You are on page 1of 146

1

‫اپنے والد کی قبر پر پھول ڈال کر‬


‫مغفرت کی دعا کی اور آنکھوں کی نمی‬
‫دوپٹے کے پلو سے باندھ کر جیسے‬
‫ہی میں پلٹی‪.....‬میری نگاہ اس نوجوان‬
‫پر پڑی تھی۔‬
‫وہ ہمیشہ کی طرح آج پھر کسی اور‬
‫قبر پر کھڑا‪ ،‬آنکھیں منہمک سا قبر‬
‫میں سوئے شخص کی مغفرت کی دعا‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫طلوع آفتاب کی شعائیں اس کے دلکش‬
‫چہرے پر برا ِہ راست پڑ رہی‬

‫‪2‬‬
‫تھیں‪......‬جس وجہ سے وہ سفید‬
‫مکھڑا ذرا سا سرخ ہو رہا تھا۔‬
‫اس شخص کی شخصیت ایسی تھی کہ‬
‫مجھے ہمیشہ یہ ہی لگتا کہ وہ کسی‬
‫سلطنت کا شہزادہ ہے‪.......‬اس نے‬
‫چہرے پر ہاتھ پھیرے اور جھک کر‬
‫شاپر اٹھایا اور مٹھیوں میں ڈھیروں‬
‫پھول بھر کر قبروں پر بکھیرنے لگا‬
‫تھا‪......‬میں نے آج سوچ لیا‬
‫تھا‪......‬اس سے وہ سوال پوچھ ہی‬
‫لوں جو پیچھلے ایک سال سے میرے‬
‫دماغ میں گھوم رہا تھا۔‬
‫وہ پلٹا اور آنکھوں پر گالسز چڑھاتے‬
‫ہوئے قبرستان سے نکلنے لگا۔ میں‬
‫‪3‬‬
‫نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کی تھی‬
‫تب تک وہ اپنے بائیک پر سوار ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫اس کا دھیان شاید کہیں اور تھا تبھی‬
‫بائیک کو جیسے ہی اس نے موڑ‬
‫کاٹنے کے لیے گھمایا وہ سیدھی‬
‫میری گاڑی میں جا لگی تھی۔‬
‫وہ ایک دم جیسے ہوش میں آیا اور‬
‫تیزی سے بائیک پر سے اترا۔‬
‫"اوہ ایم سو سوری‪ "......‬مجھے گاڑی‬
‫کی جانب بڑھتا دیکھ وہ معزرت خواہ‬
‫انداز میں بوال۔‬

‫‪4‬‬
‫میں نے آگے بڑھ کر گاڑی کو دیکھا‬
‫لیفٹ ڈور کافی ڈیمج ہو چکا تھا‪ ،‬میں‬
‫نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی‬
‫جانب دیکھا۔‬
‫"ایم سو سوری محترمہ!‪ "......‬اس‬
‫نے شرمندگی کا اظہار پھر سے کیا۔‬
‫"اٹس اوکے جو ہونا تھا ہو گیا۔" میں‬
‫نے اطمینان سے کہتے ہوئے آنکھوں‬
‫پر گالسز چڑھا لیے۔‬
‫"نہیں نہیں‪ .....‬چلیں میں آپ کی گاڑی‬
‫ریپیئر کروا دیتا ہوں۔"‬
‫"اس کی ضرورت نہیں‪"......‬‬

‫‪5‬‬
‫"پلیز میڈم!‪.....‬چلیں۔" وہ میری بات‬
‫کاٹتے ہوئے تیزی سے بوال۔‬
‫"ٹھیک ہے۔" میں ہار مانتے ہوئے کہا۔‬
‫"آپ میرے ساتھ آ جائیں‪ ،‬بائیک وہاں‬
‫شاپ میں پارک کر دیں۔" وہ اپنی‬
‫گاڑی کی جانب بڑھنے لگا تو میں نے‬
‫کہا وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اثبات‬
‫میں سر ہالتا بائیک پر سوار ہو گیا۔‬
‫میں بھی ڈرائیونگ سیٹ کی جانب‬
‫بڑھی تھی۔‬
‫وہ شاپ پر بائیک روک کر باہر نکال‬
‫تھا تب تک میں نے بھی شاپ کے باہر‬
‫بریک لگائی۔‬

‫‪6‬‬
‫وہ دروازہ کھول کر گاڑی میں سوار ہو‬
‫چکا تھا‪.......‬‬
‫میں نے خاموشی سے گاڑی آگے‬
‫بڑھائی۔‬
‫اس نے بھی کوئی بات نہیں کی‬
‫تھی‪.......‬‬
‫"کم از کم ایک دن لگے گا‪.....‬کل گاڑی‬
‫لے لیجیے گا۔" میکینک نے کہا۔‬
‫اس نے میری جانب دیکھا۔‬
‫"نہیں میں آج کہیں جا رہی ہوں‪.....‬کل‬
‫میرا وہاں پہنچنا ضروری ہے‬
‫پلیز‪......‬میں شور کوٹ سے ہی‬

‫‪7‬‬
‫ریپئرنگ کروا لوں گی اتنا بڑا نقصان‬
‫نہیں ہے۔" میں نے کہا۔‬
‫"گل چاچا! میری ہوتی تو خیر تھی‬
‫مگر ان کی گاڑی ہے تو ابھی ریپئر‬
‫کرنی پڑے گی۔" وہ میکینک کو نرمی‬
‫سے کہہ رہا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے بیٹا!‪....‬دو‪ ،‬تین بجے تک آ‬
‫کر لے جائے گا۔" وہ سر اثبات میں‬
‫ہالتے ہوئے بولے۔‬
‫"شکریہ چاچا!" وہ س‬
‫دھیمی سی مسکراہٹ لیے کہہ کر پلٹا۔‬
‫"دو تین بجے تک میں کہاں رکوں‬
‫گی؟" میں پریشان سی ہو کر بڑبڑائی۔‬
‫‪8‬‬
9
‫"یہاں آپ کا گھر نہیں ہے؟" وہ شاید‬
‫میری بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔‬
‫"نہیں‪ ".....‬میں نے سوچا اب جھوٹ‬
‫بولنے سے کیا فایدہ؟‪......‬کیوں گناہ‬
‫کمانا‪.....‬‬
‫"دراصل لوگ کہتے ہیں نا کہ الہور‬
‫بہت خوبصورت ہے‪......‬اسی لیے میں‬
‫الہور کی خوبصورتی کو نزدیک سے‬
‫دیکھنے آتی ہوں‪.....‬اور کچھ کہانیاں‬
‫ڈھونڈنے‪ "....‬میں نے سینے پر ہاتھ‬
‫لپیٹتے ہوئے سامنے روڈ کو دیکھا تھا۔‬

‫‪10‬‬
‫کچا کچ سڑک گاڑیوں سے بھری ہوئی‬
‫تھی‪.....‬‬
‫"کہانیاں؟" اس نے چونک کر میری‬
‫طرف دیکھا۔‬
‫"جی۔ ایکچلی میں سوشل میڈیا رائٹر‬
‫ہوں‪.....‬میں اپنی ویب سائٹ کے لیے‬
‫ایک سچی کہانی ڈھونڈ رہی ہوں جو‬
‫بہت مختلف ہو‪.....‬میرے خود کی پیدا‬
‫کی گئی کہانیوں سے بھی ہٹ کر کچھ‬
‫سچی کہانیاں‪.....‬مگر‪"....‬‬
‫میں نے سرد سی آہ بھری۔‬
‫"مگر ایک سال ہو چال ہے‪.....‬ہر ماہ‬
‫دو مرتبہ یہاں آتی ہوں پر نہ تو مجھے‬

‫‪11‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫الہور کی خوبصورتی نظر آئی اور نہ‬
‫ہی کوئی سچی کہانی۔"ٹھنڈی آہ بھر کر‬
‫کہتے ہوئے رس ًم سہ مسکراہٹ لیے‬
‫اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"یہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں اگر آپ‬
‫چاہیں تو وہاں سامنے کافی بار ہے‬
‫وہاں بیٹھ جاتے ہیں جب تک آپ کی‬
‫گاڑی ریپئیر نہیں ہو جاتی۔" اس نے‬
‫میری بات سننے کے بعد کہا۔‬
‫اس نے محسوس کر لی تھی میری‬
‫الجھن‪.....‬ہر آتا جاتا گھور رہا تھا۔اور‬
‫ایک عورت کی عزت کس طرح کی‬
‫جاتی ہے اسے معلوم تھا‪.....‬مجھے وہ‬
‫اچھے خاندان سے لگ رہا تھا کیونکہ‬
‫‪12‬‬
‫کوئی بھی موالی یا راہ چلتا کسی‬
‫عورت کو گھورنے والوں کو نوٹ نہیں‬
‫کرتا‪......‬بلکہ وہ خود دیدے پھاڑ کر‬
‫دیکھنے لگتا ہے۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور اشارہ‬
‫سرخ ہونے پر ہم نے روڈ کراس کیا۔‬
‫کوفی بار میں داخل ہوتے ہی ایک‬
‫پرسکون اور خنکی بھرے ماحول نے‬
‫خوش آمدید کہا تھا۔‬
‫وہ میرے بیٹھنے کے بعد کرسی کھینچ‬
‫کر خود بھی بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"میں آپ کو الہور کی خوبصورتی تو‬
‫نہیں دکھا سکتا کہ مجھے خود بھی اب‬

‫‪13‬‬
‫نظر نہیں آتی۔" یہ کہتے ہوئے اس کی‬
‫آواز میں درد اترا تھا۔‬
‫"ہاں مگر سچی کہانی ضرور سنا سکتا‬
‫ہوں‪ ،‬اگر آپ کو پسند آئی تو لکھ‬
‫دیجیے گا نہیں تو‪.....‬چلو ابھی تو وقت‬
‫گزرے گا نا۔" اس نے گالسز اتار کر‬
‫میز پہ رکھتے ہوئے کہا۔‬
‫"سچی کہانی؟ کس کی ہے‪....‬؟ آپ‬
‫کی؟" میں نے آنکھوں میں چمک لیے‬
‫پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے نفی میں‬
‫سر ہالنے لگا۔‬
‫"یہ میرے ڈیڈ کی کہانی ہے۔ جاوید‬
‫نواب کی‪ "......‬اس کے لہجے میں باپ‬
‫کے لیے بےپناہ محبت تھی۔‬
‫‪14‬‬
‫"نواب؟ یعنی آپ نواب خاندان سے‬
‫ہو‪......‬مجھے لگا ہی تھا کہ آپ‬
‫جاگیروں والی کیٹاگری میں سے ہیں۔"‬
‫مجھے اپنی سوچ پر ناز ہوا تھا مگر‬
‫جب اس نے نفی میں سر ہالیا تو‬
‫مجھے حیرانگی ہوئی۔‬
‫"میرے ڈیڈ جاگیردار تھے‪......‬میں‬
‫نہیں ہوں۔" اس نے دھیمی سی‬
‫مسکراہٹ لیے کہا۔‬
‫"مطلب؟"‬
‫"اب کہانی سناتا ہوں اگر سب کچھ‬
‫شروع میں بتا دیا تو سارا سسپنس‬
‫خراب ہو جائے گا۔" اس نے ایک دم‬
‫کسی منجھے ہوئے لکھاری کی مانند‬
‫‪15‬‬
‫کہا تھا کہ وہ کہانی کا سسپنس برقرار‬
‫رکھنا چاہتا ہے‪.....‬مجھے بےساختہ‬
‫ہنسی آ گئی۔‬
‫"آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟"‬
‫"ایکچلی میری کاوشوں میں سسپنس‬
‫بہت ہوتا ہے‪.....‬جب قسط وار پوسٹ‬
‫کرتی ہوں تو ریڈز پوچھتے ہیں یہاں‬
‫کیا ہو گا‪ ،‬یہ کیا ہوا‪ ،‬کیا ہونے واال ہے‬
‫تو میں کہتی ہوں یہ سسپنس ہے اسی‬
‫لیے اس راز کو میں نہیں بتا سکتی۔ آج‬
‫یہ میرے ساتھ ہو گیا۔" میری بات پر‬
‫وہ مسکرا دیا۔‬

‫‪16‬‬
‫"آپ کہانی اسٹارٹ کریں۔" میں نے‬
‫ریسٹ واچ پر ٹائم نوٹ کرتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫دس بج رہے تھے‪......‬‬
‫وہ گال کھنکھارتے ہوئے سیدھا ہو‬
‫بیٹھا۔‬
‫جاوید نواب‪....‬نواب خاندان کا اکلوتا‬
‫سلجھا ہوا لڑکا تھا‪.......‬پورے خاندان‬
‫اور باہر اگر کوئی اچھائی کی مثال دیتا‬
‫تو جاوید کا نام ضرور شامل ہوتا تھا۔‬
‫بےجا پیسہ دولت ہونے کے باوجود وہ‬
‫ایمان کی راہ پر گامزن تھا‪.....‬اس نے‬
‫برائی کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی کبھی‬

‫‪17‬‬
‫نہیں دیکھا تھا اور یہ سب مسٹر اینڈ‬
‫مسز نواب کی اچھی تربیت کا نتیجہ‬
‫تھا‪......‬‬
‫کالج الئف سے ہی وہ اپنی پرکشش‬
‫پرسنیلٹی کی بدولت کئی لڑکیوں کے‬
‫دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔‬
‫برادری اور پھر اس کی یونیورسٹی کی‬
‫کئی کئی لڑکیاں اس کے لیے دل ہاتھ‬
‫پر لیے گھومتی ہوتی تھیں جنہیں وہ‬
‫ایک نظر کرم کی نہیں بخشا‪....‬کیونکہ‬
‫اس کا گول بینکنگ تھا‪.....‬بینک میں‬
‫عالی شان پوسٹ پر جاب کرنا اس کا‬
‫خواب تھا جو اس کی محنت کی بدولت‬
‫تعبیر کو پہنچا تھا۔‬
‫‪18‬‬
‫زندگی ایک دم اپنے ٹریک پر چل رہی‬
‫تھی۔‬
‫وہ صبح منہ اندھیرے واک پر جاتا‬
‫واپس آ کر جم کرتا پھر نماز ادا کر کے‬
‫ناشتہ کرتے ہوئے بیکنک چال‬
‫جاتا‪......‬شام کو گھر لوٹتا‪.....‬سب کے‬
‫ساتھ بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتا مگر‬
‫اکثر وہ دیر ہو جانے کی وجہ سے تنہا‬
‫ہی کھانا بھی کھاتا تھا پھر الئیبریری‬
‫جا کر کوئی کتاب کی ورک گردانی‬
‫کرنے کے بعد آفیس کا کام کرنے کے‬
‫بعد سو جاتا۔‬
‫نو پارٹی‪.....‬نو میوزک‪.....‬نو‬
‫شوخی‪.....‬وہ ایک سنجیدہ شخص تھا‬
‫‪19‬‬
‫مگر اپنے ہم عمر کزنز کے درمیان وہ‬
‫کھسکا ہوا کہالتا تھا۔‬
‫"یار جاوید!‪.....‬تم ہر بار مجھے ٹال‬
‫دیتے ہو۔ مگر آج تو تمہیں میری پارٹی‬
‫میں آنا ہی پڑے گا۔" اس کا کولیگ‬
‫ناصر بھرپور اصرار کر رہا تھا۔‬
‫"یار میں پارٹیز وغیرہ سے چڑھتا‬
‫ہوں تم جانتے تو ہو۔"‬
‫"اس مرتبہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا‪،‬‬
‫تمہیں آنا ہی پڑے گا۔" اس نے مزید‬
‫اصرار کیا تو وہ بےدلی سے مان گیا۔‬
‫ناصر کی پارٹی بہت شاندار تھی‪،‬الن‬
‫میں باربی کیو بن رہے تھے اور‬

‫‪20‬‬
‫سوئمنگ پول کے پاس مشروبات چل‬
‫رہی تھیں‪.....‬وہاں ہی زیادہ بھیڑ بھی‬
‫تھی سب لڑکے لڑکیاں کچھ ہی دیر میں‬
‫ٹلی ہو کر جھومنے لگے تھے وہ‬
‫ٹھنڈی آہ بھر کر الن کی جانب آ گیا۔‬
‫وہاں اب محض باربی کیو بنانے واال‬
‫ادھیڑ عمر شخص کھڑا تھا۔‬
‫"سر! آپ لیں گے؟" اس نے جاوید کو‬
‫ایزی چیئر پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر‬
‫پوچھا۔‬
‫"ضرور‪......‬سپائیسی سی بنائیں۔" وہ‬
‫مسکراتے ہوئے بوال تو باربی کیو واال‬
‫پرجوش ہو کر اثبات میں سر ہالتا‬
‫بوٹیاں سیکھوں پر لگانے لگا۔‬
‫‪21‬‬
‫اس نے لیمن جوس سے لطف اندوز‬
‫ہوتے ہوئے اپنی جینز کی جیب میں‬
‫سے فون کھینچ کر نکاال تھا۔‬
‫آج بہت دنوں بعد اس نے اپنی فیسبک‬
‫آئی ڈی اوپن کی تھی۔‬
‫کسی گروپ کے نوٹیفکیشن شو ہو‬
‫رہے تھے غیر ارادہ طور پر اس نے‬
‫ان کو کھوال۔‬
‫وہاں کسی لڑکی پر کوئی لڑکا بےہودہ‬
‫کمنٹ کر رہا تھا جب درمیان میں دوسی‬
‫لڑکی نے کودتے ہوئے کمینٹ کیا تھا۔‬
‫"اگر وہ یہاں تم لوگوں سے گپیں‬
‫ہانکنے کی خواہش لے کر آتی ہے تو‬

‫‪22‬‬
‫تم لوگ یہاں کیوں آتے ہو؟ محترم‬
‫سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ تم خود‬
‫اس قسم کے انسان ہو تو اسی لیے‬
‫دوسروں کے متعلق بھی ایسا ہی سوچ‬
‫رہے ہو‪ .....‬ضروری نہیں کہ ہر کوئی‬
‫اتنا فری ہوتا ہے جو تم جیسے لوگوں‬
‫سے گپیں ہانکے۔اور ہاں فیس بک پر‬
‫لڑکیاں اپنے فیک نام سے موجود ہوتی‬
‫ہیں کیا معلوم کہ یہ تمہاری بہن ہو؟‬
‫چلو تمہاری نہیں تو کسی کی تو ہو‬
‫گی‪......‬مگر ہے تو بہن نا۔عورت کی‬
‫عزت کرنا سیکھو۔"‬
‫وہ کمنٹ پڑھ کر بےساختہ ہنسا تھا۔‬

‫‪23‬‬
‫وہ لڑکی اس لڑکے کو بالک کر چکی‬
‫تھی۔‬
‫"رمی خان۔" جاوید نے زیر لب بڑبڑایا‬
‫تبھی وہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ ہو چکی‬
‫تھی۔‬
‫یہ تو شکر تھا وہ رمی خان کی پروفائل‬
‫اوپن کر چکا تھا۔‬
‫ٹائم الئن پر تین مہینے پہلے کی پوسٹ‬
‫تھی۔‬
‫اس کی فیسبک پر کوئی پرائیویسی‬
‫نہیں تھی اور محض ایک دو پوسٹ‬
‫لگی ہوئی تھیں جو چیبی کارٹونوں کی‬
‫تھیں۔‬

‫‪24‬‬
‫"فیک ہو گی۔" جاوید نے فیسبک بند‬
‫کرتے ہوئے فون ایک جانب ڈال دیا کر‬
‫باربی کیو سے لطف اندوز ہونے‬
‫لگا۔کچھ دیر وہاں ہی تنہا بیٹھے رہنے‬
‫کے بعد وہ اٹھ کر نشے میں مست‬
‫ّٰللا حافظ کہتا وہاں‬
‫جھوم رہے ناصر کو ہ‬
‫سے نکل آیا تھا۔‬
‫گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی تھی جب فون‬
‫پر نوٹیفکیشنز کی بیل ہوئی۔‬
‫"رمی خان ایکسیپٹڈ یور ریکوئسٹ۔"‬
‫یہ پڑھتے ہی اس کا پاؤں بریک پر جا‬
‫لگتا مگر وہ حیرانگی سے سنبھل کر‬
‫نکال۔‬

‫‪25‬‬
‫"میں نے اسے ریکوئسٹ کب سینڈ‬
‫کیں؟" وہ ہمکالمی کرتے ہوئے ایک‬
‫نگاہ فون پر ڈال چکا تھا۔‬
‫"ان فرینڈ کر دوں کیا؟" اس نے سوچا۔‬
‫"نہیں وہ کیا سمجھے گی کہ میں نے‬
‫کیوں کیا؟" نفی میں سر جھٹک کر ونڈ‬
‫سکرین پر نگاہیں جما دیں۔‬
‫"یار جاوید وہ فیک ہے‪......‬اگر ریل‬
‫میں بھی ہو تو کیا ضرورت ہے اس‬
‫کے متعلق اتنا سوچنے کی؟" وہ فون‬
‫ساتھ والی سیٹ پر ڈال چکا تھا۔‬

‫‪26‬‬
‫نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا دل آج‬
‫عجیب سی بچگانہ حرکت کرنے پر‬
‫اسے اکسا رہا تھا۔‬
‫مگر وہ نفی میں سر ہالتے ہوئے خود‬
‫کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫وہ کمینٹ کرنے کے بعد ڈیٹا آف کرتی‬
‫فون بستر پر ہی رکھ کر خود واشروم‬
‫کی جانب بڑھ گئی تھی۔‬
‫شاور لے کر جب لوٹی تو س کی‬
‫دوست ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ‬
‫لیے اس کے فون کو چھیڑ رہی تھی۔‬

‫‪27‬‬
‫"رامینہ! ادھر آؤ یہ دیکھو کتنا ہینڈسم‬
‫ہے یہ بندہ اففف‪ "......‬اسے دیکھتے‬
‫ہی انیلہ نے ایک آہ بھر کر کہا۔‬
‫"تمہیں تو سامنے واال انکل شفیق بھی‬
‫ہینڈسم لگتا ہے‪"........‬‬
‫"مگر حیرانگی اس بات کی ہے کہ‬
‫تمہیں ریکوئسٹ آئی ہے اس ہینڈسم‬
‫بندے کی‪......‬ذرا دیکھ تو سہی یار کیا‬
‫پرسنلٹی ہے۔" انیلہ نے اس کی اپلوڈ‬
‫فوٹوز سکرول کرتے ہوئے پھر سے‬
‫تعریف کی تھی۔‬
‫"تم کیا ٹھرکی لڑکوں کی طرح شروع‬
‫ہی ہو گئی۔چھوڑ فون اور چلو میرے‬

‫‪28‬‬
‫ساتھ شاپنگ کے لیے۔" وہ اس سے‬
‫فون کھینچ چکی تھی۔‬
‫تبھی سکرین پر جاوید نواب کی‬
‫پروفائل روشن ہو گئی تھی۔‬
‫رامینہ کا ہاتھ نگاہوں کے سامنے‬
‫ساکت ہو چکا تھا۔‬
‫سفید ڈریس شرٹ جس کے اوپر نے دو‬
‫بٹن کھول رکھے تھے‪ ،‬آستینوں کو‬
‫فولڈ کیا ہوا‪،‬نیوی بیلو جینز زیب تن‬
‫کیے ہوئے تھاسیاہ بال فلو سٹائل میں‬
‫کھڑے تھے‪ ،‬سوہنے چہرے پر بال کی‬
‫سنجیدگی لیے وہ کرسی پر بیٹھا تھا‬
‫دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑے‬
‫تھوڑی تلے ٹکائے ہوئے تھا‪......‬‬
‫‪29‬‬
‫رامینہ کا دل اچانک سے دھڑکا‬
‫تھا‪ ......‬آج سے پہلے اس نے اپنے‬
‫دل کی دھڑکنیں اس طرح سے‬
‫بےترتیب ہوتی نہیں سنی تھیں وہ بھی‬
‫کسی لڑکے کو دیکھ کر۔‬
‫انیلہ ریڈی ہونے کب کی جا چکی تھی‬
‫اور وہ بےاختیار ہی بیڈ پر بیٹھتی چلی‬
‫گئی۔‬
‫بیڈ پر لیٹتے ہوئے وہ سونے ہی واال‬
‫تھا کہ دل میں گدگدی سی ہونے لگی۔‬
‫"کر دوں میسج؟" دل نے بےقرار ہو‬
‫کر استفسار کیا۔‬

‫‪30‬‬
‫"نہیں نہیں‪....‬شیٹ اپ یار جاوید!" اس‬
‫نے خود کو ٹوکا۔‬
‫"یار وہ لڑکی بھی ہو سکتی ہے۔"‬
‫"فیک کے چکروں میں پھنس جاؤ گے‬
‫پھر مجھے نے کہنا۔" دماغ نے آگے‬
‫بڑھ کر دل کا منہ بند کروایا۔‬
‫"وہ لڑکی ہی ہے‪ ،‬میسج کر کے پوچھ‬
‫لیتا ہوں نا۔"‬
‫"تف ہے تم پر جاوید؛ آج یہ دن بھی‬
‫دیکھنا تھا کہ تم‪ .....‬جاوید نواب ایک‬
‫فیسبک پر انجان لڑکی سے بات کرنے‬
‫کو بےچین ہو گے۔ اور پتہ نہیں وہ‬

‫‪31‬‬
‫لڑکی بھی ہے یا نہیں۔" دماغ نے طنز‬
‫کا تیر چالیا۔‬
‫"تم تو رہنے ہی دو‪....‬کبھی اسے‬
‫میری بھی سن لینے دیا کرو۔" دل‬
‫غصے سے بھڑکا۔‬
‫"ہاں ہاں‪.....‬اگر آج یہ تمہاری سنتا‬
‫ہوتا تو اتنا قابل نہ ہوتا۔" دماغ گرم ہوا۔‬
‫"اففف تم دونوں خاموش رہو۔" جاوید‬
‫نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے‬
‫اس دل و دماغ کی جنگ کو ختم کیا۔‬
‫ّٰللا کا نام لے کر میسج‬
‫فون اٹھایا اور ہ‬
‫بھیج دیا۔‬

‫‪32‬‬
‫"ہائے۔" رامینہ کے فون پر میسج‬
‫وصول ہوا تو وہ جو لیپ ٹاپ پر آفیس‬
‫ورک کر رہی تھی فون اٹھا کر دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"جاوید نواب!‪ "....‬نام پڑھتے ہی اس‬
‫کا دل ایک دم سے دھڑکا۔‬
‫"نہیں رمی! ڈونٹ ٹیکسٹ ہم‪".......‬‬
‫ادھر بھی وہ ہی دل و دماغ کی جنگ‬
‫عروج پر پہنچی مگر پھر بھی جیت دل‬
‫کی ہوئی۔‬
‫"ہائے‪".....‬‬
‫اور اس ایک "ہائے" سے شروع ہوئی‬
‫یہ کہانی‪.....‬‬
‫‪33‬‬
‫پھر لیپ ٹاپ ایک جانب پڑا تھا اور وہ‬
‫بالکنی میں جا بیٹھی۔‬
‫"آپ لڑکی ہو؟ نہیں بس ویسے پوچھ‬
‫رہا ہوں‪....‬برا نہیں مانیے گا۔"‬
‫جھجکتے ہوئے استفسار کیا گیا۔‬
‫"الحمدہلل۔" رامینہ ہنستے ہوئے ٹائپ‬
‫کرنے لگی۔‬
‫اس ایک رات کی گفتگو نے دونوں کے‬
‫ہی خیاالت ایک دوسرے کے متعلق بدل‬
‫گئے تھے وہ دونوں ہیلو ہائے والے‬
‫دوست بن گئے تھے۔‬

‫‪34‬‬
‫اس کے بعد دونوں اکثر و بیشتر بات‬
‫چیت ہوتی رہتی پہلے اچھے دوست‬
‫پھر بات محبت تک پہنچ گئی تھی۔‬
‫"رمی! اگر برا نہ مانو تو ایک بات‬
‫کہوں؟" وہ گاڑی کے فونٹ پر لیٹا‬
‫تاروں سے بھرے آسمان کو دیکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫"کہو نا؟" دھیمی سی مسکراہٹ لیے‬
‫وہ اپنے لیپ ٹاپ پر اس کی فوٹو کو‬
‫ہی دیکھ رہی تھی۔‬
‫"ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تقریبا ً‬
‫تین مہینے ہو گئے ہیں‪.....‬مجھے‬
‫پہلے تمہاری باتیں اچھی لگتی تھیں‪،‬‬
‫پھر تمہاری آواز سنی تو وہ اچھی‬
‫‪35‬‬
‫لگنے لگی اور تمہاری سیرت بھی‬
‫مجھے پسند ہے‪.....‬میں چاہتا ہوں کہ‬
‫اب میں تمہاری صورت بھی دیکھ‬
‫قدر جھجھکتے ہوئے بوال‬ ‫لوں۔" وہ ِ‬
‫تھا۔‬
‫"اگر صورت اچھی نہ لگی تو؟ پسند نہ‬
‫آئی تو؟" اس نے اپنی ہنسی دباتے‬
‫ہوئے استفسار کیا ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ‬
‫میں اپنی تصویروں کا فولڈر کھوال۔‬
‫"میں تمہاری صورت سے محبت نہیں‬
‫کرتا رمی! مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم‬
‫جیسی بھی ہو‪....‬بس میں چاہتا ہوں کہ‬
‫جب مجھے خواب آئے تو تمہارا چہرہ‬
‫دکھائی دے‪.....‬اب جو چاند مجھے‬
‫‪36‬‬
‫محض چاند لگتا ہے جب تمہاری‬
‫صورت دیکھ لوں گا تو اس میں مجھے‬
‫تم دکھائی دو گی۔" وہ محو سا بوال۔‬
‫"بس بس زیادہ باتیں مت بناؤ پیکچر‬
‫بھیجی ہے۔ دیکھ لو۔" اس ۔ے ہنستے‬
‫ہوئے کہا تھا۔‬
‫جاوید نے بےحد تیزی سے واٹس ایپ‬
‫چیٹس کھولیں۔‬
‫تصویر دیکھتے ہی وہ خاموش ہو گیا‬
‫تھا‪ .......‬ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ‬
‫اس حسن کے شہکار کو فرصت میں‬
‫تکنے لگا۔‬

‫‪37‬‬
‫یہ موٹی موٹی غالفی آنکھیں‪ ،‬پھول کی‬
‫پنکھڑیوں جیسے باریک و گالبی‬
‫لب‪.....‬دھان پان سی رامینہ کی تصویر‬
‫دیکھتے ہی وہ اس پر مزید فدا ہو گیا‬
‫تھا۔‬
‫"جاوید!‪.....‬ہیلو مجھے سن رہے‬
‫ہو؟"‬
‫"ہ ہاں‪.....‬ہوں ہوں۔" وہ پلکیں جھپک‬
‫کر اس سحر سے نکال تھا۔‬
‫"کیا ہوا؟ پسند نہیں آئی کیا میں؟"‬
‫"کیا بات کر رہی ہو رامینہ!‪ .....‬تمہیں‬
‫کون ناپسند کر سکتا ہے‪ ،‬تم ہر لحاظ‬
‫سے پرفیکٹ ہو۔میں تو سوچ رہا تھا‬

‫‪38‬‬
‫کہ‪ ".....‬اس نے شریر لہجے میں‬
‫کہتے ہوئے بات اُدھوری چھوڑی۔‬
‫"کہ؟"‬
‫"کہ ہمارے بچے تم پر جائیں۔"‬
‫اس کی بات پر وہ شرماتے ہوئے‬
‫مسکرا دی تھی۔‬
‫"ہے سنو رمی! ہم شادی کر لیتے‬
‫ہیں۔" جاوید نواب کی بات پر اس کی‬
‫مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔‬
‫"ش شادی؟" حلق میں کچھ اٹکا۔ ادھر‬
‫وہ اس کی اس الجھن پر حیران ہوا۔‬
‫"ہاں شادی‪ ،‬کیا ہوا تم ایک دم سے‬
‫پریشان کیوں ہو گئی ہو شادی کی بات‬
‫‪39‬‬
‫پر؟" اس نے اچھنبے سے استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"ک کچھ نہیں۔ اچھا بعد میں بات کرتے‬
‫ہیں مجھے نیند آ رہی ہے۔" کہتے ہی‬
‫کال کٹ کر دی۔‬
‫وہ ہونقوں کی مانند فون کو دیکھ کر‬
‫رہ گیا۔‬
‫جاوید اس کے بدلتے رویوں سے‬
‫پریشان تھا‪......‬وہ جب بھی پیار محبت‬
‫کی بات کرتا رامینہ گڑبڑا کر فون رکھ‬
‫دیتی۔‬
‫اس کے دل میں کئی وسوسے پیدا‬
‫ہونے لگے‪.....‬‬

‫‪40‬‬
‫"کہیں رامینہ محض ٹائم پاس‪".......‬‬
‫"نہیں جاوید!‪......‬کوئی اور وجہ ہے‬
‫اس کے گریز کی۔مگر کیا؟" وہ کیفے‬
‫بار میں تنہا بیٹھا مسلسل سوچوں کی‬
‫زد میں تھا۔‬
‫کچھ سوچ کر اس نے فون پر رامینہ کا‬
‫نمبر ڈائل کیا۔‬
‫"اسالم علیکم!‪.....‬میں دوبئی آ رہا ہوں‬
‫ایک آفیس میٹنگ کے سلسلے میں اگر‬
‫آ سکتی ہو تو آ جانا۔ مل کر بیٹھ کے‬
‫بات کرتے ہیں۔" اس نے جب کال نہیں‬
‫اٹھائی تو جاوید نے وائز میسج بھیج‬
‫دیا۔‬

‫‪41‬‬
‫انگلینڈ کے نہایت بلند عمارت والے‬
‫بینک کے دسویں فلور پر وہ وال کے‬
‫پاس پریشان سی کھڑی تھی۔‬
‫"میں اتنا آگے کیسے بڑھ آئی‪.......‬جب‬
‫کہ اپنے گھر والوں کے متعلق اچھے‬
‫سے جانتی ہوں۔" سوچ پر بھی‬
‫آسودگی چھائی ہوئی تھی۔‬
‫"کیا بات ہے حسینہ‪.....‬اتنی اپ_سیٹ‬
‫کیوں ہو؟" انیلہ نے اسے شانا مارتے‬
‫ہوئے کہا اور اس کے سامنے آ کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫"جاوید مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے‬
‫انیلہ!" اس نے فکرمندی سے کہا۔‬

‫‪42‬‬
‫"وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ظاہری‬
‫سی بات ہے اب وہ شادی ہی کرے گا‬
‫نا۔" انیلہ اطمینان سے گویا ہوئی۔‬
‫"تم جانتی ہو نا میرے بھائی نہیں مانیں‬
‫گے۔"‬
‫انگلیاں پٹختے ہوئے وہ رو دینے کو‬
‫تھی۔‬
‫"تم نے جاوید کو بتایا کہ تمہاری فیملی‬
‫آؤٹ آف کاسٹ شادی کے سخت خالف‬
‫ہے؟"انیلہ کے استفسار پر اس نے نفی‬
‫میں سر ہالیا۔‬
‫"بیوقوف لڑکی۔ اسے بتاؤ‪ ،‬وہ مرد کے‬
‫اور مرد بہت ہمت والے ہوتے‬

‫‪43‬‬
‫ہیں۔رمی! وہ تمہیں بےپناہ چاہتا ہے‬
‫تمہارے لیے کچھ بھی کر گزرے گا۔"‬
‫"میں یہ ہی تو نہیں چاہتی نیلی!‬
‫بےموت مارا جائے گا وہ۔ کاش میں‬
‫یہاں تک نہ آتی‪......‬مگر پتہ نہیں کس‬
‫طلسم نے مجھے یہاں تک پہنچایا‬
‫ہے۔" وہ سخت جھنجالہٹ میں مبتال‬
‫تھی۔‬
‫دل میں سناٹے چھائے تھے کہ جس‬
‫زیر اثر وہ کچھ مہینوں سے‬ ‫خواب کے ِ‬
‫تھی شاید وہ ٹوٹ گیا تو‪....‬؟‬
‫"اس شخص کی محبت نے۔"‬

‫‪44‬‬
‫"وہ دوبئی جا رہا ہے‪ ،‬اس نے مجھے‬
‫بھی بالیا ہے‪....‬میں نہیں جاؤں گی۔"‬
‫"پاگل ہو گئی ہو کیا؟ کیوں نہیں جاؤ‬
‫گی؟" انیلہ چالئی۔‬
‫"یار کیا کہوں گی اس سے؟ ہمارا ساتھ‬
‫بس یہاں تک کا ہی تھا اب ہمارے‬
‫راستے الگ ہیں کیونکہ ہمارے خاندان‬
‫میں آؤٹ آف کاسٹ شادی کی اجازت‬
‫نہیں ہے؟"اس نے کہا تو انیلہ ہنس‬
‫دی۔‬
‫"یہ کہہ پاؤ گی؟" وہ برا ِہ راست اس‬
‫کی نم آنکھوں میں جھانکتے ہوئے‬
‫بولی۔‬

‫‪45‬‬
‫رامینہ نے بےاختیار نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"تو پھر جاؤ اور اس سے بات‬
‫کرو‪.....‬اپنی پوزیشن کے متعلق‬
‫سمجھاؤ‪.....‬اور مل بیٹھ کر کوئی حل‬
‫نکالو۔یوں گریز کرنے سے سیچوایشن‬
‫مزید بگڑ سکتی ہے۔"‬
‫"بھائیوں کو معلوم ہو گیا تو؟" وہ ڈر‬
‫سے بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"میں سنبھال لوں گی۔ چلو اب جیجو‬
‫کو ٹیکسٹ کر کے بتاؤ کہ تم دوبئی آؤ‬
‫گی۔"اس نے آخری فقرہ شریر لہجے‬
‫میں کہا تو رامینہ روتے روتے ہنس‬
‫دی۔‬

‫‪46‬‬
‫پھر اسے ٹیکسٹ کرنے لگی۔‬
‫جاوید اس کا جواب سن پر بہت خوش‬
‫ہو گیا تھا۔‬
‫وہ آج اس سے برج خلیفہ ملنے آ رہی‬
‫تھی‪ .....‬جاوید بےحد خوش تھا تو‬
‫دوسری جانب اس کا دل تو خوشی سے‬
‫جھوم رہا تھا جبکہ تھوڑا بہت ڈر بھی‬
‫تھا۔‬
‫اس کا پسندیدہ رنگ یعنی سفید‪.....‬وہ‬
‫پہن کر اب آئینے کے سامنے کھڑی‬
‫الئٹ میک کر رہی تھی۔‬

‫‪47‬‬
‫وہ بھی دوسری جانب خود پر کلون کا‬
‫چھڑکاؤ کرتے ہوئے ساتھ ساتھ گنگنا‬
‫بھی رہا تھا۔‬
‫ہوٹل سے نکل کر اس نے سب سے‬
‫پہلے ایک جگہ سے فریش فالورز کا‬
‫بکے لیا ساتھ میں چاکلیٹس بھی خرید‬
‫لی تھیں۔‬
‫رات کا وقت تھا اور اس وقت برج‬
‫خلیفہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔‬
‫دونوں مخالف سمتوں سے چلتے ہوئے‬
‫ایک دوسرے کے سامنے آ رکے تھے۔‬
‫"اسالم علیکم!" جاوید کی نگاہیں اس‬
‫پر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی‬

‫‪48‬‬
‫تھیں‪ .....‬زندگی میں اس نے اتنی‬
‫حسین لڑکی آج تک نہیں دیکھی تھی۔‬
‫"و علیکم السالم! تھینک یو۔" رامینہ‬
‫جھجھکتے ہوئے اس کے ہاتھ میں‬
‫سے بکے تھامتے ہوئے بولی۔‬
‫"چلیں؟" سر جھکا کر ہاتھ کے اشارے‬
‫سے اسے چلنے کا کہتے ہوئے وہ‬
‫مسکرایا تھا۔‬
‫رامینہ نے آنکھیں بھر کر اسے ایک‬
‫نظر دیکھا تھا‪....‬دل تھا کہ اتنی زور‬
‫سے دھڑک رہا تھا‪....‬وہ نروس سی‬
‫اس کے ہمراہ چل دی۔‬
‫یہ ایک عالیشان فوڈ پوائنٹ تھا۔‬

‫‪49‬‬
‫روف ٹاپ تک جاتے ہوئے جاوید اتنی‬
‫ڈھیر ساری باتیں کر چکا تھا جبکہ وہ‬
‫محض ہوں ہاں ہی کر رہی تھی۔‬
‫اس کے لیے جاوید نے کرسی پیچھے‬
‫کی تو وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر بیٹھ‬
‫چکی تھی۔‬
‫وہ بھی اس کے سامنے جا بیٹھا۔‬
‫"کیا لو گی تم؟" وینو کارڈ پر نگاہ‬
‫ڈالتے ہوئے بوال۔‬
‫"نو نو‪.....‬کچھ بھی نہیں۔ مجھے‬
‫بھوک نہیں ہے۔"‬
‫"اتنا فورمل ہونے کی ضرورت‬
‫نہیں‪ .....‬میری ہونے وی وائف ہو‪،‬‬
‫‪50‬‬
‫ایزی ہو جاؤ یار‪.....‬چلو بتاؤ کیا آرڈر‬
‫کروں۔" وہ نارمل سے انداز میں بوال۔‬
‫اسے مجبورا ً کچھ آرڈر کرنا ہی پڑا تھا۔‬
‫"جاوید! آپ مجھ سے واقع ہی شادی‬
‫کرنا چاہتے ہیں؟" وہ جھجھکتے ہوئے‬
‫استفسار کر رہی تھی‪ ،‬جاوید نے‬
‫چونک کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"تمہیں کیا لگتا ہے رامینہ؟" وہ اب‬
‫سنجیدہ ہو چکا تھا۔‬
‫"جاوید! ہماری فیملی میں باہر شادی‬
‫وہ بھی لو میرج کرنا سخت ناپسند کیا‬
‫جاتا ہے۔ میرے پانچ بھائی ہیں اور سب‬
‫کے سب بہت غصے والے ہیں‪....‬‬

‫‪51‬‬
‫ہمارے متعلق معلوم ہوا تو وہ تمہیں‬
‫مار ڈالیں گے۔"‬
‫اس کی بات پر جاوید چند پل اسے‬
‫سنجیدگی سے دیکھتا رہا پھر ہنسنے‬
‫لگا۔‬
‫"تم قدم واپس کھینچنا چاہتی ہو؟"‬
‫رازدارانہ انداز میں پوچھا گیا۔‬
‫رامینہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے‬
‫ہوئے بےاختیار نفی میں سر ہالنے‬
‫لگی۔‬
‫"میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہی‬
‫مگر‪"......‬‬

‫‪52‬‬
‫"مگر کی ٹینشن نہیں لو تم‪.....‬میں بات‬
‫کروں گا تمہارے بھائیوں سے۔" اس‬
‫نے اطمینان سے کہتے ہوئے کوٹ کی‬
‫جیبوں کو ٹٹول کر ایک مخملی ڈبی‬
‫نکالی۔‬
‫"ہمارے خاندان میں بھی یہ رواج ہے‬
‫کہ باہر شادی نہ کی جائے‪.....‬مگر میں‬
‫یہ رواج توڑنا چاہتا ہوں۔اور سب سے‬
‫بڑی بات‪.....‬تم سے محبت کرتا ہوں‪،‬‬
‫مجھ میں ہمت نہیں ہے اپنی پہلی محبت‬
‫کو کھونے کی۔"‬
‫وہ اس کی نگاہوں میں برا ِہ راست‬
‫جھانکتے ہوئے سچائی سے بھرے‬
‫لہجے میں کہہ رہا تھا۔‬
‫‪53‬‬
‫رامینہ نے پلکیں رخساروں پر گرا لی‬
‫تھیں۔‬
‫"ہاں اگر تم مجھے کھونے کی‬
‫صالحیت رکھتی ہو تو‪ ".....‬وہ‬
‫سنجیدگی سے کہتے کہتے رک گیا۔‬
‫"تو تم جا سکتی ہو میں کبھی نہیں‬
‫روکوں گا‪ .....‬کیونکہ میں زور‬
‫زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔" اس نے‬
‫ٹھنڈی آہ بھر کر کہا تھا۔‬
‫رامینہ کئی پل سوچتی رہی۔‬
‫"وہ ایک اچھا انسان ہے‪ ،‬اچھا ہمسفر‬
‫بھی ثابت ہو گا۔"‬
‫دل نے کہا تھا۔‬
‫‪54‬‬
‫آرڈر آ چکا تھا اور وہ مسلسل ناخن چبا‬
‫رہی تھی۔‬
‫"اتنا سب کچھ سامنے پڑا ہے اور تم‬
‫ناخن چبا رہی ہو۔" جاوید نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫"جاوید! آپ میری پریشانی کیوں نہیں‬
‫سمجھ رہے؟ آپ کو کھانے کی پڑی ہے‬
‫اور یہاں میں کتنی پریشان ہوں۔" وہ‬
‫ناراضگی سے گویا ہوئی۔‬
‫"دیکھو مائی لو‪.......‬یہ پریشانی والی‬
‫بات ہرگز نہیں ہے۔تم بس یہ سوچو کہ‬
‫ہم ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور‬
‫ضرور ایک ہو جائیں گے۔" جاوید نے‬
‫اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا‬
‫‪55‬‬
‫تھا‪.....‬رامینہ کی جان اس ہاتھ میں‬
‫سمٹ آئی تھی‪ ،‬چہرے پر شرم کی اللی‬
‫بکھر گئی۔‬
‫جاوید اسے بس دیکھتا ہی رہ گیا۔‬
‫اس نے کئی مرتبہ اپنے گھر والوں‬
‫سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ان‬
‫کا ہر مرتبہ یہ ہی جواب ہوتا کہ خاندان‬
‫سے باہر شادی نہیں ہو گی۔‬
‫"مگر رامینہ بہت اچھی لڑکی ہے۔" اس‬
‫نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔‬
‫"وہ لڑکی یا ہم‪......‬یہ تمہارا فیصلہ ہو‬
‫گا جاوید!‪"......‬‬

‫‪56‬‬
‫والد صاحب نے سختی سے کہا تھا اور‬
‫وہ لب بھینچے ان کی سختی دیکھتا‬
‫رہا۔‬
‫پھر پیر پٹختا وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫دوسری جانب جب رامینہ نے اپنی والدہ‬
‫سے بات شیئر کی تو ان کا ری ایکشن‬
‫بھی کچھ ایسا ہی تھا۔‬
‫"بھول جاؤ اس بات کو کہہ تمہاری‬
‫شادی کہیں اور ہو گی‪ ،‬شکر خدا کا‬
‫تمہاری کسی بھابھی نے یہ بات نہیں‬
‫سن لی نہیں تو اس گھر میں آج طوفان‬
‫ہی برپا ہونا تھا۔ آئندہ میں تمہارے منہ‬
‫سے ایسی کوئی بکواس نہ سنو۔" ماں‬
‫نے سرگوشی کرتے ہوئے لتاڑا تھا۔‬
‫‪57‬‬
‫ماں کے جاتے ہی اس نے مایوسی‬
‫سے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر چیت گر‬
‫گئی۔‬
‫دل اتنا بےچین ہو رہا تھا کہ خودبخود‬
‫ہی آنسو بہنے لگے۔‬
‫"جاوید کے بنا جینے کے متعلق ہم‬
‫ّٰللا میں‬
‫سوچ بھی نہیں سکتے‪.....‬یا ہ‬
‫کیا کروں؟" اضطرابی کیفیت میں‬
‫مخروطی انگلیاں پٹختے ہوئے وہ سوچ‬
‫رہی تھی کہ اسی پل جاوید کی کال‬
‫موصول ہوئی۔‬
‫"جاوید!‪......‬گھر والے نہیں مانیں‬
‫گے‪ ".....‬وہ روتے ہوئے بولی تھی۔‬

‫‪58‬‬
‫دوسری جانب وہ پیشانی مسلتے ہوئے‬
‫بوجھل سی سانس بھر کر رہ گیا۔‬
‫"دیکھو رامینہ! پہلے رونا بند کرو‬
‫یار!‪".....‬‬
‫"جاوید! آپ کتنے کٹھور ہیں‪.....‬مجھے‬
‫اور میری حالت کو سمجھ کیوں نہیں‬
‫رہے؟ کیا آپ کو کچھ سمجھ میں نہیں آ‬
‫رہا کہ میرے گھر والے ہم دونوں کے‬
‫لیے راضی نہیں ہوں گے؟‪ ".....‬وہ اس‬
‫کی بات کاٹتے ہوئے چالئی تو وہ مبہم‬
‫سا مسکرا دیا۔‬
‫"میں سمجھ رہا ہوں جان!‪.......‬مجھے‬
‫تمہاری سیچوایشن کے ساتھ ساتھ اپنی‬
‫بھی نظر آ رہی ہے مگر تم پہلے رونا‬
‫‪59‬‬
‫تو بند کرو یار۔ تم جب روتی ہو تو میرا‬
‫دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔" وہ گھمبیر‬
‫لہجے میں کہتے ہوئے اس کے کانوں‬
‫میں رس گھول رہا تھا۔‬
‫رامینہ نے بہت کوشش کے بعد‬
‫آنسوؤں کو روکا۔‬
‫"ہو گئیں چپ؟"‬
‫"ہوں‪"......‬‬
‫”‪“That my girl.‬‬
‫جاوید نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔‬
‫"تم ایسا کرو صبح کی فالئٹ پکڑو اور‬
‫دوبئی آ جاؤ۔ میں بھی آج ہی نکل رہا‬
‫ہوں۔ مل کر اس مسئلے پر بات کرتے‬
‫‪60‬‬
‫ہیں۔" اس نے کہا تو رامینہ کچھ بھی‬
‫نہ بول سکی۔‬
‫وہ بھی تو اس سے ملنا چاہا رہی‬
‫تھی‪ .....‬تصویروں سے انسان کا دل‬
‫بہلتا تو اس کے پاس کئی تصویریں‬
‫تھیں جاوید کی مگر جب سے وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے‬
‫آئے تھے دونوں جانب محبت کی آگ‬
‫مزید بڑھی تھی۔‬
‫اگلے دن رات کو ہی وہ جہاں پہلے دن‬
‫ملے تھے اسی جگہ‪.....‬اسی ٹیبل پر‬
‫ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے‬
‫تھے۔‬

‫‪61‬‬
‫"آنکھیں کیوں سجا رکھیں ہیں رامینہ‬
‫خان؟" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے نرمی سے گویا ہوا۔‬
‫"تمہیں تو جیسے پتہ ہی نہیں ہے؟"‬
‫وہ پھر سے رو دینے کو ہو چکی تھی۔‬
‫"میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر یہ‬
‫آنسو کیوں؟ کیا مجھ پر یقین نہیں‬
‫ہے؟"‬
‫"وہ بات نہیں ہے جاوید! مجھے ڈر‬
‫لگ رہا ہے‪.....‬دونوں فیملیز نہیں‬
‫مانیں تو‪........‬؟" وہ خوف میں مبتال‬
‫تھی۔‬

‫‪62‬‬
‫"میری محبت پر یقین رکھو‪ ،‬ہم کبھی‬
‫جدا نہیں ہوں گے‪ .....‬ہمارے اسالم نے‬
‫بھی پسند کی شادی کی اجازت دی‬
‫ہے۔" وہ دھیمی آنچ دیتی آواز میں بول‬
‫رہا تھا۔‬
‫"جاوید! میں آپ کے بغیر رہ نہیں پاؤں‬
‫گی‪.....‬اگر گھر والے نہیں مانے تو‬
‫میں نے خودکشی کر لینی ہے مگر‬
‫کسی اور سے شادی کبھی نہیں‪".....‬‬
‫وہ جذباتی ہو رہی تھی۔‬
‫"رامینہ!‪....‬پلیز‪....‬اب ایسی باتیں تو‬
‫مت کرو‪.....‬اور ہمارے گھر والوں نے‬
‫ہم سے یہ ہی ڈیمانڈ کی ہے نا کہ یا وہ‬
‫یا ہم‪.....‬یہ تو نہیں کہا کہ ایک دوسرے‬
‫‪63‬‬
‫کو چھوڑ دیں۔" اس نے پرسوچ انداز‬
‫میں کہا۔‬
‫"میں سمجھی نہیں؟" وہ حیرانگی سے‬
‫بولی۔‬
‫"چلو بتاتا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"کہاں جانا ہے؟" گاڑی میں اس کے‬
‫برابر کی سیٹ سنبھالتے ہوئے بولی۔‬
‫"یہاں کی ریت اس وقت ٹھنڈی ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬نگے پاؤں چلنے میں مزہ آتا‬
‫ہے۔" وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے‬
‫گویا ہوا اور پھر مسکرا دیا۔‬
‫"تم کیا کہہ رہے تھے؟"‬

‫‪64‬‬
‫"ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ‪....‬دیکھو‬
‫ہمارے گھر والوں نے کہا ہے یا ایک‬
‫دوسرے کو بھول جائیں یا گھر والوں‬
‫کو۔"‬
‫"ہوں تو؟"‬
‫"تو ہم ان کی نظروں میں ایک دوسرے‬
‫کو فلحال بھوک جاتے ہیں مگر کچھ‬
‫عرصہ بعد پھر بات کریں گے‪.....‬نہ‬
‫مانے تو پھر‪ .....‬ٹرائے کرتے رہیں‬
‫گے کبھی تو مان ہی جائیں گے نا۔"‬
‫"ہاہا‪.....‬بہت اچھا پالن ہے‪ ،‬رائٹر کیوں‬
‫نہیں بن جاتے‪ ".....‬اس نے مصنوعی‬
‫ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔‬

‫‪65‬‬
‫"ایک دم خراب آئیڈیا ہے۔" ایک دم‬
‫سنجیدہ ہو گئی تھی۔‬
‫"ایک اور آئیڈیا بھی ہے۔" وہ اس کی‬
‫جانب ایک نظر دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ہم شادی کر لیتے ہیں۔"‬
‫"واٹ؟" وہ اپنی جگہ پر اچھل پڑی‬
‫تھی۔‬
‫"اور کوئی راستہ نہیں ہے‬
‫رامینہ!‪.....‬ہم ایک دوسرے کے بغیر‬
‫جی نہیں پائیں گے اور گھر والے کبھی‬
‫ایسا چاہیں گے نہیں‪ "......‬اس کی بات‬
‫پر رامینہ ون پرسنٹ متفق تھی۔‬

‫‪66‬‬
‫"جاوید! جب ان کو معلوم ہو گا تو ہمیں‬
‫زندہ نہیں چھوڑیں گے۔" وہ خوف زدہ‬
‫تھی۔‬
‫"جب تک انہیں معلوم ہو گا تب تک ہم‬
‫ان کو منا لیں گے۔" اس نے شانے‬
‫آچکا کر کہا۔‬
‫"دیکھو رامینہ! ہمارا یوں ملنا ٹھیک‬
‫نہیں ہے‪ ،‬ہر انسان کے ساتھ شیطان‬
‫ضرور ہوتا ہے‪.....‬میں ان مردوں کی‬
‫صف میں شامل نہیں ہونا چاہتا جو‬
‫محبت کے نام پر عزتوں پر وار کرتے‬
‫ہیں۔" وہ صاف گوئی سے کہہ رہا تھا۔‬

‫‪67‬‬
‫"ہمارے درمیان ایک شفاف تعلق ہے‬
‫جسے میں شفاف ہی رکھنا چاہتا ہوں۔‬
‫اپنی محبت کو گالی نہیں بنانا چاہتا۔"‬
‫وہ گاڑی روک چکا تھا اور اب اس کی‬
‫جانب دیکھتے ہوئے سچائی بھرے‬
‫لہجے میں کہہ رہا تھا۔‬
‫"گھر والوں کی عزت؟" وہ لب کچلتے‬
‫ہوئے گویا ہوئی۔‬
‫"ہم ان کی عزت ہی تو بچا رہے ہیں کہ‬
‫گناہ نہیں کرنا چاہتے۔تم وقت لے‬
‫لو‪ ......‬سوچ سمجھ‬
‫کر جواب دینا میں انتظار کروں گا۔"‬

‫‪68‬‬
‫وہ اسے گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر‬
‫بوال۔‬
‫"ہوں۔ یہ فیصلہ بہت کٹھن ہے جاوید!‬
‫مجھے اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔"‬
‫"مجھے تمہارا ہر فیصلہ منظور ہو گا‬
‫جان جاوید!" وہ اس کا ہاتھ تھپک کر‬‫ِ‬
‫گاڑی سے اتر گیا۔‬
‫اس کی جانب واال دروازہ کھولتے‬
‫ہوئے اس نے اپنا ہاتھ رامینہ کے‬
‫سامنے پھیالیا تھا۔‬
‫"اگر میں نے شادی سے انکار کر دیا‬
‫تو؟" وہ اس کے قدموں کے ساتھ قدم‬

‫‪69‬‬
‫مال کر کیٹ واک کرتی بولی جس پر‬
‫جاوید کے قدم سست ہوئے تھے۔‬
‫"تو‪........‬اس بارے میں سوچا نہیں‬
‫ہے۔" وہ اس کا ہاتھ چھوڑ چکا‬
‫تھا۔رامینہ کو لگا جیسے اس کے ہاتھ‬
‫کو نہ چھوڑا ہو بلکہ جان ہی نکال کر‬
‫لے گیا ہو۔‬
‫"ہاتھ کیوں چھوڑ دیا؟" وہ خفا خفا سی‬
‫بولی‪ ،‬آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔‬
‫"انکار کے بعد میں زبردستی نہیں کر‬
‫سکوں گا تو عادت ڈال لو ابھی سے‬
‫ہی۔" وہ بوجھل سے لہجے میں گویا‬
‫ہوا۔‬

‫‪70‬‬
‫وہ سختی سے لب کچلنے لگی تھی‪،‬‬
‫چند آنسو رخساروں پر پھسلتے چلے‬
‫گئے۔‬
‫"آنکھوں سے کچھ مت کہو پلیز۔ یہ نہ‬
‫ہو پھر اس بیان سے مکر جاؤ۔" وہ‬
‫اسے چھیڑنے کی غرض سے بوال جب‬
‫کہ وہ اس کے شانے پر مکے برساتے‬
‫ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫"یہ کیسی مشکل میں پھنس گئے ہیں‬
‫نواب؟‪.....‬مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ہم‬
‫دونوں سمندر میں غوطہ زن‬
‫ہیں‪....‬ایک کنارے فیملی ہے تو‬
‫دوسرے کنارے محبت‪ "......‬وہ پیشانی‬

‫‪71‬‬
‫اس کے شانے پر ٹکا کر آنکھیں موند‬
‫گئی۔‬
‫میٹھی سی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی‬
‫تھی‪ ،‬اس وقت پیروں کے تلے ریت‬
‫بہت ٹھنڈی لگ رہی تھی۔‬
‫"تو ہم دونوں کو ایک کنارے پر کر لیں‬
‫گے نا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ‬
‫سب ایک کنارے پر ہو جائے‪.....‬مگر‬
‫اس کوشش میں تم میرے ساتھ تیرو‬
‫گی‪ "......‬اس کے سر کو تھپکتے‬
‫ہوئے نرمی سے گویا ہوا۔‬
‫اور پھر ایک دوسرے کی محبت کو‬
‫مدنظر رکھتے ہوئے وہ دونوں ایک‬
‫فیصلے پر پہنچے تھے۔‬
‫‪72‬‬
‫ویسے تو یہ فیصلہ سماجی نگاہوں‬
‫میں غلط تھا مگر ان کی نیت غلط نہیں‬
‫تھی‪......‬وہ اپنی محبت کو گناہ نہیں‬
‫بنانا چاہتے تھے ایک پاک رشتے میں‬
‫بندھ جانا چاہتے تھے‪......‬‬
‫وہ دلہن بنی عروسی جوڑے میں کتنی‬
‫خوبصورت لگ رہی تھی‪ ......‬جاوید‬
‫کئی پل اس کو پلکیں جھپکائے بنا‬
‫دیکھتا گیا۔‬
‫وہ شرم و حیا کی چادر میں چھپتی‬
‫گئی۔‬
‫"رامینہ! میں نے آج سے پہلے کبھی‬
‫اتنی خوبصورت دلہن نہیں دیکھی۔" وہ‬

‫‪73‬‬
‫اس کے سامنے نیم دراز سا بول رہا‬
‫تھا۔‬
‫"میری منہ دکھائی نکالیں‪ "....‬وہ اس‬
‫کے سامنے اپنا حنائی ہاتھ پھیالتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫جاوید ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے‬
‫ہاتھ پر رکھ چکا تھا۔‬
‫"منہ دکھائی میں‪ ،‬میں تمہیں اپنا آپ‬
‫سونپ رہا ہوں‪"......‬‬
‫"باتیں نہیں بنائیں‪......‬منہ دکھائی‬
‫نکالیں۔" وہ اس کے نرم لہجے اور پر‬
‫ایک پل کو تو بہکی مگر پھر تیزی‬
‫سے بولی۔جاوید قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬

‫‪74‬‬
‫"ٹھیک ہے جناب‪ ،‬یہ لیں اپنی منہ‬
‫دکھائی۔" اس نے شیروانی کی جیب‬
‫میں سے ایک مخملی الل ڈبی نکال کر‬
‫اسے پیش کی اور خود اس کی گود‬
‫میں سر رکھ کر لیٹ کے آنکھیں مند کر‬
‫سینے پر ہاتھ باندھ گیا۔‬
‫وہ دبی ایک جانب رکھتے ہوئے بہت‬
‫محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں‬
‫چالتے ہوئے مسکرائی۔‬
‫"آئی لو یو رامینہ!" وہ اس کے ہاتھوں‬
‫کو تھام کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے‬
‫جذبات سے چور لہجے میں بوال تھا۔‬
‫یہ لہجہ پہلے اس نے کبھی نہیں اپنایا‬
‫تھا‪ .....‬آج تو اس کے تیور ہی بدلے‬
‫‪75‬‬
‫ہوئے تھے‪.....‬وہ اپنی ساری محبتیں‬
‫شدتیں رامینہ ہر نجھاور کر رہا تھا اور‬
‫اس ایک حسین رات میں جاوید نواب‬
‫کی اتنی محبتوں نے رامینہ کو مزید‬
‫خوبصورت اور دلکش بنا دیا تھا۔‬
‫"مجھے دکھ ہو رہا ہے رمی! کہ ہم‬
‫ایک ہو کر بھی ایک ساتھ نہیں رہ پا‬
‫رہے۔" اگلے دن ہی ان دونوں کو اپنے‬
‫اپنے والدین کے گھر روانہ ہونا تھا‪،‬‬
‫ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے ایک دوسرے‬
‫کو دیکھتے رہے جب جاوید نے اسے‬
‫شانوں سے تھام کر خود سے لگا لیا۔‬
‫"میں جلد لوٹ آؤں گا۔اپنا خیال رکھنا۔"‬
‫اس کی پیشانی چوم کر کہتے ہوئے وہ‬
‫‪76‬‬
‫اس کی آنکھوں کی نمی انگلیوں کے‬
‫پوروں پر چن رہا تھا۔‬
‫رامینہ نے بےاختیار ہی اس کے گرد‬
‫بازو حائل کیے اور مزہد شدت سے‬
‫رونے لگی۔‬
‫"ہمارا مقصد اب والدین کو منانا ہے‬
‫رمی! اس رشتے کو تو محفوظ کر لیا‬
‫اب ان رشتوں کو بھی اس رشتے کے‬
‫لیے منانا ہے۔"‬
‫"کب آؤ گے؟" رامینہ نے اس کے ہاتھ‬
‫کو تھام کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے‬
‫بےتابی سےا استفسار کیا۔‬

‫‪77‬‬
‫"جانے تو دو لوٹ بھی جلد ہی آؤں‬
‫گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫اتنے میں پاکستان کی فالئٹ کا عالن ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫وہ جیسے ہی پلٹا رامینہ نے اس کا‬
‫ہاتھ تھام لیا۔‬
‫"میرے پاؤں کی زنجیر مت بنو رمی!‬
‫میری مضبوطی بنو۔ اطمینان رکھو میں‬
‫لوٹ کر تمہارے پاس ہی آؤں گا۔" وہ‬
‫پلٹا اور اس کو ایک مرتبہ پھر سے‬
‫خود میں بھینچ لیا۔‬

‫‪78‬‬
‫اس پاس سے گزرتے لوگ ان دونوں‬
‫کی دیوانگی کو دیکھ کر مسکرا رہے‬
‫تھے‬
‫"ا ‪....‬اگر تمہارے والدین نے تمہاری‬
‫شادی کسی اور سے کروا دی تو؟" وہ‬
‫ہراساں سی اس کی جانب دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"میں بچہ ہوں جو کر دیں گے؟ یار‬
‫ایسے مت ڈرو‪.....‬میں صرف تمہارا‬
‫شوہر ہوں۔اوکے؟" وہ اس کے ہاتھ پر‬
‫بوسا دیتے ہوئے بےاختیار پلٹ گیا تھا۔‬
‫پھر رکا نہیں اور پلٹا تو بلکل بھی‬
‫نہیں‪ .....‬کیونکہ وہ اگر رک کر پلٹتا تو‬
‫رامینہ خان کے آنسو اسے جکڑ لیتے۔‬
‫‪79‬‬
‫****‬
‫بنا اپنی شادی کے متعلق گھر والوں کو‬
‫بتائے وہ دونوں ان کو منا رہے‬
‫تھے‪....‬دونوں نے بہت کوشش کی تھی‬
‫کہ گھر والے مان جائیں‪.....‬مگر یہ تو‬
‫کسی کتاب میں لکھا ہی نہ تھا کہ وہ‬
‫لوگ مان جاتے۔‬
‫دونوں کے گھر والوں کو ان کی‬
‫سرگرمیاں مشکوک لگنے لگی‬
‫تھیں‪....‬وہ لوگ اب ان کے معاملے پر‬
‫غور کر رہے تھے۔‬
‫"تمہارا بیٹا کوئی چند ضرور چڑھائے‬
‫گا بیگم!‪....‬اس سے پہلے کہ وہ کچھ‬

‫‪80‬‬
‫ایسا ویسا کرے ہم اس کی شادی کروا‬
‫دیتے ہیں۔" نواب صاحب نے گہری‬
‫سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔‬
‫"کیسی باتیں کر رہیں نواب صاحب؟‬
‫جاوید کیوں بھال کوئی چند چڑھائے‬
‫گا‪ ......‬آج تک اس کی کوئی شکائت‬
‫آئی؟ نہیں نا۔" ماں کو اپنے بیٹے سے‬
‫بےتحاشا محبت تھی وہ ایک لفظ نہیں‬
‫برداشت کر پائیں۔‬
‫"اوہ ہو بیگم‪.....‬وہ پیچھلے تین‬
‫مہینوں میں مجھ سے صرف یہ ہی بات‬
‫کرتا آیا ہے کہ‪....‬وہ آؤٹ آف کاسٹ‬
‫شادی کرنا چاہتا ہے۔کہیں وہ ہم سے‬

‫‪81‬‬
‫چھپ کر شادی نہ کر لے۔" انہوں نے‬
‫سنجیدگی سے کہا۔‬
‫مسز نواب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی‬
‫رہ گئیں۔‬
‫"تو پھر ہم کیا کریں؟"‬
‫"ظاہری سی بات ہے بیگم کہ کرنی تو‬
‫اسے شادی خاندان کی کسی لڑکی سے‬
‫ہی ہے۔عمر بھی شادی کی ہو رہی ہے‬
‫تو میں سوچ رہا ہوں کہ بھائی جان‬
‫سے بات کرتے ہیں جاوید اور نسیمہ‬
‫کے رشتے کی۔مگر جاوید کو ابھی اس‬
‫بارے میں خبر نہ ہو۔" انہوں نے‬
‫رازداری سے کہا۔‬

‫‪82‬‬
‫وہ جو ان کے کمرے میں داخل ہو رہا‬
‫تھا دہلیز پر ہی جم گیا۔‬
‫دبے پاؤں واپس پلٹ گیا۔‬
‫"مجھے پہلے ہی پتہ تھا ایسا ہی کچھ‬
‫ہو گا‪ ".....‬اپنے کمرے میں آ کر وہ ہر‬
‫شے تہس نہس کرتے ہوئے کوفت کا‬
‫شکار تھا۔‬
‫"ساری زندگی میں نے ان لوگوں کا‬
‫سر فخر سے بلند رکھنے کے لیے اپنی‬
‫ہر خواہش کا گال گھونٹا‪ ......‬ہمیشہ‬
‫خود کو اس چیز سے دور رکھا جو‬
‫انہیں پسند نہیں تھی‪.....‬مگر میری‬
‫خوشیوں کی جب بات آئی تو منہ موڑ‬

‫‪83‬‬
‫لیا۔" وہ صوفے پر گرنے کے سے‬
‫انداز میں بیٹھا تھا۔‬
‫سر دونوں ہاتھوں میں گراتے ہوئے وہ‬
‫رو دینے کو تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے ابا جان! اب میں بھی‬
‫دیکھتا ہوں آپ میری شادی اس نسیمہ‬
‫سے کیسے کرواتے ہیں۔" اس نے‬
‫سوچتے ہوئے دل ہی دل میں نواب‬
‫صاحب کو مخاطب کیا تھا۔‬
‫منہ پر ہاتھ پھیر کر پریشانی کے‬
‫تاثرات مٹائے۔ لپک کر فون اٹھایا۔‬

‫‪84‬‬
‫"اسالم علیکم سر! دوبئی والی برانچ‬
‫میں میرا ابھی بھی ٹرانسفر ہو سکتا‬
‫ہے؟"‬
‫"و علیکم السالم! ہاں مگر برخوردار‬
‫کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ ابھی آپ کو‬
‫ٹرانسفر نہیں کروانا‪ .....‬پاکستان رہنا‬
‫چاہتے ہیں؟" سامنے واال شخص‬
‫حیران تھا۔‬
‫"اب لگ رہا ہے کہ اگر میں یہاں رہا تو‬
‫ختم ہو جاؤں گا۔" وہ سوچ کر ٹھنڈی آہ‬
‫بھر کے رہ گیا۔‬
‫"بس سر ارادہ بدل دیا ہے۔"‬

‫‪85‬‬
‫"ٹھیک ہے۔ کل شام کی فالئٹ ہے‪.....‬‬
‫آپ ریڈی رہیں۔‬
‫"اوکے سر! تھینک یو سو مچ۔" اس‬
‫نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔‬
‫صبح جب گھر والوں کو معلوم ہوا کہ‬
‫وہ اب دوبئی والی برانچ میں جا رہا ہے‬
‫تو سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا‬
‫تھا۔‬
‫رامینہ نے بھی اپنا ٹرانسفر کروا لیا‬
‫تھا۔‬
‫وہ دونوں اب دوبئی میں رہتے تھے۔‬
‫ایک شادی شدہ خوشحال زندگی‬
‫گزارتے ہوئے۔‬
‫‪86‬‬
‫مگر کہیں نہ کہیں اپنے گھر والوں‬
‫سے اتنا بڑا سچ چھپانے کا ریگلیکٹ‬
‫بھی تھا‪......‬‬
‫وہ ہمیشہ سے یہ ہی چاہتے تھے کہ‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ رہیں مگر‬
‫دونوں خاندانوں کو بھی ان کی محبت‬
‫کو سمجھنا چاہیے۔‬
‫دن سست روی سے چل رہے تھے کہ‬
‫ایک دن ان کی رنگوں سے بھری مگر‬
‫قدر اداس زندگی میں ایک نئی زندگی‬ ‫ِ‬
‫نے سانس لیا‪.....‬‬
‫رامینہ ماں بننے والی تھی‪......‬اور‬
‫جاوید اس خوشی میں جھوم اٹھا‬
‫تھا‪.....‬‬
‫‪87‬‬
‫پہلے پہل تو رامینہ بینک جاتی رہی‬
‫مگر جب اس کا پیٹ ذرا نکلنے لگا اور‬
‫پرانے کپڑے تنگ ہونے لگے تو‬
‫لوگوں نے غور کرنا شروع کر دیا تھا۔‬
‫"بینک میں لوگ مجھے مشکوک‬
‫نگاہوں سے دیکھتے ہیں جاوید!"‬
‫وہ آج بہت زیادہ پریشان تھی اور اس‬
‫وقت روتے ہوئے اس سے کہہ رہی‬
‫تھی۔‬
‫"رمی! تم کل سے گھر پر ہی رہو‬
‫گی۔ویسے بھی میری سیلری کافی ہے‬
‫گھر چالنے کے لیے۔" جاوید نے اس‬
‫کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے‬

‫‪88‬‬
‫نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں‬
‫چالنے لگا۔‬
‫"جاوید! ہماری فیملیز کو معلوم ہوا‬
‫تو‪......‬ت تو وہ ہمیں مار دیں گے‪،‬‬
‫ہمارے بچے کا کیا ہو گا جاوید؟" وہ‬
‫خوف زدہ سی اس کی جانب دیکھتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫"رمی میری جان!‪.....‬ایسا کچھ نہیں ہو‬
‫گا۔ٹینش نہیں لو‪ .....‬ڈاکٹر نے کیا کہا‬
‫تھا کہ تمہاری پہلی ڈیلیوری ہے کسی‬
‫قسم کی کوتاہی نہیں برتی جانی‬
‫چاہیے۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے‬
‫ہونٹوں سے لگا کر بوال۔‬
‫رامینہ روتے روتے مسکرا دی۔‬
‫‪89‬‬
‫"چلو اب ریسٹ کرو۔ آج میں اچھا سا‬
‫ڈنر تیار کرتا ہوں۔" اس کا سر سرہانے‬
‫پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫گیا‪ّٰ.....‬للا‬
‫ہ‬ ‫"جاوید! اچھا شوہر تو مل‬
‫کرے جلد ہی اچھا سسرال بھی مل‬
‫جائے۔" وہ نرمی سے گویا ہوئی۔‬
‫"ان شاءہللا‪ ......‬آخر والدین کو بھی‬
‫بچوں کی خوشیوں کا احساس کرنا‬
‫چاہیے نا‪.....‬ہم جب بچے ہوتے ہیں تب‬
‫ہر خواہش پوری کرتے ہیں مگر‬
‫جیسے ہی جوان ہوتے ہیں اور کوئی‬
‫خواہش کرتے ہیں تو ریجکٹ کر دی‬
‫جاتی ہے۔مگر میں بابا جان کو منا کر‬
‫رہوں گا۔اور ایک دفعہ میرے گھر والے‬
‫‪90‬‬
‫مان جائیں تمہارے گھر والوں کو تو‬
‫منانا بہت آسان ہو گا۔" جاوید نے اس‬
‫کی رخسار پر ہاتھ رکھتے ہوئے پر‬
‫یقین نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا‬
‫تو رامینہ کی طاقت مزید بڑھ گئی۔ وہ‬
‫اطمینان سے اس کے ہاتھ پر بوسا‬
‫دیتے ہوئے دھیرے سے آنکھیں موند‬
‫گئی۔‬
‫جاوید کو ابھی بھی لگ رہا تھا کہ سب‬
‫کچھ آسان ہے‪....‬کچھ نہیں‬
‫بگڑا‪......‬مگر وہ دونوں ہی اس بات‬
‫سے انجان تھے کہ آنے واال وقت کیسا‬
‫ہو گا اور کیا ہو گا؟‬
‫ننھے شہزادے کی آمد ہوئی تھی۔‬
‫‪91‬‬
‫ان کے گھر کا آنگن کلکاریوں سے‬
‫گونج اٹھا تھا‪ ،‬در و دیوار خوشی سے‬
‫جھوم اٹھے تھے۔‬
‫اس ننھے شہزادے کا نام انہوں نے‬
‫عمران نواب رکھا تھا۔‬
‫جاوید کی فوٹو کاپی تھا یہ ننھا سا گڈا‬
‫جس میں ان دونوں کی جان بستی‬
‫تھی‪......‬‬
‫دونوں دنیا جہاں سے بےخبر اپنے‬
‫شہزادے میں کھوئے رہتے‬
‫تھے‪.....‬ماں باپ بننے کا ایک الگ ہی‬
‫احساس ہوتا ہے جو ہر رشتے سے‬
‫افضل ہوتا ہے۔‬

‫‪92‬‬
‫"میرا بیٹا اپنی پسند کی شادی کرے‬
‫گا۔ظم کبھی اس کی محبت کی راہ میں‬
‫حائل نہیں ہوں گے کیونکہ ہم کبھی‬
‫نہیں چاہیں گے کہ وہ ہم سے دور ہو۔"‬
‫جاوید نے ایک سالہ عمران کو ہوا میں‬
‫اچھال کر کیچ کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"کیا اول فول سیکھا رہے ہیں میرے‬
‫بیٹے کو؟" رامینہ اس کے قریب زمینی‬
‫بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔‬
‫اس وقت وہ لوگ اپنے گھر کی روف‬
‫ٹاپ پر بیٹھے تھے۔‬
‫رات ہونے کے باوجود روشنی ہی‬
‫روشنی تھی وہاں۔کیونکہ آج عمران کی‬
‫پہلی سالگرہ تھی۔‬
‫‪93‬‬
‫ٹھیک بارہ بجے انہوں نے کیک کٹ‬
‫کیا۔‬
‫عمران چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر‬
‫پوری روف ٹاپ پر بھاگ رہا تھا‪ ،‬بلونز‬
‫کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ دونوں‬
‫بیٹھے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔‬
‫رامینہ نے سر اس کے شانے پر‬
‫ٹکاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔‬
‫جاوید بنا پلکیں جھپکائے دیکھ تو‬
‫عمران کو رہا تھا مگر اس کا دھیان‬
‫بھٹک کر اپنے والد کی جانب چال‬
‫گیا‪ .....‬آنکھیں نم ہو گئیں تو وہ سختی‬
‫سے لب بھینچ گیا۔‬

‫‪94‬‬
‫"مجھے میرے گھر والوں کی یاد آتی‬
‫ہے تو رامینہ تو پھر بہت نازک دل‬
‫ہے۔" وہ رامینہ کا سر سہالتے ہوئے‬
‫سوچ رہا تھا۔‬
‫"ان شاءہللا سب ٹھیک ہو جائے گا۔"‬
‫اس نے خود کو امید دالئی تھی۔‬
‫آج انیلہ آئی ہوئی تھی‪......‬اور اگر‬
‫رامینہ کی جانب سے کسی کو معلوم‬
‫تھا تو وہ انیلہ تھی۔‬
‫وہ کافی دیر ڈرائنگ روم میں بیٹھی‬
‫باتیں کرتی رہی تھیں‪ ......‬عمران‬
‫کمرے میں سو رہا تھا۔‬

‫‪95‬‬
‫"مجھے لگتا ہے جاوید آ گئے ہیں۔ تم‬
‫بیٹھو میں انہیں دیکھ لوں۔" قدموں کی‬
‫آہٹ پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"ارے بیٹھو ک کوئی مالزم ہو گا۔ اور‬
‫ویسے بھی جاوید بھائی کو پتہ‬
‫ہے‪....‬ک کہ میں آئی ہوئی ہوں تو آج‬
‫دوپہر کے رومانس کا سیشن نہ بھی‬
‫ہوا تو خیر ہے۔" آخر پر اس نے شریر‬
‫لہجے میں کہنے کی کوشش کی‬
‫تھی‪.....‬مگر چہرے کی اڑی ہوائیاں‬
‫زیادہ گہری تھیں جن کو محسوس نہ‬
‫کرتے ہوئے رامینہ اس کے قریب بیٹھ‬
‫گئی۔‬

‫‪96‬‬
‫" تم سے میں اپنی ہر بات شیئر کر کے‬
‫ایک دم ہلکی پھلکی سی ہو جاتی‬
‫ہوں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"سچ میں انیلہ! تم میری سگی بہنوں‬
‫جیسی ہو۔"‬
‫وہ بول رہی تھی اور انیلہ شرمندگی‬
‫سے سر مزید جھکائے جا رہی تھی۔‬
‫تبھی عمران کے رونے کی آواز سنائی‬
‫دی تھی۔‬
‫"میں عمران کو دیکھ لوں۔" وہ اٹھ‬
‫کھڑی ہوئی۔‬

‫‪97‬‬
‫ابھی کھڑکی تک ہی پہنچی تھی کہ اس‬
‫کی نظر غیر ارادہ طور پر کھڑکی کے‬
‫پار پڑی‪ ......‬اسے لگا وہ اب کبھی‬
‫وہاں سے ہل نہیں پائے گی۔ حلق میں‬
‫سانسیں اٹک چکی تھیں‪.....‬یہ دیکھ کر‬
‫کہ اس کا بڑا بھائی ایک ہاتھ میں‬
‫عمران کو اٹھائے اور دوسرے میں گن‬
‫تھامے سیڑھیاں ہی چڑھ رہا تھا۔‬
‫اس نے پلٹ کر انیلہ کو بےیقین‬
‫نگاہوں سے دیکھا جو ہاتھ جوڑے سر‬
‫جھکائے کھڑی تھی‪ ،‬اس کا وجود‬
‫ہچکیوں کی زد میں تھا۔‬
‫"م مجھے معاف کرنا رمی! میں مجبور‬
‫تھی‪ ........‬تمہیں تکلیف نہیں دے‬
‫‪98‬‬
‫سکتی مگر میں بہت مجبور ہوں۔" اس‬
‫نے کہا اور آگے بڑھ کر کھڑکی کے‬
‫قریب پڑے ٹیبل پر سے واس اٹھا کر‬
‫اس کے سر پر ڈے مارا اگلے ہی پل وہ‬
‫لہرا کر زمین بوس ہو چکی تھی۔‬
‫انیلہ نے تیزی سے آنسو پونچھتے‬
‫ہوئے اسے کھینچ کر بیڈ کے نیچے‬
‫چھپا دیا تھا۔‬
‫تبھی دروازے پر دستک ہوئی‪....‬وہ ڈر‬
‫کر دو قدم پیچھے ہٹی۔‬
‫پھر خود کو کمپوز کرتی دروازے کی‬
‫سمت بڑھی۔‬

‫‪99‬‬
‫"کہاں ہے وہ؟‪ .......‬آج اسے جان سے‬
‫مار ڈالوں گا۔" بھیا نے آگے بڑھ کر‬
‫ادھر اُدھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے کہا۔‬
‫"وہ باہر گئی ہے‪....‬کہہ رہی تھی اسے‬
‫ڈاکٹر کے پاس جانا ہے تو‪"......‬‬
‫"میں تمہیں ساتھ کس لیے الیا تھا؟‬
‫تاکہ تم اسے روک کر رکھو۔"‬
‫"بھائی! آپ کو تو عمران ہی چاہیے تھا‬
‫نا‪ ،‬ابھی کسی نے دیکھا بھی نہیں تو‬
‫ہم چلتے ہیں جاوید کے آنے کا وقت ہو‬
‫گیا ہے۔" انیلہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو‬
‫پاتے ہوئے کہا۔‬

‫‪100‬‬
‫وہاں سے جانچتی نگاہوں سے‬
‫دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہالتا پلٹ‬
‫گیا۔‬
‫انیلہ بھی اس کے پیچھے تیزی سے‬
‫بڑھی۔‬
‫"م میرا بچہ وہ‪.....‬وہ لوگ لے گئے‬
‫جاوید! میرا عمران مجھے ال دو۔" وہ‬
‫رو رو کر ہلقان ہو چکی تھی۔‬
‫"تمہارے بھائیوں کو معلوم ہو چکا تھا‬
‫رامینہ! وہ مجھے فون کر کے‬
‫دھمکیاں دیتے رہتے تھے کہ میں‬
‫تمہیں طالق دے دوں نہیں تو وہ‬
‫مجھے مار ڈالیں گے‪ "......‬جاوید کے‬

‫‪101‬‬
‫انکشاف ہر رامینہ دل تھام کر رہ گئی‬
‫تھی۔‬
‫"میں نے بھی ان کی کافی مرتبہ‬
‫بےعزتی کی تھی کہ اگر تم میرے ساتھ‬
‫خوش ہو تو وہ کیوں تمہاری خوشیوں‬
‫کے دشمن ہے‪......‬ہم ایک اچھی زندگی‬
‫گزار رہے ہیں میں ہر سکھ دے رہا‬
‫ہوں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا‬
‫چاہیے مگر وہ لوگ باز نہیں آئے‬
‫اور‪ ".....‬جاوید سر تھامتے ہوئے‬
‫صوفے پر گرنے کے سے انداز میں‬
‫بیٹھ گیا تھا۔‬

‫‪102‬‬
‫"وہ میرے بچے کو کہاں لے گئے ہوں‬
‫گے‪.....‬اسے ابھی فیڈ کروانا تھا۔" وہ‬
‫مزید شدت سے رونے لگی تھی۔‬
‫جاوید نے تیزی سے فون نکاال قور‬
‫اپنے پولیس آفیسر دوست آرش کو کال‬
‫کی تھی‪ .....‬ٹھیک آدھے گھنٹے تک‬
‫وہ گھر پہنچ گیا تھا۔‬
‫"بھائی! فکر نہیں کرو‪ ،‬عمران دوبئی‬
‫سے باہر نہیں جائے گا۔ہم اسے ڈھونڈ‬
‫لیں گے۔" آرش نے اس کے شانے پر‬
‫ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ جاوید کو‬
‫کچھ ہمت ملی۔‬

‫‪103‬‬
‫"تم بھابھی کا خیال رکھو‪ ،‬عمران مل‬
‫جائے گا۔" وہ کہہ کر اپنی ٹیم سے‬
‫رابطہ کرنے لگا۔‬
‫جاوید نے جو اپنے سالے کی تصویر‬
‫اسے واٹس ایپ کی تھی اس نے اپنی‬
‫ٹیم کو بھیج دی تھی۔‬
‫"ایئر پورٹ سے لے کر ریلوے‬
‫اسٹیشن تک ہر جگہ چیکنگ کرو۔ یہ‬
‫شخص دوبئی سے باہر نہ جانے‬
‫پائے۔" وہ کہتے ہوئے کمرے سے‬
‫نکل گیا۔‬
‫"رامینہ! عمران مل جائے گا‪ ،‬ہمارے‬
‫بیٹے کو کچھ نہیں ہو گا۔" جاوید نے‬
‫اس کو سینے میں بھینچے کہا تھا۔‬
‫‪104‬‬
‫آرش نے ہر جگہ چھان ماری‬
‫تھی‪......‬اور اگلے ہی دن وہ لوگ‬
‫عمران کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو‬
‫چکے تھے۔‬
‫رامینہ دیوانہ وار عمران کو چوم رہی‬
‫تھی‪ ......‬جاوید پرسکون سی‬
‫مسکراہٹ لیے بیوی بچے کو دیکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫"جاوید!‪.....‬میری بات سنو۔" آرش نے‬
‫اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بھی اس کے‬
‫ساتھ ہو لیا۔‬
‫"میرے بیٹے کو کسی نے کچھ کیا تو‬
‫نہیں؟" وہ عمران کے چہرے کو‬

‫‪105‬‬
‫ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"نہیں ماما!" عمران معصومیت سے‬
‫کہہ رہا تھا رامینہ نے اسے پھر سے‬
‫خود سے لگا لیا۔‬
‫" ان کے یہاں کے کرائے والے مکان‬
‫پر صرف عمران ہی مال تھا‪.....‬تمہارے‬
‫پانچوں سالے یہاں ہی موجود ہیں اور‬
‫اب انڈر_گراؤنڈ ہو چکے ہیں وہ پھر‬
‫سے حملے کی کوشش کریں گے بہتر‬
‫ہے تم پاکستان چلے جاؤ۔"‬
‫آرش نے بات کا آغاز کیا۔ جاوید‬
‫حیرانگی سےا سے دیکھنے لگس۔‬

‫‪106‬‬
‫"مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر‬
‫والوں کو جب تمہاری شادی کے متعلق‬
‫معلوم ہو گا تو غصے ہوں‬
‫گے‪.....‬تمہارے پاپا خفا ہوں گے مگر‬
‫جب تمہارے پھول جیسے بیٹے کو‬
‫دیکھیں گے تو ساری ناراضگی بھول‬
‫جائیں گے۔ اور رامینہ بھابھی بھی تو‬
‫اتنی اچھی ہے انہیں اعتراض نہیں ہوگا‬
‫انہیں اپنی بہو مانے سے۔" آرش نے‬
‫ایک نئی امید تھمائی تھی جس پر‬
‫جاوید نے غور کیا‪.......‬رامینہ سے‬
‫مشورہ کیا۔‬
‫"مجھے تو اپنے گھر والوں سے کوئی‬
‫اچھی امید نہیں ہے جاوید! سوچا تھا‬
‫‪107‬‬
‫کہ مان جائیں گے‪.....‬ہاں ہم سے غلطی‬
‫ہوئی ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر‬
‫شادی کر لی مگر ہم نے کوئی گناہ نہیں‬
‫کیا‪.....‬ہم اپنی زندگی میں خوش ہیں ‪،‬‬
‫مطمئن ہیں‪ ......‬انہیں بھی تو سمجھنا‬
‫چاہیے یار۔" رامینہ بہت دکھی تھی۔‬
‫اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ‬
‫یوں کرے گی انیلہ‪ .....‬بھائیوں سے تو‬
‫اسے یہ ہی امید تھی مگر انیلہ؟‪.....‬وہ‬
‫ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔‬
‫اگلے ہی دن وہ پاکستان کے لیے روانہ‬
‫ہو چکے تھے۔‬

‫‪108‬‬
‫دل میں ایک نئے امتحان کی تیاری‬
‫زیر‬
‫کرتے ہوئے اور ڈھیروں خوف کے ِ‬
‫اثر انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر‬
‫قدم رکھا تھا۔‬
‫نواب وال اس وقت طوفانی خاموشی کی‬
‫زد میں تھا۔‬
‫ہر فرد خاموش نگاہوں سے ان تینوں‬
‫کو دیکھ رہے تھے۔‬
‫"تم نے کیا سوچا تمہارے اس گناہ کی‬
‫پوٹلی کو ہم قبول کر لیں گے؟" نواب‬
‫صاحب کی گرج دار آواز پر عمران سہم‬
‫کر جاوید کی گردن کے گرد بازو حائل‬

‫‪109‬‬
‫کرتے ہوئے سختی سے آنکھیں موند‬
‫گیا تھا۔‬
‫"بابا جان! خدا کا خوف کریں‪ ،‬ہم نے‬
‫کوئی گناہ نہیں کیا شرعی نکاح ہے‬
‫ہمارا۔" جاوید نے خفگی سے سفید‬
‫پڑتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"تم سے اب ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‪،‬‬
‫یا اس عورت کو تین لفظ بول کر فارغ‬
‫کرو یا اس کے ساتھ ہی الٹے پاؤں‬
‫واپس لوٹ جاؤ۔" وہ پشت پر ہاتھ‬
‫باندھتے ہوئے رخ پھیر گئے۔‬
‫جاوید کے پیروں تلے سے آج پھر‬
‫سے زمین سرک گئی تھی۔‬

‫‪110‬‬
‫وہ ہر بار اسے ایسی مشکل میں ڈال‬
‫دیتے تھے۔‬
‫"بابا جان! میں نے بہت کوشش کی‬
‫تھی آپ کو منانے کی‪......‬چاہتا تھا کہ‬
‫آپ کی رضا مندی سے ہماری شادی ہو‬
‫مگر آپ نہیں سمجھے۔ بلکہ چوری‬
‫چوری میری منگنی نسیمہ سے‬
‫کروانے کی کوشش کی‪ "......‬اس نے‬
‫بےحد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔‬
‫"میں رامینہ سے محبت تھا‪ ،‬کرتا ہوں‬
‫اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ اور اسی لیے‬
‫میں کبھی بھی اسے دھوکہ نہیں دے‬
‫سکتا تھا‪......‬میں اسے محبت کر کے‬
‫کسی اور سے شادی کی ہمت ہرگز نہیں‬
‫‪111‬‬
‫رکھتا تھا‪.......‬اسی لیے مجبورا ً ہمیں‬
‫یہ قدم اٹھانا پڑا مگر خدا گواہ ہے ہم‬
‫نے کبھی حرام نہیں کیا۔ حالل رشتہ‬
‫قائم کیا ہے۔" وہ بول رہا تھا اور سب‬
‫سن رہے تھے۔‬
‫ماں کا دل چاہا رہا تھا کہ وہ اپنے سفید‬
‫و سرخ ‪،‬روئی جیسے نرم و مالئم‬
‫پوتے کو باہوں میں اٹھا کر خوب‬
‫بالئیں لے مگر شوہر کا ڈر ایسا تھا کہ‬
‫وہ ترسی نگاہوں سے بٹیے اور پوتے‬
‫کو دیکھتیں آنسو بہاتی رہیں۔‬
‫"نکل جاؤ اس گھر سے‪.....‬اور آئندہ‬
‫کبھی ادھر منہ مت کرنا۔مر چکے تم‬
‫ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے۔" بابا‬
‫‪112‬‬
‫جان کا دل موم نہیں ہوا تھا‪.....‬پتھر کا‬
‫مجسمہ بنے اکڑ کر کھڑے تھے۔‬
‫رامینہ نے نم آنکھوں سے جاوید کی‬
‫جانب دیکھا۔‬
‫وہ لب بھینچے اس کا ہاتھ تھامے‬
‫واپس پلٹ گیا۔‬
‫سامان ابھی گاڑی میں ہی پڑا تھا سو‬
‫انہیں یہ بھار نہیں اٹھانا پڑا اپنے وجود‬
‫کا بوجھ ہی آج بہت لگ رہا تھا۔‬
‫ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ‬
‫واپس دوبئی جا سکیں‪......‬اور عمران‬
‫میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہاں رہ‬
‫پائے‪ ......‬درمیان کا راستہ نکالتے‬

‫‪113‬‬
‫ہوئے وہ اپنے ایک پٹھان دوست کے‬
‫ذریعے پشاور میں جا بسا۔‬
‫دونوں کی مسکراہٹ غائب ہو چکی‬
‫تھی‪.....‬اب صرف جی رہے تھے تو‬
‫عمران کی خاطر‪......‬کچھ اپنوں کی‬
‫دوری نے انہیں خاموش کر دیا تھا اور‬
‫کچھ اپنے بیٹے کے مستقبل نے‪......‬کہ‬
‫دونوں کی جاب چھوٹ چکی تھی اور‬
‫پشاور میں ابھی انہیں جاب مل نہیں‬
‫رہی تھی۔‬
‫دن با دن بڑھتے اخراجات نے جاوید کو‬
‫بہت پریشان اور سنجیدہ کر دیا تھا۔وہ‬
‫جو ہر وقت ہنستا ہنساتا رہتا تھا‬
‫خاموش سا ہو گیا تھا۔‬
‫‪114‬‬
‫کبھی کبھی رامینہ اس کی خاموشی پر‬
‫رو دیتی تھی۔‬
‫"رامینہ! ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے‬
‫سے کچھ نہیں ہو گا‪،‬اسی لیے ایک دو‬
‫لوکل کمپنیز میں انٹرویو دے آیا ہوں‬
‫کاؤنٹینٹ کی پوسٹ کے لیے امید تو‬
‫ہے مل جائے گی۔"‬
‫کھانا کھاتے وقت اس نے کہا تھا۔‬
‫رامینہ نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ‬
‫تھام لیا۔‬
‫"ان شاءہللا۔"‬
‫جاوید نے سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫‪115‬‬
‫ہر وقت نک سک سے تیار رہنے والی‪،‬‬
‫اپنا ایک بھی بال ادھر سے ادھر نہیں‬
‫ہونے دینے والی رامینہ کے وجود پر‬
‫پرانا لباس تھا جس کا پرینڈ بھی مٹ‬
‫چکا تھا۔‬
‫جاوید کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ دوسرا‬
‫نوالہ حلق سے نہیں اتار سکا اور‬
‫دسترخوان سے اٹھ گیا۔‬
‫کمرے میں بند ہوتے ہی وہ ہونٹوں پر‬
‫ہاتھ رکھے رو دیا تھا۔‬
‫"میری وجہ سے ہوا ہے یہ‬
‫سب‪......‬مجھے محبت سے نہیں بلکہ‬
‫سختی سے سب کو منانا چاہیے تھا تو‬
‫آج حاالت یہ کہ ہوتے۔ میری رامینہ‬
‫‪116‬‬
‫کے وجود پر پرانے لباس‪ .....‬آگے جا‬
‫کر میرے بیٹے کا کیا ہو گا؟" وہ‬
‫دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر مزید‬
‫شدت سے رو دیا۔‬
‫"نہیں میں محنت کروں گا اور پھر سے‬
‫ان دونوں کو وی زندگی دوں گا جو وہ‬
‫دونوں جی رہے تھے۔" وہ بڑبڑاتے‬
‫ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫جاوید نے ان تھک دن رات محنت کی‬
‫تھی‪......‬رامینہ اور عمران کے اچھے‬
‫مستقبل کے لیے وہ ہر مشکل سے گزر‬
‫رہا تھا۔‬

‫‪117‬‬
‫اس نے پہلے جاب شروع کی اور ساتھ‬
‫ساتھ اپنے پٹھان دوست کے ساتھ مل‬
‫کر قالین کا کاروبار شروع کیا۔‬
‫جب وہاں سے منافع ہوا تو اس نے‬
‫آمدن دوبئی کی ایک بہت بڑی کمپنی‬
‫میں انویسٹ کی جس کے سٹک مارکیٹ‬
‫ہمیشہ بڑھتے تھے۔‬
‫یہ کام اس نے بہت ساری ریسرچ اور‬
‫سوچ سمجھ سے کام لیتے ہوئے کیا‬
‫تھا۔‬
‫اور وہ کامیاب ہوا تھا‪......‬‬
‫کرائے کے گھر سے بنگلہ ‪ ،‬بنگلے‬
‫سے عالیشان کوٹھیاں‪.....‬لمبی لمبی‬

‫‪118‬‬
‫گاڑیاں‪......‬وہ بینک کی جاب چھوڑ کر‬
‫اب سارا وقت اپنے بزنس کو دے رہا‬
‫تھا۔‬
‫اسی دوران وہ رامینہ سے چوری اس‬
‫کے والد سے بھی ملتا رہا تھا کہ وہ‬
‫رامینہ کو معاف کر دیں مگر ہر مرتبہ‬
‫انسلٹ کروا کر واپس لوٹ آتا پھر بھی‬
‫وہ ان کے سامنے اگلی بار موجود ہوتا‬
‫تھا اس امید پر کہ وہ معاف کر دیں‬
‫گے۔‬
‫خاندان کے جو لوگ کبھی اس کی‬
‫مخالف کرتے تھے اور نواب صاحب کو‬
‫جاوید کے خالف مزید بھڑکاتے تھے‬
‫اب چوری چھپے اس سے تعلقات‬
‫‪119‬‬
‫استوار کرنے لگے کہ جاوید دولت و‬
‫شہرت کی سیڑھی پر دن با دن آگے‬
‫بڑھ رہا تھا‪.....‬اپنے اللچی رشتے‬
‫داروں کی فطرت جاننے کے باوجود‬
‫جاوید کشیدہ پیشانی سے ان سے ملتا‬
‫تھا‪......‬‬
‫عمران اب اسکول جانے لگا تھا۔‬
‫زندگی پھر سے حسین ہونے لگی‬
‫تھی‪......‬ان ہی دنوں جاوید نے الہور‬
‫میں جگہ خرید اور وہاں ایک بہت ہی‬
‫خوبصورت برٹش ڈیزائن کا بنگلہ بنوا‬
‫ڈاال‪.....‬وہ چاہتا تھا کہ الہور شیفٹ ہو‬
‫جائیں۔‬

‫‪120‬‬
‫"مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ‬
‫میں نے آپ کو آپ کے والدین سے‬
‫چھین لیا ہے۔" آج اتنے سالوں بعد اس‬
‫ٹاپک پر بات ہو رہی تھی۔‬
‫وہ جو لیپ ٹاپ پر نگاہیں ٹکائے کوئی‬
‫ضروری کام کر رہا تھا چونک کر‬
‫سامنے دیکھنے لگا۔‬
‫رامینہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نم‬
‫آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔‬
‫چند پل وہ دونوں ایک دوسرے کی‬
‫نگاہوں میں دیکھتے رہے پھر جاوید‬
‫لیپ ٹاپ بند کر کے اس کے پاس چال‬
‫گیا۔‬

‫‪121‬‬
‫"نہیں رمی! یہ ہم دونوں کا مشترکہ‬
‫فیصلہ تھا‪......‬ہم ایک دوسرے کو‬
‫قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے۔"‬
‫"ہاں غلطی تو ہم سے ہوئی ہے۔مگر‬
‫میں آج تک نہیں سمجھا کہ یہ ہی‬
‫معاشرہ ہے جب مرد کسی عورت کو‬
‫دھوکا دیتا ہے تو اسے پتہ نہیں کیا کیا‬
‫کہتے ہیں اور اگر وہ ہی مرد عورت کی‬
‫حفاظت کرے‪ ،‬محبت کرنے کے بعد‬
‫شادی بھی کرے تو نجانے پھر بھی‬
‫کیوں مرد ہی برا کہالتا ہے۔"‬
‫"عورت کو کون سا بخشتے ہیں‬
‫جاوید!‪.......‬ہم چاہتے تھے کہ ہمارا‬
‫رشتہ حالل ہو ہم محبت کی آڑھ میں‬
‫‪122‬‬
‫کوئی گناہ نہ کریں‪.......‬کوئی نہ مانا‬
‫ہماری شادی کے لیے اور جب ہم نے‬
‫خود کر لی پھر بھی ہم ہی غلط‪.....‬‬
‫باغی‪......‬کوئی نہیں سمجھا‪ ".......‬وہ‬
‫اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے‬
‫آنکھیں موند گئی۔‬
‫"اچھا چھوڑو یار! تم اتنی ٹینشن مت‬
‫لیا کرو‪.....‬اتنی فالتو سوچوں سے بہتر‬
‫ہے کہ تم کوئی جاب ہی کر لو بلکہ‬
‫مجھے بزنس میں جوائن کرو۔" وہ‬
‫ماحول میں چھائی آسودگی کو ختم‬
‫کرنے کے لیے شریر لہجے میں بوال۔‬
‫"نہ بابا‪.....‬مجھ سے نہیں ہو‬
‫گا‪.....‬میں آپ کے نواب کو سنبھال لوں‬
‫‪123‬‬
‫اور‪ ....‬نواب کے باپ کو سنبھال لوں‬
‫اتنا ہی میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔"‬
‫وہ ہنستے ہوئے بولی۔‬
‫"نہیں رامینہ! تمہیں بزنس میں انٹرسٹ‬
‫لینا ہو گا‪ ......‬خدا جانے کل کو کیا‬
‫ہو‪......‬کیا پتہ تمہیں سنبھالنا پڑے سب‬
‫تو پھر‪.......‬؟"‬
‫"مجھے کیوں سنبھالنا پڑے گا یہ‬
‫سب‪ ......‬آپ ہیں نا۔"‬
‫"میں کبھی نہیں بھی ہوں گا۔" جاوید‬
‫کے منہ سے اچانک ہی نکال تھا رامینہ‬
‫خوف زدہ ہو کر سر اٹھائے اسے‬
‫دیکھنے لگی۔‬

‫‪124‬‬
‫"ارے کیا ہوا میری جان! میرا مطلب‬
‫ہے‪......‬میرا دل بھی آرام کرنے کو‬
‫کرتا ہے۔" وہ ہنستے ہوئے بوال تھا۔‬
‫"آپ ہمیشہ ہوں گے جاوید!‪ ......‬آپ‬
‫کے بنا تو میرا کوئی وجود ہی نہیں‬
‫ہے۔" رامینہ نے اس کے سینے پر سر‬
‫ٹکایا تو جاوید نے باہوں کا گھیرا مزید‬
‫تنگ کر دیا تھا۔‬
‫"تم آج بھی اتنی ہی خوبصورت ہو‬
‫جتنی پہلے دن تھی۔" وہ گھمبیر لہجے‬
‫میں گویا ہوا تھا۔‬
‫رامینہ مسکرا شرما کر اس کی آغوش‬
‫میں سمٹ گئی تھی۔‬

‫‪125‬‬
‫وہ لوگ ابھی الہور شیفٹ ہوئے تھے‬
‫اور وہ پالن بنا رہا تھا کہ ایک مرتبہ‬
‫پھر سے کوشش کرے والد کو منانے‬
‫کی کیونکہ باقی گھر والوں سے تعلقات‬
‫بہتر ہو ہی چکے تھے‪......‬‬
‫کہ ایک دن نواب صاحب کی اچانک‬
‫موت کی خبر پر جاوید بھونچکا رہ گیا‬
‫تھا۔‬
‫ہاتھ میں تھاما سیل فون چھوٹ کر‬
‫زمین پر جا گرا۔‬
‫رامینہ نے بھاگ کر اسے سہارا دیتے‬
‫ہوئے صوفے پر بیٹھا دیا تھا۔‬

‫‪126‬‬
‫"ب بابا جان‪ "......‬مزید اس سے کچھ‬
‫بھی بوال نہیں جا رہا تھا۔‬
‫رامینہ اس کے چہرے سے ہی اندازہ‬
‫لگا چکی تھی کہ کچھ غلط ہوا ہے۔‬
‫"بابا جان! اب اس دنیا میں‪ ".....‬وہ‬
‫سختی سے لب بھینچ گیا تھا‪......‬رامینہ‬
‫نے زندگی میں پہلی مرتبہ اسے روتے‬
‫ہوئے دیکھا تھا اور ساتھ خود بھی رو‬
‫دی تھی۔‬
‫جاوید نے خود کو سنبھاال تھا اور ان‬
‫دونوں کے لے کر اپنے والد کے گھر‬
‫روانہ ہو گیا۔‬

‫‪127‬‬
‫اسے ہر ایک بات یاد آ رہی‬
‫تھی‪....‬بچپن سے جوانی تک اور پھر‬
‫اسے گھر سے نکال دیئے جانے تک‬
‫سب کسی فلم کی مانند اس کی آنکھوں‬
‫کے پردے پر چل رہا تھس۔‬
‫گالسز کے پیچھے آنکھیں چھپائے وہ‬
‫روئے جا رہا تھا۔‬
‫اس نے سب کچھ بہت اچھے سے‬
‫سنبھال لیا تھا۔‬
‫کھانے پینے سے لے کر مہمانوں کے‬
‫رکنے تک کا انتظام اس نے کروایا تھا۔‬
‫وہ اس قسم کے حاالت میں اپنے گھر‬
‫والوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا سو‬

‫‪128‬‬
‫وہ واپس اپنے گھر نہیں گیا‪.....‬اس دن‬
‫کا رکا پھر وہ ہمیشہ کے لیے اس گھر‬
‫میں اپنی بیوی بچے کے ساتھ رہنے‬
‫لگا جس گھر میں وہ رہنے کے متعلق‬
‫سوچتا تھا۔‬
‫مگر اب اسے نواب صاحب کی کمی‬
‫چبھتی تھی‪.....‬وہ زیادہ تر دیر رات کو‬
‫آتا تھا جب سب سو چکے ہوتے‪.......‬‬
‫عمران کی بھی اپنے کزنز سے بہت‬
‫اچھی دوستی ہو چکی تھی‪.....‬جو اسے‬
‫سر آنکھوں پر بیٹھا کر رکھتے تھے۔‬
‫وقت کی ایک ہی تو اچھی بات ہے بہت‬
‫تیزی سے گزر جاتا ہے‪.......‬بچے‬
‫جوان ہو رہے تھے اور جوان بوڑھے۔‬
‫‪129‬‬
‫جاوید آج کل زیادہ وقت فیملی کے ساتھ‬
‫گزارتا تھا۔‬
‫وہ لوگ گھومنے پھرنے بھی جاتے‬
‫تھے۔‬
‫زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔‬
‫ابھی بھی وہ سب لوگ الہور کے سب‬
‫سے مہنگے ترین ہوٹل میں ڈنر کرنے‬
‫آئے تھے۔‬
‫"چاچو! اور کوئی بھی نہیں ہے؟"‬
‫بڑے بھائی کے بیٹے نے حیرانگی‬
‫سے استفسار کیا۔‬
‫"نہیں مائی سن‪.....‬آج میں نے ہوٹل‬
‫بک کروایا ہے‪ ،‬پوری فیملی تھی تو‬
‫‪130‬‬
‫میں نے سکیورٹی کے لیے ایسا کیا۔ تم‬
‫لوگ انجوائے کرو۔" وہ اس کی جانب‬
‫مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے‬
‫بولے بچہ پارٹی وہاں سے ہٹ گئے‬
‫تھے۔‬
‫باقی سب بھی سیلفیاں اور گپ شپ‬
‫کرنے لگے۔‬
‫"تم دیکھ رہے ہو ہمارا بیٹا کتنا خوش‬
‫ہے۔" رامینہ نے کہا۔‬
‫"ہوں۔ ایک منٹ ذرا سائیڈ پر آئیں۔" وہ‬
‫مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر‬
‫ایک جانب چل دیا۔‬

‫‪131‬‬
‫ایک کمرے میں داخل ہوتے ہی جیسے‬
‫ہی اس نے الئٹس روشن کیں پورا‬
‫کمرہ روشنی سے نہا گیا۔‬
‫ہر جانب فالورز ہی فالورز تھے۔‬
‫"جاوید!‪.....‬اب اس سب کی کہاں عمر‬
‫رہی ہے۔"‬
‫"بیگم محبت کی کوئی عمر نہیں‬
‫ہوتی۔" وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے‬
‫بولے تھے۔‬
‫"ہم آج بھی آپ سے اتنی ہی محبت‬
‫کرتے ہیں رامینہ خان! جتنی کل کرتے‬
‫تھے۔" وہ اس کی پیشانی چوم کر بوال‬
‫تو رامینہ مسکرا دی تھی۔‬

‫‪132‬‬
‫"ایک اور سرپرائز ہے۔" وہ کچھ یاد‬
‫آتے ہی بوال اور اپنی جیب میں سے‬
‫فون نکال کر کوئی نمبر ڈائل کرتے‬
‫ہوئے اسی کو دیکھ رہا تھا۔‬
‫"اسالم علیکم انکل! یہ کیں بات کریں‬
‫رمی سے‪ "....‬اس نے کہتے ہی فون‬
‫رامینہ کو تھما دیا۔‬
‫"پاپا ہیں بات کرو " اس کی سوالیہ‬
‫نگاہوں کو پڑھتے ہوئے جاوید نے کہا‬
‫تو مارے خوشی کے وہ ہینگ ہو چکی‬
‫تھی۔‬
‫والد نے اسے معاف نہیں کیا تھا بلکہ‬
‫گھر بھی بالیا تھا‪ ......‬آج سچ میں‬

‫‪133‬‬
‫اسے یوں لگا کہ زندگی اب مکمل ہوئی‬
‫ہے۔‬
‫مگر کبھی کبھی جو انسان سوچتا ہے‬
‫وہ ہوتا نہیں‪ ......‬کبھی کبھی آزمائش‬
‫باقی ہوتی ہے‪......‬اور رامینہ کی‬
‫آزمائش ابھی باقی تھی۔‬
‫اچانک ہی ایک دن جاوید دنیا سے چل‬
‫بسے تھے‪ ......‬رامینہ کا تو تخت ہی‬
‫الٹ گیا۔‬
‫اپنے محبوب شوہر کو کھونے کی وجہ‬
‫سے وہ ایک دم سے چپ سی ہو گئی‬
‫تھی‪.....‬مانو جیسے پتھر ہو۔‬

‫‪134‬‬
‫جاوید کے کھڑے کیے ایمپائر‪......‬‬
‫بلڈنگز رفتہ رفتہ نجانے کہاں کیسے‬
‫بکتے گئے‪ .....‬عمران جو کہ یہ سب‬
‫دیکھ رہا تھا بےحد پریشان ہو گیا۔‬
‫وہ باپ کی موت سے ابھی بلکل بھی‬
‫نہیں سنبھال تھا مگر ماں کی اور اپنے‬
‫والد کے بزنس کو تباہ ہوتے دیکھ وہ‬
‫معصوم اپنی معصومیت سے بڑھ کر‬
‫کچھ کر گیا۔‬
‫"ماما! میں جانتا ہوں کہ آپ کو ڈیڈ کی‬
‫جدائی کا غم ہے‪......‬مگر آپ میرے‬
‫بارے میں تو سوچیں۔ آپ کے بیٹے کو‬
‫آپ کی ضرورت ہے۔"‬

‫‪135‬‬
‫"ماما! میں آپ کے بغیر ادھورا ہوں‪،‬‬
‫میرا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے‬
‫آپ جانتی ہیں نا؟"‬
‫اس نے رفتہ رفتہ رامینہ کے بت میں‬
‫جان پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھی‬
‫تھی ساتھ ہی وہ آرش سے رابطے میں‬
‫تھا۔‬
‫"آرش انکل! ڈیڈ نے ایک دفعہ مجھے‬
‫کہا تھا کہ جب بھی مجھے کسی مدد‬
‫کی ضرورت ہو تو میں آپ سے رابطہ‬
‫کروں۔ مجھے زیادہ سمجھ تو نہیں ہے‬
‫مگر ڈیڈ مجھے اپنے بزنس کے متعلق‬
‫بتاتے تھے جو مجھے تھوڑا بہت‬

‫‪136‬‬
‫سمجھ آتا تھا۔" اس نے فون پر آرش‬
‫سے کہا تھا۔‬
‫"یہاں پاکستان میں تو میں کچھ بھی‬
‫نہیں بچا پا رہا کہ میرے ہاتھ میں کچھ‬
‫بھی نہیں ہے‪.....‬بابا ابھی وصیت بنا‬
‫رہے تھے مگر اس سے پہلے ہی وہ‬
‫ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر دوبئی‬
‫کا جو بھی کاروبار ہے وہ ابھی تک‬
‫محفوظ ہے۔ کیونکہ ڈیڈ نے بہت اچھی‬
‫کمپنی میں انویسٹ کیا تھا اور ابھی‬
‫تک اس کمپنی کو نقصان نہیں ہوا مگر‬
‫انکل یہ کوئی سرکاری کمپنی نہیں‬
‫ہے‪ "....‬وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا۔‬

‫‪137‬‬
‫"میں ساتھ میں اپنا بزنس سٹارٹ کرنا‬
‫چاہتا ہوں‪.....‬پاپا کی طرح‪ "......‬اس‬
‫نے کہا تھا۔‬
‫"عمران بیٹا! تم بہت قابل انسان بنو‬
‫گے‪.....‬تمہاری کہانی بہت انوکھی‬
‫ہونے والی ہے۔" آرش نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا تھا۔‬
‫عمران نے سختی سے لب بھینچ کر‬
‫سر جھکا لیا تھا۔‬
‫کال کٹ کرتے ہوئے وہ رامینہ کی‬
‫جانب بڑھ گیا۔‬
‫”‪“Present‬‬

‫‪138‬‬
‫عمران کہانی سناتے سناتے خود‬
‫رونے لگا تھا‪ .....‬کیونکہ یہ کوئی‬
‫جھوٹی کہانی نہیں تھی‪....‬یہ اس سے‬
‫جوڑی کہانی تھی‪.....‬اس کے والدین‬
‫کی۔‬
‫میری آنکھیں بھی جھلک پڑی‬
‫تھیں‪.....‬‬
‫"مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا‬
‫کہوں‪ "......‬میں نے آنسو پونچھتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫"یہ ہی کہہ کہانی اچھی تھی۔" اس نے‬
‫آنسو تو پونچھ لیے تھے مگر آنکھوں‬
‫کی سرخی نہ مٹا پایا۔‬

‫‪139‬‬
‫"ہوں اچھی تھی‪......‬اور میں ضرور‬
‫لکھوں گی‪.....‬مگر مجھے آپ کی‬
‫کہانی کا بےصبری سے انتظار رہے‬
‫گا۔"‬
‫کافی کا تیسرا مگ بھی ختم ہو چکا تھا‬
‫اور میرے جانے کا ٹائم بھی ہو چکا‬
‫تھا۔‬
‫"اوکے عمران!‪......‬اب میں اجازت‬
‫چاہوں گی۔" میں کرسی دھکیل کر اٹھ‬
‫کھڑی ہوئی تھی۔‬
‫"چلیں۔" وہ بھی میرے ساتھ ہو لیا تھا۔‬
‫"بہت شکریہ نواب صاحب!‪ .....‬دنیا‬
‫میں آپ جیسے عزت کرنے والے اور‬

‫‪140‬‬
‫ایماندار لوگوں کی بہت کمی‬
‫ہے‪.....‬اسی لیے کبھی بدلیے گا نہیں۔"‬
‫گاڑی کی چابی تھامتے ہوئے میں نے‬
‫کہا تھا۔اس نے مسکراتے ہوئے اثبات‬
‫میں سر ہالیا۔‬
‫"آپ نے اپنا نام ابھی تک نہیں بتایا؟"‬
‫اس نے پوچھا میں مسکرا دی۔‬
‫"کہانی لکھیں گے تو اس پر ہمارا نام‬
‫ضرور ہو گا پڑھ لیجئے گا۔" میں نے‬
‫آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے کہا‬
‫تھا وہ مسکرا دیا۔‬
‫"ّٰللا حافظ‪.....‬امید ہے پھر مالقات ہو‬
‫ہ‬
‫گی۔"‬

‫‪141‬‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس‬
‫"ان شاءہللا میڈم!‪ ......‬ہ‬
‫نے کہا تھا۔‬
‫میں نے الوداعی نگاہ اس پر ڈالی تھی‬
‫اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھی۔‬
‫گاڑی آگے بڑھا لی تو میں نے بیک‬
‫مرر میں دیکھا وہ آسمان کی جانب‬
‫دیکھتے ہوئے شاید اپنے والد سے‬
‫بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫میں نے اس کی سرخ آنکھوں کو پھر‬
‫سے نم ہوتے دیکھا تھا۔‬
‫ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے آنکھوں پر سے‬
‫گالسز اتارے اور نم آنکھوں کو پونچھ‬
‫دیا۔‬

‫‪142‬‬
‫"سچی کہانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں‪......‬‬
‫اختتام سیڈ ہی ہوتا ہے‪.....‬جاوید نے‬
‫محبت کی خاطر نجانے کیا کیا نہ کیا‬
‫اور آخر پر اسی محبت سے جدا ہونا‬
‫پڑا۔‬
‫مجھے واقع ہی جاوید کی محبت پر فخر‬
‫سا ہو رہا تھا کہ آج کے دور میں کون‬
‫اسٹینڈ لیتا ہے بھال؟‬
‫اتنے لوگوں سے الجھتا کون ہے؟‬
‫وہ تین کشتیوں میں سوار رہا‬
‫تھا‪......‬ایک جانب اپنے گھر والے جن‬
‫کو وہ منانے کی کوشش کرتا مگر والد‬
‫کی ناراضگی کے سامنے اس کی‬
‫معافی طالفی کسی کام نہ آئی ایک جانب‬
‫‪143‬‬
‫اس کی بیوی بچے اور ایک جانب اس‬
‫کا سسرال۔‬
‫ہاں مانتی ہوں کہ بچوں کے کچھ‬
‫فیصلے ماننے والے نہیں ہوتے مگر‬
‫ان کی خوشیوں کو قتل کرنے کا حق‬
‫بھی والدین کو نہیں ہے۔‬
‫پھر جاوید اور رامینہ تو ویسے بھی‬
‫اپنے پیروں پر کھڑے تھے تو ان کے‬
‫گھر والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا‬
‫چاہیے تھا‪ .....‬مسئلہ تھا تو بس یہ کہ‬
‫خاندان سے باہر شادی نہیں ہو سکتی۔‬
‫ذات سے باہر نہیں شادی ہو گی‪.....‬‬

‫‪144‬‬
‫مگر شادی کے لیے ذات کی کیا‬
‫ضرورت؟ اور پھر کہا جاتا ہے جوڑیاں‬
‫تو آسمانوں پر بنتی ہیں۔" میں سوچتے‬
‫سوچتے تھک گئی تھی تبھی گاڑی‬
‫ایک جانب روکتے ہوئے سر سیٹ کی‬
‫پشت سے ٹکا لیا۔‬
‫"عمران نواب کی اپنی کہانی کا انتظار‬
‫رہے گا مجھے‪.....‬اس لڑکے میں ایک‬
‫الگ ہی جذبہ دیکھا ہے‪ .....‬جاوید‬
‫نواب سے بھی آمیزنگ زندگی ہو گی‬
‫اس کی۔" سوچتے ہوئے میرے ہونٹوں‬
‫کو مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫******‬

‫‪145‬‬
‫ختم شد‬

‫‪146‬‬

You might also like