You are on page 1of 13

‫‪www.LahoriHub.

com‬‬
‫مجھے آج بھی تیرہ سال پہلے کی‬
‫گالبی جاڑوں کی وہ رات یاد ہے۔ وہ‬
‫میری شادی کی رات تھی اور فرشاد‬
‫نے اس بات پر سخت غصے کا‬
‫اظہار کیا تھا کہ مجھے سیکس کے‬
‫بارے میں کچھ معلومات نہیں تھیں۔‬
‫بے بسی کے احساس سے ہی‬
‫مجھے جھرجھریاں آنی شروع ہو‬
‫گئیں تھی اور میں‬

‫‪www.LahoriHub.com‬‬
‫نےاسے مزید پیش رفت کرنے سے‬
‫اسے روک دیا۔‬
‫دفع ہوجاؤ‘ ‪ ،‬فرشاد نے کہا تھا۔ ’‬
‫جب تمھیں میری ضرورت ہو بتا ’‬
‫‘دینا۔‬

‫میری ضرورت؟ میری سمجھ میں‬


‫نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔ ہمارے ہاں‬
‫مڈل کالس میں لڑکیاں چھپ چھپا‬
‫کر کچھ جان لیتی ہوں تو ہوں‪ ،‬ورنہ‬
‫انہیں سیکس کے بارے میں یا تو‬
‫کچھ پتہ نہیں ہوتا یا غلط پتہ ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫صبح نند نے مذاق میں پوچھا کہ‬
‫رات کیا ِکیا؟ میں نے سچائی سے‬
‫جواب دے دیا کہ کچھ نہیں۔ پہلے تو‬
‫وہ سخت حیران ہوئی اور پھر‬
‫مجھے بتایا کہ اس کی شادی کی‬
‫رات وہ صبح چار بجے سب‬
‫ہنگاموں اور رسموں سے فارغ‬
‫ہوئے تو تب بھی اس نے اور اس‬
‫کے شوہر نے موقع ہاتھ سے نہ‬
‫جانے دیا۔ اس نے کہا کہ شروع‬
‫میں تکلیف ہوتی ہے‪ ،‬بعد میں اچھا‬
‫لگتا ہے۔‬

‫تکلیف کا سن کر مجھے اور ڈر لگا‬


‫مگر دوسری رات میں نے اپنے‬
‫شوہر سے کہا کہ وہ ناراض ہونے‬
‫کے بجائے جو چاہتا ہے کر لے۔‬
‫مجھے کوئی مزہ نہیں یاد۔ صرف‬
‫ایک فقرہ یاد ہے۔ اس کارروائی کے‬
‫دوران فرشاد نے مجھ سے پوچھا‬
‫تمہاری عمر کیا ہے؟‘۔’‬
‫ہم دو سال سے ایک آفس میں‬
‫کولیگ تھے مگر اسے پہلے اس‬
‫سوال کا خیال نہیں آیا تھا۔ تئیس‬
‫سال‪ ،‬میرا جواب سن کر اس نے‬
‫بے رخی سے جواب دیا‪’ ،‬جب ہی‬
‫مجھے مشکل ہو رہی ہے‘۔ جیسے‬
‫تیسے ایک ناخوشگوار واقعہ کی‬
‫طرح یہ بھی ہو ہی گیا۔‬
‫اگلی رات اس کی فرمائش تھی کہ‬
‫میں الٹی لیٹ جاؤں ۔ پھر اس کی‬
‫ناراضگی کے خوف سے میں نے‬
‫کہا ٹھیک ہے۔ مگر وہ کیا کرے گا‬
‫مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن‬
‫جلد ہی تکلیف کی اذیت سے میری‬
‫چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں جو میں‬
‫نے تکیے میں منہ ٹھونس کر‬
‫دبانے کی بہت کوشش کی۔ میں نے‬
‫بڑی مصیبت سے اسے اپنے اوپر‬
‫سے ہٹایا۔ فرشاد کو اپنی اتنی توہین‬
‫محسوس ہوئی کہ وہ کمرے سے‬
‫باہر چال گیا اور میں ساری رات‬
‫روتی رہی۔‬
‫ہماری پسند کی شادی تھی۔ میں اس‬
‫سے بہت پیار کرتی تھی لیکن‬
‫فرشاد کی شخصیت کا ایسا روپ‬
‫بھی ہوگا۔ مجھے اپنی تذلیل کا‬
‫احساس کچوکے لگاتا رہا۔ کیا یہ‬
‫ہے وہ سیکس جس کی خوشی میں‬
‫اسے کبھی نہیں دے پاؤں گی اور‬
‫نہ لطف کا ایک لمحہ اپنے لیئے لے‬
‫پاؤں گی۔‬
‫پھر یہ ہوتا کہ فرشاد نارمل طریقے‬
‫سے سیکس کر تو لیتے مگر دو‬
‫منٹ میں فارغ ہو جاتے اور میں یہ‬
‫سوچتی رہ جاتی کہ کیا کروں۔ ہاں‬
‫اس کی خواہش ہوتی کہ میں الٹی‬
‫لیٹوں۔‬
‫مجھے اس تصور سے بھی گھن‬
‫آتی اور اسے میری رضامندی نہ‬
‫ملنے پر مجھ سے نفرت ہوگئی۔‬
‫میں فرشاد کی شکر گزار ہوں کہ‬
‫اس نے زبردستی نہیں کی۔ چھ فٹ‬
‫کا خوش شکل برفانی ریچھ جو یا‬
‫تو میرا خون پینا چاہتا تھا یا پھر‬
‫کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایسا کیوں‬
‫ہو رہا ہے اور کیا ایسا ہوتا رہے‬
‫گا؟ میری مثبت سوچ نے ابھی تک‬
‫ایڑیاں رگڑنا نہیں شروع کی تھیں۔‬
‫کبھی میں فرشاد کے برفیلے‬
‫رویئے کو تھکاوٹ کا نام دیتی‪،‬‬
‫کبھی الجھن کا‪ ،‬کبھی الپرواہی کا۔‬
‫مگر مایوسی کے گہرے کھڈ میں‬
‫گرنا ہی قسمت تھی۔‬
‫کیا کرتی؟‬
‫بہت جلد ہی میں ہر ایک مشاہدہ‬
‫کرنے لگی تھی۔ عزیزوں‪ ،‬جاننے‬
‫والوں میں خاص طور پر وہ کپلز‬
‫جن کی شادیاں میری شادی کے‬
‫آگے پیچھے ہوئی تھیں۔ میں ان کی‬
‫نظروں کا‪ ،‬ان کی باڈی لینگوئج کا‬
‫معائنہ کیا کرتی۔ کبھی کبھی میری‬
‫خود سمجھ میں نہ آتا کہ میں ایسا‬
‫کیوں کر رہی ہوں مگر الشعوری‬
‫طور پر میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ‬
‫دوسرے جنسی آسودگی کا لطف لے‬
‫رہے ہیں کہ نہیں؟ دن بہ دن مجھے‬
‫لگ رہا تھا کہ میں ندیدی ہوتی جا‬
‫رہی ہوں۔‬
‫جیسے جیسے محرومی کا احساس‬
‫مجھے پیچھے کی جانب دھکیلتا‬
‫چال جاتا ویسے ویسے میں جو اب‬
‫مختلف غیر ملکی میگزینز میں‬
‫سیکس کے موضوع پر سوال و‬
‫جواب بہت اشتیاق سے پڑھنے لگی‬
‫تھی۔‬
‫شادی کے پہلے‪ ،‬دوسرے اور‬
‫تیسرے سال الجھن‪ ،‬بے عزتی اور‬
‫ذہنی انتشار کی کیفیت میں گزر‬
‫گئے۔ ان گنت راتیں ‪ ،‬سینکڑوں‬
‫لمحے اسی انتظار میں کہ کب میرا‬
‫شوہر مجھ پر مہربان ہوگا۔ کبھی‬
‫میں بستر چھوڑ کر قالین پر ڈھ‬
‫جاتی‪ ،‬کبھی بڑ بڑاتی اور کبھی زار‬
‫و قطار روتی۔‬
‫پھر ایک روز تنگ آکر میں نے وہ‬
‫جرات کر ڈالی جس کی خود مجھے‬
‫بھی امید نہ تھی۔ میں نے فرشاد‬
‫کے کپڑے اتار دیئے۔ جابجا اور بے‬
‫وجہ بہت سے پیار سے اس پر‬
‫جمی برف پگھالنے کی ہمت کی‬
‫مگر یہ کچھ ایسے ہوا جیسے‬
‫گہری نیند میں ڈوبا کوئی شخص پل‬
‫بھر کو اپنی آنکھیں کھولے اور پھر‬
‫وہی خراٹے۔ توہین اور ناکامی نے‬
‫میرا دماغ جیسے تہہ و باال کردیا۔‬
‫میں اپنی روح کو پتھر کا ہونے‬
‫سے نہ روک سکی۔‬
‫تہذیب‪ ،‬پرورش اور شرم و حیا‬
‫والے معاشرے کے جھوٹے جال‬
‫میں پھنس کر میں کسی سے بھی‬
‫اپنے دل کا حال نہ کہہ سکی۔ دنیا‬
‫کو دکھانے کو میں مسکراتی‪،‬‬
‫فرشاد کے لیے اچھے اچھے‬
‫کھانے بناتی‪ ،‬گلدانوں میں پھول‬
‫لگاتی اور پھر تھک ہار کر کانٹوں‬
‫کے بستر پر سو جاتی۔‬
‫بچپن سے سکھائی گئی شرم و حیا‬
‫اور معاشرے کا بڑا سا منہ کھلنے‬
‫کے خوف سے میں نے اپنا منہ بند‬
‫رکھا اور فرشاد نے ایک روگ کی‬
‫طرح امر بیل بن کر میرے وجود کی‬
‫جڑوں کو اکھاڑ دیا۔‬
‫میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا کبھی‬
‫میری جیسی عورتوں کو اپنی زبان‬
‫کھولنے کی اجازت ملے گی؟‬

You might also like