You are on page 1of 116

‫‪Bahzad ul‬‬

‫‪hassan‬‬

‫ناول‪ :‬سکینڈل‬
‫گرل‬

‫رائیٹر‪ :‬سید مصطفٰی‬


‫احمد‬

‫قسط نمبر‪09 :‬‬


‫)سیکنڈ السٹ(‬

‫۔‬
‫۔‬
‫آ جاؤ مہرین زرہ باہر کی ہوا کھاتے"‬
‫ہیں تمیں بھوک لگی ہو گی میں نے‬
‫مہرین کو آنکھ مارتے ہوٸے کہا۔‬
‫کیونکہ میں چاہتا تھا کہ سدرہ‬
‫کھل کے امی سے بات کرلے۔۔۔‬

‫ماں سے سدرہ بات کر کے بہت‬


‫خوش تھی۔۔‬

‫گیارہ بجے ُا س کی ماں سے بات‬


‫ہوٸی تین بجے تک وہ اور میں‬
‫ہنسی مزاق کرتے رہے۔۔۔‬

‫تین بجے اچانک پھر ُا س کی ناک‬


‫سے خون آنا شروع ہو گیا میں فوًر ا‬
‫ڈیوٹی ڈاکٹر کو بال الیا۔۔‬
‫باوجود کوشش کے سدرہ کی‬
‫طبیعت نہ سنبھل سکی۔۔۔‬
‫اور اگلے ایک گھنٹے میں سدرہ کو‬
‫آٸی سی یوں میں منتقل کر دیا‬
‫گیا۔۔‬
‫اب سدرہ دواٶں کے زیر اثر‬
‫غنودگی میں تھی میں تھوڑی دیر‬
‫کے بعد جا کے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔‬
‫سدرہ کو جب پہلے دن ہسپتال الٸے‬
‫تھے تو وہ بیہوشی کی حالت میں‬
‫بھی رو رہی تھی۔۔‬
‫ُا س کی آنکھوں سے مسلسل پانی‬
‫بہ رہا تھا۔۔‬

‫لیکن آج وہ بے ہوش تو تھی۔۔‬


‫لیکن ُا س کے لب مسکرا رہے تھے۔‬

‫ُا س کے چہرے پہ سکون تھا‬


‫اطمینان تھا۔۔۔‬

‫وہ رات ایسے ہی جاگتے اور‬


‫پریشانی میں گزر گٸی ۔۔‬

‫تین بجے کے قریب سدرہ کو ہوش آ‬


‫گیا ڈاکٹر نے اطالع دی کہ آپ اپنے‬
‫پیشنٹ سے مل سکتے ہیں۔۔۔‬
‫میں اکیال ہی تھا ہسپتال کیونکہ‬
‫کہ کل شام مہرین کو میں نے‬
‫ماموں کے ساتھ گھر بھیج دیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫وہ کافی دن کی تھکی ہوٸی تھی‬


‫اور پھر سدرہ آٸی سی یو میں‬
‫تھی میں نے کہا کہ اب ضرورت‬
‫نہیں ہے دو لوگوں کی تم آرام کر لو‬
‫آج کی رات۔۔۔۔‬

‫جب میں آٸی سی یو میں پہنچا تو‬


‫وہ مکمل ہوش میں تھی اور کافی‬
‫بہتر لگ رہی تھی۔۔‬
‫کیسی ہو ِس ڈ میں نے مکراتے ہوٸے‬
‫پوچھا۔۔‬
‫ِس ڈ از ڈیڈ شاہ سر‬

‫شٹ اپ بکواس مت کرو تم۔۔‬

‫اب اگر ایسا کہا تو بات نہیں کروں‬


‫گا‬

‫اچھا نہیں کہتی ایسے لیکن کچھ‬


‫اور تو کہ سکتی ہوں نا۔۔‬

‫ہاں اور جو میرضی کہوں‬


‫آپ کی طرف میری دو وش اور‬
‫رہتی ہیں شاہ سر۔۔۔‬
‫سدرہ نے میرا ہاتھ تھامتے ہوٸے یاد‬
‫کروایا۔۔۔‬
‫ہاں مجھے یاد ہیں بولوں میں پوری‬
‫کروں گا۔۔۔۔‬

‫سدرہ اب مکمل چپ تھی جیسے‬


‫الفاظ ترتیب دے رہی ہو‬

‫تبھی گارڈ نے کہا کہ سر آٸی سی‬


‫یو میں اتنی دیر رکنے کی اجازت‬
‫نہیں آپ باہر آ جاٸیں۔۔۔‬
‫میں نے ایک پانچ سو کا نوٹ اس‬
‫کی ہتھیلی پہ ہاتھ مالنے کے بہانے‬
‫رکھتے ہوٸے کہا بس ہاف گھنٹہ‬
‫کچھ بات کرنی ہے ضروری۔۔۔‬
‫اچھا سر جلدی کر لیں یہ کہتا ہوا‬
‫وہ باہر چال گیا۔۔۔‬
‫ِس ڈ بولو چپ کیوں ہو۔۔۔۔‬

‫شاہ سر بچپن سے لے کر جوانی تک‬


‫میں گھر میں ہوتے ہوٸے بھی اکیلی‬
‫رہی۔۔‬
‫نا کوٸی دوست تھی نہ کسی کے‬
‫گھر آنا جانا بس سکول سے گھر‬
‫اور گھر سے سکول۔۔۔‬
‫میری امی بھی بہت سادہ خاتون‬
‫تھی۔۔‬

‫ان پڑھ تھی ِا س لٸے جو ماں بیٹی‬


‫کے درمیان دوستی ہوتی ہے وہ ان‬
‫کے میرے درمیان نہ ہو سکی۔۔‬

‫اور امی ویسے بھی بس ہر وقت‬


‫کام کرتی رہتی۔۔۔‬

‫بابا پیار بہت کرتے تھے لیکن‬


‫طبیعت کے بہت سخت تھے۔۔۔‬

‫پھر دل کرتا تھا کہ بھاٸیوں سے‬


‫ہنسی مزاق کروں تو وہ ڈانٹ دیتے‬
‫تم لڑکی ہو جاٶ یہاں سے۔۔۔‬

‫چاہے جانے کا احساس بہت‬


‫خوبصورت ہوتا ہے۔۔‬
‫اور مجھ میں یہ احساس دن بدن‬
‫شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔۔۔‬

‫ہر کسی کا دل شدت سے چاہتا ہے‬


‫کوٸی مجھے چاہے میری تعریف‬
‫کرے میرا خیال رکھے۔۔‬
‫جب میری منگنی ہوٸی تو مجھے‬
‫لگا تھا میری یہ کمی میرا منگیتر‬
‫پوری کرے گا۔۔۔‬

‫جب لیپ ٹاپ لیا تو میں نے ُا س‬


‫سے بات کرنے کی کوش کی لیکن‬
‫وہ ہمیشہ مصروف ہونے کا بہانا بنا‬
‫دیتا اور بات نہ کرتا۔۔۔‬
‫تب یہ احساس اور شدت سے بھڑک‬
‫اٹھتا‬
‫میں اپنی روم میٹ کو دیکھتی وہ‬
‫ہنس ہنس کے اپنے چاہنے والوں سے‬
‫باتیں کرتی وہ ُا ن کے نکھرے اٹھاتے‬
‫پیار کرتے‬
‫تب مجھے لگتا کے میرا کوٸی نہیں‬
‫ہے۔۔۔۔۔‬

‫میں نے ِا سی احساس محرومی کے‬


‫زیر اثر غیروں کو اپنا بنا لیا۔۔۔‬
‫لیکن شاہ سر غیر تو غیر ہی ہوتے‬
‫ہیں نا‬
‫وہ مجھ سے پیار جتاتے میری‬
‫تعریف کرتے تو میں خوشی سے‬
‫پھولے نہ سماتی۔۔‬
‫مجھے سکون ملتا مجھے لگتا کہ‬
‫یہی اصل زندگی ہے یہ کتنا چاہتے‬
‫ہیں مجھے کوٸی تو ہے میرا۔۔۔‬

‫روم میٹ لڑکیاں میری تعریف کر‬


‫کے پیار جتا کے میری ہر چیز‬
‫استمال کر لیتی۔۔۔‬
‫اور میں خوشی خوشی اپنی ہر‬
‫چیز دے دیتی‬
‫شاہ سر صرف بیٹی کی ضرورت‬
‫پوری کرنا محبت نہیں ہوتا‬
‫کپڑے لے دیٸے اچھا کھانا دے دیا‬
‫پیسے کھلے دے دیٸے اور سمجھا‬
‫فرض ادا ہو گیا۔۔۔‬
‫نہیں شاہ سر سب سے بڑی چیز‬
‫ہوتی ہے بیٹی کے لٸے محبت ُا س‬
‫کے پاس بیٹھنا ُا سے اپنا وقت‬
‫دینا۔۔۔۔‬

‫بیٹوں کے برابر ُا س کی بات کو‬


‫ترجیح دینا ُا سے اعتماد دینا ُا سے‬
‫اچھے برے کا بتانا۔۔۔‬

‫میں یہ نہیں کہتی کہ میرے ماں‬


‫باپ کو مجھ سے محبت نہیں تھی‬
‫بہت محبت تھی لیکن انہوں نے‬
‫مجھے اعتماد نہیں دیا پیار تو تھا‬
‫ان کو۔۔۔‬
‫لیکن کبھی کھل کے اظہار نہیں کیا‬
‫اور باپ اور بھاٸیوں کے سخت‬
‫رویے نے مجھے دبو قسم کا بنا دیا۔۔‬
‫کوٸی زرا سی اونچی آواز میں بات‬
‫کرتا تو میں سہم جاتی۔۔‬
‫یہی وجہ تھی کہ میں سکندر کی‬
‫محبت کے احساس میں بہت دور‬
‫چلی گٸی اتنی دور کہ آج یہاں پڑی‬
‫…موت کا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔‬

‫درہ اب رو رہی تھی اور میرے‬


‫پاس بھی حوصلہ دینے کے لٸے‬
‫کوٸی الفاظ نہیں تھے۔۔‬
‫ِس ڈ چھوڑو نا ِا ن باتوں کو ان شاء‬
‫اللہ اب برا وقت نکل گیا کچھ نہیں‬
‫ہو گا تمہیں۔۔۔‬
‫میں سٹول سے اٹھ کے سدرہ کے‬
‫پاس بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔‬

‫شاہ سر مجھے حقیقت کا علم ہے‬


‫میرا اور آپ کا ساتھ ختم ہونے واال‬
‫ہے۔۔۔‬
‫میں سوچتی تھی کہ ِا س زندگی‬
‫نے مجھے دیا ہی کیا ہے ہمیشہ دکھ‬
‫تکلیف۔۔‬
‫لیکن میں غلط تھی ِا سی زندگی‬
‫کی بدولت مجھے میرے بابا اور آپ‬
‫ملے۔۔۔‬
‫میں نے اپنی زندگی میں صرف دو‬
‫مردوں کے پاس خود کو محفوظ‬
‫محسوس کیا۔۔۔‬
‫ایک میرے بابا ایک آپ یہ کہتے‬
‫ہوٸے سدرہ نے میرا ہاتھ مضبوطی‬
‫سے تھام لیا۔۔۔‬

‫اور میں سوچ میں پڑ گیا۔۔‬


‫کہ بیٹی واقعی رحمت ہوتی ہے‬
‫سدرہ کے باپ نے ُا س کی آخری‬
‫خواہش بھی رد کر دی تھی۔۔‬
‫لیکن وہ پھر بھی ُا ن سے اتنی ہی‬
‫محبت کرتی تھی۔۔۔‬
‫اچھا سڈ اپنی خواہش بتاٶ۔۔‬
‫میں نے یاد کروایا۔۔‬
‫وہی بتانے لگی ہوں شاہ سر۔۔۔‬
‫جب میری سکینڈل ویڈیو لیک‬
‫ہوٸی اور میں نے گھر چھوڑا پھر‬
‫جسم فروشی کی دلدل میں‬
‫پھنسی گٸی تو دماغ ہر وقت‬
‫ڈپریشن کا شکار رہتا سٹریس اتنی‬
‫ہوتی کہ جس کی حد نہیں ۔۔۔‬
‫کوٸی بھی لڑکی محبت سے مجبور‬
‫ہو کے ایک مرد کو تو اپنا جسم‬
‫سونپ سکتی ہے۔۔۔‬
‫لیکن ہر رات کسی نیو مرد کو اپنا‬
‫جسم پیش نہیں کر سکتی ِا س‬
‫چیز نے مجھے توڑ کے رکھ دیا میں‬
‫ڈیریشن اور سٹریس دور کرنے کے‬
‫لٸے ہیوی ہیوی میڈیسن کھانے‬
‫لگی۔۔‬

‫ساتھ حمل روکنے والی میڈیسن‬


‫بھی کھانی پڑتی تھی ُا ن میڈیسن‬
‫نے الگ اپنا کام دکھایا۔۔۔‬
‫ہر دوسرے دن حمل روکنے والی‬
‫گولی کھانی پڑتی نتیجہ آپ کے‬
‫سامنے ہیں آج میں کینسر جیسے‬
‫موذی مرض میں مبتال ہو گٸی۔۔۔۔‬

‫پلیز سدرہ دفع کرو ِا ن باتوں کو‬


‫مجھے کوٸی نہیں لینا دینا ِا ن‬
‫باتوں سے۔۔۔‬
‫تم ایک عمدہ لڑکی ہو بہت پیاری‬
‫بہت اچھی جو بھی ہوا تقدیر کا‬
‫لکھا تھا سڈ پریشان نا ہو میرا دل‬
‫صاف ہے تمہاری طرف سے۔۔۔‬
‫میں نے سدرہ کی پیشانی پے ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوٸے کہا‬

‫اور تم وہ بات بتاٶ جس کا کہا ہے‬


‫تمہیں۔۔‬

‫اور اب اگر تم نے کوٸی پرانی بات‬


‫یاد کی تو میں ہمیشہ کے لٸے چال‬
‫جاٶں گا۔۔۔‬
‫میں نے زرا سخت لہجے میں کہا‬
‫مجھے پتہ تھا وہ جتنی پرانی‬
‫باتیں یاد کرتی جاٸے گی اتنی ُا س‬
‫کی طبیعت خراب ہوتی جاٸے گی۔۔۔‬
‫شاہ سر آپ مجھے نہیں چھوڑ‬
‫سکتے مجھے یقین ہے‬
‫چھوڑوں گی تو میں آپ کو سدرہ‬
‫کے لہجے میں یقین اور کرب دونوں‬
‫شامل تھے۔۔۔‬
‫پھر بکواس میں نہیں بولتا۔۔‬
‫میں نے منہ پھیرتے ہوٸے کہا۔۔۔‬
‫اچھا نا سوری سنیں میری وش‬
‫پوری کریں‬
‫!!!اچھا سنیں نا وش بتاتی ہوں۔ ۔ ۔‬
‫شاہ سر سنیں نا‬
‫ورنہ میں ناراض ہو کے کہیں دور‬
‫چلی جاٶں گی۔۔۔‬

‫سدرہ کی ِا س دھمکی پہ ایسا لگا‬


‫سانس رک گٸی ہے۔۔‬

‫میں نے فوًر ا پلٹ کہ سدرہ کا ہاتھ‬


‫تھام لیا فضول باتیں مت کرو پھر‬
‫غصہ دالتی ہو مجھے۔۔۔‬

‫کچھ دیر سدرہ مجھے ٹکٹکی‬


‫باندھے دیکھتی رہی‬

‫کیا دیکھ رہی ہو ایسے۔۔‬


‫شاہ سر سوچ رہی ہوں کیا تھا اگر‬
‫آپ مجھے سکندر سے پہلے مل‬
‫جاتے۔۔‬‫😥‬
‫جو نصیب میں تھا وہی ہوا اچھا‬
‫بتاٶ کیا بتانا چاہ رہی تھی‬
‫میں نے بات بدلنے کے لٸے کہا۔۔۔‬

‫سدرہ کچھ دیر خاموش رہی۔۔‬


‫شاہ سر میری وصیت لکھیں آپ‬
‫کیا فضول بات ہے سدرہ کچھ نہیں‬
‫ہو گا تمہیں میں سرجری کروانے‬
‫لگا ہوں تمہاری۔‬
‫میں گاڑی بیچ دوں گا گھر بیچ‬
‫دوں گا پلیز ایسی باتیں مت کرو۔۔‬
‫شاہ سر آپ ایسا کچھ نہیں کریں‬
‫گے آپ کو بھی پتہ ہے مجھے بھی‬
‫پتہ کہ اب یہ ساتھ ختم ہونے واال‬
‫ہے۔۔‬

‫تو بہتر ہے آپ وعدے کے مطابق‬


‫میری وش پوری کریں۔۔۔‬

‫سدرہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔‬


‫اچھا وش بتاٶ وصیت نہیں میں نے‬
‫ہار ماننے والے انداز میں کہا۔۔‬

‫شاہ سر آپ نے مجھے رات کے‬


‫اندھیرے میں دفن کرنا ہے روشنی‬
‫میں میری میت کو گھر سے مت لے‬
‫کے جانا۔۔۔۔‬

‫سدرہ پلیز نا کرو ایسا میں نے ظبط‬


‫کرتے ہوٸے سختی سے کہا۔۔‬
‫شاہ سر آپ میری وش پوری کرنے‬
‫کے پابند ہیں۔۔‬
‫اگر آپ بار بار روکیں گے تو میں‬
‫نہیں بتاٶں گی۔۔‬
‫سدرہ کا لہجہ اب بہت سخت تھا‬
‫وہ جب سے میرے پاس آٸی تھی‬
‫آج پہلی بار ُا س نے ایسے سختی‬
‫سے بات کی تھی‬
‫میں چپ ہو گیا۔۔۔‬
‫دوسری بات شاہ سر جب میں مر‬
‫جاٶں تو مجھے ایک بار اپنے گھر‬
‫لے جاٸیے گا جس کمرے میں آپ‬
‫سوتے ہیں ُا س کمرے میں کچھ دیر‬
‫میری میت رکھیے گا۔۔‬‫😢😢‬
‫شاہ سر میرے پاس کوٸی جاٸیداد‬
‫کوٸی پیسہ نہیں چند جوڑے‬
‫کپڑوں کے ہیں میرا جو بھی سامان‬
‫ہے وہ کچی آبادی میں ایک بیوہ‬
‫عورت سعدیہ خالہ ہے ُا س کی دو‬
‫بچیاں جوان ہیں آپ بھابھی خادم‬
‫بھاٸی کی بیوی کو کہنا ُا س کو‬
‫دے۔۔۔‬
‫جب مجھے کفن ڈال چکیں تو‬
‫میری ماں نے جو چادر بھیجی ہے‬
‫وہ مجھ پہ ڈال دینا میں اپنی ماں‬
‫کا احساس اپنی ماں کی محبت‬
‫ساتھ لے کے دفن ہونا چاہتی ہوں‬
‫😭😭😭‬
‫اب میرے لٸے آنسو ضبط کرنا‬
‫مشکل تھا۔۔۔‬‫😥‬
‫لیکن بات تو ُا س کی پوری سننی‬
‫تھی‬

‫شاہ سر جو تین ہزار امی نے دیٸے‬


‫ہیں وہ پیسے ہمیشہ سنبھال کے آپ‬
‫اپنے پاس رکھنا وہ پیسے میں نے‬
‫آپ کو گفٹ کیٸے انہیں خرچ مت‬
‫😥‬
‫کرئیے گا۔‬

‫…آج تک جو بھی آپ نے مجھ پہ‬

‫رچہ کیا ہے شاہ سر وہ سب بہت‬


‫زیادہ ہے وہ سارا خرچہ میرے‬
‫عالج پہ جو لگا مجھے ِا س ُا س‬
‫جہاں بخش دینا‬

‫ِس ڈ میں نے کوٸی خرچہ نہیں کیا‬


‫تم پہ تم اپنے سارے پیسے اتار‬
‫چکی ہو۔۔۔‬
‫اور اب جو عالج پہ لگے ہیں وہ‬
‫تمہارے ایک الکھ سے زیادہ پڑے‬
‫تھے میرے پاس اور باقی ماموں نے‬
‫دیٸے ہیں۔۔‬ ‫😢😢‬
‫ماموں کے ذکر پہ ایسا لگا سدرہ‬
‫بلکل ٹھیک ہے۔‬

‫وہ تو میرے بابا ہیں ُا ن کے پیسوں‬


‫کی مجھے فکر نہیں‬
‫سدرہ کی آنکھوں میں اچانک چمک‬
‫ابھر آٸی۔۔‬

‫وہ تمہارے بابا ہیں تو میں کچھ‬


‫نہیں ہوں میں نے شکوہ کیا‬
‫آپ تو میرا سب کچھ ہیں شاہ سر‬
‫ہر رشتے کا پیار احساس مان آپ نے‬
‫مجھے دیا۔۔‬
‫شاہ میری گڑیا اور میرا پرفیوم آپ‬
‫رکھ لینا اور دیکھیں میرا پرفیوم‬
‫ختم نہ ہونے دینا ورنہ میں مارو‬
‫گی۔‬ ‫😒😒‬
‫آپ نے وہ پرفیوم کبھی کبھی لگانا‬
‫ہے مجھے یاد کرنا ہے مجھے‬
‫محسوس کرنا ہے میں جمعرات کو‬
‫😥‬
‫آیا کروں‬

‫کریں گے نا یاد شاہ سر سدرہ نے‬


‫تصدیق چاہی۔۔‬
‫ِس ڈ میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں‬
‫😭‬
‫گا‬
‫اور ہاں شاہ سر آپ نے منیبہ آپی کا‬
‫خیال رکھنا ہے اور میرا عبایا صرف‬
‫آپی کو دینا ہے آپ نے‬
‫اب بس کرو اتنی وش پتہ نہیں‬
‫میں پوری کر سکوں یا نہیں پلیز‬
‫ِس ڈ چپ ہو جاٶ‬‫😢😢‬
‫مجھ سے اب ُا س کی باتیں‬
‫برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔‬
‫آپ پوری کریں گے شاہ سر مجھے‬
‫پتہ ہے سدرہ نے یقین سے کہا۔۔‬
‫شاہ سر میری قبر کو پکا مت کرنا۔۔‬
‫میں نے کہیں پڑھا تھا‬
‫کہ جب الوارث لوگ مر جاتے ہیں۔۔‬
‫اور ُا ن کی قبروں کی کوٸی‬
‫حفاظت نہیں کرتا۔۔‬
‫اور ُا ن کی قبریں بارشوں اور وقت‬
‫کے اتار چڑھاٶ میں اپنا نام ونشان‬
‫کھو دیتی ہے مٹ جاتی ہے۔۔۔‬

‫تب اللہ پاک ُا ن پہ ترس کھا کے ان‬


‫کو بخش دیتا ہے کے ِا ن کی خبر‬
‫لینے واال کوٸی نہیں یہ الوارث ہیں‬
‫ِا ن کو بخش دو‬‫😭😭😭‬
‫سر میں تو الوارث مروں گی نا‬
‫میرے امی ابو مجھے نہیں ملنے آٸے‬
‫شاہ سر میں بہت گندی ہوں‬ ‫😭😭‬
‫😭‬
‫ِا س لٸے آپ وعدہ کریں آپ کبھی‬
‫بھی میری قبر پکی نہیں کرواٸیں‬
‫گے اور نا کبھی میری قبر پہ آٸیں‬
‫گے۔۔‬
‫میری قبر کو کچا چھوڑ دیں گے۔۔۔‬

‫کسی عید پہ کسی محرم میں‬


‫میری قبر کا خیال نہیں کریں گے‬
‫مجھے دفن کرنے کے بعد پلٹ کے‬
‫کبھی میری قبر پہ نہیں آٸیں گے‬
‫😭😭😭‬
‫سدرہ نے روتے ہوٸے ہاتھ میری‬
‫طرف بڑھا دیا۔۔‬
‫میں عجیب امتحان میں پھنس گیا‬
‫تھا وہ میری عزیز ترین ہستی تھی‬
‫میں کیسے گوارہ کرتا یہ سب‬ ‫😢‬
‫😢‬
‫سدرہ میں ایسا کچھ بھی وعدہ‬
‫نہیں کروں گا‬
‫ٹھیک سر پھر میں آپ سے راضی‬
‫ہو کے نہیں مروں گی ناراض جاٶں‬
‫گی۔۔۔‬‫😭😭‬
‫سدرہ نے یہ کہتے ہوٸے اپنا ہاتھ‬
‫میرے ہاتھوں سے کھینچ لیا۔۔‬
‫میرا دل کٹ رہا تھا ایک طرف وہ‬
‫جو وعدے لے رہی وہ بہت ہی برے‬
‫اور سخت تھے میں کیسے پورے‬
‫😭‬
‫کرتا‬

‫اوپر سے یہ ستم کے وہ ناراض ہو‬


‫گٸی تھی‬
‫اور میں یہ کیسے گوارہ کرتا کے‬
‫میری عزیز ترین ہستی مجھ سے‬
‫ناراض ہو جاٸے۔۔‬

‫میں نے محبت سے ُا س کی پیشانی‬


‫پہ ہاتھ پھیرا ِس ڈ وعدہ ہے جو کہا‬
‫تم نے بھلے میرے لٸے مشکل ہے‬
‫لیکن میں یہ سب پورا کروں گا۔۔۔۔‬
‫شاہ مجھے پتہ تھا آپ میری بات‬
‫نہیں ٹالیں گے۔۔‬
‫شاہ سر ایک خط لکھیں گے میرے‬
‫بابا کے نام۔۔‬

‫سڈ بتاٶں لیا لکھنا ہے میں نے بیڈ‬


‫کے پاس پڑے ٹیبل سے کاغذ اور‬
‫بال پواٸنٹ اٹھاتے ہوٸے پوچھا۔۔‬

‫شاہ سر لکھیں۔۔‬
‫پیارے بابا‬
‫میں الوارث مر رہی ہوں‬
‫لیکن مجھے کوٸی گلہ نہیں‬
‫جو میں نے کیا مجھے ُا س کی سزا‬
‫ملی ہے‬
‫لیکن بابا میرے دل میں شدید‬
‫خواہش تھی آپ مجھے‬
‫قبر کے حوالے اپنی بانہوں میں لے‬
‫کے کرتے‬ ‫😭😭‬
‫اگر آپ ایسا کرتے تو مجھے سکون آ‬
‫جاتا۔‬
‫بابا میں بہت ُبری ہو ناں‬
‫کہ آپ نے میری آخری خواہش کو‬
‫بھی اپنے پیروں کے نیچے روند‬
‫😭‬
‫دیا۔۔‬
‫بابا آپ تو کہتے تھے میری اچھی‬
‫بیٹی ہے ُت و‬
‫بابا جب میں بھٹک گٸی تھی تو آپ‬
‫نے مجھے اپنی محبت سے صحیح‬
‫راستہ کیوں نہیں دکھایا تھا‬
‫بابا کاش مجھ سے پوچھ لیا ہوتا‬
‫کے میں اپنے کیے پہ کتنی نادم‬
‫تھی۔۔‬
‫بابا آپ سے جدا ہو کے میں نے پل‬
‫پل درد سہا ہے‬
‫بابا جب بھی میرے جسم کو کوٸی‬
‫نوچتا تھا‬
‫آپ مجھے شدت سے یاد آتے تھے۔۔‬
‫کے کاش میرے بابا پاس ہوتے تو ِا ن‬
‫کو جان سے مار دیتے‬ ‫😭😭😭‬
‫بابا آپ نے جو کیا صحیح کیا مجھ‬
‫جیسی بدبخت کے ساتھ ایسا ہی‬
‫ہونا چاہیٸے تھا۔۔‬
‫مجھے پتہ ہے بابا آپ مجھ سے‬
‫نفرت کرتے ہیں کرنی بھی‬
‫چاہیٸے۔۔۔‬
‫لیکن بابا میں آج بھی آپ سے بہت‬
‫محبت کرتی ہوں‬
‫مجھے آج بھی اپنا بچپن یاد ہے آپ‬
‫کی گودی میں بیٹھ کھانا کھانا یاد‬
‫😭‬
‫ہے۔۔۔‬
‫بابا جب آپ کو میرا یہ خط ملے گا‬
‫تب تک میں مر چکی ہوں گی‬
‫میرا جسم گل سڑ چکا ہوں گا‬
‫بابا بس دو گزارشیں ہیں اگر کبھی‬
‫میری یاد آٸے تو دعا کرنا میری‬
‫بخشش کی۔۔۔‬
‫دعا کرنا میرا رب مجھ سے راضی‬
‫ہو جاٸے بابا کہتے ہیں مرنے والے‬
‫کی براٸیاں نہیں اچھاٸیاں یاد‬
‫کرنی چاہیٸے۔۔‬

‫لیکن افسوس بابا میرے کھاتے میں‬


‫کوٸی اچھاٸی نہیں‬
‫بس ایک اچھاٸی کے عالوہ کہ میں‬
‫آپ کی بیٹی ہوں‬ ‫😭😭‬
‫آٸی لو یو بابا آٸی مس یو بابا میں‬
‫ہر پل آپ کو یاد کرتی ہوں۔۔۔‬‫😭‬
‫😭‬
‫پیارے بابا مجھے معاف نہ بھی‬
‫کرنا آپ لیکن میری امی کا خیال‬
‫…رکھنا میرے سارے‬
‫‪Imported Message:‬‬
‫ناہوں کی میں خود ذمہ دار ہوں‬
‫امی کا ِا س میں کوٸی قصور نہیں‬
‫🙏🙏‬
‫ُا ن پہ رحم کرنا۔۔۔‬ ‫پیلز‬
‫بابا اجازت چاہتی ہوں اب آپ کی‬
‫بیٹی یہ دنیا چھوڑ رہی ہے‬

‫اهلل حافظ‬‫😭😭😭‬
‫سدرہ کا خط لکھتے ہوٸے میری‬
‫آنکھیں بار بار چھلک رہی تھی۔۔‬
‫اور مجھے اپنی بڑی بہن یاد آگٸیں‬
‫میں جب بھی اپنی بڑی بہن کو‬
‫دیکھتا تھا مجھے ُا ن میں امی ابو‬
‫دونوں نظر آتے تھے میری بڑی بہن‬
‫نے امی ابو کی ڈیتھ کے بعد مجھے‬
‫ماں اور ابو جیسا پیار دیا تھا میری‬
‫ہر خواہش پوری کی تھی کاٸنات کا‬
‫واحد انمول تحفہ بیٹی ہے۔‬ ‫😭😭‬
‫جو اپنے بھاٸیوں کے لٸے ماں کا🌺‬
‫روپ ہوتی ہے اور اپنے بابا کے لٸے‬
‫بھی ماں کا روپ ہوتی ہے‬
‫لوگ کہتے ہیں وہ بیٹی ہوتی ہے‬
‫لیکن میں کہتا ہوں وہ محبت میں‬
‫باپ کی بھی ماں ہوتی ہے‬ ‫🌺‬
‫بھلے وہ نادانی میں غلط کر جاتی‬
‫ہے لیکن وہ باپ سے ہمیشہ محبت‬
‫کرتی رہتی ہے۔۔۔‬
‫شاہ سر بس ِا س خط کو میرے‬
‫مرنے کے بعد میرے بابا کوبھیج‬
‫دیجٸے گا اور میری ہر وصیت کو‬
‫پورا کیجٸے گا۔۔‬

‫ِس ڈ ان شاء اللہ میں پوری کروں‬


‫گا۔۔۔‬

‫لیکن ِس ڈ تم نے تو چار وش کہی‬


‫تھی لیکن ابھی تو تین ہوٸی ہیں‬
‫چوتھی کون سی ہے۔۔۔‬

‫شاہ سر چوتھی وش کوٸی نہیں‬


‫بس ایسے ہی بول دیا تھا‬
‫سدرہ نے نظریں چراتے ہوٸے کہا‬
‫اب تم جھوٹ بول رہی ہو‬
‫بتاٶ مجھے کون سی چوتھی ِو ش‬
‫ہے‬
‫لیکن سدرہ اب آنکھیں بند کیے پر‬
‫سکون لیٹی تھی‬
‫تبھی گارڈ نے آ کے کہا سر ڈاکٹر‬
‫وزٹ پہ آنے واال ہے پلیز باہر آ‬
‫جاٸیں۔۔‬
‫اچھا ِس ڈ چلتا ہوں تب تک تم وش‬
‫یاد کر لو‬
‫اهلل حافظ باندری میں سدرہ کی‬
‫پیشانی پہ ہاتھ پھرتا ہوا باہر نکل‬
‫آیا۔۔۔‬
‫شام کو اچانک سدرہ کی طبیعت‬
‫بہت خراب ہو گٸی۔۔‬
‫ڈاکٹر نے بتایا کہ ُا س کی سیدھی‬
‫ساٸیڈ پہ فالج کا اٹیک ہوا ہے‬
‫سیدھی ساٸڈ ورک کرنا چھوڑ گٸی‬
‫ہے۔۔‬

‫اب سدرہ کی دو گھنٹے کے گیپ کے‬


‫ساتھ مسلسل تھراپی کی جا رہی‬
‫تھی۔۔‬
‫میں جب بھی آٸی سی یو میں‬
‫ُا سے دیکھنے گیا وہ غنودگی کی‬
‫حالت میں ہوتی اور ایسا لگتا تھا‬
‫کسی کشمکش میں ہے۔۔‬
‫دو دن بعد سدرہ کو صبح نو بجے‬
‫مکمل ہوش آیا۔۔۔‬

‫نرس نے آ کے مجھے بتایا آپ کا‬


‫پیشنٹ آپ کو بال رہا ہے۔۔‬

‫میں جب بیڈ کے پاس پہنچا تو‬


‫ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرا ہی‬
‫انتظار کر رہی ہے۔۔۔‬

‫سڈ کیسی ہو تم میں‬


‫میں ٹھیک ہو شا ہ ہ ہ‬
‫مجھے اچانک شاک لگا‬
‫سدرہ کی زبان میں لکنت تھی‬
‫ہکالہٹ تھی‬
‫کیا ہوا ِس ڈ میں نے ُا س کے قریب‬
‫ہوتے ہوٸے بے چینی سے کہا۔۔۔‬
‫شاہ سر سفر آخرت کی تیاری ہے‬
‫سدرہ نے ہکالتے ہوٸے جواب دیا۔۔‬

‫شاہ سر بابا کو بال دیں‬


‫سڈ بابا کو کیسے بالٶں انہوں نے تو‬
‫😢‬
‫شاہ سر ماموں کو بال دیں میرے‬
‫لٸے وہ بھی بابا ہیں۔۔‬

‫ابھی بالتا ہو ِس ڈ ۔۔‬


‫میں نے وہی کھڑے کھڑے ماموں‬
‫کو کال کی اور سدرہ کی طبیعت‬
‫کا بتایا اور کہا کہ وہ بال رہی ہے۔۔‬
‫میں ایک گھنٹے میں آیا کہہ کر‬
‫ماموں نے کال بند کر دی۔۔‬

‫سدرہ کی ہکالہٹ اب مجھ سے‬


‫برداشت نہیں ہو رہی تھی شاید‬
‫فالج کے اٹیک نے ُا س کی زبان پہ‬
‫بھی اثر کیا تھا۔۔۔‬

‫شاہ سر میں ایک وش ادھوری لے‬


‫کے جا رہی ہوں‬

‫ِس ڈ پلیز بتاٶ کون سی وش میں‬


‫ابھی پوری کر دیتا ہوں‬
‫میں نے سدرہ کا ہاتھ تھامتے ہوٸے‬
‫کہا۔۔‬

‫شاہ سر میں ُا س وش کے قابل‬


‫نہیں ِا س لٸے ُا س ِو ش کا ادھورا‬
‫رہنا ہی بنتا ہے اب سدرہ کی زبان‬
‫میں ہکالہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔‬

‫ِس ڈ پلیز اگر میری زرا سی بھی‬


‫عزت ہے تمہارے دل میں تو بتاٶ وہ‬
‫ِو ش کیا ہے ؟‬

‫سدرہ کچھ دیر خاموش رہی‬


‫جیسے طاقت جمع کر رہی ہو۔۔‬
‫شاہ سر میں چاہتی تھی کہ جب‬
‫منیبہ آپی آ جاٸیں گی رخصت ہو‬
‫کے تو ُا ن کا دل جیت کے ُا ن کے‬
‫پاٶں پکڑ کے کہوں گی کہ بس‬
‫مجھے آپ سے نکاح کی اجازت دے‬
‫دیں۔۔‬

‫لیکن سر زندگی کا ستم دیکھیں‬


‫میرا خواب تعبیر حاصل نہ کر‬
‫سکا۔۔۔‬
‫شاہ سر اب میں آخری سفر پہ جا‬
‫رہی ہوں تو دل میں بڑی شدید‬
‫خواہش تھی میں آپ کے نکاح میں‬
‫مرتی اور قیامت والے دن رب سے‬
‫آپ کا ساتھ جنت میں مانگتی۔۔‬ ‫😢‬
‫😢‬
‫یہ کہ کر سدرہ نے آنکھیں بند کر‬
‫لی‬
‫کچھ پل مجھ میں بھی بولنے کا‬
‫حوصلہ نہ ہوا‬
‫مجھے منیبہ کے ساتھ گزرا ہوا اک‬
‫اک پل یاد آ رہا تھا‬
‫کتنے خواب تھے جو میں نے اور‬
‫منیبہ نے دیکھے تھے‬

‫ِا س میں کوٸی شک نہیں کہ سدرہ‬


‫کا میرا رشتہ محبت سے بھی آگے‬
‫تھا لیکن منیبہ میں میری جان‬
‫بستی تھی۔۔‬
‫میں کسی صورت ُا س پہ کوٸی‬
‫سوتن النے کا سوچ بھی نہیں سکتا‬
‫تھا۔۔‬
‫سدرہ ٹھیک ہوتی اور منیبہ مجھے‬
‫کہتی بھی کے آپ سدرہ سے نکاح‬
‫کر لو تو بھی شاید میں ایسا نا‬
‫کرتا۔۔۔‬

‫لیکن اب معاملہ بہت خراب تھا۔۔۔‬

‫سدرہ اپنی آخری سانسیں گن رہی‬


‫تھی ُا س نے ایک ایسے وقت میں‬
‫اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا جب‬
‫ُا س کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔۔‬

‫میں نے منیبہ کی اور اپنی محبت‬


‫پہ نظر دوڑاٸی۔۔‬

‫پھر سدرہ کی گزری زندگی پہ نظر‬


‫ڈالی مجھے لگا کہ منیبہ کے اور‬
‫میرے پاس ابھی بہت وقت ہے‬
‫زندگی جینے کے لٸے۔۔‬

‫ہمارے پاس بہت سے رشتے ہیں ہم‬


‫دونوں نے زندگی میں مشکل وقت‬
‫نہیں دیکھا نہ خونی رشتوں کی‬
‫دوری اور نفرت دیکھی ہے۔۔۔‬
‫جبکہ کہ سدرہ نے ایک عجیب ہی‬
‫…زندگی پاٸی‬

‫ھی ماں باپ بھاٸیوں کے پاس ہو‬


‫کے بھی ُا ن کی محبت سے محروم‬
‫رہی تھی‬
‫پھر جس مرد سے محبت کی جس‬
‫مرد کو اپنا سب کچھ سونپ دیا‬
‫وہ بھی دھوکہ دے گیا۔۔۔‬

‫مجھے لگا کے سدرہ کی یہ خواہش‬


‫پوری ہونی چاہیٸے۔۔۔‬

‫ِس ڈ میں آج ہی تم سے نکاح کر رہا‬


‫ہوں‬
‫میں نے پختہ ارادے سے کہا۔۔۔‬
‫لیکن وہ خاموش رہی۔۔‬

‫ِس ڈ میں تم سے نکاح کر رہا ہوں آج‬


‫ہی تم بولتی کیوں نہیں۔۔‬

‫ِس ڈ پلیز بولوں نا میں کروں گا‬


‫نکاح تم سے کچھ جواب کیوں‬
‫نہیں دے رہی تم‬

‫لیکن سدرہ ہنوز آنکھیں بند کیٸے‬


‫خاموش تھی۔۔۔‬

‫مجھے ُا س وقت دنیا کی ُبری ترین‬


‫چیز خاموشی لگ رہی تھی میرا‬
‫بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔‬
‫شاہ سر اب وقت نہیں رہا اب ِا س‬
‫باب کو بند کر دیں۔۔۔‬
‫سدرہ کرب اور تکلیف کو ضبط‬
‫کرتے ہوٸے بولی۔۔۔‬

‫کیوں وقت نہیں رہا بہت وقت ہے‬


‫میں ابھی ماموں کو کال کرتا‬
‫ہوں۔۔۔‬
‫یہ کہتے ہوٸے میں نے جیکٹ کی‬
‫جیب سے سیل نکاال۔۔‬
‫نہیں آپ بابا کو کال نہیں کریں‬
‫گے۔۔‬

‫سدرہ نے سختی سے منع کر دیا۔۔‬


‫سدرہ پلیز مان جاٶ نا‬
‫میں نے سدرہ کے سامنے ہاتھ جوڑ‬
‫دیٸے۔۔‬

‫شاہ سر پلیز ایسا نہ کریں سدرہ‬


‫تڑپ اٹھی‬
‫اگر چاہتی ہو کے میں ایسا نہ کروں‬
‫تو مان جاٶ میں تمہاری آخری وش‬
‫پوری کرنا چاہتا ہوں۔‬

‫سدرہ ایک بار پھر خاموش ہو‬


‫گٸی۔۔۔‬

‫ِس ڈ بولو بھی۔۔‬


‫میں چاہتا تھا کہ وہ جلدی ہاں‬
‫کرے تاکہ کے میں ماموں سے بات‬
‫کر سکوں۔۔‬

‫شاہ سر ٹھیک ہے لیکن میری ایک‬


‫شرط ہے سدرہ نے بنا آنکھیں کھولے‬
‫جواب دیا۔۔‬

‫بولو مجھے ہر شرط منظور ہے۔۔‬


‫شاہ سر میں چاہتی ہوں کہ منیبہ‬
‫آپی میرے نکاح میں شریک ہوں‬
‫اور خوشی سے اجازت دیں۔۔۔‬

‫میں نے سدرہ کی بیماری کی ایک‬


‫ایک منٹ کی رپورٹ منیبہ کو دی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫لیکن ِا س کے باوجود مجھے ایک‬
‫فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ منیبہ‬
‫سدرہ سے میرے نکاح کے لٸے مان‬
‫جاٸے گی۔۔۔‬

‫کیونکہ کوٸی بھی لڑکی اپنے شوہر‬


‫کے معاملے میں اتنے بڑے دل کی‬
‫مالک نہیں ہوتی۔۔۔‬

‫اور منیبہ تو بلکل نہیں تھی وہ‬


‫میری پوسٹ پہ کمنٹ دیکھ کے لڑ‬
‫پڑتی تھی نکاح کی اجازت دینا تو‬
‫بہت دور کی بات تھی۔۔‬
‫سدرہ یہ کیسے ممکن ہے وہ بہت‬
‫دور ہے ُا سے آنے کے لٸے چوبیس‬
‫گھنٹے لگیں گے میں اتنا ویٹ نہیں‬
‫کر سکتا۔۔‬

‫اور دوسری بات ُا س کے پیپر ہو رہے‬


‫ہیں۔۔‬
‫ُا س کا السٹ سمسٹر ہے فاٸنل پیپر‬
‫ہیں۔۔۔‬
‫وہ نہیں آ سکے گی۔۔‬
‫تو سر آپ میری آپی سے بات کروا‬
‫دیں اگر وہ خوشی سے اجازت دیں‬
‫گی تو ہی میں ہاں کروں گی۔۔‬
‫سدرہ نے ہکالتی آواز میں جواب‬
‫دیا۔۔‬
‫او کے ڈن میں بات کرواتا ہوں‬
‫تمہاری۔۔‬
‫میں نے منیبہ کو کال کرنے کے لٸے‬
‫سیل جیب سے نکاال۔۔‬

‫دو تین بار ٹراٸی کیا لیکن منیبہ کا‬


‫نمبر بند تھا۔۔۔‬

‫سڈ منیبہ کا نمبر بند ہے تم آرام کرو‬


‫میں گھر والے نمبر پہ رابطہ کرتا‬
‫ہوں۔۔۔‬

‫یہ کہتا ہوا میں آٸی سی یو سے‬


‫باہر نکل آیا۔۔۔‬
‫مجھے یہ تو یقین تھا کہ منیبہ‬
‫نہیں مانے گی‬
‫لیکن ساتھ یہ بھی یقین تھا کہ وہ‬
‫میری خاطر مان بھی جاٸے گی۔۔۔‬

‫یہ سوچ کے میں نے اگین منیبہ کا‬


‫نمبر مالیا۔۔‬

‫ایک بار دو بار سو بار لیکن نمبر‬


‫سوٸچ آف آ رہا تھا۔۔‬

‫اب مجھے ٹینشن ہونے لگی کہ‬


‫منیبہ کا نمبر آف کیوں ہے ایسا‬
‫پہلے تو کبھی نہیں۔۔۔‬
‫واٹس ایپ چیک کیا تو ُا س پہ‬
‫السٹ سین یس ٹر ڈے ‪ 6.50‬کا‬
‫تھا۔۔‬
‫فیس بک چیک کی ُا س پہ بھی‬
‫یہی السٹ سن تھا۔۔۔‬

‫اب میرا سر درد سے پھٹنے لگا‬


‫سدرہ کی ٹینشن الگ تھی ادھر سے‬
‫منیبہ کل شام سے آف تھی اب دس‬
‫بج رہے تھے۔۔‬
‫سدرہ کی پریشانی میں‬
‫ِا س چیز کو بھی میں بھول گیا کہ‬
‫منیبہ روز صبح مجھے میسج کرتی‬
‫ہے گڈ مارننگ کا لیکن آج ُا س کا‬
‫میسج نہیں آیا۔۔‬
‫میں نے کچھ سوچتے ہوٸے خالہ کا‬
‫نمبر مالیا۔۔۔‬
‫بیل جاتی رہی لیکن کال پک نہیں‬
‫ہوٸی۔۔‬
‫مجھے پتہ تھا خالہ ِا س وقت‬
‫سکول بزی ہوں گی اس لٸے میسج‬
‫چھوڑ دیا کال می۔۔۔۔‬

‫میں مسلسل منیبہ کا نمبر ٹراٸی‬


‫کٸے جا رہا تھا‬
‫اب بات برداشت سے باہر ہوتی جا‬
‫رہی تھی۔۔۔‬
‫آدھے گھنٹے بعد خالہ کی کال آگٸ۔۔‬

‫السالم علیکم خالہ۔‬


‫وعیلکم السالم مصطفی کیسے ہو‬
‫بیٹا۔۔‬
‫الَح ْم ُد ِهلل خالہ آپ سناٸیں۔۔‬
‫میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا۔۔‬

‫خالہ منیبہ سے بات ہوٸی آج آپ‬


‫کی‬
‫نہیں بیٹا کل شام کو ہوٸی تھی‬
‫خالہ ُا س کا نمبر کیوں آف ہے ۔۔‬
‫بیٹا کل شام کو یہاں بہت سخت‬
‫بارش اور آندھی آٸی تھی‬
‫کل سے الٸٹ بند ہے ہو سکتا ہے۔۔‬
‫یونیورسٹی کی بھی الٸٹ بند ہو‬
‫جس کی وجہ سے موباٸل چارجنگ‬
‫نہ ہو۔۔۔‬
‫جی خالہ ہو سکتا ہے۔۔‬
‫مصطفی بیٹے خیریت ہے تم کچھ‬
‫پریشان لگ رہے ہو‬

‫نہیں خالہ ایسی کوٸی بات نہیں‬


‫بس منیبہ سے رابطہ نہیں ہوا اس‬
‫وجہ سے۔۔۔‬
‫اچھا میں دیکھتی ہوں ُا س کی‬
‫کسی دوست سے رابطہ ہوتا ہے تو‬
‫کہتی ہوں بات کرے تم سے۔۔‬
‫جی خالہ بہتر۔۔‬
‫اچھا بیٹا پھر بات ہو گی ابھی‬
‫سکول ہوں میں‬
‫جی خالہ اللہ حافط ۔۔۔‬
‫اف خدایا اب میں کیا کروں۔۔۔‬

‫کیسے رابطہ کروں۔۔‬

‫گیارہ بجے ماموں ممانی اور مہرین‬


‫ہسپتال آگٸے۔۔‬
‫سالم ماموں‬
‫وعلیکم سالم شاہ جی میں لیٹ ہو‬
‫گیا اصل میں تمہاری ممانی اور‬
‫مہرین کو گھر سے لینے چال گیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫…جی ماموں آ گٸی سمجھ کیوں‬

‫یٹ ہوٸے آپ۔‬


‫اچھا آپ مل لیں سدرہ سے پھر‬
‫مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔‬

‫شاہ جی خیریت ہے کچھ زیادہ ہی‬


‫پریشان لگ رہے ہو۔۔۔‬

‫آپ سدرہ سے مل کے آٸیں ماموں‬


‫پھر کرتے ہیں بات۔۔۔‬
‫اچھا ٹھیک ہے آتا ہوں یہ کہتے‬
‫ہوٸے ماموں آٸی سی یو کی جانب‬
‫بڑھ گٸے۔۔۔‬

‫میں مسلسل پاگلوں کی طرح منیبہ‬


‫کا نمبر ٹراٸی کر رہا تھا۔۔‬
‫ُا س وقت میں یہ فیصلہ نہیں کر‬
‫پارہا تھا کہ مجھے منیبہ سے رابطہ‬
‫نہ ہونے کی ٹینشن ہے یا سدرہ کی‬
‫ِو ش ادھوری رہ جانے کی ٹینشن۔۔۔‬

‫میں انہی سوچوں میں گم تھا جب‬


‫ماموں نے میرے کندھے پہ آ کے‬
‫ہاتھ رکھا۔۔۔‬

‫میں نے سر اٹھا کہ دیکھا تو ماموں‬


‫کی آنکھیں بھیگی ہوٸی تھی۔۔‬
‫کیا ہوا ماموں سب خریت تو ہے‬
‫شاہ جی بہت سارے لوگوں کو اپنے‬
‫ہاتھوں سے الوداع کیا ہے مجھے لگ‬
‫رہا ہے میری بچی کا آخری وقت آ‬
‫گیا۔۔۔‬

‫پلیز ماموں ایسے نا کہیں‬


‫اور مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔‬

‫شاہ جی اللہ صحت دے سدرہ کو‬


‫لیکن مجھے بہت دکھ ہے کہ میری‬
‫بچی اب ہم سے جدا ہو جاٸے گی۔۔۔‬
‫ماموں نے آنکھیں صاف کرتے ہوٸے‬
‫کہا۔۔‬
‫پلیز ماموں ایسے نا کہیں کچھ‬
‫😥‬
‫نہیں ہو گا ُا سے‬
‫ماموں چلیں نیچے چلتے ہیں‬
‫مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے‬
‫آپ‬

‫ہم لوگ سیڑھیاں اتر کے نیچے آ‬


‫گٸے۔۔‬
‫ہسپتال کے گراٶنڈ میں بہت پیارے‬
‫پودے اور پھول لگے ہوٸے تھے۔‬
‫اور جا بہ جا اٹینڈن کے بیٹھنے کے‬
‫لٸے بنچ رکھے ہوٸے تھے ہم بھی‬
‫ایک بنچ پہ بیٹھ گٸے۔۔‬

‫بولو مصطفی کیا بات ہے کیوں اتنے‬


‫گھبراٸے ہوٸے ہو۔۔‬
‫ماموں نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔۔‬
‫میں نے ماموں کو سدرہ کی اب تک‬
‫کی ساری ِو ش ُا س کے باپ سے ملنا‬
‫اور سدرہ وصیت ہر چیز بتا دی۔۔۔‬
‫اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ نکاح کے‬
‫لٸے مان ہی نہیں رہی تھی۔۔‬

‫لیکن میں نے مجبور کیا تو مان‬


‫گٸی ہے لیکن جو ُا س نے شرط‬
‫رکھی ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی‬
‫منیبہ کبھی نہیں مانے گی۔۔۔‬

‫ماموں کافی دیر سر جھکاٸے‬


‫سوچتے رہیں اور جب بولے تو ان‬
‫کی آواز بہت بھاری اور اداس تھی‬
‫جیسے پتہ نہیں کس اذیت سے‬
‫لڑتے رہے ہوں اب تک۔۔‬

‫شاہ جی میں کبھی نہیں چاہوں گا‬


‫کہ تمہارا اور منیبہ کا رشتہ سدرہ‬
‫کی وجہ سے خراب ہو۔۔‬
‫تم بلکل صحیح کہ رہے ہو کہ منیبہ‬
‫کبھی نہیں مانے گی۔۔‬
‫سدرہ ٹھیک ہوتی صحت مند ہوتی‬
‫تو بات پھر بھی سمجھ آتی تھی۔۔‬
‫اب ُا س کے پاس وقت نہیں ہے تو‬
‫بہتر یہ ہے کے تم اپنے فیصلے سے‬
‫پیچھے ہٹ جاٶ۔۔۔‬
‫ماموں آپ مجھے جانتے ہیں بچپن‬
‫سے‬
‫جب میرے ابو فوت ہوٸے تھے تب‬
‫امی کو آپ نے ہی سہارا دیا تھا‬
‫حاالنکہ کے چار ماموں اور بھی‬
‫تھے۔۔‬

‫کیا آپ کی تربیت ایسی ہے کہ میں‬


‫ِا س فیصلے سے پیچھے ہٹ جاٶں۔۔‬
‫مصطفی تم اپنی جگہ صحیح میں‬
‫اپنی جگہ میں ِا س فیصلے کے حق‬
‫میں نہیں ہوں‬
‫باقی منیبہ سے بات کر لو اگر وہ‬
‫قربانی دے دے تو کر لینا‬
‫نکاح مجھے کوٸی اعتراض نہیں۔۔۔‬
‫ماموں منیبہ سے رابطہ نہیں ہو رہا‬
‫خالہ سے بات ہوٸی ہے وہ بتا رہی‬
‫تھیں کہ رات سے ُا دھر بارش اور‬
‫طوفان ہے بجلی بند ہے میں نے ایک‬
‫بار پھر منیبہ کا نمبر مالتے ہوٸے‬
‫ماموں کو بتایا۔۔‬

‫اچھا اللہ بہتر کرے چلو ناشتہ کرتے‬


‫ہیں مجھے پتہ ہے تم نے کل سے‬
‫کچھ نہیں کھایا ہو گا۔۔۔۔‬

‫میری ہر کوشش کے باوجود میرا‬


‫منیبہ سے شام تک رابطہ نا ہو‬
‫سکا۔۔‬
‫اور ِا سی وجہ سے میں دن کو آٸی‬
‫سی یو بھی نہیں گیا تھا‬
‫نا ہی حوصلہ ہوا کے سدرہ سے بات‬
‫کروں۔۔‬
‫شام کو جب میں آٸی سی یو میں‬
‫گیا سدرہ بہت ہی کمزور نظر آ رہی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫میں نے بات کرنی کی کوشش کی‬
‫لیکن اب ُا س کی زبان میں لکنت‬
‫بہت زیادہ آگٸ تھی‬
‫وہ باوجود کوشش کے بول نہیں پا‬
‫رہی تھی۔‬ ‫😥😥‬
‫بولنے کی کوشش کرتے ہوٸے ہوٸے‬
‫ُا س کے چہرے پہ تکلیف کے آثار‬
‫نمودار ہو رہے تھے‬ ‫😥😥‬
‫میرا اب حوصلہ جواب دے رہا تھا‬
‫سدرہ اب خاموش ہو گٸی اور‬
‫آنکھیں بند کر لی‬
‫جیسے ہار مان لی ہو کے اب میں‬
‫بول نہیں سکوں گی کبھی‬
‫ِس ڈ بولو نہ مجھ سے بات کرو پلیز‬
‫ِس ڈ‬
‫لیکن وہ اب بلکل خاموش تھی۔‬
‫بس آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے‬
‫ِس ڈ کچھ تو بولوں۔۔‬
‫نا کرو ایسا میں نے ُا س کے قریب‬
‫ہوتے ہوٸے ُا س کا چہرہ ہاتھوں میں‬
‫لے لیا۔۔۔‬
‫ُا سے آکجیسن ماسک لگا ہوا تھا۔۔‬

‫سدرہ اب نہ آنکھیں کھول رہی‬


‫تھی نہ بول رہی بس روٸے جا رہی۔‬
‫😥😥‬
‫اب میرا ضبط جواب دے رہا تھا‬
‫میں نے سدرہ کی پیشانی چومی‬
‫اور آٸی سی یو سے باہر آ گیا۔۔۔‬

‫باہر ماموں ممانی مہرین فیضان‬


‫سب تھے۔۔‬
‫میرے باہر نکلتے ہی ماموں میری‬
‫طرف لپکے‬
‫مصطفی خیریت تو ہے رو کیوں‬
‫رہے ہو۔۔‬
‫ماموں وہ مجھ سے بات نہیں کر‬
‫رہی‬‫😭‬
‫بول نہیں رہی میں ماموں کے گلے‬
‫لگ کے رو پڑا‬
‫رو تو ماموں بھی رہے تھے مہرین‬
‫بھی رو رہی تھی۔‬

‫ماموں نے مجھے حوصلہ دیتے‬


‫ہوٸے کہا میں ڈاکٹر کے پاس جا رہا‬
‫ہوں۔۔‬
‫مجھے یاد آیا کہ خادم حسین اور‬
‫بھابھی کو بتانا چاہیٸے خادم نے‬
‫سدرہ کو اپنی بہن کہا تھا۔۔‬
‫میں نے بھابھی کے نمبر پہ کال کی‬
‫اور بتایا کہ سدرہ کی طبیعت بہت‬
‫خراب ہے۔‬
‫ُا ن لوگوں نے کہا ہم ابھی آ رہے‬
‫ہیں۔۔‬
‫میرا بس نہیں چل رہا تھا پورا‬
‫کراچی اکٹھا کر لوں چیخ چیخ کے‬
‫بتاٶں کہ وہ بات نہیں کر رہی مجھ‬
‫سے۔۔۔‬
‫…‬
‫‪Imported Message:‬‬
‫س بجے ڈاکٹر نے سدرہ کی طبیعت‬
‫زیادہ خراب ہونے کی اطالع دی اور‬
‫بتایا کے ُا ن کی باڈی اب مکمل ورک‬
‫چھوڑ چکی ہے۔۔۔‬
‫مجھے اب کچھ سمجھ نہیں آرہا‬
‫تھا دماغ کام نہیں کر رہا تھا اب تو‬
‫رونا بھی نہیں آرہا تھا۔۔۔‬
‫چپ چاپ بیٹھا تھا۔۔‬
‫بارہ بجے ماموں میرے پاس آٸے ۔‬
‫مصطفی سدرہ کی حالت بہت نازک‬
‫ہے ُا س کا جسم مسلسل جھٹکے‬
‫کھا رہا ہے‬
‫ایسا لگ رہا ہے تیرا انتظار کر رہی‬
‫ہے مجھے پتہ ہے یہ لمحہ بہت‬
‫بھاری ہے‬
‫لیکن پتر حوصلہ کر جا ایک بار ُا س‬
‫سے مل لے‬ ‫😭😭😭‬
‫میں کسی روبوٹ کی طرح طرح‬
‫چلتا ہوا آٸی سی یو میں سدرہ کے‬
‫بیڈ کے پاس آگیا ۔۔‬

‫ُا س کا جسم تھوڑی تھوڑی دیر بعد‬


‫جھٹکے کھا رہا تھا۔۔‬
‫اور ناک سے ہلکا ہلکا خون بہ رہا‬
‫تھا‬
‫میں جو پچھلے تین گھنٹوں سے‬
‫ضبط کر کے بیٹھا تھا‬ ‫😭😭‬
‫اب سب ضبط ٹوٹ گٸے تھے میں‬
‫نے سدرہ پہ جھکتے ہوٸے اسے گلے‬
‫لگا لیا‬
‫اب میری اپنی ہچکیاں نہیں رک‬
‫رہی تھی دل کر رہا تھا چیخ کے‬
‫روٶں۔۔‬
‫ماموں نے مجھے چپ کروایا اور‬
‫سدرہ سے الگ کیا۔۔‬

‫میں نے ایک نظر سدرہ کے چہرے‬


‫کو دیکھا جو اب بھی اذیت میں‬
‫تھا۔۔‬
‫میں کچھ پل ایسے ہی دیکھتا رہا‬
‫ڈاکٹر اب بھی پاس تھے ڈرپ لگا‬
‫رہے تھے تھراپی کر رہے تھے۔۔‬

‫پھر کچھ سوچتے ہوٸے میں باہر‬


‫نکل آیا۔۔۔‬
‫میرا رخ ہسپتال میں بنی مسجد‬
‫کی طرف تھا۔۔‬
‫میں نے جلدی سے وضو کیا اور تیز‬
‫تیز قدم اٹھاتا ہوا دوبارہ آٸی سی‬
‫یو میں آ گیا۔۔‬
‫سدرہ اب بھی اسی حالت میں‬
‫تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا‬
‫جسم جھٹکے رہا تھا اور آنکھیں‬
‫بند تھی پھر بھی آنسو بہ رہے‬
‫تھے۔۔‬
‫ماموں اور مہرین بھی پاس تھے۔۔‬
‫میں نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ‬
‫سدرہ کی پیشانی چومی‬ ‫😭😭‬
‫اور ُا س کے سرہانے کھڑے ہو کے‬
‫سورة یسین کی تالوت کرنے لگا۔۔‬
‫پہلی بار تالوت کی پھر دوسری بار‬
‫روتے ہوٸے پوری سورة تالوت کی‬
‫😭😭‬
‫اب میری آواز لڑکھڑا رہی تھی‬

‫تیسری بار جب میں آیت نمبر ‪22‬‬


‫پہ پہنچا‬

‫َو َم ا ِل َى ۤاَل َا ۡع ُب ُد اَّلِذ ۡى َف َط َر ِن ۡى َو ِا َلۡي ِه‬


‫ُت ۡر َج ُع ۡو َن‬

‫آخر کیوں نہ میں ُا س ہستی کی‬


‫بندگی کروں جس نے مجھے پیدا‬
‫کیا ہے اور جس کی طرف تم سب‬
‫کو پلٹ کر جانا ہے۔۔‬
‫ِا س آیت کے پورا پڑھتے ہی ماموں‬
‫نے مجھے روتے ہوٸے گلے لگا لیا۔۔‬
‫مصطفی سدرہ چلی گٸی۔۔‬

‫میں اب پھٹی پھٹی نگاہوں سے‬


‫سدرہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں‬
‫اب سکون تھا‬
‫بہت زیادہ سکون کچھ دیر پہلے‬
‫والی اذیت کا نام ونشان نہیں تھا‬
‫ایسا لگ رہا تھا وہ سو رہی ہے۔۔‬

‫مجھے رونا نہیں آ رہا تھا چپ تھا‬


‫بلکل کچھ خاموش‬
‫مجھے نہیں پتہ کیسے ماموں نے‬
‫ہسپتال کی سب فارمیلٹی پوری‬
‫کی کیسے ایمولینس لی۔۔‬
‫نہ مجھے کچھ ہوش تھا‬
‫ہم تین بجے رات سدرہ کو لے کے‬
‫میرے گھر پہنچے‬
‫دل کٹ رہا تھا رونا نہیں آ رہا تھا‬
‫😭😭😭‬
‫سدرہ کی وصیت کے مطابق اس‬
‫کی ڈیڈ باڈی کو میرے بیڈ روم‬
‫میں ہی رکھا گیا۔۔‬
‫دن بارہ بجے سدرہ کے سٹوڈنٹ ُا ن‬
‫کے گھر والے سب آٸے بہت روٸے‬
‫خادم حسین ُا س کی بیوی سب ہی‬
‫سدرہ کے لٸے بہت روٸے۔‬
‫اور پھر شام کی نماز کے بعد سدرہ‬
‫کی وصیت کے مطابق شاہ میری‬
‫میت اندھیرے میں گھر سے نکالنا‬
‫😭😭‬
‫شاہ میری ماں کی دی ہوٸی چادر‬
‫میری میت پہ ڈالنا میں ماں کی‬
‫محبت کا احساس ساتھ لے کے دفن‬
‫ہونا چاہتی ہوں‬ ‫😭😭😭‬
‫اندھیرے میں ُا س کی میت گھر‬
‫نکالی ُا س کی ماں کی دی ہوٸی‬
‫چادر ُا س کی میت پہ ڈالی اور ُا س‬
‫کی قبر کو کچا رکھا۔۔۔‬
‫عشا سے تھوڑا پہلے ہم نےسدرہ کو‬
‫سپرِد خاک کر دیا۔‬
‫ِا س طرح سکینڈل گرل اپنے سارے‬
‫سکینڈل کے عذاب ِا س دنیا میں ہی‬
‫بھگت کے رخصت ہو گٸی۔۔۔‬ ‫😥‬
‫مجھے رب کی رحمت پہ پورا‬
‫بھروسہ ہے وہ سدرہ کی نیت سے‬
‫واقف تھا اس نے سدرہ کو ُا س کے‬
‫گناہ کی سزا دنیا میں ہی دے دی‬
‫تھی۔۔‬
‫میں سدرہ کی قبر پہ اب نہیں جاتا‬
‫ُا س سے کیا وعدہ نبھایا ہے ماموں‬
‫بھی نہیں جاتے اب تو مجھے یاد‬
‫بھی نہیں اس کی قبر کہاں پہ‬
‫تھی۔۔‬
‫شاید وقت کےاتار چڑھاٶ نے سدرہ‬
‫کی قبر کا نام ونشان ختم کر دیا ہو‬
‫اور اللہ نے ُا س پہ ترس کھا کے ان‬
‫شاء اللہ ُا س کو جنت میں اعلی‬
‫مقام بھی دیا ہو گا۔۔‬

‫جب سے سدرہ جدا ہوٸی وہ مجھے‬


‫ایک بار خواب میں ملی بلکل سفید‬
‫فیراک پہنے سرسبز پہاڑ تھے ان کے‬
‫پاس بیٹھی تھی پہاڑوں کے نیچے‬
‫نہریں بہہ رہی تھی سدرہ نے مجھ‬
‫سے کوٸی بات نہیں کی بس میری‬
‫طرف دیکھ کے مسکراتی رہی۔۔‬
‫پھر جب سدرہ کی سٹوری لکھنا‬
‫شروع کی تو مجھے ایسے لگتا رہا‬
‫وہ میرے پاس ہے۔۔۔‬

‫سدرہ کی ڈیتھ کے بعد طبیعت‬


‫بہت زیادہ خراب رہی نہ کچھ‬
‫کھانے کا دل کرتا نا پینے کا اور‬
‫حالت یہ ہو گٸی کے ہاسپٹل داخل‬
‫ہونا پڑا۔۔۔‬

‫سدرہ کی ڈیتھ کے تین ماہ بعد‬


‫فیضان اور میں ایک بار پھر لیاقت‬
‫پور گٸے سدرہ کے والد سے مالقات‬
‫کی۔۔‬
‫ُا ن سے سم کا نمبر لیا جو سدرہ کے‬
‫استمال میں رہی تھی۔۔‬

‫چوہدری والیت کو بتایا سدرہ کی‬


‫ڈیتھ کا۔۔‬
‫اور سدرہ کا لکھوایا ہوا خط‬
‫چوہدری والیت کے حوالے کیا۔۔۔‬
‫اب کی بار وہ انا پرست انسان رو‬
‫پڑا تھا بیٹی کی موت کا سن کے۔۔۔‬

‫ہم نے سکندر کے موباٸل نمبر کے‬


‫تھرو ُا س کو تالش کرنے کی بہت‬
‫کوشش کی۔۔‬
‫…لیکن جس‬
‫ندے کے نام وہ سم تھی ُا سے مرے‬
‫ہوٸے تین سال ہو چکے تھے۔۔‬
‫اور ُا س کے گھر والوں کو علم بھی‬
‫نہیں تھا کہ کوٸی ُا س کے نام پہ‬
‫سم استمال کر رہا ہے۔۔۔‬
‫آس پاس سے ُا ن لوگوں کی‬
‫معلومات لی تو سب نے گواہی دی‬
‫کہ وہ شریف اور مسکین لوگ ہیں۔۔‬

‫سکندر کا نام شاید ُا س نے فرضی‬


‫فیس بک آٸی ڈی پہ بتایا ہوا تھا‬
‫اور جس نمبر سے وہ سدرہ سے‬
‫بات کرتا تھا ُا س سم سے‬
‫ُا س کی کسی اور نمبر پہ کال شو‬
‫نہیں ہوٸی تھی۔۔‬
‫سکندر کی تصویر بھی نہیں تھی‬
‫ہمارے پاس جو ِا س سلسلے میں‬
‫مدد فراہم کرتی۔۔۔‬

‫سدرہ کا لیپ ٹاپ مانگا تو چوہدری‬


‫والیت سے پتا چال ُا ن کے بیٹے نے‬
‫غصے میں لیپ ٹاپ توڑ کے آگ لگا‬
‫دی تھی۔۔‬
‫سکندر کے نمبر کی آخری لوکیشن‬
‫رحیم یار خان ہی تھی۔‬

‫ِا س لٸے باوجود کوشش کے ہم‬


‫سکندر خبیث کو ُا س کے انجام تک‬
‫نہیں پہنچا سکے۔۔‬
‫میری ذاتی خواہش تھی کہ میں‬
‫ایف آٸی آر خود پہ لے کے سکندر‬
‫کو خود گولی مارتا۔۔۔‬

‫چوہدری والیت نے صرف ایک کام‬


‫اچھا کیا تھا۔۔‬
‫ُا س نے سدرہ سے ملنے سے بھلے‬
‫انکار کر دیا تھا‬
‫لیکن میں نے جو راہ ُا سے دکھاٸی‬
‫تھی کہ سدرہ کی ویڈیو کا لنک لے‬
‫کے دو بیٹے سے‬
‫ہم ڈیلیٹ کرواٸیں گے۔۔‬
‫ُا س نے ہمارے آنے کے بعد بیٹے سے‬
‫بات کر کے ایف آٸی اے کو اپروچ‬
‫کیا۔۔‬
‫چوہدری صاحب نے بہت خاص‬
‫محنت کی اور بہت زیادہ پیسہ‬
‫بھی خرچ کیا‬
‫لیکن اللہ کا شکر ہے وہ سدرہ کی‬
‫ویڈیو ڈیلیٹ کروانے میں کامیاب‬
‫ہو گیا۔۔۔‬
‫سدرہ کی کہانی میں ُا س کے ماں‬
‫باپ مالزم اور خود سدرہ کا نام۔۔۔‬
‫میں نے ُا ن لوگوں کی عزت کے‬
‫پیش نظر فرضی رکھا۔۔۔‬

‫یہ واقعہ لیاقت پور کا نہیں ہے‬


‫لیکن ہے ُا سی ڈویژن کا۔۔‬
‫اپنی کزن مہرین فیضان اور نوید‬
‫کا نام بھی میں نے فرضی رکھا‬
‫ہاں ِا س سٹوری میں سکندر وحید‬
‫اور بلقیس کا اصل نام ہی استمال‬
‫کیا گیا۔‬
‫باقی میں نے اپنا نام بھی اصل ہی‬
‫استمال کیا۔۔۔‬

‫یہ کوٸی تخلیق کردہ ناول نہیں تھا‬


‫سچی کہانی تھی اور پیش کرنے کا‬
‫مقصد یہ تھا کہ کوٸی اور سدرہ نہ‬
‫بنے آپ کو ِا س کہانی سے کتنا‬
‫فاٸدہ ہوا میری ٹاٸم الٸن پہ آ کے‬
‫ضرور بتاٸیے گا۔۔۔‬
‫اور میں چاہوں گا یہ ناول آپ ہر‬
‫سترہ سال کی عمر سے تیس سال‬
‫کی عمر کی لڑکی کو پڑھنے کے لٸے‬
‫ریکومنڈ کریں‬

‫اسپیشل تھینکس میری شریِک‬


‫حیات سیدہ منیبہ کا جس نے ِا س‬
‫کہانی کو لکھنے میں میری مدد‬
‫!!!کی۔ ۔ ۔‬
‫۔‬
‫۔‬
‫۔‬

‫)ختم شد(‬
‫سکینڈل گرل ناول کا خالصہ 👈‬
‫سواالت کے جوابات‬

‫عورت زات کا المیہ یہ ہے کہ وہ‬


‫جس مرد سے محبت کر بیٹھتی‬
‫ہے۔۔‬

‫اس مرد کے معاملے میں وہ کبھی‬


‫حقیقت کا سامنا نہیں کرتی۔۔۔‬
‫انتہاٸی گھٹیا ترین مرد بھی اسے‬
‫اعلی پاٸے کا اعلے درجے کا لگتا ہے۔‬
‫وہ جس مرد سے محبت کرتی ہے‬
‫ُا س مرد میں ُا سے کوٸی براٸی نظر‬
‫نہیں آتی۔۔۔‬
‫وہ دنیا جہاں کا گندا لفنگا ہو پھر‬
‫بھی جو عورت اس سے محبت‬
‫کرتی ہے وہ اس عورت کو شہزادہ‬
‫لگتا ہے۔۔‬

‫آپ ُا س عورت کے سامنے دنیا کا‬


‫بہترین انسان اعلی کردار کا مالک ال‬
‫کے کھڑا کر دوں۔۔‬
‫مگر وہ ُا س باکردار مرد پہ کبھی‬
‫بھروسہ نہیں کرے گی‬

‫بلکے ُا س باکردار مرد پہ ُا س‬


‫بدکردار مرد کو ترجیح دے گی‬
‫جس سے وہ محبت کرتی ہے۔۔۔‬
‫کیونکہ ُا س وقت محبت نے ُا س‬
‫عورت کو برے طریقے سے اپنی‬
‫گرفت میں لے رکھا ہوتا جس کی‬
‫وجہ سے ُا س مرد کی براٸیاں ُا س‬
‫عورت کو نظر نہیں آتی۔۔۔‬
‫لیکن جب سب کچھ لٹ جاتا ہے‬
‫جب محبت کا چشمہ اتر جاتا ہے‬
‫پھر پچھتاتی ہے۔۔۔‬

‫لڑکی کو اپنے پسندیدہ بدکرداد‬


‫مرد جس سے وہ محبت کرتی ہے‬
‫ُا س کی گندی باتیں ننگی باتیں‬
‫بھی اچھی لگتی ہیں۔۔۔‬
‫جب کے ایک باکردار اور اچھے مرد‬
‫کا دیکھنا بھی ناگوار لگتا ہے‬
‫کیونکہ وہ ُا س با کردار مرد سے‬
‫محبت نہیں کرتی ہوتی۔۔‬

‫اور دل ہی دل میں ُا سے برا بھال کہ‬


‫کر ُا س مرد سے کمپیٸر کرے گی‬
‫جس سے محبت کرتی ہو گی۔۔‬
‫اور ہمیشہ جیتے گا وہی مرد جس‬
‫سے وہ محبت کرتی ہو گی بھلے وہ‬
‫جتنا بھی برا ہو گا ۔۔۔‬
‫وجہ صرف یہ ہے کے وہ ُا س سے‬
‫محبت کرتی ہوتی۔۔۔‬
‫ہر لڑکی کو یہ تو پتہ ہے کہ حاالت‬
‫بہت خراب ہیں۔۔‬

‫اور آٸے دن لڑکیاں اپنی آبرو گنواں‬


‫رہی ہیں‬

‫بلیک میل ہو رہی ہیں بدنام ہو رہی‬


‫ہیں۔۔‬

‫ہر لڑکی ِا ن سب باتوں کو مانے گی‬


‫بھی ضرور مگر دوسری لڑکیوں کی‬
‫حد تک۔۔۔‬

‫کیوں کہ ُا سے یقین ہوتا ہے کہ‬


‫میرے واال ایسا نہیں ہے‬
‫وہ پاگل یہ نہیں سوچے گی کہ‬
‫میجورٹی میں لڑکے ٹاٸم پاس کر‬
‫رہے ہیں بس سیکس کی حد تک‬
‫رشتے بنا رہے ہیں اور ایک وقت‬
‫میں چار چار لڑکیوں سے رشتے بنا‬
‫رہے ہیں‬

‫لیکن پھر بھی وہ ان باتوں پہ عمل‬


‫نہیں کرے گی۔۔۔‬
‫کیونکہ ُا س کے دل میں یہ وہم ہو‬
‫گا کہ میرے واال ایسا نہیں۔۔۔‬

‫اور ‪ 1+1+1+1‬ایسا کرتے کرتے‬


‫ایسی گرلز کی تعداد کڑوروں میں‬
‫ہے۔۔۔‬
‫جو ِا س سوچ پہ عزت گنوا رہی‬
‫ہیں کہ میرے واال ایسا نہیں۔۔‬

‫جو دوسری لڑکیوں کو تو نصیحت‬


‫کریں گی کہ بہن حاالت بہت خراب‬
‫ہیں کسی پہ بھروسہ مت کرنا۔۔۔‬
‫مگر ساتھ ہی یہ بھی سوچیں گی‬
‫کہ میرے واال ایسا نہیں ہے۔۔‬

‫اور مزے کی بات یہ ہے وہ جس‬


‫لڑکی کو نصیحت کر رہی ہوتی‬
‫ہے۔۔۔‬
‫…آگے سے وہ بھی‬

‫ہی سوچ رہی ہوتی ہے۔۔‬


‫کہ ضرور ِا س کے ساتھ دھوکہ ہوا‬
‫ہے‬
‫تبھی تو یہ سب باتیں کہ رہی ہے۔۔۔‬
‫لیکن ِا سے کیا پتہ میرے واال ایسا‬
‫نہیں ہے۔۔۔‬

‫بس یہ میرے واال ایسا نہیں میرے‬


‫واال ایسا نہیں کرتے کرتے لڑکیاں‬
‫اپنی عزت کی دھجیاں بکھیر رہی‬
‫ہیں۔۔‬
‫اور مرد اپنے شکار پہ ہاتھ صاف‬
‫کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔۔‬

‫ایک عورت کسی دوسری عورت کا‬


‫غیر مرد سے ملنا ُا سے تصویریں‬
‫بھیجنا ویڈیو کال کرنا اور گندی‬
‫باتیں کرنا اور زنا کرنا ہمیشہ برا‬
‫سمجھے گی۔۔۔۔‬

‫ہر طرح سے فتوٰی دے گی کہ وہ‬


‫بہت غلط کر رہی ہے۔۔‬
‫مگر جب خود یہ سب محبت کے‬
‫ہاتھوں مجبور ہو کرنا پڑے گا تو‬
‫جاٸز سمجھے گی۔۔۔‬
‫اور ُا سے آسرا دے گی صرف ایک‬
‫سوچ میرے واال ایسا نہیں۔۔۔۔۔۔‬
‫او بی بی کن خوابوں میں گم ہو۔‬
‫اگر تیرے واال اتنا نیک ہوتا تو پک‬
‫کیوں مانگتا۔‬
‫گندی باتیں کیوں کرتا تجھے ملنے‬
‫کے لٸے کیوں بالتا۔۔۔‬

‫اور سب سے بڑھ کے تمہاری عزت‬


‫سے کیوں کھیلتا۔۔‬

‫جس نے عزت بنانا ہوتا ہے وہ عزت‬


‫کو تحفظ دیتے ہیں۔۔‬
‫جسم ڈھانپتے ہیں ننگا نہیں کرتے۔۔۔‬

‫یہ میرے واال میرے واال راگ االپنا‬


‫بند کرو۔‬

‫حقیقت کی دنیا میں آٶ اگر ایسا‬


‫کسی سے کوٸی تعلق ہے‬
‫تو اس سے دو ٹوک الفاظ میں بات‬
‫کرو کہ یہ ملنا مالنا یہ گندی ننگی‬
‫باتیں بہت ہو گٸی میاں۔۔۔‬

‫اگر نکاح کرنا ہے تو ُا س کے لٸے‬


‫کوشش کرو رشتہ بھیجو‬
‫اگر نصیب میں ہوا تو شادی ہو‬
‫جاٸے گی۔۔۔‬

‫اگر نصیب میں نہیں ہے تو پھر تم‬


‫اپنے راستے میں اپنے راستے لیکن‬
‫اب یہ بھول جاٶ کہ میں محبت کے‬
‫نام پہ اپنی عزت اور برباد کروں‬
‫گی۔۔۔‬
‫میری بہنوں اس مصنوٸی دنیا سے‬
‫باہر آٶ اور اپنی اہمیت پہچانوں۔۔۔‬
‫سو میں سے نوے مرد بہت اچھے‬
‫ہیں۔‬
‫لیکن وہ تب تک اچھے ہیں‬

‫جب تک آپ ان کو کوٸی چانس‬


‫نہیں دو گی۔‬

‫جس تک ُا ن کو آپ کے کردار میں‬


‫لچک نظر نہیں آٸے گی۔۔‬

‫تب تک وہ ہر جگہ آپ کے ساتھ‬


‫بہت اچھے رہیں گے۔۔‬
‫لیکن جیسے ہی آپ ان کو چانس‬
‫دیں گی۔۔۔‬

‫ان کے لٸے دل میں سوفٹ کارنر‬


‫پیدا کریں گی۔۔۔‬

‫ُا سی وقت وہ آپ پہ ٹوٹ پڑیں‬


‫گے۔۔۔‬
‫آپ کی عزت کو تار تار کر دیں‬
‫گے۔۔۔‬

‫ہمارے پنجابی میں ایک کہاوت ہے‬


‫واقف کتا ہی ہاتھ پلید کرتا ہے۔۔‬
‫یعنی کہ جس کتے کو آپ پیار دو‬
‫گے پچھکاروں گے وہی آپ کے‬
‫قریب آ کے آپ کے ہاتھ پاٶں چاٹے‬
‫گا۔۔‬
‫جبکہ ناواقف کتا آپ کے پاس نہیں‬
‫آٸے گا۔۔۔‬

‫نامحرم سے تعریف سننا ہمیشہ‬


‫عورت کو اچھا لگتا ہے‬
‫جب نامحرم مرد عورت ملتے ہیں‬
‫تو شیطان ُا ن کے درمیان آ جاتا ہے‬
‫بہترین کشش پیدا کرتا ہے ُا ن کے‬
‫دل میں ایک دوسرے کے لٸے۔۔۔‬

‫میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محبت نہ‬


‫کرو ضرور کرو لیکن ملنے والی بات‬
‫پہ ہمیشہ کے لٸے کراس الٸن لگا‬
‫دیں‬

‫پک دینے والی بات پہ ہمیشہ کے‬


‫لٸے کراس الٸن لگا دیں۔‬

‫گندی بات پہ ہمیشہ کے لٸے کراس‬


‫الٸن لگا دیں۔۔۔‬

‫اگر کوٸی بہت زیادہ اچھا لگ جاٸے‬


‫تو ماں سے بات کریں اپنی ماں کو‬
‫بولیں کے آپ ُا ن کو گھر بلواٸیں وہ‬
‫اپنے امی ابوں کے ساتھ آٸیں۔۔‬

‫باقاعدہ طریقہ ہو اور اگر وہ‬


‫معقول لگے آپ کے گھر والوں کو تو‬
‫رشتہ طہ کر لیں۔۔۔‬

‫لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں‬


‫کہ وہ سکندر کی طرح رینٹ کے‬
‫ماں باپ نہ لے آٸے۔۔‬

‫اس لٸے پوری تصدیق کریں ُا ن سے‬


‫ایڈریس لے کے بھاٸی یا کسی کزن‬
‫کے ذمہ لگاٸیں یہ کام ُا ن کی‬
‫معلومات کا۔۔‬
‫ُا ن کے آس پاس سے پتہ کریں ُا ن کا‬
‫کب سے وہاں رہ رہے ہیں ان کا بیٹا‬
‫ہے بھی یا نہیں۔۔‬
‫اور اگر وہ واقعی ہی اچھے لوگ‬
‫ہیں تو اللہ کا نام لے کے رشتہ کر‬
‫لیں۔۔‬
‫لیکن منگنی ہونے کہ باوجود ُا س‬
‫بندے سے ملنے سے پرہیز کریں۔۔۔‬
‫عام رواج بنتاجا رہا ہے کہ اب تو‬
‫منگنی ہو گٸی نکاح بھی ہو جاٸے‬
‫گا۔۔۔‬
‫ِا س لٸے ملنے میں سیکس کرنے میں‬
‫کیا براٸی ہے شادی تو تم سے ہی‬
‫ہونی ہے۔۔۔‬
‫نو ایسی کسی بات میں نہ آٸیں اور‬
‫صاف جواب دیں کہ میاں یہ ملنا‬
‫مالنا نکاح کے بعد۔۔‬
‫اگر آپ لڑکے کو گھر بالتی ہیں کہ‬
‫اپنی امی یا گھر والوں کو لے کے‬
‫ہمارے گھر آٶ میری امی ملنا‬
‫چاہتی ہے‬

‫اور آگے سے وہ آٸیں باٸیں شاٸیں‬


‫کرتا ہے تو سمجھ جاٸیں کہ یہ آپ‬
‫کو چونا لگانے کے چکر میں ہے۔۔۔‬
‫ُا سی وقت اس کو لتر مار کے دفع‬
‫کر دیں۔۔۔‬

‫یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔۔۔۔‬


‫عورت سب سے زیادہ سستی‬
‫محبت کے نام پہ بکتی ہے‬ ‫😢‬
‫سدرہ کے حاالت آپ کے سامنے ہیں‬
‫وہ بھی صرف اسی بات پہ ُلٹی کہ‬
‫میرے واال ایسا نہیں۔۔‬

‫الوارث مر گٸی ماں باپ گھر والوں‬


‫سے جدا ہو کے۔۔‬
‫پوری زندگی ُا س کی قبر پہ جانے‬
‫واال کوٸی نہیں۔‬
‫گلی گلی ُر ل گٸی کتنے مردوں کی‬
‫ہوس کا نشانہ بنی۔‬

‫کس لٸے کیونکہ کہ وہ جھوٹی‬


‫محبت کے جھال میں پھنس کے ُا‬

You might also like