Professional Documents
Culture Documents
دوستو ،،،میں سیالکوٹ کے کہ ایک
نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے
تعلق رکھتا ہوں یہ سٹوری ھے ان دنوں
کی جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا
کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے
لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی
چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے
گھروں میں بالجھجک چلے جاتے تھے
سال کے 14 /15میری عمر اس تقریبا ً
لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں
صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس
میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور
اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے
تھے ایک ماسٹر جی تقریبا ً چالیس سال
کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک
ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریبا ً
اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں
گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے
سکول میں ایک کالس میں پہلی سے
تیسری کالس کے بچے پڑھتے تھے
اور دوسری کالس میں چوتھی اور
پانچویں کالس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کالس میں اچھے
نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو
جان مجھے شہر کے سکول میں داخل
کروانے کے بارے میں امی جان سے
بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو
پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ
رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی
گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں
میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے
بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع
کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے
چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر
جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں
دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو
ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ
سمجھدار ھو جاے گا تو چال جاے گا
آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے
بعد جیت امی جان کی ھوئی میں نے
جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا
تو رونے واال منہ بنا کر باہر نکل کر
آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا
جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا
گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر
چھوڑ کر آتا تھا میں آنٹی فوزیہ کے
گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سالم
کیا آنٹی فوزیہ بہت ھی نرم دل اور پیار
کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ
چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور
پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی
سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی رنگ
انکا سفید تھا دوستو یہ سب مجھے اس
وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چال
آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے
بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن
میں لگے بیری کے درخت کے نیچے
چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی
میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ
گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر
میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا
شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی
ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس
بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے
کیوں رونے واال منہ بنا رکھا ھے میں
نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے
ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے
سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری
امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے
شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم
لوگوں کے حالت بھی ابھی ایسے ہیں
کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ
نھی دے سکھی میننے آنٹی کی بات
کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے
واال بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے
تو آنٹی فوزیہ بولی دیکھ پُتر وہ
زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے
کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور
پڑھ لو پھر پھر عظمی اور
نسرین(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں) بھی شہر
جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی
بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی
زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے
چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو
میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں
انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی
طرح ہاں میں سر ہالیا تو آنٹی فوزیہ نے
پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر
اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے
بولی یہ ھوئی نہ بات ،،میں نے آنٹی
فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے
تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر
بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی
ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ
میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر
انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے
پاس چال گیا میں نے دیکھا کہ عظمی
سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی
ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے
لگ گیا کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا
تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے
پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا
کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس
آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو
ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار
رھی ھو تو عظمی بولی تواڈا شزادہ
ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا
وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی میں
نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی
زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں
چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ
بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں
اوالد نھی ھوئیانکا کوئی بیٹا نھی تھا اس
لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار
کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی
گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر
کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی ال کر
دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں
نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں
سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا الڈال
بھی تھا باقی بہن بھائی سب مجھ سے
بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی
تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ
خوبصورت تھی نسرین بھی کم
خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا
رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور
جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے
ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریبا ً
میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ
کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے
چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی
صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ
صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی
سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم
بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی
عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے
مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ
بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں
اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا
تھا جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی
اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے
مگر عظمی سے کم ھی تھے
Update no 2......
میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا
اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی
کوشش کے بعد آخر کار میں اسے
منانے میں کامیاب ھوگیا میں اور
عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر
باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے
پیچھے سے آواز دی کہ جلدی آ جانا
ذیادہ دور مت جانا ہم نے آنٹی فوزیہ کی
بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل
کر کھیت کی طرف چل پڑے
دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک
تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت
شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ
واال کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی
فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت
کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت
کی جاتی تھی اور اس وقت کپاس کی
فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے
اس وقت تقریبا ً پانچ فٹ تک ھوتے تھے
اور کپاس کی فصل کے آگے والے
کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں
مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی
اور جو دوست گاوں کے رھنے والے
ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے
چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے
ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک
پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ
کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں
بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر
چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جسکو کراس
کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر
کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور
شہر کا فاصلہ تقریبا ً دو کلو میٹر تھا
خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور
کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی
کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور
لڑکیاں کھیل رھے تھے جن کی عمر
دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری
گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے
تھے
دوستو ،،ہمارا پسندیدہ کھیل لُکن میٹی
سٹیپو باندر ِکال وانجو پکڑن پکڑائی
ھونے؟؟؟؟؟
جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے
ٰ
چھپائی کی ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ُچھپن
باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر
ہماری گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو
ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ
غصے سے بوالآگئی ہنساں دی جوڑی
اینی دیر کردتی یار میں نے کہا یار ایس
میڈم نے دیر کرادتی ُرس کے بیٹھی
تھی نواب زادی تو میں اور عظمی نے
بھی اپنی اپنی باری پُگی اور تین بچوں
کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو
ڈھونڈنا تھا
ہم سب ُچھپنے کے لیے کپاس کی فصل
کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ
علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چ ُھپ گئے
جبکہ میں اور عظمی کپاس کی فصل
میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی
طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس
ادھر ھی چھپ جاتے ہیں میں نے سنا
ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے
ھوے ہیں دوستو ان دنوں ہمارے گاوں
میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے
پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس
لیے ھو بھی ادھر جاے احتیاط سے
جاے ،مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں
تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل
بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی
نہ گرمی نہ سردی کی فکر میں نے
عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا
یار پنڈ والے ایویں چوالں ماردے نے
کہ کوئی چھلیاں نہ توڑےعظمی بولی
نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے
تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے
کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے
جہاں ایک پانی کا کھاال تھا جسکو
کراس کر کے دوسری طرف مکئی کی
فصل شروع ھوجاتی تھی کھالے کے
ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم
کے درخت تھے
میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں
کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے
ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے
چھالنگ لگا کر کھاال کراس کیا اور
پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے
چھالنگ لگائی اور میں اسکی ھی
طرف منہ کر کے کھڑا تھا عظمی نے
جب چھالنگ لگائی تو سیدھی آکر
میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو
بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا
کرنے سے اس کے ممے میرے سینے
میں پیوست ھوگئے
ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل
پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن
میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں
اکثر کبھی کبھی عظمی کو جپھی ڈال
کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ
جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی
وجہ سے کبھی کبھار ایک دوسرے کے
اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔
عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں
نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت
کے پیچھے لے آیا اور عظمی میرے
آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے
پیچھے اسکی بُنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا
ھوگیا اور دونوں آگے پیچھے اپنے
سروں کو نکال کر سامنے بنے کی
طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس
وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا ھوگا
جو سویا ھوا عظمی کی بُنڈ کے دراڑ
کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم
ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ
گئے کہ اچانک عظمی نےگبھرائی ہوئی
آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے
جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر
سے میں پیچھے سے عظمی کے ساتھ
بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ
مجھے سیکس واال مزہ آرھا تھا بس
ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم
گانڈ کے ساتھ .چپک کر کھڑے ھونا
اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا
کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم
ڈرپوک بہت ھو عظمی کچھ دیر اور
کھڑی رھی
پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور
جلدی سے کھالے پر سے چھالنگ لگا
کر دوسری طرف چلی گئی اور مجھے
کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو
جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار
اسکے پیچھے ھی کھاال پھیالنگ چل
پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی
سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے
کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے
خوشی میں شور مچارھے تھے ہم
دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے
پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے
ادھر کی پکڑن پکڑائی کھیلتے رھے
اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنے
اپنے گھروں کی طرف چل دیے
ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے
گھر اور گھر سے کھیل کود ایک دن ہم
سکول میں اپنی کالس میں بیٹھے تھے
کالس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے
تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی ادھر
ادھر ہماری کالس گھیسیاں کرتی کرتی
جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب
تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی
تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ
سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے
?????Update no 3..
ماسٹر جی بولے
بیٹھ جاو
میں جلدی سے بیٹھ گیا
اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھال
کہنے لگ گیا
یاسررررر
????Update no 6...
آنٹی بولی
فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی
ھونی اے
عظمی بولی
میرے شونے کو غصہ آگیا ھے
????Update no 8..
کہ
گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے
کم تے الدتا اے
?????Update no 9....
اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی
میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی
کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے
بھی کافی گیلے ہو چکے تھے جس میں
سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی
اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر
آجاتا
آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی
سکنے ڈال دو میں جلدی سے کپڑے ُ
اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی
کو ساتھ لیے نیچے اگیا اب ہم کچھ دور
چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی
صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا
آگے مکئی کی فصل کے پاس چلے
گئے
تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا
تھا
میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی
کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور
ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے
تو میں نے عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ
کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا چلو گا
تو عظمی نے اثبات میں سر ہالیا میں
نے عظمی کو کہا کہ دیکھو یہ بات
تمہارے اور میرے درمیان میں ھی
رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ
تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی مت کرنا
عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ
رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی
میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت
گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ
رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ
پر پڑی تو میں ڈر کر بھاگ آیا ،،،
عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا
کام کررہے تھے میں پریشان سا بوال وہ
ھی گندا کام تو وہ معصومیت سے
میری طرف منہ کر کے بولی کون
ساااااااا
میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا
یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم
آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے
ھوے شرم نھی آئی تھی جو اب بتاتے
ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا
یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے
اندر گیا تھا وہ تو مجھے آنٹی فرحت
کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر
اندر دیکھنے گیا تھا کہ پتہ نھی آنٹی کو
کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر گیا تو
آنٹی فرحت اور ماسٹر جی،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی
جھنجھال کر بولی
درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی
میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے
ھوے نیچے منہ کر کے بوال
ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا
ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی
اور دونوں ایک دوسرے کی ُچمیاں لے
رھے تھے
اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے
ھی پکڑے ھوے تھے
میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا
دیا
عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے
اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ
لیا ھو
اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے منہ کے
اگے رکھ کر بولی
ھاےےےے ****** میں مرگئی
فیر
میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ
نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری
طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ
امی بال رئی اے تواڈیاں گالں ای نئی
ُمکن دیاں
میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم
کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری
بات بتاوں گا
ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی
میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے
کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے.
عظمی بھی بڑبڑاتی آگئی
کچھ دیر ہم اور نہر پر ھی رھے پھر ہم
نے سارے کپڑے سمیٹے اور اسی انداز
میں گھر کی طرف چل پڑے
راستے میں بھی کوئی خاص بات نھی
ھوئی
مگر میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا
ایسے ھی چلتے ھوے ھم گھر پہنچ
گئے
اگلے دن سکول
میں بھی کچھ خاص نھی ھوا شام کو
میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا اور
عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر
کھیت کی طرف چل پڑا کھیت میں
پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع
ھوچکے تھے ہم نے لُکم میٹی کے لیے
اپنی اپنی باریاں پُگنے لگ گئے آخر
میں
میں عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے
کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک
پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری
طرف کر کے کھڑے ھوگئے اور باقی
سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چ ُھپنے کے
لیے اِدھر اُدھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد
ایک بچے کی آواز آئی کہ
لب لو
تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے
خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے
کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے.
اور آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے کہ
کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے
ہمارے ساتھ واال لڑکا کہتا کہ یاسر تم
نہر والے بنے سے جاو عظمی درمیان
سے جاے اور میں دوسری طرف سے
جاتا ھوں
عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے
نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی
میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا
شاید وہ میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس
لیے ُچپ ھوگئی
تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
نئی تینوں ِجن کھاندا
اور میں نے اس لڑکے کو دوسری
طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے
ھی دوسری طرف بھاگ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے
لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر
کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل
پڑے عظمی راستے میں ھی مجھ سے
پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب
کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے
کہاں چلو کھالے کے پاس جاکر بیٹھ کر
بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہالیا
،،
تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو
اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے
پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے
کپاس کی فصل کے آخر میں چلے گئے
اس سے آگے پانی کا کھاال تھا جسکو
کراس کر کے مکئی کی فصل شروع
ھوجاتی تھی میں نے عظمی کو کھاال
کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے
ھی میں نے بھی چھالنگ لگا کر
کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے
کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے
کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی
ھوئی تھی اور بیٹھنے کے لیے بہت
اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں
بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ،،
ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک
دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے
تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے
ھوے کہا
چلو بتاو نہ اب
میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب
ھوگیا اب ھم دونوں کے گ ُھٹنے آپس
میں مل رھے تھے
میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا
تھا تو عظمی بولی
تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ
نھی آئی تھی
تو میں نے بتانا شروع کردیا
کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت
کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی
اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ
سے مسل رھے تھے اور دونوں ایک
دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے
ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے
چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی
اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی
عظمی بڑے غور سے میری بات سن
رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی
طرح سرخ ھوتا جارھا تھا
عظمی بولی پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا
ناال کھول دیا تھا اور اسکی شلوار
نیچے گر گئی تھی
اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر
رکھ دیا
تو عظمی بولی کہاں
تو میں نے کہا نیچے
عظمی بولی کہاں نیچے
تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی
پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا
یہاں پر
تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی
جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض
کو ھی چھوئی تھی
عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے
میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا
میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے
ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے
رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر
نیچے بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے
میری طرف دیکھا اس دوران عظمی
بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور
بار بار اہنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی
کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے
کھینچا
تو میں ایک دم چونکا
کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی
گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے
میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے
میرے لن پر اپنا ھاتھ محسوس کر لیا
تھا
عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام
کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت
اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے
تو عظمی بولی
میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ
آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی
شادی کردو اب
تو میں نے کہا
میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی
ھے
اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا
اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے
ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی
سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی
بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ
چلے گا
نسرین بولی
ہاں تینوں کوئی تکلیف اے
آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گالں
کرنیاں،
ہُن پج پتر،،
کتھے پجیں گا
اور زور سے مٹی کا ڈھیال میرے
پیروں میں مارا میں نے دونوں پاوں
اوپر کرلیے
دوستو
اس وقت جیسا سٹائل اور جیسی
معصومیت اور انداز تھا عظمی اگر آپ
اس سین کو امیجینیشن کریں تو آپ
عظمی کے دلفریب گالب کے کھلتے
پھول جیسے ہونٹوں کو کھا جائیں
کچھ ایسا ھی میرے ساتھ ھوا اور میں
اسکی ادا اسکی معصومیت پر مر مٹا
اور بے ساختہ اسکے نچلے ہونٹ کو
اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اور چوسنے
لگ گیا
عظمی پہلے تو کچھ دیر مچلی مگر پھر
اس نے بھی اپنا ایک ھاتھ میری گردن
کے پیچھے رکھ لیا
بلکل فرحت کی طرح کیوں کہ سیکس
کے بارے میں جتنا کچھ ہم دونوں نے
سیکھا اور سمجھا اور دیکھا تھا وہ
ماسٹر جی اور فرحت سے ھی سیکھا
تھا
مختصرا ً وہ جوڑی اس جوڑی کی
سیکس ٹیچر تھی
خیر
ہم دونوں اب مسلسل ایک دوسرے کے
ہونٹ چوس رھے تھے .مجھے بھی
بہت اچھا لگ رھا تھا اور عظمی کے
منہ کے لباب کو اپنے لباب کے ساتھ
مکس کر کے اندر نگھلتے وقت ایک
عجیب سا مزہ اور سواد آرھا تھا ایسے
ھی کبھی عظمی میری زبان کو چوستی
کبھی میں عظمی کی زبان کو چوستا
عظمی اب مکمل طور پر میرے کنٹرول
میں آچکی تھی اور میں اسکا بھرپور
فائدہ اٹھا رھا تھا
میں نے ایک ھاتھ سے عظمی کی ایم
مسمی کو پکڑا اور دبانے لگ گیا
عظمی کا مما میرے ھاتھ میں پورا آیا
ھوا تھا
اور میرا لن عظمی کی تھائی کے ساتھ
ٹکریں مارھا تھا
کچھ دیر بعد میں نے عظمی کی قمیض
کو اوپر کرنے کی کوشش کی تو عظمی
نے میرا ہاتھ پکڑا لیا میں نے ہاتھ
ُچھڑوایا اورپھر سے قمیض اوپر کرنے
لگا تو قمیض کا نچال حصہ زمین کے
ساتھ لگا ھونے کی وجہ سے آگے سے
قمیض بس پیٹ سے تھوڑا اوپر مموں
کے نیچے تک ھوئی
میں نے اسی کو غنیمت جانا اور عظمی
کے گورے چٹے سفید روئی کی طرح
نرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا
میرا ھاتھ جیسے ھی عظمی کے پیٹ پر
رینگتا ھوا عظمی کے مموں کے قریب
گیا عظمی ایک دم مچلی اور میرے
ھاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے
بھی تھوڑا زور لگا کر اپنے ھاتھ کو
عظمی کی قمیض کے نیچے سے گزار
کر عظمی کی ایک مسمی کو پکڑ لیا
دوستو عظمی کا مما اتنا نرم اور مالئم
تھا کہ کیا بتاوں مجھے تو ایسے لگا
جیسے میں نے کوئی روئی کا گوال ہاتھ
میں پکڑا لیا ھو ھو
میں نے تین چار دفعہ جوش میں آکر
عظمی کے ممے کو کچھ زیادہ ھی
زور سے دبا دیا
عظمی کو شاید کچھ ذیادہ ھی درد
ھوگئی اور اس نے ایک لمبی سی
سسکاری لی اور پھر ہلکی سی چیخ
ماری اور غصے سے بولی جانور مت
بنو آرام سے کرو
میں نے ساتھ ھی اپنے ھاتھ کو نرم
کرلیا اور پیار سے آرام آرام سے ممے
کو دباتا رھا اور انگلی سے اسکے
اکڑے ھوے چھوٹے سے نپل کو بھی
چھیڑتا رھا جس سے عظمی
مزے کی وادیوں میں کھو گئی
اور
ہمممممم اففففف سسسسسیییی کرنے لگ
گئی
عظمی بولی
چل چل آئی وڈی کماں والی
دوستو
کافی دن ایسا ھی چلتا رھا
ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد
جس کو سب اونٹ کہتے تھے
کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال
کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری
کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی
ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا
عظمی بولی
چل چل آئی وڈی کماں والی
دوستو
کافی دن ایسا ھی چلتا رھا
ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد
جس کو سب اونٹ کہتے تھے
کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال
کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری
کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی
ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا
تو وہ بوال
جا کیوں نھی سکتا
میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ
میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول
آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور
جانے کی ڈیوٹی بھی میری ھے اس
لیے
اور
تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے
سر نکاال اور مجھے آواز دی کے یاسر
میں نے کہا جی باجی
تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں
کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو
تقریبا ً
ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی
جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے
ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل
دیا
اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے
گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ
میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا
ھوں تو صدف نے اپنی عادت کے
مطابق
میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے
ھوے کہا
اچھا جی
میں نے کہا
ہاں جی
صدف بولی
بڑی گل اے
میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے
مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا
کرنا تھا
میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب
ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر
باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے
ویسے بھی تو تمہاری اکیڈمی کی چھٹی
میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور
گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا
ھے
میں نے کہا
وہ کیسے جی
صدف بولی
اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت
کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر
رھے تھے اور جیسے میرے انکو
چوس رھے تھے
صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف
کرتے ھوے کہا
یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا
ھاےےےےےےےےےے میییییں
مرگئیییییییی
اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو
اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر
کو پیچھے کی طرف دھکیال اس کے
اس اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو
میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون
سے نکل گءی مگر میں نے اسکی
ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی اور
اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ
کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور
پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان
پھیرنے لگ گیا
میں نے یہ سن کر کہا
اندر کردوں
تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے
ھوے بولی کردو
دوستو
ایسے ھی تین چار دن صدف ہمارے
ساتھ شہر بھی نھی گئی اور نہ ھی ہم
ٹویشن پڑھنے گئے
تو
عظمی نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھا
اور حیرانگی سے بولی
پاڑنا اے اینوں
کہ
اور بولی
یاسر جو کرنا اے چھیتی چھیتی کر
پیلے ای دیر ھوگئی اے امی بولے گی
کہ اینی دیر کتھے ال کے آندی اے
باججججیییی ۔۔۔
وہ دونوں بیمار ہیں اور انکی امی نے
کہا تھا کہ اپنی
باجججیییی
کو بتا دینا کہ وہ آج چھٹی کریں گی
میں نے کہا
میں نے کیا تنگ کیا ھے
تو صدف بولی تمہیں شرم نھی آتی
مجھے باجی کہتے
تو میں نے کہا اب کیا سب کے سامنے
تمہیں
صدف ڈارلنگ کہوں
تو صدف بولی
میں نے ایسا کب کہا ھے
مگر تم جس انداز سے مجھے چڑا
رھے تھے میں سب سمجھتی ھوں ۔۔
میں نے کہا
عالی جا آپ کے قبضہ میں ہوں کچا کھا
لو یا پکا کہ کھالو
جیسے آپ کو بہتر لگے
کہ
کمرے کے دروازے کو کسی نے زور
زور سے بجانا شروع کردیا
میری تو جان ہلک میں اٹک گئی میں
جمپ مار کر چار پائی سے اترا اور
صدف نے بھی جلدی سے اٹھنے کی
کوشش کی کہ اچانک باہر
سے؟؟؟؟؟؟اچانک باہر دروازے سے
ایک بچی کے رونے کی آواز آئی
تو صدف نے پوچھا کیا تکلیف ھے تو
بچی نے روتے ہوے کہا
ساجد ماری جارھا ھے
دوستو
اسد کی دوستی نے مجھے پھدی پاڑ
مرد بنا دیا تھا
میرا تجربہ اور ناولج میری عمر سے
بڑھ کر ھوگیا تھا
جو تھوڑی بہت جھجک تھی وہ عظمی
اور صدف کی پھدی مارنے کے بعد اتر
گئی تھی
بلیو فلم سے میں نے بہت کچھ سیکھ لیا
تھا اور سیکسی رسالوں سے سب
سیکسی پوز ذہن نشیں کر چکا تھا
میرا رنگ پہلے ھی بہت سفید تھا اور
اب ہلکی ہلکی مونچھیں اور ٹھوڑی پر
ہلکے ہلکے ڈاڑھی کے بال بھی آنا
شروع ھوگئے تھے
اور میرا قد پہلے ھی عمر کے حساب
سے لمبا تھا اور ان دو سالوں میں مزید
لمبا ہوچکا تھا
اتنے میں
میں بھی انکے پاس پہنچ گیا
اور انکو بتانے لگ گیا کہ وہ سامنے
باغ ہین اور اسطرف فالں فالں چیز کے
درخت ہین
میں انکو ایک ایک چیز درختوں پودوں
کے نام بتاتا جارھا تھا کہ یہ کیسے
اگتے ہین کیسے انکی کاشت ہوتی ھے
کب کٹائی ھوتی ھے
ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم باغ میں
پہنچ گئے تھے
اٹھاو مجھے
کیونکہ
اس دفعہ میرا لن پہلے ہی کھڑا تھا
جسکو مہری نے محسوس بھی کیا تھا
اور ایک نظر دیکھا بھی تھا
اسکے باوجود اس نے مجھے پھر
اٹھانے کا کہا تھا
اب جب وہ کھسکتی نیچے آئی تو میرا
ایک ھاتھ سیدھا اسکی گانڈ کی پھاڑی
کے اندر چال گیا تھا اور میری انگلیاں
اسکی پھدی کو ٹچ ھوگئی تھی اور میں
یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ جہاں
میری انگلیاں لگی تھی وھاں سے مہری
کی شلوار گیلی تھی اورآگے سے میرا
لن اسکے پٹوں میں پھدی کو رگڑ لگا
کر دباے ھوا تھا میری انگلیاں اسکی
پھدی کے ساتھ ساتھ میرے لن کے
ٹوپے کو بھی چھورھی تھی
مجھے جب اسکی شلوار گیلی ھونے کا
پتہ چال تو میں نے جان بوجھ کر اپنی
انگلیاں ادھر ھی روکے رکھی
اور مہری اسی انداز میں میرے کندھوں
پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے میرے ساتھ
چپکی ھوئی تھی
میں نے اسکی آنکھوں میں ُخماری دیکھ
لی تھی
اور سمجھ بھی گیا تھا کہ
یہ سب ڈرامے کررھی ھے جان بوجھ
کر نیچے آتی ھے لن کا مزہ لینے کے
لیے
ورنہ میری گرفت اتنی بھی کمزور نہ
تھی کہ یہ مجھ سے سمبھالی نہ جاتی
مہری
کی گانڈ میں میرا ھاتھ ویسے ھی تھا
میں نے ھاتھ نکاال نھی تھا
مہری کے گالبی ہونٹ بلکل میرے
سامنے تھے اور وہ بلکل ساکت کھڑی
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
دیکھی جارہی تھی
ہماری سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا
رھی تھی
اسکی سانسیں بتا رھی تھی کہ وہ کسی
اور دنیا میں پہنچی ھوئی ھے جہاں
سے سیل تُڑوا کر ھی لوٹا جاسکتا تھا
اصل میں
مہری کے ساتھ میری سیکس کے
موضوع پر پہلے کو ڈسکس نھی ھوئی
تھی اور نہ ھی میں اس معاملے میں
اسکے ساتھ فرینک تھا کہ اٹھ کر اس
سے دھکا دینے کی وجہ پوچھتا یا اس
سے ذبردستی کرتا یا اسکا منت ترال
کرتا کہ مجھے الزمی پھدی دو
اسد بوال
میں نے کہا
ہم کام بھی اتنا ھی سخت کرتے ہیں
انکل کی دکان
میں دو مالزم اور بھی تھے
اور انکی دکان بھی اچھی چلتی تھی
مالزم دکان کھلنے کے بعد آتے تھے
اس لیے میں انکے آنے سے پہلے ھی
دکان کی اندر سے بھی صفائی کر لیتا
اور الماریوں میں لگے کپڑوں کو
جھاڑن سے جھاڑ لیتا
جس کی وجہ سے میں چند ھی دنوں
میں انکل کی آنکھ کا تارا بن گیا
دکان میں ذیادہ ورائٹی لیڈیز کی ھی
تھی
جس میں موسم کے لحاظ سے ہر طرح
کے کپڑے میں ورائٹی موجود ھوتی
زیادہ کام فینسی سوٹ اور بوتیک کے
سوٹوں کا تھا جو شادی بیاہ میں استعمال
ھوتے تھے
دوستو
میں جب بھی آنٹی فوزیہ کے گھر جاتا
تو
آنٹی مجھے روز چھیڑتی کے
میرا شزادہ جوان ھوگیا ھے اور میری
ٹھوڑی کو پکڑ کر کہتی واہ اب تو
داڑھی مونچھیں بھی نکل رھی ہیں
اور کبھی کہتی کہ منڈا کاروباری ھوگیا
ھے
اب تو اسکی ٹوریں ھی بدل گئی ہیں
دوستو
آنٹی نے
اچانک میرے ھاتھوں کو جھٹک کر
اپنے پیٹ سے الگ کیا اور جھکے
ھوے ھی آگے کو بھاگنے لگی تو میں
نے بے دھیانی سے پھر آنٹی کو پکڑنا
چاھا تو میرے دونوں ھاتھوں میں آنٹی
کے بڑے بڑے نرم ممے آگئے
اور سوچتا
کہ یار کیا ھے کس طرف لوگ جارھے
ہیں کیا ان میں غیرت نام کی چیز ختم
ھوگئی ھے یا پھر یہ معاشرے کو ایسی
طرف لے کر جارھے ھیں کہ اگر ان
سب میں یہ سٹوری پڑھ پڑھ کر ریالٹی
آگئی اور ایسی سٹوری کے نوعمر
ریڈرز اسکو حقیقت کارنگ دینے کی
کوشش کرنے لگ پڑے تو
کس بہن کو اپنے بھائی پر ناز ھوگا
کون بہن اپنے بھائی کو اپنی عزت کا
رکھواال سمجھے گی کون بہن اپنے ھی
گھر میں اپنی عزت کو محفوظ رکھ پاے
گی
ارے ظالمو
تمہاری بہن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا
کر بھی دیکھے تو تمہاری غیرت کا یہ
عالم ہونا چاہیے کہ تم اس آنکھ کو
اکھاڑ کر باہر پھینک دو
جو ہاتھ تمہاری بہن کی طرف اٹھے اس
ھاتھ کو کاٹ دو
تم اپنی بہن کے محافظ ہو اسکی عزت
کے رکھوالے
تمہاری بہنیں اپنی سہیلیوں کو فخر سے
بتاتی ہیں کہ میرے اتنے بھائی ہیں
ارے بدبختو
یہ نہ ھو کہ جیسے پہلی امتوں پر
عزاب نازل ھوا کرتا تھا .تم بھی اس
عزاب میں مبتال ھوجاو
تو
آنٹی بولی میری طرف دیکھو
تو میں نے سر اٹھا کر انکے چہرے
کی طرف دیکھا
تو آنٹی مسکراتے ھوے بولی
ناراض ھو ابھی تک
تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا
کہ نھی
میں نے کہا
آنٹی جی میں نے ایسا کیا کیا تھا
تو آنٹی بولی تمہیں نھی پتہ کہ کیا کیا
تھا
آرھا تھا
تب آنٹی بولی بولو اب کیا کہتے ھو
میں نے کہا
سچ ھی تو کہا ھے آنٹی جی آپ ھو ھی
اتنی خوبصورت اب میں کیا کروں
میں نے کہا
آنٹی آپ مجھے ڈنڈا مارنے لگی تھی
اس لیے میں ڈر گیا تھا اور میرا پیر
پھسل گیا تھا
آنٹی بولی
میں تو ڈرا رھی تھی
تم جو گندی باتیں کررھے تھے
میں نے کہا
آنٹی آپ سچ سن کر بھی غصہ کرتی
ھو اور جھوٹ سن کر بھی
آنٹی بولی
میری گانڈ اتنی بھی موٹی نھی ھے جو
تم اسے موٹی کہہ رھے ھو
میں نے آنٹی کے نیچے پر انگلیاں لگا
کر چیک کیا تو آنٹی نے السٹک پہنی
ھوئی تھی
آنٹی بولی
تمہارا لن بھی کتنا بڑا ھے یہ کون سا
چھوٹا ھے
دیکھو میرے آگے سے ہوکر پیچھے
میری بُنڈ کے پاس سے بھی نکل رھا
ھے
اوییییی
اینی زوررررر دی سارا ای کردتا
ایییییییی ظالماں
مار سٹیا ای
افففففف
میں نے آنٹی کی چیخ اور آہوں اور
سسکیوں کی پروا کیے بغیر لن کو پھر
باہر نکاال اور پھر ویسے ھی سارا اندر
کردیا
تو انٹی
بولی
تو فوزیہ
بولی
نئی یاسر یہ گندی جگہ ھے
اس پر زبان مت لگاو
اففففف توبہ
میں نے کہا
فوزیہ جی بس یہ آپکی سیکسی پھدی کو
دیکھ کر بڑا ھوگیا ھے ویسے تو نھی
ھے
فوزیہ بولی
ھاےےےےےےےےے
میں نے کہا
اچھا جان بس ایک دفعہ معاف کردو
پھر نھی کرتا اتنے زور سے
میں نے فوزیہ کو مسکے شسکے لگا
کر شانت کر لیا اور
آہستہ آہستہ
لن کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگ
گیا
فوزیہ
فل مزے لے لے کر مجھ سے چد ُوا
رھی تھی
فوزیہ نے اب دونوں ھاتھ میرے سینے
پر رکھے ھوے تھے اور میرے نپلوں
کو اپنی انگلیوں سے مسل رھی تھی
جس سے مجھے مزید مزہ آرھا تھا
اور میں جوش میں لن پھدی کی جڑ تک
پہنچا رھا تھا
فرحت بولی
تم نے ماسٹر جی کا مجھ سے کیوں
پوچھا تھا
میں نے کہا
ووووہ میں نے ایسے ھی پوچھ لیا تھا
فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی
یاسر دیکھو مجھے سچ سچ بتاو میں
کوئی بچی نھی ھوں
میں نے کہا
آپ کی امی کیا سوچے گی کہ کمرے کا
دروازہ کیوں بند ھے تو فرحت بولی
انکی فکر مت کرو وہ سوئی ھوئی ہیں
دوائی کھا کر دس بجے سے پہلے نھی
اٹھتی
میں نے کہا
آنٹی سچی مجھے دیر ھورھی ھے
میں نے انٹی فوزیہ کی بیٹیوں کو بھی
ساتھ لے کر جانا ھے
وہ میرا انتظار کررھی ہوں گی ابھی
مجھے جانے دیں
میں رات کو آکر سب کچھ سچ سچ بتا
دوں گا
مگر ایک بات بتاتا چلوں کہ تب بتاوں
گا جب آپ کی امی پاس نہ ھوں گی
مہری بولی
اچھا جی خیر ھے آج بڑے رومینٹک
موڈ میں ھو
میں نے کہا
جس خوش نصیب کے سامنے یہ گالب
کا پھول ھو تو وہ اس کی خوشبو سے
مدہوش نہ ھو تو لعنت ھے اس وصال
یار پر
میں نے کہا
اگر پالنا ھی ھے تو پھر سن شربتی
گالبی پنکھڑیوں کا رس پال دو
جسے پی کر ہم بھی امر ھو جائیں
مہری بولی
تمہارا گال دبا دینا ھے
میں نے کہا
دیر کس بات کی میری خوش نصیبی
ھوگی
جو در یار پر میری جاں نکلے
میں نے کہا
نیند اب کہاں رھی
آنکھیں بند بھی کروں تو صرف تیرا ھی
چہرہ سامنے آتا ھے
میں نے کہا
تیرے ُحسن نے شاعر بنا دیا ورنہ
شاعری ہمارے بس کا کام نہ تھی
مہری نے ایک گالس مجھے پکڑایا اور
ایک گالس خود پکڑ کر ٹرے سائڈ ٹیبل
پر رکھ دی اور مشروب کی چسکی
لیتی ھوئی میرے پاس بیٹھ گئی
ڈرپوک
میں مزاق کررھی تھی
تم سچی میں بڑے ڈرپوک ھو نکل گئی
نہ ایک منٹ میں ساری شاعری
-----------------------
تمہاری کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر
سب۔۔
چاقو واقو ،چھریاں ُو ریاں ،خنجر ونجر
سب
-----------------------
پھر میں بوال
خیر
میں نےمہری کی شلوار بھی اتار دی
میں مہری کی دونوں ٹانگوں کے بیچھ
ُگھٹنوں کے بل بیٹھا ھوا تھا
وٹ اس دس یاسر
یاسرررررر
یہ کیسا پیار ھے
کیا تم اسکو پیار کہتے ھو
کس جاہل نے اس گندی حرکت کو پیار
کا نام دیا
تو لو یاسر
ہوس کے پجاری بنو اور اپنی ہوس کو
پوری کرلو
اور ساتھ ھی مہری ٹانگیں چوڑی کر
کے پھدی کو میرے سامنے کر کے لیٹ
گئی
اور بولی
یاسر میں تمہیں نھی روکوں گی میرا
جسم بھی تمہاری ملکیت ھے اور میری
روح بھی
تم پہلے مرد ھو جس نے مجھے ٹچ کیا
ھے اور میرے اتنے قریب آے ھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہری کی باتیں میرے دماغ میں
ہتھوڑے کی طرح ذربیں لگا رھی تھیں
اور میرا ضمیر مجھے لعن طعن کر
رھا تھا
کہ یاسر کیا تم ہوس کے پجاری ھو کیا
تمہارے نذدیک صرف سیکس کرنا ھی
فرض ھے
کیا تم اسکو پیار کہتے ھو
نھی یہ پیار نھی ہوس ھے ہوس
اگر تم نے مہری کے ساتھ بھی
صدف عظمی اور فوزیہ کی طرح
سیکس ھی کرنا تھا تو
پھر اس معصوم سے پیار نام شبد کیوں
بولے
اگر تمہیں اس سے واقعی پیار ھے تو
کبھی سوچنا بھی نہ کہ تم شادی سے
پہلے اس کے ساتھ بھی باقی لڑکیوں
جیسا سلوک کرو گے
فرحت بولی
دیکھو یاسر
تم اچھے لڑکے ھو اور سمجھدار ھو
پھر بولی
تم اندر کیسے آے تھے
۔۔۔
میں نے جان بوجھ کر مموں کا ذکر
کیا۔۔
اور بوال
آپ کیا کررھی ہیں پلیززززز
فرحت بولی
یاسر تم نے کسی کو یہ بات بتائی تو
نھی
ھاں جی بولیں،
میں نے کہا یہ تو اچھا ھوا کہ آپ نے
مجھے منع کردیا ورنہ آج یا کل میں
تفصیل سے ذاہد کے ساتھ کرنے واال
تھا
لیکن ،،۔۔۔
فرحت بولی
میں نے کہا
لن وڈ لے تیرا پرا تے توں وی
بس اک واری میرا لن تیرے پھدے وچ
چال جاوے
بعد وچ ویکھی جاوے گی جو ھوے گا
تبھی
عظمی اٹھی اور بولی چلو میں بستر کر
دیتی ھوں
اور میں عظمی کے پیچھے چلتا ھوا
دوسرے کمرے میں آگیا
میں نے کہا
اچھا چھوڑو یہ بتاو کہ وہ دونوں
چڑیلیں سو گئی کہ نئی
تو عظمی نے پیارے سے میری گال پر
چپت لگاتے ھوے بولی
پاگل اگر وہ جاگتی ھوتی تو میں نے آنا
تھا
میں نے کہا
یعنی کہ وہ سوگئی ہیں تو عظمی نے
دھیمی ہنسی ہنستے ھوے کہا
بدھو وہ تو کب کے سوئی ہوئی ہیں
میں تو صحن کی الئٹ بھی بند کرکے
آئی ھوں
میں نے کہا
تینوں ٹٹی آئی اے تے جا پج کے کر آ
عظمی بولی
یاسر یہ اچھا نھی کیا تم نے
کون؟؟؟؟؟
تو میں نے مشکل سے نام لیتے ھوے
کہا لونگ ڈرائیو ،،
تو
اسد نے بوال
یار کون سا گانا سنے گا
میں نے کہا جونسا تجھے پسند ھے
میں نے کہا ]
یار تمہاری مما کچھ نھی کہتی تمیں
میں نے کہا
بتاو کیوں بھاگا تھا
I �� u
مہری
عظمی۔۔۔
جججی ایٹ کالس میں
ہاےےےے*****یہ کیا
کیا آپ نے ۔۔۔۔
اسد۔۔۔
گستاخی کی معافی مانگ چکا ھوں
دوبارا مانگ لوں۔۔۔
اسد۔۔
محفوظ ھوتے ھوے مسکرا کر۔۔
اچھا یہ بتائیں کہ میں آپکو کیسا لگتا
ھوں اچھا کہ برا۔۔
اسد۔۔۔
عظمی
چپپپپ
اسد
چلیں ہم باغ سے اتنی دیر امرود توڑ کر
التے ہیں
عظمی۔۔ ننننننھی
آپ جائیں میں ادھر ھی ٹھیک ھوں۔
میں نے
مہری کا ایک مما چھوڑا اور ہاتھ نیچے
لیجا کر اپنا ناال کھوال اور میری شلوار
میرے پاوں میں گر گئی
اور میں نے مہری کی قمیض کو اسکی
گانڈ سے اوپر کیا اور لن اسکی گانڈ کی
دراڑ میں ڈال کر اسکے چڈوں کی
طرف گھسہ مارا
لن مہری کی گانڈ کی دراڑ سے ھوتا
ھوا اسکی پھدی کے نرم نازک ہونٹوں
کو چومتا ھوا رگڑتا ھوا آگے چال گیا
میں نے کہا
میری جان مجھ پر بھروسہ رکھو
اندر نھی کرتا
اگر اندر کرنا ھوتا تو اس دن ھی کر
دیتا۔
اسد ۔۔۔
عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے پٹری سے
نیچے اترتے ھوے۔۔
اسد۔۔۔
باغ میں داخل ھوتے ہوے،،
آپ کو کون سے امرود پسند ہیں ۔
اسد ۔۔۔۔۔
عظمی کے کانپتے ہونٹوں کو اپنے
ہونٹوں میں بھرتے ھوے لمبا سا چوسا
لگا کر چھوڑتے ھوے ۔۔۔۔
گندا ۔۔۔۔
اسد۔۔۔شوخی سے
اچھا جی ۔۔۔
عظمی شرماتے ھوے ۔۔۔
ھاں جی ۔
کب ملو گی ۔
اسد۔۔۔
میں تو کہتا ھوں چلو میرے ساتھ ھی ۔۔۔
عظمی ۔۔۔
اسد۔۔۔
جلنے دو میرا منہ ھے نہ کوئی بات
نھی ۔۔۔
عظمی ۔۔۔
بڑے تیز ھو آپ
اسد ۔۔
وہ کیسے جی ۔
عظمی۔۔۔
پہلی مالقات میں اتنا کچھ کرلیا توبہ
توبہ ۔۔۔
اسد ۔۔۔
اتنا کچھ کیا کیا ھے بس ان شربتی
ہونٹوں کا ایک گھونٹ ھی بھرا ھے
ورنہ تو میرا ارادہ تھا کہ ان کا سارا
شربت نگھل جاتا۔۔
عظمی ۔۔۔
بڑی باتیں بنانی آتی ہیں آپکو لگتا ھے
کافی لڑکیاں اپنی ایسی باتوں سے
امپریس کی ھونگی۔۔۔
اسد ۔۔۔۔
اسد ۔۔۔۔
عظمی کے ہونٹوں پر ھاتھ رکھتے
ھوے ۔۔۔
اسد۔۔۔
نھی نکلے تو ہمارا ھی فائدہ ھے مجھ
خوش نصیب کو تمہاری قربت نصیب
ھوئی
عظمی پھر ادھر دیکھتے ھوے ،،،۔۔
************
میں مہری کو لے کر جیسے ھی باہر
نکال تو عظمی ابھی تک ویسے ھی
کھڑی ہماری طرف دیکھ رھی تھی
نسرین بولی
آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن
نظر نھی آرھا کتنی رات ھوگئی ھے
اور ہم اکیلیں تمہارا انتظار کررھیں ہیں
۔۔
نسرین بولی
تم نے نھی کھیلنا تو نہ کھیلو
میرے پے روعب ت جھاڑو
عظمی ہاتھ سے اشارہ کرتے ھوے
بولی جا دفعہ ھو کھیلدی پھر کلی ای
نسرین بولی
ھاں ھاں مجھے پتہ ھے محترمہ اس
شہری بابو کے ساتھ پھر پھر کر تھک
جو گئی ھے،،
میں نے کہا
یار میں نے اپنی آنکھون سے دیکھا تھا
کہ وہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔
نسرین بولی ۔۔ کیا وہ دونوں بتاو ناں ۔۔
۔۔
جب کہ اصل یہ تھا ۔۔۔۔
اس لیے آپ اس سین کو ھی ذہن میں
رکھیں غلطی کی معافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا
اگر آپ کو یقین نھی تو یہ ٹرائی روم
ھے آپ پہن کر چیک کرلیں
اگر میری بات غلط ھو تو پھر آپ بے
شک نہ لینا ۔۔
میں نے کہا
تمہارا عاشق
صدف بولی
تیری اتنی جرات ھے کہ تم میری عزت
لوٹ سکو
میں نے کہا
جرات ھے نھی جرات ھوگئی ھے اور
ابھی کچھ دیر بعد
میں تمہیں چیڑ پھاڑ دوں گا
ھا ھا ھا ھا
صدف بولی
کیا چاہتے ھو
میں نے اسی انداز میں کہا تمہیں۔۔۔
صدف بولی یاسرررر مجھے صفائی تو
کر لینے دو۔
صدف بولی
جھوٹ مت بولو یاسر
مجھے خود محسوس ھوا تھا کہ تم
میرے اندر ھی فارغ ھوے تھے
میں نے کہا نھی یار جہاں تک مجھے
پتہ ھے کہ فارغ ہوتے وقت
لن باھر نکل آیا تھا۔۔
صدف بولی۔
تو وہ بولی
یہ تمہارا مسئلہ ھے میرا نھی۔
صدف
۔بس روے جا رھی تھی گانڈ کو نہ اوپر
کر رھی تھی نہ ھی ادھر ادھر
کہ
کیڑی ُکھڈ وچ لن پا بیٹھا واں۔
میں نے کہا
مجھے بچہ بلوانے آیا تھا کہ تمہاری
امی بلوا رھی ہہے
گھر میں کچھ کام تھا
اب میں انکا نوکر تو نھی کہ سارا دن ]
انکے ھی کام میں لگا رھوں
ایسے ہی ہم چونچیں لڑاتے ھوے شہر
پہنچ گئے۔
روزمرہ کی طرح
ّ اور دکان پر پہنچ کر
باہر سے صفائی کر کے شٹر کے باہر
بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد انکل آگئے اور میں نے ان
سے چابیاں لی اور دکان کے تالے
کھول کر شٹر اوپر کیا اور دکان میں
داخل ھوکر دکان کی جھاڑ پونچھ کر
کے فرنٹ پر آکر بیٹھ گیا اور کسٹمر کا
انتظار کرنے لگ گیا ۔۔۔
ُگڈ بواے
ٹھہر جا ۔۔
گندا بچہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
حسرت۔
ؔ کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی
بہت ہے تمہیں اک نظر دیکھ لینا۔
تو فرحت میرا ہاتھ چومتے ھوے بولی
خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں
ھو۔
تو میں نے کہا
تمہیں کیا خبر اے جاناں
کب سے دیوانہ ھے یہ دل تیرا۔
فرحت بولی
اس رات آے نھی تھے تم
میں نے فوزیہ کے بھائی کی اچانک
موت کا بتادیا اور پھر اس کے بعد
ایکسیڈنٹ کا بتایا تو فرحت بولی
میں آدھی رات تک تمہارا انتظار کرتی
رھی مگر تم آے نھی
اور اس کے ساتھ ھی فرحت نے آگے
ھوکر میری چاے کا کپ پکڑا اور
مجھے پکڑاتے ھوئے بولی
ھو سویٹ۔
ھو سویٹ۔
میں نے کہا
اسے پیار نھی کرو گی جو تمہاری
جوانی اور سیکسی جسم کی طلب بچپن
سے اپنے اندر چھپاے ھوے ھے
اگر اسے آج موقع مل ھی گیا ھے تو آج
تم اس بے چارے سے منہ پھیرے ھوے
ھو ۔
کہاں جی
نیچے تو یہ حال کردیا آپ نے
دیکھو آپ کے غصے سے ڈر کر یہ
بیچارا کتنا سہم کر بیٹھا ھوا ھے ۔
فرحت بولی ۔
.یہ کیا تم مجھے آپ آپ کہہ رھے ھو
تو میں فرحت کے ساتھ لیٹ کر فرحت
کے ممے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکی
طرف دیکھتے ھوے بوال۔
تو جناب کو کیا کہہ کر بالوں
تو فرحت بڑی شوخی سے بولی
میرا نام لے لو اور کچھ کہہ لو
اب تو ہم ہم نھی رھے
بلکہ
ہم سے تم ھوگئے ہیں ۔
آنکھوں سے۔
فرحت نے جیسے ھی پلکوں کی جھالر
کو اٹھا کر اپنی جھیل سے آنکھوں کو
بے نقاب کیا تو میں نے آنکھوں میں
اللی اور ہوس کا نشہ دیکھتے ھی کہا
اور فرحت
بُنڈ واال زور ال کے فارغ ھو گئی
اور۔۔۔۔۔
کہ
کیا ھوا
وہ ھی ھوا
.جو ہوتا ھے
میرے گھسوں کی رفتار بڑھی اور ساتھ
ھی فرحت کی گانڈ کو میرے لن نے
منی سے سیراب کرنا شروع کردیا
اور فرحت نے بھی شکر ادا کیا
کہ جان چھوٹی
اور میرے پیارے ریڈرز بھائیوں نے
بھی ۔۔۔۔۔
مارنا ھے مجھے ۔
پہلے ھی میرے آگے پیچھے درد
ھورھی ھے
اور تم پھر کرنے کو کہہ رھے ھو
ابھی دل نھی بھرا کیا۔
میں نے کہا
دل اتنی جلدی بھرنے واال نھی
تم چیز ھی ایسی ھو کہ ساری رات بھی
تمہیں چودوں تو دل نھی بھرے گا۔
جھوٹ مت بولنا
میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم سے نہ
ناراض ہوں گی اور نہ ھی کچھ کہوں
گی
مگر تم سچ بولو گے ۔
میں نے کہا
پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس
لڑکی سے بات نھی کرو گی اس بارے
میں۔
میں نے کہا
وہ میری ٹیویشن ٹیچر ھے ہماری
پچھلی گلی میں رہتی ھے
اس سے دو تین دفعہ کیا ھے ۔
میں نے کہا ۔
وہ تو کب ملیں گے تو پتہ چلے گا کہ
ابھی کتنا کچھ رہتا ھے ۔
فرحت بولی
یاسر یہ سب کہاں سے سیکھا ھے
فوزیہ بولی ۔
وہ کہہ رھی تھی کہ اسکے پیپر کی
کچھ تیاری رہتی تھی
تو اس کی سہیلی نے کچھ گیس دینے
تھے اسے اور وہ اس لیے جلدی چلی
گئی تھی شاید اس نے سکول میں تیاری
کرنی ہو ۔
فرحت بولی
اس کے باپ نے سر پر چڑھا رکھا
ھے
میں کچھ کہتی ہوں تو ۔
تمہارا چاچا مجھے بولنے لگ جاتا ۔
اپنی مرضیاں کرتی ھے ۔
میں نے کہا
یار بات تو سن لو۔
میں نے کہا
صدف بس ایک دفعہ میری بات تو سن
لو ۔
پھر چاھے تم مجھے اپنی شکل بھی مت
دیکھانا۔
بلکہ میں بھی تمہارے سامنے کبھی نھی
آوں گا
ساال اج دا دن ای ماڑا اے ۔
**************************
****
دوستو اب آپ
عظمی اور اسد کے بیچ میں ہوا مکالمہ
پڑہیں گے جسکا علم مجھے بعد میں ہوا
تھا۔ پہلے بتانے کا مقصد کہ آپ سب
ریڈرز کو حقیقت معلوم ہو جاے
یہ مکالمہ آج سے تین دن پہلے سے
شروع ھوتا ھے۔۔۔۔۔۔۔
**************************
*****
نسرین بولی ۔
خیر
ٹیوشن سے آکر
رات کو موقع پاکر عظمی نے اپنے
رجسٹر سے ایک ورق پھاڑ کر
اسپر
اپنے پہلے محبت نامے کا جواب لکھنا
شروع کیا۔
جان سے پارے اسد
آپکا خط پڑھا
دل کو بہت سکون مال
اسد جی میں نے بھی جب سے آپکو
دیکھا ھے
آپ کے ھی بارے میں سوچتی رھتی
تھی
مگر آپ سے بات کرنے آپ سے ملنے
کا موقع میسر نہ ہوا
جس کی وجہ میرے ساتھ میری سڑیل
بہن اور میرا سڑیل کزن تھا۔
نسرین بولی
ہر مہینے ھی ایسا ھوتا ھے کبھی دو
دن پہلے خون آنا شروع ھو جاتا ھے تو
کبھی بعد میں ۔
نسرین بولی
نھی بھائی ہم چلی جائیں گی ۔
اسد بوال
تو پھر گبھراو نہ
ہم ایسی جگہ جارھے ہیں جہاں صرف
میں اور تم ہو گی
اور میں جی بھر کر اپنے سپنے کو
پورا کرسکوں گا
عظمی بولی
کون سا سپنا ہے جناب کا
عظمی نے دوبارا
اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ۔
جو سات فٹ لمبا چوڑھے کندھوں کا
مالک انتہائی مکرو شکل کا تھا
اور وہ سگریٹ کا کش بھر کر
اسد کو اشارے سے کار اندر النے کو
کہہ رھا تھا۔
اسد بوال
عظمی بولی
اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے
تم تو ایسے کررھے ھو جیسے
میں کہیں بھاگی جارھی ہوں
ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔
جی بولو
عظمی اسکے طنزیہ انداز سے
جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف
دیکھتے ھوے بولی ۔
یاسر تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو
کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے
لیے بالیا تھا
عظمی بولی
اسد
یہ آدمی کون ھے جس کے گھر ہم آے
ہیں
مجھے تو یہ کوئی بدمعاش لگتا ھے
اسد بوال
لوجی ابھی تک تمہاری سوئی اس
بیچارے شریف آدمی پر اٹکی ہوئی
ھے
اگر تم یہاں نھی رکنا چاھتی تو چلو پھر
جہاں تم کہو گی ادھر چلتے ہیں
عظمی بولی اسد وہ شریف آدمی تو نھی
لگتا
وہ تو شکل سے ھی بدمعاز اور عیاش
قسم کا انسان لگتا ھے ۔
اسد ہنستے ھوے بوال
یار
وہ لوگوں کے لیے بدمعاش ھے
مگر اپنا جگری یار ھے ۔
اسد بوال
چھوڑو یار کیسی فضول قسم کہ باتوں
میں وقت برباد کررھی ھو
آو کوئی پیار کی باتیں کرتے ہیں
۔یہ کہتے ھو اسد نے عظمی کی گردن
میں بازو ڈال کر اس کی گال پر ہاتھ
رکھتے ھوے ۔
عظمی کا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا
اور عظمی کے ہونٹوں کو چومنے لگا
تو
عظمی نے جلدی سے اہنے ہونٹوں پر
ہاتھ رکھ لیا
اور اسد کے ہونٹ عظمی کے ہاتھ کو
چومتے ھوے واپس پلٹے اور
اسد نے غصے سے عظمی کی طرف
دیکھتے ھوے بوال
یار یہ کیا حرکت ھے
کیا میں اس الئک بھی نھی کہ
تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں ۔
تو عظمی بولی
نھی یاسر ابھی نھی ۔
عظمی بولی
کب
اسد بوال
جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی ۔
عظمی بولی
تو ایسا نھی ھوسکتا۔
کہ ہم جسمانی تعلق
سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔
تو
اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال
اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال
اس نے
عظمی کو بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ
سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا
اور خود عظمی کے پیٹ پر سوار
ھوگیا اور عظمی کے دونوں ہاتھ پکڑ
لیے عظمی ٹانگیں چال رھی تھی اور
اونچی آواز میں اسد کو گالیاں دے کر
ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی
اسد نے جیسے تیسے عظمی کے
دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک
ھاتھ میں کیں
اور ایک ذور دار تھپڑ عظمی کے منہ
پر مارتے ھوے بوال
ُچپ کر گشتئے
تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ
اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی
آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد
پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے
اکری بوال۔
پج جا ایتھوں
نئی تے میں سب کج پُل جاناں اے
اوے گل سن
اک گل کن کھول کے سن لے جے اج
توں بعد
توں ایس کڑی دے آسے پاسے وی نظر
آیا ناں تے او دن تیرا آخری دن ہوے گا۔
خیر
گارڈ بوال
بھائی جی
دو بجے چھٹی ھونی ھے
آپ گھر چلے جاو یا اپنی دکان پر
اور ساتھ ھی اسکا سر غائب ھوا اور
کھڑکی بند ھوگئی ۔
آنٹی بولی
چل جا اندر بیٹھ جا کہ اپنی پیناں کول
میں چا بنا کہ لیانی واں
نال کوئی گولی کھا لے ۔
نسرین بولی
میں نے کہا۔
تبھی تو ڈر رھی ھو۔
عظمی بولی ڈرتی صرف اپنے ماں باپ
کی عزت سے ہوں ۔
تو میرے دماغ میں فورن آیا کہ اتنا
عزت کا خیال ھوتا تو
یوں کار میں نہ پھرتی
مگر پھر اپنے آپ پر مالمت کرتے
ھوے خیال کو جھٹک دیا کہ اب اگر اس
نے غلطی کر ھی لی ھے تو وہ اسپر
ندامت بھی ھے
اور تم کتنے دودھ کے دھلے ھو
یا تم کون سا اس سے شادی کرنا
چاھتے ھو جو اسکی اتنی فکر ھے
اسے تو صرف تمہیں چھوڑ کر ایک
دوسرے مرد سے مراسم بڑھانے پر اتن
ندامت ھے کہ وہ تیرے سامنے گھنٹوں
ھاتھ جوڑ کر روتی رھی
اور تم تو کتنی لڑکیوں کی پھدیاں مار
چکے ھو تجھے تو کبھی یہ احساس
نھی ھوا ۔
عظمی اور میں بلکل ساتھ ساتھ چل
رھے تھے ۔
الوں
عظمی نے مجھے خاموش اور خی ً
میں ڈوبے دیکھا تو مجھے کندھا مار
کر بولی
ہیلو
کس سوچ میں گم ھوگئے ھو۔
میں دفعتا ً چونکا
اور خود کو سنبھالتے ھوے خود کو
اس پر ایسے ظاہر کیا جیسے اسکے
انکار پر میں صدمے میں چال گیا ھوں ۔
میں نے کہا
یار ایک آئڈیا آیا ھے دماغ میں اگر
ااسپر عمل ھوجاے تو ساری رات خوب
انجواے کر سکتے ہیًں کسی کو کانوں
کان خبر نھی ھوگی ۔
عظمی پھر نہ نہ نہ ۔
کر رھی تھی ۔
میں نے غصے سے کہا
وڑ پانڈے وچ نئی تے نہ سئی۔
اور بوال
رات کو چاے کون کون پیتا ھے
عظمی بولی سب ھی پیتے ہیں ۔
میں نے کہا
بناتا کون ھے ۔
عظمی بولی
کبھی میں کبھی عظمی اور کبھی امی
بھی بنا لیتی ھے ۔
میں نے کہا تو سمجھو اپنا کام تو ھوگیا۔
عظمی حیرانگی سے میری طرف
دیکھتے ھوے بولی
وہ کیسے جی۔
میں نے کہا
رات کو میں جب آوں گا تو تمہیں
چپکے سے گولیاں پکڑا دوں گا تم آنٹی
کے کپ میں ڈال دینا اور جب آنٹی
سوجائیں گی تو تم چپکے سے دوسرے
کمرے میں آجانا۔
عظمی بولی اور نسرین ۔
عظمی بولی
چل شوخا۔
اتنی دیر میں ہم سکول والی گلی میں
داخل ہوے اور بوائز سکول کے گیٹ
کے سامنے سے گزرے تو میں نے
عظمی کی طرف دیکھا جو وھاں سے
چلنے کی سپیڈ تیز کر کے اور گبھراے
انداز سے چل رھی تھی ۔
میں نے بھی اسے کچھ نھی کہا کہ بات
خامخاہ کہیں اور نکل جاے گی ۔
جنید بوال
جب ہم کھانا لینے ہوٹل پر جائیں گے تو
میرا دوست ھے میڈیکل سٹور پر ۔میری
گلی کا ھی ھے
اس سے تجھے ایک پتہ ال دوں گا
اس میں سے دو گولیاں چاے یا دودھ
میں حل کر کے ان دونوں کو پالدینا
بس پھر وہ صبح سے پہلے نھی اٹھتی
۔
میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا یار تیرا
یہ احسان زندگی بھر نھی بھولوں گا
جنید بوال چھڈ یار
یہ بھی کوئی کام ھے ۔
اتنے میں ایک کسٹمر اندر داخل ہوا تو
جنید اٹھ کر کسٹمر کو ڈیل کرنےلگ
گیا۔
اور میں پھر باہر کی طرف متوجہ
ھوکر اپنے خیالوں میں بیٹھا رھا۔
میری سوئی ایکدم اسد پر اٹک گئی کہ
سالے نے عظمی کے ساتھ اچھا نھی
کیا
بے شرم
میں نے کہا
کچھ نھی ہوتا بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔
آنٹی بولی
آگے سے کرو
میں نے کہا نھی مجھے پیچھے سے
ھی کرنا ھا ۔
اور
جب عظمی اور نسرین ہیدا ھوئی تو اس
کے ایک سال بعد تمہارا انکل بلکل ھی
فارغ ھوگیا
میں نے کہا
۔پھر بھی جب اپکا بہت ذیادہ دل کرتا تھا
تو کیا کرتی تھی ۔
تو آنٹی بولی ۔یاسر سہی بتاوں تو پہلے
پہل مجھے بہت پریشانی ھوئی میں اس
بات کو لے کر دن رات سوچتی رھتی
تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا
چل بےشرم
اور
ایتھے سٹ مار یاسر
جنید بوال
یہ سالی ینگ ینگ لڑکوں کو پھنسا کر
ان سے چدواتی ہے اور انکو اپنے پاس
سے پیسے بھی دیتی ہے اور عیش بھی
کرواتی ہے
میں تو سمجھا شاید تم بھی اسکے چکر
میں آگئے ہو تو اس لیے میں نے پوچھا
تھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو ۔
جنید بوال
اسکا مجھے علم نھی
کہ وہ کس طرح کی سوچ رکھتی ھے
ہوسکتا ھے کہ وہ بھی اپنی ماں کی
طرح ھو یا یہ بھی ہو سکتا ھے کہ وہ
اپنی ماں کی کرتوت اور اسکے شکار
کرنے کے طریقہ سے ناواقف ہو
مگر اتنا کنفرم ھے کہ کوئی لڑکا اسکی
بیٹی تک پہنچ نہیں سکا ۔
آنٹی بولی
تمہارے
اس بیچارے نے میری جان نکال دی
آنٹی تھک کر کھڑی ہوکر لمبے لمبے
سانس لینے لگ گئی ۔
نسرین غصے سے بولی یاسر تمہیں
شرم آنی چاہیے
ایسے کسی کو ڈراتے ہیں ۔
میں نے نسرین کو منہ چڑاتے ہوے کہا۔
تمہیں کوئی تکلیف ھے
یہ میری اور آنٹی کی بات ہے تم
خامخواہ
بیچ میں چوہدرانی نہ بنو ۔
تو نسرین مجھے منہ چڑھا کر جا دفعہ
ہو کہہ کر اندر چلی گئی اور عظمی
مسکراتی ہوئی کھڑی رھی ۔
کچھ دیر بعد میں آنٹی کے قریب آیا اور
انکو سائڈ سے جپھی ڈال کر سوری
کرنے لگ گیا
کچھ نخرے دیکھانے کے بعد آنٹی
مان گئی اور میں اندر کمرے میں چال
گیا جہاں سڑیل نسرین اور میری دلربا
عظمی بیٹھی ہوئی تھیں ۔
ہیلوووو مسٹر
کدھر کھو گئے
ضوفی بولی
تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر
واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں
کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم
باہر کھڑے کھڑے سوکھ جاو ۔
میں نے کہا
اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا
نقصان ہوگیا۔
ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی
نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا
کر لوں گی
میں نے کہا
میں نوکر جناب کا ۔
ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم
سیریس ہوکر بولی ۔
یاسر ایک بات کہوں ۔
میں نے کہا حکم کریں ۔
تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی
طرف دیکھا
جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں
محو تھی ۔
مرضی ہے تمہاری
خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی
سے سب کچھ کررھی تھی
جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی
بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی
جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔
مرضی ہے تمہاری
خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی
سے سب کچھ کررھی تھی
جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی
بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی
جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔
اور میں نے بُرا سا منہ بناتے ہوے
روٹھنے کے انداز میں
اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے
لگ گیا ۔
ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب
نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی
گہری سوچ میں گم تھی ۔
میں نے کہا۔
میرے نیچے والے بال بھی تم ھی اتارو
گی
ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم مجھے اس
قابل ہیں نہیں سمجھتی ۔
میں نے کہا۔
بالوں کا سائز۔۔۔۔
میں نے کہا
بیٹھنے کی اگر اجازت ہو تو
بیٹھ کر بتا دوں ۔
مہری جھینپ کر بولی
اوووو سوری
تشریف رکھیے۔
میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر
بیٹھ گیا۔
مہری ایک منٹ کہہ کر کچن کی طرف
چلی گئی اور اسد آکر میرے سامنے
بیٹھ گیا وہ اب بھی کنفیوژ تھا
اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
میں نے شوخی سے اسکی آنکھوں کے
آگے ہاتھ ہالتے ہوے کہا
ہیلوووووو
اسد نے چونک کر میری طرف نظریں
کیں ۔
میں نے کہا
کیا ھوا پریشان لگ رھے ھو سب
خیریت تو ھے ۔
اسد بوال ۔
میں نے کہا
مہری تمہیں واقعی نہیں پتہ تھا
کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
مہری قسم اٹھا کر بولی نھی یاسر
کیا تم یہ سوچ بھی سکتے ھو کہ مہری
کو تمہارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلے اور
مہری آرام سے بیٹھی رھے
مجھے اگر علم ھوتا تو میں اڑتی ہوئی
تمہارے پاس آجاتی ۔
یہ کہتے ہوے مہری نے اپنے دونوں
بازو سائڈ سے میری کمر کے گرد ڈال
کر اپنے ممے میرے بازوں کے ساتھ
چپکا کر میرے کندھے پر سر رکھ کے
مجھے بازوں کے احصار میں لے لیا۔
یاسررررررر
اسکو کس تو کرو ۔
میں نے کہا
میں نے کہا
مہری بولی
بےشرمممممممم
اور ساتھ ھی مہری نے اپنے دونوں ہاتھ
اس معصوم پر رکھ کر اپنی ٹانگوں کو
بھینچ کر
میری للچائی نظروں سے اپنی پھدی کو
چھپا لیا۔
اور وہ ھی ھوا
مہری مہری
ہوش کرو
بلیڈی فوووولللللل
اور رونے لگ گئی
مہری بولی
گرنے دو مجھے
مرنے دو مجھے
میرے پاس اب بچا ھی کیا ھے
قہر تھا
مہریییییییییی
خیر
جنید نے جلدی ہی کسٹمر کو بشیر کر
دیا
اور میں نے فرحت کی امی کی طرف
دیکھا تو وہ بیچاری بیٹھی بیٹھی سوگئی
تھی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک
لگا کر آنکھیں بند کئےبیٹھی اونگ رھی
تھی ۔
میں نے جنید کو کہا تم ذرہ سائڈ پر ھو
جاو آنٹی کو اندر سے نکلنے دو پھر
اجانا ایسے وہ ڈرجاے گی کہ تمہیں
سب کچھ پتہ ھے
اور یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے متنفر
ہوجاے ۔
جنید سر ہالتا ھوا دکان سے نکل گیا
تو میں جلدی سے دروازے کے پاس
پہنچا اور دروازے کو ناک کر کے
جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر سوٹ
طے کرنے لگ گیا۔
کچھ دیر بعد ھی فرحت برقعہ پہنے اور
نقاب کیے سوٹ ہاتھ میں پکڑے باہر
آگئی ۔
اور آکر سیدھی اپنی امی کے پاس گئی
اور اپنی امی کو کندھے سے ہالتے
ھوے اٹھاتے ھوے بولی
امی آپ سو گئی ھو
تو اسکی امی نے آنکھیں کھولتےھوے
کہا
پتر مینوں پتہ ای نئی لگیا کیڑے ٹیم
میری اکھ لگ گئی
فرحت نے اپنی امی کو بتایا کہ کوئی
سوٹ اسے فٹ نھی آیا اور ڈزائنگ بھی
اچھی نھی لگی
فرحت اپنی امی کو لے کر مجھے رات
کو آنے کا اشارہ کرکے چلی گئی
دکان سے نکلتے وقت ھی جنید بھی آگیا
اور اس نے فرحت کو بڑے غور سے
دیکھا اور میری طرف انگلی اور
انگوٹھے سے گول دائرہ بنا کر اشارہ
کیا کہ بڑا پوپٹ مال ھے۔
فرحت چلی گئی اور جنید شروع ہوگیا
کہ یار آنٹی تو بڑی ذبردست ھے
کیسے پھنسا لی
اور اندر جاکر کیا کیا کرتے رھو ھو
میں نے جنید کو مختصرا بتایا کہ بس
اس کے ممے دباے اور کسنگ کی
اصل بات میں حزف کرگیا ۔
جنید نے بڑی کوشش کی مگر میں نے
اسکو منگڑت کہانی سنا کر مطمئن کر
دیا اور کہا کہ اگلی دفعہ اسکی پھدی
مارنے کی کوشش کروں گا ۔
شام تک ہم وقفے وقفے سے فرحت کو
لے کر باتیں کرتے رھے اور پھر سات
بجے انکل بھی آگئے اور میں انکل کے
ساتھ ھی دکان بند کرکے گھر آیا
گھر آکر نہا دھو کر فریش ھوا اور
کھانا وغیرہ کھا کر میں کچھ دیر باہر
دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتا
بجے میں گھر آیا تو 9رھا تقریبا َ ََ
سب گھر والے سو رھے تھے
اور صرف بھائی کمرے میں جاگ
رھے تھے
میں کمرے سے ہوتا ھوا بیٹھک میں
جانے لگا تو بھائی نے مجھے آواز دی
کہ آجا میرے پاس بھی بیٹھ جایا کر یار
میں مجبورا ً بھائی کے پاس بیٹھ گیا
اور ایک دوسرے کے کاروبار کے
متعلق باتیں شروع کردیں
ایک گھنٹہ ہم ایسے ھی باتیں کرتے
رھے ۔
تو بھائی نے کہا چنگا یار توں وی سو
جا کل دکان تے جانا اے تے مینوں وی
نیندر آرئی اے
میں نے شکر ادا کیا کہ ٹیم نال ای
ویرے نوں نیندر آگئی اور
بیٹھک میں چال گیا اور بھائی کے
خراٹوں کا انتظار کرنے لگ گیا ۔
دس پندرہ منٹ ھی گزرے تھے کہ
کمرا بھائی کے خراٹوں سے گونجنے
لگ گیا ۔
میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر کمرے اور
صحن کا چکر لگا تسلی کر کے واپس
بیٹھک میں آگیا کہ کوئی جاگ تو نہیں
رھا مگر سب ھی
گہری نیند سے ھوے تھے
میں نے مزید کچھ دیر اور انتظار کیا
اور پھر کمرے کی طرف والے
دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور
تاال اٹھایا جو میں نے ایک خفیہ جگہ پر
چھپا کر رکھا تھا
اور چپکے سے باہر کا دروازہ کھوال
اور گلی میں سر نکال کر دیکھا تو گلی
میں گھپ اندھیرا تھا دوررر سے پہرے
دار کی وقفے وقفے سے آواز آرھی
تھی
جاگدے رووووو
میں نے باہر نکل کر بیٹھک کو باہر
سے کنڈی لگا کر فرحت کے گھر کا
رخ کیا
ہر طرف ہو کا عالم تھا
میں ڈرتا ہوا چال جارھا تھا
کہ کہیں کسی پہرے دار سے میرا ٹاکرا
نہ ہوجاے
کچھ دیر چلنے کے بعد میں فرحت کی
گلی میں داخل ہوا
اتو گلی میں بھی کافی اندھیرا تھا
مجھے چلتے چلتے ایسے لگتا جیسے
میرے پیچھے کوئی آرھا ھے
اور میں ایکدم پیچھے گھوم کر دیکھتا
تو کسی کو بھی نہ پاتا
بس میرا وہم مجھے ڈراے جارھا تھا ۔
مشکل سے میں فرحت کے گھر کے
پاس پہنچا ھی تھا کہ
مجھے پیچھے سے
دوستو
اوپر سے میرا سانس بند اور نیچے سے
میرے لن میں درد ۔
مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے
پھدی کے ہونٹوں کو ھی اپنے دانتوں
میں بھینچ کر اپنے لن کی جان
چھڑوائی
اور فرحت ہاےےےےےےےےے
مرگئییییییی کرتی ہوئی میرے لن کو
چھوڑ کر اپنی چوت کو چھڑوانے کے
لیے گانڈ اوپر کر کے جھٹکا مار کر
میرے اوپر سے اٹھتی ہوئی میرے ساتھ
گری اور ٹانگوں کو پھیال کر پھدی کو
ھاتھ سے مسلتے ھوے
سیییییییییییی اور پھدی ہر پھونکیں
مارتے ھوے پھووووو پھووووووو
پھوووووو کرنے لگ گئی ۔
میں بھی جلدی سے ایک ہاتھ سے اپنا
منہ صاف کرتے ھوے اور ایک ھاتھ
سے اپنے لن کو۔مسلتے ھوے
فرحت کے سٹائل میں ٹانگیں پھیال کر
بیٹھ کر سیییییییی کرنے لگ گیا۔
ادھر پھدی زخمی تھی
ادھر لن زخمی تھا ۔
قصور سارا جنون کا تھا۔
نہ فرحت میری طرف دیکھ رھی تھی
نہ میں فرحت کی طرف
اسے اپنی پھدی کی اور مجھے اپنے لن
کی پڑی تھی ۔
مگر میں حیران تھا کہ
میرے لن پر فرحت کے دانت لگنے کی
وجہ سے جلن اور درد کے باوجود بھی
میرے لن کی آکڑ نھی ٹوٹی تھی
ساال ویسے کا ویسا ھی تن کر کھڑا تھا
۔
کچھ دیر ہم یوں ھی بیٹھے رھے ۔
فرحت کی جلن کچھ کم ھوئی تو میری
طرف دیکھتے ھوے بولی
.یاسر کیا ھوگیا تھا تمہیں
میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے
ھوے کہا
جو تمہیں ھوا تھا
میں نے کہا
چپ کر ہن جان دے ہولی ہولی
ہن نہ بولی۔
اور میں گھسے مارنا شروع ھوگیا
ھاےےےءء مرگئی
گھساااا
ھاےےےےے مرگئی۔۔
گھسا
ھاےےےےےے مرگئیییی۔
گھسا
ھاےےےےےےےے مرگئیءءءءء
لگ گیا
افففففف
نہیں معلوم۔۔
کہ
میں نے کہا
دوستو باالخر
شادا بوال
نسیم بوال
امی بولی
پتر میں تینوں جمیا اے توں مینوں نئی ۔
۔********
بہت سونا لگ ریاں ایں ****نظر تو
بچاے
میں نے کہا۔
چورررررر۔
عظمی بولی ۔
اتار دو گی تو مہربانی ۔
عرصہ دراز سے ان دودھ کے پیالوں
کا درشن نصیب نہیں ھوا۔۔
۔آہووووو
ول
میں نے دوبارا ایک نظر عظمی کی .
پھدی پر ڈالی عظمی نے دونوں ہاتھ
پھدی پر رکھ کر ٹانگوں کو جوڑ کر
ایک طرف اکھٹی ھوگئی میں غصے
سے چارپائی سے اتر کر کھڑا ہوگیا
اور عظمی کے بالوں کو پکڑا اور
بالوں کو جنجھوڑ کر بوال گشتی جھوٹی
مکار یاروں کے نام لکھوانے کے لیے
پھدی ھی ملی تھی ۔
میں نے کہا ۔
عظمی بولی ۔
عظمی بولی ۔
ھھھھھھھھھھ
ھھھھھھھھھھ
اسد بوال
کون سا سپنا
نے دوبارا
ہیرا ھے ہیرا
اسد بوال
یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا
ھے
بند دروازے
اور اسد
میرا منہ تکتا رھ گیا۔
اب خوش
جی بولو
کب
اسد بوال
میں نے کہا
لگ گئی
تو تم
میری محبت میرے پیار میرے اعتماد
تو
اس نے
ھا ھا ھا ھا ھا ۔
اسد بوال ۔
ہاں اکری یار اس سالی نے میرے لن پر
ٹانگ ماری تھی یہ تو شکر ھے کہ اس
گشتی کا پیر میرے ٹٹوں پر نہی لگا
ورنہ میں تو گیا تھا۔
ھا ھا ھا ھا
اکری بوال
سمجھی
ھا ھا ھا ھا
آہستہ آہستہ ان دونوں کے قہقہے بلند
ہوتے گئے اور میری آواز دبدتی گئی
بالخرہ انکے مکرو قہقہوں میں میری
پکار دب گئی اور دونوں ایک ساتھ
میرے دائیں بائیں بیڈ پر بیٹھے اور
دونوں کے ہاتھ میرے جسم کی طرف
بڑھے ۔
ورنہ تو یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاگل لڑکی۔۔۔
جب ضوفی مجھے یوں دیکھتی تو میں
اسکو آنکھ ماردیتا
*****
میں نے کہا ۔
خیر
سویرا
سویرا بولی ۔
سویرا بولی
آہہہہہہ آہہہہہہ یاسرررر پھر تھوڑا سا
کرنا جب میں کہوں پھر اور کرنا آہہہہہ
آہہہہہ
پکا
میں نے کہا۔
تمیز نال ۔
لویو یاسر ۔
ضوفی بولی ۔
میں نےکہا۔
میں نے کہا
واہ جی واہ
ھوووووو ھاے
اگر
*******
نے چاھا تو ضرور کوئی نہ کوئی سبب
بن جاے گا ۔
ضوفی بولی
ضوفی بولی ۔
یاسررررررر۔۔۔
اور بوال
ننننننہیں .ضوفی میں اتنا بھی گرا ھوا
نہیں کہ تم سے پیسے لے کر کاروبار
شروع کروں تمہارا تو پہلے ھی مجھ
پر اتنا بڑا احسان ھے جسکو میں عمر
بھر نہیں چکا سکتا اور اوپر سے تم یہ
دکان اور وہ بھی ماہی کی شادی کے
پیسوں سے نہ نہ نہ ۔
ضوفی بولی ۔
دیکھو میں جتنے پیسے بھی دکان کے
لیے دوں گی وہ تم ادھار سمجھ کر رکھ
لینا
بوال ۔
جیجا جی ۔
کیا سوچےگی۔۔۔
لو یو جانی ۔
کہو تو
آہہہہہہہہہہہہہ۔
۔
سارا ظلم مجھ پر ہی کیوں
افففففففففففف آہہہہہہہہہہہ
آہہہہہہہہہہہہہہہ۔
ضوفی بولی ۔
خیر۔
میں نے کہا ۔
جنید بوالبسسسسسس
میں بوال۔
بےجاماما
جنید بوال ۔
جنید بوال
میں نےکہا
سوواری آ یارا
خیر
جنید نے میرا بڑا ساتھ دیا میری وجہ
سے اس بےچارے کی انکل سجاد کے
ساتھ منہ ماری بھی ھوگئی دکان سے
غائب رہنے کی وجہ سے ۔
ضوفی بولی
اور پھر