Professional Documents
Culture Documents
پاکستان کے دو صوبوں.....
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی دل موہ لینے والی الزوال
داستان
2
3
)(Part 1
دل کو کچھ اس طرح سے سکون دیتے ہیں
4
اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا وہ عزت کے پامال ہونے سے
ڈرتی ہے۔
"اگر میں مر گئی یا کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو کل ٹاپ
ٹرینڈ پر میں ہی ہوں گی۔ لوگ مجھے گالیاں دیں
گے .....بدکردار کہیں گے ....اندازہ لگائیں گے کہ
میں تنہا اس سنسنان جگہ کیا کررہی تھی؟ کچھ
مجھے بدچلن کہیں گے".....
اس کی آنکھوں میں بےشمار آنسو بھر گئے تھے۔
اس نے پورے چاند کی روشنی میں دور دور تک
نگاہیں دوڑائیں .....ویراں بیاباں......اس کا ڈر مزید
بڑھا تھا۔
سردیوں کی ٹھنڈی شام اس وقت اس
5
کے لیے بھیانک شب تھی۔
اسی وقت اس کی نظر دائیں جانب سے قریب تر آتی
روشنی پر پڑی۔
ّٰللا میری مدد کر.....میں مصیبت میں ہوں ،مجھے
"یا ہ
اس مصیبت سے نکال۔"
وہ آنسو رگڑتے ہوئے دعاگو تھی......جیسے روشنی
نزدیک آتی گئی اس کے دل کی دھڑکنیں ڈر کے مارے
مزید بڑھتی گئیں اور چہرہ دہکنے لگا۔
اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور تیزی سے
اٹھی کر سڑک پر جا رکی۔
ہاتھ میں پکڑے الل سٹالر کو ہالتے ہوئے وہ مدد
مانگ رہی تھی۔
"ٹ ٹرک "......جیسے ہی روشنی النے والی گاڑی
واضح ہوئی وہ وحشت سے آنکھیں پھیالئے تیزی
سے سڑک سے اتر گئی۔
ٹرک اس سے کچھ فاصلے پر جا کر رک چکا تھا۔
6
"استاد! روک کیوں دیا ابھی سڑک پر چڑیل دیکھی
تھی نا.....سٹارٹ کرو گڈی نہیں تو وہ چمٹ جائے
گی۔"
ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے لڑکے نے ٹرک رکنے پر
خفگی سے کہا۔
"ارے نہیں رے وہ لڑکی تھی ......چلو چل کر
پوچھتے ہیں اس ویراں جگہ کیا کر رہی ہے۔" اس کا
استاد ٹرک کا دروازہ دھکیل کر چھالنگ لگا کے اتر
چکا تھا۔
"میں تو نہیں جا رہا استاد ،آپ ہی جائیں۔" وہ ڈر کر
بوال اور ایک نظر اپنے استاد پر ڈالی جو سیاہ کرتہ
پاجامہ پر براؤن رنگ کی لیدر کی جیکٹ زیب تن کیے
اور چہرے پر مفرل کچھ اس طرح لپیٹے ہوئے تھا کہ
پورا منہ کور تھا بس اس کی آنکھیں ہی نظر آ رہی
تھیں۔
"ڈرپوک کہیں کا۔" وہ اسے کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
"ایکسکیوز می میڈم جی!"
7
وہ اس کے قریب جا کر نہایت مودبانہ انداز میں بوال
تھا اور وہ ڈر کر پیچھے کو اچھلی۔
"کیا پریشانی ہے؟ اس وقت آپ اس ویراں جگہ کیا کر
رہی ہیں؟"
"استاد جی! اگر چڑیل باجی کے ساتھ گفتگو ہو گئی ہو
تو آ جائیں پلیج(پلیز)۔" عاصم نے آواز لگائی۔
"چپ کر عاصم!.....میڈم جی آپ کو کہاں جانا ہے؟"
وہ پھر سے اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"م مجھے گڑھ موڑ جانا ہے۔" وہ گھبرائے ہوئے
انداز میں بولی۔
"میڈم جی ہم لوگ بھی اسی طرح جا رہے ہیں۔
دیکھیں اس وقت آپ کا یہاں کھڑے ہونا خطرے سے
خالی نہیں ہے۔مہربانی کر کے آپ ہمارے ساتھ چلیں
ہم آپ کو بحفاظت آپ کی منزل تک پہنچا دیں گے۔" وہ
اس شخص کو تو نہیں دیکھ پا رہی تھی محض اس کی
من کو موہ لینے والے آواز سن پا رہی تھی۔
آواز سے وہ کوئی غنڈہ موالی ٹائپ لگ نہیں رہا تھا۔
8
مگر ایک ٹرک ڈرائیور پر بھروسہ کرنا .....ٹھیک تھا
کیا؟
"و وعدہ کرو کہ ت تم مجھے میری منزل پر بحفاظت
پ پہنچاؤ گے۔"
"ٹھیک ہے میڈم جی! وعدہ رہا.....اور شازار جو
وعدہ کرتا ہے اسے وفا بھی کرتا ہے۔" وہ اس کی
بات پر مبہم سا مسکرا کر بوال۔
وہ اس کے پیچھے چل دی۔
ّٰللا میری حفاظت کرنا۔"
"یا ہ
"کہیں میں نے اس ٹرک ڈرائیور پر یقین کر کے غلط
تو نہیں کیا؟ ان لوگوں کے متعلق تو ویسے بھی اتنی
بری بری باتیں سننے کو ملتی ہیں۔"
وہ ہاتھوں کو مسلتی ہوئی سوچ رہی تھی۔
"عاصم! نیچے اتر۔" شازار نے اس کی جانب واال
دروازہ کھو کر کہا۔
"کیوں کیوں ،مجھے کیوں قربانی کا بکرا بنا رہے
ہیں۔ مان جا استاد یہ پکی چڑیل ہے۔"
9
"بکو مت نیچے اترو۔" وہ کرختگی سے بوال تو عاصم
منہ بسورتا نیچے اتر آیا۔
"میڈم جی !....پیچھلی سیٹ پر بیٹھیں گیں یا اس سیٹ
پر؟"
"واہ واہ پوچھ لے استاد پوچھ لے....اس نے تمہیں
اور مجھے کھانے سے پہلے یہ بھی نہیں پوچھنا کہ
پہلے کسے کھاؤں۔" عاصم کی زبان پر پھر سے
کھجلی ہوئی تھی۔
"چلو اچھا ہے ایک تو چڑیل سمجھ کر ڈر رہا ہے
دوسرا ویسے بھوال بھاال لگ رہا ہے۔"
وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرا دی۔
"میں آگے بیٹھ جاؤں گی۔" وہ سنجیدگی سے گویا
ہوئی۔
"ٹھیک ہے میڈم جی۔ چل عاصم! پیچھلی سیٹ پر چال
جا۔"
وہ کہہ کر خود ٹرک کے سامنے سے گزر کر
ڈرائیونگ سیٹ پر چڑھ گیا۔
بیٹھتے ہی اس نے الئٹیں ساری روشن کر دی تھیں۔
10
"مڈم جی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا ہی ٹرک
سمجھیں۔" وہ اب ٹرک اسٹارٹ کر چکا تھا۔
حوریہ رائے کے دل میں ڈر ابھی بھی تھا وہ جتنا کچھ
بھی آتا تھا پڑھ کر خود پر پھونکنے لگی۔
یکدم ہی اسے نیند نے اپنی آغوش میں لینا چاہ مگر
وہ تیزی سے آنکھیں کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔
"مجھے سونا نہیں چاہیے.....تو کیا کروں خاموش
رہی تو نیند آئے گی ،ایک تو یہ ٹرکوں والوں کے
پاس عطاء ہللا خان کے گانے ہوتے ہیں وہ بھی نہیں
چلوا سکتی اور کیا کروں کہ آنکھ نہ لگے؟" وہ
انگلیاں پٹختی سوچنے لگی۔
"جب باتیں کروں گی تو نیند نہیں آئے گی۔" وہ سوچ
کر مسکرائی اور ڈرائیور کی جانب متوجہ ہوئی۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" اس نے نہایت تمیز کا مظاہرہ
کرتے ہوئے پوچھا .....حاالنکہ اتنی تمیز اس کے
قریب سے گزری بھی نہیں تھی۔
"جی ،میرا نام شازار ہے۔"
11
"میرا نام حوریہ رائے ہے۔" وہ اس کے پوچھے بغیر
ہی بولی۔
"اچھا جی۔" وہ اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔
"دیکھیں شازار جی!.....میں جب تک باتیں نہ کروں
میرا سفر اچھا نہیں گزرتا اور میں سونے کے موڈ
میں ہرگز نہیں ہوں۔" چند پل کی خاموشی کے بعد وہ
جھنجالئے ہوئے انداز میں بولی۔
"باتیں نہیں کرتا ہمارا استاد یہ ہی تو مسئلہ
ہے.....اور میڈم جی اوپر سے ظلم یہ کہ ٹرک میں
گانے بھی نہیں بجنے دیتا۔" عاصم جو پیچھلی سیٹ پر
لیٹ چکا تھا موندی آنکھوں سے بوال۔
"کیوں باتیں کیوں نہیں کرتے آپ؟" وہ اس کے
اسٹیرنگ پر مضبوطی سے جمے سرخ و سفید ہاتھوں
کو دیکھتے ہوئے استفسار کر رہی تھی۔
"بس ویسے ہی بےتکا بولنے کو دل ہی نہیں کرتا
جی۔" وہ کھوئے کھوئے انداز میں بوال۔
حوریہ سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"آپ بتائیں آپ اتنی رات کو وہاں کیا کر رہی تھیں؟"
12
"میں دراصل اسالم آباد میں زیر تعلیم ہوں.....ویک
اینڈ پر گھر آ رہی تھی .....یہاں آ کر بس کا ٹائر پینچر
ہو گیا ،میں باقی چند مسافروں کے ساتھ نیچے اتری
اور اتنے میں مما کی کال آ گئی وہاں سگنل نہیں آ
رہے تھے تو میں ذرا آگے نکل گئی کہ شاید سگنل مل
جائیں مگر سگنلز تو نہیں ملے البتہ میری بس چل
پڑی پیچھے دوڑی بھی مگر کوئی فایدہ نہیں ہوا۔" اس
نے افسردگی سے خود پر بیتی سنائی۔
"آپ کیا پڑھائی کرتی ہیں میڈم جی؟" عاصم نے
استفسار کیا۔
"میں بی ایس فزکس کر رہی ہوں۔ چوتھا سمیسٹر ہے
میرا ابھی۔ ان دو سالوں میں پہلی مرتبہ میرے ساتھ
ایسا واقع ہوا ہے ".....وہ مسکرا کر بولی۔
"آپ کو خیال رکھنا چاہیے تھا میڈم جی! آج کل کا دور
نہیں ہے تنہا سفر کرنے واال۔" وہ نہایت ہی
سمجھداری سے گویا ہوا۔
"پتہ نہیں یہ شخص واقع ہی اتنا اچھا ہے یا بننے کی
کوشش کر رہا ہے؟" وہ اس پر نگاہیں جمائے سوچ
رہی تھی۔
13
"میڈم جی پریشان نہیں ہوں۔ کیونکہ سفر بہت لمبا ہے
آپ ٹرک میں نہیں کر سکیں گیں نا اسی لیے الہور
سے آپ کو بس میں بیٹھا دوں گا۔"
وہ حوریہ کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے بوال تو وہ
ایک مرتبہ پھر چونکی تھی۔
"استاد! بھوک لگ گئی ہے۔ کھانے کا ڈبہ اٹھا کر
دینا ".....عاصم سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"خود اٹھا لو نا۔" وہ پوری توجہ روڈ پر دیئے ہوئے
تھا رات کا وقت تھا اور اوپر سے دھند بڑھ رہی تھی۔
"استاد! باجی کے سامنے سے کیسے اٹھاؤں؟"
وہ کوفت سے بوال۔
حوریہ نے تیزی سے ہاتھ ڈیش بورڈ کی جانب بڑھایا
ٹھیک اسی وقت ہی شازار نے بھی بڑھایا تھا۔ اچانک
سے شازار کا گرم ہاتھ جب اس کے سرد ہاتھ سے
ٹکرایا تو اسے لگا جیسے ہاتھ کو کرنٹ لگا ہو اس
نے بےحد تیزی سے ہاتھ کھینچا تھا ِجسے شازار نے
محسوس نہیں کیا۔
14
"استاد! آپ بھی کھا لیں۔صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ
نے۔" عاصم نے جیسے ہی نوالہ توڑا تو منہ میں
ڈالنے سے پہلے بوال۔
"توں کھا مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ سنجیدگی سے
گویا ہوا۔
"نوید کا غصہ کھانے پر کیوں اتار رہا ہے؟ چل ٹرک
سائیڈ پر لگا تمہیں اماں کی قسم۔" وہ تیزی سے بوال۔
"عاصم! بندہ بن۔" وہ دانتوں پہ دانت جمائے غرایا۔
"باجی! آپ کہیں نا۔" وہ منمنایا۔
"شازار جی کھا لیں کھانا۔ اپنی صحت سے بڑھ کر اور
کچھ نہیں ہوتا۔" وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بولی۔
شازار نے ذرا سی گردن گھما کر محض ایک لمحے
کو اس کی جانب دیکھا اور پھر سے سامنے دیکھنے
لگا۔
"تھوڑا آگے چل کر روکتے ہیں۔یہاں نزدیک ہی پولیس
کی چوکی ہے آ دھمکی تو آپ کو چھپانا پڑے گا اور
وہ مجھے معلوم نہیں کہ کہاں".....
وہ شانے آچکاتے ہوئے بوال۔
15
حوریہ خاموش ہو گئی۔
کافی آگے جا کر اس نے ٹرک کی رفتار بہت دھیمی کر
دی تھی اور پھر سڑک سے اتار کر بریک لگا دی۔
وہ اپنے چہرے پر سے مفرل اتار کر اب چہرے کو
صاف کر رہا تھا۔
حوریہ نے گردن گھما کر محض ایک نگاہ اس پر ڈالی
تھی ایک پل کو تو وہ نظریں جھکانا ہی بھول گئی.....
سفید چہرے پر ہلکی ہلکی بیئرڈ کیا خوب جچ رہی
تھی ،عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے وہ پیشانی پر
بکھرے ڈارک براؤن بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے
انہیں پیچھے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ٹرک ڈرائیور اتنے ہینڈسم اور چارمنگ بھی ہوتے
ہیں اس نے کبھی نہ سوچا تھا نہ سنا تھا۔
وہ تیزی سے سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو آپس میں
رگڑنے لگی۔
"میڈم جی آپ بھی کھانا کھائیں نا۔" شازار نے کہا تو
وہ بری طرح چونکی۔
16
"نہیں نہیں۔ میں راستے میں کچھ بھی کھا نہیں
سکتی ،سوری۔" اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
شازار نے ایک نگاہ اس کے کانپتے ہونٹوں پر ڈالی
اور پھر ہاتھ بڑھا کر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب والی
چھوٹی سی جو باری کھلی تھی بند کر دی۔
"اگر آپ چاہیں تو میری یہ چادر آپ لے لیں میڈم
جی!"
"ارے نہیں نہیں شازار جی! اس کی ضرورت نہیں
ہے۔"
حوریہ نے اپنے ہاتھوں کو جیکٹ میں چھپا لیا۔
شازار وہاں سے پیچھلی سیٹ پر جا چکا تھا۔
خاموشی پھر سے چھا گئی تھی۔ اس نے مرر میں ان
دونوں کو دیکھا کہ اگر کہیں وہ اسے لے کر آنکھوں
میں کچھ باتیں کریں یا کوئی اشارہ کریں تو وہ ابھی
اتر کر بھاگ جائے مگر وہ دونوں خاموشی سے کھانا
کھا رہے تھے۔
حوریہ کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر شازار پر جا رک
رہی تھیں۔
17
"یہ شخص شکل سے تو ٹرک ڈرائیور نہیں لگتا۔ اور
عمر بھی اتنی نہیں ہے ان دونوں کی.....ہائے پر یہ
مجبوریاں کہاں عمر دیکھتی ہیں۔" اس نے سوچ کر
سر جھٹکا اور ٹھنڈی آہ بھر کر سر جھکا لیا۔
"سردار سائیں! ....سردار سائیں "!.....دروازے پر
زور زور سے دستک ہوئی تو وہ نیند سے ہڑبڑا کر
بیدار ہوئے تھے۔
"سردار سائیں! کھیتوں میں آگ لگ گئی ہے سردار
سائیں۔" اپنے نوکر کے رونے کی آواز اور اس کی
بات پر....ان کی نیلی آنکھوں میں جو نیند کی خماری
تھی وہ بہت تیزی سے غائب ہوئی تھی۔
کنگ سائز بیڈ پر سے چھالنگ لگا کر اترتے ہوئے وہ
دروازے کی سمت بڑھے۔
"بابا سائیں کیا ہوا؟" اپنے کمرے سے نکل کر وہ
جیسے ہی اپنے والد کے کمرے کی جانب بڑھے وہ
اسے سیڑھیاں اترتے دکھائی دیئے۔
"خدا جانے سردار پتر!.....چلو جلدی چلو .....کسانوں
کی محنت جل رہی ہے۔" انہوں نے تیز لہجے میں کہا۔
18
"آپ گاڑی میں آئیں میں بس ابھی پہنچ رہا ہوں
زمینوں پر۔"
وہ کہہ کر بھاگتے ہوئے اس اونچی دیواروں اور بڑے
بڑے دروازوں والی حویلی کے بھاری گیٹ کو عبور
کر گئے تھے۔
سردار حویلی جس چوٹی پر تھی وہاں سے پورا گاؤں
نظر آ رہا تھا اس نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں پھر
نگاہ دائیں جانب دور لگی آگ پر پڑی۔
وہ نگے پاؤں ہی پتھروں کو کاٹ کر بنائے راستے پر
دوڑ کھڑا ہوا۔
کچھ ہی دیر میں وہ وہاں پہنچ گیا تھا۔
ہر جانب آگ ہی آگ مچی ہوئی تھی۔
اس کی فصل کے ساتھ والی فصلوں میں بھی آگ پہنچ
چکی تھی۔
کسان رو پیٹ رہے تھے۔
"ہم برباد ہو گئے سردار سائیں! ہم لٹ گئے۔"
لوگ اسے دیکھتے ہی اس کی جانب بھاگے تھے۔
19
وہ دکھ میں چور چور نگاہوں کو فصلوں پر سے ہٹا
کر ان کسانوں پر ٹکا چکا تھا۔
"ہمت رکھیں۔میں آپ سب کے ساتھ ہوں ،مگر یہ آگ
لگی کیسے؟" اس نے ہمت سے کام لیا۔
تب تک سردار حامد خان بھی پہنچ گئے تھے۔
"سردار سائیں!.....ہمیں تو آگ آگ کی آواز پر جاگ
آئی تھی ،تب تک آدھی فصل جل کر راکھ ہو چکی تھی۔
"ہمیں بھی۔"
"ہمیں بھی۔"
سب کا جواب ایک ہی تھا۔
"یہ آگ اگر کسی کسان سے لگتی تو اسی وقت وہ
چالتا مگر......یہاں سے چینخنے کی آواز تب آئی جب
آدھی فصل جل کر راکھ ہو گئی تھی یعنی......یہ آگ
لگائی گئی ہے۔" وہ سوچنے والے انداز میں بول رہا
تھا۔
"کس نے کیا یہ؟ کیا کسی نے کسی انجان کو دیکھا؟"
اس کے لہجے میں بےحد سختی تھی۔
20
"سردار سائیں! حوصلے سے کام لیں۔ جو ہونا تھا ہو
چکا مگر اب ہمیں سب سے پہلے ان سب کسانوں کے
متعلق کچھ سوچنا ہے۔"
بابا سائیں کی بات پر وہ ضبط سے سر ہال گیا۔
"دیکھیں آپ سب فکر نہیں کریں۔ ہمارے قبیلے میں
کوئی تیرا میرا نہیں ہے ،یہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔
جس جس کی فصیلیں جل گئی ہیں ان سب کو ہماری
فصلوں سے اس سال کا اناج مل جائے گا۔کل ہی یہاں
پر دوبارہ سے زمین بنا کر موسمی فصل بیجیں گے۔"
اس نے بہت نرمی سے اپنے قبیلے کے لوگوں کی
پریشانی بہت حد تک کم کر دی تھی۔
"آپ لوگ اطمینان سے سو جائیں۔ کیا پتہ اس میں ہی
کوئی بہتری ہو۔" اس نے مبہم سی مسکراہٹ کے
ساتھ کہا۔
سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا۔
"بڑے سردار سائیں! .....آپ نے بہت ہی نیک انسان
کے ہاتھوں میں ہمیں سونپا ہے۔" ایک بزرگ نے
سردار حامد خان کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
21
ّٰللا آپ کو سالمت رکھے
"جیتے رہو سردار سائیں! ہ
اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔" بزرگ
نے آگے بڑھ کر سردار سائیں کے دودھ جیسے سپید
ہاتھوں کو تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔
"آمین۔" سب کے لبوں سے بےاختیار ہی نکال تھا۔
سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو وہ سردار
حامد کی جانب متوجہ ہوا۔
"بابا سائیں! گلریز خان نے یہ گھٹیا حرکت کر کے
اپنی بربادی کو دعوت دی ہے ،اور میں اسے ہرگز
نہیں بخشوں گا ،اس کی وجہ سے ہمارے لوگ روئے
ہیں.....میں اسے بھی اسی طرح رالؤں گا ۔ کل کی
روشنی اسے بھی صدمہ پہنچانے والی ہے۔"
اس نے پر عزم انداز میں کہا۔
سردار حامد خان اس کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر
خوف زدہ ہوئے تھے۔
"نہیں سردار! تم کچھ نہیں کرو گے۔ وقت آنے پر
ہم"......
22
"بابا سائیں! میرے قبیلے والوں کو اگر کچھ ہو جاتا
تو ،اگر آگ بڑھتی جاتی اور آس پاس کے گھروں تک
پہنچ جاتی تو؟" اس نے حیرانگی سے ان کی بات
کاٹتے ہوئے کہا۔
"میں مزید چپ نہیں رہوں گا .....اب اسے منہ توڑ
جواب دینا ہو گا.....وہ اس خاندان دشمنی کو ہمارے
گھرانے تک محدود رکھے نہ کہ میرے لوگوں کو
نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔" اس نے مزید کہا۔
"ٹھیک ہے سردار....جیسے تمہیں بہتر لگے کرو۔"
وہ اپنے پیروں سے جوتا اتار کر پلٹے۔
"بابا سائیں! ایسا نہیں کریں۔ آپ کے پیروں کو میں
تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔" اس نے تیزی سے ان کا
راستہ روکتے ہوئے کہا۔
"سردار سائیں! ہمارے قبیلے کے سردار ہیں آپ اور
ایک سردار کے پاؤں زخمی ہو گئے تو آپ چل نہیں
پائیں گئے.....ان سب کی آپ پر آنکھیں ٹکی رہتی ہیں
اتنے دلوں کی دھڑکن کو ہم بھال کیسے کوئی تکلیف
پہنچنے دے سکتے ہیں؟" وہ ان کی رخسار پر ہاتھ
رکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں بولے۔
23
"میں زخمی ہوں گا تو مجھے ان سب کے زخموں کا
احساس ہو گا۔
ایک بادشاہ کو تب تک اپنی رعایا کی تکلیفوں کا
احساس نہیں ہوتا جب تک وہ ان تکلیفوں کو خود پر
نہ جھیل لے۔" وہ ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے
لگاتا ان کی جانب دیکھنے لگے انہوں فخریہ انداز
میں سردار سائیں کا شانا تھپکا تو وہ پلٹ گئے۔
ان کا رخ کس جانب تھا؟ سردار حامد خان خوب واقف
تھے۔
باہر موسم شدید ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
اور اسے اب اپنی بیوقوفی پر غصہ آ رہا تھا۔
جینز پر سیاہ کرتہ اور اس پر جیکٹ پہن رکھی تھی
سر پر ٹوپی اور گلے میں مفرل لپیٹے وہ اب شدت
سے محسوس کر رہی تھی کہ اس کے پاس چادر ہونی
چاہیے تھی۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ شازار کی شال اوڑھ لے
مگر ایسے کیسے وہ اوڑھ لیتی؟
24
اس نے آج تک سگی بہن کا دوپٹہ تک نہیں لیا تھا کہ
اسے کسی کی استعمال شدہ چیزیں لینا اپنی شان کے
خالف لگتا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد اس نے پھر سے منہ پر مفرل
لپیٹ لیا تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔
اب حوریہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔
"شازار! الہور کتنا دور ہے؟"
وہ بار بار اس کی شال کو دیکھ رہی تھی مگر انا مان
نہیں رہی تھی کہ اس سے مانگے۔
"اگر دھند نہ بڑھی تو فجر تک پہنچ جائیں گے جی۔"
اس کی بات پر حوریہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"ٹائم کیا ہوا ہے؟"
"ایک بج گیا ہے باجی۔" عاصم نے گھڑی پر وقت
دیکھتے ہوئے بتایا۔
ّٰللا.....تین گھنٹے میں بنا سوئے کیسے گزاروں
"یا ہ
گی؟" وہ انگلیاں پٹخنے لگی۔
25
جیسے جیسے باہر سردی بڑھ رہی تھی ویسے ویسے
وہ بھی خود میں سمٹتی جا رہی تھی۔
"میڈم جی! پلیز شال لے لیں۔"
وہ اس کے کہنے پر ٹھٹھکی۔
وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا مگر پھر بھی وہ
اس کی کپکپی محسوس کر چکا تھا۔
"دراصل مجھے ٹھنڈ بہت زیادہ لگتی ہے ،ہڈیاں
دکھنے لگتی ہیں۔ میری کزنز مجھے چھیڑتی ہوتیں
ہیں کہ میں تو بوڑھی ہو گئی ہوں۔"
حوریہ اپنے بولنے کی عادت سے بھی کچھ مجبور
تھی اور کچھ نیند سے بچنا تھا۔
اس نے جیسے ہی شال اٹھائی ایک خوشبوؤں کا
جھونکا اس سے ٹکرایا تھا ،اس نے تیزی سے شال
واپس رکھ دی
شازار اسے کن اکھیوں سے دیکھ کر ڈرائیونگ کی
جانب متوجہ ہو گیا تھا۔
"شازار جی! آپ سٹڈی کرتے ہیں؟"
26
"نہ جی استاد نے تو پڑھ لیا ہوا۔" عاصم نے جواب
دیا۔
"کہاں تک؟"
"پتہ نہیں باجی! انہوں نے کیا کیا پڑھا ہوا ہے۔ استاد
بتاؤ نا باجی کو؟"
عاصم چہکتے ہوئے بوال۔
"کچھ بھی بکتا رہتا ہے۔ میڈم جی میں نے انٹر پاس
کیا ہوا۔ آگے پڑھنے کا دل ہی نہیں کیا۔" شازار نے
مفرل منہ پر سے اتار کر گلے میں لپیٹ لیا۔
"یہ تو غلط بات ہے نا شازار جی! تعلیم حاصل کرنی
چاہیے۔ اب ساری زندگی آپ نے ٹرک تھوڑی ہی چالنا
ہے۔ اچھے خاصے نوجوان ہو کوئی اچھی جاب کرو۔"
اس کی بات پر وہ مبہم سا مسکرایا۔
حوریہ نے اس کی رخسار میں پڑتے ڈمپل کو بہت
غور سے دیکھا تھا۔
"تمہارے بھی ڈمپل پڑتا ہے۔مجھے بھی پڑتا ہے۔"
27
وہ بچوں کی مانند خوش ہوتے ہوئے اسے بنانے
لگی۔
"باجی کہیں میرا استاد آپ کا جڑواں تو نہیں....جو
بچپن میں کسی میلے میں کھو گیا ہو؟" عاصم کے
کہنے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔
"میں تو لگا ہوں سونے ،تم لوگ کرو باتیں ،شب بخیر
استاد ،باجی۔" وہ پھر سے لیٹ کر اپنے اوپر کمبل
کھینچ گیا۔
"آپ ٹرک کیوں چالتے ہیں؟" چند لمحوں کی خاموشی
کے بعد اس نے شازار کی جانب دیکھتے ہوئے
استفسار کیا۔
"کیونکہ میں ٹرک ڈرائیور ہوں۔" وہ شانے آچکا کر
بوال۔
"اور آپ ٹرک ڈرائیور کیوں ہو؟"
"کیونکہ مجھے کچھ اور کام وام نہیں آتا۔"
وہ موڑ سے ٹرک موڑتے ہوئے بوال۔
"ویسے میڈم جی! آپ اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہیں
میرے کام میں؟ کہیں آپ بھی تو پڑھائی چھوڑ کر ٹرک
28
چالنے کے متعلق نہیں سوچ رہیں؟" اس نے مزاحیہ
خیز انداز میں کہا تو وہ ہنس دی۔
ّٰللا معاف کرے مجھے بدنام تھوڑی
"نہیں شازار جی! ہ
ہونا ہے۔"
"بدنام کیوں جی؟" وہ حیرانگی سے بوال۔
"آپ کو نہیں پتہ کہ لوگ ٹرک ڈرائیوروں کے متعلق
کیا کہتے ہیں بلکہ ہر ڈرائیور کے متعلق؟"
"نہیں جی....کیا کہتے ہیں؟" اس نے ناسمجھی سے
استفسار جیسے انجان ہو۔
"یہ ہی کہ وہ لوگ اچھے نہیں ہوتے.....برے ہوتے
ہیں اور بدتمیز بھی۔"
اب کی بار وہ ہنسا تھا۔
"سب ایک جیسے تھوڑی ہوتے ہیں میڈم جی.....پانچ
انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔" وہ نرمی سے بوال۔
"ہاں یہ تو ہے۔ آپ واقع ہی بہت اچھے ہو شازار
جی!" وہ سچے دل سے گویا ہوئی۔وہ عجیب سے
انداز میں مسکرایا تھا۔
29
اس کی مسکراہٹ میں نجانے کون سا راز دفن
تھا ......حوریہ سمجھ نہیں پائی۔
یہ پہاڑیاں اور پیڑ.....پودے ،بہتا جھرنا ،پرندے یہ
سب سردار سائیں کے دوست تھے۔
بچپن اس کا ان سب کے ساتھ گزرتا ہے....ہاں جوانی
فارن کنٹریز میں تعلیم حاصل کرتے گزارتی تھی مگر
اس کا دل کہیں نہیں لگا ،دنیا کا چپا چپا گھومنے کے
بعد وہ جب واپس لوٹا تو محض پچیس برس کا تھا
اور اس عمر میں ہی اسے اس نشست پر بیٹھا دیا گیا
جس پر بیٹھتے ہی اس کی زندگی بدل گئی وہ دالور
خان سے سردار کے عہدے پر فائز ہو گیا۔
اور اس نے بھی اس زمہ داری کو خوب نبھایا تھا۔
نگے پاؤں چلتے ہوئے وہ اپنے گاؤں سے نکال تھا
کوئی بیس بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک
دوسری چھوٹی سی بستی تھی۔
اس جگہ بسنے والے لوگ ان کے جانی دشمن تھے۔
گلریز خان ،سردار حامد خان کا دور کا رشتے دار
تھا ،اور کوئی انتہائی شاطر دماغ بندہ تھا......گلریز
30
خان کے چاروں صاحب زادے بھی باپ جیسی فطرت
کے مالک تھے۔
وہ لوگ کوئی موقع نہیں چھوڑتے تھے دونوں
خاندانوں میں چلتی برسوں کی دشمنی کو تازہ رکھنے
کی۔
اور سردار سائیں کبھی ادھار نہیں رکھتے تھے۔
اس نے ایک ڈنڈے پر جیب میں سے سفید رنگ کا
رومال نکال کر لپیٹا اور ابھی آگ لگانے ہی واال تھا کہ
اس نے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا تپتا لمس
محسوس کیا۔
وہ پھرتی سے ہاتھ تھام کر بےحد تیزی سے اس
شخص کو گھما کر زمین پر پٹخنے ہی واال تھا وہ
چالئی۔
"سردار سائیں!....میں آپ کی دشمن نہیں ہوں۔
چھوڑیں مجھے۔" لڑکی کی آواز پر وہ اس کا ہاتھ
چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہٹا۔
"کون ہو تم؟" وہ اپنی بھاری آواز میں سختی سے
بوال۔
31
"کہا نا آپ کی دشمن نہیں ہوں۔" وہ اس کے سامنے آ
کھڑی ہوئی تھی اور مدھم سی سریلی آواز میں بولی۔
"بہت خواہش تھی ہماری ،خان پور کے سردار کو
دیکھنے کی جس کے قصے پورے پختونخوا میں
مشہور ہیں ہم بھی انہیں دیکھنا چاہتے تھے۔" اس نے
ماچس کی تیلی کو جالیا اور دھیرے سے لمبی پلکوں
کی جھالر اٹھا کر جب سردار سائیں کی جانب دیکھا تو
پلکیں جھپکانا بھول گئی۔
کشیدہ پیشانی پر بےترتیب بکھرے شہید رنگ بال،
سحر بکھیرتیں نیلی آنکھیں جو کسی کو بھی قید
کرنے کی صالحیت رکھتی تھیں۔
عنابی بھرویں ہونٹ ،سپید چہرے پر چھوٹی چھوٹی
بیئرڈ کس قدر اسے مزید حسین بنا رہی تھی ،سفید
لباس میں ملبوس تھا اور نگے سفید پیروں پر جابجا
مٹی اور سبزے کی ہریالی وہ واضح دیکھ رہی تھی۔
"وہلل قیامت ہو تم سردار۔" اس کی سرگوشی جیسی
آواز پر سردار سائیں نے ایک تیکھی نگاہ اس حسینہ
پر ڈالی اور لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ اس پر
سے نگاہیں ہٹا چکا تھا۔
32
"آہ ".....تیلی پوری طرح جل کر راکھ ہونے کے ساتھ
اس کی انگلیاں بھی جالنے لگی تو وہ اس ساحر کے
سحر سے آزاد ہوئی۔
"ٹھیک کہتی ہے منہاج۔ خان پور کا سردار حسن کا
دیوتا ہے ،جو لڑکی بھی دیکھے دل ہار بیٹھے۔" وہ
مدھم سی آواز میں شاید اپنے دل کا حال بیان کر رہی
تھی۔
سردار سائیں اکتائے ہوئے انداز میں اس حسینہ پر
ایک بھی نگاہ ڈالے بنا جیسے ہی آگے بڑھا اس نے
بےاختیار ہی سردار سائیں کا ہاتھ تھام لیا۔
"سائیں! کچھ وقت ہمیں بھی دیجیے۔ آفٹر آل آپ کے
چاہنے والے ہیں۔" وہ بےقراریاں لہجے میں سموئے
مدہوشی کے عالم میں کہتی اس کے ہاتھ کی پشت پر
ابھی ہونٹ رکھنے ہی والی تھی کہ سردار سائیں نے
ہاتھ کھینچ لیا۔
"سنا تھا نادر پور کی لڑکیاں بےشرم ہوتی ہیں آج
دیکھ بھی لیا۔" اس نے تمسخر اڑانے والے انداز میں
کہا اور ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔
33
"سردار سائیں! اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا اور یہ
گستاخانہ بات کرتا تو ہم اسے جان سے مروا کر وہاں
دفن کرواتے جہاں سے اس کی الش بھی نہ ملتی مگر
آپ کو حق ہے کہہ سکتے ہو مجھے کچھ بھی.....
کیونکہ گلریز خان کی صاحبزادی آپ کو اپنا دل دے
چکی ہے۔ لوٹ لیا ہے آپ کی ان نشیلی نیلی آنکھوں
نے ہمیں۔" وہ پھر سے آگے بڑھی تھی اور بےچین
ہو کر اس کے سینے پر پیشانی ٹکاتی اس سے پہلے
ہی سردار سائیں نے اس کے بالوں کو مٹھی میں
دبوچ کر اسے پیچھے کو جھٹکا دیا۔
"خود کو کنٹرول میں رکھ لڑکی۔ یہ بےقراریاں کسی
اور پر لٹانا سردار دالور خان تمہیں اس گستاخی کی
اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ چلی جا یہاں سے نہیں تو جان
سے مار ڈالوں گا۔" وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے سرخ
ہو رہا تھا مگر وہ اطمینان سے مسکرا رہی تھی۔
"مار ڈالو قسم سے افف بھی نہیں کروں گی۔" ہاتھ
بڑھا کر اس کی رخسار چھوتے ہوئے وہ بہکی بہکی
آواز میں بولی تھی۔
34
سردار دالور خان اسے پیچھے کو دھکیل کر تیز قدم
اٹھاتے آگے بڑھ گئے۔
"رکو سردار سائیں! وہ آگ ہمارے بڑے بھائی نے
لگوائی تھی۔" اس کی بات پر وہ رکا مگر پلٹا نہیں۔
"یہ لو گودام کی چابیاں۔ ہم کب سے یہاں آپ کا انتظار
کر رہے تھے ،ہم جانتے تھے آپ بدلہ لینے ضرور
آئیں گے اور ہمیں آپ کا دیدار نصیب ہو گا۔" وہ اپنے
حنائی ہاتھ کو اس کے سامنے پھیلتے ہوئے بولی۔
دالور خان نے گردن گھما کر ایک نگاہ اس کی ہتھیلی
پر پڑی چابیاں دیکھیں۔
وہ لڑکی اپنے بھائی کو آگ لگوانے پر تلی تھی یا خود
کو......
سردار سائیں نے رخ پھیر لیا۔
"بہت شکریہ مگر مجھے اپنے کام میں مداخلت کرنے
والوں سے شدید نفرت ہے۔" وہ کہہ کر پہاڑی سے
اترنے لگا۔ اس نے ارادہ بدل لیا تھا کہ اب وہ کچھ اور
ہی کرے گا۔
35
"پھر ہم کب ملیں گے سردار؟" اس نے پکارا مگر وہ
بنا کوئی جواب دیئے ہاتھ میں تھامی لکڑی پرے
اچھالتا تیز رفتاری سے آگے بڑھ گیا۔
زرمینہ چاند کی روشنی میں اسے نگاہوں سے اوجھل
ہونے تک دیکھتی رہی پھر آگے بڑھی اور لکڑی پر
لپیٹے اس کے رومال کو اتار کر لکڑی پرے اچھالی
اور سفید رومال کو سونگھتے ہوئے پرسرو انداز میں
آنکھیں موند لیں۔
"سردار دالور خان! قیامت ہو تم ......آج مجھ پر گزر
گئے ہو۔ باخدا دل لوٹ لیا تم نے۔" وہ رومال ہونٹوں
سے لگا کر پلٹی اور اسے اپنے پلو کے تلے چھپا لیا۔
پھر تیزی سے اپنی حویلی کی جانب بڑھ گئی۔
"منہاج! او ری موئی۔" اپنے کمرے کی کھڑکی کے
باہر لگی سیڑھی چڑھ کر وہ جیسے ہی اوپر پہنچی
کھڑکی بند ہو چکی تھی۔
اس نے کھڑکی پر ہلکی سی دستک دی تو دوسرے ہی
پل اس کے بستر میں چھپ کر لیٹی منہاج نے تیزی
سے اٹھ کر کھڑکی کھول دی۔
36
"ہاتھ پکڑ۔" اس نے ہاتھ منہاج کی جانب بڑھایا۔
"آئے تھے کیا سردار سائیں؟" اس نے کھڑکی بند
کرتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
"ہاں منہاج! تو سچ کہتی ہے وہ حسن کا دیوتا ہے،
حسن کی ایسی مورت ہے جسے دیکھتے ہی بندہ
اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ کوئی بھی لڑکی اس
پر دل یوں ہی نہیں ہارتی...یوں ہی فدا نہیں ہوتی،
واقع ہی اس میں وہ بات ہے۔" وہ ان کے رومال کو
دیکھتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں کہہ رہی تھی۔
"تو کیا تم فدا ہو گئی ہو ان پر؟"
اس کے استفسار پہ زری محض مسکراتی رہی۔
" یہ ٹھیک نہیں ہے زری! وہ بڑے خان صاحب کا
دشمن ہے۔"
اس نے خفگی سے اس کی دیوانوں جیسی حالت
دیکھی۔
"اُسے دیکھ کر تو دنیا بھال دے بندہ ،پتہ نہیں ابا
حضور کو کیوں اس سے نفرت ہے ......حاالنکہ وہ
37
تو عشق کرنے کے لیے بنا ہے۔" اس کی آواز میں
محبت کا نشہ بول رہا تھا۔
اس کی بات پر منہاج سر پیٹ کر رہ گئی۔
"منہاج! میرا ایک کام کرے گی۔ پلیز ".......اس نے
کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے استفسار کیا۔
"کیا؟" وہ خوف زدہ تھی۔
"تمہاری خالہ سائیں کے ہاں مالزمت کرتی ہے نا؟"
"ہاں خان پور والی خالہ ان کے ہاں جوانی سے لے
کر اب تک کام کر رہی ہیں۔" وہ ناسمجھی سے اسے
دیکھتے ہوئے بولی۔
"کل بھیا لوگ اور ابا جان شہر جا رہے ہیں نا؟" وہ
چیت لیٹی سردار دالور خان کے رومال کو چہرے پر
ڈالے ہوئے تھی۔ بات اس سے کر رہی تھی مگر دھیان
اس شخص میں اٹکا تھا جو اس کے دل کی دنیا تحس
نحس کر گیا تھا۔ پلوں میں اپنا دیدار کروا کر اس کی
بینائی چھین لے گیا تھا۔
"ہاں۔ مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"
38
"ہم کل خان پور جا رہے ہیں۔" اس کی بات پر منہاج
کے سر پر ایٹم بم گرا تھا۔
"زری!.....تمہارا دماغ درست ہے....؟ ایسا ممکن
نہیں ،پاگل مت بنو۔" منہاج نے تیزی سے اسے ٹوکا۔
"پاگل ہی تو ہو گئی ہوں منہاج! میں اگر اسے نہ
دیکھوں گی تو مر جاؤں گی۔ پلیز میرا ساتھ دو۔" وہ
تیزی سے اٹھتے ہوئے التجاء آمیز لہجے میں بولی۔
بےبسی تھی کہ اس کے پورے وجود پر چھائی ہوئی
تھی۔
"نہیں زری! اگر بڑے خان صاحب کو علم ہو گیا تو وہ
ہمیں مار ڈالیں گے۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مجھے تم بس اپنی خالہ
کے پاس پہنچا دو ،باقی میں خود سنبھال لوں گی۔" وہ
بےچینی سے بولی۔
منہاج نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہالیا۔
وہ خوشی سے چینخ اٹھی۔
"ششش.....کوئی آ جائے گا۔" منہاج نے اسے خاموش
کروایا۔
39
"منہاج! کوئی اتنا ہینڈسم کیسے ہو سکتا ہے؟" وہ بیڈ
پر گرتی عجیب پاگل پن سے گویا ہوئی۔
منہاج مسکرا دی۔
"زرمینہ بی بی! ذرا سنبھل کر قدم رکھنا۔ " وہ بھی
اس کے ساتھ گر گئی۔
"جھلی عشق میں کون سنبھل کر قدم رکھتا ہے۔"
"صاحب لوگوں کو معلوم ہوا تو آپ کو جان سے مار
ڈالیں گے۔" منہاج نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
"اچھا مجھے اس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کیسا ہے؟"
"مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ وہ بہت رحم دل
شخص ہے ،بہت ہی نیک اور اچھی نیت کا مالک ہے،
اپنے قبیلے کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔"
"اب تو میرے دل کی دھڑکن بھی بن گیا ہے۔"
منہاج جانتی تھی اب ساری رات وہ نہ سوئے گی نہ
اسے سونے دے گی۔
اور ایسا ہی ہوا ساری رات سردار دالور خان نامہ چلتا
رہا۔
40
اور یہ دل عجیب سی خواہش کر رہا ہے
41
"چلیں میڈم جی؟" وہ مفرل گردن سے اتار کر سیٹ پر
رکھ کے چادر اٹھا کر نیچے اتر گیا۔
حوریہ اپنا بیگ اٹھا کر دروازہ کھولنے کی کوشش
کرنے لگی۔
وہ جو شال گلے میں لٹکا رہا تھا اس کی جدوجھد
دیکھ کر آگے بڑھا۔
اس کی جانب واال دروازہ کھول کر ایک جانب ہو گیا۔
"میں چلی جاؤں گی آپ کو اتنی تکلیف کرنے کی
ضرورت نہیں ہے۔"
"ارے میڈم جی! تکلیف کیسی۔ موسم دیکھیں....کتنی
دھند پڑ رہی ہے ،اوپر سے الہور کے حاالت بھی
ٹھیک نہیں ہیں۔" وہ سنجیدگی سے بوال۔
حور نے بیگ شانے پر لٹکایا اور جیکٹ کو دونوں
جانب سے کھینچ کر سینے پر بازو لپیٹ لیے۔ ٹرک
سے اترتے ہی اسے سردی کی شدت کا اندازہ ہو گیا
تھا۔
شازار نےاس کے کانپتے وجود کو ایک نظر دیکھ کر
تیزی سے اپنی چادر اتار کر اس کی جانب بڑھا دی۔
42
"تھینک یو سو مچ۔" اس نے بنا کسی بھی تکلف کے
تیزی سے شال تھام لی۔
"ایسا کرتے ہیں بس اسٹینڈ تک چنگچی رکشہ پر
جاتے ہیں ،آپ سردی سے بھی بچ جائیں گیں۔" روڈ
کے کنارے رکتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا
کچھ دیر بعد رکشہ ان کے قریب آ رکا۔
"چلیں بیٹھیں میڈم جی۔" وہ اسے راستہ دیتے ہوئے
بوال۔ حور تیزی سے آگے بڑھی اور خود میں سمٹ کر
بیٹھ گئی۔
وہ بھی درمیان میں کافی فاصلہ چھوڑ اِس کنارے پر
بیٹھا تھا۔
بس اسٹینڈ پہنچتے ہی وہ اسے ویٹنگ ایریا میں
چھوڑ کر خود ٹکٹ لینے پلٹ گیا۔
"ارے بیٹی کہاں جا رہی ہو؟ مائیکے یا سسرال؟"
وہ ابھی جا کر بیٹھی ہی تھی کہ سامنے کرسی پر
بیٹھی خاتون نے اس سے استفسار کیا۔
43
ماشاءّٰللا سوہنا تو بہت ہے۔" وہ اب
ہ "شوہر ہے تیرا؟
اسے چھیڑ رہی تھیں ،حور کی آنکھیں یہاں سے وہاں
تک پھیل گئیں۔
" آپ کو کیسے پتہ کہ وہ میرا شوہر ہے؟"
وہ آنکھیں سکوڑے بولی۔
"لو بھئی.....بال دھوپ میں سفید تھوڑی کیے
ہیں.....ارے یہ چادر تمہارے بندے کی ہے نا ،دیکھو
اتنی ٹھنڈ میں کوئی پرایا مرد تھوڑی اپنی چادر اتار
کر کسی کو دے گا ،خواہ کوئی کتنا بھی پیارا ہو اس
ٹھٹھرتی سردی میں سب سے پہلے خود کی کپکپی
نظر آتی ہے۔"
وہ کھی کھی کر کے ہنسیں اور وہ مضبوطی سے
اپنے گرد لپٹی چادر کو دیکھنے لگی۔
"توں قسمت والی ہے دھی (بیٹی) تجھے اچھا شوہر
مال ،وگرنہ آج کل کے دور میں اچھے لڑکے کہاں
ملتے ہیں.....جو عورت عزت اور محبت کرتے ہوں۔"
وہ بوجھل سانس بھر کر بولیں۔
44
اس کا وہاں بیٹھنا مشکل ہوا تو اٹھ کر تیزی سے وہاں
سے نکل گئی۔
"میڈم جی! ابھی بس نہیں ملے گی تقریبا ً گھنٹہ انتظار
کرنا پڑے گا۔" سیڑھیاں چڑھتے شازار نے اسے
سیڑھیاں اترتے دیکھ کہا۔وہ رکی نہیں تھی وہ خود
بھی اس کے پیچھے ہی پلٹا۔
"کیا ہوا میڈم جی؟" وہ فکرمندی سے اس کے ہوائیاں
اڑے چہرے کو دیکھتے ہوئے بوال۔
"ک کچھ نہیں .....آ آپ یہ شال لے لیں۔" وہ چادر
اترنے لگی تو اس نے تیزی سے حوریہ کا شال اتارتا
ہاتھ تھام کر روک دیا۔
"نہیں نہیں میڈم جی! سردی بہت ہے۔ چلیں آپ چل کر
انتظار کریں میں یہاں ہی ہوں۔"
وہ اسی تیزی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم
پیچھے ہٹا تو وہ اس کی جانب بنا پلکیں جھپکائے
دیکھتی رہی۔
"آپ یہاں سردی میں کیا کریں گے؟ چلیں وہاں ہی چل
کر بیٹھیں ،نہیں تو میں بھی یہاں ہی رہوں گی۔"
45
وہ ضدی انداز میں بولی۔
"چلیں۔" وہ اس کے ساتھ چل دیا۔
"وہاں چلتے ہیں۔" اس نے دائیں جانب والے ویٹنگ
روم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ،وہ نہیں چاہتی
تھی کہ وہ خالہ شازار کے سامنے بھی شروع ہو
جائیں۔
وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چل دیا۔
وہاں دو ادھیڑ عمر آدمی بیٹھے تھے ،حور نے
اطمینان بھری سانس لی۔
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے جب شازار کی
نگاہ اس بوڑھے بزرگ پر پڑی جس کا وجود کسی
بھی گرم کپڑے سے عاری تھا اور وہ ایک کونے میں
زمین پر بیٹھا خود میں سمٹا ہوا تھا....وہ تیزی سے
اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔
"اٹھیں بابا جی.....وہاں چل کر بیٹھ جائیں۔" وہ انہیں
سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بوال۔
"پتر! میری ہڈیاں سردی سے ٹھٹھرتی ہیں ان لوہے
کے بینچوں پر۔" وہ کانپتے ہوئے بولے
46
شازار نے لب بھینچے ایک نگاہ اس ضحیف کے
کانپتے ہونٹوں پر ڈالی اور تیزی سے اپنی لیدر کی
جیکٹ اتار کر بابا جی کو پہنا دی۔
اب وہ نیچے بیٹھ کر اپنے جوتے اتار کے پیروں میں
سے موزے اتار رہا تھا۔ وہ گردن گھمائے اس کے ہر
عمل کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
"یہ پہن لیں۔" وہ پیروں پر وزن ڈالے بیٹھے بیٹھے
بوال۔
بابا جی کو موزے چڑھاتے دیکھ وہ نرمی سے
مسکرایا تھا۔
"آپ کی چپلیں میں لے لیتا ہوں اور یہ آپ پہن لیں۔"
اپنے گرم جوتے بابا کے پیروں میں پہنا کر وہ اب ان
کی مسکراہٹ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
ّٰللا تمہیں سو سکھ دے .....جوانیاں
"جیتے رہو پتر! ہ
نصیب کرے۔ہللا تینوں تتی وا سے بچائے۔" وہ بزرگ
اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نم آواز میں اسے
دعائیں دے رہا تھا۔
47
"ّٰللا تمہیں ست (سات) پتر عطا کرے۔" ان کی اس دعا
ہ
پر وہ مبہم سا ہنسا اور اٹھ کر واپس پلٹ گیا۔
وہ رخ موڑ کر سیدھی ہو بیٹھی۔
"ایک بات کہوں آپ سے؟" وہ اس کو خود سے
مخاطب پا کر فون پر سے نگاہیں اٹھا کے اس کی
جانب دیکھنے لگا۔
"شازار! اپنے رحم بھرے دل کو مرنے مت دیجیے
گا ...آج کل کے دور میں بہت کم لوگ ہیں آپ جیسے
جنہیں دوسرے کا دکھ دکھائی دیتا ہے۔جو انسانیت کے
ناطے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔"
اس کے کہنے پر وہ محض اثبات میں سر ہال گیا۔
"جی ٹھیک ہے میڈم جی!" وہ فون پر کوئی نمبر ڈائل
کر رہا تھا۔
پھر کال اٹھائی گئی تو وہ ایک منٹ کا اشارہ کرتا
تھوڑا فاصلے پر چال گیا۔
"کتنا اچھا انسان ہے نا ....آج کل کے دور میں کون
کسی کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔" وہ اس پر نگاہیں
ٹکائے سوچ رہی تھی۔
48
وہ مسکراتے ہوئے کسی سے فون پر کچھ کہہ رہا
تھا ،مسکرانے کی بدولت رخسار پر ڈمپل نمایاں ہوا
تھا۔
بےشک وہ ایک پرکشش مرد تھا....حوریہ نے خود
کو سرزنش کی اور لب بھینچ کر سر جھکا گئی۔
"یہ تم کیا کر رہی ہو حور! ایک راہ چلتے شخص وہ
بھی ٹرک ڈرائیور پر فدا ہوئی جا رہی ہو۔ کہاں گئے
تمہارے سارے نخرے.....؟" اس کے اندر سے گرج
دار آواز اسے سنائی دی۔
"اچھی سیرت دیکھنی چاہیے سٹیٹس نہیں.....اور رہی
بات ٹرک ڈرائیور کی تو وہ اپنی محنت کی کماتا ہے۔"
اس کے دل نے ہتھیار اٹھائے۔
"کیا پتہ وہ یہ سب تمہیں ایمپریس کرنے کے لیے کر
رہا ہو حقیقت میں برا ہی ہو۔ہوش کے ناخن لو بیوقوف
لڑکی.....اور ابھی سنبھل جاؤ۔" دماغ نے بری طرح
سے ڈپٹا تو دل خوف سے بھر گیا۔
"ن نہیں نہیں مجھے ایسا ویسا کچھ بھی نہیں سوچنا
چاہیے.......دیکھو حوریہ! تمہیں کچھ نہیں ہو رہا۔"
49
وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا اور وہ اپنے دل کو
پہلوؤں سے نکلتا محسوس کر رہی تھی۔
"میڈم جی! ابھی پنتالیس منٹ باقی ہیں گاڑی کے آنے
میں ،تب تک چلیں کچھ کھا لیں۔"
وہ اس کے سامنے رکتے ہوئے بوال۔
"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ تیکھے لہجے میں
کہہ کر دائیں جانب رخ پھیر گئی۔
شازار وہاں سے چال گیا۔
حوریہ نے خفگی سے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔
"کچھ تمیز ہے پلے ،اس کا کیا قصور .....لگتا ہے
چال گیا۔"
وہ تیزی سے اٹھ کر دروازے کی سمت بڑھی تھی،
اسی ہڑبڑاہٹ میں وہ جیسے ہی دروازے سے نکلی
دائیں جانب سے آتے شازار سے بری طرح سے
ٹکرائی تو شازار نے بجلی کی سی پھرتی سے اسے
شانوں سے تھام کر خود سے دور کیا تھا۔
وہ بوکھال کر رہ گئی تھی۔
50
"وہ میڈم جی ،میں نے پوچھنا تھا کہ آپ کیا کھائیں
گیں ،میں یہاں ہی لے آتا ہوں۔" وہ دو قدم پیچھے ہٹا
تھا۔
حوریہ نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور تلمالتی
ہوئی پلٹ گئی۔
"کچھ نہیں کھانا۔ آ کر بیٹھ جائیں۔"
مگر وہ جا چکا تھا۔
وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔
کچھ پندرہ منٹ کے بعد وہ آیا تو اس کے ہاتھ میں
لیز ،بسکٹ ،چاکلیٹس وغیرہ کے پیکٹس تھے۔
"میڈم جی! آپ پتہ نہیں کیا کھائیں گیں اسی لیے یہ
سب لے آیا۔"
اس نے معصومیت سے کہا تو حوریہ کو بےاختیار
ہنسی آ گئی۔
"اچھا میں سب ہی کھا لوں گی۔ آپ بیٹھیں اب۔" اس
نے ہنسنے کے درمیان کہا اور سائیڈ پر رکھے اپنے
بیگ میں سے پیسے نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔
51
"یہ رہا ان چیزوں کا بل۔"
"ارے نہیں نہیں میڈم جی! ہم اپنے مہمان سے بل
تھوڑی لیں گے۔"
وہ تیزی سے بوال تو حوریہ نے اس کے چہرے کے
تاثرات کو دیکھتے ہوئے پیسے واپس رکھ لیے۔
وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کی یہ حرکت شازار کو
ناگوار گزری ہے۔
"آپ بھی کچھ لیں؟"
"نہیں میڈم جی! مجھے تو یہ چیزیں بلکل پسند نہیں۔
مجھے تو گھر میں بنائی چیزیں پسند ہیں۔" وہ
بکھرے بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے مسکرا کر
بوال۔
"جیسے کہ کیا کیا پسند ہے؟"
اب سچ میں وہ اس میں دلچسپی لے رہی تھی۔
"مجھے فاسٹ فوڈ میں صرف فرائز پسند ہیں۔
ماں کے ہاتھ کے سارے دیسی پکوان بہت پسند ہیں۔
ماں ُگڑ ڈال کر دیسی گھی میں جب ٹِکڑے بناتی ہیں
52
واہ واہ.....کیا مزے دار لگتے ہیں۔" اپنی ماں کا ذکر
کرتے وقت شازار کے لہجے میں بےپناہ محبت بھر
گئی تھی۔
وقت پر لگا کر اڑ گیا تھا....ایک گھنٹہ کیسے گزرا پتہ
ہی نہیں چال۔ وہ گاڑی کے ہارن کی آواز پر باہر چال
گیا
"میڈم جی! آپ کی گاڑی آ گئی ہے۔"
وہ جو انگلیاں پٹخ رہی تھی خالی خالی نگاہوں سے
اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"ابھی پندرہ منٹ رکے گی تب تک آپ بیٹھیں نا۔" اس
کا فون پھر سے بجا تھا وہ جیب میں سے فون نکالتا
پلٹ کر باہر چال گیا۔
"کنٹرول حوریہ! یہ محض ایک اٹریکشن ہے....تم
ایک سمجھدار لڑکی ہو ،پاگل مت بنو۔" وہ اکھڑی
اکھڑی سانسوں کے ساتھ سینے پر ہاتھ لپیٹے اٹھ
کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر ٹہلنے لگی ،مگر یہ جو
اندر کھلبلی مچ گئی تھی کسی طور کم نہیں ہو رہی
تھی۔
53
"بی بی کہاں جانا ہے؟"
ایک آدمی نے اس کے قریب رکتے ہوئے استفسار کیا
تھا وہ اس کی آواز پر وہ بری طرح سے ڈر کر دو قدم
پیچھے ہٹی تھی۔
"اوئے .....سالے یہ کسی دوسرے شہر کی سوری
ہے۔ کہاں جانا ہے؟" کسی آدمی نے وہاں آتے ہوئے
پان چبانے کے درمیان پوچھا تھا۔
"تجھے زیادہ پتہ ہے ،سستا چوہدری بنا پھرتا۔بی بی
چلو گاڑی تیار کھڑی ہے۔ ٹکٹیں کروا لی نا؟"
وہ گھبرا گئی تھی۔
"اس نے کہیں نہیں جانا۔"
وہ جیسے ہی وہاں داخل ہوا ان آدمیوں کو حوریہ کے
پاس کھڑا اور اس کے چہرے پر چھائے خوف کو
دیکھتے ہوئے آگے بڑھا اور کرختگی سے بوال۔
"شازار الال !....ہم تو بس پوچھ رہے تھے۔" وہ
دونوں جیسے ہی پلٹے شازار کو دیکھ بھیگی بلی بن
گئے۔
54
"پوچھ لیا؟ جاؤ اب۔" اس کے لہجے میں ابھی بھی
ویسی ہی سختی تھی۔
وہ دونوں اسے سالم ٹھوکتے تیزی سے وہاں سے ہٹ
گئے۔
"میڈم جی! چلیں ،ٹائم ہو گیا ہے۔"
وہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے گویا ہوا۔
"شازار! آپ سے مل کر واقع ہی بہت اچھا لگا۔ میری
زندگی کا یہ پہال سفر تھا جو واقع ہی مجھے ہمیشہ
یاد رہے گا۔" وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے نرمی
سے گویا ہوئی۔
"بہت شکریہ میڈم جی!....مجھے بھی آپ سے مل کر
اچھا لگا۔ ایک بات کہوں برا تو نہیں مانیں گیں؟" وہ
اس کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بوال۔
"جی جی کہیں نا۔"
وہ لڑکی جو کسی کی سنتی تک نہ تھی آج خاموشی
سے اس شخص کو سن رہی تھی۔
"تنہا سفر میں مت نکال کریں۔ ملکی حاالت بہت خراب
ہیں .....آج کے دور میں کسی پر بھی یقین کرنا
55
بیوقوفی ہے۔" وہ بےحد سنجیدگی سے کہتا اسے بہت
اچھا لگ رہا تھا۔
"کاش ہمارے معاشرے کے مرد آپ جیسے ہوتے۔جو
دوسروں کی ماں بہنوں کو بھی قاب ِل احترام سمجھتے
ہیں اپنی عورتوں کی جیسے حفاظت کرتے ہیں
دوسروں کی عورتوں کو بھی اسی طرح محفوظ
رکھتے ہیں۔"
اس کی بات پر شازار نے ایک دم سے سر جھکا لیا
تھا۔
" پر یہاں تو بس اپنی بہن اپنی ہے دوسروں کی بہن
کو مال کہنے والے لٹیرے بیٹھے ہیں یہاں۔"
وہ دانتوں پہ دانت جمائے نخوت بھرے لہجے میں
گویا ہوئی۔
"اچھا چھوڑیں ان باتوں کو.....یہ بتائیں کہ دوبارہ آپ
مجھ سے کب ملیں گے؟" وہ تیزی سے بولی۔
"دوبارہ ؟" وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے
لگا۔
"ہاں کیوں آپ نہیں ملیں گے؟" وہ روہانسی ہوئی۔
56
"نہیں نہیں....میرا مطلب ہے ہاں مگر میڈم جی! "...
وہ بات اُدھوری چھوڑ گیا۔
"یہ تم کیا کر رہی ہو حوریہ! وہ بھال کیوں ملے گا تم
سے دوبارہ....یا تم کیوں اس سے ملو گی۔خود کو
روکو۔"
وہ ہی ڈانٹ دماغ نے پھر سے دل کو لگائی تھی۔
"ٹھیک ہے میڈم جی! دھیان سے جائیے گا۔" وہ اجلت
میں کہہ کر پلٹ گیا۔
"شازار !....بات سنیں۔" وہ بےخودی میں اسے پکارا
بیٹھی تھی۔وہ رکا اور اسی وقت پلٹ۔
"جی میڈم جی؟" وہ حیران سا اس کی جانب بڑھا۔
"یہ آپ کی شال۔" اسے جب کچھ نہ سوجھی تو
اچانک نگاہیں خود پر اوڑھی شال پر پڑیں۔
"میڈم جی! اس کی آپ کو زیادہ ضرورت ہے۔مجھے
کچھ نہیں ہوتا ،یہ تو بہت معمولی ٹھنڈ ہے میرا کچھ
نہیں بگاڑ سکتی۔"
وہ نرمی سے گویا ہوا۔
57
"میں تو بس میں بیٹھ جاؤں گی۔ اور مظفر گڑھ روڈ
سے نیچے اترتے ہی گلی میں میرا گھر ہے۔ آپ نے
تو ٹرک پر نجانے کہاں کہاں جانا ہے۔"
وہ شال اتار چکی تھی۔
"میرے پاس ٹرک میں دوسری شال پڑی ہے ،اگر
لوٹانا ہی ہے تو "....وہ تو پر زور دیتے ہوئے ایک
پل کو خاموش ہوا۔
"تو جب دوبارہ ملیں گے تو لوٹا دیجیے گا۔" وہ کہہ
کر مسکرایا اور پلٹ گیا۔
وہ رکا نہیں تھا جبکہ حوریہ تب تک اسے دیکھتی
رہی جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا۔
نم آنکھوں کے ساتھ وہ لب بھینچے پلٹی تھی اور
بےدلی سے بس میں سوار ہو گئی۔
واقع ہی آج کا سفر بہت یاد گار تھا۔
"تمہیں شازار سے واقع ہی محبت ہو گئی ہے؟" وہ
خود سے ہی استفسار کر رہی تھی۔
"ہاں۔" دل نے تڑپ کر یہ بات تسلیم کی تھی۔
58
وہ بےاختیار ہی نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔
زندگی میں پہلی مرتبہ اس احساس نے اسے چھوا
تھا .....خاندان بھر کے لڑکے اس کی ایک نظ ِر کرم
کو ترستے تھے اور وہ .....بقول کزنز کے...
"بہت ہی گھمنڈی اور پتھر دل لڑکی۔"
آج ایک ٹرک ڈرائیور کے سامنے موم ہو گئی تھی۔
" اگر ان لوگوں کو معلوم ہو گیا تو وہ مجھ پر بہت
ہنسیں گیں ......نہیں نہیں ....میں اس راز کو خود تک
ہی محدود رکھوں گی۔ویسے بھی محبت کا عالن
تھوڑی کیا جاتا ہے۔" وہ شانوں کو سہالتے ہوئے
اپنی عجیب ہوتی کیفیت پر قابو پا رہی تھی....وہ سوچ
بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی شخص اتنی آسانی سے
اسے زیر کر سکتا ہے....وہ بھی ایک انجان اور اوپر
سے ٹرک ڈرائیور.....
کیا یہ محبت تھی یا اٹریکشن؟ وہ کشمکش میں مبتال
تھی......
60
"خوبصورت۔" وہ ٹکٹکی باندھے حوریہ کو دیکھتے
ہوئے بوال۔
وہ جو دائیں جانب صوفے پر براجمان تھا اٹھتے
ہوئے چائے کا کپ میز پر رکھتا وہاں سے جانے لگا۔
"ہمارے دشمنوں کو ہمارے آنے کی اتنی تکلیف ہوتی
ہے.....توبہ توبہ۔" اس کے خوشگوار انداز میں کیے
طنز پر وہ پلٹا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"تکلیف نہیں ہوئی ،افسوس ہوا ہے .....تم نے کبھی
خود کو دیکھا ہے؟"
وہ اچٹتی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے تمسخر اڑانے والے
انداز میں مسکرایا۔
"ہاں بہت غور سے۔ لگتا ہے تم نے خود کو کبھی
نہیں دیکھا بلکہ کبھی پہچانا ہی نہیں......کون سا
گھٹیا مٹیریل ".....وہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے بولی
تو وہ سب بھی ہنس دیئے۔
"جسٹ شیٹ اپ "......وہ اس کی بات درمیان میں
کاٹتے ہوئے حلق کے بل چالیا تو سب خاموش ہو
گئے وہ خود بھی ڈر گئی تھی۔
61
"اور تم حوریہ رائے! تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔"
سرخ آنکھوں سے وارنگ دیتا وہاں سے آندھی طوفان
کی مانند چال گیا۔
"کیوں تم شاہزیب کو اتنا پریشان کرتی ہو۔ بچارے یتیم
مسکین بچے کا دل دکھا کر تمہیں کیا ملتا ہے؟" چند
پل بعد ماں وہاں آتے ہی شروع ہو گئی تھیں۔
"اس سے بہتر تھا تم آتی ہی نہ.....ابھی تم اٹھو گی
اور جا کر شری سے معافی مانگو گی۔"
انہوں نے اس پر بم گرایا تھا۔
"واٹ....میری جوتی بھی سوری نہیں کہتی اس
گھمنڈی کو۔"
شطرنج کے کھیل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ حقارت
سے بولی۔
"تمہیں میں نے کیا کہا سنا نہیں؟"
"نہیں۔" وہ اطمینان سے بولی ماں کلس کر رہ گئیں۔
وہ ایسی ہی تھی اپنی من مانی کرنے والی۔
62
شیری کو دیکھتے ہی اس کی زبان کچھ نہ کچھ برا
ہی بولتی تھی.....یا شاید اسے سلگا کر وہ انجوائے
کرتی تھی۔
ّٰللا کو ناراض کرتی
"شیری بھائی کا دل دکھا کر تم ہ
ہو۔" اس سے ایک سال چھوٹی کائنات نے کہا اور اٹھ
کھڑی ہوئی اس کا رخ شاہزیب کے کمرے کی جانب
تھا۔
"کائنات! تمہارے دل کی جگہ موم فٹ ہے کسی دن
مرے گی توں اپنی اتنی ہمدر طبیعت کی بدولت۔" یہ
تکیہ کالم حوریہ کا تھا جو وہ اسے سمجھاتے وقت
کہتی تھی۔
وہ حوریہ سے محض ایک سال چھوٹی تھی مگر
ہمیشہ جیسے ہوتا ہے کہ چھوٹی بہن بڑی اور بڑی
چھوٹی لگتی ہے .....یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
"شیری بھائی!" وہ کمرے میں جیسے ہی داخل ہوئی
اسے وہاں وہ نظر نہیں آیا۔
باتھروم میں گرتے پانی کی آواز سے وہ اندازہ لگا
چکی تھی کہ وہ شاور لے رہا ہے۔
63
اس نے ایک تفصیلی نگاہ کمرے پر ڈالی۔ کشن زمین
پر پڑے تھے ،چند کتابیں بھی سٹڈی ٹیبل سے نیچے
گری ہوئی تھیں اور اس کا فون بھی دبیز کلین پر پڑا
تھا۔
وہ سمجھ گئی کہ کمرے میں آتے ہی شاہزیب نے اپنا
غصہ ان بےجان چیزوں پر اتارا ہو گا۔
کائنات لب بھینچ کر آگے بڑھی اور ہر ایک شے کو ان
کی پہلی جگہ پر رکھنے لگی۔
"کس کی اجازت سے تم میرے روم میں آئی ہو؟"
وہ ٹاول سے بال رگڑتا جیسے ہی باہر آیا اور نگاہ
کائنات پر پڑی جو سٹڈی ٹیبل پر پڑی کتابوں کو اپنے
دوپٹے کے پلو سے صاف کر رہی تھی ،وہ سخت
لہجے میں بوال۔
کائنات اپنی جگہ پر اچھل ہی پڑی تھی۔
"شیری بھائی! حوریہ کی جانب سے میں سوری کہتی
ہوں"......
"کائنات! پلیز جاؤ یہاں سے۔" وہ اس کی بات درمیان
میں کاٹتے ہوئے بوال۔
64
"شیری بھائی! پلیز.....اس ناسمجھ اور پاگل لڑکی کے
پیچھے آپ اپنا موڈ کیوں خراب کر رہے ہیں۔ اس کی
تو عادت ہے اول فول بولنے کی مگر آپ تو سمجھدار
ہیں نا۔پلیز اسے معاف کر دیجیے اور اپنا موڈ خراب
نہیں کریں۔"
وہ سر جھکائے نرم سے لہجے میں بول رہی تھی۔
وہ بنا اس کی بات کا جواب دیئے اس کے عقب سے
نکل کر دروازے کی سمت بڑھا اور یہ جا وہ جا ہوا۔
کائنات کی آنکھیں ڈھیروں پانیوں سے بھر گئی تھیں۔
موم دل لوگ اتنے ہی احساس ہوتے ہیں۔
چند پل وہاں رکی رہی اور آنسوؤں پر قابو پانے کے
بعد وہ بھی کمرے سے نکل گئی۔
شیری اس کا بہت خیال رکھتا تھا مگر حوریہ کی وجہ
سے اکثر ان دونوں کے درمیان ایسی صورتحال پیدا
ہو ہی جاتی تھی۔
"زری! صاحب لوگ چلے گئے ہیں۔میں بستی کی نکر
پر تمہارا انتظار کرتی ہوں۔ آ جاؤ۔"
منہاج خوف سے کانپتی بولی۔
65
"ڈرو نہیں اس طرح مائی حلیمہ کو شک ہو جائے گا۔"
اس نے چادر شانوں پہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ مگر تو دھیان سے آنا اگر
کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔" منہاج پلٹنے
لگی تبھی اس کی نگاہ زرمینہ کے کالئیوں میں
کھنکتی سونے کی چوڑیوں پر پڑی۔
"یہ چوڑیاں اتار دو۔ سردار دالور خان بہت سمجھدار
بندہ ہے۔ اگر اس کی نگاہ پڑ گئی تو فوراً سے پیشتر
تمہارا پردہ اٹھا دے گا۔"
منہاج نے شوخی سے کہا اور پلٹ گئی۔
وہ مسکرا کر چوڑیاں اتارتی اپنے کمرے کی کھڑکی
سے لگی سیڑھی سے نیچے اتر گئی۔
خان پور تک پیدل سفر کرتے ہوئے وہ تھکی نہیں
تھی .....حاالنکہ بہت نخرے والی تھی۔مگر کیا ہے نا
یہ عشق تو انگاروں پر نچا دیتا ہے۔
"بڑے صاحب کو علم ہوا تو وہ ہمیں جان سے مار
ڈالیں گے۔" منہاج نے اپنی خالہ کے گھر پہنچتے ہی
رکی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے کہا۔
66
"منہاج! تم میری دوست ہو۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے
دوں گی ،فکر نہیں کرو۔ چلو اب اپنی خالہ کو بالؤ۔"
اس نے اسے شانوں سے تھام کر کہا۔
"نہیں زرمینہ باجی! ہم آپ کو ایسے کیسے لے جائیں
سردار حویلی......اگر سردار دالور خان کو ذرا سی
بھی بھنک پڑی تو بہت خفا ہوں گے۔" وہ ڈرتے ہوئے
بولیں۔
"خالہ! میں کسی غلط ارادہ سے نہیں جا رہی۔ مجھے
محض دالور خان کے آس پاس رہنا ہے ،انہیں جی بھر
کر دیکھنا ہے۔ پلیز میری حالت پر رحم کریں۔" وہ
عاجزانہ درخواست کر رہی تھی۔
خالہ تذبذب تھی.....
"یہ.....یہ رکھ لیں میری جانب سے چھوٹا سا تحفہ،
پلیز مجھے حویلی لے چلیں۔" وہ یوں تڑپ رہی تھی
جیسے بن پانی کے مچھلی تڑپتی ہے۔
خالہ نے منہاج کی جانب دیکھا۔
"لے جائیں ماسی۔ یہ دیوانی ہو گئی ہے.....مر جائے
گی اگر سردار سائیں کو نہ دیکھا تو۔" اس نے کہا تو
67
خالہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی گہری بھوری آنکھوں
میں ایک دیوانہ پن تھا وہ جھلی سی لگ رہی.....خالہ
اثبات میں سر ہال گئیں۔
زرمینہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔
"اب تم واپس حویلی چلی جاؤ۔میرے کپڑے پہن کر
چہرہ ڈھانپے رکھنا۔" زرمینہ نے اس سے کہا۔
"ٹھیک ہے۔میں سب سنبھال لوں گی ان شاءہللا۔"
منہاج نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
وہ ساتھ الئے گئے منہاج کے کپڑے زیب تن کرنے
کمرے میں چلی گئی۔
"نجی! تمہاری مالکن کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔" خالہ
نے منہاج سے کہا۔
"غلطی میری ہے ماسی! میں نے اسے کہا کہ اس
سے بھی خوبصورت کوئی ہے ،اس کی ٹکر کا ایک
مرد بھی ہے۔اور وہ ضد کرنے لگی کہ اس نے سردار
سائیں کو دیکھنا ہے۔" وہ افسردگی سے ٹھنڈی آہ بھر
کے بولی۔
68
"اور جب سردار سائیں کو دیکھ کر پلٹی تو یہ ہماری
پہلے والی زری نہیں رہی تھی.....کوئی دیوانی ہی
پلٹی تھی۔نجانے اب کیا ہو گا میری دوست کا۔"
"چلیں؟"
اس سے پہلے کہ ماسی کچھ کہتیں زرمینہ وہاں آ گئی
تھی۔
خالہ کو ڈر تو بہت لگ رہا تھا مگر وہ بےبس تھیں۔
"سردار سائیں کا گاؤں تو بہت ہی خوبصورت ہے۔"
وہ گھونگھٹ اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
"ساری سردار سائیں کی محنت ہے۔ انہوں نے
پہاڑیوں کو کٹوا کر راستے بنائے اور یہ جو راہوں
کے دونوں جانب اتنے بڑے بڑے روشنی کرنے والے
بلب دیکھ رہی ہو یہ بھی انہوں نے ہی لگوائے ہیں۔"
ماسی خوشی بھرے لہجے میں بتا رہی تھی۔
"پلو نیچے کریں باجی۔ کسی نے آپ کو دیکھ لیا تو
بہت بڑا ہنگامہ ہو جائے گا ،حویلی میں بھی پلو مت
اٹھائے گا ".....اس نے پلٹ کر اسے دیکھ اور تیزی
سے گویا ہوئی۔
69
زرمینہ سمجھتے ہوئے سر اثبات میں ہال گئی۔
"زرمینہ باجی! آپ سچ میں کسی غلط کام ".....وہ
جھجکتے ہوئے بولیں تبھی زرمینہ مبہم سا مسکراتے
ہوئے بولی۔
"ماسی! بےفکر رہیں۔ میں سردار سائیں کی دشمن
نہیں ہوں۔ ان کی دیوانی ہوں....میں چاہ کر بھی انہیں
اور ان سے جڑے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچا
سکتی۔"
اس نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کہا تھا۔
ماسی چپ سی ہو گئیں۔
حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ لوگ سیدھا کچن کی
جانب بڑھی تھیں۔
امو جان نے کچن میں قدم رکھا تو ماسی نے جھک کر
سالم کیا۔
"سالم بیگم سرکار!"
"و علیکم السالم! شبنم....سردار پتر زمینوں سے
لوٹنے والے ہیں۔جلدی سے ان کا کمرہ درست کر آؤ۔ آ
گیا تو پھر کمرے میں کسی کو جانے نہیں دے گا۔"
70
وہ سردار دالور خان کے لیے ناشتہ بناتے ہوئے
بولیں۔
"جی بیگم سرکار!"
"ارے یہ کون ہے؟"
"یہ جی میری بھانجی ہے۔ پشاور والی بہن کی
بیٹی....میرے پاس رہنے آئی ہے کچھ دن۔" اس نے
سوچا ہوا جھوٹ بوال۔
"سالم بیگم سرکار!" وہ شبنم کے انداز میں ہی اسالم
کرتے ہوئے پیچھے ہٹی۔
" و علیکم السالم!"
"ماسی! میں صفائی کر دیتی ہوں۔ آپ بیگم سرکار کی
مدد یہاں کر دیں۔" وہ تیزی سے بولی۔
اس کا لہجہ باہر رہ کر پڑھائی کرنے کی بدولت کافی
حد تک بدل چکا تھا مگر اس وقت اس نے اپنا لہجہ
بدل لیا تھا خاص پختون لہجے میں بول رہی تھی۔
"ارے نہیں.....تم ہمارے ہاں مہمان ہو۔ اور ہم
مہمانوں سے کام نہیں کرواتے۔" بیگم سرکار نے کہا
تو وہ اپنے گالبی لبوں کو کچلنے لگی۔
71
" بیگم سرکار! پھر حویلی دیکھ لوں؟" اس نے
جھجکتے ہوئے استفسار کیا۔
"ہاہاہا.....اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے
دیکھ لو بیٹی۔" وہ خوشگوار انداز میں بولیں۔
وہ تیزی سے ماسی کے ساتھ کچن سے نکل گئی۔
"ماسی! مجھے محض سردار سائیں کے کمرے میں
لے چلیں۔"
اس نے کہا تو وہ سر ہال کر سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔
"ہاہاہا .....سیرت! میں بلکل بھی تمہارے ہاتھ نہیں
آنے والی۔" نازش اپنا لہنگا سنبھال کر تیزی سے
سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔
"میں تمہیں پکڑ لوں گی۔ چاچی! او چاچی جان ذرا
باہر تو آئیں۔" سیرت نے بلند آواز میں ہانک لگائی۔
"کیا ہوا سیرت؟" دوسری جانب سے فرسٹ فلور پر
اپنے کمرے سے نکل کر چاچی جو ان دونوں کی ہم
عمر تھی باہر آئیں۔
"یہ نازی چیلنج کر رہی ہے کہ......اسے پکڑنا مشکل
ہی نہیں ناممکن ہے۔" وہ بولی۔
72
"چلو دیکھتے ہیں۔" چاچی مسکراتے ہوئے دوڑتی
ہوئیں دوسری جانب والی سیڑھیاں اترنے لگیں۔
"یہ دونوں سیرت اور نازش سردار سائیں کی چھوٹی
بہنیں ہیں اور وہ سب سے چھوٹی چاچی۔" ماسی نے
اسے بتایا۔
اسے کسی میں کہاں دلچسپی تھی تبھی محض سر ہال
کر سردار دالور خان کے کمرے میں داخل ہو گئی۔
"آپ اب جائیں۔ میں کمرہ صاف کر دوں گی۔" وہ
کمرے میں داخل ہو کر دروازہ مقفل کرتے ہوئے بولی۔
"زرمینہ باجی "!....اس نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ
دروازہ بند کر چکی تھی۔
"کیا ضرورت تھی اس جھلی کو النے کی؟ خدارا ابھی
سردار سائیں نہ آئیں نہیں تو میری خیر نہیں پھر۔" وہ
خود کو کوستی پلٹ گئی۔
وسیع و عریض عالیشان کمرے میں پڑی ہر شے
مالک کی بہترین پسند کا پتہ دے رہی تھی۔
پردوں سے لے کر وہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایش ٹرے
تک جس میں سگار مسال گیا تھا اور اس کے قریب
73
ہی مہنگیاور بہترین کوالٹی کے سگار کا
ڈبہ.....سگریٹوں کی دو ڈبیاں پڑی تھیں۔
اس نے آگے بڑھ کر سگار کو ایش ٹرے میں سے
اٹھایا۔
"کتنے قسمت والے ہو ڈیئر سگار ....تمہیں سردار
سائیں نے چھوا ہے۔تمہیں تو میوزیم میں رکھوانا
چاہیے "...اس نے مسکراتے ہوئے ،سگار کو
دیکھتے ہوئے بڑنڑائی۔
پھر سگار ایش ٹرے میں رکھ کر بیڈ کی جانب متوجہ
ہوئی۔
جھک کر کنگ سائز بیڈ پر ڈالی گئی چادر پر سلوٹوں
کو چھوتے ہوئے وہ بیڈ پر چت ڈھے گئی۔
"بےشرم تو میں نہیں ہوں مگر سردار تمہیں دیکھ کر
اپنی حدود پھالنگ آئی ہوں۔ اب اسے تم بےشرمی کہو
یا میری دیوانگی "....سامنے دیوار پر لٹکتی اس کی
قدآدم فوٹو کو دیکھتے ہوئے وہ بولی پھر مبہم سا
قہقہہ لگا کر سرہانے پر ہاتھ پھیر کر اس پر ہونٹ
رکھے الئٹ پنک لپ اسٹک کا نشان سیاہ رنگ کے
74
کشن پر چھپ گیا تھا ،وہ بنا دھیان دیئے اٹھ کھڑی
ہوئی۔
وہ ہر شے کو چھو رہی تھی جسے سردار دالور خان
نے چھوا تھا۔
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ بری طرح سے ڈر گئی۔
رات کو جو سرخی سردار سائیں کی آنکھوں میں
دیکھی تھی وہ اس کی نگاہوں کے سامنے آ ٹھہری۔
تیزی سے دوپٹہ چہرے پر گرتی دروازے کی سمت
بڑھی۔
"سالم سائیں!"
"و علیکم السالم!" وہ بنا اس پر نگاہ ڈالے کمرے
میں داخل ہو گیا۔
"دروازہ بند کیوں تھا؟"
اس کے سوال کا جواب زرمینہ سوچ ہی رہی تھی جب
وہ بوال۔
"اٹس اوکے۔ آپ جائیں۔" وہ دروازہ مقفل کر چکا تھا۔
75
"ہماری حویلی میں تو تمام مرد نوکروں کو پیر کی
جوتی سمجھتے ہیں اور سردار سائیں ......آپ کر کے
مخاطب کر رہا ہے۔" اسنے دل ہی دل میں سوچا۔
"تبھی تو یہ دلوں کی دھڑکن ہیں۔" وہ مسکرا کر پلٹ
گئی۔
77
ّٰللا اس شخص کو میرا کر دے ،مجھے اس کی "یا ہ
قسمت میں لکھ دے۔" اس نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی
تھی۔
آنکھیں موندے پھر وہ کتنی ہی دیر اس خواب کے
متعلق سوچتے ہوئے مسکراتی رہی۔
"اب مجھے ایک ڈریم جار بنا ہی لینا چاہیے۔" وہ
سوچتے ہوئے اٹھی اور سرہانے پڑی شال اپنے
شانوں پہ اوڑھ کر ڈیکوریشن پیس کی شیلف میں
نگاہیں دوڑانے لگی۔
نیچے والی شیلف پر اسے کینیڈیز جار نظر آیا۔
وہ جار اٹھا کر اس میں موجود کینیڈیز باؤل میں ڈالتی
تیزی سے سٹڈیز ٹیبل کی جانب بڑھی۔ کرسی کھینچ کر
بیٹھتے ہوئے اس نے لیمپ روشن کیا اور رنگ
برنگے صفحات کی کاپی پر اس نے اپنے پسندیدہ پین
سے اپنے خواب کو اتار کر اس نے ٹیبل کے دراز میں
سے الل رنگ کا ریبن ،کینچی نکالی۔ لکھے ہوئے
صفحے کو کینچی سے کاٹ کر اس کی چوڑائی کم کی
اور پھر فولڈ کر کے الل رنگ کے ریبن کی مدد سے
اس کو باندھ کر جار میں ڈال دیا۔
78
"کچھ کمی سی ہے ".....وہ تھوڑی تلے ہاتھ ٹکائے،
جار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔
"آئیڈیا.....نومی کے ایکرالک کلرز چراتے ہیں۔" وہ
چٹکی بجا کر اٹھی اور سلیپرز پیروں میں گھسا کے
کمرے سے نکل کر نومی کے کمرے کی جانب بڑھ
گئی۔
" ن نہیں پلیز چ چھوڑو مجھے .....خدا کا واسطہ
تمہیں چھوڑو مجھے .....پلیز مت چھوؤ۔"
وہ سیڑھیاں اتر ہی رہی تھی کہ اسے کسی کے رونے
کی مدھم سی آوازیں سنائی دیں سیڑھیوں کے نیچے
سے آواز آ رہی تھی۔
حوریہ کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئی تھیں۔
وہ جیسے جیسے نیچے اتر رہی تھی سرگوشیاں
واضح سنائی دے رہی تھیں۔
تبھی ایک لڑکی اپنے سینے پر ہاتھ لپیٹے روتی ہوئی
وہاں سے گئی تھی۔
79
وہ جب کوریڈور میں پہنچی تو اس کے پھٹے کپڑے ،
بکھرے بال دیکھ کر حوریہ کا وجود کانپ گیا تھا۔ وہ
پیچھے ہو کر دیوار سے چپک گئی۔
ایک منٹ بعد اس نے اسی جانب سے آتے ایک لڑکے
کو دیکھا تھا۔
اس کے دماغ میں نجانے کیا آیا کہ وہ آگے بڑھی
دیوار پر ہاتھ مار کر ساری الئٹیں جال کر اس کی راہ
میں حائل ہو گئی۔
وہ جو اپنی دھن میں چال آ رہا تھا اسے سامنے دیکھ
بوکھال کر رک گیا۔
"ش شیری !....تم؟" وہ بےیقینی کے عالم میں اسے
دیکھے جا رہی تھی۔
وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر پھر رخ پھیر کر اسے نظر
انداز کرتا تیز قدم اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔
"اوہ میرے خدایا.....یہ کتنا گرا ہوا ہے۔اگر کسی کو
بتایا تو کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔"
وہ چکراتے سر کو تھامے واپس پلٹی اور سیڑھیاں
چڑھ گئی۔
80
کانوں میں ابھی بھی اس لڑکی کی سسکیاں اور شیری
کی گھٹیا سرگوشیاں گونج رہی تھیں۔
اتنی سردی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کی
بوندیں چمکی تھیں۔دل تھا کہ سوکھے پتے کی مانند
لرز رہا تھا۔
81
"استاد! عشق کر بیٹھے ہو؟" وہ جھک کر سرگوشی
کے انداز میں گویا ہوا تو شازار نے سر اٹھا کر اس
کی جانب دیکھا۔
"باجی ویسے تھی خوبصورت۔" وہ پھر سے شرارت
بھرے انداز میں گویا ہوا۔
"او جا.....میں تو بس دیکھ رہا تھا کہ اتنے بھاری
جھمکے لڑکیاں کانوں میں پہن کیسے لیتی ہیں۔چل
ٹرک نکالتے ہیں "....وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
عاصم کے ہونٹوں پر ابھی بھی معنی خیز مسکراہٹ
تھی۔
"مت کرو مت کرو بہت منحوس لگ رہے ہو۔" شازار
نے غیر سنجیدگی سے کہا۔
"سچ بتاؤ استاد! باجی نے دل کی تاروں کو چھیڑا؟"
وہ شریر لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔
"دل میں تاریں نہیں ہوتیں۔" وہ مسکراتے ہوئے اس
کے سر پر تھپکی رسید کرتا ڈرائیونگ سیٹ پر چڑھ
گیا۔
82
"استاد! سردی نہیں لگ رہی کیا؟ ہاں پر چادر تو باجی
لے گئی ......سردی کیوں لگنی۔" عاصم اس کے
برابر میں بیٹھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سے بوال۔
"اوہ یار !....مجھے پیچھے بیٹھنا چاہیے یہاں باجی
کا گمان گزرے گا۔" وہ اسے مسلسل چھیڑ رہا تھا اور
شازار کی رخسار کا ڈیمپل مزید گہرا ہو رہا تھا۔
"عاصم! بندہ بن کر بیٹھا رہے۔مزید کچھ نہیں۔" وہ
دوسرے ہی پل سنجیدہ ہو گیا تھا اور عاصم اسی وقت
خاموش ہو گیا ،وہ جانتا تھا کہ مزید مذاق اس کو
بھاری پڑ سکتا ہے۔
"زری! تم امریکہ واپس کب جا رہی ہو؟" ناشتے کی
میز پر بڑے بھائی نے استفسار کیا۔
"میں ابھی کہیں نہیں جا رہی بھیا۔ ایم فیل کچھ وقت
کی بریک کے بعد کروں گی۔" اس نے کہا۔
"مگر یہاں کرو گی کیا؟ ویسے بھی ماموں لوگ تمہیں
بہت مس کر رہے ہیں۔" وہ پھر سے بولے۔
83
"آپ لوگ نہیں کرتے کیا مس؟ دیکھیں ڈیڈ! بھیا
مجھے یہاں سے بھگانے کا سوچ رہے ہیں۔" وہ جان
بوجھ کر روہانسی ہوئی۔
"ارے نہ نہ میری بچی۔ وہ تو بس تمہارے بھلے کے
لیے کہہ رہے تھے۔ چلو خیر تم کچھ وقت تک پڑھائی
روک کر یہاں رہ سکتی ہو.....مگر کچھ وقت تک ہی۔"
آخری جملے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ
بس سر ہال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ابا حضور! ....زرمینہ کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔"
"ہاں جانتا ہوں۔مگر وہ اس سب سے بےخبر ہے
.....رہنے دو جب تک رہتی ہے۔" وہ اطمینان سے
بولے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کھڑکی پر جا کھڑی
ہوئی۔
"منہاج! اس کھڑکی سے مجھے سردار سائیں کی
حویلی کی چوٹی نظر آتی ہے۔ وہ دیکھو"....اس نے
کمرے میں داخل ہوتی منہاج سے کہا۔
84
"بس بہت ہو گیا زری! تمہیں میں بتا چکی ہوں نا کہ
وہ تمہارے باپ بھائی کے دشمن ہیں۔"
"میرے تو نہیں۔" وہ اطمینان سے بولی۔
"نجی! مجھے آج پھر جانا ہے سردار حویلی۔" اس
نے عجیب سے انداز میں کہا تو وہ سر نفی میں ہالنے
لگی۔
"یہ ناممکن ہے۔ پلیز زری! ہوش کے ناخن لو۔"
"نجی! مجھے ایک مرتبہ سردار سائیں کا دیدار کروا
دو ،خدا کی قسم تم جو کہو گی کروں گی۔" وہ پاگل پن
کی انتہا کو چھو رہی تھی۔
"جو بھی کہوں گی؟" منہاج نے تصدیق کی۔
"ہاں۔ بس اسے چاہنے ،دیکھنے ،سوچنے سے مت
روکنا۔"
"پھر کیا فایدہ۔دیکھو زری! میں تمہاری دشمن نہیں
بچپن کی سہیلی ہوں۔اسی لیے تمہیں اس راستے سے
روک رہی ہوں جس پر کوئی منزل نہیں۔ سردار سائیں
تمہاری قسمت نہیں بن سکتے۔" وہ رونے لگی تھی۔
85
"تو کیا ہوا نجی؟ بھٹک جاؤں گی .....گمنام ہو جاؤں
گی؟ اس کی دیوانی کہالؤں گی؟ تو کیا ہوا مجھے
ویسے بھی منزل سے کوئی سروکار نہیں۔"
"یہ وقتی بات ہے ،کچھ وقت بعد تمہیں اسے پانے کی
خواہش ہو گی ،پھر تم جلو گی جب وہ تمہارا نہیں ہو
سکے گا۔" وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی
تھی۔
"ابھی تو اس کے دیدار کو تڑپ رہی ہوں۔پلیز نجی
کچھ کرو۔" وہ اپنی رکتی سانسوں کے ساتھ بولی۔
منہاج اپنی دوست کی اس حالت کو دیکھ نہیں پا رہی
تھی۔
"نجی! مجھے یوں لگتا ہے جیسے .....جیسے میرے
وجود میں خون کی جگہ اس کی محبت دوڑ رہی
ہے۔اسے نہ دیکھوں گی تو دل بند ہو جائے گا۔سانسیں
تھم۔جائیں گی اور میں مر جاؤں گی۔ " وہ آنکھیں
موندے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
"تم العالج روگ پالنا کیوں چاہتی ہو؟"
86
"دیدار یار کروا دو نا نجی!" اس کے سوال کو نظر
ِ
انداز کرتے ہوئے وہ عاجزانہ انداز میں گویا ہوئی۔
"خدا کا واسطہ تمہیں۔" اب وہ ہاتھ جوڑ گئی تھی۔
منہاج نے تیزی سے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا۔
"میں پتہ کرتی ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔"
وہ شش و پنج میں مبتال اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
زرمینہ کی آگ پکڑتی دیوانگی نے منہاج کو بےحد
خوف زدہ کر چھوڑا تھا۔
وہ خود کو کوس رہی تھی کہ اس دن کیوں اس نے
سردار سائیں کا ذکر چھیڑا۔
مگر غلطی اس کی بھی نہیں تھی ،کسی کی خطا تھی
تو وہ زرمینہ کا دل تھا جو بنا وقت ضائع کیے سردار
سائیں کا ہو چکا تھا۔
"زری! سردار سائیں آج رات شکار کے لیے نکل رہے
ہیں اپنے یاروں کے ساتھ۔"
تقریبا ً چار پانچ گھنٹے بعد اس نے واپس آ کر بتایا
تھا۔
87
"کہاں؟"
وہ جو چیت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی پھرتی سے
اٹھ بیٹھی۔
"شمالی جنگلوں کی جانب۔ جہاں سے گزرنا ہے وہ
راستہ مجھے معلوم ہے۔"اس نے کہا تو وہ چہک
اٹھی۔
"نجی! تم واقع ہی میری بہترین دوست ہو۔" وہ اس
کے گلے میں باہیں ڈال کر جھول گئی تھی۔
"کل بابا لوگوں نے کسی کام کے سلسلے میں کہیں
جانا ہے ،میں کچھ دیر پہلے بات کرتے سنا تھا ان
لوگوں کو۔ تو میں رات کو چلی جاؤں گی تم میری جگہ
سو جانا صبح وہ لوگ چلے جائیں گے اور کوئی بھی
ٹینشن نہیں ہو گی۔"
اس نے چند ہی پلوں میں ایک اچھا سا پالن بنا لیا تھا۔
"زری! یہ سب خطرناک ہے۔ میرے لیے تو چھوڑو
مگر تمہارے لیے بھی ہے "....وہ خفگی سے گویا
ہوئی۔
مگر زری کو تو ابھی کچھ بھی نہیں سننا تھا۔
88
"حوریہ! یہ جھمکا کتنا پیارا ہے دوسرا کہاں ہے اس
کے ساتھ کا؟" اس کی کزن ڈریسنگ پر پڑے جیولری
باکس میں مہندی کے فنکشن میں اپنے پہننے کے
لیے جیولری کا انتخاب کر رہی تھی۔
"پتہ نہیں ،کہیں گر گیا شاید۔میرے پسندیدہ جھمکے
تھے۔" وہ پیشانی پر ماتھا پٹی لگاتی مصروف سے
انداز میں بولی۔
"آہاں ،وہاں ہاسٹل ہی رہ گیا ہو گا۔ اچھا میں یہ
جھمکے اور مانگ ٹیکا لے رہی ہوں۔"
"ٹھیک ہے۔" وہ ایک تفصیلی نگاہ خود پر ڈالتے
ہوئے بولی۔
ہلکے لیمن رنگ کے الئٹ سے کام واال کرتہ تلے
پاجامہ زیب تن کیے ،دائیں شانے پہ گرم شال
پھیالئے ،کمر تک جاتے سیاہ و گولڈن بالوں کی
کھجوری چٹیا کی زینت چھوٹی چھوٹی ننھی کلیاں بنی
ہوئی تھیں ،چند لیٹیں دہکتی سرخ رخساروں کے
ساتھ چھیڑ خانی کرنے میں مصروف تھیں ،اور روشن
پیشانی پر ماتھا پٹی چمک رہی تھی،کانوں میں البتہ
89
اس نے کچھ بھی نہیں پہنا تھا ،نازک سی کالئیاں گالب
کے گجروں سے سجی ہوئی تھیں۔
"شازار! ان شاءہللا وہ وقت ضرور آئے گا جب میں
ریڈی ہو کر آپ کے سامنے آیا کروں گی اور یہ
پھولوں کے گجرے آپ خود میری کالئیوں میں".....
وہ سوچتے سوچتے شرما کر منہ پر ہاتھ رکھ کے
شیشے سے نگاہیں چرا گئی۔
"اب تو آئینہ بھی چھیڑ خانیاں کرنے لگا ہے۔" وہ
مسکراتے ہوئی نفی میں سر ہالتی ہونٹوں پر پیاری
سی مسکان لیے کمرے سے نکل گئی۔
وہ اپنے مخصوص نخریلے انداز میں واک کرتی
پیچھلے ہال کی جانب بڑھ گئی جہاں رفتہ رفتہ سب
جمع ہو رہے تھے۔
90
"بس بھائی! ابھی جانے ہی لگی ہوں۔" اس نے ہاتھ
تیز تیز چالنا شروع کر دیا تھا۔
وہ صبح سے سب کی مدد کروانے میں مصروف تھی
اور اس مدد میں اسے زیادہ تر کپڑے پریس کرنے کا
کام مال تھا۔
شیری ہال میں کرسیاں ،الئٹیں اور ڈیک وغیرہ لگوا
کر کمرے میں آیا اور وارڈروب کی جانب بڑھ گیا۔
"کون سا ......کون سا پہنوں"....
"شیری بھائی! آپ کے کپڑے پریس کر دیئے ہیں۔اب
جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔"
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کائنات دروازے پر دستک
دے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
"ارے کائنات! اس کی کیا ضرورت تھی۔ میں خود کر
لیتا۔" وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
"شیری بھائی! آپ ایسے کیوں کہ رہے ہیں؟
چلیں اب آپ جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔"
91
وہ ہینگر میں لٹکائے ڈریس کو بیڈ پر رکھ کر پلٹ
گئی۔
اسی فلور کے دائیں جانب آخر پر اس کا روم تھا وہ
بھاگ کر گئی اور خود بھی ریڈی ہونے لگی۔
سفید رنگ کا بہت ہی نفیس سا کام دار کرتہ پاجامہ
زیب تن کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑی نجانے منہ
کا کیا حشر نشر کرنے میں مصروف تھی جب دروازے
پر دستک ہوئی۔
اس نے اپنی بےترتیب بیس کو دیکھا اور پھر ٹاول
اٹھا کر منہ رگڑ ڈاال۔
اسے ہمیشہ حوریہ تیار کیا کرتی تھی اور آج پھر وہ
اس سے خفا تھی .....کیونکہ اس نے شیری کی سائیڈ
لی تھی اور جب جب ایسا ہوتا تھا حوریہ اس سے منہ
پھال لیتی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے شیری کو دیکھ وہ
ایک دم ہڑبڑا گئی جبکہ وہ دو پل اسے دیکھتا رہا پھر
فلک گؤش قہقہہ لگا کر اندر داخل ہوا۔
92
"شیری بھائی! کیا ہوا؟"وہ بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر
سینے پر پھیالتے ہوئے حیرانگی سے اسے دیکھنے
لگی۔
"ادھر آؤ۔" وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتا ہوا اس کی کالئی
تھام کر آئینے کے سامنے جا رکا۔
اب کی بار وہ بھی ہنس دی تھی۔
"مجھے بیس لگانی ہی نہیں آتی۔ آپ رکیں میں ایک
منٹ میں آئی۔" وہ تیزی سے پلٹ کر باتھروم کی جانب
بڑھ گئی۔ شیری گالب کے گجرے ڈریسنگ پر رکھ کر
خود کو آئینے میں دیکھنے لگا۔
سیاہ رنگ اس پر بہت جچتا تھا.....اس وقت بھی وہ
سیاہ شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے تھا۔
خوشبوؤں میں رچا بسا آئینے میں خود کو دیکھتے
ہوئے نجانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ وہ اس
کے ساتھ آ رکی تھی اور وہ وہاں ہی جما ہوا تھا۔
"شیری بھائی! آج تو پکا کسی نہ کسی کو قتل کریں
گے آپ۔"
93
وہ شریر لہجے میں رازداری سے گویا ہوئی تو وہ
چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"کیا خیال ہے ایمولینس منگوا لی جائے؟" وہ آنکھوں
میں کاجل ڈالتے ہوئے بولی۔
"ہاہاہا.....چل پگلی "......وہ دھیمی سی مسکراہٹ
لیے گویا ہوا۔
" اچھا جلدی ریڈی ہو کر آ جاؤ ،فنکشن شروع ہونے
واال ہے۔اورتمہیں میک اپ کی ضرورت نہیں ہے۔
ویسے بھی یہ میک اپ تو معصومیت چھین لیتے
ہیں۔" وہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔
کائنات نے ایک نظر خود پر ڈالی اور مسکرا دی۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں شیری بھائی۔"
وہ جو سیڑھیاں چڑھ رہی تھی شیری کو کائنات کے
کمرے سے نکلتا دیکھ ایک دم سے کانپ کر رہ گئی۔
شیری بنا اس پر ایک نگاہ غلط بھی ڈالے اس کے
قریب سے گزرتا سیڑھیاں اتر گیا۔
"وہ تمہارے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟" حوریہ اس
کے سر پر کھڑی استفسار کر رہی تھی۔
94
"کون؟ شیری بھائی؟ وہ مجھے گجرے دینے آئے
تھے۔" وہ بالوں کی چٹیا بناتے ہوئے بولی۔
"کائنات! وہ تمہیں گالب کے پھولوں کے گجرے کیوں
دے رہا ہے کچھ اندازہ ہے؟" باظاہر تو وہ اطمینان
سے بولی تھی مگر غصے سے اس کا سر گھوم رہا
تھا۔
"یار! بھائی کو کسی نے پکڑائے ہوں گے۔ اور تمہیں
شیری بھائی سے پرابلم کیا ہے؟" کائنات جھنجھال کر
رہ گئی تھی۔
"دیکھو کائنات! تم اس شخص سے دور ہی رہا کرو،
ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتی مجھے تم زہر
لگتی ہو۔"
"حور! اس گھر میں سب کو شیری بھائی سے پرابلم
ہے ....آخر کیوں؟ اور مجھے آئندہ ان کے کام کرنے
سے مت روکنا وہ میرے بھائی ہیں۔" وہ بری طرح
چڑھ کر گویا ہوئی۔
95
"وہ تمہارا سگا بھائی نہیں ہے۔ سمجھنے کی کوشش
کرو یار وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔" حور کا غصہ اب فکر
میں بدل گیا تھا۔
"تم شیری بھائی کے متعلق کچھ نہیں جانتی حور! وہ
بہت اچھے ہیں.....ہاں بس تھوڑے سے سخت مزاج
ہیں مگر برے نہیں ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"ابھی اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ کچھ
بھی نہیں سننے والی۔" وہ گہری سانس بھر کر ایک
نظر اس کے معصوم سے سراپے پر ڈال کے پیر
پٹختی واپس پلٹ گئی۔
"مجھے خود ہی اس کمینے پر نظر رکھنی پڑے گی،
کہیں کائنات کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔" وہ انگلیاں
پٹختی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
"پتہ نہیں حور کو شیری بھائی سے مسئلہ کیا ہے،
ماما اس کی اور بھائی کی شادی کے خواب دیکھ رہی
ہیں اور یہ تو ان کی مزید گہری دشمن بنتی جا رہی
ہے۔ خدا جانے کب عقل آئے گی اسے۔" کائنات تاسف
سے سوچنے لگی۔
96
وہ لوگ دو جیپوں پر تھے۔
خان پور سے نکل کر موڑ کاٹتے ہی سب سے پہلے
سردار دالور خان کی گاڑی اس کے قریب سے گزری
تھی۔
اس نے تیزی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور دالور خان
کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔
وہ بنا ظاہر کیے ان کا پیچھا کر رہی تھی۔
بہت آگے جا کر وہ لوگ ایک دھابے پر رکے تھے۔
زری کو بھی مجبوراً گاڑی روکنی پڑی۔
"ایک سردار ہو کر بھی اتنے چھوٹے سے دھابے پر
کتنے آرام سے کھانا کھا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے
دل لوٹ لیا۔" وہ ان سے کافی فاصلے پر بیٹھی ہُدی
سے منہ چھپائے ہوئے تھی۔
"یار دالور! تمہاری فصلوں کا بہت افسوس ہوا۔ تم نے
کوئی ایکشن نہیں لیا اس بات کی حیرانی بھی ہے۔"
اس کے ایک دوست نے کہا۔
"ایکشن تو میں ضرور لوں گا.....مگر فلحال تو قبیلے
والوں کی مدد کر رہا ہوں۔ کل ہل چالئے گئے ہیں
97
زمینوں میں۔ اِدھر سے واپس جا کر موسمی فصل
بیجواؤں گا۔ان سب سے فری ہو کر اس گلریز خان کو
سبق سکھاؤں گا۔" وہ نوالہ بناتے ہوئے بوال۔
"یار یہ بورنگ باتیں چھوڑو۔ یہ بتا تو شادی کب کر
رہا ہے؟" ایک دوسرے دوست کے استفسار پر وہ
مبہم سا مسکرا دیا۔
"ہاں خان! اب شادی کر لے۔ ہم سب بچوں والے ہیں
اور تو ابھی کنوارا گھوم رہا ہے۔" تیسرے نے کہا۔
"کر لوں گا شادی بھی ،کون سا بوڑھا ہوا جا رہا ہوں۔
ابھی مجھ پر بہت زمہ داریاں ہیں ،شادی کی کوئی
گنجائش نہیں۔" اس نے نہایت کوفت بھرے لہجے میں
آخری فقرہ کہا تھا۔
"ٹھیک ہے بھئی تم نہیں ہم تو بوڑھے ہو رہے ہیں۔"
"اسی لیے تو میں شادی نہیں کر رہا کہ شادی کے بعد
بوڑھا ہو جاتا ہے بندہ۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا تو
سب ہنس دیئے۔
98
"غصے میں جتنا ہینڈسم لگتا ہے ،ہنستے ہوئے کئی
گنا زیادہ ہی لگتا ہے۔" وہ ٹکٹکی باندھے اسے
دیکھے جا رہی تھی۔
وہ لوگ کھانا کھانے کے بعد اٹھ کر باہر نکل گئے
تھے۔
وہ بھی تیزی سے اٹھ کر دھابے سے جیسے ہی نکلی
ان سب کو اپنی گاڑی کے قریب رکے دیکھا۔
"خان! یہ گاڑی تمہارے خان پور سے ہی ہمارے
پیچھے آ رہی ہے کس کی گاڑی ہے؟"
"خان پور میں سے کسی کی نہیں۔" وہ نمبر پلیٹ
دیکھتے ہوئے بوال پھر پلٹ کر پیچھے دیکھا تو زری
نے خوف زدہ ہو کر تیزی سے رخ پھیر لیا۔
"کون ہو تم؟" وہ اس کے سر پر پہنچ چکا تھا اور
پیچھے سے اس کی گردن دبوچ لی۔
وہ کراہ کر رہ گئی۔
"م میں ہوں سردار سائیں! پلیز لیو می۔" وہ تیزی
سے بولی۔
99
لڑکی کی آواز سن کر وہ بری طرح سے چونکا اور
ہاتھ کھینچ کر پیچھے ہٹا۔
اس کے دوست دلچسپی سے دیکھ رہے تھے کہ کون
لڑکی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔
"تم؟ یہاں؟ میرا پیچھا کیوں کر رہی ہو؟" وہ جیسے
ہی پلٹی دالور خان بھڑکا۔
"کوئی کسی کا پیچھا کیوں کرتا ہے؟" وہ اس پر
نگاہیں ٹکائے بولی۔
"دیکھو لڑکی میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا"....
"سردار سائیں! میں نے کون سی ایسی گستاخی کی
ہے جو آپ اس طرح بےرخی برتتے ہیں؟ ہر چاہنے
والے کی محبت کا جواب محبت سے دیتے ہیں،
مجھے وہ بھی نہیں چاہیے محض آپ کو دیکھنے کی
خواہش ہے۔"
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بےچینی سے گویا ہوئی۔
" چلو گائز ......شی از مینڈلی سیک۔" وہ بنا مزید اس
پر ایک بھی نگاہ ڈالے پلٹ گیا۔
100
"اب ہمارا پیچھا کیا تو جان سے مار ڈالوں گا۔" وہ
اپنی جیپ کی جانب بڑھتا سختی سے بوال۔
"اب کیا کروں؟" وہ خود سے بولی۔
تبھی اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا تھا۔
تیزی سے آگے بڑھی اور اپنی گاڑی کے ٹائر میں
سے ہوا نکالنے لگی۔
تب تک اس کی جیب اسٹارٹ ہو چکی تھی۔
"خان! وہ پاگل لڑکی اپنی گاڑی کے ٹائر میں سے ہوا
نکال رہی ہے۔"
"نکالنے دو۔تم لوگ بیٹھو۔" اس نے جھنجھال کر کہا۔
"یار یہ سنسان جگہ ہے ،دور دور تک کوئی بھی
ایسی جگہ نہیں جہاں سے وہ ٹائر میں ہوا بھروا
سکے گی۔"
"تم لوگوں کو زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے اس لڑکی
سے؟ تو جاؤ جا کر کرو مدد۔" وہ سختی سے بوال۔
" سردار سائیں! میں نے تو سنا تھا آپ عزتوں کے
رکھوالے ہیں۔"
101
"تمہارے رکھوالے تمہیں قابو میں نہیں رکھ سکتے
تو اس میں ہم کیا کریں۔ کم آن بوائز جلدی سے گاڑی
میں بیٹھو۔"
"پلیز بھائی لوگ اپنے اس گھمنڈی دوست سے
درخواست کر دو کہ مجھے اپنی اتنی بڑی گاڑی میں
تھوڑی سی جگہ دے دے۔" وہ معصومیت سے بولی۔
"سردار سائیں! آپ کو مجھ سے محبت نہ ہو جائے
اس لیے ڈر رہے ہیں؟" اس نے جب بات بنتی نہ
دیکھی تو نیا پتہ پھینکا۔
دالور خان نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی۔
جینز پر گھٹنوں سے اوپر جاتی شرٹ اس پر ہُدی
پہنے وہ مغربی لباس والی لڑکی اسے زہر لگی تھی۔
"تم جیسی لڑکیوں سے ہم جیسے سردار کبھی محبت
نہیں کرتے جنہیں اپنی عزت و آبرو کا ہی لحاظ نہ ہو،
وہ بیگم سردار جیسے عہدے کے قابل کہاں۔"
اس کے لہجے میں نہ نفرت تھی نہ محبت سپاٹ لہجے
میں کہتے ہوئے وہ اپنے دوست کی جانب متوجہ ہوا۔
102
"تم لوگ رکو۔ ہم آگے جا کر کسی مکائینک کو
بھیجتے ہیں۔" سنجیدگی سے کہہ کر گاڑی بھاگا لے
گیا۔
"تم لوگوں کے دوست کو لڑکیوں سے الرجی ہے
کیا؟"
وہ منہ بسور کر استفسار کرتی اپنی گاڑی کے فونٹ
پر بیٹھ گئی۔
"کچھ ایسا ہی ہے۔مگر آپ کون؟"
"میں زرمینہ ہوں سردار سائیں کے دشمنوں کی
لڑکی۔" اس نے اطمینان سے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے
کہا تو وہ چاروں چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
"مگر میں دشمن نہیں ہوں۔" اس مرتبہ کچھ اور انداز
میں اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
"اچھا ایک بات بتاؤ تم لوگ۔ خان کی زندگی میں کوئی
لڑکی؟ کوئی گرلفرینڈ؟ افیئر؟ یا وہ بروکن ہارٹ ہے؟"
"بی بی اس کی زندگی میں ان سب کے لیے وقت ہی
نہیں ہے۔ ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا
103
کرے مگر وہ ہے کہ ان سب ریلیشن شپ سے دور
بھاگتا ہے۔" ان کی بات پر وہ ہنس دی تھی۔
"آپ اسے پسند کرتی ہیں؟"ایک لڑکے کے استفسار
پر اس نے بےحد غصے سے اس کی جانب دیکھا۔
"دیوانی ہوں اس کی۔ نظر نہیں آتا کہ اتنی دور بنا
کسی سے ڈرے پیچھے پیچھے آ گئی ہوں۔" سختی
سے کہا تو وہ محض سر ہال گئے کہ یہ تو واقع ہی
تھوڑی نہیں....بہت زیادہ پاگل ہے۔
"ویسے کیا لگتا ہے میرا چانس ہے؟" اس نے
مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔
ان سب نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر
اسے۔
"ہرگز نہیں۔"
"جانتی ہوں ،مجھے چانس نہیں چاہیے بس اس کی
بن کر رہنا چاہتی ہوں۔" وہ پٹر پٹر بول رہی تھی اور
وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں سن رہے تھے۔
وہ ریڈی ہو کر مبہم سی مسکراہٹ لیے گنگناتی ہوئی
سیڑھیاں اترنے لگی۔
104
"ارے کیا لگ رہی ہو یار".....
کائنات ابھی گیلری سے نکل ہی رہی تھی کہ اچانک
سے چھوٹی چاچی کے کمرے سے ان کے بھائی کا
صاحب زادہ نمودار ہو کر ٹھیک اس کے سامنے آ
کھڑا ہوا تو وہ خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی۔
اس وقت گھر کا یہ حصہ بلکل سنسان اور تاریک
تھا،ہال میں روشن الئٹوں کی روشنی یہاں تک تھوڑی
بہت پڑ رہی تھی۔ کائنات ڈر کے مارے سپید پڑنے
لگی۔
"میرے راستے سے ہٹو۔" وہ ہمت پیدا کرتے ہوئے
بولی۔
"نہ جی.....جی بھر کر دیکھ تو لینے دیں اس چاند
سے روشن چہرے کو۔" وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا
اور وہ پیچھے ہٹ رہی تھی۔
وہ اچانک ہی اس کے عقب سے نکلنے لگی تو اس
لڑکے نے کائنات کی کالئی تھام کر اپنی جانب کھینچا۔
105
"مجھ سے ہوشیاری مت کرو لڑکی چپ چاپ میری
بات مان لو۔" اس خبیث کی گھٹیا سرگوشی کان میں
جیسے ہی پڑی وہ چکرا کر رہ گئی۔
"کوئی ہے.....ہیلپ می......کوئی "....اس سے پہلے
کہ وہ مزید چیختی اس شخص نے اس کے منہ پر اپنا
بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے
بالوں کو زور سے کھینچا۔ہاتھوں میں پہنے گجروں
سے کئی پھولوں کی پتیاں ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئی
تھیں۔
وہ اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا کہ
اچانک اسے پیچھے قدموں کی چھاپ سنائی دی۔
اس سے پہلے کہ وہ بھاگنے کی کوشش کرتا شیری
نے اسے آ دبوچا تھا۔
"ہمارے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہو؟......جان سے
مار دوں گا۔"
کائنات اپنے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی دوپٹے کو
زمین سے اٹھا کر چھپانے کی کوشش کرتی بھری
بھری ریت کی مانند زمین پر ڈھے سی گئی۔
106
وہ ویران ساکت آنکھوں سے شیری کو دیکھ رہی تھی
جو اس لڑکے کو زمین پر لٹائے اس پر بیٹھا مکے
،گھوسوں سے اس کی درگت بنا رہا تھا۔
"م معاف کر دیں شیری بھائی! میں تو بس کائنات کو
ڈرا رہا تھا۔ سچ میرا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا۔" وہ
اپنی جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا تھا۔
شیری نے ایک اور زور کا مکا اس کے منہ پر
برسایا تھا اور اس کا گریبان تھام کر جھنجھوڑ کر
کھڑا کیا۔
"اب اور آئندہ کبھی بھی مجھے تم اس گھر میں نظر
آئے تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا ساری زندگی یاد
رکھو گے دفع ہو جاؤ ابھی ".....وہ دانتوں پہ دانت
جمائے خونخوار نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے
بوال اور اسے پیچھےدھکیل کر کائنات کی جانب بڑھا۔
"کائنات!" اس کے قریب پیروں پر وزن دے کر وہ
بیٹھتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کےنرمی
سے بوال تو وہ یوں کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی جیسے
بھوت دیکھ لیا ہو۔
107
"ریلکس.....کچھ نہیں ہوا۔ چلو اٹھو شاباش".....
وہ نرمی سے اسے شانوں سے تھام کر اٹھاتے ہوئے
بوال۔
"وہ ......وہ مجھے .....مجھے ".....وہ اٹھ کر کھڑے
ہوتے ہوئے اسے بتانے کی کوشش کرتی کرتی پھوٹ
پھوٹ کر روتی شیری کے شانے سے لگ گئی۔
"کائنات! کچھ بھی نہیں ہوا۔ تم نے دیکھا نہیں میں
نے اسے کتنا مارا۔ چلو اب آنسو پونچھو۔"
وہ اس کا سر سہالتے ہوئے بوال۔
شاہزیب اپنا فون کمرے میں بھول گیا تھا ہال سے
جیسے ہی سیڑھیاں چڑھنے لگا گیلری سے کائنات کی
چینخ سنائی دی تھی وہ تیزی سے اس جانب بڑھا۔
"شیری بھائی! وہ ....وہ پھر آ جائے گا۔ پ پلیز
مجھے بچا لیں .....وہ وہ میرے بال.....میرے بال
نوچ ".....وہ ہچکیوں کے درمیان بتانے کی کوشش
میں ہلقان ہوتی ہوتی اچانک ہی گرنے لگی تھی کہ
شیری نے تیزی سے اسے شانوں سے تھام لیا۔
108
"کائنات !.....کیا ہوا؟" وہ فکرمندی سے اس کی
رخساروں کو تھپتھپاتے ہوئے گویا ہوا۔
"یہ تو بےہوش ہو گئی۔" وہ تیزی سے اسے اٹھا کر
پلٹا اور گیلری سے چڑھتی سیڑھیاں عبور کرتا اس
کے کمرے تک پہنچا۔
"کائنات! آنکھیں کھولو۔"
شیری نے پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے اس کی
رخساروں کو تھپکا۔
کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئی تھی۔
"تم ایسا کرو کچھ دیر ریسٹ کر لو پھر نیچے آ جانا۔"
وہ اسے ہوش میں آتے دیکھ سکھ کا سانس لے کر
گویا ہوا۔
"شیری بھائی! پلیز مجھے اکیلے نہیں رہنا آپ حور
کو کال کر کے بال دیں۔" وہ جیسے ہی جانے لگا
کائنات وحشت سے بولی۔
"میرا فون تو روم میں ہے میں لے".....
"نہیں آپ میرے فون سے فون کر لیں۔پلیز۔"
109
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
شیری کا بلکل بھی موڈ نہیں تھا حور کے منہ لگنے
کا مگر وہ کائنات کی کیفیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے
ڈریسنگ پر پڑے اس کے فون کی جانب بڑھا۔
"ہیلو".....
کال اٹھا لی گئی تھی مگر پیچھلے لگے ڈیک کی آواز
اس قدر بلند تھی کہ شیری نے بےاختیار فون کان
سے ہٹایا۔
"ہاں بولو کائنات! میں فائزہ ہوں حور ڈانس کر رہی
ہے۔"
وہ سٹیج کے قریب سے ہٹتے ہوئے منہ کے آگے ہاتھ
رکھ کر بلند آواز میں بولی تھی شیری نے کال کاٹ
دی۔
"کیا ہوا وہ آ رہی ہے؟"
"وہ ڈانس کر رہی ہے۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے
فون واپس ڈال چکا تھا۔
"اوہ ".....وہ اٹھنے لگی۔
110
"کہاں جا رہی ہو؟"
"میں ٹھیک ہوں اب شیری بھائی! ذرا اپنی حالت
درست کر لوں پھر نیچے چلیں گے۔" وہ دوپٹہ اچھے
سے خود پر پھیالئے شیشے کے سامنے جا کھڑی
ہوئی۔
شیری دائیں جانب پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔
چٹیا کھولتے اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔
جس لڑکی کو کسی نے آج تک پھول نہیں مارا تھا
ایک درندے نے اسے بری طرح سے جھنجھوڑ دیا
تھا۔
اس کے بالوں کو نوچا تھا۔
اگر شیری نہیں آتا تو اس وقت وہ کہاں ہوتی؟
یہ خیال آتے ہی اس نے جھٹ سے گردن گھما کر
شیری کی جانب دیکھا جو میز پر سے اس کی کوئی
کتاب اٹھائے ورق گردانی کر رہا تھا۔
"حور! تم کتنی خوش قسمت ہو ،تم شیری بھائی
جیسے بہترین شخص کی زندگی میں شامل ہونے جا
رہی ہو۔" وہ سوچتے ہوئے مبہم سا مسکرائی تھی۔
111
شیری نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔
"کائنات! تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ایسا کرو تم
کچھ دیر آرام کر لو۔"
وہ اس کے کانپتے وجود کو دیکھ چکا تھا۔
"ن نہیں میں"......
" کچھ دیر آرام کر لو۔ ڈانس بعد میں کر لینا ....ساری
رات فنکشن چلنے واال ہے۔"
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں بوال۔
"آپ کو کس نے کہا میں نے ڈانس کرنا ہے؟ مجھے
نہیں آتا یہ ڈانس وانس .....آپ کو آتا؟"
وہ اس کے لہجے کو سمجھ نہیں پائی تھی تبھی اس
سے استفسار کر رہی تھی۔
"مجھے پسند نہیں ہے یہ سب۔اور اچھی بات ہے کہ
تم اس سب سے دور ہو۔" وہ کتاب دوبارہ سے چہرے
کے سامنے کر چکا تھا۔
کائنات اس کی بات رد نہیں کر سکتی تھی تبھی واپس
پلٹ کر بیڈ پر جا بیٹھی۔
112
"شیری بھائی! ایک بات پوچھوں۔" وہ چند پل کی
خاموشی کے بعد بولی۔
"ہوں۔" مصروف سا انداز۔
"کیا آپ کو اپنے بابا کے بارے میں جاننے کا اشتیاق
نہیں ہوتا؟ کہ وہ کون تھے؟ کہاں ہیں؟" اس کی بات
پر شیری کے ہاتھ صفحہ پلٹتے رک گئے تھے۔
"نہیں۔" وہ بےتاثر لہجے میں بوال۔
"شیری بھائی! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔" وہ کچھ
سوچتے ہوئے بولی۔
شیری نے ایک نظر اس کے جھکے سر پر ڈالی۔
"کہو ،کیا کہنا ہے؟" وہ کتاب واپس رکھتے ہوئے
پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔
"آپ بہت اچھے ہیں شیری بھائی! مگر یہاں کوئی بھی
آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔"
اس کی بات پر وہ مبہم سا مسکرایا۔
"کیا تم بھی مخلص نہیں ہو؟"
113
"نہیں نہیں.....میرا مطلب ہے میں اپنی بات نہیں کر
رہی.....میں ت تایا لوگوں کی اور ساگر بھائی لوگوں
کی بات کر رہی ہوں۔" وہ تیزی سے بولی۔
"دیکھو ڈیئر! آج کل کے دور میں یہاں منہ کے
میٹھے لوگ اندر سے سانپ جیسے زہریلے نکلتے
ہیں۔اسی لیے تمہیں ایک بھائی ہونے کے ناطے
سمجھاتا ہوں کہ سوچ سمجھ کر چال کرو۔"
وہ اس کی بات پر سر اثبات میں ہال گئی۔
"اور ہاں میری جاب کی ٹینشن نہیں لو۔ سی ایس ایس
کے ایگزامز کی تیاری تقریبا ً ختم ہو چکی ہے۔ پھر
تمہارا بھائی تمہارے کہہ مطابق ڈی سی پی کی سیٹ
پر بیٹھے گا۔"
وہ اس کی بات یاد کرتے ہوئے مسکرا دیا تو وہ ہنس
دی۔
ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے وہ بہت حد تک نارمل
ہو گئی تھی اور اب خود پر بلینکڈ اوڑھ کر لیٹ چکی
تھی کچھ دیر بعد ہی وہ نیند کی آغوش میں اتر گئی تو
شیری نے کتاب پر سے سر اٹھا کر اس پہ ایک نظر
114
ڈالی اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔دیوار پر لٹکی دروازے کی
چابی اتاری اور دروازہ باہر سے مقفل کر کے ایک
نگاہ بند دروازے پر ڈالی اور وہاں سے ہٹ گیا۔
اُس واقعے کو مخفی رکھا گیا تھا۔ شیری نہیں چاہتا
تھا کہ خاندان میں کوئی بھی کائنات کے متعلق باتیں
بنائے اور وہ خود بھی ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھی،
تبھی وہ سب کچھ بھول کر صبح پھر سے ہر کام میں
اسی طرح پیش پیش تھی جیسے پہلے ہوتی تھی۔
حاالنکہ بخار کی شدت وہ اپنے وجود پر محسوس کر
رہی تھی۔
آج ساگر کی بارات تھی۔ اور ساری لڑکیاں پالر گئی
ہوئی تھیں۔
حور نے اپنے پیسے بچائے اور اپنے ہاتھوں کا جادو
دکھاتے ہوئے اپنے پریوں جیسے حسن کو چار چاند
لگا دیئے۔
وہ کافی دیر تک آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتی
رہی .....نہیں وہ خود کو نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ
شازار کے خیالوں میں اس قدر کھوئی کہ وقت سرکتا
گیا۔
115
آج کل وہ یوں ہی ہر شے سے بیگانی سے ہو گئی
تھی ،دن با دن اس کی سوچیں بڑھتی جا رہی تھیں
اور وہ اپنے اردگرد سے غافل ہوتی جا رہی تھی۔
"نجانے شازار کو میں یاد بھی ہوں گی یا نہیں؟" وہ
افسردگی سی سر جھکائے سوچتی ہوئی کمرے سے
نکل گئی۔
"کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ،میں اسے اتنا
یاد کرتی ہوں وہ بھی تو کرتا ہو گا۔"
وہ ان ہی سوچوں میں گم چل رہی تھی کہ اچانک
سامنے سے آتے شیری سے بری طرح سے ٹکرائی۔
"سنبھل کر میڈم جی!" وہ طنزیہ انداز میں بوال۔
حور نے بےاختیار سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔
"کیا کہا دوبارہ کہنا پلیز ".....وہ مسکراتے ہوئے
بولی تو شیری نے آنکھیں سکوڑے اسے گھورا۔
"کیا کہوں؟"
"یہ ہی میڈم جی۔ کہو نا۔" وہ بےچینی سے گویا ہوئی۔
116
"کیا ،دماغ خراب ہو گیا ہے؟" وہ حیرانگی سے اسے
دیکھتا اس کے عقب سے نکل گیا۔
وہ حیران اس بات پر تھا کہ حور نے اس سے لڑائی
کیوں نہیں کی اس ایکسڈنٹ پر؟
"کائنات! میرے لیے ایک کپ گرین ٹی بنا الؤ جلدی
سے۔میری طبیعت ذرا عجیب ہو رہی ہے۔"
وہ جو بڑی تائی کو جیولری پہنا کر اپنے کمرے کی
جانب بڑھ رہی تھی کہ جا کر ریڈی ہو جائے چاچی کی
فرمائش پر وہ مسکرا کر وہاں سے ہی پلٹ کر کچن
کی جانب بڑھ گئی۔
وہ جو چاچی کے پیچھے ہی کھڑا تھا ان کی فرمائش
پر پنج و تاب کھا کر تیز قدم اٹھاتا اس کے پیچھے
بڑھا۔
"اپنے کمرے میں جاؤ اور.....اور جلدی سے ریڈی ہو
کر پانچ منٹ میں نیچے آؤ۔"
وہ اس کے ہاتھ سے ساس پین کھینچتے ہوئے بوال۔
"کیا ہوا ہے شیری بھائی؟" وہ تشویش سے اس کی
جانب دیکھنے لگی۔
117
"میں نے جو کہا ہے وہ کرو۔ تم ان سب کی نوکر نہیں
ہو......میں نے کنتی مرتبہ سمجھایا ہے تمہیں کہ ان
سب کو سر پر مت چھڑاؤ اتنا۔" وہ اس کی آنکھوں
میں آنکھیں گاڑھے سخت لہجے میں بوال۔
"ٹھیک ہے مگر اتنا غصہ کیوں ہو رہے ہیں؟" وہ
ڈرتے ہوئے بولی۔
"اوکے نہیں ہوتا ،اب جاؤ۔"
"مگر چاچی نے چائے".....
"سو مالزم ہیں گھر میں کسی سے کہہ دو۔ یہ جو
ت خلق کا شوق ہے نا اس کو ٹھنڈا رکھو۔"تمہیں خدم ِ
وہ سختی سے کہہ کر پلٹا ،کچن کے دروازے میں
رکتے ہوئے وہ بوال۔
"صرف پانچ منٹ.....اس کے بعد مجھے تم گاڑی میں
بیٹھی نظر آؤ۔" وہ کہہ کر وہاں سے چال گیا اور وہ
اس کی چوڑی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔
"عجیب ہیں شیری بھائی بھی ،کبھی دھوپ جیسے
سخت تو کبھی بارش.....جیسے نرم۔" وہ سوچ کر
118
مسکرائی اور کچن سے نکل کر ایک مالزمہ کو چائے
کا کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
پھر ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ اپنی لمبی فراک سنبھالے
بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
وہ جو ہال میں کھڑا بڑے تایا کی کوئی بات غور سے
سن رہا تھا اس کی جانب دیکھنے لگا۔
لمبے آبشاروں کے جیسے ریشمی بال کمرے پر
بکھرے تھے ،جیولری کے طور پر کانوں میں ننھے
سفید رنگ کے بوندے تھے اور ہاتھوں میں پھولوں
کے گجرے۔
دائیں ہاتھ میں سفید چادر تھامے وہ اس کی طے
کھولتے ہوئے اپنی والدہ سے کچھ کہہ رہی تھی ،پھر
سر ہال کر مسکرا دی۔
ماں دائیں جانب بڑھ گئیں تو تایا کا سپوت اس کے
قریب آ رکا۔
"کائنات! یہ تم ہو؟" وہ پُرجوش انداز میں بوال تھا
کائنات مبہم سا مسکرا دی۔
119
"ان لڑکیوں کے اتنا میک اپ تھوپ رکھا ہے پھر بھی
تمہیں مات نہیں دے پائیں۔ ما شاءہللا۔" وہ مزاحیہ خیز
انداز میں بول رہا تھا جبکہ وہ کنفیوژ ہو رہی تھی
اسے ہمیشہ ہی نظروں میں آنے سے ڈر لگتا تھا۔
وہ ہمیشہ بیک گراؤنڈ میں رہنے والی لڑکی تھی مگر
آج کل نجانے سب کی نگاہیں اس پر ہی کیوں ٹھہر
رہی تھیں۔
"مگر تمہیں مات دینے والی بھی ہے۔" وہ اس کی
توجہ حور کی جانب کرتے ہوئے بوال۔
حور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے تمام کزنز کے ساتھ
سیلفیاں لے رہی تھی۔ اور وہاں موجود تمام لڑکیوں
میں وہ نمایاں تھی۔
"حور تو حور ہی ہے۔ایکسکیوز می ،سیلفی کا موقع
گنوا دینا بیوقوفی ہو گی۔" وہ آنکھ دبا کر کہتا آگے
بڑھ گیا جبکہ کائنات نے سکھ کا سانس لیا۔
"تمہیں تنگ کر رہا تھا کاشف؟" وہ اس کے قریب
رکتے ہوئے بوال۔
120
"ارے آپ یہاں ہیں گاڑی کے پاس ہونا چاہیے تھا
نا....میں تو ابھی آنے ہی والی تھی۔" وہ چہکتے
ہوئے بات بدل گئی۔ وہ اس کی اس حرکت پر مبہم سا
مسکرا دیا۔
"آج کل کائنات اور شیری کی بہت بنتی ہے۔ خیریت
ہے نا؟" ایک کزن نے دوسری کے کن میں گھس کر
کہا۔
وہ ان کی جانب دیکھنے لگی۔
وہ ڈارک گرے چیک والے پینٹ کوٹ کے ساتھ سفید
شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔
شرٹ کا اوپر کا ایک بٹن کھال تھا ،دائیں ہاتھ کو پینٹ
کی جیب میں گھسائے وہ اپنے سفید دلکش چہرے پر
پیاری سی مسکراہٹ لیے کائنات سے کچھ کہہ رہا تھا۔
"مجھے تو نیا کپل لگتا ہے ،ویسے کپل پیارا ہے۔"
پہلی نے ہی کہا تھا۔
"یہ کائنات جتنی بھولی بنتی ہے اتنی ہے نہیں ،وہ
لڑکا جو کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا وہ اس
کے آگے پیچھے گھومتا نہیں تھکتا .......اور کسی کو
121
بھی ان کی حرکتیں نظر نہیں آ رہیں۔" دوسری سلگی
تھی تو پہلی لڑکی ہنس دی۔
"میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں جانو! آخر تم
نے پاپڑ بھی تو بہت بیلے تھے شیری کو اپنی زلف کا
اسیر بنانے کے لیے۔ خیر جو قسمت میں لکھا
ہو".....
وہ مصنوعی افسردگی سے بولی۔
شیری دائیں جانب گردن گھمائے کزنز کے اس گروپ
کو دیکھنے لگا وہ آپس میں ہنسی مذاق کر رہے
تھے ،کائنات نے محسوس کیا تھا کہ شیری کے
چہرے پر سنجیدگی چھائی تھی۔
"ہم بھی چلیں ان کے پاس؟" وہ سرگوشی میں بولی۔
"نہیں.....دور سے ہی اچھے لگ رہے ہیں پاس گئے
تو سب کچھ برا لگے گا۔ان سب کے دلوں میں ایک
دوسرے کے لیے ایسی محبت نہیں ہے جیسی ظاہر کر
رہے ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے عجیب سے لہجے میں
گویا ہوا تو وہ سر جھکا کر خاموش سی ہو گئی۔
"کائنات! میری بات سنو بیٹا۔" ماں نے بالیا۔
122
"میں ابھی آتی ہوں شیری بھائی!" وہ کہہ کر آگے
بڑھ گئی۔
"مسٹر شاہزیب احمد!.....تم اپنی حدود میں
رہو.....اور میری بہن سے دور رہو نہیں تو مجھ سے
برا کوئی نہیں ہو گا۔"
وہ اس کے سامنے رکتے ہوئے سخت لہجے میں گویا
ہوئی۔
"کیا مطلب؟" وہ پیشانی پر بل لیے گویا ہوا۔
"میرا مطلب تو تم اچھے سے جانتے ہو ،اب انجانے
بننے کی کوشش مت کرو۔" وہ سنجیدگی سے کہہ کر
پھوں پھاں کرتی واپس پلٹ گئی۔
شیری ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ کائنات اس کے
سامنے آ رکی۔
"کائنات بیٹی! چادر اتار دو ،اتنا پیارا ڈریس پہنا ہے
سارا چھپ گیا ہے۔" کسی خاتون نے اسے شانے سے
تھام کر اپنی جانب متوجہ کیا تھا،وہ خاموش سی ہو
گئی۔
123
آنٹی وہاں سے چلی گئیں۔ لوگ باہر کی جانب بڑھ رہے
تھے۔
"چلو کائنات!" حور اس کی کالئی تھامے اپنے ساتھ
کھینچ لے گئی۔
"تم بیٹھو چل کر گاڑی میں ،میں آتی ہوں تھوڑی دیر
تک۔"
وہ اسے ہائی روف کے پاس چھوڑ کر واپس پلٹ گئی۔
وہ خاموشی سے ایک نظر بہت دور کھڑے شیری پر
ڈال کر گاڑی میں سوار ہو گئی۔
"ہائے بیوٹیفل گرل۔" کاشف اس کے ساتھ جڑ کر
بیٹھتے ہوئے بوال تو وہ بری طرح سے ڈر گئی تھی،
اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہاں موجود سب
کزنز ہنس دیئے۔
"کیا ہوا؟ بھوت دیکھ لیا کیا؟" وہ ہنستے ہوئے بوال۔
کائنات کو گھٹن سی ہونے لگی۔ وہ ان سب میں کبھی
فٹ نہیں ہوئی تھی ،وہ ہمیشہ ہی کزنز کے گروپ سے
دور رہی تھی کیونکہ اسے ان کی باتوں ،رویوں سے
عجیب سی الجھن ہوتی تھی۔
124
اور اس وقت اسے رات واال واقع یاد آ گیا تھا اور پورا
جسم ڈر کے مارے شل سا ہو گیا۔
سب کزنز گاڑی میں سوار ہو چکے تھے مگر حور
ابھی تک نہیں آئی تھی اس آنکھوں میں ڈھیروں پانی
بھر گیا۔کاشف کے ساتھ دو تین لڑکے لڑکیاں آ کر
بیٹھے تو وہ اس سے مزید چپک گیا۔
"سوری سویٹ گرل ،مینج کرنا پڑے گا۔" وہ بازو اس
کی سیٹ کی پشت پر پھیالئے یوں بیٹھا تھا کہ وہ اس
کے سینے سے آ لگ رہی تھی وہ اٹھنے سے بھی
گئی ،سر جھکائے آنسوؤں پر قابو پاتی خود میں
سمٹتی جا رہی تھی۔
"تم شرماتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو۔" وہ اس کے
کان کے قریب منہ لے جا کر گھمبیر لہجے میں بوال تو
وہ مٹھیاں بھینچ کر تھوڑا سا پرے سرکی مگر کوئی
فایدہ نہیں ہوا۔
کائنات اس کے لب و لہجے سے اس کے ارادوں کو
بھانپ چکی تھی......وہ ایک عورت تھی اور عورت
کی چھٹی حس بتا دیتی ہے کہ مرد کس انداز میں
اسے دیکھ رہا ہے ،اس کے ارادے کیا ہیں۔
125
"اترو سب نیچے۔" گاڑی چلنے ہی والی تھی کہ شیری
نے زور سے گاڑی پر ہاتھ مار کر گاڑی روکی اور
دروازہ کھول کر ان سب سے کہا۔
"کیا ہوا شیری بھائی؟" ایک لڑکی نے استفسار کیا۔
کائنات نے نم آنکھوں سے سر اٹھا کر اس کی جانب
دیکھا تھا۔
"تم سب نیچے اترو۔" اس نے دوبارہ سے کہا تھا۔
"کائنات! آؤ۔"
اس نے نرمی سے اسے پکارتے ہوئے اس کی جانب
اپنا ہاتھ بڑھایا تھا۔
کاشف تلمال کر نیچے اترا تھا۔
وہ تیزی سے اٹھی اور اس کا ہاتھ تھام کر نیچے
اترنے لگی تو اچانک پاؤں سلیپ ہوا اس سے پہلے
کہ وہ منہ کے بل گرتی شیری نے اس تھام لیا۔
پھر وہ اس کا ہاتھ تھامے اپنی گاڑی تک پہنچا تھا۔
"تھینک یو شیری بھائی!" وہ آنسو پونچھ کر روندے
ہوئے لہجے میں بولی۔
126
"کائنات! یہ جو خاموشی ہے نا بندے کو تباہ بھی کر
دیتی ہے۔"
وہ گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھولتے ہوئے بوال۔
"ماں کہاں ہیں؟ وہ تو آپ کے ساتھ جانے والی تھی
نا؟"
"وہ ماموں لوگوں کے ساتھ چلی گئی ہیں۔انہوں نے
ہی مجھے کہا ہے کہ تمہیں ساتھ لے آؤں۔" اس کے
کہنے پر وہ اسے ایک نظر دیکھ کر گاڑی میں بیٹھ
گئی تھی۔
شیری دروازہ بند کرتا گاڑی کے سامنے سے گھوم کر
ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔
وہ پرسکوں سی سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے
آنکھیں موندے ہوئے تھی۔
"اب تو پیچھلے ایک مہینے سے ہر روز کچھ نہ کچھ
میرے ساتھ برا ہو رہا ہے۔" اس کے آنسو ابھی بھی
خشک نہیں ہوئے تھے۔
127
"شیری بھائی! آپ ہمیشہ میری حفاظت کریں گے نا؟"
وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے معصومیت سے گویا
ہوئی۔
"نہیں کائنات! ہمیشہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔
تمہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ یہ دنیا معصوم اور
خاموش لوگوں کو ہالک کرنے ،یا نگلنے سے پرہیز
نہیں کرتی۔تمہیں تھوڑا بہادر بننا پڑے گا۔"
وہ اسے سمجھا رہا تھا اور وہ منہ پر ہاتھ رکھے
روئے جا رہی تھی۔
"میں چھوٹی سی تھی جب ماں نے کہا تھا کہ اگر تم
لوگ اپنے ابو کے گھر رہنا چاہتیں ہو تو سب کی بات
ماننی ہو گی ،اور خاموش رہنا ہو گا۔زیادہ بولنے والی
لڑکیوں کو بدتمیز کہتے ہیں۔ وہ باتیں میرے دل میں
ایسی بیٹھیں کہ میں اب بول ہی نہیں سکتی۔"
وہ اب خاموش ہونے لگی تھی۔ مگر وجود خوف سے
ابھی بھی کانپ رہا تھا،اسے اپنے اس کان کی لو
سلگتی محسوس ہو رہی تھی جس میں کاشف
سرگوشیاں کرتا رہا تھا۔وہ بار بار کان کو مسل رہی
تھی مگر وحشت کم نہیں ہو پائی۔
128
"تم اب بچی نہیں رہی۔ تمہیں اگر کاشف کے ساتھ
بیٹھنا نہیں تھا تو کہہ نہیں سکتی تھی؟ دیکھو کائنات
تمہیں خود کو بدلنا ہو گا۔"
وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
"اگر تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کرے تو تم چپ چاپ
سہہ لو گی؟ نہیں کائنات! یہ تمہاری زندگی
ہے.....تمہاری زندگی کے ساتھ کھیلنے کا حق کسی
کو نہیں ہے۔"
اس کی باتیں وہ بہت غور سے سن رہی تھی۔
شیری نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا وہ
سینے پر ہاتھ لپیٹے سر جھکائے ہوئے تھی ،اس کا
وجود کانپ رہا تھا۔
شاہزیب نے ہاتھ بڑھا کر ہیٹر آن کیا اور اپنا کوٹ اتار
کر کائنات کی جانب بڑھا دیا۔
پیچھلی سیٹ پر مٹھائیوں کے ڈبوں کا ڈھیر پڑا تھا
شیری نے سائیڈ مرر سے پیچھے دیکھا تو ہائی روف
پیچھے ہی تھی ابھی۔
129
"کارٹون دیکھو گی؟" وہ مسکراتے ہوئے بوال تو وہ
نم آنکھوں سے ہنس دی۔
"تمہارے فیورٹ پرنسس والے کارٹون ہیں۔"
شیری نے ہاتھ بڑھا کر کارٹون پلے کر دیئے۔
"چپس؟ یا پوپکارن؟" اس نے استفسار کیا۔
"چپس۔" کائنات نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
"پیچھلی سیٹ پر پڑے ہیں اٹھا لو۔" وہ مسکراتے
ہوئے بوال۔
"شیری بھائی! آپ بہت اچھے ہیں۔" وہ بچوں کی مانند
خوش ہو گئی تھی۔
شیری محض مسکراتا رہا۔
بارات الہور سے رحیم یار خان جانی تھی اور رات
انہیں راستے میں ہو گئی تھی۔
"یہ زندگی بھی کتنی عجیب ہے نا شیری بھائی! کبھی
کوئی پل دکھ کا ہوتا ہے تو دوسرا ہی خوشی کا۔" وہ
اس کے سامنے چپس کا پیکٹ کرتے ہوئے بولی۔
130
"نہیں کائنات! تم ہی ایسی ہو۔ وگرنہ لوگوں کو تو
چھوٹے چھوٹے روگ زندگی بھر خوش نہیں ہونے
دیتے۔تم ایسی ہی رہنا۔" وہ گاڑی موڑتے ہوئے بوال۔
"کبھی کہتے ہیں بدل جاؤں کبھی کہتے ہیں ایسی
رہوں۔ پہلے خود فیصلہ کر لیں۔"
وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔
"ہاہاہا.....میرا مطلب ہے بہادر بنو مگر اپنے اندر کے
زندہ انسان کو زندہ ہی رکھنا۔"
وہ نرمی سے گویا ہوا۔
"اتنے سارے کارٹون؟ آپ بھی دیکھتے ہیں کیا؟" وہ
ویڈیو پلیئر پر انگلی چالتے ہوئے گویا ہوئی۔
"ہاہاہا ہاں....مگر کسی کو بتانا نہیں۔"
وہ رازداری سے بوال تو وہ سر ہال گئی۔
یہ ایک یقین ہی ہوتا ہے جو سکون پیدا کرتا ہے۔
اور کائنات کو اس پر یقین تھا.....وہ پُرسکون سی
بیٹھی کارٹون مووی میں مگن تھی۔ساتھ ساتھ پوپکون
بھی کھا رہی تھی۔
131
شیری اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مطمئن ہو
گیا تھا۔
اسے کائنات کو خوش دیکھ کر دلی سکون محسوس
ہوتا تھا۔
132
جگایا ہی تھا ابھی سپنوں کو
تیری یاد جو آئی
تو پھر یہ رات ڈھل گئی
جا بیٹھے دریجے میں
اٹھنے ہی لگے تھے کہ
سوچ بھٹکی میری
تو پھر یہ رات ڈھل گئی
ہر رات ایک ہی بات ستاتی ہے
کہیں یہ بھی نہ ڈھل جائے
بس تیری چاہ میں
جیسے ہماری پیچھلی
ہر رات ڈھل گئی
133
"میں جس کے ساتھ بھی آئی ہوں اس سے تمہیں
کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ تم تو مجھے وہاں گھٹیا
لوگوں کے ساتھ چھوڑ کر خود گاڑی میں آ گئی تھی
نا.....آئندہ میرے معامالت میں ٹانگ مت اڑنا۔"
وہ بھپری ہوئی شیرنی کی مانند بولی اور اس کا ہاتھ
جھٹک کر آگے بڑھ گئی ،جاتے جاتے رکی اور اس کی
جانب پلٹی۔
"جن کزنز کو تم اچھا سمجھتی ہو اصل میں وہ سارے
ٹھرکی ہیں اور جو حقیقت میں اچھا ہے وہ تمہیں زہر
لگتا ہے۔ واقع ہی بہت عقلمند ہو تم حور! مجھے فخر
ہے اپنی ہونہار بہن پر جسے لوگوں کو پڑھنا آتا ہے۔"
وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر طنزیہ لہجے میں کہتی
وہاں رکی نہیں تھی۔
وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اس کے کانوں
سے مانوس سی آواز ٹکرائی۔یہ آواز دیوار کے پار
سے آ رہی تھی۔
"ش شازار....شازار! کیا یہ آپ ہیں؟"
وہ تیزی سے دیوار کے قریب گئی تھی۔
134
"شازار! م میری بات کا جواب دیں....کیا اس طرف آپ
ہیں؟" وہ بیوقوفوں کی مانند دیوار سے چپکی چال چال
کر اسے پکار رہی تھی۔
وہ جو فون پر کسی سے محو گفتگو تھا حیرانگی
سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
پھر اس کا دھیان ہوٹل کے الن کی ساتھ فٹ کی دیوار
کی جانب گیا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھا اور کرسی دیوار کے ساتھ
رکھ کر کرسی پر چڑھ گیا۔
"جی میڈم جی؟" وہ دیوار پر لٹکتے ہوئے بوال۔
حور دو قدم پیچھے ہٹ کے سر اٹھا کر اسے دیکھنے
لگی۔
"آپ یہاں ہیں بتایا ہی نہیں۔"
"استاد کیسے بتاتے نمبر تو ہے نہیں ان کے پاس۔"
عاصم نے لقمہ دیا تو وہ گردن گھما کر اسے گھورنے
لگا۔
"ارے قاصم بھائی کیسے ہیں آپ؟"
135
"ّٰللا کا شکر ہے باجی پر میرے استاد صاحب کچھ
ہ
دنوں سے ٹھیک نہیں ہیں۔" اس نے شرارت سے کہا
تھا۔
"اوئے چپ کر ،جا جا کر ٹرک خالی کروا۔"
شازار نے اسے ڈانٹ کر بھیج دیا۔
"شازار! نیچے آ جائیں۔"
"پکا؟"
وہ اس پر نگاہ ڈالتے ہوئے بوال تبھی کائنات باتھروم
سے نکلی تھی۔
"میں اس طرف آتی ہوں۔ ابھی جائیں۔" وہ تیزی سے
گویا ہوئی تو شازار سر اثبات میں ہالتا واپس کود گیا۔
"کائنات! میری بات سنو! ".....وہ اس سے رخ موڑے
جانے لگی تھی جب وہ اس کی جانب بڑھی۔
"مجھ سے فلحال دور رہو۔" وہ اس کے ہاتھوں کو
جھٹکتے ہوئے بولی۔
"اور تم اس شیری سے دور رہو۔" وہ دانتوں پہ دانت
جمائے بولی۔
136
"نہیں رہوں گی۔ تمہیں کوئی .....مسئلہ؟" وہ ایک
غصیلی نگاہ اس پر ڈالتی وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ
سلگ کر رہ گئی۔
"میڈم جی!" تبھی اس نے اپنے پیچھے شازار کی
آواز سنی تو اپنی جگہ اچھل پڑی۔
"سوری میڈم جی پر اُدھر بہت اندھیرا ہے اسی لیے
میں یہاں ہی آ گیا۔"
وہ شرمندگی سے بوال۔
"کوئی بات نہیں۔ آپ اچانک سے آئے تو گھبرا گئی۔"
وہ مبہم سا مسکرا کر اسے ایک نظر دیکھ سر جھکا
گئی۔
وہ سوچتی رہی تھی کہ اگلی مالقات میں اسے جی بھر
کے دیکھے گی مگر اس وقت جب وہ اس کے روبرو
دیدار یار کی تاب سے ہی وہ سرخ ہوئے جا
ِ تھا تو
رہی تھی۔
"میڈم جی! یہ آپ کا جھمکا۔ ٹرک میں گر گیا تھا۔"
137
"ہاہاہا.....ارے نہیں یار! حور ادھر ہی ہے اس سے
پوچھ لو۔ اس نے ہی سٹیٹس لگایا ہے۔" اس کی کزنز
ہنستی ہوئی اس جانب آ رہی تھیں۔
"اوہ شیٹ......شازار! آپ پلیز جائیں.....وہ تیزی سے
آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے جھمکا تھام کر پلٹی
مگر ہاتھ اس کے ہاتھ میں دبا رہ گیا تبھی وہ اس کی
جانب کھینچتی چکی آئی۔
شازار بری طرح چونک کر اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے
دو قدم پیچھے ہٹا۔
وہ جھمکا اسی کے پاس چھوڑتی وہاں سے بھاگ گئی
تھی وہ بھی بھاگ کر باتھروم کے پیچھلی جانب چھپ
گیا۔
اس نے نگاہیں دائیں جانب دوڑائیں تو اسے وہاں سے
راستہ نظر آیا جہاں سے مین روڈ نظر آ رہا تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
شازار کے قدموں کی رفتار خاصی تیز تھی۔
وہ وہاں سے نکال تو سامنے ہی دائیں جانب روشنیاں
ہی روشنیاں بکھری تھیں ،وہ سیڑھیاں اتر کر جیسے
138
ہی راہداری پر آیا سامنے سے آتے شیری سے اس کا
شانا ٹکرایا تھا۔دونوں نے بیک وقت پلٹ کر ایک
دوسرے کو دیکھا۔
"سوری مین۔" وہ جو فون پر محو گفتگو تھا
سنجیدگی سے بوال۔
"اٹس اوکے۔" شازار نے اس کے چہرے کو بہت غور
سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
شاہزیب بنا رکے وہاں سے چال گیا تو شازار کسی
گہری سوچ سے ابھر کے نفی میں سر جھٹکتا آگے
بڑھ گیا۔
اس نے ہاتھ میں دبے جھمکے کو واپس کرتہ کی
جیب میں ڈال لیا تھا۔
وہ فجر کی نماز ادا کر کے صبح کی سیر کے لیے نکل
گیا۔
"الال! مجھے یہاں کے رواج نہیں پسند.....کیا آپ کو
اچھا لگتا ہے جب لوگ آپ کے سامنے سر جھکاتے
ہیں؟" پاس سے گزرتے آدمی نے سر جھکا کر سالم
کیا تو اس کی سماعتوں سے ایک آواز ٹکرائی۔
139
وہ ایک دم سے رک گیا۔
"کتنا عرصہ بیت چکا ہے چھوٹے تمہیں ڈھونڈتے
ہوئے۔ نجانے کہاں چال گیا ہے۔ اپنے الال کی یاد نہیں
آتی کیا؟" وہ بڑبڑایا تھا۔
پھر ٹھنڈی آہ بھر کے آگے بڑھ گیا۔
وہ نئی بیجی فصلوں کو دیکھنے آیا تھا مگر اب وہ
کافی آگے چال گیا تھا۔
قمیض کی جیب میں جب فون رنگ کیا تو اس نے فون
نکال کر کال اٹینڈ کی اور فون کان سے لگا لیا۔
"اسالم علیکم سر!"
"و علیکم السالم! کیسے ہو؟" وہ رک کر کال سننے
لگا۔
"ّٰللا کا شکر ہے سر! آپ سنائیں؟"
ہ
"الحمدہلل۔ کچھ پتہ چال خان کا؟" اس نے استفسار کیا۔
"نو سر! میں نے سندھ کا ایک کونا نہیں چھوڑا،
الہور میں بھی آدمی بھیجے ہوئے تھے مگر خان
140
صاحب کا کوئی پتہ نہیں چال۔" سامنے سے مایوسی
بھرے لہجے میں جواب آیا تھا۔
"ٹھیک ہے۔" وہ مایوس ہو کر ضبط سے نیچلے لب
کو دانتوں تلے دبا گیا۔
"سر! آپ کب تک آ رہے ہیں اسالم آباد؟ کچھ
ڈاکومنٹس سائن کروانے تھے۔"
"کچھ دنوں تک آنے کی کوشش کرتا ہوں۔" اس نے
ّٰللا حافظ کہہ کر کال کاٹ دی۔
کہا اور ہ
کچھ دیر خالی دماغی سے وہاں ہی کھڑا غیر اہم
نقطے کو گھورتا رہا۔
"ایسے مت دیکھیں ،پتھر پگھل نہ جائے کہیں۔"
اپنے عقب میں جانی پہچانی آواز سن کر وہ پنچ و تاب
کھا کر رہ گیا تھا تبھی تیزی سے قدم آگے بڑھا دیئے۔
وہ بھی مسکراتے ہوئے بھاگ کر اس کے پیچھے
بڑھی۔
"سردار سائیں! پلیز بات تو سنیں۔"
141
وہ التجاء آمیز لہجے میں گویا ہوئی مگر وہ رکا نہیں
تھا۔
بھاگتے ہوئے وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سے
گزر رہی تھی جب اچانک پاؤں پھسال اور وہ سنبھلتے
سنبھلتے بھی گھٹنوں کے بل گر چکی تھی۔
اس کی چینخ پر سردار دالور خان کے قدموں کی
رفتار آہستہ ہوئی اور انہوں نے پلٹ کر دیکھا۔
"افف یہ لڑکی.....نجانے کیا چاہتی ہے۔" وہ اکتائے
ہوئے انداز میں بڑبڑا کر پلٹا اور اس کی جانب بڑھا۔
"کسی کے پیچھے بھاگنے سے یوں ہی منہ کے بل
گرتا ہے انسان۔"
وہ بنا کچھ کہہ روتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرتی
لڑکھڑا کر گرتی اس سے پہلے ہی اس نے تیزی سے
سردار دالور خان کا بازو تھام لیا۔
"ایم سوری سائیں! مگر انسانیت کے ناطے آپ کا
فرض بنتا ہے کہ زخمی انسان کی مدد کی جائے۔"
وہ سر جھکائے ہچکیوں کے درمیان بولی۔
142
سردار دالور خان نے سر جھکا کر اس کی ٹانگوں کو
دیکھا۔
بہت دھیرے سے گرنے کی وجہ سے بچ بچاؤ ہو گیا
تھا ،پنڈلیوں سے سفید شرارے کے ساتھ ساتھ ٹانگوں
کی جمڑی بھی چھل چکی تھی،اس نے دوسرے ہی
لمحے سر اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
"سردار سائیں! اتنی بھی کیا نفرت؟ آخر میں نے آپ
کا کیا بگاڑا ہے؟"
وہ اس کے سہارے کھڑی تھی ،اور وہ سوچ رہا تھا
کہ اس لڑکی کو دو لگا کر خود سے دور ہٹا دے جب
زرمینہ نے آنسوؤں میں غوطہ زن آواز میں استفسار
کیا۔
وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"اس دن آپ نے مجھے حقارت بھری نگاہوں سے
دیکھا تھا کیونکہ میں نے وہ لباس پہنا تھا جو آپ کو
پسند نہیں تھا......اسی دن ہی میں اپنی جینز ،ٹی
شرٹ ،سلیو لیس ڈریس سب کو آگ لگا دی۔ پرومائز
آئندہ کبھی میں ویسے لباس نہیں پہنوں گی۔" اس نے
143
برا ِہ راست دالور خان کی نیلی آنکھوں میں جھانکتے
ہوئے سچائی بھرے لہجے میں کہا تھا۔
"میں یہ نہیں کہوں گی کہ آپ مجھ سے محبت کریں،
مگر پلیز مجھے خود کو چاہنے سے مت
روکیں......مجھ سے بات مت کریں مگر اس طرح
حقارت سے مت دیکھیں۔" وہ تڑپ کر روتی ہوئی اس
کے شانے سے پیشانی ٹکا گئی۔
"اگر تم چاہتی ہو کہ تمہیں میں ہسپتال پہنچا دوں تو
اپنی زبان اور اپنی گھٹیا حرکتوں پر قابو پاؤ۔ نہیں تو
یہاں ہی چھوڑ کر چال جاؤں گا".....
وہ اپنا بازو کھینچتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے
گویا ہوا۔
وہ جو اس کے سہارے کھڑی تھی لڑکھڑا کر زمین
بوس ہو گئی۔
"آہ "....وہ کراہ کر رہ گئی تھی۔
حیران کن نگاہوں سے اس کی سختی سے مچی
مٹھیوں کو دیکھتے ہوئے سر اٹھا کر اس کے بےتاثر
چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔
144
اظہار محبت کوئی تب ہی کرتا ہے جب
ِ "سردار سائیں!
وہ اپنے دل کے ہاتھوں بہت مجبور ہو جاتا ہے"......
وہ مردہ سی مسکراہٹ لیے گویا ہوئی۔
"ایک انا پرست لڑکی نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک
دیئے ہیں تو کیا یہ بات عجیب نہیں ہے؟"
وہ اس کی بات پر ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈال کر اس
کی جانب جھکا۔
"دیکھو لڑکی ،میں تمہیں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں
اور اب دوسری مرتبہ سمجھا رہا ہوں۔" انگلی اٹھا کر
تنبیہہ کرتے ہوئے بوال۔
"تمہاری اس محبت کی میرے نزدیک کوئی ویلیو نہیں
ہے۔ جس طرح تم نے میرے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں
یہ ہی کسی اور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی تو اپنی
عزت و ناموس سے ہاتھ دھو بیٹھتی یہ میری شرافت
ہے کہ میں تمہاری جانب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا
اسی لیے یہ ہنر کسی اور کے سامنے دکھاؤ جو
شریف نہ ہو ،جو تمہاری اس بےقرای کو ختم کر
سکے۔"
145
وہ تیزی سے بولے جا رہا تھا اور وہ اس کی بات کا
مطلب سمجھتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہو گئی۔
"آئندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا ،یہ تمہارے لیے
بہتر ہو گا......یہ نہ ہو کہ پھر پچھتانا پڑے۔" وہ ایک
حقارت بھری نگاہ اس کے ساکت وجود پر اچھالتا پلٹ
کر لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اس سے دور ہوتا گیا۔
وہ گردن گھما کر اس کی چوڑی پشت کو برستی
آنکھوں سے دیکھتی رہی ،تبھی سر بری طرح سے
چکرایا تھا اور وہ دائیں کروٹ کے بل زمین بوس ہو
کر ہوش کی دنیا سے بیگانی ہو گئی۔
بڑے بڑے زخم بھی انسان ہنس کر برداشت کر جاتا
ہے مگر اپنے محبوب شخص کے منہ سے نکلے تیر
جیسے لفظوں کے زخم ناقاب ِل برداشت ہوتے ہیں۔
148
کائنات تو آگے پڑھنے کا ارادہ ہی ترک کر چکی تھی
مگر یہ تو شیری نے زبردستی اس سے اس کے
پسندیدہ شعبے میں اپالئی کروایا۔
"میرا پسندیدہ شعبہ ضرور ہے مگر شیری بھائی!
مجھ میں بولنے کا کانفیڈنس ہرگز نہیں ہے۔" وہ
آپالئی کرنے گئی تھی جب تو فکرمندی سے بولی تھی۔
"وقت کے ساتھ آ جائے گا ،جب باہر نکلو گی تو
کانفیڈنس خود بخود آ جائے گا۔" وہ بہت پرسکوں تھا۔
"شیری! تم آخر کیا سوچ رہے ہو؟ میں تمہیں سمجھ
نہیں پا رہی؟"
وہ اپنے سر پر حور کی آواز سن کر چونکا ضرور تھا
مگر متوجہ نہیں ہوا وہ رفتہ رفتہ چلتی بینچ کے ایک
سرے پر ٹک گئی۔
"مس حوریہ رائے!....مجھے سمجھنے کی کوشش
مت کرو.....کیونکہ تمہاری سمجھ میں آنے والی شے
نہیں ہوں میں۔" وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہ جو تم کھیل کائنات کے ساتھ کھیل رہے ہو بہت
بھاری پڑے گا۔" وہ گرجی تھی۔
149
"جو تمہارے لیے کھیل ہے وہ میرے لیے رشتہ
ہے۔مگر تمہیں کیا پتہ رشتے کیا ہوتے ہیں۔" سنجیدہ
لہجے میں وہ آخری جملے میں طنز کرتا وہاں سے
ہٹ گیا تھا۔
وہ پنج و تاب کھا کر مٹھیاں بھینچے پیر پٹختی
چھوٹے چچا کے پورشن کی جانب بڑھ گئی۔
150
"ممانی! حوریہ بھی تو اسالم آباد پڑھ رہی ہے ،تو
کائنات کیوں نہیں؟ اور رہی بات گھر والوں کی تو بڑی
اور چھوٹی ممانی کی باتوں پر کان مت رکھیں۔" وہ ان
کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے بوال۔
"بیٹا حور اور کائنات میں فرق ہے۔ حور سمجھدار ہے
ّٰللا کی
اسے اچھے برے کا پتہ اور میری کائنات تو ہ
گائے ہے ،بہت معصوم ہے میری بچی کہیں".....
وہ کہتے کہتے ایک دم سے لب بھینچ کر خاموش ہو
گئیں۔
"ممانی! میں نے جو بھی کیا ہے کائنات کی بھالئی
کے لیے کیا ہے۔" وہ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے بوال۔
ّٰللا کی گائے
"دور بدل گیا ممانی! آج کل کے دور میں ہ
کو لوگ کندچھری سے زبع کر دیتے ہیں میں نہیں
چاہتا کہ ہماری کائنات اپنی معصومیت اور ناسمجھی
کی وجہ سے حاالت کے ستم کا سامنا کرے۔اور رہی
بات اس کے تنہا رہنے کی تو فکر نہیں کریں میں اس
کے پیچھے کھڑا ہوں ہمیشہ۔"
151
وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سچائی بھرے
لہجے میں گویا ہوا۔
ّٰللا نے تمہارے جیسا بیٹا مجھے عطا
"جیتے رہو بیٹا! ہ
کیا جتنا بھی شکر کروں کم ہے۔ بیٹے کی کمی پوری
کر دی تم مے۔" وہ اس کی پیشانی چومتے ہوئے
بولیں۔
"چلیں اب بےفکر ہو جائیں اور مسکراتے ہوئے
کائنات کی تیاری کروائیں مجھے پورا یقین ہے لسٹ
میں نام آ جائے گا اس کا۔"
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم بھی تیاری رکھو ،چھوڑنے تو تم نے ہی جانا
ہے .....بھائی صاحب لوگ تو مصروف ہیں آج کل۔اور
دوسرے لڑکے بہت غیر زمہ دار ہیں ،ان پر مجھے
کچھ خاص بھروسہ نہیں۔"
وہ بولیں تو شیری اثبات میں سر ہالتا کمرے سے نکل
گیا۔
"بس اب جلدی سے شیری نوکری پر لگ جائے اور
میں حور کی بات کروں اس سے۔ "
152
وہ سوچ کر خوشی سے مسکرا دیں۔
ماں شروع سے ہی حور کو شیری کے لیے سوچے
ہوئے تھیں ،من ہی من میں انہوں نے اپنی بیٹی کو
دلہن بنانے کے بیشمار خواب سجا لیے تھے مگر وہ
کہاں جانتی تھیں کہ بیٹی بھی کچھ خواب دیکھ چکی
ہے جن کا رخ شاہزیب احمد کی جانب نہیں تھا.....
وہ کسی اور ہی رخ میں سفر کر رہی تھی جس کا
انجام حوریہ رائے خود بھی نہیں جانتی تھی۔
اس کی سوچ لے مطابق کائنات کا نام پہلی ہی لسٹ
میں آ گیا تھا۔
وہ ماں کے گلے لگی زور و قطار رو رہی تھی۔
اس کے اس طرح رونے پر سب کے ہونٹوں پر شریر
دبی دبی مسکراہٹ تھی۔
بڑی مشکل سے اسے گاڑی میں بیٹھایا گیا تھا۔
"شیری بیٹا! دھیان سے لے جانا اور ہاسٹل جس میں
کائنات رہ گی محفوظ تو ہے نا؟" بڑے تایا نے
استفسار کیا۔
153
"جی بڑے ماموں ،یونیورسٹی کا ہاسٹل ہے۔" وہ
مؤدبانہ انداز میں بوال۔
"ٹھیک ہے بیٹا دھیان سے جانا۔" وہ اس کے شانے
پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
شاہزیب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ساتھ والی
سیٹ پر بیٹھی سوں سوں کرتی کائنات کو دیکھ کر
مبہم سا مسکرایا۔
"کم آن یار! تم رخصت ہو کر سسرال نہیں جا رہیں،
یونیورسٹی پڑھنے جا رہی ہو....اپنا مستقبل روشن
کرنے۔"
وہ گاڑی روڈ پر ڈالتے ہوئے بوال۔
"آپ بہت ظالم ہیں۔ مجھے سب سے دور لے جا رہے
ہیں۔"
وہ ڈیش بورڈ پر پڑے ٹیشو باکس میں سے ٹیشو نکال
کر بہتی ناک کو صاف کرتے ہوئے آنسوؤں میں غوطہ
زن آواز میں بولی۔
"ایک دن مجھے دعائیں دو گی۔اچھا اب خاموش ہو
جاؤ اور سکون کا سانس بھرو۔"
154
"میں نہیں بولتی آپ سے " وہ منہ پھالئے رخ کھڑکی
کی جانب موڑ گئی۔وہ ہنس دیا۔
شیری نے تریچھی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا
اور چپکے سے ویڈیو پلیئر پر کارٹون پلے کر دیئے۔
"چپس یا پوپکون؟" اس کے استفسار پر وہ اس کی
جانب دیکھنے لگی۔
"چپس۔" بہتی ناک کو صاف کرتے ہوئے بولی تو وہ
مسکرا دیا۔
"اچھا کچھ ہدایات کروں گا۔غور سے سننا۔"
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ کچھ سوچتے ہوئے
بوال۔
کائنات نے ویڈیو پلیئر کی آواز کم کر دی تھی۔
"پہلی بات ،یونیورسٹی میں نروس نہیں ہونا کیونکہ
پھر لوگ تمہیں تنگ کرنے لگیں گے۔
دوسری بات ،ہاسٹل میں اگر روم میٹس اچھی نہ ہوں
تو گھبرا نہیں مجھے محض ایک میسج کرنا ،روم
چینج کر لیں گے۔"
155
" اور تیسری بات ،اپنا خیال رکھنا اور اگر کوئی بھی
کسی بھی قسم کی پرابلم ہو مجھے کال کرنا۔اوکے؟"
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
"اگر رات کے بارہ بجے پیزا کھانے کا دل ہو تو بھی
آپ کو کال کر سکتی ہوں؟" وہ شرارت بھرے لہجے
میں گویا ہوئی۔
"بلکل۔" وہ اطمینان سے بوال۔
"اگر میرا وہاں دل نہ لگا تو....تو بھی کال کر سکتی
ہوں؟"
اس نے منہ پھالئے کہا۔
"ہاں مگر صرف بات کرنے کے لیے۔"
"مجھے اب چار سال وہاں ہی رہنا ہے......تنہا؟" وہ
پھر سے روہانسی ہو گئی تھی۔
"بلکل۔" وہ شانے آچکاتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز
میں بوال۔
"دیکھو کائنات! ہم ہر وقت رابطے میں رہیں گے،
ممانی سے تمہاری ویڈیو کال پر بات کروا دیا کروں گا
اور ہر ویک اینڈ پر کوشش کروں گا آنے کی اور
156
ممانی کو بھی الیا کروں گا یا تمہیں سرگودھا لے آیا
کروں گا۔اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔"
وہ گہری سانس بھرتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے
لگا۔
"پکا ہر ویک اینڈ پر آیا کریں گے؟ ماں کو بھی الئیں
گے؟" وہ چہک اٹھی تھی۔
"بلکل بس ایک شرط پر کہ تم دل لگا کر پڑھو گی اور
جیسے اسکول ،کالج میں ٹاپ کرتی آئی ہو یونیورسٹی
میں بھی ٹاپ کرو گی....اوکے؟"
"ان شاءہللا۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
"گڈ گرل۔ چلو اب کارٹون دیکھو۔" وہ مسکراتے ہوئے
بوال تو وہ سر ہال کر کارٹون دیکھنے لگی۔
ِتری انجمن میں ظاِلم عجب اہتمام دیکھا
کہیں قت ِل عام دیکھا
بارشِ ،
کہیں زندگی کی ِ
ِ
157
بڑی منّتوں سے آکر وہ مجھے منا رہے ہیں
میں بچا رہا ہوں دامنِ ،مرا اِنتقام دیکھا
159
"کون احسان؟" وہ فائل میں نوٹس پلٹتے ہوئے گویا
ہوئی۔
"ارے واہ.....تم تو سب بھول گئی.....وہ ہی اپنا سنیئر
ذولوجی ڈیپارٹمنٹ واال احسان جو پیچھلے ایک سال
سے تمہارا دیوانہ بنا پھر رہا ہے۔"
اس نے اسے شانا مارتے ہوئے چہک کر کہا۔
"اب کی بار میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا اس
دل پھینک عاشق سے کہ حور رائے کو ایسے دل
پھینک مردوں سے شدید نفرت ہے۔" وہ حقارت سے
پھنکاری تھی۔
"تم واقع ہی بدل چکی ہو حور! پہلے ایسی باتوں پر تم
ہنستی تھی اور اب اتنی سنجیدگی سے بول رہی ہو۔"
"ہاں۔ کیونکہ تب مجھے یہ محض مذاق لگتا تھا مگر
محبت مذاق نہیں ہوتی۔ آج کل کے لوگ حسن ،پیسہ
سٹیٹس دیکھ کر محبت کرتے ہیں سیریت گئی تیل
لینے۔"
160
" بتاؤ کون ہے اس تبدیلی کے پیچھے؟ تمہیں کسی
سے محبت تو نہیں ہو گئی؟" وہ پُرجوش انداز میں
گویا ہوئی۔
"وقت آنے پر بتاؤں گی۔ ابھی وعدہ کرو کچھ نہیں
پوچھو گی۔"
"شیری سے تو".....
"مرنا پسند کروں گی اس شخص کے متعلق سوچنے
سے پہلے۔"
وہ مافیہ کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے تیکھے
لہجے میں گویا ہوئی۔
"ٹھیک ہے بابا! جب دل چاہیے بتا دینا۔ چلو اب اگال
لیکچر میم عظمی کا ہے جو کہ بےحد اہم ہے....اسی
لیے کالس میں تشریف لے چلیں۔"
وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی تو وہ زبردستی اس کے
ساتھ چل دی حاالنکہ دل کے حاالت کچھ ٹھیک نہیں
تھے۔ ایسے میں وہ تنہا ایک کونے میں بیٹھ کر
فرصت میں اسے یاد کرنا چاہتی تھی۔
161
اس کے بارے میں سوچتے ہوئے جو سکون محسوس
ہوتا تھا یہ ایک الگ ہی احساس تھا۔
میرے درد کی تجھے کیا خبر
یہ بڑھتا ہی جاتا ہے مسلسل
تجھے لکھتی ہوں جو محبت
میرا ٹوٹ ہی جاتا ہے تسلسل
162
اس نے کیونکہ وہ ابھی تک اس سے خفا تھی اور
حور کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا......وہ اپنی ہی
ایک الگ دنیا میں مگن ہو گئی تھی۔
جس رات وہ شازار کے متعلق خواب دیکھتی سارا دن
چہکتی رہتی اور جب جس رات کوئی خوب نہ آتا وہ
سارا دن کمالئی سی پھرتی رہتی۔
دل کی حالت اب مزید غیر ہوتی جا رہی تھی.....اور
شازار سے ہوٹل کے بعد دوبارہ مالقات نہیں ہوئی
تھی۔
163
"گیس واٹ ....کائنات! ".....شیری کی آواز سے ایسی
خوشی جھلک رہی تھی کہ وہ بےاختیار مسکرا دی۔
"میری پوسٹنگ الہور میں ہوئی ہے۔" اب کی باری
اس کے اچھلنے کی تھی۔
"میں نے دعائیں مانگی تھیں کہ آپ کی جاب یہاں
الہور میں ہو۔"
وہ مگ منڈیر پر رکھتے ہوئے دور تک نگاہیں
دوڑانے لگی شہر کی روشنیاں دور دور تک پھیلی
ہوئی تھیں۔ ہڈیوں کو ٹھرا دینے والی ٹھنڈ اس کے
وجود سے ٹکرا رہی تھی۔
"یونیورسٹی میں کوئی تنگ تو نہیں کرتا؟" اس کے
استفسار پر وہ مبہم سا مسکرا دی۔
"نہیں۔" کپ کے کنارے پر انگلی چالتے ہوئے وہ مبہم
سی آواز میں بولی۔
"آج تم چپ چپ سی ہو سب ٹھیک ہے نا؟"
"جی بس تھوڑا سر درد ہے۔ ایسا کرتے ہیں کل بات
کریں گے۔"
164
"ٹھیک ہے میڈیسن لے کر سو جانا۔ جنوری کا مہینہ
ہے سردی بڑھ رہی ہے اسی لیے اپنی کیئر کیا کرو۔"
وہ اپنی کتابیں بریف کیس میں ڈالتے ہوئے گویا ہوا۔
ّٰللا حافظ۔" اس نے سرد آہ بھر کے کال
"ٹھیک ہے۔ ہ
کاٹ دی۔
شیری نے حیران نگاہوں سے فون کو دیکھا۔
"پریشان سی لگ رہی تھی۔ کل جاتے ہی پہلے کائنات
کے پاس جانا پڑے گا۔"
وہ سوچ کر فون واپس میز پر ڈالتا وارڈروب سے
اپنے کپڑے نکال نکال کر بریف کیس میں رکھنے لگا۔
"بیٹا شیری!" ممانی دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کمرے
میں داخل ہوئیں۔
"جی ممانی؟" وہ بریف کیس بند کر کے بیڈ سے اٹھا
کر نیچے رکھتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"یہ پکوان اور لڈو ہیں ،کائنات کو بھی دینا اور خود
بھی کھا لینا۔"
وہ سٹیل کا ڈبا بیڈ پر رکھتے ہوئے اس کی جانب
بڑھیں۔
165
"مجھے تم پر ناز ہے بیٹا! تمہاری محنت اور لگن
رنگ لے آئی۔ مگر شیری بیٹا! اپنی ڈیوٹی پوری
ایمانداری سے کرنا......تم عوام کے محافظ ہو اور اس
زمہ داری کو سچے دل سے نبھانا۔"
وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے
ہوئے نم آنکھوں سے بولیں۔
"میں پیدا ہونے واال تھا....باپ چھوڑ گیا ،پیدا ہوا تو
ماں مر گئی ،آپ نے مجھے اپنے بیٹے کی طرح پاال۔
آپ کی پرورش اور ساتھ نے مجھے یہاں تک پہنچایا
ہے ممانی جان!" وہ ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے
لگاتے ہوئے بوال۔ اس کی اس حرکت پر وہ ایک پل کو
ٹھٹھک کر رک گئی تھیں۔
"کیا ہوا آپ خاموش کیوں ہو گئیں؟"
"تمہارے دودھیال میں جب کوئی کہیں رخصت ہوتا ہے
تو یوں وہ اپنے بزرگوں کے ہاتھ چوم کر دعائیں لیتا
ہے۔" وہ مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
بولیں۔ شیری لب بھینچ کر خاموش ہو گیا۔
166
اسے اپنے دودھیال سے شدید نفرت تھی.....ان کا نام
تک سننا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ دس سال کا تھا جب
اسے ممانی نے اس کی بےجا ضد پر اس کے دودھیال
کی ساری کہانی سنائی تھی۔
وہ دن جائے اور آج کا آئے شیری کے ہونٹوں پر
دوبارہ ان کا نام نہیں آیا تھا۔
"شیری بیٹا! آخر وہ تمہارا پیڑ ہے۔ تم اس پیڑ کی
ٹہنی ہو اس سے ٹوٹ کر تم خوش نہیں ہو میں جانتی
ہوں۔"
"میں خوش ہوں ممانی! ان قاتلوں کے وارث ہونے
سے میں الوارث ہی بہتر ہوں۔" بےحد سپاٹ لہجے
میں کہتے ہوئے وہ رخ پھیر گیا۔
"جو قاتل تھے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔تمہارے
والد واقع ہی بےقصور ہیں ان کے ساتھ".....
"پلیز ممانی! مجھے ان کے متعلق کچھ نہیں سننا۔جو
میری ماں کے نہیں ہوئے وہ میرے سگے نہیں ہو
سکتے۔"
167
اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ خاموش ہو
گئیں۔
"اچھا چھوڑو یہ باتیں ،تم اپنی تیاری کرو.....اتنی
خوشی کی بات ہے یوں پریشان نہیں ہونا۔" وہ مسکرا
کر بولیں شیری مسکرا بھی نہیں سکا تھا۔
"یار حور! ایگزامز تو ختم ہو گئے ہیں کہیں اوٹنگ پر
چلیں؟" وہ لوگ ڈرائی فروٹ سے لطف اندوز ہونے
کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہی تھیں
جب مافیہ نے مشورہ دیا۔
"آئیڈیا تو اچھا ہے۔" پلوشہ نے کہا۔
"ہم تینوں اکیلی کیسے جائیں گیں؟ کالس کو تیار کر
لو تو چلتے ہیں۔" وہ پستہ چباتے ہوئے بولی۔
"ابھی بات کرتی ہوں سی آر سے۔" پلوشہ جو کہ
کالس کی جی آر تھی چٹکی بجاتے ہوئے بولی۔
"تم دونوں چپ رہنا ،بڑا کوئی منحوس ہے یہ بندہ بات
ہی نہیں مانے گا اگر معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکیوں کا
آئیڈیا تھا تو۔" اس نے اسے واٹس ایپ پر آن الئن
168
دیکھ کر وائز کال مال لی۔وہ دونوں سر ہال کر مسکرا
دیں۔
"اسالم علیکم! کیسے ہو ؟"
"سپیکر پر ڈال سپیکر پر۔" حور نے سرگوشی میں
کہا۔
"ّٰللا کا شکر ہے تم کیسی ہو؟" اس کی آواز میں
ہ
مسکراہٹ تھی ان دونوں نے معنی خیز مسکراہٹ لیے
پلوشہ کو گھورا۔
"یار رحیم! میں کیا کہہ رہی تھی۔ کہیں اوٹنگ پر نہ
چلیں؟"
"کہاں؟" اس کے استفسار پر اس نے ان دونوں کی
جانب دیکھا۔
"کاغان یا ناران ۔" حور نے سرگوشی کی۔
"ناران یا کاغان چلتے ہیں۔"
"کیا اتنی دور؟ گھر سے اجازت نہیں ملنی کسی کو
بھی۔" وہ حیرانگی سے بوال۔
169
"حد کرتے ہو رحیم! اب ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ اجازت
کی کیا ضرورت۔ اور جنہوں نے جانا ہوا جائیں گے
جنہوں نے نہیں جانا نہ جائیں۔" وہ سہولت سے شانے
آچکاتے ہوئے بولی۔
"پھر ایسا کرتے ہیں کہ ہم دونوں چلتے ہیں۔" وہ
شوخ ہوا۔
حور اور مافیہ نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنا قہقہہ
دبایا تھا جبکہ پلوشہ تلمال کر رہ گئی۔
"رحیم! پلیز بی سیریس۔ تم بات کرو بوائز سے میں
گرلز سے کرتی ہوں۔"
وہ تیزی سے کال کاٹ کر رہ گئی۔
"واہ تم تو گھر بسانے کی پالننگ کر رہی ہو۔" مافیہ
نے سنجیدگی سے کہا۔
"ارے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ تو بس مذاق کر رہا
تھا۔" پلوشہ نے شانے آچکا کر کہا۔
"میرے ساتھ ایسا کوئی مذاق کرتا تو میں اس کا منہ
توڑ دیتی۔" حور نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔
"اب ایسا بھی نہیں ہے۔"
170
"تو تم بھی چاہتی ہو وہ تمہارے ساتھ فلرٹ کرے؟"
وہ آنکھیں سکوڑے بولی۔
"نہیں یار ....دراصل بات یہ ہے کہ....ہم دونوں ایک
دوسرے سے....محبت کرتے ہیں۔" وہ شرماتے ہوئے
بولی۔
"محبت صرف تم کرتی ہو وہ نہیں۔ اس کے لہجے
سے ہی ہوس ٹپکتی ہے.....سنبھل جاؤ۔" وہ دھیمی
آواز میں بےحد سنجیدگی سے بولی۔
"تم محبت کے متعلق کچھ بھی نہیں جاتی۔ اور جسے
تم ہوس کہتی ہو وہ اصل میں بےقراریاں ہیں۔" پلوشہ
کو اس کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔
"ہاہاہا ....بےقراریاں ......بےقراریاں ایسی نہیں
ہوتیں۔ بےقراریاں تو "......وہ کہتے کہتے رک گئی۔
"ہاں ہاں بتاؤ بتاؤ؟ کیسی ہوتی ہیں؟" اس نے تیزی
سے کہا۔
"میں نے کون سا اپنی محبت کو پایا ہے مجھے تو
جدائی والی بےقراریاں مارتی ہیں۔" وہ افسردگی سے
کہہ کر ٹھنڈی آہ بھرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
171
وہ دونوں اسے کمرے سے نکلتے دیکھتی رہ گئیں۔
ٹیرس پر آتے ہی اس نے سرد رات کی ٹھنڈی فضا
میں اپنا بوجھل سا سانس چھوڑا تھا۔
"شازار! اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاؤں میری
زندگی میں شامل ہو جائیں۔" وہ گرم شال خود پر اچھی
طرح اوڑھ کر بازو سینے پر لپیٹ گئیں۔
یہ انتظار اور ڈر کے درمیان میں لٹکی محبت بہت
میٹھا اور دلکش درد جگاتی ہے۔
اس کے دل میں بھی کچھ ایسا ہی درد اٹھ رہا تھا۔
کبھی رو دیتی۔
تو کبھی اس کے ساتھ گزارے ان چند پلوں میں کھو
کر مسکراتی جاتی۔
اسے محبت پر یقین نہیں تھا۔
مگر ایک ساحر آیا اور اس کے دل میں گھر کر کے
چال گیا .....پھر ایک دم غائب ہی ہو گیا تھا۔
"میں بھی کتنی بیوقوف ہوں نا اس سے نمبر لیا اور
نہ اس سے اس کا ٹھکانا پوچھا۔"
172
"ایک بنجارے کے عشق میں گرفتار ہو کر کیسا لگ
رہا ہے؟" اس کے اندر سے آواز آئی تھی۔
"بہت اچھا......یہ درد بھی سکون سا پہنچا رہا ہے۔"
اس نے سوچا اور مدھم سی مسکراہٹ لیے وہاں پڑے
موڑے پر بیٹھ کر آنکھیں موند گئی۔
مستقبل اور حال سے بےخبری اختیار کر لی تھی اس
نے.....
خیاالت ،اور خوابوں کی دنیا میں گم رہنے والوں کو
کہاں کوئی فکر ہوتی ہے کہ حقیقت کیا۔
174
رہے تھے .....سب سے اونچے پہاڑ پر واقع سردار
دالور خان کی اونچی حویلی کو دوربین سے دیکھنے
کی کوشش کر رہی تھی کہ شاید وہ اوپر والی منزل پر
دار یار ہو جائے۔ تبھی اسے مالزمینکہیں آئے اور دی ِ
کا شور سنائی دیا۔
"سرداروں کی حویلی کے اوپر والی منزل کو عرصے
سے تالے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اوپر نہیں آئے گا۔"
منہاج اس کے قریب آتے ہوئے بولی۔
"نیچے شور کیسا ہے نجی؟" اس نے استفسار کیا۔
"باہر ایک بابا آیا ہوا ہے جو ہاتھ دیکھنے کا دعوی
کر رہا ہے۔ سب اپنا ہاتھ دیکھا رہے ہیں۔" نجی نے
کہا۔
"یہ پکڑ۔ میں بھی ہاتھ دکھاؤں گی۔" زرمینہ اسے
دوربین پکڑا کر تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی۔
"جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ کیا رش ڈاال ہوا ہے۔" وہ
حویلی کے دروازے تک پہنچی اور سارے نوکروں کو
ڈانٹ ڈاال وہ سب وہاں سے پل میں ہی غائب ہو گئے۔
175
"بابا جی میرا ہاتھ دیکھیں اور بتائیں کہ میری قسمت
میں کیا ہے۔" اس نے گھونگھٹ کے تلے سے اپنا
سفید مرمریں ہاتھ نکال کر بابا کے سامنے کیا۔
"ہاتھ پکڑے بغیر دیکھ بابا.....یہ کوئی عام لڑکی نہیں
ہے۔ گلریز خان کی صاحبزادی ہیں۔"
بابا اس کا ہاتھ پکڑنے لگا تو سر پر کھڑی مائی
حلیمہ نے غصے سے ڈپٹا۔
وہ سر ہال کر سر جھکا کے اس کے ہاتھ کو دیکھنے
لگا۔
"کیا ہوا بابا؟ ایسے پریشان کیوں ہو گئے؟"
چند پل بعد بابا کے چہرے پر چھائی پریشانی کو دیکھ
کر مائی حلیمہ نے استفسار کیا۔
وہ جو گھونگھٹ کے پیچھے مسکرا رہی تھی کہ ابھی
بابا کہیں گے کہ اس کی محبت اسے مل جائے گی.....
سردار دالور خان اس کی قسمت میں لکھا ہوا ہے۔
ّٰللا اپنے
"کچھ نہیں بی بی......بچی کا سر صدقہ دو۔ ہ
حفظ و امان میں رکھے۔
176
بچی خدا تمہاری قسمت بدل دے دعا کیا کر اپنے
لیے۔" بابا اپنی پوٹلی اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی
سے حویلی کے دروازے کو عبور کرتا وہاں سے چال
گیا۔
وہ ہاتھ کھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"کیا ہوا زری! گھبرا کیوں رہی ہو؟" وہ سیڑھیاں چڑھ
رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے سردار دالور خان کی
آواز سنائی دی ،وہ ایڑھیوں پر پلٹی۔
گھونگھٹ اٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے ہی سینے پر
ہاتھ لپیٹے اس سے دو سیڑھیاں نیچے کھڑا تھا۔
عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ نیلی آنکھوں میں
شوخی بھر کے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"سردار سائیں!....ت تم یہاں؟" وہ لڑکھڑا کر دو
سیڑھیوں کا فاصلہ مٹاتی اس کے قریب گئی تھی۔
"میں تو ہر وقت یہاں ہی ہوں۔ تمہارے آس پاس،
تمہارے دل کی دھڑکن بن کر تمہارے سینے میں بستا
وہاں بھول گئی۔" وہ اس کے کان کے قریب سرگوشی
کر رہا تھا۔
177
بےترتیب دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے آنکھیں موند
لیں۔
"بابا جی کو ہاتھ دکھا رہی تھی کہ میں ملوں گا یا
نہیں؟" وہ اس کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیے
سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"نہیں۔ابھی تو بس آپ کا دیدار ہو جائے وہ ہی کافی
ہے۔ ملو گے تو تب نا جب تم بھی مجھے چاہو گے۔"
وہ اس کے بازو پر سر ٹکائے مدھم سی آواز میں
بولی۔
زرمینہ اس کی خوشبوئیں اپنی سانسوں میں اُترتی
محسوس کر رہی تھی۔
"تھوڑا انتظار تو کرنا پڑے گا نا تمہیں۔اتنی جلدی
محبت حاصل نہیں ہوتی۔" سردار سائیں نے اس کا
سر تھپکتے ہوئے کہا۔
"جانتی ہوں۔ مگر اگر تم الحاصل بھی رہے ...سردار
سائیں! تب بھی میری محبت نہیں بدلے گی۔" اس کی
دیوانگی بڑھی تھی۔
178
سردار سائیں نے اسے باہیں کھول کر خود میں سمیٹ
لیا تھا۔
"بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔" وہ محبت میں ڈوبی
آواز میں کہہ رہی تھی جبکہ وہ مسکرا دیا۔
"زری!.....زری! ہوش کرو......کس سے باتیں کر
رہی ہو؟" نجی نے اس کو تھام کر جھنجھوڑ دیا تھا۔
وہ ہوش میں آئی اور اپنے بازوؤں کو سینے پر لیپٹے
دیکھ کر آنسوؤں بھری نگاہوں کو نجی پر ٹکا دیا۔
"وہ آیا تھا نجی! اس نے....اس نے مجھے......م
مجھے اپنی آغوش "....وہ کھوکھلی مسکراہٹ لیے
کہتے کہتے رو دی تھی۔
"چلو زری! آرام کر لو ،اتنے دنوں سے تم ٹھیک سے
سوئی نہیں ہو۔"
نجی اپنی جاں عزیز دوست کی یہ حالت دیکھ کر خود
بھی رو دی۔
"ن نہیں نجی۔ مجھے سردار سائیں کو دیکھنا ہے۔
مجھے پھر ہی سکون ملے گا۔" وہ کانپتے ہاتھوں
179
سے اپنے شانوں پر پھیلے اس کے بازو کو جھٹک
کر بولی۔
"زری! خدا کا واسطہ ہے تمہیں سنبھالو خود کو۔ برباد
کر دیں گی یہ حرکتیں تمہیں۔وہ تمہارے لیے اپنے دل
میں رحم نہیں رکھتا تو محبت کہاں کرے گا؟ اس دن
میں اگر جھرنے پر نہ آتی تو آج تم مر چکی ہوتی۔"
نجی کو اس پر بہت غصہ آیا تھا تبھی ہاتھ جوڑ کر
سختی سے کہتی پلٹ کر سیڑھیاں اتر گئی۔
وہ لڑکھڑا کر وہاں ہی سیڑھیوں پر گرنے کے سے
انداز میں بیٹھی تھی۔
آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
"کائنات! کہاں ہو تم؟" وہ کالس لے کر باہر ہی نکلی
تھی کہ اس کے فون پر میسج موصول ہوا۔
"یونیورسٹی۔ خیریت شیری بھائی؟" ٹائپ کر کے اسے
جوابی میسج بھیجتے ہوئے وہ اپنی دوست کی جانب
متوجہ ہوئی۔
ان دو ہفتوں میں اس نے پوری کالس میں سے صرف
ایک انیلہ کو ہی دوست بنایا تھا۔اور اس دوستی میں
180
پہل انیلہ کی جانب سے ہوئی تھی.....اور اب وہ دونوں
ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔
"آج کا لیکچر کافی بورنگ تھا۔" انیلہ نے منہ بسورے
کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی تبصرہ کرتی اسے سامنے
سے آتا شیری دکھائی دیا۔
"شیری بھائی! ".....وہ چہک اٹھی تھی۔ انیلہ نے اس
کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا اور شرارت بھرے
انداز میں سیٹی بجائی جس پر وہ غور کیے بنا تیزی
سے اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھی۔
"کیسا لگا میرا سرپرائز؟" وہ اس کے سامنے کھڑا
مسکرا رہا تھا۔
"بہت ہی اچھا۔" اس نے سر سے ڈھلکتے آنچل کو
درست کیا۔
"شیری بھائی! یہ میری فرینڈ انیلہ جنگ ہے۔ انیلہ! یہ
شیری بھائی۔"
اس نے ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا۔
181
"اسالم علیکم بھائی!" وہ شانے پر جھولتے دوپٹے
کو بےاختیار ہی سر پر اوڑھ گئی تھی اس کی اس
حرکت پر کائنات مسکرا دی۔
"و علیکم السالم!"
"کائنات! ایک اور سرپرائز بھی الیا ہوں چلو دکھاؤں۔"
وہ ہاتھ میں پکڑے فون کو جیب میں ڈالتے ہوئے بوال۔
"انیلہ! چلو۔"
"نہیں یار! تم جاؤ.....مجھے ابھی اپنے نوٹس دیتی
جاؤ۔" وہ اس کے ہاتھ سے فائل تھام کر بولی۔
وہ اس کے قدم کے ساتھ قدم مال کر چلتی محو گفتگو
تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے اس کی بات کا جواب دے رہا تھا
کہ اچانک کسی لڑکی نے ان کے سامنے آتے ہوئے ان
کا راستہ روک لیا۔
کائنات کے تو سانس ہی خشک ہو گئے تھے کیونکہ
وہ اس کی انگلش کی پروفیسر تھیں۔
182
"شاہزیب احمد !.....یہ آپ ہیں؟" وہ خوشی سے
کھنکتی آواز میں گویا ہوئی تھی۔ کائنات نے چونک کر
شیری کی جانب دیکھا۔
"ہائے ،کیسی ہو تابندہ!" اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ
کو نرمی سے تھام کر چھوڑتے ہوئے وہ مبہم سا
مسکرایا۔
"میں تو ٹھیک ہوں جناب....آپ بہت عرصہ بعد
دکھائی دیئے ہو ،کہاں غائب تھے؟" اس نے دانتوں
کی نمائش کرتے ہوئے استفسار کیا۔
یہ وہ میم تھی جس کی پیشانی پر ہمیشہ بل رہتے
تھے اور اس وقت وہ انہیں شیری سے یوں بات
کرتے دیکھ کافی حیران ہوئی تھی....بلکہ غش کھا کر
گرنے ہی والی تھی۔
"بس یہاں ہی۔ میٹ مائی کزن کائنات۔" اس نے گردن
گھما کر اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
تو کائنات زبردستی مسکرائی تھی۔
"کائنات رائے.....یہ تو بہت ہی کیوٹ ہے۔مجھے اس
کی پوری کالس میں یہ بچی ہی اچھی لگتی ہے۔
183
اچھا چلو نا میرے آفیس میں کچھ دیر گپ شپ کرتے
ہیں۔"
"نہیں ،سوری تابندہ! پھر کبھی ،ایکچلی فیملی باہر
گاڑی میں بیٹھی ہے۔" وہ نرمی سے بوال۔
"ٹھیک ہے شاہزیب صاحب! اب تو پھر مالقات ہوتی
رہے گی۔" اس نے ایک مرتبہ پھر سے اپنا ہاتھ اس
کے سامنے پھیالیا تو شیری نے تھام لیا۔
کائنات نے تریچھی نگاہوں سے ان کے ہاتھ کو دیکھا
اور ضبط سے رخ پھیر گئی۔
"حور کو اگر پتہ چل گیا نا کہ اس کا ہونے واال شوہر
یوں لڑکیوں سے ہاتھ مالتا پھر رہا ہے تو شیری
بھائی کا حشر نشر کر دے گی۔" وہ سلگ کر سوچ کے
رہ گئی،اس کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
شیری نے بہت غور سے اس کی جانب دیکھا۔
"کیا ہوا تمیں؟"
"کچھ نہیں۔" وہ شانے آچکا کر بولی تو وہ مسکرا
دیا۔
184
"تابندہ میری کالس فیلو تھی اور ہیلو ہائے والی
دوست بھی۔"
"میں نے پوچھا تو نہیں ہے شیری بھائی؟" وہ خفگی
سے بولی۔
"مگر میں نے تو بتایا ہے۔" وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
گاڑی میں بیٹھی ماں کو دیکھ اس کی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔
"میں نے سوچا اپنی بچی سے مل لوں
اور شیری بیٹے نے گھر کا سامان لینا تھا تو لے آیا
تاکہ تمہیں بھی مل لوں اور اس کی مدد بھی کر دوں۔"
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
سنہری میٹل سے رومن میں بڑے بڑے حروف سے
اس کی دیوار پر ڈپٹی کمشنر لکھا ہوا تھا۔
سیاہ رنگ کا بڑا سا گیٹ جس کے سامنے دو چوکیدار
بیٹھے تھے،اس کی گاڑی دیکھتے ہی انہوں نے تیزی
سے دروازہ کھول دیا تھا۔
185
راہداری کے دو جانب سبزا پھیال تھا اور سامنے ہی
رہائشی عالیشان عمارت سر اٹھائے کھڑی تھی۔
"واؤ.....شیری بھائی! آپ کا گھر کیا کمال کا ہے۔اتنا
بڑا بنگلہ"....
"ابھی اندر سے دیکھو گی تو اور خوش ہو جاؤ گی۔"
ماما نے بڑی سی مسکراہٹ لیے کہا۔
"ماما! شیری بھائی واقع ہی اس عزت کے قابل بھی
تو ہیں ،کتنی محنت کی ہے انہوں نے۔" وہ اس کی
سیٹ پر اور لیفٹ سیٹ پر دائیں ،بائیں بازو ٹکائے
خوشی سے کھنکتی آواز میں کہہ رہی تھی۔ شیری
کے ساتھ ساتھ ماں بھی خوشی سے ہنس دیں۔
گھر بہت پیارا تھا مگر خالی خالی سا تھا۔
"شیری بھائی! گھر تو بہت پیارا ہے مگر ڈیکور
ضرور کریئے گا۔"
وہ ایک نظر گالس وال کے پار نظر آتے گارڈن پر ڈال
کر صوفے پر براجمان ہو گئی۔
"ارے بھئی ،یہ کام لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔"
وہ ماں کے ساتھ نشست سنبھالتے ہوئے بوال۔
186
"ٹھیک ہے ،پھر میں آپ کی ہیلپ کروں گی۔" وہ
چہکی۔
ماں کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ان کی بات منہ میں
ہی رہ گئی۔
"وائے ناٹ۔ کچھ دن ممانی بھی یہاں ہی ہیں۔کل سے
تمہیں دو چھٹیاں بھی ہیں تو ہم چلیں گے شاپنگ
کرنے۔"
وہ یہاں آ کر بلکل بدل گیا تھا۔
سیکائے کرتہ پاجامہ زیب تن کیے،چہرے پر
مسکراہٹ لیے وہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ بہت جچتی تھی کائنات
اسے دیکھتے ہوئے مسکرائی پھر اسے شرارت
سوجھی تھی تبھی بیگ میں سے فون نکال کر چپکے
سے اس کی فوٹو بنائی اور حوریہ کو بھیج دی۔
"لگ رہے ہیں نا شیری بھائی ہینڈسم۔" اس نے ٹائپ
کر کے آنکھ دبانے واال ایموجی ساتھ لگا کر واٹس
ایپ پر میسج بھیج دیا۔
187
فون دوبارہ سے میز پر رکھ کر وہ پھر سے ان دونوں
کی جانب متوجہ ہو گئی۔باقی کا وقت ایسے ہی گزر گیا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد ماں سونے چلی گئیں اور
شیری بھی کسی کام سے باہر نکل گیا۔
وہ لیپ ٹاپ لے کر سیٹنگ روم میں جا بیٹھی اور
سوموار کی اسائنمنٹ بنانے بیٹھ گئی۔
تقریبا ً آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا اسے اپنی کمر کی ہڈی
میں اٹھتی تکلیف شدت سے محسوس ہوئی تو وہ
وہاں ہی ڈبل صوفے پر کشن درست کر کے کمر
ٹکائے ٹانگوں پر لیپ ٹاپ رکھے نیم دراز ہو گئی۔
جمائی لیتے ہوئے بجتے ہوئے فون کی جانب دیکھا
اور کال اٹینڈ کر کے سپیکر پر ڈال کے پھر سے لیپ
ٹاپ پر انگلیاں چالنے لگی۔
"کائنات! کہاں ہو تم؟" حور نے اس کا میسج جیسے
ہی دیکھا فوراً کال کی تھی۔
"شیری بھائی کے گھر۔تم بتاؤ شیری بھائی اب پہلے
سے زیادہ ہینڈسم ہو گئے ہیں نا؟ پتہ ہے وہ بہت
188
خوش ہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بولی جیسے سامنے
والی کو تو بہت انٹرسٹ تھا شیری میں۔
"اونہہ .....ہینڈسم مائی فٹ۔ تمہیں میں نے منع کیا تھا
نا کہ شیری اچھا لڑکا نہیں ہے۔ تم".....
"حور! پلیز یہ کیا بچپنا ہے؟تم ہمیشہ ان کے متعلق
اتنا غلط کیوں بولتی ہو؟ آخر تمہاری کون سی دشمنی
ہے ان سے؟" وہ اس کی بات درمیان میں کاٹتے
ہوئے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر سر ہاتھوں میں گرئے
دکھتے سر کو دھیرے دھیرے دبانے لگی۔
"تم نہیں جانتی اسے۔ وہ بہت گرا ہوا شخص ہے ،وہ
باظاہر جیسا دِکھتا ہے ویسا ہے نہیں۔"
شیری کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ دروازے کے
درمیان میں ہی ساکت ہو گیا۔
"حور! تم خود نہیں جانتی انہیں ،وہ بہت اچھے
ہیں.....خیر کم از کم تم انہیں مبارکباد تو دے سکتی
ہو۔"
وہ بات بدل گئی۔
189
"اسے مبارک دیتی ہے میری جوتی۔تم ہی دو اسے
مبارکیں۔ویسے بھی وہ یہاں تک ہماری وجہ سے ہی
پہنچا ہے ،ہمارے احسانات " ......وہ دانتوں پہ دانت
جمائے سخت لہجے میں گویا ہوئی۔
"خدا کا واسطہ ہے تمہیں حور! ہر وقت اتنی مرچیں
مت چبا کر رکھا کرو....اور شیری بھائی یہاں تک اپنی
محنت کی بدولت پہنچے ہیں۔ کالج اور اسکول ان کا
سرکاری تھا ،یونیورسٹی میں جب وہ تھے تو اپنا
سارا خرچ پارٹ ٹائم جاب کے ذریعے اٹھاتے
تھے...پھر کون سے احسانات کیے ہیں تم لوگوں نے
ان پر؟" وہ تیز لہجے میں کہتی اسی وقت کال کاٹ
گئی۔
حور سے منہ ماری کر کے سر میں مزید درد اٹھنے
لگا تھا۔
وہ سر صوفے کی پشت پر گرا کر آنکھیں موند گئی۔
شیری ایک نگاہ اس پر ڈال کر پلٹ گیا تھا ،اس کا رخ
کچن کی جانب تھا۔
190
چند پل بعد وہ ہاتھ میں کافی کے دو مگ تھامے وہاں
دوبارہ آیا تھا۔
گال کھنکار کر کمرے میں داخل ہوا۔
"آپ واپس کب آئے ؟" وہ اٹھ کر سیدھی ہو بیٹھی۔
"ابھی آیا ہوں۔تم ٹھیک تو ہو؟" وہ اس کے سرخ و
سفید چہرے پر نگاہیں ٹکائے نرمی سے بولتا اس کی
جانب کافی کا مگ بڑھا کر خود ساتھ والے سنگل
صوفے پر بیٹھ گیا۔
"جی۔ بس سر بوجھل ہو رہا ہے پیچھلے دو گھنٹے
سے کھپ رہی ہوں میم تابندہ کے سبجیکٹ کی
اسائنمنٹ بنا رہی تھی۔"
اس نے کافی کا مگ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے
کہا۔
"بخار تو نہیں ہے؟" وہ فکرمندی سے گویا ہوا۔
پھر خود ہی آگے ہو کر اس کی پیشانی چھوئی جو جل
رہی تھی۔ اس کے سرد ہاتھ لگنے پر وہ کپکپا گئی
تھی۔
"اوہ میرے خدا لڑکی تمہیں تو بخار ہے۔"
191
شیری نے اٹھ کر دروازہ بند کیا اور ہیٹنگ سسٹم آن
کر دیا۔
"تم نے شال بھی نہیں لی ،پاگل لڑکی جلدی سے کافی
ختم کرو میں ابھی آتا ہوں۔"
"شیری بھائی! ماما کو نہیں بتائے گا وہ پریشان ہو
جائیں گیں۔"
"نہیں بتاتا۔" وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔
کچھ دیر بعد جب آیا تو اس کے ہاتھ میں بلینکڈ اور
گرم ٹوپی تھی۔ اس کے سر پر کیپ دے کر بلینکڈ اس
پر اوڑھ دیا۔کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی وہ بند کر
کے اس نے جیب میں سے ٹیبلیٹ نکال کر اس کی
جانب بڑھائی۔
"ایسا کرو ممانی کے پاس جا کر سو جاؤ۔"
"نہیں وہ سو چکی ہوں گیں ،ان کی نیند خراب کرنا
نہیں چاہیے ،صوفہ کافی بڑا اور آرام دا ہے میں یہاں
ہی سو جاؤں گی۔" وہ ایک نظر اس پر ڈال کر کشن
سر کے تلے رکھتے ہوئے لیٹ کر بلینکڈ میں گھس
گئی۔
192
کمرہ کافی حد تک گرم ہو چکا تھا۔
"ٹھیک ہے۔میں ٹی وی الؤنج میں ہی ہوں اگر کسی
چیز کی ضرورت ہو تو بال لینا۔شاباش سو جاؤ۔" وہ
مگ اٹھا کر پلٹ گیا۔
"بات سنیں......شیری بھائی!" اس کے پکارنے پر وہ
رک کر پلٹا۔
"کیا بات ہے؟"
"آپ بہت اچھے ہیں ایسے ہی رہیے گا۔" وہ اس کی
بات پر مبہم سا مسکرا دیا۔
"سو جاؤ۔" وہ کہہ کر پلٹا اور دروازہ کھول کر پلٹ
کے ایک نظر کائنات پر ڈال کر کمرے سے نکل کر
دروازہ بند کرتا وہاں سے چال گیا۔
اس پر غنودگی طاری ہونے لگی تھی ،کچھ ہی دیر
بعد وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔
صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔
وہ بھی جاکنگ سے لوٹا تو کچن سے دھیمی دھیمی
سی برتنوں اور مسالک بھنے جانے کی آواز سن کر
وہ ادھر ہی بڑھ گیا۔
193
"کائنات!.....تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ پاگل لڑکی بخار
ہے تمہیں ،تم ریسٹ کرو....چلو نکلو یہاں سے۔" وہ
اسے شانوں سے تھامے دھکیل کر فکرمندی سے کہتا
کچن سے نکال چکا تھا اور وہ اس اچانک آفت پر
ہڑبڑا گئی تھی۔
"شیری بھائی! کیا کر رہے ہیں۔میں ٹھیک ہوں اب۔"
وہ اس کے پیچھے کچن کی جانب بھاگی۔
"پھر بھی ریسٹ کرو ،دو دن گھر ہو تو پوری طرح
ریسٹ کرو تاکہ جلد صحت یاب ہو جاؤ۔" وہ فرائی پین
میں پکتے آملیٹ کو چمچ سے الٹاتے ہوئے بوال۔
"اوہ ہو شیری بھائی! میں ٹھیک ہوں۔ چیک کریں۔"
اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی پیشانی پر رکھتے
ہوئے کہا۔
"دیکھا نہیں ہے نا بخار۔ اب جائیں جا کر فریش ہو کر
آ جائیں۔" وہ اس کا بازو تھام کر کھینچتے ہوئے کچن
سے نکال کر واپس آ گئی۔
194
وہ مسکرا کر ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے ہار ماننے
والے انداز میں نفی میں سر ہالتا اپنے کمرے کی
جانب بڑھ گیا۔
وہ چینج کر کے سیٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا کیونکہ
ڈائننگ ہال کی سیٹنگ ابھی نہیں ہوئی تھی۔
ابھی صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ کائنات کا فون بج اٹھا۔
نگاہ ڈالی تو سکرین پر حور کا نام جگمگا رہا تھا
جس کے سامنے ننھا سا دل واال ایموجی بھی چمکتا
دیکھ وہ مسکرا دیا تھا۔
"میرے نام کے ساتھ کون سا ایموجی ہے؟" کال کٹ
ہو چکی تھی اس نے تیزی سے اپنا فون اٹھایا اور
کائنات کا نمبر مالیا۔
میز پر پڑا اس کا فون پھر سے بجنے لگا۔
نگاہ ڈالتے ہی ایک پل کو وہ خاموش ہو کر فون کی
سکرین کو دیکھتا رہا اس کے نام کے ساتھ بھی دل
واال ہی ایموجی تھا وہ مسکرا کر کال کٹ کرتا فون میز
پر ڈالتے ہوئے کھلے دروازے سے باہر دیکھنے لگا
195
جہاں سے مالزم کھانے کی ٹرالی گھسیٹ کر ال رہا
تھا۔
اس کے فون پر دوبارہ سے بیل ہوئی تھی۔
"کائنات !.....تمہارا فون ہے۔" وہ اکتا کر فون اٹھائے
باہر نکل گیا۔
"حوریہ کا فون ہے بات کرو۔" اس نے ایک نظر اس
کے آٹے میں چلتے ہاتھوں پر ڈالی اور کال اٹینڈ کر
کے فون اس کے کان سے لگا دیا۔
"ہاں بولو؟" ناراضگی مزید بڑھ چکی تھی۔
"میں نے کال اس لیے نہیں کی کہ تم فالتو کی
ایفیشینسی دکھاؤ۔ میں ناران جا رہی ہوں ،ماما کو بتا
دینا اور ان سے کہنا پچاس ہزار میرے اکاؤنٹ میں
بھیج دیں۔" اس نے بھی نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"واٹ؟ دماغ درست ہے تمہارا حور؟ تم بنا اجازت
لیے".....
"اجازت مانگتی تو بھی تو مل ہی جانی تھی۔ خیر زیادہ
لیکچر مت دو ماما غصے ہوں تو منا لینا۔اوکے
بائے۔" وہ اپنی سنا کر کال کاٹ گئی۔
196
کائنات تلمال کر رہ گئی۔
اور وہ بھی لب بھینچ گیا تھا۔
انہیں معلوم تھا کہ حور خودسر ہے،اپنی مرضی کی
مالک ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ سوائے اس
کے کہ ماں کو نہ بتایا جائے کہ ان کا بلڈ پریشر پہلے
ہائی ہو جاتا ہے وہ مزید پریشان ہو جائیں گیں۔
وہ لوگ کاغان پہنچ چکے تھے۔
اس نے الگ کمرہ لیا تھا کہ اب کچھ دن سکون سے
اکیلے گزارے گی۔
اسے کبھی بھی عادت نہیں تھی روم شیئر کرنے کی
مگر ہاسٹل میں کرنا پڑ رہا تھا۔
اور وہ بھی اس نے اپنی فرینڈز کو اپنے ساتھ رکھا
تھا۔
ان سے بھی وہ اکثر اکتا جاتی تھی۔
کھڑکی کے در کھولتے ہوئے اس نے آنکھیں موندے
گہری سانس بھری تھی۔
"سکون "......دور دور تک ہریالی ہی ہریالی تھی۔
197
وہ پلٹی اور فریش ہونے کے بعد بنا کسی کو بھی
بنانے کی ضرورت سمجھے گھومنے نکل گئی۔
"میم! اس طرف پہاڑیاں بہت خطرناک ہیں ،تجربہ کار
ہی ان پر چڑھ سکتا ہے ،آپ اس طرف چلی جائیں۔"
"ایکسکیوز می؟ میں نے آپ سے مشورہ نہیں
مانگا۔" وہ بےحد سنجیدگی سے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
"دیکھیں میم! میں آپ کا گائیڈئن ہوں۔اسی لیے آپ کو
میرا مشورہ درکار ہے۔" وہ لڑکا تیزی سے آگے بڑھا۔
"دیکھو مسٹر گائنڈئن آف دی گالئکسی تم اپنے
مشورے باقیوں کو دو مجھے بلکل بھی عادت نہیں
مشورے سننے کی۔اوکے.....بائے بائے۔" وہ گالسز
آنکھوں پر چڑھائے آگے بڑھ گئی۔
وہ شخص مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
"اب تو ان پہاڑیوں پر ہی جاؤں گی۔" وہ اپنا کیمرہ
ہاتھ میں تھامے آگے بڑھتی گئی۔
لفٹ سے پہلی سے دوسری پہاڑی پر اتری اور کنارے
پر رکی دور دور تک نگاہیں دوڑانے لگی۔
198
"واؤ سو بیوٹیفل۔" اس نے ابھی ایک قدم آگے رکھا
ہی تھا کہ کسی نے اسے شانے سے دبوچ کر اپنی
جانب کھینچا۔وہ اس کے سینے سے آ لگی تھی.....یہ
خوشبو جانی پہچانی سی تھی .....وہ آنکھیں سختی
سے موندے ہوئے تھی۔
"محترمہ سامنے کھائی ہے دھیان کہاں ".....وہ اسے
خود سے دور کرتے ہوئے بوال اور جب نگاہ اس پر
پڑی تو ایک پل کو مکمل طور پر خاموش ہو گیا۔
"ارے میڈم جی آپ یہاں؟" وہ اسی سنجیدگی سے بوال۔
وہ ساکت پلکوں سے اس کی جانب دیکھے جا رہی
تھی۔
بےاختیار ہی آنسو پلکوں کی باڑ پھیالنگ کر
رخساروں کو تر کرنے لگے تھے۔
"آپ رو رہی ہیں؟" وہ حیران ہوا۔
"ن نہیں میرا خیال ہے یہ۔ وہ کہاں آئے گا۔" اس نے
خود کو نفی کی اور اس کے قریب سے گزری ہی تھی
کہ اس نے اس کی کالئی تھام کر روک دیا۔
199
حور کی ساری جان اس کالئی میں آ سمائی تھی وہ
بےبس سی ہو کر اس کے شانے سے لگ کر آنکھیں
میچ گئی۔
"اتنا کیوں ستاتے ہو شازار! .....ہر وقت آس پاس
رہتے ہو مگر جب خیال سے چونکتی ہوں تو کچھ بھی
میرے ہاتھ میں نہیں ہوتا سوائے آنسوؤں کے۔" وہ
رونے کے درمیان بےحد مدھم آواز میں بولی تھی۔
شازار نے گردن گھما کر اس کی جانب پھیلی ہوئی
حیران کن نگاہوں سے دیکھا تھا۔
"شازار! پلیز میرے ہو جائیں اب ،اب اگر میرے نہ
ہوئے تو م میں مر جاؤں گی نہیں تو۔" وہ غنودگی کے
عالم میں کہتی اس کی باہوں میں لڑکھڑا گئی تھی۔
اس نے تیزی سے اسے تھام لیا
"میڈم جی! آنکھیں کھولو۔" وہ اس کی رخساریں
تھپکتے ہوئے بےچینی سے بوال۔
"عجیب....جواب سننے سے پہلے ہی بےہوش ہو
گئیں ہیں آپ میڈم جی۔" اس کے ہونٹوں کی تراش میں
مردہ سی مسکراہٹ بکھری تھی۔
200
"تو جواب سنائیں نا؟" وہ آنکھیں کھولتے ہوئے
شرارت بھرے لہجے میں بولی۔
"میڈم جی...وہ میں"....
"حور کہہ سکتے ہیں۔" وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
شازار نے گردن گھما کر اس کے دلکش چہرے کی
جانب دیکھا۔
"شازار! جواب؟"
چند پل کی خاموشی کو اس نے توڑا تھا۔
"میں کیا کہوں؟"
"کچھ بھی۔"
"آپ مجھے جانتی نہیں ہو ،میں کون ہوں ،کیا ہوں۔تو
یہ سب پہلے جان لو۔"وہ سنجیدگی سے بوال۔
"شازار! مجھے آپ کے بیک گراؤنڈ سے کوئی فرق
نہیں پڑتا۔ آپ ایک اچھے انسان ہیں ،زندہ دل اور
میرے لیے یہ ہی کافی ہے۔" وہ سر جھکائے مدھم
آواز میں بول رہی تھی۔
201
ان دونوں کے درمیان آدھے فِٹ کا فاصلہ تھا وہ دائیں
جانب منہ کیے بیٹھی تھی اور وہ بائیں جانب۔
کئی پل پھر سے خاموشی کے نظر ہو گئے تھے۔
"دراصل ہمارے خاندان میں برادری سے باہر شادی
نہیں کرتے اور"......
وہ کہتے کہتے خاموش ہوا۔
حور گھٹنوں پر سر ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے
بیٹھی تھی۔
"میں نہیں چاہتا میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو
پلیز یہ سب یہاں ہی روک دیں۔" وہ سرد آہ بھر کر اٹھ
کھڑا ہوا۔
"شازار! ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں اسی پہاڑی
سے کود کر جان دے دوں گی۔" وہ تھکے تھکے انداز
میں ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا جب پیچھے سے
اس کی آواز ابھری وہ خوف زدہ ہو کر اس کی جانب
پلٹا۔
وہ پہاڑی کے کنارے پر کھڑی تھی۔
202
"حور! پلیز سمجھنے کی کوشش کریں میں مجبور
ہوں....میں آپ سے محبت نہیں کرتا۔" اسے کنارے پر
کھڑا دیکھ شازار خوف زدہ ہوا تھا۔
"پہلے تم کہو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔" وہ
روتے ہوئے نفی میں سر ہال کر بولی۔
"حور! پلیز میرا ہاتھ تھام لین۔" وہ آگے بڑھا اور اپنا
ہاتھ اس کے سامنے پھیالیا۔
"ہمیشہ کے لیے؟"
"ہاں ہمیشہ کے لیے۔" اس نے حور کی جانب بچانے
کے لیے سفید جھوٹ بوال تھا۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر کنارے سے ہٹ گئی۔
"چلو نیچے چلتے ہیں پھر بتاؤں گا۔" وہ حقیقت میں
ڈر چکا تھا اس کے اس عمل سے.....اور جو سچ وہ
بتانے واال تھا وہ سن کر تو شاید وہ واقع ہی کود
جاتی۔
"میرا جھمکا؟" لیفٹ میں بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی
دوسری ہتھیلی شازار کے سامنے پھیالئی۔
وہ مسکرایا دیا۔
203
"وہ بیگ میں ہے۔"
"شازار! میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے
اتنے پیار سے بات کی ہے تو وہ آپ ہو۔" اس نے اس
کے گرم ہاتھوں میں اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے تھے۔
شازار نے لب بھینچ کر غیر معمولی انداز میں ہاتھ
واپس کھینچ لیے۔
"ایم سوری۔ م میں حد سے بڑھ رہی ہوں۔ایم سوری۔"
وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو گئی تھی۔
وہ کچھ بھی نہیں بوال۔
ِلفٹ سے اتر کر وہ لوگ ایک جانب سنگی بینچ پر جا
بیٹھے تھے۔
"بولیں ،آج اتنا خاموش کیوں ہیں آپ۔اور یہ سنجیدگی
چہرے پر کیسی؟" وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے مسکراتے
ہوئے بولی۔
شازار نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔
"حور! ہماری زندگی میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا
ہے کہ ہم گناہ نہیں کرنا چاہتے ہوتے مگر......مگر
ہمارے ہاتھوں گناہ سرزو ہو جاتے ہیں۔"
204
وہ اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جمائے دھیمی آواز میں بول
رہا تھا۔
"میں ایسا نہیں تھا جیسا بن گیا ہوں۔ میں بہت گھمنڈی
اور خود سر تھا.....مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی
تھی ،کوئی مرتا ہے مر جائے .....میں شرابی تھا ،
غنڈہ تھا....مگر ایک حادثے نے میری زندگی بدل
دی۔" وہ کہتے کہتے خاموش ہوا اور اس کی جانب
دیکھنے لگا۔
"میری زندگی میں ایک لڑکی آئی۔" اس کی بات پر وہ
شرمیلی سی مسکراہٹ لیے سر جھکا گئی ،وہ انتظار
کر رہی تھی شازار کہہ وہ تم تھی۔
"اس لڑکی کو مجھ سے بےپناہ محبت تھی اور اس
کی خاموش محبت اتنی شدید تھی کہ میں خود کو اسے
چاہنے سے روک نہیں پایا ....مگر پھر بھی وہ
مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔" اس کی بات پر حور کے
ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ بےحد چونک
کر آنکھیں پھیالئے وہ اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
"اور پھر ایک دن اس نے.....اس نے میری جان
بچانے کی خاطر.....میری وجہ سے اس نے اپنی جان
205
دے دی میرے ان انہیں.....ہاتھوں میں اس نے دم
توڑا اور میں کچھ بھی نہیں کر سکا.....ہاں وہ نہیں
ہے مگر آج بھی میرے آس پاس ہے ،یہ سب .....میں
پوری طرح اس کے لیے بدل گیا ہوں ،شاید اس کی
روح کو سکون"....
"م مجھے ج جانا چاہیے اب۔" وہ اس کی بات درمیان
میں کاٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر بنا اس کی
جانب دیکھے دل میں لگی آگ کو دباتی وہاں سے بہت
تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی تھی۔
شازار نے ایک نگاہ س پر ڈالی اور سر اٹھا کر آسمان
کی جانب دیکھا۔
"معاف کرنا مگر میں نے اس کا ہاتھ اسی لیے تھاما
کر وہ جان نہ دے بیٹھے۔" وہ مسکراتے ہوئے
بڑبڑایا۔
آنکھیں پانیوں سے بھر گئی تھیں۔
206
ہاہاہا.....کتنا گھمنڈ تھا نا تمہیں اپنی محبت پر۔" اندر
سے کوئی اس پر ہنس رہا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں بند ہو کر بیڈ پر اوندھے منہ گری
بری طرح سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
"میں اس کی زندگی میں شامل ہو بھی گئی تو اسے
وہ لڑکی یاد آتی رہے گی۔ میرے قریب آئے گا
تو.....تو وہ خیالوں میں رہے گی۔" وہ بالوں کو
مٹھیوں میں بھینچے سسک سسک کر روتی چلی گئی۔
دل میں بہت تیز درد اٹھ رہا تھا۔
"شازار! .....م میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔مجھے
نفرت ہے تم سے۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔" وہ چینخ
چینخ کر پورے کمرے کو تحس نحس کر رہی تھی۔اپنی
حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
"مر جاؤ شازار! ت تم بھی اس کے ساتھ مر
ّٰللا میں مر جاؤں۔ م مجھے نہیں جینا۔" وہ
جاتے.....یا ہ
پاگل ہو رہی تھی رو رو کر آنکھیں سرخ ہو چکی
تھیں ،بال بکھر چکے تھے ،اور اب تو کہیں سردی
207
کا نام و نشان بھی نہیں تھا ،اس نے کوٹ اتار کر
زمین پر پٹخ دیا۔
حور جس نے محبت کو کبھی مانا نہیں تھا اور جب
مانا تو بےپناہ یقین کیا.....اس نے کبھی یہ نہیں سوچا
تھا کہ شازار کی زندگی میں کوئی اور بھی ہو سکتی
ہے۔
حور کا مقام کیا تھا شازار کی زندگی میں ؟
کیوں وہ خود کو اس کے لیے میسر کر رہی تھی؟
"ن نہیں شازار! اگر خود کو تباہ کرنا ہے تو دوسری
طرح کروں گی۔ مگر اب تمہاری جانب قدم نہیں
بڑھاؤں گی۔مجھے یہ ہرگز نہیں منظور کہ جو میرا
ہے اس کے دل میں کوئی اور ہو۔"
بہت دیر سوگ منانے کے بعد وہ بھاری ہوتے سر کو
تھامے اٹھی تھی اور واشروم میں جا کر بیسن کے
سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"شازار تو صرف میرا تھا۔ وہ ....وہ کسی اور سے
محبت نہیں کر سکتا۔نہیں.....نہیں"....شیشے میں
208
اپنے بکھرے سوگوار سراپے پر نگاہیں ٹکائے وہ
بیسن پر ہاتھ ٹکائے بےاختیار قہقہہ مار کر ہنسی۔
"جاؤ شازار! میں مکر گئی اپنی محبت سے۔ تمہیں
مبارک تمہاری محبت۔ مجھے اُدھورا شخص نہیں
چاہیے.....جس کے خیاالت میں کوئی اور ہو اور
باہوں میں ہم ہوں،مجھے ادھوری محبت منظور ہے۔"
اس نے بےدردی سے آنسوؤں کو رگڑا تھا۔
منہ پر پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے وہ ٹاول سے
چہرہ صاف کرتی ٹاول وہاں پھینک کر کمرے میں
واپس آئی ایک نظر بکھری چیزوں پر ڈالی اور پھر
وہاں سے نکل گئی۔
"تم کہاں تھی؟ ہم تو پریشان ہو گئے تھے.....تم
ٹھیک ہو نا؟"
پلوشہ لوگ گھوم پھر کر واپس آ چکے تھے۔
اس کے بکھرے بکھرے سراپے کو دیکھتے ہی مافیہ
نے فکرمندی سے استفسار کیا۔
209
"رحیم سگریٹ ملے گی؟" وہ انہیں اگنور کرتے
ہوئے رحیم سے مخاطب ہوئی جو سگریٹ کے کش
بھر رہا تھا۔
سب کی نگاہیں حیرانگی سے یہاں سے وہاں تک پھیل
گئیں۔
"کیا ہوا ؟ یہ لڑکے بھی تو سموکنگ کرتے ہیں....اوہ
اچھا تو میں مشکوک کردار کی ہو جاؤں گی....؟تو کیا
فرق پڑتا ہے یار ،کوئی شادی نہیں کرے
گا....ہاہاہاہا....یہ ہی تو پالن ہے۔ دے نا سگریٹ یار۔"
وہ بہکی بہکی باتیں کرتی پلوشہ اور مافیہ کو ٹھیک
نہیں لگ رہی تھی۔
"نہیں دینی رحیم!....تم چلو ہمارے ساتھ۔"پلوشہ اس
کا بازو تھامے بولی۔
"جسٹ لیو می پلوشہ! ......نہیں دینی تو مت دو میں
لے لوں گی۔" وہ پلوشہ کا ہاتھ جھٹک کر دائیں شانے
پر بکھرے بالوں کو جھٹک کے آگے بڑھ گئی۔
اس کے تن پر محض دو کپڑے تھے۔
ایک جینز اور ایک کاٹن کی بٹنوں والی شرٹ تھی۔
210
پیروں میں سنیکر تھے ،بکھرے بال......سرخ
آنکھیں۔
وہ کچھ ہی گھنٹوں میں پوری طرح سے ٹوٹ چکی
تھی۔
وہ جو خود کو بہت ہی پہنچی ہوئی ہستی سمجھتی
تھی چند پلوں میں منہ کے بل زمین بوس ہوئی تھی۔
وہ لوگ بازار آئے ہوئے تھے۔ماں برتن خریدنے لگ
گئیں تو وہ چپکے سے شیری کو اپنے ساتھ آنے کا
اشارہ کرتے ہوئے ایک جانب بڑھ گئی۔
"شیری بھائی! یہ حور کے اکاؤنٹ میں بھیج دیں۔"
اپنے بیگ میں سے ہرے چار پانچ نوٹ نکال کر اس
کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
"اماں دادی....میں بھیج چکا ہوں۔ رکھو اپنے پاس
یہ۔" وہ اس کے سر پر تھپکی رسید کرتے ہوئے
مسکرا کر بوال اور واپس پلٹ گیا۔
"ہائے شیری بھائی کو کتنا خیال ہے حور کا۔ پتہ نہیں
وہ کب آنکھوں کا شیشہ صاف کر کے دیکھے گی
انہیں۔"
211
وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی۔
ماں کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ حور اور
شیری کی شادی ہو جائے ،مگر حور تو اب کسی اور
ہی دنیا کی رہائشی ہو گئی تھی۔
وہ دونوں گھر کے لیے کرٹن پسند کر رہے تھے اور
ممانی برتن دیکھ رہی تھیں۔
شیری نے ایک ریڈ رنگ کے کرٹن کو اس کی نگاہوں
کے سامنے لہرایا۔
"نہیں یہ ڈرائنگ روم میں اچھا نہیں لگے گا نا ،یہ
دیکھیں آپ کے فرنیچر کی فوٹوز۔اور وال پینٹ۔" اس
نے اپنا فون اس کی جانب بڑھایا اور آگے بڑھ گئی۔
"تمہارے کہنے کا مطلب ہے ہر کمرے کے لیے الگ
الگ طرح کے کرٹن ،خریدیں گے؟"
"بلکل....دیکھیں سیٹنگ روم میں وائٹ گولڈ ،ڈرائنگ
روم کے لیے بلیک اچھے رہیں گے کیونکہ وال گرے
پیلنگز والی ہیں ،ایک کمرے کے لیے پرپلز گولڈ ایک
میں وائٹ اینڈ گرے اور"......
212
"کائنات! مجھے کنگال کرنے کا ارادہ ہے کیا؟
ڈیکوریشن کا سامان کتنا مہنگا خرید لیا اب یہ.....ابھی
میری سیلری نہیں آئی۔"
وہ اس کو بولتے ہوئے روک کر بوال تو کائنات مسکرا
دی۔
"ہائے میں صدقے جاؤں.....شیری بھائی! دل پر نہیں
لیں۔ اگلے مہینے سیلری آ جائے گی جو چیزیں رہ
گئیں وہ بعد میں لے لیں گے۔اب چلیں......یہاں سے
فری ہو کر آپ کی فوٹوز بھی ڈویلپ ہونے کے لیے
دینی ہیں۔"
وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
"فوٹوز ؟ کیوں کیوں وہ کیوں؟" وہ تیزی سے آگے
بڑھا۔
"اوہ ہو ....شیری بھائی! گھر میں بتایا تو تھا کہ
ڈرائنگ روم میں لٹکانی ہیں اور جو سب سے بڑی
یعنی قدآور ہو گی وہ ہال میں۔باقی ایک سولہ بائے
سولہ والی جو ہو گی وہ آپ کے بیڈ روم میں۔" پردے
دیکھتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں بولی۔
213
شیری پیشانی پیٹ کر رہ گیا۔
"لڑکی تم مجھے کنگال کر کے ہی دم لو گی۔ اتنی
تصویریں کیوں کر لگانی ہیں گھر میں؟ میں کون سا
گم ہو گیا ہوں جو تم نے اشتہار دینا ہے۔"
اس کی بات پر وہ ہنس دی تھی۔
"دیکھیں ،آپ کمشنر ہیں۔ آپ کے مہمان ،آفیسرز
دوست وغیرہ آئیں گے تو ویراں گھر کو دیکھ کر
سمجھیں گے آپ بہت ہی بدزوق ہیں۔ اور دوسری بات
خالی خالی سا گھر کھانے کو دوڑتا ہے ،بھرا بھرا ہی
اچھا لگتا ہے ماما کہتی ہیں۔ اور تیسری بات آپ کی
تصویریں اس لیے لگانی ہیں کہ واقع ہی آپ کا گھر
لگے۔"
"ٹھیک ہے اماں دادی۔ چلو اب۔"
وہ پیمنٹ کرنے چل دیا۔
"بیٹا! یہ کچن کا سارا سامان ہو گیا۔ اب میں تو بہت
تھک گئی ہوں ،گھر چلتے ہیں۔"
ممانی کے پاس جا کر بیٹھے ہی تھے کہ وہ بولیں۔
214
"پر ماما! ابھی تو تھوڑی اور شاپنگ رہتی ہے۔"
کائنات نے منہ پھالیا۔
"ارے جھلی بس کرو ،صبح سے کتنا خرچہ کروا دیا
میرے بچے کا۔" وہ اسے ڈانٹنے لگیں تو وہ منہ
بسور گئی۔
"کوئی بات نہیں ممانی! آپ ایسا کریں ڈرائیور کے
ساتھ یہ سب لے کر چلی جائیں اور چل کر آرام کریں۔
ہم باقی کی شاپنگ کر لیتے ہیں۔ کل ایک دعوت ہے تو
آج ساری شاپنگ مکمل ہو جائے تو بہتر ہے۔"
"ٹھیک ہے بیٹا۔اے کائنات! بھائی کا زیادہ خرچ مت
کروانا۔" انہوں نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
پھر وہ دونوں انہیں گاڑی میں بیٹھا کر واپس پلٹے۔
"اب کہاں جانا ہے؟" وہ دونوں ہاتھ پسلیوں پر ٹکائے
اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔
"جینٹس آؤٹ فیٹر .....کیونکہ آپ کی کل دعوت ہے تو
نیا سوٹ بوٹ چاہیے ہو گا۔"
"میرے پاس بہت سارے سوٹ پڑے ہیں۔"
215
"اوہ ہو شیری بھائی! وہ تو پرانے ہو گئے نا.....اب
اتنی کنجوسی بھی مت کریں۔چلیں "....وہ اس کا بازو
تھام کر کھینچتے ہوئے بولی۔
"چلو بھئی۔" وہ ہار مانتے ہوئے اس کے ساتھ چل
دیا۔
وہ دونوں ساتھ چلتے باتیں کرتے لیفٹ سے جینٹس
ویئر فلور پر آئے تھے۔
"کون سا ،بیسٹ ہے؟" اس نے گرے اور براؤن
دھاری دار پینٹ کوٹ اس کے سامنے لہرایا۔
"پینٹ کوٹ میں یہ دونوں کلر آپ بہت استعمال کرتے
ہیں۔کوئی اور چیک کریں نا۔"
وہ کہہ کر خود آگے بڑھ گئی تھری پیس بیلو رنگ کا
بزنس پلیڈس سوٹ دیکھتے ہی وہ مسکرا اٹھی تھی۔
"واؤ.....یہ پرفیکٹ ہے"....وہ بڑبڑاتی ہوئی پلٹی۔
"کل ایک آفیسر نے گیٹ ٹو گید رکھا ہوا ہے۔ کائنات
کہتی کہ مجھے نیا ڈریس لینا چاہیے۔" وہ تابندہ کے
پاس کھڑا گپیں ہانک رہا تھا۔
216
کائنات کی مسکراہٹ پلوں میں غائب ہوئی اور چہرے
کی خوشی اب سنجیدگی میں بدل گئی۔
"کائنات! وہ صرف کالس فیلوز تھے.....تم پریشان
کیوں ہو رہی ہو۔حور کی ہی شادی ہو گی شیری بھائی
سے۔" اس نے خود کو نارمل کیا اور ان کی جانب
بڑھی۔
"اسالم علیکم میم!" اس نے نرمی سے مسکرا کر کہا۔
"و علیکم السالم! تم نے اچھا کیا جو اپنے بھائی کو
لے آئی اسی بہانے ہماری مالقات بھی ہو گئی۔" اس
نے مسکراتے ہوئے ہاتھ شیری کے شانے پر رکھا
تھا۔
کائنات نے ایک تیکھی نگاہ اس کے ہاتھ پر ڈالی۔
"شیری بھائی! وہ تھری پیس لیں.....بہت اچھا ہے۔"
اس نے تیزی سے پلٹ کر کہا۔
"چلو دیکھ لیتے ہیں۔تابندہ! ہمیں جوائن کریں گی
یا"....
217
"وائے ناٹ ،میں تو بس یہاں اپنے بھائی کے لیے
ٹائی خریدنے آئی ہوں۔" وہ اس کی ادھوری چھوڑی
بات کے اختتام پر بولی۔
"اوکے۔" وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
"کوئی ویڈنگ ہے؟"
"نہیں ڈیپارٹمنٹ کے آفیسر کے ہاں ایک چھوٹی سی
گیٹ ٹو گیدر ہے۔" شاہزیب نے فون پر موصول ہوئے
ٹیکس کو پڑھتے ہوئے اس ڈریس کی جانب دیکھا اور
پھر فون جیب میں ڈال لیا۔
"کائنات! پھر تو یہ ڈریس بہت ہیوی ہو جائے گا
نا......اگر ویڈنگ فنکشن ہوتا تو اچھا لگنا تھا ،نارمل
سی گیٹ ٹو گیدر کے لیے...تو ڈریس پینٹ اور شرٹ
یا پھر جینز شرٹ اچھی لگے گی۔کیا خیال ہے
شیری؟" تابندہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"ہاں بات تو ٹھیک ہے۔" وہ تابندہ کی حمایت میں بوال
تو کائنات سختی سے لب بھینچ کر رہ گئی تھی۔
"چلو کوئی پینٹ شرٹ دیکھتے ہیں۔" وہ نرمی سے
مسکرا کر بولتی کائنات کو زہر لگ رہی تھی۔
218
گرے چیک والی ڈریس پینٹ کے ساتھ تابندہ نے سفید
رنگ کی پلین شرٹ سلیکٹ کی تھی۔
کائنات خاموشی سے سینے پر ہاتھ لپیٹے ان کے
پیچھے چلتی رہی۔
"تابندہ میم ،شیری بھائی کو پسند تو نہیں کرتیں؟ کہیں
وہ انہیں چھین تو نہیں لیں گیں ہم سے؟" اس کے
ننھے سے معصوم دل میں بےتحاشا خوف پیدا ہوا
تھا۔
قدم زمین میں جکڑے گئے ،آنکھوں میں آنسو چمکے
تھے جنہیں وہ تیزی سے رخ پھیر کر آنسو دوپٹے
کے پلو سے پونجھ گئی۔
تابندہ اس کے لیے ریسٹ واچ پسند کر رہی تھی اور
شیری بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا ،وہ اپنے آپ کو
وہاں مس فٹ محسوس کرتی پلٹ کر کچھ فاصلے پر
پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔
تبھی اس کے نمبر پر کال آنے لگی تھی۔
انجان نمبر دیکھ کر اس نے کال کاٹ دی۔
219
کال پھر سے آنے لگی تھی اس مرتبہ اس نے کال اٹھا
لی کہ شاید حور ہو یا کوئی دوست۔
"اسالم علیکم! مس کائنات رائے سے بات ہو سکتی
ہے؟"
سامنے سے کسی لڑکے کی آواز سن کر اس نے ایک
پل کو فون کان پر سے ہٹا کر آنکھوں کے سامنے کیا۔
"و علیکم السالم! جی بول رہی ہوں ،آپ کون؟"
وہ اپنی آنسو سے بھاری ہوئی آواز پر بمشکل قابو پا
سکی تھی۔
"آپ رو رہی ہیں؟"
"نہیں مسٹر ،آپ ہو کون؟" وہ تیکھے لہجے میں
گویا ہوئی۔
"سوری مس رائے! ایکچلی میں آپ کا کالس فیلو ہوں
ولی خان۔ میں لیٹ ہو گیا ہوں دو ویک تو کیا آپ
مجھے گائیڈ کر دیں گی سلیبس کور کرنے میں پلیز۔"
”“Okay if you don’t mind…..
220
"شام کو بات کریں گے ابھی میں تھوڑی مصروف
ہوں؟" وہ سانس بھر کر بولی۔
”“No no…. it’s okay….see you later.
"ّٰللا حافظ۔" اس نے کال کاٹ کر ایک نظر اپنی جانب
ہ
آتے شیری پر ڈالی۔
"کیا ہوا تم یہاں کیوں بیٹھ گئیں؟"
"تھک گئی تھی۔" وہ سر جھکائے سنجیدگی سے
بولی۔
"صبح سے تو تھکی نہیں اب اچانک تھک بھی گئی،
عجیب لڑکی ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
"شیری! لنچ ساتھ میں کریں؟ کائنات سے بھی دوستی
ہو جائے گی۔کیوں کائنات! دوستی کرو گی مجھ سے؟"
"نہیں چڑیل ٹیچر.....مجھے کوئی شوق نہیں تم سے
دوستی کرنے کا۔" وہ دل ہی دل میں کہہ سکی تھی،
ہونٹوں پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے زبردستی کا
اثبات میں سر ہال گئی۔
شاہزیب نے جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا،
چہرے پر کچھ وقت پہلے والی خوشی نہیں تھی۔
221
"سوری تابندہ! اب ہم گھر چلیں گے ،ایکچلی ممانی
کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ گھر میں تنہا ہیں۔لنچ
پھر کبھی سعی۔"
وہ کائنات پر سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے بوال۔
"چلیں ٹھیک ہے۔" وہ مسکرا دی۔
"چلیں کائنات؟" وہ شاپنگ بیگ سنبھالے اس کی
جانب متوجہ ہوا۔
گراؤنڈ فلور پر پہنچتے ہی کچھ یاد آتے وہ رک گیا۔
"کائنات! تم یہاں بیٹھو۔ میں ابھی آتا ہوں۔" اسے بیگ
تھما کر وہ تیز قدم اٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔
وہ ساکت کھڑی دیکھتی رہ گئی۔
تقریبا ً آدھا گھنٹہ بعد وہ لفٹ سے نکال تھا ،تابندہ کے
ساتھ چلتا وہ مسکرا کر کچھ بات کر رہا تھا.....
کائنات کو اپنا وجود جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
"کائنات! تمہیں کیا ہو رہا ہے۔" اس نے اپنی شہ رگ
کو دھیرے سے مسال۔
222
"شیری بھائی صرف حور کے ہیں ،میرے شیرے
بھائی کو یہ لڑکی ہم سے چھین نہیں سکتی۔"
اسے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
تابندہ نے گڈ بائے کے لیے اسے ہاتھ ہالیا تھا بدلے
میں وہ مسکرا بھی نہیں سکی تھی۔
"چلیں؟ اب پہلے کچھ کھا لیں یا پھر".....
"مجھے گھر جانا ہے پلیز۔" وہ اس کی بات کاٹتے
ہوئے تیز لہجے میں بولی۔
"اوکے۔" وہ بنا مزید کچھ کہہ مان گیا تھا۔
گھر جاتے ہی وہ سیٹنگ روم میں گھس گئی اور
دروازہ بند کر کے کانوں پر ہیڈفون لگاتے ہوئے اپنے
لیپ ٹاپ میں مصروف ہو گئی۔
وہ اس کی اس حرکت کو نوٹ کر چکا تھا۔
*****
"سردار سائیں! ہم نے کہا تھا کہ آپ خان کو بھول
جائیں گے۔ شکیل بتا رہا تھا کہ آپ اسے ابھی تک
ڈھونڈ رہے ہیں؟"
223
وہ ٹیرس پر ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا جب سردار حامد
وہاں چلے آئے وہ چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہم نے بھی کہا تھا بابا سائیں! کہ بس یہ ہم سے مت
کہیں۔" وہ محبت سے ان کے ہاتھ چوم کر آنکھوں
سے لگاتے ہوئے نرمی سے بوال۔
"وہ گم ہوتا تو مل جاتا سردار سائیں! مگر وہ تو کھو
گیا ہے۔ وہ آپ کو نہیں ملے گا۔" ان کا لہجہ سخت ہوا
تھا۔
"مجھے یقین ہے بابا سائیں! امو جان کی دعاؤں پر
دادو جان کے سجدوں پر اور اپنی محبت پر ،خان
مجھے ضرور ملے گا۔" اس نے پریقین انداز میں کہا۔
"دیکھو سردار! اگر وہ مل بھی گیا تو اس حویلی کے
دروازے اس کے لیے ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے
ہیں.....اس نے قبیلے کو چھوڑ کر گناہ کیا ہے۔ہم سے
بغاوت کی تھی جسے ہم بھولے نہیں۔" وہ سخت
لہجے میں کہتے وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتے
نکل گئے تھے۔
وہ افسردگی سے انہیں جاتا دیکھتا رہ گیا۔
224
"یہ تو آپ کی ناراضگی ہے ،وگرنہ محبت تو آپ بھی
بہت کرتے ہیں اس سے۔ایک سال میں آپ پر بڑھاپا
اتر آیا ہے ،سر کے بال جو کبھی سفید نہیں ہونے
دیتے تھے اب آپ کی ساری شوخیاں مند پڑ گئیں
ہیں۔"
یہ سوچتے ہوئے اس کی نیلی آنکھوں میں آنسو
چمکے تھے۔
" مگر میں وعدہ کر چکا ہوں بابا سائیں! میں خان کو
ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا۔" اس کی آنکھ سے ایک آنسو
گر کر زمین بوس ہوا تھا۔
وہ پلٹ کر کمرے میں جانے لگا تبھی اسےلگا جیسے
کوئی اسے دیکھ رہا ہے وہ رکا اور چند قدم پیچھے
ہٹ کر سامنے دیکھا ایک مالزمہ اس جانب آ رہی تھی
وہ سر جھٹک کر کمرے میں داخل ہو کے دروازہ مقفل
کر گیا تھا۔
"سردار سائیں! آپ کی کالی چائے الئی ہوں۔" زرمینہ
نے آواز اور لہجہ بدلتے ہوئے کہا۔
225
اس نے دروازہ کھوال اور سر اٹھا کر اس کی جانب
دیکھے بنا ہی اس کے ہاتھ سے ٹرے تھام کر پلٹ گیا۔
زرمینہ تیزی سے آگے بڑھی۔
"آپ کہاں آ رہی ہیں؟" اسے کمرے میں داخل ہوتے
دیکھ وہ تیزی سے بوال۔
"جی برتن".....
"وہ میں کچن میں رکھ دوں گا آپ جا کر آرام کریں۔
ّٰللا حافظ۔" اس نے کہا تو وہ محض سر ہی ہال سکی ہ
اور پلٹ گئی۔
"تم سب کہاں جا رہی ہو؟"اس نے ساری مالزمین کو
بنا گھونگھٹ کے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ استفسار کیا۔
"وہ سیریت بی بی لوگوں نے سنگیت کا چھوٹا سا
اہتمام کیا ہے اور کیک بھی کاٹا جائے گا۔ ہم سب چھت
پر جا رہی ہیں تم بھی چلو۔"
ایک مالزمہ نے بتایا۔
"یہ اہتمام کس خوشی میں؟"
226
"ہماری شبو کا جنم دن ہے نا۔ جس مالزمہ کا بھی جنم
دن ہوتا ہے سیرت بی بی لوگ ایسے ہی اہتمام کرتی
ہیں۔"
دوسری مالزمہ نے کہا۔
"کیوں نا پھر سردار قبیلے کی تعریفیں کریں جب
انہوں نے خوشی ،غمی میں سب کے ساتھ رہنا ہے۔"
وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرائی۔
"میری طبیعت ناساز ہے تھوڑی۔ شبو! جنم دن کی بہت
بہت مبارکباد۔" اس نے مردہ سی آواز میں بہانہ بناتے
ہوئے کہا۔ کیونکہ اگر چلی جاتی تو گھونگھٹ اٹھانا
پڑتا ....کیا پتہ کوئی اس کو چہرے سے پہچان جائے
تبھی وہ تیزی سے پلٹ گئی۔
آج صبح ہی وہ کافی دنوں کے لیے حویلی میں آ گئی
تھی۔
اس کے لیے اس نے نجی کی بہت منتیں کیں تھیں۔
"زری! بس یہ آخری مرتبہ ہے۔ پھر تم کبھی ضد نہیں
کرو گی وہاں سے آتے ہوئے یہ احساسات بھی وہاں
227
ہی چھوڑ آؤ گی۔" نجی نے سختی سے کہا تو وہ سر
ہال گئی۔
"اسالم آباد پہنچ کر ہمیں بتا دینا۔"
اپنے والد سے مل کر وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ
بس اسٹیشن تک گئی تھی۔
"دھیان سے جانا ،اگر تم ضد نہ کرتی تو ہم تمہیں
کبھی نہ بھیجتے۔ کچھ دن رک جاتی تو میں خود
چھوڑ آتا۔" بھائی نے اسے بس میں بیٹھاتے ہوئے
کہا۔
"بھیا! میری کالج کی بیسٹ فرینڈ بہت زیادہ بیمار ہے،
اسے میری اب ضرورت ہے ایک دو دن بعد نہیں ہونی
تھی۔ فکر نہیں کریں میں چلی جاؤں گی۔" اس نے
برقع کا پلو گراتے ہوئے کہا۔
"بھیا میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں پلیز بس
رکوائیں۔" بس چلنے ہی لگی تھی کہ وہ تیزی سے
بولی۔
228
وہ واشروم ایرا میں جیسے ہی گئی وہاں منہاج پہلے
سے ہی موجود تھی۔ اس نے برقع اتار کر اس کے
حوالے کیا۔
"میں نے صالح سے بات کر لی ہے۔
وہ تمہیں پک کرنے آ جائے گی.....یہ میرا فون رکھو
اس سے رابطہ کر لینا اور اگر گھر میں سے کسی کا
فون آئے تو اپنا آواز بدلنے واال ہنر استعمال کر لینا۔"
وہ تیزی سے بولی۔
"چلو اب جاؤ۔بھائی سے بات مت کرنا اور ،تینتیس
ّٰللا حافظ۔" وہ اسے گلے
نمبر سیٹ پر بیٹھ جانا۔ ہ
لگاتے ہوئے بولی۔
زری نے بھیا کو اپنے خاص آدمی سے بات کرتے سن
لیا تھا کہ وہ فاصلے سے ہی زری کا پیچھا کرے گا
تبھی اس نے یہ منصوبہ بنایا۔
اب زرمینہ بھی اسالم آباد چلی گئی اور وہ بھی نجی
کی خالہ کے ذریعے ایک ہفتے کے لیے حویلی پہنچ
گئی۔
229
کاش وہ جسیی محنت سردار سائیں کے آس پاس
رہنے کی کر رہی تھی ایسی پڑھائی میں کرتی تو شاید
نہیں یقینا ً گولڈ میڈل حاصل کرتی.....
صبح سے رات گہری ہو گئی تھی ،اندھیرا ہر سو ہھیل
چکا تھا ،سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا مگر
وہ کسی بےجان شے کی مانند ہوٹل کی بلڈنگ کے
سامنے پڑی ایزی کرسی پر نیم دراز تھی۔
دماغ ماؤف تھا ،رو رو کر سرخ ہو چکی آنکھوں کو
ایک جگہ ہی ٹکائے وہ اجڑی نگری کی شہزادی لگ
رہی تھی۔
"حور! ...یہاں کیوں بیٹھی ہیں ،سردی بہت ہے اٹھ کر
اندر چلیں۔" وہ اس کے قریب رکتے ہوئے بوال تھا۔
"سردی....؟ کہاں ہے سردی؟ اگر تمہیں لگ رہی ہے
تو میرے جلتے وجود پر ہاتھ سینک لو۔" وہ اسی
انداز میں بیٹھی بےتاثر لہجے میں بولی تھی۔
"حور! میں آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا ،اسی لیے
سچائی بتا دی۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی
230
کا دل دکھے۔" وہ اس کے سامنے پڑی ایزی چیئر پر
بیٹھتے ہوئے بوال۔
"ہاہاہا.....تم بتا رہے تھے کہ آج بھی وہ لڑکی
تمہارے آس پاس ہے۔" اس نے تمسخر اڑانے والے
انداز میں قہقہہ لگا کر کہا تو وہ نظریں اس پر ٹکائے
لب بھینچ گیا۔
"اگر تم کہتے کہ تم غنڈے موالی ،چرسی ،شرابی ہو
تو میں یہ عادتیں چھڑوا سکتی تھی مگر ایک لڑکی
جو کہ مر چکی ہے اس کے سحر سے نکالنا.....بلکہ
تم نکلنا ہی نہیں چاہو گے۔" وہ سیدھی ہو کر بیٹھتے
ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
شازار کو اس کی آنکھوں کی سرخی اور بکھرے
بالوں سے وحشت سی ہوئی تھی۔
تبھی اس کی آنکھوں نے حور کے کانپتے ہاتھوں کو
سگریٹ سلگاتے دیکھا۔
"کہا سنا معاف کرنا ،میں دعا کروں گی ہم دوبارہ
کبھی نہ ملیں.....اور نہ ہی کبھی تم میرے سامنے
231
آؤ۔" وہ لڑکھڑا کر اٹھی تھی اور سگریٹ کا ایک کش
بھرتے ہی اسے کھانسی کا دورہ پڑا۔
"یہ کمینی بھی شریفوں کو راس نہیں آتی۔لگتا ہے
شرافت کا چوال اتارنا پڑے گا۔" اس نے سگریٹ کو
پرے اچھالتے ہوئے عجیب تمسخر اڑانے والے انداز
میں کہا تھا۔
شازار کے وجود میں جان ہی باقی کہاں تھی جو اسے
روکتا یا کچھ کہتا ،وہ تو اس کی حالت سے ہی خامش
ہو گیا تھا۔
"کیا میری ذات پھر سے کسی کی بےسکونی کی وجہ
بن گئی۔ مگر میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا .....میرے
اچھے برتاؤ کو وہ کیا سمجھ بیٹھی؟"
وہ سر ہاتھوں میں گرا کر آنکھیں موند گیا۔
"ولی خان! دو ہفتوں میں جو ہم نے سلیبس کور کیا
ہے میں نے آپ کو اس کے نوٹس واٹس ایپ کر دیئے
ہیں چیک کر لیں ،اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو پوچھ
لیجیے گا۔" وہ وائز نوٹ چھوڑ کر پھر سے لیپ ٹاپ
میں گھس گئی۔
232
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟"
شیری دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"جی جی۔ پوچھنے والی کون سی بات ہے۔" وہ
مسکرا کر بولی۔
شیری نے بغور اس کی پھیکی پھیکی سی مسکراہٹ
کو دیکھا تھا۔
"یہ تمہارے لیے۔" ایک شاپنگ بیگ اس کے سامنے
رکھتے ہوئے وہ خود صوفے پر جا بیٹھا۔
"کیا ہے یہ؟"
"کھول کر دیکھو نا۔" وہ مالزم کی جانب متوجہ ہوتے
ہوئے بوال جو لوازمات کی ٹرالی گھسیٹ کر وہاں داخل
ہوا تھا۔
"ممانی کو بال الؤ۔" اس نے مالزم سے کہا اور خود
میز پر لوازمات سجانے لگا تھا۔
"شیری بھائی! مجھے اس ڈریس کی ضرورت نہیں
ہے۔"
233
بلیک رنگ کا بہت ہی خوبصورت سا نفیس کام واال
کرتہ پاجامہ اور ساتھ بہت ہی یونیک ریشمی ہم رنگ
آنچل تھا۔
"کوئی آپ کو تحفہ دے تو بدلے میں کیا کہتے ہیں؟"
وہ اس کی جانب کافی کا مگ بڑھاتے ہوئے گویا ہوا۔
"گفٹ کس خوشی میں؟"
"میری جاب کی خوشی میں بھئی۔اور ہاں کل ریڈی
رہنا میرے ساتھ دعوت میں شرکت کر رہی ہو۔"
وہ مزے سے کیک کا ٹکڑا منہ میں دباتے ہوئے
اطمینان سے گویا ہوا۔
"میں ؟ پر میں کیوں؟ میں کل فری نہیں ہوں۔" وہ
لباس دوبارہ سے ڈبے میں ڈال کر ایک جانب صوفے
پر رکھتے ہوئے بولی۔
"ناراض ہو؟" وہ اس کی آنکھوں میں برا ِہ راست
دیکھتے ہوئے بوال۔
"ارے نہیں تو۔"
اس نے تیزی سے کہا۔
234
"پھر اداس ہو؟"
"نہیں تو۔ بس اسائنمنٹ کی وجہ سے پریشان ہوں۔"
اس نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے بات ہی ختم کر ڈالی۔
وہ خاموش ہو گیا۔
تبھی کائنات کے فون پر ولی خان کی کال آنے لگی
تھی۔
"جی بولیں؟" وہ کال اٹھا کر سنجیدہ و بےتاثر لہجے
میں بولی۔
"سوری مس رائے! میں آپ کو بار بار ڈسٹرب کر رہا
ہوں۔" وہ شرمندگی سے بوال۔
"اٹس اوکے۔کون سا ٹاپک سمجھ نہیں آ رہا؟" وہ بات
بدلنے اور ختم کرنے میں ماہر تھی۔
ماما بھی آ کر بیٹھ گئی تھیں۔
وہ ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ فون پر اسے
سمجھاتی ہوئی باہر چلی گئی۔
شیری نے بےحد سنجیدگی سے اسے جاتے دیکھا
تھا۔
235
"ولی خان! آپ کے پاس دماغ کی جگہ خالی کھوپڑی
ہے کیا؟" وہ کب سے سر کھپا رہی تھی اور سامنے
سے وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔
ّٰللا حافظ۔" اس نے
"ایسا کرو سی آر سے رابطہ کرو۔ ہ
تلمال کر کال کاٹ دی۔
"عجیب پاگل شخص ہے۔ پورے ایک گھنٹہ سے بول
بول حلق خشک ہو گیا میرا اور اسے کچھ سمجھ نہیں
آیا۔"
وہ پیر پٹختی واپس پلٹی تو ٹھیک پیچھے کھڑے
شیری سے بری طرح ٹکرائی۔
وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فاصلے بڑھاتے
ہوئے اکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ اس کی جانب
دیکھنے لگی۔
"آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔" وہ ڈر کے مارے
کانپتے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
" یہاں کوئی بھی نہیں آ سکتا.....جس سے تمہیں ڈرنا
چاہیے۔ خیر بتاؤ کہ کس سے لڑائی کر رہی تھی؟" وہ
236
اس کے ساتھ ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے
ہوئے بوال۔
"کالس فیلو ہے ،اس نے دو ہفتے لیٹ جوائن کی ہے
یونی اور اب میرا سر کھا رہا ،ایک گھنٹے
سے.....مسلسل ایک گھنٹے سے اسے سمجھا رہی
ہوں مگر اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔تو میں نے
کہہ دیا سی آر سے رابطہ کر لو۔"
"گڈ گرل۔ کسی کو بھی زیادہ سر پر چڑھانے کی
ضرورت نہیں ہے۔ مدد کرنی ہے تو بس اتنی کرو
جتنی کہ اگلے کو ضرورت ہو....اوکے؟"
وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔
"یس باس۔ چلیں اب اندر؟" وہ سیلوٹ جھاڑتے ہوئے
بولی۔ تو وہ ہنس دیا۔
"تمہاری مس تابندہ ٹھیک پڑھاتی ہیں تمہیں؟"
تابندہ کے ذکر پر کائنات کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔
"ہاں بس ٹھیک ہی پڑھاتی ہیں۔مجھے ان کا لیکچر
زہر لگتا ہے۔" وہ شانے آچکا کر کہتی آگے بڑھی۔
"کیوں؟" وہ حیرانگی سے بوال۔
237
"کیونکہ وہ مجھے زہر لگتی ہے ،آپ پر ڈورے ڈالتی
رہتی ہے۔" وہ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں سکتی
تھی۔
" بس ویسے ہی بہت خشک سبجیکٹ ہے نا۔چلیں اندر
چلتے ہیں مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔" وہ کہہ کر آگے
بڑھ گئی۔ شیری چند پل اسے جاتا دیکھتا رہا پھر نفی
میں سر جھٹک اس کے ہمقدم ہوا۔
"دیکھو۔ تم لوگوں کو رکنا ہے تو رکو....میں جا رہی
ہوں۔" وہ آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے آگے بڑھ
گئی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔
"حور! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ اس کے راستے میں دیوار بنتے ہوئے بوال۔حور
نے فون پر سے نگاہیں اٹھا کر گالسز کے پیچھے
سے ہی اس کی جانب دیکھا۔
"ہو کون تم؟" وہ انتہائی اجنبیت بھرے لہجے میں
تمسخر اڑانے والے انداز میں بولی تو وہ اس کا منہ
دیکھتا رہ گیا۔
238
"میری شکل بلکل وہ ہی ،بگڑی نہیں ہے جو آپ
مجھے پہچاننے سے بھی انکاری ہو۔" وہ سنجیدگی
سے گویا ہوا۔
"خوامخواہ کی جان پہچان نکالنے کی کوشش مت
کرو۔" وہ حقارت بھرے انداز میں کہہ کر طنزیہ ہنسی
اور آگے بڑھی۔
"میڈم جی! خوامخواہ جان پہچان تو آپ بنا چکی ہیں
اور اب منہ بھی موڑ رہی ہیں۔یہ تو اچھی بات نہیں
ہے۔کم از کم میری بات تو سن لیں۔" وہ اس کا ہاتھ
تھام کر اسے روکتے ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے
ایک ایک لفظ چبا کر بوال۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔" حور
کا دوسرا ہاتھ ہوا میں گھوم کر سیدھا اس کی رخسار
پر آن پڑا تھا۔
"ایک دو کوڑی کے ٹرک ڈرائیور کی اتنی اوقات کہ وہ
حوریہ رائے کو چھونے کی ہمت کرے؟" وہ اس کے
ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا چکی تھی۔
239
"آئندہ اپنی اوقات میں رہنا۔نہیں تو جان سے جاؤ گے،
شکل مت دکھانا مجھے۔" وہ انگلی اٹھا کر دانتوں پہ
دانت جمائے اسے تنبیہہ کرتی آگے بڑھ گئی۔
وہ حیران سا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ گھٹنوں پر سر رکھے پھوٹ
پھوٹ کر رو دی۔
"کائنات! ابھی تم ریڈی نہیں ہوئی؟" وہ بولتا ہوا جب
سیٹنگ روم میں داخل ہوا تو وہ جو فون پر جھکی
ہوئی تھی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
سر جھکانے ہی لگی تھی کہ......اس کے لباس پر
نگاہ پڑتے ہی وہ بری طرح چونک کر حیرانگی سے
اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
"کیسا لگ رہا ہوں؟" باہر پھیالئے وہ مسکراتے
ہونٹوں کے ساتھ استفسار کر رہا تھا۔
"آپ نے تو میم تابندہ کی پسند کا ڈریس ......لیا تھا
نا؟" وہ سر جھکا گئی۔
"اس کی پسند سے افضل تمہاری پسند ہے۔"
اس کی بات پر وہ بےاختیار ہی مسکرا دی۔
240
"جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔" وہ کہہ کر پلٹ گیا۔
کائنات نے غیر ارادہ طور پر دور تک اسے دیکھا تھا۔
پھر اٹھ کر جلدی سے ریڈی ہونے چلی گئی۔
ممانی نے مالزمین کو کام پر لگا کر پورا گھر صاف
ستھرا کروا دیا ہوا تھا ،ہر ایک چیز اس محل نما گھر
میں دھری بہترین لگ رہی تھی۔
اس نے ایک کمرہ کائنات کو دکھاتے ہوئے کہا تھا یہ
تمہارا کمرہ ہے جب بھی آؤ گی یہاں ہی رکا کرو گی۔
ریڈی ہونے کے بعد وہ جب نیچے آئی تو شیری پینٹ
کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔
"ماں ابھی ریڈی نہیں ہوئیں؟"
"وہ تھک چکی ہیں تو اب ریسٹ کر رہی ہیں۔ کہہ رہی
ہیں ہم چلے جائیں۔" وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
اس کے چہرے پر جمی بیس دیکھ وہ اپنے بلند ہونے
والے قہقہے کو دبا نہیں سکا تھا۔
"کیا ہے شیری بھائی؟" وہ ہونقوں کی مانند اس کی
شکل دیکھنے لگی۔
241
"آؤ دکھاؤں۔" وہ اس کی کالئی تھام دائیں جانب بڑھ
گیا دیوار میں جڑے شیشے کے سامنے اسے روکتے
ہوئے وہ سینے پر ہاتھ لپیٹے اب اس کے ری ایکشن
دیکھ رہا تھا۔
پہلے تو اس کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیلیں
پھر اس نے اپنے چہرے کو انگلی کی مدد سے چھوا
اور پھر ہنسنے لگی۔
"میں نے کہا بھی تھا تمہیں ان سب چیزوں کی
ضرورت نہیں ہے۔" وہ مسکرایا۔
"میں نے سوچا پارٹی میں جانا ہے تو تھوڑا بہت تو
کر لینا چاہیے۔" وہ منہ ہاتھوں کی مدد سے پونجھنے
لگی۔
"تمہارے کون سا چہرے پر داغ دھبے ہیں جنہیں
چھپانا ضروری تھا ".....وہ اس کی جانب اپنا رومال
بڑھاتے ہوئے بوال۔
"جو لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں ان کے چہرے پر داغ
دھبے ہوتے ہیں؟" وہ حیران ہوئی۔
242
"مجھے کیا پتہ یار۔ خیر مجھے اتنا پتہ ہے تمہیں
میک اپ کی ضرورت نہیں ہے۔ منہ دھو آؤ میں انتظار
کرتا ہوں۔" وہ نرمی سے کہہ کر پلٹ گیا۔
کائنات اس کا رومال اپنے کلچ میں ڈالتے ہوئے سوچ
رہی تھی کہ شیری ہنستے ہوئے کتنے اچھے لگتے
"ّٰللا انہیں ہمیشہ یوں ہی ہنستا مسکراتا رکھے۔"
ہیں۔ ہ
منہ دھونے کے بعد وہ نیچے آئی تو شاہزیب صوفے
پر آنکھیں موندے نیم دراز سا تھا۔
"شیری بھائی!......کیا آپ سو گے ہیں؟" وہ جھک کر
دھیمی سی آواز میں پوچھ رہی تھی۔
شیری نے آنکھیں کھول دی تھیں۔
"نہیں بس یوں ہی لیٹ گیا تھا۔چلیں؟" وہ چہرے پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ،اس نے اثبات میں
سر ہال دیا۔
میز سے گاڑی کی چابی اور وائلٹ اٹھاتے ہوئے وہ
آگے بڑھ گیا۔
243
کائنات کی نگاہ صوفے پر پڑے اس کے کوٹ پر پڑی
تو ایک نگاہ جاتے ہوئے شیری پر ڈال کر تیزی سے
کوٹ اٹھاتی اس کے پیچھے بڑھ گئی۔
اس نے پہلے کائنات کے لیے دروازہ کھوال۔
پھر خود ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا۔
وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے نا کب بدل جائے معلوم ہی
نہیں ہوتا......کل تک وہ جو بےحد خوش ہوتی تھی
اب خاموش ہو کر رہ گئی تھی۔
وقت کی مانند اس کے احساسات بھی بدل گئے
تھے.....اب شازار کو سوچتے ہوئے اس کے ہونٹوں
کی تراش میں مسکراہٹ نہیں بکھرتی تھی بلکہ
غصے سے جبڑے بھینچ جاتے تھے۔ دل میں نفرت
سی بھر جاتی تھی۔
قصور شازار کا بھی کہاں تھا اور قصور اس کا بھی
نہیں تھا......یہ قسمت ہی تو تھی جس نے حور کو
چوٹ لگائی تھی مگر وہ اس چوٹ کے بدلے میں مزید
سخت ہو چکی تھی۔
اس نے چوٹ کو دل کی بجائے دماغ پر لے لیا تھا۔
244
اسے ہر شخص ہی فراڈ لگنے لگا تھا۔
"پلوشہ! تم لوگ میرے ساتھ اس طرح محبت سے بات
مت کیا کرو قسم سے بیوفا لگتیں ہو۔" وہ ان لوگوں
کے نرم برتاؤ سے چڑ کر کہتی تھی۔
اور وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ جاتیں۔
آج بہت دنوں بعد سنڈے کو اس کی کائنات سے بات
ہوئی تو وہ اسے بہت خوش لگ رہی تھی۔
"تمہیں پتہ ہے حور! شیری بھائی نے کچھ ہی وقت
میں بہت عزت پا لی ہے ماشاءہللا".....
"دیکھا تھا میں نے اس کا پیج۔ بہت ایمان داری سے
ڈیوٹی کر رہا ہے نہیں بلکہ ......دکھاوا کر رہا ہے۔
کچھ دنوں تک وہ بھی اس سسٹم میں گھس جائے گا
اور یہ ساری ایمانداری جائے گی بھاڑ میں۔"
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
"تمہیں پتہ تو ہے انہیں سوشل میڈیا پر رہنا پسند
نہیں.....یہ تو میں نے ان کے پرسنل سیکرٹری کو
کہہ کر بنوایا ہے۔" وہ چہکی۔
245
"سنا ہے اس کے گھر کا سارا سامان وغیرہ کی
شاپنگ تم نے کی ہے؟" اس نے پرسوچ انداز میں
استفسار کیا۔
"ہاں ناں۔ میں نے ان کا بہت خرچ کروایا ہے۔" وہ
ایک نظر مالزمہ پر ڈال کے بولی۔
"ارے بھئی دھیان سے کرو۔ اتنی بڑی فوٹو نظر نہیں
آ رہی کیا؟" مالزمہ جھاڑو لگاتے لگاتے جیسے ہی
پیچھے ہٹی زمین پر دیوار کے سہارے پڑی قدآدم فریم
میں میزیں شاہزیب کی فوٹو سے ٹکرائی تھی۔
وہ قریب ہی کھڑی تھی تبھی جلدی سے ہاتھ بڑھا کر
گرنے سے بچا لیا۔
"کیا ہوا؟" حور نے حیرانگی سے استفسار کیا۔
"کچھ نہیں یار! پیچھلے ویک شیری بھائی کی فوٹوز
ڈیویلپ ہونے کے لیے دی تھیں ،باقی جو چھوٹی تھیں
وہ تو میں نے خود ہی لٹکا دیں اب یہ بڑے والی رہ
گئی ہے وہ آتے ہیں تو خود لگا لیں گے۔"
246
اس نے دوپٹہ شانے پر درست کرتے ہوئے ایک نظر
تصویر پر ڈالی اور پلٹ کر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھ
گئی۔
" کائنات! تم شیری کے گھر کیا کر رہی ہو؟"
"پلیز حور! پھر سے شروع مت ہو جانا۔ اچھا تم بتاؤ
کیا کر رہی ہو آج کل؟"
اس نے بات بدلی۔
"سوگ منا رہی ہوں۔" وہ ٹھنڈی آہ بھر کے بولی۔
"ّٰللا نہ کرے۔"وہ تڑپ کر بولی تھی۔
ہ
"ویسے پیچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو تم،
خیریت تو ہے نا؟" اس کے استفسار پر حور نے اپنے
آنسوؤں کو روکتے ہوئے سختی سے لب بھینچ کر
آسمان کی جانب دیکھا تھا۔
اس وقت ہاسٹل کی چھت پر وہ تنہا ہی بیٹھی تھی۔
"سب کچھ ٹھیک ہے۔اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں
ابھی تھوڑا کام کرنا ہے۔" وہ تیزی سے کہہ کر کال
کاٹ کر گھٹنوں میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو
دی۔
247
"حور رو رہی تھی؟" کائنات فون کو آنکھوں کے
سامنے لہراتے ہوئے بڑبڑائی۔
ٹھیک اسی وقت شیری کی کال آ گئی۔
"اسالم علیکم! کیسی ہو؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟"
کال اٹھاتے ہی اس نے پوچھا۔
"و علیکم السالم۔ ہوں ٹھیک تو ہوں مگر آپ سے
ناراض ہوں۔" وہ منہ پھالئے بولی۔
"کیوں بھئی؟" وہ مسکرایا
"سنڈے تو کم از کم گھر پر گزاریں۔ مجھے بال کر خود
غائب رہتے ہیں۔" اس نے ناراضگی بھرے لہجے میں
کہا۔
"ہاہاہا.....بس ایک گھنٹے تک پہنچ رہا ہوں۔ تم ریڈی
ہو جاؤ کہیں باہر چلتے ہیں۔" اس نے کہا تو کائنات
خوشی سے نعرہ لگاتی تیزی سے کمرے کی جانب
بڑھ گئی۔
وہ ٹھیک ایک گھنٹہ بعد گھر میں داخل ہوا تھا۔
تھوڑا تھکا تھکا سا۔
248
"واہ بھئی تم تو پہلے سے ہی ریڈی ہو ،پانچ منٹ
مجھے دو میں فریش ہو کر آتا ہوں۔" وہ اپنی تھکان
مسکراہٹ کے پیچھے چھپا گیا۔
"نہیں آپ تھکے ہوئے ہیں اسی لیے ابھی ریسٹ
کریں ،ہم ڈنر باہر کر لیں گے۔" وہ سہولت سے بولی۔
"اتنی کیئر نہ کیا کرو ،جب تم ہاسٹل چلی جاتی ہو تو
مجھے ".....وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
چند پل اس کی جانب دیکھنے کے بعد وہ صوفے پر
جا بیٹھا تھا۔
"مجھے پتہ ہے کہ آپ کو میری یاد آتی ہے پھر۔" وہ
معصومیت سے مسکرا کر بولی تھی۔
"ہاں تو اور کیا ،گھر بھی بہت خالی خالی سا ہو جاتا
ہے۔" وہ ریسٹ واچ اتار میز پر رکھتے ہوئے نیم دراز
ہو گیا۔
"میں نے تو ماما سے کہا تھا کہ میں آپ کے پاس ہی
رہتی ہوں آپ آفیس جاتے ہوئے یونی ورسٹی ڈراپ کر
دیا کریں گے اور واپسی پر پک کر لیں گے پر ماما
کہتی کہ نہیں تمہارے تایا لوگوں کو اعتراض ہو
249
گا.....نجانے کیوں اُنہیں اعتراض ہو گا۔" وہ ہاتھ
نچاتے ہوئے ناسمجھی سے بولی تو وہ مبہم سا قہقہہ
لگا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"سب کا دل و دماغ تمہارے جیسا شفاف نہیں ہے
کائنات!" وہ اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی رسید
کرتا پلٹا۔
"اب دماغ پر زور مت دو۔میں ریڈی ہوتا ہوں تب تک
تم ہم دونوں کے لیے کافی بنا لو۔"
وہ لیپ ٹاپ بیگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
"ابھی آرام کریں.....شام کو چلتے ہیں۔" کائنات نے
ہانک لگائی۔
کمرے کی الئٹ جیسے ہی روشن کی دیواروں پر
لٹکتی چند تصویریں دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر
مسکراہٹ بکھر گئی۔
پھر وہ کفوں کے بٹن کھول کر آستینیں فولڈ کرتا
پیروں کو جوتوں سے آزاد کر کے بیڈ پر لیٹ گیا۔
"شیری بھائی! آپ کی کافی۔" کائنات دروازہ
کھٹکھٹاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔
250
"تھینک یو۔" وہ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر
بیٹھ گیا
"فوٹوز کی لوکیشن اچھی ہے نا؟"
"بہت امیزنگ۔" وہ کافی کا مگ تھامتے ہوئے بوال۔
"ہال کے لیے جو بنوائی ہے وہ بھی آ چکی ہے۔ کل
صبح لگا دیجیے گا۔"وہ کہہ کر باہر چلی گئی۔
کچھ دیر بعد آئی تو اس کے ہاتھ میں ریسٹ واچ تھی
اور ایک ہاتھ میں اس کا کوٹ تھا۔سائیڈ ٹیبل پر ریسٹ
واچ رکھ کر وہ وارڈروب کی جانب بڑھی۔
پھر پلٹ کر شیری کو دیکھا جو آنکھیں موندے سر
بیڈ کراؤن سے لگائے ہوئے تھا۔
"مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی شیری
بھائی! ڈاکٹر کے پاس چلیں۔"
کوٹ ہینگر پر ہینگ کر کے وارڈروب میں لٹکاتے
ہوئے وہ اس کی جانب بڑھی۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔" اس نے سرخ ہوتی
آنکھوں کو بمشکل کھول کر اسے دیکھا تھا۔
251
وہ آگے بڑھی اور دھیرے سے اس کی پیشانی چھوئی۔
ّٰللا.....شیری بھائی! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔"
"یا ہ
وہ فکر اور خوف سے ملے جلے لہجے میں بولی۔
"چلیں اٹھیں اور میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلیں۔"
وہ بضد ہوئی پھر شیری کے نہ نہ کرنے کے باوجود
وہ ضد پر اڑی رہی مجبوراً اسے اٹھنا پڑا تھا۔
"میں نے کتنی مرتبہ کہا ہے شیری بھائی! کیپ لے کر
جائیں مگر نہیں جی.....آپ کو ضرورت ہی کیا ہے،
آخر ہیرو بن کر نہ گئے تو گزرا نہیں ہو گا۔" وہ گرم
شال اس کی جانب بڑھاتے ہوئے نروٹھے پن سے
بولی تو وہ محض مسکرا دیا۔
"پہلے بات بات پر غصہ ہو جاتے تھے اب ہنسنے
لگتے ہیں۔ حور دیکھے گی تو اب پکا پاگل سمجھے
گی انہیں۔" وہ سوچ کر مسکرا دی تھی۔
"حور! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب سے مری سے لوٹی
ہو ایسی منحوس شکل بنائی ہوئی۔" پلوشہ نے
استفسار کیا۔
252
"میں ہوں ہی منحوس تو شکل بھی ویسی ہی ہو گی۔"
وہ سنجیدگی سے بولی اور کتاب کھول کر سامنے رکھ
لی۔
"وہاں سے اچانک کیوں آ گئی تھی؟ کچھ ہوا تھا کیا؟"
وہ پھر سے بولی تو حور کے ہونٹوں پر زخمی سی
مسکراہٹ بکھر گئی۔
"ہاں کچھ ہوا تھا......زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔"
وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
"بنا سوچے سمجھے محبت بھی نہیں کرنی
چاہیے......پر یہ محبت تو کچھ سوچنے سمجھنے کا
موقع ہی نہیں دیتی۔" ایک نظر ان دونوں پر ڈال کر
کہتے ہوئے وہ کانوں میں ہینڈ فری لگا کر سر جھکا
گئی۔
"محبت؟ ......اوئے تمہیں محبت ہو گئی ہے ،کس
سے؟"
پلوشہ نے اس کے کان سے ہینڈ فری کھینچ کر
استفسار کیا گیا۔
253
"اب تو نفرت ہے۔ محبت تو تھی.....مگر وہ اس محبت
کے الئق نہیں تھا۔" دانتوں پہ دانت جمائے اس نے
بےحد حقارت سے بھرے لہجے میں کہا۔
"بس ....اب اور کوئی سوال نہیں۔کیونکہ میں اپنا غم
کسی کو بھی بتا کر اپنا تماشا بنوانے کے حق میں
نہیں ہوں۔" پلوشہ کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ اس
نے تیزی سے کہا اور بستر سے اٹھ کر باہر نکل گئی۔
ّٰللا! مجھے ایسے شخص سے محبت کیوں ہوئی"یا ہ
جو پہلے سے ہی کسی کی محبت میں گرفتار تھا؟"
ٹیرس پر کھڑے ہوتے ہوئے وہ دور آسمان پر نگاہیں
جمائے بڑبڑائی۔
کوئی جواب نہیں تھا ،رات کے سناٹے میں خاموشیاں
گونج رہی تھیں۔
"میرا دل جسے میں نے ہمیشہ سنبھال کر
رکھا....کئی جھکے سروں اور گھٹنے ٹیکنے والوں
کو نظر انداز کیا اور خود پر ایک سخت خول چڑھا
لیا.....پھر اچانک سے وہ آیا اور میرے دل کے تخت
پر آ بیٹھا ،میرا سارا خول ٹوٹ گیا ،دل نے جس طرح
254
کے شخص کو پانے کی خواہش کی اسے سامنے پا
کر زور سے دھڑکا اور.....اور اسی شخص نے
مجھے منہ کے بل گرا دیا ......آخر میں نے کیوں نہ
سوچا کہ وہ کسی اور سے محبت".....
دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھے وہ اپنی سسکیوں کو
دباتی ایک جانب کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر
بیٹھتی چلی گئی۔ دل بہت اداس ہو رہا تھا۔
"وہ بلکل ویسا ہی چاند تھا جس کی میں نے خواہش
کی تھی مگر اس پر لگا وہ ادھوری محبت اور ٹوٹے
دل کا گرین مجھے ہرگز نہیں چاہیے تھا .....مجھے یہ
گوارہ نہیں کہ وہ میرے ساتھ ہو اور اس کی خیاالت
میں کوئی اور ہو"......
آنسو بےترتیب انداز میں رخساروں پر ٹوٹ ٹوٹ کر
بہہ رہے تھے۔
ّٰللا مجھے صبر دے۔ اس شخص کو میں بھول جانا "یا ہ
چاہتی ہوں۔" گھٹنوں میں منہ چھپا کے وہ آنکھیں
موند گئی......
"طیبہ! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ حیران ہوا تھا۔
255
ٹاول ایک جانب اچھالتے ہوئے وہ ایک نظر اس پر
ڈال کر بیڈ پر جا بیٹھا۔
طیبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قدموں کے قریب
زمین پر جا بیٹھی تھی اور سر جھکا کے اس کے
ہاتھ کو تھام کر آنکھوں سے لگایا۔
"یہ کیا کر رہی ہو؟ کتنی مرتبہ منع کیا ہے ایسی
حرکتیں مت کیا کرو۔" وہ بےاختیار ہی ہاتھ کھینچ کر
تیزی سے بوال۔
"اور اٹھو یہاں سے میرے قدموں سے پلیز۔" وہ پھر
سے بوال تو وہ مسکرا کر اٹھی اور سامنے پڑے
میٹرس پر بیٹھ گئی۔
"آپ اپنا مقام بھول گئے ہوں گے ہم نہیں بھولتے۔"
وہ طنزیہ نظروں سے اس کی دو انگلیوں میں پکڑی
سلگتی سگریٹ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
"یہاں کیوں آئی ہو؟" وہ ایش ٹرے میں سگریٹ
مسلتے ہوئے سنجیدگی سے بوال۔
"یہ خاک بندی آپ کے سامنے پھر سے ہاتھ جوڑنے
آئی ہے.....کہ یہ سب چھوڑ دیں۔"
256
وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
"طیبہ! تم پلیز ایسی حرکتیں مت کیا کرو ......ہمارے
درمیان یہ روک ٹوک مت الیا کرو۔اور نہ ہی یہ .....یہ
ادب و احترام الیا کرو۔"
" ادب و احترام تو ہر رشتے میں ہوتا ہے۔ہمارے
درمیان اور کچھ ہے بھی نہیں....محض اس ادب و
احترام کے سوا۔" اس کی بات پر شازار نے اکتا کر
پہلوؤں بدال۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"کہتے ہیں جس سے عشق ہو اس کے قدموں میں
بیچھ جانا چاہیے ،میں تو قدموں کی خاک بننے کو
بھی تیار ہوں مگر آپ تو مجھے کوفت بنائے بیٹھے
ہیں۔" اس کی آواز میں نمی سی گھل گئی تھی۔
"طیبہ! تم".....
"بس جا رہی ہوں میں ،مگر یاد رکھیے میں ہر روز
آؤں گی ....آپ کے سامنے ہاتھ جوڑوں گی پاؤں
پکڑوں گی مگر آپ کو اچھائی کے راستے پر ال کر ہی
مروں گی۔"
257
وہ آنسو رگڑتی تیزی سے پلٹ گئی تھی۔دروازے کے
قریب جا رکی اور پلٹی۔
"جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے کبھی محبت نہیں کریں
گے ،محبت کر بھی لی تو شادی نہیں کریں
گے.....مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔" وہ
کہہ کر دروازہ کھولتی اپنے پیچھے دروازے کی آواز
چھوڑ گئی تھی۔
"طیبہ" !....
نیند سے آنکھ کھولتے ہی وہ چنخ کر اٹھ کر بیٹھ گیا
تھا۔ عاصم جو اس کے ساتھ ہی لیٹا تھا ہڑبڑا کر
چارپائی سے نیچے گر گیا۔
"ہائے مر گیا۔" وہ اپنی کمر تھامے اٹھتے ہوئے بوال۔
شازار بےحد حیرانگی سے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑا
رہا تھا۔
"استاد تمہیں کبھی کبھی یہ کیا طیبہ ،طیبہ واال جن
چمٹ جاتا ہے؟ ہر مرتبہ میری کمر کی بینڈ بجتی ہے۔"
وہ دوبارہ سے لٹتے ہوئے بوال۔
258
شازار نے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر رکھ کر آنکھیں
موند لیں۔
"پھر سے گزرے وقت کا ایک خواب آنکھوں کو
سلگا گیا۔" بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ پھر سے
چت لیٹ گیا۔
"استاد یہ طیبہ ہے کون؟"
عاصم اپنی رضائی خود پر کھینچتے ہوئے بوال۔
"وہ جو بھی ہو ،اگلی مرتبہ اپنی چارپائی لے کر آنا۔"
وہ رضائی پرے ہٹا کر چارپائی سے اترا پیروں میں
جوتا گھسا کر کرتہ کی جیبوں کو ٹٹولتا ٹرک کی جانب
بڑھ گیا۔
ٹرک کی چابی کے ساتھ ساتھ حور کا جھومکا بھی
ہاتھ میں آ گیا تھا۔
وہ چند پل چاند کی روشنی میں اس سفید جھومکے کو
دیکھتا رہا پھر تیزی سے نفی میں سر ہال کر ٹرک کا
دروازہ کھولنے لگا۔
"ہاہاہا.....کیا ہوا شازار صاحب!" ٹرک میں جیسے ہی
سوار ہوا ابھی الئٹیں جالئی ہی تھیں کہ ساتھ والی
259
سیٹ پر اسے وہ نظر آئی وہ اس کی جانب دیکھنے
لگا۔
"بہت غور سے دیکھ رہے ہو جھومکا ،ہم سے بغاوت
کا موڑ ہے کیا؟" وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے
سرگوشی میں بولی۔
شازار نے ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی اسے چھونا چاہا وہ
غائب ہو گئی تھی۔
وہ سنہری گڑیا آج بھی اس کے دل و دماغ پر حکومت
کر رہی تھی۔
"طیبہ! میں بدل گیا ہوں۔دیکھو میں نے خود کو مٹا
دیا......جیسا تم چاہتی تھی میں ویسا ہی بن گیا
ہوں۔مگر آج بھی میری ذات کسی کے لیے تکلیف کا
باعث بنی ہے۔"
وہ جیب میں سے وائلٹ نکالتے ہوئے سر سیٹ کی
پشت پر گرائے اس میں لگی فوٹو کو آنکھوں کے
سامنے کرتے ہوئے بڑبڑایا۔
وہ جھیل سی آنکھوں والی سنہری حسینہ چھوٹی سی
تصویر میں بیٹھی مسکرا رہی تھی۔
260
"بہت محبت کرتا ہے تمہارا شازار تم سے .....تمہارے
سوا کسی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ تم دنیا سے
رخصت ہوئی ہو مگر میرے دل میں ہمیشہ آباد رہو
گی۔"
چند پل بےتاب نگاہوں کو تصویر پر ٹکائے رکھنے
کے بعد اس نے وائلٹ دل پر رکھا اور سینے پر بازو
لپیٹ کر آنکھیں موند گیا۔
*****
وہ جس طرح سے لوگوں سے بات کرتا ،جس طرح
سے چلتا ،جس طرح سے نظریں جھکا کر لڑکیوں کے
قریب سے گزر جاتا ،جیسے ہنستا.....اس کی ہر اک
ادا زرمینہ کی نگاہوں میں قید ہو گئی تھی۔وہ ایک ہفتہ
جب سردار سائیں کے آس پاس رہ کر لوٹی تو پوری
طرح سے دیوانی ہو کر رہ گئی۔
"ابا حضور! مجھے لگتا ہے ہمیں زرمینہ کو واپس
بھیج دینا چاہیے۔"وہ اپنے والد کے کمرے کے
سامنے سے گزر رہی تھی کہ بڑے بھائی کی بات پر
اس کے قدم زمین میں جکڑے گئے۔
261
"ہوں۔ ہمیں بھی یہ ہی لگتا ہے۔" وہ ہنکارا بھر کر
پرسوچ انداز میں بولے۔
"میں تو کہتا ہوں اس مرتبہ فرحان سے نکاح کر کے
رخصت کر دیتے ہیں۔"
دوسرے بھائی کی بات سن کر وہ پوری طرح سے
کانپ گئی گرنے سے بچنے کے لیے اس نے دیوار کا
سہارا لیا۔
"بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے بابا حضور! ماموں کو
بالتے ہیں۔ فرحان اور زری کی شادی کی ڈیٹ فیکس
کرتے ہیں یا نکاح کر دیتے ہیں۔ اس کا یہاں رہنا
ٹھیک نہیں ہے۔"
تیسرے بھائی نے بھی مشورہ دیا۔
"ٹھیک ہے۔ کرو کال فرید کو۔" گلریز خان نے
سنجیدگی سے کہا۔
"ن نہیں میں ہرگز شادی نہیں کروں گی۔ م مجھے
کہیں نہیں جانا......م مجھے اپنے سردار سائیں کے
پاس رہنا ہے۔" وہ سوچ کر نفی میں سر ہالتی پلٹ
گئی۔
262
ٹیرس پر ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ
کیا کرے۔
تبھی سیڑھیوں پر نگاہ پڑی۔
وہ بنا کچھ بھی سوچے سمجھے آگے بڑھی اور زور
سے آنکھیں میچ کر سیڑھیاں اترنے لگی دوسرے ہی
پل اس کا پاؤں پھسال تھا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی زمین
پر آ گری۔
مالزمین کے شور پر بھائی اور باپ بھی باہر آئے
تھے۔
اسے اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا۔
بازو ٹوٹ گیا تھا اور سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی
خون کافی بہہ چکا تھا۔
باقی پسلیوں وغیرہ پر اندرونی چوٹ تھی۔
اسے جب ہوش آیا تو نجی اس کے قریب ہی بیٹھی
تھی۔
"زری! میں نے دیکھا تھا.....اس سے پہلے کہ میں
تمہیں روکتی تم سیڑھیوں سے گر کر بےہوش ہو
چکی تھی۔"
263
نجی نے خفگی سے کہا تو وہ مسکرا دی۔
"کیوں اتنی دیوانی ہو گئی ہو زری؟ اپنی زندگی کی
پرواہ بھی نہیں رہی تمہیں۔" وہ اب رونے کو تھی۔
"ارے پگلی دیوانوں کو کہاں اپنی زندگی پیاری ہوتی
ہے۔"
"درد ہو رہا ہے؟" اس نے بات بدلی۔
"نہیں پگلی درد تو تب ہوا تھا جب بابا مجھے یہاں
سے بھیجنے کی بات کر رہے تھے۔ اتنا درد ہوا تھا کہ
مجھے لگا میں مر جاؤں گی......یہ تو جان بچانے کا
طریقہ تھا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"کب تک یوں کرتی رہو گی؟ آخر ایک دن تمہارے
ماموں زادے سے تمہاری شادی ہو ہی جائے گی۔"
"وہ دن زری خان کی زندگی کا آخری دن ہو گا نجی!
یہ میرا وعدہ ہے۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
بالشبہ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ زری کا
پاگل پن اب اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ اب جان دینے
پر اتر آئی تھی۔
264
منہاج کو اس کی جنونی محبت سے خوف سا محسوس
ہوا تھا۔
"زری! اگر سردار سائیں کو تم سے محبت نہ ہوئی
تو؟"
"تو کیا؟ کچھ بھی نہیں مجھے تو ہے نا".....
"ا اگر ان کی شادی کسی اور سے ہو گئی تو؟" اس
کی بات پر زری نے سرعت سے گردن گھما کر اس
کی جانب دیکھا۔
"تو اگر وہ لڑکی سردار سائیں کی پسند ہوئی تو میری
بھی پسند اور اگر سردار کی پسند نہ ہوئی تو اسے
مار ڈالوں گی۔" وہ رازدارانہ انداز میں کہتے ہوئے
منہاج کو خوف زدہ کر کے اب خود ہنس رہی تھی۔
وہ تھوک نگلتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"م میں صاحب کو بھیجتی ہوں۔" وہ کہہ کر تیزی سے
کمرے میں سے نکل گئی۔
"انہیں کہاں میری فکر ہے۔ وہ لوگ تو کب کے جا
چکے ہوں گے۔"
265
باپ اور بھائیوں کے متعلق سوچتے ہوئے اس کا حلق
تک کڑوا ہونے لگا تھا۔
ان لوگوں نے بچپن سے ہی زری کو خود سے دور
رکھا ہوا تھا۔
مگر کیوں؟....یہ اسے نہیں معلوم تھا۔
اور جب وہ یہاں آ بھی جاتی تو کوئی بھی اسے وقت
نہیں دیتا تھا وہ بوریت سے یہاں وہاں ٹہلتی رہتی۔
اور پھر اسے ایک دن سردار دالور خان ایکٹیویٹی مل
گئی یہ سرگرمی اب اس کے وجود کو اپنی لپیٹ میں
لیے کچھ بھی کروانے کو تیار کھڑی تھی......
وہ کالس روم سے نکل کر کینٹین ایرا کی جانب بڑھ
رہی تھی کہ اچانک اسے لگا اس نے کسی جانے
پہنچانے شخص کو دیکھا ہے۔
شاہزیب ،میم تابندہ کے ہمراہ آتا دکھائی دے رہا تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ شیری کی
اس پر نگاہ پڑ گئی تبھی وہ وہاں ہی رکنے پر مجبور
ہو گئی۔
266
"اسالم علیکم میم!" وہ زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں
پر سجائے گویا ہوئی۔
"و علیکم السالم! کیسی ہو کائنات؟" وہ میٹھی سی
آواز میں بولی۔
"یہ مٹھاس شیری بھائی کے سامنے ہی کیوں ٹپکتی
ہے؟" وہ سوچ کر رہ گئی۔
"ّٰللا کا شکر ہے میم! "
ہ
"شیری بھائی! آپ یہاں کیسے؟" اس نے اب شیری
کی جانب رخ پھیرا تھا۔
"میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا ساتھ لنچ کر
لیتے ہیں۔" وہ سیاہ گالسز کے پیچھے سے اس کی
جانب دیکھتے ہوئے بوال۔
"آہاں۔ چلیں آپ لوگ جائیں میں الئیبریری جا رہی
ہوں۔" وہ مصنوعی مسکراہٹ لیے بولی اور پلٹ گئی۔
شیری نے الجھے ہوئے انداز میں تابندہ کی جانب
دیکھا۔
"کائنات! تم بھی ساتھ چل رہی ہو۔" وہ تیزی سے آگے
بڑھا۔
267
"سوری شیری بھائی! میں تھوڑی مصروف ہوں۔ میم
کی ہی اسائنمنٹ بنانی ہیں اگر اسائنمنٹ جمع نہ
کروائی کل تو یہ کالس سے آؤٹ کر دیں گیں۔ ہاں نا
میم؟" اس نے تابندہ کی جانب دیکھا۔
"ہاہاہا.....ارے کوئی بات نہیں۔ گھر جا کر بنا لینا۔"
وہ شاید مصنوعی قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔
"کائنات! اب چلیں؟" شیری نے اس مرتبہ تھوڑی سی
سختی سے استفسار کیا تو وہ سر ہال کر اس کے
ساتھ چل دی۔
"اگر حور یہاں ہوتی تو تمہارا حشر نشر کر دیتی....
چڑیل کہیں کی ،میرے شیری بھائی پر ڈورے ڈالتی
ہو۔ دیکھتی ہوں کیسے ڈورے ڈالو گی۔" وہ پُرعزم
انداز میں سوچتے ہوئے خونخوار نگاہوں سے تابندہ
کو گھور رہی تھی جو شیری سے ہنس ہنس کے باتیں
کر رہی تھی۔
پارکنگ ایریا میں گاڑی کے قریب جاتے ہی وہ تیزی
سے فرنٹ سیٹ کے دروازے کے قریب رک گئی۔
268
شیری نے اس کے لیے دروازہ کھوال اور پھر پلٹ کر
تابندہ کے لیے۔
"یاد ہے شیری! ہم سب دوست کتنی آوارہ گردیاں
کرتے تھے یونیورسٹی الئف میں۔"
وہ جیسے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا تابندہ نے کہا۔
"ہاہاہا.....ہاں وہ وقت بھی بہت اچھا تھا۔ تم بالل
لوگوں کے ٹچ میں ہو؟" گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے
اس نے استفسار کیا۔
"نہیں یار بس کبھی کبھی بات ہوتی ہے۔ اور تم بھی
کہاں ملنے والے تھے یہ تو کائنات کی وجہ سے ہی
مالقات ہو جاتی ہے۔" تابندہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
"میں نے یونیورسٹی ہی بدل لینی ہے۔" وہ سوچتے
ہوئے دراز کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر دراز
کھل نہیں رہا تھا۔
شیری جس کا دھیان اس کی جانب ہی تھا تیزی سے
ہاتھ بڑھا کر دراز کھولتے ہوئے ایک نگاہ اس کے
سنجیدہ چہرے پر ڈالی۔
" تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا کائنات؟"
269
وہ اسے خاموش دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔
"جی بس تھوڑا سا سر میں درد ہے۔" وہ کتابیں دراز
میں رکھ کر سر سیٹ کی پشت پر گرا کر آنکھیں موند
گئی۔
ساری رہ تابندہ اور وہ باتیں کرتے گئے تھے اور
کائنات غصہ ضبط کرتی گئی تھی۔
"یہ ہیلو ہائے والی دوست کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی
ہے۔" وہ سوچتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے
لگی۔
ہوٹل میں بھی شیری نے غور کیا کہ وہ کھانا ٹھیک
سے نہیں کھا رہی تبھی اس نے اس کے لیے کھانا
پیک کروا لیا۔
"پلیز پہلے مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دیں۔ پھر میم کو
چھوڑ آئے گا۔" اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا
تھا۔
"کیا ہوا تمہیں؟ آج خیر تو ہے؟" اس طرح کا برتاؤ
اس نے کبھی نہیں کیا تھا تبھی شیری کافی پریشان ہو
رہا تھا۔
270
"کچھ نہیں ہوا آپ پلیز مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دیں۔"
وہ پہلوؤں بدل کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"کائنات! بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟" تابندہ
فکرمندی سے بولی۔
"جی میم!" روکھے سے انداز میں جواب دے کر وہ
آنکھیں موند گئی۔
"میری جگہ اگر اب حور ہوتی تو میم جی! تم کھڑکی
سے باہر کی سیر کر چکی ہوتی۔یہ تو میری شرافت
ہے جو تمہیں برداشت کر رہی ہوں۔" اس کی سوچیں
زہریلی ہوئیں۔
"مجھے یونیورسٹی بدل لینی چاہیے۔" وہ مزید
سوچنے لگی۔
"پلیز آپ لوگ خاموش ہوں گے کچھ دیر؟" ان کی
مسلسل باتوں سے وہ چڑ کر بولی۔
”?“What is this behavior
شیری کو غصہ آیا تھا مگر وہ دبا گیا۔
"کہا تو تھا کہ مت الئیں۔" وہ الپرواہی سے شانے
آچکا کر بولی اور ہاتھ بڑھا کر کارٹون پلے کر دیئے۔
271
شیری نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی اور ویڈیو پلیئر
بند کر دیا۔
اس نے پھر سے ہاتھ بڑھا کر وڈیو پلیئر آن کر لیا۔
شیری نے گالسز کے پیچھے سے اسے سختی سے
گھورا۔
"کائنات! بند کرو۔ آئی سیڈ بند کرو۔" وہ دبی دبی آواز
میں غصے سے کہتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکا
تھا۔
"نہیں کروں گی۔" وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔
"تم اب اس طرح مجھ سے بدتمیزی کرو گی؟" اسے
گہرا صدمہ پہنچا تھا۔
"ہاں کروں گی....تو؟" اس کی بات پر شیری کا دماغ
گھوم گیا تھا ،تبھی اس نے زور کا پنچ ویڈیو پلیئر پر
دے مارا تھا۔
کائنات ایک دم سے خوف سے سفید پڑتی چینخ اٹھی
تھی۔
"یہ کیا پاگل پن ہے شیری! دیکھو کتنا زخمی ہو گیا
ہے تمہارا ہاتھ۔" تابندہ نے اسے ڈپٹ کر کہا۔
272
کائنات ہونٹوں پر دونوں ہاتھ رکھے رخ پھیر کر اپنے
لرزتے دل کے ساتھ آنسو پی رہی تھی۔
"غصہ ابھی بھی ویسا ہی ہے تمہارا.....کچھ تو سوچ
لیا کرو کچھ بھی کرنے سے پہلے۔" تابندہ اپنا رومال
نکال کر آگے بڑھی اور جھک کر اس کے اسٹیرنگ پر
پڑے ہاتھ کو اٹھا کر اس پر رومال باندھنے لگی۔
"اٹس اوکے تابندہ! کچھ بھی نہیں ہے۔" اس نے ہاتھ
جھٹکا۔
"ایسے کیسے کچھ نہیں ہے۔ چپ کرو تم۔" وہ دوبارہ
سے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔
وہ پٹی باندھ کر واپس سیٹ پر بیٹھ گئی اور کائنات کی
جانب متوجہ ہوئی۔
"کائنات! جب بڑے کسی بات سے منع کرتے ہیں تو
اس سے باز آ جاتے ہیں۔ جانتی بھی ہو کہ شیری کو
غصہ آ رہا ہے پھر بار بار کیوں کارٹون پلے کر رہی
تھیں۔" اب وہ اسے ڈپٹ رہی تھی اور کائنات کا بس
نہیں چل رہا تھا کہ اسے نوچ گھسوٹ ڈالے۔
273
مگر وہ خاموشی سے آنسو بہاتی پوری طرح سے
کھڑکی کی جانب رخ کیے بیٹھی تھی۔
اسے شیری سے اس ری ایکشن کی امید ہرگز نہیں
تھی۔
وہ تو کبھی اس کے ساتھ ایسا سخت سلوک نہیں کرتا
تھا....ہاں تھوڑا بہت خفا لہجہ استعمال کر لیتا تھا مگر
ایسے.....کبھی نہیں کیا تھا اس نے۔
"ایم سوری تابندہ! میری وجہ سے آپ کا بھی دن
خراب ہو گیا۔"
وہ اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے
گردن گھما کر تابندہ کی جانب دیکھتے ہوئے بوال۔
"ارے نہیں نہیں.....کوئی بات نہیں۔ شیری! تم نہیں آؤ
گے گھر؟"
"نہیں یار! میں آل ریڈی بہت تھک چکا ہوں سو
نیکسٹ ٹائم ان شاءہللا۔" وہ مسکرا کر بوال۔
ّٰللا حافظ کائنات جانو!" وہ مسکرا کر کہتی
"شیور ،ہ
گاڑی سے نکل گئی۔ کائنات نے کوئی جواب نہیں دیا
تھا.....
274
شیری نے خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔
وہ خود میں سمٹ کر بلکل کھڑکی کے ساتھ لگی
بیٹھی تھی۔
اس نے ذرا سی گردن جھکائی تو شاہزیب کی نگاہ اس
کے آنسوؤں پر پڑی جو خاموشی سے متواتر انداز
میں رخساروں کو تر کر رہے تھے۔
"ایم....ایم سوری کائنات!" وہ گاڑی کی سپیڈ کم کرتے
اس کی جانب دیکھتے ہوئے افسردگی سے گویا ہوا۔
"کائنات! پلیز میری طرف دیکھو۔ تمہیں معلوم ہے نا
کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر
چہرے پر سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بوال۔
" ڈونٹ ٹچ می پلیز۔" وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر
ہچکیوں مین ڈوبی آواز سے بولی تو شیری کے
اوسان خطا ہونے لگے۔
اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید کم کر دی تھی۔
"کائنات! پلیز.....ناراض تو نہیں ہو نا ،دیکھو تم پر
ہی تو میں غصہ اتارتا ہوں تم ہی تو کہتی ہو کہ
مجھے یہ حق ہے؟"
275
"لوگوں کے سامنے مجھے ذلیل ہونا بلکل بھی پسند
نہیں ،آپ کو بھی نہیں پسند تھا پھر لوگوں کے ہاتھوں
ہی کیوں ذلیل کروا دیا؟" وہ رونے کے درمیان کہہ کر
رخ پھیر گئی۔
پھر شیری کی الکھوں کوششوں کے باوجود وہ نہیں
مانی تھی۔
ہاسٹل کے دروازے کے سامنے جیسے ہی گاڑی رکی
وہ کمان سے نکلے تیر کی ماند وہاں سے جانے ہی
لگی تھی کہ شیری نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"پلیز کائنات! ایم سوری۔ میری غلطی ہے مجھے
غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا.....تمہارے سر میں درد
ہونے کے باوجود میں نے ".....وہ بات اُدھوری
چھوڑ گیا۔
وہ شدت سے اسے منا رہا تھا۔
زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ شاہزیب احمد
کسی کی منتیں کر رہا تھا.....کرتا بھی کیوں نہ یہ
لڑکی اسے پیاری ہی بہت تھی۔
276
"اٹس اوکے۔ پلیز اب میں جاؤں؟" وہ مبہم سی
مسکراہٹ لیے بولی۔
"ناراض ہو نا؟" اس نے ڈرنے والے انداز میں پوچھا
تو وہ ہنس دی۔
"نہیں۔ مجھے تو اب ہنسی آ رہی ہے کیسے آپ نے
ایک دم سے .....آپ کا ہاتھ ......آپ کا ہاتھ زخمی ہو
گیا ہے۔" بات کرتے کرتے اس کی نگاہ اس کے ہاتھ
پر پڑی۔
"نہیں زیادہ نہیں ہوا۔ ڈونٹ وری جاتے ہوئے بینڈیج
کرواتا جاؤں گا۔" وہ نرمی سے بوال۔
چند ہی پل میں وہ پوری طرح سے مان گئی تو وہ
اسے کھانے کا ڈبہ اور کتابیں تھما کر گاڑی سے نکال
اور اس کی جانب واال دروازہ کھوال۔
"اپنا خیال رکھنا۔" وہ اس کی رخسار تھپک کر بوال
اور گالسز آنکھوں پر چڑھا کر پلٹ گیا۔
"شیری بھائی! رکیں۔" وہ تیزی سے بولی تو وہ اپنی
جگہ رک کر ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا۔
277
"اپنا ہاتھ دکھائیں۔" اس نے کتابیں اور کھانے کا
باکس گاڑی میں رکھا اور اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اس کی
جانب متوجہ ہوئی۔
"یہ پٹی کرنے کا حق ماں ،بہن ،بیوی اور نرس کو
ہے مگر میم تو آپ کی کچھ بھی نہیں لگتیں.....جبکہ
میں آپ کی بہن ہوں۔ سو۔" وہ اس کی جانب اپنے
دوپٹے کا ٹکڑا بڑھاتے ہوئے بولی۔
"آپ خود کر لیجیے گا ،خون سے میرا دل کانپ جاتا
ہے۔" وہ بولی تو شاہزیب مسکرا کر اس کے ہاتھ سے
دوپٹے کا ٹکڑا تھام چکا تھا۔
"ّٰللا حافظ۔" وہ کہہ کر پلٹ گئی۔
ہ
گاڑی میں بیٹھتے ہی شیری نے اس کپڑے کے ٹکڑے
کو کوٹ کی جیب میں بہت سنبھال کر محفوظ کر لیا
تھا۔
وہ مان تو گئی تھی مگر اس کے نرم سے دل میں
شیری کا خوف بھی چپکے سے بیٹھ گیا تھا.....
278
وہ خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ تابندہ ان کے ساتھ آئے
کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ کائنات کو اس کا آنا اچھا
نہیں لگتا۔
یونیورسٹیوں سے سردیوں کی چھٹیاں ہوئی تھیں تو
وہ لوگ پھر سے گھر میں اکھٹے ہوئے تھے۔
حور جو کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت کرتی رہتی
تھی اب بلکل بدلی بدلی اور خاموش ہو گئی تھی۔ ماں
سمجھ رہی تھیں کہ میری بیٹی سمجھدار ہو گئی ہے،
سلجھ گئی ہے مگر وہ کہاں جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی
دل توڑا بیٹھی تھی۔
کائنات یہاں آتے ہی گھر کے کاموں میں پھر سے
مصروف ہو گئی ،اب تو شیری بھی نہیں تھا جو اسے
روکتا۔
"ارے کہاں کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟" حور نے الؤنج
میں قدم رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
"کیمپنگ......سب کیمپنگ کے لیے جا رہے ہیں۔"
ایک کزن نے کہا
" کہاں جا رہے ہیں؟" اس نے استفسار کیا۔
279
"اب یہاں ایمازون تو ہے نہیں.....کسی جنگل کے
قریب پڑتی بستی یا کسی چھوٹے موٹے جنگل میں
کیمپنگ کریں گے۔" کاشی نے کہا۔
"سعی ہے۔ چلو جاؤ پھر۔" وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم بھی چل رہی ہو محترمہ۔اب جلدی سے اپنا بوریا
بستر پیک کرو۔" ایک کزن نے کہا تو وہ مسکرا کر
شانے آچکا گئی۔
"کائنات! تم بھی چل رہی ہو نا؟" وہ جو چائے کے
کپوں سے بھری ٹرے میز پر رکھ رہی تھی کاشی کے
استفسار پر تیزی سے سیدھی ہوئی۔
"نہیں کاشی بھائی! میرے فائنلز ہیں چھٹیوں کے بعد
ان کی تیاری کرنی ہے اسی لیےمیری جانب سے
معزرت۔"وہ کہہ کر پلٹ گئی۔
وہ تلمال کر رہ گیا۔
"کوئی نہیں ایک دن تو ہاتھ آؤ گی ہی نا۔" خباثت
بھری سوچ لیے وہ چائے کا مگ اٹھا کر صوفے پر
جا بیٹھا۔
280
کائنات ،شاہزیب کے کمرے کے سامنے سے جیسے
ہی گزرنے لگی تو بند دروازے کو لگے تالے کو دیکھ
اس کے قدم رک گئے۔
ہونٹوں کو یاد میں ڈوبی مسکراہٹ نے چھوا
تھا......اس دنیا میں ماں کے بعد کائنات کا کوئی
مخلص دوست تھا تو وہ شاہزیب احمد تھا....وہ تیزی
سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔
کمرے میں پہنچتے ہی لپک کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا فون
اٹھایا اور میسج ٹائپ کرنے لگی۔
"شیری بھائی! آپ بہت بےوفا ہیں۔دو دن سے مجھے
ذرا سا یاد بھی نہیں کیا .....نہیں تو ہر روز کال کر
کے خیریت پوچھتے تھے۔" رونے والے ایموجیز کے
ساتھ میسج بھیج کر اب وہ اس کے جوابی میسج کا
انتظار کر رہی تھی۔
مگر کافی وقت انتظار کرنے کے بعد بھی اس کا میسج
وصول نہیں ہوا تھا۔
281
وہ کتاب اٹھا کر بالکنی کا در کھول کے وہاں جا کھڑی
ہوئی اور ہاتھ میں دبے فون پر شیری کا نمبر ڈائل کر
دیا۔
وہ جو رائے ہاؤس کے پورچ میں گاڑی روک رہا تھا
کال کی ٹیون بجنے پر ساتھ والی سیٹ پر پڑے اپنے
فون کی جانب متوجہ ہوا۔
کائنات کا نمبر دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر
مسکراہٹ بکھری تھی۔
"اسالم علیکم!" دروازہ دھکیل کر گاڑی سے باہر
نکلتے ہوئے وہ مسکراتے نرم سے لہجے میں بوال۔
"و علیکم السالم! بہت بزی ہو گئے ہیں آپ شیری
بھائی! میسج کا ریپالئے دینے تک کا وقت نہیں ہے؟"
وہ ناراضگی سے بولی تو شیری بےاختیار ہنس دیا۔
"ایسی بات نہیں ہے۔ آپ حکم کریں ہم حاضر ہو جاتے
ہیں۔"
"اچھا مذاق ہے شیری بھائی!" وہ منہ پھالئے ،ہوا
کی زد میں اڑتے بالوں کو سمیٹ کر کان کے پیچھے
282
اڑھستے ہوئے شانوں پہ لپیٹی شال کو ہاتھ سے تھام
کر درست کیا اور ریلنگ سے ٹیک لگا لی۔
"نہیں مذاق نہیں ہے ،اچھا بتاؤ ہو کہاں تم؟" وہ
ممانی سے گلے ملتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کا
اشارہ کرتے بوال۔
"بالکنی میں۔"
بائیں ہاتھ کے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی
سے بولی۔
"مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"
"حاضر ہونا ہے۔اچھا ایسا کرو آنکھیں بند کرو اور
دس تک گنتی کرو ،میں آ رہا ہوں۔" اس کی بات پر وہ
ہنسنے لگی۔
"ہاہاہا.....آپ کوئی جن بھوت ہیں جو اتنی جلدی آ
جائیں گے۔"
"تم کرو تو۔" پاس سے گزرتے کزن کو ہونٹوں پر
انگلی رکھ کر بولنے سے روکتے ہوئے وہ اس سے
مصافحہ لے کر پھر سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
283
وہ مسکرا کر آنکھیں موند گئی اور تیزی سے گنتی
کرنے لگی۔
"ارے بھئی آہستہ آہستہ۔ اب اتنا بھی فاسٹ پاؤر واال
جن نہیں۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
اس کے کمرے کا دروازہ کھال ہی تھا،دبے قدموں اندر
داخل ہوا اور آگے بڑھا۔
بالکنی کی جانب کھلتے دروازے کے پاس جاتے ہی
اس نے کال کاٹ دی۔
وہ ابھی پانچ تک پہنچی تھی۔
چوروں کی مانند پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے
وہ اس کی جانب بڑھا۔
وہ کس قدر حسین لگ رہی تھی ،ریشمی لمبی پلکوں
کی جالیوں کو سفید و سرخ مالئم رخساروں پر
گرائے ،دائیں شانے پر ڈالی چٹیا میں سے چند لیٹں
آزاد ہو کر اس کی کومل رخساروں کے ساتھ چھیڑ
خانی کر رہی تھیں۔ گالب کی پنکھڑیوں سے نازک
اور گالبی لب ہولے ہولے ہل رہے تھے۔
284
ّٰللا اس میری پیاری سی کزن کے نصیب بھی "یا ہ
پیارے لکھنا۔" وہ دل میں ہی دعا کرتا آگے بڑھ رہا
تھا۔
وہ کانچ کی گڑیا اس کی خوشبو کو پہچان چکی تھی
تبھی خاموش ہو کر آنکھیں کھول کے اس کی جانب
دیکھتے ہوئے خوشی سے چنخ کے اس کی جانب
بڑھی تھی اور اس کے شانے سے جا لگی۔
"شیری بھائی! آپ اچانک سے؟" وہ پیچھے ہٹتے
ہوئے بولی۔
"ہاں بس سوچا سب سے مل آؤں۔میں ماموں سے مل
لوں "......وہ اس کا سر تھپک کر تیزی سے پلٹ گیا۔
وہ خود بھی کمرے میں کتاب رکھتی نیچے چلی گئی۔
سب کا کیمپنگ کا پروگرام تھا۔
سب کزنز ضد کر رہے تھے کہ وہ بھی ساتھ چلے۔
"یار میں یہاں آرام کرنے آیا ہوں تو مجھے معاف
رکھو....تم لوگ ہی جاؤ۔" وہ ہاتھ اٹھاتے ہوئے بوال
تھا۔
285
"شیری! بیٹا چلے جاؤ نا ،یہ سب جتنے بڑے بھی ہو
جائیں بچے ہی رہیں گے۔تم جاؤ گے ساتھ تو ہمیں
فکر نہیں ہو گی۔"
بڑی ممانی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
"تمہاری ممانی ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا! آج کل کے
حاالت ویسے ہی ٹھیک نہیں اور یہ لوگ جنگل میں
کیمپنگ کرنے والے ہیں۔ کسی میچور انسان کو ساتھ
ہونا چاہیے۔" بڑے ماموں نے کہا۔
"ٹھیک ہے ماموں! جیسے آپ کہیں۔کب جا رہے ہو تم
لوگ ،اور جا کون کون رہا ہے؟"
اس نے ایک نظر کائنات پر ڈالتے ہوئے ان سب سے
استفسار کیا تھا۔
"ہم سب یونیورسٹیوں والے جا رہے ہیں سوائے
کائنات کے۔اور آج شام کو نکلنا ہے۔" کاشی نے شانے
آچکاتے ہوئے کہا تھا۔
"کیوں بھئی کائنات! تم کیوں نہیں جا رہی؟ .....چلو
اٹھو اور تیاری پکڑو۔شاباش۔" وہ حکمیہ انداز میں
286
بوال تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور سر ہالتی سیڑھیاں چڑھ
گئی۔
حور کی نگاہوں نے دور تک پہلے اس کا پیچھا کیا
اور پھر شیری پر آ ٹکی تھیں جو واقع ہی پہلے سے
زیادہ کھل گیا تھا....گرے کرتہ پاجامہ پر سیاہ شال
شانوں پہ ڈالے وہ بےحد پرکشش لگ رہا تھا۔
حور کی نگاہوں کی تپش محسوس کرتے ہوئے جب
اس نے سر اٹھایا تو وہ منہ بسورے رخ پھیر گئی۔
شیری کے ہونٹ یہاں سے وہاں تک پھیل چکے تھے۔
"کائنات تم نے شیری کی بات مان کر بہت اچھا کیا
ہے۔ تمہیں نہیں معلوم دن با دن میں تمہیں پانے کے
نزدیک تر ہوتا جا رہا ہوں۔" کاشی نے سوچتے ہوئے
ایک اچٹتی نگاہ شیری پر ڈالی تھی۔ اور اپنے دماغ
میں دوبارہ سے پالننگ ترتیب دے ڈالی۔
287
پھر پُروقار انداز میں قدم اٹھاتے حویلی کی دہلیز پار
کر گئے۔
"سالم علیکم دادو جان!" وہ تخت پر بیٹھی بوڑھی
دادی کے پاس جا بیٹھے تھے۔
"ارے میرا لخت جگر.....میرا سردار آ گیا۔" ان کی
ضحیف آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔
سردار دالور نے مسکراتے ہوئے ان کا چشمہ
سرہانے کے پاس سے اٹھا کر ان کی آنکھوں پر لگا
دیا۔
"سردار بھائی جان!......امو ،بھجو سردار بھائی جان آ
گئے۔" بہن نے دیکھتے ہی خوشی سے چالتے ہوئے
حویلی سر پر اٹھا لی تھی۔
وہ محض تین دنوں کے لیے حویلی سے گیا ہوا تھا
مگر اس وقت سب اس کے آنے سے یوں خوش ہوئے
تھے جیسے برسوں سے اس سے ملے نہ ہوں۔
سب خواتین اس کے اردگرد جمع ہو گئیں۔امو اور
چاچی نے خوب بالئیں لیں۔
بہنیں بھی ہاتھ چوم رہی تھیں۔
288
"بس کر دو تم سب تو یوں اس کے اردگرد جمع ہو
گئی ہو جیسے جنگ جیت کے آیا ہو۔" بابا سائیں کی
آواز پر جہاں چاچی کا پلو سرک کر چہرے پر آ گیا
وہاں ہی چھوٹی اور بڑی بہن کے سر جھک گئے اور
چادریں پیشانی تک آ ٹھہریں۔
"کیوں میرے سردار پتر پر آنکھیں الل کرتے ہیں
سائیں؟ وہ جس جنگ میں تنہا لڑ رہا ہے اس کے
لیے وہ کتنی مشکل ہے آپ خوب جانتے ہیں۔" ماں
روہانسی ہو گئیں۔
دالور خان عنابی ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر سر
جھکائے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کون سی جنگ بیگم سرکار؟ ایک بھائی نجانے کہاں
کہاں کی خاک چھانتا پھر رہا ہے تو دوسرا اسے
ڈھونڈنے میں خود کو خاک کر رہا ہے۔دونوں نے مل
کر برادری میں میرا مذاق بنوا دیا ہے۔" ان کا غصہ
بڑھا تھا۔
دالور خان نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوں کو تھام کر
چوم کر آنکھوں سے لگایا تھا۔
289
"بابا سائیں! وہ میرا چھوٹا بھائی ہی نہیں میرا یار
بھی ہے۔ اور میں اپنے یار کو ڈھونڈ کر ہی رہوں گا
خواہ خاک میں مل ہی کیوں نہ گیا۔"
اس نے سر جھکائے مؤدبانہ انداز میں کہا تھا۔ماں
اور بہنوں کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔
پیچھلے ایک سال سے جن بہنوں نے اپنے بھائی اور
جس ماں نے اپنے چاند کو نہ دیکھا ہو ان کی حالت
کیسی ہوتی ہے......؟ اس بڑھے باپ کی سرخ آنکھیں
بھی اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کو یاد تو
ضرور کرتے ہیں۔
ت جگر کہاں ہو گا ،میرا خان
"پتہ نہیں میرا لخ ِ
پتر.....پھولوں کی سیج پر سونے واال کس حال میں
ہو گا۔" ماں اپنی سسکیاں روک نہیں سکی تھیں۔
سردار دالور نے انہیں شانوں سے تھام کر سینے سے
لگا لیا۔
"بہت جلد ہی میں اسے آپ کے سامنے لے آؤں گا
امو!" اس کی خود کی آنکھیں بھی سرخ ہو گئی تھیں۔
290
"ایک بات یاد رکھنا سردار! وہ مل جائے تو بیشک
یہاں لے آنا مگر اسے اتنا سمجھا دینا کہ وہ یہاں
سردار کبھی نہیں کہالئے گا.......اس عہدے سے
اسے یہاں کوئی نہیں نوازے گا۔"
بابا سائیں تیزی سے وہاں سے ہٹ گئے تھے کہ کہیں
سب کے ساتھ وہ بھی کمزور نہ پڑ جائیں۔
"پتر سردار! کچھ پتہ چال خان پتر کہاں ہے؟" دادی
نے پوچھا تو وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔
"دادی سائیں! ابھی تو بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ
مجھے پنجاب جانا پڑے گا۔"
اس نے گہری سانس بھر کر کہا۔
"پ پنجاب؟" دادی کے لب کپکپائے۔
"ہاں دادی سائیں۔" وہ ان کے چہرے پر کچھ تالشنے
لگا وہاں دکھ رقم تھا۔
سب ہی خاموش ہو گئے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ بھی اپنے تھکے وجود کو گھسیٹتے
ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
291
اپنی بس میں سوار ہو کر وہ لوگ نکل چکے تھے۔
حور جس کی سفر میں زبان کنٹرول نہیں ہوتی تھی آج
مکمل خاموشی ہونٹوں پر لیے سر سیٹ کی پشت پر
ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔
"بس کر دو نومی! کتنا برا گاتے ہو۔" کزنز منہ بسور
کر نومی کو دیکھ رہے تھے۔
"شیری! تم گاؤ نا۔" تایا کی بیٹی صائمہ نے کہا تھا۔
اسے یہ سب پسند نہیں تھا یہ بات کائنات اچھی طرح
جانتی تھی تبھی سر اٹھا کر بس کے دروازے میں
کھڑے شیری کو دیکھا۔
"مجھے نہیں آتا گانا۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
کائنات اس کی مسکراہٹ دیکھ رہی تھی اور حور
گردن گھمائے اسے.....
"پلیز شیری!" صائمہ بضد ہوئی۔
"کائنات سے کہو.....وہ بہت اچھا گنگناتی ہے۔" اس
کی بات پر وہ جو سر جھکا رہی تھی خفگی سے اس
کی جانب دیکھنے لگی۔
292
"شیری بھائی! مجھے نہیں آتے گانے۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"نومی! گٹار دو۔"
"یہ لیں جناب! یہاں بیٹھیں نا۔" وہ سیٹ چھوڑ کر اٹھ
کھڑا ہوا شیری نے گٹار تھام کر سیٹ پر بیٹھتے
ہوئے گال کھنکارا۔
"دیکھو بھئی گانا وانا مجھے نہیں آتا ہاں گٹار کالج
کے زمانے میں بہت اچھی بجا لیتا تھا آج کوشش کر
کے دیکھتے ہیں کہ دھن میری انگلی تھامتی ہے یا
بےوفا بھول گئی ہے۔" اس نے سر اٹھا کر کہا۔
اس نے جیسے ہی گٹار کی تاروں پر انگلی نچائی تو
ایک طلسمی سی دھن پوری بس میں پھیل گئی وہ سب
خاموشی سے سن رہے تھے۔
حور نے بےاختیار ہی بوجھل سی سانس بھری اور
آنکھیں موند لیں۔
"وہ آج بھی میرے آس پاس رہتی ہے۔" شازار کی
آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ پٹ سے آنکھیں
کھول کر سیدھی ہو بیٹھی۔
293
سب ہی اس دھن میں کھو چکے تھے۔
اس نے جیسے ہی گٹار بجانا بند کیا سب کی تالیوں
کی گونج کے ساتھ اسے داد پیش کی تھی۔
"واؤ......شیری بھائی! ......آپ کتنی زبردست گٹار
بجاتے ہیں۔" کائنات نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ
کہا تھا۔
"بہت شکریہ آپ سب کا۔" دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے
اس نے سر جھکا کر شاہانہ انداز میں کہا تھا۔
"ویسے یہ دھن آپ کی اپنی ہے مسٹر شاہزیب احمد؟"
حور نے طنزیہ انداز میں استفسار کیا۔
"بلکل۔ میں نے خود کریٹ کی ہے۔" وہ بنا غصہ کیے
بوال۔
"اونہہ ".....وہ رخ پھیر کر باہر دیکھنے لگی،کائنات
اس کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔
شیری کے فون پر کال آئی تھی اور وہ گٹار نومی کو
تھما کر پیچھلی سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔
"کاش یہ سفر ان دونوں کی بےوجہ کی نفرت مٹا دے۔
294
"سردار سائیں! بڑے سائیں نے اپنی آرام گاہ میں آپ
کو یاد فرمایا ہے۔" مالزم نے کمرے کا دروازہ
کھٹکھٹاتے ہوئے مؤدبانہ انداز میں کھڑے ہوتے
ہوئے پیغام دیا تھا۔
وہ جو ایزی چیئر پر بیٹھا گہری سوچوں میں گم تھا
اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ سگار کے کش لگا رہے تھے جب سردار دالور
خان نے ان کے کمرے میں قدم رکھا۔
"حکم بابا سائیں!" وہ ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔
"بیٹھو سردار سائیں!" وہ اپنے پہلو میں اشارہ کرتے
ہوئے بولے۔
"جو میں کہنے جا رہا ہوں وہ شاید تمہیں ناگوار
گزرے مگر یہ ہماری عزت کا سوال تو ہے ہی مگر
اس سے بڑھ کر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہمارا قبیلہ اور
ہماری برادری کی نوجوان نسل ،ہمارے اس انتہائی
قدم سے سبق سیکھ جائیں۔"
وہ سنجیدگی سے بہت سوچ سوچ کر بول رہے تھے۔
295
"ہمارے کچھ اصول ہیں سردار سائیں! کہ.....بیٹے
سرداری کے لیے ہیں اور بیٹیاں محض گھرداری
سنبھالنے کے لیے ہیں ،تعلیم کی جانب ذرا بھی ر
مگر ہم نے ان دونوں اصولوں کو ہی محض تمہارے
کہنے پر ختم کر دیا۔"
"بابا سائیں! میں دل سے آپ کا شکر گزار ہوں.....
دیکھا نہیں آپ نے کہ ہمارے عالقے میں نوجوان اب
تعلیم یافتہ ہیں ،جن لڑکیوں کو جاہل گوار کہا جاتا تھا
جوتے کی نوک پر دھرا جاتا تھا انہیں ان کا حق مال
ہے ،ان کی عزت بڑھی ہے۔" وہ مسکرایا تھا۔
"ہوں.....ہم نے تمہارا ہر فیصلہ مانا اب تمہاری باری
ہے ہمارے فیصلے کو ماننے کی۔" وہ سر ہالتے
ہوئے بولے۔
"میں.....سمجھا نہیں بابا سائیں؟" وہ سوالیہ نگاہوں
سے ان کی جانب دیکھنے لگا۔
"سمجھاتا یوں۔ پہلے یہ بتاؤ خان کا پتہ معلوم ہو گیا
ہے؟"
296
"ٹھیک پتہ تو نہیں مگر اتنا معلوم ہو گیا ہے کہ وہ
پنجاب میں ہے۔وہاں جاؤں گا تو ایک دو دن تک ڈھونڈ
بھی لوں گا۔" وہ انہیں مختصر بتا کر سر جھکا گیا۔
"ٹھیک ہے۔ اب میرا حکم سنو۔" وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
پشت پر ہاتھ باندھے اس سے کچھ فاصلے پر جا
رکے۔
انہوں نے جو کہا تھا سردار دالور کرنٹ کھا کر اٹھ
کھڑے ہوئے۔
"نہیں بابا سائیں! میں اپنے جگر کے ساتھ آپ کو یہ
ظالمانہ سلوک ہرگز نہیں کرنے دوں گا۔" وہ وحشت
سے آنکھیں پھیالئے بوال۔
"ہم آپ کے باپ ہیں آپ ہمارے نہیں۔ اب آپ جائیں اور
انہیں لے آئیں۔اگر نہ الئے یا کوئی بھی ہوشیاری کی
کوشش کی تو آپ سے پہلے ہم خان تک پہنچ جائیں
گے اور پھر ان کی سزا دگنی کر دی جائے گی۔" وہ
اطمینان سے بولے۔
سردار دالور خان نے بےیقینی سے اپنے بابا سائیں
کو دیکھا اور لب بھینچے پلٹ گئے۔
297
"ٹھیک ہے بابا سائیں! مگر اب یہ سزا خان کو آپ
اپنے ہاتھوں سے دیں گے۔ میں بھی دیکھوں گا کہ
ت جگر کو کس حد تک تکلیف پہنچا سکتے اپنے لخ ِ
ہیں آپ۔" وہ اٹل انداز میں کہہ کر پلٹ گیا۔
اس کے تیز قدم اپنے کمرے میں جا رکے تھے۔
"سردار دالور! ایک طرف دو قدم کی دوری پر تمہارا
بھائی ہے اور دوسری جانب باپ کا غصہ......کیا کرو
گے اب؟"
بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ مضطرب انداز میں
ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا۔
"بابا سائیں اپنے ہاتھوں سے اسے سزا نہیں دے
سکیں گے۔ بھال کون باپ اپنے بیٹے پر ظلم کرے گا۔"
اس کے دل نے کہا تھا وہ کچھ حد تک پُرسکون ہو
گیا۔
صبح کے پانچ بجے وہ ایک ہوٹل پہنچے تھے جہاں
انہوں نے کچھ وقت قیام کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد
پھر سے نکل پڑے۔
بس اسالم آباد کے ایک جنگل کی سڑک پر آ رکی تھی۔
298
انہوں نے ایک خوبصورت پہاڑی کا انتخاب کیا جہاں
پانی کا چشمہ بھی موجود تھا۔
"لو بھئی......دو دن سکون سے گزارو.....اتنی
اونچائی پر بھی سروس نہیں ہے۔" نومی نے فون ہوا
میں اچھال کر کیچ کیا۔
"تو رکھ دے اس باپ کو اور ادھر آ ہماری ہیلپ کروا
ٹینٹ لگانے میں۔" کاشی نے کہا۔
"واٹ یہ ٹینٹ کیا ہوتا ہے ،برو اٹس کیمپ "......نومی
نے انگریزوں جیسے لہجے میں کہا۔
"اور یہ لڑکیاں یہاں محض سیلفیاں لینے آئی ہیں
کیا.....ہماری ہیلپ کروائیں۔"
"سنو مسٹر رائے جاوید! یہ کام تم لڑکوں کے ہیں تو
خاموشی سے کیمپ لگاؤ۔" اس کی بہن نے فون پر
سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے کہا۔
کائنات ایک جانب پتھر سے ٹیک لگائے کھڑی ان سب
کی نوک جھوک انجوائے کرتی مسکرا رہی تھی۔
"کائنات! سانپ سانپ ......تمہارے پیچھے سانپ۔"
کاشی نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ڈرانے والے
299
انداز میں تیزی سے بولنا شروع کیا تو وہ چنخ کر
آنکھیں موندے مخالف سمت بھاگ کھڑی ہوئی۔
وہ سب زور سے قہقہے لگا کر ہنسے تھے۔
اس سے پہلے کہ وہ ٹھوکر کھا کر گرتی سامنے سے
آتے شیری نے بےحد تیزی سے اسے تھام لیا تھا۔
"ارے کتنی ڈرپوک ہے یہ۔ بہن تم تو دو دن میں پوری
ہو جاؤ گی ڈر ڈر کر۔" ایک کزن نے ہنستے ہوئے کہا
تھا۔
"ریلکس یار !.....مذاق کیا تھا انہوں نے اور یہاں
نہیں ہوتے سانپ وانپ .....یہ کون سا بڑا جنگل ہے۔"
وہ اس کے شانے سے لگی رو رہی تھی تبھی وہ اس
کا سر سہالتے ہوئے نرمی سے بوال۔
"اب نہیں ڈرانا کسی نے بھی کائنات کو.....اوکے؟"
شاہزیب نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے آگے قدم
بڑھائے۔اور ساتھ ہی کزنز کو ڈانٹا بھی۔
"بہادر شاہ ظفر کی محافظ کہاں چلیں؟"
حور کو النگ شوز ،جینز پر شرٹ اور اس پر لیدر کی
جیکٹ زیب تن کیے ان سب کی مخالف سمت بڑھتے
300
دیکھتے ہوئے شاہزیب نے طنزیہ انداز میں استفسار
کیا۔
"کسی جن کے شاگرد جنگل گھومنے جا رہی
ہوں۔کوئی اعتراض؟" وہ پلٹ کر کرختگی سے بولی
اور ایک تیکھی نگاہ اس کے ہاتھ پر ڈالی جس میں
کائنات کا ہاتھ دبا ہوا تھا۔
"یہ جنگل آپ کے والد صاحب کا ہرگز نہیں ہے جو
منہ اٹھا کر کہیں بھی چل دیں گیں۔" وہ تیکھے لہجے
میں بوال۔
"تو آپ کے والد محروم کا ہے؟ مگر میں تو بھول گئی
تمہارا تو کوئی باپ ہی نہیں ہے۔" اس کا لہجہ تنفر
بیزاری کا اظہار کر رہا تھا اور ہونٹ طنزیہ انداز میں
پھیل گئے تھے۔
"میرے پاس بحث و تکرار کا وقت نہیں ہے۔ آرام سے
ٹک کر بیٹھو جب سب جائیں گے تو تم بھی تب ہی
چلو گی۔ گم ہو گئی تو کون ڈھونڈھتا پھرے گا تمہیں۔"
وہ کہہ کر تیزی سے پلٹا تھا مگر کائنات کے ہاتھ کو
چھوڑنا بھول گیا ،دوسرے پل ہی اسے رکنا پڑا۔
301
اس نے تیزی سے ہاتھ چھوڑا اور بنا مڑے ہی وہاں
سے ہٹ گیا۔
"اٹس ویری بیڈ۔حور! تم کیوں اس طرح کرتی ہو
شیری بھائی کے ساتھ؟"
کائنات نے غصیلی نگاہ حور پر ڈالی اور پیر پٹختی
تیزی سے شیری کے پیچھے بڑھی جو غم و غصہ
ضبط کرتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا آگے بڑھتا جا رہا
تھا۔
"میں جا رہی ہوں گائز۔ آ جاؤں گی تھوڑی دیر تک اور
یہ کون سا اتنا بڑا جنگل ہے جو گم جاؤں گی۔" وہ کہہ
کر پلٹ گئی۔
"ایک بہن کی شیری سے بنتی نہیں اور دوسری
شیری کے پیچھے پڑی رہتی ہے۔" صائمہ دانتوں پہ
دانت جمائے بڑبڑائی۔
"تم کیوں جیلس ہو رہی ہو؟" ساتھ کھڑی سائیکہ نے
پوچھا۔
وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
302
کچھ فاصلے پر بیٹھے کاشی نے بہت ہی پرسوچ انداز
میں صائمہ کی جانب دیکھا تھا۔
"کائنات کو حاصل کرنے میں میرا ساتھ صائمہ ہی دے
گی۔" وہ سوچ کر مسکرا دیا۔
وہ پتھر پر بیٹھتے ہوئے سر ہاتھوں میں گرا گیا تھا۔
"میں الوارث نہیں ہوں......ہیں میرے اپنے......باپ
بھی ہے۔ مگر میں بیوقوف یہاں پڑا ہوں۔جاؤں بھی تو
کیوں؟ انہیں میری ضرورت ہی کہاں ہے۔"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی شیری تیزی سے مگر
افسردہ لہجے میں بوال تھا۔
کائنات ٹھنڈی آہ بھر کے چند پل اس کی پشت کو
دیکھتی رہی پھر چلتی ہوئی اس کے پہلوؤں میں جا
بیٹھی۔
"آپ کو تو ان کی ضرورت ہے نا.....ان کے پیار کی،
ان کے نام کی ".....وہ مدھم آواز میں بولتی اس کی
جانب دیکھنے لگی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ پھر سے بولی۔
303
"شیری بھائی! یہ دنیا کا نظام ہے والد سے جڑے
رشتوں کے بنا اوالد چل نہیں سکتی۔خواہ وہ مرد ہو یا
عورت مگر باپ دونوں کے لیے ضروری ہے۔" وہ
سمجھانے والے انداز میں بولی۔
"میں چال بھی اور جوان بھی ہوا اب مجھے ان کے
سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ بھڑک کر اٹھ کھڑا
ہوا۔
"اوہ ہو....ایک تو آپ کو غصے بہت جلد آ جاتا
ہے۔میں نے سہارے نہیں محبت کی بات کی ہے۔بیٹھیں
اور تحمل سے میری بات سنیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام
کر واپس بیٹھاتے ہوئے سختی سے بولی۔
"آپ کے والد کا قصور نہیں تھا نہ ہی والدہ کا.....
قصور تھا تو آپ کے ماموؤں کا۔"
"ماموؤں نے محض اتنا کہا تھا کہ ہماری بہن خاندان
کے فنکشن میں شرکت کرے گی بنا منہ لپیٹے....اور
اس بات پر میرے والد کے گھر والوں کو اعتراض تھا
تبھی انہوں نے میرے والد صاحب کو کہا میری ماں
کو چھوڑ دیں اور والد صاحب چھوڑ گئے۔"
304
وہ نخوت سے بوال۔
"پردہ کرنا گناہ نہیں ہے شیری بھائی! اور نہ ہی اپنے
خاوند کی بات کو رد کرنا غلط ہے .....آپ کے والد
ٹھیک تھے ،اور آپ کا ننھیال غلط ،سب کچھ اِن
لوگوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ میں نے جس طرح سے
بات سنی ہوئی ہے غلطی سراسر تایا لوگوں کی ہے۔"
اس کی بات پر وہ خاموش سا ہو گیا۔
ہاں وہ مانتا تھا کہ محض ایک وجہ سے اس کے
والدین جدا ہو گئے تھے اور وہ تھا پردہ......
"کم از کم ایک مرتبہ تو چلے جائیں......کیا معلوم وہ
بھی آپ کی طرح آپ کو یاد کرتے ہوں مگر انا کے
سامنے ہار جاتے ہوں.....ہر رشتے کو جوڑنے کے
لیے کسی نا کسی کو پہل کرنی پڑتی ہے۔" وہ بول
رہی تھی اور شاہزیب گردن گھما کر اس کی جانب
دیکھ رہا تھا۔
"مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم اتنی سمجھدار
ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال تو وہ ہنس دی۔
305
ہر جعمہ کی نماز کے بعد سردار بہادر شیر خان لوگوں
سے ان کی پریشانیاں ،مسائل سنتے اور انہیں حل
کرتے تھے۔
تین بجے سے شام آٹھ بجے تک یہ عدالت بیٹھتی تھی
اور اس ایک دن میں ہی کئی لوگوں کو انصاف اور
مجرموں کو سزائیں دی جاتیں۔
اس وقت بھی وہ اپنی نشست سنبھالے ہوئے تھے۔
یہ جگہ بلکل ایک بادشاہ کے دربار کی مانند تھی۔
قدر بلند مقام پر پڑے تین صوفے
سامنے تین ِ
تھے......
چند سیڑھیاں اترنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پانچ پانچ
کرسیاں پڑی تھیں ان سے کچھ فاصلے پر دونوں
جانب ہی بڑے بڑے پیلر الئن میں موجود تھے جن
کے پار ترتیب سے لوہے کی کرسیاں رکھی گئیں
تھیں۔ اس دربار کے کئی گز اونچے دروازے کے
دونوں جانب گارڈز کھڑے تھے۔
سردار حامد خان نے درمیان میں نشست سنبھالتے
ہوئے دائیں بائیں پڑی خالی شاہی کرسیوں کو دیکھا۔
306
ت جگروں کی منتظر تھیں۔
جو ان کے لخ ِ
سردار دالور خان نے بھی پیچھلے ایک سال سے
دربار میں قدم نہیں رکھا تھا اس نے قسم کھائی تھی
کہ خان کو ڈھونڈنے کے بعد وہ دونوں بھائی ایک
ساتھ نشست سنبھالیں گے۔
ایک پل کو ان کی آنکھوں میں اداسی اتری تھی پھر
سر جھٹک کر سامنے دیکھنے لگے۔
ہاتھ اٹھا کر انہوں نے اشارہ کیا تو دائیں جانب بیٹھے
آدمی نے اثبات میں سر ہالیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
"شبیر والد بشیر اپنا مقدمہ پیش کریں۔"
ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو کھولتے ہوئے اس نے
مائیک میں کہا تھا۔
"سالم سرکار!" اس نے پیشانی ٹھونک کر سالم کیا۔
"و علیکم السالم! کیا پریشانی ہے تمہاری؟"
حامد شیر خان نے ،ہاتھ جوڑ کر سر جھکائے کھڑے
شبیر کو دیکھا۔
307
"سرکار میں بہت ہی غریب بندہ ہوں۔بیس برس پہلے
میں سندھ سے ہجرت کر کے یہاں آیا تھا تب میرے
پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
آپ نے مجھے تین ایکڑ زمین دی تھی کہ میں اپنے
چار سالہ بیٹے کو پال سکوں اور کسی کے سامنے
ہاتھ نہ جوڑنے پڑیں۔" وہ ایک پل کو رکا۔
"شبیر! پھر اس وقت تم ہاتھ جوڑے اور سر جھکائے
کیوں کھڑے ہو؟ جانتے نہیں ہو کہ سردار سائیں کو یہ
بات سخت ناپسند ہے۔ بیشک وہ ہمارے مسائل حل
کرتے ہیں مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے قبیلے اور باہر
کے لوگوں کو بھی یہ ہی سمجھایا ہے کہ کمر نہ
جھکے ،خواہ سر کیوں نہ کٹ جائے۔" بائیں جانب
کرسی پر بیٹھے بہترین سوٹ بوٹ میں ملبوس آدمی
نے کہتے ہوئے کچھ طنزیہ نگاہوں سے سردار حامد
خان کو دیکھا۔
"معاف کیجیے گا سرکار مگر آج میں خالی ہاتھ رہ گیا
ہوں میرا بیٹا جسے میں نے پاال پوسا وہ آج کہتا ہے
میں یہاں خان پور کیا پختونخوا میں ہی نہیں رہنا
چاہتا.....جس جگہ جن پہاڑیوں میں وہ پال بڑھا وہ
308
اسے ناپسند ہیں یہ باپ اسے جاہل اور کویں کا مینڈک
لگتا ہے۔سرکار......میں اپنے بیٹے کے بغیر نہیں جی
سکتا۔" وہ رونے لگا تھا اور سردار حامد خان مٹھیاں
بھینچ کر لب دانتوں تلے دبا گئے۔
"اس کے بیٹے کو لے آؤ۔"
انہوں نے کہا تو بائیں جانب سے دو آدمی اٹھ کر باہر
کی جانب بڑھ گئے۔
ڈائری تھامے پھر سے وہ ہی شخص کھڑا ہوا۔
"شبیر! تم اس طرف انتظار کرو جب تک کہ تمہارا بیٹا
نہیں آ جاتا۔ غفور والد منصور حاضر ہوں۔"
اس نے شبیر سے کہتے ہوئے مائک میں دوسرے
شخص کو طلب کیا۔
"اپنے بیٹے کو تو جانے سے روک نہیں سکا تھا
دوسروں کے بیٹوں کو کیسے روکے گا۔" دائیں جانب
چوتھی کرسی پر بیٹھے شخص نے تیسری کرسی پر
بیٹھے آدمی کے کان میں گھس کر کہا۔
"چپ کرو اس نے سن لیا تو جان سے مروا دے گا۔"
تیسری کرسی والے نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
309
"یہ سردار دالور خان آج خان پور میں کیوں نہیں
ہے؟"
اس نے پھر سے گھسر پھسر کی۔
"وہ پختونخوا میں نہیں ہے پنجاب گیا ہوا ہے۔ اب
خاموش ہو جاؤ۔"
دوسرے نے کہا اور رخ پھیر لیا۔
"یہ بات تو صاحب کو بتانی چاہیے کیا پتہ یہ خبر ان
کے کام آ جائے اور مجھے کوئی بھاری انعام مل
جائے۔" اس شخص کی آنکھیں چمکیں۔
"سردار سائیں! معافی چاہتا ہوں م مجھے اجازت دیں
میری بیوی بیمار ہے.....مجھے جانا ہو گا۔"
وہ تیزی سے اٹھتے ہوئے بوال۔
"نبیل خان! اس طرح عدالت کے کام میں مداخلت کرنا
اصولوں کے خالف ہے۔" دائیں جانب کی قطار میں
بیٹھے ایک آدمی نے سختی سے کہا۔
"کوئی بات نہیں شکیل خان! جانے دو اسے۔ جاؤ نبیل
خان! اپنی بیوی کا خیال رکھنا۔"
310
سردار حامد خان نے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے کہا تو وہ
سالم کرتا تیزی سے پلٹ گیا۔
شکیل خان کی جانچتی نگاہوں نے دروازے تک نبیل
خان کا پیچھا کیا تھا۔
دربار سے نکلتے ہی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں
نکل گیا۔
اس کا رخ گلریز خان کے ڈیرے کی جانب تھا......
فصلوں میں سے دیکھتی دو آنکھیں حیرانگی سے
پھیل گئیں۔
"سائیں! یہ نبیل خان تو گلریز خان کے ڈیرے پر جا
رہا ہے۔" اس نے فون پر کسی سے کہا۔
"کیا؟ میرا شک ٹھیک تھا کہ نبیل خان آستینوں کا
سانپ ہے۔پیچھا کرو اس کا۔"
"جی سائیں۔" کال کاٹ کر شکیل خان کا نمبر ڈلیٹ
کرتے ہوئے وہ شخص نبیل خان کا پیچھا کرتا گلریز
کے ڈیرے تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی وہ دبوچ لیا
گیا تھا۔
311
"کیوں بلے.....موت لے آئی تجھے یہاں؟" گلریز خان
نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔
"تم دھوکے باز ہو نبیل خان! میں وڈے سردار سائیں
کو بتا دوں گا۔" وہ ڈرنے کے باوجود غصے سے
پھنکارا۔
"ایسے کیسے بتا دو گے؟ بچو گے تو ہی بتاؤ گے
نا۔" گلریز کے بڑے بیٹے نے کہا اور اس کے سینے
پر بندوق تان دی۔
بنا آواز کیے گولی بلے کے سینے میں اتر کر اسے
موت کے گھاٹ اتار چکی تھی۔
"قبرستان میں ایک اور الوارث الش کا اضافہ ہو گیا۔
ّٰللا محروم کی روح کو سکون دے۔" گلریز خان نے ہ
مصنوعی دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
"نبیل خان! کسی کو مار کر دفن کرنا ہمارے لیے کوئی
مشکل کام نہیں ہے۔ اب اس کو ہی دیکھ لو"......
گلریز خان نے اس کے شانے پر بازو پھیالئے کہا تو
وہ ڈر کر آنکھیں پھاڑے الش کو دیکھنے لگا۔
312
"اگر چاہتے ہو کہ تمہارا حال ایسا نہ ہو تو آئندہ پوری
خبر النا اور اپنے ساتھ کسی جاسوس کو مت النا۔
وگرنہ اگلی مرتبہ دو الشیں یہاں گری پڑی ہوں گی۔"
وہ سرگوشی کے انداز میں بوال۔
"ج جی خان صاحب! معافی چاہتا ہوں اس غلطی کی۔
وہ تھوک نگل کر ہاتھ جوڑ کر بوال۔
گلریز خان اس کے شانے پر تھپکی دے کر پلٹ گیا۔
قدر
شاہزیب کچھ فاصلے پر بہتی ندی کے کنارے پڑے ِ
کم وزنی پتھروں کو اٹھا اٹھا کر ال کے گول دائرے
میں جوڑنے لگا۔
تبھی ایک خیمے کے پردے کو اٹھا کر کائنات باہر
نکلی۔
"شیری بھائی!......یہ کیا کر رہے ہیں؟" اسے گول
پتھر اٹھائے دیکھ کائنات کی آنکھیں یہاں سے وہاں
تک پھیل گئیں اور وہ چینخ کر بولی۔
"تم اٹھ گئی۔ چلو اب یہ گوشت دھو کر الؤ۔"
ایک پتھر پر پڑی ٹوکری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے
بوال۔
313
"آپ اتنے وزنی پتھر کیوں اٹھا رہے ہیں؟ رہنے دیں
نا۔"
وہ تیزی سے بولی۔
"اتنے بھاری نہیں ہیں۔ جو بھاری ہوتا ہے اسے
گھسیٹ لیتا ہوں۔فکر نہیں کرو اتنی تو جان ہے مجھ
میں۔"
وہ اپنے بازوؤں کو سہالتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
کائنات فکرمندی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
گول دائرے میں آخری پتھر رکھ کر وہ ایک پتھر پر
بیٹھ گیا تھا۔
وہ جو ندی کے پانی میں گوشت دھو کر پلٹی تھی اس
کے مضبوط بازو پر نگاہ پڑی جہاں زخم سے خون
رس رہا تھا ،اس کے دل کو کچھ ہوا تھا ٹوکری ایک
پتھر پر رکھ کے تیزی سے آگے بڑھی۔
" دیکھا لگ گیا نا کوئی نوکیال پتھر۔ م میں فرسٹ ایڈ
باکس التی ہوں تب تک آرام سے بیٹھیں۔" وہ کہہ کر
تیزی سے اپنے خیمے کی جانب بڑھ گئی۔
314
شیری نے گردن گھما کر اپنے دائیں بازو کو دیکھا
کہنی سے تھوڑا سا اوپر زخم ہوا تھا
"یہ بھی بھال کوئی زخم ہے۔ پگلی یوں ہی پریشان ہو
جاتی ہے۔" وہ مسکرا کر نفی میں سر جھٹک کر اٹھ
کھڑا ہوا۔
فرسٹ ایڈ باکس اٹھائے وہ باہر آئی تو شیری لکڑیاں
جوڑ رہا تھا۔
وہ خفگی سے آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے
لکڑیاں جھپٹ کر پھینک کے اس کا ہاتھ تھامتی اپنے
ساتھ کھینچنے لگی۔
"اٹھیں ،پہلے پٹی کروائیں۔" وہ کرختگی سے بولی تو
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"کائنات! اتنا بڑا بھی نہیں ہے یہ زخم جتنا تم پریشان
ہو رہی ہو۔" وہ اس کی شکل پر ہوائیں اڑی دیکھ
مسکرایا....
"شیری بھائی! اچھا خاصا گہرا زخم ہے چپ چاپ یہاں
بیٹھیں۔" وہ ڈپٹ کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
315
فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اس میں سے سپرٹ اور
روئی نکالی تو شیری نے خفگی سے اسے دیکھا۔
"ن نہیں کائنات! بہت جلن ہو گی۔" وہ نفی میں سر
ہالنے لگا۔
"چپ چاپ بیٹھے رہیں۔ جانتے ہیں نا سردیوں میں
زخم جلدی بھرتے نہیں ہیں۔انفیکشن ہو گیا تو".....
اس کے کسرتی بازو کو اپنے نازک سے ہاتھ میں
تھامتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بہت احتیاط سے
سپرٹ سے زخم صاف کرتے ہوئے بولی۔ خون دیکھ
اس کا برا حال ہو رہا تھا۔
"کوئی بھی زخم کسی بھی موسم میں ملے بھرنے میں
وقت تو لگتا ہے نا۔" شاہزیب کے لہجے میں مایوسی
اتری۔
ّٰللا بہت ہی مہربان ہے۔" وہ
"مگر بھر جاتے ہیں ،ہ
اس کی جانب دیکھتے ہوئے نرمی سے مسکرائی۔
وہ گردن گھما کر اس کی جانب دیکھنے لگا.....
318
دیکھ کر فرسٹ ایڈ باکس سمیٹ کر خیمے کی جانب
بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ اس کی جانب آتی دکھائی دی اس کے
ہاتھ میں اپنی جیکٹ دیکھ کر نظریں جھکا کے خود
کو دیکھا۔
سلیو لیس جرسی کی بنیان کسرتی بدن سے چپکی
ہوئی تھی۔
اس سے لیدر کی سیاہ جیکٹ تھام کر زیب تن کی اور
پھر سے لکڑیاں جوڑ کر رکھنے لگا۔
وہ بھی ایک نظر شاہزیب پر ڈال کر پلٹ گئی۔
رات کی گہری سیاہ چادر مزید پھیل رہی تھی وہ سب
بھی سیر سے واپس لوٹ آئے۔
"واہ بھئی کیا سیٹنگ پوائنٹ بنایا ہے شیری بھائی
نے۔"
نومی نے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا اور
آگے بڑھ کر پتھر پر بیٹھتے ہوئے آگ پر ہاتھ تاپنے
لگا۔
وہ سب بھی بیٹھ گئے تھے۔
319
"کائنات کہاں ہے؟" حور نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے
استفسار کیا۔
"سو رہی ہے۔" شیری نے بنا اس کی جانب دیکھے
جواب دیا تھا اور مسالہ لگائے گوشت کو اٹھا کر
لوہے کی سیخوں میں پرونا شروع کر دیا۔
وہ ایک تیکھی نگاہ اس پر ڈال کر خیمے کی جانب
بڑھ گئی۔
"شیری! تم بیٹھو اب کافی محنت کر چکے ہو باربی
کیو ہم بنائیں گے۔" ساگر نے مسکراتے ہوئے کہا اور
کاشی کو اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر خیمے کی جانب
بڑھ گیا۔
"ویسے شیری! بھئی مان گئے یہ مسلز محض جم
میں نہیں بنائے،تم میں طاقت بہت ہے۔" صائمہ اس
کے ساتھ والے پتھر پر نشست سنبھالتے ہوئے
ستائش آمیز لہجے میں گویا ہوئی۔
"دلیری خون میں ہوتی ہے۔" وہ کہہ کر اٹھا اور تیز
قدم اٹھاتا اپنے خیمے کی جانب بڑھ گیا۔
320
"جتنا میں نزدیک جانے کی کوشش کر رہی ہوں اتنا
ہی یہ دور بھاگ رہا ہے......اور ایک وہ
کائنات.....جس سے ہر وقت چپکا رہتا ہے ،وہ بیٹھتی
ہے تو یہ بیٹھتا ہے ،وہ کھڑی ہوتی ہے تو یہ کھڑا ہو
جاتا ہے۔"
صائمہ دانتوں پہ دانت جمائے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی
تھی۔
321
"ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں آج تک ایسا کٹ نہیں لے
سکا۔" دوسرے نے بھی چائے کے سیپ بھرتے ہوئے
کہا تھا۔
وہ ٹرک کا دروازہ کھول کر چھالنگ لگا کر نیچے اترا
اور نیوی بیلو کرتہ پر سے دھول مٹی جھاڑی ،پھر
بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے وہ ان لوگوں کی جانب
ہی بڑھ آیا تھا۔
"چھوٹو ،ایک کڑک چائے کا کپ لے آؤ۔" بہرے کو
آرڈر دے کر وہ ان سب کی جانب متوجہ ہوا۔
"اسالم علیکم! " ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے سب کو
مشترکہ سالم کیا۔
سب نے مسکراتے ہوئے سالم کا جواب دیا۔
وہ سیاہ کھیڑی میں سے سپید پیروں کو آزاد کر کے
ان کے ساتھ ہی منجے پر بیٹھ گیا۔
"بھئی شازار میاں! تمہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ تم
ٹرک ڈرائیور ہو اور ہماری حالتیں دیکھو۔ جیسے
صدیوں سے کپڑے ہی نہ بدلے ہوں۔" ایک آدمی نے
خوشگوار انداز میں کہا۔
322
"تمہارا حال دیکھ کر ایمان سے یہ ہی لگ رہا ہے کہ
صدیوں سے نہ نہائے ہو نہ کپڑے بدلے۔" ایک
دوسرے آدمی نے مضاحیہ خیز انداز میں کہا تھا۔ وہ
سب ہنس دیئے۔
"میرے استاد! کے تو ٹھاٹ ہی اپنے ہیں اور ویسے
بھی چاچا!.....تم لوگ تو شادی شدہ ہو تبھی تو دل
نہیں کرتا سجنے سنورنے کو۔" عاصم نے لقمہ دیا
تھا۔
ایک مرتبہ پھر سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔
وہ ابھی چائے کے سیپ لے رہا تھا کہ ایک لمبی کار
وہاں آ کھڑی ہوئی سب کی نگاہیں اس جانب مڑ گئی
تھیں۔
شازار کا سارا دھیان اپنی چائے کی جانب تھا۔
کالی گاڑی میں سے ہاش بشاش لباس میں ملبوس
شخص باہر نکال تھا۔
آنکھوں پر سے گالسز اتارتے ہوئے اس نے ایک
نگاہ ٹرکوں پر ڈالی اور دوسری دھابے پر تیسری
نگاہ ان سب مردوں پر ڈالتا وہ آگے بڑھا تھا۔
323
"اسالم علیکم!" اس نے خوش اخالقی سے سالم کیا۔
شازار کے ہاتھ میں کپ منہ کی جانب جاتے جاتے رک
گیا تھا۔
"و علیکم السالم!"
" جی آپ کون صاحب؟" عاصم نے استفسار کیا۔
"میں سردار دالور خان ہوں.....شازار خان سے ملنے
خیبرپختونخواہ سے آیا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ
وہ یہاں کتنے بجے تک آتا ہے اپنا ٹرک لے کر؟"
اس نے کہا تو سب کی نگاہیں شازار کی جانب مڑ
گئیں جو ساکت و جامد بیٹھا تھا۔
"میرے استاد کا نام بھی شازار ہے۔ پر وہ خان نہیں
ہے۔ آپ کس شازار کو ڈھونڈ رہے ہیں؟" عاصم نے
پھر سے استفسار کیا۔
"تمہارا استاد کہاں ہے ؟" اس نے بےچینی سے
استفسار کیا۔
"یہ ہیں ،یہاں ہی تو بیٹھے ہیں۔" اس نے اشارہ کیا
تو سردار دالور خان کے قدم آگے بڑھے۔
324
شازار بھی ہوش میں آ چکا تھا۔ وہ منہ چھپانے کی
کوشش کر رہا تھا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی
سردار دالور خان اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے
تھے۔
شازار نے نم آنکھیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور
پھر کپ عاصم کو تھما کر منجے سے اتر کر بےتابی
سے ان کے بغلگیر ہو گیا۔
"الال۔" اس کے آنسو متواتر انداز میں بہہ رہے تھے۔
"الال کی جان۔کتنا پریشان کیا تم نے اپنے الال کو.....
دیکھو پھر بھی ڈھونڈ لیا نا "....وہ نم آواز میں بوال
تو شازار ہنستے ہنستے رو دیا۔
"ارے یہ تو میرا استاد شازار ہے۔ بھائی! آپ جا کر
اپنے شازار کو ڈھونڈیں۔" عاصم نے آگے بڑھتے
ہوئے شازار کو پیچھے کھینچا تھا۔
"ہاں استاد تمہارا ہے مگر بھائی میرا ہے۔" سردار
دالور خان نے آنکھوں کے نمی پونجھتے ہوئے کہا۔
"استاد یہ رو کر آپ کو ایموشنل بلیک میل کر رہا ہے۔
یہ تم کو ساتھ لے جائے گا اور وہاں پشاور یا کہیں
325
بھی جا کر بیچ دے گا۔ سچ میں یہ پٹھان لوگ ایسے
ہوتے۔ آپ اس کی باتوں پر یقین نہ کریں۔"
عاصم نے اسکے کان میں گھستے ہوئے کہا تو وہ نم
آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیا۔
"عاصم! وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ میرے بڑے بھائی
ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ چونک کر
اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"قسمے استاد؟"
"آہو ،قسمے۔ اب جاؤ جا کر کچھ کھا پی لو۔ میں الال
سے بات کر کے آتا ہوں۔" وہ اس کے شانے پر
تھپکی دے کر کہتا سردار دالور کی جانب متوجہ ہوا۔
"شازار کا بھائی؟"
"تو وہ ٹرک ڈرائیور نہیں ہے؟"
ان سب ڈرائیوروں نے ایک دوسرے سے کہا تھا۔
"گھر میں سب کیسے ہیں الال؟" وہ اس کے ساتھ چل
دیا۔
"سب ٹھیک ہیں مگر".....
326
وہ گاڑی کے قریب رک گئے۔
"تمہیں ہر وقت یاد کرتے ہیں۔ دادی جان نے رو رو کر
اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دی ہے ،بہنوں کی
خوشیاں کھو گئیں اور امو کے حوصلے۔" وہ اسے
سر جھکانے پر مجبور کر گیا تھا۔
ہر مرتبہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف ہی
پہنچی تھی۔
"تمہیں لینے آیا ہوں خان!" وہ اس کی لمبی خاموشی
کو دیکھ بولے۔
"م میں نے گھر والوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی ہیں،
ان کا مجرم ہوں۔ میں وہاں نہیں جا سکوں گا اور نہ
ہی ان سے نظریں مال سکوں گا۔" وہ بےبسی سے رو
دیا تھا۔
"تمہیں پتہ ہے خان جب تم پیدا ہوئے تھے اس دن ہی
بابا نے فیصلہ کیا تھا کہ پورے شیرپور پر تمہارا راج
ہو گا۔ اور جب تم پچیس برس کے ہو جاؤ گے تو ان
کی نشست تم سنبھالو گے .....تبھی انہوں نے اپنی
سلطنت کا نام بدل کر تمہارے نام سے رکھ دیا۔"
327
سردار دالور خان نے سگار سلگایا۔
"وہ بادشاہ جو اس شہزادے کو اپنا تاج پہنانے کا
انتظار کر رہا تھا انتظار ہی رہ گیا۔" وہ عجیب بےبسی
سے مسکرائے۔
"مجھے یہ سرداری .....حکمرانی یہ....یہ سب پسند
نہیں ہے الال! بتا دیا تھا بابا سائیں کو۔ آپ بھی جانتے
ہیں۔" اس نے آنسو رگڑے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر
اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"خان! حکمرانی ہمیں وراثت میں ملی ہے وہ پورا
ضلع ہمارا ہے۔ وہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہم
ہیں۔ اور اگر ہم اپنی حکمرانی چھوڑ دیں گے تو وہاں
کی عوام تباہ و برباد ہو جائے گی۔" انہوں نے
سمجھداری سے بات آگے بڑھائی۔
شازار ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
"تمہارے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے خان! امو
جان اور گھر والوں کو تمہاری ضرورت ہے۔"
328
"اماں کا کیا ہو گا؟ میں انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر ہرگز
نہیں جا سکتا۔میرے بغیر ان کا کوئی بھی نہیں ہے۔"
وہ تیزی سے بوال۔
"اماں؟" سردار دالور کی پیشانی پر سوالیہ بل نمایاں
ہوئے۔
"ہوں۔ طیبہ کی والدہ۔"
وہ انگوٹھے کی مدد سے پیشانی کھجانے لگا۔
"وہ ہمارے پاس رہیں گیں۔مگر ابھی تو تم یہاں سے
سیدھا خان پور چل رہے ہو۔"
اس نے سنجیدگی سے کہا اور پھر ان دونوں میں
طویل بحث شروع ہوئی جس کے اختتام پر شازار خان
کو ہی کچھ وجوہات کی بنا پر ہار ماننی پڑی۔
****
سارا دن وہ دونوں ساتھ رہے تھے.....رات کو جب
دالور خان نے واپس کانے
"دھیان سے چلیے گا گلی کافی خراب ہے۔" اپنے فون
کی ٹارچ روشن کرتے ہوئے وہ بوال تھا اور سردار
دالور خان گلی کی خستہ حالت دیکھ کر منہ لپیٹ گیا۔
329
گندے نالے کا پانی گلی میں بہہ رہا تھا ....پھونک
پھونک کر قدم رکھتے ہوئے وہ دونوں گھر تک
پہنچے تھے۔
لکڑی کے دروازے کی کنڈی جیسے ہی بجائی سامنے
سے ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے دروازہ کھوال۔
"اسالم علیکم اماں!" شازار نے مسکراتے ہوئے
انہیں سالم کیا۔
"و علیکم السالم! میرا شیر جوان پتر جیتے رہو۔" اس
نے جیسے ہی قدم اندر رکھا انہوں نے اس کی پیشانی
چوم لی۔
تبھی ان کی نگاہ پیچھے پیچھے داخل ہوتے کچھ
الجھے اور کچھ اکھڑے اکھڑے سردار دالور خان پر
پڑی تھی۔
"اماں! میرے الال ......سردار دالور خان۔" اس نے
اماں کے شانے کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔
"اسالم علیکم!" وہ مسکراتے ہوئے سالم کرنے لگا۔
ّٰللا تمہیں سالمت
"و علیکم السالم! ماشاءہللا پتر !.....ہ
رکھے۔
330
جاؤ دونوں منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا لگاتی ہوں۔" وہ
دالور خان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پلٹ گئیں۔
"ہم کھانا کھا کر آئے ہیں بتایا کیوں نہیں؟"
"اماں! نے بہت محبت سے کھانا بنایا ہے ،دل رکھنے
کے لیے تھوڑا سا کھا لیں گے۔" نلکا چالتے ہوئے
اس نے نرمی سے کہا۔
منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ دونوں کمرے کی جانب
بڑھ گئے۔
دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں وہ پیروں کو جوتوں
سے آزاد کرتا ابھی چارپائی پر براجمان ہوا ہی تھا کہ
الئٹ چلی گئی۔
"لو جی ،اب ایک دو بجے ہی آئے گی .....آپ اپنے
موبائل کی ٹارچ روشن کریں میں اماں کو اپنا فون دے
کر آتا ہوں۔" وہ موبائل کی روشنی میں کمرے سے
نکل گیا۔
سردار دالور خان نے اپنے فون کی ٹارچ روشن کر
لی۔
331
کچے مکان ،سخت چارپائی ،خستہ حال گلی.....اس کا
بھائی اس جگہ رہتا تھا......؟وہ بھائی جو ایک لباس
کو دوسری مرتبہ پہننے کو تیار نہیں ہوتا تھا اب
گندے کپڑے بھی دوسری مرتبہ پہن لیتا تھا۔
جو مخمل کے بستر پر سوتا تھا اب سخت چارپائی پر
سو رہا تھا۔
"کیا عشق اتنا بڑا استاد ہے کہ ایک لوہے کی مانند
سخت شخص کو موم کی طرح پگھال دیتا ہے؟"
وہ سوچتے ہوئے لب بھینچ گیا۔
کھانے کے بعد اماں چائے بنا الئی تھیں۔
پھر کچھ دیر باتیں کرمے کے بعد وہ سونے کے لیے
اٹھ گئیں تو شازار دوسری چارپائی پر ہو گیا۔
سردار دالور کے من میں ڈھیروں سوال تھے مگر
ابھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خاموشی سے سو
جائے اور اس نے وہ ہی کیا تکیہ درست کر کے لیٹ
گیا۔
332
"معزرت خواہ ہوں الال! آپ کو ایسے غیر آرام دہ
بستر پر سونے کی عادت نہیں ہے میری وجہ سے آپ
کو تکلیف ہو گی۔"
وہ شرمندگی سے بوال تو سردار دالور مسکرا کر اس
کی جانب دیکھنے لگا۔
"خان! تمہاری خاطر ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔"
وہ بوال تو خان ہنس دیا پھر اٹھ کر کمرے سے نکل
گیا جب لوٹا تو اسکے پاس ایک نرم رضائی تھی۔
"اٹھیں غالب کے جانشین آپ کے بستر کو نرم کرتے
ہیں۔" وہ کھلکھالیا۔
"ارے ہم کہاں ہیں ،وہ تو آپ ہیں جناب۔ میں تو عشق
کا عین بھی معلوم نہیں۔" وہ بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑا
ہوا۔
خان نے خاموشی سے اس کی چارپائی بجھانے لگا۔
"ویسے خان! ایک بات بتاؤ......تم نے اپنا سب کچھ
چھوڑ دیا اور یوں زندگی گزار رہے ہو ،کیا یہ آسان
تھا؟ تمہیں تکلیفیں پیش نہیں آئی تھیں کیا؟" وہ
بیٹھتے ہوئے مدھم سی آواز میں بوال۔
333
" بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں کہ.....
عین ِعشق دے محکمے َمیں گیا
آ ُگوں عشق نے میری دانائی لُٹ لئی
میں گیا ساں عشق کولوں داد لیون
آ ُگوں عشق نے میری رسائی لُٹ لئی
عشق لُٹ دا ولیاں پیغمبراں نوں
تے کئیاں بادشاں دی بادشائی لُٹ لئی
اجے تیرا کی لُٹیا اے بُلھیا !
ایس عشق نے ُخدا دی ُخدائی لُٹ لئی"
334
اس نے بہت سوچ سمجھ کر کی ہو گی
جناب یہ سازش محبت جیسی....
335
"تم خود رانگ ہو......تم چاہتی ہو سب تمہارے
سامنے جھک کر رہیں مگر شیری بھائی نہیں جھکیں
گے کیونکہ وہ ".....وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی۔
"وہ؟" حور نے حیران کن نگاہوں اس کے ہڑبڑا انداز
کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
"وہ ان سب سے الگ ہیں۔ اور تم ان کے متعلق اچھا
اچھا سوچا کرو ......کیونکہ وہ اچھے ہیں بہت اچھے
ہیں۔" کائنات تیزی سے کہہ کر خیمے سے نکل گئی
اور وہ اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔
"کائنات ،شیری میں انٹرسٹڈ ہے؟" حور نے حیرانگی
سے سوچا۔
"نہیں یہ میں کیا سوچ رہی ہوں......ضرور شیری نے
اسے بہکایا ہو گا۔"
"ماما نے کہا تھا کہ ابھی حور سے بات نہیں کرنی کہ
ابھی اس کے دل و دماغ میں شیری کے لیے نجانے
کون سی زہر بھری ہوئی ہے....آج اگر غلطی سے
بھی میرے منہ سے نکل جاتا کہ وہ اس کے ہونے
والے شوہر ہیں تو......ماما نے مجھے جان سے ہی
336
مار ڈالنا تھا۔" سینے پر ہاتھ لپیٹے وہ سوچ میں ڈوبی
سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں اب کاشی بیٹھا تھا تبھی وہ
نائلہ کے ساتھ جا بیٹھی۔
شاہزیب نے سر اٹھا کر ٹھیک اپنے سامنے بیٹھی
کائنات کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا دی تو وہ بھی
مبہم سی مسکراہٹ لیے سر جھکا گیا۔
*****
صبح کے ناشتے کے بعد اس نے اماں سے بات کی
تھی۔
وہ دل برداشتہ ہو کر مسکرا دیں۔
ّٰللا کی
"ایک نا ایک دن تو تمہیں جانا ہی تھا پتر! جا ہ
ایمان۔ مگر میں نہیں چل سکتی۔" وہ نم آنکھوں سے
بولیں۔
"نہیں اماں! میں آپ کو یہاں تنہا چھوڑ کر ہرگز نہیں
جاؤں گا۔ آپ کو چلنا ہو گا میرے ساتھ۔"
وہ بضد ہوا۔
337
"بیٹا میں یہ گھر کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں؟"
"بس اب آپ کوئی بات نہیں کریں گیں میرے ساتھ
چلیں گیں بس ".....اس کی ضد کے سامنے وہ ہار
گئیں۔
"ٹھیک ہے پتر! پر ابھی تم جاؤ.....مجھے ایک دو دن
بعد آ کر لے جانا۔" انہوں نے ہارے ہوئے انداز میں
کہا۔
کمرے کے دروازے میں کھڑے سردار دالور خان کو
ابا سائیں کی شرط یاد آئی.....وہ تیزی سے آگے بڑھا۔
"خان! اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔میں خود پرسوں انہیں
لے جاؤں گا۔" اس نے نرمی سے کہا۔
وہ خاموش ہو گیا۔
پھر ایک بوجھل سے ماحول میں اماں نے اسے
رخصت کیا تھا۔
وہ تھوڑا تذبذب تھا.....جہاں اس کی زندگی چھن گئی
تھی اس جگہ جانے کے لیے اسے اپنا دل بڑا کرنا
تھا۔
338
خیبرپختونخوا میں داخل ہوتے ہی اس کے دھڑکنیں
بھی بےترتیب ہو گئی تھیں۔
اور جیسے ہی خان پور کی حدود میں وہ داخل ہوئے
سردار دالور خان نے گاڑی کی سپیڈ دھیمی کر دی اور
ساتھ ہی گاڑی کے سیاہ شیشے بھی نیچے کر دیئے۔
خان پور کے لوگ حیران پریشان نگاہوں سے خان
کو دیکھتے اور گاڑی کے پیچھے چل دیتے۔
گاڑی جب ایک میدان کے قریب رکی تو اس نے الجھی
نگاہوں سے سردار دالور خان کو دیکھا جو رو رہا
تھا۔
"الال! یہ کیا آپ رو رہے ہیں؟" وہ تشویش بھرے
لہجے میں بوال۔
"یہاں تک میں بھائی تھا خان! اب اس میدان میں قدم
رکھتے ہی میں ایک بیٹا بن جاؤں گا جو اپنے بابا
سائیں کے فیصلوں کے سامنے بےبس ہے۔" اس کی
بات کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات کہہ کر آنسو
رگڑتا وہ گاڑی سے نکل گیا تھا۔
لوگوں کے سالم کا جواب دیتا وہ آگے بڑھ گیا۔
339
شازار نے بھی قدم گاڑی سے باہر رکھا تھا۔
ایک حیران کن نگاہ میدان کے بیچ و بیچ گول دائرے
میں لگی لوہے کی باڑ کو دیکھتے ہوئے وہ آگے
بڑھا.....
رفتہ رفتہ پورا خان پور اس کھلے میدان میں جمع ہو
چکا تھا۔
تبھی اپنے خاص آدمیوں کے ہمراہ آتے سردار سائیں
کو دیکھا وہ ناک کے سیدھ چلتے ہوئے تخت پر چڑھ
گئے تھے۔
ایک غلط نگاہ بھی شازار خان پر نہیں ڈالی تھی۔
"خان پور کا کوئی نوجوان جو یہاں نہ کھڑا ہو.....؟
اگر کوئی نہیں ہے تو اسے بال لیا جائے۔"
شکیل خان نے بلند آواز میں کہا۔
پھر انہوں نے سردار سائیں کی جانب دیکھا۔
"ہم اپنے اصولوں کے پکے ہیں......ہم جو فیصلہ
کرتے ہیں پتھر پر لکیر کی مانند ہوتا ہے۔" انہوں نے
کہنا شروع کیا تھا۔
340
خان نے چاروں اطراف نگاہیں دوڑائیں سردار دالور
خان نظر نہیں آیا تھا۔
"میرے چھوٹے صاحبزادے سردار .....نہیں نہیں
سردار تو اب یہ رہے نہیں.....شازار خان ایک سال
سے ہمارے عالقے سے ہی نہیں بلکہ صوبے سے
بھی غائب تھے۔ اور ان کے اس عمل پر ہم انہیں
ایسی سزا دیں گے کہ.....کہ آئندہ کوئی نوجوان ایسی
حرکت نہ کرے گا۔" مختصر سا کہہ کر وہ تخت سے
اترے تھے۔
دو آدمیوں نے شازار کو پکڑ کر اس لوہے کی باڑ کے
اندر دھکیل دیا تھا۔
وہ جان گیا تھا کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے واال
ہے....وہ بوجھل سانس بھر کر سر جھکا گیا۔
یہ سزا تو اسے جھیلنی ہی پڑنی تھی۔
*****
بس خان پور میں انٹر ہو چکی تھی۔
"کائنات! میں نے تمہاری بات پر غور کیا اور بالآخر
فیصلہ کیا کہ میں خان پور جاؤں گا اور میں تم لوگوں
341
کے اٹھنے سے پہلے ہی نکل آیا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ
درخت سے ٹوٹ کر ٹہنی کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔
میں کسی کو نہیں بتا رہا تمہارے سوا ......صبح جب
سب میری غیر موجودگی کی وجہ پوچھیں تو کہنا
ایمرجنسی کیس آ گیا تھا تو جس وجہ رات کو ہی نکل
گیا۔"
وہ آنکھیں کھول کر جمائی روک کے کھڑکی سے باہر
دیکھنے لگا۔
وہ صرف ایک میسج چھوڑ کر وہاں سے آیا
تھا.....اور کائنات نے بھی وہاں سب سنبھال لیا ہو گا
یہ وہ جانتا تھا۔
پہاڑوں کی چوٹی پر واقع یہ ایک چھوٹا سا مگر بہت
ہی خوبصورت گاؤں تھا۔
بس خان پور کے خوبصورت سے بس اسٹینڈ پر رکی
تھی۔
وہ بس سے جیسے ہی اترا وہاں اکا دکا شخص دیکھ
اسے کافی حیرانگی ہوئی تھی۔
342
چند بزرگ ایک چائے شاپ کے سامنے بیٹھے دیکھ
وہ شانے پر لٹکائے بیگ کو درست کرتا آگے بڑھا
تھا۔
"اسالم علیکم! چچا ،سردار حامد خان کے گھر کا
راستہ کون سا ہے؟" اس نے استفسار کیا تو تمام
بزرگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ،ایک لمحے کو
ان سب کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر آیا تھا پھر،
اس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
پیروں میں جوگرز ،نیلی جینز پر لیدر کی سیاہ جیکٹ
زیب تک کیے......سفید بےداغ چہرے پر سنجیدگی
لیے ،عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے ،شہد رنگ کانچ
سی آنکھوں کو ادھر ادھر دوڑاتے ہوئے وہ سرسری
سے انداز میں اطراف کا جائزہ لے رہا تھا ،اس نے
ہاتھ بڑھا کر کشیدہ پیشانی پر بکھرے براؤن رنگ
بالوں کو سمیٹ کے پیچھے کیا تھا۔
"آ آپ ا احمد خان ہیں.......س سردار احمد خان؟"
وہ چاروں بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
اس نے گردن گھما کر ان کی جانب دیکھا۔
343
جس کا وہ نام لے رہے تھے اس شخص سے اسے
شدید نفرت تھی......
"نہیں ،کیا آپ بتائیں گے کہ حامد خان کا گھر کس
طرف ہے؟"
"معاف کرنا بیٹا مگر تم ہوبہو سردار احمد خان جیسے
ہو۔ یقینا ً تم ان کے صاحبزادے".....
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے وہ ایک نگاہ ان
پر ڈالتا خدا حافظ کہتا دائیں جانب چل دیا۔
" گاؤں میں تمہیں کوئی راستہ بتانے واال نہیں ملے
گا۔" پیچھے سے ان میں سے ایک بزرگ نے ہانک
لگائی تو وہ رک کر پلٹا۔
"اِس بائیں پہاڑی سے اترو گے تو دائیں ہاتھ جاتے
راستے پر چل دینا.....جہاں راستہ ختم ہو گیا وہاں
تمہیں سردار حامد خان مل جائیں گے۔" وہ بوڑھا آدمی
کہہ کر واپس بیٹھ گیا۔
وہ الجھی نگاہوں سے انہیں دیکھتا بائیں جانب بڑھ
گیا۔
344
راستہ ختم ہوا تو اس کی نگاہ میدان پر پڑی جو
لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
مکمل خاموشی کو محض ایک شخص کی چنخوں کی
آواز اور ہنٹر کی آواز توڑ رہی تھی۔
وہ تیزی سے آگے ہوا اور لوگوں کے درمیان میں
سے راستہ بناتا آگے بڑھا۔
لوہے کی باڑ کے قریب رکتے ہی اس نے جو منظر
دیکھا اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آ گئی تھیں۔
ایک ادھیڑ عمر شخص بڑی بےرحمی سے ایک
نوجوان پر کوڑے برسا رہا تھا۔اس نوجوان کا قمیض
کمر سے پوری طرح پھٹ چکے تھا۔
شیری نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں سب لوگ
خاموشی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔
اس نے باڑ کے دروازے کو دیکھا اور پھر بیگ
پھینک کر تیزی سے آگے بڑھا۔
باڑ کے دروازے پر کھڑے آدمیوں نے اسے روکنا
چاہا مگر شیری نے گھوسا مار کر ان کے ناک پھوڑ
ڈالیں۔
345
دروازہ کھول کر وہ بھاگ کر وہاں تک پہنچا تھا اور
ہنٹر جیسے ہی ہوا میں بلند ہوا اس نے بےحد تیزی
سے سردار حامد کے ہاتھ کو تھام لیا تھا۔
"بس کریں......کیا کر رہے ہیں آپ؟" ایک نگاہ
مدہوشی کے عالم میں کراہا رہے شازار پر ڈال کے وہ
پھر سے سردار حامد خان کی جانب متوجہ ہوا۔
"وہ انسان ہے کوئی جانور نہیں۔" وہ ان کے ہاتھ
سے ہنٹر لے چکا تھا۔
سردار حامد اسے ساکت آنکھوں سے تکے جا رہے
تھے۔
ان کے آدمیوں نے آگے بڑھنا چاہا مگر انہوں نے ہاتھ
اٹھا کر روک دیا۔
" سردار احمد خان؟"
"ہاں یہ وہ ہی ہیں".....
"نہیں یہ وہ کیسے ہو سکتے وہ تو مر چکے ہیں۔
"اگر نہ بھی مرتے تو برسوں بعد ہوبہو ویسے
تھوڑی ہوتے۔"
346
"سردار احمد خان کا ہم شکل ہے۔"
"شاید ان کا جانشین ہو؟"
بھیڑ میں سرگوشیاں گونجنے لگی تھیں۔
"شازار کے ساتھ اسے بھی اٹھا کر کوٹھری میں
پھینک آؤ۔" سردار حامد خان اس کے ہاتھ سے اپنا
ہاتھ چھڑوا کر تیکھی نگاہوں سے اسے دیکھتے پلٹ
گئے۔
ان کے ہٹے کٹے چار آدمی آگے بڑھے تھے۔
"ایک منٹ۔ میں خود چلتا ہوں۔" وہ اسے پکڑنے لگے
تو شیری نے سخت لہجے میں کہا۔
گردن گھما کر بےہوش ہوئے شازار کی جانب دیکھا
جسے وہ دونوں آدمی بڑی بےرحمی سے اسے
اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"او ہیلو۔ مینرز نہیں ہیں کسی زخمی شخص کو اس
طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ ہٹو ".....وہ پلٹ کر اس
کی جانب بڑھا۔
"کیا نام ہے اس کا؟"
347
"سردار......میرا م مطلب شازار خان۔" ان میں سے
ایک آدمی نے کہا۔
"شازار! ہوش میں آؤ۔"
اس نے اس کی رخسار تھپکی مگر وہ ہوش میں نہیں
آ رہا تھا۔
"ابھی ڈاکٹر کو کال کرو۔"
"شہری بابو ،سردار سائیں کا حکم ہے کہ ان کے
ساتھ ذرا بھی ہمدردی نہ برتی جائے۔ ہم ڈاکٹر کو بال
کر اپنی گردن سے ہاتھ نہیں دھلوانا چاہتے۔" ان میں
سے ایک نے کہا۔
وہ جبڑے بھینچے جھکا اور شازار کو اٹھا کر ان
آدمیوں کے پیچھے چل دیا۔
ایک آدمی نے اس کا بیگ اٹھا لیا تھا۔
گاڑی جیسے ہی چلی اس نے پھرتی سے اپنا بیگ
پکڑا اور ریوالور نکال کر ڈرائیور کے سر پر رکھ دیا۔
"ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہو یا شوٹ کر دوں؟"
ڈرائیور کی جان لبوں پر آ گئی تھی۔
348
"کوئی ہوشیاری مت کرنا.....اپنی گن مجھے دو۔"
ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے آدمی نے جیسے ہی پہلوؤں
بدال شاہزیب نے کرختگی سے کہا۔
وہ وہاں ہی ساکت ہو گیا اور گن پیچھے اس کی جانب
بڑھا دی۔
گاڑی ہسپتال کے سامنے جا رکی تھی۔
اسے سٹریچر پر ڈال کر وہ ہاسپیٹل میں داخل ہو گیا۔
"شہری بابو ،سردار سائیں نے ہماری گردن اڑا دینی
ہے۔ ہم پر رحم کرو ماڑا۔"
ڈرائیور اور وہ گارڈ اس کے پیچھے بھاگے تھے۔
"چپ چاپ یہاں کھڑے رہو۔" اس نے ہونٹوں پر انگلی
رکھتے ہوئے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
"سسٹر .....ڈاکٹر کو بالئیں۔"
وہ دونوں پستول اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں
چھپا چکا تھا۔
"شازار خان کا عالج وہ نہیں کریں گے جناب! سائیں
کا حکم ہے۔" وہ سر جھکائے بولی۔
349
"اس کا باپ بھی کرے گا اور میں بھی دیکھتا ہوں کہ
تمہارا سائیں کیا کرتا ہے۔جاؤ اب جا کر گاڑی میں
انتظار کرو۔" وہ کہہ کر پلٹ گیا جبکہ گارڈ اور ڈرائیور
واپس پلٹ گئے۔
"ویسے یہ ہوبہو سردار احمد خان ہیں۔ میں نے
حویلی کے ایک کمرے میں دیکھی ہے ان کی
تصویر۔" ڈرائیور نے کہا۔
"کرم خان! یہ سردار احمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ بیس
سال پہلے وہ مع فیملی گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے
پھر آئی تو ان کی موت کی خبر ".....باڈی گارڈ نے
سنجیدگی سے کہا۔
گاؤں کے لوگ ابھی بھی سکتے میں تھے۔
برسوں بعد ان کے روبرو جو شخص آ کھڑا ہوا تھا وہ
تو برسوں پہلے ہی دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔
اُدھر سردار دالور خان اپنی بےبسی پر تڑپ کر رو رہا
تھا۔
"کیسا بھائی ہوں میں ،اپنے بھائی کو بابا سائیں کے
قہر سے بچا ہی نہیں سکا۔" وہ ایزی کرسی پر گرا ہوا
350
تھا ،دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان میں سگار
سلگ رہا تھا جو اس کے منہ کو لگنے کی حسرت
میں ہی جل بجھنے کو تھا۔
"پر میں بھائی سے پہلے بیٹا ہوں۔ اور بابا سائیں کے
حکم کو رد بلکل بھی نہیں کر سکتا۔" وہ سر ہاتھوں
میں گرا گیا۔
"سردار سائیں! ......سردار سائیں!" اس کا خاص
آدمی بھاگتے ہوئے آیا تھا اور دروازہ پیٹنے لگا۔
وہ جو سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا بےآواز رو رہا تھا
بری طرح چونک کر دروازے کی سمت بڑھا۔
"سردار سائیں! خان سائیں کو سردار احمد خان
ہسپتال لے گئے ہیں جلدی چلیں۔" وہ کھڑکی پر آیا
تھا۔ ہاتھ بڑھا کر کھلی کھڑکی پر گرے پردے کو
اٹھاتے ہوئے جو اس نے اطالع دی سردار دالور خان
سر اٹھا کر حیرانگی سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔
"چاچا سائیں؟ ز زندہ ہیں.....؟" وہ تیزی سے اٹھا تھا
اور تقریبا ً بھاگتا ہوا کمرے سے نکال۔
351
"کہاں جا رہے ہیں آپ سردار سائیں؟" اپنے پیچھے
سے والد صاحب کی پکار سن کر اس کے قدم وہاں ہی
ساکت ہو گئے۔
"اپنا بھائی ہونے کا فرض نبھانے جا رہا ہوں۔ اور آپ
مجھے روک نہیں سکتے بابا سائیں!" وہ آنسوؤں
میں غوطہ زن آواز میں گویا ہوا۔
"کیا آپ چاچا سائیں سے ملے ہیں؟ سنا ہے وہ لوٹ
آئے ہیں" وہ ایڑھیوں پر پلٹا تھا۔
بہن نے جیسے ہی سنا وہاں ہی ساکت ہو گئی۔
"وہ نامراد تو مر چکا یہ کوئی اس کا ہم شکل ہے۔اور
ہاں آپ محض شازار خان کی خیریت دریافت کر کے
لوٹ آؤ گے۔"
وہ کہہ کر وہاں رکے نہیں تھے۔
اس نے ٹھنڈی سانس فضا کے سپرد کی اور ایک نگاہ
اپنی بہن پر ڈالی۔
"سردار پتر! یہ ہلدی واال دودھ ہے۔ خان پتر کو پال
دینا زخم کو راحت مل جائے گی۔" امو جان اس کے
قریب رکتے ہوئے بولیں۔
352
اس نے سرخ آنکھوں کو اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا۔
پھر ہاتھ بڑھا کر سٹیل کے ڈول کو تھام کر پلٹ گیا۔
کتنی صابر تھیں امو جان.......
وہ مرد ہو کر رو رہا تھا مگر وہ سارے حاالت سن کر
بھی خاموش تھیں۔
*****
"کائنات! عجیب ضد لگائے بیٹھی ہو......کاشی تمہیں
چھوڑنے جا رہا ہے تو اب جا کیوں نہیں رہی؟ تایا کو
سامنے سے جواب دے کر یوں بدتمیزی کا مظاہرہ
کرتی اوپر آ گئیں۔"
ماما غصے سے بھری اس کے سر پر کھڑی تھیں۔
نیچے وہ سب کو منع کر کے اوپر آئی تھی اور اس
کی اس حرکت پر ماما بےحد شرمندہ ہوئی تھیں کہ وہ
اپنے تایا کی بات کو رد کیسے کر سکتی ہے؟
"ماما! پلیز میں اکیلی چلی جاؤں گی مگر ان میں سے
کسی لڑکے کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔" وہ بےحد
سنجیدگی سے بولی۔
353
"کیوں؟" حور نے کمرے میں قدم رکھتے ہی استفسار
کیا۔
"کیونکہ میرا دل نہیں مانتا ،مجھے ان میں سے کسی
پر بھی یقین نہیں ہے۔ اور یہ میری زندگی
ہے.....مجھے اپنے اچھے برے کا اندازہ ہے۔" وہ
سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"شیری پر یقین ہے؟" حور کے لہجے میں عجیب سا
طنز تھا جسے وہ سمجھ نہیں پائی۔
"ہاں بلکل ،شیری بھائی بھروسہ کے قابل ہیں۔" وہ
صاف گوئی سے بولی۔
"تم دونوں اب جھگڑنے مت لگ جاؤ۔ حور! تم دونوں
اکھٹی چلی جاؤ۔ اسے اس کے ہاسٹل ڈراپ کر کے تم
اسالم آباد چلی جانا۔"
ماما نے تیزی سے کہا۔
"شیور۔" وہ شانے آچکا کر کہتی ایک تیکھی نظر
کائنات پر ڈال کر پلٹ گئی۔
"شیری کہاں گیا ہے کائنات؟"
ماما پلٹتے پلٹتے رک کر بولیں۔
354
اس کے اوسان خطا ہوگئے۔
"وہ تو.....ل الہور جا چکے ہیں۔" اس نے بنا سر •
اٹھائے کہا۔
"تمہیں النے لے جانے کی زمہ داری میں نے اسے
سونپی تھی اور اپنی زمہ داریوں سے وہ ہاتھ نہیں
کھینچتا.....پھر بنا تمہیں لیے یا گھر آئے وہ وہاں
سے کیسے چال گیا؟ گاڑی بھی اس کی یہاں کھڑی
ہے۔"
ماما نے کہا تو وہ خوف زدہ سی ہو کر انگلیاں
پٹخنے لگی۔
"کائنات! میری طرف دیکھ کر بتاؤ کہ شیری کہاں گیا
ہے؟"
انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے اس کی تھوڑی کو نرمی
سے تھام کر اس کا سر اٹھایا۔ جیسے وہ کچھ کچھ
سمجھ گئی تھیں۔
"خ خان پور......ا اپنے دودھیال سے ملنے۔"
"کیا؟" انہیں حیرت کا شدید جھٹکا زور سے لگا تھا۔
355
"ج جی ماما! پر پلیز کسی کو بھی بتائے گا نہیں
پلیز......انہوں نے مجھ پر بھروسہ کر کے بتایا تھا۔
مگر میں نے آپ کو بتا دیا۔ " وہ رو دینے کو تھی۔
"پاگل لڑکی تم نے اسے روکا کیوں نہیں؟" انہیں اس
پر غصہ آ رہا تھا۔
"میں نے ہی تو انہیں جانے کے لیے راضی کیا تھا۔"
وہ منہ لٹکائے بولی تو ماما نے سر پیٹ لیا۔
"اس کے ماموؤں کو معلوم ہو گیا نا تو وہ اس سے
بہت خفا ہوں گے ،مگر ابھی دعا کرو کہ وہ وہاں سے
زندہ سالمت لوٹ آئے۔"
"کب تک وہ اپنے خاندان سے دور رہتے؟ کب تک
لوگوں کے تانے سنتے......برا یا اچھا مگر وہ ان کے
باپ دادا کا گھر کے.....جن کے بغیر وہ ادھورے
تھے۔" وہ بولی تو ماما نے ایک غصیلی نگاہ اس پر
ڈالی
"تقریر کرنا بند کرو۔ اور دعا کرو کہ وہ سالمت لوٹ
آئے۔جانتی بھی ہو جہاں وہ گیا ہے وہ کتنے خطرناک
356
لوگ ہیں۔" وہ کہہ کر پلٹ گئیں اور کائنات کا دل کانپ
سا گیا۔
"پتہ نہیں ان لوگوں نے کیا سلوک کیا ہو گا؟ فراغ دلی
سے گلے لگایا ہو گا یا پھر "......سوچتے سوچتے
ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر پریشان سی کیفیت
میں بیٹھی رہی پھر لپک کر اپنا فون چارج سے اتارا
اور شاہزیب کو کال مالئی۔
دوسری جانب ہسپتال کے کمرے کے سامنے ادھر
اُدھر ٹہلتے شیری نے جینز ٹٹول کر فون نکاال۔
"اسالم علیکم شیری بھائی! ......آپ ٹھیک تو ہیں؟
خیر خیریت سے پہنچ گئے؟ وہاں کسی نے کچھ کہا تو
نہیں؟" ایک ہی سانس میں وہ ساری بات بول گئی۔
وہ مایوس سا مسکرا دیا۔
"و علیکم السالم! حوصلہ بھئی.....میں ابھی تک
راستے میں ہی ہوں۔ میرا مطلب کہ خان پور توپہنچ
گیا ہوں مگر".....
اس نے خان پور میں داخل ہونے سے اب تک کی
ساری داستان اس کے گؤش گزر کر دی۔
357
ّٰللا......وہ عالقہ واقع ہی خطرناک ہے
"استغفار ہ
شیری بھائی! آپ پلیز واپس آ جائیں۔" وہ ڈر کے
مارے لرزتی آواز میں بولی تھی۔
"ہاہاہا.....نہیں اب ان لوگوں تک پہنچ کر ہی واپس
آؤں گا۔ مگر پتہ نہیں وہ شخص کون تھا اور اس
نوجوان کو اتنی بےرحمی سے کیوں پیٹ رہا تھا؟"
"وہ میرے بابا سائیں ہیں۔اس عالقے کے بادشاہ۔"
سردار دالور خان کی آواز پر وہ پلٹا تھا۔
وہ سفید کلف زدہ شلوار قمیض میں ملبوس دائیں
شانے پر سیاہ گرم شال اوڑھے ہوئے تھا۔
شاہزیب کو دیکھ کر اس کی گہری نیلی آنکھیں حیرت
سے ذرا سی پھیل گئی تھیں اور سوہنے نقش و نین
سے سجے چہرے پر نجانے کیسے تاثرات تھے
شاہزیب سمجھ نہیں پایا۔
"میں تھوڑی دیر تک کرتا ہوں کال۔ تم پریشان نہیں
ہونا میں بلکل ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہو گا مجھے۔" وہ
فون پر کائنات سے کہہ کر اب پوری طرح سردار
دالور خان کی جانب متوجہ تھا۔
358
" اس کے سوا کوئی دوسرا بادشاہ نہیں۔" شاہزیب
نے مسکراتے ہوئے انگلی آسمان کی جانب کی تھی۔
"کون ہو تم؟" وہ استفسار کر رہا تھا۔
"انسان ہوں۔ نام ہے شاہزیب احمد خان۔"
اس نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے تعارف
کروایا۔
"شاہزیب خانزادہ؟" سردار دالور خان اسکا ہاتھ
تھامتے ہوئے کھوئے ہوئے انداز میں گویا ہوا۔
"ہوں مجھے میرے ماموؤں نے یہ ہی بتایا تھا۔"
"یہاں کیوں آئے ہو؟"
"اپنے باپ کے گھر والوں سے ملنے .....جنہیں شاید
میں یاد بھی نہیں ہوں گا۔" وہ طنزیہ انداز میں ہنسا۔
"تمہارے تایا کا نام؟"
"حامد خان۔دادا کا نام شیر خان.....جانتے ہو انہیں؟"
وہ اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔
سردار دالور خان نے چند پل اس کی جانب دیکھا اور
پھر قدم آگے بڑھا دیئے۔
359
"عجیب پاگل شخص ہے......خیر مجھے کیا۔" وہ
شانے آچکا کر پلٹا تو اسے شازار کے کمرے میں
داخل ہوتے دیکھ تیز رفتاری سے آگے بڑھا۔
"ہے یو ......تمہارے والد صاحب نے بڑی بےرحمی
سے مارا ہے اب تم بھی".....
"بھائی ہے یہ میرا۔" اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ
کہتا سردار دالور خان تیزی سے بوال۔
"ک کیا؟ یعنی وہ اپنے بیٹے کو ہی مار رہا"....
"رہے.....تمیز سے بات کرو بڑے ہیں تم سے عمر
میں بھی اور رشتے میں بھی۔" دالور خان نے اس کی
بات پھر سے درمیان میں کاٹ دی۔
"تمہارے باپ کے بڑے بھائی ہیں وہ۔" سردار دالور
خان کی بات پر وہ آنکھیں پھیالئے اس کی جانب
دیکھنے لگا۔
"حامد خان....یعنی میرے تایا؟"
ت جگر ہو تو۔"
"اگر تم سردار احمد خان کے لخ ِ
ت جگر .....ہاہاہا۔" وہ عجیب انداز میں ہنسا اور
"لخ ِ
الٹے پاؤں واپس پلٹ گیا۔
360
"یہاں رکنے کا کوئی فایدہ نہیں ہے شیری! میری
شکل و صورت اپنے ڈیڈ جیسی ہے پھر بھی حامد خان
تمہیں پہچاننے سے انکاری رہے۔"
وہ مٹھیاں بھینچے غصے پر قابو پانے کے سوا خود
پر افسوس ہی کر سکتا تھا کہ اپنا ایک دن ضائع کر
کے وہ کس امید سے یہاں آیا تھا....؟
اپنے گلے لگانے کی بجائے جھٹال رہے تھے.....بیگ
اٹھا کر اس نے وہ ہی راستہ سنبھاال جو بس سٹاپ کی
جانب جا رہا تھا۔
****
سورج ڈوبنے واال تھا ...پہاڑیوں اور سبزے کے
درمیان غروب آفتاب کا منظر بہت دلکش تھا۔
"واپس جا رہے ہو؟" اسی بابا جی نے استفسار کیا
جس نے اسے راستہ سمجھایا تھا۔
وہ جو بینچ پر بیٹھا گہری سوچ میں غرق ہو چکا تھا
چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہوں۔" اس نے پھر سے سامنے ڈوبتے سورج کو
دیکھنا شروع کر دیا۔
361
"آئے کیوں تھے؟"
"جن سے ملنے آیا تھا انہوں نے مجھے پہچانا نہیں
اور جس نے پہچانا انہوں نے گلے نہیں لگایا۔"
وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے ٹھنڈی آہ بھر کے
بوال۔
وہ بزرگ اس کے ساتھ خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔
"دیکھو بیٹا! اگر تم سمجھو گے کہ تمہیں تمہارا
خاندان آسانی سے مل جائے گا تو ایسا نہیں
ہے......تم چوبیس ،پچیس سال ان سے دور رہے ہو
اب اتنی مدت کی جدائی اور انجانے پن کو محض ایک
دن میں تو نہیں نا مٹایا جا سکتا۔"
وہ ایک پل کو خاموش ہو کر اس کے تاثرات دیکھنے
لگے۔
وہ مکمل خاموش تھا۔
"کچھ وقت لگے گا۔ ہمارے بڑے سردار سائیں جتنے
سخت نظر آتے ہیں دل کے اتنے ہی نرم ہیں۔" ان کی
بات پر وہ ہنس دیا۔
362
"اپنے ہی بیٹے کو ظالموں کی مانند پیٹنے واال رحم
دل کیسے ہو سکتا ہے بابا؟" اس نے استفسار کیا۔
"جب اوالد کل کی آئی لڑکی کے پیچھے اپنے والدین
کو چھوڑ کر چلی جائے اور پیچھے سے گھر والے
رو رو کر ہلقان ہو جائیں.....بوڑھی دادی کی بینائی
کھو جائے تو ایسے حاالت میں کیا سزا دینی چاہیے
اس اوالد کو؟"
ان کے استفسار پر وہ چونک کر ان کی جانب دیکھنے
لگا۔
"جاؤ ایک مرتبہ جا کر اپنے خاندان والوں سے مل
لو۔"
وہ اس کے شانے پر تھپکی دے کر اٹھ گئے۔
وہ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا یہاں تک کہ سورج پہاڑوں
کے پیچھے کہیں چھپ گیا۔وہ یہاں تک آنے کے بعد
اب کسی بھی فیصلے کو نہیں پہنچ رہا تھا۔
"اوئے خانزادے ".......جیپ کی رکنے کے ساتھ اس
نے ایک پکار بھی سنی تو پلٹ کر دیکھا۔
363
سردار دالور خان اسٹیرنگ پر اپنا بازو ٹکائے اس کی
جانب دیکھ رہا تھا۔
"چلو تمہیں بابا سائیں نے یاد کیا ہے۔" وہ سر کو
دائیں جانب جنبش دے کر گویا ہوا۔
شاہزیب بیگ شانے پر لٹکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ جیسے ہی اس کے لیفٹ جانب جا کر بیٹھا سردار
دالور خان جیپ کو ہوا سے باتیں کرانے لگا۔
شاہزیب کا فون بجا تو اس نے تیزی سے فون جیب
سے نکال۔
ڈی آئی جی کا فون تھا۔
"گاڑی روکیے پلیز۔" اس نے تیزی سے کہا۔
سردار دالور خان نے بریک پر پاؤں مار کر گاڑی
روک دی۔
"اسالم علیکم سر!".....
"و علیکم السالم! میٹینگ ہے کل صبح نو بجے۔"
سامنے سے وہ سنجیدگی سے بولے۔
364
"ایم سو سوری سر! مگر میرا آنا مشکل ہے۔ایکچلی
میں خیبرپختونخوا آیا ہوا ہوں۔" وہ جیپ سے اتر کر
تھوڑا فاصلے پر چال گیا۔
"سر! آپ کہتے ہیں تو میں ابھی نکل آتا ہوں۔"
"نہیں نہیں شاہزیب! یہ میٹنگ بھی اسی سلسلے میں
تھی شاید آپ کو پھر سے خیبرپختونخوا جانا پڑتا اپنی
فورس کے ساتھ۔" وہ کچھ دیر بعد بولے۔
"میں .....سمجھا نہیں سر؟" اس نے ایک نظر پہاڑی
سے نیچے گہری کھائی پر ڈالی۔
"شاہزیب! ہمیں خبر ملی ہے کہ پنجاب سے لڑکیوں
کو اگواہ کر کے پختونخوا لے جایا جاتا ہے......اور
وہاں سے ہی ساری داللی ہوتی ہے۔ان داللوں میں
سے ابھی صرف چند کے نام ہی سامنے آئے ہیں مگر
جو ان سب کا ہیڈ ہے اس کا نام سامنے نہیں آیا اور
ہمیں پورا یقین ہے وہ وہاں کا ہی کوئی رہائشی
ہے۔اسی سلسلے میں کل کی میٹنگ تھی۔"
ان کے کہنے پر وہ کچھ سوچتے ہوئے بوال۔
365
"سر! ایک آئیڈیا ہے میرے پاس۔" وہ سردار دالور
خان کو دو منٹ کا اشارہ کرتا تھوڑا اور فاصلے پر
چال گیا۔
"سر! یہ بہت بڑا سکیم ہے ،بنا پولیس کی مدد کے وہ
لوگ پنجاب سے نکل نہیں سکتے.......ہمارے آدمی
بھی ان سے ملے ہوئے ہیں،اسی لیے میں سوچ رہا
ہوں کہ یہ ایک سیکریٹ مشن رکھا جائے۔"
اس نے سمجھداری سے بات آگے بڑھائی۔
"میں یہاں رہ کر پتہ لگاتا ہوں کہ آخر لڑکیوں کو الیا
کہاں جا رہا ہے اور اس گھناونے کام میں کون کون
شامل ہے۔" وہ ان کا جواب سننے کے لیے خاموش
ہوا۔
"یہ بہت بڑی زمہ داری ہے شاہزیب!.....ذرا سی بھی
کوتاہی برتی تو نجانے کتنی لڑکیاں زندگی سے ہاتھ
دھو بیٹھیں۔کیا تم تنہا سنبھال لو گے یہ سب؟" ڈی آئی
جی صاحب نے اپنے اطمینان کے لیے استفسار کیا۔
366
"ان شاءہللا سر! بھروسہ رکھیں......میں سنبھال لوں
گا۔ بس آپ مجھے وہ فائل کسی طرح مجھ تک پہنچا
دیں جس میں ساری ڈیٹیلز ہیں۔"
اس نے پُراعتماد انداز میں کہا۔
"اوکے شاہزیب!.....پرسوں تک تمہیں وہ فائل مل
جائے گی۔" وہ گال کھنکار کر بولے۔
"اوئے خانزادے....چلو یا یہاں ہی سونے کا ارادہ
ہے۔"
وہ سگار کا کش بھرتے ہوئے بوال۔
شاہزیب کال کاٹ کر پلٹا۔
"تمہارا بھائی اب کیسا ہے؟" جیپ جیسے ہی چلی وہ
بوال۔
"ٹھیک ہے وہ۔ شکریہ تم نے اس کی مدد کی۔"
وہ اسی سنجیدگی سے بوال جو اس کی شخصیت کا
خاص حصہ تھی۔
"اپنوں کو شکریہ کہا جاتا ہے؟" شاہزیب نے سپاٹ
لہجے میں استفسار کیا تھا۔
367
پہلی مرتبہ سردار دالور خان کے عنابی ہونٹوں کو
مسکان نے چھوا تھا۔
وہ جب مسکراتا تھا تو نیلی آنکھیں میں مسکرا اٹھتی
تھیں۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا ان کی گاڑی کے
سامنے ایک گاڑی آن کھڑی ہوئی۔
دالور خان اگر بروقت بریک پر پاؤں نہ رکھتا تو
دونوں گاڑیوں کا تصادم بڑا زور دار ہونا تھا......
دالور خان کے چہرے پر جتنی سختی اور نفرت امڈ
آئی تھی سامنے والی گاڑی میں بیٹھے چاروں افراد
کے چہرے پر اس سے کئی زیادہ نفرت اور ایک آتش
سی تھی آنکھوں میں۔
دالور خان نے بھنویں آچکا کر اپنا سپید ہاتھ ہارن پر
رکھ دیا تھا......
شیری نے ذرا سی گردن گھما کر دالور خان کی جانب
دیکھا۔
"بہت شوق ہے انہیں میرا راستہ روکنے کا ابھی بتاتا
ہوں۔" اس کے جبڑے بھینچ گئے تھے۔
368
اس نے گاڑی روکی اور جھک کر دراز میں سے
ریوالور نکاال۔
"یہ تم کیا کر رہے ہو؟" شاہزیب نے ایک نظر اس کے
سخت تاثرات کو دیکھا۔
"تم گاڑی میں بیٹھو میں ذرا اِن کو ان کی اوقات یاد
دلوا کر آتا ہوں۔" وہ کہہ کر تیزی سے باہر نکال۔
وہ چاروں بھی باہر آ گئے تھے۔
شیری نے گاڑی کی روشنی میں جب ان چار ہٹے کٹے
لڑکوں کو دیکھا تو گھبرا کر دالور خان کو دیکھا جو
تنہا ہی ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"یہ راستہ تیرے باپ کا نہیں ہے جو یہاں سے گزر
رہے ہو اور تم لوگوں کا میں نے اپنے عالقے میں
داخل ہونے سے روکا تھا ،باز نہیں آتے نا تم لوگ؟"
وہ ایک لڑکے کے منہ پر تمانچہ رسید کرتے ہوئے
پھنکارا۔
"تیری تو سالے "......وہ چاروں اس پر جھپٹے تھے۔
شاہزیب دروازہ کھول کر بھاگتا ہوا باہر نکال تھا۔
369
دالور خان نے پیروں اور ہاتھوں کا استعمال کرتے
ہوئے پھرتی کا مظاہرہ کیا مگر ان میں سے ایک نے
جب اسے پیچھے سے دھکا دیا تو وہ لڑکھڑا گیا تبھی
شیری نے بہت تیزی سے آ کر اسے تھاما تھا ذرا سی
بھی کوتاہی اس کی جان جا سکتی تھی۔
سردار دالور خان کے شانے سے ڈھلک کر زمین
بوس ہوئی شال کو بہت نرمی سے اٹھا کر اس کے
شانے پر رکھا اور آگے بڑھ کر زور کا پنچ اس شخص
کے ناک پر دے مارا۔
دونوں ہاتھوں کی شہادت اور درمیان والی انگلیوں
کو باہم مالیا اور دوسرے شخص کے پیٹ پر وار کیا
اور اسی ہی پھرتی سے اس نے تیسرے کی ٹانگ پر
پیچھے سے کک ماری تھی ساتھ ہی چوتھے کی ریڑھ
کی ہڈی پر ہاتھ مار کر کاری ضرب لگائی۔
وہ چاروں بری طرح سے کراہنے لگے تھے۔
سردار دالور خان سینے پر ہاتھ لپیٹے ،اس کی جانب
مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔
370
"اٹھائیس سالوں بعد مجھے اپنے ملے ہیں اور آج
تمہاری وجہ سے اگر میرا بھائی کھائی میں گر جاتا
تو......تو خدا کی قسم تم چاروں یہاں زندہ سالمت
کھڑے نہ ہوتے۔ اس سے پہلے کہ میں یہ کر گزروں
یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ۔" اس نے چٹکی
بجاتے ہوئے اطمینان سے کہا تھا۔
جیپ کی الئیٹس میں جب غصے اور اشتیال کی
سرخی اس کی آنکھوں میں وہ چاروں دیکھ چکے تو
خوف زدہ ہو کر گاڑی کی جانب بڑھ گئے،دوسرے ہی
پل وہ وہاں سے تیر ہو چکے تھے۔
اس نے پلٹ کر سردار دالور کی جانب دیکھا جو
مسکرا رہا تھا وہ بھی ہنس دیا۔
"چوٹ تو نہیں لگی؟" اس کے پوچھنے پر شاہزیب
مسکرا کر نفی میں سر ہالنے لگا۔
"ارے نہیں یار! کراٹے چیمپئن ہوں یہ تو بہت سنبھال
کر ہاتھ لگائے تھے نہیں تو ان غباروں سے ہوا نکل
جانی تھی۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا گاڑی میں بیٹھ
گیا۔
371
"ویسے یہ کون لوگ تھے؟"
"یہ ہمارے دور کے رشتے دار اور دشمن
ہیں.....ساتھ کے گاؤں میں رہتے ہیں،شاید مجھے
ادھر تنہا آتے دیکھ حملہ کے متعلق سوچ کر پیچھا کیا
ہو گا۔"
"مگر شروعات تو تم نے کی تھی ".......وہ سنجیدگی
سے گویا ہوا۔
"دیکھو خانزادے! گیدڑ انتظار کرتے ہیں کہ شیر تنہا
ہو اور ان پر حملہ کرے اور وہ اس پر جھپٹیں"......
"اور پھر وہ شیر ہی کیا جو گیدڑوں کے جھنڈ کو
دیکھ کر گھبرا جائے۔کچھ سمجھے؟" وہ بات کے
اختتام پر سوال چھوڑ گیا۔
"سمجھ گیا .....مگر گیدڑوں کا مقابلہ شیر کب سے
کرنے لگے؟"اس کی بات پر سردار دالور خان کے
ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ بکھری۔
"بات ٹھیک ہے مگر اپنے قبیلے کو ان شاطر گیدڑوں
سے بچانے کے لیے ہمیں حملہ کرنا پڑتا ہے۔"اس
نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔
372
"آہاں ......قبیلے کا ایک سردار بھی ہوتا ہے۔ تمہارے
قبیلے کا سردار کون ہے؟" اس کے استفسار پر
سردار دالور خان کا قہقہہ بلند تھا۔
"یعنی تم ہو؟" وہ مسکرا دیا
"واہ بھئی تم تو ہنسنے کے انداز سے ہی سمجھ
قدر حیران ہوا۔
گئے۔کوئی خاص ٹریننگ؟" وہ ِ
"مجھے بھی آج سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ میں
چہرہ پڑھنے میں اس قدر مہارت رکھتا ہوں۔" وہ
مسکرا کر کہتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔
"ہوں۔ پہلے شازار سے مل لو وہ تم سے ملنا چاہ رہا
تھا۔"
گاڑی ہسپتال کے راستے پر ڈالتے ہوئے وہ سنجیدگی
سے بوال۔
وہ جب پیدل چل کر گاؤں میں گیا تھا تو اتنا لمبا راستہ
نہیں لگا تھا کیونکہ پہاڑوں کے درمیان میں سے
راہداری نکالی ہوئی تھی اور سڑک تو پوری پہاڑی
گھما کر ہی گاؤں میں داخل ہو رہی تھی۔
سب حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
373
سردار حامد خان نے گال کھنکار کر اسے اپنی جانب
متوجہ کیا۔
"کیا کرنے آئے ہو یہاں؟" انہوں نے بےتاثر لہجے
میں استفسار کیا تو شیری جو سینے پر ہاتھ لپیٹے
سر جھکائے کھڑا تھا تعجب سے ان کو دیکھنے لگا۔
"کیوں یہاں آنے کے لیے پرمیشن لینی پڑتی ہے؟"
وہ بھی اپنی انا کو کچل نہیں سکتا تھا تبھی وہ دل کی
بات دبا کر بوال۔
سردار دالور خان نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا
پھر دالور خان کو۔
"یہاں تمہارے انتظار میں کوئی نہیں بیٹھا تھا جو منہ
اٹھائے آ گئے ہو۔اور نہ ہی تمہیں جائداد سے کچھ
ملے گا۔"
وہ اس کی بدتمیزی پر تلمال کر رہ گئے تھے ،ایک
نگاہ اس پر ڈال کر رخ پھیر گئے۔
ان کی بات سے شاہزیب کے دل پر ایک گہری چوٹ
لگی تھی۔
374
"ہاہاہا.....مجھے بھی آپ لوگوں کی کوئی اداسی نہیں
تھی......میں یہاں نہ تو آپ لوگوں سے ملنے آیا ہوں
اور نہ ہی جائداد لینے۔اپنے کام سے آیا ہوں۔"
وہ بےحد سنجیدگی سے کہتا پلٹا اور زمین پر پڑے
بیگ کو اٹھا کر شانے پر ڈالتا وہ جیسے ہی پلٹا ایک
غیر ارادہ نظر تخت پر بیٹھی تسبیح پھیرتی بوڑھی
دادی پر پڑی تو اس کے قدم رک گئے۔
وہ ان کی جانب بڑھا مگر پھر راستے میں ہی رک کر
مٹھیاں بھینچ کر پلٹا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں
سے نکل گیا۔
"اکڑ دیکھی ہے اس کی۔" سردار حامد خان نے اپنی
بیوی بچوں کی جانب دیکھتے ہوئے سختی سے کہا۔
"پٹھانوں کا خون ہے سائیں! گرمی تو دکھائے
گا۔ویسے بھی گڑتی تو آپ نے ہی ڈالی تھی اسے۔"
بیگم سائیں نے کہا تو وہ ایک کٹیلی نگاہ ان پر ڈال کر
پلٹے چند قدموں کے فاصلے پر وہ رک گئے تھے۔
375
"میری بات کان کھول کر سن لو تم سب ،وہ جب تک
اس گاؤں میں ہے تم میں سے کوئی بھی عورت باہر
نہیں جائے گی ،اور ہاں "....وہ ایڑھیوں پر پلٹے۔
"اگر مجھے معلوم ہو گیا کہ تم میں سے کوئی بھی
شازار خان اور شاہزیب خان سے مال ہے تو مجھ سے
برا کوئی نہیں ہو گا،اور نہ ہی میں ان دونوں کا ذکر
سنو۔" کہتے ہوئے انہوں نے سردار دالور خان کو
بھی ایک نگاہ دیکھا تھا۔
"سردار! تم بھی.....تم بھی ان دونوں سے نہیں ملو
گے ....سامنے سے آتے دکھائی دیئے تو راستہ بدل
لینا۔"
وہ سب کو سزا سنا کر وہاں سے جا چکے تھے۔
"کیا ہو گیا ہے بابا سائیں کو اپنے بیٹوں سے اتنے
خفا ہوئے بیٹھے ہیں۔" سیرت نے افسردگی سے کہا۔
"چپ کر ،وہ اگر یہ سب کر رہے ہیں تو بےوجہ نہیں
کر رہے ہوں گے۔ باپ سے اس قدر بدگماں نہیں
ہوتے.....اب جاؤ سب اپنی اپنی آرام گاہ میں ،جاؤ۔"
بیگم سائیں نے سختی سے سب کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔
376
"کیا بات ہے سردار پتر؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟ اپنے
بابا سائیں پر اعتماد نہیں ہے کیا؟"
سردار دالور خان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ
استفہامیہ انداز میں گویا ہوئیں۔
"امو جان! یہ بات نہیں ہے۔ میں اس لیے پریشان ہوں
کہ برسوں بعد چاچا سائیں کے روپ میں شاہزیب
خانزادہ لوٹا ہے اور "....وہ بات اُدھوری چھوڑ کر
خاموش ہو گیا۔
"ما شاءہللا .....ہوبہو تمہارے چاچا سائیں کی شکل
پائی ہے خانزادے نے۔" وہ زخمی سا مسکرائیں۔
"سردار پتر! میرا خان پتر کیسا ہے؟" انہوں نے ادھر
اُدھر دیکھتے ہوئے آواز بےحد دھیمی رکھی تھی۔
"وہ بلکل ٹھیک ہے اب امو جان! میں اور شاہزیب
اسے بنگلے پر چھوڑ کر ہی ادھر آئے تھے۔"
اس نے زخمی سی مسکراہٹ لیے اپنی مجبور ماں کی
جانب دیکھا جو اپنے شوہر کے ڈر سے بیٹے کا ذکر
بھی اونچی آواز میں نہیں کر پا رہی تھی۔
377
"تمہارے بابا سائیں ان دونوں کو کبھی معاف نہیں
کریں گے کیا؟" انہوں نے خوف زدہ ہو کر اس کی
جانب دیکھا وہ خود بھی چند پل کے لیے خاموش ہو
گیا تھا۔
"میں نے ابھی ابھی ایک خواب سجایا ہے سردار پتر!
کہ تم تینوں بھائی ہنستے مسکراتے اس گھر میں مل
جل کر رہ رہے ہو۔کیا میری آنکھیں یہ خواب دیکھ
پائیں گیں؟"
وہ یکدم سے ایموشنل ہو گئی تھیں۔
شاءّٰللا ،امو جان! ایک دن یہ دکھوں کے بادل
ہ "ان
جھڑ جائیں گے اور ہم سب ہنسی خوشی مل کر رہیں
گئے ،اب تو فیملی بھی مکمل ہو گئی ہے خانزادہ بھی
آ گیا ہے۔" وہ مدھم سی مسکراہٹ لیے ان کے شانوں
پہ بازو پھیال گیا۔
"اچھا میں اب تمہارے بابا سائیں کو دوا دے لوں۔" وہ
اس کی پیشانی چوم کر آگے بڑھ گئیں پھر رک کر اس
کی جانب گردن گھوما کر دیکھنے لگیں۔
"اپنے بھائیوں کی حفاظت کرنا پتر! "
378
"فکر نہیں کریں امو جان! میں ہوں ان کے ساتھ۔"
وہ مسکرا کر کہتا پلٹ گیا۔
"پتہ نہیں وہ خود کو سمجھتے کیا ہیں ،جیسے میں
ان کی جائداد کا بھوکا ہوں.....حد ہو گئی یار۔میں ہی
بیوقوف تھا جو کائنات کی پیاری پیاری باتوں کو
خواب بنا کر تعبیر ڈھونڈنے نکال۔"
وہ بنگلے میں داخل ہوا اور دالور خان کے بتائے
کمرے میں داخل ہوتے ہی بیگ صوفے پر اچھال کر
بالوں کو انگلیوں میں جکڑ کے بیڈ پر گرنے کے سے
انداز میں بیٹھا۔
"جن لوگوں کو اٹھائیس سال میری یاد نہیں آئی وہ
بھال کیوں کر مجھے گلے لگائیں گے۔" اب اس کی
آنکھیں نم ہوئی تھیں۔
"میرا اس دنیا میں واقع ہی کوئی نہیں "......ایک
آنسو رخسار پر پھسال تھا۔
" مگر میں کمزور ہرگز نہیں ہوں ،مجھے نہیں چاہیے
نہ رشتے ،نہ قبیلے نہ خاندان۔ سردار حامد خان کو ان
کی اکڑ مبارک۔" وہ آنسو رگڑتے ہوئے بڑبڑایا۔
379
"تمہیں کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو؟" وہ دروازے کے
وسط میں رکتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے ہوئے
بوال۔
"ارے شازار! تم ریسٹ کرو چل پھر کیوں رہے ہو؟"
وہ تیزی سے بات بدلتے ہوئے بوال۔
"ریسٹ کے لیے میرے بھائی لیٹنا پڑے گا اور مجھ
سے تو بیٹھا بھی نہیں جا رہا۔"وہ ہنستے ہوئے بوال۔
"میں نے آج تک کسی باپ کو اپنی خود کی اوالد کو
اس قدر بےرحمی سے مارتے پیٹتے نہیں دیکھا۔"
"ہاہاہا میں ایک سال سے فرار تھا تو انہوں نے یہ
حال کیا سوچو تم تو بیس سالوں سے فرار تھے۔" اس
نے ڈرانے والے انداز میں کہا تھا مگر ہونٹوں پر
شریر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
"بیس؟ مگر اس میں میرا کیا قصور ان کا ہی سارا
قصور ہے ،اگر اتنی محبت ہوتی تو مجھے کبھی تو
ملنے آتے.....خیر چھوڑو یہ سب میں فریش ہو لوں۔"
وہ بات ختم کرتا اٹھا اور واشروم کی جانب بڑھ
گیا۔شازار بوجھل سانس بھر کر پلٹ گیا۔
380
***
صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھوک سے پیٹ میں
چوہے دوڑ رہے تھے۔
بالوں کو رگڑ کر ٹاول ،ٹاول اسٹینڈ پر اچھال کر
کمرے سے نکل گیا۔
اس کا رخ شازار کے کمرے کی جانب تھا .....دہلیز پر
ہی شاہزیب کے قدم ساکت ہو گئے تھے۔
وہ کھڑکی میں کھڑا تھا ہاتھ میں عروسی لباس تھا،
سرخ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے وہ آسمان کی
جانب دیکھ رہا تھا۔
اس کا وجود اداسی میں ڈوبا دیکھ شاہزیب سمجھ گیا
تھا کہ وہ اس لڑکی کو شدت سے یاد کر رہا ہے۔
"خان۔" وہ آگے بڑھا اور دھیرے سے اس کے شانے
پہ ہاتھ رکھا۔
"ہم نے ساتھ میں زندگی گزارنے کے خواب سجائے
تھے خانزادے.....سارے خواب اس کے خون سے
رنگ گئے۔"
381
وہ بنا پلٹے نم آواز میں بوال اور پھر ایک نگاہ
عروسی لباس پر ڈالی۔
"کیوں؟ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"
اس کے استفسار پر شاہزیب خانزادہ چپ تھا ،کیا
کہتا.....؟ اس کے پاس تو جواب ہی نہیں تھا۔
"چلو اگر مرنا ہی تھا تو ہم دونوں ساتھ میں ہی مر
جاتے مگر "....اس نے بات اُدھوری چھوڑ کر لب
دانتوں تلے دبا کر سر جھکا لیا۔
"ایک بات کہوں خانزادے ".....پلٹ کر عروسی جوڑا
بریف کیس میں رکھا زیپ بند کی اور اس کی جانب
پلٹا۔
اظہار
ِ "اگر کسی سے محبت ہو جائے نا تو وقت پر
محبت کر دینا چاہیے تاکہ وہ شخص جلد آپ کا ہو
جائے۔ انتظار کا پھل کبھی کبھی میٹھا نہیں بھی
نکلتا۔"
ّٰللا کو
"ساری بات قسمت کی ہے شازار! اور جو ہ
منظور ہوتا ہے ہونا تو وہ ہی ہوتا ہے نا۔" اس کی بات
پر شاہزیب نے سنجیدگی سے کہا۔
382
وہ آنسو رگڑ کر اقرار میں سر ہالتا پھر سے کھڑکی
میں جا کھڑا ہوا۔
384
"میری زندگی میں جتنے بھی لوگ آئے ہیں انہیں مجھ
سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا.....اور جب میں نے
دن رات کی محنت سے اپنی منزل پا لی تو سب کو میں
اچھا لگنے لگا ہوں۔ مامؤوں کا بس نہیں چل رہا اپنی
بیٹیوں کو فوراً سے پہلے میرے ساتھ رخصت کر
دیں۔" آخری فقرے پر شازار کے ساتھ اس کا اپنا بھی
قہقہہ بلند ہوا تھا۔
"مگر تین لوگ ایسے ہیں میری زندگی میں جو بہت
فیئر ہیں میرے ساتھ۔" یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں
کو بہت پیاری مسکراہٹ نے چھوا تھا۔
"کاش میرے ساتھ بھی کوئی فیئر ہوتا۔ مجھے تو
میرے دوستوں نے ہی دھوکا دیا ،میرے باپ نے ہی
خود سے دور کر دیا۔" شازار نے افسردگی سے کہا۔
"نہیں شازار! سردار حامد سائیں نے تمہیں خود سے
دور نہیں کیا ،بس وہ تمہیں سزا دے رہے ہیں......جو
بھی تم نے کیا وہ تمہیں نہیں کرنا چاہیے تھا تم قبیلے
کے سرداروں کے جانشین ہو۔"
اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا مگر شازار
کو یہ بات ناگوار گزری۔
385
"الال بھی یہ ہی کہتا ہے ،خدا کرے تم دونوں کو بھی
عشق ہو اور پھر جب تم لوگوں کا محبوب بچھڑنے ہی
واال ہو گا نا تو پتہ چلے گا کہ سانسیں کس طرح سے
اکھڑتی ہیں ،دل کیسے بند ہوتا ہے۔"
وہ ہنس کر کہتا کمرے سے نکل گیا وہ اپنا سا منہ
لے کر کھڑا رہ گیا۔
*****
رقیبوں سے آج کل تعلق بڑھانے لگے ہو
کیوں الٹے سیدھے راستوں پر جانے لگے ہو؟
386
مگر جلد ہی رنگ پھر سے بجنے لگی۔ اس نے ہاتھ
مار کر تکیے کے تلے سے فون نکاال اور سوئی جاگی
کیفیت میں کال اٹینڈ کر کے فون کان پر رکھ لیا۔
"ہیلو"......
"اسالم علیکم! صبح بخیر شیری بھائی!.....دن ہو گیا
ہے اٹھ جائیں۔" اس کی کھنکتی آواز سماعتوں سے
ٹکرائی
وہ مندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ہی مسکرا دیا۔
"و علیکم السالم! دل نہیں کر رہا.....بہت سکون ہے
یہاں ،نہ شور شرابہ نہ کوئی ٹینشن۔" انگڑائی بھر کر
وہ مسکراتے ہوئے کروٹ بدل گیا۔
زیر اثر تھا۔
وہ ابھی بھی نیند کے ِ
"واہ بھئی واہ......اپنوں کے پاس جا کر دل اتنا
سکون میں آ گیا ہے کیا؟"
وہ فون کان اور شانے کے درمیان میں قید کیے،تیزی
سے کتابیں بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
"کہاں اپنوں پاس سکون یار!.....یہاں تو حساب ہی
الگ ہے.....اس گاؤں کو چھوڑ کر جانے والوں کو
387
ایسی سزا دیتے ہیں کہ وہ ایک ہفتہ بستر پر لیٹنے کو
ترستا رہتا ہے۔"
"پھر آپ کیسے آرام فرما رہے ہیں؟" اس نے شرارت
بھرے لہجے میں استفسار کیا تو وہ ہنس دیا۔
"میں اپنی بات نہیں کر رہا ،اپنے تایا زاد بھائی کی
بات کر رہا ہوں۔وہ بچارا ایک سال گھر سے فرار رہا
تھا۔"
اس کے بعد اس نے آنکھوں دیکھا واقع سنایا تو
کائنات ڈر سی گئی۔
"آپ واپس آجائیں شیری بھائی! ......اتنے برے
لوگوں کے درمیان نہیں رہنا چاہیے۔"
وہ خوف سے بھرے لہجے میں بولی تو شیری کے
ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
وہ بستر چھوڑ کر اٹھ بیٹھا۔
"فکر نہیں کرو۔ میں کچھ دنوں تک لوٹ آؤں گا۔"
"ٹھیک ہے ،اپنا خیال رکھیے گا۔" اس کے کہنے پر
وہ مبہم سا ہنس دیا۔
388
ّٰللا حافظ۔"
" تم بھی اپنا خیال رکھنا ،ہ
شیری نے کال ڈسکنیکٹ کی اور فون ایک جانب ڈال
کر اٹھ کھڑا ہوا۔
کمرے سے نکل کر اس کا رخ شازار کے کمرے کی
جانب تھا کہ اسے جاگا دے۔
کمرے میں بہت احتیاط سے ....بنا آواز کیے داخل
ہونے کے بعد اس نے بیڈ کی جانب نگاہ دوڑائی۔
شازار منہ کے بل سو رہا تھا ،بلینکڈ اس پر سے
پھیسل کر زمین بوس ہو گیا تھا جس بدولت اس کی
پیٹھ پر پڑے نیل،کوڑوں کے نشانات واضح تھے....
شاہزیب کے دل میں یکدم ہی اپنے تایا کے لیے بےحد
نفرت سی پیدا ہوئی تھی وہاں ہی شازار خان پر ترس
بھی آیا تھا۔
بہت احتیاط سے بلینکڈ شازار پر درست کرتا وہ پلٹ
کر کمرے سے نکل گیا۔
وہ یونیورسٹی کے ایک الگ تھلگ کونے میں چپ
چاپ سی بیٹھی تھی.....
389
دماغ میں اس آدمی کی باتیں گھوم رہی تھیں جس نے
شازار کی زندگی کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز
اس پر عیاں کیا تھا۔
وہ کائنات کو چھوڑ کر جیسے ہی ٹرمینل پر پہنچی
تھی اسے وہ ہی آدمی دکھائی دیئے جنہوں نے اس دن
اسے چھیڑا تھا اور شازار کے سامنے آنے پر ڈر
گئے تھے۔
اس کا دماغ یکدم سے جاگا تھا اور وہ تیزی سے آگے
بڑھی۔
قدر گھبرا کر آگے پیچھے
اسے آتے دیکھ وہ آدمی ِ
ہونے لگا مگر تب تک وہ اس تک پہنچ چکی تھی۔
"اس دن تم اس لڑکے کو دیکھ کر ڈر کیوں گئے
تھے؟ کیا تم اسے جانتے ہو؟"
وہ اس کی جانب گھور کر دیکھتے ہوئے استفسار کر
رہی تھی۔
"کون سا لڑکا؟ میں نہیں جانتا کسی کو....؟" وہ تیزی
سے کہہ کر وہاں سے جانے لگا مگر وہ پھر اس کے
پیچھے بڑھی۔
390
"مجھے شازار کے متعلق بتاؤ کہ تم اسے کیسے
جانتے ہو۔" وہ اس مرتبہ مزید سختی سے بولی تھی۔
"کیا ہوا پپو؟ اتنا گھبرایا ہوا کیوں ہے۔"
ایک معزز شخص نے آگے بڑھتے ہوئے استفسار کیا۔
"چاچا یہ ش شازار الال کے متعلق پوچھ رہی ہے۔"
حور نے اس لڑکے کے لہجے میں ڈر واضح محسوس
کیا تھا۔
ادھیڑ عمر کے شخص نے سر اٹھا کر اس کی جانب
دیکھا اور اس لڑکے کو جانے کا اشارہ کرتا سر
جھکائے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ
گیا۔
"تم شازار الال کے متعلق کیوں پوچھ رہی ہو؟"
"شازار کون ہے؟ آپ جانتے ہیں اسے؟"
اس نے اس شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے
اپنا سوال کیا۔
"ہاں.....جانتا ہوں۔" وہ سر اثبات میں ہالتے ہوئے
بولے۔
391
حور نے سر اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔
"کچھ ایک ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے یہاں ایک بہت
بڑا حادثہ ہوا تھا۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوئے۔
"حادثہ؟ کیسا حادثہ.....ذرا تفصیل سے بتائیے۔"
"ایک لڑکے کو اڈے کے بیچ و بیچ شوٹ کر دیا گیا
تھا.....اور شوٹ کرنے واال شازار الال تھا۔"
حور کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔
"پہلے سب نے سمجھا کہ انہوں نے غلط کیا مگر بعد
میں سمجھ آیا کہ اس نے جو بھی کیا بہت ہی اچھا کیا۔
اگر ہم سب ہی یہ اقدام اٹھائیں تو کوئی بھی درندا
زندہ سالمت نہیں بچے گا۔"
"مطلب؟" وہ ابھی بھی ٹھیک سے نہیں سمجھی تھی۔
"شازار کی کسی لڑکی دوست کو کنیکٹر نے چھیڑا تھا
اور اسے نے سرعام فائرنگ کر کے اس لڑکے کو مار
دیا۔"
392
"شازار کا کوئی دوست جو الہور میں ہو ،جسے آپ
جانتے ہوں؟"
اس نے رکی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے استفسار
کیا۔
"یوسف رضا۔ مگر وہ اب الہور میں نہیں ہے ....اسالم
آباد جا چکا ہے۔"
"حور!....چلنا نہیں ہے کیا؟" پلوشہ کی آواز پر وہ
چونک کر حال میں لوٹی تھی۔
"ہ ہاں چلو۔" وہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر اٹھ کھڑی
ہوئی۔
"وہ اس لڑکی کے لیے کسی حد تک بھی جاتا
تھا.....کاش وہ اس کی زندگی میں نہ آتی تو آج اس
کی جگہ میں ہوتی۔وہ اتنی محبت مجھ سے کرتا۔"
دل میں جیسے ہی یہ خیال آیا ،آتش مزید بڑھ گئی
تھی۔
وہ جس آگ میں سلگ رہی تھی وہ نفرت کی ہی نہیں
بلکہ محبت کی بھی تھی۔
393
محبت و نفرت....حسد کی ملی جلی کیفیت اسے ایک
پل بھی سکون کی سانس لینے نہیں دے رہی تھی۔
"تم لوگ ہاسٹل جاؤ میں ذرا مارکیٹ تک ہو کر آتی
ہوں۔" یونیورسٹی سے نکلتے ہی وہ تیزی سے کہتی
آگے بڑھ گئی کہ کوئی اس سے کچھ پوچھ نہ لے۔
بیگ کو ٹٹول کر یوسف کے گھر کا پتہ جس کاغذ پر
لکھا تھا وہ نکاال۔
"میں جب اس کی زندگی میں وہ مقام حاصل کر ہی
نہیں سکتی جو سوچا تھا پھر کیوں کر میں اس کے
متعلق جاننا چاہتی ہوں؟ کیوں کرید رہی ہوں اس کی
زندگی کو؟" گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ دل ہی دل
میں خود سے استفسار کر رہی تھی۔
"جاننا تو پڑے گا نا .....میٹھی چھری بن کر اس نے
پہلے میرے دل کو کاٹ کر رکھ دیا۔ میرے خوابوں
کے محل کو تحس نحس کر دیا اور پھر معصومیت
سے کہنے لگا کہ"....
سوچتے سوچتے اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔
خشک آنکھیں اور روتا دل.....
394
یادوں کی زہر قطرہ قطرہ حلق میں گر کر اس کے
جسم میں پھیلنے لگی تھی۔
بہت ہی غیر حالت ہوتی ہے جب انسان ٹوٹ کر رونا
چاہتا ہو اور آنسو ساتھ نہ دیں۔
دل تڑپ تڑپ کر بین کرے ،چیخنے لگے مگر زبان
ساتھ نہ دے۔
ان ہی حاالت کی ماری وہ بھی تھی۔
گاڑی ایک بلند ترین ہسپتال کی عمارت کے سامنے
رک چکی تھی۔
اس نے سر اٹھا کر ہسپتال کو دیکھا اور پھر کریم
گاڑی والے کو پیمنٹ کر کے بیگ سنبھالتی نیچے
اتری۔
"یوسف رضا میرا دور کا رشتے دار ہے بیٹا ،وہ
شازار کا بہترین دوست رہا ہے......جتنا وہ اسے جانتا
ہے کوئی بھی نہیں جانتا۔" اس آدمی کی آواز اس کے
کانوں میں گونجی تھی۔
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اس نے ادھر اُدھر نگاہیں
دوڑائیں پھر سیدھا چلتی گئی۔
395
کوریڈور سے نکل کر وہ دائیں جانب سیدھی جاتی
سولنگ پر چلتی ہوئی ایک گھر کے سامنے جا رکی۔
"ایم بی بی ایس ڈاکٹر رضا۔" بورڈ پر لکھے نام کو
زیر لب پڑھتے ہوئے وہ آگے بڑھی۔
جھجھکتے ہوئے بیل پر شہادت کی انگلی رکھتے
ہوئے دوسرے ہی پل اس نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
"وہ پوچھے گا کہ میں شازار کے متعلق کیوں جاننا
چاہتی ہوں؟" پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو آپس
میں رگڑتے ہوئے وہ لب کچلنے لگی۔
دروازہ کھل چکا تھا۔
اب وہ واپس بھی نہیں بھاگ سکتی تھی۔
مالزمہ نے جانچتی نگاہوں سے اسے سر سے پاؤں
تک دیکھا تھا۔
"ڈ ڈاکٹر صاحب ہیں؟"
"نہیں میڈم ابھی تو نہیں ہیں۔" اس کی کٹیلی نگاہیں
ابھی بھی حور پر مرکوز تھیں....وہ تھوڑی تذبذب
ہوئی۔
396
"مجھے یوسف رضا سے .....ملنا ہے۔" وہ خود کو
ریلکس کرتی آگے بڑھی۔
"یوسف صاحب تو یہاں نہیں ہوتے۔ آپ ہیں کون؟" وہ
جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
"واٹ....یوسف یہاں نہیں ہے؟ کہاں ہوتا ہے وہ؟" وہ
اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے تیزی سے بولی۔
"بانو! کون ہے باہر؟" خاتون کی آواز پر اس نے بھی
ذرا سی گردن اٹھا کر دیکھا۔
"باجی! کوئی لڑکی ہے....اپنے یوسف بابو کے متعلق
پوچھ رہی ہے۔" کام والی گھبرا کر پلٹی۔
اتنے میں وہ خاتون بھی پردہ ہٹا کر کوریڈور سے
نکل آئی تھیں۔
ایک نگاہ اس کے سراپے پر ڈالتے ہوئے انہوں نے
نگاہیں حور کے حسین چہرے پر ٹکا دی تھیں۔
سفید و گالبی چہرے پر سجی دل موہ لینے والی نشیلی
آنکھیں ،گالب کی پنکھڑیوں جیسے نرم و نازک گالبی
ہونٹ آپس میں بھینچے وہ بار بار لمبی پلکوں کی
جھالر رخساروں پر گرا رہی تھی۔
397
"کتنی خوبصورت ہے.....جیسے پرستان سے آئی
پری ہو۔ ماشاءہللا۔"
سوچتے ہوئے ان کے ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ
بکھر گئی تھی۔
"بیٹا! اندر آ جاؤ ،وہاں کیوں کھڑی ہو۔" وہ محبت
بھرے لہجے میں بولیں۔
حور حیران کن نگاہوں سے انہیں دیکھتی مسکرا دی
اور آگے بڑھی۔
وہ اسے لیتے ہوئے سیٹنگ روم میں جا بیٹھی تھیں۔
"یوسف کی دوست ہو؟"
مالزمہ کو چائے وغیرہ کا کہہ کر وہ اس کی جانب
پلٹیں۔
"ن نہیں آنٹی دراصل".....
وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی۔
پھر دماغ چالنے لگی۔
398
"جی جی میں اس کی یونیورسٹی فرینڈ ہوں۔ دراصل
میں پاکستان میں نہیں تھی ابھی واپس آئی تو ملنے آ
گئی۔" اس نے سفید جھوٹ مسکراتے ہوئے بوال تھا۔
"اچھا کیا۔ یوسف تو اب دوست بناتا ہی نہیں ہے ،طیبہ
اور شازار والے حادثے کے بعد سے میرا بیٹا
مسکرانا ہی بھول گیا ہے۔" وہ آہ بھر کے بولیں۔
حور کے کان کھڑے ہوئے تھے۔
"حادثہ .....ہاں وہ حادثہ....ویسے یوسف نے اس
واقعے کو خود پر کیوں سوار کر لیا؟" اس نے
اندھیرے میں تیر پھینکا۔
"خدا جانے بیٹا.....کچھ بتاتا بھی تو نہیں ہے۔" انہوں
نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"یعنی یہ کچھ خاص نہیں جانتیں ،یوسف سے ملنا ہی
پڑے گا۔" وہ سوچتے ہوئے ان کی جانب متوجہ ہوئی۔
"یوسف گھر پر نہیں ہے کیا؟"
"نہیں بیٹا وہ تو کراچی ہوتا ہے۔"
399
"اوہ ،واپس کب آئے گا؟ آپ اس کا کنٹیکٹ نمبر دے
دیں میرا سیل چوری ہو گیا تھا تو رابطہ ہی ختم ہو گیا
سب کے ساتھ۔"
جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے معمولی سی گھبراہٹ ہو
رہی تھی۔
"ٹھیک ہے بیٹا جاتے وقت لے لینا۔ تم یہاں ہی رہتی
ہو؟"
"جی۔"
"پھر چکر لگا لیا کرو ،اپنا گھر ہی ہے تمہارا۔"
ان کی پیشکش پر وہ ہڑبڑا گئی۔
"جی ضرور آنٹی! دوبارہ جب آوں گی تو ضرور
مالقات ہو گی۔ دراصل یہاں رشتے دار رہتے ہیں ان
کے پاس آئی ہوئی تھی۔" اس نے تیزی سے کہا۔
"ضرور ،تمہاری منگنی یا شادی تو نہیں ہوئی؟"
وہ ان کی میٹھی میٹھی باتوں کے پیچھے چھپا مقصد
اب اچھے سے سمجھ گئی تھی۔
400
"جوان بیٹا.....گھر کنوارا بیٹھا ہے تو خوبصورت
لڑکی کو دیکھ کر ماں کا دل تو سلیپ ہو گا ہی نا۔" وہ
سوچتے ہوئے مسکرائی۔
"جی آنٹی۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بچپن میں ہی
منگنی کر دی جاتی ہے۔" شرمانے کی ایکٹنگ کرتے
ہوئے اس نے کہا تو مسز رضا کے ہونٹ سمٹ گئے۔
یہ جھوٹ اس کے لیے فایدہ مند ثابت ہوا تھا۔
جاتے ہوئے جب مسز رضا نے اسے یوسف کا نمبر
تھمایا تو ساتھ میں اس سے دوبارہ آنے کا وعدہ
بھی لے لیا۔
"کہاں جا رہے ہو سردار پتر؟"
اس کی تیاری پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے امو جان نے
استفسار کیا۔
وہ شانوں پر ترتیب سے پھیالئی گرم شال کو درست
کرتا ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"ضروری کام کے سلسلے میں اسالم آباد تک جا رہا
ہوں امو جان! پھر الہور سے طیبہ کی والدہ کو لے کر
وہاں سے واپسی۔" وہ ان کے ہاتھ چوم کر بوال۔
401
"سردار سائیں! میں گاڑی نکلواتا ہوں۔" اس کے
خاص آدمی نے سر جھکائے کہا۔
"نہیں شمشاد! میں تنہا ہی جا رہا ہوں۔ " اس نے ٹوکا۔
"جو حکم سائیں!" وہ سر جھکا کر پیشانی ٹھونک کر
سالم کرتا وہاں سے ہٹ گیا۔
"سردار پتر!....تیری پھپھو جان آ رہی ہیں ،کیا جواب
دوں انہیں؟"
اس بات پر اکثر اس کا دماغ گھوم سا جاتا تھا۔
"امو جان! میری بہنوں کی ابھی تعلم مکمل نہیں
ہوئی ،اور دوسری بات میں نے کہا بھی تھا ابھی میں
اپنی بہنوں کی شادی ہرگز نہیں کروں گا ان کی عمر
ہی کیا ہے ابھی۔"
" ان سے کہیں حوصلہ رکھیں نہیں تو اپنے
صاحبزادوں کو کہیں اور بیاہ دیں۔" اس نے اکھڑے
ہوئے انداز میں کہا۔
"وہ نازش اور سیرت کے لیے نہیں آ رہیں،بلکہ"......
بات اُدھوری چھوڑی گئی۔
402
دالور نے بھنویں آچکائے جیسے اگلی بات سمجھ گیا
ہو۔
"امو جان! میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا یہ بات آپ
جانتی ہیں۔" وہ ان کو شانوں سے تھامتے ہوئے نرمی
سے گویا ہوا۔
"تو کب.....کب کرو گے؟ انتیس برس کے ہو چکے ہو
شادی کی یہ ہی عمر ہے سردار پتر!" وہ تیزی سے
بولیں۔
"امو جان! میں نے ابھی اس متعلق نہیں سوچا۔"
وہ اپنے بچاؤ کے لیے پھر سے بوال۔اس کے لہجے
کی اکتاہٹ وہ واضح محسوس کر رہی تھیں۔
"تو اب سوچ لو،مگر سوچو۔ پیچھلے بیس سالوں
سے اس حویلی میں خوشیوں کی شہنائیاں نہیں
بجیں.....بیس سال سے خوشیوں نے اس حویلی میں
قدم نہیں رکھا مگر اب مزید ماتم جیسے سماں کو میں
اپنے ناتواں وجود پر جھیل نہیں سکوں گی۔" وہ
رونے لگی تھیں۔
403
"امو جان! ابھی پیچھلے سال ہی تو چندو مائی کی
بیٹی کی شادی کی شہنائیاں ہماری حویلی میں گونجی
تھیں۔ہر عید پر پورے گاؤں والے یہاں ہی جنشن
منانے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔"
اس نے انہیں یاد دالنے کی کوشش کی مگر وہ تو یہ
سب یاد کرنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔
"بس اب میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی ،تمہاری
پھپھو جان کو ہاں کہنے والی ہوں۔ویسے بھی گل پنار
تمہارے انتظار میں بیٹھی ہے۔"وہ آنسو پونچھتے
ہوئے سختی سے بولیں۔
اس کی نیلی آنکھیں یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں اور
ہاتھ کا مکا بنا کر ہلکے سے پیشانی پر مارتے ہوئے
وہ سر جھکا گیا۔
"سردار پتر! سوچو تمہاری شادی کے ماحول میں
تمہارے بابا سائیں دونوں خانزادوں کو جب حویلی
واپس الئیں گے تو یہ خوشیاں دگنی ہو جائیں گیں۔"
وہ اب دوسرا داؤ استعمال کر رہی تھیں اور بھائیوں
کی بات پر وہ ہار مان گیا۔
404
"ٹھیک ہے امو جان! جیسے آپ کی مرضی۔" بوجھل
سے انداز میں کہہ کر وہ مسکرایا اور ان کی پیشانی
چوم کر ڈھیروں دعائیں لیتا دادی جان کے قریب گیا
انہوں نے بھی ڈھیروں دعائیں دے کر اسے رخصت
کیا تھا۔
"کیا امو جان! سردار بھائی جان شادی کے لیے مان
گئے؟" سیرت اور نازش مسرت سے جھوم اٹھیں۔
"ہاں بہت مشکل سے۔ بس جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ
کرنا ہے یہ نہ ہو وہ پھر سے اپنا ارادہ بدل لے۔" امو
جان مسکراتے ہوئے بولیں۔
"میں تمہارے بابا سائیں کو اطالع کرتی ہوں۔ زیادہ
شور نہیں کرنا اب ابھی بات پکی ہو لے۔" وہ انہیں
سمجھا کر باہر نکل گئیں۔
وہ دونوں اور ان کی ہم عمر چاچی جھوم اٹھیں۔
"چلو اسی بہانے تمہارے چچا بھی سعودیہ عرب سے
آ جائیں گے۔" ان کی خوشی بھی دگنی ہو گئی تھی۔
"ہاں نا اور دونوں بھائی جان بھی حویلی آ جائیں
گے۔ہائے کتنا مزہ آئے گا سردار بھائی جان کی شادی
405
پر۔" سیرت نے چاچی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے
ہوئے دائیں بائیں جھوم گئی تھی۔
"مگر یار! سردار بھائی جان گل پنار سے محبت تو
نہیں کرتے نا۔ وہ تو بس ہم سب کی خوشی کے لیے
شادی کر رہے ہیں۔" نازش نے افسردگی سے کہا۔
"میری اور تمہارے چاچو کی جب شادی ہوئی تھی تو
ہمیں بھی محبت نہیں تھی۔ وہ محض اٹھارہ کے تھے
اور میں چودہ کی۔ اور دیکھو آج بھی ہم ایک ساتھ
ہیں.......شادی کے بعد محبت ہو جاتی ہے ،دالور خان
کو بھی ہو جائے گی۔" بانو چاچی نے سمجھداری سے
کہا تو وہ دونوں مطمئن ہو گئی تھیں۔
"ویسے بھی گل پنار تو سردار بھائی جان کو بچپن
سے چاہتی ہے ،اپنی محبت سے سردار بھائی جان
کے دل میں گھر کر ہی لے گی۔" سیرت نے چہک کر
کہا۔
"ہاں۔ ابھی تو دونوں خانزادوں کے گھر آنے کی اور
سردار کی شادی کی تیاریاں کرتے ہیں۔" چاچی نے کہا
تو وہ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں۔اور شادی کی
پالننگ کرنے لگیں۔
406
*****
407
"کائنات! کیا آپ مجھے ایک ٹاپک سمجھا سکتی ہیں
پلیز۔" وہ نظر کا چشمہ آنکھوں پر درست کرتے ہوئے
بوال۔
کائنات نے گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔
یہ معصوم سی شکل و صورت واال لڑکا ہمیشہ اس
سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ اتنا ہی اس
سے چڑتی تھی۔
"سوری.....ابھی مجھے اپنی اسائنمنٹ بنانی ہے۔ آپ
کسی اور سے جا کر سمجھ لیں۔" وہ کہہ کر تیزی
سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"چلو انیلہ!" وہ وہاں سے ہٹ گئی اور ولی خان دل
برداشتہ ہو کر رہ گیا۔
"یار کتنا کیوٹ ہے وہ۔ کیوں تم اس کا دل دکھاتی رہتی
ہو؟" انیلہ نے کافی آگے آ کر اس سے استفسار کیا۔
"تو.....؟ایسے کام ہی نہ کرے نا وہ جس سے اس کا
دل دکھے۔" وہ الپرواہی سے بولی۔
"وہ بس تم سے بات کرنے کا خواہشمند رہتا ہے،
کبھی اس نے پوری کالس میں کسی لڑکی کی جانب
408
سر اٹھا کر نہیں دیکھا صرف تمہیں دیکھتا
ہے.....کچھ تو بات ہے نا۔مجھے لگتا ہے وہ تمہیں
پسند"......
"پلیز انیلہ! آئندہ مجھ سے ایسی بات کبھی مت کرنا،
ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں نا کہ یہ سب کرنے۔" وہ اس
کی بات کاٹتے ہوئے سختی سے بولی۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے.....غصہ تو مت کرو۔" وہ اس
کے چہرے کی سرخی دیکھتے ہوئے نرمی سے بولی۔
وہ لمبی سانس بھر کر سر ہال گئی۔
"مسٹر حیدر!....میٹنگ کا ٹائم بدل دیا گیا ہے ،آج شام
نو بجے۔ کمپنی کے تمام بورڈ آف ڈائیریکٹر کو انفارم
کر دو۔"
کاال کرتہ پاجامہ زیب تن کیے ،سفید پیروں میں سیاہ
پشاوری چپل پہنے وہ اپنے وی آئی پی روم کا دروازہ
دھکیل کر باہر نکال تھا۔
"اوکے سر! میں انفارم کر دیتا ہوں۔ سر! کچھ پیپر
ورک تھا کیا ابھی میں آپ کے پاس آ سکتا ہوں؟"
اس کے سیکریٹری نے استفسار کیا۔
409
"سوری مسٹر حیدر! ابھی میں ہوٹل سے نکل رہا
ہوں ،ایک دوست سے ملنے کا وقت مقرر ہے۔" اس
نے کالئی پر بندھی ریسٹ واچ نگاہوں کے سامنے
کرتے ہوئے وقت دیکھا۔
"نو پرابلم سر!"
ّٰللا حافظ ،شام کو ملتے ہیں۔" اس نے کہہ کر
"اوکے ہ
کال کاٹ کے گاڑی کی جانب بڑھا۔
وہ جانتا تھا کہ اپنے عالقے سے نکلتے ہی لوگوں
کے لیے وہ محض سردار دالور خان ہے۔
قبیلے میں جس طرح لوگ عزت کرتے ہیں
خیبرپختونخوا سے نکلتے ہی وہ خالص عزت و
احترام کسی کے دل میں نہیں ہوتا۔
کچھ لوگ اپنے اللچ کی وجہ سے اس کی جی
حضوری کرتے ہیں تو کچھ اس کی امیری کی بدولت۔
پہلے پہل تو خیبرپختونخوا سے نکلنے کے بعد وہ
الجھا الجھا سا رہتا تھا۔
410
مگر رفتہ رفتہ جب وہ مخلتف ممالک اور پاکستان
کے صوبوں میں آنے جانے لگا تو اپنا مقام بھی ہر
جگہ منوا چکا تھا۔
"کہاں ہو یوسف؟" کال پر اس سے استفسار کیا۔
ہوٹل کی گالس وال کے قریب بیٹھا یوسف وال کے پار
دیکھنے لگا۔
"اوپر آ جائیں بھائی! "....اس نے دالور خان کے اوپر
دیکھنے پر دھیرے سے ہاتھ ہالیا۔
وہ اسے دیکھ کر کال کٹ کرتا آگے بڑھا۔
"اسالم علیکم!" وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
دالور خان مبہم سا مسکرا کر اس کے بغلگیر ہوا۔
"و علیکم السالم! کیسے ہو؟" اسے بیٹھنے کا اشارہ
کرتا خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
"ّٰللا کا شکر ہے۔ آپ سنائیں،اور شازار کیسا ہے؟"
ہ
اس کے استفسار پر دالور خان نے سر ہالیا۔
"وہ ٹھیک ہے ،بہت بدل گیا ہے اس ایک سال
میں.....کہاں وہ شازار اور کہاں یہ بلکل مٹا ہوا ،بدال
411
ہوا ....شازار۔" اس نے ہاتھ اٹھا کر پیشانی رگڑی اور
گالس وال کے پار دیکھنے لگا۔
"محبت سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے بھائی! اسے
بھی بدل گئی۔" یوسف نے ٹھنڈی آہ بھری۔
وہ ابھی نگاہوں کا رخ بدلنے ہی واال تھا کہ اس کی
نگاہ سڑک کنارے کھڑی لڑکی پر پڑی جسے کچھ
آدمی زبردستی کھینچ کر وین میں بیٹھا رہے تھے۔
"اوہ شیٹ".....
دالور خان میز پر دونوں ہاتھ مارتا تیزی سے اٹھا تھا
اور بھاگتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا۔وہاں موجود لوگوں
نے اس میچور انسان کو سرپٹ بھاگتے حیرانگی سے
دیکھا۔
یوسف نے حیرانگی سے پہلے اسے جاتے دیکھا اور
پھر وال کے پار۔
اسے بھی وہ منظر دکھائی دے گیا تھا وہ بھی تیزی
سے اٹھ کر وہاں سے بھاگا تھا۔
اس سے پہلے کہ دالور خان وہاں تک پہنچتا وہ لوگ
لڑکی کو زبردستی وین میں بیٹھا کر وہاں سے جانے
412
لگے تھے۔وہ ان کے پیچھے بھاگا اور وین کا نمبر
نوٹ کر لیا۔
"بھائی!.....اس لونڈے نے ہماری وین کا نمبر لکھ لیا
ہے۔ اب کیا کریں؟"
پیچھلی سیٹ پر بیٹھے لڑکے نے پیچھے دیکھتے
ہوئے کہا تھا۔
"اس چھمک چھلو کو اپنے اڈے تک پہنچانا ضروری
ہے ،وگرنہ بوس نے ہمیں جان سے مار دینا ہے۔"
ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے آدمی نے گردن گھما کر اس
لڑکی کو دیکھا جس کے منہ پر پٹی باندھ کر پورے
چہرے پر کپڑا لپیٹ کے سیٹ پر پھینکا ہوا تھا۔
وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی.....مگر
بےسود رہا۔
"یوسف! تم پولیس اسٹیشن جاؤ اور اس گاڑی کا نمبر
بتا کر پولیس کو ناکہ بندی کرنے کو کہو۔ میں ان
لوگوں کا پیچھا کرتا ہوں ،اپنی بائیک کی چابی دو۔"
وہ پیشانی کو چھوتے بالوں کو انگلیوں کے ذریعے
413
پیچھے کرتا تیزی سے اس کے ہاتھ سے چابی لیتا
بھاگ کر اس کی بائیک کی جانب بڑھا۔
یوسف رکشہ کو ہاتھ دے کر روکتا تیزی سے رکشہ
میں بیٹھ گیا۔
"بھائی! وہ چھوکرا تو پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔"
"ایسا کرو گاڑی روک دو ،اور نکلو یہاں سے
سب....یہ نا ہو وہ سترہ لڑکیاں بھی ہاتھ سے
جائیں۔"
"مگر بھائی! بوس کو یہ لڑکی چاہیے.....اس کی
قیمت تقریبا ً تین کروڑ تو لگے گی ہی۔"دوسرے لڑکے
نے کہا۔
"ارے دس کروڑ کا مال کنٹینر میں پڑا ہے۔ یہ دو
کروڑ بعد میں لے جائیں گے۔ اوئے ماکھے! ذرا سائیڈ
کر کے روک دے گاڑی۔" اس آدمی کے کہنے پر
ڈرائیور نے ایک جانب گاڑی روک دی اور خود سب
وہاں سے فرار ہو گئے۔
وہ جو چند ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا بائیک کی
سپیڈ بڑھا چکا تھا۔
414
بائیک وین کے قریب رکتے ہوئے وہ تیزی سے اترا
تھا پہلے سوچا کہ ان لڑکوں کے پیچھے جائے پھر
لڑکی کا خیال آتے ہی تیزی سے وین کی جانب بڑھا۔
اس کے سفید و گالبی پیروں کو رسیوں سے آزاد
کروا کر وہ اس کی کمر پر بندھے ہاتھوں کو کھول
کے پیچھے ہٹا اور اس کے منہ پر لپیٹے کپڑے کو
کھولنے لگا۔
لڑکی کا منہ جیسے ہی کھال اس نے گہری گہری
سانسیں لیتے ہوئے چہرے پر بکھرے بالوں کو
کانپتے ہاتھوں سے پیچھے کیا۔
"تھینک یو سو مچ۔ آ آپ میرے لیے فرشتہ بن کر آئے
ہیں۔" حور روتے اور کانپتے ہوئے بول رہی تھی اور
دالور خان تو جیسے وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں
موجود نہیں تھا۔
وہ جو کسی لڑکی کو سر اٹھا کر دیکھنے کا قائل نہیں
تھا اس وقت حور کو ٹکٹکی باندھے ساکن پلکوں سے
دیکھے جا رہا تھا۔
415
ّٰللا م میرا سر.....م مجھے چکر آ رہے ہیں،
"یا ہ
آنکھوں کے سامنے اندھیرا ......اندھیرا آ رہا ہے۔"
وہ ایک ہاتھ سے سر تھامے اور دوسرے سے اس
کے شانے کو تھامے زور و قطار روتی ہوئی دوسرے
ہی پل اس کی آغوش میں بےہوش ہو چکی تھی۔
دالور خان اس کی اتنی قربت میں اپنے دل کو پہلوؤں
سے نکلتے محسوس کر کے پریشان ہو گیا۔
وہ پتھر دل آج پوری طرح سے ہار گیا تھا مگر اس
بات کا اعتراف کرنا اس کے لیے بےحد مشکل ترین
تھا۔
وہ سر جھٹک کر حور کو خود سے دور کرتے ہوئے
اس کی رخسار کو تھپکنے لگا۔
"اٹھیں محترمہ۔"
مگر محترمہ تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی
تھیں...وہ اسے قریبی ہسپتال میں چھوڑ کر وہاں سے
فرار ہو گیا تھا۔
وہ اپنا دل حور کے پاس چھوڑ گیا تھا اور اس کی
خوشبوئیں اپنے ساتھ لیے لوٹ گیا۔
416
اسے جب ہوش آیا تو خود کو بیڈ پر دیکھ کر گھبرا
گئی۔
"مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے میری
عزت و جان کی حفاظت کی۔ کہاں ہیں وہ؟"
ڈاکٹر کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ اس نے
استفسار کیا۔
"وہ تو جا چکے ہیں۔" ڈاکٹر کے بتانے پر وہ مایوس
سی ہو گئی۔
"ڈاکٹر....کیا میں جا سکتی ہوں اب؟"
"جی جی بلکل۔"
"تھینک یو۔ کتنی فیس؟" اس نے بیڈ سے اٹھتے
ہوئے استفسار کیا۔
"جو آپ کو یہاں الئے تھے وہ فیس ادا کر چکے
ہیں۔" ڈاکٹر کے بتانے پر وہ ایک مرتبہ پھر سے لب
سی گئی۔
"وہ واقع ہی آج میرے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔"
اس نے اس بات کا دل سے اعتراف کیا تھا۔
417
دیدار یار پر زندگی ہار بیٹھے ہیں
ِ ہم تو بس
اسے پانے کا سوچیں گے تو قیامت ہو گی
418
فون کال پر وہ اس جانب متوجہ ہوا۔
"اسالم علیکم! بھائی وہ لڑکی ہسپتال سے جا چکی
ہے تو بیان نہیں لے سکے۔" یوسف نے فون کر کے
بتایا۔
"و علیکم السالم! اور گاڑی کس کے نام پر تھی؟" اس
نے آنکھوں کو مسال۔
"یہ گاڑی دو دن پہلے چوری ہو گئی تھی۔مالک نے
ریپورٹ بھی درج کروائی تھی۔"
ّٰللا حافظ۔" اس نے فون ایک جانب ڈال
"ٹھیک ہے۔ ہ
دیا۔
میٹنگ کے لیے جیسے ہی وہ ریڈی ہونے لگا آئینے
میں اپنے کلف زدہ کرتہ کے گریبان کے بل اسے چند
پل کے لیے ساکت کر گئے۔
ابھی بھی وہ نرم مرمریں انگلیوں کا لمس وہاں موجود
تھا.....
اس کی نگاہوں میں وہ پل قید ہو کر رہ گیا تھا جب
حور نے بےاختیار ہی اس کے گریبان پر ہاتھ ڈاال تھا۔
وہ مبہم سا مسکرا دیا۔
419
"آج تک جس نے بھی سردار دالور خان کے گریبان
پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی وہ دشمنی کا رشتہ پختہ
کر گیا اور وہ میرے گریبان کو تھام کر دل پہلوؤں
سے کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئی۔" پسلیوں پر ہاتھ
ٹکائے وہ نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے سوچتے
ہوئے سر جھٹک کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش
کرتا واشروم گھس گیا۔
نو بجے میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد وہ الہور کے لیے
نکل گیا تھا وہاں سے اماں جان کو پک کر کے واپس
خیبرپختونخوا کے لیے روانہ ہو خانا تھا۔
وہ ڈاک سے فائل لے آیا تھا۔
اس بنگلے میں وہ اور شازار ہی رہتے تھے تو کھانا
وہ پی بنا رہا تھا۔ تبھی آتے ہوئے سبزیاں مرچ
مصالحہ جات اور شازار کے لیے پھل بھی لے آیا تھا۔
"کیسے ہو جناب؟" کچن میں سامان رکھ کر وہ اس
کے کمرے کی جانب بڑھا جہاں وہ کھڑکی سے ٹیک
لگائے خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔
"اچھا ہوں۔"
420
"میں نے حال پوچھا ہے نیچر نہیں۔" وہ سامنے والے
در سے ٹیک لگاتے ہوئے بوال۔
وہ دونوں آپس میں یوں گھل مل گئے تھے جیسے
برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
خون میں کشش ہی ایسی ہوتی ہے کہ انسان اپنوں کی
جانب کھینچا چال جاتا ہے۔
"میں نے بھی حال بتایا ہے نیچر نہیں .....کیونکہ
نیچر کے حساب سے میں بہت برا ہوں۔"
"ہاہاہا برائی تو ہر انسان میں ہوتی ہے جناب۔ مگر
اچھائیاں بھی تو ہوتیں ہیں۔" وہ ہنس دیا تھا۔
"یہ تو ہے۔مگر مجھ میں برائیاں زیادہ تھیں.....تبھی
تو آج تنہا ہوں۔" وہ مایوسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔
"تنہا اس لیے جی رہے ہو کہ تم ابھی تک اپنے پاسٹ
سے نہیں نکلے۔"
"یو ناؤ واٹ خانزادے!....میں پاسٹ سے نکلنا بھی
نہیں چاہتا.....میرا سب کچھ ہے پاسٹ میں.....اس کی
محبت ہے۔اور حال میں....میرے پاس کچھ نہیں ،میں
خالی دامن ہوں۔" اس کی آواز بھر آئی تھی۔
421
"مجھے نہیں معلوم شازار! کہ جس سے ہم محبت
کرتے ہیں جب وہ ہم سے بہت دور چال جاتا ہے تو
کیسا محسوس ہوتا ہے مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں
کہ یہ محبت بہت خوبصورت احساس ہے۔" وہ سر
کھڑکی کے پٹ سے ٹکائے آسمان پر چمکتے چاند کو
دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
"جس کے بنا ہر انسان ادھورا ہے .....محبت میں پہلی
صف میں ماں باپ ،بہن بھائی آتے ہیں دوسری صف
میں باقی کے رشتے۔
تو تم پہلی صف کو فراموش کیسے کر گئے؟"
اس کے استفسار پر شازار نے چونک کر اس کی
جانب دیکھا۔
"کاش میرے پاس پہلی صف ہوتی ".....وہ نم آنکھوں
کو پلکیں جھپک جھپک کر سر جھکائے چھپا گیا۔
"پاگل ہو کیا ،ہم ہیں تو سعی۔" اس نے آگے بڑھ کر
اسے کھینچ کے گلے لگا لیا تو شیری نے بھی باہیں
اس کے گرد پھیالئیں۔
"ہائے ".....وہ کراہ اٹھا۔
422
"اوہ سوری سوری۔" شاہزیب کرنٹ کھا کر پیچھے
ہوا۔
"تمہارے تایا سائیں نے سارے بدلے مجھ سے لے
لیے ہیں۔"
وہ کراہتے ہوئے بوال تو شیری مسکرا دیا۔
"اچھا ریسٹ کرو میں ڈنر بناتا ہوں ،پھر تمہیں
میڈیسن دینی ہے اور پٹی بھی بدلنی ہے۔" وہ کہہ کر
کمرے سے نکل گیا۔
"اوئے سن کھانا بہت بدمزہ بناتا ہے توں ،آج ذرا
یوٹیوب سے ریسپی دیکھ لینا۔" اس نے ہانک لگائی۔
"جو مل رہا ہے اسی پر شکر الحمدہلل کرو.....میں نہ
قدر بلند
ہوتا تو وہ بھی نہیں ملنا تھا۔" خانزادے نے ِ
آواز میں کہا۔
" بیمار اور غریب شخص پر احسان جتا رہے ہو۔یہ
بھی ٹھیک ہے بھئی۔" وہ کمرے سے نکل آیا تھا۔
خانزادے کا قہقہہ بلند تھا۔
"فائل لے آئے ہو؟"
423
"ہاں بیڈ پر پڑی ہے اور ہاں شازار! میں پولیس
آفیسر ہوں یہ بات ہم دونوں کے درمیان میں رہنی
چاہیے۔اوکے؟"
"یس سر!" وہ سلیوٹ کرتے ہوئے بوال پھر مسکرا
کر پلٹ گیا۔
"دیکھو جا کر ،کیا پتا تم نے ان میں سے کسی کو
دیکھا ہو یا جانتے ہو۔" وہ کچن میں گھس گیا جبکہ
شازار اس کے کمرے میں۔
"شاہزیب! اس آدمی کو میں نے دیکھا ہوا ہے.....مگر
یاد نہیں آ رہا کہاں.....؟" وہ پرسوچ انداز میں کہتا
اس کے پاس کچن میں جا کھڑا ہوا۔
"یاد کرو شازار! وہ ایک ہمیں مل جائے ہم اس فائل
میں موجود پندرہ آدمیوں اور اِن کے مالکوں تک
رسائی حاصل کر لیں گے۔" وہ گوشت فرائی کرتا اس
کی جانب متوجہ ہوا۔
"ایک دفعہ یہ سب میرے ہاتھ آ جائیں سب کا انکاؤنٹر
کر دوں گا۔نجانے کتنی لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی
424
ہیں کمینوں نے۔" بیف بوائل ہونے کے لیے دوسرے
چولہے پر چڑھا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"میں تمہارے ساتھ ہوں یارا"!...
اس نے جیسے ہی سبز مرچیں کڑاہی میں ڈالیں
شازار کو بری طرح سے کھانسی شروع ہوئی۔
"تم باہر جاؤ ،اور کمرے میں آرام سے بیٹھ کر سوچو
کہ اس آدمی کو کہاں دیکھا۔" شاہزیب نے ٹماٹر اور
کٹے ہوئے پیاز ڈالتے ہوئے کہا۔
"اوکے ،سپائیسی بنانا یار۔" وہ کہہ کر تیزی سے باہر
نکل گیا۔
"زخم ابھی بھرے نہیں ،بخار ابھی اترا نہیں اور
محترم کو سپائیسی فوڈ کھانا ہے .....ٹھیک ہو جاؤ
پھر یہ خواہش بھی پوری کر دوں گا۔" اس نے ہانک
لگا کر کہا۔
"اپنے تایا پر گیا ہے ظالم .....احساس نام کی چیز ہی
نہیں ہے بھئی۔"
وہ منہ پھالئے بڑبڑایا۔
425
"کھانا اچھا ہوا تو رات کی ٹی پارٹی میری جانب
سے۔"
وہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا شاہزیب مبہم سا
مسکرا دیا۔
*****
426
سے کہا تو وہ سر ہال گئی جیسے ہی وہ وہاں سے ہٹا
اس نے منہ تک ڈاال دوپٹہ اٹھایا اور اماں کو مسکرا
کر سالم کیا۔
دالور خود ابھی کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی
سیدھا کمرے میں جا کر بند ہو گیا۔
چینج کر کے بستر پر لیٹا اور جیسے ہی آنکھیں بند
کیں حور مسکراتی ہوئی نگاہوں کے سامنے آ کھڑی
ہوئی ،وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر بیٹھ گیا۔
ّٰللا " .....سر ہاتھوں میں گرائے وہ افسردگی سے
"یا ہ
آنکھیں موند گیا۔
پھر سے وہ موہنی صورت نگاہوں کے پردے پر رقص
کرنے لگی اس مرتبہ سردار دالور خان نے آنکھیں
کھولی نہیں تھیں۔
کئی پل وہ جاگی سوئی کیفیت میں خوابوں کی دنیا میں
گم رہا۔
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ بری طرح چونکا اور
اٹھ کر دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا۔
427
"ارے بابا سائیں! آپ نے کیوں تکلیف کی مجھے بال
لیتے۔"
وہ شرمندہ ہوا کہ ہر رات سونے سے پہلے وہ اپنے
بابا سائیں کے پاس کچھ وقت گزرتا تھا۔
"کوئی بات نہیں سردار !....تھکے ہوئے ہو گے اسی
لیے خود ہی آ گیا۔بیٹھو بھئی کھڑے کیوں ہو۔" وہ بیڈ
پر بیٹھ چکے تھے۔
"پاؤں اوپر کر لیں۔" دالور خان نے جھک کر ان کے
پیروں کو جوتوں سے آزاد کیا۔
"نجانے خان کی پرورش میں ہم سے کہاں بھول ہو
گئی.....اسے ذرا بھی اپنوں کا ،بڑوں کا ،رشتوں کا
خیال نہیں۔نہ ہی وہ کسی کی عزت کرتا ہے۔" وہ پاؤں
بیڈ پر رکھتے ہوئے افسردگی سے بولے۔
"بابا سائیں! اسے خیال بھی ہے اور وہ عزت بھی
سب کی کرتا ہے.......بس اس کے عمل میں فرق ہے
وہ جتاتا نہیں۔" وہ ان کے پیروں کے قریب پڑی خالی
جگہ پر ٹک گیا۔
428
"نہیں سردار....وہ شروع سے ہی ایسا تھا اور اس
لڑکی کی موت کے بعد تو بلکل ہی ہاتھ سے نکل
گیا۔خیر چھوڑو ہم کیوں اس کو لے کر بات کر رہے
ہیں ".....انہوں نے بات بدلی۔
"تمہاری پھپھو جان آئی ہوئی ہیں ،کل مل لینا ان
سے ".....انہوں نے کہا تو سردار دالور خان کی دنیا
گھوم کر رہ گئی۔
اسے ماں سے کی بات یاد آ گئی۔
"گل پنار تمہاری بچپن کی منگ ہے سردار! اور شکر
ہے تم شادی کے لیے جلد مان گئے.....وگرنہ خان نے
تو خاندان کی لڑکی کو انکار کر کے ہماری ناک ہی
کٹوا دی....اور ہمارے دشمنوں کو بھی باتیں کرنے کا
موقع فراہم کیا خاندان الگ باتیں بناتا ہے۔" وہ کچھ
کہنے ہی واال تھا کہ بابا سائیں پھر سے بولے اور
اس کے منہ پر تالے لگ گئے۔
"ایک ماہ بعد کی ڈیٹ فیکس کر دی ہے ،تب تک
تمہارا بھائی بھی ٹھیک ہو جائے گا.....اب بالنا تو پڑنا
ہے اسے بھی۔" وہ بولتے جا رہے تھے اور سردار
429
دالور خان محض جھکا سر اثبات میں ہال رہا تھا.....
کیونکہ اب کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا۔
صبح اگر وہ ماں سے کہہ دیتا کہ اسے ابھی شادی
نہیں کرنی تو شاید کچھ ہو سکتا تھا.....مگر کیا؟
بچپن کی منگنی تو ختم نہ ہوتی؟
وہ لڑکی جو بچپن سے ہی اس کے خواب سجائے
بیٹھی تھی اس کا کیا؟
بابا سائیں کب واپس گئے اسے علم نہیں ہوا۔
"ایک ماہ ".....بےچینی سے کنپٹی مسلی گئی۔
" بھول جاؤ سردار دالور خان! کہ تم نے کسی لڑکی
سے پہلی نظر میں ہی محبت کی ہے۔ بس بھول
جاؤ.....یاد رکھو تو اتنا کہ تم ایک سردار ہو جس کی
زبان اور عزت ہی سب کچھ ہے۔تمہارے ہاں مینگنیاں
نہیں توڑیں جاتیں نہ ہی طالقیں ہوتی ہیں۔" وہ تیزی
سے سگار سلگا کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔
اس کی کھڑکی سے دور دور تک روشن ہوئی الئٹیں
دکھائی دے رہی تھیں۔
430
"مگر اس بےچینی کا کیا کروں؟ کیا کروں اس دل کا
جو اسے دیکھتے ہی چاروں خانے چت ہو گیا؟"
وہ سوچتے ہوئے یوں ہی دور تک نگاہیں دوڑا رہا
تھا۔
"شازار !....ہاں اس سے بات کرنی چاہیے۔" وہ تیزی
سے پلٹا اور چادر اٹھا کر شانوں پر اوڑھتے ہوئے
کمرے سے نکل گیا۔
وہ بہت ہی احتیاط سے ادھر اُدھر دیکھتا آگے بڑھ رہا
تھا کہ بےدھیانی کی بدولت کسی سے ٹکرایا۔
وہ لڑکی خوف زدہ سی ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی۔
"معافی چاہتا ہوں میں نے دھیان نہیں دیا۔" وہ کہہ کر
ایک نگاہ بھی اس لڑکی پر ڈالے بنا آگے بڑھ گیا۔
وہ جسے مالزمہ سمجھ رہا تھا وہ گل پنار تھی جو اب
اپنا گھونگھٹ اٹھا کر اسے مسکراتی آنکھوں سے
دیکھ رہی تھی۔
کزنز کی کھی کھی پر وہ پلٹ کر ان کی جانب دیکھنے
لگی۔
431
وہ سب قہقہے لگا کر ہنس دیں تو وہ جھنپ کر سر
جھکا گئی۔
"کیسے لگے ہمارے بھائی جان؟" نازش نے شوخی
بگاڑی۔
"دیکھا ہی کہاں یار! وہ جب سامنے ہوتے ہیں تو نگاہ
اٹھانا دشوار ہوتا ہے پھر کہاں گھونگھٹ اٹھانے کی
بات کر رہی ہو۔" وہ افسردہ سی ہو کر منہ لٹکائے
بولی۔
"لو جی۔ یعنی تم ہمارے بھیا کو دیکھے بنا ہی محبت
کرتی ہو؟" سیرت نے حیرانگی سے استفسار کیا۔
"ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالی ہے محض ایک دو
مرتبہ ہی ان کی جھلک دیکھی ہے۔ باقی تو بس نام ہی
کافی ہے۔" وہ معصومیت سے بولی تو۔
بانو چاچی کو اس پر ڈھیر سارا پیار آیا۔
"کوئی بات نہیں چندہ۔ایک مہینہ رہتا ہے پھر جی بھر
کر دیکھ لینا۔" انہوں نے کہا تو وہ شرما کر ہاتھوں
میں منہ چھپا گئی۔
وہ سب ہنس دیں تھیں۔
432
وہ دونوں خوش گپیوں میں مصروف تھے جب ڈور
بیل ہوئی تو ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب
دیکھا۔
"اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" شاہزیب اٹھ کھڑا ہوا۔
دروازہ کھولتے ہی دالور خان کو اس وقت سامنے
دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے حیران ہوا۔
"اسالم علیکم! کیسے ہو خانزادے؟" وہ اندر آ گیا تھا۔
ّٰللا کا شکر ہے تم کیسے ہو؟"
"و علیکم السالم! ہ
دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ چلتے ہوئے وہ بوال۔
" میں بھی ٹھیک ہی ہوں۔"
"کون ہے شاہ؟" شازار بولتے ہوئے کمرے سے نکل
آیا تھا۔
"ارے الال !....آپ یہاں؟" وہ خوشی سے مسکرایا۔
"کیوں بھئی میں نہیں آ سکتا کیا؟" وہ آگے بڑھ کر
اسے گلے لگانے لگا تو اس کے زخم یاد آئے تبھی
ہاتھ مالتے ہوئے بوال۔
433
"نہیں نہیں میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ مجھے لگا
شاید بابا سائیں نے آپ پر پہرے لگائے ہوں۔"
"پہرے تو لگے ہوئے تھے مگر میں چھپ کر آیا
ہوں۔" اس نے مزاحیہ خیز انداز میں کہا۔ تو وہ دونوں
ہنس دیئے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ آگ دانی کے
قریب بیچھے قالین پر رکھے کشنز اور درمیان میں
پڑے ڈارئی فروٹس اور چائے پر پڑی۔
"یہاں تو موسم انجوائے ہو رہا تھا۔" وہ مسکرا کر
بوال۔
"بس نیند نہیں آ رہی تھی تو ہم بیٹھ کر گپیں ہانکنے
لگے۔ آ جائیں آپ بھی۔" شازار نے کہا اور اپنی جگہ
پر جا بیٹھا۔
وہ دونوں بھی جگہ سنبھال کر بیٹھ گئے۔
"پریشان کیوں ہیں الال؟" وہ دونوں بات کر رہے تھے
مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا....ہاتھ میں پکڑا چائے
کا کپ بھی اب ٹھنڈا ہو گیا تھا۔
تبھی شازار نے پوچھا۔
434
"پھپھو جان آئی ہوئی ہیں شازار! میری اور گل کی
شادی کی ".....وہ بات اُدھوری چھوڑ کر ان دونوں کی
جانب دیکھنے لگا۔
"شادی کی ڈیٹ فیکس ہو گئی ہے۔" اس نے جیسے
ہی بات مکمل کی ان دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ
بکھر گئی۔
"تم خوش نہیں ہو دالور خان؟" شاہزیب نے اس کے
چہرے کی اداسی بھانپتے ہوئے استفسار کیا۔
"مجھے ان دونوں سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے.....
شازار بہت جذباتی ہے کہیں حویلی میں جا کر کوئی
ہنگامہ برپا نہ کر دے۔"
وہ سوچتے ہوئے لب بھینچ گیا۔
"ہاں الال ...آپ کے چہرے پر یہ اداسی کیسی؟" شازار
نے بھی فکرمندی سے کہا۔
"ارے یار تم دونوں کیا پوچھنے لگے۔ مجھے کیا پتہ
شادی کی بات پر خوش کیسے ہوتے ہیں.....میری تو
پہلی مرتبہ شادی ہو رہی ہے نا۔" وہ ہنستے ہوئے
435
ہلکے پھلکے انداز میں بوال تو ان کا قہقہہ بھی کمرے
میں گونجا۔
"اچھا سنو .....بابا سائیں تم دونوں کو لینے آئیں تو
کوئی گڑبڑ مت کرنا۔سمجھے؟" اس نے کہا تو شازار
تو سر ہال گیا جب کہ شاہزیب یوں ظاہر کرنے لگا
جیسے اس سے کچھ نہ کہا ہو۔
"میں نے تم سے بھی کہا ہے خانزادے!"
"ہوں ،ٹھیک ہے.....مگر میں تو محض کچھ دنوں کا
مہمان ہوں یہاں۔ تم اپنی شادی کا کارڈ بھیجنا میں
ضرور آؤں گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو دالور
خان مزید کچھ کہہ نہیں سکا۔
436
"ہیلو یوسف رضا بات کر رہے ہیں؟" اس نے
یونیورسٹی سے آتے ہی مسز رضا کے دیئے نمبر پر
کال کی تھی۔
"جی بول رہا ہوں۔ آپ کون؟"
"آپ سے ملنا تھا ،ایکچلی میں نے آپ کی والدہ سے
آپ کا نمبر لیا ہے۔"
"اوہ تو آپ وہ ہیں جو کل ہمارے گھر آئی تھیں؟"
"جی ،ایکچلی مجھے شازار کے متعلق کچھ بات کرنی
ہے؟"
"شازار کے متعلق؟ آپ ہیں کون؟" یوسف کو حیرانگی
ہوئی۔
"دیکھیں یہ تو میں آپ کو مل کر ہی سمجھا سکوں
گی۔ آپ کراچی سے کب تک واپس آ رہے ہیں؟"
"میں کل ہی آیا ہوں۔کچھ دنوں تک چال جاؤں گا۔"
"تو کیا آج ہم مل سکتے ہیں؟ اگر آپ فری ہیں
تو ".....اس نے تیزی سے استفسار کیا۔
437
"اوکے۔میں لوکیشن بھیجتا ہوں۔" اس نے کہا تو وہ
مسکرا دی۔
"تھینک یو سو مچ۔" اس نے کہا اور کال کاٹ دی۔
ایک گھنٹہ بعد وہ کیفے میں اس کے سامنے بیٹھی
تھی۔
"جی ،کیا پوچھنا چاہتی ہیں شازار کے متعلق؟" کافی
کا آرڈر دیتے ہوئے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"اس کے پاسٹ کے متعلق.....وہ جس لڑکی سے
محبت کرتا تھا وہ کہاں ہے؟"
"مجھے کچھ ایک دو مہینے پہلے ہی شازار کی کال
آئی تھی اس نے کہا تھا کہ کوئی لڑکی میرے متعلق
پوچھنے آئے گی اور تم اسے میرے متعلق سب کچھ
بتا دینا۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
حور لب بھینچ کر ایک لمحہ خاموش ہوئی۔
"اگر اسے معلوم ہے کہ میں اس سے بہت محبت
کرتی ہوں....پھر اس نے مجھے ٹھکرا کیوں دیا؟"
حلق میں کانٹے چبھے تھے۔
438
"کیونکہ وہ کسی کو خوش فہمی میں نہیں رکھتا۔ اور
وہ طیبہ کے بعد کسی سے محبت بھی نہیں کر سکتا۔"
یوسف کی بات پر وہ خاموش ہو گئی۔
"ایسا کیا تھا اس لڑکی میں جو وہ اسے بھول کر آگے
نہیں بڑھ سکتا؟" اس کے لہجے میں غصہ جھلکا تھا۔
یوسف مسکرا دیا۔
"میں آپ کو طیبہ اور شازار کی کہانی سناتا ہوں شاید
پھر آپ کے سارے سوالوں کو جواب مل جائیں۔"
اس کی بات پر وہ سر اثبات میں ہال کر رہ گئی۔
یوسف بولنے لگا تھا اور وہ سانسیں روکے سن رہی
تھی۔
***
439