Professional Documents
Culture Documents
Deedar E Mehboob Ka Hijar by Nishaal Aziz Complete PDF
Deedar E Mehboob Ka Hijar by Nishaal Aziz Complete PDF
-1-
دید ِار محبوب کا ہجر
لق
از م نشال عزیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ت ُ
"تھینک یو سو مچ آپی۔۔۔ا نی ئیر کرنے کے لیے ہماری۔۔۔"
ک
یارہ سالہ یائمہ کے کہیے یر عندلیب چویکی،
ُ
"ارے لڑکی۔۔۔م نع کنا تھا یا کہ ہم فرتنڈز ہیں اور فرتنڈشپ میں یو سوری یو تھینک یو۔۔۔اچھا
اب یہ لو۔۔۔ارنشہ جب اتھ جانے یو اسے دے د ت نا۔۔۔"
-2-
اسے پیسیری کے تنکیس یکڑانے عندلیب یولی ساتھ ہی اتنی الپی گنی سایرز میں سے اور تھی
جیزیں نکال کر سبھی بچوں میں یا پییے لگی،
"تھر کس کی ہیں۔۔۔"
وہ معصومیت سے یوچھا تھا،جس یر عندلیب کے تنکھڑی کے ماتند گالپی لب مشکرانے،
"کوپی یات نہیں گرتنی ُد ّریہ کی جاکلییس یو نہت ساری ہیں۔۔۔انشا کرنے ہیں اس میں سے
کجھ جاکلییس ہم معاذ کو د تیے ہیں۔۔۔تھنک ہے معاذ۔۔۔؟"
چوش دلی سے یوری یات کہیے وہ آخر میں معاذ سے یاتندی لینا جاہی تھی جس کا چہرہ اب ِکھل
چکا تھا،
عندلیب کی یات یر وہ جلدی سے اتنات میں سر ہالیا تھر سایر میں سے چند جاکلییس نکال کر
عندلیب معاذ کی طرف یڑھاپی،
ُ ُ
"تھینک یو آپی۔۔۔یو آر دی پیسٹ۔۔۔"
مشکراکر چوسی سے چھومنا 6سالہ معاذ چوکلییس ہالنے ہونے یوال اسے مشکرایا دیکھ عندلیب
م ت ک م ت ت م طم
ین سی ہوکر ا ھی ھر یرایر یں ر ھے یوکیٹ کو اتھاکر ساتھ ہی سایر ہا ھوں یں تھامی،
"جلو بچوں اب میں گرتنی کے گھر جارہی ہوں۔۔۔یو جلدی سے تناؤ وہ اتھی کہاں ہے۔۔۔"
ی
جاکلیٹ کھانے بچوں کو د کھنی وہ یآواز یوچھی،
-4-
"کون آپی؟"
ایک یار تھر معاذ چو کھانے میں مگن تھا سوالیہ نظروں سے عندلیب کو دیکھا،
"اوووووہ۔۔۔وہ کھڑوووس۔۔۔!!"
چ
ہوت بوں کو گول کیے معاذ عندلیب کو دیکھیے یوال،وہ ھیینی تھی،
"آپی آپی۔۔۔وہ کھڑوس گارڈن میں ہے اتھی۔۔۔لگنا ہے تھر آج گندگی ہونے والی ہے گارڈن
میں ک بویکہ وہ وہاں یر کافی ساری لکڑیاں کاٹ رہے ہیں۔۔۔اور وہ تھی اس زور سے کے کان
میں آواز لگ رہی ہے۔۔۔"
ہاتھ جال جال کر تناپی ایوسے کی یات یر عندلیب نے آیرو اچکاپی،
"اونس۔۔۔مظلب آج تھر موڈ خراب ہے۔۔۔جلو دیکھیے ہیں کنا ہویا ہے۔۔۔"
زی ِر لب یڑیڑاپی وہ مڑی،
-6-
"وہ کب غصے میں نہیں ہویا۔۔۔"
یلٹ کر عندلیب اس سے کہیے ہونے مشکراپی،
"وہ آیکی اتنی انشلٹ کرد تیے ہیں۔۔۔ہر وقت غصہ ہونے رہیے ہیں۔۔۔کبھی کسی سے ا چھے
سے یات نہیں کرنے ا تیے یرے ہیں تھر تھی آپ ا یکے یاس کبوں جاپی ہو۔۔۔؟"
چ ھ کی
جب سے اسے د نی ایوسے میہ ت ناکر یو ھی
"کوپی تھی انشان یرا نہیں ہویا نس کجھ جاالت انشان کو یرا پییے یر مح بور کرد تیے ہیں۔۔۔"
اسکے چواب میں عندلیب کندھے اچکاکر یولی،
"تھر کجھ نہیں۔۔۔میں جارہی ہوں۔۔۔دیر ہوجانے گی۔۔۔اتھی نہت سارا پیسٹ تھی یاد کریا
ہے مجھے وریہ کل میری مس نے بجسنا نہیں ئمہاری آپی کو۔۔۔"
ایوسے کے یال نگاڑ کر یو لیے وہ مشکراکر مڑی،اب اسکا رخ یاہر کی جاتب تھا
-8-
پیبم جانے سے نکل کر کجھ قدم کا راشیہ طے کر کے وہ اس گھر کے سا میے آپی تھر گہرا سانس
تھرپی گیٹ کے یاس گنی،دو تنل یر ہی گیٹ کھال تھا،
"ایک یو نہلے ہی ہفیے میں ایک مرتیہ آپی ہو اویر سے آج یورے دو گھییے لیٹ ہو۔۔۔"
سالم کا چواب دے کر وہ چفگی سے یولیں،
-9-
"اوووہ۔۔۔یو عندلیب کا ات نظار تھی کنا جایا ہے۔۔۔"
سنانسی نظروں سے انہیں دیکھ کر کہنی وہ آگے یڑھ کر ا یکے گلے لگی،
"سوری گرتنی۔۔۔ت نا ہے۔۔۔یہ تھول مل کر نہیں دے رہے تھے آج نس اسی لیے تھوڑی دیر
ہوگنی۔۔۔"
ان سے دور ہوکر وہ یوکیٹ آگے کرپی یولی ساتھ ہی آگے قدم یڑھاپی جاکلییس کی سایر پینل یر
رکھی،
س
م
ل نے گارڈن یںن یلس "لڑکی ئمہیں م نع تھی کنا تھا ا تیے تھول یہ الیا کرو۔۔۔نہاں یو آلریڈی
کییے تھول لگوانے ہیں۔۔۔"
یوکیٹ کو پینل یر آرام سے رکھییں دریہ تنگم یولیں،
"کوپی نہیں یہ تھول تھی لگادیں گے گارڈن میں۔۔۔آج یو میں اس کھڑوس کی ایک نہیں
سبوں گی۔۔۔ا تیے ہاتھوں سے لگاؤں گی انہیں۔۔۔"
ہفیے میں ایک دن جب وہ نہاں آپی تب اسکا موڈ کافی چوسگوار ہویا،آج تھی اسی موڈ کے ساتھ
چہک کر کہنی وہ کچن کا رخ کی،
- 10 -
"جلیں شب سے نہلے آج ہم کجھ تنانے ہیں۔۔۔"
اپیرین کی ڈوری یایدھ کر سوچنی وہ یولی تھر اجایک چنکی بجاپی،
"پی پی۔۔۔مجھے تیہ تھا آج آپ کا تھر کچن خراب کرنے کا یلین ہے تبھی میں نے نہلے ہی
صفاپی کر رکھی تھی۔۔۔"
اسے خڑانے کے عرض کہیے والی یہ دریہ تنگم کی یراپی جادمہ اور فرمان کی ت بوی اسماء تھی،
- 11 -
آدھا گھییہ لگاکر وہ سینڈوخز تنار کی تھی اور اس آدھے گھییے میں چو کچن کا جال اس نے کنا
اسماء اتنا سر تھام کر رہ گنی،
ّ
دریہ تنگم کو سینڈوچ د تیے کے نعد اب یلیٹ یر ایک سن ِڈوچ ر ک ھے اسکا رخ گھر کے بجھلے چصے
نعنی کہ گارڈن کے جاتب تھا چہاں سے مشلشل ک ھٹ تٹ کی پیز آواز آرہی تھی یوں مجسوس ہویا
جیسے وہ لکڑیاں کاٹ کم اور اتنا غ ّصہ زیادہ ا یاررہا ہو یر شچ تھی نہی تھا جب غصے میں وہ ہویا یو
یونہی کریا،
"اوہو گرتنی۔۔۔کنا کرلے زیادہ سے زیادہ۔۔۔چیچے گا ڈا تیے گا۔۔۔کوپی نہیں سن لوں گی اسکی
ڈاتٹ تھی۔۔۔"
ُ
ایک ہاتھ کو ہوا میں لہرا کر نےتنازی سے کہنی وہ یلنی،دریہ ت نگم نے یاسف سے اس دیواپی کی
نست کو دیکھا،
- 12 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہاتھ میں یلیٹ تھامے یو دوسرے میں الل کھلیے یازہ گالب تھامے وہ دنے یاؤں آپی تھی
وہاں،گالپی لب کو دات بوں میں دیاکر اس نے آہسنگی سے گارڈن میں ایک طرف تیے پییچ یر
ن ی
تھول اور یلیٹ رکھی تھر سندھی ہوپی سا میے کی طرف غور د ھی،
ک
واتٹ سرٹ کی آسیی بوں کو کہی بوں یک فولڈ کیے وہ مضبوط ہاتھوں میں کلہاڑی تھامے مشلشل
ِسل یر رکھی لکڑی یر ماررہا تھا،کلہاڑی یر شخت گرقت ہونے کے یاعث سفند آہنی یازو میں اتھرپی
نسیں ئمایاں ہورہی تھیں،نسییے سے سرایور کشادہ پیشاپی یر یکھرے گنلے گہرے تھورے یال،رخ
یرچھا ہونے کے یاعث کنارے سے نظر آنے جد سے زیادہ سرخ وچنہہ چہرے یر یایرات یال کے
تبھر یلے تھے کہ مفایل ایک یل کو الزمی ڈگمگایا اور نہی اتھی عندلیب کے ساتھ ہوا اسکے ہر ایک
خرکت یر نظر ر ک ھے عندلیب کا دل نےساجیہ دھڑک کر رہ گنا جب وہ ا تیے ہاتھ روک کر سندھا
ہوا،چوڑی کسرپی نست موڑ کر وہ رخ اسکی جاتب کنا،سرٹ کے دو اویری پین کھلے رہیے کے
یاعث کشادہ سییہ صاف دکھ رہا تھا،اتنی سایدار شخضیت سے مفایل کو زیر کرنے کی صالچ یت
م س
رکھنا لسینل ُمراد واقعی تھریور وجاہت کا مالک ایک کمل شخص ہویا اگر کو اس میں ایک کمی یہ
ہوپی،۔۔۔کمی۔۔۔،ہاں اس شخص میں نس ایک کمی تھی،
- 13 -
ی ی
اور وہ کمی اسکی آ کھیں تھیں۔۔۔ہاں وہ آت بوس ریگ آ کھیں ہمیشہ کی طرح آج تھی جالی
ی م ُ
تھیں،جیسے اسکے ذہین دماغ یں یے والے سارے ین چواب ان آ ھوں یں یں دفن
ہ ک م ک جس یپ
ٰ
ہو جکے ہوں،ایک پیناپی یہ ہونے کی وخہ سے وہ شب کجھ چھوڑ چکا تھا چنی کہ ا تیے چوایوں کی
ٰ ت ن کی
چ ن ع ت ت
ل ھی یرک کردی،ا نی گر نی کے الوہ دتنا کے ہر ایک فرد سے فرت کریا تھا وہ نی کے م
چود سے تھی یاراض رہنا،اسکے غصے کا تھی کجھ تنا نہیں تھا کب کہیں کسی تھی وقت اجایک آیا
اور انشا آیا کہ مفایل جب یک اسے تنہا یہ چھوڑد ت نا تب یک غصہ کم یہ ہویا،
"کنا ہے۔۔۔؟"
تھاری شخت مگر دل دھڑکا د تیے والی آواز یر لبھ مار لہچہ تھا کہ عندلیب چو تنایلک چھ نکانے اس
سایدار شخص کو دیکھیے میں مچو تھی یکدم ہوش میں آپی یری طرح یوکھالپی،تبھی گہرا سانس تھرپی وہ
وت سماعت رکھنا تھا وہ کہ دنے یاؤں آنے کے یاوچودایک یار تھر نظر اسکی طرف کی،آخر کیسے ف ِ
اسکی موچودگی سے ہمیشہ واقف ہوجایا،تھوڑی دیر یو عندلیب کو الفاظ کے اتیجاب میں لگی،اس
انشان کے سا میے کجھ تھی یولنا اسے کافی ہمت واال کام لگنا،
"ہا۔۔۔کجھ جاص نہیں میں یو نس گرتنی سے ملیے آپی تھی یو سوجا ئمہیں تھی دیکھ ہی لوں۔۔۔"
- 14 -
لہچے کو نےیرواہ تنانے کی تھریور کوشش کرپی وہ نغور اسکی جالی آیکھوں کو یک رہی تھی،
"چہاں یک مجھے تنا ہے کہ پیناپی میری نہیں ہے یر آج یہ تھی معلوم ہوگنا کہ میرے ساتھ
ساتھ تم تھی ایدھی ہو۔۔۔"
وہ اس سے یوں یات کررہا تھا جیسے لفظوں کو ادا کم تھینک زیادہ رہا ہو،اس یار عندلیب ا تیے
چہرے کو یگڑنے سے یہ روک یاپی،
"ک بوں۔۔۔ئمہارے جاسوسوں نے اور یایوں سمیت یہ نہیں تنایا تھا کہ میں کنا کررہا ہوں۔۔۔"
س ت م ت ی
اسکی یات یر عندلیب ا نی آ یں چی ھی،وہ یسے مجھ جایا تھا ا کی ہر خرکت کو،نےساجیہ
س ک ی ھ ک
عندلیب نے یرچھی نظروں سے کونے والی دیوار کو دیکھا چہاں یر اب تھی تبھی نسمہ ہبھنل بوں یر
س
اتنا چھویا سا چہرہ ر ک ھے مچو سی ہوکر لسینل کو چواب دیدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی،اسے یوں دیکھ
عندلیب نے سر چھ نکا،قلجال یو اسے اتنی چوری یکڑے جانے یر غصہ آرہا تھا،
"سبو یہ زرا سینڈوچ کھاکر تناؤ۔۔۔کیسے تیے ہیں۔۔۔ئمہیں تنا ہے میں نے نہت محیت سے
تنانے ہیں۔۔۔یلیز نعرنف الزمی کریا۔۔۔ک بویکہ تھر مجھے یرا لگے گا۔۔۔اور مجھے یرا لگا یو
میں۔۔۔میں۔۔۔ہاں۔۔۔میں جلی جاؤں گی نہاں سے۔۔۔"
- 16 -
یلیٹ اتھا کر اسکے سا میے آپی عندلیب ت نارکے یولے جارہی تھی،وہ چو تھر کلہاڑی واال ہاتھ
اتھانے لگا تھا ایک دم غصے میں کلہاڑی تھینک کر اتنا تھاری ہاتھ آگے کنا ادھر عندلیب کی
چوسی کا تھکایہ یہ رہا،ہر یار اسکی تناپی جیزوں کو اگ بور کرنے واال وہ آج اس سے مایگ رہا تھا
سین ِڈوچ کی یلیٹ،
"یہ لو۔۔۔"
س
چہک کر کہیے ہونے اس نے یلیٹ لسینل کے تھاری ہاتھ میں رکھی تنا اسکے یایرات کا یونس
لیے لنکن اگلے ہی لمچے عندلیب کا میہ کھال کا کھال رہ گنا،جب وہ یلیٹ تھوڑے دور زور سے
ت کی
تھی نکا،اتنی محیت سے تناپی گنی اتنی سی نڈوچ کی یاقدری کو وہ ساکی نظروں سے د ھی ھی،
"یہ۔۔۔کنا۔۔۔"
صدمہ انشا لگا کہ ئمسکل وہ دو الفاظ ادا کرسکی،
- 17 -
"رزق کی یوں نےخرمنی نہیں کرنے۔۔۔۔"
دھبمی آواز میں یول کر وہ قدم اتھاپی تیچے گری یلیٹ اور سینڈوچ کی طرف گنی تھر چھک کر
انہیں اتھانے کے نعد پییچ یر رکھی،اقسردہ ہوکر وہ اتھی جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اجایک نظر
پییچ یر ر ک ھے گالب یر یڑی اور نس،ایک یار تھر عندلیب کا بجھا ہوا چہرہ ِکھال،
"آہاں۔۔۔یہ یو ت نایا تھول ہی گنی ئمہیں کہ میں نے یہ چونصورت گالب لیے تھے نہاں آنے
سے نہلے۔۔۔اور جا تیے ہو انہیں اگر ہم اس گارڈن ایریا میں لگاپیں یو آگے جاکر چند دیوں میں
گارڈن کا وہ چصہ کینا مہکے گا ان چونصورت گالیوں کی چوسبو سے۔۔۔۔لو یہ تم لگادو۔۔۔یلکہ
نہیں۔۔۔تم یو تھر تھینک دو گے۔۔۔انشا کرپی ہوں یہ میں چود ہی لگاد تنی ہوں۔۔۔"
س
تھر سے عندلیب کا یان سناپ یولنا سروع ہوچکا تھا ادھر لسینل اسکی یایوں کو سن کر ا تیے
ایدر یک کڑواہٹ گھلنی مجسوس کرنے لگا،بجھلی یار کی کنی یذلنلوں کے یاوچود اب تھر اسکا ا تیے
س
نےکار گالب الیا لسینل کو غصہ دالیا تھا،
اتنی پیز سماع بوں سے ع ندلیب کے قدموں کی جاپ کا ایدازہ لگایا وہ اسکے یاس گنا،عندلیب چو
س
یڑے مگن سے ایداز میں یولنی یاغ کے ایک کنارے یر آپی تھی لسینل کو اجایک ا تیے یرایر
س مجس
میں دیکھ چویکی اس سے نہلے وہ کجھ ھنی لسی ل ہاتھ یڑھایا تھر جیسے ہی تھاری شخت ہاتھوں
ن
- 18 -
س
میں تم تھولوں کی یرمی مجسوس ہوپی انہیں دیوچ کر تیچے تھینکنا لسینل ا تیے چویوں یلے کجال
تھا ان گہرے الل ریگ کے جسین گالیوں کو،
کت ی
تیچے اسکے چویوں یلے کجلے ا تیے تھولوں کو دیکھ عندلیب یاوچود کوشش کہ اس یار ا نی آ یں م
ت ھ
ہونے سے نہیں روک یاپی،
"یہ۔۔۔ک بوں۔۔۔کنا۔۔۔؟"
ی ن یلستھن یک س س
چ
ل کے وچنہہ ہرے یر سرد یایرات د کھ وہ یولی گی آ ھوں میت
"یلکل ئمہاری طرح ایکی تھی نہی اوقات تھی۔۔۔آ تندہ مجھے یہ یات رپی یٹ یہ کرپی یڑے کہ ا تیے
نےکار تھولوں کو نہاں نہیں لگاسکنی تم۔۔۔"
گالیوں کے ساتھ اسے تھی یل میں دو کوڑی کا کریا وہ اسکے یرایر سے گزرا،تبھی لہچے کو ئمسکل
ہلکا تھلکا تنانے وہ یولی،
"جیر۔۔۔تھنک ہے نہیں کروں گی آ تندہ کبھی یہ گسناخی۔۔۔قلجال میں جاپی ہوں گرتنی کے
یاس۔۔۔"
- 19 -
ھ ت ت س
یہ یات کہیے وہ یوری کوشش کی تھی ہیسیے کی ،لسینل کے آیرو ھر یں،کبوں ا نی نےعزپی
ت چی
کے نعد تھی وہ اس سے یوں یات کرپی جیسے کجھ ہوا ہی یہ ہو،
چونصورت آیکھوں سے چھلکیے کو نےیاب آنسوؤں کو ایدر ہی دھکنلنی وہ سینڈوچ کی یلیٹ اتھاپی
وہاں سے وانس گھر کے ایدر آپی،کچن میں یلیٹ رکھ کر اتھی وہ یلنی ہی تھی کہ گرتنی سا میے
دکھیں،یاسف تھری نظروں سے وہ عندلیب کو ہی دیکھ رہی تھیں،آنسو رو کیے کے جکر میں اس
کے سرخ ہونے گال اور یاک دیکھ وہ یرمی سے یولیں،
"ک بوں ہر یار اتنی انشلٹ کروانے جلی جاپی ہو لڑکی اسکے یاس۔۔۔۔"
وہ چو گرتنی کو دیکھ زیردسنی مشکرانے لگی تھی اجایک آیکھوں میں تھر آنسو آنے یر نگاہ ت ھیری،
"اوہ ہو۔۔۔یہ اسماء کو یو میں سینڈوچ کھالیا ہی تھول گنی۔۔۔رکیں گرتنی میں زرا انہیں دیکھ
لوں۔۔۔کہاں ہیں۔۔۔اسماء۔۔۔"
اجایک ہی موڈ تھنک کر کے وہ یارملی یات یدل کر یولنی ا یکے یرایر سے ہوکر نکلی ساتھ ہی اسماء
کو نکارنے لگی،دریہ تنگم نے یرچم تھری نظروں سے اس یادان لڑکی کو دیکھا چو اتنی معصوم محیت
کے جکر میں ا یکے یونے سے اکیر و پیسیر ذلنل ہونے رہنی،
"یو ِمس قاریہ۔۔۔عندی کے معا ملے میں کوپی کویاہی نہیں جاہوں گی۔۔۔اتھی اسکی عمر ہی
ُ
کنا ہے۔۔۔ضرف ت ندرہ سال۔۔۔اسے آپ کسی تھی یِرپ یر لے کر نہیں جاپیں گی۔۔۔گ ھر سے
س م ص ُ
س
دور دوسرے شہر جاکر یڑھ نا اس کا سوق تھا۔۔۔ کندر کی یارا گی کے یاوچود یں نے ا کے سوق
کو ِمدنظر رکھ کر اسے جانے دیا۔۔۔مگر اب وہاں یر وہ ہر یات یر اتنی مرضی نہیں کرسکنی
گی۔۔۔۔میں نے آپ یر تھروشہ کر کے آپ کے ذمے کنا تھا اسے۔۔۔امند ہے کوپی سکاتت
کا موقع نہیں دیں گی آپ مجھے۔۔۔۔"
کال یر یات اتنی چھوپی پینی کی پینی سے یات کرپی مہناز ت نگم تھوڑی یرہم ہوپی تھیں،وخہ ہمیشہ
کی طرح ایکی الایالی پینی کی فرمانش۔۔۔،اسکول کی طرف سے اب اسے یرپ یر جایا تھا اور پینی کو
اس نے ساتھ جانے سے م نع کنا تھا جس کے نعد اب شہناز ت نگم نے اسے صاف انکار کردیا تھا
یرپ یر جانے سے،
- 22 -
"ماما۔۔۔ماما۔۔۔"
یک یک کرپی ہنلز کی آواز کے ساتھ وہ دیدیاپی ہوپی مہناز تنگم کے روم میں داجل ہوپی،گیٹ
دھاڑ سے کھلیے یر وہ چو فون یر پینی سے یایوں میں مچو تھیں چویکی،آنے والی کوپی اور نہیں یلکہ
ایکی 18سالہ یڑی مگر سر تھری پینی ِقلذہ سکندر تھی،
ادھر مہناز تنگم کو اب معاملہ سمجھ میں آیا تھا،آہسنگی سے سر اتنات میں ہالپی وہ یولیں
"ہاں وہ ئمہارے ڈیڈ کے کوپی دوشت ہیں۔۔۔انکا پینا یڑھاپی کے سلشلے میں آیا ہے دوسرے
شہر سے۔۔۔۔"
ی
ان کی یات یر ِقلذہ کی آ کھیں سکڑیں،گھور کر انہیں دیکھیے کے نعد وہ یولی،
"اچھا جاصا وہ لڑکا کسی ہویل میں رہیے واال تھا یر ئمہارے ڈیڈ یر یو رچم دلی کا تھوت سوار رہنا
ہے۔۔۔یالل نا نہاں رہیے کے لیے۔۔۔یر جیر چھوڑو۔۔۔اتنکسی میں ہی رہے گا یا۔۔۔"
- 24 -
مہناز تنگم کی یایوں سے واضح تنا لگایا جاسکنا تھا کہ انہیں چود تھی اس لڑکے کا آیا ساید نسند
نہیں آرہا تھا،یر سوہر کے آگے مح بور ہونے کی وخہ سے جاموش تھیں،
"اتنکسی میں رہے گا یا چہاں تھی لنکن رہے گا یو ہمارے گھر کے ہی کسی چصے میں۔۔۔۔آپ
جاتنی ہیں یہ عرتب کس قدر اللچی ہونے ہیں۔۔۔کہیں ہمارے گھر کو دیکھ اسکی ت یت خراب
ہوگنی یو۔۔۔اور تھر اس گھینا رقاق کی طرح ایک یار تھر چوری ہوگی گھر میں۔۔۔تھر کنا کریں گے
ہم۔۔۔۔ماما میں اسی لیے کہنی ہوں کہ نفرت ہے مجھے عرت بوں سے۔۔۔یہ جا تیے ہونے تھی ڈیڈ
ہر جگہ اتنی من ماپی ک بوں کرنے ہیں۔۔۔۔"
ا تیے ایک یرانے یوکر( جسے چوری کرنے یکڑنے یر سکندر وال سے نکال دیا گنا تھا) کی منال د تیے
ہونے کنی جدسات میں ِگھر کر وہ زی ِر لب یڑیڑاپی نعد میں مہناز تنگم سے خڑ کر یولی،
"گاڈ۔۔۔تم کینا آگے کا سوچنی ہو سوپینی۔۔۔اتنا یو مجھے تھی نقین ہے کہ وہ ئمہارے ڈیڈ کے
کسی عزیز دوشت کا ہی پی نا ہے۔۔۔وہ انشا نہیں کروانے گا کجھ تھی۔۔۔"
نےیرواہ ایداز میں کہہ کر انہوں نے تھر ئمیر ڈایل کنا پینی کا،عندلیب کی قکر انہیں سنارہی تھی
کہ کہیں مس قاریہ سے نضد ہوکر وہ جلی ہی یہ جانے یرپ یر،
- 25 -
"تھنک ہے رہیں آپ لوگ یونہی الیرواہ تیے۔۔۔آنے دیں اس لڑکے کو یہ میں نے دو دن میں
اسے نہاں سے جلنا کنا یو میرا یام تھی قلذہ سکندر نہیں۔۔۔"
فون ریگ ہونے یر اتنی پی یٹ کی چ یب سے فون نکالنی وہ انہیں یڑخ کر کہنی نکلی تھی روم سے،
ُ
"ہاں یولو مطییہ۔۔ہاں آج ہے۔۔۔جلو تھنک ہے آجاؤ۔۔۔"
کاریڈور سے گزر کر فون یر یات کرپی وہ اتنی کزن کو یولی ساتھ ہی فون چ یب میں رکھی،ہر ایوار
سکندر وال میں پیروپی چصے کے جاتب تیے یلے گراؤیڈ میں وہ نہن تھاپی اور قلذہ کی کزیز یاسکٹ
یال کھنلیے تھے،آج تھی اسکی کزن چو کہ قلذہ کی نہیرین دوشت تھی تھی اسے ا تیے آنے کا
تنارہی تھی،
سکندر صاجب شہر کے یامور اور عزت دار یزنس تھے،یزنس سے زیادہ ایکی شہرت کی وخہ سکندر
صاجب کا نہیرین اجالق تھا،اتنی چوش ط نع اور شجاوت کے یاعث اکیر و پیسیر وہ ا تیے شہر اورفوتیچ
کے جکر لگانے ساتھ ہی وہاں چود سے جینا ہوسکے امداد کرنے،یزنس میں دن یدن یرفی کی کہیں
یہ کہیں وخہ یہ تھی تھی کہ انہیں عرت بوں سے لگاؤ نہت تھا،سکندر صاجب کی جار اوالدیں تھیں
دو پییے اور دو تییناں ،پییے ہیبم اور ہناد کی تندانش میں چند می بوں کا وقت تھا جس کے یاعث وہ
دویوں ایک دوسرے سے چنی االمکان مما یلت رکھیے،یر یہ ممالیت ضرف ایکی سکلوں میں تھی
- 26 -
ً
ک بویکہ قظریا دویوں ایک دوسرے سے یلکل محنلف تھے 21،سالہ ہیبم چہاں چوش اجالق اور
ً
عادت میں ا تیے یاپ یر گنا تھا وہی ہناد قظریا کافی معرور تھا،ان دویوں سے پین سال چھوپی قلذہ
18سال کی اتنی ماں مہناز ت نگم کی کاپی تھی چونصورت وہ یال کی تھی یر اسکی چونصورپی کو ضرف
ایک جیز ماید کرد تنی اور وہ تھی اس کے ایدر سروع سے تیینی اتنی چھوپی نہن عندلیب کے لیے
جشد اور معرورتت،دوسروں کو چویوں کی یوک یر رکھیے والی قلذہ اس یات یر نقین رکھنی تھی کہ
پیسوں سے ہر جیز خریدی جاسکنی ہے،عرت بوں سے سدید نفرت کرنے والی قلذہ ابجان تھی ا تیے
آنے والے کل سے کہ ع نفرتب ہی اسکے دل میں ایک عرتب ہی گھر کرنے واال تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"ہیبم اِ دھر۔۔۔"
ہناد تھاگنا ہوا پیز آواز میں یوال تھا جس یر ہیبم نے یال کو اسکی جاتب اچھاال،وہ لوگ دونہر میں
یلے گراؤیڈ میں یاسکٹ یال کھنل رہے تھے قلذہ اور اسکے یایا ایو کی دویوں تییناں یاذلی اور مطییہ
ایک تبم میں تھیں چنکہ دوسری جاتب ضرف ہیبم اور ہناد تھے لنکن یہ دویوں ہی ان پی بوں یر
تھاری یڑ رہے تھے،ہاتھ میں یال یکڑنے ہی ہناد کے سا میے یاذلی آپی،
"ئمہیں دیا یو ہناد ہار جانے گا۔۔۔اور ہناد کو ہاریا یلکل نسند نہیں یو نکلو نہلی فرصت میں۔۔۔"
اتنی یات کہیے ساتھ ہناد ہیسنا ہوا اسکے یرایر سے پیزی میں نکال ساتھ ہی اچھل کر یال یاسکٹ
میں ڈال دی،
اس انشان کو مطییہ کی شچی محیت نہیں دکھنی تھی ا تیے لیے،ک بوں وہ ابجان تھا اسکی ا تیے لیے
یالچواز چ بوپی محیت سے،اس لمچے مطییہ کو اگر کسی کے وچود سے سدت تھری نفرت ہوپی تھی یو
وہ یاذلی تھی،وہی یو تھی جس کے یاعث وہ مطییہ کو ایک نظر تھر کر تھی دیکھیے سے انکاری تھا
جاالیکہ انشا نہیں تھا کہ وہ چونصورت یہ ہو،جینی کسش یاذلی میں یہ تھی اتنی مطییہ میں تھی،وہ
واقعی اتنی جسین تھی کہ کسی کو تھی ا تیے جسن سے اپیر کرلینی یر تھر تھی ہیبم کے دل میں
لکی ن ہ ہ مجس
ل م
ا تیے قدم یاذلی نے ہی چمانے،یہ یات ھیے سے طییہ میشہ قاضر ر نی کن وہ یہ یات ل
ہی یاالنے طاق رکھ جکی تھی کہ ہیبم کو کبھی یاذلی کی صورت نے مرعوب نہیں کنا وہ یو سروع
- 29 -
سے اسکی تٹ ک ھٹ خرک بوں اور معصومیت کا دیوایہ تھا،ایک مرتیہ تھر کنی چنالوں کے زی ِر ایر
کڑھیے ہونے مطییہ اجایک کھنل چھوڑ کر ایدر جلی گنی تھی،
ی
"رکو میں د کھنی ہوں۔۔۔"
یاذلی کے ساتھ ساتھ قلذہ تھی جیران ہوپی تبھی یہ کہہ کر ایدر کی جاتب یڑھیے لگی،
یہ یات یاد آنے ہی قلذہ کے یایرات شخت ہونے غصے میں ہیبم کی نظروں کا نعاقب کیے وہ
ھ کس ی ب ت ت کی
سا میے د ھی ھی یر ھی چہرے یر نہرے شخت یایرات مچو تت کا یایر اجینار کرگیے،ا کی آ یں
ساکت ہوپی تھیں،
- 30 -
چھ قٹ سے نکلنا قد،کسرپی جسم کا مالک وہ انشان ت بوی یلو سرٹ اور یلنک پی یٹ میں سا میے کھڑا
م ن ت ک ی
قلذہ کے دل کی دتنا میں طالطم یریا کرگنا،آت بوس ریگ ساخر آ یں ،ھے قوش ،ھڑی عرور یاک
ک ن ک ھ
اور ہلکی موبجھوں یلے عناپی ل بوں کو مشکرانے دیکھ اسکا دل زور سے دھڑک کر رہ گنا کہ
نےاجینار قلذہ ایک قدم تیج ھے ہنی،ایک طلسم تھا مفایل کی شخضیت میں جس میں وہ چود کو یری
طرح جکڑنے مجسوس کررہی تھی،کنا کجھ نہیں سوجا تھا اس نے آنے والے کو سنانے کے لیے
یر مفایل کی یرسینلنی نے اسکے ل بوں کو ایک دوسرے میں ت بوشت کر کے رکھ دیا،گہرے
تھورے گھیے یال ہوا پیز ہونے کے یاعث کشادہ پیشاپی یر یکھرنے لگے چنہیں ا تیے ایک ہاتھ
سے تیجھے کریا وہ یرم مشکراہٹ چہرے یر شجانے آگے یڑھنا ہیبم کے یاس آیا،
"مایا کہ بجھلے ہفیے ہی ڈیڈ نے ہمارا فون یر رانطہ کروایا ہے یر میری یادداشت اتنی کمزور تھی
نہیں۔۔۔"
- 31 -
ہیس کر کہنا ہیبم گرم چوسی سے گلے لگا تھا ساپی کے،بجھلے ہفیے ہی سکندر صاجب نے شب کو
ا تیے ایک دوشت کے پییے ساپی کی آمد کا تنایا تھا جس یر گھر میں کسی کو کوپی جاص چوسی
نہیں ہوپی تھی سوانے ہیبم کے،وہ سکندر صاجب سے اس ہی دن ئمیر لنا تھا ساپی کا اور تھر
ایک ہفیے میں ہی دویوں کی اچھی جاضی دوسنی ہوجکی تھی،
"یو تم ہو ساپی۔۔۔!"
نےیایر لہچے میں کہیے واال یہ ہناد تھا جشکی آواز یر ساپی اسکی طرف م بوخہ ہویا مشکراکر اتنات میں
سرہالیا،ہیبم چو ا تیے تھاپی کا سرد لہچہ سمجھ چکا تھا جلدی سے ماچول ہلکا کرنے کے لیے چوش
اسلوپی سے یوال،
ی۔۔۔قلذہ۔۔میری نہن اور یہ۔۔۔" ِ "ساپی تھاپی یہ ہناد ہے میرا تھاپ
ی
یو لیے ہونے ہیبم رک ہی گنا جب اسکی نظر یاذلی یر یڑی چو اتنی آ کھیں تھنالنے نغور ساپی کو
ی
دیکھ رہی تھی،وہ تپ کر کھنکھارا تھا جس یر ہوش میں آپی یاذلی اسے د ھی یر ا لے ہی مچے
ل گ ک
"اب سے لگ تھگ ایک سال یک یہ ہمارے گھر میں رہیے والے ہیں۔۔۔ہیں یا ساپی
تھاپی۔۔۔"
جلد ہی اتنا موڈ تھنک کیے ہیبم یرچوسی سے کہنا ساپی کو دیکھا جس یر وہ مشکرایا اتھی ساپی کجھ
یول ہی رہا تھا کہ ہناد یوال،
- 33 -
یہ چنانے ہونے وہ طیزیہ مشکراہٹ اچھاال ساپی یر،اسکے لہچے میں عرور تھرا تھا جسے مجسوس کرنے
ت
ساپی کے عناپی ل بوں یر سے مشکراہٹ چند یل کے لیے ھمی تھی لنکن تھر مخصوص ایداز میں
مشکرانے وہ کہا،
"ضحیح کہہ رہے ہو۔۔۔ات نکسی میں رہوں گا۔۔۔یر ایک سال کے لیے نہیں یلکہ چند مہی بوں کے
لیے۔۔۔جیسے ہی نہاں مجھے مناشب قبمت میں قلیٹ مل جانے گا میں جال جاؤں گا۔۔۔"
اسے چواب دے کر ساپی ہیبم سے مجاطب ہوا،
"کنا تم مجھے اتنکسی دکھادو گے۔۔۔مجھے کسی مالزم نے تنایا تھا کہ تم نہاں ملوگے مجھے تبھی
ڈسیرب کردیا تم لوگوں کو آکر۔۔۔۔"
وہ جیسے جیسے ا تیے الفاظ ادا کررہا تھا قلذہ کی دھڑکییں اتنی ہی نےیرت یب ہونے لگی،انشا نہلے یو
کبھی نہیں ہوا تھا اسکے ساتھ،تھر ک بوں اس سایدار انشان کے آگے وہ ا تیے سییے میں عح یب
لے یر دھڑ کیے دل کو نےنس مجسوس کررہی تھی،
- 34 -
ہناد کی یات یر سر چھنکنا ہیبم چوش اجالفی سے کہیے ہونے ساپی کو لیے وہاں سے گنا،ہناد کی
سیحندہ آیکھوں میں یاگواری سی گھلی تھی ہیبم کو اس قدر اس عرتب لڑکے سے گھل مل کر یات
کرنے دیکھ،نےسک 22سالہ ساپی کی یرسینلنی مفایل کو منایر کر د تنی ل نکن نہاں ہناد نے
اسکی یرسینلنی کے بجانے سیییس دیکھا تھا،چنکہ قلذہ کا دل یکدم بجھا،وہ ایک مرتیہ تھی اسکے
جاتب نہیں دیکھا تھا کنا وہ انشا ہی نےتناز تھا یا اسے لگاؤ ہی یہ تھا لڑک بوں میں ک بویکہ اتنا یو وہ
تھی یوٹ کی تھی کہ اسکے ساتھ ساتھ وہ یاذلی کو تھی ایک نظر یہ دیکھا،مفایل کی یہ عادت اسکا
مفام اور یلند کر گنی قلذہ کے دل میں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 35 -
ایک نظر دیوار یر نسب گھڑی کو دیکھ وہ نےجاری سی سکل تنانے یولی ساتھ ہی لیٹ کر کمفریر
ت کم کھی
اوڑھیے لگی،مطییہ تپ کر آگے یڑھی اور چھنکے سے فریر نی یرایر یں کی،
ن یھ م حی
"آپی۔۔۔!"
ی
آ کھیں یل میں تم ہوپی ساتھ ہی لب آہسنگی سے تھڑتھڑانے،
"ہیبم کو یول د ت نا کہ اتنی جدود یہ تھولے۔۔۔ماما زیدہ نہیں ہیں یو کنا ہوا۔۔۔یایا یو ہیں یا۔۔۔یو
کم از کم ایکی عزت کا چنال کرلو۔۔۔جب اتنی عمر کو نہیچوگی تب دل تھر کر کرلینا اتنی اداؤں
سے شب کو مرعوب۔۔۔۔قلجال کے لیے چبم کرو یہ ڈرامہ تم دویوں۔۔۔"
یہ دونہر میں ہیبم کی یاذلی کے لیے کی گنی ع ناتت یر تھری تھڑاس ہی تھی چو وہ اب یلند آواز
میں اس یر ایار رہی تھی،ادھر یاذلی کی ہجکناں تندھی مطییہ کی یایوں کے زی ِر ایر،
"میں۔۔۔میں کجھ نہیں کہنی آپی۔۔۔و۔۔۔وہ چود میرے تیج ھے۔۔۔ا۔۔اور۔۔۔وہ نسند کر۔۔کریا
ہے کہنا ہے کہ جب میں یڑی ہوجاوں گی یو ش۔۔ساد۔۔"
- 37 -
"یکواس تند کرو۔۔۔"
یاذلی اور تھی کجھ یو لیے لگی تھی تبھی مطییہ یڑخ کر اسکی یات کاپی،کان اگلی یات سییے سے
انکاری تھے،اسے یوں لگا تھا جیسے اسکی روح ق نض ہونے کا یروایہ سنارہی ہے یاذلی،
مج س
"اب کوپی یکواس نہیں کروگی تم۔۔۔ ھی۔۔۔سراقت سے ا تیے
اس۔۔۔عا۔۔۔عاش۔۔۔عاسق کو کہہ د ت نا کہ اتنی یہ خرکییں تند کرے نہیں یو میں یایا کو کہہ
کر ئمہارا جاخی کے گھر جایا تند کروا دوں گی۔۔۔"
یاجا ہیے ہونے تھی مطییہ کا لہچہ کنکنانے لگا،دل میں اس قدر یرا درد اتھا کہ اسکا چہرہ سفند چہرہ
سرخ ہونے میں ایک یل لگا،انگلی اتھا کر یاذلی کو وارن کرپی وہ ا لیے پیر تیجھے ہوپی ساتھ ہی
چھنکے سے مڑ کر نکلی روم سے،اسکے جانے کے نعد یاذلی چو اتنی یڑی نہن کے اجایک ید لیے
ی
رونے سے ڈر کر رونے لگی تھی اب آنسو یوچھ کر لینی ساتھ ہی آ کھیں میچے سونے کی کوشش
کرنے لگی،سییے میں رکھا تبھا دل نہت چوفزدہ ہوا تھا مطییہ کے عح یب وجست تھرے لہچے یر،
ا تیے کمرے میں آنے ہی مطییہ نے داپیں ہاتھ میں چھنایا جافو زور سے تنڈ یر تھی نکا،گیٹ تند
پ
کر کے وہ تنڈ یر یبھی گہرے سانس تھرنے لگی،یاذلی کی یایوں سے اسکے سر میں سدت سے درد
- 38 -
ہونے لگا تھا،یو کنا وہ شچ میں یاذلی سے سادی کا چواہسم ند تھا اگر کو کبھی انشا ہوا یو مطییہ
چہایگیر چود کو جان سے مار ڈالے گی،ہاں وہ نہیں خی یانے گی ا تیے یڑے عم کے ساتھ،آخر کو
ہیبم سکندر اسکی محیت تھا وہ چ بون کی جد یک جاہنی تھی اسے تھر کیسے اتنی ہی نظروں کے
سا میے اسے کسی اور کا ہونے دیکھ لینی یر ہانے یہ زیدگی کے سبم کہ وہ کسی اور کوپی اور نہیں
یلکہ چود اس ہی کی چھوپی نہن تھی،ک بوں وہ انشان اسکی بچین کی جالص محیت سے عاقل
تھا،ک بوں اسے زرا یرایر اجشاس نہیں ہویایا تھا کہ کوپی اسکی یوخہ اور محیت کا تھوکا تھا وہی یوخہ
اور محیت چو اکیر و پیسیر ہیبم چہایگیر ا تیے لفظوں سے یاذلی یر بجھاور کریا،صیح کا واقعہ سوچے ایک
یار تھر مطییہ کے دل میں درد کی پیس اتھی،ایدر کی گھین یڑھیے لگی یو وہ اتھ کر جلدی سے
کھڑکی کے تٹ وا کی،اسکا دل جاہا چیخ کر رونے،ساری دتنا کو اعالن کرے کہ وہ کس قدر آگے
یڑھ جکی ہے ہیبم سکندر کی محیت میں یر وہ انشان اسکی نےلوث محیت سے ابجان اتنی دتنا میں
ی
چوش تھا،یہ سوچیے اسکی آ کھیں کب تھنگی مجسوس یہ ہوا مطییہ کو،تھراپی نظروں سے وہ تنڈ یر
ی
تھینکے گیے جافو کو د کھی تھی،کاش کہ وہ تھوڑی اور ہمت کرلینی،کاش۔۔۔،اگر کو آج چود میں
ہمت تندا کیے وہ یاذلی کو مار ڈالنی یو تھر اسکے اور ہیبم کے تیچ کوپی یہ ہویا،اس طرح کی نہت سی
وجست تھری سوجیں اسکے ذہن میں آنے لگی تھیں،
- 39 -
"اے جدا۔۔۔آپ یو ہر اجینار رکھیے ہیں یا۔۔۔یو یلیز میری یہ دعا سن لیں۔۔۔یاذلی ہٹ جانے
میرے را سیے سے۔۔۔کاش کہ وہ مرجانے کاش۔۔۔میں اسے چود نہیں مارسکنی۔۔۔یر وہ اگر
زیدہ رہی یو کبھی ہیبم میرا ہو تھی نہیں یانے گا۔۔۔وہ مرجانے میرے رب وہ مرجانے۔۔۔"
یکھرے جلیے میں ا تیے یال جکڑ کر یری طرح رونے وہ یآواز یڑیڑانے لگی،اسکے لہچے میں یڑیا د تیے
واال کرب تھا،اذ تت سے دوجار ہیبم کی جاہ میں دیوایہ وار یہ یددعا د تیے وہ تھول جکی تھی کہ
مفایل کوپی اور نہیں اس ہی کی سگی نہن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج اسکا پیسٹ کجھ جاص اچھا نہیں ہوا تھا،ہاسنل سے کجھ دور ایک یارک میں وہ اداس سی
پ
یبھی ا تیے پیسٹ کے یارے میں سوچ رہی تھیخب جب وہ یرنشان یا آپ سیٹ ہوپی تب اس
یارک میں آجاپی،اتھی تھی نہاں پیبھ کر وہ نہی سوچ رہی تھی کہ الشٹ اپیر تھا اسکا،پئیرز فرتب
تھے یر تناری یلکل نہیں،کرپی تھی کیسے وہ تناری یورا دھ نان یو ہر یل اس انشان یر لگا رہنا،ک بوں
تھا وہ انشا اتنا عح یب۔۔،شب سے الگ تھلگ رہیے واال،ضرف ایک پیناپی یہ ہونے سے کوپی
کیسے دتنا سے اتنی چوسبوں سے کنارہ کسی کرسکنا تھا،کبوں وہ اوروں کی طرح زیدگی جینا نہیں
ضرف گزاریا تھا،کون ہوگا جس نے اسکے ساتھ اتنا یرا کنا ہوگا،وہ یہ یات سوچ کر کافی جیرت میں
س
مینال تھی یر اس سے تھی زیادہ جیرت عندلیب کو یہ سوچ کر ہوپی کہ یاجانے لسینل اس
- 40 -
انشان کا کنا جسر کرے گا جب اسکی پیناپی وانس آجاپیں گی۔۔۔لنکن پیناپی آنے گی تھی
کیسے،گرتنی نے یو تنایا تھا کہ ڈاکیر نے جانسز کافی کم تناپیں ہیں یر تھر تھی وہ دعا گو تھی کہ
ک ی ن یلس س
ج
ل کی پیناپی لد وانس آجانے،اس سایدار انشان کو یوں نےنس د کھ اکیر وہ د ھی ہوجاپی،
انہیں سوچوں میں گھری عندلیب تب چویکی جب نظر کجھ دور رکھی دوسری پییچ یر یڑی،وچنہہ
چہرے یر ہمیشہ کی طرح تبھر یلے یایرات،کھڑی معرور یاک اور ایک دوسرے سے ت بوشت عناپی
لب،اسے دیکھیے ہی عندلیب کا بجھا چونصورت چہرہ یل میں کھال،وہ نہاں یر تھا یو عندلیب کو اب
کجھ اور سوچیے کی ضرورت ہی نہیں تھی،تھرپی سے اتھ کر وہ پیز قدم اتھاپی اس پییچ یر گنی جس
ی کی
یر پیبھا وہ یاجانے کونسی دتنا میں گم تھا،آت بوس ریگ آ یں میشہ کی طرح جالی د کھ عندلیب کو
ہ ھ
ایک یار تھر دکھ نے آلنا مگر جلد ہی چود کو کم بوز کرپی وہ چہکی،
"کیسے ہو۔۔؟"
پ س
یوچھ کر وہ پییچ یر لسینل کے یرایر میں کافی قاصلے یر یبھی،دوسری جاتب اسکی چونصورت دل
س
ی م م ل ل
ل کو دتنا کی شب سے یری آواز گی ،مچے یں فا ل کون یلس کو مسرور کرد تیے والی ُسریلی آواز
ن ت س
س ھ م
ل کے وچنہہ گر سناٹ چہرے یر یاگواری لی،کشادہ پیشاپی کن ن یلس اسکی آواز سے نہیجا تیے
آلود چنکہ عناپی لب تھیچے تھے،
- 41 -
"کیسے ہو۔۔۔؟"
مفایل کے سرد یرین یایرات دیکھ وہ ایک مرتیہ تھر یوچھی،
"تم سے مظلب۔۔؟"
وہی دل دھڑکا د تیے والی آواز مگر لبھ مار لہچہ ع ندلیب کو ایک یل کے لیے جپ کراگنا،
"میرے رب اگر میری ایک قظرہ کے ماتند تنکی تھی آپ کو اچھی لگی ہو۔۔۔یو اسکے یدلے
س
لسینل کی پیناپی وانس آجانے۔۔۔"
یہ دعا کرنے نےساجیہ اسکی سرمنی آیکھوں کے کنارے تھنگے تھے،ک بوں وہ انشان اسے اس
قدر عزیز ہوچکا تھا،ک بوں اسکے لیے وہ اتنی یاگل ہوجکی تھی،روز یہ سوال وہ ا تیے سفاف دل سے
کرپی یر چواب ہمیشہ کی طرح یدارد ہویا،
"آپی میں کیسے کروں گی۔۔۔آج کا سیحنکٹ یو کجھ جاص یاد تھی نہیں کریاپی۔۔۔"
نےجارگی سے یولنی یاذلی چوس کا گالس میہ سے لگاپی،
"لڑکی ت ییسن مت لو۔۔۔چود کو سیرنس دوگی یو یرنشاپی میں لکھ تھی نہیں یاؤ گی۔۔۔یلکل ریلنکس
رہو۔۔۔"
یریڈ یر چبم لگاکر اسے یکڑاپی وہ رسات یت سے کہہ کر مشکراپی ساتھ ہی اتنی جئیر سے اتھی ک بویکہ
چہایگیر صاجب آقس کے لیے تنار سیڑھ بوں سے ایر کر تیچے آرہے تھے،
- 44 -
"آہاں۔۔۔یہ بچہ۔۔۔۔۔یاشیہ نہیں۔۔آج لیٹ ہوگنا ہوں ام بورت یٹ میینگ ہے۔۔۔آپ دویوں
یاشیہ کر کے جاؤ یڑھیے۔۔۔اور ہاں یازو۔۔۔پئیر ا چھے سے کریا۔۔۔"
محیت سے کہیے وہ آخر میں یاذلی کے یاس آکر اسکی پیشاپی چومیے یرمی سے یولے جس یر وہ چہک
کر سر اتنات میں ہالپی،
"کوپی لیٹ نہیں ہورہے۔۔۔مالک ہیں آپ ورکر نہیں۔۔۔اور و نسے تھی یڑے یایا نے کونشا
غصہ ہوجایا ہے۔۔۔وہ جا تیے ہیں آپ ہمیشہ سے تنکچول رہے ہو۔۔۔نس آج ہی کجھ میٹ
لیٹ ہوگے۔۔۔اب جلدی سے پیبھیں نہاں۔۔۔"
چہایگیر صاجب کا یازو ا تیے دویوں ہاتھ میں تھام کر انہیں جئیر یر پیبھاپی مطییہ مسنفل یو لیے
آخر میں رکی جب نظر گھر داجلی دروازے یر کھڑے ہیبم یر یڑی،یراون پی یٹ یر واتٹ پی سرٹ
ساتھ ہی اس یر گرے ُہڈی نہیے وہ یاریک ل بوں یر چونصورت مشکراہٹ شجانے قدم یڑھاکر ان
لوگوں کے یاس آیا،اس کے ُیرکسش چہرے کے کھلے نقوش دیکھ مطییہ نےساجیہ نگاہ ت ھیرنے
یر مح بور ہوپی اس ڈر سے کہ کہیں چھنل ریگ آیکھوں میں امڈنے کنی چونصورت محیت کے ریگ
وہاں پیبھے نقوس کے سا میے آسکار یہ ہوجانے،صیح صیح اس شخص کو نہاں دیکھ اس کا دل
نےجد مسرور ہوا تھا،
- 45 -
"آ تیے یرچوردار۔۔۔؟"
اسے دیکھ کر چہایگیر صاجب چوش یاش سے کہیے اسارہ کیے جئیر کی جاتب،واصع تھا کہ وہ اسے
یا سیے یر مدعو کررہے ہیں،انہیں ہیبم کو وہاں دیکھ جیرت نہیں ہوپی کبویکہ اکیر وہ کسی یہ کسی
نہانے چہایگیر ہاؤس آیا رہنا،
"نہیں جاچو آج نہیں۔۔۔تھر کبھی۔۔۔میں یو نس یوپی کے لیے نکل رہا تھا یو سوجا نہاں کا تھی
جکر لگانے جاؤں۔۔۔"
ایک نظر سر چھکاپی یاذلی یر ڈا لیے وہ مشکراکر شہولت سے انکار کنا،
"لیٹ۔۔۔یو۔۔۔ہورہی ہوں۔۔۔یر۔۔"
- 46 -
یاذلی کو کل رات والی مطییہ کی ڈاتٹ یاد آپی یو اسے ایک چور نظر دیکھ کر ہلکی آواز میں یولی،
"یو جلو۔۔۔میں یوپی جارہا ہوں۔۔۔ئمہیں تھی کالج ڈراپ کردوں گا۔۔۔"
وہ یو جیسے می نظر تھا اس چملے کا تبھی چ ھٹ سے یوال،
"یو جلیں۔۔۔"
اسکی جاموسی یر ہیبم چوسی سے یوال اب یو چہایگیر صاجب نے تھی اجازت دے دی تھی،یاذلی
آہسنگی سے اتنات میں سر ہالپی جئیر کھسکا کر اتھی ساتھ ہی یرایر رکھی جئیر یر سے اتنا تنگ
اتھایا،
- 47 -
"مطییہ۔۔۔آپ نے تھی جایا ہے یا یوپی۔۔۔"
اجایک چہایگیر صاجب نے یا سیے سے ہاتھ روک کر کہا جس یر مطییہ کی نظریں ہیبم کے جاتب
اتھیں،اسکی مشکراہٹ عاتب ہوپی تھی چہایگیر صاجب کی اس یات یر تبھی چہرے یر یدمزگی
النے وہ یاذلی کو دیکھیے لگا،
"چھوڑو یاذلی۔۔۔اگر وہ نہیں جایا جاہ رہی یو ہم صد تھوڑی کرسکیے ہیں۔۔۔اسکا موڈ نہیں
ہوگا۔۔۔جلو ئمہیں ڈراپ کرد ت نا ہوں۔۔۔دیر ہوجانے گی وریہ۔۔۔"
یاذلی چو خزیز کا سکار کچن میں جاپی مطییہ کو یول رہی تھی یکدم اسکی یات کاتنا ہیبم چہایگیر
صاجب کا لجاظ کر کے مشکرایا آخر میں اسے دیکھ کر داتت پیسے یوال،تھر جلدی سے چہایگیر
صاجب سے اجازت لینا یاذلی کے ساتھ یاہر آیا،
- 48 -
"پیبھیں منڈم۔۔۔"
مشکراکر کار کا گیٹ کھولے وہ ادب سے تھوڑا چھک کر یو لیے کی ایکینگ کنا جس یر کھلکھالپی
ت م ب یپ ب یپ
یاذلی فرتٹ سیٹ یر ھی،یاذلی کے ھیے ہی وہ گیٹ تند کیے چوسی سے یالوں یں ہاتھ ھیریا
دوسرے جاتب آیا گیٹ کھول کر پیبھا،یہ م نظر کچن کی کھڑکی(چو کہ یورچ کے جاتب کھلنی)
سے مطییہ نے جلنی آیکھوں سے دیکھا،اس وقت جس قدر تھاتبھڑ اسکے ایدر جل رہے تھے اسکا
سدت سے دل جاہا کہ ان سے یاذلی چہایگیر کو جالکر رکھ دے،ک بوں وہ اس سے چھوپی ہونے یر
تھی مفایل کی محیت کی نہلی چفدار تنی تھی،ک بوں اس کی یاک نےلوث محیت یکظرفہ ہی رہ گنی
ن ً
تھی اور قینا اس کی یہ محیت ظرفہ ہی ر نی ھی جس یں م کندر ا نی ع ناتت کے چند کے
س ت س ب یہ م ت ہ کی
تھی نہیں ڈا لیے واال تھا،اقفف۔۔۔۔،کس قدر نےنس تھی وہ،جاہ کر تھی ا تیے جذیات مفایل یر
آسکار نہیں کرسکنی تھی،آنسو کب چھنل سی آیکھوں سے یوٹ کر رجشار یر تھشلے وہ اتنی اذ ت بوں
کے یدولت مجسوس ہی یہ کرسکی،یورچ یر کار سنارٹ ہونے کی آواز سے اسکا مچور یویا،چہایگیر
صاجب تھی اب جارہے تھے،ایکی کار کو جایا دیکھ وہ یلٹ کر کچن سے نکلی،
ُمردہ قدموں سے ا تیے کمرے میں داجل ہوپی وہ وارڈروب کے جاتب یڑھی،ایک مرتیہ تھر ا تیے
یڑ تیے کرب تھرے جذیایوں کو لفظوں کے یام د تیے،جاپی سے الک ہوپی ڈرار کھول کر اس
- 49 -
نے اتنی ڈایری نکالی،ایک سفاف موپی یوٹ کر اس ڈایری یر گرا،وہ دویوں کار میں ایک ساتھ
ہوں گے اتھی،یہ سوچ آنے ہی وہ نےساجیہ ششکی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"ہیبم۔۔۔!"
ایک لفظی اسکا یام لینی وہ جپ ہوپی،اسے سمجھ یہ آیا کہ ہیبم کو وہ یات تنانے یا نہیں۔۔،یر
مطییہ کی وارتنگ چو اسے واضح الفاظوں میں ہیبم کو کہیے کا یولی تھی یہ سوچ کر وہ کہیے لگی،
"آپ۔۔۔آ۔۔۔کنا ہوجانے گا اگر آپ میرے لیے ا تیے جذیایوں کا اظہار شب کے سا میے کھل
کر یہ کریں یو۔۔۔"
نہت ہمت محبمع کر کے وہ یہ یات ایک ہی سانس میں پیزی سے یولی یو ہیبم جیرت تھری
نظروں سے اس کو دیکھا،
"ک بوں یہ کروں میں ا تیے جذیایوں کا اظہار تم یر۔۔۔یاگل محیت کریا ہوں تم سے۔۔۔اور و نسے
تھی میرے دل میں ئمہارے لیے جذیات سے سبھی واقف ہیں۔۔۔"
روڈ یر نظریں چمانے وہ رسات یت سے یو لیے ہونے یاذلی کے گال سرخ ہونے یر مح بور کرگنا،اسکی
نےیاک یات سے ئمبمایا چہرہ موڑے وہ ل بوں یر سرمگیں مشکراہٹ شجاپی تھی تھر تبھی کجھ سوچ
کر اس کے ل بوں سے تھشال،
"کنا۔۔۔"
گہری جاموسی کے نعد اس نے اچھییے سے یوچھا،
"نہلے یو مجھے یہ ت ناؤ کہ تم ہو کینی چھوپی۔۔۔سیرہ کی ہو۔۔۔دو پین سال نعد اپیس پیس کی
ہوجاو گی۔۔۔یو اس میں اتنی تھی بچی نہیں ہو۔۔۔اور چہاں یک یات ہے مطییہ کے غصہ
- 52 -
ہونے کی یو اس سے میں چود ہی یات کرلوں گا۔۔۔کنا اچھا لگنا ہے کنا نہیں قلجال تم یہ یہ
ہی سوچو یو نہیر ہے۔۔۔اور کنا یرا لگنا ہے۔۔۔کونسی ولگر خرکت کی ہے میں نے شب کے
سا میے چو یہ یات کی اس نے تم سے۔۔۔"
ہیبم کا سدید چون کھوال تھا یاذلی کے یوں یو لیے یر تبھی دھبمے لہچے میں اسے چھڑکنا وہ تپ کر
یہ ت ی کی
اسنفشار کرنے لگا،اسکے یوں چھڑ کیے یر یاذلی کی آ یں ل یں ڈیڈیا یں یں اور م کے ایدر
ب ھ پ م ھ
امڈیا سارا غصہ چھاگ کی طرح پیبھا،
"یاذلی سوری۔۔۔"
اسکی یاراصگی یر نےجین ہویا ہیبم نسبمان لہچے میں یوال،اسے مطییہ یر نہت غصہ آرہا تھا جس
کے یاعث وہ یاذلی کو ڈاتٹ گنا،آخر کیسے وہ اتنی م ن ِ
اع جاں کو ڈاتٹ سکنا تھا،اس قدر غصہ
- 53 -
کیسے آگنا تھا اسے وہ چود یہ جان یایا،ساید وخہ ہی نہی تھی کہ یاذلی نے اسکے یرم جذیایوں کے اکیر
و پیسیر کیے جانے والے اظہار کو یرا کہا تھا،
سے نکلنا صوقے یر سے اتنی پی سرٹ اتھا کر نہن ِا،قلذہ چو مفایل کے شجر میں کھوپی تھی یکدم
چویکی جب وہ چنکی بجایا اسکے آگے،
"ہا۔۔ہاں وہ میں نے ئمہیں اتھی یاہر سے آنے دیکھا۔۔۔کنا تم ِچم گیے تھے۔۔۔"
- 55 -
چود کو کم بوز کرپی وہ کھلے لہلہانے یالوں کو کان کے تیج ھے کرکے یوچھی،مفایل کے سا میے چودبچود
ل بوں یر مشکراہٹ یکھرے جارہی تھی،یدئمیز لہچہ یو کہیں کھو ہی گنا تھا وہ نہت سانسنگی سے
یات کررہی تھی ساپی سے،
"خی۔۔۔"
مح نصر چواب دیا تھا اس نے،لڑک بوں سے زیادہ یات ہی یہ کریا تھا وہ،اور اگر کبھی انشا انفاق ہویا
تھی یو نہاتت مح نصر چملے ہونے اسکے،
"نہیں۔۔۔۔انکل نے مجھے نہاں یر رہیے کے لیے جگہ دی۔۔۔یہ ہی نہت ہے۔۔۔میں اتنی
ذات سے کسی کو یرنشان کریا نہیں جاہوں گا۔۔۔"
- 56 -
شہولت سے اسے انکار کریا وہ دویوں یازو سییے یر یایدھا،اسارہ صاف تھا قلذہ کے لیے کہ اور
کجھ۔۔۔،یازو فولڈ کرنے یر ان یر اتھرپی رگوں کو دیکھ قلذہ یلک چھنکیے یر مح بور ہوپی تھی،
دوسری جاتب ِقلذہ کو اب مفایل کے لہچے میں یاگواری مجسوس ہونے لگی تبھی مشکراکر سر
اتنات میں ہالپی یولی،
"تھر تھنک ہے۔۔۔رات کے ڈیر یر میں ئمہیں سکندر وال مدعو کرپی ہوں۔۔۔امند ہے کہ تم اس
کے لیے کم از کم انکار یہ کرو۔۔۔"
ی
ُیرسوق نظروں سے اسکے تنکھے نقوش کو د نی وہ آس سے یو ھی جس یر ساپی نے زیرد نی ل بوں
س چ ھ ک
"نہیں۔۔۔"
ہمیشہ کی طرح سرد لہچہ،ع ندلیب گہرا سانس تھرپی ایدر داجل ہوپی،
- 59 -
"کجھ یات کرپی تھی۔۔۔؟"
س
وہ اس یار آہسنگی سے یوچھی یو لسینل ہاتھ روک کر یلنا،اسکی جالی آیکھوں کو دیکھ عندلیب کے
دل میں ہمیشہ کی طرح ایک ِپیس سی اتھی جسے ایدر دیاپی وہ چود کو کم بوز کیے یولی،
"ہا۔۔۔ہاں۔۔ہاں۔۔۔ہوپی ہے۔۔۔"
جلدی سے چود کی چوسی سے چھومنی دھڑک بوں یر قایو یاپی وہ مشکرانے ہونے یولی،
- 60 -
"یو تھر ہر ہفیے میہ اتھاکر نہاں ک بوں آجاپی ہو۔۔۔"
س
اور اس یات یر عندلیب کی ساری چوسی یل میں دفن ہوپی،اسکا میہ ل نکا تھا،تپ کر لسینل
کے یاگوار یایرات دیکھ وہ یولی،
"گرتنی سے ملیے آپی ہوں۔۔۔وریہ مج ھے کوپی سوق تھوڑی ہے اتنی یڑھاپی خراب کرنے کا۔۔۔"
س
اسکے یوں یو لیے یر لسینل طیزیہ ایداز میں مشکرایا،
"ان شب یایوں کو چھوڑو یہ ت ناؤ کہ کل اگر ڈاکیر نے کہہ دیا کہ ئمہاری پیناپی جلد وانس آجانے
گی۔۔۔یو تھر ئمہاری کوپی انسی ِوش ہوگی چو تم شب سے نہلے یوری کریا جاہو گے۔۔۔"
- 61 -
یات یدلنی وہ مزے سے یوچھی،نہلی یار مفایل اسے اتنی اہمیت دے رہا تھا کہ اس سے کم از
کم چند ہی دیر یر یات یو کنا تھا اور یہ یات عندلیب کے لیے کسی چوسی سے کم تھوڑی تھی،
ِ"وش۔۔۔"
اسکے یاریک یراسے لب تھڑتھڑانے تھے،ماضی کے دردیاک مناطر ذہن میں گھومیے اسکی پیشاپی
ھ ت ُ
کی رگیں ھوال گیے،جیڑیں نےساجیہ یچے ھے
ت ت
"میری ِوش نہی ہے کہ نس میری پیناپی وانس آجانے۔۔۔تھر اسکے نعد میں ان لوگوں کو
نےبجاشہ یڑیاوں گا چنہوں نے مجھے یڑیانے ہونے ایک لمچے تھی رچم یہ کھایا۔۔۔۔"
ی م ل ن یلس ک س
ل کے ہچے یں اس قدر تھنڈا یایر سفاکیت لیے تھا کہ عندلیب ایک ل کو یہ یات ہیے
چھرچھری لییے یر محبور ہوپی،ایدھے ہونے کے یاوچود اس انشان کی شخضیت انسی تھی کہ مفایل
- 62 -
یات کرنے سے نہلے کنی مرتیہ سوچے،یاجانے جب اسکی پیناپی تھی تب وہ کیشا ہویا ہوگا،یہ
سوچ ہمیشہ کی طرح اب تھی عندلیب کے دماغ میں آپی جسے وہ جلد ہی چھنکی،
- 63 -
"ک بوں۔۔۔اتھی یو آپی ہوں۔۔۔"
اجایک اسکے وچنہہ چہرے یر اذ ت ییں رقم دیکھ وہ جیرت سے یوچھی،
- 64 -
"یاذلی۔۔"
پ
وہ دونہر کو ا تیے کمرے میں یبھی اگلے پئیر کی تناری کررہی تھی چبھی مطییہ ایدر داجل ہوپی
اسے نکاری،
"خی آپی۔۔"
کی
مطییہ کے ت نفر تھرے یایرات وہ سوالیہ نظروں سے د ھی،
"سوری۔۔۔"
یاجا ہیے ہونے تھی یاذلی کے لب مشکرانے اسکے یوں یو لیے یر،
"کل صیح آپ جب مجھے کالج کے لیے یک کرنے آ پیں گے یو شب سے نہلے میرے لیے میری
ق بورٹ ڈھیر ساری جاکلییس لے کرآ پیں گے۔۔۔تھر سوچوں گی میں کہ آپ کو معاف کنا
جاسکنا ہے یا نہیں۔۔۔"
یزاکت تھرے لہچے میں کہنی وہ ہیبم کو ہیسیے یر مح بور کی تھی،
"فون دو۔۔۔"
یاذلی چو اسکے آنے یر چویکی تھی اجایک مطییہ کے ہاتھ یڑھا کر ضنط سے یو لیے یر جیران ہوپی،
- 67 -
"یر آپی۔۔۔"
ک ُ
ادھر یاذلی اداس ہوپی تھی،یڑھاپی سے یکدم دل اجاٹ ہوا،کنا یں یرایر یں ر نی تنڈ سے تنک
ھ م پ
لگانے مطییہ کے رونے کا سوچیے لگی،یہ نہیں تھا کہ مطییہ اس سے محیت نہیں
کرپی۔۔،مطییہ کی چود کے لیے کئیر دیکھ وہ ا چھے سے جاتنی تھی کہ اسکے ماں کے جانے کے نعد
- 68 -
ایک مطییہ ہی ہے چو اس کا چ نال چہایگیر صاجب سے تھی زیادہ رکھنی تھی مگر کبھی کبھی اسکا
رویہ یاذلی سے اس قدر یرا ہوجایا کہ یاذلی الجھ کر رہ جاپی،اتھی تھی اسکی آیکھوں میں ا تیے لیے
نفرت دیکھ یاذلی ہمیشہ کی طرح چوفزدہ ہوپی تھی،نےساجیہ اسے رویا آیا،اس معصوم کا چھویا دماغ
ھ کی ت ن س مجس
م
اس یات کو ھیے سے عاری تھا کہ اس کی گی ہن جس یں یاذلی اکیر ا نی ماں کو د نی وہ
نہن اس سے جشد کا سکار ہوجکی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کنا کہا ہے ڈاکیر نے۔۔۔؟"
وہ یاہر پییچ یر اسینک ہاتھ میں تھامے پیبھا تھا،کجھ دیر نہلے ہی چنک اپ کرواکر وہ ایدر سے نکال
تھا،چبھی عندلیب چو ایدر ڈاکیر سے یات کررہی تھی اسکے نکلیے یر قدموں کی آہٹ تھاپینا یوچھا،
س
لسینل کے سوال یر عندلیب نے مایوس نظروں سے اسکی آت بوس ریگ جالی آیکھوں کو دیکھا تھر
ٰ
چنی االمکان لہچے کو یارمل رکھ کر یولی،
- 69 -
"چھوٹ مت یولو۔۔۔"
یاوچود کوشش عندلیب کا لڑکھڑایا لہچہ اسے یاور کراگنا تھا کہ مفایل کھڑی لڑکی اسے چھوپی امند
دالرہی تھی،تبھی شحنی سے اسکی یات کایا تھا وہ،
- 70 -
تبھی چھ نکے سے اتھنا وہ اسینک کے شہارے وہاں سے نکلیے لگا،عندلیب اسکے تیجھے پیز قدموں
سمیت گنی،یاہر آکر اسے بجانے کار میں پیبھیے کہ یونہی تندل جانے دیکھ وہ یرنشان ہوپی،
کے یلکل فرتب سے ہوپی نس گزری،کجھ دیر یو ع ندلیب سکیے کے عالم میں زمین کو گھورپی
رہی،تھر زرا سیبھلیے یر نظر اتھاکر دیکھا،وہ سا میے سرخ چہرہ لیے کھڑا تھا،جیسے یہ مداجلت اسکے
غضب کو ہوا دے گنی ہو،
- 71 -
عندلیب جلق کے یل جالپی تھی،کیشا تھا وہ انشان چود موت کے فرتب جارہا تھا،اگر کو اسے
اتھی کجھ ہوجایا یو۔۔۔،یہ سوچ عندلیب کو اذ ت بوں میں چھویکی تھی،آنسو پیزپیں لڑھکے تھے اسکے
س
ی
ل نکا ک دہاڑا، ن یلس سرخ عارض یر،چنکہ اسکی آواز سینا
"ہاں ہوں میں یاگل۔۔۔ہوں یاگل۔۔۔یر تم۔۔تم کون ہوپی ہو مج ھے بجانے والی۔۔۔۔ئمہاری
ہمت کیسے ہوپی میرے کام میں مداجلت کرنے کی۔۔۔"
اسکی دہاڑ یر آنے جانے لوگ م بوخہ ہونے لگے تھے ان دویوں کی جاتب،
"واقعی۔۔۔ئمہیں کہاں یرواہ ہے کسی کی۔۔۔تم یو ایک نےجس جذیات سے عاری انشان
ہو۔۔۔ جسے زرا فرق نہیں یڑیا کہ کون کون یڑت نا ہے اسکے لیے۔۔۔ئمہیں یرواہ ہے یو نس
اتنی۔۔۔کہ تم تھنک رہو۔۔۔ئمہاری پیناپی آجانے اور اگر پیناپی یہ آنے یو جلو۔۔۔مرنے جلیے
ہیں۔۔۔ا نسے تھر آزادی مل جانے گی ئمہیں ہر نکل نف سے۔۔۔ہے یاں۔۔۔نہی سوچیے ہو یاں
تم۔۔۔"
س
عندلیب کے مسنفل چیحیے یر آس یاس کھڑے ان دویوں کے مکا لمے کو ھیے کی کوشش
مج
کرنے لوگ یرنشان ہونے تھے،چنکہ ششلینل اب ل بوں کو ایک دوسرے میں شحنی سے تھیچے
کھڑا تھا،
"یر تم جا تیے ہو۔۔۔یوں مر کر اتنا دامن بجانے سے تم یری الزمہ نہیں ہوسکیے۔۔۔ا نسے ضرف
تم ایک یزدل انشان نصور کیے جاؤں گے۔۔۔چو جاالت سے گ ھیراکر مرنے کو فوق یت د ت نا میہ
خراگنا۔۔۔"
- 73 -
س
اور اس یات یر لسینل کی کشادہ پیشاپی سکبوں کے جال سے تھری،
ی
عندلیب ساکت سی نظروں سے اسکے تھاری ہاتھوں میں چھنا اتنی یازک ہاتھ د کھی تھی،وہ چود
ً
اسکا ہاتھ تھاما تھا،مفایل کی اس عناتت یر عندلیب کا دل زور سے دھڑک کر رہ گنا،معا
ن ی لس یکھ س
ل کو ئمبمانے گالوں سمیت وہ ایک نظر جاروں طرف کھڑے لوگوں کو چور نظر سے د نی
لیے وہاں سے نکلی،کار کے فرتب آنے یک وہ شحنی سے اسکا ہاتھ تھامے رکھا تھا،عندلیب ئمسکل
س
دل کی مییسر ہوپی دھڑک بوں یر قایو یاپی اسے کار میں پیبھاپی تھی،تبھی لسینل اسکا یازک ہاتھ
- 74 -
چھوڑا،مفایل کی شخت گرقت میں رہیے کے یاعث عندلیب کو اتنا سرخ ہویا ہاتھ اکڑیا مجسوس
س س
ہوا،دور تھینکی گنی لسینل کی اسینک کو وہ ساتھ ہی اتھاالپی تھی،آج اسے لسینل کے لہچے
ت س
ل کا ن یلس یر چو دکھ نہیجا تھا اسی کے ساتھ ساتھ ایک چوسی تھی ہوپی تھی،اور وہ چوسی ھی
اسکے ہاتھ کو یکڑ کر وہاں سے لے جانے کا کہنا،اتنا یو اسے نقین ہوگنا تھا کہ مفایل تبھر دکھیے
والے شخص کو عندلیب یر تھروشہ ہونے لگا ہے،تبھی وہ اب ابجانے میں اس یر یہ واضح
کرنے لگا تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ڈیر کے لیے وہ سکندر ہاؤس میں آیا تھا،قلذہ کے یو لیے یر اس کا کوپی ارادہ نہیں تھا
نہاں آنے کا یر سام کو سکندر صاجب نے جب اسے کال کر کے یالخصوص مدعو کنا تب وہ
انہیں انکار یہ کرسکا،سکندر صاجب اور ہیبم نے اسکا یرتناک اسنفنال کنا تھا،یر ہناد کے یایرات
ہ بوز سرد تھے،الییہ اسکی یرسینلنی تھاپینی مہناز تنگم تھی کافی جد یک م نایر ہوپی تھیں ساپی
سے،قلذہ کی زیاپی اسکی نعرنقوں کے یل سن کر اب انہیں اجشاس ہوا تھا کہ ایکی معرور یہ
خڑھی پینی کو آخر کیسے ایک عرتب لڑکا اتنا تھایا تھا،اسکے آنے یر قلذہ تھی ا تیے منک اپ کو
آخری بچ د تنی تیچے آپی تھی،جئیز کا ڈ تبم لناس نہیے یالوں کو یوپی میں مفند کیے وہ التٹ سے
منک اپ میں نہت چونصورت لگ رہی تھی،نضاد ل بوں یر یکھری مشکراہٹ نے اصافہ کنا تھا
- 75 -
چونصورپی میں مگر اسکی یہ چونصورت مشکراہٹ ماید یڑی جب ساپی نے ایک نظر تھی اسکی طرف
یہ دیکھا،
"خی یلکل۔۔۔"
یرم لہچے میں دیا گنا مح نصر چواب تھ ِا،قلذہ کی نےیاب نظریں اب یک مفایل کو اتنی طرف م بوخہ
کرنے کے لیے مجل رہی تھیں،
"یو تم انشا ک بوں نہیں کرنے کہ۔۔۔یڑھاپی کے ساتھ ساتھ میرے یزنس میں تھوڑا ہاتھ
تنادو۔۔۔یوں ئمہیں تھوڑا بجریہ تھی ہوجانے گا۔۔۔اور چہاں یک مجھے معلوم ہے۔۔۔اتنی ذہاتت
کے یدولت تم جلد ہی ہمارے آقس میں ایک ا چھے عہدے یر تھی نہیچ جاؤ گے۔۔۔"
- 76 -
سکندر صاجب کی رسات یت سے کہی گنی اس یات یر چہاں ساپی چونکا وہی ہناد کا چمچ جالیا ہاتھ رکا
وت سماعت ان دویوں کی یایوں یر مرکوز ہوپیں،
تھا،ف ِ
ٰ
"میں مزید اور اجشان نہیں جاہنا چود یر۔۔۔نہلے ہی آپ نے کافی اعلی طرفی کا مظاہرہ کنا ہے
مجھے نہاں جگہ دے کر۔۔۔"
یاسیت سے مشکرایا وہ ڈ ھکے چھیے لفظوں میں انکار کرنے لگا،سکندر صاجب مشکرانے تھے،
"یر میں نہیں سمجھنا کہ میں نے کوپی اجشان کنا تم یر۔۔۔یہ ئمہاری قایلیت اور کرپیر ت نانے کی
ن ً
جسیچو تھی جس کی یدولت تم نہاں ہو۔۔۔اور قینا ایک دن ہت ا ھے مفام یر ھی ہوگے۔۔۔"
ت چ ن
وہ اسکے انکار کو سمجھ جکے تھے تبھی اسکی چودداری یر سنانسی نظروں سے ساپی کو دیکھیے گویا
ہونے،ہناد کی سرد نظریں اتھ کر ساپی یر مرکوز ہوپیں ،تیے جیڑوں سمیت وہ اسے گھورا تھا،
"یہ یات یو شچ کہی یایا۔۔۔ساپی تھاپی ہیں نہت قایل اور منایر کن۔۔۔ہے یاں ماما۔۔"
ہیبم نے تھی گفنگو میں چ ّصہ لنا تھا ساتھ ہی یات کے آخر میں مہناز تنگم سے یاتند جاہی جس یر
انہوں نے ایک گھوری اسے یوازی،اس میں کوپی سک نہیں تھا کہ ساپی کی شخضیت نے
انہیں منایر کنا ہو یر وہ جلد کسی کی نعرنف کرنے والوں میں سے نہیں تھیں،
- 77 -
"سنلنڈ کی یلیٹ دو گے مجھے۔۔۔"
نسواپی لہچے کا مجاطب ساپی تھا،وہ جب سے اب دیکھا تھا ڈاتیینگ پینل یر ا تیے یلکل سا میے
پ
یبھی قلذہ کو تھر مشکراکر اتنات میں سر ہالیا ا تیے فرتب رکھی یلیٹ اتھا کر اسکے جاتب
ن ش ن ً
یڑھاپی،قلذہ کے ایدر یک سکون سراتت کرگنا تھا،وہ اسے دیکھ کر م کرایا یو قینا مظلب ہی تھا
کہ قلذہ کا جسن اس یر تھی اتنا کام کرنے لگا ہے،تبھی اتنی مشکراہٹ ل بوں یر کجلنی وہ ایک
س
تھریور نظر لسینل یر ڈالی تھی،
ڈیر چبم ہونے کے کجھ دیر یک سکندر صاجب سے یات کرنے کے نعد وہ وہاں سے ان کی
اجازت لینا نکال اور وانس اتنکسی میں آیا تھا،کیڑے جییج کرنے کے نعد وہ کال یر کجھ دیر یک
مراد صاجب سے اور تھر گرتنی سے یات کنا تھا،ا تیے لیے گرتنی کی قکر مندی سینا وہ ایکی یایوں
م
یر یار یار مشکراد ت نا،تھر انہیں یورے دن کی روپین تناکر طمین کریا فون رکھا،ساتھ ہی کناپیں
لے کر تنڈ یر پیبھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
ً
"اور ئمہیں تنا ہے وہ مجھے دیکھ کر جب مشکرایا۔۔۔میں سمجھ گنی یار کہ نقینا میرے جسن کا ہی
جادو ہے چو اس جیسے سایدار شخص کو تھی گھایل کرگنا۔۔۔"
- 78 -
فون کان سے لگانے کھڑکی کے سا میے کھڑی وہ جب سے کال یر ِقلذہ کی یاپیں نےدلی سے
سن رہی تھی،
ایدر ہی کہیں اس کا ضمیر دہاپی دیا تھا کہ مفایل اسکی چھوپی نہن ہے مگر اتنی چ بوپی محیت کے
ن
آگے ایدھی ہوپی وہ کجھ ہی دیر میں یاذلی کے روم میں ہیچی،گیٹ یاک کرنے ہونے اجایک ڈر
نے اس کے یورے وچود کو گ ھیرا تھا،یل میں چوف اس قدر ہوا کہ گیٹ یاک کریا ہاتھ کاتپ کر
رہ گنا،ئمسکل ایدر امڈنے ڈر یر قایو یاپی وہ دو یار یاک کے نعد گیٹ کھولنی ایدر داجل ہوپی،
"یہ۔۔۔یہ۔۔۔پی لو۔۔۔"
- 80 -
ل بوں یر زیان ت ھیرپی وہ لڑکھڑانے لہچے میں یولی جس یر یاذلی نے مشکرانے ہونے دودھ کا گالس
تھاما،
"آپی۔۔؟"
اس نے تھوڑا یلند آواز میں نکارا کہ مطییہ یوکھالکر یاذلی کے جاتب م بوخہ ہوپی،
- 81 -
"ہاں۔۔۔"
وہ جیسے اب یک اتنی کی گنی کارواپی یر نےنقین تھی،
"آپی رکیں۔۔۔"
ی
وہ چو نہاں سے قلجال کہیں نہت دور جلی جایا جاہنی تھی یاذلی کے نکار یر آ کھیں میچی تھر
ی
چہرے کے یایرات یارمل کیے اسکی طرف د کھی،
- 82 -
"تم لی بو میں آپی ہوں تھوڑی دیر میں۔۔۔"
اتنی یات یر یاذلی کا معصوم چہرہ ِکھلیے دیکھ وہ ئمسکل مشکرانے ہونے یلنی،
ِسنک میں دودھ تھینک کر وہ سندھا روم میں آپی،چود کو آ پییے میں نےنقینی سے د یکھے وہ
مشلشل نہی سوچ رہی تھی کہ آخر کس جد یک یاگل ہوجکی ہے وہ محیت میں،ک بوں ایک
ُ
ی
الجاصل شخص کے لیے اتنی نہن کو مارنے یر لی ہے،اس نہن کو جسے اس کے جذیایوں کی
جیر یک نہیں،
ن ً ی
ایدر داجل ہونے یر اس نے دیکھا کہ یاذلی آ یں تند کیے تنڈ یر نی ہے ،قینا وہ اب جلد
یل ھ ک
سونے والی تھی،مطییہ تنڈ یر اس کے یرایر میں جاکر پیبھ گنی تھر ہاتھ میں تھامی ڈایری کو
م
یاسیت سے دیکھ کر کھولی،ایک نظر یاذلی یر ڈال کر جب وہ طمین ہوپی تب صفجات کے تیچ
میں رکھا پین ہاتھ میں لے کر ایک مرتیہ تھر اتنی زیدگی کے اذ تت تھرے لمجات کے ساتھ جب
- 83 -
جب اس نے یاذلی کو مارنے کی کوشش کی ان سبھی یلوں کو سظروں کی سکل میں لکھیے
لگی،اتنی یکظرفہ محیت کی اذ تت لکھیے ہمیشہ کی طرح آنسو یوٹ کر یلکوں کی یاڑ یوڑنے صفچہ یر
گرنے لگے تھے یر تبھی لینڈ الین فون کی آواز یر وہ ہوش میں آپی چویکی،ایک یار تھر وہ یاذلی کو
گ ت م کی
ن گ
د ھی چو کہ اب ہری پیند یں سورہی ھی اس کے عد دیوار یر نسب ھڑی یر وقت،اسے آدھا
گھ ییہ ہوچکا تھا لکھیے ہونے،ا تیے آنسو صاف کرپی وہ ڈایری ساتنڈ پینل یر رکھنی تنڈ سے اتھی ک بویکہ
فون مشلشل بج رہا تھا،
ی
"میں د کھنی ہوں یایا۔۔۔"
اسکے یوں یو لیے یر چہایگیر صاجب چو اب یاقاعدہ ا تیے روم سے نکلیے لگے تھے اتنات میں سر
ہالنے وانس ایدر جلے گیے،
"ہنلو۔۔۔"
- 84 -
فون کان سے لگانے ہی وہ یولی جس یر کجھ دیر یو دوسری جاتب سے جاموسی رہی تھر کہا گنا،
"می۔۔میرا فون روم میں ہے اور میں دراصل یاذلی کے روم میں تھی۔۔۔"
مشکرانے لہچے میں وہ ہیبم کو چواب دی تھی،
"اچھا یو تھر انشا کرو میری یاذلی سے جلدی یات کروادو۔۔۔جب سے یاگل ہورہا ہوں کال کر کر
کے۔۔۔"
ہمیشہ کی طرح یرسکون لہچہ سمیت وہ یوال یو مطییہ کی چوسی یر اوس سی یڑی،لب یر سے
مشکراہٹ سمنی اور نےیرپینی میں دھڑکنا دل اجایک شست رقنار ہوا تھا،
"دماغ خراب مت کرو۔۔۔وہ سورہی ہے اور میں کسی ظور اسے نہیں اتھانے والی۔۔۔اب تھر
کال مت کریا۔۔۔"
اجایک غصے میں یڑخ کر کہنی وہ فون تیحیے کے ایداز میں رکھیے ہونے ہیبم کو سدید جیران کرگنی،
"ہاو ُروڈ۔۔۔؟"
- 86 -
ّ
ا تیے فون کو جیرت سے دیکھنا وہ زی ِر لب یڑیڑایا تھر چہایگیر ہاؤس کے پیروپی چصے کو نغور
دیکھا،یاذلی نے اس سے کل جاکلییس النے کا کہا تھا یر وہ صدا کا دیوایہ اتھی ہی جاکلییس لے
کر نہاں نہیجا تھا اب اس کا یلین یاذلی کو کال کر کے سریرایز د تیے کا تھا یر مطییہ کے فون
کٹ کرد تیے یر وہ کجھ سوچنا پیروپی دیوار یر خڑھا تھا،
پ
فون کٹ کرد تیے کے نعد وہ وہی یر صوقے یر یبھی ایک یار تھر دتنا چہاں سے عاقل اس سبمگر
کی سبم طرنفی کا سوچیے لگی،اسے ڈا پییے ہونے مطییہ کو نکل نف ہوپی تھی یر دل کا کنا کرپی چو
کبھی ان دویوں کو ایک ساتھ دیکھیے کا مبمنی یہ تھا،یاذلی کے لیے تیینی ا تیے دل میں نفرت یر وہ
ئمسکل قایو یارہی تھی اس یر نضاد اس سبمگر کا یاذلی کی کئیر کریا،انسی نہت سی سوچوں کے زی ِر
ایر وہ صوقے سے سر نکاکر اتنی جلنی گرم آیکھوں کو موید گنی،
دیوار سے جاکلییس کے تنکٹ سے کودیا وہ بجھلے یاعیچے میں ایرا تھا،آس یاس نظر ڈال کر اس
نے نہلے کھڑے ہوکر ایدازہ کنا،ا تیے سالوں سے آیا جایا رہنا اتنا یو معلوم ہی تھا کہ یاذلی کا روم
کونشا ہے تبھی اسکے کمرے کی کھڑکی یر نظر رکھنا وہ اس جاتب سے نکلے ایک مونے سے یاتپ یر
خڑھا تھا،وہ یار کریا ہیبم سندھا یاذلی کی کھڑکی یر رکا،سکر تھا کہ کھڑکی کے تٹ وا تھے تبھی ان یر
ی
مضبوط قدم چماکر وہ کمرے میں کودا،لبمپ کی دھبمی روسنی یر نظر دوڑانے ہونے اسکی آ کھیں
- 87 -
ُ م
منہوت ہوپی تھیں،تنڈ یر وہ یری وش دت اِن قاپی سے نےجیر یبھی پیند کے مزے لوٹ رہی
تھی،ہیبم کے یاریک ل بوں یر زیدگی سے تھریور مشکراہٹ تھنلی تھی اسے دیکھ کر،دھبمے قدم اتھایا
وہ اس کی طرف آیا تھر ساتنڈ پینل یر جاکلییس کے تنکٹ رکھنا سوپی ہوپی یاذلی کے یرایر میں
پیبھا،
گ ھئیری یلکوں کی چھالروں کو تھرے تھرے گالوں یر یکھرے دیکھ اس کا دل مجال تھا انہیں
چھونے کو مگر اتنی محیت کا اجیرام کرنے وہ یہ گسناخی جاہ کر تھی یہ کریایا،چھونے گالپی ل بوں
کو ایک دوسرے میں ت بوشت دیکھ وہ نگاہ ت ھیریا ا تیے گسناخ دل کی سرزنش کرنے لگا تھر
مشکراکر سرگوسی کنا،
"جایاں جلدی سے تم یڑی ہوجاو یاکہ میں ئمہیں جلد از جلد یاذلی چہایگیر سے یاذلی ہیبم سکندر
تنالوں۔۔۔دل یر یو ئمہارا یام پین سال نہلے ہی لکھ چکا تھا اب اتنی نفدیر میں تھی ئمہارے
قدموں کا می نظر ہوں۔۔۔۔میں یو کافی نہلے سے ئمہارا تھا نس اب ئمہیں جلد اتنا تنانے کی جسیچو
ہے۔۔۔"
- 88 -
م
کس قدر غفندت اور محیت تھی اسکے لہچے میں،یوری یات کمل کریا وہ اس پیند میں عاقل یری
تنکر کی سایہ قگن گھنی چھالروں یر ایک تھریور نظر ڈالنا اتھا تھر یلٹ کر کھڑکی کی طرف جانے لگا
لنکن اجایک ہی ہیبم تھبھک کر رکا،
کسی اجشاس کے بخت وہ گردن موڑ کر یاذلی کے یلکل یرایر میں دیکھا تھا چہاں یر ایک ڈایری
النی رکھی ہوپی تھی چنکہ اس ہی کے ساتھ ایک پین رکھا تھا،نہلے یو ہیبم نے اگ بور کر کے روم سے
جایا نہیر سمجھا یر یاجانے ک بوں اس ڈایری میں انسی کنا کسش تھی کہ نہلی مرتیہ ایک بجسس سا
ن سہ ب یہ ت ُ
ا ھرا تھا م کے ایدر جس یر قایو یا یایا وہ دو قدم یڑھا کر وہ ڈایری آ گی سے اتھایا تھا،
نہال صفچہ کھلیے یر وہ چونکا تھا چہاں واضح لفظوں میں اس فرد کا یام لکھا تھا جس کی ملکیت یہ
ڈایری تھی،
"مطییہ چہایگیر۔۔۔"
زی ِر لب یڑیڑایا وہ صفچہ یلییے لگا،اسے لگا تھا یہ ڈایری یاذلی کی ہوگی یر مطییہ کا یام دیکھ اسے
تھوڑی جیرت ہوپی تھی یر ہیبم کی یہ جیرت ہر صفچہ یلییے کے ساتھ ساتھ نےنقینی اور کنی
چھنکوں میں یدلی،سدید سکیے کے عالم میں ہر ایک صفچہ یڑھیے وہ ایک نےنقین نظر یاذلی یر ڈاال
- 89 -
تھا،خرف یہ خرف اس میں مطییہ کی اس کے لیے چ بوپی محیت کے ساتھ ساتھ دل میں سروع
سے تیینی یاذلی کے لیے نفرت کے یارے میں لکھا تھا،کنی صفچے یڑھیے وقت کا تنا یہ جال تھا یر
ص
ہیبم سکندر کو جیسے اب دت نا چہاں کی یرواہ نہیں تھی،کافی فچوں کو لٹ کر وہ ہر وہ الین غور
ن ی
یڑھ رہا تھا چہاں چہاں مطییہ نے ا تیے دل میں یاذلی کے لیے نفرت کا تنان کنا تھا،ہیبم کو زرا
دلجسنی یہ تھی اس لڑکی کی قصول سی محیت کے یارے میں یڑھیے کی ک بویکہ انسی محیت کی ہیبم
سکندر کے دل میں کوپی جگہ یہ تھی چو کسی دوسرے کو نفضان د تیے کا سیب تیے،اصل میں
ُ ی
یو ہیبم کی آ کھیں ہر ان الفاظوں یر تبھرارہی تھیں جن میں یاذلی کو مارنے کی کوشسیں اور اسکی
م ت کپ ل
مرنے کی دعا یں ھی ھی طییہ نے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہیبم کے یارے میں سوچیے کنی گرم سنال اسکی چونصورت آیکھوں سے نکلیے ُسرخ عارض یر تھشلے
تھے یر ان سوچوں میں کب اس کی آیکھ لگی تنا ہی یہ جال،
م ت کی
اور اب یکدم وہ چھنکے سے آ یں ھو نی سندھی ہوپی ھی،اجا ک ہی ییے یں مول کی رقنار
ع م س ی ل ک ھ
سے دھڑ کیے دل میں یڑپ گھلی تھی جیسے کجھ نہت یرا ہوچکا ہے۔۔۔چو نہیں ہویا جا ہیے تھا وہ
ہوچکا ہے یر کنا۔۔۔!
- 90 -
یہ اس کی سمجھ سے یاالیر تھا لنکن تبھی ذہن کے یک گویہ میں چھماکا سا ہوا اور مطییہ چھنکے
سے تنڈ سے اتھنی ہوپی سیڑھ بوں کی جاتب تھاگی،
سیڑھناں ع بور کرنے سییے میں رکھا دل نہت عح یب ایداز میں دھڑ کیے لگا تھا،اتنی گ ھیراہٹ یر قایو
یانے ہونے اس نے یاذلی کے کمرے کا ُرخ کنا مگر ایدر داجل ہونے ہی مطییہ کے قدم زبخیر
ی
ہونے تھے،یاذلی کے تنڈ کے یرایر میں وہ مکی ِن دل کھڑا تھا،مطییہ کی آ کھیں نےنقینی میں
تھنلی تھیں اسے نہاں یر دیکھ کر،ہیبم کو ایک جگہ ہی انسنادہ دیکھ کر وہ سدید جیرت میں عوطہ
زن کجھ یو لیے ہی لگی تھی یر تبھی مطییہ کی نظریں نےنقینی سے تندیل ہوکر چوف سے
تھنلیں،مفایل کے ہاتھ میں وہی جیز دیکھ کر جس کے ڈر سے وہ تھاگ کر روم میں آپی
تھی،مطییہ کی ڈایری۔۔۔۔!
دوسری جاتب ہیبم تھی ساید اس کی موچودگی مجسوس کرچکا تھا تبھی ڈایری کے صفجات یر سے
نظریں ہنانے سر اتھایا مفایل کھڑی مطییہ کی جاتب دیکھا،اس کی سرخ ہوپی آیکھوں میں کنا
کجھ نہیں تھا،چفارت،غضب کا غصہ،سدید نفرت،پیشاپی یر سکبوں کے جال اور تیے جیڑوں کو
ی
دیکھیے ہی مطییہ چوفزدہ آ کھیں تھنالنے نےساجیہ دو قدم تیجھے ہنی تھی،نظروں میں سکت نہیں
- 91 -
تھی کہ مفایل کی نفرت تھری آیکھوں میں اور دیکھ سکے تبھی تھنگی آیکھوں کو چھکاکر اس کے
مضبوط ہاتھ میں دیوخی اتنی ڈایری یر مرکوز کی تھیں،
اسے چوبچوار نظروں سمیت گھوریا ہیبم اجایک ہی مطییہ کی ڈایری اس زور سے تیچے تھی نکا کہ وہ
سندھا مطییہ کے قدموں کے فرتب آگری،نےآواز روپی مطییہ ششک کر رہ گنی،یوں مجسوس ہوا
جیسے وہ تنا چھونے اسے نہت یذلنل تھرا طمابچہ مارا تھا،ہنک کے اجشاس سے مطییہ کا چہرہ
سرخ ہوا تھا،ئمسکل اتنی ششکبوں یر ضنط کیے وہ نگاہ چھکانے ڈایری کو دیکھ رہی تھی،یر تبھی
ُ
مطییہ کا دل تھییے کے فرتب ہوا جب قدم یڑھایا ہیبم اس کی ڈایری یر ا تیے یوٹ رکھا تھا،ا نی
ت
ی
محیت کی اس قدر یذل نل یر وہ کرب سے آ یں یچ نی،
گ م ھ ک
اسکے سرخ چھکے چہرے کو نفرت سے دیکھنا ہیبم اسکے یرایر سے گزریا روم سے نکلنا جال گنا،
کافی دیر نعد مطییہ کو جب اجشاس ہوا کہ وہ اب نہیں ہے وہاں تب وہ اتنی ُسوخی آیکھوں کو
آہسنگی سے وا کی تھی،وہ یوال کجھ نہیں تھا یر ا تیے عمل سے ہی اس کو یاور کراگنا تھا کہ کنا
چیی یت ہے ہیبم سکندر کی نظر میں اس کی محیت کی،دل زچم سے چور ہوا یو چود کے قدموں میں
ُ پ
جان مجسوس یہ کرپی وہ لڑکھڑانے ہونے تیچے گرنے کے ایداز میں یبھی،ڈایری کے کھلے فچے یر
ص
- 92 -
حش ھ کی ُ
اس سبمگر کے یوٹ کے نشایات د نی طییہ ڈایری تند کر کے اسے نی سے ا تیے سییے یں
م م
ت
ھییچ گنی،روپی ہوپی وہ اتنی آواز ئمسکل دیانے اتھ کر پیزی سے ا تیے روم میں تھاگی،
تنڈ یر گرنے کے ایداز سے لیییے ہی وہ تھبھک کر روپی،درد اب یرداشت سے یاہر ہونے لگا
تھا،یوں مجسوس ہورہا تھا جیسے اب وہ مرجانے گی،جس محیت کو وہ اتنا چھنا کر رکھنی تھی آج اس
سبمگر یر آسکار تھی ہوپی یو مطییہ چہایگیر کو سرمندہ کراگنی،اس کی کرب تھری ششکناں رات کی
جاموسی میں ایک اذ تت تھری کہاپی رقم کرنے لگی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"گھر کب آؤ گی۔۔۔؟"
وہ صیح ہوسنل سے نکلیے کے لیے تنار ہورہی تھی تبھی قلذہ کی کال آپی تھی،یات کرنے کے
دوران وہ عندلیب سے یوچھیے لگی،
- 93 -
"ہمم۔۔۔ضحیح۔۔۔اور تناؤ۔۔۔اورفوتیچ کے بچے تھنک ہیں۔۔۔؟"
گہری سانس تھرپی قلذہ یونہی یوچھی چنکہ ادھر پیبم جانے کا سییے ہی عندلیب کے ذہن میں
س ت ش ش ن ن یلس س
ل
ل کا چنال آیا۔۔۔ بوں یر چو صورت م کراہٹ چی ھی ا کے،
" بچے یو تھنک ہیں آپی یر وہ لڑکا جس کے یارے میں آپ کو میں نے ت نایا تھا۔۔۔آپی دعا کرو
کہ اس کی پیناپی وانس آجانے۔۔۔"
اس کے چنال میں ع ندلیب یو لیے لگی یو ا تیے دل کی یات یولنی ہی جلی گنی،
"نہیں یاں۔۔"
عندلیب اداسی میں چواب دی تھر کجھ دیر جاموسی کے نعد تھر یولی،
"میں نے انشا کبھی سوجا ہی نہیں تھا ئمہارے یارے میں۔۔۔یار تم یو نہن جیسی ہو میرے
لیے۔۔۔"
ساپی اسے آرام سے سمجھایا تھا،
مجس
"یر میں ئمہیں تھاپی نہیں ھنی۔۔۔یلیز ساپی میری محیت کو یوں مت دھ نکارو۔۔۔"
وہ گڑگڑانے لگی تھی اسکے آگے،ہاتھ نےساجیہ خڑے چنہیں دیکھ کر ساپی چھنکے سے کھڑا ہوا،
ف۔۔۔قلذہ۔۔۔کجھ تھی یول رہی ہو۔۔۔دیکھو ہماری دوسنی کو علط وے میں تم لے کر گنیِ "ان
تھی یہ کہ میں۔۔۔اور تنار محیت ان شب کے یارے میں یو میں نے اتھی سوجا تھی
نہیں۔۔۔مجھے یڑھ نا ہے اتھی اتنا کرپیر سیٹ کریا ہے۔۔۔یلیز آ تندہ مجھ سے اس طرح کی یات
یہ کریا وریہ یو میں چود ہی جال جاؤں گا انکل کے گھر سے۔۔۔"
- 95 -
اسکے رونے ہونے نفی میں سر ہالنے یر ساپی شخت لہچے میں کہنا مڑ کر نکال تھا وہاں سے،ادھر
ُ
ِقلذہ کے چہرے یر اگلے ہی لمچے عم و غصے کی لکیریں اتھری،آخر اتنی محیت کا تھکرایا کہاں
ُ
یرداشت ہوا تھا اسے،
"میری یذلنل کی تم نے ساپی۔۔ا تیے کرپیر کی وخہ سے۔۔۔کرپیر۔۔۔ہنہہ۔۔۔اب میں ئمہارا کرپیر
تناؤں گی۔۔۔وہ تھی انشا چو تم کبھی نہیں تھول یاؤگے۔۔۔"
نفرت سے کہنی وہ نےنسی میں پینل یر رکھا گالس اتھا کر تیچے تھینکی تھی،
"آپی۔۔۔"
عندلیب کی آواز یر وہ ماضی سے نکل کر چویکی یری طرح،
"کنا۔۔؟"
س ن م ُ
"آپی میں کب سے آپ کو یول رہی ہوں کہ کجھ انشا تناؤ کہ یں اس ھڑوس کو ین دال کوں
ق ک
کہ ہر محیت سے یات کرنے واال انشان یرا نہیں ہویا۔۔۔وہ یو اتنی گرتنی کے عالوہ کسی سے یرم
لہچے میں یات یک کریا گوارا نہیں کریا۔۔۔کبھی کبھی یو انہیں تھی سناد ت نا ہے۔۔۔"
- 96 -
س
اقسردہ ہوکر کہنی وہ ایک یار تھر لسینل کے یارے میں سوچیے لگی تھی،
"ئمہیں ہوسنل ماما نے یڑھیے تھیجا تھا یا یہ شب کرنے۔۔۔۔تم نے یو کہا تھا کہ پیبم جانے
میں تم بچوں کے ساتھ دل نہالنے جاپی ہو تھر یہ کون ہے جس کے جکر میں
یڑگنی۔۔۔عندی۔۔۔اتنی یڑھاپی یر دھنان دو وریہ میں ماما کو ت نادوں گی شب۔۔۔"
دماغ میں ماضی یار یار اتنی چھلکناں دکھانے لگا جس سے گ ھیراکر وہ ما تھے یر آیا نسییہ صاف کرپی
کال یر عندلیب کو ڈ تنی،ماضی کی کناب میں وہ اس صفچے کو یو عرصہ ہوا تھول جکی تھی یر اب
ساتھ ہی دل سے ُدعا گو تھی کہ وہ صفچہ کبھی یہ وانس یلیے،
"گاڈ۔۔۔آپی آپ یو سنڈریال کی سی یپ شسیرز جیشا پی ہ بو کررہی ہو۔۔۔وہ یو میں ضرف گرتنی سے
ملیے جاپی ہوں یو اس سے تھی مالقات ہو جاپی ہے۔۔۔اب اگر میں گرتنی سے یہ ِملوں یو انہیں
دکھ ہوگا کہ پیبم جانے کے فرتب ہی انکا گھر ہے تھر نہی کہیں گی وہ کہ ع ندلیب گھم نڈی
ہوجکی ہے۔۔۔"
دات بوں یلے زیان دیانے وہ ِقلذہ کی ڈاتٹ سنی تھی تھر جلدی سے یوکھالکر اسے یو یگے سے چواز
پیش کرنے لگی،
- 97 -
"ا نسے کسی انشان کو امیرنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ئمہیں۔۔۔اور تند کرو اس گرتنی کے
گھر جایا۔۔۔کنا تنا انکا وہ یویا کافی چظریاک ہو۔۔۔"
اب وہ چود کو کافی جد یک سیبھال جکی تھی تبھی سیح ندگی سے یولی جس یر دوسری طرف عندلیب
نے اچھییے سے کان سے ہنا کر ا تیے مویایل کو دیکھا تھر کہا،
"آپ یو یوں کہہ رہی ہو جیسے میں اسکی کوپی تھولی تھنکی دسمن نہری چو وہ مجھے نفضان نہیجانے
گا۔۔۔اوہ میری تناری نہنا میں ا چھے سے جاتنی ہوں اس سے مجھے کبھی کوپی چظرہ ہو ہی نہیں
سکنا۔۔۔"
تھ یحی
یہ یات کہیے عندلیب کے لہچے میں جس قدر نقین تھا دوسری جاتب ِقلذہ چویکی تھر لب نی
یولی،
"تم سے جینا کہا ہے ات نا کرو۔۔۔اس سے دور رہو۔۔۔اور یڑھاپی یر دھنان دو۔۔۔نہیں یو ماما سے
کہہ کر ئمہیں گھر یلوالوں گی"
عندلیب کو چھڑ کیے کے نعد وہ کال کٹ کردی تھی چنکہ ادھر عندلیب کا چونصورت چہرہ یل تھر
کے لیے مرچھایا،
- 98 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دونہر کو جب وہ یوپی سے وانس آپی تب اس کا دماغ یری طرح مییسر ہورہا تھا یلکل کل رات
ُ ی
کی طرح جیسے وہ چود مییسر ہوپی تھی،رات تھر رونے کے یاعث جس قدر اس کی آ یں سوج
ھ ک
ََ
جکی تھی اس کا زرا دل یہ کنا تھا یوپی جانے کا یر ضروری تھا تبھی مح بوراَ جایا یڑا،
گھر میں داجل ہونے ہونے اتھی تھی ذہن اس سبمگر کی نفرت تھری آیکھوں میں الجھا ہوا تھا یر
اس کا ارنکاز اجایک ہوپی بخث کی آواز یر یویا،یورچ یار کر کے اس نے ایدر داجل ہونے ہونے
الؤبج یر قدم رکھا،سکندر صاجب اور مہناز تنگم کے ساتھ وہ سبمگر اسے صوقے یر پیبھا ِدکھا تھا،اس
یر نظر یڑنے ہی مطییہ کا دل جاہا وہ نہاں سے کہی نہت دور جلی جانے،وہ لوگ چہایگیر صاجب
کے ساتھ پیبھے کسی یات یر ہیس رہے تھے چو قلجال یو مطییہ کے ذہن سے یرے تھے،نظریں
چھکاپی وہ ان لوگوں کو تنا مجاطب کیے جاموسی سے سیڑھ بوں کا ُرخ کرنے لگی یر تبھی مہناز تنگم
کی اس یر نظر یڑی تھی،
"چہایگیر تھاپی اب آپ اتنی اس بچی کا تھی کوپی اچھا سا رشیہ ڈھویڈ لیں۔۔۔وریہ اچھا نہیں لگے
گا کہ چھوپی نہن کا نکاح ہو اور یڑی نہن کا ک بواری۔۔۔"
ً
اس کے گرد یازو جایل کیے مطییہ کی تھوڑی یرمی سے تھام کر مہناز تنگم نے مذاقا یہ یات ہی
ک
ی ً
تھی یر مطییہ کو نفرتنا چھ نکا لگا،جیران کن نظروں سے وہ چہایگیر صاجب کو د کھی تھی،اس کی
آیکھوں میں سوال دیکھ انہوں نے مشکراکر کہا،
" بچے سکندر تھاپی اور تھاتھی کا کہنا ہے کہ اس ہفیے ہیبم اور یاذلی کا نکاح کردیا
جانے۔۔۔۔رچصنی انشاّٰللہ جب ہیبم سینلڈ ہوجانے گا النف میں تب کریں گے۔۔۔"
"یافی شب یو تھنک ہے نس مجھے نہی قکر کھانے جارہی ہے کہ اتنی جلدی نکاح کی تناری کیسے
ہوگی۔۔۔"
اسے تناکر چہایگیر صاجب نے جب سے کہی یات تھر دہراپی،
"کوپی یرنشاپی کی یات نہیں۔۔۔آرام سے ہوجانے گا نکاح۔۔۔اور تناری کی قکر آپ نہیں کریں
چہایگیر تھاپی یہ کام ہم عورپیں ا چھے سے اور نہت جلد کرلینی ہیں۔۔۔"
مہناز تنگم نے ہیسیے ہونے انہیں نشلی دی،ساتھ ہی وہ لوگ اور چوش گی بوں میں لگے تھے تنا یہ
جانے کے وہاں کھڑے نقوس کی ایدروپی جالت اس وقت کس قدر یدیر ہورہی ہوگی،ہیبم نے اس
یورے دورا تیے میں مطییہ یر ایک نگ ِاہ علط یک ڈالنا گوارا نہیں کنا تھا،شب کو یایوں میں گم
چھوڑ وہ مردہ قدموں سمیت مڑپی سیڑھناں ع بور کی تھی،ا تیے روم میں داجل ہونے یر اسے یاذلی
- 101 -
پ
وہاں تنڈ یبھی نظر آپی،اس کے معصوم چہرے یر شچی سرمگیں مشکراہٹ اس وقت مطییہ
م
چہایگیر کو اتنی شب سے یڑی خرنف لگی،جلنی نظروں کو ت ھیرپی وہ یاذلی کو کمل نظر ایداز کیے
تنگ ساتنڈ یر رکھنی واسروم کا ُرخ کی،اسے سدت سے رویا آرہا تھا یر نہاں یاذلی کے سا میے وہ چود
کو یک ھیریا ہرگز نہیں جاہنی تھی،
"آپی۔۔۔"
اسے دیکھیے ہی یاذلی چہک کر اتھی تھی ساتھ ہی مطییہ کے گلے رکھیے چوسی سے یولی،
"آپی میں کیسے تناؤں آپ کو۔۔۔آج میں کس قدر چوش ہوں۔۔۔تنا ہے آپی سروع میں مجھے لگنا
تھا کہ ہیبم مذاق کرنے ہیں انہیں کوپی اتنی شچی محیت نہیں ہوسکنی مجھ سے۔۔۔یر آج
آپی۔۔۔میں نہت چوش ہوں۔۔۔"
یاذلی نہیں جاتنی تھی کہ اتنی چوسی میں ایدھی ہوپی وہ کس قدر اذ تت تھرے ک بویں میں دھکنل
جکی تھی،اب مطییہ کی یرداشت چواب دے گنی،یکدم یاذلی کو اس نے دھکا دے کر چود سے
دور کنا،
"یو میں کنا کروں تم چوش ہو یو۔۔۔ضروری ہے کہ ہر یات آکر مجھے تناؤ۔۔۔"
- 102 -
یاذلی چو جیران یرنشان سی اس کے رونے کو دیکھ رہی تھی اجایک مطییہ کے چیحیے لہچے یر
یوکھالپی،
"خی۔۔"
"میں نے کہا جاؤ نہاں سے اتھی۔۔۔میرے سر میں نہلے ہی درد ہورہا ہے۔۔۔"
اس کا نس نہیں جل رہا تھا کہ یاذلی کو د ھکے دے کر روم سے نکال دے،ادھر یاذلی قکرم ند
ہوپی اس کی یات یر،
"سر درد ہورہا ہے آپی۔۔۔یو آپ انشا کریں نہاں پیبھیں میں دیادوں۔۔۔"
کجھ قدم آگے یڑھا کر وہ مطییہ کا ہاتھ تھام کر یرم لہچے میں یولی یر اگلے ہی یل یاذلی ڈری تھی
جب مطییہ اس کا ہاتھ چھنک کر دپی آواز میں چیچی،
- 103 -
"یہ قصول چوبجلے مجھے مت دکھایا کرو۔۔۔اتھی کے اتھی نکلو میرے روم سے۔۔۔"
ہاں وہ ہر یار یاذلی سے اجایک سرد رویہ کر لینی یر آج اس کے لہچے کی چبھن نے یاذلی کو رونے
یر مح بور کنا تھا،
دویوں ہاتھ سے اتنہاپی آرام سے یاذلی کو سندھا کرنے وہ گھورا تھا مطییہ کو چو اب گ ھیراپی تھی
اسے وہاں دیکھ،چنکہ یاذلی یری طرح رونے لگی تھی،
ُ
"یاذلی۔۔۔تم روم میں جاؤ ا تیے۔۔۔"
"نہیں ہیبم وہ آپی کی طی نعت تھنک نہیں ہے یو اسی لیے تھوڑا غصہ ہیں۔۔۔"
تھنگی آواز یر قایو یاپی وہ اتنی طرف سے چواز پیش کرنے لگی ہیبم کو،ڈر تھا کہ کہیں وہ مطییہ یر
غصہ یہ ہو،
اس کے جانے کے نعد ہیبم قدم یڑھایا ایدر داجل ہوا تھا،مطییہ جس کی سانس نہلے ہی اسے
دیکھ کر رکی ہوپی تھی یکدم واسروم کا ُرخ کی تھی،
ہیبم اور یاذلی کی جاموش محیت کا ان کی قبملی میں ہر ایک کو علم تھا،جس کی وخہ سے وہ
ج گ ہ ک م طم
ین سا ہوکر اکیر یاذلی سے ملنا یا اسے یں لے کر ھومیے الجایا،اسے ا تیے اور یاذلی کے
رسیے میں سروع سے کوپی رکاوٹ یہ دکھی تھی جس کے یاعث وہ سکندر صاجب کے اس ق نضلے
یر یرسکون تھا کہ ان دویوں کی سادی تھنک یابچ سال نعد ہوگی لنکن کل رات مطییہ کی ڈایری
یڑھیے کے نعد وہ نہت ڈسیرب ہوا تھا،اصل گ ھیراہٹ اسے نہی ہوپی تھی کہ کہیں مطییہ ا تیے
چ بون میں یاذلی کو نفضان یہ نہیجادے،نس اس ہی وخہ سے اس نے صیح ہی سکندر صاجب اور
مہناز تنگم سے یات کی تھی اس ہفیے نکاح کی،سروع میں یو سکندر صاجب الجھے تھے اس کے
اتنی جلدی نکاح کی صد یر لنکن مہناز ت نگم کی رصامندی دیکھ انہوں نے کوپی اعیراض یہ کنا اور
- 106 -
اس یات کا زکر جب سکندر صاجب نے چہایگیر صاجب سے کنا یو ہر یاپ کی طرح وہ تھی تھوڑا
یرنشان ہونے تھے اتنی جلدی نکاح یر،لنکن مہناز تنگم اور سکندر صاجب کے سمجھانے یر انہوں
نے زیادہ اعیراصات کریا مناشب یہ سمجھا اور اتنی چوسبودی طاہر کی اس یات یر،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں سے آرہے ہو دوشت۔۔۔"
سام کو وہ یاہر سے آیا یو سکندر وال کی اتنکسی کے جاتب اس کا رخ تھا تبھی تیجھے سے آپی آواز یر
یلنا،ہناد کو وہاں کھڑے دیکھ ساپی اتنکسی میں جانے کا ارادہ مل بوی کیے اس کی طرف آیا،
"یوپی کے نعد یارٹ یاتم جاب کریا ہوں۔۔۔نس وہی سے آرہا ہوں۔۔۔"
نہلی یار اس کے ا چھے رونے یر ساپی مشکرانے ہونے تنایا تھا،
"ڈیڈ اتنا اور گرتنی کا خرخہ اتنی تییسن سے جالنے ہیں۔۔۔اس یر میں ان سے فیس مایگوں یہ
میری قظرت گوارا نہیں کرپی۔۔۔"
رسات یت سے کہنا وہ اب یاقاعدہ ہناد کے ساتھ ساتھ جلیے لگا تھا،الییہ ایک ہاتھ میں تنگ ہ بوز
تھاما ہوا تھا،
کجھ دیر نعد دویوں میں ایک یاچبم ہونے واال مفایلہ سروع ہوا تھا۔۔۔ہر کسی کو می بوں میں ہرا
د تیے واال ہناد آج جایا تھا کہ کوپی ہے چو اسے ہر سنکنڈ میں ہرانے کی صالچیت رکھنا تھا،وہ ہر
"تم سے کم۔۔۔"
ساپی کی یات کا چواب دے کر وہ کھڑا ہوا یو ساپی کندھے اچکایا،
"کب ہے۔۔۔"
"اس ہفیے۔۔۔"
"اسے میری طرف سے سوری کہہ د ت نا اور منارک یاد الزمی د ت نا۔۔۔"
ساپی کی مسکاپی آواز میں کہیے یر اس نے ہلکی مشکراہٹ سمیت سر اتنات میں ہالیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 111 -
آج ایک ہفیے نعد وہ تھر آپی تھی وہاں یر،اورفوتیچ میں بچوں نے اسے ت نایا تھا کہ آج یورا دن وہ
ّ
بجھلے چصے میں تیے گارڈن یر نہیں آیا،تبھی چود ہی اس کی جیر جیر لییے وہ آپی،ڈور تنل بجانے
کی ضرورت اسے پیش یہ آپی ک بویکہ آج گھر کا گیٹ کھال تھا،ساید فرمان صاجب نے کسی کام
سے کھولے چھوڑا تھا،عندلیب ایدر داجل ہوپی ایک نظر ہر طرف ڈالی تھی،تھر گہرا سانس تھرپی
ن یلس س ھ ب ھ ل تب ت
کچن میں اسماء کو ڈھویڈنے گی یر ھی وہ کی ،ل کے کمرے سے آپی یلند آوازوں یر
ً
نقینا وہ کسی یات یر غصہ تھا،
دروازے کے فرتب آپی عندلیب نے اتھی روم میں جانے کا سوجا ہی تھا جب کایوں یر مفایل
کے الفاظوں کا یکراؤ ہوا اور وہ قدم روک گنی،
"وہ تھی جان یوچھ کر مجھے چھونے دالسے د تنی ہے۔۔۔اور اب آپ تھی وہی کررہی
ہیں۔۔۔جاالیکہ آپ ا چ ھے سے جاتنی ہیں گرتنی کے میری پیناپی کبھی وانس نہیں آسکنی۔۔۔۔"
غصے میں چیحنا وہ سدید اذ تت میں مینال لگ رہا تھا،
"انشا نہیں ہے میرے بچے۔۔۔ع ندلیب نے تنایا ہے کہ جانسس کم ہیں مگر ہے یو۔۔۔اور پینا
ی
مجھے یوری امند ہے کہ ایک دن ئماری آ کھیں ضرور تھنک ہوں گی۔۔۔"
- 112 -
ُد ّریہ تنگم اس کے غصے کو مدنظر رکھ کر یرمی سے سمجھانے لگیں،
"امند۔۔۔ہنہہ۔۔۔اس امند یر ہی یو یابچ سال سے یہ نےنس محناج والی زیدگی گزار رہا
ہوں۔۔۔یر نہیں۔۔۔اب مجھے نقین ہوجال ہے کہ یہ شب یکواس ہے۔۔۔میری پیناپی کبھی
وانس نہیں آنے گی۔۔۔گرتنی آپ جاتنی تھی ہیں کہ وہ کبم نکل کوپی عام کبم نکل نہیں
تھا۔۔۔سو میں سے دس یرسیٹ لوگوں کی پیناپی رہنی ہے۔۔۔اور میں ان دس یرسیٹ میں سے
یاہر ہوں۔۔۔"
نےاتنہا کرب میں کہیے آخر میں اس کا لہچہ تھکن تھرا ہوا،
س
"تم انہیں دس یرسیٹ میں ہوگے لسینل۔۔۔"
س
لسینل کے یاس آکر یرمی سے اس کا چہرہ تھامنی دریہ تنگم نے تم آواز سمیت کہا،یہ کہیے
س
ہونے ان کا چود کا لہچہ کھوکھال ہوا تھا جس یر لسینل جذ اتھاپی مسکان ل بوں یر شجایا تھا،
ن س
"نہیں ضرورت مجھے اس کی قکر کی۔۔۔میں ا نسے ہی تھنک ہوں۔۔۔ ل مراد اک ال ہی
ن یلس
تھنک ہے گرتنی۔۔۔اسے کہہ دیں اب اگر وہ نہاں آپی یو یا یو میں چود کا نفضان کروں گا یا تھر
اسے ہی جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔"
"اسے کہیں مت آیا کرے میرے یاس۔۔۔جلی جانے نہاں سے وہ۔۔۔دور۔۔۔نہت دور جلی
س
جانے۔۔۔ لسینل مراد کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔آپ تھی جاپیں نہاں سے۔۔۔جلی
جاپیں آپ۔۔۔"
وجست تھرے ایداز میں دھاڑیا وہ نہت چ بوپی لگا تھا اس وقت تبھی ا تیے آنسو یہ ر کیے یر دریہ تنگم
مڑ کر اس کے کمرے سے نکلیں،دروازے کے یاہر اتنی ششکناں دیانے کھڑی عندلیب کو
دیکھ وہ یوکھالپی تھیں،
"مجھ میں اب اتنا دم نہیں ہے اسماء کہ اب یہ شب یرداشت کرسکوں۔۔۔ا تیے چوان یونے کو
اور یوں نےنس نہیں دیکھ سکنی میں۔۔۔"
ی
تھکے ہونے لہچے میں کہہ کر انہوں نے صوقے کی نست سے سر نکا کر آ کھیں مویدی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دن یر لگا کر اڑے تھے،تناریوں میں کسی کو ہوش ہی یہ رہا تھا۔۔۔مہناز تنگم نے ا تیے کہے کے
مظایق ایک ہفیے میں تناری کرواپی تھی،آج یاذلی اور ہیبم کے نکاح کی نفرتب چہایگیر صاجب کے
کہیے یر چہایگیر ہاؤس میں ہی رکھی گنی تھی،اس دن کے نعد مطییہ نے ہمیشہ کی طرح یاذلی کے
ساتھ یارمل رویہ رکھا،چویکہ یاذلی کو اس کے ا نسے رونے کی عادت ہوجکی تھی تبھی وہ زیادہ یونس
نہیں لی تھی،
اس وقت مطییہ چہایگیر کو سدت سے اتنی محیت ہارپی ہوپی لگی جب نکاح یامے یر ہیبم کے نعد
یاذلی سے دسیخط لیے گیے،ا تیے ایدر کی یوڑ تھوڑ کو دیانے وہ مہمایوں کا لجاظ کرپی ئمسکل مشکرارہی
تھی،آج مطییہ چہایگیر کو معلوم ہوا تھا کہ جب دل میں اذ ت بوں کا چہان آیاد ہو یو مشکرایا کس
قدر مسکل عمل لگنا ہے،تھراپی آیکھوں سمیت مشکراپی وہ جاموسی سے مذاق پییے دیکھ رہی تھی
اتنی محیت کا،وہ جاموش محیت اس کے دل میں دفن ہوکر رہ گنی تھی،یاذلی کے سنگ
مشکرانے ہیبم کی نگاہ عیر ارادی ظور یر اتھی تھی اس کی طرف،دویوں کی نظریں یکراپی تھیں
ایک کی آیکھوں میں کرب تھا یو دوسرے کی آیکھوں میں نفرت،مطییہ کے تھنگے چہرے کو
دوسری جاتب ل بوں یر سرمگیں مشکراہٹ شجانے یاذلی کا جال یرا ہوا تھا جب نکاح کے نعد ہیبم
نے شب کی موچودگی کے یاوچود اس کا ہاتھ یڑے اسیخفاق سے تھاما،وہ سرخ ہونے چہرے کو
سرم سے چھکا گنی تھی جب کان میں ہیبم کی تھاری آواز سناپی دی،
"اتنی جاہ بوں کی دیوار کو تم یر اس قدر تنگ کردوں گا کہ کبھی کوپی ید نظر اسے یار کر کے
ہمارے چونصورت تندھن کو یوڑ نہیں یانے یاذلی ہیبم سکندر۔۔۔"
اس کے لفظوں کے زی ِر ایر یاذلی کو اتنا آپ نہاتت چوش قسمت لگا۔۔۔سر اتھاکر وہ ایک مسکاپی
نظر اسکے وچنہہ چہرے یر ڈالنی وانس نگاہ چھکاپی تھی،یہ م نظر مطییہ چہایگیر کی نظروں سے مخفی
یہ رہ سکا،
ً
"یاپی امی۔۔۔وہ اکنلی ہے۔۔۔یروس ہوپی ہے ت ھیڑ میں۔۔۔اسے فورا لے کر آپی ہوں
میں۔۔گیٹ یر کھڑی ہوگی۔۔۔"
مہناز تنگم کو دیکھ کر اب کی یار یاذلی نے یوال
"سوری۔۔۔سوری۔۔۔یاذلی۔۔"
تیچے گری یاذلی کو دیکھ یوکھال کر کہنی مطییہ چھک کر اسے اتھانے کی کوشش کرنے لگی،
"پینا آپ تھنک ہیں۔۔۔اگر نہیں یو ہم اجینام کرنے ہیں نفرتب کا و نسے تھی نکاح یو ہو ہی چکا
ہے۔۔۔"
شب کجھ جیسے یل میں یگڑا تھا و نسے ہی یارمل ہوا،مہناز تنگم یاذلی کے چنال کے عرض اس ہی
پ
کے ساتھ یبھی رہی تھیں،قلذہ چہاں اتنی دوسبوں سے یایوں میں مگن تھی وہی اس کی نظروں
نے مطییہ کو ڈھویڈ رہی تھیں،چو شب سے نےنہرہ ہوپی اویر جارہی تھی،ہیبم کا یاذلی کے لیے
اس قدر قکرمند ہویا ان دویوں کی نظروں کا ملنا۔۔۔،یہ سوچ سوچ کر مطییہ کا دماغ تھنا جارہا
تھا،وہ اکنلے رہنا جاہنی تھی قلجال،یورے گھر میں مہمان تھرے تھے تبھی اس نے ا تیے کمرے
میں جانے کے بجانے چ ھت یر جایا نہیر سمجھا،سنکنڈ قلور یر آکر اتھی اس نے چ ھت یر جاپی
- 122 -
سیڑھ بوں یر قدم رکھا ہی تھا کہ کسی نے شحنی سے اس کے ل بوں یر اتنا تھاری ہاتھ چماکر یرایر
میں تیے گیسٹ روم میں کھییجا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ُ ک
اسے ایدر ھییچ کر مفایل نے دروازہ جس زور سے تند کنا،دھاڑ کی آواز یر مطییہ کا دل اچھل کر
جلق میں آیا،روم میں لبمپ کی مدھم روسنی کے یاعث تبم ایدھیرے میں مطییہ کو کجھ تھنک
سے دکھاپی یہ دیا یر وہ چوفزدہ ضرور ہوپی تھی مفایل کا ایک تھاری ہاتھ ا تیے ل بوں یر چمے رہیے یر
یو دوسرا یازک کمر کے گرد جایل مجسوس کیے،وہ کون تھا مطییہ کو نہیں معلوم تھا یر وہ کسی
تھی طرح اس کی مضبوط گرقت سے نکلیے کی کوشش کرنے لگی،جد سے زیادہ مزاچمت کرنے
یر اس کا دو تیہ گِ را تھا تیچے،گداز سرایا واضح ہونے لگا یو وہ لرز کر ا تیے یاجن ل بوں یر شحنی سے
چمے اس تھاری ہاتھ یر گاڑنے لگی یر تبھی مفایل کی گھمئیر چونصورت آواز نے مطییہ کو
نےنقینی کے ساتھ ساتھ کا پییے یر مح بور کنا،
ڈرنے ڈرنے مطییہ نے نگاہ اتھاکر دیکھا،وہ اب یک جسمگیں نظروں سے اسے ہی گھوررہا تھا،کینی
نفرت تھی ان آیکھوں میں اس کے لیے،مطییہ کے دل میں چبھن سی ہوپی،سرخ چہرہ لیے وہ
ئمسکل ہکالنے لہچے میں یولی،
"اوہ رتنلی۔۔۔"
م
اس کی یات کمل تھی یہ ہویاپی تھی جب ہیبم تپ کر پیزی میں آگے یڑھنا یوچھا،
- 124 -
مفایل کی فرتت سے نہلے ہی گ ھیراپی ہوپی مطییہ نے اسے اتنی طرف یڑھیے دیکھ جلدی سے قدم
ت پی ً
تیجھے لیے ھے یر یحنا سندھا دیوار سے جا گی،دوسری جاتب اس کے فرتب آیا م شخت ھوری
گ ب یہ ل
سے اسے یوازیا ایک ہاتھ دیوار یر نکا کر تھوڑا چھکا تھا،چنکہ اتنی سانس ایکنی مجسوس کیے مطییہ
م
نے سر کمل دیوار سے لگالنا،
مفایل کنا سمجھ رہا تھا اسے۔۔۔وہ نےجس یو یہ تھی۔۔۔وہ تھی یو ایک دل رکھنی تھی۔۔۔چو ہر
دم اس سبمگر کے لیے دھڑکنا تھر ک بوں وہ اسے نےجس کہا تھا۔۔۔مطییہ کا دل جاہا کہ وہ چیخ
چیخ کر اس یر واضح کردے کہ وہ علط نہیں ہے۔۔۔اسے علط اس کی چ بوپی محیت نے تناڈاال
- 125 -
ہے۔۔۔وہ یو محیت کرپی ہے اتنی نہن سے تھی۔۔۔ہار یو وہ کجھ دیر نہلے ہی گنی تھی اتنی محیت
میں،جب اس سبمگر کا نکاح ہوا تھا اس کی نہن کے ساتھ،اب ک بوں وہ اس کے زچموں یر
ا تیے لفظوں سے ئمک چھڑک رہا تھا،نہت سے سکوے تھے اسے،
لنکن وہ جاہ کر تھی کجھ یہ یول یاپی،قلجال یو وہ اتنی جالت یر یوکھالپی ہوپی رو رہی تھی،تنا دو تیے
کے وہ اس کے اس قدر فرتب مطییہ کو لگا وہ سرم سے مرجانے گی اگر سا میے کھڑا سبمگر کجھ
دیر اور یونہی رہا یو،
"نہلے وعدہ کرو مجھ سے کہ اب یاذلی کو تم کوپی نفضان نہیں نہیجاؤ گی۔۔۔"
اس کی یوکھالپی جالت یر رچم کھایا ہیبم تھوڑا تیجھے ہوکر اس یار بجمل سے یوچھا،اب مطییہ کی
یرداشت چواب دی تھی،وہ ک بوں اسے یہ اجشاس دالرہا تھا یار یار کہ مطییہ چہایگیر ایک چظریاک
لڑکی ہے،
- 126 -
"نہیں کروں گی کوپی وعدہ میں۔۔۔"
جب سے نہلی مرتیہ وہ یڑخ کر تھنگی آواز میں یولنی ا تیے گال نےدردی سے رگڑی ساتھ ہی
اس کے یرایر سے نکلیے لگی مگر وہ تھول جکی تھی کہ ابجانے میں وہ اس یار ہیبم کے ئمسکل
ضنط کیے ہونے غصے کو ہوا دے جکی تھی،
اتھی وہ تند دروازے کی طرف جا ہی رہی تھی جب ہیبم نے دیوار یر نسب سنلف یر رکھی پین سو
ن ً
پیس ئما چونصورت یویلوں میں سے ایک اتھا کر ڈرنسنگ یر مار کر یوڑی تھر مطییہ کا یازو فرتنا
دیوچیے ہونے اسے چھنکے سے تنڈ یر تیجا،شب کجھ جس تھرپی سے ہیبم نے کنا مطییہ کجھ سمجھ
ہی یہ یاپی،اور اب چود کے سیب ھلیے یر وہ چوفزدہ نظروں سے ہیبم کے ہاتھ میں کابچ کی یوپی یویل
کو دیکھیے لگی،
چون آسام نظروں سے اسے گھوریا وہ چند قدم کا قاصلہ طے کر کے تنڈ کے فرتب آیا تھا ساتھ ہی
ایک پیر تنڈ یر رکھ کر چھکا،مطییہ چو ساکت نظروں سے یویل کو یو کبھی ہیبم کو دیکھ رہی تھی اتنی
تنڈلی یر اس کا پیر بچ ہونے سے ہی گ ھیراکر تیجھے ہوپی،ہاتھ میں یویل کی یوک اسکے چونصورت مگر
ً
آنسوؤں سے تھنگے چہرے کے فرتب کیے ہیبم نفرتنا عرایا تھا،
- 127 -
"یکو کہ تم کبھی یاذلی کو کوپی نفضان نہیں نہیجاؤ گی۔۔۔"
چھنل ریگ جسین آیکھوں کو تھنالنے وہ ا تیے چہرے سے چند ابچ کی دوری یر ہیبم کے وچنہہ
م م م ت کی
چہرے کو د ھی ھی،یو کنا وہ اس قدر بوپی تھا یاذلی کے عا لے یں ،طییہ کے ایدر کجھ یویا
م چ
تھا،ساید وہ چھوپی سی امند کہ کبھی یو وہ سبمگر اس کی طرف مایل ہوگا،
"یولو۔۔"
وہ دھاڑا ساتھ ہی کابچ کی یوک جد درخہ فرتب کی،
ہلکی سی چبھن گال یر مجسوس کرنے ہی مطییہ چھرچھری لے کر رہ گنی تھر ڈرنے ہونے تم
لہچے میں ہکالکر یولی،
ہیبم اتھی جیران ہی تھا یر تبھی نظر تیچے یڑے مطییہ کے دو تیے یر گنی اور لمچے کے ہزارویں
ّ
چصے میں اس کے چیحیے کی وخہ سمجھنا ہیبم اسے دیکھا چو سرم سے مرنے کے فرتب ہوپی گھی بوں
کے گرد اب یازوؤں کو یایدھ کر چہرہ چھنانے رورہی تھی،
جاہے جیسی تھی یر تھی وہ ایک لڑکی اور ا تیے غصے میں ایدھا ہویا وہ جس قدر اس کے فرتب ہورہا
تھا مطییہ کا چیحنا بجا تھا،تبھی اس یر سے نظریں ت ھیریا وہ اب غصہ ضنط کیے یوال،
ُ
"امند ہے چو کہا اس یر عمل تھی کرو۔۔۔"
- 129 -
اتنی یات کہہ کر ہیبم چھک کر تیچے سے دو تیہ اتھایا روپی ہوپی مطییہ کے یاس آیا تھر یرمی سے
اس کے گرد وہ دو تیہ لی یٹ کر تیج ھے ہنا ساتھ ہی گیسٹ روم سے پیزی میں تنا کجھ اور کہے نکلنا
جال گنا،
دوسری جاتب مطییہ یلند آواز میں رونے لگی تھی،وہ مح بوب شہی یر کوپی چق نہیں رکھنا تھا اسے
ُ
چھونے کا،وہ یڑپ کر چیچی تھی تب جب چوف مجسوس ہوا تھا اسے کہ کہیں غصے میں ہی مب
ا تیے ساتھ ساتھ اس کا تھی نفضان یہ کر پیبھے،آج وہ نےجد چوفزدہ ہوپی تھی ہیبم سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دن ازلی سرد جلیے لگے تھے،نکاح کے نعد چہاں مطییہ نے ا تیے جذیایوں یر تبھروں سے تندھ
یایدھ لیے تھے وہی یاذلی کی چوسناں نےجشاب تھیں،وہ اکیر کالج کے نعد ہیبم کے ساتھ کہی
یہ کہی گھومیے نکلنی،ہیبم نے اب اسے ت بو مویایل گفٹ کنا تھا یاکہ دویوں کی یات میں کوپی
رکاوٹ یہ آنے،نہلے یو یاذلی چہایگیر صاجب سے مویایل کی اجازت لی تھی دوسری جاتب ان کی
اس یار رصامندی یر چوش ہوپی،
آج ِقلذہ نے ساپی کو ایک رنسبورتٹ میں یالیا تھا،نہلے یو ساپی جیران ہوکر انکار کنا تھا یر اس کے
ضروری یات کا کہہ کر صد کرنے یر ئمسکل مایا،
پ
اتھی قلذہ ہاتھ میں مویایل لیے رنسبورتٹ میں یبھی یار یار اپیرنس یر دیکھ رہی تھی یر تبھی اسے
ساپی ایدر داجل ہویا ِدکھا،ہاتھ کے اسارے سے وہ ساپی کی نظر چود یر کرنے سے کامناب ہوپی،
"قلذہ میری جاب کا یاتم ہورہا ہے۔۔۔اگر جلدی تنادو یو مہیر ہے۔۔۔"
ِ
سیٹ یر پیبھنا وہ ایک نظر ِرشٹ واچ یر ڈالے سیحندگی سے یوال،
"کنا تنادوں۔۔۔"
ٰ
وہ ساید یایوں کو ظول د ت نا جاہ رہی تھی تبھی معنی جیزی سے مشکرانے ہبھنلی تھوڑی کے تیچے
رکھ کر یولی،
ہ
" ممم۔۔۔اگر یہ تناؤں یو۔۔"
- 132 -
ل بوں یر چونصورت مشکراہٹ شجانے وہ اسے ت نگ کی تھی اور ساپی نےساجیہ مشکرایا،قلذہ کو لگا
مفایل کو اس کی یہ ادا تھاپی ہے،تبھی نظریں ایک ادا سے تھیریں،
"نہیں تم یلکل ئموپی نہیں ہو۔۔۔یر قلجال خرکییں ونسی ہی کررہی ہو۔۔۔"
اتنی مشکراہٹ دیانے وہ کندھے اچکاکر یوال یو قلذہ یکدم مشکرانے ہونے پینل یر ر ک ھے ساپی کے
مضبوط ہاتھوں یر ا تیے دویوں ہاتھ رکھی،
"اگر میں تم سے کہوں کہ میں ا تیے ان ہاتھوں کو یونہی ساری زیدگی ئمہارے ہاتھوں میں دیکھنا
جاہوں گی یو ئمہارا کنا چواب ہوگا۔۔۔"
قلذہ کے سوال یر ساپی نے ایک نظر ا تیے ہاتھ یر ر ک ھے اس کے ہاتھ کو دیکھا تھر کہا،
- 133 -
"ساری زیدگی یو دور کی یات ہے۔۔۔کل یک تھی نہیں رکھ یاؤ گی۔۔۔اتھی رات کو یہ رنسبورتٹ
تند ہو جانے گا۔۔۔"
ی ً
ا تیے ہاتھ عیر ارادی ظور یر تیجھے کر کے پینل سے ہنایا وہ مذاقا یوال تھا جس یر قلذہ نے آ یں
ھ ک
گھماپیں،
ُ ُ
"ساپی آپی لوو یو۔۔۔لوو یو سو مچ۔۔۔ضرف یہ ہاتھ نہیں رکھنا ئمہارے ہاتھوں میں یلکہ اتنی یوری
زیدگی ئمہارے ساتھ گزاریا جاہنی ہوں۔۔۔"
اجایک ہی وہ ایک سانس میں یولی تھی چنکہ ساپی کی مشکراہٹ یوں عاتب ہوپی جیسے کبھی وہ
مشکرایا ہی یہ ہو،
"ہاں ہوش تھی ہے چواس تھی تھنک ہیں۔۔۔اور چو یول رہی سوچ سمجھ کر یول رہی
ہوں۔۔۔ساپی محیت کرنے لگی ہوں تم سے۔۔۔نےجد،نےاتنہا۔۔۔انسی محیت چو دن یدن
میرے چواس سلب کررہی ہے۔۔۔"
"میں نے انشا کبھی سوجا ہی نہیں تھا ئمہارے یارے میں۔۔۔یار تم یو نہن جیسی ہو میرے
لیے۔۔۔"
ساپی اسے آرام سے سمجھایا تھا،
مجس
"یر میں ئمہیں تھاپی نہیں نی۔۔۔یلیز ساپی میری محیت کو یوں مت دھ نکارو۔۔۔"
ھ
وہ گڑگڑانے لگی تھی اسکے آگے،ہاتھ نےساجیہ خڑے چنہیں دیکھ کر ساپی چھنکے سے کھڑا ہوا،
ف۔۔۔قلذہ۔۔۔کجھ تھی یول رہی ہو۔۔۔دیکھو ہماری دوسنی کو علط وے میں تم لے کر گنی
ِ "ان
تھی یہ کہ میں۔۔۔اور تنار محیت ان شب کے یارے میں یو میں نے اتھی سوجا تھی
- 136 -
نہیں۔۔۔مجھے یڑھ نا ہے اتھی اتنا کرپیر سیٹ کریا ہے۔۔۔یلیز آ تندہ مجھ سے اس طرح کی یات
یہ کریا وریہ یو میں چود ہی جال جاؤں گا انکل کے گھر سے۔۔۔"
اسکے رونے ہونے نفی میں سر ہالنے یر ساپی شخت لہچے میں کہنا مڑ کر نکال تھا وہاں سے،ادھر
ل ُ
ِقلذہ کے چہرے یر اگلے ہی لمچے عم و غصے کی کیریں ا ھری،آخر ا نی محیت کا کرایا کہاں
ھ ت ت ت
ُ
یرداشت ہوا تھا اسے،
"میری یذلنل کی تم نے ساپی۔۔ا تیے کرپیر کی وخہ سے۔۔۔کرپیر۔۔۔ہنہہ۔۔۔اب میں ئمہارا کرپیر
تناؤں گی۔۔۔وہ تھی انشا چو تم کبھی نہیں تھول یاؤگے۔۔۔"
نفرت سے کہنی وہ نےنسی میں پینل یر رکھا گالس اتھا کر تیچے تھینکی تھی،
کجھ دیر نعد رنسبورتٹ سے نکل کر وہ رونے ہونے ا تیے فون میں ہناد کا ئمیر ڈایل کی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
سام میں وہ آقس کے ایک چھونے سے کیین میں پیبھا اتنا کام کررہا تھا،اس کے ساتھ چند
کلنگس تھی تھے چو اگلی میینگ کے چوالے سے بخث و مناجیہ کررہے تھے لنکن ساپی ان سے
یاس سے اجازت لینا وہ نکال آقس سے،تھر اگلے آدھے گھییے نعد سکندر وال کے الوبج میں کھڑا
تھا،ہناد اب یک آیا نہیں تھا وہ جیران ہوا تھر ک بوں یالیا گنا تھا اسے،اتھی جیرت کے دریا میں
عوطہ زن ساپی کجھ اور سوچ ہی رہا تھا جب وہاں ر ک ھے لینڈ الین فون بجا نہلے یو وہ کسی سروتٹ یا
گھر کے مکین کے فون اتھانے کے ات نظار میں اگ بور کریا رہا یر جب کوپی یہ آیا اور فون مشلشل بحنا
الف عادت جاکر اس نے فون اتھایا،اتھی کان یر لگایا ہی تھا کہ دوسری جاتب نے رہا تب ج ِ
ایک ُسریلی مگر پیز آواز کان سے یکراپی،
"مظلب میں گھر سے دور ہوں یو ویل بو ہی چبم ہوگنی۔۔۔ارے آدھے گھی بوں سے کال کررہی
ہوں۔۔۔یر نہیں کسی نے فون ہی نہیں اتھایا تھا۔۔۔اب تھی ک بوں رنسبو کنا۔۔۔رکھ دیں۔۔"
مدھر بخکایہ آواز تھی جیسے کوپی ت ندرہ سولہ سالہ بچی اتنا غصہ ایار رہی ہو،اس کی یاپیں سینا ساپی
تییسن میں تھی نےاجینار مشکرایا ساتھ ہی نے آواز "چھوپی" یوال چو یابچ میٹ یک کال کرنے
کو آدھے گھییے سے مشانہت کررہی تھی،
ی
"میں سمجھ گنی۔۔۔ہیبم تھاپی آپ ہو یا۔۔۔د یں تھاپی نی مذاق کا ل موڈ یں ہے میرا
ہ ن لکی س م ھ ک
ک بویکہ میں قلجال یو آپ سے یاراض ہوں۔۔۔میرے نعیر نکاح سکاح کرلنا اور و نسے تھی یاذلی آپی
کو تھی کجھ جاص بجسیے نہیں والی میں۔۔۔"
اس کے جپ ہونے کا ات نظار کیے ساپی اتھی جاموش تھا کہ کسی نے اجایک اس کے ہاتھ
سے فون لنا،سا میے ہناد کو کھڑا دیکھ ساپی مشکرانے ہونے یوال،
"ہنلو۔۔۔"
م
ساپی کی یات کمل ہونے سے نہلے ہی وہ فون کان سے لگانے یوال،
"ارے نہیں۔۔۔میں کوپی نعد میں یات نہیں کرنے والی۔۔۔آپ لوگوں سے یاراض ہوں
اتھی۔۔۔ضرف یہ تنانے کے لیے کال کی تھی کہ اس مس قاریہ نے ایگزئمس کی وخہ سے م نع
کنا ہے کہ تندرہ یاربخ کو نہیں آؤں گی میں گ ھر۔۔۔"
اس کا یاراض لہچہ چہاں ہناد کو مشکرانے یر مح بور کنا وہی وہ تھوڑا یرنشان ہوا،
"یر لڑکی ایک یو آپی ہی جار مہی بوں میں ایک ہفیے کے لیے اب وہ تھی تند۔۔۔"
"ضرف اس یار تند۔۔۔اور و نسے تھی اگلے مہییے آجاؤں گی۔۔۔یر آپ لوگوں سے یات سات نہیں
کرپی میں نے۔۔۔"
اس کے کال کا تیے یر ہناد مشکراکر نفی میں سر ہالیا فون رکھا یر نظر جیسے ہی قاصلے یر کھڑے
ی
ساپی یر یڑی یو اس کی مشکراہٹ سمنی،آ کھیں یکدم سیحندہ ہوپیں،
"کل میرے کجھ فرتنڈز یارپی رکھ رہے ہیں۔۔۔جلو گے میرے ساتھ۔۔۔"
یایرات کے یرعکس اس کا لہچہ اتنہاپی ہلکا تھلکا لگا تھا ساپی کو،
"آ۔۔"
"م نع مت کریا۔۔۔تم و نسے تھی یارپی وعیرہ نہیں کرنے جاتنا ہوں لنکن دوشت ہوں میں ئمہارا
اتنا یو کر ہی سکیے ہو میرے لیے۔۔۔"
ً
ساپی یہ جانے کا نہایہ سوچیے کجھ یول ہی رہا تھا کہ ہناد فورا یوال جس یر وہ ہلکا سا ہیسیے یوال،
- 141 -
"جلو تھر دوشت کے لیے کل جلیے ہیں یارپی میں۔۔۔لنکن ئمہیں کوپی کام تھا ساید مجھ
سے۔۔۔"
اجایک ہی ساپی کو یاد آیا کہ ہناد نے کسی کام سے جلد اسے یالیا تھا سکندر وال،
"کام یہ ہے میرے دوشت کہ کل کی یارپی کے لیے مجھے کجھ جیزیں لینی ہیں۔۔۔یو جلو اتھی
میرے ساتھ تھوڑی ساتنگ یر۔۔۔"
ہناد کی اس یات یر ساپی ہیشا تھا،
"کرسکیے ہو یر۔۔۔"
- 142 -
"یو تھر جلو۔۔۔"
اس یار ساپی کی یات کاتنا وہ یوال ساتھ ہی اس کے کندھے یر ہاتھ رکھنا یاہر نکال،ساپی کا یلکل
موڈ نہیں تھا اس کے ساتھ ساتنگ یر جانے کا یر ہناد صدا کا صدی اتنی م بواکر ہی رہا،ساتنگ
کرنے ہونے ہناد نے ا تیے لیے کوپی جاص جیزیں نہیں لیں ہاں مگر ساپی کو ایک یرق بوم ضرور
گفٹ کنا تھا،ساپی نے یرقبوم لییے ہونے ایک مرتیہ سم نل کریا جاہا یر ہناد کا کہنا صاف تھا کہ
جب وہ یارپی میں آنے تبھی وہ لگانے اتھی اسے کھولے تھی یہ،اس کی یہ یات ساپی کو کجھ
عح یب لگی یر اس نے زیادہ سوجا یہ اس یارے میں،
اس عرصے کے دورا تیے میں ساپی ِقلذہ کے یرویوزل کو یلکل فراموش کرچکا تھا ساتھ ہی ہناد کا
ا تیے ساتھ کجھ عح یب اور یدال ہوا رویہ تھی یہ یوٹ کرسکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس دن کے نعد سے عندلیب ہر ہفیے اورفوتیچ سے ہوکر گرتنی کے یاس آپی ضرور تھی یر فرق یہ
س
آیا تھا کہ اب اس نے لسینل سے یات یو کنا ملنا یک یرک کردیا تھا،یہ نہیں تھا کہ وہ یاراض
- 143 -
س
تھی اس سے،یلکہ اس نے وہی کریا جاہا جس سے لسینل کم از کم یرسکون رہے،اس دن
س
لسینل کی یایوں سے عندلیب سمجھ جکی تھی کہ اس کی موچودگی یر ششلینل اررپی یٹ ہویا ہے
تبھی وہ اب نہیں جاپی تھی اس کے یاس،
س
دوسری جاتب لسینل ریورٹ آنے کے نعد سے ا تیے کمرے یک مجدود ہوکر رہ گنا تھا،سروع
میں یو عندلیب کے یہ آنے یر وہ نہی سوجا تھا کہ اب جان چھوپی یر جب عندلیب یورے ایک
مہییے نعد تھی اس سے ملیے یہ آپی تب ایک الگ ہی نےجینی نے اسے آگ ھیرا،ہاں وہ عادی تھا
اسے دھ نکارنے کا یر اب جب وہ نہیں تھی یو الجھن ہوپی،ہر ہفیے کو الؤبج سے آپی عندلیب کی
کھنکنی آوازیں اسے عح یب نےکلی میں مینال کرد ت ییں،وہ کبھی اسماء کی کسی یات یر ہیسنی یو
کبھی دریہ تنگم سے یان سناپ یاپیں کررہی ہوپی،نہلے چو اس کی آواز سے یرنشان ہویا تھا اب
ہفیے کا ات نظار کریا کہ کب وہ آنے اور اتنی چونصورت آواز سے اسے یرسکون کردے،
آج دیڑھ مہییے ہو جکے تھے،ہفیہ تھا وہ جب سے ات نظار کررہا تھا تنڈ یر پیبھا کہ کب وہ مدھر آواز
ش ت ن یلس تب س
ل کے یراسے ہونے عناپی لب زیدگی سے ھریور م کرانے جب یاہر سے وہ آنے اور ھی
سیرتنی آواز آپی اس کے کایوں سے یکراپی،وہ ابجان نہیں تھا،چوب سمجھنا تھا ا تیے ایدر تندا ہونے
کنسی ی
"آج میں نے ایک ر نی د ھی ہے۔۔۔وہ یرانے کرپی ہوں۔۔۔"
مزے سے کہنی عندلیب کچن کے سلیپ یر ہاتھ بجاپی مخصوظ ہوپی،
"مظلب ایک یار تھر مجھے یورا دن لگے گا کچن صاف کرنے میں۔۔۔"
اسماء نے مضبوغی الجارگی دکھاپی،
س
"ارے لسینل۔۔۔پینا کجھ جا ہیے کنا۔۔۔"
"خی۔۔"
"کنا جا ہیے۔۔۔"
س
ان کے سوال یر لسینل کجھ دیر جاموش رہا تھر کہا،
"وہ ضرف مجھ سے ملیے آپی ہے تھر جلی جانے گی تھوڑی دیر میں۔۔۔"
انہیں ڈر تھا تبھی وہ یرنشاپی سے چواز پیش کرنے لگیں،یر ان دویوں کی یہ یآواز بخث کچن میں
کھڑی عندلیب صاف سن رہی تھی تبھی چند قدم اتھاپی وہ کچن سے یاہر دریہ تنگم کے یاس آپی،
حی م تھ
"تم کمرے میں جاؤ یں نی ہوں اسے۔۔۔"
س
ان کے کہیے یر لسینل اسینک کے شہارے مڑیا ا تیے کمرے میں گنا تھا،
"دیکھو بچے۔۔۔میں جاتنی ہوں وہ ضرور غصہ ہوگا تم یر۔۔۔لنکن چہاں ئمہیں لگے کہ اس کا
غصہ یڑھ رہا ہے تم روم سے نکل جایا۔۔کہیں انشا یہ ہو کہ وہ ئمہیں کوپی نفضان نہیجادے۔۔۔"
دریہ تنگم اسے سمجھانے ہونے وہ دن یاد کرنے لگیں جب وہ غصہ یڑھیے یر کمرے کی جالت
یدیر کر کے رکھ چکا تھا،
"میری تناری گرتنی۔۔۔آپی یو اس کا ا تیے غصے یر قایو نہیں ہے۔۔۔یر یہ تھی جاتنی ہوں کہ وہ
کبھی مجھے نفضان نہیں نہیجانے گا۔۔۔سو جسٹ ریلنکس۔۔۔"
س
گ
ل کے کمرے کی جاتب نی، ن یلس یرنقین لہچے میں کہہ کر مشکراپی وہ
" 5سال۔۔!"
ت ن یلس ی س
ی
ل کی اجا ک ا ھرپی آواز یر، وہ چو کی
" 5سال سے نےنس ہوں۔۔۔یاجانے اب آگے اور کییے سال یک رہنا ہے۔۔۔ئمہیں تنا ہے
نےنس رہنا کیشا لگنا ہے۔۔۔؟
ت م ٰ
جیسے آپ کا وچود نے عنی ہو۔۔۔دت نا میں ہونے ہونے ھی آپ یہ ہونے کے یرایر ہوجانے
ہو۔۔۔یہ نےنسی یہ محناخی جب سروع میں مجھے ملی یو میں نہت یڑیا تھا۔۔۔رویا تھی تھا۔۔لنکن
تھر امند رکھی کہ شب کجھ تھنک ہو جانے گا ایک دن۔۔۔۔ل نکن ایک دن۔۔۔کجھ تھنک یو یہ
ہوا یر میری امندیں ضرور چبم ہوگنی۔۔۔۔مجھے نقین ہوجال کہ یہ محناخی اب ساری زیدگی میرے
گلے یر تھندے کی طرح ا یکے رہے گی۔۔۔میں دتنا دیکھنا جاہنا تھا یر مجھ سے یہ چق چھین لنا
- 148 -
گنا،میں چواب پینا تھا میرے چوایوں کو آیکھوں سے یوچ ڈاال۔۔۔ضرف اس لیے کہ میں عرتب
ہوں۔۔"
وہ آج اتنا آپ اس یر آسکار کررہا تھا۔۔۔،نہلی مرتیہ وہ آج کسی یر اتنا عم اتنی اذ ت ییں کھول رہا
تھا اور کسی عندلیب سکندر تھی،وہی ع ندلیب سکندر جس سے کبھی وہ نےبجاشہ نفرت کا دعویدار
تھا،
"دوسنی میں فرتب کی تھنایک سکل دیکھنا،کسی کی نظروں میں گریا،نےقصور ہونے کے یاوچود
قصوروار نہرایا اور۔۔۔۔"
"اور زیدگی کے اتنہاپی نکل نف دہ عرصے میں کسی ا تیے کا ساتھ چھوٹ جایا کہ جس کی وخہ سے
م ن ج ُ
م
آپ خی رہے ہو،چواب ین رہے ہو وہ اگر آپ سے اتنا دور ال جانے کہ وا سی یام کنات یں
سمار ہو اور آپ چود ا تیے نےنس ہوجاو کہ اس کے لیے رو یک یہ سکو یو جاتنی کیشا لگنا
ہے۔۔۔"
ہر لفظ کے ساتھ اس کا لہچہ تھنگ رہا تھا آخر میں وہ اجایک یوچھا عندلیب سے،
"انشا لگنا ہے کہ نس اب موت کو گلے لگا لنا جانے۔۔۔مگر ان شب اذ ت بوں کو یرداشت کریا
میں ایک آخری فرد گرتنی کے لیے اس زیدگی کو کاٹ رہا تھا۔۔،ان شب کے یاوچود اگر تم مجھے
یزدل کہنی ہو یو تھنک۔۔۔ہوں میں ایک یزدل انشان۔۔۔ک بویکہ تنگ آچکا ہوں انسی زیدگی
سے۔۔۔"
"سکریہ۔۔۔"
کجھ دیر کی جاموسی کے نعد وہ یولی،
"کس لیے۔۔"
مجی س
"اتنی کجھ یاپیں مجھ سے سئیر کی۔۔۔مجھے اس ال ق ھیے کے لیے کریہ۔۔۔"
س
تم آواز میں مشکراکر یولنی وہ کجھ سوچ کر تھر اجایک کہیے لگی،
"تم نے ا تیے دن یک مجھ سے یات یہ کی یو اسی یاعث میں ئمہیں تنا نہیں سکی۔۔"
"کنا۔۔"
"کنا۔۔۔"
"نہی کہ امکایات ہیں اور وہ تھی کافی زیادہ۔۔۔انہوں نے اگلے ہفیے سرخری کے لیے یالیا
س
ہے۔۔۔میں یو یہ یات گرتنی کو تنایا ہی تھول گنی۔۔۔ لسینل مظلب سوچو کہ تم اب دیکھ یاؤ
گے۔۔۔"
ن لس س
یاوچود کوشش اس کا لہچہ کھوکھال ہورہا تھا ،ل الجھا،
ی
"عندلیب۔۔۔!"
ت
وہ ھمی تھی مفایل کی نکار یر،ڈر تھا کہ چھوٹ یہ یکڑایا جانے،
"ا نسے کیسے۔۔۔مظلب ا تیے سال یک یو کوپی امکان نہیں تھا تھر اجایک۔۔۔"
س
لسینل ساید یات کی نہہ جاتنا جاہ رہا تھا،
"سبو۔۔۔"
س
قدموں کی جاپ سے لسینل کو مجسوس ہوا وہ جارہی ہے تبھی تھر نکارا،
"کنا مام۔۔"
"جلو تھنک ہے اب میں رکھنی ہوں۔۔۔مس قاریہ کو تھی کال کر کے تنادوں۔۔۔اور ہاں لڑکی
سبو۔۔۔یڑھاپی یر زیادہ دھنان دو انہوں نے کہا ہے اس یار تھی کجھ جاص اچھی نہیں جارہی
ئمہاری تناری۔۔۔"
یوری یات کہہ کر آخر میں اسے ڈپیییں وہ فون رکھیں،عندلیب نے یرنشاپی میں سر نےساجیہ
اسیئیریگ ویل سے نکایا لنکن کجھ ہی دیر نعد وہ چھنکے سے سندھی ہوپی،
"ہے ساپی۔۔۔"
ہناد کی نکار یر ساپی چو گیٹ کے یاہر گارڈ کے کجھ یوچھیے یر کھڑا انہیں چواب دے رہا تھا چویک
کر ایدر دیکھا،
ُ
"اسے آنے دو۔۔۔"
ا تیے دوسبوں کے چھنڈ میں گھرا وہ گارڈ کو اسارہ کنا جس یر گارڈ نے سر ہالکر ساپی کو جگہ دی،
"نہیں۔۔۔"
مشکراکر کہیے ہونے وہ ہناد کو اب یک یلکل تھنک لگا،
اسے کجھ گڑیڑ لگی تبھی ساپی کا ا تیے دوسبوں سے نعارف کرواکر اسے ان لوگوں کے ساتھ
چھوڑکر ایکشکبوز کریا ساتنڈ یر گنا،ساتھ ہی ایک ئمیر ڈایل کنا،
- 159 -
"ہنلو۔۔۔"
دوسری جاتب سے پیند میں تھری آواز اتھری،
(ایک جاص قسم کا کبم نکل چو )"alkaliیات سبو۔۔۔تم نے یرق بوم کی سیسی میں الکلی(
آیکھوں یہ تیے چفاطنی نسوز یر نہت یرا ایرایداز ہویا ہے کہ پیناپی جانے کا چظرہ ہو۔)ڈاال تھا تھی
یا نہیں۔۔۔"
ہناد کی شخت آواز یر وہ سنلزیوانے یوکھال کر اتھا،
ُ
"واٹ رانش یو(گالی)۔۔۔تھو لیے کے پیسے نہیں دنے تھے ئمہیں۔۔۔"
"سو سوری سر۔۔۔می۔۔۔میرے یاس وہ اب یک ہے۔۔۔آپ مجھے کہیں یو اتھی الکر دے د ت نا
ہوں۔۔۔"
"کوپی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ہناد سکندر ہر جیز کا ات نظام نہلے سے کرکے رکھنا ہے۔۔۔"
کہہ کر وہ کال کٹ کنا ساتھ ہی چ یب میں مویایل رکھنا وانس ساپی کے یاس گنا،
"زیادہ کجھ نہیں نس پیرے اس دوشت کی آیکھوں کا ریگ نہت چونصورت ہے۔۔۔وہی تنارہے
تھے اسے۔۔۔"
اس کے ایک دوشت نے طیزیہ مشکراہٹ سمیت کہا،
"ہاں یہ یو ہے۔۔۔"
ہناد تھی اب ساپی کو دیکھ کر یوال جس یر اس نے ضرف مشکرانے یر اک نفاء کنا،
"کہاں۔۔؟"
م
"ا ہمم۔۔اصل جگہ یہ نہیں کہیں اور ہے۔۔۔تم جلو یو۔۔"
اب کی یار ہناد اسے یاقاعدہ ا تیے ساتھ لے کر نکلیے لگا یار سے،اس کے دوشت تھی ان دویوں
کے ساتھ ساتھ تھے،
ّ ّ
یار سے نکل کر وہ لوگ بجھلے چصے میں تندل آنے تھے،داجلی چصے یر جینی رویق ریگییناں اور سور
تھا نہاں اتنا ہی سنایا اور ایدھیرا ہورہا تھا،
- 162 -
"ہم نہاں یارپی کرنے والے ہیں۔۔۔"
جاروں طرف نظر دوڑانے ہونے ساپی گردن موڑ کر ا تیے سایہ نشایہ جلیے ہناد سے یوچھا،
"نےجد۔۔۔"
ً
"محیت کروں گا۔۔۔اور نقینا دتنا گھوموں گا دیکھوں گا۔۔۔اتنی قایلیت یر اتنا یو تھروشہ ہے
مجھے۔۔۔"
رسات یت سے کہنا ساپی ہلکا سا ہیشا،
"تیج ھے ہ بو۔۔۔"
وہ چو اب ہاتھ کے نعد اس یر الیوں سے تھوکر ماررہے تھے ہناد کی آواز یر تیجھے ہیے،
"انےیار۔۔۔تھوڑا یو اور ہاتھ صاف کرنے دے۔۔۔یڑا مزہ آرہا ہے مارنے میں۔۔۔"
اس کا ایک دوشت چماد یوال تھا،ہناد اسے اگبور کریا چون سے یر چہرے میں یڑے ساپی کے یاس
کن ت کی م ھ ک ی
جا کر چھکا،چو اب یک آ یں یچے کراہ رہا تھا،اس کی آ ھوں سے ھی اب یاقاعدہ چون لیے لگا
تھا،
"ہا۔۔۔دوشت۔۔۔یہ دوسنی تھی یہ۔۔۔دکھیے میں جینی اچھی لگنی ہے ایدر سے اتنی ہی زہریلی
ُ
ن
ہوپی ہے۔۔۔اور دوشت یو مات نا تھا مجھے۔۔۔میں یو ہیں۔۔۔"
ساپی کے یالوں کو زور سے جکڑ کر اس کے چہرے کو اوبجا کریا وہ عرایا،
"کمییے۔۔۔ہناد سکندر سے یات کرنے کی پیری اوقات نہیں تھی۔۔۔تھر تھی میں نے بجھے
ُ
ن
دوشت تنایا اور یو۔۔۔دوسنی کی آڑ میں میری ہن کے ساتھ یدئمیزی کرنے کی کوشش کریا
ہے۔۔۔"
نےتناہ ت نفر سے کہہ کر ہناد کھڑا ہوا ساتھ ہی اس کے ہاتھ یر سوز رکھا،وہ چو نہلے ہی نکل نف سے
مرنے کو تھا اس یر ضنط کی اتنہا کو نہیحنا شحنی سے لب تھییجا،
ُّ
"نہلے ڈیڈ کے سا میے اچھا تنا تھر مام اور تھر میری نہن کو تنانے لگا،بجھے کنا لگنا ہے میں الو
ُ
ہوں چو پیری جاالک بوں سے واقف یہ رہ یاؤں گا۔۔۔یو جس گندی ت یت سے سکندر وال آیا
"تھاپی۔۔۔"
ً
قلذہ کی آواز یر وہ چو سوز سے نفرتنا اس کے ہاتھ کو کجلیے کی کوشش میں تھا رک کر یلنا،
"جینا ہوسکا اتنا معزور یو کرچکا ہوں۔۔۔یافی ئمہیں تھی کوپی کسر ایارپی ہے یو ایارلو۔۔۔"
ہناد کی یات یر وہ چند قدم کا قاصلہ طے کرپی اس کے یاس آپی یو ہناد تھوڑا تیجھے ہوا،
"ہنہہ۔۔۔اس آدھی الش کے ساتھ اب اور کنا ِکنا جاسکنا ہے۔۔۔نس اتنا کہوں گی کہ۔۔"
س
"مجھے سزا تب د ت نا جب چود دیکھیے الیق ین جاؤ۔۔۔ ل مراد۔۔"
ن یلس
س
لسینل کو یو ہاسینل لےجایا گنا تھا یر یولیس نے جب گارڈز سے نفییش کی اس یارے میں یو
ان کا صاف کہنا تھا کہ کل رات وہ لڑکا ایک لڑکی کے ساتھ زیردسنی کرنے کی کوشش کررہا
س
تھا تبھی وہاں یر کجھ لڑکوں نے اسے دیکھا یو ت یٹ ڈاال،دوسری جاتب گھر یر لسینل کی یاتت
دریاقت کرنے سکندر صاجب کو جب ہناد نے یہ تنایا کہ وہ رات کو نسے کی جالت میں سکندر
صاجب کے ایک دوشت کے یار کے پیروپی چصے میں یڑا مال ہے یو انہیں کافی جیرت ہوپی،اتنی
س
جیرت میں وہ ہناد سے یہ یک یوچھیے کا یہ سوچ یانے کہ اسے کیسے جیر کہ لسینل یار کے
بجھلے چصے میں یڑا مال ہے،سکندر صاجب نے تنا وقت صا نع کیے اس یار کا رخ کنا تھا تھر گارڈ
سے شب دریاقت کریا جاہا یو گارڈ نے کل رات ہناد کا ریا ریایا چو یولیس کو تنایا وہی انہیں تھی
تنادیا،ان شب کے نعد سکندر صاجب کو جب نقین یہ آیا یو وال میں وانس آنے انہوں نے یہ
س
ت
ل اس کے ساتھ ھی ن یلس یات مہناز تنگم کے سا میے رکھی،تبھی قلذہ نے ایک تیہ تھی نکا کہ
کینی یار یدئمیزی کرنے کی کوشسیں کرچکا ہے،پینی کی یات سن کر سکندر صاجب نےنقین
س
ہونے کے ساتھ ساتھ نہت ربحندہ تھی ہونے،انہیں نقین نہیں تھا کہ لسینل اس قسم کا
- 170 -
ہوگا،ہیبم کو یو کسی ظور اس یات یر نقین یہ آیا تھا یر نہن کی گواہی کے آگے وہ تھی جاموش
س
ہوچکا تھا،کجھ یو لیے کو تھا ہی کنا جب وہ دلیری سے کہہ رہی تھی لسینل علط انشان تھا،
اس وا قعے کے دو دن نعد سکندر صاجب نے مراد صاجب کو کال کر کے دوسرے شہر سے
س
یلوایا تھا،ان کے آنے یر وہ مراد صاجب کو اس ہاسینل میں لے کر گیے چہاں لسینل ایڈمٹ
تھا تھر صاف لفظوں میں انہوں نے مراد صاجب کو کہہ دیا کہ وہ اب ان کے کریکیرلیس پییے
کو ا تیے گھر یر کوپی جگہ نہیں دے سکیے،مراد صاجب کو سکندر صاجب کا روکھا لہچہ نکل نف دیا تھا
کہ وہ دویوں کافی یرانے دوشت تھے،یر ا یکے شب تنانے کے نعد وہ چود سرمندگی سے جاموش
ن لس س
ل کافی جد یک ی تھے،سکندر صاجب نے ان یر اتنا ضرور اجشان کنا تھا کہ دو ہفیے نعد جب
ت
ضخت یاب ہوا یو ہاسینل کا یل چود ادا کنا اور دویوں یاپ پی بوں کو آیاپی شہر ھیحیے کا ات نظام تھی
چود ہی کنا،جب سے ڈاکیر نے مراد صاجب کو تنایا تھا کہ ان کے پییے کی پیناپی اب کبھی وانس
س
نہیں آسکنی وہ نےجد نکل نف میں تھے،ا تیے شہر آنے کے نعد انہوں نے لسینل سے یہ کوپی
سوال کنا یہ اسے ڈاتنا،وہ نس جاموش ہو گیے تھے،
ی س
دریہ تنگم نے لسینل کی جالت د ھی یو چوب بھک کر رو یں کن ھر ا ہوں نے اس کا
ن ت ن ل پ ھ ت ک
چنال رکھیے میں خی جان لگادی،اتھی وہ یونے کی جالت کے عم سے ہی یہ نکلی تھیں جب ایک
- 171 -
رات مراد صاجب کو دل کا دورہ یڑا،اور وہ یونہی جپ جاپ دتنانے قاپی سے کوچ کرگیے،اس
س
یوری رات لسینل رویا تھا،نےبجاشہ بچوں کی طرح چیخ چیخ کر۔۔۔،جیسے کوپی قبمنی ایایہ کھوگنا
ہو۔۔۔اور یہ شچ ہی یو تھا،جس قدر وہ محیت کریا تھا ا تیے یاپ سے۔۔۔،ان کا یوں اجایک جلے
جایا کیسے یرداشت کرلینا،
س
دن گزرے مہییے اور تھر ایک سال۔۔۔،شب کجھ وقت کی دیکھ ریکھ میں جلنا یر لسینل مراد
رک چکا تھا،ا تیے چوایوں سمیت زیدگی کے ایک ہی موڑ یر رک چکا تھا وہ،زیدگی سے اسے ایک
نہاتت ہی تھنایک نہلو دکھایا تھا انشا کہ اب وہ چود کجھ دیکھیے الیق یہ رہا تھا،وچنہہ ہر یل مشکرایا
ج م ھ کی
چہرہ اب سناٹ ہوچکا تھا،جالی آ یں ہر دم سرد یو دل یں الگ ہی انگارے لیے،یدلے کے
انگارے،چو ا تیے مجرموں کو جال کر راکھ کرنے کے لیے ا یلیے رہیے ہوں۔۔۔،وہ اس وقت کا
س
می نظر تھا جب یہ موقع اسے قسمت یوازپی،اور لسینل کو نقین تھا کہ یہ موقع الزمی ملے گا اسے
ایک دن۔۔،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔یر میں نے سوجا اگلے ہفیے کے بجانے ک بوں یہ اسی ہفیے جاکر سریرایز دوں
اسے۔۔۔و نسے تھی نہت ِمس کررہی ہوں اتنی بچی کو۔۔"
ت
عندلیب کے یارے میں سوچیے ہی وہ کھونے ہونے لہچے میں یولیں،قلذہ نے لب ھییچ
لیے،تنکھے چ بون سے انہیں گھورپی وہ یولی،
"کبھی اس پینی کو تھی دیکھ ل نا کریں۔۔۔ہر وقت اسے ہی مس کرپی رہنی ہیں۔۔۔"
نہت چبھنا ہوا لہچہ تھا اس کا،مہناز تنگم چویکی تھر یولیں،
- 173 -
"تم یو ہر وقت نظروں کے سا میے ہوپی ہو میری جان چنکہ وہ ا تیے سوق میں ہم شب سے
دور۔۔۔"
اس کے گال یر ہاتھ تھیرپیں مہناز تنگم کے لہچے میں آخر میں اداسی گھلی،ایک ابجانے جدسے
سے بجانے ک بوں ان کا دل نہت گ ھیرانے لگا تھا تبھی وہ اگلے ہفیے کی جگہ اس ہفیے جانے کا
سوخی تھیں،
اتنی سوچوں سے نکل کر مہناز تنگم ہوش میں آ پیں جب قلذہ ان کا ہاتھ چھنک کر پیزی میں روم
سے نکلی،اس کی خرکت یر نفی میں سر ہالپی وہ مڑی اور مالزمہ کو دوسری ہدایات د تیے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
س
آج ہفیہ تھا ،لسینل کی سرخری کا دن،اس کے کہیے کے مظایق کل رات کو فرمان دریہ تنگم
ن یس ن یلس س
ل کو ہا ل لے گنا تھا،وہ ایڈمٹ تھا رات سے وہاں یر،اب عندلیب کو کے ساتھ
تب س
م یس
ل کی ئمام ریورنس وہ بھال کر ا تیے یرس یں رکھ رہین یلس جلدی تھی ہاسینل جانے کی ،ھی
تھی،
"تناؤ۔۔۔"
اس کی آواز یر عندلیب چویکی تھر سر چھنک کر یولی،
"نہیں۔۔"
"عندل یب ِمس قاریہ غصہ ہوں گی تم یر۔۔۔ئمہیں تنا ہے یا وہ ئمہاری ہر ایک ریورٹ ئمہاری مام
یک نہیجاپی ہیں۔۔۔اور آنے والے ہفیے کو یو ئمہاری مام نہاں آ پیں گی۔۔۔تھر کنا چواب دو گی
انہیں۔۔۔"
رتیہ کی یان سناپ یایوں یر عندلیب نے کابچ ئما آیکھوں کو گھومایا،
"(۔۔۔۔۔) ہاسینل۔۔۔"
کنی سوچوں میں گھرے وہ نےدھناپی میں اسے تناپی نکلی،
"خی۔۔۔آ۔۔۔ڈاکیر آپ نے پیسیٹ یا ان کے ساتھ آنے والی ریلی بوو کو تنایا یو نہیں یا۔۔۔"
ا تیے ڈر یر قایو یاپی وہ یوچھی،
"نےقکر رہیں انہیں کجھ نہیں معلوم۔۔۔لنکن ایک سوال یوچھنا جاہوں گا۔۔۔"
م
ڈاکیر ہارون نے اسے طمین کر کے سیحندگی سے کہا یو عندلیب نے سر اتنات میں ہالیا،
" 20سال کی ہوں ڈاکیر اور ا تیے ق نضلے چود کرنے جاتنی ہوں۔۔۔"
- 177 -
لہچے کو ُیراعبماد تناپی وہ اتنی عمر ایک سال یڑھا کر تناپی تھی جس یر ڈاکیر ہارون جپ ہونے،تھر
سر اتنات میں ہالکر یولے،
"پیسیٹ سے مل لیں۔۔۔"
مح نصر یات کہہ کر وہ گیے تھے،
س
عندلیب نے اس وارڈ کا ُرخ کنا چہاں لسینل ایڈمٹ تھا،یاہر فرمان کھڑا تھا اس نے تنایا دریہ
ن ل م ت ہ ن یلس تنگ س
گ ی
ل کے ساتھ یں،عندلیب نے ا ک ہرا سانس ھر کر چود کو یار ل کنا کن یار م ایدر
ھ ت ت ھ کی
یار آ یں م ہورہی یں اس کی،
"تھر۔۔"
ً
"تم وعدہ کرو۔۔۔سرخری کے فورا نعد میرے یاس آؤ گی۔۔۔اور جب یک مجھے ہوش یہ آنے
میرے ساتھ ہی رہو گی۔۔۔"
آج نہلی یار اسے عح یب سا ڈر لگ رہا ت ھا جیسے کجھ علط ہونے واال ہو،تبھی ا تیے ہاتھ یر ر ک ھے
عندلیب کے ہاتھ یر دوسرا ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دیایا یوچھا،
ادھر عندلیب کی جالت عیر ہوپی،آنسو نےساجیہ نکلے تھے آیکھوں سے اور دل کایوں میں
دھڑ کیے لگا مفایل کے تھاری ہاتھوں میں مضبوطی سے مفند اتنا ہاتھ دیکھ،
"کرو وعدہ۔۔"
س
لسینل کی گھمئیر آواز یر وہ ہوش میں آپی یولی،
- 180 -
"میں ئمہارے ساتھ تھی ہوں اور رہوں گی۔۔۔وعدہ ہے میرا۔۔۔"
س
ل ن یلس کا پییے دل یر قایو یاکر اس نے آہسنگی سے اتنا ہاتھ چھڑایا جاہا یر تبھی نےاجینار ہوکر
چھنکے سے اسے اتنی طرف کھییجا تھا اور عندلیب سندھا اسکے سییے سے آلگی،اسکے گرد دویوں یازوؤں
ن ت سلسین ن ً
م یق م
ل فرتنا یجا تھا اسے چود یں کہ عندلیب نے نی یں ششک کر رہ یھ کو جایل کیے
گنی،وہ اسے گلے لگایا تھا ا تیے،جب یک اتنی نےنقینی سے نکل کر وہ ہوش کی دتنا میں آپی
س
لسینل اسے یرمی سے دور کرچکا تھا،
ُ
"آپی لوو یو۔۔۔"
ا تیے جذیات کا اظہار اس نے اتنہاپی ہلکی سرگوسی میں کنا تھا یر عندلیب ل بوں کی خرکت سمجھ
س
جکی تھی مگر اتھی وہ اس جالت میں نہیں تھی کہ لسینل کو کوپی چواب د تنی،دل ہی یری
طرح دھڑک رہا تھا،ایک جگہ چوسی تھی کہ مفایل نے اس سے اظہار کنا یو دوسری جاتب آنے
والے وقت کا سوچ کر دکھی تھی،اصل دکھ نہی تھا کہ اب وہ کبھی ا تیے مح بوب کا یہ دیکھ یانے
ن کن کی
گی،ایک مرتیہ تھر وہ دل تھر کر اسے د ھی ھر پیزی یں روم سے لی وریہ یو اسے ین تھا کہ
ق م ت
اب وہ رو دے گی یری طرح،
"ایکشکبوز می ِمس۔۔۔"
مس قاریہ نے لنکجر د تنی تیجر کو کہا ساتھ ہی سدید یرنشان کھڑی مہناز تنگم کے ساتھ رتیہ کے
جاتب آ پیں،
"ہنلو آ تنی۔۔۔"
مہناز تنگم کو دیکھ کر وہ یولی،
"یو آ تنی۔۔"
" بچے صیح کالج کے لیے نکلیے سے نہلے عندلیب کی آپ سے کجھ یات ہوپی تھی۔۔۔"
اور مس قاریہ کی اس یات یر رتیہ کو عندلیب سے کی گنی یات یاد آپی،
"خی آ تنی۔۔۔"
"آ تنی زیادہ کجھ نہیں نس اس کا آج ارادہ نہیں تھا کالج آنے کا اور وہ کہیں جارہی تھی۔۔۔"
- 183 -
اتنی اور ع ندلیب کی یات یاد آنے یر وہ یولی،
"مجھے نہیں معلوم۔۔۔سکندر جلیں ہم وہی جلیے ہیں ساید کجھ جیر ہو۔۔"
ان کی یات یر سکندر صاجب اتنات میں سر ہالنے عندلیب کے کالج سے نکلے،وہ لوگ اسے
سریرایز د تیے نہاں آنے تھے یر نہاں آکر چود سریرایز تب ہونے جب ِمس قاریہ نے انہیں تنایا
کہ عندلیب کا کجھ ایا تنا نہیں ہے نہاں یک کہ اس کا فون تھی تند جارہا ہے،اس وقت وہ
لوگ نہت یرنشان ہونے مگر جب مس قاریہ نے عندلیب کی روم میٹ کے یارے میں انہیں
تنایا تب ان لوگوں کا رخ عندلیب کی کالج کے جاتب ہوا تھا،اور اب رتیہ سے یہ جان کر کہ
عندلیب ہاسینل گنی ہے وہ لوگ مس قاریہ سمیت وہی یر جارہے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
س
سرخری کامناب نہری تھی ،لسینل اتھی دواؤں کے زی ِر ایر نےہوش تھا،اس کی آیکھوں میں
تنی ت ندھی تھی چو کجھ مہی بوں نعد ہی ایرپی تھی،ڈاکیر ہارون اتھی کسی یرس کو ہدایات دے رہے
تھے جب ہاسینل میں سور سا یریا ہوا،یاہر آنے یو دیکھا رنسییسن یر سکندر صاجب کسی یات یر
رنسییسیسٹ سے بخث کررہے تھے،
"ڈاکیر۔۔۔کنا میں یوچھ سکنا ہوں کہ اس لسٹ میں عندلیب سکندر کا یام ک بوں لکھا ہے۔۔۔؟"
وہاں ر ک ھے کمی بویر کی جاتب اسارہ کرنے سکندر صاجب ضنط سے یو چ ھے،
"ک بویکہ نہاں یر جس لڑکی کا یام لکھا ہے وہ میری پینی ہے۔۔۔اب تناپیں گے کہ ک بوں لکھا
ہے اس کا یام نہاں۔۔کنا وہ نہاں آپی تھی۔۔۔اور اگر آپی تھی تھی یو ک بوں۔۔۔"
سکندر صاجب کے تنانے یر ڈاکیر ہارون نے نہلے یو جاموسی سے انہیں دیکھا تھر کہا،
"سرخری۔۔۔کیسی سرخری۔۔۔؟"
سکندر صاجب کو چظرے کی گھیی ناں ا تیے اردگرد بحنی مجسوس ہوپیں،
کت ی
"انہوں نے ا نی آ یں ڈوت یٹ کی یں۔۔۔"
ہ ھ
پ
اور سکندر صاجب کی جان نکلی ادھر مہناز تنگم کو لگا وہ کجھ علط سن یبھی ہیں،
ی
"د کھیں وہ لڑکی۔۔۔بجھلے دو دن سے اس سرخری کے لیے کہہ رہی تھی۔۔۔میں نے انہیں
وارن تھی کنا تھا یر وہ نضد تھیں نہیں ماپی اور تھر۔۔۔اتھی کجھ دیر نہلے ہی سرخری ہوپی
ہے۔۔۔"
ی
"ارے یر کس کو ڈوت یٹ کی ہیں اتنی آ کھیں۔۔۔"
اجایک سکندر صاجب تھڑکے،
مہناز تنگم کے مشلشل یلند آواز میں یو لیے سے وہاں یر لوگوں میں ہڑیڑ مچی تھی ہاسینل کا ماچول
یگڑنے دیکھ ڈاکیر ہارون ان لوگوں کو ت ھئیر میں لے کر گیے تھے چہاں عندلیب ہوش و چواس
سے ت نگایہ لینی تھی،اس کی آیکھوں یر تنی تندھی تھی،مہناز تنگم کا دماغ ماؤف ہونے لگا اتنی
عزیز پینی کو اس جال میں دیکھ وہ نہت یری طرح یرسی تھیں مس قاریہ یر کہ انہیں ذمہ داری
سوتنی تھی عندلیب کی،سکندر صاجب کو تھی کم چھ نکا یہ لگا تھا پینی کو ا نسے دیکھ،ان لوگوں کو
ن س
ل کے ساتھ نہاں آیا یلس دیکھ ڈاکیر ہارون نے یاہر آکر انہیں عندلیب کا بجھلے دیڑھ سال سے
س
ہ ن
ل کا یام یں تنایا تھا ان لوگوں کو، ن یلس اور اس کے پیسیس کروانے کا تنایا،الییہ انہوں نے
ی
"یر اتھی وہ اس کنڈنسن میں نہیں ہیں۔۔۔د یں سر آپ دو دن و تٹ کر یں۔۔۔ ھر وہ
ت ل ھ ک
ڈشجارج ہوجاپیں۔۔۔"
"ہمیں اتھی لے کر جایا ہے اتنی پینی کو نہاں سے۔۔۔ڈاکیر ڈشجارج کے پئیرز اتھی تنار
کریں۔۔۔"
اب کی یار سکندر صاجب شخت لہچے میں یولے،
ی
"نہیں۔۔۔ہم اتھی نہیں جاپیں گے۔۔۔ان سے کہیں کہ میری پینی کی آ کھیں وانس دیں
ی
اسے۔۔۔کوپی ڈوت یٹ نہیں کرے گی وہ آ کھیں۔۔۔"
ا تیے آنے میں یہ رہنی مہناز تنگم غصے میں یولیں،
"وہ یو تھنک ہے۔۔۔لنکن ہم تھر ان لوگوں کو کنا چواب دیں گے جن کے ساتھ آپ کی پینی
آپی تھیں۔۔۔"
تھر تھنک دو گھییے نعد وہ لوگ نےہوش ہوپی عندلیب کو ائم بولییس میں ہی وہاں سے لے کر
گیے تھے،سکندر صاجب نے اسے دوسرے ہاسینل میں سفٹ کروایا تھا،ان لوگوں نے اس
ت کت ی
انشان کو دیکھنا یک گوارا یہ کنا تھا جسے ان کی پینی نے ا نی آ یں دی یں،
ھ ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج ایوار تھا وہ تنڈ یر پیبھا لیپ یاپ یر اسائمیٹ تنار کررہا تھا چو کہ کل ہی سبمٹ کریا تھا تبھی
اس کا فون ریگ کنا،
"ہنلو۔۔"
تنا لیپ یاپ یر سے نظر ہنانے وہ فون کان سے لگانے یوال،
"ہیبم آپ کو تنا ہے۔۔۔ارم کا چو م نگئیر ہے یا وہ اسے کل ایک نہت چونصورت رنسبورتٹ میں
لے کر گنا تھا،وہ رنسبورتٹ سی ساتنڈ یر ہے۔۔۔اور آپ نقین نہیں کریں گے ارم نے مجھے
جب یک دکھاپی یو مجھے وہ جگہ اتنی نسند آپی اتنی نسند آپی کہ۔۔۔"
- 192 -
"کہ اب ئمہیں تھی وہاں جانے کا دل کررہا ہے۔۔۔"
وہ چو اس کے ہنلو یو لیے ہی یان سناپ سروع ہوپی تھی ہیبم کی یات اجکیے یر چھی یپ گنی،
"میں ضرور ئمہیں لے جلنا جایاں۔۔۔یر آج اسائمیٹ تنارہا ہوں۔۔۔کل سبمٹ کروایا ہے۔۔۔یو
انشا کرنے ہیں ہم کل جلیں گے۔۔۔اوکے۔۔۔"
اسے اتنی مصروق یت تنایا ہیبم آخری میں آ تنڈیا د ت نا یاتند جاہا لنکن یاذلی کا چہرہ ل نکا،
"کنا مبم صاب۔۔۔آج کل یو میرے جا تیے میں تھی جینی عورپیں ہیں وہ شب کہیں اور کام یر
لگی ہیں۔۔۔اور میں کون سا ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں چو آپ میری جگہ کسی اور کو لگاپیں
گی۔۔۔"
وہ چفگی سے یولی یو مطییہ نے ہوا سے لہلہانے رنسمی یالوں کو چہرے یر سے ہنانے کہا،
"یو کنا ایک مہییے یک ہم تنا منڈ کے رہیں ئمہارے ات نظار میں۔۔۔گھر کا یافی کام کیسے ہوگا۔۔۔"
اس کے سوال یر صعری کو جپ لگی تھر کجھ سوچ کر کہیے لگی،
ی پ ص ٰ
"نہیں گرپی میں۔۔۔یلکہ آپ تھی ادھر آ یں عری۔۔۔د یں کینا مزہ آرہا ہے۔۔۔"
ھ ک
ٰ
چہرہ گھوما کر صعری کی طرف دیکھ کر وہ یرچوش سی یولی،
ُ
"یاذلی۔۔۔ایر جاؤ۔۔۔"
مطییہ نے تھی ایک سیحندہ نظر اس یر ڈال کر کہا،
"آپی۔۔۔آپ دویوں یو ا نسے مجھے ایرنے کا یول رہی ہو جیسے میں نے تیچے گر کر مرجایا ہے۔۔۔"
- 196 -
اس کی یات یر ہیسنی یاذلی یولی یو مطییہ ایک ت نفر تھری نظر اس یر ڈالے یڑیڑاپی،
دوسری جاتب ہیبم چو کسی تھی طرح جلدی سے اسائمیٹ رات کی جگہ سام یک کم نلیٹ کر کے
یاذلی کو سریرایز د تیے کے عرض یازہ تھولوں کا گلدشیہ لیے چہایگیر ہاؤس آیا تھا،اتھی کار سے ایرا
ہی تھا کہ اویر سے کوپی وچود پیزی میں آیا تھنک اس کے پیروں سے چند قدم دور گِ را تھا،ہیبم
نےساجیہ ایک قدم تیجھے ہنا،جس پیزی سے وہ وچود گرا تھا اسی پیزی میں اس میں سے چون نکلنا
کھ کھ کہیب ی
ارد گرد تھنلیے لگا اور م کی آ یں لی کی لی رہ یں،ہاتھ یں تھاما گلدشیہ گرا تھا،وہ اس
م ی گ ھ
وچود کو الکھوں میں تھی نہجان سکنا تھا،دیوایہ وار اس کے یاس تھاگنا ہیبم زمین یر پیبھ کر اسے
یلنا تھا،
- 197 -
"یاذلی۔۔!!!!"
چ ھت یر کھڑی مطییہ کا سکیہ یویا یو وہ جلق کے یل جالپی جس یر ہیبم تبھر ہوپی نظروں کو اویر
کنا،مطییہ لبھے کے ماتند سفند چہرے سمیت کھڑی تھی اس کی لرزراہٹ یلکل واضح تھی جیسے
یری طرح چوفزدہ ہو،ہیبم نےنقین رہ گنا دل دھک سے ہوا تھا،یو کنا اتنی نفرت میں وہ اس جد
یک گر جکی تھی،اس یر سے نفرت و اسنعال سے نگاہ ت ھیریا ہیبم یاذلی کو دیکھا،اس کا چوتم چون
ہوا چہرہ ہیبم کے دل کے یکڑے کرنے کے لیے کافی تھا،ا تیے کلییے دل کو ئمسکل سیبھال نا وہ
تنا اور وقت صا نع کیے یاذلی کے نےجان وچود کو یازوؤں میں تھریا اتنی کار کی طرف تھاگا،یاذلی
کو کار میں ڈال کر اب ہیبم کا رخ ہاسینل کے جاتب تھا،وہ کار گنی یو تھی یر تیچے گرے ان
چونصورت گالیوں کو کجلنی چو وہ یاذلی چہایگیر کے لیے جاص الیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
"دتنا کی ان ریگیی بوں سے ہی یو چوف آیا ہے۔۔۔چو ہر دن کے ساتھ اتنا ساتھ یدلنی ہے۔۔۔"
سیحندہ یایرات سمیت کہنا وہ انہیں نہت یرنشان لگ رہا تھا،
"گرتنی کب یک مجھ سے چھوٹ یولیں گی۔۔۔صاف صاف تنا ک بوں نہیں رہی ہیں آپ کہ
عندلیب میرے یاس ک بوں نہیں آرہی۔۔"
اس کے اجایک یو چھے گیے سوال یر دریہ تنگم کجھ یل کی جاموسی کے نعد یولیں،
"گرتنی۔۔۔کنا یول۔۔"
- 200 -
"ہاں وہ نہیں رہی۔۔۔وہ جاجکی ہے ہم سے نہت دور اس جگہ چہاں سے وانسی یاممکن ہوپی
ھ کئمہ ت ی
ہے۔۔۔اور جا تیے ہو یہ شب کیسے ہوا۔۔۔ک بویکہ اس نے یں ا نی آ یں ڈوت یٹ کی
تھیں۔۔"
ی
تھراپی آواز میں کہنی دریہ تنگم جپ ہوپی ساتھ ہی رونے ہونے ششلینل کو د یں جس کی
ھ ک
ی
کابچ ماتند آ کھیں یل میں سرخ ہوپی تھیں،دل میں درد کی پیسیں اتھیں،اسے اتنا یورا وچود یل
ت ج م ٰ
میں نے عنی لگا تھا جس کے لیے وہ یازک لڑکی ا نی یڑی فریاپی دے کی ھی،ہاں اس نے
ت
کبھی کہا نہیں تھا یر ا تیے عمل سے اس یر ہر دن یہ طاہر کرپی کہ وہ اس کے لیے ایک
چونصورت جذیہ رکھنی ہے ا تیے دل میں،ہاں وہ جاتنا تھا کہ عندلیب اس کی محیت میں گرق نار
ہوجکی تھی مگر کنا اس قدر آگے یڑھ جکی تھی وہ اتنی محیت میں،کنا اس نے محیت کی سیڑھناں
یار کر کے عسق کی اس سیڑھی یر قدم رکھ کنا تھا چہاں یر انشان ا تیے یارے کجھ نہیں
سوچنا،اسے ضرف ا تیے محبوب کی چوسی جا ہیے ہوپی ہے،سکیہ یویا تھا اور کنی آنسو یک تنک
س کی ن یلس س
ع
ل مراد کی آ ھوں سے رواں ہونے،وہ یڑپ کر رہ گنا،کنا وہ لڑکی اس سے ق کرنے
لگی تھی،آج اتنا آپ اسے عندلیب کے آگے نہت چھویا لگا،اتنی فریاپی سے وہ اس یر واضح کرجکی
س
تھی کہ اس کے عسق کے آگے لسینل مراد کی محیت کم یڑگنی،
"گرتنی ا۔۔۔اس نے وعدہ کنا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہے گی۔۔۔اسے کہیں یا مجھے اس کی
ضرورت ہے۔۔۔یلیز گرتنی۔۔۔"
اجایک دریہ تنگم کا ہاتھ تھامنا وہ نضد لہچے میں یوال،
"اسے ُیالدیں۔۔۔یلیز گرتنی۔۔۔۔اس نے انشا ک بوں کنا۔۔۔ک بوں وہ میری یاپیں نہیں ماتنی
ک بوں وہ اتنی من ماتناں کرپی ہے۔۔۔"
کی س ن ن ھ ت ن گن ت ن یلس س
ل دریہ م کو ہت یویا ہوا لگا تھا ،گی ظروں سے ا کی کابچ آ ھوں یڑ تیے دل سے کہنا
کو دیکھ وہ میرتم آواز میں یولیں،
س
دوسری جاتب اذ ت بوں میں ِگھرا لسینل ایکی جاتب دیکھنا نےبجاشہ کرب لیے دھاڑا،
کمج ی
"یو نہیں کرپی یاں وہ یہ عناتت مجھ یر۔۔۔۔نہیں جا ہیے تھا اس کا یہ اجشان۔۔۔ ھے آ یں
ھ
ی پ
دے کر چود ہی زیدگی گواں یبھی۔۔۔۔انسی آ کھیں نہیں جا ہیے مجھے۔۔۔"
یات کے آخر میں وہ پیزی سے ہاتھ مار کر ساتنڈ میں رکھی مسی بوں کو گرایا تھا،دریہ تنگم نے
رونے ہونے میہ یر ہاتھ رکھا تھا چنکہ ڈاکیر اس کے چظریاک یایرات اور عمل سے گ ھیرایا روم سے
کن ن ن یلس ت تھ س
ن ل
ل کے یازو یر کن وہ ل ف اسے زرا مجسوس یہ ہوپی، نکال،چون کی لکیریں ا ھری یں
"عندلیب۔۔۔"
وہ چیجا تھا یری طرح ،لہچے میں یونے کابچ سی چبھن تھی،اگر کو اسے جیر ہوپی کہ وہ دیواپی
سرخری کے نہانے اس قدر یڑا قدم اتھانے گی یو مر کر تھی ہامی یہ تھریا اس کی یات یر،
کی
"ڈاکیر سے کہیں ایک اور مرتیہ سرخری کریں۔۔۔اور میری یہ آ یں نکال دیں۔۔۔کنا قایدہ ہوا
ھ
ی
اس شب کا۔۔۔جب وہ ہی چھوڑ کر جلی گنی مجھے۔۔۔نہیں جا ہیے یہ آ کھیں مجھے۔۔۔میں نہلے
ہی تھنک تھا۔۔۔"
س
سرخ چہرے سمیت کہنا لسینل نےجد یڑپ لیے یوال
"وہ تم سے نہت محیت کرپی تھی میرے بچے۔۔۔اس کی فریاپی رات نگاں نہیں جانے د ت نا۔۔۔"
نہت دیر یک وارڈ میں جاموسی چھاپی رہی تھر دریہ تنگم نے آہسنگی سے کہہ کر ایک چھویا سا پئیر
ت م ن یلسس
ل کے ہاتھ یں ھمایا، ساتھ النے ا تیے یرس سے نکال کر
"یہ اسماء نے دیا تھا مجھے۔۔۔ئمہارے روم کی صفاپی کے دوران یکیے کے تیچے یڑا تھا۔۔۔ساید
عندلیب نے رکھا تھا۔۔۔"
اسے پئیر یکڑا کر وہ وارڈ سے نکل کر یاہر پییچ یر پیبھیں چہاں اسماء اور فرمان کھڑے تھے،اس
رات گھر یر وہ آرام کر کے جب دوسرے دن آ پیں یو ڈاکیرز نے چو جیر انہیں دی تھی وہ ان
کی جان نکال گنی،عندلیب کی فریاپی یر اسک نہاں انہوں نے جب ڈاکیرز سے اس کی ڈیڈ یاڈی
دیکھانے کا کہا یو ڈاکیر ہارون نے تنایا کہ عندلیب کے والدین اس کی ڈیڈ یاڈی کے کر گییں
- 205 -
ہیں اور اس کی موت یر نہت غضب زدہ تھے،یہ سن دریہ تنگم میں اور ہمت یہ تھی کجھ یوچھیے
کی،بجا ہی کنا تھا وہ دیواپی جب محیت میں ا یکے یونے کے لیے اتنی قبملی کو تھالنے اتنی یڑی
فریاپی دے جکی تھی یو وہ کس میہ سے اب اس کے گھر والوں کا یوچھ ان کے یاس جاکر دو
یول دالسے کے یولییں،
دریہ تنگم کے جانے کے نعد اس نے فولڈ ہونے پئیر کو ایک نظر دیکھا،سا میے یڑے لفظوں میں
ی
لکھا تھا "فروم عندلیب"،اتنی آ کھیں ہاتھ کی نست سے صاف کریا وہ فولڈ پئیر کھوال جس یر لکھا
تھا،
"جب تم یہ یڑھو گے یو جاتنی ہوں اس وقت یک میں اس جالت میں نہیں ہوں گی کہ کجھ
دیکھ سکوں تبھی ئمہارے چہرے یر پیناپی وانس آنے کی چوسی نہیں دیکھ یاؤں گی۔۔۔ل نکن میں
اتنا ضرور جاتنی ہوں کہ تم چوش ہونے کے ساتھ ساتھ نہت غصہ تھی ہوگے مجھ سے میری
اس خرکت یر۔۔۔لنکن کوپی نہیں مجھے یو عادت ہے ئمہاری ڈاتٹ سییے کی۔۔یر اس یار کی
ئمہاری ڈاتٹ سن کر میں روں گی نہیں یلکہ چوش ہوں گی کہ تم مجھے میرے لیے ہی ڈات بو
گے۔۔۔آخر کو مج ھے معلوم ہے۔۔۔کہیں یا کہیں تم تھی میرے لیے وہ جذیات رکھیے ہو یر اظہار
کریا نہیں آیا ئمہیں۔۔۔یا ساید کریا جا ہیے نہیں۔۔۔جیر زیادہ کجھ نہیں کہوں گی۔۔۔ضرف تم
- 206 -
ن کی
سے یہ جاہنی ہوں کہ جن چوایوں کی ل م نی سال لے ا تیے ایدر دفن کر کے ھے۔۔۔ان
ت ہن ک ت م
م
کو کمل کریا اور ایک نہت ا چھے انشان پینا و نسے تم ا چھے یو ہو یر تھوڑے ُروڈ ہو۔۔۔اور
ہاں۔۔۔میری آیکھوں کی قکر یہ کریا۔۔۔میں جیسے ہوں ونسی ہی تھنک رہوں گی۔۔۔ایک آخری
یات۔۔۔میں نے تم سے محیت یو کی ہے نہت لنکن کبھی ئمہیں یانے کا یا سوجا یا جاہا کبویکہ
میں جاتنی ہوں میں کبھی ئمہیں یا نہیں سکنی۔۔۔اسی لیے تم نےقکر ہوکر ا تیے چواب یورے
کریا اور چوش رہنا نہت"،
"عندلیب"
آج اس لڑکی نے واقعی اس یر طاہر کنا تھا کہ وہ اس سے محیت نہیں عسق کرپی تھی،اتنی تم
س ی
ہوپی آ کھیں ایک مرتیہ تھر یوبجھنا لسینل ایک نظر پئیر کے آخر میں عندلیب کے یام کو دیکھا
- 207 -
تھر نہاتت یرمی سے ان لفظوں کو چوم لنا،نےبجاشہ یڑ تیے دل کو تھوڑی راجت ملی تھی اس
ی
دیواپی کی یایوں سے اور ایک تنا عزم کریا وہ ت نڈ سے تنک لگانے آ کھیں مویدا ساتھ ہی وہ لئیر
ا تیے سییے یر رکھا تھا،
پ ُ
"جب کابچ اتھانے یڑجا یں،
تم ہاتھ ہمارے لے جایا،
ڈوت یٹ کرنے کی آخری چواہش طاہر کرنے تبھی سکندر صاجب کو اس قکر سے آزادی ملی تھی
ً ی
کہ عندلیب کے لیے آ کھیں کون دے گا،دن یر لگاکر اڑنے لگے اور فرتنا چھ مہییے نعد عندلیب
کے ت بونے اس قایل ہونے کہ وہ ایک اور سرخری یرداشت کرلیں تھر سکندر صاجب کے کہیے
یر ڈاکیرز نے تنا وقت صا نع کیے چند دیوں نعد اس کی سرخری کی،
سرخری یو کام ناب نہری یر اب کجھ مہی بوں یک اس کی آیکھوں یر تنی تندھی رہنی تھی،مہناز تنگم
کے لیے وہ دن نہاتت چوسی کا دن تھا جب عندلیب کی آیکھوں لگی تھیں سرخری کے تنا
ً
یر،اسے نفرتنا ایک سال ہوچکا تھا ہاسینل میں رہیے،اس عرصے میں قلذہ اور ہناد تھی ہاسینل
میں اس کی جیر جیر کے لیے آنے رہیے،سروع میں ان لوگوں کو جب عندلیب کی خرکت کا علم
ہوا یو وہ لوگ سدید چھنکے میں آنے قلذہ کو چہاں اس جیر سے چوسی ہوپی تھی وہی ماید یڑی اس
کی چوسی ایک سال نعد عندلیب کی آیکھوں یر سے تنی ہییے دیکھ،مگر ایک جیز چو اس کے ایدر یک
تنی ہییے کے کجھ دن نعد اسے گھر آیا تھا یر اجایک ایک دن اس وارڈ میں جس میں عندلیب تھی
ڈیوپی کرپی یرس کے میہ سے چیخ یرآمد ہوپی،جب عندلیب کے میہ سے اجایک چون نکلیے لگا،وہ
چون اس قدر نہا تھا کہ عندلیب کے تنڈ یک میں تھنل گنا تھا،سکندر صاجب اس وقت مہناز
تنگم کو سکندر وال چھوڑ کر ہاسینل آنے تھے چہاں قلذہ عندلیب کے ساتھ تھی یر وہاں عندلیب
کی تبم مردہ جالت دیکھ ان کے رو یگیے کھڑے ہونے،ڈاکیرز نے تنایا تھا کہ کابچ کے کجھ
چھونے یکڑوں نے اس کے جلق کو یری طرح منایر کنا ہے لنکن وہ کابچ کے یکڑے اس کے
جلق میں گیے کیسے تھے یہ کوپی جان یہ یایا،
عندلیب کا فوری آیرنسن ہوا تھا،ڈاکیرز نے وہ یکڑے یو اس کی جلق سے نکال دنے مگر ان شب
میں ایک یری جیر چو سکندر صاجب اور مہناز تنگم یر نہاڑ کی طرح یوپی وہ یہ تھی کہ عندلیب اتنی
م
وت گویاپی سے مجروم ہوجکی تھی،اتنی پینی یر اس طرح صییییں آنے دیکھ سکندر صاجب کی ف ِ
جالت خراب ہونے لگی تھی،وہ دن یدن کمزور ہونے لگے،مہناز تنگم تھی کم ُدکھی یہ تھیں اس
کی جالت یر،ہر دم ہیسیے چوش رہیے والی ان کی پینی اب ہر یل جاموش اور تنہا رہنی،یول یو وہ
- 211 -
سکنی نہیں تھی اب،لنکن ا تیے گھر والوں سے تھی کنارہ کسی کرنے زیادہ یر وقت ا تیے کمرے
میں مجدود رہ کر گزارپی،اس ایک سال میں کینا کجھ یدال تھا سکندر وال میں سوانے عندلیب کے
دل میں نہرہ د تنی یادوں کے،وہ اب یک اسے یاد کرپی،دل کلینا کہ وہ یاجانے اب کیشا ہوگا
کس جال میں ہوگا،اس نے یو وعدہ کنا تھا ہمیشہ ساتھ ر ہیے کا تھر کیسے وہ اسے اکنال چھوڑ جکی
ی
تھی،نےیایر آ یں اکیر را یں جاگ کر گزارپی ا تیے مح بوب کی یاد یر،یادان دل تھا کہ ایک ل
ی پ ھ ک
تھی یاز یہ آیا اسے یاد کرنے سے،کینی کوشش کی تھی وہ اسے تھالنے کی اور دعا کرپی کہ وہ
ی
انشان چہاں تھی ہو جیشا تھی ہو اتنی ہر چواب کو کم نل یک نہیجانے،اتنی زیدگی کھل کر جییے،وہ
چٰ
جاتنی تھی کہ اب ان دویوں کا ملنا یاممکنات میں سمار ہے تبھی اسے تھو لیے کی نی االمکان
ن یلس س
چ
ل مراد کا وچنہہ ہرہ کوشش کرپی مگر اس کی ہر کوشش اس وقت نےسود ہوپی جب
ذہن کے یردے یر چھلکنا،
زمین یر گڑیں یاجانے کنا یالش رہی تھیں ساید وہ چوسی چو یاذلی چہایگیر کو دیکھ اکیر اسے ہوپی یر
اع جاں اسے ین تنہا چھوڑ کر چو جلی ن ی ک اس کو رآخ ا ھ ت واال ے ی رہ ں یہ ن وش چ ھی ب اب یو وہ ک
م ِ
گنی تھی،
"ہیبم۔۔۔!!!"
اجایک آپی سکندر صاجب کی آواز یر وہ اتنا تھاری ہویا سر اتھایا،ضنط کے یاعث جد سر زیادہ الل
آیکھوں نے سا میے دیکھا چہاں سے سکندر صاجب اور مہناز تنگم سمیت ہناد قلذہ اور چہایگیر صاجب
تھی اتھی ہڑیڑاہٹ
آنے تھے،
"اس نے مار ڈاال میری یاذلی کو۔۔۔جاچو یہ قا یل ہے میری یاذلی کی۔۔۔وہ مرگنی اس کی نفرت
سے۔۔۔مار ڈاال تم نے۔۔۔"
سکندر صاجب اور مہناز تنگم چو اس کی خرکت یر ہیبم کو ڈا پییے لگے تھے ہیبم کے الفاظوں نے ان
شب کو تبھر کر دیا،چہایگیر صاجب کا ہاتھ نےاجینار ہنا تھا مطییہ کے کندھے سے اور وہ لڑکھڑا
کر جلدی سے دیوار کو تھامے،یاذلی کی اجایک موت انہیں سدید نےنقینی میں مینال کی تھی،قلذہ
اور ہناد تھی یری طرح چو یکے تھے اس کی یات یر،چنکہ مہناز تنگم ا تیے پییے کی یوپی جالت دیکھیے
رہ گییں،
"آپ نہیں جاتنی اسے۔۔۔ماما یہ وہ آسیین کا ساتپ ہے چو اتنی نفرت میں ایدھا ہوکر کجھ تھی
کرنے کو تنار ہویا ہے۔۔۔اس کی نفرت نے کھالنا میری یاذلی کو۔۔۔وہ معصوم یو محیت کرپی
تھی اتنی اس نہن سے یر یہ گھینا۔۔۔"
"وہ یاگل نہیں ہے چو اتنی ہی نہن کو مارے گی۔۔۔یاذلی کو ضرف تم نے ہی نہیں کھویا
ہے۔۔ضرف تم اکلونے ہی اس سے محیت نہیں کرنے تھے۔۔۔ہم شب دل گرفیہ ہیں ل نکن
اس کا مظلب یہ یو نہیں تھا کہ اس کی موت کا ذمہ دار کسی کو نہرا کر اس یر اتنا غصہ
ایاریں۔۔۔اور چہاں یک
م کن ت کچن ی
ی ن
ف فت د ھی جانے یو م سے زیادہ ل ف طییہ اور چہا گیر کو ہے۔۔۔"
ان کی یات یر نےنسی تھرے غصے میں وہ مطییہ کو گھورا تھا چو یری طرح لرزنے ہونے مہناز
تنگم کے سییے سے لگی رورہی تھی،وہ نہیں جاتنی تھی کہ کبھی انشا تھی ہوگا۔۔۔،جس کے لیے
وہ ا تیے عرصے سے دعاپیں کرپی تھی آج وہ ہونے یر مطییہ چہایگیر زرا چوش یہ تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یاذلی کی ڈ تبھ کو دیڑھ سال گزر جکے تھے،ان دیڑھ سالوں میں دویوں گھروں میں عح یب سوگ سا
رہنا،اس کی ڈ تبھ یر عندلیب آپی تھی،اس کے لیے تھی یاذلی کی یہ یاگہاپی موت کسی صدمے
سے کم یہ تھی،چند مہی بوں نعد مس قاریہ کی کال یر مہناز تنگم نے اسے وانس تھیج دیا تھا،اس
- 217 -
کی موت سے چہاں سبھی سوگوار ک نف یت میں رہیے وہی ہیبم کی دتنا رک جکی تھی،شب کے سا میے
اب زیادہ یر جاموش ر ہیے واال ہیبم اکیر رایوں کو اسے یاد کر کے بچوں کی طرح رویا،اس کے ساتھ
گزارا ہر وہ معصوم چونصورت لمچہ اس کے ذہن میں چھلک کر آیکھوں کو الل کر ڈال نا،ان دیڑھ
سالوں میں اس نے جینی سدت سے یاذلی چہایگیر کو یاد کنا تھا اتنی ہی سدید نفرت اس کے دل
میں مطییہ چہایگیر کے لیے یڑھی تھی،نےنسی اتنی تھی کہ وہ جاہ کر تھی اس نےجس لڑکی کا
کجھ نگاڑ نہیں سکنا تھا،وخہ چہایگیر صاجب کی خراب ہوپی طی نعت،یاذلی کی موت سے جس یری
طرح وہ منایر ہونے تھے اب ایک پینی کا انہیں شہارا تھا اور ہیبم اتنی نفرت میں ان کو نکل نف
نہیں دے سکنا تھا تبھی نےنسی میں جاموسی کا لنادہ اوڑھ چکا تھا،
دوسری جاتب اس عرصے میں مطییہ جینا بجھناپی تھی اتنا کم تھا،یاذلی کی موت نے اسے یری
ت ن ی ی ھ چ
م ک ج
طرح ھوڑ کر رکھ دیا تھا،آ ھوں سے فرت کا یردہ ہنا یو اجشاس ہوا کہ ا نی چ بوپی محیت یں وہ
کس قدر گناہگار نہراپی ہے،چو وہ جاہنی تھی وہی ہوا تھا،اس کے اور ہیبم کے تیچ اب یاذلی نہیں
تھی مگر اس کے یاوچود ایک یل کا سکون اب اسے میسر یہ تھا،کینی راپیں وہ نےسکوپی میں رو
کر گزارپی،ضمیر تھا کہ اس یر مالمت کریا جس سے میہ چھنانے کی کوشش کرپی وہ تھوٹ کر
رونے لگنی،اس کے رونے میں کی نا بجھناوا ہویا مگر اب ان شب کا کوپی قایدہ نہیں تھا،وہ اکیر
دعا کرپی کہ وقت یلٹ جانے اور یاذلی وانس آجانے مگر یہ دعا دعا ہی رہ گنی،
- 218 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کنا یکواس ہے۔۔۔!"
وہ چھنکے سے کھڑا ہویا دھاڑا،
آج سکندر صاجب نے اسے ایک ضروری یات کرنے کے لیے ا تیے اِ سنڈی روم میں یالیا
تھا،وہاں یر جب سے ان کی یاپیں جاموسی سے سییے ہیبم کے کایوں میں جب ا یکے یہ الفاظ
گو بچے کہ اگلے مہییے وہ اس کا نکاح مطییہ سے کرنے کا ارادہ رکھیے ہیں یو یہ یات ہیبم کے ایدر
جسر سا یریا کرگنی اور چود یر قایو یہ یایا وہ تھڑک اتھا،
ُ
"میری یات نہلے بجمل سے سن لو ہیبم۔۔۔"
ی
اس کے ضنط سے سرخ چہرے کو دیکھ انہوں نے آرام سے کہا،مفایل کی سرخ سوخی آ کھیں
اور ان کے گرد ہلقے رت جگے کی عمازی کررہے تھے،ا تیے پییے کی جالت دیکھ ان کو نہت دکھ
ہویا تھا،
"ہیبم۔۔۔دکھ ہمیں تھی نہت ہے۔۔۔مگر اس کا مظلب یہ یو نہیں یا کہ ہم اتنی زیدگی ایک ہی
جگہ روک دیں۔۔۔یا آگے یڑھیں یا تیجھے۔۔۔اور یہ نکاح میں سوق سے نہیں کروارہا ہوں۔۔۔جاتنا
ہوں ئمہیں سیبھلیے میں اتھی وقت ہے اسی لیے ضرف نکاح۔۔۔"
ت ُ
ڈیڈ میں نکاح کا سوچ تھی نہیں سکنا اور وہ ھی اس۔۔۔
مطییہ کا سوچیے ہی ہیبم کے ایدر یک کڑواہٹ گھلی تبھی رک کر جاموش ہوا،
"سکندر ضحیح کہہ رہے ہیں ہیبم۔۔۔اگلے مہییے ضرف نکاح ہوگا۔۔۔رچصنی اتھی نہیں ہوگی۔۔۔"
- 220 -
اسنڈی روم میں داجل ہوپیں مہناز تنگم نے تھی سوہر کی یاتند کرنے سیحندگی سے کہا،ہیبم نے
جیرت سے انہیں دیکھا تھر دویوں کی جاتب دیکھنا مالمت سے کہا،
"آپ شب نےجس ہیں۔۔۔کسی کو یرواہ نہیں میری یاذلی نےقصور اس نےجس لڑکی کی نفرت
کا سکار تنی اور آپ لوگ ہیں کہ اس کی موت کو اتھی عرصہ نہیں ہوا اور مجھے اسی نےجس لڑکی
سے نکاح کا کہہ رہے ہیں۔۔۔نف ہے آپ لوگوں کی سوچ یر۔۔۔"
عم و غصے کی ک نف یت میں مینال وہ نہلی مرتیہ ا تیے ماں یاپ سے یدئمیزی کررہا تھا مہناز تنگم کی
ب ت م کن ب یہ ی ھ ت ت ھ کی
س
آ یں م ہوپی یں ان دویوں کو د کھ م وہاں سے لیے لگا گر ھی کندر صاجب کے
الفاظوں یر رکا،
"چہایگیر تھاپی کی طی نعت کافی خراب رہیے لگی ہے۔۔۔ایک پینی کا نضیب اچھا تھا یو اس کی
زیدگی کم۔۔۔مگر اب وہ ڈرنے ہیں اتنی دوسری پینی کے نضیب سے۔۔۔۔ہم نے ہناد سے رسیے
- 221 -
کا کہا یر وہ گ ھیرانے ہیں۔۔۔انہیں تم یر تھروشہ ہے۔۔۔۔تبھی انہوں نے ئمہارا یام لنا۔۔۔وہ
نہت یرامند ہیں تم سے کہ تم انہیں انکار نہیں کروگے۔۔۔۔یافی ئمہاری مرضی۔۔۔۔اگر جاہو یو
م نع کرد ت نا انہیں جاکر۔۔۔ک بویکہ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ایک محبور یاپ کو میہ یر یہ کر
سکیں۔۔۔"
پ
یوری یات کہہ کر مہناز تنگم سکندر صاجب کے یرایر میں رکھیں جئیر یر یبھی تھیں،ہیبم کو ات نا
کھڑا یک رہنا مجال لگیے لگا تبھی وہاں سے پیزی میں نکلنا وہ یاہر یورچ میں آیا،اتنی کار میں پیبھ کر
وہ ا تیے سے دور نہت دور آیا تھا،کافی دیر کی ڈرات بویگ کے نعد اس نے چھنکے سے کار روکی،دم
گھییے یر کار سے نکل کر اس نے کھلی ہوا میں گہرے سانس تھرے تھے،اس وقت وہ آیادی
ی ت ک ُ
ی
ن
سے کجھ دور ایک ل یر ھڑا تھا،چہاں رات کے اس ہر کوپی نی یوح انشان موچود یہ تھا ،ل
ُ
سے تیچے یاپی دیکھیے اسے لگا کہ ایک موپی آیکھوں سے یوٹ کر دور تیچے یاپی میں گم ہوا تھا اور
ہیبم کو جلد اجشاس ہوا کہ اس کے گال تھی تھنگے ہونے ہیں،وہ تھر رورہا تھا،ہر یار کی طرح
اس یار تھی وہ ا تیے آنسوؤں کو یوبجھیے کی زچمت یہ کنا تھا،یاذلی کا معصوم چہرہ یکدم اسے یاپی
کی ہلکی لہروں میں مشکرایا دکھا تھا اور درد کی سدت سے جب دل تھییے کے فرتب ہوا یو نےاجینار
ہوکر وہ رونے ہونے چیجا تھا،
"یاذلی۔۔۔!!
- 222 -
وانس آجاؤ یار۔۔۔"
آنسو روکنا وی ِال جاں تنا یو وہ بچوں کی طرح اسے نکاریا وہی پیبھنا جال گنا،اس کی ششکنی نکار ساید
یادلوں کو تھی اداس کرگنی تھی،تبھی اگلے ہی یل یارش کی یوچھاڑ نے یل یر تیچے پیبھ کر رونے
ہونے ہیبم سکندر کو تھگو کر رکھ دیا،رات کا ایک ایک نہر گزرنے لگا ساتھ ہی یارش تھی پیز ہوپی
اع جاں کو یاد کریا رویا رہا،دل میں عح یب کلس
گنی مگر وہ ہر جیز سے نےنہرہ وہاں پیبھے اتنی من ِ
تھی کہ نس ایک مرتیہ وہ سا میے آجانے یو اسے چود میں اس طرح چھنالے کہ کوپی اس کی یاذلی
کو اس سے دور یہ کرسکے۔۔۔۔یر یاذلی ہوپی یو اس کے یاس آپی،صیح کی کرپیں نکلیے لگی یو یارش
تھی کم ہونے لگی مگر یل یر رونے اس عاسق کا جیسے آج ا تیے اسکوں یر قایو نہیں تھا،
ہاسینل سے ڈشجارج ہونے آج اسے ایک ہفیہ ہوچکا تھا،عندلیب کے کہے کے مظایق ا تیے
ہن ب ت گن ت ن مکی
چوایوں کی ل کے لیے وہ دریہ م کے ساتھ اس شہر سے دور جارہا تھا ،ھی لی اور آخری
مرتیہ عندلیب کی یاد میں اورفوتیچ کا جکر لگانے کا سوجا،نہاں آکر اس نے جب بچوں سے یاپیں
کیں یو ان کی معصومایہ یایوں سے زچمی دل تھوڑا نہت یرسکون ہوا تھا،نہت اچھا وقت گزرا تھا
اس کا بچوں کے ساتھ،اب وہاں سے جانے کا ارادہ کریا وہ اتھا تھا،
س
" لسینل صاجب تنکسی آگنی ہے۔۔۔"
س
گھر میں داجل ہویا لسینل فرمان کے کہیے یر اتنات میں سر ہالیا یوال،
"خی صاجب۔۔۔"
"ہمم۔۔"
ن یلست س
کن
ل ا تیے کجھ ضروری سامان لینا وہاں سے ال،گیٹ تند کرنے اسکے چواب یر ہ نکارا ھریا
سے نہلے اس نے چ یب میں ایک مرتیہ عندلیب کے لکھے گیے اس لئیر کے ہونے کی نضدیق
پ
کی،تھر مین گیٹ کی جاپی فرمان کو د ت نا وہ یاہر آیا چہاں دریہ تنگم تنکسی میں یبھی اسے ہی دیکھ
اس رات کے نعد جب دوسرے دن ہیبم آقس میں چہایگیر صاجب کے یاس گنا تھا،یکھرے
جلیے سمیت وہ انہیں تنا کسی لجاظ کے واضح لفظوں میں مطییہ سے نکاح کے لیے انکار کرچکا تھا
- 226 -
جس یر چہایگیر صاجب نے اس وقت کجھ نہیں کہا یا ساید سرم سے وہ اس قایل نہیں رہے
تھے کہ اس سے الیجاء کرسکیں چو تھی تھا یر اگلے دو دن یرسکوپی سے گزرنے کے نعد آقس میں
ہی چہایگیر صاجب کی طی نعت اجایک یگڑی تھی،جالت اتنی خراب ہوپی کہ انہیں فوری ظور یر
ہاسینل میں ایڈمٹ کروایا گنا،ایک ہفیے یک ہاسینل میں رہیے کے یاوچود جب ان کی طی نعت ید
سے یدیر ہونے لگی یو انہوں نے نہاتت ہی مح بوری میں ہیبم سے الیجاء کی تھی مطییہ سے نکاح
کی،ہیبم چو اس وقت تھی انکار کا ارادہ رکھنا تھا ڈاکیرز سے یہ سییے کے نعد کہ ان کے یاس زیادہ
وقت نہیں اس نے نےنسی میں ا تیے لب سیے تھے،دوسری جاتب مطییہ چو نہن کے جانے
کے نعد ایک بجھناوے میں اب یک گ ھٹ رہی تھی یاپ کی جالت یر وہ رو رو کر نےجال ہوپی
تھی نضاد اس یر ہیبم سے نکاح کا سن کر اسے لگا کہ وہ لوگ اس کی موت کا یروایہ سنارہے
ہیں اسے،یاپ کی خراب ہوپی جالت کے پی ِش نظر وہ انکار کے لیے الفاظ کا چناؤ یہ کریاپی کہ وہ
جاہنی تھی ہیبم سکندر اس کا ہو یر ا نسے۔۔۔،کبھی تھی نہیں،ہیبم کی نفرت کا چوف ذہن میں
اس قدر سوار تھا کہ اب وہ جاہ کر تھی کبھی اس کی زیدگی میں داجل ہونے کی چواہش مند یہ
تھی،
اور تھر آج رات ہی وہ دویوں اس ان جاہے رسیے میں تندھے تھے،چہایگیر صاجب نے اتنی
طی نعت کو ِمدنظر رکھ کر اس ہی وقت یونہی سادگی میں رچصنی کی درچواشت کی تھی جس یر مہناز
- 227 -
تنگم اور سکندر صاجب کو کوپی اعیراض نہیں تھا،ان دویوں نے تھی چہایگیر صاجب کی یات یر
انفاق کنا تھر رات زیادہ ہونے یر مہناز تنگم قلذہ سمیت مطییہ کو ہاسینل سے ا تیے ساتھ سکندر
وال لے آ پیں،ہناد اور سکندر صاجب ہاسینل میں ہی نہرے تھے،ان سبھی کارواپی کے دوران
ہیبم چظریاک جد یک جاموش تھا،اس کا سلگنا دماغ یاجانے کنا م نصویہ تندی کررہا تھا چو وہ نکاح
ج ن یس ن ک ً
کے فورا نعد سی کی یرواہ کیے عیر ہو ل سے نکلنا الگنا،
وہ مہناز تنگم کے ساتھ آج رات رہنا جاہ رہی تھی یر مہناز تنگم نے اسے سمجھا بجھا کر قلذہ کے
پ
ساتھ ہیبم کے کمرے میں تھیج دیا تھا،اب اس کے تنڈ یر ھی طییہ جب سے جاموسی سے
م ب ی
اتنی جالی ہبھنلی کو دیکھ رہی تھی،ذہن یری طرح مییسر ہورہا تھا آج ہونے وا قعے یر،اس نے
نظریں اتھاکر دیوار کی جاتب دیکھا چہاں نسب یاذلی کی النعداد نصویریں اسے اجشاس دالرہی تھیں
کہ وہ نہاں ہوکر تھی کہیں نہیں تھی چنکہ یاذلی چہایگیر نہاں یہ ہوکر تھی ہر طرف تھی،اتنا وچود
اسے ان قِٹ لگا تھا اس کمرے میں،اس کا ضمیر چیخ چیخ کر اسے یاور کرانے لگا کہ وہ ایک
جاسد لڑکی نہری تھی جس نے اتنی چوسی کے لیے اتنی نہن کو موت کے گھاٹ ایروانے کی دعا
کی،یدامت کے دو آنسو یلکوں سے گرے تھے،
"مطییہ۔۔"
- 228 -
قلذہ کی آواز یر اس نے چویک کر دروازے کی طرف دیکھا چہاں مالزمہ ہاتھ میں کھانے کی یرے
لیے کھڑی تھی اس ہی کے یرایر میں ہلکی مشکراہٹ کے ساتھ قلذہ اسے دیکھ رہی تھی،
"ماما نے تھچوایا ہے۔۔۔انہوں نے تنایا کہ تم نے صیح سے ہاسینل میں کجھ کھایا نہیں۔۔۔"
مالزمہ کو یرے رکھیے کا اسارہ کر کے وہ مطییہ کے یاس آنے ہونے یولی،
"تھوک نہیں۔۔۔"
ی ی ن ن س ہ ی ھ ب یپ
ن ی
تنڈ یر ا تیے یاس نی لذہ کو د کھ وہ آ گی سے ی لذہ نے ا ک ظر اسے د کھا چو ل ک سادہ
ولی،ق ق
پ
سی قم نض سلوار یر سایوں یہ دو تیہ تھنالنے سرخ آیکھوں کو ت ھیرے یبھی تھی ساید آیکھوں میں
چھلکنی یدامت کو چھنانے کی اتنی سی کوشش کی تھی،
"میرا نقین کرو قلذہ۔۔۔میں نے نہیں مارا یاذلی کو۔۔۔می۔۔میں ماتنی ہوں کہ میں علط۔۔"
"اوہ گاڈ مطییہ۔۔۔مجھے لگا کوپی یڑی یات ہے۔۔۔اب چھوڑ تھی دو اس یایک کو۔۔۔ہم شب
کو نقین ہے کہ تم نے نہیں مارا اسے۔۔۔اس کی زیدگی اتنی ہی تھی خی لی۔۔۔اب کنا ہمیشہ
ہی سوگ منانے رہوگی تم اس کا۔۔۔"
مطییہ کی یات کاٹ کر وہ پیزاری سے یولی،مطییہ نے جیرت سے قلذہ کو دیکھا تھر نہاتت بخیر
سے یولی،
ا تیے چملے یر نےساجیہ چود ہی سرمندہ ہوپی وہ سر چھکاپی تھی یر تبھی یری طرح گ ھیرا کر رہ گنی
جب دھاڑ کی آواز کے ساتھ روم کا گیٹ کھال تھا،قلذہ تھی چویک کر سا میے دیکھی چہاں ہی مب
سرخ چہرہ لیے مطییہ کو سعلہ یار نگاہوں سے گھوررہا تھا،اس کی نظروں کا چود یر یڑیا تھا کہ مطییہ
ً
چوف سے نفرتنا لرزی تھی،
"ہا۔۔ہاں ک بوں نہیں۔۔۔ضرور۔۔۔آو میں ئمہیں ماما کے یاس لے جلنی ہوں۔۔تھر ئمہیں چو
یات کرپی ہو کرلینا۔۔۔"
ہیبم کے تبھر یلے یایرات دیکھ ِقلذہ تھی مطییہ کی یاتند کرنے ہونے یولی ساتھ ہی اسے ا تیے
ساتھ آنے کا اسارہ کی،
ن
وہ چو یلکل ِقلذہ سے چنک کر وہاں سے نکل رہی تھی گیٹ یر ہیحیے ہی ہیبم کی گرقت میں اتنا
یازو مجسوس کیے یوکھالپی،ادھر ِقلذہ کمرے سے نکل کر اب مطییہ کا یازو ہیبم کو جکڑے دیکھ
یولی،
"اسے۔۔۔مار کر تھی سکون نہیں مال چو میرے نکاح میں آنے کے لیے زرا دیر یہ لگاپی۔۔۔و نسے
مجھے لگنا ہے تم می نظر ہی ہو گی۔۔۔کہ کب کجھ عرصہ گزرے "میری یاذلی" کی۔۔۔۔۔موت کو
اور تم اتنا کام کرسکو۔۔۔"
اتنہاپی ضنط کیے کھڑا تھا وہ وریہ نس نہیں جل رہا تھا کہ سا میے کھڑی لڑکی جان لییے میں زرا
تھی دیر یہ کرے،دوسری جاتب ہیبم کے زہر یلے لفظوں کے زی ِر ایر وہ سرمشار سی سر چھکانے
رونے لگی تھی،
- 233 -
"جیر۔۔۔یلیینگ یو نہت زیردشت کی تھی تم نے۔۔۔اب دیکھو یا۔۔۔شب کجھ ونشا ہی
ہوا۔۔۔جیسے تم نے جاہا۔۔۔ہے یا۔۔۔"
اتنی یات کے اجینام یر وہ اس سے یوں یاتند جاہ رہا تھا جیسے کوپی یارمل یات ہو،
"نہت کرلی اتنی من ماپی تم نے مطییہ چہایگیر۔۔۔اب میری من ماپی دیکھنا جاہو گی۔۔۔"
اس کے چوف سے زرد یڑنے چہرے کو گھوریا وہ یوچھا ساتھ ہی مطییہ کو چھنکے سے چھوڑیا
وارڈروب کی طرف گنا،
مطییہ کی نےنقین نظریں ڈایری یر چمے دیکھ ہیبم طیزیہ مشکراہٹ سمیت اتنی چ یب سے الپیر نکاال
تھا،
"اتنا شب کجھ ہونے کے نعد تھی تم نے اس یکواس جیز کو رکھا۔۔۔سو ت نڈ۔۔۔اب میں ئمہیں
اسکی اصل جگہ اور اوقات دکھایا ہوں۔۔۔"
ئمسجر سے کہنا اجایک آخر میں وہ عرایا ساتھ ہی الپئیر جالیا ڈاپیری کھول کر اس کے صفچے کو
جالنے لگا،جب سے سکیے میں کھڑی مطییہ ہوش میں آپی تھی تھر پیزی میں ہیبم کے ہاتھ سے
ڈایری لییے کے لیے یڑھی مگر وہ ا تیے ہاتھ تیجھے کریا اس کی کوشش کو یاآساپی یاکام تنایا تھا،
"تم اس قایل نہیں کہ تم یر ہاتھ اتھاکر میں ا تیے ہاتھ گندے کروں۔۔۔ہاں یر اس نےکار
جیز کو جالنے میں مجھے تھوڑا نہت سکون مل ہی جانے گا۔۔۔"
اور صفجات یر الپئیر سے جالیا وہ آدھی ڈایری جلیے یر اسے تیچے تھی نکا تھا،مطییہ جلدی سے ڈایری
کو جلیے سے بجانے کے عرض اسے اتھانے کے لیے چھکی مگر تیج ھے سے اسے گرقت میں لینا ہیبم
اسے یہ کرنے سے تھی روک گنا،
سوج کر درد کرپی آیکھوں سمیت مطییہ ہیبم کو چوفزدہ نظروں سے دیکھیے لگی،
"ئمہاری اوقات تھی یلکل اس ہی طرح ہے۔۔۔تم جل کر جاکسیر ہوجاو گی مطییہ چہایگیر۔۔۔مگر
ہیبم سکندر کی آیکھوں میں کبھی ا تیے لیے ایک یرم جذیہ یک یہ دیکھ یاؤ گی۔۔۔کجا کہ
محیت۔۔۔میرے دل یر ضرف یاذلی ہی ملکیت کرپی تھی ہے اور رہے گی۔۔۔تم اس کی جگہ
کبھی لے ہی نہیں سکنی۔۔۔اور لو گی تھی کیسے۔۔۔ایک معصوم کی جگہ کبھی ایک قا یل لے
یایا ہے۔۔۔"
اس کے چہرے کو ہاتھ میں جکڑیا وہ یول نہیں تھ نکار رہا تھا،ایک طرف گرقت جس قدر شخت
تھی مطییہ کو لگا اس کا جیڑا یوٹ جانے گا دوسرا ہیبم کے الفاظ اسے لوہے کی گرم سالچوں کی
کجھ دیر نعد ڈرنسنگ روم سے ہیبم نکال یو اس کے ہاتھ میں ایک ہینڈ کیری تھی،مطییہ اب کافی
جد یک ان صفجات کو جلیے سے بجاجکی تھی تبھی چور نظر سے ڈرنے ہونے اسے دیکھیے لگی چو اب
یلکل اس کے سا میے کھڑا تھا،
نکاح کر کے چوش یو نہت ہورہی ہوگی تم کہ اب ہیبم سکندر کو یالنا۔۔۔مگر نےقکر رہو۔۔تم نے
ہیبم سکندر کو نہیں ضرف اس کے یام کو یایا ہے۔۔۔اور اب اسی یام کے ساتھ نہاں اتنی بچی
کچی زیدگی کایو۔۔۔ک بویکہ ہیبم سکندر کو گوارا نہیں ئمہارے ساتھ ایک یل تھی رہنا۔۔۔
اسنہزیہ ایداز میں کہنا وہ آخر میں اس دن کی طرح تھر آدھی بچی ڈایری یر ا تیے سوز رکھیے لگا تھا یر
تبھی مطییہ نے جلدی سے ڈایری کے اویر ا تیے دویوں ہاتھ رکھ دنے،ا ہیے سوز کے تیچے اس کے
- 238 -
ہاتھوں کو دیکھ ہیبم نفرت سے مطییہ چہایگیر کے تھنگے کرب رقم چہرے یر ایک آخری نظر ڈالنا
ہیبم کبھی وانس یہ آنے کا ارادہ کیے وہاں سے نکلنا جال گنا،سکندر صاجب جب نکاح کی فوری
تناری کررہے تھے وہ اس ہی وقت اتنی پیرس کی قالتٹ یک کروایا تھا،اس نے سوچ لنا تھا کہ
م
اتنی یڑھاپی وہی یر کمل کر کے وہ کوپی چھویا مویا یزنس کرے گا مگر اب کبھی سکندر وال کا
راشیہ تھولے سے تھی نہیں د یکھے گا،
اس کے جانے کے یات مطییہ یری طرح یوٹ کر رونے لگی تھی،ہبھنلناں جلیے یر تھی اسے وہ
درد مجسوس نہیں ہورہا تھا دل کے درد کے آگے،ایک طرف اتنی قسمت یر وہ ماتم کناں تھی یو
دوسری جاتب یاذلی کے مرنے کا بجھناوا چو اس کا سانس لینا تھی دسوار کررہا تھا،
"آپی۔۔۔"
ی
مایوس آواز یر مطییہ سر اتھاکر د کھی مگر اس کی چیخ نکلیے نکلیے رہ گنی دیوار کے ساتھ کھڑی یاذلی
کو دیکھ،
"ین۔۔یا۔۔یاذ۔۔لی۔۔"
ڈر جس قدر سوار ہوا تھا اسکے چواس میں وہ ئمسکل یو لیے کے قایل ہوپی،
- 239 -
"اتنی نفرت کرپی تھیں آپ مجھ سے۔۔۔مار ہی ڈاال۔۔۔"
یہ ہیبم کے لفظوں کا جد سے زیادہ ایرایداز ہویا تھا کہ اسکے ذہن کی نصویر میں یاذلی کی نصویر ین
ی مجس
کر اس سے یہ اسنفشار کررہی تھی،اور وہ اسے چف نفت ھنی چوف سے آ ھیں ھنالنے جلدی
ت ک
"نہیں ہوں میں قا یل۔۔۔نہیں مارا میں نے ئمہیں۔۔۔میں قسم کھاپی ہوں یاذلی۔۔۔میں نے
نہیں مارا۔۔کسی کو نہیں مارا میں نے۔۔۔"
وہ اب یاقاعدہ یاگلوں کی طرح سر نفی میں ہالپی میہ گھی بوں میں چھنانے یلند آواز میں یڑیڑاکر
رونے لگی تھی،مگر وہاں اس کی سییے واال کوپی ہویا یو سینا،
- 240 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دونہر میں سوا پیزے کو نہیچے سورج کی کرپیں اس یڑے سایدار سے آقس کی گالس وال یر یڑپی
انہیں ئمایاں کررہی تھیں،ایدر پیبھا وہ راکنگ جئیر کو گالس وال کی جاتب کیے و ققے و ققے سے
گھمایا سورج کی کریوں کو دیکھ رہا تھا،کابچ ماتند مگر سرد آیکھوں میں گہری سوچ کی لکیریں اتھری
ہوپی تھیں،گزرے ڈھاپی سال اسے یوں مجسوس ہونے تھے جیسے دو دن ہوں۔۔۔،ان ڈھاپی
سالوں میں وہ کس قدر محیت کنا تھا،رات دن ایک کرکے کام کریا،اتنہاپی لگن اور ذہاتت کی
یدولت اس کا چھویا سا سروع کنا یزنس نہت جلد وسنع تبمانے یر گنا تھا،دریہ تنگم اس کو اکیر
رایوں کو جاگ کر کام کرنے دیکھ آرام کی یلقین کرپیں یر وہ یہ یات انہیں نہیں تنا یایا کہ
س
اس دیواپی کی یاد لسینل مراد کو رایوں سونے نہیں د تنی،اسے الیا یو یاممکن تھا تبھی اتنا ذہن
کام میں لگاکر وہ دل میں اتھنی نکل نقوں کو کم کرنے کی کوشش کریا،
اب ا تیے آقس میں پیبھا وہ تھر یوری دتنا تھالنے گزرے سالوں کو سوچ رہا تھا،یہ اس کے روز
کا معمول تھا کہ کام میں دونہر کو تھوڑا یریک لے کر یراپی یادوں کو یازہ کریا،
مویایل کی ریگ یر سوچوں کا نشلشل یویا یو وہ کال رنسبو کریا مویایل کان سے لگایا،
- 241 -
"سر۔۔۔یولیس نفییش کررہی ہے یر انہیں کوپی سراغ ہی نہیں مل یارہا۔۔۔"
دوسری جاتب اس کا اشسی یٹ غفان تھا،چو کل رات کی گنی اس کی کاررواپی یر سنانسی لہچے
ش ُ ن یلس س س
ل
ل کے یراسے ہونے بوں یر یراسرار م کراہٹ نے میں یول رہا تھا،اس کی یات ییے
اجاطہ کنا،
"و نسے سر۔۔۔رایوں رات دوسرے شہر جاکر کسی ت ندے کا کام ئمام کریا کوپی آپ سے
سنکھے۔۔۔آنس کی یات ہے سر۔۔۔اب تناتھی دیں۔۔۔دسمنی کنا تھی آپ کی۔۔۔"
ا تیے یاس کی جاموسی یر غفان نے رازدارایہ لہچے میں تناکر آخر میں یوچھا،
"جاسوسی کرلی۔۔۔؟"
س
اجایک لسینل سرد لہچے میں یوچھا،
غفان سے یات کر کے وہ فون رکھا ہی تھا کہ ڈور یاک ہوا،اجازت ملیے یر ایدر آنے واال اس کا
سنکریری تھا،
"سر اتھی اگلے ایک گھییے یک آپ فری ہوں گے یو عدیل صاجب کے ساتھ مییینگ
رکھوالوں۔۔۔"
ہ ن م ن ن یلس س
ی
ل نے ا ک ظر ہاتھ یں نی پئیر یر اس کا سنڈول یڑھنا اس کا سنکریری یوال جس یر
رشٹ واچ یر یاتم دیکھا،آج اسے جلدی جایا تھا گھر،
"تھنک ہے۔۔۔"
- 243 -
س
اجازت ملیے یر وہ نکال تھا تبھی لسینل کا فون تھر بجا،
"کوشش نہیں الزمی آیا ہے۔۔۔نہلے یو اسماء اور عندلیب ہوپی تھی اب یو یلکل ہی یور ہوجاپی
ہوں اکنلے۔۔۔"
س
نےدھناپی میں کہنی دریہ تنگم کی زیان سے تھر وہی چملہ تھشال چو لسینل کو ہمیشہ کرب میں
مینال کرد ت نا،اجشاس ہونے یر وہ جپ ہوپی تھیں،
"مطییہ پی پی۔۔"
مالزمہ کی نکار یر وہ ہوش میں آپی چویکی،
وہ گ ھیرا کر یلینی پیز قدموں سمیت سیڑھناں ایر کر کچن کی طرف گنی مگر وہاں یک جانے ہونے
مطییہ کو اتنی نست یر اس کی نظریں مجسوس ہوپی تھی،وہ بچی یو یہ تھی چو بجھلے کجھ مہی بوں سے
ہناد کی انسی خرک بوں کو سمجھ یہ یارہی ہو،وہ نہلے یو انشا یہ تھا تھر ک بوں کجھ مہی بوں سے اس
طرح کی عح یب خرکییں کررہا تھا،ہاں وہ یرنشان ہونے کے ساتھ ساتھ اب ہناد سے ڈرنے لگی
تھی تبھی نہت کم کوشش کرپی اب ا تیے کمرے سے نکلیے کی،
دوسری جاتب ہناد جب یک مطییہ کچن میں یہ جلی گنی اس کی نست کو کمینگی سے گھوریا
رہا،وہ نہیں تھا انشا یر کجھ مہی بوں نہلے چند ا نسے دوسبوں کی ضحیت میں آیا تھا چو اسے ہر ہفیے دو
ہفیے میں ریڈ التٹ ایریا لےجانے،سروع میں یو ہناد کو وہ شب عح یب لگنا تھا لنکن ا تیے مہی بوں
میں وہ عادی ہوچکا تھا ان شب کا،اور اب گھر یر اکیر و پیسیر مطییہ کو دیکھ یاجانے کب اس
کی نظریں یدلی اسے اجشاس یہ ہوا،اس کے نعد وہ ا تیے عمل سے اکیر مطییہ یر اتنی نظروں کا
ت ت مجس
یدالؤ طاہر کریا جسے دیکھ وہ سروع میں یو ات نا وہم ھی ھی مگر اب کیراپی ھی ہناد کے سا میے
آنے سے۔
- 248 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پ
سام کو سکندر وال کے الن میں یبھی وہ جب سے جاموش جالی نظروں سے ہوا سے لہلہانے یازہ
گالب کے تھولوں کو دیکھ رہی تھی،ذہن میں امڈپی سوچوں کا مچور ڈھاپی پین سال تیجھے تھا جب
س
وہ یلکل ا نسے ہی یازہ گالیوں کا گلدشیہ لے کر لسینل کے گھر جاپی،کس قدر چوش رہنی تھی
س
وہ ان دیوں ،لسینل کی ڈاتٹ سن کر تھی جب وہ ڈھیٹ کی طرح اس کے یاس جاپی یو کینا
خڑیا تھا وہ اس سے۔۔۔،اور تھر جب شب تھنک ہونے لگا تھا۔۔۔،وہ تھی اس سے اظہار محیت
کنا تھا،اس وقت نکل نف میں تھی اس کا دل چوسی سے چھومیے کو ہونے لگا تھا مگر اس مح بوب
کو تھر یہ دیکھ یانے چوف تھا چو اس یر جاوی ہویا اس کی چوسبوں کو مدفون کرگنا،
"عندی۔۔۔"
پ
مہناز تنگم کی نکار یر وہ چویک کر ان کی جاتب م بوخہ ہوپی چو اس کے سا میے والی جئیر یر یبھی
تھیں،
"یاپی امی۔۔۔کافی۔۔"
کجھ دیر نعد مطییہ الن میں آپی کافی کا مگ مہناز تنگم کے جاتب یڑھا کر یولی،
"مطییہ پیبھو۔۔۔"
اسے یلٹ کر جانے دیکھ مہناز تنگم نے کہا جس یر مطییہ نے نہلے ایک نظر الن کی طرف کھلیے
گیٹ کو دیکھا چہاں ہناد کال یر کسی سے یات کررہا تھا،وہ ساید اتھی آیا تھا ک بویکہ مطییہ جب
الن میں کافی لے کر آپی تب وہ وہاں یر نہیں تھا،کال یر یات کرنے ہونے ہناد کی پیز نظریں
- 250 -
اس ہی یر چمی تھیں،نےساجیہ چھرچھری لینی مطییہ نے وہاں جانے سے نہیر الن میں پیبھیے
کو یرچیح دیا،
"گھر میں نہلے ہی اتنی جاموسی رہنی ہے۔۔۔چوسناں جیسے روتھ جکی ہیں سکندر وال کی درو دیوار
سے،اس یر اب تم دویوں تھی یوں اداس و سوگ کے عالم میں رہنی ہو۔۔۔عندی یو یول نہیں
سکنی۔۔کم از کم تم ہی یات کنا کرو ہیس دیا کرو۔۔۔"
اس کے جئیر یر پیبھیے ہی مہناز تنگم اقسردگی سے یولیں،مطییہ نے نس ایک جاموش نظر ان یر
ڈالی تھی،
"میں تھک جکی ہو ان سوگوارتت سے۔۔۔قلذہ اور ہناد کے ساتھ تم کبھی یلے ایریا میں کھنل لنا
کرو۔۔۔یاسکٹ یال یو تم لوگوں کو نسند تھی نہت ہے۔۔۔"
مطییہ کی جاموسی یر وہ اور یولیں،
"ک بوں نہیں۔۔۔یلکل کھنلیں گے یاسکٹ یال مام۔۔۔۔آخر کو اتنا یاتم ہوگنا وہ کھنلے۔۔۔ہے یا
مطییہ۔۔۔"
وہ چو اسکے آنے سے ہی یرنشان ہوپی تھی اب ہناد کے ہاتھ کا دیاؤ کندھے یر مجسوس کرکے
یوکھالپی،مہناز تنگم نے مشکراکر ہناد کو دیکھا،وہ ساید ہناد کے ہاتھ رکھیے سے مطییہ کے چہرے یر
رقم چوف نہیں دیکھ یاپی تھیں،
"کنا۔۔۔"
ہناد ان کے چوسی سے دمکیے چہرے کو دیکھ یوچھا،ہاتھ ہبوز گ ھیراپی ہوپی مطییہ کے کندھے یر چما
تھا،
"کنا شچ میں۔۔!"
"ہاں یلکل۔۔۔وہ تھی ہمیشہ کے لیے۔۔۔سکر میرے بچے کو اتنی ماں کا اجشاس یو ہوا۔۔۔کل
رات فون آیا تھا۔۔۔اس نے کہا دو دن میں اتنا تھوڑا نہت کام واپینڈ اپ کر کے آجانے
گا۔۔۔تم کہیے تھے یا۔۔۔اکنلے اتنا یڑا یزنس سیبھاال نہیں جایا تم سے۔۔۔یو اب نےقکر ہوجاو وہ
آکر ئمہارا ساتھ دے گا۔۔۔"
مہناز تنگم جیسے جیسے چوسی سے ت نارہی تھیں مطییہ کا چہرہ اتنا ہی چوف سے زرد یڑنے لگا،دوسری
جاتب ہناد کو کجھ جاص چوسی یہ ہوپی اس کے آنے سے النا اس کا چہرہ یگڑا۔۔۔،ایک نظر
مطییہ کو دیکھ وہ تنا کجھ اور کہے گنا تھا الن سے،
ادھر وہ چو مہناز تنگم کی یایوں کو سن یاسیت سے مشکرانے لگی تھی ان کے شب تھنک ہو
جانے گا یو لیے یر یکدم تنکھڑی ماتند لب سمٹ گیے،کالی آیکھوں میں مح بوب کا چہرہ آیا یو زچمی دل
میں ہمیشہ کی طرح پیس اتھی،
"گرتنی۔۔۔"
ی
نسو سے آ کھیں صاف کریا وہ دریہ تنگم کو نکارا،
"خی۔۔"
"یلکل۔۔"
"جایا کب یک ہے۔۔۔"
اس سے سواالت کرپیں دریہ تنگم اجایک یوچھیں،وہ سمجھ گنا تھا کہ ان کا اسارہ کس طرف ہے،
غفان کے ئمیر سے دو پین نضاویر موصول ہوپی تھیں اسے،ایک عالی سان ُیرآسانش ت نگلہ،اس
س
نصویر کو دیکھ لسینل اتھی مویایل وانس رکھ ہی رہا تھا کہ اب کال آنے لگی،اس نے رنسبو کر
کے فون کان سے لگایا،
"کنا۔۔"
"سر میں یہ یوچھ رہا تھا کہ اب اور کییے مہییے رہنا ہوگا مجھے۔۔۔مظلب سر مجھے یو کوپی انسو نہیں
ہے یر۔۔۔سر دس مہییے ہونے کو ہیں۔۔۔ایا کال یر وانس آنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔"
م
سر کھجایا وہ اسے کمل نفصنل تناکر یوچھیے لگا،
"کوشش کریا کہ ہمارا سامنا یہ ہو مطییہ چہایگیر۔۔۔وریہ ہماری مالقات کو اس قدر عیرت ت ناؤں
گا ئمہارے لیے کہ تھر میرے سا میے آنے سے نہلے موت کو یرچیح دوگی۔۔۔"
اتنہاپی ت نفر سے کہنا وہ چھنکے سے کھڑا ہوا،اسے وانس جانے سے نہلے نہاں کے چند کام پینانے
تھی تھے،تبھی یاذلی کی نصویر کو ایک مرتیہ تھر نظر تھر دیکھ کر وہ ساتنڈ پینل یر رکھا اور واسروم
کا رخ کنا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"یر یہ کرے گا کون۔۔۔اس کی کسی سے لڑاپی ہوپی تھی کنا بجھلے دیوں۔۔۔"
"نہیں یار۔۔۔ان دیوں یو کسی سے لڑاپی نہیں ہوپی تھی یر دسمن یو جیر نہت تھے اس
کے۔۔۔ان میں سے ہی کسی ایک کا کام ہوگا۔۔"
اسے تناکر چماد یکدم جپ ہوا،
"کنا ہوا۔۔"
"ہنہہ۔۔۔پیرا تنا نہیں۔۔۔یر ہناد سکندر کا کوپی کجھ نگاڑ نہیں سکنا۔۔۔"
- 261 -
اسکا لہچہ ازلی گھم نڈی تھ ُا،یرسکون سا کہہ کر وہ میت اتھانے کا سور سییے ہی چماد کو اسارہ کیے
جال تھا وہاں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کو الؤبج کے صوقے یر پیبھیں مہناز تنگم یار یار گیٹ کی جاتب دیکھ رہی تھیں،آج انہوں
نے کھانے یر نہت جاص اہبمام کروایا تھا ہیبم کے لیے،آخر کو ا تیے سالوں نعد آرہا تھا،اس نے
کہا تھا کہ سام یک وہ آجانے گا مگر اب رات دیڑھ بحیے کو تھے یر اس کا کوپی ایا تنا نہیں
تھا،انہوں نے کال کی یو ئمیر تھی تند جارہا تھا،
"تھاپی آ گیے۔۔۔"
یاہر سے آپی قلذہ مہناز تنگم کو صوقے یر پیبھے دیکھ یوچھی تھی،
تھی یولی،
"ارے مطییہ۔۔۔"
وہ چو ا تیے کمرے(گیسٹ روم) کی طرف جارہی تھی قلذہ کی اجایک نکار یر چویکی،
"یار ئمہیں تنا ہے آج نہت مزہ آیا۔۔۔میں نے ئمہیں صفیرہ کا تنایا تھا یا۔۔۔آج وہ تھی آپی
تھی۔۔۔اتنا اپییی بوڈ دکھارہی تھی لنکن میں نے تھی اسکی غفل تھکانے لگادی ئمرہ سے چوس کا
گالس اسکی ڈرنس یر گرواکر۔۔۔یار تم تھی جلنی۔۔۔"
اسے مزے سے یوری یات تناکر آخر میں قلذہ نے کہا جس یر مطییہ تھنکی مشکراہٹ شجاکر نفی
میں سر ہالپی،
پ
کجھ دیر نعد وہ یاپی کا گالس الکر صوقے یر مویایل میں مصروف یبھی قلذہ کو یکڑانے لگی تبھی
یورچ سے آپی ہارن کی آواز یر چویکی،
"میرا پینا۔۔۔"
اس کے یاس آنے یر وہ یرمی سے ہیبم کی پیشاپی چوم کر یولیں،
"تھنک۔۔۔"
لہچے کے یرعکس اس کے الفاظ تھے،
"یہ یاپیں نعد میں کریا۔۔۔اتھی جلو فرنش ہو آؤ۔۔۔میں کھایا لگواپی ہوں۔۔"
"کیشا ہے۔۔۔"
- 267 -
کان سے لگایا وہ لب دیانے یوال،
"ارے واہ۔۔۔کون ہے کی جگہ ڈایریکٹ کیشا ہے۔۔۔مظلب ئمیر سبوو کرنے کا نکلف کرہی
لنا۔۔۔"
کسلسین ی
ش گ ھ
ل آ یں ھمایا م کرایا، دوسری جاتب سے تھاری دلکش مگر طیزیہ آواز کہ
"ساید کسی نے چود ہی کنا تھا میرے فون یر اتنا ئمیر سبوو۔۔"
وہ اسے یاد دالیا تھا جیسے،
"ہاں ک بویکہ "کسی" کی جان چو جارہی تھی میرا ئمیر سبوو کرنے ہونے۔۔۔"
دوسری جاتب سے اس ہی کے ایداز میں ہ بوز طیز کنا گنا،
س
دریہ تنگم نے مشکراکر کار ڈرات بو کرنے لسینل کو دیکھا چو اکیر ایک اسی کال یر اس قدر مشکراکر
یات کریا،وہ نہیں جاتنی تھیں کہ اگلی جاتب کون ہے یر دل ہی دل میں مفایل یات کرنے
شخص کو ہمیشہ دعاپیں ضرور د ت ییں چو ان کے یونے کو اکیر کال کر کے اتنی یایوں سے
مشکرانے یر مح بور کرد ت نا،
"غفان نے تنایا۔۔۔"
س
لسینل کو نہلی فرصت میں اتنا اشسی یٹ یاد آیا ک بویکہ وہی تھا چو ان دویوں کی دوسنی سے بچوپی
واقف تھا،
"ک بوں۔۔!"
"ضروری ہے کنا۔۔۔"
ت ن یلس س ی ن یلس س
ل کی اس یات یر دوسری جاتب کجھ ل کے لیے جاموسی چھاپی ،ل ا نی اور
مشکراہٹ دیانے اگلی جاتب اس شخص کی گال بوں کا می نظر ہوا،
"نہت ضروری ہے۔۔۔ق بوخر میں پیری ہونے والی پینی کا رشیہ کریا ہے ا تیے پییے سے۔۔۔اسی
سلشلے میں کجھ یات کرپی ہے نس۔۔۔"
ُ
"ایک میٹ۔۔۔یو سادی سدہ ہے۔۔۔"
س
ان دویوں کے درمنان کبھی اس یایک یر یات یہ ہوپی تھی اور یہ ہی اس نے کبھی لسینل کو
انشا کجھ تنایا تھا،تبھی وہ تھوڑا جیران ہوا،
"لڑکی۔۔۔تھاپی کو اتھی آنے ہونے ہی دو دن ہونے ہیں۔۔اور اگر ئمہیں ا تیے نسند کا کھایا ہی
جا ہیے یو چود جاکر کچن میں تنادیا کرو مالزمہ کو۔۔۔"
ایک محیت تھری نظر جاموسی سے کھایا کھانے ہیبم یر ڈال کر وہ قلذہ کو یولی تھیں،
ی
اس کے جانے کے نعد مہناز تنگم یاسف سے گردن ہالپی اسے د یں چو جاموسی سے م کو
ب یہ ھ ک
یوں جانے دیکھ اداس ہوپی تھی،ہناد طیزیہ مشکرایا چنکہ قلذہ کندھے اچکاکر رہ گنی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا نہر تھا ہناد ا تیے روم سے نکلنا ایک نظر جاروں طرف دوڑایا تھا،یورا وال ایدھیرے میں
ڈویا تھا،رات کے سنانے میں گھڑی کی یک یک ہی ضرف کایوں کو سناپی دے رہی تھی،مالزم
سارے سروتٹ کواریر میں تھے تبھی اس طرف سے وہ نےقکر رہا،دنے یاؤں جلیے اس کا رخ
تیچے گیسٹ روم کی جاتب تھا،ل بوں یر ازلی کمینگی مشکراہٹ شجانے وہ سیڑھ ناں ع بور کنا اور اگلے
ہی چند لمچوں میں تھنک گیسٹ روم کے یاہر کھڑا ایک یار تھر تیجھے مڑ کر دیکھا،وہاں کسی کے یہ
ل ہ ک ن س ہ م طم
ہونے یر ین ہوا یو آ گی سے اس نے دروازہ ھوال،اور کی سی خرخراہٹ کے ساتھ دروازہ
تبم وا ہوا تھا،
ادھر ہناد ایدر داجل ہوکر دروازہ تند کر کے مڑیا چناتت تھری نظروں سے تنڈ یر سونے وچود کو
دیکھا،تھر چند قدم اتھاکر عین اس کے سر یر کھڑا نغور اس کے نےداغ چہرے کو گھورنے
لگا،وہ جاتنا تھا ہیبم کے آنے کے نعد اسے موقع نہیں ملیے واال تبھی دو دن یک جاموسی یریا ل نکن
مطییہ کو ہ بوز گیسٹ روم میں سونے دیکھ آج وہ جان گنا تھا کہ اس ہی موقع کا وہ منالسی
ہے،مطییہ کے چونصورت چہرے کو دیکھ وہ نےاجینار تھوڑا چھکا اور اتنا ہاتھ اس کے یرم گال
ی
یر رکھیے لگا،وہ چو کچی پیند میں چود یر پیز نظروں کی پیش مجسوس کررہی تھی ہٹ سے آ یں وا
ھ ک
کی،
چود یر چھکے ہناد کو دیکھ وہ نےساجیہ چیحیے لگی یر عین وقت یر اس کے ل بوں یر ہناد اتنا ہاتھ رکھ
گنا،مطییہ کو ا تیے جاروں طرف چظرے کی گ ھینی بحنی مجسوس ہوپی،
"شسش۔۔۔"
"ہناد تھاپی۔۔۔"
اس کا ہاتھ چھنکنی وہ چوفزدہ ہوکر یولی ساتھ ہی تیج ھے سرک کر دوسرے جاتب سے ایری،اس
انشان کی چوس تھری نظروں نے مطییہ یر کنکنی طاری کی تھی،یری طرح گ ھیرانے دل اور چوف
سے زرد یڑپی وہ رونے کو ہوپی ک بویکہ دو تیہ تنڈ یر یڑا تھا اور وہ قدم یہ قدم اس کی طرف آنے لگا
تھا،
"مطییہ۔۔۔تم نہاں ہو۔۔۔مجھے لگا کہ ہیبم کے آنے کے نعد تم اس ہی کے کمرے میں سوپی
ہوگی۔۔۔ایکچولی میرا دل کررہا تھا آج نہاں سونے کا۔۔۔"
ٰ
شب کجھ جا تیے یوچھیے وہ ایکینگ کنا تھا ابجان پییے کی،الییہ معنی جیز نظریں مفایل چوف سے
لرزنے وچود یر گڑی تھیں،
"سوری میں نے ئمہیں ڈسیرب کردیا۔۔۔تم ریلکس ہوکر سوجاؤ۔۔۔میں جال جایا۔۔۔"
اس کے تیجھے ہناد چو روم سے نکال تھا سیڑھناں ع بور کر کے اب مطییہ کا رخ ہیبم کے کمرے
کی طرف دیکھ تھوڑا گ ھیرایا مگر جلد ہی وہ چود کو کم بوز کنا کہ جاتنا تھا اس میں کم از کم اتنی ہمت یو
نہیں ہوگی چو ہیبم کو تناسکے کجھ تھی،
کجھ دیر نعد وہ تھوڑا نہت سیبھلی یو سانس تھی م بوایر ہوپی،چوف سے ہ بوز یازک وچود لرزراہٹ کا
سکار تھا،آہسنگی سے مڑپی وہ اتنی تند آیکھوں کو وا کی مگر تبھی مطییہ کا دل اچھل کر جلق میں
آیا،تنڈ یر ہاتھ میں ایک فرتم لیے وہ چون آسام آیکھوں سمیت مطییہ کو گھور رہا تھا،یابچ سال نعد
ان دویوں کا آمنا سامنا ہوا تھا مگر مفایل کے چہرے یر نےرچم یایرات اور سرخ آیکھوں میں
ا تیے لیے ازلی نفرت نے مط ییہ کو رونے یر مح بور کنا تھا،کنکنانے ہاتھوں سے اس نے تھر یاب
یر ہاتھ رکھا یر اب ہمت یہ ہوپی تھی اسے گھمانے کی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس کو نفرت سے گھوریا ہیبم ہاتھ میں لی یاذلی کی فرتم کو ساتنڈ پی نل یر رکھ کر اتھا تھا تنڈ سے،
"ہی۔۔ہیبم۔۔"
- 277 -
یاہر جانے کا رسک وہ نہیں لینا جاہنی تھی تبھی تھنگی آیکھوں سمیت اس کو اتنی طرف یڑھیے
دیکھ یو لیے کی کوشش کی،اسے نہیں معلوم تھا کہ اتنی رات یک وہ جاگا ہوگا،
"سروع سے نہی یو کرپی آرہی ہو۔۔۔نہلے یاذلی تھی یو اسے ہنادیا را سیے سے مگر تھر تھی میرے
دل میں جب ئمہارے لیے زرا تھی یرم گوشہ تندا یہ ہوا یو اب اتنا آپ میرے سا میے پیش کررہی
ہو۔۔۔"
"ہیبم۔۔۔!"
اس کی یات کاتنا وہ مزید یوال،مفایل کے زہر یلے لفظوں کو ئمسکل سینی وہ آخر میں ا تیے یارے
میں لفظ "پیش کریا" سن کر یڑپ ہی گنی تبھی چیخ یڑی مگر جلد ہی اسے اجشاس ہوا کہ وہ علط
کرگنی جب ہیبم اسنعال میں اس کی تھوڑی جکڑا تھا ا تیے ہاتھ میں،
- 279 -
"آواز تیچے۔۔۔"
مطییہ کی تھوڑی یر گرقت شخت کیے وہ عرایا،اس لڑکی کو دیکھیے ہی ایدر و یاہر جیسے سرارے
تھو تیے لگے تھے،
"تم جیسی چود کو پیش کرنے والی لڑک بوں کے ساتھ جاتنی ہو کنا ِکنا جایا ہے۔۔۔میں تنایا
ہوں۔۔۔"
وہ جیسے یوری کوشش کنا تھا ا تیے لفظوں سے اسے نکل نف د تیے کی،نفرت کی آگ میں ایدھا
ہویا وہ تھول چکا تھا ضحیح علط کا فرق،دوسری جاتب ا تیے جیڑے سن ہونے مجسوس کرکے
مطییہ رونے ہونے اس کا ہاتھ تھوڑی سے ہنانے کی کوشش کرنے نفی میں سرہالپی یر تبھی
تھوڑی یر گرقت اور شخت کیے ہیبم اس کا چہرہ فرتب کنا تھا ساتھ ہی مطییہ کے گداز ہوتبوں
کو ا تیے ل بوں میں مفند کرگنا،مطییہ چھ نکا کھاکر رہی تھی،سدت جذیات سے تھنی آیکھوں سے تھل
تھل آنسو نہیے لگے چنکہ دل کی دھڑکییں پیزی سے مییسر ہوپیں،مفایل کا نہال لمس کہیں سے
تھی اسے یرم یہ لگا،النا یڑپ کر وہ ہیبم کو دھکا د تیے لگی،جس یر چھنکے سے اسے چھوڑیا ہیبم
اسکی یازک کمر یر یازو جایل کریا اسے چود سے فرتب یرین کنا،
"جب تم مجھ سے زیردسنی سادی کرسکنی ہو۔۔۔۔یو میں ئمہارے ساتھ زیردسنی کبوں نہیں
کرسکنا۔۔۔"
"ہانے دوشت۔۔۔"
کار کے الک میں کی ڈا لیے کی کوشش کرنے چماد کے کندھے یر اجایک کوپی ہاتھ رکھیے ہونے
یوال تھا،
"دوشت۔۔!"
یاسمجھ نظروں سے سا میے کھڑے شخص کو دیکھیے کی کوشش کریا وہ دہرایا،دراز قد یلنک ُہڈی
سمیت ہاتھوں میں یلنک ہی گلووز لگانے اس شخص کا چہرہ ہڈی کے یاعث چھنا ہوا تھا،
ہاتھ میں ت یپ لیے وہ چماد کے یلکل سا میے کھڑا ہوا تھا ساتھ ہی اجایک ہڈی اتھاپی،چماد کے
اوسان چظا ہونے تھے مفایل کھڑے شخص کو دیکھ،وہ کیسے تھول سکنا تھا اسے،تھنک اس ہی
ن لس س
جگہ یر یو ا تیے کجھ دوسبوں کے ساتھ ہناد کے کہیے یر اسے مارا تھا یری طرح اس نے ،ل
ی
کی سرد آیکھوں نے اسکے اردگرد چظرے کا االرم بجایا تھا،
"پیری موت۔۔۔!"
س
لسینل کہیے ساتھ ت یپ کھولنا جس تھرپی سے چماد کے میہ یر لییییے لگا وہ سمجھ یہ یایا،اور جب
ن م کی م ی ت س ی مجس
ج
یک ھیے کے قا ل ہوا وہ ا کے میہ یر ھے سے لے کر آگے ک ل طر قے سے ت یپ لگا چکا
تھا،تھنی آیکھوں سے مفایل کھڑے سناد کی آیکھوں میں دریدگی دیکھنا وہ وجست میں مینال ہوا،اتھی
ھ ت چی چ ن یلس س
ل اس یر یوٹ یڑا،چماد کی دپی دپی یں ت نارہی یں وہ اسے دھکا د تیے ہی لگا تھا جب
س
ل ہی سوچ رہا تھان ن یلس کہ مفایل کا فوالدی ہاتھ اس یر کینا تھاری یڑرہا تھا،اسے مشلشل ماریا
س
کہ اسے مارنے میں شب سے زیادہ ہاتھ اس ہی انشان کا تھا اور نس،ہاتھ کا سوچیے ہی لسینل
کے ل بوں یر ایک یراسرار مشکراہٹ در آپی،چماد کا چون سے تھرا چہرہ دیکھ وہ سینی کی ُدھن بجایا
بجایا سندھا ہوا تھر اتنی کار کی طرف گنا،کجھ دیر نعد وہ ہاتھ میں کابچ کی ایک یویل لیے آیا
تھا،اس میں کجھ مجلول تھا جسے دیکھ چماد سدید نکل نف کے یاوچود تھی لڑکھڑایا ہوا اتھا،میہ یر ت یپ
ن یلس س
ت
ل کے آگے ہاتھ چوڑنے لگا،گویا ھنک مایگ رہا ہو لگے رہیے کے یاعث وہ رونے ہونے
زیدگی کی،مگر مفایل یر جیسے تھوت سوار تھا یدلے کا تبھی اس کے ت یٹ یر الت مارا،چماد کراہنا
س
ہوا تیچے میہ کے یل گِ را اتھی وہ تھر اتھیے کی کوشش میں تھا کہ لسینل یویل کھولنا اس کے
- 286 -
ی
یاس آیا ساتھ ہی یویل میں موچود مجلول اس کے ہاتھ یر گرانے لگا،چماد کی آ کھیں ا یلیے کو
ہوپیں،مفایل پیزاب گرارہا تھا اسکے ہاتھ یر،وہ سدت سے چیحنا جاہنا تھا مگر ت یپ جس شحنی سے لگا
ن س
ن ت
ل ا ک فارت ھری ظر اس کے چ ی یلس تھا وہ میہ سے آواز یک یہ نکال یایا،یویل جالی ہونے یر
یڑ تیے وچود یر ڈالنا نکال تھا وہاں سے یر جانے ہونے ت یپ اتھایا یہ تھوال،
"ممہ۔۔مم۔۔"
کار میں پیبھیے ہونے چماد کی دپی آواز نے اس کے کشادہ پیشاپی یر ایک سکن الپی تھی،وہ اب
ت ن س
ن ک
ل کا چون ھوالنے کے لیے کافی ھی،کابچ ماتند ظروں نے ڈنش یلس یک مرا نہیں،یہ یات
یورڈ یر نظر ڈالی چہاں ایک چمکنا پیز دھار کا جافو رکھا تھا اور تبھی اس کے ل بوں یر ایک نےرچم
مشکراہٹ نہری،
جافو اتھایا وہ وانس چماد کے یاس آیا چو تھنی آیکھوں سمیت چیحیے کی تھریور کوشش کریا نفی میں
سر ہالرہا تھا ،تیچے گھیبوں یر چھکنا وہ چماد کی گردن یر جافو کی یوک رکھا تھر آہسنگی سے اس یر دیاؤ
یڑھانے لگا،قضا میں چماد کی وجست تھری دپی آواز گوبحیے لگی،میہ سے نکلنا چون ت یپ کو پیزی
میں ریگین کرگنا،پیر زوروں سے زپین یر ماریا وہ یری طرح یڑ تیے لگا تھر کجھ ہی دیر میں اس کا
س
یڑت نا وچود نےجان ہوا تھا ،لسینل نے جب اس کی نےرویق زیدگی سے جالی آیکھوں کو دیکھا یو
- 287 -
ُ
ہلکا سا ہیس کر جافو گردن سے نکالنا اتھا،کالی ہڈی میں چون کے چھیییے یڑ کر چھیے تھے،اس کے
س
مردہ وچود کو دیکھ لسینل کو سکون سا مال تھا،
"نس۔۔۔جار اور۔۔۔"
چون سے ریگین جافو کو نغور دیکھنا وہ سفاکیت سے یڑیڑایا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
صیح نہاکر وہ واسروم سے نکال تھا،تھنگے یالوں کو ہاتھ سے چھنک کر اس نے تنڈ یر نظر ڈالی چہاں
تب ی
وہ نےدم یڑی اب یک ششک رہی تھی،رات تھر رونے سے سوج کر سرخ ہوپی م وا آ یں
ھ ک
ہ بوز چ ھت کو گھوررہی تھیں جن سے نکلنا گرم سنال کیینی سے ہویا رنسمی یالوں کو تھگورہا
تھا،چند قدم اتھایا ہیبم اس کے سر یر آن کھڑا ہوا تھر چھک کر کمفریر اوڑھی مطییہ کے یال
شہالنے ہونے یوال،
"کنا ہوا سوت یٹ ہارٹ۔۔۔چو جاہنی تھی وہی یو ِکنا ہے تھر یہ سوگ کس یات کا منارہی ہو۔۔۔"
"تم ایک نےجس شخص ہو۔۔۔ جسے اتنی نکال نف کے آگے کسی کی اذ تت یک نہیں
دکھنی۔۔۔ جسے لگنا ہے کہ اس کا درد درد اور دوسروں کا درد یایک۔۔۔ہیبم سکندر۔۔۔ڈرو اس رب
سے جس کی التھی نے آواز ہے۔۔۔"
رات تھر ا تیے کردار کے یارے میں اس کی گوہر اقشاپی سییے کے یاعث وہ اب نہاتت کرب
کے عالم میں یولی تھی جس یر ہیبم ئمسجر سے ہیشا،یال شہالیا ہاتھ اجایک ہی ان رنسمی یالوں کو
جکڑا تھا،وہ چو نہلے ہی زچموں سے چور یڈھال یڑی تھی نےساجیہ نکل نف ضنط کرنے کے لیے
یھ ت
لب شحنی سے یچی،
"ہنہہ۔۔کس چق سے یہ الفاظ مجھے کہہ رہی ہو۔۔۔ڈریا یو ئمہیں جا ہیے مطییہ چہایگیر۔۔۔جس نے
اتنی نےجسی کا ت بوت د تیے ہونے اتنی ہی نہن کی چوسناں چھین لیں۔۔۔اسے مار ڈاال کہ اگر
چود چوش نہیں رہ سکنی یو اسے تھی چق یہ دیا۔۔۔تم جیسی لڑکناں آسیین کے ساتپ ہی ہونے
"رات کو کس یاتم۔۔"
"دس بچے۔۔"
"تم جیسے شہریوں کی وخہ سے ملک کا نظام خراب ہویا ہے۔۔۔یہ امیری کا روعب کہیں اور
چھاڑیا۔۔۔اور اگر اگلی مرتیہ انسی خرکت کی یو ڈایرکٹ ایدر کردوں گا۔۔۔"
شخت لہچے میں یول کر وہ یولیس اقسر ڈیڈے کی مدد سے اس کے ہاتھ کو تیجھے کنا،ہنک کے
اجشاس سے ہناد کا چہرہ سرخ ہوا،داتت یر داتت چمانے اتنا غصہ ضنط کریا وہ نکال تھا چماد کے
گھر سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
"ماما۔۔۔"
- 292 -
ً
ہیبم نفرتنا جالیا تھا،
وہ اتھی اتھی آقس سے تھکا ہارا آیا تھا یر ا تیے روم میں مطییہ کو آیکھوں یر یازو ر ک ھے سونے دیکھ
اس کا ایدر یک چون جال جس کے یاعث وہ روم سے نکل کر تیچے آیا مہناز تنگم کو نکارا،
" کسے۔۔؟"
مہناز تنگم نے یوچھا یو یر اگلے ہی لمچے یات سمجھ آنے یر یولیں،
"وہ صیح سے پیز بجار میں تھنک رہی ہے۔۔۔اس جال میں کیسے اسے تیچے الؤں۔۔۔"
مہناز تنگم کی یات سن کر وہ لب تھییجا تھر کہا،
"وہ ضرف ئمہارا روم نہیں ہے۔۔۔ئمہاری ت بوی ہونے کے یاعث مطییہ کا تھی چق ہے وہاں
رہیے کا۔۔۔"
سیحندگی سے کہہ کر وہ جانے لگیں،
"پینا ت بوی ہے وہ ئمہاری۔۔۔نس کردو۔۔چھ سال کم عرصہ نہیں ہویا کسی کو تھالنے کے
لیے،یاذلی کا دکھ ہم شب کو ہے یر اس کا یہ مظلب نہیں کہ ہم زیدگی میں آگے یہ
یڑھیں۔۔۔جانے والے جلے جانے ہیں ان کے ساتھ جایا نہیں جاسکنا اور یہ ہی رک سکیے
ہیں۔۔۔اسی لیے زیدگی میں آگے یڑھو۔۔۔چو نہیں ہے اس کا دکھ گلے سے لگانے رکھا ہے اور چو
ہے اس کی قدر نہیں۔۔۔"
"ماما۔۔۔"
ا تیے کمرے سے تھاگ کر آپی انہیں نکارنے والی یہ قلذہ تھی،
"یولو۔۔"
اس کے چہرے یر چوسی کی دمک دیکھ انہوں نے اسنفشار کنا،
"ماما۔۔۔میں نے آپ کو سنفی کے یارے میں تنایا تھا یا۔۔۔چو میرے ساتھ یوپی میں یڑھنا
تھا۔۔۔"
ان کا ہاتھ تھامنی وہ چوسی سے ت نانے لگی،
"ہاں۔۔"
"یر پینا چو یاپیں تم نے تناپیں اس جشاب سے وہ مجھے ضحیح لڑکا نہیں لگنا۔۔۔"
"اوہ کم آن ماما۔۔۔وہ نہت اچھا لڑکا ہے اور میرے ساتھ اس کا یلکل یرقنکٹ میچ
ہوگا۔۔۔پیسٹ کنل۔۔۔اب یلیز ماما م نع کر کے میرا موڈ خراب یہ کریا۔۔۔"
ان کو الڈ سے کہنی وہ مہناز تنگم کے کندھے یر سر رکھی جیسے منایا جاہ رہی ہو،
روم میں داجل ہویا وہ گیٹ تند کیے جاموسی سے تنا اس یر نگ ِاہ علط ڈالے وارڈروب کی طرف گنا
ھ چ
مگر اگلے ہی لمچے وہ شخت الیا جب وارڈروب یر آدھے سے زیادہ کیڑے طییہ کے ہینگ
م ھ جی
ہونے د یکھے،
اس کے جاموسی سے لب کا تیے یر ہیبم کا غصہ یڑھا تبھی وانس وارڈروب کے یاس جایا وہ
ت ت کعم ی
مطییہ کے کیڑے نکال کر تیچے تھینکیے لگا،اس کا یہ ل د نی طییہ پیزی یں ا ھی ھی تنڈ
م م ھ
سے،
"کمرے میں رہیے کا یہ مظلب نہیں کہ ہر جگہ اتنی جیزیں رکھو۔۔۔آ تندہ میرے وارڈروب میں
یہ دکھیں یہ کیڑے۔۔"
کرجت لہچے میں کہہ کر ہیبم یاول لے کر واسروم میں جانے لگا،
ی
مہناز تنگم نغور اس کی آیکھوں کو جیرت سے دیکھ رہی تھیں،کابچ ماتند چونصورت آ یں ل ا کی
ی لکی ھ ک
س
پینی عندی کی طرح۔۔۔،مگر لسینل کا اس سے کنا نعلق یہ سوچ کر وہ ذہن میں آیا یرا چنال
چھنک دیں،
واضح طاہر کررہا تھا کہ سا میے پیبھا وہ روعب دار شخضیت کا جامل شخص ا تیے چوایوں کو چف نفت
کی سکل د تیے میں کامناب نہرا ہے،ہاں وہ کامناب ہوا تھا اتنی قایلیت کے یدولت اس چواب
کی یکث یر جس کا اس نے ساتھ سال نہلے سکندر وال میں ڈیر کرنے ہونے اظہار کنا تھا،
س
قلذہ چو مہناز تنگم کے یلوانے ہر کجھ دیر نہلے ہی آپی تھی اب سا میے لسینل کو دیکھ وہ نہلے
چوف میں مینال ہوپی تھی مگر اس کا یارمل یات کرنے کا ایداز دیکھ جیران ہونے کے ساتھ ساتھ
چوش تھی ہوپی اور اب،جب وہ مہناز تنگم سے یاپیں کررہا تھا تب قلذہ کو جیسے اور کوپی کام ہی
نہیں تھا اسے دیکھیے کے سوا،گرے پی یٹ کوٹ میں یالوں کو چنل سے سیٹ کیے ایک ہاتھ
صوقے کی نست یر چماکر سیحندہ یایرات سمیت ایک ساخر ہی لگا قلذہ کو چو اسکے گرد اتنا شجر
تھویک رہا ہو جیسے،کھڑی معرور یاک تھیچے عناپی لب کے ساتھ ہی سرد آیکھوں میں یرف کا یایر
جیسے اس کی یرسینلنی کو شب سے الگ تنارہا تھا،
- 302 -
"ئمہاری آیکھوں کا ریگ کجھ یدال سا ہے۔۔۔"
پیبھ س
مہناز تنگم کو جیسے اب یک کھ نکا لگا تھا تبھی آخر کار یوچھ یں ،ل کجھ ل جاموش رہا،
ی ن یلس
"ساپی تھاپی۔۔۔"
تیچے آنے ہیبم کی نظر اس یر یڑی یو نےساجیہ مشکراکر وہ نکارا،ا تیے سالوں یک وہ کینا یالش کنا
تھا اسے،اور اب اجایک سا میے یوں دیکھ چوسگوار جیرت میں مینال تھا،
"کیسے ہو۔۔۔"
م طم ش ت ب یہ ن یلس گ ل س
ل یوچھا ،م کے ل بوں یر ھریور م کراہٹ نے اسے ین کنا اتھ کر اس کے لے گنا
تھا کہ وہ اتنی قبملی جیشا نہیں،
ا تیے روم سے نکل کر سیڑھ بوں کی جاتب آپی وہ مہناز تنگم کی آواز یر چویکی تھی،کالی نظریں
ی
نےاجینار تیچے گییں اور نس،وہ آ کھیں انکاری ہوپی تھی اس جگہ سے ہییے کو ،تیچے یلکل اس کی
نظروں کے سا میے وہ پیبھا تھا،ایک یل کو اسے لگا کہ یہ ساید وہم ہو مگر کجھ یل نعد وہ نقین
کرنے یر مح بور ہوپی کہ مفایل وہم نہیں یلکہ شچ میں تیچے پیبھا اس کا مح بوب ہے جس کی یاد میں
اکیر وہ راپیں جاگ کر گزارپی،اسے لگا تھا کہ زیدگی نے یکدم چوسبوں کی تھوار یرساپی
ہے۔۔۔،ڈھاپی سال کی نکال نف کے نعد آج وہ اس کے سا میے تھا،نےساجیہ اس کا دل جاہا
کہ جدا کے آگے نہی یر شجدہ ریز ہو جانے جس نے اس کے مح بوب کو ا تیے ظویل ات نظار کے نعد
ی
اس کے سا میے الکھڑا کنا تھا،کالی آ کھیں چوسی میں سدت سے رویا جاہنی تھی مگر آنسو یدار تھے
تبھی سیڑھ بوں یر قدم رکھنی وہ ان دو سالوں میں نہلی مرتیہ اتنی یرانے ایداز میں زیدگی سے تھریور
مشکراہٹ تنکھڑی ل بوں یر شجاپی تھی،دل جس قدر چوش تھا وہ تنان نہیں کرسکنی تھی،
س
ل کو جیرت سے ن یلس اس کی یات یر چہاں قلذہ کا میہ کھال تھا وہی ہیبم اور مہناز ت نگم نے
دیکھا،اتنا شب ہونے کے یاوچود وہ چود ان سے یہ یات کہہ رہا تھا،مہناز تنگم کو نعخب نہت ہوا
مگر جلد ہی چود کو کم بوز کرپیں وہ ہلکا سا مشکراپیں،
س
لسینل زیردسنی مشکرایا کہ ایک مرجلہ طے ہوا مگر دوسری جاتب وہ چو چوسی سے سیڑھناں طے
س ن
ل مراد کی اس یات نے اس کے قدم زبخیر کر ن یلس کررہی تھی آخری سیڑھی یر یے ہی
حیہ
ڈالے،چھومنی دھڑکییں اجایک رکی تھی اور یوں مجسوس ہونے لگا جیسے ایک مرتیہ تھر اس کی دتنا
ویران ہوگنی ہو،وہ شخص یو اس سے محیت کا دعویدار تھا تھر کنا اتنی کمزور محیت تھی اسکی،اتنی
س
نکل نف اسے ان دو سالوں میں نہیں ہوپی تھی جینی ان تھوڑے سے لمجات میں لسینل کے
لفظوں سے ہوپی،دل یویا تھا اس کا،مگر تھر چنال آیا کہ وہ کنا چق رکھنی ہے اس سے کسی تھی
طرح کے سوال کرنے کی،وہ یو اس کو جاصل کرنے کی مبمنی یہ تھی تھر ک بوں اس کی
م
نےوقاپی یر سوال کرپی،مگر یادان دل کا کنا کرپی چو یل میں چور ہوا تھا،مگر اسے کمل نظر ایداز
کرپی وہ مشکراپی کہ سا میے پیبھا شخص ا تیے جلیے اور ایداز سے واضح کرگنا تھا کہ اس کی فریاپی
صنا نع نہیں گنی،
- 306 -
س
اتنی دلی جالت یر قایو یایا لسینل تھوڑا نےجین تب ہونے لگا جب آیکھوں میں تھر ئمی آنے
لگی،اسے شخت غصہ آیا،ک بوں ہورہا تھا انشا،کبوں صدی دل تنا کسی چواز کے چوش ہورہا تھا ساتھ
ی
آیکھوں کی ئمی تھی کہ یڑھنی جارہی تھی،ا تیے میہ یر ایک ہاتھ ت ھیریا وہ نسو سے آ یں یو ھنا
جب ھ ک
س
گردن موڑا،کابچ آیکھوں نے سندھا سیڑھی یر کھڑی اس لڑکی کو دیکھا تھا اور لسینل مراد تبھر
ہوا،سفند سلوار قم نض یر سایوں یر دو تیہ تھنالنے یالوں کو چوپی کی صورت ت ناکر آگے کیے وہ لڑکی
نہلی نظر میں اسے کوپی مومی گڑیا لگی،چو زرا سا چھونے یر یوٹ کر یکھرجانے،سرخ و سفند عارض
س
ل مراد کو یوں لگان یلس کو چومنی کجھ لییں چھوپی سی سبواں یاک چنکہ تنکھڑی ماتند گالپی لب
کہ چو نصویر وہ ا تیے ذہن کے یردے یر ا تیے سالوں سے عندلیب کی تنایا آیا تھا مفایل کھڑی
م
لڑکی اس نصویر یر کمل ایری ہے،نضاد اس یر کہ کالی مگر ُسرخ ہوپی آیکھوں کی سوگوارتت نے
اس کے جسن میں اصافہ کنا تھا،چونصورت چہرے یر ایک الگ ہی کرب رقم کیے وہ جاموش
س
نظروں سے لسینل کو ہی دیکھ رہی تھی،مگر وہ نےجیر اب تھی یہ جان یایا تھا کہ دل ک بوں
اس قدر چوش ہے،ایک قسوں تھا چو ان دویوں کے اردگرد پینا گنا،اس نے نغور مفایل کی آیکھوں
س
م کی
ل کی سرد آ ھوں یں سوانے زرا سی جیرت کے ن یلس میں دیکھیے سناساپی کی رمق ڈھویڈی یر
کجھ یہ تھا،
"یہ۔۔"
س
نےاجینار کھڑے ہونے لسینل کے ل بوں میں چییش ہوپی،
"یہ عنادیہ ہے۔۔۔میری چھوپی پینی۔۔۔تم نہیں جا تیے ہو اسے کبویکہ جب تم ہمارے گھر
رہیے تھے تب یہ ہوسنل میں اتنی یڑھاپی کے عرض سے تھی۔۔"
تھ م س
ج
ل کے دل نے یسے ان کی یات سے ن یلس مہناز تنگم مشکرانے ہونے اسے تنارہی یں گر
انکار کنا تھا وہ گواہی دیا تھا اس یات کی کہ سا میے کھڑی لڑکی کو وہ جاتنا ہے نہت ا چ ھے
سے،دل کی ک نفنات جد درخہ ید لیے لگیں یو ات نات میں سر ہالیا وہ عنادیہ ہر نظر ر ک ھے ہی یوال،
دوسری جاتب عنادیہ اب یک اس گیٹ کی جاتب دیکھ رہی تھی چہاں سے اتھی اتھی وہ اوچھل
ہوا تھا،کجھ دیر نہلے ان دویوں کی نظروں کا ظویل ارنکاز وہاں کھڑی قلذہ سے مخفی یہ رہا تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کان یر فون لگانے وہ مشلشل کسی سے یات کریا سکندر وال میں داجل ہورہا تھا مگر سا میے نظر
س
ل جب اسے سرد ن یلس کرنے ہی جیسے اس یر سکیہ لگا تھا،ایک یل کو یو ہناد کو نقین یہ آیا یر
نظروں سے دیکھنا قدم یہ قدم فرتب آنے لگا تب ہناد کا سکیہ یویا،نےنقینی نقین میں یدلی ساتھ
ہی سدید جیرت میں مینال وہ اسے دیکھیے لگا،
ُ
"یو۔۔"
وہ ضرف لب ہی ہال سکا،چھ نکا ہی ات نا یرا لگا تھا،نےنقینی سے نقین کی ک نف یت میں وہ تب آیا
س
جب لسینل اسے نظرایداز کریا یرایر سے گزرنے لگا،
ُ
"تم۔۔کون۔۔ہناد۔۔راتٹ۔۔"
ہناد کو لگا وہ کھڑے کھڑے طمابچہ مارا ہے اسکے میہ یر،کنا وہ شچ میں اسے نہیں نہجایا تھا یا تھر
ابجان ین رہا تھا،
"عندی۔۔"
کمرے میں پیزی میں داجل ہوکر اس کی سوچوں کا نشلشل یوڑنے والی یہ قلذہ تھی،
م ک ن ت م ش س ت ہن ن یلس س
رہ
"وہ۔۔ ل تھا چو کجھ سال لے ا نی یڑھاپی کے ل لے یں نہاں ا سی یں یے آیا
تھا۔۔۔"
یاپ یول کر لفظوں کو جینی وہ یات کا آعاز کرنے لگی،عنادیہ چو سیحندہ نظروں سے اسے دیکھ
رہی تھی،اسکی آیکھوں میں جیرت گھلی،یو مظلب دریہ تنگم نے اسے جس قبملی کا تنایا تھا وہ اس
س
ہی کی قبملی تھی چہاں لسینل یڑھاپی کے عرض گنا تھا اور تھر اس کے ساتھ وہ جادیہ پیش
آیا،مگر وہ جادیہ یو نہیں تھا،کسی نے جان یوچھ کر اس کے ساتھ یہ کنا تھا مگر کس نے،یہ سوچ
سوچیے ہونے عنادیہ مشلشل قلذہ کے چہرے یر ایار خڑھاؤ نغور دیکھ رہی تھی،
"ک بویکہ جب وہ نہاں یڑھیے کے عرض سے آیا تھا تب ہماری فرتنڈ ِشپ ہوگنی تھی۔۔۔میں اسے
ت مجس
نہت اچھا انشان ھنی ھی لنکن۔۔۔"
- 312 -
"لنکن ایک دن میری دوسنی اور معصومیت کا قایدہ اتھانے ہونے وہ میرے ساتھ زیردسنی
کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا اور جاتنی ہو عندی میں نہت مسکل سے اس دن اتنی عزت
بجاپی تھی وریہ یو۔۔۔"
م
کمل رونے کی تناری کرپی وہ یات روک گنی جیسے لہچہ تھراگنا ہو،عنادیہ کی آیکھوں میں یاگواری
کے ساتھ ساتھ مالمت اتھرنے لگی،
"جیر چھوڑو اس یات کو۔۔۔میں نس یہ تنایا جاہ رہی ہوں کہ وہ اس دن کی علظی یر کافی
سرمندہ ہے تبھی اب مجھ سے نکاح کریا جاہنا ہے۔۔۔"
اس کی یات سن کر عنادیہ نے ہاتھ سے اسکی جاتب اسارہ کنا،گویا یوچھ رہی ہو کہ آپ ک بوں
تنار ہوپیں نکاح کے لیے گر وہ اتنا یرا ہے۔۔۔،جس یر قلذہ تھوڑا گڑیڑاپی تھر یولی،
"ہم لڑک بوں کو اتنی عزت عزیز ہوپی ہے عندی۔۔۔اب اگر وہ سرم ندہ ہوکر مجھ سے نکاح کریا
جاہنا ہے یو مجھے اسے ایک موقع یو د ت نا جا ہیے یا۔۔۔"
"ایکشکبوز می۔۔"
اجایک ہی سنفی کی کال اس کے ئمیر یر آنے لگی تبھی اس سے ایکشکبوز کرپی یاہر کی راہ لی مگر
عنادیہ کی مالمت تھری نظروں نے اس وقت یک قلذہ کی نست کو دیکھا جب یک وہ روم سے یہ
نکل گنی ہو،
"ہنلو۔۔"
یاہر نکل کر وہ کال رنسبو کرنے یولی،
"کیسی ہو ہنی۔۔۔؟"
ی
دوسری جاتب سے سنفی کے کہیے یر وہ آ یں کوقت سے تند کی،
ھ ک
"ضروری نہیں کہ کام ہو تبھی کال کروں۔۔۔میں یو ئمہیں یہ کہیے کے لیے کال کنا ہوں کہ
یروس یلکل مت ہویا ایک دن نعد جب مام ڈیڈ آ پیں گے۔۔۔ک بویکہ انہیں میں نے ئمہاری یک
دکھاپی تھی۔۔۔کافی نسند آپی ہو تم ان دویوں کو۔۔۔"
جینی چوسی سے وہ تنارہا تھا قلذہ کا اتنا ہی چہرہ یگڑا،
"ارے یو یہ کان سی یڑی یات ہے۔۔۔میں منالوں گا آ تنی کو۔۔ئمہارے لیے اتنا یو کر ہی لوں
گا۔۔۔"
خ م ُ ج ً
ش ا،ق
وہ فورا ل تنای لذہ کا یکدم دل اجاٹ ہوا تھا اس سے،ذہن کے یردے یر یار یار وہ عرور ص
آرہا تھا،
"جپ۔۔۔"
ً
فورا اسیری اسیینڈ یر رکھ کر وہ مطییہ کے ل بوں یر تھاری ہاتھ چماکر گویا ہوا،پیزی سے تھنگنی
ہیب ی
آیکھوں سمیت وہ چوفزدہ نظروں سے اتنی نست یر چہرہ موڑے م کو د ھی ھی،ہاتھ کی نست یر
ت ک
ہوپی جلن جد سے سوا تھی،درد سے وہ چیحنا جاہنی تھی مگر مفایل کی شخت گھوری نے اس میں
ہمت تھی تندا یہ ہونے دی،
"یہ فرشٹ اور الشٹ وارتنگ سمجھنا کہ آ ت ندہ ا تیے چوپی ہاتھوں سے میری جیزیں داعدار مت
کریا۔۔۔"
اس کے ل بوں سے ہاتھ ہناکر وہ چھنکے سے اسے چھوڑا کہ مطییہ چود کو سیبھا لیے کے جکر میں
سندھا تیچے گری،اہاتت کا اجشاس اسے نظریں اتھانے نہیں دے رہا تھا،ا تیے جلے ہاتھ کو شحنی
ی
سے یکڑے وہ دپی آواز میں آ کھیں میچ کر یلک کر رونے لگی تھی،ہاتھ کی نست زیادہ نہیں جلی
- 318 -
تھی مگر اس کی جلن ہی اتنی سدید تھی کہ مطییہ کے آنسوؤں کا ایک مرتیہ تھر یہ چبم ہونے واال
سلشلہ سروع ہوا،اس کو ت نفر سے دیکھنا ہیبم اتنی سرٹ آیرن اسیینڈ سے اتھایا ساتھ ہی اسے
دھونے کے لیے رکھنا دوسری سرٹ نکال کر مالزمہ کو آواز دیا،اسے سرٹ یکڑایا ہیبم گھورا جب وہ
یرچم نظروں سے تیچے چہرہ چھکانے روپی مطییہ کو دیکھیے لگی،ہیبم کی گھوری یر گڑیڑاکر وہ مالزمہ
سرٹ لے کر یرنس کرنے کے لیے گنی،
"یایا۔۔۔!!"
ہیبم نے واسروم کا رخ کنا چنکہ تیچے تنا آواز کے روپی مطییہ نےساجیہ نکاری،اسے سدت سے
چہایگیر صاجب کی یاد آپی تھی چو اتنی تیی بوں کو نےجد جا ہیے تھے،دل کنا تھا کسی تھی طرح ان
کے گلے لگ کر تھوٹ تھوٹ کر رونے،اس کا ایک ایک یل رہنا اب مجال ہونے لگا تھا نہاں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ق ص ش شم کی
ا تیے آقس میں راکنگ جئیر یر پیبھا وہ آ یں مویدے ل یح ہونے وا عے کا سوچ رہا
ل ھ
تھا،اس کا سکندر وال جایا،قلذہ سے سادی کا یرویوزل د ت نا،مہناز تنگم کا چوش ہویا،اجایک یدلنی دل
کی جالت اور تھر اس انسرا کا سا میے آیا،وہ آج یک کسی کے جسن سے منایر یہ ہوا تھا مگر عنادیہ
کا چونصورت چہرہ دیکھ اسے لگا کہ لفظ جسین تھی کم یڑا ہو اس لڑکی کی سوگوار چونصورپی تنان
- 319 -
کرنے میں،اس لڑکی کی موچودگی نے اسے عندلیب کا اجشاس دالیا تھا،وہ دل کی دھڑک بوں کا سور
مجایا یلکل اس ہی طرح جب عندلیب اس کے یاس ہوپی،مگر وہ ا تیے دل کی یات یر صاف انکار
س
م گ ت ب یپ
ل کو ھے ھے اذ بوں کے ھڑوں یں ب یپ ن یلس کرگنا،ک بویکہ عندلیب یو مرجکی تھی،اس سوچ نے
ڈاال تھا،
"سو وہ آدمی اتھی کجھ دیر نہلے ا تیے گھر سے نکال ہے۔۔۔کال یر کسی سے یات کررہا تھا کہ
رات کو (۔۔۔۔) ہویل میں روم یک کریا ہے۔۔۔"
ن یلس س
ی
ل اسے رات ک اس آدمی غفان نے اسے ہناد کے ایک اور دوشت کی جیر دی،جس یر
یر نظر رکھیے کا کہنا کال کٹ کنا،
وہ چو ہیبم کے آقس جانے کے نعد ہاتھ کی نست یر یریال لگانے ہونے مشلشل رونے میں
مصروف تھی اب ا تیے آنسو صاف کر کے ہاتھ یکڑے تیچے آرہی تھی مگر ہناد کی نکار یر یوکھال کر
تیچے الؤبج میں صوقے کے فرتب کھڑے ہناد کو دیکھیے لگی،
"ہناد تھاپی میں فرچندہ سے کہہ د تنی ہوں ک بویکہ مجھے یاپی امی کے لیے کافی تناپی ہے۔۔۔"
جلدی سے نہایہ سوچنی وہ مالزمہ کا یام لی،
کچن میں آکر مطییہ نے اتھی سکون کا سانس ہی ل نا تھا کہ اجایک اس کا دل گ ھیرایا جب سا میے
ہی ہناد کو فربج سے ت نک لگانے دیکھا چود کو گھورنے دیکھا،
میں نے سوجا کہ اب تم کافی تناکر میرے لیے روم میں النے کا نکلف کروگی یو ک بوں یہ میں
نہی کھڑے رہوں۔۔۔جب تم کافی ت نالو گی یو میں چود ہی لے لوں گا۔۔۔
اس کے چونصورت یوکھالنے چہرے کو نظروں میں لیے وہ یوال،مطییہ نے چواب د ت نا نےسود سمجھا
کہ جاتنی تھی وہ شخص اب جانے نہیں واال نہاں سے تبھی جاموسی سے کافی تنانے لگی،کافی
تنانے کے دوران وہ جد سے زیادہ یرنشان ہوپی تھی ہناد کی نظروں سے،یار یار اتنا دو تیہ تھنک
کرپی وہ مڑی تھی ریک سے لییے کے لیے اور تبھی ہناد قدم اتھایا تھنک اس کے عین تیجھے جا
کھڑا ہوا نغور مطییہ کی نست یر تھنلے رنسمی یالوں کو دیکھ وہ آہسنگی سے ا تیے ہاتھ کی نست ت ھیرا
تھا اس یر،وہ چو سفند ما تھے یر سدید یرنشاپی کی سکییں لیے مگ اتھا رہی تھی یکدم اچھل کر رہ
گنی،مگ تیچے گر کر یویا چنکہ مطییہ یلٹ کر تیج ھے ہوکر سندھا سلیپ سے جالگی،
- 324 -
"ڈر گنی۔۔۔؟"
ہناد ہیسیے ہونے یول کر عور سے اس کی اڑی ہوپی ریگت کو دیکھا،مطییہ ایدر یک لرزی تھی
مفایل کی گسناخی یر،دماغ یری طرح ہال،
"یر مطییہ۔۔۔"
- 325 -
"تھاپی۔۔"
دویوں چو یکے تھے اس آواز یر،ہناد نے دیکھا کچن کے داجلی چصے یر کھڑی قلذہ یاگوار نظروں سے
اسے دیکھ رہی تھی،کجھ دیر نہلے کی گنی اس کی گسناخی قلذہ کی نظروں سے مخفی یہ رہی
تھی،مطییہ کو یک گویہ سکون مال تھا اسے دیکھ کر،
"قلذہ۔۔۔"
وہ کال یر اتنی دوشت کو ایوات یٹ کررہی تھی منگنی یر تبھی ہناد دیدیایا ہوا اس کے کمرے میں
آیا،کال رکھنی قلذہ ہناد کی طرف م بوخہ ہوپی،
"میں مام سے تھی یہ یات کنی مرتیہ کہہ چکا ہوں اور ئمہیں تھی تنارہا ہوں۔۔۔وہ آدمی ضرف ہم
سے یدلہ لییے کے لیے وانس آیا ہے قلذہ۔۔۔یو تند کرو یہ سادی وادی کا ڈرامہ۔۔۔"
"انف تھاپی۔۔"
وہ چو شخت لہچے میں اسے ت نانے لگا تھا قلذہ کے یو کیے یر جپ ہوا،
س
"آپ کو چو سمجھنا ہے ھو۔۔۔آپی ڈوتٹ ئیر۔۔۔"
ک مج
ہناد کے آ پییہ دکھانے یر وہ نگاہ خراپی یولی،
"آخری مرتیہ وارن کررہا ہوں۔۔۔رک جاؤ۔۔مت ساتھ دو اس شخص کا یدلہ لییے میں۔۔"
وہ جیسے کسی ظور سمجھایا جاہ رہا تھا قلذہ کو،
ُ
"میں ہناد۔۔۔یو ئمیر کب سبوو کرے گا میرا۔۔۔"
یکدم ہناد کو اس کی عادت یر خی تھر کر غصہ آیا،
ُ
"اچھا۔۔۔ہمیشہ یو یونہی یات کرنے کے لیے کال کریا ہے یو۔۔۔ہے یا۔۔!"
مفایل جیسے طیز کنا تھا اس یر،
"اچھا یا۔۔سن۔۔"
- 331 -
"تھویک۔۔!"
اس کے لہچے یر ہناد صیر کے گھوتٹ پی کر رہ گنا،جاتنا تھا نہی لہچہ اس کی قظرت کا جاصا ہے
اور سمجھایا نےسود تھا،
"ایک۔۔۔کام ہے۔۔!"
اس نے نہر نہر کر یوال،
ُ
"ہیں۔۔۔بجھے کام کیسے یاد آگنا۔۔یو یو ضرف مجھ سے یات کرنے کے لیے کال کریا تھا یا۔۔"
ایک مرتیہ تھر طیزیہ لہچہ،
ُ
"معاف کر یار مگر اس کام کے لیے یو کسی یایلٹ سے رچوع کر۔۔۔ک بویکہ وہی لوگوں کو اویر
نہیجایا ہے۔۔۔"
س ی ی مجس
ی
نہلے یو ہناد یا ھی سے مویا ل کو د کھا مگر اگلے ہی ل یات مجھ آنے یر اس کا دل جاہا فون ہی
تیخ ڈالے،
"ک بوں بجھے کنا لگنا ہے میں نہت عیر سیحندگی سے یاپیں سینا ہوں۔۔"
ُ
"اب یات سن۔۔۔ایوار کی رات کو بجھے اسے اویر۔۔۔مظلب ماریا ہے۔۔وہ کیسے یہ یو جاتنا ہوگا
اچھی طرح۔۔۔مگر مجھے کسی تھی طرح اس انشان کی سکل پیر کی صیح نہیں دکھنی جا ہیے۔۔۔"
"سوری جگرے۔۔۔اطالع کے مظایق بجھے پیر کی صیح تھی اس تندے کی سکل دیکھیے یڑے
گی۔۔"
"یر ک بوں۔۔"
"ک بویکہ ایوار کی رات مجھے ت بوی کو لے کر مووی دیکھیے جایا ہے۔۔۔"
وہ اتنی مح بوری تنان کنا جس یر ہناد نے میہ یر ہاتھ ت ھیرا،
"کنا ہوگا۔۔"
"میری ت بوی مجھے روم سے یاہر نکال دے گی ایک رات کے لیے۔۔۔و نسے منڈے کو تھی مجھے
اسے الیگ ڈرات بو یر لے کر جایا ہے مگر دوسنی کے لیے اتنا یو کر ہی سکنا ہوں۔۔"
اتنا دکھڑا رونے مفایل اب یرسکون سا یوال،
ُ
"یو اتنی ت بوی سے ڈریا ہے۔۔۔"
م
کجھ دیر کی جاموسی کے نعد ہناد جیرت سے یوچھا،جس یر دوسری جاتب کمل جاموسی چھاپی تھر
کہا گنا،
س س
"اوکے۔۔۔یام لسینل۔۔۔ لسینل مراد۔۔۔ ِیک بجھے سینڈ کریا ہوں۔۔۔"
ُ
"پیسے۔۔۔یر پیسے ک بوں۔۔یو دوشت ہے میرا۔۔"
"دوشت ہوں یو کنا مظلب۔۔۔پیسے یہ لوں۔۔دیکھ تھاپی میں دوسنی میں جان د تیے واال انشان
تھلے ہوں لنکن جب یات پیسوں کی آجانے یو۔۔۔"
"یو۔۔"
- 336 -
"چھوڑ یا پیسے تنا اب۔۔۔"
مفایل کی ہمیشہ کی طرح ایوکھی یایوں یر ہناد نےجد کڑا تھر کہا،
"اس تندے سے یات کریا مظلب پیبھے پیبھے ذہنی ورزش کریا۔۔۔"
یڑیڑاکر ہناد نعد میں آہسنگی سے مشکرایا،وہ زیادہ یرایا دوشت نہیں تھا ہناد کا،ایک سال نہلے ہی
ان کی دوسنی ہوپی تھی مگر اس ایک سال میں وہ انشان اتنی دلجسپ یایوں اور ایو ک ھے ایداز کی
یدولت ہناد کا پیسٹ فرتنڈ تنا تھا،نقول ہناد وہ ہر مسکل میں اس کا ساتھ د ت نا،تبھی اب جب
کوپی یرنشاپی ہوپی وہ اسے کال کریا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 337 -
س س
آج پیر کو لسینل اور قلذہ کی م نگنی کی رسم تھی،چو کہ لسینل نے ایک یڑے تبمانے کے
چونصورت پینکوت یٹ میں م نعفد کرواپی تھی،ع نادیہ کا یلکل دل نہیں تھا جانے کا مگر مہناز ت نگم
ک م ی س تب مح َ َ
نے اس یار اس کی ا ک یہ نی ھی بوراَ وہ سادہ سی تنار ہوکر ہناد کی یورچ یں ھڑی کار
پ
میں جاکر یبھی،کجھ دیر نعد قلذہ تھی اتنی چند دوسبوں کے ساتھ تنار ہوکر یاہر آپی تھی،اب وہ
لوگ و تٹ کررہے تھے یو مطییہ کا،
"ہیبم مطییہ کو تم لے آیا اتنی کار میں۔۔۔دیر ہورہی ہے دریہ تنگم کی کینی مرتیہ کالز آجکی
ہیں۔۔۔"
آخر کار یرنشان ہوپی مہناز تنگم نے جل نکاال جس یر ہیبم تنا،
"ماما میں اسے لے کر نہیں آرہا۔۔۔وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہناد کی کار میں جلی جانے گی میں
قلذہ کو لے کر آؤں گا۔۔"
"قلذہ ہمارے ساتھ جلی جانے گی اور اس کی دوسی بوں کو ڈرات بو چھوڑدے گا۔۔۔ہیبم ت بوی ہے
وہ ئمہاری تند کرو یہ بجرے۔۔۔تم لے آیا اسے۔۔"
"ئمہارا ہوا نہیں کنا اب یک یا اتھی اور دو پین گھییے لگیے ہیں۔۔۔"
اسے ا تیے ساتھ لے جانے کا سوچ کر ہی ہیبم چو غصہ آرہا تھا تبھی یرسا،وہ چو ا تیے دویوں
ہاتھوں میں ڈرنس لی ہوپی تھی ہیبم کے آنے یر جیران یرنشان سی اسے دیکھیے لگی،
"کنا ہوا۔۔"
اس کی جاموسی یر وہ تھڑکا،
"میرے کیڑے چو میں نے یرنس کیے تھے ان یر جانے گرادی آپ نے۔۔۔اور اب میں
کیڑے نکال کر یرنس کروں گی تھر تنار ہوں گی۔۔یورا یاتم صا نع ہی ہوجانے گا۔۔۔تبھی نہیں
جاؤں گی میں۔۔"
م
اس کا یوچھنا تھا کہ وہ چو رونے کی کمل تناری کر جکی تھی پیزی میں یلند آواز میں یولنی
گنی،نہلی مرتیہ اس کا عام ت بویوں واال ایداز ہیبم کو کجھ الگ لگا تھا،
"میں نے گراپی نہیں تھی۔۔۔دونہر میں پییے ہونے علظی سے گر گنی تھی۔۔۔"
نہلی یار وہ اسے وصاجت دے رہا تھا،
"ہاں یو اب تناپیں میں کیسے تنار ہوں۔۔۔مج ھے کیڑے سمجھ نہیں آرہے نہییے کو۔۔اور اتھی
یرنس تھی کریا ہے۔۔۔"
اس کا رویا یونہی جاری تھا،ہیبم نے گہرا سانس تھرا تھر چھک کر مطییہ کو یازو سے یکڑ کر اتھایا،
گرے سلوار قم نض یر وات یٹ ونس کوٹ نہنا وہ یالوں کو چنل سے سیٹ کیے کابچ ماتند سرد
آیکھوں میں دتنا چہاں کی معرورتت مدفون کیے کھڑا تھا سندھا قلذہ کے دل میں ایریا اس کا دل
ن ت ی
زور سے دھڑکا گنا،چمکنی آیکھوں سمیت اسے ظر ھر د نی قلذہ کو ھم نڈ سا ہوا تھا چود یر،جب
گ ھ ک
اتنی دوسبوں کی تھی یرسوق نظروں کو مفایل کھڑے معرور شخص یر دیکھا،تبھی دریہ تنگم اسماء
کے ساتھ وہاں آ پیں اسے اور مہناز تنگم کو ایدر لے کر گییں،وہاں کی یر رویق آیکھوں کو چ ندھنا
- 342 -
س
د تیے والی روسنی اور لوگوں کی ت ھیڑ میں تھی لسینل مراد کی سرد نظریں قلذہ سے ہٹ کر اب
ان کی کار کی طرف گییں،وہ منالسی نےجین نظریں سکون میں آپی تھیں اسے کار سے ایرنے
دیکھ،گرے ہلکی کامدار قم نض سلوار یر سل نقے سے سر یر دو تیہ اوڑھے ہمیشہ کی طرح کجھ گسناخ
ت ھ جب ن یلس س
ل مراد کو لی یار کی طرح ھر سناساپی کا ل بوں کو عارض یر لہرانے چھوڑ وہ سادہ سی
اجشاس دالپی تھی،ایک دقعہ تھر اس کے دل کی جالت ید لیے لگی،صدی دل سدید چواہش کنا
س
تھا اس انسرا کو فرتب سے دیکھیے کی اور لسینل قدم یڑھاکر سندھا اس کے یاس آیا تھا،وہ چو
کار کا گیٹ تند کرپی ہاتھ میں وہ لئیر(چو گھر سے نکلیے سے نہلے دریہ تنگم کے لیے لکھا تھا) لیے
سوچ رہی تھی کہ کیسے ان سے الگ مل کر وہ یہ تھمانے انہیں،اب مڑنے یر یلکل سا میے
گ ک خ
ش قن کھ ی ن یلس س
ل کو د کھ یو الپی،اسے ین یہ آیا کہ وہ مح بوب ص اس کے سا میے ھڑا ہے ،ھیراکر
س
عنادیہ ا تیے لب کھولنی ت ند کی جیسے کجھ کہنا جاہ رہی ہو۔۔ ،لسینل نے نغور ان تنکھڑی ماتند
ی
ل بوں کی خرکت د کھی،مفایل کی نےیاک نظروں سے گ ھیراپی وہ جلدی سے اس کے یرایر سے
س
ہوکر نکلی مگر تبھی لسینل اسے رو کیے کے عرض عنادیہ کی دودھنا کالپی یکڑا اور نس۔۔۔،
"کون ہو تم۔۔۔؟"
اس کا یہ سوال عنادیہ کو چو یکیے یر مح بور کنا،کنا واقعی یہ یات مفایل کو تنانے والی تھی کہ کون
ہے وہ،کنا وہ نہیں جان سکنا تھا،
ُ ِ
ھڑ کے مجھ سے وہ چوش رہ رہا ھے جیرت ھے، جب
ُ
میرے نعد اسے کس نے چوصلے د تیے ہیں؟
"کون ہو تم۔۔۔؟"
ُ
ایک مرتیہ تھر وہی سوال یوچھا تھا وہ،عنادیہ کے چونصورت چہرے یر دتنا چہاں کا کرب ا ھرا،کالی
ت
سرخ آیکھوں نے نگاہ ہناپی تھی مفایل کھڑے مح بوب کے وچنہہ چہرے یر سے،
"ایک سوال۔۔۔!!"
وہ دھبمی آواز میں یوال یو عنادیہ نے ایک نظر تھر اسے دیکھا،
ی
"ئمہاری یہ آ کھیں۔۔۔۔۔ہر یل ُسرخ ک بوں رہنی ہیں۔۔۔؟"
نےجد یرم لہچہ کہ عنادیہ ششکیے یر مح بور ہوپی،دل نکل نف کی جس اتنہا یر نہیجا تھا اس سوال یر
وہ جاہ کر تھی اسے تنا نہیں سکنی تھی،ک بوں وہ اس کی آیکھوں میں درد کی لکیروں کو سمجھ نہیں
یارہا تھا،کنا اتنی کھوکھلی محیت تھی اسکی،
اس سے نہلے آیکھوں میں چھلمالیا موپی یوٹ کر عارض یر تھشلنا وہ گردن موڑ گنی اور تبھی
گ ی م ت ت ن ن یلس س
ی ن
ل کی ظریں ھ ک کر ا ک یار ھر اس کی ضراخی دار گردن یر ان دو د کیے ِ لوں یر نی چو
ایک دوسرے کے فرتب ہی تھے،نظروں کا جایا تھا کہ دل گسناخی کرنے کو مجال،وہ یل کس
س
قدر جچ رہے تھے اس کی سفند گردن یر،اس مرتیہ اتنی دل کی ماتنا لسینل ہاتھ اتھایا تھا تھر
نہاتت ہی یرمی سے ا تیے ایگو تھے کو عنادیہ کی ضراخی دار گردن یر ان ِیلوں کے اویر رکھنا یرمی
سے شہالیا،عنادیہ کرتٹ کھا کر رہ گنی تھی،یادان دل کی دھڑکییں یل میں نےہنگم ہوپیں،اسے
ی
نہیں معلوم تھا کہ مفایل یہ گسناخی تھی کرے گا،سلگ کر اس نے آ یں ھ النے ا تیے
ن ت ھ ک
س
ان سلگنی آیکھوں کے سرخ ڈوروں میں لسی نل کو اتنا دل ڈوتنا مجسوس ہوا،ہاتھ تیجھے کیے وہ
اب جاموسی سے عنادیہ کے گالل تھرے سرخ چہرے کو یکییے لگا،
"عندی۔۔۔!"
"سیبھل کر۔۔۔"
- 348 -
س
دویوں یازوؤں کو فولڈ کیے لسینل نےیایر لہچے میں یوال،جس یر ہناد پیزی میں کھڑے ہوکر ہاتھ
س
چھاڑا ساتھ ہی کار سے تنک لگانے لسینل کے سا میے آیا،
ُ
"ا تیے سالوں سے شب تھنک تھا۔۔۔مگر جب سے یو وانس آیا ہے۔۔۔میرے ہر اس دوشت
کی موت واقع ہورہی ہے چو اس رات میرے ساتھ تھے۔۔ان کے گھروں میں کہرام مجا
ہے۔۔۔۔بجھے کنا لگنا ہے۔۔۔میں کجھ سمجھ نہیں یاؤں گا کہ کون کررہا ہے یہ شب۔۔۔"
اس کے وچنہہ مگر سناٹ چہرے کو نفرت سے گھوریا ہناد داتت پیس کر یوال،
ُ
ن
"ہاں یار۔۔۔یو ہیجا پینکوت یٹ۔۔۔"
اس کی آواز میں گ ھیراہٹ کا اپیر تھا،
ت ُ
ن گ
"یو آدھے ھییے سے نہاں ہر ہے اور مجھے کال کر کے تنایا ھی ہیں۔۔۔"
وہ غصے میں یرسیے کو ہوا،
ن ُ
ب چ ل ت
"کام پیرا ہے یو یو کال کرے گا۔۔میں ک بوں اتنا یس م کروں۔۔۔"
اس یات یر ہناد کا دل کنا فون سے ہی اس کے میہ یر ت ھیڑ رسند کرے،
"وہ میرا کام ہے پیرا نہیں اب کال کر کے ڈسیرب مت کریا۔۔۔کھایا کھانے دے سکون
سے۔۔۔"
ازلی نےیرواہ ایداز ہناد ا تیے مویایل کو گھوریا یوال،
"انے مرڈر ہی کریا ہے یر اس سے نہلے کھایا یو کھالوں۔۔۔و نسے ات نظام نہت اچھا کروایا ہے
کھانے کا۔۔۔"
مفایل جیسے اس کی یالج میں اصاقے کے عرض مزے سے تنارہا تھا،ہناد کے جیڑے تیے تبھی
غصے میں وہ کال کٹ کنا،مگر اس ہی وقت اس ئمیر سے کال آپی،
"گرتنی رکیں۔۔"
اسے تناکر دریہ تنگم اسییج یر جانے لگیں تبھی وہ نکارا،
"یولو پینا۔۔"
ج م ت گ ن ت ی یس ن یلس س
ل کو ا یج کی طرف جانے د کھ دریہ م کے یایرات یدلے ھے،دکھ اور چوسی کی لی لی
ً ی
ک نف یت میں وہ ا تیے یونے کی نست کو د کھیں،نقینا اس کی محیت شچی تھی چو وہ عندلیب کے
ی
سناسا اجشاس کو نہجان رہا تھا،ا تیے ہاتھ میں عنادیہ کا دیا لئیر دیکھ ان کی آ کھیں چھلمالپیں،کینی
- 354 -
چوش ہوپی تھیں وہ اسے زیدہ دیکھ مگر اس لئیر نے ان کی چوسی یل میں مدفون کی،ایک دقعہ تھر
انہوں نے اسییج یر دیکھا چہاں عنادیہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی،دریہ تنگم کو دیکھ وہ عاخزایہ ایداز
م
میں نفی میں سرہالپی جیسے م نع کررہی ہو جس یر انہوں نے اسے ین کرنے کے عرض
م ط
ی
آہسنگی سے آ یں موید کر ھولی،
ک ھ ک
س
کجھ ہی دیر نعد ایگوتھی نہنانے کی رسم سروع ہوپی،قلذہ نے لسینل کو جب ریگ نہناپی تب
س
لسینل کی سرد نظروں نے سندھا اس کے تیجھے کھڑی یری وش کو دیکھا چو آیکھوں میں الگ ہی
س
لن یلس کرب چنکہ تنکھڑی ماتند ل بوں یر زیردسنی کی مسکان شجانے اسے دیکھ رہی تھی،جب یاری
کی ایگوتھی مہنانے کی آپی تب عنادیہ کی یرداشت چبم ہوپی،اس کا دم گھییے لگا تھا،وہ اور نہیں
س
دیکھ سکنی تھی یہ تبھی اسییج سے ایر کر سندھا ڈرنسنگ روم کی جاتب یڑھی لسینل کی نظروں
نے اس کا نعاقب کنا تھا،
"نہناؤ تھی۔۔۔"
س
ل نے ایک ن یلس اسے ہاتھ میں ریگ یونہی تھامے دیکھ قلذہ نے ہلکی مگر یرچوش آواز میں کہا یو
سرد نظر اس یر ڈالی تھر طیزیہ مشکراہٹ سمیت اسییج اور لوگوں کی ت ھیڑ سے یلکل دور کونے میں
س
اسے دیکھا چو ہاتھ میں گن تھامے لسینل کی جاتب نشایہ لیے کھڑا تھا،کیپ نہیے رہیے کی وخہ
- 355 -
سے اس شخص کا چہرہ آدھا چھنا ہوا تھا مگر عناپی ل بوں یر طیزیہ مشکراہٹ صاف تنا دے رہی تھی
س
کہ کجھ الگ کرنے کا ارادہ کریا ہے وہ ،لسینل کا نشایہ لییے وہ گن یکڑے ہاتھ کو اجایک اویر
کنا تھر تیچ میں لگے چونصورت قایوس یر ر ک ھے یریگر دیایا،
تھاہ کی آواز سمیت وہاں لوگوں کا سور یریا ہوا،قایوس کے دو یلب یونے تھے مگر کجھ ہی دیر میں
پینکوت یٹ میں چھایا ایدھیرا سور کی آواز سمیت لوگوں میں تھگ دڑ محیے یر مح بور کرگنا،مہناز تنگم قلذہ
س
کو یکڑپی گ ھیراپی تھیں،دریہ تنگم نے لسینل کو نکارا مگر وہ وہاں ہویا یو ان کی نکار کا چواب د ت نا،
پ
ڈرنسنگ روم میں جئیر یر یبھی عنادیہ گ ھیراپی تھی اجایک ایدھیرا ہونے یر،اتھی وہ اتھ کر جلدی
ی ی ج ھ ب ھ م تب ت
ک
سے دروازے کے یاس جاپی گر ھی کی سی کو ایدر دا ل ہونے د کھ،اس کا ارادہ مفا ل
کے یرایر سے ہوکر جانے کا تھا مگر آنے واال ساید یہ نہیں جاہنا تھا تبھی عنادیہ کا یازو یکڑ کر وہ
تبھی اتنی مبھی میں مفند کو ڈائم نڈ کی چمکنی ریگ نکال کر جیران یرنشان کھڑی عنادیہ کے یلکل
سا میے آیا،ساتھ ہی اس کا ہاتھ نہاتت یرمی سے تھاما مگر اگلے ہی لمچے اتنا ہاتھ چھنک کر چھڑواپی
عنادیہ دروازے کی طرف تھاگی،
س
اسے سوچوں میں گم دیکھ لسینل مشکرایا ہوا عنادیہ کا ہاتھ یکڑا،ہوش میں آپی عنادیہ نے جلدی
سے اتنا ہاتھ چھڑوایا جاہا مگر کمر کے گرد زیادہ شخت ہوپی گرقت نے اسے ششکیے یر مح بور
س ی
کنا،یڑپ کر وہ اتنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش چھوڑپی آ کھیں میچ گنی،اور تب لسینل اس کے
تھک کر گردن چھکا لییے یر ہاتھ میں تھامی وہ ریگ عنادیہ کی انگلی میں نہنایا،
"یاہر جلیں۔۔۔"
ھ ن ًک
اجایک اس کا ہاتھ یکڑیا وہ ازلی سرد لہچے میں یوال ساتھ ہی عنادیہ کو فرتنا یحیے ہونے وہاں سے
ی
ً
لے کر گنا،ڈرنسنگ روم سے نکلیے کے فورا نعد ساری الپیس اون ہوپی تھیں،یاہر آکر عنادیہ کا
ہ چ ہ س گ گ ن م ن یلس س
ی
" ل۔۔۔پینا اس ماچول یں قلذہ ہت ھیرا نی ہے یو ر م م ھوڑ د تیے یں۔۔۔ر گ آپ
تھچواد ت نا کل سکندر وال۔۔۔"
س
اسکے آنے یر قلذہ کو تھامی مہناز تنگم نے لسینل اور دریہ ت نگم کو دیکھیے ہونے کہا،نہی یو وہ
جاہنا تھا تبھی اتنات میں سر ہالیا قلذہ کو دیکھا جس کے یایرات سے واضح ہوا تھا کہ وہ ڈری ہوپی
ت ن ً
ن
ہے ،قینا اس کا ڈر گولی کی آواز یر ہی کویدا تھا،ا نی گناہگار ہونے کے عد اگر موت کی آواز آپی
ن ً
ہے یو ڈریا یو قینا تھا اس کا،
"ہیبم۔۔"
ی
یاسمجھ نظروں سے ہیبم کے سناٹ چہرے کو د نی وہ نکاری گر یدلے یں اسے کجھ ھی ہیے
ک ت م م ھ ک
کے ہیبم سندھا کار سے ایرا،وہ چو اب یک جیران سی مفایل کو دیکھ رہی تھی اس کے بجھال
ت
گیٹ کھول کر سیٹ سے کجھ نکا لیے یر ھبھکی،وہ جیز کوپی اور نہیں مطییہ کی وہی ڈایری تھی
جسے ا تیے قہر میں ایدھا ہویا وہ یابچ سال نہلے جالنے کی کوشش کنا تھا مگر مطییہ نے ئمسکل
آدھے چصے کو بجایا تھا جلیے سے،
"یہ۔۔۔"
اسے ڈایری ہاتھ میں لیے پیزی سے آپی لہروں کے جاتب دیکھ مطییہ گ ھیراپی ساتھ ہی کار سے
ایر کر تھاگی تھی ہیبم کے تیج ھے،اس کا ارادہ تھاتپ وہ رو کیے کے عرض نکاری ہیبم کو لنکن مطییہ
کی نکار کو ان سنا کریا وہ ڈایری تھی نکا تھا یاپی میں،
"ہیبم نہیں۔۔"
- 362 -
چیحیے ہونے مطییہ تھاگی یاپی کی جاتب ڈایری اتھانے لنکن اس کا یازو جکڑیا ہیبم یڑی آساپی سے
اس کی کوشش یاکام تناگنا،
س
"نہیں رکھوں گی آواز تیچے۔۔۔ مجھیے کنا ہو چود کو۔۔تم کجھ تھی کرسکیے ہو۔۔۔آخر جا ہیے کنا
ہو۔۔۔تم نفرت کرنے ہو مجھ سے۔۔۔میں نے کبھی م نع کنا ئمہیں کہ مت کرو مجھ سے
نفرت۔۔۔ہاں ہوں میں نفرت کے الیق نےسک کرو جینی کرپی ہے کرو نفرت لنکن۔۔۔۔لنکن
جب میں ئمہاری نفرت کے تیچ کوپی اعیراض نہیں کرپی یو تم کون ہونے ہو میری محیت یر
اعیراض کرنے والے۔۔۔"
یہ تھڑاس ہی یو تھی جب سے ایدر دپی چو اب وہ یرداشت چبم ہونے یر مفایل یہ نکال رہی
تھی،مطییہ کے لفظوں کے ساتھ ساتھ ہیبم کے یایرات میں شحنی آنے لگی،
"کون ہونے ہو تم میری محیت یر اعیراض کرنے والے۔۔۔کنا میں نے کبھی تم سے کبھی کہا
کہ مجھ سے محیت کرو۔۔۔کنا کبھی تم سے اتنی محیت کا نفاصہ کنا۔۔۔نہیں یا۔۔۔تھر تم ک بوں
- 364 -
یار یار انشا کرنے ہو۔۔۔ک بوں مجھے نکل نف د تیے کا کوپی موقع نہیں چھوڑنے۔۔۔ئمہاری یک طرفہ
نفرت نفرت ہے۔۔۔اور میری یک طرفہ محیت۔۔۔،وہ کھنل۔۔۔نےکار جیز۔۔ہے یا۔۔"
"ہیبم سکندر نس کردو۔۔۔میری محیت کو میرے لیے سزا مت تناؤ۔۔۔مت کرو انشا کہ نفرت ہو
مجھے اس یات سے کہ میں نے تم سے محیت کی۔۔۔،مت کرو۔۔۔"
اتنہاپی کرب میں کہنی وہ ہیبم کو تبھر ہونے یر مح بور کی،ضحیح یو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔۔،اس نے
کب اتنی محیت کا نفاصہ کنا تھا،وہ لڑکی یو اظہار سے تھی ڈرپی تھی کجا کہ کبھی اس سے کوپی
نعلق تنانے کا نفاصہ کنا ہو،تھر وہ ک بوں یار یار اس سے اتنی نفرت کا اظہار کررہا تھا،ساید کہ وہ
ت ُ
ڈر رہا تھا کہ ا تیے تنانے گیے اس نفرت کے کھنل میں اگر زرا سا ھی چوک گنا یو ھر محیت یہ
ت
کرپیب ھے۔۔،ہاں نہی وخہ تھی چو یار یار وہ یہ الفاظ دہرایا کہ اسے مطییہ چہایگیر سے نفرت ہے،یاکہ
یاد رہے کہ وہ نفرت ہی کریا ہے اس سے،
"تم قا یل ہو یاذلی کی۔۔۔اور قا یل کبھی سکون سے نہیں رہنا۔۔۔یو ا تیے کیے کا الزام مجھ یر
مت ڈالو۔۔۔"
ی
مطییہ نےنقینی سے اس شخص کو د ھی ھی چو اسے نی اذ ت بوں یں ھرا کر اب سارے الزام
گ م ک ت ک
اس ہی یر عاید کنا ان نکال نف کو اس کے گ ناہوں کی سزا تنایا چود یری الزمہ ہوکر یرسکون سا
- 365 -
مڑا اور کار کی طرف گنا تھا،پیروں سے یکدم جان نکلی تھی اور وہ لڑکھڑاکر تیچے گری،یآواز رونے
ی
ہونے مطییہ نےنسی سے سم ندر کی آپی جاپی لہروں کو د کھی،چہاں اس کے جذیایوں سے تھری
ڈایری کہی گم سی ہوگنی تھی،
"تھاپی رکو۔۔"
وہ یلند آواز میں نکاری جس یر تھوڑے دور جاکر رکشہ رکا،سیشان روڈ میں ایک امند دیکھ مطییہ کو
یک گویہ سکون ہوا،تبھی جلدی جلدی جلیے ہونے رکسے یک آپی،سکندر وال کا ایڈرنس تناپی وہ رکشہ
میں سوار ہوپی،اتھی رکشہ کجھ دور ہی گنا تھا جب مطییہ چو پیب ھے پیبھے عح یب سی الجھن ہونے
لگی،یرنشان ہوپی وہ تم ہوکر چہرے سے چنکے رنسمی یالوں کو ہناپی ایک عیرارادی نظر تنک و ت بو مرر
"ر۔۔رکشہ۔۔روکو تھاپی۔۔"
ت ً
یوکھالکر وہ فورا یولی گر وہ آدمی ا تیے کڑے جانے یر ھی یڈر پینا رکشہ النے رہا،
ج ی م
ی کی
سدید جیرت کا مجسمہ تنی مطییہ اسے د ھی چو کشادہ پیشاپی یر ل لیے اسے ھوررہا رہا تھا،وہ یو
گ
جاچکا تھا۔۔۔،
"جلو۔۔"
اب کی یار اس نے مطییہ کا ہاتھ یکڑ کر اویر چھ نکا تھا مگر جب وہ یونہی پیب ھے رہی تب چھک کر
یوال،
اسے کار میں پیبھا کر ہیبم دوسری جاتب سے آکر چود تھی پیبھا،
"اب تھی ک بوں آنے۔۔۔نہیں آنے۔۔۔ئمہیں یو سوق ہے یا نہلے مجھے مضی یت میں ڈالو تھر
اچھا ین کر آو۔۔۔یہ تم جانے یہ میرے ساتھ وہ ہویا۔۔۔"
اس آدمی کی نظروں کو سوچ وہ چھرچھری لییے ہونے تھر روپی،ہیبم چو جاموسی سے کار سنارٹ
کتھی ی
کررہا تھا اس کے ایک مرتیہ تھر سروع ہونے یر جیڑے یحنا آ یں تند کر کے ھوال،
ک ھ
"جپ رہو۔۔"
- 370 -
سیحندگی سے یوکا تھا وہ اسے،جاتنا تھا اس یات علظی چود کی ہی تھی،
"جب علظی اتنی ہو یو جپ کرادو۔۔۔اور جب میری ہو یو ڈات بوں سناؤ چیچو۔۔۔اب میرا یولنا ک بوں
یرا لگ رہا ہے۔۔۔اور یوال تھی کنا میں نے۔۔۔ایک یات ہی یوچھی کہ اب ک بوں آنے۔۔۔جب
جب ضرورت یڑپی ہے تب ک بوں نہیں آنے۔۔۔آج یڑا چنال ہوا میرا۔۔۔"
اس آدمی کے ساتھ ساتھ جب ہناد کی کی گییں گسناچناں اور نظریں یاد آ پیں یو وہ اور تھڑکی،آج
جیسے تھوڑی تھوڑی دیر میں وہ اتنی تھڑاس نکا لیے کا ارادہ کی ہوپی تھی،اسے مشلشل یو لیے دیکھ
ہیبم نے گردن موڑ کر نہلے یو شخت گھوری سے یوازا تھا اسے مگر اتنی گھوری تھی نےسود ہوپی
ی
دیکھ وہ چھکا تھا مطییہ کی طرف،مفایل کو اتنی جاتب چھکیے دیکھ وہ تیجھے ہوپی د ھی گر تب یک
م ک
دیر ہوجکی تھی،وہ اسے کجھ دیکھیے کا موقع دنے تنا مطییہ کے گالپی ل بوں یر ا تیے لب رکھنا اسے
جپ کراگنا ،لمچے میں دل کی دھڑکییں ایک سو پیس کی رقنار سے دھڑکییں لگیں،س ِ
دت جذیات
ی
میں اتنی آ کھیں میچ کر مطییہ اس کے سییے یر ہاتھ رکھی تھی دھکا د تیے کے عرض مگر اس کی
ٰ
کالپی مبھی میں لے کر وہ تند سیسے سے لگاگنا،کار میں یڑھنی معنی جیز جاموسی یر مطییہ کی
دھڑکییں واضح سناپی دے رہی تھی،مفایل کی نےیاک جشارت یر گ ھیراپی وہ سانس ر کیے یر اتنا
ہاتھ چھڑانے کی تھریور کوشش کرنے لگی اور تبھی اس کی جاں بجسی کریا وہ آہسنگی سے اسے
چھوڑا،مطییہ کا الل ئمایر ہوا چہرہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ اتھی سدید چواہش رکھنی ہے اس کی
- 371 -
نظروں سے کہیں نہت دور جلے جانے کی،ا ت یے سییے یر ہاتھ رکھنی وہ زیرو تم ہوپی سانس کو م بوایر
کرنے کی کوشش میں تھی چنکہ اس کے چ نا سے ئمبمانے چونصورت چہرے کو دیکھ ہیبم طیزیہ
مشکراہٹ سمیت کہا،
مطییہ کو رویا چھوڑ اس کا ارادہ تھا جال جانے وہاں سے مگر کجھ دور جاکر وہ ایک عح یب اجشاس
کے بخت کار موڑا،وانس آیا یو دیکھا مخیرمہ تندل ہی وہاں سے کجھ دور جارہی تھی،کار کو سلو جالیا
وہ دیکھنا جاہ رہا تھا کہ آخر کہاں یک وہ اکنلے جاسکنی ہے،تھر اسے رکسے میں سوار دیکھ ہیبم نے
کار کی ہنڈ التییس آف کیں ساتھ ہی نہاتت ہلکی رقنار میں اس رکسے کا تیجھا کنا،وہ جاہنا یو یہ
شب کرنے کے بجانے سندھا اسے لے آیا مگر یاجانے ک بوتنہلی مرتیہ دل کنا تھا اس ڈریوک لڑکی
وہ ا تیے سالوں یک اس سے نفرت کا دعویدار رہا تھا مگر ان چند مہی بوں میں اس لڑکی کے ساتھ
رہ رہ کر ہیبم کے دل میں زیادہ نہیں مگر تھوڑا نہت یرم گوشہ تندا کنا تھا مطییہ کے آنسوؤں
نے۔۔۔،لنکن چود یر ازلی نفرت کا چول خڑھانے وہ کبھی اس یرم گوسے کو طاہر یہ کریا اور یہ
ہی جاہنا کہ کبھی یہ طاہر تھی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
مہناز تنگم،قلذہ اور عنادیہ کو سکندر وال چھوڑیا وہ اسے کال کنا،اس یار کال رنسبو کرلی گنی تھی،
ُ
"مشڈ کالز سے یو قلجال نہی لگ رہا ہے کہ یو مررہا تھا۔۔۔تنا۔۔۔کنا کام ہے۔۔"
"کنا کام ہے۔۔۔کمییے بجھے تنا ہے میرا اتھی کینا چون کھول رہا ہے۔۔۔"
گ ُ
"چون۔۔چو لہے۔۔یر۔۔کنا۔یول رہا۔۔یار یو یا ل ہے کنا۔۔"
اس کے کجھ تھی یو لیے یر ہناد یرسا،
ت ُ
"یاگل ہوگا یو۔۔۔گدھے ا ھی میرا موڈ نہت خراب ہے۔۔۔یات مت کر۔۔"
"یر یار گالب جامن یو ا چھے ہو۔۔۔ایک میٹ۔۔پیرا موڈ اس لیے خراب ہے۔۔۔"
وہ چو مفایل کی نےوفوقایہ یات یر اسے وصاجت د تیے لگا تھا اجایک اتنا مدعا یاد آنے یر تپ کر
رہ گنا،
"ہاں یو۔۔"
ت ُ
"دیکھ میرے تھاپی۔۔۔اس سے نہلے میں یاگل ہوں یو تنا کہاں یر ہے۔۔۔مج ھے ملنا ہے ا ھی
بجھ سے۔۔۔"
سدید تییسن میں وہ یوال تھا۔۔،تھر اس کے تیہ تنانے یر ہناد نہلے یو اتنا سر یکڑا تھر وانس
پینکوت یٹ کا رخ کنا،وہ اب یک وہی یر تھا،
"اونے۔۔"
اسے اتنی کار سے تنک لگانے دیکھ ہناد نکارا،
یلو پی سرٹ اور پی یٹ یر واتٹ چنکٹ نہنا کیپ لگانے کھڑا گردن موڑ کر ہناد کو دیکھا تھا،عناپی
ل بوں یر ہمیشہ کی طرح طیزیہ مشکراہٹ نے اجاطہ کنا ہوا تھا،چنکہ ایک داپیں ہاتھ کی انگلی گن
کو یوں گھمارہی تھی جیسے کوپی کھلویا ہو۔۔۔،
"رتنلی۔۔۔ایک کام۔۔"
- 376 -
ئمسجر تھرا لہچہ کجھ یاور کرایا تھا،
"مظلب۔۔۔نہت سے۔۔۔کام دنے تھے۔۔شب یاتم یر کنا مگر یہ کام۔۔۔یہ کام یو شب سے
ایزی تھا۔۔۔ضرف نشایہ کے کر یریگر دیایا تھا۔۔"
ن یلسنہ س
ل مراد۔۔۔" "یو تھر مرا ک بوں یں
آیر تھیچے وہ یوچھا،
ُ
"نشایہ چوک گنا۔۔۔ایک موپی عورت یکراگنی تھی۔۔۔"
وچنہہ چہرہ نگاڑے چواب دیا گنا،
س
"سیرنشلی۔۔۔ایک عورت کے یکرانے سے گولی لسینل کی جگہ سندھا قایوس یر لگی۔۔۔ایہ یات
تنا۔۔النف میں نہلے کبھی کسی یر گولی جالپی ہے۔۔۔"
- 377 -
ن
کسی سک کی تنا یر ہناد فییسی لہچے میں یوچھا،
"ہاں یلکل۔۔۔"
"کیسے۔۔۔"
"ا نسے۔۔"
یہ کہیے ہی مفایل ہناد کا نشایہ لینا یریگر دیایا،تھاہ کی کان جیرنے والی آواز کے ساتھ ہناد کی
دلجراش چیخ قضا میں یلند ہوپی،گولی اس کے یازو کو چھوپی ہوپی گنی تھی،مگر چون پیزی میں نکال
ساتھ ہی نکل نف کی سدت سے وہ کراہ کر رہ گنا،
ُ
"چو یو نے کہا تھا۔۔"
یارملی تنایا تھا وہ جیسے کوپی یڑی یات یہ ہو،
چ
"ماں کی نظر میں ان کا الڈال۔۔۔ت بوی کی نظر میں ھورہ اور یاپ کی ظر یں ا ک یافرمان گڑی
ی ی م ن ھج
اوالد۔۔۔"
یال کی سیحندگی سمیت وہ یوں تنایا جیسے کوپی اہم معلومات دے رہا ہو۔۔،
"یر ک بوں۔۔"
پ ی ھ کی
ہناد کی آ یں جیرت سے ا لیے کو ہو یں،
ُ
ن
"یر کہا یو یو نے تھا۔۔۔اور میں دوسبوں کا کہا گنا یالنا ہیں ہوں۔۔۔"
اتنی ایک اور چوپی یڑے یرسوق ایداز میں تنان کی گنی،
"ہمم۔۔"
گہری یراؤن آیکھوں کو روڈ یر مرکوز کیے وہ ہ نکارا،
- 380 -
ُ
"بجھے نہیں لگنا کہ یو کجھ زیادہ ہی اوور کونفنڈتٹ ہے۔۔۔"
ہناد کے سوال یر عناپی ل بوں یر پیسم تھنال مفایل کو تناد تیے واال،
ک ن ُ ُ
"جس طرح بجھ میں می گی کوٹ کوٹ کر تھری ہے تھنک اسی طرح میں اور اوور کونفنڈتٹ
ایک دوسرے کے تنا ادھورے ہیں۔۔"
ی
اس کا ازلی ت نانے والے ایداز یر ہناد مشکراکر آ کھیں موید گنا،وہ زیادہ یاراض نہیں تھا اس
ت ق ن ٰ
سے۔۔،جاتنا تھا اس طرح کے کام کریا تنام مرضی کی ظرت کا جاصا ہے۔۔،اور و نسے ھی
نقول ہناد کے وہ دوشت تھا اس کا،نہیرین دوشت۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ن
سکندر وال ہیحیے کے نعد یورچ میں کار روکنا وہ مطییہ کی جاتب م بوخہ ہوا چو اب یک سر چھکانے
دویوں ہاتھوں کی انگلناں مروڑ رہی تھی،کار سے ایر کر وہ دوسری جاتب آیا گیٹ کھوال،
"اچھا۔۔ایرو تھر۔۔"
ٰ پ
وہ جاتنا تھا کہ مفایل یبھی وہ لڑکی اس سے چنی االمکان گ ھیراپی ہوپی ہے،تبھی سندھا ہویا
یوال،اس کے تیجھے ہییے یر مطییہ ایک چور نظر اس یر ڈالنی کار سے قدم یاہر رکھی،اتھی وہ کھڑی
ہی ہونے لگی تھی جب ایڑھی یر لگے کٹ نے اسے لڑکھڑانے یر مح بور کنا اور اگلے ہی لمچے وہ ہیبم
کی یاہوں میں چھولی،
"ایرگنی۔۔۔"
اسے گود میں اتھانے وہ طیز کنا،چنا سے مطییہ چہرہ چھناگنی اس کے کشادہ سییے میں،اسے لیے
ایدر داجل ہویا ہیبم اجایک الو بج میں رکا جب نظر مہناز تنگم یر یڑی،وہ یرنشان سی الؤبج میں جکر لگا
رہی تھیں،
"کہاں تھ۔۔"
ان دویوں کو دیکھ وہ چو یو لیے لگی تھیں یکدم جپ ہوپیں،ساتھ ہی چوسگوار جیرت سمیت
مشکراپیں،
- 382 -
"وہ۔۔مط۔۔مطییہ کے پیر میں چوٹ لگی ہے۔۔۔"
ان کے مشکرانے یر سنکی کا اجشاس ہوا تبھی وہ ہجکجاکر چواز پیش کنا،دوسری جاتب مطییہ جس
م
کی نہلے ہی جان یر تنی تھی مفایل کی یاہوں میں اب وہ کمل سانس روکے یونہی چہرہ چھنانے
م ی
رکھی،سرم سے اس کی آ یں چی یں،
ھ ت ی ھ ک
"اچھا جاؤ تم لوگ۔۔۔اب یہ ہناد کہاں رہ گنا ہے کبھی چو وقت یر آنے۔۔۔ہمیں چھوڑ کر
یاجانے کہاں جالگنا تھا۔۔۔"
اسے تناپیں مہناز تنگم تھر گیٹ کی طرف م بوخہ ہوپیں جس یر اتنی جان بجسی ہونے ہی ہیبم
ٰ
سندھا اویر گنا،کمرے میں الکر وہ مطییہ کو ا تیے تنڈ کے بجانے اس کی جگہ نعنی صوقے یر ہی
"لو۔۔"
چ
وہ مطییہ کی طرف فرشٹ ایڈ یاکس یڑھایا یو ھجھک کر اس نے یاکس لنا،ہیبم کو دروازہ اور التٹ
تند کر کے تنڈ یر لیی نا دیکھ وہ یاکس کھولی ساتھ ہی کاین کی مدد سے دواپی ایڑھی یر لگانے کی
کوشش کرنے لگی،چوٹ یر دواپی لگیے ہی جلن کے اجشاس سے وہ ششک کر رہ گنی تھر
ئمسکل اس یر یالشٹ لگاپی اتھی،جلیے سے درد یو نہت ہورہا تھا مگر اسے الجھن ہورہی تھی چ بولری
میں،اتھی وہ دو قدم ہی جلی تھی کہ لڑکھڑاکر تیچے گری،
"کنا مسنلہ ہے ئمہارے ساتھ۔۔۔دواپی لگاکر سوجاؤ۔۔۔اب کنا یار یار آکر ئمہیں گود میں
اتھاؤں۔۔"
اسے تیچے گرے دیکھ وہ اجایک تھڑکا جس یر مطییہ کی آیکھوں نے تم ہونے میں زرا دیر یہ
لگاپی،مفایل کی ڈاتٹ یر وہ ہنک سے لب دات بوں یلے شحنی سے دیانے صوقے یر ہاتھ رکھ کر
اتھی،پیروں میں درد کی جب یری پیسیں اتھیے لگیں تب یرداشت یہ ہونے یر وہ وانس صوقے یر
پیبھ گنی،اس سبمگر کی نظریں اب یک چود یر مجسوس کیے مطییہ جلدی جلدی چ بولری ایاری تھر
ل ب یہ ل گ پین کھ ً
ب ی
اسے کوریر ل یر ر نی فورا لیٹ نی،اس کے ییے ہی م ہاتھ یڑھا کر مپ کا سوبچ آف کنا،
اتھی زیادہ وقت یہ گزرا تھا جب کمرے کی جاموسی میں مطییہ کی ہجکناں گوبحیے لگیں،وہ رورہی
ھ چ
تھی،اتنی سوچوں میں گم ہیبم شخت جھالیا،ک بوں وہ لڑکی یار یار اسے ا تیے ل سے یرنشان
م ع ی
کررہی تھی،پیزی میں تنڈ سے اتھنا وہ صوقے کے یاس گنا چہاں وہ آیکھوں یر یازو ر ک ھے اس کے
سر یر کھڑے رہیے سے نےجیر ا تیے رونے کا سعل جاری رکھی تھی،
کل
"بچین سے لے کر اب یک وہ میرے ساتھ تھی۔۔۔میں اس میں ا تیے جذیات نی ھی۔۔۔"
ت ھ
"کس کے لیے۔۔؟"
"ئمہار۔۔۔"
اور وہ چو مفایل کے سوالوں کا نےدھناپی میں چواب دے رہی تھی یکدم جپ سی ہوپی،ہیبم
جاموش نظروں سمیت اسے دیکھنا پیبھا تھا صوقے یر،مطییہ کا دل دھڑکا تھا مفایل کو ا تیے فرتب
پیبھے دیکھ تبھی وہ قاصلہ قاتم کرنے کے عرض سرکی،اس کی نست یر ہاتھ رکھنا ہیبم اجایک اسے
فرتب کنا تھا چود کے،سرخ عارض یر سایہ قگن تھنگی گھنی یلکوں کو دیکھ وہ مطییہ کی تھوڑی
تھام کر اس کا چہرہ اویر کنا،اتنی پیز ہوپی دھڑک بوں اور مفایل کی گرم سانسوں سے گ ھیراپی مطییہ
کی یلکیں اتھیے سے انکاری ہوپیں،
"سبو۔۔"
"ڈایری یر پین سے لکھیے سے یا جلی ہوپی ڈایری کو بجانے کے جکر میں ہاتھوں کو جالنے سے
ہیبم سکندر ئمہارا نہیں ہوجانے گا۔۔۔وہ ضرف یاذلی چہایگیر کا تھا اور اسی کا رہے گا۔۔۔چند ایک
ی
ہمدردایہ عمل سے یہ یلکل مت سمجھنا کہ میں ئمہارے آنسوؤں سے ل جاؤں گا۔۔۔اسے
گھ
"دیکھو ساپی۔۔۔"
"نہیں۔۔علظی میری تھی سراسر۔۔نہت یڑی علظی کی تھی میں نے۔۔اور اسی علظی کا ہی یو
مداوا کرنے آیا ہوں میں۔۔۔"
س
سناٹ یایرات سمیت کہیے لسینل کا اسارہ قلذہ اور ہناد سے کی دوسنی اور ان دویوں یر تھروسے
کا تھا لنکن اس کے الفاظوں نے چہاں قلذہ کو چوسگوار جیرت میں مینال کنا تھا وہی قلذہ کے تیجھے
آپی عنادیہ کو نےنقینی کے گھڑوں میں گھرایا،وہ اسنل ہوپی تھی۔۔۔،اسے قلذہ کی کہیں اس
ت س
ی ج ک
ل کی یات نے قلذہ کے ہے گیے کی یسے نضد ق ن یلس دن کی یایوں یر زرا نقین یہ تھا یر ا ھی
س
کی تھی،دیوار کا شہارا لے کر چود کو ئمسکل کھڑا ر ک ھے وہ لسینل کو ششدہ نظروں سے دیکھیے
لگی،یو کنا وہ انشان شچ میں انشا تھا،کنا اتنی محیت میں ایدھی ہوپی وہ واقعی ایک علط شخص کا
اتیجاب کی تھی،زچمی دل یڑپ کر چیخ یڑا،دماغ میں چو یات آپی تھی اس کی جالف ورزی کریا دل
رویا تھا کہ ایک مرتیہ اس مح بوب شخص سے یہ یات یوچھی جانے،مگر دماغ نے صاف انکار کنا
تھا،جب وہ نفس کا عالم اتنی علظی کا مداوا کرنے ہی آیا تھا یو وہ کون ہوپی تھی اس سے کجھ
تھی یوچھیے والی،دل و دماغ کے درمنان جیسے چنگ چھڑی تھی اور تھر۔۔۔،دماغ چ یت گنا اسے
سمجھانے میں کہ وہ کبھی نہیں تھی اس شخص کی زیدگی میں،وہ شخص یو ضرف نہاں اس کی
- 391 -
ی
نہن سے اتنی علظی کا مداوا کرنے آیا تھا،میرتم آیکھوں سے اتنی انگلی کو د ھی ھی وہ،جس یں
م ت ک
نہناپی گنی اس مح بوب کی ایگوتھی چھنانے کے عرض اس نے چوٹ کا نہایہ کر کے تنی لگاپی
دت ضنط سے سرخ ہونے چہرے سمیت وہ تنی ایار کر ریگ نکالی تھی اتنی انگلی سے تھی،س ِ
ساتھ ہی وہاں تنی ایک پییچ یر رکھ کر یلنی،
"ارے عنادیہ۔۔۔تم آگنی۔۔تھنی میری ساتنگ یو ہوگنی۔۔۔اب مجھے نہت تھوک لگی ہے یو جلو
کجھ کھانے ہیں۔۔۔"
ت ت ن یلس س
ق
ل سے سادی کی چوسی اس قدر ھی کہ اب لذہ کا رویہ عنادیہ سے ھی اچھا ہونے لگا
تھا،تبھی چوسی سے کہہ کر وہ وہاں سے ک نقیئیریا کی طرف جانے لگی،اس ہی کے تیجھے عنادیہ تنا
س س
لسینل یر ایک نظر تھی ڈالے گنی وہاں سے تبھی قدم اتھایا لسینل اس پییچ کے یاس آیا
س
چہاں اس کی پیز نظروں نے عنادیہ چو ریگ ایار کر رکھیے دیکھا تھا،وہ ریگ اتھایا لسینل چ یب
میں رکھا،اسے اچھا لگا تھا عنادیہ کا ریگ کو انگلی میں رکھنا مگر اب وہ ک بوں ایاری تھی اسے،یہ
ل گ م س ن یلس س
غ
ل کو مجھ یہ آیا گر اسے صہ سدید دال نی عنادیہ کی یہ خرکت،ان دویوں کو یچ کروانے
کے نعد وہ سکندر وال میں ڈراپ کریا نکال تھا،کار ڈرات بو کرنے ہونے ذہین دماغ ہمیشہ کی طرح کنی
س
سوچوں کے زد میں تھا،مگر لسینل مراد تھول گنا تھا کہ ابجانے میں ایک مرتیہ تھر ا تیے لفظوں
سے وہ اس یادان لڑکی کا دل یوڑ گنا ہے،
- 392 -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
منگنی والی رات ہونے وا قعے کے نعد قلذہ کے کہیے یر مہناز تنگم نے نکاح کی نفرتب سکندر وال
میں ہی رکھواپی تھی،سکندر وال کو نہت چونصورپی سے شجایا گنا تھا،دویوں تھات بوں نے کوپی کمی یہ
رہیے دی تھی،سام سے مہمایوں کی آمد کا سلشلہ سروع ہوا یو رونقوں میں مزید اصافہ ہوا،چویکہ
نکاح جلد رکھایا گنا تھا تبھی مہناز تنگم نے ہیبم کو یارلر تھیجا قلذہ اور مطییہ کو لییے،ہناد کا آج موڈ
م
کافی خراب تھا اسے اتنا یلین کمل خراب ہویا دکھا ک بویکہ تنام آقس کے کام کے بخت دوسرے
س
م
ل کو مارنے کا،اور اب ہمایوں ن یلس ملک گنا ہوا تھا تبھی اس کا واجد شہارا تھی چبم ہوچکا تھا
س
ل یہ شب یدلے کے لیے ہی کررہا ہے یو ن یلس کو ویلکم کریا وہ کھڑا نہی سوچ رہا تھا کہ اگر کو
اس نے اب یک کوپی جاص اسارہ ک بوں نہیں دیا تھا ان لوگوں کو،ک بوں وہ اب یک جاموش
س
تھا،یارات بوں کی آمد یر اس نے لسینل کو یالسا مگر دریہ تنگم نے جب مہناز تنگم کو تنایا کہ وہ
کجھ ضروری کام کی وخہ سے تھوڑا لیٹ ہو جانے گا تب ہناد کو کجھ گڑیڑ ہونے کا اجشاس
ہوا،اس نے جلدی سے ہیبم کا ئمیر ڈایل کنا تھا یاکہ یوچھ سکے کہ قلذہ تھنک یو ہے یا۔۔۔،مگر
ہیبم کو قلذہ اور مطییہ سمیت ایدر آنے دیکھ ہناد کا دماغ الجھ کر رہ گنا،گر کو قلذہ تھی تھنک تھی
یو کنا ہوا تھا کہ وہ اتھی نہیں آرہا تھا،
جاہنی ہیں وہ،تبھی گالپی لیسنک اتھاکر وہ تنکھڑی ماتند ہوت بوں کے قدرپی گالپی ین یر لگانے اسے
گہرا کی،اتھی وہ لیسنک وانس رکھ رہی تھی جب کمرے میں عنادیہ کو کسی کی موچودگی کا اجشاس
ہوا،تیجھے مڑ کر وہ جاروں طرف نظر دوڑاپی مگر کسی کو یہ یاکر اتنا وہم سمجھ کر سر چھنکنی لیس نک
رکھی،ایک آخری نظر چود یر ڈا لیے کے عرض اس نے نگاہ اتھاپی یو نےساجیہ یری طرح
گ ھیراپی،یلنک ہڈی میں چہرہ چھنانے کوپی تھنک اس کے تیجھے کھڑا تھا،شہماپی نظروں سے اس
لمیے چوڑے مگر یراسرار شخص کو دیکھ وہ یلییے کا ارادہ کررہی تھی مگر تبھی اس کی سبواں یاک یر
رومال رکھا تھا وہ،عنادیہ یڑپ کر ا تیے ہاتھوں سے اس کے رومال ر ک ھے ہاتھ کو ہنانے کی
"ک بوں۔۔؟"
"سر کجھ یرایلم ہوگنی ہے۔۔۔( ).....میربج ت بورو کی قایلز کھوگییں ہیں۔۔"
اس یار یرنشاپی کی وخہ تنایا تھا وہ،
مہناز تنگم مطییہ کو اتنی کسی دوشت سے ملوارہی تھیں،ان سے یات کرپی مطییہ راچنلہ کے آکر
تنانے کہ قلذہ اسے یالرہی ہے ان لوگوں سے ایکشکبوز کر کے گنی،اتھی وہ چند قدم ہی آگے
یڑھی تھی کہ ہناد کے اجایک سا میے آنے یر یوکھالکر دو قدم تیجھے ہوپی،
"لڑکی ہمیشہ ہوا کے گھوڑے یر سوار رہنی ہو۔۔۔زرا آرام سے جال کرو۔۔۔اتھی اگر گرجاپی۔۔۔"
اس کے چونصوت چہرے کو گہری نظروں میں لیے ہناد یوال،
"اتنی قظرت سے مح بور قصول گوپی کررہے تھے۔۔چھوڑو انہیں تم تناؤ۔۔۔یالرہی تھی مج ھے۔۔"
پ
سر چھنک کر یولنی وہ یبھی قلذہ کے یاس،
- 397 -
"میں جاتنی ہوں وہ اتنی قظرت سے یاز نہیں آ پیں گے۔۔۔تبھی اس یایک یر جلد ہی ماما سے
یات کروں گی۔۔۔تم نس کوشش کنا کرو ان سے سامنا یہ ہو ئمہارا۔۔"
سا میے کھڑا وہ مشکرانے ہونے عنادیہ کی جاتب دیکھ رہا تھا مگر عنادیہ۔۔۔،اس کی نےنقین
نظریں مفایل کھڑے شخص کی مشکراہٹ یر تھی،ایک سرد سی سیسنی مشکراہٹ ع نادیہ کو
ڈھاپی سال تیج ھے لے گنی،وہ اسی طرح یو مشکرایا تھا نہلے،انسی مشکراہٹ چو دل دھڑکانے کے
ساتھ ایک عح یب سا چوف دالد تنی،
"ئمہیں تھا گیے کی یلکل ضرورت نہیں۔۔۔میں چود ئمہیں لے جلوں گا سکندر وال ل نکن۔۔"
"کجھ دیر نعد ہمارا نکاح ہے۔۔۔ذہن نسین نہلے ہی کرلو یاکہ نعد میں کوپی ڈرامہ کرت یٹ یہ
ہو۔۔۔"
ی س
یہ یات عنادیہ کے سر یر کسی تم کی طرح گری تھی،تھنی آیکھوں سے لسینل کو د کھنی وہ
شیہ میں تھی کہ ساید کجھ علط سنا ہو،وہ جب یلییے لگا تبھی اس کے سا میے آپی عنادیہ نےنقین
نظروں سے اسے دیکھیے لگی،
عنادیہ کی سمجھ سے یلکل یاالیر تھا کہ آخر وہ شخص کنا کریا جاہ رہا تھا اور ان شب کا کنا مظلب
تھا۔۔۔،کل یک یو وہ قلذہ سے نکاح کا چواہسم ند تھا تھر اب اجایک اس سے نکاح کبوں کررہا
تھا،کہیں وہ کوپی گبم یو نہیں کھنل رہا،اور اگر انشا ہے یو ع نادیہ یلکل نہیں جاہنی تھی اس
شخص سے نکاح کریا،قلذہ اس کے ات نظار میں سکندر وال یر ہوگی اور وہ نہاں یر ا تیے نکاح کی
تناری کرنے کا سوچ رہا تھا،اتنی سوچ سے نکلنی وہ تب چویکی جب دروازے کے یاہر تھاری آواز
اتھری،
"پینا۔۔۔لڑکی سے زیردسنی یہ کریں۔۔اگر وہ راضی نہیں یو یہ گناہ کے زمرے میں آنے گا۔۔"
اس کے گولی جالنے یر مولوی صاجب نے سمجھانے والے ایداز میں کہا،
"او پیرا چو کام ہے ضرف وہ کر۔۔۔زیادہ پیر پیر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔"
جب سے جاموش کھڑا وہ زیادہ دیر میہ تند یہ ہونے یر مولوی صاجب کو دیکھنا ازلی یدلجاظ لہچے میں
س
کہا جس یر لسینل ایک نظر ا تیے اس دوشت کو دیکھا،
س
دوسری جاتب کھڑی عنادیہ چو اب یک چوف سے لسینل کو دیکھ رہی تھی اس کے ریوالور گھوما
پ
کر اسارہ کرنے یر ا تیے من من ہونے قدموں یر جلنی وانس اس کے یرایر میں آکر یبھی،اس
س
یار تنا کسی رکاوٹ کے وہ سر ہالکر رصامندی طاہر کی ،گییجر کرنے ہونے کییے ہی آنسو آیکھوں
سے لڑھکے،وہ جاہنی تھی اس شخص کو نےبجاشہ مگر جب سے مال میں اس نے اتنی علظی کا
اعیراف کنا تھا تب سے عنادیہ کا دل یلکل خراب ہوچکا تھا اس کی طرف سے،وہ نہیں کریا
ی س
جاہنی تھی اس شخص سے نکاح،ادھر لسینل کو سدید چوسگوار جیرت ہوپی اتنی آ کھیں تم ہوپی
پ
مجسوس کیے،اس یات کا اجشاس یو اسے آج ہوا تھا کہ جب مفایل یبھی نکل نف میں ہوپی تب
ی ً ی
اس کی آ کھیں نقینا ہلکی سی تم ہونے لگییں،یو کنا شچ میں وہ عندلیب ہی تھی،نسو سے آ کھیں
گ ً
ک ن
صاف کریا وہ اتھا جب عنادیہ نکاح کے فورا عد مرے کی طرف نی،
ی
"آہا۔۔نکاح کی چوسی میں آ کھیں تھر آ پیں یہ پیری۔۔۔"
س
لسینل کی آیکھوں میں ئمی کی چھلکی دیکھ مفایل مضبوغی اقسوس طاہر کنا،
- 404 -
"نس۔۔۔ہوگنا یا تھر سروع۔۔"
ش ن یلس س
ل م کرایا، اس کی قظرت سے واقف
"کنا۔۔"
"کمرے میں اتنی دیر تند رہیے کے نعد تھی پیری ت بوی نے تھا گیے کی کوشش نہیں کی۔۔۔"
وہ یوں یوچھا جیسے کوپی نہاتت ہی سیحندہ سوال ہو،
"انے گدھے۔۔۔تھاگے پیری ت بوی۔۔۔یات کجھ اور ہو یہ تنانے کجھ اور ہیں۔۔۔"
ہ ن ن یلس س م ن یلسس
ل تھا ہی یں، م
ل کی طرف بوخہ ہوا گر وہاں اسے کوسیے سناکر چہرہ نگاڑیا وہ اب
"کوشش کریا کہ اب یہ ئمہاری انگلی سے ایرے وریہ اس چونصورت ہاتھ کو یازو سے علیجدہ
ہونے میں زرا دیر یہ لگے گی۔۔"
"آیکھوں یر اچیی یت کا چول خڑھا لییے سے وہ محیت نہیں چ ھپ جانے گی چو چیخ چیخ کر ئمہارے
ن ن لس س
ایدر کا جال آسکار کرد تنی ہے۔۔ ل مراد کی محیت ا نی مزور یں کہ ئمہارے انکار یر مان
ہ ک ت ی
جانے کہ تم وہ نہیں چو میں سمجھنا۔۔۔میں ئمہیں مجسوس کرسکنا ہوں عندلیب۔۔"
س
گہری نظروں سمیت اس کا گالپی یڑیا چہرہ دیکھ لسینل اسے یاور کرایا تھا،
عنادیہ کا ت نفس یگڑا،سییے ہر ہاتھ رکھنی وہ چود کے زیدہ ہونے کا نقین کرپی مفایل کو گھور یک یہ
سکی،سرم سے عارض دہک ا تھے تھے،تھاری ہوپی المنی یلکوں کو چھکانے وہ ئمسکل چود کو
س
سیبھالی،اس کی خراب ہوپی جالت یر مشکرایا لسینل سیحندگی کا لنادہ اوڑھے یوال،
"جلیں۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 409 -
س
"یات ہوپی لسینل سے۔۔"
یہ کوپی چوتھی یار مہناز تنگم یوچھ رہی تھیں دریہ تنگم سے جس یر مایوسی سے نفی میں سر ہالپی وہ
ہر یار دہراپی یات یولیں،
"مولوی صاجب کب سے پیبھے ہونے ہیں۔۔۔مہمان ات نظار کررہے ہیں نکاح کا۔۔آخر کہاں
ہے وہ۔۔"
دریہ تنگم کو یرنشاپی سے ت ناپیں وہ آخر میں یڑیڑاپیں یر تبھی ان کی نظر گیٹ یر یڑی،مہناز تنگم
س
کی نظروں میں یک تنک جیرپیں اتھریں سا میے کھڑے لسینل اور اس کے یرایر میں عنادیہ کو
دیکھ،اسے یو وہ تھول ہی گییں تھیں۔۔۔،
اور تھر مہناز تنگم کے ساتھ جس جس کی نظر گیٹ یر یڑی سبھی اتنہاپی جیرت کے عالم میں ان
س
دویوں کو دیکھیے لگے ،لسینل ان شب میں جاص ظور یر ہناد کی نظروں کو تھریور ابچوانے کریا
یونہی مضبوطی سے عنادیہ کا ہاتھ تھامے رکھا،
- 410 -
س
" لسینل۔۔یہ کنا۔۔"
شب سے نہلے دریہ تنگم کا ارنکاز یویا تھا،
عنادیہ کا ہاتھ مشلشل اس کے تھاری ہاتھ میں مفند دیکھ ہناد کو طیش آیا تھا،
"ت بوی۔۔"
مہناز تنگم ششدہ سی یڑیڑاپیں،
س
" لسینل کنا تم سندھے لفظوں میں سمجھا سکیے ہو کہ معاملہ کنا ہے۔۔۔"
جب سے سیحندہ کھڑی دریہ تنگم نے یوچھا،
"گرتنی سندھے لفظوں میں ہی ت نایا ہے کہ ت بوی ہے یہ میری۔۔نکاح کنا ہے کجھ ہی دیر نہلے
ہم نے۔۔"
س
لسینل کی یات یر چہاں اس کی نست یر کھڑی عنادیہ نے غصے میں اسے گھورا وہی ہناد یکدم
دھاڑنے ہونے اس کا کالر یکڑنے لگا،
"کمییے پیری ہمت کیسے ہوپی میری نہن کے ساتھ انشا کرنے کی۔۔۔"
"تم ایک ئمیر کے دھوکے یاز انشان ہو۔۔۔نہاں تم آنے ہی قلذہ سے یدلے کے مفضد سے
تھے۔۔۔پینی کی چوسی دیکھ کم غفل ہوپی تھی میں چو ہناد کے آ گاہ کرنے یر تھی کان یہ
س
دھرے۔۔۔نہت گھینا انشان ہو تم لسینل مراد۔۔۔"
س ی
قلذہ کو دکھ سے د کھنی مہناز تنگم نکل نف تھرے لہچے میں یولیں جس یر لسینل جاموش رہا،
"اور تم۔۔۔اتنی زیدگی سبوارنے سے نہلے نہن کا چنال یہ آیا ئمہیں۔۔۔نقین نہیں آیا کہ تم
میری پینی ہو۔۔۔"
"می۔۔میں ئمہیں مار ڈالوں گی۔۔تم نے مجھے دھوکہ دیا قلذہ سکندر کو۔۔ساپی تم نہت بجھ ناؤگے
اور ئمہارے ساتھ وہ تھی۔۔نہن ہو کر ت یٹ یر چھرا گھوتنا ہے تم نے۔۔۔نےسرم لڑکی۔۔"
"اتنی قصولنات اتنی ہی رکھو جینا نعد میں چم نازہ تھگت سکو اس کا۔۔جلیں گرتنی۔۔"
س
اسے کرجت لہچے میں کہنا لسینل دریہ تنگم کو یول کر عنادیہ کو ساتھ لے جانے لگا،
- 415 -
"نہی خرکات ہیں۔۔۔جن سے ئمہاری یرت یت دکھنی ہے۔۔۔"
جانے جانے وہ رکا تھا مہناز تنگم کے کاری ضرب لگانے یر،پیشاپی اور گردن کی رگیں اسنعال یر
قایو یانے کے جکر میں تھولیں تھیں،داتت یر داتت چمانے وہ یلٹ کر ئمسجر سے ہیشا،
"میری یرت یت یر انگلی اتھانے سے نہلے ا تیے دو بچوں یر ن ِظر یاپی کرلیں یو معلوم ہوجانے گا
خراب یرت یت کہیے ِکسے ہیں۔۔۔"
انہیں چواب د ت نا وہ مڑا،دریہ تنگم جاموش تھیں کہ انہیں تھروشہ تھا ا تیے یونے یر،وہ جاتنی
م ع ُ ہ ن ی ن یلستھ س
س
ل ال سی چواز کے کجھ علط یں کر کنا۔۔۔،اور اس کے اِ س اتنہاپی ل کے ک یں
تیجھے تھی ضرور کوپی وخہ ہوگی،
"ماما اسے روکیں۔۔وہ انشا نہیں کرسکنا۔۔۔ساپی تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکیے۔۔"
ی ن یلس س چ
س
ل کو وہاں سے عنادیہ میت جایا د کھ اس کے یکدم دہست تھرے ایداز میں یحنی قلذہ
ً
تیجھے جانے لگی مگر مطییہ نے فورا اسے بھا لیے کے عرض کڑا،ا نی دوشت کی یہ جالت د کھ
ی ت ی یس
اسے سدید دکھ نے آلنا،مہناز تنگم نے تھی ع نادیہ کو یہ روکا،وہ نےجد یدگمان ہوپی تھیں اتنی الڈلی
پینی سے،دل میں نکل نف ہوپی تھی اس کے عمل سے تبھی اسے جانے دیا،ان لوگوں کے
- 416 -
جانے کے نعد وہ مہمایوں سے معذرت کرپیں قلذہ کی طرف یڑھیں جس کا وجست سے چیحنا تنا
دے رہا تھا کہ وہ آنے میں نہیں ہے،دوسری جاتب جاموش ئماساپی تنا ہناد اس یار عہد کنا تھا
ن یلس س
ل مراد کو اتنہاپی دردیاک موت مارنے کا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ئمہارے ق نضلے مجھے کبھی علط نہیں لگے کبویکہ ہر ق نضلے کے تیج ھے الزمی ایک وخہ ہوپی
ہے۔۔۔میں یہ نہیں کہنی کہ ع نادیہ مجھے نسند نہیں۔۔یلکہ وہ معصوم لڑکی مج ھے نہت
تھاپی۔۔۔لنکن تنایا جاہو گے کہ اگر سادی اس سے کرپی تھی یو اس بچی کے ساتھ کبوں علط
کنا۔۔۔"
اس یات سے ان کا اسارہ قلذہ کی جاتب آخر میں گنا تھا،
" جسے اب بچی کہہ رہی ہیں۔۔۔وہ ہی اصل خڑ ہے ان شب کی۔۔۔گرتنی مجھ سے کوپی تھی
س
یدگمان ہو مجھے زرا فرق نہیں یڑیا یر آپ۔۔۔آپ مجھ یر نقین رکھیے گا کہ آپ کا لسینل تنا وخہ
کبھی کجھ علط نہیں کرے گا۔۔"
- 418 -
ان کے ہاتھوں کو تھامنا وہ سیحندگی سے کہا جس یر دریہ تنگم کجھ یل کی جاموسی کے نعد آسودگی
سے مشکراپیں،
وہاں سے گزرپی اسماء کو دیکھ ایک بجلی کا کویدا سا ل نکا تھا ذہین دماغ میں اور نےساجیہ اسماء
کو نکارا تھا وہ،
"خی صاجب۔۔"
"خی۔۔"
- 419 -
"اچھا تھنک۔۔آ۔۔تم لے کر گنی تھی یا اسے روم میں۔۔"
"نہیں صاجب۔۔نہلی مرتیہ دیکھ رہی انہیں۔۔۔یر صاجب نہت تناری سی ہیں پی پی۔۔"
س س
یہ لسینل کا یرم ہویا رویہ تھا کہ وہ آخر میں چوسی سے یولی،لنکن اس یار لسینل الجھیے لگا،وہ
سمجھا تھا کہ دریہ تنگم اس سے یہ یات چھنارہی ہوں گی مگر تھر اسماء کا تھی ابجان ایداز،اسے
جانے کا اسارہ کرکے وہ پیشاپی مشلنا روم میں داجل ہوا،
پ
اس کے کشادہ وسنع چونصورت روم میں یبھی عنادیہ جب سے سوچوں میں عوطہ زن تھنگے
گالوں کو صاف کررہی تھی،اسے یار یار مہناز تنگم کی مالمت تھری نظریں یاد آرہی تھیں،کینی
یدگمان ہوجکی ہوں گی وہ اس سے کہ اسے ر کیے یک کا یہ کہا اسے سدت سے ہنک کا اجشاس
- 420 -
ہورہا تھا،کاش کہ وہ مرنے کو ہی یرچیح د تنی اس شخص کے نکاح میں آنے سے نہلے،اسے غصہ
س
آیا ا تیے ڈر یر چو ریوالور کو دیکھیے ہی اس کے وچود میں دوڑا تھا،ایدر آنے لسینل یر نظر یڑنے ہی
اس کے رونے یایرات یدل کر شخت ہونے،اتنا رخ دوسری طرف موڑ کر وہ واضح اعالن کی تھی
ی س
ل مڑ کر گیٹ تند کنا جس ن یلس اس سے کسی تھی قسم کی یات یک یہ کرنے کا،اسے د کھ
یر عنادیہ کا دل نےساجیہ گ ھیرایا،مفایل کے ا تیے طرف یڑھیے مضبوط قدموں کو چور نظر سے
گن کس ئ ھ کی
ت م گ
د نی وہ چود کی ھیراہٹ یر ل قایو یانے کی کوشش کیے ا تیے ہا ھوں کی ا لبوں کو ایک
پ
دوسرے میں شحنی سے تھیشانے یبھی تھی،تب یات اور تھی مگر اب تنا رشیہ اور اس شخص کی
چند گھییے نہلے کی گنی نےیاک جشارت یر وہ کافی ڈر جکی تھی،
"میں نے چو کنا کجھ سوچ کر ہی کنا۔۔۔وصاجت د تیے کا اتھی موڈ نہیں۔۔۔قلجال تم جییج
کرلو۔۔۔کیڑے وارڈروب میں رکھوادنے ہیں۔۔۔"
"عنادیہ۔۔"
وہ نکارا تھا اسے مگر مفایل ان سنی کیے سوپی تنی رہی،
"اتھو لڑکی۔۔"
س م ن یلس س
ل نے اس کے فرتب آکر نکارا گر نےسود،وہ چوب مجھا تھا اس کا سونے تیے اس یار
ی
رہیے کا ڈرامہ تبھی اب چھک کر اسے یازوؤں میں لینا تنڈ یر آیا،عنادیہ کی آ یں تٹ سے وا
ھ ک
س
ہوپیں،گ ھیراکر اس کے آہنی یازوؤں سے آزاد ہونے کے لیے وہ لسینل کے سییے یر ہاتھ ماری
تھی مگر سرٹ کے اویری پئیز کھلے رہیے یاعث جب دودھنا ہاتھوں میں سییے کے یالوں کی چبھن
- 422 -
مجسوس ہوپی یو وہ یری طرح یوکھالپی ُسرخ یڑی،یازک وچود لرز کر رہ گنا جسے بچوپی مجسوس کریا
س
لسینل آہسنگی سے اسے تنڈ یر تبھایا،
"چواب دو۔۔"
ی
ایک مرتیہ تھر سرگوسی کے ساتھ وہ انگلی میں لیینی لٹ کھییجا تھا کہ عنادیہ ششک کر آ یں
ھ ک
میچے نفی میں سرہالپی،اس کی فرتت عنادیہ یر سانسیں تنگ کرنے لگی،میچی آیکھوں سے ایک
موپی یوت نا یالوں میں جذب ہوا،وہ چو نےیایایہ نظروں سے اس مح بوب لڑکی کا چونصورت چہرہ دیکھ رہا
تھا،یوکدار یلکوں یر ئمی مجسوس کرنے ہی اس کی آیکھوں یر چھکا،ساتھ ہی یاری یاری ان یر ا تیے
- 424 -
م س
جلیے لب رکھا،اور تب سے اتنا آپ ادھورا مجسوس کریا لسینل مراد آج چود کو کمل سمجھا تھا،ایک
سکون سا سراتت کنا تھا اس کے یورے وچود میں،دوسری طرف مسکل میں گھری وہ یازک جان
لڑکی اس یرم گرم لمس یر ت یٹ سیٹ دیوخی تھی ا تیے ہاتھوں میں،اس سے نہلے وہ نےہوش
چ چ ن یلس س
ل اس یر ر م کھایا یالوں کی لٹ ھوڑ کر دور ہنا، ہوپی
"تم صوقے یر جایا جاہنی ہو یو مجھے زرا اعیراض نہیں لنکن میرے اگلے ردعمل کے لیے تھی تنار
رہنا۔۔و نسے جالت تنارہی ہے کہ وہ عمل یرداشت یہ کرنے ضرور نےہوش ہوجاو گی۔۔سو پی
ُ
کئیرقل۔۔"
یکھ م لی ت س
ل ن یلس وہ چو اس کے دور ہییے یر تھی اب یک ت یٹ سیٹ کو دیوچے آ یں یچ کر نی ھی
تب ً
کے سرد لہچے یر ا تیے جسم یر سیسنی دوڑپی مجسوس کی ھی فورا تنڈ کے ل کونے یر ہوپی وہ
لکی
دوسری کروٹ یر لینی،ا تیے کایوں میں وہ واضح دھڑک بوں کا سور سن سکنی تھیں چو اس کی
س
مییسر ہوپی جالت کا تنا دے رہی تھیں ،لسینل اس کی خرکت یر ئمسکل ل بوں یر امڈپی
مشکراہٹ کجال،
س
" لسینل مراد۔۔"
"گرتنی یلیز۔۔"
ان کے جاموش رہیے یر وہ تھر یوال جس یر سر ہالپی وہ ایدر گییں،
"ہمم۔۔یولو۔۔"
اب وہ ہیبم کی طرف م بوخہ ہوا،
"واؤ اتنا شب کجھ کر کے اب یوچھ رہے ہیں کہ کنا ِکنا۔۔۔میری نہن کے چواب جکنا چور
کرڈالے۔۔۔اور۔۔اور عنادیہ کہاں ہے۔۔۔"
یلند آواز میں کرچنگی سے کہنا وہ آخر میں یوچھا،
"قلذہ کے ساتھ علط کنا ہے آپ نے۔۔۔چود یر سے الزام ہناکر یری الزمہ نہیں ہوسکیے۔۔"
"وہ اس الیق ہے۔۔تم ایک تھاپی کی نظر سے یہ شب دیکھ رہے ہو تبھی ئمہیں لگنا ہے کہ میں
علط ہوں وریہ چف نفت سے کسی جد یک تم تھی واقف ہو۔۔۔"
ت ب یہ ق ہن ن یلس س
ل کا اسارہ 7سال لے ہونے وا عے یر گنا تھا،جس یر م نگاہ ھیرا،یہ یات یو اس یار
ن ن یلس ک ھ نک س
ہ
ل اس وقت علط یں تھا یلکہ الزام لگا تھا اس یر اور آج اسے ہمیشہ سے نی کہ
س
لسینل کی یات نے اس کی نضدیق تھی کردی تھی،
ق
"میں جاتنا ہوں قلذہ کو علط ہمی ہوپی ہوگی یا اگر وہ گناہگار ہے یو تھنک۔۔۔ل نکن تھر
عنادیہ۔۔۔اس نے کنا نگاڑا تھا آپ کا۔۔"
ش ن یلس س
ل کو م کرانے یر مح بور کنا، نہت سوچ کر یولنا وہ
"محناط رہو ات بوں سے ک بویکہ ان کے تھروشہ یوڑنے یر دل دکھ جایا ہے۔۔اور اتنی زمہ داری سے
عاقل مت ہو کہیں آگے جاکر بجھنایا یہ یڑے۔۔۔"
س س
ہ ن ب یہ
ل۔۔ ،گر م مجھ یں یایا اس کیم ن یلس ڈ ھکے چھیے لہچے میں اسے نہت کجھ یاور کرایا تھا
گہری یات،
"آو پیبھو۔۔"
- 430 -
"نہیں تھاپی۔۔گھر جاؤں گا اب۔۔۔قلذہ نہت یراعبماد لڑکی ہے جلد چود کو سیب ھال لے
گی۔۔۔لنکن ع ندی۔۔ساپی تھاپی وہ نہت معصوم ہے۔۔۔"
م ل ہ ن ک س
گ ت ہ م
ل کی مسکان میت سر اتنات یں الیا ھر اس کے لے ل کر وہاں س یلس ہیبم کے ہیے یر
ن ً نہ م
سے جانے کے نعد دریہ تنگم کے روم میں گنا یا کہ ا یں ین کر کے۔۔۔ ،قینا یاہر ہوپی ان
س م ط
دویوں کی گفنگو سے یاواقف وہ یرنشاپی میں سوپی تھی نہیں ہوں گی،ان کے روم کا گیٹ یاک
س
کرنے لسینل مشکرایا تھا،آخر کو جیشا جاہ رہا تھا ونشا ہی ہوا تھا،وہ جاتنا تھا ہیبم کجھ جذیاپی ہے
یو ع نادیہ کو اس کے ساتھ دیکھ ضرور اس کا رتنکسن تھی سدید ہویا،تبھی اس نے نہلے ہی اسے
معا ملے سے کجھ دیر کے لیے دور رکھا،وہ جاتنا تھا کہ اس وقت شب کے سا میے وہ ہیبم کو ا تیے
ایداز سے یات نہیں سمجھا یانے گا۔۔۔،اسی لیے اس کے میییجر کو چند پیسوں کے عوض ہیبم کو
آقس یلوانے کا کہا،اور اب وہ یرسکون تھا کہ ہیبم زیادہ یاراصگی کا اظہار یہ کرسکا اس سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
قلذہ کی یار یار یگڑپی جالت یر جب قایو یہ ہوا یو مہناز تنگم کے کہیے یر وہ اسے پیند کی دواپی دے
کر سالپی اب ا تیے روم میں آپی تھی،جییج کر کے واسروم سے میہ دھوکر نکلنی اب اس کا ارادہ
سونے کا تھا،تبھی یاہر سے آیا ہیبم روم میں داجل ہوا،
- 431 -
"کنا ہوا۔۔"
اسے ڈرنسنگ یر کی اور والٹ رکھیے دیکھ مط ییہ یوچھی،گھر آنے کے نعد ہیبم کو جب وہاں ہوپی
ی م ن یلس س
م
ل کے یسن گنا تھا،اور اب اس ہی یارے یں یات کا ہناد کے ذر نعے تنا جال تب وہ
مطییہ جاتنا جاہ رہی تھی،
"تم نے کھایا۔۔؟"
النا سوال تھا یر مطییہ کے لیے کسی دھجکے سے کم نہیں تھا،اس کی جاموسی یر ہیبم نے گردن
موڑ کر دیکھا یو مطییہ جلدی سے نفی میں سر ہالپی،
کجھ دیر نعد کھانے کی یرے لے کر وہ وانس آپی یو دیکھا مفایل فرنش ہوکر اب رف سے کیڑوں
کی
میں تنڈ سے تنک لگانے آ یں مویدا ہوا تھا،
ھ
"ہیبم۔۔"
ہیب ی
چھک کر یرے اس کے سا میے رکھنی وہ نکاری یو م آ یں وا کریا سندھا ہوا،وہ چو ا ھی یرے
ت ھ ک
رکھ کر اتھ ہی رہی تھی نظریں مفایل کی سرخ یڑپی آیکھوں سے یکراپی یو یکدم ہوش کھوپی وہ ان
مح بوب آیکھوں کو د یکھے گنی،دوسری جاتب اس کی چھنل ماتند آیکھوں کو دیکھ ہیبم کی نظریں
نہری تھیں،دویوں کے چہروں کے درمنان چ ند ابچ کا قاصلہ تھا،ایک شجر پییے لگا ان دویوں کے
درمنان،سنکنڈ میٹ میں تندیل ہونے یو اجایک ہوش میں آپی مطییہ سندھی ہوپی،وہ چو ان چھنل
ً
ماتند چونصورت آیکھوں کا ریگ نغور دیکھ رہا تھا فورا سے لے چود کو بوز کریا سر ھ نکا،
چ مک ہن
"پیبھو۔۔"
"کھاؤ۔۔"
وہ چو ششدہ سی اسے دیکھیے لگی تھی ہیبم کی آواز یر چویکی،
"خی۔۔"
"میں۔۔نے۔۔کہا۔۔کھاو۔۔"
نہر نہر کر وہ یآواز یوال،
"ہاں تم۔۔"
ت ن ت ھ نل ی
اس یار ہیبم یاقاعدہ اسارہ کنا،مطییہ کی جیرت سے یں آ یں اب ک نے ین ھی،وہ
ق ی ھ ک
"تھوک نہیں۔۔"
یول کر ہیبم ہاتھ سے رشٹ واچ ایار کر ساتنڈ پینل یر رکھا،
"کھاؤ تھی۔۔"
پ
وہ اتھی یک نےنقین یبھی تھی تبھی ہیبم اب ایک شخت گھوری کے ساتھ اوبجا یوال اور وہ یوکھال
کر جلدی سے اسبون تھامنی تھوڑا تھوڑا کھانے لگی،اس کا چود سے یوں ڈریا دیکھ ہیبم نفی میں
وانس آکر دروازہ تند کرپی مطییہ ہیبم کی طرف آپی،ساتنڈ پینل یر رکھا لبمپ تند کرپی وہ اب اتنی
مخصوص جگہ صوقے یر سونے گنی،تبھی چھنل ریگ آیکھوں نے ایک نظر مفایل لییے مح بوب کو
دیکھا چو مشلشل داپیں ہاتھ سے پیشاپی مشل رہا تھا،اس کی طی نعت کا چنال آیا یو دل نےجین
ہوا،کجھ سوچ کر ہمت کرپی وہ اتھی،
"ہیبم۔۔"
ی
دو مرتیہ کی نکار یر وہ آ کھیں تبم وا کیے یاتٹ یلب مدھم روسنی میں تنڈ سے دو قدم دور کھڑی
مطییہ کو دیکھا،اس روسنی میں تھی اس کے دمکیے چہرے یر قکرمندی کی لکیریں ہیبم کو واضح دکھی
تھیں،
"نہیں۔۔"
نفی میں سر ہالکر وہ یوال،لہچہ کسی تھی اجشاس سے عاری تھا،مطییہ کو اس کا یہ سردین دکھ
پ
نہیجایا تھا،اسے قکر تھی ہورہی تھی،نہت سوچ کر وہ آخر کار قدم یڑھاپی تنڈ یر یبھی،دل
چونصورت طرز میں دھڑک کر سور مجانے لگا تھا،لب کاتنی وہ ایک گہرا سانس تھرکر چود کو یارمل
کی تھر چود میں ہمت تندا کرپی ہیبم کے فرتب ہوپی،یازک وچود لرزراہٹ کا سکار ہورہا تھا ا تیے
عمل کا سوچ کر ہی تھر تھی ایک قاصلے یر اس سے دور رہنی وہ ہاتھ یڑھا کر ہیبم کی پیشاپی یر
ی ّ
رکھی اور آہسیہ آہسیہ اسے دیانے لگی ،لمچے کے ہزارویں چصے میں وہ اتنی آ کھیں تٹ سے کھوال
پ
تھا،کجھ قاصلے یر یبھی مطییہ کو اتنا سر دیانے دیکھ کشادہ پیشاپی یر سکن یڑی،
مطییہ چو اس کے دیکھیے یر تھی اتنی گ ھیراہٹ یر قایو یاپی یرسکون پییے کی تھریور کوشش کیے
یونہی سر دیارہی یکدم یوکھالپی جب ہاتھ یڑھاکر ہیبم اس کی سفند گردن یر لنکی جین یکڑ کر
ک
کھییجا،جین ھیحیے سے نےساجیہ ضراخی دار گردن تھی چھکی تھی،ہاتھ روک کر مطییہ یوکھالکر ہیبم
ً ی
کے وچنہہ چہرے کو د کھی چو یلکل اس کے چہرے سے نفرتنا ایک ابچ کے قاصلے یر تھا،سرخ
- 437 -
آیکھوں میں کچی پیند کا چمار دل دھڑکا گنا،تبھی شحنی سے دات بوں میں بجلے لب کو دیانے وہ
گہرے سانس تھرنے لگی،
"جان یوچھ کر میرے چواسوں میں سوار ہونے کی کوشسیں کرپی ہو۔۔"
تھاری ہوپی آواز سمیت یوچھنا وہ جین کو ہلکا سا چھ نکا دیا جس یر مطییہ کی سبواں یاک یکراپی تھی
اس کی کھڑی یاک سے،
آج مفایل کی عنات بوں یر وہ کسی ظور نہیں جاہنی تھی چوش قہم بوں کا سکار ہویا یر یازک دل کا
کنا کرپی چو ایک مرتیہ تھر اس مسنفنل سے ابجان نےجیر لڑکی کو چوش قہم بوں میں دھکنل گنا
تھا،ہاں وہ یاگل ہی یو ہونے لگی تھی اس کی زرا سی کئیر یر،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
روسنی کی کرپیں اس کی آیکھوں میں یڑیں یو چہرے یر ہاتھ رکھنی دوسری کروٹ لے گنی،یوں لگا
ل مجس
جیسے کوپی اسے نکارا ہے مگر اتنا وہم ھنی وہ ایک مرتیہ تھر پیند کی وادیوں میں کھونے گی اور
- 439 -
یکھ پ ھ چ ً
تبھی،کسی نے یازوؤں سے یکڑ کر نفرتنا اسے ھوڑ کر رکھ دیا،یو ال کر نی وہ تندار ہونے ذہن
ھ ب جی
سمیت ہر جاتب نظر دوڑاہی رہی تھی کہ جب سا میے وہ ِدکھا،وچنہہ چہرے یر یال کے سیحندہ یایرات
لیے وہ اس کی طرف ہی م بوخہ تھا،
"اچھی ت بویاں سوہر کے اتھیے سے نہلے ہی ان کا یاشیہ تنار کر کے رکھنی ہیں یاکہ وہ لیٹ یہ
ہوجاپیں۔۔۔"
عنادیہ کو ام ند یہ تھی مفایل کے میہ سے اس طرح کی یات کی،وہ ششدہ سی اسے د یکھے گنی
تھر ذہن میں چنال آیا،کنا واقعی وہ لیٹ اتھی تھی،یاتم دیکھیے یر ایک اور چھ نکا لگا،دیوار یر لگی
گھڑی سات بجارہی تھی،چنکہ مفایل رویہ ا نسے یرت رہا تھا جیسے عنادیہ نے یو دس بجادنے اتھیے
میں،
"میں جلدی اتھیے کا عادی ہوں ٰلہذا روپین جلد تھنک کرلو اتنی۔۔۔"
اس کے سیحندگی سے کہیے یر عنادیہ گھوری تھی،ایک یو کل زیردسنی نکاح کنا اور اب ایک دن
کی ت بوی کا لجاظ یک نہیں کررہا تھا،یکدم اسے غصے نے آلنا تبھی ڈھیٹ پییے کا مظاہرہ کرپی وہ
س
اس کے سا میے وانس لیینی سر یک کمفریر اوڑھ گنی ،لسینل چند یل یو جاموسی سے اس لڑکی
کو د یکھے گنا،
- 440 -
"کر یو ا نسے رہی ہو جیسے رات یر چگایا تھا میں نے۔۔۔"
ت ن ً کم ن چ ل مع ٰ
ھ
اور اس کے ا نسے نی جیز ہچے یر کے سے فریر ہناپی وہ فرتنا تھاگی ھی واسروم کی
خ ش ن یلس س
جاتب ،ل م کراہٹ دیانے م ظوظ ہوا تھا اس کے سرخ یڑنے یر،
کجھ دیر نعد وہ اس ارادے سے نکلی تھی کہ اب یک وہ جاچکا ہوگا مگر معانے اقسوس واسروم
کے عین یاہر دیوار سے تنک لگانے وہ اس ہی کا می نظر لگ رہا تھا،مفایل کو تھنک سا میے
کھڑے دیکھ عنادیہ کا دل دھڑکا تھا،اسے کچن میں جایا ہی مناشب لگا،
"یراؤزر اور پی سرٹ میں کبھی کسی کو آقس جایا دیکھا ہے تم نے۔۔۔"
- 441 -
وہ یاشیہ تنار کرپی اتھی ارادہ کر ہی رہی تھی یاہر ڈاپینگ پینل یر رکھیے کا تبھی ایدر داجل ہونے
ی س
لسینل کے یو لیے یر اسے د کھی،آقس کے لیے یلکل تنار وہ کوٹ یازو میں لیے عنادیہ سے
اسنفشار کنا تھا،جاتنا تھا وہ اس سے یدلہ لییے کے عرض انسی ڈرنسنگ نکالی تھی،
"میں یا سیے میں دو ہالف فراپی ایگ اور یرا تھے لینا ہوں۔۔۔ساتھ جانے۔۔چوس نہیں۔۔"
اس کے چونصورت چہرے کو نظروں میں لیے وہ چنایا تھا،عنادیہ کے ما تھے یر ایک مرتیہ تھر یل
یڑے،
- 442 -
"لے کر جاؤ یہ شب۔۔۔اور چو تنایا ہے وہ یاشیہ تنار کرو۔۔"
اب کے پینل یر کہیناں رکھ کر دویوں ہاتھوں کی انگل بوں کو تھیشانے وہ مزے سے اس یر جکم
یھ ت کی
صادر کنا تھا،اسے جل کر د نی عنادیہ لب نی یرے اتھاپی،چو صورت ہرے یر تیے ہونے
چ ن حی ھ
س
یایرات لسینل تھریور ابچوانے کنا تھا،
تھوڑی دیر نعد ہاتھ میں تھر یرے لیے وہ آپی تھی،پینل یر یرے رکھیے ہی وہ ایک قدم تیجھے ہنی
اور ششلینل اب کی یار تنا یاشیہ دیکھ لب تھییجا،دو ہالف فراپی ایگ کی جگہ آملیٹ تنادیا
تھا،دوسری جاتب کم دودھ میں کالی ہوپی جانے،ضرف یرا تھے ا نسے تھے چو دیکھیے الیق لگ رہے
س
تھے ،لسینل نے نظر اتھا کر اسے دیکھا چو اب ابجان پینی یرسکون سی کھڑی تھی،
تھر گہری سانس تھر کر یرا تھے کا ایک یوالہ تناکر میہ میں لنا اور وہ سمجھ گنا کہ ک بوں یرا تھے
دکھیے میں ضحیح لگ رہے تھے ک بویکہ کھانے میں پیسٹ کجھ یوں تھا جیسے ئمک کی یرپی ایڈیل دی
گنی ہو،چھنکے سے کھڑا ہویا وہ عنادیہ کی جاتب م بوخہ ہوا چو اب یک ہلکی مسکان شجانے اس کے
س
ضنط یر مخظوظ ہورہی تھی لنکن اجایک لسینل کے شخت یایرات دیکھ یوکھالپی،
"مطییہ۔۔۔تھنک سے سوجاؤ۔۔"
ل ی مجس ی
ہیبم کے ہالنے یر مندی آ کھیں وا کرپی وہ چود یر چھکے ہیبم کو یا ھی سے د کھیے گی مگر جلد ہی
چویک کر یوکھالنے ہونے جلدی سے تیجھے ہنی،
"آہ۔۔"
یکدم گردن میں درد کی ایک سدید پیس اتھیے یر وہ کراہی،
"کہا یا دکھاؤ۔۔"
اب کی یار یاقاعدہ اس کا ہاتھ چھنک کر وہ مطییہ کی سفند گردن یر اتنا مضبوط ہاتھ رکھا
تھا،نکل نف کے یاوچود وہ سدید یروس ہوپی اس کے یرم گرم لمس سے،
اس کی نظروں کا نعاقب کیے مطییہ کا تھی چہرہ چھکا اور وہ نےساجیہ یوکھالپی،
"سوری۔۔تنا نہیں۔۔کیسے۔۔"
"نہیں۔۔ممہ۔۔مظلب ہاں۔۔نہہ۔۔"
"مہ۔۔ہیبم۔۔"
سانس ر کیے یر ئمسکل کہنی وہ اتنا چہرہ موڑی،یازک دل یاگل ہونے کے درنے تھا،دھڑکییں
عروج یر ہوپی ہیبم کو واضح سناپی دے رہی تھیں،گہرے سانس لینی وہ اس کی آہنی گرقت کی
قند میں نےنس ہونے لگی،سرخ دہکنا چہرہ ایدر کی گ ھیراہٹ کی غکاسی کررہا تھا،تبھی اس یر رچم
کھایا ہیبم کالپی چھوڑیا تیجھے ہنا،
وہ جینی کوشش کررہا تھا کہ اس لڑکی سے قاصلہ ت نانے ر ک ھے اتنا ہی وہ لڑکی روز یروز اس کے
چواس سلب کرنے یر یلی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
سام کو آقس سے جلد آیا تھا وہ ا تیے مییسن،ہال میں قدم رکھیے ہی ششلینل چونکا دریہ تنگم کے
س
کمرے سے دو نسواپی آواز آنے یر،چویکہ یاپیں دھبمے لہچے میں ہورہی تھی یو لسینل کو گمان ہوا
کہ اسماء اور دریہ تنگم یات کررہی ہوں گی مگر اگلے لمچے ہی وہ تھبھک کر رکا جب نظر دوسری
جاتب کچن سے کجھ گنگناکر نکلنی اسماء یر یڑی،ہاتھ میں جانے کا کپ تھامے اس کا رخ دریہ
تنگم کے روم کی جاتب تھا مگر سا میے ہی ششلینل کو دیکھ رہ یوکھال کر رکی،اسماء کے یایرات سے
لگ رہا تھا کہ وہ اتھی اس کے آنے کی یوقع نہیں کررہی تھی،
"ہاں یو فون سینکر یر تھا۔۔۔جیر یہ چھوڑو۔۔تم تناؤ اتنی جلدی کیسے آیا ہوا۔۔۔"
س
ھ چ
ل سے یو یں، ن یلس جلدی سے یایک جییج کر کے وہ اب
کافی تنانے اس کا ذہن کل رات سے یرنے گیے ہیبم کے یرم رونے یر تھا،وہ سبمگر جب جب
اس سے یرم لہچے میں یات کریا مطییہ کا دل دھڑکا جایا مگر جب وہ غصہ کریا،یہ سوچ مطییہ کو
چھرچھری لییے یر محبور کی اور تھر اجایک صیح کی گنی اس کی جشارت یاد آپی یو نےاجینار عارض یر
پیزی سے گالل یِکھرا،کسی نے گہری نظروں سے اس کے سرخ ہونے گالوں کو دیکھا تھا،ادھر
ہر جیز سے نےتناز کافی نکالنی ایک مرتیہ تھر اتنی طی نعت خراپی کا سوچ مطییہ کے گداز لب
- 453 -
یاجا ہیے ہونے تھی مشکرانے،اگر کو اس یات کی نضدیق ہوپی یو۔۔۔،یہ سوچ اسے نےجد چوسی
بجسنی،
"پی پی۔۔۔"
کجھ ہی دیر نعد کچن میں فرچندہ آنے ہونے اسے نکاری،
"کہو۔۔"
کافی کا مگ تھامے مطییہ کا ارادہ اب مہناز تنگم کے روم میں جانے کا تھا،
"یو دے دو تناکر۔۔"
"یہ پی پی یہ۔۔۔انہوں نے شحنی سے م نع کنا ہے کہ میں یہ آؤں۔۔۔وہ کہہ رہے ہیں آپ
ہی جانے لے آ پیں ان کے کمرے میں۔۔"
اس سے مگ لے کر فرچندہ نے ممانعت کی،مطییہ کو یکدم غصہ آیا،
"ک بوں پی پی عرتب کی روپی تند کروارہی ہیں۔۔۔آپ کو نہیں تنا ہناد صاجب غصے کے پیز
ً
ہیں۔۔مجھے فورا قارغ کردیں گے کام سے۔۔۔"
ب ت ت ت ت کی
اس یار فرچندہ عاخزایہ ایداز میں یولی یو وہ اسے د ھی،جا نی ھی بور ہے ا نی روزی سے ھی
حم
سدید یرنشاپی میں ات نات میں سر ہالپی،فرچ ندہ کے جانے کے نعد اس نے جلدی سے جانے تناپی
ً
تھر چود میں ہمت تندا کیے ہناد کے کمرے کا رخ کی،وہ سوچ جکی تھی کہ جانے رکھ کر فورا
ً
نکل آنے گی روم سے ک بویکہ مفایل نقینا اسے تنگ کرنے کے عرض یہ خرکت کنا ہوگا،
- 455 -
"اب اور یرداشت نہیں کروں گی۔۔۔شب تناؤں گی ہیبم کو۔۔"
غصے میں یڑیڑاپی وہ اس کے روم میں داجل ہوپی،جالی کمرہ میہ خڑا رہا تھا،مطییہ کو ایدر یک
ل ن ً
سکون ہوا،جلدی سے سوسر میں رکھا کپ ساتنڈ پینل یر رکھنی وہ یلنی مگر اگلے ہی مچے فرتنا میہ
سے چیخ نکلیے نکلیے رہ گنی،یلکل سا میے کھڑا ہناد کمینگی مشکراہٹ اس کے اڑے ہونے چہرے
یر اچھاال تھا،
"یوٹ کررہا ہوں نہت ہمت نہیں آگنی تم میں۔۔زیان جالنے لگی ہو یو کبھی شخت لہچہ۔۔"
کل کی یات یاد کریا وہ اس یر چوٹ کنا ساتھ ہی آخر میں بجانے یازو چھوڑنے کے چھ نکا دے کر
اسے چود سے فرتب کرگنا،مطییہ کو ا تیے چواس جانے مجسوس ہونے تبھی اب وہ یاقاعدہ ہناد کے
سییے یر ہاتھ مارپی اسے دور کرنے لگی،
"اوہ۔۔مام کو یالؤگی۔۔جلو یالؤ میں تھی دیکھنا ہوں کینی ہمت ہے تم میں۔۔۔"
چنلیحنگ ایداز میں کہہ کر ہناد تیجھے تنڈ یر اسے لینا گِ را اور مطییہ کو لگا کہ اگر اب وہ نےنس
ً
یڑی یو نقینا اتنی غضمت گ بوا پیبھے گی،تبھی چود کو شخت سے یکڑے ہناد کے اویر سے اتھیے کی
کوشش کیے چیحیے کے لیے میہ کھولی،
"مطییہ۔۔"
غفب سے آپی چنگھاڑپی دھاڑ یر مطییہ سمیت ہناد تھی یوکھالیا ساتھ ہی جلدی سے مطییہ کو چود
سے دور کریا سندھا ہوا،گیٹ یر کھڑا ہیبم لہو چھلکاپی نظروں سمیت ان دویوں کو گھوررہا تھا،
"ہیبم اس کی یات کا نقین مت کر۔۔۔یہ علط تناپی کررہی ہے۔۔۔مطییہ چود آپی تھی میرے
کمرے میں۔۔"
دور کھڑا ہناد یڑی آساپی سے اتنا سارا الزام اس یر ڈالنا ہیبم کو وصاجت دیا،
"چھوٹ مت یولو مطییہ۔۔۔جب سے تم ہی کہہ رہی تھی یا کہ ہیبم تم سے یلکل تنار نہیں کریا
اور کنا وہ شب چھوٹ ہے چو کجھ دیر نہلے مجھ سے کہا تھا کہ جلد اسے چھوڑنے والی ہو۔۔۔"
یوکھالکر چود کو بجانے کے جکر میں وہ چو میہ آیا یولنا گنا،
"میہ تند رکھو۔۔۔تم دویوں نےسرموں۔۔۔میرے ت یٹ تیجھے انسی گھینا خرکت کرنے ہونے زرا
ُ ُ
سرم نہیں آپی اور یو۔۔۔کمییے یو تھاپی ہے یا میرا۔۔"
ہناد کی طرف یڑھ کر اسے کالر سے دیوچنا ہیبم چیجا تھا،وہ آقس سے جلد آکر اب ہناد کی طی نعت
کا یوچھیے اس کے کمرے میں آیا تھا مگر نہاں کا م نظر دیکھ اس کا یارہ ہاپی ہوا تھا،دماغ جیسے
تھک سے اڑا تھا،کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کنا ضحیح ہے اور کنا علط،ذہن میں آپی یو ضرف نہی
یات کہ اس کی ت بوی اور تھاپی مل کر اسے دھوکے میں ر ک ھے تھے،
"ئمہیں یو میں۔۔"
"تھاپی میں آپ سے اس یارے میں یات کرنے والی تھی کہ۔۔مطییہ کو سمجھاپیں۔۔۔وہ اس
طرح کی یازت نایہ خرکییں بجھلے چند مہی بوں سے کررہی ہے۔۔۔ہناد تھاپی نے مجھے کہا تھا کہ میں
سمجھاؤں اسے۔۔۔انہیں اچھا نہیں لگنا جب یہ جان یوچھ کر ان کے سا میے آپی ہے۔۔۔وہ
- 462 -
عزت کرنے ہیں اس کی تبھی جاموش رہیے ہیں۔۔۔آپ کو چود تناکر سرم ندہ نہیں کریا جا ہیے
تھے تبھی مجھے کہا تھا تنانے۔۔۔"
قلذہ جیسے جیسے تنانے جارہی تھی مطییہ کو ہر چملے یر ایک الگ چھ نکا لگ رہا تھا،آنسو رکے تھے
ی
اور وہ تھنلیں آیکھوں سمیت اتنی دوشت کو د نی رہ نی چو آج کس طرح اس ہی یر سارے
گ ھ ک
الزام عاید کررہی تھی،نےقصور ہونے ہونے تھی اسے قصوروار نہرایا جارہا تھا،مطییہ کو اس سے
کم از کم یہ امند یہ تھی،
ُ
تھاری ہاتھ کا پیز ت ھیڑ لگیے ہی مطییہ کا دماغ سن ہوکر رہ گنا،روپی یسے یرم گال یر ایک کٹ کا
ج
نشان یڑا تھا جس یر سے چون کی ہلکی لکیر اتھری،سلب ہونے چواس سمیت وہ تبھراپی نظروں
"ہیبم۔۔"
ن ً
مطییہ کے لب تھڑتھڑانے تھے اور تبھی اسے یازو سے جکڑ کر وہ فرتنا یحنا ہوا وہاں سے لے
یھ ک
کر گنا،
اب قلذہ ہناد کی جاتب م بوخہ ہوپی،چو ہیبم کی موچودگی میں معصوم صورت تنانے جاموش کھڑا تھا
یر اب اس کے ل بوں یر ایک چناتت تھری مشکراہٹ تھی،
"ہنہہ آج بجایا تھی تم نے ا تیے مظلب سے ہی ہے۔۔۔اب تناؤ کنا کام کروایا جاہ رہی ہو۔۔۔"
اسے جذف اتھاپی نظروں سے دیکھ ہناد یوچھا ساتھ ہی وارڈروب سے فرشٹ ایڈ یاکس نکاال،
"وہ ئمہیں کہیے کی ضرورت نہیں۔۔۔اس انشان سے میرے کجھ جشاب نکلیے ہیں۔۔۔جب یک
موت کی پیند یہ سالدوں اسے جین نہیں آنے گا۔۔"
س
لسینل کے یارے میں آپی سوجیں اس کا چون کھوالنے کے لیے کافی تھیں،
"میں نہیں ماتنا کہ تم نے مجھ یر کوپی اجشان کنا آج۔۔۔یلکہ یوں کہنا تھنک رہے گا کہ
میرے 7سال نہلے تم یر کیے اجشان کا یدلہ چکایا ہے۔۔۔"
وہ یڑی آساپی سے چود عرض پینا اسے یار والے وا قعے کا یاد دالیا،
"اتنا یو میں تھی جاتنی ہوں تھاپی کہ وہ آپ نے مجھ یر اجشان نہیں کنا تھا یلکہ اتنی چنلسی میں
س
کنا تھا لسینل کے ساتھ وہ شب۔۔۔آپ جشد کرنے تھے اس کی ذہاتت اور قایلیت سے۔۔۔"
- 465 -
وہ تھی اس ہی کی نہن تھی،یلٹ کر یآساپی اسے آ پییہ دکھاگنی،
"اور آپ کو یو ڈریا تھی جا ہیے مجھ سے کہ کبھی تھی میرا میہ کھل سکنا ہے تھر کیسے بچیں گے
ہیبم تھاپی سے۔۔۔"
ئمسجر سے ہیس کر وہ ہناد کو تنایا جاہی مگر قلذہ کی مشکراہٹ عاتب ہوپی جب ہناد بجانے پییے
کے النا ہلکا سا قہقہہ لگایا،
اگر انشا ہے یو ڈریا تھر ئمہیں تھی جا ہیے مجھ سے ک بویکہ جب میرا میہ کھلے گا یو تم تھی کہیں کی
نہیں رہو گی۔۔
"کنا مظلب۔۔"
اس کے یوں یو لیے یر قلذہ کو یاگواری مجسوس ہوپی،
"مظلب صاف میری نہن۔۔۔دیکھو یا میں نے ضرف ا تیے دوشت سے دھوکہ دہی کی یر
تم۔۔۔تم یو دوشت کے ساتھ ساتھ اتنی نہن کی تھی نہیں ہوپی۔۔۔ئمہیں کنا لگا کہ میں نہیں
س
وت گویاپی سے۔۔۔"مجھ یاؤں گا کہ عندی ک بوں مجروم ہوپی ف ِ
- 466 -
"وہ۔۔وہ کابچ کے یکڑے علظی سے اس کے جلق میں جلے گیے تھے۔۔"
وہ اس کے ماضی کا ِکنا گناہ بچوپی کھول رہا تھا جس یر قلذہ نگاہ خراپی چواز پیش کی،
"علظی سے گیے تھے یا تھر چوس میں مال کر یالنے گیے تھے۔۔"
اتنہاپی کڑوا طیز کہ قلذہ کا چہرہ سفند یڑا،
"ڈاکیرز نے تنایا تھا اس کی طی نعت یگڑنے سے چند میٹ نہلے ہی تم نے عندی کو چوس دیا
تھا۔۔۔اس وقت میں نے پیسے دے کر ڈاکیر کو یولیس کیس ت بوانے سے انکار کروایا تھا مگر ہر
یار انشا نہیں ہوگا۔۔۔یو آ تندہ چ نال رکھنا۔۔۔"
شخت لہچے میں اسے یاور کروایا ہناد اب روپی کی مدد سے چون صاف کرنے لگا،چ ند یل یو قلذہ
اسے گھورپی رہی تھر پیر تیخ کر روم سے نکلی،اس کی نست کو دیکھ ہناد ت نفر سے سر چھ نکا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 467 -
"ہیبم میری یات سییں۔۔۔مہ۔۔قلذہ چھوٹ یول رہی ہے۔۔۔"
یری طرح روپی ہوپی وہ ہیبم کے ساتھ ئمسکل قدم مالپی یول رہی تھی،کمرے میں الکر وہ چھنک کر
اسے چھوڑا تھا کہ اویدھے میہ تنڈ یر گرپی وہ ت ھبھک کر رونے لگی،
"آپ قسم لے لیں مجھ سے وہ چھوٹ کہہ رہی ہے۔۔۔میں علط نہیں ہوں ہیبم ہناد تھاپی۔۔۔"
"ہناد نے چھوٹ کہا قلذہ نے چھوٹ کہا۔۔۔شب چھونے ہیں ضرف ایک تم شچی ہو ہے
یا۔۔"
اس کی یات کاتنا ہیبم مطییہ کے دویوں یازوؤں کو گرقت میں لینا چھنکے سے اسے چود سے
فرتب کیے عرایا،
"میرا نقین کریں ہیبم۔۔۔وہ نہت نہلے سے مجھے یرنشان کرنے آرہے ہیں۔۔۔"
- 468 -
کرب سے ہیبم کا چہرہ تھامنی وہ یڑپ کر رونے ہونے یولی،
"ک بویکہ میں ڈرپی تھی۔۔۔ڈرپی تھی کہ کوپی نقین نہیں کرے گا میری یات کا۔۔۔یہ یات
ضرف قلذہ کو معلوم تھی اور اب وہ تھی۔۔۔"
مطییہ کو سمجھ یہ آیا کیسے اسے نقین دالنے،آخر کار نےنسی سے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھنانے
یآواز رویڑی،
"یہ ڈرامے میرے سا میے نہیں جلیں گے مطییہ چہایگیر۔۔۔ئمہاری اصلیت سے نہلے ہی واقف
ہوں۔۔۔نہلے اتنی چھوپی محیت کے یام یر نہن کو مار ڈاال اور اب اس محیت سے دل تھرا یو جلی
ایک اور چھوپی محیت کی کہاپی تنانے۔۔۔"
"ہیبم نس کریں۔۔۔"
"اگر شچ جاتنا نہیں جا ہیے یو چھونے کو شچ مان کر میری محیت کی یذلنل یہ کریں۔۔۔یلیز۔۔"
ا تیے یالوں کو جکڑ کر سر چھکانے وہ تھوٹ تھوٹ کر رونے اس سے فریاد کی تھی،یاوچود
کوشش ہیبم کی آیکھوں میں نہری ئمی چھلکیے کو ہوپی،ک بوں تھی وہ لڑکی انسی چو اس قدر یری
ہونے کے یاوچود ا تیے آنسوؤں سے مفایل کو رچم کھانے یر مح بور کرد تنی۔۔۔،ک بوں اس سے اتنا
یدگمان ہونے کے نعد تھی ہیبم کا دل امند کررہا تھا کہ ساید۔۔۔،ساید وہ ضحیح کہہ رہی ہو،یر
دماغ،
دماغ نے جیسے صاف انکار کر ڈاال،آخر کو کبھی آیکھوں دیکھا چھوٹ ہوا ہے،ضرور وہ انسی ہی تھی
اور تھر قلذہ،وہ یو اس کی پیسٹ فرتنڈ ہے،اس سے زیادہ کون جان سکنا تھا مطییہ کو،جب وہ
ہی ت نارہی ہے کہ علط مطییہ تھی یو تھر اور کسی امند کا سوال ہی تندا نہیں ہوسکنا تھا،رونے
سرخ میرتم چھنل آیکھوں میں ہلکی سی امند اتھری کہ مفایل کو ساید نقین آیا ہو اس کی نے
ی ی
گناہی کا،تبم وا روپی روپی آیکھوں سے مفایل کی سرخ آ کھ د نی وہ ھراپی آواز یں یولی،
م ت ھ ک
صیح کا سوچ کر عنادیہ کے گال ہلکے گالپی یڑے یر جلد ہی اتنی سوچ چھنکنی وہ ہمت کر کے
پ
تنڈ یر جا یبھی،کمفریر چود یر ڈالے اس نے کل کی طرح کونے میں اتنی جگہ تناپی سونے کی،چود
م لج کت ی
کو کمفریر میں چھنانے وہ ا ھی آ یں تند کی گر اسے شخت ا ھن ہوپی یچ کی پیز آواز کایوں یں
م م ھ
س
یڑنے سے،مڑ کر وہ پییے ہونے لسینل کو گھوری چو چود یو شب سے ت نگایہ اتنی سوچ میں مچو
تھا مگر اس کی پیند خراب یرسکون ایداز میں کررہا تھا،
- 472 -
س
لسینل کو گھوری سے یوازپی وہ اس کے یرایر سے رئموٹ اتھاکر ایل ای ڈی تند کی اور تبھی
ک ئ ن یلس س
ج م
ل چو ک کر اس کی جاتب بوخہ ہوا،ر موٹ وانس گہ یر ر ھے وہ دوسری کروٹ لیے ی
سونے لگی مگر اگلے لمچے ہی تھر میچ کی پیز آواز نے پیند میں جلل تندا کی یو وہ مڑ کر جیرت سے
ت کی س
لسینل کو د ھی جس کے یراسے ل بوں دل الپی مسکان چی ھی،وہ اس ہی کی طرف ظریں
ن ش ج
مرکوز کنا ہوا تھا،غصے میں اتھنی عنادیہ تھر رئموٹ اتھاپی اور ایل ای ڈی تند کی اتھی وہ لیٹ
س
ہی رہی تھی کہ لسینل نے تھی وانس اون کردیا،
نہ س
ل ن یلس عنادیہ گھوری تھی اسے ساتھ رئموٹ اتھانے کے لیے ہاتھ یڑھاپی مگر اس سے لے ہی
رئموٹ اتھاکر اتنا ہاتھ تیجھے کنا،ل بوں یر ہبوز تناد تیے والی مشکراہٹ تھنلی تھی،عنادیہ جان گنی وہ
تھر اسے تنگ کرنے کے موڈ میں ہے اس ہی لیے اب بجمل سے وہ رئموٹ کی جاتب اسارہ
کر کے مایگی ساتھ چونصورت چہرے یر معصوم یایرات النے،ایک یو نہلے ہی یال کا معصوم چہرہ
سلسین ً
اس یر سے مفایل کا یوں معصوم پینا ،ل فورا سے لے ا ل ای ڈی تند کنا،اور وہ چو اب
ی ہن
اس کے عمل یر یرسکون سی دوسری کروٹ یر لینی تھی یکدم چود یر یوچھ مجسوس کرکے جیراپی
میں گھری گردن موڑی،مفایل یلکل اس کے فرتب یرایر میں ہوکر اب آرام سے اس کے گرد
ادھر عنادیہ کی جالت عیر ہونے لگی مفایل کے ایگو تھے کو ا تیے ل بوں یر ت ھیرنے دیکھ،گ ھیراہٹ
سے یلکیں لرزنے لگیں تھیں،
"مجھے دیکھو۔۔"
وہ سرگوسی کنا تھا جس یر یوچھل ہوپی یلکوں کو اتھانے عنادیہ چود یر چھکے اس کے وچنہہ چہرے
ی ک ن پ ُ ی کی
م ی ک
کو د ھی ،مرے کا شجر ا گیز ماچول اس یر فا ل کی یر یش ظریں،عنادیہ کے دل کی دھڑ یں
سوا تھیں،
س ی
"اس انشان کی آ کھیں یوچ لے گا لسینل مراد جس سے اس کی ت بوی ڈرپی ہے۔۔۔ت ناو جاتم
کون ہے وہ۔۔کس سے ڈری ہوپی ہو تم۔۔۔"
مفایل کے لہچے میں چ بون دیکھ ایک یل کو عنادیہ کو نےبجاشہ جیرت ہوپی،کنا وہ ات نا چ بوپی تھا
اس کے لیے،مگر وہ اسے کنا تناپی کہ کسی ا تیے کا ڈر ہی ہے چو اس کے چواسوں میں چھایا ہوا
تھا جس کی وخہ سے وہ ا تیے مہی بوں سے ا تیے گھر میں رہیے ہونے تھی ڈری رہنی،
"کنا تم یدگمان ہو مجھ سے۔۔۔اگر انشا ہے یو کلئیر کرو آخر کنا ہوا ہے چو تم انشا اجینی رویہ رکھی
ہوپی ہو مجھ سے۔۔۔"
ی
آہسنگی سے آ کھیں مویدیا وہ ہلکی آواز میں یوچھا،عنادیہ کا دل درد سے کرالیا تھا،
س
"میں جدا کو جاضر و یاطر رکھیے ہونے اعیراف کریا ہوں کہ لسینل مراد نے اتنی زیدگی میں ا تیے
ماں یاپ اور گرتنی کے نعد ضرف تم سے نےتناہ محیت کی ہے۔۔"
غفندت تھرے لہچے میں کہنا وہ عنادیہ کو رونے یر مح بور کنا لنکن اسے سدت سے غصہ آیا جب
ی
کالی آ کھیں ایک مرتیہ تھر جشک رہیں،وہ رویا جاہنی تھی نےبجاشہ رویا جاہنی تھی کہ ایک طرف
مفایل کا نقین سے ُیر لہچہ تھا یو دوسری جاتب وہ مال میں ہوا واقعہ،کس یر نقین کرپی وہ،
- 476 -
"کنا ئمہیں تھروشہ ہے میری یایوں یر۔۔۔"
اگلے ہی یل وہ آس لیے یوچھا تھا جس یر الجھ بوں میں گھری عنادیہ نےساجیہ نفی میں سر ہالپی
ن یلس س فل ن یلس س
ل ل کی امند یوپی،ا تیے ظوں یر عنادیہ چود ہی یڑپ مجسوس کی،دوسری جاتب اور
کی آیکھوں سے ایک یوید نکلنی عنادیہ کے عارض یر گری،وہ مضبوط انشان نےاتنہا اذ ت بوں میں تھا
ً
مگر وہ اتنی جلدی رونے والوں میں سے ہرگز یہ تھا،اور تبھی اسے نقین ہوا کہ اس کی محیت نقینا
ی
یڑپ میں ہے اسی وخہ سے اس کی آ کھیں تم ہوپیں،
س
یہ سعر نےاجینار لسینل کے ل بوں سے سرگوسنایہ ایداز میں نکال تھا اور عنادیہ اتنی دل و دماغ
ن س ہ ن یلسس
کی لڑاپی سے نےنس ہوپی اس مح بوب کے سییے میں میہ چھنانے رو دی ،ل نے آ گی
کشہ ی
سے اس کے گرد دویوں یازوؤں کا چضار تنایا تھر اس کی نست یرمی سے الیا آ یں موید گنا،
ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 477 -
ہ ن ت ہ تنگ ت ن
ی
یہ جیر مہناز م یک ھی چی ھی وہ چو لے ہی ا تیے بچوں یر جد درخہ اعبماد اور محیت کرپی
تھیں اب قلذہ کی زیاپی شب سن کر نہلے یو انہیں نقین نہیں آیا تھا مگر جب ہناد نے تھی ہیبم
کے مارے جانے کی یات اور اتنا تنل یڑا چہرہ انہیں دکھایا تب وہ نےجد یدگمان ہوپیں مطییہ
سے،انہوں نے اس یایک یر اس سے یات یک کریا گوارا نہیں کی تھی،مہناز تنگم کا سروع سے
کہنا یہ تھا کہ دتنا علط ہوسکنی ہے مگر ان کے بچے نہیں اس ہی یدولت وہ اب مطییہ سے
شخت چفا تھیں،ہیبم تھی رات کا گنا صیح یکھرے جلیے میں گھر میں داجل ہوا تھا،مہناز تنگم کو
اس کی جالت یر دکھ ہوا مگر وہ جاتنی تھی قلجال وہ کسی سے یات کریا نہیں جاہنا،روم میں آکر
جب اس کی نظر مطییہ کے نےہوش وچود یر یڑی یو نفرت سے سر چھ نکنا وہ واسروم کا رخ
کنا،آج آقس تند تھا یو فرنش ہوکر وہ تنار ہویا یاہر گنا تھا یازہ ہوا کھانے،
دونہر کو اسے ہوش آیا تھا،ا تیے تھاری ہونے سر کو یکڑپی تنڈ کا شہارا لے کر وہ اتھی،گلے میں
کا تیے چبھیے مجسوس ہونے یو وہ یاپی کے لیے نظریں دوڑاپی،ساتنڈ پی نل یر رکھا جگ جالی دیکھ وہ
روہانسی ہوپی،ہمت نہیں تھی یاہر جانے کی مگر تناس تھی نہت لگ رہی تھی،چود میں ہمت تندا
ھ مکم چ پ
کرپی وہ اتھ کر تنڈ یر یبھی،کل رات ہونے وا قعے نے اسے ل ھوڑ کر رکھ دیا تھا،یوں لگا
جی
جیسے زیدگی کجھ اور تنگ ہوجکی ہے اس یر،اس سبمگر کے زہر یلے لفظوں کو یاد کر کے وہ اذ تت
ی
سے آ کھیں میچ کر وا کی تھر ئمسکل سر یکڑپی دو تیہ سل نقے سے لے کر روم سے نکلی،سا میے کوپی
- 478 -
مالزمہ تھی یہ دکھی جس سے یاپی مایگ سکے،آخر چود سیڑھناں ع بور کرپی تیچے آپی،سا میے صوقے یر
نہ ی
مہناز تنگم کسی سے مچو گفنگو تھیں،مطییہ چو ا یں د نی قدم ان کی جاتب یڑھانے گی ھی
ت ل ھ ک
اجایک رکی،ان کی نظروں میں ا تیے لیے ت نفر دیکھ،سر چھنک کر اتھنی وہ فون کان سے لگانے
ا تیے کمرے کا رخ کیں،مطییہ کو الگ طرح سے اذ تت ہوپی،یو کنا وہ تھی اس کی طرف سے
یدگمان ہوجکی تھیں،گلے میں آنسوؤں کا تھندا انکا تھا جسے ئمسکل گھوتٹ کر وہ کچن کا رخ کی،دو
گالس یاپی پییے کے نعد گالس وہی سلیپ یر رکھنی وہ تھوک لگیے یر نظر دوڑاپی،کل رات سے اب
دونہر ہونے کو تھی اسے تھوکے رہے،
"اس انشان سے کہیں دور رہے مجھ سے۔۔۔اب تھی سکون نہیں مال اسے۔۔۔اتنا یو یریاد کردیا
اب ک بوں تیجھے یڑا ہے میرے۔۔۔"
ا تیے دیوں کی تھڑاس نکا لیے وہ یکدم جلق کے یل جالپی،ذہن جیسے کام ہی نہیں کررہا تھا،دل
نس جاہ رہا تھا کہ اس انشان کو کسی تھی طرح مار ڈالے،
- 480 -
"نس کرو مطییہ۔۔ہوش میں تھی ہو کنا یول رہی ہو۔۔۔اتنا گناہ میرے پییے یر ڈال کر تم
یرالزمہ نہیں ہوسکنی۔۔۔"
مہناز تنگم کا لہچہ یلکل اجینی ہوا تھا اس سے،بچوشت سے کہییں وہ ہناد کی جاتب م بوخہ
کی
ہوپیں،چو سر یکڑے یری طرح کراہ رہا تھا،مطییہ انہیں نکل نف سے د ھی چو یاپی ہونے کے
م
یاوچود اس سے ماؤں جیسی محیت کرپی تھیں مگر اتھی ان کا یہ رویہ اسے کمل یوڑ گنا،
"تم۔۔۔تم مروگے ہناد سکندر۔۔۔۔نہت یری موت مروگے۔۔۔جدا کا قہر یرسے تم یر۔۔۔"
نےنسی میں ات نا آیا کھوپی وہ مشلشل چیخ رہی تھی،ادھر سکندر وال میں داجل ہویا ہیبم سور کی آواز
یر کچن کی جاتب آیا وہاں مطییہ کو یوں چیحیے اس نے اتھی دیکھا ہی تھا کہ مہناز تنگم نے جلدی
سے اسے نکارا،
تھی،
"چھوٹ مت یولو مطییہ۔۔۔میں نے چود دیکھا ہے کیسے تم جیزیں جال کر ہناد کو ماررہی
تھی۔۔۔دماغ جگہ یر ہے تھی یا نہیں ئمہارا۔۔۔اتنا کردار شب کے سا میے کھال یو میرے پییے کو
نفضان نہیجانے لگی ہو۔۔۔"
مہناز تنگم اسے گھور کر پیز آواز میں یولیں جس یر ہیبم ایک نظر اتنا سر یکڑے مظلوم چہرہ تنانے
ہناد کو دیکھا تھر مطییہ کو چو مشلشل نفی میں سر ہالرہی تھی،اتنی ماں کا کہا آخر کیسے چھنال سکنا
تھا وہ،
"نس کرو۔۔"
"ہیبم۔۔"
"سبو۔۔"
فرچندہ چو صفاپی کے دوران چور نظروں سے اسے دروازہ الک کرنے دیکھ رہی تھی ہیبم کے یالنے
یر جلدی سے آپی،
"خی صاجب۔۔"
"دروازہ کھولیں۔۔۔ہیبم یلیز یہ دروازہ کھولیں میں علط نہیں ہوں۔۔۔نقین کریں میرا۔۔"
پ
زوروں سے دروازہ تیینی مطییہ تھوٹ تھوٹ کر رونے ہونے وہی یر یبھی تھی،نےنسی اتنی تھی
کہ سانس لینا مسکل ہورہا تھا،کبوں شب اسے ہی علط سمجھ رہے تھے،ک بوں وہ ہی قصوروار دکھ
رہی تھی شب کو،
"یایا۔۔۔"
یڑپ کر وہ چیچی تھی،اسے نےبجاشہ ضرورت تھی ا نسے مسکل وقت میں ا تیے یاپ کی،اس
یاپ کی چو ہمیشہ اتنی سففت کے سانے میں اتنی تیی بوں کو رکھنا،یاہر کھڑی فرچندہ اقسوس سے
گیسٹ روم کے تند دروازے کو دیکھ نفی میں سر ہالپی کام میں لگی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
- 484 -
سام کو ا تیے مییسن کے ہال میں پیبھا وہ کسی کا می نظر تھا،نظریں ہر تھوڑی دیر میں گیٹ کے
ن س
ل مراد نے یلس یاس جاپیں،آنے واال کوپی اور نہیں اس کا وہی دوشت تھا جس کی یدولت
دوسنی کا چونصورت نہلو دیکھا،دریہ تنگم اور عنادیہ کو اس نے دونہر میں ہی تنادیا تھا آج رات
ا تیے دوشت کی آمد کا،عنادیہ کچن میں اسماء کے ساتھ چنکہ دریہ تنگم ا تیے کمرے میں تھیں،
"دراصل میرے پییے کی عادت ہے۔۔۔کہیں تھی جانے یروف ضرور د ت نا ہے کہ "وہ آیا
ہے"۔۔۔یو۔۔۔ایکشکبوز می۔۔۔"
س
طیزیہ مشکراہٹ زیردسنی کی مشکراہٹ میں یدلی چنکہ دوسری طرف لسینل اتنی مشکراہٹ دیایا
اتنات میں سر ہالیا،
"ئمہارا بچہ ایک نہیں دس کے یرایر ہے۔۔۔کہیں چو سکون سے رہیے دے کسی کو"
"ماموں مفلچہ کار سے ایر رہی تھی تبھی یان سے اس کا ہاتھ یکڑ کر زور سے کھییجا اور وہ س ندھا
تیچے گرگنی۔۔"
اپیشام کی سکاتت یر یاس کھڑی مفلچہ کا رویا اور یڑھا تبھی سایزے آگے یڑھنی اسے گود میں
اتھاپی جپ کرانے لگی،
"کبھی انشایوں والے کام کر کے قنل کروادیا کرو پینا کہ میں ایک انشان کا یاپ ہوں۔۔"
ا تیے پییے کو گھوریا وہ ِگھرکا یو اپیشام کے ل بوں یر مشکراہٹ امڈ آپی،
ٰ
"تنام مرنضی۔۔نہلی مرتیہ اتنی یوری قبملی کے ساتھ ِد ک ھے۔۔۔اچھا لگا۔۔"
"کافی چونصورت گھر ت بوایا ہے۔۔۔پیری ہونے والی پینی نکا میری نہو تیے گی یڑی ہوکر۔۔۔"
- 489 -
س
تنام کے الفاظ یر لسینل ہلکا سا ہیشا،
"میری پینی چھوڑ اتنی پینی کو دیکھ۔۔و نسے نہت تناری ہے یہ۔۔"
ن یلس ی س
ل نے کہا، سایزے کے گود میں اس ک بوٹ سی بچی کو د کھ
"میری پینی۔۔۔؟"
س س
تنام چونکا اس کے یوں یو لیے یر تبھی لسینل تھوڑا یا ھی سے اسے د کھا تھر یوال
ی مج
"نہیں۔۔!"
اس کے سوال کی منافی میں یک تنک چیحیے والے یہ اپیشام اور غفنان تھے،
س پ
دریہ تنگم اور عنادیہ سایزے کے ساتھ یبھی تھیں چنکہ لسینل تنام سے یایوں میں مچو
تھا،ا نسے میں مفلچہ نے ُیرسوق نظریں جاروں طرف دوڑاپیں ساتھ ہی اس چونصورت و وسنع
مییسن کو دیکھیے کے عرض سایزے کی گود سے ایرپی سیڑھ بوں کا ُرخ کی،اسے اویر جایا دیکھ
غفنان ایک نظر شب یر ڈالنا دنے پیر مفلچہ کے تیجھے گنا،
"یام یاپی۔۔"
آیکھوں میں چوف چھایا تھا اسے دیکھ،
"میں۔۔دھل د تبھ لی تھی۔۔نہت تناال ہے۔۔(میں گھر دیکھ رہی تھی۔۔نہت تنارا ہے۔۔)"
ً ش ت س ھ کی
اس کے ڈر ڈر کر تنانے یر غفنان آ یں کیڑا ھر کجھ سوچ کر م کرایا فورا یو لیے لگا،
"دیکھو گی۔۔"
"دی۔۔(خی۔۔)"
اس کی چیخ یر زور سے ہیسنا غفنان تند دروازے کو دیکھ وانس مڑا یر سا میے ہی اپیشام غصے سے
اسے گھوررہا تھا،
"مومی۔۔"
ایدر سے مفلچہ کی ایک اور چیخ اس جاتب ہلکی آواز میں سناپی دی،اپیشام جلدی سے غفنان کو
ی
یرایر میں دھکنل کر دروازہ کھوال،وہ یری طرح رورہی تھی،یڑی یڑی آنسو تھری آ کھیں تیینانے وہ
چوفزدہ لگ رہی تھی نہت،چنکہ غفنان کی ت بوریاں خڑھیں اپیشام کو مفلچہ کو جپ کرانے
دیکھ،پیزی میں آگے یڑھنا وہ ا تیے دویوں ہاتھوں سے اپیشام کو دھکا دیا،
"یہ میری تھی کزن ہے۔۔اور تم اس سے زرا دور رہا کرو۔۔ہمیشہ جان یوچھ کر اسے یرنشان
کرنے ہو۔۔"
غفنان کے دھکا د تیے سے زیادہ وہ مفلچہ کے جشاس ہونے کے یاوچود غفنان کو اسے تنگ
کرنے یر تنا تھا،
"ہاں یو کروں گا۔۔۔ہمیشہ یرنشان کروں گا ک بویکہ یہ میری کزن ہے ضرف میری۔۔۔تم کوپی
نہیں ہو اس کے۔۔"
اس کے لہچے میں صد دیکھ اپیشام چونکا تھر طیزیہ مشکرایا،
"اچھا۔۔یو یہ مفلچہ سے ہی یوچھ لییے ہیں کہ کون اس کا کزن ہے۔۔۔تناو مفلچہ یہ ئمہارا کزن
ہے یا میں۔۔"
یہ یات کہنا اپیشام مفلچہ کو دیکھا چو جب سے شہماپی نظروں سے غفنان کو دیکھ رہی تھی،اب کی
ی
یار غفنان تھی غصے سے تبھی یاک سرخ کیے اسے گھورا،آ کھیں اسارہ کررہی تھیں اتنی جاتب
آنے کا،
- 495 -
"اتنام یاپی۔۔آپ منلے یوت اچے دوشت ہو۔۔۔یہ دیدے ہیں۔۔(اپیشام تھاپی۔۔آپ میرے
نہت ا چھے دوشت ہو۔۔۔یہ گندے ہیں۔۔)"
چ ھٹ سے اپیشام کی طرف ہوپی وہ غفنان کی طرف د یکھے نعیر یولی ساتھ ہی سیڑھ بوں کی جاتب
تھا گیے لگی،
"نہت جلد۔۔"
س
کہہ کر لسینل اتھا ساتھ تنام تھی ک بویکہ ڈاپینگ یر کھایا لگ چکا تھا اور اسماء دوسری مرتیہ ان
دویوں کو یالنے آپی تھی،
"یر۔۔؟"
روڈ یر نظریں مرکوز کیے وہ ایک آیرو اچکایا،
س
"ایک یات تناؤ۔۔۔ لسینل ئمہارے دوشت ہیں۔۔۔وہ کیسے ہیں۔۔؟"
سایزے کے سوال یر تنام پیڑھی نظروں سے اسے دیکھا،
"تم سے مظلب۔۔؟"
تھ پ
اس کے مشکوک لہچے یر وہ چو سیح ندہ یبھی تھی لب چی،
ی ی
"ایک یو یایوں کو اتنا گھوماپی ہو یا۔۔۔سندھے طر نقے سے سمجھا نہیں سکنی کنا یات ہے۔۔"
اس یار اس نے خڑ کر کہا یو سایزے گردن موڑ کر اسے گھوری،
"اوہ واو۔۔۔کینی اچھی جیر سناپی یا۔۔۔مج ھے یو جیسے معلوم ہی نہیں تھا۔۔"
اسے جیرت میں مینال دیکھ سایزے چو مشکرانے لگی تھی تنام کے یوں یو لیے یر اس کے لب
ُ
سکڑے،آیکھوں میں جیرت اتھری،
- 499 -
"کنا مظلب۔۔ئمہیں معلوم تھا۔۔"
سایزے کے سوال یر وہ طیزیہ مشکراہٹ سمیت کندھے اچکایا،
"مگر کیسے۔۔"
چ
ھج
" ھورا چو نہرا۔۔"
کو ہوپی،
ٰ
"اوہ وانفی۔۔نس کرو جب جاتنی ہو تنام مرنضی ضرف تم یر ہی مریا ہے یو ک بوں اس طرح کے
سوال کرپی ہو۔۔"
اسکے ہاتھ کو یرمی سے ا تیے ہاتھ میں لے کر دیایا وہ مشکراکر یوال،
"لنکن تم۔۔"
- 501 -
"آپی یام یاپی مال لے ہیں۔۔(آپی یان تھاپی ماررہے ہیں۔۔)"
تیجھے سے آپی مفلچہ کی روہانسی آواز یر سایزے یات ادھوری چھوڑے گردن گھوماپی چہاں اویگھیے
پ
ہونے تھی اس کا پینا یرایر میں یبھی مفلچہ کو ہلکی چ یت لگارہا تھا،اس کا ہاتھ مفلچہ یر سے
ہناپی سایزے تیجھے ہوکر مفلچہ کو اتھاپی تھر اسے ا تیے ساتھ پیبھانے لگی،
نکار یر نظریں اتھاکر اس نے سا میے دیکھا،وہ چونکا تھا عنادیہ کی آیکھوں میں ئمی ایرے دیکھ،
- 503 -
"تم رورہی ہو۔۔"
س
ل یرمی سےن یلس لہچے میں تھوڑی جیرت گھلی تھی،آگے یڑھ کر اس کا رخ اتنی جاتب موڑیا
اس کا چہرہ ہاتھوں میں لنا،
ی س
یھ ت م
ل اسے چود یں یجا،ن یلس نےنسی سے اس کی تم آیکھوں کو د کھ
"میری جان کجھ یو تناؤ مجھے آخر کس یات نے ئمہیں میرے ساتھ انشا پی ہ بو کرنے یر مح بور
کردیا ہے۔۔۔"
م کی
اس کی تھاری آواز سینی عنادیہ نکل نف سے آ یں چی،اگر کو وہ ص اس سے ا نی محیت کریا
ت خ
ش ی ھ
تھا یو ک بوں قلذہ سے وہ یات کہا تھا،
س
دوسری جاتب سے غفان نے چو ت نایا اس یر لسینل لب تھییحنا ئمسکل ا تیے یایرات یارمل رکھا،
"پی پی۔۔"
"چواب دو۔۔"
- 510 -
اسنعال میں آگے یڑھ کر وہ تیچے چھکا ساتھ ہی مطییہ کا یازو یکڑ کر چھنکے سے اسے کھڑا
ِکنا،اجایک ہلکی سی درد کی پیس اتھی مطییہ کے وچود میں،
"ہیبم۔۔"
ت یٹ یر ہاتھ رکھنی وہ کراہی اور ہیبم کا غصہ چ ند یل کے لیے جیرت میں یدال،
"کنا ہوا۔۔"
لہچہ چودبچود دھبما یڑا تھا جس یر مطییہ کے چواس نےساجیہ ہلے،وہ ڈری تھی کہ مفایل کو اگر زرا
تھی تھنک یڑی یو کہیں وہ اسے نفضان یہ نہیجانے،
"کک۔۔کجھ نہیں۔۔"
لہچے کو ئمسکل قایو کرپی وہ نظریں خراپی یو ہیبم سر چھ نکا،
"فرچندہ۔۔"
اسے یازو سے تھامے ہی ہیبم نکارا،کجھ دیر نعد کھانے کی یرے لیے فرچندہ روم میں داجل
ہوپی،ہیبم کے اسارے یر وہ یرے تنڈ یر رکھنی وانس یلٹ کر جلی گنی،
- 511 -
ً
"کھاؤ فورا۔۔"
یرے کو دیکھیے ہی مطییہ روہانسی ہوپی،
"پیبھو۔۔"
پ
اس کے کرجت لہچے میں کہیے یر مطییہ روپی ہوپی تنڈ یر یبھی،
"کھاؤ تھی۔۔"
- 512 -
ہیبم کے یوں یو لیے یر مطییہ کو نےساجیہ ایک دن نہلے کی وہ رات یاد آپی جب وہ اس کی قکر
کے بخت کھانے کا کہا تھا،کینا اچھا لگا تھا اسے مفایل کا اتنی قکر کریا ل نکن اب۔۔،نےساجیہ
چہرہ ہاتھوں میں چھنانے وہ ہجکبوں سے رونے لگی،
ً
"ڈرامے تند کرو۔۔۔کھاو فورا۔۔"
اس سبمگر کی پیز آواز کایوں میں یڑی یو چہرے یر سے ہاتھ ہنانے وہ چود یر ئمسکل قایو یاپی
کنکنانے ہاتھ سے اسبون اتھاپی،وہ نغور اس کی یکھری جالت کو دیکھ رہا تھا،دل عح یب ہوا تھا
اس لڑکی کو ا نسے دیکھ مگر دماغ نے جیسے انکار کردیا تھا اس یر رچم کھانے سے،
دو پین اسبون کھانے کے نعد وہ یاپی کا گالس اتھاکر ل بوں سے لگاپی تبھی ہیبم کی آواز کایوں
میں یڑی،
"نفرت کرنے والوں سے تھی کجھ انشات یت رکھنا جاتنا ہوں میں۔۔ئمہاری طرح نہیں کہ جن سے
نفرت ہو انہیں موت کے میہ میں ڈال کر چود معصوم ین جاؤں۔۔"
"میں نے کینی مرتیہ کہا کہ میں نے نہیں مارا یاذلی کو تھر اس یات کا کنا چواز پینا ہے
اب۔۔"
وہ چو یوٹ کر جکنا چور ہونے گالس کو دیکھ رہا تھا مطییہ کے چیحیے یر اس کی جاتب م بوخہ ہوا،
"اس ہی یات کا یو چواز ہے اصل۔۔۔یہ تم یاذلی کو مارپی یہ میری سادی تم سے ہوپی اور یہ
کل تم نے وہ خرکت کی ہوپی۔۔"
کہیے ہونے وہ مطییہ کی جاتب یڑھا،
"یااّٰللہ یا یو مجھے موت دے دیں یا تھر اس شخص کی محیت میرے دل سے نکال دیں۔۔میں
نفرت کریا جاہنی ہوں اس سے نےتناہ نفرت مگر یہ میرے نس میں نہیں۔۔"
"مسیر مسیر۔۔"
اسے دیکھ اقسر نے چوسگوار جیرت طاہر کی،
"پیبھیں یا۔۔"
س
وہ جس ایداز میں لسینل سے یات کررہا تھا ہناد اچھییے کی ک نف یت میں نےاجینار کرسی سے
کھڑا ہوا،
- 516 -
"تناپیں کیسے آیا ہوا۔۔"
ن یلس س
ل سے، وہ اقسر نےجد چوش دلی سے مجاطب تھا
س
"انسینکیر۔۔میں نے جس انشان یر سک طاہر کنا ہے وہ نہی ہے۔۔۔ لسینل مراد۔۔"
ہناد اجایک تندہی سے گویا ہویا اس کی جاتب اسارہ کنا،
"میں نہیں مان سکنا۔۔۔یلکہ میں کنا نہاں کا اسناف یک نہیں مان سکنا یہ یات۔۔"
اگلے ہی یل اتنی جئیر سے تنک لگانے اقسر دویوں ہاتھ قضا میں یلند کیے کہا جس یر ہناد چھ نکا کھا
س
کر رہ گنا ،لسینل ابچوانے کنا تھا اس کے ایکسیرنسن،
"کنا مظلب۔۔۔کیسے نہیں جب میں کہہ رہا ہوں کہ میرے اب یک جییے دوسبوں کا قنل ہوا
ہے اس میں اس آدمی کا ہاتھ ہے یو تھر۔۔"
"کام ڈاؤن۔۔ جلے مان لییے ہیں لنکن جب آپ ت بوت دیں گے ہمیں تب۔۔"
اس کے غصے میں یرسیے یر اقسر رسات یت سے کہا یو ہناد ایک یل کو جپ ہوا،کہہ یو وہ دھڑلے
سے رہا تھا مگر اب ت بوت اس کے یاس کجھ یہ تھا،
"ت بوت نہیں ہے لنکن میں کہہ رہا ہوں یا آپ ایک مرتیہ ایکوایری کروا۔۔۔"
"تھنک ہے اگر آپ کو ت بوت جا ہیے یو میں جلد ت بوت کے ساتھ تھی جاضر ہوں گا تھر نہت
ا چھے سے تناؤں گا آپ کو اس شخص کی سراقت کا۔۔"
اصل وہ تنا ہی اقسر کے سرنف کہیے یر تھا تبھی اسے گھوریا نکال تھا وہاں سے،
ت م ہ ہ ق ن ل کن ن یلس س
ن
ل آپ کو ل ف اتھاپی یڑی۔۔۔ کن نے کر ر یں یں ھروشہ ہے آپ "سوری مسیر
یر۔۔چویکہ مسیر ہناد چند دیوں سے اس سلشلے میں نہاں یر آرہے تھے یو ضرف آپ نے کل آکر
کجھ پئیرز یر ساین کرنے ہیں یاکہ آگے جاکر آپ کے لیے وہ یرایلم کا یاعث یہ تییں۔۔"
"میں ئمہارا جسر نگاڑ کر رکھ دوں گا اگر تم نے انشا کجھ تھی کنا یو۔۔"
ی
ہناد اسے آ کھیں دکھایا عرایا،
"نگاڑ یو تم نہت کجھ جکے ہو میرا۔۔۔اب کنا کریا جا ہیے ہو۔۔اور چو تھی کریا ہے کرلو ہناد سکندر
مگر میں اتنی نہن کا یدلہ ضرور لوں گی تم سے۔۔"
اتنی آیکھوں سے نکلیے آنسوؤں کو رگڑپی وہ لڑکی یڈر ین کر یولی،
- 520 -
"لگالو تھر سارا زور۔۔۔دیکھنا ہوں کنا کرلینی ہو۔۔۔مگر تھر آگے سے میرے رتنکسن کے لیے تھی
تنار رہنا۔۔۔سوت یٹ ہارٹ۔۔"
ت ً
کمینگی سے کہنا آگے یڑھ کر ہناد اس کے گال یر ہاتھ رکھیے لگا،موقع یر وہ لڑکی فورا ھے ہوپی اس
جی
کی کوشش یاکام تناگنی،
"ایکشکبوز می۔۔"
س
کجھ دیر نعد وہ لڑکی نےنسی سے رونے یلییے لگی تبھی لسینل نکارا،
غفب سے آپی تھاری دلکش آواز یر وہ جیرت سے مڑی،مفایل کھڑے سایدار شخص کو دیکھ
آیکھوں میں سناپیش کی جگہ یاگوارتت چھلکی،
"آپ کون۔۔؟"
چہرے یر یاگواری النے وہ سوال کی،
س
"میں۔۔ لسینل مراد۔۔"
ن یلس م نہ ت ک س
ل مراد کو۔۔" " یں یں جا نی سی
اس کے تنانے یر وہ لڑکی لبھ مار لہچے میں یولی،
"یو تھر۔۔"
"خی کہیں۔۔"
"وہ شخص۔۔۔وہ نہاتت گھینا انشان ہے۔۔۔ایک ئمیر کا وجسی۔۔جدا بجسے گا نہیں اسے۔۔قہر
یازل ہوگا اس یر۔۔"
غصے میں اتنی تھڑاس نکالنی وہ رونے کو ہوپی۔۔،
"اس کی وخہ سے۔۔مہ۔۔میری نہن نے چودکسی کرلی۔۔۔اور اس صدمے میں۔۔میری امی مجھے
اکنال چھوڑ کر جلی گنی۔۔۔وہ انشان نہیں وجسی ہے۔۔۔میں نہاں یر اس ہی سلشلے میں آپی
تھی مگر اس سے یکر ہوگنی اور اب وہ مجھے دھمکی دے رہا ہے کہ میں ریورٹ یہ کرواؤں لنکن
میں ڈرنے والی نہیں۔۔۔اسے سزا دلواکر رہوں گی۔۔"
یان سناپ یو لیے ہونے وہ اتنی تھڑاس تھی ساتھ ساتھ نکال رہی تھی،
"سنا ِیل۔۔"
س
لسینل چو مشکوک نظروں سے گھورپی وہ یولی،آنسو ہ بوز آیکھوں سے جاری تھے،
"ضرور ملے گی لنکن میری یات عور سے سبو لڑک۔۔سنایل کہ یولیس کو انقورم نہیں کروگی
تم۔۔"
ی ل ن س حصن
ل اب یرم ہچے میں کہا جس یر سنا ل اتنات میں سر ہالپی، یلس اسکے یام کی یح کریا
"یہ لو۔۔"
چ یب سے رومال نکالنا وہ اس کی جاتب یڑھایا،سنایل کی آیکھوں میں جیرت اتھری اس کے
یڑھے ہاتھ کو دیکھ،
- 526 -
"ئمہیں ضرورت ہے اس کی۔۔"
ل ی ک س ش ن یلس س
م
ل کے یرم م کراہٹ میت ہیے یر وہ ہاتھ یڑھا کر اس سے رومال لی ،فا ل کی د کش
مشکراہٹ نے اس قدر یرنشاپی میں تھی سنایل کا دل دھڑکا کر رکھ دیا تھا جس سے نظریں خراپی
تھی وہ،
"یہ کنا۔۔؟"
"کارڈ ہے میرا۔۔اگر وہ کبھی ئمہیں نفضان نہیجانے کی کوشش کرے یو تم کال کرسکنی ہو
مجھے۔۔"
سنایل کو کارڈ لییے دیکھ وہ سیحندگی سے کہا،
"تنا نہیں۔۔"
ت ک ت ن یلس س
ل ا نی کار کی جاتب گنا ،سی ھی سوال کا چواب د تیے کے لیے وہ اب کندھے اچکاکر
ن ً
رکنا نہیں جاہ رہا تھا کبویکہ وقت زیادہ ہونے لگا تھا اور وہ جاتنا تھا کہ قینا عنادیہ اب یک اس
کے لیے جاگی ہوپی ہوگی،تبھی اسے جلد از جلد ا تیے مییسن جایا تھا اب،
چود سے دور جانے اس مہریان شخص کی چوڑی نست کو سنایل جاموش نظروں سے تب یک د یکھے
گنی جب یک وہ جال نہیں گنا وہاں سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرنے دن کے ساتھ سکندر وال کی رونقیں چبم ہورہی تھیں،آج اسے ایک مہییہ ہوچکا تھا
گیسٹ روم میں تند،اس رات کے نعد ہیبم نہیں آیا تھا وہاں لنکن مہناز تنگم کبھی کبھی ضرور
جاپی گیسٹ روم میں اور جب یک ا تیے طع بوں سے مطییہ کو ُرال یہ د تنی وہاں سے نکلنی
نہیں،وہ یڑی تھیں تبھی جاہ کر تھی مطییہ ان سے یدئمیزی یہ کریاپی۔۔۔،کوپی یو عم گشار یہ رہا
تھا اس کا وہاں۔۔۔،تنہاپی الگ اس کی جان نکالنی،ایک کمرے میں تند رہ رہ کر اس کا دم
- 528 -
گھییے لگا تھا،اتنا آپ اسے کسی قندی کے ماتند لگیے لگا تھا چو یاچق اتنی سزا کاٹ رہا ہو،اکیر راپیں
گ ی
اس کی آیکھوں میں گزرپیں،فرچندہ وقت یر کھایا د تیے آپی،اس عرصے میں مطییہ کی یر یسی
ی ی
کا اسے تھی معلوم ہوا تھا وہ تنایا جاہی تھی ہیبم کو مگر مطییہ نے ا تیے ازلی ڈر سے یہ یات اسے
کسی کو تھی تنانے سے م نع کی،مہییہ تھر ایک کمرے میں تند رہ کر اس کی جالت روز یروز کجھ
عح یب سی ہونے لگی تھی،چود سے عاقل وہ ہر گزرنے دیوں میں دو فرد کو نےجد یاد کرپی،یاذلی
اور چہایگیر صاجب،ضرف وہی دویوں یو تھے چو یال کسی چواز اس سے محیت کرنے اس یر تھروشہ
کرنے،یاذلی کا سوچیے اسے تیے سرے سے رویا آیا،اتنا جا ہیے والی نہن کو ک بوں اس نے یددعا
دی تھی وہ تھی ایک ا نسے شخص کے لیے جسے اس کے جییے یا مرنے سے زرا فرق نہیں یڑیا،وہ
نےجد بجھناپی یاذلی کے ساتھ ا تیے کیے گیے رویوں یر،ان شب سوچوں میں شب سے زیادہ
منایر اس کا ذہن ہوا تھا،سبھی کے یدلے رونے اور الفاظوں نے اس کا دماغ جیسے جالی کر ڈاال
تھا،
"فرچندہ۔۔"
دونہر کو فرچندہ مطییہ کے لیے کھایا لے کر آپی تھی تبھی اس نے نکارا،
"خی پی پی۔۔"
- 529 -
"مجھے آج کھایا نہیں کھایا۔۔۔کوپی فروٹ لے آؤ گی۔۔"
تھکی ہوپی آواز تھی اس کی،
"سبو۔۔"
اسے دروازے یر جانے دیکھ وہ تھر نکاری،
"تم جاؤ۔۔۔"
اسے ایک جگہ انسناہ دیکھ مطییہ سناٹ یایرات سمیت کہی،
فرچندہ کے جانے کے نعد وہ ایک جاموش نظر تند دروازے یر ڈالی،گداز ل بوں یر اذ تت تھری
مسکان تھنلی تھی ،ہلکے ہونے دماغ میں اس سبمگر کی کینلی یایوں کے عالوہ کجھ یہ تھا،یلیٹ یر
رکھی چھری کو لرزنے ہاتھوں سے اتھاپی وہ دیکھیے لگی،جالی آیکھوں میں پیزی سے ئمی ایرپی رجشار
یر تھشلی،یہ آسان نہیں تھا مگر اب وہ تھک جکی تھی،ایک ایک لمچہ چود یر تنگ ہونے لگا تھا
اس کا،چھری کی یوک کالپی یر رکھیے ہی کایوں میں اس سبمگر کے نفرت سے ُیر الفاظ گو بچے،
"چود کے ساتھ ساتھ ایک اور معصوم جان کو نفضان نہیجارہی ہیں۔۔۔"
وہ گ ھیراکر یو لیے لگی جس یر اتنا سر یکڑپی مطییہ نےنسی سے چہرہ چھکاگنی،
"یو کنا کروں فرچندہ۔۔تنگ آجکی ہوں ان شب سے۔۔کوپی نقین نہیں کریا میرا۔۔ہر کوپی مجھے
ہی گناہگار رمجھ رہا۔۔زیدگی تنگ ہورہی ہے مجھ یر۔۔نہیں رہا جارہا مجھ سے نہاں۔۔جلی جایا جاہنی
نہاں سے دور نہت دور۔۔۔چہاں ان لوگوں میں سے کوپی یہ ہو۔۔۔"
- 532 -
تھراپی آواز میں کہنی وہ فرچندہ کو نہاتت نےنس لگی،
اسے نےجد اقسوس ہویا تھا مطییہ یر اور اب اسے یوں رونے دیکھ آگے یڑھ کر وہ یرمی سے
مطییہ کے سر یر ہاتھ رکھی،
"پی پی آپ نہت اچھی ہو۔۔اور مجھے اّٰللہ یر یورا تھروشہ ہے کہ ایک دن آپ کے ساتھ شب
تھنک ہو جانے گا۔۔۔نس آپ تھی اّٰللہ یر تھروشہ رکھو۔۔"
فرچندہ کی یات یر وہ اور یری طرح رونے لگی ضحیح ہونے کا ات نظار کرنے ہونے ہی یو تھک جکی
تھی وہ اب،ا تیے سالوں سے اس سبمگر کی نےرخی یرداشت کی اور اب اس الزام کے ساتھ
یاجانے کب یک وہ اسے نہاں یر تند رکھیے واال تھا،
کافی دیر یک رونے کے نعد جب اس کا وچود ساکت ہوا تب فرچندہ کو اس کے سونے کا گمان
ہوا،مطییہ کے سر یر ہاتھ ت ھیرپی وہ اتھی تھی ساتھ چھری اور یلیٹ لے کر روم سے نکلی،کجھ
- 533 -
سوچ کر وہ لینڈ الین ئمیر سے ہیبم کو کال کی،اسے ڈر تھا کہ کہیں ایک مرتیہ تھر مطییہ چود کو
نفضان یہ نہیجانے تبھی اس کی قکر کے جاطر کجھ دیر نہلے کی گنی مطییہ کی کارواپی وہ ہیبم کو
کال یر تناپی،دوسری جاتب یہ سینا وہ پیزی سے اتھا تھا ہناد کو ضروری کام کا کہہ کر وہ گھر کا
رخ ِکنا،وہ سوچ تھی نہیں سکنا تھا کہ مطییہ اتنا یڑا قدم اتھانے کی کوشش کرے گی،نقول
اس کے وہ ایک نہاتت کم ہمت لڑکی تھی تھر کیسے اس نے یہ کریا جاہا،ایک یل کو دل گ ھیرایا
تھا مگر جلد ہی چود یر یرف چول خڑھانے وہ کار سکندر وال جانے رسیے یر موڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بی بی۔۔!"
رات کو گیسٹ روم کا گیٹ کھول کر ایدر آبی فرخندہ نے اسے پکارا ساتھ ہی کھانے کی یرے
ٹ
ٹینل یر رکھی ،نیچے یٹھی ننڈ کی یاٹیتی سے ن نک لگانے وہ اب یک رورہی تھی،فرق صرف اننا تھا
کہ آواز نند ہوچکی تھی،
1
"نہیں کھایا مجھے۔۔"
چد سے زیادہ خیحنے کے یاعث اب آواز ٹیٹھ چکی تھی اس کی نٹھی آہسنگی سے بولی،
"میرے کھانے یا نہ کھانے سے کسی کو فرق نہیں یڑے گا۔۔لے چاؤ نہ یرے نہاں
سے۔۔"
ی
لہچے میں یال کا کرب لنے کہتی وہ انتی سلگتی آ کھیں نند کرگتی،
"بی بی۔۔"
2
"فرخندہ میں نے کہا یا نہیں کھایا مجھے۔۔"
اب کے سر اتھاکر وہ سخت لہچے میں بولی،کجھ یل بو فرخندہ اسے د یکھے گتی تھر یرے اتھاکر یاہر
لے گتی،اس کے چانے کے پعد مطیبہ تھر سر گھی بوں میں دے گتی،اتھی تھوڑی دیر ہی
گزری تھی کہ اچایک دھاڑ کی آواز سمیت دروازہ کھال،تیز آواز یر مطیبہ بوکھالکر سر اتھابی سا منے ہی
اس شٹمگر کی سخت گھوری جود یر دیکھ وہ گ ھیرابی،
"جواب دو۔۔"
اشیعال میں آگے یڑھ کر وہ نیچے حھکا ساتھ ہی مطیبہ کا یازو یکڑ کر حھنکے سے اسے کھڑا
ِکنا،اچایک ہلکی سی درد کی ٹیس اتھی مطیبہ کے وجود میں،
3
"ہیٹم۔۔"
ن یٹ یر ہاتھ رکھتی وہ کراہی اور ہیٹم کا غصہ خ ند یل کے لنے چیرت میں یدال،
"کنا ہوا۔۔"
لہجہ جودبخود دھٹما یڑا تھا جس یر مطیبہ کے جواس نےساچبہ ہلے،وہ ڈری تھی کہ مقایل کو اگر زرا
تھی تھنک یڑی بو کہیں وہ اسے پقصان نہ نہیچانے،
"کک۔۔کجھ نہیں۔۔"
لہچے کو تمشکل قابو کربی وہ پظریں چرابی بو ہیٹم سر حھ یکا،
"فرخندہ۔۔"
اسے یازو سے تھامے ہی ہیٹم پکارا،کجھ دیر پعد کھانے کی یرے لنے فرخندہ روم میں داچل
ہوبی،ہیٹم کے اسارے یر وہ یرے ننڈ یر رکھتی وانس یلٹ کر چلی گتی،
ً
"کھاؤ فورا۔۔"
یرے کو دیکھنے ہی مطیبہ روہانسی ہوبی،
4
"مجھے نہیں کھایا۔۔"
ا ننے یازو یر سے ہیٹم کا ہاتھ ہنانے کی کوشش سمیت وہ تھنگی آواز میں بولی،بچانے اس کا یازو
حھوڑنے کے ہیٹم اسے جود سے فرنب کنا اور نہی یر مطیبہ کی چان ہوا ہونے لگی،
"ٹیٹھو۔۔"
ٹ
اس کے کرچت لہچے میں کہنے یر مطیبہ روبی ہوبی ننڈ یر یٹھی،
"کھاؤ تھی۔۔"
ہیٹم کے بوں بو لنے یر مطیبہ کو نےساچبہ ایک دن نہلے کی وہ رات یاد آبی چب وہ اس کی قکر
کے بخت کھانے کا کہا تھا،کینا احھا لگا تھا اسے مقایل کا انتی قکر کریا ل نکن اب۔۔،نےساچبہ
چہرہ ہاتھوں میں حھنانے وہ ہچکبوں سے رونے لگی،
ً
"ڈرامے نند کرو۔۔۔کھاو فورا۔۔"
اس شٹمگر کی تیز آواز کابوں میں یڑی بو چہرے یر سے ہاتھ ہنانے وہ جود یر تمشکل قابو یابی
5
کنکنانے ہاتھ سے اشبون اتھابی،وہ پغور اس کی یکھری چالت کو دیکھ رہا تھا،دل عح یب ہوا تھا
اس لڑکی کو ا نسے دیکھ مگر دماغ نے جیسے اپکار کردیا تھا اس یر رحم کھانے سے،
دو ٹین اشبون کھانے کے پعد وہ یابی کا گالس اتھاکر ل بوں سے لگابی نٹھی ہیٹم کی آواز کابوں
میں یڑی،
"پفرت کرنے والوں سے تھی کجھ انشان یت رکھنا چاننا ہوں میں۔۔تمہاری طرح نہیں کہ جن سے
پفرت ہو انہیں موت کے مبہ میں ڈال کر جود معصوم ین چاؤں۔۔"
اور مطیبہ کو ا ننے مبہ میں لنا یابی یکدم زہر کے مانند کڑوا لگنے لگا،وہ سمجھ چکی تھی مقایل کا
اسارہ اس یار یاذلی کی موت یر تھا،غم و نےنسی کی چالت میں وہ ہاتھ میں لنا گالس زور سے
تھینکی تھی نیچے،
"میں نے کیتی مرنبہ کہا کہ میں نے نہیں مارا یاذلی کو تھر اس یات کا کنا جواز ٹینا ہے
اب۔۔"
وہ جو بوٹ کر چکنا جور ہونے گالس کو دیکھ رہا تھا مطیبہ کے خیحنے یر اس کی چانب م بوجہ ہوا،
"اس ہی یات کا بو جواز ہے اصل۔۔۔نہ تم یاذلی کو ماربی نہ میری سادی تم سے ہوبی اور نہ
کل تم نے وہ چرکت کی ہوبی۔۔"
کہنے ہونے وہ مطیبہ کی چانب یڑھا،
6
ن ت ُ
ہ مج ت
"بو بو اگر تمہاری مجھ سے سادی نہ ہوبی ہوبی اور ھر م وہ چرکت کربی بو ھے زرا فرق یں یڑیا
مگر میری ن بوی ہوکر میرے تھابی یر پظریں۔۔"
"یااّٰللہ یا بو مجھے موت دے دیں یا تھر اس سخص کی محیت میرے دل سے پکال دیں۔۔میں
پفرت کریا چاہتی ہوں اس سے نےنناہ پفرت مگر نہ میرے نس میں نہیں۔۔"
7
تھوٹ تھوٹ کر رونے وہ ان لقظوں کا مشلشل ورد کرنے لگی تھی،آج اس سخص نے ا ننے
القاظ سے اسے یری طرح بوڑ دیا تھا،
"مسیر مسیر۔۔"
اسے دیکھ افسر نے جوسگوار چیرت ظاہر کی،
"ٹیٹھیں یا۔۔"
س
وہ جس ایداز میں لسینل سے یات کررہا تھا ہناد احھینے کی ک یف یت میں نےاجینار کرسی سے
کھڑا ہوا،
"جی یلکل۔۔"
"میں نہیں مان سکنا۔۔۔یلکہ میں کنا نہاں کا اشناف یک نہیں مان سکنا نہ یات۔۔"
اگلے ہی یل انتی چئیر سے ننک لگانے افسر دوبوں ہاتھ فصا میں یلند کنے کہا جس یر ہناد حھ یکا کھا
س
کر رہ گنا ،لسینل ابخوانے کنا تھا اس کے ایکسیرنشن،
9
"کنا مطلب۔۔۔کیسے نہیں چب میں کہہ رہا ہوں کہ میرے اب یک جینے دوشبوں کا قنل ہوا
ہے اس میں اس آدمی کا ہاتھ ہے بو تھر۔۔"
"کام ڈاؤن۔۔ چلے مان لینے ہیں لنکن چب آپ ن بوت دیں گے ہمیں نب۔۔"
اس کے غصے میں یرشنے یر افسر رسان یت سے کہا بو ہناد ایک یل کو چپ ہوا،کہہ بو وہ دھڑلے
سے رہا تھا مگر اب ن بوت اس کے یاس کجھ نہ تھا،
"ن بوت نہیں ہے لنکن میں کہہ رہا ہوں یا آپ ایک مرنبہ ایکوایری کروا۔۔۔"
"یات شٹیں مسیر ہناد سکندر۔۔۔جس سخص یر آپ یڑی آسابی سے نہ خظریاک الزام عاید کررہے
س
ہیں ہم نہت ا حھے سے چا ننے ہیں اس سخص کو۔۔۔ لسینل مراد ایک نہانت سرپف انشان
ہیں۔۔کتی یرایلمز میں انہوں نے ہماری مدد کی۔۔اکیر لوگوں کی مدد میں آگے رہنے والے سخص یر
آپ ا نسے الزام لگاٹیں گی بو تھر ہمیں النا آپ یر ہی ایکوایری کربی یڑے گی۔۔۔"
س
افسر کی یات یر ہناد نےپقیتی سے لسینل کو دیکھا جو عنابی ل بوں یر تمسجر اڑابی مشکراہٹ لنے
اسے سرد پظروں سے دیکھ رہا تھا،یراسی گتی آیرو کجھ بوں اتھیں تھیں جیسے سوال کررہا ہو کہ اب
کنا کہنا چاہو گے۔۔،نےنسی سے لب تھییحنا ہناد اسے گھورنے کے سوا کجھ نہ کرشکا،
10
"تھنک ہے اگر آپ کو ن بوت چا ہنے بو میں چلد ن بوت کے ساتھ تھی چاصر ہوں گا تھر نہت
ا حھے سے نناؤں گا آپ کو اس سخص کی سراقت کا۔۔"
اصل وہ ننا ہی افسر کے سرپف کہنے یر تھا نٹھی اسے گھوریا پکال تھا وہاں سے،
س
"سوری مسیر لسینل آپ کو پکل یف اتھابی یڑی۔۔۔لنکن نےقکر رہیں ہمیں تھروشہ ہے آپ
یر۔۔جویکہ مسیر ہناد خند دبوں سے اس سلشلے میں نہاں یر آرہے تھے بو صرف آپ نے کل آکر
کجھ ٹئیرز یر ساین کرنے ہیں یاکہ آگے چاکر آپ کے لنے وہ یرایلم کا یاعث نہ نٹیں۔۔"
س
افسر کے یرمی سے کہنے یر لسینل مشکراکر ان نات میں سر ہالیا مگر ذہین دماغی تیزی سے سوجیں
م ُ
ٹینے لگا،اسے اب ہناد کا چلد از چلد ان یطام کریا تھا،یرسوں سکندر وال چانے کا یروگرام ل بوی کریا وہ
س
افسر سے ہاتھ مالکر پکال تھا،یاہر پکلنا لسینل اتھی انتی کار کی چانب ہی یڑھنے لگا تھا کہ اچایک
کسی اجشاس کے بخت اس کی پظر کجھ دور گتی،چہاں بولیس مویایل سے زرا ہٹ کر کنارے
کی طرف ہناد کسی لڑکی سے کجھ یات کررہا تھا،دوبوں کے ایداز سے لگ رہا تھا جیسے یات کم اور
بخث زیادہ ہورہی ہو،ک بویکہ ہناد کجھ غصے میں دکھا تھا،
س
ایک پظر آس یاس ڈالنا لسینل ننا چاپ کنے خند قدم اتھایا بولیس مویایل کے یاس چاکھڑا
ہوا،وہاں نہیچ کر اسے یابوں کی زیادہ نہیں یر ہلکی آواز آنے لگی،
11
"میں تمہارا جسر پگاڑ کر رکھ دوں گا اگر تم نے انشا کجھ تھی کنا بو۔۔"
ی
ہناد اسے آ کھیں دکھایا عرایا،
"پگاڑ بو تم نہت کجھ چکے ہو میرا۔۔۔اب کنا کریا چا ہنے ہو۔۔اور جو تھی کریا ہے کرلو ہناد سکندر
مگر میں انتی نہن کا یدلہ صرور لوں گی تم سے۔۔"
انتی آیکھوں سے پکلنے آنسوؤں کو رگڑبی وہ لڑکی یڈر ین کر بولی،
"لگالو تھر سارا زور۔۔۔دیکھنا ہوں کنا کرلیتی ہو۔۔۔مگر تھر آگے سے میرے رننکشن کے لنے تھی
ننار رہنا۔۔۔سون یٹ ہارٹ۔۔"
ً
کمینگی سے کہنا آگے یڑھ کر ہناد اس کے گال یر ہاتھ رکھنے لگا،موفع یر وہ لڑکی فورا نیجھے ہوبی اس
کی کوشش یاکام نناگتی،
"ایکشکبوز می۔۔"
س
کجھ دیر پعد وہ لڑکی نےنسی سے رونے یلینے لگی نٹھی لسینل پکارا،
12
غقب سے آبی تھاری دلکش آواز یر وہ چیرت سے مڑی،مقایل کھڑے سایدار سخص کو دیکھ
آیکھوں میں شناٹیش کی چگہ یاگوارنت حھلکی،
"آپ کون۔۔؟"
چہرے یر یاگواری النے وہ سوال کی،
س
"میں۔۔ لسینل مراد۔۔"
س
"میں نہیں چانتی کسی لسینل مراد کو۔۔"
اس کے ننانے یر وہ لڑکی لٹھ مار لہچے میں بولی،
"بو تھر۔۔"
"وہ سخص۔۔۔وہ نہانت گھینا انشان ہے۔۔۔ایک تمیر کا وجسی۔۔چدا بحسے گا نہیں اسے۔۔قہر
یازل ہوگا اس یر۔۔"
غصے میں انتی تھڑاس پکالتی وہ رونے کو ہوبی۔۔،
14
"اس کی وجہ سے۔۔مہ۔۔میری نہن نے جودکسی کرلی۔۔۔اور اس صدمے میں۔۔میری امی مجھے
اکنال حھوڑ کر چلی گتی۔۔۔وہ انشان نہیں وجسی ہے۔۔۔میں نہاں یر اس ہی سلشلے میں آبی
تھی مگر اس سے یکر ہوگتی اور اب وہ مجھے دھمکی دے رہا ہے کہ میں ربورٹ نہ کرواؤں لنکن
میں ڈرنے والی نہیں۔۔۔اسے سزا دلواکر رہوں گی۔۔"
یان شناپ بو لنے ہونے وہ انتی تھڑاس تھی ساتھ ساتھ پکال رہی تھی،
"کنا مطلب بولیس کے یاس چانے کی صرورت نہیں۔۔۔ایک میٹ کہیں تم تھی بو اس سے
ً
نہیں ملے ہونے۔۔۔احھا نٹھی میں سوجوں کہ اس کے چانے کے فورا پعد ہی تم ک بوں آنے
دیکھو اگر کو تم دوبوں جو چاہ رہے ہو۔۔۔"
15
"لڑکی۔۔یام کنا ہے تمہارا۔۔"
س
اسے سمجھانے کے عرض لسینل بجمل سے بو لنے رک کر اچایک بوحھا،
"شنا ِیل۔۔"
س
لسینل جو مشکوک پظروں سے گھوربی وہ بولی،آنسو ہ بوز آیکھوں سے چاری تھے،
"دیکھو شنا ِیل۔۔۔بولیس میں ربورٹ کروانے سے کنا ہوگا زیادہ سے زیادہ وہ ا ننے چرم کی سزا
تھگنے کا خند سال تھر وانس پکل آنے گا۔۔۔اور و نسے تھی وہ صرف تمہاری نہن کا نہیں یلکہ
اور تھی لوگوں کا گناہگار ہے بو اگر چاہتی ہو اسے ید سے یدیر سزا ملے بو تھوڑا ان یطار کرو۔۔۔نہت
چلد اس کا ابچام تم جود انتی آیکھوں سے دیکھو گی۔۔قلچال کے لنے تم گھر چاؤ ا ننے۔۔"
ن یلس سمج ی س
ش م
ل آچر یں یحندگی سے بوال، اس کو چاموسی سے انتی یات ھنے د کھ
"صرور ملے گی لنکن میری یات غور سے شبو لڑک۔۔شنایل کہ بولیس کو اپفورم نہیں کروگی
تم۔۔"
ی ل ن س حصپ
ہ
ل اب یرم ہچے میں کہا جس یر شنا ل اننات میں سر البی، یلس اسکے یام کی یح کریا
16
"نہ لو۔۔"
خ یب سے رومال پکالنا وہ اس کی چانب یڑھایا،شنایل کی آیکھوں میں چیرت اتھری اس کے
یڑھے ہاتھ کو دیکھ،
"نہ کنا۔۔؟"
"کارڈ ہے میرا۔۔اگر وہ کٹھی تمہیں پقصان نہیچانے کی کوشش کرے بو تم کال کرسکتی ہو
مجھے۔۔"
شنایل کو کارڈ لینے دیکھ وہ شیحندگی سے کہا،
17
"آپ میری مدد ک بوں کررہے ہیں۔۔؟"
اس کے مڑنے یر شنایل ہلکی آواز میں بوحھی،
"ننا نہیں۔۔"
س
کندھے اخکاکر لسینل انتی کار کی چانب گنا،کسی تھی سوال کا جواب د ننے کے لنے وہ اب
ً
رکنا نہیں چاہ رہا تھا کبویکہ وقت زیادہ ہونے لگا تھا اور وہ چاننا تھا کہ پقینا عنادنہ اب یک اس
کے لنے چاگی ہوبی ہوگی،نٹھی اسے چلد از چلد ا ننے مٹیشن چایا تھا اب،
جود سے دور چانے اس مہریان سخص کی جوڑی نست کو شنایل چاموش پظروں سے نب یک د یکھے
گتی چب یک وہ چال نہیں گنا وہاں سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرنے دن کے ساتھ سکندر وال کی روپقیں خٹم ہورہی تھیں،آج اسے ایک مہیبہ ہوخکا تھا
گیسٹ روم میں نند،اس رات کے پعد ہیٹم نہیں آیا تھا وہاں لنکن مہناز ننگم کٹھی کٹھی صرور
چابی گیسٹ روم میں اور چب یک ا ننے طع بوں سے مطیبہ کو ُرال نہ د نتی وہاں سے پکلتی
نہیں،وہ یڑی تھیں نٹھی چاہ کر تھی مطیبہ ان سے یدتمیزی نہ کریابی۔۔۔،کوبی بو غم گشار نہ رہا
تھا اس کا وہاں۔۔۔،ننہابی الگ اس کی چان پکالتی،ایک کمرے میں نند رہ رہ کر اس کا دم
18
گھینے لگا تھا،اننا آپ اسے کسی قندی کے مانند لگنے لگا تھا جو یاجق انتی سزا کاٹ رہا ہو،اکیر راٹیں
گ ی
اس کی آیکھوں میں گزرٹیں،فرخندہ وقت یر کھایا د ننے آبی،اس عرصے میں مطیبہ کی یر سی
یٹ ی
کا اسے تھی معلوم ہوا تھا وہ ننایا چاہی تھی ہیٹم کو مگر مطیبہ نے ا ننے ازلی ڈر سے نہ یات اسے
کسی کو تھی ننانے سے م یع کی،مہیبہ تھر ایک کمرے میں نند رہ کر اس کی چالت روز یروز کجھ
عح یب سی ہونے لگی تھی،جود سے عاقل وہ ہر گزرنے دبوں میں دو فرد کو نےچد یاد کربی،یاذلی
اور چہایگیر صاچب،صرف وہی دوبوں بو تھے جو یال کسی جواز اس سے محیت کرنے اس یر تھروشہ
کرنے،یاذلی کا سوخنے اسے ننے سرے سے رویا آیا،اننا چا ہنے والی نہن کو ک بوں اس نے یددعا
دی تھی وہ تھی ایک ا نسے سخص کے لنے جسے اس کے جینے یا مرنے سے زرا فرق نہیں یڑیا،وہ
نےچد بجھنابی یاذلی کے ساتھ ا ننے کنے گنے روبوں یر،ان سب سوجوں میں سب سے زیادہ
منایر اس کا ذہن ہوا تھا،شٹھی کے یدلے رونے اور القاظوں نے اس کا دماغ جیسے چالی کر ڈاال
تھا،
"فرخندہ۔۔"
دونہر کو فرخندہ مطیبہ کے لنے کھایا لے کر آبی تھی نٹھی اس نے پکارا،
"جی بی بی۔۔"
19
"مجھے آج کھایا نہیں کھایا۔۔۔کوبی فروٹ لے آؤ گی۔۔"
تھکی ہوبی آواز تھی اس کی،
"شبو۔۔"
اسے دروازے یر چانے دیکھ وہ تھر پکاری،
20
"تم چاؤ۔۔۔"
اسے ایک چگہ انسناہ دیکھ مطیبہ شناٹ یایرات سمیت کہی،
فرخندہ کے چانے کے پعد وہ ایک چاموش پظر نند دروازے یر ڈالی،گداز ل بوں یر اذ نت تھری
مشکان تھنلی تھی ،ہلکے ہونے دماغ میں اس شٹمگر کی کینلی یابوں کے عالوہ کجھ نہ تھا،یلیٹ
یر رکھی حھری کو لرزنے ہاتھوں سے اتھابی وہ دیکھنے لگی،چالی آیکھوں میں تیزی سے تمی ایربی
رجشار یر تھشلی،نہ آسان نہیں تھا مگر اب وہ تھک چکی تھی،ایک ایک لمجہ جود یر ننگ ہونے لگا
تھا اس کا،حھری کی بوک کالبی یر رکھنے ہی کابوں میں اس شٹمگر کے پفرت سے ُیر القاظ گو بچے،
وافعی اس سخص نے اسے موت کی تھنک ما یگنے یر مح بور کنا تھا۔۔،کتی اذ ن بوں میں گھرے وہ
ششک کر روبی انتی کالبی یر حھری کا زور یڑھانے لگی،دل یری طرح ڈرا ہوا تھی تھا ا ننے غمل
یر،اس کا جسم لرزنے لگا تھا اور نٹھی گ ھیراکر مطیبہ حھری دور کرنے لگی مگر اچایک ایدر داچل
ہوبی فرخندہ کی پظر اس یر یڑی،وہ جوف سے خیحنے خیحنے رکی تھی،مطیبہ کا عح یب لہجہ اسے نہلے
ہی ڈرایا تھا کہ کہیں وہ کجھ علط نہ کرلے جود سے اس ہی لنے ا ننے ڈر کی وجہ سے ایک پظر
ایدر آکر وہ دیکھنے کا سوجی اور اب اسے حھری کالبی یر ر ک ھے دیکھ فرخندہ کی چان پکلنے کو ہوبی،
21
"بی بی کنا کررہی ہیں۔۔"
تیزی میں آگے یڑھتی وہ مطیبہ کے ہاتھوں سے حھری لے کر تھینکی،
"جود کے ساتھ ساتھ ایک اور معصوم چان کو پقصان نہیچارہی ہیں۔۔۔"
وہ گ ھیراکر بو لنے لگی جس یر اننا سر یکڑبی مطیبہ نےنسی سے چہرہ حھکاگتی،
"بو کنا کروں فرخندہ۔۔ننگ آچکی ہوں ان سب سے۔۔کوبی پقین نہیں کریا میرا۔۔ہر کوبی مجھے
ہی گناہگار رمجھ رہا۔۔زیدگی ننگ ہورہی ہے مجھ یر۔۔نہیں رہا چارہا مجھ سے نہاں۔۔چلی چایا چاہتی
نہاں سے دور نہت دور۔۔۔چہاں ان لوگوں میں سے کوبی نہ ہو۔۔۔"
تھرابی آواز میں کہتی وہ فرخندہ کو نہانت نےنس لگی،
اسے نےچد افسوس ہویا تھا مطیبہ یر اور اب اسے بوں رونے دیکھ آگے یڑھ کر وہ یرمی سے
مطیبہ کے سر یر ہاتھ رکھی،
"بی بی آپ نہت احھی ہو۔۔اور مجھے اّٰللہ یر بورا تھروشہ ہے کہ ایک دن آپ کے ساتھ سب
تھنک ہو چانے گا۔۔۔نس آپ تھی اّٰللہ یر تھروشہ رکھو۔۔"
22
فرخندہ کی یات یر وہ اور یری طرح رونے لگی صحیح ہونے کا ان یطار کرنے ہونے ہی بو تھک چکی
تھی وہ اب،ا ننے سالوں سے اس شٹمگر کی نےرجی یرداست کی اور اب اس الزام کے ساتھ
یاچانے کب یک وہ اسے نہاں یر نند رکھنے واال تھا،
کافی دیر یک رونے کے پعد چب اس کا وجود ساکت ہوا نب فرخندہ کو اس کے سونے کا گمان
ہوا،مطیبہ کے سر یر ہاتھ ت ھیربی وہ اتھی تھی ساتھ حھری اور یلیٹ لے کر روم سے پکلی،کجھ
سوچ کر وہ لینڈ الین تمیر سے ہیٹم کو کال کی،اسے ڈر تھا کہ کہیں ایک مرنبہ تھر مطیبہ جود کو
پقصان نہ نہیچانے نٹھی اس کی قکر کے چاطر کجھ دیر نہلے کی گتی مطیبہ کی کاروابی وہ ہیٹم کو
کال یر ننابی،دوسری چانب نہ شینا وہ تیزی سے اتھا تھا ہناد کو صروری کام کا کہہ کر وہ گھر کا
رخ ِکنا،وہ سوچ تھی نہیں سکنا تھا کہ مطیبہ اننا یڑا قدم اتھانے کی کوشش کرے گی،پفول
اس کے وہ ایک نہانت کم ہمت لڑکی تھی تھر کیسے اس نے نہ کریا چاہا،ایک یل کو دل گ ھیرایا
تھا مگر چلد ہی جود یر یرف جول چڑھانے وہ کار سکندر وال چانے رشنے یر موڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
23
سکندر وال کے بورچ میں کار روکنا وہ تیزی میں پکال تھا،ایدر داچل ہونے ہی مضبوط قدم گیسٹ روم
کے چانب ہونے،ما تھے یر ہزاروں یل لنے وہ الک کھولنا ایدر داچل ہوا سا منے ہی وہ گھی بوں میں
ٹ
سر دنے یٹھی تھی،ہیٹم کی آیکھوں میں ن یفر اتھرا اس کے ساکت وجود کو دیکھ،
ہوبی،
24
ایک یل کو بو ہیٹم جوپکا،ملگچے کیڑے،یکھرے یال آنسو کے منے نشان لنے عارض زردی مایل
ریگت آج بورے ایک مہینے پعد وہ اسے دیکھ رہا تھا اور ہیٹم کو کہیں سے تھی وہ مطیبہ نہ لگی جو
ی
نہلے لگتی،حھنل مانند آ کھیں چالی تھی اور ان کے گرد گہرے ہلقے،وہ نےساچبہ پگاہ چرایا،
"کنا۔۔"
اس کی آیکھوں کی چیرت ہیٹم کو کسی کھ نکے کا اجشاس دالنے لگی،
"نہیں بو۔۔"
نہ سن کر ہیٹم سدید چیران ہوا،
25
"کون فرخندہ۔۔؟"
اور مطیبہ کے اس سوال یر ہیٹم کو حھ یکا لگا،
"نہیں۔۔"
اس کا جواب ہیٹم کے ساتھ ساتھ فرخندہ کو تھی نےپقین کرگنا،
26
"آہ۔۔۔آپ ممہ۔۔میرا۔۔ہاتھ۔۔کی۔۔ک بوں دیا۔۔رہے ہیں۔۔"
یازو میں اتھتی پکل یف یر وہ چیران یرنشان سی بوحھی،
"ساری یاٹیں حھوڑو۔۔نہ نناؤ کہ تم کجھ دیر نہلے کنا کرنے لگی تھی۔۔۔"
"بی بی۔۔!"
"تم چاؤ۔۔"
وہ جو مطیبہ کی عح یب ایداز میں کی گتی یابوں یر آگے یڑھ رہی تھی ہیٹم کے چکم یر سر ہالبی یاہر
پکلی،
27
"میں نے۔۔کسی۔۔کو نہیں۔۔ما۔۔مارا۔۔نہیں مارا کسی۔۔کو۔۔"
ھ ح
اس کے ہ بوز یڑیڑانے یر ہیٹم یکدم مطیبہ کے دوبوں یازوؤں کو تھام کر ھوڑا،
جی
"یاگل ہونے کا یایک کر کے اگر تم ہمدردیاں ن بورنے کا سوچ رہی ہو بو نہت علط سوچ رہی ہو"
غصے میں یلند آواز میں کہہ کر وہ پکال روم سے،ادھر ایدر کھڑی مطیبہ چالی آیکھوں سے اس شٹمگر
س ٹ
کو چایا دیکھ چاموسی سے نیچے یٹھی،ماوف ہویا دماغ قاصر تھا مقایل کا رونہ ھنے سے،حھونے
مج
قدم اتھابی وہ کمرے کی قدآور کھڑکی یر چاکھڑی ہوبی تھر جشک آیکھوں سمیت یاہر الن کو دیکھنے
لگی،
28
"اکھڑی ٹیندیں،شناہ ہلقے اور خند طعنے ہی آنے،
محیت میں سکون کدھر میسر آنے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجھلے ایک مہینے سے شنڈبول تھوڑا یزی رہا کجھ غقان سے وہ ہناد یر پظر تھی رکھوارہا تھا اور آج وہ
عنادنہ کو لے کر سکندر وال آیا تھا،ا ننے عرصے میں وہ چان بو خکا تھا کہ اس کی مح بوب ن بوی بول
س
سکتی ہے مگر وہ ک بوں اس کے سا منے نہ ڈرامہ کررہی تھی نہ سوچ لسینل کی سمجھ سے یاالیر
تھی،وہ چاموش تھا کہ عنادنہ سے زیردشتی نہیں کریا چاہنا تھا کسی تھی یات میں،وہ چاہ رہا تھا
کہ عنادنہ تھروشہ کرے اس یر اننا کہ جود ننانے اسے کہ آچر کون ہے وہ جس سے وہ اننا ڈری
س
ہوبی ہے،دوسری چانب لسینل کے یرم رونے اور ایداز یر وہ جو نہلے ہی اس کی دبوابی تھی
اب جو یدگمابی کا نیج دل میں اگا تھا وہ تھی مینے لگا،اس کا جوپصورت رونہ عنادنہ کو اکیر نہت
وت گویابی کا بو یات سکندر وال میں تھی
جوش کرد ن نا یر ڈربی کہ اگر اسے معلوم ہوگنا عنادنہ کی ف ِ
چانے گی اور تھر اگر قلذہ کو نہ معلوم ہوا بو۔۔۔،نہ سوچ اکیر عنادنہ کو حھرحھری لینے یر محبور
کرد نتی،انتی نہن کی تھنایک شکل دیکھ جو چکی تھی،
29
"آو ایدر۔۔"
کار سے ایر کر وہ ایک چگہ ہی انسنا وہ ا ننے گھر کو دیکھ رہی تھی،دل میں ڈر کنڈلی مارے ٹیٹھا
س
تھا،نٹھی لسینل کی تھاری آواز یر جویکی،جوپصورت چہرے یر گ ھیراہٹ کا اتیر ظاہر ہویا دیکھ
س
لسینل اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر گویا ہوا،
30
ت ی پ ً
"اب قینا معافی ما گنے آنے ہوگے م دوبوں۔۔"
س
اب وہ لسینل سے مچاطب ہوٹیں،
س
"معافی علط بوں کی مایگی چابی ہے اور لسینل مراد علطناں نہیں کریا۔۔۔"
سرد لہچے میں کہنا وہ ایک یرحھی پظر ان یر ڈاال،
"چاننا ہوں۔۔"
"زیادہ کجھ کہہ کر میں دکھی نہیں کروں گی تمہیں۔۔۔آچر کو عزیز ہو تم مجھے مگر جو کنا صحیح نہیں
کنا تم نے۔۔"
ان کی یات یر عنادنہ سرمندگی سے سر حھکاگتی،آنسو تیزی سے گال میں تھشلنے لگے،
31
"چیر ہوبی کو کوبی یال نہیں سکنا۔۔ساید نہ ہی تمہارا پضیب تھا یر میں جوش ہوں کہ چلو تم سے
بو رونہ نہیر ہے "کسی کا"۔۔۔"
س
اسے بول کر انہوں نے آچر میں لسینل کو دیکھا خنکہ عنادنہ جوسی سے ان کے گلے لگی تھی،
"ٹیٹھو۔۔"
س
اسے چپ کراٹیں وہ ان دوبوں کو صوفے کی طرف اسارہ کر کے بولیں مگر لسینل کو وہاں کے
ماجول میں کجھ عح یب محسوس ہوا،چاموش پظر ہر طرف ڈالنا وہ ٹیٹھا صوفے یر،
آج اپقاق احھا تھا کہ قلذہ گھر یر نہیں تھی،اویر ا ننے کمرے سے تھر آفس کے لنے پکلنے ہیٹم
س
کی پظر لسینل یر یڑی بو وہ مشکرایا ہوا اس سے مال،یابوں کے دوران عنادنہ کی منالسی پظروں یر
مہناز ننگم نے اشیفشار کنا،وہ مطیبہ کو ڈھویڈی تھی جس یر مہناز ننگم نے تھوڑا گ ھیرانے ہونے
س
اس کی طی یعت چرابی کا نہانہ ننادیا،کافی دیر یک وہاں ٹیٹھے رہنے کے پعد لسینل عنادنہ کو لنے
س
پکلنے لگا،مہناز ننگم نے کھانے یر ر کنے کا کہا یر وہ اپکار کرگنا،یاہر پکل کر لسینل عنادنہ کو کار
میں ٹیٹھنے کا کہہ کر ہیٹم کے ساتھ الن کی طرف آیا،
"چیرنت تھابی۔۔"
وہاں یر آکر اس کے مشلشل چاموش رہنے یر ہیٹم بوحھا،
عیر ارادی پظر ہر چانب دوڑایا اور کجھ دور ہی اسے گیسٹ روم کی کھڑکی دکھی چہاں اب یک
مطیبہ کھڑی تھی،
"جی۔۔"
مح یصر جواب تھا،
"چیرت ہے۔۔"
س س
یاشف سے کہہ کر لسینل قدم اتھایا دوسری چانب ہیٹم کے ذہن میں یکدم لسینل کی م ٹیشن
میں کہی گتی یات یاد آبی اور وہ تھٹھکا،
33
"آپ ک بوں اس طرح کی عح یب یاٹیں کرنے لگے ہیں جو میری سمجھ سے یلکل یرے ہوبی
ہیں۔۔۔ڈایریکٹ کہیں کہ آچر کنا یات ہے۔۔"
س
ک یف بوز ہویا وہ بوحھا جس یر لسینل خند یل چاموش رہا تھر گویا ہوا،
"میں کسی کے بجی معا ملے میں کجھ بولنا نہیں چاہنا مگر تمہیں تھابی ماننا ہوں۔۔۔بو صرف نہی
کہنا چاہوں گا کہ انتی ذمہ داری سے اننا تھی عاقل نہ ہو کہ پعد میں صرف بجھناوا تمہارے ہاتھ
لگے۔۔"
اس کے لہچے میں یال کی شیحندگی تھی،مقایل کا اسارہ سمجھنا ہیٹم ایک پظر تھر مطیبہ یر ڈاال کجھ
دور سے ہی اس کے چہرے یر حھابی یژمردگی واصح دکھابی دے رہی تھی،
"انشا ہی ہے۔۔۔ہیٹم۔۔تمہیں میں دوسروں کی طرح نہیں سمجھنا نٹھی سمجھایا ہوں شیٹھل چاو
کہ کہیں وقت نہ پکل چانے۔۔پعد کے بجھناوے سے اب کا شیٹھلنا نہیر ہے۔۔یابچ سال یک
ٹینابی نہ ہونے کے یاعث میری محسوس کرنے کی ِجس چد درجہ یڑھی ہے اور سکندر وال کی
دبواریں مجھے کجھ نہت یرا ہونے کا اجشاس دالرہی ہیں۔۔۔بوں لگنا ہے جیسے چلد کجھ نےچد
علط ہونے واال ہے۔۔"
34
س
اننہابی گھمئیر لہچے میں اسے ننایا لسینل چانے لگا،مقایل کی یاٹیں اسے چد درجہ یرنشان کی
تھیں،ا ننے گھر کو دیکھ وہ تھر مطیبہ کو دیکھا،
"میں ننا بخف بق کسی نے گناہ کو سزا نہیں د ن نا۔۔تھروشہ کریا ہوں انتی ن بوی یر کہ وہ گناہگاروں
میں سے نہیں۔۔"
س
لسینل کی یات اسے ت ھیڑ کے مانند محسوس ہوبی جود یر،نےپقین سا ہویا وہ مڑا مگر نب یک
س
لسینل مراد چاخکا تھا وہاں سے،ا ننے سر یر ہاتھ تھیریا وہ مڑ کر تھر مطیبہ کو دیکھنے لگا،کہیں وہ
سچ میں گناہگار بو نہیں نہرا تھا،
"نہیں۔۔میں علط نہیں ہوسکنا۔۔کٹھی آیکھوں دیکھا تھی حھوٹ ہوا ہے۔۔۔اور مطیبہ کو بو
دوبوں گناہ کرنے میں نے انتی آیکھوں سے دیکھا تھا۔۔"
دماغ نے اسے پقین دہابی کروابی بو سر حھنک کر وہ آفس کے لنے پکال،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روڈ یر شیحندہ پظریں حمانے وہ کار ڈران بو کررہا تھا،شناٹ چہرہ گہری سوچ کی غکاسی کررہا تھا،ٹیشابی
35
یر ہلکی سکن لنے وہ پقبہ دبوں کے مقا یلے عنادنہ کو کجھ چاموش لگا،جویکہ وہ آج نےچد جوش
س
تھی مہناز ننگم کے یرم رونے یر بو اسے لسینل کا چپ رہنا کھال وہ اس کا سکرنہ ادا کریا چاہتی
تھی کہ آج مقایل کی طرف سے وہ اس کے دل میں آبی ہلکی سی کدورت تھی خٹم ہوچکی
س
تھی،کجھ سوختی وہ گہرا سانس تھری تھر ہمت کر کے ایک پظر لسینل یر ڈالی،
س
" لسینل۔۔!!!"
س
اننہابی گہری سوچ سے پکلنا وہ حھنکے سے کار روکا،ٹین سال یرابی وہی مابوس آواز لسینل کو لگا
جیسے وقت تھما ہو،سدید چیرت کے عالم میں گردن موڑیا وہ انتی مکی ِن دل کو دیکھا جو اسے پکار کر
اب مشکرارہی تھی،کالی آیکھوں میں جوسی کی دمک دیکھ اسے لگا دننا چہاں کی جوشناں یک ن نک
اس کے قدموں میں الکر رکھ دی ہوں۔۔۔،
ٹ
وہ بول رہی تھی۔۔،مقایل یٹھی اس کی مح بوب ن بوی بول رہی تھی،اسے پکاری تھی،نےبچاشہ
س
جوسی میں گھرے لسینل زیدگی سے تھربور مشکرایا،
ُ
"تھینک بو۔۔"
وہ تم آواز میں مشکراکر بولی،
"تھر بولو۔۔"
مقایل جیسے اب یک چیران تھا کہ وہ لڑکی اس یر تھروشہ کرنے لگی ہے،
36
"تھینک۔۔۔"
"عندلیب۔۔!"
ی
نےبچاشہ جوسی میں ننہال ہویا وہ اس کو گلے لگاگنا،اس کی نست یر ہاتھ رکھتی عنادنہ آ کھیں
مویدی تھی سکون سے،
"تم سے نہت سی شکایات ہیں۔۔۔کافی وجوہات بوحھتی ہے مگر اتھی نہیں۔۔۔قلچال آج کی
سام میری محیت کے یام۔۔۔"
ُ
اسے انتی یرم پگاہوں میں لینا وہ محیت سے جور لہچے میں کہا ساتھ ہی کار شنارٹ کنا،ادھر
وجوہات کا سوچ کر عنادنہ کجھ یل کو اسے د یکھے گتی تھر سر حھنک کر مشکرابی،وہ کم از کم آج
37
س
یرسکون رہنا چاہ رہی تھی،کجھ ہی دیر میں وہ لوگ ایک جوپصورت رنسبورنٹ کے یاہر تھے ،لسینل
ن یلس س ت ل ت ھ کش ی
ل کا فون ریگ کنا، کو م کراکر د تی وہ کار سے ا ھی ایرنے ہی گی ھی کہ
"ایک میٹ۔۔"
ابچان تمیر دیکھ وہ عنادنہ سے کہا ساتھ ہی کال رنسبو کی،
س
"ہنل۔۔ہنلو۔۔۔سلس۔۔ لسینل مراد۔۔"
تھنگی نسوابی آواز یر ششلینل کجھ تھٹھکا،
"کون۔۔؟"
"چیرنت۔۔؟"
ٹ
اس کے ڈرے ہونے لہچے یر چدسے کا اجشاس ہوا نٹھی وہ نسونش سے بوحھا،یرایر میں یٹھی
ت ن س مجس
ی
ل کو د کھ رہی ھی، یلس عنادنہ یا ھی سے
38
"تم۔۔یلیز نہاں آچاؤ۔۔۔۔۔ان لوگوں نے۔۔انہوں نے میرا گھر چالدیا۔۔وہ۔۔لوگ۔۔میرے
نیجھے یڑے ہیں۔۔یلیز مجھے بچالو۔۔"
س
بو لنے ہونے وہ مشلشل رورہی تھی،ہناد کا شینے ہی لسینل سحتی سے لب تھییچا،آیکھوں میں
جون ایرنے لگا،
"مجھے نہیں ننا۔۔۔تم۔۔تم یلیز مجھے بچالو۔۔وہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔۔۔"
"کنا ہوا۔۔؟"
ح ھ کی
وہ سوالبہ پظروں سے اسے د تی بو ھی،
م
"چاتم کل کا کمل دن تمہارے یام۔۔اتھی کجھ صروری کام ہے۔۔"
39
"کوبی یات نہیں۔۔"
س
یرمی سے کہہ کر وہ مشکرابی،دل تھوڑا بجھا تھا مگر چانتی تھی لسینل کی مح بوری ہی ہوگی،
"میری چاتم۔۔"
آگے ہوکر اس کی ٹیشابی جومنا وہ محیت سے کہا ساتھ ہی کار شنارٹ کریا وہ عنادنہ کو مٹیشن
س
میں حھوڑا،اس کے پعد لسینل کی کار کا رخ شنایل کے ننانے گنے ایڈرنس یر گنا،کجھ دیر پعد
س
ہی وہ اس چگہ نہیچا،نہ ایک حھویا سا گھر تھا،وہاں کھڑے ہوکر لسینل نے اس ہی تمیر یر کال
کنا،رنسبو کرنے یر شنایل کی آواز شنابی دی،وہ اسے ا ننے آنے سے مطلع کنا جس یر کجھ ہی دیر
س
میں سا منے ننے گھر کا گیٹ کھال،کال رکھنا لسینل سا منے دیکھا،جود کو چادر سے کوور کنے وہ
ی
تھنگے چہرے سمیت اسے دیکھ رہی تھی،آ کھیں چد سے زیادہ رونے کے یاعث نہت زیادہ سرخ
ہورہی تھیں،
40
"مجھ۔۔مجھے یلیز۔۔نہاں سے کہیں چلو۔۔ورنہ وہ لوگ نہاں تھی آچاٹیں گے۔۔۔"
س
اس کا ایداز ننارہا تھا کہ وہ نہت ڈری ہوبی ہے ،لسینل اسے کار میں ٹیٹھنے کا اسارہ کنا جس
ٹ
یر مڑبی وہ نہلے اس بوڑھی غورت کا سکرنہ ادا کی تھر کار میں آ یٹھی،
"صیح یک سب تھنک تھا لنکن سام کو میں چب کام سے ا ننے گھر لوبی نب دیکھا کہ
میرا۔۔۔میرا بورا گھر تھڑ کنے اپگاروں کے زد میں تھا۔۔۔مجھے نہیں معلوم کنا ہوا مگر ہر طرف
کھڑے لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔۔میرے گھر کے تھنک یاہر چار آدمی کھڑے
تھے۔۔۔میرے خیخ کر رونے یر وہ لوگ میری طرف م بوجہ ہونے۔۔۔ان میں سے ایک نے کسی
سے کال یر یات کی۔۔۔اور۔۔۔اور تھر وہ لوگ میرے نیجھے تھاگے۔۔۔مج ھے کجھ سمجھ نہ آیا
سوانے اس کے کہ مجھے تھاگنا ہے اور میں تھاگی۔۔۔میرا نیج ھا کرنے وہ لوگ مشلشل مجھے
مارنے کی دھمکی دے رہے تھے۔۔۔کسی طرح میں وہاں سے بچ کر پکلی تھر اس گھر میں نناہ لی
کجھ دیر کے لنے۔۔۔تمہارا دیا کارڈ میرے یرس میں تھا۔۔بو مج ھے تمہارا خنال آیا اور میں نے۔۔۔"
س
بو لنے ہونے وہ رک کر تھر رونے لگی،اسے ایک پظر دیکھ لسینل ڈنش بورڈ سے نسو یاکس اتھایا
41
اس کی چانب یڑھایا،وہ اننا رویا تھولے اس مہریان سخص کو د یکھے گتی جس کی زیرک پظریں ہ بوز
روڈ یر تھیں تھر اس سے نسو یاکس لے کر ا ننے آنسو صاف کرنے لگی،
"کس نے۔۔"
"ہناد سکندر۔۔"
س
اس یار شنایل کا لہجہ پفرت لنے تھا ،لسینل کجھ جوپکا،
ٹ
"پعتی تم چاموش نہیں یٹھی۔۔"
شنایل چیران ہوبی تھی مقایل کے چیرت کا اظہار کرنے کے بچانے نہ سوال کرنے یر،
"مطلب۔۔"
42
ُ ٹ ش ل ت ت پ ً
"مطلب صاف ہے۔۔ قینا م نے ھر بو یس ا یشن کا رخ کنا ہوگا۔۔۔"
وہ اشنہقامبہ پگاہوں سے اسے گھور کر بوحھا جس یر شنایل پظریں حھکابی،
"ہاں بو۔۔تم نے کہا تھا کہ اسے عیرنناک موت ملے گی مگر ایک مہیبہ ہوخکا تھا اور وہ آزاد گھوم
رہا تھا۔۔۔نٹھی میں کل۔۔۔"
"انتی چلدی نہی ایک مخفوظ چگہ ہے تمہارے لنے۔۔پعد میں کجھ ان یطام کردوں گا۔۔"
"میں تمہیں زیادہ زحمت نہیں دوں گی۔۔چلد جود کے رہنے کے لنے کوبی چگہ ڈھویڈ لوں گی۔۔"
ہلکی آواز میں کہہ کر وہ کار سے ایری،فرمان کو کار کی چابی یکڑایا وہ شنایل کو ساتھ آنے کا
43
اسارہ کنے آگے یڑھا،ایدر داچل ہونے یر ہی ہال میں پظر عنادنہ اور درنہ ننگم یر یڑی،وہ دوبوں
س
کسی یات یر مشکرارہی تھیں لنکن سا منے کھڑے لسینل کے ساتھ اس ابچان لڑکی کو دیکھ
عنادنہ کی مشکراہٹ سمتی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گرنتی نہ۔۔شنا ِیل ہے۔۔میں زیادہ بو اس کے یارے میں نہیں چاننا نس اننا معلوم ہے کہ نہ
لڑکی نےسہارا ہے۔۔۔اور۔۔۔"
عنادنہ کے یاسمجھ یایرات دیکھ وہ شیحندگی سے شنا ِیل سے ملنے سے لے کر اب یک کی ساری
یات درنہ ننگم اور اسے ننایا سوانے اس کے کہ شنا ِیل کے نیجھے لگا وہ سخص کوبی اور نہیں ہناد
ہے،
"انتی چلدی کوبی گھر بو کنا قلیٹ تھی نہیں ِمل سکنا نٹھی میں نے سوچا کہ خند دن یک اسے
نہی یر رکھوں تھر جیسے ہی اس کے رہنے کا ان یطام ہویا ہے نہ چلی چانے گی۔۔"
س
لسینل کی یات یر عنادنہ نے ایک پظر تھر کجھ قاصلے یر کھڑی شنا ِیل کو دیکھا،سر نیچے حھکانے
وہ گ ھیرابی ہوبی لگ رہی تھی،اس کے یاس آبی عنادنہ یرمی سے اس کے یازو یر ہاتھ رکھی،
44
ت پ ً ُ
"آپ کی امی اور نہن کا سن کر نےچد دکھ ہوا۔۔۔ قینا سی ھی لڑکی کے لنے ا سی سخونشن
ن ک
میں سروابوو کریا نہت مشکل ہویا ہے بو یرنشان نہ ہو سب تھنک ہو چانے گا اور و نسے تھی
ہمیں کوبی اعیراض نہیں آپ کے نہاں رہنے سے۔۔۔ہے یا گرنتی۔۔"
ش ی ٹ ش کننگ ی
جوش دلی سے کہہ کر وہ درنہ م کو د ھی جو اس کی یات یر یرمی سے م کرا یں،شنا ِ ل م کور
س ن ن یلس س ت کی
اع چاں کی یات یر یر کون ہوا،ل ا تی م ن ِ پظروں سے عنادنہ کو د ھی ھی،دوسری چانب
"آپ لوگوں کا نہت نہت سکرنہ۔۔میں آپ لوگوں کو زیادہ یرنشان نہیں کروں گی۔۔۔نہت چلد
چلی چاؤں گی نہاں سے۔۔"
وہ تھنگی مگر مشکور لہچے میں کہی،
"کوبی یات نہیں بجہ۔۔۔عنادنہ اسے گیسٹ روم میں لے چاؤ اور ٹینا آپ آرام کرلو تھوڑا۔۔۔"
درنہ ننگم نے شققت تھرے لہچے میں کہا بو عنادنہ مشکرابی شنا ِیل کو لنے چانے لگی،
"سکرنہ میرا نہیں میری ن بوی کا کرو۔۔۔اگر وہ نہیں چاہتی بو میں تمہیں اس گھر میں کوبی چگہ
نہیں دے سکنا تھا۔۔"
45
ی گ ی ت ن یلس ً س
ج
ل ھر عنادنہ کو د کھا جو اسے ھور سے بوازی،ادھر شنا ِ ل کے لب یسے تھوڑا مذاقا کہنا
ن بوست ہوکر رہ گنے ایک دوسرے سے،دل دھک سے ہوا اور وہ بجھے چہرے سمیت عنادنہ کو
ت خ ک ی کی
س
د ھی،بو مقا ل ھڑی وہ نناری سی لڑکی اس ص کی ن بوی ھی،ایدر کجھ بویا،
"چلیں۔۔"
عنادنہ کی آواز یر وہ جویک گتی تھر سر ہالکر اس کے ساتھ چلی،
شنا ِیل کو گیسٹ روم میں حھوڑ کر وہ درنہ ننگم کے کہنے یر اس کا کھایا وہاں لے گتی
تھی،عنادنہ کی کافی کوشسوں کے پعد وہ تھوڑا نہت کھابی اس کے پعد ع نادنہ ا ننے خند
س
کیڑے اسماء سے کہہ کر گیسٹ روم میں تھخوابی،کھایا لسینل،درنہ ننگم اور اس نے ساتھ کھایا
تھر درنہ ننگم سے خند یاٹیں کرنے کے پعد چب وہ سوگٹیں نب عنادنہ ا ننے روم میں گتی،کمرہ
س
چالی تھا،ڈرنسنگ روم سے جییج کر کے چب وہ پکلی بو لسینل کمرے کا دروازہ نند کررہا
تھا،عنادنہ کو دیکھنے ہی وہ اس کے چانب یڑھا،
"چاتم۔۔"
محیت سے کہنا وہ عنادنہ کے گرد یازو چایل کنا،
"حھوبی لڑکی۔۔"
وہ جو مشکراکر جود سے فرنب اس مح بوب کے وخنہہ چہرے کو دیکھ رہی تھی یکدم جویک گتی،
46
"حھوبی۔۔!"
اس نے چیرت سے دہرایا،
"میں صد نہیں کریا۔۔چب تمہیں صحیح لگے نب نناد ن نا۔۔قلچال نہ نناؤ کہ تمہارا یام عندلیب ہے
یا عنادنہ۔۔؟"
اب وہ ذہن میں چب سے امڈیا سوال کنا جس یر عنادنہ یرسکون ہوبی ایک یار تھر مشکرابی،
"مام نے عندلیب رکھا تھا خنکہ ڈیڈ نے عنادنہ۔۔۔دوبوں کی اکیر میرے یام یر بخث ہوبی اور آچر
میں ٹییجہ نہ پکال کہ کجھ لوگ مجھے عنادنہ کے یام سے چا ننے لگے بو کجھ عندلیب۔۔"
س
وہ مشکرانے ہونے اسے پقصنل سے ننانے لگی خنکہ لسینل کی پظریں یار یار اس کے گال یر
یڑنے ڈمنل یر الجھ رہی تھیں،
47
"مجھے عندلیب یام نسند ہے۔۔"
ننار تھرے ہونے میں کہنا وہ اس کی شبواں یاک سے انتی یاک ِمس کنا،
48
"میں تمہارا اجشان مند ہمیشہ رہوں گا کہ تمہاری وجہ سے آج میں ایک قایل اور کامناب انشان
ننا ہوں۔۔"
کی
ننڈ یر اس کے فرنب ہویا وہ یرمی سے کہا،لٹمپ کی روشتی میں مقایل کا وخنہہ چہرہ د تی عنادنہ
ھ
"آپ اننداء سے قایل تھے اور میں نے جو کنا انتی محیت میں نےنس ہوکر کنا بو اس یلندی میں
ن
ہیحنے میں بورا ہاتھ آپ کا ہے ک بویکہ میں گرقنار آپ کی محیت میں ہوبی تھی نٹھی وہ قدم
اتھایا۔۔۔"
وہ کیتی آسابی سے ا ننے اجشان کو اس کی محیت کا یام دے گتی تھی،پغور اس کی جسین
س
آیکھوں کو دیکھنا لسینل آہسنگی سے اس کے ننکھڑی مانند گالبی ل بوں یر حھکنا چالگنا،
"چب ڈاکیرز نے کہا کہ تم نہیں رہی نب مجھے کسی ظور پقین نہیں آیا۔۔۔"
کجھ دیر پعد ل بوں کو آزاد کریا وہ سرگوسی میں کہا ساتھ ہی عنادنہ کی صراجی دار گردن یر ننے ان
دو یلوں کو ا ننے عنابی ہون بوں سے حھوا،مقایل کا یرم گرم لمس انتی شفند گردن یر محسوس کربی
ی
عنادنہ آ کھیں موید گتی،دل نہت تیزی سے دھڑک رہا تھا،جوپصورت چہرہ ایاری ہونے کو ہوا چب
س
لسینل اس کا دو نبہ ایار کر ساننڈ یر رکھا،
49
"ایک یل کو لگا کہ سب کجھ خٹم ہوخکا ہو۔۔۔دل چاہا کہ وقت یلنے اور تم لوٹ آؤ تھلے میری
ٹینابی نہ ہو مگر تم ساتھ ہو میرے۔۔۔"
جوپصورت چہرے کے ہر پفش یر چا بچا انتی محیت کی مہر ن یت کریا وہ اننہابی یرم لہچے میں سرگوسی
کررہا تھا،
"دل کہنا کہ دننا حھوٹ کہتی ہے۔۔۔میری عندلیب زیدہ ہے اور تم چانتی ہو میں نے دلی
معامالت میں ہمیشہ دل کی شتی ہے۔۔۔اور تھر اس صدی دل نے تمہارے دیدار کا ہجر کاننا
سروع کردیا۔۔۔"
مقایل کے کہے ہر لقظ نے اسے معئیر کنا تھا،جوسی اس کے ایدر یک ایری تھی کہ وہ مح بوب
سخص اس قدر چاہنا ہے اسے،
"ا ننے مح بوب کے ہجر میں عندلیب سکندر تھی نہت یڑبی مگر اس کے یاس آنسو نہیں تھے کہ
س
نہا کر دل ہلکا کر سکے۔۔میں آپ سے نہت محیت کربی ہوں لسینل۔۔اب کٹھی آپ کی
چدابی یرداست نہیں کر یاؤں گی۔۔۔"
س س
لسینل کے وخنہہ چہرے یر اننا یازک ہاتھ تھیربی وہ میرتم آواز میں بولی جس یر لسینل نے
50
یرمی سے اس کی تھنگتی آیکھوں کو جوم لنا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرخندہ کی زیابی نہ یات مہناز ننگم کو اور تھر دو دبوں میں سکندر وال میں تھنلی،ان شٹھی کو
نےپقین کرگنا تھا مطیبہ کی دماغی چالت کا چراب ہویا،قلذہ نے اسے ڈرامے کا یام دے کر
معاملہ شیٹھالنا چاہا مگر مہناز ننگم نے اس عرصے میں نہلی یار مطیبہ کی حمانت میں کہہ کر ہیٹم
کو ڈاکیر سے ابواٹیٹمیٹ لینے کا کہا،وہ کجھ گ ھیرابی تھیں اس کے عح یب روبوں سے،کٹھی وہ
انہیں نہچانتی بو کٹھی نہکی نہکی سی یاٹیں کربی کہ اس نے یاذلی کو نہیں مارا،ان سب میں جو
نہت یرسکون تھا وہ ہناد تھا،نہلے سے ہی اس سے ملنے کے موفع کا منالسی اب نہ چیر اس کے
لنے کسی جوسی کی بوید سے کم نہ تھی،مہناز ن نگم کے کہنے یر ہیٹم ڈاکیر سے ابواٹیٹمیٹ لنا تھا مگر
آج رات ہی آفس کے کام کے سلشلے میں اسے دوسرے سہر چایا تھا،چانے واال نہلے ہناد تھا
لنکن دونہر یک اس نے اننا ق یصلہ نندیل کرلنا کہ کجھ صروری کام کے یاعث یا چا یانے گا اور
ً
ٹییحنا اب ہیٹم ان نا سامان ننک کررہا تھا،اسے ٹین دبوں کے لنے چایا تھا،رات کو مہناز ننگم سے
مل کر وہ سکندر وال سے پکلنے لگا مگر کسی عح یب اجشاس کے بخت قدم یاہر رکھنے کے بچانے
گیسٹ روم کی چانب گنے،دروازہ کھول کر اس نے ایک پظر ایدر دیکھا چہاں ننڈ یر لیتی دن نا سے
51
نے چیر وہ ٹیند کی وادبوں میں تھی،سر حھنک کر ہیٹم وانس دروازے نند کر کے سکندر وال سے
پکال،ادھر وہ پکال بو دوسری چانب ہناد کمینگی مشکراہٹ لنے سیڑھناں ع بور کریا نیچے آیا،یاہر بورچ یر
نشلی کے عرض اس نے پظر ڈالی،ہیٹم چاخکا تھا۔۔۔،
52
ہ ن م ٹ ن پ ً
کا فرننا ایدازہ بو ہونے ہی لگا تھا اسے ھی طیبہ کے خنال کے عرض وہ یں د ن نا چاہ رہی
تھی چابی،
کمرے میں داچل ہویا وہ گہری پظروں سے مطیبہ کے وجود کو گھورا،قدم یڑھا کر اس کے فرنب
آکر ہناد تھوڑا حھکا،
"مطیبہ۔۔"
ی
اس کے گداز یازو یر ہاتھ رکھنا وہ پکارا ساتھ ہی اسے ہلکا سا ہالیا،مطیبہ تھوڑا جویک کر آ کھیں وا
یٹ کی س
کی تھی،جود یر حھکے چہرے کو یا ھی سے د تی وہ اتھ کر ھی،
ٹ ھ مج
53
"آپ۔۔"
"میں ہناد۔۔"
اس کے لہچے میں اخٹی یت محسوس کنے ہناد کو یک گونہ سکون ہوا،
"کہاں۔۔؟"
تھی،ا ننے کمرے کے یاہر آکر ہناد مرنبہ تھر چاروں طرف پظر ڈاال تھر کسی کے نہ ہونے یر نشلی
کر کے مطیبہ کو کمرے میں ایدر لے آیا،اسے ننڈ یر ٹیٹھا کر وہ دروازے کے یاس گنا،
54
"سب کہاں ہیں۔۔۔؟"
ت مجس
اس کو گیٹ آہسنگی سے الک کرنے دیکھ وہ یا ھی سے عصومانہ سوال کی ھی جس یر ہناد
م
اب مڑ کر فرصت سے اسکے یازک سرانے کو گھورنے لگا،اگر کو مطیبہ ا ننے ہوش میں ہوبی بو
سا منے کھڑے ہناد کی آیکھوں میں ا ننے لنے جوس دیکھ کانپ کر رہ چابی یر وہ ہوش میں ہوبی
نب یاں،
اس شٹمگر نے جن اذ ن بوں میں اسے ِگھرا کر رکھا تھا،وہ یازک ایدام لڑکی اب نٹم یاگل سی ہوچکی
تھی،سرخ و شفند ریگت میں گھلی ہلکی زردی،آیکھوں کے گرد گہرے ہلکے ایدر کی بوڑ تھوڑ کی اکیر
غکاسی کرنے یر جیسے اب وہ جود کو ان سب کا عادی نناچکی تھی،
"ا۔۔او۔۔اور۔۔۔وہ۔۔؟"
مقایل کے گھینا ارادوں سے یلکل نےچیر وہ اس شٹمگر کے یارے میں اشیفشار کرنے لگی،
55
"وہ گھر یر نہیں ہے سون یٹ ہارٹ۔۔۔"
آہسنگی سے مطیبہ کے چہرے یر آبی رنسمی یال کی ل بوں کو نیج ھے کریا وہ بوال ساتھ ہی اس کے
تھوڑا اور یزدیک ہوا،
ادھر مطیبہ کے بو کنے یر مقایل ٹیٹھا ہناد تمسجر اڑابی ہیسی ہیشا تھر کہا،
"سون یٹ ہارٹ میں بو تمہارے فرنب اس لنے ہورہا ہوں یاکہ تم سے بوحھ سکوں کہ وہ تمہیں کینا
یرنشان کریا ہے۔۔۔نہت یرا ہے یاں تمہارا سوہر۔۔۔"
ٹ
ا ننے سا منے یٹھی مطیبہ کی چالی آیکھوں کو دیکھ وہ تھربور چاالکی سے کام لینا مضبوغی ہمدردی
سمیت اسکی دکھتی رگ یر جیسے تیر رکھا تھا خنکہ مطیبہ بو مقایل کی یات یر دھنان ٹینے ہی چلدی
سے بو لنے لگی،
"انشا سوہر یرا ہی ہویا ہے چان۔۔۔جو انتی ن بوی یر تھروشہ نہیں کریا۔۔۔مجھے دیکھو میں کی نا ننار
کریا ہوں تم سے ہے یاں۔۔۔"
ی
مطیبہ کا سوگوار چہرہ اور نٹم وا نسنلی آ کھیں دیکھ وہ یاگل ہونے لگا تھا،آیکھوں میں پفس کی
ٹ
جواہش بورا کرنے کا خ بون لنے وہ انشان نہ یک تھول خکا تھا کہ مقایل یٹھی لڑکی سے کنا رسبہ
تھا اس کا،
"ہاں چان۔۔۔تم جو بولو گی وہ کروں گا یر یدلے میں تمہیں تھی وہ کریا ہوگا جو میں بولوں
گا۔۔۔"
اسے نیجھے کھشکنے دیکھ وہ اب اس کی کمر کو انتی گرقت میں لنے خنانت سے بوال،
57
"ممہ۔۔۔مجھے۔۔۔میر۔۔میری نہ۔۔نہن۔۔کے ننا۔۔یاس چایا ہے۔۔۔"
ُ
نہ یات کہنے اس کی آواز تھرابی تھی جس یر ہناد چذ اتھابی ظروں سے اسے د کھا،
ی پ
"یلکل۔۔۔نس ایک مرنبہ میرا کام ہو چانے تھر میں صرور تمہیں تمہاری نہن کے یاس نہیچا دوں
گا۔۔۔لنکن جیشا کہ میں نے کہا تمہیں تھی میری یات مانتی یڑے گی۔۔۔"
مجس
مطیبہ کے جوپصورت پفوش یر ا ننے ہاتھ ت ھیریا وہ بوال بو مقایل کی چرکت یر گ ھیرابی وہ یا ھی سے
بوحھی،
"زیادہ کجھ نہیں چان۔۔۔نس نہاں یر جو ہوگا۔۔۔وہ تم کسی کو ننایا نہیں تھنک ہے۔۔۔"
انتی یات رازدارانہ لہچے میں کہنا وہ آچر میں اس سے یانند چاہا بو مطیبہ نے نہلے بو ا ننے ہلکے
ن س ش س
ہونے دماغ یر زور ڈال کر مقایل کی یات ھنے کی عی کی ھر کجھ مجھ نہ آنے یر بو ہی سر
ت مج
58
دماغ کے کونے میں ایک وخنہہ پصویر اتھری،اس شٹمگر کی پصویر۔۔۔،جس کی تمام اذ ن ٹیں سہنے
کے یاوجود وہ اس قدر یاگل تھی اسکے آگے،وہ بو نےچد محیت کربی تھی اس شٹمگر سے،
دل یری طرح دھڑکا تھا نہ یات ہلکے ذہن کے یردے یر آنے ہی اور وہ یل میں ڈری تھی اس
عح یب لمس سے نٹھی گ ھیراکر نیجھے ہونے لگی،مگر نب یک دیر ہوچکی تھی،وہ وجسی اب آنے میں
نہیں رہا تھا،آچر کو موفع غیٹمت مال تھا اسے،
م
گال سے گردن یک کا شفر کریا وہ کمل مدہوش ہوخکا تھا اور مطیبہ گردن یر ہوبی پکل یف سے
نےاجینار خیجی ساتھ ہی کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھال،یکدم ہوش میں آیا ہناد بوکھال
ی
کر نیجھے ہوا،دروازے کی چانب پظر یڑنے ہی سدید گ ھیراہٹ میں اس کی آ کھیں کھلی کی کھلی رہ
گٹیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سکندر وال سے زیادہ دور نہ آیا تھا کہ اچایک عح یب سی گھین ہونے یر کار روکا،یاچانے ک بوں
س
سام سے اس کا دل عح یب ہورہا تھا ،لسینل کی یاٹیں یار یار ذہن میں گھومتی اسے نہت
نےجین کررہی تھیں،الپعداد سوجوں کو حھنک کر وہ کار شنارٹ کرنے لگا مگر ہمت نہیں ہورہی
تھی جیسے چانے کی،حھتی جس کجھ علط ہونے کا اجشاس دالرہی تھی اور نٹھی اس کا فون ریگ
59
کرنے لگا،ہیٹم نے ح ھٹ سے کال رنسبو کی دوسری چانب فرخندہ تھی،وہ اسے چلد سے چلد
سکندر وال آنے کا کہہ رہی تھی،نہلے بو ہیٹم چیران ہوا مگر چب وہ گ ھیرابی ہوبی آواز میں اسے مطیبہ
کے لنے آنے کا کہی نب ہیٹم کے ذہن میں مطیبہ کی نہلے کی گتی جودکسی کی کوشش یاد آبی
اور وہ فون رکھنا کار وانسی کے رشنے یر موڑا،نندرہ میٹ کا راسبہ یابچ میٹ میں طے کریا وہ سکندر
وال نہیچا،الو بج میں ہی اسے نےبچاشہ گ ھیرابی ہوبی فرخندہ دکھی اس کے ہاتھ میں چابی تھی،وہ وجہ
بوحھا تھا اسے بوں یلوانے کی جس یر فرخندہ اسے ہناد کے کمرے کی ڈبویلنکیٹ چابی(جو کہ کی
یاکس میں شٹھی کمروں کی چان بوں کے ساتھ رکھی تھی)یکڑابی،فرخندہ کا چد درجہ ڈرا چہرہ اسے کجھ
علط ہونے کا ننارہا تھا نٹھی ننا اس سے کوبی سوال کنے ہیٹم گیسٹ روم کی چانب گنا،وہ چالی
س
تھا،یری طرح گ ھیرانے دل سمیت وہ ننا کجھ سوچے مج ھے سیڑھ بوں کی طرف تھاگا،سیڑھناں ع بور
کرنے ہیٹم کے تیر لڑکھڑانے تھے،اگر کو جو اننہابی خظریاک چد یک یرا خنال اس کے ذہن میں آیا
ً
تھا وہ سچ ہوا بو پقینا اس کا دل نند ہوچایا تھا،تمشکل ضیط کنے وہ غین ہناد کے کمرے کے یاہر
کھڑا ہوا تھر تیزی میں الک کھولنا وہ زور سے دروازہ وا کنے ایدر داچل ہوا،
اور اسکی سوچ کے غین مطابق سا منے کا م یظر وہی تھا،اسے لگا وہ سرم سے مرچانے گا،ہناد
ی
مطیبہ سے دور ہویا اسے گ ھیرانے یایرات سمیت دیکھ رہا تھا جس کی نےاننہا سرخ آ کھیں ننڈ یر
60
ی ٹ
یٹھی روبی ہوبی مطیبہ یر تھیں،گردن یر ہاتھ ر ک ھے وہ آ کھیں سحتی سے میچ کر نےبچاشہ رورہی
تھی،
"کمینے۔۔"
وہ جو اس کے الل تھٹھوکا ہونے چہرے کو دیکھ وصاچت د ننے کی کوشش کررہا تھا اچایک ا ننے
چہرے یر ہیٹم کے یڑنے نیچ یر خند قدم نیجھے ہوا،
"چرامی انشان۔۔۔"
اسے ننا رکے ماریا وہ چلق کے یل ِچالیا،کجھ ہی دیر میں ادھ موا ہونے ہناد کو وہ کالر سے کھییحنا
نیچے الیا،اس کے مشلشل خیحنے یر سور ہونے ہی مہناز ننگم ا ننے کمرے سے پکلیں،قلذہ تھی
ی
مندمل آ کھیں ملتی چیران ہوبی نیچے کا م یظر د یکھے چہاں ہیٹم گھسٹینے ہونے ہناد کو گھر کے یاہر
تھی یکا تھا،
61
"اس گھینا انشان کو حھوڑوں گا نہیں میں۔۔۔"
طیش میں کہنا وہ تھر اس یر بوٹ یڑا،درد سے تھینے سر میں یار یار مطیبہ کا تھ یگا چہرہ آرہا تھا،کینا
روبی تھی ا ننے جق یر بولی تھی،کس قدر پقین دالنے کی کوشش کی تھی اسے کہ وہ نےفصور
ہے،
62
"انتی ن بوی یر جود کو تھروشہ نہیں تھا اور آیا یڑا مجھے ننانے کہ میں نیچ انشان ہوں۔۔"
ہناد کی یات یر وہ مزید طیش میں آگے ہوا جس یر مہناز ننگم تھڑکیں،
"انے چا۔۔نہلے جود کو صحیح کر تھر ہناد سکندر کو مارنے کی یات کریا۔۔۔"
ا ننے چہرے کو سوخنا محسوس کر کے وہ ن نا تھا نٹھی اس یر طیز کریا سدید غصے میں پکال تھا سکندر
وال سے،ادھر مہناز ننگم کی فسم یر ہیٹم نےنسی تھرے غصے میں انہیں دیکھا اور نٹھی ذہن کے
یردے یر اس کا خنال آیا جو نےگناہ اس کی دی سزاٹیں کانتی اب کس چال کو نہیچ چکی
تھی،ا ننے یازوؤں یر سے مہناز ننگم کا ہاتھ ہنایا ہیٹم تھاگا تھا اویر کی چانب،ہناد کے کمرے میں
داچل ہویا وہ ننڈ یر اسے نہ یاکر بوکھالیا،کمرے سے یاہر ہر چانب منالسی پظریں دوڑاٹیں بو وہ اسے
ح ھت یر چابی سیڑھ بوں یر دکھی،
"مہ۔۔مطیبہ۔۔"
ن
اسے پکاریا ہیٹم اس کے نیج ھے گنا مگر وہ ان شنا کربی سیڑھناں ع بور کربی ح ھت یر چا ہیجی،
63
"مطیبہ رکو۔۔"
اسے غین ریلینگ کے سا منے کھڑے دیکھ ہیٹم گ ھیراکر رکا،نہ سوچ ہی اس کے جواس سلب
کرنے کے لنے کافی تھی کہ مقایل کھڑی لڑکی کا اگال قدم کنا ہویا تھا،
٫مطیبہ۔۔"
"نہت ہوا۔۔اب اور نہیں۔۔۔اور سکت نہیں ہے آپ لوگوں کی پفرت سہنے کی۔۔۔"
اس کے لہچے میں کرب ہی کرب تھا،سرمشار سا ہیٹم پکل یف سے اسے دیکھا،
"سوری۔۔"
وہ ہلکی آواز میں بوال تھا جس یر مطیبہ نےبچاشہ پکل یف میں گھری ہیسی،
64
ن ُ
"نہت حھویا لقظ ہے اس ہمت کے مداوے کے لنے۔۔۔"
مطیبہ کی یات شینا وہ نےچد نسٹمان ہوا مگر چلد ہی وہ ایک قدم آگے یڑھا مطیبہ کو ریلینگ یر
تیر رکھنے دیکھ،
ذہن میں اس شٹمگر کا وخنہہ چہرہ آیا اور وہ پکل یف کی چدوں کو حھوبی اذ نت سے مشکرابی ساتھ
ہی مطیبہ کا وجود نےدم ہوا،
66
غصے میں ننک و ن بو مرر یر اننا چہرہ دیکھنا وہ قل شینڈ میں کار چال رہا تھا،غصہ جس قدر سدید تھا
اسے سمجھ نہ آیا کس رشنے یر چارہا ہے،
"جود میں چامناں ہے اور آیا مجھے۔۔ہناد سکندر کو نیچ کہنے۔۔ذلنل انشان۔۔"
نپ کر جو مبہ میں آیا کہنا گنا وہ مگر اگلے ہی لمچے حھنکے سے کار روکا،چیران پظریں روڈ کے غین
نیچ میں کھڑی یلنک کار یر تھیں،
"اب ا ننے شیشان ر شنے یر کس کو سوق چڑھا ہے کار نیخوں نیچ رو کنے کا۔۔۔"
نہلے ہی وہ چہرہ چراب ہونے یر ننا ہوا تھا اویر سے ہارن بچانے یر تھی چب کوبی نہ آیا نب وہ
غصے میں کار سے پکلنا خیچا،
"مجھے۔۔"
کار کے نیجھے سے آیا گرے ہڈی میں وہ یراسرا سخص طیزنہ مشکراہٹ سمیت کہا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُ
"کون ہے بو۔۔۔؟"
مقایل کا ہڈی میں آدھ حھنا چہرہ دیکھنے کی کوشش کریا ہناد غصے میں بوحھا،نٹھی وہ ہڈی چہرے
یر سے ہنایا اور ہناد کے یایرات یل میں یگڑے،
67
ُ
"اوہ۔۔بو۔۔"
س
لسینل کو دیکھ وہ تمسجر سے کہا،
"ہاں۔۔میں۔۔"
سرد لہچے میں بول کر وہ آگے یڑھا،
"ک بوں دوست انتی زیدگی نناری نہیں جو آج جود ہناد سکندر کے یاس چل کر آیا ہے۔۔۔و نسے
تھنک ہی ہے اس شنانے میں بجھے اس رات سے زیادہ یدیر ایداز میں مارنے کا الگ ہی مزہ
ہوگا۔۔"
ایک پظر ہر چانب ہونے شنانے کو دیکھ وہ تمسجر اڑابی پظروں سم یت مشکرایا مگر اگلے ہی لمچے اس
س
کی نہ مشکراہٹ سمتی لسینل کو ہلکا سا ہیسنا دیکھ،ایک مذاق اڑابی ہیسی تھی اس کی،
"دوست لقظ تیری زیان یر جحنا نہیں اسے نہ ہی بول بو نہیر ہے اور چہاں یک یات مارنے کی
ہے بو آچا دیکھنے ہیں آج کس میں کینا خ بون ہے ا ننے چرپف کو خٹم کرنے کا۔۔۔"
طیزنہ ہیسی ہیس کر آچر میں وہ خ بوبی لہچے میں کہا ساتھ ہی ننا کوبی وقت صا پع کنے ہناد کی
چانب یڑھا،تھوڑی ہی دیر میں ان دوبوں کے درمنان ہونے والی مارن یٹ وہاں کے شنانے میں
س
ارپعاش نندا کرنے لگی،جویکہ لسینل خ بون میں ننارکے اس یر ہاتھ اتھا رہا تھا نٹھی ہناد کو کم
ہی موفع مال اس یر ایک دو ہاتھ اتھانے کا،دوسرا وہ ہیٹم سے جس قدر ننا تھا اب اور ہمت نہیں
68
ہورہی تھی،دوبوں کی نہ لڑابی فصا میں اچایک تھاہ کی آواز سمیت رکی ساتھ ہی ہناد کی دردیاک
س
خیخ فصا میں یلند ہوبی ،لسینل کجھ چیرت میں اسے لڑکھڑا کر نیچے گرنے دیکھا،
"تیری فسم میرے دوست۔۔۔میں بو صرف خ نک کررہا تھا کہ نہ چل تھی رہی ہے یا نہیں۔۔۔"
س
لسینل نےساچبہ مشکرایا آنے والی ہستی کو دیکھ خنکہ ہناد گردن موڑے نےپقیتی کے عالم
میں اسے دیکھنا رہ گنا جو نسنل ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا،
ٰ
"ننام مرپضی۔۔"
اس کے ل بوں میں ہلکی سی خٹیش ہوبی،تیروں میں اتھتی پکل یف کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ
تھی یکدم تھک سے اڑا،مقایل بو اس کا دوست تھا نہیرین دوست۔۔۔!
س
تھر نہ کیسی دوشتی تھی کہ وہ آج اس ہی کو پقصان نہیچایا تھا ،لسینل کے ل بوں یر طیزنہ
مشکراہٹ سچے دیکھ وہ یل میں تمام معاملہ سمجھا،
ُ
"بو دوست تھا میرا کمینے۔۔"
غم و غصے کی ملی چلی ک یف یت میں وہ زور سے چالیا،
"ہاں یار میں تیرا ہی دوست ہوں۔۔تھنک تیرے جیشا کمیبہ،جودعرض اور دھوکے یاز۔۔۔"
ی
انتی خنکٹ حھنکنے وہ کندھے اخکاکر بوال،تیر میں اتھتی پکل یف یر ہناد سحتی سے آ کھیں میچ کر وا
کنا،اتھنے کی یاکام کوشش میں درد چد سے سوا ہوا بو وہ وانس لڑھک کر ٹیٹھ گنا،
69
"بجھے مارنے میں مجھے نہت مزہ آنے گا۔۔"
س
کار کی چانب چایا لسینل یآواز کہا،ننام نب یک انتی کار کے بونٹ یر ٹیٹھ گنا،
س
کجھ دیر پعد وہ کار سے پکال بو ہاتھ میں دو چیزیں تھامی تھیں،ایک کو زمین یر ر ک ھے لسینل
دوسرے ہاتھ میں تھامے چافو کو الیا،
71
مقلوج کرگنا تھا اس کے،ہمت نہیں تھی مقایل ٹیٹھے مضبوط انشان سے لڑنے یا اسے دھمکانے
کی نٹھی وہ نہ چرنہ اننایا،
ُ
"اسے حھوڑ۔۔نہ حھوبی سی سزا اس کی ہے چب بو نے عزت دار لڑک بوں کے دامن داعدار
کنے۔۔۔"
س
کہنے ساتھ لسینل چافو کا دیاؤ تیزی میں یڑھایا تھا اس کی دوسری آیکھ میں،یاگلوں کی طرح خیحنا
ہناد اذ نت میں گھرا سر زمین یر مارنے لگا،جون تھل تھل پکل رہا تھا دوبوں آیکھوں سے،پکل یف
انتی تھی کہ وہ یکدم مرنے کی جواہش کرنے لگا مگر چان تھی کہ پکل کر ہی نہیں دے رہی
تھی،
ُ
"آہا۔۔۔میرے مویایل کی مٹموری قل ہورہی ہے۔۔چلدی کر یا یار۔۔۔"
س
نیجھے سے ن نام کے ہایک لگانے یر لسینل کھڑا ہوا ساتھ ہی کیر لے کر آیا،ایک پظر نیچے ہذیابی
ایداز میں مشلشل خیحنے ہناد کو تمسجر سے دیکھ وہ حھک کر اس کا ہاتھ یکڑا تھا،
"بی۔۔ننا۔۔ن نام۔۔۔میر۔میرے۔۔تھا۔۔تھابی۔۔بچ۔۔بچا۔۔لے۔۔"
اب کی یار پکل یف سے نےچال ہویا ہناد دبی آواز میں بوال،ہر چانب حھانے ایدھیرے سمیت
س
سدت سے اتھنے درد یر اسے اجشاس ہوا تھا کہ چب لسینل کی آیکھوں میں وہ کٹم یکل ڈاال ہوگا
بو اس یر کنا گزری ہوگی،
"میرے دوست۔۔میں بجھے صرور بچایا اگر نہ ویڈبو نہ ننابی ہوبی بو۔۔۔بو سوری ہاں۔۔"
مزے سے کہنا وہ تھر نےنناز ین کر ویڈبو رپکارڈ کرنے میں مصروف ہوا،ادھر ہر یڑھتی پکل یف
کے ساتھ ہناد کے ذہن میں ا ننے کنے گناہ آنے،وہ یڑپ کررہ گنا سب سوچ کر ہی،چاننا تھا
ُ
دولت کے نسے میں جور کیتی لڑک بوں کو اس نے داعدار کنا تھا،کسی کو دھوکہ دے د ن نا،یر اب
ان سب سوجوں کا کنا قایدہ،یڑن نا گڑگڑایا وہ یری طرح ششکنے لگا تھا،اور انتی ششکی میں اسے وہ
لڑکی یاد آبی جس کی نہن کے ساتھ اس نے زیادبی کی تھی،یک ن نک ذہن کے یردے میں
73
مطیبہ کا تھی ششکنا یڑن نا یاد آیا بو وہ یآواز رونے لگا،کینا جوش ہویا تھا وہ اسے پکل یف دے کر،ڈرا
کر،اس یر الزامات عاید کر کے،
س
لسینل ن یفر سے اس کے نےسدھ ہونے وجود کو دیکھ اتھا تھر وانس کار کی چانب گنا اب آیا
بو ہاتھ میں کلہاڑی تھی،
"کنا مطلب۔۔"
ششلینل کجھ چیران ہوا،
"مطلب نہ کہ۔۔چان لے کر ایک ہی مرنبہ آزادی ساری پکال یف سے۔۔۔ارے تھتی زیدہ حھوڑ
یاکہ ساری زیدگی معزور رہ کر گزارے بو سمجھ میں آنے کیشا قنل ہویا ہے چب آپ دوسروں کو
نےنس کرد ننے ہو۔۔۔"
س
انتی غقل مندی کا مطاہرہ کرنے ننام جس طرح سے لسینل کو یلین ننارہا تھا ہناد کی پکل یف
میں اننا ہی اصافہ ہوا،وہ نہت تھروشہ کریا تھا اس سخص یر اور آج وہی اس کس مزے سے
اس کی سزا بخویز کررہا تھا،
74
"انے یار۔۔نہ یلین بو میرے دماغ میں آیا ہی نہیں۔۔"
س
لسینل مضبوغی چیرت کا اظہار کرنے بوال،
"سدھر چا سالے۔۔"
س
اسے گھور کر لسینل نے کہا تھر ہناد کی طرف م بوجہ ہوا،
"میرے قام ہاؤس لے چلنے ہیں اسے۔۔۔تھر وہی مہینے دو مہینے عالج کر ن نگے اس کا۔۔۔"
س
ہناد کے یڈھال یڑے وجود کو دیکھ لسینل بوال،
ُ
"چلنے ہیں نہیں۔۔چال چا۔۔۔بو چا اسے لے کر۔۔۔میں نب یک تیرے کنے کاریامے کے ن بوت
منایا ہوں۔۔"
س س
وہ لسینل کو یاد دہابی کروایا جس یر لسینل کا قہقہہ یلند ہوا خنکہ زحم سے جور ہونے جسم
75
سمیت ا ننے چال یر نےنسی سے تھوٹ تھوٹ کر رویا تھا ہناد سکندر،اس مرنبہ نیچے حھک کر
س
لسینل ہناد کے یالوں کو مٹھی میں چکڑا،
"ڈ۔۔ڈاکیر۔۔وہ۔۔"
گ ھیراہٹ جس قدر ظاری تھی اس یر وہ بول تھی نہیں یایا تھا،نس جسم کا ہر غصو کان ننا ڈاکیر
کے مبہ سے نہ لقظ شینے کا می یظر تھا کہ وہ ت ھنک ہے مگر یاچانے ک بوں دل عح یب جوفزدہ تھا
مقایل کھڑی ڈاکیر کے مابوس چہرے کو دیکھ،
م
"بجمل سے یات شٹیں مسیر۔۔۔ہم نے انتی طرف سے کمل کوشش کی لنکن سر یر گہری
جوٹ لگنے کے یاعث جون نہت نہہ خکا ہے اور جویکہ ان کا ِمشکیربج تھی ہوا ہے بو۔۔۔سوری
ٹیسیٹ کوما میں چلی گٹیں ہیں۔۔"
ڈاکیر ٹیشہ وارانہ ایداز میں کہی تھیں مگر ہیٹم نٹ ھرابی پظروں سے انہیں دیکھنا رہ گنا،دل میں درد
کی جو یری ٹیس اتھی تھی اسے لگا وہ اس کا شینا چیر دے گی،ڈاکیر کے کہے القاظ اسے
اپگارے کے مانند ا ننے جسم کو چالنے محسوس ہونے،نےچان ہونے قدموں کی وجہ سے لڑکھڑایا
وہ گرنے کے ایداز میں ٹییچ یر ٹیٹھا،انتی پفرت،غصے اور ایا کی یدولت وہ اننا ایدھا ہوخکا تھا کہ
77
اس لڑکی کی چالت یر تھی نہ سمجھ یایا،یکدم دماغ میں وہ دن آیا چب وہ حھنکے سے مطیبہ کا ہاتھ
یکڑ کر کھییچا تھا نب مطیبہ کا ن یٹ یر ہاتھ ر کھے کراہنا اور اس کے سوال یر بوکھالیا،وہ کرب سے
ی
آ کھیں میچا،
"ہوسکنا ہے انہیں خند دبوں میں ہوش آچانے یا خند ماہ یا تھر سال تھی لگ سکنے ہیں۔۔۔اور
نہ تھی کہ ساید کوما میں ہی ان کی موت وافع ہوچانے۔۔"
ی
وہ حھنکے سے آ کھیں کھوال تھا اس یات یر مگر ڈاکیر نب یک آگے یڑھ چکی تھیں،آج ہیٹم سکندر
ہارا تھا،نہت یرا ہارا تھا جود سے،انتی پفرت سے اور اس لڑکی سے،بوں لگا تھا جیسے مطیبہ چہایگیر
کے صیر کی مار یڑی ہو اسے،نےاجینار ششکنا وہ اچایک آیکھوں سے نپ نپ گرنے آنسوؤں کو
صاف کنا،ضیط سے سرخ چہرہ لنے وہ آج دننا چہاں سے نےچیر مطیبہ چہایگیر کے لنے رو رہا
تھا،اس لڑکی کے لنے جس سے کٹھی وہ نےن ناہ پفرت کا دغویدار تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہناد کو قارم ہاؤس میں ا ننے آدم بوں کے زد کریا وہ رات دیر کو مٹیشن نہیچا تھا،ننام سے را شنے
میں یات ہوبی تھی،وہ تمام ن بوت مناخکا تھا،اب ایک پظر انتی گرے ہڈی یر لگے ہناد کے جون
کے دھ بوں کو ن یفر سے دیکھ وہ ہال میں ہی ہڈی ایار کر صوفے یر تھی یکا تھا،ایدر یلنک ونسٹ
78
نہنے اس نے اتھی ا ننے روم کے چانب قدم یڑھانے ہی تھے کہ گیسٹ روم میں کسی چیز کے
گرنے کی زوردار آواز آبی،وہ تھوڑا جوپکا تھا،مضبوط قدم جودبخود مڑ کر گیسٹ روم کی چانب
س
گنے،دروازے یر نہیچ کر اس نے آہسنگی سے یاک ِکنا،دوسری چانب سے چاموسی یاکر لسینل
وانس روم میں چانے کا ارادہ کنا تھا مگر نٹھی حھنکے سے گیسٹ روم کا دروازہ کھال،جوف سے زرد
س
یڑیا چہرہ لنے شنا ِیل اسے دیکھنے ہی آگے یڑھ کر لسینل کے کشادہ شینے میں چہرہ حھنابی
س
تھی،دوسری چانب لسینل کی می یظر عنادنہ تھی گرنے کی آواز سن کر کجھ سوختی اتھی ساتھ
س
ہی چیرت میں روم سے پکلی مگر وہ اگلے قدم یر ہی تھٹھک کر رکی،قدم زبخیر ہونے تھے لسینل
ی
اور شنا ِیل کو گلے لگے دیکھ،آ کھیں نےپقین ہوکر تھنلیں،اسے سدید حھ یکا لگا تھا چیرت کا،
س
لمخوں میں لسینل شنا ِیل کو جود سے دور کنا تھا،
"شہ۔۔سو۔۔سوری یر۔۔وہ۔۔وہ جو ویڈبو آپ نے شینڈ کی۔۔۔وہ اس میں کیتی یری طرح مارا
ہے آپ نے اسے۔۔۔مجھے نےچد جوف محسوس ہوا اس کی چالت دیکھ۔۔۔اور
79
میں۔۔سوری۔۔بوکھالہٹ میں علطی ہوگتی مجھ سے۔۔۔"
یار یار یال کو کان کے نیجھے اڑشتی بو کٹھی اپگلناں خیچابی وہ نہت ک یف بوز ہوکر اسے سرمندہ سی
وصاچت دے رہی تھی،الیبہ چہرے یر جوف کی لکیریں پصدبق کی تھیں اس کی یابوں کی،ایک
س
پظر لسینل ایدر کمرے میں ڈاال چہاں کل ہی اس کا الیا ن بو مویایل نیچے گرا انتی یاقدری یر ماتم
کناں تھا،
"وہ انشان اس ہی البق تھا اور تم نے ہی بو کہا تھا کہ اسے عیرنناک سزا دی چانے۔۔"
ی
"ہاں میں نے کہا تھا۔۔مگر آ کھیں کون پکالنا ہے اور اپگلناں۔۔۔میری چان پکلنے کو ہوبی تھی
وہ سب دیکھ کر،ہمت نہیں ہوبی اور آگے دیکھنے کی۔۔۔"
س
اس ویڈبو کا سوچ ایک مرنبہ تھر حھرحھری لی تھی شنا ِیل جس یر لسینل پفی میں سر ہالیا،
80
"چاتم۔۔"
اع چاں یر پظر یڑی اس کے ایدر یک سکون ن ی ت نا ھی ٹ کمرے میں داچل ہوکر ج سے ہی نڈ یر ٹی
م ِ ی ن
سا ایرا نٹھی دروازہ نند کنے وہ اس کی چانب یڑھا،
"کیتی مرنبہ کہا ہے کہ میرے ان یطار کے چکر میں انتی ان جوپصورت آیکھوں کو سرخ نہ کنا
کرو۔۔۔دیکھو ٹیند کے یاعث کیتی الل ہورہی ہیں نہ۔۔"
اس کے یاس ٹیٹھ کر یرمی سے کہنا وہ ع نادنہ کی الل ڈورے سے سجی کالی آیکھوں یر حھکا مگر
ُ ً س
شناٹ چہرہ لنے وہ لسینل کو فورا سے نہلے دور کربی اتھی،
"تھوک نہیں مجھے۔۔۔نہ نناؤ میرے ان یطار میں آج کینے گھینے اور مٹیس گنے۔۔۔"
روز رات اس کے لیٹ آنے یر جس طرح عنادنہ اسے گھینے اور مٹیس گن کر ننابی اب
س
لسینل اس ہی کے یارے میں بوحھنا کھڑا ہوا ساتھ ہی عنادنہ کی کمر یر نیجھے سے دوبوں یازو
چایل کریا اس کے کندھے یر تھوڑی رکھا،
81
مج ً
"لڑکی۔۔موڈ ک بوں چراب ہے نناؤ ھے فورا۔۔۔"
تھوڑی اس کے کندھے یر ر ک ھے ہی وہ اچایک شیحندگی سے بوحھا ادھر عنادنہ کے جوپصورت
چہرے یر لمخوں میں پکل یف کے آیار اتھرے،وہ م یظر یاد آنے ہی دماغ ہلکا ہونے لگا،
"کنا ہوا ہے عنادنہ۔۔۔ن ناو کس یات یر تمہارا رونہ اننا عح یب ہے۔۔۔گرنتی کی کوبی یات یری لگی
ہے۔۔۔"
وہ چاننا تھا کہ درنہ ننگم اور عنادنہ کے درمنان کٹھی کوبی یدمزگی نہیں ہوسکتی مگر تھر تھی
ً
اجیناظا بوحھا،
82
"نہ ہی گرنتی کی کوبی یات یری لگی ہے نہ ہی میرا رونہ عح یب ہے۔۔۔مجھے نس ٹیند آرہی ہے
س
لسینل۔۔"
ل طسلسین م
اس یار جود یر قابو یابی وہ زیردشتی مشکراکر بولی ،ل ین نہ ہوا تھا ک بویکہ ظوں کے ظور
پ ق م
عنادنہ کا لہجہ واصح حھوٹ بول رہا تھا،
"وافعی۔۔"
وہ جیسے پصدبق چاہ رہا تھا،
اس کے چانے کے پعد انتی تیزی سے تھنگتی آیکھوں کو صاف کربی وہ النٹ آف کرکے ن نڈ یر
س
چالیتی،کجھ دیر پعد نہاکر بی سرٹ اور یراؤزر میں یاہر آیا لسینل ایک پظر ساننڈ ٹینل یر ر ک ھے
لٹمپ کی روشتی میں ع نادنہ کے دمکنے چہرے کو دیکھا تھر یالوں یر یرش کریا ننڈ یر آلینا،روز کی
م
روٹین کے چالف عنادنہ کا کمل دوسری چانب کونے سے لگ کر سویا اسے تھوڑا کھال نٹھی ہاتھ
یڑھا کر وہ اسے فرنب کنا ساتھ ہی ا ننے یازو کے چلقے میں لے کر عنادنہ کی نست ا ننے شینے
83
ک م ت ت ن ً کپ ی یھ پ ً م ت
سے لگاکر اسے فرننا جود یں یچ گنا،وہ جو مقا ل کے یاہر لنے یر فورا سوبی تی ھی اب ین
ی
یابی سے تھری آ کھیں وا کی،
"چاتم ہمارے لنے میری محیت کافی ہے تم صرف مجھ یر اننا تھروشہ ہمیشہ قاتم رکھنا۔۔"
روز کی طرح اس یار تھی وہ ع نادنہ کے کان میں نہانت دھٹمی سرگوسی کنا ساتھ ہی اسکی کان
کی ُ
کی لو یر لب رکھ کر آ ھیں موید گنا،ادھر عنادنہ اس سرگوسی یر جوش ہونے کے بچانے دکھ میں
مینال ہوبی تھی،انتی تم یلکیں حھنک کر وہ تمشکل سونے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹیند جیسے آج
آیکھوں سے کوسوں دور تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ی
رات تھر وہ وہی ٹییچ یر ٹیٹھا رہا،آیکھوں میں ٹیند کا حمار یک نہ آیا،یلکہ سرخ آ کھیں رات یر اذ نت
میں رہنے کی گواہی دے رہی تھیں،دوبوں ہاتھوں کی اپگل بوں کو ایک دوسرے میں ن بوست کنے
وہ کتی گھی بوں سے نس نیچے حمکنے ماریل کو گھوررہا تھا،ذہن میں جس قدر حھکڑ چل رہے تھے اس
کے یلکل یرعکس وہ ہارے ہونے جواری کے مانند چاموش سا تھا،یاریک لب ایک دوسرے میں
اس سحتی سے تھیچے تھے کہ اسے مبہ سے جون کا ذاپقہ محسوس ہوا،
84
جویکہ وہ اتھی اویرنشن تھیئیر میں ہی تھی نٹھی ڈاکیرز نے ایدر چایا قلچال االؤ نہیں کنا تھا،خ یب
میں ر ک ھے فون یر مشلشل ہوبی ریگ اسے سوچ کی دننا سے پکال کر چال میں البی،کال رنسبو کریا
وہ فون کان سے لگایا،
"وجہ۔۔۔؟"
"ٹینا تم آؤ بو صحیح۔۔"
اب کی یار ان کے لہچے میں الیچاء تھی،ہیٹم کال رکھنا اتھا تھر ایک پکل یف تھری پظر تھیئیر یر
ڈالنا پکال وہاں سے،خند میٹ کی مشاقت کے پعد وہ سکندر وال کے بورچ میں کار روکا،
ٹ
ایدر داچل ہونے یر دیکھا کہ مہناز ننگم اب یک رورہی تھیں خنکہ ان کے یاس یٹھی قلذہ تھی
کافی یرنشان لگ رہی تھی،
"جی کہیں۔۔"
ایک پظر ن یفر سے قلذہ کو دیکھ وہ مہناز ن نگم سے مچاطب ہوا،اس کی پظروں میں کاٹ محسوس
کنے قلذہ گ ھیراہٹ کا شکار ہوبی کھڑی ہوبی،
85
"ٹینا ہناد کا کجھ ایا ننا نہیں چل رہا۔۔۔فون تھی نند ہے میں نے نبہ کروایا یر ہر چانب سے
مابوسی ملی۔۔میرا دل عح یب ہورہا ہے کہ کہیں اسے کجھ ہوا نہ ہو۔۔"
ان کی یات یر ہیٹم کے یایرات یل میں نٹھر یلے ہونے،
"نہیں ہے میرا تھابی وہ۔۔۔انشا گھینا انشان جس نے میرے تھروسے کا یاچایز قایدہ
اتھایا۔۔۔مجھے گناہگار ننا ڈاال انشا سخص ہو ہی نہیں سکنا میرا تھابی اور نہ۔۔۔نہ بو دوست تھی یا
مطیبہ کی۔۔۔دوست کی شکل میں آشٹین کا سانپ پکلی۔۔نےخنا۔۔"
غصے سے تھینے سر سمیت وہ آچر میں قلذہ جو دیکھ دہاڑا جس یر خند قدم نیج ھے لیتی قلذہ گ ھیراکر سر
حھکاگتی،
م
"اس میں کمل فصور ہناد یا قلذہ کا نہیں۔۔تم اور میں تھی بورے بورے سریک ہیں۔۔چلو میرا
دل چراب ہوا اس کی چانب سے ک بویکہ مجھے انتی اوالدوں سے نہت محیت اور ان یر تھروشہ تھا
یر تم۔۔تم بو سوہر تھے اس کے۔۔۔انتی ن بوی یر تھروشہ نہ تھا تمہیں۔۔"
86
مہناز ننگم نے میرتم آواز میں اسے آ ٹیبہ دکھایا چاہا،ان کی یات یر ہیٹم نسٹمابی سے انتی پظریں
اتھانے کے قایل نہ رہا،سرمندگی سے زمین میں گڑھنا وہ پگاہ چرایا،
"نہ کنا۔۔ہو۔۔گنا۔۔"
ا ننے ما تھے یر ہاتھ رکھتی وہ صدمے کی ک یف یت میں یڑیڑاٹیں،قلذہ کے چہرے یر تھی ہلکا سا مالل
ص ٰ
اتھرا تھا خنکہ ہیٹم مڑ کر ایک مرنبہ تھر سکندر وال سے پکال،بورچ میں آنے ہی وہ رکا ایدر آبی عری
کی پکار یر،
"ارے صاچب کنا نناؤں اس دن یاذلی بی بی کے ح ھت سے گرنے یر میں دویارہ وہاں آ تھی
نہیں یاٹیں۔۔ننا ہے میرا مرد مرگنا تھا بو گاؤں چلی گتی۔۔۔آج سہر آیا ہوا بو وہاں ننا چال کہ
چہایگیر ہاؤس بو کافی سالوں سے نند ہے نٹھی ادھر آبی میں۔۔۔شنا مطیبہ بی بی سے سادی ہوبی
87
آپ کی۔۔۔و نسے صاچب نہت کھلنا ہے چب کوبی آیکھوں کے سا منے گِ ر کر مرچانے یڑا دکھ ہوا
تھا یاذلی بی بی کی موت کا سن کر۔۔"
م م م کم ص ٰ
ج
عری کی ل یات وہ نےدھنابی یں سن رہا تھا گر آچری یات یر یسے حھ یکا کھاکر رہ گنا ہو،
"ہاں بو اور کنا۔۔۔میں وہی تھی یا۔۔کیڑے ڈال رہی تھی یار نے۔۔۔ارے صاچب مطیبہ بی
بی نے انہیں کہا تھی کہ ریلینگ سے ایرو ورنہ گرو گی۔۔۔یر انہوں نے زرا نہیں مابی اور آچر کار
گر گتی۔۔"
وہ بو لنے چارہی تھی خنکہ ہیٹم سے وہاں کھڑا رہنا مچال ہوا،مطیبہ تھی بو نہی کہتی تھی اس سے
کہ وہ قا یل نہیں تھی یاذلی کی،وہ گرچایا اگر کار کا سہارا نہ لینا،
طرح یات کرے مگر یاچانے کبوں آج کل وہ شنا ِیل سے زیادہ یات نہ کربی اور اس کے جود
س
یات کرنے یر مح یصر جواب د نتی،اسے ڈر تھا کہ کہیں عنادنہ نے اس کی آیکھوں میں لسینل
کے لنے نسندیدگی بو نہیں دیکھ لی،مگر انتی سوچ کی وہ جود پفی کی،آچر کو اس نے اب عنادنہ
س
کے سا منے لسینل کی طرف پظر اتھا کر دیکھنے سے یرہیز جو کرلنا تھا تھر ک بوں وہ اس سے ا ننے
رو ک ھے لہچے میں یات کربی،
"ایکشکبوز می۔۔"
ی
وہ جو سوچ میں گم تھی یاس سے آبی مردانہ آواز یر ہوش میں آبی سا منے د ھی،غقان ایدر آنے
ک
ہی سا منے اس یری وش کو دیکھ منہوت ہوا تھا اب اسے سوچ میں گم دیکھ پکارا تھا،
"ہنلو۔۔"
سا منے کھڑی لڑکی اسے نہلی ہی پظر میں نےچد تھابی تھی،سب سے زیادہ اس لڑکی کے سوگوار
کی ی ت یھ ک
اداس چہرے نے غقان کی بوجہ یجی ھی،اب شنا ِ ل کے د ھنے یر وہ ہاتھ آگے یڑھایا بوال،
شنا ِیل اسے دیکھ چاموسی سے پگاہ وانس ت ھیر گتی خنکہ غقان اس کے ہاتھ نہ مالنے یر شنکی
محسوس کریا ہاتھ نیجھے کنا،
90
"و نسے آپ کون ہیں۔۔۔نہلے کٹھی دیکھا نہیں یا۔۔"
س
اس کا اکیر نہاں لسینل کے کام کی وجہ سے آیا ہویا اور اس لڑکی کو نہلی مرنبہ دیکھ وہ تھوڑا
بحسس سے بوحھا،
"نہ لو غقان۔۔"
شنا ِیل نے اس کے سوال کا جواب نہ دیا،ادھر عنادنہ قایل الکر غقان کے آگے یڑھابی،ع نادنہ
سے قایل لے کر وہ ایک پظر تھر اس لڑکی کو دیکھا جو اب یلٹ کر ایدر روم میں چارہی تھی،
"نہی۔۔نہیں تھاتھی۔۔"
چلدی سے کہہ کر وہ مشکرانے ہونے مڑا،یامحسوس ایداز میں اس لڑکی نے نہلی پظر میں ہی
یڑے سان سے اس کے دل کی سلطیت یر ا ننے قدم حمانے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بوحھل سے گزرنے لگے تھے،مطیبہ کو کوما میں رہے یابچ مہینے ہو چکے تھے،وہ نہت چد یک
چپ سا ہوخکا تھا،اکیر راٹیں ہاشینل یر گزارے وہ اس لڑکی کی صخت یابی کی دعاٹیں مایگنا،سکندر
91
وال سے اس کا جیسے صرف خند گھی بوں کا پعلق ہوکر رہ گنا تھا،نہت کم ہی وہ گھر کی شکل
دیکھنا،ادھر مہناز ننگم تھی کٹھی کٹھی ہاشینل آ ٹیں مطیبہ کو دیکھنے،وہ دوہری پکل یف میں مینال
یھ ت
روز یروز کمزور ہوبی چارہی تھیں،ایک جی کے ساتھ ا تی کی تی زیادن بوں یر بو دوسرا ہناد کا
گ ن ی
ال نبہ ہویا،ان سب میں اگر کوبی ا ننے معمول یر تھا بو وہ قلذہ تھی،اسے جیسے اننا سب کجھ ہونے
ُ
کے پعد تھی زیادہ فرق نہ یڑا تھا،وہ جوش تھی انتی الپف میں نہ النے کہ سی کی زیدگی پگاڑ کر
ک ھ ت
دوسری چانب غقان تھا کہ اب اس کا روز کا آیا چایا ہوا تھا اس یری وش کی ایک حھلک دیکھنے
س
کے لنے ،لسینل سے اس کی نہ چرکٹیں مخفی نہ رہیں تھیں،وہ سروع میں کوشش میں تھا
شنا ِیل کے لنے ایک قلیٹ لے کر اسے وہاں می یقل کرنے مگر جویکہ شنا ِیل اسے نناچکی تھی کہ
ماں اور نہن کے عالوہ اس کا کوبی نہیں نٹھی وہ انتی اس سوچ یر غمل نہیں کریایا تھا کہ اسے
اکنلے قلیٹ یر کیسے حھوڑ سکنا تھا،کافی سوچ بچار کر اب اس نے جو ق یصلہ لنا تھا اس یر سب
سے نہلے وہ شنا ِیل سے یات کریا چاہا تھا نٹھی آج آفس سے آکر شندھا اس کے کمرے میں گنا،
س
دروازہ یاک کرنے کے پعد چب ایدر سے اس کی آواز آبی نب لسینل مضبوط قدموں سے ایدر
داچل ہوا،
92
س
" لسینل۔۔۔ٹیٹھیں۔۔"
ا ننے مہی بوں میں اسے نہلی مرنبہ ا ننے روم میں آنے دیکھ شنا ِیل تیزی میں کھڑی ہوبی،
"جی۔۔"
ننڈ یر ٹیٹھ کر وہ ل بوں یر یرم مشکراہٹ سچانے بولی،
"شنا ِیل۔۔۔تم نے ننایا تھا کہ تمہاری امی اور نہن کے پعد کوبی رسبہ دار یا سریرست نہیں ہے
تمہارا۔۔"
نہرے ہونے لہچے میں وہ یات کا آعاز ِکنا،
"بوں بو میرا تم سے کوبی رسبہ نہیں مگر جویکہ تم نہاں ا ننے مہی بوں سے رہ رہی ہو بو کجھ انسیت
سی ہوبی ہے۔۔۔"
س
لسینل کی اس یات یر شنا ِیل کا چہرہ دمک اتھا تھا،یاچا ہنے ہونے تھی چہرے یر خنا کے ریگ
یکھرے،
93
"دیکھو میں جو کہوں گا یلیز تھوڑا بجمل سے اور نہت سوچ کر اس کا جواب د ن نا۔۔۔بوں سمجھ لو
جیسے ایک یڑا تھابی انتی نہن کے لنے قکرمند ہویا ہے تھنک مجھے تھی بوں ہی قکر ہے۔۔۔میری
کوبی نہن نہیں یر ا ننے مہی بوں میں تم سے نہبوں جیسی انسیت ہوبی مج ھے۔۔۔اور یلی بو می ایک
تھابی انتی نہن کے لنے کٹھی علط نہیں سوخنا۔۔۔بو شنا ِیل۔۔غقان ایک احھا لڑکا
ہے۔۔اور۔۔"
وہ جو مقایل کے سجر میں ایک مرنبہ تھر چکڑنے لگی تھی یکدم اس کے آچری حملوں یر حھ یکا
کھاکر رہ گتی،بوں محسوس ہوا جیسے آسمان یر لے چاکر کسی نے اسے زور سے زمین یر نیچا
س
ہو،آیکھوں میں تمی ایرنے لگی بو اسے سمجھا یا لسینل اچایک رکا،
ی ُ
"آر بو اوکے شنا ِ ل۔۔"
"جی۔۔ہمم۔۔۔"
ی
انتی آ کھیں صاف کربی وہ چلدی سے اننات میں سر ہالبی،
"میں چاننا ہوں تمہیں نہ کجھ عح یب لگے گا۔۔۔ل نکن یرنشان یلکل مت ہو وہ ایک نہت احھا
انشان ہے۔۔۔ویل شینلڈ ہے،کسی یری عادت میں تھی نہیں اور سب سے یڑھ کر تمہیں نسند
تھی کریا ہے۔۔۔لنکن ان سب کے یاوجود اگر تمہیں کوبی اعیراض ہے بو۔۔"
94
"نہیں۔۔"
س
لسینل اسے تھر سمجھایا آچر میں شیحندگی سے بوال شنا ِیل کو تھر روہانشا دیکھ،شنا ِیل کے یایرات
سے اسے محسوس ہوا ساید وہ رصامند نہیں ہے نٹھی کہا مگر وہ ح ھٹ سے اسے بوک گتی،
"وہ اجشان نہیں تھے۔۔نس نہن سمجھا بو رکھا تھی۔۔۔اب رو مت۔۔۔اتھی رخصتی نہیں ہورہی
تمہاری۔۔"
یرم لہچے میں کہنا وہ آچر میں مشکرایا ساتھ ہی یلٹ کر یاہر کی چانب قدم اتھایا،
"شٹیں۔۔"
س
وہ ششک کر پکاری بو لسینل رک کر گردن گھومایا،
"ش۔۔سک۔۔سکرنہ۔۔۔تھابی۔۔"
س
تمشکل نہ القاظ ادا کی تھی وہ جس یر لسینل پفی میں سرہالیا مشکراکر پکال روم سے،وہ گرنے
95
ٹ
کے ایداز میں یٹھی تھی ننڈ یر،کنا سوخنے لگی تھی وہ اس سخص کے یارے میں اور وہ مہریان
سخص،
مج س
وہ بو اسے نہن ماننا تھا،کیتی یاگل تھی وہ کہ اس کی امداد کو نسندیدگی ھتی اجشان فراموش ین
رہی تھی،اب اس کے ذہن میں عنادنہ کا روک ھا لہجہ آیا تھا،وافعی وہ علط ہی بو کرنے چارہی تھی
اس سخص سے دل لگاکر جس نے اس یر ا ننے اجشایات کنے تھے،اگر کو وہ چان چایا اس کے
دل میں ا ننے لنے ا نسے چذیابوں کو بو ساید شکل تھی نہ دیکھنا نسند کریا اس کی،ہاں وہ انتی ن بوی
سے محیت کریا تھا صرف بو تھر کیسے کسی دوسری لڑکی کی آیکھوں میں ا ننے لنے چذیات دیکھنے
کی زحمت کریا،ا ننے آنسو رگڑبی وہ عہد کی تھی اس سخص کی طرف سے اننا دل ہنانے کی،جو
جوپصورت رسبہ وہ ا ننے اور شنا ِیل کے نیچ اتھی نناکر گنا تھا اس کی نےچرمتی یا یاقدری نہیں
کرسکتی تھی وہ کٹھی،اسے عنادنہ سے تھی معافی مایگتی تھی،مگر ڈر تھی تھا آگے سے اس کے
رننکشن یر،نٹھی قلچال چاموش رہتی فسمت کے لنے ق یصلے یر سکر ادا کی،
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شنا ِیل کے روم سے پکل کر وہ اتھی قدم ا ننے کمرے کے چانب یڑھا ہی رہا کہ پظر ہال میں
شناٹ یایرات سمیت کھڑی عنادنہ یر یڑی،وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی،کمرے میں چانے کا ارادہ
س
یرک کنے لسینل عنادنہ کے یاس آیا،
96
"کنا ہوا چاتم۔۔"
س
اس کے یایرات بوٹ کریا لسینل بوحھ کر اس کے غین سا منے کھڑا ہوا،
"کجھ نہیں۔۔اسماء کھایا لگارہی ہیں آپ فرنش ہوکر آچاٹیں میں گرنتی کو یالبی ہوں۔۔"
س
نےیایر لہچے میں کہتی وہ درنہ ننگم کے روم کی طرف یڑھی یر لسینل نے یرمی سے اس کا یازو
تھام لنا،
"گرنتی۔۔۔"
دروازہ یاک کربی وہ آہسنگی سے پکاری،اب جود کو کافی چد یک کم بوز کرچکی تھی وہ،
97
"آؤ بچے۔۔"
انہوں نے شققت تھرے لہچے میں کہا جس یر مشکرابی عنادنہ ایدر داچل ہوبی،
"میرے لنے۔۔"
عنادنہ کو جوسگوار چیرت ہوبی ان کی یات یر نٹھی بوحھی،
"لڑکی۔۔ادھر آؤ۔۔"
اس کی یادابی یر ہلکا سا ہیستی وہ اسے یاس یالٹیں،
"جی۔۔"
98
س
"میری ہونے والی یر بوبی کا ہوگا مطلب تمہاری اور لسینل کی ٹیتی۔۔۔"
اس کی تھوڑی کے نیچے ہٹھنلی رکھ کر درنہ ننگم نے محیت سے کہا مگر عنادنہ کی مشکراہٹ یل
میں عانب ہوبی،خنکہ آیکھوں میں تیزی سے تمکین یابی حمع ہوا،
99
س
اس کی یات یر اب درنہ ننگم نے تھوڑا شیحندگی سے کہا بو عنادنہ روہانسی ہوبی،ذہن میں لسینل
اور شنا ِیل کی یکچا پصاویر نتی تھی،
"آپ کو ننا ہے گرنتی میں نے کل ن یٹ یر دیکھا تھا دو مناں ن بوی ایک دوسرے سے نےچد
محیت کرنے تھے مگر جویکہ دو سال پعد تھی ان کے ہاں اوالد کی پعمت نہ آبی بو سوہر نے ن بوی
سے ننگ آکر اسے ظالق دے دی۔۔۔اور تھر دوسری لڑکی سے۔۔"
100
س
"مجھے نناؤ ک بوں سوچ رہی ہو تم انشا۔۔۔کنا لسینل نے تمہیں کجھ کہا ہے انشا نناؤ مجھے تھر
میں چیر لیتی ہوں اس کی۔۔۔"
"اب شبو لڑکی۔۔۔نہلی یات کہ اوالد یرنبہ سے بوازیا کسی انشان کے نس میں نہیں نہ اّٰللہ کی
س
دین ہے۔۔۔اور دوسرا مناں ن بوی کی محیت کا کوبی نہ اکلویا ن بوت نہیں۔۔۔تم اور لسینل ایک
دوسرے سے نہت محیت کرنے ہو نہ تم دوبوں ہی ا حھے سے چا ننے ہو بو اس محیت میں نہ
تیزارنت یا تھر ننگ آیا۔۔۔تم نے کیسے سوچ لنا کہ نہ ہوگا۔۔
س
احھا نہ نناؤ لسینل نے کٹھی تمہیں ا نسے القاظ کہے کہ جس سے تمہارا دل دکھا ہو۔۔۔"
ً
اسے یرمی سے سمجھابی وہ آچری میں سوال کیں،عنادنہ نے فورا پفی میں سرہالیا،
101
"کٹھی انشا ہوا کہ تم سے وہ تیزار لہچے میں یات کنا ہو۔۔"
انہوں نے تھر بوحھا اور اس یار تھی عنادنہ نے پفی میں سرہالیا،
"بو تھر۔۔نس نےقکر رہو۔۔وہ تمہارا تھا ہے اور رہے گا۔۔۔لڑکی چب وہ تم سے الگ رہ کر نہ
م
تھ یکا تھر اب بو تم اس کی ن بوی ہو۔۔یاگل ہے وہ تمہارے نیجھے اور ا ننے بونے یر مجھے کمل
س
پقین ہے کہ چاہے کجھ تھی ہو وہ کٹھی نہیں نہک سکنا۔۔۔چانتی ہو لسینل ان مردوں میں
سے ہے جس نے اگر ایک لڑکی کو چاہا بو اس ہی یر انتی دننا قنا کر ٹیٹھنا ہے۔۔۔تھر چاہے اسے
مجس
جسین سے جسین لڑکی دکھادو اس کا دل انتی مح بوب لڑکی یر ہی اپکا رہنا ہے۔۔۔ ھی۔۔۔"
ہر نہلو کو واصح کرنے وہ نہت آرام سے اسے سمجھارہی تھیں،عنادنہ کے آنسو تھمے،دل کو یک
گونہ سکون ہوا تھا درنہ ننگم کی یابوں سے،ہاں وہ سخص صرف اس ہی سے نےبچاشہ محیت کریا
تھا تھر کیسے کسی اور کی طرف راعب ہوسکنا تھا،آچر میں یرسکون سی مشکراہٹ سمیت آنسو
صاف کی تھی وہ،
102
ن ح ن ُ
"تھینک بو گر تی میری علط سوجوں کو کنے کے لنے۔۔"
ھ
درنہ ننگم کے گلے لگتی وہ جوسی سے بولی بو انہوں نے یرمی سے اس کی نست تھنکی،
"نہلے وعدہ کرو کہ اب اس طرح کی سوجیں ذہن میں نہیں الؤ گی اور اّٰللہ سے یاامند نہیں
ہوگی۔۔۔"
اسے اننا ہاتھ تھامے دیکھ وہ آیرو اخکاکر بوحھیں جس یر عنادنہ جوسی سے ہیستی سر اننات میں
ہالبی،
کھایا کافی جوسگوار ماجول میں کھایا چارہا تھا نٹھی کجھ دیر پعد چب سے کچن میں سکرھنابی شنا ِیل
ایک یلٹ ہاتھوں میں تھامی یاہر آبی،
"جی یلکل کھاؤں گی مگر اس سے نہلے میں آپ لوگوں کو وہ کھالؤں گی جو میں نے آج ننایا
ہے۔۔"
103
یلیٹ ٹینل یر رکھتی وہ چہک کر بولی،یالو ل بوں یک لے چابی عنادنہ کا اشبون تھاما ہاتھ رکا چب
س
شنا ِیل قدم یڑھا کر نہلے اس کے یرایر میں ٹیٹھے لسینل کے یاس آبی،
"میں نے شنا ہے آپ کو شینڈوچز نہت نسند ہیں۔۔۔بو سوچا یرانے کروں آج۔۔کھاکر نناٹیں
کیسی نتی ہے۔۔"
س
لسینل ہاتھ روک کر ایک پظر یلیٹ کی چانب دیکھا تھر شنا ِیل کو دیکھ کر گویا ہوا،
"مجھے شینڈوچز نسند ہیں یر ڈیر میں نہیں۔۔۔نہ اسماء سے کہہ کر فربج میں رکھوادو میں صیح
کھالوں گا۔۔"
س
لسینل کی اس یات یر چہاں عنادنہ یرسکون ہوبی وہی شنا ِیل کا چہرہ بجھا،اس سخص نے اسے
نہن ننایا تھا جس کی وجہ سے اب وہ کوشش کی تھی اسے انتی چانب سے تھوڑا جوش کرنے
کی مگر اب اس کا اپکار سن کر یلیٹ اتھابی،
"ہمم۔۔۔ٹیستی ہیں تمہیں ننا ہے عنادنہ نے تھی اس ہی طرح شینڈوچ ننابی تھی اور مج ھے
کھالنے آبی تھی۔۔"
104
س
شینڈوچ کا یانٹ لینے لسینل کو نےساچبہ ٹین سال نہلے کا وہ دن یاد آیا جس یر وہ مشکرایا ہوا
کی
ننایا،شنا ِیل جوسگواری سے عنادنہ کو د ھی،
"کنا ہوا۔۔"
س
لسینل کے مشکرانے لب سکڑے وہ ح ھٹ سے عنادنہ کی کالبی یکڑیا بوحھا،
105
"اسماء سے کہیں روم میں چانے دے چانے دو کپ۔۔"
مڑ کر وہ درنہ ننگم کو کہنا نہ تھوال،
"عنادنہ۔۔"
س
ایدر داچل ہوکر اسے ننڈ یر ٹیٹھے دیکھ لسینل پکاریا ہوا دروازہ نند کنا،
106
"لڑکی ہوا کنا ہے تمہیں۔۔۔ا نسے بی ہ بوو ک بوں کررہی ہو۔۔"
ڈرنسنگ روم کا رخ کربی عنادنہ کا یازو یکڑے وہ اشیفشار کنا،
"اگر لڑنے کا موڈ ہے بو بونہی کہو ہم مل کر لڑنے ہیں چاتم و نسے تھی میرے چد درجہ ن نار سے
یگڑبی چارہی ہو تم۔۔"
مشکراکر اس کے یازو کو حھ یکا دے عنادنہ کو جود سے فرنب کنے وہ یاچا ہنے ہونے تھی آچر میں
اس کے یلخ ایداز یر خقگی ظاہر کرگنا،
"نہ ہی میرا لڑنے کا موڈ ہے نہ بو میں یگڑی ہوں یلکہ آپ ہی کے ن بور کجھ عح یب ہیں۔۔۔"
دل میں دیابی انتی یات آچر کار وہ کہہ ہی دی،
107
س
" لسینل دور ہٹیں۔۔ہر یار احھا نہیں لگنا نہ سب۔۔"
ن لس س ک ھ ح
اسے جود یر حھکنے دیکھ عنادنہ ال کر تی دور ہوبی ،ل کے لب منے،عنادنہ کے چڑے
س ی ہ ھ جی
ہونے یایرات شیحندگی سے دیکھنا وہ اتھی کجھ بو لنے ہی لگا تھا کہ عنادنہ شندھا ڈرنسنگ روم میں
گتی،نٹھی دروازہ یاک ہوا،
"کہو۔۔"
108
"مہ۔۔میں نے نہت سوچا ہے اس یارے میں۔۔کہ اگر آپ می۔۔میرا پکاح چلد کروادیں میرا
مطلب۔۔کل یک۔۔اور وہ کورٹ میں بو آپ کو تھی زیادہ یرنشابی نہیں ہوگی اور می۔۔میں۔۔"
"میری یرنشابی کی تم قکر مت کرو اور چہاں یک یات کل پکاح کی ہے وہ یلکل یاممکن ہے
اتھی مجھے غقان سے یات کربی ہے۔۔تھر ممکن ہے کہ ایک ہفنے پعد ہو۔۔۔"
س
اس کی یات کاٹ کر لسینل شیحندہ یایرات سمیت بوال خنکہ شنا ِیل کو نےچد شنکی محسوس
ہوبی،وہ نہیں چاہ رہی تھی اس یایک یر یات کریا یر عنادنہ کا رونہ چد درجہ یلخ دیکھ اس نے سوچا
تھا چلد از چلد نہاں سے چانے کا،
"اس میں سرمندگی کی کوبی یات نہیں تمہیں میں نے نہلے ہی ا ننے اور تمہارے رشنے کے
یارے میں میرادف کنا ہے جس کی قدر کر کے مجھے نہ کرنے میں کوبی یرنشابی اجشان م ندی
محسوس نہیں ہوبی۔۔۔"
109
س
اسے رسان یت سے سمجھایا لسینل شنا ِیل کے اننات میں سر ہالکر چانے یر روم کا دروازہ نند
کنا،ادھر عنادنہ اس کی یات سن کر ان دوبوں کے نیچ رشنے کا ا ننے دماغ میں آنے وسوسوں
سمیت سوخنے ہی حھ یکا کھاکر رہ گتی تھی،
"چانے نہیں ٹیتی اس میں ُروڈ بی ہ بوور کہاں دکھایا میں نے۔۔۔"
ی
آ کھیں تھنالنے وہ تھر النا سوال کی تھی،
"میرے سواالت کا جواب دیا کرو النا سوال مت کرنے لگ چایا کرو۔۔۔"
س
لسینل کا لہجہ اس یار یرہم ہوا تھا،وہ چب سے اس کے رونے کو پظرایداز کررہا تھا،
110
"ارے تھتی دل نہیں کنا نٹھی چانے نہیں بی۔۔۔فصول میں غصہ ک بوں ہورہے ہیں آپ۔۔"
ی س ٹ
ٹینے ہونے اتھ کر یٹھتی وہ لسینل کے وخنہہ چہرے یر سخت یایرات د ھی،
ک
"غصہ ہونے والی چرکٹیں کررہی ہو تم۔۔۔ہوا کنا ہے تمہیں۔۔۔نہ کجھ ننارہی ہو نہ میرے
سوال یر آگے سے شندھے جواب دے رہی ہو نس عح یب ہی رونہ رکھا ہوا ہے۔۔۔عنادنہ شئیر
کرو مسنلہ کنا ہے آچر۔۔۔"
سخت لہچے میں کہنا آچر میں وہ جود یرم یڑیا بوح ھا،اس لڑکی سے چاہ کر تھی وہ سخت رونہ اجی نار
نہیں کریاریا تھا،
"مطلب میں کھایا نہ کھاؤں بو آپ کو یرایلم چانے کے لنے اپکار کروں بو آپ کو یرایلم مسنلہ
آپ کے ساتھ ہے اور بوحھ مجھ سے رہے ہیں۔۔۔رونہ جود کا عح یب ہے اور سکوے مجھ سے
ہیں۔۔۔ش ندھے القاظ میں کہہ ک بوں نہیں د ننے کہ ننگ آ گنے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔"
س
درنہ ننگم کی یابوں کو یکدم ذہن سے فراموش کربی وہ یرس یڑی ،لسینل ایک یل کو بو اسے
دیکھنا رہ گنا،
111
"ہٹیں نہاں سے۔۔سویا ہے مجھے۔۔۔"
غصے میں ایک مرنبہ تھر اس کا ہاتھ حھنکتی نیجھے سرک کر وہ دوسری کروٹ لنے لیٹ
س
گتی ،لسینل خند لمخوں یک اس کی نست کو دیکھنا رہا تھر اتھ کر النٹ آف کریا وانس ننڈ یر
آیا،اس کا ارادہ چانے بی کر آفس کے کجھ کام ٹینانے کا تھا مگر عنادنہ کے خنال کے عرض
س
ا ننے ارادے یرک کنے وہ شندھا ننڈ یر آیا،لٹینے ہی لسینل نے سب سے نہلے اسے ا ننے فرنب
کنا،
س
"حھوڑیں لسینل۔۔۔مجھے سکون سے سونے دیں۔۔"
ایدھیرے میں جود کو مقایل کے یازوؤں کے ہلقے میں دیکھ وہ یری طرح چڑبی اس کے کندھے یر
ہاتھ رکھتی دور ہونے لگی،
"شش۔۔۔چپ یلکل۔۔"
س
اسے مضبوطی سے تھام کر ا ننے شینے میں تھییحنا لسینل دھٹمی آواز میں تھوڑا یرہمی سے بوال،
"چاننا ہوں ان دبوں کجھ مصروقنات کے یاعث وقت نہیں دے یایا تمہیں نٹھی اس قدر چڑچڑی
س
ہوگتی ہو یر ڈونٹ وری کل کا بورا دن لسینل مراد انتی چاتم کے ساتھ گزارے گا۔۔۔"
س
اس کی ٹیشابی یر انتی محیت کی مہر ن یت کریا لسینل یرم لہچے میں سوگوسی کنا،خنکہ عنادنہ کا
ذہن لقظ مصروق یت یر اپکا،دل میں تھر یدگمابی آبی کہ کس طرح کی مصروق یت ہے مقایل کو،
112
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے تھکا ہارا وہ آج تھر شندھا ہاشینل میں آیا تھا،وخنہہ چہرے یر یڑھی شبوو اور یال کے شیحندہ
حس ت کی
یایرات سمیت گہرے ہلقے لنے ویران آ یں ایدر کے ھو لے ین کی غمازی کررہی یں ،تی
ھ کھ ک ھ
سے لب تھییچے وہ دننا چہاں سے نےچیر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا،ا ننے مہی بوں میں وہ کینا بجھنایا
تھا ا ننے کنے یر،ا ننے مطالم ڈھایا تھا اس لڑکی یر کہ اب نہ بجھناوا اس کی زیدگی اچیرن ننانے لگا
تھا،یاچانے اس لڑکی میں کیشا یایر نندا ہوا تھا کہ ان مہی بوں میں وہ روز اس کے یاس آیا بو تھا
اور گھی بوں یک اس کے وجود کو چاموسی سے دیکھنا رہنا یر ہمت جیسے یلکل نہ تھی اسے زرا سا
حھونے کی تھی،اس کے ہوش میں آنے کی دعا کریا وہ دل میں موہوم سی امند بو لنے رکھا تھا
خ پ ً
کہ چب وہ ہوش میں آنے گی بو قینا اسے معاف کردے گی گر یادان ص نہ ھول خکا تھا
ت س م
کہ موم چب ایک مرنبہ نٹھر ین چانے بو اسے وانس یگھالیا یاممکنات میں سمار ہوچایا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چانتی ہوں ٹینا تم یاراض ہو اس یات یر لنکن تم ہی نناؤ ہم سب جود ہی اننا الجھے ہیں کہ
مٹیسر ذہن میں تمہیں ننانے کا خ نال یک نہ آیا،
113
س
آج سام وہ لسینل کی عیر موجودگی میں درنہ ننگم کی اچازت لیتی سکندر وال آبی تھی مگر نہاں آکر
چب اسے مطیبہ کے یارے میں مہناز ننگم نے ننایا بو ع نادنہ سخت ربحندہ ہوبی،اسے ا ننے
تھان بوں سے اس طرح کی امند نہیں تھی،وہ دکھی تھی ساتھ مہناز ننگم سے تھی اکھڑی اکھڑی
ہوبی جس یر انہوں نے غمگین لہچے میں کہا،
س
وہ ملنا چاہتی تھی مطیبہ سے نٹھی کجھ سوختی لسینل کو میسیج کی،ان دوبوں کے نیچ اس رات
س
کی یدمزگی کو گزرے ایک ہقبہ ہوخکا تھا،اس ایک ہفنے میں لسینل نے اسے جینا وقت دیا اور
جس قدر محیت سے اس کے ساتھ رہا کافی چد یک عنادنہ یارمل ہوچکی تھی اس کے ساتھ،
ٹ
کجھ دیر پعد سکندر وال سے پکل کر وہ کار میں یٹھتی فرمان کو وانسی مٹیشن چانے کا بولی ساتھ ہی
س
لسینل کا تمیر مالبی،مہناز ننگم کے سا منے وہ کال نہیں کرسکتی تھی ڈر تھا کہ کہیں نہ یات
ان کے ذر پعے قلذہ یک نہ نہیچے،
"ہنلو۔۔۔"
دوسری چانب سے آبی اجیتی مردانہ آواز یر عنادنہ کجھ جویکی،فون کان سے ہنانے وہ ایک مرنبہ
س ی
تمیر د کھی جو لسینل کا ہی تھا،
س
" لسینل۔۔"
ک یف بوز ہوبی وہ پکاری،
114
"تھاتھی میں غقان۔۔"
دوسری چانب سے پعارف کروایا گنا جس یر عنادنہ کجھ اور الجھی،
س
"غقان۔۔ لسینل۔۔کا فون۔۔۔"
"جی تھاتھی دراصل کجھ کالنٹیس کو کال کرنے کے لنے سر کا فون لنا تھا میں نے۔۔۔"
س
"احھا کہاں ہیں لسینل۔۔؟"
کجھ یرسکون ہونے یر وہ تھر بوحھی،
117
"صرور آؤں گا۔۔"
س
ہلکا سا ہیس کر لسینل بوال ساتھ ہی ان لوگوں کے کورٹ سے چانے کے پعد جود تھی پکال،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"واٹ۔۔۔مطیبہ کو ہوش آگنا۔۔۔مام آپ ہوش میں بو ہیں۔۔"
ی
نےپقیتی کے عالم میں کہتی قلذہ اچایک فون نیجھے کر کے د ھی،مہناز م دوسری چانب سے
گن ن ک
"کنا ہوا۔۔"
کار ڈران بو کریا شیفی بوحھا،
س
ان دوبوں کا نہت چلد نیچ اپ ہوا تھا اور اس میں زیادہ یر ہاتھ قلذہ کا تھا وہ شیفی کو لسینل
کے چانب سے ملے دھوکے کا کجھ بوں بولی تھی کہ شیفی مان چانے اور ہوا تھی نہی،وہ چیران
ہوبی تھی شیفی کے ن نا کسی سوال کے چلدی مان چانے یر،اور اب وہ اکیر اس کے ساتھ ہی
زیادہ یر اننا وقت گزاربی،
میں وہ تھتی آیکھوں سمیت مچلی تھی مگر مضبوطی سے اس کے چہرے یر شیفی رومال حمانے
رکھا،اگلے ہی لمچے چب وہ ہوش و جواس سے ن یگانہ ہوبی نب پفرت سے اسے گھور کر شیفی فون
پکاال،
119
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سوری مسیر ہیٹم۔۔۔وہ کوبی عام ٹیسیٹ نہیں کوما سے پکلی ہیں ا ننے مہی بوں پعد اور اگر ہم
ٹ چ خ ی خ ت ل پ ً
نے ان کی نہ یات نہ مابی بو قینا وہ سیرنس یں گی ھر ہوسکنا ہے کہ یں ال یں اور آپ
چا ننے ہیں اس سب سے ان کے دماغ یر زور یڑے گا پعد میں خظرہ تھی ہوسکنا ہے۔۔۔"
ہیٹم کے ہر یار کی میت یر وہ ٹیشہ وارانہ ایداز میں اسے سمجھانے لگی تھیں،
"ہیٹم۔۔"
نٹھی مہناز ننگم تھی فرخندہ کے ساتھ آ ٹیں تھی وہاں یر،
120
"کہاں ہے مطیبہ۔۔"
وہ جس نےیابی سے بوحھیں ہیٹم کو انتی ہی سرمندگی ہوبی،
"ایدر ہے۔۔"
"بو چلو۔۔"
"یر ک بوں۔۔"
اس ہنک سے چاموش ش ا مگان کے سوال یر ہیٹم نے جن پظروں سے انہیں دیکھا م ناز نن
ِ ج ہ
ہوگٹیں،
121
"ننگم صاچبہ۔۔۔اگر اچازت ہو بو ایک یات کہوں۔۔"
چب سے چاموش کھڑی فرخندہ ہمت کر کے بولی بو وہ دوبوں اس کی چانب م بوجہ ہونے،
"کوبی ہے۔۔؟"
جود کو حھڑوانے کی چد درجہ مزاحمت یر اس کے نندھے ہاتھوں میں رشبوں کے دیاؤ سے درد ہوا
نٹھی وہ زور سے خیجی،
123
ش خ م ت ہ کی
ی
د ھی،گرے ہڈی یر لنک ٹی یٹ،آ تی ہا ھوں کو خ یب یں حھنانے وہ م صوص یراسرار م کراہٹ
سمیت اسے چئیر سے نندھے نےنس دیکھ رہا تھا،
124
"یات شبو تم۔۔۔مجھے اتھی اسی وقت آزاد کرو نہیں بو تم سے نہیر کوبی نہیں چاننا کہ قلذہ
سکندر ا ننے یدلے کیسے لیتی ہے۔۔۔"
ُ
غصے سے کہتی وہ مچلی تھی،لہجہ ہ بوز گھم نڈ سے جور تھا،
"تمہارے تھابی نے تھی بونہی گھم نڈ دکھایا تھا تھر چانتی ہو کنا ِکنا اس کے ساتھ میں نے۔۔"
مشلشل شنگرنٹ سلگایا وہ اس سے بوحھا،قلذہ بوکھالبی تھی نہ یات سن کر،دماغ میں ہناد کا اس
رات اچایک عانب ہویا آیا اور نےساچبہ اس کا مبہ کھال کا کھال رہ گنا،
س
"تھابی۔۔تھابی کو عانب تم نے کنا۔۔تم نے کنا ِکنا ہے ان کے ساتھ لسینل مراد۔۔"
نےپقیتی میں یڑیڑابی وہ آچر میں چالبی تھی،
"زیادہ کجھ نہیں نس چال کجھ بوں ہے کہ نہ زیدوں میں کہالنے گا نہ مردوں میں۔۔۔"
قلذہ کے خیحنے کو چاطر میں نہ الیا وہ مزے سے سوخنا ہوا کہنے لگا،
"میں تمہیں مردے سے تھی یدیر کردوں گی۔۔۔سمجھا کنا ہے تم نے قلذہ سکندر کو۔۔۔"
س
طیش میں اسے گھوربی وہ لسینل کی نےیرواہی یر تھر خیجی،
"ایک انسی لڑکی جو ننا دل کے نندا ہوبی ہے۔۔۔ جسے یرواہ نہیں کہ اس کے جوبی رشنے اس کی
چرک بوں کی یدولت کس پکل یف سے گزرے ہیں۔۔۔ جسے صرف انتی جوشبوں کی یڑی رہتی ہے جو
125
ا ننے ایدر کی جشد میں چاکسیر ہوبی انتی نہن کو تھی نہ بحسی۔۔آو ایک حھوبی سی کلپ دکھایا ہوں
تمہیں۔۔"
چئیر کے ارد گرد چکر لگایا وہ زہر یلے لہچے میں بولنا انتی خ یب سے فون پکاال تھر خند کلکس کے پعد
سکرین قلذہ کے چانب کی،
س
"تم کوشش بو کرو ٹینا۔۔مجھے پقین ہے لسینل تمہارے گناہگار کو صرور سزا دلوانے گا۔۔"
سکرین یر درنہ ننگم اور عنادنہ کے نیچ کسی گف نگو کی ویڈبو چل رہی تھی،قلذہ ما تھے یر الپعداد یل
کی
لنے وہ ویڈبو د ھی،
"گرنتی اگر گناہگار اننا ہی ہو بو کنا ِکنا چانے۔۔۔نہیں معلوم تھا مجھے کہ میری عزیز نہن ہی
میری دسمن پکلے گی۔۔۔میں نہیں چانتی کہ آبی کو کنا تیر تھا مجھ سے۔۔۔مگر چب اس رات
ہوشینل یر میں نٹم ع بودگی میں تھی نب ان کا جوس میرے جوس میں بونے کابچ کے ذرات
گھولنا دیکھ میرا دل یری طرح بویا تھا ان کی چانب سے۔۔۔انہیں کوبی پکل یف تھی بو ننابی مجھے
لنکن نہبوں کے ساتھ انشا کون کریا ہے گرنتی۔۔۔"
ُ
تھرابی آواز میں درنہ ننگم کو اذ نت سے ننابی عنادنہ کو دیکھ قلذہ کی شتی گم ہوبی،اسے ع نادنہ کی
یابوں سے کوبی عرض نہ تھا ہوش بو اس کے عنادنہ کو بو لنے دیکھ اڑ رہے تھے،وہ چاہتی تھی کہ
اس لڑکی میں کوبی بو کمی ہو۔۔۔،یاکہ کم از کم کسی چیز میں جود کو اس سے یریر دیکھ دل کو
126
کی یکھ س
پ
ل کو د ھی جس کی ظریںن یلس نشلی ملے مگر اب اس کا بولنا قلذہ نےپقین سے وہ ویڈبو د تی
ویڈبو یر ہی تھیں مگر یایرات ننارہے تھے کہ وہ اب بحسنے واال نہیں اسے،
وت گویابی سے مجروم ہوبی تھی میں مگر خند مہی بوں کے لنے۔۔۔ہر ہفنے یاکند سے ہونے "ف ِ
عالج نے کافی نہیری البی تھی مجھ یر لنکن ڈر تھا کہ کہیں آبی کو ننا نہ چل چانے اور وہ تھر
مجھے پقصان نہ نہیچانے نٹھی ان سالوں میں بونہی رہی۔۔۔"
درنہ ننگم اس کا کندھا تھیٹھنابی چپ کروارہی تھیں اسے مگر عنادنہ چا رویا نہ رکا،اس کے آگے
س
لسینل فون نند کریا خ یب میں رکھا تھا،عنادنہ یر جس دن اسے سک ہوا تھا اس ہی کہ کجھ دن
پعد وہ درنہ ننگم کے کمرے میں ایک کٹمرہ لگایا تھا یاکہ یات کی نہہ یک نہیچے،
127
س
" لسینل۔۔۔چابور ہوکنا۔۔؟"
س
چلن میں سدت آبی بو وہ غصے میں چالبی ،لسینل حھک کر سرد پظروں سے اسے دیکھ کر
مشکرایا،
"تمہارے تھابی یر میں نے اننا رحم صرور کنا تھا کہ وہ کم از کم خیخ کر ا ننے درد میں تھوڑی کمی
کرلے لنکن تم۔۔۔تمہاری گھینا کربوبوں کے زی ِر ایر میں میں تمہاری آواز شینا یک گوارا نہیں
کروں گا۔۔"
ل بوں یر طیزنہ مشکراہٹ سچانے وہ ہ بوز سرد ین سمیت بوال،قلذہ چیران سی اسے ٹینل یر سے
ی
ن یپ اتھانے ہونے د کھی تھی مگر لمخوں میں مقایل کی یات کا مطلب سمجھ آیا بو وہ خیجی،
س
"نہیں۔۔۔تم مجھے نہیں مارو گے۔۔۔حھوڑو مجھے لسینل تمہاری گناہگار میں نہیں تھابی
تھے۔۔کوبی ہے نہاں۔۔ہنل۔۔"
س
وہ جو قدم نہ قدم جود کے فرنب آنے اس سخص کو دیکھنے مچل کر چالنے لگی تھی لسینل کے
ل بوں یر ن یپ لگانے سے یری طرح گ ھیرابی،
128
م
"تمہیں ننا ہے آج مجھے نےچد سکون ملنے واال ہے کہ آج میرا یدلہ کمل ہوچانے گا۔۔۔"
اسے مچلنے دیکھ مشکرایا وہ وانس ٹینل کے یاس گنا اب دوبوں ہاتھوں میں گلوز نہینے کے پعد وہ
ٹینل یر رکھی حھری اتھایا تھر قلذہ کے یاس آیا اس کھنڈر کمرے میں کنارے یر رکھا ایک اشبول
گھسیٹ کر یلکل اس کے سا منے کنا،وہ تھتی آیکھوں سمیت مقایل کے اگلے قدم کا سوچ رہی
تھی،نٹھی حھری کی مدد سے اس کے ایک ہاتھ کو رسی کی قند سے آزاد کریا وہ قلذہ کا ہاتھ اشبول
ی س
یر رکھا،تیزی سے پفی میں سر ہالبی وہ لسینل کے ہاتھ میں حھری کو د ھی،
ک
"یافی چام بوں سمیت تم دوبوں تھابی نہبوں میں چانتی ہو ایک چامی اور کنا ہے۔۔۔"
اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے یکڑ کر اشبول یر رکھنا وہ حھری کی بوک آہسبہ آہسبہ ان کے گرد ماریا
ی
بوال،قلذہ کی تھنلی آ کھیں واصح کررہی تھیں اس کے ایدر کے جوف کو،اننا ہاتھ مقایل کی گرقت
سے حھڑوانے کی کوشش کربی وہ نےچد جوفزدہ لگ رہی تھی،
"کہ تم دوبوں کسی کی تھی زیدگی چراب کرنے سے نہلے ایک مرنبہ تھی نہیں سوخنے۔۔۔"
پفرت سے تھ یکاریا وہ رقنار یڑھایا تھا حھری کی چرکت کی،اس کے ہاتھ میں مفند قلذہ کا ہاتھ اب
یاقاعدہ کنکنانے لگا تھا،
ٰ
"امیر عرنب،عیر دوست ختی کہ سگے رشبوں کو تھی نہیں حھوڑنے ا ننے گھم نڈ میں چاالیکہ
اسکول میں نہ شبق یڑھا تھی ہوگا تم لوگوں نے کہ عرور کا سر نیچا ہویا ہے۔۔۔و نسے کینا احھا
129
ہوگا اگر آج اس شبق کی غملی پصویر میں تمہیں دکھاؤں۔۔۔"
تیزی سے حھری چالیا وہ یرسکون سا کہنا آچر میں حھنکے سے حھری شندھا قلذہ کے ہاتھ کی نست
ک
یر ن بوست کی اور قلذہ جو لگا اس کے جسم سے کسی نے روح ھییچ کی ہو،ایلی آیکھوں سمیت وہ
یڑبی تھی یری طرح خیحنے کے لنے مگر معانے افسوس ل بوں یر ن یپ مضبوطی سے لگے رہنے کے
یاعث اس کی آواز چلق میں ہی رہ گتی،
"جود میں ہر صالخیت رہنے کے یاوجود ایدھے رہنے کی پکل یف چانتی ہو کنا ہوبی ہے۔۔۔"
وہ تھر بوحھا تھا ساتھ خ یب سے ایک شیسی پکاال،روبی ہوبی قلذہ پفی میں سر ہالنے لگی،تھنگی
آیکھوں میں عاچزی اتھری،وہ خیحنا چاہتی تھی،ہاتھ میں اتھنا درد چان پکال رہا تھا اور اب یاچانے
مقایل کنا کرنے واال تھا،اسے شیسی کھو لنے دیکھ قلذہ اننا چہرہ نیج ھے کرنے لگی،
130
"زیادہ نہیں۔۔۔نس زرا سا۔۔"
کہنے ہی وہ شیسی کھول کر زور سے اس کے ایدر مچلول کو قلذہ کے چہرے یر تھی یکا تھا،جویکہ وہ
ح
موفع یر چہرہ موڑ چکی تھی نٹھی مچلول زیادہ نہ گنا آیکھوں یر نس خند ھٹیٹیں گتی تھیں ایدر،آیکھ
میں اچایک ہوبی چلن نے قلذہ کو سدید اذ نت میں مینال کنا،اس یار جس یری طرح وہ یڑپ کر
ی م
مچلی تھی چئیر ہلنے ساتھ گری نیجھے کے چانب،آ کھیں یحتی وہ محسوس کرسکتی تھی انتی آیکھوں
سے پکلنے جون کو،ن یپ ہنا تھا ل بوں سے اور وہ چلق کے یل چالبی،
"چلو چاؤ۔۔"
کی
قلذہ کو اننا درد تھوال تھا،نےپقین سی ہوکر وہ مقایل کو د ھی جس کے یایرات ل یحندہ ھے،
ت ش لکی
"کنا سچ میں۔۔؟"
ً
اسے جیسے پقین نہ آیا تھا نٹھی انتی آیکھوں سے پکلنے ہلکے ہلکے جون جو فورا صاف کربی وہ بوحھی،
"چاؤ۔۔"
س
اس یار لسینل دہاڑا کہ وہ چلدی سے الجھی رشبوں سے جود کو پکالتی کھڑی ہوبی تھر آیکھ میں
ہوبی چلن تیز ہونے کو پظرایداز کر کے اننا زحمی ہاتھ سحتی سے یکڑبی کمرے کے دروازے کی
س
چانب تھاگی،چلد یازی میں وہ تھول چکی تھی کہ اس کے تیروں میں شینڈل نہیں ،لسینل
چاموش پظروں سے اسے تھاگنا ہوا دیکھنے لگا،
خ ٹ
اتھی وہ دروازہ کھول کر یاہر ہی پکلی تھی کہ اچایک پکل یف سے یحتی یٹھتی چلی گتی،دروازے
کے غین یاہر بونے کابچ یڑے تھے جو اس کے تیروں کو یری طرح حھلتی کرگنے،
132
"ماما۔۔"
یلک کر روبی وہ خیجی،
"آرام سے لڑکی۔۔"
ی
جی بوں میں ہاتھوں کو ڈالے وہ اسے کرب سے آ کھیں میچے دیکھ کر بوال خنکہ اس کی تمسجر زدہ آواز
ت ی کی ی
یر قلذہ آ کھیں نٹم وا کربی اسے د ھی،مقا ل کی آ ھوں یں خ بوان یت صاف واصح ھی جس یر
م ک ی
"چلو نہیں ماریا۔۔۔ریلنکس ہوچاو لو تھوڑا یابی ن بو۔۔۔حھوڑ د ن نا ہوں تمہیں تھر تمہاری میزل
یک۔۔۔"
س
اسے جوف سے لرز کر کھڑے ہونے دیکھ لسینل ہاتھ میں تھامی یابی کی بویل اس یک
یڑھانے یرمی سے بوال،قلذہ نےپقین ہوبی،
"غہ۔۔عہغہہ۔۔"
س
تمشکل بو لنے کی شعی کربی وہ اچایک مبہ سے جون تھینکی ،لسینل یاشف سے سرہالیا نیجھے ہنا
ساتھ ہی چاکر انتی کار میں ٹیٹھا،
ی
اسے کار شنارٹ کرنے دیکھ قلذہ کی آ کھیں تھنلیں،کبویکہ کار کی شندھ میں یلکل سا منے ہی وہ
کھڑی تھی،انتی گردن یکڑے وہ مشلشل مبہ سے پکلنے جون ہر قابو یانے چان بچانے کے عرض
تھاگی تھی،
س
آہسنگی سے کار چالیا لسینل جیسے ابخوانے کنا تھا اس کا تھاگنا،کجھ دور چاکر چب پکل یف سے
وہ یژمردہ سی ہونے لگی نب لڑکھڑاکر گری،چلق حھلتی،زحمی جون سے تھرے ہاتھ،کتی
زیان،آیکھوں میں یڑھتی چلن اور تھر تیر الگ مردہ سے ہونے لگے،اس میں اور ہمت نہیں
135
س
تھی ،لسینل کو کار روکے دیکھ قلذہ کو نہلی یار لگا کہ موت اس کے نےچد فرنب ہے،وہ زیدہ
رہنا چاہتی تھی،اسے نہیں مریا تھا نٹھی نےنسی سے خیحنے کے لنے آواز پکالی مگر معانے افسوس
صرف مبہ سے جون کے کجھ نہ پکال،یڑپ کر وہ انتی گردن دیانے پکل یف میں کمی کی کوشش
کرنے لگی،اسے تھر کار شنارٹ کرنے دیکھ قلذہ یری طرح رونے پفی میں سرہالبی،جون ہوبی
آیکھوں میں یڑپ اتھری،وہ کرالبی تھی جیسے تھنک مایگی ہو زیدگی کی،
س
نٹھی انتی کار کو نیجھے لی نا لسینل تھر تیزی میں آگے یڑھایا ساتھ ہی نیچے گری ہوبی قلذہ کا وجود
آگے پکلتی نہاڑبوں میں گم ہوا،جون کے حھٹینے آس یاس کے درخ بوں میں یڑے تھے اور وہ
حھنکے سے کار روکنا سر اشیئیریگ ویل سے پکاگنا،گہری سانس لینا وہ جیسے آج یرسکون ہوا تھا مگر
ل بوں یر نہری مشکراہٹ تھم کر وخنہہ چہرے یر کرب تھرے یایرات البی،آتھ سال نیجھے چایا وہ
آج تھی ا ننے عزیز یاپ کے سرمندہ ہونے یر یڑپ اتھا تھا،نےفصور ہونے ہونے تھی چب
اس یر الزامات لگانے گنے نب کس قدر مراد صاچب ہنک و سرمندگی محسوس کنے تھے،یر انہوں
س
نے اسے کجھ نہ کہا نس جو مان انہیں لسینل ہر تھا وہ بویا تھا اور تھر ایک رات خنکے سے وہ
دننا قابی سے کوچ کرگنے،آج سدت سے اسے ان کی یاد آبی تھی کہ اگر کو وہ اب ہونے بو
س
لسینل انہیں صرور پقین دالیا کہ اس نے کٹھی ان کا پقین ان کا تھروشہ نہیں بوڑا تھا یلکہ
س
اس کے چاسدوں نے اسے بوڑ کر رکھ دیا تھا،اننا فون مشلشل بحنے محسوس کرکے لسینل خ یب
136
سے مویایل پکاال تھر ننا سکرین یر پظر کنے وہ فون سوبچ آف کردیا،آج کی رات وہ یلکل ننہا رہنا
چاہنا تھا،ا ننے یاپ کو یاد کر کے ان کا سوخنے وہ نہیں چاہنا تھا اسے کوبی زرا تھی یرنشان
کرے،
ی
شیٹ کی نست سے ننک لگایا وہ آ کھیں موید گنا اور نٹھی کابچ آیکھوں سے خند موبی بوٹ کر
ً س
اس کی کٹیتی یر چذب ہونے ،لسینل اذ نت سے مشکرایا،چاننا تھا نہ آنسو ک بوں نہے،پقینا اس
ن
اع خنات اس کے گھر نہ ہیحنے یر یرنشان ہوبی روبی ہوگی مگر آج وہ اس کے یاس نہیں کی من ِ
چاسکنا تھا،وہ آج یلکل اکنال رہنا چاہنا تھا کہ آج اس نے بورا کرل نا تھا اننا یدلہ،اسے پقین تھا کہ
اگر عنادنہ رونے گی بو صرور درنہ ننگم اسے شیٹھال لیں گی اس ہی وجہ سے وہ نےقکر ہوا تھا
عنادنہ کی چانب سے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن یل شل س یک ت گل س کی
ل کو رات تھر ان د ھی آگ یں تی وہ نےبچاشہ روبی ھی،نےفرار ہوبی تی مرنبہ
م
کال تھی کی مگر دوسری چانب سے تمیر نند چارہا تھا،کل وہ پکاح کنا ہوگا شنا ِیل سے اور تھر رات
تھر اس سے آگے عنادنہ سے سوچا نہ گنا،اسے اننا وجود اپگاروں کے زد میں محسوس ہوا تھا،اس
مح بوب سخص کی شٹم طرپفی یر ماتم کناں وہ تھوٹ تھوٹ کر روبی تھی اور اب سوگ سی ک یف یت
137
ٹ
میں سر صوفے سے لگانے وہ سوجی آیکھوں سمیت یٹھی تھی،سورج کی کرٹیں قدآور کھڑکی سے
ایدر آبی بورے کمرے کو روسن کررہی تھی مگر عنادنہ کو لگا اب اس کا بجھ کر ایدھیر ہویا دل تھر
کٹھی روسن نہ ہوسکے گا،درنہ ننگم اسماء سے کہہ کر رات کو اسے کھانے یر تھی یالٹیں تھی مگر
وہ دروازہ نہ کھولی،یرنشان ہوکر انہوں نے جود دروازہ بچایا مگر عنادنہ ہر چیز سے نےنہرہ نس روبی
گتی تھی،
س
عنادنہ کے دروازہ نہ کھو لنے یر یرنشان درنہ ننگم لسینل کو کال کی تھیں مگر اس کا تھی تمیر
نند تھا،ایک عنادنہ کی چانب سے نٹیشن بو دوسرا شنا ِیل کا اچایک گھر سے عانب ہویا انہیں
دوہری یرنشابی میں مینال کنا،رات تھر ان سب کے یاعث یرنشان رہتی وہ تمشکل آدھی رات کو
اسماء کی صد یر سونے گٹیں اور اب تھر صیح ہال میں آبی وہ اسماء سے عنادنہ کا بوحھ رہی
س
تھیں نٹھی مٹیشن میں داچل ہونے لسینل ہر ان کی پظر یڑی،
کل کے یانسیت آج وہ نہت چد یک یارمل لگ رہا تھا،ہڈی کی چگہ اب ن بوی یلو سرٹ اور گرے
ٹی یٹ نے لی تھی،وخنہہ چہرے یر یال کی شیحندگی لنے ایدر آیا وہ کجھ چیران ہوا مقایل کھڑی درنہ
ننگم اور اسماء کے چہرے یر یرنشان یایرات دیکھ،
س
"کہاں تھے لسینل۔۔۔رات تم گھر تھی نہیں آنے اور فون ک بوں نند تھا تمہارا۔۔"
س
اس یر پظر یڑنے ہی درنہ ننگم چلدی سے لسینل کے یاس آکر یرنشابی سے اشیفشار کیں،
138
"کجھ صروری کام کے یاعث گھر نہ آشکا گرنتی اور فون میں ٹئیری خٹم ہوگتی تھی۔۔"
س
انہیں رسان یت سے سمجھا کر لسینل صوفے یر ٹیٹھا،
"شنا ِیل چا ننے ہو کہاں ہے۔۔۔لڑکی یاچانے کہاں چلی گتی اچایک۔۔۔"
ی
یرنشان ہوکر کہتی وہ ششلینل کے وخنہہ چہرے کو د کھیں،
"تم رات گھر نہیں آنے۔۔۔چا ننے ہو عنادنہ رات سے کمرے میں نند ہے۔۔۔کھایا بو دور کی
یات وہ آواز یک نہیں دے رہی میرے پکارنے یر۔۔"
س
تھر قکرمندی سے درنہ ننگم نے کہا جس یر لسینل کے یایرات یل میں یدلے،اگلے ہی لمچے وہ
139
ننا کجھ کہے کھڑا ہویا تیزی میں ا ننے کمرے کی چانب گنا،دروازہ یاک کریا اس نے صروری نہ
سمجھا،خ یب سے ِکی پکال کر حھنکے سے دروازہ کھوال تھا اس نے اور پظر شندھا کنارے یر صوفے
سے ننک لگابی جشک آیکھوں سے ح ھت کو گھوربی اس مح بوب لڑکی یر گتی،
"عنادنہ۔۔"
س
سرخ عارض یر آنسوؤں کے جشک نشان واصح ہونے تھے نٹھی اسے پکاریا لسینل آگے یڑھا،ایک
س
یل جو لسینل کا دل عح یب ہوا کہ کہیں اسے ہناد یا تھر قلذہ کی موت کا نہ ن نا چل گنا ہو،
کی
مابوس آواز یر نےیایر پظریں نیچے کربی وہ ا ننے فرنب آنے شٹمگر کو د ھی،
"حھوبی محیت کا ڈرامہ نہیں کریں اب۔۔۔جو کریا تھا وہ بو کرہی چکے آچر۔۔۔"
کل صیح وہ پکال دوسرے کیڑوں میں تھا اور اب اس کے یدلے کیڑے دیکھ عنادنہ کو جو زرا سی
امند تھی اس سے وہ تھی بوبی،وجود میں تھانٹ ھڑ سے چلے تھے،نٹھی طیش میں آبی وہ چالبی،
140
"نہلی یات حھوبی محیت نہیں انشان ہونے ہیں اور دوسرا اب کنا خطا ہوگتی تمہارے سوہر سے
جو اس قدر آنے سے یاہر ہورہی ہو۔۔۔"
وہ چاننا تھا رات تھر اس کے گھر نہ آنے کے یاعث عنادنہ اب تھری یڑی ہے غصے
س
سے ،لسینل کو انتی علطی کا سدت سے اجشاس ہوا کہ کاش وہ دونہر میں ہی اسے کال ہر
نناد ن نا کہ رات وہ گھر نہ آسکے گا،قلچال یات کو مذاق کا رخ د ن نا وہ مشکراکر بولنا آگے یڑھا،
"یلکل۔۔۔حھونے انشان ہونے ہیں تھنک آپ کی طرح جو جود بو محیت کریا چا ننے نہیں مگر
دوسروں کی محیت کا مذاق نناکر ان کے چذیات کو رویدیا نہت نہیر طر پقے سے چا ننے ہیں۔۔"
مقایل کے لہچے میں مذاق محسوس کرکے اس کا غصہ اور آسمان یر چڑھا تھا،یارہ ہابی ہونے یر وہ
س
خیجی ،لسینل کے یایرات یگڑے عنادنہ کے نہ القاظ سن کر،
"میں چاننا ہوں میری علطی ہے یر عنادنہ القاظ کا انیچاب سوچ سمجھ کر کرو۔۔کب میں نے
تمہارے چذیات کو رویدا۔۔"
اننا لہجہ سخت ہونے سے روکے وہ عنادنہ کے سرخ چہرے کو دیکھ بجمل سے بوال،
"سوچ سمجھ ہی بو حھین لی آپ کے غمل نے۔۔۔انتی مطلب کے عرض نہیں چانتی تھی اننا
گریں گے آپ۔۔۔"
141
"لڑکی کونسی گری ہوبی چرکت کی ہے میں نے۔۔۔"
س
اب لسینل لہچے کو سخت ہونے سے نہ روک یایا مگر اگلے ہی لمچے یرم یڑا عنادنہ کی آیکھوں میں
تمی کی حھلک دیکھ،
"کہاں یا کجھ صروری کام تھا میں پعد میں نناؤں گا۔۔قلچال نہ آنسو۔۔"
س
لسینل کی یات نیچ میں رکی چب وہ سدید غصے کے عالم میں اسے دھکا دے کر جود سے دور کی
ساتھ ہی تھرابی ہوبی آواز میں خیجی،
142
"اور کینا حھناٹیں گے آپ۔۔۔غقان نے سب ننادیا ہے کہ کنا صروری کام تھا آپ
کو۔۔۔اس شنا ِیل سے پکاح کنا ہے یا آپ نے کل کورٹ میں اور تھر رات تھر۔۔"
اس سے آگے عنادنہ سے بوال نہ گنا،گلے میں آنسوؤں کا تھندا اپکا تھا اور وہ اننہابی کرب سے ا ننے
مقایل اس آدمی کو تھنگی آیکھوں سے دیکھنے لگی جو اس سے نےنناہ محیت کا دغویدار تھا یر اب
اس نے کنا ِکنا تھا،
س
دوسری چانب عنادنہ کی یات یر لسینل یکدم چپ سا ہوا تھا،اور ہویا تھی ک بوں نہ کجھ کہنے کو
جیسے شٹھی القاظ گم جو ہو چکے تھے،کابچ مانند آیکھوں میں نےپقیتی اتھری،خنکہ یایرات سدید چیرت
میں یدلے،اسے لگا عنادنہ نے ا ننے لقظوں کے غوض اس کی خ بوبی محیت کو یل میں ننالم کر
کے رکھ دیا ہو،وہ انشا سوچ تھی کیسے سکتی تھی اس کے یارے میں،
"بولیں یا۔۔۔اب بو لنے ک بوں نہیں۔۔۔حھ یکا لگا یا میرے مبہ سے ا ننے ا نسے کاریامے سن۔۔"
"عنادنہ۔۔۔!!"
س
اس کی یات کاٹ کر لسینل دہاڑا تھا،تھاری ہاتھ اتھا مگر جود یر قابو کریا وہ غین وقت یر رکا
تھا،دوسری چانب عنادنہ بونہی غصے میں کھڑی اسے گھور رہی تھی،
س
لسینل کا چہرہ ہنک سے سرخ ہونے لگا،کشادہ ٹیشابی یر اتھربی نسیں اس کے ایدر امڈنے
اشیعال کی غکاسی کرنے کو کافی تھیں،معلق ہاتھ کو نیچے کریا وہ درنہ ننگم کی آواز یر نیجھے ہوا،
143
س
"کنا ہوا ہے لسینل ک بوں خیخ رہے ہو تم دوبوں۔۔۔"
چب سے وہ ان دوبوں کو اکنلے یات کرنے کے عرض حھوڑیں تھیں اور اب کمرے سے سور کی
آواز وہ ایدر آبی بوحھیں،
"بو اس یات یر غصہ ہو۔۔۔ٹینا غصے والی یات بو ہے کہ اس نے ہمیں ننا ننانے شنا ِیل کا
پکاح کروایا غقان سے۔۔یر چیر حھوڑو۔۔و نسے تھی شنا ِیل ہمیں سریرایز د ن نا چاہتی تھی بجی کا بورا
سریرایز چراب ہوگنا۔۔۔"
ننا عنادنہ کے رونے چہرے کو بوٹ کرٹیں درنہ ننگم مشکراکر نناٹیں تھیں خنکہ عنادنہ تھٹھک
م
گتی،الجھ کر وہ درنہ ننگم کی کمل یات شتی نٹھی ذہن میں نہ یات آبی کہ سام غقان سے یات
س
کے دوران اس نے صرف پکاح کا شنا تھا ،لسینل کا شنا ِیل سے پکاح ہویا انشا بو وہ کجھ نہیں
ی س
شتی تھی اور نٹھی وہ تھنلیں آیکھوں سمیت لسینل کو د کھی،وخنہہ چہرہ الل تھ بوکا ہوا تھا،ضیط
سے چیڑے تھییچا وہ عنادنہ کو گھور کر پکال تھا کمرے سے تھر شندھا مٹیشن سے ہی یاہر پکلنا
چالگنا،
144
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فرخندہ۔۔۔!"
صیح مہناز ننگم تھر فرخندہ کے ساتھ آ ٹیں تھیں،رات تھر وہ ہاشینل میں رکا تھا اور اب وہ لوگ
کافی دیر سے وہی یر ٹیٹھے ہونے تھے نٹھی آچر کار نےجین ہویا ہیٹم فرخندہ کو پکارا،
"جی صاچب۔۔"
"چاؤ تم ایدر۔۔"
اس کی یات یر چہاں مہناز ننگم چیران ہوٹیں وہی فرخندہ جوسی سے سر اننات میں ہالبی،
145
جیسے صدبوں یک نہ بو لنے کی فسم کھابی ہو،آیکھوں کی سکڑی ننلناں اور نےیایر چہرہ کسی گہری
سوچ کی غکاسی کنا تھا،
"بی بی۔۔"
فرخندہ پکاربی آگے یڑھی مگر دوسری چانب وہ ہ بوز ح ھت کو گھوربی رہی،اس کے شناٹ یایرات اور
سرمتی آیکھوں میں یرف کا یایر دیکھ ایک یل کو فرخندہ کو پقین ہی نہ آیا کہ وہ مطیبہ ہی ہے،
"میری علطی تھی کم نہیں تھی بی بی۔۔۔کاش کہ اس دن میں آپ کو ہناد صاچب کے
حی ک م تھ
مرے یں نہ تی۔۔"
سر حھکا کر کہتی وہ نہت بجھنابی تھی،اس کی یات شیتی مطیبہ کے ل بوں یر تمسجر تھنال،
ل
"فصور تمہارا نہیں تھا فرخندہ۔۔میری پقدیر میں کھی تھی وہ سزا جو ایک علط انشان کی محیت میں
گرقنار ہونے سے ملتی ہے اور میں جوش ہوں کہ مجھے وہ سزا مل گتی۔۔۔اب سزا خٹم بو محیت
146
تھی خٹم۔۔"
م ٹ ھ حینہ
نےجسی کی اننہا کو تی وہ د می آواز یں بولی،
147
"میں نے کہا تھی تھا کہ وہ چب ہم سے نہیں مل رہی بو اس سے کنا ملے گی۔۔"
دکھی لہچے میں کہہ کر مہناز ننگم ہیٹم کی نست تھیٹھناٹیں چب انہیں لگا کہ وہ رونے کو ہورہا
ی
ہے،انتی سرخ آ کھیں مشلنا وہ مٹھی ل بوں یر حمانے زمین کو گھورنے لگا،یار یار آیکھوں میں تمی
انتی حھلک دکھارہی تھی یر وہ نہیں رویا چاہنا تھا نٹھی آنسو پکلنے سے نہلے ہی انہیں صاف کرگنا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے چانے کے پعد عنادنہ درنہ ن نگم کو انتی علط سوچ سے آ گاہ کربی روبی تھی،انتی کم غقلی
یر وہ جینا سرمندہ ہوبی اننا کم تھا،دوسری چانب درنہ ننگم کو تھی چیرت کے ساتھ ساتھ افسوس
س
ہوا عنادنہ کی سوچ یر،انہوں نے اسے شیحندگی سے ا ننے کنے کی معافی لسینل سے ما یگنے کا
کہا تھا،جس یر وہ چامی بو تھری تھی مگر جوف تھی تھا مح بوب کے غصے کا،
صیح کا گنا رات دیر سے وہ گھر لویا،درنہ ننگم سے مل کر کمرے میں داچل ہوا،کوٹ ایار کر
ٹ م
ہینگ کریا وہ کمل نےن ناز ننا تھا صوفے یر یٹھی ک یف بوز سی عنادنہ سے،کٹھی وہ یاراض نہ ہوا تھا
بو ع نادنہ الجھ کر سوخنے لگی کہ کیسے منایا چانے،کافی دیر یک سوچ میں مخو عنادنہ جویکی چب وہ
نہاکر واسروم سے پکال،وانٹ یراؤزر یر گرے ونسٹ نہنے وہ ڈرنسنگ مرر کے سا منے کھڑا تھنگے
ھ کی
یالوں یر کومب کرنے لگا،عنادنہ جور پظروں سے اسے د تی جود یں ہمت نندا کی،
م
148
"کھایا کھایا آپ نے۔۔؟"
کجھ نہ سجھابی دیا بو چلدی سے نہ سوال کی،دوسری چانب سے جواب یدار،وہ ا ننے چہازی سایز
َ
ننڈ یر چا لینا ساتھ ساننڈ لٹمپ آف کنا،عنادنہ کو اس کی گھمئیر چاموسی نہت کھلی،
ی
لب کانتی وہ تھی النٹ آف کر کے ننڈ یر آبی،مقایل چت لینا آ کھیں موید خکا تھا،وخنہہ چہرے
یر نٹھر یلے یایرات نے عنادنہ کو تھوک پگلنے یر مح بور کنا،تھوڑا سوچ بچار کے پعد وہ ننڈ یر لیٹ
کی س
گتی تھر گردن موڑ کر لسینل کو د ھی،ایک یازو ننڈ یر میشہ کی طرح ھ النے بو دوسرا سر کے
ن ت ہ
نیچے ر ک ھے وہ کشادہ ٹیشابی یر سکبوں کا چال لنے ساید سونے کی کوشش میں تھا،روز کی طرح
س
عنادنہ اس کے فرنب ہوبی تھر ل بوں یر زیان ت ھیربی لسینل کے آہتی یازو یر اننا سر رکھی ساتھ
س ی
اننا دودھنا ہاتھ اس کے کشادہ شینے یر رکھ کر آ کھیں موید گتی مگر اس یار لسینل نے اسے
ت
عادت کے یرچالف جود میں ھییحنے کے بچانے اس کا ہاتھ ا ننے شینے یر سے ہنایا ساتھ اننا یازو
اس کے سر کے نیچے پکال کر دوسری کروٹ ہوگنا،وہ کٹھی اس سے انشا رونہ نہیں رکھا تھا نٹھی
اب اسے جود سے اخٹی یت یرنے دیکھ عنادنہ روہانسی ہوبی،
س
" لسینل۔۔۔سوری۔۔"
س
اس سے اور فرنب ہوبی وہ لسینل کی نست یر اننا سر پکانے لیٹ گتی،کالی آیکھوں سے پکلنے
س
آنسو جوب محسوس ہونے تھے لسینل کو انتی نست یر،
149
"میں نے نہت علط کنا نہت یری ہوں میں یر آپ بو ا حھے ہے یا۔۔۔معاف کردیں۔۔"
ی
ایدھیرے میں عنادنہ کی تھنگی آواز شینا وہ انتی مویدی آ کھیں وا کنا،نست سے وہ سحتی سے
مقایل کے گرد ا ننے دوبوں یازوؤں کو چایل کنے یکڑی ہوبی تھی جیسے کھونے کا ڈر ہو،
"تم یری ہو اس میں کوبی سک نہیں اور زرا قاصلے یر ہو۔۔۔ہر یار نہ سب احھا نہیں لگنا۔۔"
شناٹ یایرات سمیت نےرحمی سے کہنا وہ یآسابی عنادنہ کے کہے القاظ آج اس ہی یر لویایا
تھا،لمخوں میں روبی صورت نتی تھی ع نادنہ کی اسے اننا ہاتھ حھنک کر جود سے دور ہونے دیکھ،
س
"نہیں کریں اس طرح لسینل۔۔۔میں ہرٹ ہورہی ہوں۔۔"
س
اس کے دور ہونے یر تھر فرنب ہوبی وہ اب لسینل کے آہتی یازو یر انتی تھوڑی پکانے بولی،
"اگر تمہیں نہی سب کریا ہے کرو۔۔۔میں چال چایا ہوں روم سے۔۔"
وہ ڈسیرب ہورہا تھا یار یار اس کی تھرابی آواز سن کر،دکھنے دماغ کو آرام چا ہنے تھا نٹھی وہ اتھی
سکون سے سویا چاہ رہا تھا،
150
تھر لب تھییحنا ننڈ سے یکبہ لے کر اتھا،مضبوط قدم روم سے یاہر کا رخ کنے تھے،اسے چایا دیکھ
عنادنہ رویا تھول کر بوکھالنے ہونے اتھی تھر تیزی میں اس کے یاس آبی،
"سکون سے سونے۔۔"
کابچ آیکھوں کی سرجی واصح ٹیند کا ننا دی تھی،
151
س س
کوشش کنے وہ لسینل کو ایدر لے چانے لگی ،لسینل ہاتھ ہنا کر دور ہوا تھا اس سے،تھر
شندھا چاکر ننڈ یر لینا،انتی ششکناں ل بوں میں سحتی سے دیانے وہ یابی تھری آیکھوں سے اس
یل ھ کی
مح بوب کو د تی تی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلذہ کی گمشدگی نے اس یار مہناز ننگم جو چہاں نٹم مردہ کنا وہی ہیٹم تھی اب سخت یرنشان
ہوا،نہلے ہناد تھا بو اسے زرا یرواہ نہیں تھی مگر اب قلذہ تھی عانب وہ نےچد یرنشابی میں گھرا
ربورٹ لکھوایا تھا،ایک طرف مطیبہ کی الپعلفی کو دوسری چانب نہن کا کھویا،اویر سے مہناز ننگم
کا غم میں کمرہ نسین ہویا وہ سمجھ نہ یایا کہ چاالت کو کیسے شیٹھالے،ان سب میں یری طرح
الجھا وہ نب حھ یکا کھایا چب دو ہفنے پعد مطیبہ کا اچایک ہاشینل سے چانے کا شنا،وہ نہ اس
سے ملی تھی نہ چیر یک دی تھی،یاچانے ننا ننانے کہاں گتی تھی،ہیٹم سخت ربحندہ ہویا سکندر وال
ی
نہیچا تھا،اسے تھک ہار کر الؤبج میں ٹیٹھا دیکھ کچن سے پکلتی فرخندہ د ھی،
ک
152
ہف بوں سے مہناز ننگم نے قلذہ کی گمشدگی کے پعد سے ہاشینل چایا نند کردیا تھا مگر فرخندہ ہر دو
دن میں ان کی اچازت لے کر چکر لگابی تھی ہاشینل کا،
"فرخندہ۔۔"
اس کی پکار یر فرخندہ رکی،
"جی صاچب۔۔"
ح مجس
ہیٹم کو کھڑا ہوکر مشکوک پظروں سے جود کو دیک ھنا یاکر وہ یا ھی سے بو ھی،
"یات شبو میری فرخندہ۔۔۔گھر کے چاالت سے کم وافف نہیں ہو تم۔۔اگر چاہتی ہو کہ تھوڑا
نہت سکون ہو اور مطیبہ نہاں آچانے بو یلیز ننادو۔۔"
153
وہ سمجھ خکا تھا کہ فرخندہ سحتی سے اشیفشار کرنے کر نہیں ننانے گی نٹھی یرمی سے سمجھایا وہ
بوحھا بو فرخندہ سوچ میں مینال ہوبی،
"نناؤ۔۔"
اسے نٹم رصامند دیکھ ہیٹم تھر بوال،
"اکنلی۔۔"
ہیٹم کو پقین نہ آیا ک بویکہ جس قدر اس کی چالت چراب تھی انتی چلدی نندرست ہویا یاممکن تھا
نٹھی چیران ہویا بوحھا،
ٰ
"نہیں صاچب وہ صعری ہے یا۔۔۔اس سے راپطہ کنا تھا میں نے تھر وہ اور میں مل کر بی بی
کو ویل چئیر کی مدد سے لے کر گنے تھے۔۔بی بی نے کہا تھا کہ اب وہی یر رہیں گی وہ نٹھی
ٰ
خند کیڑے اور صرورت کا سامان میں نے وہاں نہیچایا تھر صعری کو بی بی نے انتی مدد کے لنے
وہی یر کام یر رکھ لنا۔۔"
م
اب کی یار پقصنل سے اسے کمل یات ننابی تھی وہ،ہیٹم کا ہاتھ نےساچبہ ما تھے کو حھوا،رت
چگے سے چلتی آیکھوں کو میحنا وہ قدم نیج ھے لنا،رخ یاہر کی چانب تھا،
154
ص ٰ
کار قل شینڈ میں چالیا وہ خند می بوں میں چہایگیر ہاؤس نہیچا تھا،ڈور ننل بچانے یر عری نے
دروازہ کھوال،
155
ص ٰ
مایل شناٹ چہرے یر یاگوارنت تھنلی خنکہ سن ہونے تیروں یر اور کھڑی نہ ہویابی وہ عری کو
یلند آواز میں پکاری،
"مطی۔۔"
156
"مجھے نہیں لگنا کہ میرا کوبی تھا وہاں جسے چیر د ن نا صروری ہو۔۔"
ہ بوز اخٹی یت تھرا ایداز،ہیٹم کی یرداست جواب دی،آیکھوں میں نسٹمابی کی تمی لنے وہ آگے یڑھنا
ٹ
گھی بوں کے یل ٹیٹھا تھر سا منے ویل چئیر یر یٹھی مطیبہ کو اذ نت سے دیکھنا گویا ہوا،
"میرا گناہ معافی البق نہیں ہے۔۔۔چان نا ہوں نٹھی تمہیں جود کو معاف کرنے کا نہیں کہوں
گا۔۔صرف انتی الیچاء ہے کہ گھر چل لو۔۔"
کرب تھرے لہچے میں کہنا وہ مطیبہ کے شناٹ یایرات دیکھ تھوڑا اور آگے ہوا،
"میں وافعی تمہاری معافی کے تھی البق نہیں ہوں۔۔اسی لنے تم جو سزا دو گی وہ ق بول کرلوں
گا مگر یلیز بوں دور رہ کر مت یڑیاو مجھے۔۔چلو نہاں سے میرے ساتھ۔۔"
ٹ
ا ننے القاظ اسے ران یگاں لگ رہے تھے ک بویکہ مقایل یٹھی لڑکی اسے بوں دیکھ رہی تھی جیسے کجھ
شنا ہی نہ ہو،
کر،
157
"میرے بچے کے قا یل ہو تم نےجس انشان۔۔۔سوخنا تھی مت کہ اس کا قنل معاف کردوں
گی میں۔۔۔"
سرمتی آیکھوں میں غضب کا اشیعال تھا،اس کے مبہ سے نہ القاظ شینا ہیٹم زمین یر گڑھنا
گنا،آج اسے اجشاس ہوا تھا کہ اس لڑکی یر کنا گزربی ہوگی چب وہ کسی ا ننے کا ہی قا یل اسے
ی
کہنا تھا،یڑپ کر آ کھیں میحنا وہ مطیبہ کو ان لقظوں سے ملی پکل یف کو واصح محسوس کنا تھا جود
یر،تھنک ہی بو کہہ رہی تھی وہ،اس کا گناہگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قا یل تھی بو نہرا تھا
ا ننے بچے کا،
"ظلم ہوا۔۔نہت یڑا ظلم ہوا ہے مجھ سے مطیبہ۔۔اور دیکھو یا آج ہم سب کا کنا ہم سب کے
سا منے آیا ہے۔۔۔سب کجھ خٹم ہورہا ہے مطیبہ۔۔۔کجھ تھنک نہیں ہے۔۔یری طرح الجھ چکے
ً
ہیں ہم اور نہ سب پقینا تمہارے ساتھ کی گتی زیادن بوں کی سزا ہے۔۔"
م
اسے کمل یات ننایا ہیٹم رونے کو ہوا تھا جس یر مطیبہ ن یفر سے اسے دیکھ کر سر حھنکی،
"تم۔۔۔تم نناؤ کہ انشا کنا کروں جس سے میری زیادن بوں کا مداوا ہو۔۔کجھ انشا جس سے تم
جوش ہو بو مج ھے کم از کم سکون مل چانے۔۔"
تم لہچے میں اس کے سا منے وہ فریاد کنا تھا،اسے بوں دیکھ مطیبہ کو نےساچبہ وہ وقت یاد آیا
158
چب وہ رو رو کر اس سخص کے سا منے فریاد کربی مگر کیتی آسابی سے وہ نےرحم ٹینا اس کے
چذیابوں کو روید د ن نا،
"تم مجھے ظالق دے دو اس سے مجھے زیادہ نہیں بو تھوڑا سکون مل چانے گا کہ میں آزاد ہوں
تم جیسے ظالم سے۔۔"
شقاکی سے کہہ کر مطیبہ وننل چئیر کا رخ موڑی،
159
"میرے یایا تم لوگوں کی طرح نہیں تھے۔۔۔میرے اکاؤنٹ میں ا ننے ٹیسے رکھوانے تھے کہ
آگے چاکر یرے وقت میں کام آسکیں وہ۔۔"
رسان یت سے وہ چل ننابی،ایداز اننا ایل تھا جیسے ا ننے ق یصلے سے نیجھے نہ ہینے کی فسم کھا رکھی ہو،
"مطیبہ ظالق نہیں دوں گا میں تمہیں۔۔۔اس کے عالوہ جو سزا دو گی وہ ق بول ہے یر نہ
نہیں۔۔"
اس کو تمشکل ا ننے لہچے یر قابو یانے دیکھ مطیبہ تمسجر سے مشکرابی،
"تھر تھنک ہے۔۔۔چاو نہاں سے اور تھر کٹھی چہایگیر ہاؤس کا رخ مت کریا۔۔"
مطیبہ نے اجشان کرنے والے ایداز میں کہا جس یر ہیٹم نےنسی سے اسے دیکھا،سرمتی آیکھوں
ی
میں انتی آ کھیں ڈالنا وہ نہت یالش کنا تھا اس میں یرابی مطیبہ چہایگیر کو مگر اس کی کوبی رمق
یک نہ دکھی ہیٹم کو،
آج صیح تھی اتھنا وہ روز کی طرح اس سے نےنناز ننار ہوکر آفس کے لنے پکلنے لگا نٹھی اسے
س
مصروف دیکھ عنادنہ پظر بچا کر لسینل کی رسٹ واچ ڈرنسنگ یر سے اتھابی روم سے یاہر
پکلی،اس کی نہ جوری مقایل کی زیرک پظروں سے مخفی نہ رہی،
"گرنتی۔۔"
ٹ
ڈاٹینگ ٹینل یر یٹھتی وہ درنہ ن نگم کو چہک کر اس کی واچ دکھابی،معصوم چہرے یر جوسی کی
رمق نے انہیں مشکرانے یر مح بور کنا،
"میں کہتی ہوں نہ یلین تھی قالپ ہی ہویا ہے آپ کا۔۔صاچب نے دیکھ لنا بو یرہم ہوں گے
بی بی عاق یت اس ہی میں ہے کہ ان کی واچ رکھ دیں وانس۔۔"
ان لوگوں کا یاسبہ ٹینل یر رکھتی اسماء سمجھداری کا مطاہرہ کرنے ہونے بولی،
161
"آپ بو چپ ہی رہو۔۔۔ایک بو ڈھنگ کے یلین تھی نہیں ننابی دوسرا ہمیشہ دل گ ھیراد ننے والی
یاٹیں کربی ہیں۔۔"
اسماء کی یات یر خقگی کا اظہار کربی ع نادنہ مبہ نسوری،
"ارے سچ کہہ رہی ہوں بی بی۔۔اب آپ جود ہی سوجو ذرا سی یات کر غصہ ہونے والے چب
ا ننے دبوں یک شنگین چد یک چاموش رہیں بو سمجھ چاؤ کسی ظوقان کی آمد کا اعالن ہے۔۔"
عنادنہ کے چہرے یر گ ھیراہٹ کے آیار دیکھ اسماء نے اسے اور زچ کریا اننا فرض سمجھا،اور غین
بوفع کے مطابق وہ گ ھیرابی چلدی سے یابی کا گالس اتھابی ایک ہی گھونٹ میں اننا چلق یر
س
کی،درنہ ننگم ان دوبوں کو دیکھ مشکراکر پفی میں سرہالٹیں،نٹھی لسینل روم سے پکلنا ہال ع بور
کر کے ڈاٹینگ ٹینل کے یاس آیا،
گالس ڈور وا کنے ایدر داچل ہوبی مگر اس کے جوپصورت چہرے یر ہوانناں اڑیں مقایل کی شیحندہ
پظروں کو نہلے سے ہی گالس ڈور کی طرف یاکر جیسے نہلے سے ہی وافف ہو اس کی آمد سے،جیتی
ہمت اس نے جود میں مجمع کی تھی وہ ساری یل میں رقا ہوبی اسے بوکھالنے یر مح بور کیں،
مقایل کی شیحندہ پظروں کا ارپکاز ہ بوز جود کر یاکر وہ ا ننے گرد لیتی سال کو تھنک کربی آگے یڑھی،
163
"کوبی نہیں یات ہے۔۔"
س
وہ جو یات کا آعاز یارمل ایداز میں کریا چاہ رہی تھی لسینل کے سوال یر رہی سہی ہمت تھی
خٹم ہوبی،وافعی وہ اکیر یاسبہ نہیں کریا تھا نٹھی بوں بوحھ رہا تھا اب اس سے،
"تمہاری اظالع کے لنے اگر واچ نہ تھی نہینا میں بو تھر تھی وقت یآسابی دیکھ سکنا تھا۔۔"
مقایل کا اسارہ مویایل اور وہاں کی دبوار یر نسب گھڑی یر تھا،اس کی یات یر عنادنہ ا ننے گالبی
لب نےدردی سے کچل کر انتی شنکی کم کرنے کی کوشش کی،
164
"تمہارا زحمت کر کے نہاں آیا بو نےکار گنا۔۔"
ت
وہ تھربور سرمندہ کنا تھا اسے،اب عنادنہ سرم ندگی کے ساتھ ساتھ ننگ تھی ہوبی نٹھی آیرو ھییچ
کر اسے گھوری،
"شش۔۔"
تھاری آواز کابوں میں یڑی تھی،عنادنہ کی چان پکلنے کو ہوبی،
165
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن یلس س
" ل۔۔!"
حس ن م کی س ن یلس س
ل ا کی آ ھوں یں تی کجھ اور تی سے لب تھڑتھڑانے تھے اس کے،دوسری چانب
ت ھ ن ی
یایدھا کہ ایک یل کو عنادنہ کو ا تی آ یں ایدر د تی محسوس ہو یں،وہ ڈری ھی مقا ل کے
ی ٹ س ی ھ ک
غمل یر،
س
نٹھی نتی یایدھنے کے پعد لسینل اس کا ہاتھ مضبوطی سے یکڑیا ا ننے ساتھ لے چال،خند قدم کی
دوری یر یارک ہوبی انتی کار یر عنادنہ کو ٹیٹھایا وہ جود تھی انتی چانب آکر ٹیٹھا،تھر ایک میسیج یانپ
کریا کار شنارٹ کنا،
"تمہاری کم غقلی کی سزا د ننے لے چارہا ہوں چاتم۔۔۔اب چپ رہو اگر چاہتی ہو سزا زیادہ نہ
یڑھے بو۔۔"
166
مقایل کا گھمئیر لہجہ عنادنہ کو جوپکایا،ریڑھ کی ہڈی میں شیسناہٹ محسوس کر کے وہ یکدم چپ
ہوگتی،
167
ی
"میری آ کھیں دکھ رہی ہیں۔۔"
س
وہ تھر سے جواز ٹیش کی ،لسینل گہری سانس تھر کر کار روکا تھر تھوڑا آگے حھکنا نتی کی گرقت
ڈھنلی کنا،
عنادنہ مبہ ننا کر رہ گتی،چان گتی تھی مقایل کسی ظور نتی نہیں ہنانے واال،کافی دیر گزرنے
کے پعد وہ اب اویگھنے لگی تھی اور تھر خند می بوں پعد ٹیند کی وادبوں میں ایربی چلی گتی،
سورج عروب ہونے لگا تھا اور دونہر سام سے گزر کر کجھ گھی بوں پعد رات میں یدلی،ع نادنہ کو
گہری ٹیند میں دیکھ وہ کار کی رقنار کجھ یڑھایا،ہابی وے خٹم ہونے کے پعد ایک پظر وہ یاہر کی
طرف دوڑایا،انتی میزل سے زیادہ دور نہ تھا وہ اب،اگلے ٹین گھینے کی مشاقت طے کر کے غین
س
انتی میزل یر کار روکا،جس حھنکے سے لسینل نے کار روکی تھی ع نادنہ ہڑیڑاکر اتھی،
س
" لسینل۔۔!"
آیکھوں میں اب یک نتی نندھی رہنے کے یاعث وہ گ ھیراکر پکاری جس یر اس کا ہاتھ تھام کر وہ
انتی موجودگی کا اجشاس دالیا،ع نادنہ کو یک گونہ سکون ہوا،
س ن
"کیتی دیر ہوبی ہے اور ہم کہاں چارہے ہیں۔۔کب ہیخیں گے کجھ بو ن ناٹیں لسینل۔۔"
س
اسے الجھن ہونے لگی تھی،نٹھی کار سے پکل کر لسینل اس کی چانب آیا تھر ڈور کھول کر
عنادنہ کا ہاتھ تھام کر اسے یاہر پکاال،
168
"کنا ہم نہیچ گنے۔۔؟"
اسے اننا ہاتھ تھام کر شندھ میں چلنے محسوس کربی ع نادنہ ایک ہاتھ آیکھ ہر نندھی نتی یر رکھنے تھر
بوحھی،
"اوکے۔۔!"
ی
کہنے ہی وہ عنادنہ کی آیکھوں یر لگی نتی ہنایا،اس کی آ کھیں سن سی ہوبی تھیں،نٹم وا کر کے
سا منے دیکھا بو نہلے م یظر کجھ دھندالیا سا ہوا لنکن جیسے جیسے م یظر صاف ہونے لگا عنادنہ کی
ی ی
آ کھیں انتی ہی کھل کر رہ گٹیں خنکہ زیان گ نگ ہوبی،نےپقین سی وہ سا منے د کھی تھی،
169
"آبی۔۔"
سب سے نہلے آگے یاتمہ آکر اسے ہاتھ میں تھاما گقٹ یکڑابی،اس کے چہرے یر جوسی کی دمک
دیکھ عنادنہ ہوش کی دننا میں آبی،
"یاتمہ۔۔معاذ۔۔ابوشہ۔۔تم لوگ۔۔"
نیجھے سے گقٹ النے والے ابوشہ اور معاذ کو تھی دیکھ عنادنہ جوسی سے بولی،اسے سمجھ نہ آیا ان
ً
سب کو دیکھ کنا رننکشن دے،وہ لوگ دوسرے سہر میں اورفونیچ میں رہنے تھے تھر۔۔۔،معا ذہن
س
میں حھماکا ہوا اور وہ تیزی سے یلٹ کر نیجھے کھڑے لسینل کو نےپقین پظروں سمیت
کی م قپ ی ش کی
د ھی،وخنہہ چہرے یر یرم م کراہٹ د کھ اس کا سک ین یں یدال،اور وہ ہر چانب د ھی،رات
ہورہی تھی،بو کنا وہ اسے سریرایز د ننے کے لنے اس سہر الیا تھا،عنادنہ مشکور پظروں سے اسے
ی
دیکھ وانس ان بخوں کو د کھی،ٹین سالوں پعد وہ زرا یڑے دکھنے لگے تھے،یاتمہ کو گلے لگا کر وہ
شٹھی بخوں سے تھی ملی تھر یرسوق پظروں نے ہر چانب کسی کو یالسا اور وہ نٹھی نسمہ جو کہ
س
اب کجھ یڑی ہوچکی تھی آج تھی انتی معصوم پظریں لسینل مراد یر پکانے اسے مشکرایا چیرت
سے دیکھ رہی تھی،
"نسمہ۔۔"
حھک کر اس کی تھو ڑی یکڑبی عنادنہ پکاری،
170
"آبی نہ ہیسنے تھی ہیں۔۔"
س
مشکرانے ہونے لسینل کو دیکھ وہ سدید چیرت میں نہ سوال بوحھی اور عنادنہ کھل کر ہیسی،
"ہاں نہ کھڑوس اب ہیسنے تھی ہیں۔۔۔ہماری آبی نے انہیں انتی طرح ننادیا۔۔"
نسمہ کے سر یر خ یت لگابی ابوشہ ہمیشہ کی طرح خیخ کر بولی،
171
"آہ۔۔ہم نہاں ہے بو گرنتی۔۔۔آپ نے انہیں ننایا وہ بو گھر یر ہی تھیں۔۔"
س
اچایک یاد یڑنے یر عنادنہ کے چہرے یر سے ہوابی اڑی،نٹھی ح ھٹ سے لسینل سے بوحھی،
"نہ لو۔۔"
س
مویایل پکال کر تمیر ڈایل کریا لسینل اس کی چانب یڑھایا،عنادنہ لے کر کان سے لگابی،دو
ننل یر ہی کال رنسبو کرلی گتی،
"اب کل کا بورا دن تم لوگ یرسکون ہوکر گزارو۔۔۔تھر یرسوں چیرنت سے گھر نہیچ چایا۔۔"
172
"کنا مطلب گرنتی ہم آج وانس نہیں آ ٹیں گے۔۔"
س
سوال وہ درنہ ننگم سے کررہی تھی مگر پظریں لسینل یر تھیں،اس نے پفی میں سرہالیا دوسری
چانب سے درنہ ننگم نے تھی وہی جواب دیا،
"یرسوں پکلنے سے نہلے میں آپ کو کال کروں گا۔۔۔اننا خنال رکھنے گا۔۔"
م
کہنا ہوا وہ نہلنے لگا تھر دوسری چانب درنہ ننگم سے طمین ہوکر کال کٹ کنا،مڑ کر عنادنہ کو
دیکھا جس کے ایکسیرنشن ہبوز قکرمند تھے،
173
"بو نہ تھی میری سزا۔۔"
س
کجھ دیر کی چاموسی کے پعد وہ لسینل کو ح ھیڑنے ہونے کہی،
"نہیں۔۔"
س
وہ شیحندگی سے بوال اور ع نادنہ کی مشکراہٹ عانب ہوبی،کالی آیکھوں میں یا ھی ایری،
مج
"یر آپ نے بو کہا تھا سزا د ننے لے چارہا ہوں اور تھر نہاں الکر سریرایز دیا۔۔ایک میٹ اگر نہ
سزا نہیں تھی بو سزا کنا ہے۔۔"
س
انتی یرابی بون میں یان شناپ بولتی وہ الجھ کر آچر میں بوحھی ،لسینل مشکراہٹ دیایا تھا،اس
سہر میں مقایل کھڑی لڑکی کا ایداز تھی یلکل ونشا ہی ہوا تھا جیشا نہلی مالقات میں ہویا تھا،
"ننایا ہوں۔۔"
س
کہہ کر لسینل اسکے گرد یازو چایل کریا اسے لے کر اورفونیچ سے پکال،کار اس نے وہی یر یاہر
حھوڑی تھر خند قدموں کا قاصلہ طے کر کے کجھ دیر پعد وہ غین ا ننے یرانے گھر کے سا منے
ی
کھڑا ہوا تھا،عنادنہ جوسگواری سے اس گھر کو د کھی تھی،
"چلیں۔۔"
ل گ ی ُ
ھ ن
عنادنہ کو لو د تی پظروں سے د کھنا وہ مئیر ہچے میں بوحھا خنکہ جوسی سے نہال وہ ح ھٹ ان نات
میں سرہالبی،
174
س
"ا ننے سال پعد اس کو دیکھ میں ننا نہیں سکتی کیتی جوش ہوں میں۔۔۔ لسینل آپ کو ن نا
ہے آج میری الپف کا سب سے جوپصورت دن ہے۔۔"
س
وہ جو لسینل کے الک کھو لنے یر ایدر آبی تھی،پقاست سے شیٹ ہونے گھر یر ہر چانب گالب
کے تھولوں کا گلدسبہ دیکھ چہک کر جوسی سے بولی،
"رات۔۔!"
حص س ن پ
گیٹ نند کریا لسی ل یح کنا اس کی،
"ہاں جو تھی ہے یر میں نہت جوش ہوں۔۔۔مجھے بو پقین ہی نہیں آرہا کہ نہ سب خف یقت
س
ہے۔۔۔ لسینل۔۔!"
س
لسینل کے تمام الٹیس آن کرنے یر الؤبج میں جوسگوار چیرت لنے ہر چگہ یکھرے تھول دیکھ
س
وہ شٹھی چیزوں کو حھونے بول کر آچر میں یلتی تھر لسینل کے یاس آکر مشکرانے ہونے گویا
ہوبی،
"ہاں یلک۔۔"
نےدھنابی میں بولتی عنادنہ جویک کر رکی،القاظ خٹم ہونے تھے ساتھ ہی مقایل کی آیکھوں میں
ل مجس
ٹیش دیکھ وہ اس کی یات کا مطلب ھی ،مخوں میں اس کی ٹیشابی م خنکہ عارض البی یڑے
گ ت
176
"چلو۔۔انتی سزا لینے۔۔"
ُ
عنادنہ کے کان فرنب لب الیا وہ دھٹمے آبچ د ننے لہچے میں بوال ساتھ ہی اس کی کان کی لو
س ی
دانت میں لنا،ع نادنہ ششک کر آ کھیں میچ گتی ،لسینل کی سرٹ کا تھاما کالر چکڑنے وہ
گ ھیراکر لرزبی آواز میں بو لنے لگی،
ن بوبی بون یر مقایل کا تھنڈا یرم لمس اس کی سانسیں یل میں تیز کرگنا،گالبی ل بوں کو سحتی سے
یھ ک
دان بوں میں دیانے وہ ا ننے معطل ہونے جواس بچال کرنے کے عرض سانس یجی،
177
س
حھک کر اسے یازوؤں میں تھریا لسینل قدم ا ننے کمرے کی چانب اتھایا،اس کی یاہوں میں
س
گ ھیرابی سرمابی وہ لسینل کے کمرے میں آکر ایک جوسگوار اجشاس کے بخت سرمگیں مشکراہٹ
پ ً
ل بوں یر سچابی،نہی وہ چگہ تھی چہاں وہ روز ام ند سے اس انشان کے یاس آبی جس کا دل فرننا
س
نٹھر ین خکا تھا اور آج،نےساچبہ عنادنہ کا سرخ و شفند ہاتھ لسینل کے شینے یر گنا،روز کے
مچالف کجھ تیز دل دھڑکٹیں محسوس کرکے ہی عنادنہ کا دل تھی دھڑک کر رہ گنا،اس کی
س
معصوم چرکت بوٹ کریا لسینل مشکراکر اسے ننڈ یر ٹیٹھایا ساتھ روم کی الٹیس آن کنا،
وہ جو ننڈ یر ٹیٹھنے ہی کسی یرم چیز کے اجشاس کے بخت ننڈ یر ہاتھ رکھتی معظر ہونے کمرے
ی
میں تھنلی جوشبو سانسوں میں ایاری تھی الٹیس آن ہونے یر کالی آ کھیں حمک اتھیں،ننڈ گالب
کے تھولوں سے تھرا تھا خنکہ کمرے میں چگہ چگہ کلناں سچاٹیں ہوبی تھیں،اسے گالب
نےبچاشہ نسند تھے اور اب ہر چانب انہیں دیکھ وہ نہت جوش ہوبی،
"لقظوں کا ننان صروری نہیں۔۔۔تمہاری جوپصورت آیکھوں کی حمک ہی ایدر کی ظاہر کرنے کے
لنے کافی ہے۔۔"
یابی کی یاٹ ڈھنلی کریا وہ ڈرنسنگ یر رکھا بوکیٹ اتھا کر عنادنہ کے یاس آیا،
178
"تمہارے د ننے یر ہمیشہ دھ یکارد ن نا تھا۔۔۔امند ہے تم انشا نہیں کروگی۔۔"
س
اس کے آگے یڑھایا بوکیٹ لسینل محیت سے بوال،ع نادنہ کو نےساچبہ وہ دن یاد آنے چب وہ
مقایل مح بوب کے لنے روز یازہ گالب کا بوکیٹ البی اور وہ کٹھی بو انہیں ڈسٹ ین میں تھینک
د ن نا بو کٹھی تیروں سے ہی مشل کر اسکے چذیات مجروح کرد ن نا،لنکن آج وہی سخص اسے بوں
گالب د ن نا کینا احھا لگ رہا تھا،
"ہناد تھی عانب ہے قلذہ کا تھی کجھ نہیں معلوم۔۔۔کنا ہوگنا ہے اس گھر کو۔۔"
پکل یف دہ لہچے میں کہہ کر انہوں نے تھر یاامند ہونے ننک لگالنا،
180
"عندی کو ننایا آپ نے؟"
کجھ دیر پعد ہیٹم نے بوحھا،
"نہیں۔۔۔اسے نہ ننایا نہلے ہی ا ننے دکھوں سے پکل کر اسے جوشناں پضیب ہوبی ہیں اب وہ
چراب نہ ہونے دو۔۔"
آزردگی سے بولٹیں وہ تھکی ہوبی پظر کھڑکی یر ڈالیں،تھنڈی ہوا کے حھو یکے تھی انہیں سکون
بحسنے میں یاکامناب ہورہے تھے،دل تھا کہ الگ گھین میں قند ہوا،
"اصل گناہگار بو میں ہوں اس کا۔۔۔جس نے اس کی الکھ فریادوں کے یاوجود اس یر تھروشہ نہ
کنا۔۔"
ہیٹم کا ڈگمگایا لہجہ ایدر کے کھوکھلے ین کی غکاسی کنا تھا،
"اور میں۔۔میں کونشا اس کی یابوں یر پقین کربی۔۔۔ ٹینے کی محیت میں ایدھی ایک مرنبہ تھی
اس لڑکی کے لہچے میں سچابی اور ا ننے ٹینے کی آیکھوں میں جوس نہ دیکھ سکی۔۔اور اب۔۔دل
181
کلینا ہے کہ وہ معصوم معاف کردے مجھے۔۔۔اس سے کہو یا ہیٹم معاف کردے مج ھے۔۔۔"
کہنے ہونے آچر میں روبی انتی ماں کو دیکھ ہیٹم یڑپ کر ان کے گلے سے لگ گنا،
"کس مبہ سے مایگوں معافی جیتی اذ ن ٹیں اسے دیں نہ لقظ وافعی نہت حھویا ہے اس کے
لنے۔۔۔"
سرخ آیکھوں سے روابی میں آنسو پکلنے لگے تھے،یاریک ل بوں کو تھییحنا وہ نےنسی سے کہا ساتھ
ی
آ کھیں میچ گنا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پ ً ہ
ن م لکی صیح کا وقت فرننا ساڑھے چار بچے وہ اتھا تھا،ایک ھربور ظر ج ِ
واب چرگوش یں ڈوبی ا تی پ ت
اع چاں یر ڈال کر وہ حھکا اس یر،
من ِ
"چاتم۔۔!"
م
نہانت یٹھی اور دلکش سرگوسی تھی کہ گہری ٹیند میں ڈوبی عنادنہ یاچا ہنے ہونے تھی ہوش کی
ی
دننا میں لونتی انتی مندی مندی آ کھیں نٹم وا کی،
"چار چالیس۔۔!"
ی م س
لسینل کے جواب یر اس کی آ کھیں کمل کھل کر رہ گتی،
183
"کہاں کے لنے۔۔؟"
انتی صیح اتھ کر کہیں چایا عنادنہ کو وی ِال چاں لگا نٹھی شستی سے ننک لگابی بوحھی،
کجھ دیر پعد گھر کو الک کر کے دوبوں ساتھ پکلے،عنادنہ کی چاموسی یاراصگی کا واصح اعالن
تھی،ایک بو مقایل انتی صیح اسے اتھایا تھا دوسرا صیح صیح اسکی شیح ندہ گھوری یر وہ نتی ہوبی تھی،
184
"ٹیٹھو۔۔"
س
کار کے یاس آکر وہ یلٹ کر اورفونیچ کو دیکھ کجھ سوخنے لگی تھی نٹھی لسینل کی آواز یر جویکتی
ٹ
کار میں یٹھی،
کی
بون گھینے کے شفر میں عنادنہ ایک لقظ تھی نہ بولی،شیسے سے یاہر قلک یر ہلکا گالبی ین د تی
ھ
س ٹ
وہ ہ بوز مبہ ننانے یٹھی تھی،اسے و فقے و فقے سے دیکھنا لسینل ہاتھ یڑھا کر عنادنہ کے یرم
ہاتھ کو تھاما تھر اسکی ہٹھنلی کو جومنا ہاتھ ا ننے شینے یر ر ک ھے ڈران بو کرنے لگا،مقایل کی عنانت
م
یر گالل بو یکھرے تھے اس کے گال یر مگر چہرہ کمل موڑے وہ ا ننے یایرات اس سے حھنابی،
س
ایک اوبجی نہاڑی یر کار روکنا لسینل یرمی سے اس کا ہاتھ حھوڑ کر کار سے ایرا،عنادنہ چیران
کی
ہوبی کر چانب د ھی،
"آؤ۔۔"
س
اسکی چانب کا ڈور کھول کر لسینل اسے کہا،وہ ایر کر نہلے بو نیج ھے کی طرف پگاہ دوڑابی ت ھر
س
ایک سوالبہ مگر سکوہ کناہ پظر لسینل یر ڈالی،جیسے بوحھ رہی ہو کہ کیشا سریرایز ہے،
س
اس کی پظروں کا مقہوم سمجھنا لسینل عنادنہ کے کندھے کے گرد ان نا یازو چایل کریا شندھ میں
چال،
185
"وہ دیکھو۔۔"
ھ کی
پ
یرمی سے کہا تھا وہ،اس کے وخنہہ چہرے کو د تی عنادنہ ہ بوز یاراض ظریں سا منے کی اور
نس۔۔،اسے لگا وہ اب سانس نہیں لے یانے گی اور اگر انشا تھا بو وہ تھر لینا تھی نہیں چاہتی
تھی سانس،
م
ایک پظر کا دیکھنا تھا کہ وہ مخو نت سے د یکھے گتی ،کمل آیکھوں سمیت لب تھی ہلکے سے کھلے
تھے سا منے کا م یظر دیکھ،وہ دوبوں غین نہاڑی کے آچر میں کھڑے تھے،
دوسری چانب سا منے سے نہنا آنشار اور اس یر سے اتھنے بچارات وہاں کے ماجول کو چراب یاک
ننانے تھے،تھنک اس نہاڑی کے اویر شندھ میں ظلوع ہویا سورج فصا کو الگ ہی روبق بحش رہا
تھا،گالبی قلک ریگ یدل کر ننال ہویا نےاننہا جسین لگا تھا،نہنے آنشار سے اویر اِ س نہاڑی یک
گھومتی زرد ریگ ننلناں وہاں کے م یظر یر چار چاید لگانے کے لنے کافی تھیں،قدرت کا نہ جسین
ی
م یظر ساید ہی وہ کٹھی د کھی تھی،
186
"نہت جوپصورت بوں لگ رہا ہے جیسے نہ خف یقت نہیں جواب ہو۔۔"
ی ن پ ھ کی م کہ پ ی
م ک ی
یرانس کی ک ف یت یں تی وہ غور د تی اس جو صورت م ظر کو ا تی آ ھوں یں قند کرلینا چاہ
رہی تھی،
اس کی کمر یر اننا ایک مضبوط یازو چایل کر کے دوسرے ہاتھ سے عنادنہ یرم و یازک ہاتھ تھام
کر اتھا وہ آگے کنا،جواب سی چالت میں عنادنہ اتھی کجھ اور سوختی چب ایک جوپصورت زرد ریگ
ٹ
ننلی اس کے فصا میں معلق ہاتھ کی مجروطی اپگلی یر آ یٹھی،
"ہا۔۔"
وہ بولنا چاہتی تھی مگر مبہ کھال کا کھال رہ گنا جوسی سے،تھنلی آیکھوں سمیت اس ننلی کو دیکھ
ن س کی س
ل ہ بوز یلس عنادنہ جوسگوار چیرت سے چہرہ موڑے لسینل کو د ھی،اس کا ہاتھ لرز چایا اگر
مضبوطی سے نہ یکڑا ہویا،
"تمہاری طرح۔۔"
187
"نہیں مجھ سے تھی زیادہ جسین۔۔"
س س
لسینل کے چذب تھرے لہچے میں کہنے یر وہ آگے سے بولی،ننلی اڑی تھی اور لسینل یرمی
سے اس کا رخ انتی چانب کنا،
"آپ کی عنانٹیں مجھے سرمندہ کرد نتی ہیں۔۔۔اس البق نہیں ہوں میں۔۔"
س
یکدم ذہن کے یردے میں اننا کنا گنا سلوک یاد آنے یر عنادنہ سرمندہ ہوبی بولی ساتھ لسینل
کے شینے یر سر رکھی،
س
"میں نے نہت علط کنا تھا لسینل سوری۔۔"
ی
وہ جو اسے ا ننے شینے یر سر رکھا د یکھے اس کے گرد یازو یایدھے آ کھیں مویدا تھا کجھ دیر پعد تھر
اس کے بو لنے یر گویا ہوا،
188
س
"تم ہر اس جوسی کی خقدار ہو جو لسینل مراد کے غوض تمہیں ملتی ہے اور چہاں یک یات علط
کی ہے بو یلکل تم نے علط کنا تھا۔۔۔ع نادنہ۔۔!"
س
اس کی نست سہالکر کہنا لسینل آچر میں پکار کر اسے جود سے الگ کنا،
"میں ہر یار تمہاری دھ یکار یرداست نہیں کروں گا۔۔۔کوشش کریا کہ اب مجھ یر تھروشہ رکھو
س
ک بویکہ تمہاری نےاغیناری میرا دل دکھاد نتی ہے۔۔ لسینل مراد مابوس ہوچایا ہے تمہیں جود یر
تھروشہ نہ کرنے دیکھ۔۔نہت محیت کریا ہوں تم سے نہت زیادہ۔۔۔مت کنا کرو مجھے جود سے
دور۔۔"
ھ ح
عنادنہ کے یازوؤں کو ہلکے سے ھوڑیا وہ خ بوبی ایداز یں کہہ کر آچر یں اس کا چہرہ ہا ھوں
ت م م جی
کے ننالے میں لے کر یرمی سے کہا،مقایل کے لہچے کا خ بون عنادنہ کی آیکھوں میں تمی لے
س ً
آیا،پقینا وہ اس رات کی یات کنا تھا چب وہ اس کے فرنب ہونے یر لسینل کا ہاتھ حھنک
رہی تھی،
س
"سوری لسینل۔۔۔اب کٹھی شکانت کا موفع نہیں دوں گی آپ کو۔۔"
س
لہچے میں غفندت کنے کہتی وہ تیروں کو اوبچا کر کے لسینل کی کشادہ ٹیشابی ا ننے گالبی ل بوں
سے حھوبی،
ت س
اس دس ِمن چاں کے ُیر سرانت لمس یر زیدگی سے تھربور مشکرایا لسینل اسے جود میں ھییچ گنا،
189
"ایک وعدہ کروگی مجھ سے۔۔"
کجھ دیر پعد کار کی بونٹ یر وہ دوبوں ٹیٹ ھے اس جسین م یظر کو پظروں میں ایار رہے تھے نٹھی
س
لسینل کے بوحھنے یر عنادنہ م بوجہ ہوبی،
"جی۔۔"
"میں نے کجھ ا نسے کام سر ابچام دنے ہیں جو میری پظر میں یلکل تھنک مگر دننا کی پظر میں
قای ِل ق بول نہیں۔۔۔"
ً
"آپ کی پظر میں اگر وہ کام تھنک ہیں بو پقی نا میری پظر میں تھی تھنک ہو یگے۔۔"
س
لسینل کی یات کاٹ کر اس کے کندھے یر سر رکھی عنادنہ نےقکری سے کہی،
"کنا سچ میں۔۔"
وہ جیسے پقین دہابی کررہا تھا،
"یلکل۔۔"
ی
کندھے اخکاکر اس نے آ کھیں مویدی،وخنہہ چہرے یر یایرات تھر یال کے شیحندہ ہونے،ذہین
پظریں سا منے اس جسین م یظر یر حمانے وہ کسی گہری سوچ میں ِگھریا تھر ٹیند کی وادبوں میں
ایربی عنادنہ کے گرد مضبوط یازو کا گ ھیرا ننگ کنا،
190
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م ح ص ٰ
" عری ھوڑ دو یں کرلوں گی۔۔"
ص ٰ ٹ
صیح الؤبج میں یٹھی وہ ا ننے تیروں یر یام لگارہی تھی نٹھی اس سے لے کر نہ کام عری کرنے
لگی،اب اسے رو کنے کے عرض مطیبہ م یع کررہی تھی،
"نہ بی بی۔۔۔آپ نے میرے لنے انتی آسان ناں کردی گاؤں سے میرے گھر والوں کو سہر
میں شقٹ ہونے کے ٹیسے تھخوانے اب نہ سب بو میں آپ کے لنے کر ہی سکتی ہوں یا۔۔۔"
ت چ ش شم ش ل م کہ ص ٰ
ل
م کور ہچے یں تی عری ل اس کے تیروں یر ا ننے ہاتھ الرہی ھی،
ہ ن ص ٰ
" عری یں یر رہو۔۔"
ً
ہیٹم کو الوبج میں آنے دیکھ صعری ہاتھ صاف کربی کچن میں چانے لگی نٹھی مطیبہ نے فورا
کہا،ڈر تھا کہ کہیں بجھلی مرنبہ کی طرح وہ تھر اسے حھونے کی کوشش نہ کرے،
191
"مجھے اکنلے میں یات کربی ہے۔۔"
ی ص ٰ
شیحندگی سے کہنا وہ عری کو د کھا بو اس نے سر الکر ھر کچن کا رخ کنا،
ت ہ
"صعر۔۔"
"بو۔۔"
لہجہ ہ بوز نےجسی لنے تھا اس کا،
"بو۔۔"
تھر وہی مح یصر سوال،ہیٹم نےنس ہوا،
192
"میں تمہیں اننا ق یصلہ شنا چکی ہوں۔۔"
مضبوط لہچے میں کہتی وہ تیر صوفے سے زمین یر رکھنے کی کوشش لگی،اس دوران تیر کے درد سے
اتھنے والی ٹیس کی پکل یف مطیبہ کے چہرے یر حھابی،ہیٹم ح ھٹ سے آگے یڑھنا مدد کے عرض
اس کا تیر یکڑا،مطیبہ کرنٹ کھاکر رہ گتی،جوپصورت چہرے یر وہی جوف کے سانے لہرانے جو
اس شٹمگر کے حھونے سے آنے تھے،
"ہ۔۔ہاتھ ہناؤ۔۔"
م خ
یل میں زرد ہونے چہرے سمیت وہ یحتی وہ کمل کوشش کی تھی لہجہ نہ ڈگمگانے کی،دوسدی
ً ی
چانب اسے آ کھیں تھنالنے دیکھ ہیٹم فورا سے نہلے دور ہوا،
"مطیبہ۔۔"
193
"سمجھ کنا رکھا ہے مجھے۔۔کھلویا ہوں تمہارے ہاتھ کا چب چاہا رکھا چب چاہا دھ یکار دیا اور حھوا کس
جق سے ہے تم نے مجھے۔۔"
پ ً
اس کے غصنلے ایداز کو دیکھ ہیٹم سمجھ رہا تھا کہ وہ قینا ھڑاس پکال رہی ہے ا تی ک بویکہ تیر
ن ت
حھویا کوبی یڑی یات نہ تھی،
"میں نے صرف۔۔"
"اوہ۔۔میں بوحھ تھی کس انشان سے رہی ہوں نہ یات ہیٹم سکندر۔۔۔ہناد سکندر کا تھابی خنہیں
ج س
ہر چیز یلکہ انشان انتی ملکیت لگنا ہے اور انہیں حھویا وہ اننا اننا ق ھنے یں۔۔"
ہ مج
"مطیبہ۔۔۔"
یڑپ ہی بو گنا تھا اس لڑکی کی نہ یات سن کر،
194
"ا نسے مرد میری پظروں کی قہرست میں گنے گزرے ہی ہونے ہیں جو ننا کسی بخف بق یا ن بوت
کے عیر کی یات یر پقین کر کے انتی ن بوی کو یدکردار کہنے ہیں اور جوش ہوچاو ہیٹم سکندر تم آج
اس قہرست میں نہلے تمیر یر ہو۔۔"
وہ جیسے فسم کھابی تھی اس سخص کو تھی انہیں لقظوں سے مارنے کی جو وہ اکیر اس یر آزمایا کریا
تھا،مطیبہ کے القاظ اسے کسی طما بچے سے کم نہ لگے تھے،سرمندگی سے وہ پظریں اتھانے کے
قایل نہ رہا تھا،
"تھنک ہے میں ہوں گنا گزرا ایک گھینا مرد جو انتی ن بوی یر یدکردار کا ننگ لگایا تھا مگر مطیبہ تم
جود سوجو ان الجھ بوں میں گھرا میں کیسے پقین نہ کریا آیکھوں د یکھے یر۔۔اور گواہ اگر عیر تھی ہویا بو
میں ساید نہ ماننا مگر وہ بو ا ننے تھے۔۔۔"
نےنسی سے اسے ا ننے نہنے میں سمجھانے کی کوشش کریا وہ عیر ارادی ظور یر تھر دل دکھایا تھا
مطیبہ چہایگیر کا،بو کنا اسے انتی ن بوی یر پقین تھا ہی نہیں یا وہ کریا ہی نہیں چاہنا تھا،ک بوں وہ
سخص ہر چگہ صرف جود کو مطلوم پصور کریا تھا،ک بوں اس کے دل کے چاالت پظرایداز کرد ن نا تھا،
"بو تھر آج ان بوں کو حھوڑ کر عیر کے یاس ک بوں آنے ہو۔۔چاو تمہارے ان بوں کو صرورت ہے
تمہاری۔۔"
یکدم لہجہ نےرجی میں سمونے وہ بولی،
195
"نہیں کرو انشا۔۔۔معاف کردو مجھے نہیں بو کم از کم ماما کو ہی۔۔"
"مجھ میں اب اور طرف نہیں تم جیسے کم طرف کو معاف کرنے کا اور یات چہاں یک یابی امی
کی ہے بو تھنک ہے۔۔میں انہیں معاف کربی ہوں۔۔اب چاؤ نہاں سے۔۔"
چہرہ موڑ کر وہ اننا تھنگنا لہجہ تمشکل نےجسی میں یدلے آچر میں سخت ایداز میں بولی،درد سے جور
ہوا دل جون کے آنسو رورہا تھا،اس لنے نہیں کہ وہ سخص آج اس کے سا منے نےنس کھڑا تھا
یلکہ اس لنے کہ اب اس سخص کے لنے اس کا بخین سے دھڑکنا دل ساکت ہوخکا تھا،ہاں
اسے اب فرق نہیں یڑیا تھا اس سخص کو اذ نت میں مینال دیکھ،دکھ بو وہ اس یات یر کربی کہ
انتی چالص اور یادان محیت کے لنے اس نے ایک علط سخص کا انیچاب کنا تھا،
دوسری چانب اسے پکل یف میں گھریا محسوس کرکے ہیٹم میں ہمت نہ ہوبی کجھ اور کہنے کی،وہ
معاف کرچکی تھی مہناز ننگم کو،اس کا نہ طرف ہی ہیٹم کے لنے کافی تھا،اب نس وہ اسے کسی
طرح سکندر وال الیا چاہ رہا تھا،چاننا تھا نہ مشکل ہے ہر یاممکن بو نہیں یا،نٹھی تھر آنے کی امند
لینا وہ ا ننے قدم نیجھے لینا مڑا،
چب اسے لگا کہ وہ چال گنا ہے نب رخ وانس اس گیٹ کے چانب کی چہاں سے وہ شٹمگر اتھی
پکال تھا،اس کے چانے کے پعد چب سے کنا مطیبہ کا ضیط بویا،وہ نہیں رویا چاہتی تھی یر رو
یڑی،مح بور تھی کہ اس سخص کو معاف کرنے کا طرف ہی نہیں تھا اس میں اب،وہ وقت اسے
196
تھولنا ہی نہیں تھا چب نےفصور ہوکر تھی وہ کٹھی کسی کی جوس کا نشانہ ٹینے لگتی بو کٹھی اس
یر ہی سارے الزامات عاید کردنے چانے اور نب۔۔۔،نب مقایل اس کا یام نہاد سوہر ہر ایک
کی یابوں یر پقین کریا اس کو فصوروار نہرا کر انتی چانب سے تمام کوشسیں کریا اسے کرب میں
مینال کرنے کی،اگر وہ انتی ہی پفرت کا دغویدار تھا بو اب ک بوں آیا تھا اسے منانے،گھر چلنے کا
کہنے،ک بوں روز اس کے تھرنے زحموں یر آکر تیر رکھ د ن نا،وہ جینا کوشش کررہی تھی سب کجھ
تھالکر انتی زیدگی سروع کرنے کا سوچے وہ سخص اننا ہی رکاوٹ ین رہا تھا اس کے کام میں،
" چلے چاؤ تم نہت دور چلے چاؤ ہیٹم سکندر مجھ سے۔۔۔نہیں کرسکتی میں تمہیں معاف کٹھی تھی
نہیں۔۔"
چہرہ ہاتھوں میں حھنانے وہ زی ِر لب یڑیڑابی یلک کر رورہی تھی،دل یری طرح بوٹ خکا تھا اس کا
سکندر وال کے ہر مکین کی چانب سے،
مردہ قدموں سے یاہر پکلنا وہ تھاری ہونے دل سمیت غین جوک ھٹ یر ٹیٹھا تھا،ا ننے ہی ہاتھوں
سے سب کجھ صنا پع کر کے اب چالی داماں ہی بو رہ خکا تھا،اس کا گھر گھر نہ رہا تھا،اس لڑکی
کا دل تھی جس قدر دکھایا تھا وہ چاننا تھا کہ اب کٹھی معافی نہیں ملنے والی اسے،ا ننے گناہ کا
کقارہ کریا چاہنا تھا وہ یر ساید پقدیر اس معا ملے میں اس کا ساتھ د ننے سے گریزاں تھی،قلذہ کی
گمشدگی،مہناز ننگم کی روز یروز یگڑبی طی یعت مطیبہ کی پفرت اور ا ننے گناہ کے بجھناوے کا بوحھ
197
اس قدر یڑھ خکا تھا کہ وہ تھکنے لگا تھا ان سب سے،چاروں طرف سے یرنشابی میں گھرا وہ ٹیند کی
کمی سے سرخ ہوبی ہلقہ آور آیکھوں کو مشلنا ُدک ھنا ہوا سر ہاتھ میں گراگنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن یلس ن س
ل اسے الیگ ڈران بو یر لے کر گنا تھا،اور اب دونہر ہونے کے اس نہاڑی سے وا سی یر
فرنب وہ دوبوں وانس گھر یر لونے تھے،ایدر داچل ہونے ہی شٹھی طرف تھول یکھرے دیکھ ایک
ٹ
یل کو عنادنہ جوش ہوبی صوفے یر یٹھی،
"ہاں مگر رات یک چب نہ سوکھ چاٹیں گے بو نہت یرے تھی لگیں گے نہیر ہے اتھی صاف
کرلیں۔۔اتھو میں کار سے سامان الیا ہوں۔۔"
س
اس کا گال تھیٹھناکر کہنا لسینل شندھا ہوا بو ع نادنہ تھی تھر ننا جوں چراں کے اتھی،مٹیشن
198
سے پکلنے سے نہلے وہ اسماء کو عنادنہ کے دو سوٹ اور خند صرورت کے سامان ننک کرنے کی
ہدانت دیا تھا اور فرمان سے اننا اور عنادنہ کا سامان کار میں رکھوایا تھا،ہینڈ کیری کار سے الیا وہ
عنادنہ کے ساتھ مل کر صقابی کروایا تھا،آدھے گھینے پعد صقابی سے قارغ ہوکر عنادنہ نہانے
س
کے عرض واسروم کا رخ کی نب یک لسینل کھایا اورڈر کرخکا تھا،چب یک وہ نہاکر پکلی کھایا
س
آخکا تھا،اسے کھایا پکا لنے کا کہنا لسینل جود تھی واسروم کا رخ کنا،
س
"ایک یات کہوں لسینل۔۔"
س
کھانے کے دوران ع نادنہ مشلشل کجھ سوختی لسینل کو مچاطب کی،
"کہو۔۔"
"تم ماں ٹینے سے مجروم ہو اور تمہیں لگنا ہے کہ اوالد کی پعمت ہمیں کٹھی نہیں ملے گی نٹھی
نہ خنال تمہارے ذہن میں آیا۔۔"
199
س
اسے سمجھانے کے عرض عنادنہ لسینل کے دوبوں ہاتھ یکڑبی بو لنے لگی تھی مگر اس کی یات
س
کاٹ کر لسینل آگے سے کہا بو وہ چپ ہوبی تھی،
"عنادنہ اتھی سادی کو یاتم ہی کینا ہوا ہے ہماری جو تم نہ سب سوخنے لگی ہو۔۔پقین رکھو اّٰللہ
یر وہ بوازے گا صرور ہمیں اوالد سے۔۔"
ی س
لسینل کے ُیرپقین لہچے میں کہنے یر عنادنہ نےنسی سے اسے د ھی،
ک
"تھنک ہے اگر تم نسمہ کو ایڈو نٹ کریا چاہتی ہو بو مجھے کوبی یرایلم نہیں یر سرط نہ ہے کہ آ نندہ
کٹھی ہمارے درمنان اس طرح کے موصوع یر یات نہیں ہوگی۔۔۔چب مجھے پقین ہے اّٰللہ یر بو
200
تمہیں ک بوں نہیں۔۔"
س
شیحندگی سے کہنے لسینل اس کی کالی تم زدہ آیکھوں میں دیکھا،عنادنہ چیران ہوبی تھی اس کے
لہچے میں اس چد یک پقین محسوس کرکے،وافعی وہ درنہ ننگم کا ہی بویا تھا چدا یر پقین رکھنے واال،
"کنا۔۔"
"ک بوں۔۔"
201
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ی م
آفس سے لیٹ گھر یر آیا تھا وہ،مہناز ننگم کو کمرے میں سویا د کھ کر ین ہویا اب الؤبج یں
م م ط
آکر صوفے یر گرنے کے ایداز میں ٹیٹھا،صوفے کی نست سے ننک لگانے اس نے تھک کر
ک ک م ھ گ ت ل ھ کی
آ یں موید یں،اے سی کی تھنڈک نے ھی ایدر کی ین یں سی می کا کام نہ کنا،
"مجھ میں اب اور طرف نہیں تم جیسے کم طرف کو معاف کرنے کا۔۔"
مطیبہ کی یات ذہن میں دتمک کے طرح خنک کر گردش کررہی تھی،وہ کس چد یک اننا مقام
گراخکا تھا اس لڑکی کی پظروں میں،ک بوں وہ اس یر رحم نہ کھایا تھا کبوں اس یر پقین نہیں کنا
تھا،اگر کو ایک بول ہی میٹ ھے وہ بول د ن نا اسے بو ساید آج وہ انتی نےجس نہ ٹیتی،
کجھ یلوں کے لنے ان سوجوں سے حھ یکارا یانے کے عرض وہ اننا سر حھنکنا کھڑا ہوا،رخ تھر یاہر
کی چانب تھا،کار میں ٹیٹھنا وہ کجھ دیر کے لنے ساچل سم ندر یر چایا چاہنا تھا مگر مٹیسر ذہن اس
قدر ہوا تھا کہ نندرہ میٹ کی ڈران بو کے پعد جود کو چہایگیر ہاؤس کے یاہر یایا،وہ چیران ہوا تھا ا ننے
اس غمل یر،مطیبہ چہایگیر اس چد یک اس کے دماغ میں سوار ہوچکی تھی،نےپقیتی کی ک یف یت
میں چہایگیر ہاؤس کو دیکھ وہ کار ربورس کریا چاہا مگر تھر کجھ سوخنا پکل کر یاہر آیا،قدم ایدر کی
202
چانب تھے،ڈور ننل یر ہاتھ رکھا تھا اس نے،شنکی تھی ہورہی تھی،اس وقت اسے وہاں دیکھ
یاچانے کیشا رننکٹ کربی مطیبہ،
ص ٰ ٹ یہ پ کھ ص ٰ
کافی دیر پعد گیٹ ال ،عری کو سا منے چیران ظروں سے جود کو یکنا یاکر م ایدر قدم رکھا ،عری
جود ہی یرایر میں ہوبی،ایدر آیا وہ النا جود سدید چیرت میں گھرا تھا مطیبہ کو اب یک صوفے یر ٹیٹھے
دیکھ،
جود کو دیکھنے ہی مطیبہ کی پظروں میں یاگواری ایرنے دیکھ ہیٹم کو سخت نسٹمابی ہوبی تھی،اسے
دیکھ وہ کجھ بوحھ نہیں رہی تھی مگر ہ بوز یاگوار پظریں اس یر گرانے صوفے یر ہاتھ رکھتی کھڑی
ہوبی،کل کے مقا یلے اب کافی نہیر لگا تھا اسے تیروں کا درد،
"نہ کوبی وقت ہے کسی کے گھر یر بوں یال اچازت آنے کا۔۔"
ً
ہیٹم کا ارادہ سمجھ چکی تھی وہ نٹھی ایک پظر دیڑھ بچابی گھڑی کو دیکھ فورا سے نہلے اس کی یات
کابی،جیسے شینا ہی نہ چاہ رہی ہو اس کے مبہ سے وہ لقظ،ک بوں کہ مقایل کو معاف کرنے کا
طرف اب نہیں تھا اس میں،
203
"چاننا ہوں اتھی جو تم شبوگی بو صرور غصہ ظاہر کروگی۔۔۔کوبی جق تھی نہیں رکھنا میں نہ بوحھنے
کا یر۔۔"
وہ جود انتی چالت سے جیسے عاچز تھا،اس لڑکی کا دور رہنا گوارا ہی نہیں ہورہا تھا اور ہمت تھی
نہیں تھی بو لنے کی مگر تھر گہری سانس تھر کر ہیٹم اس کی چانب یڑھا،
"یلکل نہیں۔۔"
ایل لہجہ تھا،
204
"یاہر کا راسبہ وہاں یر ہے۔۔"
ننا اس یر کوبی پگ ِاہ علط ڈالے وہ نےیایر لہچے میں بولی،
"یلیز۔۔"
205
"ظالق یامہ تھخواد ن نا کل۔۔"
ہیٹم یڑپ کر یلنا تھا ساتھ اس لڑکی کو دیکھا،نہ القاظ کہنے اس کے جوپصورت چہرے یر زرا تھی
پکل یف دہ یایر نہیں دکھا تھا،
آیرو اتھابی،
"احھا۔۔"
مذاق اڑانے واال ایداز تھا اس کا،ایک یل کو ہیٹم کو اس یر کسی نٹھر کا گمان ہوا،
"ہوسکے بو کٹھی مت آیا ک بویکہ مطیبہ چہایگیر تمہارے مرنے یر تھی تمہیں معاف نہیں کرنے
والی۔۔"
مطیبہ کا لہجہ نےرحمی کی چدوں کو حھوا تھا،ہیٹم الل تھ بوکا ہویا چہرہ لنے تیزی میں چہایگیر ہاؤس
سے پکلنا چال گنا،
ٹ
مطیبہ آہسنگی سے صوفے یر یٹھی،ذہن میں جود کے ساتھ کی گتی اس شٹمگر کی زیادنناں آبی بو
نٹھر ہونے دل میں اور پفرت سی اتھری،صیح وہ انتی پکل یف یر روبی تھی مگر اب اس شٹمگر کے
چہرے یر نےنناہ اذ نت و پکل یف دیکھ کر تھی اسے فرق نہیں یڑرہا تھا،کنا کربی دل ہی نٹ ھر
ہوخکا تھا اس کی طرف سے،نہ اس کی موجودگی یر دھڑکنا نہ اس کی پکل یف یر یڑن نا،
چہایگیر ہاؤس سے تیزی میں پکلنا وہ کار میں ٹیٹھا،مطیبہ کے آچری حملے نے اس کا دماغ ماؤف
کر کے رکھ دیا تھا،کنا سچ میں اس لڑکی کو ہیٹم سکندر کی موت سے تھی فرق نہیں یڑنے واال
تھا،انتی نےجس ہوچکی تھی وہ،ہیٹم کو سدت سے افسوس ہوا انتی کی گتی زیادن بوں یر،ایک موم
کی گڑیا کو کنا سے کنا کر کے رکھ دیا تھا اس کی پفرت و خقارت نے،
207
کار شنارٹ کریا روڈ یر ڈال کر وہ اشینڈ تیز کرنے لگا،
بو کنا وہ سچ میں کٹھی اسے معاف نہ کربی،اس قدر پفرت کربی تھی اس سے کہ اب ہیٹم کے
ساتھ بو دور کی یات اسے دیکھنا یک گوارا نہ کررہی تھی،
"تم نے اننا صنا پع جود کنا ہے ہیٹم سکندر۔۔اس ہی البق ہو تم ہمیشہ اکنلے رہنے کے۔۔"
ی ھ ح
ج
ضمیر سے آبی آواز نے اسے ھوڑ کر رکھ دیا تھا،بوں لگ رہا تھا جیسے چان چانے کو ہورہی
ہو،آچر غم ہی اننا یڑا تھا،کار کی شینڈ یڑھایا وہ سدید نےنسی کی ک یف یت میں جود سے زد ہونے
گناہوں کا سوچ رہا تھا،ایدر و یاہر اذ نت ہی اذ نت تھی،ا ننے ایدھے ین میں سب کجھ بو کھو ہی
خکا تھا وہ،ان بوں یر ِکنا تھروشہ الگ بویا ساتھ اس معصوم کا گناہگار نہرا،ہاں اس یر یاجق ا ننے
ظلم کرنے وہ نہت یڑا گناہگار نہرا تھا،
"انتی ذمہ داری سے اننا تھی عاقل نہ ہو کہ پعد میں صرف بجھناوا تمہارے ہاتھ لگے۔۔"
"بو۔۔"
اس کے مبہ سے پکلتی دلجراش خیخ فصا میں ارپعاش نندا کی تھی ساتھ ہی تیزی سے یل کھابی
اس کی کار لمخوں میں الٹ گتی،یکڑے ہونے کابچ اس کے وخنہہ چہرے سمیت گردن یر خٹھے
خنکہ تیروں کی چرکت محسوس نہیں ہوسکی،جوتم جون وجود سمیت ایدھیر ہوبی آیکھوں میں آچری
چہرہ اس معصوم کا آیا جس سے معافی کا وہ ظل یگار تھا مگر نہ موفع تھی ساید اسے نہیں ملنا
تھا،اگلے ہی لمچے شیشان روڈ یر اس التی یڑی گاڑی میں ہیٹم سکندر کا مضبوط وجود ساکت ہوا تھا،
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اداس مت ہو۔۔"
ٹ س
مشلشل کار ڈران بو کریا لسینل یرایر میں چاموش یٹھی عنادنہ کو دیکھ کر کہا،وہ دوبوں دونہر کو
ہی گنے تھے اورفونیچ یر نسمہ نے ان کے ساتھ چانے سے اپکار کردیا،وہ اورفونیچ کے بخوں کے
س
ساتھ جود کو کمفرٹینل محسوس کررہی تھی،ع نادنہ کا دل تھا اسے منانے کا یر لسینل نے اسے
209
زیادہ موفع نہ دیا،وہ نہیں چاہ رہا تھا کہ نسمہ کے ساتھ کوبی زیردشتی ہو،نٹھی جود تھی ع نادنہ کو
س
م یع کنا،نندرہ میٹ پعد اورفونیچ سے پکل کر عنادنہ کے کہے کے مطابق لسینل نے شٹھی
سامان تھر کار میں رکھا اور اس ہی وقت وہ دوبوں وانسی کے شفر یر روانہ ہو گنے تھے،اور اب
انہیں ا ننے سہر کے چدود میں داچل ہونے ایک گھیبہ ہوخکا تھا،مٹیشن زیادہ دور نہ تھا اب،
"کنا ہو۔۔"
عنادنہ کے القاظ تھمے تھے چب اس کی پظر سا منے کجھ دور التی یڑی دھواں اڑابی کار یر یڑی،
210
"ہیٹم تھابی۔۔!"
ی پ ً س
کار کے فرنب نہیچا لسینل عنادنہ کے خیحنے یر جویک کر اس کی چانب د کھا جو فرننا تھا گنے
ہونے کار کے یاس آبی تھی،
"عنادنہ۔۔"
وہ چیران ہوا تھا،
س
"نہ۔۔نہ۔کار۔۔تھابی۔۔ہیٹم تھابی کی ہے لسینل۔۔"
س
تھرابی آواز میں کہتی وہ حھکی،دوسری چانب لسینل تھی چلدی سے حھک کر بونے ہونے
شیسے کی چانب دیکھا،ایدر یری طرح سے حھلتی ہوا ساکت یڑا مضبوط وجود کسی اور کا نہیں ہیٹم
سکندر کا ہی تھا،
"تھابی۔۔"
عنادنہ کی تھر خیخ پکلی تھی ا ننے تھابی کا نہ جسر دیکھ،دل یری طرح گ ھیرانے لگا تھا کہ نبہ نہیں
وہ زیدہ تھا تھی یا،اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی،کجھ سمجھ نہ آنے یر وہ یآواز رونے لگی،
"عنادنہ۔۔"
ً س
وہ جو لسینل کی کاروابی دیکھ مشلشل رورہی تھی اب اس کے پکارنے یر فورا آگے آبی،
"ٹیٹھو چلدی۔۔"
ٹ س
کار میں ٹیٹھنا لسینل عنادنہ کو بوال،وہ شندھا نیجھے چا کر یٹھی،ہیٹم کا سر انتی گود میں ر ک ھے وہ
س
یارہا لسینل کو کار کی شینڈ تیز کرنے کا کہتی گتی،ہمت نہ تھی مگر نہت کوشش کے پعد
اس نے دو اپگلناں ہیٹم کی یاک کے فرنب کی،دھٹمی۔۔۔،نےچد دھٹمی سانس چل رہی تھی
جیسے کجھ شنکینڈ میں سانسوں کی وہ ڈور بو ننے کو تھی،عنادنہ کو ان نا دل یاہر آیا محسوس ہوا،تمام
را شنے وہ ہیٹم کی زیدگی کی دعاٹیں کربی گتی تھی،
212
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہورہی۔۔"
م ن س ہ م چ م ت کہ ص ٰ
ن
جوسی سے تی نہ عری ھی،دو ہر کو طیبہ کو لنے یں مدد کربی وہ آ گی سے طیبہ کا ہاتھ
حھوڑی تھی جس یر زیادہ نہیں یر کافی چد یک مطیبہ چلنے لگی تھی،تیر میں درد تھی اب کل کی
ک ت ص ٰ
طرح محسوس نہیں ہورہا تھا ،عری کی یات تی وہ ل م کرانے کی کوشش کی گر یاکام
م ش ش م یش
رہی،النا آیکھوں میں دکھ کے سانے لہرانے لگے،ماضی کے ہونے شٹم تھو لنے ہی نہیں تھے،
ل کی پ م ص ٰ
عری کا فون بچا تھا ،طیبہ جویک کر سوالبہ ظروں سے اسے د ھنے گی،
"بی بی ہیٹم صاچب کا کل رات ایکسنڈنٹ ہوگنا تھا۔۔۔چالت نہت چراب ہے۔۔۔فرخندہ نے
ننایا ننگم صاچبہ نہت رورہی تھیں،اتھی وہ لوگ ہسینال میں ہیں۔۔"
213
ت م کی ن ھ ح م ھ ت ص ٰ
ج ج
عری یسے یسے اسے ننارہی یں طیبہ کی ل آ ھوں یں و نسے و نسے سرد یایر ا ھریا گنا،ننا
نہیں ک بوں یر اسے فرق یک نہیں یڑا تھا اس چیر سے،ساید کہ اس کا دل ا ننے ساتھ ہونے
ظلم کے یاعث کافی چد یک نٹھر ہوخکا تھا،جس میں کسی کے لنے کوبی یرم اجشاس یک نہیں
ص ٰ
چاگ یارہا تھا،اب تھی وہ چاموش پظروں سے عری کو د کھ رہی ھی،
ت ی
214
میں گہرا کٹ لگنے کے یاعث پکل یف ہ بوز تھی خنکہ تیروں اور ایک یازو میں یالسیر لگنے کی وجہ
سے ان میں شیسناہٹ اور پکل یف ہر تھوڑی دیر میں اتھتی،
"کار شینڈ میں چالکر تم ہیرو ٹینے کی جواہش رکھ رہے تھے۔۔"
س
وارڈ میں اس کے سا منے کھڑا لسینل سرد لہچے میں اشیفشار کنا تھا،ہیٹم سر حھکا گنا،سب کے
بوحھنے یر اس نے ننا کسی حھوٹ کی مالوٹ کے صاف ننادیا تھا کہ کار چد سے زیادہ شینڈ میں
کرنے کے یاعث اس کا ایکسنڈن یٹ ہوا تھا،
س
" لسینل وہ اتھی پکل یف میں ہیں۔۔"
س
عنادنہ الچارگی سے بوکی بو اس یر ایک شیحندہ پظر ڈالنا لسینل چپ ہوا،وہ مہناز ننگم کو شیٹھال
س
رہی تھی،اس رات لسینل نے چب مہناز ننگم کو اظالع دی بو ان کے ہاشینل میں آنے یر
عنادنہ رونے ہونے ان سے لیٹ گتی،یری طرح رونے وہ ہوش میں نہ ہونے کے یاعث ہیٹم
کی سالمتی کی یآواز دعا کررہی تھی اور نٹھی مہناز ننگم اِ شنل ہوبی تھیں اس کی آواز سن کر،وہ
بول سکتی تھی،انہیں سمجھ نہ آیا کہ اس وقت وہ انتی ٹیتی کے بو لنے یر جوش ہوں یا ٹینے کی
چالت یر روٹیں،ہیٹم کے ہوش میں آنے یر چب وہ تھی عنادنہ کو بول نا دیکھا بو یک گونہ اسے
جوسی ہوبی تھی یر وہ جوسی یل میں ماید یڑی ا ننے اردگرد اس لڑکی کو یای ّ
اکر،اول بو ایکسنڈنٹ کے
وقت اسے آچری یات جو ذہن میں آبی تھی نہی تھی کہ اب وہ نہیں بچ یانے گا اور دوسرا اگر کو
215
وہ زیدہ ہویا بو سدت سے ا ننے سا منے اس لڑکی کو دیکھنے کا جواہسم ند تھا مگر اس کی نہ
جواہش۔۔۔،جواہش ہی رہ گتی،
216
"بی بی۔۔عنادنہ بی بی آبی ہیں۔۔"
ی م م ص ٰ
عری کے الن یں آکر ننانے یر طیبہ جو کی،عنادنہ کا نہاں آیا اسے چیران کرگنا،
کجھ دیر پعد الن میں آبی عنادنہ اسے صخت یاب دیکھ آزردگی سے مشکرابی،جویکہ مطیبہ کو ع نادنہ
سے کوبی تیر نہ تھا نٹھی اس کے تھی گداز لب زرا سے تھنل کر سمنے،
"مجھے ایدازہ نہیں تھا کہ آپ کے ساتھ اننا علط ہوگا۔۔۔افسوس ہے کہ میں نےچیر رہی ان
سب سے۔۔۔اگر معلوم ہویا بو ساید۔۔"
"بو تھی وہ نےجس لوگ ا ننے ظلم سے یاز نہ آنے۔۔تمہیں کنا لگنا ہے تمہارے رو کنے سے وہ
لوگ رک چانے۔۔۔"
217
کہنے ہونے مطیبہ کا لہجہ سخت ہوا،سرمندگی کے اجشاس یلے عنادنہ کو اس سے پظریں مالیا مچال
لگا،
"سوری۔۔"
نسٹماں ہوبی وہ بولی،
"تم نے کجھ علط نہیں کنا میرے ساتھ بو تمہارے نہ کہنے کا کوبی جواز نہیں ٹینا۔۔"
یازو فولڈ کربی مطیبہ اب شیحندگی سے بولی،
"میں انتی نےچیری یر سرمندہ ہوں آبی۔۔۔چانتی ہوں آپ ان کے ظلم یر کٹھی معاف نہیں
کرسکتی انہیں مگر ایک فریاد لے کر آبی ہوں۔۔۔آپ اپکار مت کیحنے گا۔۔"
مطیبہ کے مبہ سے اننا شینے کے پعد وہ کہنا بو نہیں چاہ رہی تھی مگر مہناز ننگم کا تھنگے لہچے میں
اس سے درجواست کریا عنادنہ کو مح بور کرگنا،مطیبہ کی سوالبہ پظریں جود یر مرکوز دیکھ وہ بولنا
سروع کی،
"آپ تھلے انہیں معاف نہ کریں مگر چب یک وہ نہیر نہیں ہوچاٹیں یلیز نب یک سکندر وال
آچاٹیں۔۔۔ایک مہیبہ ہونے کو ہے انہیں گھر آنے۔۔۔وہ آپ کو نہت یاد کرنے ہیں اور مام
تھی نہت۔۔۔روبی۔۔ہیں آپ کا سوچ۔۔کر۔۔"
ا ننے بو لنے کے ساتھ ساتھ مطیبہ کے یایرات میں سحتی آنے یر عنادنہ آچر میں کجھ ایکی،
218
"بو تم تھی اس ہی مقصد سے نہاں یر آبی ہو۔۔"
ی ھ کی
م
اسے اشنہقامبہ پگاہوں سے د تی طیبہ اش فشار کی،
"نہیں آبی۔۔میرا کوبی علط مقصد نہیں۔۔میں آپ کی چیرنت دریاقت کرنے آبی تھی اور تھر
میں آپ کو ہمیشہ کے لنے وہاں رہنے کا نہیں کہہ رہی صرف کجھ عرصے کے۔۔۔"
"تھنک ہوں میں۔۔۔اب اگر کجھ دیر ٹیٹھنا چاہتی ہو بو ٹیٹھو لنکن اگر اس ہی یایک یر یات کربی
ہے تمہیں بو نہاں سے شندھا چاؤ اور یاٹیں طرف مڑو۔۔۔یاہر کا راسبہ دکھ چانے گا۔۔"
وہ جیشا لٹھ مار لہجہ اننابی تھی عنادنہ کو سدید دکھ ہوا،ہنک سے سر حھکابی وہ کجھ اور بو لنے کی
ہمت نہ ال یابی جود میں،نٹھی اسے چدا چافظ کہتی مڑی تھی،اس کے چانے کے پعد مطیبہ کو
ً
افسوس ہوا اس لڑکی سے انشا لہجہ اننانے یر لنکن اگر وہ اس سے زرا اور یرمی یر ننے لگتی بو پقینا
عنادنہ اسے منانے کے عرض کافی دیر یک اس کے نیج ھے لگے رہتی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹین دن پعد وہ سکندر وال سے فرخندہ کے غوض انتی یڑھابی کے سرن یقکیٹ اور خند صروری
219
ٹ
کاعذات منگوابی تھی وہ،اور اب دو چگہوں سے ربحنکٹ ہوکر ٹیسری چگہ میں وٹینگ ایریا یر یٹھی
انتی یاری کا ان یطار کررہی تھی،کجھ دیر پعد اننا یام کال ہونے یر وہ قدم اتھابی آفس کے چانب
گتی،دل گ ھیرا تھی رہا تھا،سوچا نہیں تھا انشا دن تھی آنے گا،حھنل آیکھوں میں گ ھیراہٹ عناں
تھی کہ نہاں سے تھی کہیں ربحنکٹ نہ ہوچانے،اگر انشا ہویا بو تھر مطیبہ میں اور ہمت نہ تھی
کہیں اور چانے کی،
اچازت ملنے یر مطیبہ ایدر داچل ہوبی پظر اتھابی،اور جوپصورت چہرے یر سدید چیرت کے یایر تمایاں
ہونے لگے سا منے ٹیٹھے سخص کو دیکھ،
"ٹیٹھیں۔۔"
ٹ
مضبوط لہچے میں مقایل کے کہنے یر وہ چیرت میں گھری چئیر یر یٹھی،
"سابی تھابی۔۔"
220
"مطیبہ چہایگیر۔۔"
س
قایلز یر سے پظر اتھایا وہ ا ننے سا منے اسے دیکھا جو الجھی ہوبی پظر لسینل یر ہی ڈالی ہوبی
تھی،اس کے تھر کہنے یر جویکتی مطیبہ اننات میں سر ہالبی،
221
وہ شیحندگی لنے بوحھا تھا اور مطیبہ نےجین ہوبی،بجھلی دو چگہوں سے تھی اس ہی لنے ربحنکٹ
ہوبی تھی،
"ایکسئیرٹیس نہیں ہے یر ہوچانے گا۔۔۔میں شکانت کا کوبی موفع نہیں دوں گی سابی
تھابی۔۔"
"سر۔۔!"
ی ت حص پ
یرسکون سا وہ یح کروایا،مطیبہ کے لب ھیچے مقا ل کے اٹیٹی بوڈ یر،
"اننا ان ِسس نہ کریں میں چلد رحم کھالی نا ہوں لوگوں یر و نسے کوما سے پکلی لڑکی ہیں انتی چلدی
دماغ اشٹینل بو نہیں ہوا ہوگا آپ کا۔۔"
"آپ بو مجھے چا ننے نہیں تھر کیسے معلوم کہ میں کوما میں تھی۔۔"
اس کے ہ بوز اخٹی یت تھرے لہچے یر جوٹ کربی مطیبہ طیز کی،
222
"میری واپف کی تھاتھی ہیں یا آپ۔۔۔"
س
اس کی چانب اسارہ کریا لسینل یاد کرنے کی ایکینگ کریا بوحھا،مطیبہ کا نےچد جون چال تھا
اس سخص کی چرکت یر،
"نہیں۔۔"
تھنڈے لہچے میں جواب دی تھی وہ،
"میں اجیتی ین کر نہیں یلکہ آفس کا اویر ین کر یات کررہا ہوں تم سے۔۔"
س
نہرے ہونے لہچے میں لسینل اسے یاور کروایا،مطیبہ کو یات سمجھ آنے یر شنکی محسوس ہوبی،
"سوری۔۔"
223
ت ن کی س
مطیبہ سدید یرنشابی سے لسینل کو د ھی ،ھر آ گی سے قا لز اتھابی ھڑی ہوبی،ا ھی ڈور کے
ک ی س ہ ت
ن یلس س ت ہ ن
ل بوال، ی
یاس وہ جی ہی ھی کہ کجھ سوخنا
"سر۔۔۔!"
مقایل بوکنا نہ تھوال تھا اسے،
م س
لسینل کے آفس سے طمین ہوکر پکلتی وہ ننکسی دیکھنے لگی نٹھی اس کا مویایل ریگ کنا،نہ
ٰ
مویایل اس نے خند دن نہلے ہی چریدہ تھا جس میں سوانے صعری کے اس نے کسی کا تمیر نہ
رکھا تھا یر اب ابچان تمیر سے آبی کال یر وہ رنسبو کی،
"ہنلو۔۔"
دوسری چانب سے گہری چاموسی تھی،
224
"کون ہے۔۔"
روڈ یر پظر دوڑابی مطیبہ چڑ کر تھوڑی تیز آواز میں بولی،
"مطیبہ۔۔"
مہناز ننگم اس کا یام لینے ہی روبی تھیں اور اس آواز یر مطیبہ کی یل لی ٹیشابی صاف
ہوبی،جوپصورت چہرے کے یایرات یلکل شناٹ ہونے تھے،
"مجھے میری ڈایری نہت عزیز تھی۔۔۔وہ حھوبی سی چیز نہیں تھی۔۔۔بخین سے لے کر اب
کل
یک وہ میرے ساتھ تھی۔۔۔میں اس میں ا ننے چذیات تی ھی۔۔۔"
ت ھ
کنا تھی وہ لڑکی،کس قدر معصوم ایداز تھا اس کی محیت کا،آج یک کٹھی اس کے مد مقایل آکر
کل
اظہار نہ کنا تھا مگر انتی ڈایری میں ایک ایک چذیات تی ،میشہ اس سے ظریں النے یر ڈربی
م پ ہ ھ
ل
مگر ڈایری میں اس کا ہر ایک پفش کھی تھی،یر اس نے کنا ِکنا تھا انتی نےجسی کا واصح ن بوت
د ن نا اس جوپصورت چذیابوں سے سجی ڈایری کو چال کر یابی میں تھینک دیا،کس قدر روبی تھی وہ
اس کے غمل یر مگر وہ جیسے انتی ظلمت کا ن بوت دیا تھا اسے،
اس یر نےچا ظلم کریا آج چب وہ جود کو بوں ٹی بوں میں چکڑے نےنسی کی پصویر ننا دیکھنا بو
دل جون کے آنسو رونے لگنا تھا،
"ہیٹم۔۔۔!"
دروازہ یاک ہونے کے پعد مہناز ننگم کی آواز چب کابوں سے یکرابی بو اس نے انتی سلگ کر
اپگارہ ہوبی آیکھوں کو وا کنا،
"کاش کہ نہ زحم یڑھ چاٹیں اور انہیں زحموں کے یدولت مجھے موت آچانے نب چاکر ساید
میرے ظلموں کا مداوا ہو۔۔۔"
ی
مہناز ننگم کی آ کھیں حھلمالٹیں تھیں ا ننے ٹینے کو جسمابی و روچابی اذ ن بوں میں یڑ ننے دیکھ،
"مت کہو ہیٹم ا نسے۔۔۔ایک عندی اور تم ہی رہ گنے ہو جن کے یاعث میں نہ زیدگی گزاررہی
ہوں۔۔۔اگر تمہیں تھی کجھ ہوگنا بو مرچاؤں گی میرے ٹینے۔۔"
ّ
"امی۔۔"
انہیں کرب آمیز لہچے میں کہہ کر آچر میں رونے دیکھ ہیٹم نےنس ہویا پکارا،یازو اور تیروں یر لگی
نتی کی وجہ سے ہمت نہیں تھی کہ آگے ہوکر انتی یلکتی ماں کو گلے لگالے،
228
"ہم نے نہت علط کنا ہے اس کے ساتھ ہیٹم۔۔ہمارے ظلموں نے اسے نٹھر کر دیا اس قدر
کہ وہ اب ساید کٹھی رخ نہ کرے نہاں کا۔۔"
تھٹھک کر کہنے ان کی بوڑھی آواز کنکنانے لگی تھی آچر میں،ہیٹم کو لگا اس کا سر درد سے ت ھٹ
چانے گا اب،ماں کی پکل یف کہاں گوارا ہورہی تھی اسے،تمشکل ہمت کر کے آگے ہویا وہ مہناز
ننگم کو گلے لگایا،
"ننگم صاچبہ۔۔"
فرخندہ کی جوسی سے تھری آواز یر وہ دوبوں جو یکے،
"مطیبہ۔۔"
جوسگوار چیرت سے زی ِر لب کہٹیں وہ ہیٹم کا گال تھیٹھناکر اتھیں،تیز قدم روم سے یاہر کی
چانب تھے،جویکہ ایکسنڈنٹ کی وجہ سے ہیٹم کو سیڑھ بوں سے اویر اس کے روم یک نہیں لے چایا
چاسکنا تھا نٹھی قلچال اس کا قنام نیچے گیسٹ روم میں تھا،
229
ت ھ کم ی
ہینڈ کیری تھامے وہ چاموش پظروں سے چاروں اطراف یں د تی دونہر کا سوچ رہی ھی،چہا گیر
ی
نہ ص ٰ
ت
ہاؤس یچ کر عری یر چب اس نے غصہ کنا تھا میر د ننے کے جوالے سے نب اس نے
مطیبہ کو مہناز ننگم کی آمد کا ننایا،اس نے کہا تھا وہ نہت رو رہی تھیں اور یار یار مطیبہ سے
ً
یات کرنے کا کہہ رہی تھیں نب مح بورا انہیں وہ تمیر دی تھی،نہ سن کر مطیبہ سوچ میں
یڑگتی،جو تھی تھا وہ اس کی یابی امی تھی خنہوں نے اسے بخین سے ماں کی طرح محیت دی
تھی،پعد میں گرجہ وہ قلذہ اور ہناد کی محیت میں اس سے یدگمان ہوبی تھیں مگر ان سب میں وہ
سک ت ص ٰ
ایکی بخین سے جوابی یک کی محیت نہیں فراموش کر تی ھی ،عری سے فرخندہ کے غوض اسے
کتی مہی بوں سے ہناد اور قلذہ کے اچایک ال نبہ ہونے کے م یعلق تھی معلوم ہوا تھا نٹھی کافی
سوچ بچار کے پعد وہ سکندر وال آنے کا ق یصلہ کی،اور اب ا ننے مہی بوں پعد وہ اس ہی گھر میں
کھڑی تھی چہاں اس نے کتی سال اذ ن بوں کے زد میں گزارے تھے،
"مطیبہ۔۔"
اسے الؤبج کے وشط میں ہی کھڑے دیکھ مہناز ننگم جوسی سے آگے یڑھتی مطیبہ کو گلے
یھ ت
لگاگٹیں،وہ لب تی ہینڈ کیری حھوڑی،
حی
رہنے والی نٹھی اسے نناٹیں،ان کی یات سن کر مطیبہ کی آیکھوں میں ن یفر اتھرا،
"تم انشا کرو اویر جو کاریر واال روم چالی رہنا ہے اس میں رہ لو۔۔"
مطیبہ کو ان کی نہ یات مناسب لگی نٹھی ہینڈ کیری تھامی،
231
کے تھنڈے رونے یر مابوس ہوبی تھیں،انہیں دکھ دیا تھا اس کا ایداز مگر چانتی تھی اس کو انشا
ننانے میں ان لوگوں کا ہی ِکنا دھرا تھا،
م پ ً
وہ مطیبہ کے نیجھے اویر چایا چاہ رہی تھیں یر گیسٹ روم یں قینا م یٹ ھا نے ین ہورہا ہوگا
ج ٹ ٹ یہ
ُ ھ ت
مطیبہ کا سن کر نٹھی فرخندہ کو مطیبہ کی مدد کے عرض اویر تی وہ گیسٹ روم کا رخ یں،
ک حی
"ماما۔۔"
ان کے ایدر داچل ہونے ہی ہیٹم نےجیتی سے پکارا،اس ایک لقظ میں جیسے کتی سواالت بو حھے
گن ن ھ کی
تھے اس نے،ا ننے ٹینے کو دکھ سے د تی مہناز م دھٹما سا م کرا یں،
ٹ ش
"وہ آگتی۔۔"
ان کے اس جواب نے ا ننے مہی بوں پعد ہیٹم کو نہلی یار سکون بحشا تھا،بوں محسوس ہوا جیسے
جوشبوں نے دشنک دی ہے اس کی اچڑی ہوبی زیدگی میں اور مسیفنل سے نےچیر وہ اس تمام
عرصے میں نہلی یار آسودگی سے مشکرایا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کس یات کی جوسی م نابی چارہی ہے۔۔"
232
رات کو تھوڑا لیٹ وہ آفس سے لویا تھا،یر مٹیشن میں داچل ہوکر ہال میں عنادنہ کو کھلکھالنے
اور درنہ ننگم کے تھی لب مشکانے دیکھ وہ چیرت سے بوحھا،
س
اس کی آواز سن کر جویکتی عنادنہ جوسی سے دمکنے چہرے سمیت لسینل کے یاس آبی،
س
"مطیبہ آبی وانس آگتی سکندر وال لسینل۔۔۔مام نے اتھی کجھی دیر نہلے کال یر ننایا۔۔"
س
عنادنہ جیتی جوسی سے نہ یات ننارہی تھی لسینل کے مشکرانے لب لمخوں میں سکڑے،کابچ
مانند آیکھوں میں ہلکی سی یاگواری ایک حھلک دکھا کر عانب ہوبی،
"میں چانتی تھی وہ صرور وانس آ ٹیں گی وہ ہیں ہی انتی احھی۔۔۔چلد مان چانے والی۔۔میں کل
گرنتی کے ساتھ گھر چاؤں گی ان سے ملنے۔۔"
س
ننا لسینل کے یایرات بوٹ کربی وہ یان شناپ بولے گتی،
"کنا مطلب۔۔"
وہ چیران کن پظروں سے اسے دیکھ بوحھی،
233
"کجھ نہیں۔۔کھایا لگاؤ میں فرنش ہوکر آیا ہوں۔۔"
س
یات یدل کر اس کے گال تھیٹھنایا لسینل درنہ ننگم سے مل کر روم میں گنا،عنادنہ کو اس
س
کی یڑیڑاہٹ الجھن کا شکار کی تھی،ساری جوسی یل میں عانب ہوبی لسینل کے اس حملے
یر،وہ وجہ چاننا چاہتی مگر قلچال چاموش رہی،عانب دماغی سے کھایا کھابی وہ اسماء کے ساتھ مل
س
کر یرین اتھوابی،تھر درنہ ننگم کے روم میں چانے کے پعد لسینل کے کہنے یر اس کی چانے
نناکر روم میں البی،
یلنک ونسٹ اور یراؤزر میں وہ ننڈ یر ٹیٹھا کسی سے کال یر مخو گفنگو تھا،عنادنہ کو چانے سان نڈ
س
ٹینل یر پغور رکھنے دیکھ لسینل نے اسے یاس ٹیٹھنے کا اسارہ کنا،
اس کے چاموسی سے ٹیٹھنے یر کجھ دیر پعد کال رکھنا وہ عنادنہ کے بجھے چہرے کی چانب م بوجہ
ہوا،
"کنا آپ کو مطیبہ آبی کا سکندر وال میں آیا احھا نہیں لگا۔۔؟"
اب کی یار عنادنہ صاف ایداز میں بوحھی،
"اس میں احھا یا یرا لگنے کی یات نہیں نس مجھے کجھ عح یب لگا اس کا آیا۔۔"
س
لسینل کے جواب نے عنادنہ کو اور الجھایا،
"صاف لقظوں میں شینا ہے بو شبو۔۔مجھے سدید یاگوارنت ہوبی مطیبہ کے وانس وہاں چانے
یر۔۔"
عنادنہ یری طرح حھ یکا کھابی اس کی یات یر،
"یر ک بوں۔۔؟"
"کینا شبو ِنٹ سوال بوحھا ہے تم نے۔۔۔عنادنہ "ک بوں"۔۔چہاں یک تم نے مجھے ننایا تھا کہ
آ نتی اور ہیٹم نے اسے علط سمجھ کر اس یر یدکردار کا ننگ لگادیا تھا اویر سے وہ لڑکی ان کے
235
ٰ
ظلموں سے نٹم یاگل ہوبی ختی کہ جودکسی کی کوشش تھی کی تھی۔۔۔اور اب۔۔۔اب سب
تھول تھال کے وانس سکندر وال چلی چابی ہے گرنٹ۔۔!"
س
لسینل کی یاشف سے کہی گتی یات عنادنہ کو نےچد یری لگی،سکوہ کناہ پظروں سے اسے
ح ھ کی
د تی وہ بو ھی،
"بو آپ کنا چا ہنے ہیں مطیبہ آبی تھابی کو کٹھی معاف نہ کریں۔۔"
"انشا آپ کو لگنا ہے ک بویکہ آپ جود کسی کو معاف نہیں کرنے ہوں گے۔۔"
س
عنادنہ کے یاراض لہچے یر گرم چانے چلق میں ایاریا لسینل یر پفرت ایداز میں مشکرایا،کابچ مانند
آیکھوں میں سرد سا یایر اتھر کر حھنا،
"یلکل میں ا ننے گناہگاروں کو معافی نہیں سزاٹیں د ن نا ہوں اور وہ تھی عیرنناک۔۔۔!"
اس کے گہرے لہچے میں کہی یات عنادنہ کے زرا یلے نہ یڑی،نہ بو وہ اس کی کابچ مانند آیکھوں
میں خ بوان یت کی حھلک دیکھ سکی،
236
"آپ سزاٹیں د ننے ہیں بو اس کا نہ مطلب نہیں کہ ہر کوبی ا ننے گناہگار کو سزا ہی دے اور
دیکھنے گا مطیبہ آبی تھابی کو صرور معاف کریں گی۔۔"
کہنے ہونے عنادنہ کو انتی یات ہی حھوبی لگی تھی،
"مجھے نہیں لگنا اننا سب ہونے کے پعد تھی وہ اسے معاف کرے گی چیر اگر مجھ سے بوحھو بو
مطیبہ کو اسے یلکل معاف نہیں کریا چا ہنے۔۔"
س
لسینل کی یات نے عنادنہ کو یاور کنا تھا کہ ہیٹم کی اتمیج کافی چد یک اس کی پظروں میں
چراب ہوچکی ہے،
س
"تھابی سرمندہ ہیں لسینل۔۔"
س
انتی چانب سے وہ کوشش کی تھی لسینل کا دل ہیٹم کی طرف سے صاف کرنے کا،
"عنادنہ کسی تھی لڑکی کے لنے لقظ یدکردار اسے زیدہ الش ننانے کے لنے کافی ہویا ہے۔۔۔میں
نہ نہیں کہہ رہا کہ ہیٹم سرمندہ نہیں لنکن اگر وہ سرمندہ ہے بو اس لڑکی کا نیجھا حھوڑ دے۔۔"
"یلکل۔۔"
237
"آپ کیسے کہہ سکنے ہیں نہ سب۔۔۔چہاں معاملہ کجھ تھنڈا ہونے لگا ہے وہی آپ ا ننے لقظوں
سے چلی یر تمک حھڑک رہے ہیں۔۔"
س
وہ نٹھری تھی ،لسینل کا ل بوں یر کپ لےچایا ہاتھ رکا عنادنہ کے یگڑے لہچے یر،
"آپ میں معاف کرنے کا طرف نہیں اس کا نہ مطلب نہیں ٹینا کہ کوبی تھی ا ننے گناہگار
کو معاف نہ کرے۔۔"
س
کپ تھا منے کے بچانے اس یار عنادنہ کجھ او بچے لہچے میں بولی بو لسینل کے کشادہ ما تھے یر
سکٹیں یڑنے لگیں،
238
"کہا یا نند کرو نہ یایک۔۔"
تھیچے لب سمیت وہ ِگھرکا،
"واٹ رانش۔۔"
س
اچایک دہاڑیا لسینل ہاتھ میں تھاما کپ تھی یکا زمین یر،عنادنہ سہم کر نیج ھے ہوبی،سراشٹمہ ہوبی
ی کی س
وہ نےپقین پظروں سے لسینل کو د ھی جو آ ھوں یں یاگوارنت لنے اسے ھور رہا تھا،
گ م ک
وہ جینا معاملہ رفہ دفعہ کریا چاہ رہا تھا عنادنہ اننا ہی اس یایک یر اس سے بخث کربی آواز اوبجی
س
کررہی تھی ،لسینل کا سدید جون کھوال تھا،نہیں چاہنا تھا ہر یار ان دوبوں کے نیچ کسی دوسرے
کی وجہ یدمزگی ہو اور ع نادنہ نے نہ چرکت کوبی دوسری مرنبہ کی تھی،
239
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صیح چلدی اتھتی وہ تیزی میں ن ناری کررہی تھی آفس چانے کی،ڈرنسنگ کے سا منے کھڑی ہوبی
وہ یالوں کی جوبی یایدھ کر آگے کی تھر دو نبہ فر ننے سے سر یر شیٹ کربی یلتی،
"مطیبہ۔۔"
وہ جو ان دوبوں کو ایک پظر دیکھ چاموسی سے یاہر کی طرف یڑھ رہی تھی مہناز ن نگم کی آواز یر
رکی،دوسری چانب جوس کا گالس تھاما ہیٹم جوپکا،گردن زرا یرحھی کی تھی اس نے یر مڑ کر اسے
دیکھا نہیں،نسٹمابی انسی تھی کہ مقایل لڑکی سے پظریں مالیا نہیں چاہ رہا تھا وہ،
240
"یاسبہ نہیں کنا تم نے۔۔؟"
انہوں نے شققت تھرے لہچے میں بوحھا اس سے مگر مطیبہ ایک نےیایر پظر ڈا لنے کے عالوہ
کوبی جواب نہ د نتی وہاں سے پکلتی چلی گتی،مہناز ننگم کو اس کی بوں نےرجی دکھ نہیچابی
ی
تھی،سرمندہ ہوٹیں وہ ہیٹم کو د کھیں جو اب جوس کا گالس ننا جوس ننے وانس رکھ خکا تھا،مہناز
ننگم کی نہت میت کے پعد وہ یا شنے کرنے یر راضی ہوا تھا اور اب جو تھوڑی نہت تھوک لگی
تھی یکدم خٹم ہوبی،
"مرگتی تھوک۔۔"
زی ِر لب کہہ کر ہیٹم نیجھے کو ہوا،مہناز ننگم اچایک اتھتی سدید گ ھیراہٹ کے عالم میں اننا سر
تھامی،
"ک بوں کہہ رہی ہیں انشا ماما۔۔۔سب تھنک ہو چانے گا۔۔"
انہیں نشلی د ننے کے عرض کہا تھا وہ مگر لہجہ جود کا تھی کھوکھال ہوا،
241
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چب سے آفس میں کام کریا وہ ذہن میں عنادنہ کو ہی سوار رکھا تھا،صیح تھی ان دوبوں میں کوبی
ت ل ت م س
ل نے وجہ رات ہوبی بخث ن یلس یات نہ ہوبی تھی،عنادنہ اسے کجھ چپ چپ ھی گی ھی گر
کو ہی سمجھا،درنہ ن نگم نے بوٹ تھی کنا تھا دوبوں کا ایک دوسرے سے یرک کالم رہنا مگر کجھ
ن لن س
ل یلس بوحھا نہیں انہوں نے،وہ چاننا تھا کل رات کجھ زیادہ ہی روڈ ہوگنا تھا عنادنہ سے کن
کو گوارا نہ تھا کہ کسی اور کی وجہ سے عنادنہ اس سے یدتمیزی کرے،وہ سدید اشیعال میں آیا تھا
چب اس کی ایک رانے د ننے یر عنادنہ نے آواز اوبجی کربی سروع کردی تھی مگر وہ کیتی یری
طرح ڈری تھی اس کے دہاڑنے یر،رات کو آفس سے پکلنے وقت تھی وہ نہی یاٹیں سوچ رہا تھا
اور تھر آچر میں ا ننے اصولوں کے چالف وہ ا ننے رونے یر عنادنہ سے معافی ما یگنے کا ق یصلہ
کنا،ظاہر سی یات تھی وہ نےچد محیت کریا تھا اس سے اور محیت میں کہیں نہ کہیں حھکنا یڑیا
س
ہے نٹھی لسینل مراد نے آج جود ح ھکنے کا ق یصلہ کنا تھا،
مٹیشن میں کار روک کر ایریا وہ کجھ چیران ہوا چب گیٹ یر اسماء کو کھڑے یایا،فرمان کو کار
س
یارک کرنے کا کہنا لسینل ایدر کی چانب یڑھا،
242
"صاچب نہ ننگ مجھے دے دیں۔۔"
اس کے ننگ کی طرف اسارہ کربی اسماء کے چہرے یر جوسی کی دمک تھی،
"ک بوں۔۔؟"
بچانے اسے ننگ د ننے کے وہ شیحندگی سے بوحھا،اسماء کجھ بوکھالبی مقایل کے سیرنس ایکسیرنشن
دیکھ کر،
"ارے صاچب وہ یڑی ننگم نے کہا تھا کہ آپ سے ننگ لے لوں اور وہ آپ کا گارڈن میں
ان یطار کررہی ہیں۔۔"
س
لسینل کجھ الجھا تھا اسماء کی یات یر،کابچ آیکھوں میں تھوڑی چیرت اتھری مگر اس سے ننا
س
کجھ اور بو حھے لسینل نے ننگ اسماء کو دیا ساتھ ا ننے مضبوط قدم گارڈن کی چانب یڑھانے،
جیسے جیسے وہ گارڈن میں داچل ہورہا تھا و نسے ہی چیرت آیکھوں میں تمایاں ہورہی تھی،ہر چانب
چگ مگ کربی الٹیس اور گارڈن کے یلکل نیخوں نیچ رکھی ٹینل اور کے دوبوں چانب چئیرز،
"گرنتی۔۔؟"
چاروں چانب ہوبی ڈیکورنشن کو دیکھ وہ پکارا اور نٹھی مٹیشن کے بجھلی چانب سے سہج سہج کر آبی
عنادنہ دکھی تھی اسے،گولڈن کامدار قم یض نہنے النٹ سے منک یر کابوں میں اتیریگ ڈالے وہ
م س
لسینل کے ہوش اڑانے کی کمل نناری کر کے آبی تھی،ادھر اس کے یاک جشن کو پغور دیکھ
243
تھن س پ ً س
لسینل کے عنابی لب ل کر منے ،قینا وہ ا تی ید میزی یر مداوے کے بخت اسے منایا چاہ
ت ن
س
رہی تھی ،لسینل کی یراسی آیرو شنانسی ایداز میں اتھیں،کابچ آیکھوں میں ٹیش لنے دیکھنا وہ
عنادنہ کو یزل کرگنا تھا،
ی س
اسے غین ٹینل کے یاس کھڑے دیکھ لسینل مضبوط قدم اتھایا آگے آیا،آ کھیں مشکارہی تھیں
مگر یایرات ہ بوز شیحندگی لنے تھے،عنادنہ کے جوپصورت چہرے یر آج کجھ الگ ہی دمک دکھ رہی
تھی اسے،
"گرنتی۔۔؟"
244
"گرنتی ایدر ہیں۔۔"
سر حھکانے وہ آہسنگی سے بولی،
"میں نے کل آپ سے یدتمیزی کی۔۔۔مج ھے اجشاس ہوا کہ علطی میری تھی۔۔آپ یایک کلوز
کریا چاہ رہے تھے یر یات میں نے یڑھابی اور تھر۔۔۔"
ہلکی آواز میں سرمندگی سے کہتی وہ رکی تھر گویا ہوبی،
245
س
"سوری لسینل مجھے کل یدتمیزی نہیں کربی چا ہنے تھی آپ سے۔۔"
ت ھٹ ھ س
نسٹماں سی کہتی وہ چب سر اتھابی بو کی ،ل م کراہٹ دیانے اسے ظروں یں ل نا ہوا
م پ ش ن یلس
تھا،
س
" لسینل۔۔آ۔۔آپ یاراض نہیں مجھ سے۔۔"
عنادنہ چیران ہوبی بوحھی،
"میں۔۔یاراض۔۔تھا تم سے۔۔"
نہر کر بولنا وہ ع نادنہ کے یازو تھاما،
"اور اب۔۔"
وہ نےجین ہوبی،
"ا ننے جوپصورت ایداز میں معافی مایگی چانے بو کون ہوگا جو نہ مانے۔۔"
س
اسے اور ننگ کرنے کا ارادہ یرک کنے کہنا لسینل عنادنہ کی ٹیشابی غفندت سے جوما،
"اور۔۔۔علطی میری تھی تھی۔۔کل ہرٹ کرگنا تھا تمہیں میرا ایداز۔۔۔سوری۔۔"
اس کے چہرے کو تھامنا وہ محیت سے کہا جس یر عنادنہ مشکرابی،
246
س
" لسینل۔۔"
ح
کجھ دیر یک اس کی یابی کو حھوبی وہ ھج ھک کر پکاری،مقایل جو پغور اس چاید چہرے کو گہری
پظروں سے دیکھ رہا تھا عنادنہ کی چانب م بوجہ ہوا،
"ہاں۔۔"
س
لسینل کے بو لنے یر وہ تھاری ہوبی گ ھئیری یلکیں اتھابی،سرمگیں مشکان ہ بوز گالبی ل بوں کا
اچاطہ کی ہوبی تھی،
247
س
"نہیں لسینل۔۔"
عنادنہ کے عارض د ہکنے لگے،اسے سمجھ نہ آیا اور کیسے ننانے مقایل کو،
"بو تھر۔۔"
س
" لسینل میں نے "ہماری" نسمہ کہا ہے۔۔"
وہ تھر لقظوں یر زور دے کر بولی،
"عنادنہ۔۔"
س
لسینل کو القاظ نہ ملے انتی جوسی ننان کرنے کو،اچایک عنادنہ کو جود میں تھییچا تھا وہ،
248
"نہت نہت منارک ہو تم دوبوں کو۔۔"
درنہ ننگم کی آواز یر عنادنہ حھنکے سے دور ہوبی اس سے،
249
"چلو اب تم دوبوں کھایا کھالو۔۔"
ان دوبوں کے کندھے تھیٹھنا کر کہٹیں درنہ ننگم بولیں ساتھ وہاں سے چانے لگیں،
"آہاں گرنتی۔۔۔آپ ہمارے ساتھ ہی کھایا کھاٹیں گی۔۔آج کی جوشبوں سے تھربور رات ہم
ٹی بوں ساتھ مناٹیں گے۔۔"
س
درنہ ننگم کو چئیر یر ٹیٹھایا لسینل جوسی سے بوال ساتھ عنادنہ کے لنے چئیر کھشکایا،گالب ہونے
ٹ
چہرے سمیت خنا سے مشکرابی وہ چئیر یر یٹھی تھی،دوبوں کے چہروں یر کل رات کی یدمزگی کا
دور دور یک کوبی یایر نہ تھا اور ہویا تھی کبوں آچر جوشبوں نے ان کے آشنانے یر ہمیشہ کے لنے
دشنک جو دی تھی،
251
بو جود ننا کر،ان اوقات میں اکیر مطیبہ مہناز ننگم کے کمرے کا چکر تھی لگابی،فرخندہ کے غوض
اسے مہناز ننگم کی یگڑبی چالت کا علم ہوا تھا نٹھی ان سے طی یعت بوحھنے صرور چابی مگر وہاں
چانے یر مہناز ننگم چب اس سے ہیٹم کو معاف کرنے کی درجواست کرٹیں نب ننا کجھ اور کہے
مطیبہ اتھ کر وانس ا ننے روم میں چلی آبی،ان کی کہی نہ یات مطیبہ کے نس میں نہ تھی،ہاں
اس کے نس میں نہیں تھا ہیٹم سکندر کو معاف کریا،
آج رات وہ چلدی لویا تھا آفس سے،سکندر وال میں داچل ہونے ہی رخ مہناز ننگم کے روم کی
ی
چانب ہوا،دروازہ یاک کریا ہیٹم ایدر داچل ہوا،پظر ننڈ یر گتی بو مہناز ننگم کو اس نے آ کھیں
مویدے ننڈ سے ننک لگانے یایا،
"ماما۔۔"
م
انہیں دیکھ طمین ہویا وہ مہناز ننگم کے یاس چا ٹیٹھا،
"آج کل کافی الس ہورہا ہے مجھے یزنس میں۔۔محسوس ہویا ہے کہ یایا کا نہ یزنس اب مجھ سے
نہیں شیٹھل یانے گا۔۔دل کا بوحھ تھی ہے کہ گھینے کے بچانے ہر گزرنے دن کے ساتھ
یڑھ رہا ہے۔۔۔اگر بوں ہی چلنا رہا بو یاگل ہو چاؤں گا میں۔۔"
روز کی طرح وہ انہیں انتی یرنشابی ننایا دل کا بوحھ تھوڑا ہلکا کریا چاہا،الجھا ذہن چد سے زیادہ
252
مصروقنات کے یاعث تھکن سے جور ہویا ٹیند کی وادبوں میں ایرنے لگا تھا نٹھی ہیٹم چلدی سے
سر حھ یکا،
"ماما۔۔"
اچایک گ ھیراہٹ سی اس کے بورے وجود میں دوڑی نٹھی وہ ابچانے سے چدسے کے بخت
ً
انہیں تھر پکاریا مہناز ننگم کا کندھا ہالیا مگر ٹییحنا مہناز ننگم کی گردن لڑھکی تھی اور وہ داٹیں چانب
ی
ننڈ یر گریں،ہیٹم حھ یکا کھا کر رہ گنا،نےپقیتی سے تھتی تھیں اس کی آ کھیں،دل کسی انہوبی کا
سوچ کانپ کر رہ گنا،اور انتی نےبچاشہ خظریاک سوجوں کی پفی کریا ہیٹم حھکا تھا مہناز ننگم یر،
"ما۔۔ما اتھیں۔۔"
جوف کے سدید اجشاس میں گھرا وہ بوں ہکالیا کوبی بجہ لگا تھا جو انتی زیدگی کے سب سے قٹمتی
ایانے کے کھونے کا سوچ کر ہی نےچد ڈرا ہوا تھا،
253
"نہ کریں یار انشا۔۔ماما۔۔اتھ تھی چاٹیں۔۔"
یاچانے کبوں اس کا لہجہ تھاری ہوا،کجھ اور کہنا مچال ہورہا تھا،دل یری طرح کا ٹینے لگا،وہ
نےپقیتی کی ک یف یت میں گھرا روہانشا ہویا انتی ماں کو دیکھا،سمجھ نہ آیا کیسے انہیں اتھانے ،ننے
ی
کی مانند لرزیا دل سدت سے جواہش کنا تھا کہ وہ اتھی آ کھیں کھولیں،کنکنایا ہاتھ نےساچبہ ان
کی یاک کی چانب گنا اور ہیٹم سکندر کی یکھری ہوبی زیدگی یکدم ایدھیر ہوبی،جواس سلب خنکہ وہ جود
ڈھنال یڑا تھا،مہناز ننگم اس کی ماں،اس کا آچری سہارا سوچکی تھیں ہمیشہ کے لنے،
"ماما۔۔"
نےپقیتی کے عالم میں یڑپ کر وہ خیچا تھا،کچن میں ا ننے لنے یابی لیتی مطیبہ لرز کر رہ گتی اس
وجست یاک خیخ یر،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
254
س
" لسینل کہیں اور چلنے ہیں۔۔؟"
رات کو آفس سے وہ چلدی آیا تھا وجہ عنادنہ کی آبی مشلشل کالز تھیں،اسے آنشکرتم کھانے کا
س
دل چاہ رہا تھا نٹھی انتی مصروق یت کو یرایر رکھنا لسینل اسے اب آنشکرتم یارلر لے کر آیا تھا
لنکن اب نہاں آکر عنادنہ کا بوں اچایک م یع کریا اسے جوپکا گنا،
"نہیں۔۔"
"یر ک بوں۔۔؟"
س
"آپ کینے سوال کرنے ہیں لسینل موڈ نہیں ہے کھانے کا نٹھی م یع کررہی ہوں یا۔۔"
ہ ن یلس س ی ھ ح
ت پ ت
ل کو یسنے یر مح بور کنا،ایک ھربور ظر اس کے ھرے ھ ج
اچایک عنادنہ کا بوں ال کر بول نا
س
تھرے وجود یر ڈال لسینل مشکراکر عنادنہ کی چانب حھکا،
255
"کجھ کھانے کا موڈ نہیں۔۔انشا کرنے ہیں مام سے ِمل آنے ہیں۔۔"
کی س
کھڑکی سے یاہر پظر ڈال کر وہ لسینل کو د تی بولی،
ھ
"اس یاتم۔۔"
س
لسینل ایک پظر رسٹ واچ کو دیکھا،رات کے گنارہ بج رہے تھے،
"ہاں بو۔۔زیادہ رات تھوڑی ہوبی ہے اور و نسے تھی مام اتھی ہوبی ہوبی ہیں اس وقت۔۔چلیں یا
س
لسینل۔۔"
س
اب کی یار وہ لہچے میں میت سمونے بولی بو پفی میں سر ہالکر مشکرایا لسینل کار سکندر وال چانے
ت م کی
رشنے یر موڑنے لگا،فون ریگ کرنے یر عنادنہ د ھی ،طیبہ کے تمیر سے کال ھی،
"ہنلو۔۔"
رنسبو کربی وہ کان سے لگابی،
256
"عنادنہ۔۔"
س
اسکے شفند یڑنے تھنگے چہرے کو دیکھ لسینل قکرم ند ہوا،
"مہ۔۔ما۔۔۔مام۔۔"
س
اس کا لہجہ یری طرح لڑکھڑایا تھا ،لسینل کجھ علط ہونے کے اجشاس یر عنادنہ کے ہاتھ سے
فون لینا کان سے لگایا،
"ہنلو مطیبہ۔۔"
س
کجھ دیر پعد روبی مطیبہ نے اسے تھی چب مہناز ننگم کی ڈ نٹھ کا ن نایا نب لب تھییحنا لسینل
کار کی شینڈ کجھ تیز کریا فون رکھا،پظریں عنادنہ یر گٹیں جس کی طی یعت یگڑنے لگی تھی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہیسنا نسنا گھر کیسے ویران سا ہوگنا۔۔"
کسی غورت کی آواز اس کے کان میں یڑی بو تم یلکیں اتھابی مطیبہ مہناز ننگم کی میت کو
کی
د ھی،
"سالوں ہونے اس گھر میں اب جوشبوں کا دور دور یک کوبی نشاں نہ رہا۔۔"
دوسری غورت نے اس غورت کو جواب میں کہا،ایک ٹیس سی اتھی تھی مطیبہ کے دل
257
میں،تھنگی پظریں زرا کی زرا اتھیں بو سا منے ضیط سے سرخ ہونے اس چہرے یر گتی جس کو
دیکھ کر کوبی تھی نےنناہ درد کی نہچان لمخوں میں کرسکنا تھا،
کتی مرد اسے نشلی بحش القاظ کہہ رہے تھے مگر وہ ان سب سے نےنہرہ ننا نس چالی پظروں سے
انتی کل کاننات کو یل میں لنایا چاموش کھڑا تھا،وہ چب اس کی خیخ یر مہناز ننگم کے کمرے
میں گتی نب ہیٹم کو ا ننے یال چکڑ کر نےپقیتی میں رویا دیکھ ساکت ہوبی،وہ بخوں کی طرح خیحنے
ہونے ہوش میں یلکل نہ تھا اس ہیٹم میں اور اب کے سا منے چاموش کھڑے ہیٹم میں دو
چہابوں کا فرق لگ رہا تھا،
س
لسینل گیسٹ روم سے پکل کر ہیٹم کے یاس آیا،سکندر وال آنے ہی مہناز ننگم کو دیکھ عنادنہ
نےہوش ہوچکی تھی،ڈاکیر نے سخت آرام کی یلقین کی تھی اسے،اتھی وہ نٹم ع بودگی میں
س
تھی،کجھ دیر نہلے درنہ ننگم آ ٹیں تھی فرمان کے ساتھ اور اتھی عنادنہ کے یاس لسینل انہیں
ہی حھوڑ کر آیا تھا،
259
"کجھ وقت ا ننے بونے کے ساتھ یاٹیں کررہی تھی نس۔۔"
مشکرانے ہونے کہہ کر انہوں نے شیطین کے تھرے تھرے گال جومے بو وہ کسمشاکر
رونے لگا،
"کمرے میں ہے۔۔۔چب سے اسے یرنشان کر رکھا تھا شیطین نے رو رو کر اتھی تھوڑی دیر
نہلے ہی میرے کہنے یر آرام کرنے گتی ہے۔۔"
س
ان کے ننانے یر لسینل سر اننات میں ہالیا،
"کھایا پکلواوں۔۔۔"
260
"میری چاتم کو یرنشان کردیا گندے بچے نے۔۔"
ٹ
کمرے میں داچل ہویا وہ انتی گود میں سونے شیطین کو دیکھ بوال،ننڈ یر یٹھی عنادنہ اس کی یات
یر آسودگی سے مشکرابی،
"چاننا ہوں۔۔۔اب نہ نناؤ آج انتی جسین مشکراہٹ ل بوں یر سچانے کی کوبی چاص وجہ۔۔"
س
ان دبوں لسینل اسے زیادہ یر صرف اداس دیکھنا تھا یر آج عنادنہ کے ل بوں یر مشکراہٹ دیکھ
وہ جوسگوار چیرت میں مینال ہوا،
س
"کیتی محیت کرنے ہیں آپ مجھ سے لسینل۔۔؟"
اسے جواب د ننے کے بچانے عنادنہ النا سوال کی تھی،
س
"وہ نٹمانہ اب یک ابچاد نہیں ہوا جس سے لسینل مراد کی محیت یاپ لی چانے۔۔"
عنابی لب دلکسی سے مشکرانے ہلے تھے،عنادنہ چاموسی سے اس سخص کو د یکھے گتی،ذہن کے
س
یردے یر دونہر کا وافعہ گھوما چب لسینل والٹ گھر یر تھول گنا تھا نب اس کے والٹ کو
وارڈروب میں رکھنے کے عرض عنادنہ اتھابی لنکن اس ہی وقت ایک فولڈ ہوا ٹئیر گرا تھا والٹ میں
ت
سے،عنادنہ کا ارادہ اسے وانس والٹ میں ڈا لنے کا تھا مگر وہ ھمی تھی اس فولڈ ہونے ٹئیر کے
261
وشط میں یڑے لقظوں میں "فرام عندلیب" لکھا دیکھ،عنادنہ نے تیزی میں کھوال تھا وہ ٹئیر اور
اس کا ہاتھ نےساچبہ ل بوں یر گنا،کیشا سخص تھا وہ جسے انتی محیت اس قدر قٹمتی تھی کہ اس
سے میشلک وہ خط یک ا ننے سالوں پعد تھی ا ننے یاس انتی خقاطت سے رکھا تھا،عنادنہ کو
نےاجینار اس سخص یر ننار آیا،
کتی سوجوں کے خصار میں قند چب مطیبہ کی پظر نیچے گتی بو وہ کجھ جویکی،بورچ میں انتی کار سے
ننک لگانے وہ تیز یرشتی یارش میں یڑھتی تھنڈ سے نےیرواہ ننا تھنگ رہا تھا،ٹی یٹ کی خ یب میں
ہاتھ ڈالے وخنہہ چہرہ نیچے حھکانے کوبی ہارا ہوا جواہری لگ رہا تھا،اسے بوں تھنگنے دیکھ مطیبہ
264
کجھ نےجین ہوبی مگر چلد ہی سر حھنک کر وہ روم سے پکلتی نیچے آبی،کچن میں آکر مطیبہ چلدی
سے کافی ننانے لگی،
"فرخندہ۔۔"
ً
کجھ دیر پعد کافی ننار ہونے کے پعد وہ فرخندہ کو پکاری مگر وہ کہیں تھی نہیں تھی،پقینا وہ کسی
کام سے سرونٹ کواریر گتی تھی،نہلے مطیبہ نے سوچا کہ اسے وہاں سے یاللے مگر تیز یارش میں
م
اگر وہ سرونٹ کواریر یک چابی بو کمل تھنگ چابی نٹھی کجھ سوچ کر اس نے کافی کا مگ
تھا منے ہونے سیڑھ بوں کا رخ کنا،
پ ن ی
ہیٹم کے روم کے دروازے یر نہیچ کر مطیبہ یلٹ کر ایک ظر یچے د ھی،وہ اب یک ایدر دا ل
چ ک
نہیں ہوا تھا،گہری سانس تھر کر مطیبہ نے آہسنگی سے یاب گھمایا بو دروازہ کھلنا چال گنا،دل
میں دھڑکا لگا ہوا تھا،انتی گ ھیراہٹ یر قابو یابی وہ قدم روم میں رکھی تھی،لٹمپ کی روشتی میں نٹم
یاریک کمرے کو دیکھ مطیبہ دھواں اڑابی کافی کا مگ ڈرنسنگ یر رکھی تھی،ارادہ مگ رکھ کر شندھا
روم سے چانے کا تھا مگر ایک ابچانے اجشاس کے بخت اس کے قدم زبخیر ہونے،اس کمرے
ً
میں وہ پفرننا دیڑھ سال پعد آبی تھی،مخصوص کلون کی جوشبو میں شنگرنٹ کی مہک کا اصافہ ہوا
تھا،اس کمرے کو دیکھ حھنل آیکھوں میں تمی ایری تھی،نہی بو چگہ تھی چہاں وہ شٹمگر اس کی
265
محیت کا مذاق ننایا ہر گزرنے دن یڑیایا،اس کمرے سے صرف پکل یف تھری یادیں ہی میشلک
تھی سوانے اس رات کہ چب وہ شٹمگر انتی بوجہ کے خند یل اسے عنانت کنا تھا،
"میں۔۔نے۔۔کہا۔۔کھاو۔۔"
کس قدر جوپکایا تھا نہ حملہ اسے چب مقایل اس کو کھایا کھانے کا کہا تھا،وہ شٹمگر ساید زیدگی میں
نہلی مرنبہ اس کی قکر کنا تھا،اس رات کا سوچ ایک دکھ تھری مشکان نے گداز ل بوں کو حھوا
اور اچایک مطیبہ کی سوجیں اڑن حھو ہوبی چب دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھال،
ی کغ م ی
یری طرح بوکھالبی وہ یلٹ کر قب یں د ھی چہاں انسنا وہ اپگارہ ہوبی سرخ آ ھوں میت اسے
س ک
دیکھ رہا تھا،اس عرصے میں نہلی مرنبہ ان دوبوں کا یاقاعدہ آمنا سامنا ہوا تھا،تھنگے کیڑے سرخ
چہرہ اور یکھرے چلنے کے ساتھ ہیٹم کی آیکھوں میں ہلکورے لینے سرخ ڈوروں نے مطیبہ کو ایک
یل میں حھرحھری لینے یر محبور کنا،یاہر یرشتی یارش کا سور،کمرے کا نٹم یاریک ماجول اور سا منے
دروازے یر دبو کی مانند انسنا وہ سخص،مطیبہ کو ہول اتھنے لگے،دل گ ھیرایا تھا مگر چلد شیٹھلنے کی
کوشش میں اس کے یرایر سے ہوبی وہ چہرہ نےیایر ننانے یاہر پکلنے لگی،
ن
غین دروازے یر ہیحنے ہی ہیٹم اس کے یازو کو یکڑ کر مطیبہ کو کھییچا تھا ایدر ساتھ زور سے دروازہ
نند کریا اسے دروازے سے لگایا،اس کی تھربی سے کی گتی کاروابی یر مطیبہ کے مبہ سے ہلکی خیخ
266
پکلی،دروازے یر لگنے ہی سر میں درد کی لہر دوڑی خنکہ شینے میں مدفون ہوا وہ نٹھر دل آج جس
زور سے دھڑکا اسے نشلناں بو ننے کا گمان ہونے لگا،وہ کانپ کر رہ گتی مقایل کی فرنت یر،
267
"ہیٹم۔۔"
مطیبہ کے لب تھٹھڑانے تھے،اسے دور کرنے یر مزاحمت کربی وہ ہیٹم کے یازو کی مضبوط
گرقت انتی کمر یر محسوس کربی مچل کر رہ گتی،وہ کمزور نہیں یڑیا چاہ رہی تھی مگر مقایل کی گرقت
ہی انسی تھی کہ مطیبہ جود کو نےنس محسوس کربی روہانسی ہوبی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیٹم کے تھاری ہاتھ میں حھنے ا ننے یازک ہاتھ سے ہیٹم کے شینے یر دیاؤ ڈالتی وہ تمشکل اس سے
قاصلہ قاتم کرنے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمچے مطیبہ کے رہے سہے اوسان تھی خطا ہونے
چب نٹم وا سرخ آیکھوں سے اس کو دیکھ ہیٹم آہسنگی سے حھکنا اننا وخنہہ چہرہ مطیبہ کے رنسمی
268
یالوں میں حھناگنا،مطیبہ کی سانسیں یکھری تھیں مقایل کے سلگنے لب انتی شفند گردن یر
محسوس کر کے،ہیٹم کی تھنگی سرٹ اور جسم نے اسکے کیڑے تھی کافی چد یک گنلے کردنے
تھے،مطیبہ کے وجود میں لرزراہٹ محسوس کریا ہیٹم اس کی گردن یر سے لب ہنایا چہرہ سا منے
کنا،نٹم یاریکی میں تھی مطیبہ کا یری طرح دہکنا چہرہ اسے واصح دکھ رہا تھا،ایک یازو کی گرقت کمر یر
ی
بو دوسرے میں اننا ہاتھ مفند وہ اس کی قند میں یلکل نےنس ہوبی آ کھیں میچے نے آواز رورہی
تھی،اس کے چہرے یر آنے یال کو نہانت یرمی سے کان کے نیج ھے اڑشنا ہیٹم آہسنگی سے اسکے
شینے سے لگا تھا،اس لڑکی کے گلے لگنے ہی ہیٹم بوں محسوس ہوا جیسے صدبوں پعد اس کے بورے
وجود میں سکون سا سرانت کنا ہے،نےجین دل کو فرار سا مال تھا،وہ کسی قٹمتی چزانے کے مانند
اسے جود میں تھییحنا گنا،مقایل کی چد درجہ مضبوط یکڑ یر مطیبہ کا دم گھینے لگا،
"مجھے لگا تھا میں نے تم یر ظلم کر کے سب سے یڑا گناہ کنا ہے یر آج میں علط یانت ہوگنا
ک بویکہ اس سے تھی یڑا گناہ بو میں اب کر ٹیٹ ھا ہوں تمہاری پفربوں اور دھ یکار کے یاوجود تمہارے
ساتھ ایک اور زیادبی کردی میں نے۔۔۔مطیبہ چہایگیر۔۔۔میں تم سے عسق کر ٹیٹھا ہوں۔۔"
چذیات کے نہاؤ میں آکر وہ ابچانے میں اس یر ا ننے دل کی یات عناں کرٹیٹھا تھا ساتھ ہی
مطیبہ کی نست یر یازوؤں کا خصار اور ننگ ک نا جیسے ڈرا ہو کہ وہ اس سے تھر دور نہ
ہوچانے،دوسری چانب مطیبہ نٹھر ہوبی تھی مقایل کے اظہار یر،نہ وہ کنا کہہ رہا تھا،اسے مطیبہ
269
چہایگیر سے کیسے عسق ہو سکنا تھا،مطیبہ چہایگیر بو صرف ایک قای ِل پفرت لڑکی تھی اس سے کوبی
ی
محیت یک نہیں کرسکنا تھا عسق بو نہت دور کی یات تھی،حھنل آ کھیں تھتی تھیں جن میں
سے تیزی میں پکلنا یابی ہیٹم سکندر کے حملے سے ہوبی اس کی اذ نت کی غکاسی کنا تھا،
ی
آہسنگی سے اس سے دور ہویا ہیٹم یرمی سے مطیبہ کا چہرہ تھاما تھا،وہ ہبوز ساکت سی آ کھیں
تھنالنے کھڑی تھی،حھنل ریگ آیکھوں سے نہنے آنسو انتی اپگل بوں کے بوروں سے جینا وہ پظر
تھنکنے یر اس کے گداز ل بوں کو دیکھا جن کی کنکناہٹ واصح تھی،وہ اور ہوش کھویا نہیں چاہنا تھا
مگر جود یر قابو نہ کریا حھکا تھا ساتھ ا ننے یاریک ل بوں میں اس کے گداز ہونٹ قند کرگنا،مطیبہ
کے ساکت وجود میں خٹیش سی ہوبی تھی،مقایل کی گرم سانسوں سے حھلسنے یر وہ لرزی تھی
ساتھ ہونٹ یر یکدم اتھتی پکل یف سے یڑپ کر مچلی،بورے وجود میں غصے کی لہر دوڑی تھی اور
وہ اسے دور کرنے کے چکر میں ہیٹم کے کندھے یر ہاتھ ماری مگر معانے افسوس اس نے
مطیبہ کی دوبوں کالن بوں کو ا ننے ایک ہاتھ میں مفند کرلنا،ک بویر کی طرح مطیبہ کا دل دھڑ کنے لگا
تھا،سانسیں تھمنے یر وہ یڑنتی اننا چہرہ موڑی،
"مجھے حھوڑو ہیٹم ورنہ میں تمہیں کٹھی معاف نہیں کروں گی۔۔"
م
مبہ میں جون کا ذاپقہ گھال تھا جس یر وہ چہرہ موڑے ہی خیجی،ادھر وہ جو کمل مدہوش ہونے کے
درنے تھا مطیبہ کی خیخ یر اس کا ہاتھ حھوڑا مگر اگلے ہی لمچے گال یر تیز ت ھیڑ یڑنے ہی ہیٹم ہوش
270
کی دننا میں لویا،وہ تم یلکیں حھنکنا سا منے دیکھا چہاں مطیبہ سدید اشیعال کے عالم میں اسے
گھوررہی تھی،
"سوری۔۔مطیبہ میں۔۔"
ہیٹم کو سمجھ نہ آیا کنا کہے،مطیبہ کے بچلے ہونٹ سے پکلنا جون دیکھ وہ بوکھال کر آگے یڑھا مگر
نٹھی اسے جود سے یرے دھکنل کر مطیبہ دروازہ کھولتی تھاگی تھی وہاں سے،اس کے چانے ہی
ہیٹم یالوں یر ہاتھ ت ھیرا ساتھ گال یر اس چلنے لمس کو حھوا،اسے پکل یف نہیں ہوبی
ہ ن
تھی۔۔۔،اسے اذ نت جی ھی،کرب سے م کرایا وہ یلٹ کر طیبہ کی البی کافی کو د کھا جو اب
ی م ش ت ی
ی
یک تھنڈی ہوچکی تھی،انتی سلگتی آ کھیں مشل کر ہیٹم ڈرنسنگ کے یاس گنا تھر نہلی دراز کھولنا
وہ شیسی پکاال جس میں سے روز تھوڑے شفوف کسی مچلول میں ڈال کر وہ ٹینا تھا،نہی بو وہ
ق یصلہ تھا جو اس نے بجھلے دو ہف بوں میں مطیبہ کی جوسی کے لنے کنا تھا،ایک مرنبہ تھر اس
شیسی کو کھول کر ہیٹم زرا سا شفوف کافی میں ڈاال ساتھ شیسی ٹی یٹ کی خ یب میں رکھ کر مگ
اتھایا گھونٹ در گھونٹ کافی ٹینے لگا،کافی خٹم ہونے ہی اسے انتی یاک میں گنلے ین کا اجشاس
ہوا تھر کجھ ہی دیر میں جون کی لکیر یاک یر سے پکلی،یڑ ننے دل کی منافی یر اسے ڈ نٹ کر ہیٹم
ضیط سے الل تھٹھوکا ہونے چہرے سمیت مشکرایا یاک سے پکلنا جون صاف کنا،
271
یاہر یادلوں نے گرخنا سروع کنا تھا اور ادھر ہیٹم کے ایدر کی بوڑ تھوڑ اس کے کابوں میں
گوبجی،سر میں اچایک یری طرح درد اتھا تھا،نسیں تھینے کو ہونے لگی تھیں،ٹیشابی زور سے مشلنا
وہ سر حھنک کر ا ننے قدم ننڈ کی چانب لے چانے لگا مگر دو قدم یر ہی لڑکھڑایا نیچے گرا،پظریں
ی ّ
دھندالنے لگیں تھیں اور دکھنے سر کو یکڑیا وہ شنکنڈ کے ہزارویں خصے میں انتی سرخ آ کھیں نند
کریا نےسدھ ہوا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹ
ا ننے کمرے میں آنے ہی وہ تیزی سے دروازہ نند کربی ننڈ یر چا یٹھی،اس شٹمگر کا لمس انشا تھا
کہ مطیبہ کا جوپصورت چہرہ اب یک تمٹمارہا تھا،یایرات اب یک غصہ لنے تھے،اصل جون اس کا
ہیٹم کے اظہار یر کھوال تھا،وہ کیسے نہ القاظ اسے کہہ سکنا تھا چاالیکہ جود ہی بو وہ اکیر اسے یاور
کروایا کہ مطیبہ چہایگیر صرف پفرت کے قایل لڑکی ہے،
ا ننے درد کو پظرایداز کریا ہیٹم چلدی سے اتھا تھا سر کا درد سدت یکڑنے لگا مگر سر حھنک کر وہ
دروازہ کھول کر کمرے سے پکال،قدم تیزی سے سیڑھناں ع بور کرنے لگے مگر نٹھی پظر الؤبج کے
وشط میں ہینڈ کیری تھامی مطیبہ یر یڑی جسے رو کنے کے عرض فرخندہ میت کررہی تھی،ہیٹم کی
مابوں چان پکلنے کو ہوبی،وہ وقت سے نہلے ک بوں چارہی تھی،اتھی کجھ وقت ہی بو تھا اس کے
یاس جو وہ اس لڑکی کو دیکھ گزاریا چاہ رہا تھا،
273
"مطیبہ۔۔۔!"
اسے پکاریا ہیٹم تیزی میں سیڑھ بوں سے ایریا نیچے آیا،اسے آیا دیکھ فرخندہ جوش ہوبی نہ سوچ کر کہ
س ن م ٹ ن م پ ً
قینا وہ روک لے گا طیبہ کو ھی اس نے کچن یں چایا ہیر مجھا،
"یابی۔۔"
فرخندہ کو چایا دیکھ ہیٹم اسے بوال جویکہ سر کا درد کم ہو کے نہیں دے رہا تھا،کجھ ہی دیر میں
فرخندہ یابی رکھ گتی،وہ جو یابی کا گالس اتھانے لگا تھا مطیبہ کو تھر ہینڈ کیری سمیت یاہر کی
چانب یڑھنے دیکھ گالس حھوڑ کر بوکھالنے ہونے پکارا،
"مطیبہ رکو۔۔"
ہیٹم کے تھر پکارنے یر مطیبہ کے یایرات یکدم شناٹ ہونے،رات کا کوبی جوف چہرے یر نہ تھا
اب،
"تم۔۔"
"چارہی ہوں۔۔اس گھر سے چہاں اب جود کو مخفوظ محسوس نہیں کربی میں۔۔"
ہیٹم اس کی یات کا مطلب سمجھ کر نےچد سرمندگی محسوس کنا،
274
"کل رات کے لنے میں معافی مایگنا ہوں مطیبہ مگر اس کے لنے یلیز گھر حھوڑ کر بو مت
چاؤ۔۔"
کس قدر یڑپ تھی اس کے لہچے میں،ایک یل کو بو مطیبہ ڈگمگابی مگر اگلے ہی لمچے شیٹھل کر گویا
ہوبی،
"تم ک بوں معافی مایگ رہے ہو۔۔۔تم نے بو آج یک کجھ علط نہیں کنا یا ہیٹم سکندر۔۔۔تم بو
ایک مطلوم انشان ہو جس یر ظلم ہویا آیا ہے۔۔۔اصل ظالم بو میں ہوں جس نے تمہاری جوشناں
کھالیں۔۔۔اور کل جو ہوا اس میں تھی تمہارا فصور نہیں۔۔۔علطی بو میری ہی تھی یا کہ میں جود
آبی تمہارے روم میں جیسے نہلے گتی تھی اس وجسی کے کمرے میں۔۔"
"ک بوں نہ دہراؤں۔۔تمہیں صرف شینے میں انتی پکل یف ہورہی ہے ہیٹم اور وہ سب مجھ یر گزرا
تھا۔۔"
کرب میں گھری وہ کہتی ہوبی آچر میں یڑپ کر چالبی ہیٹم کے شینے یر دوبوں ہاتھ رکھتی اسے دھکا
275
دی،یاچا ہنے ہونے تھی وہ سب ایک یرے جواب کی طرح اس کی آیکھوں میں کسی قلم کی
طرح چلنا،الکھ کوشسوں کے یاوجود ان یدیرین یادوں کو نہ تھالیابی تھی وہ،
"میں کنا کروں مطیبہ تم نناؤ مجھے۔۔۔چاننا ہوں نہت علط کنا تمہارے ساتھ مگر سمجھ نہیں آیا
کیسے ا ننے گناہ کا مداوا کروں۔۔"
اسے رویا دیکھ مطیبہ کے سا منے آیا ہیٹم پکل یف دہ لہچے میں نےنسی سے کہا،
"مداوا کریا چا ہنے ہو ا ننے گناہ کا۔۔۔بو حھ یکارا دے دو مجھے۔۔۔نہیں رہ سکتی میں تمہارے
ساتھ۔۔۔تم جیسے کم طرف کے ساتھ رہنا مچال ہے میرے لنے۔۔"
ا ننے آنسو رگڑ کر وہ نےیایر لہچے میں کہی،اس کے القاظ طما بچے کے مانند محسوس ہونے ہیٹم
کو،چامتی ہونے ل بوں کو سحتی سے تھییچا تھا وہ ان لقظوں کے تیر کو یرداست کرنے کے لنے،
"حھ یکارا چا ہنے یا تمہیں مجھ سے۔۔۔میں وعدہ کریا ہوں کہ ہیٹم سکندر سے تمہیں ہمیشہ کے لنے
حھ یکارا مل چانے گا مگر صرف ایک مرنبہ مجھے معاف کردو۔۔"
اس کے شناٹ یایرات کو کرب سے دیکھنا ہیٹم دھٹمی آواز میں کہا ،لہچے میں درد کی نےنناہ
آمیزش تھی،مقایل کی آیکھوں کے چد سے زیادہ سرخ ڈورے اگر مطیبہ چہایگیر پفرت کے یردے
ً ی
ہناکر د کھتی بو پقینا کانپ چابی،
276
"تھنک ہے تھر۔۔۔معاف کنا تمہیں میں نے ہیٹم سکندر۔۔"
گردن گھوما کر وہ مضبوط لہچے میں کہتی آچر میں گداز ل بوں کو طیزنہ ایداز میں تھنالبی،ہیٹم کی
دھندالبی پظروں کا مرکز گداز لب یر وہ زحم ن نا جو نےساخنگی میں اس نے مقایل کھڑی لڑکی کو
دیا ت ھا،کاش کہ کل وہ جود یر قابو کرلینا بو آج وہ بوں نہ چارہی ہوبی نہاں سے،
اس کی پظروں کا مرکز دیکھ مطیبہ ن یفر سے ہیٹم کو دیکھ ہینڈ کیری تھامتی آگے یڑھی تھی مگر اگلے
ہی لمچے اس کی کالبی ہیٹم کے گرقت میں آبی،وہ پفرت سے حھنکنے کی لگی تھی اس کا ہاتھ مگر
ہیٹم کے لقظوں نے اسے نہ کرنے سے روک دیا،
س
" مجھو کہ ِمل گنا حھ یکارا تمہیں ہیٹم سکندر سے۔۔"
اذ نت سے مشکراکر کہنا وہ آہسنگی سے کالبی حھوڑا تھا اس کی،مقایل کے گہرے لقظوں کی
شنگیتی یر ننا غور کنے مطیبہ یاہر کی چانب قدم یڑھابی تھی،ہیٹم نے یلٹ کر اسے دیکھنا گوارا نہ
ً
کنا،چاننا تھا کہ اگر مڑ چایا بو پقینا اسے تھر روک لینا اور وہ نہیں چاہنا کہ اب مطیبہ چہایگیر
رکے،اسے بورا جق تھا انتی زیدگی جینے کا،ایک انسی زیدگی جس میں ہیٹم سکندر کا یام و نشان نہ
ہویا،نہت یرا ہارا تھا وہ اس لڑکی سے،چان خکا تھا یاممکن ہے اس لڑکی کی پفرت سہنا اب،کنا
تھی وہ لڑکی،جس کی محیت تھی کمال کی تھی اور اب پفرت تھی الجواب،
277
نےبچاشہ اذ نت میں ِگھرا وہ ٹی یٹ کی خ یب میں سے شیسی پکاال تھا،اس کے ایدر وہ شفوف اب
صرف آدھا ہی رہ گنا تھا،ٹینل یر سے یابی کا گالس اتھا کر ہیٹم شیسی کھولنا وہ شفوف اس یار
زرا سا ڈا لنے کے بچانے بورا ڈاال تھا ساتھ یابی کا گالس ل بوں سے لگایا لمخوں میں چالی کنا،چالی
گالس ٹینل یر رکھنے کے لنے ہیٹم حھکا ہی تھا کہ یاک سے جون کی بوید پکلتی ٹینل یر گری،رومال
سے وہ صاف کنا تھا جون مگر روز کے مچالف جون صاف ہونے کے بچانے پکلنا چال گنا،چلق میں
ہوبی خٹھن یڑھی تھی ساتھ ایک سدت تھری درد کی لہر بورے جسم میں دوڑبی اس کا دل ن ند
کرنے لگی،سانس لینے میں یکدم دسواری ٹیش آبی تھی جس کے یاعث وہ مبہ کھوال مگر مبہ سے
تھی اچایک جون پکلنے لگا تھا اور پکل یف سے جور ہونے جسم کو ڈھ نال حھوڑیا چہاں ہیٹم سکندر گِ را تھا
زمین یر وہی مطیبہ چہایگیر سکندر وال سے ا ننے قدم یاہر پکالے وہاں سے پکلتی چلی گتی،
"صاچب۔۔"
کجھ گرنے کی آواز یر یاہر پکلتی فرخندہ گ ھیراکر پکاری ساتھ تھاگتی ہوبی ہیٹم کے یاس آبی،جس
کے اویدھے یڑے وجود میں ہلکی سی تھی خٹیش نہ تھی،وہ پگاہ دوڑابی،مطیبہ تھی کہیں نہ تھی،
"صاچب۔۔ہیٹم صاچب۔۔"
کافی پکار یر تھی وہ ہال یک نہ،
278
"نہ کنا ہوگنا۔۔"
یری طرح بوکھالبی وہ یڑیڑابی ساتھ گ ھیراکر کر سب سے نہلے بورچ میں آبی،
279
مہینے میں وانس آچانے گی مگر مہناز ننگم کی می بوں نے اس کے وانسی کے قدم زبخیر کر ڈالے
تھے،
ہیٹم کے اذ نت تھرے لہچے میں کہی یاٹیں اب یک اس کے کابوں میں گوبج رہی تھیں،النٹیس
ٹ
آن کربی وہ الؤبج میں ہینڈ کیری حھوڑبی صوفے یر یٹھی،یاچانے ک بوں دل گ ھیرانے لگا تھا،کجھ
عح یب سا محسوس ہورہا تھا،نےجیتی تھی کہ گزرنے وقت کے ساتھ یڑھنے لگی تھی اور بونہی
نےسکوبی میں دو گھینے سرکے تھے،اسے حھوڑ کر وہ یلکل صحیح ق یصلہ کی تھی،یار یار دماغ کی
اس سوچ یر جود کو دالشہ د نتی وہ آچر کار انتی سوجیں یرے کربی اتھنے لگی یر نٹھی فون یر ن نل
پ ً کی
بحنے لگی،مطیبہ مویایل یرس سے پکال کر د ھی،سکندر وال کا لینڈ الین تمیر تھا ،قینا وہی کال کررہا
ہوگا اسے،اس کے سوخنے سوخنے ننل بحنا نند ہوبی،مطیبہ نے دیکھا اس سے نہلے تھی ٹین مشڈ
ٹ ن یھ ت
کالز آبی ہوبی تھیں،وہ لب یجی گر ھی ھر ریگ کرنے لگا فون،اس یار دوسری ل یر کال
ن ن ت م
رنسبو کی تھی وہ،
"بی بی۔۔"
اتھی مطیبہ غصے میں کجھ کھری کھری شنانے کا سوجی ہی تھی ہیٹم کو مگر دوسری چانب سے
فرخندہ کی تھرابی آواز اسے چیران کرگتی،
"فرخندہ۔۔"
280
"بی بی ہیٹم صاچب۔۔"
اس کی تھنگی آواز نے مطیبہ کو تھٹھکنے یر مح بور کنا،کجھ نہت علط ہونے کا اجشاس ہوا تھا
اسے،
281
"یاجی ٹیسے۔۔"
وہ جو ایدر تھا گنے کو تھی ننکسی ڈران بور کی آواز یر بوکھالبی مڑی،اس کے سلب ہونے جواس میں
ن ی مجس
ہ
کوبی القاظ ھنے کے قا ل یں رہا تھا،
"نہ لو۔۔"
غقب سے تھاری آواز کے ساتھ ایک مضبوط ہاتھ میں خند بوٹ ڈران بور کی چانب یڑھے،نٹھرابی
س غ م ی ی
ک
ل ھڑا وخنہہن یلس آیکھوں سے اس ہاتھ کو د تی طیبہ یلٹ کر قب یں د ھی،سا منے
ک م ھ ک
"تھابی جییج۔۔"
"رکھ لو بورے۔۔"
ڈران بور کے کہنے یر آگے سے کہنا وہ یلنا،
"سابی تھابی۔۔"
مطیبہ کے نےپقیتی سے پکارنے یر وہ گردن موڑ کر اسے دیکھا،
282
"ک۔کک۔۔کنا ہوا ہے۔۔؟"
دھڑ کنے دل کے ساتھ وہ زرد ہونے چہرے سمیت ہکالنے ہونے بوحھی،پظروں میں امند تھی
کہ مقایل کجھ انشا بولے جس سے اس کی نےجیتی خٹم ہو،
میت کب گتی یدفین کے لنے اسے کجھ ہوش نہ تھا اور ہویا تھی کیسے وہ ا ننے جواسوں میں ہی
نہیں تھیں،جود میں انتی ہمت تھی نہ تھی کہ اتھ کے ایک آچری پظر اس شٹمگر کو دیکھ لیتی،نہ
م
چیر ہی نہاڑ ین کر بوبی تھی اس کے سر یر لگ رہا تھا جیسے دننا ہی ایدھیر ہوگتی ہو کمل،آس
یاس لوگوں میں کتی یاٹیں ہورہی تھیں مگر سب سے نےنہرہ ہونے وہ چاموش سی چالی پظروں
ٹ
سے زمین گھوربی یٹھی ہوبی تھی،
283
"آپ آزاد ہوگٹیں۔۔اب کوبی یرنشان نہیں کرے گا آپ کو۔۔"
عنادنہ کے لہچے میں کوبی طیز نہ تھا،سادگی سے کہے تھے اس نے نہ القاظ مگر اس کی یات نے
ی
یکھری ہوبی مطیبہ کو د ہکنے اپگاروں کے زد میں تھینک دیا تھا،تمکین یابی سے تھری آ کھیں اتھابی
م کم کی
وہ عنادنہ کو د ھی جس کا جود کا چہرہ چد سے زیادہ رونے کے پعد اب ل سرخ ہوخکا تھا،وہ
کنا جواب د نتی اس کو،کیسے ننابی کہ اس شٹمگر سے دور چایا چاہ رہی تھی مگر اب وہ دوری تھی
مچال ہونے لگی تھی اور تھر چب نہ چیر اسے ملی نب کنا ٹیتی تھی اس یر،ہاں وہ اسے معاف
کرنے کی روداد نہ تھی مگر نہاں سے چانے ہونے کس قدر یڑپ دل میں حھنانے چارہی
تھی،پفرت کا وہ نت بو نٹھی بوٹ خکا تھا چب وہ شٹمگر اس یر ا ننے دل کے چذیات ظاہر کنا تھا
مگر تھر کس یات کا غصہ دکھارہی تھی وہ۔۔۔،انتی ہار کا۔۔۔،اس ہار کا جو ہر یار اس شٹمگر سے
مقا یلے میں ملتی تھی اسے،چب وہ اسے میسر نہ تھا بو الکھ کوشش کی اسے یانے کی مگر چب
میسر ہوا بو اس سے دوری کی دعاٹیں کربی صرف اس ہی وجہ سے کہ وہ تھر ہارنے لگی تھی اس
م
شٹمگر سے،اور آج۔۔۔،آج بو وہ کمل بوٹ چکی تھی،
284
"چلیں گرنتی،ع نادنہ۔۔"
س
لسینل کی تھاری آواز نے اسے سوجوں کے مخور سے ہوش کی دننا میں دھکنال،جویک کر وہ سر
ٹ
اتھابی،مقایل غوربوں میں یٹھی درنہ ننگم اور عنادنہ سے مچاطب تھا،
بو کنا یدفین کر کے آ چکے تھے وہ لوگ،یڑپ کر رویا دل ایک اور مرنبہ کرالیا نہ سوچ کر ہی،اور
سر حھکانے وہ اننا رویا ضیط کرنے لگی،ارد گرد صرف نہی سوچ گھوم رہی تھی کہ کاش وہ اسے
معاف کرد نتی۔۔۔،کاش کہ اسے ا ننے لقظوں سے نہ بوڑبی،عنادنہ نے چب اسے ننایا کہ ڈاکیرز
کے مطابق ہیٹم سلو بوایزن لے رہا تھا نب اسے خنال آیا کہ ک بوں وہ روز یروز اسے گھلنا دک ھنے لگا
تھا،ک بوں اننا عح یب سا ہونے لگا تھا وہ،
"تم۔۔۔مطیبہ۔۔"
س س
اب کی یار لسینل اسے مچاطب کنا بو اننا دکھ نا سر اتھابی وہ سوجی آیکھوں سے لسینل کو
ی
د کھی،
285
"نہت حھیناں کرلیں تم نے۔۔۔کل سے یاتم یر آفس آچایا۔۔۔"
اس کے شیحندگی سے کہنے یر مطیبہ کو یری طرح دھخکا لگا،نہ وہ کہہ کنا رہا تھا،مطیبہ نےپقیتی
ن یلس ت ج س ش ت کی
ل کی یات نے اسے سے عنادنہ کو د ھی جس کے یایرات ھی یح ندگی لنے ھے یسے
جوپکایا نہ ہو،
س
" لسینل۔۔تم دوبوں چلے چاؤ میں نہی یر ہوں۔۔۔"
ی س
روبی ہوبی مطیبہ یر ایک پظر ڈال کر درنہ ننگم لسینل کو نٹینہہ پظروں سے د تی بو یں جس یر
ل ھ ک
"عنادنہ۔۔"
س
لسینل کے چانے کے پعد عنادنہ اتھنے لگی نٹھی درنہ ننگم اس کے یاس آبی پکاریں،
س
" ٹینے لسینل کو سمجھاؤ۔۔۔سوہر کی ڈ نٹھ کے پعد لڑکی عدت میں رہتی ہے وہ کیسے اسے آفس
آنے کا کہہ سکنا ہے۔۔"
شیحندہ یایرات سمیت اسے جواب د نتی عنادنہ یاہر کی چانب یڑھی،مطیبہ کی سمجھ سے یاالیر تھا
ییکھ ٹ
اس کا نہ جواب مگر وہ نےنسی سے رونے لگی تھی،درنہ ننگم اسے افسوس سے د تی ھی ھی
ت ٹ
مطیبہ کے یاس مگر ان کے الکھ دالسوں کے یاوجود مطیبہ کو صیر نہ آیا آچر غم ہی اننا یڑا تھا،
288
س ٹ
یاہر آبی وہ کار میں یٹھی تھی نٹھی لسینل نے اسے مچاطب کنا،عنادنہ نے کوبی جواب بو نہ دیا
س
الیبہ پفی میں صرف سر ہالیا ،لسینل کجھ لمچے اس کے حھکے سر کو دیکھنا رہا تھر کہا،
"دکھی نہیں ہوں میں۔۔۔وہ ڈیزرو کرنے تھے نہ سب۔۔مج ھے صرف افسوس ہے کہ وہ میرے
تھابی تھے۔۔۔"
تم یلکوں کو صاف کرکے اس نے تھنگے لہچے میں کہا،دل یری طرح پکل یف میں گھرا تھا،اسے
س
دیکھ لسینل کار شنارٹ کنا،
289
آج ایک ہقبہ گزر خکا تھا مطیبہ ہ بوز سکندر وال میں نند رہنے لگی تھی،دو دن کے و فقے سے ع نادنہ
آرہی تھی اس کے یاس مگر اس کو گہری چپ لگ چکی تھی اور لگتی تھی ک بوں نہ اس کی بو
بوری دننا ہی ایدھیر ہوچکی تھی،کنا کجھ نہیں تھا اس کی چپ میں،غم،پکل یف کی اننہا اذ نت و
کرب اور بجھناوا۔۔،نےچد بجھناوا،
"ہوسکے بو کٹھی مت آیا ک بویکہ مطیبہ چہایگیر تمہارے مرنے یر تھی تمہیں معاف نہیں کرنے
والی۔۔"
ا ننے کہے گنے القاظ یر ہی آج وہ سدید بجھنابی تھی،کاش کہ وہ اسے انشا نہ کہتی،کاش کہ اسے
ہر یار ن یفر سے نہ دھ یکاربی یر اب بجھنانے کا قایدہ ہی کنا تھا،انتی حھوبی پفرت کے جول نے بو
اسے چالی داماں کر کے رکھ دیا تھا ،جسے چایا تھا وہ بو چاخکا تھا اب ساتھ صرف ایک "کاش" ہی
رہ خکا تھا،
"بی بی۔۔"
ی
فرخندہ کی آواز یر وہ گردن موڑ کر اسے د کھی،
290
"فون۔۔"
اس کے ننانے یر مطیبہ کی چالی پظریں یرایر میں ر ک ھے ا ننے فون یر گتی جو یاچانے کب سے
ریگ کررہا تھا،سکرین یر چگ مگ کریا تمیر دیکھ یاچا ہنے ہونے تھی کال رنسبو کی،
"وجہ۔۔؟"
291
اس کے سوال یر مطیبہ کو سدت سے رویا آیا،
س
"وجہ جو تھی ہو نہ سب میرا سردرد نہیں۔۔۔آدھے گھینے کے ایدر ایدر آفس آؤ ھی۔۔"
مج
س
اس یار لسینل سخت لہچے سمیت کہنا کال کٹ کنا،مطیبہ کو اب رونے کے ساتھ ساتھ
غصے نے آلنا،نپ کر اتھتی وہ اویر روم میں گتی تھی،کجھ دیر پعد آبی بو ساتھ ایک ٹئیر تھا،
292
"کجھ دیر میں آچاؤں گی وانس۔۔"
مطیبہ اس کی یات شیتی چاموسی سے یاہر پکلی،کنا جواب د نتی کہ نہ یات اسے بو معلوم ہے مگر
آدھے گھینے کی دوری یر ا ننے آفس میں ٹیٹھا وہ معرور سخص چا ننے ہونے تھی اگبور کررہا تھا،
س س
آدھے گھینے پعد وہ لسینل کے آفس میں تھنک اس کے سا منے کھڑی تھی،چب کہ لسینل
اس کا دیا ہوا لئیر یڑھنے کے پعد اب راکنگ چئیر سے ننک لگایا تھا،
وہ جس یرسکوبی میں کہا تھا مطیبہ کا اننا ہی سدید جون کھوال،
293
"ک بوں ایروو نہیں ہوسکنا تھابی۔۔۔"
س
چہرے یر یاگوارنت سچانے وہ بوحھی جس یر لسینل طیزنہ مشکراہٹ سمیت اس کی چانب
ی
دیکھا،یری طرح سوجی سرخ آ کھیں چد سے زیادہ رونے کی غمازی کررہی تھیں،
"دو سال کا کئیریکٹ ساین کنا تھا آپ نے اب چب یک آپ کی چگہ کوبی دوسرا اتم نالنے
نہیں ہایر کرلینے ہم نب یک آپ ریزاین دے ہی نہیں سکتی۔۔"
ی ح کی س
لسینل کی یات یر مطیبہ نےنسی سے اسے د ھی،سوجی ہوبی ل آ ھوں یں ھر یابی ع
م ح ت م ک ن ھ
ہونے لگا،
"تھابی۔۔"
"سر۔۔!"
وہ بوکا،
294
"ک بوں کررہے ہیں آپ انشا۔۔؟"
295
مقایل کے اجشان کرنے والے لہچے نے اسے یری طرح گھایل کنا،تھنگی مگر اشیعال تھری
س
پظروں سے وہ مڑ کر گھوری تھی لسینل کو،
"شبو چاہی رہی ہو بو نہ دوانناں عنادنہ کو د ن نے چایا۔۔۔اس نے منگوابی تھیں شیطین کے
لنے۔۔"
س
ننا اس کی گھوری کو چاطر میں النے لسینل ٹینل یر رکھی ٹینلٹیس مطیبہ کی چانب سرکا کر
بوال،
296
س
آیرو اخکاکر کہنا لسینل ا ننے سا منے رکھی قایلز یر حھکا،مطیبہ نہلے بو لب تھییچے اسے گھوربی رہی
تھر دوانناں غصے میں اتھابی یاہر پکلی،اس سخص سے کسی تھی یایک یر بخث نےکار تھی،وہ
سوچ چکی تھی کہ نہ السٹ یاتم تھا اب وہ کٹھی اس آفس میں نہیں آنے والی چاہے کجھ تھی
ہو،
س
را شنے میں لسینل کے مٹیشن میں کار رکوابی وہ دوانناں لنے کار سے ایری،گیٹ یر فرمان کھڑا
ت ھا اسے دیکھ مطیبہ کھلے گیٹ سے ایدر داچل ہوبی،ہال میں کسی کو نہ یاکر وہ کجھ یزل
ہوبی،دل عح یب گ ھیراہٹ کے مارے یالجواز رونے کو ہورہا تھا،وہ شٹمگر جس قدر جواسوں میں سوار
تھا اسے کجھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا،کسی کو سا منے نہ دیکھ وہ دوانناں ٹینل یر رکھ کر چانے کا
ت
ارادہ کی،اتھی وہ دوابی رکھ کر یاہر کی چانب یڑھنے ہی لگی تھی کہ اچایک ھٹھکی،ہال میں ننے
سب سے کونے والے روم کا دروازہ کھال دیکھ ایک عح یب سے اجشاس نے اسے آلنا،سر حھنک
کر اس نے یاہر چانے کا سوچا مگر قدموں نے ساتھ نہ د ننے اس روم کا ہی رخ کنا،وہ نہیں
چانتی تھی کہ انشا ک بوں ہورہا ہے مگر دل میں ابچایا دھڑکا لگا ہوا تھا جسے خٹم کرنے کے عرض وہ
غین اس روم کے دروازے یر کھڑی ہوبی،عح یب ہی ک یف یت ہورہی تھی اس کی،ڈر تھی لگ رہا
تھا تھر بحسس تھی ہورہا تھا نس ایک پظر ایدر دیکھنے کو،
297
ی
ہمت کر کے وہ قدم آگے یڑھابی ایدر داچل ہوبی تھی اور سا منے پظر چانے ہی مطیبہ کی آ کھیں
تھتی کی تھتی رہ گٹیں،ایک یل کو اسے بوری دننا رکتی ہوبی لگی،وقت ،دن،مہینے،سال شٹھی
جیسے تھم چکے تھے،سانس جس قدر روکی تھی وہ جوپصورت چہرہ یری طرح سرخ ہوا اور حھنکے سے
م یل قپ م م جی ن م یقپ حی یکھ
سانس تی وہ ا ننے قدم نے تی یں ایک قدم ھے لی،وہ ہر یا کن یات یر ین کر تی گر
اتھی جو سا منے دیکھ رہی تھی اس یر پقین کریا مچال تھا،
"ہیٹم۔۔۔!"
اس کے لب تھڑتھڑانے،
دوسری چانب وہ جو اس کی موجودگی سے نےچیر ساننڈ ٹینل سے یابی کا گالس اتھانے کی
کوشش میں شندھا ہورہا تھا یکدم جویک کر دروازے کی چانب دیکھا،آیکھوں کی ننلناں سکڑ کر
شندھی ہوٹیں،خنکہ خند لمخوں یک اس کے یکھرے چلنے کو دیکھنے رہنے کے پعد یاریک ل بوں یر
298
نہانت مدھم سی مشکراہٹ تھنلی،وخنہہ چہرہ زرد مایل ہوخکا تھا جس یر ایدروبی پکل یف کے آیار اب
یک رقم تھے،
اسے اداسی سے مشکرانے دیکھ حھنل آیکھوں سے تیزی میں ایک موبی پکلنا گال یر تھشال اور
جوسی و نےپقیتی کی ملی چلی ک یف یت میں مطیبہ ننا کجھ اور سوچے تیزی سے قدم یڑھابی ننڈ کی
ٹ یٹ س
چانب گتی تھر ہیٹم کو کجھ ھنے کا مو ع دنے ننا ہی وہاں تی اس کے لے لگ کر ھوٹ
ت گ ھ ف مج
تھوٹ کر رودی،اس کے اچایک غمل یر ہیٹم ششدہ رہ گنا،بو کنا وہ اس سے یاراض نہ تھی،وہ
سکوے وہ شکایات وہ غصہ۔۔۔،کنا سب کجھ یل میں خٹم ہوخکا تھا،
س
نےساچبہ ہیٹم کو لسینل کا یلین صحیح لگا،ذہن میں وہ وقت گردش کنا تھا،چب اسے ہوش آیا
نب اس نے جود کو ہاشینل میں یایا تھا،اتھی وہ صحیح سے جواسوں میں تھی نہ لویا تھا کہ ایک زور
ی
دار ت ھیڑ نے ہیٹم کا ذہن یری طرح مٹیسر کردیا،دیدھلی ہوبی آ کھیں حھنک کر وہ سا منے دیکھا
س
چہاں روبی ہوبی ع نادنہ غصے میں کجھ کہتی گھوری تھی مقایل کھڑے لسینل کو،
299
"نہ ت ھیڑ اس نے جود انتی پقدیر میں لکھوایا تھا۔۔"
س س
عنادنہ کو جواب دے کر لسینل اس کو دیک ھا جس کی یاسمجھ پظریں لسینل یر ہی تھیں،
"ک یفرم کروگے کہ آچر چا ہنے کنا ہو۔۔۔کٹھی ایکسنڈنٹ کروا لینے ہو اننا بو کٹھی زہر کھاکر مرنے
کی نناری۔۔۔"
ی
اس کے سوال یر ہیٹم تھکان سے آ کھیں موید کر کھوال،
"تھابی۔۔"
س
عنادنہ یڑبی تھی اس کی یات یر،دوسری چانب ہیٹم کی یات یر کجھ سوخنا لسینل گویا ہوا،
300
"مرچاؤ تم۔۔"
س
" لسینل کنا کہہ رہے ہیں۔۔"
ی
"یلکل تھنک کہہ رہا ہوں۔۔۔تمہارے مرنے یر ہم د کھیں گے کہ اگر تمہاری ن بوی کو فرق نہیں
ٰ
یڑیا بو تم چلے چایا اس کی زیدگی سے دور لنکن اگر اس کا ِردغمل سدید ہوا بو تھر تم دوبوں لنلی
مح بوں چابو آگے کے یارے میں۔۔۔"
س ی مج ہ س س
لسینل کی یات یر نہلے بو عنادنہ اور یٹم یا ھی سے اسے د ک ھے مگر چب اس کی یات مجھ آبی
بو وہ دوبوں تھی سوچ میں یڑ گنے،
301
ا ننے شینے میں مبہ حھنانے روبی مطیبہ کی آواز نے اسے سوچ کی دننا میں قدم رکھنے یر مح بور
کنا،آسودگی سے مشکرایا ہیٹم اس کے گرد ا ننے دوبوں یازوؤں کو چایل کنا تھا مگر نٹھی مطیبہ کا
فون ریگ کرنے لگا،ہیٹم سے دور ہوبی وہ کال رنسبو کی،
"نہیں۔۔۔آ۔۔۔سوری تھابی۔۔"
ی
شنکی سے کہتی وہ جور پظروں سے ہیٹم کو د کھی جس کی مشکابی پظریں اس ہی ہر تھیں،
"سر۔۔"
302
مقایل بوکنا ہوا کال کٹ کنا اور مشکراکر فون رکھتی مطیبہ جوسی سے تم آیکھوں سمیت مقایل
مح بوب کو دیکھ اس کے شینے یر سر رکھتی گویا ہوبی،
"اس ایک ہفنے کی پکل یف ہر اس پکل یف سے یڑھ کر تھی جو ان سالوں میں مجھ یر ٹیتی۔۔"
"وعدہ کریا ہوں تمہاری ہر پکل یف کا مداوا انتی محیت سے کروں گا۔۔تمہاری آیکھوں میں جوسی
کے آنسو بو آ ٹیں گے مگر غم کے آنسوؤں کو کٹھی ان جوپصورت آیکھوں سے پکلنے نہیں دوں
گا۔۔۔"
م
چذیات سے جور لہچے میں نہانت یٹھی سرگوسی کریا وہ مطیبہ کے گرد یازوؤں کا خصار نناکر
ی
یرسکون سا آ کھیں مویدا،مقایل کے اس وعدے نے مطیبہ کو جس قدر سرسار کنا تھا اس کے
لنے لقظوں کا نناں یاقایل تھا،
303
دروازے کے اوٹ سے انہیں جوسی سے ایک پظر دیکھ عنادنہ ہال میں آبی چہاں درنہ ننگم کی
کی
سوالبہ پظریں اس ہی کی می یظر تھیں،ان کو د تی عنادنہ جوسی سے م کرابی اننات یں سر البی
ہ م ش ھ
ساتھ ہی ان کے گود سے شیطین کو لیتی اسے ننار کرنے لگی،وہ جوش تھی نےچد جوش کہ
اس کے تھابی اور مطیبہ کی زیدگی سچل ہوچکی تھی،سکندر وال سے وانسی یر اس نے درنہ ننگم کو
ساری یات سے آشنا کروایا تھا ساتھ نہ تھی ننایا کہ وہ میت کسی اور کی نہیں یلکہ ہناد کی
تھی،عنادنہ کو سدید سرم ندگی ہوبی تھی ان کے سا منے ا ننے اس تھابی کا گناہ ننانے،وہ دکھی
نہیں تھی ہناد کی موت یر یلکہ اسے افسوس تھا نہت کہ اس قدر گناہگار سخص اس کا تھابی
تھا،
304
"سوہر چب آفس سے تھکا ہارا گھر آیا ہے بو جواہش کریا ہے اس کی ن بوی اشیفنال میں ایک یرم
مشکراہٹ الزم سچانے ر ک ھے ا ننے چہرے یر لنکن نہاں یر بو میری ن بوی یاراض شکل ننانے گھوم
رہی ہے۔۔۔"
عنادنہ نے آج اسے چلد آنے کی نٹینہہ کی تھی،وجہ رات مطیبہ اور ہیٹم کو دی گتی دغوت تھی
س
مگر لسینل کافی کوشش کے پعد تھی بو بچے ہی گھر یر لویا اور اب عنادنہ کو جود سے یاراض
دیکھ وہ جوٹ کنا تھا اس یر،
"ہاں بو سوہر کو تھی اجشاس ہویا چا ہنے کہ ن بوی جو یات کہے اس کو مان لنا چانے یا کہ انتی
ی
مرضی چالٹیں۔۔۔اب وہ لوگ آنے ہی والے ہوں گے اور جود کو د کھیں ننار تھی نہیں
ہونے۔۔۔"
س
چڑ کر ٹیتی ہوبی اسے جواب د نتی عنادنہ آچر میں لسینل کو شیطین کے ساتھ ننڈ یر کھنلنے دیکھ
ی ھ ح
البی، ھ ج
305
"فصول میں انتی ایرجی صا پع کررہی ہو چاتم۔۔۔وہ دوبوں گنارہ بچے سے نہلے نہیں آنے
والے۔۔۔"
س
یرسکون سا کہنا لسینل عنادنہ کے ہاتھ سے ا ننے کیڑے لے کر یرایر میں رکھنا اس کی گود
س
سے شیطین کو لینے عنادنہ کے گال یر لب رکھا،وہ یدک کر دور ہوبی گھوری تھی لسینل کو
س
جس یر ہلکا سا ہیسنے لسینل شیطین کو دیکھ گویا ہوا،
شیطین کھلکھالیا تھا،خنکہ عنادنہ ان دوبوں یاپ ٹینے کو گھورنے کے چکر میں یلش ہوبی آچر
میں جود تھی مشکرادی،
306
آج ہیٹم کی فرمانش یر وہ ساڑھی نہتی تھی،ڈرنسنگ یر کھڑی اتیریگ نہن کر اس نے ایک آچری
ن یفندی پظر جود یر ڈالی نٹھی نیجھے سے آیا وہ یرمی سے اس کے گرد خصار یایدھا تھا،مطیبہ کے لب
مشکرانے تھے،
ی
"اس جوپصورت چہرے یر سجی نہ جسین مشکراہٹ ہمیشہ میری آ کھیں چیراں کرد نتی ہے۔۔۔"
یرمی سے اس کے کان میں سرگوسی کنا تھا ہیٹم جس یر یلکوں کی یاڑ اتھابی مطیبہ آ ٹینے میں
م ن ت ُ ی کی
گ ھ ٹ پ ن
د ھی،مقا ل کی لو د تی ظروں کی یش نے اسے سرخ ہونے یر مح بور کنا،ل بوں یر لی سر یں
ی
مشکراہٹ یڑھی تھی ساتھ وہ سرخ عارض سمیت مٹیسر دھڑک بوں کو شیٹھالتی آ کھیں مویدی چب
مقایل کے ل بوں کا لمس انتی گردن یر محسوس ہوا مگر نٹھی دوبوں جو یکے چب ننڈ یر سے ان کی
چڑواں نٹی بوں(عروشہ اور عرنشہ) کے رونے کی آواز آبی،
307
"تم حھوڑ دو میں لے لینا ہوں انہیں۔۔۔"
اسے تمشکل ساڑھی شیٹھا لنے دیکھ ہیٹم مشکراکر کہنا ننڈ یر آیا ساتھ دوبوں کو گود میں لی نا
اتھا،مطیبہ مشکرابی تھی اسے دیکھ جو یاری یاری اب عروشہ اور عرنشہ کے گال جومنا اس کو یاہر
چلنے کا اسارہ کنا تھا،اس سخص نے اننا کہا بورا کنا تھا ان دو سالوں میں وہ ہر طرح سے مطیبہ
یر ظاہر کنا تھا کہ ہیٹم کی زیدگی کی ساری جوشناں اس ہی یر آکر تمام ہوبی ہیں،
ہیٹم کے صخیناب ہونے کے پعد وہ آفس چایا حھوڑ چکی تھی،اّٰللہ نے ایک سال پعد ان دوبوں کو
چڑواں نٹی بوں سے بوازا تھا،یاپ کو بو انتی ٹیتی ہوبی ہی عزیز ہے تھنک اس ہی طرح ہیٹم انتی
دوبوں نٹی بوں سے نےچد محیت کریا تھا،وہ نہت جشاس تھا ان دوبوں کو لے کر،مطیبہ چدا کا
جینا سکر ادا کربی اننا کم تھا کہ ان کی زیدگی سے غم کے یادلوں کو ہمیشہ کے لنے ہنا کر ایک
یرسکون اور سچل موڑ یر الیا گنا تھا،
خٹم سد
308