You are on page 1of 439

1

‫جلتی آنکھیں بجھتا دیا‬


‫طیبہ چوہدری‬

‫پاکستان کے دو صوبوں‪.....‬‬
‫پنجاب اور خیبرپختونخوا کی دل موہ لینے والی الزوال‬
‫داستان‬

‫‪2‬‬
3
‫)‪(Part 1‬‬
‫دل کو کچھ اس طرح سے سکون دیتے ہیں‬

‫اِدھر اُدھر کا سارا غصہ خود پہ اتار لیتے ہیں‬

‫اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا‪.....‬اور اسی کے ساتھ ہی‬


‫اس کا دل بھی ڈوب رہا تھا‪ ،‬وہ ڈر کے مارے لب‬
‫کچلتی انگلیاں پٹختی رو دینے کو تھی۔‬
‫"آخر کیا ضرورت تھی گاڑی سے اترنے کی؟" وہ‬
‫خود کو کوس رہی تھی۔ موبائل بھی بند ہو چکا‬
‫تھا‪.....‬ایک عورت کو تنہائی سے اور اندھیرے سے‬

‫‪4‬‬
‫اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا وہ عزت کے پامال ہونے سے‬
‫ڈرتی ہے۔‬
‫"اگر میں مر گئی یا کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو کل ٹاپ‬
‫ٹرینڈ پر میں ہی ہوں گی۔ لوگ مجھے گالیاں دیں‬
‫گے‪ .....‬بدکردار کہیں گے‪ ....‬اندازہ لگائیں گے کہ‬
‫میں تنہا اس سنسنان جگہ کیا کررہی تھی؟ کچھ‬
‫مجھے بدچلن کہیں گے‪".....‬‬
‫اس کی آنکھوں میں بےشمار آنسو بھر گئے تھے۔‬
‫اس نے پورے چاند کی روشنی میں دور دور تک‬
‫نگاہیں دوڑائیں‪ .....‬ویراں بیاباں‪......‬اس کا ڈر مزید‬
‫بڑھا تھا۔‬
‫سردیوں کی ٹھنڈی شام اس وقت اس‬

‫‪5‬‬
‫کے لیے بھیانک شب تھی۔‬
‫اسی وقت اس کی نظر دائیں جانب سے قریب تر آتی‬
‫روشنی پر پڑی۔‬
‫ّٰللا میری مدد کر‪.....‬میں مصیبت میں ہوں‪ ،‬مجھے‬
‫"یا ہ‬
‫اس مصیبت سے نکال۔"‬
‫وہ آنسو رگڑتے ہوئے دعاگو تھی‪......‬جیسے روشنی‬
‫نزدیک آتی گئی اس کے دل کی دھڑکنیں ڈر کے مارے‬
‫مزید بڑھتی گئیں اور چہرہ دہکنے لگا۔‬
‫اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور تیزی سے‬
‫اٹھی کر سڑک پر جا رکی۔‬
‫ہاتھ میں پکڑے الل سٹالر کو ہالتے ہوئے وہ مدد‬
‫مانگ رہی تھی۔‬
‫"ٹ ٹرک‪ "......‬جیسے ہی روشنی النے والی گاڑی‬
‫واضح ہوئی وہ وحشت سے آنکھیں پھیالئے تیزی‬
‫سے سڑک سے اتر گئی۔‬
‫ٹرک اس سے کچھ فاصلے پر جا کر رک چکا تھا۔‬

‫‪6‬‬
‫"استاد! روک کیوں دیا ابھی سڑک پر چڑیل دیکھی‬
‫تھی نا‪.....‬سٹارٹ کرو گڈی نہیں تو وہ چمٹ جائے‬
‫گی۔"‬
‫ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے لڑکے نے ٹرک رکنے پر‬
‫خفگی سے کہا۔‬
‫"ارے نہیں رے وہ لڑکی تھی‪ ......‬چلو چل کر‬
‫پوچھتے ہیں اس ویراں جگہ کیا کر رہی ہے۔" اس کا‬
‫استاد ٹرک کا دروازہ دھکیل کر چھالنگ لگا کے اتر‬
‫چکا تھا۔‬
‫"میں تو نہیں جا رہا استاد‪ ،‬آپ ہی جائیں۔" وہ ڈر کر‬
‫بوال اور ایک نظر اپنے استاد پر ڈالی جو سیاہ کرتہ‬
‫پاجامہ پر براؤن رنگ کی لیدر کی جیکٹ زیب تن کیے‬
‫اور چہرے پر مفرل کچھ اس طرح لپیٹے ہوئے تھا کہ‬
‫پورا منہ کور تھا بس اس کی آنکھیں ہی نظر آ رہی‬
‫تھیں۔‬
‫"ڈرپوک کہیں کا۔" وہ اسے کہہ کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫"ایکسکیوز می میڈم جی!"‬

‫‪7‬‬
‫وہ اس کے قریب جا کر نہایت مودبانہ انداز میں بوال‬
‫تھا اور وہ ڈر کر پیچھے کو اچھلی۔‬
‫"کیا پریشانی ہے؟ اس وقت آپ اس ویراں جگہ کیا کر‬
‫رہی ہیں؟"‬
‫"استاد جی! اگر چڑیل باجی کے ساتھ گفتگو ہو گئی ہو‬
‫تو آ جائیں پلیج(پلیز)۔" عاصم نے آواز لگائی۔‬
‫"چپ کر عاصم!‪.....‬میڈم جی آپ کو کہاں جانا ہے؟"‬
‫وہ پھر سے اس کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"م مجھے گڑھ موڑ جانا ہے۔" وہ گھبرائے ہوئے‬
‫انداز میں بولی۔‬
‫"میڈم جی ہم لوگ بھی اسی طرح جا رہے ہیں۔‬
‫دیکھیں اس وقت آپ کا یہاں کھڑے ہونا خطرے سے‬
‫خالی نہیں ہے۔مہربانی کر کے آپ ہمارے ساتھ چلیں‬
‫ہم آپ کو بحفاظت آپ کی منزل تک پہنچا دیں گے۔" وہ‬
‫اس شخص کو تو نہیں دیکھ پا رہی تھی محض اس کی‬
‫من کو موہ لینے والے آواز سن پا رہی تھی۔‬
‫آواز سے وہ کوئی غنڈہ موالی ٹائپ لگ نہیں رہا تھا۔‬

‫‪8‬‬
‫مگر ایک ٹرک ڈرائیور پر بھروسہ کرنا‪ .....‬ٹھیک تھا‬
‫کیا؟‬
‫"و وعدہ کرو کہ ت تم مجھے میری منزل پر بحفاظت‬
‫پ پہنچاؤ گے۔"‬
‫"ٹھیک ہے میڈم جی! وعدہ رہا‪.....‬اور شازار جو‬
‫وعدہ کرتا ہے اسے وفا بھی کرتا ہے۔" وہ اس کی‬
‫بات پر مبہم سا مسکرا کر بوال۔‬
‫وہ اس کے پیچھے چل دی۔‬
‫ّٰللا میری حفاظت کرنا۔"‬
‫"یا ہ‬
‫"کہیں میں نے اس ٹرک ڈرائیور پر یقین کر کے غلط‬
‫تو نہیں کیا؟ ان لوگوں کے متعلق تو ویسے بھی اتنی‬
‫بری بری باتیں سننے کو ملتی ہیں۔"‬
‫وہ ہاتھوں کو مسلتی ہوئی سوچ رہی تھی۔‬
‫"عاصم! نیچے اتر۔" شازار نے اس کی جانب واال‬
‫دروازہ کھو کر کہا۔‬
‫"کیوں کیوں‪ ،‬مجھے کیوں قربانی کا بکرا بنا رہے‬
‫ہیں۔ مان جا استاد یہ پکی چڑیل ہے۔"‬

‫‪9‬‬
‫"بکو مت نیچے اترو۔" وہ کرختگی سے بوال تو عاصم‬
‫منہ بسورتا نیچے اتر آیا۔‬
‫"میڈم جی‪ !....‬پیچھلی سیٹ پر بیٹھیں گیں یا اس سیٹ‬
‫پر؟"‬
‫"واہ واہ پوچھ لے استاد پوچھ لے‪....‬اس نے تمہیں‬
‫اور مجھے کھانے سے پہلے یہ بھی نہیں پوچھنا کہ‬
‫پہلے کسے کھاؤں۔" عاصم کی زبان پر پھر سے‬
‫کھجلی ہوئی تھی۔‬
‫"چلو اچھا ہے ایک تو چڑیل سمجھ کر ڈر رہا ہے‬
‫دوسرا ویسے بھوال بھاال لگ رہا ہے۔"‬
‫وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرا دی۔‬
‫"میں آگے بیٹھ جاؤں گی۔" وہ سنجیدگی سے گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"ٹھیک ہے میڈم جی۔ چل عاصم! پیچھلی سیٹ پر چال‬
‫جا۔"‬
‫وہ کہہ کر خود ٹرک کے سامنے سے گزر کر‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر چڑھ گیا۔‬
‫بیٹھتے ہی اس نے الئٹیں ساری روشن کر دی تھیں۔‬
‫‪10‬‬
‫"مڈم جی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا ہی ٹرک‬
‫سمجھیں۔" وہ اب ٹرک اسٹارٹ کر چکا تھا۔‬
‫حوریہ رائے کے دل میں ڈر ابھی بھی تھا وہ جتنا کچھ‬
‫بھی آتا تھا پڑھ کر خود پر پھونکنے لگی۔‬
‫یکدم ہی اسے نیند نے اپنی آغوش میں لینا چاہ مگر‬
‫وہ تیزی سے آنکھیں کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔‬
‫"مجھے سونا نہیں چاہیے‪.....‬تو کیا کروں خاموش‬
‫رہی تو نیند آئے گی ‪ ،‬ایک تو یہ ٹرکوں والوں کے‬
‫پاس عطاء ہللا خان کے گانے ہوتے ہیں وہ بھی نہیں‬
‫چلوا سکتی اور کیا کروں کہ آنکھ نہ لگے؟" وہ‬
‫انگلیاں پٹختی سوچنے لگی۔‬
‫"جب باتیں کروں گی تو نیند نہیں آئے گی۔" وہ سوچ‬
‫کر مسکرائی اور ڈرائیور کی جانب متوجہ ہوئی۔‬
‫"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے نہایت تمیز کا مظاہرہ‬
‫کرتے ہوئے پوچھا‪ .....‬حاالنکہ اتنی تمیز اس کے‬
‫قریب سے گزری بھی نہیں تھی۔‬
‫"جی‪ ،‬میرا نام شازار ہے۔"‬

‫‪11‬‬
‫"میرا نام حوریہ رائے ہے۔" وہ اس کے پوچھے بغیر‬
‫ہی بولی۔‬
‫"اچھا جی۔" وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔‬
‫"دیکھیں شازار جی!‪.....‬میں جب تک باتیں نہ کروں‬
‫میرا سفر اچھا نہیں گزرتا اور میں سونے کے موڈ‬
‫میں ہرگز نہیں ہوں۔" چند پل کی خاموشی کے بعد وہ‬
‫جھنجالئے ہوئے انداز میں بولی۔‬
‫"باتیں نہیں کرتا ہمارا استاد یہ ہی تو مسئلہ‬
‫ہے‪.....‬اور میڈم جی اوپر سے ظلم یہ کہ ٹرک میں‬
‫گانے بھی نہیں بجنے دیتا۔" عاصم جو پیچھلی سیٹ پر‬
‫لیٹ چکا تھا موندی آنکھوں سے بوال۔‬
‫"کیوں باتیں کیوں نہیں کرتے آپ؟" وہ اس کے‬
‫اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے سرخ و سفید ہاتھوں‬
‫کو دیکھتے ہوئے استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"بس ویسے ہی بےتکا بولنے کو دل ہی نہیں کرتا‬
‫جی۔" وہ کھوئے کھوئے انداز میں بوال۔‬
‫حوریہ سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"آپ بتائیں آپ اتنی رات کو وہاں کیا کر رہی تھیں؟"‬

‫‪12‬‬
‫"میں دراصل اسالم آباد میں زیر تعلیم ہوں‪.....‬ویک‬
‫اینڈ پر گھر آ رہی تھی‪ .....‬یہاں آ کر بس کا ٹائر پینچر‬
‫ہو گیا‪ ،‬میں باقی چند مسافروں کے ساتھ نیچے اتری‬
‫اور اتنے میں مما کی کال آ گئی وہاں سگنل نہیں آ‬
‫رہے تھے تو میں ذرا آگے نکل گئی کہ شاید سگنل مل‬
‫جائیں مگر سگنلز تو نہیں ملے البتہ میری بس چل‬
‫پڑی پیچھے دوڑی بھی مگر کوئی فایدہ نہیں ہوا۔" اس‬
‫نے افسردگی سے خود پر بیتی سنائی۔‬
‫"آپ کیا پڑھائی کرتی ہیں میڈم جی؟" عاصم نے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"میں بی ایس فزکس کر رہی ہوں۔ چوتھا سمیسٹر ہے‬
‫میرا ابھی۔ ان دو سالوں میں پہلی مرتبہ میرے ساتھ‬
‫ایسا واقع ہوا ہے‪ ".....‬وہ مسکرا کر بولی۔‬
‫"آپ کو خیال رکھنا چاہیے تھا میڈم جی! آج کل کا دور‬
‫نہیں ہے تنہا سفر کرنے واال۔" وہ نہایت ہی‬
‫سمجھداری سے گویا ہوا۔‬
‫"پتہ نہیں یہ شخص واقع ہی اتنا اچھا ہے یا بننے کی‬
‫کوشش کر رہا ہے؟" وہ اس پر نگاہیں جمائے سوچ‬
‫رہی تھی۔‬
‫‪13‬‬
‫"میڈم جی پریشان نہیں ہوں۔ کیونکہ سفر بہت لمبا ہے‬
‫آپ ٹرک میں نہیں کر سکیں گیں نا اسی لیے الہور‬
‫سے آپ کو بس میں بیٹھا دوں گا۔"‬
‫وہ حوریہ کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے بوال تو وہ‬
‫ایک مرتبہ پھر چونکی تھی۔‬
‫"استاد! بھوک لگ گئی ہے۔ کھانے کا ڈبہ اٹھا کر‬
‫دینا‪ ".....‬عاصم سیدھا ہو بیٹھا تھا۔‬
‫"خود اٹھا لو نا۔" وہ پوری توجہ روڈ پر دیئے ہوئے‬
‫تھا رات کا وقت تھا اور اوپر سے دھند بڑھ رہی تھی۔‬
‫"استاد! باجی کے سامنے سے کیسے اٹھاؤں؟"‬
‫وہ کوفت سے بوال۔‬
‫حوریہ نے تیزی سے ہاتھ ڈیش بورڈ کی جانب بڑھایا‬
‫ٹھیک اسی وقت ہی شازار نے بھی بڑھایا تھا۔ اچانک‬
‫سے شازار کا گرم ہاتھ جب اس کے سرد ہاتھ سے‬
‫ٹکرایا تو اسے لگا جیسے ہاتھ کو کرنٹ لگا ہو اس‬
‫نے بےحد تیزی سے ہاتھ کھینچا تھا ِجسے شازار نے‬
‫محسوس نہیں کیا۔‬

‫‪14‬‬
‫"استاد! آپ بھی کھا لیں۔صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ‬
‫نے۔" عاصم نے جیسے ہی نوالہ توڑا تو منہ میں‬
‫ڈالنے سے پہلے بوال۔‬
‫"توں کھا مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ سنجیدگی سے‬
‫گویا ہوا۔‬
‫"نوید کا غصہ کھانے پر کیوں اتار رہا ہے؟ چل ٹرک‬
‫سائیڈ پر لگا تمہیں اماں کی قسم۔" وہ تیزی سے بوال۔‬
‫"عاصم! بندہ بن۔" وہ دانتوں پہ دانت جمائے غرایا۔‬
‫"باجی! آپ کہیں نا۔" وہ منمنایا۔‬
‫"شازار جی کھا لیں کھانا۔ اپنی صحت سے بڑھ کر اور‬
‫کچھ نہیں ہوتا۔" وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بولی۔‬
‫شازار نے ذرا سی گردن گھما کر محض ایک لمحے‬
‫کو اس کی جانب دیکھا اور پھر سے سامنے دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"تھوڑا آگے چل کر روکتے ہیں۔یہاں نزدیک ہی پولیس‬
‫کی چوکی ہے آ دھمکی تو آپ کو چھپانا پڑے گا اور‬
‫وہ مجھے معلوم نہیں کہ کہاں‪".....‬‬
‫وہ شانے آچکاتے ہوئے بوال۔‬
‫‪15‬‬
‫حوریہ خاموش ہو گئی۔‬
‫کافی آگے جا کر اس نے ٹرک کی رفتار بہت دھیمی کر‬
‫دی تھی اور پھر سڑک سے اتار کر بریک لگا دی۔‬
‫وہ اپنے چہرے پر سے مفرل اتار کر اب چہرے کو‬
‫صاف کر رہا تھا۔‬
‫حوریہ نے گردن گھما کر محض ایک نگاہ اس پر ڈالی‬
‫تھی ایک پل کو تو وہ نظریں جھکانا ہی بھول گئی‪.....‬‬
‫سفید چہرے پر ہلکی ہلکی بیئرڈ کیا خوب جچ رہی‬
‫تھی‪ ،‬عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے وہ پیشانی پر‬
‫بکھرے ڈارک براؤن بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے‬
‫انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫ٹرک ڈرائیور اتنے ہینڈسم اور چارمنگ بھی ہوتے‬
‫ہیں اس نے کبھی نہ سوچا تھا نہ سنا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو آپس میں‬
‫رگڑنے لگی۔‬
‫"میڈم جی آپ بھی کھانا کھائیں نا۔" شازار نے کہا تو‬
‫وہ بری طرح چونکی۔‬

‫‪16‬‬
‫"نہیں نہیں۔ میں راستے میں کچھ بھی کھا نہیں‬
‫سکتی‪ ،‬سوری۔" اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔‬
‫شازار نے ایک نگاہ اس کے کانپتے ہونٹوں پر ڈالی‬
‫اور پھر ہاتھ بڑھا کر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب والی‬
‫چھوٹی سی جو باری کھلی تھی بند کر دی۔‬
‫"اگر آپ چاہیں تو میری یہ چادر آپ لے لیں میڈم‬
‫جی!"‬
‫"ارے نہیں نہیں شازار جی! اس کی ضرورت نہیں‬
‫ہے۔"‬
‫حوریہ نے اپنے ہاتھوں کو جیکٹ میں چھپا لیا۔‬
‫شازار وہاں سے پیچھلی سیٹ پر جا چکا تھا۔‬
‫خاموشی پھر سے چھا گئی تھی۔ اس نے مرر میں ان‬
‫دونوں کو دیکھا کہ اگر کہیں وہ اسے لے کر آنکھوں‬
‫میں کچھ باتیں کریں یا کوئی اشارہ کریں تو وہ ابھی‬
‫اتر کر بھاگ جائے مگر وہ دونوں خاموشی سے کھانا‬
‫کھا رہے تھے۔‬
‫حوریہ کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر شازار پر جا رک‬
‫رہی تھیں۔‬

‫‪17‬‬
‫"یہ شخص شکل سے تو ٹرک ڈرائیور نہیں لگتا۔ اور‬
‫عمر بھی اتنی نہیں ہے ان دونوں کی‪.....‬ہائے پر یہ‬
‫مجبوریاں کہاں عمر دیکھتی ہیں۔" اس نے سوچ کر‬
‫سر جھٹکا اور ٹھنڈی آہ بھر کر سر جھکا لیا۔‬
‫"سردار سائیں!‪ ....‬سردار سائیں‪ "!.....‬دروازے پر‬
‫زور زور سے دستک ہوئی تو وہ نیند سے ہڑبڑا کر‬
‫بیدار ہوئے تھے۔‬
‫"سردار سائیں! کھیتوں میں آگ لگ گئی ہے سردار‬
‫سائیں۔" اپنے نوکر کے رونے کی آواز اور اس کی‬
‫بات پر‪....‬ان کی نیلی آنکھوں میں جو نیند کی خماری‬
‫تھی وہ بہت تیزی سے غائب ہوئی تھی۔‬
‫کنگ سائز بیڈ پر سے چھالنگ لگا کر اترتے ہوئے وہ‬
‫دروازے کی سمت بڑھے۔‬
‫"بابا سائیں کیا ہوا؟" اپنے کمرے سے نکل کر وہ‬
‫جیسے ہی اپنے والد کے کمرے کی جانب بڑھے وہ‬
‫اسے سیڑھیاں اترتے دکھائی دیئے۔‬
‫"خدا جانے سردار پتر!‪.....‬چلو جلدی چلو‪ .....‬کسانوں‬
‫کی محنت جل رہی ہے۔" انہوں نے تیز لہجے میں کہا۔‬

‫‪18‬‬
‫"آپ گاڑی میں آئیں میں بس ابھی پہنچ رہا ہوں‬
‫زمینوں پر۔"‬
‫وہ کہہ کر بھاگتے ہوئے اس اونچی دیواروں اور بڑے‬
‫بڑے دروازوں والی حویلی کے بھاری گیٹ کو عبور‬
‫کر گئے تھے۔‬
‫سردار حویلی جس چوٹی پر تھی وہاں سے پورا گاؤں‬
‫نظر آ رہا تھا اس نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں پھر‬
‫نگاہ دائیں جانب دور لگی آگ پر پڑی۔‬
‫وہ نگے پاؤں ہی پتھروں کو کاٹ کر بنائے راستے پر‬
‫دوڑ کھڑا ہوا۔‬
‫کچھ ہی دیر میں وہ وہاں پہنچ گیا تھا۔‬
‫ہر جانب آگ ہی آگ مچی ہوئی تھی۔‬
‫اس کی فصل کے ساتھ والی فصلوں میں بھی آگ پہنچ‬
‫چکی تھی۔‬
‫کسان رو پیٹ رہے تھے۔‬
‫"ہم برباد ہو گئے سردار سائیں! ہم لٹ گئے۔"‬
‫لوگ اسے دیکھتے ہی اس کی جانب بھاگے تھے۔‬

‫‪19‬‬
‫وہ دکھ میں چور چور نگاہوں کو فصلوں پر سے ہٹا‬
‫کر ان کسانوں پر ٹکا چکا تھا۔‬
‫"ہمت رکھیں۔میں آپ سب کے ساتھ ہوں‪ ،‬مگر یہ آگ‬
‫لگی کیسے؟" اس نے ہمت سے کام لیا۔‬
‫تب تک سردار حامد خان بھی پہنچ گئے تھے۔‬
‫"سردار سائیں!‪.....‬ہمیں تو آگ آگ کی آواز پر جاگ‬
‫آئی تھی‪ ،‬تب تک آدھی فصل جل کر راکھ ہو چکی تھی۔‬
‫"ہمیں بھی۔"‬
‫"ہمیں بھی۔"‬
‫سب کا جواب ایک ہی تھا۔‬
‫"یہ آگ اگر کسی کسان سے لگتی تو اسی وقت وہ‬
‫چالتا مگر‪......‬یہاں سے چینخنے کی آواز تب آئی جب‬
‫آدھی فصل جل کر راکھ ہو گئی تھی یعنی‪......‬یہ آگ‬
‫لگائی گئی ہے۔" وہ سوچنے والے انداز میں بول رہا‬
‫تھا۔‬
‫"کس نے کیا یہ؟ کیا کسی نے کسی انجان کو دیکھا؟"‬
‫اس کے لہجے میں بےحد سختی تھی۔‬

‫‪20‬‬
‫"سردار سائیں! حوصلے سے کام لیں۔ جو ہونا تھا ہو‬
‫چکا مگر اب ہمیں سب سے پہلے ان سب کسانوں کے‬
‫متعلق کچھ سوچنا ہے۔"‬
‫بابا سائیں کی بات پر وہ ضبط سے سر ہال گیا۔‬
‫"دیکھیں آپ سب فکر نہیں کریں۔ ہمارے قبیلے میں‬
‫کوئی تیرا میرا نہیں ہے‪ ،‬یہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔‬
‫جس جس کی فصیلیں جل گئی ہیں ان سب کو ہماری‬
‫فصلوں سے اس سال کا اناج مل جائے گا۔کل ہی یہاں‬
‫پر دوبارہ سے زمین بنا کر موسمی فصل بیجیں گے۔"‬
‫اس نے بہت نرمی سے اپنے قبیلے کے لوگوں کی‬
‫پریشانی بہت حد تک کم کر دی تھی۔‬
‫"آپ لوگ اطمینان سے سو جائیں۔ کیا پتہ اس میں ہی‬
‫کوئی بہتری ہو۔" اس نے مبہم سی مسکراہٹ کے‬
‫ساتھ کہا۔‬
‫سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا۔‬
‫"بڑے سردار سائیں!‪ .....‬آپ نے بہت ہی نیک انسان‬
‫کے ہاتھوں میں ہمیں سونپا ہے۔" ایک بزرگ نے‬
‫سردار حامد خان کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔‬

‫‪21‬‬
‫ّٰللا آپ کو سالمت رکھے‬
‫"جیتے رہو سردار سائیں! ہ‬
‫اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔" بزرگ‬
‫نے آگے بڑھ کر سردار سائیں کے دودھ جیسے سپید‬
‫ہاتھوں کو تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔‬
‫"آمین۔" سب کے لبوں سے بےاختیار ہی نکال تھا۔‬
‫سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو وہ سردار‬
‫حامد کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"بابا سائیں! گلریز خان نے یہ گھٹیا حرکت کر کے‬
‫اپنی بربادی کو دعوت دی ہے‪ ،‬اور میں اسے ہرگز‬
‫نہیں بخشوں گا‪ ،‬اس کی وجہ سے ہمارے لوگ روئے‬
‫ہیں‪.....‬میں اسے بھی اسی طرح رالؤں گا ۔ کل کی‬
‫روشنی اسے بھی صدمہ پہنچانے والی ہے۔"‬
‫اس نے پر عزم انداز میں کہا۔‬
‫سردار حامد خان اس کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر‬
‫خوف زدہ ہوئے تھے۔‬
‫"نہیں سردار! تم کچھ نہیں کرو گے۔ وقت آنے پر‬
‫ہم‪"......‬‬

‫‪22‬‬
‫"بابا سائیں! میرے قبیلے والوں کو اگر کچھ ہو جاتا‬
‫تو‪ ،‬اگر آگ بڑھتی جاتی اور آس پاس کے گھروں تک‬
‫پہنچ جاتی تو؟" اس نے حیرانگی سے ان کی بات‬
‫کاٹتے ہوئے کہا۔‬
‫"میں مزید چپ نہیں رہوں گا‪ .....‬اب اسے منہ توڑ‬
‫جواب دینا ہو گا‪.....‬وہ اس خاندان دشمنی کو ہمارے‬
‫گھرانے تک محدود رکھے نہ کہ میرے لوگوں کو‬
‫نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔" اس نے مزید کہا۔‬
‫"ٹھیک ہے سردار‪....‬جیسے تمہیں بہتر لگے کرو۔"‬
‫وہ اپنے پیروں سے جوتا اتار کر پلٹے۔‬
‫"بابا سائیں! ایسا نہیں کریں۔ آپ کے پیروں کو میں‬
‫تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔" اس نے تیزی سے ان کا‬
‫راستہ روکتے ہوئے کہا۔‬
‫"سردار سائیں! ہمارے قبیلے کے سردار ہیں آپ اور‬
‫ایک سردار کے پاؤں زخمی ہو گئے تو آپ چل نہیں‬
‫پائیں گئے‪.....‬ان سب کی آپ پر آنکھیں ٹکی رہتی ہیں‬
‫اتنے دلوں کی دھڑکن کو ہم بھال کیسے کوئی تکلیف‬
‫پہنچنے دے سکتے ہیں؟" وہ ان کی رخسار پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بولے۔‬
‫‪23‬‬
‫"میں زخمی ہوں گا تو مجھے ان سب کے زخموں کا‬
‫احساس ہو گا۔‬
‫ایک بادشاہ کو تب تک اپنی رعایا کی تکلیفوں کا‬
‫احساس نہیں ہوتا جب تک وہ ان تکلیفوں کو خود پر‬
‫نہ جھیل لے۔" وہ ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے‬
‫لگاتا ان کی جانب دیکھنے لگے انہوں فخریہ انداز‬
‫میں سردار سائیں کا شانا تھپکا تو وہ پلٹ گئے۔‬
‫ان کا رخ کس جانب تھا؟ سردار حامد خان خوب واقف‬
‫تھے۔‬
‫باہر موسم شدید ٹھنڈا ہو رہا تھا۔‬
‫اور اسے اب اپنی بیوقوفی پر غصہ آ رہا تھا۔‬
‫جینز پر سیاہ کرتہ اور اس پر جیکٹ پہن رکھی تھی‬
‫سر پر ٹوپی اور گلے میں مفرل لپیٹے وہ اب شدت‬
‫سے محسوس کر رہی تھی کہ اس کے پاس چادر ہونی‬
‫چاہیے تھی۔‬
‫اس کا جی چاہ رہا تھا کہ شازار کی شال اوڑھ لے‬
‫مگر ایسے کیسے وہ اوڑھ لیتی؟‬

‫‪24‬‬
‫اس نے آج تک سگی بہن کا دوپٹہ تک نہیں لیا تھا کہ‬
‫اسے کسی کی استعمال شدہ چیزیں لینا اپنی شان کے‬
‫خالف لگتا تھا۔‬
‫کھانا کھانے کے بعد اس نے پھر سے منہ پر مفرل‬
‫لپیٹ لیا تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔‬
‫اب حوریہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔‬
‫"شازار! الہور کتنا دور ہے؟"‬
‫وہ بار بار اس کی شال کو دیکھ رہی تھی مگر انا مان‬
‫نہیں رہی تھی کہ اس سے مانگے۔‬
‫"اگر دھند نہ بڑھی تو فجر تک پہنچ جائیں گے جی۔"‬
‫اس کی بات پر حوریہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔‬
‫"ٹائم کیا ہوا ہے؟"‬
‫"ایک بج گیا ہے باجی۔" عاصم نے گھڑی پر وقت‬
‫دیکھتے ہوئے بتایا۔‬
‫ّٰللا‪.....‬تین گھنٹے میں بنا سوئے کیسے گزاروں‬
‫"یا ہ‬
‫گی؟" وہ انگلیاں پٹخنے لگی۔‬

‫‪25‬‬
‫جیسے جیسے باہر سردی بڑھ رہی تھی ویسے ویسے‬
‫وہ بھی خود میں سمٹتی جا رہی تھی۔‬
‫"میڈم جی! پلیز شال لے لیں۔"‬
‫وہ اس کے کہنے پر ٹھٹھکی۔‬
‫وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا مگر پھر بھی وہ‬
‫اس کی کپکپی محسوس کر چکا تھا۔‬
‫"دراصل مجھے ٹھنڈ بہت زیادہ لگتی ہے‪ ،‬ہڈیاں‬
‫دکھنے لگتی ہیں۔ میری کزنز مجھے چھیڑتی ہوتیں‬
‫ہیں کہ میں تو بوڑھی ہو گئی ہوں۔"‬
‫حوریہ اپنے بولنے کی عادت سے بھی کچھ مجبور‬
‫تھی اور کچھ نیند سے بچنا تھا۔‬
‫اس نے جیسے ہی شال اٹھائی ایک خوشبوؤں کا‬
‫جھونکا اس سے ٹکرایا تھا‪ ،‬اس نے تیزی سے شال‬
‫واپس رکھ دی‬
‫شازار اسے کن اکھیوں سے دیکھ کر ڈرائیونگ کی‬
‫جانب متوجہ ہو گیا تھا۔‬
‫"شازار جی! آپ سٹڈی کرتے ہیں؟"‬

‫‪26‬‬
‫"نہ جی استاد نے تو پڑھ لیا ہوا۔" عاصم نے جواب‬
‫دیا۔‬
‫"کہاں تک؟"‬
‫"پتہ نہیں باجی! انہوں نے کیا کیا پڑھا ہوا ہے۔ استاد‬
‫بتاؤ نا باجی کو؟"‬
‫عاصم چہکتے ہوئے بوال۔‬
‫"کچھ بھی بکتا رہتا ہے۔ میڈم جی میں نے انٹر پاس‬
‫کیا ہوا۔ آگے پڑھنے کا دل ہی نہیں کیا۔" شازار نے‬
‫مفرل منہ پر سے اتار کر گلے میں لپیٹ لیا۔‬
‫"یہ تو غلط بات ہے نا شازار جی! تعلیم حاصل کرنی‬
‫چاہیے۔ اب ساری زندگی آپ نے ٹرک تھوڑی ہی چالنا‬
‫ہے۔ اچھے خاصے نوجوان ہو کوئی اچھی جاب کرو۔"‬
‫اس کی بات پر وہ مبہم سا مسکرایا۔‬
‫حوریہ نے اس کی رخسار میں پڑتے ڈمپل کو بہت‬
‫غور سے دیکھا تھا۔‬
‫"تمہارے بھی ڈمپل پڑتا ہے۔مجھے بھی پڑتا ہے۔"‬

‫‪27‬‬
‫وہ بچوں کی مانند خوش ہوتے ہوئے اسے بنانے‬
‫لگی۔‬
‫"باجی کہیں میرا استاد آپ کا جڑواں تو نہیں‪....‬جو‬
‫بچپن میں کسی میلے میں کھو گیا ہو؟" عاصم کے‬
‫کہنے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔‬
‫"میں تو لگا ہوں سونے‪ ،‬تم لوگ کرو باتیں‪ ،‬شب بخیر‬
‫استاد‪ ،‬باجی۔" وہ پھر سے لیٹ کر اپنے اوپر کمبل‬
‫کھینچ گیا۔‬
‫"آپ ٹرک کیوں چالتے ہیں؟" چند لمحوں کی خاموشی‬
‫کے بعد اس نے شازار کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"کیونکہ میں ٹرک ڈرائیور ہوں۔" وہ شانے آچکا کر‬
‫بوال۔‬
‫"اور آپ ٹرک ڈرائیور کیوں ہو؟"‬
‫"کیونکہ مجھے کچھ اور کام وام نہیں آتا۔"‬
‫وہ موڑ سے ٹرک موڑتے ہوئے بوال۔‬
‫"ویسے میڈم جی! آپ اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہیں‬
‫میرے کام میں؟ کہیں آپ بھی تو پڑھائی چھوڑ کر ٹرک‬
‫‪28‬‬
‫چالنے کے متعلق نہیں سوچ رہیں؟" اس نے مزاحیہ‬
‫خیز انداز میں کہا تو وہ ہنس دی۔‬
‫ّٰللا معاف کرے مجھے بدنام تھوڑی‬
‫"نہیں شازار جی! ہ‬
‫ہونا ہے۔"‬
‫"بدنام کیوں جی؟" وہ حیرانگی سے بوال۔‬
‫"آپ کو نہیں پتہ کہ لوگ ٹرک ڈرائیوروں کے متعلق‬
‫کیا کہتے ہیں بلکہ ہر ڈرائیور کے متعلق؟"‬
‫"نہیں جی‪....‬کیا کہتے ہیں؟" اس نے ناسمجھی سے‬
‫استفسار جیسے انجان ہو۔‬
‫"یہ ہی کہ وہ لوگ اچھے نہیں ہوتے‪.....‬برے ہوتے‬
‫ہیں اور بدتمیز بھی۔"‬
‫اب کی بار وہ ہنسا تھا۔‬
‫"سب ایک جیسے تھوڑی ہوتے ہیں میڈم جی‪.....‬پانچ‬
‫انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔" وہ نرمی سے بوال۔‬
‫"ہاں یہ تو ہے۔ آپ واقع ہی بہت اچھے ہو شازار‬
‫جی!" وہ سچے دل سے گویا ہوئی۔وہ عجیب سے‬
‫انداز میں مسکرایا تھا۔‬

‫‪29‬‬
‫اس کی مسکراہٹ میں نجانے کون سا راز دفن‬
‫تھا‪ ......‬حوریہ سمجھ نہیں پائی۔‬
‫یہ پہاڑیاں اور پیڑ‪.....‬پودے‪ ،‬بہتا جھرنا‪ ،‬پرندے یہ‬
‫سب سردار سائیں کے دوست تھے۔‬
‫بچپن اس کا ان سب کے ساتھ گزرتا ہے‪....‬ہاں جوانی‬
‫فارن کنٹریز میں تعلیم حاصل کرتے گزارتی تھی مگر‬
‫اس کا دل کہیں نہیں لگا‪ ،‬دنیا کا چپا چپا گھومنے کے‬
‫بعد وہ جب واپس لوٹا تو محض پچیس برس کا تھا‬
‫اور اس عمر میں ہی اسے اس نشست پر بیٹھا دیا گیا‬
‫جس پر بیٹھتے ہی اس کی زندگی بدل گئی وہ دالور‬
‫خان سے سردار کے عہدے پر فائز ہو گیا۔‬
‫اور اس نے بھی اس زمہ داری کو خوب نبھایا تھا۔‬
‫نگے پاؤں چلتے ہوئے وہ اپنے گاؤں سے نکال تھا‬
‫کوئی بیس بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک‬
‫دوسری چھوٹی سی بستی تھی۔‬
‫اس جگہ بسنے والے لوگ ان کے جانی دشمن تھے۔‬
‫گلریز خان ‪ ،‬سردار حامد خان کا دور کا رشتے دار‬
‫تھا‪ ،‬اور کوئی انتہائی شاطر دماغ بندہ تھا‪......‬گلریز‬

‫‪30‬‬
‫خان کے چاروں صاحب زادے بھی باپ جیسی فطرت‬
‫کے مالک تھے۔‬
‫وہ لوگ کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے دونوں‬
‫خاندانوں میں چلتی برسوں کی دشمنی کو تازہ رکھنے‬
‫کی۔‬
‫اور سردار سائیں کبھی ادھار نہیں رکھتے تھے۔‬
‫اس نے ایک ڈنڈے پر جیب میں سے سفید رنگ کا‬
‫رومال نکال کر لپیٹا اور ابھی آگ لگانے ہی واال تھا کہ‬
‫اس نے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا تپتا لمس‬
‫محسوس کیا۔‬
‫وہ پھرتی سے ہاتھ تھام کر بےحد تیزی سے اس‬
‫شخص کو گھما کر زمین پر پٹخنے ہی واال تھا وہ‬
‫چالئی۔‬
‫"سردار سائیں!‪....‬میں آپ کی دشمن نہیں ہوں۔‬
‫چھوڑیں مجھے۔" لڑکی کی آواز پر وہ اس کا ہاتھ‬
‫چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫"کون ہو تم؟" وہ اپنی بھاری آواز میں سختی سے‬
‫بوال۔‬

‫‪31‬‬
‫"کہا نا آپ کی دشمن نہیں ہوں۔" وہ اس کے سامنے آ‬
‫کھڑی ہوئی تھی اور مدھم سی سریلی آواز میں بولی۔‬
‫"بہت خواہش تھی ہماری‪ ،‬خان پور کے سردار کو‬
‫دیکھنے کی جس کے قصے پورے پختونخوا میں‬
‫مشہور ہیں ہم بھی انہیں دیکھنا چاہتے تھے۔" اس نے‬
‫ماچس کی تیلی کو جالیا اور دھیرے سے لمبی پلکوں‬
‫کی جھالر اٹھا کر جب سردار سائیں کی جانب دیکھا تو‬
‫پلکیں جھپکانا بھول گئی۔‬
‫کشیدہ پیشانی پر بےترتیب بکھرے شہید رنگ بال‪،‬‬
‫سحر بکھیرتیں نیلی آنکھیں جو کسی کو بھی قید‬
‫کرنے کی صالحیت رکھتی تھیں۔‬
‫عنابی بھرویں ہونٹ‪ ،‬سپید چہرے پر چھوٹی چھوٹی‬
‫بیئرڈ کس قدر اسے مزید حسین بنا رہی تھی‪ ،‬سفید‬
‫لباس میں ملبوس تھا اور نگے سفید پیروں پر جابجا‬
‫مٹی اور سبزے کی ہریالی وہ واضح دیکھ رہی تھی۔‬
‫"وہلل قیامت ہو تم سردار۔" اس کی سرگوشی جیسی‬
‫آواز پر سردار سائیں نے ایک تیکھی نگاہ اس حسینہ‬
‫پر ڈالی اور لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ اس پر‬
‫سے نگاہیں ہٹا چکا تھا۔‬
‫‪32‬‬
‫"آہ‪ ".....‬تیلی پوری طرح جل کر راکھ ہونے کے ساتھ‬
‫اس کی انگلیاں بھی جالنے لگی تو وہ اس ساحر کے‬
‫سحر سے آزاد ہوئی۔‬
‫"ٹھیک کہتی ہے منہاج۔ خان پور کا سردار حسن کا‬
‫دیوتا ہے‪ ،‬جو لڑکی بھی دیکھے دل ہار بیٹھے۔" وہ‬
‫مدھم سی آواز میں شاید اپنے دل کا حال بیان کر رہی‬
‫تھی۔‬
‫سردار سائیں اکتائے ہوئے انداز میں اس حسینہ پر‬
‫ایک بھی نگاہ ڈالے بنا جیسے ہی آگے بڑھا اس نے‬
‫بےاختیار ہی سردار سائیں کا ہاتھ تھام لیا۔‬
‫"سائیں! کچھ وقت ہمیں بھی دیجیے۔ آفٹر آل آپ کے‬
‫چاہنے والے ہیں۔" وہ بےقراریاں لہجے میں سموئے‬
‫مدہوشی کے عالم میں کہتی اس کے ہاتھ کی پشت پر‬
‫ابھی ہونٹ رکھنے ہی والی تھی کہ سردار سائیں نے‬
‫ہاتھ کھینچ لیا۔‬
‫"سنا تھا نادر پور کی لڑکیاں بےشرم ہوتی ہیں آج‬
‫دیکھ بھی لیا۔" اس نے تمسخر اڑانے والے انداز میں‬
‫کہا اور ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔‬

‫‪33‬‬
‫"سردار سائیں! اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا اور یہ‬
‫گستاخانہ بات کرتا تو ہم اسے جان سے مروا کر وہاں‬
‫دفن کرواتے جہاں سے اس کی الش بھی نہ ملتی مگر‬
‫آپ کو حق ہے کہہ سکتے ہو مجھے کچھ بھی‪.....‬‬
‫کیونکہ گلریز خان کی صاحبزادی آپ کو اپنا دل دے‬
‫چکی ہے۔ لوٹ لیا ہے آپ کی ان نشیلی نیلی آنکھوں‬
‫نے ہمیں۔" وہ پھر سے آگے بڑھی تھی اور بےچین‬
‫ہو کر اس کے سینے پر پیشانی ٹکاتی اس سے پہلے‬
‫ہی سردار سائیں نے اس کے بالوں کو مٹھی میں‬
‫دبوچ کر اسے پیچھے کو جھٹکا دیا۔‬
‫"خود کو کنٹرول میں رکھ لڑکی۔ یہ بےقراریاں کسی‬
‫اور پر لٹانا سردار دالور خان تمہیں اس گستاخی کی‬
‫اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ چلی جا یہاں سے نہیں تو جان‬
‫سے مار ڈالوں گا۔" وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے سرخ‬
‫ہو رہا تھا مگر وہ اطمینان سے مسکرا رہی تھی۔‬
‫"مار ڈالو قسم سے افف بھی نہیں کروں گی۔" ہاتھ‬
‫بڑھا کر اس کی رخسار چھوتے ہوئے وہ بہکی بہکی‬
‫آواز میں بولی تھی۔‬

‫‪34‬‬
‫سردار دالور خان اسے پیچھے کو دھکیل کر تیز قدم‬
‫اٹھاتے آگے بڑھ گئے۔‬
‫"رکو سردار سائیں! وہ آگ ہمارے بڑے بھائی نے‬
‫لگوائی تھی۔" اس کی بات پر وہ رکا مگر پلٹا نہیں۔‬
‫"یہ لو گودام کی چابیاں۔ ہم کب سے یہاں آپ کا انتظار‬
‫کر رہے تھے‪ ،‬ہم جانتے تھے آپ بدلہ لینے ضرور‬
‫آئیں گے اور ہمیں آپ کا دیدار نصیب ہو گا۔" وہ اپنے‬
‫حنائی ہاتھ کو اس کے سامنے پھیلتے ہوئے بولی۔‬
‫دالور خان نے گردن گھما کر ایک نگاہ اس کی ہتھیلی‬
‫پر پڑی چابیاں دیکھیں۔‬
‫وہ لڑکی اپنے بھائی کو آگ لگوانے پر تلی تھی یا خود‬
‫کو‪......‬‬
‫سردار سائیں نے رخ پھیر لیا۔‬
‫"بہت شکریہ مگر مجھے اپنے کام میں مداخلت کرنے‬
‫والوں سے شدید نفرت ہے۔" وہ کہہ کر پہاڑی سے‬
‫اترنے لگا۔ اس نے ارادہ بدل لیا تھا کہ اب وہ کچھ اور‬
‫ہی کرے گا۔‬

‫‪35‬‬
‫"پھر ہم کب ملیں گے سردار؟" اس نے پکارا مگر وہ‬
‫بنا کوئی جواب دیئے ہاتھ میں تھامی لکڑی پرے‬
‫اچھالتا تیز رفتاری سے آگے بڑھ گیا۔‬
‫زرمینہ چاند کی روشنی میں اسے نگاہوں سے اوجھل‬
‫ہونے تک دیکھتی رہی پھر آگے بڑھی اور لکڑی پر‬
‫لپیٹے اس کے رومال کو اتار کر لکڑی پرے اچھالی‬
‫اور سفید رومال کو سونگھتے ہوئے پرسرو انداز میں‬
‫آنکھیں موند لیں۔‬
‫"سردار دالور خان! قیامت ہو تم‪ ......‬آج مجھ پر گزر‬
‫گئے ہو۔ باخدا دل لوٹ لیا تم نے۔" وہ رومال ہونٹوں‬
‫سے لگا کر پلٹی اور اسے اپنے پلو کے تلے چھپا لیا۔‬
‫پھر تیزی سے اپنی حویلی کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫"منہاج! او ری موئی۔" اپنے کمرے کی کھڑکی کے‬
‫باہر لگی سیڑھی چڑھ کر وہ جیسے ہی اوپر پہنچی‬
‫کھڑکی بند ہو چکی تھی۔‬
‫اس نے کھڑکی پر ہلکی سی دستک دی تو دوسرے ہی‬
‫پل اس کے بستر میں چھپ کر لیٹی منہاج نے تیزی‬
‫سے اٹھ کر کھڑکی کھول دی۔‬

‫‪36‬‬
‫"ہاتھ پکڑ۔" اس نے ہاتھ منہاج کی جانب بڑھایا۔‬
‫"آئے تھے کیا سردار سائیں؟" اس نے کھڑکی بند‬
‫کرتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔‬
‫"ہاں منہاج! تو سچ کہتی ہے وہ حسن کا دیوتا ہے‪،‬‬
‫حسن کی ایسی مورت ہے جسے دیکھتے ہی بندہ‬
‫اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ کوئی بھی لڑکی اس‬
‫پر دل یوں ہی نہیں ہارتی‪...‬یوں ہی فدا نہیں ہوتی‪،‬‬
‫واقع ہی اس میں وہ بات ہے۔" وہ ان کے رومال کو‬
‫دیکھتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں کہہ رہی تھی۔‬
‫"تو کیا تم فدا ہو گئی ہو ان پر؟"‬
‫اس کے استفسار پہ زری محض مسکراتی رہی۔‬
‫" یہ ٹھیک نہیں ہے زری! وہ بڑے خان صاحب کا‬
‫دشمن ہے۔"‬
‫اس نے خفگی سے اس کی دیوانوں جیسی حالت‬
‫دیکھی۔‬
‫"اُسے دیکھ کر تو دنیا بھال دے بندہ‪ ،‬پتہ نہیں ابا‬
‫حضور کو کیوں اس سے نفرت ہے‪ ......‬حاالنکہ وہ‬

‫‪37‬‬
‫تو عشق کرنے کے لیے بنا ہے۔" اس کی آواز میں‬
‫محبت کا نشہ بول رہا تھا۔‬
‫اس کی بات پر منہاج سر پیٹ کر رہ گئی۔‬
‫"منہاج! میرا ایک کام کرے گی۔ پلیز‪ ".......‬اس نے‬
‫کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے استفسار کیا۔‬
‫"کیا؟" وہ خوف زدہ تھی۔‬
‫"تمہاری خالہ سائیں کے ہاں مالزمت کرتی ہے نا؟"‬
‫"ہاں خان پور والی خالہ ان کے ہاں جوانی سے لے‬
‫کر اب تک کام کر رہی ہیں۔" وہ ناسمجھی سے اسے‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"کل بھیا لوگ اور ابا جان شہر جا رہے ہیں نا؟" وہ‬
‫چیت لیٹی سردار دالور خان کے رومال کو چہرے پر‬
‫ڈالے ہوئے تھی۔ بات اس سے کر رہی تھی مگر دھیان‬
‫اس شخص میں اٹکا تھا جو اس کے دل کی دنیا تحس‬
‫نحس کر گیا تھا۔ پلوں میں اپنا دیدار کروا کر اس کی‬
‫بینائی چھین لے گیا تھا۔‬
‫"ہاں۔ مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"‬

‫‪38‬‬
‫"ہم کل خان پور جا رہے ہیں۔" اس کی بات پر منہاج‬
‫کے سر پر ایٹم بم گرا تھا۔‬
‫"زری!‪.....‬تمہارا دماغ درست ہے‪....‬؟ ایسا ممکن‬
‫نہیں‪ ،‬پاگل مت بنو۔" منہاج نے تیزی سے اسے ٹوکا۔‬
‫"پاگل ہی تو ہو گئی ہوں منہاج! میں اگر اسے نہ‬
‫دیکھوں گی تو مر جاؤں گی۔ پلیز میرا ساتھ دو۔" وہ‬
‫تیزی سے اٹھتے ہوئے التجاء آمیز لہجے میں بولی۔‬
‫بےبسی تھی کہ اس کے پورے وجود پر چھائی ہوئی‬
‫تھی۔‬
‫"نہیں زری! اگر بڑے خان صاحب کو علم ہو گیا تو وہ‬
‫ہمیں مار ڈالیں گے۔"‬
‫"ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مجھے تم بس اپنی خالہ‬
‫کے پاس پہنچا دو‪ ،‬باقی میں خود سنبھال لوں گی۔" وہ‬
‫بےچینی سے بولی۔‬
‫منہاج نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫وہ خوشی سے چینخ اٹھی۔‬
‫"ششش‪.....‬کوئی آ جائے گا۔" منہاج نے اسے خاموش‬
‫کروایا۔‬
‫‪39‬‬
‫"منہاج! کوئی اتنا ہینڈسم کیسے ہو سکتا ہے؟" وہ بیڈ‬
‫پر گرتی عجیب پاگل پن سے گویا ہوئی۔‬
‫منہاج مسکرا دی۔‬
‫"زرمینہ بی بی! ذرا سنبھل کر قدم رکھنا۔ " وہ بھی‬
‫اس کے ساتھ گر گئی۔‬
‫"جھلی عشق میں کون سنبھل کر قدم رکھتا ہے۔"‬
‫"صاحب لوگوں کو معلوم ہوا تو آپ کو جان سے مار‬
‫ڈالیں گے۔" منہاج نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔‬
‫"اچھا مجھے اس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کیسا ہے؟"‬
‫"مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ وہ بہت رحم دل‬
‫شخص ہے‪ ،‬بہت ہی نیک اور اچھی نیت کا مالک ہے‪،‬‬
‫اپنے قبیلے کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔"‬
‫"اب تو میرے دل کی دھڑکن بھی بن گیا ہے۔"‬
‫منہاج جانتی تھی اب ساری رات وہ نہ سوئے گی نہ‬
‫اسے سونے دے گی۔‬
‫اور ایسا ہی ہوا ساری رات سردار دالور خان نامہ چلتا‬
‫رہا۔‬

‫‪40‬‬
‫اور یہ دل عجیب سی خواہش کر رہا ہے‬

‫کہ تیرے عشق میں گھنگھرو پہن کے ناچوں‬

‫باتیں کرتے کرتے راستہ کٹ گیا الہور کب آیا اسے‬


‫معلوم ہی نہیں ہوا۔‬
‫"لیں میڈم جی! آپ کی منزل آ گئی۔" ٹرک کو بریک‬
‫لگاتے ہوئے اس نے گردن گھما کر اس کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫"اوئے عاصم! اٹھ۔ میں میڈم جی کو بس اسٹینڈ تک‬
‫چھوڑ آؤں تم ٹرک سائیڈ پر لگاؤ۔"‬
‫وہ پلٹ کر عاصم کو اٹھانے لگا۔‬
‫"ٹھیک ہے کر لوں گا استاد! تم جاؤ۔" وہ کروٹ بدل‬
‫کر لیٹ گیا۔‬

‫‪41‬‬
‫"چلیں میڈم جی؟" وہ مفرل گردن سے اتار کر سیٹ پر‬
‫رکھ کے چادر اٹھا کر نیچے اتر گیا۔‬
‫حوریہ اپنا بیگ اٹھا کر دروازہ کھولنے کی کوشش‬
‫کرنے لگی۔‬
‫وہ جو شال گلے میں لٹکا رہا تھا اس کی جدوجھد‬
‫دیکھ کر آگے بڑھا۔‬
‫اس کی جانب واال دروازہ کھول کر ایک جانب ہو گیا۔‬
‫"میں چلی جاؤں گی آپ کو اتنی تکلیف کرنے کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔"‬
‫"ارے میڈم جی! تکلیف کیسی۔ موسم دیکھیں‪....‬کتنی‬
‫دھند پڑ رہی ہے‪ ،‬اوپر سے الہور کے حاالت بھی‬
‫ٹھیک نہیں ہیں۔" وہ سنجیدگی سے بوال۔‬
‫حور نے بیگ شانے پر لٹکایا اور جیکٹ کو دونوں‬
‫جانب سے کھینچ کر سینے پر بازو لپیٹ لیے۔ ٹرک‬
‫سے اترتے ہی اسے سردی کی شدت کا اندازہ ہو گیا‬
‫تھا۔‬
‫شازار نےاس کے کانپتے وجود کو ایک نظر دیکھ کر‬
‫تیزی سے اپنی چادر اتار کر اس کی جانب بڑھا دی۔‬

‫‪42‬‬
‫"تھینک یو سو مچ۔" اس نے بنا کسی بھی تکلف کے‬
‫تیزی سے شال تھام لی۔‬
‫"ایسا کرتے ہیں بس اسٹینڈ تک چنگچی رکشہ پر‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬آپ سردی سے بھی بچ جائیں گیں۔" روڈ‬
‫کے کنارے رکتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا‬
‫کچھ دیر بعد رکشہ ان کے قریب آ رکا۔‬
‫"چلیں بیٹھیں میڈم جی۔" وہ اسے راستہ دیتے ہوئے‬
‫بوال۔ حور تیزی سے آگے بڑھی اور خود میں سمٹ کر‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫وہ بھی درمیان میں کافی فاصلہ چھوڑ اِس کنارے پر‬
‫بیٹھا تھا۔‬
‫بس اسٹینڈ پہنچتے ہی وہ اسے ویٹنگ ایریا میں‬
‫چھوڑ کر خود ٹکٹ لینے پلٹ گیا۔‬
‫"ارے بیٹی کہاں جا رہی ہو؟ مائیکے یا سسرال؟"‬
‫وہ ابھی جا کر بیٹھی ہی تھی کہ سامنے کرسی پر‬
‫بیٹھی خاتون نے اس سے استفسار کیا۔‬

‫‪43‬‬
‫ماشاءّٰللا سوہنا تو بہت ہے۔" وہ اب‬
‫ہ‬ ‫"شوہر ہے تیرا؟‬
‫اسے چھیڑ رہی تھیں‪ ،‬حور کی آنکھیں یہاں سے وہاں‬
‫تک پھیل گئیں۔‬
‫" آپ کو کیسے پتہ کہ وہ میرا شوہر ہے؟"‬
‫وہ آنکھیں سکوڑے بولی۔‬
‫"لو بھئی‪.....‬بال دھوپ میں سفید تھوڑی کیے‬
‫ہیں‪.....‬ارے یہ چادر تمہارے بندے کی ہے نا‪ ،‬دیکھو‬
‫اتنی ٹھنڈ میں کوئی پرایا مرد تھوڑی اپنی چادر اتار‬
‫کر کسی کو دے گا‪ ،‬خواہ کوئی کتنا بھی پیارا ہو اس‬
‫ٹھٹھرتی سردی میں سب سے پہلے خود کی کپکپی‬
‫نظر آتی ہے۔"‬
‫وہ کھی کھی کر کے ہنسیں اور وہ مضبوطی سے‬
‫اپنے گرد لپٹی چادر کو دیکھنے لگی۔‬
‫"توں قسمت والی ہے دھی (بیٹی) تجھے اچھا شوہر‬
‫مال‪ ،‬وگرنہ آج کل کے دور میں اچھے لڑکے کہاں‬
‫ملتے ہیں‪.....‬جو عورت عزت اور محبت کرتے ہوں۔"‬
‫وہ بوجھل سانس بھر کر بولیں۔‬

‫‪44‬‬
‫اس کا وہاں بیٹھنا مشکل ہوا تو اٹھ کر تیزی سے وہاں‬
‫سے نکل گئی۔‬
‫"میڈم جی! ابھی بس نہیں ملے گی تقریبا ً گھنٹہ انتظار‬
‫کرنا پڑے گا۔" سیڑھیاں چڑھتے شازار نے اسے‬
‫سیڑھیاں اترتے دیکھ کہا۔وہ رکی نہیں تھی وہ خود‬
‫بھی اس کے پیچھے ہی پلٹا۔‬
‫"کیا ہوا میڈم جی؟" وہ فکرمندی سے اس کے ہوائیاں‬
‫اڑے چہرے کو دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ک کچھ نہیں‪ .....‬آ آپ یہ شال لے لیں۔" وہ چادر‬
‫اترنے لگی تو اس نے تیزی سے حوریہ کا شال اتارتا‬
‫ہاتھ تھام کر روک دیا۔‬
‫"نہیں نہیں میڈم جی! سردی بہت ہے۔ چلیں آپ چل کر‬
‫انتظار کریں میں یہاں ہی ہوں۔"‬
‫وہ اسی تیزی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم‬
‫پیچھے ہٹا تو وہ اس کی جانب بنا پلکیں جھپکائے‬
‫دیکھتی رہی۔‬
‫"آپ یہاں سردی میں کیا کریں گے؟ چلیں وہاں ہی چل‬
‫کر بیٹھیں‪ ،‬نہیں تو میں بھی یہاں ہی رہوں گی۔"‬

‫‪45‬‬
‫وہ ضدی انداز میں بولی۔‬
‫"چلیں۔" وہ اس کے ساتھ چل دیا۔‬
‫"وہاں چلتے ہیں۔" اس نے دائیں جانب والے ویٹنگ‬
‫روم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا‪ ،‬وہ نہیں چاہتی‬
‫تھی کہ وہ خالہ شازار کے سامنے بھی شروع ہو‬
‫جائیں۔‬
‫وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چل دیا۔‬
‫وہاں دو ادھیڑ عمر آدمی بیٹھے تھے‪ ،‬حور نے‬
‫اطمینان بھری سانس لی۔‬
‫وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے جب شازار کی‬
‫نگاہ اس بوڑھے بزرگ پر پڑی جس کا وجود کسی‬
‫بھی گرم کپڑے سے عاری تھا اور وہ ایک کونے میں‬
‫زمین پر بیٹھا خود میں سمٹا ہوا تھا‪....‬وہ تیزی سے‬
‫اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"اٹھیں بابا جی‪.....‬وہاں چل کر بیٹھ جائیں۔" وہ انہیں‬
‫سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بوال۔‬
‫"پتر! میری ہڈیاں سردی سے ٹھٹھرتی ہیں ان لوہے‬
‫کے بینچوں پر۔" وہ کانپتے ہوئے بولے‬

‫‪46‬‬
‫شازار نے لب بھینچے ایک نگاہ اس ضحیف کے‬
‫کانپتے ہونٹوں پر ڈالی اور تیزی سے اپنی لیدر کی‬
‫جیکٹ اتار کر بابا جی کو پہنا دی۔‬
‫اب وہ نیچے بیٹھ کر اپنے جوتے اتار کے پیروں میں‬
‫سے موزے اتار رہا تھا۔ وہ گردن گھمائے اس کے ہر‬
‫عمل کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔‬
‫"یہ پہن لیں۔" وہ پیروں پر وزن ڈالے بیٹھے بیٹھے‬
‫بوال۔‬
‫بابا جی کو موزے چڑھاتے دیکھ وہ نرمی سے‬
‫مسکرایا تھا۔‬
‫"آپ کی چپلیں میں لے لیتا ہوں اور یہ آپ پہن لیں۔"‬
‫اپنے گرم جوتے بابا کے پیروں میں پہنا کر وہ اب ان‬
‫کی مسکراہٹ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔‬
‫ّٰللا تمہیں سو سکھ دے‪ .....‬جوانیاں‬
‫"جیتے رہو پتر! ہ‬
‫نصیب کرے۔ہللا تینوں تتی وا سے بچائے۔" وہ بزرگ‬
‫اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نم آواز میں اسے‬
‫دعائیں دے رہا تھا۔‬

‫‪47‬‬
‫"ّٰللا تمہیں ست (سات) پتر عطا کرے۔" ان کی اس دعا‬
‫ہ‬
‫پر وہ مبہم سا ہنسا اور اٹھ کر واپس پلٹ گیا۔‬
‫وہ رخ موڑ کر سیدھی ہو بیٹھی۔‬
‫"ایک بات کہوں آپ سے؟" وہ اس کو خود سے‬
‫مخاطب پا کر فون پر سے نگاہیں اٹھا کے اس کی‬
‫جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"شازار! اپنے رحم بھرے دل کو مرنے مت دیجیے‬
‫گا‪ ...‬آج کل کے دور میں بہت کم لوگ ہیں آپ جیسے‬
‫جنہیں دوسرے کا دکھ دکھائی دیتا ہے۔جو انسانیت کے‬
‫ناطے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔"‬
‫اس کے کہنے پر وہ محض اثبات میں سر ہال گیا۔‬
‫"جی ٹھیک ہے میڈم جی!" وہ فون پر کوئی نمبر ڈائل‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫پھر کال اٹھائی گئی تو وہ ایک منٹ کا اشارہ کرتا‬
‫تھوڑا فاصلے پر چال گیا۔‬
‫"کتنا اچھا انسان ہے نا‪ ....‬آج کل کے دور میں کون‬
‫کسی کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔" وہ اس پر نگاہیں‬
‫ٹکائے سوچ رہی تھی۔‬

‫‪48‬‬
‫وہ مسکراتے ہوئے کسی سے فون پر کچھ کہہ رہا‬
‫تھا‪ ،‬مسکرانے کی بدولت رخسار پر ڈمپل نمایاں ہوا‬
‫تھا۔‬
‫بےشک وہ ایک پرکشش مرد تھا‪....‬حوریہ نے خود‬
‫کو سرزنش کی اور لب بھینچ کر سر جھکا گئی۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہی ہو حور! ایک راہ چلتے شخص وہ‬
‫بھی ٹرک ڈرائیور پر فدا ہوئی جا رہی ہو۔ کہاں گئے‬
‫تمہارے سارے نخرے‪.....‬؟" اس کے اندر سے گرج‬
‫دار آواز اسے سنائی دی۔‬
‫"اچھی سیرت دیکھنی چاہیے سٹیٹس نہیں‪.....‬اور رہی‬
‫بات ٹرک ڈرائیور کی تو وہ اپنی محنت کی کماتا ہے۔"‬
‫اس کے دل نے ہتھیار اٹھائے۔‬
‫"کیا پتہ وہ یہ سب تمہیں ایمپریس کرنے کے لیے کر‬
‫رہا ہو حقیقت میں برا ہی ہو۔ہوش کے ناخن لو بیوقوف‬
‫لڑکی‪.....‬اور ابھی سنبھل جاؤ۔" دماغ نے بری طرح‬
‫سے ڈپٹا تو دل خوف سے بھر گیا۔‬
‫"ن نہیں نہیں مجھے ایسا ویسا کچھ بھی نہیں سوچنا‬
‫چاہیے‪.......‬دیکھو حوریہ! تمہیں کچھ نہیں ہو رہا۔"‬

‫‪49‬‬
‫وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا اور وہ اپنے دل کو‬
‫پہلوؤں سے نکلتا محسوس کر رہی تھی۔‬
‫"میڈم جی! ابھی پنتالیس منٹ باقی ہیں گاڑی کے آنے‬
‫میں‪ ،‬تب تک چلیں کچھ کھا لیں۔"‬
‫وہ اس کے سامنے رکتے ہوئے بوال۔‬
‫"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ تیکھے لہجے میں‬
‫کہہ کر دائیں جانب رخ پھیر گئی۔‬
‫شازار وہاں سے چال گیا۔‬
‫حوریہ نے خفگی سے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔‬
‫"کچھ تمیز ہے پلے‪ ،‬اس کا کیا قصور‪ .....‬لگتا ہے‬
‫چال گیا۔"‬
‫وہ تیزی سے اٹھ کر دروازے کی سمت بڑھی تھی‪،‬‬
‫اسی ہڑبڑاہٹ میں وہ جیسے ہی دروازے سے نکلی‬
‫دائیں جانب سے آتے شازار سے بری طرح سے‬
‫ٹکرائی تو شازار نے بجلی کی سی پھرتی سے اسے‬
‫شانوں سے تھام کر خود سے دور کیا تھا۔‬
‫وہ بوکھال کر رہ گئی تھی۔‬

‫‪50‬‬
‫"وہ میڈم جی‪ ،‬میں نے پوچھنا تھا کہ آپ کیا کھائیں‬
‫گیں‪ ،‬میں یہاں ہی لے آتا ہوں۔" وہ دو قدم پیچھے ہٹا‬
‫تھا۔‬
‫حوریہ نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور تلمالتی‬
‫ہوئی پلٹ گئی۔‬
‫"کچھ نہیں کھانا۔ آ کر بیٹھ جائیں۔"‬
‫مگر وہ جا چکا تھا۔‬
‫وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔‬
‫کچھ پندرہ منٹ کے بعد وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں‬
‫لیز‪ ،‬بسکٹ‪ ،‬چاکلیٹس وغیرہ کے پیکٹس تھے۔‬
‫"میڈم جی! آپ پتہ نہیں کیا کھائیں گیں اسی لیے یہ‬
‫سب لے آیا۔"‬
‫اس نے معصومیت سے کہا تو حوریہ کو بےاختیار‬
‫ہنسی آ گئی۔‬
‫"اچھا میں سب ہی کھا لوں گی۔ آپ بیٹھیں اب۔" اس‬
‫نے ہنسنے کے درمیان کہا اور سائیڈ پر رکھے اپنے‬
‫بیگ میں سے پیسے نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔‬

‫‪51‬‬
‫"یہ رہا ان چیزوں کا بل۔"‬
‫"ارے نہیں نہیں میڈم جی! ہم اپنے مہمان سے بل‬
‫تھوڑی لیں گے۔"‬
‫وہ تیزی سے بوال تو حوریہ نے اس کے چہرے کے‬
‫تاثرات کو دیکھتے ہوئے پیسے واپس رکھ لیے۔‬
‫وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کی یہ حرکت شازار کو‬
‫ناگوار گزری ہے۔‬
‫"آپ بھی کچھ لیں؟"‬
‫"نہیں میڈم جی! مجھے تو یہ چیزیں بلکل پسند نہیں۔‬
‫مجھے تو گھر میں بنائی چیزیں پسند ہیں۔" وہ‬
‫بکھرے بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے مسکرا کر‬
‫بوال۔‬
‫"جیسے کہ کیا کیا پسند ہے؟"‬
‫اب سچ میں وہ اس میں دلچسپی لے رہی تھی۔‬
‫"مجھے فاسٹ فوڈ میں صرف فرائز پسند ہیں۔‬
‫ماں کے ہاتھ کے سارے دیسی پکوان بہت پسند ہیں۔‬
‫ماں ُگڑ ڈال کر دیسی گھی میں جب ٹِکڑے بناتی ہیں‬

‫‪52‬‬
‫واہ واہ‪.....‬کیا مزے دار لگتے ہیں۔" اپنی ماں کا ذکر‬
‫کرتے وقت شازار کے لہجے میں بےپناہ محبت بھر‬
‫گئی تھی۔‬
‫وقت پر لگا کر اڑ گیا تھا‪....‬ایک گھنٹہ کیسے گزرا پتہ‬
‫ہی نہیں چال۔ وہ گاڑی کے ہارن کی آواز پر باہر چال‬
‫گیا‬
‫"میڈم جی! آپ کی گاڑی آ گئی ہے۔"‬
‫وہ جو انگلیاں پٹخ رہی تھی خالی خالی نگاہوں سے‬
‫اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"ابھی پندرہ منٹ رکے گی تب تک آپ بیٹھیں نا۔" اس‬
‫کا فون پھر سے بجا تھا وہ جیب میں سے فون نکالتا‬
‫پلٹ کر باہر چال گیا۔‬
‫"کنٹرول حوریہ! یہ محض ایک اٹریکشن ہے‪....‬تم‬
‫ایک سمجھدار لڑکی ہو‪ ،‬پاگل مت بنو۔" وہ اکھڑی‬
‫اکھڑی سانسوں کے ساتھ سینے پر ہاتھ لپیٹے اٹھ‬
‫کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر ٹہلنے لگی‪ ،‬مگر یہ جو‬
‫اندر کھلبلی مچ گئی تھی کسی طور کم نہیں ہو رہی‬
‫تھی۔‬

‫‪53‬‬
‫"بی بی کہاں جانا ہے؟"‬
‫ایک آدمی نے اس کے قریب رکتے ہوئے استفسار کیا‬
‫تھا وہ اس کی آواز پر وہ بری طرح سے ڈر کر دو قدم‬
‫پیچھے ہٹی تھی۔‬
‫"اوئے ‪.....‬سالے یہ کسی دوسرے شہر کی سوری‬
‫ہے۔ کہاں جانا ہے؟" کسی آدمی نے وہاں آتے ہوئے‬
‫پان چبانے کے درمیان پوچھا تھا۔‬
‫"تجھے زیادہ پتہ ہے‪ ،‬سستا چوہدری بنا پھرتا۔بی بی‬
‫چلو گاڑی تیار کھڑی ہے۔ ٹکٹیں کروا لی نا؟"‬
‫وہ گھبرا گئی تھی۔‬
‫"اس نے کہیں نہیں جانا۔"‬
‫وہ جیسے ہی وہاں داخل ہوا ان آدمیوں کو حوریہ کے‬
‫پاس کھڑا اور اس کے چہرے پر چھائے خوف کو‬
‫دیکھتے ہوئے آگے بڑھا اور کرختگی سے بوال۔‬
‫"شازار الال‪ !....‬ہم تو بس پوچھ رہے تھے۔" وہ‬
‫دونوں جیسے ہی پلٹے شازار کو دیکھ بھیگی بلی بن‬
‫گئے۔‬

‫‪54‬‬
‫"پوچھ لیا؟ جاؤ اب۔" اس کے لہجے میں ابھی بھی‬
‫ویسی ہی سختی تھی۔‬
‫وہ دونوں اسے سالم ٹھوکتے تیزی سے وہاں سے ہٹ‬
‫گئے۔‬
‫"میڈم جی! چلیں‪ ،‬ٹائم ہو گیا ہے۔"‬
‫وہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے گویا ہوا۔‬
‫"شازار! آپ سے مل کر واقع ہی بہت اچھا لگا۔ میری‬
‫زندگی کا یہ پہال سفر تھا جو واقع ہی مجھے ہمیشہ‬
‫یاد رہے گا۔" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے نرمی‬
‫سے گویا ہوئی۔‬
‫"بہت شکریہ میڈم جی!‪....‬مجھے بھی آپ سے مل کر‬
‫اچھا لگا۔ ایک بات کہوں برا تو نہیں مانیں گیں؟" وہ‬
‫اس کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بوال۔‬
‫"جی جی کہیں نا۔"‬
‫وہ لڑکی جو کسی کی سنتی تک نہ تھی آج خاموشی‬
‫سے اس شخص کو سن رہی تھی۔‬
‫"تنہا سفر میں مت نکال کریں۔ ملکی حاالت بہت خراب‬
‫ہیں‪ .....‬آج کے دور میں کسی پر بھی یقین کرنا‬
‫‪55‬‬
‫بیوقوفی ہے۔" وہ بےحد سنجیدگی سے کہتا اسے بہت‬
‫اچھا لگ رہا تھا۔‬
‫"کاش ہمارے معاشرے کے مرد آپ جیسے ہوتے۔جو‬
‫دوسروں کی ماں بہنوں کو بھی قاب ِل احترام سمجھتے‬
‫ہیں اپنی عورتوں کی جیسے حفاظت کرتے ہیں‬
‫دوسروں کی عورتوں کو بھی اسی طرح محفوظ‬
‫رکھتے ہیں۔"‬
‫اس کی بات پر شازار نے ایک دم سے سر جھکا لیا‬
‫تھا۔‬
‫" پر یہاں تو بس اپنی بہن اپنی ہے دوسروں کی بہن‬
‫کو مال کہنے والے لٹیرے بیٹھے ہیں یہاں۔"‬
‫وہ دانتوں پہ دانت جمائے نخوت بھرے لہجے میں‬
‫گویا ہوئی۔‬
‫"اچھا چھوڑیں ان باتوں کو‪.....‬یہ بتائیں کہ دوبارہ آپ‬
‫مجھ سے کب ملیں گے؟" وہ تیزی سے بولی۔‬
‫"دوبارہ ؟" وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"ہاں کیوں آپ نہیں ملیں گے؟" وہ روہانسی ہوئی۔‬

‫‪56‬‬
‫"نہیں نہیں‪....‬میرا مطلب ہے ہاں مگر میڈم جی! ‪"...‬‬
‫وہ بات اُدھوری چھوڑ گیا۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہی ہو حوریہ! وہ بھال کیوں ملے گا تم‬
‫سے دوبارہ‪....‬یا تم کیوں اس سے ملو گی۔خود کو‬
‫روکو۔"‬
‫وہ ہی ڈانٹ دماغ نے پھر سے دل کو لگائی تھی۔‬
‫"ٹھیک ہے میڈم جی! دھیان سے جائیے گا۔" وہ اجلت‬
‫میں کہہ کر پلٹ گیا۔‬
‫"شازار‪ !....‬بات سنیں۔" وہ بےخودی میں اسے پکارا‬
‫بیٹھی تھی۔وہ رکا اور اسی وقت پلٹ۔‬
‫"جی میڈم جی؟" وہ حیران سا اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"یہ آپ کی شال۔" اسے جب کچھ نہ سوجھی تو‬
‫اچانک نگاہیں خود پر اوڑھی شال پر پڑیں۔‬
‫"میڈم جی! اس کی آپ کو زیادہ ضرورت ہے۔مجھے‬
‫کچھ نہیں ہوتا‪ ،‬یہ تو بہت معمولی ٹھنڈ ہے میرا کچھ‬
‫نہیں بگاڑ سکتی۔"‬
‫وہ نرمی سے گویا ہوا۔‬

‫‪57‬‬
‫"میں تو بس میں بیٹھ جاؤں گی۔ اور مظفر گڑھ روڈ‬
‫سے نیچے اترتے ہی گلی میں میرا گھر ہے۔ آپ نے‬
‫تو ٹرک پر نجانے کہاں کہاں جانا ہے۔"‬
‫وہ شال اتار چکی تھی۔‬
‫"میرے پاس ٹرک میں دوسری شال پڑی ہے‪ ،‬اگر‬
‫لوٹانا ہی ہے تو‪ "....‬وہ تو پر زور دیتے ہوئے ایک‬
‫پل کو خاموش ہوا۔‬
‫"تو جب دوبارہ ملیں گے تو لوٹا دیجیے گا۔" وہ کہہ‬
‫کر مسکرایا اور پلٹ گیا۔‬
‫وہ رکا نہیں تھا جبکہ حوریہ تب تک اسے دیکھتی‬
‫رہی جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا۔‬
‫نم آنکھوں کے ساتھ وہ لب بھینچے پلٹی تھی اور‬
‫بےدلی سے بس میں سوار ہو گئی۔‬
‫واقع ہی آج کا سفر بہت یاد گار تھا۔‬
‫"تمہیں شازار سے واقع ہی محبت ہو گئی ہے؟" وہ‬
‫خود سے ہی استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"ہاں۔" دل نے تڑپ کر یہ بات تسلیم کی تھی۔‬

‫‪58‬‬
‫وہ بےاختیار ہی نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔‬
‫زندگی میں پہلی مرتبہ اس احساس نے اسے چھوا‬
‫تھا‪ .....‬خاندان بھر کے لڑکے اس کی ایک نظ ِر کرم‬
‫کو ترستے تھے اور وہ‪ .....‬بقول کزنز کے‪...‬‬
‫"بہت ہی گھمنڈی اور پتھر دل لڑکی۔"‬
‫آج ایک ٹرک ڈرائیور کے سامنے موم ہو گئی تھی۔‬
‫" اگر ان لوگوں کو معلوم ہو گیا تو وہ مجھ پر بہت‬
‫ہنسیں گیں‪ ......‬نہیں نہیں‪ ....‬میں اس راز کو خود تک‬
‫ہی محدود رکھوں گی۔ویسے بھی محبت کا عالن‬
‫تھوڑی کیا جاتا ہے۔" وہ شانوں کو سہالتے ہوئے‬
‫اپنی عجیب ہوتی کیفیت پر قابو پا رہی تھی‪....‬وہ سوچ‬
‫بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی شخص اتنی آسانی سے‬
‫اسے زیر کر سکتا ہے‪....‬وہ بھی ایک انجان اور اوپر‬
‫سے ٹرک ڈرائیور‪.....‬‬
‫کیا یہ محبت تھی یا اٹریکشن؟ وہ کشمکش میں مبتال‬
‫تھی‪......‬‬

‫اظہار محبت نہ ہو پائی‬


‫ِ‬ ‫جانے والے سے‬
‫‪59‬‬
‫دل کی دل میں ہی رہ گئی بات نہ ہو پائی‬
‫گھر میں قدم رکھتے ہی ایک شور نے اس کا استقبال‬
‫کیا تھا۔‬
‫سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫وہ چپکے سے دبے پاؤں اپنے کمرے میں گئی اور‬
‫دروازہ بند کر کے جیکٹ کے اندر تہہ لگا کر چھپائی‬
‫شال کو نکال کر وارڈروب میں اپنے کپڑوں کے‬
‫درمیان چھپا کے وہ مسکراتے ہوئے پلٹی اور کمرے‬
‫سے نکل گئی۔‬
‫سب سے ملنے کے بعد وہ ٹی وی الونج کی جانب بڑھ‬
‫گئی۔‬
‫وہاں تمام کزنز کا میال سا لگا ہوا تھا۔‬
‫اسے دیکھتے ہی تمام لڑکیاں خوشی سے چنخ اٹھی‬
‫تھیں۔‬
‫"لو بھئی آ گئی ان پاگلوں کی سردار۔"‬
‫ایک کزن دوسرے کے کان میں گھسا۔‬

‫‪60‬‬
‫"خوبصورت۔" وہ ٹکٹکی باندھے حوریہ کو دیکھتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫وہ جو دائیں جانب صوفے پر براجمان تھا اٹھتے‬
‫ہوئے چائے کا کپ میز پر رکھتا وہاں سے جانے لگا۔‬
‫"ہمارے دشمنوں کو ہمارے آنے کی اتنی تکلیف ہوتی‬
‫ہے‪.....‬توبہ توبہ۔" اس کے خوشگوار انداز میں کیے‬
‫طنز پر وہ پلٹا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔‬
‫"تکلیف نہیں ہوئی‪ ،‬افسوس ہوا ہے ‪ .....‬تم نے کبھی‬
‫خود کو دیکھا ہے؟"‬
‫وہ اچٹتی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے تمسخر اڑانے والے‬
‫انداز میں مسکرایا۔‬
‫"ہاں بہت غور سے۔ لگتا ہے تم نے خود کو کبھی‬
‫نہیں دیکھا بلکہ کبھی پہچانا ہی نہیں‪......‬کون سا‬
‫گھٹیا مٹیریل‪ ".....‬وہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے بولی‬
‫تو وہ سب بھی ہنس دیئے۔‬
‫"جسٹ شیٹ اپ‪ "......‬وہ اس کی بات درمیان میں‬
‫کاٹتے ہوئے حلق کے بل چالیا تو سب خاموش ہو‬
‫گئے وہ خود بھی ڈر گئی تھی۔‬

‫‪61‬‬
‫"اور تم حوریہ رائے! تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔"‬
‫سرخ آنکھوں سے وارنگ دیتا وہاں سے آندھی طوفان‬
‫کی مانند چال گیا۔‬
‫"کیوں تم شاہزیب کو اتنا پریشان کرتی ہو۔ بچارے یتیم‬
‫مسکین بچے کا دل دکھا کر تمہیں کیا ملتا ہے؟" چند‬
‫پل بعد ماں وہاں آتے ہی شروع ہو گئی تھیں۔‬
‫"اس سے بہتر تھا تم آتی ہی نہ‪.....‬ابھی تم اٹھو گی‬
‫اور جا کر شری سے معافی مانگو گی۔"‬
‫انہوں نے اس پر بم گرایا تھا۔‬
‫"واٹ‪....‬میری جوتی بھی سوری نہیں کہتی اس‬
‫گھمنڈی کو۔"‬
‫شطرنج کے کھیل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ حقارت‬
‫سے بولی۔‬
‫"تمہیں میں نے کیا کہا سنا نہیں؟"‬
‫"نہیں۔" وہ اطمینان سے بولی ماں کلس کر رہ گئیں۔‬
‫وہ ایسی ہی تھی اپنی من مانی کرنے والی۔‬

‫‪62‬‬
‫شیری کو دیکھتے ہی اس کی زبان کچھ نہ کچھ برا‬
‫ہی بولتی تھی‪.....‬یا شاید اسے سلگا کر وہ انجوائے‬
‫کرتی تھی۔‬
‫ّٰللا کو ناراض کرتی‬
‫"شیری بھائی کا دل دکھا کر تم ہ‬
‫ہو۔" اس سے ایک سال چھوٹی کائنات نے کہا اور اٹھ‬
‫کھڑی ہوئی اس کا رخ شاہزیب کے کمرے کی جانب‬
‫تھا۔‬
‫"کائنات! تمہارے دل کی جگہ موم فٹ ہے کسی دن‬
‫مرے گی توں اپنی اتنی ہمدر طبیعت کی بدولت۔" یہ‬
‫تکیہ کالم حوریہ کا تھا جو وہ اسے سمجھاتے وقت‬
‫کہتی تھی۔‬
‫وہ حوریہ سے محض ایک سال چھوٹی تھی مگر‬
‫ہمیشہ جیسے ہوتا ہے کہ چھوٹی بہن بڑی اور بڑی‬
‫چھوٹی لگتی ہے‪ .....‬یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔‬
‫"شیری بھائی!" وہ کمرے میں جیسے ہی داخل ہوئی‬
‫اسے وہاں وہ نظر نہیں آیا۔‬
‫باتھروم میں گرتے پانی کی آواز سے وہ اندازہ لگا‬
‫چکی تھی کہ وہ شاور لے رہا ہے۔‬

‫‪63‬‬
‫اس نے ایک تفصیلی نگاہ کمرے پر ڈالی۔ کشن زمین‬
‫پر پڑے تھے‪ ،‬چند کتابیں بھی سٹڈی ٹیبل سے نیچے‬
‫گری ہوئی تھیں اور اس کا فون بھی دبیز کلین پر پڑا‬
‫تھا۔‬
‫وہ سمجھ گئی کہ کمرے میں آتے ہی شاہزیب نے اپنا‬
‫غصہ ان بےجان چیزوں پر اتارا ہو گا۔‬
‫کائنات لب بھینچ کر آگے بڑھی اور ہر ایک شے کو ان‬
‫کی پہلی جگہ پر رکھنے لگی۔‬
‫"کس کی اجازت سے تم میرے روم میں آئی ہو؟"‬
‫وہ ٹاول سے بال رگڑتا جیسے ہی باہر آیا اور نگاہ‬
‫کائنات پر پڑی جو سٹڈی ٹیبل پر پڑی کتابوں کو اپنے‬
‫دوپٹے کے پلو سے صاف کر رہی تھی‪ ،‬وہ سخت‬
‫لہجے میں بوال۔‬
‫کائنات اپنی جگہ پر اچھل ہی پڑی تھی۔‬
‫"شیری بھائی! حوریہ کی جانب سے میں سوری کہتی‬
‫ہوں‪"......‬‬
‫"کائنات! پلیز جاؤ یہاں سے۔" وہ اس کی بات درمیان‬
‫میں کاٹتے ہوئے بوال۔‬

‫‪64‬‬
‫"شیری بھائی! پلیز‪.....‬اس ناسمجھ اور پاگل لڑکی کے‬
‫پیچھے آپ اپنا موڈ کیوں خراب کر رہے ہیں۔ اس کی‬
‫تو عادت ہے اول فول بولنے کی مگر آپ تو سمجھدار‬
‫ہیں نا۔پلیز اسے معاف کر دیجیے اور اپنا موڈ خراب‬
‫نہیں کریں۔"‬
‫وہ سر جھکائے نرم سے لہجے میں بول رہی تھی۔‬
‫وہ بنا اس کی بات کا جواب دیئے اس کے عقب سے‬
‫نکل کر دروازے کی سمت بڑھا اور یہ جا وہ جا ہوا۔‬
‫کائنات کی آنکھیں ڈھیروں پانیوں سے بھر گئی تھیں۔‬
‫موم دل لوگ اتنے ہی احساس ہوتے ہیں۔‬
‫چند پل وہاں رکی رہی اور آنسوؤں پر قابو پانے کے‬
‫بعد وہ بھی کمرے سے نکل گئی۔‬
‫شیری اس کا بہت خیال رکھتا تھا مگر حوریہ کی وجہ‬
‫سے اکثر ان دونوں کے درمیان ایسی صورتحال پیدا‬
‫ہو ہی جاتی تھی۔‬
‫"زری! صاحب لوگ چلے گئے ہیں۔میں بستی کی نکر‬
‫پر تمہارا انتظار کرتی ہوں۔ آ جاؤ۔"‬
‫منہاج خوف سے کانپتی بولی۔‬
‫‪65‬‬
‫"ڈرو نہیں اس طرح مائی حلیمہ کو شک ہو جائے گا۔"‬
‫اس نے چادر شانوں پہ اوڑھتے ہوئے کہا۔‬
‫"ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ مگر تو دھیان سے آنا اگر‬
‫کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔" منہاج پلٹنے‬
‫لگی تبھی اس کی نگاہ زرمینہ کے کالئیوں میں‬
‫کھنکتی سونے کی چوڑیوں پر پڑی۔‬
‫"یہ چوڑیاں اتار دو۔ سردار دالور خان بہت سمجھدار‬
‫بندہ ہے۔ اگر اس کی نگاہ پڑ گئی تو فوراً سے پیشتر‬
‫تمہارا پردہ اٹھا دے گا۔"‬
‫منہاج نے شوخی سے کہا اور پلٹ گئی۔‬
‫وہ مسکرا کر چوڑیاں اتارتی اپنے کمرے کی کھڑکی‬
‫سے لگی سیڑھی سے نیچے اتر گئی۔‬
‫خان پور تک پیدل سفر کرتے ہوئے وہ تھکی نہیں‬
‫تھی‪ .....‬حاالنکہ بہت نخرے والی تھی۔مگر کیا ہے نا‬
‫یہ عشق تو انگاروں پر نچا دیتا ہے۔‬
‫"بڑے صاحب کو علم ہوا تو وہ ہمیں جان سے مار‬
‫ڈالیں گے۔" منہاج نے اپنی خالہ کے گھر پہنچتے ہی‬
‫رکی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے کہا۔‬

‫‪66‬‬
‫"منہاج! تم میری دوست ہو۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے‬
‫دوں گی‪ ،‬فکر نہیں کرو۔ چلو اب اپنی خالہ کو بالؤ۔"‬
‫اس نے اسے شانوں سے تھام کر کہا۔‬
‫"نہیں زرمینہ باجی! ہم آپ کو ایسے کیسے لے جائیں‬
‫سردار حویلی‪......‬اگر سردار دالور خان کو ذرا سی‬
‫بھی بھنک پڑی تو بہت خفا ہوں گے۔" وہ ڈرتے ہوئے‬
‫بولیں۔‬
‫"خالہ! میں کسی غلط ارادہ سے نہیں جا رہی۔ مجھے‬
‫محض دالور خان کے آس پاس رہنا ہے‪ ،‬انہیں جی بھر‬
‫کر دیکھنا ہے۔ پلیز میری حالت پر رحم کریں۔" وہ‬
‫عاجزانہ درخواست کر رہی تھی۔‬
‫خالہ تذبذب تھی‪.....‬‬
‫"یہ‪.....‬یہ رکھ لیں میری جانب سے چھوٹا سا تحفہ‪،‬‬
‫پلیز مجھے حویلی لے چلیں۔" وہ یوں تڑپ رہی تھی‬
‫جیسے بن پانی کے مچھلی تڑپتی ہے۔‬
‫خالہ نے منہاج کی جانب دیکھا۔‬
‫"لے جائیں ماسی۔ یہ دیوانی ہو گئی ہے‪.....‬مر جائے‬
‫گی اگر سردار سائیں کو نہ دیکھا تو۔" اس نے کہا تو‬

‫‪67‬‬
‫خالہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی گہری بھوری آنکھوں‬
‫میں ایک دیوانہ پن تھا وہ جھلی سی لگ رہی‪.....‬خالہ‬
‫اثبات میں سر ہال گئیں۔‬
‫زرمینہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔‬
‫"اب تم واپس حویلی چلی جاؤ۔میرے کپڑے پہن کر‬
‫چہرہ ڈھانپے رکھنا۔" زرمینہ نے اس سے کہا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔میں سب سنبھال لوں گی ان شاءہللا۔"‬
‫منہاج نے ڈرتے ڈرتے کہا۔‬
‫وہ ساتھ الئے گئے منہاج کے کپڑے زیب تن کرنے‬
‫کمرے میں چلی گئی۔‬
‫"نجی! تمہاری مالکن کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔" خالہ‬
‫نے منہاج سے کہا۔‬
‫"غلطی میری ہے ماسی! میں نے اسے کہا کہ اس‬
‫سے بھی خوبصورت کوئی ہے‪ ،‬اس کی ٹکر کا ایک‬
‫مرد بھی ہے۔اور وہ ضد کرنے لگی کہ اس نے سردار‬
‫سائیں کو دیکھنا ہے۔" وہ افسردگی سے ٹھنڈی آہ بھر‬
‫کے بولی۔‬

‫‪68‬‬
‫"اور جب سردار سائیں کو دیکھ کر پلٹی تو یہ ہماری‬
‫پہلے والی زری نہیں رہی تھی‪.....‬کوئی دیوانی ہی‬
‫پلٹی تھی۔نجانے اب کیا ہو گا میری دوست کا۔"‬
‫"چلیں؟"‬
‫اس سے پہلے کہ ماسی کچھ کہتیں زرمینہ وہاں آ گئی‬
‫تھی۔‬
‫خالہ کو ڈر تو بہت لگ رہا تھا مگر وہ بےبس تھیں۔‬
‫"سردار سائیں کا گاؤں تو بہت ہی خوبصورت ہے۔"‬
‫وہ گھونگھٹ اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔‬
‫"ساری سردار سائیں کی محنت ہے۔ انہوں نے‬
‫پہاڑیوں کو کٹوا کر راستے بنائے اور یہ جو راہوں‬
‫کے دونوں جانب اتنے بڑے بڑے روشنی کرنے والے‬
‫بلب دیکھ رہی ہو یہ بھی انہوں نے ہی لگوائے ہیں۔"‬
‫ماسی خوشی بھرے لہجے میں بتا رہی تھی۔‬
‫"پلو نیچے کریں باجی۔ کسی نے آپ کو دیکھ لیا تو‬
‫بہت بڑا ہنگامہ ہو جائے گا‪ ،‬حویلی میں بھی پلو مت‬
‫اٹھائے گا‪ ".....‬اس نے پلٹ کر اسے دیکھ اور تیزی‬
‫سے گویا ہوئی۔‬
‫‪69‬‬
‫زرمینہ سمجھتے ہوئے سر اثبات میں ہال گئی۔‬
‫"زرمینہ باجی! آپ سچ میں کسی غلط کام‪ ".....‬وہ‬
‫جھجکتے ہوئے بولیں تبھی زرمینہ مبہم سا مسکراتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫"ماسی! بےفکر رہیں۔ میں سردار سائیں کی دشمن‬
‫نہیں ہوں۔ ان کی دیوانی ہوں‪....‬میں چاہ کر بھی انہیں‬
‫اور ان سے جڑے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچا‬
‫سکتی۔"‬
‫اس نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کہا تھا۔‬
‫ماسی چپ سی ہو گئیں۔‬
‫حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ لوگ سیدھا کچن کی‬
‫جانب بڑھی تھیں۔‬
‫امو جان نے کچن میں قدم رکھا تو ماسی نے جھک کر‬
‫سالم کیا۔‬
‫"سالم بیگم سرکار!"‬
‫"و علیکم السالم! شبنم‪....‬سردار پتر زمینوں سے‬
‫لوٹنے والے ہیں۔جلدی سے ان کا کمرہ درست کر آؤ۔ آ‬
‫گیا تو پھر کمرے میں کسی کو جانے نہیں دے گا۔"‬
‫‪70‬‬
‫وہ سردار دالور خان کے لیے ناشتہ بناتے ہوئے‬
‫بولیں۔‬
‫"جی بیگم سرکار!"‬
‫"ارے یہ کون ہے؟"‬
‫"یہ جی میری بھانجی ہے۔ پشاور والی بہن کی‬
‫بیٹی‪....‬میرے پاس رہنے آئی ہے کچھ دن۔" اس نے‬
‫سوچا ہوا جھوٹ بوال۔‬
‫"سالم بیگم سرکار!" وہ شبنم کے انداز میں ہی اسالم‬
‫کرتے ہوئے پیچھے ہٹی۔‬
‫" و علیکم السالم!"‬
‫"ماسی! میں صفائی کر دیتی ہوں۔ آپ بیگم سرکار کی‬
‫مدد یہاں کر دیں۔" وہ تیزی سے بولی۔‬
‫اس کا لہجہ باہر رہ کر پڑھائی کرنے کی بدولت کافی‬
‫حد تک بدل چکا تھا مگر اس وقت اس نے اپنا لہجہ‬
‫بدل لیا تھا خاص پختون لہجے میں بول رہی تھی۔‬
‫"ارے نہیں‪.....‬تم ہمارے ہاں مہمان ہو۔ اور ہم‬
‫مہمانوں سے کام نہیں کرواتے۔" بیگم سرکار نے کہا‬
‫تو وہ اپنے گالبی لبوں کو کچلنے لگی۔‬
‫‪71‬‬
‫" بیگم سرکار! پھر حویلی دیکھ لوں؟" اس نے‬
‫جھجکتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے‬
‫دیکھ لو بیٹی۔" وہ خوشگوار انداز میں بولیں۔‬
‫وہ تیزی سے ماسی کے ساتھ کچن سے نکل گئی۔‬
‫"ماسی! مجھے محض سردار سائیں کے کمرے میں‬
‫لے چلیں۔"‬
‫اس نے کہا تو وہ سر ہال کر سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔‬
‫"ہاہاہا‪ .....‬سیرت! میں بلکل بھی تمہارے ہاتھ نہیں‬
‫آنے والی۔" نازش اپنا لہنگا سنبھال کر تیزی سے‬
‫سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔‬
‫"میں تمہیں پکڑ لوں گی۔ چاچی! او چاچی جان ذرا‬
‫باہر تو آئیں۔" سیرت نے بلند آواز میں ہانک لگائی۔‬
‫"کیا ہوا سیرت؟" دوسری جانب سے فرسٹ فلور پر‬
‫اپنے کمرے سے نکل کر چاچی جو ان دونوں کی ہم‬
‫عمر تھی باہر آئیں۔‬
‫"یہ نازی چیلنج کر رہی ہے کہ‪......‬اسے پکڑنا مشکل‬
‫ہی نہیں ناممکن ہے۔" وہ بولی۔‬
‫‪72‬‬
‫"چلو دیکھتے ہیں۔" چاچی مسکراتے ہوئے دوڑتی‬
‫ہوئیں دوسری جانب والی سیڑھیاں اترنے لگیں۔‬
‫"یہ دونوں سیرت اور نازش سردار سائیں کی چھوٹی‬
‫بہنیں ہیں اور وہ سب سے چھوٹی چاچی۔" ماسی نے‬
‫اسے بتایا۔‬
‫اسے کسی میں کہاں دلچسپی تھی تبھی محض سر ہال‬
‫کر سردار دالور خان کے کمرے میں داخل ہو گئی۔‬
‫"آپ اب جائیں۔ میں کمرہ صاف کر دوں گی۔" وہ‬
‫کمرے میں داخل ہو کر دروازہ مقفل کرتے ہوئے بولی۔‬
‫"زرمینہ باجی‪ "!....‬اس نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ‬
‫دروازہ بند کر چکی تھی۔‬
‫"کیا ضرورت تھی اس جھلی کو النے کی؟ خدارا ابھی‬
‫سردار سائیں نہ آئیں نہیں تو میری خیر نہیں پھر۔" وہ‬
‫خود کو کوستی پلٹ گئی۔‬
‫وسیع و عریض عالیشان کمرے میں پڑی ہر شے‬
‫مالک کی بہترین پسند کا پتہ دے رہی تھی۔‬
‫پردوں سے لے کر وہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایش ٹرے‬
‫تک جس میں سگار مسال گیا تھا اور اس کے قریب‬

‫‪73‬‬
‫ہی مہنگیاور بہترین کوالٹی کے سگار کا‬
‫ڈبہ‪.....‬سگریٹوں کی دو ڈبیاں پڑی تھیں۔‬
‫اس نے آگے بڑھ کر سگار کو ایش ٹرے میں سے‬
‫اٹھایا۔‬
‫"کتنے قسمت والے ہو ڈیئر سگار‪ ....‬تمہیں سردار‬
‫سائیں نے چھوا ہے۔تمہیں تو میوزیم میں رکھوانا‬
‫چاہیے‪ "...‬اس نے مسکراتے ہوئے‪ ،‬سگار کو‬
‫دیکھتے ہوئے بڑنڑائی۔‬
‫پھر سگار ایش ٹرے میں رکھ کر بیڈ کی جانب متوجہ‬
‫ہوئی۔‬
‫جھک کر کنگ سائز بیڈ پر ڈالی گئی چادر پر سلوٹوں‬
‫کو چھوتے ہوئے وہ بیڈ پر چت ڈھے گئی۔‬
‫"بےشرم تو میں نہیں ہوں مگر سردار تمہیں دیکھ کر‬
‫اپنی حدود پھالنگ آئی ہوں۔ اب اسے تم بےشرمی کہو‬
‫یا میری دیوانگی‪ "....‬سامنے دیوار پر لٹکتی اس کی‬
‫قدآدم فوٹو کو دیکھتے ہوئے وہ بولی پھر مبہم سا‬
‫قہقہہ لگا کر سرہانے پر ہاتھ پھیر کر اس پر ہونٹ‬
‫رکھے الئٹ پنک لپ اسٹک کا نشان سیاہ رنگ کے‬

‫‪74‬‬
‫کشن پر چھپ گیا تھا‪ ،‬وہ بنا دھیان دیئے اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫وہ ہر شے کو چھو رہی تھی جسے سردار دالور خان‬
‫نے چھوا تھا۔‬
‫دروازے پر دستک ہوئی تو وہ بری طرح سے ڈر گئی۔‬
‫رات کو جو سرخی سردار سائیں کی آنکھوں میں‬
‫دیکھی تھی وہ اس کی نگاہوں کے سامنے آ ٹھہری۔‬
‫تیزی سے دوپٹہ چہرے پر گرتی دروازے کی سمت‬
‫بڑھی۔‬
‫"سالم سائیں!"‬
‫"و علیکم السالم!" وہ بنا اس پر نگاہ ڈالے کمرے‬
‫میں داخل ہو گیا۔‬
‫"دروازہ بند کیوں تھا؟"‬
‫اس کے سوال کا جواب زرمینہ سوچ ہی رہی تھی جب‬
‫وہ بوال۔‬
‫"اٹس اوکے۔ آپ جائیں۔" وہ دروازہ مقفل کر چکا تھا۔‬

‫‪75‬‬
‫"ہماری حویلی میں تو تمام مرد نوکروں کو پیر کی‬
‫جوتی سمجھتے ہیں اور سردار سائیں‪ ......‬آپ کر کے‬
‫مخاطب کر رہا ہے۔" اسنے دل ہی دل میں سوچا۔‬
‫"تبھی تو یہ دلوں کی دھڑکن ہیں۔" وہ مسکرا کر پلٹ‬
‫گئی۔‬

‫یہ تو بغاوتوں پر اتر آیا ہے‬


‫دل کو حدوں کہ پرواہ کہاں ہے‬
‫ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور طرح طرح کے پھول ہی‬
‫پھول تھے۔ ان کے درمیان وہ بیٹھے تھے‪....‬‬
‫وہ سفید کرتہ پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھا اور حور‬
‫لیمن کلر کے پرنٹڈ کرتہ پر ریشمی آنچل سینے پر‬
‫پھیالئے اپنے مکمل حسن کے ساتھ اس کے بلکل‬
‫سامنے بیٹھی تھی‪ ،‬ہلکی ہلکی ہوا اس کے ریشمی‬
‫بالوں کو اڑا رہی تھی۔‬
‫شازار نے ہاتھ بڑھا کر اس کی بالوں کو سمیٹ کے‬
‫کان کے پیچھے کیا وہ سر جھکائے شرم و حیا کے‬
‫رنگ چہرے پر لیے مبہم سا مسکرا دی۔‬
‫‪76‬‬
‫"تمہارے لیے کچھ الیا ہوں۔" اس نے کہتے ہوئے‬
‫جیبوں کو ٹٹوال اور الل رنگ کی کانچ کی چوڑیاں نکال‬
‫کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائیں۔‬
‫"پہنا دیں۔" اس نے اپنی سفید مرمریں کالئیاں اس کے‬
‫سامنے کی وہ مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر‬
‫چوڑیاں پہنانے لگا۔‬
‫"حور! میں آپ سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ لفظوں‬
‫میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میں اپنے ہر عمل سے آپ‬
‫کو اپنی محبتوں کا یقین دالؤں گا۔"‬
‫وہ جھک کر اس کی ہتھیلیوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے‬
‫گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔ حوریہ کے دل کی دھڑکنیں‬
‫بےترتیب ہو گئی تھیں۔‬
‫"شازار‪ " !....‬وہ اسے پکارتے ہوئے نیند سے بیدار‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں تو خود کو اپنے کمرے میں‬
‫پایا۔‬
‫"ہائے‪...‬خواب تھا۔" وہ منہ ہاتھوں میں چھپائے‬
‫آنکھیں موند کر مسکرا دی۔‬

‫‪77‬‬
‫ّٰللا اس شخص کو میرا کر دے‪ ،‬مجھے اس کی‬ ‫"یا ہ‬
‫قسمت میں لکھ دے۔" اس نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی‬
‫تھی۔‬
‫آنکھیں موندے پھر وہ کتنی ہی دیر اس خواب کے‬
‫متعلق سوچتے ہوئے مسکراتی رہی۔‬
‫"اب مجھے ایک ڈریم جار بنا ہی لینا چاہیے۔" وہ‬
‫سوچتے ہوئے اٹھی اور سرہانے پڑی شال اپنے‬
‫شانوں پہ اوڑھ کر ڈیکوریشن پیس کی شیلف میں‬
‫نگاہیں دوڑانے لگی۔‬
‫نیچے والی شیلف پر اسے کینیڈیز جار نظر آیا۔‬
‫وہ جار اٹھا کر اس میں موجود کینیڈیز باؤل میں ڈالتی‬
‫تیزی سے سٹڈیز ٹیبل کی جانب بڑھی۔ کرسی کھینچ کر‬
‫بیٹھتے ہوئے اس نے لیمپ روشن کیا اور رنگ‬
‫برنگے صفحات کی کاپی پر اس نے اپنے پسندیدہ پین‬
‫سے اپنے خواب کو اتار کر اس نے ٹیبل کے دراز میں‬
‫سے الل رنگ کا ریبن ‪ ،‬کینچی نکالی۔ لکھے ہوئے‬
‫صفحے کو کینچی سے کاٹ کر اس کی چوڑائی کم کی‬
‫اور پھر فولڈ کر کے الل رنگ کے ریبن کی مدد سے‬
‫اس کو باندھ کر جار میں ڈال دیا۔‬
‫‪78‬‬
‫"کچھ کمی سی ہے‪ ".....‬وہ تھوڑی تلے ہاتھ ٹکائے‪،‬‬
‫جار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔‬
‫"آئیڈیا‪.....‬نومی کے ایکرالک کلرز چراتے ہیں۔" وہ‬
‫چٹکی بجا کر اٹھی اور سلیپرز پیروں میں گھسا کے‬
‫کمرے سے نکل کر نومی کے کمرے کی جانب بڑھ‬
‫گئی۔‬
‫" ن نہیں پلیز چ چھوڑو مجھے ‪.....‬خدا کا واسطہ‬
‫تمہیں چھوڑو مجھے‪ .....‬پلیز مت چھوؤ۔"‬
‫وہ سیڑھیاں اتر ہی رہی تھی کہ اسے کسی کے رونے‬
‫کی مدھم سی آوازیں سنائی دیں سیڑھیوں کے نیچے‬
‫سے آواز آ رہی تھی۔‬
‫حوریہ کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئی تھیں۔‬
‫وہ جیسے جیسے نیچے اتر رہی تھی سرگوشیاں‬
‫واضح سنائی دے رہی تھیں۔‬
‫تبھی ایک لڑکی اپنے سینے پر ہاتھ لپیٹے روتی ہوئی‬
‫وہاں سے گئی تھی۔‬

‫‪79‬‬
‫وہ جب کوریڈور میں پہنچی تو اس کے پھٹے کپڑے ‪،‬‬
‫بکھرے بال دیکھ کر حوریہ کا وجود کانپ گیا تھا۔ وہ‬
‫پیچھے ہو کر دیوار سے چپک گئی۔‬
‫ایک منٹ بعد اس نے اسی جانب سے آتے ایک لڑکے‬
‫کو دیکھا تھا۔‬
‫اس کے دماغ میں نجانے کیا آیا کہ وہ آگے بڑھی‬
‫دیوار پر ہاتھ مار کر ساری الئٹیں جال کر اس کی راہ‬
‫میں حائل ہو گئی۔‬
‫وہ جو اپنی دھن میں چال آ رہا تھا اسے سامنے دیکھ‬
‫بوکھال کر رک گیا۔‬
‫"ش شیری‪ !....‬تم؟" وہ بےیقینی کے عالم میں اسے‬
‫دیکھے جا رہی تھی۔‬
‫وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر پھر رخ پھیر کر اسے نظر‬
‫انداز کرتا تیز قدم اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔‬
‫"اوہ میرے خدایا‪.....‬یہ کتنا گرا ہوا ہے۔اگر کسی کو‬
‫بتایا تو کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔"‬
‫وہ چکراتے سر کو تھامے واپس پلٹی اور سیڑھیاں‬
‫چڑھ گئی۔‬

‫‪80‬‬
‫کانوں میں ابھی بھی اس لڑکی کی سسکیاں اور شیری‬
‫کی گھٹیا سرگوشیاں گونج رہی تھیں۔‬
‫اتنی سردی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کی‬
‫بوندیں چمکی تھیں۔دل تھا کہ سوکھے پتے کی مانند‬
‫لرز رہا تھا۔‬

‫کہ وہ دیتے پھیریں گے لوگوں کو وضاحتیں‬


‫خاموشی سے یوں رخصت ہو جائیں گے اک‬

‫ٹرک کے دائیں جانب چارپائی پر دائیں کروٹ کے بل‬


‫سر کے نیچے ہاتھ ٹکائے نیم دراز سا لیٹا ہاتھ میں‬
‫تھامے جھمکے میں کھویا ہوا تھا۔‬
‫"استاد!‪....‬ٹرک نکالیں؟" عاصم اس کے قریب رکتے‬
‫ہوئے بوال تو نگاہ جیسے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑے‬
‫جھمکے پر پڑی اس کی ہونٹ یہاں سے وہاں تک‬
‫پھیل گئے۔‬

‫‪81‬‬
‫"استاد! عشق کر بیٹھے ہو؟" وہ جھک کر سرگوشی‬
‫کے انداز میں گویا ہوا تو شازار نے سر اٹھا کر اس‬
‫کی جانب دیکھا۔‬
‫"باجی ویسے تھی خوبصورت۔" وہ پھر سے شرارت‬
‫بھرے انداز میں گویا ہوا۔‬
‫"او جا‪.....‬میں تو بس دیکھ رہا تھا کہ اتنے بھاری‬
‫جھمکے لڑکیاں کانوں میں پہن کیسے لیتی ہیں۔چل‬
‫ٹرک نکالتے ہیں‪ "....‬وہ اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫عاصم کے ہونٹوں پر ابھی بھی معنی خیز مسکراہٹ‬
‫تھی۔‬
‫"مت کرو مت کرو بہت منحوس لگ رہے ہو۔" شازار‬
‫نے غیر سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"سچ بتاؤ استاد! باجی نے دل کی تاروں کو چھیڑا؟"‬
‫وہ شریر لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔‬
‫"دل میں تاریں نہیں ہوتیں۔" وہ مسکراتے ہوئے اس‬
‫کے سر پر تھپکی رسید کرتا ڈرائیونگ سیٹ پر چڑھ‬
‫گیا۔‬

‫‪82‬‬
‫"استاد! سردی نہیں لگ رہی کیا؟ ہاں پر چادر تو باجی‬
‫لے گئی ‪ ......‬سردی کیوں لگنی۔" عاصم اس کے‬
‫برابر میں بیٹھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے بوال۔‬
‫"اوہ یار‪ !....‬مجھے پیچھے بیٹھنا چاہیے یہاں باجی‬
‫کا گمان گزرے گا۔" وہ اسے مسلسل چھیڑ رہا تھا اور‬
‫شازار کی رخسار کا ڈیمپل مزید گہرا ہو رہا تھا۔‬
‫"عاصم! بندہ بن کر بیٹھا رہے۔مزید کچھ نہیں۔" وہ‬
‫دوسرے ہی پل سنجیدہ ہو گیا تھا اور عاصم اسی وقت‬
‫خاموش ہو گیا‪ ،‬وہ جانتا تھا کہ مزید مذاق اس کو‬
‫بھاری پڑ سکتا ہے۔‬
‫"زری! تم امریکہ واپس کب جا رہی ہو؟" ناشتے کی‬
‫میز پر بڑے بھائی نے استفسار کیا۔‬
‫"میں ابھی کہیں نہیں جا رہی بھیا۔ ایم فیل کچھ وقت‬
‫کی بریک کے بعد کروں گی۔" اس نے کہا۔‬
‫"مگر یہاں کرو گی کیا؟ ویسے بھی ماموں لوگ تمہیں‬
‫بہت مس کر رہے ہیں۔" وہ پھر سے بولے۔‬

‫‪83‬‬
‫"آپ لوگ نہیں کرتے کیا مس؟ دیکھیں ڈیڈ! بھیا‬
‫مجھے یہاں سے بھگانے کا سوچ رہے ہیں۔" وہ جان‬
‫بوجھ کر روہانسی ہوئی۔‬
‫"ارے نہ نہ میری بچی۔ وہ تو بس تمہارے بھلے کے‬
‫لیے کہہ رہے تھے۔ چلو خیر تم کچھ وقت تک پڑھائی‬
‫روک کر یہاں رہ سکتی ہو‪.....‬مگر کچھ وقت تک ہی۔"‬
‫آخری جملے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ‬
‫بس سر ہال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"ابا حضور!‪ ....‬زرمینہ کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔"‬
‫"ہاں جانتا ہوں۔مگر وہ اس سب سے بےخبر ہے‬
‫‪.....‬رہنے دو جب تک رہتی ہے۔" وہ اطمینان سے‬
‫بولے۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کھڑکی پر جا کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫"منہاج! اس کھڑکی سے مجھے سردار سائیں کی‬
‫حویلی کی چوٹی نظر آتی ہے۔ وہ دیکھو‪"....‬اس نے‬
‫کمرے میں داخل ہوتی منہاج سے کہا۔‬

‫‪84‬‬
‫"بس بہت ہو گیا زری! تمہیں میں بتا چکی ہوں نا کہ‬
‫وہ تمہارے باپ بھائی کے دشمن ہیں۔"‬
‫"میرے تو نہیں۔" وہ اطمینان سے بولی۔‬
‫"نجی! مجھے آج پھر جانا ہے سردار حویلی۔" اس‬
‫نے عجیب سے انداز میں کہا تو وہ سر نفی میں ہالنے‬
‫لگی۔‬
‫"یہ ناممکن ہے۔ پلیز زری! ہوش کے ناخن لو۔"‬
‫"نجی! مجھے ایک مرتبہ سردار سائیں کا دیدار کروا‬
‫دو‪ ،‬خدا کی قسم تم جو کہو گی کروں گی۔" وہ پاگل پن‬
‫کی انتہا کو چھو رہی تھی۔‬
‫"جو بھی کہوں گی؟" منہاج نے تصدیق کی۔‬
‫"ہاں۔ بس اسے چاہنے‪ ،‬دیکھنے ‪،‬سوچنے سے مت‬
‫روکنا۔"‬
‫"پھر کیا فایدہ۔دیکھو زری! میں تمہاری دشمن نہیں‬
‫بچپن کی سہیلی ہوں۔اسی لیے تمہیں اس راستے سے‬
‫روک رہی ہوں جس پر کوئی منزل نہیں۔ سردار سائیں‬
‫تمہاری قسمت نہیں بن سکتے۔" وہ رونے لگی تھی۔‬

‫‪85‬‬
‫"تو کیا ہوا نجی؟ بھٹک جاؤں گی‪ .....‬گمنام ہو جاؤں‬
‫گی؟ اس کی دیوانی کہالؤں گی؟ تو کیا ہوا مجھے‬
‫ویسے بھی منزل سے کوئی سروکار نہیں۔"‬
‫"یہ وقتی بات ہے‪ ،‬کچھ وقت بعد تمہیں اسے پانے کی‬
‫خواہش ہو گی‪ ،‬پھر تم جلو گی جب وہ تمہارا نہیں ہو‬
‫سکے گا۔" وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی‬
‫تھی۔‬
‫"ابھی تو اس کے دیدار کو تڑپ رہی ہوں۔پلیز نجی‬
‫کچھ کرو۔" وہ اپنی رکتی سانسوں کے ساتھ بولی۔‬
‫منہاج اپنی دوست کی اس حالت کو دیکھ نہیں پا رہی‬
‫تھی۔‬
‫"نجی! مجھے یوں لگتا ہے جیسے‪ .....‬جیسے میرے‬
‫وجود میں خون کی جگہ اس کی محبت دوڑ رہی‬
‫ہے۔اسے نہ دیکھوں گی تو دل بند ہو جائے گا۔سانسیں‬
‫تھم۔جائیں گی اور میں مر جاؤں گی۔ " وہ آنکھیں‬
‫موندے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"تم العالج روگ پالنا کیوں چاہتی ہو؟"‬

‫‪86‬‬
‫"دیدار یار کروا دو نا نجی!" اس کے سوال کو نظر‬
‫ِ‬
‫انداز کرتے ہوئے وہ عاجزانہ انداز میں گویا ہوئی۔‬
‫"خدا کا واسطہ تمہیں۔" اب وہ ہاتھ جوڑ گئی تھی۔‬
‫منہاج نے تیزی سے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا۔‬
‫"میں پتہ کرتی ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔"‬
‫وہ شش و پنج میں مبتال اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔‬
‫زرمینہ کی آگ پکڑتی دیوانگی نے منہاج کو بےحد‬
‫خوف زدہ کر چھوڑا تھا۔‬
‫وہ خود کو کوس رہی تھی کہ اس دن کیوں اس نے‬
‫سردار سائیں کا ذکر چھیڑا۔‬
‫مگر غلطی اس کی بھی نہیں تھی‪ ،‬کسی کی خطا تھی‬
‫تو وہ زرمینہ کا دل تھا جو بنا وقت ضائع کیے سردار‬
‫سائیں کا ہو چکا تھا۔‬
‫"زری! سردار سائیں آج رات شکار کے لیے نکل رہے‬
‫ہیں اپنے یاروں کے ساتھ۔"‬
‫تقریبا ً چار پانچ گھنٹے بعد اس نے واپس آ کر بتایا‬
‫تھا۔‬

‫‪87‬‬
‫"کہاں؟"‬
‫وہ جو چیت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی پھرتی سے‬
‫اٹھ بیٹھی۔‬
‫"شمالی جنگلوں کی جانب۔ جہاں سے گزرنا ہے وہ‬
‫راستہ مجھے معلوم ہے۔"اس نے کہا تو وہ چہک‬
‫اٹھی۔‬
‫"نجی! تم واقع ہی میری بہترین دوست ہو۔" وہ اس‬
‫کے گلے میں باہیں ڈال کر جھول گئی تھی۔‬
‫"کل بابا لوگوں نے کسی کام کے سلسلے میں کہیں‬
‫جانا ہے‪ ،‬میں کچھ دیر پہلے بات کرتے سنا تھا ان‬
‫لوگوں کو۔ تو میں رات کو چلی جاؤں گی تم میری جگہ‬
‫سو جانا صبح وہ لوگ چلے جائیں گے اور کوئی بھی‬
‫ٹینشن نہیں ہو گی۔"‬
‫اس نے چند ہی پلوں میں ایک اچھا سا پالن بنا لیا تھا۔‬
‫"زری! یہ سب خطرناک ہے۔ میرے لیے تو چھوڑو‬
‫مگر تمہارے لیے بھی ہے‪ "....‬وہ خفگی سے گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫مگر زری کو تو ابھی کچھ بھی نہیں سننا تھا۔‬

‫‪88‬‬
‫"حوریہ! یہ جھمکا کتنا پیارا ہے دوسرا کہاں ہے اس‬
‫کے ساتھ کا؟" اس کی کزن ڈریسنگ پر پڑے جیولری‬
‫باکس میں مہندی کے فنکشن میں اپنے پہننے کے‬
‫لیے جیولری کا انتخاب کر رہی تھی۔‬
‫"پتہ نہیں‪ ،‬کہیں گر گیا شاید۔میرے پسندیدہ جھمکے‬
‫تھے۔" وہ پیشانی پر ماتھا پٹی لگاتی مصروف سے‬
‫انداز میں بولی۔‬
‫"آہاں‪ ،‬وہاں ہاسٹل ہی رہ گیا ہو گا۔ اچھا میں یہ‬
‫جھمکے اور مانگ ٹیکا لے رہی ہوں۔"‬
‫"ٹھیک ہے۔" وہ ایک تفصیلی نگاہ خود پر ڈالتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫ہلکے لیمن رنگ کے الئٹ سے کام واال کرتہ تلے‬
‫پاجامہ زیب تن کیے ‪ ،‬دائیں شانے پہ گرم شال‬
‫پھیالئے‪ ،‬کمر تک جاتے سیاہ و گولڈن بالوں کی‬
‫کھجوری چٹیا کی زینت چھوٹی چھوٹی ننھی کلیاں بنی‬
‫ہوئی تھیں‪ ،‬چند لیٹیں دہکتی سرخ رخساروں کے‬
‫ساتھ چھیڑ خانی کرنے میں مصروف تھیں‪ ،‬اور روشن‬
‫پیشانی پر ماتھا پٹی چمک رہی تھی‪،‬کانوں میں البتہ‬

‫‪89‬‬
‫اس نے کچھ بھی نہیں پہنا تھا‪ ،‬نازک سی کالئیاں گالب‬
‫کے گجروں سے سجی ہوئی تھیں۔‬
‫"شازار! ان شاءہللا وہ وقت ضرور آئے گا جب میں‬
‫ریڈی ہو کر آپ کے سامنے آیا کروں گی اور یہ‬
‫پھولوں کے گجرے آپ خود میری کالئیوں میں‪".....‬‬
‫وہ سوچتے سوچتے شرما کر منہ پر ہاتھ رکھ کے‬
‫شیشے سے نگاہیں چرا گئی۔‬
‫"اب تو آئینہ بھی چھیڑ خانیاں کرنے لگا ہے۔" وہ‬
‫مسکراتے ہوئی نفی میں سر ہالتی ہونٹوں پر پیاری‬
‫سی مسکان لیے کمرے سے نکل گئی۔‬
‫وہ اپنے مخصوص نخریلے انداز میں واک کرتی‬
‫پیچھلے ہال کی جانب بڑھ گئی جہاں رفتہ رفتہ سب‬
‫جمع ہو رہے تھے۔‬

‫"کائنات!‪....‬اب ہو جاؤ تیار خدا کی بندی فنکشن شروع‬


‫ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی ہے۔"‬
‫وہ استری بند کر رہی تھی جب ایک کزن نے ہال کی‬
‫جانب جاتے ہوئے کہا۔‬

‫‪90‬‬
‫"بس بھائی! ابھی جانے ہی لگی ہوں۔" اس نے ہاتھ‬
‫تیز تیز چالنا شروع کر دیا تھا۔‬
‫وہ صبح سے سب کی مدد کروانے میں مصروف تھی‬
‫اور اس مدد میں اسے زیادہ تر کپڑے پریس کرنے کا‬
‫کام مال تھا۔‬
‫شیری ہال میں کرسیاں‪ ،‬الئٹیں اور ڈیک وغیرہ لگوا‬
‫کر کمرے میں آیا اور وارڈروب کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫"کون سا‪ ......‬کون سا پہنوں‪"....‬‬
‫"شیری بھائی! آپ کے کپڑے پریس کر دیئے ہیں۔اب‬
‫جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔"‬
‫وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کائنات دروازے پر دستک‬
‫دے کر کمرے میں داخل ہوئی۔‬
‫"ارے کائنات! اس کی کیا ضرورت تھی۔ میں خود کر‬
‫لیتا۔" وہ شرمندہ سا ہو گیا۔‬
‫"شیری بھائی! آپ ایسے کیوں کہ رہے ہیں؟‬
‫چلیں اب آپ جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔"‬

‫‪91‬‬
‫وہ ہینگر میں لٹکائے ڈریس کو بیڈ پر رکھ کر پلٹ‬
‫گئی۔‬
‫اسی فلور کے دائیں جانب آخر پر اس کا روم تھا وہ‬
‫بھاگ کر گئی اور خود بھی ریڈی ہونے لگی۔‬
‫سفید رنگ کا بہت ہی نفیس سا کام دار کرتہ پاجامہ‬
‫زیب تن کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑی نجانے منہ‬
‫کا کیا حشر نشر کرنے میں مصروف تھی جب دروازے‬
‫پر دستک ہوئی۔‬
‫اس نے اپنی بےترتیب بیس کو دیکھا اور پھر ٹاول‬
‫اٹھا کر منہ رگڑ ڈاال۔‬
‫اسے ہمیشہ حوریہ تیار کیا کرتی تھی اور آج پھر وہ‬
‫اس سے خفا تھی‪ .....‬کیونکہ اس نے شیری کی سائیڈ‬
‫لی تھی اور جب جب ایسا ہوتا تھا حوریہ اس سے منہ‬
‫پھال لیتی تھی۔‬
‫دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے شیری کو دیکھ وہ‬
‫ایک دم ہڑبڑا گئی جبکہ وہ دو پل اسے دیکھتا رہا پھر‬
‫فلک گؤش قہقہہ لگا کر اندر داخل ہوا۔‬

‫‪92‬‬
‫"شیری بھائی! کیا ہوا؟"وہ بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر‬
‫سینے پر پھیالتے ہوئے حیرانگی سے اسے دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"ادھر آؤ۔" وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتا ہوا اس کی کالئی‬
‫تھام کر آئینے کے سامنے جا رکا۔‬
‫اب کی بار وہ بھی ہنس دی تھی۔‬
‫"مجھے بیس لگانی ہی نہیں آتی۔ آپ رکیں میں ایک‬
‫منٹ میں آئی۔" وہ تیزی سے پلٹ کر باتھروم کی جانب‬
‫بڑھ گئی۔ شیری گالب کے گجرے ڈریسنگ پر رکھ کر‬
‫خود کو آئینے میں دیکھنے لگا۔‬
‫سیاہ رنگ اس پر بہت جچتا تھا‪.....‬اس وقت بھی وہ‬
‫سیاہ شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے تھا۔‬
‫خوشبوؤں میں رچا بسا آئینے میں خود کو دیکھتے‬
‫ہوئے نجانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ وہ اس‬
‫کے ساتھ آ رکی تھی اور وہ وہاں ہی جما ہوا تھا۔‬
‫"شیری بھائی! آج تو پکا کسی نہ کسی کو قتل کریں‬
‫گے آپ۔"‬

‫‪93‬‬
‫وہ شریر لہجے میں رازداری سے گویا ہوئی تو وہ‬
‫چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"کیا خیال ہے ایمولینس منگوا لی جائے؟" وہ آنکھوں‬
‫میں کاجل ڈالتے ہوئے بولی۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬چل پگلی‪ "......‬وہ دھیمی سی مسکراہٹ‬
‫لیے گویا ہوا۔‬
‫" اچھا جلدی ریڈی ہو کر آ جاؤ‪ ،‬فنکشن شروع ہونے‬
‫واال ہے۔اورتمہیں میک اپ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫ویسے بھی یہ میک اپ تو معصومیت چھین لیتے‬
‫ہیں۔" وہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔‬
‫کائنات نے ایک نظر خود پر ڈالی اور مسکرا دی۔‬
‫"ٹھیک کہہ رہے ہیں شیری بھائی۔"‬
‫وہ جو سیڑھیاں چڑھ رہی تھی شیری کو کائنات کے‬
‫کمرے سے نکلتا دیکھ ایک دم سے کانپ کر رہ گئی۔‬
‫شیری بنا اس پر ایک نگاہ غلط بھی ڈالے اس کے‬
‫قریب سے گزرتا سیڑھیاں اتر گیا۔‬
‫"وہ تمہارے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟" حوریہ اس‬
‫کے سر پر کھڑی استفسار کر رہی تھی۔‬
‫‪94‬‬
‫"کون؟ شیری بھائی؟ وہ مجھے گجرے دینے آئے‬
‫تھے۔" وہ بالوں کی چٹیا بناتے ہوئے بولی۔‬
‫"کائنات! وہ تمہیں گالب کے پھولوں کے گجرے کیوں‬
‫دے رہا ہے کچھ اندازہ ہے؟" باظاہر تو وہ اطمینان‬
‫سے بولی تھی مگر غصے سے اس کا سر گھوم رہا‬
‫تھا۔‬
‫"یار! بھائی کو کسی نے پکڑائے ہوں گے۔ اور تمہیں‬
‫شیری بھائی سے پرابلم کیا ہے؟" کائنات جھنجھال کر‬
‫رہ گئی تھی۔‬
‫"دیکھو کائنات! تم اس شخص سے دور ہی رہا کرو‪،‬‬
‫ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتی مجھے تم زہر‬
‫لگتی ہو۔"‬
‫"حور! اس گھر میں سب کو شیری بھائی سے پرابلم‬
‫ہے‪ ....‬آخر کیوں؟ اور مجھے آئندہ ان کے کام کرنے‬
‫سے مت روکنا وہ میرے بھائی ہیں۔" وہ بری طرح‬
‫چڑھ کر گویا ہوئی۔‬

‫‪95‬‬
‫"وہ تمہارا سگا بھائی نہیں ہے۔ سمجھنے کی کوشش‬
‫کرو یار وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔" حور کا غصہ اب فکر‬
‫میں بدل گیا تھا۔‬
‫"تم شیری بھائی کے متعلق کچھ نہیں جانتی حور! وہ‬
‫بہت اچھے ہیں‪.....‬ہاں بس تھوڑے سے سخت مزاج‬
‫ہیں مگر برے نہیں ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔‬
‫"ابھی اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں‪ ،‬یہ کچھ‬
‫بھی نہیں سننے والی۔" وہ گہری سانس بھر کر ایک‬
‫نظر اس کے معصوم سے سراپے پر ڈال کے پیر‬
‫پٹختی واپس پلٹ گئی۔‬
‫"مجھے خود ہی اس کمینے پر نظر رکھنی پڑے گی‪،‬‬
‫کہیں کائنات کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔" وہ انگلیاں‬
‫پٹختی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫"پتہ نہیں حور کو شیری بھائی سے مسئلہ کیا ہے‪،‬‬
‫ماما اس کی اور بھائی کی شادی کے خواب دیکھ رہی‬
‫ہیں اور یہ تو ان کی مزید گہری دشمن بنتی جا رہی‬
‫ہے۔ خدا جانے کب عقل آئے گی اسے۔" کائنات تاسف‬
‫سے سوچنے لگی۔‬

‫‪96‬‬
‫وہ لوگ دو جیپوں پر تھے۔‬
‫خان پور سے نکل کر موڑ کاٹتے ہی سب سے پہلے‬
‫سردار دالور خان کی گاڑی اس کے قریب سے گزری‬
‫تھی۔‬
‫اس نے تیزی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور دالور خان‬
‫کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔‬
‫وہ بنا ظاہر کیے ان کا پیچھا کر رہی تھی۔‬
‫بہت آگے جا کر وہ لوگ ایک دھابے پر رکے تھے۔‬
‫زری کو بھی مجبوراً گاڑی روکنی پڑی۔‬
‫"ایک سردار ہو کر بھی اتنے چھوٹے سے دھابے پر‬
‫کتنے آرام سے کھانا کھا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے‬
‫دل لوٹ لیا۔" وہ ان سے کافی فاصلے پر بیٹھی ہُدی‬
‫سے منہ چھپائے ہوئے تھی۔‬
‫"یار دالور! تمہاری فصلوں کا بہت افسوس ہوا۔ تم نے‬
‫کوئی ایکشن نہیں لیا اس بات کی حیرانی بھی ہے۔"‬
‫اس کے ایک دوست نے کہا۔‬
‫"ایکشن تو میں ضرور لوں گا‪.....‬مگر فلحال تو قبیلے‬
‫والوں کی مدد کر رہا ہوں۔ کل ہل چالئے گئے ہیں‬
‫‪97‬‬
‫زمینوں میں۔ اِدھر سے واپس جا کر موسمی فصل‬
‫بیجواؤں گا۔ان سب سے فری ہو کر اس گلریز خان کو‬
‫سبق سکھاؤں گا۔" وہ نوالہ بناتے ہوئے بوال۔‬
‫"یار یہ بورنگ باتیں چھوڑو۔ یہ بتا تو شادی کب کر‬
‫رہا ہے؟" ایک دوسرے دوست کے استفسار پر وہ‬
‫مبہم سا مسکرا دیا۔‬
‫"ہاں خان! اب شادی کر لے۔ ہم سب بچوں والے ہیں‬
‫اور تو ابھی کنوارا گھوم رہا ہے۔" تیسرے نے کہا۔‬
‫"کر لوں گا شادی بھی‪ ،‬کون سا بوڑھا ہوا جا رہا ہوں۔‬
‫ابھی مجھ پر بہت زمہ داریاں ہیں‪ ،‬شادی کی کوئی‬
‫گنجائش نہیں۔" اس نے نہایت کوفت بھرے لہجے میں‬
‫آخری فقرہ کہا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے بھئی تم نہیں ہم تو بوڑھے ہو رہے ہیں۔"‬
‫"اسی لیے تو میں شادی نہیں کر رہا کہ شادی کے بعد‬
‫بوڑھا ہو جاتا ہے بندہ۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا تو‬
‫سب ہنس دیئے۔‬

‫‪98‬‬
‫"غصے میں جتنا ہینڈسم لگتا ہے‪ ،‬ہنستے ہوئے کئی‬
‫گنا زیادہ ہی لگتا ہے۔" وہ ٹکٹکی باندھے اسے‬
‫دیکھے جا رہی تھی۔‬
‫وہ لوگ کھانا کھانے کے بعد اٹھ کر باہر نکل گئے‬
‫تھے۔‬
‫وہ بھی تیزی سے اٹھ کر دھابے سے جیسے ہی نکلی‬
‫ان سب کو اپنی گاڑی کے قریب رکے دیکھا۔‬
‫"خان! یہ گاڑی تمہارے خان پور سے ہی ہمارے‬
‫پیچھے آ رہی ہے کس کی گاڑی ہے؟"‬
‫"خان پور میں سے کسی کی نہیں۔" وہ نمبر پلیٹ‬
‫دیکھتے ہوئے بوال پھر پلٹ کر پیچھے دیکھا تو زری‬
‫نے خوف زدہ ہو کر تیزی سے رخ پھیر لیا۔‬
‫"کون ہو تم؟" وہ اس کے سر پر پہنچ چکا تھا اور‬
‫پیچھے سے اس کی گردن دبوچ لی۔‬
‫وہ کراہ کر رہ گئی۔‬
‫"م میں ہوں سردار سائیں! پلیز لیو می۔" وہ تیزی‬
‫سے بولی۔‬

‫‪99‬‬
‫لڑکی کی آواز سن کر وہ بری طرح سے چونکا اور‬
‫ہاتھ کھینچ کر پیچھے ہٹا۔‬
‫اس کے دوست دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کہ کون‬
‫لڑکی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔‬
‫"تم؟ یہاں؟ میرا پیچھا کیوں کر رہی ہو؟" وہ جیسے‬
‫ہی پلٹی دالور خان بھڑکا۔‬
‫"کوئی کسی کا پیچھا کیوں کرتا ہے؟" وہ اس پر‬
‫نگاہیں ٹکائے بولی۔‬
‫"دیکھو لڑکی میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا‪"....‬‬
‫"سردار سائیں! میں نے کون سی ایسی گستاخی کی‬
‫ہے جو آپ اس طرح بےرخی برتتے ہیں؟ ہر چاہنے‬
‫والے کی محبت کا جواب محبت سے دیتے ہیں‪،‬‬
‫مجھے وہ بھی نہیں چاہیے محض آپ کو دیکھنے کی‬
‫خواہش ہے۔"‬
‫وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بےچینی سے گویا ہوئی۔‬
‫" چلو گائز‪ ......‬شی از مینڈلی سیک۔" وہ بنا مزید اس‬
‫پر ایک بھی نگاہ ڈالے پلٹ گیا۔‬

‫‪100‬‬
‫"اب ہمارا پیچھا کیا تو جان سے مار ڈالوں گا۔" وہ‬
‫اپنی جیپ کی جانب بڑھتا سختی سے بوال۔‬
‫"اب کیا کروں؟" وہ خود سے بولی۔‬
‫تبھی اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا تھا۔‬
‫تیزی سے آگے بڑھی اور اپنی گاڑی کے ٹائر میں‬
‫سے ہوا نکالنے لگی۔‬
‫تب تک اس کی جیب اسٹارٹ ہو چکی تھی۔‬
‫"خان! وہ پاگل لڑکی اپنی گاڑی کے ٹائر میں سے ہوا‬
‫نکال رہی ہے۔"‬
‫"نکالنے دو۔تم لوگ بیٹھو۔" اس نے جھنجھال کر کہا۔‬
‫"یار یہ سنسان جگہ ہے‪ ،‬دور دور تک کوئی بھی‬
‫ایسی جگہ نہیں جہاں سے وہ ٹائر میں ہوا بھروا‬
‫سکے گی۔"‬
‫"تم لوگوں کو زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے اس لڑکی‬
‫سے؟ تو جاؤ جا کر کرو مدد۔" وہ سختی سے بوال۔‬
‫" سردار سائیں! میں نے تو سنا تھا آپ عزتوں کے‬
‫رکھوالے ہیں۔"‬

‫‪101‬‬
‫"تمہارے رکھوالے تمہیں قابو میں نہیں رکھ سکتے‬
‫تو اس میں ہم کیا کریں۔ کم آن بوائز جلدی سے گاڑی‬
‫میں بیٹھو۔"‬
‫"پلیز بھائی لوگ اپنے اس گھمنڈی دوست سے‬
‫درخواست کر دو کہ مجھے اپنی اتنی بڑی گاڑی میں‬
‫تھوڑی سی جگہ دے دے۔" وہ معصومیت سے بولی۔‬
‫"سردار سائیں! آپ کو مجھ سے محبت نہ ہو جائے‬
‫اس لیے ڈر رہے ہیں؟" اس نے جب بات بنتی نہ‬
‫دیکھی تو نیا پتہ پھینکا۔‬
‫دالور خان نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی۔‬
‫جینز پر گھٹنوں سے اوپر جاتی شرٹ اس پر ہُدی‬
‫پہنے وہ مغربی لباس والی لڑکی اسے زہر لگی تھی۔‬
‫"تم جیسی لڑکیوں سے ہم جیسے سردار کبھی محبت‬
‫نہیں کرتے جنہیں اپنی عزت و آبرو کا ہی لحاظ نہ ہو‪،‬‬
‫وہ بیگم سردار جیسے عہدے کے قابل کہاں۔"‬
‫اس کے لہجے میں نہ نفرت تھی نہ محبت سپاٹ لہجے‬
‫میں کہتے ہوئے وہ اپنے دوست کی جانب متوجہ ہوا۔‬

‫‪102‬‬
‫"تم لوگ رکو۔ ہم آگے جا کر کسی مکائینک کو‬
‫بھیجتے ہیں۔" سنجیدگی سے کہہ کر گاڑی بھاگا لے‬
‫گیا۔‬
‫"تم لوگوں کے دوست کو لڑکیوں سے الرجی ہے‬
‫کیا؟"‬
‫وہ منہ بسور کر استفسار کرتی اپنی گاڑی کے فونٹ‬
‫پر بیٹھ گئی۔‬
‫"کچھ ایسا ہی ہے۔مگر آپ کون؟"‬
‫"میں زرمینہ ہوں سردار سائیں کے دشمنوں کی‬
‫لڑکی۔" اس نے اطمینان سے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے‬
‫کہا تو وہ چاروں چونک کر اسے دیکھنے لگے۔‬
‫"مگر میں دشمن نہیں ہوں۔" اس مرتبہ کچھ اور انداز‬
‫میں اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔‬
‫"اچھا ایک بات بتاؤ تم لوگ۔ خان کی زندگی میں کوئی‬
‫لڑکی؟ کوئی گرلفرینڈ؟ افیئر؟ یا وہ بروکن ہارٹ ہے؟"‬
‫"بی بی اس کی زندگی میں ان سب کے لیے وقت ہی‬
‫نہیں ہے۔ ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا‬

‫‪103‬‬
‫کرے مگر وہ ہے کہ ان سب ریلیشن شپ سے دور‬
‫بھاگتا ہے۔" ان کی بات پر وہ ہنس دی تھی۔‬
‫"آپ اسے پسند کرتی ہیں؟"ایک لڑکے کے استفسار‬
‫پر اس نے بےحد غصے سے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"دیوانی ہوں اس کی۔ نظر نہیں آتا کہ اتنی دور بنا‬
‫کسی سے ڈرے پیچھے پیچھے آ گئی ہوں۔" سختی‬
‫سے کہا تو وہ محض سر ہال گئے کہ یہ تو واقع ہی‬
‫تھوڑی نہیں‪....‬بہت زیادہ پاگل ہے۔‬
‫"ویسے کیا لگتا ہے میرا چانس ہے؟" اس نے‬
‫مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫ان سب نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر‬
‫اسے۔‬
‫"ہرگز نہیں۔"‬
‫"جانتی ہوں‪ ،‬مجھے چانس نہیں چاہیے بس اس کی‬
‫بن کر رہنا چاہتی ہوں۔" وہ پٹر پٹر بول رہی تھی اور‬
‫وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں سن رہے تھے۔‬
‫وہ ریڈی ہو کر مبہم سی مسکراہٹ لیے گنگناتی ہوئی‬
‫سیڑھیاں اترنے لگی۔‬
‫‪104‬‬
‫"ارے کیا لگ رہی ہو یار‪".....‬‬
‫کائنات ابھی گیلری سے نکل ہی رہی تھی کہ اچانک‬
‫سے چھوٹی چاچی کے کمرے سے ان کے بھائی کا‬
‫صاحب زادہ نمودار ہو کر ٹھیک اس کے سامنے آ‬
‫کھڑا ہوا تو وہ خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی۔‬
‫اس وقت گھر کا یہ حصہ بلکل سنسان اور تاریک‬
‫تھا‪،‬ہال میں روشن الئٹوں کی روشنی یہاں تک تھوڑی‬
‫بہت پڑ رہی تھی۔ کائنات ڈر کے مارے سپید پڑنے‬
‫لگی۔‬
‫"میرے راستے سے ہٹو۔" وہ ہمت پیدا کرتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"نہ جی‪.....‬جی بھر کر دیکھ تو لینے دیں اس چاند‬
‫سے روشن چہرے کو۔" وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا‬
‫اور وہ پیچھے ہٹ رہی تھی۔‬
‫وہ اچانک ہی اس کے عقب سے نکلنے لگی تو اس‬
‫لڑکے نے کائنات کی کالئی تھام کر اپنی جانب کھینچا۔‬

‫‪105‬‬
‫"مجھ سے ہوشیاری مت کرو لڑکی چپ چاپ میری‬
‫بات مان لو۔" اس خبیث کی گھٹیا سرگوشی کان میں‬
‫جیسے ہی پڑی وہ چکرا کر رہ گئی۔‬
‫"کوئی ہے‪.....‬ہیلپ می‪......‬کوئی‪ "....‬اس سے پہلے‬
‫کہ وہ مزید چیختی اس شخص نے اس کے منہ پر اپنا‬
‫بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے‬
‫بالوں کو زور سے کھینچا۔ہاتھوں میں پہنے گجروں‬
‫سے کئی پھولوں کی پتیاں ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئی‬
‫تھیں۔‬
‫وہ اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا کہ‬
‫اچانک اسے پیچھے قدموں کی چھاپ سنائی دی۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ بھاگنے کی کوشش کرتا شیری‬
‫نے اسے آ دبوچا تھا۔‬
‫"ہمارے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہو؟‪......‬جان سے‬
‫مار دوں گا۔"‬
‫کائنات اپنے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی دوپٹے کو‬
‫زمین سے اٹھا کر چھپانے کی کوشش کرتی بھری‬
‫بھری ریت کی مانند زمین پر ڈھے سی گئی۔‬

‫‪106‬‬
‫وہ ویران ساکت آنکھوں سے شیری کو دیکھ رہی تھی‬
‫جو اس لڑکے کو زمین پر لٹائے اس پر بیٹھا مکے‬
‫‪،‬گھوسوں سے اس کی درگت بنا رہا تھا۔‬
‫"م معاف کر دیں شیری بھائی! میں تو بس کائنات کو‬
‫ڈرا رہا تھا۔ سچ میرا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا۔" وہ‬
‫اپنی جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا تھا۔‬
‫شیری نے ایک اور زور کا مکا اس کے منہ پر‬
‫برسایا تھا اور اس کا گریبان تھام کر جھنجھوڑ کر‬
‫کھڑا کیا۔‬
‫"اب اور آئندہ کبھی بھی مجھے تم اس گھر میں نظر‬
‫آئے تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا ساری زندگی یاد‬
‫رکھو گے دفع ہو جاؤ ابھی‪ ".....‬وہ دانتوں پہ دانت‬
‫جمائے خونخوار نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے‬
‫بوال اور اسے پیچھےدھکیل کر کائنات کی جانب بڑھا۔‬
‫"کائنات!" اس کے قریب پیروں پر وزن دے کر وہ‬
‫بیٹھتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کےنرمی‬
‫سے بوال تو وہ یوں کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی جیسے‬
‫بھوت دیکھ لیا ہو۔‬

‫‪107‬‬
‫"ریلکس‪.....‬کچھ نہیں ہوا۔ چلو اٹھو شاباش‪".....‬‬
‫وہ نرمی سے اسے شانوں سے تھام کر اٹھاتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫"وہ ‪......‬وہ مجھے ‪.....‬مجھے‪ ".....‬وہ اٹھ کر کھڑے‬
‫ہوتے ہوئے اسے بتانے کی کوشش کرتی کرتی پھوٹ‬
‫پھوٹ کر روتی شیری کے شانے سے لگ گئی۔‬
‫"کائنات! کچھ بھی نہیں ہوا۔ تم نے دیکھا نہیں میں‬
‫نے اسے کتنا مارا۔ چلو اب آنسو پونچھو۔"‬
‫وہ اس کا سر سہالتے ہوئے بوال۔‬
‫شاہزیب اپنا فون کمرے میں بھول گیا تھا ہال سے‬
‫جیسے ہی سیڑھیاں چڑھنے لگا گیلری سے کائنات کی‬
‫چینخ سنائی دی تھی وہ تیزی سے اس جانب بڑھا۔‬
‫"شیری بھائی! وہ ‪....‬وہ پھر آ جائے گا۔ پ پلیز‬
‫مجھے بچا لیں‪ .....‬وہ وہ میرے بال‪.....‬میرے بال‬
‫نوچ‪ ".....‬وہ ہچکیوں کے درمیان بتانے کی کوشش‬
‫میں ہلقان ہوتی ہوتی اچانک ہی گرنے لگی تھی کہ‬
‫شیری نے تیزی سے اسے شانوں سے تھام لیا۔‬

‫‪108‬‬
‫"کائنات‪ !.....‬کیا ہوا؟" وہ فکرمندی سے اس کی‬
‫رخساروں کو تھپتھپاتے ہوئے گویا ہوا۔‬
‫"یہ تو بےہوش ہو گئی۔" وہ تیزی سے اسے اٹھا کر‬
‫پلٹا اور گیلری سے چڑھتی سیڑھیاں عبور کرتا اس‬
‫کے کمرے تک پہنچا۔‬
‫"کائنات! آنکھیں کھولو۔"‬
‫شیری نے پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے اس کی‬
‫رخساروں کو تھپکا۔‬
‫کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئی تھی۔‬
‫"تم ایسا کرو کچھ دیر ریسٹ کر لو پھر نیچے آ جانا۔"‬
‫وہ اسے ہوش میں آتے دیکھ سکھ کا سانس لے کر‬
‫گویا ہوا۔‬
‫"شیری بھائی! پلیز مجھے اکیلے نہیں رہنا آپ حور‬
‫کو کال کر کے بال دیں۔" وہ جیسے ہی جانے لگا‬
‫کائنات وحشت سے بولی۔‬
‫"میرا فون تو روم میں ہے میں لے‪".....‬‬
‫"نہیں آپ میرے فون سے فون کر لیں۔پلیز۔"‬

‫‪109‬‬
‫وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔‬
‫شیری کا بلکل بھی موڈ نہیں تھا حور کے منہ لگنے‬
‫کا مگر وہ کائنات کی کیفیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے‬
‫ڈریسنگ پر پڑے اس کے فون کی جانب بڑھا۔‬
‫"ہیلو‪".....‬‬
‫کال اٹھا لی گئی تھی مگر پیچھلے لگے ڈیک کی آواز‬
‫اس قدر بلند تھی کہ شیری نے بےاختیار فون کان‬
‫سے ہٹایا۔‬
‫"ہاں بولو کائنات! میں فائزہ ہوں حور ڈانس کر رہی‬
‫ہے۔"‬
‫وہ سٹیج کے قریب سے ہٹتے ہوئے منہ کے آگے ہاتھ‬
‫رکھ کر بلند آواز میں بولی تھی شیری نے کال کاٹ‬
‫دی۔‬
‫"کیا ہوا وہ آ رہی ہے؟"‬
‫"وہ ڈانس کر رہی ہے۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے‬
‫فون واپس ڈال چکا تھا۔‬
‫"اوہ‪ ".....‬وہ اٹھنے لگی۔‬

‫‪110‬‬
‫"کہاں جا رہی ہو؟"‬
‫"میں ٹھیک ہوں اب شیری بھائی! ذرا اپنی حالت‬
‫درست کر لوں پھر نیچے چلیں گے۔" وہ دوپٹہ اچھے‬
‫سے خود پر پھیالئے شیشے کے سامنے جا کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫شیری دائیں جانب پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔‬
‫چٹیا کھولتے اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔‬
‫جس لڑکی کو کسی نے آج تک پھول نہیں مارا تھا‬
‫ایک درندے نے اسے بری طرح سے جھنجھوڑ دیا‬
‫تھا۔‬
‫اس کے بالوں کو نوچا تھا۔‬
‫اگر شیری نہیں آتا تو اس وقت وہ کہاں ہوتی؟‬
‫یہ خیال آتے ہی اس نے جھٹ سے گردن گھما کر‬
‫شیری کی جانب دیکھا جو میز پر سے اس کی کوئی‬
‫کتاب اٹھائے ورق گردانی کر رہا تھا۔‬
‫"حور! تم کتنی خوش قسمت ہو‪ ،‬تم شیری بھائی‬
‫جیسے بہترین شخص کی زندگی میں شامل ہونے جا‬
‫رہی ہو۔" وہ سوچتے ہوئے مبہم سا مسکرائی تھی۔‬
‫‪111‬‬
‫شیری نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"کائنات! تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ایسا کرو تم‬
‫کچھ دیر آرام کر لو۔"‬
‫وہ اس کے کانپتے وجود کو دیکھ چکا تھا۔‬
‫"ن نہیں میں‪"......‬‬
‫" کچھ دیر آرام کر لو۔ ڈانس بعد میں کر لینا‪ ....‬ساری‬
‫رات فنکشن چلنے واال ہے۔"‬
‫وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں بوال۔‬
‫"آپ کو کس نے کہا میں نے ڈانس کرنا ہے؟ مجھے‬
‫نہیں آتا یہ ڈانس وانس‪ .....‬آپ کو آتا؟"‬
‫وہ اس کے لہجے کو سمجھ نہیں پائی تھی تبھی اس‬
‫سے استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"مجھے پسند نہیں ہے یہ سب۔اور اچھی بات ہے کہ‬
‫تم اس سب سے دور ہو۔" وہ کتاب دوبارہ سے چہرے‬
‫کے سامنے کر چکا تھا۔‬
‫کائنات اس کی بات رد نہیں کر سکتی تھی تبھی واپس‬
‫پلٹ کر بیڈ پر جا بیٹھی۔‬

‫‪112‬‬
‫"شیری بھائی! ایک بات پوچھوں۔" وہ چند پل کی‬
‫خاموشی کے بعد بولی۔‬
‫"ہوں۔" مصروف سا انداز۔‬
‫"کیا آپ کو اپنے بابا کے بارے میں جاننے کا اشتیاق‬
‫نہیں ہوتا؟ کہ وہ کون تھے؟ کہاں ہیں؟" اس کی بات‬
‫پر شیری کے ہاتھ صفحہ پلٹتے رک گئے تھے۔‬
‫"نہیں۔" وہ بےتاثر لہجے میں بوال۔‬
‫"شیری بھائی! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔" وہ کچھ‬
‫سوچتے ہوئے بولی۔‬
‫شیری نے ایک نظر اس کے جھکے سر پر ڈالی۔‬
‫"کہو‪ ،‬کیا کہنا ہے؟" وہ کتاب واپس رکھتے ہوئے‬
‫پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔‬
‫"آپ بہت اچھے ہیں شیری بھائی! مگر یہاں کوئی بھی‬
‫آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔"‬
‫اس کی بات پر وہ مبہم سا مسکرایا۔‬
‫"کیا تم بھی مخلص نہیں ہو؟"‬

‫‪113‬‬
‫"نہیں نہیں‪.....‬میرا مطلب ہے میں اپنی بات نہیں کر‬
‫رہی‪.....‬میں ت تایا لوگوں کی اور ساگر بھائی لوگوں‬
‫کی بات کر رہی ہوں۔" وہ تیزی سے بولی۔‬
‫"دیکھو ڈیئر! آج کل کے دور میں یہاں منہ کے‬
‫میٹھے لوگ اندر سے سانپ جیسے زہریلے نکلتے‬
‫ہیں۔اسی لیے تمہیں ایک بھائی ہونے کے ناطے‬
‫سمجھاتا ہوں کہ سوچ سمجھ کر چال کرو۔"‬
‫وہ اس کی بات پر سر اثبات میں ہال گئی۔‬
‫"اور ہاں میری جاب کی ٹینشن نہیں لو۔ سی ایس ایس‬
‫کے ایگزامز کی تیاری تقریبا ً ختم ہو چکی ہے۔ پھر‬
‫تمہارا بھائی تمہارے کہہ مطابق ڈی سی پی کی سیٹ‬
‫پر بیٹھے گا۔"‬
‫وہ اس کی بات یاد کرتے ہوئے مسکرا دیا تو وہ ہنس‬
‫دی۔‬
‫ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے وہ بہت حد تک نارمل‬
‫ہو گئی تھی اور اب خود پر بلینکڈ اوڑھ کر لیٹ چکی‬
‫تھی کچھ دیر بعد ہی وہ نیند کی آغوش میں اتر گئی تو‬
‫شیری نے کتاب پر سے سر اٹھا کر اس پہ ایک نظر‬

‫‪114‬‬
‫ڈالی اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔دیوار پر لٹکی دروازے کی‬
‫چابی اتاری اور دروازہ باہر سے مقفل کر کے ایک‬
‫نگاہ بند دروازے پر ڈالی اور وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫اُس واقعے کو مخفی رکھا گیا تھا۔ شیری نہیں چاہتا‬
‫تھا کہ خاندان میں کوئی بھی کائنات کے متعلق باتیں‬
‫بنائے اور وہ خود بھی ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھی‪،‬‬
‫تبھی وہ سب کچھ بھول کر صبح پھر سے ہر کام میں‬
‫اسی طرح پیش پیش تھی جیسے پہلے ہوتی تھی۔‬
‫حاالنکہ بخار کی شدت وہ اپنے وجود پر محسوس کر‬
‫رہی تھی۔‬
‫آج ساگر کی بارات تھی۔ اور ساری لڑکیاں پالر گئی‬
‫ہوئی تھیں۔‬
‫حور نے اپنے پیسے بچائے اور اپنے ہاتھوں کا جادو‬
‫دکھاتے ہوئے اپنے پریوں جیسے حسن کو چار چاند‬
‫لگا دیئے۔‬
‫وہ کافی دیر تک آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتی‬
‫رہی‪ .....‬نہیں وہ خود کو نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ‬
‫شازار کے خیالوں میں اس قدر کھوئی کہ وقت سرکتا‬
‫گیا۔‬
‫‪115‬‬
‫آج کل وہ یوں ہی ہر شے سے بیگانی سے ہو گئی‬
‫تھی‪ ،‬دن با دن اس کی سوچیں بڑھتی جا رہی تھیں‬
‫اور وہ اپنے اردگرد سے غافل ہوتی جا رہی تھی۔‬
‫"نجانے شازار کو میں یاد بھی ہوں گی یا نہیں؟" وہ‬
‫افسردگی سی سر جھکائے سوچتی ہوئی کمرے سے‬
‫نکل گئی۔‬
‫"کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے‪ ،‬میں اسے اتنا‬
‫یاد کرتی ہوں وہ بھی تو کرتا ہو گا۔"‬
‫وہ ان ہی سوچوں میں گم چل رہی تھی کہ اچانک‬
‫سامنے سے آتے شیری سے بری طرح سے ٹکرائی۔‬
‫"سنبھل کر میڈم جی!" وہ طنزیہ انداز میں بوال۔‬
‫حور نے بےاختیار سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"کیا کہا دوبارہ کہنا پلیز‪ ".....‬وہ مسکراتے ہوئے‬
‫بولی تو شیری نے آنکھیں سکوڑے اسے گھورا۔‬
‫"کیا کہوں؟"‬
‫"یہ ہی میڈم جی۔ کہو نا۔" وہ بےچینی سے گویا ہوئی۔‬

‫‪116‬‬
‫"کیا‪ ،‬دماغ خراب ہو گیا ہے؟" وہ حیرانگی سے اسے‬
‫دیکھتا اس کے عقب سے نکل گیا۔‬
‫وہ حیران اس بات پر تھا کہ حور نے اس سے لڑائی‬
‫کیوں نہیں کی اس ایکسڈنٹ پر؟‬
‫"کائنات! میرے لیے ایک کپ گرین ٹی بنا الؤ جلدی‬
‫سے۔میری طبیعت ذرا عجیب ہو رہی ہے۔"‬
‫وہ جو بڑی تائی کو جیولری پہنا کر اپنے کمرے کی‬
‫جانب بڑھ رہی تھی کہ جا کر ریڈی ہو جائے چاچی کی‬
‫فرمائش پر وہ مسکرا کر وہاں سے ہی پلٹ کر کچن‬
‫کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫وہ جو چاچی کے پیچھے ہی کھڑا تھا ان کی فرمائش‬
‫پر پنج و تاب کھا کر تیز قدم اٹھاتا اس کے پیچھے‬
‫بڑھا۔‬
‫"اپنے کمرے میں جاؤ اور‪.....‬اور جلدی سے ریڈی ہو‬
‫کر پانچ منٹ میں نیچے آؤ۔"‬
‫وہ اس کے ہاتھ سے ساس پین کھینچتے ہوئے بوال۔‬
‫"کیا ہوا ہے شیری بھائی؟" وہ تشویش سے اس کی‬
‫جانب دیکھنے لگی۔‬

‫‪117‬‬
‫"میں نے جو کہا ہے وہ کرو۔ تم ان سب کی نوکر نہیں‬
‫ہو‪......‬میں نے کنتی مرتبہ سمجھایا ہے تمہیں کہ ان‬
‫سب کو سر پر مت چھڑاؤ اتنا۔" وہ اس کی آنکھوں‬
‫میں آنکھیں گاڑھے سخت لہجے میں بوال۔‬
‫"ٹھیک ہے مگر اتنا غصہ کیوں ہو رہے ہیں؟" وہ‬
‫ڈرتے ہوئے بولی۔‬
‫"اوکے نہیں ہوتا‪ ،‬اب جاؤ۔"‬
‫"مگر چاچی نے چائے‪".....‬‬
‫"سو مالزم ہیں گھر میں کسی سے کہہ دو۔ یہ جو‬
‫ت خلق کا شوق ہے نا اس کو ٹھنڈا رکھو۔"‬‫تمہیں خدم ِ‬
‫وہ سختی سے کہہ کر پلٹا‪ ،‬کچن کے دروازے میں‬
‫رکتے ہوئے وہ بوال۔‬
‫"صرف پانچ منٹ‪.....‬اس کے بعد مجھے تم گاڑی میں‬
‫بیٹھی نظر آؤ۔" وہ کہہ کر وہاں سے چال گیا اور وہ‬
‫اس کی چوڑی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔‬
‫"عجیب ہیں شیری بھائی بھی‪ ،‬کبھی دھوپ جیسے‬
‫سخت تو کبھی بارش‪.....‬جیسے نرم۔" وہ سوچ کر‬

‫‪118‬‬
‫مسکرائی اور کچن سے نکل کر ایک مالزمہ کو چائے‬
‫کا کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫پھر ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ اپنی لمبی فراک سنبھالے‬
‫بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔‬
‫وہ جو ہال میں کھڑا بڑے تایا کی کوئی بات غور سے‬
‫سن رہا تھا اس کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫لمبے آبشاروں کے جیسے ریشمی بال کمرے پر‬
‫بکھرے تھے‪ ،‬جیولری کے طور پر کانوں میں ننھے‬
‫سفید رنگ کے بوندے تھے اور ہاتھوں میں پھولوں‬
‫کے گجرے۔‬
‫دائیں ہاتھ میں سفید چادر تھامے وہ اس کی طے‬
‫کھولتے ہوئے اپنی والدہ سے کچھ کہہ رہی تھی‪ ،‬پھر‬
‫سر ہال کر مسکرا دی۔‬
‫ماں دائیں جانب بڑھ گئیں تو تایا کا سپوت اس کے‬
‫قریب آ رکا۔‬
‫"کائنات! یہ تم ہو؟" وہ پُرجوش انداز میں بوال تھا‬
‫کائنات مبہم سا مسکرا دی۔‬

‫‪119‬‬
‫"ان لڑکیوں کے اتنا میک اپ تھوپ رکھا ہے پھر بھی‬
‫تمہیں مات نہیں دے پائیں۔ ما شاءہللا۔" وہ مزاحیہ خیز‬
‫انداز میں بول رہا تھا جبکہ وہ کنفیوژ ہو رہی تھی‬
‫اسے ہمیشہ ہی نظروں میں آنے سے ڈر لگتا تھا۔‬
‫وہ ہمیشہ بیک گراؤنڈ میں رہنے والی لڑکی تھی مگر‬
‫آج کل نجانے سب کی نگاہیں اس پر ہی کیوں ٹھہر‬
‫رہی تھیں۔‬
‫"مگر تمہیں مات دینے والی بھی ہے۔" وہ اس کی‬
‫توجہ حور کی جانب کرتے ہوئے بوال۔‬
‫حور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے تمام کزنز کے ساتھ‬
‫سیلفیاں لے رہی تھی۔ اور وہاں موجود تمام لڑکیوں‬
‫میں وہ نمایاں تھی۔‬
‫"حور تو حور ہی ہے۔ایکسکیوز می‪ ،‬سیلفی کا موقع‬
‫گنوا دینا بیوقوفی ہو گی۔" وہ آنکھ دبا کر کہتا آگے‬
‫بڑھ گیا جبکہ کائنات نے سکھ کا سانس لیا۔‬
‫"تمہیں تنگ کر رہا تھا کاشف؟" وہ اس کے قریب‬
‫رکتے ہوئے بوال۔‬

‫‪120‬‬
‫"ارے آپ یہاں ہیں گاڑی کے پاس ہونا چاہیے تھا‬
‫نا‪....‬میں تو ابھی آنے ہی والی تھی۔" وہ چہکتے‬
‫ہوئے بات بدل گئی۔ وہ اس کی اس حرکت پر مبہم سا‬
‫مسکرا دیا۔‬
‫"آج کل کائنات اور شیری کی بہت بنتی ہے۔ خیریت‬
‫ہے نا؟" ایک کزن نے دوسری کے کن میں گھس کر‬
‫کہا۔‬
‫وہ ان کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫وہ ڈارک گرے چیک والے پینٹ کوٹ کے ساتھ سفید‬
‫شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔‬
‫شرٹ کا اوپر کا ایک بٹن کھال تھا ‪ ،‬دائیں ہاتھ کو پینٹ‬
‫کی جیب میں گھسائے وہ اپنے سفید دلکش چہرے پر‬
‫پیاری سی مسکراہٹ لیے کائنات سے کچھ کہہ رہا تھا۔‬
‫"مجھے تو نیا کپل لگتا ہے‪ ،‬ویسے کپل پیارا ہے۔"‬
‫پہلی نے ہی کہا تھا۔‬
‫"یہ کائنات جتنی بھولی بنتی ہے اتنی ہے نہیں‪ ،‬وہ‬
‫لڑکا جو کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا وہ اس‬
‫کے آگے پیچھے گھومتا نہیں تھکتا‪ .......‬اور کسی کو‬

‫‪121‬‬
‫بھی ان کی حرکتیں نظر نہیں آ رہیں۔" دوسری سلگی‬
‫تھی تو پہلی لڑکی ہنس دی۔‬
‫"میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں جانو! آخر تم‬
‫نے پاپڑ بھی تو بہت بیلے تھے شیری کو اپنی زلف کا‬
‫اسیر بنانے کے لیے۔ خیر جو قسمت میں لکھا‬
‫ہو‪".....‬‬
‫وہ مصنوعی افسردگی سے بولی۔‬
‫شیری دائیں جانب گردن گھمائے کزنز کے اس گروپ‬
‫کو دیکھنے لگا وہ آپس میں ہنسی مذاق کر رہے‬
‫تھے‪ ،‬کائنات نے محسوس کیا تھا کہ شیری کے‬
‫چہرے پر سنجیدگی چھائی تھی۔‬
‫"ہم بھی چلیں ان کے پاس؟" وہ سرگوشی میں بولی۔‬
‫"نہیں‪.....‬دور سے ہی اچھے لگ رہے ہیں پاس گئے‬
‫تو سب کچھ برا لگے گا۔ان سب کے دلوں میں ایک‬
‫دوسرے کے لیے ایسی محبت نہیں ہے جیسی ظاہر کر‬
‫رہے ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے عجیب سے لہجے میں‬
‫گویا ہوا تو وہ سر جھکا کر خاموش سی ہو گئی۔‬
‫"کائنات! میری بات سنو بیٹا۔" ماں نے بالیا۔‬

‫‪122‬‬
‫"میں ابھی آتی ہوں شیری بھائی!" وہ کہہ کر آگے‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫"مسٹر شاہزیب احمد!‪.....‬تم اپنی حدود میں‬
‫رہو‪.....‬اور میری بہن سے دور رہو نہیں تو مجھ سے‬
‫برا کوئی نہیں ہو گا۔"‬
‫وہ اس کے سامنے رکتے ہوئے سخت لہجے میں گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"کیا مطلب؟" وہ پیشانی پر بل لیے گویا ہوا۔‬
‫"میرا مطلب تو تم اچھے سے جانتے ہو‪ ،‬اب انجانے‬
‫بننے کی کوشش مت کرو۔" وہ سنجیدگی سے کہہ کر‬
‫پھوں پھاں کرتی واپس پلٹ گئی۔‬
‫شیری ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ کائنات اس کے‬
‫سامنے آ رکی۔‬
‫"کائنات بیٹی! چادر اتار دو‪ ،‬اتنا پیارا ڈریس پہنا ہے‬
‫سارا چھپ گیا ہے۔" کسی خاتون نے اسے شانے سے‬
‫تھام کر اپنی جانب متوجہ کیا تھا‪،‬وہ خاموش سی ہو‬
‫گئی۔‬

‫‪123‬‬
‫آنٹی وہاں سے چلی گئیں۔ لوگ باہر کی جانب بڑھ رہے‬
‫تھے۔‬
‫"چلو کائنات!" حور اس کی کالئی تھامے اپنے ساتھ‬
‫کھینچ لے گئی۔‬
‫"تم بیٹھو چل کر گاڑی میں‪ ،‬میں آتی ہوں تھوڑی دیر‬
‫تک۔"‬
‫وہ اسے ہائی روف کے پاس چھوڑ کر واپس پلٹ گئی۔‬
‫وہ خاموشی سے ایک نظر بہت دور کھڑے شیری پر‬
‫ڈال کر گاڑی میں سوار ہو گئی۔‬
‫"ہائے بیوٹیفل گرل۔" کاشف اس کے ساتھ جڑ کر‬
‫بیٹھتے ہوئے بوال تو وہ بری طرح سے ڈر گئی تھی‪،‬‬
‫اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہاں موجود سب‬
‫کزنز ہنس دیئے۔‬
‫"کیا ہوا؟ بھوت دیکھ لیا کیا؟" وہ ہنستے ہوئے بوال۔‬
‫کائنات کو گھٹن سی ہونے لگی۔ وہ ان سب میں کبھی‬
‫فٹ نہیں ہوئی تھی‪ ،‬وہ ہمیشہ ہی کزنز کے گروپ سے‬
‫دور رہی تھی کیونکہ اسے ان کی باتوں ‪،‬رویوں سے‬
‫عجیب سی الجھن ہوتی تھی۔‬

‫‪124‬‬
‫اور اس وقت اسے رات واال واقع یاد آ گیا تھا اور پورا‬
‫جسم ڈر کے مارے شل سا ہو گیا۔‬
‫سب کزنز گاڑی میں سوار ہو چکے تھے مگر حور‬
‫ابھی تک نہیں آئی تھی اس آنکھوں میں ڈھیروں پانی‬
‫بھر گیا۔کاشف کے ساتھ دو تین لڑکے لڑکیاں آ کر‬
‫بیٹھے تو وہ اس سے مزید چپک گیا۔‬
‫"سوری سویٹ گرل‪ ،‬مینج کرنا پڑے گا۔" وہ بازو اس‬
‫کی سیٹ کی پشت پر پھیالئے یوں بیٹھا تھا کہ وہ اس‬
‫کے سینے سے آ لگ رہی تھی وہ اٹھنے سے بھی‬
‫گئی‪ ،‬سر جھکائے آنسوؤں پر قابو پاتی خود میں‬
‫سمٹتی جا رہی تھی۔‬
‫"تم شرماتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو۔" وہ اس کے‬
‫کان کے قریب منہ لے جا کر گھمبیر لہجے میں بوال تو‬
‫وہ مٹھیاں بھینچ کر تھوڑا سا پرے سرکی مگر کوئی‬
‫فایدہ نہیں ہوا۔‬
‫کائنات اس کے لب و لہجے سے اس کے ارادوں کو‬
‫بھانپ چکی تھی‪......‬وہ ایک عورت تھی اور عورت‬
‫کی چھٹی حس بتا دیتی ہے کہ مرد کس انداز میں‬
‫اسے دیکھ رہا ہے‪ ،‬اس کے ارادے کیا ہیں۔‬
‫‪125‬‬
‫"اترو سب نیچے۔" گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ شیری‬
‫نے زور سے گاڑی پر ہاتھ مار کر گاڑی روکی اور‬
‫دروازہ کھول کر ان سب سے کہا۔‬
‫"کیا ہوا شیری بھائی؟" ایک لڑکی نے استفسار کیا۔‬
‫کائنات نے نم آنکھوں سے سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫"تم سب نیچے اترو۔" اس نے دوبارہ سے کہا تھا۔‬
‫"کائنات! آؤ۔"‬
‫اس نے نرمی سے اسے پکارتے ہوئے اس کی جانب‬
‫اپنا ہاتھ بڑھایا تھا۔‬
‫کاشف تلمال کر نیچے اترا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے اٹھی اور اس کا ہاتھ تھام کر نیچے‬
‫اترنے لگی تو اچانک پاؤں سلیپ ہوا اس سے پہلے‬
‫کہ وہ منہ کے بل گرتی شیری نے اس تھام لیا۔‬
‫پھر وہ اس کا ہاتھ تھامے اپنی گاڑی تک پہنچا تھا۔‬
‫"تھینک یو شیری بھائی!" وہ آنسو پونچھ کر روندے‬
‫ہوئے لہجے میں بولی۔‬

‫‪126‬‬
‫"کائنات! یہ جو خاموشی ہے نا بندے کو تباہ بھی کر‬
‫دیتی ہے۔"‬
‫وہ گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھولتے ہوئے بوال۔‬
‫"ماں کہاں ہیں؟ وہ تو آپ کے ساتھ جانے والی تھی‬
‫نا؟"‬
‫"وہ ماموں لوگوں کے ساتھ چلی گئی ہیں۔انہوں نے‬
‫ہی مجھے کہا ہے کہ تمہیں ساتھ لے آؤں۔" اس کے‬
‫کہنے پر وہ اسے ایک نظر دیکھ کر گاڑی میں بیٹھ‬
‫گئی تھی۔‬
‫شیری دروازہ بند کرتا گاڑی کے سامنے سے گھوم کر‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔‬
‫وہ پرسکوں سی سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے‬
‫آنکھیں موندے ہوئے تھی۔‬
‫"اب تو پیچھلے ایک مہینے سے ہر روز کچھ نہ کچھ‬
‫میرے ساتھ برا ہو رہا ہے۔" اس کے آنسو ابھی بھی‬
‫خشک نہیں ہوئے تھے۔‬

‫‪127‬‬
‫"شیری بھائی! آپ ہمیشہ میری حفاظت کریں گے نا؟"‬
‫وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے معصومیت سے گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"نہیں کائنات! ہمیشہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔‬
‫تمہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ یہ دنیا معصوم اور‬
‫خاموش لوگوں کو ہالک کرنے ‪ ،‬یا نگلنے سے پرہیز‬
‫نہیں کرتی۔تمہیں تھوڑا بہادر بننا پڑے گا۔"‬
‫وہ اسے سمجھا رہا تھا اور وہ منہ پر ہاتھ رکھے‬
‫روئے جا رہی تھی۔‬
‫"میں چھوٹی سی تھی جب ماں نے کہا تھا کہ اگر تم‬
‫لوگ اپنے ابو کے گھر رہنا چاہتیں ہو تو سب کی بات‬
‫ماننی ہو گی‪ ،‬اور خاموش رہنا ہو گا۔زیادہ بولنے والی‬
‫لڑکیوں کو بدتمیز کہتے ہیں۔ وہ باتیں میرے دل میں‬
‫ایسی بیٹھیں کہ میں اب بول ہی نہیں سکتی۔"‬
‫وہ اب خاموش ہونے لگی تھی۔ مگر وجود خوف سے‬
‫ابھی بھی کانپ رہا تھا‪،‬اسے اپنے اس کان کی لو‬
‫سلگتی محسوس ہو رہی تھی جس میں کاشف‬
‫سرگوشیاں کرتا رہا تھا۔وہ بار بار کان کو مسل رہی‬
‫تھی مگر وحشت کم نہیں ہو پائی۔‬
‫‪128‬‬
‫"تم اب بچی نہیں رہی۔ تمہیں اگر کاشف کے ساتھ‬
‫بیٹھنا نہیں تھا تو کہہ نہیں سکتی تھی؟ دیکھو کائنات‬
‫تمہیں خود کو بدلنا ہو گا۔"‬
‫وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫"اگر تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کرے تو تم چپ چاپ‬
‫سہہ لو گی؟ نہیں کائنات! یہ تمہاری زندگی‬
‫ہے‪.....‬تمہاری زندگی کے ساتھ کھیلنے کا حق کسی‬
‫کو نہیں ہے۔"‬
‫اس کی باتیں وہ بہت غور سے سن رہی تھی۔‬
‫شیری نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا وہ‬
‫سینے پر ہاتھ لپیٹے سر جھکائے ہوئے تھی‪ ،‬اس کا‬
‫وجود کانپ رہا تھا۔‬
‫شاہزیب نے ہاتھ بڑھا کر ہیٹر آن کیا اور اپنا کوٹ اتار‬
‫کر کائنات کی جانب بڑھا دیا۔‬
‫پیچھلی سیٹ پر مٹھائیوں کے ڈبوں کا ڈھیر پڑا تھا‬
‫شیری نے سائیڈ مرر سے پیچھے دیکھا تو ہائی روف‬
‫پیچھے ہی تھی ابھی۔‬

‫‪129‬‬
‫"کارٹون دیکھو گی؟" وہ مسکراتے ہوئے بوال تو وہ‬
‫نم آنکھوں سے ہنس دی۔‬
‫"تمہارے فیورٹ پرنسس والے کارٹون ہیں۔"‬
‫شیری نے ہاتھ بڑھا کر کارٹون پلے کر دیئے۔‬
‫"چپس؟ یا پوپکارن؟" اس نے استفسار کیا۔‬
‫"چپس۔" کائنات نم آنکھوں سے مسکرا دی۔‬
‫"پیچھلی سیٹ پر پڑے ہیں اٹھا لو۔" وہ مسکراتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"شیری بھائی! آپ بہت اچھے ہیں۔" وہ بچوں کی مانند‬
‫خوش ہو گئی تھی۔‬
‫شیری محض مسکراتا رہا۔‬
‫بارات الہور سے رحیم یار خان جانی تھی اور رات‬
‫انہیں راستے میں ہو گئی تھی۔‬
‫"یہ زندگی بھی کتنی عجیب ہے نا شیری بھائی! کبھی‬
‫کوئی پل دکھ کا ہوتا ہے تو دوسرا ہی خوشی کا۔" وہ‬
‫اس کے سامنے چپس کا پیکٹ کرتے ہوئے بولی۔‬

‫‪130‬‬
‫"نہیں کائنات! تم ہی ایسی ہو۔ وگرنہ لوگوں کو تو‬
‫چھوٹے چھوٹے روگ زندگی بھر خوش نہیں ہونے‬
‫دیتے۔تم ایسی ہی رہنا۔" وہ گاڑی موڑتے ہوئے بوال۔‬
‫"کبھی کہتے ہیں بدل جاؤں کبھی کہتے ہیں ایسی‬
‫رہوں۔ پہلے خود فیصلہ کر لیں۔"‬
‫وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬میرا مطلب ہے بہادر بنو مگر اپنے اندر کے‬
‫زندہ انسان کو زندہ ہی رکھنا۔"‬
‫وہ نرمی سے گویا ہوا۔‬
‫"اتنے سارے کارٹون؟ آپ بھی دیکھتے ہیں کیا؟" وہ‬
‫ویڈیو پلیئر پر انگلی چالتے ہوئے گویا ہوئی۔‬
‫"ہاہاہا ہاں‪....‬مگر کسی کو بتانا نہیں۔"‬
‫وہ رازداری سے بوال تو وہ سر ہال گئی۔‬
‫یہ ایک یقین ہی ہوتا ہے جو سکون پیدا کرتا ہے۔‬
‫اور کائنات کو اس پر یقین تھا‪.....‬وہ پُرسکون سی‬
‫بیٹھی کارٹون مووی میں مگن تھی۔ساتھ ساتھ پوپکون‬
‫بھی کھا رہی تھی۔‬

‫‪131‬‬
‫شیری اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مطمئن ہو‬
‫گیا تھا۔‬
‫اسے کائنات کو خوش دیکھ کر دلی سکون محسوس‬
‫ہوتا تھا۔‬

‫تیرے خیال میں جو کھوئی‬


‫تو پھر یہ رات ڈھل گئی‬
‫نیند آنکھوں سے خفا ہوئی‬
‫تو پھر یہ رات ڈھل گئی‬
‫صم بیٹھی جو میں‬
‫تیری یاد میں گم ُ‬
‫تو پھر ایک صدی گزر گئی‬
‫میرا روم روم‬
‫میری دھڑکن دھڑکن‬
‫تیرے نام جو ہوئی تو پھر‪.....‬‬
‫تو‪....‬پھر یہ رات ڈھل گئی‬
‫تکیے پر سر جو رکھا‬

‫‪132‬‬
‫جگایا ہی تھا ابھی سپنوں کو‬
‫تیری یاد جو آئی‬
‫تو پھر یہ رات ڈھل گئی‬
‫جا بیٹھے دریجے میں‬
‫اٹھنے ہی لگے تھے کہ‬
‫سوچ بھٹکی میری‬
‫تو پھر یہ رات ڈھل گئی‬
‫ہر رات ایک ہی بات ستاتی ہے‬
‫کہیں یہ بھی نہ ڈھل جائے‬
‫بس تیری چاہ میں‬
‫جیسے ہماری پیچھلی‬
‫ہر رات ڈھل گئی‬

‫"تم شیری کے ساتھ آئی ہو؟"‬


‫وہ جو باتھروم کی جانب بڑھ رہی تھی حور کے آ کر‬
‫بازو کھینچ کر روکنے پر لڑکھڑا گئی۔‬

‫‪133‬‬
‫"میں جس کے ساتھ بھی آئی ہوں اس سے تمہیں‬
‫کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ تم تو مجھے وہاں گھٹیا‬
‫لوگوں کے ساتھ چھوڑ کر خود گاڑی میں آ گئی تھی‬
‫نا‪.....‬آئندہ میرے معامالت میں ٹانگ مت اڑنا۔"‬
‫وہ بھپری ہوئی شیرنی کی مانند بولی اور اس کا ہاتھ‬
‫جھٹک کر آگے بڑھ گئی‪ ،‬جاتے جاتے رکی اور اس کی‬
‫جانب پلٹی۔‬
‫"جن کزنز کو تم اچھا سمجھتی ہو اصل میں وہ سارے‬
‫ٹھرکی ہیں اور جو حقیقت میں اچھا ہے وہ تمہیں زہر‬
‫لگتا ہے۔ واقع ہی بہت عقلمند ہو تم حور! مجھے فخر‬
‫ہے اپنی ہونہار بہن پر جسے لوگوں کو پڑھنا آتا ہے۔"‬
‫وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر طنزیہ لہجے میں کہتی‬
‫وہاں رکی نہیں تھی۔‬
‫وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اس کے کانوں‬
‫سے مانوس سی آواز ٹکرائی۔یہ آواز دیوار کے پار‬
‫سے آ رہی تھی۔‬
‫"ش شازار‪....‬شازار! کیا یہ آپ ہیں؟"‬
‫وہ تیزی سے دیوار کے قریب گئی تھی۔‬

‫‪134‬‬
‫"شازار! م میری بات کا جواب دیں‪....‬کیا اس طرف آپ‬
‫ہیں؟" وہ بیوقوفوں کی مانند دیوار سے چپکی چال چال‬
‫کر اسے پکار رہی تھی۔‬
‫وہ جو فون پر کسی سے محو گفتگو تھا حیرانگی‬
‫سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔‬
‫پھر اس کا دھیان ہوٹل کے الن کی ساتھ فٹ کی دیوار‬
‫کی جانب گیا۔‬
‫وہ تیزی سے آگے بڑھا اور کرسی دیوار کے ساتھ‬
‫رکھ کر کرسی پر چڑھ گیا۔‬
‫"جی میڈم جی؟" وہ دیوار پر لٹکتے ہوئے بوال۔‬
‫حور دو قدم پیچھے ہٹ کے سر اٹھا کر اسے دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"آپ یہاں ہیں بتایا ہی نہیں۔"‬
‫"استاد کیسے بتاتے نمبر تو ہے نہیں ان کے پاس۔"‬
‫عاصم نے لقمہ دیا تو وہ گردن گھما کر اسے گھورنے‬
‫لگا۔‬
‫"ارے قاصم بھائی کیسے ہیں آپ؟"‬

‫‪135‬‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے باجی پر میرے استاد صاحب کچھ‬
‫ہ‬
‫دنوں سے ٹھیک نہیں ہیں۔" اس نے شرارت سے کہا‬
‫تھا۔‬
‫"اوئے چپ کر‪ ،‬جا جا کر ٹرک خالی کروا۔"‬
‫شازار نے اسے ڈانٹ کر بھیج دیا۔‬
‫"شازار! نیچے آ جائیں۔"‬
‫"پکا؟"‬
‫وہ اس پر نگاہ ڈالتے ہوئے بوال تبھی کائنات باتھروم‬
‫سے نکلی تھی۔‬
‫"میں اس طرف آتی ہوں۔ ابھی جائیں۔" وہ تیزی سے‬
‫گویا ہوئی تو شازار سر اثبات میں ہالتا واپس کود گیا۔‬
‫"کائنات! میری بات سنو!‪ ".....‬وہ اس سے رخ موڑے‬
‫جانے لگی تھی جب وہ اس کی جانب بڑھی۔‬
‫"مجھ سے فلحال دور رہو۔" وہ اس کے ہاتھوں کو‬
‫جھٹکتے ہوئے بولی۔‬
‫"اور تم اس شیری سے دور رہو۔" وہ دانتوں پہ دانت‬
‫جمائے بولی۔‬

‫‪136‬‬
‫"نہیں رہوں گی۔ تمہیں کوئی‪ .....‬مسئلہ؟" وہ ایک‬
‫غصیلی نگاہ اس پر ڈالتی وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ‬
‫سلگ کر رہ گئی۔‬
‫"میڈم جی!" تبھی اس نے اپنے پیچھے شازار کی‬
‫آواز سنی تو اپنی جگہ اچھل پڑی۔‬
‫"سوری میڈم جی پر اُدھر بہت اندھیرا ہے اسی لیے‬
‫میں یہاں ہی آ گیا۔"‬
‫وہ شرمندگی سے بوال۔‬
‫"کوئی بات نہیں۔ آپ اچانک سے آئے تو گھبرا گئی۔"‬
‫وہ مبہم سا مسکرا کر اسے ایک نظر دیکھ سر جھکا‬
‫گئی۔‬
‫وہ سوچتی رہی تھی کہ اگلی مالقات میں اسے جی بھر‬
‫کے دیکھے گی مگر اس وقت جب وہ اس کے روبرو‬
‫دیدار یار کی تاب سے ہی وہ سرخ ہوئے جا‬
‫ِ‬ ‫تھا تو‬
‫رہی تھی۔‬
‫"میڈم جی! یہ آپ کا جھمکا۔ ٹرک میں گر گیا تھا۔"‬

‫‪137‬‬
‫"ہاہاہا‪.....‬ارے نہیں یار! حور ادھر ہی ہے اس سے‬
‫پوچھ لو۔ اس نے ہی سٹیٹس لگایا ہے۔" اس کی کزنز‬
‫ہنستی ہوئی اس جانب آ رہی تھیں۔‬
‫"اوہ شیٹ‪......‬شازار! آپ پلیز جائیں‪.....‬وہ تیزی سے‬
‫آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے جھمکا تھام کر پلٹی‬
‫مگر ہاتھ اس کے ہاتھ میں دبا رہ گیا تبھی وہ اس کی‬
‫جانب کھینچتی چکی آئی۔‬
‫شازار بری طرح چونک کر اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے‬
‫دو قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫وہ جھمکا اسی کے پاس چھوڑتی وہاں سے بھاگ گئی‬
‫تھی وہ بھی بھاگ کر باتھروم کے پیچھلی جانب چھپ‬
‫گیا۔‬
‫اس نے نگاہیں دائیں جانب دوڑائیں تو اسے وہاں سے‬
‫راستہ نظر آیا جہاں سے مین روڈ نظر آ رہا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔‬
‫شازار کے قدموں کی رفتار خاصی تیز تھی۔‬
‫وہ وہاں سے نکال تو سامنے ہی دائیں جانب روشنیاں‬
‫ہی روشنیاں بکھری تھیں‪ ،‬وہ سیڑھیاں اتر کر جیسے‬

‫‪138‬‬
‫ہی راہداری پر آیا سامنے سے آتے شیری سے اس کا‬
‫شانا ٹکرایا تھا۔دونوں نے بیک وقت پلٹ کر ایک‬
‫دوسرے کو دیکھا۔‬
‫"سوری مین۔" وہ جو فون پر محو گفتگو تھا‬
‫سنجیدگی سے بوال۔‬
‫"اٹس اوکے۔" شازار نے اس کے چہرے کو بہت غور‬
‫سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫شاہزیب بنا رکے وہاں سے چال گیا تو شازار کسی‬
‫گہری سوچ سے ابھر کے نفی میں سر جھٹکتا آگے‬
‫بڑھ گیا۔‬
‫اس نے ہاتھ میں دبے جھمکے کو واپس کرتہ کی‬
‫جیب میں ڈال لیا تھا۔‬
‫وہ فجر کی نماز ادا کر کے صبح کی سیر کے لیے نکل‬
‫گیا۔‬
‫"الال! مجھے یہاں کے رواج نہیں پسند‪.....‬کیا آپ کو‬
‫اچھا لگتا ہے جب لوگ آپ کے سامنے سر جھکاتے‬
‫ہیں؟" پاس سے گزرتے آدمی نے سر جھکا کر سالم‬
‫کیا تو اس کی سماعتوں سے ایک آواز ٹکرائی۔‬

‫‪139‬‬
‫وہ ایک دم سے رک گیا۔‬
‫"کتنا عرصہ بیت چکا ہے چھوٹے تمہیں ڈھونڈتے‬
‫ہوئے۔ نجانے کہاں چال گیا ہے۔ اپنے الال کی یاد نہیں‬
‫آتی کیا؟" وہ بڑبڑایا تھا۔‬
‫پھر ٹھنڈی آہ بھر کے آگے بڑھ گیا۔‬
‫وہ نئی بیجی فصلوں کو دیکھنے آیا تھا مگر اب وہ‬
‫کافی آگے چال گیا تھا۔‬
‫قمیض کی جیب میں جب فون رنگ کیا تو اس نے فون‬
‫نکال کر کال اٹینڈ کی اور فون کان سے لگا لیا۔‬
‫"اسالم علیکم سر!"‬
‫"و علیکم السالم! کیسے ہو؟" وہ رک کر کال سننے‬
‫لگا۔‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے سر! آپ سنائیں؟"‬
‫ہ‬
‫"الحمدہلل۔ کچھ پتہ چال خان کا؟" اس نے استفسار کیا۔‬
‫"نو سر! میں نے سندھ کا ایک کونا نہیں چھوڑا‪،‬‬
‫الہور میں بھی آدمی بھیجے ہوئے تھے مگر خان‬

‫‪140‬‬
‫صاحب کا کوئی پتہ نہیں چال۔" سامنے سے مایوسی‬
‫بھرے لہجے میں جواب آیا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔" وہ مایوس ہو کر ضبط سے نیچلے لب‬
‫کو دانتوں تلے دبا گیا۔‬
‫"سر! آپ کب تک آ رہے ہیں اسالم آباد؟ کچھ‬
‫ڈاکومنٹس سائن کروانے تھے۔"‬
‫"کچھ دنوں تک آنے کی کوشش کرتا ہوں۔" اس نے‬
‫ّٰللا حافظ کہہ کر کال کاٹ دی۔‬
‫کہا اور ہ‬
‫کچھ دیر خالی دماغی سے وہاں ہی کھڑا غیر اہم‬
‫نقطے کو گھورتا رہا۔‬
‫"ایسے مت دیکھیں‪ ،‬پتھر پگھل نہ جائے کہیں۔"‬
‫اپنے عقب میں جانی پہچانی آواز سن کر وہ پنچ و تاب‬
‫کھا کر رہ گیا تھا تبھی تیزی سے قدم آگے بڑھا دیئے۔‬
‫وہ بھی مسکراتے ہوئے بھاگ کر اس کے پیچھے‬
‫بڑھی۔‬
‫"سردار سائیں! پلیز بات تو سنیں۔"‬

‫‪141‬‬
‫وہ التجاء آمیز لہجے میں گویا ہوئی مگر وہ رکا نہیں‬
‫تھا۔‬
‫بھاگتے ہوئے وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سے‬
‫گزر رہی تھی جب اچانک پاؤں پھسال اور وہ سنبھلتے‬
‫سنبھلتے بھی گھٹنوں کے بل گر چکی تھی۔‬
‫اس کی چینخ پر سردار دالور خان کے قدموں کی‬
‫رفتار آہستہ ہوئی اور انہوں نے پلٹ کر دیکھا۔‬
‫"افف یہ لڑکی‪.....‬نجانے کیا چاہتی ہے۔" وہ اکتائے‬
‫ہوئے انداز میں بڑبڑا کر پلٹا اور اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"کسی کے پیچھے بھاگنے سے یوں ہی منہ کے بل‬
‫گرتا ہے انسان۔"‬
‫وہ بنا کچھ کہہ روتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرتی‬
‫لڑکھڑا کر گرتی اس سے پہلے ہی اس نے تیزی سے‬
‫سردار دالور خان کا بازو تھام لیا۔‬
‫"ایم سوری سائیں! مگر انسانیت کے ناطے آپ کا‬
‫فرض بنتا ہے کہ زخمی انسان کی مدد کی جائے۔"‬
‫وہ سر جھکائے ہچکیوں کے درمیان بولی۔‬

‫‪142‬‬
‫سردار دالور خان نے سر جھکا کر اس کی ٹانگوں کو‬
‫دیکھا۔‬
‫بہت دھیرے سے گرنے کی وجہ سے بچ بچاؤ ہو گیا‬
‫تھا‪ ،‬پنڈلیوں سے سفید شرارے کے ساتھ ساتھ ٹانگوں‬
‫کی جمڑی بھی چھل چکی تھی‪،‬اس نے دوسرے ہی‬
‫لمحے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔‬
‫"سردار سائیں! اتنی بھی کیا نفرت؟ آخر میں نے آپ‬
‫کا کیا بگاڑا ہے؟"‬
‫وہ اس کے سہارے کھڑی تھی‪ ،‬اور وہ سوچ رہا تھا‬
‫کہ اس لڑکی کو دو لگا کر خود سے دور ہٹا دے جب‬
‫زرمینہ نے آنسوؤں میں غوطہ زن آواز میں استفسار‬
‫کیا۔‬
‫وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"اس دن آپ نے مجھے حقارت بھری نگاہوں سے‬
‫دیکھا تھا کیونکہ میں نے وہ لباس پہنا تھا جو آپ کو‬
‫پسند نہیں تھا‪......‬اسی دن ہی میں اپنی جینز‪ ،‬ٹی‬
‫شرٹ‪ ،‬سلیو لیس ڈریس سب کو آگ لگا دی۔ پرومائز‬
‫آئندہ کبھی میں ویسے لباس نہیں پہنوں گی۔" اس نے‬

‫‪143‬‬
‫برا ِہ راست دالور خان کی نیلی آنکھوں میں جھانکتے‬
‫ہوئے سچائی بھرے لہجے میں کہا تھا۔‬
‫"میں یہ نہیں کہوں گی کہ آپ مجھ سے محبت کریں‪،‬‬
‫مگر پلیز مجھے خود کو چاہنے سے مت‬
‫روکیں‪......‬مجھ سے بات مت کریں مگر اس طرح‬
‫حقارت سے مت دیکھیں۔" وہ تڑپ کر روتی ہوئی اس‬
‫کے شانے سے پیشانی ٹکا گئی۔‬
‫"اگر تم چاہتی ہو کہ تمہیں میں ہسپتال پہنچا دوں تو‬
‫اپنی زبان اور اپنی گھٹیا حرکتوں پر قابو پاؤ۔ نہیں تو‬
‫یہاں ہی چھوڑ کر چال جاؤں گا‪".....‬‬
‫وہ اپنا بازو کھینچتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے‬
‫گویا ہوا۔‬
‫وہ جو اس کے سہارے کھڑی تھی لڑکھڑا کر زمین‬
‫بوس ہو گئی۔‬
‫"آہ‪ "....‬وہ کراہ کر رہ گئی تھی۔‬
‫حیران کن نگاہوں سے اس کی سختی سے مچی‬
‫مٹھیوں کو دیکھتے ہوئے سر اٹھا کر اس کے بےتاثر‬
‫چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔‬

‫‪144‬‬
‫اظہار محبت کوئی تب ہی کرتا ہے جب‬
‫ِ‬ ‫"سردار سائیں!‬
‫وہ اپنے دل کے ہاتھوں بہت مجبور ہو جاتا ہے‪"......‬‬
‫وہ مردہ سی مسکراہٹ لیے گویا ہوئی۔‬
‫"ایک انا پرست لڑکی نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک‬
‫دیئے ہیں تو کیا یہ بات عجیب نہیں ہے؟"‬
‫وہ اس کی بات پر ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈال کر اس‬
‫کی جانب جھکا۔‬
‫"دیکھو لڑکی‪ ،‬میں تمہیں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں‬
‫اور اب دوسری مرتبہ سمجھا رہا ہوں۔" انگلی اٹھا کر‬
‫تنبیہہ کرتے ہوئے بوال۔‬
‫"تمہاری اس محبت کی میرے نزدیک کوئی ویلیو نہیں‬
‫ہے۔ جس طرح تم نے میرے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں‬
‫یہ ہی کسی اور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی تو اپنی‬
‫عزت و ناموس سے ہاتھ دھو بیٹھتی یہ میری شرافت‬
‫ہے کہ میں تمہاری جانب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا‬
‫اسی لیے یہ ہنر کسی اور کے سامنے دکھاؤ جو‬
‫شریف نہ ہو‪ ،‬جو تمہاری اس بےقرای کو ختم کر‬
‫سکے۔"‬

‫‪145‬‬
‫وہ تیزی سے بولے جا رہا تھا اور وہ اس کی بات کا‬
‫مطلب سمجھتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہو گئی۔‬
‫"آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا‪ ،‬یہ تمہارے لیے‬
‫بہتر ہو گا‪......‬یہ نہ ہو کہ پھر پچھتانا پڑے۔" وہ ایک‬
‫حقارت بھری نگاہ اس کے ساکت وجود پر اچھالتا پلٹ‬
‫کر لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اس سے دور ہوتا گیا۔‬
‫وہ گردن گھما کر اس کی چوڑی پشت کو برستی‬
‫آنکھوں سے دیکھتی رہی‪ ،‬تبھی سر بری طرح سے‬
‫چکرایا تھا اور وہ دائیں کروٹ کے بل زمین بوس ہو‬
‫کر ہوش کی دنیا سے بیگانی ہو گئی۔‬
‫بڑے بڑے زخم بھی انسان ہنس کر برداشت کر جاتا‬
‫ہے مگر اپنے محبوب شخص کے منہ سے نکلے تیر‬
‫جیسے لفظوں کے زخم ناقاب ِل برداشت ہوتے ہیں۔‬

‫برباد بھی یوں ہوئے ہیں صاحب‬


‫آباد ہونے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‬
‫شادی کے ہنگامے دم توڑ چکے تھے‪ ،‬دلہا‪ ،‬دلہن ہنی‬
‫مون کے لیے روانہ ہو گئے اور حور بھی واپسی کی‬
‫‪146‬‬
‫تیاری کر رہی تھی اسے یونیورسٹی سے ایک ہفتے‬
‫کی چھٹی بہت مشکل سے ملی تھی جو کہ کل تک ختم‬
‫ہو جانی تھی۔‬
‫کائنات نے الء میں آپالئے کیا ہوا تھا اور آج میرٹ‬
‫لسٹ لگنی تھی۔‬
‫وہ چکراتی پھر رہی تھی۔‬
‫"کیا ہو گیا ہے کائنات! تمہارا نام لسٹ میں ضرور‬
‫آئے گا‪ ،‬ٹینشن نہیں لو۔" وہ اس کے سر پر تھپکی‬
‫دیتا آگے بڑھا اور سنگی بینچ پر جا بیٹھا۔‬
‫"شیری بھائی! فکر لسٹ کی نہیں ہے‪ ،‬فکر اس بات‬
‫کی ہے میں الہور میں اکیلی کیسے رہوں گی؟"‬
‫اس کی بات پر وہ چند پل اسے دیکھتا رہا پھر ایک دم‬
‫سے ہنسنے لگا۔‬
‫وہ منہ پھالئے اسے دیکھتی گئی۔‬
‫"کائنات! تم انیس برس کی ہو گئی ہو۔ بچی نہیں رہی‬
‫آگے بڑھو اور چلنا سیکھو۔"‬
‫وہ سنجیدگی سے گویا ہوا اس کے لہجے میں ہمیشہ‬
‫کی مانند اس کے لیے اپنائیت اور فکرمندی تھی۔‬
‫‪147‬‬
‫"چل تو لوں مگر اتنے بڑے شہر میں کھو گئی تو‪ ،‬چل‬
‫نہ سکی تو؟" وہ انگلیاں پٹختی اپنی پریشانی بیان کر‬
‫رہی تھی۔‬
‫"تم کھو گئی تو ڈھونڈ لیں گے‪ ،‬گری تو میں سنبھالوں‬
‫گا مگر اب مزید تمہاری انگلی تھامنے کا میرا کوئی‬
‫ارادہ نہیں۔" وہ اپنی کتاب کھولتے ہوئے بوال۔‬
‫"یہ اچھی بات نہیں ہے شیری بھائی!" وہ خفا خفا سی‬
‫بہت پیاری لگ رہی تھی۔‬
‫"ماں کہتی ہیں تمہیں شیری نے چلنا سکھایا ہے اب‬
‫دوڑنا بھی سکھا دیں۔" وہ اس کے ہاتھ سے کتاب لے‬
‫چکی تھی۔‬
‫"پہلے میدان میں تو اترو‪......‬یوں ہی مت گھبراؤ‪ ،‬جاؤ‬
‫اب جا کر اپنی پیکنگ شروع کرو۔ شاباش۔" وہ نرمی‬
‫سے کتاب اس کے ہاتھ سے واپس لیتے ہوئے گویا‬
‫ہوا۔‬
‫وہ منہ بنائے پلٹ گئی۔‬

‫‪148‬‬
‫کائنات تو آگے پڑھنے کا ارادہ ہی ترک کر چکی تھی‬
‫مگر یہ تو شیری نے زبردستی اس سے اس کے‬
‫پسندیدہ شعبے میں اپالئی کروایا۔‬
‫"میرا پسندیدہ شعبہ ضرور ہے مگر شیری بھائی!‬
‫مجھ میں بولنے کا کانفیڈنس ہرگز نہیں ہے۔" وہ‬
‫آپالئی کرنے گئی تھی جب تو فکرمندی سے بولی تھی۔‬
‫"وقت کے ساتھ آ جائے گا‪ ،‬جب باہر نکلو گی تو‬
‫کانفیڈنس خود بخود آ جائے گا۔" وہ بہت پرسکوں تھا۔‬
‫"شیری! تم آخر کیا سوچ رہے ہو؟ میں تمہیں سمجھ‬
‫نہیں پا رہی؟"‬
‫وہ اپنے سر پر حور کی آواز سن کر چونکا ضرور تھا‬
‫مگر متوجہ نہیں ہوا وہ رفتہ رفتہ چلتی بینچ کے ایک‬
‫سرے پر ٹک گئی۔‬
‫"مس حوریہ رائے!‪....‬مجھے سمجھنے کی کوشش‬
‫مت کرو‪.....‬کیونکہ تمہاری سمجھ میں آنے والی شے‬
‫نہیں ہوں میں۔" وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"یہ جو تم کھیل کائنات کے ساتھ کھیل رہے ہو بہت‬
‫بھاری پڑے گا۔" وہ گرجی تھی۔‬

‫‪149‬‬
‫"جو تمہارے لیے کھیل ہے وہ میرے لیے رشتہ‬
‫ہے۔مگر تمہیں کیا پتہ رشتے کیا ہوتے ہیں۔" سنجیدہ‬
‫لہجے میں وہ آخری جملے میں طنز کرتا وہاں سے‬
‫ہٹ گیا تھا۔‬
‫وہ پنج و تاب کھا کر مٹھیاں بھینچے پیر پٹختی‬
‫چھوٹے چچا کے پورشن کی جانب بڑھ گئی۔‬

‫"شیری بیٹا! میرے کمرے میں آنا۔"‬


‫وہ اپنے کمرے میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ممانی نے‬
‫بالیا۔‬
‫"جی آیا۔" وہ کتاب میز پر رکھ کر ان کے کمرے کی‬
‫جانب بڑھا۔‬
‫"کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں؟"‬
‫"تمہیں نہیں لگتا کائنات کو دوسرے شہر بھیجنا‬
‫بیوقوفی ہے؟ اوپر سے گھر والے اعتراض بھی کر‬
‫رہے ہیں۔" وہ فکر مندی سے گویا ہوئیں۔‬

‫‪150‬‬
‫"ممانی! حوریہ بھی تو اسالم آباد پڑھ رہی ہے‪ ،‬تو‬
‫کائنات کیوں نہیں؟ اور رہی بات گھر والوں کی تو بڑی‬
‫اور چھوٹی ممانی کی باتوں پر کان مت رکھیں۔" وہ ان‬
‫کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے بوال۔‬
‫"بیٹا حور اور کائنات میں فرق ہے۔ حور سمجھدار ہے‬
‫ّٰللا کی‬
‫اسے اچھے برے کا پتہ اور میری کائنات تو ہ‬
‫گائے ہے‪ ،‬بہت معصوم ہے میری بچی کہیں‪".....‬‬
‫وہ کہتے کہتے ایک دم سے لب بھینچ کر خاموش ہو‬
‫گئیں۔‬
‫"ممانی! میں نے جو بھی کیا ہے کائنات کی بھالئی‬
‫کے لیے کیا ہے۔" وہ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے بوال۔‬
‫ّٰللا کی گائے‬
‫"دور بدل گیا ممانی! آج کل کے دور میں ہ‬
‫کو لوگ کندچھری سے زبع کر دیتے ہیں میں نہیں‬
‫چاہتا کہ ہماری کائنات اپنی معصومیت اور ناسمجھی‬
‫کی وجہ سے حاالت کے ستم کا سامنا کرے۔اور رہی‬
‫بات اس کے تنہا رہنے کی تو فکر نہیں کریں میں اس‬
‫کے پیچھے کھڑا ہوں ہمیشہ۔"‬

‫‪151‬‬
‫وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سچائی بھرے‬
‫لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫ّٰللا نے تمہارے جیسا بیٹا مجھے عطا‬
‫"جیتے رہو بیٹا! ہ‬
‫کیا جتنا بھی شکر کروں کم ہے۔ بیٹے کی کمی پوری‬
‫کر دی تم مے۔" وہ اس کی پیشانی چومتے ہوئے‬
‫بولیں۔‬
‫"چلیں اب بےفکر ہو جائیں اور مسکراتے ہوئے‬
‫کائنات کی تیاری کروائیں مجھے پورا یقین ہے لسٹ‬
‫میں نام آ جائے گا اس کا۔"‬
‫وہ اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"تم بھی تیاری رکھو‪ ،‬چھوڑنے تو تم نے ہی جانا‬
‫ہے‪ .....‬بھائی صاحب لوگ تو مصروف ہیں آج کل۔اور‬
‫دوسرے لڑکے بہت غیر زمہ دار ہیں‪ ،‬ان پر مجھے‬
‫کچھ خاص بھروسہ نہیں۔"‬
‫وہ بولیں تو شیری اثبات میں سر ہالتا کمرے سے نکل‬
‫گیا۔‬
‫"بس اب جلدی سے شیری نوکری پر لگ جائے اور‬
‫میں حور کی بات کروں اس سے۔ "‬

‫‪152‬‬
‫وہ سوچ کر خوشی سے مسکرا دیں۔‬
‫ماں شروع سے ہی حور کو شیری کے لیے سوچے‬
‫ہوئے تھیں‪ ،‬من ہی من میں انہوں نے اپنی بیٹی کو‬
‫دلہن بنانے کے بیشمار خواب سجا لیے تھے مگر وہ‬
‫کہاں جانتی تھیں کہ بیٹی بھی کچھ خواب دیکھ چکی‬
‫ہے جن کا رخ شاہزیب احمد کی جانب نہیں تھا‪.....‬‬
‫وہ کسی اور ہی رخ میں سفر کر رہی تھی جس کا‬
‫انجام حوریہ رائے خود بھی نہیں جانتی تھی۔‬
‫اس کی سوچ لے مطابق کائنات کا نام پہلی ہی لسٹ‬
‫میں آ گیا تھا۔‬
‫وہ ماں کے گلے لگی زور و قطار رو رہی تھی۔‬
‫اس کے اس طرح رونے پر سب کے ہونٹوں پر شریر‬
‫دبی دبی مسکراہٹ تھی۔‬
‫بڑی مشکل سے اسے گاڑی میں بیٹھایا گیا تھا۔‬
‫"شیری بیٹا! دھیان سے لے جانا اور ہاسٹل جس میں‬
‫کائنات رہ گی محفوظ تو ہے نا؟" بڑے تایا نے‬
‫استفسار کیا۔‬

‫‪153‬‬
‫"جی بڑے ماموں‪ ،‬یونیورسٹی کا ہاسٹل ہے۔" وہ‬
‫مؤدبانہ انداز میں بوال۔‬
‫"ٹھیک ہے بیٹا دھیان سے جانا۔" وہ اس کے شانے‬
‫پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔‬
‫شاہزیب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ساتھ والی‬
‫سیٹ پر بیٹھی سوں سوں کرتی کائنات کو دیکھ کر‬
‫مبہم سا مسکرایا۔‬
‫"کم آن یار! تم رخصت ہو کر سسرال نہیں جا رہیں‪،‬‬
‫یونیورسٹی پڑھنے جا رہی ہو‪....‬اپنا مستقبل روشن‬
‫کرنے۔"‬
‫وہ گاڑی روڈ پر ڈالتے ہوئے بوال۔‬
‫"آپ بہت ظالم ہیں۔ مجھے سب سے دور لے جا رہے‬
‫ہیں۔"‬
‫وہ ڈیش بورڈ پر پڑے ٹیشو باکس میں سے ٹیشو نکال‬
‫کر بہتی ناک کو صاف کرتے ہوئے آنسوؤں میں غوطہ‬
‫زن آواز میں بولی۔‬
‫"ایک دن مجھے دعائیں دو گی۔اچھا اب خاموش ہو‬
‫جاؤ اور سکون کا سانس بھرو۔"‬

‫‪154‬‬
‫"میں نہیں بولتی آپ سے " وہ منہ پھالئے رخ کھڑکی‬
‫کی جانب موڑ گئی۔وہ ہنس دیا۔‬
‫شیری نے تریچھی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا‬
‫اور چپکے سے ویڈیو پلیئر پر کارٹون پلے کر دیئے۔‬
‫"چپس یا پوپکون؟" اس کے استفسار پر وہ اس کی‬
‫جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"چپس۔" بہتی ناک کو صاف کرتے ہوئے بولی تو وہ‬
‫مسکرا دیا۔‬
‫"اچھا کچھ ہدایات کروں گا۔غور سے سننا۔"‬
‫کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ کچھ سوچتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫کائنات نے ویڈیو پلیئر کی آواز کم کر دی تھی۔‬
‫"پہلی بات‪ ،‬یونیورسٹی میں نروس نہیں ہونا کیونکہ‬
‫پھر لوگ تمہیں تنگ کرنے لگیں گے۔‬
‫دوسری بات‪ ،‬ہاسٹل میں اگر روم میٹس اچھی نہ ہوں‬
‫تو گھبرا نہیں مجھے محض ایک میسج کرنا‪ ،‬روم‬
‫چینج کر لیں گے۔"‬

‫‪155‬‬
‫" اور تیسری بات‪ ،‬اپنا خیال رکھنا اور اگر کوئی بھی‬
‫کسی بھی قسم کی پرابلم ہو مجھے کال کرنا۔اوکے؟"‬
‫وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔‬
‫"اگر رات کے بارہ بجے پیزا کھانے کا دل ہو تو بھی‬
‫آپ کو کال کر سکتی ہوں؟" وہ شرارت بھرے لہجے‬
‫میں گویا ہوئی۔‬
‫"بلکل۔" وہ اطمینان سے بوال۔‬
‫"اگر میرا وہاں دل نہ لگا تو‪....‬تو بھی کال کر سکتی‬
‫ہوں؟"‬
‫اس نے منہ پھالئے کہا۔‬
‫"ہاں مگر صرف بات کرنے کے لیے۔"‬
‫"مجھے اب چار سال وہاں ہی رہنا ہے‪......‬تنہا؟" وہ‬
‫پھر سے روہانسی ہو گئی تھی۔‬
‫"بلکل۔" وہ شانے آچکاتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز‬
‫میں بوال۔‬
‫"دیکھو کائنات! ہم ہر وقت رابطے میں رہیں گے‪،‬‬
‫ممانی سے تمہاری ویڈیو کال پر بات کروا دیا کروں گا‬
‫اور ہر ویک اینڈ پر کوشش کروں گا آنے کی اور‬
‫‪156‬‬
‫ممانی کو بھی الیا کروں گا یا تمہیں سرگودھا لے آیا‬
‫کروں گا۔اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔"‬
‫وہ گہری سانس بھرتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"پکا ہر ویک اینڈ پر آیا کریں گے؟ ماں کو بھی الئیں‬
‫گے؟" وہ چہک اٹھی تھی۔‬
‫"بلکل بس ایک شرط پر کہ تم دل لگا کر پڑھو گی اور‬
‫جیسے اسکول‪ ،‬کالج میں ٹاپ کرتی آئی ہو یونیورسٹی‬
‫میں بھی ٹاپ کرو گی‪....‬اوکے؟"‬
‫"ان شاءہللا۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔‬
‫"گڈ گرل۔ چلو اب کارٹون دیکھو۔" وہ مسکراتے ہوئے‬
‫بوال تو وہ سر ہال کر کارٹون دیکھنے لگی۔‬
‫ِتری انجمن میں ظاِلم عجب اہتمام دیکھا‬
‫کہیں قت ِل عام دیکھا‬
‫بارش‪ِ ،‬‬
‫کہیں زندگی کی ِ‬
‫ِ‬

‫عرض شوق پڑھ لیں‪ ،‬یہ کہاں اُنھیں گوارا‬


‫ِ‬ ‫ِمری‬
‫وہیں چاک کردِیا خط‪ ،‬جہاں میرا نام دیکھا‬

‫‪157‬‬
‫بڑی منّتوں سے آکر وہ مجھے منا رہے ہیں‬
‫میں بچا رہا ہوں دامن‪ِ ،‬مرا اِنتقام دیکھا‬

‫رور تِری بے خودی کے نغمے !‬


‫شکیل ! ُروح پَ َ‬
‫ؔ‬ ‫اے‬
‫مگر آج تک نہ ہم نے‪ ،‬تِرے لب پہ جام دیکھا‬
‫(شکیل بدایونی)‬
‫ؔ‬

‫وہ کہنیوں کو میز کی سطح پر ٹکائے ہاتھ کو تھوڑی‬


‫تلے رکھے غیر مرئی نقطے کو تکے جا رہی تھی۔‬
‫ہونٹوں اور آنکھوں میں مکمل خاموشی تھی‪ ....‬دھیان‬
‫کہیں اور ہی جگہ بھٹک رہا تھا۔‬
‫"شازار! تم مجھے بھولے نہیں مگر کیا مجھے میری‬
‫طرح یاد بھی کرتے ہو گے؟"‬
‫وہ شازار کے چہرے اور لہجے سے کچھ بھی اخذ‬
‫نہیں کر پائی تھی‪ ،‬تبھی تو ایسی سوچوں میں غرق‬
‫تھی۔‬
‫‪158‬‬
‫"مس حوریہ رائے! کیا آپ خیاالت کی دنیا سے واپس‬
‫آئیں گیں؟"‬
‫اس کی دوست مافیہ نے چٹکی بجاتے ہوئے اسے‬
‫ہوش دالیا۔‬
‫حور بری طرح سے چونک کے اس کی جانب دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"کہاں گم ہو محترمہ؟" وہ جانچتی نگاہوں سے اسے‬
‫دیکھتے ہوئے استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"کہیں بھی تو نہیں۔چلو یار اب کب تک الئیبریری میں‬
‫بیٹھے رہنا۔" وہ بات بدل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"میں نوٹ کر رہی ہوں حور! جب سے تم واپس آئی‬
‫ہو بہت بدل گئی ہو۔ خیریت تو ہے نا؟"‬
‫باہر نکلتے ہی مافیہ نے استفسار کیا۔‬
‫"میں‪.....‬؟ نہیں تو میں تو نہیں بدلی۔"وہ شانے‬
‫آچکاتے ہوئے سفید جھوٹ بول رہی تھی۔‬
‫"مجھے یوں ہی لگ رہا ہو گا پھر‪.....‬اچھا سن کل‬
‫احسان تمہارا پوچھ رہا تھا۔"‬

‫‪159‬‬
‫"کون احسان؟" وہ فائل میں نوٹس پلٹتے ہوئے گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"ارے واہ‪.....‬تم تو سب بھول گئی‪.....‬وہ ہی اپنا سنیئر‬
‫ذولوجی ڈیپارٹمنٹ واال احسان جو پیچھلے ایک سال‬
‫سے تمہارا دیوانہ بنا پھر رہا ہے۔"‬
‫اس نے اسے شانا مارتے ہوئے چہک کر کہا۔‬
‫"اب کی بار میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا اس‬
‫دل پھینک عاشق سے کہ حور رائے کو ایسے دل‬
‫پھینک مردوں سے شدید نفرت ہے۔" وہ حقارت سے‬
‫پھنکاری تھی۔‬
‫"تم واقع ہی بدل چکی ہو حور! پہلے ایسی باتوں پر تم‬
‫ہنستی تھی اور اب اتنی سنجیدگی سے بول رہی ہو۔"‬
‫"ہاں۔ کیونکہ تب مجھے یہ محض مذاق لگتا تھا مگر‬
‫محبت مذاق نہیں ہوتی۔ آج کل کے لوگ حسن‪ ،‬پیسہ‬
‫سٹیٹس دیکھ کر محبت کرتے ہیں سیریت گئی تیل‬
‫لینے۔"‬

‫‪160‬‬
‫" بتاؤ کون ہے اس تبدیلی کے پیچھے؟ تمہیں کسی‬
‫سے محبت تو نہیں ہو گئی؟" وہ پُرجوش انداز میں‬
‫گویا ہوئی۔‬
‫"وقت آنے پر بتاؤں گی۔ ابھی وعدہ کرو کچھ نہیں‬
‫پوچھو گی۔"‬
‫"شیری سے تو‪".....‬‬
‫"مرنا پسند کروں گی اس شخص کے متعلق سوچنے‬
‫سے پہلے۔"‬
‫وہ مافیہ کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے تیکھے‬
‫لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"ٹھیک ہے بابا! جب دل چاہیے بتا دینا۔ چلو اب اگال‬
‫لیکچر میم عظمی کا ہے جو کہ بےحد اہم ہے‪....‬اسی‬
‫لیے کالس میں تشریف لے چلیں۔"‬
‫وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی تو وہ زبردستی اس کے‬
‫ساتھ چل دی حاالنکہ دل کے حاالت کچھ ٹھیک نہیں‬
‫تھے۔ ایسے میں وہ تنہا ایک کونے میں بیٹھ کر‬
‫فرصت میں اسے یاد کرنا چاہتی تھی۔‬

‫‪161‬‬
‫اس کے بارے میں سوچتے ہوئے جو سکون محسوس‬
‫ہوتا تھا یہ ایک الگ ہی احساس تھا۔‬
‫میرے درد کی تجھے کیا خبر‬
‫یہ بڑھتا ہی جاتا ہے مسلسل‬
‫تجھے لکھتی ہوں جو محبت‬
‫میرا ٹوٹ ہی جاتا ہے تسلسل‬

‫پہلے پہل وہ ہر وقت شیری کا دیا بیلوٹوتھ کان میں‬


‫لگائے اسے پانچ پانچ منٹ بعد کال کرتی رہتی تھی‬
‫اور پھر یوں ہوا کہ وہ وہاں ایڈجسٹ ہونے کے بعد‬
‫بھی کالس سے فارغ ہوتے ہی اسے کال کرنے بیٹھ‬
‫جاتی اور رات کو بھی ایک مرتبہ ضرور کال کرتی‬
‫تھی۔‬
‫وہ ہر روز اس کی ویڈیو کال پر بات ماں سے کرواتا‬
‫تھا۔‬
‫باقی گھر والوں سے بھی کبھی تھوڑی بہت بات ہو‬
‫جاتی تھی مگر حور سے بہت کم ہی رابطہ رکھا تھا‬

‫‪162‬‬
‫اس نے کیونکہ وہ ابھی تک اس سے خفا تھی اور‬
‫حور کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا‪......‬وہ اپنی ہی‬
‫ایک الگ دنیا میں مگن ہو گئی تھی۔‬
‫جس رات وہ شازار کے متعلق خواب دیکھتی سارا دن‬
‫چہکتی رہتی اور جب جس رات کوئی خوب نہ آتا وہ‬
‫سارا دن کمالئی سی پھرتی رہتی۔‬
‫دل کی حالت اب مزید غیر ہوتی جا رہی تھی‪.....‬اور‬
‫شازار سے ہوٹل کے بعد دوبارہ مالقات نہیں ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫شاہزیب نے سی ایس ایس کے امتحانات میں شاندار‬


‫کارکردگی دکھاتے ہوئے پنجاب کے ٹاپرز میں اپنا نام‬
‫دوسرے نمبر پر لکھوا لیا تھا۔‬
‫وہ ڈنر کے بعد اپنے لیے اور اپنی روم میٹ کے لیے‬
‫کافی بنا الئی تھی کہ تبھی اس کے فون پر شیری کی‬
‫کال موصول ہوئی۔‬
‫کائنات فون اٹھا کر چادر اپنے گرد درست کرتی چھت‬
‫پر چلی گئی۔‬

‫‪163‬‬
‫"گیس واٹ‪ ....‬کائنات!‪ ".....‬شیری کی آواز سے ایسی‬
‫خوشی جھلک رہی تھی کہ وہ بےاختیار مسکرا دی۔‬
‫"میری پوسٹنگ الہور میں ہوئی ہے۔" اب کی باری‬
‫اس کے اچھلنے کی تھی۔‬
‫"میں نے دعائیں مانگی تھیں کہ آپ کی جاب یہاں‬
‫الہور میں ہو۔"‬
‫وہ مگ منڈیر پر رکھتے ہوئے دور تک نگاہیں‬
‫دوڑانے لگی شہر کی روشنیاں دور دور تک پھیلی‬
‫ہوئی تھیں۔ ہڈیوں کو ٹھرا دینے والی ٹھنڈ اس کے‬
‫وجود سے ٹکرا رہی تھی۔‬
‫"یونیورسٹی میں کوئی تنگ تو نہیں کرتا؟" اس کے‬
‫استفسار پر وہ مبہم سا مسکرا دی۔‬
‫"نہیں۔" کپ کے کنارے پر انگلی چالتے ہوئے وہ مبہم‬
‫سی آواز میں بولی۔‬
‫"آج تم چپ چپ سی ہو سب ٹھیک ہے نا؟"‬
‫"جی بس تھوڑا سر درد ہے۔ ایسا کرتے ہیں کل بات‬
‫کریں گے۔"‬

‫‪164‬‬
‫"ٹھیک ہے میڈیسن لے کر سو جانا۔ جنوری کا مہینہ‬
‫ہے سردی بڑھ رہی ہے اسی لیے اپنی کیئر کیا کرو۔"‬
‫وہ اپنی کتابیں بریف کیس میں ڈالتے ہوئے گویا ہوا۔‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس نے سرد آہ بھر کے کال‬
‫"ٹھیک ہے۔ ہ‬
‫کاٹ دی۔‬
‫شیری نے حیران نگاہوں سے فون کو دیکھا۔‬
‫"پریشان سی لگ رہی تھی۔ کل جاتے ہی پہلے کائنات‬
‫کے پاس جانا پڑے گا۔"‬
‫وہ سوچ کر فون واپس میز پر ڈالتا وارڈروب سے‬
‫اپنے کپڑے نکال نکال کر بریف کیس میں رکھنے لگا۔‬
‫"بیٹا شیری!" ممانی دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کمرے‬
‫میں داخل ہوئیں۔‬
‫"جی ممانی؟" وہ بریف کیس بند کر کے بیڈ سے اٹھا‬
‫کر نیچے رکھتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"یہ پکوان اور لڈو ہیں‪ ،‬کائنات کو بھی دینا اور خود‬
‫بھی کھا لینا۔"‬
‫وہ سٹیل کا ڈبا بیڈ پر رکھتے ہوئے اس کی جانب‬
‫بڑھیں۔‬
‫‪165‬‬
‫"مجھے تم پر ناز ہے بیٹا! تمہاری محنت اور لگن‬
‫رنگ لے آئی۔ مگر شیری بیٹا! اپنی ڈیوٹی پوری‬
‫ایمانداری سے کرنا‪......‬تم عوام کے محافظ ہو اور اس‬
‫زمہ داری کو سچے دل سے نبھانا۔"‬
‫وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے‬
‫ہوئے نم آنکھوں سے بولیں۔‬
‫"میں پیدا ہونے واال تھا‪....‬باپ چھوڑ گیا‪ ،‬پیدا ہوا تو‬
‫ماں مر گئی‪ ،‬آپ نے مجھے اپنے بیٹے کی طرح پاال۔‬
‫آپ کی پرورش اور ساتھ نے مجھے یہاں تک پہنچایا‬
‫ہے ممانی جان!" وہ ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے‬
‫لگاتے ہوئے بوال۔ اس کی اس حرکت پر وہ ایک پل کو‬
‫ٹھٹھک کر رک گئی تھیں۔‬
‫"کیا ہوا آپ خاموش کیوں ہو گئیں؟"‬
‫"تمہارے دودھیال میں جب کوئی کہیں رخصت ہوتا ہے‬
‫تو یوں وہ اپنے بزرگوں کے ہاتھ چوم کر دعائیں لیتا‬
‫ہے۔" وہ مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے‬
‫بولیں۔ شیری لب بھینچ کر خاموش ہو گیا۔‬

‫‪166‬‬
‫اسے اپنے دودھیال سے شدید نفرت تھی‪.....‬ان کا نام‬
‫تک سننا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ دس سال کا تھا جب‬
‫اسے ممانی نے اس کی بےجا ضد پر اس کے دودھیال‬
‫کی ساری کہانی سنائی تھی۔‬
‫وہ دن جائے اور آج کا آئے شیری کے ہونٹوں پر‬
‫دوبارہ ان کا نام نہیں آیا تھا۔‬
‫"شیری بیٹا! آخر وہ تمہارا پیڑ ہے۔ تم اس پیڑ کی‬
‫ٹہنی ہو اس سے ٹوٹ کر تم خوش نہیں ہو میں جانتی‬
‫ہوں۔"‬
‫"میں خوش ہوں ممانی! ان قاتلوں کے وارث ہونے‬
‫سے میں الوارث ہی بہتر ہوں۔" بےحد سپاٹ لہجے‬
‫میں کہتے ہوئے وہ رخ پھیر گیا۔‬
‫"جو قاتل تھے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔تمہارے‬
‫والد واقع ہی بےقصور ہیں ان کے ساتھ‪".....‬‬
‫"پلیز ممانی! مجھے ان کے متعلق کچھ نہیں سننا۔جو‬
‫میری ماں کے نہیں ہوئے وہ میرے سگے نہیں ہو‬
‫سکتے۔"‬

‫‪167‬‬
‫اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ خاموش ہو‬
‫گئیں۔‬
‫"اچھا چھوڑو یہ باتیں‪ ،‬تم اپنی تیاری کرو‪.....‬اتنی‬
‫خوشی کی بات ہے یوں پریشان نہیں ہونا۔" وہ مسکرا‬
‫کر بولیں شیری مسکرا بھی نہیں سکا تھا۔‬
‫"یار حور! ایگزامز تو ختم ہو گئے ہیں کہیں اوٹنگ پر‬
‫چلیں؟" وہ لوگ ڈرائی فروٹ سے لطف اندوز ہونے‬
‫کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہی تھیں‬
‫جب مافیہ نے مشورہ دیا۔‬
‫"آئیڈیا تو اچھا ہے۔" پلوشہ نے کہا۔‬
‫"ہم تینوں اکیلی کیسے جائیں گیں؟ کالس کو تیار کر‬
‫لو تو چلتے ہیں۔" وہ پستہ چباتے ہوئے بولی۔‬
‫"ابھی بات کرتی ہوں سی آر سے۔" پلوشہ جو کہ‬
‫کالس کی جی آر تھی چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔‬
‫"تم دونوں چپ رہنا‪ ،‬بڑا کوئی منحوس ہے یہ بندہ بات‬
‫ہی نہیں مانے گا اگر معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکیوں کا‬
‫آئیڈیا تھا تو۔" اس نے اسے واٹس ایپ پر آن الئن‬

‫‪168‬‬
‫دیکھ کر وائز کال مال لی۔وہ دونوں سر ہال کر مسکرا‬
‫دیں۔‬
‫"اسالم علیکم! کیسے ہو ؟"‬
‫"سپیکر پر ڈال سپیکر پر۔" حور نے سرگوشی میں‬
‫کہا۔‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے تم کیسی ہو؟" اس کی آواز میں‬
‫ہ‬
‫مسکراہٹ تھی ان دونوں نے معنی خیز مسکراہٹ لیے‬
‫پلوشہ کو گھورا۔‬
‫"یار رحیم! میں کیا کہہ رہی تھی۔ کہیں اوٹنگ پر نہ‬
‫چلیں؟"‬
‫"کہاں؟" اس کے استفسار پر اس نے ان دونوں کی‬
‫جانب دیکھا۔‬
‫"کاغان یا ناران ۔" حور نے سرگوشی کی۔‬
‫"ناران یا کاغان چلتے ہیں۔"‬
‫"کیا اتنی دور؟ گھر سے اجازت نہیں ملنی کسی کو‬
‫بھی۔" وہ حیرانگی سے بوال۔‬

‫‪169‬‬
‫"حد کرتے ہو رحیم! اب ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ اجازت‬
‫کی کیا ضرورت۔ اور جنہوں نے جانا ہوا جائیں گے‬
‫جنہوں نے نہیں جانا نہ جائیں۔" وہ سہولت سے شانے‬
‫آچکاتے ہوئے بولی۔‬
‫"پھر ایسا کرتے ہیں کہ ہم دونوں چلتے ہیں۔" وہ‬
‫شوخ ہوا۔‬
‫حور اور مافیہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنا قہقہہ‬
‫دبایا تھا جبکہ پلوشہ تلمال کر رہ گئی۔‬
‫"رحیم! پلیز بی سیریس۔ تم بات کرو بوائز سے میں‬
‫گرلز سے کرتی ہوں۔"‬
‫وہ تیزی سے کال کاٹ کر رہ گئی۔‬
‫"واہ تم تو گھر بسانے کی پالننگ کر رہی ہو۔" مافیہ‬
‫نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"ارے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ تو بس مذاق کر رہا‬
‫تھا۔" پلوشہ نے شانے آچکا کر کہا۔‬
‫"میرے ساتھ ایسا کوئی مذاق کرتا تو میں اس کا منہ‬
‫توڑ دیتی۔" حور نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"اب ایسا بھی نہیں ہے۔"‬
‫‪170‬‬
‫"تو تم بھی چاہتی ہو وہ تمہارے ساتھ فلرٹ کرے؟"‬
‫وہ آنکھیں سکوڑے بولی۔‬
‫"نہیں یار‪ ....‬دراصل بات یہ ہے کہ‪....‬ہم دونوں ایک‬
‫دوسرے سے‪....‬محبت کرتے ہیں۔" وہ شرماتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"محبت صرف تم کرتی ہو وہ نہیں۔ اس کے لہجے‬
‫سے ہی ہوس ٹپکتی ہے‪.....‬سنبھل جاؤ۔" وہ دھیمی‬
‫آواز میں بےحد سنجیدگی سے بولی۔‬
‫"تم محبت کے متعلق کچھ بھی نہیں جاتی۔ اور جسے‬
‫تم ہوس کہتی ہو وہ اصل میں بےقراریاں ہیں۔" پلوشہ‬
‫کو اس کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔‬
‫"ہاہاہا‪ ....‬بےقراریاں‪ ......‬بےقراریاں ایسی نہیں‬
‫ہوتیں۔ بےقراریاں تو‪ "......‬وہ کہتے کہتے رک گئی۔‬
‫"ہاں ہاں بتاؤ بتاؤ؟ کیسی ہوتی ہیں؟" اس نے تیزی‬
‫سے کہا۔‬
‫"میں نے کون سا اپنی محبت کو پایا ہے مجھے تو‬
‫جدائی والی بےقراریاں مارتی ہیں۔" وہ افسردگی سے‬
‫کہہ کر ٹھنڈی آہ بھرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔‬

‫‪171‬‬
‫وہ دونوں اسے کمرے سے نکلتے دیکھتی رہ گئیں۔‬
‫ٹیرس پر آتے ہی اس نے سرد رات کی ٹھنڈی فضا‬
‫میں اپنا بوجھل سا سانس چھوڑا تھا۔‬
‫"شازار! اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاؤں میری‬
‫زندگی میں شامل ہو جائیں۔" وہ گرم شال خود پر اچھی‬
‫طرح اوڑھ کر بازو سینے پر لپیٹ گئیں۔‬
‫یہ انتظار اور ڈر کے درمیان میں لٹکی محبت بہت‬
‫میٹھا اور دلکش درد جگاتی ہے۔‬
‫اس کے دل میں بھی کچھ ایسا ہی درد اٹھ رہا تھا۔‬
‫کبھی رو دیتی۔‬
‫تو کبھی اس کے ساتھ گزارے ان چند پلوں میں کھو‬
‫کر مسکراتی جاتی۔‬
‫اسے محبت پر یقین نہیں تھا۔‬
‫مگر ایک ساحر آیا اور اس کے دل میں گھر کر کے‬
‫چال گیا‪ .....‬پھر ایک دم غائب ہی ہو گیا تھا۔‬
‫"میں بھی کتنی بیوقوف ہوں نا اس سے نمبر لیا اور‬
‫نہ اس سے اس کا ٹھکانا پوچھا۔"‬

‫‪172‬‬
‫"ایک بنجارے کے عشق میں گرفتار ہو کر کیسا لگ‬
‫رہا ہے؟" اس کے اندر سے آواز آئی تھی۔‬
‫"بہت اچھا‪......‬یہ درد بھی سکون سا پہنچا رہا ہے۔"‬
‫اس نے سوچا اور مدھم سی مسکراہٹ لیے وہاں پڑے‬
‫موڑے پر بیٹھ کر آنکھیں موند گئی۔‬
‫مستقبل اور حال سے بےخبری اختیار کر لی تھی اس‬
‫نے‪.....‬‬
‫خیاالت‪ ،‬اور خوابوں کی دنیا میں گم رہنے والوں کو‬
‫کہاں کوئی فکر ہوتی ہے کہ حقیقت کیا۔‬

‫جب سے ایک رشتہ قائم کیا ہے خوابوں سے‬


‫ہم اپنا ایک الگ جہاں آباد کر بیٹھے ہیں‬

‫واقع ہی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں‬


‫جو مصروفیات میں بھی یاد آ جاتے ہیں‪....‬‬
‫کبھی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا جاتے ہیں‬
‫تو کبھی آنکھوں میں آنسو‪......‬‬
‫‪173‬‬
‫بہت عجیب رشتہ بن جاتا ہے‬
‫ان لوگوں سے جو دور چلے جاتے ہیں‬
‫مگر ہمیشہ ہمیشہ دل میں رہتے ہیں‪....‬‬

‫جب محبت ہوتی ہے نا تو پھولوں کی سیج کانٹوں سی‬


‫لگنے لگتی ہے۔‬
‫اور زرمینہ کے لیے بھی اب بستر کانٹوں سے بھرا‬
‫ہوا ہوتا تھا۔‬
‫کروٹ پر کروٹ بدلتے رات گزر جاتی اور دن سردار‬
‫سائیں کی یاد میں‪.....‬اس کا سخت رویہ بھی اس پر‬
‫اثر نہیں کر پایا تھا۔‬
‫جہاں بیٹھتی وہاں بیٹھی رہ جاتی‪......‬خیالی چہرہ لیے‬
‫وہ پوری حویلی میں منڈراتی رہتی۔‬
‫ہاتھ میں دوربین لیے وہ حویلی کی آخری منزل کے‬
‫منڈیر پر کھڑی تھی‪،‬ریشمی بال ہوا کی زد میں اڑ‬

‫‪174‬‬
‫رہے تھے‪ .....‬سب سے اونچے پہاڑ پر واقع سردار‬
‫دالور خان کی اونچی حویلی کو دوربین سے دیکھنے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی کہ شاید وہ اوپر والی منزل پر‬
‫دار یار ہو جائے۔ تبھی اسے مالزمین‬‫کہیں آئے اور دی ِ‬
‫کا شور سنائی دیا۔‬
‫"سرداروں کی حویلی کے اوپر والی منزل کو عرصے‬
‫سے تالے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اوپر نہیں آئے گا۔"‬
‫منہاج اس کے قریب آتے ہوئے بولی۔‬
‫"نیچے شور کیسا ہے نجی؟" اس نے استفسار کیا۔‬
‫"باہر ایک بابا آیا ہوا ہے جو ہاتھ دیکھنے کا دعوی‬
‫کر رہا ہے۔ سب اپنا ہاتھ دیکھا رہے ہیں۔" نجی نے‬
‫کہا۔‬
‫"یہ پکڑ۔ میں بھی ہاتھ دکھاؤں گی۔" زرمینہ اسے‬
‫دوربین پکڑا کر تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی۔‬
‫"جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ کیا رش ڈاال ہوا ہے۔" وہ‬
‫حویلی کے دروازے تک پہنچی اور سارے نوکروں کو‬
‫ڈانٹ ڈاال وہ سب وہاں سے پل میں ہی غائب ہو گئے۔‬

‫‪175‬‬
‫"بابا جی میرا ہاتھ دیکھیں اور بتائیں کہ میری قسمت‬
‫میں کیا ہے۔" اس نے گھونگھٹ کے تلے سے اپنا‬
‫سفید مرمریں ہاتھ نکال کر بابا کے سامنے کیا۔‬
‫"ہاتھ پکڑے بغیر دیکھ بابا‪.....‬یہ کوئی عام لڑکی نہیں‬
‫ہے۔ گلریز خان کی صاحبزادی ہیں۔"‬
‫بابا اس کا ہاتھ پکڑنے لگا تو سر پر کھڑی مائی‬
‫حلیمہ نے غصے سے ڈپٹا۔‬
‫وہ سر ہال کر سر جھکا کے اس کے ہاتھ کو دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"کیا ہوا بابا؟ ایسے پریشان کیوں ہو گئے؟"‬
‫چند پل بعد بابا کے چہرے پر چھائی پریشانی کو دیکھ‬
‫کر مائی حلیمہ نے استفسار کیا۔‬
‫وہ جو گھونگھٹ کے پیچھے مسکرا رہی تھی کہ ابھی‬
‫بابا کہیں گے کہ اس کی محبت اسے مل جائے گی‪.....‬‬
‫سردار دالور خان اس کی قسمت میں لکھا ہوا ہے۔‬
‫ّٰللا اپنے‬
‫"کچھ نہیں بی بی‪......‬بچی کا سر صدقہ دو۔ ہ‬
‫حفظ و امان میں رکھے۔‬

‫‪176‬‬
‫بچی خدا تمہاری قسمت بدل دے دعا کیا کر اپنے‬
‫لیے۔" بابا اپنی پوٹلی اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی‬
‫سے حویلی کے دروازے کو عبور کرتا وہاں سے چال‬
‫گیا۔‬
‫وہ ہاتھ کھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"کیا ہوا زری! گھبرا کیوں رہی ہو؟" وہ سیڑھیاں چڑھ‬
‫رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے سردار دالور خان کی‬
‫آواز سنائی دی‪ ،‬وہ ایڑھیوں پر پلٹی۔‬
‫گھونگھٹ اٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے ہی سینے پر‬
‫ہاتھ لپیٹے اس سے دو سیڑھیاں نیچے کھڑا تھا۔‬
‫عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ نیلی آنکھوں میں‬
‫شوخی بھر کے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔‬
‫"سردار سائیں!‪....‬ت تم یہاں؟" وہ لڑکھڑا کر دو‬
‫سیڑھیوں کا فاصلہ مٹاتی اس کے قریب گئی تھی۔‬
‫"میں تو ہر وقت یہاں ہی ہوں۔ تمہارے آس پاس‪،‬‬
‫تمہارے دل کی دھڑکن بن کر تمہارے سینے میں بستا‬
‫وہاں بھول گئی۔" وہ اس کے کان کے قریب سرگوشی‬
‫کر رہا تھا۔‬

‫‪177‬‬
‫بےترتیب دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے آنکھیں موند‬
‫لیں۔‬
‫"بابا جی کو ہاتھ دکھا رہی تھی کہ میں ملوں گا یا‬
‫نہیں؟" وہ اس کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیے‬
‫سیڑھیاں چڑھنے لگا۔‬
‫"نہیں۔ابھی تو بس آپ کا دیدار ہو جائے وہ ہی کافی‬
‫ہے۔ ملو گے تو تب نا جب تم بھی مجھے چاہو گے۔"‬
‫وہ اس کے بازو پر سر ٹکائے مدھم سی آواز میں‬
‫بولی۔‬
‫زرمینہ اس کی خوشبوئیں اپنی سانسوں میں اُترتی‬
‫محسوس کر رہی تھی۔‬
‫"تھوڑا انتظار تو کرنا پڑے گا نا تمہیں۔اتنی جلدی‬
‫محبت حاصل نہیں ہوتی۔" سردار سائیں نے اس کا‬
‫سر تھپکتے ہوئے کہا۔‬
‫"جانتی ہوں۔ مگر اگر تم الحاصل بھی رہے‪ ...‬سردار‬
‫سائیں! تب بھی میری محبت نہیں بدلے گی۔" اس کی‬
‫دیوانگی بڑھی تھی۔‬

‫‪178‬‬
‫سردار سائیں نے اسے باہیں کھول کر خود میں سمیٹ‬
‫لیا تھا۔‬
‫"بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔" وہ محبت میں ڈوبی‬
‫آواز میں کہہ رہی تھی جبکہ وہ مسکرا دیا۔‬
‫"زری!‪.....‬زری! ہوش کرو‪......‬کس سے باتیں کر‬
‫رہی ہو؟" نجی نے اس کو تھام کر جھنجھوڑ دیا تھا۔‬
‫وہ ہوش میں آئی اور اپنے بازوؤں کو سینے پر لیپٹے‬
‫دیکھ کر آنسوؤں بھری نگاہوں کو نجی پر ٹکا دیا۔‬
‫"وہ آیا تھا نجی! اس نے‪....‬اس نے مجھے‪......‬م‬
‫مجھے اپنی آغوش‪ "....‬وہ کھوکھلی مسکراہٹ لیے‬
‫کہتے کہتے رو دی تھی۔‬
‫"چلو زری! آرام کر لو‪ ،‬اتنے دنوں سے تم ٹھیک سے‬
‫سوئی نہیں ہو۔"‬
‫نجی اپنی جاں عزیز دوست کی یہ حالت دیکھ کر خود‬
‫بھی رو دی۔‬
‫"ن نہیں نجی۔ مجھے سردار سائیں کو دیکھنا ہے۔‬
‫مجھے پھر ہی سکون ملے گا۔" وہ کانپتے ہاتھوں‬

‫‪179‬‬
‫سے اپنے شانوں پر پھیلے اس کے بازو کو جھٹک‬
‫کر بولی۔‬
‫"زری! خدا کا واسطہ ہے تمہیں سنبھالو خود کو۔ برباد‬
‫کر دیں گی یہ حرکتیں تمہیں۔وہ تمہارے لیے اپنے دل‬
‫میں رحم نہیں رکھتا تو محبت کہاں کرے گا؟ اس دن‬
‫میں اگر جھرنے پر نہ آتی تو آج تم مر چکی ہوتی۔"‬
‫نجی کو اس پر بہت غصہ آیا تھا تبھی ہاتھ جوڑ کر‬
‫سختی سے کہتی پلٹ کر سیڑھیاں اتر گئی۔‬
‫وہ لڑکھڑا کر وہاں ہی سیڑھیوں پر گرنے کے سے‬
‫انداز میں بیٹھی تھی۔‬
‫آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔‬
‫"کائنات! کہاں ہو تم؟" وہ کالس لے کر باہر ہی نکلی‬
‫تھی کہ اس کے فون پر میسج موصول ہوا۔‬
‫"یونیورسٹی۔ خیریت شیری بھائی؟" ٹائپ کر کے اسے‬
‫جوابی میسج بھیجتے ہوئے وہ اپنی دوست کی جانب‬
‫متوجہ ہوئی۔‬
‫ان دو ہفتوں میں اس نے پوری کالس میں سے صرف‬
‫ایک انیلہ کو ہی دوست بنایا تھا۔اور اس دوستی میں‬
‫‪180‬‬
‫پہل انیلہ کی جانب سے ہوئی تھی‪.....‬اور اب وہ دونوں‬
‫ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔‬
‫"آج کا لیکچر کافی بورنگ تھا۔" انیلہ نے منہ بسورے‬
‫کہا۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کوئی تبصرہ کرتی اسے سامنے‬
‫سے آتا شیری دکھائی دیا۔‬
‫"شیری بھائی!‪ ".....‬وہ چہک اٹھی تھی۔ انیلہ نے اس‬
‫کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا اور شرارت بھرے‬
‫انداز میں سیٹی بجائی جس پر وہ غور کیے بنا تیزی‬
‫سے اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھی۔‬
‫"کیسا لگا میرا سرپرائز؟" وہ اس کے سامنے کھڑا‬
‫مسکرا رہا تھا۔‬
‫"بہت ہی اچھا۔" اس نے سر سے ڈھلکتے آنچل کو‬
‫درست کیا۔‬
‫"شیری بھائی! یہ میری فرینڈ انیلہ جنگ ہے۔ انیلہ! یہ‬
‫شیری بھائی۔"‬
‫اس نے ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا۔‬

‫‪181‬‬
‫"اسالم علیکم بھائی!" وہ شانے پر جھولتے دوپٹے‬
‫کو بےاختیار ہی سر پر اوڑھ گئی تھی اس کی اس‬
‫حرکت پر کائنات مسکرا دی۔‬
‫"و علیکم السالم!"‬
‫"کائنات! ایک اور سرپرائز بھی الیا ہوں چلو دکھاؤں۔"‬
‫وہ ہاتھ میں پکڑے فون کو جیب میں ڈالتے ہوئے بوال۔‬
‫"انیلہ! چلو۔"‬
‫"نہیں یار! تم جاؤ‪.....‬مجھے ابھی اپنے نوٹس دیتی‬
‫جاؤ۔" وہ اس کے ہاتھ سے فائل تھام کر بولی۔‬
‫وہ اس کے قدم کے ساتھ قدم مال کر چلتی محو گفتگو‬
‫تھی۔‬
‫وہ مسکراتے ہوئے اس کی بات کا جواب دے رہا تھا‬
‫کہ اچانک کسی لڑکی نے ان کے سامنے آتے ہوئے ان‬
‫کا راستہ روک لیا۔‬
‫کائنات کے تو سانس ہی خشک ہو گئے تھے کیونکہ‬
‫وہ اس کی انگلش کی پروفیسر تھیں۔‬

‫‪182‬‬
‫"شاہزیب احمد‪ !.....‬یہ آپ ہیں؟" وہ خوشی سے‬
‫کھنکتی آواز میں گویا ہوئی تھی۔ کائنات نے چونک کر‬
‫شیری کی جانب دیکھا۔‬
‫"ہائے‪ ،‬کیسی ہو تابندہ!" اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ‬
‫کو نرمی سے تھام کر چھوڑتے ہوئے وہ مبہم سا‬
‫مسکرایا۔‬
‫"میں تو ٹھیک ہوں جناب‪....‬آپ بہت عرصہ بعد‬
‫دکھائی دیئے ہو‪ ،‬کہاں غائب تھے؟" اس نے دانتوں‬
‫کی نمائش کرتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫یہ وہ میم تھی جس کی پیشانی پر ہمیشہ بل رہتے‬
‫تھے اور اس وقت وہ انہیں شیری سے یوں بات‬
‫کرتے دیکھ کافی حیران ہوئی تھی‪....‬بلکہ غش کھا کر‬
‫گرنے ہی والی تھی۔‬
‫"بس یہاں ہی۔ میٹ مائی کزن کائنات۔" اس نے گردن‬
‫گھما کر اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا‬
‫تو کائنات زبردستی مسکرائی تھی۔‬
‫"کائنات رائے‪.....‬یہ تو بہت ہی کیوٹ ہے۔مجھے اس‬
‫کی پوری کالس میں یہ بچی ہی اچھی لگتی ہے۔‬

‫‪183‬‬
‫اچھا چلو نا میرے آفیس میں کچھ دیر گپ شپ کرتے‬
‫ہیں۔"‬
‫"نہیں‪ ،‬سوری تابندہ! پھر کبھی‪ ،‬ایکچلی فیملی باہر‬
‫گاڑی میں بیٹھی ہے۔" وہ نرمی سے بوال۔‬
‫"ٹھیک ہے شاہزیب صاحب! اب تو پھر مالقات ہوتی‬
‫رہے گی۔" اس نے ایک مرتبہ پھر سے اپنا ہاتھ اس‬
‫کے سامنے پھیالیا تو شیری نے تھام لیا۔‬
‫کائنات نے تریچھی نگاہوں سے ان کے ہاتھ کو دیکھا‬
‫اور ضبط سے رخ پھیر گئی۔‬
‫"حور کو اگر پتہ چل گیا نا کہ اس کا ہونے واال شوہر‬
‫یوں لڑکیوں سے ہاتھ مالتا پھر رہا ہے تو شیری‬
‫بھائی کا حشر نشر کر دے گی۔" وہ سلگ کر سوچ کے‬
‫رہ گئی‪،‬اس کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔‬
‫شیری نے بہت غور سے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"کیا ہوا تمیں؟"‬
‫"کچھ نہیں۔" وہ شانے آچکا کر بولی تو وہ مسکرا‬
‫دیا۔‬

‫‪184‬‬
‫"تابندہ میری کالس فیلو تھی اور ہیلو ہائے والی‬
‫دوست بھی۔"‬
‫"میں نے پوچھا تو نہیں ہے شیری بھائی؟" وہ خفگی‬
‫سے بولی۔‬
‫"مگر میں نے تو بتایا ہے۔" وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫گاڑی میں بیٹھی ماں کو دیکھ اس کی خوشی کا کوئی‬
‫ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔‬
‫"میں نے سوچا اپنی بچی سے مل لوں‬
‫اور شیری بیٹے نے گھر کا سامان لینا تھا تو لے آیا‬
‫تاکہ تمہیں بھی مل لوں اور اس کی مدد بھی کر دوں۔"‬
‫انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔‬
‫سنہری میٹل سے رومن میں بڑے بڑے حروف سے‬
‫اس کی دیوار پر ڈپٹی کمشنر لکھا ہوا تھا۔‬
‫سیاہ رنگ کا بڑا سا گیٹ جس کے سامنے دو چوکیدار‬
‫بیٹھے تھے‪،‬اس کی گاڑی دیکھتے ہی انہوں نے تیزی‬
‫سے دروازہ کھول دیا تھا۔‬

‫‪185‬‬
‫راہداری کے دو جانب سبزا پھیال تھا اور سامنے ہی‬
‫رہائشی عالیشان عمارت سر اٹھائے کھڑی تھی۔‬
‫"واؤ‪.....‬شیری بھائی! آپ کا گھر کیا کمال کا ہے۔اتنا‬
‫بڑا بنگلہ‪"....‬‬
‫"ابھی اندر سے دیکھو گی تو اور خوش ہو جاؤ گی۔"‬
‫ماما نے بڑی سی مسکراہٹ لیے کہا۔‬
‫"ماما! شیری بھائی واقع ہی اس عزت کے قابل بھی‬
‫تو ہیں‪ ،‬کتنی محنت کی ہے انہوں نے۔" وہ اس کی‬
‫سیٹ پر اور لیفٹ سیٹ پر دائیں‪ ،‬بائیں بازو ٹکائے‬
‫خوشی سے کھنکتی آواز میں کہہ رہی تھی۔ شیری‬
‫کے ساتھ ساتھ ماں بھی خوشی سے ہنس دیں۔‬
‫گھر بہت پیارا تھا مگر خالی خالی سا تھا۔‬
‫"شیری بھائی! گھر تو بہت پیارا ہے مگر ڈیکور‬
‫ضرور کریئے گا۔"‬
‫وہ ایک نظر گالس وال کے پار نظر آتے گارڈن پر ڈال‬
‫کر صوفے پر براجمان ہو گئی۔‬
‫"ارے بھئی‪ ،‬یہ کام لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔"‬
‫وہ ماں کے ساتھ نشست سنبھالتے ہوئے بوال۔‬
‫‪186‬‬
‫"ٹھیک ہے‪ ،‬پھر میں آپ کی ہیلپ کروں گی۔" وہ‬
‫چہکی۔‬
‫ماں کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ان کی بات منہ میں‬
‫ہی رہ گئی۔‬
‫"وائے ناٹ۔ کچھ دن ممانی بھی یہاں ہی ہیں۔کل سے‬
‫تمہیں دو چھٹیاں بھی ہیں تو ہم چلیں گے شاپنگ‬
‫کرنے۔"‬
‫وہ یہاں آ کر بلکل بدل گیا تھا۔‬
‫سیکائے کرتہ پاجامہ زیب تن کیے‪،‬چہرے پر‬
‫مسکراہٹ لیے وہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔‬
‫اس کے چہرے پر مسکراہٹ بہت جچتی تھی کائنات‬
‫اسے دیکھتے ہوئے مسکرائی پھر اسے شرارت‬
‫سوجھی تھی تبھی بیگ میں سے فون نکال کر چپکے‬
‫سے اس کی فوٹو بنائی اور حوریہ کو بھیج دی۔‬
‫"لگ رہے ہیں نا شیری بھائی ہینڈسم۔" اس نے ٹائپ‬
‫کر کے آنکھ دبانے واال ایموجی ساتھ لگا کر واٹس‬
‫ایپ پر میسج بھیج دیا۔‬

‫‪187‬‬
‫فون دوبارہ سے میز پر رکھ کر وہ پھر سے ان دونوں‬
‫کی جانب متوجہ ہو گئی۔باقی کا وقت ایسے ہی گزر گیا۔‬
‫رات کا کھانا کھانے کے بعد ماں سونے چلی گئیں اور‬
‫شیری بھی کسی کام سے باہر نکل گیا۔‬
‫وہ لیپ ٹاپ لے کر سیٹنگ روم میں جا بیٹھی اور‬
‫سوموار کی اسائنمنٹ بنانے بیٹھ گئی۔‬
‫تقریبا ً آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا اسے اپنی کمر کی ہڈی‬
‫میں اٹھتی تکلیف شدت سے محسوس ہوئی تو وہ‬
‫وہاں ہی ڈبل صوفے پر کشن درست کر کے کمر‬
‫ٹکائے ٹانگوں پر لیپ ٹاپ رکھے نیم دراز ہو گئی۔‬
‫جمائی لیتے ہوئے بجتے ہوئے فون کی جانب دیکھا‬
‫اور کال اٹینڈ کر کے سپیکر پر ڈال کے پھر سے لیپ‬
‫ٹاپ پر انگلیاں چالنے لگی۔‬
‫"کائنات! کہاں ہو تم؟" حور نے اس کا میسج جیسے‬
‫ہی دیکھا فوراً کال کی تھی۔‬
‫"شیری بھائی کے گھر۔تم بتاؤ شیری بھائی اب پہلے‬
‫سے زیادہ ہینڈسم ہو گئے ہیں نا؟ پتہ ہے وہ بہت‬

‫‪188‬‬
‫خوش ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی جیسے سامنے‬
‫والی کو تو بہت انٹرسٹ تھا شیری میں۔‬
‫"اونہہ‪ .....‬ہینڈسم مائی فٹ۔ تمہیں میں نے منع کیا تھا‬
‫نا کہ شیری اچھا لڑکا نہیں ہے۔ تم‪".....‬‬
‫"حور! پلیز یہ کیا بچپنا ہے؟تم ہمیشہ ان کے متعلق‬
‫اتنا غلط کیوں بولتی ہو؟ آخر تمہاری کون سی دشمنی‬
‫ہے ان سے؟" وہ اس کی بات درمیان میں کاٹتے‬
‫ہوئے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر سر ہاتھوں میں گرئے‬
‫دکھتے سر کو دھیرے دھیرے دبانے لگی۔‬
‫"تم نہیں جانتی اسے۔ وہ بہت گرا ہوا شخص ہے‪ ،‬وہ‬
‫باظاہر جیسا دِکھتا ہے ویسا ہے نہیں۔"‬
‫شیری کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ دروازے کے‬
‫درمیان میں ہی ساکت ہو گیا۔‬
‫"حور! تم خود نہیں جانتی انہیں‪ ،‬وہ بہت اچھے‬
‫ہیں‪.....‬خیر کم از کم تم انہیں مبارکباد تو دے سکتی‬
‫ہو۔"‬
‫وہ بات بدل گئی۔‬

‫‪189‬‬
‫"اسے مبارک دیتی ہے میری جوتی۔تم ہی دو اسے‬
‫مبارکیں۔ویسے بھی وہ یہاں تک ہماری وجہ سے ہی‬
‫پہنچا ہے‪ ،‬ہمارے احسانات‪ " ......‬وہ دانتوں پہ دانت‬
‫جمائے سخت لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"خدا کا واسطہ ہے تمہیں حور! ہر وقت اتنی مرچیں‬
‫مت چبا کر رکھا کرو‪....‬اور شیری بھائی یہاں تک اپنی‬
‫محنت کی بدولت پہنچے ہیں۔ کالج اور اسکول ان کا‬
‫سرکاری تھا‪ ،‬یونیورسٹی میں جب وہ تھے تو اپنا‬
‫سارا خرچ پارٹ ٹائم جاب کے ذریعے اٹھاتے‬
‫تھے‪...‬پھر کون سے احسانات کیے ہیں تم لوگوں نے‬
‫ان پر؟" وہ تیز لہجے میں کہتی اسی وقت کال کاٹ‬
‫گئی۔‬
‫حور سے منہ ماری کر کے سر میں مزید درد اٹھنے‬
‫لگا تھا۔‬
‫وہ سر صوفے کی پشت پر گرا کر آنکھیں موند گئی۔‬
‫شیری ایک نگاہ اس پر ڈال کر پلٹ گیا تھا‪ ،‬اس کا رخ‬
‫کچن کی جانب تھا۔‬

‫‪190‬‬
‫چند پل بعد وہ ہاتھ میں کافی کے دو مگ تھامے وہاں‬
‫دوبارہ آیا تھا۔‬
‫گال کھنکار کر کمرے میں داخل ہوا۔‬
‫"آپ واپس کب آئے ؟" وہ اٹھ کر سیدھی ہو بیٹھی۔‬
‫"ابھی آیا ہوں۔تم ٹھیک تو ہو؟" وہ اس کے سرخ و‬
‫سفید چہرے پر نگاہیں ٹکائے نرمی سے بولتا اس کی‬
‫جانب کافی کا مگ بڑھا کر خود ساتھ والے سنگل‬
‫صوفے پر بیٹھ گیا۔‬
‫"جی۔ بس سر بوجھل ہو رہا ہے پیچھلے دو گھنٹے‬
‫سے کھپ رہی ہوں میم تابندہ کے سبجیکٹ کی‬
‫اسائنمنٹ بنا رہی تھی۔"‬
‫اس نے کافی کا مگ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫"بخار تو نہیں ہے؟" وہ فکرمندی سے گویا ہوا۔‬
‫پھر خود ہی آگے ہو کر اس کی پیشانی چھوئی جو جل‬
‫رہی تھی۔ اس کے سرد ہاتھ لگنے پر وہ کپکپا گئی‬
‫تھی۔‬
‫"اوہ میرے خدا لڑکی تمہیں تو بخار ہے۔"‬
‫‪191‬‬
‫شیری نے اٹھ کر دروازہ بند کیا اور ہیٹنگ سسٹم آن‬
‫کر دیا۔‬
‫"تم نے شال بھی نہیں لی‪ ،‬پاگل لڑکی جلدی سے کافی‬
‫ختم کرو میں ابھی آتا ہوں۔"‬
‫"شیری بھائی! ماما کو نہیں بتائے گا وہ پریشان ہو‬
‫جائیں گیں۔"‬
‫"نہیں بتاتا۔" وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد جب آیا تو اس کے ہاتھ میں بلینکڈ اور‬
‫گرم ٹوپی تھی۔ اس کے سر پر کیپ دے کر بلینکڈ اس‬
‫پر اوڑھ دیا۔کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی وہ بند کر‬
‫کے اس نے جیب میں سے ٹیبلیٹ نکال کر اس کی‬
‫جانب بڑھائی۔‬
‫"ایسا کرو ممانی کے پاس جا کر سو جاؤ۔"‬
‫"نہیں وہ سو چکی ہوں گیں‪ ،‬ان کی نیند خراب کرنا‬
‫نہیں چاہیے‪ ،‬صوفہ کافی بڑا اور آرام دا ہے میں یہاں‬
‫ہی سو جاؤں گی۔" وہ ایک نظر اس پر ڈال کر کشن‬
‫سر کے تلے رکھتے ہوئے لیٹ کر بلینکڈ میں گھس‬
‫گئی۔‬

‫‪192‬‬
‫کمرہ کافی حد تک گرم ہو چکا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔میں ٹی وی الؤنج میں ہی ہوں اگر کسی‬
‫چیز کی ضرورت ہو تو بال لینا۔شاباش سو جاؤ۔" وہ‬
‫مگ اٹھا کر پلٹ گیا۔‬
‫"بات سنیں‪......‬شیری بھائی!" اس کے پکارنے پر وہ‬
‫رک کر پلٹا۔‬
‫"کیا بات ہے؟"‬
‫"آپ بہت اچھے ہیں ایسے ہی رہیے گا۔" وہ اس کی‬
‫بات پر مبہم سا مسکرا دیا۔‬
‫"سو جاؤ۔" وہ کہہ کر پلٹا اور دروازہ کھول کر پلٹ‬
‫کے ایک نظر کائنات پر ڈال کر کمرے سے نکل کر‬
‫دروازہ بند کرتا وہاں سے چال گیا۔‬
‫اس پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی ‪ ،‬کچھ ہی دیر‬
‫بعد وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔‬
‫صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔‬
‫وہ بھی جاکنگ سے لوٹا تو کچن سے دھیمی دھیمی‬
‫سی برتنوں اور مسالک بھنے جانے کی آواز سن کر‬
‫وہ ادھر ہی بڑھ گیا۔‬
‫‪193‬‬
‫"کائنات!‪.....‬تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ پاگل لڑکی بخار‬
‫ہے تمہیں‪ ،‬تم ریسٹ کرو‪....‬چلو نکلو یہاں سے۔" وہ‬
‫اسے شانوں سے تھامے دھکیل کر فکرمندی سے کہتا‬
‫کچن سے نکال چکا تھا اور وہ اس اچانک آفت پر‬
‫ہڑبڑا گئی تھی۔‬
‫"شیری بھائی! کیا کر رہے ہیں۔میں ٹھیک ہوں اب۔"‬
‫وہ اس کے پیچھے کچن کی جانب بھاگی۔‬
‫"پھر بھی ریسٹ کرو‪ ،‬دو دن گھر ہو تو پوری طرح‬
‫ریسٹ کرو تاکہ جلد صحت یاب ہو جاؤ۔" وہ فرائی پین‬
‫میں پکتے آملیٹ کو چمچ سے الٹاتے ہوئے بوال۔‬
‫"اوہ ہو شیری بھائی! میں ٹھیک ہوں۔ چیک کریں۔"‬
‫اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی پیشانی پر رکھتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫"دیکھا نہیں ہے نا بخار۔ اب جائیں جا کر فریش ہو کر‬
‫آ جائیں۔" وہ اس کا بازو تھام کر کھینچتے ہوئے کچن‬
‫سے نکال کر واپس آ گئی۔‬

‫‪194‬‬
‫وہ مسکرا کر ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے ہار ماننے‬
‫والے انداز میں نفی میں سر ہالتا اپنے کمرے کی‬
‫جانب بڑھ گیا۔‬
‫وہ چینج کر کے سیٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا کیونکہ‬
‫ڈائننگ ہال کی سیٹنگ ابھی نہیں ہوئی تھی۔‬
‫ابھی صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ کائنات کا فون بج اٹھا۔‬
‫نگاہ ڈالی تو سکرین پر حور کا نام جگمگا رہا تھا‬
‫جس کے سامنے ننھا سا دل واال ایموجی بھی چمکتا‬
‫دیکھ وہ مسکرا دیا تھا۔‬
‫"میرے نام کے ساتھ کون سا ایموجی ہے؟" کال کٹ‬
‫ہو چکی تھی اس نے تیزی سے اپنا فون اٹھایا اور‬
‫کائنات کا نمبر مالیا۔‬
‫میز پر پڑا اس کا فون پھر سے بجنے لگا۔‬
‫نگاہ ڈالتے ہی ایک پل کو وہ خاموش ہو کر فون کی‬
‫سکرین کو دیکھتا رہا اس کے نام کے ساتھ بھی دل‬
‫واال ہی ایموجی تھا وہ مسکرا کر کال کٹ کرتا فون میز‬
‫پر ڈالتے ہوئے کھلے دروازے سے باہر دیکھنے لگا‬

‫‪195‬‬
‫جہاں سے مالزم کھانے کی ٹرالی گھسیٹ کر ال رہا‬
‫تھا۔‬
‫اس کے فون پر دوبارہ سے بیل ہوئی تھی۔‬
‫"کائنات‪ !.....‬تمہارا فون ہے۔" وہ اکتا کر فون اٹھائے‬
‫باہر نکل گیا۔‬
‫"حوریہ کا فون ہے بات کرو۔" اس نے ایک نظر اس‬
‫کے آٹے میں چلتے ہاتھوں پر ڈالی اور کال اٹینڈ کر‬
‫کے فون اس کے کان سے لگا دیا۔‬
‫"ہاں بولو؟" ناراضگی مزید بڑھ چکی تھی۔‬
‫"میں نے کال اس لیے نہیں کی کہ تم فالتو کی‬
‫ایفیشینسی دکھاؤ۔ میں ناران جا رہی ہوں‪ ،‬ماما کو بتا‬
‫دینا اور ان سے کہنا پچاس ہزار میرے اکاؤنٹ میں‬
‫بھیج دیں۔" اس نے بھی نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا۔‬
‫"واٹ؟ دماغ درست ہے تمہارا حور؟ تم بنا اجازت‬
‫لیے‪".....‬‬
‫"اجازت مانگتی تو بھی تو مل ہی جانی تھی۔ خیر زیادہ‬
‫لیکچر مت دو ماما غصے ہوں تو منا لینا۔اوکے‬
‫بائے۔" وہ اپنی سنا کر کال کاٹ گئی۔‬

‫‪196‬‬
‫کائنات تلمال کر رہ گئی۔‬
‫اور وہ بھی لب بھینچ گیا تھا۔‬
‫انہیں معلوم تھا کہ حور خودسر ہے‪،‬اپنی مرضی کی‬
‫مالک ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ سوائے اس‬
‫کے کہ ماں کو نہ بتایا جائے کہ ان کا بلڈ پریشر پہلے‬
‫ہائی ہو جاتا ہے وہ مزید پریشان ہو جائیں گیں۔‬
‫وہ لوگ کاغان پہنچ چکے تھے۔‬
‫اس نے الگ کمرہ لیا تھا کہ اب کچھ دن سکون سے‬
‫اکیلے گزارے گی۔‬
‫اسے کبھی بھی عادت نہیں تھی روم شیئر کرنے کی‬
‫مگر ہاسٹل میں کرنا پڑ رہا تھا۔‬
‫اور وہ بھی اس نے اپنی فرینڈز کو اپنے ساتھ رکھا‬
‫تھا۔‬
‫ان سے بھی وہ اکثر اکتا جاتی تھی۔‬
‫کھڑکی کے در کھولتے ہوئے اس نے آنکھیں موندے‬
‫گہری سانس بھری تھی۔‬
‫"سکون‪ "......‬دور دور تک ہریالی ہی ہریالی تھی۔‬

‫‪197‬‬
‫وہ پلٹی اور فریش ہونے کے بعد بنا کسی کو بھی‬
‫بنانے کی ضرورت سمجھے گھومنے نکل گئی۔‬
‫"میم! اس طرف پہاڑیاں بہت خطرناک ہیں‪ ،‬تجربہ کار‬
‫ہی ان پر چڑھ سکتا ہے‪ ،‬آپ اس طرف چلی جائیں۔"‬
‫"ایکسکیوز می؟ میں نے آپ سے مشورہ نہیں‬
‫مانگا۔" وہ بےحد سنجیدگی سے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔‬
‫"دیکھیں میم! میں آپ کا گائیڈئن ہوں۔اسی لیے آپ کو‬
‫میرا مشورہ درکار ہے۔" وہ لڑکا تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫"دیکھو مسٹر گائنڈئن آف دی گالئکسی تم اپنے‬
‫مشورے باقیوں کو دو مجھے بلکل بھی عادت نہیں‬
‫مشورے سننے کی۔اوکے‪.....‬بائے بائے۔" وہ گالسز‬
‫آنکھوں پر چڑھائے آگے بڑھ گئی۔‬
‫وہ شخص مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔‬
‫"اب تو ان پہاڑیوں پر ہی جاؤں گی۔" وہ اپنا کیمرہ‬
‫ہاتھ میں تھامے آگے بڑھتی گئی۔‬
‫لفٹ سے پہلی سے دوسری پہاڑی پر اتری اور کنارے‬
‫پر رکی دور دور تک نگاہیں دوڑانے لگی۔‬

‫‪198‬‬
‫"واؤ سو بیوٹیفل۔" اس نے ابھی ایک قدم آگے رکھا‬
‫ہی تھا کہ کسی نے اسے شانے سے دبوچ کر اپنی‬
‫جانب کھینچا۔وہ اس کے سینے سے آ لگی تھی‪.....‬یہ‬
‫خوشبو جانی پہچانی سی تھی‪ .....‬وہ آنکھیں سختی‬
‫سے موندے ہوئے تھی۔‬
‫"محترمہ سامنے کھائی ہے دھیان کہاں‪ ".....‬وہ اسے‬
‫خود سے دور کرتے ہوئے بوال اور جب نگاہ اس پر‬
‫پڑی تو ایک پل کو مکمل طور پر خاموش ہو گیا۔‬
‫"ارے میڈم جی آپ یہاں؟" وہ اسی سنجیدگی سے بوال۔‬
‫وہ ساکت پلکوں سے اس کی جانب دیکھے جا رہی‬
‫تھی۔‬
‫بےاختیار ہی آنسو پلکوں کی باڑ پھیالنگ کر‬
‫رخساروں کو تر کرنے لگے تھے۔‬
‫"آپ رو رہی ہیں؟" وہ حیران ہوا۔‬
‫"ن نہیں میرا خیال ہے یہ۔ وہ کہاں آئے گا۔" اس نے‬
‫خود کو نفی کی اور اس کے قریب سے گزری ہی تھی‬
‫کہ اس نے اس کی کالئی تھام کر روک دیا۔‬

‫‪199‬‬
‫حور کی ساری جان اس کالئی میں آ سمائی تھی وہ‬
‫بےبس سی ہو کر اس کے شانے سے لگ کر آنکھیں‬
‫میچ گئی۔‬
‫"اتنا کیوں ستاتے ہو شازار!‪ .....‬ہر وقت آس پاس‬
‫رہتے ہو مگر جب خیال سے چونکتی ہوں تو کچھ بھی‬
‫میرے ہاتھ میں نہیں ہوتا سوائے آنسوؤں کے۔" وہ‬
‫رونے کے درمیان بےحد مدھم آواز میں بولی تھی۔‬
‫شازار نے گردن گھما کر اس کی جانب پھیلی ہوئی‬
‫حیران کن نگاہوں سے دیکھا تھا۔‬
‫"شازار! پلیز میرے ہو جائیں اب‪ ،‬اب اگر میرے نہ‬
‫ہوئے تو م میں مر جاؤں گی نہیں تو۔" وہ غنودگی کے‬
‫عالم میں کہتی اس کی باہوں میں لڑکھڑا گئی تھی۔‬
‫اس نے تیزی سے اسے تھام لیا‬
‫"میڈم جی! آنکھیں کھولو۔" وہ اس کی رخساریں‬
‫تھپکتے ہوئے بےچینی سے بوال۔‬
‫"عجیب‪....‬جواب سننے سے پہلے ہی بےہوش ہو‬
‫گئیں ہیں آپ میڈم جی۔" اس کے ہونٹوں کی تراش میں‬
‫مردہ سی مسکراہٹ بکھری تھی۔‬

‫‪200‬‬
‫"تو جواب سنائیں نا؟" وہ آنکھیں کھولتے ہوئے‬
‫شرارت بھرے لہجے میں بولی۔‬
‫"میڈم جی‪...‬وہ میں‪"....‬‬
‫"حور کہہ سکتے ہیں۔" وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫شازار نے گردن گھما کر اس کے دلکش چہرے کی‬
‫جانب دیکھا۔‬
‫"شازار! جواب؟"‬
‫چند پل کی خاموشی کو اس نے توڑا تھا۔‬
‫"میں کیا کہوں؟"‬
‫"کچھ بھی۔"‬
‫"آپ مجھے جانتی نہیں ہو‪ ،‬میں کون ہوں‪ ،‬کیا ہوں۔تو‬
‫یہ سب پہلے جان لو۔"وہ سنجیدگی سے بوال۔‬
‫"شازار! مجھے آپ کے بیک گراؤنڈ سے کوئی فرق‬
‫نہیں پڑتا۔ آپ ایک اچھے انسان ہیں‪ ،‬زندہ دل اور‬
‫میرے لیے یہ ہی کافی ہے۔" وہ سر جھکائے مدھم‬
‫آواز میں بول رہی تھی۔‬

‫‪201‬‬
‫ان دونوں کے درمیان آدھے فِٹ کا فاصلہ تھا وہ دائیں‬
‫جانب منہ کیے بیٹھی تھی اور وہ بائیں جانب۔‬
‫کئی پل پھر سے خاموشی کے نظر ہو گئے تھے۔‬
‫"دراصل ہمارے خاندان میں برادری سے باہر شادی‬
‫نہیں کرتے اور‪"......‬‬
‫وہ کہتے کہتے خاموش ہوا۔‬
‫حور گھٹنوں پر سر ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے‬
‫بیٹھی تھی۔‬
‫"میں نہیں چاہتا میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو‬
‫پلیز یہ سب یہاں ہی روک دیں۔" وہ سرد آہ بھر کر اٹھ‬
‫کھڑا ہوا۔‬
‫"شازار! ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں اسی پہاڑی‬
‫سے کود کر جان دے دوں گی۔" وہ تھکے تھکے انداز‬
‫میں ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا جب پیچھے سے‬
‫اس کی آواز ابھری وہ خوف زدہ ہو کر اس کی جانب‬
‫پلٹا۔‬
‫وہ پہاڑی کے کنارے پر کھڑی تھی۔‬

‫‪202‬‬
‫"حور! پلیز سمجھنے کی کوشش کریں میں مجبور‬
‫ہوں‪....‬میں آپ سے محبت نہیں کرتا۔" اسے کنارے پر‬
‫کھڑا دیکھ شازار خوف زدہ ہوا تھا۔‬
‫"پہلے تم کہو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔" وہ‬
‫روتے ہوئے نفی میں سر ہال کر بولی۔‬
‫"حور! پلیز میرا ہاتھ تھام لین۔" وہ آگے بڑھا اور اپنا‬
‫ہاتھ اس کے سامنے پھیالیا۔‬
‫"ہمیشہ کے لیے؟"‬
‫"ہاں ہمیشہ کے لیے۔" اس نے حور کی جانب بچانے‬
‫کے لیے سفید جھوٹ بوال تھا۔‬
‫وہ اس کا ہاتھ تھام کر کنارے سے ہٹ گئی۔‬
‫"چلو نیچے چلتے ہیں پھر بتاؤں گا۔" وہ حقیقت میں‬
‫ڈر چکا تھا اس کے اس عمل سے‪.....‬اور جو سچ وہ‬
‫بتانے واال تھا وہ سن کر تو شاید وہ واقع ہی کود‬
‫جاتی۔‬
‫"میرا جھمکا؟" لیفٹ میں بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی‬
‫دوسری ہتھیلی شازار کے سامنے پھیالئی۔‬
‫وہ مسکرایا دیا۔‬
‫‪203‬‬
‫"وہ بیگ میں ہے۔"‬
‫"شازار! میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے‬
‫اتنے پیار سے بات کی ہے تو وہ آپ ہو۔" اس نے اس‬
‫کے گرم ہاتھوں میں اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے تھے۔‬
‫شازار نے لب بھینچ کر غیر معمولی انداز میں ہاتھ‬
‫واپس کھینچ لیے۔‬
‫"ایم سوری۔ م میں حد سے بڑھ رہی ہوں۔ایم سوری۔"‬
‫وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو گئی تھی۔‬
‫وہ کچھ بھی نہیں بوال۔‬
‫ِلفٹ سے اتر کر وہ لوگ ایک جانب سنگی بینچ پر جا‬
‫بیٹھے تھے۔‬
‫"بولیں‪ ،‬آج اتنا خاموش کیوں ہیں آپ۔اور یہ سنجیدگی‬
‫چہرے پر کیسی؟" وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے مسکراتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫شازار نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"حور! ہماری زندگی میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا‬
‫ہے کہ ہم گناہ نہیں کرنا چاہتے ہوتے مگر‪......‬مگر‬
‫ہمارے ہاتھوں گناہ سرزو ہو جاتے ہیں۔"‬
‫‪204‬‬
‫وہ اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جمائے دھیمی آواز میں بول‬
‫رہا تھا۔‬
‫"میں ایسا نہیں تھا جیسا بن گیا ہوں۔ میں بہت گھمنڈی‬
‫اور خود سر تھا‪.....‬مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی‬
‫تھی ‪ ،‬کوئی مرتا ہے مر جائے‪ .....‬میں شرابی تھا ‪،‬‬
‫غنڈہ تھا‪....‬مگر ایک حادثے نے میری زندگی بدل‬
‫دی۔" وہ کہتے کہتے خاموش ہوا اور اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"میری زندگی میں ایک لڑکی آئی۔" اس کی بات پر وہ‬
‫شرمیلی سی مسکراہٹ لیے سر جھکا گئی‪ ،‬وہ انتظار‬
‫کر رہی تھی شازار کہہ وہ تم تھی۔‬
‫"اس لڑکی کو مجھ سے بےپناہ محبت تھی اور اس‬
‫کی خاموش محبت اتنی شدید تھی کہ میں خود کو اسے‬
‫چاہنے سے روک نہیں پایا‪ ....‬مگر پھر بھی وہ‬
‫مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔" اس کی بات پر حور کے‬
‫ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ بےحد چونک‬
‫کر آنکھیں پھیالئے وہ اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔‬
‫"اور پھر ایک دن اس نے‪.....‬اس نے میری جان‬
‫بچانے کی خاطر‪.....‬میری وجہ سے اس نے اپنی جان‬
‫‪205‬‬
‫دے دی میرے ان انہیں‪.....‬ہاتھوں میں اس نے دم‬
‫توڑا اور میں کچھ بھی نہیں کر سکا‪.....‬ہاں وہ نہیں‬
‫ہے مگر آج بھی میرے آس پاس ہے‪ ،‬یہ سب ‪.....‬میں‬
‫پوری طرح اس کے لیے بدل گیا ہوں‪ ،‬شاید اس کی‬
‫روح کو سکون‪"....‬‬
‫"م مجھے ج جانا چاہیے اب۔" وہ اس کی بات درمیان‬
‫میں کاٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر بنا اس کی‬
‫جانب دیکھے دل میں لگی آگ کو دباتی وہاں سے بہت‬
‫تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی تھی۔‬
‫شازار نے ایک نگاہ س پر ڈالی اور سر اٹھا کر آسمان‬
‫کی جانب دیکھا۔‬
‫"معاف کرنا مگر میں نے اس کا ہاتھ اسی لیے تھاما‬
‫کر وہ جان نہ دے بیٹھے۔" وہ مسکراتے ہوئے‬
‫بڑبڑایا۔‬
‫آنکھیں پانیوں سے بھر گئی تھیں۔‬

‫"تم نے جس شخص سے محبت کی اس کے دل کے‬


‫تخت پر تو کوئی اور براجمان ہے حور!‪.....‬‬

‫‪206‬‬
‫ہاہاہا‪.....‬کتنا گھمنڈ تھا نا تمہیں اپنی محبت پر۔" اندر‬
‫سے کوئی اس پر ہنس رہا تھا۔‬
‫وہ اپنے کمرے میں بند ہو کر بیڈ پر اوندھے منہ گری‬
‫بری طرح سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔‬
‫"میں اس کی زندگی میں شامل ہو بھی گئی تو اسے‬
‫وہ لڑکی یاد آتی رہے گی۔ میرے قریب آئے گا‬
‫تو‪.....‬تو وہ خیالوں میں رہے گی۔" وہ بالوں کو‬
‫مٹھیوں میں بھینچے سسک سسک کر روتی چلی گئی۔‬
‫دل میں بہت تیز درد اٹھ رہا تھا۔‬
‫"شازار!‪ .....‬م میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔مجھے‬
‫نفرت ہے تم سے۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔" وہ چینخ‬
‫چینخ کر پورے کمرے کو تحس نحس کر رہی تھی۔اپنی‬
‫حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔‬
‫"مر جاؤ شازار! ت تم بھی اس کے ساتھ مر‬
‫ّٰللا میں مر جاؤں۔ م مجھے نہیں جینا۔" وہ‬
‫جاتے‪.....‬یا ہ‬
‫پاگل ہو رہی تھی رو رو کر آنکھیں سرخ ہو چکی‬
‫تھیں ‪ ،‬بال بکھر چکے تھے‪ ،‬اور اب تو کہیں سردی‬

‫‪207‬‬
‫کا نام و نشان بھی نہیں تھا‪ ،‬اس نے کوٹ اتار کر‬
‫زمین پر پٹخ دیا۔‬
‫حور جس نے محبت کو کبھی مانا نہیں تھا اور جب‬
‫مانا تو بےپناہ یقین کیا‪.....‬اس نے کبھی یہ نہیں سوچا‬
‫تھا کہ شازار کی زندگی میں کوئی اور بھی ہو سکتی‬
‫ہے۔‬
‫حور کا مقام کیا تھا شازار کی زندگی میں ؟‬
‫کیوں وہ خود کو اس کے لیے میسر کر رہی تھی؟‬
‫"ن نہیں شازار! اگر خود کو تباہ کرنا ہے تو دوسری‬
‫طرح کروں گی۔ مگر اب تمہاری جانب قدم نہیں‬
‫بڑھاؤں گی۔مجھے یہ ہرگز نہیں منظور کہ جو میرا‬
‫ہے اس کے دل میں کوئی اور ہو۔"‬
‫بہت دیر سوگ منانے کے بعد وہ بھاری ہوتے سر کو‬
‫تھامے اٹھی تھی اور واشروم میں جا کر بیسن کے‬
‫سامنے جا کھڑی ہوئی۔‬
‫"شازار تو صرف میرا تھا۔ وہ ‪....‬وہ کسی اور سے‬
‫محبت نہیں کر سکتا۔نہیں‪.....‬نہیں‪"....‬شیشے میں‬

‫‪208‬‬
‫اپنے بکھرے سوگوار سراپے پر نگاہیں ٹکائے وہ‬
‫بیسن پر ہاتھ ٹکائے بےاختیار قہقہہ مار کر ہنسی۔‬
‫"جاؤ شازار! میں مکر گئی اپنی محبت سے۔ تمہیں‬
‫مبارک تمہاری محبت۔ مجھے اُدھورا شخص نہیں‬
‫چاہیے‪.....‬جس کے خیاالت میں کوئی اور ہو اور‬
‫باہوں میں ہم ہوں‪،‬مجھے ادھوری محبت منظور ہے۔"‬
‫اس نے بےدردی سے آنسوؤں کو رگڑا تھا۔‬
‫منہ پر پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے وہ ٹاول سے‬
‫چہرہ صاف کرتی ٹاول وہاں پھینک کر کمرے میں‬
‫واپس آئی ایک نظر بکھری چیزوں پر ڈالی اور پھر‬
‫وہاں سے نکل گئی۔‬
‫"تم کہاں تھی؟ ہم تو پریشان ہو گئے تھے‪.....‬تم‬
‫ٹھیک ہو نا؟"‬
‫پلوشہ لوگ گھوم پھر کر واپس آ چکے تھے۔‬
‫اس کے بکھرے بکھرے سراپے کو دیکھتے ہی مافیہ‬
‫نے فکرمندی سے استفسار کیا۔‬

‫‪209‬‬
‫"رحیم سگریٹ ملے گی؟" وہ انہیں اگنور کرتے‬
‫ہوئے رحیم سے مخاطب ہوئی جو سگریٹ کے کش‬
‫بھر رہا تھا۔‬
‫سب کی نگاہیں حیرانگی سے یہاں سے وہاں تک پھیل‬
‫گئیں۔‬
‫"کیا ہوا ؟ یہ لڑکے بھی تو سموکنگ کرتے ہیں‪....‬اوہ‬
‫اچھا تو میں مشکوک کردار کی ہو جاؤں گی‪....‬؟تو کیا‬
‫فرق پڑتا ہے یار‪ ،‬کوئی شادی نہیں کرے‬
‫گا‪....‬ہاہاہاہا‪....‬یہ ہی تو پالن ہے۔ دے نا سگریٹ یار۔"‬
‫وہ بہکی بہکی باتیں کرتی پلوشہ اور مافیہ کو ٹھیک‬
‫نہیں لگ رہی تھی۔‬
‫"نہیں دینی رحیم!‪....‬تم چلو ہمارے ساتھ۔"پلوشہ اس‬
‫کا بازو تھامے بولی۔‬
‫"جسٹ لیو می پلوشہ!‪ ......‬نہیں دینی تو مت دو میں‬
‫لے لوں گی۔" وہ پلوشہ کا ہاتھ جھٹک کر دائیں شانے‬
‫پر بکھرے بالوں کو جھٹک کے آگے بڑھ گئی۔‬
‫اس کے تن پر محض دو کپڑے تھے۔‬
‫ایک جینز اور ایک کاٹن کی بٹنوں والی شرٹ تھی۔‬

‫‪210‬‬
‫پیروں میں سنیکر تھے‪ ،‬بکھرے بال‪......‬سرخ‬
‫آنکھیں۔‬
‫وہ کچھ ہی گھنٹوں میں پوری طرح سے ٹوٹ چکی‬
‫تھی۔‬
‫وہ جو خود کو بہت ہی پہنچی ہوئی ہستی سمجھتی‬
‫تھی چند پلوں میں منہ کے بل زمین بوس ہوئی تھی۔‬
‫وہ لوگ بازار آئے ہوئے تھے۔ماں برتن خریدنے لگ‬
‫گئیں تو وہ چپکے سے شیری کو اپنے ساتھ آنے کا‬
‫اشارہ کرتے ہوئے ایک جانب بڑھ گئی۔‬
‫"شیری بھائی! یہ حور کے اکاؤنٹ میں بھیج دیں۔"‬
‫اپنے بیگ میں سے ہرے چار پانچ نوٹ نکال کر اس‬
‫کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔‬
‫"اماں دادی‪....‬میں بھیج چکا ہوں۔ رکھو اپنے پاس‬
‫یہ۔" وہ اس کے سر پر تھپکی رسید کرتے ہوئے‬
‫مسکرا کر بوال اور واپس پلٹ گیا۔‬
‫"ہائے شیری بھائی کو کتنا خیال ہے حور کا۔ پتہ نہیں‬
‫وہ کب آنکھوں کا شیشہ صاف کر کے دیکھے گی‬
‫انہیں۔"‬
‫‪211‬‬
‫وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی۔‬
‫ماں کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ حور اور‬
‫شیری کی شادی ہو جائے‪ ،‬مگر حور تو اب کسی اور‬
‫ہی دنیا کی رہائشی ہو گئی تھی۔‬
‫وہ دونوں گھر کے لیے کرٹن پسند کر رہے تھے اور‬
‫ممانی برتن دیکھ رہی تھیں۔‬
‫شیری نے ایک ریڈ رنگ کے کرٹن کو اس کی نگاہوں‬
‫کے سامنے لہرایا۔‬
‫"نہیں یہ ڈرائنگ روم میں اچھا نہیں لگے گا نا‪ ،‬یہ‬
‫دیکھیں آپ کے فرنیچر کی فوٹوز۔اور وال پینٹ۔" اس‬
‫نے اپنا فون اس کی جانب بڑھایا اور آگے بڑھ گئی۔‬
‫"تمہارے کہنے کا مطلب ہے ہر کمرے کے لیے الگ‬
‫الگ طرح کے کرٹن‪ ،‬خریدیں گے؟"‬
‫"بلکل‪....‬دیکھیں سیٹنگ روم میں وائٹ گولڈ‪ ،‬ڈرائنگ‬
‫روم کے لیے بلیک اچھے رہیں گے کیونکہ وال گرے‬
‫پیلنگز والی ہیں‪ ،‬ایک کمرے کے لیے پرپلز گولڈ ایک‬
‫میں وائٹ اینڈ گرے اور‪"......‬‬

‫‪212‬‬
‫"کائنات! مجھے کنگال کرنے کا ارادہ ہے کیا؟‬
‫ڈیکوریشن کا سامان کتنا مہنگا خرید لیا اب یہ‪.....‬ابھی‬
‫میری سیلری نہیں آئی۔"‬
‫وہ اس کو بولتے ہوئے روک کر بوال تو کائنات مسکرا‬
‫دی۔‬
‫"ہائے میں صدقے جاؤں‪.....‬شیری بھائی! دل پر نہیں‬
‫لیں۔ اگلے مہینے سیلری آ جائے گی جو چیزیں رہ‬
‫گئیں وہ بعد میں لے لیں گے۔اب چلیں‪......‬یہاں سے‬
‫فری ہو کر آپ کی فوٹوز بھی ڈویلپ ہونے کے لیے‬
‫دینی ہیں۔"‬
‫وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔‬
‫"فوٹوز ؟ کیوں کیوں وہ کیوں؟" وہ تیزی سے آگے‬
‫بڑھا۔‬
‫"اوہ ہو‪ ....‬شیری بھائی! گھر میں بتایا تو تھا کہ‬
‫ڈرائنگ روم میں لٹکانی ہیں اور جو سب سے بڑی‬
‫یعنی قدآور ہو گی وہ ہال میں۔باقی ایک سولہ بائے‬
‫سولہ والی جو ہو گی وہ آپ کے بیڈ روم میں۔" پردے‬
‫دیکھتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں بولی۔‬

‫‪213‬‬
‫شیری پیشانی پیٹ کر رہ گیا۔‬
‫"لڑکی تم مجھے کنگال کر کے ہی دم لو گی۔ اتنی‬
‫تصویریں کیوں کر لگانی ہیں گھر میں؟ میں کون سا‬
‫گم ہو گیا ہوں جو تم نے اشتہار دینا ہے۔"‬
‫اس کی بات پر وہ ہنس دی تھی۔‬
‫"دیکھیں‪ ،‬آپ کمشنر ہیں۔ آپ کے مہمان ‪ ،‬آفیسرز‬
‫دوست وغیرہ آئیں گے تو ویراں گھر کو دیکھ کر‬
‫سمجھیں گے آپ بہت ہی بدزوق ہیں۔ اور دوسری بات‬
‫خالی خالی سا گھر کھانے کو دوڑتا ہے‪ ،‬بھرا بھرا ہی‬
‫اچھا لگتا ہے ماما کہتی ہیں۔ اور تیسری بات آپ کی‬
‫تصویریں اس لیے لگانی ہیں کہ واقع ہی آپ کا گھر‬
‫لگے۔"‬
‫"ٹھیک ہے اماں دادی۔ چلو اب۔"‬
‫وہ پیمنٹ کرنے چل دیا۔‬
‫"بیٹا! یہ کچن کا سارا سامان ہو گیا۔ اب میں تو بہت‬
‫تھک گئی ہوں‪ ،‬گھر چلتے ہیں۔"‬
‫ممانی کے پاس جا کر بیٹھے ہی تھے کہ وہ بولیں۔‬

‫‪214‬‬
‫"پر ماما! ابھی تو تھوڑی اور شاپنگ رہتی ہے۔"‬
‫کائنات نے منہ پھالیا۔‬
‫"ارے جھلی بس کرو‪ ،‬صبح سے کتنا خرچہ کروا دیا‬
‫میرے بچے کا۔" وہ اسے ڈانٹنے لگیں تو وہ منہ‬
‫بسور گئی۔‬
‫"کوئی بات نہیں ممانی! آپ ایسا کریں ڈرائیور کے‬
‫ساتھ یہ سب لے کر چلی جائیں اور چل کر آرام کریں۔‬
‫ہم باقی کی شاپنگ کر لیتے ہیں۔ کل ایک دعوت ہے تو‬
‫آج ساری شاپنگ مکمل ہو جائے تو بہتر ہے۔"‬
‫"ٹھیک ہے بیٹا۔اے کائنات! بھائی کا زیادہ خرچ مت‬
‫کروانا۔" انہوں نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔‬
‫پھر وہ دونوں انہیں گاڑی میں بیٹھا کر واپس پلٹے۔‬
‫"اب کہاں جانا ہے؟" وہ دونوں ہاتھ پسلیوں پر ٹکائے‬
‫اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"جینٹس آؤٹ فیٹر‪ .....‬کیونکہ آپ کی کل دعوت ہے تو‬
‫نیا سوٹ بوٹ چاہیے ہو گا۔"‬
‫"میرے پاس بہت سارے سوٹ پڑے ہیں۔"‬

‫‪215‬‬
‫"اوہ ہو شیری بھائی! وہ تو پرانے ہو گئے نا‪.....‬اب‬
‫اتنی کنجوسی بھی مت کریں۔چلیں‪ "....‬وہ اس کا بازو‬
‫تھام کر کھینچتے ہوئے بولی۔‬
‫"چلو بھئی۔" وہ ہار مانتے ہوئے اس کے ساتھ چل‬
‫دیا۔‬
‫وہ دونوں ساتھ چلتے باتیں کرتے لیفٹ سے جینٹس‬
‫ویئر فلور پر آئے تھے۔‬
‫"کون سا‪ ،‬بیسٹ ہے؟" اس نے گرے اور براؤن‬
‫دھاری دار پینٹ کوٹ اس کے سامنے لہرایا۔‬
‫"پینٹ کوٹ میں یہ دونوں کلر آپ بہت استعمال کرتے‬
‫ہیں۔کوئی اور چیک کریں نا۔"‬
‫وہ کہہ کر خود آگے بڑھ گئی تھری پیس بیلو رنگ کا‬
‫بزنس پلیڈس سوٹ دیکھتے ہی وہ مسکرا اٹھی تھی۔‬
‫"واؤ‪.....‬یہ پرفیکٹ ہے‪"....‬وہ بڑبڑاتی ہوئی پلٹی۔‬
‫"کل ایک آفیسر نے گیٹ ٹو گید رکھا ہوا ہے۔ کائنات‬
‫کہتی کہ مجھے نیا ڈریس لینا چاہیے۔" وہ تابندہ کے‬
‫پاس کھڑا گپیں ہانک رہا تھا۔‬

‫‪216‬‬
‫کائنات کی مسکراہٹ پلوں میں غائب ہوئی اور چہرے‬
‫کی خوشی اب سنجیدگی میں بدل گئی۔‬
‫"کائنات! وہ صرف کالس فیلوز تھے‪.....‬تم پریشان‬
‫کیوں ہو رہی ہو۔حور کی ہی شادی ہو گی شیری بھائی‬
‫سے۔" اس نے خود کو نارمل کیا اور ان کی جانب‬
‫بڑھی۔‬
‫"اسالم علیکم میم!" اس نے نرمی سے مسکرا کر کہا۔‬
‫"و علیکم السالم! تم نے اچھا کیا جو اپنے بھائی کو‬
‫لے آئی اسی بہانے ہماری مالقات بھی ہو گئی۔" اس‬
‫نے مسکراتے ہوئے ہاتھ شیری کے شانے پر رکھا‬
‫تھا۔‬
‫کائنات نے ایک تیکھی نگاہ اس کے ہاتھ پر ڈالی۔‬
‫"شیری بھائی! وہ تھری پیس لیں‪.....‬بہت اچھا ہے۔"‬
‫اس نے تیزی سے پلٹ کر کہا۔‬
‫"چلو دیکھ لیتے ہیں۔تابندہ! ہمیں جوائن کریں گی‬
‫یا‪"....‬‬

‫‪217‬‬
‫"وائے ناٹ‪ ،‬میں تو بس یہاں اپنے بھائی کے لیے‬
‫ٹائی خریدنے آئی ہوں۔" وہ اس کی ادھوری چھوڑی‬
‫بات کے اختتام پر بولی۔‬
‫"اوکے۔" وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫"کوئی ویڈنگ ہے؟"‬
‫"نہیں ڈیپارٹمنٹ کے آفیسر کے ہاں ایک چھوٹی سی‬
‫گیٹ ٹو گیدر ہے۔" شاہزیب نے فون پر موصول ہوئے‬
‫ٹیکس کو پڑھتے ہوئے اس ڈریس کی جانب دیکھا اور‬
‫پھر فون جیب میں ڈال لیا۔‬
‫"کائنات! پھر تو یہ ڈریس بہت ہیوی ہو جائے گا‬
‫نا‪......‬اگر ویڈنگ فنکشن ہوتا تو اچھا لگنا تھا‪ ،‬نارمل‬
‫سی گیٹ ٹو گیدر کے لیے‪...‬تو ڈریس پینٹ اور شرٹ‬
‫یا پھر جینز شرٹ اچھی لگے گی۔کیا خیال ہے‬
‫شیری؟" تابندہ مسکراتے ہوئے بولی۔‬
‫"ہاں بات تو ٹھیک ہے۔" وہ تابندہ کی حمایت میں بوال‬
‫تو کائنات سختی سے لب بھینچ کر رہ گئی تھی۔‬
‫"چلو کوئی پینٹ شرٹ دیکھتے ہیں۔" وہ نرمی سے‬
‫مسکرا کر بولتی کائنات کو زہر لگ رہی تھی۔‬

‫‪218‬‬
‫گرے چیک والی ڈریس پینٹ کے ساتھ تابندہ نے سفید‬
‫رنگ کی پلین شرٹ سلیکٹ کی تھی۔‬
‫کائنات خاموشی سے سینے پر ہاتھ لپیٹے ان کے‬
‫پیچھے چلتی رہی۔‬
‫"تابندہ میم ‪،‬شیری بھائی کو پسند تو نہیں کرتیں؟ کہیں‬
‫وہ انہیں چھین تو نہیں لیں گیں ہم سے؟" اس کے‬
‫ننھے سے معصوم دل میں بےتحاشا خوف پیدا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫قدم زمین میں جکڑے گئے‪ ،‬آنکھوں میں آنسو چمکے‬
‫تھے جنہیں وہ تیزی سے رخ پھیر کر آنسو دوپٹے‬
‫کے پلو سے پونجھ گئی۔‬
‫تابندہ اس کے لیے ریسٹ واچ پسند کر رہی تھی اور‬
‫شیری بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا‪ ،‬وہ اپنے آپ کو‬
‫وہاں مس فٹ محسوس کرتی پلٹ کر کچھ فاصلے پر‬
‫پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔‬
‫تبھی اس کے نمبر پر کال آنے لگی تھی۔‬
‫انجان نمبر دیکھ کر اس نے کال کاٹ دی۔‬

‫‪219‬‬
‫کال پھر سے آنے لگی تھی اس مرتبہ اس نے کال اٹھا‬
‫لی کہ شاید حور ہو یا کوئی دوست۔‬
‫"اسالم علیکم! مس کائنات رائے سے بات ہو سکتی‬
‫ہے؟"‬
‫سامنے سے کسی لڑکے کی آواز سن کر اس نے ایک‬
‫پل کو فون کان پر سے ہٹا کر آنکھوں کے سامنے کیا۔‬
‫"و علیکم السالم! جی بول رہی ہوں‪ ،‬آپ کون؟"‬
‫وہ اپنی آنسو سے بھاری ہوئی آواز پر بمشکل قابو پا‬
‫سکی تھی۔‬
‫"آپ رو رہی ہیں؟"‬
‫"نہیں مسٹر ‪ ،‬آپ ہو کون؟" وہ تیکھے لہجے میں‬
‫گویا ہوئی۔‬
‫"سوری مس رائے! ایکچلی میں آپ کا کالس فیلو ہوں‬
‫ولی خان۔ میں لیٹ ہو گیا ہوں دو ویک تو کیا آپ‬
‫مجھے گائیڈ کر دیں گی سلیبس کور کرنے میں پلیز۔"‬
‫”‪“Okay if you don’t mind…..‬‬

‫‪220‬‬
‫"شام کو بات کریں گے ابھی میں تھوڑی مصروف‬
‫ہوں؟" وہ سانس بھر کر بولی۔‬
‫”‪“No no…. it’s okay….see you later.‬‬
‫"ّٰللا حافظ۔" اس نے کال کاٹ کر ایک نظر اپنی جانب‬
‫ہ‬
‫آتے شیری پر ڈالی۔‬
‫"کیا ہوا تم یہاں کیوں بیٹھ گئیں؟"‬
‫"تھک گئی تھی۔" وہ سر جھکائے سنجیدگی سے‬
‫بولی۔‬
‫"صبح سے تو تھکی نہیں اب اچانک تھک بھی گئی‪،‬‬
‫عجیب لڑکی ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫"شیری! لنچ ساتھ میں کریں؟ کائنات سے بھی دوستی‬
‫ہو جائے گی۔کیوں کائنات! دوستی کرو گی مجھ سے؟"‬
‫"نہیں چڑیل ٹیچر‪.....‬مجھے کوئی شوق نہیں تم سے‬
‫دوستی کرنے کا۔" وہ دل ہی دل میں کہہ سکی تھی‪،‬‬
‫ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے زبردستی کا‬
‫اثبات میں سر ہال گئی۔‬
‫شاہزیب نے جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا‪،‬‬
‫چہرے پر کچھ وقت پہلے والی خوشی نہیں تھی۔‬
‫‪221‬‬
‫"سوری تابندہ! اب ہم گھر چلیں گے‪ ،‬ایکچلی ممانی‬
‫کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ گھر میں تنہا ہیں۔لنچ‬
‫پھر کبھی سعی۔"‬
‫وہ کائنات پر سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے بوال۔‬
‫"چلیں ٹھیک ہے۔" وہ مسکرا دی۔‬
‫"چلیں کائنات؟" وہ شاپنگ بیگ سنبھالے اس کی‬
‫جانب متوجہ ہوا۔‬
‫گراؤنڈ فلور پر پہنچتے ہی کچھ یاد آتے وہ رک گیا۔‬
‫"کائنات! تم یہاں بیٹھو۔ میں ابھی آتا ہوں۔" اسے بیگ‬
‫تھما کر وہ تیز قدم اٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫وہ ساکت کھڑی دیکھتی رہ گئی۔‬
‫تقریبا ً آدھا گھنٹہ بعد وہ لفٹ سے نکال تھا‪ ،‬تابندہ کے‬
‫ساتھ چلتا وہ مسکرا کر کچھ بات کر رہا تھا‪.....‬‬
‫کائنات کو اپنا وجود جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔‬
‫"کائنات! تمہیں کیا ہو رہا ہے۔" اس نے اپنی شہ رگ‬
‫کو دھیرے سے مسال۔‬

‫‪222‬‬
‫"شیری بھائی صرف حور کے ہیں‪ ،‬میرے شیرے‬
‫بھائی کو یہ لڑکی ہم سے چھین نہیں سکتی۔"‬
‫اسے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔‬
‫تابندہ نے گڈ بائے کے لیے اسے ہاتھ ہالیا تھا بدلے‬
‫میں وہ مسکرا بھی نہیں سکی تھی۔‬
‫"چلیں؟ اب پہلے کچھ کھا لیں یا پھر‪".....‬‬
‫"مجھے گھر جانا ہے پلیز۔" وہ اس کی بات کاٹتے‬
‫ہوئے تیز لہجے میں بولی۔‬
‫"اوکے۔" وہ بنا مزید کچھ کہہ مان گیا تھا۔‬
‫گھر جاتے ہی وہ سیٹنگ روم میں گھس گئی اور‬
‫دروازہ بند کر کے کانوں پر ہیڈفون لگاتے ہوئے اپنے‬
‫لیپ ٹاپ میں مصروف ہو گئی۔‬
‫وہ اس کی اس حرکت کو نوٹ کر چکا تھا۔‬
‫*****‬
‫"سردار سائیں! ہم نے کہا تھا کہ آپ خان کو بھول‬
‫جائیں گے۔ شکیل بتا رہا تھا کہ آپ اسے ابھی تک‬
‫ڈھونڈ رہے ہیں؟"‬

‫‪223‬‬
‫وہ ٹیرس پر ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا جب سردار حامد‬
‫وہاں چلے آئے وہ چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"ہم نے بھی کہا تھا بابا سائیں! کہ بس یہ ہم سے مت‬
‫کہیں۔" وہ محبت سے ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں‬
‫سے لگاتے ہوئے نرمی سے بوال۔‬
‫"وہ گم ہوتا تو مل جاتا سردار سائیں! مگر وہ تو کھو‬
‫گیا ہے۔ وہ آپ کو نہیں ملے گا۔" ان کا لہجہ سخت ہوا‬
‫تھا۔‬
‫"مجھے یقین ہے بابا سائیں! امو جان کی دعاؤں پر‬
‫دادو جان کے سجدوں پر اور اپنی محبت پر‪ ،‬خان‬
‫مجھے ضرور ملے گا۔" اس نے پریقین انداز میں کہا۔‬
‫"دیکھو سردار! اگر وہ مل بھی گیا تو اس حویلی کے‬
‫دروازے اس کے لیے ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے‬
‫ہیں‪.....‬اس نے قبیلے کو چھوڑ کر گناہ کیا ہے۔ہم سے‬
‫بغاوت کی تھی جسے ہم بھولے نہیں۔" وہ سخت‬
‫لہجے میں کہتے وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتے‬
‫نکل گئے تھے۔‬
‫وہ افسردگی سے انہیں جاتا دیکھتا رہ گیا۔‬

‫‪224‬‬
‫"یہ تو آپ کی ناراضگی ہے‪ ،‬وگرنہ محبت تو آپ بھی‬
‫بہت کرتے ہیں اس سے۔ایک سال میں آپ پر بڑھاپا‬
‫اتر آیا ہے‪ ،‬سر کے بال جو کبھی سفید نہیں ہونے‬
‫دیتے تھے اب آپ کی ساری شوخیاں مند پڑ گئیں‬
‫ہیں۔"‬
‫یہ سوچتے ہوئے اس کی نیلی آنکھوں میں آنسو‬
‫چمکے تھے۔‬
‫" مگر میں وعدہ کر چکا ہوں بابا سائیں! میں خان کو‬
‫ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا۔" اس کی آنکھ سے ایک آنسو‬
‫گر کر زمین بوس ہوا تھا۔‬
‫وہ پلٹ کر کمرے میں جانے لگا تبھی اسےلگا جیسے‬
‫کوئی اسے دیکھ رہا ہے وہ رکا اور چند قدم پیچھے‬
‫ہٹ کر سامنے دیکھا ایک مالزمہ اس جانب آ رہی تھی‬
‫وہ سر جھٹک کر کمرے میں داخل ہو کے دروازہ مقفل‬
‫کر گیا تھا۔‬
‫"سردار سائیں! آپ کی کالی چائے الئی ہوں۔" زرمینہ‬
‫نے آواز اور لہجہ بدلتے ہوئے کہا۔‬

‫‪225‬‬
‫اس نے دروازہ کھوال اور سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھے بنا ہی اس کے ہاتھ سے ٹرے تھام کر پلٹ گیا۔‬
‫زرمینہ تیزی سے آگے بڑھی۔‬
‫"آپ کہاں آ رہی ہیں؟" اسے کمرے میں داخل ہوتے‬
‫دیکھ وہ تیزی سے بوال۔‬
‫"جی برتن‪".....‬‬
‫"وہ میں کچن میں رکھ دوں گا آپ جا کر آرام کریں۔‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس نے کہا تو وہ محض سر ہی ہال سکی‬ ‫ہ‬
‫اور پلٹ گئی۔‬
‫"تم سب کہاں جا رہی ہو؟"اس نے ساری مالزمین کو‬
‫بنا گھونگھٹ کے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ استفسار کیا۔‬
‫"وہ سیریت بی بی لوگوں نے سنگیت کا چھوٹا سا‬
‫اہتمام کیا ہے اور کیک بھی کاٹا جائے گا۔ ہم سب چھت‬
‫پر جا رہی ہیں تم بھی چلو۔"‬
‫ایک مالزمہ نے بتایا۔‬
‫"یہ اہتمام کس خوشی میں؟"‬

‫‪226‬‬
‫"ہماری شبو کا جنم دن ہے نا۔ جس مالزمہ کا بھی جنم‬
‫دن ہوتا ہے سیرت بی بی لوگ ایسے ہی اہتمام کرتی‬
‫ہیں۔"‬
‫دوسری مالزمہ نے کہا۔‬
‫"کیوں نا پھر سردار قبیلے کی تعریفیں کریں جب‬
‫انہوں نے خوشی‪ ،‬غمی میں سب کے ساتھ رہنا ہے۔"‬
‫وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرائی۔‬
‫"میری طبیعت ناساز ہے تھوڑی۔ شبو! جنم دن کی بہت‬
‫بہت مبارکباد۔" اس نے مردہ سی آواز میں بہانہ بناتے‬
‫ہوئے کہا۔ کیونکہ اگر چلی جاتی تو گھونگھٹ اٹھانا‬
‫پڑتا‪ ....‬کیا پتہ کوئی اس کو چہرے سے پہچان جائے‬
‫تبھی وہ تیزی سے پلٹ گئی۔‬
‫آج صبح ہی وہ کافی دنوں کے لیے حویلی میں آ گئی‬
‫تھی۔‬
‫اس کے لیے اس نے نجی کی بہت منتیں کیں تھیں۔‬
‫"زری! بس یہ آخری مرتبہ ہے۔ پھر تم کبھی ضد نہیں‬
‫کرو گی وہاں سے آتے ہوئے یہ احساسات بھی وہاں‬

‫‪227‬‬
‫ہی چھوڑ آؤ گی۔" نجی نے سختی سے کہا تو وہ سر‬
‫ہال گئی۔‬
‫"اسالم آباد پہنچ کر ہمیں بتا دینا۔"‬
‫اپنے والد سے مل کر وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ‬
‫بس اسٹیشن تک گئی تھی۔‬
‫"دھیان سے جانا‪ ،‬اگر تم ضد نہ کرتی تو ہم تمہیں‬
‫کبھی نہ بھیجتے۔ کچھ دن رک جاتی تو میں خود‬
‫چھوڑ آتا۔" بھائی نے اسے بس میں بیٹھاتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫"بھیا! میری کالج کی بیسٹ فرینڈ بہت زیادہ بیمار ہے‪،‬‬
‫اسے میری اب ضرورت ہے ایک دو دن بعد نہیں ہونی‬
‫تھی۔ فکر نہیں کریں میں چلی جاؤں گی۔" اس نے‬
‫برقع کا پلو گراتے ہوئے کہا۔‬
‫"بھیا میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں پلیز بس‬
‫رکوائیں۔" بس چلنے ہی لگی تھی کہ وہ تیزی سے‬
‫بولی۔‬

‫‪228‬‬
‫وہ واشروم ایرا میں جیسے ہی گئی وہاں منہاج پہلے‬
‫سے ہی موجود تھی۔ اس نے برقع اتار کر اس کے‬
‫حوالے کیا۔‬
‫"میں نے صالح سے بات کر لی ہے۔‬
‫وہ تمہیں پک کرنے آ جائے گی‪.....‬یہ میرا فون رکھو‬
‫اس سے رابطہ کر لینا اور اگر گھر میں سے کسی کا‬
‫فون آئے تو اپنا آواز بدلنے واال ہنر استعمال کر لینا۔"‬
‫وہ تیزی سے بولی۔‬
‫"چلو اب جاؤ۔بھائی سے بات مت کرنا اور ‪ ،‬تینتیس‬
‫ّٰللا حافظ۔" وہ اسے گلے‬
‫نمبر سیٹ پر بیٹھ جانا۔ ہ‬
‫لگاتے ہوئے بولی۔‬
‫زری نے بھیا کو اپنے خاص آدمی سے بات کرتے سن‬
‫لیا تھا کہ وہ فاصلے سے ہی زری کا پیچھا کرے گا‬
‫تبھی اس نے یہ منصوبہ بنایا۔‬
‫اب زرمینہ بھی اسالم آباد چلی گئی اور وہ بھی نجی‬
‫کی خالہ کے ذریعے ایک ہفتے کے لیے حویلی پہنچ‬
‫گئی۔‬

‫‪229‬‬
‫کاش وہ جسیی محنت سردار سائیں کے آس پاس‬
‫رہنے کی کر رہی تھی ایسی پڑھائی میں کرتی تو شاید‬
‫نہیں یقینا ً گولڈ میڈل حاصل کرتی‪.....‬‬
‫صبح سے رات گہری ہو گئی تھی‪ ،‬اندھیرا ہر سو ہھیل‬
‫چکا تھا ‪ ،‬سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا مگر‬
‫وہ کسی بےجان شے کی مانند ہوٹل کی بلڈنگ کے‬
‫سامنے پڑی ایزی کرسی پر نیم دراز تھی۔‬
‫دماغ ماؤف تھا‪ ،‬رو رو کر سرخ ہو چکی آنکھوں کو‬
‫ایک جگہ ہی ٹکائے وہ اجڑی نگری کی شہزادی لگ‬
‫رہی تھی۔‬
‫"حور!‪ ...‬یہاں کیوں بیٹھی ہیں‪ ،‬سردی بہت ہے اٹھ کر‬
‫اندر چلیں۔" وہ اس کے قریب رکتے ہوئے بوال تھا۔‬
‫"سردی‪....‬؟ کہاں ہے سردی؟ اگر تمہیں لگ رہی ہے‬
‫تو میرے جلتے وجود پر ہاتھ سینک لو۔" وہ اسی‬
‫انداز میں بیٹھی بےتاثر لہجے میں بولی تھی۔‬
‫"حور! میں آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا‪ ،‬اسی لیے‬
‫سچائی بتا دی۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی‬

‫‪230‬‬
‫کا دل دکھے۔" وہ اس کے سامنے پڑی ایزی چیئر پر‬
‫بیٹھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬تم بتا رہے تھے کہ آج بھی وہ لڑکی‬
‫تمہارے آس پاس ہے۔" اس نے تمسخر اڑانے والے‬
‫انداز میں قہقہہ لگا کر کہا تو وہ نظریں اس پر ٹکائے‬
‫لب بھینچ گیا۔‬
‫"اگر تم کہتے کہ تم غنڈے موالی‪ ،‬چرسی ‪،‬شرابی ہو‬
‫تو میں یہ عادتیں چھڑوا سکتی تھی مگر ایک لڑکی‬
‫جو کہ مر چکی ہے اس کے سحر سے نکالنا‪.....‬بلکہ‬
‫تم نکلنا ہی نہیں چاہو گے۔" وہ سیدھی ہو کر بیٹھتے‬
‫ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫شازار کو اس کی آنکھوں کی سرخی اور بکھرے‬
‫بالوں سے وحشت سی ہوئی تھی۔‬
‫تبھی اس کی آنکھوں نے حور کے کانپتے ہاتھوں کو‬
‫سگریٹ سلگاتے دیکھا۔‬
‫"کہا سنا معاف کرنا‪ ،‬میں دعا کروں گی ہم دوبارہ‬
‫کبھی نہ ملیں‪.....‬اور نہ ہی کبھی تم میرے سامنے‬

‫‪231‬‬
‫آؤ۔" وہ لڑکھڑا کر اٹھی تھی اور سگریٹ کا ایک کش‬
‫بھرتے ہی اسے کھانسی کا دورہ پڑا۔‬
‫"یہ کمینی بھی شریفوں کو راس نہیں آتی۔لگتا ہے‬
‫شرافت کا چوال اتارنا پڑے گا۔" اس نے سگریٹ کو‬
‫پرے اچھالتے ہوئے عجیب تمسخر اڑانے والے انداز‬
‫میں کہا تھا۔‬
‫شازار کے وجود میں جان ہی باقی کہاں تھی جو اسے‬
‫روکتا یا کچھ کہتا‪ ،‬وہ تو اس کی حالت سے ہی خامش‬
‫ہو گیا تھا۔‬
‫"کیا میری ذات پھر سے کسی کی بےسکونی کی وجہ‬
‫بن گئی۔ مگر میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا‪ .....‬میرے‬
‫اچھے برتاؤ کو وہ کیا سمجھ بیٹھی؟"‬
‫وہ سر ہاتھوں میں گرا کر آنکھیں موند گیا۔‬
‫"ولی خان! دو ہفتوں میں جو ہم نے سلیبس کور کیا‬
‫ہے میں نے آپ کو اس کے نوٹس واٹس ایپ کر دیئے‬
‫ہیں چیک کر لیں‪ ،‬اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو پوچھ‬
‫لیجیے گا۔" وہ وائز نوٹ چھوڑ کر پھر سے لیپ ٹاپ‬
‫میں گھس گئی۔‬

‫‪232‬‬
‫"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟"‬
‫شیری دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔‬
‫"جی جی۔ پوچھنے والی کون سی بات ہے۔" وہ‬
‫مسکرا کر بولی۔‬
‫شیری نے بغور اس کی پھیکی پھیکی سی مسکراہٹ‬
‫کو دیکھا تھا۔‬
‫"یہ تمہارے لیے۔" ایک شاپنگ بیگ اس کے سامنے‬
‫رکھتے ہوئے وہ خود صوفے پر جا بیٹھا۔‬
‫"کیا ہے یہ؟"‬
‫"کھول کر دیکھو نا۔" وہ مالزم کی جانب متوجہ ہوتے‬
‫ہوئے بوال جو لوازمات کی ٹرالی گھسیٹ کر وہاں داخل‬
‫ہوا تھا۔‬
‫"ممانی کو بال الؤ۔" اس نے مالزم سے کہا اور خود‬
‫میز پر لوازمات سجانے لگا تھا۔‬
‫"شیری بھائی! مجھے اس ڈریس کی ضرورت نہیں‬
‫ہے۔"‬

‫‪233‬‬
‫بلیک رنگ کا بہت ہی خوبصورت سا نفیس کام واال‬
‫کرتہ پاجامہ اور ساتھ بہت ہی یونیک ریشمی ہم رنگ‬
‫آنچل تھا۔‬
‫"کوئی آپ کو تحفہ دے تو بدلے میں کیا کہتے ہیں؟"‬
‫وہ اس کی جانب کافی کا مگ بڑھاتے ہوئے گویا ہوا۔‬
‫"گفٹ کس خوشی میں؟"‬
‫"میری جاب کی خوشی میں بھئی۔اور ہاں کل ریڈی‬
‫رہنا میرے ساتھ دعوت میں شرکت کر رہی ہو۔"‬
‫وہ مزے سے کیک کا ٹکڑا منہ میں دباتے ہوئے‬
‫اطمینان سے گویا ہوا۔‬
‫"میں ؟ پر میں کیوں؟ میں کل فری نہیں ہوں۔" وہ‬
‫لباس دوبارہ سے ڈبے میں ڈال کر ایک جانب صوفے‬
‫پر رکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"ناراض ہو؟" وہ اس کی آنکھوں میں برا ِہ راست‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ارے نہیں تو۔"‬
‫اس نے تیزی سے کہا۔‬

‫‪234‬‬
‫"پھر اداس ہو؟"‬
‫"نہیں تو۔ بس اسائنمنٹ کی وجہ سے پریشان ہوں۔"‬
‫اس نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے بات ہی ختم کر ڈالی۔‬
‫وہ خاموش ہو گیا۔‬
‫تبھی کائنات کے فون پر ولی خان کی کال آنے لگی‬
‫تھی۔‬
‫"جی بولیں؟" وہ کال اٹھا کر سنجیدہ و بےتاثر لہجے‬
‫میں بولی۔‬
‫"سوری مس رائے! میں آپ کو بار بار ڈسٹرب کر رہا‬
‫ہوں۔" وہ شرمندگی سے بوال۔‬
‫"اٹس اوکے۔کون سا ٹاپک سمجھ نہیں آ رہا؟" وہ بات‬
‫بدلنے اور ختم کرنے میں ماہر تھی۔‬
‫ماما بھی آ کر بیٹھ گئی تھیں۔‬
‫وہ ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ فون پر اسے‬
‫سمجھاتی ہوئی باہر چلی گئی۔‬
‫شیری نے بےحد سنجیدگی سے اسے جاتے دیکھا‬
‫تھا۔‬

‫‪235‬‬
‫"ولی خان! آپ کے پاس دماغ کی جگہ خالی کھوپڑی‬
‫ہے کیا؟" وہ کب سے سر کھپا رہی تھی اور سامنے‬
‫سے وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس نے‬
‫"ایسا کرو سی آر سے رابطہ کرو۔ ہ‬
‫تلمال کر کال کاٹ دی۔‬
‫"عجیب پاگل شخص ہے۔ پورے ایک گھنٹہ سے بول‬
‫بول حلق خشک ہو گیا میرا اور اسے کچھ سمجھ نہیں‬
‫آیا۔"‬
‫وہ پیر پٹختی واپس پلٹی تو ٹھیک پیچھے کھڑے‬
‫شیری سے بری طرح ٹکرائی۔‬
‫وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فاصلے بڑھاتے‬
‫ہوئے اکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگی۔‬
‫"آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔" وہ ڈر کے مارے‬
‫کانپتے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔‬
‫" یہاں کوئی بھی نہیں آ سکتا‪.....‬جس سے تمہیں ڈرنا‬
‫چاہیے۔ خیر بتاؤ کہ کس سے لڑائی کر رہی تھی؟" وہ‬

‫‪236‬‬
‫اس کے ساتھ ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"کالس فیلو ہے ‪ ،‬اس نے دو ہفتے لیٹ جوائن کی ہے‬
‫یونی اور اب میرا سر کھا رہا‪ ،‬ایک گھنٹے‬
‫سے‪.....‬مسلسل ایک گھنٹے سے اسے سمجھا رہی‬
‫ہوں مگر اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔تو میں نے‬
‫کہہ دیا سی آر سے رابطہ کر لو۔"‬
‫"گڈ گرل۔ کسی کو بھی زیادہ سر پر چڑھانے کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ مدد کرنی ہے تو بس اتنی کرو‬
‫جتنی کہ اگلے کو ضرورت ہو‪....‬اوکے؟"‬
‫وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"یس باس۔ چلیں اب اندر؟" وہ سیلوٹ جھاڑتے ہوئے‬
‫بولی۔ تو وہ ہنس دیا۔‬
‫"تمہاری مس تابندہ ٹھیک پڑھاتی ہیں تمہیں؟"‬
‫تابندہ کے ذکر پر کائنات کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔‬
‫"ہاں بس ٹھیک ہی پڑھاتی ہیں۔مجھے ان کا لیکچر‬
‫زہر لگتا ہے۔" وہ شانے آچکا کر کہتی آگے بڑھی۔‬
‫"کیوں؟" وہ حیرانگی سے بوال۔‬
‫‪237‬‬
‫"کیونکہ وہ مجھے زہر لگتی ہے‪ ،‬آپ پر ڈورے ڈالتی‬
‫رہتی ہے۔" وہ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں سکتی‬
‫تھی۔‬
‫" بس ویسے ہی بہت خشک سبجیکٹ ہے نا۔چلیں اندر‬
‫چلتے ہیں مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔" وہ کہہ کر آگے‬
‫بڑھ گئی۔ شیری چند پل اسے جاتا دیکھتا رہا پھر نفی‬
‫میں سر جھٹک اس کے ہمقدم ہوا۔‬
‫"دیکھو۔ تم لوگوں کو رکنا ہے تو رکو‪....‬میں جا رہی‬
‫ہوں۔" وہ آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے آگے بڑھ‬
‫گئی۔‬
‫وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔‬
‫"حور! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"‬
‫وہ اس کے راستے میں دیوار بنتے ہوئے بوال۔حور‬
‫نے فون پر سے نگاہیں اٹھا کر گالسز کے پیچھے‬
‫سے ہی اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"ہو کون تم؟" وہ انتہائی اجنبیت بھرے لہجے میں‬
‫تمسخر اڑانے والے انداز میں بولی تو وہ اس کا منہ‬
‫دیکھتا رہ گیا۔‬

‫‪238‬‬
‫"میری شکل بلکل وہ ہی‪ ،‬بگڑی نہیں ہے جو آپ‬
‫مجھے پہچاننے سے بھی انکاری ہو۔" وہ سنجیدگی‬
‫سے گویا ہوا۔‬
‫"خوامخواہ کی جان پہچان نکالنے کی کوشش مت‬
‫کرو۔" وہ حقارت بھرے انداز میں کہہ کر طنزیہ ہنسی‬
‫اور آگے بڑھی۔‬
‫"میڈم جی! خوامخواہ جان پہچان تو آپ بنا چکی ہیں‬
‫اور اب منہ بھی موڑ رہی ہیں۔یہ تو اچھی بات نہیں‬
‫ہے۔کم از کم میری بات تو سن لیں۔" وہ اس کا ہاتھ‬
‫تھام کر اسے روکتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے‬
‫ایک ایک لفظ چبا کر بوال۔‬
‫"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔" حور‬
‫کا دوسرا ہاتھ ہوا میں گھوم کر سیدھا اس کی رخسار‬
‫پر آن پڑا تھا۔‬
‫"ایک دو کوڑی کے ٹرک ڈرائیور کی اتنی اوقات کہ وہ‬
‫حوریہ رائے کو چھونے کی ہمت کرے؟" وہ اس کے‬
‫ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا چکی تھی۔‬

‫‪239‬‬
‫"آئندہ اپنی اوقات میں رہنا۔نہیں تو جان سے جاؤ گے‪،‬‬
‫شکل مت دکھانا مجھے۔" وہ انگلی اٹھا کر دانتوں پہ‬
‫دانت جمائے اسے تنبیہہ کرتی آگے بڑھ گئی۔‬
‫وہ حیران سا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔‬
‫گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ گھٹنوں پر سر رکھے پھوٹ‬
‫پھوٹ کر رو دی۔‬
‫"کائنات! ابھی تم ریڈی نہیں ہوئی؟" وہ بولتا ہوا جب‬
‫سیٹنگ روم میں داخل ہوا تو وہ جو فون پر جھکی‬
‫ہوئی تھی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔‬
‫سر جھکانے ہی لگی تھی کہ‪......‬اس کے لباس پر‬
‫نگاہ پڑتے ہی وہ بری طرح چونک کر حیرانگی سے‬
‫اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔‬
‫"کیسا لگ رہا ہوں؟" باہر پھیالئے وہ مسکراتے‬
‫ہونٹوں کے ساتھ استفسار کر رہا تھا۔‬
‫"آپ نے تو میم تابندہ کی پسند کا ڈریس‪ ......‬لیا تھا‬
‫نا؟" وہ سر جھکا گئی۔‬
‫"اس کی پسند سے افضل تمہاری پسند ہے۔"‬
‫اس کی بات پر وہ بےاختیار ہی مسکرا دی۔‬
‫‪240‬‬
‫"جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔" وہ کہہ کر پلٹ گیا۔‬
‫کائنات نے غیر ارادہ طور پر دور تک اسے دیکھا تھا۔‬
‫پھر اٹھ کر جلدی سے ریڈی ہونے چلی گئی۔‬
‫ممانی نے مالزمین کو کام پر لگا کر پورا گھر صاف‬
‫ستھرا کروا دیا ہوا تھا‪ ،‬ہر ایک چیز اس محل نما گھر‬
‫میں دھری بہترین لگ رہی تھی۔‬
‫اس نے ایک کمرہ کائنات کو دکھاتے ہوئے کہا تھا یہ‬
‫تمہارا کمرہ ہے جب بھی آؤ گی یہاں ہی رکا کرو گی۔‬
‫ریڈی ہونے کے بعد وہ جب نیچے آئی تو شیری پینٹ‬
‫کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔‬
‫"ماں ابھی ریڈی نہیں ہوئیں؟"‬
‫"وہ تھک چکی ہیں تو اب ریسٹ کر رہی ہیں۔ کہہ رہی‬
‫ہیں ہم چلے جائیں۔" وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫اس کے چہرے پر جمی بیس دیکھ وہ اپنے بلند ہونے‬
‫والے قہقہے کو دبا نہیں سکا تھا۔‬
‫"کیا ہے شیری بھائی؟" وہ ہونقوں کی مانند اس کی‬
‫شکل دیکھنے لگی۔‬

‫‪241‬‬
‫"آؤ دکھاؤں۔" وہ اس کی کالئی تھام دائیں جانب بڑھ‬
‫گیا دیوار میں جڑے شیشے کے سامنے اسے روکتے‬
‫ہوئے وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے اب اس کے ری ایکشن‬
‫دیکھ رہا تھا۔‬
‫پہلے تو اس کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیلیں‬
‫پھر اس نے اپنے چہرے کو انگلی کی مدد سے چھوا‬
‫اور پھر ہنسنے لگی۔‬
‫"میں نے کہا بھی تھا تمہیں ان سب چیزوں کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔" وہ مسکرایا۔‬
‫"میں نے سوچا پارٹی میں جانا ہے تو تھوڑا بہت تو‬
‫کر لینا چاہیے۔" وہ منہ ہاتھوں کی مدد سے پونجھنے‬
‫لگی۔‬
‫"تمہارے کون سا چہرے پر داغ دھبے ہیں جنہیں‬
‫چھپانا ضروری تھا‪ ".....‬وہ اس کی جانب اپنا رومال‬
‫بڑھاتے ہوئے بوال۔‬
‫"جو لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں ان کے چہرے پر داغ‬
‫دھبے ہوتے ہیں؟" وہ حیران ہوئی۔‬

‫‪242‬‬
‫"مجھے کیا پتہ یار۔ خیر مجھے اتنا پتہ ہے تمہیں‬
‫میک اپ کی ضرورت نہیں ہے۔ منہ دھو آؤ میں انتظار‬
‫کرتا ہوں۔" وہ نرمی سے کہہ کر پلٹ گیا۔‬
‫کائنات اس کا رومال اپنے کلچ میں ڈالتے ہوئے سوچ‬
‫رہی تھی کہ شیری ہنستے ہوئے کتنے اچھے لگتے‬
‫"ّٰللا انہیں ہمیشہ یوں ہی ہنستا مسکراتا رکھے۔"‬
‫ہیں۔ ہ‬
‫منہ دھونے کے بعد وہ نیچے آئی تو شاہزیب صوفے‬
‫پر آنکھیں موندے نیم دراز سا تھا۔‬
‫"شیری بھائی!‪......‬کیا آپ سو گے ہیں؟" وہ جھک کر‬
‫دھیمی سی آواز میں پوچھ رہی تھی۔‬
‫شیری نے آنکھیں کھول دی تھیں۔‬
‫"نہیں بس یوں ہی لیٹ گیا تھا۔چلیں؟" وہ چہرے پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا‪ ،‬اس نے اثبات میں‬
‫سر ہال دیا۔‬
‫میز سے گاڑی کی چابی اور وائلٹ اٹھاتے ہوئے وہ‬
‫آگے بڑھ گیا۔‬

‫‪243‬‬
‫کائنات کی نگاہ صوفے پر پڑے اس کے کوٹ پر پڑی‬
‫تو ایک نگاہ جاتے ہوئے شیری پر ڈال کر تیزی سے‬
‫کوٹ اٹھاتی اس کے پیچھے بڑھ گئی۔‬
‫اس نے پہلے کائنات کے لیے دروازہ کھوال۔‬
‫پھر خود ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا۔‬
‫وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے نا کب بدل جائے معلوم ہی‬
‫نہیں ہوتا‪......‬کل تک وہ جو بےحد خوش ہوتی تھی‬
‫اب خاموش ہو کر رہ گئی تھی۔‬
‫وقت کی مانند اس کے احساسات بھی بدل گئے‬
‫تھے‪.....‬اب شازار کو سوچتے ہوئے اس کے ہونٹوں‬
‫کی تراش میں مسکراہٹ نہیں بکھرتی تھی بلکہ‬
‫غصے سے جبڑے بھینچ جاتے تھے۔ دل میں نفرت‬
‫سی بھر جاتی تھی۔‬
‫قصور شازار کا بھی کہاں تھا اور قصور اس کا بھی‬
‫نہیں تھا‪......‬یہ قسمت ہی تو تھی جس نے حور کو‬
‫چوٹ لگائی تھی مگر وہ اس چوٹ کے بدلے میں مزید‬
‫سخت ہو چکی تھی۔‬
‫اس نے چوٹ کو دل کی بجائے دماغ پر لے لیا تھا۔‬

‫‪244‬‬
‫اسے ہر شخص ہی فراڈ لگنے لگا تھا۔‬
‫"پلوشہ! تم لوگ میرے ساتھ اس طرح محبت سے بات‬
‫مت کیا کرو قسم سے بیوفا لگتیں ہو۔" وہ ان لوگوں‬
‫کے نرم برتاؤ سے چڑ کر کہتی تھی۔‬
‫اور وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ جاتیں۔‬
‫آج بہت دنوں بعد سنڈے کو اس کی کائنات سے بات‬
‫ہوئی تو وہ اسے بہت خوش لگ رہی تھی۔‬
‫"تمہیں پتہ ہے حور! شیری بھائی نے کچھ ہی وقت‬
‫میں بہت عزت پا لی ہے ماشاءہللا‪".....‬‬
‫"دیکھا تھا میں نے اس کا پیج۔ بہت ایمان داری سے‬
‫ڈیوٹی کر رہا ہے نہیں بلکہ‪ ......‬دکھاوا کر رہا ہے۔‬
‫کچھ دنوں تک وہ بھی اس سسٹم میں گھس جائے گا‬
‫اور یہ ساری ایمانداری جائے گی بھاڑ میں۔"‬
‫وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔‬
‫"تمہیں پتہ تو ہے انہیں سوشل میڈیا پر رہنا پسند‬
‫نہیں‪.....‬یہ تو میں نے ان کے پرسنل سیکرٹری کو‬
‫کہہ کر بنوایا ہے۔" وہ چہکی۔‬

‫‪245‬‬
‫"سنا ہے اس کے گھر کا سارا سامان وغیرہ کی‬
‫شاپنگ تم نے کی ہے؟" اس نے پرسوچ انداز میں‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"ہاں ناں۔ میں نے ان کا بہت خرچ کروایا ہے۔" وہ‬
‫ایک نظر مالزمہ پر ڈال کے بولی۔‬
‫"ارے بھئی دھیان سے کرو۔ اتنی بڑی فوٹو نظر نہیں‬
‫آ رہی کیا؟" مالزمہ جھاڑو لگاتے لگاتے جیسے ہی‬
‫پیچھے ہٹی زمین پر دیوار کے سہارے پڑی قدآدم فریم‬
‫میں میزیں شاہزیب کی فوٹو سے ٹکرائی تھی۔‬
‫وہ قریب ہی کھڑی تھی تبھی جلدی سے ہاتھ بڑھا کر‬
‫گرنے سے بچا لیا۔‬
‫"کیا ہوا؟" حور نے حیرانگی سے استفسار کیا۔‬
‫"کچھ نہیں یار! پیچھلے ویک شیری بھائی کی فوٹوز‬
‫ڈیویلپ ہونے کے لیے دی تھیں‪ ،‬باقی جو چھوٹی تھیں‬
‫وہ تو میں نے خود ہی لٹکا دیں اب یہ بڑے والی رہ‬
‫گئی ہے وہ آتے ہیں تو خود لگا لیں گے۔"‬

‫‪246‬‬
‫اس نے دوپٹہ شانے پر درست کرتے ہوئے ایک نظر‬
‫تصویر پر ڈالی اور پلٹ کر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھ‬
‫گئی۔‬
‫" کائنات! تم شیری کے گھر کیا کر رہی ہو؟"‬
‫"پلیز حور! پھر سے شروع مت ہو جانا۔ اچھا تم بتاؤ‬
‫کیا کر رہی ہو آج کل؟"‬
‫اس نے بات بدلی۔‬
‫"سوگ منا رہی ہوں۔" وہ ٹھنڈی آہ بھر کے بولی۔‬
‫"ّٰللا نہ کرے۔"وہ تڑپ کر بولی تھی۔‬
‫ہ‬
‫"ویسے پیچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو تم‪،‬‬
‫خیریت تو ہے نا؟" اس کے استفسار پر حور نے اپنے‬
‫آنسوؤں کو روکتے ہوئے سختی سے لب بھینچ کر‬
‫آسمان کی جانب دیکھا تھا۔‬
‫اس وقت ہاسٹل کی چھت پر وہ تنہا ہی بیٹھی تھی۔‬
‫"سب کچھ ٹھیک ہے۔اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں‬
‫ابھی تھوڑا کام کرنا ہے۔" وہ تیزی سے کہہ کر کال‬
‫کاٹ کر گھٹنوں میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو‬
‫دی۔‬
‫‪247‬‬
‫"حور رو رہی تھی؟" کائنات فون کو آنکھوں کے‬
‫سامنے لہراتے ہوئے بڑبڑائی۔‬
‫ٹھیک اسی وقت شیری کی کال آ گئی۔‬
‫"اسالم علیکم! کیسی ہو؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟"‬
‫کال اٹھاتے ہی اس نے پوچھا۔‬
‫"و علیکم السالم۔ ہوں ٹھیک تو ہوں مگر آپ سے‬
‫ناراض ہوں۔" وہ منہ پھالئے بولی۔‬
‫"کیوں بھئی؟" وہ مسکرایا‬
‫"سنڈے تو کم از کم گھر پر گزاریں۔ مجھے بال کر خود‬
‫غائب رہتے ہیں۔" اس نے ناراضگی بھرے لہجے میں‬
‫کہا۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬بس ایک گھنٹے تک پہنچ رہا ہوں۔ تم ریڈی‬
‫ہو جاؤ کہیں باہر چلتے ہیں۔" اس نے کہا تو کائنات‬
‫خوشی سے نعرہ لگاتی تیزی سے کمرے کی جانب‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫وہ ٹھیک ایک گھنٹہ بعد گھر میں داخل ہوا تھا۔‬
‫تھوڑا تھکا تھکا سا۔‬

‫‪248‬‬
‫"واہ بھئی تم تو پہلے سے ہی ریڈی ہو‪ ،‬پانچ منٹ‬
‫مجھے دو میں فریش ہو کر آتا ہوں۔" وہ اپنی تھکان‬
‫مسکراہٹ کے پیچھے چھپا گیا۔‬
‫"نہیں آپ تھکے ہوئے ہیں اسی لیے ابھی ریسٹ‬
‫کریں‪ ،‬ہم ڈنر باہر کر لیں گے۔" وہ سہولت سے بولی۔‬
‫"اتنی کیئر نہ کیا کرو‪ ،‬جب تم ہاسٹل چلی جاتی ہو تو‬
‫مجھے‪ ".....‬وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔‬
‫چند پل اس کی جانب دیکھنے کے بعد وہ صوفے پر‬
‫جا بیٹھا تھا۔‬
‫"مجھے پتہ ہے کہ آپ کو میری یاد آتی ہے پھر۔" وہ‬
‫معصومیت سے مسکرا کر بولی تھی۔‬
‫"ہاں تو اور کیا‪ ،‬گھر بھی بہت خالی خالی سا ہو جاتا‬
‫ہے۔" وہ ریسٹ واچ اتار میز پر رکھتے ہوئے نیم دراز‬
‫ہو گیا۔‬
‫"میں نے تو ماما سے کہا تھا کہ میں آپ کے پاس ہی‬
‫رہتی ہوں آپ آفیس جاتے ہوئے یونی ورسٹی ڈراپ کر‬
‫دیا کریں گے اور واپسی پر پک کر لیں گے پر ماما‬
‫کہتی کہ نہیں تمہارے تایا لوگوں کو اعتراض ہو‬

‫‪249‬‬
‫گا‪.....‬نجانے کیوں اُنہیں اعتراض ہو گا۔" وہ ہاتھ‬
‫نچاتے ہوئے ناسمجھی سے بولی تو وہ مبہم سا قہقہہ‬
‫لگا کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"سب کا دل و دماغ تمہارے جیسا شفاف نہیں ہے‬
‫کائنات!" وہ اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی رسید‬
‫کرتا پلٹا۔‬
‫"اب دماغ پر زور مت دو۔میں ریڈی ہوتا ہوں تب تک‬
‫تم ہم دونوں کے لیے کافی بنا لو۔"‬
‫وہ لیپ ٹاپ بیگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔‬
‫"ابھی آرام کریں‪.....‬شام کو چلتے ہیں۔" کائنات نے‬
‫ہانک لگائی۔‬
‫کمرے کی الئٹ جیسے ہی روشن کی دیواروں پر‬
‫لٹکتی چند تصویریں دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر‬
‫مسکراہٹ بکھر گئی۔‬
‫پھر وہ کفوں کے بٹن کھول کر آستینیں فولڈ کرتا‬
‫پیروں کو جوتوں سے آزاد کر کے بیڈ پر لیٹ گیا۔‬
‫"شیری بھائی! آپ کی کافی۔" کائنات دروازہ‬
‫کھٹکھٹاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔‬

‫‪250‬‬
‫"تھینک یو۔" وہ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر‬
‫بیٹھ گیا‬
‫"فوٹوز کی لوکیشن اچھی ہے نا؟"‬
‫"بہت امیزنگ۔" وہ کافی کا مگ تھامتے ہوئے بوال۔‬
‫"ہال کے لیے جو بنوائی ہے وہ بھی آ چکی ہے۔ کل‬
‫صبح لگا دیجیے گا۔"وہ کہہ کر باہر چلی گئی۔‬
‫کچھ دیر بعد آئی تو اس کے ہاتھ میں ریسٹ واچ تھی‬
‫اور ایک ہاتھ میں اس کا کوٹ تھا۔سائیڈ ٹیبل پر ریسٹ‬
‫واچ رکھ کر وہ وارڈروب کی جانب بڑھی۔‬
‫پھر پلٹ کر شیری کو دیکھا جو آنکھیں موندے سر‬
‫بیڈ کراؤن سے لگائے ہوئے تھا۔‬
‫"مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی شیری‬
‫بھائی! ڈاکٹر کے پاس چلیں۔"‬
‫کوٹ ہینگر پر ہینگ کر کے وارڈروب میں لٹکاتے‬
‫ہوئے وہ اس کی جانب بڑھی۔‬
‫"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔" اس نے سرخ ہوتی‬
‫آنکھوں کو بمشکل کھول کر اسے دیکھا تھا۔‬

‫‪251‬‬
‫وہ آگے بڑھی اور دھیرے سے اس کی پیشانی چھوئی۔‬
‫ّٰللا‪.....‬شیری بھائی! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔"‬
‫"یا ہ‬
‫وہ فکر اور خوف سے ملے جلے لہجے میں بولی۔‬
‫"چلیں اٹھیں اور میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلیں۔"‬
‫وہ بضد ہوئی پھر شیری کے نہ نہ کرنے کے باوجود‬
‫وہ ضد پر اڑی رہی مجبوراً اسے اٹھنا پڑا تھا۔‬
‫"میں نے کتنی مرتبہ کہا ہے شیری بھائی! کیپ لے کر‬
‫جائیں مگر نہیں جی‪.....‬آپ کو ضرورت ہی کیا ہے‪،‬‬
‫آخر ہیرو بن کر نہ گئے تو گزرا نہیں ہو گا۔" وہ گرم‬
‫شال اس کی جانب بڑھاتے ہوئے نروٹھے پن سے‬
‫بولی تو وہ محض مسکرا دیا۔‬
‫"پہلے بات بات پر غصہ ہو جاتے تھے اب ہنسنے‬
‫لگتے ہیں۔ حور دیکھے گی تو اب پکا پاگل سمجھے‬
‫گی انہیں۔" وہ سوچ کر مسکرا دی تھی۔‬
‫"حور! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب سے مری سے لوٹی‬
‫ہو ایسی منحوس شکل بنائی ہوئی۔" پلوشہ نے‬
‫استفسار کیا۔‬

‫‪252‬‬
‫"میں ہوں ہی منحوس تو شکل بھی ویسی ہی ہو گی۔"‬
‫وہ سنجیدگی سے بولی اور کتاب کھول کر سامنے رکھ‬
‫لی۔‬
‫"وہاں سے اچانک کیوں آ گئی تھی؟ کچھ ہوا تھا کیا؟"‬
‫وہ پھر سے بولی تو حور کے ہونٹوں پر زخمی سی‬
‫مسکراہٹ بکھر گئی۔‬
‫"ہاں کچھ ہوا تھا‪......‬زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔"‬
‫وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔‬
‫ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔‬
‫"بنا سوچے سمجھے محبت بھی نہیں کرنی‬
‫چاہیے‪......‬پر یہ محبت تو کچھ سوچنے سمجھنے کا‬
‫موقع ہی نہیں دیتی۔" ایک نظر ان دونوں پر ڈال کر‬
‫کہتے ہوئے وہ کانوں میں ہینڈ فری لگا کر سر جھکا‬
‫گئی۔‬
‫"محبت؟‪ ......‬اوئے تمہیں محبت ہو گئی ہے‪ ،‬کس‬
‫سے؟"‬
‫پلوشہ نے اس کے کان سے ہینڈ فری کھینچ کر‬
‫استفسار کیا گیا۔‬

‫‪253‬‬
‫"اب تو نفرت ہے۔ محبت تو تھی‪.....‬مگر وہ اس محبت‬
‫کے الئق نہیں تھا۔" دانتوں پہ دانت جمائے اس نے‬
‫بےحد حقارت سے بھرے لہجے میں کہا۔‬
‫"بس‪ ....‬اب اور کوئی سوال نہیں۔کیونکہ میں اپنا غم‬
‫کسی کو بھی بتا کر اپنا تماشا بنوانے کے حق میں‬
‫نہیں ہوں۔" پلوشہ کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ اس‬
‫نے تیزی سے کہا اور بستر سے اٹھ کر باہر نکل گئی۔‬
‫ّٰللا! مجھے ایسے شخص سے محبت کیوں ہوئی‬‫"یا ہ‬
‫جو پہلے سے ہی کسی کی محبت میں گرفتار تھا؟"‬
‫ٹیرس پر کھڑے ہوتے ہوئے وہ دور آسمان پر نگاہیں‬
‫جمائے بڑبڑائی۔‬
‫کوئی جواب نہیں تھا‪ ،‬رات کے سناٹے میں خاموشیاں‬
‫گونج رہی تھیں۔‬
‫"میرا دل جسے میں نے ہمیشہ سنبھال کر‬
‫رکھا‪....‬کئی جھکے سروں اور گھٹنے ٹیکنے والوں‬
‫کو نظر انداز کیا اور خود پر ایک سخت خول چڑھا‬
‫لیا‪.....‬پھر اچانک سے وہ آیا اور میرے دل کے تخت‬
‫پر آ بیٹھا‪ ،‬میرا سارا خول ٹوٹ گیا ‪ ،‬دل نے جس طرح‬

‫‪254‬‬
‫کے شخص کو پانے کی خواہش کی اسے سامنے پا‬
‫کر زور سے دھڑکا اور‪.....‬اور اسی شخص نے‬
‫مجھے منہ کے بل گرا دیا‪ ......‬آخر میں نے کیوں نہ‬
‫سوچا کہ وہ کسی اور سے محبت‪".....‬‬
‫دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھے وہ اپنی سسکیوں کو‬
‫دباتی ایک جانب کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر‬
‫بیٹھتی چلی گئی۔ دل بہت اداس ہو رہا تھا۔‬
‫"وہ بلکل ویسا ہی چاند تھا جس کی میں نے خواہش‬
‫کی تھی مگر اس پر لگا وہ ادھوری محبت اور ٹوٹے‬
‫دل کا گرین مجھے ہرگز نہیں چاہیے تھا ‪.....‬مجھے یہ‬
‫گوارہ نہیں کہ وہ میرے ساتھ ہو اور اس کی خیاالت‬
‫میں کوئی اور ہو‪"......‬‬
‫آنسو بےترتیب انداز میں رخساروں پر ٹوٹ ٹوٹ کر‬
‫بہہ رہے تھے۔‬
‫ّٰللا مجھے صبر دے۔ اس شخص کو میں بھول جانا‬ ‫"یا ہ‬
‫چاہتی ہوں۔" گھٹنوں میں منہ چھپا کے وہ آنکھیں‬
‫موند گئی‪......‬‬
‫"طیبہ! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ حیران ہوا تھا۔‬

‫‪255‬‬
‫ٹاول ایک جانب اچھالتے ہوئے وہ ایک نظر اس پر‬
‫ڈال کر بیڈ پر جا بیٹھا۔‬
‫طیبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قدموں کے قریب‬
‫زمین پر جا بیٹھی تھی اور سر جھکا کے اس کے‬
‫ہاتھ کو تھام کر آنکھوں سے لگایا۔‬
‫"یہ کیا کر رہی ہو؟ کتنی مرتبہ منع کیا ہے ایسی‬
‫حرکتیں مت کیا کرو۔" وہ بےاختیار ہی ہاتھ کھینچ کر‬
‫تیزی سے بوال۔‬
‫"اور اٹھو یہاں سے میرے قدموں سے پلیز۔" وہ پھر‬
‫سے بوال تو وہ مسکرا کر اٹھی اور سامنے پڑے‬
‫میٹرس پر بیٹھ گئی۔‬
‫"آپ اپنا مقام بھول گئے ہوں گے ہم نہیں بھولتے۔"‬
‫وہ طنزیہ نظروں سے اس کی دو انگلیوں میں پکڑی‬
‫سلگتی سگریٹ کو دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"یہاں کیوں آئی ہو؟" وہ ایش ٹرے میں سگریٹ‬
‫مسلتے ہوئے سنجیدگی سے بوال۔‬
‫"یہ خاک بندی آپ کے سامنے پھر سے ہاتھ جوڑنے‬
‫آئی ہے‪.....‬کہ یہ سب چھوڑ دیں۔"‬

‫‪256‬‬
‫وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔‬
‫"طیبہ! تم پلیز ایسی حرکتیں مت کیا کرو‪ ......‬ہمارے‬
‫درمیان یہ روک ٹوک مت الیا کرو۔اور نہ ہی یہ ‪.....‬یہ‬
‫ادب و احترام الیا کرو۔"‬
‫" ادب و احترام تو ہر رشتے میں ہوتا ہے۔ہمارے‬
‫درمیان اور کچھ ہے بھی نہیں‪....‬محض اس ادب و‬
‫احترام کے سوا۔" اس کی بات پر شازار نے اکتا کر‬
‫پہلوؤں بدال۔‬
‫وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"کہتے ہیں جس سے عشق ہو اس کے قدموں میں‬
‫بیچھ جانا چاہیے‪ ،‬میں تو قدموں کی خاک بننے کو‬
‫بھی تیار ہوں مگر آپ تو مجھے کوفت بنائے بیٹھے‬
‫ہیں۔" اس کی آواز میں نمی سی گھل گئی تھی۔‬
‫"طیبہ! تم‪".....‬‬
‫"بس جا رہی ہوں میں‪ ،‬مگر یاد رکھیے میں ہر روز‬
‫آؤں گی‪ ....‬آپ کے سامنے ہاتھ جوڑوں گی پاؤں‬
‫پکڑوں گی مگر آپ کو اچھائی کے راستے پر ال کر ہی‬
‫مروں گی۔"‬

‫‪257‬‬
‫وہ آنسو رگڑتی تیزی سے پلٹ گئی تھی۔دروازے کے‬
‫قریب جا رکی اور پلٹی۔‬
‫"جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے کبھی محبت نہیں کریں‬
‫گے‪ ،‬محبت کر بھی لی تو شادی نہیں کریں‬
‫گے‪.....‬مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔" وہ‬
‫کہہ کر دروازہ کھولتی اپنے پیچھے دروازے کی آواز‬
‫چھوڑ گئی تھی۔‬
‫"طیبہ‪" !....‬‬
‫نیند سے آنکھ کھولتے ہی وہ چنخ کر اٹھ کر بیٹھ گیا‬
‫تھا۔ عاصم جو اس کے ساتھ ہی لیٹا تھا ہڑبڑا کر‬
‫چارپائی سے نیچے گر گیا۔‬
‫"ہائے مر گیا۔" وہ اپنی کمر تھامے اٹھتے ہوئے بوال۔‬
‫شازار بےحد حیرانگی سے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑا‬
‫رہا تھا۔‬
‫"استاد تمہیں کبھی کبھی یہ کیا طیبہ‪ ،‬طیبہ واال جن‬
‫چمٹ جاتا ہے؟ ہر مرتبہ میری کمر کی بینڈ بجتی ہے۔"‬
‫وہ دوبارہ سے لٹتے ہوئے بوال۔‬

‫‪258‬‬
‫شازار نے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر رکھ کر آنکھیں‬
‫موند لیں۔‬
‫"پھر سے گزرے وقت کا ایک خواب آنکھوں کو‬
‫سلگا گیا۔" بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ پھر سے‬
‫چت لیٹ گیا۔‬
‫"استاد یہ طیبہ ہے کون؟"‬
‫عاصم اپنی رضائی خود پر کھینچتے ہوئے بوال۔‬
‫"وہ جو بھی ہو‪ ،‬اگلی مرتبہ اپنی چارپائی لے کر آنا۔"‬
‫وہ رضائی پرے ہٹا کر چارپائی سے اترا پیروں میں‬
‫جوتا گھسا کر کرتہ کی جیبوں کو ٹٹولتا ٹرک کی جانب‬
‫بڑھ گیا۔‬
‫ٹرک کی چابی کے ساتھ ساتھ حور کا جھومکا بھی‬
‫ہاتھ میں آ گیا تھا۔‬
‫وہ چند پل چاند کی روشنی میں اس سفید جھومکے کو‬
‫دیکھتا رہا پھر تیزی سے نفی میں سر ہال کر ٹرک کا‬
‫دروازہ کھولنے لگا۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬کیا ہوا شازار صاحب!" ٹرک میں جیسے ہی‬
‫سوار ہوا ابھی الئٹیں جالئی ہی تھیں کہ ساتھ والی‬

‫‪259‬‬
‫سیٹ پر اسے وہ نظر آئی وہ اس کی جانب دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"بہت غور سے دیکھ رہے ہو جھومکا‪ ،‬ہم سے بغاوت‬
‫کا موڑ ہے کیا؟" وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے‬
‫سرگوشی میں بولی۔‬
‫شازار نے ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی اسے چھونا چاہا وہ‬
‫غائب ہو گئی تھی۔‬
‫وہ سنہری گڑیا آج بھی اس کے دل و دماغ پر حکومت‬
‫کر رہی تھی۔‬
‫"طیبہ! میں بدل گیا ہوں۔دیکھو میں نے خود کو مٹا‬
‫دیا‪......‬جیسا تم چاہتی تھی میں ویسا ہی بن گیا‬
‫ہوں۔مگر آج بھی میری ذات کسی کے لیے تکلیف کا‬
‫باعث بنی ہے۔"‬
‫وہ جیب میں سے وائلٹ نکالتے ہوئے سر سیٹ کی‬
‫پشت پر گرائے اس میں لگی فوٹو کو آنکھوں کے‬
‫سامنے کرتے ہوئے بڑبڑایا۔‬
‫وہ جھیل سی آنکھوں والی سنہری حسینہ چھوٹی سی‬
‫تصویر میں بیٹھی مسکرا رہی تھی۔‬

‫‪260‬‬
‫"بہت محبت کرتا ہے تمہارا شازار تم سے‪ .....‬تمہارے‬
‫سوا کسی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ تم دنیا سے‬
‫رخصت ہوئی ہو مگر میرے دل میں ہمیشہ آباد رہو‬
‫گی۔"‬
‫چند پل بےتاب نگاہوں کو تصویر پر ٹکائے رکھنے‬
‫کے بعد اس نے وائلٹ دل پر رکھا اور سینے پر بازو‬
‫لپیٹ کر آنکھیں موند گیا۔‬
‫*****‬
‫وہ جس طرح سے لوگوں سے بات کرتا‪ ،‬جس طرح‬
‫سے چلتا‪ ،‬جس طرح سے نظریں جھکا کر لڑکیوں کے‬
‫قریب سے گزر جاتا‪ ،‬جیسے ہنستا‪.....‬اس کی ہر اک‬
‫ادا زرمینہ کی نگاہوں میں قید ہو گئی تھی۔وہ ایک ہفتہ‬
‫جب سردار سائیں کے آس پاس رہ کر لوٹی تو پوری‬
‫طرح سے دیوانی ہو کر رہ گئی۔‬
‫"ابا حضور! مجھے لگتا ہے ہمیں زرمینہ کو واپس‬
‫بھیج دینا چاہیے۔"وہ اپنے والد کے کمرے کے‬
‫سامنے سے گزر رہی تھی کہ بڑے بھائی کی بات پر‬
‫اس کے قدم زمین میں جکڑے گئے۔‬

‫‪261‬‬
‫"ہوں۔ ہمیں بھی یہ ہی لگتا ہے۔" وہ ہنکارا بھر کر‬
‫پرسوچ انداز میں بولے۔‬
‫"میں تو کہتا ہوں اس مرتبہ فرحان سے نکاح کر کے‬
‫رخصت کر دیتے ہیں۔"‬
‫دوسرے بھائی کی بات سن کر وہ پوری طرح سے‬
‫کانپ گئی گرنے سے بچنے کے لیے اس نے دیوار کا‬
‫سہارا لیا۔‬
‫"بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے بابا حضور! ماموں کو‬
‫بالتے ہیں۔ فرحان اور زری کی شادی کی ڈیٹ فیکس‬
‫کرتے ہیں یا نکاح کر دیتے ہیں۔ اس کا یہاں رہنا‬
‫ٹھیک نہیں ہے۔"‬
‫تیسرے بھائی نے بھی مشورہ دیا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔ کرو کال فرید کو۔" گلریز خان نے‬
‫سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"ن نہیں میں ہرگز شادی نہیں کروں گی۔ م مجھے‬
‫کہیں نہیں جانا‪......‬م مجھے اپنے سردار سائیں کے‬
‫پاس رہنا ہے۔" وہ سوچ کر نفی میں سر ہالتی پلٹ‬
‫گئی۔‬

‫‪262‬‬
‫ٹیرس پر ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ‬
‫کیا کرے۔‬
‫تبھی سیڑھیوں پر نگاہ پڑی۔‬
‫وہ بنا کچھ بھی سوچے سمجھے آگے بڑھی اور زور‬
‫سے آنکھیں میچ کر سیڑھیاں اترنے لگی دوسرے ہی‬
‫پل اس کا پاؤں پھسال تھا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی زمین‬
‫پر آ گری۔‬
‫مالزمین کے شور پر بھائی اور باپ بھی باہر آئے‬
‫تھے۔‬
‫اسے اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا۔‬
‫بازو ٹوٹ گیا تھا اور سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی‬
‫خون کافی بہہ چکا تھا۔‬
‫باقی پسلیوں وغیرہ پر اندرونی چوٹ تھی۔‬
‫اسے جب ہوش آیا تو نجی اس کے قریب ہی بیٹھی‬
‫تھی۔‬
‫"زری! میں نے دیکھا تھا‪.....‬اس سے پہلے کہ میں‬
‫تمہیں روکتی تم سیڑھیوں سے گر کر بےہوش ہو‬
‫چکی تھی۔"‬
‫‪263‬‬
‫نجی نے خفگی سے کہا تو وہ مسکرا دی۔‬
‫"کیوں اتنی دیوانی ہو گئی ہو زری؟ اپنی زندگی کی‬
‫پرواہ بھی نہیں رہی تمہیں۔" وہ اب رونے کو تھی۔‬
‫"ارے پگلی دیوانوں کو کہاں اپنی زندگی پیاری ہوتی‬
‫ہے۔"‬
‫"درد ہو رہا ہے؟" اس نے بات بدلی۔‬
‫"نہیں پگلی درد تو تب ہوا تھا جب بابا مجھے یہاں‬
‫سے بھیجنے کی بات کر رہے تھے۔ اتنا درد ہوا تھا کہ‬
‫مجھے لگا میں مر جاؤں گی‪......‬یہ تو جان بچانے کا‬
‫طریقہ تھا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫"کب تک یوں کرتی رہو گی؟ آخر ایک دن تمہارے‬
‫ماموں زادے سے تمہاری شادی ہو ہی جائے گی۔"‬
‫"وہ دن زری خان کی زندگی کا آخری دن ہو گا نجی!‬
‫یہ میرا وعدہ ہے۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔‬
‫بالشبہ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ زری کا‬
‫پاگل پن اب اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ اب جان دینے‬
‫پر اتر آئی تھی۔‬

‫‪264‬‬
‫منہاج کو اس کی جنونی محبت سے خوف سا محسوس‬
‫ہوا تھا۔‬
‫"زری! اگر سردار سائیں کو تم سے محبت نہ ہوئی‬
‫تو؟"‬
‫"تو کیا؟ کچھ بھی نہیں مجھے تو ہے نا‪".....‬‬
‫"ا اگر ان کی شادی کسی اور سے ہو گئی تو؟" اس‬
‫کی بات پر زری نے سرعت سے گردن گھما کر اس‬
‫کی جانب دیکھا۔‬
‫"تو اگر وہ لڑکی سردار سائیں کی پسند ہوئی تو میری‬
‫بھی پسند اور اگر سردار کی پسند نہ ہوئی تو اسے‬
‫مار ڈالوں گی۔" وہ رازدارانہ انداز میں کہتے ہوئے‬
‫منہاج کو خوف زدہ کر کے اب خود ہنس رہی تھی۔‬
‫وہ تھوک نگلتی اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"م میں صاحب کو بھیجتی ہوں۔" وہ کہہ کر تیزی سے‬
‫کمرے میں سے نکل گئی۔‬
‫"انہیں کہاں میری فکر ہے۔ وہ لوگ تو کب کے جا‬
‫چکے ہوں گے۔"‬

‫‪265‬‬
‫باپ اور بھائیوں کے متعلق سوچتے ہوئے اس کا حلق‬
‫تک کڑوا ہونے لگا تھا۔‬
‫ان لوگوں نے بچپن سے ہی زری کو خود سے دور‬
‫رکھا ہوا تھا۔‬
‫مگر کیوں؟‪....‬یہ اسے نہیں معلوم تھا۔‬
‫اور جب وہ یہاں آ بھی جاتی تو کوئی بھی اسے وقت‬
‫نہیں دیتا تھا وہ بوریت سے یہاں وہاں ٹہلتی رہتی۔‬
‫اور پھر اسے ایک دن سردار دالور خان ایکٹیویٹی مل‬
‫گئی یہ سرگرمی اب اس کے وجود کو اپنی لپیٹ میں‬
‫لیے کچھ بھی کروانے کو تیار کھڑی تھی‪......‬‬
‫وہ کالس روم سے نکل کر کینٹین ایرا کی جانب بڑھ‬
‫رہی تھی کہ اچانک اسے لگا اس نے کسی جانے‬
‫پہنچانے شخص کو دیکھا ہے۔‬
‫شاہزیب ‪ ،‬میم تابندہ کے ہمراہ آتا دکھائی دے رہا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ شیری کی‬
‫اس پر نگاہ پڑ گئی تبھی وہ وہاں ہی رکنے پر مجبور‬
‫ہو گئی۔‬

‫‪266‬‬
‫"اسالم علیکم میم!" وہ زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں‬
‫پر سجائے گویا ہوئی۔‬
‫"و علیکم السالم! کیسی ہو کائنات؟" وہ میٹھی سی‬
‫آواز میں بولی۔‬
‫"یہ مٹھاس شیری بھائی کے سامنے ہی کیوں ٹپکتی‬
‫ہے؟" وہ سوچ کر رہ گئی۔‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے میم! "‬
‫ہ‬
‫"شیری بھائی! آپ یہاں کیسے؟" اس نے اب شیری‬
‫کی جانب رخ پھیرا تھا۔‬
‫"میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا ساتھ لنچ کر‬
‫لیتے ہیں۔" وہ سیاہ گالسز کے پیچھے سے اس کی‬
‫جانب دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"آہاں۔ چلیں آپ لوگ جائیں میں الئیبریری جا رہی‬
‫ہوں۔" وہ مصنوعی مسکراہٹ لیے بولی اور پلٹ گئی۔‬
‫شیری نے الجھے ہوئے انداز میں تابندہ کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫"کائنات! تم بھی ساتھ چل رہی ہو۔" وہ تیزی سے آگے‬
‫بڑھا۔‬
‫‪267‬‬
‫"سوری شیری بھائی! میں تھوڑی مصروف ہوں۔ میم‬
‫کی ہی اسائنمنٹ بنانی ہیں اگر اسائنمنٹ جمع نہ‬
‫کروائی کل تو یہ کالس سے آؤٹ کر دیں گیں۔ ہاں نا‬
‫میم؟" اس نے تابندہ کی جانب دیکھا۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬ارے کوئی بات نہیں۔ گھر جا کر بنا لینا۔"‬
‫وہ شاید مصنوعی قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔‬
‫"کائنات! اب چلیں؟" شیری نے اس مرتبہ تھوڑی سی‬
‫سختی سے استفسار کیا تو وہ سر ہال کر اس کے‬
‫ساتھ چل دی۔‬
‫"اگر حور یہاں ہوتی تو تمہارا حشر نشر کر دیتی‪....‬‬
‫چڑیل کہیں کی‪ ،‬میرے شیری بھائی پر ڈورے ڈالتی‬
‫ہو۔ دیکھتی ہوں کیسے ڈورے ڈالو گی۔" وہ پُرعزم‬
‫انداز میں سوچتے ہوئے خونخوار نگاہوں سے تابندہ‬
‫کو گھور رہی تھی جو شیری سے ہنس ہنس کے باتیں‬
‫کر رہی تھی۔‬
‫پارکنگ ایریا میں گاڑی کے قریب جاتے ہی وہ تیزی‬
‫سے فرنٹ سیٹ کے دروازے کے قریب رک گئی۔‬

‫‪268‬‬
‫شیری نے اس کے لیے دروازہ کھوال اور پھر پلٹ کر‬
‫تابندہ کے لیے۔‬
‫"یاد ہے شیری! ہم سب دوست کتنی آوارہ گردیاں‬
‫کرتے تھے یونیورسٹی الئف میں۔"‬
‫وہ جیسے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا تابندہ نے کہا۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬ہاں وہ وقت بھی بہت اچھا تھا۔ تم بالل‬
‫لوگوں کے ٹچ میں ہو؟" گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے‬
‫اس نے استفسار کیا۔‬
‫"نہیں یار بس کبھی کبھی بات ہوتی ہے۔ اور تم بھی‬
‫کہاں ملنے والے تھے یہ تو کائنات کی وجہ سے ہی‬
‫مالقات ہو جاتی ہے۔" تابندہ نے ہنستے ہوئے کہا۔‬
‫"میں نے یونیورسٹی ہی بدل لینی ہے۔" وہ سوچتے‬
‫ہوئے دراز کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر دراز‬
‫کھل نہیں رہا تھا۔‬
‫شیری جس کا دھیان اس کی جانب ہی تھا تیزی سے‬
‫ہاتھ بڑھا کر دراز کھولتے ہوئے ایک نگاہ اس کے‬
‫سنجیدہ چہرے پر ڈالی۔‬
‫" تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا کائنات؟"‬

‫‪269‬‬
‫وہ اسے خاموش دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔‬
‫"جی بس تھوڑا سا سر میں درد ہے۔" وہ کتابیں دراز‬
‫میں رکھ کر سر سیٹ کی پشت پر گرا کر آنکھیں موند‬
‫گئی۔‬
‫ساری رہ تابندہ اور وہ باتیں کرتے گئے تھے اور‬
‫کائنات غصہ ضبط کرتی گئی تھی۔‬
‫"یہ ہیلو ہائے والی دوست کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی‬
‫ہے۔" وہ سوچتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫ہوٹل میں بھی شیری نے غور کیا کہ وہ کھانا ٹھیک‬
‫سے نہیں کھا رہی تبھی اس نے اس کے لیے کھانا‬
‫پیک کروا لیا۔‬
‫"پلیز پہلے مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دیں۔ پھر میم کو‬
‫چھوڑ آئے گا۔" اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا‬
‫تھا۔‬
‫"کیا ہوا تمہیں؟ آج خیر تو ہے؟" اس طرح کا برتاؤ‬
‫اس نے کبھی نہیں کیا تھا تبھی شیری کافی پریشان ہو‬
‫رہا تھا۔‬

‫‪270‬‬
‫"کچھ نہیں ہوا آپ پلیز مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دیں۔"‬
‫وہ پہلوؤں بدل کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔‬
‫"کائنات! بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟" تابندہ‬
‫فکرمندی سے بولی۔‬
‫"جی میم!" روکھے سے انداز میں جواب دے کر وہ‬
‫آنکھیں موند گئی۔‬
‫"میری جگہ اگر اب حور ہوتی تو میم جی! تم کھڑکی‬
‫سے باہر کی سیر کر چکی ہوتی۔یہ تو میری شرافت‬
‫ہے جو تمہیں برداشت کر رہی ہوں۔" اس کی سوچیں‬
‫زہریلی ہوئیں۔‬
‫"مجھے یونیورسٹی بدل لینی چاہیے۔" وہ مزید‬
‫سوچنے لگی۔‬
‫"پلیز آپ لوگ خاموش ہوں گے کچھ دیر؟" ان کی‬
‫مسلسل باتوں سے وہ چڑ کر بولی۔‬
‫”?‪“What is this behavior‬‬
‫شیری کو غصہ آیا تھا مگر وہ دبا گیا۔‬
‫"کہا تو تھا کہ مت الئیں۔" وہ الپرواہی سے شانے‬
‫آچکا کر بولی اور ہاتھ بڑھا کر کارٹون پلے کر دیئے۔‬
‫‪271‬‬
‫شیری نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی اور ویڈیو پلیئر‬
‫بند کر دیا۔‬
‫اس نے پھر سے ہاتھ بڑھا کر وڈیو پلیئر آن کر لیا۔‬
‫شیری نے گالسز کے پیچھے سے اسے سختی سے‬
‫گھورا۔‬
‫"کائنات! بند کرو۔ آئی سیڈ بند کرو۔" وہ دبی دبی آواز‬
‫میں غصے سے کہتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکا‬
‫تھا۔‬
‫"نہیں کروں گی۔" وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔‬
‫"تم اب اس طرح مجھ سے بدتمیزی کرو گی؟" اسے‬
‫گہرا صدمہ پہنچا تھا۔‬
‫"ہاں کروں گی‪....‬تو؟" اس کی بات پر شیری کا دماغ‬
‫گھوم گیا تھا‪ ،‬تبھی اس نے زور کا پنچ ویڈیو پلیئر پر‬
‫دے مارا تھا۔‬
‫کائنات ایک دم سے خوف سے سفید پڑتی چینخ اٹھی‬
‫تھی۔‬
‫"یہ کیا پاگل پن ہے شیری! دیکھو کتنا زخمی ہو گیا‬
‫ہے تمہارا ہاتھ۔" تابندہ نے اسے ڈپٹ کر کہا۔‬
‫‪272‬‬
‫کائنات ہونٹوں پر دونوں ہاتھ رکھے رخ پھیر کر اپنے‬
‫لرزتے دل کے ساتھ آنسو پی رہی تھی۔‬
‫"غصہ ابھی بھی ویسا ہی ہے تمہارا‪.....‬کچھ تو سوچ‬
‫لیا کرو کچھ بھی کرنے سے پہلے۔" تابندہ اپنا رومال‬
‫نکال کر آگے بڑھی اور جھک کر اس کے اسٹیرنگ پر‬
‫پڑے ہاتھ کو اٹھا کر اس پر رومال باندھنے لگی۔‬
‫"اٹس اوکے تابندہ! کچھ بھی نہیں ہے۔" اس نے ہاتھ‬
‫جھٹکا۔‬
‫"ایسے کیسے کچھ نہیں ہے۔ چپ کرو تم۔" وہ دوبارہ‬
‫سے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔‬
‫وہ پٹی باندھ کر واپس سیٹ پر بیٹھ گئی اور کائنات کی‬
‫جانب متوجہ ہوئی۔‬
‫"کائنات! جب بڑے کسی بات سے منع کرتے ہیں تو‬
‫اس سے باز آ جاتے ہیں۔ جانتی بھی ہو کہ شیری کو‬
‫غصہ آ رہا ہے پھر بار بار کیوں کارٹون پلے کر رہی‬
‫تھیں۔" اب وہ اسے ڈپٹ رہی تھی اور کائنات کا بس‬
‫نہیں چل رہا تھا کہ اسے نوچ گھسوٹ ڈالے۔‬

‫‪273‬‬
‫مگر وہ خاموشی سے آنسو بہاتی پوری طرح سے‬
‫کھڑکی کی جانب رخ کیے بیٹھی تھی۔‬
‫اسے شیری سے اس ری ایکشن کی امید ہرگز نہیں‬
‫تھی۔‬
‫وہ تو کبھی اس کے ساتھ ایسا سخت سلوک نہیں کرتا‬
‫تھا‪....‬ہاں تھوڑا بہت خفا لہجہ استعمال کر لیتا تھا مگر‬
‫ایسے‪.....‬کبھی نہیں کیا تھا اس نے۔‬
‫"ایم سوری تابندہ! میری وجہ سے آپ کا بھی دن‬
‫خراب ہو گیا۔"‬
‫وہ اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے‬
‫گردن گھما کر تابندہ کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ارے نہیں نہیں‪.....‬کوئی بات نہیں۔ شیری! تم نہیں آؤ‬
‫گے گھر؟"‬
‫"نہیں یار! میں آل ریڈی بہت تھک چکا ہوں سو‬
‫نیکسٹ ٹائم ان شاءہللا۔" وہ مسکرا کر بوال۔‬
‫ّٰللا حافظ کائنات جانو!" وہ مسکرا کر کہتی‬
‫"شیور‪ ،‬ہ‬
‫گاڑی سے نکل گئی۔ کائنات نے کوئی جواب نہیں دیا‬
‫تھا‪.....‬‬

‫‪274‬‬
‫شیری نے خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔‬
‫وہ خود میں سمٹ کر بلکل کھڑکی کے ساتھ لگی‬
‫بیٹھی تھی۔‬
‫اس نے ذرا سی گردن جھکائی تو شاہزیب کی نگاہ اس‬
‫کے آنسوؤں پر پڑی جو خاموشی سے متواتر انداز‬
‫میں رخساروں کو تر کر رہے تھے۔‬
‫"ایم‪....‬ایم سوری کائنات!" وہ گاڑی کی سپیڈ کم کرتے‬
‫اس کی جانب دیکھتے ہوئے افسردگی سے گویا ہوا۔‬
‫"کائنات! پلیز میری طرف دیکھو۔ تمہیں معلوم ہے نا‬
‫کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر‬
‫چہرے پر سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بوال۔‬
‫" ڈونٹ ٹچ می پلیز۔" وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر‬
‫ہچکیوں مین ڈوبی آواز سے بولی تو شیری کے‬
‫اوسان خطا ہونے لگے۔‬
‫اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید کم کر دی تھی۔‬
‫"کائنات! پلیز‪.....‬ناراض تو نہیں ہو نا‪ ،‬دیکھو تم پر‬
‫ہی تو میں غصہ اتارتا ہوں تم ہی تو کہتی ہو کہ‬
‫مجھے یہ حق ہے؟"‬

‫‪275‬‬
‫"لوگوں کے سامنے مجھے ذلیل ہونا بلکل بھی پسند‬
‫نہیں‪ ،‬آپ کو بھی نہیں پسند تھا پھر لوگوں کے ہاتھوں‬
‫ہی کیوں ذلیل کروا دیا؟" وہ رونے کے درمیان کہہ کر‬
‫رخ پھیر گئی۔‬
‫پھر شیری کی الکھوں کوششوں کے باوجود وہ نہیں‬
‫مانی تھی۔‬
‫ہاسٹل کے دروازے کے سامنے جیسے ہی گاڑی رکی‬
‫وہ کمان سے نکلے تیر کی ماند وہاں سے جانے ہی‬
‫لگی تھی کہ شیری نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔‬
‫"پلیز کائنات! ایم سوری۔ میری غلطی ہے مجھے‬
‫غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا‪.....‬تمہارے سر میں درد‬
‫ہونے کے باوجود میں نے‪ ".....‬وہ بات اُدھوری‬
‫چھوڑ گیا۔‬
‫وہ شدت سے اسے منا رہا تھا۔‬
‫زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ شاہزیب احمد‬
‫کسی کی منتیں کر رہا تھا‪.....‬کرتا بھی کیوں نہ یہ‬
‫لڑکی اسے پیاری ہی بہت تھی۔‬

‫‪276‬‬
‫"اٹس اوکے۔ پلیز اب میں جاؤں؟" وہ مبہم سی‬
‫مسکراہٹ لیے بولی۔‬
‫"ناراض ہو نا؟" اس نے ڈرنے والے انداز میں پوچھا‬
‫تو وہ ہنس دی۔‬
‫"نہیں۔ مجھے تو اب ہنسی آ رہی ہے کیسے آپ نے‬
‫ایک دم سے‪ .....‬آپ کا ہاتھ‪ ......‬آپ کا ہاتھ زخمی ہو‬
‫گیا ہے۔" بات کرتے کرتے اس کی نگاہ اس کے ہاتھ‬
‫پر پڑی۔‬
‫"نہیں زیادہ نہیں ہوا۔ ڈونٹ وری جاتے ہوئے بینڈیج‬
‫کرواتا جاؤں گا۔" وہ نرمی سے بوال۔‬
‫چند ہی پل میں وہ پوری طرح سے مان گئی تو وہ‬
‫اسے کھانے کا ڈبہ اور کتابیں تھما کر گاڑی سے نکال‬
‫اور اس کی جانب واال دروازہ کھوال۔‬
‫"اپنا خیال رکھنا۔" وہ اس کی رخسار تھپک کر بوال‬
‫اور گالسز آنکھوں پر چڑھا کر پلٹ گیا۔‬
‫"شیری بھائی! رکیں۔" وہ تیزی سے بولی تو وہ اپنی‬
‫جگہ رک کر ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا۔‬

‫‪277‬‬
‫"اپنا ہاتھ دکھائیں۔" اس نے کتابیں اور کھانے کا‬
‫باکس گاڑی میں رکھا اور اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اس کی‬
‫جانب متوجہ ہوئی۔‬
‫"یہ پٹی کرنے کا حق ماں ‪ ،‬بہن ‪ ،‬بیوی اور نرس کو‬
‫ہے مگر میم تو آپ کی کچھ بھی نہیں لگتیں‪.....‬جبکہ‬
‫میں آپ کی بہن ہوں۔ سو۔" وہ اس کی جانب اپنے‬
‫دوپٹے کا ٹکڑا بڑھاتے ہوئے بولی۔‬
‫"آپ خود کر لیجیے گا‪ ،‬خون سے میرا دل کانپ جاتا‬
‫ہے۔" وہ بولی تو شاہزیب مسکرا کر اس کے ہاتھ سے‬
‫دوپٹے کا ٹکڑا تھام چکا تھا۔‬
‫"ّٰللا حافظ۔" وہ کہہ کر پلٹ گئی۔‬
‫ہ‬
‫گاڑی میں بیٹھتے ہی شیری نے اس کپڑے کے ٹکڑے‬
‫کو کوٹ کی جیب میں بہت سنبھال کر محفوظ کر لیا‬
‫تھا۔‬
‫وہ مان تو گئی تھی مگر اس کے نرم سے دل میں‬
‫شیری کا خوف بھی چپکے سے بیٹھ گیا تھا‪.....‬‬

‫‪278‬‬
‫وہ خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ تابندہ ان کے ساتھ آئے‬
‫کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ کائنات کو اس کا آنا اچھا‬
‫نہیں لگتا۔‬
‫یونیورسٹیوں سے سردیوں کی چھٹیاں ہوئی تھیں تو‬
‫وہ لوگ پھر سے گھر میں اکھٹے ہوئے تھے۔‬
‫حور جو کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت کرتی رہتی‬
‫تھی اب بلکل بدلی بدلی اور خاموش ہو گئی تھی۔ ماں‬
‫سمجھ رہی تھیں کہ میری بیٹی سمجھدار ہو گئی ہے‪،‬‬
‫سلجھ گئی ہے مگر وہ کہاں جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی‬
‫دل توڑا بیٹھی تھی۔‬
‫کائنات یہاں آتے ہی گھر کے کاموں میں پھر سے‬
‫مصروف ہو گئی‪ ،‬اب تو شیری بھی نہیں تھا جو اسے‬
‫روکتا۔‬
‫"ارے کہاں کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟" حور نے الؤنج‬
‫میں قدم رکھتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"کیمپنگ‪......‬سب کیمپنگ کے لیے جا رہے ہیں۔"‬
‫ایک کزن نے کہا‬
‫" کہاں جا رہے ہیں؟" اس نے استفسار کیا۔‬

‫‪279‬‬
‫"اب یہاں ایمازون تو ہے نہیں‪.....‬کسی جنگل کے‬
‫قریب پڑتی بستی یا کسی چھوٹے موٹے جنگل میں‬
‫کیمپنگ کریں گے۔" کاشی نے کہا۔‬
‫"سعی ہے۔ چلو جاؤ پھر۔" وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"تم بھی چل رہی ہو محترمہ۔اب جلدی سے اپنا بوریا‬
‫بستر پیک کرو۔" ایک کزن نے کہا تو وہ مسکرا کر‬
‫شانے آچکا گئی۔‬
‫"کائنات! تم بھی چل رہی ہو نا؟" وہ جو چائے کے‬
‫کپوں سے بھری ٹرے میز پر رکھ رہی تھی کاشی کے‬
‫استفسار پر تیزی سے سیدھی ہوئی۔‬
‫"نہیں کاشی بھائی! میرے فائنلز ہیں چھٹیوں کے بعد‬
‫ان کی تیاری کرنی ہے اسی لیےمیری جانب سے‬
‫معزرت۔"وہ کہہ کر پلٹ گئی۔‬
‫وہ تلمال کر رہ گیا۔‬
‫"کوئی نہیں ایک دن تو ہاتھ آؤ گی ہی نا۔" خباثت‬
‫بھری سوچ لیے وہ چائے کا مگ اٹھا کر صوفے پر‬
‫جا بیٹھا۔‬

‫‪280‬‬
‫کائنات‪ ،‬شاہزیب کے کمرے کے سامنے سے جیسے‬
‫ہی گزرنے لگی تو بند دروازے کو لگے تالے کو دیکھ‬
‫اس کے قدم رک گئے۔‬
‫ہونٹوں کو یاد میں ڈوبی مسکراہٹ نے چھوا‬
‫تھا‪......‬اس دنیا میں ماں کے بعد کائنات کا کوئی‬
‫مخلص دوست تھا تو وہ شاہزیب احمد تھا‪....‬وہ تیزی‬
‫سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔‬
‫کمرے میں پہنچتے ہی لپک کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون‬
‫اٹھایا اور میسج ٹائپ کرنے لگی۔‬
‫"شیری بھائی! آپ بہت بےوفا ہیں۔دو دن سے مجھے‬
‫ذرا سا یاد بھی نہیں کیا‪ .....‬نہیں تو ہر روز کال کر‬
‫کے خیریت پوچھتے تھے۔" رونے والے ایموجیز کے‬
‫ساتھ میسج بھیج کر اب وہ اس کے جوابی میسج کا‬
‫انتظار کر رہی تھی۔‬
‫مگر کافی وقت انتظار کرنے کے بعد بھی اس کا میسج‬
‫وصول نہیں ہوا تھا۔‬

‫‪281‬‬
‫وہ کتاب اٹھا کر بالکنی کا در کھول کے وہاں جا کھڑی‬
‫ہوئی اور ہاتھ میں دبے فون پر شیری کا نمبر ڈائل کر‬
‫دیا۔‬
‫وہ جو رائے ہاؤس کے پورچ میں گاڑی روک رہا تھا‬
‫کال کی ٹیون بجنے پر ساتھ والی سیٹ پر پڑے اپنے‬
‫فون کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫کائنات کا نمبر دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر‬
‫مسکراہٹ بکھری تھی۔‬
‫"اسالم علیکم!" دروازہ دھکیل کر گاڑی سے باہر‬
‫نکلتے ہوئے وہ مسکراتے نرم سے لہجے میں بوال۔‬
‫"و علیکم السالم! بہت بزی ہو گئے ہیں آپ شیری‬
‫بھائی! میسج کا ریپالئے دینے تک کا وقت نہیں ہے؟"‬
‫وہ ناراضگی سے بولی تو شیری بےاختیار ہنس دیا۔‬
‫"ایسی بات نہیں ہے۔ آپ حکم کریں ہم حاضر ہو جاتے‬
‫ہیں۔"‬
‫"اچھا مذاق ہے شیری بھائی!" وہ منہ پھالئے‪ ،‬ہوا‬
‫کی زد میں اڑتے بالوں کو سمیٹ کر کان کے پیچھے‬

‫‪282‬‬
‫اڑھستے ہوئے شانوں پہ لپیٹی شال کو ہاتھ سے تھام‬
‫کر درست کیا اور ریلنگ سے ٹیک لگا لی۔‬
‫"نہیں مذاق نہیں ہے‪ ،‬اچھا بتاؤ ہو کہاں تم؟" وہ‬
‫ممانی سے گلے ملتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کا‬
‫اشارہ کرتے بوال۔‬
‫"بالکنی میں۔"‬
‫بائیں ہاتھ کے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی‬
‫سے بولی۔‬
‫"مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"‬
‫"حاضر ہونا ہے۔اچھا ایسا کرو آنکھیں بند کرو اور‬
‫دس تک گنتی کرو‪ ،‬میں آ رہا ہوں۔" اس کی بات پر وہ‬
‫ہنسنے لگی۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬آپ کوئی جن بھوت ہیں جو اتنی جلدی آ‬
‫جائیں گے۔"‬
‫"تم کرو تو۔" پاس سے گزرتے کزن کو ہونٹوں پر‬
‫انگلی رکھ کر بولنے سے روکتے ہوئے وہ اس سے‬
‫مصافحہ لے کر پھر سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔‬

‫‪283‬‬
‫وہ مسکرا کر آنکھیں موند گئی اور تیزی سے گنتی‬
‫کرنے لگی۔‬
‫"ارے بھئی آہستہ آہستہ۔ اب اتنا بھی فاسٹ پاؤر واال‬
‫جن نہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫اس کے کمرے کا دروازہ کھال ہی تھا‪،‬دبے قدموں اندر‬
‫داخل ہوا اور آگے بڑھا۔‬
‫بالکنی کی جانب کھلتے دروازے کے پاس جاتے ہی‬
‫اس نے کال کاٹ دی۔‬
‫وہ ابھی پانچ تک پہنچی تھی۔‬
‫چوروں کی مانند پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے‬
‫وہ اس کی جانب بڑھا۔‬
‫وہ کس قدر حسین لگ رہی تھی‪ ،‬ریشمی لمبی پلکوں‬
‫کی جالیوں کو سفید و سرخ مالئم رخساروں پر‬
‫گرائے‪ ،‬دائیں شانے پر ڈالی چٹیا میں سے چند لیٹں‬
‫آزاد ہو کر اس کی کومل رخساروں کے ساتھ چھیڑ‬
‫خانی کر رہی تھیں۔ گالب کی پنکھڑیوں سے نازک‬
‫اور گالبی لب ہولے ہولے ہل رہے تھے۔‬

‫‪284‬‬
‫ّٰللا اس میری پیاری سی کزن کے نصیب بھی‬ ‫"یا ہ‬
‫پیارے لکھنا۔" وہ دل میں ہی دعا کرتا آگے بڑھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫وہ کانچ کی گڑیا اس کی خوشبو کو پہچان چکی تھی‬
‫تبھی خاموش ہو کر آنکھیں کھول کے اس کی جانب‬
‫دیکھتے ہوئے خوشی سے چنخ کے اس کی جانب‬
‫بڑھی تھی اور اس کے شانے سے جا لگی۔‬
‫"شیری بھائی! آپ اچانک سے؟" وہ پیچھے ہٹتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫"ہاں بس سوچا سب سے مل آؤں۔میں ماموں سے مل‬
‫لوں‪ "......‬وہ اس کا سر تھپک کر تیزی سے پلٹ گیا۔‬
‫وہ خود بھی کمرے میں کتاب رکھتی نیچے چلی گئی۔‬
‫سب کا کیمپنگ کا پروگرام تھا۔‬
‫سب کزنز ضد کر رہے تھے کہ وہ بھی ساتھ چلے۔‬
‫"یار میں یہاں آرام کرنے آیا ہوں تو مجھے معاف‬
‫رکھو‪....‬تم لوگ ہی جاؤ۔" وہ ہاتھ اٹھاتے ہوئے بوال‬
‫تھا۔‬

‫‪285‬‬
‫"شیری! بیٹا چلے جاؤ نا‪ ،‬یہ سب جتنے بڑے بھی ہو‬
‫جائیں بچے ہی رہیں گے۔تم جاؤ گے ساتھ تو ہمیں‬
‫فکر نہیں ہو گی۔"‬
‫بڑی ممانی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"تمہاری ممانی ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا! آج کل کے‬
‫حاالت ویسے ہی ٹھیک نہیں اور یہ لوگ جنگل میں‬
‫کیمپنگ کرنے والے ہیں۔ کسی میچور انسان کو ساتھ‬
‫ہونا چاہیے۔" بڑے ماموں نے کہا۔‬
‫"ٹھیک ہے ماموں! جیسے آپ کہیں۔کب جا رہے ہو تم‬
‫لوگ‪ ،‬اور جا کون کون رہا ہے؟"‬
‫اس نے ایک نظر کائنات پر ڈالتے ہوئے ان سب سے‬
‫استفسار کیا تھا۔‬
‫"ہم سب یونیورسٹیوں والے جا رہے ہیں سوائے‬
‫کائنات کے۔اور آج شام کو نکلنا ہے۔" کاشی نے شانے‬
‫آچکاتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"کیوں بھئی کائنات! تم کیوں نہیں جا رہی؟‪ .....‬چلو‬
‫اٹھو اور تیاری پکڑو۔شاباش۔" وہ حکمیہ انداز میں‬

‫‪286‬‬
‫بوال تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور سر ہالتی سیڑھیاں چڑھ‬
‫گئی۔‬
‫حور کی نگاہوں نے دور تک پہلے اس کا پیچھا کیا‬
‫اور پھر شیری پر آ ٹکی تھیں جو واقع ہی پہلے سے‬
‫زیادہ کھل گیا تھا‪....‬گرے کرتہ پاجامہ پر سیاہ شال‬
‫شانوں پہ ڈالے وہ بےحد پرکشش لگ رہا تھا۔‬
‫حور کی نگاہوں کی تپش محسوس کرتے ہوئے جب‬
‫اس نے سر اٹھایا تو وہ منہ بسورے رخ پھیر گئی۔‬
‫شیری کے ہونٹ یہاں سے وہاں تک پھیل چکے تھے۔‬
‫"کائنات تم نے شیری کی بات مان کر بہت اچھا کیا‬
‫ہے۔ تمہیں نہیں معلوم دن با دن میں تمہیں پانے کے‬
‫نزدیک تر ہوتا جا رہا ہوں۔" کاشی نے سوچتے ہوئے‬
‫ایک اچٹتی نگاہ شیری پر ڈالی تھی۔ اور اپنے دماغ‬
‫میں دوبارہ سے پالننگ ترتیب دے ڈالی۔‬

‫سردار دالور خان نے سیاہ گرم شال شانوں پر درست‬


‫کی اور ایک جانچتی نگاہ اپنے اطراف میں ڈالی اور‬

‫‪287‬‬
‫پھر پُروقار انداز میں قدم اٹھاتے حویلی کی دہلیز پار‬
‫کر گئے۔‬
‫"سالم علیکم دادو جان!" وہ تخت پر بیٹھی بوڑھی‬
‫دادی کے پاس جا بیٹھے تھے۔‬
‫"ارے میرا لخت جگر‪.....‬میرا سردار آ گیا۔" ان کی‬
‫ضحیف آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔‬
‫سردار دالور نے مسکراتے ہوئے ان کا چشمہ‬
‫سرہانے کے پاس سے اٹھا کر ان کی آنکھوں پر لگا‬
‫دیا۔‬
‫"سردار بھائی جان!‪......‬امو‪ ،‬بھجو سردار بھائی جان آ‬
‫گئے۔" بہن نے دیکھتے ہی خوشی سے چالتے ہوئے‬
‫حویلی سر پر اٹھا لی تھی۔‬
‫وہ محض تین دنوں کے لیے حویلی سے گیا ہوا تھا‬
‫مگر اس وقت سب اس کے آنے سے یوں خوش ہوئے‬
‫تھے جیسے برسوں سے اس سے ملے نہ ہوں۔‬
‫سب خواتین اس کے اردگرد جمع ہو گئیں۔امو اور‬
‫چاچی نے خوب بالئیں لیں۔‬
‫بہنیں بھی ہاتھ چوم رہی تھیں۔‬

‫‪288‬‬
‫"بس کر دو تم سب تو یوں اس کے اردگرد جمع ہو‬
‫گئی ہو جیسے جنگ جیت کے آیا ہو۔" بابا سائیں کی‬
‫آواز پر جہاں چاچی کا پلو سرک کر چہرے پر آ گیا‬
‫وہاں ہی چھوٹی اور بڑی بہن کے سر جھک گئے اور‬
‫چادریں پیشانی تک آ ٹھہریں۔‬
‫"کیوں میرے سردار پتر پر آنکھیں الل کرتے ہیں‬
‫سائیں؟ وہ جس جنگ میں تنہا لڑ رہا ہے اس کے‬
‫لیے وہ کتنی مشکل ہے آپ خوب جانتے ہیں۔" ماں‬
‫روہانسی ہو گئیں۔‬
‫دالور خان عنابی ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر سر‬
‫جھکائے اٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫"کون سی جنگ بیگم سرکار؟ ایک بھائی نجانے کہاں‬
‫کہاں کی خاک چھانتا پھر رہا ہے تو دوسرا اسے‬
‫ڈھونڈنے میں خود کو خاک کر رہا ہے۔دونوں نے مل‬
‫کر برادری میں میرا مذاق بنوا دیا ہے۔" ان کا غصہ‬
‫بڑھا تھا۔‬
‫دالور خان نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوں کو تھام کر‬
‫چوم کر آنکھوں سے لگایا تھا۔‬

‫‪289‬‬
‫"بابا سائیں! وہ میرا چھوٹا بھائی ہی نہیں میرا یار‬
‫بھی ہے۔ اور میں اپنے یار کو ڈھونڈ کر ہی رہوں گا‬
‫خواہ خاک میں مل ہی کیوں نہ گیا۔"‬
‫اس نے سر جھکائے مؤدبانہ انداز میں کہا تھا۔ماں‬
‫اور بہنوں کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔‬
‫پیچھلے ایک سال سے جن بہنوں نے اپنے بھائی اور‬
‫جس ماں نے اپنے چاند کو نہ دیکھا ہو ان کی حالت‬
‫کیسی ہوتی ہے‪......‬؟ اس بڑھے باپ کی سرخ آنکھیں‬
‫بھی اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کو یاد تو‬
‫ضرور کرتے ہیں۔‬
‫ت جگر کہاں ہو گا‪ ،‬میرا خان‬
‫"پتہ نہیں میرا لخ ِ‬
‫پتر‪.....‬پھولوں کی سیج پر سونے واال کس حال میں‬
‫ہو گا۔" ماں اپنی سسکیاں روک نہیں سکی تھیں۔‬
‫سردار دالور نے انہیں شانوں سے تھام کر سینے سے‬
‫لگا لیا۔‬
‫"بہت جلد ہی میں اسے آپ کے سامنے لے آؤں گا‬
‫امو!" اس کی خود کی آنکھیں بھی سرخ ہو گئی تھیں۔‬

‫‪290‬‬
‫"ایک بات یاد رکھنا سردار! وہ مل جائے تو بیشک‬
‫یہاں لے آنا مگر اسے اتنا سمجھا دینا کہ وہ یہاں‬
‫سردار کبھی نہیں کہالئے گا‪.......‬اس عہدے سے‬
‫اسے یہاں کوئی نہیں نوازے گا۔"‬
‫بابا سائیں تیزی سے وہاں سے ہٹ گئے تھے کہ کہیں‬
‫سب کے ساتھ وہ بھی کمزور نہ پڑ جائیں۔‬
‫"پتر سردار! کچھ پتہ چال خان پتر کہاں ہے؟" دادی‬
‫نے پوچھا تو وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫"دادی سائیں! ابھی تو بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ‬
‫مجھے پنجاب جانا پڑے گا۔"‬
‫اس نے گہری سانس بھر کر کہا۔‬
‫"پ پنجاب؟" دادی کے لب کپکپائے۔‬
‫"ہاں دادی سائیں۔" وہ ان کے چہرے پر کچھ تالشنے‬
‫لگا وہاں دکھ رقم تھا۔‬
‫سب ہی خاموش ہو گئے تھے۔‬
‫کچھ دیر بعد وہ بھی اپنے تھکے وجود کو گھسیٹتے‬
‫ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔‬

‫‪291‬‬
‫اپنی بس میں سوار ہو کر وہ لوگ نکل چکے تھے۔‬
‫حور جس کی سفر میں زبان کنٹرول نہیں ہوتی تھی آج‬
‫مکمل خاموشی ہونٹوں پر لیے سر سیٹ کی پشت پر‬
‫ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔‬
‫"بس کر دو نومی! کتنا برا گاتے ہو۔" کزنز منہ بسور‬
‫کر نومی کو دیکھ رہے تھے۔‬
‫"شیری! تم گاؤ نا۔" تایا کی بیٹی صائمہ نے کہا تھا۔‬
‫اسے یہ سب پسند نہیں تھا یہ بات کائنات اچھی طرح‬
‫جانتی تھی تبھی سر اٹھا کر بس کے دروازے میں‬
‫کھڑے شیری کو دیکھا۔‬
‫"مجھے نہیں آتا گانا۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫کائنات اس کی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی اور حور‬
‫گردن گھمائے اسے‪.....‬‬
‫"پلیز شیری!" صائمہ بضد ہوئی۔‬
‫"کائنات سے کہو‪.....‬وہ بہت اچھا گنگناتی ہے۔" اس‬
‫کی بات پر وہ جو سر جھکا رہی تھی خفگی سے اس‬
‫کی جانب دیکھنے لگی۔‬

‫‪292‬‬
‫"شیری بھائی! مجھے نہیں آتے گانے۔"‬
‫وہ منہ بناتے ہوئے بولی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬
‫"نومی! گٹار دو۔"‬
‫"یہ لیں جناب! یہاں بیٹھیں نا۔" وہ سیٹ چھوڑ کر اٹھ‬
‫کھڑا ہوا شیری نے گٹار تھام کر سیٹ پر بیٹھتے‬
‫ہوئے گال کھنکارا۔‬
‫"دیکھو بھئی گانا وانا مجھے نہیں آتا ہاں گٹار کالج‬
‫کے زمانے میں بہت اچھی بجا لیتا تھا آج کوشش کر‬
‫کے دیکھتے ہیں کہ دھن میری انگلی تھامتی ہے یا‬
‫بےوفا بھول گئی ہے۔" اس نے سر اٹھا کر کہا۔‬
‫اس نے جیسے ہی گٹار کی تاروں پر انگلی نچائی تو‬
‫ایک طلسمی سی دھن پوری بس میں پھیل گئی وہ سب‬
‫خاموشی سے سن رہے تھے۔‬
‫حور نے بےاختیار ہی بوجھل سی سانس بھری اور‬
‫آنکھیں موند لیں۔‬
‫"وہ آج بھی میرے آس پاس رہتی ہے۔" شازار کی‬
‫آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ پٹ سے آنکھیں‬
‫کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔‬

‫‪293‬‬
‫سب ہی اس دھن میں کھو چکے تھے۔‬
‫اس نے جیسے ہی گٹار بجانا بند کیا سب کی تالیوں‬
‫کی گونج کے ساتھ اسے داد پیش کی تھی۔‬
‫"واؤ‪......‬شیری بھائی!‪ ......‬آپ کتنی زبردست گٹار‬
‫بجاتے ہیں۔" کائنات نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ‬
‫کہا تھا۔‬
‫"بہت شکریہ آپ سب کا۔" دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے‬
‫اس نے سر جھکا کر شاہانہ انداز میں کہا تھا۔‬
‫"ویسے یہ دھن آپ کی اپنی ہے مسٹر شاہزیب احمد؟"‬
‫حور نے طنزیہ انداز میں استفسار کیا۔‬
‫"بلکل۔ میں نے خود کریٹ کی ہے۔" وہ بنا غصہ کیے‬
‫بوال۔‬
‫"اونہہ‪ ".....‬وہ رخ پھیر کر باہر دیکھنے لگی‪،‬کائنات‬
‫اس کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔‬
‫شیری کے فون پر کال آئی تھی اور وہ گٹار نومی کو‬
‫تھما کر پیچھلی سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫"کاش یہ سفر ان دونوں کی بےوجہ کی نفرت مٹا دے۔‬

‫‪294‬‬
‫"سردار سائیں! بڑے سائیں نے اپنی آرام گاہ میں آپ‬
‫کو یاد فرمایا ہے۔" مالزم نے کمرے کا دروازہ‬
‫کھٹکھٹاتے ہوئے مؤدبانہ انداز میں کھڑے ہوتے‬
‫ہوئے پیغام دیا تھا۔‬
‫وہ جو ایزی چیئر پر بیٹھا گہری سوچوں میں گم تھا‬
‫اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫وہ سگار کے کش لگا رہے تھے جب سردار دالور‬
‫خان نے ان کے کمرے میں قدم رکھا۔‬
‫"حکم بابا سائیں!" وہ ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔‬
‫"بیٹھو سردار سائیں!" وہ اپنے پہلو میں اشارہ کرتے‬
‫ہوئے بولے۔‬
‫"جو میں کہنے جا رہا ہوں وہ شاید تمہیں ناگوار‬
‫گزرے مگر یہ ہماری عزت کا سوال تو ہے ہی مگر‬
‫اس سے بڑھ کر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمارا قبیلہ اور‬
‫ہماری برادری کی نوجوان نسل‪ ،‬ہمارے اس انتہائی‬
‫قدم سے سبق سیکھ جائیں۔"‬
‫وہ سنجیدگی سے بہت سوچ سوچ کر بول رہے تھے۔‬

‫‪295‬‬
‫"ہمارے کچھ اصول ہیں سردار سائیں! کہ‪.....‬بیٹے‬
‫سرداری کے لیے ہیں اور بیٹیاں محض گھرداری‬
‫سنبھالنے کے لیے ہیں‪ ،‬تعلیم کی جانب ذرا بھی ر‬
‫مگر ہم نے ان دونوں اصولوں کو ہی محض تمہارے‬
‫کہنے پر ختم کر دیا۔"‬
‫"بابا سائیں! میں دل سے آپ کا شکر گزار ہوں‪.....‬‬
‫دیکھا نہیں آپ نے کہ ہمارے عالقے میں نوجوان اب‬
‫تعلیم یافتہ ہیں ‪ ،‬جن لڑکیوں کو جاہل گوار کہا جاتا تھا‬
‫جوتے کی نوک پر دھرا جاتا تھا انہیں ان کا حق مال‬
‫ہے‪ ،‬ان کی عزت بڑھی ہے۔" وہ مسکرایا تھا۔‬
‫"ہوں‪.....‬ہم نے تمہارا ہر فیصلہ مانا اب تمہاری باری‬
‫ہے ہمارے فیصلے کو ماننے کی۔" وہ سر ہالتے‬
‫ہوئے بولے۔‬
‫"میں‪.....‬سمجھا نہیں بابا سائیں؟" وہ سوالیہ نگاہوں‬
‫سے ان کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"سمجھاتا یوں۔ پہلے یہ بتاؤ خان کا پتہ معلوم ہو گیا‬
‫ہے؟"‬

‫‪296‬‬
‫"ٹھیک پتہ تو نہیں مگر اتنا معلوم ہو گیا ہے کہ وہ‬
‫پنجاب میں ہے۔وہاں جاؤں گا تو ایک دو دن تک ڈھونڈ‬
‫بھی لوں گا۔" وہ انہیں مختصر بتا کر سر جھکا گیا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔ اب میرا حکم سنو۔" وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫پشت پر ہاتھ باندھے اس سے کچھ فاصلے پر جا‬
‫رکے۔‬
‫انہوں نے جو کہا تھا سردار دالور کرنٹ کھا کر اٹھ‬
‫کھڑے ہوئے۔‬
‫"نہیں بابا سائیں! میں اپنے جگر کے ساتھ آپ کو یہ‬
‫ظالمانہ سلوک ہرگز نہیں کرنے دوں گا۔" وہ وحشت‬
‫سے آنکھیں پھیالئے بوال۔‬
‫"ہم آپ کے باپ ہیں آپ ہمارے نہیں۔ اب آپ جائیں اور‬
‫انہیں لے آئیں۔اگر نہ الئے یا کوئی بھی ہوشیاری کی‬
‫کوشش کی تو آپ سے پہلے ہم خان تک پہنچ جائیں‬
‫گے اور پھر ان کی سزا دگنی کر دی جائے گی۔" وہ‬
‫اطمینان سے بولے۔‬
‫سردار دالور خان نے بےیقینی سے اپنے بابا سائیں‬
‫کو دیکھا اور لب بھینچے پلٹ گئے۔‬

‫‪297‬‬
‫"ٹھیک ہے بابا سائیں! مگر اب یہ سزا خان کو آپ‬
‫اپنے ہاتھوں سے دیں گے۔ میں بھی دیکھوں گا کہ‬
‫ت جگر کو کس حد تک تکلیف پہنچا سکتے‬ ‫اپنے لخ ِ‬
‫ہیں آپ۔" وہ اٹل انداز میں کہہ کر پلٹ گیا۔‬
‫اس کے تیز قدم اپنے کمرے میں جا رکے تھے۔‬
‫"سردار دالور! ایک طرف دو قدم کی دوری پر تمہارا‬
‫بھائی ہے اور دوسری جانب باپ کا غصہ‪......‬کیا کرو‬
‫گے اب؟"‬
‫بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ مضطرب انداز میں‬
‫ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا۔‬
‫"بابا سائیں اپنے ہاتھوں سے اسے سزا نہیں دے‬
‫سکیں گے۔ بھال کون باپ اپنے بیٹے پر ظلم کرے گا۔"‬
‫اس کے دل نے کہا تھا وہ کچھ حد تک پُرسکون ہو‬
‫گیا۔‬
‫صبح کے پانچ بجے وہ ایک ہوٹل پہنچے تھے جہاں‬
‫انہوں نے کچھ وقت قیام کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد‬
‫پھر سے نکل پڑے۔‬
‫بس اسالم آباد کے ایک جنگل کی سڑک پر آ رکی تھی۔‬
‫‪298‬‬
‫انہوں نے ایک خوبصورت پہاڑی کا انتخاب کیا جہاں‬
‫پانی کا چشمہ بھی موجود تھا۔‬
‫"لو بھئی‪......‬دو دن سکون سے گزارو‪.....‬اتنی‬
‫اونچائی پر بھی سروس نہیں ہے۔" نومی نے فون ہوا‬
‫میں اچھال کر کیچ کیا۔‬
‫"تو رکھ دے اس باپ کو اور ادھر آ ہماری ہیلپ کروا‬
‫ٹینٹ لگانے میں۔" کاشی نے کہا۔‬
‫"واٹ یہ ٹینٹ کیا ہوتا ہے‪ ،‬برو اٹس کیمپ‪ "......‬نومی‬
‫نے انگریزوں جیسے لہجے میں کہا۔‬
‫"اور یہ لڑکیاں یہاں محض سیلفیاں لینے آئی ہیں‬
‫کیا‪.....‬ہماری ہیلپ کروائیں۔"‬
‫"سنو مسٹر رائے جاوید! یہ کام تم لڑکوں کے ہیں تو‬
‫خاموشی سے کیمپ لگاؤ۔" اس کی بہن نے فون پر‬
‫سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے کہا۔‬
‫کائنات ایک جانب پتھر سے ٹیک لگائے کھڑی ان سب‬
‫کی نوک جھوک انجوائے کرتی مسکرا رہی تھی۔‬
‫"کائنات! سانپ سانپ‪ ......‬تمہارے پیچھے سانپ۔"‬
‫کاشی نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ڈرانے والے‬

‫‪299‬‬
‫انداز میں تیزی سے بولنا شروع کیا تو وہ چنخ کر‬
‫آنکھیں موندے مخالف سمت بھاگ کھڑی ہوئی۔‬
‫وہ سب زور سے قہقہے لگا کر ہنسے تھے۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ ٹھوکر کھا کر گرتی سامنے سے‬
‫آتے شیری نے بےحد تیزی سے اسے تھام لیا تھا۔‬
‫"ارے کتنی ڈرپوک ہے یہ۔ بہن تم تو دو دن میں پوری‬
‫ہو جاؤ گی ڈر ڈر کر۔" ایک کزن نے ہنستے ہوئے کہا‬
‫تھا۔‬
‫"ریلکس یار‪ !.....‬مذاق کیا تھا انہوں نے اور یہاں‬
‫نہیں ہوتے سانپ وانپ ‪.....‬یہ کون سا بڑا جنگل ہے۔"‬
‫وہ اس کے شانے سے لگی رو رہی تھی تبھی وہ اس‬
‫کا سر سہالتے ہوئے نرمی سے بوال۔‬
‫"اب نہیں ڈرانا کسی نے بھی کائنات کو‪.....‬اوکے؟"‬
‫شاہزیب نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے آگے قدم‬
‫بڑھائے۔اور ساتھ ہی کزنز کو ڈانٹا بھی۔‬
‫"بہادر شاہ ظفر کی محافظ کہاں چلیں؟"‬
‫حور کو النگ شوز‪ ،‬جینز پر شرٹ اور اس پر لیدر کی‬
‫جیکٹ زیب تن کیے ان سب کی مخالف سمت بڑھتے‬
‫‪300‬‬
‫دیکھتے ہوئے شاہزیب نے طنزیہ انداز میں استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"کسی جن کے شاگرد جنگل گھومنے جا رہی‬
‫ہوں۔کوئی اعتراض؟" وہ پلٹ کر کرختگی سے بولی‬
‫اور ایک تیکھی نگاہ اس کے ہاتھ پر ڈالی جس میں‬
‫کائنات کا ہاتھ دبا ہوا تھا۔‬
‫"یہ جنگل آپ کے والد صاحب کا ہرگز نہیں ہے جو‬
‫منہ اٹھا کر کہیں بھی چل دیں گیں۔" وہ تیکھے لہجے‬
‫میں بوال۔‬
‫"تو آپ کے والد محروم کا ہے؟ مگر میں تو بھول گئی‬
‫تمہارا تو کوئی باپ ہی نہیں ہے۔" اس کا لہجہ تنفر‬
‫بیزاری کا اظہار کر رہا تھا اور ہونٹ طنزیہ انداز میں‬
‫پھیل گئے تھے۔‬
‫"میرے پاس بحث و تکرار کا وقت نہیں ہے۔ آرام سے‬
‫ٹک کر بیٹھو جب سب جائیں گے تو تم بھی تب ہی‬
‫چلو گی۔ گم ہو گئی تو کون ڈھونڈھتا پھرے گا تمہیں۔"‬
‫وہ کہہ کر تیزی سے پلٹا تھا مگر کائنات کے ہاتھ کو‬
‫چھوڑنا بھول گیا‪ ،‬دوسرے پل ہی اسے رکنا پڑا۔‬

‫‪301‬‬
‫اس نے تیزی سے ہاتھ چھوڑا اور بنا مڑے ہی وہاں‬
‫سے ہٹ گیا۔‬
‫"اٹس ویری بیڈ۔حور! تم کیوں اس طرح کرتی ہو‬
‫شیری بھائی کے ساتھ؟"‬
‫کائنات نے غصیلی نگاہ حور پر ڈالی اور پیر پٹختی‬
‫تیزی سے شیری کے پیچھے بڑھی جو غم و غصہ‬
‫ضبط کرتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا آگے بڑھتا جا رہا‬
‫تھا۔‬
‫"میں جا رہی ہوں گائز۔ آ جاؤں گی تھوڑی دیر تک اور‬
‫یہ کون سا اتنا بڑا جنگل ہے جو گم جاؤں گی۔" وہ کہہ‬
‫کر پلٹ گئی۔‬
‫"ایک بہن کی شیری سے بنتی نہیں اور دوسری‬
‫شیری کے پیچھے پڑی رہتی ہے۔" صائمہ دانتوں پہ‬
‫دانت جمائے بڑبڑائی۔‬
‫"تم کیوں جیلس ہو رہی ہو؟" ساتھ کھڑی سائیکہ نے‬
‫پوچھا۔‬
‫وہ اسے گھور کر رہ گئی۔‬

‫‪302‬‬
‫کچھ فاصلے پر بیٹھے کاشی نے بہت ہی پرسوچ انداز‬
‫میں صائمہ کی جانب دیکھا تھا۔‬
‫"کائنات کو حاصل کرنے میں میرا ساتھ صائمہ ہی دے‬
‫گی۔" وہ سوچ کر مسکرا دیا۔‬
‫وہ پتھر پر بیٹھتے ہوئے سر ہاتھوں میں گرا گیا تھا۔‬
‫"میں الوارث نہیں ہوں‪......‬ہیں میرے اپنے‪......‬باپ‬
‫بھی ہے۔ مگر میں بیوقوف یہاں پڑا ہوں۔جاؤں بھی تو‬
‫کیوں؟ انہیں میری ضرورت ہی کہاں ہے۔"‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی شیری تیزی سے مگر‬
‫افسردہ لہجے میں بوال تھا۔‬
‫کائنات ٹھنڈی آہ بھر کے چند پل اس کی پشت کو‬
‫دیکھتی رہی پھر چلتی ہوئی اس کے پہلوؤں میں جا‬
‫بیٹھی۔‬
‫"آپ کو تو ان کی ضرورت ہے نا‪.....‬ان کے پیار کی‪،‬‬
‫ان کے نام کی‪ ".....‬وہ مدھم آواز میں بولتی اس کی‬
‫جانب دیکھنے لگی۔‬
‫بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ پھر سے بولی۔‬

‫‪303‬‬
‫"شیری بھائی! یہ دنیا کا نظام ہے والد سے جڑے‬
‫رشتوں کے بنا اوالد چل نہیں سکتی۔خواہ وہ مرد ہو یا‬
‫عورت مگر باپ دونوں کے لیے ضروری ہے۔" وہ‬
‫سمجھانے والے انداز میں بولی۔‬
‫"میں چال بھی اور جوان بھی ہوا اب مجھے ان کے‬
‫سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ بھڑک کر اٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔‬
‫"اوہ ہو‪....‬ایک تو آپ کو غصے بہت جلد آ جاتا‬
‫ہے۔میں نے سہارے نہیں محبت کی بات کی ہے۔بیٹھیں‬
‫اور تحمل سے میری بات سنیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام‬
‫کر واپس بیٹھاتے ہوئے سختی سے بولی۔‬
‫"آپ کے والد کا قصور نہیں تھا نہ ہی والدہ کا‪.....‬‬
‫قصور تھا تو آپ کے ماموؤں کا۔"‬
‫"ماموؤں نے محض اتنا کہا تھا کہ ہماری بہن خاندان‬
‫کے فنکشن میں شرکت کرے گی بنا منہ لپیٹے‪....‬اور‬
‫اس بات پر میرے والد کے گھر والوں کو اعتراض تھا‬
‫تبھی انہوں نے میرے والد صاحب کو کہا میری ماں‬
‫کو چھوڑ دیں اور والد صاحب چھوڑ گئے۔"‬

‫‪304‬‬
‫وہ نخوت سے بوال۔‬
‫"پردہ کرنا گناہ نہیں ہے شیری بھائی! اور نہ ہی اپنے‬
‫خاوند کی بات کو رد کرنا غلط ہے‪ .....‬آپ کے والد‬
‫ٹھیک تھے‪ ،‬اور آپ کا ننھیال غلط‪ ،‬سب کچھ اِن‬
‫لوگوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ میں نے جس طرح سے‬
‫بات سنی ہوئی ہے غلطی سراسر تایا لوگوں کی ہے۔"‬
‫اس کی بات پر وہ خاموش سا ہو گیا۔‬
‫ہاں وہ مانتا تھا کہ محض ایک وجہ سے اس کے‬
‫والدین جدا ہو گئے تھے اور وہ تھا پردہ‪......‬‬
‫"کم از کم ایک مرتبہ تو چلے جائیں‪......‬کیا معلوم وہ‬
‫بھی آپ کی طرح آپ کو یاد کرتے ہوں مگر انا کے‬
‫سامنے ہار جاتے ہوں‪.....‬ہر رشتے کو جوڑنے کے‬
‫لیے کسی نا کسی کو پہل کرنی پڑتی ہے۔" وہ بول‬
‫رہی تھی اور شاہزیب گردن گھما کر اس کی جانب‬
‫دیکھ رہا تھا۔‬
‫"مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم اتنی سمجھدار‬
‫ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال تو وہ ہنس دی۔‬

‫‪305‬‬
‫ہر جعمہ کی نماز کے بعد سردار بہادر شیر خان لوگوں‬
‫سے ان کی پریشانیاں‪ ،‬مسائل سنتے اور انہیں حل‬
‫کرتے تھے۔‬
‫تین بجے سے شام آٹھ بجے تک یہ عدالت بیٹھتی تھی‬
‫اور اس ایک دن میں ہی کئی لوگوں کو انصاف اور‬
‫مجرموں کو سزائیں دی جاتیں۔‬
‫اس وقت بھی وہ اپنی نشست سنبھالے ہوئے تھے۔‬
‫یہ جگہ بلکل ایک بادشاہ کے دربار کی مانند تھی۔‬
‫قدر بلند مقام پر پڑے تین صوفے‬
‫سامنے تین ِ‬
‫تھے‪......‬‬
‫چند سیڑھیاں اترنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پانچ پانچ‬
‫کرسیاں پڑی تھیں ان سے کچھ فاصلے پر دونوں‬
‫جانب ہی بڑے بڑے پیلر الئن میں موجود تھے جن‬
‫کے پار ترتیب سے لوہے کی کرسیاں رکھی گئیں‬
‫تھیں۔ اس دربار کے کئی گز اونچے دروازے کے‬
‫دونوں جانب گارڈز کھڑے تھے۔‬
‫سردار حامد خان نے درمیان میں نشست سنبھالتے‬
‫ہوئے دائیں بائیں پڑی خالی شاہی کرسیوں کو دیکھا۔‬

‫‪306‬‬
‫ت جگروں کی منتظر تھیں۔‬
‫جو ان کے لخ ِ‬
‫سردار دالور خان نے بھی پیچھلے ایک سال سے‬
‫دربار میں قدم نہیں رکھا تھا اس نے قسم کھائی تھی‬
‫کہ خان کو ڈھونڈنے کے بعد وہ دونوں بھائی ایک‬
‫ساتھ نشست سنبھالیں گے۔‬
‫ایک پل کو ان کی آنکھوں میں اداسی اتری تھی پھر‬
‫سر جھٹک کر سامنے دیکھنے لگے۔‬
‫ہاتھ اٹھا کر انہوں نے اشارہ کیا تو دائیں جانب بیٹھے‬
‫آدمی نے اثبات میں سر ہالیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"شبیر والد بشیر اپنا مقدمہ پیش کریں۔"‬
‫ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو کھولتے ہوئے اس نے‬
‫مائیک میں کہا تھا۔‬
‫"سالم سرکار!" اس نے پیشانی ٹھونک کر سالم کیا۔‬
‫"و علیکم السالم! کیا پریشانی ہے تمہاری؟"‬
‫حامد شیر خان نے‪ ،‬ہاتھ جوڑ کر سر جھکائے کھڑے‬
‫شبیر کو دیکھا۔‬

‫‪307‬‬
‫"سرکار میں بہت ہی غریب بندہ ہوں۔بیس برس پہلے‬
‫میں سندھ سے ہجرت کر کے یہاں آیا تھا تب میرے‬
‫پاس کچھ بھی نہیں تھا۔‬
‫آپ نے مجھے تین ایکڑ زمین دی تھی کہ میں اپنے‬
‫چار سالہ بیٹے کو پال سکوں اور کسی کے سامنے‬
‫ہاتھ نہ جوڑنے پڑیں۔" وہ ایک پل کو رکا۔‬
‫"شبیر! پھر اس وقت تم ہاتھ جوڑے اور سر جھکائے‬
‫کیوں کھڑے ہو؟ جانتے نہیں ہو کہ سردار سائیں کو یہ‬
‫بات سخت ناپسند ہے۔ بیشک وہ ہمارے مسائل حل‬
‫کرتے ہیں مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے قبیلے اور باہر‬
‫کے لوگوں کو بھی یہ ہی سمجھایا ہے کہ کمر نہ‬
‫جھکے‪ ،‬خواہ سر کیوں نہ کٹ جائے۔" بائیں جانب‬
‫کرسی پر بیٹھے بہترین سوٹ بوٹ میں ملبوس آدمی‬
‫نے کہتے ہوئے کچھ طنزیہ نگاہوں سے سردار حامد‬
‫خان کو دیکھا۔‬
‫"معاف کیجیے گا سرکار مگر آج میں خالی ہاتھ رہ گیا‬
‫ہوں میرا بیٹا جسے میں نے پاال پوسا وہ آج کہتا ہے‬
‫میں یہاں خان پور کیا پختونخوا میں ہی نہیں رہنا‬
‫چاہتا‪.....‬جس جگہ جن پہاڑیوں میں وہ پال بڑھا وہ‬
‫‪308‬‬
‫اسے ناپسند ہیں یہ باپ اسے جاہل اور کویں کا مینڈک‬
‫لگتا ہے۔سرکار‪......‬میں اپنے بیٹے کے بغیر نہیں جی‬
‫سکتا۔" وہ رونے لگا تھا اور سردار حامد خان مٹھیاں‬
‫بھینچ کر لب دانتوں تلے دبا گئے۔‬
‫"اس کے بیٹے کو لے آؤ۔"‬
‫انہوں نے کہا تو بائیں جانب سے دو آدمی اٹھ کر باہر‬
‫کی جانب بڑھ گئے۔‬
‫ڈائری تھامے پھر سے وہ ہی شخص کھڑا ہوا۔‬
‫"شبیر! تم اس طرف انتظار کرو جب تک کہ تمہارا بیٹا‬
‫نہیں آ جاتا۔ غفور والد منصور حاضر ہوں۔"‬
‫اس نے شبیر سے کہتے ہوئے مائک میں دوسرے‬
‫شخص کو طلب کیا۔‬
‫"اپنے بیٹے کو تو جانے سے روک نہیں سکا تھا‬
‫دوسروں کے بیٹوں کو کیسے روکے گا۔" دائیں جانب‬
‫چوتھی کرسی پر بیٹھے شخص نے تیسری کرسی پر‬
‫بیٹھے آدمی کے کان میں گھس کر کہا۔‬
‫"چپ کرو اس نے سن لیا تو جان سے مروا دے گا۔"‬
‫تیسری کرسی والے نے خوف زدہ ہو کر کہا۔‬
‫‪309‬‬
‫"یہ سردار دالور خان آج خان پور میں کیوں نہیں‬
‫ہے؟"‬
‫اس نے پھر سے گھسر پھسر کی۔‬
‫"وہ پختونخوا میں نہیں ہے پنجاب گیا ہوا ہے۔ اب‬
‫خاموش ہو جاؤ۔"‬
‫دوسرے نے کہا اور رخ پھیر لیا۔‬
‫"یہ بات تو صاحب کو بتانی چاہیے کیا پتہ یہ خبر ان‬
‫کے کام آ جائے اور مجھے کوئی بھاری انعام مل‬
‫جائے۔" اس شخص کی آنکھیں چمکیں۔‬
‫"سردار سائیں! معافی چاہتا ہوں م مجھے اجازت دیں‬
‫میری بیوی بیمار ہے‪.....‬مجھے جانا ہو گا۔"‬
‫وہ تیزی سے اٹھتے ہوئے بوال۔‬
‫"نبیل خان! اس طرح عدالت کے کام میں مداخلت کرنا‬
‫اصولوں کے خالف ہے۔" دائیں جانب کی قطار میں‬
‫بیٹھے ایک آدمی نے سختی سے کہا۔‬
‫"کوئی بات نہیں شکیل خان! جانے دو اسے۔ جاؤ نبیل‬
‫خان! اپنی بیوی کا خیال رکھنا۔"‬

‫‪310‬‬
‫سردار حامد خان نے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے کہا تو وہ‬
‫سالم کرتا تیزی سے پلٹ گیا۔‬
‫شکیل خان کی جانچتی نگاہوں نے دروازے تک نبیل‬
‫خان کا پیچھا کیا تھا۔‬
‫دربار سے نکلتے ہی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں‬
‫نکل گیا۔‬
‫اس کا رخ گلریز خان کے ڈیرے کی جانب تھا‪......‬‬
‫فصلوں میں سے دیکھتی دو آنکھیں حیرانگی سے‬
‫پھیل گئیں۔‬
‫"سائیں! یہ نبیل خان تو گلریز خان کے ڈیرے پر جا‬
‫رہا ہے۔" اس نے فون پر کسی سے کہا۔‬
‫"کیا؟ میرا شک ٹھیک تھا کہ نبیل خان آستینوں کا‬
‫سانپ ہے۔پیچھا کرو اس کا۔"‬
‫"جی سائیں۔" کال کاٹ کر شکیل خان کا نمبر ڈلیٹ‬
‫کرتے ہوئے وہ شخص نبیل خان کا پیچھا کرتا گلریز‬
‫کے ڈیرے تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی وہ دبوچ لیا‬
‫گیا تھا۔‬

‫‪311‬‬
‫"کیوں بلے‪.....‬موت لے آئی تجھے یہاں؟" گلریز خان‬
‫نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا۔‬
‫وہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔‬
‫"تم دھوکے باز ہو نبیل خان! میں وڈے سردار سائیں‬
‫کو بتا دوں گا۔" وہ ڈرنے کے باوجود غصے سے‬
‫پھنکارا۔‬
‫"ایسے کیسے بتا دو گے؟ بچو گے تو ہی بتاؤ گے‬
‫نا۔" گلریز کے بڑے بیٹے نے کہا اور اس کے سینے‬
‫پر بندوق تان دی۔‬
‫بنا آواز کیے گولی بلے کے سینے میں اتر کر اسے‬
‫موت کے گھاٹ اتار چکی تھی۔‬
‫"قبرستان میں ایک اور الوارث الش کا اضافہ ہو گیا۔‬
‫ّٰللا محروم کی روح کو سکون دے۔" گلریز خان نے‬ ‫ہ‬
‫مصنوعی دکھ بھرے لہجے میں کہا۔‬
‫"نبیل خان! کسی کو مار کر دفن کرنا ہمارے لیے کوئی‬
‫مشکل کام نہیں ہے۔ اب اس کو ہی دیکھ لو‪"......‬‬
‫گلریز خان نے اس کے شانے پر بازو پھیالئے کہا تو‬
‫وہ ڈر کر آنکھیں پھاڑے الش کو دیکھنے لگا۔‬

‫‪312‬‬
‫"اگر چاہتے ہو کہ تمہارا حال ایسا نہ ہو تو آئندہ پوری‬
‫خبر النا اور اپنے ساتھ کسی جاسوس کو مت النا۔‬
‫وگرنہ اگلی مرتبہ دو الشیں یہاں گری پڑی ہوں گی۔"‬
‫وہ سرگوشی کے انداز میں بوال۔‬
‫"ج جی خان صاحب! معافی چاہتا ہوں اس غلطی کی۔‬
‫وہ تھوک نگل کر ہاتھ جوڑ کر بوال۔‬
‫گلریز خان اس کے شانے پر تھپکی دے کر پلٹ گیا۔‬
‫قدر‬
‫شاہزیب کچھ فاصلے پر بہتی ندی کے کنارے پڑے ِ‬
‫کم وزنی پتھروں کو اٹھا اٹھا کر ال کے گول دائرے‬
‫میں جوڑنے لگا۔‬
‫تبھی ایک خیمے کے پردے کو اٹھا کر کائنات باہر‬
‫نکلی۔‬
‫"شیری بھائی!‪......‬یہ کیا کر رہے ہیں؟" اسے گول‬
‫پتھر اٹھائے دیکھ کائنات کی آنکھیں یہاں سے وہاں‬
‫تک پھیل گئیں اور وہ چینخ کر بولی۔‬
‫"تم اٹھ گئی۔ چلو اب یہ گوشت دھو کر الؤ۔"‬
‫ایک پتھر پر پڑی ٹوکری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫‪313‬‬
‫"آپ اتنے وزنی پتھر کیوں اٹھا رہے ہیں؟ رہنے دیں‬
‫نا۔"‬
‫وہ تیزی سے بولی۔‬
‫"اتنے بھاری نہیں ہیں۔ جو بھاری ہوتا ہے اسے‬
‫گھسیٹ لیتا ہوں۔فکر نہیں کرو اتنی تو جان ہے مجھ‬
‫میں۔"‬
‫وہ اپنے بازوؤں کو سہالتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔‬
‫کائنات فکرمندی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔‬
‫گول دائرے میں آخری پتھر رکھ کر وہ ایک پتھر پر‬
‫بیٹھ گیا تھا۔‬
‫وہ جو ندی کے پانی میں گوشت دھو کر پلٹی تھی اس‬
‫کے مضبوط بازو پر نگاہ پڑی جہاں زخم سے خون‬
‫رس رہا تھا‪ ،‬اس کے دل کو کچھ ہوا تھا ٹوکری ایک‬
‫پتھر پر رکھ کے تیزی سے آگے بڑھی۔‬
‫" دیکھا لگ گیا نا کوئی نوکیال پتھر۔ م میں فرسٹ ایڈ‬
‫باکس التی ہوں تب تک آرام سے بیٹھیں۔" وہ کہہ کر‬
‫تیزی سے اپنے خیمے کی جانب بڑھ گئی۔‬

‫‪314‬‬
‫شیری نے گردن گھما کر اپنے دائیں بازو کو دیکھا‬
‫کہنی سے تھوڑا سا اوپر زخم ہوا تھا‬
‫"یہ بھی بھال کوئی زخم ہے۔ پگلی یوں ہی پریشان ہو‬
‫جاتی ہے۔" وہ مسکرا کر نفی میں سر جھٹک کر اٹھ‬
‫کھڑا ہوا۔‬
‫فرسٹ ایڈ باکس اٹھائے وہ باہر آئی تو شیری لکڑیاں‬
‫جوڑ رہا تھا۔‬
‫وہ خفگی سے آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے‬
‫لکڑیاں جھپٹ کر پھینک کے اس کا ہاتھ تھامتی اپنے‬
‫ساتھ کھینچنے لگی۔‬
‫"اٹھیں‪ ،‬پہلے پٹی کروائیں۔" وہ کرختگی سے بولی تو‬
‫وہ اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"کائنات! اتنا بڑا بھی نہیں ہے یہ زخم جتنا تم پریشان‬
‫ہو رہی ہو۔" وہ اس کی شکل پر ہوائیں اڑی دیکھ‬
‫مسکرایا‪....‬‬
‫"شیری بھائی! اچھا خاصا گہرا زخم ہے چپ چاپ یہاں‬
‫بیٹھیں۔" وہ ڈپٹ کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔‬

‫‪315‬‬
‫فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اس میں سے سپرٹ اور‬
‫روئی نکالی تو شیری نے خفگی سے اسے دیکھا۔‬
‫"ن نہیں کائنات! بہت جلن ہو گی۔" وہ نفی میں سر‬
‫ہالنے لگا۔‬
‫"چپ چاپ بیٹھے رہیں۔ جانتے ہیں نا سردیوں میں‬
‫زخم جلدی بھرتے نہیں ہیں۔انفیکشن ہو گیا تو‪".....‬‬
‫اس کے کسرتی بازو کو اپنے نازک سے ہاتھ میں‬
‫تھامتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بہت احتیاط سے‬
‫سپرٹ سے زخم صاف کرتے ہوئے بولی۔ خون دیکھ‬
‫اس کا برا حال ہو رہا تھا۔‬
‫"کوئی بھی زخم کسی بھی موسم میں ملے بھرنے میں‬
‫وقت تو لگتا ہے نا۔" شاہزیب کے لہجے میں مایوسی‬
‫اتری۔‬
‫ّٰللا بہت ہی مہربان ہے۔" وہ‬
‫"مگر بھر جاتے ہیں ‪ ،‬ہ‬
‫اس کی جانب دیکھتے ہوئے نرمی سے مسکرائی۔‬
‫وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے لگا‪.....‬‬

‫پرستان سے آئی کوئی پری ہو کیا تم‬


‫‪316‬‬
‫اتنی حسین اور رحم دل کیسے ہو تم؟‬

‫اس نے مسکراتے ہوئے شعر پڑھا تھا۔ کائنات نے سر‬


‫اٹھا کر حیرانگی سے اسے دیکھا تو وہ تیزی سے‬
‫سر جھکا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔‬
‫"کیا بات ہے شیری بھائی! آپ تو بہت اچھے شاعر‬
‫ہیں۔" وہ داد دینے والے انداز میں بولی اور انجیکشن‬
‫بھرنے لگی۔‬
‫"ہاں بس کبھی کبھی کر لیتا‪......‬نو کائنات! انجیکشن‬
‫نہیں۔"‬
‫اس نے سر اٹھا کر جیسے ہی اس کی جانب دیکھا‬
‫بات اُدھوری چھوڑ کر دہائی دینے لگا۔‬
‫"ضروری ہے شیری بھائی! انفیکشن نہیں ہو گا۔" وہ‬
‫اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔‬
‫"نہیں مجھے نہیں لگوانا۔" وہ منہ بسورے اٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔‬
‫"بچوں کی طرح ضد مت کریں۔" وہ بھنویں آچکا کر‬
‫بولی۔‬
‫‪317‬‬
‫"مجھے انجیکشن پسند نہیں جانتی ہو تم۔" وہ‬
‫معصومیت سے بوال۔‬
‫"ڈرامے بند کریں چپ چاپ بیٹھیں۔" اس نے انگلی‬
‫اٹھاتے ہوئے کرختگی سے کہا۔‬
‫شیری کو اس کی سختی بہت بھا رہی تھی تبھی وہ‬
‫اسے مزید تنگ کرنے لگا۔‬
‫"ٹھیک ہے میں اپنے لگا لیتی ہوں۔" وہ جب پتھروں‬
‫کے سرکل کے چاروں اطراف اس کے پیچھے چکرا‬
‫چکرا کر تھک گئی تو رکتے ہوئے اکتائے ہوئے انداز‬
‫میں بولی۔‬
‫"لگوائیں گے یا اپنے لگا لوں؟" سختی سے استفسار‬
‫کیا گیا۔‬
‫"تمہیں انجری میں سیلف ڈیفنس کے طریقے سکھا کر‬
‫میں نے اپنے لیے ہی مصیبت پیدا کر لی ہے۔ تب نہ‬
‫سکھاتا تو آج تم یوں مجھ پر ظلم نہیں کرتی۔" وہ‬
‫ناراضگی چہرے پر لیے پتھر پر بیٹھ چکا تھا۔‬
‫وہ انجیکشن لگا کر اس پر روئی رکھ کر پریس کرتے‬
‫ہوئے اس کے جھکے سر کو مسکراتی نگاہوں سے‬

‫‪318‬‬
‫دیکھ کر فرسٹ ایڈ باکس سمیٹ کر خیمے کی جانب‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫کچھ دیر بعد وہ اس کی جانب آتی دکھائی دی اس کے‬
‫ہاتھ میں اپنی جیکٹ دیکھ کر نظریں جھکا کے خود‬
‫کو دیکھا۔‬
‫سلیو لیس جرسی کی بنیان کسرتی بدن سے چپکی‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫اس سے لیدر کی سیاہ جیکٹ تھام کر زیب تن کی اور‬
‫پھر سے لکڑیاں جوڑ کر رکھنے لگا۔‬
‫وہ بھی ایک نظر شاہزیب پر ڈال کر پلٹ گئی۔‬
‫رات کی گہری سیاہ چادر مزید پھیل رہی تھی وہ سب‬
‫بھی سیر سے واپس لوٹ آئے۔‬
‫"واہ بھئی کیا سیٹنگ پوائنٹ بنایا ہے شیری بھائی‬
‫نے۔"‬
‫نومی نے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا اور‬
‫آگے بڑھ کر پتھر پر بیٹھتے ہوئے آگ پر ہاتھ تاپنے‬
‫لگا۔‬
‫وہ سب بھی بیٹھ گئے تھے۔‬
‫‪319‬‬
‫"کائنات کہاں ہے؟" حور نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"سو رہی ہے۔" شیری نے بنا اس کی جانب دیکھے‬
‫جواب دیا تھا اور مسالہ لگائے گوشت کو اٹھا کر‬
‫لوہے کی سیخوں میں پرونا شروع کر دیا۔‬
‫وہ ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈال کر خیمے کی جانب‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫"شیری! تم بیٹھو اب کافی محنت کر چکے ہو باربی‬
‫کیو ہم بنائیں گے۔" ساگر نے مسکراتے ہوئے کہا اور‬
‫کاشی کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر خیمے کی جانب‬
‫بڑھ گیا۔‬
‫"ویسے شیری! بھئی مان گئے یہ مسلز محض جم‬
‫میں نہیں بنائے‪،‬تم میں طاقت بہت ہے۔" صائمہ اس‬
‫کے ساتھ والے پتھر پر نشست سنبھالتے ہوئے‬
‫ستائش آمیز لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"دلیری خون میں ہوتی ہے۔" وہ کہہ کر اٹھا اور تیز‬
‫قدم اٹھاتا اپنے خیمے کی جانب بڑھ گیا۔‬

‫‪320‬‬
‫"جتنا میں نزدیک جانے کی کوشش کر رہی ہوں اتنا‬
‫ہی یہ دور بھاگ رہا ہے‪......‬اور ایک وہ‬
‫کائنات‪.....‬جس سے ہر وقت چپکا رہتا ہے‪ ،‬وہ بیٹھتی‬
‫ہے تو یہ بیٹھتا ہے‪ ،‬وہ کھڑی ہوتی ہے تو یہ کھڑا ہو‬
‫جاتا ہے۔"‬
‫صائمہ دانتوں پہ دانت جمائے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی‬
‫تھی۔‬

‫اس نے ٹرک کو ریورس گیئر لگایا اور قطار میں‬


‫کھڑے ٹرکوں کے درمیان میں گزار کر بائیں جانب‬
‫سے آتے ٹرک کو کمال پھرتی سے کٹ مار کر کچھ‬
‫فاصلے پر لے جا‬
‫کر بریک لگائی۔‬
‫"شازار سے بھی کسی نے کم ہی ٹرک چلنا‬
‫ہے‪......‬کیا پھرتی ہے اس لڑکے میں۔" بڑے سے‬
‫منجے پر بیٹھے ٹرک ڈرائیوروں میں سے ایک نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا۔‬

‫‪321‬‬
‫"ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں آج تک ایسا کٹ نہیں لے‬
‫سکا۔" دوسرے نے بھی چائے کے سیپ بھرتے ہوئے‬
‫کہا تھا۔‬
‫وہ ٹرک کا دروازہ کھول کر چھالنگ لگا کر نیچے اترا‬
‫اور نیوی بیلو کرتہ پر سے دھول مٹی جھاڑی‪ ،‬پھر‬
‫بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے وہ ان لوگوں کی جانب‬
‫ہی بڑھ آیا تھا۔‬
‫"چھوٹو‪ ،‬ایک کڑک چائے کا کپ لے آؤ۔" بہرے کو‬
‫آرڈر دے کر وہ ان سب کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"اسالم علیکم! " ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے سب کو‬
‫مشترکہ سالم کیا۔‬
‫سب نے مسکراتے ہوئے سالم کا جواب دیا۔‬
‫وہ سیاہ کھیڑی میں سے سپید پیروں کو آزاد کر کے‬
‫ان کے ساتھ ہی منجے پر بیٹھ گیا۔‬
‫"بھئی شازار میاں! تمہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ تم‬
‫ٹرک ڈرائیور ہو اور ہماری حالتیں دیکھو۔ جیسے‬
‫صدیوں سے کپڑے ہی نہ بدلے ہوں۔" ایک آدمی نے‬
‫خوشگوار انداز میں کہا۔‬

‫‪322‬‬
‫"تمہارا حال دیکھ کر ایمان سے یہ ہی لگ رہا ہے کہ‬
‫صدیوں سے نہ نہائے ہو نہ کپڑے بدلے۔" ایک‬
‫دوسرے آدمی نے مضاحیہ خیز انداز میں کہا تھا۔ وہ‬
‫سب ہنس دیئے۔‬
‫"میرے استاد! کے تو ٹھاٹ ہی اپنے ہیں اور ویسے‬
‫بھی چاچا!‪.....‬تم لوگ تو شادی شدہ ہو تبھی تو دل‬
‫نہیں کرتا سجنے سنورنے کو۔" عاصم نے لقمہ دیا‬
‫تھا۔‬
‫ایک مرتبہ پھر سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔‬
‫وہ ابھی چائے کے سیپ لے رہا تھا کہ ایک لمبی کار‬
‫وہاں آ کھڑی ہوئی سب کی نگاہیں اس جانب مڑ گئی‬
‫تھیں۔‬
‫شازار کا سارا دھیان اپنی چائے کی جانب تھا۔‬
‫کالی گاڑی میں سے ہاش بشاش لباس میں ملبوس‬
‫شخص باہر نکال تھا۔‬
‫آنکھوں پر سے گالسز اتارتے ہوئے اس نے ایک‬
‫نگاہ ٹرکوں پر ڈالی اور دوسری دھابے پر تیسری‬
‫نگاہ ان سب مردوں پر ڈالتا وہ آگے بڑھا تھا۔‬

‫‪323‬‬
‫"اسالم علیکم!" اس نے خوش اخالقی سے سالم کیا۔‬
‫شازار کے ہاتھ میں کپ منہ کی جانب جاتے جاتے رک‬
‫گیا تھا۔‬
‫"و علیکم السالم!"‬
‫" جی آپ کون صاحب؟" عاصم نے استفسار کیا۔‬
‫"میں سردار دالور خان ہوں‪.....‬شازار خان سے ملنے‬
‫خیبرپختونخواہ سے آیا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ‬
‫وہ یہاں کتنے بجے تک آتا ہے اپنا ٹرک لے کر؟"‬
‫اس نے کہا تو سب کی نگاہیں شازار کی جانب مڑ‬
‫گئیں جو ساکت و جامد بیٹھا تھا۔‬
‫"میرے استاد کا نام بھی شازار ہے۔ پر وہ خان نہیں‬
‫ہے۔ آپ کس شازار کو ڈھونڈ رہے ہیں؟" عاصم نے‬
‫پھر سے استفسار کیا۔‬
‫"تمہارا استاد کہاں ہے ؟" اس نے بےچینی سے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"یہ ہیں‪ ،‬یہاں ہی تو بیٹھے ہیں۔" اس نے اشارہ کیا‬
‫تو سردار دالور خان کے قدم آگے بڑھے۔‬

‫‪324‬‬
‫شازار بھی ہوش میں آ چکا تھا۔ وہ منہ چھپانے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی‬
‫سردار دالور خان اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے‬
‫تھے۔‬
‫شازار نے نم آنکھیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور‬
‫پھر کپ عاصم کو تھما کر منجے سے اتر کر بےتابی‬
‫سے ان کے بغلگیر ہو گیا۔‬
‫"الال۔" اس کے آنسو متواتر انداز میں بہہ رہے تھے۔‬
‫"الال کی جان۔کتنا پریشان کیا تم نے اپنے الال کو‪.....‬‬
‫دیکھو پھر بھی ڈھونڈ لیا نا‪ "....‬وہ نم آواز میں بوال‬
‫تو شازار ہنستے ہنستے رو دیا۔‬
‫"ارے یہ تو میرا استاد شازار ہے۔ بھائی! آپ جا کر‬
‫اپنے شازار کو ڈھونڈیں۔" عاصم نے آگے بڑھتے‬
‫ہوئے شازار کو پیچھے کھینچا تھا۔‬
‫"ہاں استاد تمہارا ہے مگر بھائی میرا ہے۔" سردار‬
‫دالور خان نے آنکھوں کے نمی پونجھتے ہوئے کہا۔‬
‫"استاد یہ رو کر آپ کو ایموشنل بلیک میل کر رہا ہے۔‬
‫یہ تم کو ساتھ لے جائے گا اور وہاں پشاور یا کہیں‬

‫‪325‬‬
‫بھی جا کر بیچ دے گا۔ سچ میں یہ پٹھان لوگ ایسے‬
‫ہوتے۔ آپ اس کی باتوں پر یقین نہ کریں۔"‬
‫عاصم نے اسکے کان میں گھستے ہوئے کہا تو وہ نم‬
‫آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیا۔‬
‫"عاصم! وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ میرے بڑے بھائی‬
‫ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ چونک کر‬
‫اس کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"قسمے استاد؟"‬
‫"آہو‪ ،‬قسمے۔ اب جاؤ جا کر کچھ کھا پی لو۔ میں الال‬
‫سے بات کر کے آتا ہوں۔" وہ اس کے شانے پر‬
‫تھپکی دے کر کہتا سردار دالور کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"شازار کا بھائی؟"‬
‫"تو وہ ٹرک ڈرائیور نہیں ہے؟"‬
‫ان سب ڈرائیوروں نے ایک دوسرے سے کہا تھا۔‬
‫"گھر میں سب کیسے ہیں الال؟" وہ اس کے ساتھ چل‬
‫دیا۔‬
‫"سب ٹھیک ہیں مگر‪".....‬‬

‫‪326‬‬
‫وہ گاڑی کے قریب رک گئے۔‬
‫"تمہیں ہر وقت یاد کرتے ہیں۔ دادی جان نے رو رو کر‬
‫اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دی ہے‪ ،‬بہنوں کی‬
‫خوشیاں کھو گئیں اور امو کے حوصلے۔" وہ اسے‬
‫سر جھکانے پر مجبور کر گیا تھا۔‬
‫ہر مرتبہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف ہی‬
‫پہنچی تھی۔‬
‫"تمہیں لینے آیا ہوں خان!" وہ اس کی لمبی خاموشی‬
‫کو دیکھ بولے۔‬
‫"م میں نے گھر والوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی ہیں‪،‬‬
‫ان کا مجرم ہوں۔ میں وہاں نہیں جا سکوں گا اور نہ‬
‫ہی ان سے نظریں مال سکوں گا۔" وہ بےبسی سے رو‬
‫دیا تھا۔‬
‫"تمہیں پتہ ہے خان جب تم پیدا ہوئے تھے اس دن ہی‬
‫بابا نے فیصلہ کیا تھا کہ پورے شیرپور پر تمہارا راج‬
‫ہو گا۔ اور جب تم پچیس برس کے ہو جاؤ گے تو ان‬
‫کی نشست تم سنبھالو گے‪ .....‬تبھی انہوں نے اپنی‬
‫سلطنت کا نام بدل کر تمہارے نام سے رکھ دیا۔"‬

‫‪327‬‬
‫سردار دالور خان نے سگار سلگایا۔‬
‫"وہ بادشاہ جو اس شہزادے کو اپنا تاج پہنانے کا‬
‫انتظار کر رہا تھا انتظار ہی رہ گیا۔" وہ عجیب بےبسی‬
‫سے مسکرائے۔‬
‫"مجھے یہ سرداری‪ .....‬حکمرانی یہ‪....‬یہ سب پسند‬
‫نہیں ہے الال! بتا دیا تھا بابا سائیں کو۔ آپ بھی جانتے‬
‫ہیں۔" اس نے آنسو رگڑے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر‬
‫اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔‬
‫"خان! حکمرانی ہمیں وراثت میں ملی ہے وہ پورا‬
‫ضلع ہمارا ہے۔ وہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہم‬
‫ہیں۔ اور اگر ہم اپنی حکمرانی چھوڑ دیں گے تو وہاں‬
‫کی عوام تباہ و برباد ہو جائے گی۔" انہوں نے‬
‫سمجھداری سے بات آگے بڑھائی۔‬
‫شازار ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔‬
‫"تمہارے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے خان! امو‬
‫جان اور گھر والوں کو تمہاری ضرورت ہے۔"‬

‫‪328‬‬
‫"اماں کا کیا ہو گا؟ میں انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر ہرگز‬
‫نہیں جا سکتا۔میرے بغیر ان کا کوئی بھی نہیں ہے۔"‬
‫وہ تیزی سے بوال۔‬
‫"اماں؟" سردار دالور کی پیشانی پر سوالیہ بل نمایاں‬
‫ہوئے۔‬
‫"ہوں۔ طیبہ کی والدہ۔"‬
‫وہ انگوٹھے کی مدد سے پیشانی کھجانے لگا۔‬
‫"وہ ہمارے پاس رہیں گیں۔مگر ابھی تو تم یہاں سے‬
‫سیدھا خان پور چل رہے ہو۔"‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہا اور پھر ان دونوں میں‬
‫طویل بحث شروع ہوئی جس کے اختتام پر شازار خان‬
‫کو ہی کچھ وجوہات کی بنا پر ہار ماننی پڑی۔‬
‫****‬
‫سارا دن وہ دونوں ساتھ رہے تھے‪.....‬رات کو جب‬
‫دالور خان نے واپس کانے‬
‫"دھیان سے چلیے گا گلی کافی خراب ہے۔" اپنے فون‬
‫کی ٹارچ روشن کرتے ہوئے وہ بوال تھا اور سردار‬
‫دالور خان گلی کی خستہ حالت دیکھ کر منہ لپیٹ گیا۔‬
‫‪329‬‬
‫گندے نالے کا پانی گلی میں بہہ رہا تھا‪ ....‬پھونک‬
‫پھونک کر قدم رکھتے ہوئے وہ دونوں گھر تک‬
‫پہنچے تھے۔‬
‫لکڑی کے دروازے کی کنڈی جیسے ہی بجائی سامنے‬
‫سے ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے دروازہ کھوال۔‬
‫"اسالم علیکم اماں!" شازار نے مسکراتے ہوئے‬
‫انہیں سالم کیا۔‬
‫"و علیکم السالم! میرا شیر جوان پتر جیتے رہو۔" اس‬
‫نے جیسے ہی قدم اندر رکھا انہوں نے اس کی پیشانی‬
‫چوم لی۔‬
‫تبھی ان کی نگاہ پیچھے پیچھے داخل ہوتے کچھ‬
‫الجھے اور کچھ اکھڑے اکھڑے سردار دالور خان پر‬
‫پڑی تھی۔‬
‫"اماں! میرے الال‪ ......‬سردار دالور خان۔" اس نے‬
‫اماں کے شانے کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"اسالم علیکم!" وہ مسکراتے ہوئے سالم کرنے لگا۔‬
‫ّٰللا تمہیں سالمت‬
‫"و علیکم السالم! ماشاءہللا پتر‪ !.....‬ہ‬
‫رکھے۔‬

‫‪330‬‬
‫جاؤ دونوں منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا لگاتی ہوں۔" وہ‬
‫دالور خان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پلٹ گئیں۔‬
‫"ہم کھانا کھا کر آئے ہیں بتایا کیوں نہیں؟"‬
‫"اماں! نے بہت محبت سے کھانا بنایا ہے‪ ،‬دل رکھنے‬
‫کے لیے تھوڑا سا کھا لیں گے۔" نلکا چالتے ہوئے‬
‫اس نے نرمی سے کہا۔‬
‫منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ دونوں کمرے کی جانب‬
‫بڑھ گئے۔‬
‫دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں وہ پیروں کو جوتوں‬
‫سے آزاد کرتا ابھی چارپائی پر براجمان ہوا ہی تھا کہ‬
‫الئٹ چلی گئی۔‬
‫"لو جی‪ ،‬اب ایک دو بجے ہی آئے گی‪ .....‬آپ اپنے‬
‫موبائل کی ٹارچ روشن کریں میں اماں کو اپنا فون دے‬
‫کر آتا ہوں۔" وہ موبائل کی روشنی میں کمرے سے‬
‫نکل گیا۔‬
‫سردار دالور خان نے اپنے فون کی ٹارچ روشن کر‬
‫لی۔‬

‫‪331‬‬
‫کچے مکان‪ ،‬سخت چارپائی‪ ،‬خستہ حال گلی‪.....‬اس کا‬
‫بھائی اس جگہ رہتا تھا‪......‬؟وہ بھائی جو ایک لباس‬
‫کو دوسری مرتبہ پہننے کو تیار نہیں ہوتا تھا اب‬
‫گندے کپڑے بھی دوسری مرتبہ پہن لیتا تھا۔‬
‫جو مخمل کے بستر پر سوتا تھا اب سخت چارپائی پر‬
‫سو رہا تھا۔‬
‫"کیا عشق اتنا بڑا استاد ہے کہ ایک لوہے کی مانند‬
‫سخت شخص کو موم کی طرح پگھال دیتا ہے؟"‬
‫وہ سوچتے ہوئے لب بھینچ گیا۔‬
‫کھانے کے بعد اماں چائے بنا الئی تھیں۔‬
‫پھر کچھ دیر باتیں کرمے کے بعد وہ سونے کے لیے‬
‫اٹھ گئیں تو شازار دوسری چارپائی پر ہو گیا۔‬
‫سردار دالور کے من میں ڈھیروں سوال تھے مگر‬
‫ابھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خاموشی سے سو‬
‫جائے اور اس نے وہ ہی کیا تکیہ درست کر کے لیٹ‬
‫گیا۔‬

‫‪332‬‬
‫"معزرت خواہ ہوں الال! آپ کو ایسے غیر آرام دہ‬
‫بستر پر سونے کی عادت نہیں ہے میری وجہ سے آپ‬
‫کو تکلیف ہو گی۔"‬
‫وہ شرمندگی سے بوال تو سردار دالور مسکرا کر اس‬
‫کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"خان! تمہاری خاطر ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔"‬
‫وہ بوال تو خان ہنس دیا پھر اٹھ کر کمرے سے نکل‬
‫گیا جب لوٹا تو اسکے پاس ایک نرم رضائی تھی۔‬
‫"اٹھیں غالب کے جانشین آپ کے بستر کو نرم کرتے‬
‫ہیں۔" وہ کھلکھالیا۔‬
‫"ارے ہم کہاں ہیں‪ ،‬وہ تو آپ ہیں جناب۔ میں تو عشق‬
‫کا عین بھی معلوم نہیں۔" وہ بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔‬
‫خان نے خاموشی سے اس کی چارپائی بجھانے لگا۔‬
‫"ویسے خان! ایک بات بتاؤ‪......‬تم نے اپنا سب کچھ‬
‫چھوڑ دیا اور یوں زندگی گزار رہے ہو‪ ،‬کیا یہ آسان‬
‫تھا؟ تمہیں تکلیفیں پیش نہیں آئی تھیں کیا؟" وہ‬
‫بیٹھتے ہوئے مدھم سی آواز میں بوال۔‬

‫‪333‬‬
‫" بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں کہ‪.....‬‬
‫عین ِعشق دے محکمے َمیں گیا‬
‫آ ُگوں عشق نے میری دانائی لُٹ لئی‬
‫میں گیا ساں عشق کولوں داد لیون‬
‫آ ُگوں عشق نے میری رسائی لُٹ لئی‬
‫عشق لُٹ دا ولیاں پیغمبراں نوں‬
‫تے کئیاں بادشاں دی بادشائی لُٹ لئی‬
‫اجے تیرا کی لُٹیا اے بُلھیا !‬
‫ایس عشق نے ُخدا دی ُخدائی لُٹ لئی"‬

‫وہ پرسوز انداز میں کالم پڑھ کر خاموش ہو گیا مگر‬


‫سردار دالور خان کو ابھی تک ان لفظوں نے جکڑا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫وہ ساکت آنکھوں سے اسے تکے جا رہا تھا۔‬
‫*****‬

‫‪334‬‬
‫اس نے بہت سوچ سمجھ کر کی ہو گی‬
‫جناب یہ سازش محبت جیسی‪....‬‬

‫"حور! آخر تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ آج مجھے بتا ہی دو‬


‫کہ ان سے اتنی نفرت کی آخر وجہ کیا ہے؟" وہ‬
‫خیمے میں داخل ہوتے ہی غصے سے بھرے لہجے‬
‫میں گویا ہوئی۔‬
‫"تم کیوں آ جاتی ہو ہر مرتبہ اس کی وکیل بن کر؟"‬
‫بدلے میں حور نے بھی تیکھے لہجے میں استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"ابھی سے ہی ٹھیک شخص کا مقدمہ لڑوں گی تو کل‬
‫کو بھی لڑ سکوں گی۔"‬
‫"وہ ٹھیک شخص نہیں ہے‪ ......‬کائنات! کیسے‬
‫سمجھاؤں تمہیں کہ وہ رانگ ہے۔" وہ سر تھامے‬
‫غصہ ضبط کرتی بولی۔‬

‫‪335‬‬
‫"تم خود رانگ ہو‪......‬تم چاہتی ہو سب تمہارے‬
‫سامنے جھک کر رہیں مگر شیری بھائی نہیں جھکیں‬
‫گے کیونکہ وہ‪ ".....‬وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی۔‬
‫"وہ؟" حور نے حیران کن نگاہوں اس کے ہڑبڑا انداز‬
‫کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"وہ ان سب سے الگ ہیں۔ اور تم ان کے متعلق اچھا‬
‫اچھا سوچا کرو‪ ......‬کیونکہ وہ اچھے ہیں بہت اچھے‬
‫ہیں۔" کائنات تیزی سے کہہ کر خیمے سے نکل گئی‬
‫اور وہ اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔‬
‫"کائنات‪ ،‬شیری میں انٹرسٹڈ ہے؟" حور نے حیرانگی‬
‫سے سوچا۔‬
‫"نہیں یہ میں کیا سوچ رہی ہوں‪......‬ضرور شیری نے‬
‫اسے بہکایا ہو گا۔"‬
‫"ماما نے کہا تھا کہ ابھی حور سے بات نہیں کرنی کہ‬
‫ابھی اس کے دل و دماغ میں شیری کے لیے نجانے‬
‫کون سی زہر بھری ہوئی ہے‪....‬آج اگر غلطی سے‬
‫بھی میرے منہ سے نکل جاتا کہ وہ اس کے ہونے‬
‫والے شوہر ہیں تو‪......‬ماما نے مجھے جان سے ہی‬

‫‪336‬‬
‫مار ڈالنا تھا۔" سینے پر ہاتھ لپیٹے وہ سوچ میں ڈوبی‬
‫سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔‬
‫وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں اب کاشی بیٹھا تھا تبھی وہ‬
‫نائلہ کے ساتھ جا بیٹھی۔‬
‫شاہزیب نے سر اٹھا کر ٹھیک اپنے سامنے بیٹھی‬
‫کائنات کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا دی تو وہ بھی‬
‫مبہم سی مسکراہٹ لیے سر جھکا گیا۔‬
‫*****‬
‫صبح کے ناشتے کے بعد اس نے اماں سے بات کی‬
‫تھی۔‬
‫وہ دل برداشتہ ہو کر مسکرا دیں۔‬
‫ّٰللا کی‬
‫"ایک نا ایک دن تو تمہیں جانا ہی تھا پتر! جا ہ‬
‫ایمان۔ مگر میں نہیں چل سکتی۔" وہ نم آنکھوں سے‬
‫بولیں۔‬
‫"نہیں اماں! میں آپ کو یہاں تنہا چھوڑ کر ہرگز نہیں‬
‫جاؤں گا۔ آپ کو چلنا ہو گا میرے ساتھ۔"‬
‫وہ بضد ہوا۔‬

‫‪337‬‬
‫"بیٹا میں یہ گھر کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں؟"‬
‫"بس اب آپ کوئی بات نہیں کریں گیں میرے ساتھ‬
‫چلیں گیں بس‪ ".....‬اس کی ضد کے سامنے وہ ہار‬
‫گئیں۔‬
‫"ٹھیک ہے پتر! پر ابھی تم جاؤ‪.....‬مجھے ایک دو دن‬
‫بعد آ کر لے جانا۔" انہوں نے ہارے ہوئے انداز میں‬
‫کہا۔‬
‫کمرے کے دروازے میں کھڑے سردار دالور خان کو‬
‫ابا سائیں کی شرط یاد آئی‪.....‬وہ تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫"خان! اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔میں خود پرسوں انہیں‬
‫لے جاؤں گا۔" اس نے نرمی سے کہا۔‬
‫وہ خاموش ہو گیا۔‬
‫پھر ایک بوجھل سے ماحول میں اماں نے اسے‬
‫رخصت کیا تھا۔‬
‫وہ تھوڑا تذبذب تھا‪.....‬جہاں اس کی زندگی چھن گئی‬
‫تھی اس جگہ جانے کے لیے اسے اپنا دل بڑا کرنا‬
‫تھا۔‬

‫‪338‬‬
‫خیبرپختونخوا میں داخل ہوتے ہی اس کے دھڑکنیں‬
‫بھی بےترتیب ہو گئی تھیں۔‬
‫اور جیسے ہی خان پور کی حدود میں وہ داخل ہوئے‬
‫سردار دالور خان نے گاڑی کی سپیڈ دھیمی کر دی اور‬
‫ساتھ ہی گاڑی کے سیاہ شیشے بھی نیچے کر دیئے۔‬
‫خان پور کے لوگ حیران پریشان نگاہوں سے خان‬
‫کو دیکھتے اور گاڑی کے پیچھے چل دیتے۔‬
‫گاڑی جب ایک میدان کے قریب رکی تو اس نے الجھی‬
‫نگاہوں سے سردار دالور خان کو دیکھا جو رو رہا‬
‫تھا۔‬
‫"الال! یہ کیا آپ رو رہے ہیں؟" وہ تشویش بھرے‬
‫لہجے میں بوال۔‬
‫"یہاں تک میں بھائی تھا خان! اب اس میدان میں قدم‬
‫رکھتے ہی میں ایک بیٹا بن جاؤں گا جو اپنے بابا‬
‫سائیں کے فیصلوں کے سامنے بےبس ہے۔" اس کی‬
‫بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات کہہ کر آنسو‬
‫رگڑتا وہ گاڑی سے نکل گیا تھا۔‬
‫لوگوں کے سالم کا جواب دیتا وہ آگے بڑھ گیا۔‬

‫‪339‬‬
‫شازار نے بھی قدم گاڑی سے باہر رکھا تھا۔‬
‫ایک حیران کن نگاہ میدان کے بیچ و بیچ گول دائرے‬
‫میں لگی لوہے کی باڑ کو دیکھتے ہوئے وہ آگے‬
‫بڑھا‪.....‬‬
‫رفتہ رفتہ پورا خان پور اس کھلے میدان میں جمع ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫تبھی اپنے خاص آدمیوں کے ہمراہ آتے سردار سائیں‬
‫کو دیکھا وہ ناک کے سیدھ چلتے ہوئے تخت پر چڑھ‬
‫گئے تھے۔‬
‫ایک غلط نگاہ بھی شازار خان پر نہیں ڈالی تھی۔‬
‫"خان پور کا کوئی نوجوان جو یہاں نہ کھڑا ہو‪.....‬؟‬
‫اگر کوئی نہیں ہے تو اسے بال لیا جائے۔"‬
‫شکیل خان نے بلند آواز میں کہا۔‬
‫پھر انہوں نے سردار سائیں کی جانب دیکھا۔‬
‫"ہم اپنے اصولوں کے پکے ہیں‪......‬ہم جو فیصلہ‬
‫کرتے ہیں پتھر پر لکیر کی مانند ہوتا ہے۔" انہوں نے‬
‫کہنا شروع کیا تھا۔‬

‫‪340‬‬
‫خان نے چاروں اطراف نگاہیں دوڑائیں سردار دالور‬
‫خان نظر نہیں آیا تھا۔‬
‫"میرے چھوٹے صاحبزادے سردار‪ .....‬نہیں نہیں‬
‫سردار تو اب یہ رہے نہیں‪.....‬شازار خان ایک سال‬
‫سے ہمارے عالقے سے ہی نہیں بلکہ صوبے سے‬
‫بھی غائب تھے۔ اور ان کے اس عمل پر ہم انہیں‬
‫ایسی سزا دیں گے کہ‪.....‬کہ آئندہ کوئی نوجوان ایسی‬
‫حرکت نہ کرے گا۔" مختصر سا کہہ کر وہ تخت سے‬
‫اترے تھے۔‬
‫دو آدمیوں نے شازار کو پکڑ کر اس لوہے کی باڑ کے‬
‫اندر دھکیل دیا تھا۔‬
‫وہ جان گیا تھا کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے واال‬
‫ہے‪....‬وہ بوجھل سانس بھر کر سر جھکا گیا۔‬
‫یہ سزا تو اسے جھیلنی ہی پڑنی تھی۔‬
‫*****‬
‫بس خان پور میں انٹر ہو چکی تھی۔‬
‫"کائنات! میں نے تمہاری بات پر غور کیا اور بالآخر‬
‫فیصلہ کیا کہ میں خان پور جاؤں گا اور میں تم لوگوں‬
‫‪341‬‬
‫کے اٹھنے سے پہلے ہی نکل آیا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ‬
‫درخت سے ٹوٹ کر ٹہنی کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔‬
‫میں کسی کو نہیں بتا رہا تمہارے سوا‪ ......‬صبح جب‬
‫سب میری غیر موجودگی کی وجہ پوچھیں تو کہنا‬
‫ایمرجنسی کیس آ گیا تھا تو جس وجہ رات کو ہی نکل‬
‫گیا۔"‬
‫وہ آنکھیں کھول کر جمائی روک کے کھڑکی سے باہر‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫وہ صرف ایک میسج چھوڑ کر وہاں سے آیا‬
‫تھا‪.....‬اور کائنات نے بھی وہاں سب سنبھال لیا ہو گا‬
‫یہ وہ جانتا تھا۔‬
‫پہاڑوں کی چوٹی پر واقع یہ ایک چھوٹا سا مگر بہت‬
‫ہی خوبصورت گاؤں تھا۔‬
‫بس خان پور کے خوبصورت سے بس اسٹینڈ پر رکی‬
‫تھی۔‬
‫وہ بس سے جیسے ہی اترا وہاں اکا دکا شخص دیکھ‬
‫اسے کافی حیرانگی ہوئی تھی۔‬

‫‪342‬‬
‫چند بزرگ ایک چائے شاپ کے سامنے بیٹھے دیکھ‬
‫وہ شانے پر لٹکائے بیگ کو درست کرتا آگے بڑھا‬
‫تھا۔‬
‫"اسالم علیکم! چچا‪ ،‬سردار حامد خان کے گھر کا‬
‫راستہ کون سا ہے؟" اس نے استفسار کیا تو تمام‬
‫بزرگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا‪ ،‬ایک لمحے کو‬
‫ان سب کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر آیا تھا پھر‪،‬‬
‫اس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔‬
‫پیروں میں جوگرز ‪،‬نیلی جینز پر لیدر کی سیاہ جیکٹ‬
‫زیب تک کیے‪......‬سفید بےداغ چہرے پر سنجیدگی‬
‫لیے‪ ،‬عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے‪ ،‬شہد رنگ کانچ‬
‫سی آنکھوں کو ادھر ادھر دوڑاتے ہوئے وہ سرسری‬
‫سے انداز میں اطراف کا جائزہ لے رہا تھا‪ ،‬اس نے‬
‫ہاتھ بڑھا کر کشیدہ پیشانی پر بکھرے براؤن رنگ‬
‫بالوں کو سمیٹ کے پیچھے کیا تھا۔‬
‫"آ آپ ا احمد خان ہیں‪.......‬س سردار احمد خان؟"‬
‫وہ چاروں بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‬
‫اس نے گردن گھما کر ان کی جانب دیکھا۔‬

‫‪343‬‬
‫جس کا وہ نام لے رہے تھے اس شخص سے اسے‬
‫شدید نفرت تھی‪......‬‬
‫"نہیں‪ ،‬کیا آپ بتائیں گے کہ حامد خان کا گھر کس‬
‫طرف ہے؟"‬
‫"معاف کرنا بیٹا مگر تم ہوبہو سردار احمد خان جیسے‬
‫ہو۔ یقینا ً تم ان کے صاحبزادے‪".....‬‬
‫اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے وہ ایک نگاہ ان‬
‫پر ڈالتا خدا حافظ کہتا دائیں جانب چل دیا۔‬
‫" گاؤں میں تمہیں کوئی راستہ بتانے واال نہیں ملے‬
‫گا۔" پیچھے سے ان میں سے ایک بزرگ نے ہانک‬
‫لگائی تو وہ رک کر پلٹا۔‬
‫"اِس بائیں پہاڑی سے اترو گے تو دائیں ہاتھ جاتے‬
‫راستے پر چل دینا‪.....‬جہاں راستہ ختم ہو گیا وہاں‬
‫تمہیں سردار حامد خان مل جائیں گے۔" وہ بوڑھا آدمی‬
‫کہہ کر واپس بیٹھ گیا۔‬
‫وہ الجھی نگاہوں سے انہیں دیکھتا بائیں جانب بڑھ‬
‫گیا۔‬

‫‪344‬‬
‫راستہ ختم ہوا تو اس کی نگاہ میدان پر پڑی جو‬
‫لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫مکمل خاموشی کو محض ایک شخص کی چنخوں کی‬
‫آواز اور ہنٹر کی آواز توڑ رہی تھی۔‬
‫وہ تیزی سے آگے ہوا اور لوگوں کے درمیان میں‬
‫سے راستہ بناتا آگے بڑھا۔‬
‫لوہے کی باڑ کے قریب رکتے ہی اس نے جو منظر‬
‫دیکھا اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آ گئی تھیں۔‬
‫ایک ادھیڑ عمر شخص بڑی بےرحمی سے ایک‬
‫نوجوان پر کوڑے برسا رہا تھا۔اس نوجوان کا قمیض‬
‫کمر سے پوری طرح پھٹ چکے تھا۔‬
‫شیری نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں سب لوگ‬
‫خاموشی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔‬
‫اس نے باڑ کے دروازے کو دیکھا اور پھر بیگ‬
‫پھینک کر تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫باڑ کے دروازے پر کھڑے آدمیوں نے اسے روکنا‬
‫چاہا مگر شیری نے گھوسا مار کر ان کے ناک پھوڑ‬
‫ڈالیں۔‬

‫‪345‬‬
‫دروازہ کھول کر وہ بھاگ کر وہاں تک پہنچا تھا اور‬
‫ہنٹر جیسے ہی ہوا میں بلند ہوا اس نے بےحد تیزی‬
‫سے سردار حامد کے ہاتھ کو تھام لیا تھا۔‬
‫"بس کریں‪......‬کیا کر رہے ہیں آپ؟" ایک نگاہ‬
‫مدہوشی کے عالم میں کراہا رہے شازار پر ڈال کے وہ‬
‫پھر سے سردار حامد خان کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"وہ انسان ہے کوئی جانور نہیں۔" وہ ان کے ہاتھ‬
‫سے ہنٹر لے چکا تھا۔‬
‫سردار حامد اسے ساکت آنکھوں سے تکے جا رہے‬
‫تھے۔‬
‫ان کے آدمیوں نے آگے بڑھنا چاہا مگر انہوں نے ہاتھ‬
‫اٹھا کر روک دیا۔‬
‫" سردار احمد خان؟"‬
‫"ہاں یہ وہ ہی ہیں‪".....‬‬
‫"نہیں یہ وہ کیسے ہو سکتے وہ تو مر چکے ہیں۔‬
‫"اگر نہ بھی مرتے تو برسوں بعد ہوبہو ویسے‬
‫تھوڑی ہوتے۔"‬

‫‪346‬‬
‫"سردار احمد خان کا ہم شکل ہے۔"‬
‫"شاید ان کا جانشین ہو؟"‬
‫بھیڑ میں سرگوشیاں گونجنے لگی تھیں۔‬
‫"شازار کے ساتھ اسے بھی اٹھا کر کوٹھری میں‬
‫پھینک آؤ۔" سردار حامد خان اس کے ہاتھ سے اپنا‬
‫ہاتھ چھڑوا کر تیکھی نگاہوں سے اسے دیکھتے پلٹ‬
‫گئے۔‬
‫ان کے ہٹے کٹے چار آدمی آگے بڑھے تھے۔‬
‫"ایک منٹ۔ میں خود چلتا ہوں۔" وہ اسے پکڑنے لگے‬
‫تو شیری نے سخت لہجے میں کہا۔‬
‫گردن گھما کر بےہوش ہوئے شازار کی جانب دیکھا‬
‫جسے وہ دونوں آدمی بڑی بےرحمی سے اسے‬
‫اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔‬
‫"او ہیلو۔ مینرز نہیں ہیں کسی زخمی شخص کو اس‬
‫طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ ہٹو‪ ".....‬وہ پلٹ کر اس‬
‫کی جانب بڑھا۔‬
‫"کیا نام ہے اس کا؟"‬

‫‪347‬‬
‫"سردار‪......‬میرا م مطلب شازار خان۔" ان میں سے‬
‫ایک آدمی نے کہا۔‬
‫"شازار! ہوش میں آؤ۔"‬
‫اس نے اس کی رخسار تھپکی مگر وہ ہوش میں نہیں‬
‫آ رہا تھا۔‬
‫"ابھی ڈاکٹر کو کال کرو۔"‬
‫"شہری بابو‪ ،‬سردار سائیں کا حکم ہے کہ ان کے‬
‫ساتھ ذرا بھی ہمدردی نہ برتی جائے۔ ہم ڈاکٹر کو بال‬
‫کر اپنی گردن سے ہاتھ نہیں دھلوانا چاہتے۔" ان میں‬
‫سے ایک نے کہا۔‬
‫وہ جبڑے بھینچے جھکا اور شازار کو اٹھا کر ان‬
‫آدمیوں کے پیچھے چل دیا۔‬
‫ایک آدمی نے اس کا بیگ اٹھا لیا تھا۔‬
‫گاڑی جیسے ہی چلی اس نے پھرتی سے اپنا بیگ‬
‫پکڑا اور ریوالور نکال کر ڈرائیور کے سر پر رکھ دیا۔‬
‫"ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہو یا شوٹ کر دوں؟"‬
‫ڈرائیور کی جان لبوں پر آ گئی تھی۔‬

‫‪348‬‬
‫"کوئی ہوشیاری مت کرنا‪.....‬اپنی گن مجھے دو۔"‬
‫ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے آدمی نے جیسے ہی پہلوؤں‬
‫بدال شاہزیب نے کرختگی سے کہا۔‬
‫وہ وہاں ہی ساکت ہو گیا اور گن پیچھے اس کی جانب‬
‫بڑھا دی۔‬
‫گاڑی ہسپتال کے سامنے جا رکی تھی۔‬
‫اسے سٹریچر پر ڈال کر وہ ہاسپیٹل میں داخل ہو گیا۔‬
‫"شہری بابو‪ ،‬سردار سائیں نے ہماری گردن اڑا دینی‬
‫ہے۔ ہم پر رحم کرو ماڑا۔"‬
‫ڈرائیور اور وہ گارڈ اس کے پیچھے بھاگے تھے۔‬
‫"چپ چاپ یہاں کھڑے رہو۔" اس نے ہونٹوں پر انگلی‬
‫رکھتے ہوئے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔‬
‫"سسٹر‪ .....‬ڈاکٹر کو بالئیں۔"‬
‫وہ دونوں پستول اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں‬
‫چھپا چکا تھا۔‬
‫"شازار خان کا عالج وہ نہیں کریں گے جناب! سائیں‬
‫کا حکم ہے۔" وہ سر جھکائے بولی۔‬

‫‪349‬‬
‫"اس کا باپ بھی کرے گا اور میں بھی دیکھتا ہوں کہ‬
‫تمہارا سائیں کیا کرتا ہے۔جاؤ اب جا کر گاڑی میں‬
‫انتظار کرو۔" وہ کہہ کر پلٹ گیا جبکہ گارڈ اور ڈرائیور‬
‫واپس پلٹ گئے۔‬
‫"ویسے یہ ہوبہو سردار احمد خان ہیں۔ میں نے‬
‫حویلی کے ایک کمرے میں دیکھی ہے ان کی‬
‫تصویر۔" ڈرائیور نے کہا۔‬
‫"کرم خان! یہ سردار احمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ بیس‬
‫سال پہلے وہ مع فیملی گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے‬
‫پھر آئی تو ان کی موت کی خبر‪ ".....‬باڈی گارڈ نے‬
‫سنجیدگی سے کہا۔‬
‫گاؤں کے لوگ ابھی بھی سکتے میں تھے۔‬
‫برسوں بعد ان کے روبرو جو شخص آ کھڑا ہوا تھا وہ‬
‫تو برسوں پہلے ہی دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔‬
‫اُدھر سردار دالور خان اپنی بےبسی پر تڑپ کر رو رہا‬
‫تھا۔‬
‫"کیسا بھائی ہوں میں‪ ،‬اپنے بھائی کو بابا سائیں کے‬
‫قہر سے بچا ہی نہیں سکا۔" وہ ایزی کرسی پر گرا ہوا‬

‫‪350‬‬
‫تھا‪ ،‬دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان میں سگار‬
‫سلگ رہا تھا جو اس کے منہ کو لگنے کی حسرت‬
‫میں ہی جل بجھنے کو تھا۔‬
‫"پر میں بھائی سے پہلے بیٹا ہوں۔ اور بابا سائیں کے‬
‫حکم کو رد بلکل بھی نہیں کر سکتا۔" وہ سر ہاتھوں‬
‫میں گرا گیا۔‬
‫"سردار سائیں!‪ ......‬سردار سائیں!" اس کا خاص‬
‫آدمی بھاگتے ہوئے آیا تھا اور دروازہ پیٹنے لگا۔‬
‫وہ جو سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا بےآواز رو رہا تھا‬
‫بری طرح چونک کر دروازے کی سمت بڑھا۔‬
‫"سردار سائیں! خان سائیں کو سردار احمد خان‬
‫ہسپتال لے گئے ہیں جلدی چلیں۔" وہ کھڑکی پر آیا‬
‫تھا۔ ہاتھ بڑھا کر کھلی کھڑکی پر گرے پردے کو‬
‫اٹھاتے ہوئے جو اس نے اطالع دی سردار دالور خان‬
‫سر اٹھا کر حیرانگی سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔‬
‫"چاچا سائیں؟ ز زندہ ہیں‪.....‬؟" وہ تیزی سے اٹھا تھا‬
‫اور تقریبا ً بھاگتا ہوا کمرے سے نکال۔‬

‫‪351‬‬
‫"کہاں جا رہے ہیں آپ سردار سائیں؟" اپنے پیچھے‬
‫سے والد صاحب کی پکار سن کر اس کے قدم وہاں ہی‬
‫ساکت ہو گئے۔‬
‫"اپنا بھائی ہونے کا فرض نبھانے جا رہا ہوں۔ اور آپ‬
‫مجھے روک نہیں سکتے بابا سائیں!" وہ آنسوؤں‬
‫میں غوطہ زن آواز میں گویا ہوا۔‬
‫"کیا آپ چاچا سائیں سے ملے ہیں؟ سنا ہے وہ لوٹ‬
‫آئے ہیں" وہ ایڑھیوں پر پلٹا تھا۔‬
‫بہن نے جیسے ہی سنا وہاں ہی ساکت ہو گئی۔‬
‫"وہ نامراد تو مر چکا یہ کوئی اس کا ہم شکل ہے۔اور‬
‫ہاں آپ محض شازار خان کی خیریت دریافت کر کے‬
‫لوٹ آؤ گے۔"‬
‫وہ کہہ کر وہاں رکے نہیں تھے۔‬
‫اس نے ٹھنڈی سانس فضا کے سپرد کی اور ایک نگاہ‬
‫اپنی بہن پر ڈالی۔‬
‫"سردار پتر! یہ ہلدی واال دودھ ہے۔ خان پتر کو پال‬
‫دینا زخم کو راحت مل جائے گی۔" امو جان اس کے‬
‫قریب رکتے ہوئے بولیں۔‬

‫‪352‬‬
‫اس نے سرخ آنکھوں کو اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا۔‬
‫پھر ہاتھ بڑھا کر سٹیل کے ڈول کو تھام کر پلٹ گیا۔‬
‫کتنی صابر تھیں امو جان‪.......‬‬
‫وہ مرد ہو کر رو رہا تھا مگر وہ سارے حاالت سن کر‬
‫بھی خاموش تھیں۔‬
‫*****‬
‫"کائنات! عجیب ضد لگائے بیٹھی ہو‪......‬کاشی تمہیں‬
‫چھوڑنے جا رہا ہے تو اب جا کیوں نہیں رہی؟ تایا کو‬
‫سامنے سے جواب دے کر یوں بدتمیزی کا مظاہرہ‬
‫کرتی اوپر آ گئیں۔"‬
‫ماما غصے سے بھری اس کے سر پر کھڑی تھیں۔‬
‫نیچے وہ سب کو منع کر کے اوپر آئی تھی اور اس‬
‫کی اس حرکت پر ماما بےحد شرمندہ ہوئی تھیں کہ وہ‬
‫اپنے تایا کی بات کو رد کیسے کر سکتی ہے؟‬
‫"ماما! پلیز میں اکیلی چلی جاؤں گی مگر ان میں سے‬
‫کسی لڑکے کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔" وہ بےحد‬
‫سنجیدگی سے بولی۔‬

‫‪353‬‬
‫"کیوں؟" حور نے کمرے میں قدم رکھتے ہی استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"کیونکہ میرا دل نہیں مانتا‪ ،‬مجھے ان میں سے کسی‬
‫پر بھی یقین نہیں ہے۔ اور یہ میری زندگی‬
‫ہے‪.....‬مجھے اپنے اچھے برے کا اندازہ ہے۔" وہ‬
‫سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"شیری پر یقین ہے؟" حور کے لہجے میں عجیب سا‬
‫طنز تھا جسے وہ سمجھ نہیں پائی۔‬
‫"ہاں بلکل‪ ،‬شیری بھائی بھروسہ کے قابل ہیں۔" وہ‬
‫صاف گوئی سے بولی۔‬
‫"تم دونوں اب جھگڑنے مت لگ جاؤ۔ حور! تم دونوں‬
‫اکھٹی چلی جاؤ۔ اسے اس کے ہاسٹل ڈراپ کر کے تم‬
‫اسالم آباد چلی جانا۔"‬
‫ماما نے تیزی سے کہا۔‬
‫"شیور۔" وہ شانے آچکا کر کہتی ایک تیکھی نظر‬
‫کائنات پر ڈال کر پلٹ گئی۔‬
‫"شیری کہاں گیا ہے کائنات؟"‬
‫ماما پلٹتے پلٹتے رک کر بولیں۔‬
‫‪354‬‬
‫اس کے اوسان خطا ہوگئے۔‬
‫"وہ تو‪.....‬ل الہور جا چکے ہیں۔" اس نے بنا سر •‬
‫اٹھائے کہا۔‬
‫"تمہیں النے لے جانے کی زمہ داری میں نے اسے‬
‫سونپی تھی اور اپنی زمہ داریوں سے وہ ہاتھ نہیں‬
‫کھینچتا‪.....‬پھر بنا تمہیں لیے یا گھر آئے وہ وہاں‬
‫سے کیسے چال گیا؟ گاڑی بھی اس کی یہاں کھڑی‬
‫ہے۔"‬
‫ماما نے کہا تو وہ خوف زدہ سی ہو کر انگلیاں‬
‫پٹخنے لگی۔‬
‫"کائنات! میری طرف دیکھ کر بتاؤ کہ شیری کہاں گیا‬
‫ہے؟"‬
‫انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے اس کی تھوڑی کو نرمی‬
‫سے تھام کر اس کا سر اٹھایا۔ جیسے وہ کچھ کچھ‬
‫سمجھ گئی تھیں۔‬
‫"خ خان پور‪......‬ا اپنے دودھیال سے ملنے۔"‬
‫"کیا؟" انہیں حیرت کا شدید جھٹکا زور سے لگا تھا۔‬

‫‪355‬‬
‫"ج جی ماما! پر پلیز کسی کو بھی بتائے گا نہیں‬
‫پلیز‪......‬انہوں نے مجھ پر بھروسہ کر کے بتایا تھا۔‬
‫مگر میں نے آپ کو بتا دیا۔ " وہ رو دینے کو تھی۔‬
‫"پاگل لڑکی تم نے اسے روکا کیوں نہیں؟" انہیں اس‬
‫پر غصہ آ رہا تھا۔‬
‫"میں نے ہی تو انہیں جانے کے لیے راضی کیا تھا۔"‬
‫وہ منہ لٹکائے بولی تو ماما نے سر پیٹ لیا۔‬
‫"اس کے ماموؤں کو معلوم ہو گیا نا تو وہ اس سے‬
‫بہت خفا ہوں گے‪ ،‬مگر ابھی دعا کرو کہ وہ وہاں سے‬
‫زندہ سالمت لوٹ آئے۔"‬
‫"کب تک وہ اپنے خاندان سے دور رہتے؟ کب تک‬
‫لوگوں کے تانے سنتے‪......‬برا یا اچھا مگر وہ ان کے‬
‫باپ دادا کا گھر کے‪.....‬جن کے بغیر وہ ادھورے‬
‫تھے۔" وہ بولی تو ماما نے ایک غصیلی نگاہ اس پر‬
‫ڈالی‬
‫"تقریر کرنا بند کرو۔ اور دعا کرو کہ وہ سالمت لوٹ‬
‫آئے۔جانتی بھی ہو جہاں وہ گیا ہے وہ کتنے خطرناک‬

‫‪356‬‬
‫لوگ ہیں۔" وہ کہہ کر پلٹ گئیں اور کائنات کا دل کانپ‬
‫سا گیا۔‬
‫"پتہ نہیں ان لوگوں نے کیا سلوک کیا ہو گا؟ فراغ دلی‬
‫سے گلے لگایا ہو گا یا پھر‪ "......‬سوچتے سوچتے‬
‫ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر پریشان سی کیفیت‬
‫میں بیٹھی رہی پھر لپک کر اپنا فون چارج سے اتارا‬
‫اور شاہزیب کو کال مالئی۔‬
‫دوسری جانب ہسپتال کے کمرے کے سامنے ادھر‬
‫اُدھر ٹہلتے شیری نے جینز ٹٹول کر فون نکاال۔‬
‫"اسالم علیکم شیری بھائی!‪ ......‬آپ ٹھیک تو ہیں؟‬
‫خیر خیریت سے پہنچ گئے؟ وہاں کسی نے کچھ کہا تو‬
‫نہیں؟" ایک ہی سانس میں وہ ساری بات بول گئی۔‬
‫وہ مایوس سا مسکرا دیا۔‬
‫"و علیکم السالم! حوصلہ بھئی‪.....‬میں ابھی تک‬
‫راستے میں ہی ہوں۔ میرا مطلب کہ خان پور توپہنچ‬
‫گیا ہوں مگر‪".....‬‬
‫اس نے خان پور میں داخل ہونے سے اب تک کی‬
‫ساری داستان اس کے گؤش گزر کر دی۔‬

‫‪357‬‬
‫ّٰللا‪......‬وہ عالقہ واقع ہی خطرناک ہے‬
‫"استغفار ہ‬
‫شیری بھائی! آپ پلیز واپس آ جائیں۔" وہ ڈر کے‬
‫مارے لرزتی آواز میں بولی تھی۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬نہیں اب ان لوگوں تک پہنچ کر ہی واپس‬
‫آؤں گا۔ مگر پتہ نہیں وہ شخص کون تھا اور اس‬
‫نوجوان کو اتنی بےرحمی سے کیوں پیٹ رہا تھا؟"‬
‫"وہ میرے بابا سائیں ہیں۔اس عالقے کے بادشاہ۔"‬
‫سردار دالور خان کی آواز پر وہ پلٹا تھا۔‬
‫وہ سفید کلف زدہ شلوار قمیض میں ملبوس دائیں‬
‫شانے پر سیاہ گرم شال اوڑھے ہوئے تھا۔‬
‫شاہزیب کو دیکھ کر اس کی گہری نیلی آنکھیں حیرت‬
‫سے ذرا سی پھیل گئی تھیں اور سوہنے نقش و نین‬
‫سے سجے چہرے پر نجانے کیسے تاثرات تھے‬
‫شاہزیب سمجھ نہیں پایا۔‬
‫"میں تھوڑی دیر تک کرتا ہوں کال۔ تم پریشان نہیں‬
‫ہونا میں بلکل ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہو گا مجھے۔" وہ‬
‫فون پر کائنات سے کہہ کر اب پوری طرح سردار‬
‫دالور خان کی جانب متوجہ تھا۔‬

‫‪358‬‬
‫" اس کے سوا کوئی دوسرا بادشاہ نہیں۔" شاہزیب‬
‫نے مسکراتے ہوئے انگلی آسمان کی جانب کی تھی۔‬
‫"کون ہو تم؟" وہ استفسار کر رہا تھا۔‬
‫"انسان ہوں۔ نام ہے شاہزیب احمد خان۔"‬
‫اس نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے تعارف‬
‫کروایا۔‬
‫"شاہزیب خانزادہ؟" سردار دالور خان اسکا ہاتھ‬
‫تھامتے ہوئے کھوئے ہوئے انداز میں گویا ہوا۔‬
‫"ہوں مجھے میرے ماموؤں نے یہ ہی بتایا تھا۔"‬
‫"یہاں کیوں آئے ہو؟"‬
‫"اپنے باپ کے گھر والوں سے ملنے‪ .....‬جنہیں شاید‬
‫میں یاد بھی نہیں ہوں گا۔" وہ طنزیہ انداز میں ہنسا۔‬
‫"تمہارے تایا کا نام؟"‬
‫"حامد خان۔دادا کا نام شیر خان‪.....‬جانتے ہو انہیں؟"‬
‫وہ اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔‬
‫سردار دالور خان نے چند پل اس کی جانب دیکھا اور‬
‫پھر قدم آگے بڑھا دیئے۔‬

‫‪359‬‬
‫"عجیب پاگل شخص ہے‪......‬خیر مجھے کیا۔" وہ‬
‫شانے آچکا کر پلٹا تو اسے شازار کے کمرے میں‬
‫داخل ہوتے دیکھ تیز رفتاری سے آگے بڑھا۔‬
‫"ہے یو‪ ......‬تمہارے والد صاحب نے بڑی بےرحمی‬
‫سے مارا ہے اب تم بھی‪".....‬‬
‫"بھائی ہے یہ میرا۔" اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ‬
‫کہتا سردار دالور خان تیزی سے بوال۔‬
‫"ک کیا؟ یعنی وہ اپنے بیٹے کو ہی مار رہا‪"....‬‬
‫"رہے‪.....‬تمیز سے بات کرو بڑے ہیں تم سے عمر‬
‫میں بھی اور رشتے میں بھی۔" دالور خان نے اس کی‬
‫بات پھر سے درمیان میں کاٹ دی۔‬
‫"تمہارے باپ کے بڑے بھائی ہیں وہ۔" سردار دالور‬
‫خان کی بات پر وہ آنکھیں پھیالئے اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"حامد خان‪....‬یعنی میرے تایا؟"‬
‫ت جگر ہو تو۔"‬
‫"اگر تم سردار احمد خان کے لخ ِ‬
‫ت جگر‪ .....‬ہاہاہا۔" وہ عجیب انداز میں ہنسا اور‬
‫"لخ ِ‬
‫الٹے پاؤں واپس پلٹ گیا۔‬
‫‪360‬‬
‫"یہاں رکنے کا کوئی فایدہ نہیں ہے شیری! میری‬
‫شکل و صورت اپنے ڈیڈ جیسی ہے پھر بھی حامد خان‬
‫تمہیں پہچاننے سے انکاری رہے۔"‬
‫وہ مٹھیاں بھینچے غصے پر قابو پانے کے سوا خود‬
‫پر افسوس ہی کر سکتا تھا کہ اپنا ایک دن ضائع کر‬
‫کے وہ کس امید سے یہاں آیا تھا‪....‬؟‬
‫اپنے گلے لگانے کی بجائے جھٹال رہے تھے‪.....‬بیگ‬
‫اٹھا کر اس نے وہ ہی راستہ سنبھاال جو بس سٹاپ کی‬
‫جانب جا رہا تھا۔‬
‫****‬
‫سورج ڈوبنے واال تھا‪ ...‬پہاڑیوں اور سبزے کے‬
‫درمیان غروب آفتاب کا منظر بہت دلکش تھا۔‬
‫"واپس جا رہے ہو؟" اسی بابا جی نے استفسار کیا‬
‫جس نے اسے راستہ سمجھایا تھا۔‬
‫وہ جو بینچ پر بیٹھا گہری سوچ میں غرق ہو چکا تھا‬
‫چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"ہوں۔" اس نے پھر سے سامنے ڈوبتے سورج کو‬
‫دیکھنا شروع کر دیا۔‬
‫‪361‬‬
‫"آئے کیوں تھے؟"‬
‫"جن سے ملنے آیا تھا انہوں نے مجھے پہچانا نہیں‬
‫اور جس نے پہچانا انہوں نے گلے نہیں لگایا۔"‬
‫وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے ٹھنڈی آہ بھر کے‬
‫بوال۔‬
‫وہ بزرگ اس کے ساتھ خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔‬
‫"دیکھو بیٹا! اگر تم سمجھو گے کہ تمہیں تمہارا‬
‫خاندان آسانی سے مل جائے گا تو ایسا نہیں‬
‫ہے‪......‬تم چوبیس‪ ،‬پچیس سال ان سے دور رہے ہو‬
‫اب اتنی مدت کی جدائی اور انجانے پن کو محض ایک‬
‫دن میں تو نہیں نا مٹایا جا سکتا۔"‬
‫وہ ایک پل کو خاموش ہو کر اس کے تاثرات دیکھنے‬
‫لگے۔‬
‫وہ مکمل خاموش تھا۔‬
‫"کچھ وقت لگے گا۔ ہمارے بڑے سردار سائیں جتنے‬
‫سخت نظر آتے ہیں دل کے اتنے ہی نرم ہیں۔" ان کی‬
‫بات پر وہ ہنس دیا۔‬

‫‪362‬‬
‫"اپنے ہی بیٹے کو ظالموں کی مانند پیٹنے واال رحم‬
‫دل کیسے ہو سکتا ہے بابا؟" اس نے استفسار کیا۔‬
‫"جب اوالد کل کی آئی لڑکی کے پیچھے اپنے والدین‬
‫کو چھوڑ کر چلی جائے اور پیچھے سے گھر والے‬
‫رو رو کر ہلقان ہو جائیں‪.....‬بوڑھی دادی کی بینائی‬
‫کھو جائے تو ایسے حاالت میں کیا سزا دینی چاہیے‬
‫اس اوالد کو؟"‬
‫ان کے استفسار پر وہ چونک کر ان کی جانب دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫"جاؤ ایک مرتبہ جا کر اپنے خاندان والوں سے مل‬
‫لو۔"‬
‫وہ اس کے شانے پر تھپکی دے کر اٹھ گئے۔‬
‫وہ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا یہاں تک کہ سورج پہاڑوں‬
‫کے پیچھے کہیں چھپ گیا۔وہ یہاں تک آنے کے بعد‬
‫اب کسی بھی فیصلے کو نہیں پہنچ رہا تھا۔‬
‫"اوئے خانزادے‪ ".......‬جیپ کی رکنے کے ساتھ اس‬
‫نے ایک پکار بھی سنی تو پلٹ کر دیکھا۔‬

‫‪363‬‬
‫سردار دالور خان اسٹیرنگ پر اپنا بازو ٹکائے اس کی‬
‫جانب دیکھ رہا تھا۔‬
‫"چلو تمہیں بابا سائیں نے یاد کیا ہے۔" وہ سر کو‬
‫دائیں جانب جنبش دے کر گویا ہوا۔‬
‫شاہزیب بیگ شانے پر لٹکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫وہ جیسے ہی اس کے لیفٹ جانب جا کر بیٹھا سردار‬
‫دالور خان جیپ کو ہوا سے باتیں کرانے لگا۔‬
‫شاہزیب کا فون بجا تو اس نے تیزی سے فون جیب‬
‫سے نکال۔‬
‫ڈی آئی جی کا فون تھا۔‬
‫"گاڑی روکیے پلیز۔" اس نے تیزی سے کہا۔‬
‫سردار دالور خان نے بریک پر پاؤں مار کر گاڑی‬
‫روک دی۔‬
‫"اسالم علیکم سر!‪".....‬‬
‫"و علیکم السالم! میٹینگ ہے کل صبح نو بجے۔"‬
‫سامنے سے وہ سنجیدگی سے بولے۔‬

‫‪364‬‬
‫"ایم سو سوری سر! مگر میرا آنا مشکل ہے۔ایکچلی‬
‫میں خیبرپختونخوا آیا ہوا ہوں۔" وہ جیپ سے اتر کر‬
‫تھوڑا فاصلے پر چال گیا۔‬
‫"سر! آپ کہتے ہیں تو میں ابھی نکل آتا ہوں۔"‬
‫"نہیں نہیں شاہزیب! یہ میٹنگ بھی اسی سلسلے میں‬
‫تھی شاید آپ کو پھر سے خیبرپختونخوا جانا پڑتا اپنی‬
‫فورس کے ساتھ۔" وہ کچھ دیر بعد بولے۔‬
‫"میں‪ .....‬سمجھا نہیں سر؟" اس نے ایک نظر پہاڑی‬
‫سے نیچے گہری کھائی پر ڈالی۔‬
‫"شاہزیب! ہمیں خبر ملی ہے کہ پنجاب سے لڑکیوں‬
‫کو اگواہ کر کے پختونخوا لے جایا جاتا ہے‪......‬اور‬
‫وہاں سے ہی ساری داللی ہوتی ہے۔ان داللوں میں‬
‫سے ابھی صرف چند کے نام ہی سامنے آئے ہیں مگر‬
‫جو ان سب کا ہیڈ ہے اس کا نام سامنے نہیں آیا اور‬
‫ہمیں پورا یقین ہے وہ وہاں کا ہی کوئی رہائشی‬
‫ہے۔اسی سلسلے میں کل کی میٹنگ تھی۔"‬
‫ان کے کہنے پر وہ کچھ سوچتے ہوئے بوال۔‬

‫‪365‬‬
‫"سر! ایک آئیڈیا ہے میرے پاس۔" وہ سردار دالور‬
‫خان کو دو منٹ کا اشارہ کرتا تھوڑا اور فاصلے پر‬
‫چال گیا۔‬
‫"سر! یہ بہت بڑا سکیم ہے‪ ،‬بنا پولیس کی مدد کے وہ‬
‫لوگ پنجاب سے نکل نہیں سکتے‪.......‬ہمارے آدمی‬
‫بھی ان سے ملے ہوئے ہیں‪،‬اسی لیے میں سوچ رہا‬
‫ہوں کہ یہ ایک سیکریٹ مشن رکھا جائے۔"‬
‫اس نے سمجھداری سے بات آگے بڑھائی۔‬
‫"میں یہاں رہ کر پتہ لگاتا ہوں کہ آخر لڑکیوں کو الیا‬
‫کہاں جا رہا ہے اور اس گھناونے کام میں کون کون‬
‫شامل ہے۔" وہ ان کا جواب سننے کے لیے خاموش‬
‫ہوا۔‬
‫"یہ بہت بڑی زمہ داری ہے شاہزیب!‪.....‬ذرا سی بھی‬
‫کوتاہی برتی تو نجانے کتنی لڑکیاں زندگی سے ہاتھ‬
‫دھو بیٹھیں۔کیا تم تنہا سنبھال لو گے یہ سب؟" ڈی آئی‬
‫جی صاحب نے اپنے اطمینان کے لیے استفسار کیا۔‬

‫‪366‬‬
‫"ان شاءہللا سر! بھروسہ رکھیں‪......‬میں سنبھال لوں‬
‫گا۔ بس آپ مجھے وہ فائل کسی طرح مجھ تک پہنچا‬
‫دیں جس میں ساری ڈیٹیلز ہیں۔"‬
‫اس نے پُراعتماد انداز میں کہا۔‬
‫"اوکے شاہزیب!‪.....‬پرسوں تک تمہیں وہ فائل مل‬
‫جائے گی۔" وہ گال کھنکار کر بولے۔‬
‫"اوئے خانزادے‪....‬چلو یا یہاں ہی سونے کا ارادہ‬
‫ہے۔"‬
‫وہ سگار کا کش بھرتے ہوئے بوال۔‬
‫شاہزیب کال کاٹ کر پلٹا۔‬
‫"تمہارا بھائی اب کیسا ہے؟" جیپ جیسے ہی چلی وہ‬
‫بوال۔‬
‫"ٹھیک ہے وہ۔ شکریہ تم نے اس کی مدد کی۔"‬
‫وہ اسی سنجیدگی سے بوال جو اس کی شخصیت کا‬
‫خاص حصہ تھی۔‬
‫"اپنوں کو شکریہ کہا جاتا ہے؟" شاہزیب نے سپاٹ‬
‫لہجے میں استفسار کیا تھا۔‬

‫‪367‬‬
‫پہلی مرتبہ سردار دالور خان کے عنابی ہونٹوں کو‬
‫مسکان نے چھوا تھا۔‬
‫وہ جب مسکراتا تھا تو نیلی آنکھیں میں مسکرا اٹھتی‬
‫تھیں۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا ان کی گاڑی کے‬
‫سامنے ایک گاڑی آن کھڑی ہوئی۔‬
‫دالور خان اگر بروقت بریک پر پاؤں نہ رکھتا تو‬
‫دونوں گاڑیوں کا تصادم بڑا زور دار ہونا تھا‪......‬‬
‫دالور خان کے چہرے پر جتنی سختی اور نفرت امڈ‬
‫آئی تھی سامنے والی گاڑی میں بیٹھے چاروں افراد‬
‫کے چہرے پر اس سے کئی زیادہ نفرت اور ایک آتش‬
‫سی تھی آنکھوں میں۔‬
‫دالور خان نے بھنویں آچکا کر اپنا سپید ہاتھ ہارن پر‬
‫رکھ دیا تھا‪......‬‬
‫شیری نے ذرا سی گردن گھما کر دالور خان کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫"بہت شوق ہے انہیں میرا راستہ روکنے کا ابھی بتاتا‬
‫ہوں۔" اس کے جبڑے بھینچ گئے تھے۔‬

‫‪368‬‬
‫اس نے گاڑی روکی اور جھک کر دراز میں سے‬
‫ریوالور نکاال۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہے ہو؟" شاہزیب نے ایک نظر اس کے‬
‫سخت تاثرات کو دیکھا۔‬
‫"تم گاڑی میں بیٹھو میں ذرا اِن کو ان کی اوقات یاد‬
‫دلوا کر آتا ہوں۔" وہ کہہ کر تیزی سے باہر نکال۔‬
‫وہ چاروں بھی باہر آ گئے تھے۔‬
‫شیری نے گاڑی کی روشنی میں جب ان چار ہٹے کٹے‬
‫لڑکوں کو دیکھا تو گھبرا کر دالور خان کو دیکھا جو‬
‫تنہا ہی ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔‬
‫"یہ راستہ تیرے باپ کا نہیں ہے جو یہاں سے گزر‬
‫رہے ہو اور تم لوگوں کا میں نے اپنے عالقے میں‬
‫داخل ہونے سے روکا تھا‪ ،‬باز نہیں آتے نا تم لوگ؟"‬
‫وہ ایک لڑکے کے منہ پر تمانچہ رسید کرتے ہوئے‬
‫پھنکارا۔‬
‫"تیری تو سالے‪ "......‬وہ چاروں اس پر جھپٹے تھے۔‬
‫شاہزیب دروازہ کھول کر بھاگتا ہوا باہر نکال تھا۔‬

‫‪369‬‬
‫دالور خان نے پیروں اور ہاتھوں کا استعمال کرتے‬
‫ہوئے پھرتی کا مظاہرہ کیا مگر ان میں سے ایک نے‬
‫جب اسے پیچھے سے دھکا دیا تو وہ لڑکھڑا گیا تبھی‬
‫شیری نے بہت تیزی سے آ کر اسے تھاما تھا ذرا سی‬
‫بھی کوتاہی اس کی جان جا سکتی تھی۔‬
‫سردار دالور خان کے شانے سے ڈھلک کر زمین‬
‫بوس ہوئی شال کو بہت نرمی سے اٹھا کر اس کے‬
‫شانے پر رکھا اور آگے بڑھ کر زور کا پنچ اس شخص‬
‫کے ناک پر دے مارا۔‬
‫دونوں ہاتھوں کی شہادت اور درمیان والی انگلیوں‬
‫کو باہم مالیا اور دوسرے شخص کے پیٹ پر وار کیا‬
‫اور اسی ہی پھرتی سے اس نے تیسرے کی ٹانگ پر‬
‫پیچھے سے کک ماری تھی ساتھ ہی چوتھے کی ریڑھ‬
‫کی ہڈی پر ہاتھ مار کر کاری ضرب لگائی۔‬
‫وہ چاروں بری طرح سے کراہنے لگے تھے۔‬
‫سردار دالور خان سینے پر ہاتھ لپیٹے‪ ،‬اس کی جانب‬
‫مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔‬

‫‪370‬‬
‫"اٹھائیس سالوں بعد مجھے اپنے ملے ہیں اور آج‬
‫تمہاری وجہ سے اگر میرا بھائی کھائی میں گر جاتا‬
‫تو‪......‬تو خدا کی قسم تم چاروں یہاں زندہ سالمت‬
‫کھڑے نہ ہوتے۔ اس سے پہلے کہ میں یہ کر گزروں‬
‫یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ۔" اس نے چٹکی‬
‫بجاتے ہوئے اطمینان سے کہا تھا۔‬
‫جیپ کی الئیٹس میں جب غصے اور اشتیال کی‬
‫سرخی اس کی آنکھوں میں وہ چاروں دیکھ چکے تو‬
‫خوف زدہ ہو کر گاڑی کی جانب بڑھ گئے‪،‬دوسرے ہی‬
‫پل وہ وہاں سے تیر ہو چکے تھے۔‬
‫اس نے پلٹ کر سردار دالور کی جانب دیکھا جو‬
‫مسکرا رہا تھا وہ بھی ہنس دیا۔‬
‫"چوٹ تو نہیں لگی؟" اس کے پوچھنے پر شاہزیب‬
‫مسکرا کر نفی میں سر ہالنے لگا۔‬
‫"ارے نہیں یار! کراٹے چیمپئن ہوں یہ تو بہت سنبھال‬
‫کر ہاتھ لگائے تھے نہیں تو ان غباروں سے ہوا نکل‬
‫جانی تھی۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا گاڑی میں بیٹھ‬
‫گیا۔‬

‫‪371‬‬
‫"ویسے یہ کون لوگ تھے؟"‬
‫"یہ ہمارے دور کے رشتے دار اور دشمن‬
‫ہیں‪.....‬ساتھ کے گاؤں میں رہتے ہیں‪،‬شاید مجھے‬
‫ادھر تنہا آتے دیکھ حملہ کے متعلق سوچ کر پیچھا کیا‬
‫ہو گا۔"‬
‫"مگر شروعات تو تم نے کی تھی‪ ".......‬وہ سنجیدگی‬
‫سے گویا ہوا۔‬
‫"دیکھو خانزادے! گیدڑ انتظار کرتے ہیں کہ شیر تنہا‬
‫ہو اور ان پر حملہ کرے اور وہ اس پر جھپٹیں‪"......‬‬
‫"اور پھر وہ شیر ہی کیا جو گیدڑوں کے جھنڈ کو‬
‫دیکھ کر گھبرا جائے۔کچھ سمجھے؟" وہ بات کے‬
‫اختتام پر سوال چھوڑ گیا۔‬
‫"سمجھ گیا‪ .....‬مگر گیدڑوں کا مقابلہ شیر کب سے‬
‫کرنے لگے؟"اس کی بات پر سردار دالور خان کے‬
‫ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ بکھری۔‬
‫"بات ٹھیک ہے مگر اپنے قبیلے کو ان شاطر گیدڑوں‬
‫سے بچانے کے لیے ہمیں حملہ کرنا پڑتا ہے۔"اس‬
‫نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔‬

‫‪372‬‬
‫"آہاں‪ ......‬قبیلے کا ایک سردار بھی ہوتا ہے۔ تمہارے‬
‫قبیلے کا سردار کون ہے؟" اس کے استفسار پر‬
‫سردار دالور خان کا قہقہہ بلند تھا۔‬
‫"یعنی تم ہو؟" وہ مسکرا دیا‬
‫"واہ بھئی تم تو ہنسنے کے انداز سے ہی سمجھ‬
‫قدر حیران ہوا۔‬
‫گئے۔کوئی خاص ٹریننگ؟" وہ ِ‬
‫"مجھے بھی آج سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ میں‬
‫چہرہ پڑھنے میں اس قدر مہارت رکھتا ہوں۔" وہ‬
‫مسکرا کر کہتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔‬
‫"ہوں۔ پہلے شازار سے مل لو وہ تم سے ملنا چاہ رہا‬
‫تھا۔"‬
‫گاڑی ہسپتال کے راستے پر ڈالتے ہوئے وہ سنجیدگی‬
‫سے بوال۔‬
‫وہ جب پیدل چل کر گاؤں میں گیا تھا تو اتنا لمبا راستہ‬
‫نہیں لگا تھا کیونکہ پہاڑوں کے درمیان میں سے‬
‫راہداری نکالی ہوئی تھی اور سڑک تو پوری پہاڑی‬
‫گھما کر ہی گاؤں میں داخل ہو رہی تھی۔‬
‫سب حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔‬
‫‪373‬‬
‫سردار حامد خان نے گال کھنکار کر اسے اپنی جانب‬
‫متوجہ کیا۔‬
‫"کیا کرنے آئے ہو یہاں؟" انہوں نے بےتاثر لہجے‬
‫میں استفسار کیا تو شیری جو سینے پر ہاتھ لپیٹے‬
‫سر جھکائے کھڑا تھا تعجب سے ان کو دیکھنے لگا۔‬
‫"کیوں یہاں آنے کے لیے پرمیشن لینی پڑتی ہے؟"‬
‫وہ بھی اپنی انا کو کچل نہیں سکتا تھا تبھی وہ دل کی‬
‫بات دبا کر بوال۔‬
‫سردار دالور خان نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا‬
‫پھر دالور خان کو۔‬
‫"یہاں تمہارے انتظار میں کوئی نہیں بیٹھا تھا جو منہ‬
‫اٹھائے آ گئے ہو۔اور نہ ہی تمہیں جائداد سے کچھ‬
‫ملے گا۔"‬
‫وہ اس کی بدتمیزی پر تلمال کر رہ گئے تھے‪ ،‬ایک‬
‫نگاہ اس پر ڈال کر رخ پھیر گئے۔‬
‫ان کی بات سے شاہزیب کے دل پر ایک گہری چوٹ‬
‫لگی تھی۔‬

‫‪374‬‬
‫"ہاہاہا‪.....‬مجھے بھی آپ لوگوں کی کوئی اداسی نہیں‬
‫تھی‪......‬میں یہاں نہ تو آپ لوگوں سے ملنے آیا ہوں‬
‫اور نہ ہی جائداد لینے۔اپنے کام سے آیا ہوں۔"‬
‫وہ بےحد سنجیدگی سے کہتا پلٹا اور زمین پر پڑے‬
‫بیگ کو اٹھا کر شانے پر ڈالتا وہ جیسے ہی پلٹا ایک‬
‫غیر ارادہ نظر تخت پر بیٹھی تسبیح پھیرتی بوڑھی‬
‫دادی پر پڑی تو اس کے قدم رک گئے۔‬
‫وہ ان کی جانب بڑھا مگر پھر راستے میں ہی رک کر‬
‫مٹھیاں بھینچ کر پلٹا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں‬
‫سے نکل گیا۔‬
‫"اکڑ دیکھی ہے اس کی۔" سردار حامد خان نے اپنی‬
‫بیوی بچوں کی جانب دیکھتے ہوئے سختی سے کہا۔‬
‫"پٹھانوں کا خون ہے سائیں! گرمی تو دکھائے‬
‫گا۔ویسے بھی گڑتی تو آپ نے ہی ڈالی تھی اسے۔"‬
‫بیگم سائیں نے کہا تو وہ ایک کٹیلی نگاہ ان پر ڈال کر‬
‫پلٹے چند قدموں کے فاصلے پر وہ رک گئے تھے۔‬

‫‪375‬‬
‫"میری بات کان کھول کر سن لو تم سب‪ ،‬وہ جب تک‬
‫اس گاؤں میں ہے تم میں سے کوئی بھی عورت باہر‬
‫نہیں جائے گی‪ ،‬اور ہاں‪ "....‬وہ ایڑھیوں پر پلٹے۔‬
‫"اگر مجھے معلوم ہو گیا کہ تم میں سے کوئی بھی‬
‫شازار خان اور شاہزیب خان سے مال ہے تو مجھ سے‬
‫برا کوئی نہیں ہو گا‪،‬اور نہ ہی میں ان دونوں کا ذکر‬
‫سنو۔" کہتے ہوئے انہوں نے سردار دالور خان کو‬
‫بھی ایک نگاہ دیکھا تھا۔‬
‫"سردار! تم بھی‪.....‬تم بھی ان دونوں سے نہیں ملو‬
‫گے‪ ....‬سامنے سے آتے دکھائی دیئے تو راستہ بدل‬
‫لینا۔"‬
‫وہ سب کو سزا سنا کر وہاں سے جا چکے تھے۔‬
‫"کیا ہو گیا ہے بابا سائیں کو اپنے بیٹوں سے اتنے‬
‫خفا ہوئے بیٹھے ہیں۔" سیرت نے افسردگی سے کہا۔‬
‫"چپ کر‪ ،‬وہ اگر یہ سب کر رہے ہیں تو بےوجہ نہیں‬
‫کر رہے ہوں گے۔ باپ سے اس قدر بدگماں نہیں‬
‫ہوتے‪.....‬اب جاؤ سب اپنی اپنی آرام گاہ میں‪ ،‬جاؤ۔"‬
‫بیگم سائیں نے سختی سے سب کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔‬

‫‪376‬‬
‫"کیا بات ہے سردار پتر؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟ اپنے‬
‫بابا سائیں پر اعتماد نہیں ہے کیا؟"‬
‫سردار دالور خان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ‬
‫استفہامیہ انداز میں گویا ہوئیں۔‬
‫"امو جان! یہ بات نہیں ہے۔ میں اس لیے پریشان ہوں‬
‫کہ برسوں بعد چاچا سائیں کے روپ میں شاہزیب‬
‫خانزادہ لوٹا ہے اور‪ "....‬وہ بات اُدھوری چھوڑ کر‬
‫خاموش ہو گیا۔‬
‫"ما شاءہللا‪ .....‬ہوبہو تمہارے چاچا سائیں کی شکل‬
‫پائی ہے خانزادے نے۔" وہ زخمی سا مسکرائیں۔‬
‫"سردار پتر! میرا خان پتر کیسا ہے؟" انہوں نے ادھر‬
‫اُدھر دیکھتے ہوئے آواز بےحد دھیمی رکھی تھی۔‬
‫"وہ بلکل ٹھیک ہے اب امو جان! میں اور شاہزیب‬
‫اسے بنگلے پر چھوڑ کر ہی ادھر آئے تھے۔"‬
‫اس نے زخمی سی مسکراہٹ لیے اپنی مجبور ماں کی‬
‫جانب دیکھا جو اپنے شوہر کے ڈر سے بیٹے کا ذکر‬
‫بھی اونچی آواز میں نہیں کر پا رہی تھی۔‬

‫‪377‬‬
‫"تمہارے بابا سائیں ان دونوں کو کبھی معاف نہیں‬
‫کریں گے کیا؟" انہوں نے خوف زدہ ہو کر اس کی‬
‫جانب دیکھا وہ خود بھی چند پل کے لیے خاموش ہو‬
‫گیا تھا۔‬
‫"میں نے ابھی ابھی ایک خواب سجایا ہے سردار پتر!‬
‫کہ تم تینوں بھائی ہنستے مسکراتے اس گھر میں مل‬
‫جل کر رہ رہے ہو۔کیا میری آنکھیں یہ خواب دیکھ‬
‫پائیں گیں؟"‬
‫وہ یکدم سے ایموشنل ہو گئی تھیں۔‬
‫شاءّٰللا‪ ،‬امو جان! ایک دن یہ دکھوں کے بادل‬
‫ہ‬ ‫"ان‬
‫جھڑ جائیں گے اور ہم سب ہنسی خوشی مل کر رہیں‬
‫گئے‪ ،‬اب تو فیملی بھی مکمل ہو گئی ہے خانزادہ بھی‬
‫آ گیا ہے۔" وہ مدھم سی مسکراہٹ لیے ان کے شانوں‬
‫پہ بازو پھیال گیا۔‬
‫"اچھا میں اب تمہارے بابا سائیں کو دوا دے لوں۔" وہ‬
‫اس کی پیشانی چوم کر آگے بڑھ گئیں پھر رک کر اس‬
‫کی جانب گردن گھوما کر دیکھنے لگیں۔‬
‫"اپنے بھائیوں کی حفاظت کرنا پتر! "‬

‫‪378‬‬
‫"فکر نہیں کریں امو جان! میں ہوں ان کے ساتھ۔"‬
‫وہ مسکرا کر کہتا پلٹ گیا۔‬
‫"پتہ نہیں وہ خود کو سمجھتے کیا ہیں‪ ،‬جیسے میں‬
‫ان کی جائداد کا بھوکا ہوں‪.....‬حد ہو گئی یار۔میں ہی‬
‫بیوقوف تھا جو کائنات کی پیاری پیاری باتوں کو‬
‫خواب بنا کر تعبیر ڈھونڈنے نکال۔"‬
‫وہ بنگلے میں داخل ہوا اور دالور خان کے بتائے‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی بیگ صوفے پر اچھال کر‬
‫بالوں کو انگلیوں میں جکڑ کے بیڈ پر گرنے کے سے‬
‫انداز میں بیٹھا۔‬
‫"جن لوگوں کو اٹھائیس سال میری یاد نہیں آئی وہ‬
‫بھال کیوں کر مجھے گلے لگائیں گے۔" اب اس کی‬
‫آنکھیں نم ہوئی تھیں۔‬
‫"میرا اس دنیا میں واقع ہی کوئی نہیں‪ "......‬ایک‬
‫آنسو رخسار پر پھسال تھا۔‬
‫" مگر میں کمزور ہرگز نہیں ہوں‪ ،‬مجھے نہیں چاہیے‬
‫نہ رشتے‪ ،‬نہ قبیلے نہ خاندان۔ سردار حامد خان کو ان‬
‫کی اکڑ مبارک۔" وہ آنسو رگڑتے ہوئے بڑبڑایا۔‬

‫‪379‬‬
‫"تمہیں کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو؟" وہ دروازے کے‬
‫وسط میں رکتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫"ارے شازار! تم ریسٹ کرو چل پھر کیوں رہے ہو؟"‬
‫وہ تیزی سے بات بدلتے ہوئے بوال۔‬
‫"ریسٹ کے لیے میرے بھائی لیٹنا پڑے گا اور مجھ‬
‫سے تو بیٹھا بھی نہیں جا رہا۔"وہ ہنستے ہوئے بوال۔‬
‫"میں نے آج تک کسی باپ کو اپنی خود کی اوالد کو‬
‫اس قدر بےرحمی سے مارتے پیٹتے نہیں دیکھا۔"‬
‫"ہاہاہا میں ایک سال سے فرار تھا تو انہوں نے یہ‬
‫حال کیا سوچو تم تو بیس سالوں سے فرار تھے۔" اس‬
‫نے ڈرانے والے انداز میں کہا تھا مگر ہونٹوں پر‬
‫شریر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔‬
‫"بیس؟ مگر اس میں میرا کیا قصور ان کا ہی سارا‬
‫قصور ہے‪ ،‬اگر اتنی محبت ہوتی تو مجھے کبھی تو‬
‫ملنے آتے‪.....‬خیر چھوڑو یہ سب میں فریش ہو لوں۔"‬
‫وہ بات ختم کرتا اٹھا اور واشروم کی جانب بڑھ‬
‫گیا۔شازار بوجھل سانس بھر کر پلٹ گیا۔‬

‫‪380‬‬
‫***‬
‫صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھوک سے پیٹ میں‬
‫چوہے دوڑ رہے تھے۔‬
‫بالوں کو رگڑ کر ٹاول ‪،‬ٹاول اسٹینڈ پر اچھال کر‬
‫کمرے سے نکل گیا۔‬
‫اس کا رخ شازار کے کمرے کی جانب تھا‪ .....‬دہلیز پر‬
‫ہی شاہزیب کے قدم ساکت ہو گئے تھے۔‬
‫وہ کھڑکی میں کھڑا تھا ہاتھ میں عروسی لباس تھا‪،‬‬
‫سرخ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے وہ آسمان کی‬
‫جانب دیکھ رہا تھا۔‬
‫اس کا وجود اداسی میں ڈوبا دیکھ شاہزیب سمجھ گیا‬
‫تھا کہ وہ اس لڑکی کو شدت سے یاد کر رہا ہے۔‬
‫"خان۔" وہ آگے بڑھا اور دھیرے سے اس کے شانے‬
‫پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫"ہم نے ساتھ میں زندگی گزارنے کے خواب سجائے‬
‫تھے خانزادے‪.....‬سارے خواب اس کے خون سے‬
‫رنگ گئے۔"‬

‫‪381‬‬
‫وہ بنا پلٹے نم آواز میں بوال اور پھر ایک نگاہ‬
‫عروسی لباس پر ڈالی۔‬
‫"کیوں؟ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"‬
‫اس کے استفسار پر شاہزیب خانزادہ چپ تھا‪ ،‬کیا‬
‫کہتا‪.....‬؟ اس کے پاس تو جواب ہی نہیں تھا۔‬
‫"چلو اگر مرنا ہی تھا تو ہم دونوں ساتھ میں ہی مر‬
‫جاتے مگر‪ "....‬اس نے بات اُدھوری چھوڑ کر لب‬
‫دانتوں تلے دبا کر سر جھکا لیا۔‬
‫"ایک بات کہوں خانزادے‪ ".....‬پلٹ کر عروسی جوڑا‬
‫بریف کیس میں رکھا زیپ بند کی اور اس کی جانب‬
‫پلٹا۔‬
‫اظہار‬
‫ِ‬ ‫"اگر کسی سے محبت ہو جائے نا تو وقت پر‬
‫محبت کر دینا چاہیے تاکہ وہ شخص جلد آپ کا ہو‬
‫جائے۔ انتظار کا پھل کبھی کبھی میٹھا نہیں بھی‬
‫نکلتا۔"‬
‫ّٰللا کو‬
‫"ساری بات قسمت کی ہے شازار! اور جو ہ‬
‫منظور ہوتا ہے ہونا تو وہ ہی ہوتا ہے نا۔" اس کی بات‬
‫پر شاہزیب نے سنجیدگی سے کہا۔‬

‫‪382‬‬
‫وہ آنسو رگڑ کر اقرار میں سر ہالتا پھر سے کھڑکی‬
‫میں جا کھڑا ہوا۔‬

‫"ساتھ روتی تھی میرے ساتھ ہنسا کرتی تھی‬


‫وہ لڑکی جو میرے دل میں بسا کرتی ہے‬

‫میری چاہت کی طلبگار تھی اس درجے‬


‫وہ مصلے پر نمازوں میں دُعا کرتی تھی‬

‫اک لمحے کا بچھڑنا بھی گوارہ نہ تھا اُس کو‬


‫روتے روتے وہ مجھے یہی کہا کرتی تھی‬

‫روگ دل کو جو لگا بیٹھی تھی انجانے میں‬


‫میری آغوش میں مرنے کی دعا کرتی تھی‬

‫بات قسمت کی تھی کہ دور ہوگئے ہم‬


‫‪383‬‬
‫ورنہ وہ مجھے تقدیر کہا کرتی تھی"‬

‫شازار نے خالؤں میں دیکھتے ہوئے پرسوز انداز میں‬


‫غزل گنگنائی تھی۔‬
‫"سچ کہتے ہیں عشق اچھے بھلے انسان کو بھی‬
‫شاعر بنا دیتا ہے۔" اس نے ماحول پر چھائی آسودگی‬
‫کم کرنے کی کوشش میں مضحکہ خیز انداز میں کہا‬
‫تو شازار نم آنکھوں سے مسکرا کر اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"تمہیں عشق نہیں ہوا؟" اس کے استفسار پر شاہزیب‬
‫خانزادے نے قدم اس کی جانب بڑھائے۔‬
‫اس کے سامنے والے کھڑکی کے پٹ سے ٹیک‬
‫لگاتے ہوئے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"نہیں شازار! میرے پاس محبت کے لیے کبھی وقت‬
‫ہی نہیں رہا‪......‬ساری زندگی سٹرگل کرتے گزری‬
‫ہے‪.....‬جن بچوں کے والدین انہیں چھوڑ کر چکیں‬
‫جائیں ان کے پاس محض تنہائیوں کے کچھ نہیں‬
‫بچتا۔" اس نے بےحد سنجیدگی سے کہا تھا۔‬

‫‪384‬‬
‫"میری زندگی میں جتنے بھی لوگ آئے ہیں انہیں مجھ‬
‫سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا‪.....‬اور جب میں نے‬
‫دن رات کی محنت سے اپنی منزل پا لی تو سب کو میں‬
‫اچھا لگنے لگا ہوں۔ مامؤوں کا بس نہیں چل رہا اپنی‬
‫بیٹیوں کو فوراً سے پہلے میرے ساتھ رخصت کر‬
‫دیں۔" آخری فقرے پر شازار کے ساتھ اس کا اپنا بھی‬
‫قہقہہ بلند ہوا تھا۔‬
‫"مگر تین لوگ ایسے ہیں میری زندگی میں جو بہت‬
‫فیئر ہیں میرے ساتھ۔" یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں‬
‫کو بہت پیاری مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫"کاش میرے ساتھ بھی کوئی فیئر ہوتا۔ مجھے تو‬
‫میرے دوستوں نے ہی دھوکا دیا‪ ،‬میرے باپ نے ہی‬
‫خود سے دور کر دیا۔" شازار نے افسردگی سے کہا۔‬
‫"نہیں شازار! سردار حامد سائیں نے تمہیں خود سے‬
‫دور نہیں کیا‪ ،‬بس وہ تمہیں سزا دے رہے ہیں‪......‬جو‬
‫بھی تم نے کیا وہ تمہیں نہیں کرنا چاہیے تھا تم قبیلے‬
‫کے سرداروں کے جانشین ہو۔"‬
‫اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا مگر شازار‬
‫کو یہ بات ناگوار گزری۔‬
‫‪385‬‬
‫"الال بھی یہ ہی کہتا ہے‪ ،‬خدا کرے تم دونوں کو بھی‬
‫عشق ہو اور پھر جب تم لوگوں کا محبوب بچھڑنے ہی‬
‫واال ہو گا نا تو پتہ چلے گا کہ سانسیں کس طرح سے‬
‫اکھڑتی ہیں‪ ،‬دل کیسے بند ہوتا ہے۔"‬
‫وہ ہنس کر کہتا کمرے سے نکل گیا وہ اپنا سا منہ‬
‫لے کر کھڑا رہ گیا۔‬
‫*****‬
‫رقیبوں سے آج کل تعلق بڑھانے لگے ہو‬
‫کیوں الٹے سیدھے راستوں پر جانے لگے ہو؟‬

‫وہ فون کی بیل پر گہری نیند سے بیدار ہوا تھا۔‬


‫"کون ہے یار‪.....‬سونے تو دیا کرو۔" وہ خمار آلودہ‬
‫آنکھوں کو مسلتے ہوئے بڑبڑایا اور پھر سے لیٹ کر‬
‫آنکھیں موند لیں۔‬

‫‪386‬‬
‫مگر جلد ہی رنگ پھر سے بجنے لگی۔ اس نے ہاتھ‬
‫مار کر تکیے کے تلے سے فون نکاال اور سوئی جاگی‬
‫کیفیت میں کال اٹینڈ کر کے فون کان پر رکھ لیا۔‬
‫"ہیلو‪"......‬‬
‫"اسالم علیکم! صبح بخیر شیری بھائی!‪.....‬دن ہو گیا‬
‫ہے اٹھ جائیں۔" اس کی کھنکتی آواز سماعتوں سے‬
‫ٹکرائی‬
‫وہ مندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہی مسکرا دیا۔‬
‫"و علیکم السالم! دل نہیں کر رہا‪.....‬بہت سکون ہے‬
‫یہاں‪ ،‬نہ شور شرابہ نہ کوئی ٹینشن۔" انگڑائی بھر کر‬
‫وہ مسکراتے ہوئے کروٹ بدل گیا۔‬
‫زیر اثر تھا۔‬
‫وہ ابھی بھی نیند کے ِ‬
‫"واہ بھئی واہ‪......‬اپنوں کے پاس جا کر دل اتنا‬
‫سکون میں آ گیا ہے کیا؟"‬
‫وہ فون کان اور شانے کے درمیان میں قید کیے‪،‬تیزی‬
‫سے کتابیں بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔‬
‫"کہاں اپنوں پاس سکون یار!‪.....‬یہاں تو حساب ہی‬
‫الگ ہے‪.....‬اس گاؤں کو چھوڑ کر جانے والوں کو‬
‫‪387‬‬
‫ایسی سزا دیتے ہیں کہ وہ ایک ہفتہ بستر پر لیٹنے کو‬
‫ترستا رہتا ہے۔"‬
‫"پھر آپ کیسے آرام فرما رہے ہیں؟" اس نے شرارت‬
‫بھرے لہجے میں استفسار کیا تو وہ ہنس دیا۔‬
‫"میں اپنی بات نہیں کر رہا‪ ،‬اپنے تایا زاد بھائی کی‬
‫بات کر رہا ہوں۔وہ بچارا ایک سال گھر سے فرار رہا‬
‫تھا۔"‬
‫اس کے بعد اس نے آنکھوں دیکھا واقع سنایا تو‬
‫کائنات ڈر سی گئی۔‬
‫"آپ واپس آجائیں شیری بھائی!‪ ......‬اتنے برے‬
‫لوگوں کے درمیان نہیں رہنا چاہیے۔"‬
‫وہ خوف سے بھرے لہجے میں بولی تو شیری کے‬
‫ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔‬
‫وہ بستر چھوڑ کر اٹھ بیٹھا۔‬
‫"فکر نہیں کرو۔ میں کچھ دنوں تک لوٹ آؤں گا۔"‬
‫"ٹھیک ہے‪ ،‬اپنا خیال رکھیے گا۔" اس کے کہنے پر‬
‫وہ مبہم سا ہنس دیا۔‬

‫‪388‬‬
‫ّٰللا حافظ۔"‬
‫" تم بھی اپنا خیال رکھنا‪ ،‬ہ‬
‫شیری نے کال ڈسکنیکٹ کی اور فون ایک جانب ڈال‬
‫کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫کمرے سے نکل کر اس کا رخ شازار کے کمرے کی‬
‫جانب تھا کہ اسے جاگا دے۔‬
‫کمرے میں بہت احتیاط سے‪ ....‬بنا آواز کیے داخل‬
‫ہونے کے بعد اس نے بیڈ کی جانب نگاہ دوڑائی۔‬
‫شازار منہ کے بل سو رہا تھا‪ ،‬بلینکڈ اس پر سے‬
‫پھیسل کر زمین بوس ہو گیا تھا جس بدولت اس کی‬
‫پیٹھ پر پڑے نیل‪،‬کوڑوں کے نشانات واضح تھے‪....‬‬
‫شاہزیب کے دل میں یکدم ہی اپنے تایا کے لیے بےحد‬
‫نفرت سی پیدا ہوئی تھی وہاں ہی شازار خان پر ترس‬
‫بھی آیا تھا۔‬
‫بہت احتیاط سے بلینکڈ شازار پر درست کرتا وہ پلٹ‬
‫کر کمرے سے نکل گیا۔‬
‫وہ یونیورسٹی کے ایک الگ تھلگ کونے میں چپ‬
‫چاپ سی بیٹھی تھی‪.....‬‬

‫‪389‬‬
‫دماغ میں اس آدمی کی باتیں گھوم رہی تھیں جس نے‬
‫شازار کی زندگی کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز‬
‫اس پر عیاں کیا تھا۔‬
‫وہ کائنات کو چھوڑ کر جیسے ہی ٹرمینل پر پہنچی‬
‫تھی اسے وہ ہی آدمی دکھائی دیئے جنہوں نے اس دن‬
‫اسے چھیڑا تھا اور شازار کے سامنے آنے پر ڈر‬
‫گئے تھے۔‬
‫اس کا دماغ یکدم سے جاگا تھا اور وہ تیزی سے آگے‬
‫بڑھی۔‬
‫قدر گھبرا کر آگے پیچھے‬
‫اسے آتے دیکھ وہ آدمی ِ‬
‫ہونے لگا مگر تب تک وہ اس تک پہنچ چکی تھی۔‬
‫"اس دن تم اس لڑکے کو دیکھ کر ڈر کیوں گئے‬
‫تھے؟ کیا تم اسے جانتے ہو؟"‬
‫وہ اس کی جانب گھور کر دیکھتے ہوئے استفسار کر‬
‫رہی تھی۔‬
‫"کون سا لڑکا؟ میں نہیں جانتا کسی کو‪....‬؟" وہ تیزی‬
‫سے کہہ کر وہاں سے جانے لگا مگر وہ پھر اس کے‬
‫پیچھے بڑھی۔‬

‫‪390‬‬
‫"مجھے شازار کے متعلق بتاؤ کہ تم اسے کیسے‬
‫جانتے ہو۔" وہ اس مرتبہ مزید سختی سے بولی تھی۔‬
‫"کیا ہوا پپو؟ اتنا گھبرایا ہوا کیوں ہے۔"‬
‫ایک معزز شخص نے آگے بڑھتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"چاچا یہ ش شازار الال کے متعلق پوچھ رہی ہے۔"‬
‫حور نے اس لڑکے کے لہجے میں ڈر واضح محسوس‬
‫کیا تھا۔‬
‫ادھیڑ عمر کے شخص نے سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھا اور اس لڑکے کو جانے کا اشارہ کرتا سر‬
‫جھکائے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ‬
‫گیا۔‬
‫"تم شازار الال کے متعلق کیوں پوچھ رہی ہو؟"‬
‫"شازار کون ہے؟ آپ جانتے ہیں اسے؟"‬
‫اس نے اس شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے‬
‫اپنا سوال کیا۔‬
‫"ہاں‪.....‬جانتا ہوں۔" وہ سر اثبات میں ہالتے ہوئے‬
‫بولے۔‬

‫‪391‬‬
‫حور نے سر اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔‬
‫"کچھ ایک ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے یہاں ایک بہت‬
‫بڑا حادثہ ہوا تھا۔"‬
‫وہ کہہ کر خاموش ہوئے۔‬
‫"حادثہ؟ کیسا حادثہ‪.....‬ذرا تفصیل سے بتائیے۔"‬
‫"ایک لڑکے کو اڈے کے بیچ و بیچ شوٹ کر دیا گیا‬
‫تھا‪.....‬اور شوٹ کرنے واال شازار الال تھا۔"‬
‫حور کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔‬
‫"پہلے سب نے سمجھا کہ انہوں نے غلط کیا مگر بعد‬
‫میں سمجھ آیا کہ اس نے جو بھی کیا بہت ہی اچھا کیا۔‬
‫اگر ہم سب ہی یہ اقدام اٹھائیں تو کوئی بھی درندا‬
‫زندہ سالمت نہیں بچے گا۔"‬
‫"مطلب؟" وہ ابھی بھی ٹھیک سے نہیں سمجھی تھی۔‬
‫"شازار کی کسی لڑکی دوست کو کنیکٹر نے چھیڑا تھا‬
‫اور اسے نے سرعام فائرنگ کر کے اس لڑکے کو مار‬
‫دیا۔"‬

‫‪392‬‬
‫"شازار کا کوئی دوست جو الہور میں ہو‪ ،‬جسے آپ‬
‫جانتے ہوں؟"‬
‫اس نے رکی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"یوسف رضا۔ مگر وہ اب الہور میں نہیں ہے‪ ....‬اسالم‬
‫آباد جا چکا ہے۔"‬
‫"حور!‪....‬چلنا نہیں ہے کیا؟" پلوشہ کی آواز پر وہ‬
‫چونک کر حال میں لوٹی تھی۔‬
‫"ہ ہاں چلو۔" وہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫"وہ اس لڑکی کے لیے کسی حد تک بھی جاتا‬
‫تھا‪.....‬کاش وہ اس کی زندگی میں نہ آتی تو آج اس‬
‫کی جگہ میں ہوتی۔وہ اتنی محبت مجھ سے کرتا۔"‬
‫دل میں جیسے ہی یہ خیال آیا‪ ،‬آتش مزید بڑھ گئی‬
‫تھی۔‬
‫وہ جس آگ میں سلگ رہی تھی وہ نفرت کی ہی نہیں‬
‫بلکہ محبت کی بھی تھی۔‬

‫‪393‬‬
‫محبت و نفرت‪....‬حسد کی ملی جلی کیفیت اسے ایک‬
‫پل بھی سکون کی سانس لینے نہیں دے رہی تھی۔‬
‫"تم لوگ ہاسٹل جاؤ میں ذرا مارکیٹ تک ہو کر آتی‬
‫ہوں۔" یونیورسٹی سے نکلتے ہی وہ تیزی سے کہتی‬
‫آگے بڑھ گئی کہ کوئی اس سے کچھ پوچھ نہ لے۔‬
‫بیگ کو ٹٹول کر یوسف کے گھر کا پتہ جس کاغذ پر‬
‫لکھا تھا وہ نکاال۔‬
‫"میں جب اس کی زندگی میں وہ مقام حاصل کر ہی‬
‫نہیں سکتی جو سوچا تھا پھر کیوں کر میں اس کے‬
‫متعلق جاننا چاہتی ہوں؟ کیوں کرید رہی ہوں اس کی‬
‫زندگی کو؟" گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ دل ہی دل‬
‫میں خود سے استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"جاننا تو پڑے گا نا‪ .....‬میٹھی چھری بن کر اس نے‬
‫پہلے میرے دل کو کاٹ کر رکھ دیا۔ میرے خوابوں‬
‫کے محل کو تحس نحس کر دیا اور پھر معصومیت‬
‫سے کہنے لگا کہ‪"....‬‬
‫سوچتے سوچتے اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔‬
‫خشک آنکھیں اور روتا دل‪.....‬‬

‫‪394‬‬
‫یادوں کی زہر قطرہ قطرہ حلق میں گر کر اس کے‬
‫جسم میں پھیلنے لگی تھی۔‬
‫بہت ہی غیر حالت ہوتی ہے جب انسان ٹوٹ کر رونا‬
‫چاہتا ہو اور آنسو ساتھ نہ دیں۔‬
‫دل تڑپ تڑپ کر بین کرے ‪ ،‬چیخنے لگے مگر زبان‬
‫ساتھ نہ دے۔‬
‫ان ہی حاالت کی ماری وہ بھی تھی۔‬
‫گاڑی ایک بلند ترین ہسپتال کی عمارت کے سامنے‬
‫رک چکی تھی۔‬
‫اس نے سر اٹھا کر ہسپتال کو دیکھا اور پھر کریم‬
‫گاڑی والے کو پیمنٹ کر کے بیگ سنبھالتی نیچے‬
‫اتری۔‬
‫"یوسف رضا میرا دور کا رشتے دار ہے بیٹا‪ ،‬وہ‬
‫شازار کا بہترین دوست رہا ہے‪......‬جتنا وہ اسے جانتا‬
‫ہے کوئی بھی نہیں جانتا۔" اس آدمی کی آواز اس کے‬
‫کانوں میں گونجی تھی۔‬
‫ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اس نے ادھر اُدھر نگاہیں‬
‫دوڑائیں پھر سیدھا چلتی گئی۔‬

‫‪395‬‬
‫کوریڈور سے نکل کر وہ دائیں جانب سیدھی جاتی‬
‫سولنگ پر چلتی ہوئی ایک گھر کے سامنے جا رکی۔‬
‫"ایم بی بی ایس ڈاکٹر رضا۔" بورڈ پر لکھے نام کو‬
‫زیر لب پڑھتے ہوئے وہ آگے بڑھی۔‬
‫جھجھکتے ہوئے بیل پر شہادت کی انگلی رکھتے‬
‫ہوئے دوسرے ہی پل اس نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔‬
‫"وہ پوچھے گا کہ میں شازار کے متعلق کیوں جاننا‬
‫چاہتی ہوں؟" پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو آپس‬
‫میں رگڑتے ہوئے وہ لب کچلنے لگی۔‬
‫دروازہ کھل چکا تھا۔‬
‫اب وہ واپس بھی نہیں بھاگ سکتی تھی۔‬
‫مالزمہ نے جانچتی نگاہوں سے اسے سر سے پاؤں‬
‫تک دیکھا تھا۔‬
‫"ڈ ڈاکٹر صاحب ہیں؟"‬
‫"نہیں میڈم ابھی تو نہیں ہیں۔" اس کی کٹیلی نگاہیں‬
‫ابھی بھی حور پر مرکوز تھیں‪....‬وہ تھوڑی تذبذب‬
‫ہوئی۔‬

‫‪396‬‬
‫"مجھے یوسف رضا سے‪ .....‬ملنا ہے۔" وہ خود کو‬
‫ریلکس کرتی آگے بڑھی۔‬
‫"یوسف صاحب تو یہاں نہیں ہوتے۔ آپ ہیں کون؟" وہ‬
‫جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"واٹ‪....‬یوسف یہاں نہیں ہے؟ کہاں ہوتا ہے وہ؟" وہ‬
‫اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے تیزی سے بولی۔‬
‫"بانو! کون ہے باہر؟" خاتون کی آواز پر اس نے بھی‬
‫ذرا سی گردن اٹھا کر دیکھا۔‬
‫"باجی! کوئی لڑکی ہے‪....‬اپنے یوسف بابو کے متعلق‬
‫پوچھ رہی ہے۔" کام والی گھبرا کر پلٹی۔‬
‫اتنے میں وہ خاتون بھی پردہ ہٹا کر کوریڈور سے‬
‫نکل آئی تھیں۔‬
‫ایک نگاہ اس کے سراپے پر ڈالتے ہوئے انہوں نے‬
‫نگاہیں حور کے حسین چہرے پر ٹکا دی تھیں۔‬
‫سفید و گالبی چہرے پر سجی دل موہ لینے والی نشیلی‬
‫آنکھیں‪ ،‬گالب کی پنکھڑیوں جیسے نرم و نازک گالبی‬
‫ہونٹ آپس میں بھینچے وہ بار بار لمبی پلکوں کی‬
‫جھالر رخساروں پر گرا رہی تھی۔‬

‫‪397‬‬
‫"کتنی خوبصورت ہے‪.....‬جیسے پرستان سے آئی‬
‫پری ہو۔ ماشاءہللا۔"‬
‫سوچتے ہوئے ان کے ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ‬
‫بکھر گئی تھی۔‬
‫"بیٹا! اندر آ جاؤ‪ ،‬وہاں کیوں کھڑی ہو۔" وہ محبت‬
‫بھرے لہجے میں بولیں۔‬
‫حور حیران کن نگاہوں سے انہیں دیکھتی مسکرا دی‬
‫اور آگے بڑھی۔‬
‫وہ اسے لیتے ہوئے سیٹنگ روم میں جا بیٹھی تھیں۔‬
‫"یوسف کی دوست ہو؟"‬
‫مالزمہ کو چائے وغیرہ کا کہہ کر وہ اس کی جانب‬
‫پلٹیں۔‬
‫"ن نہیں آنٹی دراصل‪".....‬‬
‫وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی۔‬
‫پھر دماغ چالنے لگی۔‬

‫‪398‬‬
‫"جی جی میں اس کی یونیورسٹی فرینڈ ہوں۔ دراصل‬
‫میں پاکستان میں نہیں تھی ابھی واپس آئی تو ملنے آ‬
‫گئی۔" اس نے سفید جھوٹ مسکراتے ہوئے بوال تھا۔‬
‫"اچھا کیا۔ یوسف تو اب دوست بناتا ہی نہیں ہے‪ ،‬طیبہ‬
‫اور شازار والے حادثے کے بعد سے میرا بیٹا‬
‫مسکرانا ہی بھول گیا ہے۔" وہ آہ بھر کے بولیں۔‬
‫حور کے کان کھڑے ہوئے تھے۔‬
‫"حادثہ‪ .....‬ہاں وہ حادثہ‪....‬ویسے یوسف نے اس‬
‫واقعے کو خود پر کیوں سوار کر لیا؟" اس نے‬
‫اندھیرے میں تیر پھینکا۔‬
‫"خدا جانے بیٹا‪.....‬کچھ بتاتا بھی تو نہیں ہے۔" انہوں‬
‫نے ٹھنڈی آہ بھری۔‬
‫"یعنی یہ کچھ خاص نہیں جانتیں‪ ،‬یوسف سے ملنا ہی‬
‫پڑے گا۔" وہ سوچتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوئی۔‬
‫"یوسف گھر پر نہیں ہے کیا؟"‬
‫"نہیں بیٹا وہ تو کراچی ہوتا ہے۔"‬

‫‪399‬‬
‫"اوہ‪ ،‬واپس کب آئے گا؟ آپ اس کا کنٹیکٹ نمبر دے‬
‫دیں میرا سیل چوری ہو گیا تھا تو رابطہ ہی ختم ہو گیا‬
‫سب کے ساتھ۔"‬
‫جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے معمولی سی گھبراہٹ ہو‬
‫رہی تھی۔‬
‫"ٹھیک ہے بیٹا جاتے وقت لے لینا۔ تم یہاں ہی رہتی‬
‫ہو؟"‬
‫"جی۔"‬
‫"پھر چکر لگا لیا کرو‪ ،‬اپنا گھر ہی ہے تمہارا۔"‬
‫ان کی پیشکش پر وہ ہڑبڑا گئی۔‬
‫"جی ضرور آنٹی! دوبارہ جب آوں گی تو ضرور‬
‫مالقات ہو گی۔ دراصل یہاں رشتے دار رہتے ہیں ان‬
‫کے پاس آئی ہوئی تھی۔" اس نے تیزی سے کہا۔‬
‫"ضرور‪ ،‬تمہاری منگنی یا شادی تو نہیں ہوئی؟"‬
‫وہ ان کی میٹھی میٹھی باتوں کے پیچھے چھپا مقصد‬
‫اب اچھے سے سمجھ گئی تھی۔‬

‫‪400‬‬
‫"جوان بیٹا‪.....‬گھر کنوارا بیٹھا ہے تو خوبصورت‬
‫لڑکی کو دیکھ کر ماں کا دل تو سلیپ ہو گا ہی نا۔" وہ‬
‫سوچتے ہوئے مسکرائی۔‬
‫"جی آنٹی۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بچپن میں ہی‬
‫منگنی کر دی جاتی ہے۔" شرمانے کی ایکٹنگ کرتے‬
‫ہوئے اس نے کہا تو مسز رضا کے ہونٹ سمٹ گئے۔‬
‫یہ جھوٹ اس کے لیے فایدہ مند ثابت ہوا تھا۔‬
‫جاتے ہوئے جب مسز رضا نے اسے یوسف کا نمبر‬
‫تھمایا تو ساتھ میں اس سے دوبارہ آنے کا وعدہ‬
‫بھی لے لیا۔‬
‫"کہاں جا رہے ہو سردار پتر؟"‬
‫اس کی تیاری پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے امو جان نے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫وہ شانوں پر ترتیب سے پھیالئی گرم شال کو درست‬
‫کرتا ان کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"ضروری کام کے سلسلے میں اسالم آباد تک جا رہا‬
‫ہوں امو جان! پھر الہور سے طیبہ کی والدہ کو لے کر‬
‫وہاں سے واپسی۔" وہ ان کے ہاتھ چوم کر بوال۔‬
‫‪401‬‬
‫"سردار سائیں! میں گاڑی نکلواتا ہوں۔" اس کے‬
‫خاص آدمی نے سر جھکائے کہا۔‬
‫"نہیں شمشاد! میں تنہا ہی جا رہا ہوں۔ " اس نے ٹوکا۔‬
‫"جو حکم سائیں!" وہ سر جھکا کر پیشانی ٹھونک کر‬
‫سالم کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫"سردار پتر!‪....‬تیری پھپھو جان آ رہی ہیں‪ ،‬کیا جواب‬
‫دوں انہیں؟"‬
‫اس بات پر اکثر اس کا دماغ گھوم سا جاتا تھا۔‬
‫"امو جان! میری بہنوں کی ابھی تعلم مکمل نہیں‬
‫ہوئی‪ ،‬اور دوسری بات میں نے کہا بھی تھا ابھی میں‬
‫اپنی بہنوں کی شادی ہرگز نہیں کروں گا ان کی عمر‬
‫ہی کیا ہے ابھی۔"‬
‫" ان سے کہیں حوصلہ رکھیں نہیں تو اپنے‬
‫صاحبزادوں کو کہیں اور بیاہ دیں۔" اس نے اکھڑے‬
‫ہوئے انداز میں کہا۔‬
‫"وہ نازش اور سیرت کے لیے نہیں آ رہیں‪،‬بلکہ‪"......‬‬
‫بات اُدھوری چھوڑی گئی۔‬

‫‪402‬‬
‫دالور نے بھنویں آچکائے جیسے اگلی بات سمجھ گیا‬
‫ہو۔‬
‫"امو جان! میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا یہ بات آپ‬
‫جانتی ہیں۔" وہ ان کو شانوں سے تھامتے ہوئے نرمی‬
‫سے گویا ہوا۔‬
‫"تو کب‪.....‬کب کرو گے؟ انتیس برس کے ہو چکے ہو‬
‫شادی کی یہ ہی عمر ہے سردار پتر!" وہ تیزی سے‬
‫بولیں۔‬
‫"امو جان! میں نے ابھی اس متعلق نہیں سوچا۔"‬
‫وہ اپنے بچاؤ کے لیے پھر سے بوال۔اس کے لہجے‬
‫کی اکتاہٹ وہ واضح محسوس کر رہی تھیں۔‬
‫"تو اب سوچ لو‪،‬مگر سوچو۔ پیچھلے بیس سالوں‬
‫سے اس حویلی میں خوشیوں کی شہنائیاں نہیں‬
‫بجیں‪.....‬بیس سال سے خوشیوں نے اس حویلی میں‬
‫قدم نہیں رکھا مگر اب مزید ماتم جیسے سماں کو میں‬
‫اپنے ناتواں وجود پر جھیل نہیں سکوں گی۔" وہ‬
‫رونے لگی تھیں۔‬

‫‪403‬‬
‫"امو جان! ابھی پیچھلے سال ہی تو چندو مائی کی‬
‫بیٹی کی شادی کی شہنائیاں ہماری حویلی میں گونجی‬
‫تھیں۔ہر عید پر پورے گاؤں والے یہاں ہی جنشن‬
‫منانے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔"‬
‫اس نے انہیں یاد دالنے کی کوشش کی مگر وہ تو یہ‬
‫سب یاد کرنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔‬
‫"بس اب میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی‪ ،‬تمہاری‬
‫پھپھو جان کو ہاں کہنے والی ہوں۔ویسے بھی گل پنار‬
‫تمہارے انتظار میں بیٹھی ہے۔"وہ آنسو پونچھتے‬
‫ہوئے سختی سے بولیں۔‬
‫اس کی نیلی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں اور‬
‫ہاتھ کا مکا بنا کر ہلکے سے پیشانی پر مارتے ہوئے‬
‫وہ سر جھکا گیا۔‬
‫"سردار پتر! سوچو تمہاری شادی کے ماحول میں‬
‫تمہارے بابا سائیں دونوں خانزادوں کو جب حویلی‬
‫واپس الئیں گے تو یہ خوشیاں دگنی ہو جائیں گیں۔"‬
‫وہ اب دوسرا داؤ استعمال کر رہی تھیں اور بھائیوں‬
‫کی بات پر وہ ہار مان گیا۔‬

‫‪404‬‬
‫"ٹھیک ہے امو جان! جیسے آپ کی مرضی۔" بوجھل‬
‫سے انداز میں کہہ کر وہ مسکرایا اور ان کی پیشانی‬
‫چوم کر ڈھیروں دعائیں لیتا دادی جان کے قریب گیا‬
‫انہوں نے بھی ڈھیروں دعائیں دے کر اسے رخصت‬
‫کیا تھا۔‬
‫"کیا امو جان! سردار بھائی جان شادی کے لیے مان‬
‫گئے؟" سیرت اور نازش مسرت سے جھوم اٹھیں۔‬
‫"ہاں بہت مشکل سے۔ بس جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ‬
‫کرنا ہے یہ نہ ہو وہ پھر سے اپنا ارادہ بدل لے۔" امو‬
‫جان مسکراتے ہوئے بولیں۔‬
‫"میں تمہارے بابا سائیں کو اطالع کرتی ہوں۔ زیادہ‬
‫شور نہیں کرنا اب ابھی بات پکی ہو لے۔" وہ انہیں‬
‫سمجھا کر باہر نکل گئیں۔‬
‫وہ دونوں اور ان کی ہم عمر چاچی جھوم اٹھیں۔‬
‫"چلو اسی بہانے تمہارے چچا بھی سعودیہ عرب سے‬
‫آ جائیں گے۔" ان کی خوشی بھی دگنی ہو گئی تھی۔‬
‫"ہاں نا اور دونوں بھائی جان بھی حویلی آ جائیں‬
‫گے۔ہائے کتنا مزہ آئے گا سردار بھائی جان کی شادی‬

‫‪405‬‬
‫پر۔" سیرت نے چاچی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے‬
‫ہوئے دائیں بائیں جھوم گئی تھی۔‬
‫"مگر یار! سردار بھائی جان گل پنار سے محبت تو‬
‫نہیں کرتے نا۔ وہ تو بس ہم سب کی خوشی کے لیے‬
‫شادی کر رہے ہیں۔" نازش نے افسردگی سے کہا۔‬
‫"میری اور تمہارے چاچو کی جب شادی ہوئی تھی تو‬
‫ہمیں بھی محبت نہیں تھی۔ وہ محض اٹھارہ کے تھے‬
‫اور میں چودہ کی۔ اور دیکھو آج بھی ہم ایک ساتھ‬
‫ہیں‪.......‬شادی کے بعد محبت ہو جاتی ہے‪ ،‬دالور خان‬
‫کو بھی ہو جائے گی۔" بانو چاچی نے سمجھداری سے‬
‫کہا تو وہ دونوں مطمئن ہو گئی تھیں۔‬
‫"ویسے بھی گل پنار تو سردار بھائی جان کو بچپن‬
‫سے چاہتی ہے‪ ،‬اپنی محبت سے سردار بھائی جان‬
‫کے دل میں گھر کر ہی لے گی۔" سیرت نے چہک کر‬
‫کہا۔‬
‫"ہاں۔ ابھی تو دونوں خانزادوں کے گھر آنے کی اور‬
‫سردار کی شادی کی تیاریاں کرتے ہیں۔" چاچی نے کہا‬
‫تو وہ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں۔اور شادی کی‬
‫پالننگ کرنے لگیں۔‬
‫‪406‬‬
‫*****‬

‫"نہیں یار! انہوں نے شیری بھائی کو کچھ نہیں کہا‪،‬‬


‫اپنے بیٹے کو وہ کیا ہوتا ہے‪......‬کوڑے ہاں کوڑوں‬
‫سے مارا ہے۔"‬
‫وہ انیلہ کو بتاتی اس کے ساتھ چلتی کینٹین میں داخل‬
‫ہوئی۔‬
‫"استغفرہلل اتنے ظالم لوگ۔"‬
‫ُ‬
‫"ظالم ہیں مگر یار! شیری بھائی کے کزن نے قبیلے‬
‫کو چھوڑا تھا یہ اس کی سزا تھی۔ بندہ مر جائے مگر‬
‫اپنے قبیلے سے بغاوت نہ کرے۔" وہ بیگ شانے‬
‫سے اتار کر میز پر رکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"اسالم علیکم! کیسی ہیں آپ؟" ولی خان نے سالم کیا‬
‫تو وہ دونوں سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگیں۔‬
‫السالم!‪ّٰ.....‬للا کا شکر ہے۔" انیلہ نے‬
‫ہ‬ ‫"و علیکم‬
‫جواب دیا تھا کائنات رخ پھیر کر ادھر اُدھر دیکھنے‬
‫لگی۔‬

‫‪407‬‬
‫"کائنات! کیا آپ مجھے ایک ٹاپک سمجھا سکتی ہیں‬
‫پلیز۔" وہ نظر کا چشمہ آنکھوں پر درست کرتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫کائنات نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫یہ معصوم سی شکل و صورت واال لڑکا ہمیشہ اس‬
‫سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ اتنا ہی اس‬
‫سے چڑتی تھی۔‬
‫"سوری‪.....‬ابھی مجھے اپنی اسائنمنٹ بنانی ہے۔ آپ‬
‫کسی اور سے جا کر سمجھ لیں۔" وہ کہہ کر تیزی‬
‫سے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"چلو انیلہ!" وہ وہاں سے ہٹ گئی اور ولی خان دل‬
‫برداشتہ ہو کر رہ گیا۔‬
‫"یار کتنا کیوٹ ہے وہ۔ کیوں تم اس کا دل دکھاتی رہتی‬
‫ہو؟" انیلہ نے کافی آگے آ کر اس سے استفسار کیا۔‬
‫"تو‪.....‬؟ایسے کام ہی نہ کرے نا وہ جس سے اس کا‬
‫دل دکھے۔" وہ الپرواہی سے بولی۔‬
‫"وہ بس تم سے بات کرنے کا خواہشمند رہتا ہے‪،‬‬
‫کبھی اس نے پوری کالس میں کسی لڑکی کی جانب‬

‫‪408‬‬
‫سر اٹھا کر نہیں دیکھا صرف تمہیں دیکھتا‬
‫ہے‪.....‬کچھ تو بات ہے نا۔مجھے لگتا ہے وہ تمہیں‬
‫پسند‪"......‬‬
‫"پلیز انیلہ! آئندہ مجھ سے ایسی بات کبھی مت کرنا‪،‬‬
‫ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں نا کہ یہ سب کرنے۔" وہ اس‬
‫کی بات کاٹتے ہوئے سختی سے بولی۔‬
‫"ٹھیک ہے ٹھیک ہے‪.....‬غصہ تو مت کرو۔" وہ اس‬
‫کے چہرے کی سرخی دیکھتے ہوئے نرمی سے بولی۔‬
‫وہ لمبی سانس بھر کر سر ہال گئی۔‬
‫"مسٹر حیدر!‪....‬میٹنگ کا ٹائم بدل دیا گیا ہے‪ ،‬آج شام‬
‫نو بجے۔ کمپنی کے تمام بورڈ آف ڈائیریکٹر کو انفارم‬
‫کر دو۔"‬
‫کاال کرتہ پاجامہ زیب تن کیے‪ ،‬سفید پیروں میں سیاہ‬
‫پشاوری چپل پہنے وہ اپنے وی آئی پی روم کا دروازہ‬
‫دھکیل کر باہر نکال تھا۔‬
‫"اوکے سر! میں انفارم کر دیتا ہوں۔ سر! کچھ پیپر‬
‫ورک تھا کیا ابھی میں آپ کے پاس آ سکتا ہوں؟"‬
‫اس کے سیکریٹری نے استفسار کیا۔‬
‫‪409‬‬
‫"سوری مسٹر حیدر! ابھی میں ہوٹل سے نکل رہا‬
‫ہوں‪ ،‬ایک دوست سے ملنے کا وقت مقرر ہے۔" اس‬
‫نے کالئی پر بندھی ریسٹ واچ نگاہوں کے سامنے‬
‫کرتے ہوئے وقت دیکھا۔‬
‫"نو پرابلم سر!"‬
‫ّٰللا حافظ‪ ،‬شام کو ملتے ہیں۔" اس نے کہہ کر‬
‫"اوکے ہ‬
‫کال کاٹ کے گاڑی کی جانب بڑھا۔‬
‫وہ جانتا تھا کہ اپنے عالقے سے نکلتے ہی لوگوں‬
‫کے لیے وہ محض سردار دالور خان ہے۔‬
‫قبیلے میں جس طرح لوگ عزت کرتے ہیں‬
‫خیبرپختونخوا سے نکلتے ہی وہ خالص عزت و‬
‫احترام کسی کے دل میں نہیں ہوتا۔‬
‫کچھ لوگ اپنے اللچ کی وجہ سے اس کی جی‬
‫حضوری کرتے ہیں تو کچھ اس کی امیری کی بدولت۔‬
‫پہلے پہل تو خیبرپختونخوا سے نکلنے کے بعد وہ‬
‫الجھا الجھا سا رہتا تھا۔‬

‫‪410‬‬
‫مگر رفتہ رفتہ جب وہ مخلتف ممالک اور پاکستان‬
‫کے صوبوں میں آنے جانے لگا تو اپنا مقام بھی ہر‬
‫جگہ منوا چکا تھا۔‬
‫"کہاں ہو یوسف؟" کال پر اس سے استفسار کیا۔‬
‫ہوٹل کی گالس وال کے قریب بیٹھا یوسف وال کے پار‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"اوپر آ جائیں بھائی!‪ "....‬اس نے دالور خان کے اوپر‬
‫دیکھنے پر دھیرے سے ہاتھ ہالیا۔‬
‫وہ اسے دیکھ کر کال کٹ کرتا آگے بڑھا۔‬
‫"اسالم علیکم!" وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫دالور خان مبہم سا مسکرا کر اس کے بغلگیر ہوا۔‬
‫"و علیکم السالم! کیسے ہو؟" اسے بیٹھنے کا اشارہ‬
‫کرتا خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے۔ آپ سنائیں‪،‬اور شازار کیسا ہے؟"‬
‫ہ‬
‫اس کے استفسار پر دالور خان نے سر ہالیا۔‬
‫"وہ ٹھیک ہے‪ ،‬بہت بدل گیا ہے اس ایک سال‬
‫میں‪.....‬کہاں وہ شازار اور کہاں یہ بلکل مٹا ہوا‪ ،‬بدال‬

‫‪411‬‬
‫ہوا‪ ....‬شازار۔" اس نے ہاتھ اٹھا کر پیشانی رگڑی اور‬
‫گالس وال کے پار دیکھنے لگا۔‬
‫"محبت سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے بھائی! اسے‬
‫بھی بدل گئی۔" یوسف نے ٹھنڈی آہ بھری۔‬
‫وہ ابھی نگاہوں کا رخ بدلنے ہی واال تھا کہ اس کی‬
‫نگاہ سڑک کنارے کھڑی لڑکی پر پڑی جسے کچھ‬
‫آدمی زبردستی کھینچ کر وین میں بیٹھا رہے تھے۔‬
‫"اوہ شیٹ‪".....‬‬
‫دالور خان میز پر دونوں ہاتھ مارتا تیزی سے اٹھا تھا‬
‫اور بھاگتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا۔وہاں موجود لوگوں‬
‫نے اس میچور انسان کو سرپٹ بھاگتے حیرانگی سے‬
‫دیکھا۔‬
‫یوسف نے حیرانگی سے پہلے اسے جاتے دیکھا اور‬
‫پھر وال کے پار۔‬
‫اسے بھی وہ منظر دکھائی دے گیا تھا وہ بھی تیزی‬
‫سے اٹھ کر وہاں سے بھاگا تھا۔‬
‫اس سے پہلے کہ دالور خان وہاں تک پہنچتا وہ لوگ‬
‫لڑکی کو زبردستی وین میں بیٹھا کر وہاں سے جانے‬

‫‪412‬‬
‫لگے تھے۔وہ ان کے پیچھے بھاگا اور وین کا نمبر‬
‫نوٹ کر لیا۔‬
‫"بھائی‪!.....‬اس لونڈے نے ہماری وین کا نمبر لکھ لیا‬
‫ہے۔ اب کیا کریں؟"‬
‫پیچھلی سیٹ پر بیٹھے لڑکے نے پیچھے دیکھتے‬
‫ہوئے کہا تھا۔‬
‫"اس چھمک چھلو کو اپنے اڈے تک پہنچانا ضروری‬
‫ہے‪ ،‬وگرنہ بوس نے ہمیں جان سے مار دینا ہے۔"‬
‫ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے آدمی نے گردن گھما کر اس‬
‫لڑکی کو دیکھا جس کے منہ پر پٹی باندھ کر پورے‬
‫چہرے پر کپڑا لپیٹ کے سیٹ پر پھینکا ہوا تھا۔‬
‫وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی‪.....‬مگر‬
‫بےسود رہا۔‬
‫"یوسف! تم پولیس اسٹیشن جاؤ اور اس گاڑی کا نمبر‬
‫بتا کر پولیس کو ناکہ بندی کرنے کو کہو۔ میں ان‬
‫لوگوں کا پیچھا کرتا ہوں‪ ،‬اپنی بائیک کی چابی دو۔"‬
‫وہ پیشانی کو چھوتے بالوں کو انگلیوں کے ذریعے‬

‫‪413‬‬
‫پیچھے کرتا تیزی سے اس کے ہاتھ سے چابی لیتا‬
‫بھاگ کر اس کی بائیک کی جانب بڑھا۔‬
‫یوسف رکشہ کو ہاتھ دے کر روکتا تیزی سے رکشہ‬
‫میں بیٹھ گیا۔‬
‫"بھائی! وہ چھوکرا تو پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔"‬
‫"ایسا کرو گاڑی روک دو‪ ،‬اور نکلو یہاں سے‬
‫سب‪....‬یہ نا ہو وہ سترہ لڑکیاں بھی ہاتھ سے‬
‫جائیں۔"‬
‫"مگر بھائی! بوس کو یہ لڑکی چاہیے‪.....‬اس کی‬
‫قیمت تقریبا ً تین کروڑ تو لگے گی ہی۔"دوسرے لڑکے‬
‫نے کہا۔‬
‫"ارے دس کروڑ کا مال کنٹینر میں پڑا ہے۔ یہ دو‬
‫کروڑ بعد میں لے جائیں گے۔ اوئے ماکھے! ذرا سائیڈ‬
‫کر کے روک دے گاڑی۔" اس آدمی کے کہنے پر‬
‫ڈرائیور نے ایک جانب گاڑی روک دی اور خود سب‬
‫وہاں سے فرار ہو گئے۔‬
‫وہ جو چند ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا بائیک کی‬
‫سپیڈ بڑھا چکا تھا۔‬

‫‪414‬‬
‫بائیک وین کے قریب رکتے ہوئے وہ تیزی سے اترا‬
‫تھا پہلے سوچا کہ ان لڑکوں کے پیچھے جائے پھر‬
‫لڑکی کا خیال آتے ہی تیزی سے وین کی جانب بڑھا۔‬
‫اس کے سفید و گالبی پیروں کو رسیوں سے آزاد‬
‫کروا کر وہ اس کی کمر پر بندھے ہاتھوں کو کھول‬
‫کے پیچھے ہٹا اور اس کے منہ پر لپیٹے کپڑے کو‬
‫کھولنے لگا۔‬
‫لڑکی کا منہ جیسے ہی کھال اس نے گہری گہری‬
‫سانسیں لیتے ہوئے چہرے پر بکھرے بالوں کو‬
‫کانپتے ہاتھوں سے پیچھے کیا۔‬
‫"تھینک یو سو مچ۔ آ آپ میرے لیے فرشتہ بن کر آئے‬
‫ہیں۔" حور روتے اور کانپتے ہوئے بول رہی تھی اور‬
‫دالور خان تو جیسے وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں‬
‫موجود نہیں تھا۔‬
‫وہ جو کسی لڑکی کو سر اٹھا کر دیکھنے کا قائل نہیں‬
‫تھا اس وقت حور کو ٹکٹکی باندھے ساکن پلکوں سے‬
‫دیکھے جا رہا تھا۔‬

‫‪415‬‬
‫ّٰللا م میرا سر‪.....‬م مجھے چکر آ رہے ہیں‪،‬‬
‫"یا ہ‬
‫آنکھوں کے سامنے اندھیرا‪ ......‬اندھیرا آ رہا ہے۔"‬
‫وہ ایک ہاتھ سے سر تھامے اور دوسرے سے اس‬
‫کے شانے کو تھامے زور و قطار روتی ہوئی دوسرے‬
‫ہی پل اس کی آغوش میں بےہوش ہو چکی تھی۔‬
‫دالور خان اس کی اتنی قربت میں اپنے دل کو پہلوؤں‬
‫سے نکلتے محسوس کر کے پریشان ہو گیا۔‬
‫وہ پتھر دل آج پوری طرح سے ہار گیا تھا مگر اس‬
‫بات کا اعتراف کرنا اس کے لیے بےحد مشکل ترین‬
‫تھا۔‬
‫وہ سر جھٹک کر حور کو خود سے دور کرتے ہوئے‬
‫اس کی رخسار کو تھپکنے لگا۔‬
‫"اٹھیں محترمہ۔"‬
‫مگر محترمہ تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی‬
‫تھیں‪...‬وہ اسے قریبی ہسپتال میں چھوڑ کر وہاں سے‬
‫فرار ہو گیا تھا۔‬
‫وہ اپنا دل حور کے پاس چھوڑ گیا تھا اور اس کی‬
‫خوشبوئیں اپنے ساتھ لیے لوٹ گیا۔‬

‫‪416‬‬
‫اسے جب ہوش آیا تو خود کو بیڈ پر دیکھ کر گھبرا‬
‫گئی۔‬
‫"مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے میری‬
‫عزت و جان کی حفاظت کی۔ کہاں ہیں وہ؟"‬
‫ڈاکٹر کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ اس نے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"وہ تو جا چکے ہیں۔" ڈاکٹر کے بتانے پر وہ مایوس‬
‫سی ہو گئی۔‬
‫"ڈاکٹر‪....‬کیا میں جا سکتی ہوں اب؟"‬
‫"جی جی بلکل۔"‬
‫"تھینک یو۔ کتنی فیس؟" اس نے بیڈ سے اٹھتے‬
‫ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"جو آپ کو یہاں الئے تھے وہ فیس ادا کر چکے‬
‫ہیں۔" ڈاکٹر کے بتانے پر وہ ایک مرتبہ پھر سے لب‬
‫سی گئی۔‬
‫"وہ واقع ہی آج میرے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔"‬
‫اس نے اس بات کا دل سے اعتراف کیا تھا۔‬

‫‪417‬‬
‫دیدار یار پر زندگی ہار بیٹھے ہیں‬
‫ِ‬ ‫ہم تو بس‬
‫اسے پانے کا سوچیں گے تو قیامت ہو گی‬

‫دو انگلیوں کے درمیان دبی سگریٹ اس کے منہ‬


‫لگنے کو ترس رہی تھی اور وہ ادھر اُدھر ٹہلتے‬
‫ہوئے کسی اور ہی دنیا میں گم تھا۔‬
‫اور وہ دنیا کچھ ایک دو گھنٹہ پہلے ہی آباد ہوئی‬
‫تھی‪ ......‬محبت کی دنیا‪.....‬ایک ایسی دنیا جس کا‬
‫باسی تو کیا کبھی وہ مہمان بھی نہیں بنا تھا۔‬
‫"یہ مجھے کیا ہو گیا ہے‪ ،‬کیوں اس کے ساتھ گزارے‬
‫وہ چند پل بار بار نگاہوں کے سامنے آ کر مجھے‬
‫ڈسٹرب کر رہے ہیں؟" اس نے بےچینی سے سوچتے‬
‫ہوئے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔‬
‫"افف سردار دالور خان! کیا سوچ رہے ہو؟ کس راہ پر‬
‫چلنے کی کوشش کر رہے ہو جو تمہاری نہیں‬
‫ہے‪.....‬تمہارا اس راہ سے کوئی واسطہ نہیں‪،‬ابھی‬
‫روک لو خود کو۔" اس نے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ‬
‫کر خود کو مزید کچھ بھی سوچنے سے ٹوکا۔‬

‫‪418‬‬
‫فون کال پر وہ اس جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"اسالم علیکم! بھائی وہ لڑکی ہسپتال سے جا چکی‬
‫ہے تو بیان نہیں لے سکے۔" یوسف نے فون کر کے‬
‫بتایا۔‬
‫"و علیکم السالم! اور گاڑی کس کے نام پر تھی؟" اس‬
‫نے آنکھوں کو مسال۔‬
‫"یہ گاڑی دو دن پہلے چوری ہو گئی تھی۔مالک نے‬
‫ریپورٹ بھی درج کروائی تھی۔"‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس نے فون ایک جانب ڈال‬
‫"ٹھیک ہے۔ ہ‬
‫دیا۔‬
‫میٹنگ کے لیے جیسے ہی وہ ریڈی ہونے لگا آئینے‬
‫میں اپنے کلف زدہ کرتہ کے گریبان کے بل اسے چند‬
‫پل کے لیے ساکت کر گئے۔‬
‫ابھی بھی وہ نرم مرمریں انگلیوں کا لمس وہاں موجود‬
‫تھا‪.....‬‬
‫اس کی نگاہوں میں وہ پل قید ہو کر رہ گیا تھا جب‬
‫حور نے بےاختیار ہی اس کے گریبان پر ہاتھ ڈاال تھا۔‬
‫وہ مبہم سا مسکرا دیا۔‬
‫‪419‬‬
‫"آج تک جس نے بھی سردار دالور خان کے گریبان‬
‫پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی وہ دشمنی کا رشتہ پختہ‬
‫کر گیا اور وہ میرے گریبان کو تھام کر دل پہلوؤں‬
‫سے کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئی۔" پسلیوں پر ہاتھ‬
‫ٹکائے وہ نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے سوچتے‬
‫ہوئے سر جھٹک کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش‬
‫کرتا واشروم گھس گیا۔‬
‫نو بجے میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد وہ الہور کے لیے‬
‫نکل گیا تھا وہاں سے اماں جان کو پک کر کے واپس‬
‫خیبرپختونخوا کے لیے روانہ ہو خانا تھا۔‬
‫وہ ڈاک سے فائل لے آیا تھا۔‬
‫اس بنگلے میں وہ اور شازار ہی رہتے تھے تو کھانا‬
‫وہ پی بنا رہا تھا۔ تبھی آتے ہوئے سبزیاں مرچ‬
‫مصالحہ جات اور شازار کے لیے پھل بھی لے آیا تھا۔‬
‫"کیسے ہو جناب؟" کچن میں سامان رکھ کر وہ اس‬
‫کے کمرے کی جانب بڑھا جہاں وہ کھڑکی سے ٹیک‬
‫لگائے خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔‬
‫"اچھا ہوں۔"‬

‫‪420‬‬
‫"میں نے حال پوچھا ہے نیچر نہیں۔" وہ سامنے والے‬
‫در سے ٹیک لگاتے ہوئے بوال۔‬
‫وہ دونوں آپس میں یوں گھل مل گئے تھے جیسے‬
‫برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔‬
‫خون میں کشش ہی ایسی ہوتی ہے کہ انسان اپنوں کی‬
‫جانب کھینچا چال جاتا ہے۔‬
‫"میں نے بھی حال بتایا ہے نیچر نہیں‪ .....‬کیونکہ‬
‫نیچر کے حساب سے میں بہت برا ہوں۔"‬
‫"ہاہاہا برائی تو ہر انسان میں ہوتی ہے جناب۔ مگر‬
‫اچھائیاں بھی تو ہوتیں ہیں۔" وہ ہنس دیا تھا۔‬
‫"یہ تو ہے۔مگر مجھ میں برائیاں زیادہ تھیں‪.....‬تبھی‬
‫تو آج تنہا ہوں۔" وہ مایوسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔‬
‫"تنہا اس لیے جی رہے ہو کہ تم ابھی تک اپنے پاسٹ‬
‫سے نہیں نکلے۔"‬
‫"یو ناؤ واٹ خانزادے!‪....‬میں پاسٹ سے نکلنا بھی‬
‫نہیں چاہتا‪.....‬میرا سب کچھ ہے پاسٹ میں‪.....‬اس کی‬
‫محبت ہے۔اور حال میں‪....‬میرے پاس کچھ نہیں‪ ،‬میں‬
‫خالی دامن ہوں۔" اس کی آواز بھر آئی تھی۔‬

‫‪421‬‬
‫"مجھے نہیں معلوم شازار! کہ جس سے ہم محبت‬
‫کرتے ہیں جب وہ ہم سے بہت دور چال جاتا ہے تو‬
‫کیسا محسوس ہوتا ہے مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں‬
‫کہ یہ محبت بہت خوبصورت احساس ہے۔" وہ سر‬
‫کھڑکی کے پٹ سے ٹکائے آسمان پر چمکتے چاند کو‬
‫دیکھتے ہوئے مسکرایا۔‬
‫"جس کے بنا ہر انسان ادھورا ہے‪ .....‬محبت میں پہلی‬
‫صف میں ماں باپ‪ ،‬بہن بھائی آتے ہیں دوسری صف‬
‫میں باقی کے رشتے۔‬
‫تو تم پہلی صف کو فراموش کیسے کر گئے؟"‬
‫اس کے استفسار پر شازار نے چونک کر اس کی‬
‫جانب دیکھا۔‬
‫"کاش میرے پاس پہلی صف ہوتی‪ ".....‬وہ نم آنکھوں‬
‫کو پلکیں جھپک جھپک کر سر جھکائے چھپا گیا۔‬
‫"پاگل ہو کیا‪ ،‬ہم ہیں تو سعی۔" اس نے آگے بڑھ کر‬
‫اسے کھینچ کے گلے لگا لیا تو شیری نے بھی باہیں‬
‫اس کے گرد پھیالئیں۔‬
‫"ہائے‪ ".....‬وہ کراہ اٹھا۔‬

‫‪422‬‬
‫"اوہ سوری سوری۔" شاہزیب کرنٹ کھا کر پیچھے‬
‫ہوا۔‬
‫"تمہارے تایا سائیں نے سارے بدلے مجھ سے لے‬
‫لیے ہیں۔"‬
‫وہ کراہتے ہوئے بوال تو شیری مسکرا دیا۔‬
‫"اچھا ریسٹ کرو میں ڈنر بناتا ہوں‪ ،‬پھر تمہیں‬
‫میڈیسن دینی ہے اور پٹی بھی بدلنی ہے۔" وہ کہہ کر‬
‫کمرے سے نکل گیا۔‬
‫"اوئے سن کھانا بہت بدمزہ بناتا ہے توں‪ ،‬آج ذرا‬
‫یوٹیوب سے ریسپی دیکھ لینا۔" اس نے ہانک لگائی۔‬
‫"جو مل رہا ہے اسی پر شکر الحمدہلل کرو‪.....‬میں نہ‬
‫قدر بلند‬
‫ہوتا تو وہ بھی نہیں ملنا تھا۔" خانزادے نے ِ‬
‫آواز میں کہا۔‬
‫" بیمار اور غریب شخص پر احسان جتا رہے ہو۔یہ‬
‫بھی ٹھیک ہے بھئی۔" وہ کمرے سے نکل آیا تھا۔‬
‫خانزادے کا قہقہہ بلند تھا۔‬
‫"فائل لے آئے ہو؟"‬

‫‪423‬‬
‫"ہاں بیڈ پر پڑی ہے اور ہاں شازار! میں پولیس‬
‫آفیسر ہوں یہ بات ہم دونوں کے درمیان میں رہنی‬
‫چاہیے۔اوکے؟"‬
‫"یس سر!" وہ سلیوٹ کرتے ہوئے بوال پھر مسکرا‬
‫کر پلٹ گیا۔‬
‫"دیکھو جا کر‪ ،‬کیا پتا تم نے ان میں سے کسی کو‬
‫دیکھا ہو یا جانتے ہو۔" وہ کچن میں گھس گیا جبکہ‬
‫شازار اس کے کمرے میں۔‬
‫"شاہزیب! اس آدمی کو میں نے دیکھا ہوا ہے‪.....‬مگر‬
‫یاد نہیں آ رہا کہاں‪.....‬؟" وہ پرسوچ انداز میں کہتا‬
‫اس کے پاس کچن میں جا کھڑا ہوا۔‬
‫"یاد کرو شازار! وہ ایک ہمیں مل جائے ہم اس فائل‬
‫میں موجود پندرہ آدمیوں اور اِن کے مالکوں تک‬
‫رسائی حاصل کر لیں گے۔" وہ گوشت فرائی کرتا اس‬
‫کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"ایک دفعہ یہ سب میرے ہاتھ آ جائیں سب کا انکاؤنٹر‬
‫کر دوں گا۔نجانے کتنی لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی‬

‫‪424‬‬
‫ہیں کمینوں نے۔" بیف بوائل ہونے کے لیے دوسرے‬
‫چولہے پر چڑھا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"میں تمہارے ساتھ ہوں یارا‪"!...‬‬
‫اس نے جیسے ہی سبز مرچیں کڑاہی میں ڈالیں‬
‫شازار کو بری طرح سے کھانسی شروع ہوئی۔‬
‫"تم باہر جاؤ‪ ،‬اور کمرے میں آرام سے بیٹھ کر سوچو‬
‫کہ اس آدمی کو کہاں دیکھا۔" شاہزیب نے ٹماٹر اور‬
‫کٹے ہوئے پیاز ڈالتے ہوئے کہا۔‬
‫"اوکے‪ ،‬سپائیسی بنانا یار۔" وہ کہہ کر تیزی سے باہر‬
‫نکل گیا۔‬
‫"زخم ابھی بھرے نہیں‪ ،‬بخار ابھی اترا نہیں اور‬
‫محترم کو سپائیسی فوڈ کھانا ہے‪ .....‬ٹھیک ہو جاؤ‬
‫پھر یہ خواہش بھی پوری کر دوں گا۔" اس نے ہانک‬
‫لگا کر کہا۔‬
‫"اپنے تایا پر گیا ہے ظالم‪ .....‬احساس نام کی چیز ہی‬
‫نہیں ہے بھئی۔"‬
‫وہ منہ پھالئے بڑبڑایا۔‬

‫‪425‬‬
‫"کھانا اچھا ہوا تو رات کی ٹی پارٹی میری جانب‬
‫سے۔"‬
‫وہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا شاہزیب مبہم سا‬
‫مسکرا دیا۔‬

‫*****‬

‫وہ جب گھر پہنچا تو حویلی پوری طرح سے روشن‬


‫تھی جس سے یہ بات واضح تھی کہ مہمان آ چکے‬
‫ہیں۔‬
‫ٹی وی الؤنج سے قہقہوں اور خوش گپیوں کی آواز‬
‫سے معلوم ہو رہا تھا کہ پھپھو کے بچے بھی ساتھ‬
‫آئے ہیں اور اب سب کزنز وہاں ڈرہ جمائے ہوئے ہیں۔‬
‫"کرمو! یہ ہماری مہمان ہیں انہیں کمرہ دکھا دو۔ امو‬
‫جان کو اطالع کر دینا۔ مل ہم کل لیں گے‪،‬کافی سفر‬
‫طے کیا ہے تو تھک گئی ہیں یہ۔" اس نے نوکرانی‬

‫‪426‬‬
‫سے کہا تو وہ سر ہال گئی جیسے ہی وہ وہاں سے ہٹا‬
‫اس نے منہ تک ڈاال دوپٹہ اٹھایا اور اماں کو مسکرا‬
‫کر سالم کیا۔‬
‫دالور خود ابھی کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی‬
‫سیدھا کمرے میں جا کر بند ہو گیا۔‬
‫چینج کر کے بستر پر لیٹا اور جیسے ہی آنکھیں بند‬
‫کیں حور مسکراتی ہوئی نگاہوں کے سامنے آ کھڑی‬
‫ہوئی‪ ،‬وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر بیٹھ گیا۔‬
‫ّٰللا‪ " .....‬سر ہاتھوں میں گرائے وہ افسردگی سے‬
‫"یا ہ‬
‫آنکھیں موند گیا۔‬
‫پھر سے وہ موہنی صورت نگاہوں کے پردے پر رقص‬
‫کرنے لگی اس مرتبہ سردار دالور خان نے آنکھیں‬
‫کھولی نہیں تھیں۔‬
‫کئی پل وہ جاگی سوئی کیفیت میں خوابوں کی دنیا میں‬
‫گم رہا۔‬
‫دروازے پر دستک ہوئی تو وہ بری طرح چونکا اور‬
‫اٹھ کر دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا۔‬

‫‪427‬‬
‫"ارے بابا سائیں! آپ نے کیوں تکلیف کی مجھے بال‬
‫لیتے۔"‬
‫وہ شرمندہ ہوا کہ ہر رات سونے سے پہلے وہ اپنے‬
‫بابا سائیں کے پاس کچھ وقت گزرتا تھا۔‬
‫"کوئی بات نہیں سردار‪ !....‬تھکے ہوئے ہو گے اسی‬
‫لیے خود ہی آ گیا۔بیٹھو بھئی کھڑے کیوں ہو۔" وہ بیڈ‬
‫پر بیٹھ چکے تھے۔‬
‫"پاؤں اوپر کر لیں۔" دالور خان نے جھک کر ان کے‬
‫پیروں کو جوتوں سے آزاد کیا۔‬
‫"نجانے خان کی پرورش میں ہم سے کہاں بھول ہو‬
‫گئی‪.....‬اسے ذرا بھی اپنوں کا ‪،‬بڑوں کا ‪،‬رشتوں کا‬
‫خیال نہیں۔نہ ہی وہ کسی کی عزت کرتا ہے۔" وہ پاؤں‬
‫بیڈ پر رکھتے ہوئے افسردگی سے بولے۔‬
‫"بابا سائیں! اسے خیال بھی ہے اور وہ عزت بھی‬
‫سب کی کرتا ہے‪.......‬بس اس کے عمل میں فرق ہے‬
‫وہ جتاتا نہیں۔" وہ ان کے پیروں کے قریب پڑی خالی‬
‫جگہ پر ٹک گیا۔‬

‫‪428‬‬
‫"نہیں سردار‪....‬وہ شروع سے ہی ایسا تھا اور اس‬
‫لڑکی کی موت کے بعد تو بلکل ہی ہاتھ سے نکل‬
‫گیا۔خیر چھوڑو ہم کیوں اس کو لے کر بات کر رہے‬
‫ہیں‪ ".....‬انہوں نے بات بدلی۔‬
‫"تمہاری پھپھو جان آئی ہوئی ہیں‪ ،‬کل مل لینا ان‬
‫سے‪ ".....‬انہوں نے کہا تو سردار دالور خان کی دنیا‬
‫گھوم کر رہ گئی۔‬
‫اسے ماں سے کی بات یاد آ گئی۔‬
‫"گل پنار تمہاری بچپن کی منگ ہے سردار! اور شکر‬
‫ہے تم شادی کے لیے جلد مان گئے‪.....‬وگرنہ خان نے‬
‫تو خاندان کی لڑکی کو انکار کر کے ہماری ناک ہی‬
‫کٹوا دی‪....‬اور ہمارے دشمنوں کو بھی باتیں کرنے کا‬
‫موقع فراہم کیا خاندان الگ باتیں بناتا ہے۔" وہ کچھ‬
‫کہنے ہی واال تھا کہ بابا سائیں پھر سے بولے اور‬
‫اس کے منہ پر تالے لگ گئے۔‬
‫"ایک ماہ بعد کی ڈیٹ فیکس کر دی ہے‪ ،‬تب تک‬
‫تمہارا بھائی بھی ٹھیک ہو جائے گا‪.....‬اب بالنا تو پڑنا‬
‫ہے اسے بھی۔" وہ بولتے جا رہے تھے اور سردار‬

‫‪429‬‬
‫دالور خان محض جھکا سر اثبات میں ہال رہا تھا‪.....‬‬
‫کیونکہ اب کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا۔‬
‫صبح اگر وہ ماں سے کہہ دیتا کہ اسے ابھی شادی‬
‫نہیں کرنی تو شاید کچھ ہو سکتا تھا‪.....‬مگر کیا؟‬
‫بچپن کی منگنی تو ختم نہ ہوتی؟‬
‫وہ لڑکی جو بچپن سے ہی اس کے خواب سجائے‬
‫بیٹھی تھی اس کا کیا؟‬
‫بابا سائیں کب واپس گئے اسے علم نہیں ہوا۔‬
‫"ایک ماہ‪ ".....‬بےچینی سے کنپٹی مسلی گئی۔‬
‫" بھول جاؤ سردار دالور خان! کہ تم نے کسی لڑکی‬
‫سے پہلی نظر میں ہی محبت کی ہے۔ بس بھول‬
‫جاؤ‪.....‬یاد رکھو تو اتنا کہ تم ایک سردار ہو جس کی‬
‫زبان اور عزت ہی سب کچھ ہے۔تمہارے ہاں مینگنیاں‬
‫نہیں توڑیں جاتیں نہ ہی طالقیں ہوتی ہیں۔" وہ تیزی‬
‫سے سگار سلگا کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔‬
‫اس کی کھڑکی سے دور دور تک روشن ہوئی الئٹیں‬
‫دکھائی دے رہی تھیں۔‬

‫‪430‬‬
‫"مگر اس بےچینی کا کیا کروں؟ کیا کروں اس دل کا‬
‫جو اسے دیکھتے ہی چاروں خانے چت ہو گیا؟"‬
‫وہ سوچتے ہوئے یوں ہی دور تک نگاہیں دوڑا رہا‬
‫تھا۔‬
‫"شازار‪ !....‬ہاں اس سے بات کرنی چاہیے۔" وہ تیزی‬
‫سے پلٹا اور چادر اٹھا کر شانوں پر اوڑھتے ہوئے‬
‫کمرے سے نکل گیا۔‬
‫وہ بہت ہی احتیاط سے ادھر اُدھر دیکھتا آگے بڑھ رہا‬
‫تھا کہ بےدھیانی کی بدولت کسی سے ٹکرایا۔‬
‫وہ لڑکی خوف زدہ سی ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی۔‬
‫"معافی چاہتا ہوں میں نے دھیان نہیں دیا۔" وہ کہہ کر‬
‫ایک نگاہ بھی اس لڑکی پر ڈالے بنا آگے بڑھ گیا۔‬
‫وہ جسے مالزمہ سمجھ رہا تھا وہ گل پنار تھی جو اب‬
‫اپنا گھونگھٹ اٹھا کر اسے مسکراتی آنکھوں سے‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬
‫کزنز کی کھی کھی پر وہ پلٹ کر ان کی جانب دیکھنے‬
‫لگی۔‬

‫‪431‬‬
‫وہ سب قہقہے لگا کر ہنس دیں تو وہ جھنپ کر سر‬
‫جھکا گئی۔‬
‫"کیسے لگے ہمارے بھائی جان؟" نازش نے شوخی‬
‫بگاڑی۔‬
‫"دیکھا ہی کہاں یار! وہ جب سامنے ہوتے ہیں تو نگاہ‬
‫اٹھانا دشوار ہوتا ہے پھر کہاں گھونگھٹ اٹھانے کی‬
‫بات کر رہی ہو۔" وہ افسردہ سی ہو کر منہ لٹکائے‬
‫بولی۔‬
‫"لو جی۔ یعنی تم ہمارے بھیا کو دیکھے بنا ہی محبت‬
‫کرتی ہو؟" سیرت نے حیرانگی سے استفسار کیا۔‬
‫"ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالی ہے محض ایک دو‬
‫مرتبہ ہی ان کی جھلک دیکھی ہے۔ باقی تو بس نام ہی‬
‫کافی ہے۔" وہ معصومیت سے بولی تو۔‬
‫بانو چاچی کو اس پر ڈھیر سارا پیار آیا۔‬
‫"کوئی بات نہیں چندہ۔ایک مہینہ رہتا ہے پھر جی بھر‬
‫کر دیکھ لینا۔" انہوں نے کہا تو وہ شرما کر ہاتھوں‬
‫میں منہ چھپا گئی۔‬
‫وہ سب ہنس دیں تھیں۔‬

‫‪432‬‬
‫وہ دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے جب ڈور‬
‫بیل ہوئی تو ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫"اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" شاہزیب اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫دروازہ کھولتے ہی دالور خان کو اس وقت سامنے‬
‫دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے حیران ہوا۔‬
‫"اسالم علیکم! کیسے ہو خانزادے؟" وہ اندر آ گیا تھا۔‬
‫ّٰللا کا شکر ہے تم کیسے ہو؟"‬
‫"و علیکم السالم! ہ‬
‫دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ چلتے ہوئے وہ بوال۔‬
‫" میں بھی ٹھیک ہی ہوں۔"‬
‫"کون ہے شاہ؟" شازار بولتے ہوئے کمرے سے نکل‬
‫آیا تھا۔‬
‫"ارے الال‪ !....‬آپ یہاں؟" وہ خوشی سے مسکرایا۔‬
‫"کیوں بھئی میں نہیں آ سکتا کیا؟" وہ آگے بڑھ کر‬
‫اسے گلے لگانے لگا تو اس کے زخم یاد آئے تبھی‬
‫ہاتھ مالتے ہوئے بوال۔‬

‫‪433‬‬
‫"نہیں نہیں میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ مجھے لگا‬
‫شاید بابا سائیں نے آپ پر پہرے لگائے ہوں۔"‬
‫"پہرے تو لگے ہوئے تھے مگر میں چھپ کر آیا‬
‫ہوں۔" اس نے مزاحیہ خیز انداز میں کہا۔ تو وہ دونوں‬
‫ہنس دیئے۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ آگ دانی کے‬
‫قریب بیچھے قالین پر رکھے کشنز اور درمیان میں‬
‫پڑے ڈارئی فروٹس اور چائے پر پڑی۔‬
‫"یہاں تو موسم انجوائے ہو رہا تھا۔" وہ مسکرا کر‬
‫بوال۔‬
‫"بس نیند نہیں آ رہی تھی تو ہم بیٹھ کر گپیں ہانکنے‬
‫لگے۔ آ جائیں آپ بھی۔" شازار نے کہا اور اپنی جگہ‬
‫پر جا بیٹھا۔‬
‫وہ دونوں بھی جگہ سنبھال کر بیٹھ گئے۔‬
‫"پریشان کیوں ہیں الال؟" وہ دونوں بات کر رہے تھے‬
‫مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا‪....‬ہاتھ میں پکڑا چائے‬
‫کا کپ بھی اب ٹھنڈا ہو گیا تھا۔‬
‫تبھی شازار نے پوچھا۔‬

‫‪434‬‬
‫"پھپھو جان آئی ہوئی ہیں شازار! میری اور گل کی‬
‫شادی کی‪ ".....‬وہ بات اُدھوری چھوڑ کر ان دونوں کی‬
‫جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"شادی کی ڈیٹ فیکس ہو گئی ہے۔" اس نے جیسے‬
‫ہی بات مکمل کی ان دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ‬
‫بکھر گئی۔‬
‫"تم خوش نہیں ہو دالور خان؟" شاہزیب نے اس کے‬
‫چہرے کی اداسی بھانپتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"مجھے ان دونوں سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے‪.....‬‬
‫شازار بہت جذباتی ہے کہیں حویلی میں جا کر کوئی‬
‫ہنگامہ برپا نہ کر دے۔"‬
‫وہ سوچتے ہوئے لب بھینچ گیا۔‬
‫"ہاں الال‪ ...‬آپ کے چہرے پر یہ اداسی کیسی؟" شازار‬
‫نے بھی فکرمندی سے کہا۔‬
‫"ارے یار تم دونوں کیا پوچھنے لگے۔ مجھے کیا پتہ‬
‫شادی کی بات پر خوش کیسے ہوتے ہیں‪.....‬میری تو‬
‫پہلی مرتبہ شادی ہو رہی ہے نا۔" وہ ہنستے ہوئے‬

‫‪435‬‬
‫ہلکے پھلکے انداز میں بوال تو ان کا قہقہہ بھی کمرے‬
‫میں گونجا۔‬
‫"اچھا سنو‪ .....‬بابا سائیں تم دونوں کو لینے آئیں تو‬
‫کوئی گڑبڑ مت کرنا۔سمجھے؟" اس نے کہا تو شازار‬
‫تو سر ہال گیا جب کہ شاہزیب یوں ظاہر کرنے لگا‬
‫جیسے اس سے کچھ نہ کہا ہو۔‬
‫"میں نے تم سے بھی کہا ہے خانزادے!"‬
‫"ہوں‪ ،‬ٹھیک ہے‪.....‬مگر میں تو محض کچھ دنوں کا‬
‫مہمان ہوں یہاں۔ تم اپنی شادی کا کارڈ بھیجنا میں‬
‫ضرور آؤں گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو دالور‬
‫خان مزید کچھ کہہ نہیں سکا۔‬

‫تیری دوری مجھے جینے نہیں دیتی‬


‫قربت بھی تو سانس لینے نہیں دیتی‬

‫‪436‬‬
‫"ہیلو یوسف رضا بات کر رہے ہیں؟" اس نے‬
‫یونیورسٹی سے آتے ہی مسز رضا کے دیئے نمبر پر‬
‫کال کی تھی۔‬
‫"جی بول رہا ہوں۔ آپ کون؟"‬
‫"آپ سے ملنا تھا‪ ،‬ایکچلی میں نے آپ کی والدہ سے‬
‫آپ کا نمبر لیا ہے۔"‬
‫"اوہ تو آپ وہ ہیں جو کل ہمارے گھر آئی تھیں؟"‬
‫"جی‪ ،‬ایکچلی مجھے شازار کے متعلق کچھ بات کرنی‬
‫ہے؟"‬
‫"شازار کے متعلق؟ آپ ہیں کون؟" یوسف کو حیرانگی‬
‫ہوئی۔‬
‫"دیکھیں یہ تو میں آپ کو مل کر ہی سمجھا سکوں‬
‫گی۔ آپ کراچی سے کب تک واپس آ رہے ہیں؟"‬
‫"میں کل ہی آیا ہوں۔کچھ دنوں تک چال جاؤں گا۔"‬
‫"تو کیا آج ہم مل سکتے ہیں؟ اگر آپ فری ہیں‬
‫تو‪ ".....‬اس نے تیزی سے استفسار کیا۔‬

‫‪437‬‬
‫"اوکے۔میں لوکیشن بھیجتا ہوں۔" اس نے کہا تو وہ‬
‫مسکرا دی۔‬
‫"تھینک یو سو مچ۔" اس نے کہا اور کال کاٹ دی۔‬
‫ایک گھنٹہ بعد وہ کیفے میں اس کے سامنے بیٹھی‬
‫تھی۔‬
‫"جی‪ ،‬کیا پوچھنا چاہتی ہیں شازار کے متعلق؟" کافی‬
‫کا آرڈر دیتے ہوئے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫"اس کے پاسٹ کے متعلق‪.....‬وہ جس لڑکی سے‬
‫محبت کرتا تھا وہ کہاں ہے؟"‬
‫"مجھے کچھ ایک دو مہینے پہلے ہی شازار کی کال‬
‫آئی تھی اس نے کہا تھا کہ کوئی لڑکی میرے متعلق‬
‫پوچھنے آئے گی اور تم اسے میرے متعلق سب کچھ‬
‫بتا دینا۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫حور لب بھینچ کر ایک لمحہ خاموش ہوئی۔‬
‫"اگر اسے معلوم ہے کہ میں اس سے بہت محبت‬
‫کرتی ہوں‪....‬پھر اس نے مجھے ٹھکرا کیوں دیا؟"‬
‫حلق میں کانٹے چبھے تھے۔‬

‫‪438‬‬
‫"کیونکہ وہ کسی کو خوش فہمی میں نہیں رکھتا۔ اور‬
‫وہ طیبہ کے بعد کسی سے محبت بھی نہیں کر سکتا۔"‬
‫یوسف کی بات پر وہ خاموش ہو گئی۔‬
‫"ایسا کیا تھا اس لڑکی میں جو وہ اسے بھول کر آگے‬
‫نہیں بڑھ سکتا؟" اس کے لہجے میں غصہ جھلکا تھا۔‬
‫یوسف مسکرا دیا۔‬
‫"میں آپ کو طیبہ اور شازار کی کہانی سناتا ہوں شاید‬
‫پھر آپ کے سارے سوالوں کو جواب مل جائیں۔"‬
‫اس کی بات پر وہ سر اثبات میں ہال کر رہ گئی۔‬
‫یوسف بولنے لگا تھا اور وہ سانسیں روکے سن رہی‬
‫تھی۔‬
‫***‬

‫‪439‬‬

You might also like