Professional Documents
Culture Documents
عشق کی نہیں ہے کوئی ذات
عشق کی نہیں ہے کوئی ذات
2
تھیں......جس وجہ سے وہ سفید
مکھڑا ذرا سا سرخ ہو رہا تھا۔
اس شخص کی شخصیت ایسی تھی کہ
مجھے ہمیشہ یہ ہی لگتا کہ وہ کسی
سلطنت کا شہزادہ ہے.......اس نے
چہرے پر ہاتھ پھیرے اور جھک کر
شاپر اٹھایا اور مٹھیوں میں ڈھیروں
پھول بھر کر قبروں پر بکھیرنے لگا
تھا......میں نے آج سوچ لیا
تھا......اس سے وہ سوال پوچھ ہی
لوں جو پیچھلے ایک سال سے میرے
دماغ میں گھوم رہا تھا۔
وہ پلٹا اور آنکھوں پر گالسز چڑھاتے
ہوئے قبرستان سے نکلنے لگا۔ میں
3
نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کی تھی
تب تک وہ اپنے بائیک پر سوار ہو
چکا تھا۔
اس کا دھیان شاید کہیں اور تھا تبھی
بائیک کو جیسے ہی اس نے موڑ
کاٹنے کے لیے گھمایا وہ سیدھی
میری گاڑی میں جا لگی تھی۔
وہ ایک دم جیسے ہوش میں آیا اور
تیزی سے بائیک پر سے اترا۔
"اوہ ایم سو سوری "......مجھے گاڑی
کی جانب بڑھتا دیکھ وہ معزرت خواہ
انداز میں بوال۔
4
میں نے آگے بڑھ کر گاڑی کو دیکھا
لیفٹ ڈور کافی ڈیمج ہو چکا تھا ،میں
نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی
جانب دیکھا۔
"ایم سو سوری محترمہ! "......اس
نے شرمندگی کا اظہار پھر سے کیا۔
"اٹس اوکے جو ہونا تھا ہو گیا۔" میں
نے اطمینان سے کہتے ہوئے آنکھوں
پر گالسز چڑھا لیے۔
"نہیں نہیں .....چلیں میں آپ کی گاڑی
ریپیئر کروا دیتا ہوں۔"
"اس کی ضرورت نہیں"......
5
"پلیز میڈم!.....چلیں۔" وہ میری بات
کاٹتے ہوئے تیزی سے بوال۔
"ٹھیک ہے۔" میں ہار مانتے ہوئے کہا۔
"آپ میرے ساتھ آ جائیں ،بائیک وہاں
شاپ میں پارک کر دیں۔" وہ اپنی
گاڑی کی جانب بڑھنے لگا تو میں نے
کہا وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اثبات
میں سر ہالتا بائیک پر سوار ہو گیا۔
میں بھی ڈرائیونگ سیٹ کی جانب
بڑھی تھی۔
وہ شاپ پر بائیک روک کر باہر نکال
تھا تب تک میں نے بھی شاپ کے باہر
بریک لگائی۔
6
وہ دروازہ کھول کر گاڑی میں سوار ہو
چکا تھا.......
میں نے خاموشی سے گاڑی آگے
بڑھائی۔
اس نے بھی کوئی بات نہیں کی
تھی.......
"کم از کم ایک دن لگے گا.....کل گاڑی
لے لیجیے گا۔" میکینک نے کہا۔
اس نے میری جانب دیکھا۔
"نہیں میں آج کہیں جا رہی ہوں.....کل
میرا وہاں پہنچنا ضروری ہے
پلیز......میں شور کوٹ سے ہی
7
ریپئرنگ کروا لوں گی اتنا بڑا نقصان
نہیں ہے۔" میں نے کہا۔
"گل چاچا! میری ہوتی تو خیر تھی
مگر ان کی گاڑی ہے تو ابھی ریپئر
کرنی پڑے گی۔" وہ میکینک کو نرمی
سے کہہ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے بیٹا!....دو ،تین بجے تک آ
کر لے جائے گا۔" وہ سر اثبات میں
ہالتے ہوئے بولے۔
"شکریہ چاچا!" وہ س
دھیمی سی مسکراہٹ لیے کہہ کر پلٹا۔
"دو تین بجے تک میں کہاں رکوں
گی؟" میں پریشان سی ہو کر بڑبڑائی۔
8
9
"یہاں آپ کا گھر نہیں ہے؟" وہ شاید
میری بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔
"نہیں ".....میں نے سوچا اب جھوٹ
بولنے سے کیا فایدہ؟......کیوں گناہ
کمانا.....
"دراصل لوگ کہتے ہیں نا کہ الہور
بہت خوبصورت ہے......اسی لیے میں
الہور کی خوبصورتی کو نزدیک سے
دیکھنے آتی ہوں.....اور کچھ کہانیاں
ڈھونڈنے "....میں نے سینے پر ہاتھ
لپیٹتے ہوئے سامنے روڈ کو دیکھا تھا۔
10
کچا کچ سڑک گاڑیوں سے بھری ہوئی
تھی.....
"کہانیاں؟" اس نے چونک کر میری
طرف دیکھا۔
"جی۔ ایکچلی میں سوشل میڈیا رائٹر
ہوں.....میں اپنی ویب سائٹ کے لیے
ایک سچی کہانی ڈھونڈ رہی ہوں جو
بہت مختلف ہو.....میرے خود کی پیدا
کی گئی کہانیوں سے بھی ہٹ کر کچھ
سچی کہانیاں.....مگر"....
میں نے سرد سی آہ بھری۔
"مگر ایک سال ہو چال ہے.....ہر ماہ
دو مرتبہ یہاں آتی ہوں پر نہ تو مجھے
11
PDF LIBRARY 0333-7412793
الہور کی خوبصورتی نظر آئی اور نہ
ہی کوئی سچی کہانی۔"ٹھنڈی آہ بھر کر
کہتے ہوئے رس ًم سہ مسکراہٹ لیے
اس کی جانب دیکھا۔
"یہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں اگر آپ
چاہیں تو وہاں سامنے کافی بار ہے
وہاں بیٹھ جاتے ہیں جب تک آپ کی
گاڑی ریپئیر نہیں ہو جاتی۔" اس نے
میری بات سننے کے بعد کہا۔
اس نے محسوس کر لی تھی میری
الجھن.....ہر آتا جاتا گھور رہا تھا۔اور
ایک عورت کی عزت کس طرح کی
جاتی ہے اسے معلوم تھا.....مجھے وہ
اچھے خاندان سے لگ رہا تھا کیونکہ
12
کوئی بھی موالی یا راہ چلتا کسی
عورت کو گھورنے والوں کو نوٹ نہیں
کرتا......بلکہ وہ خود دیدے پھاڑ کر
دیکھنے لگتا ہے۔
میں نے اثبات میں سر ہالیا اور اشارہ
سرخ ہونے پر ہم نے روڈ کراس کیا۔
کوفی بار میں داخل ہوتے ہی ایک
پرسکون اور خنکی بھرے ماحول نے
خوش آمدید کہا تھا۔
وہ میرے بیٹھنے کے بعد کرسی کھینچ
کر خود بھی بیٹھ گیا تھا۔
"میں آپ کو الہور کی خوبصورتی تو
نہیں دکھا سکتا کہ مجھے خود بھی اب
13
نظر نہیں آتی۔" یہ کہتے ہوئے اس کی
آواز میں درد اترا تھا۔
"ہاں مگر سچی کہانی ضرور سنا سکتا
ہوں ،اگر آپ کو پسند آئی تو لکھ
دیجیے گا نہیں تو.....چلو ابھی تو وقت
گزرے گا نا۔" اس نے گالسز اتار کر
میز پہ رکھتے ہوئے کہا۔
"سچی کہانی؟ کس کی ہے....؟ آپ
کی؟" میں نے آنکھوں میں چمک لیے
پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے نفی میں
سر ہالنے لگا۔
"یہ میرے ڈیڈ کی کہانی ہے۔ جاوید
نواب کی "......اس کے لہجے میں باپ
کے لیے بےپناہ محبت تھی۔
14
"نواب؟ یعنی آپ نواب خاندان سے
ہو......مجھے لگا ہی تھا کہ آپ
جاگیروں والی کیٹاگری میں سے ہیں۔"
مجھے اپنی سوچ پر ناز ہوا تھا مگر
جب اس نے نفی میں سر ہالیا تو
مجھے حیرانگی ہوئی۔
"میرے ڈیڈ جاگیردار تھے......میں
نہیں ہوں۔" اس نے دھیمی سی
مسکراہٹ لیے کہا۔
"مطلب؟"
"اب کہانی سناتا ہوں اگر سب کچھ
شروع میں بتا دیا تو سارا سسپنس
خراب ہو جائے گا۔" اس نے ایک دم
کسی منجھے ہوئے لکھاری کی مانند
15
کہا تھا کہ وہ کہانی کا سسپنس برقرار
رکھنا چاہتا ہے.....مجھے بےساختہ
ہنسی آ گئی۔
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟"
"ایکچلی میری کاوشوں میں سسپنس
بہت ہوتا ہے.....جب قسط وار پوسٹ
کرتی ہوں تو ریڈز پوچھتے ہیں یہاں
کیا ہو گا ،یہ کیا ہوا ،کیا ہونے واال ہے
تو میں کہتی ہوں یہ سسپنس ہے اسی
لیے اس راز کو میں نہیں بتا سکتی۔ آج
یہ میرے ساتھ ہو گیا۔" میری بات پر
وہ مسکرا دیا۔
16
"آپ کہانی اسٹارٹ کریں۔" میں نے
ریسٹ واچ پر ٹائم نوٹ کرتے ہوئے
کہا۔
دس بج رہے تھے......
وہ گال کھنکھارتے ہوئے سیدھا ہو
بیٹھا۔
جاوید نواب....نواب خاندان کا اکلوتا
سلجھا ہوا لڑکا تھا.......پورے خاندان
اور باہر اگر کوئی اچھائی کی مثال دیتا
تو جاوید کا نام ضرور شامل ہوتا تھا۔
بےجا پیسہ دولت ہونے کے باوجود وہ
ایمان کی راہ پر گامزن تھا.....اس نے
برائی کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی کبھی
17
نہیں دیکھا تھا اور یہ سب مسٹر اینڈ
مسز نواب کی اچھی تربیت کا نتیجہ
تھا......
کالج الئف سے ہی وہ اپنی پرکشش
پرسنیلٹی کی بدولت کئی لڑکیوں کے
دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔
برادری اور پھر اس کی یونیورسٹی کی
کئی کئی لڑکیاں اس کے لیے دل ہاتھ
پر لیے گھومتی ہوتی تھیں جنہیں وہ
ایک نظر کرم کی نہیں بخشا....کیونکہ
اس کا گول بینکنگ تھا.....بینک میں
عالی شان پوسٹ پر جاب کرنا اس کا
خواب تھا جو اس کی محنت کی بدولت
تعبیر کو پہنچا تھا۔
18
زندگی ایک دم اپنے ٹریک پر چل رہی
تھی۔
وہ صبح منہ اندھیرے واک پر جاتا
واپس آ کر جم کرتا پھر نماز ادا کر کے
ناشتہ کرتے ہوئے بیکنک چال
جاتا......شام کو گھر لوٹتا.....سب کے
ساتھ بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتا مگر
اکثر وہ دیر ہو جانے کی وجہ سے تنہا
ہی کھانا بھی کھاتا تھا پھر الئیبریری
جا کر کوئی کتاب کی ورک گردانی
کرنے کے بعد آفیس کا کام کرنے کے
بعد سو جاتا۔
نو پارٹی.....نو میوزک.....نو
شوخی.....وہ ایک سنجیدہ شخص تھا
19
مگر اپنے ہم عمر کزنز کے درمیان وہ
کھسکا ہوا کہالتا تھا۔
"یار جاوید!.....تم ہر بار مجھے ٹال
دیتے ہو۔ مگر آج تو تمہیں میری پارٹی
میں آنا ہی پڑے گا۔" اس کا کولیگ
ناصر بھرپور اصرار کر رہا تھا۔
"یار میں پارٹیز وغیرہ سے چڑھتا
ہوں تم جانتے تو ہو۔"
"اس مرتبہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا،
تمہیں آنا ہی پڑے گا۔" اس نے مزید
اصرار کیا تو وہ بےدلی سے مان گیا۔
ناصر کی پارٹی بہت شاندار تھی،الن
میں باربی کیو بن رہے تھے اور
20
سوئمنگ پول کے پاس مشروبات چل
رہی تھیں.....وہاں ہی زیادہ بھیڑ بھی
تھی سب لڑکے لڑکیاں کچھ ہی دیر میں
ٹلی ہو کر جھومنے لگے تھے وہ
ٹھنڈی آہ بھر کر الن کی جانب آ گیا۔
وہاں اب محض باربی کیو بنانے واال
ادھیڑ عمر شخص کھڑا تھا۔
"سر! آپ لیں گے؟" اس نے جاوید کو
ایزی چیئر پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر
پوچھا۔
"ضرور......سپائیسی سی بنائیں۔" وہ
مسکراتے ہوئے بوال تو باربی کیو واال
پرجوش ہو کر اثبات میں سر ہالتا
بوٹیاں سیکھوں پر لگانے لگا۔
21
اس نے لیمن جوس سے لطف اندوز
ہوتے ہوئے اپنی جینز کی جیب میں
سے فون کھینچ کر نکاال تھا۔
آج بہت دنوں بعد اس نے اپنی فیسبک
آئی ڈی اوپن کی تھی۔
کسی گروپ کے نوٹیفکیشن شو ہو
رہے تھے غیر ارادہ طور پر اس نے
ان کو کھوال۔
وہاں کسی لڑکی پر کوئی لڑکا بےہودہ
کمنٹ کر رہا تھا جب درمیان میں دوسی
لڑکی نے کودتے ہوئے کمینٹ کیا تھا۔
"اگر وہ یہاں تم لوگوں سے گپیں
ہانکنے کی خواہش لے کر آتی ہے تو
22
تم لوگ یہاں کیوں آتے ہو؟ محترم
سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ تم خود
اس قسم کے انسان ہو تو اسی لیے
دوسروں کے متعلق بھی ایسا ہی سوچ
رہے ہو .....ضروری نہیں کہ ہر کوئی
اتنا فری ہوتا ہے جو تم جیسے لوگوں
سے گپیں ہانکے۔اور ہاں فیس بک پر
لڑکیاں اپنے فیک نام سے موجود ہوتی
ہیں کیا معلوم کہ یہ تمہاری بہن ہو؟
چلو تمہاری نہیں تو کسی کی تو ہو
گی......مگر ہے تو بہن نا۔عورت کی
عزت کرنا سیکھو۔"
وہ کمنٹ پڑھ کر بےساختہ ہنسا تھا۔
23
وہ لڑکی اس لڑکے کو بالک کر چکی
تھی۔
"رمی خان۔" جاوید نے زیر لب بڑبڑایا
تبھی وہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ ہو چکی
تھی۔
یہ تو شکر تھا وہ رمی خان کی پروفائل
اوپن کر چکا تھا۔
ٹائم الئن پر تین مہینے پہلے کی پوسٹ
تھی۔
اس کی فیسبک پر کوئی پرائیویسی
نہیں تھی اور محض ایک دو پوسٹ
لگی ہوئی تھیں جو چیبی کارٹونوں کی
تھیں۔
24
"فیک ہو گی۔" جاوید نے فیسبک بند
کرتے ہوئے فون ایک جانب ڈال دیا کر
باربی کیو سے لطف اندوز ہونے
لگا۔کچھ دیر وہاں ہی تنہا بیٹھے رہنے
کے بعد وہ اٹھ کر نشے میں مست
ّٰللا حافظ کہتا وہاں
جھوم رہے ناصر کو ہ
سے نکل آیا تھا۔
گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی تھی جب فون
پر نوٹیفکیشنز کی بیل ہوئی۔
"رمی خان ایکسیپٹڈ یور ریکوئسٹ۔"
یہ پڑھتے ہی اس کا پاؤں بریک پر جا
لگتا مگر وہ حیرانگی سے سنبھل کر
نکال۔
25
"میں نے اسے ریکوئسٹ کب سینڈ
کیں؟" وہ ہمکالمی کرتے ہوئے ایک
نگاہ فون پر ڈال چکا تھا۔
"ان فرینڈ کر دوں کیا؟" اس نے سوچا۔
"نہیں وہ کیا سمجھے گی کہ میں نے
کیوں کیا؟" نفی میں سر جھٹک کر ونڈ
سکرین پر نگاہیں جما دیں۔
"یار جاوید وہ فیک ہے......اگر ریل
میں بھی ہو تو کیا ضرورت ہے اس
کے متعلق اتنا سوچنے کی؟" وہ فون
ساتھ والی سیٹ پر ڈال چکا تھا۔
26
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا دل آج
عجیب سی بچگانہ حرکت کرنے پر
اسے اکسا رہا تھا۔
مگر وہ نفی میں سر ہالتے ہوئے خود
کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ کمینٹ کرنے کے بعد ڈیٹا آف کرتی
فون بستر پر ہی رکھ کر خود واشروم
کی جانب بڑھ گئی تھی۔
شاور لے کر جب لوٹی تو س کی
دوست ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ
لیے اس کے فون کو چھیڑ رہی تھی۔
27
"رامینہ! ادھر آؤ یہ دیکھو کتنا ہینڈسم
ہے یہ بندہ اففف "......اسے دیکھتے
ہی انیلہ نے ایک آہ بھر کر کہا۔
"تمہیں تو سامنے واال انکل شفیق بھی
ہینڈسم لگتا ہے"........
"مگر حیرانگی اس بات کی ہے کہ
تمہیں ریکوئسٹ آئی ہے اس ہینڈسم
بندے کی......ذرا دیکھ تو سہی یار کیا
پرسنلٹی ہے۔" انیلہ نے اس کی اپلوڈ
فوٹوز سکرول کرتے ہوئے پھر سے
تعریف کی تھی۔
"تم کیا ٹھرکی لڑکوں کی طرح شروع
ہی ہو گئی۔چھوڑ فون اور چلو میرے
28
ساتھ شاپنگ کے لیے۔" وہ اس سے
فون کھینچ چکی تھی۔
تبھی سکرین پر جاوید نواب کی
پروفائل روشن ہو گئی تھی۔
رامینہ کا ہاتھ نگاہوں کے سامنے
ساکت ہو چکا تھا۔
سفید ڈریس شرٹ جس کے اوپر نے دو
بٹن کھول رکھے تھے ،آستینوں کو
فولڈ کیا ہوا،نیوی بیلو جینز زیب تن
کیے ہوئے تھاسیاہ بال فلو سٹائل میں
کھڑے تھے ،سوہنے چہرے پر بال کی
سنجیدگی لیے وہ کرسی پر بیٹھا تھا
دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑے
تھوڑی تلے ٹکائے ہوئے تھا......
29
رامینہ کا دل اچانک سے دھڑکا
تھا ......آج سے پہلے اس نے اپنے
دل کی دھڑکنیں اس طرح سے
بےترتیب ہوتی نہیں سنی تھیں وہ بھی
کسی لڑکے کو دیکھ کر۔
انیلہ ریڈی ہونے کب کی جا چکی تھی
اور وہ بےاختیار ہی بیڈ پر بیٹھتی چلی
گئی۔
بیڈ پر لیٹتے ہوئے وہ سونے ہی واال
تھا کہ دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔
"کر دوں میسج؟" دل نے بےقرار ہو
کر استفسار کیا۔
30
"نہیں نہیں....شیٹ اپ یار جاوید!" اس
نے خود کو ٹوکا۔
"یار وہ لڑکی بھی ہو سکتی ہے۔"
"فیک کے چکروں میں پھنس جاؤ گے
پھر مجھے نے کہنا۔" دماغ نے آگے
بڑھ کر دل کا منہ بند کروایا۔
"وہ لڑکی ہی ہے ،میسج کر کے پوچھ
لیتا ہوں نا۔"
"تف ہے تم پر جاوید؛ آج یہ دن بھی
دیکھنا تھا کہ تم .....جاوید نواب ایک
فیسبک پر انجان لڑکی سے بات کرنے
کو بےچین ہو گے۔ اور پتہ نہیں وہ
31
لڑکی بھی ہے یا نہیں۔" دماغ نے طنز
کا تیر چالیا۔
"تم تو رہنے ہی دو....کبھی اسے
میری بھی سن لینے دیا کرو۔" دل
غصے سے بھڑکا۔
"ہاں ہاں.....اگر آج یہ تمہاری سنتا
ہوتا تو اتنا قابل نہ ہوتا۔" دماغ گرم ہوا۔
"اففف تم دونوں خاموش رہو۔" جاوید
نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے
اس دل و دماغ کی جنگ کو ختم کیا۔
ّٰللا کا نام لے کر میسج
فون اٹھایا اور ہ
بھیج دیا۔
32
"ہائے۔" رامینہ کے فون پر میسج
وصول ہوا تو وہ جو لیپ ٹاپ پر آفیس
ورک کر رہی تھی فون اٹھا کر دیکھنے
لگی۔
"جاوید نواب! "....نام پڑھتے ہی اس
کا دل ایک دم سے دھڑکا۔
"نہیں رمی! ڈونٹ ٹیکسٹ ہم".......
ادھر بھی وہ ہی دل و دماغ کی جنگ
عروج پر پہنچی مگر پھر بھی جیت دل
کی ہوئی۔
"ہائے".....
اور اس ایک "ہائے" سے شروع ہوئی
یہ کہانی.....
33
پھر لیپ ٹاپ ایک جانب پڑا تھا اور وہ
بالکنی میں جا بیٹھی۔
"آپ لڑکی ہو؟ نہیں بس ویسے پوچھ
رہا ہوں....برا نہیں مانیے گا۔"
جھجکتے ہوئے استفسار کیا گیا۔
"الحمدہلل۔" رامینہ ہنستے ہوئے ٹائپ
کرنے لگی۔
اس ایک رات کی گفتگو نے دونوں کے
ہی خیاالت ایک دوسرے کے متعلق بدل
گئے تھے وہ دونوں ہیلو ہائے والے
دوست بن گئے تھے۔
34
اس کے بعد دونوں اکثر و بیشتر بات
چیت ہوتی رہتی پہلے اچھے دوست
پھر بات محبت تک پہنچ گئی تھی۔
"رمی! اگر برا نہ مانو تو ایک بات
کہوں؟" وہ گاڑی کے فونٹ پر لیٹا
تاروں سے بھرے آسمان کو دیکھ رہا
تھا۔
"کہو نا؟" دھیمی سی مسکراہٹ لیے
وہ اپنے لیپ ٹاپ پر اس کی فوٹو کو
ہی دیکھ رہی تھی۔
"ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تقریبا ً
تین مہینے ہو گئے ہیں.....مجھے
پہلے تمہاری باتیں اچھی لگتی تھیں،
پھر تمہاری آواز سنی تو وہ اچھی
35
لگنے لگی اور تمہاری سیرت بھی
مجھے پسند ہے.....میں چاہتا ہوں کہ
اب میں تمہاری صورت بھی دیکھ
قدر جھجھکتے ہوئے بوال لوں۔" وہ ِ
تھا۔
"اگر صورت اچھی نہ لگی تو؟ پسند نہ
آئی تو؟" اس نے اپنی ہنسی دباتے
ہوئے استفسار کیا ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ
میں اپنی تصویروں کا فولڈر کھوال۔
"میں تمہاری صورت سے محبت نہیں
کرتا رمی! مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم
جیسی بھی ہو....بس میں چاہتا ہوں کہ
جب مجھے خواب آئے تو تمہارا چہرہ
دکھائی دے.....اب جو چاند مجھے
36
محض چاند لگتا ہے جب تمہاری
صورت دیکھ لوں گا تو اس میں مجھے
تم دکھائی دو گی۔" وہ محو سا بوال۔
"بس بس زیادہ باتیں مت بناؤ پیکچر
بھیجی ہے۔ دیکھ لو۔" اس ۔ے ہنستے
ہوئے کہا تھا۔
جاوید نے بےحد تیزی سے واٹس ایپ
چیٹس کھولیں۔
تصویر دیکھتے ہی وہ خاموش ہو گیا
تھا .......ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ
اس حسن کے شہکار کو فرصت میں
تکنے لگا۔
37
یہ موٹی موٹی غالفی آنکھیں ،پھول کی
پنکھڑیوں جیسے باریک و گالبی
لب.....دھان پان سی رامینہ کی تصویر
دیکھتے ہی وہ اس پر مزید فدا ہو گیا
تھا۔
"جاوید!.....ہیلو مجھے سن رہے
ہو؟"
"ہ ہاں.....ہوں ہوں۔" وہ پلکیں جھپک
کر اس سحر سے نکال تھا۔
"کیا ہوا؟ پسند نہیں آئی کیا میں؟"
"کیا بات کر رہی ہو رامینہ! .....تمہیں
کون ناپسند کر سکتا ہے ،تم ہر لحاظ
سے پرفیکٹ ہو۔میں تو سوچ رہا تھا
38
کہ ".....اس نے شریر لہجے میں
کہتے ہوئے بات اُدھوری چھوڑی۔
"کہ؟"
"کہ ہمارے بچے تم پر جائیں۔"
اس کی بات پر وہ شرماتے ہوئے
مسکرا دی تھی۔
"ہے سنو رمی! ہم شادی کر لیتے
ہیں۔" جاوید نواب کی بات پر اس کی
مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"ش شادی؟" حلق میں کچھ اٹکا۔ ادھر
وہ اس کی اس الجھن پر حیران ہوا۔
"ہاں شادی ،کیا ہوا تم ایک دم سے
پریشان کیوں ہو گئی ہو شادی کی بات
39
پر؟" اس نے اچھنبے سے استفسار
کیا۔
"ک کچھ نہیں۔ اچھا بعد میں بات کرتے
ہیں مجھے نیند آ رہی ہے۔" کہتے ہی
کال کٹ کر دی۔
وہ ہونقوں کی مانند فون کو دیکھ کر
رہ گیا۔
جاوید اس کے بدلتے رویوں سے
پریشان تھا......وہ جب بھی پیار محبت
کی بات کرتا رامینہ گڑبڑا کر فون رکھ
دیتی۔
اس کے دل میں کئی وسوسے پیدا
ہونے لگے.....
40
"کہیں رامینہ محض ٹائم پاس".......
"نہیں جاوید!......کوئی اور وجہ ہے
اس کے گریز کی۔مگر کیا؟" وہ کیفے
بار میں تنہا بیٹھا مسلسل سوچوں کی
زد میں تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے فون پر رامینہ کا
نمبر ڈائل کیا۔
"اسالم علیکم!.....میں دوبئی آ رہا ہوں
ایک آفیس میٹنگ کے سلسلے میں اگر
آ سکتی ہو تو آ جانا۔ مل کر بیٹھ کے
بات کرتے ہیں۔" اس نے جب کال نہیں
اٹھائی تو جاوید نے وائز میسج بھیج
دیا۔
41
انگلینڈ کے نہایت بلند عمارت والے
بینک کے دسویں فلور پر وہ وال کے
پاس پریشان سی کھڑی تھی۔
"میں اتنا آگے کیسے بڑھ آئی.......جب
کہ اپنے گھر والوں کے متعلق اچھے
سے جانتی ہوں۔" سوچ پر بھی
آسودگی چھائی ہوئی تھی۔
"کیا بات ہے حسینہ.....اتنی اپ_سیٹ
کیوں ہو؟" انیلہ نے اسے شانا مارتے
ہوئے کہا اور اس کے سامنے آ کھڑی
ہوئی۔
"جاوید مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے
انیلہ!" اس نے فکرمندی سے کہا۔
42
"وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ظاہری
سی بات ہے اب وہ شادی ہی کرے گا
نا۔" انیلہ اطمینان سے گویا ہوئی۔
"تم جانتی ہو نا میرے بھائی نہیں مانیں
گے۔"
انگلیاں پٹختے ہوئے وہ رو دینے کو
تھی۔
"تم نے جاوید کو بتایا کہ تمہاری فیملی
آؤٹ آف کاسٹ شادی کے سخت خالف
ہے؟"انیلہ کے استفسار پر اس نے نفی
میں سر ہالیا۔
"بیوقوف لڑکی۔ اسے بتاؤ ،وہ مرد کے
اور مرد بہت ہمت والے ہوتے
43
ہیں۔رمی! وہ تمہیں بےپناہ چاہتا ہے
تمہارے لیے کچھ بھی کر گزرے گا۔"
"میں یہ ہی تو نہیں چاہتی نیلی!
بےموت مارا جائے گا وہ۔ کاش میں
یہاں تک نہ آتی......مگر پتہ نہیں کس
طلسم نے مجھے یہاں تک پہنچایا
ہے۔" وہ سخت جھنجالہٹ میں مبتال
تھی۔
دل میں سناٹے چھائے تھے کہ جس
زیر اثر وہ کچھ مہینوں سے خواب کے ِ
تھی شاید وہ ٹوٹ گیا تو....؟
"اس شخص کی محبت نے۔"
44
"وہ دوبئی جا رہا ہے ،اس نے مجھے
بھی بالیا ہے....میں نہیں جاؤں گی۔"
"پاگل ہو گئی ہو کیا؟ کیوں نہیں جاؤ
گی؟" انیلہ چالئی۔
"یار کیا کہوں گی اس سے؟ ہمارا ساتھ
بس یہاں تک کا ہی تھا اب ہمارے
راستے الگ ہیں کیونکہ ہمارے خاندان
میں آؤٹ آف کاسٹ شادی کی اجازت
نہیں ہے؟"اس نے کہا تو انیلہ ہنس
دی۔
"یہ کہہ پاؤ گی؟" وہ برا ِہ راست اس
کی نم آنکھوں میں جھانکتے ہوئے
بولی۔
45
رامینہ نے بےاختیار نفی میں سر ہالیا۔
"تو پھر جاؤ اور اس سے بات
کرو.....اپنی پوزیشن کے متعلق
سمجھاؤ.....اور مل بیٹھ کر کوئی حل
نکالو۔یوں گریز کرنے سے سیچوایشن
مزید بگڑ سکتی ہے۔"
"بھائیوں کو معلوم ہو گیا تو؟" وہ ڈر
سے بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
"میں سنبھال لوں گی۔ چلو اب جیجو
کو ٹیکسٹ کر کے بتاؤ کہ تم دوبئی آؤ
گی۔"اس نے آخری فقرہ شریر لہجے
میں کہا تو رامینہ روتے روتے ہنس
دی۔
46
پھر اسے ٹیکسٹ کرنے لگی۔
جاوید اس کا جواب سن پر بہت خوش
ہو گیا تھا۔
وہ آج اس سے برج خلیفہ ملنے آ رہی
تھی .....جاوید بےحد خوش تھا تو
دوسری جانب اس کا دل تو خوشی سے
جھوم رہا تھا جبکہ تھوڑا بہت ڈر بھی
تھا۔
اس کا پسندیدہ رنگ یعنی سفید.....وہ
پہن کر اب آئینے کے سامنے کھڑی
الئٹ میک کر رہی تھی۔
47
وہ بھی دوسری جانب خود پر کلون کا
چھڑکاؤ کرتے ہوئے ساتھ ساتھ گنگنا
بھی رہا تھا۔
ہوٹل سے نکل کر اس نے سب سے
پہلے ایک جگہ سے فریش فالورز کا
بکے لیا ساتھ میں چاکلیٹس بھی خرید
لی تھیں۔
رات کا وقت تھا اور اس وقت برج
خلیفہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔
دونوں مخالف سمتوں سے چلتے ہوئے
ایک دوسرے کے سامنے آ رکے تھے۔
"اسالم علیکم!" جاوید کی نگاہیں اس
پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی
48
تھیں .....زندگی میں اس نے اتنی
حسین لڑکی آج تک نہیں دیکھی تھی۔
"و علیکم السالم! تھینک یو۔" رامینہ
جھجھکتے ہوئے اس کے ہاتھ میں
سے بکے تھامتے ہوئے بولی۔
"چلیں؟" سر جھکا کر ہاتھ کے اشارے
سے اسے چلنے کا کہتے ہوئے وہ
مسکرایا تھا۔
رامینہ نے آنکھیں بھر کر اسے ایک
نظر دیکھا تھا....دل تھا کہ اتنی زور
سے دھڑک رہا تھا....وہ نروس سی
اس کے ہمراہ چل دی۔
یہ ایک عالیشان فوڈ پوائنٹ تھا۔
49
روف ٹاپ تک جاتے ہوئے جاوید اتنی
ڈھیر ساری باتیں کر چکا تھا جبکہ وہ
محض ہوں ہاں ہی کر رہی تھی۔
اس کے لیے جاوید نے کرسی پیچھے
کی تو وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر بیٹھ
چکی تھی۔
وہ بھی اس کے سامنے جا بیٹھا۔
"کیا لو گی تم؟" وینو کارڈ پر نگاہ
ڈالتے ہوئے بوال۔
"نو نو.....کچھ بھی نہیں۔ مجھے
بھوک نہیں ہے۔"
"اتنا فورمل ہونے کی ضرورت
نہیں .....میری ہونے وی وائف ہو،
50
ایزی ہو جاؤ یار.....چلو بتاؤ کیا آرڈر
کروں۔" وہ نارمل سے انداز میں بوال۔
اسے مجبورا ً کچھ آرڈر کرنا ہی پڑا تھا۔
"جاوید! آپ مجھ سے واقع ہی شادی
کرنا چاہتے ہیں؟" وہ جھجھکتے ہوئے
استفسار کر رہی تھی ،جاوید نے
چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے رامینہ؟" وہ اب
سنجیدہ ہو چکا تھا۔
"جاوید! ہماری فیملی میں باہر شادی
وہ بھی لو میرج کرنا سخت ناپسند کیا
جاتا ہے۔ میرے پانچ بھائی ہیں اور سب
کے سب بہت غصے والے ہیں....
51
ہمارے متعلق معلوم ہوا تو وہ تمہیں
مار ڈالیں گے۔"
اس کی بات پر جاوید چند پل اسے
سنجیدگی سے دیکھتا رہا پھر ہنسنے
لگا۔
"تم قدم واپس کھینچنا چاہتی ہو؟"
رازدارانہ انداز میں پوچھا گیا۔
رامینہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے
ہوئے بےاختیار نفی میں سر ہالنے
لگی۔
"میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہی
مگر"......
52
"مگر کی ٹینشن نہیں لو تم.....میں بات
کروں گا تمہارے بھائیوں سے۔" اس
نے اطمینان سے کہتے ہوئے کوٹ کی
جیبوں کو ٹٹول کر ایک مخملی ڈبی
نکالی۔
"ہمارے خاندان میں بھی یہ رواج ہے
کہ باہر شادی نہ کی جائے.....مگر میں
یہ رواج توڑنا چاہتا ہوں۔اور سب سے
بڑی بات.....تم سے محبت کرتا ہوں،
مجھ میں ہمت نہیں ہے اپنی پہلی محبت
کو کھونے کی۔"
وہ اس کی نگاہوں میں برا ِہ راست
جھانکتے ہوئے سچائی سے بھرے
لہجے میں کہہ رہا تھا۔
53
رامینہ نے پلکیں رخساروں پر گرا لی
تھیں۔
"ہاں اگر تم مجھے کھونے کی
صالحیت رکھتی ہو تو ".....وہ
سنجیدگی سے کہتے کہتے رک گیا۔
"تو تم جا سکتی ہو میں کبھی نہیں
روکوں گا .....کیونکہ میں زور
زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔" اس نے
ٹھنڈی آہ بھر کر کہا تھا۔
رامینہ کئی پل سوچتی رہی۔
"وہ ایک اچھا انسان ہے ،اچھا ہمسفر
بھی ثابت ہو گا۔"
دل نے کہا تھا۔
54
آرڈر آ چکا تھا اور وہ مسلسل ناخن چبا
رہی تھی۔
"اتنا سب کچھ سامنے پڑا ہے اور تم
ناخن چبا رہی ہو۔" جاوید نے
مسکراتے ہوئے کہا۔
"جاوید! آپ میری پریشانی کیوں نہیں
سمجھ رہے؟ آپ کو کھانے کی پڑی ہے
اور یہاں میں کتنی پریشان ہوں۔" وہ
ناراضگی سے گویا ہوئی۔
"دیکھو مائی لو.......یہ پریشانی والی
بات ہرگز نہیں ہے۔تم بس یہ سوچو کہ
ہم ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور
ضرور ایک ہو جائیں گے۔" جاوید نے
اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
55
تھا.....رامینہ کی جان اس ہاتھ میں
سمٹ آئی تھی ،چہرے پر شرم کی اللی
بکھر گئی۔
جاوید اسے بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
اس نے کئی مرتبہ اپنے گھر والوں
سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ان
کا ہر مرتبہ یہ ہی جواب ہوتا کہ خاندان
سے باہر شادی نہیں ہو گی۔
"مگر رامینہ بہت اچھی لڑکی ہے۔" اس
نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
"وہ لڑکی یا ہم......یہ تمہارا فیصلہ ہو
گا جاوید!"......
56
والد صاحب نے سختی سے کہا تھا اور
وہ لب بھینچے ان کی سختی دیکھتا
رہا۔
پھر پیر پٹختا وہاں سے ہٹ گیا۔
دوسری جانب جب رامینہ نے اپنی والدہ
سے بات شیئر کی تو ان کا ری ایکشن
بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
"بھول جاؤ اس بات کو کہہ تمہاری
شادی کہیں اور ہو گی ،شکر خدا کا
تمہاری کسی بھابھی نے یہ بات نہیں
سن لی نہیں تو اس گھر میں آج طوفان
ہی برپا ہونا تھا۔ آئندہ میں تمہارے منہ
سے ایسی کوئی بکواس نہ سنو۔" ماں
نے سرگوشی کرتے ہوئے لتاڑا تھا۔
57
ماں کے جاتے ہی اس نے مایوسی
سے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر چیت گر
گئی۔
دل اتنا بےچین ہو رہا تھا کہ خودبخود
ہی آنسو بہنے لگے۔
"جاوید کے بنا جینے کے متعلق ہم
ّٰللا میں
سوچ بھی نہیں سکتے.....یا ہ
کیا کروں؟" اضطرابی کیفیت میں
مخروطی انگلیاں پٹختے ہوئے وہ سوچ
رہی تھی کہ اسی پل جاوید کی کال
موصول ہوئی۔
"جاوید!......گھر والے نہیں مانیں
گے ".....وہ روتے ہوئے بولی تھی۔
58
دوسری جانب وہ پیشانی مسلتے ہوئے
بوجھل سی سانس بھر کر رہ گیا۔
"دیکھو رامینہ! پہلے رونا بند کرو
یار!".....
"جاوید! آپ کتنے کٹھور ہیں.....مجھے
اور میری حالت کو سمجھ کیوں نہیں
رہے؟ کیا آپ کو کچھ سمجھ میں نہیں آ
رہا کہ میرے گھر والے ہم دونوں کے
لیے راضی نہیں ہوں گے؟ ".....وہ اس
کی بات کاٹتے ہوئے چالئی تو وہ مبہم
سا مسکرا دیا۔
"میں سمجھ رہا ہوں جان!.......مجھے
تمہاری سیچوایشن کے ساتھ ساتھ اپنی
بھی نظر آ رہی ہے مگر تم پہلے رونا
59
تو بند کرو یار۔ تم جب روتی ہو تو میرا
دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔" وہ گھمبیر
لہجے میں کہتے ہوئے اس کے کانوں
میں رس گھول رہا تھا۔
رامینہ نے بہت کوشش کے بعد
آنسوؤں کو روکا۔
"ہو گئیں چپ؟"
"ہوں"......
”“That my girl.
جاوید نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
"تم ایسا کرو صبح کی فالئٹ پکڑو اور
دوبئی آ جاؤ۔ میں بھی آج ہی نکل رہا
ہوں۔ مل کر اس مسئلے پر بات کرتے
60
ہیں۔" اس نے کہا تو رامینہ کچھ بھی
نہ بول سکی۔
وہ بھی تو اس سے ملنا چاہا رہی
تھی .....تصویروں سے انسان کا دل
بہلتا تو اس کے پاس کئی تصویریں
تھیں جاوید کی مگر جب سے وہ
دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے
آئے تھے دونوں جانب محبت کی آگ
مزید بڑھی تھی۔
اگلے دن رات کو ہی وہ جہاں پہلے دن
ملے تھے اسی جگہ.....اسی ٹیبل پر
ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے
تھے۔
61
"آنکھیں کیوں سجا رکھیں ہیں رامینہ
خان؟" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں
جھانکتے ہوئے نرمی سے گویا ہوا۔
"تمہیں تو جیسے پتہ ہی نہیں ہے؟"
وہ پھر سے رو دینے کو ہو چکی تھی۔
"میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر یہ
آنسو کیوں؟ کیا مجھ پر یقین نہیں
ہے؟"
"وہ بات نہیں ہے جاوید! مجھے ڈر
لگ رہا ہے.....دونوں فیملیز نہیں
مانیں تو........؟" وہ خوف میں مبتال
تھی۔
62
"میری محبت پر یقین رکھو ،ہم کبھی
جدا نہیں ہوں گے .....ہمارے اسالم نے
بھی پسند کی شادی کی اجازت دی
ہے۔" وہ دھیمی آنچ دیتی آواز میں بول
رہا تھا۔
"جاوید! میں آپ کے بغیر رہ نہیں پاؤں
گی.....اگر گھر والے نہیں مانے تو
میں نے خودکشی کر لینی ہے مگر
کسی اور سے شادی کبھی نہیں".....
وہ جذباتی ہو رہی تھی۔
"رامینہ!....پلیز....اب ایسی باتیں تو
مت کرو.....اور ہمارے گھر والوں نے
ہم سے یہ ہی ڈیمانڈ کی ہے نا کہ یا وہ
یا ہم.....یہ تو نہیں کہا کہ ایک دوسرے
63
کو چھوڑ دیں۔" اس نے پرسوچ انداز
میں کہا۔
"میں سمجھی نہیں؟" وہ حیرانگی سے
بولی۔
"چلو بتاتا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"کہاں جانا ہے؟" گاڑی میں اس کے
برابر کی سیٹ سنبھالتے ہوئے بولی۔
"یہاں کی ریت اس وقت ٹھنڈی ہوتی
ہے ،نگے پاؤں چلنے میں مزہ آتا
ہے۔" وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے
گویا ہوا اور پھر مسکرا دیا۔
"تم کیا کہہ رہے تھے؟"
64
"ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ....دیکھو
ہمارے گھر والوں نے کہا ہے یا ایک
دوسرے کو بھول جائیں یا گھر والوں
کو۔"
"ہوں تو؟"
"تو ہم ان کی نظروں میں ایک دوسرے
کو فلحال بھوک جاتے ہیں مگر کچھ
عرصہ بعد پھر بات کریں گے.....نہ
مانے تو پھر .....ٹرائے کرتے رہیں
گے کبھی تو مان ہی جائیں گے نا۔"
"ہاہا.....بہت اچھا پالن ہے ،رائٹر کیوں
نہیں بن جاتے ".....اس نے مصنوعی
ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔
65
"ایک دم خراب آئیڈیا ہے۔" ایک دم
سنجیدہ ہو گئی تھی۔
"ایک اور آئیڈیا بھی ہے۔" وہ اس کی
جانب ایک نظر دیکھتے ہوئے بوال۔
"ہم شادی کر لیتے ہیں۔"
"واٹ؟" وہ اپنی جگہ پر اچھل پڑی
تھی۔
"اور کوئی راستہ نہیں ہے
رامینہ!.....ہم ایک دوسرے کے بغیر
جی نہیں پائیں گے اور گھر والے کبھی
ایسا چاہیں گے نہیں "......اس کی بات
پر رامینہ ون پرسنٹ متفق تھی۔
66
"جاوید! جب ان کو معلوم ہو گا تو ہمیں
زندہ نہیں چھوڑیں گے۔" وہ خوف زدہ
تھی۔
"جب تک انہیں معلوم ہو گا تب تک ہم
ان کو منا لیں گے۔" اس نے شانے
آچکا کر کہا۔
"دیکھو رامینہ! ہمارا یوں ملنا ٹھیک
نہیں ہے ،ہر انسان کے ساتھ شیطان
ضرور ہوتا ہے.....میں ان مردوں کی
صف میں شامل نہیں ہونا چاہتا جو
محبت کے نام پر عزتوں پر وار کرتے
ہیں۔" وہ صاف گوئی سے کہہ رہا تھا۔
67
"ہمارے درمیان ایک شفاف تعلق ہے
جسے میں شفاف ہی رکھنا چاہتا ہوں۔
اپنی محبت کو گالی نہیں بنانا چاہتا۔"
وہ گاڑی روک چکا تھا اور اب اس کی
جانب دیکھتے ہوئے سچائی بھرے
لہجے میں کہہ رہا تھا۔
"گھر والوں کی عزت؟" وہ لب کچلتے
ہوئے گویا ہوئی۔
"ہم ان کی عزت ہی تو بچا رہے ہیں کہ
گناہ نہیں کرنا چاہتے۔تم وقت لے
لو ......سوچ سمجھ
کر جواب دینا میں انتظار کروں گا۔"
68
وہ اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر
بوال۔
"ہوں۔ یہ فیصلہ بہت کٹھن ہے جاوید!
مجھے اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔"
"مجھے تمہارا ہر فیصلہ منظور ہو گا
جان جاوید!" وہ اس کا ہاتھ تھپک کرِ
گاڑی سے اتر گیا۔
اس کی جانب واال دروازہ کھولتے
ہوئے اس نے اپنا ہاتھ رامینہ کے
سامنے پھیالیا تھا۔
"اگر میں نے شادی سے انکار کر دیا
تو؟" وہ اس کے قدموں کے ساتھ قدم
69
مال کر کیٹ واک کرتی بولی جس پر
جاوید کے قدم سست ہوئے تھے۔
"تو........اس بارے میں سوچا نہیں
ہے۔" وہ اس کا ہاتھ چھوڑ چکا
تھا۔رامینہ کو لگا جیسے اس کے ہاتھ
کو نہ چھوڑا ہو بلکہ جان ہی نکال کر
لے گیا ہو۔
"ہاتھ کیوں چھوڑ دیا؟" وہ خفا خفا سی
بولی ،آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔
"انکار کے بعد میں زبردستی نہیں کر
سکوں گا تو عادت ڈال لو ابھی سے
ہی۔" وہ بوجھل سے لہجے میں گویا
ہوا۔
70
وہ سختی سے لب کچلنے لگی تھی،
چند آنسو رخساروں پر پھسلتے چلے
گئے۔
"آنکھوں سے کچھ مت کہو پلیز۔ یہ نہ
ہو پھر اس بیان سے مکر جاؤ۔" وہ
اسے چھیڑنے کی غرض سے بوال جب
کہ وہ اس کے شانے پر مکے برساتے
ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"یہ کیسی مشکل میں پھنس گئے ہیں
نواب؟.....مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ہم
دونوں سمندر میں غوطہ زن
ہیں....ایک کنارے فیملی ہے تو
دوسرے کنارے محبت "......وہ پیشانی
71
اس کے شانے پر ٹکا کر آنکھیں موند
گئی۔
میٹھی سی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی
تھی ،اس وقت پیروں کے تلے ریت
بہت ٹھنڈی لگ رہی تھی۔
"تو ہم دونوں کو ایک کنارے پر کر لیں
گے نا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ
سب ایک کنارے پر ہو جائے.....مگر
اس کوشش میں تم میرے ساتھ تیرو
گی "......اس کے سر کو تھپکتے
ہوئے نرمی سے گویا ہوا۔
اور پھر ایک دوسرے کی محبت کو
مدنظر رکھتے ہوئے وہ دونوں ایک
فیصلے پر پہنچے تھے۔
72
ویسے تو یہ فیصلہ سماجی نگاہوں
میں غلط تھا مگر ان کی نیت غلط نہیں
تھی......وہ اپنی محبت کو گناہ نہیں
بنانا چاہتے تھے ایک پاک رشتے میں
بندھ جانا چاہتے تھے......
وہ دلہن بنی عروسی جوڑے میں کتنی
خوبصورت لگ رہی تھی ......جاوید
کئی پل اس کو پلکیں جھپکائے بنا
دیکھتا گیا۔
وہ شرم و حیا کی چادر میں چھپتی
گئی۔
"رامینہ! میں نے آج سے پہلے کبھی
اتنی خوبصورت دلہن نہیں دیکھی۔" وہ
73
اس کے سامنے نیم دراز سا بول رہا
تھا۔
"میری منہ دکھائی نکالیں "....وہ اس
کے سامنے اپنا حنائی ہاتھ پھیالتے
ہوئے بولی۔
جاوید ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے
ہاتھ پر رکھ چکا تھا۔
"منہ دکھائی میں ،میں تمہیں اپنا آپ
سونپ رہا ہوں"......
"باتیں نہیں بنائیں......منہ دکھائی
نکالیں۔" وہ اس کے نرم لہجے اور پر
ایک پل کو تو بہکی مگر پھر تیزی
سے بولی۔جاوید قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
74
"ٹھیک ہے جناب ،یہ لیں اپنی منہ
دکھائی۔" اس نے شیروانی کی جیب
میں سے ایک مخملی الل ڈبی نکال کر
اسے پیش کی اور خود اس کی گود
میں سر رکھ کر لیٹ کے آنکھیں مند کر
سینے پر ہاتھ باندھ گیا۔
وہ دبی ایک جانب رکھتے ہوئے بہت
محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں
چالتے ہوئے مسکرائی۔
"آئی لو یو رامینہ!" وہ اس کے ہاتھوں
کو تھام کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے
جذبات سے چور لہجے میں بوال تھا۔
یہ لہجہ پہلے اس نے کبھی نہیں اپنایا
تھا .....آج تو اس کے تیور ہی بدلے
75
ہوئے تھے.....وہ اپنی ساری محبتیں
شدتیں رامینہ ہر نجھاور کر رہا تھا اور
اس ایک حسین رات میں جاوید نواب
کی اتنی محبتوں نے رامینہ کو مزید
خوبصورت اور دلکش بنا دیا تھا۔
"مجھے دکھ ہو رہا ہے رمی! کہ ہم
ایک ہو کر بھی ایک ساتھ نہیں رہ پا
رہے۔" اگلے دن ہی ان دونوں کو اپنے
اپنے والدین کے گھر روانہ ہونا تھا،
ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے ایک دوسرے
کو دیکھتے رہے جب جاوید نے اسے
شانوں سے تھام کر خود سے لگا لیا۔
"میں جلد لوٹ آؤں گا۔اپنا خیال رکھنا۔"
اس کی پیشانی چوم کر کہتے ہوئے وہ
76
اس کی آنکھوں کی نمی انگلیوں کے
پوروں پر چن رہا تھا۔
رامینہ نے بےاختیار ہی اس کے گرد
بازو حائل کیے اور مزہد شدت سے
رونے لگی۔
"ہمارا مقصد اب والدین کو منانا ہے
رمی! اس رشتے کو تو محفوظ کر لیا
اب ان رشتوں کو بھی اس رشتے کے
لیے منانا ہے۔"
"کب آؤ گے؟" رامینہ نے اس کے ہاتھ
کو تھام کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے
بےتابی سےا استفسار کیا۔
77
"جانے تو دو لوٹ بھی جلد ہی آؤں
گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اتنے میں پاکستان کی فالئٹ کا عالن ہو
چکا تھا۔
وہ جیسے ہی پلٹا رامینہ نے اس کا
ہاتھ تھام لیا۔
"میرے پاؤں کی زنجیر مت بنو رمی!
میری مضبوطی بنو۔ اطمینان رکھو میں
لوٹ کر تمہارے پاس ہی آؤں گا۔" وہ
پلٹا اور اس کو ایک مرتبہ پھر سے
خود میں بھینچ لیا۔
78
اس پاس سے گزرتے لوگ ان دونوں
کی دیوانگی کو دیکھ کر مسکرا رہے
تھے
"ا ....اگر تمہارے والدین نے تمہاری
شادی کسی اور سے کروا دی تو؟" وہ
ہراساں سی اس کی جانب دیکھنے
لگی۔
"میں بچہ ہوں جو کر دیں گے؟ یار
ایسے مت ڈرو.....میں صرف تمہارا
شوہر ہوں۔اوکے؟" وہ اس کے ہاتھ پر
بوسا دیتے ہوئے بےاختیار پلٹ گیا تھا۔
پھر رکا نہیں اور پلٹا تو بلکل بھی
نہیں .....کیونکہ وہ اگر رک کر پلٹتا تو
رامینہ خان کے آنسو اسے جکڑ لیتے۔
79
****
بنا اپنی شادی کے متعلق گھر والوں کو
بتائے وہ دونوں ان کو منا رہے
تھے....دونوں نے بہت کوشش کی تھی
کہ گھر والے مان جائیں.....مگر یہ تو
کسی کتاب میں لکھا ہی نہ تھا کہ وہ
لوگ مان جاتے۔
دونوں کے گھر والوں کو ان کی
سرگرمیاں مشکوک لگنے لگی
تھیں....وہ لوگ اب ان کے معاملے پر
غور کر رہے تھے۔
"تمہارا بیٹا کوئی چند ضرور چڑھائے
گا بیگم!....اس سے پہلے کہ وہ کچھ
80
ایسا ویسا کرے ہم اس کی شادی کروا
دیتے ہیں۔" نواب صاحب نے گہری
سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔
"کیسی باتیں کر رہیں نواب صاحب؟
جاوید کیوں بھال کوئی چند چڑھائے
گا ......آج تک اس کی کوئی شکائت
آئی؟ نہیں نا۔" ماں کو اپنے بیٹے سے
بےتحاشا محبت تھی وہ ایک لفظ نہیں
برداشت کر پائیں۔
"اوہ ہو بیگم.....وہ پیچھلے تین
مہینوں میں مجھ سے صرف یہ ہی بات
کرتا آیا ہے کہ....وہ آؤٹ آف کاسٹ
شادی کرنا چاہتا ہے۔کہیں وہ ہم سے
81
چھپ کر شادی نہ کر لے۔" انہوں نے
سنجیدگی سے کہا۔
مسز نواب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی
رہ گئیں۔
"تو پھر ہم کیا کریں؟"
"ظاہری سی بات ہے بیگم کہ کرنی تو
اسے شادی خاندان کی کسی لڑکی سے
ہی ہے۔عمر بھی شادی کی ہو رہی ہے
تو میں سوچ رہا ہوں کہ بھائی جان
سے بات کرتے ہیں جاوید اور نسیمہ
کے رشتے کی۔مگر جاوید کو ابھی اس
بارے میں خبر نہ ہو۔" انہوں نے
رازداری سے کہا۔
82
وہ جو ان کے کمرے میں داخل ہو رہا
تھا دہلیز پر ہی جم گیا۔
دبے پاؤں واپس پلٹ گیا۔
"مجھے پہلے ہی پتہ تھا ایسا ہی کچھ
ہو گا ".....اپنے کمرے میں آ کر وہ ہر
شے تہس نہس کرتے ہوئے کوفت کا
شکار تھا۔
"ساری زندگی میں نے ان لوگوں کا
سر فخر سے بلند رکھنے کے لیے اپنی
ہر خواہش کا گال گھونٹا ......ہمیشہ
خود کو اس چیز سے دور رکھا جو
انہیں پسند نہیں تھی.....مگر میری
خوشیوں کی جب بات آئی تو منہ موڑ
83
لیا۔" وہ صوفے پر گرنے کے سے
انداز میں بیٹھا تھا۔
سر دونوں ہاتھوں میں گراتے ہوئے وہ
رو دینے کو تھا۔
"ٹھیک ہے ابا جان! اب میں بھی
دیکھتا ہوں آپ میری شادی اس نسیمہ
سے کیسے کرواتے ہیں۔" اس نے
سوچتے ہوئے دل ہی دل میں نواب
صاحب کو مخاطب کیا تھا۔
منہ پر ہاتھ پھیر کر پریشانی کے
تاثرات مٹائے۔ لپک کر فون اٹھایا۔
84
"اسالم علیکم سر! دوبئی والی برانچ
میں میرا ابھی بھی ٹرانسفر ہو سکتا
ہے؟"
"و علیکم السالم! ہاں مگر برخوردار
کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ ابھی آپ کو
ٹرانسفر نہیں کروانا .....پاکستان رہنا
چاہتے ہیں؟" سامنے واال شخص
حیران تھا۔
"اب لگ رہا ہے کہ اگر میں یہاں رہا تو
ختم ہو جاؤں گا۔" وہ سوچ کر ٹھنڈی آہ
بھر کے رہ گیا۔
"بس سر ارادہ بدل دیا ہے۔"
85
"ٹھیک ہے۔ کل شام کی فالئٹ ہے.....
آپ ریڈی رہیں۔
"اوکے سر! تھینک یو سو مچ۔" اس
نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔
صبح جب گھر والوں کو معلوم ہوا کہ
وہ اب دوبئی والی برانچ میں جا رہا ہے
تو سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
تھا۔
رامینہ نے بھی اپنا ٹرانسفر کروا لیا
تھا۔
وہ دونوں اب دوبئی میں رہتے تھے۔
ایک شادی شدہ خوشحال زندگی
گزارتے ہوئے۔
86
مگر کہیں نہ کہیں اپنے گھر والوں
سے اتنا بڑا سچ چھپانے کا ریگلیکٹ
بھی تھا......
وہ ہمیشہ سے یہ ہی چاہتے تھے کہ
ایک دوسرے کے ساتھ رہیں مگر
دونوں خاندانوں کو بھی ان کی محبت
کو سمجھنا چاہیے۔
دن سست روی سے چل رہے تھے کہ
ایک دن ان کی رنگوں سے بھری مگر
قدر اداس زندگی میں ایک نئی زندگی ِ
نے سانس لیا.....
رامینہ ماں بننے والی تھی......اور
جاوید اس خوشی میں جھوم اٹھا
تھا.....
87
پہلے پہل تو رامینہ بینک جاتی رہی
مگر جب اس کا پیٹ ذرا نکلنے لگا اور
پرانے کپڑے تنگ ہونے لگے تو
لوگوں نے غور کرنا شروع کر دیا تھا۔
"بینک میں لوگ مجھے مشکوک
نگاہوں سے دیکھتے ہیں جاوید!"
وہ آج بہت زیادہ پریشان تھی اور اس
وقت روتے ہوئے اس سے کہہ رہی
تھی۔
"رمی! تم کل سے گھر پر ہی رہو
گی۔ویسے بھی میری سیلری کافی ہے
گھر چالنے کے لیے۔" جاوید نے اس
کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے
88
نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں
چالنے لگا۔
"جاوید! ہماری فیملیز کو معلوم ہوا
تو......ت تو وہ ہمیں مار دیں گے،
ہمارے بچے کا کیا ہو گا جاوید؟" وہ
خوف زدہ سی اس کی جانب دیکھتے
ہوئے بولی۔
"رمی میری جان!.....ایسا کچھ نہیں ہو
گا۔ٹینش نہیں لو .....ڈاکٹر نے کیا کہا
تھا کہ تمہاری پہلی ڈیلیوری ہے کسی
قسم کی کوتاہی نہیں برتی جانی
چاہیے۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے
ہونٹوں سے لگا کر بوال۔
رامینہ روتے روتے مسکرا دی۔
89
"چلو اب ریسٹ کرو۔ آج میں اچھا سا
ڈنر تیار کرتا ہوں۔" اس کا سر سرہانے
پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
گیاّٰ.....للا
ہ "جاوید! اچھا شوہر تو مل
کرے جلد ہی اچھا سسرال بھی مل
جائے۔" وہ نرمی سے گویا ہوئی۔
"ان شاءہللا ......آخر والدین کو بھی
بچوں کی خوشیوں کا احساس کرنا
چاہیے نا.....ہم جب بچے ہوتے ہیں تب
ہر خواہش پوری کرتے ہیں مگر
جیسے ہی جوان ہوتے ہیں اور کوئی
خواہش کرتے ہیں تو ریجکٹ کر دی
جاتی ہے۔مگر میں بابا جان کو منا کر
رہوں گا۔اور ایک دفعہ میرے گھر والے
90
مان جائیں تمہارے گھر والوں کو تو
منانا بہت آسان ہو گا۔" جاوید نے اس
کی رخسار پر ہاتھ رکھتے ہوئے پر
یقین نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا
تو رامینہ کی طاقت مزید بڑھ گئی۔ وہ
اطمینان سے اس کے ہاتھ پر بوسا
دیتے ہوئے دھیرے سے آنکھیں موند
گئی۔
جاوید کو ابھی بھی لگ رہا تھا کہ سب
کچھ آسان ہے....کچھ نہیں
بگڑا......مگر وہ دونوں ہی اس بات
سے انجان تھے کہ آنے واال وقت کیسا
ہو گا اور کیا ہو گا؟
ننھے شہزادے کی آمد ہوئی تھی۔
91
ان کے گھر کا آنگن کلکاریوں سے
گونج اٹھا تھا ،در و دیوار خوشی سے
جھوم اٹھے تھے۔
اس ننھے شہزادے کا نام انہوں نے
عمران نواب رکھا تھا۔
جاوید کی فوٹو کاپی تھا یہ ننھا سا گڈا
جس میں ان دونوں کی جان بستی
تھی......
دونوں دنیا جہاں سے بےخبر اپنے
شہزادے میں کھوئے رہتے
تھے.....ماں باپ بننے کا ایک الگ ہی
احساس ہوتا ہے جو ہر رشتے سے
افضل ہوتا ہے۔
92
"میرا بیٹا اپنی پسند کی شادی کرے
گا۔ظم کبھی اس کی محبت کی راہ میں
حائل نہیں ہوں گے کیونکہ ہم کبھی
نہیں چاہیں گے کہ وہ ہم سے دور ہو۔"
جاوید نے ایک سالہ عمران کو ہوا میں
اچھال کر کیچ کرتے ہوئے کہا۔
"کیا اول فول سیکھا رہے ہیں میرے
بیٹے کو؟" رامینہ اس کے قریب زمینی
بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
اس وقت وہ لوگ اپنے گھر کی روف
ٹاپ پر بیٹھے تھے۔
رات ہونے کے باوجود روشنی ہی
روشنی تھی وہاں۔کیونکہ آج عمران کی
پہلی سالگرہ تھی۔
93
ٹھیک بارہ بجے انہوں نے کیک کٹ
کیا۔
عمران چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر
پوری روف ٹاپ پر بھاگ رہا تھا ،بلونز
کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ دونوں
بیٹھے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
رامینہ نے سر اس کے شانے پر
ٹکاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
جاوید بنا پلکیں جھپکائے دیکھ تو
عمران کو رہا تھا مگر اس کا دھیان
بھٹک کر اپنے والد کی جانب چال
گیا .....آنکھیں نم ہو گئیں تو وہ سختی
سے لب بھینچ گیا۔
94
"مجھے میرے گھر والوں کی یاد آتی
ہے تو رامینہ تو پھر بہت نازک دل
ہے۔" وہ رامینہ کا سر سہالتے ہوئے
سوچ رہا تھا۔
"ان شاءہللا سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
اس نے خود کو امید دالئی تھی۔
آج انیلہ آئی ہوئی تھی......اور اگر
رامینہ کی جانب سے کسی کو معلوم
تھا تو وہ انیلہ تھی۔
وہ کافی دیر ڈرائنگ روم میں بیٹھی
باتیں کرتی رہی تھیں ......عمران
کمرے میں سو رہا تھا۔
95
"مجھے لگتا ہے جاوید آ گئے ہیں۔ تم
بیٹھو میں انہیں دیکھ لوں۔" قدموں کی
آہٹ پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ارے بیٹھو ک کوئی مالزم ہو گا۔ اور
ویسے بھی جاوید بھائی کو پتہ
ہے....ک کہ میں آئی ہوئی ہوں تو آج
دوپہر کے رومانس کا سیشن نہ بھی
ہوا تو خیر ہے۔" آخر پر اس نے شریر
لہجے میں کہنے کی کوشش کی
تھی.....مگر چہرے کی اڑی ہوائیاں
زیادہ گہری تھیں جن کو محسوس نہ
کرتے ہوئے رامینہ اس کے قریب بیٹھ
گئی۔
96
" تم سے میں اپنی ہر بات شیئر کر کے
ایک دم ہلکی پھلکی سی ہو جاتی
ہوں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے
بولی۔
"سچ میں انیلہ! تم میری سگی بہنوں
جیسی ہو۔"
وہ بول رہی تھی اور انیلہ شرمندگی
سے سر مزید جھکائے جا رہی تھی۔
تبھی عمران کے رونے کی آواز سنائی
دی تھی۔
"میں عمران کو دیکھ لوں۔" وہ اٹھ
کھڑی ہوئی۔
97
ابھی کھڑکی تک ہی پہنچی تھی کہ اس
کی نظر غیر ارادہ طور پر کھڑکی کے
پار پڑی ......اسے لگا وہ اب کبھی
وہاں سے ہل نہیں پائے گی۔ حلق میں
سانسیں اٹک چکی تھیں.....یہ دیکھ کر
کہ اس کا بڑا بھائی ایک ہاتھ میں
عمران کو اٹھائے اور دوسرے میں گن
تھامے سیڑھیاں ہی چڑھ رہا تھا۔
اس نے پلٹ کر انیلہ کو بےیقین
نگاہوں سے دیکھا جو ہاتھ جوڑے سر
جھکائے کھڑی تھی ،اس کا وجود
ہچکیوں کی زد میں تھا۔
"م مجھے معاف کرنا رمی! میں مجبور
تھی ........تمہیں تکلیف نہیں دے
98
سکتی مگر میں بہت مجبور ہوں۔" اس
نے کہا اور آگے بڑھ کر کھڑکی کے
قریب پڑے ٹیبل پر سے واس اٹھا کر
اس کے سر پر ڈے مارا اگلے ہی پل وہ
لہرا کر زمین بوس ہو چکی تھی۔
انیلہ نے تیزی سے آنسو پونچھتے
ہوئے اسے کھینچ کر بیڈ کے نیچے
چھپا دیا تھا۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی....وہ ڈر
کر دو قدم پیچھے ہٹی۔
پھر خود کو کمپوز کرتی دروازے کی
سمت بڑھی۔
99
"کہاں ہے وہ؟ .......آج اسے جان سے
مار ڈالوں گا۔" بھیا نے آگے بڑھ کر
ادھر اُدھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا۔
"وہ باہر گئی ہے....کہہ رہی تھی اسے
ڈاکٹر کے پاس جانا ہے تو"......
"میں تمہیں ساتھ کس لیے الیا تھا؟
تاکہ تم اسے روک کر رکھو۔"
"بھائی! آپ کو تو عمران ہی چاہیے تھا
نا ،ابھی کسی نے دیکھا بھی نہیں تو
ہم چلتے ہیں جاوید کے آنے کا وقت ہو
گیا ہے۔" انیلہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو
پاتے ہوئے کہا۔
100
وہاں سے جانچتی نگاہوں سے
دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہالتا پلٹ
گیا۔
انیلہ بھی اس کے پیچھے تیزی سے
بڑھی۔
"م میرا بچہ وہ.....وہ لوگ لے گئے
جاوید! میرا عمران مجھے ال دو۔" وہ
رو رو کر ہلقان ہو چکی تھی۔
"تمہارے بھائیوں کو معلوم ہو چکا تھا
رامینہ! وہ مجھے فون کر کے
دھمکیاں دیتے رہتے تھے کہ میں
تمہیں طالق دے دوں نہیں تو وہ
مجھے مار ڈالیں گے "......جاوید کے
101
انکشاف ہر رامینہ دل تھام کر رہ گئی
تھی۔
"میں نے بھی ان کی کافی مرتبہ
بےعزتی کی تھی کہ اگر تم میرے ساتھ
خوش ہو تو وہ کیوں تمہاری خوشیوں
کے دشمن ہے......ہم ایک اچھی زندگی
گزار رہے ہیں میں ہر سکھ دے رہا
ہوں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا
چاہیے مگر وہ لوگ باز نہیں آئے
اور ".....جاوید سر تھامتے ہوئے
صوفے پر گرنے کے سے انداز میں
بیٹھ گیا تھا۔
102
"وہ میرے بچے کو کہاں لے گئے ہوں
گے.....اسے ابھی فیڈ کروانا تھا۔" وہ
مزید شدت سے رونے لگی تھی۔
جاوید نے تیزی سے فون نکاال قور
اپنے پولیس آفیسر دوست آرش کو کال
کی تھی .....ٹھیک آدھے گھنٹے تک
وہ گھر پہنچ گیا تھا۔
"بھائی! فکر نہیں کرو ،عمران دوبئی
سے باہر نہیں جائے گا۔ہم اسے ڈھونڈ
لیں گے۔" آرش نے اس کے شانے پر
ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ جاوید کو
کچھ ہمت ملی۔
103
"تم بھابھی کا خیال رکھو ،عمران مل
جائے گا۔" وہ کہہ کر اپنی ٹیم سے
رابطہ کرنے لگا۔
جاوید نے جو اپنے سالے کی تصویر
اسے واٹس ایپ کی تھی اس نے اپنی
ٹیم کو بھیج دی تھی۔
"ایئر پورٹ سے لے کر ریلوے
اسٹیشن تک ہر جگہ چیکنگ کرو۔ یہ
شخص دوبئی سے باہر نہ جانے
پائے۔" وہ کہتے ہوئے کمرے سے
نکل گیا۔
"رامینہ! عمران مل جائے گا ،ہمارے
بیٹے کو کچھ نہیں ہو گا۔" جاوید نے
اس کو سینے میں بھینچے کہا تھا۔
104
آرش نے ہر جگہ چھان ماری
تھی......اور اگلے ہی دن وہ لوگ
عمران کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو
چکے تھے۔
رامینہ دیوانہ وار عمران کو چوم رہی
تھی ......جاوید پرسکون سی
مسکراہٹ لیے بیوی بچے کو دیکھ رہا
تھا۔
"جاوید!.....میری بات سنو۔" آرش نے
اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بھی اس کے
ساتھ ہو لیا۔
"میرے بیٹے کو کسی نے کچھ کیا تو
نہیں؟" وہ عمران کے چہرے کو
105
ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے
بولی۔
"نہیں ماما!" عمران معصومیت سے
کہہ رہا تھا رامینہ نے اسے پھر سے
خود سے لگا لیا۔
" ان کے یہاں کے کرائے والے مکان
پر صرف عمران ہی مال تھا.....تمہارے
پانچوں سالے یہاں ہی موجود ہیں اور
اب انڈر_گراؤنڈ ہو چکے ہیں وہ پھر
سے حملے کی کوشش کریں گے بہتر
ہے تم پاکستان چلے جاؤ۔"
آرش نے بات کا آغاز کیا۔ جاوید
حیرانگی سےا سے دیکھنے لگس۔
106
"مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر
والوں کو جب تمہاری شادی کے متعلق
معلوم ہو گا تو غصے ہوں
گے.....تمہارے پاپا خفا ہوں گے مگر
جب تمہارے پھول جیسے بیٹے کو
دیکھیں گے تو ساری ناراضگی بھول
جائیں گے۔ اور رامینہ بھابھی بھی تو
اتنی اچھی ہے انہیں اعتراض نہیں ہوگا
انہیں اپنی بہو مانے سے۔" آرش نے
ایک نئی امید تھمائی تھی جس پر
جاوید نے غور کیا.......رامینہ سے
مشورہ کیا۔
"مجھے تو اپنے گھر والوں سے کوئی
اچھی امید نہیں ہے جاوید! سوچا تھا
107
کہ مان جائیں گے.....ہاں ہم سے غلطی
ہوئی ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر
شادی کر لی مگر ہم نے کوئی گناہ نہیں
کیا.....ہم اپنی زندگی میں خوش ہیں ،
مطمئن ہیں ......انہیں بھی تو سمجھنا
چاہیے یار۔" رامینہ بہت دکھی تھی۔
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ
یوں کرے گی انیلہ .....بھائیوں سے تو
اسے یہ ہی امید تھی مگر انیلہ؟.....وہ
ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔
اگلے ہی دن وہ پاکستان کے لیے روانہ
ہو چکے تھے۔
108
دل میں ایک نئے امتحان کی تیاری
زیر
کرتے ہوئے اور ڈھیروں خوف کے ِ
اثر انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر
قدم رکھا تھا۔
نواب وال اس وقت طوفانی خاموشی کی
زد میں تھا۔
ہر فرد خاموش نگاہوں سے ان تینوں
کو دیکھ رہے تھے۔
"تم نے کیا سوچا تمہارے اس گناہ کی
پوٹلی کو ہم قبول کر لیں گے؟" نواب
صاحب کی گرج دار آواز پر عمران سہم
کر جاوید کی گردن کے گرد بازو حائل
109
کرتے ہوئے سختی سے آنکھیں موند
گیا تھا۔
"بابا جان! خدا کا خوف کریں ،ہم نے
کوئی گناہ نہیں کیا شرعی نکاح ہے
ہمارا۔" جاوید نے خفگی سے سفید
پڑتے ہوئے کہا تھا۔
"تم سے اب ہمارا کوئی لینا دینا نہیں،
یا اس عورت کو تین لفظ بول کر فارغ
کرو یا اس کے ساتھ ہی الٹے پاؤں
واپس لوٹ جاؤ۔" وہ پشت پر ہاتھ
باندھتے ہوئے رخ پھیر گئے۔
جاوید کے پیروں تلے سے آج پھر
سے زمین سرک گئی تھی۔
110
وہ ہر بار اسے ایسی مشکل میں ڈال
دیتے تھے۔
"بابا جان! میں نے بہت کوشش کی
تھی آپ کو منانے کی......چاہتا تھا کہ
آپ کی رضا مندی سے ہماری شادی ہو
مگر آپ نہیں سمجھے۔ بلکہ چوری
چوری میری منگنی نسیمہ سے
کروانے کی کوشش کی "......اس نے
بےحد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔
"میں رامینہ سے محبت تھا ،کرتا ہوں
اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ اور اسی لیے
میں کبھی بھی اسے دھوکہ نہیں دے
سکتا تھا......میں اسے محبت کر کے
کسی اور سے شادی کی ہمت ہرگز نہیں
111
رکھتا تھا.......اسی لیے مجبورا ً ہمیں
یہ قدم اٹھانا پڑا مگر خدا گواہ ہے ہم
نے کبھی حرام نہیں کیا۔ حالل رشتہ
قائم کیا ہے۔" وہ بول رہا تھا اور سب
سن رہے تھے۔
ماں کا دل چاہا رہا تھا کہ وہ اپنے سفید
و سرخ ،روئی جیسے نرم و مالئم
پوتے کو باہوں میں اٹھا کر خوب
بالئیں لے مگر شوہر کا ڈر ایسا تھا کہ
وہ ترسی نگاہوں سے بٹیے اور پوتے
کو دیکھتیں آنسو بہاتی رہیں۔
"نکل جاؤ اس گھر سے.....اور آئندہ
کبھی ادھر منہ مت کرنا۔مر چکے تم
ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے۔" بابا
112
جان کا دل موم نہیں ہوا تھا.....پتھر کا
مجسمہ بنے اکڑ کر کھڑے تھے۔
رامینہ نے نم آنکھوں سے جاوید کی
جانب دیکھا۔
وہ لب بھینچے اس کا ہاتھ تھامے
واپس پلٹ گیا۔
سامان ابھی گاڑی میں ہی پڑا تھا سو
انہیں یہ بھار نہیں اٹھانا پڑا اپنے وجود
کا بوجھ ہی آج بہت لگ رہا تھا۔
ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ
واپس دوبئی جا سکیں......اور عمران
میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہاں رہ
پائے ......درمیان کا راستہ نکالتے
113
ہوئے وہ اپنے ایک پٹھان دوست کے
ذریعے پشاور میں جا بسا۔
دونوں کی مسکراہٹ غائب ہو چکی
تھی.....اب صرف جی رہے تھے تو
عمران کی خاطر......کچھ اپنوں کی
دوری نے انہیں خاموش کر دیا تھا اور
کچھ اپنے بیٹے کے مستقبل نے......کہ
دونوں کی جاب چھوٹ چکی تھی اور
پشاور میں ابھی انہیں جاب مل نہیں
رہی تھی۔
دن با دن بڑھتے اخراجات نے جاوید کو
بہت پریشان اور سنجیدہ کر دیا تھا۔وہ
جو ہر وقت ہنستا ہنساتا رہتا تھا
خاموش سا ہو گیا تھا۔
114
کبھی کبھی رامینہ اس کی خاموشی پر
رو دیتی تھی۔
"رامینہ! ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے
سے کچھ نہیں ہو گا،اسی لیے ایک دو
لوکل کمپنیز میں انٹرویو دے آیا ہوں
کاؤنٹینٹ کی پوسٹ کے لیے امید تو
ہے مل جائے گی۔"
کھانا کھاتے وقت اس نے کہا تھا۔
رامینہ نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ
تھام لیا۔
"ان شاءہللا۔"
جاوید نے سر اٹھا کر اس کی جانب
دیکھا۔
115
ہر وقت نک سک سے تیار رہنے والی،
اپنا ایک بھی بال ادھر سے ادھر نہیں
ہونے دینے والی رامینہ کے وجود پر
پرانا لباس تھا جس کا پرینڈ بھی مٹ
چکا تھا۔
جاوید کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ دوسرا
نوالہ حلق سے نہیں اتار سکا اور
دسترخوان سے اٹھ گیا۔
کمرے میں بند ہوتے ہی وہ ہونٹوں پر
ہاتھ رکھے رو دیا تھا۔
"میری وجہ سے ہوا ہے یہ
سب......مجھے محبت سے نہیں بلکہ
سختی سے سب کو منانا چاہیے تھا تو
آج حاالت یہ کہ ہوتے۔ میری رامینہ
116
کے وجود پر پرانے لباس .....آگے جا
کر میرے بیٹے کا کیا ہو گا؟" وہ
دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر مزید
شدت سے رو دیا۔
"نہیں میں محنت کروں گا اور پھر سے
ان دونوں کو وی زندگی دوں گا جو وہ
دونوں جی رہے تھے۔" وہ بڑبڑاتے
ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
جاوید نے ان تھک دن رات محنت کی
تھی......رامینہ اور عمران کے اچھے
مستقبل کے لیے وہ ہر مشکل سے گزر
رہا تھا۔
117
اس نے پہلے جاب شروع کی اور ساتھ
ساتھ اپنے پٹھان دوست کے ساتھ مل
کر قالین کا کاروبار شروع کیا۔
جب وہاں سے منافع ہوا تو اس نے
آمدن دوبئی کی ایک بہت بڑی کمپنی
میں انویسٹ کی جس کے سٹک مارکیٹ
ہمیشہ بڑھتے تھے۔
یہ کام اس نے بہت ساری ریسرچ اور
سوچ سمجھ سے کام لیتے ہوئے کیا
تھا۔
اور وہ کامیاب ہوا تھا......
کرائے کے گھر سے بنگلہ ،بنگلے
سے عالیشان کوٹھیاں.....لمبی لمبی
118
گاڑیاں......وہ بینک کی جاب چھوڑ کر
اب سارا وقت اپنے بزنس کو دے رہا
تھا۔
اسی دوران وہ رامینہ سے چوری اس
کے والد سے بھی ملتا رہا تھا کہ وہ
رامینہ کو معاف کر دیں مگر ہر مرتبہ
انسلٹ کروا کر واپس لوٹ آتا پھر بھی
وہ ان کے سامنے اگلی بار موجود ہوتا
تھا اس امید پر کہ وہ معاف کر دیں
گے۔
خاندان کے جو لوگ کبھی اس کی
مخالف کرتے تھے اور نواب صاحب کو
جاوید کے خالف مزید بھڑکاتے تھے
اب چوری چھپے اس سے تعلقات
119
استوار کرنے لگے کہ جاوید دولت و
شہرت کی سیڑھی پر دن با دن آگے
بڑھ رہا تھا.....اپنے اللچی رشتے
داروں کی فطرت جاننے کے باوجود
جاوید کشیدہ پیشانی سے ان سے ملتا
تھا......
عمران اب اسکول جانے لگا تھا۔
زندگی پھر سے حسین ہونے لگی
تھی......ان ہی دنوں جاوید نے الہور
میں جگہ خرید اور وہاں ایک بہت ہی
خوبصورت برٹش ڈیزائن کا بنگلہ بنوا
ڈاال.....وہ چاہتا تھا کہ الہور شیفٹ ہو
جائیں۔
120
"مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ
میں نے آپ کو آپ کے والدین سے
چھین لیا ہے۔" آج اتنے سالوں بعد اس
ٹاپک پر بات ہو رہی تھی۔
وہ جو لیپ ٹاپ پر نگاہیں ٹکائے کوئی
ضروری کام کر رہا تھا چونک کر
سامنے دیکھنے لگا۔
رامینہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نم
آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
چند پل وہ دونوں ایک دوسرے کی
نگاہوں میں دیکھتے رہے پھر جاوید
لیپ ٹاپ بند کر کے اس کے پاس چال
گیا۔
121
"نہیں رمی! یہ ہم دونوں کا مشترکہ
فیصلہ تھا......ہم ایک دوسرے کو
قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔"
"ہاں غلطی تو ہم سے ہوئی ہے۔مگر
میں آج تک نہیں سمجھا کہ یہ ہی
معاشرہ ہے جب مرد کسی عورت کو
دھوکا دیتا ہے تو اسے پتہ نہیں کیا کیا
کہتے ہیں اور اگر وہ ہی مرد عورت کی
حفاظت کرے ،محبت کرنے کے بعد
شادی بھی کرے تو نجانے پھر بھی
کیوں مرد ہی برا کہالتا ہے۔"
"عورت کو کون سا بخشتے ہیں
جاوید!.......ہم چاہتے تھے کہ ہمارا
رشتہ حالل ہو ہم محبت کی آڑھ میں
122
کوئی گناہ نہ کریں.......کوئی نہ مانا
ہماری شادی کے لیے اور جب ہم نے
خود کر لی پھر بھی ہم ہی غلط.....
باغی......کوئی نہیں سمجھا ".......وہ
اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے
آنکھیں موند گئی۔
"اچھا چھوڑو یار! تم اتنی ٹینشن مت
لیا کرو.....اتنی فالتو سوچوں سے بہتر
ہے کہ تم کوئی جاب ہی کر لو بلکہ
مجھے بزنس میں جوائن کرو۔" وہ
ماحول میں چھائی آسودگی کو ختم
کرنے کے لیے شریر لہجے میں بوال۔
"نہ بابا.....مجھ سے نہیں ہو
گا.....میں آپ کے نواب کو سنبھال لوں
123
اور ....نواب کے باپ کو سنبھال لوں
اتنا ہی میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی۔
"نہیں رامینہ! تمہیں بزنس میں انٹرسٹ
لینا ہو گا ......خدا جانے کل کو کیا
ہو......کیا پتہ تمہیں سنبھالنا پڑے سب
تو پھر.......؟"
"مجھے کیوں سنبھالنا پڑے گا یہ
سب ......آپ ہیں نا۔"
"میں کبھی نہیں بھی ہوں گا۔" جاوید
کے منہ سے اچانک ہی نکال تھا رامینہ
خوف زدہ ہو کر سر اٹھائے اسے
دیکھنے لگی۔
124
"ارے کیا ہوا میری جان! میرا مطلب
ہے......میرا دل بھی آرام کرنے کو
کرتا ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بوال تھا۔
"آپ ہمیشہ ہوں گے جاوید! ......آپ
کے بنا تو میرا کوئی وجود ہی نہیں
ہے۔" رامینہ نے اس کے سینے پر سر
ٹکایا تو جاوید نے باہوں کا گھیرا مزید
تنگ کر دیا تھا۔
"تم آج بھی اتنی ہی خوبصورت ہو
جتنی پہلے دن تھی۔" وہ گھمبیر لہجے
میں گویا ہوا تھا۔
رامینہ مسکرا شرما کر اس کی آغوش
میں سمٹ گئی تھی۔
125
وہ لوگ ابھی الہور شیفٹ ہوئے تھے
اور وہ پالن بنا رہا تھا کہ ایک مرتبہ
پھر سے کوشش کرے والد کو منانے
کی کیونکہ باقی گھر والوں سے تعلقات
بہتر ہو ہی چکے تھے......
کہ ایک دن نواب صاحب کی اچانک
موت کی خبر پر جاوید بھونچکا رہ گیا
تھا۔
ہاتھ میں تھاما سیل فون چھوٹ کر
زمین پر جا گرا۔
رامینہ نے بھاگ کر اسے سہارا دیتے
ہوئے صوفے پر بیٹھا دیا تھا۔
126
"ب بابا جان "......مزید اس سے کچھ
بھی بوال نہیں جا رہا تھا۔
رامینہ اس کے چہرے سے ہی اندازہ
لگا چکی تھی کہ کچھ غلط ہوا ہے۔
"بابا جان! اب اس دنیا میں ".....وہ
سختی سے لب بھینچ گیا تھا......رامینہ
نے زندگی میں پہلی مرتبہ اسے روتے
ہوئے دیکھا تھا اور ساتھ خود بھی رو
دی تھی۔
جاوید نے خود کو سنبھاال تھا اور ان
دونوں کے لے کر اپنے والد کے گھر
روانہ ہو گیا۔
127
اسے ہر ایک بات یاد آ رہی
تھی....بچپن سے جوانی تک اور پھر
اسے گھر سے نکال دیئے جانے تک
سب کسی فلم کی مانند اس کی آنکھوں
کے پردے پر چل رہا تھس۔
گالسز کے پیچھے آنکھیں چھپائے وہ
روئے جا رہا تھا۔
اس نے سب کچھ بہت اچھے سے
سنبھال لیا تھا۔
کھانے پینے سے لے کر مہمانوں کے
رکنے تک کا انتظام اس نے کروایا تھا۔
وہ اس قسم کے حاالت میں اپنے گھر
والوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا سو
128
وہ واپس اپنے گھر نہیں گیا.....اس دن
کا رکا پھر وہ ہمیشہ کے لیے اس گھر
میں اپنی بیوی بچے کے ساتھ رہنے
لگا جس گھر میں وہ رہنے کے متعلق
سوچتا تھا۔
مگر اب اسے نواب صاحب کی کمی
چبھتی تھی.....وہ زیادہ تر دیر رات کو
آتا تھا جب سب سو چکے ہوتے.......
عمران کی بھی اپنے کزنز سے بہت
اچھی دوستی ہو چکی تھی.....جو اسے
سر آنکھوں پر بیٹھا کر رکھتے تھے۔
وقت کی ایک ہی تو اچھی بات ہے بہت
تیزی سے گزر جاتا ہے.......بچے
جوان ہو رہے تھے اور جوان بوڑھے۔
129
جاوید آج کل زیادہ وقت فیملی کے ساتھ
گزارتا تھا۔
وہ لوگ گھومنے پھرنے بھی جاتے
تھے۔
زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔
ابھی بھی وہ سب لوگ الہور کے سب
سے مہنگے ترین ہوٹل میں ڈنر کرنے
آئے تھے۔
"چاچو! اور کوئی بھی نہیں ہے؟"
بڑے بھائی کے بیٹے نے حیرانگی
سے استفسار کیا۔
"نہیں مائی سن.....آج میں نے ہوٹل
بک کروایا ہے ،پوری فیملی تھی تو
130
میں نے سکیورٹی کے لیے ایسا کیا۔ تم
لوگ انجوائے کرو۔" وہ اس کی جانب
مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے
بولے بچہ پارٹی وہاں سے ہٹ گئے
تھے۔
باقی سب بھی سیلفیاں اور گپ شپ
کرنے لگے۔
"تم دیکھ رہے ہو ہمارا بیٹا کتنا خوش
ہے۔" رامینہ نے کہا۔
"ہوں۔ ایک منٹ ذرا سائیڈ پر آئیں۔" وہ
مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر
ایک جانب چل دیا۔
131
ایک کمرے میں داخل ہوتے ہی جیسے
ہی اس نے الئٹس روشن کیں پورا
کمرہ روشنی سے نہا گیا۔
ہر جانب فالورز ہی فالورز تھے۔
"جاوید!.....اب اس سب کی کہاں عمر
رہی ہے۔"
"بیگم محبت کی کوئی عمر نہیں
ہوتی۔" وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے
بولے تھے۔
"ہم آج بھی آپ سے اتنی ہی محبت
کرتے ہیں رامینہ خان! جتنی کل کرتے
تھے۔" وہ اس کی پیشانی چوم کر بوال
تو رامینہ مسکرا دی تھی۔
132
"ایک اور سرپرائز ہے۔" وہ کچھ یاد
آتے ہی بوال اور اپنی جیب میں سے
فون نکال کر کوئی نمبر ڈائل کرتے
ہوئے اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"اسالم علیکم انکل! یہ کیں بات کریں
رمی سے "....اس نے کہتے ہی فون
رامینہ کو تھما دیا۔
"پاپا ہیں بات کرو " اس کی سوالیہ
نگاہوں کو پڑھتے ہوئے جاوید نے کہا
تو مارے خوشی کے وہ ہینگ ہو چکی
تھی۔
والد نے اسے معاف نہیں کیا تھا بلکہ
گھر بھی بالیا تھا ......آج سچ میں
133
اسے یوں لگا کہ زندگی اب مکمل ہوئی
ہے۔
مگر کبھی کبھی جو انسان سوچتا ہے
وہ ہوتا نہیں ......کبھی کبھی آزمائش
باقی ہوتی ہے......اور رامینہ کی
آزمائش ابھی باقی تھی۔
اچانک ہی ایک دن جاوید دنیا سے چل
بسے تھے ......رامینہ کا تو تخت ہی
الٹ گیا۔
اپنے محبوب شوہر کو کھونے کی وجہ
سے وہ ایک دم سے چپ سی ہو گئی
تھی.....مانو جیسے پتھر ہو۔
134
جاوید کے کھڑے کیے ایمپائر......
بلڈنگز رفتہ رفتہ نجانے کہاں کیسے
بکتے گئے .....عمران جو کہ یہ سب
دیکھ رہا تھا بےحد پریشان ہو گیا۔
وہ باپ کی موت سے ابھی بلکل بھی
نہیں سنبھال تھا مگر ماں کی اور اپنے
والد کے بزنس کو تباہ ہوتے دیکھ وہ
معصوم اپنی معصومیت سے بڑھ کر
کچھ کر گیا۔
"ماما! میں جانتا ہوں کہ آپ کو ڈیڈ کی
جدائی کا غم ہے......مگر آپ میرے
بارے میں تو سوچیں۔ آپ کے بیٹے کو
آپ کی ضرورت ہے۔"
135
"ماما! میں آپ کے بغیر ادھورا ہوں،
میرا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے
آپ جانتی ہیں نا؟"
اس نے رفتہ رفتہ رامینہ کے بت میں
جان پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھی
تھی ساتھ ہی وہ آرش سے رابطے میں
تھا۔
"آرش انکل! ڈیڈ نے ایک دفعہ مجھے
کہا تھا کہ جب بھی مجھے کسی مدد
کی ضرورت ہو تو میں آپ سے رابطہ
کروں۔ مجھے زیادہ سمجھ تو نہیں ہے
مگر ڈیڈ مجھے اپنے بزنس کے متعلق
بتاتے تھے جو مجھے تھوڑا بہت
136
سمجھ آتا تھا۔" اس نے فون پر آرش
سے کہا تھا۔
"یہاں پاکستان میں تو میں کچھ بھی
نہیں بچا پا رہا کہ میرے ہاتھ میں کچھ
بھی نہیں ہے.....بابا ابھی وصیت بنا
رہے تھے مگر اس سے پہلے ہی وہ
ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر دوبئی
کا جو بھی کاروبار ہے وہ ابھی تک
محفوظ ہے۔ کیونکہ ڈیڈ نے بہت اچھی
کمپنی میں انویسٹ کیا تھا اور ابھی
تک اس کمپنی کو نقصان نہیں ہوا مگر
انکل یہ کوئی سرکاری کمپنی نہیں
ہے "....وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا۔
137
"میں ساتھ میں اپنا بزنس سٹارٹ کرنا
چاہتا ہوں.....پاپا کی طرح "......اس
نے کہا تھا۔
"عمران بیٹا! تم بہت قابل انسان بنو
گے.....تمہاری کہانی بہت انوکھی
ہونے والی ہے۔" آرش نے مسکراتے
ہوئے کہا تھا۔
عمران نے سختی سے لب بھینچ کر
سر جھکا لیا تھا۔
کال کٹ کرتے ہوئے وہ رامینہ کی
جانب بڑھ گیا۔
”“Present
138
عمران کہانی سناتے سناتے خود
رونے لگا تھا .....کیونکہ یہ کوئی
جھوٹی کہانی نہیں تھی....یہ اس سے
جوڑی کہانی تھی.....اس کے والدین
کی۔
میری آنکھیں بھی جھلک پڑی
تھیں.....
"مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا
کہوں "......میں نے آنسو پونچھتے
ہوئے کہا۔
"یہ ہی کہہ کہانی اچھی تھی۔" اس نے
آنسو تو پونچھ لیے تھے مگر آنکھوں
کی سرخی نہ مٹا پایا۔
139
"ہوں اچھی تھی......اور میں ضرور
لکھوں گی.....مگر مجھے آپ کی
کہانی کا بےصبری سے انتظار رہے
گا۔"
کافی کا تیسرا مگ بھی ختم ہو چکا تھا
اور میرے جانے کا ٹائم بھی ہو چکا
تھا۔
"اوکے عمران!......اب میں اجازت
چاہوں گی۔" میں کرسی دھکیل کر اٹھ
کھڑی ہوئی تھی۔
"چلیں۔" وہ بھی میرے ساتھ ہو لیا تھا۔
"بہت شکریہ نواب صاحب! .....دنیا
میں آپ جیسے عزت کرنے والے اور
140
ایماندار لوگوں کی بہت کمی
ہے.....اسی لیے کبھی بدلیے گا نہیں۔"
گاڑی کی چابی تھامتے ہوئے میں نے
کہا تھا۔اس نے مسکراتے ہوئے اثبات
میں سر ہالیا۔
"آپ نے اپنا نام ابھی تک نہیں بتایا؟"
اس نے پوچھا میں مسکرا دی۔
"کہانی لکھیں گے تو اس پر ہمارا نام
ضرور ہو گا پڑھ لیجئے گا۔" میں نے
آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے کہا
تھا وہ مسکرا دیا۔
"ّٰللا حافظ.....امید ہے پھر مالقات ہو
ہ
گی۔"
141
ّٰللا حافظ۔" اس
"ان شاءہللا میڈم! ......ہ
نے کہا تھا۔
میں نے الوداعی نگاہ اس پر ڈالی تھی
اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھی۔
گاڑی آگے بڑھا لی تو میں نے بیک
مرر میں دیکھا وہ آسمان کی جانب
دیکھتے ہوئے شاید اپنے والد سے
بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے اس کی سرخ آنکھوں کو پھر
سے نم ہوتے دیکھا تھا۔
ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے آنکھوں پر سے
گالسز اتارے اور نم آنکھوں کو پونچھ
دیا۔
142
"سچی کہانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں......
اختتام سیڈ ہی ہوتا ہے.....جاوید نے
محبت کی خاطر نجانے کیا کیا نہ کیا
اور آخر پر اسی محبت سے جدا ہونا
پڑا۔
مجھے واقع ہی جاوید کی محبت پر فخر
سا ہو رہا تھا کہ آج کے دور میں کون
اسٹینڈ لیتا ہے بھال؟
اتنے لوگوں سے الجھتا کون ہے؟
وہ تین کشتیوں میں سوار رہا
تھا......ایک جانب اپنے گھر والے جن
کو وہ منانے کی کوشش کرتا مگر والد
کی ناراضگی کے سامنے اس کی
معافی طالفی کسی کام نہ آئی ایک جانب
143
اس کی بیوی بچے اور ایک جانب اس
کا سسرال۔
ہاں مانتی ہوں کہ بچوں کے کچھ
فیصلے ماننے والے نہیں ہوتے مگر
ان کی خوشیوں کو قتل کرنے کا حق
بھی والدین کو نہیں ہے۔
پھر جاوید اور رامینہ تو ویسے بھی
اپنے پیروں پر کھڑے تھے تو ان کے
گھر والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا
چاہیے تھا .....مسئلہ تھا تو بس یہ کہ
خاندان سے باہر شادی نہیں ہو سکتی۔
ذات سے باہر نہیں شادی ہو گی.....
144
مگر شادی کے لیے ذات کی کیا
ضرورت؟ اور پھر کہا جاتا ہے جوڑیاں
تو آسمانوں پر بنتی ہیں۔" میں سوچتے
سوچتے تھک گئی تھی تبھی گاڑی
ایک جانب روکتے ہوئے سر سیٹ کی
پشت سے ٹکا لیا۔
"عمران نواب کی اپنی کہانی کا انتظار
رہے گا مجھے.....اس لڑکے میں ایک
الگ ہی جذبہ دیکھا ہے .....جاوید
نواب سے بھی آمیزنگ زندگی ہو گی
اس کی۔" سوچتے ہوئے میرے ہونٹوں
کو مسکراہٹ نے چھوا تھا۔
******
145
ختم شد
146