Professional Documents
Culture Documents
Wo Kon Thi
Wo Kon Thi
یہ واقعہ غالبا دسمبر 2007کا ہے ،ہم سب گھر والے کزن کی
شادی میں پنجاب کے ایک شہر میں گئے ہوئے تھے۔ میری عمر
اس وقت لگ بھگ 13سال رہی ہوگی۔ اور میرے لیے یہ گاؤں
کی شادی اٹینڈ کرنے کا پہال موقع تھا ،اس وقت شہر کی
شادیاں گاؤں کی شادیوں سے بہت مختلف ہوا کرتی تھیں،
ورنہ آج کل تو گاؤں شہر سے زیادہ ایڈوانس یا اوور
ایڈوانس ہوگئے ہیں۔۔ پہلے لسی اور پراٹھے کی بہاریں ہوا
کرتی تھیں۔۔ تازہ مکھن اور گھی کی خوشبو سے ہر گھر
مہکا کرتا تھا۔۔ دیسی انڈوں کے ہر گھر میں انبار لگے ہوتے
تھے۔۔ گاؤں کی کر بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں خالص دودھ
کی چائے پیش کی جاتی تھی۔۔ مگر اب لسی کی جگہ چائے
اور پراٹھوں کی جگہ ڈبل روٹی نے لے لی ہے۔۔ گاؤں کی
مٹیارن اب گاؤں کی خالص اشیاء کے بجائے شہر کی مالوٹ
زدہ چیزوں کی شوقین ہے۔۔ ویسے ہی گاؤں کے گبھرو گجر
اور جٹ جوان پہلوانی کو چھوڑ کر ٹک ٹاک اور فضول
کاموں میں صحت خراب کررہے ہیں۔۔ یہ وہ وقت تھا جب
گاؤں کی محفلیں آباد تھیں جہاں ایک گھر میں سب بزرگ
جمع ہوتے تھے گپ شپ کی محفلیں جمتی تھیں۔۔ ہر گھر کے
دروازے پر وقت کھلے رہتے تھے اور خاندان کے مسائل اور
مشکالت کو حل کرنے کے لیے ہر انسان پیش پیش ہوتا تھا۔۔
لڑکوں کی آنکھوں میں دوسرے کی بہو بیٹیوں کے لیے عزت
اور شرم ہوتی تھی۔۔ چھوٹے بھاگ بھاگ کر بڑوں کا کہنا
مانتے تھے ۔۔ مگر اب دن میں بھی چوری کے ڈر سے دروازے
بند ہوتے ہیں۔۔ محفلیں اب بھی جمتی ہیں لیکن اس میں
محض دوسروں کی برائیاں اور تہمت کے عالؤہ کچھ نہیں
ہوتا۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔ ~وہ وقت ھوا ہوا
جب پسینہ گالب تھا~ ~اب عطر ملو تو محبت کی بو نہیں
~ خیر بات دوسری طرف نکل گئی تو میں بتا رہا تھا کہ
گاؤں کی شادی میں جانے کے لیے ہم سب بہت زیادہ
تھے اوپر سے دسمبر کا مہینہ اور ٹرین کا سفر تو Excited
مزہ دوباال ہو جاتا ہے۔۔ ٹرین کا سفر انجوائے کرتے ہوئے ہم
باآلخر اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ گاؤں میں داخل
ہوتے ہی ایک خوشگوار احساس ہوا اور ہرے بھرے کھیت
دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد
ہے جب ہم کزن کی مہندی کررہے تھے اور پورا گھر مہمانوں
سے بھرا ہوا تھا۔۔ لڑکیاں ایک طرف ڈھول کی تھاپ پر کوئی
گیت گا رہی تھیں اور لڑکے اپنی الگ سے محفل جمائے خوش
گپیوں میں مصروف تھے ۔۔ وہیں بزرگ افراد حقہ کی محفل
جمائے اپنی موجودگی سے محفل کو چار چاند لگارہے تھے۔
دسمبر کی شدید سردی کا مہینہ تھا اور بات کرتے ہوئے منہ
سے دھواں نکلتا تھا گویا ہر بندہ سگریٹ پی رہا ہے۔۔ غالبا
عشاء کے بعد کا وقت تھا جب میں نے اسے پہلی مرتبہ
دیکھا۔۔ میں کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک
مجھے احساس ہوا کہ جیسے دو آنکھیں مجھے مسلسل
گھورے جا رہی ہیں۔۔ میں نے برآمدہ میں موجود لڑکیوں کی
محفل کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں لڑکیاں شادی کی گانے
گارہی تھی۔۔ وہاں نقاب میں ایک لڑکی مجھے دیکھ رہی
تھی۔۔ میرے توجہ کرنے پر وہ لڑکی ادھر ادھر دیکھنے لگ
گئی۔۔ ( سردی کی وجہ سے ہر شخص نے گرم شال اوڑھی
ہوئی تھی اور کچھ نے نقاب کے انداز میں چہرہ بھی چھپایا
ہوا تھا) تھوڑی دیر گزرنے کے بعد مجھے دوبارہ احساس ہوا
کہ وہ لڑکی میری طرف دیکھ رہی ہے۔۔ میں نے فورا پلٹ کر
دیکھا تو میرا اندازہ درست تھا لیکن اس بار اس نے نظریں
پھیرنے کے بجائے میری طرف ہی دیکھتی رہی اور آنکھوں
میں مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ شناسائی بھی تھی۔۔ اس عمر
میں جب معصومیت اپنے عروج پر ہو تو کسی لڑکی کا یوں
ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا انسان کو شرما دیتا ہے۔۔ خیر تھوڑی
دیر بعد میرے کزن نے مجھے آواز دی جو کہ برآمدے کے
دوسری طرف بیٹھک میں موجود تھا۔۔ میں برآمدے سے گزر
کر جانے لگا اور اس لڑکی کو قریب سے دیکھنے کی خواہش
دل میں جاگی۔۔ میں جب اس جگہ سے گزرا تو وہاں لڑکی
موجود نہیں تھی۔۔ میں کافی حیران ہوا کہ ایک دم سے وہ
لڑکی کہاں غائب ہوگئی۔۔ میں اپنے کزن کے پاس پہنچا اور
اس سے باتیں کرنے لگا ،اچانک پلٹ کر دیکھا تو نقاب میں وہ
لڑکی وہیں موجود مجھے دیکھ رہی تھی۔۔ میں لڑکی کی
شرارت پر ہنس پڑا۔۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے برآمدے میں
آتا دیکھ کر وہ شرما کر چھپ گئی ہوگی۔۔ کافی دیر بعد میں
دوبارہ سے کمرے میں جانے کے بیٹھک سے باہر نکال تو وہ
لڑکی مجھے دیکھ رہی تھی۔۔ جیسے میرا بیٹھک سے نکلنے کا
انتظار کررہی ہو۔۔ میں مسکراتے ہوئے کمرے کی طرف جاتے
ہوئے برآمدے کے پاس جانے لگا۔۔ پھر ایک عجیب بات ہوئی۔۔
میں جیسے ہی برآمدے میں پہنچا تو میرے دیکھتے ہی
دیکھتے وہ لڑکی ایک دم میری نظروں سے غائب ہوگئ۔
میری نظروں کے سامنے سے اس نقاپ پوش لڑکی کے یوں
غائب ہو جانے سے میں ہکا بکا رہ گیا ،ابھی میں حیرت کے
سمندر میں غوطے لگا ہی رہا تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر
ہاتھ رکھا۔۔ میں ڈر کے مارے پیچھے دیکھا تو مجھے میرے
ماموں نظر آئے اور پوچھنے لگے کہ میں رات گئے اس سردی
میں صحن میں کیوں کھڑا ہوں۔ میں انہیں جواب دیتے دیتے
برآمدہ کی طرف دیکھا تو وہاں سناٹا تھا۔۔ ساری لڑکیاں اور
مہمان غائب تھے ،ایک ہو کا عالم تھا۔۔ میں کافی پریشان ہوا
اور ماموں سے پوچھا کہ ابھی تو سب بیٹھے باتیں کررہے
تھے اور مہندی کی تقریب ہورہی تھی۔۔ سب کہاں چلے گئے۔۔
ماموں میری بات سن کر بولے "بیٹا ابھی تو رات کے تین بجے
ہیں مہندی تو رات 11بجے ختم ہوگئی تھی۔۔ سب سورہے
ہیں۔" ماموں کی بات سن کر میں کافی پریشان ہوا کہ ایسا
کیا ہوسکتا ہے۔۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے بیٹھک سے چل کر
برآمدے کی طرف جا رہا تھا جہاں وہ نقاب پوش لڑکی غائب
ہوئی تھی۔۔۔ اور ابھی ایک دم سے رات کے تین بج گئے۔۔ میں
حیرت سے پاگل ہورہا تھا اور اسی حیرت میں ییٹھک کی
طرف چل دیا۔۔ بیٹھک میں خراٹوں کی آوازیں گونج رہیں
تھیں اور گھپ اندھیرا تھا۔۔ میں نے تھوڑی دیر اندھیرے
میں دیکھنے کی کوشش کی تو کزن کی چارپائی نظر آگئی
جہاں رضائی میں سے زور دار خراٹے گونج رہے تھے ۔۔ میں
نے اسے زور سے ہالیا اور جگانا چاہا تو اس کی نیند میں
ڈوبی آواز آئی "او یار سونڑ دے صبح مج وی چونڑی اے"
(او یار سونے دو صبح بھینس کا دودھ بھی دھونا ہے) میں
نے دوبارہ سے اسے جگایا اور یاد دالیا کہ ابھی تم تھوڑی دیر
پہلے باہر کھڑے تھے مجھ سے باتیں کررہے تھے اب اچانک
کیسے سوگئے۔۔ لیکن وہ نیند سے پاگل تھا دوبارہ سے
سوگیا۔۔ میں اسی کشمکش میں چارپائی پر آکر لیٹ گیا کہ
ایک لڑکی ایک دم میری نظروں سے غائب ہوگئی اور پھر
وقت کا اتنی تیزی سے گزر گیا ،انہی سوچوں میں کب رات
گزری اور صبح صادق ہوگئ پتہ نہیں چال۔۔ اگلے روز شادی
کی کوئی رسم تھی۔۔ اور دو دن بعد بارات تھی۔۔ میں ان دو
دنوں میں گاؤں میں گھومتا رہا اور گھر میں شادی کی
رسمیں دیکھتا رہا لیکن وہ نقاب پوش لڑکی کہیں نظر نہیں
آئی۔۔ میں حیران تھا کہ اس لڑکی کو زمین کھا گئی یا
آسمان۔۔ آخر وہ کونسی بال تھی۔۔ پھر باآلخر وہ مجھے نظر
آگئی۔۔ بارات والے دن ہم صبح صبح اٹھ گئے اور تیاری کرنے
لگ گئے کیونکہ گاؤں اور پنجاب کے شہروں زیادہ تر شادیاں
دن کے وقت ہوتی ہیں۔۔ ہم تیار ہو کر بارات لے کر نکل گئے۔۔
میں دولہا کی گاڑی میں بیٹھا تھا۔۔ اور پیچھے پیچھے باقی
گاڑیاں بالترتیب چل رہی تھیں۔۔ ہماری گاڑی نہر کے کنارے
سے گزر رہی تھی کہ اچانک ڈرائیور نے گاڑی ایک جھٹکے سے
روک دی۔۔ غالبا گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔۔ دولہا کی گاڑی
رکنے کی وجہ سے پیچھے کی ساری گاڑیاں اور بارات بھی
رک گئی۔۔ میں گاڑی سے باہر آکر دھوپ سینکنے لگا کہ اچانک
مجھے نہر کے دوسرے کنارے پر ایک لڑکی نظر آئی جس کی
پشت میری طرف تھی۔۔ اس لڑکی نے فینسی جوڑا پہنا ہوا
تھا اور میں حیران ہوا کہ وہ لڑکی وہاں کیا کررہی ہے کیونکہ
نہر کی دوسری طرف تا حد نگاہ کھیت ہی کھیت تھے اور
اس کے آس پاس کوئی انسان بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔
اچانک اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا تو میں اچھل پڑا کیونکہ
یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نے مہندی کی رات دیکھا تھا
لیکن آج وہ لڑکی نقاب کے بغیر تھی اور میں نے اسے اسکی
آنکھوں سے پہچان لیا تھا۔۔ اچانک پیچھے سے ہارن کی آواز
آئی۔۔ دیکھا تو گاڑی کا ٹائر تبدیل ہوچکا تھا اور سب مجھے
آوازیں دے رہے تھے۔۔ میں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔
دوبارہ نہر کے پار دیکھا تو وہ لڑکی غائب ہوچکی تھی۔ اللہ
اللہ کرکے ہماری بارات دلہن کے گاؤں پہنچی اور ہم پیدل
دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں مختلف
جگہوں سے ہوتے ہوئے باآلخر ہم دلہن نے گھر پہنچے تو آگے
دودھ پالئی کی رسم کے لیے اور بارات کے استقبال کے لیے
لوگ کھڑے تھے۔۔ اچانک میری نظر اس لڑکی پر پڑی تو میں
ہکابکا رہ گیا۔۔ دودھ کا گالس پکڑے وہی نقاپ پوش لڑکی
کھڑی تھی۔
03067007824
03247700346
دودھ کا گالس لیے بارات کے انتظار میں کھڑی وہ لڑکی وہی
تھی جسے میں دو بار غائب ہوتے دیکھ چکا تھا ،دولہا کو
دودھ کا گالس دیتے ہوئے اس نے جب کن انکھیوں سے میری
طرف دیکھا تو میرے جسم پر جیسے چیونٹیاں رینگنے لگی۔۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی تھوڑی دیر پہلے نہر
کے کنارے نظر آرہی تھی پھر یہاں کیسے پہنچی۔۔ نکاح۔۔۔
کھانا۔۔ ساری تقریب گزر گئی لیکن میرا ذہن صرف اس بات
کی طرف پھنسا رہا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔ شام سے پہلے ہم
رخصتی کے بعد گاؤں واپس پہنچے۔ گھر واپس آنے کے بعد
سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔ میں صحن سے متصل
برآمدے میں اپنے کزن کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک پیچھے
سے مجھے میری امی نے آواز دی کہ اندر آؤ سب تمہیں بال
رہے ہیں۔۔ میں اندر گیا تو دولہا دلہن سمیت سب بیٹھے ہوئے
تھے اور میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔ میں حیران ہوا کہ سب
مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں تو پتہ چال کہ شادی کے بعد
ایک رسم ہوتی ہے کہ گھر میں سب سے چھوٹا بچہ یا کم
عمر دیور کو دلہن کی گود میں بٹھایا جاتا ہے۔ اور دلہن پھر
بچہ کو کچھ پیسے دیتی ہے۔۔ گوکہ میری عمر اس وقت -12
13سال تھی میں بچہ تھا لیکن مجھے یہ رسم پسند نہیں
آئی اور میں کمرے سے باہر نکل آیا۔۔ میرے ذہن میں اب تک
وہ لڑکی پھنسی ہوئی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ
وہ سب کیا تھا۔۔لیکن اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ وہ لڑکی
دلہن کے گاؤں سے ہے۔ اگلے روز ولیمہ تھا۔۔ مہمان آتے رہے اور
میں اس لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ اچانک کسی نے میرے کان
میں سرگوشی کی۔۔۔ " مجھے دریا کے پاس آ کر ملو" میں نے
ہڑبڑا کر پیچھے دیکھا تو وہی لڑکی مجھے دور جاتی دکھائی
دی۔۔ میں فورا اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔۔ وہ لڑکی مجھ
سے آگے آگے چل رہی تھی۔۔ اور اسکی رفتار اتنی تیز تھی
جیسے ہوا میں اڑ رہی ہو۔۔ گاؤں کا دریا ایک یا ڈیڑھ کلو
میٹر کے فاصلے پر تھا۔۔ وہ دریا کے کنارے جا کر رک گئی۔۔
میں نے ارد گرد دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔۔ سردیوں
کے دن تھے اور شام ڈھلنے کو تھی۔۔ اس وقت دریا کے پاس
بندہ نا بندے کی ذات۔۔ میں تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔۔ وہ
دریا کی سمت منہ کیے آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔۔ جیسے
ہی میں اس لڑکی کے نزدیک پہنچا تو اس کے لب ہلنا شروع
ہوگئے۔ " تمہیں پتہ ہے میں تمہاری ہم زاد ہوں اور میں چاہتی
ہوں کہ تمہیں اپنی دنیا میں لے جاؤں۔۔ تمہیں میری دنیا بہت
اچھی لگے گی" اس لڑکی کی بات سن کر میں کچھ کہنا ہی
چاہتا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر دریا میں چھالنگ
لگادی۔۔ اس نا گہانی آفت کے لیے میں ہرگز تیار نہیں تھا میں
نے چیخنے کی کوشش کی لیکن پانی کے اندر میری آواز نہیں
نکلی۔۔ اچانک اس لڑکی نے مچھلی کا روپ اختیار کرلیا اور
اس نے دائیں بازو پر زور سے کاٹ لیا۔۔ درد کی شدت سے
میں نے چالنا چاہا لیکن میری آواز نہیں نکلی۔۔۔میں نے ہاتھ
پاؤں مارنے کی بہت کوشش کی کہ پانی سے نکل آؤں لیکن
پھر آہستہ آہستہ میں ہوش کھوتا گیا اور بے ہوش ہوگیا۔۔
___ _____ مجھے جب ہوش آیا تو میرے سر میں ٹیسییں
اٹھ رہی تھیں اور جسم کو جھٹکے سے لگ رہے تھے۔۔ میں نے
آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو میرے سر پر سبز رنگ کی
چھت تھی اور جسم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے تھے۔۔ اچانک
میرے کانوں میں مختلف آوازیں آنے لگ گئیں۔۔۔ " گرم انڈے
گرم انڈے" "ملتان کا خالص سوہن حلوہ کھا کر دیکھو اسکا
جلوہ" "مونگ پھلی والے مونگ پھلی والے" میں نے آنکھیں
کھول کر دیکھا تو میں ٹرین میں تھا اور میں گھر والے اس
پاس موجود تھے۔۔ میری بہن اور بھائی لڈو کھیل رہے تھے۔۔
پاس ہی میری کزن نازی اپنے ہاتھ چہرہ اور خراب کیے
چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی۔۔ میرے بڑے بھائی ناول
پڑھنے میں مصروف تھے۔۔ میری امی میرے سرہانے آنکھیں
بند کیے بیٹھی تھیں۔۔ غرض یہ کہ میرے سارے گھر والے جو
شادی میں آئے تھے وہ سب موجود تھے ۔ مجھے سمجھ نہیں
آئی کہ میں گاؤں سے ٹرین میں کیسے آیا۔۔ میں نے اٹھنے کی
کوشش کی تو میری امی فورا آٹھ گئیں اور سب گھر والے
میری طرف متوجہ ہوگئے۔۔ میں نے امی سے پوچھا کہ ہم
ٹرین میں کیسے آگئے ہم تو شادی میں تھے۔۔ میری بات سن
کر امی نے پیار سے کہا "بیٹا ابھی تم لیٹے رہو تمہاری طبیعت
ٹھیک نہیں ہے " "نہیں امی میری طبیعت اب بہتر ہے۔ آپ
بتائیں ہم ٹرین میں کیسے آئے۔۔ میں جب بے ہوش ہوا تھا
اس دن ولیمہ تھا۔۔ اس کے بعد آج آنکھ کھل رہی ہے" میری
بات سن امی حیرت زدہ رہ گئیں۔ "بیٹا تم ولیمہ میں کب
شریک ہوئے ؟؟ تم تو مسلسل بے ہوش تھے۔