دماغ نے صاف انکار کنا‬
‫تھا‪،‬جب وہ نفس کا عالم اتنی علظی کا مداوا کرنے ہی آیا تھا یو وہ کون ہوپی تھی اس سے کجھ‬
‫تھی یوچھیے والی‪،‬دل و دماغ کے درمنان جیسے چنگ چھڑی تھی اور تھر۔۔۔‪،‬دماغ چ یت گنا اسے‬
‫سمجھانے میں کہ وہ کبھی نہیں تھی اس شخص کی زیدگی میں‪،‬وہ شخص یو ضرف نہاں اس کی‬
‫‪- 391 -‬‬
‫ی‬
‫نہن سے اتنی علظی کا مداوا کرنے آیا تھا‪،‬میرتم آیکھوں سے اتنی انگلی کو د ھی ھی وہ‪،‬جس یں‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬

‫نہناپی گنی اس مح بوب کی ایگوتھی چھنانے کے عرض اس نے چوٹ کا نہایہ کر کے تنی لگاپی‬
‫دت ضنط سے سرخ ہونے چہرے سمیت وہ تنی ایار کر ریگ نکالی تھی اتنی انگلی سے‬ ‫تھی‪،‬س ِ‬
‫ساتھ ہی وہاں تنی ایک پییچ یر رکھ کر یلنی‪،‬‬

‫"ارے عنادیہ۔۔۔تم آگنی۔۔تھنی میری ساتنگ یو ہوگنی۔۔۔اب مجھے نہت تھوک لگی ہے یو جلو‬
‫کجھ کھانے ہیں۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ق‬
‫ل سے سادی کی چوسی اس قدر ھی کہ اب لذہ کا رویہ عنادیہ سے ھی اچھا ہونے لگا‬
‫تھا‪،‬تبھی چوسی سے کہہ کر وہ وہاں سے ک نقیئیریا کی طرف جانے لگی‪،‬اس ہی کے تیجھے عنادیہ تنا‬
‫س‬ ‫س‬
‫لسینل یر ایک نظر تھی ڈالے گنی وہاں سے تبھی قدم اتھایا لسینل اس پییچ کے یاس آیا‬
‫س‬
‫چہاں اس کی پیز نظروں نے عنادیہ چو ریگ ایار کر رکھیے دیکھا تھا‪،‬وہ ریگ اتھایا لسینل چ یب‬
‫میں رکھا‪،‬اسے اچھا لگا تھا عنادیہ کا ریگ کو انگلی میں رکھنا مگر اب وہ ک بوں ایاری تھی اسے‪،‬یہ‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫غ‬
‫ل کو مجھ یہ آیا گر اسے صہ سدید دال نی عنادیہ کی یہ خرکت‪،‬ان دویوں کو یچ کروانے‬
‫کے نعد وہ سکندر وال میں ڈراپ کریا نکال تھا‪،‬کار ڈرات بو کرنے ہونے ذہین دماغ ہمیشہ کی طرح کنی‬
‫س‬
‫سوچوں کے زد میں تھا‪،‬مگر لسینل مراد تھول گنا تھا کہ ابجانے میں ایک مرتیہ تھر ا تیے لفظوں‬
‫سے وہ اس یادان لڑکی کا دل یوڑ گنا ہے‪،‬‬
‫‪- 392 -‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫منگنی والی رات ہونے وا قعے کے نعد قلذہ کے کہیے یر مہناز تنگم نے نکاح کی نفرتب سکندر وال‬
‫میں ہی رکھواپی تھی‪،‬سکندر وال کو نہت چونصورپی سے شجایا گنا تھا‪،‬دویوں تھات بوں نے کوپی کمی یہ‬
‫رہیے دی تھی‪،‬سام سے مہمایوں کی آمد کا سلشلہ سروع ہوا یو رونقوں میں مزید اصافہ ہوا‪،‬چویکہ‬
‫نکاح جلد رکھایا گنا تھا تبھی مہناز تنگم نے ہیبم کو یارلر تھیجا قلذہ اور مطییہ کو لییے‪،‬ہناد کا آج موڈ‬
‫م‬
‫کافی خراب تھا اسے اتنا یلین کمل خراب ہویا دکھا ک بویکہ تنام آقس کے کام کے بخت دوسرے‬
‫س‬
‫م‬
‫ل کو مارنے کا‪،‬اور اب ہمایوں‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ملک گنا ہوا تھا تبھی اس کا واجد شہارا تھی چبم ہوچکا تھا‬
‫س‬
‫ل یہ شب یدلے کے لیے ہی کررہا ہے یو‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کو ویلکم کریا وہ کھڑا نہی سوچ رہا تھا کہ اگر کو‬
‫اس نے اب یک کوپی جاص اسارہ ک بوں نہیں دیا تھا ان لوگوں کو‪،‬ک بوں وہ اب یک جاموش‬
‫س‬
‫تھا‪،‬یارات بوں کی آمد یر اس نے لسینل کو یالسا مگر دریہ تنگم نے جب مہناز تنگم کو تنایا کہ وہ‬
‫کجھ ضروری کام کی وخہ سے تھوڑا لیٹ ہو جانے گا تب ہناد کو کجھ گڑیڑ ہونے کا اجشاس‬
‫ہوا‪،‬اس نے جلدی سے ہیبم کا ئمیر ڈایل کنا تھا یاکہ یوچھ سکے کہ قلذہ تھنک یو ہے یا۔۔۔‪،‬مگر‬
‫ہیبم کو قلذہ اور مطییہ سمیت ایدر آنے دیکھ ہناد کا دماغ الجھ کر رہ گنا‪،‬گر کو قلذہ تھی تھنک تھی‬
‫یو کنا ہوا تھا کہ وہ اتھی نہیں آرہا تھا‪،‬‬

‫‪- 393 -‬‬


‫ا تیے کمرے میں وہ آج تھی تنا کسی منک اپ کے نس مہناز تنگم کا دیا ہوا چونصورت سوٹ نہنی‬
‫تھی‪،‬انہوں نے اسے قلذہ اور مطییہ کے ساتھ تھیحنا جاہا مگر اس یار وہ صاف انکار کرگنی‪،‬اتھی‬
‫ڈرنسنگ مرر یر ا تیے سوگوار روپ کو دیکھ وہ یالوں کو کیجر میں مفند کرنے اس مح بوب کے یارے‬
‫میں سوچ رہی تھی‪،‬آج وہ شخص جسے اس نے یال کسی چواز نےبجاشہ جاہا تھا جس کی دیوایگی میں‬
‫وہ اتنا آپ تھال جکی تھی اس قدر کہ ہمیشہ ا ت یے سے نہلے اس کا سوجا آج وہی شخص اس کی‬
‫نہن کا ہمیشہ کے لیے ہونے جارہا تھا‪،‬دل میں درد اتھاہ گہرات بوں یک نہیچ چکا تھا مگر چونصورت‬
‫چہرہ یلکل سناٹ ر ک ھے وہ یڑی مہارت سے ایدر چبھیے زچموں کو دیا کی تھی‪،‬گہرا سانس تھرپی وہ‬
‫ن‬ ‫ی‬
‫ڈرنسنگ پینل یر رکھی لیسنک کو د ھی یو ہناز م کی یاکند یاد آپی کہ م از م آج اسے تنار د ھنا‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ک‬ ‫ک‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫جاہنی ہیں وہ‪،‬تبھی گالپی لیسنک اتھاکر وہ تنکھڑی ماتند ہوت بوں کے قدرپی گالپی ین یر لگانے اسے‬
‫گہرا کی‪،‬اتھی وہ لیسنک وانس رکھ رہی تھی جب کمرے میں عنادیہ کو کسی کی موچودگی کا اجشاس‬
‫ہوا‪،‬تیجھے مڑ کر وہ جاروں طرف نظر دوڑاپی مگر کسی کو یہ یاکر اتنا وہم سمجھ کر سر چھنکنی لیس نک‬
‫رکھی‪،‬ایک آخری نظر چود یر ڈا لیے کے عرض اس نے نگاہ اتھاپی یو نےساجیہ یری طرح‬
‫گ ھیراپی‪،‬یلنک ہڈی میں چہرہ چھنانے کوپی تھنک اس کے تیجھے کھڑا تھا‪،‬شہماپی نظروں سے اس‬
‫لمیے چوڑے مگر یراسرار شخص کو دیکھ وہ یلییے کا ارادہ کررہی تھی مگر تبھی اس کی سبواں یاک یر‬
‫رومال رکھا تھا وہ‪،‬عنادیہ یڑپ کر ا تیے ہاتھوں سے اس کے رومال ر ک ھے ہاتھ کو ہنانے کی‬

‫‪- 394 -‬‬


‫کوشش کرنے لگی مگر جلد ہی وہ ہوش کی دت نا سے کوسوں دور گہری پیند سوپی تھی‪،‬اس کے‬
‫چونصورت چہرے کے تنک ھے نقوش نغور دیکھنا مفایل یراسرارتت سے مشکرایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔‬
‫"ہنلو۔۔"‬
‫مہمایوں میں مصروف ہیبم میییجر کی کال آنے یر کنارے یر آیا کال رنسبو کنا‪،‬‬

‫"سر کنا آپ اتھی آقس آسکیے ہیں۔۔۔"‬


‫میییجر کجھ یرنشان لگ رہا تھا‪،‬‬

‫"ک بوں۔۔؟"‬

‫"سر کجھ یرایلم ہوگنی ہے۔۔۔(‪ ).....‬میربج ت بورو کی قایلز کھوگییں ہیں۔۔"‬
‫اس یار یرنشاپی کی وخہ تنایا تھا وہ‪،‬‬

‫"یو ڈھویڈو کہاں ہے۔۔۔وہ قایلز ائم بورت یٹ ہیں۔۔"‬

‫‪- 395 -‬‬


‫"نہت ڈھویڈی یر نہیں مل رہی۔۔۔آپ آجاپیں سر اتھی یلیز۔۔"‬
‫میییجر کے ریکونسٹ کرنے یر ہیبم نہت سوچ کر رصامندی طاہر کنا‪،‬تھر ہناد کو ات نظامات‬
‫سیبھا لیے کا کہہ کر نکال آقس کے لیے‪،‬‬

‫مہناز تنگم مطییہ کو اتنی کسی دوشت سے ملوارہی تھیں‪،‬ان سے یات کرپی مطییہ راچنلہ کے آکر‬
‫تنانے کہ قلذہ اسے یالرہی ہے ان لوگوں سے ایکشکبوز کر کے گنی‪،‬اتھی وہ چند قدم ہی آگے‬
‫یڑھی تھی کہ ہناد کے اجایک سا میے آنے یر یوکھالکر دو قدم تیجھے ہوپی‪،‬‬

‫"لڑکی ہمیشہ ہوا کے گھوڑے یر سوار رہنی ہو۔۔۔زرا آرام سے جال کرو۔۔۔اتھی اگر گرجاپی۔۔۔"‬
‫اس کے چونصوت چہرے کو گہری نظروں میں لیے ہناد یوال‪،‬‬

‫"و نسے آج غضب یو اتنا ڈھارہی ہو کہ ڈر ہے میں ہی کہیں یہ گرجاوں۔۔۔"‬


‫مطییہ کی جاموسی یر وہ مزید یو لیے کمینگی مشکراہٹ اچھاال تھا اس یر‪،‬لب شحنی سے ت بوشت کیے‬
‫مطییہ نے ت نفر سے اسے دیکھیے چند یل کی جاموسی کے نعد کہا‪،‬‬

‫"گرے ہونے لوگ ڈریا نہیں جا ہیے اور گرنے سے۔۔۔"‬


‫‪- 396 -‬‬
‫یہ شب کی موچودگی کا ہی ایر تھا کہ وہ یڈر پینی یولی‪،‬ہناد کی مشکراہٹ عاتب ہوپی اس کی یات‬
‫یر‪،‬‬

‫"ہمم۔۔۔یہ جاضر چواپی کہاں سے سنکھ لی۔۔"‬


‫مہمایوں کے ہچوم میں زیردسنی مسکان شجانے وہ یوال‪،‬الییہ آیکھوں میں غصے کی چھلک ایری‬
‫تھی‪،‬‬

‫"مجھے نہیں لگنا کہ میں آپ کے کسی تھی سوال کی چوایدہ ہوں۔۔"‬


‫سیحندگی سے کہہ کر وہ ہناد کے یرایر سے ہوکر قلذہ کی جاتب گنی مگر اتنی نست یر ہناد کی گھوری‬
‫واضح مجسوس ہوپی تھی اسے‪،‬‬

‫"کنا یول رہے تھے وہ۔۔؟"‬


‫مطییہ کے فرتب آنے یر قلذہ چو ان دویوں کو جب سے دیکھ رہی تھی سیحندہ لہچے میں یوچھی‪،‬‬

‫"اتنی قظرت سے مح بور قصول گوپی کررہے تھے۔۔چھوڑو انہیں تم تناؤ۔۔۔یالرہی تھی مج ھے۔۔"‬
‫پ‬
‫سر چھنک کر یولنی وہ یبھی قلذہ کے یاس‪،‬‬
‫‪- 397 -‬‬
‫"میں جاتنی ہوں وہ اتنی قظرت سے یاز نہیں آ پیں گے۔۔۔تبھی اس یایک یر جلد ہی ماما سے‬
‫یات کروں گی۔۔۔تم نس کوشش کنا کرو ان سے سامنا یہ ہو ئمہارا۔۔"‬

‫"میں اتنی طرف سے یوری کوشش کرپی ہوں قلذہ یر وہ۔۔۔"‬


‫ی‬
‫قلذہ کے یاسیت سے کہیے یر مطییہ کی آ کھیں تم ہوپی تبھی میرتم آواز ہونے یر یو لیے ہونے‬
‫یکدم جپ ہوپی‪،‬‬

‫"سوری مطییہ۔۔۔مج ھے سرمندگی ہوپی ہے کہ وہ میرے تھاپی ہیں۔۔"‬


‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫م‬
‫وہ اسے الجارگی سے د نی طییہ کے ہاتھ یر اتنا ہاتھ ر ھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اتھی کجھ دیر نہلے ہی اسے ہوش آیا تھا‪،‬تب سے وہ اس ابجان مگر وسنع چونصورت کمرے کو‬
‫گ ھیراپی نظروں سے دیکھ رہی تھی‪،‬وہ یو تنار ہورہی تھی تھر اجایک کنا ہوا کہ۔۔۔‪،‬اور تھر اس کے‬
‫الجھے ذہن میں وہ یراسرا شخص آیا جس نے یڑی آساپی سے اس کی یاک یر وہ رومال لگاکر اسے‬
‫نےہوش کنا تھا‪،‬کون تھا وہ شخص اسے اس یات سے کوپی لینا د ت نا تھا‪،‬اصل جان یو اس کی‬
‫‪- 398 -‬‬
‫چود کو ایک ابجان کمرے میں دیکھ کر جارہی تھی‪،‬ہوش میں آنے اس نے چود کو ایک چہازی‬
‫سایز تنڈ یر لینا یایا تھا اور اب دروازے کے یاس کھڑی وہ ہر تھوڑی دیر نعد زور زور سے دروازہ‬
‫بجارہی تھی۔۔‪،‬ایدر امڈیا ایک چنال سا آیا تھا اسے مگر اس کی نفی کرنے عنادیہ اب یاقاعدہ‬
‫پ‬
‫روہانسی ہوکر دروازہ بجانے لگی‪،‬جب ہاتھ دکھیے لگے تب وہ تنڈ یر وانس آکر یبھی‪،‬عح یب سی گھین‬
‫ہورہی تھی اس جگہ یر‪،‬دل جاہا تھا کہ نس کیسے تھی کر کے گھر نہیچ جانے‪،‬کجھ سوچ کر وہ اتھی‬
‫تھی تنڈ سے‪،‬اب کے رخ کمرے کے کنارے تنی قدآور کھڑکی یر تھا‪،‬وہاں سے نکلیے کا راشیہ‬
‫یالش کرپی عنادیہ کلک کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھلیے یر چو یکیے ہونے مڑی اور تھر۔۔۔‪،‬وہی‬
‫ہوا جس چنال کی نفی وہ کرنے لگی تھی‪،‬‬

‫سا میے کھڑا وہ مشکرانے ہونے عنادیہ کی جاتب دیکھ رہا تھا مگر عنادیہ۔۔۔‪،‬اس کی نےنقین‬
‫نظریں مفایل کھڑے شخص کی مشکراہٹ یر تھی‪،‬ایک سرد سی سیسنی مشکراہٹ ع نادیہ کو‬
‫ڈھاپی سال تیج ھے لے گنی‪،‬وہ اسی طرح یو مشکرایا تھا نہلے‪،‬انسی مشکراہٹ چو دل دھڑکانے کے‬
‫ساتھ ایک عح یب سا چوف دالد تنی‪،‬‬

‫"تھا گیے کا راشیہ ڈھویڈ رہی ہو جاتم۔۔؟"‬

‫‪- 399 -‬‬


‫مشکراہٹ کے یرعکس لہچہ کجھ یرم تھا چند قدموں کا قاصلہ طے کر کے وہ تھنک اس کے‬
‫سا میے آکھڑا ہوا‪،‬عنادیہ کا ذہن یری طرح الجھیے لگا تھا وہ شخص آج اس کی نہن کو ا تیے نکاح‬
‫میں لییے واال تھا تھر اب ک بوں اسے نہاں الیا تھا‪،‬‬

‫"ئمہیں تھا گیے کی یلکل ضرورت نہیں۔۔۔میں چود ئمہیں لے جلوں گا سکندر وال ل نکن۔۔"‬

‫"لنکن اس سے نہلے ایک نہاتت ضروری کام چو ئمہیں کریا ہے۔۔۔"‬


‫عنادیہ کو اس کی یات کجھ سمجھ یہ آپی تبھی یونہی اسے د یکھے گنی‪،‬‬

‫"کجھ دیر نعد ہمارا نکاح ہے۔۔۔ذہن نسین نہلے ہی کرلو یاکہ نعد میں کوپی ڈرامہ کرت یٹ یہ‬
‫ہو۔۔۔"‬
‫ی‬ ‫س‬
‫یہ یات عنادیہ کے سر یر کسی تم کی طرح گری تھی‪،‬تھنی آیکھوں سے لسینل کو د کھنی وہ‬
‫شیہ میں تھی کہ ساید کجھ علط سنا ہو‪،‬وہ جب یلییے لگا تبھی اس کے سا میے آپی عنادیہ نےنقین‬
‫نظروں سے اسے دیکھیے لگی‪،‬‬

‫‪- 400 -‬‬


‫"دیکھو تم جیسی ہو ونسی ہی اچھی ہو اب کوپی سادی کا چوڑا اس وقت النے سے یو رہا میں۔۔۔یو‬
‫یونہی سر یر دو تیہ رکھ کر آجایا۔۔۔"‬
‫ً‬
‫اس کی نظروں میں چھانے سوالوں کو چوب سمجھا تھا وہ مگر تب تھی ابجان پینا مذاقا یوال‪،‬‬

‫عنادیہ کی سمجھ سے یلکل یاالیر تھا کہ آخر وہ شخص کنا کریا جاہ رہا تھا اور ان شب کا کنا مظلب‬
‫تھا۔۔۔‪،‬کل یک یو وہ قلذہ سے نکاح کا چواہسم ند تھا تھر اب اجایک اس سے نکاح کبوں کررہا‬
‫تھا‪،‬کہیں وہ کوپی گبم یو نہیں کھنل رہا‪،‬اور اگر انشا ہے یو ع نادیہ یلکل نہیں جاہنی تھی اس‬
‫شخص سے نکاح کریا‪،‬قلذہ اس کے ات نظار میں سکندر وال یر ہوگی اور وہ نہاں یر ا تیے نکاح کی‬
‫تناری کرنے کا سوچ رہا تھا‪،‬اتنی سوچ سے نکلنی وہ تب چویکی جب دروازے کے یاہر تھاری آواز‬
‫اتھری‪،‬‬

‫"اونے۔۔۔شب ریڈی ہے آجا۔۔"‬


‫گ‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل اس آواز یر م کرایا عنادیہ کو اسارہ کریا یاہر جانے لگا گر ا لے ہی قدم یر رکا اسے نس‬
‫سے مس یہ ہونے دیکھ‪،‬تبھی یکدم عنادیہ کے سر یر دو تیہ رکھنا وہ اس کا ہاتھ یکڑیا یاہر کی طرف‬
‫قدم یڑھایا‪،‬‬

‫‪- 401 -‬‬


‫س‬
‫لسینل کے ہاتھوں سے اتنا ہاتھ نکا لیے کی کوشش کرپی عنادیہ تب رکی جب یاہر پین ابجان‬
‫س‬ ‫ی‬
‫مردوں سمیت ایک مولوی کو د کھی‪،‬یکدم گ ھیراکر وہ لسینل یر نظر ڈالی‪،‬‬

‫"تھروشہ ہے مجھ یر۔۔"‬


‫س‬
‫اس کی گ ھیراپی نظروں کا مقہوم سمجھ کر لسینل سیحندگی سے یوچھا جس یر عنادیہ کے ذہن میں‬
‫ً‬
‫مال واال واقعہ گھوما‪،‬فورا سے نہلے وہ سر نفی میں ہالپی‪،‬‬

‫"اچھی یات ہے۔۔"‬


‫ی‬‫پ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫س‬
‫ل اسے لیے صوقے یر بھا‪،‬عنادیہ کا دل کنا تھاگ جانے وہاں‬ ‫زی ِر لب یڑیڑایا‬
‫سے‪،‬یرنشان سی وہ ہمت یک یہ کریاپی سا میے یک دیکھیے کی تبھی نگاہ چھکانے پیبھے رہی‪،‬اس کی‬
‫س‬
‫خراب ہوپی جالت سے واقف لسینل نے مولوی صاجب کو جلد نکاح یڑھانے کا کہا تھا‪،‬اعجاب‬
‫س‬
‫و ق بول کے مراجل لسینل کے نعد جب عنادیہ کی جاتب آنے تب وہ تم ہوپی آیکھوں سمیت‬
‫سدید غصے میں اسے دیکھ رہی تھی‪،‬‬

‫"مولوی صاجب کجھ کہہ رہے ہیں۔۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے کسی طرح کا اسارہ یہ کرنے یر لسینل دھبمی آواز میں یوال مگر نےسود رہا‪،‬‬
‫‪- 402 -‬‬
‫"گر تم میری عندلیب ہو یو اس نکاح سے انکار نہیں کرو گی۔۔"‬
‫نہاتت ہلکی سرگوسی کہ عنادیہ سییے ہی چھ نکے سے کھڑی ہوپی‪،‬وہ نہیں جاتنی تھی کہ اجایک اتنی‬
‫ہمت کہاں سے آپی مگر وہ اب اور نہاں نہیں رہ سکنی تھی تبھی رخ گیٹ کی جاتب‬
‫س‬
‫کنا‪ ،‬لسینل سیحندہ نظروں سے اسے جایا دیکھ رہا تھا‪،‬گیٹ یک نہیچ کر وہ یاب یر ہاتھ رکھیے ہی لگی‬
‫تھی یر تبھی تھاہ کی پیز آواز سمیت اس کے یلکل یرایر گیٹ میں سوراخ سا ہوا‪،‬شہم کر پیزی‬
‫ی‬ ‫س‬
‫سے ا تیے قدم تیجھے لینی عندلیب چوفزدہ نظروں سے لسینل کو د کھی چو ہاتھ میں ریوالور تھامے‬
‫سرد نظریں اس یر گڑانے تھا‪،‬‬

‫"پینا۔۔۔لڑکی سے زیردسنی یہ کریں۔۔اگر وہ راضی نہیں یو یہ گناہ کے زمرے میں آنے گا۔۔"‬
‫اس کے گولی جالنے یر مولوی صاجب نے سمجھانے والے ایداز میں کہا‪،‬‬

‫"او پیرا چو کام ہے ضرف وہ کر۔۔۔زیادہ پیر پیر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔"‬
‫جب سے جاموش کھڑا وہ زیادہ دیر میہ تند یہ ہونے یر مولوی صاجب کو دیکھنا ازلی یدلجاظ لہچے میں‬
‫س‬
‫کہا جس یر لسینل ایک نظر ا تیے اس دوشت کو دیکھا‪،‬‬

‫‪- 403 -‬‬


‫"مولوی صاجب ہیں ئمیز سے یات کر۔۔۔"‬
‫اس شخص کا دوشت دمہوکا خڑیا دپی آواز میں اسے کہا ساتھ ہی مولوی صاجب سے معذرت‬
‫کرنے لگا‪،‬‬

‫س‬
‫دوسری جاتب کھڑی عنادیہ چو اب یک چوف سے لسینل کو دیکھ رہی تھی اس کے ریوالور گھوما‬
‫پ‬
‫کر اسارہ کرنے یر ا تیے من من ہونے قدموں یر جلنی وانس اس کے یرایر میں آکر یبھی‪،‬اس‬
‫س‬
‫یار تنا کسی رکاوٹ کے وہ سر ہالکر رصامندی طاہر کی‪ ،‬گییجر کرنے ہونے کییے ہی آنسو آیکھوں‬
‫سے لڑھکے‪،‬وہ جاہنی تھی اس شخص کو نےبجاشہ مگر جب سے مال میں اس نے اتنی علظی کا‬
‫اعیراف کنا تھا تب سے عنادیہ کا دل یلکل خراب ہوچکا تھا اس کی طرف سے‪،‬وہ نہیں کریا‬
‫ی‬ ‫س‬
‫جاہنی تھی اس شخص سے نکاح‪،‬ادھر لسینل کو سدید چوسگوار جیرت ہوپی اتنی آ کھیں تم ہوپی‬
‫پ‬
‫مجسوس کیے‪،‬اس یات کا اجشاس یو اسے آج ہوا تھا کہ جب مفایل یبھی نکل نف میں ہوپی تب‬
‫ی‬ ‫ً‬ ‫ی‬
‫اس کی آ کھیں نقینا ہلکی سی تم ہونے لگییں‪،‬یو کنا شچ میں وہ عندلیب ہی تھی‪،‬نسو سے آ کھیں‬
‫گ‬ ‫ً‬
‫ک‬ ‫ن‬
‫صاف کریا وہ اتھا جب عنادیہ نکاح کے فورا عد مرے کی طرف نی‪،‬‬

‫ی‬
‫"آہا۔۔نکاح کی چوسی میں آ کھیں تھر آ پیں یہ پیری۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی آیکھوں میں ئمی کی چھلکی دیکھ مفایل مضبوغی اقسوس طاہر کنا‪،‬‬
‫‪- 404 -‬‬
‫"نس۔۔۔ہوگنا یا تھر سروع۔۔"‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل م کرایا‪،‬‬ ‫اس کی قظرت سے واقف‬

‫"ایک یات یو تنا۔۔۔"‬


‫منارک یاد د تیے ہونے اس نے یوال‪،‬‬

‫"کنا۔۔"‬

‫"کمرے میں اتنی دیر تند رہیے کے نعد تھی پیری ت بوی نے تھا گیے کی کوشش نہیں کی۔۔۔"‬
‫وہ یوں یوچھا جیسے کوپی نہاتت ہی سیحندہ سوال ہو‪،‬‬

‫"میں نے نہلے ہی ئمام را سیے مشدود کر ر ک ھے تھے۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل رسات یت سے تنایا‪،‬‬ ‫اسے سوچنا‬

‫"اچھا۔۔میری والی یو تھاگ گنی تھی۔۔"‬


‫‪- 405 -‬‬
‫س‬
‫لسینل کے چواب یر وہ جیرت کے زد میں اتنی کی گنی کڈتیینگ کا سوچنا زی ِر لب یڑیڑایا‪،‬‬

‫"کنا۔۔پیری ت بوی تھاگ گنی۔۔"‬


‫مفایل کا دوشت اتھی مولوی صاجب کو یاہر چھوڑ کر آیا تھا‪،‬تبھی اس کی یڑیڑاہٹ سییے یر‬
‫جیران ہوا‪،‬‬

‫"انے گدھے۔۔۔تھاگے پیری ت بوی۔۔۔یات کجھ اور ہو یہ تنانے کجھ اور ہیں۔۔۔"‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫س‬
‫ل تھا ہی یں‪،‬‬ ‫م‬
‫ل کی طرف بوخہ ہوا گر وہاں‬ ‫اسے کوسیے سناکر چہرہ نگاڑیا وہ اب‬

‫"گنا ت بوی کے یاس۔۔"‬

‫"اب ہم تھی جلیں۔۔"‬


‫مفایل کے یو لیے یر اس کا دوشت مزید یوال یو سر اتنات میں ہالیا وہ نکال ا تیے دوسبوں کو لے کر‬
‫وہاں سے‪،‬‬

‫‪- 406 -‬‬


‫س‬
‫کمرے کے سا میے آنے ہی لسینل نے یاب گھمایا مگر اس کی سوچ کے مظایق دروازہ ایدر سے‬
‫الک کرلنا گنا تھا‪،‬تبھی ل بوں کو دات بوں میں دیایا وہ چ یب سے کی نکاال‪،‬کجھ ہی دیر نعد وہ دروازہ‬
‫کھولے ایدر داجل ہوا چہاں اسے دیکھیے ہی عنادیہ تنڈ سے اتھی‪،‬تھنگے گال طاہر کررہے تھے کہ‬
‫وہ رورہی ہے‪،‬‬

‫"گھر نہیں جلنا۔۔"‬


‫یال کی سیحندگی سمیت وہ یوچھا جس یر عنادیہ نہلے یو نےنسی سے اسے گھوری تھر میہ ت ھیر کر قدم‬
‫نہ س‬
‫ل نے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یڑھاپی اس کے یرایر سے یاہر نکلیے لگی‪،‬کمرے سے یاہر قدم رکھیے سے لے ہی‬
‫اسے یازو سے یکڑ کر چھنکے سے ا تیے سا میے کنا‪،‬عنادیہ کا دل گ ھیرایا تھا‪،‬شہم کر مفایل کے‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫ل س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چ‬
‫سناٹ یایرات د نی وہ یازو ھڑوانے گی‪ ،‬ل نے ھی زیادہ یرنشان یہ کنا اور ا کے یازو کو‬
‫چھوڑ کر اب عنادیہ کا ہاتھ یکڑا‪،‬چ یب میں رکھی وہی ڈائم نڈ کی ریگ نکالنا وہ ایک مرتیہ تھر عنادیہ‬
‫کی انگلی میں نہنانے لگا‪،‬‬

‫"کوشش کریا کہ اب یہ ئمہاری انگلی سے ایرے وریہ اس چونصورت ہاتھ کو یازو سے علیجدہ‬
‫ہونے میں زرا دیر یہ لگے گی۔۔"‬

‫‪- 407 -‬‬


‫اس کا سیسنی جیز لہچہ عنادیہ کے اوسان چظا کرگنا‪،‬گ ھیراکر وہ اتنا ہاتھ مفایل کے ہاتھ سے نکا لیے‬
‫س‬
‫کی کوشش کرنے لگی‪،‬اس یات لسینل کی کشادہ پیشاپی یر سکییں یڑیں‪،‬‬

‫"ئمہیں کاٹ رہا ہوں چو اتنا یڑپ رہی ہو۔۔"‬


‫اس کے مشلشل ہاتھ چھڑانے کی کوشش یر وہ چوٹ کنا لنکن عنادیہ کی مزاچمت میں زرا فرق‬
‫یہ یڑنے دیکھ وہ اس کے ہاتھ یر گرقت مضبوط کنا اجایک کھییجا اسے‪،‬چملے کے لیے یہ تنار وہ‬
‫سندھا مفایل کے چوڑے سییے سے آلگی‪،‬‬

‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ل کو د نی وہ جلدی سے اس سے دور ہونے گی‪،‬دھڑک بوں نے یکدم‬ ‫شہماپی نظروں سے‬
‫سور یریا کنا چنکہ سانسیں پیز ہوپیں‪،‬‬

‫"آیکھوں یر اچیی یت کا چول خڑھا لییے سے وہ محیت نہیں چ ھپ جانے گی چو چیخ چیخ کر ئمہارے‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬
‫ایدر کا جال آسکار کرد تنی ہے۔۔ ل مراد کی محیت ا نی مزور یں کہ ئمہارے انکار یر مان‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫جانے کہ تم وہ نہیں چو میں سمجھنا۔۔۔میں ئمہیں مجسوس کرسکنا ہوں عندلیب۔۔"‬
‫س‬
‫گہری نظروں سمیت اس کا گالپی یڑیا چہرہ دیکھ لسینل اسے یاور کرایا تھا‪،‬‬

‫‪- 408 -‬‬


‫ھ‬ ‫ج‬‫ب‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫سلگ کر نےنسی سے لسینل کو د نی وہ چہرہ موڑ کر اتنا غصہ طاہر کی اور لی مرتیہ کی‬
‫ھ‬
‫س‬
‫طرح اس یار تھی لسینل کی نظروں کا مچور ضراخی دار گردن یر تیے وہ دو یل ہونے چو اسے اکیر‬
‫ُ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫لس‬ ‫ل م س‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ل کی آ ھوں یں چمار ایرا تھا اور اس کی فند گردن یر کنا‬ ‫ی‬ ‫نےجین کرد تیے‪ ،‬مچوں یں‬
‫وہ یرمی سے ان یلوں یر عناپی لب رکھ گنا‪،‬عنادیہ کو چھ نکا کھا کر رہ گنی‪،‬یورے وچود میں جیسے‬
‫س‬
‫کرتٹ سا دوڑا تھا‪،‬سانسیں اتھل تبھل ہونے لگیں یو وہ گ ھیراہٹ کے مارے لسینل کا یازو‬
‫شحنی سے دیوچ کر اس سے قاصلہ قاتم کرنے لگی‪،‬مفایل کی فرتت سے زیادہ اس کا سلگنا لمس‬
‫جان ل بوا یاتت ہوا تھا‪،‬اتنی گردن جلنی مجسوس کیے وہ رونے کو ہوپی اور تبھی وہ لب گردن سے‬
‫ہنایا اس سے تھوڑا قاصلے یر کھڑا ہوا‪،‬‬

‫عنادیہ کا ت نفس یگڑا‪،‬سییے ہر ہاتھ رکھنی وہ چود کے زیدہ ہونے کا نقین کرپی مفایل کو گھور یک یہ‬
‫سکی‪،‬سرم سے عارض دہک ا تھے تھے‪،‬تھاری ہوپی المنی یلکوں کو چھکانے وہ ئمسکل چود کو‬
‫س‬
‫سیبھالی‪،‬اس کی خراب ہوپی جالت یر مشکرایا لسینل سیحندگی کا لنادہ اوڑھے یوال‪،‬‬

‫"جلیں۔۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 409 -‬‬
‫س‬
‫"یات ہوپی لسینل سے۔۔"‬
‫یہ کوپی چوتھی یار مہناز تنگم یوچھ رہی تھیں دریہ تنگم سے جس یر مایوسی سے نفی میں سر ہالپی وہ‬
‫ہر یار دہراپی یات یولیں‪،‬‬

‫"کال رنسبو نہیں کررہا ہے وہ۔۔"‬


‫مہناز تنگم کو سدید یرنشاپی نے آل نا‪،‬‬

‫"مولوی صاجب کب سے پیبھے ہونے ہیں۔۔۔مہمان ات نظار کررہے ہیں نکاح کا۔۔آخر کہاں‬
‫ہے وہ۔۔"‬
‫دریہ تنگم کو یرنشاپی سے ت ناپیں وہ آخر میں یڑیڑاپیں یر تبھی ان کی نظر گیٹ یر یڑی‪،‬مہناز تنگم‬
‫س‬
‫کی نظروں میں یک تنک جیرپیں اتھریں سا میے کھڑے لسینل اور اس کے یرایر میں عنادیہ کو‬
‫دیکھ‪،‬اسے یو وہ تھول ہی گییں تھیں۔۔۔‪،‬‬

‫اور تھر مہناز تنگم کے ساتھ جس جس کی نظر گیٹ یر یڑی سبھی اتنہاپی جیرت کے عالم میں ان‬
‫س‬
‫دویوں کو دیکھیے لگے‪ ،‬لسینل ان شب میں جاص ظور یر ہناد کی نظروں کو تھریور ابچوانے کریا‬
‫یونہی مضبوطی سے عنادیہ کا ہاتھ تھامے رکھا‪،‬‬
‫‪- 410 -‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔یہ کنا۔۔"‬
‫شب سے نہلے دریہ تنگم کا ارنکاز یویا تھا‪،‬‬

‫"زیادہ نہیں گرتنی۔۔۔نس آپ کی نہو لے کر آیا ہوں۔۔۔یلکل ونسی جیسی آپ جاہنی‬


‫تھیں۔۔"‬
‫ان شب یر ایک نظر ڈالنا وہ یرسکون سا دریہ تنگم کو تنایا‪،‬اس کے یوں یو لیے یر عنادیہ کا سر‬
‫اتھیے سے انکاری ہوا‪،‬‬

‫"کنا مظلب نہو۔۔۔"‬


‫س‬
‫قلذہ چو نےنقینی کے عالم میں مجسمہ تنی تھی یکدم لسینل کے الفاظوں نے اسے کنی جدسات‬
‫میں گھرایا‪،‬تبھی وہ چیخ کر یولنی اتنی جگہ سے اتھی‪،‬‬

‫عنادیہ کا ہاتھ مشلشل اس کے تھاری ہاتھ میں مفند دیکھ ہناد کو طیش آیا تھا‪،‬‬

‫"میری نہن کا ہاتھ چھوڑ۔۔"‬


‫‪- 411 -‬‬
‫س‬
‫اس کے سا میے آیا وہ یاقاعدہ لسینل کے ہاتھ سے عنادیہ کا ہاتھ چھڑوانے کے ارادے میں تھا‬
‫س‬
‫مگر عنادیہ کو تھرپی سے ا تیے تیجھے کریا لسینل یآساپی اس کی کوشش یاکام تناگنا‪،‬‬

‫"جیردار چو میری ت بوی کو ہاتھ لگایا۔۔"‬


‫جس اسیخفاق سے وہ یہ الفاظ ادا کنا تھا وہاں کھڑے سبھی نقوس کو نکایک ساتپ سویگھ گنا‪،‬‬

‫"ت بوی۔۔"‬
‫مہناز تنگم ششدہ سی یڑیڑاپیں‪،‬‬

‫"خی آ تنی۔۔آ۔۔آپی مین امی۔۔"‬


‫س‬
‫انہیں کہنا لسینل دل جالنے والی مشکراہٹ ل بوں یر شجایا ہناد کو دیکھا جس کا چہرہ اس یات‬
‫یر یل میں انگارہ ہوا‪،‬‬

‫"کنا یکواس ہے یہ۔۔"‬


‫چیخ کر کہنی قلذہ اس کے سا میے آپی‪،‬‬

‫‪- 412 -‬‬


‫"یہ۔۔یہ۔۔ئمہاری ت بوی۔۔نہیں ہے۔۔تم۔۔ئمہارا نکاح مجھ سے ہویا ہے۔۔اتھی۔۔جلو‬
‫جلدی۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تب س‬
‫ل کو کہہ کر وہ اسکا ہاتھ‬ ‫اس کا دماغ یہ شب ق بول کرنے سے انکاری ہورہا تھا ھی‬
‫چن س‬
‫ی‬
‫ل فر سے اسے د کھا‪،‬‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یکڑنے لگی‪،‬یکدم اس کا ہاتھ ھ کنا‬

‫س‬
‫" لسینل کنا تم سندھے لفظوں میں سمجھا سکیے ہو کہ معاملہ کنا ہے۔۔۔"‬
‫جب سے سیحندہ کھڑی دریہ تنگم نے یوچھا‪،‬‬

‫"گرتنی سندھے لفظوں میں ہی ت نایا ہے کہ ت بوی ہے یہ میری۔۔نکاح کنا ہے کجھ ہی دیر نہلے‬
‫ہم نے۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات یر چہاں اس کی نست یر کھڑی عنادیہ نے غصے میں اسے گھورا وہی ہناد یکدم‬
‫دھاڑنے ہونے اس کا کالر یکڑنے لگا‪،‬‬

‫"کمییے پیری ہمت کیسے ہوپی میری نہن کے ساتھ انشا کرنے کی۔۔۔"‬

‫‪- 413 -‬‬


‫"اتنی نہن یر آیا یو مرخی لگ گنی۔۔۔میں نے یو تھر تھی نکاح کنا ہے۔۔کم از کم پیری طرح‬
‫ا تیے تھاپی کی ہی عزت یر تنا رسیے کا لجاظ کیے نظریں یو نہیں ڈالیں۔۔۔"‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫م‬
‫ل اتنہاپی د می آواز یں یوال ساتھ ہی‬ ‫کالر یک آنے اس کے ہاتھ وہ شحنی سے دیوچ کر‬
‫اسے چھ نکا دے کر تیجھے کنا‪،‬ہناد کا سارا دیدیہ و غصہ چھاگ کی طرح پیبھا‪،‬مفایل کو کیسے معلوم‬
‫س‬
‫ہوپی تھی اس کی مطییہ یر نہری نظریں‪ ،‬لسینل کے آیکھوں میں واضح وارتنگ دیکھ وہ نےنسی‬
‫سے لب تھییجا‪،‬اسے شب کے سا میے زیادہ اتنی عزت عزیز تھی‪،‬آخر کو اتنا یامور یزنس مین چو نہرا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"تم ایک ئمیر کے دھوکے یاز انشان ہو۔۔۔نہاں تم آنے ہی قلذہ سے یدلے کے مفضد سے‬
‫تھے۔۔۔پینی کی چوسی دیکھ کم غفل ہوپی تھی میں چو ہناد کے آ گاہ کرنے یر تھی کان یہ‬
‫س‬
‫دھرے۔۔۔نہت گھینا انشان ہو تم لسینل مراد۔۔۔"‬
‫س‬ ‫ی‬
‫قلذہ کو دکھ سے د کھنی مہناز تنگم نکل نف تھرے لہچے میں یولیں جس یر لسینل جاموش رہا‪،‬‬

‫"اور تم۔۔۔اتنی زیدگی سبوارنے سے نہلے نہن کا چنال یہ آیا ئمہیں۔۔۔نقین نہیں آیا کہ تم‬
‫میری پینی ہو۔۔۔"‬

‫‪- 414 -‬‬


‫اس یذل نل سے زمین یر گڑھیے کو ہوپی‪،‬اس کا خی جاہا تھا کہ اتنی ماں کی مالمت‬
‫عنادیہ اجش ِ‬
‫تھری نظروں سے بحیے کے لیے وہ کوسوں دور جلی جانے‪،‬‬

‫"ساپی۔۔تم۔۔تم مذاق کررہے ہو یا۔۔۔یلیز کہو یا یہ شب یرت نک کنا ہے تم نے میرے‬


‫ساتھ۔۔۔یولو۔۔۔"‬
‫جب سے ششدہ کھڑی قلذہ اب تھنگی آیکھوں سمیت اس سے عاخزایہ ایداز میں یولی لنکن‬
‫س‬
‫لسینل کی تھر تھی سیحندہ نظروں نے اس تھنایک چف نفت سے نضدیق کی‪،‬‬

‫"تم انشا نہیں کرسکیے۔۔۔ساپی۔۔میں جان لے لوں گی ئمہاری۔۔"‬


‫نےاجینار جلق کے یل جالپی وہ یاگل سی لگیے لگی‪،‬‬

‫"می۔۔میں ئمہیں مار ڈالوں گی۔۔تم نے مجھے دھوکہ دیا قلذہ سکندر کو۔۔ساپی تم نہت بجھ ناؤگے‬
‫اور ئمہارے ساتھ وہ تھی۔۔نہن ہو کر ت یٹ یر چھرا گھوتنا ہے تم نے۔۔۔نےسرم لڑکی۔۔"‬

‫"اتنی قصولنات اتنی ہی رکھو جینا نعد میں چم نازہ تھگت سکو اس کا۔۔جلیں گرتنی۔۔"‬
‫س‬
‫اسے کرجت لہچے میں کہنا لسینل دریہ تنگم کو یول کر عنادیہ کو ساتھ لے جانے لگا‪،‬‬
‫‪- 415 -‬‬
‫"نہی خرکات ہیں۔۔۔جن سے ئمہاری یرت یت دکھنی ہے۔۔۔"‬
‫جانے جانے وہ رکا تھا مہناز تنگم کے کاری ضرب لگانے یر‪،‬پیشاپی اور گردن کی رگیں اسنعال یر‬
‫قایو یانے کے جکر میں تھولیں تھیں‪،‬داتت یر داتت چمانے وہ یلٹ کر ئمسجر سے ہیشا‪،‬‬

‫"میری یرت یت یر انگلی اتھانے سے نہلے ا تیے دو بچوں یر ن ِظر یاپی کرلیں یو معلوم ہوجانے گا‬
‫خراب یرت یت کہیے ِکسے ہیں۔۔۔"‬
‫انہیں چواب د ت نا وہ مڑا‪،‬دریہ تنگم جاموش تھیں کہ انہیں تھروشہ تھا ا تیے یونے یر‪،‬وہ جاتنی‬
‫م‬ ‫ع‬ ‫ُ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫تھ س‬
‫س‬
‫ل ال سی چواز کے کجھ علط یں کر کنا۔۔۔‪،‬اور اس کے اِ س اتنہاپی ل کے‬ ‫ک‬ ‫یں‬
‫تیجھے تھی ضرور کوپی وخہ ہوگی‪،‬‬

‫"ماما اسے روکیں۔۔وہ انشا نہیں کرسکنا۔۔۔ساپی تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکیے۔۔"‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫چ‬
‫س‬
‫ل کو وہاں سے عنادیہ میت جایا د کھ اس کے‬ ‫یکدم دہست تھرے ایداز میں یحنی قلذہ‬
‫ً‬
‫تیجھے جانے لگی مگر مطییہ نے فورا اسے بھا لیے کے عرض کڑا‪،‬ا نی دوشت کی یہ جالت د کھ‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫س‬
‫اسے سدید دکھ نے آلنا‪،‬مہناز تنگم نے تھی ع نادیہ کو یہ روکا‪،‬وہ نےجد یدگمان ہوپی تھیں اتنی الڈلی‬
‫پینی سے‪،‬دل میں نکل نف ہوپی تھی اس کے عمل سے تبھی اسے جانے دیا‪،‬ان لوگوں کے‬
‫‪- 416 -‬‬
‫جانے کے نعد وہ مہمایوں سے معذرت کرپیں قلذہ کی طرف یڑھیں جس کا وجست سے چیحنا تنا‬
‫دے رہا تھا کہ وہ آنے میں نہیں ہے‪،‬دوسری جاتب جاموش ئماساپی تنا ہناد اس یار عہد کنا تھا‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل مراد کو اتنہاپی دردیاک موت مارنے کا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ی‬‫تنگ تیج پ‬ ‫س‬


‫ا تیے مییسن یر کار روکنا وہ ایک نظر دریہ تنگم کو دیکھا‪،‬اس کا اسارہ ھییں دریہ م ھے ھی‬
‫ب‬ ‫مج‬
‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫عنادیہ سے مجاطب ہوپیں چو سیسے سے یاہر د نی یار یار آ ھوں یں آپی می کو صاف کررہی‬
‫م‬ ‫ک‬
‫تھی‪،‬دریہ تنگم اسے ساتھ لے کر ایری تھیں ساتھ ہی ایدر گییں‪،‬ان دویوں کے جانے کے نعد‬
‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل سیٹ کی نست سے تنک لگانے آ کھیں مویدا‪،‬سکندر صاجب کے اجشان تھے اس یر‬
‫جس کے بخت وہ مہناز تنگم سے یدئمیزی نہیں کریا جاہنا تھا مگر ان کے یرت یت یر ضرب لگانے‬
‫سے وہ چود یر قایو یہ یاسکا‪،‬وہ جاتنا تھا کہ انہیں دکھ ہوا ہوگا اس کے عمل سے لنکن مح بور تھا کہ‬
‫بجسنا تھی نہیں جاہنا تھا ا تیے مجرموں کو‪،‬‬

‫‪- 417 -‬‬


‫کافی دیر یک پیبھے رہیے کے نعد وہ کار سے ایرا تھر فرمان کو کار یارک کرنے کے عرض جاپی د ت نا‬
‫ً‬ ‫پ‬
‫مییسن میں داجل ہوا‪،‬ایدر آنے کے نعد اس نے سا میے دریہ تنگم کو دیکھا چو صوقے یر یبھی نقینا‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫م ن تھ س‬
‫اس ہی کی ی ظر یں‪ ،‬ل نے ا ک السی ظر ہر طرف دوڑاپی‪،‬‬
‫م‬ ‫ی‬

‫"ئمہارے روم میں تھچوادیا ہے اسے اسماء کے ساتھ۔۔۔"‬


‫اس کی نظروں کو سمجھ کر دریہ تنگم نے کہا جس یر گہرا سانس تھر کر وہ ان کے یاس پیبھا‪،‬‬

‫"ئمہارے ق نضلے مجھے کبھی علط نہیں لگے کبویکہ ہر ق نضلے کے تیج ھے الزمی ایک وخہ ہوپی‬
‫ہے۔۔۔میں یہ نہیں کہنی کہ ع نادیہ مجھے نسند نہیں۔۔یلکہ وہ معصوم لڑکی مج ھے نہت‬
‫تھاپی۔۔۔لنکن تنایا جاہو گے کہ اگر سادی اس سے کرپی تھی یو اس بچی کے ساتھ کبوں علط‬
‫کنا۔۔۔"‬
‫اس یات سے ان کا اسارہ قلذہ کی جاتب آخر میں گنا تھا‪،‬‬

‫" جسے اب بچی کہہ رہی ہیں۔۔۔وہ ہی اصل خڑ ہے ان شب کی۔۔۔گرتنی مجھ سے کوپی تھی‬
‫س‬
‫یدگمان ہو مجھے زرا فرق نہیں یڑیا یر آپ۔۔۔آپ مجھ یر نقین رکھیے گا کہ آپ کا لسینل تنا وخہ‬
‫کبھی کجھ علط نہیں کرے گا۔۔"‬
‫‪- 418 -‬‬
‫ان کے ہاتھوں کو تھامنا وہ سیحندگی سے کہا جس یر دریہ تنگم کجھ یل کی جاموسی کے نعد آسودگی‬
‫سے مشکراپیں‪،‬‬

‫"جاؤ اویر۔۔۔وہ سدید یاراض لگ رہی ہے تم سے۔۔"‬


‫س‬
‫ان کے گال تھیبھناکر کہی یات یر لسینل یرمی سے مشکرانے ہونے کھڑا ہوا‪،‬اب اس کے‬
‫قدم ا تیے کمرے کی جاتب تھے‪،‬‬

‫وہاں سے گزرپی اسماء کو دیکھ ایک بجلی کا کویدا سا ل نکا تھا ذہین دماغ میں اور نےساجیہ اسماء‬
‫کو نکارا تھا وہ‪،‬‬

‫"خی صاجب۔۔"‬

‫"عنادیہ کمرے میں ہے۔۔۔"‬


‫جا تیے یوچھیے وہ لفظوں کو یرت یب د تیے کی مہلت لییے کے لیے وہ یہ سوال یونہی یوچھا‪،‬‬

‫"خی۔۔"‬
‫‪- 419 -‬‬
‫"اچھا تھنک۔۔آ۔۔تم لے کر گنی تھی یا اسے روم میں۔۔"‬

‫"خی یلکل۔۔صاجب پی پی کو میں ہی لے کر گنی تھی۔۔"‬

‫"تم نے نہلے کبھی دیکھا ہے کنا اسے۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے اس سوال یر اسماء جپ سی ہوپی تھر یولی‪،‬‬

‫"نہیں صاجب۔۔نہلی مرتیہ دیکھ رہی انہیں۔۔۔یر صاجب نہت تناری سی ہیں پی پی۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫یہ لسینل کا یرم ہویا رویہ تھا کہ وہ آخر میں چوسی سے یولی‪،‬لنکن اس یار لسینل الجھیے لگا‪،‬وہ‬
‫سمجھا تھا کہ دریہ تنگم اس سے یہ یات چھنارہی ہوں گی مگر تھر اسماء کا تھی ابجان ایداز‪،‬اسے‬
‫جانے کا اسارہ کرکے وہ پیشاپی مشلنا روم میں داجل ہوا‪،‬‬

‫پ‬
‫اس کے کشادہ وسنع چونصورت روم میں یبھی عنادیہ جب سے سوچوں میں عوطہ زن تھنگے‬
‫گالوں کو صاف کررہی تھی‪،‬اسے یار یار مہناز تنگم کی مالمت تھری نظریں یاد آرہی تھیں‪،‬کینی‬
‫یدگمان ہوجکی ہوں گی وہ اس سے کہ اسے ر کیے یک کا یہ کہا اسے سدت سے ہنک کا اجشاس‬
‫‪- 420 -‬‬
‫ہورہا تھا‪،‬کاش کہ وہ مرنے کو ہی یرچیح د تنی اس شخص کے نکاح میں آنے سے نہلے‪،‬اسے غصہ‬
‫س‬
‫آیا ا تیے ڈر یر چو ریوالور کو دیکھیے ہی اس کے وچود میں دوڑا تھا‪،‬ایدر آنے لسینل یر نظر یڑنے ہی‬
‫اس کے رونے یایرات یدل کر شخت ہونے‪،‬اتنا رخ دوسری طرف موڑ کر وہ واضح اعالن کی تھی‬
‫ی س‬
‫ل مڑ کر گیٹ تند کنا جس‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اس سے کسی تھی قسم کی یات یک یہ کرنے کا‪،‬اسے د کھ‬
‫یر عنادیہ کا دل نےساجیہ گ ھیرایا‪،‬مفایل کے ا تیے طرف یڑھیے مضبوط قدموں کو چور نظر سے‬
‫گ‬‫ن‬ ‫ک‬‫س‬ ‫ئ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫گ‬
‫د نی وہ چود کی ھیراہٹ یر ل قایو یانے کی کوشش کیے ا تیے ہا ھوں کی ا لبوں کو ایک‬
‫پ‬
‫دوسرے میں شحنی سے تھیشانے یبھی تھی‪،‬تب یات اور تھی مگر اب تنا رشیہ اور اس شخص کی‬
‫چند گھییے نہلے کی گنی نےیاک جشارت یر وہ کافی ڈر جکی تھی‪،‬‬

‫"ئمہارا غصہ چق بجاتب ہے۔۔۔"‬


‫صوقے سے چند دوری کے قاصلے یہ ا تیے چہازی سایز تنڈ یر پیبھنا وہ سیحندگی سے کہا‪،‬عنادیہ نے‬
‫سلگی نظروں سے اسے گھورا‪،‬‬

‫"میں نے چو کنا کجھ سوچ کر ہی کنا۔۔۔وصاجت د تیے کا اتھی موڈ نہیں۔۔۔قلجال تم جییج‬
‫کرلو۔۔۔کیڑے وارڈروب میں رکھوادنے ہیں۔۔۔"‬

‫‪- 421 -‬‬


‫وہ کافی الجھا ہوا تھا اتھی‪،‬اس ہی لیے زیادہ کجھ کہیے کے بجانے یہ یول کر اتھا‪،‬ساتھ ہی پیرس‬
‫یر گنا‪،‬وہ چو سمجھ رہی تھی کہ نہاں پیبھ کر اب مفایل اس سے معافی ما یگے گا سدید جیران ہوپی‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫غ‬
‫اس کی نست کو د ھی‪ ،‬صہ یو نےبجاشہ آرہا تھا گر لجال کجھ کر یں نی ھی ھی اتھ کر‬
‫وارڈروب کی جاتب گنی‪،‬وہاں سبھی تیے ڈرن ِسس ہینگ تھے‪،‬ان میں سے ایک سادہ سوٹ لے کر‬
‫عنادیہ ڈرنسنگ روم میں داجل ہوپی‪،‬تھر کجھ ہی دیر میں جییج کر کے یاہر آپی وہ صوقے کا رخ‬
‫ی‬
‫کی‪،‬چود یر طر نقے سے دو تیہ لیے وہ وہی یر لیٹ کر آ کھیں موید گنی‪،‬تبھی غفان سے یات کرنے‬
‫س‬
‫کے نعد وانس روم میں آیا لسینل چونکا اسے صوقے یر سونے دیکھ‪،‬‬

‫"عنادیہ۔۔"‬
‫وہ نکارا تھا اسے مگر مفایل ان سنی کیے سوپی تنی رہی‪،‬‬

‫"اتھو لڑکی۔۔"‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل نے اس کے فرتب آکر نکارا گر نےسود‪،‬وہ چوب مجھا تھا اس کا سونے تیے‬ ‫اس یار‬
‫ی‬
‫رہیے کا ڈرامہ تبھی اب چھک کر اسے یازوؤں میں لینا تنڈ یر آیا‪،‬عنادیہ کی آ یں تٹ سے وا‬
‫ھ‬ ‫ک‬
‫س‬
‫ہوپیں‪،‬گ ھیراکر اس کے آہنی یازوؤں سے آزاد ہونے کے لیے وہ لسینل کے سییے یر ہاتھ ماری‬
‫تھی مگر سرٹ کے اویری پئیز کھلے رہیے یاعث جب دودھنا ہاتھوں میں سییے کے یالوں کی چبھن‬
‫‪- 422 -‬‬
‫مجسوس ہوپی یو وہ یری طرح یوکھالپی ُسرخ یڑی‪،‬یازک وچود لرز کر رہ گنا جسے بچوپی مجسوس کریا‬
‫س‬
‫لسینل آہسنگی سے اسے تنڈ یر تبھایا‪،‬‬

‫"آ تندہ تنایا یہ یڑے۔۔"‬


‫اس کی گ ھیراپی جالت دیکھ وہ شخت لہچہ اجینار یہ کنا‪،‬الییہ ایداز یاور کرانے واال تھا‪،‬اسے ا تیے‬
‫یرایر میں لیییے دیکھ عنادیہ کی ک نفنات عح یب ہونے لگی‪،‬یادان دل کی دھڑکییں عروج یر‬
‫ی‬
‫تھیں‪،‬گالپی ل بوں یر زیان ت ھیرپی وہ ایک نظر صوقے کو د کھی‪،‬اجایک شب کجھ ہونے کے یاعث‬
‫اس کا دماغ انکاری تھا اتنی جلدی یہ ایکسی یٹ کرنے سے‪،‬اسی لیے عنادیہ کو کجھ قاصلے یر ر ک ھے‬
‫ُ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫یو سئیر صوقے یر سویا ہی مناشب لگا‪،‬ہمت کر کے وہ ا ھی ھی تنڈ سے ل کن اس سے نہلے ایک‬
‫قدم تھی آگے یڑھاپی اتنی کالپی اسے مضبوط گرقت میں مجسوس ہوپی اور اگلے ہی لمچے وہ سندھا تنڈ‬
‫س‬
‫یر گری تھی‪،‬اتھی معمہ سمجھ ہی رہی تھی کہ اس کے اویر ہی لسینل چھکا‪،‬کمرے میں جلنی‬
‫مدھم التٹ میں چود سے نےجد یزدیک مفایل کے وچنہہ چہرے یر تبھر یلے یایرات دیکھ عنادیہ‬
‫سانس روک گنی‪،‬دل جس پیزی سے دھڑک رہا تھا اسے لگا اتھی نشلناں یوڑ کر یاہر نکل آنے گا‪،‬‬

‫"ک بوں ایک یار کی کہی یات یر عمل نہیں کرپی۔۔۔"‬

‫‪- 423 -‬‬


‫اس کے گھمئیر لہچے یر عنادیہ کا چون سوکھا‪،‬گ ھئیری یلکیں لرز کر چھکیں‪،‬گہری نظریں اس کے‬
‫س‬
‫گالل یکھرنے عارض یر ڈال کر لسینل ہاتھ عنادیہ کے تیجھے لے جایا اس کے رنسمی یالوں کو‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫ل کو د ھی‪،‬کالی‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫کیجر کی گرقت سے آزاد کنا تھا‪،‬وہ سل سی آ یں النے کے سے‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫س‬
‫ت‬
‫ل کو نےفرار کیے ھے‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫آیکھوں کے گرد وہ سرخ ڈورے‬

‫"کنا جاہنی ہو کہ ئمہارے ساتھ زیردسنی کروں۔۔"‬


‫رنسمی یالوں کو انگل بوں میں مس کریا وہ ان کی یرمی مجسوس کنا ساتھ ہی ایک لٹ کو انگلی میں‬
‫گھمایا سرگوسی کنا‪،‬عنادیہ کی جان نکلیے کو ہوپی‪،‬چھلشاپی سانسوں کے چہرے یر یڑنے سے وہ‬
‫ل‬ ‫عظ‬‫م‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫شحنی سے آ یں یچ نی‪ ،‬لون کی چوسبو اس کے چواس ل کرنے گی‪،‬اے سی کی یرف‬
‫ک‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫کرپی تھنڈک یر تھی اس کی سفند پیشاپی عرق آلود ہورہی تھی‪،‬‬

‫"چواب دو۔۔"‬
‫ی‬
‫ایک مرتیہ تھر سرگوسی کے ساتھ وہ انگلی میں لیینی لٹ کھییجا تھا کہ عنادیہ ششک کر آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫میچے نفی میں سرہالپی‪،‬اس کی فرتت عنادیہ یر سانسیں تنگ کرنے لگی‪،‬میچی آیکھوں سے ایک‬
‫موپی یوت نا یالوں میں جذب ہوا‪،‬وہ چو نےیایایہ نظروں سے اس مح بوب لڑکی کا چونصورت چہرہ دیکھ رہا‬
‫تھا‪،‬یوکدار یلکوں یر ئمی مجسوس کرنے ہی اس کی آیکھوں یر چھکا‪،‬ساتھ ہی یاری یاری ان یر ا تیے‬
‫‪- 424 -‬‬
‫م‬ ‫س‬
‫جلیے لب رکھا‪،‬اور تب سے اتنا آپ ادھورا مجسوس کریا لسینل مراد آج چود کو کمل سمجھا تھا‪،‬ایک‬
‫سکون سا سراتت کنا تھا اس کے یورے وچود میں‪،‬دوسری طرف مسکل میں گھری وہ یازک جان‬
‫لڑکی اس یرم گرم لمس یر ت یٹ سیٹ دیوخی تھی ا تیے ہاتھوں میں‪،‬اس سے نہلے وہ نےہوش‬
‫چ‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل اس یر ر م کھایا یالوں کی لٹ ھوڑ کر دور ہنا‪،‬‬ ‫ہوپی‬

‫"تم صوقے یر جایا جاہنی ہو یو مجھے زرا اعیراض نہیں لنکن میرے اگلے ردعمل کے لیے تھی تنار‬
‫رہنا۔۔و نسے جالت تنارہی ہے کہ وہ عمل یرداشت یہ کرنے ضرور نےہوش ہوجاو گی۔۔سو پی‬
‫ُ‬
‫کئیرقل۔۔"‬
‫یکھ م لی ت س‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫وہ چو اس کے دور ہییے یر تھی اب یک ت یٹ سیٹ کو دیوچے آ یں یچ کر نی ھی‬
‫تب ً‬
‫کے سرد لہچے یر ا تیے جسم یر سیسنی دوڑپی مجسوس کی ھی فورا تنڈ کے ل کونے یر ہوپی وہ‬
‫لک‬‫ی‬

‫دوسری کروٹ یر لینی‪،‬ا تیے کایوں میں وہ واضح دھڑک بوں کا سور سن سکنی تھیں چو اس کی‬
‫س‬
‫مییسر ہوپی جالت کا تنا دے رہی تھیں‪ ،‬لسینل اس کی خرکت یر ئمسکل ل بوں یر امڈپی‬
‫مشکراہٹ کجال‪،‬‬

‫س‬
‫" لسینل مراد۔۔"‬

‫‪- 425 -‬‬


‫س‬
‫کجھ دیر نعد تیچے سے آپی دھاڑ یر لسینل گہرا سانس تھرا‪،‬جاتنا تھا آنے والی ہسنی کون ہے‪،‬تبھی‬
‫ایک نظر اب یاقاعدہ سوپی عنادیہ یر ڈال کر وہ اتھا تھر روم سے نکل کر گیٹ تند کریا یاہر‬
‫آیا‪،‬سا میے ہی ہیبم غصہ ضنط کرنے کے جکر میں سرخ چہرہ لیے اسے دیکھ رہا تھا‪،‬‬

‫"کنا ہوا پینا۔۔"‬


‫دریہ تنگم تھی ا تیے روم سے نکلی‪،‬‬

‫"گرتنی۔۔۔آپ جاپیں ایدر اتھی۔۔"‬


‫ن‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل نے کہا‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہیبم کو سوالیہ نظروں سے د نی دریہ م سے‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬

‫"گرتنی یلیز۔۔"‬
‫ان کے جاموش رہیے یر وہ تھر یوال جس یر سر ہالپی وہ ایدر گییں‪،‬‬

‫"ہمم۔۔یولو۔۔"‬
‫اب وہ ہیبم کی طرف م بوخہ ہوا‪،‬‬

‫‪- 426 -‬‬


‫"ک بوں کنا یہ شب۔۔؟"‬
‫نہت بجمل کا مظاہرہ کر کے یوچھا تھا اس نے‪،‬‬

‫"کنا ِکنا میں نے۔۔"‬


‫ابجان تنا گنا تھا‪،‬‬

‫"واؤ اتنا شب کجھ کر کے اب یوچھ رہے ہیں کہ کنا ِکنا۔۔۔میری نہن کے چواب جکنا چور‬
‫کرڈالے۔۔۔اور۔۔اور عنادیہ کہاں ہے۔۔۔"‬
‫یلند آواز میں کرچنگی سے کہنا وہ آخر میں یوچھا‪،‬‬

‫"میری ت بوی" سورہی ہے اتھی۔۔"‬


‫س‬
‫سیحندگی سے چواب دیا تھا لسینل‪،‬ہیبم کے آیکھوں میں دکھ کی چھلکناں یڑیں‪،‬‬

‫"تھاپی۔۔۔ک بوں کنا انشا۔۔۔"‬


‫س‬ ‫س‬
‫وہ ماتنا تھا نہت لسینل کو تبھی جاہ کر تھی اس کے سا میے شحنی نہیں یرت یارہا تھا‪ ،‬لسینل‬
‫کجھ دیر جاموش نظروں سے اسے دیکھ کر یوال‪،‬‬
‫‪- 427 -‬‬
‫"میں نے کجھ علط نہیں کنا۔۔"‬

‫"قلذہ کے ساتھ علط کنا ہے آپ نے۔۔۔چود یر سے الزام ہناکر یری الزمہ نہیں ہوسکیے۔۔"‬

‫"وہ اس الیق ہے۔۔تم ایک تھاپی کی نظر سے یہ شب دیکھ رہے ہو تبھی ئمہیں لگنا ہے کہ میں‬
‫علط ہوں وریہ چف نفت سے کسی جد یک تم تھی واقف ہو۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کا اسارہ ‪ 7‬سال لے ہونے وا عے یر گنا تھا‪،‬جس یر م نگاہ ھیرا‪،‬یہ یات یو‬ ‫اس یار‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ک ھ نک س‬
‫ہ‬
‫ل اس وقت علط یں تھا یلکہ الزام لگا تھا اس یر اور آج‬ ‫اسے ہمیشہ سے نی کہ‬
‫س‬
‫لسینل کی یات نے اس کی نضدیق تھی کردی تھی‪،‬‬

‫ق‬
‫"میں جاتنا ہوں قلذہ کو علط ہمی ہوپی ہوگی یا اگر وہ گناہگار ہے یو تھنک۔۔۔ل نکن تھر‬
‫عنادیہ۔۔۔اس نے کنا نگاڑا تھا آپ کا۔۔"‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کو م کرانے یر مح بور کنا‪،‬‬ ‫نہت سوچ کر یولنا وہ‬

‫"میں نے تھی اس کا کجھ نہیں نگاڑا۔۔۔"‬


‫‪- 428 -‬‬
‫ً‬
‫اس کے مذاقا لہچے میں کہی یات یر ہیبم چفگی سے دیکھا‪،‬‬

‫"آپ نے اس سے سادی کی۔۔۔"‬

‫"ئمہیں لگنا ہے مجھ سے سادی کر کے اس کی قسمت تھوپی ہے۔۔۔"‬

‫"نہیں تھاپی۔۔۔میرا وہ مظلب نہیں۔۔۔کنا وہ راضی تھی۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ل م س‬
‫م‬
‫ل یرم م کراہٹ لیے فا ل ھڑے اس انشان کو د کھا چو ہن‬ ‫اس کے یرنشان ہچے یں‬
‫کے لیے کافی تییس لگ رہا تھا‪،‬‬

‫"اگر رصامند یہ ہوپی یو کبھی نکاح کے پئیرز کر ساین نہیں کرپی۔۔۔"‬


‫مح نصر ایداز میں وہ اس یر چنایا یو ہیبم جپ سا ہوا‪،‬‬

‫"ہناد نے کہا کہ آپ نے قلذہ سے یدلہ لییے کے لیے یہ شب کنا۔۔۔"‬


‫آہسنگی سے ہیبم یوچھا‪،‬‬

‫‪- 429 -‬‬


‫"یدلہ یو اتھی میں نے لنا ہی نہیں۔۔"‬

‫"تھاپی یلیز۔۔۔نہن ہے وہ میری۔۔"‬


‫ی س‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫ل لب یجا‪،‬‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہیبم کی آیکھوں میں عاخزی د کھ‬

‫"کنا ئمہیں ا تیے فرتنی رسیے عزیز ہیں۔۔"‬


‫ساطر دماغ نے یڑی آساپی سے یایک یدال تھا‪،‬ہیبم الجھا‪،‬‬

‫"خی یلکل عزیز ہیں۔۔"‬

‫"محناط رہو ات بوں سے ک بویکہ ان کے تھروشہ یوڑنے یر دل دکھ جایا ہے۔۔اور اتنی زمہ داری سے‬
‫عاقل مت ہو کہیں آگے جاکر بجھنایا یہ یڑے۔۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہ‬
‫ل۔۔‪ ،‬گر م مجھ یں یایا اس کی‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ڈ ھکے چھیے لہچے میں اسے نہت کجھ یاور کرایا تھا‬
‫گہری یات‪،‬‬

‫"آو پیبھو۔۔"‬
‫‪- 430 -‬‬
‫"نہیں تھاپی۔۔گھر جاؤں گا اب۔۔۔قلذہ نہت یراعبماد لڑکی ہے جلد چود کو سیب ھال لے‬
‫گی۔۔۔لنکن ع ندی۔۔ساپی تھاپی وہ نہت معصوم ہے۔۔۔"‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ک س‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ل کی مسکان میت سر اتنات یں الیا ھر اس کے لے ل کر وہاں‬ ‫س‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہیبم کے ہیے یر‬
‫ن ً‬ ‫نہ م‬
‫سے جانے کے نعد دریہ تنگم کے روم میں گنا یا کہ ا یں ین کر کے۔۔۔‪ ،‬قینا یاہر ہوپی ان‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ط‬
‫دویوں کی گفنگو سے یاواقف وہ یرنشاپی میں سوپی تھی نہیں ہوں گی‪،‬ان کے روم کا گیٹ یاک‬
‫س‬
‫کرنے لسینل مشکرایا تھا‪،‬آخر کو جیشا جاہ رہا تھا ونشا ہی ہوا تھا‪،‬وہ جاتنا تھا ہیبم کجھ جذیاپی ہے‬
‫یو ع نادیہ کو اس کے ساتھ دیکھ ضرور اس کا رتنکسن تھی سدید ہویا‪،‬تبھی اس نے نہلے ہی اسے‬
‫معا ملے سے کجھ دیر کے لیے دور رکھا‪،‬وہ جاتنا تھا کہ اس وقت شب کے سا میے وہ ہیبم کو ا تیے‬
‫ایداز سے یات نہیں سمجھا یانے گا۔۔۔‪،‬اسی لیے اس کے میییجر کو چند پیسوں کے عوض ہیبم کو‬
‫آقس یلوانے کا کہا‪،‬اور اب وہ یرسکون تھا کہ ہیبم زیادہ یاراصگی کا اظہار یہ کرسکا اس سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫قلذہ کی یار یار یگڑپی جالت یر جب قایو یہ ہوا یو مہناز تنگم کے کہیے یر وہ اسے پیند کی دواپی دے‬
‫کر سالپی اب ا تیے روم میں آپی تھی‪،‬جییج کر کے واسروم سے میہ دھوکر نکلنی اب اس کا ارادہ‬
‫سونے کا تھا‪،‬تبھی یاہر سے آیا ہیبم روم میں داجل ہوا‪،‬‬
‫‪- 431 -‬‬
‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫اسے ڈرنسنگ یر کی اور والٹ رکھیے دیکھ مط ییہ یوچھی‪،‬گھر آنے کے نعد ہیبم کو جب وہاں ہوپی‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫م‬
‫ل کے یسن گنا تھا‪،‬اور اب اس ہی یارے یں‬ ‫یات کا ہناد کے ذر نعے تنا جال تب وہ‬
‫مطییہ جاتنا جاہ رہی تھی‪،‬‬

‫اس کے سوال یر ایک نظر مطییہ کو دیکھ وہ نفی میں سرہالیا‪،‬‬

‫"کھایا نکالوں آپ کا۔۔؟"‬


‫وہ تنڈ یر پیبھا تبھی مطییہ تھر یوچھی‪،‬ہیبم چونکا اس کے آپ کہیے یر‪،‬چو تھی تھا اسے مفایل کا یہ‬
‫ایداز کجھ تھایا تھا‪،‬دوسری طرف وہ مہناز تنگم کے یو کیے یر کوشش کی تھی یوں کہیے کی‪،‬‬

‫"تم نے کھایا۔۔؟"‬
‫النا سوال تھا یر مطییہ کے لیے کسی دھجکے سے کم نہیں تھا‪،‬اس کی جاموسی یر ہیبم نے گردن‬
‫موڑ کر دیکھا یو مطییہ جلدی سے نفی میں سر ہالپی‪،‬‬

‫‪- 432 -‬‬


‫"نہی یر لے آؤ۔۔"‬
‫کہہ کر وہ اتھا‪،‬رخ واسروم کی طرف تھا‪،‬مطییہ تھی روم سے نکلی‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد کھانے کی یرے لے کر وہ وانس آپی یو دیکھا مفایل فرنش ہوکر اب رف سے کیڑوں‬
‫ک‬‫ی‬
‫میں تنڈ سے تنک لگانے آ یں مویدا ہوا تھا‪،‬‬
‫ھ‬

‫"ہیبم۔۔"‬
‫ہیب ی‬
‫چھک کر یرے اس کے سا میے رکھنی وہ نکاری یو م آ یں وا کریا سندھا ہوا‪،‬وہ چو ا ھی یرے‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫رکھ کر اتھ ہی رہی تھی نظریں مفایل کی سرخ یڑپی آیکھوں سے یکراپی یو یکدم ہوش کھوپی وہ ان‬
‫مح بوب آیکھوں کو د یکھے گنی‪،‬دوسری جاتب اس کی چھنل ماتند آیکھوں کو دیکھ ہیبم کی نظریں‬
‫نہری تھیں‪،‬دویوں کے چہروں کے درمنان چ ند ابچ کا قاصلہ تھا‪،‬ایک شجر پییے لگا ان دویوں کے‬
‫درمنان‪،‬سنکنڈ میٹ میں تندیل ہونے یو اجایک ہوش میں آپی مطییہ سندھی ہوپی‪،‬وہ چو ان چھنل‬
‫ً‬
‫ماتند چونصورت آیکھوں کا ریگ نغور دیکھ رہا تھا فورا سے لے چود کو بوز کریا سر ھ نکا‪،‬‬
‫چ‬ ‫م‬‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬

‫"پیبھو۔۔"‬

‫‪- 433 -‬‬


‫مطییہ کو یلییے دیکھ وہ یوال‪،‬ادھر اسے سدید جیرت میں مینال کرگنا مفایل کا یرم لہچہ‪،‬ہیبم کی می نظر‬
‫ب‬ ‫ی‬‫ص پ‬ ‫ی چ‬
‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ھج‬
‫نظروں کو د کھ وہ کیے ہونے اس سے کافی قا لے یر ھی‪ ،‬طییہ کا یہ گریز میشہ کی طرح‬
‫م‬
‫وہ اس یار تھی یوٹ کنا تھا‪،‬وہ لڑکی اس سے چ بوپی محیت کی دعویدار ضرور تھی مگر کبھی چود اس‬
‫ٰ‬
‫کے فرتب یہ آپی نعنی وہ اس کی محیت کی مبمنی یہ تھی اور نہی عادت اس کی کہیں یہ کہیں‬
‫اچھی لگنی ہیبم کو‪،‬‬

‫اس کے پیبھیے یر وہ یرے سرکایا تھا مطییہ کی جاتب‪،‬‬

‫"کھاؤ۔۔"‬
‫وہ چو ششدہ سی اسے دیکھیے لگی تھی ہیبم کی آواز یر چویکی‪،‬‬

‫"خی۔۔"‬

‫"میں۔۔نے۔۔کہا۔۔کھاو۔۔"‬
‫نہر نہر کر وہ یآواز یوال‪،‬‬

‫‪- 434 -‬‬


‫"میں۔۔"‬

‫"ہاں تم۔۔"‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت ھ نل ی‬
‫اس یار ہیبم یاقاعدہ اسارہ کنا‪،‬مطییہ کی جیرت سے یں آ یں اب ک نے ین ھی‪،‬وہ‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫کب سے اس کی یرواہ کرنے لگا تھا‪،‬‬

‫"آپ نہیں کھاپیں گے۔۔"‬


‫اس کا ڈپی نکل ت بویوں واال یہ ایداز کجھ تنا تھا‪،‬‬

‫"تھوک نہیں۔۔"‬
‫یول کر ہیبم ہاتھ سے رشٹ واچ ایار کر ساتنڈ پینل یر رکھا‪،‬‬

‫"کھاؤ تھی۔۔"‬
‫پ‬
‫وہ اتھی یک نےنقین یبھی تھی تبھی ہیبم اب ایک شخت گھوری کے ساتھ اوبجا یوال اور وہ یوکھال‬
‫کر جلدی سے اسبون تھامنی تھوڑا تھوڑا کھانے لگی‪،‬اس کا چود سے یوں ڈریا دیکھ ہیبم نفی میں‬

‫‪- 435 -‬‬


‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫سرہالیا تھر تنک لگایا تھا تنڈ سے‪،‬ہر تھوڑی دیر نعد چور نظروں سے اسے د نی وہ کھایا کھارہی‬
‫تھی‪،‬جب زیادہ کھایا یہ گنا یو یرے اتھاکر وہ تنا جاپ کیے روم سے نکلنی کچن میں رکھیے گنی‪،‬‬

‫وانس آکر دروازہ تند کرپی مطییہ ہیبم کی طرف آپی‪،‬ساتنڈ پینل یر رکھا لبمپ تند کرپی وہ اب اتنی‬
‫مخصوص جگہ صوقے یر سونے گنی‪،‬تبھی چھنل ریگ آیکھوں نے ایک نظر مفایل لییے مح بوب کو‬
‫دیکھا چو مشلشل داپیں ہاتھ سے پیشاپی مشل رہا تھا‪،‬اس کی طی نعت کا چنال آیا یو دل نےجین‬
‫ہوا‪،‬کجھ سوچ کر ہمت کرپی وہ اتھی‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔"‬
‫ی‬
‫دو مرتیہ کی نکار یر وہ آ کھیں تبم وا کیے یاتٹ یلب مدھم روسنی میں تنڈ سے دو قدم دور کھڑی‬
‫مطییہ کو دیکھا‪،‬اس روسنی میں تھی اس کے دمکیے چہرے یر قکرمندی کی لکیریں ہیبم کو واضح دکھی‬
‫تھیں‪،‬‬

‫"سر میں درد ہے۔۔؟"‬


‫اس کے دیکھیے یر یرنشاپی کے عالم میں مطییہ یوچھی جس یر ہیبم سر اتنات میں ہالیا‪،‬‬

‫‪- 436 -‬‬


‫"دواپی دوں۔۔"‬
‫کافی ہمت مجمع کرپی وہ مزید یولی‬

‫"نہیں۔۔"‬
‫نفی میں سر ہالکر وہ یوال‪،‬لہچہ کسی تھی اجشاس سے عاری تھا‪،‬مطییہ کو اس کا یہ سردین دکھ‬
‫پ‬
‫نہیجایا تھا‪،‬اسے قکر تھی ہورہی تھی‪،‬نہت سوچ کر وہ آخر کار قدم یڑھاپی تنڈ یر یبھی‪،‬دل‬
‫چونصورت طرز میں دھڑک کر سور مجانے لگا تھا‪،‬لب کاتنی وہ ایک گہرا سانس تھرکر چود کو یارمل‬
‫کی تھر چود میں ہمت تندا کرپی ہیبم کے فرتب ہوپی‪،‬یازک وچود لرزراہٹ کا سکار ہورہا تھا ا تیے‬
‫عمل کا سوچ کر ہی تھر تھی ایک قاصلے یر اس سے دور رہنی وہ ہاتھ یڑھا کر ہیبم کی پیشاپی یر‬
‫ی‬ ‫ّ‬
‫رکھی اور آہسیہ آہسیہ اسے دیانے لگی‪ ،‬لمچے کے ہزارویں چصے میں وہ اتنی آ کھیں تٹ سے کھوال‬
‫پ‬
‫تھا‪،‬کجھ قاصلے یر یبھی مطییہ کو اتنا سر دیانے دیکھ کشادہ پیشاپی یر سکن یڑی‪،‬‬

‫مطییہ چو اس کے دیکھیے یر تھی اتنی گ ھیراہٹ یر قایو یاپی یرسکون پییے کی تھریور کوشش کیے‬
‫یونہی سر دیارہی یکدم یوکھالپی جب ہاتھ یڑھاکر ہیبم اس کی سفند گردن یر لنکی جین یکڑ کر‬
‫ک‬
‫کھییجا‪،‬جین ھیحیے سے نےساجیہ ضراخی دار گردن تھی چھکی تھی‪،‬ہاتھ روک کر مطییہ یوکھالکر ہیبم‬
‫ً‬ ‫ی‬
‫کے وچنہہ چہرے کو د کھی چو یلکل اس کے چہرے سے نفرتنا ایک ابچ کے قاصلے یر تھا‪،‬سرخ‬
‫‪- 437 -‬‬
‫آیکھوں میں کچی پیند کا چمار دل دھڑکا گنا‪،‬تبھی شحنی سے دات بوں میں بجلے لب کو دیانے وہ‬
‫گہرے سانس تھرنے لگی‪،‬‬

‫"جان یوچھ کر میرے چواسوں میں سوار ہونے کی کوشسیں کرپی ہو۔۔"‬
‫تھاری ہوپی آواز سمیت یوچھنا وہ جین کو ہلکا سا چھ نکا دیا جس یر مطییہ کی سبواں یاک یکراپی تھی‬
‫اس کی کھڑی یاک سے‪،‬‬

‫"ای۔۔انشا نہیں ہے۔۔"‬


‫گداز ل بوں کی خرکت گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ‪،‬مفایل کی مجمور آیکھوں کا مرکز دیکھ وہ گ ھیراپی‬
‫تھی تبھی اس یار دھڑکییں نےیرت یب ہونے یر جس شحنی سے لب کاپی چون کی یوید نکلنی سندھا‬
‫ہیبم کے ل بوں یر گری‪،‬اس یر نظریں مرکوز کیے وہ ل بوں یر زیان ت ھیرا تھا‪،‬کمرے کے چواب یاک‬
‫ماچول میں مفایل کی اس خرکت نے مطییہ کے رہے شہے اوسان تھی چظا کر ڈالے‪،‬وہ شحنی‬
‫گ‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫گ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ہ‬
‫سے آ یں یچ نی‪،‬دل کی دھڑ یں کایوں یں سناپی د تیے یں‪،‬دور ہونے کی وہ مت‬
‫کرنہیں سکنی تھی کہ جین اب یک وہ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا ا تیے ہاتھ میں‪،‬‬

‫‪- 438 -‬‬


‫کجھ دیر یک اس کی میچی آیکھوں کو دیکھیے رہیے کے نعد ہیبم گرقت ڈھنلی کریا چھوڑا تھا جین‬
‫کو‪،‬وہ چو اب کجھ سیبھل کر اتنی جین کو تھامی تھی نےساجیہ سرخ ہوپی جب ہیبم اتنا سر اس‬
‫ل‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ی‬
‫کی گود میں رکھا‪،‬اسارہ تھا سر دیانے کا‪،‬وہ آ یں موید چکا تھا کن طییہ کے گال بمانے گے‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫تھے‪،‬ئمسکل اتنی مییسر ک نفنات یر قایو یاپی وہ یوری کوشش کی تھی یارمل ہونے کی تھر‬
‫کنکنانے ہاتھوں کو اس کی پیشاپی یر رکھیے آہسنگی سے دیانے لگی‪،‬مطییہ کی مجروطی انگل بوں کا‬
‫یرم لمس تھا کہ جلد وہ تھکا ہارا پیند کی وادیوں میں جالگنا‪،‬‬

‫آج مفایل کی عنات بوں یر وہ کسی ظور نہیں جاہنی تھی چوش قہم بوں کا سکار ہویا یر یازک دل کا‬
‫کنا کرپی چو ایک مرتیہ تھر اس مسنفنل سے ابجان نےجیر لڑکی کو چوش قہم بوں میں دھکنل گنا‬
‫تھا‪،‬ہاں وہ یاگل ہی یو ہونے لگی تھی اس کی زرا سی کئیر یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫روسنی کی کرپیں اس کی آیکھوں میں یڑیں یو چہرے یر ہاتھ رکھنی دوسری کروٹ لے گنی‪،‬یوں لگا‬
‫ل‬ ‫مج‬‫س‬
‫جیسے کوپی اسے نکارا ہے مگر اتنا وہم ھنی وہ ایک مرتیہ تھر پیند کی وادیوں میں کھونے گی اور‬
‫‪- 439 -‬‬
‫ی‬‫کھ پ‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ً‬
‫تبھی‪،‬کسی نے یازوؤں سے یکڑ کر نفرتنا اسے ھوڑ کر رکھ دیا‪،‬یو ال کر نی وہ تندار ہونے ذہن‬
‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ج‬‫ی‬
‫سمیت ہر جاتب نظر دوڑاہی رہی تھی کہ جب سا میے وہ ِدکھا‪،‬وچنہہ چہرے یر یال کے سیحندہ یایرات‬
‫لیے وہ اس کی طرف ہی م بوخہ تھا‪،‬‬

‫"اچھی ت بویاں سوہر کے اتھیے سے نہلے ہی ان کا یاشیہ تنار کر کے رکھنی ہیں یاکہ وہ لیٹ یہ‬
‫ہوجاپیں۔۔۔"‬
‫عنادیہ کو ام ند یہ تھی مفایل کے میہ سے اس طرح کی یات کی‪،‬وہ ششدہ سی اسے د یکھے گنی‬
‫تھر ذہن میں چنال آیا‪،‬کنا واقعی وہ لیٹ اتھی تھی‪،‬یاتم دیکھیے یر ایک اور چھ نکا لگا‪،‬دیوار یر لگی‬
‫گھڑی سات بجارہی تھی‪،‬چنکہ مفایل رویہ ا نسے یرت رہا تھا جیسے عنادیہ نے یو دس بجادنے اتھیے‬
‫میں‪،‬‬

‫"میں جلدی اتھیے کا عادی ہوں ٰلہذا روپین جلد تھنک کرلو اتنی۔۔۔"‬
‫اس کے سیحندگی سے کہیے یر عنادیہ گھوری تھی‪،‬ایک یو کل زیردسنی نکاح کنا اور اب ایک دن‬
‫کی ت بوی کا لجاظ یک نہیں کررہا تھا‪،‬یکدم اسے غصے نے آلنا تبھی ڈھیٹ پییے کا مظاہرہ کرپی وہ‬
‫س‬
‫اس کے سا میے وانس لیینی سر یک کمفریر اوڑھ گنی‪ ،‬لسینل چند یل یو جاموسی سے اس لڑکی‬
‫کو د یکھے گنا‪،‬‬
‫‪- 440 -‬‬
‫"کر یو ا نسے رہی ہو جیسے رات یر چگایا تھا میں نے۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ن ً‬ ‫کم‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫ل‬ ‫مع ٰ‬
‫ھ‬
‫اور اس کے ا نسے نی جیز ہچے یر کے سے فریر ہناپی وہ فرتنا تھاگی ھی واسروم کی‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫جاتب‪ ،‬ل م کراہٹ دیانے م ظوظ ہوا تھا اس کے سرخ یڑنے یر‪،‬‬

‫کجھ دیر نعد وہ اس ارادے سے نکلی تھی کہ اب یک وہ جاچکا ہوگا مگر معانے اقسوس واسروم‬
‫کے عین یاہر دیوار سے تنک لگانے وہ اس ہی کا می نظر لگ رہا تھا‪،‬مفایل کو تھنک سا میے‬
‫کھڑے دیکھ عنادیہ کا دل دھڑکا تھا‪،‬اسے کچن میں جایا ہی مناشب لگا‪،‬‬

‫"جانے سے نہلے میرے کیڑے نکال جاؤ وارڈروب سے۔۔"‬


‫رسات یت سے اسے زچ کریا وہ واسروم میں جاچکا تھا‪،‬اس کے واسروم میں جانے کے نعد تھی‬
‫ی‬
‫عنادیہ کافی دیر یک جیرت زدہ سی وہی د کھنی رہی‪،‬مفایل کا ایداز تنارہا تھا کہ وہ اسی تنانے کے‬
‫موڈ میں ہے‪،‬ما تھے یر سکن لیے وہ وارڈروب کے یاس گنی‪،‬نہت سوچ کر اس کی ڈرنسنگ نکالنی‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫م س‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫ل یج کریا سندھا چن یں ہی آیا‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یاہر نکل کر کچن کا رخ کی‪،‬کجھ ہی دیر یں‬

‫"یراؤزر اور پی سرٹ میں کبھی کسی کو آقس جایا دیکھا ہے تم نے۔۔۔"‬
‫‪- 441 -‬‬
‫وہ یاشیہ تنار کرپی اتھی ارادہ کر ہی رہی تھی یاہر ڈاپینگ پینل یر رکھیے کا تبھی ایدر داجل ہونے‬
‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل کے یو لیے یر اسے د کھی‪،‬آقس کے لیے یلکل تنار وہ کوٹ یازو میں لیے عنادیہ سے‬
‫اسنفشار کنا تھا‪،‬جاتنا تھا وہ اس سے یدلہ لییے کے عرض انسی ڈرنسنگ نکالی تھی‪،‬‬

‫"یاشیہ رکھو پینل یر۔۔"‬


‫ا تیے سوال یر اس کے چھکے سر کو دیکھنا وہ یول کر یاہر گنا‪،‬عنادیہ چہرہ نگاڑے یا سیے کی یرے‬
‫س‬
‫لے کر یاہر آپی‪،‬اسے نہلے ہی لسینل کے زیردسنی نکاح کرنے یر غصہ تھا‪،‬پینل یر اس کے‬
‫سا میے یاشیہ رکھنی وہ یلییے لگی‪،‬‬

‫"یہ یاشیہ ہے۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے شخت لہچے یر وہ مڑ کر ایک نظر یرے یر ڈالی‪،‬ایک ہالف فراپی ایگ‪،‬چبم یریڈ اور‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫مج‬‫س‬
‫ل کو د ھی‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ساتھ رکھا چوس کا گالس‪،‬عنادیہ کو کجھ علط یہ لگا تھا وہ یا ھی سے‬

‫"میں یا سیے میں دو ہالف فراپی ایگ اور یرا تھے لینا ہوں۔۔۔ساتھ جانے۔۔چوس نہیں۔۔"‬
‫اس کے چونصورت چہرے کو نظروں میں لیے وہ چنایا تھا‪،‬عنادیہ کے ما تھے یر ایک مرتیہ تھر یل‬
‫یڑے‪،‬‬
‫‪- 442 -‬‬
‫"لے کر جاؤ یہ شب۔۔۔اور چو تنایا ہے وہ یاشیہ تنار کرو۔۔"‬
‫اب کے پینل یر کہیناں رکھ کر دویوں ہاتھوں کی انگل بوں کو تھیشانے وہ مزے سے اس یر جکم‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫صادر کنا تھا‪،‬اسے جل کر د نی عنادیہ لب نی یرے اتھاپی‪،‬چو صورت ہرے یر تیے ہونے‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ح‬‫ی‬ ‫ھ‬
‫س‬
‫یایرات لسینل تھریور ابچوانے کنا تھا‪،‬‬

‫تھوڑی دیر نعد ہاتھ میں تھر یرے لیے وہ آپی تھی‪،‬پینل یر یرے رکھیے ہی وہ ایک قدم تیجھے ہنی‬
‫اور ششلینل اب کی یار تنا یاشیہ دیکھ لب تھییجا‪،‬دو ہالف فراپی ایگ کی جگہ آملیٹ تنادیا‬
‫تھا‪،‬دوسری جاتب کم دودھ میں کالی ہوپی جانے‪،‬ضرف یرا تھے ا نسے تھے چو دیکھیے الیق لگ رہے‬
‫س‬
‫تھے‪ ،‬لسینل نے نظر اتھا کر اسے دیکھا چو اب ابجان پینی یرسکون سی کھڑی تھی‪،‬‬

‫تھر گہری سانس تھر کر یرا تھے کا ایک یوالہ تناکر میہ میں لنا اور وہ سمجھ گنا کہ ک بوں یرا تھے‬
‫دکھیے میں ضحیح لگ رہے تھے ک بویکہ کھانے میں پیسٹ کجھ یوں تھا جیسے ئمک کی یرپی ایڈیل دی‬
‫گنی ہو‪،‬چھنکے سے کھڑا ہویا وہ عنادیہ کی جاتب م بوخہ ہوا چو اب یک ہلکی مسکان شجانے اس کے‬
‫س‬
‫ضنط یر مخظوظ ہورہی تھی لنکن اجایک لسینل کے شخت یایرات دیکھ یوکھالپی‪،‬‬

‫‪- 443 -‬‬


‫"نہت اچھا یاشیہ تنار کنا ہے۔۔۔یافی تم ہی کھالینا قلجال میں آج اس یر گزارا کرلینا ہوں۔۔"‬
‫یایرات کے یلکل یرعکس لہچہ یرمی لیے تھا‪،‬عنادیہ اتھی اس کی یات کا مظلب سمجھ ہی رہی تھی‬
‫کہ وہ اس کے یازو کو گرقت میں لینا چھنکے سے ا تیے فرتب کنا اسے اور تنا کوپی موقع صا نع کیے‬
‫عنادیہ کے تنکھڑی مات ند گالپی ل بوں یر چھکنا ا تیے عناپی ل بوں میں قند کرگنا‪،‬عنادیہ کے چواس‬
‫ن‬ ‫ی‬‫پ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ی‬
‫یگڑے تھے‪،‬کالی آ یں ا ل ہوپی یں چنکہ دل نےیر نی سے دھڑ کیے لگا‪،‬وہ امند یں‬
‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ھ‬
‫س‬
‫کرپی تھی اس جشارت کی‪،‬تبھی لسینل کو دور کرنے کے عرض اس کے مضبوط کندھے یر‬
‫ہاتھ رکھی‪،‬ا تیے ہوش گ بواپی اس لڑکی یر رچم کریا وہ آہسنگی سے دور ہنا تھر مسکاپی نظروں سے‬
‫ن ً‬
‫اس کے سرخ چہرے کو دیکھا جس یر سے فرتنا چون کیے کو ہورہا تھا‪ ،‬ہرے سانس ھرپی وہ‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫یکھ س‬
‫ش‬
‫ل کو م کرانے یر مح بور کی‪،‬‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫جد درخہ گ ھیراپی ہوپی تھی‪،‬ہال کی جاتب چور نظر سے د نی وہ‬

‫"نےقکر رہو۔۔۔گرتنی سمجھدار ہیں۔۔۔کسی کو اس طرف آنے نہیں دیں گی۔۔"‬


‫اس کان کے فرتب سرگوسی کریا وہ عنادیہ کی دھڑک بوں میں جسر یریا کررہا تھا‪،‬مفایل کی فرتت‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ل یرمی سے گویا ہوا‪،‬‬ ‫سے گ ھیراپی وہ نظریں چھکاگنی‪،‬یوکدار یلکوں کی لرزراہٹ د کھنا‬

‫"کل تھی انشا ہی یاشیہ تنایا یا کہ۔۔"‬

‫‪- 444 -‬‬


‫اس کے نےیاک لہچے میں کہہ کر جپ ہونے یر عنادیہ کے نفیہ ہوش تھی اڑے تبھی اسے چود‬
‫سے دور دھکنلنی وہ کچن کی جاتب تھاگی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صیح نہاتت فرنش موڈ میں اتھنا وہ سندھا ہوکر پیبھا‪ ،‬یلٹ کر غفب میں دیکھا یو وہ چو رات تھر اس‬
‫کا سر دیارہی تھی اب گردن ایک جاتب لڑھکانے ہوش کی دتنا سے عاقل گہری پیند میں‬
‫تھی‪،‬کل رات اس کا ا تیے لیے قکر کریا ہیبم کو ایدر ہی کہیں ئمات یت بجشا تھا‪،‬اسی وخہ سے اب‬
‫اس کے چنال کے عرض چھکنا وہ سوپی ہوپی مطییہ کا کندھا آہسنگی سے ہالیا یوال‪،‬‬

‫"مطییہ۔۔۔تھنک سے سوجاؤ۔۔"‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬ ‫ی‬
‫ہیبم کے ہالنے یر مندی آ کھیں وا کرپی وہ چود یر چھکے ہیبم کو یا ھی سے د کھیے گی مگر جلد ہی‬
‫چویک کر یوکھالنے ہونے جلدی سے تیجھے ہنی‪،‬‬

‫"آہ۔۔"‬
‫یکدم گردن میں درد کی ایک سدید پیس اتھیے یر وہ کراہی‪،‬‬

‫‪- 445 -‬‬


‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫جسین چہرے یر نکل نف کے آیار رقم دیکھ ہیبم نسونش سے کہنا اتھا ک بویکہ اس کے سوال یر نفی‬
‫میں سر ہالپی مطییہ تنڈ سے ایر کر کجھ دور کھڑی ہوجکی تھی‪،‬یازک ہاتھ ہبوز گردن یر رکھا‬
‫گ پی ً‬
‫تھا‪،‬رات یر اس مح بوب کی پیند میں جلل یہ یڑنے کے جکر میں وہ پیبھے پیب ھے ہی سو نی‪ ،‬یح نا اب‬
‫ضراخی دار گردن کی ہڈی میں لجک سی آجکی تھی‪،‬‬

‫"دکھاؤ زرا مجھے۔۔"‬


‫اس کے یاس آیا ہیبم مطییہ کی گردن یر ر ک ھے اس کے ہاتھ کو ہناکر یوال‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔می۔۔میں تھنک ہوں۔۔"‬


‫نکل نف پیز ہوپی جارہی تھی مگر مفایل سے گ ھیراکر وہ تیجھے ہینی یولی‪،‬ہیبم کی پیشاپی یر سکییں یڑیں‪،‬‬

‫"کہا یا دکھاؤ۔۔"‬
‫اب کی یار یاقاعدہ اس کا ہاتھ چھنک کر وہ مطییہ کی سفند گردن یر اتنا مضبوط ہاتھ رکھا‬
‫تھا‪،‬نکل نف کے یاوچود وہ سدید یروس ہوپی اس کے یرم گرم لمس سے‪،‬‬

‫‪- 446 -‬‬


‫"تھنک ہے ہی۔۔ہیبم زیادہ۔۔۔درد نہی۔۔۔آ آہ۔۔"‬
‫وہ چو اس کے معاتیہ کرنے یر اتنی سی کوشش کررہی تھی وصاجت د تیے کی‪،‬ہیبم کے اجایک‬
‫گردن سندھی کرنے سے یک کی آواز آنے یر درد سے کراہ اتھی ساتھ ہی اس کے یازو یر ا تیے‬
‫یاجن گڑاپی‪،‬چود سے فرتب اس جسین چہرے یر درد کا یایر دیکھنا ہیبم آہسنگی سے اب مطییہ کی‬
‫گردن ہالیا‪،‬‬

‫"اب تھنک ہے۔۔"‬


‫گردن سے ہاتھ ہنا کر اس کے دھبمی آواز میں یوچھیے یر مطییہ نے مجسوس کنا اب واقعی اسے‬
‫درد مجسوس نہیں ہورہا تھا‪،‬چوسگوار جیرت سمیت تھریور مشکراہٹ چہرے یر شجانے وہ اتنات میں‬
‫سرہالپی‪،‬ہیبم منہوت ہوا تھا اس کے مشکرانے یر‪،‬وہ نہلی مرتیہ اسے یوں مشکرایا دیکھ رہا تھا‪،‬کوپی‬
‫مشکرانے ہونے اتنا جسین کیسے لگ سکنا تھا‪،‬گداز ل بوں کا تھنالؤ واقعی جان ل بوا تھا‪،‬ایک ت یٹ‬
‫ِمس ہوپی تھی اور یکدم چود کو کم بوز کریا اب وہ مطییہ یر سے نظریں ہنانے ا تیے یازو کو دیکھا‬
‫چہاں یاجن کے یازہ نشایات میں سے ہلکی سی چون کی یوید واضح ہورہی تھی‪،‬‬

‫اس کی نظروں کا نعاقب کیے مطییہ کا تھی چہرہ چھکا اور وہ نےساجیہ یوکھالپی‪،‬‬

‫‪- 447 -‬‬


‫"شس۔۔سوری۔۔"‬
‫مفایل کا غصہ جاتنی تھی تبھی رک رک کر کہنی وہ نےساچنگی میں ہیبم کے یازو یر چھک کر ان‬
‫یر کجھ دیر نہلے ا تیے ہی لگانے گیے زچم یر لب رکھی‪،‬ایک چوش آ تند سکون تھا چو ہیبم سکندر کو‬
‫اس کے گداز ل بوں کے لمس سے مجسوس ہوا‪،‬اگلے ہی یل وہ لب اس کے یازو سے ہناکر دور‬
‫ہوپی‪،‬مطییہ کا ارادہ تھویک مارنے کا تھا مگر ساید وہ چہرہ چھنایا جاہ رہی تھی تبھی یوکھالہٹ کا سکار‬
‫لب رکھ گنی‪،‬اتنی طرف سیحندگی سے دیکھیے ہیبم یر نظر یڑی یو وہ اور ک نف بوز ہوپی‪،‬‬

‫"سوری۔۔تنا نہیں۔۔کیسے۔۔"‬

‫"زچم یر لب رکھیے سے زچم تھنک ہوجایا ہے۔۔"‬


‫اس کی یات کاتنا وہ مطییہ کے دور ہییے یر اس کے فرتب ہویا یوچھا ساتھ ہی ایک مرتیہ تھر اتنا‬
‫ٰ‬
‫ہاتھ اس کی گردن کے گرد جایل کنا‪،‬ایک یو مفایل کا معنی جیز لہچے میں یوچھا سوال دوسرا اس‬
‫کے ایداز یر جد درخہ گ ھیراپی مطییہ کے گال گالپی ہونے لگے‪،‬‬

‫"نہیں۔۔ممہ۔۔مظلب ہاں۔۔نہہ۔۔"‬

‫‪- 448 -‬‬


‫مفایل کی فرتت تھی یا اتنی نےساجیہ کی خرکت یر سرمندگی کہ وہ یری طرح الجھی اسے چواب‬
‫د تیے کے لیے لفظوں کی منالسی تھی‪،‬‬

‫"اگر انشا ہے یو اس زچم یر تھی لب رکھیے سے یہ جلد تھنک ہو جانے گا۔۔"‬


‫ٰ‬
‫گہری نظروں سے اس کے گداز ل بوں کو دیکھنا وہ معنی جیزی سے کہا‪،‬کل رات مطییہ کے لب‬
‫کا تیے یر چو چون نکال تھا وہ اب جشک ہوچکا تھا‪،‬اس کے یوں یو لیے یر لرزپی یوچھل ہوپی یلکوں کو‬
‫ی‬ ‫س‬
‫ئمسکل اتھاپی مطییہ اسے یا ھی سے د ھیے گی مگر تب یک وہ اس یر چھک چکا تھا‪،‬مفا ل کی‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫مج‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫م ی‬ ‫ُ‬
‫اجایک کی گنی جشارت یر سن ہوپی طییہ آ یں یچ کر اس کے کندھے یر ہاتھ ماری کن‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫یآساپی اس کی کالپی یکڑیا وہ تیجھے لے جاکر مطییہ کی یازک کمر سے لگاگنا‪،‬‬

‫"مہ۔۔ہیبم۔۔"‬
‫سانس ر کیے یر ئمسکل کہنی وہ اتنا چہرہ موڑی‪،‬یازک دل یاگل ہونے کے درنے تھا‪،‬دھڑکییں‬
‫عروج یر ہوپی ہیبم کو واضح سناپی دے رہی تھیں‪،‬گہرے سانس لینی وہ اس کی آہنی گرقت کی‬
‫قند میں نےنس ہونے لگی‪،‬سرخ دہکنا چہرہ ایدر کی گ ھیراہٹ کی غکاسی کررہا تھا‪،‬تبھی اس یر رچم‬
‫کھایا ہیبم کالپی چھوڑیا تیجھے ہنا‪،‬‬

‫‪- 449 -‬‬


‫اس سبمگر کی گرقت سے آزاد ہونے ہی وہ تنا وقت صا نع کیے واسروم میں عاتب ہوپی تھی‪،‬ادھر‬
‫نفی میں سر ہالنے ہیبم کے ل بوں یر ہلکی سی مشکراہٹ اتھری‪،‬اس نے یہ عمل نےساچنگی‬
‫میں یا جذیات کے نہکاوے میں نہیں کنا تھا نس چواہش اتھری تھی ایدر ان گداز ل بوں کی یرمی‬
‫مجسوس کرنے کی‪،‬‬

‫وہ جینی کوشش کررہا تھا کہ اس لڑکی سے قاصلہ ت نانے ر ک ھے اتنا ہی وہ لڑکی روز یروز اس کے‬
‫چواس سلب کرنے یر یلی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سام کو آقس سے جلد آیا تھا وہ ا تیے مییسن‪،‬ہال میں قدم رکھیے ہی ششلینل چونکا دریہ تنگم کے‬
‫س‬
‫کمرے سے دو نسواپی آواز آنے یر‪،‬چویکہ یاپیں دھبمے لہچے میں ہورہی تھی یو لسینل کو گمان ہوا‬
‫کہ اسماء اور دریہ تنگم یات کررہی ہوں گی مگر اگلے لمچے ہی وہ تھبھک کر رکا جب نظر دوسری‬
‫جاتب کچن سے کجھ گنگناکر نکلنی اسماء یر یڑی‪،‬ہاتھ میں جانے کا کپ تھامے اس کا رخ دریہ‬
‫تنگم کے روم کی جاتب تھا مگر سا میے ہی ششلینل کو دیکھ رہ یوکھال کر رکی‪،‬اسماء کے یایرات سے‬
‫لگ رہا تھا کہ وہ اتھی اس کے آنے کی یوقع نہیں کررہی تھی‪،‬‬

‫‪- 450 -‬‬


‫"صاجب آپ اتنی جلدی آ گیے۔۔۔"‬
‫یلند آواز میں کہنی وہ ایک چور نظر دریہ تنگم کے کمرے یر ڈالی تھی جیسے یول کم اور سنا زیادہ رہی‬
‫خ‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ہو‪ ،‬ل کی زیرک ظروں سے اس کا ل فی یہ رہا‪،‬‬

‫"ہاں اکیر آیا ہوں۔۔اتنا جال کر ک بوں یول رہی ہو۔۔۔"‬


‫سیحندگی سے کہہ کر وہ دریہ تنگم کے کمرے کی طرف قدم یڑھایا چہاں سے اب یایوں کی آواز آیا‬
‫تند ہوجکی تھی‪،‬ایدر جاکر وہ سدید جیرت میں گھرا‪،‬وہاں عنادیہ اور دریہ ت نگم کے عالوہ کوپی نہیں‬
‫ت چن ہ س‬
‫ل یوٹ یہ کریایا‪،‬‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تھا‪،‬الییہ دریہ تنگم کے چہرے یر گ ھیراہٹ کے ہلکے آیار ھے یں‬

‫"کس سے یات کررہی تھیں گرتنی۔۔"‬


‫ایک نظر جاموش سناٹ یایرات لیے عنادیہ کا جایزہ لینا وہ دریہ تنگم سے مشکوک لہچے میں یوچھا‪،‬‬

‫"ارے وہ۔۔۔سمییہ تھی یا۔۔۔ہماری یراپی یڑوسن اس کی کال تھی۔۔"‬


‫اس کے سکی رونے یر دریہ تنگم نے چواز پیش کنا تھا‪،‬‬

‫"یات کال یر کررہی تھی اور آواز یاہر آرہی تھی۔۔"‬


‫‪- 451 -‬‬
‫م‬
‫وہ جیسے اب تھی طمین نہیں ہوا تھا‪،‬نظرین ہ بوز عنادیہ یر تھیں‪،‬‬

‫"ہاں یو فون سینکر یر تھا۔۔۔جیر یہ چھوڑو۔۔تم تناؤ اتنی جلدی کیسے آیا ہوا۔۔۔"‬
‫س‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫ل سے یو یں‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫جلدی سے یایک جییج کر کے وہ اب‬

‫"زیادہ کجھ نہیں۔۔۔نس آج کام کم تھا یو سوجا جلد آجاؤں۔۔"‬


‫اب کے نظر دریہ تنگم یر ر ک ھے وہ نےیایر لہچے میں کہا ساتھ ہی روم سے نکال‪،‬اگر کو دریہ تنگم فون‬
‫سینکر یر رکھ کر یات کررہی تھی تب تھی آواز اتنی واضح یہ ہوپی یو کنا۔۔‪،‬ذہن میں بجلی سا کویدا‬
‫ن‬ ‫س‬
‫م‬ ‫ن‬
‫ل ھ کوں کے زد یں آیا‪،‬گر کو چو وہ سوچ رہا تھا وہ شچ ہوا یو‬‫چ‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اور ا تیے روم میں داجل ہویا‬
‫شب سے نہلے وہ اسماء کو کام سے قارغ کریا تھر نعد میں دریہ تنگم کی کالس لینا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہیبم کے جانے کے نعد سے اب یک وہ کمرہ نسین تھی‪،‬وخہ ایک یو ہناد کا آج گھر یر رہنا دوسرا‬
‫اس کی طی نعت کجھ خراب تھی‪،‬صیح سے دو مرتیہ الیناں ہوجکی تھی‪،‬کہی یہ کہی وہ سمجھ جکی‬
‫تھی اتنی انسی طی نعت کا مظلب لنکن نضدیق کے عرض آج رات ہیبم کے آنے یر وہ مہناز تنگم‬
‫کو تناکر کلینک جایا جاہ رہی تھی‪،‬سام ہونے یر فرچندہ اس کے کمرے میں آپی تھی‪،‬‬
‫‪- 452 -‬‬
‫"پی پی تنگم صاجیہ۔۔۔"‬

‫"کافی کا یوچھ رہی ہیں۔۔"‬


‫اس کی یات اجکی تھی مطییہ نے جس یر وہ اتنات میں سر ہالپی‪،‬اسے تھیج کر مطییہ اتنا سر‬
‫یکڑی‪،‬دل نہیں کررہا تھا یاہر نکلیے کا‪،‬ڈر تھا تھر ہناد سے سامنا یہ ہوجانے‪،‬‬

‫"نہت ہوا۔۔۔آج ہیبم آ پیں گے یو انہیں شب تنادوں گی۔۔۔"‬


‫زی ِر لب یڑیڑاپی وہ تنڈ سے اتھی‪،‬ہمت کر کے روم سے یاہر نکلی ساتھ ہی ایک نظر جاروں طرف‬
‫دوڑاپی‪،‬ایک آدھ سروپیس کے سوا اسے کوپی یہ ِدکھا یو یرسکون ہوکر کچن کا رخ کی‪،‬‬

‫کافی تنانے اس کا ذہن کل رات سے یرنے گیے ہیبم کے یرم رونے یر تھا‪،‬وہ سبمگر جب جب‬
‫اس سے یرم لہچے میں یات کریا مطییہ کا دل دھڑکا جایا مگر جب وہ غصہ کریا‪،‬یہ سوچ مطییہ کو‬
‫چھرچھری لییے یر محبور کی اور تھر اجایک صیح کی گنی اس کی جشارت یاد آپی یو نےاجینار عارض یر‬
‫پیزی سے گالل یِکھرا‪،‬کسی نے گہری نظروں سے اس کے سرخ ہونے گالوں کو دیکھا تھا‪،‬ادھر‬
‫ہر جیز سے نےتناز کافی نکالنی ایک مرتیہ تھر اتنی طی نعت خراپی کا سوچ مطییہ کے گداز لب‬
‫‪- 453 -‬‬
‫یاجا ہیے ہونے تھی مشکرانے‪،‬اگر کو اس یات کی نضدیق ہوپی یو۔۔۔‪،‬یہ سوچ اسے نےجد چوسی‬
‫بجسنی‪،‬‬

‫"پی پی۔۔۔"‬
‫کجھ ہی دیر نعد کچن میں فرچندہ آنے ہونے اسے نکاری‪،‬‬

‫"کہو۔۔"‬
‫کافی کا مگ تھامے مطییہ کا ارادہ اب مہناز تنگم کے روم میں جانے کا تھا‪،‬‬

‫"وہ ہناد صاجب جانے مایگ رہے ہیں۔۔"‬

‫"یو دے دو تناکر۔۔"‬

‫"پی پی مجھ سے مانگا ہویا یو دے تھی د تنی یر وہ کہیے ہیں کہ آپ سے یولوں۔۔"‬


‫فرچندہ کی یات یر مطییہ کے چہرے یر یاگواری ایر آپی‪،‬‬

‫‪- 454 -‬‬


‫"یہ کافی یاپی امی کو دے کر آؤ۔۔۔میں جب یک جانے تنادوں۔۔۔تھر تم دے آیا انہیں۔۔"‬
‫اس کی جاتب کافی کا مگ یڑھاپی مطییہ یولی‪،‬‬

‫"یہ پی پی یہ۔۔۔انہوں نے شحنی سے م نع کنا ہے کہ میں یہ آؤں۔۔۔وہ کہہ رہے ہیں آپ‬
‫ہی جانے لے آ پیں ان کے کمرے میں۔۔"‬
‫اس سے مگ لے کر فرچندہ نے ممانعت کی‪،‬مطییہ کو یکدم غصہ آیا‪،‬‬

‫"میری طی نعت تھنک نہیں۔۔۔تم دے آیا میں نہیں جاؤں گی۔۔"‬


‫یاگوار لہچے میں کہہ کر مطییہ جانے کا یاپی خڑھانے لگی‪،‬‬

‫"ک بوں پی پی عرتب کی روپی تند کروارہی ہیں۔۔۔آپ کو نہیں تنا ہناد صاجب غصے کے پیز‬
‫ً‬
‫ہیں۔۔مجھے فورا قارغ کردیں گے کام سے۔۔۔"‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس یار فرچندہ عاخزایہ ایداز میں یولی یو وہ اسے د ھی‪،‬جا نی ھی بور ہے ا نی روزی سے ھی‬
‫ح‬‫م‬
‫سدید یرنشاپی میں ات نات میں سر ہالپی‪،‬فرچ ندہ کے جانے کے نعد اس نے جلدی سے جانے تناپی‬
‫ً‬
‫تھر چود میں ہمت تندا کیے ہناد کے کمرے کا رخ کی‪،‬وہ سوچ جکی تھی کہ جانے رکھ کر فورا‬
‫ً‬
‫نکل آنے گی روم سے ک بویکہ مفایل نقینا اسے تنگ کرنے کے عرض یہ خرکت کنا ہوگا‪،‬‬
‫‪- 455 -‬‬
‫"اب اور یرداشت نہیں کروں گی۔۔۔شب تناؤں گی ہیبم کو۔۔"‬
‫غصے میں یڑیڑاپی وہ اس کے روم میں داجل ہوپی‪،‬جالی کمرہ میہ خڑا رہا تھا‪،‬مطییہ کو ایدر یک‬
‫ل ن ً‬
‫سکون ہوا‪،‬جلدی سے سوسر میں رکھا کپ ساتنڈ پینل یر رکھنی وہ یلنی مگر اگلے ہی مچے فرتنا میہ‬
‫سے چیخ نکلیے نکلیے رہ گنی‪،‬یلکل سا میے کھڑا ہناد کمینگی مشکراہٹ اس کے اڑے ہونے چہرے‬
‫یر اچھاال تھا‪،‬‬

‫"اوہ کم آن۔۔۔کینا ڈرپی ہو تم مجھ سے۔۔"‬


‫اس کے فرتب ہویا ہناد مخظوظ ہویا یوال‪،‬‬

‫"جچہ۔۔جانے رکھ دی ہے۔۔"‬


‫ہکال کر مطییہ کپ کی جاتب اسارہ کی‪،‬کوشش تھی چود یر سے مفایل کا دھنان ہنانے‬
‫کی‪،‬شب کے سا میے وہ کل آرام سے یڈر تنی تھی مگر اب‪،‬جان نکلیے کو ہوپی‪،‬‬

‫"جانے کی طلب چبم ہوگنی سوت یٹ گرل۔۔"‬


‫اس کی اتھنی گرپی یلکوں کو دیکھ وہ یوال‪،‬‬
‫‪- 456 -‬‬
‫"ممہ۔۔میں لے۔۔جاپی ہوں۔۔یہ کپ۔۔"‬
‫یوکھالکر کہنی وہ کپ اتھانے کے لیے مڑی اور تبھی ہناد اس کا یازو اتنی گرقت میں لنا‪،‬‬

‫"مت جاؤ یا اتھ۔۔"‬

‫"میرا ہاتھ چھوڑیں۔۔۔"‬


‫مطییہ کو ا تیے وچود میں چوپیناں سی رت نگنی مجسوس ہوپی تبھی ہناد کی یات کاتنی وہ شحنی سے کہہ‬
‫کر اتنا یازو چھڑوانے لگی‪،‬‬

‫"یوٹ کررہا ہوں نہت ہمت نہیں آگنی تم میں۔۔زیان جالنے لگی ہو یو کبھی شخت لہچہ۔۔"‬
‫کل کی یات یاد کریا وہ اس یر چوٹ کنا ساتھ ہی آخر میں بجانے یازو چھوڑنے کے چھ نکا دے کر‬
‫اسے چود سے فرتب کرگنا‪،‬مطییہ کو ا تیے چواس جانے مجسوس ہونے تبھی اب وہ یاقاعدہ ہناد کے‬
‫سییے یر ہاتھ مارپی اسے دور کرنے لگی‪،‬‬

‫"دور رہیں مجھ سے وریہ میں یاپی امی کو یالدوں گی۔۔۔"‬


‫‪- 457 -‬‬
‫ی‬
‫چود سے یزدیک اس کی چوس تھری آیکھوں میں اتنی چھنل آ کھیں ڈالنی اب وہ تھوڑا اوبچی آواز‬
‫میں یولی‪،‬ڈر یو نےبجاشہ لگ رہا تھا مگر وہ مفایل کے سا میے کم از کم اب کمزور نہیں یڑیا جاہنی‬
‫تھی‪،‬‬

‫"اوہ۔۔مام کو یالؤگی۔۔جلو یالؤ میں تھی دیکھنا ہوں کینی ہمت ہے تم میں۔۔۔"‬
‫چنلیحنگ ایداز میں کہہ کر ہناد تیجھے تنڈ یر اسے لینا گِ را اور مطییہ کو لگا کہ اگر اب وہ نےنس‬
‫ً‬
‫یڑی یو نقینا اتنی غضمت گ بوا پیبھے گی‪،‬تبھی چود کو شخت سے یکڑے ہناد کے اویر سے اتھیے کی‬
‫کوشش کیے چیحیے کے لیے میہ کھولی‪،‬‬

‫"مطییہ۔۔"‬
‫غفب سے آپی چنگھاڑپی دھاڑ یر مطییہ سمیت ہناد تھی یوکھالیا ساتھ ہی جلدی سے مطییہ کو چود‬
‫سے دور کریا سندھا ہوا‪،‬گیٹ یر کھڑا ہیبم لہو چھلکاپی نظروں سمیت ان دویوں کو گھوررہا تھا‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔سکر آپ آ گیے۔۔ہی۔۔ہیبم یہ انشان۔۔یہ نہت گھینا ہے۔۔مجھے۔۔۔اس سے‬


‫بجالیں۔۔۔"‬

‫‪- 458 -‬‬


‫ہیبم کو دیکھیے ہی وہ تھاگ کر اس کے یاس آپی یولی ساتھ ہی ہیبم کے سییے میں چہرہ چھنانے‬
‫رونے لگی‪،‬مگر چھ نکا مطییہ کو تب لگا جب ہیبم چھنکے سے اسے دور دھکنال تھا‪،‬وہ نےنقین سی‬
‫اس سبمگر کو د یک ھے گنی‪،‬‬

‫"ہیبم اس کی یات کا نقین مت کر۔۔۔یہ علط تناپی کررہی ہے۔۔۔مطییہ چود آپی تھی میرے‬
‫کمرے میں۔۔"‬
‫دور کھڑا ہناد یڑی آساپی سے اتنا سارا الزام اس یر ڈالنا ہیبم کو وصاجت دیا‪،‬‬

‫"نہی۔۔نہیں ہیبم یہ چھوٹ یول رہے ہیں۔۔۔یہ۔۔یہ مج ھے۔۔نہت۔۔نہلے سے۔۔یر۔۔یرنشان‬


‫کرنے آرہے۔۔۔ہیں۔۔۔می۔۔میں تنانے والی۔۔تھی آپ کو۔۔"‬

‫"چھوٹ مت یولو مطییہ۔۔۔جب سے تم ہی کہہ رہی تھی یا کہ ہیبم تم سے یلکل تنار نہیں کریا‬
‫اور کنا وہ شب چھوٹ ہے چو کجھ دیر نہلے مجھ سے کہا تھا کہ جلد اسے چھوڑنے والی ہو۔۔۔"‬
‫یوکھالکر چود کو بجانے کے جکر میں وہ چو میہ آیا یولنا گنا‪،‬‬

‫‪- 459 -‬‬


‫"میں نے انشا کجھ نہیں کہا تھا۔۔ہیبم۔۔ان کی یات یر نقین مت کریں۔۔میں تناپی‬
‫ہوں۔۔۔میں۔۔"‬

‫"میہ تند رکھو۔۔۔تم دویوں نےسرموں۔۔۔میرے ت یٹ تیجھے انسی گھینا خرکت کرنے ہونے زرا‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫سرم نہیں آپی اور یو۔۔۔کمییے یو تھاپی ہے یا میرا۔۔"‬
‫ہناد کی طرف یڑھ کر اسے کالر سے دیوچنا ہیبم چیجا تھا‪،‬وہ آقس سے جلد آکر اب ہناد کی طی نعت‬
‫کا یوچھیے اس کے کمرے میں آیا تھا مگر نہاں کا م نظر دیکھ اس کا یارہ ہاپی ہوا تھا‪،‬دماغ جیسے‬
‫تھک سے اڑا تھا‪،‬کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کنا ضحیح ہے اور کنا علط‪،‬ذہن میں آپی یو ضرف نہی‬
‫یات کہ اس کی ت بوی اور تھاپی مل کر اسے دھوکے میں ر ک ھے تھے‪،‬‬

‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ُ‬


‫ن‬
‫"یو مج ھے ماردے یبم لنکن قین کر۔۔۔مطییہ چھوٹ کہہ رہی ہے۔۔۔میں علط ہیں ہوں۔۔"‬
‫چہرے یر دتنا چہاں کی الجارگی شجانے ہناد یوال‪،‬‬

‫"مار ہی ڈالوں گا کمییے آج بجھے۔۔۔"‬


‫پیزی میں ایک گھونشا ہناد کے چہرے یر خڑیا وہ تھر دھاڑا کہ چوف سے تھرتھراپی مطییہ‬
‫نےساجیہ ڈر سے چیخ یڑی‪،‬‬
‫‪- 460 -‬‬
‫"کنا ہورہا ہے نہاں یر۔۔۔"‬
‫اجایک وہاں سے گزرپی قلذہ کے کایوں نے جب سور سنا یو ایدر آپی وہ یولی‪،‬نہلے ہی کل کے‬
‫وا قعے یر وہ تبھری یڑی تھی اویر سے یہ سور لنکن ایدر آنے قلذہ کے میہ سے چیخ نکلیے نکلیے رہ‬
‫ک‬‫ی‬
‫گنی جب ہناد کو ہیبم سے پینا د ھی‪،‬‬

‫"تھاپی کنا کررہے ہیں۔۔"‬


‫ہیبم کو تیج ھے کرپی وہ رو کیے لگی‪،‬قلذہ کے تیج ھے ہنانے یر وہ اب لرزپی ہوپی مطییہ کو گھورا‪،‬‬

‫"ئمہیں یو میں۔۔"‬

‫"تھاپی رک جاپیں۔۔۔کنا ہوا ہے کوپی تنانے گا تھی۔۔۔"‬


‫مطییہ کے آگے آپی قلذہ اب اوبچی آواز میں زچ ہوکر یولی‪،‬‬

‫"یہ دویوں میرے ت یٹ تیج ھے مجھے۔۔"‬

‫‪- 461 -‬‬


‫ضنط سے کہنا ہیبم رک کر ایک نظر تیچے گرے ہناد کو تھر مطییہ کو گھورا‪،‬تھاپی یر سے تھروشہ‬
‫اتھیے کا الگ دکھ دوسرا اس لڑکی کے لیے اب یو یرم گوشہ پییے لگا تھا اس کے ایدر لنکن یہ‬
‫شب دیکھ دماغ کی نسیں جیسے تھییے کو ہورہی تھیں‪،‬اسنعال تھا کہ کم ہوکے نہیں دیا‪،‬آیکھوں‬
‫میں نفرت کے ساتھ ساتھ ہلکی سی ئمی ایری تھی‪،‬‬

‫"قل۔۔قلذہ۔۔۔تم۔۔تم یو جاتنی ہو یا کہ یہ مجھے۔۔۔یرنشان کرنے تھے۔۔یلیز ہیبم کو تناؤ۔۔۔وہ‬


‫ان کے ساتھ مجھے تھی علط سمجھ رہے ہیں۔۔۔مہ۔۔میں علط۔۔نہیں ہوں۔۔۔تم۔۔تم ت نا ہے‬
‫یا شب۔۔۔تناو ہیبم کو یلیز۔۔"‬
‫مطییہ کو امند کی کرن نظر آپی یو جلدی سے قلذہ کے سا میے آپی اسے رونے ہونے یولی جس یر‬
‫قلذہ نے ایک نظر ہیبم کو دیکھا وہ نہت ضنط کا مظاہرہ کرنے سرخ چہرہ لیے اس کے چواب کا‬
‫ی‬
‫می نظر تھا‪،‬تھر ہناد کو د کھی چو اب یاک سے نکلنا چون صاف کر کے ا تیے تنل یڑے گال کر‬
‫شہالیا کھڑا ہوچکا تھا‪،‬‬

‫"تھاپی میں آپ سے اس یارے میں یات کرنے والی تھی کہ۔۔مطییہ کو سمجھاپیں۔۔۔وہ اس‬
‫طرح کی یازت نایہ خرکییں بجھلے چند مہی بوں سے کررہی ہے۔۔۔ہناد تھاپی نے مجھے کہا تھا کہ میں‬
‫سمجھاؤں اسے۔۔۔انہیں اچھا نہیں لگنا جب یہ جان یوچھ کر ان کے سا میے آپی ہے۔۔۔وہ‬
‫‪- 462 -‬‬
‫عزت کرنے ہیں اس کی تبھی جاموش رہیے ہیں۔۔۔آپ کو چود تناکر سرم ندہ نہیں کریا جا ہیے‬
‫تھے تبھی مجھے کہا تھا تنانے۔۔۔"‬
‫قلذہ جیسے جیسے تنانے جارہی تھی مطییہ کو ہر چملے یر ایک الگ چھ نکا لگ رہا تھا‪،‬آنسو رکے تھے‬
‫ی‬
‫اور وہ تھنلیں آیکھوں سمیت اتنی دوشت کو د نی رہ نی چو آج کس طرح اس ہی یر سارے‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫الزام عاید کررہی تھی‪،‬نےقصور ہونے ہونے تھی اسے قصوروار نہرایا جارہا تھا‪،‬مطییہ کو اس سے‬
‫کم از کم یہ امند یہ تھی‪،‬‬

‫"چھ۔۔چھو۔۔چھوٹ یول۔۔۔رہی۔۔ہو تم۔۔ہیبم۔۔یہ۔۔چھوٹ۔۔"‬


‫نےنقینی کے عالم میں یڑیڑاپی مطییہ کا میہ اجایک تند ہوا جب اس کا رخ چھنکے سے اتنی جاتب‬
‫کریا ہیبم زور دار ت ھیڑ رسند کنا تھا اس کے گال یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ُ‬
‫تھاری ہاتھ کا پیز ت ھیڑ لگیے ہی مطییہ کا دماغ سن ہوکر رہ گنا‪،‬روپی یسے یرم گال یر ایک کٹ کا‬
‫ج‬
‫نشان یڑا تھا جس یر سے چون کی ہلکی لکیر اتھری‪،‬سلب ہونے چواس سمیت وہ تبھراپی نظروں‬

‫‪- 463 -‬‬


‫سے ہیبم کو د یکھے گنی چو غضب تھرے یایرات سمیت اسے گھور رہا تھا‪،‬سرخ آیکھوں کا قہر‬
‫گواہی دے رہا تھا کہ وہ شخص اتھی سدت سے چواہش رکھنا ہے اسے مار ڈا لیے کی‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔"‬
‫ن ً‬
‫مطییہ کے لب تھڑتھڑانے تھے اور تبھی اسے یازو سے جکڑ کر وہ فرتنا یحنا ہوا وہاں سے لے‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ک‬

‫کر گنا‪،‬‬

‫اب قلذہ ہناد کی جاتب م بوخہ ہوپی‪،‬چو ہیبم کی موچودگی میں معصوم صورت تنانے جاموش کھڑا تھا‬
‫یر اب اس کے ل بوں یر ایک چناتت تھری مشکراہٹ تھی‪،‬‬

‫"آج بجالنا۔۔۔ہمیشہ نہیں بجاؤں گی۔۔"‬


‫ی‬
‫اسے د کھنی قلذہ سیح ندگی سے کہی‪،‬‬

‫"ہنہہ آج بجایا تھی تم نے ا تیے مظلب سے ہی ہے۔۔۔اب تناؤ کنا کام کروایا جاہ رہی ہو۔۔۔"‬
‫اسے جذف اتھاپی نظروں سے دیکھ ہناد یوچھا ساتھ ہی وارڈروب سے فرشٹ ایڈ یاکس نکاال‪،‬‬

‫‪- 464 -‬‬


‫"ساپی سے یدلہ۔۔۔"‬
‫اس کے الفاظ یر ہناد چو روپی یر دواپی لگایا چوٹ صاف کرنے لگا تھا رک کر اس یر نظر ڈالی‪،‬‬

‫"وہ ئمہیں کہیے کی ضرورت نہیں۔۔۔اس انشان سے میرے کجھ جشاب نکلیے ہیں۔۔۔جب یک‬
‫موت کی پیند یہ سالدوں اسے جین نہیں آنے گا۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے یارے میں آپی سوجیں اس کا چون کھوالنے کے لیے کافی تھیں‪،‬‬

‫"اوہ۔۔۔تھر یو اسے میرا اجشان سمجھ لینا۔۔"‬


‫طیزیہ مشکراہٹ سمیت کہہ کر قلذہ مڑی‪،‬‬

‫"میں نہیں ماتنا کہ تم نے مجھ یر کوپی اجشان کنا آج۔۔۔یلکہ یوں کہنا تھنک رہے گا کہ‬
‫میرے ‪ 7‬سال نہلے تم یر کیے اجشان کا یدلہ چکایا ہے۔۔۔"‬
‫وہ یڑی آساپی سے چود عرض پینا اسے یار والے وا قعے کا یاد دالیا‪،‬‬

‫"اتنا یو میں تھی جاتنی ہوں تھاپی کہ وہ آپ نے مجھ یر اجشان نہیں کنا تھا یلکہ اتنی چنلسی میں‬
‫س‬
‫کنا تھا لسینل کے ساتھ وہ شب۔۔۔آپ جشد کرنے تھے اس کی ذہاتت اور قایلیت سے۔۔۔"‬
‫‪- 465 -‬‬
‫وہ تھی اس ہی کی نہن تھی‪،‬یلٹ کر یآساپی اسے آ پییہ دکھاگنی‪،‬‬

‫"اور آپ کو یو ڈریا تھی جا ہیے مجھ سے کہ کبھی تھی میرا میہ کھل سکنا ہے تھر کیسے بچیں گے‬
‫ہیبم تھاپی سے۔۔۔"‬
‫ئمسجر سے ہیس کر وہ ہناد کو تنایا جاہی مگر قلذہ کی مشکراہٹ عاتب ہوپی جب ہناد بجانے پییے‬
‫کے النا ہلکا سا قہقہہ لگایا‪،‬‬

‫اگر انشا ہے یو ڈریا تھر ئمہیں تھی جا ہیے مجھ سے ک بویکہ جب میرا میہ کھلے گا یو تم تھی کہیں کی‬
‫نہیں رہو گی۔۔‬

‫"کنا مظلب۔۔"‬
‫اس کے یوں یو لیے یر قلذہ کو یاگواری مجسوس ہوپی‪،‬‬

‫"مظلب صاف میری نہن۔۔۔دیکھو یا میں نے ضرف ا تیے دوشت سے دھوکہ دہی کی یر‬
‫تم۔۔۔تم یو دوشت کے ساتھ ساتھ اتنی نہن کی تھی نہیں ہوپی۔۔۔ئمہیں کنا لگا کہ میں نہیں‬
‫س‬
‫وت گویاپی سے۔۔۔"‬‫مجھ یاؤں گا کہ عندی ک بوں مجروم ہوپی ف ِ‬
‫‪- 466 -‬‬
‫"وہ۔۔وہ کابچ کے یکڑے علظی سے اس کے جلق میں جلے گیے تھے۔۔"‬
‫وہ اس کے ماضی کا ِکنا گناہ بچوپی کھول رہا تھا جس یر قلذہ نگاہ خراپی چواز پیش کی‪،‬‬

‫"علظی سے گیے تھے یا تھر چوس میں مال کر یالنے گیے تھے۔۔"‬
‫اتنہاپی کڑوا طیز کہ قلذہ کا چہرہ سفند یڑا‪،‬‬

‫"آپ کیسے ا تیے نقین سے کہہ سکیے ہیں۔۔"‬

‫"ڈاکیرز نے تنایا تھا اس کی طی نعت یگڑنے سے چند میٹ نہلے ہی تم نے عندی کو چوس دیا‬
‫تھا۔۔۔اس وقت میں نے پیسے دے کر ڈاکیر کو یولیس کیس ت بوانے سے انکار کروایا تھا مگر ہر‬
‫یار انشا نہیں ہوگا۔۔۔یو آ تندہ چ نال رکھنا۔۔۔"‬
‫شخت لہچے میں اسے یاور کروایا ہناد اب روپی کی مدد سے چون صاف کرنے لگا‪،‬چ ند یل یو قلذہ‬
‫اسے گھورپی رہی تھر پیر تیخ کر روم سے نکلی‪،‬اس کی نست کو دیکھ ہناد ت نفر سے سر چھ نکا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 467 -‬‬
‫"ہیبم میری یات سییں۔۔۔مہ۔۔قلذہ چھوٹ یول رہی ہے۔۔۔"‬
‫یری طرح روپی ہوپی وہ ہیبم کے ساتھ ئمسکل قدم مالپی یول رہی تھی‪،‬کمرے میں الکر وہ چھنک کر‬
‫اسے چھوڑا تھا کہ اویدھے میہ تنڈ یر گرپی وہ ت ھبھک کر رونے لگی‪،‬‬

‫"آج اتنی ایک اور تھنایک سکل دکھاپی ہے تم نے۔۔"‬


‫دھاڑ کی آواز سمیت گیٹ تند کریا وہ مڑ کر تنڈ کے فرتب آیا یوال‪،‬مطییہ جلدی سے تنڈ سے ایرپی‬
‫اس کے سا میے آپی‪،‬‬

‫"آپ قسم لے لیں مجھ سے وہ چھوٹ کہہ رہی ہے۔۔۔میں علط نہیں ہوں ہیبم ہناد تھاپی۔۔۔"‬

‫"ہناد نے چھوٹ کہا قلذہ نے چھوٹ کہا۔۔۔شب چھونے ہیں ضرف ایک تم شچی ہو ہے‬
‫یا۔۔"‬
‫اس کی یات کاتنا ہیبم مطییہ کے دویوں یازوؤں کو گرقت میں لینا چھنکے سے اسے چود سے‬
‫فرتب کیے عرایا‪،‬‬

‫"میرا نقین کریں ہیبم۔۔۔وہ نہت نہلے سے مجھے یرنشان کرنے آرہے ہیں۔۔۔"‬
‫‪- 468 -‬‬
‫کرب سے ہیبم کا چہرہ تھامنی وہ یڑپ کر رونے ہونے یولی‪،‬‬

‫"اگر تم ضحیح ہو۔۔۔یو نہلے ہی ک بوں نہیں تنایا یہ شب۔۔یولو۔۔"‬


‫ھ‬ ‫چ‬
‫چہرے یر سے اس کا ہاتھ زور سے چھنکنا ہیبم دھاڑنے ہونے اسے ھوڑا تھا‪،‬‬
‫ج‬‫ی‬

‫"ک بویکہ میں ڈرپی تھی۔۔۔ڈرپی تھی کہ کوپی نقین نہیں کرے گا میری یات کا۔۔۔یہ یات‬
‫ضرف قلذہ کو معلوم تھی اور اب وہ تھی۔۔۔"‬
‫مطییہ کو سمجھ یہ آیا کیسے اسے نقین دالنے‪،‬آخر کار نےنسی سے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھنانے‬
‫یآواز رویڑی‪،‬‬

‫"یہ ڈرامے میرے سا میے نہیں جلیں گے مطییہ چہایگیر۔۔۔ئمہاری اصلیت سے نہلے ہی واقف‬
‫ہوں۔۔۔نہلے اتنی چھوپی محیت کے یام یر نہن کو مار ڈاال اور اب اس محیت سے دل تھرا یو جلی‬
‫ایک اور چھوپی محیت کی کہاپی تنانے۔۔۔"‬

‫"ہیبم نس کریں۔۔۔"‬

‫‪- 469 -‬‬


‫پ‬
‫اذ تت یڑھی یو وہ چیحیے ہونے زمین یر یبھنی جلی گنی‪،‬اتنی محیت کی اس قدر یذلنل یر مطییہ کو لگا‬
‫اتھی اس کا دل درد سے ت ھٹ جانے گا‪،‬وہ شب یرداشت کرسکنی تھی مگر ا تیے یاک کردار کو‬
‫خراب ہویا نہیں‪،‬اور اتھی سا میے اس کا محبوب وہ شخص کییے زہر یلے لفظوں کا اسنعمال کررہا تھا‬
‫اس کی یاک محیت کو یدیام کرنے کے لیے‪،‬‬

‫"اگر شچ جاتنا نہیں جا ہیے یو چھونے کو شچ مان کر میری محیت کی یذلنل یہ کریں۔۔۔یلیز۔۔"‬
‫ا تیے یالوں کو جکڑ کر سر چھکانے وہ تھوٹ تھوٹ کر رونے اس سے فریاد کی تھی‪،‬یاوچود‬
‫کوشش ہیبم کی آیکھوں میں نہری ئمی چھلکیے کو ہوپی‪،‬ک بوں تھی وہ لڑکی انسی چو اس قدر یری‬
‫ہونے کے یاوچود ا تیے آنسوؤں سے مفایل کو رچم کھانے یر مح بور کرد تنی۔۔۔‪،‬ک بوں اس سے اتنا‬
‫یدگمان ہونے کے نعد تھی ہیبم کا دل امند کررہا تھا کہ ساید۔۔۔‪،‬ساید وہ ضحیح کہہ رہی ہو‪،‬یر‬
‫دماغ‪،‬‬

‫دماغ نے جیسے صاف انکار کر ڈاال‪،‬آخر کو کبھی آیکھوں دیکھا چھوٹ ہوا ہے‪،‬ضرور وہ انسی ہی تھی‬
‫اور تھر قلذہ‪،‬وہ یو اس کی پیسٹ فرتنڈ ہے‪،‬اس سے زیادہ کون جان سکنا تھا مطییہ کو‪،‬جب وہ‬
‫ہی ت نارہی ہے کہ علط مطییہ تھی یو تھر اور کسی امند کا سوال ہی تندا نہیں ہوسکنا تھا‪،‬رونے‬

‫‪- 470 -‬‬


‫سے اس کا یازک وچود ہجکولوں کے زد میں تھا‪،‬وہ اب یک سر چھکانے ا تیے یالوں کو جکڑی یآواز‬
‫رورہی تھی‪،‬لب تھییحنا ہیبم چھکا تھر آہسنگی سے مطییہ کی تھوڑی تھام کر اس کا چہرہ اویر کنا‪،‬‬

‫سرخ میرتم چھنل آیکھوں میں ہلکی سی امند اتھری کہ مفایل کو ساید نقین آیا ہو اس کی نے‬
‫ی ی‬
‫گناہی کا‪،‬تبم وا روپی روپی آیکھوں سے مفایل کی سرخ آ کھ د نی وہ ھراپی آواز یں یولی‪،‬‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫"ہیبم۔۔۔ضرف ایک مرتیہ مجھ یر نقین کرلیں۔۔"‬


‫یونے لہچے میں وہ تھک کر یولی تھی‪،‬‬

‫"کرلینا اگر۔۔۔اگر تم یدکردار یہ ہوپی۔۔۔"‬


‫اذ تت سے کہنا وہ مطییہ کو تبھر کرگنا‪،‬سبھی الزامات ایک طرف مگر یدکردار کا لفظ اسے کسی‬
‫ی‬
‫طما بچے کی طرح لگا تھا ا تیے میہ‪،‬یل میں جشک ہوپی تیجر آیکھوں سے وہ ہیبم سکندر کو د کھنی رہ‬
‫گنی‪،‬یاذلی کے معا ملے میں وہ ماتنی تھی کہ قصوروار وہ تھی تھی مگر اب‪،‬یہ کجھ یوچھا یہ اس کی‬
‫سنی نس سندھا یدکردار کا تنگ لگادیا گنا‪،‬اصل قصوروار ہر گناہ سے یری الزمہ تھا اور نہاں وہ ایک‬
‫یاکردہ گناہ کی یدولت یدکردار کہالپی تھی‪،‬اس لفظ سے نہیر اسے ہیبم کا چود کو مار ڈال نا نہیر لگا‪،‬وہ‬
‫اتھا تھر روم سے نکل کر گیٹ تند کریا جالگنا مگر مطییہ چہایگیر کو م بوں منی یلے دو کوڑی کا کر‬
‫‪- 471 -‬‬
‫ڈاال ا تیے لفظ یدکردار سے‪،‬یکدم جالی ہونے دماغ سمیت وہ اس تند دروازے کو گھورپی رہی چہاں‬
‫سے وہ سبمگر اتھی نکال تھا‪،‬صدمہ اس قدر گہرا لگا تھا کہ یڑت نا ششکنا دل ساکت ہوا اور لمچے کے‬
‫م‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫چ ّ‬
‫ہزارویں صے یں طییہ کی آ ھوں یں ایدھیرا چھایا تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کا کھایا جاموش ماچول میں کھایا گنا تھا‪،‬آج وہ گرتنی سے تھی زیادہ یات نہیں کنا اور اب‬
‫ُ‬
‫تنڈ یر لینا جب سے سا میے اون ایل ای ڈی یر نظریں مرکوز کیے سوچ میں گم تھا‪،‬تھوڑی ہی دیر‬
‫میں عنادیہ روم میں داجل ہوپی یو اسے سوچ میں گم دیکھ ڈرنسنگ روم کا رخ کی‪،‬جییج کر کے‬
‫جب یاہر آپی یو دیکھا ایل ای ڈی یر میچ لگا تھا یر مفایل کا دھنان کسی ظور وہاں نہیں تھا یلکہ‬
‫اب یک وہ یاجانے کس سوچ میں ڈویا تھا کہ عنادیہ کے آنے یک کو یونس یہ کنا‪،‬‬

‫صیح کا سوچ کر عنادیہ کے گال ہلکے گالپی یڑے یر جلد ہی اتنی سوچ چھنکنی وہ ہمت کر کے‬
‫پ‬
‫تنڈ یر جا یبھی‪،‬کمفریر چود یر ڈالے اس نے کل کی طرح کونے میں اتنی جگہ تناپی سونے کی‪،‬چود‬
‫م‬ ‫لج‬ ‫ک‬‫ت ی‬
‫کو کمفریر میں چھنانے وہ ا ھی آ یں تند کی گر اسے شخت ا ھن ہوپی یچ کی پیز آواز کایوں یں‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫س‬
‫یڑنے سے‪،‬مڑ کر وہ پییے ہونے لسینل کو گھوری چو چود یو شب سے ت نگایہ اتنی سوچ میں مچو‬
‫تھا مگر اس کی پیند خراب یرسکون ایداز میں کررہا تھا‪،‬‬
‫‪- 472 -‬‬
‫س‬
‫لسینل کو گھوری سے یوازپی وہ اس کے یرایر سے رئموٹ اتھاکر ایل ای ڈی تند کی اور تبھی‬
‫ک‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ج‬ ‫م‬
‫ل چو ک کر اس کی جاتب بوخہ ہوا‪،‬ر موٹ وانس گہ یر ر ھے وہ دوسری کروٹ لیے‬ ‫ی‬
‫سونے لگی مگر اگلے لمچے ہی تھر میچ کی پیز آواز نے پیند میں جلل تندا کی یو وہ مڑ کر جیرت سے‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل کو د ھی جس کے یراسے ل بوں دل الپی مسکان چی ھی‪،‬وہ اس ہی کی طرف ظریں‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ج‬
‫مرکوز کنا ہوا تھا‪،‬غصے میں اتھنی عنادیہ تھر رئموٹ اتھاپی اور ایل ای ڈی تند کی اتھی وہ لیٹ‬
‫س‬
‫ہی رہی تھی کہ لسینل نے تھی وانس اون کردیا‪،‬‬

‫نہ س‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادیہ گھوری تھی اسے ساتھ رئموٹ اتھانے کے لیے ہاتھ یڑھاپی مگر اس سے لے ہی‬
‫رئموٹ اتھاکر اتنا ہاتھ تیجھے کنا‪،‬ل بوں یر ہبوز تناد تیے والی مشکراہٹ تھنلی تھی‪،‬عنادیہ جان گنی وہ‬
‫تھر اسے تنگ کرنے کے موڈ میں ہے اس ہی لیے اب بجمل سے وہ رئموٹ کی جاتب اسارہ‬
‫کر کے مایگی ساتھ چونصورت چہرے یر معصوم یایرات النے‪،‬ایک یو نہلے ہی یال کا معصوم چہرہ‬
‫سلسین ً‬
‫اس یر سے مفایل کا یوں معصوم پینا‪ ،‬ل فورا سے لے ا ل ای ڈی تند کنا‪،‬اور وہ چو اب‬
‫ی‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫اس کے عمل یر یرسکون سی دوسری کروٹ یر لینی تھی یکدم چود یر یوچھ مجسوس کرکے جیراپی‬
‫میں گھری گردن موڑی‪،‬مفایل یلکل اس کے فرتب یرایر میں ہوکر اب آرام سے اس کے گرد‬

‫‪- 473 -‬‬


‫س‬
‫یازو جایل کنا ہوا تھا‪،‬عنادیہ یوکھالکر اتھیے لگی مگر اس کا راشیہ مشدود کیے لسینل گہری نظروں‬
‫سے عنادیہ کے گالوں میں چ نا کے ریگ یکھرنے دیکھیے لگا‪،‬‬

‫"جاتم۔۔۔کنا علظی ہوپی ہے مجھ سے چو یوں روتھ گنی ہو۔۔۔"‬


‫اس کی تھوڑی یکڑ کر ایگو تھے سے عنادیہ کے ل بوں کو شہالیا وہ یرم لہچے میں یوچھا‪،‬اسارہ واضح‬
‫عنادیہ کا اس سے ت نگایہ رویہ یر تیے یر تھا‪،‬‬

‫ادھر عنادیہ کی جالت عیر ہونے لگی مفایل کے ایگو تھے کو ا تیے ل بوں یر ت ھیرنے دیکھ‪،‬گ ھیراہٹ‬
‫سے یلکیں لرزنے لگیں تھیں‪،‬‬

‫"مجھے دیکھو۔۔"‬
‫وہ سرگوسی کنا تھا جس یر یوچھل ہوپی یلکوں کو اتھانے عنادیہ چود یر چھکے اس کے وچنہہ چہرے‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ُ‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ک‬
‫کو د ھی‪ ،‬مرے کا شجر ا گیز ماچول اس یر فا ل کی یر یش ظریں‪،‬عنادیہ کے دل کی دھڑ یں‬
‫سوا تھیں‪،‬‬

‫"تم۔۔۔ڈری ہوپی ہو۔۔"‬


‫‪- 474 -‬‬
‫نغور اس کی کالی آیکھوں کو دیکھ وہ جیسے راز جا تیے کی کوشش کنا تھا ان کے ایدر کا اور عنادیہ‬
‫نے گ ھئیری یلکوں کی چھالریں گراپیں اس ڈر سے کہ کہیں سبھی راز اقشاء یہ ہو جانے‪،‬وہ‬
‫نےنقین تھی کہ مفایل اس قدر جاتنا تھا اسے کہ آیکھوں سے اس کا درد یڑھیے کا قایل تھا تھر‬
‫ک بوں وہ وخہ نہیں جان یارہا تھا اس کے درد کی‪،‬‬

‫س‬ ‫ی‬
‫"اس انشان کی آ کھیں یوچ لے گا لسینل مراد جس سے اس کی ت بوی ڈرپی ہے۔۔۔ت ناو جاتم‬
‫کون ہے وہ۔۔کس سے ڈری ہوپی ہو تم۔۔۔"‬
‫مفایل کے لہچے میں چ بون دیکھ ایک یل کو عنادیہ کو نےبجاشہ جیرت ہوپی‪،‬کنا وہ ات نا چ بوپی تھا‬
‫اس کے لیے‪،‬مگر وہ اسے کنا تناپی کہ کسی ا تیے کا ڈر ہی ہے چو اس کے چواسوں میں چھایا ہوا‬
‫تھا جس کی وخہ سے وہ ا تیے مہی بوں سے ا تیے گھر میں رہیے ہونے تھی ڈری رہنی‪،‬‬

‫"ئمہیں یاد ہے۔۔۔"‬


‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ی‬
‫ل کی تھاری آواز یر وہ چو ک کر اسے د ھی‪،‬‬

‫‪- 475 -‬‬


‫"جب تم نہلے نہت زیادہ یولنی تھی تب میں ئمہیں ڈاتٹ کر جپ کرواد ت نا۔۔اس وقت میں‬
‫س‬
‫نےجد خڑیا تھا ئمہاری آواز سے مگر اب۔۔۔ لسینل مراد یرس چکا ہے ئمہاری آواز سییے کے‬
‫لیے۔۔۔یلیز کجھ یو یول دو عندلیب۔۔۔"‬
‫عنادیہ کے الکھ انکار یر تھی وہ اسے یوں یرتٹ کررہا تھا جیسے عندلیب ہی ہو‪،‬اور اب کرب سے‬
‫کہنا وہ ع نادیہ کی پیشاپی سے اتنی پیشاپی لگاگنا‪،‬اس کا دل یڑپ کر رہ گنا تھا ا تیے مح بوب کو یوں‬
‫کرب میں دیکھ‪،‬‬

‫"کنا تم یدگمان ہو مجھ سے۔۔۔اگر انشا ہے یو کلئیر کرو آخر کنا ہوا ہے چو تم انشا اجینی رویہ رکھی‬
‫ہوپی ہو مجھ سے۔۔۔"‬
‫ی‬
‫آہسنگی سے آ کھیں مویدیا وہ ہلکی آواز میں یوچھا‪،‬عنادیہ کا دل درد سے کرالیا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫"میں جدا کو جاضر و یاطر رکھیے ہونے اعیراف کریا ہوں کہ لسینل مراد نے اتنی زیدگی میں ا تیے‬
‫ماں یاپ اور گرتنی کے نعد ضرف تم سے نےتناہ محیت کی ہے۔۔"‬
‫غفندت تھرے لہچے میں کہنا وہ عنادیہ کو رونے یر مح بور کنا لنکن اسے سدت سے غصہ آیا جب‬
‫ی‬
‫کالی آ کھیں ایک مرتیہ تھر جشک رہیں‪،‬وہ رویا جاہنی تھی نےبجاشہ رویا جاہنی تھی کہ ایک طرف‬
‫مفایل کا نقین سے ُیر لہچہ تھا یو دوسری جاتب وہ مال میں ہوا واقعہ‪،‬کس یر نقین کرپی وہ‪،‬‬
‫‪- 476 -‬‬
‫"کنا ئمہیں تھروشہ ہے میری یایوں یر۔۔۔"‬
‫اگلے ہی یل وہ آس لیے یوچھا تھا جس یر الجھ بوں میں گھری عنادیہ نےساجیہ نفی میں سر ہالپی‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ف‬‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل‬ ‫ل کی امند یوپی‪،‬ا تیے ظوں یر عنادیہ چود ہی یڑپ مجسوس کی‪،‬دوسری جاتب‬ ‫اور‬
‫کی آیکھوں سے ایک یوید نکلنی عنادیہ کے عارض یر گری‪،‬وہ مضبوط انشان نےاتنہا اذ ت بوں میں تھا‬
‫ً‬
‫مگر وہ اتنی جلدی رونے والوں میں سے ہرگز یہ تھا‪،‬اور تبھی اسے نقین ہوا کہ اس کی محیت نقینا‬
‫ی‬
‫یڑپ میں ہے اسی وخہ سے اس کی آ کھیں تم ہوپیں‪،‬‬

‫"ئمہاری آیکھ کے آنسو ہماری آیکھ سے نکلے‪،‬‬


‫ئمہیں تھر تھی سکاتت ہے محیت ہم نہیں کرنے۔"‬

‫س‬
‫یہ سعر نےاجینار لسینل کے ل بوں سے سرگوسنایہ ایداز میں نکال تھا اور عنادیہ اتنی دل و دماغ‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫س‬
‫کی لڑاپی سے نےنس ہوپی اس مح بوب کے سییے میں میہ چھنانے رو دی‪ ،‬ل نے آ گی‬
‫ک‬‫شہ ی‬
‫سے اس کے گرد دویوں یازوؤں کا چضار تنایا تھر اس کی نست یرمی سے الیا آ یں موید گنا‪،‬‬
‫ھ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 477 -‬‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫تنگ ت ن‬
‫ی‬
‫یہ جیر مہناز م یک ھی چی ھی وہ چو لے ہی ا تیے بچوں یر جد درخہ اعبماد اور محیت کرپی‬
‫تھیں اب قلذہ کی زیاپی شب سن کر نہلے یو انہیں نقین نہیں آیا تھا مگر جب ہناد نے تھی ہیبم‬
‫کے مارے جانے کی یات اور اتنا تنل یڑا چہرہ انہیں دکھایا تب وہ نےجد یدگمان ہوپیں مطییہ‬
‫سے‪،‬انہوں نے اس یایک یر اس سے یات یک کریا گوارا نہیں کی تھی‪،‬مہناز تنگم کا سروع سے‬
‫کہنا یہ تھا کہ دتنا علط ہوسکنی ہے مگر ان کے بچے نہیں اس ہی یدولت وہ اب مطییہ سے‬
‫شخت چفا تھیں‪،‬ہیبم تھی رات کا گنا صیح یکھرے جلیے میں گھر میں داجل ہوا تھا‪،‬مہناز تنگم کو‬
‫اس کی جالت یر دکھ ہوا مگر وہ جاتنی تھی قلجال وہ کسی سے یات کریا نہیں جاہنا‪،‬روم میں آکر‬
‫جب اس کی نظر مطییہ کے نےہوش وچود یر یڑی یو نفرت سے سر چھ نکنا وہ واسروم کا رخ‬
‫کنا‪،‬آج آقس تند تھا یو فرنش ہوکر وہ تنار ہویا یاہر گنا تھا یازہ ہوا کھانے‪،‬‬

‫دونہر کو اسے ہوش آیا تھا‪،‬ا تیے تھاری ہونے سر کو یکڑپی تنڈ کا شہارا لے کر وہ اتھی‪،‬گلے میں‬
‫کا تیے چبھیے مجسوس ہونے یو وہ یاپی کے لیے نظریں دوڑاپی‪،‬ساتنڈ پی نل یر رکھا جگ جالی دیکھ وہ‬
‫روہانسی ہوپی‪،‬ہمت نہیں تھی یاہر جانے کی مگر تناس تھی نہت لگ رہی تھی‪،‬چود میں ہمت تندا‬
‫ھ‬ ‫مکم چ‬ ‫پ‬
‫کرپی وہ اتھ کر تنڈ یر یبھی‪،‬کل رات ہونے وا قعے نے اسے ل ھوڑ کر رکھ دیا تھا‪،‬یوں لگا‬
‫ج‬‫ی‬
‫جیسے زیدگی کجھ اور تنگ ہوجکی ہے اس یر‪،‬اس سبمگر کے زہر یلے لفظوں کو یاد کر کے وہ اذ تت‬
‫ی‬
‫سے آ کھیں میچ کر وا کی تھر ئمسکل سر یکڑپی دو تیہ سل نقے سے لے کر روم سے نکلی‪،‬سا میے کوپی‬
‫‪- 478 -‬‬
‫مالزمہ تھی یہ دکھی جس سے یاپی مایگ سکے‪،‬آخر چود سیڑھناں ع بور کرپی تیچے آپی‪،‬سا میے صوقے یر‬
‫نہ ی‬
‫مہناز تنگم کسی سے مچو گفنگو تھیں‪،‬مطییہ چو ا یں د نی قدم ان کی جاتب یڑھانے گی ھی‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اجایک رکی‪،‬ان کی نظروں میں ا تیے لیے ت نفر دیکھ‪،‬سر چھنک کر اتھنی وہ فون کان سے لگانے‬
‫ا تیے کمرے کا رخ کیں‪،‬مطییہ کو الگ طرح سے اذ تت ہوپی‪،‬یو کنا وہ تھی اس کی طرف سے‬
‫یدگمان ہوجکی تھیں‪،‬گلے میں آنسوؤں کا تھندا انکا تھا جسے ئمسکل گھوتٹ کر وہ کچن کا رخ کی‪،‬دو‬
‫گالس یاپی پییے کے نعد گالس وہی سلیپ یر رکھنی وہ تھوک لگیے یر نظر دوڑاپی‪،‬کل رات سے اب‬
‫دونہر ہونے کو تھی اسے تھوکے رہے‪،‬‬

‫"نہت اقسوس ہوا۔۔۔"‬


‫غفب سے آپی آواز یر وہ مڑی تھی چہاں مفایل کمینگی مشکراہٹ اس یر اچھالے سلیپ یر‬
‫مطییہ کا رکھا گالس اتھایا‪،‬اسے دیکھیے ہی مطییہ کے ایدر و یاہر نفرت کی ایک لہر دوڑی‪،‬گالس‬
‫میں یاپی ڈالنا وہ گالس ل بوں سے لگایا‪،‬‬

‫"یاپی کجھ میبھا نہیں۔۔"‬


‫ایک مرتیہ تھر وہی چناتت تھرا لہچہ‪،‬مفایل کا ہر ایداز تنارہا تھا کہ وہ اس کی نےنسی کا مذاق‬
‫اڑارہا ہے کہ دیکھو تم علط نہری شب کی نظروں میں اور میں گناہگار ہونے ہونے تھی نے گناہ‬
‫‪- 479 -‬‬
‫ین گنا‪،‬سدید غصے میں مطییہ کا چہرہ سرخ ہوا‪،‬ہاتھ نےساجیہ سا میے سیینڈ یر ہینگ چھری‬
‫اتھانے تھے اور ہناد چو اتھی جیران ہی تھا اسے چھری تھا میے دیکھ یکدم چیخ یڑا جب اجایک غصے‬
‫میں تھینکی گنی مطییہ کی چھری ا تیے بجاؤ کے عرض آگے کرنے اس کے ہاتھ یر لگی‪،‬‬

‫"کنا ہورہا ہے۔۔"‬


‫ی‬
‫ہناد کی چیخ یر مہناز تنگم گ ھیراپی ہوپی وہاں آپی مگر ایدر کا م نظر ان کی آ کھیں ا یلیے کو مح بور‬
‫ی‬
‫کنا‪،‬چھری کے نعد مط ییہ نفرت سے اسے د کھنی وہ گالس ماری تھی جس ہناد کے سندھا سر یر‬
‫لگا‪،‬‬

‫"لڑکی رکو۔۔۔یاگل ہوپی ہو کنا۔۔۔"‬


‫ا تیے پییے کو درد سے کرا ہیے دیکھ وہ تیچ میں آپی چیچی‪،‬‬

‫"اس انشان سے کہیں دور رہے مجھ سے۔۔۔اب تھی سکون نہیں مال اسے۔۔۔اتنا یو یریاد کردیا‬
‫اب ک بوں تیجھے یڑا ہے میرے۔۔۔"‬
‫ا تیے دیوں کی تھڑاس نکا لیے وہ یکدم جلق کے یل جالپی‪،‬ذہن جیسے کام ہی نہیں کررہا تھا‪،‬دل‬
‫نس جاہ رہا تھا کہ اس انشان کو کسی تھی طرح مار ڈالے‪،‬‬
‫‪- 480 -‬‬
‫"نس کرو مطییہ۔۔ہوش میں تھی ہو کنا یول رہی ہو۔۔۔اتنا گناہ میرے پییے یر ڈال کر تم‬
‫یرالزمہ نہیں ہوسکنی۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم کا لہچہ یلکل اجینی ہوا تھا اس سے‪،‬بچوشت سے کہییں وہ ہناد کی جاتب م بوخہ‬
‫ک‬‫ی‬
‫ہوپیں‪،‬چو سر یکڑے یری طرح کراہ رہا تھا‪،‬مطییہ انہیں نکل نف سے د ھی چو یاپی ہونے کے‬
‫م‬
‫یاوچود اس سے ماؤں جیسی محیت کرپی تھیں مگر اتھی ان کا یہ رویہ اسے کمل یوڑ گنا‪،‬‬

‫"تم۔۔۔تم مروگے ہناد سکندر۔۔۔۔نہت یری موت مروگے۔۔۔جدا کا قہر یرسے تم یر۔۔۔"‬
‫نےنسی میں ات نا آیا کھوپی وہ مشلشل چیخ رہی تھی‪،‬ادھر سکندر وال میں داجل ہویا ہیبم سور کی آواز‬
‫یر کچن کی جاتب آیا وہاں مطییہ کو یوں چیحیے اس نے اتھی دیکھا ہی تھا کہ مہناز تنگم نے جلدی‬
‫سے اسے نکارا‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔۔۔اس لڑکی کو نہاں سے لےکر جاؤ۔۔۔یاگل ہوجکی ہے یہ۔۔"‬


‫ہناد کا زچمی ہاتھ یکڑے وہ مطییہ کی جاتب اسارہ کرپی یولیں چو اب ہیبم کو دیکھ کر اس کی‬
‫طرف تھاگی تھی‪،‬‬

‫‪- 481 -‬‬


‫"ہیبم۔۔۔یہ آدمی اتھی چود ہی نہاں آیا تھا اور مجھے جان یوچھ کر یرنشان کررہا تھا۔۔۔میرا مذاق‬
‫اڑارہا تھا۔۔۔نقین کریں میرا۔۔"‬
‫س‬
‫کل رات اس سبمگر کے سبھی الفاظ کو یرے کرپی وہ اتنا مجاقظ نی اسے جلدی جلدی تنارہی‬
‫ھ‬ ‫مج‬

‫تھی‪،‬‬

‫"چھوٹ مت یولو مطییہ۔۔۔میں نے چود دیکھا ہے کیسے تم جیزیں جال کر ہناد کو ماررہی‬
‫تھی۔۔۔دماغ جگہ یر ہے تھی یا نہیں ئمہارا۔۔۔اتنا کردار شب کے سا میے کھال یو میرے پییے کو‬
‫نفضان نہیجانے لگی ہو۔۔۔"‬
‫مہناز تنگم اسے گھور کر پیز آواز میں یولیں جس یر ہیبم ایک نظر اتنا سر یکڑے مظلوم چہرہ تنانے‬
‫ہناد کو دیکھا تھر مطییہ کو چو مشلشل نفی میں سر ہالرہی تھی‪،‬اتنی ماں کا کہا آخر کیسے چھنال سکنا‬
‫تھا وہ‪،‬‬

‫"یاپی امی۔۔۔علط میں نہیں یہ انشان ہے۔۔۔کردار اس کا خراب۔۔"‬

‫"نس کرو۔۔"‬

‫‪- 482 -‬‬


‫وہ چو تھنگے مگر یلند لہچے میں یول رہی تھی ہیبم کے اجایک چھڑ کیے یر جپ ہوپی‪،‬اجایک اسے یازو‬
‫سے یکڑ کر وہ کچن سے نکلنا یاہر گنا‪،‬اس یار رخ ا تیے کمرے کے بجانے گیسٹ روم کی طرف‬
‫تھا‪،‬وہاں لے جاکر وہ چھنکے سے مطییہ کو ایدر کنا‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔"‬

‫"جپ۔۔نہت ئماشہ دیکھ لنا ئمہارا۔۔۔نہی یر رہو اب۔۔"‬


‫ک‬‫ی ہیب ی‬
‫اس کو اتنی طرف آیا د کھ م آ یں دکھایا نی سے یوال ساتھ ہی دروازہ تند کریا یاہر سے الک‬
‫ح‬‫ش‬ ‫ھ‬
‫کنا‪،‬‬

‫"سبو۔۔"‬
‫فرچندہ چو صفاپی کے دوران چور نظروں سے اسے دروازہ الک کرنے دیکھ رہی تھی ہیبم کے یالنے‬
‫یر جلدی سے آپی‪،‬‬

‫"خی صاجب۔۔"‬

‫‪- 483 -‬‬


‫"کھانے کے اوقات کے عالوہ یہ دروازہ جیردار چو کھوال۔۔جاپی رکھو اور اگر وہ لڑکی نہاں سے نکلی یو‬
‫قارغ کردوں گا ئمہیں نہاں سے۔۔۔"‬
‫فرچندہ کی نظروں میں مطییہ کے لیے یرچم دیکھ وہ کرجت لہچے میں کہہ کر اسے جاپی دیا ساتھ ہی‬
‫سیڑھ بوں کی جاتب گنا‪،‬‬

‫"دروازہ کھولیں۔۔۔ہیبم یلیز یہ دروازہ کھولیں میں علط نہیں ہوں۔۔۔نقین کریں میرا۔۔"‬
‫پ‬
‫زوروں سے دروازہ تیینی مطییہ تھوٹ تھوٹ کر رونے ہونے وہی یر یبھی تھی‪،‬نےنسی اتنی تھی‬
‫کہ سانس لینا مسکل ہورہا تھا‪،‬کبوں شب اسے ہی علط سمجھ رہے تھے‪،‬ک بوں وہ ہی قصوروار دکھ‬
‫رہی تھی شب کو‪،‬‬

‫"یایا۔۔۔"‬
‫یڑپ کر وہ چیچی تھی‪،‬اسے نےبجاشہ ضرورت تھی ا نسے مسکل وقت میں ا تیے یاپ کی‪،‬اس‬
‫یاپ کی چو ہمیشہ اتنی سففت کے سانے میں اتنی تیی بوں کو رکھنا‪،‬یاہر کھڑی فرچندہ اقسوس سے‬
‫گیسٹ روم کے تند دروازے کو دیکھ نفی میں سر ہالپی کام میں لگی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪- 484 -‬‬
‫سام کو ا تیے مییسن کے ہال میں پیبھا وہ کسی کا می نظر تھا‪،‬نظریں ہر تھوڑی دیر میں گیٹ کے‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ل مراد نے‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یاس جاپیں‪،‬آنے واال کوپی اور نہیں اس کا وہی دوشت تھا جس کی یدولت‬
‫دوسنی کا چونصورت نہلو دیکھا‪،‬دریہ تنگم اور عنادیہ کو اس نے دونہر میں ہی تنادیا تھا آج رات‬
‫ا تیے دوشت کی آمد کا‪،‬عنادیہ کچن میں اسماء کے ساتھ چنکہ دریہ تنگم ا تیے کمرے میں تھیں‪،‬‬

‫"صاجب مہمان آ گیے۔۔۔"‬


‫ش‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ل کے بوں یر ا ک د کش م کراہٹ آ ہری‪،‬اور م کرایا‬ ‫فرمان نے آکر اسے تنایا جس یر‬
‫تھی ک بوں یہ وہ آنے واال تھا ہی انشا‪،‬وہ گیٹ کے یاس آیا تبھی مفایل تھی یاہر سے آیا عین‬
‫گیٹ یر کھڑا ہوا‪،‬یلنک پی یٹ اور پی سرٹ یر واتٹ چنکٹ نہنا چند یالوں کو ہمیشہ کی طرح کشادہ‬
‫س‬
‫پیشاپی یر یکھرانے مخصوص طیزیہ مشکراہٹ سمیت کھڑا وہ لسینل کو دیکھ رہا تھا‪،‬‬

‫"میں نے ِود قبملی کہا تھا۔۔۔"‬


‫ت‬ ‫ی‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ن ی س‬
‫ل نے یسے یاد دالیا‪،‬مفا ل ھڑا وہ ھوڑا جیران ہوکر ا تیے ھے د کھا ھر‬ ‫اس کو اک ال د کھ‬
‫زی ِر لب یڑیڑایا‪،‬‬

‫‪- 485 -‬‬


‫"آنے ہونے یو ساری یلین ساتھ تھی۔۔۔اب کہاں جلے گیے۔۔۔"‬
‫اس کا یڑیڑایا تھا کہ یاہر یورچ یر سے ایک بچی کے چیحیے کی آواز آپی‪،‬اور وہ آیرو اچکایا‪،‬‬

‫"دراصل میرے پییے کی عادت ہے۔۔۔کہیں تھی جانے یروف ضرور د ت نا ہے کہ "وہ آیا‬
‫ہے"۔۔۔یو۔۔۔ایکشکبوز می۔۔۔"‬
‫س‬
‫طیزیہ مشکراہٹ زیردسنی کی مشکراہٹ میں یدلی چنکہ دوسری طرف لسینل اتنی مشکراہٹ دیایا‬
‫اتنات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫ت‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫چ‬
‫ل سے ا ک کبوز کیے وہ یاہر یورچ یر آیا‪،‬یایرات یدلے ھے وچنہہ ہرے کے اب‪،‬‬

‫"کنا وانفی۔۔۔ایک بچہ نہیں سیبھل سکا۔۔"‬


‫اس کے شخت لہچے میں اسنفشار کرنے یر اس کی ت بوی چو ان پی بوں بچوں میں الجھی تھی اسے‬
‫گھوری‪،‬‬

‫"ئمہارا بچہ ایک نہیں دس کے یرایر ہے۔۔۔کہیں چو سکون سے رہیے دے کسی کو"‬

‫‪- 486 -‬‬


‫یرخ کر چواب دیا تھا اس نے کہ وہ نہلے یو روپی ہوپی اس تبھی سی بچی کو دیکھا جس کی یڑی‬
‫یڑی چوفزدہ آیکھوں سے تپ تپ آنسو گررہے تھے تھر ا تیے پییے کو چو اس کے تھا بچے کو‬
‫کھاجانے والی نظروں سے گھوررہا تھا یر اگلے ہی لمچے گڑیڑاکر تییسی دکھانے لگا جب ا تیے یاپ کی‬
‫شخت نظریں چود یر مجسوس ہوپیں‪،‬‬

‫"کنا ئماشہ ہے یان۔۔؟"‬


‫کرجت لہچے میں اسنفشار کنا اس نے ا تیے پییے سے جس یر غفنان اتھی میہ کھو لیے ہی لگا تھا‬
‫کہ سا میے کھڑا اپیشام چ ھٹ سے یوال‪،‬‬

‫"ماموں مفلچہ کار سے ایر رہی تھی تبھی یان سے اس کا ہاتھ یکڑ کر زور سے کھییجا اور وہ س ندھا‬
‫تیچے گرگنی۔۔"‬
‫اپیشام کی سکاتت یر یاس کھڑی مفلچہ کا رویا اور یڑھا تبھی سایزے آگے یڑھنی اسے گود میں‬
‫اتھاپی جپ کرانے لگی‪،‬‬

‫"چوٹ یو نہیں لگی یاں آپ کو۔۔۔"‬

‫‪- 487 -‬‬


‫وہ قکرمندی سے مفلچہ کا ہاتھ پیر دیکھیے تنار سے یوچھی جس یر مفلچہ نے نفی میں سرہالپی‪،‬رویا‬
‫اب تھما تھا‪،‬‬

‫"کبھی انشایوں والے کام کر کے قنل کروادیا کرو پینا کہ میں ایک انشان کا یاپ ہوں۔۔"‬
‫ا تیے پییے کو گھوریا وہ ِگھرکا یو اپیشام کے ل بوں یر مشکراہٹ امڈ آپی‪،‬‬

‫"میں انشایوں والے کام ہی کریا ہوں ڈیڈ۔۔"‬


‫غفنان میہ نسوریا گویا ہوا‪،‬‬

‫"لگنا نہیں ہے۔۔"‬


‫اپیشام نے ہلکی آواز میں طیز کنا‪،‬‬

‫"ئمہیں نہیں لگنا ک بویکہ تم چود انشان نہیں ہو۔۔"‬

‫"دیکھا ماموں یہ اس ہی طرح مجھ سے یدئمیزیاں کریا ہے۔۔۔"‬


‫غفنان کے غصے میں چیحیے یر جلدی سے اپیشام اسارہ کرنے اسے تنایا‪،‬‬
‫‪- 488 -‬‬
‫"یان۔۔"‬
‫اس یار لہچے میں تیینہہ تھی‪،‬غفنان داتت پیسنا جپ ہوا‪،‬‬

‫"اب جلو ایدر۔۔"‬


‫ان دویوں کے کندھے کو ا تیے تھاری ہاتھوں سے تھیبھنایا وہ ایدر لے گنا‪،‬‬

‫ی‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ت‬
‫ل گیٹ یر ہی ھڑا تھا‪،‬اب اس کو ا نی بوی اور ین بچوں کے ساتھ آیا د کھ وہ‬
‫مشکرانے ہونے گویا ہوا‪،‬‬

‫ٰ‬
‫"تنام مرنضی۔۔نہلی مرتیہ اتنی یوری قبملی کے ساتھ ِد ک ھے۔۔۔اچھا لگا۔۔"‬

‫"یہ میری یوری قبملی نہیں۔۔۔آدھی گھر یر ہے۔۔۔"‬


‫ج‬‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ت ن س‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل کے ھے ڈاال‪،‬‬ ‫آ یں ھومانے وہ تنایا ساتھ ہی ایک ھریور ظر‬

‫"کافی چونصورت گھر ت بوایا ہے۔۔۔پیری ہونے والی پینی نکا میری نہو تیے گی یڑی ہوکر۔۔۔"‬
‫‪- 489 -‬‬
‫س‬
‫تنام کے الفاظ یر لسینل ہلکا سا ہیشا‪،‬‬

‫"میری پینی چھوڑ اتنی پینی کو دیکھ۔۔و نسے نہت تناری ہے یہ۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ل نے کہا‪،‬‬ ‫سایزے کے گود میں اس ک بوٹ سی بچی کو د کھ‬

‫"میری پینی۔۔۔؟"‬
‫س‬ ‫س‬
‫تنام چونکا اس کے یوں یو لیے یر تبھی لسینل تھوڑا یا ھی سے اسے د کھا تھر یوال‬
‫ی‬ ‫مج‬

‫"ہاں۔۔پیری پینی۔۔۔ایک میٹ۔۔یہ پی بوں پیرے ہی بچے ہیں یا۔۔۔"‬

‫"نہیں۔۔!"‬
‫اس کے سوال کی منافی میں یک تنک چیحیے والے یہ اپیشام اور غفنان تھے‪،‬‬

‫"یہ اور میرا تھاپی کبھی نہیں۔۔۔"‬


‫غفنان کو جیسے اس سوچ سے تھی چھرچھری آپی تھی‪،‬‬

‫‪- 490 -‬‬


‫ُ‬
‫"ہاں میری یو جیسے قسمت ہی ِکھل جاپی اگر یو میرا تھاپی ہویا۔۔۔"‬
‫اپیشام تنا تھا اس کے ایداز یر‪،‬‬

‫"پیری قسمت کا نہیں تنا یر میری قسمت ضرور تھوتنی۔۔"‬


‫گ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫طیزیہ مشکراہٹ سمیت غفنان آ یں ھمایا‪،‬سایزے کا ھوریا تھا کہ ھر وہ جلدی سے سندھا‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫ہوا‪،‬‬

‫"کافی ا چھے بچے ہیں۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ی س‬
‫ل آیرو اچکایا یوال‪،‬‬ ‫ان دویوں کو د کھ‬

‫"یو۔۔۔نہی یک رہیے کی اجازت ہے۔۔"‬


‫تنام ل بوں کو تھنالنے ایک آیرو اتھایا‪،‬‬

‫"آہ۔۔آو ایدر۔۔آ پیں۔۔تھاتھی۔۔"‬


‫چ‬
‫وہ نہلے مرتیہ ھجھکا تھا‪،‬لفظ تھاتھی کہنا کجھ عح یب لگ رہا تھا‪،‬‬

‫‪- 491 -‬‬


‫دریہ تنگم تھی روم سے نکلنی ہال میں آ پیں‪،‬ع نادیہ کو سایزے سے ِمل کر کافی اچھا لگا‪،‬ساید‬
‫وت گویاپی کی مجرومی کا تبھی وہ اس یارے میں کوپی جیرت‬
‫اسے نہلے سے معلوم تھا عنادیہ کی ف ِ‬
‫طاہر نہیں کی‪،‬‬

‫س‬ ‫پ‬
‫دریہ تنگم اور عنادیہ سایزے کے ساتھ یبھی تھیں چنکہ لسینل تنام سے یایوں میں مچو‬
‫تھا‪،‬ا نسے میں مفلچہ نے ُیرسوق نظریں جاروں طرف دوڑاپیں ساتھ ہی اس چونصورت و وسنع‬
‫مییسن کو دیکھیے کے عرض سایزے کی گود سے ایرپی سیڑھ بوں کا ُرخ کی‪،‬اسے اویر جایا دیکھ‬
‫غفنان ایک نظر شب یر ڈالنا دنے پیر مفلچہ کے تیجھے گنا‪،‬‬

‫"ہے ڈریوک چہنا۔۔"‬


‫ی‬
‫وہ چو اویر آکر اتنی یڑی یڑی آ کھیں تھنالنے چوش ہوپی ہر جاتب دیکھ رہی تھی غفنان کی نکار یر‬
‫اس کی مشکراہٹ عاتب ہوپی‪،‬‬

‫"یام یاپی۔۔"‬
‫آیکھوں میں چوف چھایا تھا اسے دیکھ‪،‬‬

‫‪- 492 -‬‬


‫"نہاں کنا کررہی ہو۔۔"‬
‫دویوں ہاتھوں کو کمر یر ر ک ھے وہ یڑوں کی طرح یوچھا‪،‬‬

‫"میں۔۔دھل د تبھ لی تھی۔۔نہت تناال ہے۔۔(میں گھر دیکھ رہی تھی۔۔نہت تنارا ہے۔۔)"‬
‫ً‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کے ڈر ڈر کر تنانے یر غفنان آ یں کیڑا ھر کجھ سوچ کر م کرایا فورا یو لیے لگا‪،‬‬

‫"ئمہیں تنا ہے نہاں یر ایک شب سے چونصورت روم تھی ہے۔۔"‬


‫یکھ م‬
‫غفنان کا یرم لہچہ سن کر مفلچہ کا چوف تھوڑا کم ہوا اب کہ وہ آ یں ل ھولی‪،‬‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫"شچی یام یاپی۔۔۔"‬


‫اس کا یرچوش ایداز دیکھ غفنان اتنات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"دیکھو گی۔۔"‬

‫"دی۔۔(خی۔۔)"‬

‫‪- 493 -‬‬


‫اس کی رصامندی دیکھ غفنان اسے سا میے تیے روم میں لے گنا‪،‬روم کھال تھا‪،‬غفنان کے کہے‬
‫کے مظایق وہ روم واقعی نہاتت جسین تھا‪،‬مفلچہ روم کے تیچ میں آپی منہوت ہوپی اس چونصورت‬
‫کمرے کو دیکھیے لگی‪،‬تبھی تیج ھے کھڑا غفنان لب دات بوں میں دیایا ہاتھ اوبجا کر کے الپیس آف کنا‬
‫ساتھ ہی دروازہ جلدی سے تند کرگنا‪،‬مفلچہ کا ارنکاز ایدھیرا ہونے ہی یویا‪،‬صدا کی ڈریوک وہ چیچی مگر‬
‫یاہر ہلکی ہی آواز آپی‪،‬‬

‫اس کی چیخ یر زور سے ہیسنا غفنان تند دروازے کو دیکھ وانس مڑا یر سا میے ہی اپیشام غصے سے‬
‫اسے گھوررہا تھا‪،‬‬

‫"مومی۔۔"‬
‫ایدر سے مفلچہ کی ایک اور چیخ اس جاتب ہلکی آواز میں سناپی دی‪،‬اپیشام جلدی سے غفنان کو‬
‫ی‬
‫یرایر میں دھکنل کر دروازہ کھوال‪،‬وہ یری طرح رورہی تھی‪،‬یڑی یڑی آنسو تھری آ کھیں تیینانے وہ‬
‫چوفزدہ لگ رہی تھی نہت‪،‬چنکہ غفنان کی ت بوریاں خڑھیں اپیشام کو مفلچہ کو جپ کرانے‬
‫دیکھ‪،‬پیزی میں آگے یڑھنا وہ ا تیے دویوں ہاتھوں سے اپیشام کو دھکا دیا‪،‬‬

‫"میری کزن کو مت چھوو۔۔۔"‬


‫‪- 494 -‬‬
‫اپیشام چو اس کے د ھکے یر کجھ قدم تیجھے ہوا تھا اب تپ کر آگے یڑھا‪،‬‬

‫"یہ میری تھی کزن ہے۔۔اور تم اس سے زرا دور رہا کرو۔۔ہمیشہ جان یوچھ کر اسے یرنشان‬
‫کرنے ہو۔۔"‬
‫غفنان کے دھکا د تیے سے زیادہ وہ مفلچہ کے جشاس ہونے کے یاوچود غفنان کو اسے تنگ‬
‫کرنے یر تنا تھا‪،‬‬

‫"ہاں یو کروں گا۔۔۔ہمیشہ یرنشان کروں گا ک بویکہ یہ میری کزن ہے ضرف میری۔۔۔تم کوپی‬
‫نہیں ہو اس کے۔۔"‬
‫اس کے لہچے میں صد دیکھ اپیشام چونکا تھر طیزیہ مشکرایا‪،‬‬

‫"اچھا۔۔یو یہ مفلچہ سے ہی یوچھ لییے ہیں کہ کون اس کا کزن ہے۔۔۔تناو مفلچہ یہ ئمہارا کزن‬
‫ہے یا میں۔۔"‬
‫یہ یات کہنا اپیشام مفلچہ کو دیکھا چو جب سے شہماپی نظروں سے غفنان کو دیکھ رہی تھی‪،‬اب کی‬
‫ی‬
‫یار غفنان تھی غصے سے تبھی یاک سرخ کیے اسے گھورا‪،‬آ کھیں اسارہ کررہی تھیں اتنی جاتب‬
‫آنے کا‪،‬‬
‫‪- 495 -‬‬
‫"اتنام یاپی۔۔آپ منلے یوت اچے دوشت ہو۔۔۔یہ دیدے ہیں۔۔(اپیشام تھاپی۔۔آپ میرے‬
‫نہت ا چھے دوشت ہو۔۔۔یہ گندے ہیں۔۔)"‬
‫چ ھٹ سے اپیشام کی طرف ہوپی وہ غفنان کی طرف د یکھے نعیر یولی ساتھ ہی سیڑھ بوں کی جاتب‬
‫تھا گیے لگی‪،‬‬

‫"میں تھر تھی ئمہارا تیجھا نہیں چھوڑوں گا ڈریوک چہنا۔۔۔"‬


‫اس کے تیجھے تھاگنا غفنان یلند آواز میں کہا‪،‬اپیشام تھی ان دویوں کو جایا دیکھ وہاں ہولنا‪،‬‬

‫"کام کیشا جل رہا ہے۔۔؟"‬


‫یایوں کے دوران تنام نے دھبمے لہچے میں یوچھا‪،‬‬

‫"نہت نہیر۔۔ان دیوں کجھ مصروقنات کم ہیں آقس کی۔۔"‬

‫"میں نے اس کام کا نہیں یوچھا۔۔"‬

‫‪- 496 -‬‬


‫ی‬
‫وہ چو سیحندگی سے مفایل کو اتنی روپین ت نارہا تھا نکلخت جپ ہوا تھر آ کھیں سکیڑ کر نغور تنام کو‬
‫دیکھا‪،‬‬

‫"نس آخری دو یارگیٹ رہیے ہیں۔۔"‬


‫س‬
‫اب کی یار لسینل کا لہچہ تھی دھبما ہوا‪،‬‬

‫"ہمم۔۔۔ضحیح۔۔تھر کب ارادہ ہے ان دو کو تھی اصل مفام یر نہیجانے کا۔۔۔"‬

‫"نہت جلد۔۔"‬
‫س‬
‫کہہ کر لسینل اتھا ساتھ تنام تھی ک بویکہ ڈاپینگ یر کھایا لگ چکا تھا اور اسماء دوسری مرتیہ ان‬
‫دویوں کو یالنے آپی تھی‪،‬‬

‫ت‬ ‫ل‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫کھانے کا دوراتیہ چوسگوار ماچول میں نہت اچھا گزرا‪ ،‬ل کو لچہ ہت ت ناری گی ھی‪،‬چند‬
‫ن‬
‫ایک یات اس سے کر کے وہ مفلچہ کی یویلی زیان میں دنے گیے چوایات یر ہیس د ت نا‪،‬‬

‫"کنا ہوا وانفی۔۔۔"‬


‫‪- 497 -‬‬
‫س‬
‫وہ لوگ نکل جکے تھے لسینل کے مییسن سے‪،‬اب کار میں سایزے کو جب سے جپ دیکھ‬
‫تنام یوچھا‪،‬‬

‫"عنادیہ نہت اچھی لڑکی ہے یر۔۔۔"‬


‫کہیے ہونے سایزے تھر جپ ہوپی‪،‬‬

‫"یر۔۔؟"‬
‫روڈ یر نظریں مرکوز کیے وہ ایک آیرو اچکایا‪،‬‬

‫س‬
‫"ایک یات تناؤ۔۔۔ لسینل ئمہارے دوشت ہیں۔۔۔وہ کیسے ہیں۔۔؟"‬
‫سایزے کے سوال یر تنام پیڑھی نظروں سے اسے دیکھا‪،‬‬

‫"تم سے مظلب۔۔؟"‬
‫تھ‬ ‫پ‬
‫اس کے مشکوک لہچے یر وہ چو سیح ندہ یبھی تھی لب چی‪،‬‬
‫ی‬ ‫ی‬

‫"تم اتنا یہ مذاق زرا ساتنڈ یر رکھو۔۔۔اور ت ناؤ مجھے۔۔؟"‬


‫‪- 498 -‬‬
‫"ہاں تھنی۔۔۔ضحیح آدمی ہے ک بوں کنا ہوا۔۔؟"‬
‫اب وہ یارملی یوال‪،‬‬

‫"عنادیہ کو اس یر تھروشہ کریا جا ہیے۔۔"‬


‫وہ ہلکی آواز میں یولنی روڈ یر نظر ڈالی‪،‬‬

‫"ایک یو یایوں کو اتنا گھوماپی ہو یا۔۔۔سندھے طر نقے سے سمجھا نہیں سکنی کنا یات ہے۔۔"‬
‫اس یار اس نے خڑ کر کہا یو سایزے گردن موڑ کر اسے گھوری‪،‬‬

‫"عنادیہ یول سکنی ہے۔۔۔"‬


‫کجھ یل کی جاموسی یوڑ کر وہ یولی جس یر تنام اجایک یریک لگایا جیرت سے اسے دیکھا‪،‬‬

‫"اوہ واو۔۔۔کینی اچھی جیر سناپی یا۔۔۔مج ھے یو جیسے معلوم ہی نہیں تھا۔۔"‬
‫اسے جیرت میں مینال دیکھ سایزے چو مشکرانے لگی تھی تنام کے یوں یو لیے یر اس کے لب‬
‫ُ‬
‫سکڑے‪،‬آیکھوں میں جیرت اتھری‪،‬‬
‫‪- 499 -‬‬
‫"کنا مظلب۔۔ئمہیں معلوم تھا۔۔"‬
‫سایزے کے سوال یر وہ طیزیہ مشکراہٹ سمیت کندھے اچکایا‪،‬‬

‫"مگر کیسے۔۔"‬

‫وت گویاپی سے مجروم ہے لنکن جب وہ کھا نسے یو اس کی آواز‬ ‫ن‬


‫"کومن سییس وا فی ایک فرد ف ِ‬
‫تھنک نکلے۔۔۔"‬
‫تنام کی یات یر سایزے کو نےساجیہ عنادیہ کا کھانے کے دوران ہلکا سا کھانسنا یاد آیا یو وہ‬
‫مشکراپی‪،‬‬

‫"و نسے تم لڑک بوں کو کجھ زیادہ ہی یوٹ نہیں کرنے۔۔۔"‬


‫وہ یونہی اسے چ ھیڑی تھی‪،‬‬

‫چ‬
‫ھج‬
‫" ھورا چو نہرا۔۔"‬

‫‪- 500 -‬‬


‫ی‬
‫سایزے کو اس چواب کی امند ہرگز نہیں تھی تبھی وہ میہ کھولے تنام کو د ھی ھر یکدم یرسیے‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫کو ہوپی‪،‬‬

‫"تم نےسرم انشان۔۔۔یات مت کریا اب مجھ سے۔۔"‬


‫تنام مشکراہٹ دیانے اسے دیکھا جس کا چہرہ یل میں الل تھ بوکا ہوا تھا‪،‬‬

‫ٰ‬
‫"اوہ وانفی۔۔نس کرو جب جاتنی ہو تنام مرنضی ضرف تم یر ہی مریا ہے یو ک بوں اس طرح کے‬
‫سوال کرپی ہو۔۔"‬
‫اسکے ہاتھ کو یرمی سے ا تیے ہاتھ میں لے کر دیایا وہ مشکراکر یوال‪،‬‬

‫"میں نے مذاق کنا تھا۔۔"‬


‫میہ تنا کر وہ آہسنگی سے یولی‪،‬‬

‫"میں نے تھی وہی کنا۔۔"‬

‫"لنکن تم۔۔"‬
‫‪- 501 -‬‬
‫"آپی یام یاپی مال لے ہیں۔۔(آپی یان تھاپی ماررہے ہیں۔۔)"‬
‫تیجھے سے آپی مفلچہ کی روہانسی آواز یر سایزے یات ادھوری چھوڑے گردن گھوماپی چہاں اویگھیے‬
‫پ‬
‫ہونے تھی اس کا پینا یرایر میں یبھی مفلچہ کو ہلکی چ یت لگارہا تھا‪،‬اس کا ہاتھ مفلچہ یر سے‬
‫ہناپی سایزے تیجھے ہوکر مفلچہ کو اتھاپی تھر اسے ا تیے ساتھ پیبھانے لگی‪،‬‬

‫"یہ سدھرے گا نہیں۔۔"‬

‫"تم یر گنا ہے۔۔"‬


‫سایزے کو یاسف سے کہیے دیکھ تنام یوال ساتھ ہی کار تھر اسنارٹ کرنے لگا‪،‬‬

‫"مجھ یر گنا ہویا یو سدھرا ہوا ہویا۔۔یہ یو ئمہاری کاپی ہے یلکل۔۔۔"‬


‫اسے گھور کر سایزے پییے ہونے یولی‪،‬‬

‫"جب کوپی علط کام کرے یو مجھ یر گنا ہے اور جب کوپی۔۔"‬

‫‪- 502 -‬‬


‫"ضحیح کام کا مت یولو وہ ئمہارے پییے نے آج یک نہیں کنا۔۔"‬
‫تنام کی یات کاتنی وہ یولی‪،‬‬

‫"میرا پینا یڑا ہوکر کرے گا ا چھے کام۔۔۔"‬


‫تنام ُیرنقین لہچے میں یوال‪،‬‬

‫"خرکییں دیکھ کر نہیں لگنا یر دعا نہی ہے۔۔"‬


‫گہرا سانس تھرپی سایزے یڑیڑاپی ساتھ ہی سیٹ سے تنک لگانے مفلچہ کی نست شہالنے لگی‬
‫ک بویکہ وہ اب سورہی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"عنادیہ۔۔۔"‬
‫چھ ی س‬
‫ہ‬‫ن‬
‫ل چو کجھ دیر لے‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫وہ ڈرنسنگ کے سا میے کھڑی اپیریگ ایار رہی تھی‪،‬نظریں ہ بوز کی د کھ‬
‫روم میں آیا تھا اسے نکارا‪،‬‬

‫نکار یر نظریں اتھاکر اس نے سا میے دیکھا‪،‬وہ چونکا تھا عنادیہ کی آیکھوں میں ئمی ایرے دیکھ‪،‬‬
‫‪- 503 -‬‬
‫"تم رورہی ہو۔۔"‬
‫س‬
‫ل یرمی سے‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫لہچے میں تھوڑی جیرت گھلی تھی‪،‬آگے یڑھ کر اس کا رخ اتنی جاتب موڑیا‬
‫اس کا چہرہ ہاتھوں میں لنا‪،‬‬

‫"جاتم کنا ہوا۔۔"‬


‫یل میں ضنط سے سرخ ہویا اس کا چہرہ نظروں میں لیے وہ اتنہاپی یرمی سے یوچھا‪،‬اب کی یار‬
‫یک م ی س‬
‫ل یوچھا‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادیہ کی نظریں اتھی یو ان میں یاراصگی کا اپیر تھا‪،‬نغور اس کی آ ھوں یں د کھ‬

‫"آ تنی کی یاد آرہی ہے۔۔؟"‬


‫اور وہ ہلکے سے اتنات میں سر ہالپی‪،‬ڈر تھا کہ مفایل یہ یات سن کر غصہ یہ ہو‪،‬‬

‫"کل کجھ مصروق یت رہے گی۔۔۔ہم یرسوں جلیں گے وہاں۔۔"‬


‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫نقی م ی‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل یحندگی سے یوال جس یر عنادیہ نے نی یں آ یں ھ النے اسے‬ ‫کجھ سوچ کر‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل کی‬ ‫د ھی‪،‬مفا ل کی یات یں شجاپی مجسوس کرپی وہ نےساجیہ چوسی سے م کراپی اور‬
‫نظریں سندھا اس کے گالوں یر پییے گڑھوں یر یڑی‪،‬وہ نہلی یار عنادیہ کو مشکرایا دیکھ رہا تھا اور‬
‫‪- 504 -‬‬
‫س‬
‫نہلی یار اس ڈمنل یر‪،‬منہوت ہوکر اسے دیکھنا لسینل اعیراف کنا تھا کہ مشکراہٹ سا میے‬
‫کھڑی اس لڑکی کے جسن یر جاید کی طرح شحنی تھی‪،‬‬

‫ُ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫من ن ی س‬


‫ش‬
‫ل م کرایا ہوا چھکا ساتھ ہی یرمی سے اس یر ا تیے‬ ‫گال یر یڑنے اس ڈ ل کو غور د کھ‬
‫س‬
‫نسیہ لب رکھ گنا‪،‬وہ چو نہلے ہی اس عناتت یر سمنی تھی کجھ دیر نعد لسینل کو گال سے‬
‫ہونے ا تیے ل بوں یر آنے دیکھ گ ھیراکر تیجھے ِسرکنی چہرہ موڑی‪،‬دھڑکییں نےہنگم ہونے لگی‬
‫س‬
‫تھیں‪ ،‬لسینل لب تھییجا اس کے دور ہونے یر‪،‬لمچوں میں اس کی کالپی اتنی گرقت میں لے‬
‫کر وہ چھنکے سے اسے ا تیے فرتب کنا‪،‬‬

‫"مجھ سے دور مت ہوا کرو۔۔"‬


‫اس کے لہچے میں شحنی مجسوس کیے عنادیہ اور یوکھالپی‪،‬اس سے نہلے ایک مرتیہ تھر وہ روپی‬
‫س‬
‫صورت تناپی لسینل چھک کر اس کے ل بوں کو مفند کرگنا‪،‬دھڑکییں شست ہونے کے ساتھ‬
‫ی‬ ‫س‬
‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ج‬
‫ل کی کالر کڑپی وہ آ یں تند کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادیہ کی یلکیں یوچھل ہوپی عارض یر بجھی‪،‬آہسنگی سے‬
‫س‬
‫ت‬
‫ل یرمی سے ا نی پیشاپی اس کی پیشاپی سے نکاکر‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫تھی‪،‬کجھ دیر نعد اس کی جاں بجسی کریا‬
‫ی‬
‫چود سے نہاتت یزدیک اس کے سرخ چہرے کو دیکھا‪،‬آ کھیں ہبوز تند کیے وہ گہری سانس لے‬
‫رہی تھی‪،‬‬
‫‪- 505 -‬‬
‫"میں جاہنا ہوں تم مجھ یر تھروشہ کرو۔۔"‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫سیبھ س‬
‫م‬
‫ل ئیر ہچے یں کہا‪،‬‬ ‫اس کے لیے یر‬

‫"کروگی مجھ یر تھروشہ۔۔"‬


‫یرمی سے اس کے د ہکیے رجشار کو شہالیا وہ تھاری لہچے میں یوچھا‪،‬وہ چو مفایل کے شجر میں گرقنار‬
‫اتنات میں سر ہالنے لگی تھی مال واال واقعہ ذہن میں آنے ہی نفی میں سر ہالپی‪،‬‬

‫ی س‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫ل اسے چود یں یجا‪،‬‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫نےنسی سے اس کی تم آیکھوں کو د کھ‬

‫"میری جان کجھ یو تناؤ مجھے آخر کس یات نے ئمہیں میرے ساتھ انشا پی ہ بو کرنے یر مح بور‬
‫کردیا ہے۔۔۔"‬
‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کی تھاری آواز سینی عنادیہ نکل نف سے آ یں چی‪،‬اگر کو وہ ص اس سے ا نی محیت کریا‬
‫ت‬ ‫خ‬
‫ش‬ ‫ی‬ ‫ھ‬
‫تھا یو ک بوں قلذہ سے وہ یات کہا تھا‪،‬‬

‫‪- 506 -‬‬


‫س‬
‫کجھ لمچوں نعد لسینل اسے الگ کنا تھا چود سے ک بویکہ چ یب میں رکھا مویایل یر تھوڑی دیر میں‬
‫یار یار واپیرتٹ ہورہا تھا‪،‬نہلے وہ اگ بور کریا رہا تھا مگر اب جب واپیرنسن مشلشل ہونے لگی تب وہ‬
‫فون نکالنا کال رنسبو کنا‪،‬‬

‫س‬
‫دوسری جاتب سے غفان نے چو ت نایا اس یر لسینل لب تھییحنا ئمسکل ا تیے یایرات یارمل رکھا‪،‬‬

‫"میں دس میٹ میں آرہا ہوں۔۔"‬


‫کہہ کر کال کٹ کریا وہ ایک نظر عنادیہ کو دیکھ یوال‪،‬‬

‫"تم سوجایا۔۔۔مجھے تھوڑی دیر ہو جانے گی۔۔"‬


‫وہ جانے لگا تھا مگر تبھی ع نادیہ اس کا ہاتھ یکڑی‪،‬کالی آیکھوں میں یرنشاپی دیکھ وہ رکا‪،‬‬

‫"کجھ کام ہے۔۔۔کوشش کروں گا جلد آنے کی۔۔"‬


‫اس کا گال تھیبھنایا وہ عنادیہ کی آیکھوں میں امڈنے سوال کا چواب یرمی سے د ت نا یلنا‪،‬اب‬
‫یایرات یدل کر چنان ماتند شخت ہونے چنکہ کشادہ پیشاپی سکبوں سے تھری‪،‬‬

‫‪- 507 -‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"پی پی۔۔!"‬
‫رات کو گیسٹ روم کا گیٹ کھول کر ایدر آپی فرچندہ نے اسے نکارا ساتھ ہی کھانے کی یرے‬
‫پ‬
‫پینل یر رکھی‪ ،‬تیچے یبھی تنڈ کی یاپینی سے ت نک لگانے وہ اب یک رورہی تھی‪،‬فرق ضرف اتنا تھا‬
‫کہ آواز تند ہوجکی تھی‪،‬‬

‫"مطییہ پی پی کھایا کھالیں۔۔"‬


‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کے یاس آپی فرچندہ یرچم نظروں سے اسے د نی کی آواز یں یولی‪ ،‬ھوک یو اسے سدید لگ‬
‫ت‬ ‫م‬
‫رہی تھی مگر اب اذ ت بوں کے ساتھ ساتھ سدید غصہ تھا چو اس کے رگ و نے میں سراتت کررہا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"نہیں کھایا مجھے۔۔"‬


‫جد سے زیادہ چیحیے کے یاعث اب آواز پیبھ جکی تھی اس کی تبھی آہسنگی سے یولی‪،‬‬

‫"پی پی تھوڑا سا کھالیں۔۔۔آپ نے دونہر میں تھی نہیں کھایا۔۔"‬


‫‪- 508 -‬‬
‫"میرے کھانے یا یہ کھانے سے کسی کو فرق نہیں یڑے گا۔۔لے جاؤ یہ یرے نہاں‬
‫سے۔۔"‬
‫کہ ت سلگ ی‬
‫لہچے میں یال کا کرب لیے نی وہ ا نی نی آ یں تند کر نی‪،‬‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫"پی پی آپ کی طی نعت نہلے ہی تھنک نہیں لگ رہی۔۔۔نہیں کھاپیں گی یو تبمار یڑجاپیں‬


‫گی۔۔۔تھوڑا سا ہی کھالیں خی۔۔"‬
‫فرچندہ کے لہچے میں ا تیے لیے قکرمندی مجسوس کرپی مطییہ چود اذ تنی سے مشکراپی‪،‬وہ مالزمہ ہوکر‬
‫اتنات یت دکھارہی تھی لنکن چو ا تیے تھے۔۔‪،‬انہوں نے کس طرح اسے ہر جیز سے ہر رسیے سے‬
‫یآساپی یرجاشت کردیا تھا‪،‬‬

‫"مجھے تھوک نہیں ہے۔۔۔لے جاؤ اسے۔۔"‬


‫ا تیے تھنگے گالوں کو صاف کرپی وہ سر گھی بوں میں دے گنی‪،‬‬

‫"پی پی۔۔"‬

‫‪- 509 -‬‬


‫"فرچندہ میں نے کہا یا نہیں کھایا مجھے۔۔"‬
‫اب کے سر اتھاکر وہ شخت لہچے میں یولی‪،‬کجھ یل یو فرچندہ اسے د یکھے گنی تھر یرے اتھاکر یاہر‬
‫لے گنی‪،‬اس کے جانے کے نعد مطییہ تھر سر گھی بوں میں دے گنی‪،‬اتھی تھوڑی دیر ہی‬
‫گزری تھی کہ اجایک دھاڑ کی آواز سمیت دروازہ کھال‪،‬پیز آواز یر مطییہ یوکھالکر سر اتھاپی سا میے ہی‬
‫اس سبمگر کی شخت گھوری چود یر دیکھ وہ گ ھیراپی‪،‬‬

‫"کنا ئماشہ لگا رکھا ہے۔۔"‬


‫ک‬‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫اسے گھوریا وہ غصے میں چھڑکا یو مطییہ یا ھی سے اسے د ھی‪،‬‬

‫"مہ۔۔میں نے کوپی ئماشہ نہیں لگایا۔۔"‬

‫"کھایا ک بوں نہیں کھارہی ہو۔۔"‬


‫اس کی تھراپی آواز یر جب وہ گھرک کر یوال تب مطییہ کو الگ طرح سے رویا آیا نعنی فرچندہ اسے‬
‫تنا آپی تھی‪،‬‬

‫"چواب دو۔۔"‬
‫‪- 510 -‬‬
‫اسنعال میں آگے یڑھ کر وہ تیچے چھکا ساتھ ہی مطییہ کا یازو یکڑ کر چھنکے سے اسے کھڑا‬
‫ِکنا‪،‬اجایک ہلکی سی درد کی پیس اتھی مطییہ کے وچود میں‪،‬‬

‫"ہیبم۔۔"‬
‫ت یٹ یر ہاتھ رکھنی وہ کراہی اور ہیبم کا غصہ چ ند یل کے لیے جیرت میں یدال‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫لہچہ چودبچود دھبما یڑا تھا جس یر مطییہ کے چواس نےساجیہ ہلے‪،‬وہ ڈری تھی کہ مفایل کو اگر زرا‬
‫تھی تھنک یڑی یو کہیں وہ اسے نفضان یہ نہیجانے‪،‬‬

‫"کک۔۔کجھ نہیں۔۔"‬
‫لہچے کو ئمسکل قایو کرپی وہ نظریں خراپی یو ہیبم سر چھ نکا‪،‬‬

‫"فرچندہ۔۔"‬
‫اسے یازو سے تھامے ہی ہیبم نکارا‪،‬کجھ دیر نعد کھانے کی یرے لیے فرچندہ روم میں داجل‬
‫ہوپی‪،‬ہیبم کے اسارے یر وہ یرے تنڈ یر رکھنی وانس یلٹ کر جلی گنی‪،‬‬
‫‪- 511 -‬‬
‫ً‬
‫"کھاؤ فورا۔۔"‬
‫یرے کو دیکھیے ہی مطییہ روہانسی ہوپی‪،‬‬

‫"مجھے نہیں کھایا۔۔"‬


‫ا تیے یازو یر سے ہیبم کا ہاتھ ہنانے کی کوشش سمیت وہ تھنگی آواز میں یولی‪،‬بجانے اس کا یازو‬
‫چھوڑنے کے ہیبم اسے چود سے فرتب کنا اور نہی یر مطییہ کی جان ہوا ہونے لگی‪،‬‬

‫"میں نہاں ئمہارا ڈرامہ دیکھیے نہیں آیا ہوں۔۔۔"‬


‫دھبمی آواز میں یو لیے ہونے وہ اس کے یازو یر شحنی سے دیاؤ یڑھا کر چھوڑا کہ مطییہ کو اتنا یازو‬
‫اکڑیا ہوا مجسوس ہوا‪،‬‬

‫"پیبھو۔۔"‬
‫پ‬
‫اس کے کرجت لہچے میں کہیے یر مطییہ روپی ہوپی تنڈ یر یبھی‪،‬‬

‫"کھاؤ تھی۔۔"‬
‫‪- 512 -‬‬
‫ہیبم کے یوں یو لیے یر مطییہ کو نےساجیہ ایک دن نہلے کی وہ رات یاد آپی جب وہ اس کی قکر‬
‫کے بخت کھانے کا کہا تھا‪،‬کینا اچھا لگا تھا اسے مفایل کا اتنی قکر کریا ل نکن اب۔۔‪،‬نےساجیہ‬
‫چہرہ ہاتھوں میں چھنانے وہ ہجکبوں سے رونے لگی‪،‬‬

‫ً‬
‫"ڈرامے تند کرو۔۔۔کھاو فورا۔۔"‬
‫اس سبمگر کی پیز آواز کایوں میں یڑی یو چہرے یر سے ہاتھ ہنانے وہ چود یر ئمسکل قایو یاپی‬
‫کنکنانے ہاتھ سے اسبون اتھاپی‪،‬وہ نغور اس کی یکھری جالت کو دیکھ رہا تھا‪،‬دل عح یب ہوا تھا‬
‫اس لڑکی کو ا نسے دیکھ مگر دماغ نے جیسے انکار کردیا تھا اس یر رچم کھانے سے‪،‬‬

‫دو پین اسبون کھانے کے نعد وہ یاپی کا گالس اتھاکر ل بوں سے لگاپی تبھی ہیبم کی آواز کایوں‬
‫میں یڑی‪،‬‬

‫"نفرت کرنے والوں سے تھی کجھ انشات یت رکھنا جاتنا ہوں میں۔۔ئمہاری طرح نہیں کہ جن سے‬
‫نفرت ہو انہیں موت کے میہ میں ڈال کر چود معصوم ین جاؤں۔۔"‬

‫‪- 513 -‬‬


‫اور مطییہ کو ا تیے میہ میں لنا یاپی یکدم زہر کے ماتند کڑوا لگیے لگا‪،‬وہ سمجھ جکی تھی مفایل کا‬
‫اسارہ اس یار یاذلی کی موت یر تھا‪،‬عم و نےنسی کی جالت میں وہ ہاتھ میں لنا گالس زور سے‬
‫تھینکی تھی تیچے‪،‬‬

‫"میں نے کینی مرتیہ کہا کہ میں نے نہیں مارا یاذلی کو تھر اس یات کا کنا چواز پینا ہے‬
‫اب۔۔"‬
‫وہ چو یوٹ کر جکنا چور ہونے گالس کو دیکھ رہا تھا مطییہ کے چیحیے یر اس کی جاتب م بوخہ ہوا‪،‬‬

‫"اس ہی یات کا یو چواز ہے اصل۔۔۔یہ تم یاذلی کو مارپی یہ میری سادی تم سے ہوپی اور یہ‬
‫کل تم نے وہ خرکت کی ہوپی۔۔"‬
‫کہیے ہونے وہ مطییہ کی جاتب یڑھا‪،‬‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬


‫ہ‬ ‫مج‬ ‫ت‬
‫"یو یو اگر ئمہاری مجھ سے سادی یہ ہوپی ہوپی اور ھر م وہ خرکت کرپی یو ھے زرا فرق یں یڑیا‬
‫مگر میری ت بوی ہوکر میرے تھاپی یر نظریں۔۔"‬

‫"ہیبم جپ ہوجاپیں۔۔نس کریں میں مرجاؤں گی ا نسے الزامات یر۔۔"‬


‫‪- 514 -‬‬
‫اجایک اس کی یات کاتنی وہ ہذیاپی ایداز میں چیحیے ا تیے کایوں میں ہاتھ رکھ گنی‪،‬مفایل کے‬
‫م‬
‫لفظوں کے پیر نے اس کا دل کمل چھلنی کر ڈاال تھا‪،‬نکل نف جد سے سوا ہونے لگی‪،‬دوسری‬
‫جاتب ہیبم کی آیکھوں میں ئمی چھلکیے لگی‪،‬دل چواہش کنا تھا اس یکھری ہوپی لڑکی کو اتنی یاہوں‬
‫میں سمیٹ لییے کی مگر ذہن جس یری طرح یدگمان تھا وہ جاہ کر تھی قدم آگے یڑھانے کے‬
‫بجانے تیجھے کریا نکال تھا روم سے‪،‬اویر جانے سے نہلے وہ یاہر کھڑی فرچندہ کو اسارہ کریا یہ تھوال‬
‫جس یر آہسنگی سے آکے وہ الک کی تھی گیسٹ روم کو‪،‬‬

‫ت‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫پ‬


‫ایدر ھی طییہ تنڈ یر میہ ھنانے یآواز رونے گی‪ ،‬کندر وال کی درو دیوار لی ھی اس نےنس‬
‫لڑکی کو نےبجاشہ رونے دیکھ‪،‬اس کا عم ماچول کو کجھ یوں اداس کنا کہ یاہر ہوا کے سور کے‬
‫ساتھ یادلوں نے پیزی سے یرسنا سروع کنا اور اس ہی سور میں مطییہ چہایگیر کے لب‬
‫تھڑتھڑانے لگے‪،‬‬

‫"یااّٰللہ یا یو مجھے موت دے دیں یا تھر اس شخص کی محیت میرے دل سے نکال دیں۔۔میں‬
‫نفرت کریا جاہنی ہوں اس سے نےتناہ نفرت مگر یہ میرے نس میں نہیں۔۔"‬

‫‪- 515 -‬‬


‫تھوٹ تھوٹ کر رونے وہ ان لفظوں کا مشلشل ورد کرنے لگی تھی‪،‬آج اس شخص نے ا تیے‬
‫الفاظ سے اسے یری طرح یوڑ دیا تھا‪،‬‬

‫"ہوسکنا ہے مرجاؤں چند دیوں میں‪،‬‬


‫وہ سبمگر جالرہا ہے دل روز تھوڑا تھوڑا‪"،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ یولیس اسییسن آیا تھا غفان سے ملی گنی جیر کے نعد‪،‬وہاں آکر اس نے دیکھا سا میے ہی ہناد‬
‫پیبھا اقسر سے کجھ یات کررہا تھا‪،‬‬

‫"مسیر مسیر۔۔"‬
‫اسے دیکھ اقسر نے چوسگوار جیرت طاہر کی‪،‬‬

‫"پیبھیں یا۔۔"‬
‫س‬
‫وہ جس ایداز میں لسینل سے یات کررہا تھا ہناد اچھییے کی ک نف یت میں نےاجینار کرسی سے‬
‫کھڑا ہوا‪،‬‬
‫‪- 516 -‬‬
‫"تناپیں کیسے آیا ہوا۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل سے‪،‬‬ ‫وہ اقسر نےجد چوش دلی سے مجاطب تھا‬

‫"سنا ہے کجھ سکایات درج ہورہی ہیں میرے جالف۔۔۔"‬


‫س‬
‫دویوں ہاتھوں کی انگل بوں کو ایک دوسرے میں تھیشانے لسینل یوال یو اقسر سے تھا مگر سرد‬
‫نظریں ہناد یر نکانے رکھا‪،‬‬

‫"آپ کے جالف کم نلین۔۔۔نہیں یو۔۔"‬


‫اقسر کے لہچے میں اب جیرت گھلی‪،‬‬

‫س‬
‫"انسینکیر۔۔میں نے جس انشان یر سک طاہر کنا ہے وہ نہی ہے۔۔۔ لسینل مراد۔۔"‬
‫ہناد اجایک تندہی سے گویا ہویا اس کی جاتب اسارہ کنا‪،‬‬

‫"واٹ۔۔ان مرڈرز کا سک آپ کو ان یر ہے۔۔"‬


‫وہ اقسر کافی جیران ہوا تھا ہناد کی یات یر‪،‬‬
‫‪- 517 -‬‬
‫"خی یلکل۔۔"‬

‫"میں نہیں مان سکنا۔۔۔یلکہ میں کنا نہاں کا اسناف یک نہیں مان سکنا یہ یات۔۔"‬
‫اگلے ہی یل اتنی جئیر سے تنک لگانے اقسر دویوں ہاتھ قضا میں یلند کیے کہا جس یر ہناد چھ نکا کھا‬
‫س‬
‫کر رہ گنا‪ ،‬لسینل ابچوانے کنا تھا اس کے ایکسیرنسن‪،‬‬

‫"کنا مظلب۔۔۔کیسے نہیں جب میں کہہ رہا ہوں کہ میرے اب یک جییے دوسبوں کا قنل ہوا‬
‫ہے اس میں اس آدمی کا ہاتھ ہے یو تھر۔۔"‬

‫"کام ڈاؤن۔۔ جلے مان لییے ہیں لنکن جب آپ ت بوت دیں گے ہمیں تب۔۔"‬
‫اس کے غصے میں یرسیے یر اقسر رسات یت سے کہا یو ہناد ایک یل کو جپ ہوا‪،‬کہہ یو وہ دھڑلے‬
‫سے رہا تھا مگر اب ت بوت اس کے یاس کجھ یہ تھا‪،‬‬

‫"ت بوت نہیں ہے لنکن میں کہہ رہا ہوں یا آپ ایک مرتیہ ایکوایری کروا۔۔۔"‬

‫‪- 518 -‬‬


‫"یات سییں مسیر ہناد سکندر۔۔۔جس شخص یر آپ یڑی آساپی سے یہ چظریاک الزام عاید کررہے‬
‫س‬
‫ہیں ہم نہت ا چھے سے جا تیے ہیں اس شخص کو۔۔۔ لسینل مراد ایک نہاتت سرنف انشان‬
‫ہیں۔۔کنی یرایلمز میں انہوں نے ہماری مدد کی۔۔اکیر لوگوں کی مدد میں آگے رہیے والے شخص یر‬
‫آپ ا نسے الزام لگاپیں گی یو تھر ہمیں النا آپ یر ہی ایکوایری کرپی یڑے گی۔۔۔"‬
‫س‬
‫اقسر کی یات یر ہناد نےنقینی سے لسینل کو دیکھا چو عناپی ل بوں یر ئمسجر اڑاپی مشکراہٹ لیے‬
‫اسے سرد نظروں سے دیکھ رہا تھا‪،‬یراسی گنی آیرو کجھ یوں اتھیں تھیں جیسے سوال کررہا ہو کہ اب‬
‫کنا کہنا جاہو گے۔۔‪،‬نےنسی سے لب تھییحنا ہناد اسے گھورنے کے سوا کجھ یہ کرسکا‪،‬‬

‫"تھنک ہے اگر آپ کو ت بوت جا ہیے یو میں جلد ت بوت کے ساتھ تھی جاضر ہوں گا تھر نہت‬
‫ا چھے سے تناؤں گا آپ کو اس شخص کی سراقت کا۔۔"‬
‫اصل وہ تنا ہی اقسر کے سرنف کہیے یر تھا تبھی اسے گھوریا نکال تھا وہاں سے‪،‬‬

‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ن‬
‫ل آپ کو ل ف اتھاپی یڑی۔۔۔ کن نے کر ر یں یں ھروشہ ہے آپ‬ ‫"سوری مسیر‬
‫یر۔۔چویکہ مسیر ہناد چند دیوں سے اس سلشلے میں نہاں یر آرہے تھے یو ضرف آپ نے کل آکر‬
‫کجھ پئیرز یر ساین کرنے ہیں یاکہ آگے جاکر آپ کے لیے وہ یرایلم کا یاعث یہ تییں۔۔"‬

‫‪- 519 -‬‬


‫س‬
‫اقسر کے یرمی سے کہیے یر لسینل مشکراکر ات نات میں سر ہالیا مگر ذہین دماغی پیزی سے سوجیں‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫پییے لگا‪،‬اسے اب ہناد کا جلد از جلد ات نظام کریا تھا‪،‬یرسوں سکندر وال جانے کا یروگرام ل بوی کریا وہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬‫ک س‬
‫ی‬
‫ل ا ھی ا نی کار کی جاتب ہی یڑھیے لگا تھا کہ اجا ک‬ ‫اقسر سے ہاتھ مالکر نکال تھا‪،‬یاہر ن لنا‬
‫کسی اجشاس کے بخت اس کی نظر کجھ دور گنی‪،‬چہاں یولیس مویایل سے زرا ہٹ کر کنارے‬
‫کی طرف ہناد کسی لڑکی سے کجھ یات کررہا تھا‪،‬دویوں کے ایداز سے لگ رہا تھا جیسے یات کم اور‬
‫بخث زیادہ ہورہی ہو‪،‬ک بویکہ ہناد کجھ غصے میں دکھا تھا‪،‬‬

‫ک‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬


‫ل تنا جاپ کیے چند قدم اتھایا یو یس مویا ل کے یاس جا ھڑا‬ ‫ایک نظر آس یاس ڈالنا‬
‫ہوا‪،‬وہاں نہیچ کر اسے یایوں کی زیادہ نہیں یر ہلکی آواز آنے لگی‪،‬‬

‫"میں ئمہارا جسر نگاڑ کر رکھ دوں گا اگر تم نے انشا کجھ تھی کنا یو۔۔"‬
‫ی‬
‫ہناد اسے آ کھیں دکھایا عرایا‪،‬‬

‫"نگاڑ یو تم نہت کجھ جکے ہو میرا۔۔۔اب کنا کریا جا ہیے ہو۔۔اور چو تھی کریا ہے کرلو ہناد سکندر‬
‫مگر میں اتنی نہن کا یدلہ ضرور لوں گی تم سے۔۔"‬
‫اتنی آیکھوں سے نکلیے آنسوؤں کو رگڑپی وہ لڑکی یڈر ین کر یولی‪،‬‬
‫‪- 520 -‬‬
‫"لگالو تھر سارا زور۔۔۔دیکھنا ہوں کنا کرلینی ہو۔۔۔مگر تھر آگے سے میرے رتنکسن کے لیے تھی‬
‫تنار رہنا۔۔۔سوت یٹ ہارٹ۔۔"‬
‫ت‬ ‫ً‬
‫کمینگی سے کہنا آگے یڑھ کر ہناد اس کے گال یر ہاتھ رکھیے لگا‪،‬موقع یر وہ لڑکی فورا ھے ہوپی اس‬
‫ج‬‫ی‬
‫کی کوشش یاکام تناگنی‪،‬‬

‫"ہاتھ مت لگاؤ مجھے تم وجسی۔۔"‬


‫م ی‬
‫اس کے لہچے میں یال کا درد تھا‪ ،‬گر آ یں یسے انگارہ یرسانے کو یں‪،‬اس کی جالت یر جذ‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اتھایا ہناد نفی میں سرہالیا وہاں سے گنا‪،‬‬

‫"ایکشکبوز می۔۔"‬
‫س‬
‫کجھ دیر نعد وہ لڑکی نےنسی سے رونے یلییے لگی تبھی لسینل نکارا‪،‬‬

‫غفب سے آپی تھاری دلکش آواز یر وہ جیرت سے مڑی‪،‬مفایل کھڑے سایدار شخص کو دیکھ‬
‫آیکھوں میں سناپیش کی جگہ یاگوارتت چھلکی‪،‬‬

‫‪- 521 -‬‬


‫"کجھ یات کرسکنا ہوں آپ سے۔۔"‬
‫س‬
‫سیحندہ یایرات سمیت اسے دیکھنا لسینل یوچھا‪،‬‬

‫"آپ کون۔۔؟"‬
‫چہرے یر یاگواری النے وہ سوال کی‪،‬‬

‫س‬
‫"میں۔۔ لسینل مراد۔۔"‬

‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫م نہ ت ک س‬
‫ل مراد کو۔۔"‬ ‫" یں یں جا نی سی‬
‫اس کے تنانے یر وہ لڑکی لبھ مار لہچے میں یولی‪،‬‬

‫"میں نے کہا تھی نہیں کہ آپ مجھے جاتنی ہیں۔۔"‬


‫م‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل کا ہچہ ل یں سرد ہوا تھا‪،‬‬

‫"یو تھر۔۔"‬

‫‪- 522 -‬‬


‫"مخیرمہ کجھ یات کرپی ہے۔۔"‬
‫اس یار وہ بجمل سے کہا‪،‬‬

‫"خی کہیں۔۔"‬

‫"اتھی جس شخص سے آپ یات کررہی تھیں تناسکنی ہیں وہ کون ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫نغور اس کے یایرات دیکھ لسینل یوچھا اور اس لڑکی کے یایرات یل میں یدلے‪،‬‬

‫"وہ شخص۔۔۔وہ نہاتت گھینا انشان ہے۔۔۔ایک ئمیر کا وجسی۔۔جدا بجسے گا نہیں اسے۔۔قہر‬
‫یازل ہوگا اس یر۔۔"‬
‫غصے میں اتنی تھڑاس نکالنی وہ رونے کو ہوپی۔۔‪،‬‬

‫"آخر انشا تھی کنا کردیا ہے اس نے چو آپ اتنی یددعاپیں دے رہی ہیں۔۔"‬


‫ششلینل کے سوال یر وہ لڑکی کجھ دیر کے لیے جپ ہوپی‪،‬‬

‫"وہ طالم انشان۔۔۔میری نہن کا قا یل۔۔اس نے۔۔"‬


‫‪- 523 -‬‬
‫"خی میں سن رہا ہوں۔۔"‬
‫ن‬ ‫تب س‬
‫ل یرمی سے یوال‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اس لڑکی کا کہنا مسکل ہورہا تھا ھی‬

‫"اس نے میری چھوپی نہن کا۔۔۔رتپ کنا۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے جیڑے تیے تھے اس یات یر‪،‬نےساجیہ وہ نگاہ ت ھیرا‪،‬اس کی سوچ سے کنی گناہ‬
‫زیادہ گھینا نکال تھا ہناد سکندر‪،‬‬

‫"اس کی وخہ سے۔۔مہ۔۔میری نہن نے چودکسی کرلی۔۔۔اور اس صدمے میں۔۔میری امی مجھے‬
‫اکنال چھوڑ کر جلی گنی۔۔۔وہ انشان نہیں وجسی ہے۔۔۔میں نہاں یر اس ہی سلشلے میں آپی‬
‫تھی مگر اس سے یکر ہوگنی اور اب وہ مجھے دھمکی دے رہا ہے کہ میں ریورٹ یہ کرواؤں لنکن‬
‫میں ڈرنے والی نہیں۔۔۔اسے سزا دلواکر رہوں گی۔۔"‬
‫یان سناپ یو لیے ہونے وہ اتنی تھڑاس تھی ساتھ ساتھ نکال رہی تھی‪،‬‬

‫"یولیس کے یاس جانے کی کوپی ضرورت نہیں۔۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے جاموش ہونے یر لسینل یوال اور وہ نےنقینی سے اسے دیکھیے لگی‪،‬‬
‫‪- 524 -‬‬
‫"کنا مظلب یولیس کے یاس جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ایک میٹ کہیں تم تھی یو اس سے‬
‫ً‬
‫نہیں ملے ہونے۔۔۔اچھا تبھی میں سوچوں کہ اس کے جانے کے فورا عد ہی م بوں آنے‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫دیکھو اگر کو تم دویوں چو جاہ رہے ہو۔۔۔"‬

‫"کجھ دیر کے لیے جپ نہیں ہوسکنی۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے مشلشل یو لیے یر لسینل یاگواری سے ِگھرکا‪،‬‬

‫"ک بوں جپ ہوجاوں میں۔۔۔تم ہونے کون ہو مجھے جپ کروانے والے۔۔"‬

‫"لڑکی۔۔یام کنا ہے ئمہارا۔۔"‬


‫س‬
‫اسے سمجھانے کے عرض لسینل بجمل سے یو لیے رک کر اجایک یوچھا‪،‬‬

‫"سنا ِیل۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل چو مشکوک نظروں سے گھورپی وہ یولی‪،‬آنسو ہ بوز آیکھوں سے جاری تھے‪،‬‬

‫‪- 525 -‬‬


‫"دیکھو سنا ِیل۔۔۔یولیس میں ریورٹ کروانے سے کنا ہوگا زیادہ سے زیادہ وہ ا تیے خرم کی سزا‬
‫تھگیے کا چند سال تھر وانس نکل آنے گا۔۔۔اور و نسے تھی وہ ضرف ئمہاری نہن کا نہیں یلکہ‬
‫اور تھی لوگوں کا گناہگار ہے یو اگر جاہنی ہو اسے ید سے یدیر سزا ملے یو تھوڑا ات نظار کرو۔۔۔نہت‬
‫جلد اس کا ابجام تم چود اتنی آیکھوں سے دیکھو گی۔۔قلجال کے لیے تم گھر جاؤ ا تیے۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫سمج ی س‬
‫س‬ ‫م‬
‫ل آخر یں یحندگی سے یوال‪،‬‬ ‫اس کو جاموسی سے اتنی یات ھیے د کھ‬

‫"میں جاہنی ہوں اسے عیرتناک موت ِملے۔۔"‬


‫کجھ دیر کی جاموسی کے نعد سنایل تم لہچے میں یولی‪،‬‬

‫"ضرور ملے گی لنکن میری یات عور سے سبو لڑک۔۔سنایل کہ یولیس کو انقورم نہیں کروگی‬
‫تم۔۔"‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ح‬‫ص‬‫ن‬
‫ل اب یرم ہچے میں کہا جس یر سنا ل اتنات میں سر ہالپی‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اسکے یام کی یح کریا‬

‫"یہ لو۔۔"‬
‫چ یب سے رومال نکالنا وہ اس کی جاتب یڑھایا‪،‬سنایل کی آیکھوں میں جیرت اتھری اس کے‬
‫یڑھے ہاتھ کو دیکھ‪،‬‬
‫‪- 526 -‬‬
‫"ئمہیں ضرورت ہے اس کی۔۔"‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫م‬
‫ل کے یرم م کراہٹ میت ہیے یر وہ ہاتھ یڑھا کر اس سے رومال لی‪ ،‬فا ل کی د کش‬
‫مشکراہٹ نے اس قدر یرنشاپی میں تھی سنایل کا دل دھڑکا کر رکھ دیا تھا جس سے نظریں خراپی‬
‫تھی وہ‪،‬‬

‫"اور یہ تھی رکھو۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل اب یڑھایا تھا اس کی جاتب‪،‬‬ ‫ا تیے چ یب سے کارڈ نکالنا‬

‫"یہ کنا۔۔؟"‬

‫"کارڈ ہے میرا۔۔اگر وہ کبھی ئمہیں نفضان نہیجانے کی کوشش کرے یو تم کال کرسکنی ہو‬
‫مجھے۔۔"‬
‫سنایل کو کارڈ لییے دیکھ وہ سیحندگی سے کہا‪،‬‬

‫"آپ میری مدد ک بوں کررہے ہیں۔۔؟"‬


‫‪- 527 -‬‬
‫اس کے مڑنے یر سنایل ہلکی آواز میں یوچھی‪،‬‬

‫"تنا نہیں۔۔"‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل ا نی کار کی جاتب گنا‪ ،‬سی ھی سوال کا چواب د تیے کے لیے وہ اب‬ ‫کندھے اچکاکر‬
‫ن ً‬
‫رکنا نہیں جاہ رہا تھا کبویکہ وقت زیادہ ہونے لگا تھا اور وہ جاتنا تھا کہ قینا عنادیہ اب یک اس‬
‫کے لیے جاگی ہوپی ہوگی‪،‬تبھی اسے جلد از جلد ا تیے مییسن جایا تھا اب‪،‬‬

‫چود سے دور جانے اس مہریان شخص کی چوڑی نست کو سنایل جاموش نظروں سے تب یک د یکھے‬
‫گنی جب یک وہ جال نہیں گنا وہاں سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہر گزرنے دن کے ساتھ سکندر وال کی رونقیں چبم ہورہی تھیں‪،‬آج اسے ایک مہییہ ہوچکا تھا‬
‫گیسٹ روم میں تند‪،‬اس رات کے نعد ہیبم نہیں آیا تھا وہاں لنکن مہناز تنگم کبھی کبھی ضرور‬
‫جاپی گیسٹ روم میں اور جب یک ا تیے طع بوں سے مطییہ کو ُرال یہ د تنی وہاں سے نکلنی‬
‫نہیں‪،‬وہ یڑی تھیں تبھی جاہ کر تھی مطییہ ان سے یدئمیزی یہ کریاپی۔۔۔‪،‬کوپی یو عم گشار یہ رہا‬
‫تھا اس کا وہاں۔۔۔‪،‬تنہاپی الگ اس کی جان نکالنی‪،‬ایک کمرے میں تند رہ رہ کر اس کا دم‬
‫‪- 528 -‬‬
‫گھییے لگا تھا‪،‬اتنا آپ اسے کسی قندی کے ماتند لگیے لگا تھا چو یاچق اتنی سزا کاٹ رہا ہو‪،‬اکیر راپیں‬
‫گ‬ ‫ی‬
‫اس کی آیکھوں میں گزرپیں‪،‬فرچندہ وقت یر کھایا د تیے آپی‪،‬اس عرصے میں مطییہ کی یر یسی‬
‫ی‬ ‫ی‬

‫کا اسے تھی معلوم ہوا تھا وہ تنایا جاہی تھی ہیبم کو مگر مطییہ نے ا تیے ازلی ڈر سے یہ یات اسے‬
‫کسی کو تھی تنانے سے م نع کی‪،‬مہییہ تھر ایک کمرے میں تند رہ کر اس کی جالت روز یروز کجھ‬
‫عح یب سی ہونے لگی تھی‪،‬چود سے عاقل وہ ہر گزرنے دیوں میں دو فرد کو نےجد یاد کرپی‪،‬یاذلی‬
‫اور چہایگیر صاجب‪،‬ضرف وہی دویوں یو تھے چو یال کسی چواز اس سے محیت کرنے اس یر تھروشہ‬
‫کرنے‪،‬یاذلی کا سوچیے اسے تیے سرے سے رویا آیا‪،‬اتنا جا ہیے والی نہن کو ک بوں اس نے یددعا‬
‫دی تھی وہ تھی ایک ا نسے شخص کے لیے جسے اس کے جییے یا مرنے سے زرا فرق نہیں یڑیا‪،‬وہ‬
‫نےجد بجھناپی یاذلی کے ساتھ ا تیے کیے گیے رویوں یر‪،‬ان شب سوچوں میں شب سے زیادہ‬
‫منایر اس کا ذہن ہوا تھا‪،‬سبھی کے یدلے رونے اور الفاظوں نے اس کا دماغ جیسے جالی کر ڈاال‬
‫تھا‪،‬‬

‫"فرچندہ۔۔"‬
‫دونہر کو فرچندہ مطییہ کے لیے کھایا لے کر آپی تھی تبھی اس نے نکارا‪،‬‬

‫"خی پی پی۔۔"‬
‫‪- 529 -‬‬
‫"مجھے آج کھایا نہیں کھایا۔۔۔کوپی فروٹ لے آؤ گی۔۔"‬
‫تھکی ہوپی آواز تھی اس کی‪،‬‬

‫"خی پی پی میں اتھی الپی ہوں۔۔"‬


‫اس کے کہیے یر فرچندہ کو چوسی ہوپی تھی کہ اس عرصے میں نہلی مرتیہ وہ کسی جیز کی چواہش‬
‫کی تھی‪،‬‬

‫"سبو۔۔"‬
‫اسے دروازے یر جانے دیکھ وہ تھر نکاری‪،‬‬

‫"فروٹ اور چھری لے آؤ میں چود کاٹ لوں گی۔۔"‬

‫"یہ پی پی آپ زچمت یہ کریں میں کاٹ کر لے آپی ہوں۔۔"‬

‫"فرچندہ میں کاٹ لوں گی چود۔۔"‬


‫‪- 530 -‬‬
‫اجایک اس کا لہچہ صد میں ید لیے دیکھ فرچندہ کجھ چویکی تھر اتنات میں سر ہالپی یاہر گنی‪،‬تھوڑی‬
‫دیر نعد وہ آپی یو ہاتھ میں ایک یلیٹ یر دو سیب اور چھری رکھی تھی‪،‬اس کے یاس رکھیے کے نعد‬
‫فرچندہ وہی کھڑی ہوپی‪،‬‬

‫"تم جاؤ۔۔۔"‬
‫اسے ایک جگہ انسناہ دیکھ مطییہ سناٹ یایرات سمیت کہی‪،‬‬

‫فرچندہ کے جانے کے نعد وہ ایک جاموش نظر تند دروازے یر ڈالی‪،‬گداز ل بوں یر اذ تت تھری‬
‫مسکان تھنلی تھی‪ ،‬ہلکے ہونے دماغ میں اس سبمگر کی کینلی یایوں کے عالوہ کجھ یہ تھا‪،‬یلیٹ یر‬
‫رکھی چھری کو لرزنے ہاتھوں سے اتھاپی وہ دیکھیے لگی‪،‬جالی آیکھوں میں پیزی سے ئمی ایرپی رجشار‬
‫یر تھشلی‪،‬یہ آسان نہیں تھا مگر اب وہ تھک جکی تھی‪،‬ایک ایک لمچہ چود یر تنگ ہونے لگا تھا‬
‫اس کا‪،‬چھری کی یوک کالپی یر رکھیے ہی کایوں میں اس سبمگر کے نفرت سے ُیر الفاظ گو بچے‪،‬‬

‫"میں ئمہیں موت کی تھنک ما یگیے یر مح بور کردوں گا مطییہ چہایگیر"‬

‫‪- 531 -‬‬


‫واقعی اس شخص نے اسے موت کی تھنک ما یگیے یر مح بور کنا تھا۔۔‪،‬کنی اذ ت بوں میں گھرے وہ‬
‫ششک کر روپی اتنی کالپی یر چھری کا زور یڑھانے لگی‪،‬دل یری طرح ڈرا ہوا تھی تھا ا تیے عمل‬
‫یر‪،‬اس کا جسم لرزنے لگا تھا اور تبھی گ ھیراکر مطییہ چھری دور کرنے لگی مگر اجایک ایدر داجل‬
‫ہوپی فرچندہ کی نظر اس یر یڑی‪،‬وہ چوف سے چیحیے چیحیے رکی تھی‪،‬مطییہ کا عح یب لہچہ اسے نہلے‬
‫ہی ڈرایا تھا کہ کہیں وہ کجھ علط یہ کرلے چود سے اس ہی لیے ا تیے ڈر کی وخہ سے ایک نظر‬
‫ایدر آکر وہ دیکھیے کا سوخی اور اب اسے چھری کالپی یر ر ک ھے دیکھ فرچندہ کی جان نکلیے کو ہوپی‪،‬‬

‫"پی پی کنا کررہی ہیں۔۔"‬


‫پیزی میں آگے یڑھنی وہ مطییہ کے ہاتھوں سے چھری لے کر تھینکی‪،‬‬

‫"چود کے ساتھ ساتھ ایک اور معصوم جان کو نفضان نہیجارہی ہیں۔۔۔"‬
‫وہ گ ھیراکر یو لیے لگی جس یر اتنا سر یکڑپی مطییہ نےنسی سے چہرہ چھکاگنی‪،‬‬

‫"یو کنا کروں فرچندہ۔۔تنگ آجکی ہوں ان شب سے۔۔کوپی نقین نہیں کریا میرا۔۔ہر کوپی مجھے‬
‫ہی گناہگار رمجھ رہا۔۔زیدگی تنگ ہورہی ہے مجھ یر۔۔نہیں رہا جارہا مجھ سے نہاں۔۔جلی جایا جاہنی‬
‫نہاں سے دور نہت دور۔۔۔چہاں ان لوگوں میں سے کوپی یہ ہو۔۔۔"‬
‫‪- 532 -‬‬
‫تھراپی آواز میں کہنی وہ فرچندہ کو نہاتت نےنس لگی‪،‬‬

‫"اتنداء وہ تھی کہ جی نا تھا مجال محیت میں‪،‬‬


‫اتنہا یہ ہے کہ اب مریا تھی مسکل ہوگنا۔"‬

‫اسے نےجد اقسوس ہویا تھا مطییہ یر اور اب اسے یوں رونے دیکھ آگے یڑھ کر وہ یرمی سے‬
‫مطییہ کے سر یر ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫"پی پی آپ نہت اچھی ہو۔۔اور مجھے اّٰللہ یر یورا تھروشہ ہے کہ ایک دن آپ کے ساتھ شب‬
‫تھنک ہو جانے گا۔۔۔نس آپ تھی اّٰللہ یر تھروشہ رکھو۔۔"‬
‫فرچندہ کی یات یر وہ اور یری طرح رونے لگی ضحیح ہونے کا ات نظار کرنے ہونے ہی یو تھک جکی‬
‫تھی وہ اب‪،‬ا تیے سالوں سے اس سبمگر کی نےرخی یرداشت کی اور اب اس الزام کے ساتھ‬
‫یاجانے کب یک وہ اسے نہاں یر تند رکھیے واال تھا‪،‬‬

‫کافی دیر یک رونے کے نعد جب اس کا وچود ساکت ہوا تب فرچندہ کو اس کے سونے کا گمان‬
‫ہوا‪،‬مطییہ کے سر یر ہاتھ ت ھیرپی وہ اتھی تھی ساتھ چھری اور یلیٹ لے کر روم سے نکلی‪،‬کجھ‬
‫‪- 533 -‬‬
‫سوچ کر وہ لینڈ الین ئمیر سے ہیبم کو کال کی‪،‬اسے ڈر تھا کہ کہیں ایک مرتیہ تھر مطییہ چود کو‬
‫نفضان یہ نہیجانے تبھی اس کی قکر کے جاطر کجھ دیر نہلے کی گنی مطییہ کی کارواپی وہ ہیبم کو‬
‫کال یر تناپی‪،‬دوسری جاتب یہ سینا وہ پیزی سے اتھا تھا ہناد کو ضروری کام کا کہہ کر وہ گھر کا‬
‫رخ ِکنا‪،‬وہ سوچ تھی نہیں سکنا تھا کہ مطییہ اتنا یڑا قدم اتھانے کی کوشش کرے گی‪،‬نقول‬
‫اس کے وہ ایک نہاتت کم ہمت لڑکی تھی تھر کیسے اس نے یہ کریا جاہا‪،‬ایک یل کو دل گ ھیرایا‬
‫تھا مگر جلد ہی چود یر یرف چول خڑھانے وہ کار سکندر وال جانے رسیے یر موڑا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪- 534 -‬‬


‫دید ِار محبوب کا ہجر‬
‫ل‬‫ق‬
‫از م نشال عزیز‬
‫پارٹ ٹو‬

‫"بی بی۔۔!"‬
‫رات کو گیسٹ روم کا گیٹ کھول کر ایدر آبی فرخندہ نے اسے پکارا ساتھ ہی کھانے کی یرے‬
‫ٹ‬
‫ٹینل یر رکھی‪ ،‬نیچے یٹھی ننڈ کی یاٹیتی سے ن نک لگانے وہ اب یک رورہی تھی‪،‬فرق صرف اننا تھا‬
‫کہ آواز نند ہوچکی تھی‪،‬‬

‫"مطیبہ بی بی کھایا کھالیں۔۔"‬


‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اس کے یاس آبی فرخندہ یرحم پظروں سے اسے د تی کی آواز یں بولی‪ ،‬ھوک بو اسے سدید لگ‬
‫ت‬ ‫م‬
‫رہی تھی مگر اب اذ ن بوں کے ساتھ ساتھ سدید غصہ تھا جو اس کے رگ و نے میں سرانت کررہا‬
‫تھا‪،‬‬

‫‪1‬‬
‫"نہیں کھایا مجھے۔۔"‬
‫چد سے زیادہ خیحنے کے یاعث اب آواز ٹیٹھ چکی تھی اس کی نٹھی آہسنگی سے بولی‪،‬‬

‫"بی بی تھوڑا سا کھالیں۔۔۔آپ نے دونہر میں تھی نہیں کھایا۔۔"‬

‫"میرے کھانے یا نہ کھانے سے کسی کو فرق نہیں یڑے گا۔۔لے چاؤ نہ یرے نہاں‬
‫سے۔۔"‬
‫ی‬
‫لہچے میں یال کا کرب لنے کہتی وہ انتی سلگتی آ کھیں نند کرگتی‪،‬‬

‫"بی بی آپ کی طی یعت نہلے ہی تھنک نہیں لگ رہی۔۔۔نہیں کھاٹیں گی بو نٹمار یڑچاٹیں‬


‫گی۔۔۔تھوڑا سا ہی کھالیں جی۔۔"‬
‫فرخندہ کے لہچے میں ا ننے لنے قکرمندی محسوس کربی مطیبہ جود اذ نتی سے مشکرابی‪،‬وہ مالزمہ ہوکر‬
‫اننان یت دکھارہی تھی لنکن جو ا ننے تھے۔۔‪،‬انہوں نے کس طرح اسے ہر چیز سے ہر رشنے سے‬
‫یآسابی یرچاست کردیا تھا‪،‬‬

‫"مجھے تھوک نہیں ہے۔۔۔لے چاؤ اسے۔۔"‬


‫ا ننے تھنگے گالوں کو صاف کربی وہ سر گھی بوں میں دے گتی‪،‬‬

‫"بی بی۔۔"‬

‫‪2‬‬
‫"فرخندہ میں نے کہا یا نہیں کھایا مجھے۔۔"‬
‫اب کے سر اتھاکر وہ سخت لہچے میں بولی‪،‬کجھ یل بو فرخندہ اسے د یکھے گتی تھر یرے اتھاکر یاہر‬
‫لے گتی‪،‬اس کے چانے کے پعد مطیبہ تھر سر گھی بوں میں دے گتی‪،‬اتھی تھوڑی دیر ہی‬
‫گزری تھی کہ اچایک دھاڑ کی آواز سمیت دروازہ کھال‪،‬تیز آواز یر مطیبہ بوکھالکر سر اتھابی سا منے ہی‬
‫اس شٹمگر کی سخت گھوری جود یر دیکھ وہ گ ھیرابی‪،‬‬

‫"کنا تماشہ لگا رکھا ہے۔۔"‬


‫ک‬‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫اسے گھوریا وہ غصے میں حھڑکا بو مطیبہ یا ھی سے اسے د ھی‪،‬‬

‫"مہ۔۔میں نے کوبی تماشہ نہیں لگایا۔۔"‬

‫"کھایا ک بوں نہیں کھارہی ہو۔۔"‬


‫اس کی تھرابی آواز یر چب وہ گھرک کر بوال نب مطیبہ کو الگ طرح سے رویا آیا پعتی فرخندہ اسے‬
‫ننا آبی تھی‪،‬‬

‫"جواب دو۔۔"‬
‫اشیعال میں آگے یڑھ کر وہ نیچے حھکا ساتھ ہی مطیبہ کا یازو یکڑ کر حھنکے سے اسے کھڑا‬
‫ِکنا‪،‬اچایک ہلکی سی درد کی ٹیس اتھی مطیبہ کے وجود میں‪،‬‬

‫‪3‬‬
‫"ہیٹم۔۔"‬
‫ن یٹ یر ہاتھ رکھتی وہ کراہی اور ہیٹم کا غصہ خ ند یل کے لنے چیرت میں یدال‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫لہجہ جودبخود دھٹما یڑا تھا جس یر مطیبہ کے جواس نےساچبہ ہلے‪،‬وہ ڈری تھی کہ مقایل کو اگر زرا‬
‫تھی تھنک یڑی بو کہیں وہ اسے پقصان نہ نہیچانے‪،‬‬

‫"کک۔۔کجھ نہیں۔۔"‬
‫لہچے کو تمشکل قابو کربی وہ پظریں چرابی بو ہیٹم سر حھ یکا‪،‬‬

‫"فرخندہ۔۔"‬
‫اسے یازو سے تھامے ہی ہیٹم پکارا‪،‬کجھ دیر پعد کھانے کی یرے لنے فرخندہ روم میں داچل‬
‫ہوبی‪،‬ہیٹم کے اسارے یر وہ یرے ننڈ یر رکھتی وانس یلٹ کر چلی گتی‪،‬‬
‫ً‬
‫"کھاؤ فورا۔۔"‬
‫یرے کو دیکھنے ہی مطیبہ روہانسی ہوبی‪،‬‬

‫‪4‬‬
‫"مجھے نہیں کھایا۔۔"‬
‫ا ننے یازو یر سے ہیٹم کا ہاتھ ہنانے کی کوشش سمیت وہ تھنگی آواز میں بولی‪،‬بچانے اس کا یازو‬
‫حھوڑنے کے ہیٹم اسے جود سے فرنب کنا اور نہی یر مطیبہ کی چان ہوا ہونے لگی‪،‬‬

‫"میں نہاں تمہارا ڈرامہ دیکھنے نہیں آیا ہوں۔۔۔"‬


‫دھٹمی آواز میں بو لنے ہونے وہ اس کے یازو یر سحتی سے دیاؤ یڑھا کر حھوڑا کہ مطیبہ کو اننا یازو‬
‫اکڑیا ہوا محسوس ہوا‪،‬‬

‫"ٹیٹھو۔۔"‬
‫ٹ‬
‫اس کے کرچت لہچے میں کہنے یر مطیبہ روبی ہوبی ننڈ یر یٹھی‪،‬‬

‫"کھاؤ تھی۔۔"‬
‫ہیٹم کے بوں بو لنے یر مطیبہ کو نےساچبہ ایک دن نہلے کی وہ رات یاد آبی چب وہ اس کی قکر‬
‫کے بخت کھانے کا کہا تھا‪،‬کینا احھا لگا تھا اسے مقایل کا انتی قکر کریا ل نکن اب۔۔‪،‬نےساچبہ‬
‫چہرہ ہاتھوں میں حھنانے وہ ہچکبوں سے رونے لگی‪،‬‬
‫ً‬
‫"ڈرامے نند کرو۔۔۔کھاو فورا۔۔"‬
‫اس شٹمگر کی تیز آواز کابوں میں یڑی بو چہرے یر سے ہاتھ ہنانے وہ جود یر تمشکل قابو یابی‬

‫‪5‬‬
‫کنکنانے ہاتھ سے اشبون اتھابی‪،‬وہ پغور اس کی یکھری چالت کو دیکھ رہا تھا‪،‬دل عح یب ہوا تھا‬
‫اس لڑکی کو ا نسے دیکھ مگر دماغ نے جیسے اپکار کردیا تھا اس یر رحم کھانے سے‪،‬‬

‫دو ٹین اشبون کھانے کے پعد وہ یابی کا گالس اتھاکر ل بوں سے لگابی نٹھی ہیٹم کی آواز کابوں‬
‫میں یڑی‪،‬‬

‫"پفرت کرنے والوں سے تھی کجھ انشان یت رکھنا چاننا ہوں میں۔۔تمہاری طرح نہیں کہ جن سے‬
‫پفرت ہو انہیں موت کے مبہ میں ڈال کر جود معصوم ین چاؤں۔۔"‬
‫اور مطیبہ کو ا ننے مبہ میں لنا یابی یکدم زہر کے مانند کڑوا لگنے لگا‪،‬وہ سمجھ چکی تھی مقایل کا‬
‫اسارہ اس یار یاذلی کی موت یر تھا‪،‬غم و نےنسی کی چالت میں وہ ہاتھ میں لنا گالس زور سے‬
‫تھینکی تھی نیچے‪،‬‬

‫"میں نے کیتی مرنبہ کہا کہ میں نے نہیں مارا یاذلی کو تھر اس یات کا کنا جواز ٹینا ہے‬
‫اب۔۔"‬
‫وہ جو بوٹ کر چکنا جور ہونے گالس کو دیکھ رہا تھا مطیبہ کے خیحنے یر اس کی چانب م بوجہ ہوا‪،‬‬

‫"اس ہی یات کا بو جواز ہے اصل۔۔۔نہ تم یاذلی کو ماربی نہ میری سادی تم سے ہوبی اور نہ‬
‫کل تم نے وہ چرکت کی ہوبی۔۔"‬
‫کہنے ہونے وہ مطیبہ کی چانب یڑھا‪،‬‬
‫‪6‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫ہ‬ ‫مج‬ ‫ت‬
‫"بو بو اگر تمہاری مجھ سے سادی نہ ہوبی ہوبی اور ھر م وہ چرکت کربی بو ھے زرا فرق یں یڑیا‬
‫مگر میری ن بوی ہوکر میرے تھابی یر پظریں۔۔"‬

‫"ہیٹم چپ ہوچاٹیں۔۔نس کریں میں مرچاؤں گی ا نسے الزامات یر۔۔"‬


‫اچایک اس کی یات کانتی وہ ہذیابی ایداز میں خیحنے ا ننے کابوں میں ہاتھ رکھ گتی‪،‬مقایل کے‬
‫م‬
‫لقظوں کے تیر نے اس کا دل کمل حھلتی کر ڈاال تھا‪،‬پکل یف چد سے سوا ہونے لگی‪،‬دوسری‬
‫چانب ہیٹم کی آیکھوں میں تمی حھلکنے لگی‪،‬دل جواہش کنا تھا اس یکھری ہوبی لڑکی کو انتی یاہوں‬
‫میں سمیٹ لینے کی مگر ذہن جس یری طرح یدگمان تھا وہ چاہ کر تھی قدم آگے یڑھانے کے‬
‫بچانے نیجھے کریا پکال تھا روم سے‪،‬اویر چانے سے نہلے وہ یاہر کھڑی فرخندہ کو اسارہ کریا نہ تھوال‬
‫جس یر آہسنگی سے آکے وہ الک کی تھی گیسٹ روم کو‪،‬‬
‫ٹ‬
‫ایدر یٹھی مطیبہ ننڈ یر مبہ حھنانے یآواز رونے لگی‪،‬سکندر وال کی درو دبوار ہلی تھی اس نےنس‬
‫لڑکی کو نےبچاشہ رونے دیکھ‪،‬اس کا غم ماجول کو کجھ بوں اداس کنا کہ یاہر ہوا کے سور کے‬
‫ساتھ یادلوں نے تیزی سے یرشنا سروع کنا اور اس ہی سور میں مطیبہ چہایگیر کے لب‬
‫تھڑتھڑانے لگے‪،‬‬

‫"یااّٰللہ یا بو مجھے موت دے دیں یا تھر اس سخص کی محیت میرے دل سے پکال دیں۔۔میں‬
‫پفرت کریا چاہتی ہوں اس سے نےنناہ پفرت مگر نہ میرے نس میں نہیں۔۔"‬
‫‪7‬‬
‫تھوٹ تھوٹ کر رونے وہ ان لقظوں کا مشلشل ورد کرنے لگی تھی‪،‬آج اس سخص نے ا ننے‬
‫القاظ سے اسے یری طرح بوڑ دیا تھا‪،‬‬

‫"ہوسکنا ہے مرچاؤں خند دبوں میں‪،‬‬


‫وہ شٹمگر چالرہا ہے دل روز تھوڑا تھوڑا‪"،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ بولیس اشٹیشن آیا تھا غقان سے ملی گتی چیر کے پعد‪،‬وہاں آکر اس نے دیکھا سا منے ہی ہناد‬
‫ٹیٹھا افسر سے کجھ یات کررہا تھا‪،‬‬

‫"مسیر مسیر۔۔"‬
‫اسے دیکھ افسر نے جوسگوار چیرت ظاہر کی‪،‬‬

‫"ٹیٹھیں یا۔۔"‬
‫س‬
‫وہ جس ایداز میں لسینل سے یات کررہا تھا ہناد احھینے کی ک یف یت میں نےاجینار کرسی سے‬
‫کھڑا ہوا‪،‬‬

‫"نناٹیں کیسے آیا ہوا۔۔"‬


‫س‬
‫وہ افسر نےچد جوش دلی سے مچاطب تھا لسینل سے‪،‬‬
‫‪8‬‬
‫"شنا ہے کجھ شکایات درج ہورہی ہیں میرے چالف۔۔۔"‬
‫س‬
‫دوبوں ہاتھوں کی اپگل بوں کو ایک دوسرے میں تھیشانے لسینل بوال بو افسر سے تھا مگر سرد‬
‫پظریں ہناد یر پکانے رکھا‪،‬‬

‫"آپ کے چالف کم نلین۔۔۔نہیں بو۔۔"‬


‫افسر کے لہچے میں اب چیرت گھلی‪،‬‬
‫س‬
‫"انسینکیر۔۔میں نے جس انشان یر سک ظاہر کنا ہے وہ نہی ہے۔۔۔ لسینل مراد۔۔"‬
‫ہناد اچایک نندہی سے گویا ہویا اس کی چانب اسارہ کنا‪،‬‬

‫"واٹ۔۔ان مرڈرز کا سک آپ کو ان یر ہے۔۔"‬


‫وہ افسر کافی چیران ہوا تھا ہناد کی یات یر‪،‬‬

‫"جی یلکل۔۔"‬

‫"میں نہیں مان سکنا۔۔۔یلکہ میں کنا نہاں کا اشناف یک نہیں مان سکنا نہ یات۔۔"‬
‫اگلے ہی یل انتی چئیر سے ننک لگانے افسر دوبوں ہاتھ فصا میں یلند کنے کہا جس یر ہناد حھ یکا کھا‬
‫س‬
‫کر رہ گنا‪ ،‬لسینل ابخوانے کنا تھا اس کے ایکسیرنشن‪،‬‬

‫‪9‬‬
‫"کنا مطلب۔۔۔کیسے نہیں چب میں کہہ رہا ہوں کہ میرے اب یک جینے دوشبوں کا قنل ہوا‬
‫ہے اس میں اس آدمی کا ہاتھ ہے بو تھر۔۔"‬

‫"کام ڈاؤن۔۔ چلے مان لینے ہیں لنکن چب آپ ن بوت دیں گے ہمیں نب۔۔"‬
‫اس کے غصے میں یرشنے یر افسر رسان یت سے کہا بو ہناد ایک یل کو چپ ہوا‪،‬کہہ بو وہ دھڑلے‬
‫سے رہا تھا مگر اب ن بوت اس کے یاس کجھ نہ تھا‪،‬‬

‫"ن بوت نہیں ہے لنکن میں کہہ رہا ہوں یا آپ ایک مرنبہ ایکوایری کروا۔۔۔"‬

‫"یات شٹیں مسیر ہناد سکندر۔۔۔جس سخص یر آپ یڑی آسابی سے نہ خظریاک الزام عاید کررہے‬
‫س‬
‫ہیں ہم نہت ا حھے سے چا ننے ہیں اس سخص کو۔۔۔ لسینل مراد ایک نہانت سرپف انشان‬
‫ہیں۔۔کتی یرایلمز میں انہوں نے ہماری مدد کی۔۔اکیر لوگوں کی مدد میں آگے رہنے والے سخص یر‬
‫آپ ا نسے الزام لگاٹیں گی بو تھر ہمیں النا آپ یر ہی ایکوایری کربی یڑے گی۔۔۔"‬
‫س‬
‫افسر کی یات یر ہناد نےپقیتی سے لسینل کو دیکھا جو عنابی ل بوں یر تمسجر اڑابی مشکراہٹ لنے‬
‫اسے سرد پظروں سے دیکھ رہا تھا‪،‬یراسی گتی آیرو کجھ بوں اتھیں تھیں جیسے سوال کررہا ہو کہ اب‬
‫کنا کہنا چاہو گے۔۔‪،‬نےنسی سے لب تھییحنا ہناد اسے گھورنے کے سوا کجھ نہ کرشکا‪،‬‬

‫‪10‬‬
‫"تھنک ہے اگر آپ کو ن بوت چا ہنے بو میں چلد ن بوت کے ساتھ تھی چاصر ہوں گا تھر نہت‬
‫ا حھے سے نناؤں گا آپ کو اس سخص کی سراقت کا۔۔"‬
‫اصل وہ ننا ہی افسر کے سرپف کہنے یر تھا نٹھی اسے گھوریا پکال تھا وہاں سے‪،‬‬
‫س‬
‫"سوری مسیر لسینل آپ کو پکل یف اتھابی یڑی۔۔۔لنکن نےقکر رہیں ہمیں تھروشہ ہے آپ‬
‫یر۔۔جویکہ مسیر ہناد خند دبوں سے اس سلشلے میں نہاں یر آرہے تھے بو صرف آپ نے کل آکر‬
‫کجھ ٹئیرز یر ساین کرنے ہیں یاکہ آگے چاکر آپ کے لنے وہ یرایلم کا یاعث نہ نٹیں۔۔"‬
‫س‬
‫افسر کے یرمی سے کہنے یر لسینل مشکراکر ان نات میں سر ہالیا مگر ذہین دماغی تیزی سے سوجیں‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫ٹینے لگا‪،‬اسے اب ہناد کا چلد از چلد ان یطام کریا تھا‪،‬یرسوں سکندر وال چانے کا یروگرام ل بوی کریا وہ‬
‫س‬
‫افسر سے ہاتھ مالکر پکال تھا‪،‬یاہر پکلنا لسینل اتھی انتی کار کی چانب ہی یڑھنے لگا تھا کہ اچایک‬
‫کسی اجشاس کے بخت اس کی پظر کجھ دور گتی‪،‬چہاں بولیس مویایل سے زرا ہٹ کر کنارے‬
‫کی طرف ہناد کسی لڑکی سے کجھ یات کررہا تھا‪،‬دوبوں کے ایداز سے لگ رہا تھا جیسے یات کم اور‬
‫بخث زیادہ ہورہی ہو‪،‬ک بویکہ ہناد کجھ غصے میں دکھا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫ایک پظر آس یاس ڈالنا لسینل ننا چاپ کنے خند قدم اتھایا بولیس مویایل کے یاس چاکھڑا‬
‫ہوا‪،‬وہاں نہیچ کر اسے یابوں کی زیادہ نہیں یر ہلکی آواز آنے لگی‪،‬‬

‫‪11‬‬
‫"میں تمہارا جسر پگاڑ کر رکھ دوں گا اگر تم نے انشا کجھ تھی کنا بو۔۔"‬
‫ی‬
‫ہناد اسے آ کھیں دکھایا عرایا‪،‬‬

‫"پگاڑ بو تم نہت کجھ چکے ہو میرا۔۔۔اب کنا کریا چا ہنے ہو۔۔اور جو تھی کریا ہے کرلو ہناد سکندر‬
‫مگر میں انتی نہن کا یدلہ صرور لوں گی تم سے۔۔"‬
‫انتی آیکھوں سے پکلنے آنسوؤں کو رگڑبی وہ لڑکی یڈر ین کر بولی‪،‬‬

‫"لگالو تھر سارا زور۔۔۔دیکھنا ہوں کنا کرلیتی ہو۔۔۔مگر تھر آگے سے میرے رننکشن کے لنے تھی‬
‫ننار رہنا۔۔۔سون یٹ ہارٹ۔۔"‬
‫ً‬
‫کمینگی سے کہنا آگے یڑھ کر ہناد اس کے گال یر ہاتھ رکھنے لگا‪،‬موفع یر وہ لڑکی فورا نیجھے ہوبی اس‬
‫کی کوشش یاکام نناگتی‪،‬‬

‫"ہاتھ مت لگاؤ مجھے تم وجسی۔۔"‬


‫ی‬
‫اس کے لہچے میں یال کا درد تھا‪،‬مگر آ کھیں جیسے اپگارہ یرسانے کو تھیں‪،‬اس کی چالت یر چذ‬
‫اتھایا ہناد پفی میں سرہالیا وہاں سے گنا‪،‬‬

‫"ایکشکبوز می۔۔"‬
‫س‬
‫کجھ دیر پعد وہ لڑکی نےنسی سے رونے یلینے لگی نٹھی لسینل پکارا‪،‬‬

‫‪12‬‬
‫غقب سے آبی تھاری دلکش آواز یر وہ چیرت سے مڑی‪،‬مقایل کھڑے سایدار سخص کو دیکھ‬
‫آیکھوں میں شناٹیش کی چگہ یاگوارنت حھلکی‪،‬‬

‫"کجھ یات کرسکنا ہوں آپ سے۔۔"‬


‫س‬
‫شیحندہ یایرات سمیت اسے دیکھنا لسینل بوحھا‪،‬‬

‫"آپ کون۔۔؟"‬
‫چہرے یر یاگواری النے وہ سوال کی‪،‬‬
‫س‬
‫"میں۔۔ لسینل مراد۔۔"‬
‫س‬
‫"میں نہیں چانتی کسی لسینل مراد کو۔۔"‬
‫اس کے ننانے یر وہ لڑکی لٹھ مار لہچے میں بولی‪،‬‬

‫"میں نے کہا تھی نہیں کہ آپ مجھے چانتی ہیں۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کا لہجہ یل میں سرد ہوا تھا‪،‬‬

‫"بو تھر۔۔"‬

‫"مخیرمہ کجھ یات کربی ہے۔۔"‬


‫اس یار وہ بجمل سے کہا‪،‬‬
‫‪13‬‬
‫"جی کہیں۔۔"‬

‫"اتھی جس سخص سے آپ یات کررہی تھیں نناسکتی ہیں وہ کون ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫پغور اس کے یایرات دیکھ لسینل بوحھا اور اس لڑکی کے یایرات یل میں یدلے‪،‬‬

‫"وہ سخص۔۔۔وہ نہانت گھینا انشان ہے۔۔۔ایک تمیر کا وجسی۔۔چدا بحسے گا نہیں اسے۔۔قہر‬
‫یازل ہوگا اس یر۔۔"‬
‫غصے میں انتی تھڑاس پکالتی وہ رونے کو ہوبی۔۔‪،‬‬

‫"آچر انشا تھی کنا کردیا ہے اس نے جو آپ انتی یددعاٹیں دے رہی ہیں۔۔"‬


‫ششلینل کے سوال یر وہ لڑکی کجھ دیر کے لنے چپ ہوبی‪،‬‬

‫"وہ ظالم انشان۔۔۔میری نہن کا قا یل۔۔اس نے۔۔"‬

‫"جی میں سن رہا ہوں۔۔"‬


‫س‬
‫اس لڑکی کا کہنا مشکل ہورہا تھا نٹھی لسینل یرمی سے بوال‪،‬‬

‫"اس نے میری حھوبی نہن کا۔۔۔رنپ کنا۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے چیڑے ننے تھے اس یات یر‪،‬نےساچبہ وہ پگاہ ت ھیرا‪،‬اس کی سوچ سے کتی گناہ‬
‫زیادہ گھینا پکال تھا ہناد سکندر‪،‬‬

‫‪14‬‬
‫"اس کی وجہ سے۔۔مہ۔۔میری نہن نے جودکسی کرلی۔۔۔اور اس صدمے میں۔۔میری امی مجھے‬
‫اکنال حھوڑ کر چلی گتی۔۔۔وہ انشان نہیں وجسی ہے۔۔۔میں نہاں یر اس ہی سلشلے میں آبی‬
‫تھی مگر اس سے یکر ہوگتی اور اب وہ مجھے دھمکی دے رہا ہے کہ میں ربورٹ نہ کرواؤں لنکن‬
‫میں ڈرنے والی نہیں۔۔۔اسے سزا دلواکر رہوں گی۔۔"‬
‫یان شناپ بو لنے ہونے وہ انتی تھڑاس تھی ساتھ ساتھ پکال رہی تھی‪،‬‬

‫"بولیس کے یاس چانے کی کوبی صرورت نہیں۔۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے چاموش ہونے یر لسینل بوال اور وہ نےپقیتی سے اسے دیکھنے لگی‪،‬‬

‫"کنا مطلب بولیس کے یاس چانے کی صرورت نہیں۔۔۔ایک میٹ کہیں تم تھی بو اس سے‬
‫ً‬
‫نہیں ملے ہونے۔۔۔احھا نٹھی میں سوجوں کہ اس کے چانے کے فورا پعد ہی تم ک بوں آنے‬
‫دیکھو اگر کو تم دوبوں جو چاہ رہے ہو۔۔۔"‬

‫"کجھ دیر کے لنے چپ نہیں ہوسکتی۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے مشلشل بو لنے یر لسینل یاگواری سے ِگھرکا‪،‬‬

‫"ک بوں چپ ہوچاوں میں۔۔۔تم ہونے کون ہو مجھے چپ کروانے والے۔۔"‬

‫‪15‬‬
‫"لڑکی۔۔یام کنا ہے تمہارا۔۔"‬
‫س‬
‫اسے سمجھانے کے عرض لسینل بجمل سے بو لنے رک کر اچایک بوحھا‪،‬‬

‫"شنا ِیل۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل جو مشکوک پظروں سے گھوربی وہ بولی‪،‬آنسو ہ بوز آیکھوں سے چاری تھے‪،‬‬

‫"دیکھو شنا ِیل۔۔۔بولیس میں ربورٹ کروانے سے کنا ہوگا زیادہ سے زیادہ وہ ا ننے چرم کی سزا‬
‫تھگنے کا خند سال تھر وانس پکل آنے گا۔۔۔اور و نسے تھی وہ صرف تمہاری نہن کا نہیں یلکہ‬
‫اور تھی لوگوں کا گناہگار ہے بو اگر چاہتی ہو اسے ید سے یدیر سزا ملے بو تھوڑا ان یطار کرو۔۔۔نہت‬
‫چلد اس کا ابچام تم جود انتی آیکھوں سے دیکھو گی۔۔قلچال کے لنے تم گھر چاؤ ا ننے۔۔"‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫سمج ی س‬
‫ش‬ ‫م‬
‫ل آچر یں یحندگی سے بوال‪،‬‬ ‫اس کو چاموسی سے انتی یات ھنے د کھ‬

‫"میں چاہتی ہوں اسے عیرنناک موت ِملے۔۔"‬


‫کجھ دیر کی چاموسی کے پعد شنایل تم لہچے میں بولی‪،‬‬

‫"صرور ملے گی لنکن میری یات غور سے شبو لڑک۔۔شنایل کہ بولیس کو اپفورم نہیں کروگی‬
‫تم۔۔"‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ح‬‫ص‬‫پ‬
‫ہ‬
‫ل اب یرم ہچے میں کہا جس یر شنا ل اننات میں سر البی‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫اسکے یام کی یح کریا‬

‫‪16‬‬
‫"نہ لو۔۔"‬
‫خ یب سے رومال پکالنا وہ اس کی چانب یڑھایا‪،‬شنایل کی آیکھوں میں چیرت اتھری اس کے‬
‫یڑھے ہاتھ کو دیکھ‪،‬‬

‫"تمہیں صرورت ہے اس کی۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے یرم مشکراہٹ سمیت کہنے یر وہ ہاتھ یڑھا کر اس سے رومال لی‪،‬مقایل کی دلکش‬
‫مشکراہٹ نے اس قدر یرنشابی میں تھی شنایل کا دل دھڑکا کر رکھ دیا تھا جس سے پظریں چرابی‬
‫تھی وہ‪،‬‬

‫"اور نہ تھی رکھو۔۔"‬


‫س‬
‫ا ننے خ یب سے کارڈ پکالنا لسینل اب یڑھایا تھا اس کی چانب‪،‬‬

‫"نہ کنا۔۔؟"‬

‫"کارڈ ہے میرا۔۔اگر وہ کٹھی تمہیں پقصان نہیچانے کی کوشش کرے بو تم کال کرسکتی ہو‬
‫مجھے۔۔"‬
‫شنایل کو کارڈ لینے دیکھ وہ شیحندگی سے کہا‪،‬‬

‫‪17‬‬
‫"آپ میری مدد ک بوں کررہے ہیں۔۔؟"‬
‫اس کے مڑنے یر شنایل ہلکی آواز میں بوحھی‪،‬‬

‫"ننا نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫کندھے اخکاکر لسینل انتی کار کی چانب گنا‪،‬کسی تھی سوال کا جواب د ننے کے لنے وہ اب‬
‫ً‬
‫رکنا نہیں چاہ رہا تھا کبویکہ وقت زیادہ ہونے لگا تھا اور وہ چاننا تھا کہ پقینا عنادنہ اب یک اس‬
‫کے لنے چاگی ہوبی ہوگی‪،‬نٹھی اسے چلد از چلد ا ننے مٹیشن چایا تھا اب‪،‬‬

‫جود سے دور چانے اس مہریان سخص کی جوڑی نست کو شنایل چاموش پظروں سے نب یک د یکھے‬
‫گتی چب یک وہ چال نہیں گنا وہاں سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہر گزرنے دن کے ساتھ سکندر وال کی روپقیں خٹم ہورہی تھیں‪،‬آج اسے ایک مہیبہ ہوخکا تھا‬
‫گیسٹ روم میں نند‪،‬اس رات کے پعد ہیٹم نہیں آیا تھا وہاں لنکن مہناز ننگم کٹھی کٹھی صرور‬
‫چابی گیسٹ روم میں اور چب یک ا ننے طع بوں سے مطیبہ کو ُرال نہ د نتی وہاں سے پکلتی‬
‫نہیں‪،‬وہ یڑی تھیں نٹھی چاہ کر تھی مطیبہ ان سے یدتمیزی نہ کریابی۔۔۔‪،‬کوبی بو غم گشار نہ رہا‬
‫تھا اس کا وہاں۔۔۔‪،‬ننہابی الگ اس کی چان پکالتی‪،‬ایک کمرے میں نند رہ رہ کر اس کا دم‬
‫‪18‬‬
‫گھینے لگا تھا‪،‬اننا آپ اسے کسی قندی کے مانند لگنے لگا تھا جو یاجق انتی سزا کاٹ رہا ہو‪،‬اکیر راٹیں‬
‫گ‬ ‫ی‬
‫اس کی آیکھوں میں گزرٹیں‪،‬فرخندہ وقت یر کھایا د ننے آبی‪،‬اس عرصے میں مطیبہ کی یر سی‬
‫ی‬‫ٹ‬ ‫ی‬

‫کا اسے تھی معلوم ہوا تھا وہ ننایا چاہی تھی ہیٹم کو مگر مطیبہ نے ا ننے ازلی ڈر سے نہ یات اسے‬
‫کسی کو تھی ننانے سے م یع کی‪،‬مہیبہ تھر ایک کمرے میں نند رہ کر اس کی چالت روز یروز کجھ‬
‫عح یب سی ہونے لگی تھی‪،‬جود سے عاقل وہ ہر گزرنے دبوں میں دو فرد کو نےچد یاد کربی‪،‬یاذلی‬
‫اور چہایگیر صاچب‪،‬صرف وہی دوبوں بو تھے جو یال کسی جواز اس سے محیت کرنے اس یر تھروشہ‬
‫کرنے‪،‬یاذلی کا سوخنے اسے ننے سرے سے رویا آیا‪،‬اننا چا ہنے والی نہن کو ک بوں اس نے یددعا‬
‫دی تھی وہ تھی ایک ا نسے سخص کے لنے جسے اس کے جینے یا مرنے سے زرا فرق نہیں یڑیا‪،‬وہ‬
‫نےچد بجھنابی یاذلی کے ساتھ ا ننے کنے گنے روبوں یر‪،‬ان سب سوجوں میں سب سے زیادہ‬
‫منایر اس کا ذہن ہوا تھا‪،‬شٹھی کے یدلے رونے اور القاظوں نے اس کا دماغ جیسے چالی کر ڈاال‬
‫تھا‪،‬‬

‫"فرخندہ۔۔"‬
‫دونہر کو فرخندہ مطیبہ کے لنے کھایا لے کر آبی تھی نٹھی اس نے پکارا‪،‬‬

‫"جی بی بی۔۔"‬

‫‪19‬‬
‫"مجھے آج کھایا نہیں کھایا۔۔۔کوبی فروٹ لے آؤ گی۔۔"‬
‫تھکی ہوبی آواز تھی اس کی‪،‬‬

‫"جی بی بی میں اتھی البی ہوں۔۔"‬


‫اس کے کہنے یر فرخندہ کو جوسی ہوبی تھی کہ اس عرصے میں نہلی مرنبہ وہ کسی چیز کی جواہش‬
‫کی تھی‪،‬‬

‫"شبو۔۔"‬
‫اسے دروازے یر چانے دیکھ وہ تھر پکاری‪،‬‬

‫"فروٹ اور حھری لے آؤ میں جود کاٹ لوں گی۔۔"‬

‫"نہ بی بی آپ زحمت نہ کریں میں کاٹ کر لے آبی ہوں۔۔"‬

‫"فرخندہ میں کاٹ لوں گی جود۔۔"‬


‫اچایک اس کا لہجہ صد میں ید لنے دیکھ فرخندہ کجھ جویکی تھر اننات میں سر ہالبی یاہر گتی‪،‬تھوڑی‬
‫دیر پعد وہ آبی بو ہاتھ میں ایک یلیٹ یر دو شیب اور حھری رکھی تھی‪،‬اس کے یاس رکھنے کے پعد‬
‫فرخندہ وہی کھڑی ہوبی‪،‬‬

‫‪20‬‬
‫"تم چاؤ۔۔۔"‬
‫اسے ایک چگہ انسناہ دیکھ مطیبہ شناٹ یایرات سمیت کہی‪،‬‬

‫فرخندہ کے چانے کے پعد وہ ایک چاموش پظر نند دروازے یر ڈالی‪،‬گداز ل بوں یر اذ نت تھری‬
‫مشکان تھنلی تھی‪ ،‬ہلکے ہونے دماغ میں اس شٹمگر کی کینلی یابوں کے عالوہ کجھ نہ تھا‪،‬یلیٹ‬
‫یر رکھی حھری کو لرزنے ہاتھوں سے اتھابی وہ دیکھنے لگی‪،‬چالی آیکھوں میں تیزی سے تمی ایربی‬
‫رجشار یر تھشلی‪،‬نہ آسان نہیں تھا مگر اب وہ تھک چکی تھی‪،‬ایک ایک لمجہ جود یر ننگ ہونے لگا‬
‫تھا اس کا‪،‬حھری کی بوک کالبی یر رکھنے ہی کابوں میں اس شٹمگر کے پفرت سے ُیر القاظ گو بچے‪،‬‬

‫"میں تمہیں موت کی تھنک ما یگنے یر مح بور کردوں گا مطیبہ چہایگیر"‬

‫وافعی اس سخص نے اسے موت کی تھنک ما یگنے یر مح بور کنا تھا۔۔‪،‬کتی اذ ن بوں میں گھرے وہ‬
‫ششک کر روبی انتی کالبی یر حھری کا زور یڑھانے لگی‪،‬دل یری طرح ڈرا ہوا تھی تھا ا ننے غمل‬
‫یر‪،‬اس کا جسم لرزنے لگا تھا اور نٹھی گ ھیراکر مطیبہ حھری دور کرنے لگی مگر اچایک ایدر داچل‬
‫ہوبی فرخندہ کی پظر اس یر یڑی‪،‬وہ جوف سے خیحنے خیحنے رکی تھی‪،‬مطیبہ کا عح یب لہجہ اسے نہلے‬
‫ہی ڈرایا تھا کہ کہیں وہ کجھ علط نہ کرلے جود سے اس ہی لنے ا ننے ڈر کی وجہ سے ایک پظر‬
‫ایدر آکر وہ دیکھنے کا سوجی اور اب اسے حھری کالبی یر ر ک ھے دیکھ فرخندہ کی چان پکلنے کو ہوبی‪،‬‬

‫‪21‬‬
‫"بی بی کنا کررہی ہیں۔۔"‬
‫تیزی میں آگے یڑھتی وہ مطیبہ کے ہاتھوں سے حھری لے کر تھینکی‪،‬‬

‫"جود کے ساتھ ساتھ ایک اور معصوم چان کو پقصان نہیچارہی ہیں۔۔۔"‬
‫وہ گ ھیراکر بو لنے لگی جس یر اننا سر یکڑبی مطیبہ نےنسی سے چہرہ حھکاگتی‪،‬‬

‫"بو کنا کروں فرخندہ۔۔ننگ آچکی ہوں ان سب سے۔۔کوبی پقین نہیں کریا میرا۔۔ہر کوبی مجھے‬
‫ہی گناہگار رمجھ رہا۔۔زیدگی ننگ ہورہی ہے مجھ یر۔۔نہیں رہا چارہا مجھ سے نہاں۔۔چلی چایا چاہتی‬
‫نہاں سے دور نہت دور۔۔۔چہاں ان لوگوں میں سے کوبی نہ ہو۔۔۔"‬
‫تھرابی آواز میں کہتی وہ فرخندہ کو نہانت نےنس لگی‪،‬‬

‫"اننداء وہ تھی کہ جی نا تھا مچال محیت میں‪،‬‬


‫اننہا نہ ہے کہ اب مریا تھی مشکل ہوگنا۔"‬

‫اسے نےچد افسوس ہویا تھا مطیبہ یر اور اب اسے بوں رونے دیکھ آگے یڑھ کر وہ یرمی سے‬
‫مطیبہ کے سر یر ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫"بی بی آپ نہت احھی ہو۔۔اور مجھے اّٰللہ یر بورا تھروشہ ہے کہ ایک دن آپ کے ساتھ سب‬
‫تھنک ہو چانے گا۔۔۔نس آپ تھی اّٰللہ یر تھروشہ رکھو۔۔"‬

‫‪22‬‬
‫فرخندہ کی یات یر وہ اور یری طرح رونے لگی صحیح ہونے کا ان یطار کرنے ہونے ہی بو تھک چکی‬
‫تھی وہ اب‪،‬ا ننے سالوں سے اس شٹمگر کی نےرجی یرداست کی اور اب اس الزام کے ساتھ‬
‫یاچانے کب یک وہ اسے نہاں یر نند رکھنے واال تھا‪،‬‬

‫کافی دیر یک رونے کے پعد چب اس کا وجود ساکت ہوا نب فرخندہ کو اس کے سونے کا گمان‬
‫ہوا‪،‬مطیبہ کے سر یر ہاتھ ت ھیربی وہ اتھی تھی ساتھ حھری اور یلیٹ لے کر روم سے پکلی‪،‬کجھ‬
‫سوچ کر وہ لینڈ الین تمیر سے ہیٹم کو کال کی‪،‬اسے ڈر تھا کہ کہیں ایک مرنبہ تھر مطیبہ جود کو‬
‫پقصان نہ نہیچانے نٹھی اس کی قکر کے چاطر کجھ دیر نہلے کی گتی مطیبہ کی کاروابی وہ ہیٹم کو‬
‫کال یر ننابی‪،‬دوسری چانب نہ شینا وہ تیزی سے اتھا تھا ہناد کو صروری کام کا کہہ کر وہ گھر کا‬
‫رخ ِکنا‪،‬وہ سوچ تھی نہیں سکنا تھا کہ مطیبہ اننا یڑا قدم اتھانے کی کوشش کرے گی‪،‬پفول‬
‫اس کے وہ ایک نہانت کم ہمت لڑکی تھی تھر کیسے اس نے نہ کریا چاہا‪،‬ایک یل کو دل گ ھیرایا‬
‫تھا مگر چلد ہی جود یر یرف جول چڑھانے وہ کار سکندر وال چانے رشنے یر موڑا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪23‬‬
‫سکندر وال کے بورچ میں کار روکنا وہ تیزی میں پکال تھا‪،‬ایدر داچل ہونے ہی مضبوط قدم گیسٹ روم‬
‫کے چانب ہونے‪،‬ما تھے یر ہزاروں یل لنے وہ الک کھولنا ایدر داچل ہوا سا منے ہی وہ گھی بوں میں‬
‫ٹ‬
‫سر دنے یٹھی تھی‪،‬ہیٹم کی آیکھوں میں ن یفر اتھرا اس کے ساکت وجود کو دیکھ‪،‬‬

‫"اب نہ ننا ڈرامہ شنارٹ کنا ہے۔۔"‬


‫یرہمی سے کہنا وہ آگے یڑھا‪،‬مقایل کا وجود ہ بوز ساکت تھا‪،‬‬

‫"میں نہاں کھڑا یکواس نہیں کررہا ہوں۔۔"‬


‫ن‬ ‫ی‬‫ٹ‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫پ‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫وہ حھک کر اس کا یازو ھوڑا گر نےسود‪،‬لب یحنا م شندھا ہوا‪ ،‬ظر دوڑانے یر ساننڈ ل‬
‫یر یابی سے تھرا گالس ِدکھا‪،‬وہ اتھایا ہیٹم وانس اس کے سا منے آیا‪،‬تھر مطیبہ کا حھکا چہرہ اتھا کر‬
‫یابی تھی یکا‪،‬لمخوں میں ہڑیڑاکر وہ اتھی‪،‬یاک میں یابی چانے سے یری طرح کھانستی وہ ہلکان ہونے‬
‫کو ہوبی اور نٹھی ہیٹم کی تھاری آواز تھر اتھری‪،‬‬

‫"سوساننڈ کا ڈرامہ کرنے سے تمہارے گناہ کم نہیں ہوچاٹیں گے۔۔۔"‬


‫ی‬ ‫س‬
‫اتھی وہ شیٹھلی تھی کہ مقایل کی ن یفر تھری آواز یر آیکھوں میں یا ھی لنے اسے د ھتی کھڑی‬
‫ک‬ ‫مج‬

‫ہوبی‪،‬‬

‫‪24‬‬
‫ایک یل کو بو ہیٹم جوپکا‪،‬ملگچے کیڑے‪،‬یکھرے یال آنسو کے منے نشان لنے عارض زردی مایل‬
‫ریگت آج بورے ایک مہینے پعد وہ اسے دیکھ رہا تھا اور ہیٹم کو کہیں سے تھی وہ مطیبہ نہ لگی جو‬
‫ی‬
‫نہلے لگتی‪،‬حھنل مانند آ کھیں چالی تھی اور ان کے گرد گہرے ہلقے‪،‬وہ نےساچبہ پگاہ چرایا‪،‬‬

‫"جواب د ن نا نسند کروگی کہ نہ میں کنا سن رہا ہوں۔۔؟"‬


‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫لہچے کو ازلی سخت ننانے وہ اشیفشار کنا‪،‬مطیبہ اب یک یا ھی سے اسے دیکھ رہی ھی‪،‬‬

‫"کنا۔۔"‬
‫اس کی آیکھوں کی چیرت ہیٹم کو کسی کھ نکے کا اجشاس دالنے لگی‪،‬‬

‫"تم نے۔۔۔سوساننڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔"‬


‫اب کی یار لہجہ بجمل لنے تھا ہیٹم کا‪،‬‬

‫"نہیں بو۔۔"‬
‫نہ سن کر ہیٹم سدید چیران ہوا‪،‬‬

‫"حھوٹ مت بولو مطیبہ۔۔مجھے فرخندہ نے ننادیا ہے۔۔"‬


‫اس کے مکرنے یر وہ غصہ ہوا‪،‬‬

‫‪25‬‬
‫"کون فرخندہ۔۔؟"‬
‫اور مطیبہ کے اس سوال یر ہیٹم کو حھ یکا لگا‪،‬‬

‫"اوہ بو اب تم فرخ ندہ کو تھی نہیں چانتی۔۔۔نہرو۔۔"‬


‫اس کا اجیتی لہجہ کجھ یرا ہونے کا اجشاس دال رہا تھا مگر انتی سوچ کی پفی کریا ہیٹم نپ کر بوال‬
‫ساتھ ہی فرخندہ کو آواز دیا‪،‬کجھ ہی دیر میں وہ گیسٹ روم میں آبی‪،‬‬

‫"بولو اب۔۔کنا نہیں چانتی تم اسے۔۔"‬


‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫فرخندہ کو اخٹی یت تھری پظروں سے د تی طیبہ کو وہ یازو سے کڑے بوحھا‪،‬‬
‫ی‬ ‫م‬

‫"نہیں۔۔"‬
‫اس کا جواب ہیٹم کے ساتھ ساتھ فرخندہ کو تھی نےپقین کرگنا‪،‬‬

‫"بی بی۔۔۔نہ آپ کنا کہہ رہی ہیں۔۔"‬

‫"مطیبہ کنا یرویلم ہے۔۔۔ک بوں ا نسے بی ہ بوو کررہی ہو۔۔"‬


‫فرخندہ کو نہچا ننے سے مشلشل اپکاری یر وہ دھٹمے لہچے میں دانت ٹیسنے کہا ساتھ ہی اس کے یازو‬
‫یر گرقت سخت کنا‪،‬‬

‫‪26‬‬
‫"آہ۔۔۔آپ ممہ۔۔میرا۔۔ہاتھ۔۔کی۔۔ک بوں دیا۔۔رہے ہیں۔۔"‬
‫یازو میں اتھتی پکل یف یر وہ چیران یرنشان سی بوحھی‪،‬‬

‫"ساری یاٹیں حھوڑو۔۔نہ نناؤ کہ تم کجھ دیر نہلے کنا کرنے لگی تھی۔۔۔"‬

‫"کجھ تھی نہیں۔۔"‬


‫لہجہ ازلی ابچان تھا‪،‬ہیٹم تھٹھک کر رہ گنا‪،‬‬

‫"بی بی آپ نے ہی بو کجھ دیر نہلے جود کو مارنے کی کوشش کی تھی۔۔۔"‬


‫فرخندہ کو چیرت کے ساتھ ساتھ سدید افسوس ہوا اس کی چالت یر‪،‬‬

‫"مہ۔۔میں نے۔۔نہیں مارا۔۔جود کو نہی۔۔نہیں مارا۔۔کس۔۔کسی کو۔۔نہی۔۔نہیں‬


‫مارا۔۔ممہ۔۔میں نہ۔۔نے کجھ۔۔نہیں کنا۔۔نہی۔۔نہیں مارا کسی کو۔۔"‬
‫فرخندہ کے کہنے یر وہ آگے سے یڑیڑانے لگی‪،‬‬

‫"بی بی۔۔!"‬

‫"تم چاؤ۔۔"‬
‫وہ جو مطیبہ کی عح یب ایداز میں کی گتی یابوں یر آگے یڑھ رہی تھی ہیٹم کے چکم یر سر ہالبی یاہر‬
‫پکلی‪،‬‬

‫‪27‬‬
‫"میں نے۔۔کسی۔۔کو نہیں۔۔ما۔۔مارا۔۔نہیں مارا کسی۔۔کو۔۔"‬
‫ھ‬ ‫ح‬
‫اس کے ہ بوز یڑیڑانے یر ہیٹم یکدم مطیبہ کے دوبوں یازوؤں کو تھام کر ھوڑا‪،‬‬
‫ج‬‫ی‬

‫"کنا ہوگنا ہے تمہیں۔۔ک بوں انشا بی ہ بوو کررہی ہو۔۔"‬


‫جود سے فرنب ہیٹم کے وخنہہ چہرے یر نٹھر یلے یایرات کو وہ چاموش پظروں سے یکی گتی‪،‬‬

‫"وہ۔۔وہ کہہ رہی۔۔۔ہے۔۔می۔۔میں نے۔۔مارا۔۔ہے۔۔ہی۔۔ہیٹم۔‬


‫میں۔۔نے۔۔نہی۔۔نہیں مار۔۔مارا۔۔یاذ۔۔یاذلی کو تھی۔۔نہیں مارا۔۔کجھ۔۔نہیں کنا۔۔میں‬
‫نے۔۔"‬
‫اس کا بونے لہچے میں کجھ عح یب سا یایر تھا کہ ہیٹم کی گرقت نےساچبہ ڈھنلی ہوبی‪،‬نےپقین‬
‫پظروں سے مطیبہ کی عح یب یابوں اور چالت کو دیکھنا وہ نیجھے ہوکر ا ننے ما تھے یر ہاتھ رکھنا لب‬
‫دیایا‪،‬‬

‫"یاگل ہونے کا یایک کر کے اگر تم ہمدردیاں ن بورنے کا سوچ رہی ہو بو نہت علط سوچ رہی ہو"‬
‫غصے میں یلند آواز میں کہہ کر وہ پکال روم سے‪،‬ادھر ایدر کھڑی مطیبہ چالی آیکھوں سے اس شٹمگر‬
‫س‬ ‫ٹ‬
‫کو چایا دیکھ چاموسی سے نیچے یٹھی‪،‬ماوف ہویا دماغ قاصر تھا مقایل کا رونہ ھنے سے‪،‬حھونے‬
‫مج‬

‫قدم اتھابی وہ کمرے کی قدآور کھڑکی یر چاکھڑی ہوبی تھر جشک آیکھوں سمیت یاہر الن کو دیکھنے‬
‫لگی‪،‬‬
‫‪28‬‬
‫"اکھڑی ٹیندیں‪،‬شناہ ہلقے اور خند طعنے ہی آنے‪،‬‬
‫محیت میں سکون کدھر میسر آنے ہیں۔"‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بجھلے ایک مہینے سے شنڈبول تھوڑا یزی رہا کجھ غقان سے وہ ہناد یر پظر تھی رکھوارہا تھا اور آج وہ‬
‫عنادنہ کو لے کر سکندر وال آیا تھا‪،‬ا ننے عرصے میں وہ چان بو خکا تھا کہ اس کی مح بوب ن بوی بول‬
‫س‬
‫سکتی ہے مگر وہ ک بوں اس کے سا منے نہ ڈرامہ کررہی تھی نہ سوچ لسینل کی سمجھ سے یاالیر‬
‫تھی‪،‬وہ چاموش تھا کہ عنادنہ سے زیردشتی نہیں کریا چاہنا تھا کسی تھی یات میں‪،‬وہ چاہ رہا تھا‬
‫کہ عنادنہ تھروشہ کرے اس یر اننا کہ جود ننانے اسے کہ آچر کون ہے وہ جس سے وہ اننا ڈری‬
‫س‬
‫ہوبی ہے‪،‬دوسری چانب لسینل کے یرم رونے اور ایداز یر وہ جو نہلے ہی اس کی دبوابی تھی‬
‫اب جو یدگمابی کا نیج دل میں اگا تھا وہ تھی مینے لگا‪،‬اس کا جوپصورت رونہ عنادنہ کو اکیر نہت‬
‫وت گویابی کا بو یات سکندر وال میں تھی‬
‫جوش کرد ن نا یر ڈربی کہ اگر اسے معلوم ہوگنا عنادنہ کی ف ِ‬
‫چانے گی اور تھر اگر قلذہ کو نہ معلوم ہوا بو۔۔۔‪،‬نہ سوچ اکیر عنادنہ کو حھرحھری لینے یر محبور‬
‫کرد نتی‪،‬انتی نہن کی تھنایک شکل دیکھ جو چکی تھی‪،‬‬

‫‪29‬‬
‫"آو ایدر۔۔"‬
‫کار سے ایر کر وہ ایک چگہ ہی انسنا وہ ا ننے گھر کو دیکھ رہی تھی‪،‬دل میں ڈر کنڈلی مارے ٹیٹھا‬
‫س‬
‫تھا‪،‬نٹھی لسینل کی تھاری آواز یر جویکی‪،‬جوپصورت چہرے یر گ ھیراہٹ کا اتیر ظاہر ہویا دیکھ‬
‫س‬
‫لسینل اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر گویا ہوا‪،‬‬

‫"تمہارے ساتھ میں ہوں چاتم۔۔۔"‬


‫یرم مشکراہٹ سمیت اس کے ہمت دالنے یر عنادنہ اننات میں سر ہالبی مدھم سا مشکرابی تھر‬
‫اس کے ہم قدم چلنے لگی‪،‬‬

‫ایدر داچل ہونے ہی سا منے فرخندہ دکھی تھی‪،‬‬

‫"عندی بی بی۔۔آ ٹیں یا ایدر۔۔"‬


‫اسے دیکھ جوسی سے مشکرابی وہ ان دوبوں کو صوفے یر ٹیٹھنے کا کہی مگر نٹھی الن سے آبی مہناز‬
‫س‬
‫ننگم کی پظر ان یر یڑی‪،‬انتی ماں کی آیکھوں میں یاگواری ایربی دیکھ عنادنہ روہانسی ہوکر لسینل کا‬
‫ہاتھ دیابی‪،‬اسارہ تھا وانس چلنے کا‪،‬‬

‫"بوق بق ہو ہی گتی آنے کی۔۔"‬


‫رو ک ھے لہچے میں کہتی وہ خند قدم اتھا کر عنادنہ کے سا منے آ ٹیں‪،‬‬

‫‪30‬‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫پ ً‬
‫"اب قینا معافی ما گنے آنے ہوگے م دوبوں۔۔"‬
‫س‬
‫اب وہ لسینل سے مچاطب ہوٹیں‪،‬‬
‫س‬
‫"معافی علط بوں کی مایگی چابی ہے اور لسینل مراد علطناں نہیں کریا۔۔۔"‬
‫سرد لہچے میں کہنا وہ ایک یرحھی پظر ان یر ڈاال‪،‬‬

‫"تمہارے ایدر نےچد اکڑ ہے۔۔"‬


‫اسے یاشف سے دیکھ انہوں نے کہا‪،‬‬

‫"چاننا ہوں۔۔"‬

‫"اننا گھم نڈ احھا نہیں ہویا۔۔"‬

‫"نہ آپ مجھے ننارہی ہیں۔۔"‬


‫اور مہناز ننگم خند یل کے لنے چپ ہوٹیں‪،‬سمجھ چکی تھی مقایل سے خٹینا آسان نہیں نٹھی پفی‬
‫ی‬
‫میں سر ہالبی اب عنادنہ کو د کھیں‪،‬‬

‫"زیادہ کجھ کہہ کر میں دکھی نہیں کروں گی تمہیں۔۔۔آچر کو عزیز ہو تم مجھے مگر جو کنا صحیح نہیں‬
‫کنا تم نے۔۔"‬
‫ان کی یات یر عنادنہ سرمندگی سے سر حھکاگتی‪،‬آنسو تیزی سے گال میں تھشلنے لگے‪،‬‬

‫‪31‬‬
‫"چیر ہوبی کو کوبی یال نہیں سکنا۔۔ساید نہ ہی تمہارا پضیب تھا یر میں جوش ہوں کہ چلو تم سے‬
‫بو رونہ نہیر ہے "کسی کا"۔۔۔"‬
‫س‬
‫اسے بول کر انہوں نے آچر میں لسینل کو دیکھا خنکہ عنادنہ جوسی سے ان کے گلے لگی تھی‪،‬‬

‫"ٹیٹھو۔۔"‬
‫س‬
‫اسے چپ کراٹیں وہ ان دوبوں کو صوفے کی طرف اسارہ کر کے بولیں مگر لسینل کو وہاں کے‬
‫ماجول میں کجھ عح یب محسوس ہوا‪،‬چاموش پظر ہر طرف ڈالنا وہ ٹیٹھا صوفے یر‪،‬‬

‫آج اپقاق احھا تھا کہ قلذہ گھر یر نہیں تھی‪،‬اویر ا ننے کمرے سے تھر آفس کے لنے پکلنے ہیٹم‬
‫س‬
‫کی پظر لسینل یر یڑی بو وہ مشکرایا ہوا اس سے مال‪،‬یابوں کے دوران عنادنہ کی منالسی پظروں یر‬
‫مہناز ننگم نے اشیفشار کنا‪،‬وہ مطیبہ کو ڈھویڈی تھی جس یر مہناز ننگم نے تھوڑا گ ھیرانے ہونے‬
‫س‬
‫اس کی طی یعت چرابی کا نہانہ ننادیا‪،‬کافی دیر یک وہاں ٹیٹھے رہنے کے پعد لسینل عنادنہ کو لنے‬
‫س‬
‫پکلنے لگا‪،‬مہناز ننگم نے کھانے یر ر کنے کا کہا یر وہ اپکار کرگنا‪،‬یاہر پکل کر لسینل عنادنہ کو کار‬
‫میں ٹیٹھنے کا کہہ کر ہیٹم کے ساتھ الن کی طرف آیا‪،‬‬

‫"چیرنت تھابی۔۔"‬
‫وہاں یر آکر اس کے مشلشل چاموش رہنے یر ہیٹم بوحھا‪،‬‬

‫"تم چب میرے گھر آنے تھے نب میں نے تم سے کجھ کہا تھا۔۔"‬


‫‪32‬‬
‫"کنا۔۔"‬
‫ل‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫مج‬ ‫ت س س‬ ‫س‬
‫لسینل کی یات اسے چیران کرگتی ھی‪،‬ا کی یا ھی یر ی ل ٹیشابی یر کی کن لنے ایک‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫لس‬

‫عیر ارادی پظر ہر چانب دوڑایا اور کجھ دور ہی اسے گیسٹ روم کی کھڑکی دکھی چہاں اب یک‬
‫مطیبہ کھڑی تھی‪،‬‬

‫"وہ ن بوی ہے یا تمہاری۔۔؟"‬


‫س‬
‫اچایک لسینل اس سے بوحھا بو ہیٹم نے تھی اس کی پظروں کا پعاقب ِکنا‪،‬مطیبہ یر پظر یڑنے‬
‫ہی وہ پگاہ چرایا‪،‬‬

‫"جی۔۔"‬
‫مح یصر جواب تھا‪،‬‬

‫"چیرت ہے۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫یاشف سے کہہ کر لسینل قدم اتھایا دوسری چانب ہیٹم کے ذہن میں یکدم لسینل کی م ٹیشن‬
‫میں کہی گتی یات یاد آبی اور وہ تھٹھکا‪،‬‬

‫"ایک میٹ تھابی۔۔"‬


‫ششلینل کو روکنا وہ اس کے سا منے آیا‪،‬‬

‫‪33‬‬
‫"آپ ک بوں اس طرح کی عح یب یاٹیں کرنے لگے ہیں جو میری سمجھ سے یلکل یرے ہوبی‬
‫ہیں۔۔۔ڈایریکٹ کہیں کہ آچر کنا یات ہے۔۔"‬
‫س‬
‫ک یف بوز ہویا وہ بوحھا جس یر لسینل خند یل چاموش رہا تھر گویا ہوا‪،‬‬

‫"میں کسی کے بجی معا ملے میں کجھ بولنا نہیں چاہنا مگر تمہیں تھابی ماننا ہوں۔۔۔بو صرف نہی‬
‫کہنا چاہوں گا کہ انتی ذمہ داری سے اننا تھی عاقل نہ ہو کہ پعد میں صرف بجھناوا تمہارے ہاتھ‬
‫لگے۔۔"‬
‫اس کے لہچے میں یال کی شیحندگی تھی‪،‬مقایل کا اسارہ سمجھنا ہیٹم ایک پظر تھر مطیبہ یر ڈاال کجھ‬
‫دور سے ہی اس کے چہرے یر حھابی یژمردگی واصح دکھابی دے رہی تھی‪،‬‬

‫"انشا کجھ نہیں جیشا آپ سوچ رہے ہیں۔۔"‬


‫م‬ ‫س‬
‫لسینل سے کمل پگاہ چرانے وہ آہسنگی سے بوال‪،‬‬

‫"انشا ہی ہے۔۔۔ہیٹم۔۔تمہیں میں دوسروں کی طرح نہیں سمجھنا نٹھی سمجھایا ہوں شیٹھل چاو‬
‫کہ کہیں وقت نہ پکل چانے۔۔پعد کے بجھناوے سے اب کا شیٹھلنا نہیر ہے۔۔یابچ سال یک‬
‫ٹینابی نہ ہونے کے یاعث میری محسوس کرنے کی ِجس چد درجہ یڑھی ہے اور سکندر وال کی‬
‫دبواریں مجھے کجھ نہت یرا ہونے کا اجشاس دالرہی ہیں۔۔۔بوں لگنا ہے جیسے چلد کجھ نےچد‬
‫علط ہونے واال ہے۔۔"‬
‫‪34‬‬
‫س‬
‫اننہابی گھمئیر لہچے میں اسے ننایا لسینل چانے لگا‪،‬مقایل کی یاٹیں اسے چد درجہ یرنشان کی‬
‫تھیں‪،‬ا ننے گھر کو دیکھ وہ تھر مطیبہ کو دیکھا‪،‬‬

‫"میری نہن کا خنال رکھنے گا وہ نہت معصوم ہے۔۔"‬


‫اس کو چایا دیکھ ہیٹم دھٹمی آواز میں کہنے لگا‪،‬پظریں ہ بوز مطیبہ یر تھیں‪،‬‬

‫"میں ننا بخف بق کسی نے گناہ کو سزا نہیں د ن نا۔۔تھروشہ کریا ہوں انتی ن بوی یر کہ وہ گناہگاروں‬
‫میں سے نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات اسے ت ھیڑ کے مانند محسوس ہوبی جود یر‪،‬نےپقین سا ہویا وہ مڑا مگر نب یک‬
‫س‬
‫لسینل مراد چاخکا تھا وہاں سے‪،‬ا ننے سر یر ہاتھ تھیریا وہ مڑ کر تھر مطیبہ کو دیکھنے لگا‪،‬کہیں وہ‬
‫سچ میں گناہگار بو نہیں نہرا تھا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔میں علط نہیں ہوسکنا۔۔کٹھی آیکھوں دیکھا تھی حھوٹ ہوا ہے۔۔۔اور مطیبہ کو بو‬
‫دوبوں گناہ کرنے میں نے انتی آیکھوں سے دیکھا تھا۔۔"‬
‫دماغ نے اسے پقین دہابی کروابی بو سر حھنک کر وہ آفس کے لنے پکال‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫روڈ یر شیحندہ پظریں حمانے وہ کار ڈران بو کررہا تھا‪،‬شناٹ چہرہ گہری سوچ کی غکاسی کررہا تھا‪،‬ٹیشابی‬
‫‪35‬‬
‫یر ہلکی سکن لنے وہ پقبہ دبوں کے مقا یلے عنادنہ کو کجھ چاموش لگا‪،‬جویکہ وہ آج نےچد جوش‬
‫س‬
‫تھی مہناز ننگم کے یرم رونے یر بو اسے لسینل کا چپ رہنا کھال وہ اس کا سکرنہ ادا کریا چاہتی‬
‫تھی کہ آج مقایل کی طرف سے وہ اس کے دل میں آبی ہلکی سی کدورت تھی خٹم ہوچکی‬
‫س‬
‫تھی‪،‬کجھ سوختی وہ گہرا سانس تھری تھر ہمت کر کے ایک پظر لسینل یر ڈالی‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔!!!"‬
‫س‬
‫اننہابی گہری سوچ سے پکلنا وہ حھنکے سے کار روکا‪،‬ٹین سال یرابی وہی مابوس آواز لسینل کو لگا‬
‫جیسے وقت تھما ہو‪،‬سدید چیرت کے عالم میں گردن موڑیا وہ انتی مکی ِن دل کو دیکھا جو اسے پکار کر‬
‫اب مشکرارہی تھی‪،‬کالی آیکھوں میں جوسی کی دمک دیکھ اسے لگا دننا چہاں کی جوشناں یک ن نک‬
‫اس کے قدموں میں الکر رکھ دی ہوں۔۔۔‪،‬‬
‫ٹ‬
‫وہ بول رہی تھی۔۔‪،‬مقایل یٹھی اس کی مح بوب ن بوی بول رہی تھی‪،‬اسے پکاری تھی‪،‬نےبچاشہ‬
‫س‬
‫جوسی میں گھرے لسینل زیدگی سے تھربور مشکرایا‪،‬‬
‫ُ‬
‫"تھینک بو۔۔"‬
‫وہ تم آواز میں مشکراکر بولی‪،‬‬

‫"تھر بولو۔۔"‬
‫مقایل جیسے اب یک چیران تھا کہ وہ لڑکی اس یر تھروشہ کرنے لگی ہے‪،‬‬
‫‪36‬‬
‫"تھینک۔۔۔"‬

‫"نہیں میرا یام بولو۔۔"‬


‫اس کا چہرہ ہاتھوں کے ننالے میں لنے وہ سرگوسی کنا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔!!"‬

‫"عندلیب۔۔!"‬
‫ی‬
‫نےبچاشہ جوسی میں ننہال ہویا وہ اس کو گلے لگاگنا‪،‬اس کی نست یر ہاتھ رکھتی عنادنہ آ کھیں‬
‫مویدی تھی سکون سے‪،‬‬

‫"تمہاری آواز نے آج مجھے جس قدر مسرور کنا وہ قای ِل ننان ہے۔۔"‬


‫یرسکون لہچے میں کہہ کر وہ اس سے دور ہوا‪،‬‬

‫"تم سے نہت سی شکایات ہیں۔۔۔کافی وجوہات بوحھتی ہے مگر اتھی نہیں۔۔۔قلچال آج کی‬
‫سام میری محیت کے یام۔۔۔"‬
‫ُ‬
‫اسے انتی یرم پگاہوں میں لینا وہ محیت سے جور لہچے میں کہا ساتھ ہی کار شنارٹ کنا‪،‬ادھر‬
‫وجوہات کا سوچ کر عنادنہ کجھ یل کو اسے د یکھے گتی تھر سر حھنک کر مشکرابی‪،‬وہ کم از کم آج‬

‫‪37‬‬
‫س‬
‫یرسکون رہنا چاہ رہی تھی‪،‬کجھ ہی دیر میں وہ لوگ ایک جوپصورت رنسبورنٹ کے یاہر تھے‪ ،‬لسینل‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ش ی‬
‫ل کا فون ریگ کنا‪،‬‬ ‫کو م کراکر د تی وہ کار سے ا ھی ایرنے ہی گی ھی کہ‬

‫"ایک میٹ۔۔"‬
‫ابچان تمیر دیکھ وہ عنادنہ سے کہا ساتھ ہی کال رنسبو کی‪،‬‬
‫س‬
‫"ہنل۔۔ہنلو۔۔۔سلس۔۔ لسینل مراد۔۔"‬
‫تھنگی نسوابی آواز یر ششلینل کجھ تھٹھکا‪،‬‬

‫"کون۔۔؟"‬

‫"ممہ۔۔میں شنا ِیل۔۔"‬


‫س‬ ‫س‬
‫دوسری چانب سے چد درجہ ہمی آواز آبی اور لسینل کے ذہن میں نےساچبہ ایک مہینے نہلے‬
‫ملی گتی وہ لڑکی آبی‪،‬‬

‫"چیرنت۔۔؟"‬
‫ٹ‬
‫اس کے ڈرے ہونے لہچے یر چدسے کا اجشاس ہوا نٹھی وہ نسونش سے بوحھا‪،‬یرایر میں یٹھی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫مج‬‫س‬
‫ی‬
‫ل کو د کھ رہی ھی‪،‬‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادنہ یا ھی سے‬

‫‪38‬‬
‫"تم۔۔یلیز نہاں آچاؤ۔۔۔۔۔ان لوگوں نے۔۔انہوں نے میرا گھر چالدیا۔۔وہ۔۔لوگ۔۔میرے‬
‫نیجھے یڑے ہیں۔۔یلیز مجھے بچالو۔۔"‬
‫س‬
‫بو لنے ہونے وہ مشلشل رورہی تھی‪،‬ہناد کا شینے ہی لسینل سحتی سے لب تھییچا‪،‬آیکھوں میں‬
‫جون ایرنے لگا‪،‬‬

‫"کن لوگوں نے۔۔؟"‬


‫اس نے چیران ہونے بوحھا‪،‬‬

‫"مجھے نہیں ننا۔۔۔تم۔۔تم یلیز مجھے بچالو۔۔وہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔۔۔"‬

‫"اوکے۔۔۔تم نہلے ریلنکس ہو اور مجھے نناؤ کہاں یر ہو اتھی۔۔"‬


‫س‬ ‫س‬
‫اس کے مشلشل رونے یر لسینل نے کہا ساتھ ہی ایڈرنس بوحھا‪ ،‬لسینل کے سوال یر وہ‬
‫چلدی سے ایڈرنس ننابی‪،‬کجھ دیر پعد فون رکھ کر اس نے عنادنہ کو دیکھا‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔؟"‬
‫ح‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫وہ سوالبہ پظروں سے اسے د تی بو ھی‪،‬‬
‫م‬
‫"چاتم کل کا کمل دن تمہارے یام۔۔اتھی کجھ صروری کام ہے۔۔"‬

‫‪39‬‬
‫"کوبی یات نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫یرمی سے کہہ کر وہ مشکرابی‪،‬دل تھوڑا بجھا تھا مگر چانتی تھی لسینل کی مح بوری ہی ہوگی‪،‬‬

‫"میری چاتم۔۔"‬
‫آگے ہوکر اس کی ٹیشابی جومنا وہ محیت سے کہا ساتھ ہی کار شنارٹ کریا وہ عنادنہ کو مٹیشن‬
‫س‬
‫میں حھوڑا‪،‬اس کے پعد لسینل کی کار کا رخ شنایل کے ننانے گنے ایڈرنس یر گنا‪،‬کجھ دیر پعد‬
‫س‬
‫ہی وہ اس چگہ نہیچا‪،‬نہ ایک حھویا سا گھر تھا‪،‬وہاں کھڑے ہوکر لسینل نے اس ہی تمیر یر کال‬
‫کنا‪،‬رنسبو کرنے یر شنایل کی آواز شنابی دی‪،‬وہ اسے ا ننے آنے سے مطلع کنا جس یر کجھ ہی دیر‬
‫س‬
‫میں سا منے ننے گھر کا گیٹ کھال‪،‬کال رکھنا لسینل سا منے دیکھا‪،‬جود کو چادر سے کوور کنے وہ‬
‫ی‬
‫تھنگے چہرے سمیت اسے دیکھ رہی تھی‪،‬آ کھیں چد سے زیادہ رونے کے یاعث نہت زیادہ سرخ‬
‫ہورہی تھیں‪،‬‬

‫"تم تھنک ہو۔۔؟"‬


‫س‬
‫اس کے نیجھے گیٹ یر کھڑی بوڑھی غورت کو ایک پظر دیکھ لسینل بوحھا بو شنا ِیل نے پفی میں‬
‫سر ہالیا‪،‬‬

‫‪40‬‬
‫"مجھ۔۔مجھے یلیز۔۔نہاں سے کہیں چلو۔۔ورنہ وہ لوگ نہاں تھی آچاٹیں گے۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس کا ایداز ننارہا تھا کہ وہ نہت ڈری ہوبی ہے‪ ،‬لسینل اسے کار میں ٹیٹھنے کا اسارہ کنا جس‬
‫ٹ‬
‫یر مڑبی وہ نہلے اس بوڑھی غورت کا سکرنہ ادا کی تھر کار میں آ یٹھی‪،‬‬

‫"اب نناؤ کنا ہوا ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫کار کو روڈ یر ڈالنا لسینل شیحندگی سے بوحھا‪،‬‬

‫"صیح یک سب تھنک تھا لنکن سام کو میں چب کام سے ا ننے گھر لوبی نب دیکھا کہ‬
‫میرا۔۔۔میرا بورا گھر تھڑ کنے اپگاروں کے زد میں تھا۔۔۔مجھے نہیں معلوم کنا ہوا مگر ہر طرف‬
‫کھڑے لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔۔میرے گھر کے تھنک یاہر چار آدمی کھڑے‬
‫تھے۔۔۔میرے خیخ کر رونے یر وہ لوگ میری طرف م بوجہ ہونے۔۔۔ان میں سے ایک نے کسی‬
‫سے کال یر یات کی۔۔۔اور۔۔۔اور تھر وہ لوگ میرے نیجھے تھاگے۔۔۔مج ھے کجھ سمجھ نہ آیا‬
‫سوانے اس کے کہ مجھے تھاگنا ہے اور میں تھاگی۔۔۔میرا نیج ھا کرنے وہ لوگ مشلشل مجھے‬
‫مارنے کی دھمکی دے رہے تھے۔۔۔کسی طرح میں وہاں سے بچ کر پکلی تھر اس گھر میں نناہ لی‬
‫کجھ دیر کے لنے۔۔۔تمہارا دیا کارڈ میرے یرس میں تھا۔۔بو مج ھے تمہارا خنال آیا اور میں نے۔۔۔"‬
‫س‬
‫بو لنے ہونے وہ رک کر تھر رونے لگی‪،‬اسے ایک پظر دیکھ لسینل ڈنش بورڈ سے نسو یاکس اتھایا‬

‫‪41‬‬
‫اس کی چانب یڑھایا‪،‬وہ اننا رویا تھولے اس مہریان سخص کو د یکھے گتی جس کی زیرک پظریں ہ بوز‬
‫روڈ یر تھیں تھر اس سے نسو یاکس لے کر ا ننے آنسو صاف کرنے لگی‪،‬‬

‫"تمہارے گھر میں اور کوبی تھا۔۔؟"‬


‫کجھ دیر پعد وہ ازلی شیحندگی سے بوحھا‪،‬‬

‫"نہیں صرف میری نہن اور امی تھیں مگر اب وہ دوبوں۔۔"‬


‫س‬
‫تھر ہچکناں سروع ہوٹیں اب کی یار لسینل چاموش ہوگنا‪،‬‬

‫"نہ سب اس ہی نے کروایا ہوگا۔۔۔"‬


‫کافی دیر پعد چپ ہوبی وہ بولی‪،‬‬

‫"کس نے۔۔"‬

‫"ہناد سکندر۔۔"‬
‫س‬
‫اس یار شنایل کا لہجہ پفرت لنے تھا‪ ،‬لسینل کجھ جوپکا‪،‬‬
‫ٹ‬
‫"پعتی تم چاموش نہیں یٹھی۔۔"‬
‫شنایل چیران ہوبی تھی مقایل کے چیرت کا اظہار کرنے کے بچانے نہ سوال کرنے یر‪،‬‬

‫"مطلب۔۔"‬
‫‪42‬‬
‫ُ‬ ‫ٹ‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫پ ً‬
‫"مطلب صاف ہے۔۔ قینا م نے ھر بو یس ا یشن کا رخ کنا ہوگا۔۔۔"‬
‫وہ اشنہقامبہ پگاہوں سے اسے گھور کر بوحھا جس یر شنایل پظریں حھکابی‪،‬‬

‫"ہاں بو۔۔تم نے کہا تھا کہ اسے عیرنناک موت ملے گی مگر ایک مہیبہ ہوخکا تھا اور وہ آزاد گھوم‬
‫رہا تھا۔۔۔نٹھی میں کل۔۔۔"‬

‫"کل تم نے انتی نہادری کا ن بوت دے کر بولیس اشٹیشن کا ُرخ کنا۔۔۔ران یٹ۔۔۔"‬


‫اس کی یات کاننا وہ بوال‪،‬لہجہ سخت تھا‪،‬شنا ِیل کا چہرہ حھکا‪،‬‬

‫"تم نہت نےصیری ہو۔۔"‬


‫پفی میں سر ہالکر وہ یڑیڑایا ساتھ ہی کار روکا‪،‬‬

‫"نہ کہاں النے ہو۔۔"‬


‫ت‬ ‫س‬
‫سا منے ننے جوپصورت مٹیشن کو دیکھ وہ بوحھی‪،‬اس کا مشکوک لہجہ لسینل کو لب ھییحنے یر مح بور‬
‫کنا‪،‬‬

‫"انتی چلدی نہی ایک مخفوظ چگہ ہے تمہارے لنے۔۔پعد میں کجھ ان یطام کردوں گا۔۔"‬

‫"میں تمہیں زیادہ زحمت نہیں دوں گی۔۔چلد جود کے رہنے کے لنے کوبی چگہ ڈھویڈ لوں گی۔۔"‬
‫ہلکی آواز میں کہہ کر وہ کار سے ایری‪،‬فرمان کو کار کی چابی یکڑایا وہ شنایل کو ساتھ آنے کا‬

‫‪43‬‬
‫اسارہ کنے آگے یڑھا‪،‬ایدر داچل ہونے یر ہی ہال میں پظر عنادنہ اور درنہ ننگم یر یڑی‪،‬وہ دوبوں‬
‫س‬
‫کسی یات یر مشکرارہی تھیں لنکن سا منے کھڑے لسینل کے ساتھ اس ابچان لڑکی کو دیکھ‬
‫عنادنہ کی مشکراہٹ سمتی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"گرنتی نہ۔۔شنا ِیل ہے۔۔میں زیادہ بو اس کے یارے میں نہیں چاننا نس اننا معلوم ہے کہ نہ‬
‫لڑکی نےسہارا ہے۔۔۔اور۔۔۔"‬
‫عنادنہ کے یاسمجھ یایرات دیکھ وہ شیحندگی سے شنا ِیل سے ملنے سے لے کر اب یک کی ساری‬
‫یات درنہ ننگم اور اسے ننایا سوانے اس کے کہ شنا ِیل کے نیجھے لگا وہ سخص کوبی اور نہیں ہناد‬
‫ہے‪،‬‬

‫"انتی چلدی کوبی گھر بو کنا قلیٹ تھی نہیں ِمل سکنا نٹھی میں نے سوچا کہ خند دن یک اسے‬
‫نہی یر رکھوں تھر جیسے ہی اس کے رہنے کا ان یطام ہویا ہے نہ چلی چانے گی۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات یر عنادنہ نے ایک پظر تھر کجھ قاصلے یر کھڑی شنا ِیل کو دیکھا‪،‬سر نیچے حھکانے‬
‫وہ گ ھیرابی ہوبی لگ رہی تھی‪،‬اس کے یاس آبی عنادنہ یرمی سے اس کے یازو یر ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫‪44‬‬
‫ت‬ ‫پ ً‬ ‫ُ‬
‫"آپ کی امی اور نہن کا سن کر نےچد دکھ ہوا۔۔۔ قینا سی ھی لڑکی کے لنے ا سی سخونشن‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫میں سروابوو کریا نہت مشکل ہویا ہے بو یرنشان نہ ہو سب تھنک ہو چانے گا اور و نسے تھی‬
‫ہمیں کوبی اعیراض نہیں آپ کے نہاں رہنے سے۔۔۔ہے یا گرنتی۔۔"‬
‫ش‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫ش‬ ‫ک‬‫ننگ ی‬
‫جوش دلی سے کہہ کر وہ درنہ م کو د ھی جو اس کی یات یر یرمی سے م کرا یں‪،‬شنا ِ ل م کور‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫اع چاں کی یات یر یر کون ہوا‪،‬‬‫ل ا تی م ن ِ‬ ‫پظروں سے عنادنہ کو د ھی ھی‪،‬دوسری چانب‬

‫"آپ لوگوں کا نہت نہت سکرنہ۔۔میں آپ لوگوں کو زیادہ یرنشان نہیں کروں گی۔۔۔نہت چلد‬
‫چلی چاؤں گی نہاں سے۔۔"‬
‫وہ تھنگی مگر مشکور لہچے میں کہی‪،‬‬

‫"کوبی یات نہیں بجہ۔۔۔عنادنہ اسے گیسٹ روم میں لے چاؤ اور ٹینا آپ آرام کرلو تھوڑا۔۔۔"‬
‫درنہ ننگم نے شققت تھرے لہچے میں کہا بو عنادنہ مشکرابی شنا ِیل کو لنے چانے لگی‪،‬‬

‫"آپ کا تھی سکرنہ۔۔"‬


‫س‬
‫شنا ِیل رک کر لسینل سے مچاطب ہوبی جس کی پظریں عنادنہ کے جوپصورت چہرے یر‬
‫مشکرانے سے یڑنے ڈمنل یر ایکی تھی‪،‬وہ جوپکا‪،‬‬

‫"سکرنہ میرا نہیں میری ن بوی کا کرو۔۔۔اگر وہ نہیں چاہتی بو میں تمہیں اس گھر میں کوبی چگہ‬
‫نہیں دے سکنا تھا۔۔"‬
‫‪45‬‬
‫ی‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ً س‬
‫ج‬
‫ل ھر عنادنہ کو د کھا جو اسے ھور سے بوازی‪،‬ادھر شنا ِ ل کے لب یسے‬ ‫تھوڑا مذاقا کہنا‬
‫ن بوست ہوکر رہ گنے ایک دوسرے سے‪،‬دل دھک سے ہوا اور وہ بجھے چہرے سمیت عنادنہ کو‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫س‬
‫د ھی‪،‬بو مقا ل ھڑی وہ نناری سی لڑکی اس ص کی ن بوی ھی‪،‬ایدر کجھ بویا‪،‬‬

‫"چلیں۔۔"‬
‫عنادنہ کی آواز یر وہ جویک گتی تھر سر ہالکر اس کے ساتھ چلی‪،‬‬

‫شنا ِیل کو گیسٹ روم میں حھوڑ کر وہ درنہ ننگم کے کہنے یر اس کا کھایا وہاں لے گتی‬
‫تھی‪،‬عنادنہ کی کافی کوشسوں کے پعد وہ تھوڑا نہت کھابی اس کے پعد ع نادنہ ا ننے خند‬
‫س‬
‫کیڑے اسماء سے کہہ کر گیسٹ روم میں تھخوابی‪،‬کھایا لسینل‪،‬درنہ ننگم اور اس نے ساتھ کھایا‬
‫تھر درنہ ننگم سے خند یاٹیں کرنے کے پعد چب وہ سوگٹیں نب عنادنہ ا ننے روم میں گتی‪،‬کمرہ‬
‫س‬
‫چالی تھا‪،‬ڈرنسنگ روم سے جییج کر کے چب وہ پکلی بو لسینل کمرے کا دروازہ نند کررہا‬
‫تھا‪،‬عنادنہ کو دیکھنے ہی وہ اس کے چانب یڑھا‪،‬‬

‫"چاتم۔۔"‬
‫محیت سے کہنا وہ عنادنہ کے گرد یازو چایل کنا‪،‬‬

‫"حھوبی لڑکی۔۔"‬
‫وہ جو مشکراکر جود سے فرنب اس مح بوب کے وخنہہ چہرے کو دیکھ رہی تھی یکدم جویک گتی‪،‬‬
‫‪46‬‬
‫"حھوبی۔۔!"‬
‫اس نے چیرت سے دہرایا‪،‬‬

‫"یلکل۔۔بول سکتی تھی مگر ا ننے دن یک مجھ سے حھنایا۔۔"‬

‫"و نسے حھنایا ک بوں تھا۔۔۔ننایا نسند کرو گی۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے سوال یر عنادنہ کی مشکراہٹ دم بوڑی‪،‬جوپصورت چہرے یر گ ھیراہٹ کا اتیر دکھا‪،‬‬

‫"میں صد نہیں کریا۔۔چب تمہیں صحیح لگے نب نناد ن نا۔۔قلچال نہ نناؤ کہ تمہارا یام عندلیب ہے‬
‫یا عنادنہ۔۔؟"‬
‫اب وہ ذہن میں چب سے امڈیا سوال کنا جس یر عنادنہ یرسکون ہوبی ایک یار تھر مشکرابی‪،‬‬

‫"دوبوں ہی میرے یام ہیں۔۔"‬

‫"احھا۔۔کس نے ر ک ھے تھے نہ دو یام۔۔؟"‬

‫"مام نے عندلیب رکھا تھا خنکہ ڈیڈ نے عنادنہ۔۔۔دوبوں کی اکیر میرے یام یر بخث ہوبی اور آچر‬
‫میں ٹییجہ نہ پکال کہ کجھ لوگ مجھے عنادنہ کے یام سے چا ننے لگے بو کجھ عندلیب۔۔"‬
‫س‬
‫وہ مشکرانے ہونے اسے پقصنل سے ننانے لگی خنکہ لسینل کی پظریں یار یار اس کے گال یر‬
‫یڑنے ڈمنل یر الجھ رہی تھیں‪،‬‬

‫‪47‬‬
‫"مجھے عندلیب یام نسند ہے۔۔"‬
‫ننار تھرے ہونے میں کہنا وہ اس کی شبواں یاک سے انتی یاک ِمس کنا‪،‬‬

‫"یر مجھے عنادنہ۔۔"‬


‫مقایل کی محیت تھرے سجر میں گرقنار وہ آہسنگی سے بولی‪،‬‬

‫"جو یام میری محیت کو نسند وہی مجھے ق بول۔۔"‬


‫سرگوشنانہ لہچے میں کہنا وہ عنادنہ کے گال یر لب رکھا‪،‬‬

‫"تم مجھ یر تھروشہ کربی ہو یا۔۔"‬


‫لب ہناکر وہ عنادنہ کے کان کے فرنب ہوکر بوحھا‪،‬مقایل کی گرم سانسوں سے بوکھال کر اس‬
‫س‬
‫نے اننات میں سر ہالیا‪،‬نٹھی لسینل اس کی تھوڑی یرمی سے تھام کر عنادنہ کا چہرہ اویر کنا‪،‬‬
‫س‬
‫"شبو چاتم۔۔۔نہ تھروشہ ہمیشہ قاتم رکھنا مجھ یر کہ لسینل مراد صرف اور صرف تمہارا ہے۔۔۔"‬
‫س‬
‫دھٹمے مگر مضبوط لہچے میں بول کر وہ ع نادنہ کو لنے ننڈ یر آیا‪،‬اسے ٹیٹھاکر لسینل النٹیس آف‬
‫ٹ‬
‫کرنے گنا‪،‬ننڈ یر یٹھی وہ دھڑ کنے دل کے ساتھ اسے الٹیس آف کرنے دیکھ عنادنہ انتی مجروطی‬
‫اپگل بوں کو خیچانے لگی‪،‬عارض سرخ یڑنے لگے تھے اس جود کے فرنب آنے دیکھ‪،‬‬

‫‪48‬‬
‫"میں تمہارا اجشان مند ہمیشہ رہوں گا کہ تمہاری وجہ سے آج میں ایک قایل اور کامناب انشان‬
‫ننا ہوں۔۔"‬
‫ک‬‫ی‬
‫ننڈ یر اس کے فرنب ہویا وہ یرمی سے کہا‪،‬لٹمپ کی روشتی میں مقایل کا وخنہہ چہرہ د تی عنادنہ‬
‫ھ‬

‫پفی میں سر ہالبی‪،‬‬

‫"آپ اننداء سے قایل تھے اور میں نے جو کنا انتی محیت میں نےنس ہوکر کنا بو اس یلندی میں‬
‫ن‬
‫ہیحنے میں بورا ہاتھ آپ کا ہے ک بویکہ میں گرقنار آپ کی محیت میں ہوبی تھی نٹھی وہ قدم‬
‫اتھایا۔۔۔"‬
‫وہ کیتی آسابی سے ا ننے اجشان کو اس کی محیت کا یام دے گتی تھی‪،‬پغور اس کی جسین‬
‫س‬
‫آیکھوں کو دیکھنا لسینل آہسنگی سے اس کے ننکھڑی مانند گالبی ل بوں یر حھکنا چالگنا‪،‬‬

‫"چب ڈاکیرز نے کہا کہ تم نہیں رہی نب مجھے کسی ظور پقین نہیں آیا۔۔۔"‬
‫کجھ دیر پعد ل بوں کو آزاد کریا وہ سرگوسی میں کہا ساتھ ہی عنادنہ کی صراجی دار گردن یر ننے ان‬
‫دو یلوں کو ا ننے عنابی ہون بوں سے حھوا‪،‬مقایل کا یرم گرم لمس انتی شفند گردن یر محسوس کربی‬
‫ی‬
‫عنادنہ آ کھیں موید گتی‪،‬دل نہت تیزی سے دھڑک رہا تھا‪،‬جوپصورت چہرہ ایاری ہونے کو ہوا چب‬
‫س‬
‫لسینل اس کا دو نبہ ایار کر ساننڈ یر رکھا‪،‬‬

‫‪49‬‬
‫"ایک یل کو لگا کہ سب کجھ خٹم ہوخکا ہو۔۔۔دل چاہا کہ وقت یلنے اور تم لوٹ آؤ تھلے میری‬
‫ٹینابی نہ ہو مگر تم ساتھ ہو میرے۔۔۔"‬
‫جوپصورت چہرے کے ہر پفش یر چا بچا انتی محیت کی مہر ن یت کریا وہ اننہابی یرم لہچے میں سرگوسی‬
‫کررہا تھا‪،‬‬

‫"دل کہنا کہ دننا حھوٹ کہتی ہے۔۔۔میری عندلیب زیدہ ہے اور تم چانتی ہو میں نے دلی‬
‫معامالت میں ہمیشہ دل کی شتی ہے۔۔۔اور تھر اس صدی دل نے تمہارے دیدار کا ہجر کاننا‬
‫سروع کردیا۔۔۔"‬
‫مقایل کے کہے ہر لقظ نے اسے معئیر کنا تھا‪،‬جوسی اس کے ایدر یک ایری تھی کہ وہ مح بوب‬
‫سخص اس قدر چاہنا ہے اسے‪،‬‬

‫"تمہارے ہجر نے نہت یڑیایا مجھے عندلیب سکندر۔۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے کان میں سرگوسی کریا لسینل عنادنہ کے کان یر لب رکھا‪،‬‬

‫"ا ننے مح بوب کے ہجر میں عندلیب سکندر تھی نہت یڑبی مگر اس کے یاس آنسو نہیں تھے کہ‬
‫س‬
‫نہا کر دل ہلکا کر سکے۔۔میں آپ سے نہت محیت کربی ہوں لسینل۔۔اب کٹھی آپ کی‬
‫چدابی یرداست نہیں کر یاؤں گی۔۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫لسینل کے وخنہہ چہرے یر اننا یازک ہاتھ تھیربی وہ میرتم آواز میں بولی جس یر لسینل نے‬
‫‪50‬‬
‫یرمی سے اس کی تھنگتی آیکھوں کو جوم لنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫فرخندہ کی زیابی نہ یات مہناز ننگم کو اور تھر دو دبوں میں سکندر وال میں تھنلی‪،‬ان شٹھی کو‬
‫نےپقین کرگنا تھا مطیبہ کی دماغی چالت کا چراب ہویا‪،‬قلذہ نے اسے ڈرامے کا یام دے کر‬
‫معاملہ شیٹھالنا چاہا مگر مہناز ننگم نے اس عرصے میں نہلی یار مطیبہ کی حمانت میں کہہ کر ہیٹم‬
‫کو ڈاکیر سے ابواٹیٹمیٹ لینے کا کہا‪،‬وہ کجھ گ ھیرابی تھیں اس کے عح یب روبوں سے‪،‬کٹھی وہ‬
‫انہیں نہچانتی بو کٹھی نہکی نہکی سی یاٹیں کربی کہ اس نے یاذلی کو نہیں مارا‪،‬ان سب میں جو‬
‫نہت یرسکون تھا وہ ہناد تھا‪،‬نہلے سے ہی اس سے ملنے کے موفع کا منالسی اب نہ چیر اس کے‬
‫لنے کسی جوسی کی بوید سے کم نہ تھی‪،‬مہناز ن نگم کے کہنے یر ہیٹم ڈاکیر سے ابواٹیٹمیٹ لنا تھا مگر‬
‫آج رات ہی آفس کے کام کے سلشلے میں اسے دوسرے سہر چایا تھا‪،‬چانے واال نہلے ہناد تھا‬
‫لنکن دونہر یک اس نے اننا ق یصلہ نندیل کرلنا کہ کجھ صروری کام کے یاعث یا چا یانے گا اور‬
‫ً‬
‫ٹییحنا اب ہیٹم ان نا سامان ننک کررہا تھا‪،‬اسے ٹین دبوں کے لنے چایا تھا‪،‬رات کو مہناز ننگم سے‬
‫مل کر وہ سکندر وال سے پکلنے لگا مگر کسی عح یب اجشاس کے بخت قدم یاہر رکھنے کے بچانے‬
‫گیسٹ روم کی چانب گنے‪،‬دروازہ کھول کر اس نے ایک پظر ایدر دیکھا چہاں ننڈ یر لیتی دن نا سے‬

‫‪51‬‬
‫نے چیر وہ ٹیند کی وادبوں میں تھی‪،‬سر حھنک کر ہیٹم وانس دروازے نند کر کے سکندر وال سے‬
‫پکال‪،‬ادھر وہ پکال بو دوسری چانب ہناد کمینگی مشکراہٹ لنے سیڑھناں ع بور کریا نیچے آیا‪،‬یاہر بورچ یر‬
‫نشلی کے عرض اس نے پظر ڈالی‪،‬ہیٹم چاخکا تھا۔۔۔‪،‬‬

‫"میرا ننارا تھابی کینا تھروشہ کریا ہے یا مجھ یر۔۔۔"‬


‫طیزنہ لہچے میں کہہ کر وہ خ نانت سے ہیشا‪،‬ساتھ ہی یلنا‪،‬سا منے فرخندہ کھڑی تھی‪،‬‬

‫"اس وقت یک تم لوگ کواریر میں ہونے ہو۔۔۔"‬


‫اسے دیکھ ہناد کجھ گ ھیرایا تھا کہ اس کی یڑیڑاہٹ نہ سن لی ہو فرخندہ نے نٹھی تھوڑا غصے میں‬
‫بوحھا‪،‬‬

‫"جہ۔۔جی صاچب۔۔میں بو نس۔۔مطیبہ بی بی کو دوابی د ننے چارہی تھی۔۔۔ان کی طی یعت‬


‫تھنک نہیں ہے یا۔۔"‬
‫فرخندہ نے تمشکل ا ننے گ ھیراہٹ تھرے یایرات حھنانے کہا‪،‬‬

‫"دوابی اور چابی رکھو نہی یر اور چاؤ کواریر یر۔۔"‬

‫"صاچب ہیٹم صاچب نے م یع کنا ہے۔۔۔کسی کو تھی۔۔جہ۔۔چابی د ننے سے۔۔"‬


‫گیسٹ روم کی چابی سحتی سے مٹھی میں دبوختی وہ گ ھیرانے ہونے بولی‪،‬ا ننے اس مالک کی ن یت‬

‫‪52‬‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫پ ً‬
‫کا فرننا ایدازہ بو ہونے ہی لگا تھا اسے ھی طیبہ کے خنال کے عرض وہ یں د ن نا چاہ رہی‬
‫تھی چابی‪،‬‬

‫"جینا کہا ہے اننا کرو۔۔"‬

‫"صاچب دوابی رکھ د نتی ہوں۔۔چابی۔۔ہیٹم صاچب غصہ ہوں۔۔"‬

‫"کہا یا چابی تھی رکھو نہی یر۔۔۔"‬


‫اب کی یار ہناد کی آواز یلند ہوبی بو سر چلدی سے ہالبی وہ گیسٹ روم کی چابی اور دوابی ٹینل یر‬
‫رکھ کر تیزی میں گتی وہاں سے‪،‬چانتی تھی ہناد کا غصہ‪،‬فرخندہ کے چانے کے پعد ہناد ایک پظر‬
‫ہر طرف دوڑایا‪،‬جویکہ رات دیڑھ بج رہے تھے بو اس وقت یک مہناز ننگم اور قلذہ ا ننے کمروں میں‬
‫سوچکی تھیں‪،‬ل بوں یر شیطابی مشکراہٹ سچانے وہ گیسٹ روم کا ُرخ کنا‪،‬‬

‫کمرے میں داچل ہویا وہ گہری پظروں سے مطیبہ کے وجود کو گھورا‪،‬قدم یڑھا کر اس کے فرنب‬
‫آکر ہناد تھوڑا حھکا‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬
‫ی‬
‫اس کے گداز یازو یر ہاتھ رکھنا وہ پکارا ساتھ ہی اسے ہلکا سا ہالیا‪،‬مطیبہ تھوڑا جویک کر آ کھیں وا‬
‫ی‬‫ٹ‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫کی تھی‪،‬جود یر حھکے چہرے کو یا ھی سے د تی وہ اتھ کر ھی‪،‬‬
‫ٹ‬ ‫ھ‬ ‫مج‬

‫‪53‬‬
‫"آپ۔۔"‬

‫"میں ہناد۔۔"‬
‫اس کے لہچے میں اخٹی یت محسوس کنے ہناد کو یک گونہ سکون ہوا‪،‬‬

‫"میرے ساتھ چلو۔۔"‬


‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫وہ کافی دیر یک ہناد کو یا ھی سے د ھی ھی جیسے نہچا ننے کی کوشش کررہی کو نب ہناد کی‬
‫آواز میں بوال‪،‬‬

‫"کہاں۔۔؟"‬

‫"چلو ن نایا ہوں۔۔"‬


‫اس کے یازک ہاتھ کو انتی گرقت میں لینا وہ لہچے کو نہانت میٹھا ن نانے بوال بو ایک یل کو چیرت‬
‫میں گھری مطیبہ ننڈ سے اتھی‪،‬گیسٹ روم سے پکل کر ہناد اسے لنے سیڑھ بوں کی چانب آیا‪،‬اننا‬
‫ک‬‫م ی‬
‫ہاتھ مقایل کی گرقت یں د تی وہ لوج ہونے ذہن کے ساتھ اس کے ہمقدم ل رہی‬
‫چ‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ھ‬

‫تھی‪،‬ا ننے کمرے کے یاہر آکر ہناد مرنبہ تھر چاروں طرف پظر ڈاال تھر کسی کے نہ ہونے یر نشلی‬
‫کر کے مطیبہ کو کمرے میں ایدر لے آیا‪،‬اسے ننڈ یر ٹیٹھا کر وہ دروازے کے یاس گنا‪،‬‬

‫‪54‬‬
‫"سب کہاں ہیں۔۔۔؟"‬
‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫اس کو گیٹ آہسنگی سے الک کرنے دیکھ وہ یا ھی سے عصومانہ سوال کی ھی جس یر ہناد‬
‫م‬

‫اب مڑ کر فرصت سے اسکے یازک سرانے کو گھورنے لگا‪،‬اگر کو مطیبہ ا ننے ہوش میں ہوبی بو‬
‫سا منے کھڑے ہناد کی آیکھوں میں ا ننے لنے جوس دیکھ کانپ کر رہ چابی یر وہ ہوش میں ہوبی‬
‫نب یاں‪،‬‬

‫اس شٹمگر نے جن اذ ن بوں میں اسے ِگھرا کر رکھا تھا‪،‬وہ یازک ایدام لڑکی اب نٹم یاگل سی ہوچکی‬
‫تھی‪،‬سرخ و شفند ریگت میں گھلی ہلکی زردی‪،‬آیکھوں کے گرد گہرے ہلکے ایدر کی بوڑ تھوڑ کی اکیر‬
‫غکاسی کرنے یر جیسے اب وہ جود کو ان سب کا عادی نناچکی تھی‪،‬‬

‫"سب اتھی سورہے ہیں ا ننے کمرے میں۔۔۔"‬


‫اس کے سوال کا جواب د ن نا وہ ننڈ یر اس کے فرنب ہوکر ٹیٹھا تھا‪،‬نہت دبوں سے اس موفع کا‬
‫یالسی وہ اب کیسے حھوڑ سکنا تھا اسے بونہی‪،‬‬

‫"ا۔۔او۔۔اور۔۔۔وہ۔۔؟"‬
‫مقایل کے گھینا ارادوں سے یلکل نےچیر وہ اس شٹمگر کے یارے میں اشیفشار کرنے لگی‪،‬‬

‫‪55‬‬
‫"وہ گھر یر نہیں ہے سون یٹ ہارٹ۔۔۔"‬
‫آہسنگی سے مطیبہ کے چہرے یر آبی رنسمی یال کی ل بوں کو نیج ھے کریا وہ بوال ساتھ ہی اس کے‬
‫تھوڑا اور یزدیک ہوا‪،‬‬

‫"آ۔۔۔آپ۔۔۔د۔۔دور رہیں۔۔۔مجھ۔۔مجھے اح ھا نہیں لگ۔۔۔رہا۔۔۔"‬


‫اسکے چد سے زیادہ فرنب ہونے یر وہ ایک ایک کر بو لنے تھوڑا نیجھے ہوبی‪،‬کافی وقت سے مقلوج‬
‫ہوا دماغ جیسے سمجھ نہیں یارہا تھا کہ اس کے ساتھ کنا ہونے لگا ہے‪،‬‬

‫ادھر مطیبہ کے بو کنے یر مقایل ٹیٹھا ہناد تمسجر اڑابی ہیسی ہیشا تھر کہا‪،‬‬

‫"سون یٹ ہارٹ میں بو تمہارے فرنب اس لنے ہورہا ہوں یاکہ تم سے بوحھ سکوں کہ وہ تمہیں کینا‬
‫یرنشان کریا ہے۔۔۔نہت یرا ہے یاں تمہارا سوہر۔۔۔"‬
‫ٹ‬
‫ا ننے سا منے یٹھی مطیبہ کی چالی آیکھوں کو دیکھ وہ تھربور چاالکی سے کام لینا مضبوغی ہمدردی‬
‫سمیت اسکی دکھتی رگ یر جیسے تیر رکھا تھا خنکہ مطیبہ بو مقایل کی یات یر دھنان ٹینے ہی چلدی‬
‫سے بو لنے لگی‪،‬‬

‫"و۔۔وہ یرا۔۔۔ن۔۔نہیں ہے۔۔۔ب۔۔نس۔۔غصہ۔۔۔ہے مجھ۔۔۔مجھ‬


‫سے۔۔۔چا۔۔چاالیکہ۔۔می۔۔میں نے اسے ننایا کہ۔۔۔ج۔۔جو تھ۔۔تھی‬
‫ہوا۔۔۔اس۔۔می۔۔میں میرا کوبی فصور ن۔۔۔نہیں یر۔۔۔یر وہ۔۔۔مان نا ہی ن۔نہیں۔۔۔"‬
‫‪56‬‬
‫ی‬
‫بوری یات رک رک کر تمشکل کہنے آچر میں وہ ششکی جس یر مقایل ٹیٹھا ہناد کوقت سے آ کھیں‬
‫نند کنا تھا تھر مط یبہ کی تھوڑی کو ا ننے تھاری ہاتھ کی گرقت میں لینا چہرہ انتی چانب کنا‪،‬‬

‫"انشا سوہر یرا ہی ہویا ہے چان۔۔۔جو انتی ن بوی یر تھروشہ نہیں کریا۔۔۔مجھے دیکھو میں کی نا ننار‬
‫کریا ہوں تم سے ہے یاں۔۔۔"‬
‫ی‬
‫مطیبہ کا سوگوار چہرہ اور نٹم وا نسنلی آ کھیں دیکھ وہ یاگل ہونے لگا تھا‪،‬آیکھوں میں پفس کی‬
‫ٹ‬
‫جواہش بورا کرنے کا خ بون لنے وہ انشان نہ یک تھول خکا تھا کہ مقایل یٹھی لڑکی سے کنا رسبہ‬
‫تھا اس کا‪،‬‬

‫"آ۔۔۔آپ مجھ سے۔۔۔بی۔۔ننار کرنے ہیں۔۔۔بو می۔۔میری۔۔ای۔۔ایک ب۔۔یات‬


‫مان۔۔ماٹیں گے۔۔۔"‬
‫ٰ‬
‫مقایل کی معتی چیز یاٹیں کھوکھلے دماغ کی سمجھ سے کافی یرے تھی اس کی اپگلناں انتی یازک‬
‫کمر یر رن نگتی محسوس ہوٹیں بو وہ ایک عح یب سے اجشاس کے بخت تھوڑا نیجھے کھشک کر بوحھی‬
‫تھی‪،‬‬

‫"ہاں چان۔۔۔تم جو بولو گی وہ کروں گا یر یدلے میں تمہیں تھی وہ کریا ہوگا جو میں بولوں‬
‫گا۔۔۔"‬
‫اسے نیجھے کھشکنے دیکھ وہ اب اس کی کمر کو انتی گرقت میں لنے خنانت سے بوال‪،‬‬
‫‪57‬‬
‫"ممہ۔۔۔مجھے۔۔۔میر۔۔میری نہ۔۔نہن۔۔کے ننا۔۔یاس چایا ہے۔۔۔"‬
‫ُ‬
‫نہ یات کہنے اس کی آواز تھرابی تھی جس یر ہناد چذ اتھابی ظروں سے اسے د کھا‪،‬‬
‫ی‬ ‫پ‬

‫"یلکل۔۔۔نس ایک مرنبہ میرا کام ہو چانے تھر میں صرور تمہیں تمہاری نہن کے یاس نہیچا دوں‬
‫گا۔۔۔لنکن جیشا کہ میں نے کہا تمہیں تھی میری یات مانتی یڑے گی۔۔۔"‬
‫مج‬‫س‬
‫مطیبہ کے جوپصورت پفوش یر ا ننے ہاتھ ت ھیریا وہ بوال بو مقایل کی چرکت یر گ ھیرابی وہ یا ھی سے‬
‫بوحھی‪،‬‬

‫"ک۔۔کونسی یات۔۔مم۔۔مانتی ہے۔۔۔"‬

‫"زیادہ کجھ نہیں چان۔۔۔نس نہاں یر جو ہوگا۔۔۔وہ تم کسی کو ننایا نہیں تھنک ہے۔۔۔"‬
‫انتی یات رازدارانہ لہچے میں کہنا وہ آچر میں اس سے یانند چاہا بو مطیبہ نے نہلے بو ا ننے ہلکے‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫س‬
‫ہونے دماغ یر زور ڈال کر مقایل کی یات ھنے کی عی کی ھر کجھ مجھ نہ آنے یر بو ہی سر‬
‫ت‬ ‫مج‬

‫اننات میں ہالدیا‪،‬‬


‫ُ‬
‫نٹھی وہ آہسنگی سے مطیبہ کے چہرے یر سے رنسمی مگر یکھرے الجھے سے یالوں کو نیجھے کریا اسکے‬
‫یرم گال یر ا ننے لب رکھا تھا‪،‬نہلے ہی اس کے معصوم لہچے یر نہکا ہوا وہ اب انتی پفس کی‬
‫تھوک یر قابو نہ کریایا‪،‬ادھر مطیبہ کو ابچایا حھلشایا لمس گال یر محسوس ہوا بو نےساچبہ ماؤف‬

‫‪58‬‬
‫دماغ کے کونے میں ایک وخنہہ پصویر اتھری‪،‬اس شٹمگر کی پصویر۔۔۔‪،‬جس کی تمام اذ ن ٹیں سہنے‬
‫کے یاوجود وہ اس قدر یاگل تھی اسکے آگے‪،‬وہ بو نےچد محیت کربی تھی اس شٹمگر سے‪،‬‬

‫دل یری طرح دھڑکا تھا نہ یات ہلکے ذہن کے یردے یر آنے ہی اور وہ یل میں ڈری تھی اس‬
‫عح یب لمس سے نٹھی گ ھیراکر نیجھے ہونے لگی‪،‬مگر نب یک دیر ہوچکی تھی‪،‬وہ وجسی اب آنے میں‬
‫نہیں رہا تھا‪،‬آچر کو موفع غیٹمت مال تھا اسے‪،‬‬
‫م‬
‫گال سے گردن یک کا شفر کریا وہ کمل مدہوش ہوخکا تھا اور مطیبہ گردن یر ہوبی پکل یف سے‬
‫نےاجینار خیجی ساتھ ہی کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھال‪،‬یکدم ہوش میں آیا ہناد بوکھال‬
‫ی‬
‫کر نیجھے ہوا‪،‬دروازے کی چانب پظر یڑنے ہی سدید گ ھیراہٹ میں اس کی آ کھیں کھلی کی کھلی رہ‬
‫گٹیں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ سکندر وال سے زیادہ دور نہ آیا تھا کہ اچایک عح یب سی گھین ہونے یر کار روکا‪،‬یاچانے ک بوں‬
‫س‬
‫سام سے اس کا دل عح یب ہورہا تھا‪ ،‬لسینل کی یاٹیں یار یار ذہن میں گھومتی اسے نہت‬
‫نےجین کررہی تھیں‪،‬الپعداد سوجوں کو حھنک کر وہ کار شنارٹ کرنے لگا مگر ہمت نہیں ہورہی‬
‫تھی جیسے چانے کی‪،‬حھتی جس کجھ علط ہونے کا اجشاس دالرہی تھی اور نٹھی اس کا فون ریگ‬
‫‪59‬‬
‫کرنے لگا‪،‬ہیٹم نے ح ھٹ سے کال رنسبو کی دوسری چانب فرخندہ تھی‪،‬وہ اسے چلد سے چلد‬
‫سکندر وال آنے کا کہہ رہی تھی‪،‬نہلے بو ہیٹم چیران ہوا مگر چب وہ گ ھیرابی ہوبی آواز میں اسے مطیبہ‬
‫کے لنے آنے کا کہی نب ہیٹم کے ذہن میں مطیبہ کی نہلے کی گتی جودکسی کی کوشش یاد آبی‬
‫اور وہ فون رکھنا کار وانسی کے رشنے یر موڑا‪،‬نندرہ میٹ کا راسبہ یابچ میٹ میں طے کریا وہ سکندر‬
‫وال نہیچا‪،‬الو بج میں ہی اسے نےبچاشہ گ ھیرابی ہوبی فرخندہ دکھی اس کے ہاتھ میں چابی تھی‪،‬وہ وجہ‬
‫بوحھا تھا اسے بوں یلوانے کی جس یر فرخندہ اسے ہناد کے کمرے کی ڈبویلنکیٹ چابی(جو کہ کی‬
‫یاکس میں شٹھی کمروں کی چان بوں کے ساتھ رکھی تھی)یکڑابی‪،‬فرخندہ کا چد درجہ ڈرا چہرہ اسے کجھ‬
‫علط ہونے کا ننارہا تھا نٹھی ننا اس سے کوبی سوال کنے ہیٹم گیسٹ روم کی چانب گنا‪،‬وہ چالی‬
‫س‬
‫تھا‪،‬یری طرح گ ھیرانے دل سمیت وہ ننا کجھ سوچے مج ھے سیڑھ بوں کی طرف تھاگا‪،‬سیڑھناں ع بور‬
‫کرنے ہیٹم کے تیر لڑکھڑانے تھے‪،‬اگر کو جو اننہابی خظریاک چد یک یرا خنال اس کے ذہن میں آیا‬
‫ً‬
‫تھا وہ سچ ہوا بو پقینا اس کا دل نند ہوچایا تھا‪،‬تمشکل ضیط کنے وہ غین ہناد کے کمرے کے یاہر‬
‫کھڑا ہوا تھر تیزی میں الک کھولنا وہ زور سے دروازہ وا کنے ایدر داچل ہوا‪،‬‬

‫اور اسکی سوچ کے غین مطابق سا منے کا م یظر وہی تھا‪،‬اسے لگا وہ سرم سے مرچانے گا‪،‬ہناد‬
‫ی‬
‫مطیبہ سے دور ہویا اسے گ ھیرانے یایرات سمیت دیکھ رہا تھا جس کی نےاننہا سرخ آ کھیں ننڈ یر‬

‫‪60‬‬
‫ی‬ ‫ٹ‬
‫یٹھی روبی ہوبی مطیبہ یر تھیں‪،‬گردن یر ہاتھ ر ک ھے وہ آ کھیں سحتی سے میچ کر نےبچاشہ رورہی‬
‫تھی‪،‬‬

‫"ہ یث۔۔ہیٹم نہ۔۔نہ جود میرے کمرے۔۔می۔۔"‬

‫"کمینے۔۔"‬
‫وہ جو اس کے الل تھٹھوکا ہونے چہرے کو دیکھ وصاچت د ننے کی کوشش کررہا تھا اچایک ا ننے‬
‫چہرے یر ہیٹم کے یڑنے نیچ یر خند قدم نیجھے ہوا‪،‬‬

‫"چرامی انشان۔۔۔"‬
‫اسے ننا رکے ماریا وہ چلق کے یل ِچالیا‪،‬کجھ ہی دیر میں ادھ موا ہونے ہناد کو وہ کالر سے کھییحنا‬
‫نیچے الیا‪،‬اس کے مشلشل خیحنے یر سور ہونے ہی مہناز ننگم ا ننے کمرے سے پکلیں‪،‬قلذہ تھی‬
‫ی‬
‫مندمل آ کھیں ملتی چیران ہوبی نیچے کا م یظر د یکھے چہاں ہیٹم گھسٹینے ہونے ہناد کو گھر کے یاہر‬
‫تھی یکا تھا‪،‬‬

‫"ہیٹم کنا کررہے ہو۔۔؟"‬


‫مہناز ننگم غصے سے کہٹیں ہناد کے یاس چانے لگیں‪،‬‬

‫‪61‬‬
‫"اس گھینا انشان کو حھوڑوں گا نہیں میں۔۔۔"‬
‫طیش میں کہنا وہ تھر اس یر بوٹ یڑا‪،‬درد سے تھینے سر میں یار یار مطیبہ کا تھ یگا چہرہ آرہا تھا‪،‬کینا‬
‫روبی تھی ا ننے جق یر بولی تھی‪،‬کس قدر پقین دالنے کی کوشش کی تھی اسے کہ وہ نےفصور‬
‫ہے‪،‬‬

‫"وہ مرچانے گا ہیٹم حھوڑو اسے۔۔"‬


‫ہناد سے اسے دور کربی مہناز ن نگم اننہابی غصے میں ہیٹم جو گھرکیں‪،‬‬

‫"ہاں بو مرنے دبحنے۔۔۔نہ نیچ انشان اویر مطیبہ کے ساتھ۔۔۔"‬


‫اشیعال میں خیحنا وہ رکا ساتھ ہی تھر آگے یڑھا اس یار مہناز ننگم نے اسے تھام کر یلکل دور کنا‬
‫ہناد سے‪،‬‬
‫ی‬
‫ہیٹم کی ادھوری یات کافی چد یک سمجھ چکی تھیں وہ نٹھی نےپقیتی میں ہناد کو د کھیں‪،‬دوسری‬
‫چانب قلذہ تھی گ ھیرابی تھی اس یات یر‪،‬‬

‫"کینا نیچ انشان ہے نہ۔۔"‬


‫ُ‬
‫"بو جود کینا احھا ہے۔۔؟"‬
‫ا ننے گال سہالیا ہناد ل بوں سے پکلنے جون کو صاف کنے النا اس ہی یر تھڑکا‪،‬‬

‫‪62‬‬
‫"انتی ن بوی یر جود کو تھروشہ نہیں تھا اور آیا یڑا مجھے ننانے کہ میں نیچ انشان ہوں۔۔"‬
‫ہناد کی یات یر وہ مزید طیش میں آگے ہوا جس یر مہناز ننگم تھڑکیں‪،‬‬

‫"ہناد مبہ نند رکھو۔۔ہیٹم رکو تم۔۔"‬

‫"ماما میں اس کی چان لے لوں گا۔۔"‬

‫"انے چا۔۔نہلے جود کو صحیح کر تھر ہناد سکندر کو مارنے کی یات کریا۔۔۔"‬
‫ا ننے چہرے کو سوخنا محسوس کر کے وہ ن نا تھا نٹھی اس یر طیز کریا سدید غصے میں پکال تھا سکندر‬
‫وال سے‪،‬ادھر مہناز ننگم کی فسم یر ہیٹم نےنسی تھرے غصے میں انہیں دیکھا اور نٹھی ذہن کے‬
‫یردے یر اس کا خنال آیا جو نےگناہ اس کی دی سزاٹیں کانتی اب کس چال کو نہیچ چکی‬
‫تھی‪،‬ا ننے یازوؤں یر سے مہناز ننگم کا ہاتھ ہنایا ہیٹم تھاگا تھا اویر کی چانب‪،‬ہناد کے کمرے میں‬
‫داچل ہویا وہ ننڈ یر اسے نہ یاکر بوکھالیا‪،‬کمرے سے یاہر ہر چانب منالسی پظریں دوڑاٹیں بو وہ اسے‬
‫ح ھت یر چابی سیڑھ بوں یر دکھی‪،‬‬

‫"مہ۔۔مطیبہ۔۔"‬
‫ن‬
‫اسے پکاریا ہیٹم اس کے نیج ھے گنا مگر وہ ان شنا کربی سیڑھناں ع بور کربی ح ھت یر چا ہیجی‪،‬‬

‫‪63‬‬
‫"مطیبہ رکو۔۔"‬
‫اسے غین ریلینگ کے سا منے کھڑے دیکھ ہیٹم گ ھیراکر رکا‪،‬نہ سوچ ہی اس کے جواس سلب‬
‫کرنے کے لنے کافی تھی کہ مقایل کھڑی لڑکی کا اگال قدم کنا ہویا تھا‪،‬‬

‫ایک مرنبہ تھر اس شٹمگر کی پکار یر وہ مڑی تھی‪،‬‬

‫‪٫‬مطیبہ۔۔"‬

‫"آگے نہیں یڑھیں۔۔"‬


‫اسے ا ننے یاس آیا دیکھ وہ اذ نت سے خیجی اور ہیٹم کے قدم تھمے‪،‬‬

‫"مہ۔۔میری یات شبو مطیبہ۔۔ادھر آو۔۔"‬


‫اس کے یالنے یر تھرابی آیکھوں سمیت وہ پفی میں سر ہالبی‪،‬‬

‫"نہت ہوا۔۔اب اور نہیں۔۔۔اور سکت نہیں ہے آپ لوگوں کی پفرت سہنے کی۔۔۔"‬
‫اس کے لہچے میں کرب ہی کرب تھا‪،‬سرمشار سا ہیٹم پکل یف سے اسے دیکھا‪،‬‬

‫"سوری۔۔"‬
‫وہ ہلکی آواز میں بوال تھا جس یر مطیبہ نےبچاشہ پکل یف میں گھری ہیسی‪،‬‬

‫‪64‬‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫"نہت حھویا لقظ ہے اس ہمت کے مداوے کے لنے۔۔۔"‬
‫مطیبہ کی یات شینا وہ نےچد نسٹمان ہوا مگر چلد ہی وہ ایک قدم آگے یڑھا مطیبہ کو ریلینگ یر‬
‫تیر رکھنے دیکھ‪،‬‬

‫"نہ۔۔نہی۔۔نہیں۔۔رکو میں کہہ رہا ہوں مطیبہ ادھر آؤ۔۔"‬


‫یری طرح گ ھیرانے وہ لہچے کو سخت ننانے کی تھربور کوشش کنا مگر یاکام رہا‪،‬اس کی آواز نہت‬
‫کھوکھلی ہورہی تھی‪،‬‬
‫ی‬
‫"کہا تھا یا آپ نے کہ موت کی تھنک ما یگنے یر مح بور کردیں گے۔۔اب د کھیں مطیبہ چہایگیر سچ‬
‫میں انتی موت کی تھنک مایگتی ہے۔۔۔نہیں رہنا چاہتی اس شقاک دننا میں۔۔۔مجھ۔۔مجھے بو‬
‫پفرت ہوبی ہے جود سے کہ میں نے آپ سے محیت کی۔۔۔لعیت ہے انسی محیت یر جس نے‬
‫سوانے اذ نت کہ مجھے کجھ نہ دیا مگر اب۔۔۔اب مطیبہ چہایگیر آزاد ہوچانے گی ہر اذ نت‪،‬ہر‬
‫پکل یف اور ہیٹم سکندر کی تھنک میں دی گتی محیت سے۔۔۔"‬
‫اس کے القاظ جس قدر سرمندہ کررہے تھے ہیٹم کو اس کا دل چاہا زمین ت ھٹ چانے اور وہ اس‬
‫میں سماچانے‪،‬اذ نت و سرمندگی کی اتھا گہران بوں میں گِ را وہ مطیبہ کی گردن یر دانت کے نشان‬
‫ی‬
‫دیکھ سحتی سے انتی چلتی آ کھیں میچ گنا مگر اگلے ہی لمچے دھپ کی آواز کے ساتھ ہیٹم حھنکے سے‬
‫ی‬
‫آ کھیں کھوال‪،‬سا منے کسی کو یایاکر اسے لمخوں میں انتی زیدگی چالی ہوبی دکھی‪،‬جوف سے شفند ہونے‬
‫‪65‬‬
‫چہرے سمیت وہ لڑکھڑانے قدموں سمیت ریلینگ کے یاس آیا تھر لرزنے ہاتھوں کو ریلینگ یر‬
‫رکھ کر نیچے دیکھا‪،‬اسے جود میں زرا دم محسوس نہ ہوا‪،‬سا منے چا م یظر زیادہ یدال نہ تھا نس اب وہاں‬
‫یاذلی کی چگہ مطیبہ تھی‪،‬تیروں سے چان پکلنے کو ہورہی تھی نیچے یڑے مطیبہ چہایگیر کے وجود کو‬
‫دیکھ‪،‬معطل ہونے جواس شیٹھالنا وہ لڑکھڑانے ہونے نیچے تھاگا‪،‬سب کجھ بو خٹم ہونے کو‬
‫تھا‪،‬دل کرب کی جس اننہا کو تھا اس سے تھاگنا مچال ہورہا تھا‪،‬جود کے اور مطیبہ کے درمنان کا‬
‫قاصلہ صدبوں کی مانند لگا تھا اسے‪،‬‬
‫ی‬
‫نیچے یڑی وہ تمشکل سانس لیتی کھلے آسمان کو نٹم وا دھندلی آیکھوں سے د ھی ھی‪،‬ایدھیر ہونے‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫ذہن میں اس شٹمگر کا وخنہہ چہرہ آیا اور وہ پکل یف کی چدوں کو حھوبی اذ نت سے مشکرابی ساتھ‬
‫ہی مطیبہ کا وجود نےدم ہوا‪،‬‬

‫دور خنات ہم کو‪،‬‬


‫"یاد رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ِ‬
‫کنا جوب یرسے تھے ایک سخص کے چاطر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کمیبہ کہیں کا۔۔بورا چہرہ چراب کر ڈاال۔۔"‬

‫‪66‬‬
‫غصے میں ننک و ن بو مرر یر اننا چہرہ دیکھنا وہ قل شینڈ میں کار چال رہا تھا‪،‬غصہ جس قدر سدید تھا‬
‫اسے سمجھ نہ آیا کس رشنے یر چارہا ہے‪،‬‬

‫"جود میں چامناں ہے اور آیا مجھے۔۔ہناد سکندر کو نیچ کہنے۔۔ذلنل انشان۔۔"‬
‫نپ کر جو مبہ میں آیا کہنا گنا وہ مگر اگلے ہی لمچے حھنکے سے کار روکا‪،‬چیران پظریں روڈ کے غین‬
‫نیچ میں کھڑی یلنک کار یر تھیں‪،‬‬

‫"اب ا ننے شیشان ر شنے یر کس کو سوق چڑھا ہے کار نیخوں نیچ رو کنے کا۔۔۔"‬
‫نہلے ہی وہ چہرہ چراب ہونے یر ننا ہوا تھا اویر سے ہارن بچانے یر تھی چب کوبی نہ آیا نب وہ‬
‫غصے میں کار سے پکلنا خیچا‪،‬‬

‫"مجھے۔۔"‬
‫کار کے نیجھے سے آیا گرے ہڈی میں وہ یراسرا سخص طیزنہ مشکراہٹ سمیت کہا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ُ‬
‫"کون ہے بو۔۔۔؟"‬
‫مقایل کا ہڈی میں آدھ حھنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کریا ہناد غصے میں بوحھا‪،‬نٹھی وہ ہڈی چہرے‬
‫یر سے ہنایا اور ہناد کے یایرات یل میں یگڑے‪،‬‬
‫‪67‬‬
‫ُ‬
‫"اوہ۔۔بو۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کو دیکھ وہ تمسجر سے کہا‪،‬‬

‫"ہاں۔۔میں۔۔"‬
‫سرد لہچے میں بول کر وہ آگے یڑھا‪،‬‬

‫"ک بوں دوست انتی زیدگی نناری نہیں جو آج جود ہناد سکندر کے یاس چل کر آیا ہے۔۔۔و نسے‬
‫تھنک ہی ہے اس شنانے میں بجھے اس رات سے زیادہ یدیر ایداز میں مارنے کا الگ ہی مزہ‬
‫ہوگا۔۔"‬
‫ایک پظر ہر چانب ہونے شنانے کو دیکھ وہ تمسجر اڑابی پظروں سم یت مشکرایا مگر اگلے ہی لمچے اس‬
‫س‬
‫کی نہ مشکراہٹ سمتی لسینل کو ہلکا سا ہیسنا دیکھ‪،‬ایک مذاق اڑابی ہیسی تھی اس کی‪،‬‬

‫"دوست لقظ تیری زیان یر جحنا نہیں اسے نہ ہی بول بو نہیر ہے اور چہاں یک یات مارنے کی‬
‫ہے بو آچا دیکھنے ہیں آج کس میں کینا خ بون ہے ا ننے چرپف کو خٹم کرنے کا۔۔۔"‬
‫طیزنہ ہیسی ہیس کر آچر میں وہ خ بوبی لہچے میں کہا ساتھ ہی ننا کوبی وقت صا پع کنے ہناد کی‬
‫چانب یڑھا‪،‬تھوڑی ہی دیر میں ان دوبوں کے درمنان ہونے والی مارن یٹ وہاں کے شنانے میں‬
‫س‬
‫ارپعاش نندا کرنے لگی‪،‬جویکہ لسینل خ بون میں ننارکے اس یر ہاتھ اتھا رہا تھا نٹھی ہناد کو کم‬
‫ہی موفع مال اس یر ایک دو ہاتھ اتھانے کا‪،‬دوسرا وہ ہیٹم سے جس قدر ننا تھا اب اور ہمت نہیں‬
‫‪68‬‬
‫ہورہی تھی‪،‬دوبوں کی نہ لڑابی فصا میں اچایک تھاہ کی آواز سمیت رکی ساتھ ہی ہناد کی دردیاک‬
‫س‬
‫خیخ فصا میں یلند ہوبی‪ ،‬لسینل کجھ چیرت میں اسے لڑکھڑا کر نیچے گرنے دیکھا‪،‬‬

‫"تیری فسم میرے دوست۔۔۔میں بو صرف خ نک کررہا تھا کہ نہ چل تھی رہی ہے یا نہیں۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل نےساچبہ مشکرایا آنے والی ہستی کو دیکھ خنکہ ہناد گردن موڑے نےپقیتی کے عالم‬
‫میں اسے دیکھنا رہ گنا جو نسنل ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا‪،‬‬
‫ٰ‬
‫"ننام مرپضی۔۔"‬
‫اس کے ل بوں میں ہلکی سی خٹیش ہوبی‪،‬تیروں میں اتھتی پکل یف کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ‬
‫تھی یکدم تھک سے اڑا‪،‬مقایل بو اس کا دوست تھا نہیرین دوست۔۔۔!‬
‫س‬
‫تھر نہ کیسی دوشتی تھی کہ وہ آج اس ہی کو پقصان نہیچایا تھا‪ ،‬لسینل کے ل بوں یر طیزنہ‬
‫مشکراہٹ سچے دیکھ وہ یل میں تمام معاملہ سمجھا‪،‬‬
‫ُ‬
‫"بو دوست تھا میرا کمینے۔۔"‬
‫غم و غصے کی ملی چلی ک یف یت میں وہ زور سے چالیا‪،‬‬

‫"ہاں یار میں تیرا ہی دوست ہوں۔۔تھنک تیرے جیشا کمیبہ‪،‬جودعرض اور دھوکے یاز۔۔۔"‬
‫ی‬
‫انتی خنکٹ حھنکنے وہ کندھے اخکاکر بوال‪،‬تیر میں اتھتی پکل یف یر ہناد سحتی سے آ کھیں میچ کر وا‬
‫کنا‪،‬اتھنے کی یاکام کوشش میں درد چد سے سوا ہوا بو وہ وانس لڑھک کر ٹیٹھ گنا‪،‬‬
‫‪69‬‬
‫"بجھے مارنے میں مجھے نہت مزہ آنے گا۔۔"‬
‫س‬
‫کار کی چانب چایا لسینل یآواز کہا‪،‬ننام نب یک انتی کار کے بونٹ یر ٹیٹھ گنا‪،‬‬
‫س‬
‫کجھ دیر پعد وہ کار سے پکال بو ہاتھ میں دو چیزیں تھامی تھیں‪،‬ایک کو زمین یر ر ک ھے لسینل‬
‫دوسرے ہاتھ میں تھامے چافو کو الیا‪،‬‬

‫"بجھ سے زیادہ مزہ مجھے آنے واال ہے۔۔"‬


‫مزے سے کہہ کر ننام یرسکون سا ہوکر ان دوبوں کو دیکھنا انتی خ یب سے مویایل پکاال‪،‬ساتھ ہی‬
‫ویڈبو رپکارڈر اون کنا‪،‬‬
‫ُ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬ ‫س‬
‫"د۔۔دی۔۔دیکھ لسینل مراد۔۔می۔۔میں بج ھے حھوڑوں گا نہیں اگر بو نے کجھ ھی کنا بو۔۔۔بو‬
‫چاننا نہیں میں کنا ِکنا کرسکنا ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کو چافو لنے نیچے حھکنے دیکھ وہ لہجہ مضبوط ننا کر دھمکی د ننے کی انتی سی کوشش کنا‬
‫س‬
‫مگر چب لسینل چافو اس کی آیکھ کے فرنب الیا نب تمشکل نیجھے سرکنا ہناد یری طرح ڈرا‪،‬‬
‫ُ‬
‫"چاننا ہوں۔۔نہت ا ح ھے سے چاننا ہوں بو ِکنا کنا کرسکنا ہے۔۔۔دوشتی میں دھوکے یازی‪،‬جشد‬
‫اور دوسروں کی عزبوں یر گندی پظر۔۔۔اور نہ۔۔۔کنا احھا ہی ہو کہ نہ گندی پظر سے دیکھنے والی‬
‫ی‬
‫آ کھیں ہی پکال دی چاٹیں بو۔۔۔"‬
‫رسان یت سے بولنا ہوا وہ آچر میں اچایک اننا لہجہ یرف سا سرد کنا ساتھ ہی شقاکیت سے ہناد کے‬
‫‪70‬‬
‫شفند یڑنے چہرے کو دیکھ چافو شندھا اس کی آیکھ میں ڈاال‪،‬لمخوں میں ہناد کی ہذیابی خیخ یلند‬
‫س‬
‫ہوبی‪،‬یڑپ کر یری طرح چالیا تھا وہ‪،‬نٹھی حھنکے سے چافو کھییچے لسینل اس کے یڑ ننے چالنے‬
‫چہرے کو پفرت سے دیکھا‪،‬‬

‫"نہ۔۔نہی۔۔نہیں سابی۔۔۔معہ۔۔معاف۔۔معاف کردے یار۔۔۔می۔۔میں چاننا۔۔ہو۔۔ہوں‬


‫میں نے علط کنا۔۔۔معاف کر۔۔دے۔۔"‬
‫س‬
‫ا ننے ایک چالی جون سے تھرے ن بونے یر سحتی سے ہاتھ رکھا وہ لسینل کو دوسری آیکھ کے‬
‫فرنب چافو النے دیکھ رویا ہوا گڑگڑایا‪،‬‬
‫ل‬‫ع‬ ‫ُ‬
‫"نہلی یات بو نے طی ہیں گناہ کنے ہیں۔۔۔دوسری یات بجھ جیسے معافی ہیں سزا کے‬
‫ن‬ ‫ن‬

‫لنے ہونے ہیں۔۔۔"‬


‫س‬
‫کہنے ہی لسینل اچایک اس کی دوسری آیکھ میں تھی چافو ڈا لنے لگا مگر غین وقت یر ہناد اس کا‬
‫ہاتھ یکڑلنا‪،‬‬

‫"تھابی۔۔معہ۔۔معاف۔۔کردے۔۔قل۔۔قلذہ۔۔نے نہک۔۔نہکایا تھا مجھے۔۔۔ور۔۔ورنہ‬


‫ُ ُ‬
‫بو۔۔بجھے بو دوست ماننا تھا میں۔۔"‬
‫جون سے تھرے چافو کو جوف سے دیکھ وہ بخوں کی طرح رونے لگا تھا‪،‬جوف بورے وجود کو‬

‫‪71‬‬
‫مقلوج کرگنا تھا اس کے‪،‬ہمت نہیں تھی مقایل ٹیٹھے مضبوط انشان سے لڑنے یا اسے دھمکانے‬
‫کی نٹھی وہ نہ چرنہ اننایا‪،‬‬
‫ُ‬
‫"اسے حھوڑ۔۔نہ حھوبی سی سزا اس کی ہے چب بو نے عزت دار لڑک بوں کے دامن داعدار‬
‫کنے۔۔۔"‬
‫س‬
‫کہنے ساتھ لسینل چافو کا دیاؤ تیزی میں یڑھایا تھا اس کی دوسری آیکھ میں‪،‬یاگلوں کی طرح خیحنا‬
‫ہناد اذ نت میں گھرا سر زمین یر مارنے لگا‪،‬جون تھل تھل پکل رہا تھا دوبوں آیکھوں سے‪،‬پکل یف‬
‫انتی تھی کہ وہ یکدم مرنے کی جواہش کرنے لگا مگر چان تھی کہ پکل کر ہی نہیں دے رہی‬
‫تھی‪،‬‬
‫ُ‬
‫"آہا۔۔۔میرے مویایل کی مٹموری قل ہورہی ہے۔۔چلدی کر یا یار۔۔۔"‬
‫س‬
‫نیجھے سے ن نام کے ہایک لگانے یر لسینل کھڑا ہوا ساتھ ہی کیر لے کر آیا‪،‬ایک پظر نیچے ہذیابی‬
‫ایداز میں مشلشل خیحنے ہناد کو تمسجر سے دیکھ وہ حھک کر اس کا ہاتھ یکڑا تھا‪،‬‬

‫"نہ۔۔نہیں۔۔سابی۔۔حھوڑ۔۔دے۔۔مت۔۔مار۔۔مج ھے یلیز حھوڑدے۔۔بچاو۔۔۔کوبی ہے۔۔"‬


‫پکل یف کی سدت یرداست نہ ہونے یر وہ یڑپ کر خیخ رہا تھا مگر وہاں دور دور یک اس کی خیخ‬
‫س‬
‫شینے واال کوبی نہ تھا‪،‬طیزنہ ہیسی ہیسنا لسینل اسکی اپگلی یر کیر کو تھیشایا تھا اور ننا ہناد کے‬
‫گڑگڑانے کو چاطر میں النے اگلے لمچے اس کی اپگلی کاٹ دی‪،‬ہناد کو لگا وہ مرچانے گا‪،‬اس یار‬
‫‪72‬‬
‫درد جس قدر یڑھا تھا اس کی آواز ہی مقفود ہوکر رہ گتی‪،‬تیروں کو یاگلوں کی طرح زمین یر ماریا وہ‬
‫مشلشل سر پفی میں ہالنے لگا‪،‬‬
‫س‬
‫وہ جینا یڑپ رہا تھا لسینل کو اننا ہی سکون محسوس ہورہا تھا‪،‬اگلے می بوں میں وہ یرسکون سا ہویا‬
‫ایک ایک کرکے اس کی اپگلناں کا ننے لگا‪،‬‬

‫"بی۔۔ننا۔۔ن نام۔۔۔میر۔میرے۔۔تھا۔۔تھابی۔۔بچ۔۔بچا۔۔لے۔۔"‬
‫اب کی یار پکل یف سے نےچال ہویا ہناد دبی آواز میں بوال‪،‬ہر چانب حھانے ایدھیرے سمیت‬
‫س‬
‫سدت سے اتھنے درد یر اسے اجشاس ہوا تھا کہ چب لسینل کی آیکھوں میں وہ کٹم یکل ڈاال ہوگا‬
‫بو اس یر کنا گزری ہوگی‪،‬‬

‫"میرے دوست۔۔میں بجھے صرور بچایا اگر نہ ویڈبو نہ ننابی ہوبی بو۔۔۔بو سوری ہاں۔۔"‬
‫مزے سے کہنا وہ تھر نےنناز ین کر ویڈبو رپکارڈ کرنے میں مصروف ہوا‪،‬ادھر ہر یڑھتی پکل یف‬
‫کے ساتھ ہناد کے ذہن میں ا ننے کنے گناہ آنے‪،‬وہ یڑپ کررہ گنا سب سوچ کر ہی‪،‬چاننا تھا‬
‫ُ‬
‫دولت کے نسے میں جور کیتی لڑک بوں کو اس نے داعدار کنا تھا‪،‬کسی کو دھوکہ دے د ن نا‪،‬یر اب‬
‫ان سب سوجوں کا کنا قایدہ‪،‬یڑن نا گڑگڑایا وہ یری طرح ششکنے لگا تھا‪،‬اور انتی ششکی میں اسے وہ‬
‫لڑکی یاد آبی جس کی نہن کے ساتھ اس نے زیادبی کی تھی‪،‬یک ن نک ذہن کے یردے میں‬

‫‪73‬‬
‫مطیبہ کا تھی ششکنا یڑن نا یاد آیا بو وہ یآواز رونے لگا‪،‬کینا جوش ہویا تھا وہ اسے پکل یف دے کر‪،‬ڈرا‬
‫کر‪،‬اس یر الزامات عاید کر کے‪،‬‬
‫س‬
‫لسینل ن یفر سے اس کے نےسدھ ہونے وجود کو دیکھ اتھا تھر وانس کار کی چانب گنا اب آیا‬
‫بو ہاتھ میں کلہاڑی تھی‪،‬‬

‫"اے تھابی۔۔نےچارے کی چان لے گا کنا۔۔۔"‬


‫وہ ہناد کے فرنب آیا سدید اشیعال کے عالم میں کلہاڑی فصا میں یلند کنا تھا نٹھی ننام نے‬
‫ح ھٹ سے کہا‪،‬‬

‫"کنا مطلب۔۔"‬
‫ششلینل کجھ چیران ہوا‪،‬‬

‫"مطلب نہ کہ۔۔چان لے کر ایک ہی مرنبہ آزادی ساری پکال یف سے۔۔۔ارے تھتی زیدہ حھوڑ‬
‫یاکہ ساری زیدگی معزور رہ کر گزارے بو سمجھ میں آنے کیشا قنل ہویا ہے چب آپ دوسروں کو‬
‫نےنس کرد ننے ہو۔۔۔"‬
‫س‬
‫انتی غقل مندی کا مطاہرہ کرنے ننام جس طرح سے لسینل کو یلین ننارہا تھا ہناد کی پکل یف‬
‫میں اننا ہی اصافہ ہوا‪،‬وہ نہت تھروشہ کریا تھا اس سخص یر اور آج وہی اس کس مزے سے‬
‫اس کی سزا بخویز کررہا تھا‪،‬‬
‫‪74‬‬
‫"انے یار۔۔نہ یلین بو میرے دماغ میں آیا ہی نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل مضبوغی چیرت کا اظہار کرنے بوال‪،‬‬

‫"ہیں۔۔تیرے یاس دماغ تھی ہے نتی چیر ش نابی یار۔۔"‬


‫س‬
‫ننام اس سے تھی یڑھ کر چیرت سے کہا جس یر لسینل کی مشکراہٹ یل میں عانب ہوبی‪،‬‬

‫"سدھر چا سالے۔۔"‬
‫س‬
‫اسے گھور کر لسینل نے کہا تھر ہناد کی طرف م بوجہ ہوا‪،‬‬

‫"اب اس کا کریں گے کنا۔۔؟"‬


‫رپکارڈر نند کرکے ننام اس سے سوال کنا‪،‬‬

‫"میرے قام ہاؤس لے چلنے ہیں اسے۔۔۔تھر وہی مہینے دو مہینے عالج کر ن نگے اس کا۔۔۔"‬
‫س‬
‫ہناد کے یڈھال یڑے وجود کو دیکھ لسینل بوال‪،‬‬
‫ُ‬
‫"چلنے ہیں نہیں۔۔چال چا۔۔۔بو چا اسے لے کر۔۔۔میں نب یک تیرے کنے کاریامے کے ن بوت‬
‫منایا ہوں۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫وہ لسینل کو یاد دہابی کروایا جس یر لسینل کا قہقہہ یلند ہوا خنکہ زحم سے جور ہونے جسم‬

‫‪75‬‬
‫سمیت ا ننے چال یر نےنسی سے تھوٹ تھوٹ کر رویا تھا ہناد سکندر‪،‬اس مرنبہ نیچے حھک کر‬
‫س‬
‫لسینل ہناد کے یالوں کو مٹھی میں چکڑا‪،‬‬

‫"ک بوں دوست چلو گے انتی چدمت گاہ میں۔۔۔ہمیشہ کے لنے۔۔"‬


‫س‬
‫اس کی نےنسی یر تمسجر سے کہہ کر لسینل حھنکے سے اس کے یالوں کو کھییچا کہ خند یال‬
‫ہاتھ میں آنے ساتھ ہناد کی وجست تھری خیخ نے ہر طرف سور سا یریا کردیا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہاشینل میں ٹیٹھا وہ زی ِر لب نہی ُدعا کررہا تھا کہ اسے کجھ نہ ہو‪،‬ا ننے جون سے ریگین ہاتھوں کو‬
‫ی‬
‫دیکھ وہ اذ نت سے آ کھیں میچا‪،‬ان ہاتھوں میں اسی کا جون لگا تھا جسے ا ننے سالوں سے اذ ن بوں‬
‫میں گھرانے رکھا تھا‪،‬جس یر اس نے پفرت میں ایدھا ہوکر زیدگی ننگ کردی تھی انتی کہ آج اس‬
‫لڑکی نے اس کے ساتھ سے نہیر موت کو گلے لگایا سمجھا‪،‬بوں بو نہ سوساننڈ کیس تھا مگر وہ چاننا‬
‫تھا کہ اگر اسے کجھ ہوا بو ہیٹم کی پظر میں وہ قنل ہوگا‪،‬آچر اس ہی نے بو مارا تھا مطیبہ چہایگیر‬
‫کو‪،‬اس کی روح کو جس قدر گھایل کنا وہ ایدر سے مرہی بو چکی تھی آج صرف ا ننے الش کے مانند‬
‫جسم کو خٹم کنا تھا‪،‬دکھ و نےنسی کی عالم میں آج انتی پفرت یر بجھناوے کے سوا کر ہی کنا‬
‫سکنا تھا وہ‪،‬کینا روبی تھی وہ لڑکی‪،‬ہر یار اسے جود یر پقین کرنے کا کہتی مگر اس نے کنا ِکنا‬
‫‪76‬‬
‫تھا‪،‬ننا کجھ سوچے کسی تھی بخف بق کے پعیر اس یاک دامن یر یدکردار کا ننگ لگادیا‪،‬اس کی‬
‫عزت پفس کو ہر یار رویدیا ا ننے لقظوں کے تیر سے اس کی روح حھلتی کر ڈالنا‪،‬اس سوچ کے‬ ‫ِ‬
‫ذہن میں آنے ہی وہ اننا سر چکڑگنا‪،‬نٹھی اویرنشن تھیئیر کھال تھا اور جویک کر کھڑا ہویا ہیٹم ل نڈی‬
‫ڈاکیر کو پکلنے دیکھ چلدی سے آگے یڑھا‪،‬‬

‫"ڈ۔۔ڈاکیر۔۔وہ۔۔"‬
‫گ ھیراہٹ جس قدر ظاری تھی اس یر وہ بول تھی نہیں یایا تھا‪،‬نس جسم کا ہر غصو کان ننا ڈاکیر‬
‫کے مبہ سے نہ لقظ شینے کا می یظر تھا کہ وہ ت ھنک ہے مگر یاچانے ک بوں دل عح یب جوفزدہ تھا‬
‫مقایل کھڑی ڈاکیر کے مابوس چہرے کو دیکھ‪،‬‬
‫م‬
‫"بجمل سے یات شٹیں مسیر۔۔۔ہم نے انتی طرف سے کمل کوشش کی لنکن سر یر گہری‬
‫جوٹ لگنے کے یاعث جون نہت نہہ خکا ہے اور جویکہ ان کا ِمشکیربج تھی ہوا ہے بو۔۔۔سوری‬
‫ٹیسیٹ کوما میں چلی گٹیں ہیں۔۔"‬
‫ڈاکیر ٹیشہ وارانہ ایداز میں کہی تھیں مگر ہیٹم نٹ ھرابی پظروں سے انہیں دیکھنا رہ گنا‪،‬دل میں درد‬
‫کی جو یری ٹیس اتھی تھی اسے لگا وہ اس کا شینا چیر دے گی‪،‬ڈاکیر کے کہے القاظ اسے‬
‫اپگارے کے مانند ا ننے جسم کو چالنے محسوس ہونے‪،‬نےچان ہونے قدموں کی وجہ سے لڑکھڑایا‬
‫وہ گرنے کے ایداز میں ٹییچ یر ٹیٹھا‪،‬انتی پفرت‪،‬غصے اور ایا کی یدولت وہ اننا ایدھا ہوخکا تھا کہ‬
‫‪77‬‬
‫اس لڑکی کی چالت یر تھی نہ سمجھ یایا‪،‬یکدم دماغ میں وہ دن آیا چب وہ حھنکے سے مطیبہ کا ہاتھ‬
‫یکڑ کر کھییچا تھا نب مطیبہ کا ن یٹ یر ہاتھ ر کھے کراہنا اور اس کے سوال یر بوکھالیا‪،‬وہ کرب سے‬
‫ی‬
‫آ کھیں میچا‪،‬‬

‫"ہوسکنا ہے انہیں خند دبوں میں ہوش آچانے یا خند ماہ یا تھر سال تھی لگ سکنے ہیں۔۔۔اور‬
‫نہ تھی کہ ساید کوما میں ہی ان کی موت وافع ہوچانے۔۔"‬
‫ی‬
‫وہ حھنکے سے آ کھیں کھوال تھا اس یات یر مگر ڈاکیر نب یک آگے یڑھ چکی تھیں‪،‬آج ہیٹم سکندر‬
‫ہارا تھا‪،‬نہت یرا ہارا تھا جود سے‪،‬انتی پفرت سے اور اس لڑکی سے‪،‬بوں لگا تھا جیسے مطیبہ چہایگیر‬
‫کے صیر کی مار یڑی ہو اسے‪،‬نےاجینار ششکنا وہ اچایک آیکھوں سے نپ نپ گرنے آنسوؤں کو‬
‫صاف کنا‪،‬ضیط سے سرخ چہرہ لنے وہ آج دننا چہاں سے نےچیر مطیبہ چہایگیر کے لنے رو رہا‬
‫تھا‪،‬اس لڑکی کے لنے جس سے کٹھی وہ نےن ناہ پفرت کا دغویدار تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہناد کو قارم ہاؤس میں ا ننے آدم بوں کے زد کریا وہ رات دیر کو مٹیشن نہیچا تھا‪،‬ننام سے را شنے‬
‫میں یات ہوبی تھی‪،‬وہ تمام ن بوت مناخکا تھا‪،‬اب ایک پظر انتی گرے ہڈی یر لگے ہناد کے جون‬
‫کے دھ بوں کو ن یفر سے دیکھ وہ ہال میں ہی ہڈی ایار کر صوفے یر تھی یکا تھا‪،‬ایدر یلنک ونسٹ‬
‫‪78‬‬
‫نہنے اس نے اتھی ا ننے روم کے چانب قدم یڑھانے ہی تھے کہ گیسٹ روم میں کسی چیز کے‬
‫گرنے کی زوردار آواز آبی‪،‬وہ تھوڑا جوپکا تھا‪،‬مضبوط قدم جودبخود مڑ کر گیسٹ روم کی چانب‬
‫س‬
‫گنے‪،‬دروازے یر نہیچ کر اس نے آہسنگی سے یاک ِکنا‪،‬دوسری چانب سے چاموسی یاکر لسینل‬
‫وانس روم میں چانے کا ارادہ کنا تھا مگر نٹھی حھنکے سے گیسٹ روم کا دروازہ کھال‪،‬جوف سے زرد‬
‫س‬
‫یڑیا چہرہ لنے شنا ِیل اسے دیکھنے ہی آگے یڑھ کر لسینل کے کشادہ شینے میں چہرہ حھنابی‬
‫س‬
‫تھی‪،‬دوسری چانب لسینل کی می یظر عنادنہ تھی گرنے کی آواز سن کر کجھ سوختی اتھی ساتھ‬
‫س‬
‫ہی چیرت میں روم سے پکلی مگر وہ اگلے قدم یر ہی تھٹھک کر رکی‪،‬قدم زبخیر ہونے تھے لسینل‬
‫ی‬
‫اور شنا ِیل کو گلے لگے دیکھ‪،‬آ کھیں نےپقین ہوکر تھنلیں‪،‬اسے سدید حھ یکا لگا تھا چیرت کا‪،‬‬
‫س‬
‫لمخوں میں لسینل شنا ِیل کو جود سے دور کنا تھا‪،‬‬

‫"نہ کنا نےسرمی ہے۔۔"‬


‫چہرے یر یاگوارنت تھرے یایرات لنے وہ دھٹمے لہچے میں بوحھا‪،‬جویکہ اس کی آواز دھٹمی تھی بو‬
‫عنادنہ کی سماعت یک نہ نہیچ یابی‪،‬وہ بو نس ان دوبوں کو چاموش پظروں سے دیکھ مردہ قدم‬
‫اتھانے وانس روم میں گتی تھی‪،‬‬

‫"شہ۔۔سو۔۔سوری یر۔۔وہ۔۔وہ جو ویڈبو آپ نے شینڈ کی۔۔۔وہ اس میں کیتی یری طرح مارا‬
‫ہے آپ نے اسے۔۔۔مجھے نےچد جوف محسوس ہوا اس کی چالت دیکھ۔۔۔اور‬
‫‪79‬‬
‫میں۔۔سوری۔۔بوکھالہٹ میں علطی ہوگتی مجھ سے۔۔۔"‬
‫یار یار یال کو کان کے نیجھے اڑشتی بو کٹھی اپگلناں خیچابی وہ نہت ک یف بوز ہوکر اسے سرمندہ سی‬
‫وصاچت دے رہی تھی‪،‬الیبہ چہرے یر جوف کی لکیریں پصدبق کی تھیں اس کی یابوں کی‪،‬ایک‬
‫س‬
‫پظر لسینل ایدر کمرے میں ڈاال چہاں کل ہی اس کا الیا ن بو مویایل نیچے گرا انتی یاقدری یر ماتم‬
‫کناں تھا‪،‬‬

‫"وہ انشان اس ہی البق تھا اور تم نے ہی بو کہا تھا کہ اسے عیرنناک سزا دی چانے۔۔"‬
‫ی‬
‫"ہاں میں نے کہا تھا۔۔مگر آ کھیں کون پکالنا ہے اور اپگلناں۔۔۔میری چان پکلنے کو ہوبی تھی‬
‫وہ سب دیکھ کر‪،‬ہمت نہیں ہوبی اور آگے دیکھنے کی۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس ویڈبو کا سوچ ایک مرنبہ تھر حھرحھری لی تھی شنا ِیل جس یر لسینل پفی میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"سوچاؤ لڑکی۔۔اگلی مرنبہ ا ننے ڈر کا اظہار زرا ہوش میں رہ کر کریا۔۔"‬


‫س‬
‫شیحندگی سے اس یر طیز کریا لسینل سر حھنک کر ا ننے روم کی طرف گنا‪،‬خنکہ اس کی جوڑی‬
‫نست کو دیکھ شنا ِیل یاچا ہنے ہونے تھی اداس سا مشکرابی‪،‬وہ نہت کوشش کی تھی ا ن نے دل یر‬
‫نندھ یایدھنے کی مگر یاچانے کیشا سجر تھا اس سخص میں کہ چب سا منے آیا اسے اننا گرویدہ‬
‫ننالینا‪،‬‬

‫‪80‬‬
‫"چاتم۔۔"‬
‫اع چاں یر پظر یڑی اس کے ایدر یک سکون‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ٹ‬ ‫کمرے میں داچل ہوکر ج سے ہی نڈ یر ٹی‬
‫م ِ‬ ‫ی ن‬
‫سا ایرا نٹھی دروازہ نند کنے وہ اس کی چانب یڑھا‪،‬‬

‫"کیتی مرنبہ کہا ہے کہ میرے ان یطار کے چکر میں انتی ان جوپصورت آیکھوں کو سرخ نہ کنا‬
‫کرو۔۔۔دیکھو ٹیند کے یاعث کیتی الل ہورہی ہیں نہ۔۔"‬
‫اس کے یاس ٹیٹھ کر یرمی سے کہنا وہ ع نادنہ کی الل ڈورے سے سجی کالی آیکھوں یر حھکا مگر‬
‫ُ‬ ‫ً‬ ‫س‬
‫شناٹ چہرہ لنے وہ لسینل کو فورا سے نہلے دور کربی اتھی‪،‬‬

‫"آپ جییج کرلیں۔۔۔میں کھایا لگابی ہوں۔۔"‬


‫س‬
‫نےیایر لہچے میں کہہ کر وہ روم سے چانے کے لنے قدم یڑھابی مگر لسینل اس کی کالبی یکڑگنا‪،‬‬

‫"تھوک نہیں مجھے۔۔۔نہ نناؤ میرے ان یطار میں آج کینے گھینے اور مٹیس گنے۔۔۔"‬
‫روز رات اس کے لیٹ آنے یر جس طرح عنادنہ اسے گھینے اور مٹیس گن کر ننابی اب‬
‫س‬
‫لسینل اس ہی کے یارے میں بوحھنا کھڑا ہوا ساتھ ہی عنادنہ کی کمر یر نیجھے سے دوبوں یازو‬
‫چایل کریا اس کے کندھے یر تھوڑی رکھا‪،‬‬

‫‪81‬‬
‫مج ً‬
‫"لڑکی۔۔موڈ ک بوں چراب ہے نناؤ ھے فورا۔۔۔"‬
‫تھوڑی اس کے کندھے یر ر ک ھے ہی وہ اچایک شیحندگی سے بوحھا ادھر عنادنہ کے جوپصورت‬
‫چہرے یر لمخوں میں پکل یف کے آیار اتھرے‪،‬وہ م یظر یاد آنے ہی دماغ ہلکا ہونے لگا‪،‬‬

‫"کوبی یات ہے بو کلئیر کرو مجھ سے۔۔۔"‬


‫اسے عنادنہ کا رونہ یافی دبوں کے مقایل کافی محنلف لگا نٹھی تھر کہا ساتھ ہی اس کی ننلی‬
‫شفند گردن یر دمکنے ان ِیلوں کو ا ننے عنابی ل بوں سے حھوا‪،‬وہ ششکی تھی کہ نہلی مرنبہ نہ یرم‬
‫لمس اسے جوسگوار اجشاس بحسنے کے بچانے پکل یف میں اصافہ کنا تھا‪،‬‬

‫"مجھے ٹیند آرہی ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫مقایل کا یرم گرم لمس چابچا انتی گردن یر محسوس کنے وہ زچ ہوکر بولی‪ ،‬لسینل رکا تھا‪،‬ما تھے یر‬
‫ہلکی سکن یڑی عنادنہ کے لہچے یر اور اگلے ہی لمچے اس کا رخ انتی چانب کریا وہ ایک ہاتھ یرمی‬
‫سے اسکے گال یر رکھنا بوحھا‪،‬‬

‫"کنا ہوا ہے عنادنہ۔۔۔ن ناو کس یات یر تمہارا رونہ اننا عح یب ہے۔۔۔گرنتی کی کوبی یات یری لگی‬
‫ہے۔۔۔"‬
‫وہ چاننا تھا کہ درنہ ننگم اور عنادنہ کے درمنان کٹھی کوبی یدمزگی نہیں ہوسکتی مگر تھر تھی‬
‫ً‬
‫اجیناظا بوحھا‪،‬‬
‫‪82‬‬
‫"نہ ہی گرنتی کی کوبی یات یری لگی ہے نہ ہی میرا رونہ عح یب ہے۔۔۔مجھے نس ٹیند آرہی ہے‬
‫س‬
‫لسینل۔۔"‬
‫ل‬ ‫ط‬‫سلسین م‬
‫اس یار جود یر قابو یابی وہ زیردشتی مشکراکر بولی‪ ،‬ل ین نہ ہوا تھا ک بویکہ ظوں کے ظور‬
‫پ‬ ‫ق‬ ‫م‬
‫عنادنہ کا لہجہ واصح حھوٹ بول رہا تھا‪،‬‬

‫"وافعی۔۔"‬
‫وہ جیسے پصدبق چاہ رہا تھا‪،‬‬

‫"ہاں یلکل۔۔کوبی یات نہیں ہے۔۔"‬


‫س‬
‫عنادنہ کو لگا وہ رو دے گی اگر مقایل ایک مرنبہ تھر اس سے کوبی سوال کنا بو‪،‬خنکہ لسینل‬
‫مشکرایا ہوا اس کے چہرے یر حھکا تھر یرمی سے اس کی ٹیشابی جوم واش روم کی چانب گنا‪،‬‬

‫اس کے چانے کے پعد انتی تیزی سے تھنگتی آیکھوں کو صاف کربی وہ النٹ آف کرکے ن نڈ یر‬
‫س‬
‫چالیتی‪،‬کجھ دیر پعد نہاکر بی سرٹ اور یراؤزر میں یاہر آیا لسینل ایک پظر ساننڈ ٹینل یر ر ک ھے‬
‫لٹمپ کی روشتی میں ع نادنہ کے دمکنے چہرے کو دیکھا تھر یالوں یر یرش کریا ننڈ یر آلینا‪،‬روز کی‬
‫م‬
‫روٹین کے چالف عنادنہ کا کمل دوسری چانب کونے سے لگ کر سویا اسے تھوڑا کھال نٹھی ہاتھ‬
‫یڑھا کر وہ اسے فرنب کنا ساتھ ہی ا ننے یازو کے چلقے میں لے کر عنادنہ کی نست ا ننے شینے‬

‫‪83‬‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ً‬ ‫ک‬‫پ‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫پ ً م ت‬
‫سے لگاکر اسے فرننا جود یں یچ گنا‪،‬وہ جو مقا ل کے یاہر لنے یر فورا سوبی تی ھی اب ین‬
‫ی‬
‫یابی سے تھری آ کھیں وا کی‪،‬‬

‫"چاتم ہمارے لنے میری محیت کافی ہے تم صرف مجھ یر اننا تھروشہ ہمیشہ قاتم رکھنا۔۔"‬
‫روز کی طرح اس یار تھی وہ ع نادنہ کے کان میں نہانت دھٹمی سرگوسی کنا ساتھ ہی اسکی کان‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ُ‬
‫کی لو یر لب رکھ کر آ ھیں موید گنا‪،‬ادھر عنادنہ اس سرگوسی یر جوش ہونے کے بچانے دکھ میں‬
‫مینال ہوبی تھی‪،‬انتی تم یلکیں حھنک کر وہ تمشکل سونے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹیند جیسے آج‬
‫آیکھوں سے کوسوں دور تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ی‬
‫رات تھر وہ وہی ٹییچ یر ٹیٹھا رہا‪،‬آیکھوں میں ٹیند کا حمار یک نہ آیا‪،‬یلکہ سرخ آ کھیں رات یر اذ نت‬
‫میں رہنے کی گواہی دے رہی تھیں‪،‬دوبوں ہاتھوں کی اپگل بوں کو ایک دوسرے میں ن بوست کنے‬
‫وہ کتی گھی بوں سے نس نیچے حمکنے ماریل کو گھوررہا تھا‪،‬ذہن میں جس قدر حھکڑ چل رہے تھے اس‬
‫کے یلکل یرعکس وہ ہارے ہونے جواری کے مانند چاموش سا تھا‪،‬یاریک لب ایک دوسرے میں‬
‫اس سحتی سے تھیچے تھے کہ اسے مبہ سے جون کا ذاپقہ محسوس ہوا‪،‬‬

‫‪84‬‬
‫جویکہ وہ اتھی اویرنشن تھیئیر میں ہی تھی نٹھی ڈاکیرز نے ایدر چایا قلچال االؤ نہیں کنا تھا‪،‬خ یب‬
‫میں ر ک ھے فون یر مشلشل ہوبی ریگ اسے سوچ کی دننا سے پکال کر چال میں البی‪،‬کال رنسبو کریا‬
‫وہ فون کان سے لگایا‪،‬‬

‫"ہنلو ہیٹم۔۔۔ٹینا گھر آچاؤ چلدی سے۔۔۔"‬


‫ی‬‫کھ‬
‫دوسری چانب مہناز ننگم تھیں‪،‬ان کی تھنگی آواز یر ہیٹم نے تھکی ہوبی سانس جی‪،‬‬
‫ی‬

‫"وجہ۔۔۔؟"‬

‫"ٹینا تم آؤ بو صحیح۔۔"‬
‫اب کی یار ان کے لہچے میں الیچاء تھی‪،‬ہیٹم کال رکھنا اتھا تھر ایک پکل یف تھری پظر تھیئیر یر‬
‫ڈالنا پکال وہاں سے‪،‬خند میٹ کی مشاقت کے پعد وہ سکندر وال کے بورچ میں کار روکا‪،‬‬
‫ٹ‬
‫ایدر داچل ہونے یر دیکھا کہ مہناز ننگم اب یک رورہی تھیں خنکہ ان کے یاس یٹھی قلذہ تھی‬
‫کافی یرنشان لگ رہی تھی‪،‬‬

‫"جی کہیں۔۔"‬
‫ایک پظر ن یفر سے قلذہ کو دیکھ وہ مہناز ن نگم سے مچاطب ہوا‪،‬اس کی پظروں میں کاٹ محسوس‬
‫کنے قلذہ گ ھیراہٹ کا شکار ہوبی کھڑی ہوبی‪،‬‬

‫‪85‬‬
‫"ٹینا ہناد کا کجھ ایا ننا نہیں چل رہا۔۔۔فون تھی نند ہے میں نے نبہ کروایا یر ہر چانب سے‬
‫مابوسی ملی۔۔میرا دل عح یب ہورہا ہے کہ کہیں اسے کجھ ہوا نہ ہو۔۔"‬
‫ان کی یات یر ہیٹم کے یایرات یل میں نٹھر یلے ہونے‪،‬‬

‫"مر ہی چانے بو نہیر۔۔"‬


‫لہچے میں نےاننہا پفرت لنے وہ گویا ہوا‪،‬‬

‫"انشا مت بولو ٹینا تھابی ہے وہ تمہارا۔۔"‬

‫"نہیں ہے میرا تھابی وہ۔۔۔انشا گھینا انشان جس نے میرے تھروسے کا یاچایز قایدہ‬
‫اتھایا۔۔۔مجھے گناہگار ننا ڈاال انشا سخص ہو ہی نہیں سکنا میرا تھابی اور نہ۔۔۔نہ بو دوست تھی یا‬
‫مطیبہ کی۔۔۔دوست کی شکل میں آشٹین کا سانپ پکلی۔۔نےخنا۔۔"‬
‫غصے سے تھینے سر سمیت وہ آچر میں قلذہ جو دیکھ دہاڑا جس یر خند قدم نیج ھے لیتی قلذہ گ ھیراکر سر‬
‫حھکاگتی‪،‬‬
‫م‬
‫"اس میں کمل فصور ہناد یا قلذہ کا نہیں۔۔تم اور میں تھی بورے بورے سریک ہیں۔۔چلو میرا‬
‫دل چراب ہوا اس کی چانب سے ک بویکہ مجھے انتی اوالدوں سے نہت محیت اور ان یر تھروشہ تھا‬
‫یر تم۔۔تم بو سوہر تھے اس کے۔۔۔انتی ن بوی یر تھروشہ نہ تھا تمہیں۔۔"‬

‫‪86‬‬
‫مہناز ننگم نے میرتم آواز میں اسے آ ٹیبہ دکھایا چاہا‪،‬ان کی یات یر ہیٹم نسٹمابی سے انتی پظریں‬
‫اتھانے کے قایل نہ رہا‪،‬سرمندگی سے زمین میں گڑھنا وہ پگاہ چرایا‪،‬‬

‫"ماما۔۔وہ۔۔وہ کوما میں چلی گتی۔۔"‬


‫ی‬
‫کافی دیر پعد وہ بو لنے کے قایل ہوا بو نہانت اذ نت میں کہنا آ کھیں میچا‪،‬مہناز ننگم کے نےساچبہ‬
‫القاظ گم ہونے‪،‬وہ نےپقیتی سے ہیٹم کو دیکھنے رہ گٹیں‪،‬انہیں لگا تھا وہ تھنک ہی ہو ہوگی نٹھی‬
‫اب ہناد کے لنے قکرمند ہوبی تھیں‪،‬‬

‫"نہ کنا۔۔ہو۔۔گنا۔۔"‬
‫ا ننے ما تھے یر ہاتھ رکھتی وہ صدمے کی ک یف یت میں یڑیڑاٹیں‪،‬قلذہ کے چہرے یر تھی ہلکا سا مالل‬
‫ص ٰ‬
‫اتھرا تھا خنکہ ہیٹم مڑ کر ایک مرنبہ تھر سکندر وال سے پکال‪،‬بورچ میں آنے ہی وہ رکا ایدر آبی عری‬
‫کی پکار یر‪،‬‬

‫"صاچب نہیچایا مجھے۔۔"‬


‫وہ جوسی سے بوحھی‪،‬خنکہ ہیٹم اننات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"ارے صاچب کنا نناؤں اس دن یاذلی بی بی کے ح ھت سے گرنے یر میں دویارہ وہاں آ تھی‬
‫نہیں یاٹیں۔۔ننا ہے میرا مرد مرگنا تھا بو گاؤں چلی گتی۔۔۔آج سہر آیا ہوا بو وہاں ننا چال کہ‬
‫چہایگیر ہاؤس بو کافی سالوں سے نند ہے نٹھی ادھر آبی میں۔۔۔شنا مطیبہ بی بی سے سادی ہوبی‬
‫‪87‬‬
‫آپ کی۔۔۔و نسے صاچب نہت کھلنا ہے چب کوبی آیکھوں کے سا منے گِ ر کر مرچانے یڑا دکھ ہوا‬
‫تھا یاذلی بی بی کی موت کا سن کر۔۔"‬
‫م‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ک‬‫م‬ ‫ص ٰ‬
‫ج‬
‫عری کی ل یات وہ نےدھنابی یں سن رہا تھا گر آچری یات یر یسے حھ یکا کھاکر رہ گنا ہو‪،‬‬

‫"ایک میٹ۔۔۔آیکھوں کے سا منے گِ ر چانے مطلب۔۔۔یاذلی کو گرنے تم نے انتی آیکھوں‬


‫سے دیکھا تھا۔۔۔؟"‬
‫ب‬ ‫ص ٰ‬
‫وہ سدید چیران ہویا عری سے پصد ق چاہ رہا تھا‪،‬‬

‫"ہاں بو اور کنا۔۔۔میں وہی تھی یا۔۔کیڑے ڈال رہی تھی یار نے۔۔۔ارے صاچب مطیبہ بی‬
‫بی نے انہیں کہا تھی کہ ریلینگ سے ایرو ورنہ گرو گی۔۔۔یر انہوں نے زرا نہیں مابی اور آچر کار‬
‫گر گتی۔۔"‬
‫وہ بو لنے چارہی تھی خنکہ ہیٹم سے وہاں کھڑا رہنا مچال ہوا‪،‬مطیبہ تھی بو نہی کہتی تھی اس سے‬
‫کہ وہ قا یل نہیں تھی یاذلی کی‪،‬وہ گرچایا اگر کار کا سہارا نہ لینا‪،‬‬

‫"صاچب آپ تھنک ہو یا۔۔"‬


‫ٰ‬
‫صعری کے سوال یر وہ تمشکل اننات میں سرہالیا کار میں ٹیٹھا‪،‬اچایک دم گھینے لگا تھا‪،‬جواس جیسے‬
‫یری طرح ہل چکے تھے‪،‬کینا یڑا گناہگار ین خکا تھا وہ‪،‬کینا ظالم تھا کہ اس لڑکی کی ایک یات یر‬
‫تھی پقین نہ کریا‪،‬وہ رو رو کر اسے پقین دالنے کی کوشش کربی مگر نہ کنا کریا یدلے میں اسے‬
‫‪88‬‬
‫دوہری پکال یف میں مینال کرد ن نا ا ننے القاظوں سے‪،‬اذ نت کی اننہا کو حھویا وہ سر اشیئیریگ سے‬
‫پکاگنا‪،‬درد چد سے سوا ہوا تھا ضیط کرنے کرنے‪،‬شینے میں یڑن نا دل کرال کر رہ گنا اس کی گتی‬
‫نےجسی یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"بی بی سر کا اشسی یٹ آیا ہے۔۔"‬
‫وہ ا ننے کمرے سے پکل کر ہال میں آبی تھی نٹھی فرمان نے آکر کہا‪،‬‬

‫"کون آیا ہے فرمان۔۔؟"‬


‫عنادنہ درنہ ننگم کے کمرے سے پکل کر ا ننے کمرے کے چانب چانے لگی تھی نٹھی فرمان کو‬
‫شنا ِیل سے نہ کہنے دیکھ رک کر بوحھی‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل صاچب کے آفس سے ان کا اشسی یٹ آیا ہے۔۔۔کسی قایل کی یات کررہا ہے۔۔"‬
‫وہ جو فرمان سے بوحھ کر اب یرحھی پظروں سے شنا ِیل کو دیکھ رہی تھی اچایک جویکی‪،‬‬

‫"ہاں غقان ہے یا۔۔۔آپ اسے ایدر یاللیں۔۔"‬


‫س‬
‫اسے یاد آیا تھا کہ دونہر لسینل نے اسے کال یر ننایا تھا کہ سام کو غقان ایک قایل لینے آنے‬
‫گا‪،‬وہ عنادنہ کو اسے د نتی تھی‪،‬نٹھی فرمان کو بول کر اب وہ روم کی چانب گتی قایل لینے‪،‬ادھر‬
‫‪89‬‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫شنا ِیل چاموش پظروں سے عنادنہ کی نست کو د ھی‪،‬وہ چا تی ھی کہ عنادنہ اس سے لے کی‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬

‫طرح یات کرے مگر یاچانے کبوں آج کل وہ شنا ِیل سے زیادہ یات نہ کربی اور اس کے جود‬
‫س‬
‫یات کرنے یر مح یصر جواب د نتی‪،‬اسے ڈر تھا کہ کہیں عنادنہ نے اس کی آیکھوں میں لسینل‬
‫کے لنے نسندیدگی بو نہیں دیکھ لی‪،‬مگر انتی سوچ کی وہ جود پفی کی‪،‬آچر کو اس نے اب عنادنہ‬
‫س‬
‫کے سا منے لسینل کی طرف پظر اتھا کر دیکھنے سے یرہیز جو کرلنا تھا تھر ک بوں وہ اس سے ا ننے‬
‫رو ک ھے لہچے میں یات کربی‪،‬‬

‫"ایکشکبوز می۔۔"‬
‫ی‬
‫وہ جو سوچ میں گم تھی یاس سے آبی مردانہ آواز یر ہوش میں آبی سا منے د ھی‪،‬غقان ایدر آنے‬
‫ک‬

‫ہی سا منے اس یری وش کو دیکھ منہوت ہوا تھا اب اسے سوچ میں گم دیکھ پکارا تھا‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔"‬
‫سا منے کھڑی لڑکی اسے نہلی ہی پظر میں نےچد تھابی تھی‪،‬سب سے زیادہ اس لڑکی کے سوگوار‬
‫ک‬‫ی‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫اداس چہرے نے غقان کی بوجہ یجی ھی‪،‬اب شنا ِ ل کے د ھنے یر وہ ہاتھ آگے یڑھایا بوال‪،‬‬

‫شنا ِیل اسے دیکھ چاموسی سے پگاہ وانس ت ھیر گتی خنکہ غقان اس کے ہاتھ نہ مالنے یر شنکی‬
‫محسوس کریا ہاتھ نیجھے کنا‪،‬‬

‫‪90‬‬
‫"و نسے آپ کون ہیں۔۔۔نہلے کٹھی دیکھا نہیں یا۔۔"‬
‫س‬
‫اس کا اکیر نہاں لسینل کے کام کی وجہ سے آیا ہویا اور اس لڑکی کو نہلی مرنبہ دیکھ وہ تھوڑا‬
‫بحسس سے بوحھا‪،‬‬

‫"نہ لو غقان۔۔"‬
‫شنا ِیل نے اس کے سوال کا جواب نہ دیا‪،‬ادھر عنادنہ قایل الکر غقان کے آگے یڑھابی‪،‬ع نادنہ‬
‫سے قایل لے کر وہ ایک پظر تھر اس لڑکی کو دیکھا جو اب یلٹ کر ایدر روم میں چارہی تھی‪،‬‬

‫"کجھ اور چا ہنے غقان۔۔؟"‬


‫عنادنہ کے سوال یر جویک کر وہ اسے دیکھا‪،‬‬

‫"نہی۔۔نہیں تھاتھی۔۔"‬
‫چلدی سے کہہ کر وہ مشکرانے ہونے مڑا‪،‬یامحسوس ایداز میں اس لڑکی نے نہلی پظر میں ہی‬
‫یڑے سان سے اس کے دل کی سلطیت یر ا ننے قدم حمانے تھے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دن بوحھل سے گزرنے لگے تھے‪،‬مطیبہ کو کوما میں رہے یابچ مہینے ہو چکے تھے‪،‬وہ نہت چد یک‬
‫چپ سا ہوخکا تھا‪،‬اکیر راٹیں ہاشینل یر گزارے وہ اس لڑکی کی صخت یابی کی دعاٹیں مایگنا‪،‬سکندر‬
‫‪91‬‬
‫وال سے اس کا جیسے صرف خند گھی بوں کا پعلق ہوکر رہ گنا تھا‪،‬نہت کم ہی وہ گھر کی شکل‬
‫دیکھنا‪،‬ادھر مہناز ننگم تھی کٹھی کٹھی ہاشینل آ ٹیں مطیبہ کو دیکھنے‪،‬وہ دوہری پکل یف میں مینال‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫روز یروز کمزور ہوبی چارہی تھیں‪،‬ایک جی کے ساتھ ا تی کی تی زیادن بوں یر بو دوسرا ہناد کا‬
‫گ‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ال نبہ ہویا‪،‬ان سب میں اگر کوبی ا ننے معمول یر تھا بو وہ قلذہ تھی‪،‬اسے جیسے اننا سب کجھ ہونے‬
‫ُ‬
‫کے پعد تھی زیادہ فرق نہ یڑا تھا‪،‬وہ جوش تھی انتی الپف میں نہ النے کہ سی کی زیدگی پگاڑ کر‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ت‬

‫اس کا جود کا ابچام کیشا ہونے واال ہے‪،‬‬

‫دوسری چانب غقان تھا کہ اب اس کا روز کا آیا چایا ہوا تھا اس یری وش کی ایک حھلک دیکھنے‬
‫س‬
‫کے لنے‪ ،‬لسینل سے اس کی نہ چرکٹیں مخفی نہ رہیں تھیں‪،‬وہ سروع میں کوشش میں تھا‬
‫شنا ِیل کے لنے ایک قلیٹ لے کر اسے وہاں می یقل کرنے مگر جویکہ شنا ِیل اسے نناچکی تھی کہ‬
‫ماں اور نہن کے عالوہ اس کا کوبی نہیں نٹھی وہ انتی اس سوچ یر غمل نہیں کریایا تھا کہ اسے‬
‫اکنلے قلیٹ یر کیسے حھوڑ سکنا تھا‪،‬کافی سوچ بچار کر اب اس نے جو ق یصلہ لنا تھا اس یر سب‬
‫سے نہلے وہ شنا ِیل سے یات کریا چاہا تھا نٹھی آج آفس سے آکر شندھا اس کے کمرے میں گنا‪،‬‬
‫س‬
‫دروازہ یاک کرنے کے پعد چب ایدر سے اس کی آواز آبی نب لسینل مضبوط قدموں سے ایدر‬
‫داچل ہوا‪،‬‬

‫‪92‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔۔ٹیٹھیں۔۔"‬
‫ا ننے مہی بوں میں اسے نہلی مرنبہ ا ننے روم میں آنے دیکھ شنا ِیل تیزی میں کھڑی ہوبی‪،‬‬

‫"تم سے کجھ یات کربی ہے۔۔"‬


‫مناسب لقظوں کا خناؤ کرنے کے یاعث وہ شیحندگی سے گویا ہوا‪،‬ساتھ کنارے یر ر ک ھے صوفے‬
‫یر ٹیٹھنا شنا ِیل کو کافی قاصلے یر ر ک ھے ننڈ یر ٹیٹھنے کا اسارہ کنا‪،‬‬

‫"جی۔۔"‬
‫ننڈ یر ٹیٹھ کر وہ ل بوں یر یرم مشکراہٹ سچانے بولی‪،‬‬

‫"شنا ِیل۔۔۔تم نے ننایا تھا کہ تمہاری امی اور نہن کے پعد کوبی رسبہ دار یا سریرست نہیں ہے‬
‫تمہارا۔۔"‬
‫نہرے ہونے لہچے میں وہ یات کا آعاز ِکنا‪،‬‬

‫"بوں بو میرا تم سے کوبی رسبہ نہیں مگر جویکہ تم نہاں ا ننے مہی بوں سے رہ رہی ہو بو کجھ انسیت‬
‫سی ہوبی ہے۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی اس یات یر شنا ِیل کا چہرہ دمک اتھا تھا‪،‬یاچا ہنے ہونے تھی چہرے یر خنا کے ریگ‬
‫یکھرے‪،‬‬

‫‪93‬‬
‫"دیکھو میں جو کہوں گا یلیز تھوڑا بجمل سے اور نہت سوچ کر اس کا جواب د ن نا۔۔۔بوں سمجھ لو‬
‫جیسے ایک یڑا تھابی انتی نہن کے لنے قکرمند ہویا ہے تھنک مجھے تھی بوں ہی قکر ہے۔۔۔میری‬
‫کوبی نہن نہیں یر ا ننے مہی بوں میں تم سے نہبوں جیسی انسیت ہوبی مج ھے۔۔۔اور یلی بو می ایک‬
‫تھابی انتی نہن کے لنے کٹھی علط نہیں سوخنا۔۔۔بو شنا ِیل۔۔غقان ایک احھا لڑکا‬
‫ہے۔۔اور۔۔"‬
‫وہ جو مقایل کے سجر میں ایک مرنبہ تھر چکڑنے لگی تھی یکدم اس کے آچری حملوں یر حھ یکا‬
‫کھاکر رہ گتی‪،‬بوں محسوس ہوا جیسے آسمان یر لے چاکر کسی نے اسے زور سے زمین یر نیچا‬
‫س‬
‫ہو‪،‬آیکھوں میں تمی ایرنے لگی بو اسے سمجھا یا لسینل اچایک رکا‪،‬‬
‫ی‬ ‫ُ‬
‫"آر بو اوکے شنا ِ ل۔۔"‬

‫"جی۔۔ہمم۔۔۔"‬
‫ی‬
‫انتی آ کھیں صاف کربی وہ چلدی سے اننات میں سر ہالبی‪،‬‬

‫"میں چاننا ہوں تمہیں نہ کجھ عح یب لگے گا۔۔۔ل نکن یرنشان یلکل مت ہو وہ ایک نہت احھا‬
‫انشان ہے۔۔۔ویل شینلڈ ہے‪،‬کسی یری عادت میں تھی نہیں اور سب سے یڑھ کر تمہیں نسند‬
‫تھی کریا ہے۔۔۔لنکن ان سب کے یاوجود اگر تمہیں کوبی اعیراض ہے بو۔۔"‬

‫‪94‬‬
‫"نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل اسے تھر سمجھایا آچر میں شیحندگی سے بوال شنا ِیل کو تھر روہانشا دیکھ‪،‬شنا ِیل کے یایرات‬
‫سے اسے محسوس ہوا ساید وہ رصامند نہیں ہے نٹھی کہا مگر وہ ح ھٹ سے اسے بوک گتی‪،‬‬

‫"مجھ۔۔مجھے۔۔کک۔۔کوبی اعیراض نہیں۔۔آپ۔۔نے نہلے ہی این۔۔ا ننے اجشان۔۔ کنے ہیں‬


‫مجھ یر میرے مجرم کو سزا دے کر اور تھر نہاں ا ننے دبوں یک مجھے چگہ دی۔۔۔"‬
‫وہ نہیں چاہتی تھی اس سخص کی کسی یات یر م یفی اظہار کریا نٹھی دل یر نٹھر ر ک ھے زیردشتی‬
‫مشکرابی بولی‪،‬الیبہ تھرابی آواز نے اسے زیادہ بو لنے نہ دیا‪،‬‬

‫"وہ اجشان نہیں تھے۔۔نس نہن سمجھا بو رکھا تھی۔۔۔اب رو مت۔۔۔اتھی رخصتی نہیں ہورہی‬
‫تمہاری۔۔"‬
‫یرم لہچے میں کہنا وہ آچر میں مشکرایا ساتھ ہی یلٹ کر یاہر کی چانب قدم اتھایا‪،‬‬

‫"شٹیں۔۔"‬
‫س‬
‫وہ ششک کر پکاری بو لسینل رک کر گردن گھومایا‪،‬‬

‫"ش۔۔سک۔۔سکرنہ۔۔۔تھابی۔۔"‬
‫س‬
‫تمشکل نہ القاظ ادا کی تھی وہ جس یر لسینل پفی میں سرہالیا مشکراکر پکال روم سے‪،‬وہ گرنے‬

‫‪95‬‬
‫ٹ‬
‫کے ایداز میں یٹھی تھی ننڈ یر‪،‬کنا سوخنے لگی تھی وہ اس سخص کے یارے میں اور وہ مہریان‬
‫سخص‪،‬‬
‫مج‬ ‫س‬
‫وہ بو اسے نہن ماننا تھا‪،‬کیتی یاگل تھی وہ کہ اس کی امداد کو نسندیدگی ھتی اجشان فراموش ین‬
‫رہی تھی‪،‬اب اس کے ذہن میں عنادنہ کا روک ھا لہجہ آیا تھا‪،‬وافعی وہ علط ہی بو کرنے چارہی تھی‬
‫اس سخص سے دل لگاکر جس نے اس یر ا ننے اجشایات کنے تھے‪،‬اگر کو وہ چان چایا اس کے‬
‫دل میں ا ننے لنے ا نسے چذیابوں کو بو ساید شکل تھی نہ دیکھنا نسند کریا اس کی‪،‬ہاں وہ انتی ن بوی‬
‫سے محیت کریا تھا صرف بو تھر کیسے کسی دوسری لڑکی کی آیکھوں میں ا ننے لنے چذیات دیکھنے‬
‫کی زحمت کریا‪،‬ا ننے آنسو رگڑبی وہ عہد کی تھی اس سخص کی طرف سے اننا دل ہنانے کی‪،‬جو‬
‫جوپصورت رسبہ وہ ا ننے اور شنا ِیل کے نیچ اتھی نناکر گنا تھا اس کی نےچرمتی یا یاقدری نہیں‬
‫کرسکتی تھی وہ کٹھی‪،‬اسے عنادنہ سے تھی معافی مایگتی تھی‪،‬مگر ڈر تھی تھا آگے سے اس کے‬
‫رننکشن یر‪،‬نٹھی قلچال چاموش رہتی فسمت کے لنے ق یصلے یر سکر ادا کی‪،‬‬
‫۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫شنا ِیل کے روم سے پکل کر وہ اتھی قدم ا ننے کمرے کے چانب یڑھا ہی رہا کہ پظر ہال میں‬
‫شناٹ یایرات سمیت کھڑی عنادنہ یر یڑی‪،‬وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی‪،‬کمرے میں چانے کا ارادہ‬
‫س‬
‫یرک کنے لسینل عنادنہ کے یاس آیا‪،‬‬
‫‪96‬‬
‫"کنا ہوا چاتم۔۔"‬
‫س‬
‫اس کے یایرات بوٹ کریا لسینل بوحھ کر اس کے غین سا منے کھڑا ہوا‪،‬‬

‫"کجھ نہیں۔۔اسماء کھایا لگارہی ہیں آپ فرنش ہوکر آچاٹیں میں گرنتی کو یالبی ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫نےیایر لہچے میں کہتی وہ درنہ ننگم کے روم کی طرف یڑھی یر لسینل نے یرمی سے اس کا یازو‬
‫تھام لنا‪،‬‬

‫"سب چیرنت ہے۔۔؟"‬


‫اب کی یار وہ شیحندگی سے بوحھا‪،‬‬

‫"چیرنت ہی بو نہیں ہے۔۔۔"‬


‫نہ کہنے اس کا لہجہ دکھی ہوا تھا‪،‬نہلے آفس سے آکر وہ سب سے نہلے درنہ ننگم اور اس سے مل نا تھا‬
‫یر آج اسے شنا ِیل کے روم میں چانے دیکھ عنادنہ کو دھخکا لگا تھا‪،‬انتی دیر یک وہ ایدر یاچانے کنا‬
‫س‬
‫یات کررہا ہوگا اس سے‪،‬ایدر تھانٹھڑ سے چلے تھے خنہیں تمشکل دیابی وہ لسینل کا ہاتھ ا ننے‬
‫س‬
‫یازو یر سے ہنانے درنہ ننگم کے روم میں گتی‪،‬اس کی نست کو لسینل یرسوچ پظروں سے دیکھا‬
‫تھا‪،‬‬

‫"گرنتی۔۔۔"‬
‫دروازہ یاک کربی وہ آہسنگی سے پکاری‪،‬اب جود کو کافی چد یک کم بوز کرچکی تھی وہ‪،‬‬
‫‪97‬‬
‫"آؤ بچے۔۔"‬
‫انہوں نے شققت تھرے لہچے میں کہا جس یر مشکرابی عنادنہ ایدر داچل ہوبی‪،‬‬

‫"نہ کنا کررہی ہیں۔۔؟"‬


‫ح‬ ‫ُ‬
‫انہیں اون کے دھاگے ٹینے د کھ عنادنہ چیران ہوبی بو ھی‪،‬‬
‫ی‬

‫"سوٹئیر ننارہی ہوں۔۔"‬

‫"میرے لنے۔۔"‬
‫عنادنہ کو جوسگوار چیرت ہوبی ان کی یات یر نٹھی بوحھی‪،‬‬

‫"آہاں۔۔انتی بوبی کے لنے۔۔"‬


‫مشلشل ہاتھ چالبی وہ مشکراکر بولیں‪،‬‬

‫"بو گرنتی وہ بو میں ہی ہوبی یا۔۔۔"‬


‫عنادنہ نے ایدازہ لگانے تھر کہا‪،‬‬

‫"لڑکی۔۔ادھر آؤ۔۔"‬
‫اس کی یادابی یر ہلکا سا ہیستی وہ اسے یاس یالٹیں‪،‬‬

‫"جی۔۔"‬
‫‪98‬‬
‫س‬
‫"میری ہونے والی یر بوبی کا ہوگا مطلب تمہاری اور لسینل کی ٹیتی۔۔۔"‬
‫اس کی تھوڑی کے نیچے ہٹھنلی رکھ کر درنہ ننگم نے محیت سے کہا مگر عنادنہ کی مشکراہٹ یل‬
‫میں عانب ہوبی‪،‬خنکہ آیکھوں میں تیزی سے تمکین یابی حمع ہوا‪،‬‬

‫"ارے بچے۔۔رو ک بوں رہی ہو۔۔"‬


‫کالی آیکھوں میں آنسو دیکھ درنہ ننگم یرنشان ہوٹیں‪،‬‬

‫"گرنتی۔۔مجھے نہیں لگنا کہ میرے پضیب میں نہ جوسی ہے۔۔"‬

‫"نہ بجہ۔۔انشا مت بوال کرو۔۔بوں بو تم اّٰللہ سے یاامند ہورہی ہو۔۔"‬


‫وہ چانتی تھیں کہ حھ مہی بوں پعد تھی کوبی جوسخیر نہ ملنے یر عنادنہ اب دن یدن تھوڑی چڑچڑی‬
‫اور جشاس ہوچکی تھی‪،‬نٹھی اسے یرمی سے سمجھاٹیں‪،‬‬
‫ًس‬
‫"امند۔۔۔خٹم ہورہی ہے۔۔اور اب بو پقینا لسینل تھی میری طرف سے تیزار ہو چکے ہوں‬
‫گے۔۔"‬
‫سر حھکانے وہ دھٹمے مگر میرتم لہچے میں بولی‪،‬‬
‫س‬
‫"انشا ک بوں سوچ رہی ہو عنادنہ۔۔۔ لسینل تم سے کٹھی تیزار یا ننگ ہوسکنا ہے تھال۔۔۔کیتی‬
‫محیت کریا ہے وہ تم سے انشا تھر کٹھی مت سوخنا۔۔"‬

‫‪99‬‬
‫س‬
‫اس کی یات یر اب درنہ ننگم نے تھوڑا شیحندگی سے کہا بو عنادنہ روہانسی ہوبی‪،‬ذہن میں لسینل‬
‫اور شنا ِیل کی یکچا پصاویر نتی تھی‪،‬‬

‫"آپ کو ننا ہے گرنتی میں نے کل ن یٹ یر دیکھا تھا دو مناں ن بوی ایک دوسرے سے نےچد‬
‫محیت کرنے تھے مگر جویکہ دو سال پعد تھی ان کے ہاں اوالد کی پعمت نہ آبی بو سوہر نے ن بوی‬
‫سے ننگ آکر اسے ظالق دے دی۔۔۔اور تھر دوسری لڑکی سے۔۔"‬

‫"یااّٰللہ۔۔۔ع نادنہ نس کرو لڑکی۔"۔‬


‫وہ جو انہیں ن نابی اب یاقاعدہ رونے لگی تھی درنہ ننگم کے بو کنے یر ہلکی آواز میں ششکناں لی‪،‬‬
‫س‬
‫"انشا وہ لوگ کرنے ہیں جو کم طرف ہوں اور تمہیں لسینل کم طرف مردوں میں سے لگنا‬
‫ہے۔۔بجہ وہ کس قدر خ بوبی ہے تمہیں لے کر اور تم کنا کنا سوچ رہی ہو اس کے یارے‬
‫س‬
‫میں۔۔۔نس لڑکی۔۔۔اس ن یٹ نے تمہیں سکی نناد ن نا ہے اس معا ملے میں کل میں لسینل‬
‫ی‬
‫سے کہہ کر ن یٹ آف کروادوں گی اور چیردار انسی چیزیں تھر د کھی تم نے۔۔۔"‬
‫درنہ ننگم کا لہجہ سخت محسوس کرنے ہی وہ نے آواز روبی ان کے یاس سے اتھی‪،‬‬

‫"میرا بجہ ٹیٹھو نہاں۔۔"‬


‫اس کا خقگی تھرا ایداز دیکھ وہ پفی میں سر ہالبی عنادنہ کو تھر ٹیٹھاٹیں ا ننے یاس‪،‬‬

‫‪100‬‬
‫س‬
‫"مجھے نناؤ ک بوں سوچ رہی ہو تم انشا۔۔۔کنا لسینل نے تمہیں کجھ کہا ہے انشا نناؤ مجھے تھر‬
‫میں چیر لیتی ہوں اس کی۔۔۔"‬

‫"نہیں گرنتی انہوں نے کجھ نہیں کہا۔۔۔"‬


‫تھرابی آواز میں کہہ کر اس نے درنہ ننگم کا ہاتھ تھاما‪،‬‬

‫"مجھ۔۔مجھے ڈر۔۔لگ رہا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے دور نہ ہوچاٹیں۔۔۔"‬


‫عنادنہ کے لہچے میں عح یب سا جوف محسوس کنے درنہ ننگم جویکی‪،‬‬
‫مج‬‫س‬
‫ن‬
‫"تم ھتی ہو کہ وہ تم سے دور ہو چانے گا اس لنے کہ تم نے بجہ ن ندا ہیں کنا۔۔"‬
‫اب کی یار وہ صاف لہچے میں بوحھیں جس یر عنادنہ نے چلدی سے اننات میں سرہالیا‪،‬آنسو ہ بوز‬
‫پکل رہے تھے آیکھوں سے‪،‬‬

‫"اب شبو لڑکی۔۔۔نہلی یات کہ اوالد یرنبہ سے بوازیا کسی انشان کے نس میں نہیں نہ اّٰللہ کی‬
‫س‬
‫دین ہے۔۔۔اور دوسرا مناں ن بوی کی محیت کا کوبی نہ اکلویا ن بوت نہیں۔۔۔تم اور لسینل ایک‬
‫دوسرے سے نہت محیت کرنے ہو نہ تم دوبوں ہی ا حھے سے چا ننے ہو بو اس محیت میں نہ‬
‫تیزارنت یا تھر ننگ آیا۔۔۔تم نے کیسے سوچ لنا کہ نہ ہوگا۔۔‬
‫س‬
‫احھا نہ نناؤ لسینل نے کٹھی تمہیں ا نسے القاظ کہے کہ جس سے تمہارا دل دکھا ہو۔۔۔"‬
‫ً‬
‫اسے یرمی سے سمجھابی وہ آچری میں سوال کیں‪،‬عنادنہ نے فورا پفی میں سرہالیا‪،‬‬
‫‪101‬‬
‫"کٹھی انشا ہوا کہ تم سے وہ تیزار لہچے میں یات کنا ہو۔۔"‬
‫انہوں نے تھر بوحھا اور اس یار تھی عنادنہ نے پفی میں سرہالیا‪،‬‬

‫"کٹھی انشا ہوا کہ تمہیں اس یر کسی لڑکی کو لے کر سک ہوا ہو۔۔"‬


‫ی‬
‫اب عنادنہ چپ سی ہوبی درنہ ننگم کو چاموش پظروں سے د ھی‪،‬ذہن یں یار یار شنا ِ ل کے‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫ساتھ وہ محبوب پظر آیا‪،‬تمشکل اس نے پفی میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"بو تھر۔۔نس نےقکر رہو۔۔وہ تمہارا تھا ہے اور رہے گا۔۔۔لڑکی چب وہ تم سے الگ رہ کر نہ‬
‫م‬
‫تھ یکا تھر اب بو تم اس کی ن بوی ہو۔۔یاگل ہے وہ تمہارے نیجھے اور ا ننے بونے یر مجھے کمل‬
‫س‬
‫پقین ہے کہ چاہے کجھ تھی ہو وہ کٹھی نہیں نہک سکنا۔۔۔چانتی ہو لسینل ان مردوں میں‬
‫سے ہے جس نے اگر ایک لڑکی کو چاہا بو اس ہی یر انتی دننا قنا کر ٹیٹھنا ہے۔۔۔تھر چاہے اسے‬
‫مج‬‫س‬
‫جسین سے جسین لڑکی دکھادو اس کا دل انتی مح بوب لڑکی یر ہی اپکا رہنا ہے۔۔۔ ھی۔۔۔"‬
‫ہر نہلو کو واصح کرنے وہ نہت آرام سے اسے سمجھارہی تھیں‪،‬عنادنہ کے آنسو تھمے‪،‬دل کو یک‬
‫گونہ سکون ہوا تھا درنہ ننگم کی یابوں سے‪،‬ہاں وہ سخص صرف اس ہی سے نےبچاشہ محیت کریا‬
‫تھا تھر کیسے کسی اور کی طرف راعب ہوسکنا تھا‪،‬آچر میں یرسکون سی مشکراہٹ سمیت آنسو‬
‫صاف کی تھی وہ‪،‬‬

‫‪102‬‬
‫ن‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫"تھینک بو گر تی میری علط سوجوں کو کنے کے لنے۔۔"‬
‫ھ‬
‫درنہ ننگم کے گلے لگتی وہ جوسی سے بولی بو انہوں نے یرمی سے اس کی نست تھنکی‪،‬‬

‫"اب نہ رکھیں۔۔۔اور آ ٹیں کھایا کھالیں۔۔"‬


‫ان سے الگ ہوکر اون اتھا کر یرایر میں رکھتی وہ انہیں اتھابی‪،‬‬

‫"نہلے وعدہ کرو کہ اب اس طرح کی سوجیں ذہن میں نہیں الؤ گی اور اّٰللہ سے یاامند نہیں‬
‫ہوگی۔۔۔"‬
‫اسے اننا ہاتھ تھامے دیکھ وہ آیرو اخکاکر بوحھیں جس یر عنادنہ جوسی سے ہیستی سر اننات میں‬
‫ہالبی‪،‬‬

‫کھایا کافی جوسگوار ماجول میں کھایا چارہا تھا نٹھی کجھ دیر پعد چب سے کچن میں سکرھنابی شنا ِیل‬
‫ایک یلٹ ہاتھوں میں تھامی یاہر آبی‪،‬‬

‫"تم کھایا نہیں کھاؤ گی شنا ِیل۔۔"‬


‫درنہ ننگم اسے دیکھ یرمی سے بوحھی‪،‬‬

‫"جی یلکل کھاؤں گی مگر اس سے نہلے میں آپ لوگوں کو وہ کھالؤں گی جو میں نے آج ننایا‬
‫ہے۔۔"‬

‫‪103‬‬
‫یلیٹ ٹینل یر رکھتی وہ چہک کر بولی‪،‬یالو ل بوں یک لے چابی عنادنہ کا اشبون تھاما ہاتھ رکا چب‬
‫س‬
‫شنا ِیل قدم یڑھا کر نہلے اس کے یرایر میں ٹیٹھے لسینل کے یاس آبی‪،‬‬

‫"میں نے شنا ہے آپ کو شینڈوچز نہت نسند ہیں۔۔۔بو سوچا یرانے کروں آج۔۔کھاکر نناٹیں‬
‫کیسی نتی ہے۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل ہاتھ روک کر ایک پظر یلیٹ کی چانب دیکھا تھر شنا ِیل کو دیکھ کر گویا ہوا‪،‬‬

‫"مجھے شینڈوچز نسند ہیں یر ڈیر میں نہیں۔۔۔نہ اسماء سے کہہ کر فربج میں رکھوادو میں صیح‬
‫کھالوں گا۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی اس یات یر چہاں عنادنہ یرسکون ہوبی وہی شنا ِیل کا چہرہ بجھا‪،‬اس سخص نے اسے‬
‫نہن ننایا تھا جس کی وجہ سے اب وہ کوشش کی تھی اسے انتی چانب سے تھوڑا جوش کرنے‬
‫کی مگر اب اس کا اپکار سن کر یلیٹ اتھابی‪،‬‬

‫"یر میں تھوڑا ٹیسٹ کرسکنا ہوں اسے۔۔"‬


‫شنا ِیل کا مرحھایا چہرہ دیکھ وہ رسان یت سے کہا اور وہ یل میں کھلی‪،‬اس وقت عنادنہ نے تھربور‬
‫کوشش کی اننا دھنان ان دوبوں یر سے ہنانے کی‪،‬‬

‫"ہمم۔۔۔ٹیستی ہیں تمہیں ننا ہے عنادنہ نے تھی اس ہی طرح شینڈوچ ننابی تھی اور مج ھے‬
‫کھالنے آبی تھی۔۔"‬
‫‪104‬‬
‫س‬
‫شینڈوچ کا یانٹ لینے لسینل کو نےساچبہ ٹین سال نہلے کا وہ دن یاد آیا جس یر وہ مشکرایا ہوا‬
‫ک‬‫ی‬
‫ننایا‪،‬شنا ِیل جوسگواری سے عنادنہ کو د ھی‪،‬‬

‫"ہاں یر اس وقت آپ نے میرے شینڈوچز تھینک دنے تھے۔۔"‬


‫یاچا ہنے ہونے تھی عنادنہ کا لہجہ کجھ یلخ ہوا‪،‬‬

‫"چاتم اس وقت اننا چایا تھی بو نہیں تھا تمہیں۔۔"‬


‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل کے محیت سے کہنے یر چہاں درنہ ننگم اور شنا ِیل ان دوبوں کو مشکراکر د کھیں وہی‬
‫عنادنہ ن یفر سے سر حھ نکتی اتھی‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے مشکرانے لب سکڑے وہ ح ھٹ سے عنادنہ کی کالبی یکڑیا بوحھا‪،‬‬

‫"کجھ نہیں نس ن یٹ تھرگنا۔۔"‬


‫اس سے ہاتھ حھڑواکر کہتی عنادنہ چئیر کھشکا کر پکلی تھر ا ننے روم کی طرف چل دی‪،‬‬

‫"تم کر آفس سے آف لو۔۔۔اور کل کا بورا دن انتی عنادنہ کے ساتھ گزارو۔۔"‬


‫س‬
‫چب سے چاموش درنہ ننگم شیحندگی سے بولیں بو لسینل کجھ سوخنا اننات میں سرہالیا ساتھ ہی‬
‫اتھ کر وہ تھی روم میں گنا‪،‬‬

‫‪105‬‬
‫"اسماء سے کہیں روم میں چانے دے چانے دو کپ۔۔"‬
‫مڑ کر وہ درنہ ننگم کو کہنا نہ تھوال‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫ایدر داچل ہوکر اسے ننڈ یر ٹیٹھے دیکھ لسینل پکاریا ہوا دروازہ نند کنا‪،‬‬

‫"طی یعت تھنک ہے تمہاری۔۔؟"‬


‫اس کے یاس آیا وہ نسونش سے بوحھا ساتھ ہی عنادنہ کے ما تھے یر ہاتھ کی نست رکھا‪،‬‬

‫"تھنک ہوں میں یلکل۔۔"‬


‫عنادنہ چڑ کر اس کا ہاتھ ہنابی‪،‬‬

‫"کھایا ک بوں نہیں کھایا تم نے۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کو یاگوار گزرا تھا اس کا ہاتھ حھنکنا مگر پظرایداز کریا وہ تھر قکرمندی سے بوحھا‪،‬‬

‫"ن یٹ تھرگنا نٹھی حھوڑ دیا۔۔ن نایا بو ہے۔۔"‬


‫س‬
‫ذہن میں لسینل کو دیکھ شنا ِیل کا کجھ دیر نہلے کھال ہوا چہرہ آیا بو اسے غصہ سا آیا نٹھی یرخ کر‬
‫بولتی ننڈ سے اتھی‪،‬‬

‫‪106‬‬
‫"لڑکی ہوا کنا ہے تمہیں۔۔۔ا نسے بی ہ بوو ک بوں کررہی ہو۔۔"‬
‫ڈرنسنگ روم کا رخ کربی عنادنہ کا یازو یکڑے وہ اشیفشار کنا‪،‬‬

‫"کنا مطلب کیشا بی ہ بوو کررہی ہوں میں۔۔۔"‬


‫س‬
‫مڑ کر وہ کمر یر دوبوں ہاتھ حمابی غصے سے النا سوال کی‪ ،‬لسینل کی نےساچبہ ہیسی حھوبی اس‬
‫کا لڑاکا روپ دیکھ‪،‬‬

‫"اگر لڑنے کا موڈ ہے بو بونہی کہو ہم مل کر لڑنے ہیں چاتم و نسے تھی میرے چد درجہ ن نار سے‬
‫یگڑبی چارہی ہو تم۔۔"‬
‫مشکراکر اس کے یازو کو حھ یکا دے عنادنہ کو جود سے فرنب کنے وہ یاچا ہنے ہونے تھی آچر میں‬
‫اس کے یلخ ایداز یر خقگی ظاہر کرگنا‪،‬‬

‫"نہ ہی میرا لڑنے کا موڈ ہے نہ بو میں یگڑی ہوں یلکہ آپ ہی کے ن بور کجھ عح یب ہیں۔۔۔"‬
‫دل میں دیابی انتی یات آچر کار وہ کہہ ہی دی‪،‬‬

‫"احھا۔۔میرے ن بور کیسے عح یب ہیں ننایا چاہیں گی مخیرمہ۔۔۔"‬


‫س‬
‫اسے جود سے فرنب کنے لسینل مشکراہٹ دیانے بوحھا‪،‬‬

‫‪107‬‬
‫س‬
‫" لسینل دور ہٹیں۔۔ہر یار احھا نہیں لگنا نہ سب۔۔"‬
‫ن‬ ‫لس‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫اسے جود یر حھکنے دیکھ عنادنہ ال کر تی دور ہوبی‪ ،‬ل کے لب منے‪،‬عنادنہ کے چڑے‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ی‬

‫ہونے یایرات شیحندگی سے دیکھنا وہ اتھی کجھ بو لنے ہی لگا تھا کہ عنادنہ شندھا ڈرنسنگ روم میں‬
‫گتی‪،‬نٹھی دروازہ یاک ہوا‪،‬‬

‫"شنا ِیل چانے لے کر آبی تھی۔۔"‬


‫ٹینل یر رکھتی وہ وہی یر کھڑی رہی‪،‬‬

‫"کجھ کہنا ہے۔۔"‬


‫اسے چزیز کا شکار دیکھ ششلینل دھٹمے لہچے میں بوحھا‪،‬‬
‫س‬
‫"جی۔۔آ۔۔۔ لسینل نہ کہنا کجھ عح یب ہے مگر آپ یلیز میری یات کا علط مطلب مت لیحنے‬
‫گا۔۔"‬
‫س‬
‫عنادنہ کا رونہ کافی چد یک وہ سمجھ ہی چکی تھی نٹھی اس یارے میں وہ ق یصلہ کربی جود لسینل‬
‫سے یات کرنے کا سوجی‪،‬‬

‫"کہو۔۔"‬

‫‪108‬‬
‫"مہ۔۔میں نے نہت سوچا ہے اس یارے میں۔۔کہ اگر آپ می۔۔میرا پکاح چلد کروادیں میرا‬
‫مطلب۔۔کل یک۔۔اور وہ کورٹ میں بو آپ کو تھی زیادہ یرنشابی نہیں ہوگی اور می۔۔میں۔۔"‬

‫"میری یرنشابی کی تم قکر مت کرو اور چہاں یک یات کل پکاح کی ہے وہ یلکل یاممکن ہے‬
‫اتھی مجھے غقان سے یات کربی ہے۔۔تھر ممکن ہے کہ ایک ہفنے پعد ہو۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس کی یات کاٹ کر لسینل شیحندہ یایرات سمیت بوال خنکہ شنا ِیل کو نےچد شنکی محسوس‬
‫ہوبی‪،‬وہ نہیں چاہ رہی تھی اس یایک یر یات کریا یر عنادنہ کا رونہ چد درجہ یلخ دیکھ اس نے سوچا‬
‫تھا چلد از چلد نہاں سے چانے کا‪،‬‬

‫"تمہیں نہاں کوبی یرایلم بو نہیں ہے یا۔۔؟"‬


‫س‬
‫اس کی چانب دیکھنا لسینل بوحھا نٹھی ڈرنسنگ روم سے پکلتی عنادنہ کی پظر ان دوبوں یر‬
‫یڑی‪،‬شفند ٹیشابی یر یل ننے تھے‪،‬‬

‫"نہی۔۔نہیں بو کوبی یرایلم نہیں۔۔۔میں بو نس آپ لوگوں کے اجشان یر سرمندہ ہوں‬


‫نہت۔۔"‬

‫"اس میں سرمندگی کی کوبی یات نہیں تمہیں میں نے نہلے ہی ا ننے اور تمہارے رشنے کے‬
‫یارے میں میرادف کنا ہے جس کی قدر کر کے مجھے نہ کرنے میں کوبی یرنشابی اجشان م ندی‬
‫محسوس نہیں ہوبی۔۔۔"‬
‫‪109‬‬
‫س‬
‫اسے رسان یت سے سمجھایا لسینل شنا ِیل کے اننات میں سر ہالکر چانے یر روم کا دروازہ نند‬
‫کنا‪،‬ادھر عنادنہ اس کی یات سن کر ان دوبوں کے نیچ رشنے کا ا ننے دماغ میں آنے وسوسوں‬
‫سمیت سوخنے ہی حھ یکا کھاکر رہ گتی تھی‪،‬‬

‫"ارے چاتم۔۔۔آو چانے ن بو۔۔"‬


‫کجھ دیر نہلے ہوبی یدمزگی کے یرعکس وہ یلکل ہلکے تھلکے لہچے میں بوال‪،‬‬

‫"نہیں ٹیتی مجھے۔۔"‬


‫اچایک کاٹ دار لہچے میں کہہ کر وہ ننڈ یر چا لیتی ساتھ ہی ساننڈ لٹمپ آف کر کے کمفریر سر‬
‫یک اوڑھ گتی‪،‬‬

‫"اس قدر ُروڈ بی ہ بوو کی وجہ ن ناؤ گی۔۔۔"‬


‫ننڈ کے یاس آکر وہ عنادنہ کے مبہ سے کمفریر ہنایا بوحھا‪،‬‬

‫"چانے نہیں ٹیتی اس میں ُروڈ بی ہ بوور کہاں دکھایا میں نے۔۔۔"‬
‫ی‬
‫آ کھیں تھنالنے وہ تھر النا سوال کی تھی‪،‬‬

‫"میرے سواالت کا جواب دیا کرو النا سوال مت کرنے لگ چایا کرو۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کا لہجہ اس یار یرہم ہوا تھا‪،‬وہ چب سے اس کے رونے کو پظرایداز کررہا تھا‪،‬‬

‫‪110‬‬
‫"ارے تھتی دل نہیں کنا نٹھی چانے نہیں بی۔۔۔فصول میں غصہ ک بوں ہورہے ہیں آپ۔۔"‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ٹ‬
‫ٹینے ہونے اتھ کر یٹھتی وہ لسینل کے وخنہہ چہرے یر سخت یایرات د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫"غصہ ہونے والی چرکٹیں کررہی ہو تم۔۔۔ہوا کنا ہے تمہیں۔۔۔نہ کجھ ننارہی ہو نہ میرے‬
‫سوال یر آگے سے شندھے جواب دے رہی ہو نس عح یب ہی رونہ رکھا ہوا ہے۔۔۔عنادنہ شئیر‬
‫کرو مسنلہ کنا ہے آچر۔۔۔"‬
‫سخت لہچے میں کہنا آچر میں وہ جود یرم یڑیا بوح ھا‪،‬اس لڑکی سے چاہ کر تھی وہ سخت رونہ اجی نار‬
‫نہیں کریاریا تھا‪،‬‬

‫"مطلب میں کھایا نہ کھاؤں بو آپ کو یرایلم چانے کے لنے اپکار کروں بو آپ کو یرایلم مسنلہ‬
‫آپ کے ساتھ ہے اور بوحھ مجھ سے رہے ہیں۔۔۔رونہ جود کا عح یب ہے اور سکوے مجھ سے‬
‫ہیں۔۔۔ش ندھے القاظ میں کہہ ک بوں نہیں د ننے کہ ننگ آ گنے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔"‬
‫س‬
‫درنہ ننگم کی یابوں کو یکدم ذہن سے فراموش کربی وہ یرس یڑی‪ ،‬لسینل ایک یل کو بو اسے‬
‫دیکھنا رہ گنا‪،‬‬

‫"تم نے سوچ تھی کیسے لنا کہ میں تم سے ن نگ ہوں گا۔۔"‬


‫ششدہ سا ہوکر کہنا وہ عنادنہ کے یاس ٹیٹھا ساتھ ہی اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما‪،‬‬

‫‪111‬‬
‫"ہٹیں نہاں سے۔۔سویا ہے مجھے۔۔۔"‬
‫غصے میں ایک مرنبہ تھر اس کا ہاتھ حھنکتی نیجھے سرک کر وہ دوسری کروٹ لنے لیٹ‬
‫س‬
‫گتی‪ ،‬لسینل خند لمخوں یک اس کی نست کو دیکھنا رہا تھر اتھ کر النٹ آف کریا وانس ننڈ یر‬
‫آیا‪،‬اس کا ارادہ چانے بی کر آفس کے کجھ کام ٹینانے کا تھا مگر عنادنہ کے خنال کے عرض‬
‫س‬
‫ا ننے ارادے یرک کنے وہ شندھا ننڈ یر آیا‪،‬لٹینے ہی لسینل نے سب سے نہلے اسے ا ننے فرنب‬
‫کنا‪،‬‬
‫س‬
‫"حھوڑیں لسینل۔۔۔مجھے سکون سے سونے دیں۔۔"‬
‫ایدھیرے میں جود کو مقایل کے یازوؤں کے ہلقے میں دیکھ وہ یری طرح چڑبی اس کے کندھے یر‬
‫ہاتھ رکھتی دور ہونے لگی‪،‬‬

‫"شش۔۔۔چپ یلکل۔۔"‬
‫س‬
‫اسے مضبوطی سے تھام کر ا ننے شینے میں تھییحنا لسینل دھٹمی آواز میں تھوڑا یرہمی سے بوال‪،‬‬

‫"چاننا ہوں ان دبوں کجھ مصروقنات کے یاعث وقت نہیں دے یایا تمہیں نٹھی اس قدر چڑچڑی‬
‫س‬
‫ہوگتی ہو یر ڈونٹ وری کل کا بورا دن لسینل مراد انتی چاتم کے ساتھ گزارے گا۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس کی ٹیشابی یر انتی محیت کی مہر ن یت کریا لسینل یرم لہچے میں سوگوسی کنا‪،‬خنکہ عنادنہ کا‬
‫ذہن لقظ مصروق یت یر اپکا‪،‬دل میں تھر یدگمابی آبی کہ کس طرح کی مصروق یت ہے مقایل کو‪،‬‬
‫‪112‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آفس سے تھکا ہارا وہ آج تھر شندھا ہاشینل میں آیا تھا‪،‬وخنہہ چہرے یر یڑھی شبوو اور یال کے شیحندہ‬
‫ح‬‫س‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫یایرات سمیت گہرے ہلقے لنے ویران آ یں ایدر کے ھو لے ین کی غمازی کررہی یں‪ ،‬تی‬
‫ھ‬ ‫کھ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫سے لب تھییچے وہ دننا چہاں سے نےچیر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا‪،‬ا ننے مہی بوں میں وہ کینا بجھنایا‬
‫تھا ا ننے کنے یر‪،‬ا ننے مطالم ڈھایا تھا اس لڑکی یر کہ اب نہ بجھناوا اس کی زیدگی اچیرن ننانے لگا‬
‫تھا‪،‬یاچانے اس لڑکی میں کیشا یایر نندا ہوا تھا کہ ان مہی بوں میں وہ روز اس کے یاس آیا بو تھا‬
‫اور گھی بوں یک اس کے وجود کو چاموسی سے دیکھنا رہنا یر ہمت جیسے یلکل نہ تھی اسے زرا سا‬
‫حھونے کی تھی‪،‬اس کے ہوش میں آنے کی دعا کریا وہ دل میں موہوم سی امند بو لنے رکھا تھا‬
‫خ‬ ‫پ ً‬
‫کہ چب وہ ہوش میں آنے گی بو قینا اسے معاف کردے گی گر یادان ص نہ ھول خکا تھا‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫م‬
‫کہ موم چب ایک مرنبہ نٹھر ین چانے بو اسے وانس یگھالیا یاممکنات میں سمار ہوچایا ہے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں چانتی ہوں ٹینا تم یاراض ہو اس یات یر لنکن تم ہی نناؤ ہم سب جود ہی اننا الجھے ہیں کہ‬
‫مٹیسر ذہن میں تمہیں ننانے کا خ نال یک نہ آیا‪،‬‬
‫‪113‬‬
‫س‬
‫آج سام وہ لسینل کی عیر موجودگی میں درنہ ننگم کی اچازت لیتی سکندر وال آبی تھی مگر نہاں آکر‬
‫چب اسے مطیبہ کے یارے میں مہناز ننگم نے ننایا بو ع نادنہ سخت ربحندہ ہوبی‪،‬اسے ا ننے‬
‫تھان بوں سے اس طرح کی امند نہیں تھی‪،‬وہ دکھی تھی ساتھ مہناز ننگم سے تھی اکھڑی اکھڑی‬
‫ہوبی جس یر انہوں نے غمگین لہچے میں کہا‪،‬‬
‫س‬
‫وہ ملنا چاہتی تھی مطیبہ سے نٹھی کجھ سوختی لسینل کو میسیج کی‪،‬ان دوبوں کے نیچ اس رات‬
‫س‬
‫کی یدمزگی کو گزرے ایک ہقبہ ہوخکا تھا‪،‬اس ایک ہفنے میں لسینل نے اسے جینا وقت دیا اور‬
‫جس قدر محیت سے اس کے ساتھ رہا کافی چد یک عنادنہ یارمل ہوچکی تھی اس کے ساتھ‪،‬‬
‫ٹ‬
‫کجھ دیر پعد سکندر وال سے پکل کر وہ کار میں یٹھتی فرمان کو وانسی مٹیشن چانے کا بولی ساتھ ہی‬
‫س‬
‫لسینل کا تمیر مالبی‪،‬مہناز ننگم کے سا منے وہ کال نہیں کرسکتی تھی ڈر تھا کہ کہیں نہ یات‬
‫ان کے ذر پعے قلذہ یک نہ نہیچے‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔۔"‬
‫دوسری چانب سے آبی اجیتی مردانہ آواز یر عنادنہ کجھ جویکی‪،‬فون کان سے ہنانے وہ ایک مرنبہ‬
‫س‬ ‫ی‬
‫تمیر د کھی جو لسینل کا ہی تھا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔"‬
‫ک یف بوز ہوبی وہ پکاری‪،‬‬
‫‪114‬‬
‫"تھاتھی میں غقان۔۔"‬
‫دوسری چانب سے پعارف کروایا گنا جس یر عنادنہ کجھ اور الجھی‪،‬‬
‫س‬
‫"غقان۔۔ لسینل۔۔کا فون۔۔۔"‬

‫"جی تھاتھی دراصل کجھ کالنٹیس کو کال کرنے کے لنے سر کا فون لنا تھا میں نے۔۔۔"‬
‫س‬
‫"احھا کہاں ہیں لسینل۔۔؟"‬
‫کجھ یرسکون ہونے یر وہ تھر بوحھی‪،‬‬

‫"سر اور میں بو کورٹ میں ہیں۔۔۔رکیں میں د ن نا ہوں سر کو فون۔۔"‬


‫س‬
‫غقان کی یات یر عنادنہ یری طرح الجھ کر رہ گتی‪،‬کورٹ میں لسینل ک بوں گنا تھا نہ اس کی‬
‫سوچ سے یاالیر ہوا‪،‬‬

‫"غقان فون رکھو۔۔۔اور چلدی ادھر آؤ۔۔"‬


‫س‬
‫دوسری چانب لسینل کی نیجھے سے آواز شنابی دی‪،‬‬

‫"سر لنکن کال یر۔۔"‬


‫ٹ‬
‫"کال حھوڑو۔۔پکاح کے پعد مجھے چایا تھی ہے کام سے۔۔۔شنا ِیل چب سے یٹھی ہے۔۔چلدی‬
‫آؤ۔۔۔"‬
‫‪115‬‬
‫س‬
‫ایک مرنبہ تھر آبی لسینل کی اس آواز نے عنادنہ کو شنل کردیا‪،‬نٹھر نتی وہ ساکت سی مقایل‬
‫کی یات کو شتی تھی‪،‬ذہن میں آج دونہر شنا ِیل کا ننا درنہ ننگم کو کجھ ننانے فرمان کے ساتھ‬
‫کہیں چایا آیا‪،‬تھرابی پظروں سمیت تمشکل وہ جود کو شیٹھالی‪،‬مویایل گرنے گرنے بچا تھا ہاتھ‬
‫سے‪،‬یل میں اسے اننا سب کجھ خٹم ہویا لگا‪،‬نٹھی فرمان نے مٹیشن یر کار روکی‪،‬‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫فورا سے نہلے کار سے ایربی وہ تیزی میں ایدر کی چانب تھاگی‪،‬اپقاقا ہال میں کوبی نہ تھا نٹھی ا ننے‬
‫روم کی طرف یڑھتی وہ دھاڑ کی آواز سمیت دروازہ کھول کر ایدر داچل ہوبی‪،‬اب یک جیسے‬
‫نےپقیتی کی ک یف یت ظاری تھی اس یر‪،‬اننا سر تھامتی وہ زمین یر ٹیٹھنے اچایک روبی تھی تھوٹ‬
‫س‬
‫تھوٹ کر‪،‬ذہن میں ہر مرنبہ کی طرح شنا ِیل اور لسینل کی پصاویر اتھری اور پفی میں سر ہالبی‬
‫وہ یآواز روبی تھی‪،‬‬

‫"میں۔۔نے کہا تھا کہ آپ۔۔تیزار ہیں مجھ سے۔۔ا۔۔اور وہی ہوا۔۔دھ۔۔دھوکہ۔۔دے‬


‫دیا۔۔مجھ۔۔مجھے۔۔مذاق ننادیا میری محیت کا۔۔"‬
‫زی ِر لب یڑیڑابی وہ آچر میں مویایل زور سے نیجی تھی زمین یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ًس‬
‫نہ پکاح شنا ِیل کے کہنے یر مح بورا لسینل کو کورٹ میں سادگی سے کریا یڑا‪،‬جویکہ غقان کے ماں‬
‫‪116‬‬
‫یاپ کو اس یر کوبی اعیراض نہ تھا بو اسے زیادہ یرایلم نہ ہوبی‪،‬انہیں تھی شنا ِیل ا ننے ٹینے کے‬
‫لنے نےچد تھابی تھی خنکہ غقان کا چال کجھ بوں تھا اس دوران جیسے دلی مراد ننا کہے بوری‬
‫ہوگتی ہو‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔۔"‬
‫پکاح کے پعد اس کا ارادہ غقان کے ماں یاپ سے مل کر ساتھ غقان کو تھی شنا ِیل کی چانب‬
‫سے پصیخت کرکے چانے کا تھا مگر غین وقت یر پکلنے شنا ِیل اسے پکار اتھی‪،‬‬

‫"آپ نے ننایا بو نہیں یا درنہ آ نتی اور عنادنہ آبی کو۔۔"‬


‫س‬
‫وہ نہلے ہی لسینل کو اپکار کی تھی ان دوبوں کو اس سلشلے میں ننانے سے‪،‬شنا ِیل کا ارادہ تھا‬
‫س‬
‫کہ لسینل پکاح کے دوسرے دن ان دوبوں کو غقان کے گھر الکر سریرایز دے‪،‬کجھ اسے‬
‫م‬
‫عنادنہ کو تھی طمین کریا تھا‪،‬‬

‫"نےقکر رہو نہیں ننایا۔۔"‬


‫مشکراکر کہنا وہ شنایل کے سر یر ہاتھ ت ھیرا‪،‬‬

‫"آپ کل آ ٹیں گے یا الزمی ان دوبوں کو لے کر۔۔"‬


‫م‬
‫اس کے جواب یر طمین ہوبی وہ تھر بوحھی‪،‬‬

‫‪117‬‬
‫"صرور آؤں گا۔۔"‬
‫س‬
‫ہلکا سا ہیس کر لسینل بوال ساتھ ہی ان لوگوں کے کورٹ سے چانے کے پعد جود تھی پکال‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"واٹ۔۔۔مطیبہ کو ہوش آگنا۔۔۔مام آپ ہوش میں بو ہیں۔۔"‬
‫ی‬
‫نےپقیتی کے عالم میں کہتی قلذہ اچایک فون نیجھے کر کے د ھی‪،‬مہناز م دوسری چانب سے‬
‫گ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ک‬

‫غصے میں کال کٹ کرچکی تھیں‪،‬‬

‫"کنا ہوا۔۔"‬
‫کار ڈران بو کریا شیفی بوحھا‪،‬‬
‫س‬
‫ان دوبوں کا نہت چلد نیچ اپ ہوا تھا اور اس میں زیادہ یر ہاتھ قلذہ کا تھا وہ شیفی کو لسینل‬
‫کے چانب سے ملے دھوکے کا کجھ بوں بولی تھی کہ شیفی مان چانے اور ہوا تھی نہی‪،‬وہ چیران‬
‫ہوبی تھی شیفی کے ن نا کسی سوال کے چلدی مان چانے یر‪،‬اور اب وہ اکیر اس کے ساتھ ہی‬
‫زیادہ یر اننا وقت گزاربی‪،‬‬

‫"جو نہیں ہویا چا ہنے تھا وہ ہوگنا۔۔۔"‬


‫ن یفر سے کہتی قلذہ یرنشان ہوبی شیٹ کی نست سے ننک لگابی‪،‬‬
‫‪118‬‬
‫"چیر حھوڑو۔۔شیفی کسی یار میں چلو بورا موڈ چراب کردیا ماما نے۔۔۔"‬
‫یگڑے چہرے سمیت کہتی وہ شیسے کے یاہر دیکھنے لگی‪،‬‬
‫ت‬
‫کافی دیر پعد تھی چب شیفی مشلشل کار ڈران بو کریا رہا بو قلذہ کی‪،‬‬
‫ھ‬ ‫ٹ‬ ‫ھ‬

‫"شیفی یار چانے کا کہا تھا نہ کہاں چارہے ہیں ہم۔۔۔"‬


‫جسمگیں پگاہوں سے شیفی کو دیکھ وہ گویا ہوبی‪،‬‬

‫"نہت چلد ننا چل چانے گا ڈارلنگ۔۔۔"‬


‫مخصوص لوفرانہ لہچے میں کہنا وہ طیزنہ مشکرایا ساتھ ایک چگہ یر کار روک کر قلذہ کو دیکھا‪،‬‬

‫"اب کار ک بوں روک۔۔"‬


‫ل‬ ‫ی‬‫ش‬ ‫گ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫م‬ ‫ل‬
‫البی ہوبی قلذہ کی آواز ق یں ہی رہ تی چب اچایک فی اس کی یاک یر رومال رکھا‪ ،‬مچے‬ ‫ھ‬ ‫ج‬

‫میں وہ تھتی آیکھوں سمیت مچلی تھی مگر مضبوطی سے اس کے چہرے یر شیفی رومال حمانے‬
‫رکھا‪،‬اگلے ہی لمچے چب وہ ہوش و جواس سے ن یگانہ ہوبی نب پفرت سے اسے گھور کر شیفی فون‬
‫پکاال‪،‬‬

‫"جیشا کہا تھا ونشا کردیا۔۔۔اب کہاں نہیچایا ہے اسے۔۔۔"‬


‫اس کے نےہوش وجود کو دیکھ کال یر وہ بوح ھا‪،‬‬

‫‪119‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"ڈاکیر صرف دیکھنے دے دیں۔۔۔یلیز۔۔"‬


‫وہ ہاشینل سے پکل کر کار میں ٹیٹھا تھا نٹھی ڈاکیر کی کال آبی‪،‬رنسبو کرنے یر دوسری چانب‬
‫سے جو چیر اسے ملی ایک یل کو ہیٹم جیسے نےپقین ہوا تھا تھر تیزی میں کار سے پکل کر تھاگا‬
‫تھا ایدر‪،‬اس کی چلد یازی نہ واصح کررہی تھی جیسے کسی نے صدبوں پعد کوبی جوسی کی بوید شنابی‬
‫ہو اسے‪،‬وارڈ میں اتھی اس نے داچل ہونے کا ارادہ ہی کنا تھا کہ ایدر سے پکلتی ڈاکیر نے اسے‬
‫وہی یر روک دیا‪،‬ان کا کہنا تھا کہ ٹیسیٹ کو اتھی ہوش آیا ہے اور وہ کسی سے تھی مالقات یر‬
‫اپکاری ہیں‪،‬اور اب‪،‬اس ہی کے یاعث چب سے کھڑا وہ ڈاکیر سے میت سماچت کررہا تھا‪،‬‬

‫"سوری مسیر ہیٹم۔۔۔وہ کوبی عام ٹیسیٹ نہیں کوما سے پکلی ہیں ا ننے مہی بوں پعد اور اگر ہم‬
‫ٹ‬ ‫چ‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫پ ً‬
‫نے ان کی نہ یات نہ مابی بو قینا وہ سیرنس یں گی ھر ہوسکنا ہے کہ یں ال یں اور آپ‬
‫چا ننے ہیں اس سب سے ان کے دماغ یر زور یڑے گا پعد میں خظرہ تھی ہوسکنا ہے۔۔۔"‬
‫ہیٹم کے ہر یار کی میت یر وہ ٹیشہ وارانہ ایداز میں اسے سمجھانے لگی تھیں‪،‬‬

‫"ہیٹم۔۔"‬
‫نٹھی مہناز ننگم تھی فرخندہ کے ساتھ آ ٹیں تھی وہاں یر‪،‬‬
‫‪120‬‬
‫"کہاں ہے مطیبہ۔۔"‬
‫وہ جس نےیابی سے بوحھیں ہیٹم کو انتی ہی سرمندگی ہوبی‪،‬‬

‫"ایدر ہے۔۔"‬

‫"بو چلو۔۔"‬

‫"ماما۔۔وہ۔۔وہ نہیں ملنا چاہتی کسی سے۔۔"‬


‫نسٹمابی سے کہنا وہ تھک کر ٹییچ یر ٹیٹھا‪،‬‬

‫"یر ک بوں۔۔"‬
‫اس ہنک سے چاموش‬ ‫ش‬ ‫ا‬ ‫م‬‫گ‬‫ان کے سوال یر ہیٹم نے جن پظروں سے انہیں دیکھا م ناز نن‬
‫ِ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ہوگٹیں‪،‬‬

‫"احھا تھنک ہے صرف ایک یار دیکھ کر آچابی ہوں۔۔"‬


‫کافی دیر پعد وہ بو لنے کے البق ہوٹیں بو کہہ کر ایدر کی چانب یڑھیں یر ہیٹم نے ان کا ہاتھ یکڑلنا‪،‬‬

‫"ہمیشہ بو اس کی مرضی کے چالف کام کنا ہے۔۔۔اب اور نہیں۔۔"‬


‫اس کے اذ نت تھرے لہچے یر نےساچبہ مہناز ننگم کو رویا آیا‪،‬‬

‫‪121‬‬
‫"ننگم صاچبہ۔۔۔اگر اچازت ہو بو ایک یات کہوں۔۔"‬
‫چب سے چاموش کھڑی فرخندہ ہمت کر کے بولی بو وہ دوبوں اس کی چانب م بوجہ ہونے‪،‬‬

‫"ایک مرنبہ میں چاؤں ایدر۔۔"‬


‫اس نے عاچزانہ لہچے میں کہا جس یر ہیٹم پفی میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"وہ ہم سے نہیں ِمل رہی تم سے کنا ملے گی۔۔۔"‬


‫ٹ‬
‫مہناز ننگم تھنگی آیکھوں سمیت کہہ کر ہیٹم کے یرایر میں یٹھی بو فرخ ندہ ان دوبوں ماں ٹینے کو‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ک‬‫ی‬
‫افسوس سے د ھی‪،‬اب وہ آگے کنا تی کہ اس ل یف کے عرصے یں طیبہ سے کس چد یک‬
‫اسے انسیت ہوچکی تھی ک بویکہ سکندر وال میں ایک واچد وہی تھی جو ان لوگوں کی طرح ظالم نہ‬
‫تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہوش کی دننا میں قدم رکھنے اس کا سر یری طرح درد سے تھینے لگا تھا‪،‬معطل ہونے جواس کافی‬
‫دیر میں شیٹھلے نب اس نے جود کو رشبوں میں چکڑا یایا‪،‬نٹم وا آیکھوں کو تمشکل کھولتی وہ درد‬
‫کرنے سر کو حھنکی تھر آس یاس دیکھنے لگی‪،‬گھپ ایدھیرا تھا کہ اسے اننا ہاتھ یک نہ ِدکھا‪،‬آچری‬
‫مرنبہ وہ شیفی کے ساتھ اس کی کار میں تھی اور تھر‪،‬نندار ہونے ذہن میں حھماکا سا ہوا نٹھی‬
‫‪122‬‬
‫م ی‬
‫حھنکے سے کمل آ کھیں کھولتی وہ ہر چانب چہرہ موڑی ساتھ چئیر سے اتھنے کی کوشش کرنے‬
‫لگی مگر نےسود‪،‬رشبوں سے جس یری طرح اس کے وجود کو یایدھا گنا تھا وہ ہل یک نہ سکی‪،‬‬

‫"کوبی ہے۔۔؟"‬
‫جود کو حھڑوانے کی چد درجہ مزاحمت یر اس کے نندھے ہاتھوں میں رشبوں کے دیاؤ سے درد ہوا‬
‫نٹھی وہ زور سے خیجی‪،‬‬

‫"ہنلپ۔۔کوبی ہے نہاں یر۔۔؟‬


‫شیفی۔۔!!"‬
‫شیفی کا اچایک مبہ یر کسی یدبو دار کیڑے کا رکھنا یاد آیا بو غصے میں چلق کے یل چالبی‪،‬‬

‫"گنا تمہارا شیفی نہاں سے۔۔۔انتی محیت اس ایدھیرے کے جوالے کر کے۔۔۔"‬


‫تھاری دلکش مردانہ آواز تھی کہ قلذہ کجھ دیر یک بو سدید چیرت کی ک یف یت میں رہی لنکن چب‬
‫آواز نہچابی نب دھخکا لگا اسے‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل مراد۔۔!!"‬
‫ی‬
‫اس کے لب تھڑتھڑانے ساتھ ہی وہ ایدھیر کمرہ اچایک روشی بوں میں نہاگنا‪،‬قلذہ کی آ کھیں‬
‫ی م‬
‫خندھناٹیں تھیں‪،‬چہرہ موڑ کر آ کھیں یحتی وہ کجھ لمخوں پعد آہسنگی سے انہیں وا کربی سا منے‬

‫‪123‬‬
‫ش‬ ‫خ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ی‬
‫د ھی‪،‬گرے ہڈی یر لنک ٹی یٹ‪،‬آ تی ہا ھوں کو خ یب یں حھنانے وہ م صوص یراسرار م کراہٹ‬
‫سمیت اسے چئیر سے نندھے نےنس دیکھ رہا تھا‪،‬‬

‫"اوہ بو تم نے نہ سب کنا ہے۔۔"‬


‫س‬
‫ایک پظر جود کو قند دیکھ وہ لسینل یر گہری پظر ڈالتی بولی ساتھ ہی طیزنہ مشکرابی‪،‬‬

‫"رسی چل گتی یل نہیں گنے۔۔۔تم یر قِٹ ہے نہ مچاورہ یکواس لڑکی۔۔۔"‬


‫قدم یڑھایا وہ تمسجر سے مشکرایا بوال‪،‬قلذہ کو اس کے مچاورے سے زیادہ آچر میں یکواس لڑکی کہنا‬
‫ت‬
‫کھال نٹھی اس کی مشکراہٹ ھمی‪،‬‬

‫"اوقات میں رہو سلسب۔۔"‬

‫"اور تم لچاظ رکھو۔۔آچر کو نہبوبی ہوں تمہارا۔۔"‬


‫س‬
‫قلذہ کی یات کاننا وہ سخت لہچے میں کہہ کر آچر میں ہیشا‪،‬اس نے ن یفر سے لسینل کو دیکھ کر‬
‫جود کو حھڑوایا چاہا مگر بجھلی مرنبہ کی طرح یاکام رہی‪،‬‬

‫"کرلو کرلو۔۔تھنک سے کوشش کرو آزاد ہونے کی۔۔۔"‬


‫بوکٹ سے شنگرنٹ پکال کر الٹئیر سے چالیا وہ یرسکون سا بوال‪،‬‬

‫‪124‬‬
‫"یات شبو تم۔۔۔مجھے اتھی اسی وقت آزاد کرو نہیں بو تم سے نہیر کوبی نہیں چاننا کہ قلذہ‬
‫سکندر ا ننے یدلے کیسے لیتی ہے۔۔۔"‬
‫ُ‬
‫غصے سے کہتی وہ مچلی تھی‪،‬لہجہ ہ بوز گھم نڈ سے جور تھا‪،‬‬

‫"تمہارے تھابی نے تھی بونہی گھم نڈ دکھایا تھا تھر چانتی ہو کنا ِکنا اس کے ساتھ میں نے۔۔"‬
‫مشلشل شنگرنٹ سلگایا وہ اس سے بوحھا‪،‬قلذہ بوکھالبی تھی نہ یات سن کر‪،‬دماغ میں ہناد کا اس‬
‫رات اچایک عانب ہویا آیا اور نےساچبہ اس کا مبہ کھال کا کھال رہ گنا‪،‬‬
‫س‬
‫"تھابی۔۔تھابی کو عانب تم نے کنا۔۔تم نے کنا ِکنا ہے ان کے ساتھ لسینل مراد۔۔"‬
‫نےپقیتی میں یڑیڑابی وہ آچر میں چالبی تھی‪،‬‬

‫"زیادہ کجھ نہیں نس چال کجھ بوں ہے کہ نہ زیدوں میں کہالنے گا نہ مردوں میں۔۔۔"‬
‫قلذہ کے خیحنے کو چاطر میں نہ الیا وہ مزے سے سوخنا ہوا کہنے لگا‪،‬‬

‫"میں تمہیں مردے سے تھی یدیر کردوں گی۔۔۔سمجھا کنا ہے تم نے قلذہ سکندر کو۔۔۔"‬
‫س‬
‫طیش میں اسے گھوربی وہ لسینل کی نےیرواہی یر تھر خیجی‪،‬‬

‫"ایک انسی لڑکی جو ننا دل کے نندا ہوبی ہے۔۔۔ جسے یرواہ نہیں کہ اس کے جوبی رشنے اس کی‬
‫چرک بوں کی یدولت کس پکل یف سے گزرے ہیں۔۔۔ جسے صرف انتی جوشبوں کی یڑی رہتی ہے جو‬

‫‪125‬‬
‫ا ننے ایدر کی جشد میں چاکسیر ہوبی انتی نہن کو تھی نہ بحسی۔۔آو ایک حھوبی سی کلپ دکھایا ہوں‬
‫تمہیں۔۔"‬
‫چئیر کے ارد گرد چکر لگایا وہ زہر یلے لہچے میں بولنا انتی خ یب سے فون پکاال تھر خند کلکس کے پعد‬
‫سکرین قلذہ کے چانب کی‪،‬‬
‫س‬
‫"تم کوشش بو کرو ٹینا۔۔مجھے پقین ہے لسینل تمہارے گناہگار کو صرور سزا دلوانے گا۔۔"‬
‫سکرین یر درنہ ننگم اور عنادنہ کے نیچ کسی گف نگو کی ویڈبو چل رہی تھی‪،‬قلذہ ما تھے یر الپعداد یل‬
‫ک‬‫ی‬
‫لنے وہ ویڈبو د ھی‪،‬‬

‫"گرنتی اگر گناہگار اننا ہی ہو بو کنا ِکنا چانے۔۔۔نہیں معلوم تھا مجھے کہ میری عزیز نہن ہی‬
‫میری دسمن پکلے گی۔۔۔میں نہیں چانتی کہ آبی کو کنا تیر تھا مجھ سے۔۔۔مگر چب اس رات‬
‫ہوشینل یر میں نٹم ع بودگی میں تھی نب ان کا جوس میرے جوس میں بونے کابچ کے ذرات‬
‫گھولنا دیکھ میرا دل یری طرح بویا تھا ان کی چانب سے۔۔۔انہیں کوبی پکل یف تھی بو ننابی مجھے‬
‫لنکن نہبوں کے ساتھ انشا کون کریا ہے گرنتی۔۔۔"‬
‫ُ‬
‫تھرابی آواز میں درنہ ننگم کو اذ نت سے ننابی عنادنہ کو دیکھ قلذہ کی شتی گم ہوبی‪،‬اسے ع نادنہ کی‬
‫یابوں سے کوبی عرض نہ تھا ہوش بو اس کے عنادنہ کو بو لنے دیکھ اڑ رہے تھے‪،‬وہ چاہتی تھی کہ‬
‫اس لڑکی میں کوبی بو کمی ہو۔۔۔‪،‬یاکہ کم از کم کسی چیز میں جود کو اس سے یریر دیکھ دل کو‬
‫‪126‬‬
‫ک‬‫ی‬ ‫یکھ س‬
‫پ‬
‫ل کو د ھی جس کی ظریں‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫نشلی ملے مگر اب اس کا بولنا قلذہ نےپقین سے وہ ویڈبو د تی‬
‫ویڈبو یر ہی تھیں مگر یایرات ننارہے تھے کہ وہ اب بحسنے واال نہیں اسے‪،‬‬

‫وت گویابی سے مجروم ہوبی تھی میں مگر خند مہی بوں کے لنے۔۔۔ہر ہفنے یاکند سے ہونے‬ ‫"ف ِ‬
‫عالج نے کافی نہیری البی تھی مجھ یر لنکن ڈر تھا کہ کہیں آبی کو ننا نہ چل چانے اور وہ تھر‬
‫مجھے پقصان نہ نہیچانے نٹھی ان سالوں میں بونہی رہی۔۔۔"‬
‫درنہ ننگم اس کا کندھا تھیٹھنابی چپ کروارہی تھیں اسے مگر عنادنہ چا رویا نہ رکا‪،‬اس کے آگے‬
‫س‬
‫لسینل فون نند کریا خ یب میں رکھا تھا‪،‬عنادنہ یر جس دن اسے سک ہوا تھا اس ہی کہ کجھ دن‬
‫پعد وہ درنہ ننگم کے کمرے میں ایک کٹمرہ لگایا تھا یاکہ یات کی نہہ یک نہیچے‪،‬‬

‫"نہ۔۔نہ کیسے بول سکتی ہے۔۔"‬


‫سکبہ بو ننے یر قلذہ زی ِر لب یڑیڑابی‪،‬‬

‫"نہت جی لی تم قلذہ سکندر اب زرا دردیاک موت کا تھی بو مزہ چکھو۔۔"‬


‫س‬
‫پفرت سے کہنا لسینل ہاتھ میں تھامی شنگرنٹ قلذہ کے ن ندھے ہاتھ کی نست یر مشال‪،‬وہ خیجی‬
‫تھی پکل یف سے‪،‬‬

‫‪127‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔۔چابور ہوکنا۔۔؟"‬
‫س‬
‫چلن میں سدت آبی بو وہ غصے میں چالبی‪ ،‬لسینل حھک کر سرد پظروں سے اسے دیکھ کر‬
‫مشکرایا‪،‬‬

‫"تم نے میرا چابور ہویا دیکھا ہی کہاں ہے۔۔۔"‬


‫سرد لہچے میں کہنا وہ شندھا ہوا ساتھ ہی خند قدم کی دوری یر رکھی ٹینل کے یاس گنا‪،‬‬

‫"تمہارے تھابی یر میں نے اننا رحم صرور کنا تھا کہ وہ کم از کم خیخ کر ا ننے درد میں تھوڑی کمی‬
‫کرلے لنکن تم۔۔۔تمہاری گھینا کربوبوں کے زی ِر ایر میں میں تمہاری آواز شینا یک گوارا نہیں‬
‫کروں گا۔۔"‬
‫ل بوں یر طیزنہ مشکراہٹ سچانے وہ ہ بوز سرد ین سمیت بوال‪،‬قلذہ چیران سی اسے ٹینل یر سے‬
‫ی‬
‫ن یپ اتھانے ہونے د کھی تھی مگر لمخوں میں مقایل کی یات کا مطلب سمجھ آیا بو وہ خیجی‪،‬‬
‫س‬
‫"نہیں۔۔۔تم مجھے نہیں مارو گے۔۔۔حھوڑو مجھے لسینل تمہاری گناہگار میں نہیں تھابی‬
‫تھے۔۔کوبی ہے نہاں۔۔ہنل۔۔"‬
‫س‬
‫وہ جو قدم نہ قدم جود کے فرنب آنے اس سخص کو دیکھنے مچل کر چالنے لگی تھی لسینل کے‬
‫ل بوں یر ن یپ لگانے سے یری طرح گ ھیرابی‪،‬‬

‫‪128‬‬
‫م‬
‫"تمہیں ننا ہے آج مجھے نےچد سکون ملنے واال ہے کہ آج میرا یدلہ کمل ہوچانے گا۔۔۔"‬
‫اسے مچلنے دیکھ مشکرایا وہ وانس ٹینل کے یاس گنا اب دوبوں ہاتھوں میں گلوز نہینے کے پعد وہ‬
‫ٹینل یر رکھی حھری اتھایا تھر قلذہ کے یاس آیا اس کھنڈر کمرے میں کنارے یر رکھا ایک اشبول‬
‫گھسیٹ کر یلکل اس کے سا منے کنا‪،‬وہ تھتی آیکھوں سمیت مقایل کے اگلے قدم کا سوچ رہی‬
‫تھی‪،‬نٹھی حھری کی مدد سے اس کے ایک ہاتھ کو رسی کی قند سے آزاد کریا وہ قلذہ کا ہاتھ اشبول‬
‫ی‬ ‫س‬
‫یر رکھا‪،‬تیزی سے پفی میں سر ہالبی وہ لسینل کے ہاتھ میں حھری کو د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫"یافی چام بوں سمیت تم دوبوں تھابی نہبوں میں چانتی ہو ایک چامی اور کنا ہے۔۔۔"‬
‫اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے یکڑ کر اشبول یر رکھنا وہ حھری کی بوک آہسبہ آہسبہ ان کے گرد ماریا‬
‫ی‬
‫بوال‪،‬قلذہ کی تھنلی آ کھیں واصح کررہی تھیں اس کے ایدر کے جوف کو‪،‬اننا ہاتھ مقایل کی گرقت‬
‫سے حھڑوانے کی کوشش کربی وہ نےچد جوفزدہ لگ رہی تھی‪،‬‬

‫"کہ تم دوبوں کسی کی تھی زیدگی چراب کرنے سے نہلے ایک مرنبہ تھی نہیں سوخنے۔۔۔"‬
‫پفرت سے تھ یکاریا وہ رقنار یڑھایا تھا حھری کی چرکت کی‪،‬اس کے ہاتھ میں مفند قلذہ کا ہاتھ اب‬
‫یاقاعدہ کنکنانے لگا تھا‪،‬‬
‫ٰ‬
‫"امیر عرنب‪،‬عیر دوست ختی کہ سگے رشبوں کو تھی نہیں حھوڑنے ا ننے گھم نڈ میں چاالیکہ‬
‫اسکول میں نہ شبق یڑھا تھی ہوگا تم لوگوں نے کہ عرور کا سر نیچا ہویا ہے۔۔۔و نسے کینا احھا‬
‫‪129‬‬
‫ہوگا اگر آج اس شبق کی غملی پصویر میں تمہیں دکھاؤں۔۔۔"‬
‫تیزی سے حھری چالیا وہ یرسکون سا کہنا آچر میں حھنکے سے حھری شندھا قلذہ کے ہاتھ کی نست‬
‫ک‬
‫یر ن بوست کی اور قلذہ جو لگا اس کے جسم سے کسی نے روح ھییچ کی ہو‪،‬ایلی آیکھوں سمیت وہ‬
‫یڑبی تھی یری طرح خیحنے کے لنے مگر معانے افسوس ل بوں یر ن یپ مضبوطی سے لگے رہنے کے‬
‫یاعث اس کی آواز چلق میں ہی رہ گتی‪،‬‬

‫"آہ۔۔۔زیادہ درد بو نہیں ہوا یا تمہیں۔۔"‬


‫مضبوغی ہمدردی لہچے میں سمونے وہ ہیشا تھا قلذہ کی آیکھوں میں تیزی سے ایرنے آنسوؤں کو‬
‫دیکھ‪،‬‬

‫"تم روبی تھی ہو ورنہ مجھے بو لگا تھا نےجس ہو۔۔"‬


‫س‬
‫چہرے یر چیرت لنے لسینل بوحھا‪،‬حھری اب یک شندھ میں گھسی ہوبی تھی قلذہ کے ہاتھ میں‪،‬‬

‫"جود میں ہر صالخیت رہنے کے یاوجود ایدھے رہنے کی پکل یف چانتی ہو کنا ہوبی ہے۔۔۔"‬
‫وہ تھر بوحھا تھا ساتھ خ یب سے ایک شیسی پکاال‪،‬روبی ہوبی قلذہ پفی میں سر ہالنے لگی‪،‬تھنگی‬
‫آیکھوں میں عاچزی اتھری‪،‬وہ خیحنا چاہتی تھی‪،‬ہاتھ میں اتھنا درد چان پکال رہا تھا اور اب یاچانے‬
‫مقایل کنا کرنے واال تھا‪،‬اسے شیسی کھو لنے دیکھ قلذہ اننا چہرہ نیج ھے کرنے لگی‪،‬‬

‫‪130‬‬
‫"زیادہ نہیں۔۔۔نس زرا سا۔۔"‬
‫کہنے ہی وہ شیسی کھول کر زور سے اس کے ایدر مچلول کو قلذہ کے چہرے یر تھی یکا تھا‪،‬جویکہ وہ‬
‫ح‬
‫موفع یر چہرہ موڑ چکی تھی نٹھی مچلول زیادہ نہ گنا آیکھوں یر نس خند ھٹیٹیں گتی تھیں ایدر‪،‬آیکھ‬
‫میں اچایک ہوبی چلن نے قلذہ کو سدید اذ نت میں مینال کنا‪،‬اس یار جس یری طرح وہ یڑپ کر‬
‫ی م‬
‫مچلی تھی چئیر ہلنے ساتھ گری نیجھے کے چانب‪،‬آ کھیں یحتی وہ محسوس کرسکتی تھی انتی آیکھوں‬
‫سے پکلنے جون کو‪،‬ن یپ ہنا تھا ل بوں سے اور وہ چلق کے یل چالبی‪،‬‬

‫"نہیں مارو مجھے۔۔۔مجھے نہیں مریا۔۔"‬


‫اس کا خیحنا ایدر کے نےبچاشہ جوف کی غکاسی کنا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫"میں کونشا تمہیں مار رہا ہوں لڑکی۔۔لڑک بوں ہر ہاتھ اتھانے کا بو لسینل مراد جود قایل نہیں‬
‫ورنہ بو نہلے ہی جسر نہ پگاڑ کر رکھ دیا ہویا تمہارا۔۔۔"‬
‫س‬
‫اسے ننایا لسینل قلذہ کے زمین یر ر ک ھے ہاتھ کو دیکھ طیزنہ مشکرایا جس میں اب یک حھری لگی‬
‫ہوبی تھی‪،‬قدم اتھا کر وہ ا ننے شینکر رکھ کر دیاؤ ڈاال تھا اس حھری یر اور قلذہ کی وجست یاک خیخ‬
‫نے وہاں کی دبواروں کو ہالکر رکھ دیا‪،‬‬
‫س‬
‫"نہیں کرو۔۔مج ھے چانے دو۔۔۔ لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫تھٹھک کر روبی وہ فریاد سے بولی نٹھی لسینل اننا تیر ہنایا تھا حھری یر سے‪،‬ساتھ حھک کر حھنکے‬
‫‪131‬‬
‫سے حھری قلذہ کے ہاتھ سے پکالی‪،‬چد سے زیادہ پکل یف ہوبی تھی اسے نٹھی رونے ہونے تھر خیخ‬
‫س‬
‫یڑی خنکہ اس کے رونے سے نےنہرہ ننا لسینل اس حھری سے اب قلذہ کے دوسرے ہاتھ‬
‫کو رشبوں سے آزاد کنا‪،‬‬

‫"چلو چاؤ۔۔"‬
‫ک‬‫ی‬
‫قلذہ کو اننا درد تھوال تھا‪،‬نےپقین سی ہوکر وہ مقایل کو د ھی جس کے یایرات ل یحندہ ھے‪،‬‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫لک‬‫ی‬

‫"کنا سچ میں۔۔؟"‬
‫ً‬
‫اسے جیسے پقین نہ آیا تھا نٹھی انتی آیکھوں سے پکلنے ہلکے ہلکے جون جو فورا صاف کربی وہ بوحھی‪،‬‬

‫"چاؤ۔۔"‬
‫س‬
‫اس یار لسینل دہاڑا کہ وہ چلدی سے الجھی رشبوں سے جود کو پکالتی کھڑی ہوبی تھر آیکھ میں‬
‫ہوبی چلن تیز ہونے کو پظرایداز کر کے اننا زحمی ہاتھ سحتی سے یکڑبی کمرے کے دروازے کی‬
‫س‬
‫چانب تھاگی‪،‬چلد یازی میں وہ تھول چکی تھی کہ اس کے تیروں میں شینڈل نہیں‪ ،‬لسینل‬
‫چاموش پظروں سے اسے تھاگنا ہوا دیکھنے لگا‪،‬‬
‫خ ٹ‬
‫اتھی وہ دروازہ کھول کر یاہر ہی پکلی تھی کہ اچایک پکل یف سے یحتی یٹھتی چلی گتی‪،‬دروازے‬
‫کے غین یاہر بونے کابچ یڑے تھے جو اس کے تیروں کو یری طرح حھلتی کرگنے‪،‬‬

‫‪132‬‬
‫"ماما۔۔"‬
‫یلک کر روبی وہ خیجی‪،‬‬

‫"آرام سے لڑکی۔۔"‬
‫ی‬
‫جی بوں میں ہاتھوں کو ڈالے وہ اسے کرب سے آ کھیں میچے دیکھ کر بوال خنکہ اس کی تمسجر زدہ آواز‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ی‬
‫یر قلذہ آ کھیں نٹم وا کربی اسے د ھی‪،‬مقا ل کی آ ھوں یں خ بوان یت صاف واصح ھی جس یر‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ی‬

‫ڈربی وہ تیروں میں اتھتی ٹیسوں کے یاوجود لڑکھڑا کر اتھی‪،‬‬


‫س‬
‫"جہ۔۔چانے دو لسینل۔۔"‬
‫ہچکبوں سے روبی وہ جوتم جون ہونے تیروں کو نیجھے کرنے لگی ساتھ اچایک مڑبی تھاگی تھی وہاں‬
‫سے‪،‬اس کھنڈر سی چگہ سے کیسے تھی کر کے پکلتی وہ جوش ہوبی تھی کہ اس ص ناد کی قند سے‬
‫س‬ ‫ی‬
‫پکل آبی‪،‬کٹھی د کھی نہیں تھی وہ لسینل کی نہ شکل نٹھی آج نےچد جوفزدہ ہوبی تھی اس‬
‫سے‪،‬تمشکل قدم یڑھابی اب وہ لڑکھڑاکر سا منے روڈ یر چلنے لگی‪،‬ارد گرد پظر دوڑابی وہ ہر قدم یر ایک‬
‫آدھ پظر نیجھے ڈالتی چارہی تھی‪،‬‬

‫"مدد کرو۔۔۔کوبی ہے۔۔۔"‬


‫ی‬
‫کجھ دور آکر چب اس سے چال نہ گنا نب وہی روڈ کنارے ٹیٹھ کر وہ یلند آواز میں ہر طرف د کھتی‬
‫بولی‪،‬‬
‫‪133‬‬
‫"ماما۔۔"‬
‫ی‬
‫تیروں اور ہاتھ میں چب درد سدت یکڑا نب انتی جون ہوبی آ کھیں مشلتی سر حھکانے وہ یآواز‬
‫رونے لگی‪،‬‬

‫"زیادہ درد ہورہا ہے کنا۔۔۔؟"‬


‫ک‬‫ی‬
‫کافی دیر پعد تھر وہی تھاری آواز فرنب سے شنابی دی‪،‬قلذہ حھنکے سے سر اتھا کر سا منے د ھی‬
‫چہاں وہ انتی کار کے بونٹ سے ننک لگانے کھڑا تھا‪،‬‬

‫"نہی۔۔نہیں مار۔۔رو مجھے۔۔"‬


‫ششک کر روبی وہ اتھنے کی کوشش کی‪،‬زحمی آیکھوں سے نےاننہا وجست ایری تھی مقایل کے‬
‫خنابوں جیسے یایرات دیکھ‪،‬‬

‫"چلو نہیں ماریا۔۔۔ریلنکس ہوچاو لو تھوڑا یابی ن بو۔۔۔حھوڑ د ن نا ہوں تمہیں تھر تمہاری میزل‬
‫یک۔۔۔"‬
‫س‬
‫اسے جوف سے لرز کر کھڑے ہونے دیکھ لسینل ہاتھ میں تھامی یابی کی بویل اس یک‬
‫یڑھانے یرمی سے بوال‪،‬قلذہ نےپقین ہوبی‪،‬‬

‫"نت۔۔تم سچ میں۔۔نہ۔۔نہیں مارو گے۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے نےپقین لہچے یر لسینل پفی میں سرہالیا‪،‬نٹھی چلق میں کا ننے خٹھنے محسوس کرکے‬
‫‪134‬‬
‫قلذہ رک رک کر آگے یڑھتی اس سے یابی کی بویل لی‪،‬مقایل کے اچایک یرم یڑنے یایرات اسے‬
‫یک گونہ سکون بحسے تھے‪،‬نٹھی بویل ل بوں سے لگابی وہ ایک ہی گھونٹ میں یابی چلق میں ایارنے‬
‫ت‬
‫لگی لنکن اگلے ہی لمچے آدھی بویل نیچے ھینکتی قلذہ یری طرح کھایا کر انتی گردن یکڑی‪،‬اسے لگا وہ‬
‫اب اگلی سانس نہیں لے یانے گی‪،‬نہلے چلق میں نناس سے کا ننے خٹ ھے تھے مگر اب بوں‬
‫محسوس ہورہا تھا جیسے یاریک یاریک کابچ کے ذرات اس کا چلق کاٹ رہے ہوں‪،‬زیان تھی حھلتی‬
‫ہوبی جون سے تھری تھی‪،‬‬

‫"غہ۔۔عہغہہ۔۔"‬
‫س‬
‫تمشکل بو لنے کی شعی کربی وہ اچایک مبہ سے جون تھینکی‪ ،‬لسینل یاشف سے سرہالیا نیجھے ہنا‬
‫ساتھ ہی چاکر انتی کار میں ٹیٹھا‪،‬‬
‫ی‬
‫اسے کار شنارٹ کرنے دیکھ قلذہ کی آ کھیں تھنلیں‪،‬کبویکہ کار کی شندھ میں یلکل سا منے ہی وہ‬
‫کھڑی تھی‪،‬انتی گردن یکڑے وہ مشلشل مبہ سے پکلنے جون ہر قابو یانے چان بچانے کے عرض‬
‫تھاگی تھی‪،‬‬
‫س‬
‫آہسنگی سے کار چالیا لسینل جیسے ابخوانے کنا تھا اس کا تھاگنا‪،‬کجھ دور چاکر چب پکل یف سے‬
‫وہ یژمردہ سی ہونے لگی نب لڑکھڑاکر گری‪،‬چلق حھلتی‪،‬زحمی جون سے تھرے ہاتھ‪،‬کتی‬
‫زیان‪،‬آیکھوں میں یڑھتی چلن اور تھر تیر الگ مردہ سے ہونے لگے‪،‬اس میں اور ہمت نہیں‬
‫‪135‬‬
‫س‬
‫تھی‪ ،‬لسینل کو کار روکے دیکھ قلذہ کو نہلی یار لگا کہ موت اس کے نےچد فرنب ہے‪،‬وہ زیدہ‬
‫رہنا چاہتی تھی‪،‬اسے نہیں مریا تھا نٹھی نےنسی سے خیحنے کے لنے آواز پکالی مگر معانے افسوس‬
‫صرف مبہ سے جون کے کجھ نہ پکال‪،‬یڑپ کر وہ انتی گردن دیانے پکل یف میں کمی کی کوشش‬
‫کرنے لگی‪،‬اسے تھر کار شنارٹ کرنے دیکھ قلذہ یری طرح رونے پفی میں سرہالبی‪،‬جون ہوبی‬
‫آیکھوں میں یڑپ اتھری‪،‬وہ کرالبی تھی جیسے تھنک مایگی ہو زیدگی کی‪،‬‬
‫س‬
‫نٹھی انتی کار کو نیجھے لی نا لسینل تھر تیزی میں آگے یڑھایا ساتھ ہی نیچے گری ہوبی قلذہ کا وجود‬
‫آگے پکلتی نہاڑبوں میں گم ہوا‪،‬جون کے حھٹینے آس یاس کے درخ بوں میں یڑے تھے اور وہ‬
‫حھنکے سے کار روکنا سر اشیئیریگ ویل سے پکاگنا‪،‬گہری سانس لینا وہ جیسے آج یرسکون ہوا تھا مگر‬
‫ل بوں یر نہری مشکراہٹ تھم کر وخنہہ چہرے یر کرب تھرے یایرات البی‪،‬آتھ سال نیجھے چایا وہ‬
‫آج تھی ا ننے عزیز یاپ کے سرمندہ ہونے یر یڑپ اتھا تھا‪،‬نےفصور ہونے ہونے تھی چب‬
‫اس یر الزامات لگانے گنے نب کس قدر مراد صاچب ہنک و سرمندگی محسوس کنے تھے‪،‬یر انہوں‬
‫س‬
‫نے اسے کجھ نہ کہا نس جو مان انہیں لسینل ہر تھا وہ بویا تھا اور تھر ایک رات خنکے سے وہ‬
‫دننا قابی سے کوچ کرگنے‪،‬آج سدت سے اسے ان کی یاد آبی تھی کہ اگر کو وہ اب ہونے بو‬
‫س‬
‫لسینل انہیں صرور پقین دالیا کہ اس نے کٹھی ان کا پقین ان کا تھروشہ نہیں بوڑا تھا یلکہ‬
‫س‬
‫اس کے چاسدوں نے اسے بوڑ کر رکھ دیا تھا‪،‬اننا فون مشلشل بحنے محسوس کرکے لسینل خ یب‬
‫‪136‬‬
‫سے مویایل پکاال تھر ننا سکرین یر پظر کنے وہ فون سوبچ آف کردیا‪،‬آج کی رات وہ یلکل ننہا رہنا‬
‫چاہنا تھا‪،‬ا ننے یاپ کو یاد کر کے ان کا سوخنے وہ نہیں چاہنا تھا اسے کوبی زرا تھی یرنشان‬
‫کرے‪،‬‬
‫ی‬
‫شیٹ کی نست سے ننک لگایا وہ آ کھیں موید گنا اور نٹھی کابچ آیکھوں سے خند موبی بوٹ کر‬
‫ً‬ ‫س‬
‫اس کی کٹیتی یر چذب ہونے‪ ،‬لسینل اذ نت سے مشکرایا‪،‬چاننا تھا نہ آنسو ک بوں نہے‪،‬پقینا اس‬
‫ن‬
‫اع خنات اس کے گھر نہ ہیحنے یر یرنشان ہوبی روبی ہوگی مگر آج وہ اس کے یاس نہیں‬ ‫کی من ِ‬
‫چاسکنا تھا‪،‬وہ آج یلکل اکنال رہنا چاہنا تھا کہ آج اس نے بورا کرل نا تھا اننا یدلہ‪،‬اسے پقین تھا کہ‬
‫اگر عنادنہ رونے گی بو صرور درنہ ننگم اسے شیٹھال لیں گی اس ہی وجہ سے وہ نےقکر ہوا تھا‬
‫عنادنہ کی چانب سے‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ن‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ش‬‫ل‬ ‫س‬ ‫ی‬‫ک‬ ‫ت‬ ‫گ‬‫ل‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل کو‬ ‫رات تھر ان د ھی آگ یں تی وہ نےبچاشہ روبی ھی‪،‬نےفرار ہوبی تی مرنبہ‬
‫م‬
‫کال تھی کی مگر دوسری چانب سے تمیر نند چارہا تھا‪،‬کل وہ پکاح کنا ہوگا شنا ِیل سے اور تھر رات‬
‫تھر اس سے آگے عنادنہ سے سوچا نہ گنا‪،‬اسے اننا وجود اپگاروں کے زد میں محسوس ہوا تھا‪،‬اس‬
‫مح بوب سخص کی شٹم طرپفی یر ماتم کناں وہ تھوٹ تھوٹ کر روبی تھی اور اب سوگ سی ک یف یت‬
‫‪137‬‬
‫ٹ‬
‫میں سر صوفے سے لگانے وہ سوجی آیکھوں سمیت یٹھی تھی‪،‬سورج کی کرٹیں قدآور کھڑکی سے‬
‫ایدر آبی بورے کمرے کو روسن کررہی تھی مگر عنادنہ کو لگا اب اس کا بجھ کر ایدھیر ہویا دل تھر‬
‫کٹھی روسن نہ ہوسکے گا‪،‬درنہ ننگم اسماء سے کہہ کر رات کو اسے کھانے یر تھی یالٹیں تھی مگر‬
‫وہ دروازہ نہ کھولی‪،‬یرنشان ہوکر انہوں نے جود دروازہ بچایا مگر عنادنہ ہر چیز سے نےنہرہ نس روبی‬
‫گتی تھی‪،‬‬
‫س‬
‫عنادنہ کے دروازہ نہ کھو لنے یر یرنشان درنہ ننگم لسینل کو کال کی تھیں مگر اس کا تھی تمیر‬
‫نند تھا‪،‬ایک عنادنہ کی چانب سے نٹیشن بو دوسرا شنا ِیل کا اچایک گھر سے عانب ہویا انہیں‬
‫دوہری یرنشابی میں مینال کنا‪،‬رات تھر ان سب کے یاعث یرنشان رہتی وہ تمشکل آدھی رات کو‬
‫اسماء کی صد یر سونے گٹیں اور اب تھر صیح ہال میں آبی وہ اسماء سے عنادنہ کا بوحھ رہی‬
‫س‬
‫تھیں نٹھی مٹیشن میں داچل ہونے لسینل ہر ان کی پظر یڑی‪،‬‬

‫کل کے یانسیت آج وہ نہت چد یک یارمل لگ رہا تھا‪،‬ہڈی کی چگہ اب ن بوی یلو سرٹ اور گرے‬
‫ٹی یٹ نے لی تھی‪،‬وخنہہ چہرے یر یال کی شیحندگی لنے ایدر آیا وہ کجھ چیران ہوا مقایل کھڑی درنہ‬
‫ننگم اور اسماء کے چہرے یر یرنشان یایرات دیکھ‪،‬‬
‫س‬
‫"کہاں تھے لسینل۔۔۔رات تم گھر تھی نہیں آنے اور فون ک بوں نند تھا تمہارا۔۔"‬
‫س‬
‫اس یر پظر یڑنے ہی درنہ ننگم چلدی سے لسینل کے یاس آکر یرنشابی سے اشیفشار کیں‪،‬‬
‫‪138‬‬
‫"کجھ صروری کام کے یاعث گھر نہ آشکا گرنتی اور فون میں ٹئیری خٹم ہوگتی تھی۔۔"‬
‫س‬
‫انہیں رسان یت سے سمجھا کر لسینل صوفے یر ٹیٹھا‪،‬‬

‫"شنا ِیل چا ننے ہو کہاں ہے۔۔۔لڑکی یاچانے کہاں چلی گتی اچایک۔۔۔"‬
‫ی‬
‫یرنشان ہوکر کہتی وہ ششلینل کے وخنہہ چہرے کو د کھیں‪،‬‬

‫"وہ چہاں تھی ہے جوش ہے۔۔۔"‬


‫اس کا یرسکون لہجہ درنہ ن نگم کو جوپکا گنا‪،‬‬
‫س‬
‫"مطلب۔۔نناو تھی لسینل گ ھیراہٹ ہوبی ہے مجھے ادھوری یابوں سے۔۔کدھر ہے وہ۔۔؟"‬
‫س‬
‫ان کے چد درجہ یرنشان ہونے یر لسینل کھڑا ہوا تھر درنہ ننگم کا ہاتھ تھام کر انہیں صوفے‬
‫یر ٹیٹھایا‪،‬چاننا تھا زیادہ سیرنس لینے سے ان کی طی یعت یگڑنے لگے چابی ہے‪،‬نٹھی شنا ِیل کے‬
‫م‬ ‫م‬ ‫م‬
‫یارے میں کل کا کمل وافعہ انہیں گوش گزار کریا طمین کنا‪،‬اس کی کمل یات شینے کے پعد‬
‫درنہ ننگم نے اس کے سب حھنانے یر کجھ خقگی کا اظہار کنا مگر شنا ِیل کی کہی یات چب‬
‫ً‬ ‫س‬
‫لسینل نے انہیں ننابی نب وہ مشکرادیں تھر اچایک ذہن میں حھماکا ہوا اور وہ فورا گویا ہوٹیں‪،‬‬

‫"تم رات گھر نہیں آنے۔۔۔چا ننے ہو عنادنہ رات سے کمرے میں نند ہے۔۔۔کھایا بو دور کی‬
‫یات وہ آواز یک نہیں دے رہی میرے پکارنے یر۔۔"‬
‫س‬
‫تھر قکرمندی سے درنہ ننگم نے کہا جس یر لسینل کے یایرات یل میں یدلے‪،‬اگلے ہی لمچے وہ‬
‫‪139‬‬
‫ننا کجھ کہے کھڑا ہویا تیزی میں ا ننے کمرے کی چانب گنا‪،‬دروازہ یاک کریا اس نے صروری نہ‬
‫سمجھا‪،‬خ یب سے ِکی پکال کر حھنکے سے دروازہ کھوال تھا اس نے اور پظر شندھا کنارے یر صوفے‬
‫سے ننک لگابی جشک آیکھوں سے ح ھت کو گھوربی اس مح بوب لڑکی یر گتی‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫سرخ عارض یر آنسوؤں کے جشک نشان واصح ہونے تھے نٹھی اسے پکاریا لسینل آگے یڑھا‪،‬ایک‬
‫س‬
‫یل جو لسینل کا دل عح یب ہوا کہ کہیں اسے ہناد یا تھر قلذہ کی موت کا نہ ن نا چل گنا ہو‪،‬‬
‫ک‬‫ی‬
‫مابوس آواز یر نےیایر پظریں نیچے کربی وہ ا ننے فرنب آنے شٹمگر کو د ھی‪،‬‬

‫"ایک رات نہیں آیا بو کنا چال ننالنا تم نے۔۔"‬


‫چیرت سے کہنا وہ حھک کر اس کے یاس ٹیٹ ھا ساتھ عنادنہ کا چہرہ تھا منے لگا مگر غصے میں اس‬
‫کا ہاتھ حھنکتی عنادنہ اتھ کھڑی ہوبی‪،‬‬

‫"حھوبی محیت کا ڈرامہ نہیں کریں اب۔۔۔جو کریا تھا وہ بو کرہی چکے آچر۔۔۔"‬
‫کل صیح وہ پکال دوسرے کیڑوں میں تھا اور اب اس کے یدلے کیڑے دیکھ عنادنہ کو جو زرا سی‬
‫امند تھی اس سے وہ تھی بوبی‪،‬وجود میں تھانٹ ھڑ سے چلے تھے‪،‬نٹھی طیش میں آبی وہ چالبی‪،‬‬

‫‪140‬‬
‫"نہلی یات حھوبی محیت نہیں انشان ہونے ہیں اور دوسرا اب کنا خطا ہوگتی تمہارے سوہر سے‬
‫جو اس قدر آنے سے یاہر ہورہی ہو۔۔۔"‬
‫وہ چاننا تھا رات تھر اس کے گھر نہ آنے کے یاعث عنادنہ اب تھری یڑی ہے غصے‬
‫س‬
‫سے‪ ،‬لسینل کو انتی علطی کا سدت سے اجشاس ہوا کہ کاش وہ دونہر میں ہی اسے کال ہر‬
‫نناد ن نا کہ رات وہ گھر نہ آسکے گا‪،‬قلچال یات کو مذاق کا رخ د ن نا وہ مشکراکر بولنا آگے یڑھا‪،‬‬

‫"یلکل۔۔۔حھونے انشان ہونے ہیں تھنک آپ کی طرح جو جود بو محیت کریا چا ننے نہیں مگر‬
‫دوسروں کی محیت کا مذاق نناکر ان کے چذیات کو رویدیا نہت نہیر طر پقے سے چا ننے ہیں۔۔"‬

‫مقایل کے لہچے میں مذاق محسوس کرکے اس کا غصہ اور آسمان یر چڑھا تھا‪،‬یارہ ہابی ہونے یر وہ‬
‫س‬
‫خیجی‪ ،‬لسینل کے یایرات یگڑے عنادنہ کے نہ القاظ سن کر‪،‬‬

‫"میں چاننا ہوں میری علطی ہے یر عنادنہ القاظ کا انیچاب سوچ سمجھ کر کرو۔۔کب میں نے‬
‫تمہارے چذیات کو رویدا۔۔"‬
‫اننا لہجہ سخت ہونے سے روکے وہ عنادنہ کے سرخ چہرے کو دیکھ بجمل سے بوال‪،‬‬

‫"سوچ سمجھ ہی بو حھین لی آپ کے غمل نے۔۔۔انتی مطلب کے عرض نہیں چانتی تھی اننا‬
‫گریں گے آپ۔۔۔"‬

‫‪141‬‬
‫"لڑکی کونسی گری ہوبی چرکت کی ہے میں نے۔۔۔"‬
‫س‬
‫اب لسینل لہچے کو سخت ہونے سے نہ روک یایا مگر اگلے ہی لمچے یرم یڑا عنادنہ کی آیکھوں میں‬
‫تمی کی حھلک دیکھ‪،‬‬

‫"مجھے نناٹیں کہاں تھے رات تھر آپ۔۔۔؟"‬


‫س‬
‫اس کا سرخ چہرہ چد سے زیادہ ضیط کی گواہی دے رہا تھا‪،‬اب لسینل کجھ جوپکا‪،‬‬

‫"کجھ۔۔صروری کام تھا۔۔"‬


‫ح‬
‫اس عرصے میں نہلی مرنبہ وہ ھجھکا‪،‬آچر ڈر جو تھا کہ کہیں مقایل کھڑی اس مح بوب لڑکی کو قلذہ‬
‫کے م یعلق سچ نہ معلوم ہوچانے‪،‬‬

‫"رات کو آپ کورٹ میں گنے۔۔۔ک بوں۔۔؟"‬


‫تم ہوبی آواز میں وہ تھر بوحھی‪،‬سوجی ہوبی آیکھوں میں ایک مرنبہ تھر تیزی سے تمی ایرنے‬
‫ً‬ ‫س‬
‫لگی‪،‬ادھر لسینل اس کی سرخ آیکھوں سے آنسو لڑھکنے دیکھ فورا آگے یڑھا‪،‬‬

‫"کہاں یا کجھ صروری کام تھا میں پعد میں نناؤں گا۔۔قلچال نہ آنسو۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات نیچ میں رکی چب وہ سدید غصے کے عالم میں اسے دھکا دے کر جود سے دور کی‬
‫ساتھ ہی تھرابی ہوبی آواز میں خیجی‪،‬‬

‫‪142‬‬
‫"اور کینا حھناٹیں گے آپ۔۔۔غقان نے سب ننادیا ہے کہ کنا صروری کام تھا آپ‬
‫کو۔۔۔اس شنا ِیل سے پکاح کنا ہے یا آپ نے کل کورٹ میں اور تھر رات تھر۔۔"‬
‫اس سے آگے عنادنہ سے بوال نہ گنا‪،‬گلے میں آنسوؤں کا تھندا اپکا تھا اور وہ اننہابی کرب سے ا ننے‬
‫مقایل اس آدمی کو تھنگی آیکھوں سے دیکھنے لگی جو اس سے نےنناہ محیت کا دغویدار تھا یر اب‬
‫اس نے کنا ِکنا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫دوسری چانب عنادنہ کی یات یر لسینل یکدم چپ سا ہوا تھا‪،‬اور ہویا تھی ک بوں نہ کجھ کہنے کو‬
‫جیسے شٹھی القاظ گم جو ہو چکے تھے‪،‬کابچ مانند آیکھوں میں نےپقیتی اتھری‪،‬خنکہ یایرات سدید چیرت‬
‫میں یدلے‪،‬اسے لگا عنادنہ نے ا ننے لقظوں کے غوض اس کی خ بوبی محیت کو یل میں ننالم کر‬
‫کے رکھ دیا ہو‪،‬وہ انشا سوچ تھی کیسے سکتی تھی اس کے یارے میں‪،‬‬

‫"بولیں یا۔۔۔اب بو لنے ک بوں نہیں۔۔۔حھ یکا لگا یا میرے مبہ سے ا ننے ا نسے کاریامے سن۔۔"‬

‫"عنادنہ۔۔۔!!"‬
‫س‬
‫اس کی یات کاٹ کر لسینل دہاڑا تھا‪،‬تھاری ہاتھ اتھا مگر جود یر قابو کریا وہ غین وقت یر رکا‬
‫تھا‪،‬دوسری چانب عنادنہ بونہی غصے میں کھڑی اسے گھور رہی تھی‪،‬‬
‫س‬
‫لسینل کا چہرہ ہنک سے سرخ ہونے لگا‪،‬کشادہ ٹیشابی یر اتھربی نسیں اس کے ایدر امڈنے‬
‫اشیعال کی غکاسی کرنے کو کافی تھیں‪،‬معلق ہاتھ کو نیچے کریا وہ درنہ ننگم کی آواز یر نیجھے ہوا‪،‬‬
‫‪143‬‬
‫س‬
‫"کنا ہوا ہے لسینل ک بوں خیخ رہے ہو تم دوبوں۔۔۔"‬
‫چب سے وہ ان دوبوں کو اکنلے یات کرنے کے عرض حھوڑیں تھیں اور اب کمرے سے سور کی‬
‫آواز وہ ایدر آبی بوحھیں‪،‬‬

‫"بوحھیں گرنتی ان سے۔۔۔کنا کاریامہ سر ابچام دیا ہے کل رات انہوں نے۔۔۔"‬


‫گ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ننگ ی‬
‫ٹ‬ ‫ش‬ ‫م‬
‫درنہ م کو د تی وہ صے یں بولی جس یر بچانے درنہ م چیران ہونے کے م کرا یں‪،‬‬

‫"بو اس یات یر غصہ ہو۔۔۔ٹینا غصے والی یات بو ہے کہ اس نے ہمیں ننا ننانے شنا ِیل کا‬
‫پکاح کروایا غقان سے۔۔یر چیر حھوڑو۔۔و نسے تھی شنا ِیل ہمیں سریرایز د ن نا چاہتی تھی بجی کا بورا‬
‫سریرایز چراب ہوگنا۔۔۔"‬
‫ننا عنادنہ کے رونے چہرے کو بوٹ کرٹیں درنہ ننگم مشکراکر نناٹیں تھیں خنکہ عنادنہ تھٹھک‬
‫م‬
‫گتی‪،‬الجھ کر وہ درنہ ننگم کی کمل یات شتی نٹھی ذہن میں نہ یات آبی کہ سام غقان سے یات‬
‫س‬
‫کے دوران اس نے صرف پکاح کا شنا تھا‪ ،‬لسینل کا شنا ِیل سے پکاح ہویا انشا بو وہ کجھ نہیں‬
‫ی‬ ‫س‬
‫شتی تھی اور نٹھی وہ تھنلیں آیکھوں سمیت لسینل کو د کھی‪،‬وخنہہ چہرہ الل تھ بوکا ہوا تھا‪،‬ضیط‬
‫سے چیڑے تھییچا وہ عنادنہ کو گھور کر پکال تھا کمرے سے تھر شندھا مٹیشن سے ہی یاہر پکلنا‬
‫چالگنا‪،‬‬

‫‪144‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"فرخندہ۔۔۔!"‬
‫صیح مہناز ننگم تھر فرخندہ کے ساتھ آ ٹیں تھیں‪،‬رات تھر وہ ہاشینل میں رکا تھا اور اب وہ لوگ‬
‫کافی دیر سے وہی یر ٹیٹھے ہونے تھے نٹھی آچر کار نےجین ہویا ہیٹم فرخندہ کو پکارا‪،‬‬

‫"جی صاچب۔۔"‬

‫"چاؤ تم ایدر۔۔"‬
‫اس کی یات یر چہاں مہناز ننگم چیران ہوٹیں وہی فرخندہ جوسی سے سر اننات میں ہالبی‪،‬‬

‫"یر ہیٹم م یع کنا ہے اس نے۔۔"‬

‫"ماما یلیز۔۔۔اس کا غصہ ہم یر ہے فرخندہ یر نہیں۔۔۔"‬


‫نےجیتی سے انتی گردن مشلنا ہیٹم دبوار سے ن نک لگایا‪،‬مہناز ننگم چپ ہوٹیں تھیں‪،‬نٹھی فرخندہ‬
‫ان دوبوں کو چاموش دیکھ وارڈ کے ایدر داچل ہوبی‪،‬سا منے ہی لیتی وہ شناٹ یایرات سمیت ح ھت‬
‫کو گھوررہی تھی‪،‬جوپصورت چہرہ زردی مایل ہوخکا تھا خنکہ ایک دوسرے میں لب بوں ن بوست تھے‬

‫‪145‬‬
‫جیسے صدبوں یک نہ بو لنے کی فسم کھابی ہو‪،‬آیکھوں کی سکڑی ننلناں اور نےیایر چہرہ کسی گہری‬
‫سوچ کی غکاسی کنا تھا‪،‬‬

‫"بی بی۔۔"‬
‫فرخندہ پکاربی آگے یڑھی مگر دوسری چانب وہ ہ بوز ح ھت کو گھوربی رہی‪،‬اس کے شناٹ یایرات اور‬
‫سرمتی آیکھوں میں یرف کا یایر دیکھ ایک یل کو فرخندہ کو پقین ہی نہ آیا کہ وہ مطیبہ ہی ہے‪،‬‬

‫"بی بی کیسی ہیں۔۔؟"‬


‫اس نے تھر پکار کر بوحھا جس یر ح ھت کو گھوربی مطیبہ نے شناٹ پظریں اس کی چانب‬
‫کیں‪،‬فرخندہ کی یرحم پظروں کو دیکھ شناٹ یایرات اذ نت میں یدلے‪،‬نےساچبہ ہاتھ ن یٹ یر گنا‬
‫اور آیکھ سے خنکے سے پکلنا ایک موبی یکنے یر چذب ہوا‪،‬اس کی اذ نت سے وافف فرخندہ سدید‬
‫نسٹمان ہوبی‪،‬‬

‫"میری علطی تھی کم نہیں تھی بی بی۔۔۔کاش کہ اس دن میں آپ کو ہناد صاچب کے‬
‫ح‬‫ی‬ ‫ک م تھ‬
‫مرے یں نہ تی۔۔"‬
‫سر حھکا کر کہتی وہ نہت بجھنابی تھی‪،‬اس کی یات شیتی مطیبہ کے ل بوں یر تمسجر تھنال‪،‬‬
‫ل‬
‫"فصور تمہارا نہیں تھا فرخندہ۔۔میری پقدیر میں کھی تھی وہ سزا جو ایک علط انشان کی محیت میں‬
‫گرقنار ہونے سے ملتی ہے اور میں جوش ہوں کہ مجھے وہ سزا مل گتی۔۔۔اب سزا خٹم بو محیت‬
‫‪146‬‬
‫تھی خٹم۔۔"‬
‫م‬ ‫ٹ‬ ‫ھ‬ ‫ح‬‫ی‬‫نہ‬
‫نےجسی کی اننہا کو تی وہ د می آواز یں بولی‪،‬‬

‫"میرا ایک کام کرو گی۔۔"‬


‫ً‬
‫کافی دیر کی چاموسی کے پعد وہ بوحھی‪،‬فرخندہ فورا آگے یڑھی‪،‬‬

‫"جی کہیں یا بی بی۔۔۔"‬


‫اس کے چلدی سے کہنے یر مطیبہ نے کجھ دیر چپ رہنے کے پعد جو کہا وہ سن کر فرخندہ کا چہرہ‬
‫بجھا مگر جویکہ وہ چامی تھری تھی بو اپکار یاممکن تھا نٹھی اننات میں سر ہالبی وارڈ سے پکلی‪،‬‬

‫"یات ہوبی تمہاری۔۔کیسی ہے وہ۔۔۔؟"‬


‫اس کے پکلنے ہی ہیٹم نےفرار ہویا کھڑا ہوا ساتھ اس سے بوحھا‪،‬‬

‫"صاچب وہ یات ہی نہیں کررہی ہیں۔۔"‬


‫ہلکی آواز میں بول کر وہ پگاہ چرابی مہناز ننگم کے یرایر میں چا کھڑی ہوبی‪،‬سدید نےجیتی کی چالت‬
‫میں ہیٹم انتی ٹیشابی مشلنا ٹیٹھا‪،‬دل کسی ظور سکون میں نہیں آرہا تھا‪،‬ان مہی بوں میں کینا یڑیا تھا‬
‫وہ‪،‬مگر اب۔۔۔‪،‬اب اس لڑکی کی چاموسی یر نےسکوبی ہی نےسکوبی ہوبی اسے‪،‬‬

‫‪147‬‬
‫"میں نے کہا تھی تھا کہ وہ چب ہم سے نہیں مل رہی بو اس سے کنا ملے گی۔۔"‬
‫دکھی لہچے میں کہہ کر مہناز ننگم ہیٹم کی نست تھیٹھناٹیں چب انہیں لگا کہ وہ رونے کو ہورہا‬
‫ی‬
‫ہے‪،‬انتی سرخ آ کھیں مشلنا وہ مٹھی ل بوں یر حمانے زمین کو گھورنے لگا‪،‬یار یار آیکھوں میں تمی‬
‫انتی حھلک دکھارہی تھی یر وہ نہیں رویا چاہنا تھا نٹھی آنسو پکلنے سے نہلے ہی انہیں صاف کرگنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کے چانے کے پعد عنادنہ درنہ ن نگم کو انتی علط سوچ سے آ گاہ کربی روبی تھی‪،‬انتی کم غقلی‬
‫یر وہ جینا سرمندہ ہوبی اننا کم تھا‪،‬دوسری چانب درنہ ننگم کو تھی چیرت کے ساتھ ساتھ افسوس‬
‫س‬
‫ہوا عنادنہ کی سوچ یر‪،‬انہوں نے اسے شیحندگی سے ا ننے کنے کی معافی لسینل سے ما یگنے کا‬
‫کہا تھا‪،‬جس یر وہ چامی بو تھری تھی مگر جوف تھی تھا مح بوب کے غصے کا‪،‬‬

‫صیح کا گنا رات دیر سے وہ گھر لویا‪،‬درنہ ننگم سے مل کر کمرے میں داچل ہوا‪،‬کوٹ ایار کر‬
‫ٹ‬ ‫م‬
‫ہینگ کریا وہ کمل نےن ناز ننا تھا صوفے یر یٹھی ک یف بوز سی عنادنہ سے‪،‬کٹھی وہ یاراض نہ ہوا تھا‬
‫بو ع نادنہ الجھ کر سوخنے لگی کہ کیسے منایا چانے‪،‬کافی دیر یک سوچ میں مخو عنادنہ جویکی چب وہ‬
‫نہاکر واسروم سے پکال‪،‬وانٹ یراؤزر یر گرے ونسٹ نہنے وہ ڈرنسنگ مرر کے سا منے کھڑا تھنگے‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫یالوں یر کومب کرنے لگا‪،‬عنادنہ جور پظروں سے اسے د تی جود یں ہمت نندا کی‪،‬‬
‫م‬
‫‪148‬‬
‫"کھایا کھایا آپ نے۔۔؟"‬
‫کجھ نہ سجھابی دیا بو چلدی سے نہ سوال کی‪،‬دوسری چانب سے جواب یدار‪،‬وہ ا ننے چہازی سایز‬
‫َ‬
‫ننڈ یر چا لینا ساتھ ساننڈ لٹمپ آف کنا‪،‬عنادنہ کو اس کی گھمئیر چاموسی نہت کھلی‪،‬‬
‫ی‬
‫لب کانتی وہ تھی النٹ آف کر کے ننڈ یر آبی‪،‬مقایل چت لینا آ کھیں موید خکا تھا‪،‬وخنہہ چہرے‬
‫یر نٹھر یلے یایرات نے عنادنہ کو تھوک پگلنے یر مح بور کنا‪،‬تھوڑا سوچ بچار کے پعد وہ ننڈ یر لیٹ‬
‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫گتی تھر گردن موڑ کر لسینل کو د ھی‪،‬ایک یازو ننڈ یر میشہ کی طرح ھ النے بو دوسرا سر کے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫نیچے ر ک ھے وہ کشادہ ٹیشابی یر سکبوں کا چال لنے ساید سونے کی کوشش میں تھا‪،‬روز کی طرح‬
‫س‬
‫عنادنہ اس کے فرنب ہوبی تھر ل بوں یر زیان ت ھیربی لسینل کے آہتی یازو یر اننا سر رکھی ساتھ‬
‫س‬ ‫ی‬
‫اننا دودھنا ہاتھ اس کے کشادہ شینے یر رکھ کر آ کھیں موید گتی مگر اس یار لسینل نے اسے‬
‫ت‬
‫عادت کے یرچالف جود میں ھییحنے کے بچانے اس کا ہاتھ ا ننے شینے یر سے ہنایا ساتھ اننا یازو‬
‫اس کے سر کے نیچے پکال کر دوسری کروٹ ہوگنا‪،‬وہ کٹھی اس سے انشا رونہ نہیں رکھا تھا نٹھی‬
‫اب اسے جود سے اخٹی یت یرنے دیکھ عنادنہ روہانسی ہوبی‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔۔سوری۔۔"‬
‫س‬
‫اس سے اور فرنب ہوبی وہ لسینل کی نست یر اننا سر پکانے لیٹ گتی‪،‬کالی آیکھوں سے پکلنے‬
‫س‬
‫آنسو جوب محسوس ہونے تھے لسینل کو انتی نست یر‪،‬‬
‫‪149‬‬
‫"میں نے نہت علط کنا نہت یری ہوں میں یر آپ بو ا حھے ہے یا۔۔۔معاف کردیں۔۔"‬
‫ی‬
‫ایدھیرے میں عنادنہ کی تھنگی آواز شینا وہ انتی مویدی آ کھیں وا کنا‪،‬نست سے وہ سحتی سے‬
‫مقایل کے گرد ا ننے دوبوں یازوؤں کو چایل کنے یکڑی ہوبی تھی جیسے کھونے کا ڈر ہو‪،‬‬

‫"تم یری ہو اس میں کوبی سک نہیں اور زرا قاصلے یر ہو۔۔۔ہر یار نہ سب احھا نہیں لگنا۔۔"‬
‫شناٹ یایرات سمیت نےرحمی سے کہنا وہ یآسابی عنادنہ کے کہے القاظ آج اس ہی یر لویایا‬
‫تھا‪،‬لمخوں میں روبی صورت نتی تھی ع نادنہ کی اسے اننا ہاتھ حھنک کر جود سے دور ہونے دیکھ‪،‬‬
‫س‬
‫"نہیں کریں اس طرح لسینل۔۔۔میں ہرٹ ہورہی ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫اس کے دور ہونے یر تھر فرنب ہوبی وہ اب لسینل کے آہتی یازو یر انتی تھوڑی پکانے بولی‪،‬‬

‫"اگر تمہیں نہی سب کریا ہے کرو۔۔۔میں چال چایا ہوں روم سے۔۔"‬
‫وہ ڈسیرب ہورہا تھا یار یار اس کی تھرابی آواز سن کر‪،‬دکھنے دماغ کو آرام چا ہنے تھا نٹھی وہ اتھی‬
‫سکون سے سویا چاہ رہا تھا‪،‬‬

‫دوسری چانب اس کے سخت لہچے یر عنادنہ یآواز رونے لگی‪،‬‬

‫"علطی ہوگتی۔۔۔معافی مایگ بو رہی ہوں۔۔"‬


‫س‬
‫ہچکبوں کے درمنان وہ تھوڑا زچ ہوکر بولی‪ ،‬لسینل خند یل بو نٹم ایدھیرے میں اسے رویا دیکھنا رہا‬

‫‪150‬‬
‫تھر لب تھییحنا ننڈ سے یکبہ لے کر اتھا‪،‬مضبوط قدم روم سے یاہر کا رخ کنے تھے‪،‬اسے چایا دیکھ‬
‫عنادنہ رویا تھول کر بوکھالنے ہونے اتھی تھر تیزی میں اس کے یاس آبی‪،‬‬

‫"کہاں چارہے ہیں۔۔؟"‬


‫وہ جوفزدہ ہوبی تھی‪،‬‬

‫"سکون سے سونے۔۔"‬
‫کابچ آیکھوں کی سرجی واصح ٹیند کا ننا دی تھی‪،‬‬

‫"نہاں ک بوں نہیں سورہے۔۔"‬


‫ھ‬ ‫ح‬ ‫س‬
‫اس کے سوال یر لسینل کا دل چاہا تھنک سے ھوڑ کر رکھ دے اس لڑکی کو جو اسے‬
‫ج‬‫ی‬
‫سونے تھی نہیں دے رہی تھی اور اب اس کے چانے یر اشیفشار کی تھی‪،‬‬

‫"ک بویکہ نہاں سکون نہیں ہے۔۔"‬


‫سرد مہری سے کہنا وہ عنادنہ کو یرایر میں کریا پکلنے لگا روم سے‪،‬ادھر اس کی یات کا مطلب‬
‫س‬ ‫مج‬‫س‬
‫ن‬
‫ھتی عنادنہ تھر لسی ل کے سا منے آبی‪،‬‬

‫"احھا یا اب نہیں کروں گی یرنشان آپ سوچاٹیں۔۔"‬


‫نہ کہنے اس کا لہجہ تھر تھ یگا مگر مشکل سے ا ننے رونے ہونے یایرات کو یارمل کرنے کی‬

‫‪151‬‬
‫س‬ ‫س‬
‫کوشش کنے وہ لسینل کو ایدر لے چانے لگی‪ ،‬لسینل ہاتھ ہنا کر دور ہوا تھا اس سے‪،‬تھر‬
‫شندھا چاکر ننڈ یر لینا‪،‬انتی ششکناں ل بوں میں سحتی سے دیانے وہ یابی تھری آیکھوں سے اس‬
‫ی‬‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫مح بوب کو د تی تی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫قلذہ کی گمشدگی نے اس یار مہناز ننگم جو چہاں نٹم مردہ کنا وہی ہیٹم تھی اب سخت یرنشان‬
‫ہوا‪،‬نہلے ہناد تھا بو اسے زرا یرواہ نہیں تھی مگر اب قلذہ تھی عانب وہ نےچد یرنشابی میں گھرا‬
‫ربورٹ لکھوایا تھا‪،‬ایک طرف مطیبہ کی الپعلفی کو دوسری چانب نہن کا کھویا‪،‬اویر سے مہناز ننگم‬
‫کا غم میں کمرہ نسین ہویا وہ سمجھ نہ یایا کہ چاالت کو کیسے شیٹھالے‪،‬ان سب میں یری طرح‬
‫الجھا وہ نب حھ یکا کھایا چب دو ہفنے پعد مطیبہ کا اچایک ہاشینل سے چانے کا شنا‪،‬وہ نہ اس‬
‫سے ملی تھی نہ چیر یک دی تھی‪،‬یاچانے ننا ننانے کہاں گتی تھی‪،‬ہیٹم سخت ربحندہ ہویا سکندر وال‬
‫ی‬
‫نہیچا تھا‪،‬اسے تھک ہار کر الؤبج میں ٹیٹھا دیکھ کچن سے پکلتی فرخندہ د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫"صاچب کھایا لگاؤں۔۔"‬


‫اس کے بوحھنے یر ہیٹم پفی میں سر ہالیا لنکن م ًعا اس کے دماغ میں بچلی کا کویدا سا ل یکا‪،‬بجھلے‬

‫‪152‬‬
‫ہف بوں سے مہناز ننگم نے قلذہ کی گمشدگی کے پعد سے ہاشینل چایا نند کردیا تھا مگر فرخندہ ہر دو‬
‫دن میں ان کی اچازت لے کر چکر لگابی تھی ہاشینل کا‪،‬‬

‫"فرخندہ۔۔"‬
‫اس کی پکار یر فرخندہ رکی‪،‬‬

‫"جی صاچب۔۔"‬
‫ح‬ ‫مج‬‫س‬
‫ہیٹم کو کھڑا ہوکر مشکوک پظروں سے جود کو دیک ھنا یاکر وہ یا ھی سے بو ھی‪،‬‬

‫"مطیبہ کہاں ہے۔۔؟"‬


‫ما تھے یر یل لنے وہ اشیفشار کنا‪،‬فرخندہ بوکھالبی تھی تھر چلد شیٹھل کر بولی‪،‬‬

‫"میں کنا چابوں صاچب وہ بو ہاشینل میں۔۔"‬

‫"حھوٹ مت بولو۔۔۔ن ناو کہاں ہے مطیبہ۔۔؟"‬


‫اس کا لہجہ سخت ہوا جس یر فرخندہ کی چان یر نتی‪،‬‬

‫"نہیں معلوم صاح۔۔"‬

‫"یات شبو میری فرخندہ۔۔۔گھر کے چاالت سے کم وافف نہیں ہو تم۔۔اگر چاہتی ہو کہ تھوڑا‬
‫نہت سکون ہو اور مطیبہ نہاں آچانے بو یلیز ننادو۔۔"‬
‫‪153‬‬
‫وہ سمجھ خکا تھا کہ فرخندہ سحتی سے اشیفشار کرنے کر نہیں ننانے گی نٹھی یرمی سے سمجھایا وہ‬
‫بوحھا بو فرخندہ سوچ میں مینال ہوبی‪،‬‬

‫"نناؤ۔۔"‬
‫اسے نٹم رصامند دیکھ ہیٹم تھر بوال‪،‬‬

‫"وہ ا ننے یایا کے گھر یر چلی گتی ہیں۔۔"‬


‫سر حھکانے وہ سرم ندہ سی ن نابی‪،‬‬

‫"اکنلی۔۔"‬
‫ہیٹم کو پقین نہ آیا ک بویکہ جس قدر اس کی چالت چراب تھی انتی چلدی نندرست ہویا یاممکن تھا‬
‫نٹھی چیران ہویا بوحھا‪،‬‬
‫ٰ‬
‫"نہیں صاچب وہ صعری ہے یا۔۔۔اس سے راپطہ کنا تھا میں نے تھر وہ اور میں مل کر بی بی‬
‫کو ویل چئیر کی مدد سے لے کر گنے تھے۔۔بی بی نے کہا تھا کہ اب وہی یر رہیں گی وہ نٹھی‬
‫ٰ‬
‫خند کیڑے اور صرورت کا سامان میں نے وہاں نہیچایا تھر صعری کو بی بی نے انتی مدد کے لنے‬
‫وہی یر کام یر رکھ لنا۔۔"‬
‫م‬
‫اب کی یار پقصنل سے اسے کمل یات ننابی تھی وہ‪،‬ہیٹم کا ہاتھ نےساچبہ ما تھے کو حھوا‪،‬رت‬
‫چگے سے چلتی آیکھوں کو میحنا وہ قدم نیج ھے لنا‪،‬رخ یاہر کی چانب تھا‪،‬‬
‫‪154‬‬
‫ص ٰ‬
‫کار قل شینڈ میں چالیا وہ خند می بوں میں چہایگیر ہاؤس نہیچا تھا‪،‬ڈور ننل بچانے یر عری نے‬
‫دروازہ کھوال‪،‬‬

‫"ارے صاچب آپ۔۔۔آ ٹیں یا ایدر۔۔"‬


‫چ‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫کہ ص ٰ‬
‫جوسدلی سے تی عری اسے دغوت دی ایدر آنے کی‪،‬اس کے ھے ظر دوڑایا م دا ل ہوا‪،‬‬
‫ص ٰ‬
‫"کون ہے عری۔۔۔؟"‬
‫الؤبج میں رکھنے قدم تھٹھک کر رکے تھے مقایل کی آواز یر‪،‬اچایک تیر اسے زمین یر حمنے محسوس‬
‫ہونے‪،‬اسے لگا وہ آگے نہیں چل یانے گا‪،‬درد کی ٹیسیں اتھنے دل کو شیٹھالنا وہ تمشکل قدم‬
‫آگے یڑھایا‪،‬ہمت نہیں ہورہی تھی اس لڑکی کا سامنا کرنے کی‪،‬گناہ ہی انشا سر زرد ہوا تھا اس‬
‫ی‬
‫سے‪،‬ایدر آیا وہ سوچا کن پظروں سے د یکھے وہ آ کھیں اتھاکر اس لڑکی کو‪،‬‬
‫ٰ‬
‫دوسری چانب وہ جو صعری کی مدد سے آج تھر چلنے کی کوشش کررہی تھی‪،‬ا ننے سن ہونے‬
‫تیروں کے یدولت صوفے کا سہارا لنے کھڑی تھی‪،‬اس کے القاظ گم ہونے تھے مقایل پظر‬
‫ً‬
‫حھکانے مقایل کو کھڑے دیکھ‪،‬پفرننا ساتھ مہینے پعد وہ دیکھ رہی تھی اس سخص کو آج‪،‬ننلی‬
‫سرٹ اور وانٹ ٹی یٹ یر ڈھنلی یابی‪،‬ما تھے یر یکھرے یال اور یڑھی ہوبی شبوو‪،‬وہ عح یب سا یکھرا‬
‫چلبہ ننایا ہوا تھا اننا‪،‬سرمندگی سے حھکی پظروں کو دیکھ سرمتی آیکھوں میں سردمہری ایری‪،‬زردی‬

‫‪155‬‬
‫ص ٰ‬
‫مایل شناٹ چہرے یر یاگوارنت تھنلی خنکہ سن ہونے تیروں یر اور کھڑی نہ ہویابی وہ عری کو‬
‫یلند آواز میں پکاری‪،‬‬

‫ت‬ ‫ہیٹ ص ٰ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬ ‫ص ٰ‬


‫عری آنے ہی اسے یٹھابی ھی وانس و ل چئیر یر‪،‬ادھر م عری کے ھر چانے کے پعد‬
‫ہمت کریا سرخ پظریں اتھایا‪،‬سا منے دیکھا بو وہ سرمتی آیکھوں میں دن نا چہاں کی یاگوارنت لنے اسے‬
‫ہی گھوررہی تھی‪،‬ان جوپصورت آیکھوں میں ہمیشہ جود کے لنے محیت کے جوت چلنے دیکھنا اس‬
‫سے آج مچال ہوا تھا ان میں پفربوں کا چہاں آیاد دیکھ‪،‬اس لڑکی کو دیکھ وہ جیسے آج انتی گھین کو‬
‫کم ہویا محسوس کنا تھر کھل کر سانس لینا بو لنے لگا‪،‬‬

‫"مطی۔۔"‬

‫"کنا لینے آنے ہو تم نہاں۔۔"‬


‫یلکل اخٹی یت تھرا لہجہ تھا‪،‬آپ کی چگہ تم واصح فطع پعلق کا اعالن کنا تھا جیسے‪،‬ہیٹم کو عخب‬
‫پکل یف میں مینال کنا اس کا نہ ایداز‪،‬‬

‫"تم ننا کسی کو چیر کنے نہا۔۔"‬

‫‪156‬‬
‫"مجھے نہیں لگنا کہ میرا کوبی تھا وہاں جسے چیر د ن نا صروری ہو۔۔"‬
‫ہ بوز اخٹی یت تھرا ایداز‪،‬ہیٹم کی یرداست جواب دی‪،‬آیکھوں میں نسٹمابی کی تمی لنے وہ آگے یڑھنا‬
‫ٹ‬
‫گھی بوں کے یل ٹیٹھا تھر سا منے ویل چئیر یر یٹھی مطیبہ کو اذ نت سے دیکھنا گویا ہوا‪،‬‬

‫"میرا گناہ معافی البق نہیں ہے۔۔۔چان نا ہوں نٹھی تمہیں جود کو معاف کرنے کا نہیں کہوں‬
‫گا۔۔صرف انتی الیچاء ہے کہ گھر چل لو۔۔"‬
‫کرب تھرے لہچے میں کہنا وہ مطیبہ کے شناٹ یایرات دیکھ تھوڑا اور آگے ہوا‪،‬‬

‫"میں وافعی تمہاری معافی کے تھی البق نہیں ہوں۔۔اسی لنے تم جو سزا دو گی وہ ق بول کرلوں‬
‫گا مگر یلیز بوں دور رہ کر مت یڑیاو مجھے۔۔چلو نہاں سے میرے ساتھ۔۔"‬
‫ٹ‬
‫ا ننے القاظ اسے ران یگاں لگ رہے تھے ک بویکہ مقایل یٹھی لڑکی اسے بوں دیکھ رہی تھی جیسے کجھ‬
‫شنا ہی نہ ہو‪،‬‬

‫"مطیبہ مت یربو نہ رونہ۔۔۔"‬


‫ٹ‬
‫یڑپ کر کہنا وہ وہنل چئیر یر یٹھی مطیبہ کے گھی بوں یر ہاتھ رکھنے لگا‪،‬‬

‫"ا ننے جوبی ہاتھوں سے مجھے حھونے کا سوخنا تھی نہیں۔۔"‬


‫س‬
‫وہنل چئیر کو نیجھے کربی وہ سحتی سے بوکی تھی اسے‪،‬ہیٹم کجھ یا ھی سے د کھا اسے لقظ جوبی سن‬
‫ی‬ ‫مج‬

‫کر‪،‬‬
‫‪157‬‬
‫"میرے بچے کے قا یل ہو تم نےجس انشان۔۔۔سوخنا تھی مت کہ اس کا قنل معاف کردوں‬
‫گی میں۔۔۔"‬
‫سرمتی آیکھوں میں غضب کا اشیعال تھا‪،‬اس کے مبہ سے نہ القاظ شینا ہیٹم زمین یر گڑھنا‬
‫گنا‪،‬آج اسے اجشاس ہوا تھا کہ اس لڑکی یر کنا گزربی ہوگی چب وہ کسی ا ننے کا ہی قا یل اسے‬
‫ی‬
‫کہنا تھا‪،‬یڑپ کر آ کھیں میحنا وہ مطیبہ کو ان لقظوں سے ملی پکل یف کو واصح محسوس کنا تھا جود‬
‫یر‪،‬تھنک ہی بو کہہ رہی تھی وہ‪،‬اس کا گناہگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قا یل تھی بو نہرا تھا‬
‫ا ننے بچے کا‪،‬‬

‫"ظلم ہوا۔۔نہت یڑا ظلم ہوا ہے مجھ سے مطیبہ۔۔اور دیکھو یا آج ہم سب کا کنا ہم سب کے‬
‫سا منے آیا ہے۔۔۔سب کجھ خٹم ہورہا ہے مطیبہ۔۔۔کجھ تھنک نہیں ہے۔۔یری طرح الجھ چکے‬
‫ً‬
‫ہیں ہم اور نہ سب پقینا تمہارے ساتھ کی گتی زیادن بوں کی سزا ہے۔۔"‬
‫م‬
‫اسے کمل یات ننایا ہیٹم رونے کو ہوا تھا جس یر مطیبہ ن یفر سے اسے دیکھ کر سر حھنکی‪،‬‬

‫"تم۔۔۔تم نناؤ کہ انشا کنا کروں جس سے میری زیادن بوں کا مداوا ہو۔۔کجھ انشا جس سے تم‬
‫جوش ہو بو مج ھے کم از کم سکون مل چانے۔۔"‬
‫تم لہچے میں اس کے سا منے وہ فریاد کنا تھا‪،‬اسے بوں دیکھ مطیبہ کو نےساچبہ وہ وقت یاد آیا‬

‫‪158‬‬
‫چب وہ رو رو کر اس سخص کے سا منے فریاد کربی مگر کیتی آسابی سے وہ نےرحم ٹینا اس کے‬
‫چذیابوں کو روید د ن نا‪،‬‬

‫"مجھے ظالق چا ہنے۔۔"‬


‫اس کی یات ہیٹم سکندر کو سن کر کے رکھ دیا‪،‬وہ حھنکے سے کھڑا ہویا دور ہنا‪،‬نےپقین پظریں‬
‫مطیبہ ہر تھیں جو نہ القاظ کہنے یلکل یرسکون سی ہوبی تھی‪،‬اسے یلکل بوفع نہ تھی اس یات کی‪،‬‬

‫"تم مجھے ظالق دے دو اس سے مجھے زیادہ نہیں بو تھوڑا سکون مل چانے گا کہ میں آزاد ہوں‬
‫تم جیسے ظالم سے۔۔"‬
‫شقاکی سے کہہ کر مطیبہ وننل چئیر کا رخ موڑی‪،‬‬

‫"تم انشا نہیں کہہ سکتی۔۔"‬

‫"میں انشا ہی کہوں گی۔۔"‬


‫ً‬
‫اس کے سا منے آیا ہیٹم اچایک امڈنے غصے سمیت یلند آواز میں بوال مگر مطیبہ جوایا اس سے تھی‬
‫تیز آواز میں کہی‪،‬‬

‫"رہو گی کیسے اکنلی۔۔"‬


‫کجھ نہ سمجھ آنے یر وہ چلدی سے جواز ٹیش کنا‪،‬‬

‫‪159‬‬
‫"میرے یایا تم لوگوں کی طرح نہیں تھے۔۔۔میرے اکاؤنٹ میں ا ننے ٹیسے رکھوانے تھے کہ‬
‫آگے چاکر یرے وقت میں کام آسکیں وہ۔۔"‬
‫رسان یت سے وہ چل ننابی‪،‬ایداز اننا ایل تھا جیسے ا ننے ق یصلے سے نیجھے نہ ہینے کی فسم کھا رکھی ہو‪،‬‬

‫"مطیبہ ظالق نہیں دوں گا میں تمہیں۔۔۔اس کے عالوہ جو سزا دو گی وہ ق بول ہے یر نہ‬
‫نہیں۔۔"‬
‫اس کو تمشکل ا ننے لہچے یر قابو یانے دیکھ مطیبہ تمسجر سے مشکرابی‪،‬‬

‫"تھر تھنک ہے۔۔۔چاو نہاں سے اور تھر کٹھی چہایگیر ہاؤس کا رخ مت کریا۔۔"‬
‫مطیبہ نے اجشان کرنے والے ایداز میں کہا جس یر ہیٹم نےنسی سے اسے دیکھا‪،‬سرمتی آیکھوں‬
‫ی‬
‫میں انتی آ کھیں ڈالنا وہ نہت یالش کنا تھا اس میں یرابی مطیبہ چہایگیر کو مگر اس کی کوبی رمق‬
‫یک نہ دکھی ہیٹم کو‪،‬‬

‫"تم نہلے انسی نہیں تھی۔۔"‬


‫وہ دکھ سمیت بوال‪،‬‬

‫"اب جو ہوں تمہاری ہی عنانت کردہ ہوں۔۔"‬


‫ٰ‬
‫نےجسی سے کہہ کر وہ صعری کو آواز دی‪،‬تھر وہنل چئیر کی مدد سے اس کے ساتھ کجھ دور‬
‫کمرے میں چلی گتی‪،‬اسے نےنسی سے چایا دیکھ ہیٹم تم ہوبی یلکیں حھنک کر ایدر یڑھتی گھین‬
‫‪160‬‬
‫ہر تمشکل قابو یایا تھر تھکے قدموں کو وانسی کے رشنے یر موڑا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫عل‬‫پ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ہ چ ت س‬
‫ل کو اس سے ال فی یرنے‪،‬عنادنہ ہر طرح کی کوشش کر کی ھی‬ ‫دو فنے ہو کے ھے‬
‫اسے منانے کی مگر مقایل نے تھی جیسے فسم کھابی کو اس یات نہ کرنے کی‪،‬تھک کر کٹھی وہ‬
‫رونے لگتی بو کٹھی درنہ ننگم سے اگلی یرکیب بوحھتی اسے منانے کی‪،‬‬

‫آج صیح تھی اتھنا وہ روز کی طرح اس سے نےنناز ننار ہوکر آفس کے لنے پکلنے لگا نٹھی اسے‬
‫س‬
‫مصروف دیکھ عنادنہ پظر بچا کر لسینل کی رسٹ واچ ڈرنسنگ یر سے اتھابی روم سے یاہر‬
‫پکلی‪،‬اس کی نہ جوری مقایل کی زیرک پظروں سے مخفی نہ رہی‪،‬‬

‫"گرنتی۔۔"‬
‫ٹ‬
‫ڈاٹینگ ٹینل یر یٹھتی وہ درنہ ن نگم کو چہک کر اس کی واچ دکھابی‪،‬معصوم چہرے یر جوسی کی‬
‫رمق نے انہیں مشکرانے یر مح بور کنا‪،‬‬

‫"میں کہتی ہوں نہ یلین تھی قالپ ہی ہویا ہے آپ کا۔۔صاچب نے دیکھ لنا بو یرہم ہوں گے‬
‫بی بی عاق یت اس ہی میں ہے کہ ان کی واچ رکھ دیں وانس۔۔"‬
‫ان لوگوں کا یاسبہ ٹینل یر رکھتی اسماء سمجھداری کا مطاہرہ کرنے ہونے بولی‪،‬‬
‫‪161‬‬
‫"آپ بو چپ ہی رہو۔۔۔ایک بو ڈھنگ کے یلین تھی نہیں ننابی دوسرا ہمیشہ دل گ ھیراد ننے والی‬
‫یاٹیں کربی ہیں۔۔"‬
‫اسماء کی یات یر خقگی کا اظہار کربی ع نادنہ مبہ نسوری‪،‬‬

‫"ارے سچ کہہ رہی ہوں بی بی۔۔اب آپ جود ہی سوجو ذرا سی یات کر غصہ ہونے والے چب‬
‫ا ننے دبوں یک شنگین چد یک چاموش رہیں بو سمجھ چاؤ کسی ظوقان کی آمد کا اعالن ہے۔۔"‬
‫عنادنہ کے چہرے یر گ ھیراہٹ کے آیار دیکھ اسماء نے اسے اور زچ کریا اننا فرض سمجھا‪،‬اور غین‬
‫بوفع کے مطابق وہ گ ھیرابی چلدی سے یابی کا گالس اتھابی ایک ہی گھونٹ میں اننا چلق یر‬
‫س‬
‫کی‪،‬درنہ ننگم ان دوبوں کو دیکھ مشکراکر پفی میں سرہالٹیں‪،‬نٹھی لسینل روم سے پکلنا ہال ع بور‬
‫کر کے ڈاٹینگ ٹینل کے یاس آیا‪،‬‬

‫"میری یلیٹ نہیں لگاؤ اسماء۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے آنے ہی اسماء شندھی ہوبی یلیٹ سا منے رکھی نٹھی لسینل بوال‪،‬‬

‫"ک بوں ٹینا۔۔"‬


‫درنہ ننگم چیران ہوٹیں‪،‬‬

‫"گرنتی یاسبہ نہیں کروں گا آج۔۔۔"‬


‫س‬
‫انہیں نناکر لسینل ان سے ملنا یاہر کی چانب گنا‪،‬اس عرصے کے دوران عنادنہ ا ننے یاشنے یر‬
‫‪162‬‬
‫م‬
‫کمل سر حھکانے یاچانے اس میں کنا یال شنے میں مگن تھی کہ اسماء اور درنہ ننگم اسے دیکھ‬
‫ایک دوسرے کو اسارہ کربی ہلکا سا ہیسی‪،‬‬

‫"اب کب یک چاؤ گی۔۔"‬


‫کجھ دیر پعد یاشنے سے قارغ ہوکر درنہ ننگم نے اس سے بوحھا‪،‬‬

‫"نس تھوڑی دیر میں۔۔"‬


‫اس کے ننانے یر درنہ ننگم اننات میں سرہالٹیں تھر دوبوں ٹیٹھ کر یابوں میں مخو ہوبی‬
‫س‬ ‫ً‬
‫تھیں‪،‬پفرننا نندرہ میٹ پعد عنادنہ لسینل کے لنے یاکس ننار کر کے اس کی چرابی رسٹ واچ‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫لی‪،‬تھر فرمان کے ساتھ آدھے گھینے کے شفر کے پعد اس کے آفس جی‪،‬‬
‫ی‬
‫ق نہ‬
‫رنسٹیشن میں بوحھ کر اس کے لور یر تی وہ س ِان نے ننازی سے خند قدم کا قاصلہ طے کربی‬
‫ح‬‫ی‬

‫گالس ڈور وا کنے ایدر داچل ہوبی مگر اس کے جوپصورت چہرے یر ہوانناں اڑیں مقایل کی شیحندہ‬
‫پظروں کو نہلے سے ہی گالس ڈور کی طرف یاکر جیسے نہلے سے ہی وافف ہو اس کی آمد سے‪،‬جیتی‬
‫ہمت اس نے جود میں مجمع کی تھی وہ ساری یل میں رقا ہوبی اسے بوکھالنے یر مح بور کیں‪،‬‬

‫مقایل کی شیحندہ پظروں کا ارپکاز ہ بوز جود کر یاکر وہ ا ننے گرد لیتی سال کو تھنک کربی آگے یڑھی‪،‬‬

‫"آپ نے یاسبہ نہیں کنا۔۔"‬

‫‪163‬‬
‫"کوبی نہیں یات ہے۔۔"‬
‫س‬
‫وہ جو یات کا آعاز یارمل ایداز میں کریا چاہ رہی تھی لسینل کے سوال یر رہی سہی ہمت تھی‬
‫خٹم ہوبی‪،‬وافعی وہ اکیر یاسبہ نہیں کریا تھا نٹھی بوں بوحھ رہا تھا اب اس سے‪،‬‬

‫"نہیں۔۔میرا مطلب کہ۔۔۔"‬


‫کنا کجھ کہنا تھا اسے یر اب جیسے سارے القاظ ہی تھول گنے تھے نٹھی سوچ کر بولتی رکی تھر‬
‫اچایک یاد یڑنے یر جویکی‪،‬‬

‫"ہاں۔۔۔نہ آپ کی واچ تھول گنے تھے آپ نہینا۔۔"‬


‫س‬
‫ح ھٹ سے کہتی وہ یرس میں ہاتھ ڈالی مگر اس کا ہاتھ ایدر کا ایدر ہی رہ گنا چب لسینل سرٹ‬
‫کی یاٹیں آشٹین کو دوسرے ہاتھ سے کجھ اوبچا کنا‪،‬مضبوط آہتی کالبی یر دوسری واچ‬
‫تھی‪،‬عنادنہ کو جی تھر کر غصہ آیا انتی نےوفوقانہ چرکت یر‪،‬ظاہر سی یات تھی اس نے کونشا‬
‫ً‬ ‫س‬
‫لسینل کی ساری واچ لی تھی‪،‬اس کے یاس بو رسٹ واچ کا ڈھیر تھا پقینا وہ ایک نہ ملنے یر‬
‫دوسری نہینا‪،‬‬

‫"تمہاری اظالع کے لنے اگر واچ نہ تھی نہینا میں بو تھر تھی وقت یآسابی دیکھ سکنا تھا۔۔"‬
‫مقایل کا اسارہ مویایل اور وہاں کی دبوار یر نسب گھڑی یر تھا‪،‬اس کی یات یر عنادنہ ا ننے گالبی‬
‫لب نےدردی سے کچل کر انتی شنکی کم کرنے کی کوشش کی‪،‬‬
‫‪164‬‬
‫"تمہارا زحمت کر کے نہاں آیا بو نےکار گنا۔۔"‬
‫ت‬
‫وہ تھربور سرمندہ کنا تھا اسے‪،‬اب عنادنہ سرم ندگی کے ساتھ ساتھ ننگ تھی ہوبی نٹھی آیرو ھییچ‬
‫کر اسے گھوری‪،‬‬

‫"آپ کو میرا آیا احھا نہیں لگا۔۔"‬


‫س‬
‫یاچا ہنے ہونے تھی ل بوں سے تھشل ہی گنا اسکے جس یر لسینل راکنگ چئیر یر کھولنا پفی میں‬
‫سرہالیا‪،‬عنادنہ کو زرا سی امند تھی کہ وہ بولے گا کہ احھا لگا مگر اب اس کا ہ بوز سرد ایداز عنادنہ‬
‫کو دکھ نہیچایا گنا‪،‬‬

‫"آپ کو یرا لگا میرا آیا بو چلی چابی ہوں۔۔"‬


‫اسے دکھ سے دیکھ وہ چئیر سے اتھی‪،‬تھر یلٹ کر گتی وہاں سے‪،‬اس کو شیحندگی سے دیکھنا‬
‫س‬
‫لسینل اتھا تھا چئیر سے تھر تیز قدم اتھایا گنا عنادنہ کے نیجھے‪،‬آفس سے پکل کر وہ یاہر یارکنگ‬
‫ی‬ ‫س‬
‫میں فرمان کو ڈھویڈی مگر اسے وہ کہیں نہ د ک ھے‪ ،‬لسینل کی یات یاد کرنے اس کی آ کھیں‬
‫تھنگی نٹھی یلکوں یر نہری تمی صاف کرنے کے لنے ہاتھ اتھابی مگر اچایک وہ بوکھالبی چب نیجھے‬
‫سے اس کی آیکھوں یر کسی نے سحتی سے نتی یایدھی‪،‬ع نادنہ کے مبہ سے ہلکی سی خیخ پکلی‪،‬‬

‫"شش۔۔"‬
‫تھاری آواز کابوں میں یڑی تھی‪،‬عنادنہ کی چان پکلنے کو ہوبی‪،‬‬
‫‪165‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫" ل۔۔!"‬
‫ح‬‫س‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬
‫ل ا کی آ ھوں یں تی کجھ اور تی سے‬ ‫لب تھڑتھڑانے تھے اس کے‪،‬دوسری چانب‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ن ی‬
‫یایدھا کہ ایک یل کو عنادنہ کو ا تی آ یں ایدر د تی محسوس ہو یں‪،‬وہ ڈری ھی مقا ل کے‬
‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫غمل یر‪،‬‬
‫س‬
‫نٹھی نتی یایدھنے کے پعد لسینل اس کا ہاتھ مضبوطی سے یکڑیا ا ننے ساتھ لے چال‪،‬خند قدم کی‬
‫دوری یر یارک ہوبی انتی کار یر عنادنہ کو ٹیٹھایا وہ جود تھی انتی چانب آکر ٹیٹھا‪،‬تھر ایک میسیج یانپ‬
‫کریا کار شنارٹ کنا‪،‬‬

‫"کہاں چارہے ہیں ہم۔۔۔؟"‬


‫وہ دیکھ نہیں سکتی تھی مگر محسوس بو کر ہی لی تھی کہ اسے کار میں ٹیٹھاکر مقایل کہیں لے‬
‫چارہا تھا نٹھی سوال کی‪،‬‬

‫"تمہاری کم غقلی کی سزا د ننے لے چارہا ہوں چاتم۔۔۔اب چپ رہو اگر چاہتی ہو سزا زیادہ نہ‬
‫یڑھے بو۔۔"‬

‫‪166‬‬
‫مقایل کا گھمئیر لہجہ عنادنہ کو جوپکایا‪،‬ریڑھ کی ہڈی میں شیسناہٹ محسوس کر کے وہ یکدم چپ‬
‫ہوگتی‪،‬‬

‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫پ ً‬


‫ھ‬
‫یاچانے وہ اسے کہاں لے چارہا تھا کہ فرننا ایک ینے کی ڈران بو یر ھی فر م یں ہوا‬
‫س‬
‫تھا‪،‬ادھر لسینل مشلشل ڈران بو کریا ایک آدھ شیحندہ پظر اس دس ِمن چاں یر تھی ڈالنا جو انتی سزا‬
‫دیکھ ننا نہیں کیشا رننکشن د ننے والی تھی اسے‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل کجھ بو نناٹیں کہاں چارہے ہیں۔۔۔میں تھک گتی بوں ٹیٹ ھے ٹیٹھے۔۔"‬
‫ایک گھیبہ اور ِسرکا بو وہ روہانسی ہوبی بوحھی‪،‬اننا آفس آیا اسے نےوفوفی ہی لگنے لگا اب‪،‬‬

‫"کہا یا چپ رہو ورنہ تھر ننار رہو سزا یڑھوانے کے لنے۔۔"‬


‫اس کی روبی صورت یر ایک گہری پظر ڈالنا وہ تھوڑا سخت لہچے میں بوال‪،‬‬

‫"نہلے ہی کنا کم سزا دی ہے دو ہفنے الپعلفی یرت کر۔۔۔"‬


‫اس کے ڈ ٹینے یر کلسنے ہونے وہ زی ِر لب یڑیڑابی‪،‬‬

‫"یلکل وہ سزا کم تھی۔۔"‬


‫س‬
‫اس کا یڑیڑایا سن کر لسینل رسان یت سے جواب دیا‪،‬‬

‫‪167‬‬
‫ی‬
‫"میری آ کھیں دکھ رہی ہیں۔۔"‬
‫س‬
‫وہ تھر سے جواز ٹیش کی‪ ،‬لسینل گہری سانس تھر کر کار روکا تھر تھوڑا آگے حھکنا نتی کی گرقت‬
‫ڈھنلی کنا‪،‬‬

‫عنادنہ مبہ ننا کر رہ گتی‪،‬چان گتی تھی مقایل کسی ظور نتی نہیں ہنانے واال‪،‬کافی دیر گزرنے‬
‫کے پعد وہ اب اویگھنے لگی تھی اور تھر خند می بوں پعد ٹیند کی وادبوں میں ایربی چلی گتی‪،‬‬

‫سورج عروب ہونے لگا تھا اور دونہر سام سے گزر کر کجھ گھی بوں پعد رات میں یدلی‪،‬ع نادنہ کو‬
‫گہری ٹیند میں دیکھ وہ کار کی رقنار کجھ یڑھایا‪،‬ہابی وے خٹم ہونے کے پعد ایک پظر وہ یاہر کی‬
‫طرف دوڑایا‪،‬انتی میزل سے زیادہ دور نہ تھا وہ اب‪،‬اگلے ٹین گھینے کی مشاقت طے کر کے غین‬
‫س‬
‫انتی میزل یر کار روکا‪،‬جس حھنکے سے لسینل نے کار روکی تھی ع نادنہ ہڑیڑاکر اتھی‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔!"‬
‫آیکھوں میں اب یک نتی نندھی رہنے کے یاعث وہ گ ھیراکر پکاری جس یر اس کا ہاتھ تھام کر وہ‬
‫انتی موجودگی کا اجشاس دالیا‪،‬ع نادنہ کو یک گونہ سکون ہوا‪،‬‬
‫س‬ ‫ن‬
‫"کیتی دیر ہوبی ہے اور ہم کہاں چارہے ہیں۔۔کب ہیخیں گے کجھ بو ن ناٹیں لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫اسے الجھن ہونے لگی تھی‪،‬نٹھی کار سے پکل کر لسینل اس کی چانب آیا تھر ڈور کھول کر‬
‫عنادنہ کا ہاتھ تھام کر اسے یاہر پکاال‪،‬‬
‫‪168‬‬
‫"کنا ہم نہیچ گنے۔۔؟"‬
‫اسے اننا ہاتھ تھام کر شندھ میں چلنے محسوس کربی ع نادنہ ایک ہاتھ آیکھ ہر نندھی نتی یر رکھنے تھر‬
‫بوحھی‪،‬‬

‫"تم چپ نہیں رہ سکتی تھوڑی دیر۔۔"‬


‫س‬
‫رسٹ واچ میں یاتم دیکھنا لسینل شیحندگی سے کہا بو ان نا سا مبہ لے کر رہ گتی‪،‬کجھ قدم چلنے کے‬
‫پعد وہ رکا ساتھ زی ِر لب یڑیڑایا‪،‬‬

‫"اوکے۔۔!"‬
‫ی‬
‫کہنے ہی وہ عنادنہ کی آیکھوں یر لگی نتی ہنایا‪،‬اس کی آ کھیں سن سی ہوبی تھیں‪،‬نٹم وا کر کے‬
‫سا منے دیکھا بو نہلے م یظر کجھ دھندالیا سا ہوا لنکن جیسے جیسے م یظر صاف ہونے لگا عنادنہ کی‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫آ کھیں انتی ہی کھل کر رہ گٹیں خنکہ زیان گ نگ ہوبی‪،‬نےپقین سی وہ سا منے د کھی تھی‪،‬‬

‫"ہیتی یرتھ ڈے آبی۔۔"‬


‫اورفونیچ کے تمام بچے یک ننک چہک کر یلند آواز میں بولے‪،‬دوسری چانب عنادنہ کو سکبہ ہی لگ‬
‫س‬
‫گنا‪ ،‬لسینل نے تھر وقت دیکھا‪،‬یارہ بج کر دو میٹ تھر مشکراکر وہ عنادنہ کے ایکسیرنشن ابخوانے‬
‫کرنے لگا‪،‬‬

‫‪169‬‬
‫"آبی۔۔"‬
‫سب سے نہلے آگے یاتمہ آکر اسے ہاتھ میں تھاما گقٹ یکڑابی‪،‬اس کے چہرے یر جوسی کی دمک‬
‫دیکھ عنادنہ ہوش کی دننا میں آبی‪،‬‬

‫"یاتمہ۔۔معاذ۔۔ابوشہ۔۔تم لوگ۔۔"‬
‫نیجھے سے گقٹ النے والے ابوشہ اور معاذ کو تھی دیکھ عنادنہ جوسی سے بولی‪،‬اسے سمجھ نہ آیا ان‬
‫ً‬
‫سب کو دیکھ کنا رننکشن دے‪،‬وہ لوگ دوسرے سہر میں اورفونیچ میں رہنے تھے تھر۔۔۔‪،‬معا ذہن‬
‫س‬
‫میں حھماکا ہوا اور وہ تیزی سے یلٹ کر نیجھے کھڑے لسینل کو نےپقین پظروں سمیت‬
‫ک‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ق‬‫پ‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫ک‬‫ی‬
‫د ھی‪،‬وخنہہ چہرے یر یرم م کراہٹ د کھ اس کا سک ین یں یدال‪،‬اور وہ ہر چانب د ھی‪،‬رات‬
‫ہورہی تھی‪،‬بو کنا وہ اسے سریرایز د ننے کے لنے اس سہر الیا تھا‪،‬عنادنہ مشکور پظروں سے اسے‬
‫ی‬
‫دیکھ وانس ان بخوں کو د کھی‪،‬ٹین سالوں پعد وہ زرا یڑے دکھنے لگے تھے‪،‬یاتمہ کو گلے لگا کر وہ‬
‫شٹھی بخوں سے تھی ملی تھر یرسوق پظروں نے ہر چانب کسی کو یالسا اور وہ نٹھی نسمہ جو کہ‬
‫س‬
‫اب کجھ یڑی ہوچکی تھی آج تھی انتی معصوم پظریں لسینل مراد یر پکانے اسے مشکرایا چیرت‬
‫سے دیکھ رہی تھی‪،‬‬

‫"نسمہ۔۔"‬
‫حھک کر اس کی تھو ڑی یکڑبی عنادنہ پکاری‪،‬‬
‫‪170‬‬
‫"آبی نہ ہیسنے تھی ہیں۔۔"‬
‫س‬
‫مشکرانے ہونے لسینل کو دیکھ وہ سدید چیرت میں نہ سوال بوحھی اور عنادنہ کھل کر ہیسی‪،‬‬

‫"ہاں نہ کھڑوس اب ہیسنے تھی ہیں۔۔۔ہماری آبی نے انہیں انتی طرح ننادیا۔۔"‬
‫نسمہ کے سر یر خ یت لگابی ابوشہ ہمیشہ کی طرح خیخ کر بولی‪،‬‬

‫"آبی نہ مجھے نہت ماربی ہے۔۔"‬


‫انتی نےپقیتی تھول وہ عنادنہ کو شکانت لگابی‪،‬‬

‫"تم لوگ یلکل نہیں یدلے۔۔"‬


‫ہیس کر نسمہ کے گال ہر ن نار کربی وہ بولی‪،‬‬
‫بخوں کی ٹیئیز تھر چاص کر روٹیبہ منڈم (اورفونیچ کی مالک) نے تھی اسے ِوش کنا‪،‬سب سے مل‬
‫س‬
‫کر اس نے بخوں کے ساتھ نہت احھا یاتم شٹینڈ کنا‪،‬اس دوران لسینل اس کے ساتھ رہا‬
‫تھا‪،‬کہا کجھ نہیں وہ نس چاموسی سے عنادنہ کے یایرات دیکھ رہا تھا جو اس قدر دمک کر اس کے‬
‫ی‬
‫جوپصورت چہرے کو حمکارہے تھے کہ دیکھنے والے کی آ کھیں چیراں ہوٹیں‪،‬‬
‫ُ‬ ‫ُس‬
‫"تھینک بو لسینل۔۔۔تھینک بو سو مچ۔۔"‬
‫س‬
‫کافی دیر پعد وہاں سب سے ِمل کر پکلتی ع نادنہ لسینل کے یاس آکر چہکی‪،‬وہ مشکرادیا‪،‬‬

‫‪171‬‬
‫"آہ۔۔ہم نہاں ہے بو گرنتی۔۔۔آپ نے انہیں ننایا وہ بو گھر یر ہی تھیں۔۔"‬
‫س‬
‫اچایک یاد یڑنے یر عنادنہ کے چہرے یر سے ہوابی اڑی‪،‬نٹھی ح ھٹ سے لسینل سے بوحھی‪،‬‬

‫"نہ لو۔۔"‬
‫س‬
‫مویایل پکال کر تمیر ڈایل کریا لسینل اس کی چانب یڑھایا‪،‬عنادنہ لے کر کان سے لگابی‪،‬دو‬
‫ننل یر ہی کال رنسبو کرلی گتی‪،‬‬

‫"سالگرہ منارک ہو بجہ۔۔"‬


‫دوسری چانب سے درنہ ننگم نے یرشققت لہچے میں کہا‪،‬‬

‫"میری طرف سے تھی۔۔"‬


‫نیجھے سے آبی اسماء کی آواز یر عنادنہ کھلکھالبی‪،‬‬

‫"مطلب آپ لوگوں کو نہلے سے ہی معلوم تھا۔۔اور مجھے ن نایا تھی نہیں۔۔"‬


‫س‬
‫اس نے سدید چیرت کے زد میں ایک پظر لسینل کو دیکھ کر بوحھا‪،‬‬

‫"ننا ہی د ننے بو سریرایز کیسے رہنا۔۔"‬


‫انہوں نے النا سوال کنا جس یر عنادنہ مشکراکر رہ گتی‪،‬‬

‫"اب کل کا بورا دن تم لوگ یرسکون ہوکر گزارو۔۔۔تھر یرسوں چیرنت سے گھر نہیچ چایا۔۔"‬

‫‪172‬‬
‫"کنا مطلب گرنتی ہم آج وانس نہیں آ ٹیں گے۔۔"‬
‫س‬
‫سوال وہ درنہ ننگم سے کررہی تھی مگر پظریں لسینل یر تھیں‪،‬اس نے پفی میں سرہالیا دوسری‬
‫چانب سے درنہ ننگم نے تھی وہی جواب دیا‪،‬‬

‫"یر گرنتی تھر آپ کیسے رہیں گی اکنلی۔۔؟"‬

‫"میں اکنلی نہیں اسماء ہے یا میرے ساتھ۔۔۔"‬


‫اس کے یرنشابی سے بوحھنے یر انہوں نے رسان یت سے کہا‪،‬عنادنہ کے چہرے یر م یقکر یایرات‬
‫س‬
‫امڈنے دیکھ لسینل اس سے فون لنا‪،‬‬

‫"یرسوں پکلنے سے نہلے میں آپ کو کال کروں گا۔۔۔اننا خنال رکھنے گا۔۔"‬
‫م‬
‫کہنا ہوا وہ نہلنے لگا تھر دوسری چانب درنہ ننگم سے طمین ہوکر کال کٹ کنا‪،‬مڑ کر عنادنہ کو‬
‫دیکھا جس کے ایکسیرنشن ہبوز قکرمند تھے‪،‬‬

‫"گرنتی کو تھی لے آنے۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے یاس آنے یر وہ اداسی سے بولی‪،‬‬

‫"کہا تھا یر انہوں نے اپکار کردیا۔۔"‬


‫اس کے یرم لہچے میں کہنے یر عنادنہ مشکرابی‪،‬‬

‫‪173‬‬
‫"بو نہ تھی میری سزا۔۔"‬
‫س‬
‫کجھ دیر کی چاموسی کے پعد وہ لسینل کو ح ھیڑنے ہونے کہی‪،‬‬

‫"نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫وہ شیحندگی سے بوال اور ع نادنہ کی مشکراہٹ عانب ہوبی‪،‬کالی آیکھوں میں یا ھی ایری‪،‬‬
‫مج‬

‫"یر آپ نے بو کہا تھا سزا د ننے لے چارہا ہوں اور تھر نہاں الکر سریرایز دیا۔۔ایک میٹ اگر نہ‬
‫سزا نہیں تھی بو سزا کنا ہے۔۔"‬
‫س‬
‫انتی یرابی بون میں یان شناپ بولتی وہ الجھ کر آچر میں بوحھی‪ ،‬لسینل مشکراہٹ دیایا تھا‪،‬اس‬
‫سہر میں مقایل کھڑی لڑکی کا ایداز تھی یلکل ونشا ہی ہوا تھا جیشا نہلی مالقات میں ہویا تھا‪،‬‬

‫"ننایا ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫کہہ کر لسینل اسکے گرد یازو چایل کریا اسے لے کر اورفونیچ سے پکال‪،‬کار اس نے وہی یر یاہر‬
‫حھوڑی تھر خند قدموں کا قاصلہ طے کر کے کجھ دیر پعد وہ غین ا ننے یرانے گھر کے سا منے‬
‫ی‬
‫کھڑا ہوا تھا‪،‬عنادنہ جوسگواری سے اس گھر کو د کھی تھی‪،‬‬

‫"چلیں۔۔"‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ُ‬
‫ھ‬ ‫ن‬
‫عنادنہ کو لو د تی پظروں سے د کھنا وہ مئیر ہچے میں بوحھا خنکہ جوسی سے نہال وہ ح ھٹ ان نات‬
‫میں سرہالبی‪،‬‬
‫‪174‬‬
‫س‬
‫"ا ننے سال پعد اس کو دیکھ میں ننا نہیں سکتی کیتی جوش ہوں میں۔۔۔ لسینل آپ کو ن نا‬
‫ہے آج میری الپف کا سب سے جوپصورت دن ہے۔۔"‬
‫س‬
‫وہ جو لسینل کے الک کھو لنے یر ایدر آبی تھی‪،‬پقاست سے شیٹ ہونے گھر یر ہر چانب گالب‬
‫کے تھولوں کا گلدسبہ دیکھ چہک کر جوسی سے بولی‪،‬‬

‫"رات۔۔!"‬
‫ح‬‫ص‬ ‫س ن پ‬
‫گیٹ نند کریا لسی ل یح کنا اس کی‪،‬‬

‫"ہاں جو تھی ہے یر میں نہت جوش ہوں۔۔۔مجھے بو پقین ہی نہیں آرہا کہ نہ سب خف یقت‬
‫س‬
‫ہے۔۔۔ لسینل۔۔!"‬
‫س‬
‫لسینل کے تمام الٹیس آن کرنے یر الؤبج میں جوسگوار چیرت لنے ہر چگہ یکھرے تھول دیکھ‬
‫س‬
‫وہ شٹھی چیزوں کو حھونے بول کر آچر میں یلتی تھر لسینل کے یاس آکر مشکرانے ہونے گویا‬
‫ہوبی‪،‬‬

‫"آپ نہت ا حھے ہیں۔۔۔نہت زیادہ۔۔"‬


‫س‬
‫اس نے جس چذب تھرے ایداز میں کہا لسینل ہلکا سا ہیس دیا‪،‬‬

‫"دو ہفنے کافی یرنشان کنا۔۔۔سوچا تھوڑا جوش کردوں۔۔"‬


‫کندھے اخکاکر وہ اسے ننایا تھا‪،‬‬
‫‪175‬‬
‫س‬
‫"تھوڑا۔۔۔تھوڑا نہیں نہت جوش کنا ہے آپ نے۔۔۔چاالیکہ علطی میری تھی۔۔سوری لسینل‬
‫میں اب آ نندہ کٹھی انسی چرکت نہیں کروں گی۔۔۔آپ یر جود سے تھی زیادہ تھروشہ کروں‬
‫گی۔۔"‬
‫ی‬
‫اسے بولتی ع نادنہ آچر میں نسٹمابی سے کہتی مقایل کے وخنہہ چہرے کو د ھی جس یر یایرات اب‬
‫ک‬

‫کجھ شیحندہ ہونے تھے‪،‬‬

‫"آپ سزا دیں گے یا۔۔دیں میں ہر سزا کے لنے ننار ہوں۔۔"‬


‫ٰ‬ ‫س‬
‫اچایک ذہن میں آنے وہ نہ یات کہی تھی‪ ،‬لسینل کے عنابی لب معتی چیزی سے تھنلے‪،‬عنادنہ‬
‫کی سال یکڑ کر وہ کھییچا تھا جس یر عنادنہ اس سے چد درجہ فرنب ہوبی‪،‬‬

‫"کنا سچ میں۔۔۔ننار ہو۔۔"‬


‫ی‬ ‫س‬
‫گھمئیر لہچے میں کی گتی اس کی سرگوسی یر عنادنہ یا ھی سے اسے د ھی‪،‬‬
‫ک‬ ‫مج‬

‫"ہاں یلک۔۔"‬
‫نےدھنابی میں بولتی عنادنہ جویک کر رکی‪،‬القاظ خٹم ہونے تھے ساتھ ہی مقایل کی آیکھوں میں‬
‫ل‬ ‫مج‬‫س‬
‫ٹیش دیکھ وہ اس کی یات کا مطلب ھی‪ ،‬مخوں میں اس کی ٹیشابی م خنکہ عارض البی یڑے‬
‫گ‬ ‫ت‬

‫تھے‪،‬بوکداد یلکیں لرز کر رہ گٹیں‪،‬‬

‫‪176‬‬
‫"چلو۔۔انتی سزا لینے۔۔"‬
‫ُ‬
‫عنادنہ کے کان فرنب لب الیا وہ دھٹمے آبچ د ننے لہچے میں بوال ساتھ ہی اس کی کان کی لو‬
‫س‬ ‫ی‬
‫دانت میں لنا‪،‬ع نادنہ ششک کر آ کھیں میچ گتی‪ ،‬لسینل کی سرٹ کا تھاما کالر چکڑنے وہ‬
‫گ ھیراکر لرزبی آواز میں بو لنے لگی‪،‬‬

‫"مج۔۔مجھے گھر۔۔دیکھنا ہے۔۔"‬


‫اس کی گردن یر حھک کر جود کو سیراب کریا چب وہ عنادنہ کی گ ھیرابی آواز شنا نب مشکرادیا‬
‫ی‬
‫ساتھ گردن سے خند ابچ نیچے اتھری ہڈی یر ا ننے لب رکھ کر آ کھیں نند کرگنا‪،‬عنادنہ کی ہٹ ھنلناں‬
‫تھنگی تھیں‪،‬‬

‫ن بوبی بون یر مقایل کا تھنڈا یرم لمس اس کی سانسیں یل میں تیز کرگنا‪،‬گالبی ل بوں کو سحتی سے‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫دان بوں میں دیانے وہ ا ننے معطل ہونے جواس بچال کرنے کے عرض سانس یجی‪،‬‬

‫"گھر پعد دیکھنا۔۔چلو نہلے تمہیں اننا کمرہ دکھایا ہوں۔۔"‬


‫ُ‬
‫کجھ دیر پعد نیجھے ہٹ کر اس کا جوپصورت چہرہ یری طرح سرخ دیکھ وہ چذیات سے جور لہچے میں‬
‫بوال‪،‬میجی آیکھ کھولتی عنادنہ بوکھالکر پظر حھکابی مقایل کی آیکھوں میں چذیات کا تھا تھے ماریا سم ندر‬
‫دیکھ‪،‬‬

‫‪177‬‬
‫س‬
‫حھک کر اسے یازوؤں میں تھریا لسینل قدم ا ننے کمرے کی چانب اتھایا‪،‬اس کی یاہوں میں‬
‫س‬
‫گ ھیرابی سرمابی وہ لسینل کے کمرے میں آکر ایک جوسگوار اجشاس کے بخت سرمگیں مشکراہٹ‬
‫پ ً‬
‫ل بوں یر سچابی‪،‬نہی وہ چگہ تھی چہاں وہ روز ام ند سے اس انشان کے یاس آبی جس کا دل فرننا‬
‫س‬
‫نٹھر ین خکا تھا اور آج‪،‬نےساچبہ عنادنہ کا سرخ و شفند ہاتھ لسینل کے شینے یر گنا‪،‬روز کے‬
‫مچالف کجھ تیز دل دھڑکٹیں محسوس کرکے ہی عنادنہ کا دل تھی دھڑک کر رہ گنا‪،‬اس کی‬
‫س‬
‫معصوم چرکت بوٹ کریا لسینل مشکراکر اسے ننڈ یر ٹیٹھایا ساتھ روم کی الٹیس آن کنا‪،‬‬

‫وہ جو ننڈ یر ٹیٹھنے ہی کسی یرم چیز کے اجشاس کے بخت ننڈ یر ہاتھ رکھتی معظر ہونے کمرے‬
‫ی‬
‫میں تھنلی جوشبو سانسوں میں ایاری تھی الٹیس آن ہونے یر کالی آ کھیں حمک اتھیں‪،‬ننڈ گالب‬
‫کے تھولوں سے تھرا تھا خنکہ کمرے میں چگہ چگہ کلناں سچاٹیں ہوبی تھیں‪،‬اسے گالب‬
‫نےبچاشہ نسند تھے اور اب ہر چانب انہیں دیکھ وہ نہت جوش ہوبی‪،‬‬

‫"میں انتی جوسی ننان کرنے سے قاصر ہوں۔۔"‬


‫ننڈ یر بجھے تھولوں کی یرمی محسوس کربی وہ بولی‪،‬‬

‫"لقظوں کا ننان صروری نہیں۔۔۔تمہاری جوپصورت آیکھوں کی حمک ہی ایدر کی ظاہر کرنے کے‬
‫لنے کافی ہے۔۔"‬
‫یابی کی یاٹ ڈھنلی کریا وہ ڈرنسنگ یر رکھا بوکیٹ اتھا کر عنادنہ کے یاس آیا‪،‬‬
‫‪178‬‬
‫"تمہارے د ننے یر ہمیشہ دھ یکارد ن نا تھا۔۔۔امند ہے تم انشا نہیں کروگی۔۔"‬
‫س‬
‫اس کے آگے یڑھایا بوکیٹ لسینل محیت سے بوال‪،‬ع نادنہ کو نےساچبہ وہ دن یاد آنے چب وہ‬
‫مقایل مح بوب کے لنے روز یازہ گالب کا بوکیٹ البی اور وہ کٹھی بو انہیں ڈسٹ ین میں تھینک‬
‫د ن نا بو کٹھی تیروں سے ہی مشل کر اسکے چذیات مجروح کرد ن نا‪،‬لنکن آج وہی سخص اسے بوں‬
‫گالب د ن نا کینا احھا لگ رہا تھا‪،‬‬

‫"آپ کی دی ہوبی چیزیں کٹھی نہیں دھ یکار سکتی۔۔"‬


‫س‬
‫سرمگیں مشکراہٹ سمیت کہتی وہ لسینل کو نےچد جسین لگی‪،‬اس کے ہاتھ سے بوکیٹ لیتی‬
‫عنادنہ اس کی جوشبو سے انتی روح یک کو جوسگوار اجشاس سے تھرنے لگی‪،‬‬

‫"انتی سانسیں معظر کرلیں۔۔۔اب یاری میری ہے۔۔"‬


‫س‬ ‫ی‬
‫اسے آ کھیں مویدے بوکیٹ یر گال مس کرنے دیکھ لسینل مشکراکر گویا ہوا‪،‬‬

‫"ہاں۔۔نہ لیں یا۔۔"‬


‫جوسی سے عنادنہ اس کی چانب بوکیٹ یڑھابی‪،‬‬

‫"ا نسے نہیں۔۔"‬


‫کہنے ہی وہ بوکیٹ لے کر یرایر میں رکھنا عنادنہ کو جود سے فرنب کنا ساتھ ہی اس یر حھکنا چالگنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪179‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"ماما۔۔!"‬
‫آدھی رات کو گھر یر آیا تھا وہ اور اب روم کا دروازہ یاک کریا ایدر داچل ہوا‪،‬مہناز ننگم ننڈ سے‬
‫ی‬
‫ننک لگانے آ کھیں مویدی لیتی تھیں‪،‬بخوں کی قکر نے انہیں خند دبوں میں بوڑھا سا کر کے رکھ‬
‫دیا تھا‪،‬حھابی زدہ چہرے یر یژمردگی اور ہر یل پقکر کے سانے ا یکے ایدر کی نےجیتی کا واصح ن بوت‬
‫تھے‪،‬‬

‫"فرخندہ نے ننایا کہ آپ دوابی نہیں لے رہیں۔۔"‬


‫ی‬
‫ان کے یاس ٹیٹھنا وہ مہناز ننگم سے قکرم ند لہچے میں بوحھا‪،‬آ کھیں وا کرکے انہوں نے ا ننے‬
‫سا منے ٹیٹھے ہیٹم کو دیکھا جس کا جود کا چلبہ اس وقت قای ِل رحم ہورہا تھا‪،‬‬

‫"ننا چال قلذہ کے یارے میں۔۔؟"‬


‫شندھے ہوکر انہوں نے نےجیتی سے بوحھا مگر اگلے ہی یل ہیٹم کے مابوسی سے پفی میں سر‬
‫ی‬
‫ہالنے یر وہ کرب سے آ کھیں میخیں‪،‬‬

‫"ہناد تھی عانب ہے قلذہ کا تھی کجھ نہیں معلوم۔۔۔کنا ہوگنا ہے اس گھر کو۔۔"‬
‫پکل یف دہ لہچے میں کہہ کر انہوں نے تھر یاامند ہونے ننک لگالنا‪،‬‬

‫‪180‬‬
‫"عندی کو ننایا آپ نے؟"‬
‫کجھ دیر پعد ہیٹم نے بوحھا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔اسے نہ ننایا نہلے ہی ا ننے دکھوں سے پکل کر اسے جوشناں پضیب ہوبی ہیں اب وہ‬
‫چراب نہ ہونے دو۔۔"‬
‫آزردگی سے بولٹیں وہ تھکی ہوبی پظر کھڑکی یر ڈالیں‪،‬تھنڈی ہوا کے حھو یکے تھی انہیں سکون‬
‫بحسنے میں یاکامناب ہورہے تھے‪،‬دل تھا کہ الگ گھین میں قند ہوا‪،‬‬

‫"ہم سب کو ا ننے کنے کی سزا مل رہی ہے۔۔۔نہت ظلم کنا ہے ہم نے اس یر۔۔"‬


‫ظویل چاموسی کے پعد اذ نت سے کہنے ان کا لہجہ تھ یگا تھا‪،‬ہیٹم کے چہرے یر تمشکل حھ نابی‬
‫اذ نت تھر روتما ہونے لگی‪،‬اس نے یڑھ کر مہناز ننگم کے ہاتھ تھامے‪،‬‬

‫"اصل گناہگار بو میں ہوں اس کا۔۔۔جس نے اس کی الکھ فریادوں کے یاوجود اس یر تھروشہ نہ‬
‫کنا۔۔"‬
‫ہیٹم کا ڈگمگایا لہجہ ایدر کے کھوکھلے ین کی غکاسی کنا تھا‪،‬‬

‫"اور میں۔۔میں کونشا اس کی یابوں یر پقین کربی۔۔۔ ٹینے کی محیت میں ایدھی ایک مرنبہ تھی‬
‫اس لڑکی کے لہچے میں سچابی اور ا ننے ٹینے کی آیکھوں میں جوس نہ دیکھ سکی۔۔اور اب۔۔دل‬

‫‪181‬‬
‫کلینا ہے کہ وہ معصوم معاف کردے مجھے۔۔۔اس سے کہو یا ہیٹم معاف کردے مج ھے۔۔۔"‬
‫کہنے ہونے آچر میں روبی انتی ماں کو دیکھ ہیٹم یڑپ کر ان کے گلے سے لگ گنا‪،‬‬

‫"کس مبہ سے مایگوں معافی جیتی اذ ن ٹیں اسے دیں نہ لقظ وافعی نہت حھویا ہے اس کے‬
‫لنے۔۔۔"‬
‫سرخ آیکھوں سے روابی میں آنسو پکلنے لگے تھے‪،‬یاریک ل بوں کو تھییحنا وہ نےنسی سے کہا ساتھ‬
‫ی‬
‫آ کھیں میچ گنا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پ ً‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫لکی صیح کا وقت فرننا ساڑھے چار بچے وہ اتھا تھا‪،‬ایک ھربور ظر ج ِ‬
‫واب چرگوش یں ڈوبی ا تی‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫اع چاں یر ڈال کر وہ حھکا اس یر‪،‬‬
‫من ِ‬
‫"چاتم۔۔!"‬
‫م‬
‫نہانت یٹھی اور دلکش سرگوسی تھی کہ گہری ٹیند میں ڈوبی عنادنہ یاچا ہنے ہونے تھی ہوش کی‬
‫ی‬
‫دننا میں لونتی انتی مندی مندی آ کھیں نٹم وا کی‪،‬‬

‫"اتھ چاؤ سایاش۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے رنسمی یال یرمی سے سہالیا لسینل محیت سے بوال‪،‬‬
‫‪182‬‬
‫س‬
‫"امم۔۔تھوڑا سا اور سونے دیں لسینل۔۔"‬
‫س‬ ‫ی‬
‫حمار آلود لہچے میں تمشکل کہتی وہ دویارہ آ کھیں موید گتی‪،‬اس کی ادا یر مشکرایا لسینل حھک کر‬
‫عنادنہ کی ٹیشابی یر ا ننے سلگنے لب رکھا‪،‬‬

‫"ایک سریرایز ہے۔۔؟"‬


‫ی‬
‫دھٹمے لہچے میں وہ اس کے کان میں سرگوسی کنا بو عنادنہ نٹ سے آ کھیں کھولتی چیران پظروں‬
‫ک‬‫ی‬
‫سے اسے د ھی‪،‬‬

‫"کنا وقت ہورہا ہے۔۔؟"‬


‫پظر دوڑانے وہ سب سے نہلے بوحھی‪،‬‬

‫"چار چالیس۔۔!"‬
‫ی م‬ ‫س‬
‫لسینل کے جواب یر اس کی آ کھیں کمل کھل کر رہ گتی‪،‬‬

‫"انتی صیح کون سریرایز د ن نا ہے۔۔"‬


‫ً‬
‫"میں د ن نا ہوں۔۔۔اب اتھو فورا ہمیں پکلنا ہے۔۔"‬
‫س‬
‫وقت زیادہ نہیں تھا نٹھی لسینل اب عنادنہ کو یکڑ کر شندھا ٹیٹھایا بوال‪،‬‬

‫‪183‬‬
‫"کہاں کے لنے۔۔؟"‬
‫انتی صیح اتھ کر کہیں چایا عنادنہ کو وی ِال چاں لگا نٹھی شستی سے ننک لگابی بوحھی‪،‬‬

‫"ننادوں گا قلچال اتھو لڑکی ہمیں دیر ہورہی ہے۔۔"‬


‫ی‬ ‫ھ‬ ‫یگ ی سلسین ح‬
‫ج‬
‫ل ھوڑا‪،‬‬ ‫اسے ننک لگاکر تھر او ھنے د کھ‬
‫س‬
‫"آہ۔۔۔کنا کررہے ہیں لسینل۔۔"‬
‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ت ح‬
‫یری طرح گ ھیرابی ھی وہ ھوڑنے یر ھی زچ ہوبی‪،‬‬
‫ج‬

‫"اتھ رہی ہو یا نہیں۔۔"‬


‫س‬
‫اب کی یار لسینل کے ایکسیرنشن سیرنس ہونے اور عنادنہ کا سارا یروتھا ین یل میں خٹم ہوا‪،‬‬

‫"کٹھی ن نار کرنے ہیں کٹھی غصہ۔۔"‬


‫س‬
‫مبہ ننا کر کہتی وہ ن نڈ سے اتھی تھر لسینل یر ایک خقگی تھری پظر ڈالتی اسکے یرایر سے ہوکر‬
‫س‬
‫واسروم میں گتی‪،‬اسے چایا دیکھ لسینل انتی مشکراہٹ کچلنا سر پفی میں ہالیا‪،‬‬

‫کجھ دیر پعد گھر کو الک کر کے دوبوں ساتھ پکلے‪،‬عنادنہ کی چاموسی یاراصگی کا واصح اعالن‬
‫تھی‪،‬ایک بو مقایل انتی صیح اسے اتھایا تھا دوسرا صیح صیح اسکی شیح ندہ گھوری یر وہ نتی ہوبی تھی‪،‬‬

‫‪184‬‬
‫"ٹیٹھو۔۔"‬
‫س‬
‫کار کے یاس آکر وہ یلٹ کر اورفونیچ کو دیکھ کجھ سوخنے لگی تھی نٹھی لسینل کی آواز یر جویکتی‬
‫ٹ‬
‫کار میں یٹھی‪،‬‬
‫ک‬‫ی‬
‫بون گھینے کے شفر میں عنادنہ ایک لقظ تھی نہ بولی‪،‬شیسے سے یاہر قلک یر ہلکا گالبی ین د تی‬
‫ھ‬
‫س‬ ‫ٹ‬
‫وہ ہ بوز مبہ ننانے یٹھی تھی‪،‬اسے و فقے و فقے سے دیکھنا لسینل ہاتھ یڑھا کر عنادنہ کے یرم‬
‫ہاتھ کو تھاما تھر اسکی ہٹھنلی کو جومنا ہاتھ ا ننے شینے یر ر ک ھے ڈران بو کرنے لگا‪،‬مقایل کی عنانت‬
‫م‬
‫یر گالل بو یکھرے تھے اس کے گال یر مگر چہرہ کمل موڑے وہ ا ننے یایرات اس سے حھنابی‪،‬‬
‫س‬
‫ایک اوبجی نہاڑی یر کار روکنا لسینل یرمی سے اس کا ہاتھ حھوڑ کر کار سے ایرا‪،‬عنادنہ چیران‬
‫ک‬‫ی‬
‫ہوبی کر چانب د ھی‪،‬‬

‫"آؤ۔۔"‬
‫س‬
‫اسکی چانب کا ڈور کھول کر لسینل اسے کہا‪،‬وہ ایر کر نہلے بو نیج ھے کی طرف پگاہ دوڑابی ت ھر‬
‫س‬
‫ایک سوالبہ مگر سکوہ کناہ پظر لسینل یر ڈالی‪،‬جیسے بوحھ رہی ہو کہ کیشا سریرایز ہے‪،‬‬
‫س‬
‫اس کی پظروں کا مقہوم سمجھنا لسینل عنادنہ کے کندھے کے گرد ان نا یازو چایل کریا شندھ میں‬
‫چال‪،‬‬

‫‪185‬‬
‫"وہ دیکھو۔۔"‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫پ‬
‫یرمی سے کہا تھا وہ‪،‬اس کے وخنہہ چہرے کو د تی عنادنہ ہ بوز یاراض ظریں سا منے کی اور‬
‫نس۔۔‪،‬اسے لگا وہ اب سانس نہیں لے یانے گی اور اگر انشا تھا بو وہ تھر لینا تھی نہیں چاہتی‬
‫تھی سانس‪،‬‬
‫م‬
‫ایک پظر کا دیکھنا تھا کہ وہ مخو نت سے د یکھے گتی‪ ،‬کمل آیکھوں سمیت لب تھی ہلکے سے کھلے‬
‫تھے سا منے کا م یظر دیکھ‪،‬وہ دوبوں غین نہاڑی کے آچر میں کھڑے تھے‪،‬‬

‫دوسری چانب سا منے سے نہنا آنشار اور اس یر سے اتھنے بچارات وہاں کے ماجول کو چراب یاک‬
‫ننانے تھے‪،‬تھنک اس نہاڑی کے اویر شندھ میں ظلوع ہویا سورج فصا کو الگ ہی روبق بحش رہا‬
‫تھا‪،‬گالبی قلک ریگ یدل کر ننال ہویا نےاننہا جسین لگا تھا‪،‬نہنے آنشار سے اویر اِ س نہاڑی یک‬
‫گھومتی زرد ریگ ننلناں وہاں کے م یظر یر چار چاید لگانے کے لنے کافی تھیں‪،‬قدرت کا نہ جسین‬
‫ی‬
‫م یظر ساید ہی وہ کٹھی د کھی تھی‪،‬‬

‫"کیشا لگا سریرایز۔۔۔؟"‬


‫ی‬
‫کافی دیر یک اس م یظر کو ننا یلک حھ یکانے مخو نت سے د کھتی وہ کان میں تھاری آواز یڑنے یر‬
‫جویکی‪،‬‬

‫‪186‬‬
‫"نہت جوپصورت بوں لگ رہا ہے جیسے نہ خف یقت نہیں جواب ہو۔۔"‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی م کہ پ ی‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫یرانس کی ک ف یت یں تی وہ غور د تی اس جو صورت م ظر کو ا تی آ ھوں یں قند کرلینا چاہ‬
‫رہی تھی‪،‬‬

‫اس کی کمر یر اننا ایک مضبوط یازو چایل کر کے دوسرے ہاتھ سے عنادنہ یرم و یازک ہاتھ تھام‬
‫کر اتھا وہ آگے کنا‪،‬جواب سی چالت میں عنادنہ اتھی کجھ اور سوختی چب ایک جوپصورت زرد ریگ‬
‫ٹ‬
‫ننلی اس کے فصا میں معلق ہاتھ کی مجروطی اپگلی یر آ یٹھی‪،‬‬

‫"ہا۔۔"‬
‫وہ بولنا چاہتی تھی مگر مبہ کھال کا کھال رہ گنا جوسی سے‪،‬تھنلی آیکھوں سمیت اس ننلی کو دیکھ‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫ل ہ بوز‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫عنادنہ جوسگوار چیرت سے چہرہ موڑے لسینل کو د ھی‪،‬اس کا ہاتھ لرز چایا اگر‬
‫مضبوطی سے نہ یکڑا ہویا‪،‬‬

‫"نہ نہت جسین ہے۔۔"‬


‫س‬
‫وہ صرف لب ہی ہال سکی‪،‬گالبی ل بوں کی خٹیش پغور دیکھ لسینل گویا ہوا‪،‬‬

‫"تمہاری طرح۔۔"‬

‫‪187‬‬
‫"نہیں مجھ سے تھی زیادہ جسین۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫لسینل کے چذب تھرے لہچے میں کہنے یر وہ آگے سے بولی‪،‬ننلی اڑی تھی اور لسینل یرمی‬
‫سے اس کا رخ انتی چانب کنا‪،‬‬

‫"یر میری پظر کو صرف انتی محیت ہی جسین لگتی ہے۔۔۔"‬


‫دت چذیات سے کہا‪،‬اس یل عنادنہ کو اننا آپ دننا کی سب سے‬ ‫اس سے ٹیشابی پکانے وہ س ِ‬
‫جوش فسمت لڑک بوں میں لگا‪،‬وافعی وہ نہت جوش فسمت تھی جو اّٰللہ نے اسے ا ننے مخیتی سوہر‬
‫سے بوازا تھا‪،‬‬

‫"آپ کی عنانٹیں مجھے سرمندہ کرد نتی ہیں۔۔۔اس البق نہیں ہوں میں۔۔"‬
‫س‬
‫یکدم ذہن کے یردے میں اننا کنا گنا سلوک یاد آنے یر عنادنہ سرمندہ ہوبی بولی ساتھ لسینل‬
‫کے شینے یر سر رکھی‪،‬‬
‫س‬
‫"میں نے نہت علط کنا تھا لسینل سوری۔۔"‬
‫ی‬
‫وہ جو اسے ا ننے شینے یر سر رکھا د یکھے اس کے گرد یازو یایدھے آ کھیں مویدا تھا کجھ دیر پعد تھر‬
‫اس کے بو لنے یر گویا ہوا‪،‬‬

‫‪188‬‬
‫س‬
‫"تم ہر اس جوسی کی خقدار ہو جو لسینل مراد کے غوض تمہیں ملتی ہے اور چہاں یک یات علط‬
‫کی ہے بو یلکل تم نے علط کنا تھا۔۔۔ع نادنہ۔۔!"‬
‫س‬
‫اس کی نست سہالکر کہنا لسینل آچر میں پکار کر اسے جود سے الگ کنا‪،‬‬

‫"میں ہر یار تمہاری دھ یکار یرداست نہیں کروں گا۔۔۔کوشش کریا کہ اب مجھ یر تھروشہ رکھو‬
‫س‬
‫ک بویکہ تمہاری نےاغیناری میرا دل دکھاد نتی ہے۔۔ لسینل مراد مابوس ہوچایا ہے تمہیں جود یر‬
‫تھروشہ نہ کرنے دیکھ۔۔نہت محیت کریا ہوں تم سے نہت زیادہ۔۔۔مت کنا کرو مجھے جود سے‬
‫دور۔۔"‬
‫ھ‬ ‫ح‬
‫عنادنہ کے یازوؤں کو ہلکے سے ھوڑیا وہ خ بوبی ایداز یں کہہ کر آچر یں اس کا چہرہ ہا ھوں‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ی‬
‫کے ننالے میں لے کر یرمی سے کہا‪،‬مقایل کے لہچے کا خ بون عنادنہ کی آیکھوں میں تمی لے‬
‫س‬ ‫ً‬
‫آیا‪،‬پقینا وہ اس رات کی یات کنا تھا چب وہ اس کے فرنب ہونے یر لسینل کا ہاتھ حھنک‬
‫رہی تھی‪،‬‬
‫س‬
‫"سوری لسینل۔۔۔اب کٹھی شکانت کا موفع نہیں دوں گی آپ کو۔۔"‬
‫س‬
‫لہچے میں غفندت کنے کہتی وہ تیروں کو اوبچا کر کے لسینل کی کشادہ ٹیشابی ا ننے گالبی ل بوں‬
‫سے حھوبی‪،‬‬
‫ت‬ ‫س‬
‫اس دس ِمن چاں کے ُیر سرانت لمس یر زیدگی سے تھربور مشکرایا لسینل اسے جود میں ھییچ گنا‪،‬‬
‫‪189‬‬
‫"ایک وعدہ کروگی مجھ سے۔۔"‬
‫کجھ دیر پعد کار کی بونٹ یر وہ دوبوں ٹیٹ ھے اس جسین م یظر کو پظروں میں ایار رہے تھے نٹھی‬
‫س‬
‫لسینل کے بوحھنے یر عنادنہ م بوجہ ہوبی‪،‬‬

‫"جی۔۔"‬

‫"میں نے کجھ ا نسے کام سر ابچام دنے ہیں جو میری پظر میں یلکل تھنک مگر دننا کی پظر میں‬
‫قای ِل ق بول نہیں۔۔۔"‬
‫ً‬
‫"آپ کی پظر میں اگر وہ کام تھنک ہیں بو پقی نا میری پظر میں تھی تھنک ہو یگے۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات کاٹ کر اس کے کندھے یر سر رکھی عنادنہ نےقکری سے کہی‪،‬‬

‫"کنا سچ میں۔۔"‬
‫وہ جیسے پقین دہابی کررہا تھا‪،‬‬

‫"یلکل۔۔"‬
‫ی‬
‫کندھے اخکاکر اس نے آ کھیں مویدی‪،‬وخنہہ چہرے یر یایرات تھر یال کے شیحندہ ہونے‪،‬ذہین‬
‫پظریں سا منے اس جسین م یظر یر حمانے وہ کسی گہری سوچ میں ِگھریا تھر ٹیند کی وادبوں میں‬
‫ایربی عنادنہ کے گرد مضبوط یازو کا گ ھیرا ننگ کنا‪،‬‬

‫‪190‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫م‬ ‫ح‬ ‫ص ٰ‬
‫" عری ھوڑ دو یں کرلوں گی۔۔"‬
‫ص ٰ‬ ‫ٹ‬
‫صیح الؤبج میں یٹھی وہ ا ننے تیروں یر یام لگارہی تھی نٹھی اس سے لے کر نہ کام عری کرنے‬
‫لگی‪،‬اب اسے رو کنے کے عرض مطیبہ م یع کررہی تھی‪،‬‬

‫"نہ بی بی۔۔۔آپ نے میرے لنے انتی آسان ناں کردی گاؤں سے میرے گھر والوں کو سہر‬
‫میں شقٹ ہونے کے ٹیسے تھخوانے اب نہ سب بو میں آپ کے لنے کر ہی سکتی ہوں یا۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫ش‬ ‫ش‬‫م‬ ‫ش ل م کہ ص ٰ‬
‫ل‬
‫م کور ہچے یں تی عری ل اس کے تیروں یر ا ننے ہاتھ الرہی ھی‪،‬‬

‫"دیکھو کوبی آیا ہے۔۔"‬


‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫ڈور ننل کی آواز یر مطیبہ نے کہا جس یر عری ا تی چاکر گیٹ ھولی‪،‬آنے والی تی کو د کھ‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫م‬ ‫ی‬
‫حھنل آ کھیں ن یفر سے سکڑیں‪،‬انتی طرف سے وہ کمل کوشش بو کی تھی اسے پکل یف دہ القاظ‬
‫کہنے کی بو ک بوں وہ اب تھر سے آیا تھا‪،‬‬

‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ص ٰ‬
‫" عری یں یر رہو۔۔"‬
‫ً‬
‫ہیٹم کو الوبج میں آنے دیکھ صعری ہاتھ صاف کربی کچن میں چانے لگی نٹھی مطیبہ نے فورا‬
‫کہا‪،‬ڈر تھا کہ کہیں بجھلی مرنبہ کی طرح وہ تھر اسے حھونے کی کوشش نہ کرے‪،‬‬
‫‪191‬‬
‫"مجھے اکنلے میں یات کربی ہے۔۔"‬
‫ی‬ ‫ص ٰ‬
‫شیحندگی سے کہنا وہ عری کو د کھا بو اس نے سر الکر ھر کچن کا رخ کنا‪،‬‬
‫ت‬ ‫ہ‬

‫"صعر۔۔"‬

‫"ماما کی طی یعت تھنک نہیں ہے۔۔"‬


‫ی‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ہیٹ گ ص ٰ‬
‫وہ جو م کو ھوربی عری کو رو کنے گی ھی اس کے بو لنے یر چپ ہوبی‪،‬یاگوار ظریں مقا ل یر‬
‫گتی تھیں‪،‬‬

‫"بو۔۔"‬
‫لہجہ ہ بوز نےجسی لنے تھا اس کا‪،‬‬

‫"وہ تمہیں یاد کررہی ہیں۔۔"‬


‫مطیبہ کا لہجہ دکھی بو کنا تھا اسے نٹھی ہلکی آواز میں بوال‪،‬‬

‫"بو۔۔"‬
‫تھر وہی مح یصر سوال‪،‬ہیٹم نےنس ہوا‪،‬‬

‫"مطیبہ گھر چلو یلیز۔۔"‬

‫‪192‬‬
‫"میں تمہیں اننا ق یصلہ شنا چکی ہوں۔۔"‬
‫مضبوط لہچے میں کہتی وہ تیر صوفے سے زمین یر رکھنے کی کوشش لگی‪،‬اس دوران تیر کے درد سے‬
‫اتھنے والی ٹیس کی پکل یف مطیبہ کے چہرے یر حھابی‪،‬ہیٹم ح ھٹ سے آگے یڑھنا مدد کے عرض‬
‫اس کا تیر یکڑا‪،‬مطیبہ کرنٹ کھاکر رہ گتی‪،‬جوپصورت چہرے یر وہی جوف کے سانے لہرانے جو‬
‫اس شٹمگر کے حھونے سے آنے تھے‪،‬‬

‫"ہ۔۔ہاتھ ہناؤ۔۔"‬
‫م‬ ‫خ‬
‫یل میں زرد ہونے چہرے سمیت وہ یحتی وہ کمل کوشش کی تھی لہجہ نہ ڈگمگانے کی‪،‬دوسدی‬
‫ً‬ ‫ی‬
‫چانب اسے آ کھیں تھنالنے دیکھ ہیٹم فورا سے نہلے دور ہوا‪،‬‬

‫"میں صرف مدد کررہا تھا۔۔"‬


‫مطیبہ کا چہرہ اب یک زرد یڑا ہوا تھا‪،‬ہاں وہ اب تھی اس شٹمگر کے زرا سے لمس یر تھی گ ھیرا‬
‫چابی تھی‪،‬‬

‫"تمہیں کس نے جق دیا مجھے حھونے کا۔۔"‬


‫سکنے کی چالت سے پکلتی وہ اچایک غصے میں تھڑکی‪،‬ہیٹم نےپقین ہوا تھا اس کا نہ ایداز دیکھ‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬

‫‪193‬‬
‫"سمجھ کنا رکھا ہے مجھے۔۔کھلویا ہوں تمہارے ہاتھ کا چب چاہا رکھا چب چاہا دھ یکار دیا اور حھوا کس‬
‫جق سے ہے تم نے مجھے۔۔"‬
‫پ ً‬
‫اس کے غصنلے ایداز کو دیکھ ہیٹم سمجھ رہا تھا کہ وہ قینا ھڑاس پکال رہی ہے ا تی ک بویکہ تیر‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫حھویا کوبی یڑی یات نہ تھی‪،‬‬

‫"میں نے صرف۔۔"‬

‫"اوہ۔۔میں بوحھ تھی کس انشان سے رہی ہوں نہ یات ہیٹم سکندر۔۔۔ہناد سکندر کا تھابی خنہیں‬
‫ج س‬
‫ہر چیز یلکہ انشان انتی ملکیت لگنا ہے اور انہیں حھویا وہ اننا اننا ق ھنے یں۔۔"‬
‫ہ‬ ‫مج‬

‫بو لنے ہونے مطیبہ کے چہرے یر اذ ن ٹیں رقم ہونے لگیں‪،‬‬

‫"مجھے اس گھینا سے کمیئیر مت کرو مطیبہ۔۔۔میں اس جیشا یلکل نہیں ہوں۔۔"‬


‫ہناد کا یام اس کے مبہ سے شینے ہی ہیٹم کا ضیط بو ننے لگا تھا مگر تھر تھی بجمل سے کہا وہ‪،‬‬

‫"یلکل تم بو اس سے تھی گنے گزرے ہو۔۔"‬

‫"مطیبہ۔۔۔"‬
‫یڑپ ہی بو گنا تھا اس لڑکی کی نہ یات سن کر‪،‬‬

‫‪194‬‬
‫"ا نسے مرد میری پظروں کی قہرست میں گنے گزرے ہی ہونے ہیں جو ننا کسی بخف بق یا ن بوت‬
‫کے عیر کی یات یر پقین کر کے انتی ن بوی کو یدکردار کہنے ہیں اور جوش ہوچاو ہیٹم سکندر تم آج‬
‫اس قہرست میں نہلے تمیر یر ہو۔۔"‬
‫وہ جیسے فسم کھابی تھی اس سخص کو تھی انہیں لقظوں سے مارنے کی جو وہ اکیر اس یر آزمایا کریا‬
‫تھا‪،‬مطیبہ کے القاظ اسے کسی طما بچے سے کم نہ لگے تھے‪،‬سرمندگی سے وہ پظریں اتھانے کے‬
‫قایل نہ رہا تھا‪،‬‬

‫"تھنک ہے میں ہوں گنا گزرا ایک گھینا مرد جو انتی ن بوی یر یدکردار کا ننگ لگایا تھا مگر مطیبہ تم‬
‫جود سوجو ان الجھ بوں میں گھرا میں کیسے پقین نہ کریا آیکھوں د یکھے یر۔۔اور گواہ اگر عیر تھی ہویا بو‬
‫میں ساید نہ ماننا مگر وہ بو ا ننے تھے۔۔۔"‬
‫نےنسی سے اسے ا ننے نہنے میں سمجھانے کی کوشش کریا وہ عیر ارادی ظور یر تھر دل دکھایا تھا‬
‫مطیبہ چہایگیر کا‪،‬بو کنا اسے انتی ن بوی یر پقین تھا ہی نہیں یا وہ کریا ہی نہیں چاہنا تھا‪،‬ک بوں وہ‬
‫سخص ہر چگہ صرف جود کو مطلوم پصور کریا تھا‪،‬ک بوں اس کے دل کے چاالت پظرایداز کرد ن نا تھا‪،‬‬

‫"بو تھر آج ان بوں کو حھوڑ کر عیر کے یاس ک بوں آنے ہو۔۔چاو تمہارے ان بوں کو صرورت ہے‬
‫تمہاری۔۔"‬
‫یکدم لہجہ نےرجی میں سمونے وہ بولی‪،‬‬
‫‪195‬‬
‫"نہیں کرو انشا۔۔۔معاف کردو مجھے نہیں بو کم از کم ماما کو ہی۔۔"‬

‫"مجھ میں اب اور طرف نہیں تم جیسے کم طرف کو معاف کرنے کا اور یات چہاں یک یابی امی‬
‫کی ہے بو تھنک ہے۔۔میں انہیں معاف کربی ہوں۔۔اب چاؤ نہاں سے۔۔"‬
‫چہرہ موڑ کر وہ اننا تھنگنا لہجہ تمشکل نےجسی میں یدلے آچر میں سخت ایداز میں بولی‪،‬درد سے جور‬
‫ہوا دل جون کے آنسو رورہا تھا‪،‬اس لنے نہیں کہ وہ سخص آج اس کے سا منے نےنس کھڑا تھا‬
‫یلکہ اس لنے کہ اب اس سخص کے لنے اس کا بخین سے دھڑکنا دل ساکت ہوخکا تھا‪،‬ہاں‬
‫اسے اب فرق نہیں یڑیا تھا اس سخص کو اذ نت میں مینال دیکھ‪،‬دکھ بو وہ اس یات یر کربی کہ‬
‫انتی چالص اور یادان محیت کے لنے اس نے ایک علط سخص کا انیچاب کنا تھا‪،‬‬

‫دوسری چانب اسے پکل یف میں گھریا محسوس کرکے ہیٹم میں ہمت نہ ہوبی کجھ اور کہنے کی‪،‬وہ‬
‫معاف کرچکی تھی مہناز ننگم کو‪،‬اس کا نہ طرف ہی ہیٹم کے لنے کافی تھا‪،‬اب نس وہ اسے کسی‬
‫طرح سکندر وال الیا چاہ رہا تھا‪،‬چاننا تھا نہ مشکل ہے ہر یاممکن بو نہیں یا‪،‬نٹھی تھر آنے کی امند‬
‫لینا وہ ا ننے قدم نیجھے لینا مڑا‪،‬‬

‫چب اسے لگا کہ وہ چال گنا ہے نب رخ وانس اس گیٹ کے چانب کی چہاں سے وہ شٹمگر اتھی‬
‫پکال تھا‪،‬اس کے چانے کے پعد چب سے کنا مطیبہ کا ضیط بویا‪،‬وہ نہیں رویا چاہتی تھی یر رو‬
‫یڑی‪،‬مح بور تھی کہ اس سخص کو معاف کرنے کا طرف ہی نہیں تھا اس میں اب‪،‬وہ وقت اسے‬
‫‪196‬‬
‫تھولنا ہی نہیں تھا چب نےفصور ہوکر تھی وہ کٹھی کسی کی جوس کا نشانہ ٹینے لگتی بو کٹھی اس‬
‫یر ہی سارے الزامات عاید کردنے چانے اور نب۔۔۔‪،‬نب مقایل اس کا یام نہاد سوہر ہر ایک‬
‫کی یابوں یر پقین کریا اس کو فصوروار نہرا کر انتی چانب سے تمام کوشسیں کریا اسے کرب میں‬
‫مینال کرنے کی‪،‬اگر وہ انتی ہی پفرت کا دغویدار تھا بو اب ک بوں آیا تھا اسے منانے‪،‬گھر چلنے کا‬
‫کہنے‪،‬ک بوں روز اس کے تھرنے زحموں یر آکر تیر رکھ د ن نا‪،‬وہ جینا کوشش کررہی تھی سب کجھ‬
‫تھالکر انتی زیدگی سروع کرنے کا سوچے وہ سخص اننا ہی رکاوٹ ین رہا تھا اس کے کام میں‪،‬‬

‫" چلے چاؤ تم نہت دور چلے چاؤ ہیٹم سکندر مجھ سے۔۔۔نہیں کرسکتی میں تمہیں معاف کٹھی تھی‬
‫نہیں۔۔"‬
‫چہرہ ہاتھوں میں حھنانے وہ زی ِر لب یڑیڑابی یلک کر رورہی تھی‪،‬دل یری طرح بوٹ خکا تھا اس کا‬
‫سکندر وال کے ہر مکین کی چانب سے‪،‬‬

‫مردہ قدموں سے یاہر پکلنا وہ تھاری ہونے دل سمیت غین جوک ھٹ یر ٹیٹھا تھا‪،‬ا ننے ہی ہاتھوں‬
‫سے سب کجھ صنا پع کر کے اب چالی داماں ہی بو رہ خکا تھا‪،‬اس کا گھر گھر نہ رہا تھا‪،‬اس لڑکی‬
‫کا دل تھی جس قدر دکھایا تھا وہ چاننا تھا کہ اب کٹھی معافی نہیں ملنے والی اسے‪،‬ا ننے گناہ کا‬
‫کقارہ کریا چاہنا تھا وہ یر ساید پقدیر اس معا ملے میں اس کا ساتھ د ننے سے گریزاں تھی‪،‬قلذہ کی‬
‫گمشدگی‪،‬مہناز ننگم کی روز یروز یگڑبی طی یعت مطیبہ کی پفرت اور ا ننے گناہ کے بجھناوے کا بوحھ‬
‫‪197‬‬
‫اس قدر یڑھ خکا تھا کہ وہ تھکنے لگا تھا ان سب سے‪،‬چاروں طرف سے یرنشابی میں گھرا وہ ٹیند کی‬
‫کمی سے سرخ ہوبی ہلقہ آور آیکھوں کو مشلنا ُدک ھنا ہوا سر ہاتھ میں گراگنا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ن س‬
‫ل اسے الیگ ڈران بو یر لے کر گنا تھا‪،‬اور اب دونہر ہونے کے‬ ‫اس نہاڑی سے وا سی یر‬
‫فرنب وہ دوبوں وانس گھر یر لونے تھے‪،‬ایدر داچل ہونے ہی شٹھی طرف تھول یکھرے دیکھ ایک‬
‫ٹ‬
‫یل کو عنادنہ جوش ہوبی صوفے یر یٹھی‪،‬‬

‫"اتھو چاتم۔۔۔نہلے صقابی کرلینے ہیں تھر کھایا کھاٹیں گے۔۔"‬


‫س‬ ‫ی‬
‫اسے سکون سے صوفے یر آ کھیں موید کر ننک لگانے دیکھ لسینل یرمی سے بوال بو ع نادنہ چیرت‬
‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ی‬
‫سے آ کھیں کھولتی اسے د ھی ھر ہر چانب ھرے ھولوں کو‪،‬‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫س‬
‫"صقابی ک بوں کریں لسینل۔۔۔اننا احھا بو لگ رہا ہے نہ سب۔۔۔"‬
‫س‬
‫صوفے یر سے خند کلناں اتھابی وہ لسینل سے کہی‪،‬‬

‫"ہاں مگر رات یک چب نہ سوکھ چاٹیں گے بو نہت یرے تھی لگیں گے نہیر ہے اتھی صاف‬
‫کرلیں۔۔اتھو میں کار سے سامان الیا ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫اس کا گال تھیٹھناکر کہنا لسینل شندھا ہوا بو ع نادنہ تھی تھر ننا جوں چراں کے اتھی‪،‬مٹیشن‬
‫‪198‬‬
‫سے پکلنے سے نہلے وہ اسماء کو عنادنہ کے دو سوٹ اور خند صرورت کے سامان ننک کرنے کی‬
‫ہدانت دیا تھا اور فرمان سے اننا اور عنادنہ کا سامان کار میں رکھوایا تھا‪،‬ہینڈ کیری کار سے الیا وہ‬
‫عنادنہ کے ساتھ مل کر صقابی کروایا تھا‪،‬آدھے گھینے پعد صقابی سے قارغ ہوکر عنادنہ نہانے‬
‫س‬
‫کے عرض واسروم کا رخ کی نب یک لسینل کھایا اورڈر کرخکا تھا‪،‬چب یک وہ نہاکر پکلی کھایا‬
‫س‬
‫آخکا تھا‪،‬اسے کھایا پکا لنے کا کہنا لسینل جود تھی واسروم کا رخ کنا‪،‬‬
‫س‬
‫"ایک یات کہوں لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫کھانے کے دوران ع نادنہ مشلشل کجھ سوختی لسینل کو مچاطب کی‪،‬‬

‫"کہو۔۔"‬

‫"ہم نسمہ کو ایڈو نٹ کرلیں۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کا ہاتھ رکا تھا اس کی یات یر‪،‬اشبون رکھنا وہ چیرابی سے عنادنہ کو دیکھا‪،‬‬
‫س‬
‫"میری یات بجمل سے شٹیں لسینل۔۔ہماری سادی کو اننا یاتم ہوخکا ہے یر اب یک‬
‫میں۔۔"‬

‫"تم ماں ٹینے سے مجروم ہو اور تمہیں لگنا ہے کہ اوالد کی پعمت ہمیں کٹھی نہیں ملے گی نٹھی‬
‫نہ خنال تمہارے ذہن میں آیا۔۔"‬

‫‪199‬‬
‫س‬
‫اسے سمجھانے کے عرض عنادنہ لسینل کے دوبوں ہاتھ یکڑبی بو لنے لگی تھی مگر اس کی یات‬
‫س‬
‫کاٹ کر لسینل آگے سے کہا بو وہ چپ ہوبی تھی‪،‬‬

‫"عنادنہ اتھی سادی کو یاتم ہی کینا ہوا ہے ہماری جو تم نہ سب سوخنے لگی ہو۔۔پقین رکھو اّٰللہ‬
‫یر وہ بوازے گا صرور ہمیں اوالد سے۔۔"‬
‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل کے ُیرپقین لہچے میں کہنے یر عنادنہ نےنسی سے اسے د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫"اور اگر ہماری اوالد کٹھی نہ ہوبی بو۔۔۔"‬


‫اچایک تھنگنے لہچے میں وہ ا ننے ایدر امڈنے ڈر سمیت بوحھی‪،‬‬

‫"بو کنا ہم دوبوں کافی نہیں ایک دوسرے کے لنے۔۔۔"‬


‫س‬
‫اس کا چہرہ تھام کر لسینل محیت سے بوحھا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔!"‬
‫وہ ڈربی تھی کہ مقایل ٹیٹھا وہ مح بوب سخص جس طرح اسے مال تھا اب ڈر ہی لگنا تھا کہ کٹھی دور‬
‫نہ ہو چانے اس وجہ کے بخت‪،‬‬

‫"تھنک ہے اگر تم نسمہ کو ایڈو نٹ کریا چاہتی ہو بو مجھے کوبی یرایلم نہیں یر سرط نہ ہے کہ آ نندہ‬
‫کٹھی ہمارے درمنان اس طرح کے موصوع یر یات نہیں ہوگی۔۔۔چب مجھے پقین ہے اّٰللہ یر بو‬

‫‪200‬‬
‫تمہیں ک بوں نہیں۔۔"‬
‫س‬
‫شیحندگی سے کہنے لسینل اس کی کالی تم زدہ آیکھوں میں دیکھا‪،‬عنادنہ چیران ہوبی تھی اس کے‬
‫لہچے میں اس چد یک پقین محسوس کرکے‪،‬وافعی وہ درنہ ننگم کا ہی بویا تھا چدا یر پقین رکھنے واال‪،‬‬

‫"اب اور کجھ۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے جوپصورت چہرے یر جوسی کی دمک دیکھ لسینل مشکرانے ہونے بوحھا‪،‬عنادنہ نے‬
‫اننات میں سرہالیا‪،‬‬

‫"کنا۔۔"‬

‫"ہم آج وانس چلیں۔۔"‬


‫عنادنہ کی یات نے اسے تھر چیرت میں مینال کنا‪،‬‬

‫"ک بوں۔۔"‬

‫"ننا نہیں دل عح یب ہورہا ہے۔۔۔مام کی یاد آرہی ہے۔۔"‬


‫س‬
‫الچارگی سے کہتی وہ لسینل کے کندھے یر ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫"بو نہلے ہم اورفونیچ چاٹیں گے تھر وانس۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے یال یرمی سے سہالیا لسینل عنادنہ کے یالوں یر لب رکھا‪،‬‬

‫‪201‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ی م‬
‫آفس سے لیٹ گھر یر آیا تھا وہ‪،‬مہناز ننگم کو کمرے میں سویا د کھ کر ین ہویا اب الؤبج یں‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ط‬

‫آکر صوفے یر گرنے کے ایداز میں ٹیٹھا‪،‬صوفے کی نست سے ننک لگانے اس نے تھک کر‬
‫ک‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫آ یں موید یں‪،‬اے سی کی تھنڈک نے ھی ایدر کی ین یں سی می کا کام نہ کنا‪،‬‬

‫"مجھ میں اب اور طرف نہیں تم جیسے کم طرف کو معاف کرنے کا۔۔"‬
‫مطیبہ کی یات ذہن میں دتمک کے طرح خنک کر گردش کررہی تھی‪،‬وہ کس چد یک اننا مقام‬
‫گراخکا تھا اس لڑکی کی پظروں میں‪،‬ک بوں وہ اس یر رحم نہ کھایا تھا کبوں اس یر پقین نہیں کنا‬
‫تھا‪،‬اگر کو ایک بول ہی میٹ ھے وہ بول د ن نا اسے بو ساید آج وہ انتی نےجس نہ ٹیتی‪،‬‬

‫کجھ یلوں کے لنے ان سوجوں سے حھ یکارا یانے کے عرض وہ اننا سر حھنکنا کھڑا ہوا‪،‬رخ تھر یاہر‬
‫کی چانب تھا‪،‬کار میں ٹیٹھنا وہ کجھ دیر کے لنے ساچل سم ندر یر چایا چاہنا تھا مگر مٹیسر ذہن اس‬
‫قدر ہوا تھا کہ نندرہ میٹ کی ڈران بو کے پعد جود کو چہایگیر ہاؤس کے یاہر یایا‪،‬وہ چیران ہوا تھا ا ننے‬
‫اس غمل یر‪،‬مطیبہ چہایگیر اس چد یک اس کے دماغ میں سوار ہوچکی تھی‪،‬نےپقیتی کی ک یف یت‬
‫میں چہایگیر ہاؤس کو دیکھ وہ کار ربورس کریا چاہا مگر تھر کجھ سوخنا پکل کر یاہر آیا‪،‬قدم ایدر کی‬

‫‪202‬‬
‫چانب تھے‪،‬ڈور ننل یر ہاتھ رکھا تھا اس نے‪،‬شنکی تھی ہورہی تھی‪،‬اس وقت اسے وہاں دیکھ‬
‫یاچانے کیشا رننکٹ کربی مطیبہ‪،‬‬
‫ص ٰ‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫پ‬ ‫کھ ص ٰ‬
‫کافی دیر پعد گیٹ ال‪ ،‬عری کو سا منے چیران ظروں سے جود کو یکنا یاکر م ایدر قدم رکھا‪ ،‬عری‬
‫جود ہی یرایر میں ہوبی‪،‬ایدر آیا وہ النا جود سدید چیرت میں گھرا تھا مطیبہ کو اب یک صوفے یر ٹیٹھے‬
‫دیکھ‪،‬‬

‫جود کو دیکھنے ہی مطیبہ کی پظروں میں یاگواری ایرنے دیکھ ہیٹم کو سخت نسٹمابی ہوبی تھی‪،‬اسے‬
‫دیکھ وہ کجھ بوحھ نہیں رہی تھی مگر ہ بوز یاگوار پظریں اس یر گرانے صوفے یر ہاتھ رکھتی کھڑی‬
‫ہوبی‪،‬کل کے مقا یلے اب کافی نہیر لگا تھا اسے تیروں کا درد‪،‬‬

‫"تم۔۔نے ماما کو معاف کر ہی دیا ہے بو۔۔میں نے سوچا کہ۔۔"‬

‫"نہ کوبی وقت ہے کسی کے گھر یر بوں یال اچازت آنے کا۔۔"‬
‫ً‬
‫ہیٹم کا ارادہ سمجھ چکی تھی وہ نٹھی ایک پظر دیڑھ بچابی گھڑی کو دیکھ فورا سے نہلے اس کی یات‬
‫کابی‪،‬جیسے شینا ہی نہ چاہ رہی ہو اس کے مبہ سے وہ لقظ‪،‬ک بوں کہ مقایل کو معاف کرنے کا‬
‫طرف اب نہیں تھا اس میں‪،‬‬

‫‪203‬‬
‫"چاننا ہوں اتھی جو تم شبوگی بو صرور غصہ ظاہر کروگی۔۔۔کوبی جق تھی نہیں رکھنا میں نہ بوحھنے‬
‫کا یر۔۔"‬
‫وہ جود انتی چالت سے جیسے عاچز تھا‪،‬اس لڑکی کا دور رہنا گوارا ہی نہیں ہورہا تھا اور ہمت تھی‬
‫نہیں تھی بو لنے کی مگر تھر گہری سانس تھر کر ہیٹم اس کی چانب یڑھا‪،‬‬

‫"جو یات ہے وہی کھڑے ہوکر کہو۔۔۔"‬


‫صیح مقایل کا لمس جس قدر جوفزدہ کنا تھا اسے اب وہ نہیں چاہ رہی تھی کہ ہیٹم زرا فرنب تھی‬
‫آنے اس کے نٹھی تیزی سے بولی‪،‬ہیٹم کے قدم رکے‪،‬‬

‫"معافی کی کوبی گیچانش نہیں پکلتی۔۔۔؟"‬


‫وہ جیسے آچری آس لنے بوحھا تھا‪،‬‬

‫"یلکل نہیں۔۔"‬
‫ایل لہجہ تھا‪،‬‬

‫"مت کرو انشا۔۔"‬


‫اذ نت سے بوال تھا وہ‪،‬‬

‫‪204‬‬
‫"یاہر کا راسبہ وہاں یر ہے۔۔"‬
‫ننا اس یر کوبی پگ ِاہ علط ڈالے وہ نےیایر لہچے میں بولی‪،‬‬

‫"مطیبہ چلو یار گھر۔۔۔"‬


‫ل‬‫ہیٹ م‬
‫ی‬
‫م جی ہوا‪،‬‬

‫"میں "ا ننے" گھر یر ہی ہوں۔"‬


‫مقایل لقظ ا ننے یر زور دے کر مضبوط لہچے میں بولتی اسے کہیں سے تھی وہ مطیبہ نہ لگی جو‬
‫اس کی ایک پظر یر تھی گ ھیرا سی چابی تھی‪،‬‬

‫"یلیز۔۔"‬

‫"گیٹ نند کرنے چایا۔۔"‬


‫اب اس کا لہجہ کجھ بوں ہوا جیسے تیزار ہورہی ہو مقایل کی یابوں سے‪،‬آج تھر اس لڑکی سے ہار‬
‫کر وہ ا ننے قدم نیجھے لینا مڑا‪،‬وخنہہ چہرے یر پکل یف کے آ یار ایدر کی اذ نت ظاہر کررہے‬
‫تھے‪،‬گیٹ کی طرف اس کے قدم تھے نٹھی مطیبہ کی نےیایر آواز تھر اتھری‪،‬‬

‫‪205‬‬
‫"ظالق یامہ تھخواد ن نا کل۔۔"‬
‫ہیٹم یڑپ کر یلنا تھا ساتھ اس لڑکی کو دیکھا‪،‬نہ القاظ کہنے اس کے جوپصورت چہرے یر زرا تھی‬
‫پکل یف دہ یایر نہیں دکھا تھا‪،‬‬

‫"میں نہیں دوں گا تمہیں ڈبوارس۔۔"‬


‫ک‬‫م ی‬
‫وہ کرب تھرے لہچے میں یآواز بوال‪،‬اب کی یار مطیبہ اس کی چانب اشنہزنہ ایداز یں د تی دوبوں‬
‫ھ‬

‫آیرو اتھابی‪،‬‬

‫"احھا۔۔"‬
‫مذاق اڑانے واال ایداز تھا اس کا‪،‬ایک یل کو ہیٹم کو اس یر کسی نٹھر کا گمان ہوا‪،‬‬

‫"ہر سزا ق بول ہے مطیبہ یر ڈبوا۔۔"‬

‫"چاؤ نہاں سے۔۔۔"‬


‫وہ جو تھر اس کی چانب آیا بو لنے لگا تھا مطیبہ کے یکدم تیز آواز میں کہنے یر ا ننے قدم روکا‪،‬دل‬
‫نےنناہ اذ ن بوں میں گھرا تھا‪،‬وہ نےنسی سے خند قدموں کی دوری یر کھڑی اس لڑکی کو دیک ھنے لگا‬
‫جو کسی ظور اس کے ساتھ رہنے یا اسے معاف کرنے کی مٹمتی نہ تھی‪،‬سر حھکا کر سحتی سے‬
‫ی‬
‫آ کھیں میحنا وہ سدت سے ا ننے کنے گنے شنگین گناہ یر بجھنایا‪،‬کنا ہویا اگر کو وہ اس وقت صرف‬
‫اغینار کرلی نا مطیبہ یر‪،‬‬
‫‪206‬‬
‫"چال چایا ہوں لنکن میں تھر آؤں گا اور نب یک آؤں گا چب یک تم معاف نہیں کرد نتی اب‬
‫تم تھلے مرنے کے پعد ہی سہی یر کٹھی بو معاف کروگی یا۔۔۔"‬
‫تم ہوبی یلکیں حھنک کر زرا سی امند کے بخت بول کر اس نے یاہر کا رخ کنا‪،‬‬

‫"ہوسکے بو کٹھی مت آیا ک بویکہ مطیبہ چہایگیر تمہارے مرنے یر تھی تمہیں معاف نہیں کرنے‬
‫والی۔۔"‬
‫مطیبہ کا لہجہ نےرحمی کی چدوں کو حھوا تھا‪،‬ہیٹم الل تھ بوکا ہویا چہرہ لنے تیزی میں چہایگیر ہاؤس‬
‫سے پکلنا چال گنا‪،‬‬
‫ٹ‬
‫مطیبہ آہسنگی سے صوفے یر یٹھی‪،‬ذہن میں جود کے ساتھ کی گتی اس شٹمگر کی زیادنناں آبی بو‬
‫نٹھر ہونے دل میں اور پفرت سی اتھری‪،‬صیح وہ انتی پکل یف یر روبی تھی مگر اب اس شٹمگر کے‬
‫چہرے یر نےنناہ اذ نت و پکل یف دیکھ کر تھی اسے فرق نہیں یڑرہا تھا‪،‬کنا کربی دل ہی نٹ ھر‬
‫ہوخکا تھا اس کی طرف سے‪،‬نہ اس کی موجودگی یر دھڑکنا نہ اس کی پکل یف یر یڑن نا‪،‬‬

‫چہایگیر ہاؤس سے تیزی میں پکلنا وہ کار میں ٹیٹھا‪،‬مطیبہ کے آچری حملے نے اس کا دماغ ماؤف‬
‫کر کے رکھ دیا تھا‪،‬کنا سچ میں اس لڑکی کو ہیٹم سکندر کی موت سے تھی فرق نہیں یڑنے واال‬
‫تھا‪،‬انتی نےجس ہوچکی تھی وہ‪،‬ہیٹم کو سدت سے افسوس ہوا انتی کی گتی زیادن بوں یر‪،‬ایک موم‬
‫کی گڑیا کو کنا سے کنا کر کے رکھ دیا تھا اس کی پفرت و خقارت نے‪،‬‬
‫‪207‬‬
‫کار شنارٹ کریا روڈ یر ڈال کر وہ اشینڈ تیز کرنے لگا‪،‬‬

‫بو کنا وہ سچ میں کٹھی اسے معاف نہ کربی‪،‬اس قدر پفرت کربی تھی اس سے کہ اب ہیٹم کے‬
‫ساتھ بو دور کی یات اسے دیکھنا یک گوارا نہ کررہی تھی‪،‬‬

‫"تم نے اننا صنا پع جود کنا ہے ہیٹم سکندر۔۔اس ہی البق ہو تم ہمیشہ اکنلے رہنے کے۔۔"‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫ج‬
‫ضمیر سے آبی آواز نے اسے ھوڑ کر رکھ دیا تھا‪،‬بوں لگ رہا تھا جیسے چان چانے کو ہورہی‬
‫ہو‪،‬آچر غم ہی اننا یڑا تھا‪،‬کار کی شینڈ یڑھایا وہ سدید نےنسی کی ک یف یت میں جود سے زد ہونے‬
‫گناہوں کا سوچ رہا تھا‪،‬ایدر و یاہر اذ نت ہی اذ نت تھی‪،‬ا ننے ایدھے ین میں سب کجھ بو کھو ہی‬
‫خکا تھا وہ‪،‬ان بوں یر ِکنا تھروشہ الگ بویا ساتھ اس معصوم کا گناہگار نہرا‪،‬ہاں اس یر یاجق ا ننے‬
‫ظلم کرنے وہ نہت یڑا گناہگار نہرا تھا‪،‬‬

‫"انتی ذمہ داری سے اننا تھی عاقل نہ ہو کہ پعد میں صرف بجھناوا تمہارے ہاتھ لگے۔۔"‬

‫"شیٹھل چاو کہ کہیں وقت نہ پکل چانے۔۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کی مشلشل دی گتی وارننگ یر تھی وہ اس کی یات نہ مایا اور اب‪،‬وہی ہوا تھا اس کے‬
‫ہاتھ صرف بجھناوا تھا‪،‬نےچد بجھناوا ا ننے کنے کا‪،‬ماوف ہونے دماغ میں صرف نہی یات گردش‬
‫کررہی تھی کہ اگر وہ اسے نہ ِملی بو ہیٹم سکندر چالی دامن رہ چانے گا‪،‬کرب اننا تھا کہ سر تھینے‬
‫کے فرنب تھا‪،‬ٹیشابی کی رگیں تھو لنے یر وہ سدت سے درد کرنے سر کو ایک ہاتھ سے چکڑیا‬
‫‪208‬‬
‫ی‬
‫آ کھیں میچا مگر اگلے ہی لمچے چب پظر اتھ کر سا منے گتی بو جویک کر وہ اشیئیریگ یر وانس ہاتھ رکھا‬
‫مگر نب یک دیر ہوچکی تھی‪،‬سا منے سے فرانے تھر کر آبی گاڑی تیزی میں اس کی کار سے‬
‫یکرابی‪،‬مقایل کار بو تیزی میں آگے یڑھی تھی مگر ادھر وہ انتی کار شیٹھا لنے کی یاکام کوشش‬
‫کنا‪،‬‬

‫"بو۔۔"‬
‫اس کے مبہ سے پکلتی دلجراش خیخ فصا میں ارپعاش نندا کی تھی ساتھ ہی تیزی سے یل کھابی‬
‫اس کی کار لمخوں میں الٹ گتی‪،‬یکڑے ہونے کابچ اس کے وخنہہ چہرے سمیت گردن یر خٹھے‬
‫خنکہ تیروں کی چرکت محسوس نہیں ہوسکی‪،‬جوتم جون وجود سمیت ایدھیر ہوبی آیکھوں میں آچری‬
‫چہرہ اس معصوم کا آیا جس سے معافی کا وہ ظل یگار تھا مگر نہ موفع تھی ساید اسے نہیں ملنا‬
‫تھا‪،‬اگلے ہی لمچے شیشان روڈ یر اس التی یڑی گاڑی میں ہیٹم سکندر کا مضبوط وجود ساکت ہوا تھا‪،‬‬
‫۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"اداس مت ہو۔۔"‬
‫ٹ‬ ‫س‬
‫مشلشل کار ڈران بو کریا لسینل یرایر میں چاموش یٹھی عنادنہ کو دیکھ کر کہا‪،‬وہ دوبوں دونہر کو‬
‫ہی گنے تھے اورفونیچ یر نسمہ نے ان کے ساتھ چانے سے اپکار کردیا‪،‬وہ اورفونیچ کے بخوں کے‬
‫س‬
‫ساتھ جود کو کمفرٹینل محسوس کررہی تھی‪،‬ع نادنہ کا دل تھا اسے منانے کا یر لسینل نے اسے‬
‫‪209‬‬
‫زیادہ موفع نہ دیا‪،‬وہ نہیں چاہ رہا تھا کہ نسمہ کے ساتھ کوبی زیردشتی ہو‪،‬نٹھی جود تھی ع نادنہ کو‬
‫س‬
‫م یع کنا‪،‬نندرہ میٹ پعد اورفونیچ سے پکل کر عنادنہ کے کہے کے مطابق لسینل نے شٹھی‬
‫سامان تھر کار میں رکھا اور اس ہی وقت وہ دوبوں وانسی کے شفر یر روانہ ہو گنے تھے‪،‬اور اب‬
‫انہیں ا ننے سہر کے چدود میں داچل ہونے ایک گھیبہ ہوخکا تھا‪،‬مٹیشن زیادہ دور نہ تھا اب‪،‬‬

‫"ہم ملنے رہیں گے اکیر ان سے۔۔"‬


‫اب کی یار وہ عنادنہ کا ایک ہاتھ گرقت میں لے کر یرمی سے کہا بو اس کی چانب دیکھ وہ‬
‫س‬
‫آسودگی سے مشکرابی اور نٹھی روڈ کی طرف پظریں حمانے لسینل نے حھنکے سے کار روکی‪،‬‬

‫"کنا ہو۔۔"‬
‫عنادنہ کے القاظ تھمے تھے چب اس کی پظر سا منے کجھ دور التی یڑی دھواں اڑابی کار یر یڑی‪،‬‬

‫"تم نہیں یر رہو میں دیکھ کر آیا ہوں۔۔"‬


‫س‬
‫کار سے پکلنا لسینل نسونش سے کہا‪،‬عنادنہ جو اس کار کو دیکھ قکرمند ہوبی تھی اچایک پظر کار‬
‫کے تمیر یر یڑی بو وہ ساکت ہوکر رہ گتی‪،‬دماغ سلب ہوا تھا اور وہ اگلے ہی لمچے ہوش میں آبی کار‬
‫سے پکل کر خیجی‪،‬‬

‫‪210‬‬
‫"ہیٹم تھابی۔۔!"‬
‫ی پ ً‬ ‫س‬
‫کار کے فرنب نہیچا لسینل عنادنہ کے خیحنے یر جویک کر اس کی چانب د کھا جو فرننا تھا گنے‬
‫ہونے کار کے یاس آبی تھی‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫وہ چیران ہوا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫"نہ۔۔نہ۔کار۔۔تھابی۔۔ہیٹم تھابی کی ہے لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫تھرابی آواز میں کہتی وہ حھکی‪،‬دوسری چانب لسینل تھی چلدی سے حھک کر بونے ہونے‬
‫شیسے کی چانب دیکھا‪،‬ایدر یری طرح سے حھلتی ہوا ساکت یڑا مضبوط وجود کسی اور کا نہیں ہیٹم‬
‫سکندر کا ہی تھا‪،‬‬

‫"تھابی۔۔"‬
‫عنادنہ کی تھر خیخ پکلی تھی ا ننے تھابی کا نہ جسر دیکھ‪،‬دل یری طرح گ ھیرانے لگا تھا کہ نبہ نہیں‬
‫وہ زیدہ تھا تھی یا‪،‬اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی‪،‬کجھ سمجھ نہ آنے یر وہ یآواز رونے لگی‪،‬‬

‫"عنادنہ چاموش رہو۔۔"‬


‫س‬
‫اسے بوں رویا دیکھ لسینل بوکا ساتھ ہیٹم کو کار سے پکا لنے کی کوشش کے بخت ڈور کھو لنے‬
‫لگا‪،‬آہتی ہاتھ کے دو ٹین حھنکوں یر ہی وہ کھوکھال ہوا ڈور بویا تھا‪،‬اسے دوبوں ہاتھوں سے یکڑ کر‬
‫‪211‬‬
‫ً‬ ‫س‬
‫یرایر میں گرایا لسینل آگے ہوکر ہیٹم کو تھا منے لگا‪،‬شیٹ ننلٹ کھو لنے ہی ہیٹم لڑھکا تھا اور فورا‬
‫س‬
‫سے نہلے لسینل اسے تھامنا لب تھییچا‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫ً‬ ‫س‬
‫وہ جو لسینل کی کاروابی دیکھ مشلشل رورہی تھی اب اس کے پکارنے یر فورا آگے آبی‪،‬‬

‫"ہماری کار فرنب لے کر آؤ۔۔"‬


‫س‬
‫اس کی ہدانت یر ح ھٹ اننات میں سر ہالبی وہ وانس تیزی میں گتی تھر لسینل کی کار میں‬
‫س‬
‫ٹیٹھ کر اسے شنارٹ کربی لسینل کے یلکل یرایر میں الکھڑا کی‪،‬‬
‫س‬
‫عنادنہ کے ننک ڈور کھو لنے یر لسینل ہیٹم کے نےچان ہونے وجود کو شیٹھالنا ن نک شیٹ یر‬
‫لینایا‪،‬‬

‫"ٹیٹھو چلدی۔۔"‬
‫ٹ‬ ‫س‬
‫کار میں ٹیٹھنا لسینل عنادنہ کو بوال‪،‬وہ شندھا نیجھے چا کر یٹھی‪،‬ہیٹم کا سر انتی گود میں ر ک ھے وہ‬
‫س‬
‫یارہا لسینل کو کار کی شینڈ تیز کرنے کا کہتی گتی‪،‬ہمت نہ تھی مگر نہت کوشش کے پعد‬
‫اس نے دو اپگلناں ہیٹم کی یاک کے فرنب کی‪،‬دھٹمی۔۔۔‪،‬نےچد دھٹمی سانس چل رہی تھی‬
‫جیسے کجھ شنکینڈ میں سانسوں کی وہ ڈور بو ننے کو تھی‪،‬عنادنہ کو ان نا دل یاہر آیا محسوس ہوا‪،‬تمام‬
‫را شنے وہ ہیٹم کی زیدگی کی دعاٹیں کربی گتی تھی‪،‬‬
‫‪212‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"اب آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہورہی۔۔"‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫کہ ص ٰ‬
‫ن‬
‫جوسی سے تی نہ عری ھی‪،‬دو ہر کو طیبہ کو لنے یں مدد کربی وہ آ گی سے طیبہ کا ہاتھ‬
‫حھوڑی تھی جس یر زیادہ نہیں یر کافی چد یک مطیبہ چلنے لگی تھی‪،‬تیر میں درد تھی اب کل کی‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫طرح محسوس نہیں ہورہا تھا‪ ،‬عری کی یات تی وہ ل م کرانے کی کوشش کی گر یاکام‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ی‬‫ش‬

‫رہی‪،‬النا آیکھوں میں دکھ کے سانے لہرانے لگے‪،‬ماضی کے ہونے شٹم تھو لنے ہی نہیں تھے‪،‬‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ص ٰ‬
‫عری کا فون بچا تھا‪ ،‬طیبہ جویک کر سوالبہ ظروں سے اسے د ھنے گی‪،‬‬

‫"بی بی فرخ ندہ کی کال ہے۔۔"‬


‫گ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ص ٰ‬
‫اسے ننابی عری کال رنسبو کی اور خ ند مخوں یں اس کے یایرات یدلے‪،‬چہرے یر ھیراہٹ‬
‫کے آیار تمایاں ہونے‪،‬‬
‫ص ٰ‬
‫"کنا ہوا عری۔۔"‬
‫اس کے فون رکھنے یر مطیبہ نے بوحھا‪،‬‬

‫"بی بی ہیٹم صاچب کا کل رات ایکسنڈنٹ ہوگنا تھا۔۔۔چالت نہت چراب ہے۔۔۔فرخندہ نے‬
‫ننایا ننگم صاچبہ نہت رورہی تھیں‪،‬اتھی وہ لوگ ہسینال میں ہیں۔۔"‬
‫‪213‬‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫ج‬ ‫ج‬
‫عری یسے یسے اسے ننارہی یں طیبہ کی ل آ ھوں یں و نسے و نسے سرد یایر ا ھریا گنا‪،‬ننا‬
‫نہیں ک بوں یر اسے فرق یک نہیں یڑا تھا اس چیر سے‪،‬ساید کہ اس کا دل ا ننے ساتھ ہونے‬
‫ظلم کے یاعث کافی چد یک نٹھر ہوخکا تھا‪،‬جس میں کسی کے لنے کوبی یرم اجشاس یک نہیں‬
‫ص ٰ‬
‫چاگ یارہا تھا‪،‬اب تھی وہ چاموش پظروں سے عری کو د کھ رہی ھی‪،‬‬
‫ت‬ ‫ی‬

‫"بی بی۔۔۔آپ چاٹیں گی۔۔"‬


‫ص ٰ‬
‫اس کے یایرات میں زرا تھی یدالؤ نہ آنے یر عری نے ڈرنے ڈرنے بوحھا‪،‬‬

‫"چا کے کام کرو اننا۔۔"‬


‫شیحندگی سے کہتی مطیبہ تھر الؤبج میں نہلنے کے عرض حھونے حھونے قدم اتھانے لگی‪،‬اس کے‬
‫ش‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ک ص ٰ‬
‫ہنے یر عری سر البی کام یں م غول ہوبی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دو دن پعد اسے ہوش آیا تھا‪،‬انتی منالسی نےجین آیکھوں کو ہر طرف دوڑایا مگر وہ اسے کہیں نہ‬
‫دکھی جس دیکھنا چاہ رہا تھا‪،‬ہاں مطیبہ چہایگیر کہیں نہ تھی‪،‬ایک ہفنے کے لگایار عالج نے اسے‬
‫کافی چد یک نہیر کنا تھا‪،‬چہرے کا زحم زیادہ گہرا نہیں تھا چلد نہیر ہونے کے امکان تھے‪،‬گردن‬

‫‪214‬‬
‫میں گہرا کٹ لگنے کے یاعث پکل یف ہ بوز تھی خنکہ تیروں اور ایک یازو میں یالسیر لگنے کی وجہ‬
‫سے ان میں شیسناہٹ اور پکل یف ہر تھوڑی دیر میں اتھتی‪،‬‬

‫"کار شینڈ میں چالکر تم ہیرو ٹینے کی جواہش رکھ رہے تھے۔۔"‬
‫س‬
‫وارڈ میں اس کے سا منے کھڑا لسینل سرد لہچے میں اشیفشار کنا تھا‪،‬ہیٹم سر حھکا گنا‪،‬سب کے‬
‫بوحھنے یر اس نے ننا کسی حھوٹ کی مالوٹ کے صاف ننادیا تھا کہ کار چد سے زیادہ شینڈ میں‬
‫کرنے کے یاعث اس کا ایکسنڈن یٹ ہوا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل وہ اتھی پکل یف میں ہیں۔۔"‬
‫س‬
‫عنادنہ الچارگی سے بوکی بو اس یر ایک شیحندہ پظر ڈالنا لسینل چپ ہوا‪،‬وہ مہناز ننگم کو شیٹھال‬
‫س‬
‫رہی تھی‪،‬اس رات لسینل نے چب مہناز ننگم کو اظالع دی بو ان کے ہاشینل میں آنے یر‬
‫عنادنہ رونے ہونے ان سے لیٹ گتی‪،‬یری طرح رونے وہ ہوش میں نہ ہونے کے یاعث ہیٹم‬
‫کی سالمتی کی یآواز دعا کررہی تھی اور نٹھی مہناز ننگم اِ شنل ہوبی تھیں اس کی آواز سن کر‪،‬وہ‬
‫بول سکتی تھی‪،‬انہیں سمجھ نہ آیا کہ اس وقت وہ انتی ٹیتی کے بو لنے یر جوش ہوں یا ٹینے کی‬
‫چالت یر روٹیں‪،‬ہیٹم کے ہوش میں آنے یر چب وہ تھی عنادنہ کو بول نا دیکھا بو یک گونہ اسے‬
‫جوسی ہوبی تھی یر وہ جوسی یل میں ماید یڑی ا ننے اردگرد اس لڑکی کو یای ّ‬
‫اکر‪،‬اول بو ایکسنڈنٹ کے‬
‫وقت اسے آچری یات جو ذہن میں آبی تھی نہی تھی کہ اب وہ نہیں بچ یانے گا اور دوسرا اگر کو‬
‫‪215‬‬
‫وہ زیدہ ہویا بو سدت سے ا ننے سا منے اس لڑکی کو دیکھنے کا جواہسم ند تھا مگر اس کی نہ‬
‫جواہش۔۔۔‪،‬جواہش ہی رہ گتی‪،‬‬

‫"مجھے گھر چایا ہے۔۔"‬


‫کافی دیر کی چاموسی کے پعد وہ دھٹمے لہچے میں بوال‪،‬‬

‫"دو ہفنے پعد ڈسچارج ہوگے تم۔۔"‬


‫س‬
‫شیحندگی سے کہنا لسینل ع نادنہ اور مہناز ن نگم کو دیکھ وارڈ سے پکال درنہ ننگم کو نہاں النے کے‬
‫عرض‪،‬وہ چب سے اسے کال کررہی تھیں‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫م‬
‫چہایگیر ہاؤس کے الن میں نہلتی اس کی کمل سوجوں کا مخور نہی تھا کہ اب وہ کیسے انتی اچڑی‬
‫زیدگی کا ننا موڑ لے‪،‬ہاں وہ آگے یڑھنا چاہتی تھی یر اب سمجھ کجھ نہیں آرہا تھا‪،‬دیڑھ مہیبہ ہونے‬
‫م‬
‫کو تھا‪،‬اب وہ کمل نہیری کی طرف لوٹ آبی تھی‪،‬الجھے ذہن میں خنال آیا کہ اس کے ٹینک‬
‫اکاؤنٹ میں تھی اب زیادہ ٹیسے نہیں رہے تھے‪،‬مطیبہ کا ذہن چاب کی طرف گنا تھا‪،‬وہی آچری‬
‫وصنلہ تھا اسے ننے شنارٹ کی طرف قدم رکھنے کا‪،‬‬

‫‪216‬‬
‫"بی بی۔۔عنادنہ بی بی آبی ہیں۔۔"‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ص ٰ‬
‫عری کے الن یں آکر ننانے یر طیبہ جو کی‪،‬عنادنہ کا نہاں آیا اسے چیران کرگنا‪،‬‬

‫کجھ دیر پعد الن میں آبی عنادنہ اسے صخت یاب دیکھ آزردگی سے مشکرابی‪،‬جویکہ مطیبہ کو ع نادنہ‬
‫سے کوبی تیر نہ تھا نٹھی اس کے تھی گداز لب زرا سے تھنل کر سمنے‪،‬‬

‫"کیسی ہیں آبی۔۔؟"‬


‫ت‬
‫ہ بوز یرم مشکراہٹ سچانے عنادنہ بوحھی‪،‬مطیبہ ھٹھکی تھی اسے بو لنے دیکھ مگر چلد ہی شیٹھلی‪،‬‬

‫"خنال آگنا تمہیں نہ بوحھنے کا۔۔"‬


‫یاچا ہنے ہونے تھی مطیبہ کے ل بوں سے سکوہ پکال‪،‬عنادنہ لب سکڑے‪،‬ہنک کے اجشاس کے‬
‫بخت اس کا جوپصورت چہرہ حھک کر اتھا‪،‬‬

‫"مجھے ایدازہ نہیں تھا کہ آپ کے ساتھ اننا علط ہوگا۔۔۔افسوس ہے کہ میں نےچیر رہی ان‬
‫سب سے۔۔۔اگر معلوم ہویا بو ساید۔۔"‬

‫"بو تھی وہ نےجس لوگ ا ننے ظلم سے یاز نہ آنے۔۔تمہیں کنا لگنا ہے تمہارے رو کنے سے وہ‬
‫لوگ رک چانے۔۔۔"‬

‫‪217‬‬
‫کہنے ہونے مطیبہ کا لہجہ سخت ہوا‪،‬سرمندگی کے اجشاس یلے عنادنہ کو اس سے پظریں مالیا مچال‬
‫لگا‪،‬‬

‫"سوری۔۔"‬
‫نسٹماں ہوبی وہ بولی‪،‬‬

‫"تم نے کجھ علط نہیں کنا میرے ساتھ بو تمہارے نہ کہنے کا کوبی جواز نہیں ٹینا۔۔"‬
‫یازو فولڈ کربی مطیبہ اب شیحندگی سے بولی‪،‬‬

‫"میں انتی نےچیری یر سرمندہ ہوں آبی۔۔۔چانتی ہوں آپ ان کے ظلم یر کٹھی معاف نہیں‬
‫کرسکتی انہیں مگر ایک فریاد لے کر آبی ہوں۔۔۔آپ اپکار مت کیحنے گا۔۔"‬
‫مطیبہ کے مبہ سے اننا شینے کے پعد وہ کہنا بو نہیں چاہ رہی تھی مگر مہناز ننگم کا تھنگے لہچے میں‬
‫اس سے درجواست کریا عنادنہ کو مح بور کرگنا‪،‬مطیبہ کی سوالبہ پظریں جود یر مرکوز دیکھ وہ بولنا‬
‫سروع کی‪،‬‬

‫"آپ تھلے انہیں معاف نہ کریں مگر چب یک وہ نہیر نہیں ہوچاٹیں یلیز نب یک سکندر وال‬
‫آچاٹیں۔۔۔ایک مہیبہ ہونے کو ہے انہیں گھر آنے۔۔۔وہ آپ کو نہت یاد کرنے ہیں اور مام‬
‫تھی نہت۔۔۔روبی۔۔ہیں آپ کا سوچ۔۔کر۔۔"‬
‫ا ننے بو لنے کے ساتھ ساتھ مطیبہ کے یایرات میں سحتی آنے یر عنادنہ آچر میں کجھ ایکی‪،‬‬
‫‪218‬‬
‫"بو تم تھی اس ہی مقصد سے نہاں یر آبی ہو۔۔"‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫م‬
‫اسے اشنہقامبہ پگاہوں سے د تی طیبہ اش فشار کی‪،‬‬

‫"نہیں آبی۔۔میرا کوبی علط مقصد نہیں۔۔میں آپ کی چیرنت دریاقت کرنے آبی تھی اور تھر‬
‫میں آپ کو ہمیشہ کے لنے وہاں رہنے کا نہیں کہہ رہی صرف کجھ عرصے کے۔۔۔"‬

‫"میری چیرنت معلوم کرنے آبی تھی یا۔۔"‬


‫بوکھالکر کہتی عنادنہ کی یات کانتی مطیبہ سرد لہچے میں بوحھی بو وہ ان نات میں سرہالبی‪،‬‬

‫"تھنک ہوں میں۔۔۔اب اگر کجھ دیر ٹیٹھنا چاہتی ہو بو ٹیٹھو لنکن اگر اس ہی یایک یر یات کربی‬
‫ہے تمہیں بو نہاں سے شندھا چاؤ اور یاٹیں طرف مڑو۔۔۔یاہر کا راسبہ دکھ چانے گا۔۔"‬
‫وہ جیشا لٹھ مار لہجہ اننابی تھی عنادنہ کو سدید دکھ ہوا‪،‬ہنک سے سر حھکابی وہ کجھ اور بو لنے کی‬
‫ہمت نہ ال یابی جود میں‪،‬نٹھی اسے چدا چافظ کہتی مڑی تھی‪،‬اس کے چانے کے پعد مطیبہ کو‬
‫ً‬
‫افسوس ہوا اس لڑکی سے انشا لہجہ اننانے یر لنکن اگر وہ اس سے زرا اور یرمی یر ننے لگتی بو پقینا‬
‫عنادنہ اسے منانے کے عرض کافی دیر یک اس کے نیج ھے لگے رہتی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ٹین دن پعد وہ سکندر وال سے فرخندہ کے غوض انتی یڑھابی کے سرن یقکیٹ اور خند صروری‬
‫‪219‬‬
‫ٹ‬
‫کاعذات منگوابی تھی وہ‪،‬اور اب دو چگہوں سے ربحنکٹ ہوکر ٹیسری چگہ میں وٹینگ ایریا یر یٹھی‬
‫انتی یاری کا ان یطار کررہی تھی‪،‬کجھ دیر پعد اننا یام کال ہونے یر وہ قدم اتھابی آفس کے چانب‬
‫گتی‪،‬دل گ ھیرا تھی رہا تھا‪،‬سوچا نہیں تھا انشا دن تھی آنے گا‪،‬حھنل آیکھوں میں گ ھیراہٹ عناں‬
‫تھی کہ نہاں سے تھی کہیں ربحنکٹ نہ ہوچانے‪،‬اگر انشا ہویا بو تھر مطیبہ میں اور ہمت نہ تھی‬
‫کہیں اور چانے کی‪،‬‬

‫اچازت ملنے یر مطیبہ ایدر داچل ہوبی پظر اتھابی‪،‬اور جوپصورت چہرے یر سدید چیرت کے یایر تمایاں‬
‫ہونے لگے سا منے ٹیٹھے سخص کو دیکھ‪،‬‬

‫"ٹیٹھیں۔۔"‬
‫ٹ‬
‫مضبوط لہچے میں مقایل کے کہنے یر وہ چیرت میں گھری چئیر یر یٹھی‪،‬‬

‫"سابی تھابی۔۔"‬

‫"مطیبہ چہایگیر۔۔نہی یام ہے یا آپ کا۔۔"‬


‫س‬
‫اس کی ٹینل یر رکھی قایلز اتھایا لسینل شیحندگی سے بوحھا‪،‬لہجہ زرا تھی شناسا نہ تھا‪،‬مطیبہ کو‬
‫سمجھ نہ آیا وہ اخٹی یت ک بوں یرت رہا ہے‪،‬‬

‫‪220‬‬
‫"مطیبہ چہایگیر۔۔"‬
‫س‬
‫قایلز یر سے پظر اتھایا وہ ا ننے سا منے اسے دیکھا جو الجھی ہوبی پظر لسینل یر ہی ڈالی ہوبی‬
‫تھی‪،‬اس کے تھر کہنے یر جویکتی مطیبہ اننات میں سر ہالبی‪،‬‬

‫"نہی یام ہے آپ کا۔۔"‬


‫ٹیسری یار بوحھنے یر تھی مطیبہ نے اننات میں سرہالیا‪،‬‬

‫"بو کب مجروم ہوٹیں۔۔؟"‬


‫ت‬
‫قایلز یرایر میں رکھنا وہ آگے ہوکر اچایک بوحھا‪،‬مطیبہ ھٹھکی اس کے سوال کر‪،‬‬

‫وت گویابی سے۔۔۔کب ہوبی مجروم۔۔؟"‬ ‫"ف ِ‬


‫نٹ ً‬ ‫ت‬ ‫مج‬‫س‬
‫دلکش مگر طیزنہ آواز مطیبہ چلد ھی ھی اس کی یات کا مطلب ھی فورا بولی‪،‬‬

‫"جی۔۔میرا ہی یام ہے مطیبہ چہایگیر۔۔"‬


‫اگر وہ اخٹی یت ہی یرن نا چاہ رہا تھا بو مطیبہ کو کوبی یرایلم نہ تھی نٹھی کہی‪،‬اب اس کے بو لنے یر‬
‫ہ‬ ‫مج‬‫سلسین س‬
‫م‬ ‫م‬
‫ل ھنے والے ایداز یں اننات یں سر الیا راکنگ چئیر سے ننک لگایا‪،‬‬
‫ی‬
‫"کوال فنکیشن کجھ چاص بو نہیں ساتھ ایکسئیرٹیس تھی زیرو ہے آپ کا۔۔۔تھر تھی اس عہدے‬
‫میں آیا چاہتی ہیں۔۔۔؟"‬

‫‪221‬‬
‫وہ شیحندگی لنے بوحھا تھا اور مطیبہ نےجین ہوبی‪،‬بجھلی دو چگہوں سے تھی اس ہی لنے ربحنکٹ‬
‫ہوبی تھی‪،‬‬

‫"ایکسئیرٹیس نہیں ہے یر ہوچانے گا۔۔۔میں شکانت کا کوبی موفع نہیں دوں گی سابی‬
‫تھابی۔۔"‬

‫"سر۔۔!"‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ح‬‫ص‬ ‫پ‬
‫یرسکون سا وہ یح کروایا‪،‬مطیبہ کے لب ھیچے مقا ل کے اٹیٹی بوڈ یر‪،‬‬

‫"میں انتی چانب سے ہر کوشش کروں گی چلد کام شنکھنے کی سر۔۔"‬


‫تمشکل ا ننے زچ ہونے یایرات یرم کربی وہ نےچارگی سے بولی‪،‬‬

‫"اننا ان ِسس نہ کریں میں چلد رحم کھالی نا ہوں لوگوں یر و نسے کوما سے پکلی لڑکی ہیں انتی چلدی‬
‫دماغ اشٹینل بو نہیں ہوا ہوگا آپ کا۔۔"‬

‫"آپ بو مجھے چا ننے نہیں تھر کیسے معلوم کہ میں کوما میں تھی۔۔"‬
‫اس کے ہ بوز اخٹی یت تھرے لہچے یر جوٹ کربی مطیبہ طیز کی‪،‬‬

‫‪222‬‬
‫"میری واپف کی تھاتھی ہیں یا آپ۔۔۔"‬
‫س‬
‫اس کی چانب اسارہ کریا لسینل یاد کرنے کی ایکینگ کریا بوحھا‪،‬مطیبہ کا نےچد جون چال تھا‬
‫اس سخص کی چرکت یر‪،‬‬

‫"نہیں۔۔"‬
‫تھنڈے لہچے میں جواب دی تھی وہ‪،‬‬

‫"میرے آفس میں حھوٹ یلکل االؤڈ نہیں۔۔"‬


‫س‬
‫ٹئیر و نٹ گھمایا لسینل آیرو اخکایا‪،‬‬

‫"بو تھر آپ ک بوں اجیتی ین کر یات کررہے ہیں مجھ سے۔۔"‬


‫مطیبہ دویدو جواب دی‪،‬‬

‫"میں اجیتی ین کر نہیں یلکہ آفس کا اویر ین کر یات کررہا ہوں تم سے۔۔"‬
‫س‬
‫نہرے ہونے لہچے میں لسینل اسے یاور کروایا‪،‬مطیبہ کو یات سمجھ آنے یر شنکی محسوس ہوبی‪،‬‬

‫"سوری۔۔"‬

‫"انس اوکے۔۔۔نہ قایلز اتھاٹیں اور اب آپ چاسکتی ہیں۔۔"‬


‫ٹئیر و نٹ رکھ کر وہ دوبوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں تھیشایا ننا کسی یایر کے کہا جس یر‬

‫‪223‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫مطیبہ سدید یرنشابی سے لسینل کو د ھی‪ ،‬ھر آ گی سے قا لز اتھابی ھڑی ہوبی‪،‬ا ھی ڈور کے‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ل بوال‪،‬‬ ‫ی‬
‫یاس وہ جی ہی ھی کہ کجھ سوخنا‬

‫"کل بو بچے آفس آچایا۔۔۔غقان کام سمجھا دے گا مجھے۔۔"‬


‫س‬
‫مطیبہ نےپقیتی سے مڑی تھی اس کی یات یر مگر لسینل نب یک ا ننے کام میں مشغول‬
‫ہوخکا تھا‪،‬‬
‫ُ‬
‫"تھینک بو تھابی۔۔"‬
‫جوسی سے کہتی وہ یلتی‪،‬‬

‫"سر۔۔۔!"‬
‫مقایل بوکنا نہ تھوال تھا اسے‪،‬‬
‫م‬ ‫س‬
‫لسینل کے آفس سے طمین ہوکر پکلتی وہ ننکسی دیکھنے لگی نٹھی اس کا مویایل ریگ کنا‪،‬نہ‬
‫ٰ‬
‫مویایل اس نے خند دن نہلے ہی چریدہ تھا جس میں سوانے صعری کے اس نے کسی کا تمیر نہ‬
‫رکھا تھا یر اب ابچان تمیر سے آبی کال یر وہ رنسبو کی‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔"‬
‫دوسری چانب سے گہری چاموسی تھی‪،‬‬

‫‪224‬‬
‫"کون ہے۔۔"‬
‫روڈ یر پظر دوڑابی مطیبہ چڑ کر تھوڑی تیز آواز میں بولی‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬
‫مہناز ننگم اس کا یام لینے ہی روبی تھیں اور اس آواز یر مطیبہ کی یل لی ٹیشابی صاف‬
‫ہوبی‪،‬جوپصورت چہرے کے یایرات یلکل شناٹ ہونے تھے‪،‬‬

‫"ٹینا یلیز وانس آچاؤ۔۔۔"‬


‫تھٹھک کر روبی وہ تھنگی آواز میں بولیں مگر مطیبہ نے ح ھٹ سے کال کٹ کی‪،‬ان کی تھنگی‬
‫آواز اسے کجھ نےجین کی تھی‪،‬وہ چیران ہوبی کہ انہیں اس کا تمیر کس نے دیا‪،‬ذہن میں‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ی‬‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫ص ٰ‬
‫عری آبی ھی جس یر تی طیبہ کجھ دیر پعد کسی لنے یر چہایگیر ہاؤس کی چانب روانہ ہوبی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ی‬
‫کافی دیر سے ننڈ یر ننک لگانے ٹیٹھا وہ جود سے سر زد ہونے ظلموں کا سوخنے اب آ کھیں مویدا‬
‫تھا‪،‬آیکھ کے کنارے یر نہرا ایک یدامت کا آنسو خنکے سے پکلنا اس کی داڑھی میں چذب‬
‫ہوا‪،‬نےسکوبی سے تھرا دل روز کی طرح تھر کرالیا اس لڑکی یر انتی نےپقیتی کا سوچ‪،‬ک بوں وہ اس‬
‫قدر نےرحم ننا تھا‪،‬ک بوں اس لڑکی کے رونے یڑ ننے کو ڈرامہ سمجھنا‪،‬‬
‫‪225‬‬
‫"ہیٹم سکندر نس کردو۔۔۔میری محیت کو میرے لنے سزا مت نناؤ۔۔۔مت کرو انشا کہ پفرت ہو‬
‫مجھے اس یات سے کہ میں نے تم سے محیت کی۔۔۔‪،‬مت کرو۔۔۔"‬
‫کینے کرب کے عالم میں کہی تھی وہ نہ القاظ مگر اس وقت ہیٹم جیسے نےنہرہ ین خکا تھا یر‬
‫اب‪،‬وافعی اس کی پفرت نے مطیبہ چہایگیر کو انتی محیت سے پفرت کرنے یر مح بور کردیا تھا‪،‬کنا‬
‫ہوچایا گر وہ ان القاظوں یر غور کریا اس موم کی گڑیا کو نٹھر ہونے سے بچالینا‪،‬بوڑ د ن نا انتی پفرت‬
‫کا نُت‪،‬‬

‫"مجھے میری ڈایری نہت عزیز تھی۔۔۔وہ حھوبی سی چیز نہیں تھی۔۔۔بخین سے لے کر اب‬
‫ک‬‫ل‬
‫یک وہ میرے ساتھ تھی۔۔۔میں اس میں ا ننے چذیات تی ھی۔۔۔"‬
‫ت‬ ‫ھ‬

‫کنا تھی وہ لڑکی‪،‬کس قدر معصوم ایداز تھا اس کی محیت کا‪،‬آج یک کٹھی اس کے مد مقایل آکر‬
‫ک‬‫ل‬
‫اظہار نہ کنا تھا مگر انتی ڈایری میں ایک ایک چذیات تی‪ ،‬میشہ اس سے ظریں النے یر ڈربی‬
‫م‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬
‫ل‬
‫مگر ڈایری میں اس کا ہر ایک پفش کھی تھی‪،‬یر اس نے کنا ِکنا تھا انتی نےجسی کا واصح ن بوت‬
‫د ن نا اس جوپصورت چذیابوں سے سجی ڈایری کو چال کر یابی میں تھینک دیا‪،‬کس قدر روبی تھی وہ‬
‫اس کے غمل یر مگر وہ جیسے انتی ظلمت کا ن بوت دیا تھا اسے‪،‬‬

‫"میں نے نہیں مارا یاذلی کو۔۔"‬


‫اس کے یڑ ننے القاظ کابوں میں یڑے بو ہیٹم کو سانس لینا مچال لگا‪،‬وہ سچ ہی بو کہہ رہی‬
‫‪226‬‬
‫تھی‪،‬نہیں مارا تھا اس نے یاذلی کو‪،‬یاذلی کی ح ھت سے گر کر موت اس کی پقدیر میں تھی وگرنہ‬
‫ً‬
‫اس سے تھی زیادہ اوبچابی سے بو جود مطیبہ کودی تھی‪،‬اگر ح ھت سے گر کر ہی الزما موت ہوبی‬
‫ہوبی بو مطیبہ چہایگیر تھی آج زیدہ نہ ہوبی‪،‬یر نہ یاٹیں اس کے ذہن کے یردے میں کب آ ٹیں‬
‫چب وہ لڑکی اننا دل اس کی طرف سے نٹھر کرچکی تھی‪،‬‬

‫اس یر نےچا ظلم کریا آج چب وہ جود کو بوں ٹی بوں میں چکڑے نےنسی کی پصویر ننا دیکھنا بو‬
‫دل جون کے آنسو رونے لگنا تھا‪،‬‬

‫"ہیٹم۔۔۔!"‬
‫دروازہ یاک ہونے کے پعد مہناز ننگم کی آواز چب کابوں سے یکرابی بو اس نے انتی سلگ کر‬
‫اپگارہ ہوبی آیکھوں کو وا کنا‪،‬‬

‫"فصل نے آج ڈرنسنگ نہیں کی تمہاری۔۔"‬


‫کل کی لگی ٹی بوں کو دیکھ مہناز ننگم ہیٹم کے لنے ہاتیر کنے گنے بوانے کے یانت بوحھی تھیں‪،‬‬

‫"میں نے م یع کردیا تھا۔۔"‬


‫یاریک ہون بوں میں زرا سی خٹیش ہوبی‪،‬اس کا سرخ چہرہ اور آیکھوں کے گرد گہرے ہلقے دیکھ‬
‫مہناز ننگم کا غم سے جور دل سدید دکھ میں گھرا‪،‬نہلے ہی دو بخوں کی گمشدگی‪،‬اس یر ا ننے کنے کا‬
‫بجھناوا اور اب ہیٹم کی یکھری چالت‪،‬وہ روزیروز یڑھنے غم میں گھلتی چارہی تھیں‪،‬‬
‫‪227‬‬
‫"اگر روز زحموں یر ڈرنسنگ نہیں کرواؤ گے بو نہ یڑھ چاٹیں گے۔۔"‬
‫ہیٹم کے گال یر محیت سے ہاتھ رکھتی وہ ایدر امڈنے درد یر ضیط کنے یرمی سے بولیں‪،‬ان کی‬
‫یات سن کر ہیٹم اذ نت سے مشکرایا‪،‬‬

‫"کاش کہ نہ زحم یڑھ چاٹیں اور انہیں زحموں کے یدولت مجھے موت آچانے نب چاکر ساید‬
‫میرے ظلموں کا مداوا ہو۔۔۔"‬
‫ی‬
‫مہناز ننگم کی آ کھیں حھلمالٹیں تھیں ا ننے ٹینے کو جسمابی و روچابی اذ ن بوں میں یڑ ننے دیکھ‪،‬‬

‫"مت کہو ہیٹم ا نسے۔۔۔ایک عندی اور تم ہی رہ گنے ہو جن کے یاعث میں نہ زیدگی گزاررہی‬
‫ہوں۔۔۔اگر تمہیں تھی کجھ ہوگنا بو مرچاؤں گی میرے ٹینے۔۔"‬
‫ّ‬
‫"امی۔۔"‬
‫انہیں کرب آمیز لہچے میں کہہ کر آچر میں رونے دیکھ ہیٹم نےنس ہویا پکارا‪،‬یازو اور تیروں یر لگی‬
‫نتی کی وجہ سے ہمت نہیں تھی کہ آگے ہوکر انتی یلکتی ماں کو گلے لگالے‪،‬‬

‫"نہ روٹیں یار۔۔"‬


‫انہیں مشلشل رونے دیکھ وہ سدید پکل یف محسوس کنا‪،‬‬

‫‪228‬‬
‫"ہم نے نہت علط کنا ہے اس کے ساتھ ہیٹم۔۔ہمارے ظلموں نے اسے نٹھر کر دیا اس قدر‬
‫کہ وہ اب ساید کٹھی رخ نہ کرے نہاں کا۔۔"‬
‫تھٹھک کر کہنے ان کی بوڑھی آواز کنکنانے لگی تھی آچر میں‪،‬ہیٹم کو لگا اس کا سر درد سے ت ھٹ‬
‫چانے گا اب‪،‬ماں کی پکل یف کہاں گوارا ہورہی تھی اسے‪،‬تمشکل ہمت کر کے آگے ہویا وہ مہناز‬
‫ننگم کو گلے لگایا‪،‬‬

‫"ننگم صاچبہ۔۔"‬
‫فرخندہ کی جوسی سے تھری آواز یر وہ دوبوں جو یکے‪،‬‬

‫"ننگم صاچبہ۔۔۔مطیبہ بی بی۔۔"‬


‫م‬
‫جوسی کے مارے اس سے بوال نہیں چارہا تھا‪،‬خنکہ مہناز ننگم اس کے چہرے کو حمکنے دیکھ کمل‬
‫ی‬
‫یات سمجھ کر نےپقیتی سے ہیٹم کو د کھیں‪،‬وہ جود ساکت ہوا تھا فرخندہ کی آواز یر‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬
‫جوسگوار چیرت سے زی ِر لب کہٹیں وہ ہیٹم کا گال تھیٹھناکر اتھیں‪،‬تیز قدم روم سے یاہر کی‬
‫چانب تھے‪،‬جویکہ ایکسنڈنٹ کی وجہ سے ہیٹم کو سیڑھ بوں سے اویر اس کے روم یک نہیں لے چایا‬
‫چاسکنا تھا نٹھی قلچال اس کا قنام نیچے گیسٹ روم میں تھا‪،‬‬

‫‪229‬‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫م ی‬
‫ہینڈ کیری تھامے وہ چاموش پظروں سے چاروں اطراف یں د تی دونہر کا سوچ رہی ھی‪،‬چہا گیر‬
‫ی‬
‫نہ ص ٰ‬
‫ت‬
‫ہاؤس یچ کر عری یر چب اس نے غصہ کنا تھا میر د ننے کے جوالے سے نب اس نے‬
‫مطیبہ کو مہناز ننگم کی آمد کا ننایا‪،‬اس نے کہا تھا وہ نہت رو رہی تھیں اور یار یار مطیبہ سے‬
‫ً‬
‫یات کرنے کا کہہ رہی تھیں نب مح بورا انہیں وہ تمیر دی تھی‪،‬نہ سن کر مطیبہ سوچ میں‬
‫یڑگتی‪،‬جو تھی تھا وہ اس کی یابی امی تھی خنہوں نے اسے بخین سے ماں کی طرح محیت دی‬
‫تھی‪،‬پعد میں گرجہ وہ قلذہ اور ہناد کی محیت میں اس سے یدگمان ہوبی تھیں مگر ان سب میں وہ‬
‫سک ت ص ٰ‬
‫ایکی بخین سے جوابی یک کی محیت نہیں فراموش کر تی ھی‪ ،‬عری سے فرخندہ کے غوض اسے‬
‫کتی مہی بوں سے ہناد اور قلذہ کے اچایک ال نبہ ہونے کے م یعلق تھی معلوم ہوا تھا نٹھی کافی‬
‫سوچ بچار کے پعد وہ سکندر وال آنے کا ق یصلہ کی‪،‬اور اب ا ننے مہی بوں پعد وہ اس ہی گھر میں‬
‫کھڑی تھی چہاں اس نے کتی سال اذ ن بوں کے زد میں گزارے تھے‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬
‫اسے الؤبج کے وشط میں ہی کھڑے دیکھ مہناز ننگم جوسی سے آگے یڑھتی مطیبہ کو گلے‬
‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫لگاگٹیں‪،‬وہ لب تی ہینڈ کیری حھوڑی‪،‬‬
‫ح‬‫ی‬

‫"کیسی ہو میری بجی۔۔"‬


‫اس سے دور ہوکر میرتم آواز میں انہوں نے مطیبہ کا گال حھوکر بوحھا‪،‬دوسری چانب سے وہ‬
‫‪230‬‬
‫ہ بوز چاموش تھی‪،‬الیبہ آیکھوں کا سرد یایر جود ان یر یاور کررہا تھا کہ کنا کیسی ہوبی چا ہنے‬
‫وہ‪،‬حھنل آیکھوں میں ایرنے سوال نے انہیں سرمندہ کنا‪،‬‬

‫"آؤ تم میں نہ سامان فرخندہ سے رکھوادوں گی۔۔"‬

‫"میں گیسٹ روم میں رہوں گی۔۔"‬


‫وہ نہلے ہی ق یصلہ شنابی تھی اننا‪،‬آچر کو جس سخص کے لنے وہ آبی ہی نہیں تھی نہاں بو ک بوں‬
‫رہتی تھر اس کے ساتھ‪،‬‬

‫"ٹینا گیسٹ روم میں ہیٹم کو رکھا گنا ہے۔۔۔"‬


‫س‬
‫مہناز ننگم اس کی یات کا مطلب صاف ھی ھیں کہ وہ کسی ظور یٹم کے روم میں ہیں‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫مج‬

‫رہنے والی نٹھی اسے نناٹیں‪،‬ان کی یات سن کر مطیبہ کی آیکھوں میں ن یفر اتھرا‪،‬‬

‫"تم انشا کرو اویر جو کاریر واال روم چالی رہنا ہے اس میں رہ لو۔۔"‬
‫مطیبہ کو ان کی نہ یات مناسب لگی نٹھی ہینڈ کیری تھامی‪،‬‬

‫"بی بی اسے حھوڑ دیں۔۔"‬

‫"میں لے چاؤں گی فرخندہ۔۔"‬


‫فرخندہ کے آگے یڑھنے یر سرد لہچے میں اسے بوکتی مطیبہ سیڑھ بوں کی چانب گتی‪،‬مہناز ننگم اس‬

‫‪231‬‬
‫کے تھنڈے رونے یر مابوس ہوبی تھیں‪،‬انہیں دکھ دیا تھا اس کا ایداز مگر چانتی تھی اس کو انشا‬
‫ننانے میں ان لوگوں کا ہی ِکنا دھرا تھا‪،‬‬
‫م پ ً‬
‫وہ مطیبہ کے نیجھے اویر چایا چاہ رہی تھیں یر گیسٹ روم یں قینا م یٹ ھا نے ین ہورہا ہوگا‬
‫ج‬ ‫ٹ‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬‫ہ‬
‫ُ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫مطیبہ کا سن کر نٹھی فرخندہ کو مطیبہ کی مدد کے عرض اویر تی وہ گیسٹ روم کا رخ یں‪،‬‬
‫ک‬ ‫ح‬‫ی‬

‫"ماما۔۔"‬
‫ان کے ایدر داچل ہونے ہی ہیٹم نےجیتی سے پکارا‪،‬اس ایک لقظ میں جیسے کتی سواالت بو حھے‬
‫گ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫تھے اس نے‪،‬ا ننے ٹینے کو دکھ سے د تی مہناز م دھٹما سا م کرا یں‪،‬‬
‫ٹ‬ ‫ش‬

‫"وہ آگتی۔۔"‬
‫ان کے اس جواب نے ا ننے مہی بوں پعد ہیٹم کو نہلی یار سکون بحشا تھا‪،‬بوں محسوس ہوا جیسے‬
‫جوشبوں نے دشنک دی ہے اس کی اچڑی ہوبی زیدگی میں اور مسیفنل سے نےچیر وہ اس تمام‬
‫عرصے میں نہلی یار آسودگی سے مشکرایا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"کس یات کی جوسی م نابی چارہی ہے۔۔"‬

‫‪232‬‬
‫رات کو تھوڑا لیٹ وہ آفس سے لویا تھا‪،‬یر مٹیشن میں داچل ہوکر ہال میں عنادنہ کو کھلکھالنے‬
‫اور درنہ ننگم کے تھی لب مشکانے دیکھ وہ چیرت سے بوحھا‪،‬‬
‫س‬
‫اس کی آواز سن کر جویکتی عنادنہ جوسی سے دمکنے چہرے سمیت لسینل کے یاس آبی‪،‬‬
‫س‬
‫"مطیبہ آبی وانس آگتی سکندر وال لسینل۔۔۔مام نے اتھی کجھی دیر نہلے کال یر ننایا۔۔"‬
‫س‬
‫عنادنہ جیتی جوسی سے نہ یات ننارہی تھی لسینل کے مشکرانے لب لمخوں میں سکڑے‪،‬کابچ‬
‫مانند آیکھوں میں ہلکی سی یاگواری ایک حھلک دکھا کر عانب ہوبی‪،‬‬

‫"میں چانتی تھی وہ صرور وانس آ ٹیں گی وہ ہیں ہی انتی احھی۔۔۔چلد مان چانے والی۔۔میں کل‬
‫گرنتی کے ساتھ گھر چاؤں گی ان سے ملنے۔۔"‬
‫س‬
‫ننا لسینل کے یایرات بوٹ کربی وہ یان شناپ بولے گتی‪،‬‬

‫"کجھ زیادہ ہی احھی ہے وہ۔۔"‬


‫س‬
‫اشنہزنہ ایداز میں زی ِر لب لسینل کے یڑیڑانے یر عنادنہ جویکی‪،‬‬

‫"کنا مطلب۔۔"‬
‫وہ چیران کن پظروں سے اسے دیکھ بوحھی‪،‬‬

‫‪233‬‬
‫"کجھ نہیں۔۔کھایا لگاؤ میں فرنش ہوکر آیا ہوں۔۔"‬
‫س‬
‫یات یدل کر اس کے گال تھیٹھنایا لسینل درنہ ننگم سے مل کر روم میں گنا‪،‬عنادنہ کو اس‬
‫س‬
‫کی یڑیڑاہٹ الجھن کا شکار کی تھی‪،‬ساری جوسی یل میں عانب ہوبی لسینل کے اس حملے‬
‫یر‪،‬وہ وجہ چاننا چاہتی مگر قلچال چاموش رہی‪،‬عانب دماغی سے کھایا کھابی وہ اسماء کے ساتھ مل‬
‫س‬
‫کر یرین اتھوابی‪،‬تھر درنہ ننگم کے روم میں چانے کے پعد لسینل کے کہنے یر اس کی چانے‬
‫نناکر روم میں البی‪،‬‬

‫یلنک ونسٹ اور یراؤزر میں وہ ننڈ یر ٹیٹھا کسی سے کال یر مخو گفنگو تھا‪،‬عنادنہ کو چانے سان نڈ‬
‫س‬
‫ٹینل یر پغور رکھنے دیکھ لسینل نے اسے یاس ٹیٹھنے کا اسارہ کنا‪،‬‬

‫اس کے چاموسی سے ٹیٹھنے یر کجھ دیر پعد کال رکھنا وہ عنادنہ کے بجھے چہرے کی چانب م بوجہ‬
‫ہوا‪،‬‬

‫"چہرہ ک بوں ایرا ہوا ہے تمہارا۔۔؟"‬


‫ہاتھ تھام کر اس کی مجروطی اپگلبوں سے کھنلنا وہ شیحندگی سے بوحھا‪،‬عنابی ل بوں یر انتی مح بوب‬
‫ن بوی کو دیکھ ہمیشہ کی طرح یرم مشکراہٹ سجی تھی‪،‬‬

‫"آپ نے یاہر انشا ک بوں کہا۔۔؟"‬


‫ٹ س‬
‫چب سے یرنشان کریا سوال وہ آچر بوحھ ہی یٹھی‪ ،‬لسینل کے لب سمنے‪،‬‬
‫‪234‬‬
‫"کنا کہا میں نے یاہر۔۔؟"‬
‫ی‬
‫چا ننے بوحھنے وہ ابچان ننا‪،‬عنادنہ خقگی سے اسے د ھی ھی‪،‬‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫"کنا آپ کو مطیبہ آبی کا سکندر وال میں آیا احھا نہیں لگا۔۔؟"‬
‫اب کی یار عنادنہ صاف ایداز میں بوحھی‪،‬‬

‫"اس میں احھا یا یرا لگنے کی یات نہیں نس مجھے کجھ عح یب لگا اس کا آیا۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے جواب نے عنادنہ کو اور الجھایا‪،‬‬

‫"میں سمجھ نہیں یارہی آپ واصح لقظوں میں ن ناٹیں۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے الجھے ہونے لہچے یر لسینل خند یل چاموسی سے اسے دیکھا تھر گویا ہوا‪،‬‬

‫"صاف لقظوں میں شینا ہے بو شبو۔۔مجھے سدید یاگوارنت ہوبی مطیبہ کے وانس وہاں چانے‬
‫یر۔۔"‬
‫عنادنہ یری طرح حھ یکا کھابی اس کی یات یر‪،‬‬

‫"یر ک بوں۔۔؟"‬

‫"کینا شبو ِنٹ سوال بوحھا ہے تم نے۔۔۔عنادنہ "ک بوں"۔۔چہاں یک تم نے مجھے ننایا تھا کہ‬
‫آ نتی اور ہیٹم نے اسے علط سمجھ کر اس یر یدکردار کا ننگ لگادیا تھا اویر سے وہ لڑکی ان کے‬

‫‪235‬‬
‫ٰ‬
‫ظلموں سے نٹم یاگل ہوبی ختی کہ جودکسی کی کوشش تھی کی تھی۔۔۔اور اب۔۔۔اب سب‬
‫تھول تھال کے وانس سکندر وال چلی چابی ہے گرنٹ۔۔!"‬
‫س‬
‫لسینل کی یاشف سے کہی گتی یات عنادنہ کو نےچد یری لگی‪،‬سکوہ کناہ پظروں سے اسے‬
‫ح‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫د تی وہ بو ھی‪،‬‬

‫"بو آپ کنا چا ہنے ہیں مطیبہ آبی تھابی کو کٹھی معاف نہ کریں۔۔"‬

‫"یلکل۔۔۔اس کا گناہ معافی البق نہیں۔۔"‬


‫س‬
‫کندھے اخکاکر لسینل ہاتھ یڑھا کر ساننڈ ٹینل سے چانے کا کپ اتھایا ل بوں سے لگایا‪،‬‬

‫"انشا آپ کو لگنا ہے ک بویکہ آپ جود کسی کو معاف نہیں کرنے ہوں گے۔۔"‬
‫س‬
‫عنادنہ کے یاراض لہچے یر گرم چانے چلق میں ایاریا لسینل یر پفرت ایداز میں مشکرایا‪،‬کابچ مانند‬
‫آیکھوں میں سرد سا یایر اتھر کر حھنا‪،‬‬

‫"یلکل میں ا ننے گناہگاروں کو معافی نہیں سزاٹیں د ن نا ہوں اور وہ تھی عیرنناک۔۔۔!"‬
‫اس کے گہرے لہچے میں کہی یات عنادنہ کے زرا یلے نہ یڑی‪،‬نہ بو وہ اس کی کابچ مانند آیکھوں‬
‫میں خ بوان یت کی حھلک دیکھ سکی‪،‬‬

‫‪236‬‬
‫"آپ سزاٹیں د ننے ہیں بو اس کا نہ مطلب نہیں کہ ہر کوبی ا ننے گناہگار کو سزا ہی دے اور‬
‫دیکھنے گا مطیبہ آبی تھابی کو صرور معاف کریں گی۔۔"‬
‫کہنے ہونے عنادنہ کو انتی یات ہی حھوبی لگی تھی‪،‬‬

‫"مجھے نہیں لگنا اننا سب ہونے کے پعد تھی وہ اسے معاف کرے گی چیر اگر مجھ سے بوحھو بو‬
‫مطیبہ کو اسے یلکل معاف نہیں کریا چا ہنے۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی یات نے عنادنہ کو یاور کنا تھا کہ ہیٹم کی اتمیج کافی چد یک اس کی پظروں میں‬
‫چراب ہوچکی ہے‪،‬‬
‫س‬
‫"تھابی سرمندہ ہیں لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫انتی چانب سے وہ کوشش کی تھی لسینل کا دل ہیٹم کی طرف سے صاف کرنے کا‪،‬‬

‫"عنادنہ کسی تھی لڑکی کے لنے لقظ یدکردار اسے زیدہ الش ننانے کے لنے کافی ہویا ہے۔۔۔میں‬
‫نہ نہیں کہہ رہا کہ ہیٹم سرمندہ نہیں لنکن اگر وہ سرمندہ ہے بو اس لڑکی کا نیجھا حھوڑ دے۔۔"‬

‫"مطلب آپ چا ہنے ہیں کہ وہ دوبوں الگ ہو چاٹیں۔۔"‬


‫س‬
‫عنادنہ کو غصہ دالگتی تھی لسینل کی نہ یات‪،‬‬

‫"یلکل۔۔"‬

‫‪237‬‬
‫"آپ کیسے کہہ سکنے ہیں نہ سب۔۔۔چہاں معاملہ کجھ تھنڈا ہونے لگا ہے وہی آپ ا ننے لقظوں‬
‫سے چلی یر تمک حھڑک رہے ہیں۔۔"‬
‫س‬
‫وہ نٹھری تھی‪ ،‬لسینل کا ل بوں یر کپ لےچایا ہاتھ رکا عنادنہ کے یگڑے لہچے یر‪،‬‬

‫"اوکے قاین۔۔۔اس یایک یر اب ہم یات نہیں کریں گے۔۔"‬


‫عنادنہ کا ایداز اسے یرا لگا تھا‪،‬وہ نہیں چاہنا تھا کہ ان دوبوں کے درمنان کسی اور کو لے کر‬
‫یات چراب ہو نٹھی نہ یایک نہی یر کلوز کرنے لگا‪،‬‬
‫س‬
‫"مجھے آپ سے انسی یابوں کی ام ند یلکل نہیں تھی لسینل۔۔۔اگر گناہ کا اجشاس ہونے کے‬
‫پعد کوبی سچے دل سے بونہ کریا ہے بو اّٰللہ تھی اسے معاف کرد ننے ہیں ہم بو تھر انشان ہیں۔۔"‬

‫"عنادنہ اس یایک کو ن ند کرو۔۔۔چلو اتھو نہ کپ رکھ آؤ۔۔"‬


‫اسے بجمل سے بوکنا وہ آچر میں یرمی سے کہہ کر عنادنہ کی چانب کپ یڑھایا‪،‬‬

‫"آپ میں معاف کرنے کا طرف نہیں اس کا نہ مطلب نہیں ٹینا کہ کوبی تھی ا ننے گناہگار‬
‫کو معاف نہ کرے۔۔"‬
‫س‬
‫کپ تھا منے کے بچانے اس یار عنادنہ کجھ او بچے لہچے میں بولی بو لسینل کے کشادہ ما تھے یر‬
‫سکٹیں یڑنے لگیں‪،‬‬

‫‪238‬‬
‫"کہا یا نند کرو نہ یایک۔۔"‬
‫تھیچے لب سمیت وہ ِگھرکا‪،‬‬

‫"نہیں کروں گی نند۔۔۔آپ نہلے نناٹیں کہ۔۔"‬

‫"واٹ رانش۔۔"‬
‫س‬
‫اچایک دہاڑیا لسینل ہاتھ میں تھاما کپ تھی یکا زمین یر‪،‬عنادنہ سہم کر نیج ھے ہوبی‪،‬سراشٹمہ ہوبی‬
‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫وہ نےپقین پظروں سے لسینل کو د ھی جو آ ھوں یں یاگوارنت لنے اسے ھور رہا تھا‪،‬‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫وہ جینا معاملہ رفہ دفعہ کریا چاہ رہا تھا عنادنہ اننا ہی اس یایک یر اس سے بخث کربی آواز اوبجی‬
‫س‬
‫کررہی تھی‪ ،‬لسینل کا سدید جون کھوال تھا‪،‬نہیں چاہنا تھا ہر یار ان دوبوں کے نیچ کسی دوسرے‬
‫کی وجہ یدمزگی ہو اور ع نادنہ نے نہ چرکت کوبی دوسری مرنبہ کی تھی‪،‬‬

‫"ہر یار یابوں کو ظول د ن نا صروری نہیں ہویا۔۔"‬


‫س‬
‫اس کی سہمابی پظروں کو دیکھ ا ننے اشیعال یر تمشکل قابو یایا لسینل دانت ٹیسنے بوال‪،‬دوسری‬
‫چانب مقایل کی محیت کی عادی وہ اس کا سخت لہجہ یرداست نہ کریابی‪،‬تیزی سے تھنگتی‬
‫ی‬
‫آیکھوں سمیت اسے سکوہ کناہ پظروں سے د کھتی عنادنہ اتھی تھی‪،‬ساتھ ساننڈ ٹینل یر سے ِیرچ‬
‫اتھا کر روم سے پکلتی چلی گتی‪،‬‬

‫‪239‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫صیح چلدی اتھتی وہ تیزی میں ن ناری کررہی تھی آفس چانے کی‪،‬ڈرنسنگ کے سا منے کھڑی ہوبی‬
‫وہ یالوں کی جوبی یایدھ کر آگے کی تھر دو نبہ فر ننے سے سر یر شیٹ کربی یلتی‪،‬‬

‫"بی بی یاسبہ کرلیں۔۔"‬


‫فرخندہ کی آواز نے اسے جوپکا دیا‪،‬مطیبہ کی آیکھوں میں سرد سا یایر اتھرا‪،‬‬

‫"نہیں میں لیٹ ہورہی ہوں آفس میں کرلوں گی۔۔"‬


‫یرس اتھاکر کہتی وہ روم سے پکلی‪،‬سیڑھناں ع بور کر کے نیچے ہی ایری تھی کہ پظر کنارے میں‬
‫ٹ‬
‫رکھی ڈانٹی نگ ٹینل یر یڑی‪،‬مہناز ننگم سا منے یٹھی تھیں اور ان کے داٹیں چانب وہنل چئیر یر‬
‫وہ‪،‬اس کی نست مطیبہ کی چانب تھی‪،‬‬

‫"مطیبہ۔۔"‬
‫وہ جو ان دوبوں کو ایک پظر دیکھ چاموسی سے یاہر کی طرف یڑھ رہی تھی مہناز ن نگم کی آواز یر‬
‫رکی‪،‬دوسری چانب جوس کا گالس تھاما ہیٹم جوپکا‪،‬گردن زرا یرحھی کی تھی اس نے یر مڑ کر اسے‬
‫دیکھا نہیں‪،‬نسٹمابی انسی تھی کہ مقایل لڑکی سے پظریں مالیا نہیں چاہ رہا تھا وہ‪،‬‬

‫‪240‬‬
‫"یاسبہ نہیں کنا تم نے۔۔؟"‬
‫انہوں نے شققت تھرے لہچے میں بوحھا اس سے مگر مطیبہ ایک نےیایر پظر ڈا لنے کے عالوہ‬
‫کوبی جواب نہ د نتی وہاں سے پکلتی چلی گتی‪،‬مہناز ننگم کو اس کی بوں نےرجی دکھ نہیچابی‬
‫ی‬
‫تھی‪،‬سرمندہ ہوٹیں وہ ہیٹم کو د کھیں جو اب جوس کا گالس ننا جوس ننے وانس رکھ خکا تھا‪،‬مہناز‬
‫ننگم کی نہت میت کے پعد وہ یا شنے کرنے یر راضی ہوا تھا اور اب جو تھوڑی نہت تھوک لگی‬
‫تھی یکدم خٹم ہوبی‪،‬‬

‫"تم بو کجھ کھالو ٹینا۔۔"‬


‫اسے یلیٹ کو گھورنے دیکھ انہوں نے افسوس سے کہا‪،‬‬

‫"مرگتی تھوک۔۔"‬
‫زی ِر لب کہہ کر ہیٹم نیجھے کو ہوا‪،‬مہناز ننگم اچایک اتھتی سدید گ ھیراہٹ کے عالم میں اننا سر‬
‫تھامی‪،‬‬

‫"نہ بجھناوا میری چان لے ل یگا۔۔"‬


‫ہیٹم حھنکے سے آگے ہویا ایک ہاتھ ان کے کندھے یر رکھا‪،‬‬

‫"ک بوں کہہ رہی ہیں انشا ماما۔۔۔سب تھنک ہو چانے گا۔۔"‬
‫انہیں نشلی د ننے کے عرض کہا تھا وہ مگر لہجہ جود کا تھی کھوکھال ہوا‪،‬‬
‫‪241‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چب سے آفس میں کام کریا وہ ذہن میں عنادنہ کو ہی سوار رکھا تھا‪،‬صیح تھی ان دوبوں میں کوبی‬
‫ت ل ت م س‬
‫ل نے وجہ رات ہوبی بخث‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫یات نہ ہوبی تھی‪،‬عنادنہ اسے کجھ چپ چپ ھی گی ھی گر‬
‫کو ہی سمجھا‪،‬درنہ ن نگم نے بوٹ تھی کنا تھا دوبوں کا ایک دوسرے سے یرک کالم رہنا مگر کجھ‬
‫ن‬ ‫لن س‬
‫ل‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫بوحھا نہیں انہوں نے‪،‬وہ چاننا تھا کل رات کجھ زیادہ ہی روڈ ہوگنا تھا عنادنہ سے کن‬
‫کو گوارا نہ تھا کہ کسی اور کی وجہ سے عنادنہ اس سے یدتمیزی کرے‪،‬وہ سدید اشیعال میں آیا تھا‬
‫چب اس کی ایک رانے د ننے یر عنادنہ نے آواز اوبجی کربی سروع کردی تھی مگر وہ کیتی یری‬
‫طرح ڈری تھی اس کے دہاڑنے یر‪،‬رات کو آفس سے پکلنے وقت تھی وہ نہی یاٹیں سوچ رہا تھا‬
‫اور تھر آچر میں ا ننے اصولوں کے چالف وہ ا ننے رونے یر عنادنہ سے معافی ما یگنے کا ق یصلہ‬
‫کنا‪،‬ظاہر سی یات تھی وہ نےچد محیت کریا تھا اس سے اور محیت میں کہیں نہ کہیں حھکنا یڑیا‬
‫س‬
‫ہے نٹھی لسینل مراد نے آج جود ح ھکنے کا ق یصلہ کنا تھا‪،‬‬

‫مٹیشن میں کار روک کر ایریا وہ کجھ چیران ہوا چب گیٹ یر اسماء کو کھڑے یایا‪،‬فرمان کو کار‬
‫س‬
‫یارک کرنے کا کہنا لسینل ایدر کی چانب یڑھا‪،‬‬

‫‪242‬‬
‫"صاچب نہ ننگ مجھے دے دیں۔۔"‬
‫اس کے ننگ کی طرف اسارہ کربی اسماء کے چہرے یر جوسی کی دمک تھی‪،‬‬

‫"ک بوں۔۔؟"‬
‫بچانے اسے ننگ د ننے کے وہ شیحندگی سے بوحھا‪،‬اسماء کجھ بوکھالبی مقایل کے سیرنس ایکسیرنشن‬
‫دیکھ کر‪،‬‬

‫"ارے صاچب وہ یڑی ننگم نے کہا تھا کہ آپ سے ننگ لے لوں اور وہ آپ کا گارڈن میں‬
‫ان یطار کررہی ہیں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کجھ الجھا تھا اسماء کی یات یر‪،‬کابچ آیکھوں میں تھوڑی چیرت اتھری مگر اس سے ننا‬
‫س‬
‫کجھ اور بو حھے لسینل نے ننگ اسماء کو دیا ساتھ ا ننے مضبوط قدم گارڈن کی چانب یڑھانے‪،‬‬

‫جیسے جیسے وہ گارڈن میں داچل ہورہا تھا و نسے ہی چیرت آیکھوں میں تمایاں ہورہی تھی‪،‬ہر چانب‬
‫چگ مگ کربی الٹیس اور گارڈن کے یلکل نیخوں نیچ رکھی ٹینل اور کے دوبوں چانب چئیرز‪،‬‬

‫"گرنتی۔۔؟"‬
‫چاروں چانب ہوبی ڈیکورنشن کو دیکھ وہ پکارا اور نٹھی مٹیشن کے بجھلی چانب سے سہج سہج کر آبی‬
‫عنادنہ دکھی تھی اسے‪،‬گولڈن کامدار قم یض نہنے النٹ سے منک یر کابوں میں اتیریگ ڈالے وہ‬
‫م‬ ‫س‬
‫لسینل کے ہوش اڑانے کی کمل نناری کر کے آبی تھی‪،‬ادھر اس کے یاک جشن کو پغور دیکھ‬
‫‪243‬‬
‫تھن س پ ً‬ ‫س‬
‫لسینل کے عنابی لب ل کر منے‪ ،‬قینا وہ ا تی ید میزی یر مداوے کے بخت اسے منایا چاہ‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫س‬
‫رہی تھی‪ ،‬لسینل کی یراسی آیرو شنانسی ایداز میں اتھیں‪،‬کابچ آیکھوں میں ٹیش لنے دیکھنا وہ‬
‫عنادنہ کو یزل کرگنا تھا‪،‬‬
‫ی‬ ‫س‬
‫اسے غین ٹینل کے یاس کھڑے دیکھ لسینل مضبوط قدم اتھایا آگے آیا‪،‬آ کھیں مشکارہی تھیں‬
‫مگر یایرات ہ بوز شیحندگی لنے تھے‪،‬عنادنہ کے جوپصورت چہرے یر آج کجھ الگ ہی دمک دکھ رہی‬
‫تھی اسے‪،‬‬

‫"گرنتی کہاں ہیں۔۔؟"‬


‫س‬
‫وہ جو لسینل کی مشکابی پظروں کو دیکھ سرمگیں مشکراہٹ گالبی ل بوں یر سچابی تھی اچایک اس‬
‫سوال یر جویکی‪،‬‬

‫"گرنتی۔۔؟"‬

‫"ہاں اسماء نے کہا وہ یالرہی ہیں مجھے۔۔۔کہاں ہے۔۔"‬


‫چہرے یر شیحندگی سچانے وہ رو ک ھے لہچے میں عنادنہ سے بوحھا‪،‬مقایل کا جود سے ہ بوز نےرجی یرننا‬
‫م‬
‫عنادنہ کو یلکل احھا نہیں لگا‪،‬درنہ ننگم کا ننایا گنا یلین اسے کمل چراب ہویا دکھا‪،‬‬

‫‪244‬‬
‫"گرنتی ایدر ہیں۔۔"‬
‫سر حھکانے وہ آہسنگی سے بولی‪،‬‬

‫"وہ ایدر ہیں بو مجھے نہاں ک بوں یالیا۔۔"‬


‫لہجہ ہ بوز نےیایر تھا اس کا‪،‬عنادنہ کو شنکی محسوس ہوبی‪،‬‬

‫"آپ کو گرنتی نے نہیں میں نے یالیا تھا۔۔"‬


‫س‬
‫اف چرم کررہی ہو‪ ،‬لسینل نے ل بوں یر امڈبی مشکراہٹ کچلی‪،‬‬
‫سر حھکانے وہ بوں بولی جیسے اعیر ِ‬

‫"تم۔۔۔ک بوں یالرہی تھی مجھے۔۔؟"‬


‫اب کی یار وہ تھوڑا سخت لہچے میں دریاقت کنا اور عنادنہ کی آیکھوں میں تمی آبی‪،‬سر حھکانے ہی‬
‫س‬
‫وہ لسینل کے فرنب ہوکر اس کے دوبوں ہاتھ تھامی‪،‬‬

‫"میں نے کل آپ سے یدتمیزی کی۔۔۔مج ھے اجشاس ہوا کہ علطی میری تھی۔۔آپ یایک کلوز‬
‫کریا چاہ رہے تھے یر یات میں نے یڑھابی اور تھر۔۔۔"‬
‫ہلکی آواز میں سرمندگی سے کہتی وہ رکی تھر گویا ہوبی‪،‬‬

‫‪245‬‬
‫س‬
‫"سوری لسینل مجھے کل یدتمیزی نہیں کربی چا ہنے تھی آپ سے۔۔"‬
‫ت ھٹ ھ س‬
‫نسٹماں سی کہتی وہ چب سر اتھابی بو کی‪ ،‬ل م کراہٹ دیانے اسے ظروں یں ل نا ہوا‬
‫م‬ ‫پ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬

‫تھا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔آ۔۔آپ یاراض نہیں مجھ سے۔۔"‬
‫عنادنہ چیران ہوبی بوحھی‪،‬‬

‫"میں۔۔یاراض۔۔تھا تم سے۔۔"‬
‫نہر کر بولنا وہ ع نادنہ کے یازو تھاما‪،‬‬

‫"اور اب۔۔"‬
‫وہ نےجین ہوبی‪،‬‬

‫"ا ننے جوپصورت ایداز میں معافی مایگی چانے بو کون ہوگا جو نہ مانے۔۔"‬
‫س‬
‫اسے اور ننگ کرنے کا ارادہ یرک کنے کہنا لسینل عنادنہ کی ٹیشابی غفندت سے جوما‪،‬‬

‫"اور۔۔۔علطی میری تھی تھی۔۔کل ہرٹ کرگنا تھا تمہیں میرا ایداز۔۔۔سوری۔۔"‬
‫اس کے چہرے کو تھامنا وہ محیت سے کہا جس یر عنادنہ مشکرابی‪،‬‬

‫‪246‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔"‬
‫ح‬
‫کجھ دیر یک اس کی یابی کو حھوبی وہ ھج ھک کر پکاری‪،‬مقایل جو پغور اس چاید چہرے کو گہری‬
‫پظروں سے دیکھ رہا تھا عنادنہ کی چانب م بوجہ ہوا‪،‬‬

‫"مجھے نسمہ چا ننے تھی یا۔۔"‬

‫"ہاں۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے بو لنے یر وہ تھاری ہوبی گ ھئیری یلکیں اتھابی‪،‬سرمگیں مشکان ہ بوز گالبی ل بوں کا‬
‫اچاطہ کی ہوبی تھی‪،‬‬

‫"سمجھ لیں "ہماری" نسمہ چلد آنے والی ہے۔۔"‬


‫ً‬
‫ہماری یر زور دے کر کہتی عنادنہ فورا سر حھکابی‪،‬اس نے درنہ ننگم سے کہا تھا کہ وہ ننادیں مگر‬
‫انہوں نے صاف چکم دیا عنادنہ کو نہ چیر جود شناٹیں کا‪،‬‬

‫"ک بوں تم نے کال کر کے یلوایا ہے اسے؟"‬


‫س‬
‫لسینل اس یار چیران ہوا ک بویکہ نسمہ بو م یع کرچکی تھی ان لوگوں کے ساتھ آنے سے تھر‬
‫اچایک اس کا آیا‪،‬‬

‫‪247‬‬
‫س‬
‫"نہیں لسینل۔۔"‬
‫عنادنہ کے عارض د ہکنے لگے‪،‬اسے سمجھ نہ آیا اور کیسے ننانے مقایل کو‪،‬‬

‫"بو تھر۔۔"‬
‫س‬
‫" لسینل میں نے "ہماری" نسمہ کہا ہے۔۔"‬
‫وہ تھر لقظوں یر زور دے کر بولی‪،‬‬

‫"ہماری نسمہ عنادنہ کنا کہہ۔۔"‬


‫س‬
‫کہنے ہونے لسینل کے القاظ گم ہونے تھے‪،‬دماغ میں حھماکا سا ہوا عنادنہ کے گلنار ہونے‬
‫س‬
‫چہرے کو دیکھ اور یکدم اس کی یات سمجھنا لسینل جوسگوار چیرت میں مینال ہوا‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کو القاظ نہ ملے انتی جوسی ننان کرنے کو‪،‬اچایک عنادنہ کو جود میں تھییچا تھا وہ‪،‬‬

‫"نہت سکرنہ اس جوسی کے لنے چاتم۔۔"‬


‫کالی آیکھوں میں جوسی کے آنسو دیکھ وہ حھک کر انہیں ل بوں سے جینے ہونے بوال‪،‬عنادنہ سمٹ‬
‫کر اس کے شینے یر ہاتھ رکھی‪،‬‬

‫‪248‬‬
‫"نہت نہت منارک ہو تم دوبوں کو۔۔"‬
‫درنہ ننگم کی آواز یر عنادنہ حھنکے سے دور ہوبی اس سے‪،‬‬

‫"لڑکی شیٹھل کر۔۔"‬


‫اس کے بوکھالنے سرخ چہرے کو دیکھ انہوں نے ہلکا سا ہیسنے ہونے کہا‪،‬‬

‫"آپ کو تھی گرنتی۔۔"‬


‫زیدگی سے تھربور مشکان ل بوں یر سچایا وہ درنہ ننگم کی چانب یڑھا ساتھ ہی ان کے ہاتھ جوم کر‬
‫درنہ ننگم کے گلے لگا‪،‬‬

‫"میں نے کہا تھا یا کہ اّٰللہ سے یاامند نہ ہویا۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کے دور ہونے یر انہوں نے یاس کھڑی عنادنہ کو دیکھ کر کہا بو وہ ان نات میں سر‬
‫ہالبی پظریں حھکابی‪،‬‬
‫صیح سے اس کی طی یعت عح یب ہورہی تھی‪،‬درنہ ننگم نے اس کی ڈل ہوبی طی یعت کے زی ِر ایر‬
‫سام کو لنڈی ڈاکیر یلوابی تھی اور نٹھی انہوں نے نہ جوسخیری دی‪،‬‬

‫"کھایا ننار ہے یڑی ننگم۔۔۔"‬


‫اسماء یلیٹیں گارڈن میں رکھی ٹینل یر لگابی انہیں مچاطب کی‪،‬‬

‫‪249‬‬
‫"چلو اب تم دوبوں کھایا کھالو۔۔"‬
‫ان دوبوں کے کندھے تھیٹھنا کر کہٹیں درنہ ننگم بولیں ساتھ وہاں سے چانے لگیں‪،‬‬

‫"گرنتی آپ تھی ٹیٹھ چاٹیں۔۔"‬


‫ً‬
‫درنہ ننگم کو روکتی عنادنہ فورا بولی‪،‬‬

‫"نہیں بجہ۔۔آپ دوبوں ابخوانے کرو میں ایدر ہی ہوں۔۔"‬

‫"آہاں گرنتی۔۔۔آپ ہمارے ساتھ ہی کھایا کھاٹیں گی۔۔آج کی جوشبوں سے تھربور رات ہم‬
‫ٹی بوں ساتھ مناٹیں گے۔۔"‬
‫س‬
‫درنہ ننگم کو چئیر یر ٹیٹھایا لسینل جوسی سے بوال ساتھ عنادنہ کے لنے چئیر کھشکایا‪،‬گالب ہونے‬
‫ٹ‬
‫چہرے سمیت خنا سے مشکرابی وہ چئیر یر یٹھی تھی‪،‬دوبوں کے چہروں یر کل رات کی یدمزگی کا‬
‫دور دور یک کوبی یایر نہ تھا اور ہویا تھی کبوں آچر جوشبوں نے ان کے آشنانے یر ہمیشہ کے لنے‬
‫دشنک جو دی تھی‪،‬‬

‫ھے‪،‬دوران گفنگو درنہ ننگم‬


‫ِ‬ ‫کھانے کے پعد دیر رات یک وہ لوگ وہی یر ٹیٹھے جوش گی بوں میں مخو ت‬
‫عنادنہ کو کتی طرح کی اجیناطی بچاویز اور ہدایات دے رہی تھیں مگر عنادنہ سے زیادہ بوجہ سے‬
‫س‬
‫لسینل ان کی ہدایات شینے میں مصروف تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪250‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫س‬
‫دن نہت تیزی سے گزرنے لگے تھے‪،‬چہاں لسینل اور عنادنہ کی زیدگی نے ایک نہانت جوسگوار‬
‫موڑ لنا تھا وہی سکندر وال ہر وجسبوں کا ڈیرا وشیع ہویا گنا‪،‬مہینے دبوں اور دن گھی بوں کے جشاب‬
‫م‬
‫سے گزر رہے تھے‪،‬سات مہینے کیسے گزرے نبہ نہ چال‪،‬ہیٹم چہاں کمل صخیناب ہوا تھا وہی مہناز‬
‫م‬
‫ننگم کی طی یعت روزیروز یگڑبی چارہی تھی‪،‬ہیٹم کا اب کمل دھنان آفس سے آنے کے پعد مہناز‬
‫ننگم یر لگا تھا‪،‬وہ یاقاعدگی سے ان کا عالج کروارہا تھا مگر ڈاکیرز نے ان کی یگڑبی چالت کی وجہ‬
‫کسی چیز کا گہرا صدمہ اور چد درجہ ن ٹیشن ننابی تھی‪،‬مہی بوں میں ایک آدھ چکر عنادنہ تھی لگابی‬
‫س‬
‫تھی سکندر وال کا‪،‬مہناز ن نگم کی طی یعت نے اسے تھی نےچد قکرمند کنا تھا‪،‬اس نے لسینل‬
‫س‬
‫سے وہاں ر کنے کا مطالبہ کنا مگر نہلی یار لسینل نے عنادنہ کی کوبی جواہش رد کی تھی‪،‬کوبی اور‬
‫س‬
‫وقت ہویا بو ساید وہ مان چایا مگر عنادنہ کی جود کی طی یعت انسی تھی اور لسینل چد درجہ جشاس‬
‫ہوگنا تھا اسے لے کر‪،‬اس تمام عرصے میں ہیٹم نے مطیبہ سے یات کرنے کی تھی نہت‬
‫کوشش کی مگر اس کا رونہ ہیٹم سے ہ بوز نےرجی لنے تھا‪،‬وہ ہیٹم سے یات بو دور اسے دیکھ کر‬
‫ہی اننا راسبہ یدل لیتی‪،‬اور نہی یر ہیٹم اس کی چانب ا ننے یڑھنے قدم روک لینا‪،‬مطیبہ کی روٹین‬
‫جیسے نس دو چگہوں یر مسٹمل ہوچکی تھی‪،‬آفس سے سکندر وال آکر ا ننے روم میں نند ہویا تھر‬
‫دوسرے دن شندھا آفس‪،‬کھایا وہ نہت کم سکندر وال میں کھابی اور وہ تھی چب ہیٹم وال میں نہ ہویا‬

‫‪251‬‬
‫بو جود ننا کر‪،‬ان اوقات میں اکیر مطیبہ مہناز ننگم کے کمرے کا چکر تھی لگابی‪،‬فرخندہ کے غوض‬
‫اسے مہناز ننگم کی یگڑبی چالت کا علم ہوا تھا نٹھی ان سے طی یعت بوحھنے صرور چابی مگر وہاں‬
‫چانے یر مہناز ننگم چب اس سے ہیٹم کو معاف کرنے کی درجواست کرٹیں نب ننا کجھ اور کہے‬
‫مطیبہ اتھ کر وانس ا ننے روم میں چلی آبی‪،‬ان کی کہی نہ یات مطیبہ کے نس میں نہ تھی‪،‬ہاں‬
‫اس کے نس میں نہیں تھا ہیٹم سکندر کو معاف کریا‪،‬‬

‫آج رات وہ چلدی لویا تھا آفس سے‪،‬سکندر وال میں داچل ہونے ہی رخ مہناز ننگم کے روم کی‬
‫ی‬
‫چانب ہوا‪،‬دروازہ یاک کریا ہیٹم ایدر داچل ہوا‪،‬پظر ننڈ یر گتی بو مہناز ننگم کو اس نے آ کھیں‬
‫مویدے ننڈ سے ننک لگانے یایا‪،‬‬

‫"ماما۔۔"‬
‫م‬
‫انہیں دیکھ طمین ہویا وہ مہناز ننگم کے یاس چا ٹیٹھا‪،‬‬

‫"آج کل کافی الس ہورہا ہے مجھے یزنس میں۔۔محسوس ہویا ہے کہ یایا کا نہ یزنس اب مجھ سے‬
‫نہیں شیٹھل یانے گا۔۔دل کا بوحھ تھی ہے کہ گھینے کے بچانے ہر گزرنے دن کے ساتھ‬
‫یڑھ رہا ہے۔۔۔اگر بوں ہی چلنا رہا بو یاگل ہو چاؤں گا میں۔۔"‬
‫روز کی طرح وہ انہیں انتی یرنشابی ننایا دل کا بوحھ تھوڑا ہلکا کریا چاہا‪،‬الجھا ذہن چد سے زیادہ‬

‫‪252‬‬
‫مصروقنات کے یاعث تھکن سے جور ہویا ٹیند کی وادبوں میں ایرنے لگا تھا نٹھی ہیٹم چلدی سے‬
‫سر حھ یکا‪،‬‬

‫"چیر حھوڑیں ان یابوں کو نہ نناٹیں طی یعت کیسی ہے اب آپ کی۔۔"‬


‫م‬
‫شندھا ہوکر ان کی چانب کمل م بوجہ ہویا اب وہ بوحھا مگر دوسری چانب سے جواب اب یک یدار‬
‫تھا‪،‬ہیٹم کجھ تھٹھکا مہناز ننگم کو ہ بوز ایک ہی بوزنشن میں دیکھ‪،‬کنا وہ سوچکی تھیں مگر اس نے‬
‫کٹھی انتی آمد سے نہلے مہناز ننگم کو سویا نہ یایا تھا‪،‬‬

‫"ماما۔۔"‬
‫اچایک گ ھیراہٹ سی اس کے بورے وجود میں دوڑی نٹھی وہ ابچانے سے چدسے کے بخت‬
‫ً‬
‫انہیں تھر پکاریا مہناز ننگم کا کندھا ہالیا مگر ٹییحنا مہناز ننگم کی گردن لڑھکی تھی اور وہ داٹیں چانب‬
‫ی‬
‫ننڈ یر گریں‪،‬ہیٹم حھ یکا کھا کر رہ گنا‪،‬نےپقیتی سے تھتی تھیں اس کی آ کھیں‪،‬دل کسی انہوبی کا‬
‫سوچ کانپ کر رہ گنا‪،‬اور انتی نےبچاشہ خظریاک سوجوں کی پفی کریا ہیٹم حھکا تھا مہناز ننگم یر‪،‬‬

‫"ما۔۔ما اتھیں۔۔"‬
‫جوف کے سدید اجشاس میں گھرا وہ بوں ہکالیا کوبی بجہ لگا تھا جو انتی زیدگی کے سب سے قٹمتی‬
‫ایانے کے کھونے کا سوچ کر ہی نےچد ڈرا ہوا تھا‪،‬‬

‫‪253‬‬
‫"نہ کریں یار انشا۔۔ماما۔۔اتھ تھی چاٹیں۔۔"‬
‫یاچانے کبوں اس کا لہجہ تھاری ہوا‪،‬کجھ اور کہنا مچال ہورہا تھا‪،‬دل یری طرح کا ٹینے لگا‪،‬وہ‬
‫نےپقیتی کی ک یف یت میں گھرا روہانشا ہویا انتی ماں کو دیکھا‪،‬سمجھ نہ آیا کیسے انہیں اتھانے‪ ،‬ننے‬
‫ی‬
‫کی مانند لرزیا دل سدت سے جواہش کنا تھا کہ وہ اتھی آ کھیں کھولیں‪،‬کنکنایا ہاتھ نےساچبہ ان‬
‫کی یاک کی چانب گنا اور ہیٹم سکندر کی یکھری ہوبی زیدگی یکدم ایدھیر ہوبی‪،‬جواس سلب خنکہ وہ جود‬
‫ڈھنال یڑا تھا‪،‬مہناز ننگم اس کی ماں‪،‬اس کا آچری سہارا سوچکی تھیں ہمیشہ کے لنے‪،‬‬

‫"نہ بجھناوا میری چان لے ل یگا۔۔"‬


‫ان کا کہا حملہ کہیں آس یاس گوبچا‪،‬ہیٹم کو اننا سب کجھ خٹم ہویا دکھا‪،‬آچر ماں یاپ کا چایا کسے‬
‫یرداست ہوسکنا تھا‪،‬نہ واچد سوچ انسی ہے جو ہر ایک کا دل کا ٹینے یر محبور کرد نتی ہے‪،‬‬

‫"ماما۔۔"‬
‫نےپقیتی کے عالم میں یڑپ کر وہ خیچا تھا‪،‬کچن میں ا ننے لنے یابی لیتی مطیبہ لرز کر رہ گتی اس‬
‫وجست یاک خیخ یر‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪254‬‬
‫س‬
‫" لسینل کہیں اور چلنے ہیں۔۔؟"‬
‫رات کو آفس سے وہ چلدی آیا تھا وجہ عنادنہ کی آبی مشلشل کالز تھیں‪،‬اسے آنشکرتم کھانے کا‬
‫س‬
‫دل چاہ رہا تھا نٹھی انتی مصروق یت کو یرایر رکھنا لسینل اسے اب آنشکرتم یارلر لے کر آیا تھا‬
‫لنکن اب نہاں آکر عنادنہ کا بوں اچایک م یع کریا اسے جوپکا گنا‪،‬‬

‫"لڑکی آنشکرتم نہیں کھابی تمہیں۔۔؟"‬


‫س‬
‫لسینل چیرت میں گھرا اسے سے بوحھنے لگا جس کا جوسگوار موڈ یاچانے ک بوں اب یدل گنا تھا‪،‬‬

‫"نہیں۔۔"‬

‫"یر ک بوں۔۔؟"‬
‫س‬
‫"آپ کینے سوال کرنے ہیں لسینل موڈ نہیں ہے کھانے کا نٹھی م یع کررہی ہوں یا۔۔"‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫ت‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫ل کو یسنے یر مح بور کنا‪،‬ایک ھربور ظر اس کے ھرے‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫اچایک عنادنہ کا بوں ال کر بول نا‬
‫س‬
‫تھرے وجود یر ڈال لسینل مشکراکر عنادنہ کی چانب حھکا‪،‬‬

‫"بو کنا کھایا ہے چاتم کو۔۔"‬


‫س‬
‫اس کے یالوں یر لب رکھنا لسینل محیت سے کہہ کر عنادنہ کے گرد چادر کو تھنک کنا‪،‬ان‬
‫دبوں عنادنہ چد درجہ چڑچڑی سی ہوگتی تھی نٹھی اس کے مزاج کو مدپظر رکھنا وہ یرمی یریا‪،‬‬

‫‪255‬‬
‫"کجھ کھانے کا موڈ نہیں۔۔انشا کرنے ہیں مام سے ِمل آنے ہیں۔۔"‬
‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫کھڑکی سے یاہر پظر ڈال کر وہ لسینل کو د تی بولی‪،‬‬
‫ھ‬

‫"اس یاتم۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل ایک پظر رسٹ واچ کو دیکھا‪،‬رات کے گنارہ بج رہے تھے‪،‬‬

‫"ہاں بو۔۔زیادہ رات تھوڑی ہوبی ہے اور و نسے تھی مام اتھی ہوبی ہوبی ہیں اس وقت۔۔چلیں یا‬
‫س‬
‫لسینل۔۔"‬
‫س‬
‫اب کی یار وہ لہچے میں میت سمونے بولی بو پفی میں سر ہالکر مشکرایا لسینل کار سکندر وال چانے‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫رشنے یر موڑنے لگا‪،‬فون ریگ کرنے یر عنادنہ د ھی‪ ،‬طیبہ کے تمیر سے کال ھی‪،‬‬

‫"ہنلو۔۔"‬
‫رنسبو کربی وہ کان سے لگابی‪،‬‬

‫"آبی۔۔آپ۔۔رو ک بوں رہی ہیں۔۔؟"‬


‫دوسری چانب سے مطیبہ کے رونے کی آواز یر عنادنہ چیران ہوکر بوحھی‪،‬مگر اگلے ہی لمچے جو چیر‬
‫مطیبہ نے اسے شنابی عنادنہ کا دماغ تھک سے اڑا‪،‬کان ساٹیں ساٹیں کرنے لگے خنکہ جشک‬
‫ی‬
‫آ کھیں تیزی سے گنلی ہوٹیں‪،‬‬

‫‪256‬‬
‫"عنادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫اسکے شفند یڑنے تھنگے چہرے کو دیکھ لسینل قکرم ند ہوا‪،‬‬

‫"مہ۔۔ما۔۔۔مام۔۔"‬
‫س‬
‫اس کا لہجہ یری طرح لڑکھڑایا تھا‪ ،‬لسینل کجھ علط ہونے کے اجشاس یر عنادنہ کے ہاتھ سے‬
‫فون لینا کان سے لگایا‪،‬‬

‫"ہنلو مطیبہ۔۔"‬
‫س‬
‫کجھ دیر پعد روبی مطیبہ نے اسے تھی چب مہناز ننگم کی ڈ نٹھ کا ن نایا نب لب تھییحنا لسینل‬
‫کار کی شینڈ کجھ تیز کریا فون رکھا‪،‬پظریں عنادنہ یر گٹیں جس کی طی یعت یگڑنے لگی تھی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"ہیسنا نسنا گھر کیسے ویران سا ہوگنا۔۔"‬
‫کسی غورت کی آواز اس کے کان میں یڑی بو تم یلکیں اتھابی مطیبہ مہناز ننگم کی میت کو‬
‫ک‬‫ی‬
‫د ھی‪،‬‬

‫"سالوں ہونے اس گھر میں اب جوشبوں کا دور دور یک کوبی نشاں نہ رہا۔۔"‬
‫دوسری غورت نے اس غورت کو جواب میں کہا‪،‬ایک ٹیس سی اتھی تھی مطیبہ کے دل‬
‫‪257‬‬
‫میں‪،‬تھنگی پظریں زرا کی زرا اتھیں بو سا منے ضیط سے سرخ ہونے اس چہرے یر گتی جس کو‬
‫دیکھ کر کوبی تھی نےنناہ درد کی نہچان لمخوں میں کرسکنا تھا‪،‬‬

‫کتی مرد اسے نشلی بحش القاظ کہہ رہے تھے مگر وہ ان سب سے نےنہرہ ننا نس چالی پظروں سے‬
‫انتی کل کاننات کو یل میں لنایا چاموش کھڑا تھا‪،‬وہ چب اس کی خیخ یر مہناز ننگم کے کمرے‬
‫میں گتی نب ہیٹم کو ا ننے یال چکڑ کر نےپقیتی میں رویا دیکھ ساکت ہوبی‪،‬وہ بخوں کی طرح خیحنے‬
‫ہونے ہوش میں یلکل نہ تھا اس ہیٹم میں اور اب کے سا منے چاموش کھڑے ہیٹم میں دو‬
‫چہابوں کا فرق لگ رہا تھا‪،‬‬
‫س‬
‫لسینل گیسٹ روم سے پکل کر ہیٹم کے یاس آیا‪،‬سکندر وال آنے ہی مہناز ننگم کو دیکھ عنادنہ‬
‫نےہوش ہوچکی تھی‪،‬ڈاکیر نے سخت آرام کی یلقین کی تھی اسے‪،‬اتھی وہ نٹم ع بودگی میں‬
‫س‬
‫تھی‪،‬کجھ دیر نہلے درنہ ننگم آ ٹیں تھی فرمان کے ساتھ اور اتھی عنادنہ کے یاس لسینل انہیں‬
‫ہی حھوڑ کر آیا تھا‪،‬‬

‫"میت کی یدفین کا وقت ہورہا ہے۔۔"‬


‫س‬
‫ایک غمر دراز سخص کی آواز یر لسینل ہیٹم کے کندھے یر ہاتھ رکھا‪،‬لقظ میت یر اس کا دل‬
‫ی‬
‫یکڑوں میں یکھرا‪،‬گردن موڑ کر انتی سلگتی آ کھیں حھنکنا وہ اننات میں سر ہالیا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪258‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وقت کا کام تھا گزریا اور وہ گزریا رہا مہناز ننگم کی ڈ نٹھ کو دو مہینے ہونے کو آنے تھے اس‬
‫عرصے میں اّٰللہ نے عنادنہ جوپصورت ٹینے سے بوازا‪،‬مہناز ننگم کی ڈ نٹھ یر جس قدر اس کی چالت‬
‫س‬
‫چراب ہورہی تھی لسینل کافی چد یک گ ھیرایا تھا اس کی چانب سے‪،‬اس عرصے میں وہ کس‬
‫ً‬
‫طرح عنادنہ کو شیٹ ھاال صرف وہی چاننا تھا‪،‬انتی ماں کے چانے کے فورا پعد اس جوسی کے ملنے یر‬
‫عنادنہ رویڑی تھی‪،‬می بوں پعد ملی اوالد یر اسے وہ جوسی نہ ہویابی جیسے وہ چاہتی تھی‪،‬ماں کے‬
‫چانے کا غم ہی اننا یڑا تھا کہ دل اکیر تھاری رہنا‪،‬اکیر و ٹیسیر انہیں یاد کر کے وہ نہت روبی مگر‬
‫س‬
‫ان اوقات میں لسینل اور درنہ ننگم کی چد سے زیادہ کئیر اور محیت نے عنادنہ کو بو ننے نہ دیا‪،‬‬
‫س‬
‫" لسینل۔۔"‬
‫اتھی وہ مٹیشن میں داچل ہی ہوا تھا کہ ہال میں اسے درنہ ننگم دکھیں‪،‬وہ گود میں اس کے ٹینے‬
‫ٹ‬
‫کو لنے یٹھی تھیں‪،‬‬

‫"آپ سوبی نہیں اتھی یک۔۔"‬


‫وہ دیر سے لویا تھا اور انہیں اب یک چاگے دیکھ بوحھا‪،‬‬

‫‪259‬‬
‫"کجھ وقت ا ننے بونے کے ساتھ یاٹیں کررہی تھی نس۔۔"‬
‫مشکرانے ہونے کہہ کر انہوں نے شیطین کے تھرے تھرے گال جومے بو وہ کسمشاکر‬
‫رونے لگا‪،‬‬

‫"عنادنہ کہاں ہے۔۔؟"‬


‫س‬
‫انہیں شیطین کو انتی چانب یڑھانے دیکھ لسینل اسے تھام کر بوحھا‪،‬یاپ کی گود میں آنے‬
‫ہی اس کا رویا نند ہوا تھا‪،‬‬

‫"کمرے میں ہے۔۔۔چب سے اسے یرنشان کر رکھا تھا شیطین نے رو رو کر اتھی تھوڑی دیر‬
‫نہلے ہی میرے کہنے یر آرام کرنے گتی ہے۔۔"‬
‫س‬
‫ان کے ننانے یر لسینل سر اننات میں ہالیا‪،‬‬

‫"کھایا پکلواوں۔۔۔"‬

‫"نہیں گرنتی تھوک نہیں۔۔"‬


‫انہیں یرمی سے جواب د ن نا وہ ا ننے روم کی چانب قدم یڑھایا‪،‬‬

‫‪260‬‬
‫"میری چاتم کو یرنشان کردیا گندے بچے نے۔۔"‬
‫ٹ‬
‫کمرے میں داچل ہویا وہ انتی گود میں سونے شیطین کو دیکھ بوال‪،‬ننڈ یر یٹھی عنادنہ اس کی یات‬
‫یر آسودگی سے مشکرابی‪،‬‬

‫"ہمارا ٹینا گندہ نہیں۔۔"‬


‫اسے شیطین کو ننڈ یر لی نانے دیکھ عنادنہ مشکرانے ہونے بولی‪،‬‬

‫"چاننا ہوں۔۔۔اب نہ نناؤ آج انتی جسین مشکراہٹ ل بوں یر سچانے کی کوبی چاص وجہ۔۔"‬
‫س‬
‫ان دبوں لسینل اسے زیادہ یر صرف اداس دیکھنا تھا یر آج عنادنہ کے ل بوں یر مشکراہٹ دیکھ‬
‫وہ جوسگوار چیرت میں مینال ہوا‪،‬‬
‫س‬
‫"کیتی محیت کرنے ہیں آپ مجھ سے لسینل۔۔؟"‬
‫اسے جواب د ننے کے بچانے عنادنہ النا سوال کی تھی‪،‬‬
‫س‬
‫"وہ نٹمانہ اب یک ابچاد نہیں ہوا جس سے لسینل مراد کی محیت یاپ لی چانے۔۔"‬
‫عنابی لب دلکسی سے مشکرانے ہلے تھے‪،‬عنادنہ چاموسی سے اس سخص کو د یکھے گتی‪،‬ذہن کے‬
‫س‬
‫یردے یر دونہر کا وافعہ گھوما چب لسینل والٹ گھر یر تھول گنا تھا نب اس کے والٹ کو‬
‫وارڈروب میں رکھنے کے عرض عنادنہ اتھابی لنکن اس ہی وقت ایک فولڈ ہوا ٹئیر گرا تھا والٹ میں‬
‫ت‬
‫سے‪،‬عنادنہ کا ارادہ اسے وانس والٹ میں ڈا لنے کا تھا مگر وہ ھمی تھی اس فولڈ ہونے ٹئیر کے‬
‫‪261‬‬
‫وشط میں یڑے لقظوں میں "فرام عندلیب" لکھا دیکھ‪،‬عنادنہ نے تیزی میں کھوال تھا وہ ٹئیر اور‬
‫اس کا ہاتھ نےساچبہ ل بوں یر گنا‪،‬کیشا سخص تھا وہ جسے انتی محیت اس قدر قٹمتی تھی کہ اس‬
‫سے میشلک وہ خط یک ا ننے سالوں پعد تھی ا ننے یاس انتی خقاطت سے رکھا تھا‪،‬عنادنہ کو‬
‫نےاجینار اس سخص یر ننار آیا‪،‬‬

‫"کس سوچ میں گم ہو۔۔؟"‬


‫س‬ ‫س‬
‫عنادنہ کے آگے خنکی بچایا لسینل بوحھا بو وہ جویکی تھر پفی میں سر ہالکر آگے ہوبی لسینل‬
‫س‬ ‫ی‬
‫کے شینے یر سر رکھ کر آ کھیں موید گتی‪ ،‬لسینل کی خ بوبی محیت کے آگے کٹھی کٹھی وہ سرمندہ‬
‫س‬
‫سی ہوچابی‪،‬گزرے دبوں میں وہ کی نا یرنشان کی تھی لسینل کو‪،‬مگر اب عنادنہ جود سے عہد کی‬
‫س‬
‫تھی کہ چاہے اب کجھ تھی ہو وہ کسی اور کی وجہ سے لسینل سے کٹھی بخث یا لڑابی نہیں‬
‫کرے گی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫دو مہینے کے عرصے میں چہاں ہیٹم کو گہری چپ لگی تھی وہی مطیبہ کی روٹین میں تھوڑا یدالؤ‬
‫آیا‪،‬زیادہ نہیں یر وہ عیر محسوس طر پقے سے ہیٹم کا تھوڑا نہت خنال رکھنے لگی تھی‪،‬وجہ اچایک ہیٹم‬
‫کی طی یعت کا دن یدن ڈل ہویا‪،‬وہ سامنا نہ کربی اس کا مگر ہیٹم کے صیح ٹی نل یر آنے سے نہلے‬
‫‪262‬‬
‫یاسبہ ننار کر کے فرخندہ سے تھخواد نتی‪،‬بونہی سام کو کافی اور رات کے کھانے کی روٹین‬
‫تھی‪،‬ہیٹم سمجھ رہا تھا اس کا کئیر کرنے کا نہ ایداز مگر ماں کے چانے کے پعد ایک آچری کلس‬
‫جو اسے دتمک کی طرح روز خٹم کرنے لگی تھی وہ مطیبہ کا اسے معاف نہ کریا تھا‪،‬نےسکوبی‬
‫میں رہنا وہ نہت سوخنے کے پعد ایک ق یصلہ کنا تھا جس یر غمل بجھلے دو ہف بوں سے کریا آرہا تھا‪،‬‬
‫ی‬
‫آج موسم ایر آلود تھا‪،‬کار سکندر وال کی بورچ ہر روکے وہ سر شیٹ کی نست سے پکانے آ کھیں‬
‫موید کر ٹیٹھا ہوا تھا‪،‬الجھا ذہن گزرے مہی بوں کو سوچ رہا تھا‪،‬کنا کجھ نہیں کنا تھا وہ اس لڑکی کی‬
‫معافی کے عرض مگر وہ جیسے انتی پفرت سے ایک قدم نیجھے ہینے کو ننار نہ تھی مگر اس سب میں‬
‫مطیبہ کا تھی فصور نہ تھا‪،‬آچر کو نہ اس ہی کا بو کنا دھرا تھا ورنہ وہ لڑکی بو بخین سے اس کے‬
‫نیجھے یاگل تھی‪،‬تھابی نہن کی محیت میں ایدھا وہ جود ہی بو اسے الپعداد اذ ن بوں میں گھرا کر مطیبہ‬
‫کے دل سے فظرہ فظرہ کر کے انتی محیت پکاال تھا تھر اب کیسے امند کرلینا کہ وہ لڑکی آسابی سے‬
‫اسے معاف کردے‪،‬‬
‫ی‬
‫نےبچاشہ پکال یف میں مینال وہ انتی لہو ہوبی آ کھیں وا کنا‪،‬یاہر اچایک یرشتی تیز یارش نے اس کی‬
‫سوجوں کا ارپکاز بوڑا‪،‬ایک کرب تھری مشکراہٹ نے اس کے یاریک ل بوں کا اچاطہ کنا‪،‬یرشنے‬
‫ی‬
‫یادل اسے ا ننے غموں کا ساتھ د ننے محسوس ہونے تھے‪،‬کار کے شیسے کھولنا وہ آ کھیں تھر مویدیا‬
‫ایدر آبی یارش کی ہلکی بویدوں کو محسوس کرنے لگا‪،‬اس سردی میں تھنڈی بویدیں تھی ہیٹم سکندر‬
‫‪263‬‬
‫ن‬ ‫پ ً‬
‫کے ایدر کی گھین کو کم کرنے میں یاکام رہیں‪،‬یابی فرننا بوخنے کے ایداز یں ڈ لی کریا وہ سرٹ‬
‫ھ‬ ‫م‬
‫کے اویر دو ٹئیز کھوال‪،‬عح یب نےکلی سی ہونے لگی تھی‪،‬سانسیں جود یر ننگ محسوس کر کے وہ‬
‫گھین چد سے زیادہ یڑھنے یر کار سے پکال تھا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ا ننے روم کی کھڑکی یر کھڑی وہ یاہر یرشتی یارش کو دیکھنے گزرے ماضی کا سوچ رہی تھی‪،‬کنا موڑ‬
‫لنا تھا زیدگی نے‪،‬جس سخص سے یالجواز محیت کی اس نے انتی پفربوں تھری دھ یکار اور اس کے‬
‫کردار کو داعدار کہہ کر جود سے اسے پفرت کرنے یر مح بور کردیا اور تھر چب اس سے پفرت‬
‫کرنے لگی نب وہ سخص اس قدر یکھر کر بویا کہ یاچا ہنے ہونے تھی وہ اس سخص کے لنے قکرمند‬
‫ہونے لگی‪،‬ہاں نہ الگ یات تھی کہ دل اس سخص سے اب یک ُدکھا ہوا تھا اور مہناز ننگم کی‬
‫ڈ نٹھ کے اگلے مہینے ہی وہ سکندر وال سے چانے کا سوجی تھی مگر ہیٹم کی روز یروز یگڑبی طی یعت‬
‫نے مطیبہ کو انتی سوچ یر غمل کرنے سے روک دیا‪،‬‬

‫کتی سوجوں کے خصار میں قند چب مطیبہ کی پظر نیچے گتی بو وہ کجھ جویکی‪،‬بورچ میں انتی کار سے‬
‫ننک لگانے وہ تیز یرشتی یارش میں یڑھتی تھنڈ سے نےیرواہ ننا تھنگ رہا تھا‪،‬ٹی یٹ کی خ یب میں‬
‫ہاتھ ڈالے وخنہہ چہرہ نیچے حھکانے کوبی ہارا ہوا جواہری لگ رہا تھا‪،‬اسے بوں تھنگنے دیکھ مطیبہ‬
‫‪264‬‬
‫کجھ نےجین ہوبی مگر چلد ہی سر حھنک کر وہ روم سے پکلتی نیچے آبی‪،‬کچن میں آکر مطیبہ چلدی‬
‫سے کافی ننانے لگی‪،‬‬

‫"فرخندہ۔۔"‬
‫ً‬
‫کجھ دیر پعد کافی ننار ہونے کے پعد وہ فرخندہ کو پکاری مگر وہ کہیں تھی نہیں تھی‪،‬پقینا وہ کسی‬
‫کام سے سرونٹ کواریر گتی تھی‪،‬نہلے مطیبہ نے سوچا کہ اسے وہاں سے یاللے مگر تیز یارش میں‬
‫م‬
‫اگر وہ سرونٹ کواریر یک چابی بو کمل تھنگ چابی نٹھی کجھ سوچ کر اس نے کافی کا مگ‬
‫تھا منے ہونے سیڑھ بوں کا رخ کنا‪،‬‬
‫پ ن ی‬
‫ہیٹم کے روم کے دروازے یر نہیچ کر مطیبہ یلٹ کر ایک ظر یچے د ھی‪،‬وہ اب یک ایدر دا ل‬
‫چ‬ ‫ک‬

‫نہیں ہوا تھا‪،‬گہری سانس تھر کر مطیبہ نے آہسنگی سے یاب گھمایا بو دروازہ کھلنا چال گنا‪،‬دل‬
‫میں دھڑکا لگا ہوا تھا‪،‬انتی گ ھیراہٹ یر قابو یابی وہ قدم روم میں رکھی تھی‪،‬لٹمپ کی روشتی میں نٹم‬
‫یاریک کمرے کو دیکھ مطیبہ دھواں اڑابی کافی کا مگ ڈرنسنگ یر رکھی تھی‪،‬ارادہ مگ رکھ کر شندھا‬
‫روم سے چانے کا تھا مگر ایک ابچانے اجشاس کے بخت اس کے قدم زبخیر ہونے‪،‬اس کمرے‬
‫ً‬
‫میں وہ پفرننا دیڑھ سال پعد آبی تھی‪،‬مخصوص کلون کی جوشبو میں شنگرنٹ کی مہک کا اصافہ ہوا‬
‫تھا‪،‬اس کمرے کو دیکھ حھنل آیکھوں میں تمی ایری تھی‪،‬نہی بو چگہ تھی چہاں وہ شٹمگر اس کی‬

‫‪265‬‬
‫محیت کا مذاق ننایا ہر گزرنے دن یڑیایا‪،‬اس کمرے سے صرف پکل یف تھری یادیں ہی میشلک‬
‫تھی سوانے اس رات کہ چب وہ شٹمگر انتی بوجہ کے خند یل اسے عنانت کنا تھا‪،‬‬

‫"میں۔۔نے۔۔کہا۔۔کھاو۔۔"‬
‫کس قدر جوپکایا تھا نہ حملہ اسے چب مقایل اس کو کھایا کھانے کا کہا تھا‪،‬وہ شٹمگر ساید زیدگی میں‬
‫نہلی مرنبہ اس کی قکر کنا تھا‪،‬اس رات کا سوچ ایک دکھ تھری مشکان نے گداز ل بوں کو حھوا‬
‫اور اچایک مطیبہ کی سوجیں اڑن حھو ہوبی چب دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھال‪،‬‬
‫ی‬ ‫ک‬‫غ م ی‬
‫یری طرح بوکھالبی وہ یلٹ کر قب یں د ھی چہاں انسنا وہ اپگارہ ہوبی سرخ آ ھوں میت اسے‬
‫س‬ ‫ک‬
‫دیکھ رہا تھا‪،‬اس عرصے میں نہلی مرنبہ ان دوبوں کا یاقاعدہ آمنا سامنا ہوا تھا‪،‬تھنگے کیڑے سرخ‬
‫چہرہ اور یکھرے چلنے کے ساتھ ہیٹم کی آیکھوں میں ہلکورے لینے سرخ ڈوروں نے مطیبہ کو ایک‬
‫یل میں حھرحھری لینے یر محبور کنا‪،‬یاہر یرشتی یارش کا سور‪،‬کمرے کا نٹم یاریک ماجول اور سا منے‬
‫دروازے یر دبو کی مانند انسنا وہ سخص‪،‬مطیبہ کو ہول اتھنے لگے‪،‬دل گ ھیرایا تھا مگر چلد شیٹھلنے کی‬
‫کوشش میں اس کے یرایر سے ہوبی وہ چہرہ نےیایر ننانے یاہر پکلنے لگی‪،‬‬
‫ن‬
‫غین دروازے یر ہیحنے ہی ہیٹم اس کے یازو کو یکڑ کر مطیبہ کو کھییچا تھا ایدر ساتھ زور سے دروازہ‬
‫نند کریا اسے دروازے سے لگایا‪،‬اس کی تھربی سے کی گتی کاروابی یر مطیبہ کے مبہ سے ہلکی خیخ‬

‫‪266‬‬
‫پکلی‪،‬دروازے یر لگنے ہی سر میں درد کی لہر دوڑی خنکہ شینے میں مدفون ہوا وہ نٹھر دل آج جس‬
‫زور سے دھڑکا اسے نشلناں بو ننے کا گمان ہونے لگا‪،‬وہ کانپ کر رہ گتی مقایل کی فرنت یر‪،‬‬

‫"ک بوں کرنے لگی ہو نہ سب۔۔"‬


‫وہ ڈرنسنگ یر ر ک ھے مگ کو دیکھ خکا تھا نٹھی ان دبوں اس کے کئیر کرنے یر بوحھا تھا اب‪،‬‬

‫"کنا نےہودگی ہے۔۔۔ہاتھ حھوڑو میرا۔۔"‬


‫ہیٹم کی خ بوبی گرقت واصح کررہی تھی کہ وہ اتھی ہوش میں نہیں‪،‬مطیبہ ڈری بو نہت تھی اس‬
‫کے ایداز یر لنکن لہجہ مضبوط ننانے سحتی سے بولی‪،‬‬

‫"جواب دو ک بوں کررہی ہو نہ سب۔۔۔"‬


‫م‬
‫اس یار وہ کجھ تیز آواز میں بوحھا کہ مطیبہ کمل لرزی تھی‪،‬مبہ سے اچایک خیخ پکلی‪،‬ایک مرنبہ‬
‫تھر وہی جوف اس یر عالب آنے لگا جو اس شٹمگر کی موجودگی میں نہلے ہویا تھا‪،‬‬

‫"محیت کربی ہو یا اب تھی مجھ سے۔۔"‬


‫کمرے میں یارش کے سور کے عالوہ مطیبہ کی تیز ہوبی سانسیں گوبحنے لگی تھیں‪،‬اس یر ہیٹم‬
‫چذیات سے بوحھل لہچے میں کہنا جس یرمی سے اس کے گال جو حھوا تھا دل کی دھڑکٹیں مٹیسر‬
‫ہوٹیں اس کے جواس معطل کرگٹیں‪،‬‬

‫‪267‬‬
‫"ہیٹم۔۔"‬
‫مطیبہ کے لب تھٹھڑانے تھے‪،‬اسے دور کرنے یر مزاحمت کربی وہ ہیٹم کے یازو کی مضبوط‬
‫گرقت انتی کمر یر محسوس کربی مچل کر رہ گتی‪،‬وہ کمزور نہیں یڑیا چاہ رہی تھی مگر مقایل کی گرقت‬
‫ہی انسی تھی کہ مطیبہ جود کو نےنس محسوس کربی روہانسی ہوبی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫"مررہا ہوں میں۔۔۔یلیز بچالو مجھے۔۔"‬


‫بوحھل لہچے میں سرگوسی کریا ہیٹم گال یر سے ہاتھ نیچے الکر مطیبہ کے یازو یر تھیریا اس کی کالبی‬
‫یکڑا ساتھ ہی اسکے ہاتھ کو ا ننے شینے یر رکھنا مطیبہ کی ٹیشابی سے انتی ٹیشابی پکایا‪،‬وہ جو مقلوج‬
‫ہونے جواس سمیت اسے دور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی مقایل کی شست‬
‫ی‬
‫دھڑکٹیں محسوس کربی انتی آ کھیں میچ گتی‪،‬ایداز انشا تھا جیسے تھاگ چایا چاہ رہی ہو وہ نہاں سے‬
‫نہت دور‪،‬نہیں محسوس کریا چاہتی ہو ان دھڑک بوں کو‪،‬‬

‫ہیٹم کے تھاری ہاتھ میں حھنے ا ننے یازک ہاتھ سے ہیٹم کے شینے یر دیاؤ ڈالتی وہ تمشکل اس سے‬
‫قاصلہ قاتم کرنے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمچے مطیبہ کے رہے سہے اوسان تھی خطا ہونے‬
‫چب نٹم وا سرخ آیکھوں سے اس کو دیکھ ہیٹم آہسنگی سے حھکنا اننا وخنہہ چہرہ مطیبہ کے رنسمی‬
‫‪268‬‬
‫یالوں میں حھناگنا‪،‬مطیبہ کی سانسیں یکھری تھیں مقایل کے سلگنے لب انتی شفند گردن یر‬
‫محسوس کر کے‪،‬ہیٹم کی تھنگی سرٹ اور جسم نے اسکے کیڑے تھی کافی چد یک گنلے کردنے‬
‫تھے‪،‬مطیبہ کے وجود میں لرزراہٹ محسوس کریا ہیٹم اس کی گردن یر سے لب ہنایا چہرہ سا منے‬
‫کنا‪،‬نٹم یاریکی میں تھی مطیبہ کا یری طرح دہکنا چہرہ اسے واصح دکھ رہا تھا‪،‬ایک یازو کی گرقت کمر یر‬
‫ی‬
‫بو دوسرے میں اننا ہاتھ مفند وہ اس کی قند میں یلکل نےنس ہوبی آ کھیں میچے نے آواز رورہی‬
‫تھی‪،‬اس کے چہرے یر آنے یال کو نہانت یرمی سے کان کے نیج ھے اڑشنا ہیٹم آہسنگی سے اسکے‬
‫شینے سے لگا تھا‪،‬اس لڑکی کے گلے لگنے ہی ہیٹم بوں محسوس ہوا جیسے صدبوں پعد اس کے بورے‬
‫وجود میں سکون سا سرانت کنا ہے‪،‬نےجین دل کو فرار سا مال تھا‪،‬وہ کسی قٹمتی چزانے کے مانند‬
‫اسے جود میں تھییحنا گنا‪،‬مقایل کی چد درجہ مضبوط یکڑ یر مطیبہ کا دم گھینے لگا‪،‬‬

‫"مجھے لگا تھا میں نے تم یر ظلم کر کے سب سے یڑا گناہ کنا ہے یر آج میں علط یانت ہوگنا‬
‫ک بویکہ اس سے تھی یڑا گناہ بو میں اب کر ٹیٹ ھا ہوں تمہاری پفربوں اور دھ یکار کے یاوجود تمہارے‬
‫ساتھ ایک اور زیادبی کردی میں نے۔۔۔مطیبہ چہایگیر۔۔۔میں تم سے عسق کر ٹیٹھا ہوں۔۔"‬
‫چذیات کے نہاؤ میں آکر وہ ابچانے میں اس یر ا ننے دل کی یات عناں کرٹیٹھا تھا ساتھ ہی‬
‫مطیبہ کی نست یر یازوؤں کا خصار اور ننگ ک نا جیسے ڈرا ہو کہ وہ اس سے تھر دور نہ‬
‫ہوچانے‪،‬دوسری چانب مطیبہ نٹھر ہوبی تھی مقایل کے اظہار یر‪،‬نہ وہ کنا کہہ رہا تھا‪،‬اسے مطیبہ‬
‫‪269‬‬
‫چہایگیر سے کیسے عسق ہو سکنا تھا‪،‬مطیبہ چہایگیر بو صرف ایک قای ِل پفرت لڑکی تھی اس سے کوبی‬
‫ی‬
‫محیت یک نہیں کرسکنا تھا عسق بو نہت دور کی یات تھی‪،‬حھنل آ کھیں تھتی تھیں جن میں‬
‫سے تیزی میں پکلنا یابی ہیٹم سکندر کے حملے سے ہوبی اس کی اذ نت کی غکاسی کنا تھا‪،‬‬
‫ی‬
‫آہسنگی سے اس سے دور ہویا ہیٹم یرمی سے مطیبہ کا چہرہ تھاما تھا‪،‬وہ ہبوز ساکت سی آ کھیں‬
‫تھنالنے کھڑی تھی‪،‬حھنل ریگ آیکھوں سے نہنے آنسو انتی اپگل بوں کے بوروں سے جینا وہ پظر‬
‫تھنکنے یر اس کے گداز ل بوں کو دیکھا جن کی کنکناہٹ واصح تھی‪،‬وہ اور ہوش کھویا نہیں چاہنا تھا‬
‫مگر جود یر قابو نہ کریا حھکا تھا ساتھ ا ننے یاریک ل بوں میں اس کے گداز ہونٹ قند کرگنا‪،‬مطیبہ‬
‫کے ساکت وجود میں خٹیش سی ہوبی تھی‪،‬مقایل کی گرم سانسوں سے حھلسنے یر وہ لرزی تھی‬
‫ساتھ ہونٹ یر یکدم اتھتی پکل یف سے یڑپ کر مچلی‪،‬بورے وجود میں غصے کی لہر دوڑی تھی اور‬
‫وہ اسے دور کرنے کے چکر میں ہیٹم کے کندھے یر ہاتھ ماری مگر معانے افسوس اس نے‬
‫مطیبہ کی دوبوں کالن بوں کو ا ننے ایک ہاتھ میں مفند کرلنا‪،‬ک بویر کی طرح مطیبہ کا دل دھڑ کنے لگا‬
‫تھا‪،‬سانسیں تھمنے یر وہ یڑنتی اننا چہرہ موڑی‪،‬‬

‫"مجھے حھوڑو ہیٹم ورنہ میں تمہیں کٹھی معاف نہیں کروں گی۔۔"‬
‫م‬
‫مبہ میں جون کا ذاپقہ گھال تھا جس یر وہ چہرہ موڑے ہی خیجی‪،‬ادھر وہ جو کمل مدہوش ہونے کے‬
‫درنے تھا مطیبہ کی خیخ یر اس کا ہاتھ حھوڑا مگر اگلے ہی لمچے گال یر تیز ت ھیڑ یڑنے ہی ہیٹم ہوش‬
‫‪270‬‬
‫کی دننا میں لویا‪،‬وہ تم یلکیں حھنکنا سا منے دیکھا چہاں مطیبہ سدید اشیعال کے عالم میں اسے‬
‫گھوررہی تھی‪،‬‬

‫"سوری۔۔مطیبہ میں۔۔"‬
‫ہیٹم کو سمجھ نہ آیا کنا کہے‪،‬مطیبہ کے بچلے ہونٹ سے پکلنا جون دیکھ وہ بوکھال کر آگے یڑھا مگر‬
‫نٹھی اسے جود سے یرے دھکنل کر مطیبہ دروازہ کھولتی تھاگی تھی وہاں سے‪،‬اس کے چانے ہی‬
‫ہیٹم یالوں یر ہاتھ ت ھیرا ساتھ گال یر اس چلنے لمس کو حھوا‪،‬اسے پکل یف نہیں ہوبی‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫تھی۔۔۔‪،‬اسے اذ نت جی ھی‪،‬کرب سے م کرایا وہ یلٹ کر طیبہ کی البی کافی کو د کھا جو اب‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ی‬
‫یک تھنڈی ہوچکی تھی‪،‬انتی سلگتی آ کھیں مشل کر ہیٹم ڈرنسنگ کے یاس گنا تھر نہلی دراز کھولنا‬
‫وہ شیسی پکاال جس میں سے روز تھوڑے شفوف کسی مچلول میں ڈال کر وہ ٹینا تھا‪،‬نہی بو وہ‬
‫ق یصلہ تھا جو اس نے بجھلے دو ہف بوں میں مطیبہ کی جوسی کے لنے کنا تھا‪،‬ایک مرنبہ تھر اس‬
‫شیسی کو کھول کر ہیٹم زرا سا شفوف کافی میں ڈاال ساتھ شیسی ٹی یٹ کی خ یب میں رکھ کر مگ‬
‫اتھایا گھونٹ در گھونٹ کافی ٹینے لگا‪،‬کافی خٹم ہونے ہی اسے انتی یاک میں گنلے ین کا اجشاس‬
‫ہوا تھر کجھ ہی دیر میں جون کی لکیر یاک یر سے پکلی‪،‬یڑ ننے دل کی منافی یر اسے ڈ نٹ کر ہیٹم‬
‫ضیط سے الل تھٹھوکا ہونے چہرے سمیت مشکرایا یاک سے پکلنا جون صاف کنا‪،‬‬

‫‪271‬‬
‫یاہر یادلوں نے گرخنا سروع کنا تھا اور ادھر ہیٹم کے ایدر کی بوڑ تھوڑ اس کے کابوں میں‬
‫گوبجی‪،‬سر میں اچایک یری طرح درد اتھا تھا‪،‬نسیں تھینے کو ہونے لگی تھیں‪،‬ٹیشابی زور سے مشلنا‬
‫وہ سر حھنک کر ا ننے قدم ننڈ کی چانب لے چانے لگا مگر دو قدم یر ہی لڑکھڑایا نیچے گرا‪،‬پظریں‬
‫ی‬ ‫ّ‬
‫دھندالنے لگیں تھیں اور دکھنے سر کو یکڑیا وہ شنکنڈ کے ہزارویں خصے میں انتی سرخ آ کھیں نند‬
‫کریا نےسدھ ہوا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ٹ‬
‫ا ننے کمرے میں آنے ہی وہ تیزی سے دروازہ نند کربی ننڈ یر چا یٹھی‪،‬اس شٹمگر کا لمس انشا تھا‬
‫کہ مطیبہ کا جوپصورت چہرہ اب یک تمٹمارہا تھا‪،‬یایرات اب یک غصہ لنے تھے‪،‬اصل جون اس کا‬
‫ہیٹم کے اظہار یر کھوال تھا‪،‬وہ کیسے نہ القاظ اسے کہہ سکنا تھا چاالیکہ جود ہی بو وہ اکیر اسے یاور‬
‫کروایا کہ مطیبہ چہایگیر صرف پفرت کے قایل لڑکی ہے‪،‬‬

‫"وہ۔۔حھ۔۔حھوٹ کہہ رہا تھا۔۔صرف حھوٹ۔۔"‬


‫یری طرح دھڑکنا دل اب یک نےپقین تھا‪،‬یآواز یڑیڑابی وہ ہونٹ یر نہت یڑھتی چلن کے یاعث‬
‫غصے میں ا ننے ہونٹ رگڑبی رونے لگی‪،‬وہ نہیں ہینا چاہ رہی تھی انتی پفرت کے جول سے‬
‫نیجھے‪،‬جس طرح ا ننے گرد وہ نہ جول چڑھابی تھی پقین تھا کہ کٹھی نہ جول نہیں خیچے گا مگر اب‬
‫‪272‬‬
‫وہ نےنس ہونے لگی تھی‪،‬اور انتی نےنسی اس شٹمگر یر کسی ظور ع ناں نہیں کریا چاہتی تھی‬
‫نٹھی مطیبہ نے لمخوں میں ق یصلہ کنا تھا اس کمرے اس چگہ یلکہ سکندر وال سے نہت دور چانے‬
‫کا‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫صیح درد سے تھینے سر سمیت اس نے سوجی ہوبی آ یں وا کی یں‪،‬ا ننے م یں درد کی کی‬
‫م‬ ‫س‬‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ھ‬
‫ٹیسیں اتھنے یر ہیٹم ہمت کر کے اتھا بو جود کو زمین یر یایا‪،‬ع بودگی سے یاہر آنے ذہن میں رات‬
‫م پ ً‬
‫کا م یظر گھوما بو وہ ہوش میں آیا شندھا ہوا‪،‬کل رات مدہوسی یں وہ قینا ھر ہرٹ کرگنا تھا طیبہ‬
‫م‬ ‫ت‬
‫کو‪،‬‬

‫ا ننے درد کو پظرایداز کریا ہیٹم چلدی سے اتھا تھا سر کا درد سدت یکڑنے لگا مگر سر حھنک کر وہ‬
‫دروازہ کھول کر کمرے سے پکال‪،‬قدم تیزی سے سیڑھناں ع بور کرنے لگے مگر نٹھی پظر الؤبج کے‬
‫وشط میں ہینڈ کیری تھامی مطیبہ یر یڑی جسے رو کنے کے عرض فرخندہ میت کررہی تھی‪،‬ہیٹم کی‬
‫مابوں چان پکلنے کو ہوبی‪،‬وہ وقت سے نہلے ک بوں چارہی تھی‪،‬اتھی کجھ وقت ہی بو تھا اس کے‬
‫یاس جو وہ اس لڑکی کو دیکھ گزاریا چاہ رہا تھا‪،‬‬

‫‪273‬‬
‫"مطیبہ۔۔۔!"‬
‫اسے پکاریا ہیٹم تیزی میں سیڑھ بوں سے ایریا نیچے آیا‪،‬اسے آیا دیکھ فرخندہ جوش ہوبی نہ سوچ کر کہ‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫پ ً‬
‫قینا وہ روک لے گا طیبہ کو ھی اس نے کچن یں چایا ہیر مجھا‪،‬‬

‫"یابی۔۔"‬
‫فرخندہ کو چایا دیکھ ہیٹم اسے بوال جویکہ سر کا درد کم ہو کے نہیں دے رہا تھا‪،‬کجھ ہی دیر میں‬
‫فرخندہ یابی رکھ گتی‪،‬وہ جو یابی کا گالس اتھانے لگا تھا مطیبہ کو تھر ہینڈ کیری سمیت یاہر کی‬
‫چانب یڑھنے دیکھ گالس حھوڑ کر بوکھالنے ہونے پکارا‪،‬‬

‫"مطیبہ رکو۔۔"‬

‫ہیٹم کے تھر پکارنے یر مطیبہ کے یایرات یکدم شناٹ ہونے‪،‬رات کا کوبی جوف چہرے یر نہ تھا‬
‫اب‪،‬‬

‫"تم۔۔"‬

‫"چارہی ہوں۔۔اس گھر سے چہاں اب جود کو مخفوظ محسوس نہیں کربی میں۔۔"‬
‫ہیٹم اس کی یات کا مطلب سمجھ کر نےچد سرمندگی محسوس کنا‪،‬‬

‫‪274‬‬
‫"کل رات کے لنے میں معافی مایگنا ہوں مطیبہ مگر اس کے لنے یلیز گھر حھوڑ کر بو مت‬
‫چاؤ۔۔"‬
‫کس قدر یڑپ تھی اس کے لہچے میں‪،‬ایک یل کو بو مطیبہ ڈگمگابی مگر اگلے ہی لمچے شیٹھل کر گویا‬
‫ہوبی‪،‬‬

‫"تم ک بوں معافی مایگ رہے ہو۔۔۔تم نے بو آج یک کجھ علط نہیں کنا یا ہیٹم سکندر۔۔۔تم بو‬
‫ایک مطلوم انشان ہو جس یر ظلم ہویا آیا ہے۔۔۔اصل ظالم بو میں ہوں جس نے تمہاری جوشناں‬
‫کھالیں۔۔۔اور کل جو ہوا اس میں تھی تمہارا فصور نہیں۔۔۔علطی بو میری ہی تھی یا کہ میں جود‬
‫آبی تمہارے روم میں جیسے نہلے گتی تھی اس وجسی کے کمرے میں۔۔"‬

‫"مطیبہ یلیز مت دہراؤ وہ سب۔۔"‬


‫ہناد کے یارے میں اس کے مبہ سے شینے ہی ہیٹم چلنے کویلوں کے زد میں جود کو محسوس کنا‬
‫نٹھی یڑپ کر بوکا اسے‪،‬‬

‫"ک بوں نہ دہراؤں۔۔تمہیں صرف شینے میں انتی پکل یف ہورہی ہے ہیٹم اور وہ سب مجھ یر گزرا‬
‫تھا۔۔"‬
‫کرب میں گھری وہ کہتی ہوبی آچر میں یڑپ کر چالبی ہیٹم کے شینے یر دوبوں ہاتھ رکھتی اسے دھکا‬

‫‪275‬‬
‫دی‪،‬یاچا ہنے ہونے تھی وہ سب ایک یرے جواب کی طرح اس کی آیکھوں میں کسی قلم کی‬
‫طرح چلنا‪،‬الکھ کوشسوں کے یاوجود ان یدیرین یادوں کو نہ تھالیابی تھی وہ‪،‬‬

‫"میں کنا کروں مطیبہ تم نناؤ مجھے۔۔۔چاننا ہوں نہت علط کنا تمہارے ساتھ مگر سمجھ نہیں آیا‬
‫کیسے ا ننے گناہ کا مداوا کروں۔۔"‬
‫اسے رویا دیکھ مطیبہ کے سا منے آیا ہیٹم پکل یف دہ لہچے میں نےنسی سے کہا‪،‬‬

‫"مداوا کریا چا ہنے ہو ا ننے گناہ کا۔۔۔بو حھ یکارا دے دو مجھے۔۔۔نہیں رہ سکتی میں تمہارے‬
‫ساتھ۔۔۔تم جیسے کم طرف کے ساتھ رہنا مچال ہے میرے لنے۔۔"‬
‫ا ننے آنسو رگڑ کر وہ نےیایر لہچے میں کہی‪،‬اس کے القاظ طما بچے کے مانند محسوس ہونے ہیٹم‬
‫کو‪،‬چامتی ہونے ل بوں کو سحتی سے تھییچا تھا وہ ان لقظوں کے تیر کو یرداست کرنے کے لنے‪،‬‬

‫"حھ یکارا چا ہنے یا تمہیں مجھ سے۔۔۔میں وعدہ کریا ہوں کہ ہیٹم سکندر سے تمہیں ہمیشہ کے لنے‬
‫حھ یکارا مل چانے گا مگر صرف ایک مرنبہ مجھے معاف کردو۔۔"‬
‫اس کے شناٹ یایرات کو کرب سے دیکھنا ہیٹم دھٹمی آواز میں کہا‪ ،‬لہچے میں درد کی نےنناہ‬
‫آمیزش تھی‪،‬مقایل کی آیکھوں کے چد سے زیادہ سرخ ڈورے اگر مطیبہ چہایگیر پفرت کے یردے‬
‫ً‬ ‫ی‬
‫ہناکر د کھتی بو پقینا کانپ چابی‪،‬‬

‫‪276‬‬
‫"تھنک ہے تھر۔۔۔معاف کنا تمہیں میں نے ہیٹم سکندر۔۔"‬
‫گردن گھوما کر وہ مضبوط لہچے میں کہتی آچر میں گداز ل بوں کو طیزنہ ایداز میں تھنالبی‪،‬ہیٹم کی‬
‫دھندالبی پظروں کا مرکز گداز لب یر وہ زحم ن نا جو نےساخنگی میں اس نے مقایل کھڑی لڑکی کو‬
‫دیا ت ھا‪،‬کاش کہ کل وہ جود یر قابو کرلینا بو آج وہ بوں نہ چارہی ہوبی نہاں سے‪،‬‬

‫اس کی پظروں کا مرکز دیکھ مطیبہ ن یفر سے ہیٹم کو دیکھ ہینڈ کیری تھامتی آگے یڑھی تھی مگر اگلے‬
‫ہی لمچے اس کی کالبی ہیٹم کے گرقت میں آبی‪،‬وہ پفرت سے حھنکنے کی لگی تھی اس کا ہاتھ مگر‬
‫ہیٹم کے لقظوں نے اسے نہ کرنے سے روک دیا‪،‬‬
‫س‬
‫" مجھو کہ ِمل گنا حھ یکارا تمہیں ہیٹم سکندر سے۔۔"‬
‫اذ نت سے مشکراکر کہنا وہ آہسنگی سے کالبی حھوڑا تھا اس کی‪،‬مقایل کے گہرے لقظوں کی‬
‫شنگیتی یر ننا غور کنے مطیبہ یاہر کی چانب قدم یڑھابی تھی‪،‬ہیٹم نے یلٹ کر اسے دیکھنا گوارا نہ‬
‫ً‬
‫کنا‪،‬چاننا تھا کہ اگر مڑ چایا بو پقینا اسے تھر روک لینا اور وہ نہیں چاہنا کہ اب مطیبہ چہایگیر‬
‫رکے‪،‬اسے بورا جق تھا انتی زیدگی جینے کا‪،‬ایک انسی زیدگی جس میں ہیٹم سکندر کا یام و نشان نہ‬
‫ہویا‪،‬نہت یرا ہارا تھا وہ اس لڑکی سے‪،‬چان خکا تھا یاممکن ہے اس لڑکی کی پفرت سہنا اب‪،‬کنا‬
‫تھی وہ لڑکی‪،‬جس کی محیت تھی کمال کی تھی اور اب پفرت تھی الجواب‪،‬‬

‫‪277‬‬
‫نےبچاشہ اذ نت میں ِگھرا وہ ٹی یٹ کی خ یب میں سے شیسی پکاال تھا‪،‬اس کے ایدر وہ شفوف اب‬
‫صرف آدھا ہی رہ گنا تھا‪،‬ٹینل یر سے یابی کا گالس اتھا کر ہیٹم شیسی کھولنا وہ شفوف اس یار‬
‫زرا سا ڈا لنے کے بچانے بورا ڈاال تھا ساتھ یابی کا گالس ل بوں سے لگایا لمخوں میں چالی کنا‪،‬چالی‬
‫گالس ٹینل یر رکھنے کے لنے ہیٹم حھکا ہی تھا کہ یاک سے جون کی بوید پکلتی ٹینل یر گری‪،‬رومال‬
‫سے وہ صاف کنا تھا جون مگر روز کے مچالف جون صاف ہونے کے بچانے پکلنا چال گنا‪،‬چلق میں‬
‫ہوبی خٹھن یڑھی تھی ساتھ ایک سدت تھری درد کی لہر بورے جسم میں دوڑبی اس کا دل ن ند‬
‫کرنے لگی‪،‬سانس لینے میں یکدم دسواری ٹیش آبی تھی جس کے یاعث وہ مبہ کھوال مگر مبہ سے‬
‫تھی اچایک جون پکلنے لگا تھا اور پکل یف سے جور ہونے جسم کو ڈھ نال حھوڑیا چہاں ہیٹم سکندر گِ را تھا‬
‫زمین یر وہی مطیبہ چہایگیر سکندر وال سے ا ننے قدم یاہر پکالے وہاں سے پکلتی چلی گتی‪،‬‬

‫"صاچب۔۔"‬
‫کجھ گرنے کی آواز یر یاہر پکلتی فرخندہ گ ھیراکر پکاری ساتھ تھاگتی ہوبی ہیٹم کے یاس آبی‪،‬جس‬
‫کے اویدھے یڑے وجود میں ہلکی سی تھی خٹیش نہ تھی‪،‬وہ پگاہ دوڑابی‪،‬مطیبہ تھی کہیں نہ تھی‪،‬‬

‫"صاچب۔۔ہیٹم صاچب۔۔"‬
‫کافی پکار یر تھی وہ ہال یک نہ‪،‬‬

‫‪278‬‬
‫"نہ کنا ہوگنا۔۔"‬
‫یری طرح بوکھالبی وہ یڑیڑابی ساتھ گ ھیراکر کر سب سے نہلے بورچ میں آبی‪،‬‬

‫"بی بی کہاں ہیں۔۔؟"‬


‫وہ ڈران بور سے بوحھی تھی‪،‬‬

‫"اتھی اتھی گٹیں ہیں۔۔"‬


‫ڈران بور کے جواب یر فرخندہ سخت یرنشان ہوبی تھر کجھ سمجھ نہ آنے یر وانس ایدر آبی وہ لینڈ الین‬
‫تمیر سے مطیبہ کو کال کرنے لگی‪،‬دو ٹین مرنبہ کرنے کے یاوجود مطیبہ کال رنسبو نہ کی‪،‬ہیٹم‬
‫کے ارد گرد جون دیکھ فرخندہ کو ہول اتھنے لگے نٹھی کجھ سوچ کر وہ ہڑیڑابی عنادنہ کا تمیر ڈایل‬
‫کی‪،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ی‬
‫چہایگیر ہاؤس کو چالی پظروں سے د تی طیبہ ھے دل کے ساتھ ایدر دا ل ہوبی‪،‬وانس آنے‬
‫ج‬ ‫م‬
‫ً‬
‫ہونے وہ ایک پظر تھی مڑ کر اس شٹمگر کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی‪،‬چانتی تھی اگر یلیتی بو پقی نا‬
‫کمزور یڑچابی‪،‬بورا گھر گ ھپ ایدھیرے میں نہایا ہوا تھا‪،‬اس گھر سے پکلنے وہ سوجی تھی کہ ایک دو‬

‫‪279‬‬
‫مہینے میں وانس آچانے گی مگر مہناز ننگم کی می بوں نے اس کے وانسی کے قدم زبخیر کر ڈالے‬
‫تھے‪،‬‬

‫ہیٹم کے اذ نت تھرے لہچے میں کہی یاٹیں اب یک اس کے کابوں میں گوبج رہی تھیں‪،‬النٹیس‬
‫ٹ‬
‫آن کربی وہ الؤبج میں ہینڈ کیری حھوڑبی صوفے یر یٹھی‪،‬یاچانے ک بوں دل گ ھیرانے لگا تھا‪،‬کجھ‬
‫عح یب سا محسوس ہورہا تھا‪،‬نےجیتی تھی کہ گزرنے وقت کے ساتھ یڑھنے لگی تھی اور بونہی‬
‫نےسکوبی میں دو گھینے سرکے تھے‪،‬اسے حھوڑ کر وہ یلکل صحیح ق یصلہ کی تھی‪،‬یار یار دماغ کی‬
‫اس سوچ یر جود کو دالشہ د نتی وہ آچر کار انتی سوجیں یرے کربی اتھنے لگی یر نٹھی فون یر ن نل‬
‫پ ً‬ ‫ک‬‫ی‬
‫بحنے لگی‪،‬مطیبہ مویایل یرس سے پکال کر د ھی‪،‬سکندر وال کا لینڈ الین تمیر تھا‪ ،‬قینا وہی کال کررہا‬
‫ہوگا اسے‪،‬اس کے سوخنے سوخنے ننل بحنا نند ہوبی‪،‬مطیبہ نے دیکھا اس سے نہلے تھی ٹین مشڈ‬
‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫کالز آبی ہوبی تھیں‪،‬وہ لب یجی گر ھی ھر ریگ کرنے لگا فون‪،‬اس یار دوسری ل یر کال‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫رنسبو کی تھی وہ‪،‬‬

‫"بی بی۔۔"‬
‫اتھی مطیبہ غصے میں کجھ کھری کھری شنانے کا سوجی ہی تھی ہیٹم کو مگر دوسری چانب سے‬
‫فرخندہ کی تھرابی آواز اسے چیران کرگتی‪،‬‬

‫"فرخندہ۔۔"‬
‫‪280‬‬
‫"بی بی ہیٹم صاچب۔۔"‬
‫اس کی تھنگی آواز نے مطیبہ کو تھٹھکنے یر مح بور کنا‪،‬کجھ نہت علط ہونے کا اجشاس ہوا تھا‬
‫اسے‪،‬‬

‫"ہیٹم کنا۔۔فرخندہ بولو کنا ہوا۔۔"‬


‫ا ننے اردگرد کی فصا ننگ لگی اسے‪،‬کسی انہوبی کا سوخنے ہی کاٹیتی وہ یلند آواز میں بولی‪،‬‬

‫"بی بی چلدی سے نہاں آچاٹیں۔۔۔سب خٹم ہوگنا۔۔"‬


‫رونے ہوبی فرخندہ نےنسی سے بولی اور مطیبہ لٹھے کے مانند شفند یڑنے چہرے سمیت اتھ کر‬
‫شندھا یاہر کی چانب تھاگی‪،‬دماغ میں یار یار ہیٹم کا پکل یفوں سے رقم چہرہ آرہا تھا‪،‬چہایگیر ہاؤس سے‬
‫پکلتی وہ جیسے تھی کر کے ایک ننکسی روکی‪،‬مقلوج ہونے ذہن میں جو چد سے زیادہ خظریاک خنال‬
‫ی‬
‫آیا مطیبہ تیزی میں اس کی پفی کی‪،‬ننا نہیں ک بوں حھنل آ کھیں ہر تھوڑی دیر میں تھنگ رہی‬
‫تھیں‪،‬دل کی گ ھیراہٹ اس قدر یڑھی کہ وہ نےجین ہوبی یالجواز رونے لگی‪،‬لرزنے ہاتھوں میں‬
‫ہمت نہیں تھی دعا کے لنے اتھنے کو‪،‬نہ لمچے وہ کس نےسکوبی میں کابی تھی صرف وہی چانتی‬
‫تھی‪،‬‬

‫سکندر وال کے یاہر ننکسی ر کنے یر وہ پکلی‪،‬‬

‫‪281‬‬
‫"یاجی ٹیسے۔۔"‬
‫وہ جو ایدر تھا گنے کو تھی ننکسی ڈران بور کی آواز یر بوکھالبی مڑی‪،‬اس کے سلب ہونے جواس میں‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫مج‬‫س‬
‫ہ‬
‫کوبی القاظ ھنے کے قا ل یں رہا تھا‪،‬‬

‫"نہ لو۔۔"‬
‫غقب سے تھاری آواز کے ساتھ ایک مضبوط ہاتھ میں خند بوٹ ڈران بور کی چانب یڑھے‪،‬نٹھرابی‬
‫س‬ ‫غ م ی‬ ‫ی‬
‫ک‬
‫ل ھڑا وخنہہ‬‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫آیکھوں سے اس ہاتھ کو د تی طیبہ یلٹ کر قب یں د ھی‪،‬سا منے‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫چہرے یر شناٹ یایرات لنے کھڑا تھا‪،‬‬

‫"تھابی جییج۔۔"‬

‫"رکھ لو بورے۔۔"‬
‫ڈران بور کے کہنے یر آگے سے کہنا وہ یلنا‪،‬‬

‫"سابی تھابی۔۔"‬
‫مطیبہ کے نےپقیتی سے پکارنے یر وہ گردن موڑ کر اسے دیکھا‪،‬‬

‫‪282‬‬
‫"ک۔کک۔۔کنا ہوا ہے۔۔؟"‬
‫دھڑ کنے دل کے ساتھ وہ زرد ہونے چہرے سمیت ہکالنے ہونے بوحھی‪،‬پظروں میں امند تھی‬
‫کہ مقایل کجھ انشا بولے جس سے اس کی نےجیتی خٹم ہو‪،‬‬

‫"زیادہ کجھ نہیں نس ایک ڈ نٹھ۔۔"‬


‫کندھے اخکاکر مطیبہ کو وہ بوں ننایا جیسے کوبی یڑی یات نہ ہو‪،‬اور مطیبہ کے دل کی نےجیتی‬
‫وافعی خٹم ہوبی یلکہ بوں کہنا صحیح تھا کہ مطیبہ چہایگیر جود تھی خٹم ہوچکی تھی‪،‬‬

‫"مررہا ہوں میں۔۔۔یلیز بچالو مجھے۔۔"‬


‫س‬
‫کہیں نہت دور سے نہ القاظ کابوں میں گو بچے تھے‪ ،‬لسینل اس کے ساکت وجود کو حھوڑ ایدر کی‬
‫چانب یڑھا چہاں لوگوں کا ہخوم لگا تھا۔‬

‫میت کب گتی یدفین کے لنے اسے کجھ ہوش نہ تھا اور ہویا تھی کیسے وہ ا ننے جواسوں میں ہی‬
‫نہیں تھیں‪،‬جود میں انتی ہمت تھی نہ تھی کہ اتھ کے ایک آچری پظر اس شٹمگر کو دیکھ لیتی‪،‬نہ‬
‫م‬
‫چیر ہی نہاڑ ین کر بوبی تھی اس کے سر یر لگ رہا تھا جیسے دننا ہی ایدھیر ہوگتی ہو کمل‪،‬آس‬
‫یاس لوگوں میں کتی یاٹیں ہورہی تھیں مگر سب سے نےنہرہ ہونے وہ چاموش سی چالی پظروں‬
‫ٹ‬
‫سے زمین گھوربی یٹھی ہوبی تھی‪،‬‬
‫‪283‬‬
‫"آپ آزاد ہوگٹیں۔۔اب کوبی یرنشان نہیں کرے گا آپ کو۔۔"‬

‫عنادنہ کے لہچے میں کوبی طیز نہ تھا‪،‬سادگی سے کہے تھے اس نے نہ القاظ مگر اس کی یات نے‬
‫ی‬
‫یکھری ہوبی مطیبہ کو د ہکنے اپگاروں کے زد میں تھینک دیا تھا‪،‬تمکین یابی سے تھری آ کھیں اتھابی‬
‫م‬ ‫ک‬‫م‬ ‫ک‬‫ی‬
‫وہ عنادنہ کو د ھی جس کا جود کا چہرہ چد سے زیادہ رونے کے پعد اب ل سرخ ہوخکا تھا‪،‬وہ‬
‫کنا جواب د نتی اس کو‪،‬کیسے ننابی کہ اس شٹمگر سے دور چایا چاہ رہی تھی مگر اب وہ دوری تھی‬
‫مچال ہونے لگی تھی اور تھر چب نہ چیر اسے ملی نب کنا ٹیتی تھی اس یر‪،‬ہاں وہ اسے معاف‬
‫کرنے کی روداد نہ تھی مگر نہاں سے چانے ہونے کس قدر یڑپ دل میں حھنانے چارہی‬
‫تھی‪،‬پفرت کا وہ نت بو نٹھی بوٹ خکا تھا چب وہ شٹمگر اس یر ا ننے دل کے چذیات ظاہر کنا تھا‬
‫مگر تھر کس یات کا غصہ دکھارہی تھی وہ۔۔۔‪،‬انتی ہار کا۔۔۔‪،‬اس ہار کا جو ہر یار اس شٹمگر سے‬
‫مقا یلے میں ملتی تھی اسے‪،‬چب وہ اسے میسر نہ تھا بو الکھ کوشش کی اسے یانے کی مگر چب‬
‫میسر ہوا بو اس سے دوری کی دعاٹیں کربی صرف اس ہی وجہ سے کہ وہ تھر ہارنے لگی تھی اس‬
‫م‬
‫شٹمگر سے‪،‬اور آج۔۔۔‪،‬آج بو وہ کمل بوٹ چکی تھی‪،‬‬

‫‪284‬‬
‫"چلیں گرنتی‪،‬ع نادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کی تھاری آواز نے اسے سوجوں کے مخور سے ہوش کی دننا میں دھکنال‪،‬جویک کر وہ سر‬
‫ٹ‬
‫اتھابی‪،‬مقایل غوربوں میں یٹھی درنہ ننگم اور عنادنہ سے مچاطب تھا‪،‬‬

‫بو کنا یدفین کر کے آ چکے تھے وہ لوگ‪،‬یڑپ کر رویا دل ایک اور مرنبہ کرالیا نہ سوچ کر ہی‪،‬اور‬
‫سر حھکانے وہ اننا رویا ضیط کرنے لگی‪،‬ارد گرد صرف نہی سوچ گھوم رہی تھی کہ کاش وہ اسے‬
‫معاف کرد نتی۔۔۔‪،‬کاش کہ اسے ا ننے لقظوں سے نہ بوڑبی‪،‬عنادنہ نے چب اسے ننایا کہ ڈاکیرز‬
‫کے مطابق ہیٹم سلو بوایزن لے رہا تھا نب اسے خنال آیا کہ ک بوں وہ روز یروز اسے گھلنا دک ھنے لگا‬
‫تھا‪،‬ک بوں اننا عح یب سا ہونے لگا تھا وہ‪،‬‬

‫"تم۔۔۔مطیبہ۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫اب کی یار لسینل اسے مچاطب کنا بو اننا دکھ نا سر اتھابی وہ سوجی آیکھوں سے لسینل کو‬
‫ی‬
‫د کھی‪،‬‬

‫‪285‬‬
‫"نہت حھیناں کرلیں تم نے۔۔۔کل سے یاتم یر آفس آچایا۔۔۔"‬

‫اس کے شیحندگی سے کہنے یر مطیبہ کو یری طرح دھخکا لگا‪،‬نہ وہ کہہ کنا رہا تھا‪،‬مطیبہ نےپقیتی‬
‫ن‬ ‫ی‬‫لس‬ ‫ت ج س‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫ل کی یات نے اسے‬ ‫سے عنادنہ کو د ھی جس کے یایرات ھی یح ندگی لنے ھے یسے‬
‫جوپکایا نہ ہو‪،‬‬

‫"یر تھابی میں کیسے آسکتی ہوں۔۔؟"‬

‫وہ تھرابی آواز میں بوحھی تھی‪،‬‬

‫"تم کیسے نہیں آسکتی۔۔؟"‬


‫س‬
‫لسینل سرد لہچے میں النا سوال کنا اور مطیبہ کو سدت سے رونے کا دل چاہا‪،‬القاظ اور ساتھ‬
‫نہیں دے یانے‪،‬گلے میں تھندا سا اپکا تھا آنسوؤں کا نٹھی وہ پفی میں سر ہالبی سر حھکانے‬
‫تھوٹ تھوٹ کر رودی‪،‬‬
‫‪286‬‬
‫"عنادنہ گرنتی میں یاہر و نٹ کررہا ہوں۔۔"‬

‫س‬
‫" لسینل۔۔تم دوبوں چلے چاؤ میں نہی یر ہوں۔۔۔"‬
‫ی‬ ‫س‬
‫روبی ہوبی مطیبہ یر ایک پظر ڈال کر درنہ ننگم لسینل کو نٹینہہ پظروں سے د تی بو یں جس یر‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫وہ اننات میں سر ہالیا‪،‬‬

‫"عنادنہ۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کے چانے کے پعد عنادنہ اتھنے لگی نٹھی درنہ ننگم اس کے یاس آبی پکاریں‪،‬‬

‫س‬
‫" ٹینے لسینل کو سمجھاؤ۔۔۔سوہر کی ڈ نٹھ کے پعد لڑکی عدت میں رہتی ہے وہ کیسے اسے آفس‬
‫آنے کا کہہ سکنا ہے۔۔"‬

‫درنہ ننگم کے کہنے یر عنادنہ خند یل کی چاموسی کے پعد گویا ہوبی‪،‬‬


‫‪287‬‬
‫س‬
‫"گرنتی لسینل ا ننے آفس کے معامالت میں کسی کی نہیں شینے۔۔"‬

‫"نہ ان کے آفس کا معاملہ نہیں ہے۔۔"‬

‫عنادنہ کی یات یر مطیبہ یڑپ کر بوکی‪،‬‬

‫"نہ آپ کا تھی معاملہ نہیں ہے آبی۔۔"‬

‫شیحندہ یایرات سمیت اسے جواب د نتی عنادنہ یاہر کی چانب یڑھی‪،‬مطیبہ کی سمجھ سے یاالیر تھا‬
‫ی‬‫یکھ ٹ‬
‫اس کا نہ جواب مگر وہ نےنسی سے رونے لگی تھی‪،‬درنہ ننگم اسے افسوس سے د تی ھی ھی‬
‫ت‬ ‫ٹ‬

‫مطیبہ کے یاس مگر ان کے الکھ دالسوں کے یاوجود مطیبہ کو صیر نہ آیا آچر غم ہی اننا یڑا تھا‪،‬‬

‫"گرنتی کے یاس شیطین رو بو نہیں رہا۔۔؟"‬

‫‪288‬‬
‫س‬ ‫ٹ‬
‫یاہر آبی وہ کار میں یٹھی تھی نٹھی لسینل نے اسے مچاطب کنا‪،‬عنادنہ نے کوبی جواب بو نہ دیا‬
‫س‬
‫الیبہ پفی میں صرف سر ہالیا‪ ،‬لسینل کجھ لمچے اس کے حھکے سر کو دیکھنا رہا تھر کہا‪،‬‬

‫"تم دکھی ہو۔۔"‬


‫ی‬
‫وہ ننایا تھا اسے‪،‬عنادنہ سرخ آیکھوں سمیت اسے د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫"دکھی نہیں ہوں میں۔۔۔وہ ڈیزرو کرنے تھے نہ سب۔۔مج ھے صرف افسوس ہے کہ وہ میرے‬
‫تھابی تھے۔۔۔"‬

‫تم یلکوں کو صاف کرکے اس نے تھنگے لہچے میں کہا‪،‬دل یری طرح پکل یف میں گھرا تھا‪،‬اسے‬
‫س‬
‫دیکھ لسینل کار شنارٹ کنا‪،‬‬

‫۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪289‬‬
‫آج ایک ہقبہ گزر خکا تھا مطیبہ ہ بوز سکندر وال میں نند رہنے لگی تھی‪،‬دو دن کے و فقے سے ع نادنہ‬
‫آرہی تھی اس کے یاس مگر اس کو گہری چپ لگ چکی تھی اور لگتی تھی ک بوں نہ اس کی بو‬
‫بوری دننا ہی ایدھیر ہوچکی تھی‪،‬کنا کجھ نہیں تھا اس کی چپ میں‪،‬غم‪،‬پکل یف کی اننہا اذ نت و‬
‫کرب اور بجھناوا۔۔‪،‬نےچد بجھناوا‪،‬‬

‫"ہوسکے بو کٹھی مت آیا ک بویکہ مطیبہ چہایگیر تمہارے مرنے یر تھی تمہیں معاف نہیں کرنے‬
‫والی۔۔"‬

‫ا ننے کہے گنے القاظ یر ہی آج وہ سدید بجھنابی تھی‪،‬کاش کہ وہ اسے انشا نہ کہتی‪،‬کاش کہ اسے‬
‫ہر یار ن یفر سے نہ دھ یکاربی یر اب بجھنانے کا قایدہ ہی کنا تھا‪،‬انتی حھوبی پفرت کے جول نے بو‬
‫اسے چالی داماں کر کے رکھ دیا تھا‪ ،‬جسے چایا تھا وہ بو چاخکا تھا اب ساتھ صرف ایک "کاش" ہی‬
‫رہ خکا تھا‪،‬‬

‫"بی بی۔۔"‬
‫ی‬
‫فرخندہ کی آواز یر وہ گردن موڑ کر اسے د کھی‪،‬‬
‫‪290‬‬
‫"فون۔۔"‬

‫اس کے ننانے یر مطیبہ کی چالی پظریں یرایر میں ر ک ھے ا ننے فون یر گتی جو یاچانے کب سے‬
‫ریگ کررہا تھا‪،‬سکرین یر چگ مگ کریا تمیر دیکھ یاچا ہنے ہونے تھی کال رنسبو کی‪،‬‬

‫"آپ کو میں نے دوسرے دن آنے کا کہا ت ھا مگر اب ایک ہقبہ ہوخکا ہ ِ‬


‫ے۔۔۔مس مطیبہ‬
‫آدھے گھینے کے ایدر آپ مجھے آفس میں دکھیں۔۔۔"‬
‫س‬
‫لسینل کا لہجہ واصح طیزنہ تھا‪،‬مطیبہ روہانسی ہوبی‪،‬چا ننے بوحھنے وہ کبوں یالرہا تھا اسے آفس میں‪،‬‬

‫"مہ۔۔میں نہیں آسکتی۔۔"‬

‫تمشکل بولی تھی وہ‪،‬‬

‫"وجہ۔۔؟"‬
‫‪291‬‬
‫اس کے سوال یر مطیبہ کو سدت سے رویا آیا‪،‬‬

‫"میرے ہسٹینڈ کی۔۔"‬

‫گلہ ریدھنے یر اس سے بوال نہ گنا‪،‬‬

‫س‬
‫"وجہ جو تھی ہو نہ سب میرا سردرد نہیں۔۔۔آدھے گھینے کے ایدر ایدر آفس آؤ ھی۔۔"‬
‫مج‬

‫س‬
‫اس یار لسینل سخت لہچے سمیت کہنا کال کٹ کنا‪،‬مطیبہ کو اب رونے کے ساتھ ساتھ‬
‫غصے نے آلنا‪،‬نپ کر اتھتی وہ اویر روم میں گتی تھی‪،‬کجھ دیر پعد آبی بو ساتھ ایک ٹئیر تھا‪،‬‬

‫"بی بی کہاں چارہی ہیں۔۔"‬

‫اسے یاہر کی چانب چانے دیکھ فرخندہ یرنشان ہوکر بوحھی‪،‬‬

‫‪292‬‬
‫"کجھ دیر میں آچاؤں گی وانس۔۔"‬

‫یرس میں وہ ٹئیر رکھنے ہونے ننابی‪،‬‬

‫"یر بی بی عدت کے دوران بو سحتی سے م یع ہویا ہے یاہر چایا آپ کیسے۔۔"‬

‫مطیبہ اس کی یات شیتی چاموسی سے یاہر پکلی‪،‬کنا جواب د نتی کہ نہ یات اسے بو معلوم ہے مگر‬
‫آدھے گھینے کی دوری یر ا ننے آفس میں ٹیٹھا وہ معرور سخص چا ننے ہونے تھی اگبور کررہا تھا‪،‬‬

‫س‬ ‫س‬
‫آدھے گھینے پعد وہ لسینل کے آفس میں تھنک اس کے سا منے کھڑی تھی‪،‬چب کہ لسینل‬
‫اس کا دیا ہوا لئیر یڑھنے کے پعد اب راکنگ چئیر سے ننک لگایا تھا‪،‬‬

‫"نہ ریزیگٹیشن لئیر ایروو نہیں ہوسکنا۔۔"‬

‫وہ جس یرسکوبی میں کہا تھا مطیبہ کا اننا ہی سدید جون کھوال‪،‬‬

‫‪293‬‬
‫"ک بوں ایروو نہیں ہوسکنا تھابی۔۔۔"‬
‫س‬
‫چہرے یر یاگوارنت سچانے وہ بوحھی جس یر لسینل طیزنہ مشکراہٹ سمیت اس کی چانب‬
‫ی‬
‫دیکھا‪،‬یری طرح سوجی سرخ آ کھیں چد سے زیادہ رونے کی غمازی کررہی تھیں‪،‬‬

‫"دو سال کا کئیریکٹ ساین کنا تھا آپ نے اب چب یک آپ کی چگہ کوبی دوسرا اتم نالنے‬
‫نہیں ہایر کرلینے ہم نب یک آپ ریزاین دے ہی نہیں سکتی۔۔"‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ک‬‫ی‬ ‫س‬
‫لسینل کی یات یر مطیبہ نےنسی سے اسے د ھی‪،‬سوجی ہوبی ل آ ھوں یں ھر یابی ع‬
‫م‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ھ‬

‫ہونے لگا‪،‬‬

‫"تھابی۔۔"‬

‫"سر۔۔!"‬

‫وہ بوکا‪،‬‬
‫‪294‬‬
‫"ک بوں کررہے ہیں آپ انشا۔۔؟"‬

‫تھنگی آواز میں وہ نےنسی سے بوحھی‪،‬‬

‫"میں نے کنا کردیا۔۔"‬

‫ازلی اخٹی یت تھرا لہجہ‪،‬‬

‫"کجھ تھی نہیں۔۔"‬

‫غصے میں دانت ٹیستی وہ یلتی تھی‪،‬‬

‫"احھا تھنک ہے تم آج آف لے سکتی ہو مگر کل سے یاتم یر آچایا۔۔"‬

‫‪295‬‬
‫مقایل کے اجشان کرنے والے لہچے نے اسے یری طرح گھایل کنا‪،‬تھنگی مگر اشیعال تھری‬
‫س‬
‫پظروں سے وہ مڑ کر گھوری تھی لسینل کو‪،‬‬

‫"شبو چاہی رہی ہو بو نہ دوانناں عنادنہ کو د ن نے چایا۔۔۔اس نے منگوابی تھیں شیطین کے‬
‫لنے۔۔"‬
‫س‬
‫ننا اس کی گھوری کو چاطر میں النے لسینل ٹینل یر رکھی ٹینلٹیس مطیبہ کی چانب سرکا کر‬
‫بوال‪،‬‬

‫"میں آپ کے یرشنل کاموں کے لنے نہیں آبی ہوں نہاں یر۔۔"‬

‫لہچے میں نےنناہ یاگوارنت لنے اس نے جواب دیا تھا‪،‬‬

‫"نہ میرا نہیں تمہاری نند کا کام ہے۔۔"‬

‫‪296‬‬
‫س‬
‫آیرو اخکاکر کہنا لسینل ا ننے سا منے رکھی قایلز یر حھکا‪،‬مطیبہ نہلے بو لب تھییچے اسے گھوربی رہی‬
‫تھر دوانناں غصے میں اتھابی یاہر پکلی‪،‬اس سخص سے کسی تھی یایک یر بخث نےکار تھی‪،‬وہ‬
‫سوچ چکی تھی کہ نہ السٹ یاتم تھا اب وہ کٹھی اس آفس میں نہیں آنے والی چاہے کجھ تھی‬
‫ہو‪،‬‬

‫س‬
‫را شنے میں لسینل کے مٹیشن میں کار رکوابی وہ دوانناں لنے کار سے ایری‪،‬گیٹ یر فرمان کھڑا‬
‫ت ھا اسے دیکھ مطیبہ کھلے گیٹ سے ایدر داچل ہوبی‪،‬ہال میں کسی کو نہ یاکر وہ کجھ یزل‬
‫ہوبی‪،‬دل عح یب گ ھیراہٹ کے مارے یالجواز رونے کو ہورہا تھا‪،‬وہ شٹمگر جس قدر جواسوں میں سوار‬
‫تھا اسے کجھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا‪،‬کسی کو سا منے نہ دیکھ وہ دوانناں ٹینل یر رکھ کر چانے کا‬
‫ت‬
‫ارادہ کی‪،‬اتھی وہ دوابی رکھ کر یاہر کی چانب یڑھنے ہی لگی تھی کہ اچایک ھٹھکی‪،‬ہال میں ننے‬
‫سب سے کونے والے روم کا دروازہ کھال دیکھ ایک عح یب سے اجشاس نے اسے آلنا‪،‬سر حھنک‬
‫کر اس نے یاہر چانے کا سوچا مگر قدموں نے ساتھ نہ د ننے اس روم کا ہی رخ کنا‪،‬وہ نہیں‬
‫چانتی تھی کہ انشا ک بوں ہورہا ہے مگر دل میں ابچایا دھڑکا لگا ہوا تھا جسے خٹم کرنے کے عرض وہ‬
‫غین اس روم کے دروازے یر کھڑی ہوبی‪،‬عح یب ہی ک یف یت ہورہی تھی اس کی‪،‬ڈر تھی لگ رہا‬
‫تھا تھر بحسس تھی ہورہا تھا نس ایک پظر ایدر دیکھنے کو‪،‬‬
‫‪297‬‬
‫ی‬
‫ہمت کر کے وہ قدم آگے یڑھابی ایدر داچل ہوبی تھی اور سا منے پظر چانے ہی مطیبہ کی آ کھیں‬
‫تھتی کی تھتی رہ گٹیں‪،‬ایک یل کو اسے بوری دننا رکتی ہوبی لگی‪،‬وقت‪ ،‬دن‪،‬مہینے‪،‬سال شٹھی‬
‫جیسے تھم چکے تھے‪،‬سانس جس قدر روکی تھی وہ جوپصورت چہرہ یری طرح سرخ ہوا اور حھنکے سے‬
‫م‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ق‬‫پ‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ی‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ی‬‫ق‬‫پ‬ ‫ح‬‫ی‬ ‫ی‬‫کھ‬
‫سانس تی وہ ا ننے قدم نے تی یں ایک قدم ھے لی‪،‬وہ ہر یا کن یات یر ین کر تی گر‬
‫اتھی جو سا منے دیکھ رہی تھی اس یر پقین کریا مچال تھا‪،‬‬

‫"ہیٹم۔۔۔!"‬

‫اس کے لب تھڑتھڑانے‪،‬‬

‫دوسری چانب وہ جو اس کی موجودگی سے نےچیر ساننڈ ٹینل سے یابی کا گالس اتھانے کی‬
‫کوشش میں شندھا ہورہا تھا یکدم جویک کر دروازے کی چانب دیکھا‪،‬آیکھوں کی ننلناں سکڑ کر‬
‫شندھی ہوٹیں‪،‬خنکہ خند لمخوں یک اس کے یکھرے چلنے کو دیکھنے رہنے کے پعد یاریک ل بوں یر‬

‫‪298‬‬
‫نہانت مدھم سی مشکراہٹ تھنلی‪،‬وخنہہ چہرہ زرد مایل ہوخکا تھا جس یر ایدروبی پکل یف کے آیار اب‬
‫یک رقم تھے‪،‬‬

‫اسے اداسی سے مشکرانے دیکھ حھنل آیکھوں سے تیزی میں ایک موبی پکلنا گال یر تھشال اور‬
‫جوسی و نےپقیتی کی ملی چلی ک یف یت میں مطیبہ ننا کجھ اور سوچے تیزی سے قدم یڑھابی ننڈ کی‬
‫ٹ‬ ‫ی‬‫ٹ‬ ‫س‬
‫چانب گتی تھر ہیٹم کو کجھ ھنے کا مو ع دنے ننا ہی وہاں تی اس کے لے لگ کر ھوٹ‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ف‬ ‫مج‬

‫تھوٹ کر رودی‪،‬اس کے اچایک غمل یر ہیٹم ششدہ رہ گنا‪،‬بو کنا وہ اس سے یاراض نہ تھی‪،‬وہ‬
‫سکوے وہ شکایات وہ غصہ۔۔۔‪،‬کنا سب کجھ یل میں خٹم ہوخکا تھا‪،‬‬

‫س‬
‫نےساچبہ ہیٹم کو لسینل کا یلین صحیح لگا‪،‬ذہن میں وہ وقت گردش کنا تھا‪،‬چب اسے ہوش آیا‬
‫نب اس نے جود کو ہاشینل میں یایا تھا‪،‬اتھی وہ صحیح سے جواسوں میں تھی نہ لویا تھا کہ ایک زور‬
‫ی‬
‫دار ت ھیڑ نے ہیٹم کا ذہن یری طرح مٹیسر کردیا‪،‬دیدھلی ہوبی آ کھیں حھنک کر وہ سا منے دیکھا‬
‫س‬
‫چہاں روبی ہوبی ع نادنہ غصے میں کجھ کہتی گھوری تھی مقایل کھڑے لسینل کو‪،‬‬

‫‪299‬‬
‫"نہ ت ھیڑ اس نے جود انتی پقدیر میں لکھوایا تھا۔۔"‬
‫س‬ ‫س‬
‫عنادنہ کو جواب دے کر لسینل اس کو دیک ھا جس کی یاسمجھ پظریں لسینل یر ہی تھیں‪،‬‬

‫"ک یفرم کروگے کہ آچر چا ہنے کنا ہو۔۔۔کٹھی ایکسنڈنٹ کروا لینے ہو اننا بو کٹھی زہر کھاکر مرنے‬
‫کی نناری۔۔۔"‬
‫ی‬
‫اس کے سوال یر ہیٹم تھکان سے آ کھیں موید کر کھوال‪،‬‬

‫"مریا ہی بو چاہنا ہوں۔۔"‬

‫"تھابی۔۔"‬
‫س‬
‫عنادنہ یڑبی تھی اس کی یات یر‪،‬دوسری چانب ہیٹم کی یات یر کجھ سوخنا لسینل گویا ہوا‪،‬‬

‫‪300‬‬
‫"مرچاؤ تم۔۔"‬

‫س‬
‫" لسینل کنا کہہ رہے ہیں۔۔"‬

‫اب کی یار عنادنہ گھرکی تھی اسے‪،‬‬

‫ی‬
‫"یلکل تھنک کہہ رہا ہوں۔۔۔تمہارے مرنے یر ہم د کھیں گے کہ اگر تمہاری ن بوی کو فرق نہیں‬
‫ٰ‬
‫یڑیا بو تم چلے چایا اس کی زیدگی سے دور لنکن اگر اس کا ِردغمل سدید ہوا بو تھر تم دوبوں لنلی‬
‫مح بوں چابو آگے کے یارے میں۔۔۔"‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫مج‬ ‫ہ س‬ ‫س‬
‫لسینل کی یات یر نہلے بو عنادنہ اور یٹم یا ھی سے اسے د ک ھے مگر چب اس کی یات مجھ آبی‬
‫بو وہ دوبوں تھی سوچ میں یڑ گنے‪،‬‬

‫"نہیں رہ سکتی۔۔۔میں نہیں رہ سکتی تمہارے ننا۔۔"‬

‫‪301‬‬
‫ا ننے شینے میں مبہ حھنانے روبی مطیبہ کی آواز نے اسے سوچ کی دننا میں قدم رکھنے یر مح بور‬
‫کنا‪،‬آسودگی سے مشکرایا ہیٹم اس کے گرد ا ننے دوبوں یازوؤں کو چایل کنا تھا مگر نٹھی مطیبہ کا‬
‫فون ریگ کرنے لگا‪،‬ہیٹم سے دور ہوبی وہ کال رنسبو کی‪،‬‬

‫"بوحھنا نہ تھا کہ کنا اب ریزیگٹیشن لئیر ایروو کرلنا چانے آپ کا۔۔"‬


‫س‬
‫لسینل کی تھاری آواز میں کہی یات نے مطیبہ کو شنکی کا اجشاس دالیا‪،‬آفس میں اس کے‬
‫ی م‬
‫ساتھ یرنے ا ننے سخت رونے یر سرمندہ ہوکر آ کھیں یحتی وہ لب دیابی‪،‬‬

‫"نہیں۔۔۔آ۔۔۔سوری تھابی۔۔"‬
‫ی‬
‫شنکی سے کہتی وہ جور پظروں سے ہیٹم کو د کھی جس کی مشکابی پظریں اس ہی ہر تھیں‪،‬‬

‫"سر۔۔"‬

‫‪302‬‬
‫مقایل بوکنا ہوا کال کٹ کنا اور مشکراکر فون رکھتی مطیبہ جوسی سے تم آیکھوں سمیت مقایل‬
‫مح بوب کو دیکھ اس کے شینے یر سر رکھتی گویا ہوبی‪،‬‬

‫"اس ایک ہفنے کی پکل یف ہر اس پکل یف سے یڑھ کر تھی جو ان سالوں میں مجھ یر ٹیتی۔۔"‬

‫مطیبہ کے تھنگے لہچے یر وہ حھک کر یرمی سے اس کی ٹیشابی جوما تھا‪،‬‬

‫"وعدہ کریا ہوں تمہاری ہر پکل یف کا مداوا انتی محیت سے کروں گا۔۔تمہاری آیکھوں میں جوسی‬
‫کے آنسو بو آ ٹیں گے مگر غم کے آنسوؤں کو کٹھی ان جوپصورت آیکھوں سے پکلنے نہیں دوں‬
‫گا۔۔۔"‬
‫م‬
‫چذیات سے جور لہچے میں نہانت یٹھی سرگوسی کریا وہ مطیبہ کے گرد یازوؤں کا خصار نناکر‬
‫ی‬
‫یرسکون سا آ کھیں مویدا‪،‬مقایل کے اس وعدے نے مطیبہ کو جس قدر سرسار کنا تھا اس کے‬
‫لنے لقظوں کا نناں یاقایل تھا‪،‬‬

‫‪303‬‬
‫دروازے کے اوٹ سے انہیں جوسی سے ایک پظر دیکھ عنادنہ ہال میں آبی چہاں درنہ ننگم کی‬
‫ک‬‫ی‬
‫سوالبہ پظریں اس ہی کی می یظر تھیں‪،‬ان کو د تی عنادنہ جوسی سے م کرابی اننات یں سر البی‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ھ‬

‫ساتھ ہی ان کے گود سے شیطین کو لیتی اسے ننار کرنے لگی‪،‬وہ جوش تھی نےچد جوش کہ‬
‫اس کے تھابی اور مطیبہ کی زیدگی سچل ہوچکی تھی‪،‬سکندر وال سے وانسی یر اس نے درنہ ننگم کو‬
‫ساری یات سے آشنا کروایا تھا ساتھ نہ تھی ننایا کہ وہ میت کسی اور کی نہیں یلکہ ہناد کی‬
‫تھی‪،‬عنادنہ کو سدید سرم ندگی ہوبی تھی ان کے سا منے ا ننے اس تھابی کا گناہ ننانے‪،‬وہ دکھی‬
‫نہیں تھی ہناد کی موت یر یلکہ اسے افسوس تھا نہت کہ اس قدر گناہگار سخص اس کا تھابی‬
‫تھا‪،‬‬

‫۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫دو سال پعد‪،‬‬

‫‪304‬‬
‫"سوہر چب آفس سے تھکا ہارا گھر آیا ہے بو جواہش کریا ہے اس کی ن بوی اشیفنال میں ایک یرم‬
‫مشکراہٹ الزم سچانے ر ک ھے ا ننے چہرے یر لنکن نہاں یر بو میری ن بوی یاراض شکل ننانے گھوم‬
‫رہی ہے۔۔۔"‬

‫عنادنہ نے آج اسے چلد آنے کی نٹینہہ کی تھی‪،‬وجہ رات مطیبہ اور ہیٹم کو دی گتی دغوت تھی‬
‫س‬
‫مگر لسینل کافی کوشش کے پعد تھی بو بچے ہی گھر یر لویا اور اب عنادنہ کو جود سے یاراض‬
‫دیکھ وہ جوٹ کنا تھا اس یر‪،‬‬

‫"ہاں بو سوہر کو تھی اجشاس ہویا چا ہنے کہ ن بوی جو یات کہے اس کو مان لنا چانے یا کہ انتی‬
‫ی‬
‫مرضی چالٹیں۔۔۔اب وہ لوگ آنے ہی والے ہوں گے اور جود کو د کھیں ننار تھی نہیں‬
‫ہونے۔۔۔"‬
‫س‬
‫چڑ کر ٹیتی ہوبی اسے جواب د نتی عنادنہ آچر میں لسینل کو شیطین کے ساتھ ننڈ یر کھنلنے دیکھ‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ح‬
‫البی‪،‬‬ ‫ھ‬ ‫ج‬

‫‪305‬‬
‫"فصول میں انتی ایرجی صا پع کررہی ہو چاتم۔۔۔وہ دوبوں گنارہ بچے سے نہلے نہیں آنے‬
‫والے۔۔۔"‬
‫س‬
‫یرسکون سا کہنا لسینل عنادنہ کے ہاتھ سے ا ننے کیڑے لے کر یرایر میں رکھنا اس کی گود‬
‫س‬
‫سے شیطین کو لینے عنادنہ کے گال یر لب رکھا‪،‬وہ یدک کر دور ہوبی گھوری تھی لسینل کو‬
‫س‬
‫جس یر ہلکا سا ہیسنے لسینل شیطین کو دیکھ گویا ہوا‪،‬‬

‫"تمہاری ماما غصے میں تھی کیتی ک بوٹ لگتی ہے یا۔۔"‬

‫شیطین کھلکھالیا تھا‪،‬خنکہ عنادنہ ان دوبوں یاپ ٹینے کو گھورنے کے چکر میں یلش ہوبی آچر‬
‫میں جود تھی مشکرادی‪،‬‬

‫۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫۔۔۔۔۔۔‬

‫‪306‬‬
‫آج ہیٹم کی فرمانش یر وہ ساڑھی نہتی تھی‪،‬ڈرنسنگ یر کھڑی اتیریگ نہن کر اس نے ایک آچری‬
‫ن یفندی پظر جود یر ڈالی نٹھی نیجھے سے آیا وہ یرمی سے اس کے گرد خصار یایدھا تھا‪،‬مطیبہ کے لب‬
‫مشکرانے تھے‪،‬‬

‫ی‬
‫"اس جوپصورت چہرے یر سجی نہ جسین مشکراہٹ ہمیشہ میری آ کھیں چیراں کرد نتی ہے۔۔۔"‬

‫یرمی سے اس کے کان میں سرگوسی کنا تھا ہیٹم جس یر یلکوں کی یاڑ اتھابی مطیبہ آ ٹینے میں‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ی‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ٹ‬ ‫پ‬ ‫ن‬
‫د ھی‪،‬مقا ل کی لو د تی ظروں کی یش نے اسے سرخ ہونے یر مح بور کنا‪،‬ل بوں یر لی سر یں‬
‫ی‬
‫مشکراہٹ یڑھی تھی ساتھ وہ سرخ عارض سمیت مٹیسر دھڑک بوں کو شیٹھالتی آ کھیں مویدی چب‬
‫مقایل کے ل بوں کا لمس انتی گردن یر محسوس ہوا مگر نٹھی دوبوں جو یکے چب ننڈ یر سے ان کی‬
‫چڑواں نٹی بوں(عروشہ اور عرنشہ) کے رونے کی آواز آبی‪،‬‬

‫"ہمیں دیر ہوچکی ہے۔۔۔"‬

‫ساڑھے دس بچابی گھڑی کو دیکھ مطیبہ ننڈ کی چانب چانے بولی‪،‬‬

‫‪307‬‬
‫"تم حھوڑ دو میں لے لینا ہوں انہیں۔۔۔"‬

‫اسے تمشکل ساڑھی شیٹھا لنے دیکھ ہیٹم مشکراکر کہنا ننڈ یر آیا ساتھ دوبوں کو گود میں لی نا‬
‫اتھا‪،‬مطیبہ مشکرابی تھی اسے دیکھ جو یاری یاری اب عروشہ اور عرنشہ کے گال جومنا اس کو یاہر‬
‫چلنے کا اسارہ کنا تھا‪،‬اس سخص نے اننا کہا بورا کنا تھا ان دو سالوں میں وہ ہر طرح سے مطیبہ‬
‫یر ظاہر کنا تھا کہ ہیٹم کی زیدگی کی ساری جوشناں اس ہی یر آکر تمام ہوبی ہیں‪،‬‬

‫ہیٹم کے صخیناب ہونے کے پعد وہ آفس چایا حھوڑ چکی تھی‪،‬اّٰللہ نے ایک سال پعد ان دوبوں کو‬
‫چڑواں نٹی بوں سے بوازا تھا‪،‬یاپ کو بو انتی ٹیتی ہوبی ہی عزیز ہے تھنک اس ہی طرح ہیٹم انتی‬
‫دوبوں نٹی بوں سے نےچد محیت کریا تھا‪،‬وہ نہت جشاس تھا ان دوبوں کو لے کر‪،‬مطیبہ چدا کا‬
‫جینا سکر ادا کربی اننا کم تھا کہ ان کی زیدگی سے غم کے یادلوں کو ہمیشہ کے لنے ہنا کر ایک‬
‫یرسکون اور سچل موڑ یر الیا گنا تھا‪،‬‬

‫۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔‬

‫خٹم سد‬
‫‪308‬‬

You might also like