Professional Documents
Culture Documents
منحوس 395 396
منحوس 395 396
رائٹر-:راجہ چوہاں
قسط نمبر 396 395
فائل میکر-:پی زیڈ
وٹس ایپ نمبر-:
03494929308
ثمینہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی
کالج سے گھر لوٹی
تھی۔۔ ریما اس کے ساتھ نہیں
آئی تھی
کیونکہ و ہ اپنے گروپ کے
ساتھ لنچ باہر ہی کرنی
والی تھی۔
ا گس لیے گھر پر ا گس وقت
ثمینہ ا ور
آسماء ہی تھیں۔۔۔ آسماء کچن
میں تھی کہ
ڈور بیل بجنے پر ثمینہ نے
دروا زہ کھوال ا ور بیل
بجانے والے کو دیکھ کر
اسے غصہ آ گیا۔
دروا زے پر سکندر خان کے
ساتھ ھماء
کھڑی تھی۔۔۔ ثمینہ کا کڑوا سا
جواب
سن کر ھماء کو غصہ تو آیا
مگر سکندر خان
نے اسکے برعکس نرم
لہجے میں بات کی۔
سکندر خان :
اپنے ا گس بڑے بھائی پر اتنا
غصہ ہو کہ اپنے
گھر کے اندر بھی نہیں آنے
دوگی ؟ لوگ تو
انجان لوگوں کو بھی دروا ز
ے سے ایسے واپس
نہیں لوٹاتے ،میں تو پھر
بھی تمہارا بڑا
بھائی ہوں ۔
ثمینہ :
بھائی ؟ رشتوں کے بارے
میں آپ
جانتے ہی کیا ہیں ؟ کس
رشتے کی الج رکھی
ہے آپ نے ،جو مجھے
نصیحت د ے رہے ہیں۔
سوتیلی ہونے کے طعنے میں
ابھی تک بھولی
نہیں ہوں۔
سکندر خان :
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ،میں
نے تو ایک
بھائی ہونے کے ناطے سارے
فرض
نبھائے ہیں ہمیشہ۔۔۔ تمہیں
اچھی تعلیم دی
ا ور اچھے گھر میں تمہاری
شا دی
کروائی۔۔۔ بتاؤ کیا نہیں کیا
میں نے
تمھار ے لیے۔
کون ہے ثمینہ ؟ کس سے
‘ باتیں کر رہی ہو
دروازے پر ‘
آسماء کچن سے نکلی تو
ثمینہ کو دروا زے پر کسی
سے بات کرتے ہوئے پایا۔۔۔
سوا ل پوچھتے ہوئے
جب و ہ تھوڑا قریب آئی تو
اس کی نظر
باہر کھڑے اپنے جیٹھ ا ور
جیٹھانی پر پڑی تو
ایک انجانا سا ڈر اس کے گدل
میں
بیٹھ گیا۔
ھما ء :
کیسی ہو آسماء ؟ ہم یہاں اپنی
ا گس نند کو
منانے آئے ہیں ا ور یہ ہے
کہ ہمیں دروا زے
سے اندر تک نہیں آنے د ے
رہی۔۔۔ تم ہی
ہماری مدد کرو۔
ثمینہ:
بھابی کے ساتھ آپ نے کبھی
کچھ اچھا کیا
ہے جو ا ن سے مدد مانگ
رہی ہیں ؟ آپ نے
ا ور آپ کے شوہر نے جو
کچھ بھابی کے ساتھ
کیا ہے سب پتہ ہے مجھے ۔
ھما ء :
اب جو ہو چکا اسے بھال کر
کیا ہم ایک نئی
شروعات نہیں کر سکتے ؟
اب ہٹو ذرا
ہمیں اندر آنے دو۔
ثمینہ کو سائڈ کرتے ہوئے
ھماء اندر آگئی ا ور
اس کے ساتھ ہی سکندر خان
بھی۔۔۔۔
ثمینہ جلدی سے پیچھے
پیچھے آ گئی۔
ھماء نے آسماء کو گلے سے
لگایا ا ور اسے ساتھ
لیے حال میں آ گئی۔۔۔۔ ثمینہ ا
ور آسماء
ا ن دونوں کے رویے کے
آگے مجبور سی ایک
دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
ثمینہ :
آپ دونوں یہاں کس لیے آئے
ہیں
صاف صاف بتائیے۔۔۔ یہ
سب اپنے پن کا ڈرامہ مجھے
مت دکھائے۔
ھما ء :
اب چھوڑ بھی دو غصہ ،کب
تک ہم سے
ناراض رہوگی ؟ پتہ ہے
روزینہ ا ور ناصر ہم سے
کتنا ناراض ہیں کہ ا ن کی
آنٹی ا ن کے ساتھ کیوں
نہیں رہتی ا ور اب چچی بھی
ریما کے ساتھ
گھر چھوڑ کر یہیں آ گئی
ہے۔۔۔۔ دیکھو ہم اپنی
سب غلطیوں کے لیے ہاتھ
جوڑ کر معافی مانگتے
ہیں۔۔۔ ہم تو بس اتنا چاہتے
ہیں کہ ہم
سب ساتھ میں رہیں ۔۔۔ آسماء
ا ور دونوں
بیٹیوں کو کسی چیز کی کمی
نہ رہے ا ور تمہیں
بھی کہیں نوکری کرنے کی
ضرورت نہ پڑے
جب گھر اتنا بڑا ہے تو سب
کچھ ہوتے
ہوئے بھی تم ایسے اکیلی
رہتی آئی ہو۔۔۔۔۔ اتنے
سالوں سے ا ور پتہ نہیں
کہاں کہاں
نوکری کرکے گزا را کر رہی
ہو۔۔۔۔ پتہ ہے
شا دی کے بعد لڑکی کے لیے
اس کا سسرا ل
ہی سب کچھ ہوتا ہے ا ور ہم
نے تو تمہاری
شا دی اتنے بڑے گھر میں
کروائی تھی۔۔۔۔
سوچا تھا کہ تم رانی بن کر
راج کروگی وہاں۔۔۔ ا ور
وہاں بھی ہماری بری قسمت
کہ تمہیں چھوٹی سی
عمر میں بیوہ ہونا پڑا۔۔۔۔۔
مگر تم اس
گھر کو چھوڑ کر ہی چلی
آئی۔۔۔ بھال تمہیں
کیا ضرورت تھی گھر
چھوڑنے کی ؟ سب
کچھ تو تھا وہاں ،آرا م سے
رہتی راج کرتی۔۔۔
تمہارے شوہر کے حصے کی
آدھی جائیدا د تو
تمہاری ہی تھی۔۔۔ اگر کوئی
پریشانی تھی تو مل
بیٹھ کر ٹھیک کر لیتے۔
ثمینہ :
ا ن سب باتوں کا ذکر آج کیوں
کر رہی ہو آپ ؟ و ہ
گھر نہیں قید خانہ تھا۔۔۔۔ جہاں
شوہر کے جاتے ہی مجھے
ایک عورت سے
زیادہ کچھ نہیں سمجھا گیا۔۔۔
زندگی جینے کے لیے
عیش و آرا م سے زیادہ اپنوں
کے ساتھ کی
ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ا ور وہاں
میرا اپنا کوئی
نہیں تھا۔۔۔ اسی لیے میں نے
اس گھر
کو چھوڑ دیا۔
سکندر خان :
چھوٹی چھوٹی باتوں پر
ایسے گھر سے ناطہ توڑنا
تھوڑی جاتا ہے بھال ؟ پتہ ہے
تمھارے
سسرا ل والے تب سے آج
تک تمہیں
ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ و ہ تو کتنی
بار مجھ سے پوچھ چکے
ہیں کہ آخر تم گئی کہاں۔۔۔۔ ا ن
کا تو یہ
کہنا ہے کہ و ہ ساری جائیدا د
ہی تمھار ے
نام لکھ دینگے اگر تم ایک
بار واپس آجاؤ
تو۔۔۔ ا ور تمہیں وہاں کسی
چیز کی کوئی کمی نہیں
ہوگی ۔۔۔ چھوڑو یہ نوکری ا
ور جا کر اپنے محل
میں رانی بن کر رہو ۔۔۔ کہاں
سے ا گس
چھوٹے سے مکان میں رہ
رہی ہو۔
ثمینہ :
میں اپنے ا گس گھر ا ور نو
کری سے بہت
خوش ہوں۔۔۔ گھر بڑا ہوتا ہے
اس میں
رہنے والے لوگوں کے دلوں
سے۔۔۔ بڑے گھر
میں اگر چھوٹے گدل والے
لوگ رہتے ہو تو
اسے بڑا کیسے کہہ سکتا ہے
کوئی ؟ اینٹوں
پتھروں سے گھر نہیں بنتے
لوگوں سے بنتے
ہیں ا ور مجھے میرا گھر مل
چکا ہے۔۔۔
جہاں میرے اپنے میرے ساتھ
ہیں۔۔۔ میرا اس گھر سے کوئی
واسطہ
نہیں جس کی آپ طرف دا ری
کر رہے
ہیں۔
ھما ء :
تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو ؟
آسماء تم ہی اسے
کچھ سمجھاؤ ناں۔۔۔۔۔ اکیلی
کیسے زندگی گزرے
گی یہ ؟ سر پر مرد کا سایہ نہ
ہو تو
لوگ کیسا کیسا سلوک نہیں
کرتے۔۔۔ کہیں کل کو کوئی انچ
نیچ ہو گئی تو۔۔۔۔
جب اتنا کچھ ہے اس کے
پاس تو یہ
کیوں نہیں چلی جاتی وہاں۔
آسماء :
آپ نے ٹھیک کہا باجی ،سر
پر مرد کا
سایہ نہ ہو تو لوگ اُسے
استعمال کی
چیز ہی سمجھتے ہیں۔۔۔ پھر
نہ و ہ رشتے
دیکھتے ہیں نہ کسی کی
عزت۔۔۔۔ مرد
کے لیے تو عورت صرف
اپنے ہوس
مٹانے کا ذریعہ ہی ہے۔۔۔۔
مگر جب
گھر کے مرد ہی حیوا ن بن
جائے تو پھر و ہ
گھر ہی کہاں رہتا ہے ؟ ثمینہ
سمجھدا ر
ہے ا ور نڈر بھی۔ اس میں
جو صالحیت
ہے کاش مجھ میں بھی ہوتا۔۔۔
میں
ثمینہ کے فیصلے کے ساتھ
ہوں۔
ھما ء :
تم بھی اس کا ساتھ د ے رہی
ہو ؟ آخر
تمہیں کس چیز کی کمی د ے
رکھی ہے ہم نے ؟
دیکھو آج کہاں ہو تم اس گھر
کو چھوڑ کر۔۔۔۔
روہی ا ور ریما کو اتنی اچھی
تعلیم کیا د ے سکتی
تھی تم اکیلی رہ کر ؟ ا ور و ہ
سارا عیش و آرا م ؟
آسماء :
بہت بڑی قیمت ُ ُچئی ہے میں
نے اپنی
بیٹیوں کے لیے۔۔۔ ا ور یہ آپ
اچھے سے
جانتی ہیں۔۔۔ ا گس لیے اس
بارے میں
کوئی بات مت کرئیے۔
ثمینہ :
آپ دونوں اب چلے جائیے ،
میں ا ور
بھابی ( آسماء ) آپ کی کوئی
بات نہیں
سننا چاہتے۔
سکندر خان :
دیکھو ہم پیار سے سمجھا
رہے ہیں ا ور تم ہو کہ
سمجھانے کی بجائے ہم سے
ایسے بات کر رہی
ہو۔۔۔ خیر چھوڑو ،سلطان
تمہیں لینے آیا
ہے۔۔۔۔۔۔۔ اچھا یہی ہوگا تم اس
کے ساتھ
اپنے سسرا ل لوٹ جاؤ۔۔۔۔ ا ن
کے ا ور
ہمارے خاندا ن کی عزت اسی
بات
میں ہے کہ تم وہاں چلی جاؤ
۔۔۔۔ ا ور و ہ
تمہیں لینے آئے ہیں ہمارے
ساتھ۔۔۔۔سلطان ، ، ، ،سلطان۔
سلطان:
کیسی ہو ثمینہ ؟ شکر ہے تم
سہی سالمت ہو
۔۔۔ ہم نے تمہیں کہاں کہاں
نہیں
ڈھونڈا۔۔۔ جب سے تم گھر
سے آئی ہو ایک
بھی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم
لوگوں نے
تمھار ے بار ے میں بات نہ
کی ہو۔۔۔
سب کے ہوتے ہوئے بھی
ایک کمی سی تھی
۔۔۔۔ مجھے تو یہ تمھار ے
بغیر سمجھ نہیں
آرہی تھی کہ میں اپنے بھائی
کو کیا جواب
دونگا کہ میں اس کی گ ِ ِب
ویی کا خیال بھی اچھے
نہ رکھ پایا اسکے جانے کے
بعد۔۔۔
آخر تم گھر سے کیوں چلی
آئی ثمینہ ؟ اگر
کوئی پریشانی تھی تو ہم سے
بات کرتی ۔۔ سب
کچھ تمہارا ہی تو تھا پھر
کیوں چلی آئی تم ؟ تم
کہتی تو ہم سب کچھ تمہارے
ہی نام کر دیتے۔۔۔
تم تو چھوٹی بہت تھی گھر
کی ،تمہارا حق سب
سے پہلے تھا۔۔۔ا ور تم سب
عیش و آرا م کو
چھوڑ کر یہاں ایسے رہ رہی
ہو .مجھے پہلے پتہ
چلتا تو میں کب کا تمہیں یہاں
سے لے
گیا ہوتا۔
چلو آج ہی ابھی واپس چلو
اپنے گھر۔۔۔ تم
جو کہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔۔
بس ایک بار واپس
لوٹ آؤ۔۔۔لوگوں کے طعنے
سن سن کر ہم
لوگوں کے تو کان پک گئے
ہیں۔۔۔ سب یہی
کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارا
دھیان نہیں رکھا ،
کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم
نے جائیدا د کے
لیے ایسا کہا۔۔۔ پلیز میرے
ساتھ
واپس چلو۔ تمہارا اصلی گھر
تو اب و ہ
ہی ہے ۔ پھر کیوں یہاں ایسے
اکیلی رہ رہی ہو ؟
میں وعدہ کرتا ہوں تمہیں
کسی طرح کی کمی
نہیں ہونے دونگا۔۔۔ بس ایک
بار میرے
ساتھ واپس چلو۔
سلطان کو دیکھ کر ثمینہ ڈر
بھی گئی تھی ا ور غصہ
بھی تھی ماضی میں جو کچھ
ہوا تھا و ہ سب اس
کی آنکھوں کے سامنے
گھومنے لگا تھا۔۔۔ ا ور و ہ
سمٹ سی رہی تھی آسماء
کے ساتھ لگی جبکہ
سلطان بات کرتے کرتے اس
کے
قریب آپہنچا تھا۔
ثمینہ:
نکل جاؤ میرے گھر سے ،
میں
تمہاری شکل نہیں دیکھنا
چاہتی۔ ا ور
کس گھر کی بات کر رہے ہو
تم ؟ کس
رشتے کی بات کر رہے ہو؟
جب اپنی گندی
نظر مجھ پر ڈالی تھی تب
تمہیں خیال نہیں
تھا کہ میں تمہاری بھائی کی
بیوی ہوں ؟
تمھار ے گھر کی عزت ہوں ؟
بڑا بھائی تو
باپ کے برابر ہوتا ہے۔۔۔ ا ور
تم ،تم تو اتنے
گھٹیا انسان ہو کہ جس کو
رشتوں کی قدر
تک نہیں ہے۔ تمہیں تو انسان
کہنے
میں بھی مجھے شرم آتی ہے۔
سلطان :
دیکھو ثمینہ تم حد سے زیادہ
بڑھ رہی ہو۔۔۔
میں تمہارا جیٹھ ہوں ،میں
جو کہونگا
تمہیں ماننا پڑیگا ۔۔۔ تم ہمارے
گھر کی بہو ہو
ا ور تمہیں ہمارے ساتھ ہی
رہنا
ہوگا۔۔۔چپ چاپ اپنا سامان
باندھو
ا ور چلو میرے ساتھ۔۔۔ یہ
سب
ڈرامہ کرکے کچھ نہیں ہوگا۔
آسماء :
ثمینہ کہیں نہیں جائے گی ،تم
چلے جاؤ
یہاں سے
ھما ء :
تم بیچ میں مت بولو آسماء ۔۔۔
یہ ثمینہ
کے جیٹھ ہیں ۔۔۔ ا ن کے گھر
کا معاملہ
ہے۔۔۔ تمہیں کوئی حق نہیں
ہے بولنے کا۔
جانے دو ثمینہ کو۔
آسماء :
سنا نہیں آپ نے ،ثمینہ نے
ابھی کیا
کہا ؟ یہ
س
آپ سب ُ ُ
ثمینہ کو جانے کو
کہہ رہی ہیں۔
ن نکے بعد بھی :سکندر خان
سلطان گھر کے بڑے ہیں جو
ثمینہ کی
حفاظت کرسکتا ہے۔ ورنہ
زمانے میں
بےسہارہ عورتوں کے ساتھ
کیا کیا ہوتا
ہے کچھ پتہ بھی ہے ؟
ثمینہ :
ایسے سہاروں سے بےسہارہ
ہونا اچھا ہے۔۔
میں نہیں جاوں گی۔
سلطان :
کیسے نہیں جاوگی ،میں بھی
دیکھتا ہوں کیسے
نہیں جاتی۔
اتنا کہہ کر سلطان نے آگے
بڑھ کر ثمینہ کی
کالئی پکڑ لی ا ور اسے
کھینچا۔۔۔ ثمینہ نے خود کو
چھوڑوانے کی کوشش کی
مگر سلطان کے آگے
اس کی کہاں چلنی تھی۔۔۔۔
آسماء نے بھی
سلطان سے ثمینہ کو
چھوڑوانے کی کوشش
کی ۔۔۔ سلطان نے آسماء کو
دھکا دیا ا ور و ہ دیوا ر
سے جا ٹکڑائی۔۔۔سلطان ثمینہ
کو کھینچتا ہوا
باہر لینے لگا تبھی اس کے
منہ پر زوردا ر ُ ُم پڑا
ا ور چیخ کے ساتھ اس کے
منہ سے خون
بھی بہہ نکال ۔
حرام زادے تیری ہمت کیسے
‘ ہوئی
ثمینہ کا ہاتھ پکڑنے کی۔ہاں ’
یہ روبینہ تھی جو یہاں اچانک
آپہنچی
تھی۔۔۔ اپنی پولیس یونیفارم
میں ،غصے سے الل
ہوتی روبینہ نے سلطان کو
کوئی موقع د ِ ئی و بغیر
اس کے پیٹ میں گھٹنے سے
زوردا ر وا ر کیا
ا ور اس کے بال نوچتے
ہوئے زور سے اسے
زمین پہ ایسا پٹخا کہ و ہ
کے رفتار120
میں گھومتا ہوا سر کے بل
زمین پہ
گرا ا ور سر پر زوردا ر چوٹ
لگی ۔۔۔۔سلطان
درد سے کراہ اٹھا مگر اس
پر کوئی ترس نہ
کھاتے ہوئے روبینہ نے اپنے
لیدر کے
مضبوط جوتوں سے ٹھوکریں
برسانے شروع کر
د ِ ئی و۔۔۔ ساتھ ہی ہاتھ میں
پکڑی چھڑی
سے بھی مسلسل ایسے وا ر
کرنے لگی جیسے سامنے
انسان نہیں کوئی کپڑوں کی
پوٹلی ہو۔۔۔
روبینہ کو دیکھ کر جہاں
ثمینہ کی آنکھوں
میں آنسوؤں کے بعد خوشی
لوٹ آئی تھی
وہیں سکندر ا ور ھماء کے
تو طوطے ہی اُڑ گئے تھے۔۔۔
دونوں میں سے کسی نے
روبینہ کو روکنے کی
کوشش تک نہ کی ا ور روبینہ
سلطان کو
لگاتار تب تک پیٹتی رہی جب
تک کہ
اس کا غصہ کچھ کم نہ ہوا۔
روبینہ :
حرا م زاد ے اپنے باپ کی
جاگیر
سمجھا ہے کیا جو اسے ہاتھ
لگانے کی ہمت کی تو
نے۔۔۔۔ بہت بڑی غلطی کر دی
کمینے اب
تیرا و ہ حال کروں گی کہ
دوبارہ اپنی بیوی تک کو
ہاتھ لگانے سے پہلے
سوچےگا۔
ایک زوردا ر الت دونوں
رانوں کے بیچ مارتے
ہوئے روبینہ نے سلطان کو
بےحال ہی کر
دیا۔۔۔ سلطان زور سے گ ُ ِ نچ
و مگر اس کی مدد
کرنے کو کوئی آگے نہ ہوا۔۔۔
روبینہ کی
نظر اب سکندرخان پر پڑی ا
ور غصے سے
و ہ اس کی طرف بڑھی۔۔۔ یہ
دیکھ کر
سکندر خان ا ور ھماء دونوں
پر خوف حاوی
ہوگیا۔ روبینہ کے تیور ا گس
وقت بہت
ہی خطرناک تھے ا وپر سے
و ہ اپنی یونیفارم
میں بھی تھی۔
روبینہ :
میں نے کہا تھا کہ ثمینہ سے
دور رہنا
مگر لگتا ہے میری بات تمہیں
سمجھ
نہیں آئی تھی ۔۔۔ آج تم نے
بہت بڑی غلطی
کر دی کمینے۔
سکندر :
اپنی حد میں رہو روبینہ ،
مجھ پر ہاتھ ڈاال تو
پھر تمہیں تمہارا ڈیپارٹمنٹ
بھی بچا
نہیں پائے گا۔
سکندر خان پر روبینہ ہاتھ
اٹھانے والی تھی
کہ سکندر خان جلدی سے
ایک قدم
پیچھے ہٹا ا ور اس نے اپنے
آگے اپنی بیوی کو کر دیا
روبینہ کا اٹھا ہوا ہاتھ سیدھا
ھماء کے گالوں
پر جا لگا جہاں اس نے اپنے
ہاتھ کا پُورا نقشہ
ہی چھاپ دیا ا ور ایک پل میں
ھماء کے گال
الل ہوگئے ساتھ ہی و ہ بھی
زور سے ُچ وی ِِی وخ و نی۔
ھما ء :
آا اہ ہ ماا اا اں۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر خان جلدی سے دور
ہٹ گیا
روبینہ اسے مارنے کو ہوئی
کہ ثمینہ نے اسے
روک لیا۔۔۔ ثمینہ نہیں چاہتی
تھی کہ
اس کی یہ سہیلی غصے میں
کچھ ایسا کر
د ے جس کی وجہ سے اس
پر کوئی آنچ آ
جائے ۔
ثمینہ :
روبینہ نہیں ُ ، ،رک جاؤ
روبینہ ، ، ،
ایسا مت کرو۔
روبینہ :
چھوڑو مجھے ثمینہ ،ا ن کی
عقل ٹھکانے لگانے دو
مجھے۔
ثمینہ :
نہیں روبینہ ،بات کو ا ور مت
بڑھاؤ۔۔۔
آپ لوگ ( سکندر ) چلے
جائیے یہاں
سے۔۔۔۔ نکل جائیے میرے
گھر سے۔
سکندر خان :
تمہیں تو میں دیکھ لونگا ،
بہت اکڑ ہے نہ
تم میں۔۔۔ دیکھتا ہوں تمہاری
اکڑ۔
روبینہ :
روبینہ خان نام ہے میرا ،ا
ور یہ وردی
میری محنت سے مجھے ملی
ہے ،کسی کی غالمی
سے نہیں۔۔۔ تجھ سے جو ہوتا
ہے کر کے دیکھ
لے۔۔۔ ا ور اگال وا ر کرنے
سے پہلے سوچ لینا
کہیں و ہ تمہاری آخری غلطی
نہ ہو۔۔۔
چل بھاگ یہاں سے ا ور اپنی
ا گس رنڈی
کو بھی ساتھ لے جا۔۔۔ آج کے
بعد مجھے
یہاں نظر آیا تو قانون بھول
جاوں گی
پھر نہ تجھے کوئی ایم این ا
ے بچا پائےگا نہ
ثمینہ۔ بھاگ یہاں سے ۔
روبینہ تو آج آپے سے باہر
ہوگئی تھی ا ور ہو بھی
کیوں ناں جب اس کی بہن
جیسی سہیلی کے
ساتھ کسی نے بُرا کرنے کی
کوشش کی اس
کے سامنے ہی۔۔۔
سکندر خان موقعے کی نزاکت
سمجھتے ہوئے
ھماء کو کھینچتا ہوا باہر کو
کھسکا۔۔۔۔ ھماء غصے سے
روبینہ کو دیکھ رہی تھی ا ور
ساتھ ہی اپنے گال پر
ہاتھ رکھے اس درد کو کم
کرنے کی کوشش کر رہی
تھی ۔۔۔ ھماء پر ہاتھ تو
سکندر خان بھی نہیں
اٹھاتا تھا ایسے میں اس کے
کومل
نازک گالوں پر روبینہ کے
سخت ہاتھوں کا
دمدا ر تھپڑ بہت ہی بھاری پڑا
تھا۔۔۔
مگر یہ تھپڑ سکندر خان کے
گالوں پر
پڑنے واال تھا جو ھماء کے
گالوں پر پڑا تھا۔۔۔
سلطان وہیں زمین پر پڑا تھا
جسے دونوں
میں سے کسی نے اٹھانے کی
کوشش تک
نہیں کی۔
روبینہ ثمینہ کی طرف سے
روکے
جانے پر ا ور زیا دہ غصہ
ہوگئی تھی ا ور پھر سے
زور دا ر التوں کی برسات
سلطان پر برسا
دی۔
روبینہ :
ک ،اٹھ حرا م زا د ے اُٹھ۔ اٹھ ُ ُ
ثمینہ :
روبینہ ! ! ! روبینہ ! ! !
روبینہ :
ہٹ جاؤ پیچھے ،تم نے
مجھے کیوں روکا ؟ ابھی
اس کمینے کی بھی عقل
ٹھکانے لگا دیتی۔۔۔ تم
آخر کس گ ٹم و کی بنی ہو
جو بار بار اسے بچانے
آجاتی ہو اتنا کچھ ہونے کے
بعد بھی۔
ثمینہ :
پہلے اپنا غصہ ٹھنڈا کرو پھر
جو کہنا ہو
کہہ لینا۔
روبینہ:
نہیں ہوگا میرا غصہ ٹھنڈا ،ا
ور یہ
حرامی کون ہے جس کی اتنی
ہمت ہوگئی کہ
تمہیں کھینچ کر لے جا رہا تھا
؟
ثمینہ :
وی و نب ٹڈ کا
ب ِیہ میرے ہس ِ
بڑا بھائی ہے۔۔۔ مجھے
زبردستی گھر لے جانے آیا
تھا۔
روبینہ :
اچھا تو یہ ہے و ہ کمینہ ،
یہیں رکو۔
روبینہ جلدی سے باہر نکلی ا
ور اپنے ساتھ
رہنے والے سکیورٹی والوں
کو اندر بال کر سلطان کو
حواالت بھیجوا دیا ۔۔۔ آسماء
کے سر پر دیوا ر
سے ٹکرانے کی وجہ سے
ہلکی چوٹ آگئی تھی
مگر و ہ بھی ثمینہ کے ساتھ
یہاں روبینہ کا
غصہ ٹھنڈا کرنے میں لگی
تھی دونوں ہاتھ
جوڑے روبینہ کو شکریہ
کہتے
ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسماء :
ہم تمہارا شکریہ کیسے ا دا
کریں
روبینہ۔۔۔۔ تم نہ آتی تو و ہ
لوگ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روبینہ :
آپ ہاتھ کیوں جوڑ رہی ہیں
بھابی ؟ ثمینہ پر
میرا گدل ہے ،یہ میری
سہیلی نہیں بہن
ہے ا ور اس کے سوا میرا ا
گس ُدنیا میں
ا ور ہے بھی کون۔۔۔ اگر میں
اس کی ہی
حفاظت نہیں کرسکتی تو ا ور
کس کی
حفاظت کیا کروں گی۔۔۔ میں تو
اس
سکندر خان کی اکڑ بھی نکال
دیتی ا ور یہ ہے کہ
مجھے ہی روکنے لگ گئی۔۔۔
مجھے تو اس کی ہی
سمجھ نہیں آتی ،جب اسے
کچھ کہنے لگیں اُلٹا
یہ ہی مجھے روکنے لگ
جاتی ہے۔۔۔ تبھی تو
اس کی ہمت بڑھتی ہے بار
بار ایسا کرنے کی۔
ثمینہ :
میں نہیں چاہتی کہ تم انہیں
موقع دو کچھ
غلط کرنے کا۔۔۔ تم نہیں جانتی
و ہ کتنا گھٹیا
انسان ہیں۔۔۔ و ہ کچھ بھی
کرسکتے ہیں ا ور میں
اپنی بہن جیسی سہیلی پر
کوئی آنچ نہیں آنے
دینا چاہتی۔
روبینہ :
ایک تو ُتی ڈرتی بہت ہے ،
تیرے اسی ڈر کی
وجہ سے و ہ تمہیں ڈراتے
ہیں۔۔۔ جب
سامنے سے پلٹ وا ر ہو نا تو
دوبارہ پنگا لینے سے
بار سوچتا 100پہلے آدمی
ہے۔۔۔ تم ہمیشہ سے
چپ چاپ سب کچھ سہتی آئی
ہو اسی لیے تو
ہر بار ہوتا ہے تمھارے ساتھ۔
ثمینہ :
تم جو چاہو سوچ لو مجھے
پرواہ نہیں۔۔۔ مگر
میں تمہیں کسی مصیبت میں
پڑتے
دیکھنا نہیں چاہتی۔
روبینہ :
سنا بھابی ،اسے میری فکر ُ
ہے۔۔۔ اب
آپ ہی اسے سمجھائیے کہ
میں پولیس
میں ہوں۔۔۔ بھال میرا کوئی کیا
بگاڑ لے
گا۔
آسماء :
تم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ
سہی ہو ا ور تم دونوں کا
یہ پیار دیکھ کر مجھے پُورا
بھروسہ ہے کہ
ثمینہ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ
سکتا۔۔۔۔ مگر ثمینہ
بھی اپنی جگہ سہی ہے
روبینہ۔۔۔ تم اس
کے بھائی کو نہیں جانتی و ہ
کتنے گرے ہوئے
انسان ہے۔۔۔ و ہ تمہیں نقصان
پہنچانے
کے لیے کچھ بھی کرسکتے
ہیں۔
روبینہ :
آپ فکر مت کرو بھابی ،و ہ
جتنا زیادہ
میرے خالف کچھ کرینگے
انہیں اتنا ہی
زیادہ نقصان ہوگا۔۔۔ آج کھانا
نہیں بنایا
کیا ؟ میں تو یہاں لنچ کرنے
آئی تھی مگر
لگتا ہے بھوکے ہی جانا
پڑیگا۔
آسماء :
ایسے کیسے بھوکے جانا
پڑیگا ،کھانا بنا ہوا
ہے۔۔۔ میں ابھی تم دونوں کے
لیے کھانا لگاتی
ہوں۔
اتنا کہہ کر آسماء کچن میں
چلی گئی۔۔۔
روبینہ نے ثمینہ کی طرف
سائڈ لی ا ور
اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں
پکڑ کر اس کی
آنکھوں میں پیار سے
دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
روبینہ :
اس آدمی نے تمھار ے ساتھ
کچھ ایسا تو
نہیں کیا تھا جو تم بتا نہیں
سکتی ؟
روبینہ نے یہ سوا ل ا گس
لیے پوچھا تھا
کیونکہ اسے پتہ تھا ثمینہ
اپنے بارے میں
کُھل کر کچھ نہیں بتاتی۔۔۔ ا
گس لیے اس
نے اشاروں میں و ہ سوا ل
کر لیا تھا جسکا
جواب ثمینہ سیدھے لفظوں
میں چاہ
کر بھی د ے نہیں سکتی تھی۔
ثمینہ :
میں نے تمہیں بتایا تو تھا ،
اس کی مجھ پر
گندی نظر تھی۔۔۔ ا ور جب اس
نے
میرے ساتھ زبردستی کرنے
کی کوشش
کی تھی اس کے بعد میں گھر
سے
بھاگ گئی تھی۔۔۔ اگر و ہ
میرے ساتھ و ہ
سب کر لیتا تو میں خود کو
ختم کر لیتی۔۔۔
اپنے شوہر کے سوا میں نے
کبھی کسی کو اپنے جسم پر
ا دیکار نہیں دیا ا ور نہ کسی
کو ایسا کچھ کرنے دیا
ہے۔
ثمینہ کی آنکھوں میں ایک
بار پھر سے
آنسوں آ گئے تھے۔۔۔۔ روبینہ
نے ثمینہ کو
گلے سے لگا لیا ا ور اسے
پیار سے سہالنے
لگی۔۔۔۔ ثمینہ جب کچھ
پرسکون ہوئی تو
روبینہ نے ماحول کو کچھ
خوش نما کرنے کے
لیے ثمینہ کو چھیڑنے کی
غرض سے یہ
بت کہہ دی۔
روبینہ :
شرم نہیں آتی تمہیں مجھ سے
جھوٹ بولتے
ہوئے ؟ کہہ رہی ہے اپنے
شوہر کے سوا کسی کو
ادیکار
(حق) نہیں دیا۔۔۔ تو پھر شیرو
کے ساتھ
کیسے و ہ سب کر گئی ؟ و ہ
تو تیرا شوہر نہیں ہے ،
تو کیا اس نے تیرے ساتھ
زبردستی
کی تھی ؟ بتا مجھے ،پھر
میں اس کی بھی
ٹانگیں توڑ دوں۔
روبینہ کی بات سن کر ثمینہ
اس سے
الگ ہوئی ا ور اس کی
آنکھوں میں دیکھ کر
چہرے پر ناراضگی التے
ہوئے بولی۔
ثمینہ :
ہاتھ تو لگا کے گدکھا اسے ،
تیری ٹانگیں توڑ دونگی
میں۔۔۔ بڑی آئی اس کی ٹانگیں
توڑنے
والی۔۔۔ خود تو اس کے
پیچھے پڑی رہتی ہے ،تو کیا
ٹانگیں توڑیگی اس کی ؟
روبینہ :
سہی کہا ،میں کہاں ٹانگیں
توڑونگی اُلٹا و ہ ہی
میری ٹانگیں اٹھا لے گا۔۔۔ تو
بتا ،تیری
ٹانگیں اس نے اُٹھائے ہیں کہ
نہیں ؟ یا ابھی بھی
آنٹی کا بھتیجا بنا بیٹھا ہے۔
روبینہ نے ثمینہ سے جب یہ
بات کی
تو ثمینہ کے گال شرم سے
الل ہوگئے ا ور
چہرہ جھک گیا۔
ثمینہ :
شرم نہیں آتی تجھے یہ سب
پوچھتے ہوئے۔
روبینہ :
اس میں کیسی شرم پیاری ،و
ہ تو پہلے بھی
تمہاری ٹانگیں کئی بار اٹھا
ہی چکا ہے۔۔۔ تم ہی
اس سے دور بھاگ رہی ہو
جبکہ تمہیں
اس کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔
میں تو اس
دن کا انتظار کر رہی ہوں جب
آنٹی بھتیجے کو کُشتی
کرتے دیکھوں گی اپنی
آنکھوں سے۔
ثمینہ :
و ہ دن کبھی نہیں آئیگا تو
سپنے دیکھتی رہ۔
روبینہ :
و ہ دن بھی آئے گا ا ور ایک
دن ہم تینوں ساتھ
میں و ہ کھیل کھلیں گے۔۔۔۔۔۔۔
جہاں
تیرے ساتھ ساتھ تیرے
بھتیجے سے
مزے تیری یہ سہیلی بھی لے
گی۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔
روبینہ کی ایسی بے شرمی
والی بات پر ثمینہ
شرم سے زمین میں گاڑھنے
والی ہو گئی تھی
ا ور روبینہ کو چپت لگا کر
اپنے کمرے میں
بھاگ گئی ۔۔۔ مگر جانے سے
پہلے و ہ
روبینہ کو ایسی بات کہہ گئی۔
ثمینہ :
چھی ،بے شرم ،اپنے جیسی
سمجھا ہے مجھے ؟
شیرو سے کہتی ہوں کہ تیری
اچھے سے خبر
لے۔۔۔ پٹائی کی ضرورت
تجھے سب سے
زیادہ ہے۔
روبینہ :
میں تو تیار ہوں و ہ ہی ظالم
ٹائم نہیں دیتا
مجھے۔۔۔ اس کے ڈنڈے کی
مار کھانے کو تو
روبینہ ہمیشہ تیار ہے۔۔۔ اففف
یہ
محبت۔
اکیلی ہی شیرو کو یاد کرکے
یہ سب بڑ
بڑاتے ہوئے روبینہ من میں
مسکرانے لگی ۔
؎
ریسٹورانٹ میں بیٹھے بیٹھے
آپس کی
بات چیت ا ور ہنسی مذا ق
میں ماحول
خوشنما ہو گیا تھا۔۔۔ کالج میں
مناہل کی
وجہ سے جو تھوڑا بہت موڈ
اکھڑا تھا و ہ
اب ٹھیک ہوچکا تھا ا ور اب
یہاں
سب ایک دوسرے کے ساتھ
خوب
ہنسی مذا ق کر رہے تھے۔
الئبہ :
ویسے مہرین تمہیں کس طرح
کا لڑکا پسند
ہے اپنے لیے ؟ اب تو پورے
کالج میں لڑکے
تمہارے دیوانے ہو گئے ہیں۔۔۔
جس کسی کو
بھی تم اشارہ کر دوگی و ہ
ایک پاؤں پر ہی دوڑ آئیگا
تمہارے پیچھے۔
روزینہ :
ایک پاؤں پہ کیوں ؟ مہرین
کو کوئی لبنگھڑٹا لڑکا
چاہیے کیا جو تم ایک پاؤں
والے کی بات کر
رہی ہو۔۔۔ مہرین تم خود بتاؤ
زرا تمہیں کوئی
پسند ہے تمہارے لیے ؟
سنمیں نے روزینہ کا سوا ل ُ
کر اس کی
طرف دیکھا تو اس نے اشار
ے سے
بتایا کہ و ہ مہرین کے مزے
لے رہی
ہے۔۔حاالنکہ ریما نے مجھے
بتا دیا تھا کہ و ہ
مہرین کے بارے میں روزینہ
الئبہ کو
بتاچکی ہے ا ور شائستہ کو
بھی یہ بات
ضرور پتہ ہوگی۔۔۔ مگر زینت
ا ور راحیلہ
باجی کو ابھی کسی نے نہیں
بتایا تھا۔۔۔ ا ور
اب یہاں مہرین پھنس گئی
تھی روزینہ
کے سوا ل پر ۔
مہرین :
امی نے میرے لیے لڑکا دیکھ
رکھا ہے پہلے
سے۔
مہرین نے ساری بات نگہت
خالہ پر
ڈا ل دی تھی۔۔۔ مگر اسکے ا
گس جواب پر
راحیلہ باجی نے بھی سوالیہ
نظروں سے
اسے دیکھا۔ مگر روزینہ تو
کوئی ا ور ہی موڈ
میں تھی۔
روزینہ :
اس کا مطلب تمہیں اپنی پسند
کا لڑکا نہیں
چاہیے کوئی ؟ کیا تمہیں پتہ
ہے و ہ لڑکا کون
ہے ؟
اب ا گس سو ا ل پر مہرین
پھر سے
پھنس گئی۔۔۔ کیونکہ راحیلہ
باجی کی نظر
مہرین پر ہی تھی۔۔۔ انہیں
دیکھ کر مہرین کو
جواب دینا نہیں بن رہا تھا۔
مہرین :
وہ،،،وہ،،،
راحیلہ :
خالہ نے کب لڑکا دیکھا
تمہارے لیے ؟ ا ور
تم نے یہ بات پہلے تو کبھی
نہیں بتائی ؟
روزینہ :
یہ و ہ۔۔ و ہ۔۔ کیا لگا رکھا
ہے۔۔۔ دو اب
سنے کونجواب ،ہم بھی تو ُ
ہے و ہ۔
مہرین :
و ہ باجی ، ، ،ماں نے منع
کیا ہے کسی کو بھی ا گس
برے میں بتانے سے۔
روزینہ :
ہم تو یہاں سب اپنے ہی ہیں۔۔۔
چلو ہم
وعدہ کرتے ہیں یہ بات کسی
کو بھی نہیں
بتائیں گے۔۔۔ چلو سب لوگ
وعدہ
کرو یہ بات کسی ا ور کو نہیں
بتائیں گے۔
سب نے ایک آوا ز میں وعدہ
کیا۔۔۔ اب مہرین ا ور بھی
زیادہ جھینپ
رہی تھی۔۔۔ ا ور باقی سب ایک
دوسرے کو
آنکھوں ہی آنکھوں میں
اشارہ کرتے مسکرا
رہے تھے ا ور یہاں مہرین
تھی کہ اس کی
نظریں اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔
روزینہ :
چلو اب بول بھی دو ،دیکھو
اب سب نے
وعدہ کر دیا ہے۔۔ کوئی کسی
کو کچھ نہیں بتائے
گا۔
ریما :
اب بتا بھی دو مہرین ،اگر تم
نہیں نام لے
سکتی تو میرے کان میں کہہ
دو میں
سب کو بتا دیتی ہوں۔
الئبہ :
ہاں مہرین تم ریما کو بتا دو و
ہ ہمیں بتا د ے
گی۔۔۔ ویسے بھی تمہاری
باتیں اس کو ہی زیادہ
پتہ ہوتی ہیں ۔
مہرین :
مجھے واشروم جانا ہے ،
میں ابھی آتی ہوں۔
مہرین اٹھ کر جانے لگی تو
روزینہ نے
اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
روزینہ :
نا نا نا ،ایسے نہیں چلے گا ،
اب تو تمہیں بتانا ہی
پڑ یگا۔۔۔ تب تک میں تمہیں
کہیں
نہیں جانے دونگی۔
مہرین :
پلیز باجی جانے دیجیئے ناں
میں بعد
میں بتا دونگی۔
مہرین نے ہاتھ چھوڑوانےکی
کوشش کرتے
ہوئے کہا ا ور باقی سب
مہرین کی حالت
پر مسکرا رہے تھے۔
زینت :
اب بتا بھی دو یار ،کیا ہم
تمہارے لیے اتنے
پرائے ہیں کہ تم ہمیں بتا نہیں
سکتی ؟
مہرین :
ایسا میں نے کب کہا ؟ ایسا تو
میں
کبھی سوچ بھی نہیں سکتی ا
ور تم نے تو میرے
لیے اپنی جان خطرے میں
ڈالی تھی۔۔۔
پھر تمہیں کیسے پرائی
سمجھ سکتی ہوں ؟
روزینہ :
تو پھر بتا دو ناں اتنا سوچنے
کی کیا
ضرورت ہے۔
شائستہ :
میں بتاتی ہوں ،مہرین جھوٹ
بول رہی
ہے۔۔۔ کوئی لڑکا نہیں دیکھا
ہے آنٹی نے۔۔۔
یہ بس ایسے ہی کہہ رہی ہے۔
شیرو :
ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا
ہے ،ورنہ خالہ
ا گس بار ے میں ضرور بات
کرتی کسی
سے۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں تم
نے خود ہی کوئی لڑکا
پسند کر لیا ہو ا ور اب نام
خالہ کا لگا رہی
ہو۔۔۔ دیکھو اگر تمہیں کوئی
لڑکا پسند ہے تو بتا
دو۔۔۔ میں ابھی سے تیاری
شروع کر دیتا
ہوں۔۔۔۔ ناصرہ باجی کی شا دی
میں تو
خالوجان ا ور زبیر ت ِھی و
ئب و ِا و تھے سب کام
دیکھنے
کے لیے مگر یہاں مجھے
اکیلے ہی سب
دیکھنا پڑیگا۔
میری بات سن کر مہرین کے
تیور
ایک دم َبدل گئے ا ور و ہ
مجھے غصے سے کسی
ناراض
بچے کے جیسے دیکھنے
لگی۔
مہرین :
کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں
کچھ کرنے کی
اس کے لیے میرے پاپا ہیں۔
شیرو :
چلو اچھی بات ہے ،پھر تو
لڑکا بھی خالو
جان ہی اپنی پسند کا دیکھ
لینگے۔۔۔ لگتا ہے
کوئی انگریز ہی ہوگا تمہارا
دلہا اسی لیے تمہیں
یہاں کا کوئی لڑکا پسند نہیں
( آتا۔۔۔دیکھنا باجی
راحیلہ ) مہرین کے لیے باہر
سے ایک گورا
چٹا لڑکا پسند کرکے الئے گا
خالوجان جسے
ا ردو بھی سمجھ نہیں آئیگی
ہا ہا ہا۔
میری بات پر سبھی ہنس پڑے
مگر
مہرین ا گس بت پر ا ور چڑھ
گئی۔
مہرین :
مجھے نہیں کرنی کسی
انگریز سے شادی۔۔۔
میرے لیے لڑکا امی ہی
دیکھے گی جو انہیں پسند
بھی ہے ۔
شیرو :
اچھا ! ! تو کون ہے و ہ لڑکا
؟
مہرین :
تمہیں تو میں گھر جا کر بتاتی
ہوں ،آج
امی سے تمہاری شکایت لگا
کے رہو نگی۔
اتنا کہہ کر مہرین روزینہ کے
ہاتھ سے
اپنا ہاتھ چھڑا کر واشروم کی
طرف
بھاگ گئی۔
روزینہ :
آرے آر ے لڑکے کا نام تو
بتاتی جاؤ ، ، ، ،ہا ہا ہا ، ، ،
بھاگ گئی۔ بہت ہی بھولی ہے
یہ۔۔ بالکل
بچوں جیسے کرتی ہے۔
راحیلہ :
یہ بچپن سے ایسی ہی ہے ،
اب تو پھر بھی
کچھ ہنسنے بولنے لگ گئی
ہے ورنہ پہلے یہ
کسی سے زیادہ بات کرتی ہی
نہیں تھی۔ الکھوں
میں ایک ہے ہماری مہرین۔۔۔
کاش کہ
اس کو کوئی ایسا لڑکا ملے
جو کبھی اس کی آنکھوں
میں آنسوں تک نہ آنے د ے۔
ریما :
نہیں آنے دیگا باجی لکھ کر
لے لو۔
زینت :
تم بڑے یقین سے کہہ رہی ہو
جیسے تمہیں پتہ
ہو کہ کس لڑکے سے شادی
ہوگی مہرین کی۔
ریما :
ایسا ہی سمجھ لو ،و ہ کیا
ہے ناں۔۔۔ مہرین
جتنی اچھی ہے ناں قسمت
میں اس کے لیے
اتنا ہی اچھا لڑکا ہوگا۔
ریما نے یہ بات میری
آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے کہی۔۔۔ میں نے
جب نظر
دوسری طرف کی تو روزینہ ا
ور الئبہ
بھی میری طرف دیکھ کر
مسکرا رہی تھی ۔
راحیلہ :
میں زرا دیکھ کر آتی ہوں
کہیں غصہ ہی نہ کر
کے بیٹھی رہے اُدھر ہی۔
راحیلہ باجی بھی ا ٹھ کر
مہرین کے پیچھے چلی
گئی۔۔۔ ا ور یہاں پھر سے گپ
شپ
شروع ہو گئی۔
شائستہ :
ویسے تم لوگ اس بیچاری
کو کچھ زیادہ ہی
تنگ نہیں کر رہے ؟
روزینہ :
ضروری ہے ،ورنہ و ہ
کیسے بتائے گی کہ ا گس
کے گدل میں کیا ہے ؟
زینت :
تو کیا و ہ سچ میں کسی
لڑکے کو پسند کرتی ہے ؟
روزینہ :
تو تمہیں نہیں پتہ ؟
زینت :
نہیں تو ،اس نے مجھے بتایا
ہی نہیں ا ور ابھی
بھی و ہ کہاں کچھ بتا رہی
ہے۔
الئبہ :
اس نے کہاں بتایا ہے کسی
کو مگر ہمیں
پتہ ہے۔۔ تم اس دن کالج میں
نہیں تھی
ناں ورنہ تمہیں بھی پتہ ہوتا۔
زینت :
کس دن کی بات کر رہی ہو آپ
باجی ؟ ا ور
میں کہاں تھی ؟
روزینہ :
تم جب مہرین کو بچانے کے
لیے اس
کے پیچھے گئی تھی تب کی
بات کر رہے ہیں
ہم۔۔۔ یہ بات ریما نے سب کو
بتائی
تھی ۔۔۔ اسے پتہ ہے و ہ کس
کو پیار کرتی
ہے۔
زینت نے ریما کی طرف
سوالیہ
نظروں سے دیکھا۔۔۔ روزینہ
تو مجھے دیکھ کر
ہنس رہی تھی۔۔۔ جبکہ مجھے
سمجھ نہیں آرہا
تھا کہ ا گس بات کو یہیں
روک دوں یا ہو
جانے دوں جو ہونا ہے۔
زینت :
تم جانتی ہو ا ور تم نے آج
تک بتایا
نہیں۔۔۔ یہ بات غلط ہے۔
ویسے کون
ہے و ہ لڑکا ؟ ا ور اب تک و
ہ سامنے کیوں
نہیں آیا ؟ اتنا کچھ مہرین کے
ساتھ ہوا ا ور
اسے پتہ تک نہیں چال ؟
ریما :
و ہ تو ہمیشہ ہی مہرین کے
پاس ہوتا ہے
جب بھی اسے ضرورت ہو۔
زینت :
یہ تم پہیلیاں کیوں بجھا رہی
ہو۔۔۔ بتاؤ ناں
کون ہے و ہ ؟
ریما :
تم اب بھی نہیں سمجھی ؟ زرا
سوچو کون ہوسکتا
ہے جو ہر مصیبت میں مہرین
کے پاس
ہوتا ہے اسے بچانے کے
لیے۔
ریما کی بات سن کر زینت نے
ایک پل
سوچا ا ور پھر میری طرف
سوالیہ
نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔
اب بھال میں
کیا جواب دیتا جب میں خود
ہی نہیں
جانتا تھا پہلے ا گس بار ے
میں۔
زینت :
تو کیا و ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریما :
سہی پہچانا ،و ہ شیرو ہی
ہے جسے و ہ گدل کی
گہرائیوں سے چاہتی ہے ا ور
آج سے نہیں
بچپن سے۔۔۔۔ مگر اس نے
کبھی یہ
بات کسی کو نہیں بتائی و ہ
تو میں نے اس
کی ڈائری ایک بار ُُُچبکے
سے دیکھ لی تھی تو مجھے
پتہ
چال تھا۔
زینت :
یہ بات تمہیں بھی نہیں پتہ
تھی ؟
زینت نے میری طرف
دیکھتے ہوئے
یہ سوا ل مجھ سے پوچھا تو
میں نے نہ
میں گردن ہال دی۔
ریما :
شیرو کو بھی نہیں پتہ اسی
لیے تو سب
اس کی کھینچائی کر رہے
ہیں۔۔۔ ا ور اسے یہ
بات بتانا بھی مت کہ ہم سب
کو پتہ
ہے ا گس بار ے میں۔۔۔
دیکھتے ہیں کب
تک و ہ پگلی اپنے پیار کو
گدل میں دبا کر رکھتی
ہے ۔
سب خوش تھے مگر یہ بات
جاننے
کے بعد زینت کی آنکھوں میں
ایک اُداسی
سی چاہ گئی تھی۔۔۔ مگر پھر
بھی و ہ چہرے
پر مسکان النے کی کوشش
کرنے لگی
(جاری ہے )