You are on page 1of 14

‫یار وہ کون تھی‬

‫__________________ پارٹ ون کمزور_دل_افراد_نا_پڑھیں‬

‫یہ واقعہ غالبا دسمبر ‪ 2007‬کا ہے‪ ،‬ہم سب گھر والے کزن کی‬
‫شادی میں پنجاب کے ایک شہر میں گئے ہوئے تھے۔ میری عمر‬
‫اس وقت لگ بھگ ‪ 13‬سال رہی ہوگی۔ اور میرے لیے یہ گاؤں‬
‫کی شادی اٹینڈ کرنے کا پہال موقع تھا‪ ،‬اس وقت شہر کی‬
‫شادیاں گاؤں کی شادیوں سے بہت مختلف ہوا کرتی تھیں‪،‬‬
‫ورنہ آج کل تو گاؤں شہر سے زیادہ ایڈوانس یا اوور‬
‫ایڈوانس ہوگئے ہیں۔۔ پہلے لسی اور پراٹھے کی بہاریں ہوا‬
‫کرتی تھیں۔۔ تازہ مکھن اور گھی کی خوشبو سے ہر گھر‬
‫مہکا کرتا تھا۔۔ دیسی انڈوں کے ہر گھر میں انبار لگے ہوتے‬
‫تھے۔۔ گاؤں کی کر بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں خالص دودھ‬
‫کی چائے پیش کی جاتی تھی۔۔ مگر اب لسی کی جگہ چائے‬
‫اور پراٹھوں کی جگہ ڈبل روٹی نے لے لی ہے۔۔ گاؤں کی‬
‫مٹیارن اب گاؤں کی خالص اشیاء کے بجائے شہر کی مالوٹ‬
‫زدہ چیزوں کی شوقین ہے۔۔ ویسے ہی گاؤں کے گبھرو گجر‬
‫اور جٹ جوان پہلوانی کو چھوڑ کر ٹک ٹاک اور فضول‬
‫کاموں میں صحت خراب کررہے ہیں۔۔ یہ وہ وقت تھا جب‬
‫گاؤں کی محفلیں آباد تھیں جہاں ایک گھر میں سب بزرگ‬
‫جمع ہوتے تھے گپ شپ کی محفلیں جمتی تھیں۔۔ ہر گھر کے‬
‫دروازے پر وقت کھلے رہتے تھے اور خاندان کے مسائل اور‬
‫مشکالت کو حل کرنے کے لیے ہر انسان پیش پیش ہوتا تھا۔۔‬
‫لڑکوں کی آنکھوں میں دوسرے کی بہو بیٹیوں کے لیے عزت‬
‫اور شرم ہوتی تھی۔۔ چھوٹے بھاگ بھاگ کر بڑوں کا کہنا‬
‫مانتے تھے ۔۔ مگر اب دن میں بھی چوری کے ڈر سے دروازے‬
‫بند ہوتے ہیں۔۔ محفلیں اب بھی جمتی ہیں لیکن اس میں‬
‫محض دوسروں کی برائیاں اور تہمت کے عالؤہ کچھ نہیں‬
‫ہوتا۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔ ~وہ وقت ھوا ہوا‬
‫جب پسینہ گالب تھا~ ~اب عطر ملو تو محبت کی بو نہیں‬
‫~ خیر بات دوسری طرف نکل گئی تو میں بتا رہا تھا کہ‬
‫گاؤں کی شادی میں جانے کے لیے ہم سب بہت زیادہ‬
‫تھے اوپر سے دسمبر کا مہینہ اور ٹرین کا سفر تو ‪Excited‬‬
‫مزہ دوباال ہو جاتا ہے۔۔ ٹرین کا سفر انجوائے کرتے ہوئے ہم‬
‫باآلخر اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ گاؤں میں داخل‬
‫ہوتے ہی ایک خوشگوار احساس ہوا اور ہرے بھرے کھیت‬
‫دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد‬
‫ہے جب ہم کزن کی مہندی کررہے تھے اور پورا گھر مہمانوں‬
‫سے بھرا ہوا تھا۔۔ لڑکیاں ایک طرف ڈھول کی تھاپ پر کوئی‬
‫گیت گا رہی تھیں اور لڑکے اپنی الگ سے محفل جمائے خوش‬
‫گپیوں میں مصروف تھے ۔۔ وہیں بزرگ افراد حقہ کی محفل‬
‫جمائے اپنی موجودگی سے محفل کو چار چاند لگارہے تھے۔‬
‫دسمبر کی شدید سردی کا مہینہ تھا اور بات کرتے ہوئے منہ‬
‫سے دھواں نکلتا تھا گویا ہر بندہ سگریٹ پی رہا ہے۔۔ غالبا‬
‫عشاء کے بعد کا وقت تھا جب میں نے اسے پہلی مرتبہ‬
‫دیکھا۔۔ میں کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک‬
‫مجھے احساس ہوا کہ جیسے دو آنکھیں مجھے مسلسل‬
‫گھورے جا رہی ہیں۔۔ میں نے برآمدہ میں موجود لڑکیوں کی‬
‫محفل کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں لڑکیاں شادی کی گانے‬
‫گارہی تھی۔۔ وہاں نقاب میں ایک لڑکی مجھے دیکھ رہی‬
‫تھی۔۔ میرے توجہ کرنے پر وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھنے لگ‬
‫گئی۔۔ ( سردی کی وجہ سے ہر شخص نے گرم شال اوڑھی‬
‫ہوئی تھی اور کچھ نے نقاب کے انداز میں چہرہ بھی چھپایا‬
‫ہوا تھا) تھوڑی دیر گزرنے کے بعد مجھے دوبارہ احساس ہوا‬
‫کہ وہ لڑکی میری طرف دیکھ رہی ہے۔۔ میں نے فورا پلٹ کر‬
‫دیکھا تو میرا اندازہ درست تھا لیکن اس بار اس نے نظریں‬
‫پھیرنے کے بجائے میری طرف ہی دیکھتی رہی اور آنکھوں‬
‫میں مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ شناسائی بھی تھی۔۔ اس عمر‬
‫میں جب معصومیت اپنے عروج پر ہو تو کسی لڑکی کا یوں‬
‫ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا انسان کو شرما دیتا ہے۔۔ خیر تھوڑی‬
‫دیر بعد میرے کزن نے مجھے آواز دی جو کہ برآمدے کے‬
‫دوسری طرف بیٹھک میں موجود تھا۔۔ میں برآمدے سے گزر‬
‫کر جانے لگا اور اس لڑکی کو قریب سے دیکھنے کی خواہش‬
‫دل میں جاگی۔۔ میں جب اس جگہ سے گزرا تو وہاں لڑکی‬
‫موجود نہیں تھی۔۔ میں کافی حیران ہوا کہ ایک دم سے وہ‬
‫لڑکی کہاں غائب ہوگئی۔۔ میں اپنے کزن کے پاس پہنچا اور‬
‫اس سے باتیں کرنے لگا‪ ،‬اچانک پلٹ کر دیکھا تو نقاب میں وہ‬
‫لڑکی وہیں موجود مجھے دیکھ رہی تھی۔۔ میں لڑکی کی‬
‫شرارت پر ہنس پڑا۔۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے برآمدے میں‬
‫آتا دیکھ کر وہ شرما کر چھپ گئی ہوگی۔۔ کافی دیر بعد میں‬
‫دوبارہ سے کمرے میں جانے کے بیٹھک سے باہر نکال تو وہ‬
‫لڑکی مجھے دیکھ رہی تھی۔۔ جیسے میرا بیٹھک سے نکلنے کا‬
‫انتظار کررہی ہو۔۔ میں مسکراتے ہوئے کمرے کی طرف جاتے‬
‫ہوئے برآمدے کے پاس جانے لگا۔۔ پھر ایک عجیب بات ہوئی۔۔‬
‫میں جیسے ہی برآمدے میں پہنچا تو میرے دیکھتے ہی‬
‫دیکھتے وہ لڑکی ایک دم میری نظروں سے غائب ہوگئ۔‬
‫میری نظروں کے سامنے سے اس نقاپ پوش لڑکی کے یوں‬
‫غائب ہو جانے سے میں ہکا بکا رہ گیا‪ ،‬ابھی میں حیرت کے‬
‫سمندر میں غوطے لگا ہی رہا تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر‬
‫ہاتھ رکھا۔۔ میں ڈر کے مارے پیچھے دیکھا تو مجھے میرے‬
‫ماموں نظر آئے اور پوچھنے لگے کہ میں رات گئے اس سردی‬
‫میں صحن میں کیوں کھڑا ہوں۔ میں انہیں جواب دیتے دیتے‬
‫برآمدہ کی طرف دیکھا تو وہاں سناٹا تھا۔۔ ساری لڑکیاں اور‬
‫مہمان غائب تھے‪ ،‬ایک ہو کا عالم تھا۔۔ میں کافی پریشان ہوا‬
‫اور ماموں سے پوچھا کہ ابھی تو سب بیٹھے باتیں کررہے‬
‫تھے اور مہندی کی تقریب ہورہی تھی۔۔ سب کہاں چلے گئے۔۔‬
‫ماموں میری بات سن کر بولے "بیٹا ابھی تو رات کے تین بجے‬
‫ہیں مہندی تو رات ‪ 11‬بجے ختم ہوگئی تھی۔۔ سب سورہے‬
‫ہیں۔" ماموں کی بات سن کر میں کافی پریشان ہوا کہ ایسا‬
‫کیا ہوسکتا ہے۔۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے بیٹھک سے چل کر‬
‫برآمدے کی طرف جا رہا تھا جہاں وہ نقاب پوش لڑکی غائب‬
‫ہوئی تھی۔۔۔ اور ابھی ایک دم سے رات کے تین بج گئے۔۔ میں‬
‫حیرت سے پاگل ہورہا تھا اور اسی حیرت میں ییٹھک کی‬
‫طرف چل دیا۔۔ بیٹھک میں خراٹوں کی آوازیں گونج رہیں‬
‫تھیں اور گھپ اندھیرا تھا۔۔ میں نے تھوڑی دیر اندھیرے‬
‫میں دیکھنے کی کوشش کی تو کزن کی چارپائی نظر آگئی‬
‫جہاں رضائی میں سے زور دار خراٹے گونج رہے تھے ۔۔ میں‬
‫نے اسے زور سے ہالیا اور جگانا چاہا تو اس کی نیند میں‬
‫ڈوبی آواز آئی "او یار سونڑ دے صبح مج وی چونڑی اے"‬
‫(او یار سونے دو صبح بھینس کا دودھ بھی دھونا ہے) میں‬
‫نے دوبارہ سے اسے جگایا اور یاد دالیا کہ ابھی تم تھوڑی دیر‬
‫پہلے باہر کھڑے تھے مجھ سے باتیں کررہے تھے اب اچانک‬
‫کیسے سوگئے۔۔ لیکن وہ نیند سے پاگل تھا دوبارہ سے‬
‫سوگیا۔۔ میں اسی کشمکش میں چارپائی پر آکر لیٹ گیا کہ‬
‫ایک لڑکی ایک دم میری نظروں سے غائب ہوگئی اور پھر‬
‫وقت کا اتنی تیزی سے گزر گیا‪ ،‬انہی سوچوں میں کب رات‬
‫گزری اور صبح صادق ہوگئ پتہ نہیں چال۔۔ اگلے روز شادی‬
‫کی کوئی رسم تھی۔۔ اور دو دن بعد بارات تھی۔۔ میں ان دو‬
‫دنوں میں گاؤں میں گھومتا رہا اور گھر میں شادی کی‬
‫رسمیں دیکھتا رہا لیکن وہ نقاب پوش لڑکی کہیں نظر نہیں‬
‫آئی۔۔ میں حیران تھا کہ اس لڑکی کو زمین کھا گئی یا‬
‫آسمان۔۔ آخر وہ کونسی بال تھی۔۔ پھر باآلخر وہ مجھے نظر‬
‫آگئی۔۔ بارات والے دن ہم صبح صبح اٹھ گئے اور تیاری کرنے‬
‫لگ گئے کیونکہ گاؤں اور پنجاب کے شہروں زیادہ تر شادیاں‬
‫دن کے وقت ہوتی ہیں۔۔ ہم تیار ہو کر بارات لے کر نکل گئے۔۔‬
‫میں دولہا کی گاڑی میں بیٹھا تھا۔۔ اور پیچھے پیچھے باقی‬
‫گاڑیاں بالترتیب چل رہی تھیں۔۔ ہماری گاڑی نہر کے کنارے‬
‫سے گزر رہی تھی کہ اچانک ڈرائیور نے گاڑی ایک جھٹکے سے‬
‫روک دی۔۔ غالبا گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔۔ دولہا کی گاڑی‬
‫رکنے کی وجہ سے پیچھے کی ساری گاڑیاں اور بارات بھی‬
‫رک گئی۔۔ میں گاڑی سے باہر آکر دھوپ سینکنے لگا کہ اچانک‬
‫مجھے نہر کے دوسرے کنارے پر ایک لڑکی نظر آئی جس کی‬
‫پشت میری طرف تھی۔۔ اس لڑکی نے فینسی جوڑا پہنا ہوا‬
‫تھا اور میں حیران ہوا کہ وہ لڑکی وہاں کیا کررہی ہے کیونکہ‬
‫نہر کی دوسری طرف تا حد نگاہ کھیت ہی کھیت تھے اور‬
‫اس کے آس پاس کوئی انسان بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔‬
‫اچانک اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا تو میں اچھل پڑا کیونکہ‬
‫یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نے مہندی کی رات دیکھا تھا‬
‫لیکن آج وہ لڑکی نقاب کے بغیر تھی اور میں نے اسے اسکی‬
‫آنکھوں سے پہچان لیا تھا۔۔ اچانک پیچھے سے ہارن کی آواز‬
‫آئی۔۔ دیکھا تو گاڑی کا ٹائر تبدیل ہوچکا تھا اور سب مجھے‬
‫آوازیں دے رہے تھے۔۔ میں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔‬
‫دوبارہ نہر کے پار دیکھا تو وہ لڑکی غائب ہوچکی تھی۔ اللہ‬
‫اللہ کرکے ہماری بارات دلہن کے گاؤں پہنچی اور ہم پیدل‬
‫دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں مختلف‬
‫جگہوں سے ہوتے ہوئے باآلخر ہم دلہن نے گھر پہنچے تو آگے‬
‫دودھ پالئی کی رسم کے لیے اور بارات کے استقبال کے لیے‬
‫لوگ کھڑے تھے۔۔ اچانک میری نظر اس لڑکی پر پڑی تو میں‬
‫ہکابکا رہ گیا۔۔ دودھ کا گالس پکڑے وہی نقاپ پوش لڑکی‬
‫کھڑی تھی۔‬

‫دوستو فیس بک پر اب کہانیاں پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں‬


‫ھے وہ ہماری کہانیوں والی پوسٹ ریموو کر دیتے ہیں اس‬
‫لئیے پڑھے لکھے لوگ ہمارے وٹس ایپ پیڈ گروپ میں شامل‬
‫ھوکر نئی نئی کہانیاں پڑھ رھے ہیں پیڈ گروپ کی تفصیالت‬
‫کے لئیے وٹس ایپ پر رابطہ کرلیں‬

‫‪03067007824‬‬
‫‪03247700346‬‬
‫دودھ کا گالس لیے بارات کے انتظار میں کھڑی وہ لڑکی وہی‬
‫تھی جسے میں دو بار غائب ہوتے دیکھ چکا تھا‪ ،‬دولہا کو‬
‫دودھ کا گالس دیتے ہوئے اس نے جب کن انکھیوں سے میری‬
‫طرف دیکھا تو میرے جسم پر جیسے چیونٹیاں رینگنے لگی۔۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی تھوڑی دیر پہلے نہر‬
‫کے کنارے نظر آرہی تھی پھر یہاں کیسے پہنچی۔۔ نکاح۔۔۔‬
‫کھانا۔۔ ساری تقریب گزر گئی لیکن میرا ذہن صرف اس بات‬
‫کی طرف پھنسا رہا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔ شام سے پہلے ہم‬
‫رخصتی کے بعد گاؤں واپس پہنچے۔ گھر واپس آنے کے بعد‬
‫سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔ میں صحن سے متصل‬
‫برآمدے میں اپنے کزن کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک پیچھے‬
‫سے مجھے میری امی نے آواز دی کہ اندر آؤ سب تمہیں بال‬
‫رہے ہیں۔۔ میں اندر گیا تو دولہا دلہن سمیت سب بیٹھے ہوئے‬
‫تھے اور میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔ میں حیران ہوا کہ سب‬
‫مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں تو پتہ چال کہ شادی کے بعد‬
‫ایک رسم ہوتی ہے کہ گھر میں سب سے چھوٹا بچہ یا کم‬
‫عمر دیور کو دلہن کی گود میں بٹھایا جاتا ہے۔ اور دلہن پھر‬
‫بچہ کو کچھ پیسے دیتی ہے۔۔ گوکہ میری عمر اس وقت ‪-12‬‬
‫‪ 13‬سال تھی میں بچہ تھا لیکن مجھے یہ رسم پسند نہیں‬
‫آئی اور میں کمرے سے باہر نکل آیا۔۔ میرے ذہن میں اب تک‬
‫وہ لڑکی پھنسی ہوئی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ‬
‫وہ سب کیا تھا۔۔لیکن اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ وہ لڑکی‬
‫دلہن کے گاؤں سے ہے۔ اگلے روز ولیمہ تھا۔۔ مہمان آتے رہے اور‬
‫میں اس لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ اچانک کسی نے میرے کان‬
‫میں سرگوشی کی۔۔۔ " مجھے دریا کے پاس آ کر ملو" میں نے‬
‫ہڑبڑا کر پیچھے دیکھا تو وہی لڑکی مجھے دور جاتی دکھائی‬
‫دی۔۔ میں فورا اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔۔ وہ لڑکی مجھ‬
‫سے آگے آگے چل رہی تھی۔۔ اور اسکی رفتار اتنی تیز تھی‬
‫جیسے ہوا میں اڑ رہی ہو۔۔ گاؤں کا دریا ایک یا ڈیڑھ کلو‬
‫میٹر کے فاصلے پر تھا۔۔ وہ دریا کے کنارے جا کر رک گئی۔۔‬
‫میں نے ارد گرد دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔۔ سردیوں‬
‫کے دن تھے اور شام ڈھلنے کو تھی۔۔ اس وقت دریا کے پاس‬
‫بندہ نا بندے کی ذات۔۔ میں تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔۔ وہ‬
‫دریا کی سمت منہ کیے آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔۔ جیسے‬
‫ہی میں اس لڑکی کے نزدیک پہنچا تو اس کے لب ہلنا شروع‬
‫ہوگئے۔ " تمہیں پتہ ہے میں تمہاری ہم زاد ہوں اور میں چاہتی‬
‫ہوں کہ تمہیں اپنی دنیا میں لے جاؤں۔۔ تمہیں میری دنیا بہت‬
‫اچھی لگے گی" اس لڑکی کی بات سن کر میں کچھ کہنا ہی‬
‫چاہتا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر دریا میں چھالنگ‬
‫لگادی۔۔ اس نا گہانی آفت کے لیے میں ہرگز تیار نہیں تھا میں‬
‫نے چیخنے کی کوشش کی لیکن پانی کے اندر میری آواز نہیں‬
‫نکلی۔۔ اچانک اس لڑکی نے مچھلی کا روپ اختیار کرلیا اور‬
‫اس نے دائیں بازو پر زور سے کاٹ لیا۔۔ درد کی شدت سے‬
‫میں نے چالنا چاہا لیکن میری آواز نہیں نکلی۔۔۔میں نے ہاتھ‬
‫پاؤں مارنے کی بہت کوشش کی کہ پانی سے نکل آؤں لیکن‬
‫پھر آہستہ آہستہ میں ہوش کھوتا گیا اور بے ہوش ہوگیا۔۔‬
‫___ _____ مجھے جب ہوش آیا تو میرے سر میں ٹیسییں‬
‫اٹھ رہی تھیں اور جسم کو جھٹکے سے لگ رہے تھے۔۔ میں نے‬
‫آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو میرے سر پر سبز رنگ کی‬
‫چھت تھی اور جسم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے تھے۔۔ اچانک‬
‫میرے کانوں میں مختلف آوازیں آنے لگ گئیں۔۔۔ " گرم انڈے‬
‫گرم انڈے" "ملتان کا خالص سوہن حلوہ کھا کر دیکھو اسکا‬
‫جلوہ" "مونگ پھلی والے مونگ پھلی والے" میں نے آنکھیں‬
‫کھول کر دیکھا تو میں ٹرین میں تھا اور میں گھر والے اس‬
‫پاس موجود تھے۔۔ میری بہن اور بھائی لڈو کھیل رہے تھے۔۔‬
‫پاس ہی میری کزن نازی اپنے ہاتھ چہرہ اور خراب کیے‬
‫چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی۔۔ میرے بڑے بھائی ناول‬
‫پڑھنے میں مصروف تھے۔۔ میری امی میرے سرہانے آنکھیں‬
‫بند کیے بیٹھی تھیں۔۔ غرض یہ کہ میرے سارے گھر والے جو‬
‫شادی میں آئے تھے وہ سب موجود تھے ۔ مجھے سمجھ نہیں‬
‫آئی کہ میں گاؤں سے ٹرین میں کیسے آیا۔۔ میں نے اٹھنے کی‬
‫کوشش کی تو میری امی فورا آٹھ گئیں اور سب گھر والے‬
‫میری طرف متوجہ ہوگئے۔۔ میں نے امی سے پوچھا کہ ہم‬
‫ٹرین میں کیسے آگئے ہم تو شادی میں تھے۔۔ میری بات سن‬
‫کر امی نے پیار سے کہا "بیٹا ابھی تم لیٹے رہو تمہاری طبیعت‬
‫ٹھیک نہیں ہے " "نہیں امی میری طبیعت اب بہتر ہے۔ آپ‬
‫بتائیں ہم ٹرین میں کیسے آئے۔۔ میں جب بے ہوش ہوا تھا‬
‫اس دن ولیمہ تھا۔۔ اس کے بعد آج آنکھ کھل رہی ہے" میری‬
‫بات سن امی حیرت زدہ رہ گئیں۔ "بیٹا تم ولیمہ میں کب‬
‫شریک ہوئے ؟؟ تم تو مسلسل بے ہوش تھے۔‬

‫دوستو فیس بک پر اب کہانیاں پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں‬


‫ھے وہ ہماری کہانیوں والی پوسٹ ریموو کر دیتے ہیں اس‬
‫لئیے پڑھے لکھے لوگ ہمارے وٹس ایپ پیڈ گروپ میں شامل‬
‫ھوکر نئی نئی کہانیاں پڑھ رھے ہیں پیڈ گروپ کی تفصیالت‬
‫" کے لئیے وٹس ایپ پر رابطہ کرلیں ‪03067007824‬‬

‫امی کی بات سن کر میں کچھ نا سمجھنے والے انداز میں‬


‫انکی طرف دیکھنے لگا تو انہوں نے پوری حقیقت سے مجھے‬
‫آگاہ کیا۔۔ "بیٹا جس دن ہم گاؤں پہنچے تھے اس دن مہندی‬
‫کی شام تک اپنے کزن کے ساتھ باہر گھوم رہے تھے اور پھر‬
‫تم دونوں ایک برگد کے پیڑ کے نیچے کافی دیر تک بیٹھ کر‬
‫باتیں کرتے رہے۔۔ ہمیں تم دونوں اس برگد کے درخت کے نیچے‬
‫بے ہوش ملے تھے۔۔ روزانہ منزل اور قرآن پڑھ کر تم پر دم‬
‫کیا جاتا رہا۔۔ لیکن تمہاری حالت سنبھلنے میں نہیں آرہی‬
‫تھی۔۔ پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ساتھ والے گاؤں کی مسجد‬
‫میں ایک تبلیغی جماعت آئی ہوئی تھی اس جماعت میں ایک‬
‫بزرگ عالم دین تھے۔۔ جو روحانی عملیات نے ماہر بھی تھے۔۔‬
‫تمہارے ابو ان سے ملے اور ساری بات سے آگاہ کیا۔۔ انہوں نے‬
‫تمہیں دیکھا اور پھر اس درخت کی طرف جائزہ لینے گئے۔۔‬
‫واپسی پر انہوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کے ساتھ جو لڑکا‬
‫تھا اس نے اس درخت کے نیچے پیشاب کردیا تھا۔۔ اور وہاں‬
‫کچھ گوشت کی ہڈیاں بھی موجود تھیں اور روٹی کے ٹکڑے‬
‫بس اس لڑکے کے پیشاپ کرنے کی وجہ سے تم دونوں پر‬
‫آسیب کا سایہ ہوگیا۔۔ انہوں نے پانی پر دم کرکے دیا اور‬
‫کچھ قرآنی آیات پڑھنے کے لیے دیں جس سے آج تک ہوش‬
‫میں آئے ہو۔۔" امی کی بات سن کر میرے سر میں گویا زلزلہ‬
‫آگیا ۔۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا تھا کہ میں نے شادی کی‬
‫ساری تقریبات۔۔ مایوں۔۔ مہندی ۔۔ گھڑولی۔۔۔ بارات ۔۔۔‬
‫ولیمہ۔۔ میں شرکت کی تھی۔۔۔ تو گویا وہ سب بے ہوشی کی‬
‫حالت میں تھا۔۔ یا خواب تھا۔۔ اور وہ لڑکی کون تھی۔۔۔ کیا‬
‫وہ جن زادی تھی۔۔ اچانک میرے دائیں بازو پر درد اٹھا۔۔‬
‫میں نے بازو کی طرف دیکھا تو وہاں دانتوں کے نشان تھے‬
‫اور وہ جگہ سرخ ہورہی تھی۔۔۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ یہ‬
‫وہی جگہ تھی جہاں اس لڑکی نے مچھلی بن کر کاٹا تھا۔۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر میری حالت دوبارہ سے خراب ہوگئ لیکن میں‬
‫دعائیں پڑھنے لگا۔۔۔اگلے روز ہم باآلخر اپنے گھر واپس پہنچے‬
‫گئے اور بازو پر کاٹنے کا نشان آہستہ آہستہ مندمل ہوگیا۔۔ آج‬
‫بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میرا سر چکرا جاتا ہے کہ وہ‬
‫خواب تھا یا کچھ اور۔۔۔ یہ معمہ آج بھی حل نہیں ہوا۔۔‬
‫میری آپ سب سے گزارش ہے کہ کبھی بھی سفر میں یا کسی‬
‫ایسی جگہ جہاں باتھ روم نہیں ہے شام کے وقت کسی‬
‫درخت کے نیچے اور ایسی جگہ پیشاب ہرگز نا کریں جہاں‬
‫کھانے کی کوئی چیز یا گوشت کی ہڈیاں ہو۔۔ کیونکہ کسی‬
‫اور کی بے وقوفی کی وجہ سے آپ کو بھی یہ سب سہنا پڑ‬
‫سکتا ہے۔ ختم شد‬

You might also like