Professional Documents
Culture Documents
CHAy
CHAy
بادام کی چائے
میرے ایک دوست نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا جس کے استعمال
سے انہیں تبخیر معدہ اور عینک دونوں سے نجات مل گئی۔
صبح شام چائے بناتے وقت بجائے دودھ کے اکیس عدد باداموں
کو پانی میں پیس کر اس میں شامل کریں۔ سرد مزاج والے چینی
کی بجائے شہد کا اضافہ کر لیں اور حسب دستور چائے بنا کر
استعمال کریں۔ غذا کی غذا اور دوا کی دوا۔
لیموں کی چائے
یورپ اور امریکہ میں عرصۂ دراز سے عام چائے میں دودھ کی
بجائے لیموں اور برف ڈال کر پینے کا رواج ہے۔ اعصابی
کمزوری کے لیے یہ بے حد مفید ہے۔ اگر برف ڈالے بغیر چائے
میں لیموں نچوڑ کر گرم گرم مریض کو پال دیں تو ان شاء ہللا
درد سر فوری طور پر دور ہو گا۔
ادرک کی چاۓ
موسم سرما میں سخت سردی کا مقابلہ ادرک کی چائے سے
بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ ادرک وٹامن سی ،میگنیشیئم اور
دوسرے معدنیات سے بھرپور ہونے کے باعث صحت کے لیے
بہت مفید ہے۔
چائے بنا لینے کے بعد اس میں کالی مرچ ،شہد اور لیموں شامل
کرکے ادرک کے ذائقے کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ادرک کی چائے پینے کے متعدد فوائد ہیں جو کئی بیماریوں سے
بچاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
سونف کی چائے
ہلدی کی چاۓ
برگد کی چائے
کیکر کی چائے
پیپل کی چائے
گندم کی چائے
کھجور ہمارے پیارے نبی صلی ہللا علیہ و سلم کے پیارے وطن
کا تحفہ ہے۔ اسے بطور چائے ناشتہ کے وقت استعمال کر کے
دیکھئے۔ یہ تمام مضرات سے پاک اور غذائیت سے بھرپور ہے۔
موسم سرما میں معمول بنا لیجئے۔ ماء اللحم اور وٹامنز کی کمی
محسوس نہیں ہو گی۔ کھجور عمدہ -قسم ۷عدد لے کر اسے
ٹکڑے ٹکڑے کریں اور پیالہ بھر پانی میں ڈال کر آگ پر پانچ
منٹ تک کھوالئیے۔ بعد ازاں اتار کر اچھی طرح پھینٹ لیجئے
اور دوبارہ جوش دے کر مناسب مقدار میں دودھ شامل کر کے
نوش جان فرمائیے۔ اس کی گٹھلیوں کو بھی ضائع نہ کریں۔ وہ
کافی کے لیے کام آ سکتی ہیں۔ گٹھلیوں کو لوہے کے تابہ پر
رکھ کر نیچے آگ جالئیں اور کسی کھرچنے وغیرہ سے اُلٹتے
جائیں۔ جب یہ جلنے کے قریب ہو جائیں تو اتار کر باریک پیس
لیں اور بطور کافی استعمال کریں۔
السی کی چائے
تلسی کی چائے
ناریل کی چاۓ
ترپھلہ کی چائے
جوالئی ۱۹۳۰ء میں وید دھجا رام نے اپنی زیر ادارت شائع
ہونے والے طبی رسالے امرت پٹیالہ میں چائے کے مضر اثرات
اور اس کے بدل کے طور پر ترپھلہ کی چائے پر ایک مضمون
شائع کیا تھا ،جو ہندی زبان میں تھا۔ اس کی تلخیص پیش خدمت
ہے۔ چائے پہلے پہل دل ،دماغ اور دیگر اعضائے جسمانی میں
کسی قدر اکساہٹ پیدا کرتی ہے مگر جوں ہی اس کا اثر زائل
ہوتا ہے تمام اعضاء بالکل سست پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ
چائے کا عادی انسان بار بار چائے پی کر ہی کام کرنے کے قابل
ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر چائے کے صرف ایک بدل کا ذکر کرنے
لگا ہوں جو چائے سے بدرجہا بہتر ہے۔ میری مراد ترپھلہ سے
ہے۔ ترپھلہ کے معنی ہیں تین پھل یعنی ہرڑ ،بہیڑہ ،اور آملہ۔ ان
تینوں دواؤں کو آیورویدک کے عالم رسائن کا درجہ دیتے ہیں
یعنی ہر مرض کا تریاق۔ اس کے استعمال سے دائمی قبض،
بدہضمی ،کھٹے مٹھے ڈکار آنا ،دائمی نزالہ ،دائمی سر درد ،پیٹ
میں ہوا بھرنا ،تبخیر معدہ -،نیند نہ آنا ،کھانسی ،ابتدائی دمہ،
اونچا سننا ،دماغ اور آنکھوں کی کمزوری ،خونی اور ابدی
بواسیر ،آنتوں کا دق ،ہسٹیریا ،پاگل پن ،وسواس ،وہم ،جنون،
گردہ ،تلی اور جگر کے امراض۔ گردہ اور مثانہ کی پتھری ،ان
سب بیماریوں کے لیے اکیلی یہ چائے مفید ہے۔ عالوہ ازیں
بالوں کو قبل از وقت سفید ہونے سے بھی روکتی ہے۔ بحالت
تندرستی اس کا استعمال بہت ساری وبائی بیماریوں سے بچائے
رکھتے ہے خصوصا ً وبائی نزلہ انفلوئنزا اور ملیریا کی وبا کے
دنوں میں اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ نیز وہ لوگ جو
کسی نشہ کے عادی ہوں مثالً بھنگ ،چرس ،افیون وغیرہ۔ اس
چائے کے عوض ان بد عادتوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر
آدمی وطن چھوڑ کر کہیں چال گیا ہو اور وہاں کی آب و ہوا
موافق نہ ہو تو اس چائے کے پینے سے وہاں کی آب و ہوا
راس آ جائے گی۔ نسخہ درج ذیل ہے۔ ہرڑ ،بہیڑہ ،آملہ کا چھلکا
برابر برابرلے کر موٹا موٹا کوٹ لیں اور بوقت ضرورت اس میں
سے چھ ماشہ لے کر آدھ سیر پانی میں پکائیں۔ جب آدھا پانی
باقی رہ جائے تو چھان کر تھوڑا سا دیسی گھی کڑکڑا کر لونگ
یا زیرہ سیاہ کا بگھار دے کر چائے میں ڈالیں اور بقدر ضرورت
نمک مال کر چائے کی طرح نوش کریں۔ موسم گرما ہو تو چھ
ماشہ سفوف ترپھلہ مٹی کے کورے کوزے میں ڈال کر آدھ سیر
پانی میں بھگو کر رات پڑا رہنے دیں۔ صبح اس کو آگ پر دو
چار جوش دے کر اتار لیں اور پن چھان کر نمک شامل کر کے
پئیں۔
بدو شعور میں جبکہ میری عمر بمشکل بارہ تیرہ سالمیرے ِ
تھی یہ بیماری وباء کے طور پر پھیلی۔ غالبا ً ۱۹۱۶ء کی بات
ہے۔ میں ان دنوں مدرسہ خیر العلوم سرسہ ضلع حصار میں
تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے ہمیں رخصت
دے دی گئی۔ اپنے گاؤں روڑی پہنچا تو گھر کے گھر اوندھے
پڑے تھے۔ اور یہ خدا کی عجیب مصلحت تھی کہ ہر گھر میں
ایک دو آدمی اس موذی مرض سے بچے ہوئے تھے جو تمام
گھر والوں کی تیماری داری کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے گھر میں
صرف والد بزرگوار تندرست تھے جو گھر میں صاح ب فرش
مریضوں کی خبر گیری اور دارو درمن کر رہے تھے۔ مرض کا
حملہ اس شدت کا تھا کہ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں بھی
روزانہ دسیوں اموات ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد متعدد -مرتبہ
اس مرض کا حملہ ہوا ،مگر اب یہ جن کافی حد تک قابو میں آ
گیا ہے۔ اس مرض کو زیر دام النے کے لیے جو تدابیر کارگر
ثابت ہوئیں۔ ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک
نسخہ بیان کیے جانے کے قابل ہے جو دورہ مرض میں بفضل
ایزدی مفید ثابت ہوا ہے۔ اور وبا کے زمانہ میں اگر تندرست
افراد کو یہ چائے صبح شام پالئی جائے تو وہ اس کے حملے
سے محفوظ -رہتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ چائے بدمزہ
ہرگز نہیں بلکہ بے حد لذیذ اور پسندیدہ مشروب ہے۔
بھنگرہ سفید عام ملنے والی بوٹی ہے۔ پانی کے کنارے چھوٹے
چھوٹے سفید پھولوں کی شکل میں ہر جگہ مل جاتا ہے۔ اسے
سایے میں خشک کریں اور روزانہ ایک ماشہ پتیاں ایک کپ
چائے کے حساب سے حسب دستور چائے تیار کریں۔ اگر شہد
میسر ہو تو چینی کی جگہ استعمال کریں۔