You are on page 1of 4095

‫???‪Update no 1....

‬‬
‫دوستو‪ ،،،‬میں سیالکوٹ کے کہ ایک‬
‫نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے‬
‫تعلق رکھتا ہوں یہ سٹوری ھے ان دنوں‬
‫کی جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا‬
‫کرتے تھے‬
‫جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے‬
‫لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی‬
‫چیز کے واقف نھی ھوتے تھے‬
‫اسی لیے سب ایک دوسرے کے‬
‫گھروں میں بالجھجک چلے جاتے تھے‬
‫سال کے ‪14 /15‬میری عمر اس تقریبا ً‬
‫لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں‬
‫صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس‬
‫میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور‬
‫اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے‬
‫تھے ایک ماسٹر جی تقریبا ً چالیس سال‬
‫کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک‬
‫ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریبا ً‬
‫اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں‬
‫گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے‬
‫سکول میں ایک کالس میں پہلی سے‬
‫تیسری کالس کے بچے پڑھتے تھے‬
‫اور دوسری کالس میں چوتھی اور‬
‫پانچویں کالس کے بچے پڑھتے تھے‬
‫میں اس وقت چوتھی کالس میں اچھے‬
‫نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو‬
‫جان مجھے شہر کے سکول میں داخل‬
‫کروانے کے بارے میں امی جان سے‬
‫بحث کررھے تھے‬
‫شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو‬
‫پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے‬
‫اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ‬
‫رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی‬
‫گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں‬
‫میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے‬
‫بحث مباحثہ کو سن رھا تھا‬
‫امی جان میرے شہر جانے سے منع‬
‫کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے‬
‫چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر‬
‫جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں‬
‫دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو‬
‫ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ‬
‫سمجھدار ھو جاے گا تو چال جاے گا‬
‫آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے‬
‫بعد جیت امی جان کی ھوئی میں نے‬
‫جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا‬
‫تو رونے واال منہ بنا کر باہر نکل کر‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا‬
‫گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر‬
‫چھوڑ کر آتا تھا میں آنٹی فوزیہ کے‬
‫گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سالم‬
‫کیا آنٹی فوزیہ بہت ھی نرم دل اور پیار‬
‫کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ‬
‫چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور‬
‫پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی‬
‫سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی رنگ‬
‫انکا سفید تھا دوستو یہ سب مجھے اس‬
‫وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چال‬
‫آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے‬
‫بتا دیا‪،،‬‬
‫میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن‬
‫میں لگے بیری کے درخت کے نیچے‬
‫چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی‬
‫میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ‬
‫گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر‬
‫میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا‬
‫شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی‬
‫ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس‬
‫بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے‬
‫کیوں رونے واال منہ بنا رکھا ھے میں‬
‫نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی‬
‫آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے‬
‫ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے‬
‫سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری‬
‫امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے‬
‫شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم‬
‫لوگوں کے حالت بھی ابھی ایسے ہیں‬
‫کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ‬
‫نھی دے سکھی میننے آنٹی کی بات‬
‫کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے‬
‫واال بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے‬
‫تو آنٹی فوزیہ بولی دیکھ پُتر وہ‬
‫زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے‬
‫کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور‬
‫پڑھ لو پھر پھر عظمی اور‬
‫نسرین(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں) بھی شہر‬
‫جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی‬
‫بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی‬
‫زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے‬
‫چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو‬
‫میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں‬
‫انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی‬
‫طرح ہاں میں سر ہالیا تو آنٹی فوزیہ نے‬
‫پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر‬
‫اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے‬
‫بولی یہ ھوئی نہ بات‪ ،،‬میں نے آنٹی‬
‫فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے‬
‫تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر‬
‫بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی‬
‫ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ‬
‫میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر‬
‫انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے‬
‫پاس چال گیا میں نے دیکھا کہ عظمی‬
‫سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی‬
‫ھے‪،‬‬
‫میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے‬
‫لگ گیا کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا‬
‫تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے‬
‫پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا‬
‫کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس‬
‫آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو‬
‫ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار‬
‫رھی ھو تو عظمی بولی تواڈا شزادہ‬
‫ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا‬
‫وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی میں‬
‫نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی‬
‫زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں‬
‫چلی گئی‬
‫دوستو‬
‫آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ‬
‫بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں‬
‫اوالد نھی ھوئیانکا کوئی بیٹا نھی تھا اس‬
‫لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار‬
‫کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی‬
‫گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر‬
‫کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی ال کر‬
‫دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں‬
‫نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں‬
‫سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا الڈال‬
‫بھی تھا باقی بہن بھائی سب مجھ سے‬
‫بڑے تھے‬
‫عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی‬
‫تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ‬
‫خوبصورت تھی نسرین بھی کم‬
‫خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا‬
‫رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور‬
‫جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے‬
‫ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریبا ً‬
‫میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ‬
‫کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے‬
‫چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی‬
‫صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ‬
‫صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی‬
‫سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم‬
‫بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی‬
‫عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے‬
‫مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ‬
‫بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں‬
‫اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا‬
‫تھا جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی‬
‫اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے‬
‫مگر عظمی سے کم ھی تھے‬

‫‪Update no 2......‬‬
‫میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا‬
‫اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی‬
‫کوشش کے بعد آخر کار میں اسے‬
‫منانے میں کامیاب ھوگیا میں اور‬
‫عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر‬
‫باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے‬
‫پیچھے سے آواز دی کہ جلدی آ جانا‬
‫ذیادہ دور مت جانا ہم نے آنٹی فوزیہ کی‬
‫بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل‬
‫کر کھیت کی طرف چل پڑے‬
‫دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک‬
‫تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت‬
‫شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ‬
‫واال کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی‬
‫فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت‬
‫کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت‬
‫کی جاتی تھی اور اس وقت کپاس کی‬
‫فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے‬
‫اس وقت تقریبا ً پانچ فٹ تک ھوتے تھے‬
‫اور کپاس کی فصل کے آگے والے‬
‫کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں‬
‫مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی‬
‫اور جو دوست گاوں کے رھنے والے‬
‫ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے‬
‫چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے‬
‫ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک‬
‫پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ‬
‫کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں‬
‫بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر‬
‫چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جسکو کراس‬
‫کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر‬
‫کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور‬
‫شہر کا فاصلہ تقریبا ً دو کلو میٹر تھا‬
‫خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور‬
‫کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی‬
‫کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور‬
‫لڑکیاں کھیل رھے تھے جن کی عمر‬
‫دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری‬
‫گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے‬
‫تھے‬
‫دوستو‪ ،،‬ہمارا پسندیدہ کھیل لُکن میٹی‬
‫سٹیپو باندر ِکال وانجو پکڑن پکڑائی‬
‫ھونے؟؟؟؟؟‬
‫جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے‬
‫ٰ‬
‫چھپائی کی‬ ‫ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ُچھپن‬
‫باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر‬
‫ہماری گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو‬
‫ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ‬
‫غصے سے بوالآگئی ہنساں دی جوڑی‬
‫اینی دیر کردتی یار میں نے کہا یار ایس‬
‫میڈم نے دیر کرادتی ُرس کے بیٹھی‬
‫تھی نواب زادی تو میں اور عظمی نے‬
‫بھی اپنی اپنی باری پُگی اور تین بچوں‬
‫کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو‬
‫ڈھونڈنا تھا‬
‫ہم سب ُچھپنے کے لیے کپاس کی فصل‬
‫کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ‬
‫علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چ ُھپ گئے‬
‫جبکہ میں اور عظمی کپاس کی فصل‬
‫میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی‬
‫طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس‬
‫ادھر ھی چھپ جاتے ہیں میں نے سنا‬
‫ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے‬
‫ھوے ہیں دوستو ان دنوں ہمارے گاوں‬
‫میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے‬
‫پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس‬
‫لیے ھو بھی ادھر جاے احتیاط سے‬
‫جاے‪ ،‬مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں‬
‫تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل‬
‫بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی‬
‫نہ گرمی نہ سردی کی فکر میں نے‬
‫عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا‬
‫یار پنڈ والے ایویں چوالں ماردے نے‬
‫کہ کوئی چھلیاں نہ توڑےعظمی بولی‬
‫نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے‬
‫تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے‬
‫کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے‬
‫جہاں ایک پانی کا کھاال تھا جسکو‬
‫کراس کر کے دوسری طرف مکئی کی‬
‫فصل شروع ھوجاتی تھی کھالے کے‬
‫ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم‬
‫کے درخت تھے‬
‫میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں‬
‫کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے‬
‫ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے‬
‫چھالنگ لگا کر کھاال کراس کیا اور‬
‫پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے‬
‫چھالنگ لگائی اور میں اسکی ھی‬
‫طرف منہ کر کے کھڑا تھا عظمی نے‬
‫جب چھالنگ لگائی تو سیدھی آکر‬
‫میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو‬
‫بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا‬
‫کرنے سے اس کے ممے میرے سینے‬
‫میں پیوست ھوگئے‬
‫ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل‬
‫پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن‬
‫میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں‬
‫اکثر کبھی کبھی عظمی کو جپھی ڈال‬
‫کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ‬
‫جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی‬
‫وجہ سے کبھی کبھار ایک دوسرے کے‬
‫اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔‬
‫عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں‬
‫نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت‬
‫کے پیچھے لے آیا اور عظمی میرے‬
‫آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے‬
‫پیچھے اسکی بُنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا‬
‫ھوگیا اور دونوں آگے پیچھے اپنے‬
‫سروں کو نکال کر سامنے بنے کی‬
‫طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس‬
‫وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا ھوگا‬
‫جو سویا ھوا عظمی کی بُنڈ کے دراڑ‬
‫کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم‬
‫ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ‬
‫گئے کہ اچانک عظمی نےگبھرائی ہوئی‬
‫آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے‬
‫جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر‬
‫سے میں پیچھے سے عظمی کے ساتھ‬
‫بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ‬
‫مجھے سیکس واال مزہ آرھا تھا بس‬
‫ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم‬
‫گانڈ کے ساتھ‪ .‬چپک کر کھڑے ھونا‬
‫اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا‬
‫کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم‬
‫ڈرپوک بہت ھو عظمی کچھ دیر اور‬
‫کھڑی رھی‬
‫پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور‬
‫جلدی سے کھالے پر سے چھالنگ لگا‬
‫کر دوسری طرف چلی گئی اور مجھے‬
‫کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو‬
‫جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار‬
‫اسکے پیچھے ھی کھاال پھیالنگ چل‬
‫پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی‬
‫سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے‬
‫کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے‬
‫خوشی میں شور مچارھے تھے ہم‬
‫دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے‬
‫پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے‬
‫ادھر کی پکڑن پکڑائی کھیلتے رھے‬
‫اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنے‬
‫اپنے گھروں کی طرف چل دیے‬
‫ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے‬
‫گھر اور گھر سے کھیل کود ایک دن ہم‬
‫سکول میں اپنی کالس میں بیٹھے تھے‬
‫کالس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے‬
‫تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی ادھر‬
‫ادھر ہماری کالس گھیسیاں کرتی کرتی‬
‫جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب‬
‫تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی‬
‫تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ‬
‫سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے‬

‫ہماری کالس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا‬


‫تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی‬
‫اور ماسٹر جی کو سالم کیا تب ماسٹر‬
‫جی نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو‬
‫کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا‬
‫بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی‬
‫اٹھا کر لے آیا جس پر آنٹی فرحت بیٹھ‬
‫گئی دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا‬
‫چلوں‪،،‬‬
‫آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں‬
‫فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا‬
‫انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی‬
‫فرحت کی امی انکو اپنے پاس ہمارے‬
‫گاوں ھی لے آئی تھی‬
‫آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار‬
‫عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر‬
‫سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر‬
‫سے ھی چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا‬
‫نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت‬
‫آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی‬
‫آنکھیں ھی انکے باقی حسن کی تعریف‬
‫کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی‬
‫ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو‬
‫بس اس جھیل میں ایسا ڈوبے کہ کسی‬
‫اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے انٹی‬
‫فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور‬
‫باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا‬

‫انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے‬


‫پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے‬
‫غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے‬
‫ساتھ کافی فری ھونے کی کوشش‬
‫کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے‬
‫ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا‬
‫رھے ہیں تب ماسٹر جی نے صغیر کو‬
‫آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے‬
‫صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر‬
‫جی اور انٹی فرحت کے پاس جا پہنچا‬
‫ماسٹر جی نے دستہ کھوال اور کچھ‬
‫ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت‬
‫کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ‬
‫دیکھا اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے‬
‫بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر‬
‫جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر‬
‫آو میں ذرہ آفس میں جا رھا ھوں تم‬
‫کالس کا دھیان رکھو‬

‫?????‪Update no 3..‬‬

‫کوئی بچہ شرارت نہ کرے‪ ،،‬دوستو‬


‫میں کالس میں سب سے الئق تھا اور‬
‫میرا قد بھی تقریبا ً سب بچوں سے بڑھا‬
‫تھا اس لیے میں کالس میں سب سے‬
‫آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے‬
‫مجھے کالس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا‬
‫اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی‬
‫ماسٹر جی مجھے سمجھا کر اٹھے اور‬
‫آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے‬
‫میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور‬
‫خود آفس کی طرف چل پڑے اور انکے‬
‫جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی‬
‫تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی‬
‫گانڈ میں پھنسی ھوئی تھی جسکو انہوں‬
‫نے بڑی ادا سے باہر نکاال اور اپنے‬
‫بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے‬
‫پیچھے پیچھے چل پڑی‬
‫اور میں کالس کی طرف منہ کرکے‬
‫کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی‬
‫طرف تھا جب کہ ساری کالس کی پیٹھ‬
‫کمروں کی طرف تھی کالس کمروں‬
‫کی مخالف سمت بیٹھتی تھی‬
‫کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے‬
‫سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے‬
‫پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اسے‬
‫پوچھا سنا خوب کالس لگی ماسٹر جی‬
‫اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر‬
‫جا کر کالس میں بیٹھ گیا تقریبا ً دس‬
‫پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا‬
‫میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا‬
‫اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے‬
‫صرف نام کے واش روم کی طرف چل‬
‫پڑا‬
‫دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے‬
‫ایک کمرے کو تو جب سے میں نے‬
‫دیکھا تاال ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے‬
‫آدھے کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا‬
‫جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں‬
‫پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے‬
‫حصے میں ایک الماری لگا کر پارٹیشن‬
‫کی گئی تھی اور اس کے پیچھے‪ .‬دو‬
‫چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر‬
‫جی آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے‬
‫تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین‬
‫فٹ کی جگہ رکھی تھیجس کے آگے‬
‫دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر‬
‫رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا میں‬
‫پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے‬
‫کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی‬
‫کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے‬
‫آنٹی فرحت کی آواز سنائی دی جو‬
‫ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی‬
‫کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا‬
‫واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی‬
‫ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے‬
‫رھے تھے کہ کچھ نھی ھوتا بس دو‬
‫منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے‬
‫گا پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی‬
‫ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے‬
‫دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں‬
‫بدنامی ھوجاے گی میں نے جلدی سے‬
‫کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی‬
‫طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد‬
‫سے اونچی تھی اس لیے میں اندر‬
‫دیکھنے میں ناکام رھا‪،‬‬
‫اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی‬
‫میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی‬
‫سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی‬
‫طرف دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ‬
‫سے کھوال کیوں کہ مجھے یہ کنفرم‬
‫ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے‬
‫حصہ میں نھی ہیں بلکہ دفتر کے‬
‫پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے‬
‫گئے ہیں مگر پھر بھی میں نے ڈرتے‬
‫ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول‬
‫کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل‬
‫درست نکال دفتر واقعی ھی خالی تھا‬
‫میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا‬
‫ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ‬
‫سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے‬
‫پاس جا پہنچا میں نے جب تھوڑا سا‬
‫پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو‬
‫پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا‬
‫منظر ھی میری سوچ کے برعکس تھا‬
‫???‪Update... No.. 4...‬‬
‫اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے‬
‫کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر‬
‫آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت‬
‫آنٹی کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر‬
‫جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس‬
‫وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی‬
‫تھی مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی‬
‫میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا‬
‫کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی‬
‫ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت‬
‫آنٹی کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر‬
‫چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی‬
‫آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے‬
‫دونوں بڑے بڑے گول مٹول چٹے سفید‬
‫چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے‬
‫آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ‬
‫آنٹی فرحت کے ایک ُممے پر تھا اور‬
‫دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی بُنڈ پر رکھ‬
‫کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔انٹی‬
‫فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں‬
‫کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر‬
‫جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی‬
‫انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی‬
‫کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے‬
‫جاتی دوستو میں نے زندگی میں پہلی‬
‫دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور‬
‫وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے‬
‫میں میں سوچ بھی نھی سکتا کہ یہ بھی‬
‫ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ‬
‫بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال‬
‫میں میرا تو دیکھ کر برا حال ھورھا تھا‬
‫ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری‬
‫ٹانگیں کانپ رھی تھی ادھر ماسٹر جی‬
‫اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی‬
‫مستی میں گم تھے‬

‫ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ‬


‫چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے‬
‫آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ‬
‫علیحدہ کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی‬
‫فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی‬
‫سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ‬
‫چھت کی طرف تھا اب ماسٹر جی نے‬
‫آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع‬
‫کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے‬
‫گالوں کو چومتے کبھی زبان پھیرتے تو‬
‫کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر‬
‫چوسنے لگ جاتے آنٹی فرحت کا رنگ‬
‫تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر‬
‫کی طرح سرخ ھوچکا تھا ماسٹر‬
‫جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے‬
‫چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے‬
‫لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے‬
‫سے زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی‬
‫طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو‬
‫پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے‬
‫بل کھڑی ھوجاتی اور بند آنکھوں سے‬
‫چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی‬
‫سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی‬
‫کرکے ماسٹر جی کے ساتھ مزید چمٹ‬
‫جاتی‬
‫ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی‬
‫فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا‬
‫جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی‬
‫فرحت کے کان کی لو سے ھوتی ھوئی‬
‫کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی‬
‫فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور‬
‫اپنی پھدی والے حصہ کو ماسٹر جی‬
‫کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی‬
‫اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں‬
‫نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی فرحت کو‬
‫پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر‬
‫جی تین چار‪ ،‬منٹ تک ایسے ھی کبھی‬
‫گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے‬
‫پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر‬
‫جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت‬
‫کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل‬
‫پر زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت‬
‫کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم‬
‫اکڑا ھوا تھا ماسٹر جی مسلسل اپنی‬
‫زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے‬
‫اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر‬
‫زبان گھماتے انٹی فرحت مزے سے‬
‫سسسییی افففففف اممممم کری جارھی‬
‫تھی‬
‫ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت‬
‫کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی‬
‫اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں‬
‫پھیرنے لگ جاتے اب ماسٹر جی نے‬
‫ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا‬
‫اور زور زور سے چوسی جارھے تھی‬
‫انکی تھوک سے سارا مما گیال ھو گیا‬
‫تھا ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ‬
‫آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا‬
‫رھے تھے‬
‫آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی‬
‫انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر‬
‫کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا‬
‫کبھی بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی‬
‫انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی‬
‫ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی‬
‫شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں‬
‫سے نالے کا سرا تالش کرنے لگ گئے‬
‫آنٹی فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا‬
‫کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے‬
‫میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس‬
‫لیے انہوں نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے‬
‫ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور‬
‫سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں‬
‫اوپر کر کے انٹی فرحت کی آنکھوں‬
‫میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں‬
‫سر ہالیا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ‬
‫بس اس سے آگے کچھ نھی کرنا‬
‫مگر‬
‫ماسٹر وی کسے چنگے استاد داچھنڈیا‬
‫ھویا سی ماسٹر جی نے بڑے پیار اے‬
‫اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل‬
‫لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ‬
‫چھڑواتے ہوے شلوار کے نالے کے‬
‫سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان‬
‫پھنسا لیا تھا اور ایک جھٹکے سے ناال‬
‫کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا ناال‬
‫کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت‬
‫کچھ سمجھتی انکی‬
‫شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی میری‬
‫آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی‬
‫گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی‬
‫ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن‬
‫رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی‬
‫ھوی پُھدی تھی یہ سین دیکھتے ھی‬
‫میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چال گیا‬
‫جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن‬
‫پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں نے لن کو‬
‫مسلنا شروع کردیا ‪،،‬ادھر ماسٹر جی‬
‫نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی‬
‫سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی‬
‫پر رکھ دیا اور ھاتھ کی درمیانی انگلی‬
‫کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا‬
‫انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ‬
‫ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ کر‬
‫ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی‬
‫کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی‬
‫فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے‬
‫بجاے انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے‬
‫پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت‬
‫اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر‬
‫جی کے ھاتھ کو آگے پیچھے جانے کا‬
‫راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے‬
‫اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے‬
‫اندر کی آنٹی فرحت کے منہ سے ایک‬
‫لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ‬
‫ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی‬
‫طرف لے گئی اور دونوں کے ہونٹ‬
‫پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے‬
‫اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون‬
‫آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح‬
‫ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی‬
‫ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی‬
‫کے اندر باہرھو رھی تھی‬
‫اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند‬
‫ھونے لگ گئی اور منہ سے‬
‫ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں‬
‫گئی میں گئیییییی کی آوازیں آنے لگ‬
‫گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں‬
‫سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز‬
‫کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ‬
‫سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور‬
‫نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا‬
‫جھکتی گئی کہ نیچے ھی پاوں کے بل‬
‫پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی‬
‫ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے‬
‫کی وجہ سے ساتھ ساتھ نیچے ھوتے‬
‫گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر‬
‫دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر‬
‫رکھ کر بیٹھی رھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد‬
‫ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا‬
‫تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی‬
‫اپنی شلوار اوپر کرلی اور ذور سے‬
‫ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا‬
‫دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا ناال‬
‫باندھ لیا ماسٹر جی حیران پریشان آنٹی‬
‫فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے‬
‫ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو‬
‫بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت کیا ھوا‬
‫تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے‬
‫خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی‬
‫کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی انکی‬
‫منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی‬
‫چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے‬
‫سے خوار ھورھا تھا ماسٹر جی جب‬
‫دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے‬
‫تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے‬
‫سے جپھی ڈال لی اور آنٹی فرحت کو‬
‫گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا‬
‫آنٹی فرحت کی نظر پردے پر جیسے‬
‫ھی پڑیمیرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے‬

‫???‪Update... No.. 5....‬‬


‫مجھے لگا کہ آنٹی فرحت نے مجھے‬
‫دیکھ لیا ھے جبکہ میں بلکل تھوڑا سا‬
‫پردہ سرکا کہ اندر دیکھ رھا تھا‬
‫میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے‬
‫بھاگا اور سیدھا کالس کی طرف آگیا‬
‫مجھے کالس کی طرف آتے دیکھ‬
‫عظمی بھی میری طرف متوجہ ھوگئی‬
‫میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے‬
‫دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز‬
‫چل رھی تھی میں اس قدر گبھرایا اور‬
‫ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی‬
‫کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ‬
‫رھی ھے اور میں عظمی کو نظر انداز‬
‫کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی‬
‫جگہ پر جاکر بیٹھ گیا‬

‫عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ‬


‫ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس‬
‫آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے‬
‫پکڑ کر بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر‬
‫کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں‬
‫ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں‬
‫عظمی نے ایک ھی سانس میں کئی‬
‫سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس‬
‫نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ‬
‫پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے میں‬
‫نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی‬
‫کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے‬
‫پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے‬
‫اپنی طرف دیکھتے عظمی نے مجھے‬
‫بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر‬
‫بولو کیا سوچ رھے ھو میں ایک دم‬
‫سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی‬
‫اپنےنے نہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے‬
‫کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ‬
‫گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ‬
‫رھو وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر‬
‫کے بیٹھ گئی میرا دھیان اب کمرے کے‬
‫دروازے کی طرف ھی تھا اور دل میں‬
‫کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی‬
‫میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے‬
‫اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر جی‬
‫کو ضرور بتاے گی یاسر پتر توں تے‬
‫گیا ھن ھن تیری خیر نئی ماسٹر جی‬
‫نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے‬
‫اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی‬
‫تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے‬

‫میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو‬


‫میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل‬
‫کر تیز تیز قدموں سے کالس کی طرف‬
‫آتے دیکھا ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر‬
‫میرا تو گال خشک ھوگیا بیٹھے ھی‬
‫میرا جسم کانپ رھا تھا ماسٹر جی‬
‫کالس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے‬
‫انکے چہرے پر غصہ صاف صاف‬
‫جھلک رھا تھا اب مجھے نھی معلوم تھا‬
‫کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا‬
‫پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا خیر ماسٹر‬
‫جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا‬
‫یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا‬
‫جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی‬
‫چبھوئی ھو‬
‫میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر‬

‫ماسٹر جی بولے‬

‫تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام‬


‫چیک کرو تم نے کیا‬

‫میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے‬


‫اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے‬
‫صرف کالس کا دھیان رکھنے کا کہا‬
‫تھا‬
‫میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے‬
‫صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا‬

‫تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے‬


‫پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں‬
‫مانیٹر کس لیے بنایا ھے‬

‫بیٹھ جاو‬
‫میں جلدی سے بیٹھ گیا‬
‫اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھال‬
‫کہنے لگ گیا‬

‫کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ‬


‫وی میرا ای قصور اے‬

‫پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم‬


‫ورک چیک کروانے کا کہا اور باری‬
‫باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ‬
‫گئے‬
‫ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا‬
‫غصہ ان بچوں پر نکاال جنہوں نے ہوم‬
‫ورک نھی کیا ھوا تھا‬

‫مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر‬


‫جی کو نھی پتہ چال کہ میں بھی انکی‬
‫پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا‬

‫چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو‬


‫نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے‬
‫بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے‬
‫عظمی کے چہرے پر کافی بےچینی‬
‫سی نظر آرھی تھی‬

‫ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ‬


‫اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ‬
‫نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا‬
‫جیسے خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے‬
‫گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ‬
‫اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس‬
‫کھڑا ھوگیا جبکہ نسرین سمیت باقی‬
‫بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب‬
‫دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے‬
‫چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ کھڑی ھوئی‬
‫اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ‬
‫گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب‬
‫بتاو کیا ھوا تھا‬

‫میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو‬


‫تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ‬
‫ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات‬
‫ھے ہمارا گھر آنے واال ھے اتنی جلدی‬
‫کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی‬
‫جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے‬
‫ھوے تھے تو میں نے کہا یار وہ ماسٹر‬
‫جی اور آنٹی فرحت‪،،،،،،،‬‬
‫یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں‬
‫ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں‬
‫داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے‬
‫نسرین اکیلی کھڑی ھمارا انتظار‬
‫کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں‬
‫نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی‬
‫عظمی نے مجھے پھر کہنی ماری بولو‬
‫کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں‬
‫نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے‬
‫سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ھوے خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا‬
‫کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے‬
‫پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی‬
‫تواڈے دوناں دیا لتاں ٹُٹیاں ھویاں نے‬

‫لتاں کڑیس کڑیس کے ٹُردے او‬

‫میں نے شوخی سے کہا‬

‫تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ‬


‫کے اگے اگے پہنچ جانی اے‬
‫تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی‬
‫پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات‬
‫بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان‬
‫جو سالم کیا اور کمرے کی طرف چل‬
‫دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے‬
‫چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت‬
‫مزدوری کر کے آیا ھوں‬

‫لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر‬


‫جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے‬
‫لگ گیا‬
‫دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی‬
‫بولوں گا سالی اب اس الئق ھی نھی‬
‫رھی‪،،،،‬‬

‫میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے‬


‫گورے گورے خربوزے جتنے ممے‬
‫آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے‬
‫چٹے سفید دودہ سے بھرے پیالے تھے‬
‫جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے‬
‫کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل‬
‫اندر کی طرف تھا کیا کمال کی گوری‬
‫چٹی ٹانگیں‬

‫کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے‬


‫درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی‬
‫ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکال‬

‫یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چال‬


‫کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا‬
‫رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے‬
‫تھے‬
‫کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے‬
‫خیالوں سے ال باھر پھینکا‬

‫یاسررررر‬
‫????‪Update no 6...‬‬

‫امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر‬


‫اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بوال‬
‫جی امی جی‬

‫تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی‬


‫پتر آکر روٹی کھا لو‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے‬


‫میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو‬
‫چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی‬

‫روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا‬


‫اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک‬
‫کر کے تھوڑی دیر بعد میں پھر لیٹ گیا‬
‫اور پتہ نھی کب میری آنکھ لگی جب‬
‫میں اٹھا تو اس وقت چار بج رھے‬
‫تھے‬
‫امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں‬
‫بالنے آئی تھی کہ امی یاسر کو بال‬
‫رھی ھے‬

‫تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام‬


‫نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے‬
‫تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر‬
‫سمجھا ھوا ھے جب بھی کوئی کام ھوتا‬
‫ھے تو منہ اٹھا کر اسے بالنے آجاتے‬
‫ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب‬
‫بن کر رھتا ھے اور ان کے گھر‬
‫نوکری کر کے خوش ھے‬

‫امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس‬


‫نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے‬
‫اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار‬
‫کرتی ھے اس لیے مان سے اسے کوئی‬
‫باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا‬
‫کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا‬
‫تکلیف ھے‬

‫امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے‬


‫میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں‬
‫نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا‬
‫اور باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے‬
‫ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ‬
‫کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے‬
‫دروازے پر جا پہنچا جب میں اندر‬
‫داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سالم کیا اور‬
‫ان سے اپنے سر پر پیار لیا‬

‫تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے‬


‫شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی‬
‫مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو‬
‫دفعہ مجھے بالنے آئی تھی خیریت تو‬
‫ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی‬
‫پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر‬
‫چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں‬
‫نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے‬
‫ھوے کہا جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا‬
‫ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی‬
‫تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی‬
‫آئیں میں نے انٹی سے ان دونوں کا‬
‫پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو‬
‫َملکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی‬
‫گئی مگر عظمی اندر کمرے میں ہے‬
‫دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی‬
‫ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں‬
‫کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے‬
‫کل نہر پر کپڑے دھونے جانا ھے‬

‫میں نے ھممم کر کے سر ہالیا اور انٹی‬


‫سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم‬
‫سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک‬
‫کا توڑا اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو‬
‫اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار‬
‫کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے‬
‫لے کر صحن میں باھر کے دروازے‬
‫کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی‬
‫اتنی دیر میں گندم کا تھیال اٹھا کر لے‬
‫آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا‬
‫جیسے ھی انٹی گندم کا تھیال سائکل‬
‫کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی‬
‫تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں‬
‫کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ‬
‫کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری‬
‫انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے‬
‫چٹے ممے آگئے اور میں ٹکٹکی‬
‫باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں‬
‫جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ‬
‫میری گندی نظروں سے بے خبر اپنے‬
‫دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے‬
‫فریم میں چین کے کور کے اوپر‪ .‬سیٹ‬
‫کر رھی تھی‬
‫جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر‬
‫ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے‬
‫گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے‬
‫میں نددیدوں کی طرح آنٹی کے ممے‬
‫دیکھی جارھا تھا ‪،‬‬

‫دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر‬


‫میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا‬
‫تھا تب میری معصومیت بچپنا اور‬
‫سیکس سے ناآشنائی کی وجہ تھی اور‬
‫یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے‬
‫دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا‬
‫سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا نھی تھا‬
‫جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی‬
‫ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں‬

‫میں بچہ تھا معصوم تھا‬

‫مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے‬


‫اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی‬
‫اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک‬
‫آنکھ کھول لی تھی‬

‫آنٹی نے گندم کا تھیال سہی کرکے رکھ‬


‫دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی‬
‫سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل گھر‬
‫بھی آگے سے ہل رھا تھا اور میں‬
‫ڈگمگاتے ھوے چال جارھا تھا کہ‬
‫اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی‬
‫آواز آئی جو مجھے رکنے کا کہہ‬
‫رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا‬
‫تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں‬
‫اسے دیکھ کر رک گیا‬
‫‪ ،،‬عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی‬
‫ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور‬
‫بولی بُدھو پیسے تو لیتا جا میں نے‬
‫اسکی ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور‬
‫اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا‬
‫اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے‬
‫ساتھ ساتھ سائکل کو پیچھے سے پکڑے‬
‫چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار‬
‫تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ‬
‫بولی ذیادہ شوخا نہ بن اور کل والے‬
‫واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی‬
‫لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں‬

‫میں عظمی کی بات سن کر پریشان‬


‫ھوگیا‬
‫میں گبھراے ہوے بوال یار کچھ بھی‬
‫نھی ھے‬

‫تو عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی‬


‫طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے‬

‫میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی‬


‫ھے‬

‫تو عظمی بولی‬


‫تو بتاو پھر‬

‫میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے‬


‫گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم‬
‫سے گندی باتیں کروں‪،‬‬

‫تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور‬


‫بولی‪،‬‬
‫میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے‬
‫میرے نال گندی گل کیتی‬

‫تو میں نے کہا‬

‫د ُرفٹے منہ تیرا‬

‫میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات‬


‫کررھا ھوں‬

‫تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا‬


‫تم‬

‫تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور‬


‫بات کرو‬

‫تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو‬


‫چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور‬
‫مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج‬
‫توں بعد نی بُالئیں تیری میری کٹی اور‬
‫یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی‬
‫میری طرف کرتے ھوے واپس بھاگ‬
‫گئی‬

‫دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی‬


‫اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی‬

‫میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر‬


‫واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا‬
‫عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے‬
‫آنٹی سے پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ‬
‫تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو‬
‫سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی‬
‫ھوگی‬

‫تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت‬


‫واپس آگئی تھی‬

‫آنٹی بولی‬
‫فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی‬
‫ھونی اے‬

‫میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا‬


‫ھو‬

‫تب تک شام ڈھلنے والی تھی‬

‫میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے‬


‫دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی‬
‫پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں‬
‫کھیلتے ھوے بچوں کو دیکھ رھی تھی‬

‫میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں‬


‫داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے‬
‫دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور‬
‫کھیت کی دوسری طرف بنی پگڈنڈی‬
‫کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ‬
‫اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ‬
‫فاصلے پر اسکے پیچھے پیچھے چلتا‬
‫ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک‬
‫عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی‬
‫میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا‬
‫عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے‬
‫دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر‬
‫اسکے اور قریب ھوگیا عظمی نے‬
‫میری طرف غصے سے دیکھا اور‬
‫بولی‬

‫کی تکلیف اے میرے ِپچھے کیوں پیا‬


‫ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ‬

‫میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں‬


‫تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا‬

‫تو عظمی بولی‬

‫جا دفعہ ھو جان چھڈ میری‬

‫میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو‬


‫کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو‬
‫لڑکیوں سے نھی کی جاتی‬
‫تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی‬
‫ھو‬

‫تو عظمی بولی‬

‫میں تیرے کولوں کش پُچھیا اے جیڑا‬


‫توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا‬
‫کہ‬
‫عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ‬
‫ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے‬
‫والے انداز سے کہا‬

‫چل آ تینوں دسدا آں‬

‫تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ‬


‫سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز‬
‫سے بولی‬
‫??????‪Update no 7..‬‬
‫سندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں‬
‫تینوں ُ‬
‫کہ میں ُکش نئی ُ‬
‫سننا جا جان چھڈ‬
‫میری‬

‫میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی‬

‫میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور‬


‫کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت‬
‫کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی‬
‫پر بیٹھ گیا اور اپنے ُگٹنوں میں سر دے‬
‫کر رونے لگ گیا‬
‫دوستو میں گھر اور محلے میں سب‬
‫لڑکوں سے خوبصورت الڈال ھونے کی‬
‫وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے‬
‫کسی کی ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی‬
‫برداشت نھی ھوتی تھی‬

‫اسی وجہ سے عظمی کے سخت‬


‫رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری‬
‫ہچکی بندھ گئی تھی‬
‫مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ‬
‫ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں‬
‫کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے‬
‫تو میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں‬
‫طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو‬
‫دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما‬
‫کر دیکھا تو عظمی بیٹھی تھی اور پیار‬
‫سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ‬
‫کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے‬
‫چپ کرا رھی تھی‬

‫عظمی بولی‬
‫میرے شونے کو غصہ آگیا ھے‬

‫میں نے غصے سے اپنے کندھے‬


‫اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے‬
‫بیٹھ گیا عظمی پھر بولی‬

‫میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے‬

‫اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی‬


‫نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی‬
‫طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ‬
‫اپنے کانوں کی طرف لے گئی اور اپنے‬
‫کان پکڑ کر کہنے لگی‬

‫معاف کردو سوری بابا‬

‫تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ‬


‫کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا‬

‫تو عظمی نے شوخی سے میرے‬


‫کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی‬
‫چل شوخا‬

‫اور ہم دونوں ھنس پڑے‬

‫عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا‬

‫تو میں نے کہا‬


‫یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا‬
‫سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی‬
‫تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل‬
‫جب تم آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر‬
‫پر جاو گی تو تب‪ .‬میں بھی تم لوگوں‬
‫کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر‬
‫بتاوں گا‬

‫تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہالیا‬


‫اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں‬
‫شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے‬
‫اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں‬
‫چ ُھٹی تھی‬

‫میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی‬


‫جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا‬
‫کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا‬
‫آنٹی کے گھر پہنچ گیا گھر میں داخل‬
‫ہوتے ھی آنٹی کو سالم کیا اور انکل‬
‫بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سالم کیا‬
‫انکل مجھے چھیڑنے لگ گئے کہ‬

‫یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے‬


‫جارھے ھو‬
‫میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل‬
‫میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں‬
‫داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی‬
‫تو انکل نے مجھے پیار سے ساتھ لگا‬
‫لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے‬
‫لگے‬

‫چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا‬


‫برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور‬
‫پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی‬
‫جانے لگ جائیں انکے ساتھ ھی چلے‬
‫جایا کرنا میں ھاں میں سر ہالتا ھوا‬
‫انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ‬
‫کی طرف چل پڑا جو چارپائی پر بیٹھی‬
‫قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ‬
‫رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر‬
‫آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں باہیں ڈال‬
‫کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ‬
‫کو جپھی ڈال لی ‪،‬‬

‫آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا‬


‫سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی‬
‫بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا‬
‫ہونے کی وجہ سے پیچھے سے آنٹی‬
‫کے کالے رنگ کے بریزئیر کے‬
‫سٹرپ صاف نظر آرھے تھے‬

‫اور سوٹ کا کلر‬

‫انٹی پر بہت جچ رھا تھا‬

‫میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی‬


‫خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو‬
‫شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر‬
‫پر ہیں اس لیے تو آنٹی فوزیہ‬
‫حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬

‫چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی‬


‫سے ایسے بات کرتے ھوے‬

‫اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا‬
‫شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو‬
‫شہر کی ہوا لگ گئی ھے تو انکل بھی‬
‫اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے‬
‫لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم‬
‫پر الئن مار رھا ھے‬

‫میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا‬


‫اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی‬
‫باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی‬
‫لوگوں کے پاس بھاگ گیا مجھے‬
‫پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں‬
‫کی آواز سنائی‬

‫اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی‬


‫گل تے سن کتھے چالں آں‬

‫مگر تب تک میں کمرے میں داخل‬


‫ھوچکا تھا‬

‫اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات‬


‫پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے‬
‫دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو‬
‫نسرین نے ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا‬
‫ویال‬
‫تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں‬
‫اسے جواب دیتے ھوے کہا‬

‫توں تے بڑی کاموں اے سارا دن‬


‫پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی‬
‫ایں‬
‫سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے‬
‫جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا‬
‫کر‬

‫عظمی کھلکھال کر ہنس پڑی تو نسرین‬


‫کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو‬
‫مارنا شروع کردیا‬

‫میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر‬


‫ھماری آپس میں نوک جھونک جاری‬
‫رھی‬
‫تقریبا ً ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی‬
‫اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی‬

‫چلو ُکڑیو جلدی نال کہڑے ُچکو تے نہر‬


‫تے چلو میرے نال‬

‫نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر‬


‫باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں‬
‫اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل‬
‫آے‬

‫????‪Update no 8..‬‬

‫کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر‬


‫پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں‬
‫نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن‬
‫کپڑے دھونے واال ڈنڈا اور دیگر‬
‫ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے‬
‫میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے‬
‫دھونے واال ڈنڈا ھاتھ میں پکڑا اور ہم‬
‫گھر سے نہر کی طرف چل پڑے‬
‫کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی‬
‫شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے‬
‫بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم‬
‫سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی‬
‫طرف جار رھے تھے سب سے آگے‬
‫نسرین تھی اسکے پیچھے عظمی اور‬
‫اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے‬
‫آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے‬
‫جارھے تھے کیوں کہ پگڈنڈی کی جگہ‬
‫ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر‬
‫عظمی کی گول مٹول بُنڈ پر پڑی جو‬
‫باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس کے‬
‫ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی‬
‫تھرتھراتی کبھی بُنڈ کی ایک پھاڑی‬
‫اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی‬
‫سیکسی بُنڈ دیکھ کر میں تو سب کچھ‬
‫بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی‬
‫ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی‬
‫ہم ایسے ھی چلتے چلتے نہر پر پہنچ‬
‫گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر‬
‫صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں‬
‫نیچے گھاس پر رکھ دی اور بیٹھ کر‬
‫لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے‬

‫انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر‬


‫بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے‬
‫کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک‬
‫گٹھڑی کو کھوال اور اس میں سے‬
‫کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ‬
‫گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی‬
‫تھے‬

‫آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں‬


‫کے بل‪ .‬بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی‬
‫میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی‬
‫تو آنٹی کی قمیض کا گال کافی کھال تھا‬
‫اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ‬
‫دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے‬
‫سامنے کھڑا آنٹی کو کپڑے دھوتے‬
‫دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین‬
‫باقی کی گٹھڑیوں کو‬
‫کھولنے میں مصروف تھی‬

‫وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ‬


‫ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں‬
‫بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان‬
‫میری طرف نھی تھا‬
‫پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا‬
‫شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض‬
‫پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو‬
‫تھوڑا نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا‬
‫فائدہ مجھے ھوا کہ آنٹی کے مموں کے‬
‫درمیانی الئن مجھے صاف نظر آرھی‬
‫تھی اور میں اس نظارے کو دیکھ کر‬
‫بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی‬
‫جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے‬
‫بڑے بڑے ممے ذور ذور سے اچھل‬
‫کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے‬
‫کے لیے بے تاب تھے اور یہ سب دیکھ‬
‫کر میری حالت قصائی کے پھٹے کے‬
‫سامنے کھڑے ُکتے جیسی تھی‪،‬‬
‫دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس‬
‫وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط‬
‫خیال نھی تھا‬

‫بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی بُنڈ‬


‫اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا‬
‫نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے‬
‫مجھے بہت اچھا محسوس ھوتا‪،،،‬‬

‫میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا‬


‫کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا‬
‫اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے‬
‫کے لیے ُجھکی‬

‫تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری‬


‫ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے‬
‫سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت‬
‫آگے بڑھ کر آنٹی کے دونوں دودھیا‬
‫رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں‬
‫ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور‬
‫ذور سے سائکل پر لگے پاں پاں کرنے‬
‫والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا‬
‫آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے‬
‫بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ‬
‫دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا‬
‫بھی نھی پہنی ھوئی تھی شاید آتے‬
‫ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی‬
‫کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض‬
‫کے گلے کے کنارے پر اٹکے ھوے‬
‫تھے اور انکے مموں پر گول براون‬
‫دائرہ بھی نظر آرھا تھا‬

‫یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے‬


‫لگ گیا‬
‫کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس‬
‫بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ‬
‫چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ‬
‫رھا ھے اور اسکے جسم کے کون سے‬
‫عضو پر نظر کا تیر لگ رھا ھے‬

‫یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی‬


‫حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا‬
‫کر میری طرف دیکھا‬
‫میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا‬
‫ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی‬
‫ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے‬
‫اچانک آنٹی نے اپنا ایک ھاتھ اپنے‬
‫سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ‬
‫یاسر‬

‫میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور‬


‫گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں‬
‫ڈال کر بوال جی آنٹی جی‬

‫تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی‬


‫بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ‬
‫بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر‬
‫پر رھے ہیں میں شرمندہ سا سر‬
‫جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر‬
‫بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا‬
‫آنٹی کی طرف نھی دیکھا بلکہ انکی‬
‫طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف‬
‫کر کے بیٹھ گیا‬

‫کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز‬


‫آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے‬
‫لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور‬
‫کپڑوں کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیا‬
‫اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر‬
‫کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر‬
‫اس سے نیچے نھی اترا جارھا تھا‬

‫تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ کپڑے‬


‫نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر‬
‫نیچے جایا جا رھا میں جلدی سے اس‬
‫کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر‬
‫نیچے اتربے لگ گیا وہ بھی میرے‬
‫پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی‬

‫نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر‬


‫مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو‬
‫پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی‬
‫کرنے لگ گئی ایسے کرنے سے اس‬
‫کے ممے بلکہ اوپر کو ھوگئے میری‬
‫پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی‬
‫عظمی نے میری طرف دیکھا اور آنکھ‬
‫کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو‬
‫ہالتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے‬
‫میں اس کے اچانک اس اشارے سے‬
‫کنفیوز سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا‬
‫جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر‬
‫آواز دے دینی ھے‬

‫تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر‬


‫کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے‬
‫اوپر پھیالنے لگ گئی‬

‫میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا‬


‫پریشان سا ھوگیا تھا‬

‫اور منہ ھی منہ میں ماسٹر اور فرحت‬


‫کو گالیاں دینے لگ گیا‬

‫کہ‬
‫گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے‬
‫کم تے الدتا اے‬

‫چنگا پال شریف سی‬

‫تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیال‬


‫دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو‬
‫میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی‬
‫گانڈ کا نظارا کرتے کرتے جانے لگ‬
‫گیا‬
‫ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق‬
‫بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی‬
‫طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز‬
‫لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی‬

‫?????‪Update no 9....‬‬
‫اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی‬
‫میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی‬
‫کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے‬
‫بھی کافی گیلے ہو چکے تھے جس میں‬
‫سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی‬
‫اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر‬
‫آجاتا‬
‫آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی‬
‫سکنے ڈال دو میں جلدی سے‬ ‫کپڑے ُ‬
‫اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی‬
‫کو ساتھ لیے نیچے اگیا اب ہم کچھ دور‬
‫چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی‬
‫صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا‬
‫آگے مکئی کی فصل کے پاس چلے‬
‫گئے‬
‫تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا‬
‫تھا‬
‫میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی‬
‫کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور‬
‫ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے‬
‫تو میں نے عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ‬
‫کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا چلو گا‬
‫تو عظمی نے اثبات میں سر ہالیا میں‬
‫نے عظمی کو کہا کہ دیکھو یہ بات‬
‫تمہارے اور میرے درمیان میں ھی‬
‫رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ‬
‫تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی مت کرنا‬
‫عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ‬
‫رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی‬
‫میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت‬
‫گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ‬
‫رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ‬
‫پر پڑی تو میں ڈر کر بھاگ آیا ‪،،،‬‬
‫عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا‬
‫کام کررہے تھے میں پریشان سا بوال وہ‬
‫ھی گندا کام تو وہ معصومیت سے‬
‫میری طرف منہ کر کے بولی کون‬
‫ساااااااا‬
‫میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا‬
‫یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم‬
‫آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے‬
‫ھوے شرم نھی آئی تھی جو اب بتاتے‬
‫ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا‬
‫یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے‬
‫اندر گیا تھا وہ تو مجھے آنٹی فرحت‬
‫کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر‬
‫اندر دیکھنے گیا تھا کہ پتہ نھی آنٹی کو‬
‫کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر گیا تو‬
‫آنٹی فرحت اور ماسٹر جی‪،،،‬‬
‫یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی‬
‫جھنجھال کر بولی‬
‫درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی‬
‫میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے‬
‫ھوے نیچے منہ کر کے بوال‬
‫ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا‬
‫ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی‬
‫اور دونوں ایک دوسرے کی ُچمیاں لے‬
‫رھے تھے‬
‫اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے‬
‫ھی پکڑے ھوے تھے‬
‫میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا‬
‫دیا‬
‫عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے‬
‫اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ‬
‫لیا ھو‬
‫اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے منہ کے‬
‫اگے رکھ کر بولی‬
‫ھاےےےے ****** میں مرگئی‬
‫فیر‬
‫میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ‬
‫نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری‬
‫طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ‬
‫امی بال رئی اے تواڈیاں گالں ای نئی‬
‫ُمکن دیاں‬
‫میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم‬
‫کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری‬
‫بات بتاوں گا‬
‫ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی‬
‫میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے‬
‫کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے‪.‬‬
‫عظمی بھی بڑبڑاتی آگئی‬
‫کچھ دیر ہم اور نہر پر ھی رھے پھر ہم‬
‫نے سارے کپڑے سمیٹے اور اسی انداز‬
‫میں گھر کی طرف چل پڑے‬
‫راستے میں بھی کوئی خاص بات نھی‬
‫ھوئی‬
‫مگر میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا‬
‫ایسے ھی چلتے ھوے ھم گھر پہنچ‬
‫گئے‬
‫اگلے دن سکول‬
‫میں بھی کچھ خاص نھی ھوا شام کو‬
‫میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا اور‬
‫عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر‬
‫کھیت کی طرف چل پڑا کھیت میں‬
‫پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع‬
‫ھوچکے تھے ہم نے لُکم میٹی کے لیے‬
‫اپنی اپنی باریاں پُگنے لگ گئے آخر‬
‫میں‬
‫میں عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے‬
‫کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک‬
‫پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری‬
‫طرف کر کے کھڑے ھوگئے اور باقی‬
‫سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چ ُھپنے کے‬
‫لیے اِدھر اُدھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد‬
‫ایک بچے کی آواز آئی کہ‬
‫لب لو‬
‫تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے‬
‫خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے‬
‫کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے‪.‬‬
‫اور آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے کہ‬
‫کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے‬
‫ہمارے ساتھ واال لڑکا کہتا کہ یاسر تم‬
‫نہر والے بنے سے جاو عظمی درمیان‬
‫سے جاے اور میں دوسری طرف سے‬
‫جاتا ھوں‬
‫عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے‬
‫نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی‬
‫میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا‬
‫شاید وہ میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس‬
‫لیے ُچپ ھوگئی‬
‫تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا‬
‫نئی تینوں ِجن کھاندا‬
‫اور میں نے اس لڑکے کو دوسری‬
‫طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے‬
‫ھی دوسری طرف بھاگ گیا‬
‫میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے‬
‫لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر‬
‫کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل‬
‫پڑے عظمی راستے میں ھی مجھ سے‬
‫پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب‬
‫کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے‬
‫کہاں چلو کھالے کے پاس جاکر بیٹھ کر‬
‫بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہالیا‬
‫‪،،‬‬
‫تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو‬
‫اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے‬
‫پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے‬
‫کپاس کی فصل کے آخر میں چلے گئے‬
‫اس سے آگے پانی کا کھاال تھا جسکو‬
‫کراس کر کے مکئی کی فصل شروع‬
‫ھوجاتی تھی میں نے عظمی کو کھاال‬
‫کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے‬
‫ھی میں نے بھی چھالنگ لگا کر‬
‫کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا‬
‫میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے‬
‫کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے‬
‫کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی‬
‫ھوئی تھی اور بیٹھنے کے لیے بہت‬
‫اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں‬
‫بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ‪،،‬‬
‫ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک‬
‫دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے‬
‫تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے‬
‫ھوے کہا‬
‫چلو بتاو نہ اب‬
‫میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب‬
‫ھوگیا اب ھم دونوں کے گ ُھٹنے آپس‬
‫میں مل رھے تھے‬
‫میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا‬
‫تھا تو عظمی بولی‬
‫تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ‬
‫نھی آئی تھی‬
‫تو میں نے بتانا شروع کردیا‬
‫کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت‬
‫کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی‬
‫اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ‬
‫سے مسل رھے تھے اور دونوں ایک‬
‫دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے‬
‫ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے‬
‫چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی‬
‫اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی‬
‫عظمی بڑے غور سے میری بات سن‬
‫رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی‬
‫طرح سرخ ھوتا جارھا تھا‬
‫عظمی بولی پھر کیا ھوا‬
‫تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا‬
‫ناال کھول دیا تھا اور اسکی شلوار‬
‫نیچے گر گئی تھی‬
‫اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر‬
‫رکھ دیا‬
‫تو عظمی بولی کہاں‬
‫تو میں نے کہا نیچے‬
‫عظمی بولی کہاں نیچے‬
‫تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی‬
‫پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا‬
‫یہاں پر‬
‫تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی‬
‫جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض‬
‫کو ھی چھوئی تھی‬
‫عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے‬
‫میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا‬
‫میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے‬
‫ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے‬
‫رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر‬
‫نیچے بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے‬
‫میری طرف دیکھا اس دوران عظمی‬
‫بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور‬
‫بار بار اہنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی‬
‫کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے‬
‫کھینچا‬
‫تو میں ایک دم چونکا‬
‫کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی‬
‫گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے‬
‫میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے‬
‫میرے لن پر اپنا ھاتھ محسوس کر لیا‬
‫تھا‬
‫عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام‬
‫کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت‬
‫اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ‬
‫آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی‬
‫شادی کردو اب‬
‫تو میں نے کہا‬
‫میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی‬
‫ھے‬
‫اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا‬
‫اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے‬
‫ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی‬
‫سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی‬
‫بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ‬
‫چلے گا‬

‫???‪Update no... 10..‬‬

‫میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی‬


‫ُمچی ھی نہ بتا دے‬
‫میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے‬
‫ھوے کہہ دیا‬
‫کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن‬
‫میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے‬
‫پوچھا تھا تو بتا دیا‬
‫تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا‬
‫جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے‬
‫عظمی کو سالمی دے رھا تھا‬
‫عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان‬
‫ھونے کا امی کو بتاوں گی‬
‫تو میں نے گبھراتے ھوے کہا‬
‫کون جوان کونسی جوانی‬
‫تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر‬
‫تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی‬
‫یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ‬
‫نکلی‬
‫اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے‬
‫میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی‬
‫مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی‬
‫ڈرامائی انداز میں بوال‬
‫ھاےےےےے میں مرگیا افففففف‬
‫عظمی نے ایک نظر پیچھے میری‬
‫طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی‬
‫مزا آیا‬
‫اور کھاال پھالنگ کر دوسری طرف‬
‫چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے‬
‫بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے‬
‫مزا آتا ھے‬
‫مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے‬
‫گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع‬
‫کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور‬
‫جاکر پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ‬
‫لیا‬
‫میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول‬
‫پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک‬
‫گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے‬
‫پیٹ پر تھے عظمی ہنستے ھوے بولی‬
‫چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی‬
‫کو بتاوں گی‬
‫میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا‬
‫اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر‬
‫سر اٹھا لیا اور عظمی کی بُنڈ کی دراڑ‬
‫میں گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا‬
‫عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی بُنڈ پر‬
‫محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ‬
‫مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے‬
‫ُچھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی‬
‫مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے‬
‫چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا‬
‫عظمی کو جب یہ احساس ھوگیا کہ‬
‫ایسے ذور آزمائی سے جان نھی‬
‫چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے‬
‫لگ گئی جب عظمی آگے کو ُجھک کر‬
‫نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا‬
‫لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں‬
‫کو اندر کی طرف دھکیل چکا تھا‬
‫اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری‬
‫کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے‬
‫دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے‬
‫ھوے اسکے دونوں مموں پر آگئے‬
‫عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا‬
‫پڑا‬
‫عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی‬
‫میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک‬
‫جھٹکا سا لگا‬
‫اور میں نے عظمی کے دونوں مموں‬
‫کو اپنی ُمٹھیوں میں بھر لیا‬
‫عظمی کو جب میری اس کاروائی کا‬
‫احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع‬
‫کردیا‬
‫اور روتے ھوے غصے سے بولی‬
‫چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم‬
‫میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو‬
‫عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی‬
‫دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا‬
‫عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر‬
‫اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ‬
‫کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر‬
‫رونے لگ گئ‬
‫میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر‬
‫گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ‬
‫یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو‬
‫خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے‬
‫کبھی ایسے غصہ کیا ھے‬
‫چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو‬
‫عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ‬
‫ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ‬
‫تو میں بھی غصے سے اسے وھیں‬
‫چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ‬
‫ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر‬
‫دیکھا تو عظمی بھی سر نیچے کئے‬
‫آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی‬

‫دوستو کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں‬


‫بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر‬
‫نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی‬
‫ھی شکایت نہ لگا دی ھو‬
‫مگر ایسا کچھ نھی ھوا‪،‬‬
‫ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ‬
‫فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب‬
‫کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے‬
‫گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر‬
‫جی کو سالم کیا‬
‫جب فرحت میرے پاس سے گزری تو‬
‫اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی‬
‫جیسے ابھی نہا کر آئی ھو‬
‫فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے‬
‫چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور‬
‫ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ‬
‫فرحت کے سالم کا جواب دیا اور بڑے‬
‫انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا‬
‫میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی‬
‫عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی‬
‫طرف آنکھ سے اشارا کیا‬
‫تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے‬
‫ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور‬
‫کر بولی دفعہ ھو ے‬
‫فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک‬
‫مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے‬
‫پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر‬
‫آرھی تھی‬
‫ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت‬
‫کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی‬
‫تھی‬
‫وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں‬
‫کررھے تھے‬
‫اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی‬
‫کبھی نہ نہ میں سر ہالتی ایک دفعہ تو‬
‫اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا‬
‫میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی‬
‫بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر‬
‫میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی‬
‫لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی‬
‫باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے‬
‫لگا‬
‫کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز‬
‫دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور‬
‫سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا‬
‫ماسٹر جی نے کرسی پر ھی بیٹھے‬
‫ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائیًں طرف‬
‫کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی‬
‫کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگا کر‬
‫کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں‬
‫فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا‬
‫بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب‬
‫اتار دیا تھا‬
‫میری جب نظر فرحت پر پڑی‬
‫میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا‬
‫کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی‬
‫فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی‬
‫رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر‬
‫آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر‬
‫سرخ رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت‬
‫ھی سوٹ کررھی تھی‬
‫ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ‬
‫فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر‬
‫دیکھا ھوتا تو وہ الزمی میری طرف‬
‫دیکھتی یا پھر کوئی ایسا ردعمل ظاہر‬
‫کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ‬
‫اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو‬
‫مجھے بلکل نظرانداز کر کے ماسٹر‬
‫جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی‬
‫جیسے مجھے جانتی ھی نھی‬
‫???‪Update no 11.....‬‬

‫میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے‬


‫چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا‬
‫ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر‬
‫پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کالس‬
‫میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں‬
‫کرنے لگ گیا‪،،‬‬
‫دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں‬
‫کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے‬
‫جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر‬
‫ذیادہ تر سکول میں ایک وقت میں ایک‬
‫ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو‬
‫دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور‬
‫میں گاوں کے سکولوں پر اتنی توجہ‬
‫نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس‬
‫ھی کرنے آتے تھے‬
‫اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر‬
‫اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے‬
‫گپ شپ لگا رھے تھے‬
‫جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے‬
‫تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی‬
‫طرف نھی تھی اگر میں نے انکی‬
‫کرتوت کو دیکھا نہ ھوتا تو شاید میں‬
‫بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا‪،‬‬
‫ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں‬
‫مسلسل مست تھے‬
‫میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی‬
‫ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج‬
‫پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام‬
‫کریں گے‬
‫اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں‬
‫چلیں گے دیکھنے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں‬
‫گا نال مینوں وی مروائیں گا‬
‫میں نے کہا یار ُکش نئی ہوندا‬
‫تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی‬
‫جانا‬
‫ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت‬
‫جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب‬
‫کر لیا اور ماسٹر جی کو سالم کر کے‬
‫واپس جانے لگی فرحت جیسے ھی‬
‫میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر‬
‫اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی‬
‫خوشبو آئی اور میں بھی ناک کو سکیڑ‬
‫کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا‬

‫دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا‬


‫ھوں کہ کمرے ہماری کالس کی مخالف‬
‫سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف‬
‫تھی اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے‬
‫والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے‬
‫ھوتی ھوئی ہماری کالس کی طرف آتی‬
‫تھی اگر کوئی سڑک کے راستے سے‬
‫باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے‬
‫سے گزر کر واپس جاتا‬

‫فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن‬


‫بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک‬
‫چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا‬
‫اور میرا پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی‬
‫طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر‬
‫گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت‬
‫دفتر والے کمرے میں داخل ھوتی نظر‬
‫آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما‬
‫لیا ایسا بس‬
‫دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا‬
‫اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے‬
‫پاس جا پہنچا‪،‬‬
‫ماسٹر جی بولے‬
‫تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی‬
‫پُھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے‪،‬‬
‫میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے‬
‫کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے‬
‫دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی‬
‫جلدی ایک نظر چند ورقوں پر ماری‬
‫اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو‬
‫کہنے لگے‬
‫میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے‬
‫جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے‬
‫تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور‬
‫خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے‬
‫کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی‬
‫میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی‬
‫جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا‬
‫اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی‬
‫جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے‬
‫مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی‬
‫کرواتے ہوے کمرے کی طرف چل‬
‫پڑے‬
‫مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی کے سر‬
‫میں نھی بلکہ لن میں درد ھے‬
‫‪،،‬‬
‫ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا‬
‫دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی‬
‫کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور‬
‫ساتھ پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ‪،‬‬
‫کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی‬
‫کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے‬
‫سر ہالتے کمرے کی طرف متوجہ کیا‬
‫تو عظمی نے برا سا منہ بنا کر مجھے‬
‫گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب‬
‫کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک‬
‫کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی‬
‫میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور‬
‫شوخی سے دستہ مجھے پکڑایا‬
‫میں نے عظمی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے‬
‫کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے‬
‫تو آجانا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ‬
‫لینا‬
‫عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے‬
‫گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم‬
‫نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو‬
‫عظمی غصے سے مجھے گھورتے‬
‫ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر‬
‫آیا وڈا شریف ذادہ‬
‫میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے‬
‫واپس دے دیا‬
‫پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک‬
‫کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی‬
‫تو میں بھی جاوں گا‬
‫تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق‬
‫نھی‬
‫اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو‬
‫سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر‬
‫سے بھی‬
‫تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو‬

‫میں ہوں نہ تمہارے ساتھ‬


‫تو عظمی بڑی شوخی سے بولی‬
‫وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان‬
‫تو میں نے بھی فوری جواب دیتے‬
‫ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس‬
‫پہلوان کو تو عظمی بولی‬
‫کی مطلب اے تیرا‬
‫تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے‬
‫ھوے کہا‬
‫میرا مطلب کہ ُکشتی کر کے دیکھ لینا‬
‫تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے‬
‫ورگے‬

‫میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے‬


‫پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف‬
‫آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار‬
‫کروں گا ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ‬
‫کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا‬
‫بازو پکڑ لیا ‪،‬‬
‫اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ‬
‫رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے‬
‫ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے‬
‫کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر‬
‫میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں‬
‫کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی‬
‫دیوار کی اوٹ سے کالس کی طرف‬
‫دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی‬
‫دیکھائی دی‪،‬‬
‫کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس‬
‫پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا‬
‫اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے‬
‫پاس آگیا اور یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ‬
‫ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے‬
‫پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ‬
‫ابھی دفتر میں ھی ہیں تو میں نے‬
‫کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز‬
‫سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں‬
‫اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر ہاتھ‬
‫پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے‬
‫پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف‬
‫دروازے کے پاس پہنچ گیا‬
‫عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا‬
‫رھا ھے‬
‫میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر‬
‫کالس کی طرف دیکھا تو سب بچے‬
‫دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان‬
‫میں لگے ھوے تھے‬

‫میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے‬


‫عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا‬
‫اور آہستہ سے دروازہ کھوال اور دونوں‬
‫اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی‬
‫اندر سے ُکنڈی نھی تھی صرف باہر‬
‫ھی ُکنڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل‬
‫ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے‬
‫دروازہ بند کردیا‬
‫دوستو‬
‫دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے‬
‫کی وجہ سے اندھیرا سا تھا‬
‫بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی‬
‫ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی‬
‫روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ‬
‫ہم دوسری طرف آسانی سے دیکھ‬
‫سکتے تھے اور دوسری طرف والے‬
‫ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے‬
‫میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے‬
‫پاس جا پہنچا‬
‫میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا‬
‫تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو‬
‫چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس‬
‫کے اوپر لیٹ کر فرحت کے ہونٹ‬
‫چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ‬
‫فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا‬
‫لن فرحت کی پھدی کے ساتھ چپکا ھوا‬
‫تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے‬
‫سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر‬
‫جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے‬
‫ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہال ہال کر اپنا لن‬
‫فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے‬
‫تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں‬
‫بازو ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر‬
‫زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی‬

‫عظمی نے مجھے کندھے سے ہالیا تو‬


‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی‬
‫نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا‬
‫پوچھا تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا‬
‫اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا‬

‫عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو‬


‫اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے‬
‫ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے‬
‫ساتھ رگڑ کھا گئی‬
‫اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے‬
‫کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے‬
‫لگ گئی‬

‫میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا‬


‫اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری‬
‫نکر پر آگیا‬

‫مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ‬


‫نکال دے‬
‫میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے‬
‫کی جگہ تالش کرنے لگ گیا تو مجھے‬
‫ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا‬
‫ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا‬
‫باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا‬
‫شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم‬
‫دونوں آسانی سے ایک دوسرے کے‬
‫پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ‬
‫سکتے تھے‬

‫میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے‬


‫عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا‬
‫اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا‬

‫الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس‬


‫میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ‬
‫خانے خالی تھی اور سوراخ واال خانہ‬
‫بھی خالی تھا‬

‫سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی‬


‫کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی‬
‫گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا‬
‫سا نیچے جھک کر اپنے دونوں ھاتھ‬
‫خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی‬
‫طرف دیکھنے لگ گئی‬

‫میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر‬


‫جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر‬
‫رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا‬

‫عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا‬


‫اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا‬
‫ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے مالئم تھا‬
‫میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ‬
‫کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی‬
‫تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے‬
‫اسکا بازو دبا کر اسے کھڑے رھنے کا‬
‫کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی‪،‬‬

‫اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر‬


‫سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے‬
‫جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی‬
‫ھوئی تھی ماسٹر جی سائڈ سے اسکے‬
‫ساتھ لیٹے ھوے تھے‬
‫ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت‬
‫کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر‬
‫رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت‬
‫کا مما دبا رھے تھے‬

‫فرحت بھی فُل مزے میں تھی اس نے‬


‫اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے‬
‫دائیں بائیں کر کے چارپائی کے‬
‫سرھانے کی طرف لگے لوہے کے‬
‫پائپ کو پکڑا ھوا تھا‬
‫ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر‬
‫لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم‬
‫کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ‬
‫ھی رہ گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری‬
‫لپسٹک ماسٹر جی کھا ُچکے تھے‬

‫پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا‬


‫اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے‬
‫پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی‬
‫کی لمبی زبان فرحت کہ گلے پر‬
‫رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی‬
‫کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک‬
‫آتی فرحت بھی زبان کے لمس کو‬
‫برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم‬
‫کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو‬
‫مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی‬
‫سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے‬
‫فرحت سسییییی افففففف امممممم کی‬
‫آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے‬
‫ایسے ھی زبان کو پھیرتے پھیرتے‬
‫زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا‬
‫جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت‬
‫کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو فرحت‬
‫ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ‬
‫لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا‬
‫اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر‬
‫کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی‬
‫اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی‬
‫کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا مالپ‬
‫کرانے لگ گئی‬
‫ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی ‪.‬‬
‫طرح اپنے حربے استعمال کررھے‬
‫تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر‬
‫میں پھس چکی تھی‬

‫ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی‬


‫کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی‬
‫بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ‬
‫کر زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے‬
‫سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی‬
‫اوپر سے نیچے تک لے آتے‬

‫پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ‬


‫میں ڈاال اور نکال کر کان کے اندر‬

‫ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی‬


‫تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی‬

‫ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ‬


‫پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر‬
‫کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی‬
‫اور پھر ھاتھ کو اگے الکر آگے سے‬
‫قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے‬
‫گئے فرحت کے مموں پر قمیض‬
‫تھوڑی سی پھنسی تھی مگر ماسٹر جی‬
‫نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے‬
‫دایاں مما باھر نکاال بھر بایاں اور‬
‫قمیض کندھوں تک لے گئے‬

‫اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے‬


‫رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید‬
‫ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے‬
‫اپنا ھاتھ برا میں ڈاال اور ایک ممے کو‬
‫آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو‬
‫دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما‬
‫بھی بریزئیر سے نکال دیا۔۔۔‬

‫فرحت کے گورے گورے موٹے ممے‬


‫دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا‬
‫میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی‬
‫کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں سمیت‬
‫گھسا ھوا تھا‬

‫میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ‬


‫میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی‬
‫گانڈ کو پیچھے سے ہال رھی تھی‬
‫عظمی کہ جزبات کو دیکھ کر اور‬
‫ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی‬
‫حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ آگے کر کے عظمی کے‬
‫مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ‬
‫دیے‬

‫عظمی نے گردن گھما کر میری طرف‬


‫ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف‬
‫دیکھنے لگ گئی‬

‫عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں‬


‫کر رھی تھی‪ ،‬میں نے آہستہ آہستہ‬
‫مموں کو دبانا شروع کردیا‬

‫عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا‬


‫اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے‬
‫ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں‬
‫مموں کو دباتا عظمی بھی ویسے ھی‬
‫میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی‬

‫اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا‬


‫جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم‬
‫ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا‬
‫دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ‬
‫میں پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ‬
‫دبانے لگ گئی‬

‫دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے‬


‫کر فرحت کے دونوں مموں کو باری‬
‫باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی‬
‫مموں کے تنے ھوے نپلوں پر گوالئی‬
‫کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی‬
‫سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے‬
‫اور کبھی ممے کو منہ میں بھر کر‬
‫ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس‬
‫سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے‬
‫بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی اور‬
‫منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند‬
‫کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی‬
‫اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر‬
‫جی تقریبا ً دس منٹ تک دودہ کے پیالوں‬
‫کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی‬
‫کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے‬
‫تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے‬
‫ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے‬

‫ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو‬


‫چھوڑا اور مموں کے درمیان الئن میں‬
‫زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے‬
‫اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے‬
‫ماسٹر جی ُکتے کی طرح زبان کو پیٹ‬
‫پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے‬
‫پیٹ پر شہد لگا ھو‬

‫ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف‬


‫کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی‬
‫نوک سے‬

‫ناف کے سوراخ کے چاروں طرف‬


‫پھیرنے لگے‬
‫جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے‬
‫میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی‬
‫کی طرح تڑپنے لگ جاتی‬

‫۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر ُگھٹنوں‬


‫کے بل بیٹھ گئے‬

‫ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر ُگھٹنوں‬


‫کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض‬
‫اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت‬
‫کا ناال کھوال اسی دوران فرحت نے‬
‫شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے‬
‫شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے‬
‫ُگھٹنوں تک کی اور پھر باری باری‬
‫دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر‬
‫نیچے پھینک دی‬

‫ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو‬


‫بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی‬
‫ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے‬
‫منہ میں پانی آگیا‬

‫ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی‬


‫لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی‬
‫پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی‬
‫طرح دانے کو چاٹنے لگ گئے‬

‫جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی‬


‫کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ‬
‫چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور‬
‫اس نے ھاےےےےےےےے میں گئی‬
‫کہ آواز نکالی‬

‫تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں‬


‫سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو‬
‫چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر‬
‫نہ اٹھے‬

‫ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی‬


‫کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر‬
‫ُکتے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ‬
‫گئے‬

‫فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی‬


‫اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے‬
‫دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی‬
‫کی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ‬
‫رھی تھی‬

‫اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو‬


‫دیکھانے میں مصروف تھی‬

‫اِدھر عظمی مسلسل میرا لن دباے‬


‫جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا‬
‫رھا تھا‬

‫مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا‬


‫یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے‬
‫کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا‬
‫ہاتھ عظمی کی شلوار میں گھسا دیا اور‬
‫اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی‬
‫اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے‬
‫لگ گیا‬

‫عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے‬


‫جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں‬
‫مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا‬
‫تھا عظمی نے میرا لن چھوڑ کر اپنی‬
‫پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ‬
‫کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد‬
‫ھوتے ھی دوبارا عظمی کی گانڈ میں‬
‫گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا‬
‫تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ‬
‫رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی پھدی‬
‫پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی‬
‫کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں‬
‫آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے‬
‫تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے‬
‫لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے‬
‫لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو‬
‫دبانے لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے‬
‫لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل‬
‫پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا‬
‫میرا لن عظمی کی موٹی گانڈ کے دراڑ‬
‫میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو‬
‫زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ‬
‫لیا اور ساتھ ھی اپنی ٹانگوں کو میرے‬
‫ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک‬
‫محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ‬
‫میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی‬
‫ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے‬

‫میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی‬


‫ِلیک کر رھی تھی‬

‫ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام َچک کے‬


‫رکھا ھوا تھا‬

‫ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا‬


‫مالئی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی‬
‫چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی‬
‫چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی‬
‫کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے‬
‫کر رھے تھے کہ‬

‫اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع‬


‫ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا‬
‫اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور‬
‫پانی سے ملی جلی پھوار نکلی جو‬
‫سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور‬
‫باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر‬
‫جی کا منہ فرحت کی منی اور پانی سے‬
‫بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل‬
‫خراب ھونے لگ گیا‬

‫اور عظمی نے جب یہ سب کچھ دیکھا‬


‫تو اس نے ایکدم اپنے منہ پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوے‬

‫ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی‬


‫نکل کر کچھ اسکے ہاتھ پر اور کچھ‬
‫سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے‬
‫اس نے کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر‬
‫جی اور فرحت نے بھی سن لی‬

‫ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور‬


‫چھالنگ مار کر چارپائی سے نیچے‬
‫اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولے کون ھے‪،،،‬‬
‫کون ھے‬
‫میرے تو ایکدم سے پاوں تلے سے‬
‫زمین ھی نکل گئی میں نے عظمی کو‬
‫بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف‬
‫دوڑ لگا دی اور جلدی سے باہر نکلے‬
‫اور جیسے ھی میری سامنے نظر پڑی‬
‫تو‪،،،،،،،،،،،‬‬

‫میں نے باہر نکلتے ھی دروازہ آہستہ‬


‫سے بند کیا اور سامنے کالس کہ طرف‬
‫دیکھا تو سب بچے اپنی اپنی گپوں میں‬
‫مصروف تھے میں نے عظمی کو کہا‬
‫کہ تم جلدی سے کالس کی طرف جاو‬
‫میں کمروں کے پیچھے سے ھو کر آتا‬
‫ھوں عظمی ابھی بھی ہلکا ہلکا کھانس‬
‫رھی تھی میں اسے دروازے پر ھی‬
‫چھوڑ کر کمروں کے پیچھے واش روم‬
‫کی طرف بھاگ گیا اور جلدی سے واش‬
‫روم میں داخل ھوگیا پیشاب کر کے میں‬
‫باہر نکال اور دوبارا کھڑکی کے پاس‬
‫جاکر کان لگا کر اندر کے حاالت معلوم‬
‫کرنے لگ گیا‬
‫ڈر کے مارے میرا بھی برا حال تھا اور‬
‫یہ سوچ سوچ کر میرا دل حلق کو آنے‬
‫واال ھوگیا تھا کہ اگر ماسٹر جی کو پتہ‬
‫چل گیا کہ ہم دونوں ھی کمرے میں‬
‫تھے تو ماسٹر جی نے تو ہمیں چھوڑنا‬
‫ھی نھی مار مار برا حال کردینا ھے‬
‫اور بدنامی الگ سے ہونی ھے‬

‫میں بڑے غور سے اندر کی سچویشن‬


‫معلوم کرنے کے لیے دھیان اندر کی‬
‫طرف کیے کھڑا تھا تبھی ماسٹر جی‬
‫کی آواز آئی کوئی بھی نھی ھے یار تم‬
‫ایسے ڈر رھی ھو‬
‫تو فرحت بولی تم پاگل تو نھی ھوگئے‬
‫میں نے خود کسی لڑکی کے کھانسنے‬
‫کی آواز سنی ھے تم کہہ رھے ھو‬
‫کوئی نھی ھے تب ماسٹر جی کی آواز‬
‫آئی کہ یار میں دفتر میں دیکھ کر آیا‬
‫ھوں کوئی بھی نھی ھے اور دروازہ‬
‫بھی ویسے ھی بند ھے اگر کوئی اندر‬
‫سے باہر جاتا تو الزمی دروازہ کھال‬
‫ھوتا یا دروازہ کھلنے یا بند ھونے کی‬
‫آواز آتی میں تسلی کرکے آیا ھوں‬
‫تو فرحت کی آواز آئی ماسٹر جی‬
‫مینوں جان دیو ******دی قسمیں میرا‬
‫دل پھڑکی جاندا پیا اے‬
‫مینوں بڑا ڈر لگ ریا اے‬
‫ماسٹر جی پھر منت کرتے ھوے بولے‬
‫یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا‬
‫مجھے اپنی عزت کا خیال نھی تم کیوں‬
‫پریشان ھورھی ھو‬
‫شاید کوئی بچی ادھر سے گزری ھو‬
‫اس کے کھانسنے کی آواز میں نے بھی‬
‫سنی تھی مگر‬
‫میں دفتر میں دیکھ کر ایا ھوں کوئی‬
‫بھی نھی ھے‬
‫میں نے ان دونوں کی آواز سنی تو‬
‫سکون کا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ‬
‫بچ گئے‬
‫تبھی فرحت کی آواز آئی‬
‫نہ کرو ماسٹر جی اب مجھے جانے دو‬
‫بہت دیر ھوگئی ھے اب میرا دل نھی‬
‫کررھا اتنا کچھ تو کر لیا اب کوئی کسر‬
‫رھ گئی ھے‬
‫اور پھر کمرے میں خاموشی ھوگئی‬

‫میں نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ‬


‫کھڑکی کے بنیرے پر رکھے اور اپنے‬
‫دونوں پاوں دیوار کے ساتھ لگا کر‬
‫جمپ مار کر کھڑکی کے اندر دیکھا تو‬
‫ماسٹر جی پھر فرحت کو جپھی ڈالے‬
‫اس کے ہونٹ چوس رھے تھے‬
‫میں کچھ سیکنڈ ھی ایسے اوپر رھ سکا‬
‫اور میرے پاوں دیوار سے پھسلتے‬
‫ھوے واپس زمین پر آگئے‬

‫میں نے دو تین ٹرائیاں ماری مگر مجھ‬


‫سے اوپر نھی ھوا گیا‬
‫میں اب سوچ میں پڑ گیا کہ اندر کا‬
‫نظارا کیسے دیکھوں‬
‫کیوں کہ میں دوبارا اندر کمرے میں‬
‫جانے کا رسک نھی لے سکتا تھا‬

‫اچانک میری نظر سکول کی بیرونی‬


‫دیوار پر پڑی جس کی کافی ساری‬
‫اینٹیں نیچے گری ہوئی تھی میں جلدی‬
‫سے دیوار کی طرف گیا اور وہاں بیٹھ‬
‫کر چھ سات اینٹوں کو اوپر نیچے جوڑ‬
‫کر اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے آیا اور‬
‫آرام سے نیچے رکھ دی اور انکو دیوار‬
‫کے ساتھ چوکڑی بنا کر جوڑ دیں میں‬
‫نے اینٹوں کے اوپر چڑھ کر اندر‬
‫دیکھنے کی کوشش کی مگر تھوڑا سا‬
‫فرق بچا‬
‫میں جلدی سے پھر دیوار کے پاس گیا‬
‫اور مزید اینٹیں اٹھا کر لے آیا اور ان‬
‫اینٹوں کے اوپر ساری اینٹیں جوڑ دی‬
‫اب کافی اونچی چوکڑی بن چکی تھی‬
‫میں نے ایک ھاتھ کھڑکی کی بنی پر‬
‫رکھا اور جمپ مار کر اینٹوں کی‬
‫چوکڑی کے اوپر چڑھ گیا‪،‬‬
‫اب میں آسانی سے اندر کا سارا نظارہ‬
‫دیکھ سکتا تھا‬
‫‪،،،‬‬
‫ماسٹر جی نے فرحت کھڑے کھڑے‬
‫فرحت کی قمیض اوپر کی ھوئی تھی‬
‫اور نیچے ھوکر اسکے ممے چوس‬
‫رھے تھے فرحت بھی اب سکون سے‬
‫اہنے ممے چسوا رھی تھی ماسٹر جی‬
‫نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی گانڈ کے‬
‫پیچھے رکھے ھوے تھے اور گانڈ کی‬
‫دونوں پھاڑیوں کو پکڑ کر دبا رھے‬
‫تھے‬
‫ماسٹر جی اپنا لن فرحت کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان پھنسا کہ گھسے مار رھے تھے‬
‫فرحت کی دونوں آنکھیں بند تھی اور‬
‫ماسٹر کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈال‬
‫کر ہاتھ ماسٹر جی کی کمر پر پھیر‬
‫رھی تھی‬
‫‪،،‬‬
‫استاد جی یہ منظر دیکھ کر میرا لن پھر‬
‫تن گیا اور میں اپنے لن کو مسلنے لگ‬
‫گیا‬
‫ماسٹر جی نے ایک ھاتھ فرحت کی گانڈ‬
‫سے ہٹایا اور آگے ال کر اسکا ناال کھول‬
‫دیا ناال کھلتے ھی فرحت کی شلوار‬
‫اسکی پاوں میں گر گئی اور ماسٹر جی‬
‫نے اپنا ھاتھ فرحت کی پھدی پر رکھ‬
‫کر پھدی کو مسلنے لگ گیا اور ساتھ‬
‫ساتھ اس کا مما بھی چوسنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض‬
‫جو پہلے ھی اسکے کندھوں تک تھی‬
‫اسکو اتارنے کی کوشش کی مگر‬
‫فرحت نے منع کردیا کہ اگر کوئی آگیا‬
‫تو اتنی جلدی میں قمیض نھی پہن‬
‫سکوں گی‬
‫ماسٹر جی نے بھی ذیادہ اصرار نھی کیا‬
‫اور اپنی قمیض اتار دی اور فرحت کو‬
‫چارپائی پر لٹا دیا اب فرحت بلکل ننگی‬
‫چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی اور اس نے‬
‫دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے پھدی کو‬
‫چھپانے کی کوشش کررھی تھی قمیض‬
‫ویسے ھی اس کے گلے تک تھی‬
‫فرحت کے ممے بلکل کنواری لڑکی‬
‫کی طرح تنے ھوے تھے اور مموں پر‬
‫ہلکے بروان کلر کے نپل بھی تنے‬
‫ھوے تھے فرحت کا جسم دیکھ کر‬
‫کوئی کہہ نھی سکتا تھا کہ اسکا دس‬
‫سال کا بیٹا بھی ھے‬
‫لیٹنے کی وجہ سے اسکا پیٹ بھی بلکل‬
‫ساتھ لگا ھوا تھا فرحت کی ٹانگوں پر‬
‫بال بھی نہ ھونے کے برابر تھے شاید‬
‫گولڈن کلر کے بال تھے جو دور سے‬
‫مجھے نظر نھی آرھے تھے لگ ایسے‬
‫رھا تھا جیسے اس نے ویکس کی ھوئی‬
‫ھے جبکہ اس دور میں ویکس وغیرہ کا‬
‫تصور بھی نھی کیا جاتا تھا بس بال‬
‫صفا پوڈر ھوتا تھا جس سے پھدی کی‬
‫بال صاف کیے جاتے تھے‬
‫فرحت کا چہرے کا رنگ تو سفید تھا‬
‫ھی مگر اسکے جسم کا کلر کسی‬
‫کشمیری بٹنی سے کم نھی تھا‬
‫میرا دور سے دیکھ کر ھی برا حال‬
‫ھوئی جا رھا تھا تو سوچیں جو اس کے‬
‫جسم کے ساتھ مستیاں کررھا تھا اسکا‬
‫کیا حال ھوگا‬
‫ماسٹر جی فرحت کو لٹا کر چارپائی‬
‫کے پاس کھڑے ھوگئے اور اپنی شلوار‬
‫کا ناال کھوال اور شلوار اتار دی‬
‫جیسے ھی ماسٹر جی کی شلوار اتری‬
‫تو ماسٹر جی کا شیش ناگ لہراتا ھوا‬
‫سامنے کھڑا تھا‬
‫ماسٹر جی کا لوڑا تھا کہ‬
‫کھوتے کا لن‬
‫ماسٹر جی کا لن دیکھتے ھی میرے منہ‬
‫سے بےساختہ نکال‬
‫او تواڈی پین نوں ایڈا وڈا لن اففففف‬

‫فرحت کا جب دھیان ماسٹر جی کے لن‬


‫کی طرف گیا تو فرحت کی آنکھوں میں‬
‫عجیب سی چمک آئی اور اسکا منہ‬
‫کھلے کا کھال رھ گیا ماسٹر جی نے‬
‫اپنے لن کے پھولے ھوے ٹوپے پر ہاتھ‬
‫پھیرا اور فرحت کے منہ کی طرف‪ .‬لن‬
‫کو کر کے اسکے قریب ھوگئے‬
‫فرحت ایک دم گبھرا گئی اور منہ‬
‫دوسری طرف کر لیا‬
‫ماسٹر نے فرحت کے سر کو پکڑ کر‬
‫اپنے لن کی طرف کیا اور لن کو ھاتھ‬
‫میں پکڑ کر فرحت کے ہونٹوں پر‬
‫مارنے لگ گئے فرحت نے ھاتھ اپنے‬
‫ھونٹوں پر رکھتے ھو ے نھی میں سر‬
‫ہالیا‬
‫تو ماسٹر جی نے فرحت کا ھاتھ اسکے‬
‫منہ سے علیحدہ کرتے ھوے کہا یار‬
‫بس تھوڑا سا پیار کردو‬
‫تو فرحت بولی‬
‫میں نے یہ گندہ کام کبھی نھی کیا‬
‫اے تے ہے وی ایڈا وڈا تے اینا موٹا نہ‬
‫بابا میرے منہ وچ نئی آنا‬
‫ماسٹر جی نے پھر منت کرتے ھوے‬
‫کہا‬
‫یار بس ایک پوری کردو اور لن کی‬
‫ٹوپی کو فرحت کے ہونٹوں پر رکھ دیا‬
‫فرحت نے برا سا منہ بنا کر دو تین‬
‫ُچمیاں ٹوپے پر لے لیں اور ھاتھ سے‬
‫بس کا اشارہ کردیا‬
‫مگر ماسٹر جی کہاں باز آنے والے‬
‫تھے ماسٹر جی نے پھر سے منتیں‬
‫کردی کہ بس تھوڑا سا منہ میں ڈال لو‬
‫تو فرحت نھی نھی کرتی رھی مگر‬
‫ماسٹر جی نے لن کو اسکے منہ پر رکھ‬
‫کر ہلکا سا پُش کیا تو ٹوپے کی دباو‬
‫سے مجبورا ً فرحت کو منہ کھولنا پڑا‬
‫اور فرحت نے بڑا سا منہ کھول کر‬
‫صرف ٹوپا ھی منہ میں لیا اور تھوڑا‬
‫سا چوس کر باہر نکال دیا اور الٹی‬
‫کرنے کے سٹائل سے چارپائی کے‬
‫سائڈ پر ھوکر نیچے تھوکنے لگ گئی‬
‫اور کھانسنے لگ گئی‬
‫اور کھانسے ھوے بولی میرا سانس ھی‬
‫بند کردیا اینا موٹا لن اے‬
‫ماسٹر جی بولے‪ .‬یار ابھی تو صرف‬
‫ٹوپا ھی اندر کیا تھا اور تم اسے کرنے‬
‫لگ گئی ھو ماسٹر جی نے پھر لن‬
‫فرحت کے ہونٹوں پر پھیرا اور اسے‬
‫منہ کھولنے کو کہا تو فرحت نے آآآ کر‬
‫کے منہ کھول دیا اور ماسٹر جی نے‬
‫ایکدم کافی سارا لن اسکے منہ میں‬
‫ٹھونس دیا اور ساتھ ھے اسکے سر کو‬
‫مضبوطی سے اس انداز میں پکڑ لیا‬
‫کے فرحت اپنا سر پیچھے کر کے لوڑا‬
‫منہ سے نہ نکال لے‪ .‬اور ماسٹر جی‬
‫ساتھ ھی گھسے مارنے لگ گئے‬

‫فرحت کی منہ میں آدھے سے بھی کم‬


‫لن گیا ھوا تھا‬
‫مگر فرحت کا منہ پھوال ھوا تھا اور اس‬
‫کے منہ سے غوں غوں غوں کی‬
‫آوازیں آرھی تھی ایکدم فرحت کی‬
‫آنکھیں باہر کو آنے لگ گئی اور‬
‫انکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا اور‬
‫ذور لگا کر ماسٹر سے اپنا سر‬
‫چھڑوانے لگ گئی‬
‫آخر کار ماسٹر جی کو بھی بیچاری پر‬
‫ترس آگیا اور لن کو اسکے منہ سے‬
‫نکال دیا‬
‫لن نکلتے ھی فرحت زور زور سے‬
‫کھانستے ھوے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنا‬
‫ھاتھ گلے پر پھیرتی ھوئی لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گئی‬
‫ماسٹر جی جلدی سے اسکے پاس بیٹھ‬
‫گئے اور اس سے معافی مانگنے لگ‬
‫گئے‬
‫تو فرحت بولی تم نے مجھے جانور‬
‫سمجھ رکھا ھے ایسے بھی کوئی کرتا‬
‫ھے حد ھے تمہاری میرا سانس بند‬
‫ھونے لگا تھا اور تمہیں اپنے مزے کی‬
‫پڑی ھوئی تھی‬
‫میں جارھی ھوں میں نے نھی کچھ‬
‫کروانا‬
‫تو ماسٹر جی شرمندہ سے گبھراے‬
‫ھوے بولے کہ یار غلطی ھوگئی‬
‫اچھا لیٹو اب نھی کرتا‬
‫فرحت کہنے لگی میں لیٹوں گی تو ھی‬
‫کچھ کرو گے چھوڑو مجھے جانے دو‬

‫ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ اتنی‬


‫خواری کے بعد بھی شکار ہاتھ سے‬
‫نکل رھا ھے تو ماسٹر جی نے جلدی‬
‫سے پینترا پلٹا اور مسکے لگانا شروع‬
‫ھوگئی‬
‫کہ یار تم خوبصورت ھی اتنی ھو‬
‫کنواری لڑکی سے بڑھ کر تمہارا جسم‬
‫ھے اتنے پیارے ہونٹ ہیں کہ مجھ سے‬
‫رھا نھی گیا‬
‫میں نے بھی تمہاری پھدی کو زبان سے‬
‫چاٹا ھے‬
‫کیا کمال کی چیز ھو تم لگتا ھی نھی کہ‬
‫تم شادی شدہ ھو اور ایک بچے کی ماں‬
‫ھو‬

‫میں کیا کروں مجھے سمجھ ھی نھی‬


‫آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں‬

‫عورت کی سب سے بڑی کمزوری‬


‫اسکی تعریف ھے اور ماسٹر جی کا‬
‫حربہ کامیاب ھوگیا اور ماسٹر جی نے‬
‫تعریف کرتے کرتے فرحت کو پھر چار‬
‫پائی پر لٹا کر اسکے اوپر آگئے‬
‫ماسٹر جی نے اوپر آتے ھی کچھ دیر‬
‫فرحت کے مموں کو باری باری چوسا‬
‫اور ایک ھاتھ سے پھدی کو مسال تو‬
‫فرحت پھر گرم ھوگئی‬
‫ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور‬
‫فرحت کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر‬
‫اوپر کیا اور اپنے لوڑے کے موٹے‬
‫ٹوپے کو فرحت کی پھدی کے لبوں کے‬
‫درمیان اوپر نیچے کرنے لگ گئے‬
‫تو فرحت نے کہا‬
‫ماسٹر جی مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا‬
‫بڑا لن ھے آپکا میرے خاوند کا تو اس‬
‫سے بھی آدھا لن تھا مجھے تو اس سے‬
‫بھی درد ھونے لگ جاتی تھی‬
‫اب یہ اتنا بڑا لن میں کیسے لے سکوں‬
‫گی‬
‫تو ماسٹر جی نے کہا‬
‫میری جان کچھ نھی ھوتا بس برداشت‬
‫کرنا پھر دیکھنا کیسے مزہ ھی مزہ آتا‬
‫ھے‬

‫ایسے باتیں کرتے کرتے اور فرحت کو‬


‫تسلیان دیتے ھوے ماسٹر جی نے‬
‫فرحت کی ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر‬
‫رکھا اور ٹانگوں کو کندھوں سے لے‬
‫کر فرحت کے اوپر جھک گئے‬
‫اب فرحت کی ٹانگیں مل ماسٹر جی کے‬
‫کندھوں پر تھی اور ماسٹر جی اپنا سر‬
‫فرحت کے منہ کے قریب لے گئے اور‬
‫اپنے دونوں ھاتھوں کو فرحت کی‬
‫ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر اسکے‬
‫کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا‬
‫فرحت کے پیر اسکے سر کے پاس‬
‫پہنچ گئے‬
‫نیچے سے ماسٹر جی کا ٹوپا پہلے ھی‬
‫پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا ھوا تھا‬

‫اس سے پہلے کہ فرحت کچھ بولتی یا‬


‫سمجھتی ماسٹر جی نے ایک جاندار‬
‫گھسا مارا پھدی گیلی ھونے کی وجہ‬
‫سے لن بغیر کسی رکاوٹ کے پھدی‬
‫کے ریشوں کو چیرتا ھوا اندر گہرائی‬
‫تک جا پہنچا اور ٹوپا جاکر بچے دانی‬
‫کا حال چال پوچھنے لگ گیا‬
‫جیسے ھی لوڑے نے اپنا کام کیا فرحت‬
‫کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی‬
‫ھاےےےےےےےے میں مر گئی‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫ھاےےےےےےے وے ماسٹرا ماردتا‬
‫ای‬
‫ھاےےےےےےے وے کی کردتا ای‬
‫ھاےےےےےےےے امممییییی میری‬
‫پھدی گئی ھاےےےےےے‬
‫اففففففففففف‬
‫فرحت کی چیخ اتنی ذور کی تھی کہ‬
‫اگر کوئی کمرے کے تھوڑے فاصلے‬
‫پر بھی ھوتا تو اس کی چیخ سن لیتا فر‬
‫حت کا یہ حال دیکھ کر میں بھی ایک‬
‫دفعہ کانپ گیا‬
‫ماسٹر جی بھی ایک دفعہ ہل گئے اور‬
‫جلدی سے ایک ھاتھ‪ .‬فرحت کے منہ پر‬
‫رکھ دیا اور لن اندر ھی جڑ تک رھنے‬
‫دیا‬
‫فرحت ایسے تڑپ رھی تھی جیسے‬
‫پہلی دفعہ چدی ھو‬
‫اور حقیقتا ً واقعی فرحت کے حال پر‬
‫ترس آرھا تھا‬
‫فرحت کی آنکھوں سے آنسو جاری‬
‫تھے اور اپنے دونوں ھاتھ ماسٹر کے‬
‫سینے پر رکھ کر ماسٹر جی کو پیچھے‬
‫دھکیل رھی تھی اور کبھی سینے پر‬
‫مکے مار رھی تھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی چلتا رھا دو منٹ‬
‫تک ماسٹر جی نے کوئی حرکت نہ کی‬
‫بس فرحت کے منہ کو چومتے رھے‬
‫اور اپنے ہونٹوں سے اسکے آنسو‬
‫ُچنتے رھے‬
‫پھر ماسٹر نے فرحت کی ٹانگوں کو‬
‫چھوڑ دیا فرحت نے ٹانگیں ماسٹر جی‬
‫کے کندھوں سے نیچے اتار کر سیدھی‬
‫کرلی اور دو تین دفعہ ٹانگوں کو اٹھا‬
‫اٹھا کر چار پائی پر مارتی رھی‬
‫کچھ دیر بعد فرحت بھی کچھ ریلکس‬
‫ھوئی تو ماسٹر جی نے اہستہ آہستہ لن‬
‫کو اندر باہر کرنا شروع کردیا‬
‫فرحت ھوے ھوے افففف سسسسسیییی‬
‫کرتی رھی اور ساتھ ساتھ ہولی کر ہولی‬
‫کر ہولی کر کہتی رھی‬
‫تقریبا پانچ منٹ تک ایسے ھی دونوں‬
‫لگے رھے پھر فرحت کو بھی مزہ آنے‬
‫لگ گیا اور ماسٹر جی کی بھی گھسوں‬
‫کی سپیڈ تیز ھوتی گئی‬
‫آخر کار لن اور پھدی کی صلح ھوگئی‬
‫‪،،‬‬
‫‪،،‬‬
‫اب فرحت بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن‬
‫اندر لے رھی تھی ماسٹر جی نے ایک‬
‫بار پھر فرحت کی ٹانگیں اوپر کر دیں‬
‫اور زور زور سے گھسے مارنے لگ‬
‫گئے‬
‫فرحت کے ممے بھی اسی ردھم میں‬
‫اوپر نیچے ھورھے تھے اور فرحت‬
‫بھی سسکاریاں لے رھے تھی‬
‫فرحت نے اب دونوں ھاتھ ماسٹر کی‬
‫گانڈ پر رکھ لیے اور ماسٹر کی گانڈ کو‬
‫پھدی کی طرف دھکیلتی‬
‫اور منہ سے عجیب عجیب آوازیں‬
‫نکالتی‬
‫ماسٹر اگے کر ماااسٹر ساررررراا‬
‫اگگگے کردے سارررا اگگے کردے‬
‫انکھیں بند منہ کھال‬
‫اور کہے جارھی تھی‬
‫سسسسسی پورا کردے سارا کردے‬
‫زورررر دی ماسٹر ھاااں انج ای ایتھے‬
‫مار ایتھے مار سٹ‪ .‬آآ ھااااا افففففف‬
‫اچانک فرحت کی ٹانگیں کانپنا شروع‬
‫ھوئی اور جسم اکڑنے لگ گیا‬
‫اور ایکدم بولی میں گئی میں گئی گئی‬
‫گئییییییییی‬
‫اور ساتھ ھی ماسٹر جی کو کس کے‬
‫جپھی ڈال کر اسکا منہ چومنے لگ گئی‬
‫اور یکدم جسم ڈھیال چھوڑ کر لمبے‬
‫لمبے سانس لینے لگ گئی‬
‫ادھر ماسٹر جی کی بھی سپیڈ تیز‬
‫ھوگئی چند گھسوں کے بعد یکدم ماسٹر‬
‫جی نے اپنا لوڑا پھدی سے باھر نکاال‬
‫اور فرحت کے مموں کی طرف ٹوپا کر‬
‫کے تیز تیز مٹھ مارنے لگ گئے‬
‫پھر ایک لمبی پچکاری لن سے نکلی‬
‫جو سیدھی فرحت کے مموں پر گری‬
‫اور کچھ چھینٹے فرحت کے منہ پر‬
‫پڑے فرحت نے اسی وقت اپنا ھاتھ منہ‬
‫کے اگے کر لیا‬
‫پھر دوسری پچکاری مموں سے پچھے‬
‫پھر تیسری پچکاری ناف پر اور پھر‬
‫ماسٹر جی کے ہاتھ سے منی بہتی ھوئی‬
‫پھدی کے اوپر گرنے لگ گئ ماسٹر‬
‫جی بھی لمبے لمبے سانس لے رھے‬
‫تھے‬
‫یہ سب دیکھتے میں اپنے لن کو مسلنے‬
‫میں مصروف تھا اور میرا سارا دھیان‬
‫اندر ھی تھا مجھے یہ بھی احساس تک‬
‫نہ ھوا کے میرے پیچھے بھی کوئی‬
‫کھڑا ھے وہ تو مجھے تب پتہ چال جب‬
‫کسی نے میری شلوار کو پکڑ کر نیچے‬
‫کھینچا جس سے میری السٹک والی‬
‫شلوار نیچے چلی گئی اور میں نے‬
‫جیسے ھی گبھرا کر پیچھے دیکھا‬
‫تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫میری شلوار ُگھٹنوں تک نیچے چلی‬


‫گئی تھی میں نے جلدی سے دونوں ھاتھ‬
‫سے شلوار کو اوپر کرتے ہوے پیچھے‬
‫مڑتے دیکھا تو عظمی اپنے منہ پر ھاتھ‬
‫رکھے ہنسی جارھی تھی‬
‫میں نے اسے گھور کر دیکھا اور‬
‫چھالنگ مار کر اینٹوں سے نیچے اتر‬
‫گیا‬
‫جب میں نے چھالنگ لگائی تو میرے‬
‫لن نے قمیض کو آگے سے اٹھایا ھوا‬
‫تھا عظمی نے بھی ایک نظر میری‬
‫اٹھی ھوئی قمیض کو دیکھا اور منہ‬
‫دوسری طرف کر لیا میں نے اسے بازو‬
‫سے پکڑ کر زور سے ہالیا اور غصے‬
‫سے اشارہ کرتے ھوے پوچھا کہ کیا‬
‫تکلیف ھے تو وہ کچھ بولنے ھی لگی‬
‫تھی کہ میں نے اسے انگلی منہ پر رکھ‬
‫کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسکا‬
‫ھاتھ پکڑ کر کالس کی طرف چل دیا‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر‬
‫جارھا تھا‬
‫۔۔۔‬
‫کالس میں پہنچ کر عظمی اپنی جگہ پر‬
‫بیٹھ گئی اور میں کرسی پر کمروں کی‬
‫طرف منہ کر کے بیٹھ گیا‬
‫۔۔۔‬
‫اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے‬
‫دیکھ کر اپنے منہ پر ھاتھ پھیر کر اسے‬
‫انگلی دیکھاتے ھوے اشارہ کیا کہ دیکھ‬
‫لوں گا تجھے‬
‫۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ماسٹر جی کمرے سے‬
‫نکل کر کالس کی طرف آتے دیکھائی‬
‫دئے میں نے جان بوجھ کر ماسٹر جی‬
‫کو ایسے نظر انداز کیا جیسے میں نے‬
‫انہیں دیکھا ھی نھی‬
‫۔۔۔‬
‫ماسٹر جی اتنے میں میرے قریب سے‬
‫گزرتے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ‬
‫مارتے ہوے بولے۔۔۔۔‬
‫سنا چھوٹے ماسٹر کی ہوریا اے‪،‬‬
‫میں ایکدم ایسے چونکہ جیسے ماسٹر‬
‫جی کی آمد کا مجھے پتہ ھی نھی چال‬
‫میں جلدی سے کھڑا ھوگیا اور بوال‬
‫سر بچوں کی نگرانی کررھا ھوں آپکی‬
‫طبعیت کیسی ھے اب‬
‫ماسٹر جی کے چہرے پر شیطانی سی‬
‫مسکراہٹ آئی اور ماسٹر جی نے کرسی‬
‫پر بیٹھتے ھوے ٹانگیں سیدھی کی اور‬
‫دونوں ھاتھ سر سے اوپر لیجا کر ایک‬
‫لمبی سی جمائی لی اور بولے ٹھیک‬
‫ھے اب جاو شاباش جا کر اپنی جگہ پر‬
‫بیٹھ جاو‬

‫میں جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬


‫مجھے پھر نھی پتہ چال کہ فرحت کب‬
‫گئی‬

‫فرحت نے مجھے کہنی ماری اور‬


‫بولی‬
‫مروان لگا سی نا اج تو میں نے کہا بلے‬
‫بھی بلے الٹی تم نے کی کھانسی تمہاری‬
‫نکلی اور مروانے میں لگا تھا‬
‫تو عظمی نے گھورتے ھوے کہا‬
‫اینی دیر اوتھے کھڑا کی کردا ریا سی‬
‫‪،‬‬
‫میں نے کہا کچھ نھی بس ویسے ھی‬
‫کھڑا تھا‬
‫تو اس نے مجھے پھر کہنی ماری اور‬
‫بولی سہی سہی بتا کیا دیکھ رھا تھا‬
‫ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ نھی‬
‫میں نے کہا‬
‫تم گبھراو مت کچھ نھی ھوا‬
‫اور میں نے ماسٹر کی طرف اشارہ‬
‫کرتے ھوے‬
‫اسے خاموش کروا دیا کہ راستے میں‬
‫سب بتا دوں گا‪،‬‬
‫ماسٹر جی آنکھیں بند کیے کرسی پر‬
‫بیٹھے کرسی کو آگے پیچھے کر کر‬
‫کے پتہ نھی کس سوچ میں گم تھے‬

‫پھر ہمیں چھٹی ھوگئی اور گھر جاتے‬


‫وقت کافی سارے بچے ہمارے ساتھ‬
‫ساتھ تھے اس لیے عظمی سے کچھ‬
‫خاص بات نہ ھو سکی‬
‫شام کو میں کھیلنے کے لیے گھر سے‬
‫نکل کر سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر گیا‬
‫تو جیسے ھی میں دروازے سے اندر‬
‫داخل ہوا تو آنٹی فوزیہ دروازے کے‬
‫بلکل ساتھ ھی لگے ہوے نلکے سے‬
‫برتن دھو رھی تھی‪،‬‬
‫میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی نے‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر‬
‫سالم کا جواب دیا ۔۔۔۔‬

‫آنٹی فوزیہ نے پیلے رنگ کی قمیض‬


‫اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور‬
‫ُکھرے کی بنی پر بیٹھ کر برتن دھونے‬
‫میں مصروف ھوگئی‬
‫میں بھی آنٹی کے پاس ھی کھڑا ھوگیا‬
‫آنٹی پاوں کے بل بیٹھی تھی اس لیے‬
‫انہوں نے پیچھے سے قمیض اٹھا کر‬
‫آگے دونوں ٹانگوں میں دی ھوئی تھی‬
‫کہ قمیض پیچھے سے گیلی نہ ھو‬
‫اور آنٹی کی گانڈ پاوں کے بل بیٹھنے‬
‫سے پیچھے کو نکلی ھوئی تھی اور‬
‫انکی تھوڑی سی کمر بھی ننگی‬
‫ھورھی تھی میری کمبخت آنکھوں نے‬
‫کھڑے ھوتے ھی آنٹی کی گانڈ کا‬
‫اچھے سے ایکسرا کیا‬
‫میں نے آنٹی سے عظمی لوگوں کا‬
‫پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ دونوں کمرے‬
‫میں پڑھ رھی ہیں‬

‫میں پہلے تو کمرے کی طرف چلنے‬


‫لگا مگر آنٹی کے جسم کا نظارا کرنے‬
‫کے لیے فلحال اپنا ارادہ ملتوی کردیا‪،‬‬
‫اور نلکے کی ہتھی پکڑا کر اوپر نیچے‬
‫کرتے ھوے آنٹی سے بوال‬
‫آنٹی میں نلکا گیڑتا ھوں آپ آرام سے‬
‫برتن دھو لو‬
‫آنٹی بولی پتر تم جاو اندر میں دھو لوں‬
‫گی تم ایسے اپنے کپڑے گیلے کرو گے‬
‫مگر میں نے آنٹی کو کہا کہ کچھ نھی‬
‫ھوتا‬
‫اور زور زور سے نلکے کی ہتھی کو‬
‫گیڑتے ھو آنٹی کے جسم کا معائنہ‬
‫کرنے لگا‬

‫آنٹی نے الن کی قمیض پہنی ھوئی تھی‬


‫اور پیلے رنگ میں سے کالے رنگ‬
‫کے برا کے سٹرپ صاف نظر آرھے‬
‫تھے‬
‫آنٹی جب جھک کر برتن کو مانجھتی تو‬
‫پیچھے سے اپنی گانڈ کو بھی اوپر‬
‫نیچے کرتی‬
‫برتن دھوتے آنٹی کی شلوار ایک سائڈ‬
‫سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس میں‬
‫سے انکا گورا جسم دعوت نظارا دے‬
‫رھا تھا‬
‫آنٹی کی گانڈ کی ایک سائڈ صاف نظر‬
‫آرھی تھی میں چوری چوری نظر گھما‬
‫کر دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتا رھا‬
‫تب تک آنٹی نے سارے برتن دھوکر‬
‫لوھے کی ٹوکری میں رکھ لیے اور‬
‫کھڑی ھوکر پیچھے سے گانڈ میں‬
‫پھنسی شلوار کو نکاال اور قمیض کو‬
‫درست کیا‪،‬‬

‫تو میں برتنوں کی ٹوکری کو اٹھانے‬


‫لگا‬
‫آنٹی بولی پتر رہنے دے‬
‫میں خود اٹھا لوں گی تیرے سے برتن‬
‫گر جائیں گے‪،‬‬
‫اور یہ کہہ کر آنٹی میرے سامنے ھی‬
‫نیچے کو ٹوکری اٹھانے کے لیے‬
‫جھکی تو آنٹی کے گلے پر میری بے‬
‫ساختہ نظر پڑی ان کے چٹے چٹے‬
‫مموں کا نظارا بلکل میرے سامنے تھا‬
‫کالے بریزئیر میں انکے گورے ممے‬
‫کیا قیامت لگ رھے تھے‬
‫اوپر سے پیال رنگ انپر بہت جچ رھا‬
‫تھا آنٹی نے برتنوں کی ٹوکری اٹھائی‬
‫اور سیدھی ھوگئی‪،‬‬
‫میں سکتے کے عالم میں کھڑا ویسے‬
‫ھی آنٹی کی چھاتی کو دیکھے جارھا‬
‫تھا‬
‫آنٹی نے مجھے آواز دی یاسرررر‬
‫میں ایک دم ہڑبڑا گیا اور آنٹی کی‬
‫طرف گبھراے ھوے بوال‬
‫ججججی آنٹی تو آنٹی‬
‫مسکرا کر بولی‬
‫کون سے خیالوں میں کھو جاتے ھو‬
‫میں نے کہا کہیں نھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی چلو کمرے میں‬
‫اور آنٹی میرے آگے آگے برتنوں کی‬
‫ٹوکری کو اٹھاے اپنے پیٹ کے ساتھ‬
‫لگاے چلی جارھی تھی‬

‫میں آنٹی کے پیچھے انکی ہلتی ھوئی‬


‫گانڈ کو گھورتے چال جارھا تھا‬

‫آنٹی کمرے میں داخل ھو کر سامنے‬


‫دیوار پر لگے لکڑی کے پھٹے پر برتن‬
‫جوڑنے لگ گئی اور میں عظمی اور‬
‫نسرین کے پاس جا کھڑا ھوگیا‬
‫‪،،،،‬‬
‫اور تالی مار کر بوال واہ جی واہ بڑی‬
‫پڑھائیاں ھو رھی ہیں‪،‬‬

‫نسرین بولی‬
‫ہاں تینوں کوئی تکلیف اے‬
‫آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گالں‬
‫کرنیاں‪،‬‬

‫میں نے بھی جوابا ً کہا‬


‫جناں مرضی پڑ لو ہُناں تے فیل ای اے‬

‫تو اس دفعہ عظمی بولی‬


‫تم تو ہر دفعہ فرسٹ آتے ھو جیسے‬
‫میں نے کہا‬
‫***‬
‫شکر ھے فرسٹ ھی آتا ھوں‬

‫تمہاری طرح رشوت دے کر پاس نھی‬


‫ہوتا‬
‫تو نسرین جھال کر بولی‬
‫اممییییی اسے بولو ہمیں پڑھنے دے‬
‫خود تو سارا دن آوارہ پھرتا ھے اور‬
‫دوسروں کو پڑھنے نھی دیتا‪،‬‬

‫تو آنٹی جو پہلے ھی ہماری باتوں پر‬


‫ہنس رھی تھی‬
‫ہنستے ھوے بولی‬
‫بھائی ھے تمہارا‪ .‬اب تم لوگوں کے‬
‫ساتھ نھی مزاق کرے گا تو کس سے‬
‫کرے گا‪،‬‬

‫تو عظمی بولی امی آپ کی ان ھی باتوں‬


‫نے اسے سر پر چڑھا رکھا ھے‬

‫تو انٹی غصے سے بولی بکواس نہ کر‬


‫تے چپ کر کے پڑھ‪،‬‬

‫تو عظمی نے غصہ سے اپنی کتابیں‬


‫بیگ میں ڈالنا شروع کردی کہ پڑھ لیا‬
‫جتنا پڑھنا تھا‬
‫اب یہ شیطان کا چیال آگیا اس نے‬
‫پڑھنے دینا ھے‪،‬‬

‫تو میں نے آنٹی کی طرف بڑا معصوم‬


‫سا چہرہ بنا کر دیکھا اور کہا آنٹی جی‬
‫دیکھ لیں مجھے کیا کہہ رھی ھے تو‬
‫آنٹی بولی‬
‫ایدی زبان وڈن والی ھوئی اے جو منہ‬
‫وچ اندہ پونک دیندی اے‬
‫تو عظمی مجھے گھورنے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کی طرف دیکھا اور‬
‫زبان نکال کر اسے منہ چڑایا تو وہ‬
‫مجھے مارنے کے لیے بھاگی تو میں‬
‫کمرے سے باھر کو بھاگا اور وہ میرے‬
‫پیچھے پیچھے بھاگتی آگئی‬
‫میں گلی میں نکل کر کھیتوں کی طرف‬
‫بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫عظمی بھی تیز تیز چلتی جوتا ھاتھ میں‬
‫پکڑے آرھی تھی‬
‫میں رک گیا اور اس کی طرف دیکھ کر‬
‫پھر زبان نکال کر منہ چڑایا تو اس نے‬
‫ھاتھ میں پکڑا جوتا میری طرف پھینکا‬
‫جو مجھ سے کچھ ھی دور گرا میں نے‬
‫آگے بڑھ کر اسکا جوتا اٹھایا اور کھیت‬
‫کی طرف بھاگ گیا‬
‫وہ بھی ایک پاوں میں جوتا پہنے اور‬
‫ایک ننگے پاوں سے ھی مجھے برا‬
‫بھال کہتی میرے پیچھے بھاگی‬
‫میں کھیت میں پہنچا تو کافی سارے‬
‫بچے کھیل رھے تھے‬
‫میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی‬
‫پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ‬
‫گیا‬
‫میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی‬
‫پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ‬
‫گیا‬
‫تو مجھے عظمی بڑے غصے میں آتی‬
‫دیکھائی دی اور سیدھا میری ھی طرف‬
‫رخ کیا اور کچھ فاصلے پر آکر کھڑی‬
‫ھوگئی اور نیچے کھیت سے ایک بڑا‬
‫سا مٹی ڈھیال اٹھا کر مجھے مارنے‬
‫کے لیے ڈرانے لگ گئی اور کہنے‬
‫لگی‬
‫سر‬
‫ُجتی دے میری چولے نئی تے تیرا َ‬
‫پاڑ دینا اے‬

‫میں نے اسے دیکھ کر اپنے دونوں ھاتھ‬


‫کانوں کو لگا کر اس سے معافی‬
‫مانگنے لگ گیا‬
‫اور اسکی جوتی کا پاوں اسکی طرف‬
‫پھینک دیا‬
‫عظمی آگے آئی اور جوتا پہن کر میرے‬
‫سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی‬

‫ہُن پج پتر‪،،‬‬
‫کتھے پجیں گا‬
‫اور زور سے مٹی کا ڈھیال میرے‬
‫پیروں میں مارا میں نے دونوں پاوں‬
‫اوپر کرلیے‬

‫اور اس سے کہنے لگ گیا بس کر یار‬


‫ہن بچے دی جان لینی اے‬
‫تو عظمی بلکل میرے سامنے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ اپنی‬
‫وکھیوں پر رکھے بڑی شوخی سے‬
‫بولی‬
‫بچہ تے ویکھو‬
‫وڈے وڈے کم کردا اے تے ہے بچہ واہ‬
‫واہ‬
‫تو میں نے کہا اچھا بابا اب معاف بھی‬
‫کردو‬
‫تو وہ میرے ساتھ ھی پگڈنڈی پر بیٹھ‬
‫گئی‬
‫میں نے کہا اگر جناب کا غصہ اتر گیا‬
‫ھے تو کھیلیں‬

‫تو عظمی بولی ب ُچو میں پڑھائی چھوڑ‬


‫کر تیرے پیچھے کھیلنے نھی آئی تو‬
‫میں حیران ھوتے اسکی طرف دیکھ کر‬
‫بوال تو جناب کس لیے آئی ہیں‪،‬‬
‫تو عظمی بولی سہی سہی بتاو کہ‬
‫کھڑکی سے کیا دیکھ رھے تھے‪،‬‬
‫تو میں نے بڑی شوخی سے اسکی‬
‫طرف دیکھا اور اسکا کان پکڑ کر‬
‫کھینچتے ھوے کہا‬
‫اچھااااا اے سار ڈرامہ کھڑکی والی َگل‬
‫پُچھن واسطے کیتا سی‪،‬‬
‫تو عظمی نے اپنا کان ُچھڑواتے ھوے‬
‫بولی آئیییییی میرا کَن چھڈ باندر جیا نہ‬
‫ھوے تے‬
‫تو میں نے اسکا کان چھوڑ دیا‬
‫تو وہ بولی ایسے امی نے آنے نھی دینا‬
‫تھا‬
‫تو میں نے اسکی گال پر ُچٹکی کاٹتے‬
‫ھوے کہا بڑی تیز ھوگئی ایں‪،‬‬
‫تو عظمی نے جلدی سے اپنی گال کو‬
‫پیچھے کیا اور میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی‬
‫گود میں رکھا اور بولی چلو اب بتا بھی‬
‫دو‬
‫تو میں نے کہا یار یہ کوئی جگہ ھے‬
‫بات کرنے کی یہاں سب بچے ہیں کسی‬
‫نے ہماری بات سن لی تو‪،،،،،،‬‬

‫تو عظمی بولی‬


‫تو پھر کہاں جاکر بتانا ھے تو میں نے‬
‫کہا وہاں کھالے کے پاس ٹاہلی کے‬
‫پیچھے بیٹھ کر بتاوں گا اگر سننا ھے‬
‫تو چلو ادھر چل کر سب کچھ تفصیل‬
‫سے بتاوں گا‬
‫عظمی کچھ دیر سوچتے ھوے بولی‬
‫چلو‬
‫میں نے کہا تم ادھر ھی بیٹھو میں پہلے‬
‫جاتا ھوں تم تھوڑی دیر بعد آجانا تو‬
‫عظمی بولی نہ نہ مجھے اکیلی کو ڈر‬
‫لگتا ھے میں نے نھی آنا اکیلی نے‬

‫تو میں نے کہا یار میں تھوڑا اگے‬


‫جاکر رک کر تمہارا انتظار کرلوں گا‬
‫جب تم آجاو گی تو پھر اکھٹے ھی‬
‫کھالے پر چلیں گے تو عظمی نے اثبات‬
‫میں سر ہال دیا‬
‫اور میں نے سب بچوں پر نظر دوڑائی‬
‫تو سب بچے اپنے دھیان میں لگے‬
‫ھوے تھے‬
‫میں وہیں سے پیچھے کی طرف کھسکتا‬
‫ھوا کپاس کے پودوں میں ُگھس گیا اور‬
‫پھر اٹھ کر پودوں کے درمیان سے ھی‬
‫پگڈنڈی پر آگیا اور کھالے کی طرف‬
‫چل پڑا کچھ ھی دور جاکر میں کھڑا‬
‫ھوگیا اور عظمی کو دیکھنے لگ گیا‬
‫تقریبا َ ََ تین چار منٹ بعد عظمی آتی‬
‫دیکھائی دی‬
‫اور پھر ہم دونوں کھالے کی طرف چل‬
‫پڑے میں نے اس سے تسلی کرلی کی‬
‫کسی نے دیکھا تو نھی تو اس نے‬
‫مجھے تسلی دال دی کی میں سب کی‬
‫نظروں سے بچ کر ھی آئی ھوں‬
‫اتنے میں ہم کھالے کہ پاس پہنچ گئے‬
‫اور پھر باری باری کھاال کراس کیا اور‬
‫ٹاہلی کے بڑے سے درخت کے پیچھے‬
‫جاکر بیٹھ گئے‬

‫میں اور عظمی بلکل ساتھ ساتھ بیٹھ‬


‫گئے‬
‫تو عظمی بولی بتاو اب‬
‫میں نے کہا‬
‫میں تمہیں کالس کی طرف بھیجنے کے‬
‫بعد کمرے کے پیچھے گیا اور کھڑکی‬
‫سے اندر کے حالت جاننے کے لیے‬
‫کان لگا کھڑا ھوگیا کہ ماسٹر جی اب‬
‫کیا کہتے ہیں‬
‫مگر ماسٹر جی کو ہمارے ادھر آنے کا‬
‫پتہ نھی چال تھا‬
‫اور ماسٹر جی فرحت کو پھر گندے کام‬
‫کرنے کا کہہ رھے تھے اور فرحت‬
‫ڈری ہوئی نہ نہ کررھی تھی‬
‫تبھی مجھے ایسا لگا کہ ماسٹر جی نے‬
‫پھر فرحت کے ساتھ گندا کام کرنا‬
‫شروع کردیا ھے تو میں نے اینٹیں‬
‫اکھٹی کی اور انکو دیوار کے ساتھ رکھ‬
‫کر اوپر کھڑا ھوگیا‬
‫جب میں نے اندر دیکھا تو ماسٹر جی‬
‫فرحت کے سارے کپڑے اتارے ھوے‬
‫تھے اور انکے دودو چوس رھے تھے‬
‫اور اپنا ایک ھاتھ فرحت کی پیشاب‬
‫والی جگہ پر رکھ کر مسل رھے تھے‬
‫میں جیسے جیسے عظمی کو بتا رھا‬
‫تھا عظمی کا رنگ سرخ ھوتا جارھا تھا‬
‫اور وہ میری بات سنتے ہوے بار بار‬
‫اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر رھی تھی‬
‫میرا لن بھی نیچے سے سر اٹھا چکا‬
‫تھا‬

‫عظمی بولی اچھا پھر کیا ھوا‬

‫تو میں نے کہا پھر ماسٹر جی نے اپنی‬


‫شلوار اتاری اور اپنا اپپپنا‬
‫تو عظمی بولی کیااااا اپنا‬
‫تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑا اور اپنے‬
‫اکڑے ھوے لن پر رکھ کر کہا‬
‫ماسٹر جی اپنا یہ لن نکال کر فرحت‬
‫کے منہ میں ڈال دیا‬

‫تو عظمی نے جلدی سے اپنا ھاتھ واپس‬


‫کھینچا اور مجھے گھورتے ھوے کہا‬

‫تمیز نال زیادہ شوخا نہ بن‬

‫میں جھینپ سا گیا اور خاموش ھوگیا‬

‫عظمی پھر بولی‬


‫اگے دس فیر کی ہویا‬
‫میں نے کہا‬
‫پھر ماسٹر جی نے فرحت کی بھی‬
‫شلوار اتار دی اور گندے کام کرنے لگ‬
‫گئے‪،‬‬

‫عظمی بولی یاسررررررر سہی طرح‬


‫بتاو کہ پھر کیا ھوا‬

‫میں نے اسے گھورتے ھوے کہا کہ‬


‫پھر تم نے میری شلوار کھینچ کر اتار‬
‫دی تھی‬
‫تو عظمی میری بات سن کر شرمندہ سی‬
‫ھوگئی اور سر نیچے کرتے ھوے بولی‬
‫کہ وووہ وہ تو میں نے تمہیں اپنی‬
‫طرف متوجہ کرنے کے لیے تمہاری‬
‫شلوار کو کھینچا تھا مجھے کیا پتہ تھا‬
‫کہ تم اتنی ڈھیلی االسٹک والی شلوار‬
‫پہنتے ھو‬
‫تو میں نے کہا جب اتنی ذور سے‬
‫کھینچی تھی تو ناال بھی ھوتا تو تب بھی‬
‫شلوار اتر جانی تھی‬

‫تو عظمی بولی تم اب کون سا بچے ھو‬


‫جو االسٹک پہنتے ھو‬
‫تو میں نے کہا تم بھی تو االسٹک ھی‬
‫پہنتی ھو‬
‫تو عظمی نے اپنی قمیض آگے سے‬
‫اوپر کر کے اپنا ناال مجھے دیکھاتے‬
‫ھوے کہا‬
‫اے ویکھ بَ ُچو السٹک نئی ناال اے‬
‫عظمی نے جب قمیض اوپر کی تو اسکا‬
‫چٹا سفید پیٹ مجھے نظر آیا اسکا پیٹ‬
‫دیکھتے ھی میرے لن نے نیچے سے‬
‫ایک ذور دار جھٹکا مارا‬

‫پھر عظمی بولی اچھا اب بتا بھی دو کہ‬


‫پھر کیا ھوا‬
‫مجھے تو سارا کچھ بھول کر عظمی‬
‫کے گورے جسم کو دیکھنے اور‬
‫چومنے کی پڑ گئی مگر میں اندر سے‬
‫ڈر رھا تھا کہ یہ موڈی لڑکی ھے اگر‬
‫اس نے شور مچا دیا یا گھر بتا دیا تو‬
‫سارا قصور میرا ھی نکلنا ھے‪،‬‬
‫اس لیے میں پہل کرنے سے گبھرا رھا‬
‫تھا‬

‫عظمی نے مجھے کندھے سے ہالتے‬


‫ھوے پھر کہا ہیلو میں کیا پوچھ رھی‬
‫ھوں‬
‫تو میں نے کہا ہاں ہاں ہاں‬
‫وہ وہ وہ بتا تو دیا کہ پھر دونوں گندے‬
‫کام کرنے لگ گئے تھے‬
‫تو عظمی بولی یاسسسرررر کے بچے‬
‫تفصیل سے بتاو کہ کیا کیا کررھے‬
‫تھے‬
‫خر میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا‬
‫میں نے نشے کے سے انداز کھسک کر‬
‫اسکے سامنے آیا اور اسکے سامنے آیا‬
‫اور اسکے دونوں کندھوں کو پکڑا‬
‫اور منہ اسکے منہ کے قریب کیا اور‬
‫بڑے رومینٹک انداز سے اسے کہا‬
‫تفصیل سے بتاوں تو عظمی نے ہاں‬
‫میں صرف سر ھی ہالیا اور میں نے‬
‫ویسے ھی اسکو کندھوں سے پکڑے‬
‫پیچھے کی طرف دھکیل کر گھاس پر‬
‫لٹا دیا اور اسکے اوپر لیٹ گیا عظمی‬
‫نے بڑی کوشش کی اپنا آپ چھڑوانے‬
‫کی مگر کامیاب نہ ھوسکی‬
‫آخر کار تھک کر‬
‫رونے واال منہ بنا کر میری طرف‬
‫‪.‬دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے کچھ‬
‫فاصلے پر کئیے ھوے تھے‬
‫عظمی نے اب اپنے نیچے والے ہونٹ‬
‫کو ایسے باہر نکاال جیسے‬
‫چھوٹا بچہ رونے سے پہلے نیچے واال‬
‫ہونٹ باہر نکال کر پھوٹ پھوٹ کر‬
‫رونا شروع کردیتا ھے‬

‫بلکل ویسے ھی عظمی نے اپنا‪ .‬نیچے‬


‫واال ہونٹ باہر کو نکاال ھوا تھا اسکے‬
‫ہونٹ تو پہلے ھی پنک کلر کے تھے‬
‫مگر ہونٹ کا اندر کا حصہ سرخی مائل‬
‫تھا‬
‫میں جیسے ھی اسکے ہونٹوں کو‬
‫چومنے لگا تو‬
‫عظمی نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا‬
‫اور مجھے دیکھانے لگ گئی میں نے‬
‫سر کے اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو عظمی نے اہنے نیچے والے ہونٹ‬
‫کو مذید باھر نکالتے ھوے کہا‬
‫ماروں گی‬

‫دوستو‬
‫اس وقت جیسا سٹائل اور جیسی‬
‫معصومیت اور انداز تھا عظمی اگر آپ‬
‫اس سین کو امیجینیشن کریں تو آپ‬
‫عظمی کے دلفریب گالب کے کھلتے‬
‫پھول جیسے ہونٹوں کو کھا جائیں‬
‫کچھ ایسا ھی میرے ساتھ ھوا اور میں‬
‫اسکی ادا اسکی معصومیت پر مر مٹا‬
‫اور بے ساختہ اسکے نچلے ہونٹ کو‬
‫اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اور چوسنے‬
‫لگ گیا‬
‫عظمی پہلے تو کچھ دیر مچلی مگر پھر‬
‫اس نے بھی اپنا ایک ھاتھ میری گردن‬
‫کے پیچھے رکھ لیا‬
‫بلکل فرحت کی طرح کیوں کہ سیکس‬
‫کے بارے میں جتنا کچھ ہم دونوں نے‬
‫سیکھا اور سمجھا اور دیکھا تھا وہ‬
‫ماسٹر جی اور فرحت سے ھی سیکھا‬
‫تھا‬
‫مختصرا ً وہ جوڑی اس جوڑی کی‬
‫سیکس ٹیچر تھی‬

‫خیر‬
‫ہم دونوں اب مسلسل ایک دوسرے کے‬
‫ہونٹ چوس رھے تھے‪ .‬مجھے بھی‬
‫بہت اچھا لگ رھا تھا اور عظمی کے‬
‫منہ کے لباب کو اپنے لباب کے ساتھ‬
‫مکس کر کے اندر نگھلتے وقت ایک‬
‫عجیب سا مزہ اور سواد آرھا تھا ایسے‬
‫ھی کبھی عظمی میری زبان کو چوستی‬
‫کبھی میں عظمی کی زبان کو چوستا‬
‫عظمی اب مکمل طور پر میرے کنٹرول‬
‫میں آچکی تھی اور میں اسکا بھرپور‬
‫فائدہ اٹھا رھا تھا‬
‫میں نے ایک ھاتھ سے عظمی کی ایم‬
‫مسمی کو پکڑا اور دبانے لگ گیا‬
‫عظمی کا مما میرے ھاتھ میں پورا آیا‬
‫ھوا تھا‬
‫اور میرا لن عظمی کی تھائی کے ساتھ‬
‫ٹکریں مارھا تھا‬
‫کچھ دیر بعد میں نے عظمی کی قمیض‬
‫کو اوپر کرنے کی کوشش کی تو عظمی‬
‫نے میرا ہاتھ پکڑا لیا میں نے ہاتھ‬
‫ُچھڑوایا اورپھر سے قمیض اوپر کرنے‬
‫لگا تو قمیض کا نچال حصہ زمین کے‬
‫ساتھ لگا ھونے کی وجہ سے آگے سے‬
‫قمیض بس پیٹ سے تھوڑا اوپر مموں‬
‫کے نیچے تک ھوئی‬
‫میں نے اسی کو غنیمت جانا اور عظمی‬
‫کے گورے چٹے سفید روئی کی طرح‬
‫نرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا‬
‫میرا ھاتھ جیسے ھی عظمی کے پیٹ پر‬
‫رینگتا ھوا عظمی کے مموں کے قریب‬
‫گیا عظمی ایک دم مچلی اور میرے‬
‫ھاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے‬
‫بھی تھوڑا زور لگا کر اپنے ھاتھ کو‬
‫عظمی کی قمیض کے نیچے سے گزار‬
‫کر عظمی کی ایک مسمی کو پکڑ لیا‬
‫دوستو عظمی کا مما اتنا نرم اور مالئم‬
‫تھا کہ کیا بتاوں مجھے تو ایسے لگا‬
‫جیسے میں نے کوئی روئی کا گوال ہاتھ‬
‫میں پکڑا لیا ھو ھو‬
‫میں نے تین چار دفعہ جوش میں آکر‬
‫عظمی کے ممے کو کچھ زیادہ ھی‬
‫زور سے دبا دیا‬
‫عظمی کو شاید کچھ ذیادہ ھی درد‬
‫ھوگئی اور اس نے ایک لمبی سی‬
‫سسکاری لی اور پھر ہلکی سی چیخ‬
‫ماری اور غصے سے بولی جانور مت‬
‫بنو آرام سے کرو‬
‫میں نے ساتھ ھی اپنے ھاتھ کو نرم‬
‫کرلیا اور پیار سے آرام آرام سے ممے‬
‫کو دباتا رھا اور انگلی سے اسکے‬
‫اکڑے ھوے چھوٹے سے نپل کو بھی‬
‫چھیڑتا رھا جس سے عظمی‬
‫مزے کی وادیوں میں کھو گئی‬
‫اور‬
‫ہمممممم اففففف سسسسسیییی کرنے لگ‬
‫گئی‬

‫عظمی میرے ھونٹوں کو پاگلوں کی‬


‫طرح چوس رھی تھی دو تین دفعہ تو‬
‫اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ بھی دیا تھا‬
‫مجھے درد تو ھوا مگر میں نے اسپر‬
‫ظاہر نھی کیا اور میں بھی مزے سے‬
‫ایک ھاتھ سے اسکے دونوں مموں کو‬
‫باری باری اپنی مٹھیوں میں بھرتا اور‬
‫کبھی ہاتھ کو پیٹ پر لے آتا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ہم ہر چیز سے‬
‫بیگانے ھوکر اپنی مستی میں لگے‬
‫رھے پھر میں ہاتھ عظمی کے نالے پر‬
‫رکھا اور نالے کی گانٹھ کے سرے کو‬
‫انگلیوں سے تالش کرنے لگ گیا‬
‫میں اس انداز سے نالے کے سرے کو‬
‫تالش کررھا تھا کہ عظمی کو شک بھی‬
‫نہ ھو کہ میں اسکا ناال کھولنے لگا‬
‫ھوں‬

‫تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد میں‬


‫نے ایک جھٹکے سے نالے کے سرے‬
‫کو کھینچا تو ناال کھل گیا اس سے پہلے‬
‫کہ عظمی اپنی شلوار کو پکڑی یا‬
‫میرے ہاتھ کو پکڑتی‬
‫میں نے جلدی سے اپنی تین انگلیاں‬
‫اسکی پھدی پر رکھ کر اسکی پھدی کو‬
‫مسلنے لگ گیا‬
‫ایسا بس چند سیکنڈ میں ھی ھوا عظمی‬
‫کی پھدی نے جیسے ھی میری انگلیوں‬
‫کو دیکھا تو پھدی سے آنسووں کی‬
‫جھڑی لگ گئی اور عظمی نے ایک‬
‫لمبی سی سسکاری لی اور مجھے کس‬
‫کر جپھی ڈالتے ھوے بولی سسسسیییی‬
‫ھااااےےےےے یاسسسرررر کے‬
‫بچچچےےےے‬
‫کی کیتا ای‬

‫ادھر پھدی کے آنسووں نے میری‬


‫انگلیوں کو تر کردیا اور میری انگلیاں‬
‫آپس ِچپ ِچپ کرنے لگ گئی میں نے‬
‫عظمی کی پھدی پر انگلیوں کا دباو‬
‫بڑھا دیا تھا اور عظمی بھی ویسے ھی‬
‫پھدی کو مسلنے کی ‪.‬مچل رھی تھی‬
‫سپیڈ میری بھی کافی تیز ھوگئی اسی‬
‫دوران عظمی نے مجھے کس کر بڑے‬
‫زور سے اپنے بازوں میں جکڑ لیے‬
‫اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کا مساج‬
‫کروانے لگ گئی پھر اس نے ایک لمبی‬
‫سے ھاااااااااا کی اور اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کو آپس میں زور سے بھینچ لیا‬
‫اور پھدی سے گرم گرم الوا نکل کر‬
‫میری انگلیوں کو جالتا ھوا عظمی کی‬
‫گانڈ سے نیچے گھاس پر گرنے لگا‬
‫عظمی تین چار دفعہ کانپی اور ٹھنڈی‬
‫ھوگئی مگر میں تو ویسے کا ویسا ھی‬
‫تھا عظمی کی سیکسی آوازیں سن کر‬
‫اور اسکی پھدی کا لمس پاکر میرا جزبہ‬
‫اور جنون تو اور بڑھ چکا تھا میں پھر‬
‫ایک دفعہ عظمی کی پھدی کے اوپر‬
‫ھی اپنی انگلیوں کو پھیرنے لگ گیا‬
‫اور دوسرے ھاتھ سے عظمی کی‬
‫قمیض کو زور لگا کر مموں سے اوپر‬
‫کردیا اور جوش میں مما منہ ڈال لیا‬
‫مجھے ایسا کر کے اتنا مزہ آرھا تھا کہ‬
‫اس مزے کی کیفیت کو میں یہاں لفظوں‬
‫میں بیان نھی کرسکتا‬
‫میرا ھاتھ سپیڈ سے پھدی کے اوپر ھی‬
‫حرکت کر رھا تھا اور میرا لن عظمی‬
‫کے پٹ کے ساتھ گھسے مارنے اور‬
‫رگڑنے میں مصروف تھا‬
‫کہ اچانک جوش میں نے اپنی درمیان‬
‫والی پوری انگلی عظمی کی پھدی کے‬
‫اندر گھسا دی پھدی بھی گیلی تھی اور‬
‫انگلی بھی گیلی‬

‫جب انگلی اور پھدی راضی‬


‫تو کیا کرے گا قاضی‬

‫جیسے ھی انگلی عظمی کی پھدی کے‬


‫اندر گئی عظمی نے ایک ذور دار چیخ‬
‫مار کر مجھے پیچھے کو پورے ذور‬
‫سے دھکا دیا‬
‫میں عظمی کے اچانک اس رد عمل پر‬
‫بہت ذیادہ ھی ڈر گیا اور پیچھے کی‬
‫طرف جاگرا‬
‫اتنے میں مجھے اپنے پیچھے سے‬
‫کھالے کے بنے پر؟؟؟؟‬

‫میں عظمی کی چیخ سن کر اور اسکے‬


‫زور دار دھکے کی وجہ سے پہلے ھی‬
‫سہم گیا تھا اوپر سے جیسے ھی بنے‬
‫پر کسی کے دوڑے آنے کی آواز سنی‬
‫تو میرے اور زیادہ ترا نکل گئے میں‬
‫نے ڈر کے مارے جلدی سے ٹاہلی کی‬
‫اوٹ لیتے ھوے دوسری طرف دیکھا تو‬
‫مجھے چار پانچ بڑے بڑے ُکتے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ لڑتے ھوے آگے‬
‫پیچھے بنے پر ہماری طرف ھی دوڑے‬
‫آتے ھوے نظر آے‬
‫ُکتوں کو دیکھ کر میری تو گانڈ پھٹنے‬
‫والی ہوگئی‬

‫میں نے جلدی سے عظمی کی طرف‬


‫دیکھا جو اپنا ناال باندھ رھی تھی اسنے‬
‫بھی کتوں کی آوازیں سن لی تھی‬
‫اس لیے رنگ اسکا بھی اڑا ھوا تھا‬

‫میں نے ڈرے ھوے انداز سے عظمی‬


‫کو کہا‬
‫او تواڈی پین نوں عظمی چھیتی کر‬
‫ُکتے آگئے نے‬

‫عظمی نے جلدی جلدی سے کپڑے سہی‬


‫کیے اور میرے پیچھے کھڑی ھو کر‬
‫ُکتوں کو دیکھنے لگ گئی‬

‫میں نے جلدی سے اسکا ھاتھ پکڑا‬


‫اور مکئی کی فصل کے بیچو بیچ نہر‬
‫کی طرف دوڑ لگا دی‬

‫ہم نے پیچھے مڑ کر نھی دیکھا تھوڑی‬


‫ھی دیر بعد بھاگتے ھوے ہم نہر پر‬
‫چڑھ کر ھی پیچھے دیکھنے لگ گئے‬
‫اور اپنے ُگٹنوں پر ھاتھ رکھ کر جھکے‬
‫ھوے زور زور سے سانس لینے لگ‬
‫گئے‬

‫کچھ دیر بعد عظمی سیدھی ھوئی اور‬


‫اپنے مموں پر ھاتھ رکھ کر بولی‬

‫شکر ھے آج‪ .‬بچ گئے‬

‫میں نے بھی کہا ھاں یار واقعی قسمت‬


‫نے بچا لیا‬

‫اور پھر ہم نے نہر سے پاوں دھوے‬


‫اور منہ ھاتھ‪ .‬دھو کر نہر کے کنارے‬
‫پر چلتے ھوے‬
‫ٹرین کی پٹری کے پُل پر پُہنچ گئے‬
‫ٹرین کی پٹری ہمارے گاوں کے پاس‬
‫سے ھی گزرتی تھی ہم تھوڑی دیر‬
‫وہاں کھڑے رھے اور پٹری پر ھی‬
‫گاوں کی طرف چل دئیے‬
‫میں نے عظمی کو کہا چلو دیکھتے ہیں‬
‫کون پٹری کے اوپر زیادہ دیر تک چلتا‬
‫ھے عظمی بولی مجھ سے نھی چال‬
‫جانا میرے پہلے ھی جلن ھورھی ھے‬

‫میں نے کہا کہاں جلن ھورھی ھے‬

‫تو وہ غصے سے بولی‬


‫جتھے توں چول ماری اے‬
‫میں امی نوں دساں گی کہ میرے نال‬
‫گندے کم کردا اے‬

‫تو میں نے کہا‬


‫یار ایک تو تم روز مجھے امی کی‬
‫دھمکیاں دیتی رھتی ھو جاو بتا دو‬
‫میں بھی تمہاری ساری کرتوت بتاوں گا‬
‫تو عظمی بولی جاو بتا دینا‬

‫میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے‬


‫کہا‬
‫اچھا بتاو نہ کہاں جلن ھورھی ھے میں‬
‫دبا دیتا ھوں‬
‫تو عظمی بولی‬

‫بوتا شوخا نہ بن وڈا آیا دبان واال‬

‫میں نے کہا عظمی‬


‫تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫کی اے‬
‫تو میں نے کہا یار معاف کردو غلطی‬
‫سے ھوگیا تھا‬
‫تو وہ بولی غلطی سے ھوا تھا یا پھر‬
‫جان بوجھ کر کیا تھا‬
‫تو میں نے کہا قسم سے مجھے پتہ ھی‬
‫نھی چال اور میں نے انگلی اندر کردی‬
‫مجھے مزا ھی اتنا آرھا تھا کہ مجھے‬
‫ہوش ھی نہ رھا‬

‫تو عظمی بولی‬


‫تمہیں پتہ بھی ھے کہ کتنی درد ھوئی‬
‫تھی میری‪ .‬ایک دم سے جان نکل گئی‬
‫تھی‬

‫میں نے کہا ہاں یار واقعی تمہاری تو‬


‫چیخ ھی نکل ‪،،،،،‬گئی تھی‪،،‬‬

‫مگر مجھے بعد میں پتہ چال کہ سالی‬


‫نے مزے والی چیخ ماری تھی‪،،،‬‬

‫اور میں نے حیرانگی سے‪،،‬‬


‫عظمی کی طرف دیکھا اور عظمی سے‬
‫کہا یار تم بھی لڑکی ھو اور وہ فرحت‬
‫بھی تو لڑکی ھی ھے‬
‫مگر اسے نے تو‬
‫‪،،،،،،،،،،،،‬‬

‫اتنا کہہ کر میں خاموش ھوگیا‬


‫تو عظمی بولی‬
‫کیا اسنے تو‬

‫میں نے کہا کچھ نھی‬


‫چلو نہ یار پٹری کے اوپر چلتے ہیں‬
‫عظمی بولی نئی پہلے بتاو‬
‫کہ کہا کہنے لگے تھے‬

‫میں نے کہا یار پھر کبھی بتاوں گا لمبی‬


‫بات ھے ابھی اندھیرا ھو رھا ھے یہ نہ‬
‫ھو کہ امی لوگ ہمیں ڈھونڈنے کھیت‬
‫میں پہنچ جائیں‬

‫عظمی نے جب امی کا سنا تو تیز تیز‬


‫چلنے لگ گئی‬
‫اتنی دیر میں ہم گاوں پہنچ گئے اور تیز‬
‫تیز چلتے جب گلی کی نکڑ پر پہنچے‬
‫تو سامنے سے نسرین چلی آرھی تھی‬
‫ہم بھی نسرین کی طرف چل دیے تو وہ‬
‫بڑے غصے سے بولی‬
‫مل گیا ٹیم ویلیاں نوں کار آندا‬
‫تسی کار چلو اک واری آوارہ گردو‬
‫ابو دس دے نے توانوں‬

‫عظمی بولی‬
‫چل چل آئی وڈی کماں والی‬

‫اور یہ کہہ کر اسکو نظر انداز کرتی‬


‫ھوئی گھر کی طرف چلدی نسرین بھی‬
‫اسکے پیچھے پیر پٹختی پُھوں پُھوں‬
‫کرتی چلدی‬

‫میں تو سیدھا اپنے گھر ھی چال گیا‬


‫مجھے انکل سے ویسے ھی ڈر لگتا‬
‫تھا‬

‫ایسے ھی دن گزرتے رھے‬


‫ہمارے پیپر شروع ھوگئے پھر رزلٹ‬
‫بھی آگیا میں‪ .‬کالس میں فرسٹ آیا تھا‬
‫اور عظمی اور نسرین نے بھی اچھے‬
‫نمبر لیے تھے مگر وہ صرف پاس ھی‬
‫ھوئی اس دوران‬
‫میری عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی‬
‫رھی‬
‫موقع ملتے ھی ہم کسنگ بھی کرلیتے‬
‫عظمی نے کئی دفعہ مجھ سے پوچھا‬
‫تھا کہ اس دن کیا بتانے لگے تھے مگر‬
‫میں ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ پھر‬
‫بتاوں گا‬
‫عظمی نے بھی اب مجھے پوچھنا‬
‫چھوڑ دیا تھا‬

‫ادھر سکول میں‬


‫ہم نے دوبارا فرحت کو نھی دیکھا شاید‬
‫ماسٹر جی نے اسے چودنے کے لیے‬
‫کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیا تھا‬

‫رزلٹ کے بعد اب ہم تینوں نے شہر‬


‫کے سکول میں داخلہ لینا تھا‬
‫کچھ دنوں بعد‪ .‬ہماری نئی یونیفارم‬
‫کتابیں اور بیگ بھی آگیا‬

‫ابو مجھے شہر کے گورمنٹ مڈل‬


‫سکول میں داخل کروا آے اور عظمی‬
‫نسرین میرے سکول کے کچھ فاصلے‬
‫پر گرلز مڈل سکول میں داخل‬
‫ھوگئی‪،،،‬‬

‫دوستو پہال دن تو میرا سکول میں بڑا‬


‫ھی کنفیوژن میں گزرا میں سکول کی‬
‫عمارت کو کمروں کو اور کمروں میں‬
‫پڑے ڈیسکوں کو اور چھت پر لگے‬
‫پنکھوں کو اور دیواروں پر لگے رنگ‬
‫برنگے چارٹوں کو دیکھ دیکھ کر بہت‬
‫خوش ھوتا رھا‬
‫اوپر سے ہماری کالس میں زیادہ بچے‬
‫شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے‬
‫تھے‬
‫کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب‬
‫مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی‬
‫اردو سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ‬
‫جاتے‬
‫میں شرمندہ سا ھوجاتا‬

‫سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے‬


‫جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی‬
‫برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ‬
‫کی ھوئی عالمہ اقبال اور قائد اعظم کی‬
‫تصویر یں‬
‫میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور‬
‫دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری‬
‫ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر‬
‫دوسری طرف جاتا تو تب بھی میری‬
‫میں یہ ‪.‬ھی طرف دیکھ رھے ھوتے‬
‫سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور‬
‫اس چیز کو بہت انجواے کیا‬

‫خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو‬


‫کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں‬
‫کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی‬
‫شہر جانے کی ھوتی‬
‫اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ‬
‫بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے‬
‫ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر‬
‫پر ایک چھوٹا سا لکڑی کا پُل بنا ھوا‬
‫تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف‬
‫جاتے تھے‬

‫سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے‬


‫کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے‬
‫ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو‬
‫عظمی اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی‬
‫تھی اور شہر کڑھائی اور سالئی کا کام‬
‫سیکھنے جاتی تھی‬
‫واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی‬
‫تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی‬
‫تھی‬
‫مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے‬
‫ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے‬
‫ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا‬
‫تھا‬

‫باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی‬


‫اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ‬
‫بھگ تھی اور‬
‫تھی بڑی سیکسی سی‬

‫چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے‬


‫میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے‬
‫اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے‬
‫کے برابر تھا اور اسکی گانڈ تو کمال‬
‫کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو‬
‫نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا‬
‫فٹنگ واال پہنتی تھی جس سے اسکے‬
‫ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے‬
‫ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے‬
‫ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی الگ ھوتا‬
‫رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے‬
‫رنگ میں ایک کشش تھی جو‬
‫ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ‬
‫لیتی بات کرتے ھوے آنکھوں کو وہ‬
‫اکثر بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات‬
‫کرتی‬
‫جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی‬
‫ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی‬
‫میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں‬
‫اور اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک‬
‫جاتے دیکھتا رھوں‬

‫وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی‬


‫جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے‬
‫کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری‬
‫گال پر ُچٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے‬
‫چلیں‬
‫میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو‬
‫باجی‬
‫مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا‬
‫کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ‬
‫دیتی ھی‪،،‬‬

‫کسے دن میں ایدی بُنڈ تے دندی وڈ کے‬


‫پج جانا اے‪،‬‬

‫مگر یہ میرا خیالی پالن تھا میں ایسا‬


‫صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل‬
‫کرنا ناممکن تھا‬

‫دوستو‬
‫کافی دن ایسا ھی چلتا رھا‬
‫ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد‬
‫جس کو سب اونٹ کہتے تھے‬
‫کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال‬
‫کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری‬
‫کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی‬
‫ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا‬

‫اسد پڑھائی میں بلکل نالئق تھا اسی‬


‫وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کالس میں‬
‫ھی رھا تھا‬

‫ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا‬


‫کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا‬
‫ھے‬
‫سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا‬
‫پڑھتا کچھ بھی نہ‬

‫شکل سے بلکل ساال پُھکرا لگتا تھا‬

‫اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی‬


‫سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی‬
‫تھی‬

‫میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ‬


‫کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا‬
‫اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں‬
‫میری گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا‬
‫میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر‬
‫اگنور کر دیتا‬
‫تھا‬
‫ایک دن میں نے دیکھا‪ .‬کہ اسد بڑا‬
‫مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب‬
‫رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ‬
‫رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ‬
‫کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر‬
‫اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے‬
‫تو میں سمجھا شاید اسکے خارش‬
‫ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ‬
‫کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے‬
‫ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو بنا‬
‫ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک‬
‫اٹھاے ھوے تھا‬
‫میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور‬
‫کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫‪.،،‬جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی‬
‫میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم‬
‫میں نے جھر ُجھری سی لی اور آنکھیں‬
‫پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ‪،‬‬

‫جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ‬


‫تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا‬

‫رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں‬


‫کی تصویریں تھی‬
‫جس میں کسی جگہ‬
‫لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا‬
‫کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو منہ میں‬
‫لے کر چوس رھی تھی کہیں گوری‬
‫گھوڑی بنی ھوئی تھی اور گورے نے‬
‫اسکے بال پکڑے ھوے تھے اور لن‬
‫پیچھے‪ .‬سے اسکی پھدی میں ڈاال ھوا‬
‫تھا‬
‫کسی جگہ‪ .‬گوری اپنے ممے چسوا‬
‫رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک‬
‫گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے‬
‫تھے اور کسی جگہ دو گوریاں آپس میں‬
‫ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی‬
‫تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں‬
‫گوری اپنی انگلی پھدی میں ڈال کر لیٹی‬
‫ھوئی تھی‬
‫ایسے بہت سے پوز تھے‬
‫میں رساال دیکھنے میں فل مگن ھوگیا‬
‫تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل‬
‫کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں‬
‫لن سے بیگانہ ھوکر بس انگریز‬
‫گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی‬
‫چٹی بُنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ‬
‫اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میں نے‬
‫گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو‬
‫میں عظمی کی چیخ سن کر اور اسکے‬
‫زور دار دھکے کی وجہ سے پہلے ھی‬
‫سہم گیا تھا اوپر سے جیسے ھی بنے‬
‫پر کسی کے دوڑے آنے کی آواز سنی‬
‫تو میرے اور زیادہ ترا نکل گئے میں‬
‫نے ڈر کے مارے جلدی سے ٹاہلی کی‬
‫اوٹ لیتے ھوے دوسری طرف دیکھا تو‬
‫مجھے چار پانچ بڑے بڑے ُکتے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ لڑتے ھوے آگے‬
‫پیچھے بنے پر ہماری طرف ھی دوڑے‬
‫آتے ھوے نظر آے‬
‫ُکتوں کو دیکھ کر میری تو گانڈ پھٹنے‬
‫والی ہوگئی‬

‫میں نے جلدی سے عظمی کی طرف‬


‫دیکھا جو اپنا ناال باندھ رھی تھی اسنے‬
‫بھی کتوں کی آوازیں سن لی تھی‬
‫اس لیے رنگ اسکا بھی اڑا ھوا تھا‬

‫میں نے ڈرے ھوے انداز سے عظمی‬


‫کو کہا‬
‫او تواڈی پین نوں عظمی چھیتی کر‬
‫ُکتے آگئے نے‬

‫عظمی نے جلدی جلدی سے کپڑے سہی‬


‫کیے اور میرے پیچھے کھڑی ھو کر‬
‫ُکتوں کو دیکھنے لگ گئی‬

‫میں نے جلدی سے اسکا ھاتھ پکڑا‬


‫اور مکئی کی فصل کے بیچو بیچ نہر‬
‫کی طرف دوڑ لگا دی‬
‫ہم نے پیچھے مڑ کر نھی دیکھا تھوڑی‬
‫ھی دیر بعد بھاگتے ھوے ہم نہر پر‬
‫چڑھ کر ھی پیچھے دیکھنے لگ گئے‬
‫اور اپنے ُگٹنوں پر ھاتھ رکھ کر جھکے‬
‫ھوے زور زور سے سانس لینے لگ‬
‫گئے‬

‫کچھ دیر بعد عظمی سیدھی ھوئی اور‬


‫اپنے مموں پر ھاتھ رکھ کر بولی‬

‫شکر ھے آج‪ .‬بچ گئے‬

‫میں نے بھی کہا ھاں یار واقعی قسمت‬


‫نے بچا لیا‬

‫اور پھر ہم نے نہر سے پاوں دھوے‬


‫اور منہ ھاتھ‪ .‬دھو کر نہر کے کنارے‬
‫پر چلتے ھوے‬
‫ٹرین کی پٹری کے پُل پر پُہنچ گئے‬
‫ٹرین کی پٹری ہمارے گاوں کے پاس‬
‫سے ھی گزرتی تھی ہم تھوڑی دیر‬
‫وہاں کھڑے رھے اور پٹری پر ھی‬
‫گاوں کی طرف چل دئیے‬
‫میں نے عظمی کو کہا چلو دیکھتے ہیں‬
‫کون پٹری کے اوپر زیادہ دیر تک چلتا‬
‫ھے عظمی بولی مجھ سے نھی چال‬
‫جانا میرے پہلے ھی جلن ھورھی ھے‬
‫میں نے کہا کہاں جلن ھورھی ھے‬

‫تو وہ غصے سے بولی‬


‫جتھے توں چول ماری اے‬
‫میں امی نوں دساں گی کہ میرے نال‬
‫گندے کم کردا اے‬

‫تو میں نے کہا‬


‫یار ایک تو تم روز مجھے امی کی‬
‫دھمکیاں دیتی رھتی ھو جاو بتا دو‬
‫میں بھی تمہاری ساری کرتوت بتاوں گا‬
‫تو عظمی بولی جاو بتا دینا‬
‫میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے‬
‫کہا‬
‫اچھا بتاو نہ کہاں جلن ھورھی ھے میں‬
‫دبا دیتا ھوں‬
‫تو عظمی بولی‬

‫بوتا شوخا نہ بن وڈا آیا دبان واال‬

‫میں نے کہا عظمی‬


‫تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫کی اے‬

‫تو میں نے کہا یار معاف کردو غلطی‬


‫سے ھوگیا تھا‬
‫تو وہ بولی غلطی سے ھوا تھا یا پھر‬
‫جان بوجھ کر کیا تھا‬
‫تو میں نے کہا قسم سے مجھے پتہ ھی‬
‫نھی چال اور میں نے انگلی اندر کردی‬
‫مجھے مزا ھی اتنا آرھا تھا کہ مجھے‬
‫ہوش ھی نہ رھا‬

‫تو عظمی بولی‬


‫تمہیں پتہ بھی ھے کہ کتنی درد ھوئی‬
‫تھی میری‪ .‬ایک دم سے جان نکل گئی‬
‫تھی‬

‫میں نے کہا ہاں یار واقعی تمہاری تو‬


‫چیخ ھی نکل ‪،،،،،‬گئی تھی‪،،‬‬
‫مگر مجھے بعد میں پتہ چال کہ سالی‬
‫نے مزے والی چیخ ماری تھی‪،،،‬‬

‫اور میں نے حیرانگی سے‪،،‬‬

‫عظمی کی طرف دیکھا اور عظمی سے‬


‫کہا یار تم بھی لڑکی ھو اور وہ فرحت‬
‫بھی تو لڑکی ھی ھے‬
‫مگر اسے نے تو‬
‫‪،،،،،،،،،،،،‬‬

‫اتنا کہہ کر میں خاموش ھوگیا‬


‫تو عظمی بولی‬
‫کیا اسنے تو‬

‫میں نے کہا کچھ نھی‬


‫چلو نہ یار پٹری کے اوپر چلتے ہیں‬
‫عظمی بولی نئی پہلے بتاو‬
‫کہ کہا کہنے لگے تھے‬

‫میں نے کہا یار پھر کبھی بتاوں گا لمبی‬


‫بات ھے ابھی اندھیرا ھو رھا ھے یہ نہ‬
‫ھو کہ امی لوگ ہمیں ڈھونڈنے کھیت‬
‫میں پہنچ جائیں‬

‫عظمی نے جب امی کا سنا تو تیز تیز‬


‫چلنے لگ گئی‬
‫اتنی دیر میں ہم گاوں پہنچ گئے اور تیز‬
‫تیز چلتے جب گلی کی نکڑ پر پہنچے‬
‫تو سامنے سے نسرین چلی آرھی تھی‬
‫ہم بھی نسرین کی طرف چل دیے تو وہ‬
‫بڑے غصے سے بولی‬

‫مل گیا ٹیم ویلیاں نوں کار آندا‬


‫تسی کار چلو اک واری آوارہ گردو‬
‫ابو دس دے نے توانوں‬

‫عظمی بولی‬
‫چل چل آئی وڈی کماں والی‬

‫اور یہ کہہ کر اسکو نظر انداز کرتی‬


‫ھوئی گھر کی طرف چلدی نسرین بھی‬
‫اسکے پیچھے پیر پٹختی پُھوں پُھوں‬
‫کرتی چلدی‬

‫میں تو سیدھا اپنے گھر ھی چال گیا‬


‫مجھے انکل سے ویسے ھی ڈر لگتا‬
‫تھا‬

‫ایسے ھی دن گزرتے رھے‬


‫ہمارے پیپر شروع ھوگئے پھر رزلٹ‬
‫بھی آگیا میں‪ .‬کالس میں فرسٹ آیا تھا‬
‫اور عظمی اور نسرین نے بھی اچھے‬
‫نمبر لیے تھے مگر وہ صرف پاس ھی‬
‫ھوئی اس دوران‬
‫میری عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی‬
‫رھی‬
‫موقع ملتے ھی ہم کسنگ بھی کرلیتے‬
‫عظمی نے کئی دفعہ مجھ سے پوچھا‬
‫تھا کہ اس دن کیا بتانے لگے تھے مگر‬
‫میں ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ پھر‬
‫بتاوں گا‬
‫عظمی نے بھی اب مجھے پوچھنا‬
‫چھوڑ دیا تھا‬

‫ادھر سکول میں‬


‫ہم نے دوبارا فرحت کو نھی دیکھا شاید‬
‫ماسٹر جی نے اسے چودنے کے لیے‬
‫کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیا تھا‬
‫رزلٹ کے بعد اب ہم تینوں نے شہر‬
‫کے سکول میں داخلہ لینا تھا‬

‫کچھ دنوں بعد‪ .‬ہماری نئی یونیفارم‬


‫کتابیں اور بیگ بھی آگیا‬

‫ابو مجھے شہر کے گورمنٹ مڈل‬


‫سکول میں داخل کروا آے اور عظمی‬
‫نسرین میرے سکول کے کچھ فاصلے‬
‫پر گرلز مڈل سکول میں داخل ھوگئی‬
‫دوستو پہال دن تو میرا سکول میں بڑا‬
‫ھی کنفیوژن میں گزرا میں سکول کی‬
‫عمارت کو کمروں کو اور کمروں میں‬
‫پڑے ڈیسکوں کو اور چھت پر لگے‬
‫پنکھوں کو اور دیواروں پر لگے رنگ‬
‫برنگے چارٹوں کو دیکھ دیکھ کر بہت‬
‫خوش ھوتا رھا‬
‫اوپر سے ہماری کالس میں زیادہ بچے‬
‫شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے‬
‫تھے‬
‫کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب‬
‫مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی‬
‫اردو سن کر کھلکھال کر ہنسنے لگ‬
‫جاتے‬
‫میں شرمندہ سا ھوجاتا‬

‫سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے‬


‫جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی‬
‫برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ‬
‫کی ھوئی عالمہ اقبال اور قائد اعظم کی‬
‫تصویر یں‬
‫میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور‬
‫دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری‬
‫ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر‬
‫دوسری طرف جاتا تو تب بھی میری‬
‫میں یہ ‪.‬ھی طرف دیکھ رھے ھوتے‬
‫سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور‬
‫اس چیز کو بہت انجواے کیا‬
‫خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو‬
‫کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں‬
‫کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی‬
‫شہر جانے کی ھوتی‬
‫اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ‬
‫بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے‬
‫ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر‬
‫پر ایک چھوٹا سا لکڑی کا پُل بنا ھوا‬
‫تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف‬
‫جاتے تھے‬

‫سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے‬


‫کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے‬
‫ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو‬
‫عظمی اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی‬
‫تھی اور شہر کڑھائی اور سالئی کا کام‬
‫سیکھنے جاتی تھی‬
‫واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی‬
‫تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی‬
‫تھی‬
‫مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے‬
‫ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے‬
‫ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا‬
‫تھا‬

‫باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی‬


‫اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ‬
‫بھگ تھی اور‬
‫تھی بڑی سیکسی سی‬

‫چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے‬


‫میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے‬
‫اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے‬
‫کے برابر تھا اور اسکی گانڈ تو کمال‬
‫کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو‬
‫نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا‬
‫فٹنگ واال پہنتی تھی جس سے اسکے‬
‫ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے‬
‫ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے‬
‫ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی الگ ھوتا‬
‫رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے‬
‫رنگ میں ایک کشش تھی جو ہر‬
‫دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی‬
‫بات کرتے ھوے آنکھوں کو وہ اکثر‬
‫بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات‬
‫کرتی‬
‫جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی‬
‫ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی‬
‫میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں‬
‫اور اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک‬
‫جاتے دیکھتا رھوں‬

‫وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی‬


‫جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے‬
‫کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری‬
‫گال پر ُچٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے‬
‫چلیں‬
‫میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو‬
‫باجی‬

‫مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا‬


‫کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ‬
‫دیتی ھی‪،،‬‬

‫کسے دن میں ایدی بُنڈ تے دندی وڈ کے‬


‫پج جانا اے‪،‬‬

‫مگر یہ میرا خیالی پالن تھا میں ایسا‬


‫صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل‬
‫کرنا ناممکن تھا‬

‫دوستو‬
‫کافی دن ایسا ھی چلتا رھا‬
‫ہماری کالس میں ایک لڑکا تھا اسد‬
‫جس کو سب اونٹ کہتے تھے‬
‫کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال‬
‫کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری‬
‫کالس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی‬
‫ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا‬

‫اسد پڑھائی میں بلکل نالئق تھا اسی‬


‫وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کالس میں‬
‫ھی رھا تھا‬
‫ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا‬
‫کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا‬
‫ھے‬

‫سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا‬


‫پڑھتا کچھ بھی نہ‬

‫شکل سے بلکل ساال پُھکرا لگتا تھا‬

‫اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی‬


‫سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی‬
‫تھی‬
‫میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ‬
‫کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا‬
‫اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں‬
‫میری گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا‬
‫میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر‬
‫اگنور کر دیتا‬
‫تھا‬
‫ایک دن میں نے دیکھا‪ .‬کہ اسد بڑا‬
‫مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب‬
‫رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ‬
‫رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ‬
‫کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر‬
‫اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے‬
‫تو میں سمجھا شاید اسکے خارش‬
‫ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ‬
‫کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے‬
‫ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو بنا‬
‫ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک‬
‫اٹھاے ھوے تھا‬

‫میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور‬


‫کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫‪.،،‬جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی‬
‫میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم‬
‫میں نے جھر ُجھری سی لی اور آنکھیں‬
‫پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ‪،‬‬

‫جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ‬


‫تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا‬

‫رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں‬


‫کی تصویریں تھی‬

‫جس میں کسی جگہ‬


‫لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا‬
‫کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو‬
‫منہ میں لے کر چوس رھی تھی کہیں‬
‫گوری گھوڑی بنی ھوئی تھی اور‬
‫گورے نے اسکے بال پکڑے ھوے‬
‫تھے اور لن پیچھے‪ .‬سے اسکی پھدی‬
‫میں ڈاال ھوا تھا‬
‫کسی جگہ‪ .‬گوری اپنے ممے چسوا‬
‫رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک‬
‫گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے‬
‫تھے اور کسی جگہ دو گوریاں آپس میں‬
‫ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی‬
‫تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں‬
‫گوری اپنی انگلی پھدی میں ڈال کر لیٹی‬
‫ھوئی تھی‬
‫ایسے بہت سے پوز تھے‬
‫میں رساال دیکھنے میں فل مگن ھوگیا‬
‫تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل‬
‫کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں‬
‫لن سے بیگانہ ھوکر بس انگریز‬
‫گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی‬
‫چٹی بُنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ‬
‫اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میں نے‬
‫گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو‬

‫میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو اسد‬


‫نے میرا لن پکڑا ھوا تھا اور لن کو‬
‫مٹھی میں دبا رھا تھا میں نے ایک‬
‫جھٹکے اس کے ھاتھ سے اپنا لن‬
‫ُچھڑوایا اور غصے سے اس کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا‬
‫اوے کیا مسئلہ ھے تجھے تمیز سے‬
‫رہو تو وہ مسکرا کر بوال یار میں تو‬
‫تیرا لن چیک کر رھا تھا کہ کتنا بڑا‬
‫ھوگیا ھے‬
‫میں نے کہا تو نے میرا لن اپنی گانڈ‬
‫میں لینا ھے جو چیک کررھا ھے‪،‬‬

‫تو بوال یار ابھی تیری عمر نھی ھے‬


‫گانڈ میں لن ڈالنے کی ابھی تو تجھے یہ‬
‫بھی نھی پتہ ھوگا کہ‬
‫بیر دی بُنڈ کتھے ہوندی اے‬
‫تو میں بوال‬
‫او پائی میں ایتھے پڑن آنداں ایں بیر دی‬
‫بُنڈ ویکھن نئی‪،‬‬

‫تو اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن‬


‫پر رکھ کر کہا یہ دیکھ ایسا ھوتا ھے‬
‫بُنڈ پاڑ لن‬
‫تو میں نے جھٹکے سے اپنا ھاتھ‬
‫پیچھے کرتے ھوے کہا‬
‫اوے توں باز نئی آنا‬
‫آ لین دے ماسٹر جی نوں‬
‫میں دسنا اے توں جیڑے کم کرن لگیا‬
‫ھویاں اے‬

‫تو اسد نے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے‬


‫ھوے کہا‬
‫یار تم تو غصہ ھی کرگئے میں تو اس‬
‫لیے کہہ رھا تھا کہ اپنے لن کی مالش‬
‫کیا کرو دیکھنا کیسے دنوں میں میرے‬
‫لن جتنا ھوتا ھے‬

‫تو میں نے کہا او بھائی اپنی اور میری‬


‫عمر اور قد کا فرق دیکھ‬
‫پہلے پھر یہ بات کرنا‬

‫تیری عمر ذیادہ ھے اس لیے تیرا لن‬


‫بھی بڑا ھی ھوگا میں ابھی چھوٹا ھوں‬
‫اس لیے میرا لن بھی چھوٹا ھے‬

‫تو اسد بوال یار ایک تو تم غصہ بہت‬


‫کرتے ھو میں تیرے فائدے کی ھی بات‬
‫کررھا ھوں‬

‫اور دیکھ لن کا عمر اور قد سے کوئی‬


‫تعلق نھی‬
‫لن کو جتنی جلدی اور جتنا مرضی بڑا‬
‫کرسکتے ھو‬

‫میں اسد کی باتوں میں آچکا تھا اس لیے‬


‫میرا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ھوگیا تھا‬

‫اس لیے میں اسکی باتوں کو غور سے‬


‫سن رھا تھا‬

‫تو میں نے کہا وہ کیسے کرسکتے ہیں‬

‫تو اسد بوال یاسر ویرے دیکھ سیدھی‬


‫سی بات ھے‬
‫میں یاروں کا یار ھوں اور گانڈو لوگوں‬
‫کو میں اپنے پاس بھی نھی بھٹکنے دیتا‬
‫تم مجھے اچھے لڑکے لگے ھو میں‬
‫کافی دنوں سے تجھ سے دوستی کرنا‬
‫چاھتا تھا مگر ججھک رھا تھا‬

‫تو میں نے کہا دیکھ اسد میں پینڈو جیا‬


‫تے سدھا سادھا جیا بندا واں‬
‫اسی پنڈ دے لوک وی یاراں دے یار‬
‫ہوندے آں‬
‫تے جدے نال اک واری یاری ال ٰلیے‬
‫تے اودے واسطے جان وی دے دیندے‬
‫آں‪،‬‬

‫اسد نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور‬


‫مجھے کہنے لگا بس یار مجھے بھی‬
‫ایسا ھی سمجھ اور میں نے بھی اسکے‬
‫ھاتھ میں دوستی کا ھاتھ دے دیا‬
‫اور کافی دیر ہم ایک دوسرے کو اپنے‬
‫اپنے بارے میں بتاتے رھے‬
‫اسد نے بتایا کہ اسکی بس ایک بہن ھی‬
‫ھے جو اس سے ایک سال چھوٹی ھے‬
‫اور میٹرک کر رھی ھے اور اس کے‬
‫ابو اسکے بچپن میں ھی ایک کار‬
‫ایکسڈینٹ میں ہالک ہوگئے تھے جس‬
‫میں اسکے ماموں اور ممانی بھی ساتھ‬
‫ھی ہالک ھوے تھے‬
‫اور اسکا ایک کزن ھے جو اس کے‬
‫ماموں کا ھی بیٹا تھا‬
‫جو کچھ دن پہلے کینڈا چال گیا تھا‬
‫اسد کے ابو اور ماموں بوتیک کا کام‬
‫کرتے تھے جو اب اسد کی امی نے‬
‫سمبھاال ھوا تھا‬
‫اسد کا پڑھائی میں بلکل بھی دل نھی‬
‫لگتا تھا جس وجہ سے وہ تین چار دفعہ‬
‫فیل ھوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تک‬
‫چھٹی کالس میں ھی تھا اسد نے بتایا کہ‬
‫اسے سیکس کا بہت شوق ھے اور‬
‫خاص کر لڑکوں کی بُنڈیں بہت مارتا‬
‫ھے‬

‫جب اس‪ ،‬نے مجھے یہ بتایا تو میں نے‬


‫اسے مکا مارتے ھوے کہا ماما تبھی‬
‫میرے پٹوں پر ھاتھ پھیرتا رہتا تھا‬
‫تو اس نے ہنس کر کہا کہ ہاں یار میں‬
‫نے تجھ پر بڑی دفعہ ٹرائی ماری مگر‬
‫تم ویسے لڑکے نھی نکلے ورنہ اب‬
‫تک تم بھی میرے نیچے ھوتے‬

‫میں نے اسد کے ہاتھ پر زور سے ہاتھ‬


‫مارا اور دونوں کھل کھال کر ہنس‬
‫پڑے‬

‫تو میں نے کہا یار یہ گندے رسالے‬


‫کہاں سے التا ھے اور تجھے ڈر نھی‬
‫لگتا تو اسد بڑے فخر سے بوال جگر یہ‬
‫تو کچھ بھی نھی ھے میرے پاس تو‬
‫ایسے ایسے رسالے پڑے ہیں کہ تو‬
‫دیکھ کر چھوٹ جاے‬
‫تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم‬
‫انکو رکھتے کہاں پر ھو تو وہ بوال کہ‬
‫میرے کزن واال کمرہ اب میرے پاس‪.‬‬
‫ھی ھوتا ھے اس میں الماریاں ہیں وہیں‬
‫چھپا دیتا ھوں میرا کزن بھی بڑا حرامی‬
‫تھا کسی دن تجھے گھر لیجا کر ایسی‬
‫ایسی ایٹمیں دیکھاوں گا کہ تو یاد کرے‬
‫گا کہ کس سخی دل سے پاال پڑا ھے‬

‫میں نے کہا واہ یار تیری تو موجیں لگی‬


‫ھوئی ہیں‬
‫تو اسد بوال میرے ساتھ رھو گے تو‬
‫تیری بھی موجیں ھونگی‬
‫میں نے کہا نئی یار ایسی بھی بات نھی‬
‫بس تیری دوستی ھی کافی ھے میرے‬
‫لیے‬
‫اسی دوران ہمیں تفری ہوگئی‪ .‬ہاف ٹائم‬
‫کی گھنٹی بجتے ھی سب بچے باہر کو‬
‫بھاگے‪ .‬ہم بھی نکل کر باہر گراونڈ میں‬
‫آگئے پھر ہم سڑک کی طرف چلے گئے‬
‫وھاں ریڑھی سے انڈے والے نان کھاے‬
‫اور پھر گراونڈ میں آکر ایک طرف بیٹھ‬
‫کر باتیں کرنے لگ گئے‬

‫اسد بوال سنا جگر گاوں میں کسی بچی‬


‫کی پھدی بھی ماری ھے اب تک یاں‬
‫پھر کنوارہ ھی پھر رھا ھے تو میں نے‬
‫کہا نہ یار‪ .‬ہمارے گاوں میں ایسا ویسا‬
‫کچھ نھی ھوتا‬

‫اگر ایسا کچھ ھو تو پتہ لگنے پر ویسے‬


‫ھی لڑکے لڑکی کو جان سے مار دیتے‬
‫ہیں‬
‫تو اسد بوال‬
‫ابھی تیرا لن چھوٹا ھے نہ اسی لیے‬
‫پھدی کی طلب نھی کرتا اور مجھے تو‬
‫لگتا کہ تم نے ابھی تک مٹھ بھی نھی‬
‫ماری ھوگی‬
‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے پوچھا‬
‫کہ یار چھوٹے لن کی تو سمجھ آگئی‬
‫مگر یہ مٹھ مارنا کیا ھے‬

‫تو اسد نے ہنستے ھوے میرے کندھے‬


‫پر ھاتھ مارتے ھوے کہا‬
‫جا یار‪ .‬تم واقعی پکے پینڈو ھو‬

‫چل کسی دن تجھے یہ چسکا بھی ڈال‬


‫دوں گا‬

‫میں کچھ دیر خاموش رھا اور‬


‫جھجھکتے ھوے اسد سے بوال‬
‫یار کیا واقعی لن کے بڑے ھونے کا‬
‫عمر سے کوئی تعلق نھی‬
‫تو اسد میری طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫تم نے بڑا کرنا ھے تو بتا دیکھنا چند‬
‫دنوں میں ھی لن بڑا نہ ھوا تو کہنا‬

‫میں نے حیرانگی سے اسکی طرف‬


‫دیکھتے ھوے کہا سچی‬
‫تو اسد بوال‬
‫مچی‬
‫تو میں نے کہا یار وہ کیسے تو اسد بوال‬
‫ہے میرے پاس ایک نسخہ‬
‫تو میں نے کہا کونسا‬
‫تو اسد بوال بیس روپے کا ھے بس‬
‫تو میں پریشان سا ھوکر بول بیسسسسس‬
‫روپے کا‬

‫نہ یار مجھے تو گھر سے پچاس پیسے‬


‫خرچہ ملتا ھے اور اسکا میں نان کھا‬
‫لیتا ھوں میرے پاس اتنے پیسے کہاں‬
‫سے آنے ہیں‬

‫تو اسد بوال چھڈ یار‬


‫یاراں دے ہوندیاں پریشان نئی ھوئی دا‬

‫میں نے کہا کیا مطلب‬


‫تو اسد بوال‬
‫یار میں تجھے ال دوں گا پیسوں کی‬
‫فکر نہ کر‬

‫تو میں نے کہا نھی یار میں ایسے نھی‬


‫لے سکتا جب میرے پاس پیسے ھونگے‬
‫میں تجھے بتا دوں گا‬

‫تو اسد غصے سے میری طرف‬


‫دیکھتے ھوے بوال‬

‫ماما فیر کردتی نہ پینڈواں والی گل‬


‫نالے یاری الئی اے تے نالے فرق‬
‫رکھنا اے‬
‫میں نے کہا نھی یار ایسی بھی بات نھی‬
‫بس مجھے شرم آتی ھے‬
‫تو اسد بوال‬
‫چل ایسے کر مجھ سے ادھار کرکے‬
‫لے لینا جب تیرے پاس پیسے ھونگے‬
‫تو دینا‬
‫اب تو ٹھیک ھے‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے اسد کی‬
‫طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اتنی دیر میں ہاف ٹائم بھی ختم ھوگیا‬
‫اور ہم دونوں کالس کی طرف چل دیے‬

‫اور اسد نے بتایا کہ میں کل ھی اپنے‬


‫یار کے لیے تحفہ لے آوں گا‬
‫میں دل ھی دل میں بہت خوش ھوتا‬
‫رھا‬
‫چھٹی کے بعد میں عظمی اور نسرین‬
‫کے سکول کی طرف چال گیا اور انکو‬
‫ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا‬

‫دوسرے دن میں سکول کے لیے تیار‬


‫ھوکر عظمی کے گھر گیا اور ان دونوں‬
‫کو لے کر ہم تینوں باجی صدف کے‬
‫گھر اسے ساتھ لینے چلے گئے‬
‫باجی صدف تیار ھوکر بیٹھی تھی بس‬
‫برقعہ ھی پہننا تھا ہمیں دیکھ کر باجی‬
‫صدف بولی بس دومنٹ میں ابھی آئی‬
‫اور کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫باجی صدف لگتا تھا ابھی ابھی نہائی‬
‫تھی کیوں پیچھے سے گیلے بال اسکی‬
‫قمیض کو بھی گیال کیے ھوے تھے‬
‫باجی صدف نے آج پنک کلر کا سوٹ‬
‫پہنا ھوا تھا جو اسپر بہت جچ رھا تھا‬
‫باجی صدف تھوڑی ھی دیر بعد برقعہ‬
‫پہنے باہر آگئی اور ہم سکول کی طرف‬
‫چلدیے‬
‫کھیت کی پگڈنڈی پر ہم سب آگے‬
‫پیچھے چل رھے تھے سب سے آگے‬
‫نسرین تھی اس سے پیچھے عظمی اور‬
‫پھر باجی صدف اور اس کے پیچھے‬
‫میں تھا اور باجی صدف کی ہلتی ھوئی‬
‫گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے مزے سے‬
‫مست ھوکر چل رہا تھا اور ہمارا فاصلہ‬
‫بھی کچھ ذیادہ نھی تھا بس ایک قدم کے‬
‫فاصلے پر میں باجی صدف کے پیچھے‬
‫چل رھا تھا میرا لن بھی قمیض کو اوپر‬
‫اٹھاے پیچھے سے باجی صدف کی گانڈ‬
‫کو اشارے کر رھا تھا جب ہم آدھے‬
‫راستے پر پہنچے تو ایکدم کپاس کی‬
‫فصل جو اب سوکھ چکی تھی اس میں‬
‫سے ایک کالے رنگ کی بلی نکل کر‬
‫تیزی سے عظمی اور باجی صدف کے‬
‫درمیان سے نکل کر پگڈنڈی کے‬
‫دوسری طرف بھاگ گئی بلی شاید باجی‬
‫صدف کے پاوں کے اوپر سے گزری‬
‫تھی باجی صدف نے زور دار چیخ‬
‫ماری اور پیچھے کو ھوئی جس سے‬
‫اسکا پاوں بھی پگڈنڈی سے سلپ ھوا‬
‫اور نیچے گرنے ھی لگی تھی کے میں‬
‫نے جلدی سے باجی صدف کو پیچھے‬
‫سے جپچھی ڈال دی اور گرنے سے‬
‫بچا لیا‬
‫یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ مجھے‬
‫بھی سمجھ نہ آئی کے باجی کو کہاں‬
‫سے پکڑوں‬
‫میرے پکڑنے سے پہلے باجی کافی‬
‫نیچے کو جھک چکی تھی اور انکی بُنڈ‬
‫جو پہلے ھی باہر کو نکلی ھوئی تھی‬
‫جھکنے کی وجہ سے اور باہر نکل گئی‬
‫تھی میں نے ویسے ھی اسکو پیچھے‬
‫سے جب جپھی ڈالی تو میرے ھاتھوں‬
‫اسکے دونوں بڑے بڑے اور نرم ممے‬
‫آگئے اور میرا لن اس کی بُنڈ کی دراڑ‬
‫کے اوپر ٹکر مار کر اندر گھسنے کی‬
‫کوشش کرنے لگ گیا‬

‫ایسا بس کوئی تیس چالیس سیکنڈ ھی‬


‫ھوا‬

‫باجی صدف نے جلدی سے اپنے دونوں‬


‫ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھے اور‬
‫جھٹکے سے مموں کو آزاد کروا دیا‬
‫مگر میں نے بھی ممے چھوڑتے وقت‬
‫ہلکے سے دبا کر اس انداز سے‬
‫چھوڑے کے باجی کو ایسے لگے‬
‫جیسے انکے چھڑانے کی وجہ سے‬
‫مموں پر دباو آیا تھا‬
‫اور میرے ھاتھ باجی کے پیٹ پر آگئے‬
‫تھے‬
‫اور لن صاحب ابھی تک باجی کی گانڈ‬
‫میں گھسنے کی ٹرائیاں مار رھے تھے‬
‫باجی اب سمبھل چکی تھی اور عظمی‬
‫اور نسرین بھی گبھرا کر کھڑی ھوگئی‬
‫تھی اور عظمی نے بھی آگے بڑھ کر‬
‫باجی کو بازوں سے پکڑ کر سیدھا کیا‬

‫میں نے پوچھا باجی کیا ھوا تھا بچ تو‬


‫گئی چوٹ تو نھی آئی تو باجی ایکدم‬
‫آگے کو ہوئی اور بڑی حیرت سے‬
‫میری آگے سے اٹھی ھوئی شلوار کو‬
‫ایک نظر دیکھا اور پھر اپنا آپ مجھ‬
‫سے چھڑوا کر‬
‫بولی ھاں ھاں بچ گئی ھوں‬
‫بلی نے اچانک چھالنگ لگائی تو میں‬
‫ڈر کر پھسل گئی‬
‫شکر ہے تم نے مجھے پکڑ لیا نھی تو‬
‫میری پاوں میں موچ آجانی تھی‬

‫تو میں نے کہا باجی ***** نہ کرے کہ‬


‫آپکے پاوں میں موچ اجاے‬
‫تو باجی مجھے غور سے دیکھتے‬
‫ھوے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے‬
‫بولی‬
‫شکریہ یاسر‬
‫تو میں نے کہا کوئی بات نھی باجی یہ‬
‫تو میرا فرض بنتا تھا‬
‫تو وہ تھوڑا ہنسی اور ایک دفعہ پھر‬
‫میری قمیض کی طرف دیکھا جہاں اب‬
‫سب شانتی تھی اور مسکرا کر پھر‬
‫میرے آگے چل پڑی‬

‫میں نے اس دوران عظمی کی طرف‬


‫دیکھا وہ پتہ نھی کیوں مجھے گھورے‬
‫جارھی تھی‬

‫خیر ہم سکول پہنچ گئے‬


‫اور میں دل ھی دل میں بلی کو دعائیں‬
‫دیتا رھا جسکی وجہ سے مجھے باجی‬
‫صدف کے جسم کو چھونا نصیب ھوا‬
‫وہ بھی ڈریکٹ مموں کو اور گانڈ کو‬
‫جسکو روز حسرت بھری نگاہوں سے‬
‫دیکھتا رھتا تھا‪،‬‬
‫عظمی لوگوں کو سکول چھوڑ کر میں‬
‫واپس اپنے سکول آگیا کچھ دیر پڑھانے‬
‫کے بعد ٹیچر بھی کمرے سے باہر‬
‫چلے گئے اور سب بچے اپنی اپنی‬
‫گپوں میں مصروف ھوگئے‬
‫تب اسد نے بیگ سے دو چھوٹی سی‬
‫شیشیاں نکالی اور مجھے دیکھاتے‬
‫ھوے کہا یہ ھے وہ جادوئی نسخہ جس‬
‫کی مالش سے دنوں میں تیرا لن پھدی‬
‫پاڑ لن بن جاے گا‬
‫میں نے شیشیوں کو پکڑتے ھوے انکو‬
‫حیرانگی سے دیکھا جن کے ڈھکن الگ‬
‫الگ کلر کے تھے اور اسد سے کہا‬
‫یہ کیا ھے‬
‫تو وہ بوال‬
‫جگر اس میں تیل ھے‬
‫رات کو تم نے پہلے یہ سفید ڈھکن‬
‫والے تیل کی سارے لن پر ہلکے ہلکے‬
‫مالش کرنی ھے اور لن پر سوتی کپڑا‬
‫لپیٹ دینا ھے اور پھر آدھے گھنٹے بعد‬
‫کالے ڈھکن والی شیشی کے تیل سے‬
‫ٹوپی کو چھوڑ کر نچلے حصہ پر مالش‬
‫کرنی ھے اور پھر وہ ھی کپڑا دوبارا‬
‫لپیٹ لینا ھے‬

‫تو میں نے کہا کتنے دن کرنی ھے تو‬


‫اس نے بتایا بس جب تک یہ تیل ختم‬
‫نھی ھوتا‬
‫تب تک روز مالش کرتے رہنا تجھے‬
‫دنوں میں فرق کا پتہ چل جاے گا‬

‫میں نے خوش ھوکر شیشیاں اپنے بیگ‬


‫میں رکھ دی‬
‫پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ گھر جاکر‬
‫انکو رکھوں گا کہاں پر پھر سوچا جگہ‬
‫بھی مل ھی جاے گی ایک دفعہ لے کر‬
‫گھر تو پہنچوں‬

‫پھر ہاف ٹائم ھوگیا اور ہم باہر نکل کر‬


‫گراونڈ میں چلے گئے اسد بوال پھر کب‬
‫میرے گھر چلے گا تو میں نے بتایا کہ‬
‫یار میں تمہارے گھر چال تو جاتا مگر‬
‫میں جا نھی سکتا‬

‫تو وہ بوال‬
‫جا کیوں نھی سکتا‬
‫میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ‬
‫میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول‬
‫آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور‬
‫جانے کی ڈیوٹی بھی میری ھے اس‬
‫لیے‬

‫تو اسد کچھ دیر سوچتے ھوے بوال‬

‫کہ اگر ہم سکول سے پُھٹہ لگا لیں تو‬

‫میں نے کہا وہ کیا ھوتا ھے‬

‫تو اسد ہنستے ھوے میرے سر پر تھپڑ‬


‫مارتے ھوے بوال‬
‫جا اوے توں وی نہ حالے تک ہینڈو ای‬
‫ایں‬
‫میں نے اسے کہا ماما جدوں مینوں پتہ‬
‫ای نئی کہ پُھٹہ ھوندا کی اے تے مینوں‬
‫سمجھ کنج آے گی‬

‫تو وہ ہنستا ھوا بوال‬


‫کہ یار سکول سے بھاگ کر چھٹی‬
‫کرنے کو پُھٹہ لگانا کہتے ہیں‬

‫تو میں نے فٹ کیا‬


‫سالیا مینوں مروانا اے‬
‫ابھی تو میرا شوق بھی نھی پورا ھوا‬
‫شہر آنے کا اور تو مجھے سکول سے‬
‫نکلوانے کا پروگرام بنا رھا ھے‬

‫تو اسد بوال یار پریشان نہ ھو تیرا یار‬


‫ھے نہ اس سکول کا بھیدی‬
‫تو بس ٹینشن نہ لے تیرے پر اگر کوئی‬
‫بات آئی تو میں سب سنبھال لوں گا‬
‫مجھے پتہ ھے کی کیا کرنا ھے‬
‫بس تو مجھ پر بھروسہ رکھ‬

‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے پھر‬


‫اسے کہا‬

‫یار ویکھیں ِکتے مروا نہ دیویں‬

‫تو اسد بوال یار مجھ پر یقین نھی تو میں‬


‫نے کہا نھی‬
‫تو اسد غصے سے کھڑا ھوکر ُمکا بنا‬
‫بازو اوپر کر کے کہنے لگا‬
‫لن تے چڑ فیر‬
‫اور جانے لگا تو میں نے اسے بازو‬
‫سے پکڑ کر نیچے بٹھاتے ھوے کہا‬
‫ایویں ھن شوخا نہ بن چل فیر ویکھی‬
‫جاے گی جو ھوے گا‬

‫تو اسد بوال چل پھر کل تیار رہنا ہم‬


‫اسمبلی کے وقت سکول کے کمروں‬
‫کے پیچھے بیرونی دیوار سے نکل کر‬
‫سکول سے‪ .‬باھر نکل جاءیں گے‬
‫تو میں نے کہا یار سکول کی دیواریں‬
‫تو کافی اونچی ہیں تو وہ بوال اس بات‬
‫کی فکر نہ کر بس تو تیار رہنا‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا‬
‫اور ہم دونوں اٹھے اور باہر سڑک پر‬
‫اکر نان کھانے لگ گئے‬
‫سکول سے واپس‪ .‬جاتے بھی کچھ‬
‫خاص نھی ھوا‬
‫دوسرے دن پالننگ کے تحت ہم کمروں‬
‫کے پیچھے چلے گئے کیوں کے سکول‬
‫کا مین گیٹ بند ھوگیا تھا اور کوئی بچہ‬
‫باھر نھی جاسکتا تھا‬
‫ہم کمروں کے پیچھے سے چلتے ھوے‬
‫ایک جگہ پہنچے جہاں سے بڑا سا ناال‬
‫تھا جو سکول کی بیرونی دیوار کے‬
‫نیچے سے باہر کو جاتا تھا جو اس وقت‬
‫سوکھا ھوا تھا شاید بارش کے پانی کے‬
‫لیے وہ ناال بنایا ھوا تھا‬
‫نالے کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم آسانی‬
‫سے نکل کر دوسری طرف جاسکتے‬
‫تھے‬

‫پہلے اسد نیچے گھسا اور دوسری‬


‫طرف گردن نکال کر تسلی کرنے لگا‬
‫اور پھر جلدی سے مجھے پیچھے آنے‬
‫کا اشارہ کیا اور باھر نکل گیا میں بھی‬
‫اسکے پیچھے ھی باہر آگیا‬
‫ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ایک چھوٹی سی‬
‫گلی میں گھس گئے وہ گلی آگے جاکر‬
‫بازار میں کھلتی تھی میں نے اسد سے‬
‫کہا یار چھٹی کے وقت میں نے سکول‬
‫پہنچنا ھے تو اسد بوال یار پریشان نہ‬
‫ھو ساری ٹینشن دماغ سے نکال دے‬
‫اور میرے ساتھ چل پھر دیکھنا تو سب‬
‫کچھ بھول جاے گا‬
‫میں چپ کرگیا اور اسکے ساتھ ساتھ‬
‫تیز قدموں سے چلتا رھا‬
‫ہم بازار سے ھوتے ھوے پھر ایک گلی‬
‫میں گھس گئے گلی بھی بازار کی ھی‬
‫طرح تھی‬
‫مگر ادھر آمدورفت بہت ھی کم تھی‬
‫اسد نے ایک دکان کے آگے رکتے‬
‫ھوے مجھے کہا چل یار آج تجھے ایک‬
‫گرما گرم چیز دیکھاتا ھوں تو میں نے‬
‫کہا کہاں پر تو اس نے دکان کی طرف‬
‫اشارہ کیا جس کے اگے پردہ لگا ھوا‬
‫تھا اور اندر سے ویڈیو گیم کا شور آرھا‬
‫تھا‬
‫اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لے‬
‫کر دکان میں گھس گیا‬
‫کاونٹر پر ایک انکل بیٹھا ھوا تھا‬
‫اسد نے اسے ایک روپیہ دیا اور اسے‬
‫کہا سپیشل گیم تو اس نے کافی سارے‬
‫سکے اسد کو تھما دیے اور سائڈ پر‬
‫بنے ایک کیبن کی طرف اشارہ کیا اور‬
‫بوال ادھر چلے جاو خالی ھے‬
‫میں بونگوں کی طرح دکان میں لگی‬
‫بڑی بڑی گیموں کو دیکھ رھا تھا جہاں‬
‫پانچ چھ بچے مختلف گیمیں کھیل رھے‬
‫اور وہ بچے بھی سکول یونیفارم میں‬
‫ھی تھے‬
‫اسد کیبن کی طرف چل دیا اور میں بھی‬
‫اسکے پیچھے کیبن کے اندر گھس گیا‬
‫اسد نے ایک سکہ گیم میں ڈاال اور گیم‬
‫سٹارٹ کر کے کھیلنے لگ گیا میں‬
‫حیران ھوکر رنگین سکرین پر چلتی‬
‫ھوئی گیم کو بڑی دلچسپی سے دیکھ‬
‫رھا تھا‬
‫میں نے زندگی میں پہلی دفعہ رنگین ٹی‬
‫وی دیکھا تھا‬
‫اسد نے گیم ختم کی اور میرے پٹ پر‬
‫ھاتھ مار کر بوال تیار ھوجا اب‬
‫میں نے گبھرا کر اسد کی طرف دیکھا‬
‫تو‬
‫اسد نے کہا جگر ادھر دیکھ تو میں‬
‫سکرین کی طرف دیکھنے لگ گیا اتنے‬
‫میں ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی‬
‫جس نے ہاف سکرٹ پہنا ھوا تھا اور‬
‫اونچی ہیل والی جوتی پہنی ھوئی تھی‬
‫اسکے ممے اتنے بڑے تھے جیسے‬
‫ابھی سکرٹ کو پھاڑ کر باہر آجائیں‬
‫گے‬
‫وہ بڑی ادا سے جسم کو لہراتی ھوئی‬
‫ہماری طرف آئی‬
‫اور بڑی ادا سے کھڑی ھوگئی اور ہاتھ‬
‫اپنے ہونٹوں سے لگا کر ھاتھ کو چوما‬
‫اور ہماری طرف پھونک ماردی اور‬
‫سکرین پر انگلش میں لکھا ھوا‬
‫ویلکم ٹو مائی سویٹ ھارٹ‬
‫آیا‬
‫اور وہ لڑکی گھومی اور پیچھے اپنی‬
‫بڑی سی گول مٹول سی گانڈ پر دونوں‬
‫ھاتھوں کو رکھا اور بڑے سٹائل سے‬
‫ھاتھوں کو اپنی گانڈ پر پھیرا اور اسی‬
‫سٹائل سے چلتی ھوئی واپس چلی گئی‬

‫تو اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال‬


‫سنا فیر‬
‫میں نے کہا یار بچی تو کمال کی تھی‬
‫تو اسد بوال‬
‫آگے آگے دیکھ‬
‫تو اسد پھر گیم کھیلنے لگ گیا اور کچھ‬
‫ھی دیر بعد اسد نے دوسری سٹیج بھی‬
‫کھیل لی اور وہ ھی لڑکی پھر دوبارا‬
‫اسی سٹائل سے کمر کو لہراتی گانڈ کو‬
‫مٹکاتی ھوئی چلی آئی اور پھر سے‬
‫ہوائی ُچمی ہماری طرف پھینکی اور‬
‫بڑے سٹائل سے کندھوں پر اپنے دونوں‬
‫ھاتھ رکھے اور کندھوں سے سکرٹ‬
‫نیچے اتار دیا سکرٹ مموں پر آکر رک‬
‫گیا‬
‫اور پھر اس لڑکی نے بڑی ادا سے کمر‬
‫کو ہالیا اور ساتھ ساتھ سکرٹ کو نیچے‬
‫کرتی گئی جب سکرٹ اسکے مموں‬
‫سے نیچے اترا تو سرخ کلر کے‬
‫بریزیر میں اسکے بڑے بڑے گول‬
‫مٹول ممے قیامت ڈھا رھے تھے اسکے‬
‫ممے دیکھ کر میرا تو حلق خشک‬
‫ھونے لگ گیا اور میں نے بے ساخت‬
‫اپنے لن کو پکڑ کر مسلنے لگ گیا‬
‫لڑکی نے آہستہ آہستہ کمر کو لہراتے‬
‫ھوے سکرٹ گانڈ تک اتارا دیا اور پھر‬
‫دونوں ھاتھ اپنے کولہوں پر رکھ کر‬
‫گانڈ کو لہراتے ھو سکرٹ گانڈ سے‬
‫بھی نیچے اتار کر چھوڑ دیا‬
‫سکرٹ اسکے پاوں میں گر گیا‬
‫اب وہ سرخ بریزیر اور سرخ ھی پینٹی‬
‫میں تھی اسکے پورے جسم پر ایک‬
‫بھی بال نھی تھا کیا کمال کا فگر تھا‬
‫یار‬

‫لڑکی کچھ دیر کھڑی ادائیں کرتی رھی‬


‫اور پھر واپس چلی گئی‬
‫اسد نے میری طرف دیکھا اور بوال سنا‬
‫جگر مزہ آیا کہ نھی میں نے اپنے‬
‫ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ھوے‬
‫اسے کہا یار کمال کردتا ای‬
‫کیا بم پھوڑ کے گئی ھے مزہ اگیا‬
‫تو اسد بوال آگے دیکھ‬
‫اور اسد نے اگلی سٹیج کھیلنی شروع‬
‫کردی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار اسکا نام کیا ھے تو اسد نے سکرین‬
‫پر ایک سائڈ پر اسی لڑکی کی چھوٹی‬
‫سی تصویر کے نیچے لکھے نام کی‬
‫طرف اشارہ کرتے ھوے کہا‬
‫اسکا نام جولی ھے تو میں نے کہا واہ‬
‫کیا نام ھے جولی‬

‫تو اسد ہنسنے لگ گیا‬


‫اور بوال‬
‫نام تو ایسے پوچھ رھا ھے جیسے اس‬
‫سے شادی کرنی ھے‬
‫تو میں نے ایک لمبا سا سانس اندر‬
‫کھینچ کر سانس باہر چھوڑا اور آہ‬
‫بھرتے ھوے کہا ساڈی قسمت وچ‬
‫کتھوں ایھو جیاں پریاں‬
‫تو اسد کھل کھال کر ہنس پڑا اور بوال‬
‫میرے شزادے تو لن تو ایک دفعہ بڑا‬
‫کر پھر دیکھ ایسی تو کیا اس سے بھی‬
‫سپیشل پھدیاں تیرا انتظار کریں گی‬

‫تو میں نے حسرت بھری اواز نکالتے‬


‫ھوے کہا‬
‫پتہ نئی او وقت کدوں آنا اے تو‬
‫اسد بوال بس صبر کر صبر دا پھل مٹھا‬
‫ھوندا اے‬

‫تبھی اسد نے سٹیج مکمل کی اور‬


‫پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی‬
‫تو جولی پھر گانڈ کو لہراتی بل کھاتی‬
‫کیٹ واک کرتی ہماری طرف آکر‬
‫کھڑی ھوگئی‬
‫اور پھر ایک فالئنگ کس ہماری طرف‬
‫پھینکی جسے میں نے آگے ھاتھ کر‬
‫کے پکڑ کر اپنی مٹھی میں بند کر کے‬
‫اپنے سینے کے ساتھ مٹھی کو لگا لیا‬

‫جولی نے دونوں ھاتھ کمر کے پیچھے‬


‫کیے اور بریزیر کے ہک کھول دیے‬
‫اور کندھوں سے بریزیر کے سٹرپ‬
‫سرک کر نیچے بازوں تک کر دیے اور‬
‫ھاتھ آگے کر کے مموں پر بریزیر کے‬
‫کپ کے اوپر رکھ لیے اور آنکھ سے‬
‫اشارہ کر کے ہمیں پوچھا کہ اتاردوں‬
‫میں جو بے صبری سے اسکے مموں‬
‫کو دیکھنے کے لیے ترسا بیٹھا تھا‬
‫جلدی سے بوال‬
‫ال وی دے ہن کناں ترسائیں گی‬

‫تو اس نے میری بات مان کر مموں‬


‫سے بریزیر کے کپوں کو ہٹا دیا‬
‫اور میں جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا‬
‫اور دونوں ھاتھوں سے اسکے ممے‬
‫پکڑنے کی کوشش کرنے لگ گیا اور‬
‫سکرین کو نوچنے لگ گیا اتنے میں‬
‫میں ایکدم اچھال کیوں کہ اسد نے‬
‫پیچھے سے میری گانڈ میں انگلی دے‬
‫دی تھی‬
‫میں اچھل کر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا‬
‫اور بوال جا اوے پین یکہ سارا مزا ای‬
‫خراب کردتا ای‬
‫تو اسد ھنستے ھوے بوال سالیا ساری‬
‫سکرین روک لئی سی مینوں وی تے‬
‫ویکھن دے‬
‫تب جولی نے اپنے گول مٹول مموں کو‬
‫پکڑا اور ایک ممے کو اپنے منہ کی‬
‫طرف لے گئی اور نپل پر زبان پھیر کر‬
‫ممے کو چھوڑ دیا پھر دوسرے ممے‬
‫کے نپل پر زبان پھیری اور واپس‪ .‬چلی‬
‫گئی‬

‫اسد نے پھر گیم کھیلنا شروع کردی اور‬


‫کچھ ھی دیر بعد سٹیج ختم کی اور پھر‬
‫سے جولی بڑے بڑے مموں کو لہراتی‬
‫گانڈ کو ہالتی چلی آئی ابھی جولی نے‬
‫فالئنگ کس کی ھی تھی کہ اچانک‬
‫ایک جھماکہ ھوا اور‪،،،،،،‬‬
‫‪،،،،‬‬
‫جھماکہ ہوتے ہی الئٹ بند ھوگئی‬
‫میں نے اور اسد نے ایک آواز میں ھی‬
‫واپڈا والوں کو تگڑی سی گالی دی اور‬
‫ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے‬

‫میں نے اسد کو کہا یار چلو دفعہ کرو‬


‫پھر کبھی دیکھیں گے اور ہم دکان سے‬
‫باہر نکل کر اسد کے گھر کی طرف‬
‫چل دیے‬
‫اسد کے گھر کے سامنے پہنچ کر اسد‬
‫نے جیب سے چابی نکالی اور مجھے‬
‫رکنے کا کہہ کر گیٹ کھول کر اندر‬
‫داخل ھوگیا‬
‫میں باہر کھڑا حیرانگی اور حسرت‬
‫بھری نگاہوں سے اسد کے گھر کو باہر‬
‫سے دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگ‬
‫گیا کہ باہر سے اتنا خوبصورت گھر‬
‫ھے تو اند سے کتنا خوبصورت ھوگا‬
‫اتنے میں اسد نے بیٹھک کر دروازہ‬
‫کھول کر مجھے اندر آنے کا اشارا کیا‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو اپنے‬
‫پینڈو ہونے کا ثبوت دینے لگ گیا اور‬
‫کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ کر واہ واہ‬
‫کرنے لگ گیا کیا کمال کی کمرے میں‬
‫سیٹنگ کی ھوئی تھی بڑے بڑے‬
‫صوفے اور صوفوں کے اگے پڑا بڑا‬
‫سا شیشے کا ٹیبل دیواروں کے ساتھ‬
‫لگی رنگ برنگی پینٹنگ دیواروں پر‬
‫لمبے سائز کے خوبصورت پردے‬
‫کیونکہ اتنا خوبصورت کمرہ اور یہ‬
‫سب چیزیں میں نے زندگی میں پہلی‬
‫دفعہ دیکھی تھی ہمارے گاوں میں تو‬
‫موڑے‬ ‫بس بیٹھکوں میں چارپایاں اور ُ‬
‫پڑے ھوتے تھے یا جو اچھے زمیندار‬
‫ھوتے انکے لکڑی کے صوفے ھوتے‬
‫مگر یہاں تو سب کچھ ھی میرے لیے‬
‫نیا تھا‪،،‬‬
‫اسد میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے‬
‫بوال‬
‫جگر بیٹھ میں تھوڑی دیر تک آیا‬
‫اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ‬
‫جلدی سے گھر کے اندر کی طرف‬
‫جاتے دروازے سے نکل کر اندر چال‬
‫گیا اور میں کھڑا ھوکر پھر کمرے کی‬
‫ہر ہر چیز غور سے دیکھنے لگ گیا‬
‫کچھ دیر میں گردن کو گھماتے کمرے‬
‫کی چاروں اطراف کا جائزہ لیتا رھا‬
‫پھر میں صوفے پر بیٹھ گیا‬
‫بیٹھتے ھی میجھے ایسے لگا جیسے‬
‫میں صوفے مین دھنس کر پیچھے کی‬
‫طرف گرنے لگا ہوں‬

‫دوستو اس وقت اگر میری کوئی حالت‬


‫دیکھتا تو شاید ہنسی کے دورے سے‬
‫بےہوش ہوجاتا‬
‫میں ہڑبڑا کر پھر سے کھڑا ھوگیا اور‬
‫پریشان ھوکر صوفے کو دیکھنے لگ‬
‫گیا‬
‫پھر میں نے ڈرتے ڈرتے صوفے کی‬
‫سیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اسکو دبا کر‬
‫تسلی کرنے لگ گیا کہ صوفہ سہی‬
‫سالمت ھی ھے‬

‫میں دوبارا ڈرتے ڈرتے صوفے پر‬


‫آہستہ سے بیٹھ گیا اب صوفے کی سیٹ‬
‫اتنی نیچے نھی ھوئی تھی‬

‫دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے میں بڑی‬


‫شوخی سے صوفے پر پورے وزن کے‬
‫ساتھ بیٹھا تھا‬
‫صوفہ انتہائی نرم تھا اس لیے میرے‬
‫ذور سے بیٹھنے کی وجہ سے صوفے‬
‫کا میٹرس بھی نیچے کی طرف گیا اور‬
‫میں ڈر گیا تھا‬

‫میں بیٹھ کر تھوڑا تھوڑا نیچے سے‬


‫گانڈ کو اٹھا اٹھا کر صوفے کا مزہ لے‬
‫رھا تھا‬
‫کہ اچانک گھر کے اندر کی طرف‬
‫والے دروازے کا پردہ سرکہ اور‬
‫ایک حسین دلفریب پری کا چہرہ نمودار‬
‫ھوا‬
‫چہرہ کیا تھا چودہویں کا چاند تھا‬
‫میرے تو ہوش ھی ہوا ھوگئے میرا تو‬
‫اس وقت یہ حال تھا کہ‬
‫اس کے بے ہجاب ھونے تک یاسر‬
‫شامل تھے ہم بھی ہوش والوں میں‬

‫چودہویں کے چاند جیسا روشن چمکتا‬


‫چہرہ گالبی ہونٹ چہرے پر معصومیت‬
‫آنکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر شاید‬
‫حسن کی ساری تعریفیں اس چہرے میں‬
‫ھی تھی‬
‫اس کی انکھوں نے مجھے غور سے‬
‫دیکھا اور میری گستاخ آنکھوں نے بھی‬
‫جرات کردی اسکی آنکھوں کے سمندر‬
‫میں ڈبکی لگانے کی‬
‫پھر وہ حسین چہرہ پردے کی اوٹ لے‬
‫کر گم ھوگیا‬
‫مگر میں اس حسین چہرے کے سحر‬
‫میں ابھی تک جکڑا پردے کو دیکھی‬
‫جارھا تھا اور میری نظریں پھر اس‬
‫گستاخی کے لیے ترسی اسکو تالش‬
‫کررھی تھی‬
‫مگر وہ جاچکی تھی‬
‫ھاےےےےےے افففففف ٹھنڈی آھ‬
‫بھری اور پھر اسی کے بارے میں‬
‫سوچنے لگ گیا کہ کون تھی یہ حسینا‪۶‬‬
‫کچھ دیر اسی قاتلہ کے بارے میں‬
‫سوچتا رھا جو ایک ھی نظر میں میرا‬
‫سب کچھ لے اڑی تھی‬
‫کہ اسد اندر داخل ھوا میں نے حسرت‬
‫بھری نگاہوں سے پھر پردے کی طرف‬
‫دیکھا کہ شاید وہ ھی حسینہ جلوہ گر‬
‫ھے‬
‫مگر وہ ساال اسد تھا‬
‫اسد ہاتھ میں ٹرے لیے ھوے ایا جس‬
‫میں مشروب تھا اور بسکٹ وغیرہ‬
‫اسد میرے پاس آیا اور ٹرے ٹیبل پر‬
‫رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور بوال‬
‫سوری یار وہ کپڑے بدلنے میں دیر‬
‫ھوگئی تھی‬
‫مگر میں تو اپنے خیالوں میں کھویا ھوا‬
‫تھا کہ اسد نے مجھے گم سم دیکھ کر‬
‫کندھے سے پکڑ کر ہالتے ھوے کہا‬
‫اوے کتھے پُنچیا ھویاں اے‬
‫طبعیت تے سئی اے‬

‫تو اسے میں کیا بتاتا‬


‫کہ‬

‫یہ طبیب بھال اب میری مرض کو کیا‬


‫سمجھیں‪،‬‬
‫تم اب آ بھی جاو‬
‫کہ یہ وصل بیماری ھے‬

‫میں نے ایکدم چونکتے ھوے اسد سے‬


‫کہا نھی نھی میں ٹھیک ھوں بس ایسے‬
‫ھی تمہارا گھر دیکھ کر بس اپنی غریبی‬
‫کے بارے میں سوچ رھا تھا‬
‫تو اسد نے مجھے کندھے سے پکڑا‬
‫اور بوال‬
‫چھڈ یار ایویں چوالن مار دیاں ایں‬
‫دوبارا اے گل نہ سوچیں یاری وچ‬
‫امیری غریبی نئی ہوندی‬
‫اور ساتھ ھی مشروب کا گالس مجھے‬
‫پکڑا دیا اور کہنے لگا چل جلدی سے‬
‫پی پھر تجھے ایک گرم گرم چیز‬
‫دیکھاتا ھوں‬
‫میں تو پہلے ھی گرم ھو چکا تھا اسے‬
‫اب کیا بتاتا‬

‫میں نے ایک ہی سانس میں گالس ختم‬


‫کیا اور اسد کو کہنے لگ گیا کہ یار‬
‫تمہارا گھر بہت خوبصورت ھے‬
‫تو اسد نے شکریہ ادا کیا‬
‫کچھ سوچتے ہوے میں نے اسد سے‬
‫پوچھا یار تیری امی نے نھی پوچھا کہ‬
‫تو سکول سے اتنی جلدی واپس اگیا‬
‫ھے‬
‫تو وہ ہنس کر بوال‬
‫کہ امی تو بوتیک پر چلی گئی ہیں اور‬
‫رات کو ھی واپس آئیں گی گھر میں بس‬
‫سسٹر ھی ھے اور اسکو رشوت وغیرہ‬
‫لگا دیتا ھوں تو وہ امی کو نھی بتاتی تو‬
‫میں ہمممم کر کے چپ کر کے اندازہ‬
‫لگانے لگ گیا کہ ہو نہ ہو وہ حسین‬
‫پری اسد کی بہن ھی ھوگی‬

‫کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے‬


‫رھے پھر اسد نے مجھے کہا چل اٹھ‬
‫اوپر کمرے میں چلتے ہیں‬
‫میں اسد کے پیچھے بیٹھک سے نکل‬
‫کر انکے گھر میں داخل ھوے‬
‫اور سامنے ٹی وی الونج سے سیڑیاں‬
‫چڑھ کر اوپر جانے لگ گئے اسد‬
‫میرے آگے جارھا تھا میں نے پیچھے‬
‫سے سارے گھر کا جائزہ لیا‬
‫مگر مجھے وہ قاتل حسینہ کہیں نظر نہ‬
‫آئی‬

‫ہم اوپر پہنچے تو اسد مجھے لے کر‬


‫ایک کمرے میں چال گیا جب میں‬
‫کمرے میں داخل ھوا تو وہ کمرا بھی‬
‫کمال کا تھا سامنے بڑا سا جہازی سائز‬
‫کا بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے بلکل اوپر‬
‫چھت کے ساتھ شیشے کا بڑا سا جھومر‬
‫لٹک رھا تھا اور دوسرے طرف ایک‬
‫بڑی سی الماری بنی ھوئی تھی جس‬
‫میں بڑے سائز کا ٹی وی پڑا تھا اور‬
‫نچلے حصے میں وی سی آر اور اس‬
‫سے نچلے حصہ میں کافی ساری ویڈیو‬
‫کیسٹوں کا انبار لگا ھوا تھا‬
‫اور کمرے کی ایک سائڈ پر چھوٹا سا‬
‫دروازہ تھا جو شاید اٹیچ باتھ کا لگ رھا‬
‫تھا‬

‫اسد نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ‬


‫کیا اور دروازہ الک کرنے چال گیا‬
‫دروازہ الک کر کے اس نے ٹی وی‬
‫اون کیا اور وی سی آر کے پیچھے کی‬
‫طرف ھاتھ مارتے ھو کچھ تالش کرنے‬
‫لگ گیا کچھ دیر بعد اسکے ھاتھ میں‬
‫ایک ویڈیو کیسٹ تھی جو اس نے وی‬
‫سی آر میں لگا دی اور وی سی آر اور‬
‫ٹی وی کا ریمورٹ لے کر میرے ساتھ‬
‫بیڈ پر جمپ مار کر بیٹھ گیا میں ابھی‬
‫تک ٹانگیں نیچے لٹاے بیٹھا تھا تو اسد‬
‫نے مجھے کہا جگر اوپر ھوکر بیٹھ جا‬
‫کیا‬
‫نئ نویلی دلہن کی طرح شرما رھا ھے‬
‫یہ اپنا ھی گھر سمجھ‬
‫میں بھی ٹانگیں پھیال کر بیڈ پر بیٹھ گیا‬
‫تبھی سامنے ٹی وی پر بلیو فلم چل گئی‬
‫اور انگریز گوریوں کو مختلف پوزوں‬
‫میں چود رھے تھے‬
‫میں بڑی دلچسپی سے ویڈیو دیکھ رھا‬
‫تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو بھی مسل‬
‫رھا تھا‬
‫کافی دیر بعد‬
‫۔میری اچانک اسد پر نظر پڑی تو اسد‬
‫نے اپنا بڑا سا لن نکال کر ھاتھ میں‬
‫پکڑا ھوا تھا‬
‫اور لن پر ھاتھ سے ُمٹھی بنا کر اوپر‬
‫نیچے کری جارھا تھا‬
‫میں نے اسے ھاتھ سے ہال کر کہا‬
‫سالیا اے کی کری جاناں اے‬
‫تو اسد نے بڑی سیکسی سی آواز میں‬
‫کہا‬
‫مٹھ مار رھا ھوں تو بھی ایسے کر پھر‬
‫دیکھ کتنا مزہ آتا ھے اور پھر سے ٹی‬
‫وی کی طرف دیکھ کر ُمٹھ مارنے لگ‬
‫گیا‬

‫میرا بھی فلم دیکھ کر دماغ خراب‬


‫ھوچکا تھا میں نے بھی شلوار میں سے‬
‫لن نکاال اور جیسے اسد کر رھا تھا‬
‫ویسے ھی کرنے لگ گیا‬
‫مجھے کچھ خاص مزہ نھی آرھا تھا تو‬
‫میں نے اسد کو کہا‬
‫گانڈو ایسے تو بلکل بھی مزہ نھی آرھا‬
‫اس سے زیادہ تو لن کو مسلنے میں مزہ‬
‫آتا ھے‬
‫تو اسد نے پہلے میرے لن کی طرف‬
‫دیکھا اور‬
‫بوال ساال صاب لن کو چکنا تو کرلے‬
‫میں نے کہا کیسے‬
‫تو اس نے سرھانے کے پاس پڑی ایک‬
‫شیشی مجھے پکڑاتے ھوے کہا اسکو‬
‫پہلے لن پر اچھی طرح لگا پھر ُمٹھ‬
‫مار‬

‫میں نے شیشی کا ڈھکن کھوال اور اپنی‬


‫ھتھیلی پر الٹایا تو اس میں سے منی کی‬
‫طرح کا سفید سا گاڑھا گاڑھا محلول‬
‫نکال اور اس میں سے خوشبو سی آرھی‬
‫تھی میں کہ‬
‫یار یہ کیا ھے‬
‫تو بوال‬
‫ماما نظر نھی آرھا شیمپو ھے‬
‫تو میں نے حیرانگی سے پوچھا یہ کیا‬
‫ھوتا ھے‬

‫تو وہ ہنس کر بوال‬


‫جا اوے گانڈو‬
‫اس سے سر کے بالوں کو دھوتے ہیں‬

‫اور میں سر کو جھٹکا کہ شیمپو کو لن‬


‫پر لگا کر ُمٹھ مارنے لگ گیا‬
‫شیمپو کے ساتھ ُمٹھ مارتے ہوے مجھے‬
‫بھی اب مزہ آرھا تھا اور ایک عجیب‬
‫سے لُطف کی لہر میرے جسم میں گزر‬
‫رھی تھی کے اچانک اسد کے لن سے‬
‫منہ کے فوارے چھوٹنا شروع ھوگئے‬
‫اور کچھ دیر تک اسد لمبے لمبے سانس‬
‫لیتا رھا‬
‫مگر میرے چھوٹنے کا امکان ابھی تک‬
‫دور دور تک نھی تھا مجھے بس مزہ‬
‫ھی آرھا تھا مگر لن چھوٹنے کا نام نھی‬
‫لے رھا تھا‬
‫اسد اٹھ کر واش روم چال گیا تھا اور‬
‫میں اپنی دھن میں دے دھنا دھن لگا ھوا‬
‫تھا اب تو شیمپو بھی ُخشک ھو چکا تھا‬
‫میں نے تین چار دفعہ تھوک پھینک کر‬
‫گیال کیا مگر پھر خشک ھو جاتا تھا‬
‫اسد واش روم سے فری ھو کر واپس‬
‫کمرے میں آگیا‬
‫اور حیرانگی سے میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بوال‬

‫اوے توں حالے تک فارغ نئی ھویا‬

‫میں نے کہا یار کچھ نکل ھی نھی رھا‬


‫تو اسد بوال‬
‫پہلے کبھی چھوٹا ھے تو میں نے نفی‬
‫میں سر ہال دیا تو اسد بوال‬
‫فیر میرا لوڑا ُچھٹیں گاں اویں اپنی‬
‫باواں وچ کھلیاں پان لگیا ھویاں اے‬
‫چار دن تیل دی مالش کر فیر ویکھیں‬
‫تیرے لن وچوں وی کیویں فوارے‬
‫نکلدے‬

‫میں بھی ھاتھ چال چال کر تھک چکا‬


‫تھا‬
‫میں ایسے ھی اٹھا اور واش روم میں‬
‫گھس کر اپنا آپ دھویا اور باہر آگیا‬
‫اسد نے ٹی وی بند کردیا تھا اور فلم‬
‫بھی نکال کر چھپا دی تھی اور ہم‬
‫کمرے سے نکل کر سیڑیاں اترنے‬
‫لگے جب میں اسد کے پیچھے پیچھے‬
‫آدھی سیڑیاں ھی اترا تھا کہ مجھے‬
‫نیچے کچن سے وہ حسن کی شہزادی‬
‫نکلتی ھوئی ٹی وی الونج میں آتی‬
‫ھوئی نظر آئی اسکے ھاتھ میں چاے کا‬
‫بڑا سا مگ پکڑا ھوا تھا اور چاے کی‬
‫چسکیا لیتی ھوئی‬

‫بڑی ادا سے چلی آرھی تھی‬


‫دوستو اس حسینہ کا کیا قیامت فگر تھا‬
‫اس نے ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ اور‬
‫سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور قمیض‬
‫کی اتنی فٹنگ تھی کہ میرے جیسا پینڈو‬
‫یہ ھی سوچتا رہتا کہ یہ قمیض کے اندر‬
‫ُگھسی کیسے اور قمیض کافی شورٹ‬
‫تھی جو اسکے ُگٹنوں سے بھی اوپر‬
‫اور پھدی والے حصہ سے کچھ نیچے‬
‫تھی‬
‫اسکے چھتیس سائز کے ممے آگے کو‬
‫ایسے تنے ھوے تھے کہ جیسے ابھی‬
‫قمیض کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں اور‬
‫پیٹ تو بلکل نظر ھی نھی آرھا تھا کمر‬
‫ایسی تھی کہ میں دونوں ھاتھ کی‬
‫انگلیاں جوڑ کر کمر کو پکڑتا تو میرے‬
‫ھاتھوں میں اسکی کمر آجاتی‬
‫دوپٹہ نام کی چیز ھی نظر نھی آئی‬
‫وہ ظالم جب چاہے کی ُچسکی لیتی تو‬
‫ساتھ اپنی لمبی سی پلکوں کو جھپکاتی‬
‫اور اس کے گالبی ہونٹ خوش قسمت‬
‫کپ کو چھو کر آپس میں مل جاتے اور‬
‫اس کے نرم سے روئی کے گولے‬
‫جیسے پنک گالوں پر ڈنپل بن جاتا‬
‫پانچ فٹ پانچ انچ کی یہ حسینہ حسن کا‬
‫کرشمہ تھی‬
‫چاے کے کپ کو ہونٹ لگاتے ھی اس‬
‫حسینہ نے اپنی ساگر جیسی آنکھوں پر‬
‫چھاوں کی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر‬
‫میری طرف دیکھا آنکھوں سے آنکھیں‬
‫ملیں دونوں کے قدم رک گئے‬
‫اور اس ظالم کو شاید ہوش آیا اور میری‬
‫موجودگی کا احساس ھوا‬
‫اور وہ میرے دل پر ُچھریاں چالتی‬
‫واپس پلٹی اور اسکی بتیس سائز کی‬
‫گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ تھر‬
‫تھرائی اور ساتھ ھی گانڈ کو چھلکاتی‬
‫ھوئی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی‬
‫طرف چلدی اسے دیکھتے دیکھتے ھی‬
‫وہ قاتلہ میرا سب کچھ لے کر میری‬
‫نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں وہیں‬
‫خالی ھاتھ رھ گیا‬
‫اتنے میں اسد کی آواز آئی کہ آ بھی‬
‫جاو سکول کی چھٹی کا ٹائم ھوگیا ھے‬
‫تو میں ایکدم سے ہڑبڑایا اور تیز تیز‬
‫قدم اٹھاتا ھوا نیچے آگیا اور گھر سے‬
‫نکلتے وقت اسد نے اندر منہ کرکے‬
‫آواز دی‬
‫مہری دروازہ الک کر لو‬
‫اور ہم سکول کی طرف تیز تیز قدموں‬
‫سے چل پڑے میں سوچ میں پڑ گیا کہ‬
‫یہ کیا نام ھوا مہری اب میں اسد سے‬
‫بھی نھی پوچھ سکتا تھا کہ تمہاری بہن‬
‫کا اصل نام کیا ھے‬
‫خود ھی جوڑ توڑ لگا کر سوچنے لگ‬
‫پڑا جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسی نام پر‬
‫اکتفا کیا‬
‫اور من ھی من میں ٹھنڈی آہ بھر کر دل‬
‫نے پکارا مہرییییی‬
‫سکول کے قریب پہنچے تو چھٹی‬
‫ھوچکی تھی اور اسد نے مجھے الوداع‬
‫کیا اور واپس گھر کی طرف ھی چال‬
‫گیا دل تو میرا بھی کررھا تھا کہ دوبارا‬
‫پھر اس کے ساتھ چال جاوں مگر‬
‫مجبوری تھی‬

‫میں سیدھا عظمی کے سکول گیا اور ان‬


‫دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف‬
‫چلدیا‬
‫مگر میرے دماغ پر مہری ھی چھائی‬
‫ھوئی تھی جبکہ عظمی کی گانڈ ہل ہل‬
‫کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر رھی‬
‫تھی مگر میرا دھیان کہیں اور ھی تھا‬
‫راستے میں عظمی نے کافی دفعہ مجھ‬
‫سے بات کرنے کی کوشش کی اور‬
‫ہنسی مزاق کا ماحول بنایا مگر میں‬
‫سیریس ھی رھا‬
‫تو عظمی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ‬
‫کیا ھوا سکول سے مار پڑی ھے یا‬
‫طبعیت خراب ھے‬
‫مگر میں نے اسے ٹال مٹول کردیا‬

‫ایسے ھی ہم گھر پہنچ گئے‬


‫دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے‬
‫کھیتوں کی فصلیں بھی کٹ چکی تھی‬
‫بلکہ اسکی جگہ نئی فصل بھی کھیت‬
‫سے سر اٹھا رھی تھی‬
‫اسد روز مجھ سے پوچھتا سنا آج مالش‬
‫کی کوئی فرق پڑا کہ نھی پڑا کبھی‬
‫کبھار وہ میرا لن بھی پکڑ کر چیک‬
‫کرلیتا اور مجھے کہتا واہ یار بڑی‬
‫جلدی تیل اثر کررھا ھے اور دوبارا‬
‫اسد کے گھر جانے کا بھی اتفاق نہ ھوا‬
‫اسکی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ دوسرے‬
‫دن ماسٹر جی نے میری اچھی بھلی‬
‫کالس لی تھی اور دوبارا سکول سے‬
‫بھاگنے پر سکول سے نکال دینے کی‬
‫دھمکی بھی ملی تھی اس لیے میری‬
‫دوبارا جرات نھی ھوئی‬

‫فصلیں ابھی چھوٹی تھی اس لیے‬


‫مجھے عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ‬
‫کرنے کا بھی موقع میسر نہ آیا‬

‫اور روز جاتے ھوے باجی صدف کی‬


‫گانڈ اور آتے ھوے عظمی اور کبھی‬
‫نسرین کی گانڈ کا نظارا ملتا رھتا‬

‫وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ‬


‫پتہ ھی نہ چال کہ کب ساالنہ پیر سر پر‬
‫آگئے‬
‫پڑھائی میں جتنا تیز پہلے تھا مگر اسد‬
‫کی دوستی کی وجہ سے اب اتنا ھی‬
‫ناالئک ھوگیا تھا‬

‫پیپروں کے شروع ھونے میں ایک‬


‫مہینہ رھ گیا تھا‬
‫اور موسم بھی کافی سرد ھوچکا تھا‬

‫میں نے عظمی کو بتایا کہ یار میری تو‬


‫پیپروں کی تیاری ھی نھی ھورھی میں‬
‫تو اس سال فیل ہو جاوں گا‬

‫تو عظمی نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ‬


‫باجی صدف کے گھر ٹیویشن پڑھنے‬
‫چلے جایا کرو‬

‫مجھے اسکا مشورہ کافی مفید لگا اور‬


‫ویسے بھی میں باجی صدف کے جسم‬
‫کا نظارا کرنے کے لیے ترسا رھتا تھا‬

‫میں نے امی سے بات کی کہ شہر کی‬


‫پڑھائی بہت مشکل ھے اس لیے مجھے‬
‫بھی باجی صدف کے پاس ٹیویشن‬
‫رکھوا دو‬
‫امی نے بھی حامی بھر لی کہ میرے‬
‫پُتر نوں پڑائی دا کناں فکر اے‬
‫دوسرے دن سے میں نے ٹیوشن جانا‬
‫شروع کردیا میں جب بھی باجی صدف‬
‫کہ گھر جاتا تو باجی صدف ویسے ھی‬
‫میری گال پر چٹکی الًزمی کاٹتی اور‬
‫میں انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی‬
‫‪.‬چمک دیکھتا‬
‫اب یہ چمک کیسی تھی مجھے اس کا‬
‫اندازہ لگانا مشکل ھو رھا تھا کیوں کہ‬
‫وہ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت‬
‫نہ کرتی جس کی وجہ سے میں فائنل‬
‫ڈسیزن لے سکتا‬
‫مگر ایک بات تھی جو میں نے نوٹ کی‬
‫کہ باجی صدف اپنے مموں پر دوپٹہ‬
‫نھی لیتی تھی اور کام چیک کروانے‬
‫جب میں انکے پاس جاتا تو اسکے گلے‬
‫سے انکے مموں کا اوپر واال حصہ‬
‫صاف نظر آتا‬
‫تھا‬
‫اس کے چہرے کی نسبت اسکے مموں‬
‫واال حصہ ذیادہ سفید تھا‬

‫ایک دن ہم ٹیوشن کے لیے باجی صدف‬


‫کے گھر گئے تو باجی صدف گھر میں‬
‫نظر نھی آئی تو انکی امی نے بتایا کہ‬
‫تم لوگ بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو‬
‫تمہاری باجی نہا رھی ھے‬
‫انکا واش روم بیرونی دروازے کے‬
‫بلکل ساتھ ھی تھا‬
‫ہم اپنی جگہ پر بیٹھ کر کتابیں بیگ میں‬
‫سے نکالنے لگ گئے‬
‫تو باجی صدف کی امی نے مجھے آواز‬
‫دی کے یاسر بیٹا بات سنو میں جلدی‬
‫سے اٹھا اور انکے پاس پہنچ گیا تو‬
‫آنٹی نے کہا کہ بیٹا‬

‫پوڑی ال کے ٹارے توں چھیٹیاں تھلے‬


‫سٹ دے‬ ‫ُ‬
‫)‬
‫سیڑی لگا کر واش روم کے بلکل (‬
‫سامنے بیرونی دیوار کے ساتھ بنے‬
‫برآمدے سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں‬
‫)اتار دو‬
‫میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے‬
‫ھو ے کہا اچھا آنٹی جی ابھی اتار دیتا‬
‫ھوں‬
‫میں نے بانس کی بنی ھوئی سیڑھی‬
‫اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر‬
‫برآمدے کی چھت پر چڑھ گیا اور‬
‫سوکھی سوکھی چھڑیاں ُچن ُچن کر‬
‫نیچے پھینکنے لگ گیا‬
‫ابھی میں نے چند ھی چھڑیاں نیچے‬
‫پھینکیں تھی کہ اچانک میرا دھیان واش‬
‫روم کی دیوار پر بنے بڑے سے روشن‬
‫دان پر پڑا‬
‫جیسے ھی میری نظر روشن دان کے‬
‫اندر پڑی کیوں کہ واش روم کی چھت‬
‫برآمدے کی چھت سے کافی چھوٹی‬
‫تھی اس لیے چھت پر کھڑے ہوکر واش‬
‫روم کا اندر کا سارا منظر بلکل صاف‬
‫نظر آتا تھا حطہ کہ واش روم کا فرش‬
‫بھی نظر آتا تھا‬

‫روشن دان کا سوراخ کافی بڑا سا تھا‬


‫اور آگے کوئی جالی وغیرہ بھی نھی‬
‫تھی‬

‫میں تو واش روم کے اندر کا منظر‬


‫دیکھتے ھی رھ گیا‬
‫کی صدف بلکل ننگی کھڑی تھی‬
‫دوستو ایک بات یاد رکھنا جس آنٹی )‬
‫اور جس باجی پر نیت خراب ھوگئی‬
‫تھی انکو میں صرف نام سے پکاروں‬
‫گا‪،،،،‬‬

‫صدف ٹانگیں کھولے کھڑی اپنی پھدی‬


‫پر کچھ لگا رھی تھی مجھے اسکا ایک‬
‫مما نظر آیا‬
‫میں نے جلدی سے پہلے نیچے دیکھا‬
‫تو مجھے آنٹی کہیں نظر نھی آئی اور‬
‫عظمی اور نسرین اور باقی کے بچے‬
‫دوسری طرف منہ کرکے پڑھنے میں‬
‫مصروف تھے‬
‫میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور تھوڑا‬
‫پیچھے ھوکر واش روم میں دیکھنے‬
‫لگ گیا‬
‫اب نیچے سے کوئی مجھے دیکھ نھی‬
‫سکتا تھا کہ میں اوپر کیا کررھا ھوں‬

‫صدف بڑے آرام سے پھدی پر بال صفا‬


‫پوڈر کا لیپ کررھی تھی کچھ دیر بعد‬
‫صدف ٹانگیں پھال کر دیورا کے ساتھ‬
‫ٹیک لگا کر لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ‬
‫گئی‬
‫اب صدف کے نیم گورے ممے بلکل‬
‫صاف نظر آرھے تھے اسکے مموں پر‬
‫براون سا دائرہ بنا ھوا تھا اور چھوٹے‬
‫چھوٹے نپل تھے پیٹ بلکل اندر کی‬
‫طرف گیا ھوا تھا‬

‫کچھ دیر صدف ایسے ھی بیٹھی رھی‬


‫تب میں اٹھا اور کچھ چھڑیاں اور اٹھا‬
‫کر نیچے پھینک دیں‬
‫اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا‬
‫تب صدف پانی کے ٹب سے ڈبے میں‬
‫پانی ڈال کر پھدی والے حصہ کو دھو‬
‫رھی تھی اور ذور ذور سے پھدی کو‬
‫مل مل پھر پانی ڈال دیتی‬
‫پھر صدف کھڑی ھوئی اور تولیہ لے‬
‫کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی‬
‫مجھے صرف اسکی ٹانگیں ھی نظر‬
‫آرھی تھی اور ایک مما نظر آرھا تھا‬
‫کیوں کے صدف سائڈ پوز سے کھڑی‬
‫تھی‬

‫پھدی صاف کر کے وہ پھر ٹانگیں‬


‫کھول کر تھوڑا نیچے جھک کر اپنی‬
‫پھدی کا معائنہ کرنے لگ گئی کہ کوئی‬
‫بال رھ تو نھی گیا‬

‫جب اچھی طرح اس نے تسلی کرلی تو‬


‫پھر سے لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی‬
‫اور اپنے بالوں کی پونی کھولی اور‬
‫جھٹکے سے سر کو دائیں بائیں کر کے‬
‫بالوں کو کھالرنے لگی صدف‬
‫جیسے جیسے بالوں جھٹکتی اسکے‬
‫ممے بھی ویسے ھی ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ٹکراتے‬

‫میرا لن ایکدم اکڑ گیا اور میں ھاتھ سے‬


‫لن کو حوصلہ دینے لگ گیا‬

‫پھر صدف سر جھکا کر پانی کے ڈبے‬


‫بھر بھر کر اپنے سر کے بالوں کو گیال‬
‫کرنے لگ گئی پھر اس نے کپڑے‬
‫دھونے واال صابن اٹھایا اور سر کے‬
‫بالوں کو لگانے لگ گئی اور اچھی‬
‫طرح صابن لگا کر بالوں کو منہ کے‬
‫آگے کر کے سر جھکا کر بالوں کو‬
‫دونوں ھاتھوں میں لے کر ھاتھ آپس‬
‫میں رگڑنا شروع کردیا کچھ دیر ایسے‬
‫ہی کرتی رھی‬
‫اور میں وقفے وقفے سے چھڑیاں اٹھا‬
‫کر نیچے پھینکتا رھا‬
‫پھر صدف نے بالوں کو اچھی طرح‬
‫سے دھویا اور اپنے جسم پر پانی ڈالنا‬
‫شروع کردیا‬
‫اور ساتھ ساتھ کبھی اپنے مموں کو‬
‫مسلتی کبھی نیچے ھاتھ لیجا کر پھدی‬
‫کو مسلتی اور کبھی کمر کے پیچھے‬
‫ھاتھ لیجا کر کمر کو مسلتی‬
‫واش روم میں ‪100‬واٹ کا بلب جل رھا‬
‫تھا جس کی گولڈن الئٹ میں صدف کا‬
‫جسم چمک رھا تھا‬
‫واش روم میں ‪100‬واٹ کا بلب جل رھا‬
‫تھا جس کی گولڈن الئٹ میں صدف کا‬
‫جسم چمک رھا تھا‬
‫صدف کے ممے ٹن ٹنا ٹن کھڑے تھے‬
‫اور ھاتھ لگانے کے بعد مستی سے‬
‫جھومتے صدف نے جسم پر صابن لگانا‬
‫شروع کردیا اور پھر صابن کو اچھی‬
‫طرح پورے جسم پر ملنا شروع کردیا‬
‫صدف جب مموں کو مسلتی تو اپنی‬
‫انگلی اور انگوٹھے سے ممے کے نپل‬
‫کو بھی پکڑ کر مسل دیتی ایسے اس‬
‫نے کئی بار کیا‬
‫اور جب پھدی پر صابن کی مالش کرتی‬
‫تو ایکدم اپنی آنکھیں بند کر کے سر کو‬
‫دیوار کے ساتھ لگا لیتی کافی دیر یہ ھی‬
‫سین چلتا رھا‬
‫پھر صدف تھوڑا سا اوپر ھوئی اور‬
‫اپنی گانڈ کو اچھی طرح ملنے لگ گئے‬
‫اسکی گانڈ کیا تھی کمر کے حساب سے‬
‫کمر کے نیچے سپیڈ بریکر ھی تھا‬
‫اگر اسکی گردن سے ھاتھ پھیرتے‬
‫ھوے کمر سے نیچے لیجا کر گانڈ کہ‬
‫اوپر سے گزاریں تو ایسے ھی لگے گا‬
‫کہ‬
‫کارپٹ روڈ پر اچانک سپیڈ بریکر آگیا‬
‫ھے‬

‫گانڈ کو اچھی طرح مل لینے کے بعد‬


‫اس نے تین انگلیاں گانڈ کی دراڑ میں‬
‫ڈال کر ھاتھ کو اوپر نیچے کر کے‬
‫دراڑ کی صفائی کرنے لگ گئی‬
‫پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور پانی‬
‫اپنے جسم پر ڈالنا شروع کردیا‬
‫میں فل مست ھوکر پورا دھیان لگا کر‬
‫صدف کے سیکسی جسم کا نظارہ کر‬
‫رھا تھا اور اس کے انگ انگ کو‬
‫باخوبی زہن نشین کررھا تھا‬
‫صدف نے سارے جسم کو اچھی طرح‬
‫سے دھو لیا تھا اور اب وہ ایک جھٹکے‬
‫سے کھڑی ھوئی جب وہ کھڑی ھوئی‬
‫تو اسکے دودہ کے پیالے ایسے چھلکے‬
‫جیسے ابھی پیالوں سے سارا دودہ اچھل‬
‫کر باہر گر جاے گا صدف نے تولیہ‬
‫روشن دان میں لٹکا دیا تھا‬
‫صدف نے جیسے ھی میری طرف منہ‬
‫کر کے تولیہ پکڑنے کے لیے ھاتھ‬
‫آگے بڑھایا تو اسکی سیدھی نظر مجھ‬
‫پر پڑی اور نظروں سے نظریں ملی‬
‫اور صدف نے جلدی سے تولیہ کھینچا‬
‫اور اپنے مموں کے آگے کرتے ھوے‬
‫ایک زور دار چیخ ماری‬
‫اور ساتھ ھی مجھے واش روم کی‬
‫طرف آنٹی کے دوڑے آنے کی‬
‫آواجیسے ھی میں نے صدف کی چیخ‬
‫سنی اور ساتھ ھی آنٹی کے دوڑے آنے‬
‫کی آواز سنی تو‬
‫میری تو گانڈ پھٹ گئی‬
‫میں خود کو کوسنے لگ گیا‬
‫کہ‬
‫پین یکہ صبر نئی ہوندا سی ہن پتہ لگے‬
‫گا ہور ویکھ ممے تے پھدیاں‬

‫خیر مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں‬


‫نے جلدی جلدی سے تین چار چھڑیوں‬
‫کے بنڈل اٹھاے اور نیچے پھینک کر‬
‫جلدی سے سیڑھی سے اتر کر نیچے‬
‫صحن میں آگیا تو میں نے واش روم کی‬
‫طرف دیکھا تو آنٹی عظمی اور نسرین‬
‫بھی دروازے کے باہر کھڑی صدف‬
‫سے پوچھ رھی تھی کیا ھوا مگر اندر‬
‫سے کوئی آواز نہ آئی میں جلدی سے‬
‫جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور کتاب‬
‫نکال کر پڑھنے لگ گیا‬
‫پڑھتا کیا میری تو ڈر کے مارے گانڈ‬
‫پھٹ رھی تھی‬
‫مجھے تو یہ سمجھ نھی آرھی تھی کہ‬
‫میں اب کروں کیا اور میرے ساتھ ھوگا‬
‫کیا‬
‫‪،،‬‬
‫اتنے میں صدف سر کے بالوں کو تولیہ‬
‫لپیٹے واش روم سے نکلی اور کسی‬
‫سے بھی کچھ بات کیے بغیر تیز تیز‬
‫قدم اٹھاتی میرے پاس سے گزر کر‬
‫کمرے کی طرف چلی گئی‬
‫اور کمرے کے دروازے پر کھڑی‬
‫ھوکر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک‬
‫قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے‬
‫میں داخل ہو کر ذور سے دروازہ بند‬
‫کردیا‬

‫میری تو بیٹھے کی ٹانگیں کانپ رھی‬


‫تھی کہ پتہ نھی آنے واال وقت کیسا‬
‫ھوگیا صدف اور اسکی امی میرے ساتھ‬
‫کیا کرے گی صدف کا ابو تو تھا بھی‬
‫بڑے غصے واال اور بدمعاش ٹائپ کا‬
‫تھا‬
‫اتنے میں عظمی اور نسرین بھی میرے‬
‫پاس آکر بیٹھ گئی میں نے انجان بنتے‬
‫ھوے عظمی سے پوچھا کہ تم لوگ‬
‫کدھر گئے تھے تو عظمی بولی تمہیں‬
‫باجی کی چیخ نھی سنائی دی تو میں‬
‫نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ نھی میں‬
‫تو ٹارے کے اوپر چڑھ کر چھیٹیاں‬
‫پھینک رھا تھا‬

‫تو کیا ھوا تھا باجی نے چیخ کیوں‬


‫ماری تھی‬

‫تو صدف نے منہ بسورتے ھوے کہا پتہ‬


‫نھی آنٹی نے پوچھا بھی تھا مگر وہ‬
‫ڈری سی اپنے کمرے میں چلی گئی‬
‫کچھ بولی ھی نھی‬
‫تب آنٹی کی مجھے آواز آئی‬
‫کہ یاسر‬
‫میں نے گبھراے ھوے آنٹی کی طرف‬
‫بنا دیکھے کہا‬
‫ججججی آنٹی ججججی تو آنٹی بولی‬
‫سٹ‬‫پتر اینیاں وڑیاں چھیٹیاں تھلے ُ‬
‫دیتیاں ای میں تے تینوں تھوڑیان جیاں‬
‫کیاں سی‬

‫تو میں اب آنٹی کو کیا بتاتا کہ تمہاری‬


‫بیٹی کی مہربانی ھے جو اس نے‬
‫مجھے اپنے دھیان لگائی رکھا تھا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے پتہ نھی‬
‫چال کہو تو دوبارا اوپر رکھ دوں‬

‫تو آنٹی بولی‬

‫نئی رہن دے کل کم آ جان گیاں پہلے ای‬


‫تھک گیا ھویں گا‬

‫میں خاموش رھا اور پڑھنے کی‬


‫ایکٹنگ کرنے لگ گیا جبکہ میرا دل‬
‫دماغ صدف کے کمرے کی طرف تھا‬
‫اور سوچ رھا تھا کہ اب سالی باہر نکل‬
‫کر پتہ نھی کیا ہنگامہ کرے گی‬
‫تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھال اور‬
‫صدف نے منہ باھر نکال کر اپنی امی‬
‫کو آواز دی اور دوبارا دروازہ بند‬
‫کردیا‬
‫آنٹی جلدی سے کمرے کی طرف چلی‬
‫گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل‬
‫ھوگئی‬

‫میری تو حالت ایسے ھوگئی کہ کاٹو تو‬


‫جسم میں لہو نھی‬
‫رہی سہی کسر بھی نکل گئی‬
‫میرا دماغ پھٹنے واال ھوگیا کہ‬
‫کاکا اب خیر نھی صدف نے اپنی ماں‬
‫کو بتانے کے لیے اندر بالیا ھے اور‬
‫اس نے اپنی ماں کو‬
‫سب کچھ بتا دینا ھے اور آنٹی نے اپنے‬
‫بندے کو‬
‫تے کاکا تینوں فیر وجے ای وجے‬
‫اونے تے تینوں ویسے ای وڈ کے رکھ‬
‫دینا اے‬
‫ایسے ھی الٹے سیدھے خیال میرے‬
‫دماغ میں چل رھے تھے‬
‫مجھے کچھ اور تو نہ سوجا‬
‫میں نے جلدی سے کتابیں اپنے بیگ‬
‫میں رکھنا شروع کردی اور ایکدم سے‬
‫اٹھا اور بیگ کندھے سے لٹکایا اور‬
‫باہر کو چلدیا‬
‫تو عظمی نے حیران ھوتے ھوے‬
‫مجھے آواز دی کے کدھر جارھے ھو‬
‫تو میں نے کہا میرے سر میں درد‬
‫ھورھا ھے مجھے چکر آرھے ھیں‬
‫باجی کو بتا دینا میں گھر جارھا ھوں‬
‫میں نے عظمی کا جواب سنے بغیر باہر‬
‫دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور کب‬
‫میں گھر پہنچا مجھے نھی پتہ رات کو‬
‫مجھے بہت تیز بخار چڑھ گیا میرا جسم‬
‫کانپ رھا تھا‬
‫عظمی لوگ دوسرے دن سکول ٹائم‬
‫ہمارے گھر آئیں اور امی سے پوچھنے‬
‫لگ گئی کہ یاسر ابھی تک تیار نھی ھوا‬
‫تو امی نے بتایا کہ وہ تو کل کا بیمار‬
‫پڑا ھے تو عظمی اور نسرین دونوں‬
‫کمرے میں ائیں اور میرے ماتھے ہر‬
‫ھاتھ رکھ کر بخار چیک کرنے لگ‬
‫گئی‬
‫میں نے کہا تم جاو سکول میں نے آج‬
‫نھی جانا‬

‫تو وہ دونوں بولیں ہم اکیلی کیسے جائیں‬


‫گی‬
‫نہ بابا ہمیں تو ڈر لگتا ھے تو میں نے‬
‫کہا ڈر کیسا باجی بھی تو ساتھ ھی جاے‬
‫گی تو وہ دونوں بولیں‬
‫جاتے ھی ساتھ ھونگی واپسی پر تو‬
‫اکیلی ھی آئیں گی‬
‫ہم بھی آج چھٹی کرلیتی ہیں کل تمہارے‬
‫ساتھ ھی جائیں گی تو میں خاموش‬
‫ھوگیا اب میں کیا انکو کہتا مجھ سے تو‬
‫ہال نھی جارھا تھا بخار کی شدت اتنی‬
‫تھی‬
‫وہ دونوں کچھ دیر بیٹھی اور اپنے گھر‬
‫بتانے کے لیے چلی گئی کہ میری‬
‫طبعیت نھی سہی ھے‬

‫کچھ ھی دیر بعد آنٹی فوزیہ گبھرائی‬


‫ھوئی کمرے میں آئی انکے پیچھے ھی‬
‫عظمی اور امی بھی تھیں‬
‫آنٹی نے آتے ھی میرا منہ سر چومنا‬
‫شروع کردیا اور بولی‬

‫ھاے ھاے کی ھویا میرے شزادے نوں‬


‫کیویں بخار نال تپدا پیا اے‬
‫میں انٹی کے اتنے بے تحاشا پیار اور‬
‫فکر کو دیکھ کر رونے لگ گیا‬
‫آنٹی نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینے‬
‫کے ساتھ لگا کر مجھے چپ کروانے‬
‫لگ گئی‬
‫میں اور ذور ذور سے بچوں کی طرح‬
‫رونے لگ گیا‬

‫تو عظمی کہنے لگی‬


‫امی ایدھے سارے ڈرامے نے کل چنگا‬
‫پال سی‬

‫تو آنٹی نے غصہ سے نیچے جھک کر‬


‫اپنی چپل اٹھائی اور عظمی کو دے‬
‫ماری اور بولی‬
‫چل دفعہ ھو کسے ُکتی دی بچی میرا‬
‫الل بخار نال ادھ موا ھوگیا تے تینوں‬
‫بکواس کرن دئی پئی اے‬
‫‪.‬عظمی کو جب جوتا پڑا تو‬
‫ناچاھتے ھوے بھی روتے روتے‬
‫میری‪ .‬ہنسی نکل گئی اور عظمی‬
‫مجھے گھورتے ھوے اہنے منہ پر ھاتھ‬
‫پھیرتے ھوے برا سا منہ بنا کر ایک‬
‫سائڈ پر کھڑی ھوگئی‬
‫اور آنٹی نے میرا سر پکڑا کر پھر‬
‫اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے سر‬
‫پر ھاتھ پھیرنے لگ گئی‬

‫آنٹی کا پیار دیکھ کر مجھے خود‬


‫پرغصہ آنے لگ گیا کہ‬
‫میں کتنا برا ھوں کہ آنٹی مجھے اپنی‬
‫بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں‬
‫اور میرے لیے کتنی فکر مند ہیں اور‬
‫میں کتنا گھٹیا اور گندا انسان ھوں جو‬
‫ہر وقت انکے بارے میں غلط سوچتا‬
‫رھتا ھوں اور انکو گندی نظر سے‬
‫دیکھتا رہتا ہوں‬
‫مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ‬
‫آرھا تھا اور شرمندگی سے اپنے آپ‬
‫میں مرا جارھا تھا‬

‫خیر آنٹی ددوگھنٹے کے قریب میرے‬


‫پاس ھی بیٹھی رھی اور مجھے اپنے‬
‫ھاتھ سے دلیہ کھالیا‬

‫پھر آنٹی شام کو آنے کا کہہ کر مجھے‬


‫پھر ڈھیر سارا پیار کرکے چلی گئی‬
‫اور میں اکیال لیٹا آنے والے اچھے‬
‫برے وقت کے بارے میں سوچتا رھا‬

‫اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر صدف‬


‫نے اپنی امی کو بتایا ھوتا تو الزمی‬
‫عظمی یا نسرین کو بھی پتہ چل جانا تھا‬
‫مگر انہوں نے میرے ساتھ ایسی کوئی‬
‫بات نھی کی‬
‫پھر نیگٹیو سوچ نے آگھیرا کہ بچو اگر‬
‫عظمی لوگوں کے سامنے بات کرنا‬
‫ھوتی تو صدف نے اپنی ماں کو اندر‬
‫کمرے میں کیون بالنا تھا‪ .‬وہ باہر آکر‬
‫بھی کہہ سکتی تھی‬

‫انہیں سوچوں میں مجھے پتہ ھی نھی‬


‫چال کہ میں کب سو گیا‬

‫شام کو میری بہن نے مجھے اٹھایا کہ‬


‫تیری ٹیویشن والی باجی اور اسکی امی‬
‫ائی ہیں‬

‫ان دونوں کا سن کر میری تو ٹانگیں‬


‫پھر کانپنے لگ گئیں‬
‫اور میں نے کانپتے ھوے مری ھوئی‬
‫آواز نکالتے ھوے اپنی بہن نازی کو کہا‬
‫کہ انکو کہو کہ میں سورھا ھون‬

‫تو وہ غصہ سے بولی‬

‫صبح کے سوے مرے ھو ابھی تک نیند‬


‫نھی پوری ھوئی‬
‫وہ اتنی دور سے ائی ہیں اور تم نواب‬
‫زادے بہانے بنا رھے ھو‬
‫میں نے غصہ سے اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا کہ‬
‫جانی اے کہ نئی‬
‫تو وہ پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا آنٹی‬
‫اور صدف کمرے میں داخل ھویں‬
‫انکو دیکھتے ہی میرا رنگ اڑ گیا اور‬
‫اتنے میں انٹی اگے بڑھیں اور میرے‬
‫سر پر پیار دیتے ھوے بولیں کیا ھو‬
‫یاسر بیٹا کل تو اچھے بھلے تھے‬
‫ہمیں بتا کر بھی نھی آے چپ کر کے‬
‫گھر آگئے تھے‬
‫میری وجہ سے تمہاری طبعیت خراب‬
‫ھوئی ھے نہ میں تمہیں چھیٹیاں اتارنے‬
‫کو کہتی نہ تمہارا یہ حال ھوتا‬
‫صدف میرے سامنے کھڑی بڑے غور‬
‫سے مجھے دیکھے جارھی تھی جیسے‬
‫مجھے پہچاننے کی کوشش کررھی‬
‫تھی‬

‫میں ڈرتا اس سے نظریں بھی نھی مال‬


‫رھا تھا‬

‫پھر آنٹی صدف کو یہ کہہ کر چلی گئی‬


‫کہ‬
‫تم اپنے ویرے کے پاس بیٹھو میں ذرہ‬
‫آپاں کے پاس جارھی ہوں‬
‫مجھے یہ سن کر پھر ایک جھٹکا سا‬
‫لگا کہ شاید آنٹی امی کو میری کرتوت‬
‫بتانے جارھی ھے‬
‫تو آنٹی کے جاتے ھی صدف مجھے‬
‫گھورتے ھوے میرے پاس میرے‬
‫کولہوں کے پاس بیٹھ گئی اور آگے‬
‫ہوکر میرے گال پر ذور سے ُچٹکی‬
‫کاٹ کر بولی‬
‫ہاں جی سناو بے شرم ویرے کیویں‬
‫بخار چڑیا‬

‫تو میں شرم سے ڈوبا جارھا تھا چپ کر‬


‫کے منہ دوسری طرف کر کے رونے‬
‫لگ گیا‬
‫تو صدف نے ایک ھاتھ میرے دائیں‬
‫طرف میری‬
‫بغل کے قریب رکھا اور میرے اوپر‬
‫ُجھک کر اپنا منہ میرے منہ کے کچھ‬
‫فاصلے پار کرتے ھوے ایک ھاتھ سے‬
‫میرا چہرہ پکڑ کر سیدھا کیا اس حالت‬
‫میں صدف کے ممے میرے سینے سے‬
‫کچھ فاصلے پر ھی تھے‬
‫جبکہ اسکی گانڈ میرے کولہوں کے‬
‫ساتھ لگی ھوئی تھی اور اسکے ناف کا‬
‫حصہ بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگا ھوا‬
‫تھا‬
‫صدف بولی‬
‫بچو ذیادہ ڈرامے نہ کر‬
‫اب تجھے بڑے رونے آرھے ہیں جب‬
‫بے شرموں کی طرح مجھے ننگا نہاتے‬
‫ھوے دیکھ رہا تھا تب تیرا یہ رونا کہاں‬
‫تھا‬

‫شکر کرو میں نے امی کو یاں ابو کو‬


‫نھی بتایا ورنہ جو تیرا حال ھونا تھا‬
‫تجھے پتہ نھی‬

‫ابھی تیری عمر ھے یہ کام کرنے کی‬


‫جو تو کررھا ھے‬
‫شرم کر اپنی عمر دیکھ اور کام دیکھ‬
‫ابھی سے تجھے جوانی چڑھی ھوئی‬
‫ھے بڑا ھوکر کیا کرے گا‬

‫صدف نے ایک ھی سانس میں مجھے‬


‫لمبا سا لیکچر دے دیا‬

‫مجھے یہ سن کر کچھ حوصلہ ھوگیا کہ‬


‫صدف نے گھر نھی بتایا اور شکر ادا‬
‫کرنے لگ گیا‬

‫صدف اسی سٹائل میں میرے اوپر‬


‫جھکی ھوئی میرے منہ کو اپنی انگلیوں‬
‫اور انگھوٹھے سے ایسے دبایا ھوا تھا‬
‫جیسے بچے کو زبردستی دوائی پالنے‬
‫کے لیے اسکا منہ ایسے پکڑ کر‬
‫زبردستی کھولتے ہیں‬

‫میں سکتے کے عالم میں صدف کے‬


‫چہرے کی طرف دیکھی جارھا تھا جس‬
‫کے چہرے پر نہ پیار تھا نہ ھی غصہ‬
‫پھر صدف میرے منہ کو ہالتے ھوے‬
‫بولی‬

‫بتا اب تیرا کیا کروں‬


‫بتاوں اپنے ابو کو یا تیری امی کو‬
‫تو میں چت لیٹا ھوا تھا اور صدف‬
‫میرے اوپر جھکی ھوئی تھی اسکی‬
‫چھاتی میرے سینے سے تھوڑا ھی اوپر‬
‫تھی‬

‫میرے ھاتھ بلکل سیدھے چارپائی پر‬


‫تھے‬
‫میں نے صدف کی جب پھر دھمکی‬
‫سنی تو میں اس سے ھاتھ جوڑ کر‬
‫معافی مانگنے کے لیے اپنے دونوں‬
‫ھاتھ اوپر کر نے لگا تو میرے دونوں‬
‫ھاتھوں کی انگلیاں پہلے اسکے پیٹ‬
‫سے ٹکرائیں پھر دونوں مموں سے نپل‬
‫کے نچلے حصہ سے ٹکرائیں اور‬
‫نپلوں کو چھوتی ھوئی صدف کے‬
‫چہرے کے سامنے کرکے ھاتھ جوڑ‬
‫لیے میری دونوں کہنیاں اب بھی صدف‬
‫کے دونوں مموں کے ساتھ ٹچ تھی یہ‬
‫سب اتنی جلدی سے ھوا کہ صدف کو‬
‫سنبھلنے کا موقع ھی نھی مال‬

‫مگر یہ سب ھوا غیر ارادی طور پر‬


‫تھا‬
‫میں نے روتے ھوے ھاتھ جوڑتے کہا‬
‫باجی مجھے معاف کردو‬
‫کی قسم میں نے جان بوجھ ******‬
‫کر آپ کو نھی دیکھا تھا بس ایسے‬
‫انجانے میں مجھ سے غلطی ھوگئی‬
‫پلیز آئندہ کبھی بھی ایسا نھی ھوگا‬
‫پلیز کسی کو مت بتانا‬

‫تو صدف بولی بس بس زیادہ ڈرامے‬


‫مت کرو‬
‫مجھے سب پتہ ھے‬
‫کہ تم مجھے کن نظروں سے دیکھتے‬
‫ھو‬
‫اس دن جب میں گری تھی تب بھی کیا‬
‫اچانک ھی سب ھوا تھا‬

‫اور روز جاتے ھوے میں نوٹ کرتی‬


‫رہتی ھوں تمہاری نظریں کدھر ھوتی‬
‫ہیں‬

‫میں یہ سب سن کر مزید شرمندہ ھونے‬


‫لگ گیا‬

‫اچانک مجھے اپنی کہنیوں پر صدف‬


‫کے مموں کا لمس محسوس ھوا اور‬
‫میرا ایکدم دھیان اسکے مموں پر چال‬
‫گیا اور اسکی گانڈ تو پہلے ھی میرے‬
‫ساتھ جڑی ھوئی تھی اتنا خیال آتے ھی‬
‫میرے لن ساب نے انگڑائی لی اور‬
‫کھڑا ھوگیا‬
‫صدف اپنی دھن میں مجھے گنوای‬
‫جارھی تھی کہ‬
‫جب تم کام چیک کروانے آتے ھو تب‬
‫بھی تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں اب‬
‫اتنے معصوم بن رھے ھو‬

‫اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتاو جب میں‬


‫سکول جاتے گرنے لگی تھی تو تم نے‬
‫جب مجھے پیچھے سے جپھی ڈالی تھی‬
‫تو تمہاری قمیض کیوں اوپر ھوئی‬
‫ھوئی تھی‬
‫میں نے کہا مجھے نھی پتہ‬
‫کہاں سے اور کیوں قمیض اوپر تھی‬
‫صدف بولی اچھا سب بھول گئے میں‬
‫بتاوں کس چیز نے تمہاری قمیض اوپر‬
‫کی ھوئی تھی‬
‫اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھتا‬
‫صدف نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے‬
‫اکڑے ھوے لن کو پکڑ لیا جو تیل کی‬
‫مالش کر کر شیش ناگ بن چکا تھا‬
‫صدف نے لن کو پکڑتے ھوے کچھ‬
‫کہنے کے لیے لب ہالے اس کے منہ‬
‫سے بس اتنا ھی نکال‬
‫اسسسسسسسسس کییییییی وجہہہہہہہ‬
‫اور صدف کا منہ حیرانگی سے کھلے‬
‫کا کھال رھ گیا‬
‫اور کچھ سیکنڈ اس نے میرے لن کو‬
‫اچھی طرح سے ٹٹول کر چیک کیا کہ‬
‫واقعی‪ .‬اسکے ھاتھ میں میرا ھی لن‬
‫ھے‬
‫تو اسے ایک جھٹکا لگا اور جمپ مار‬
‫کر کھڑی ھوگئی اور میرے اکڑے لن‬
‫کو جو قمیض کو تمبو بناے کھڑا تھا‬
‫آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھی تھی اور‬
‫پھر ایکدم اسے ہوش آیا اور چہرے پر‬
‫دونوں ہاتھ رکھ کر بنا کچھ کہے باہر‬
‫‪.‬بھاگ گئی‬

‫دوسرے دن میری طبیعت کافی بہتر‬


‫ھوچکی تھی اور صدف کا خوف بھی‬
‫تقریبا اتر ُچکا تھا‬
‫میں سکول کے لیے تیار ھونے لگ گیا‬
‫امی نے مجھے کافی روکا کہ آج بھی‬
‫چھٹی کر لو‬
‫مگر میں نے سکول جانے کا اصرار‬
‫کر کے امی کو منا لیا اور تیار ھوکر‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا آنٹی سے‬
‫سالم دعا اور حال احوال بتانے کے بعد‬
‫ہم تینوں گھر سے نکل آے اور میں‬
‫سیدھا کھیت کی طرف جانے لگا تو‬
‫عظمی نے میرا بازو پکڑتے ھوے کہا‬
‫کہ باجی کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے‬
‫وہ ہمارا انتظار کررھی ھوگی تو میں‬
‫نے کہا یار چلو وہ خود ھی آجاے گے‬
‫ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے‬
‫مگر عظمی اور نسرین کی ضد کی‬
‫وجہ سے مجھے مجبورا ً صدف کے‬
‫گھر جانا پڑا ہم جب اندر داخل ھوے تو‬
‫صدف برقعہ پہنے تیار بیٹھی تھی اس‬
‫نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر‬
‫نظریں جھکا کر باہر کی طرف چل‬
‫پڑی ہم بھی اسکے پیچھے پیچھے گھر‬
‫سے نکل کر سکول کی طرف چل‬
‫پڑے‬

‫دوستوں جہاں پہلے کپاس کی فصل ھوا‬


‫کرتی تھی اب وہاں بھی مکئی کی فصل‬
‫کاشت کردی تھی اور مکئی کا ان‬
‫دوستوں کو پتہ ھے جو گاوں میں رہتے‬
‫ہیں کہ یہ فصل دنوں میں بڑھتی ھے‬
‫اور تقریبا سات آٹھ فٹ ھوجاتی ھے‬
‫ہم آگے پیچھے چل رھے تھے میں سب‬
‫سے پیچھے تھا اور میرے آگے عظمی‬
‫تھی اور اس کے آگے صدف اور سب‬
‫سے آگے نسرین تھی‬

‫کچھ دور جاکر صدف کو پتہ نھی کیا‬


‫ھوا وہ بہانے سے عظمی کو آگے کر‬
‫کے خود پیچھے آگئی‬
‫اور مڑ کر مجھے دیکھا‬
‫اسکی آنکھوں میں مجھے واضح طور‬
‫پر شرارت نظر آرھی تھی‬
‫مگر میں نے اسکے دیکھنے کا کوئی‬
‫رسپونس نھی دیا اور‬
‫میں نے غور سے اسکی گانڈ کو ایک‬
‫نظر دیکھا تو‬
‫آج اسکی گاند کافی باہر کو نکلی ھوئی‬
‫تھی‬
‫میں نے دوبارا غور سے دیکھا تو‬
‫واقعی ایسا ھی تھا‬
‫میں سوچ ھی رھا تھا کہ یہ کیا ماجرا‬
‫ھے کہ‬
‫چلتے چلتے میری نظر اسکے پاوں کی‬
‫طرف پڑی تو‬

‫آج وہ اونچی ہیل پہن کر آئی تھی جس‬


‫کی وجہ سے اسکی گانڈ مزید باہر کو‬
‫نکلی ھوئی تھی‬
‫اور وہ جب قدم آگے کو بڑھاتی تو‬
‫اسکی گانڈ کا ایک حصہ جب اوپر کو‬
‫جاتا تو ساتھ برقعے کو بھی کھینچ کر‬
‫اوپر لے جاتا‬

‫اسکی سیکسی گانڈ دیکھ کر میرا تو‬


‫دماغ خراب ھونے لگ گیا‬

‫جبکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی‬


‫ھوجاے آج کے بعد صدف کے جسم کو‬
‫نھی دیکھنا کیوں کہ سالی کو پتہ نھی‬
‫کیسے پتہ چل جاتا تھا‬

‫خیر میں ناچاھتے ھوے بھی مسلسل‬


‫نظر ٹکاے صدف کی گانڈ کو دیکھی‬
‫جارھی تھا‬
‫کہ اچانک صدف رکی اور ایکدم‬
‫پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا‬
‫اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫سر کے اشارے سے پوچھا کیا دیکھ‬
‫رھے ھو‬
‫تو میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے‬
‫جھکا لیا‬

‫ایسا بس چند ھی سیکنڈ کے لیے ھوا‬


‫تھا‬
‫اور صدف بڑی ادا سے منہ دوسری‬
‫طرف کر کے پھر چلنے لگ گئی‬
‫بس ایسے ھی تانکہ جھانکی میں ہم‬
‫سکول پہنچ گئے‬
‫کالس میں اسد مجھے بڑی گرمجوشی‬
‫سے مال اور پوچھنے لگ گیا کہ کل‬
‫کیوں نھی آے میں نے اسے بخار کا‬
‫بتایا اور کچھ دیر وہ میری خیر خبر لیتا‬
‫رھا اور ہم پڑھائی میں مصروف‬
‫ھوگئے‬

‫ھاف ٹآئم کے وقت ہم گراونڈ میں بیٹھ‬


‫کر باتیں کررھے تھے کہ اسد نے‬
‫پوچھا سنا پھر‪ .‬کیسی جارھی ھے لن‬
‫کی مالش تو میں نے کہا یار میرا لن تو‬
‫واقعی اب پہچانا نھی جاتا کہ یہ میرا لن‬
‫ھی ھے‬
‫جب کھڑا ھوتا ھے میری قمیض میں‬
‫تنبو بن جاتا ھے‬

‫تو اسد فخر سے سر اوپر کر کے‬


‫میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے‬
‫بوال‬
‫دیکھا جگر میں نے کہا تھا نہ کہ یہ تیل‬
‫نھی جادو ھے جادو‬

‫تو میں نے کہا ھاں یار واقعی میں تم‬


‫سچ ھی کہتے تھے‬

‫اسد نے پھر مجھ سے پوچھا سنا لن‬


‫سے مال شال نکلنا شروع ھوگیا‬
‫تو میں نے کہا یار میں نے دوبارا مٹھ‬
‫ھی نھی ماری تو وہ ہنسنے لگ گیا‬

‫اور بوال کوئی حال نئی تیرا چیک تو‬


‫کرنا تھا‬
‫تو میں نے کہا اچھا یار کبھی موقع مال‬
‫تو چیک کروں گا‬

‫اور کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں‬


‫کرتے رھے اور پھر ھاف ٹائم ختم‬
‫ھوگیا اور ہم پھر کالس میں چلے گئے‬

‫کالس میں کچھ خاص نہ ھوا چھٹی‬


‫ھوئی اور میں عظمی لوگوں کو لے کر‬
‫گھر آگیا‬

‫شام کو ہم ٹیوشن چلے گئے‬


‫صدف نے آج سفید سوٹ پہنا ھوا تھا‬
‫اور بلیک جرسی پہنی ھوئی تھی جس‬
‫میں اسکے ممے تنے ھوے تھے اور‬
‫جرسی کی وجہ سے ممے مزید بڑے‬
‫بڑے لگ رھے تھے‬

‫صدف ہمارے سامنے کرسی پر ٹانگ‬


‫پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہماری طرف‬
‫دیکھ رھی تھی اور اسکی ذیادہ نظر‬
‫مجھ پر ھی تھی جیسے ھی میں سر اٹھا‬
‫کر اسکے مموں کو دیکھتا تو سالی کو‬
‫اپنی طرف ھی دیکھتا ھو پاکر شرمندہ‬
‫سا ھوکر پھر جلدی سے سر نیچے کر‬
‫کے گود میں رکھی کتاب کو پڑھنے‬
‫لگ جاتا‬

‫میں نے ایک بات پر غور کیا کہ اگر‬


‫صدف کو پتہ ھے کہ میں بار بار‬
‫اسکے مموں کو ھی دیکھ رھا ھوں تو‬
‫سالی مموں پر دوپٹہ کیوں نھی لیتی‬

‫پتہ نھی اسکے دل میں کیا تھا‬


‫کیوں میرا کڑا امتحان لے رھی تھی‬
‫کس بات کی سزا مجھے دے رھی تھی‬
‫تبھی صدف کی امی کمرے سے نمودار‬
‫ھوئی اور صدف کو کہا کہ میں زرہ‬
‫درزن کے گھر جارھی ھوں تیرے‬
‫سوٹ کا پتہ کرنے تھوڑی دیر تک‬
‫آجاوں گی‬

‫صدف کے دو بھائی تھے ایک الہور‬


‫میں کام کرتا تھا جو مہینے میں ایک‬
‫دفعہ ھی گھر آتا تھا‬
‫اور دوسرا اپنے ابو کے ساتھ بس‬
‫ڈرائیور تھا‬
‫باپ بس چالتا تھا اور بیٹا کنڈیکڑ تھا‬
‫اس وقت گھر میں صدف اور میں اور‬
‫عظمی اور نسرین اور محلے کے کچھ‬
‫بچے تھے‬

‫صدف کی امی درزن کے گھر کا کہہ‬


‫کر باہر چلی گئی اور صدف نے ایک‬
‫بچے کو کہا کہ جاکر باہر کے دروازے‬
‫کی کنڈی لگا آے‬
‫اور پھر ہماری طرف متوجہ ھوکر بیٹھ‬
‫گئی‬

‫اور وقفہ وقفہ سے بچوں کے نام لے‬


‫لے کر انکو سبق یاد کرنے کا کہتی‬
‫رہی‬
‫کچھ ھی دیر بعد صدف اٹھی اور کمرے‬
‫کی طرف چلی گئی‬

‫اور‬
‫تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے‬
‫سر نکاال اور مجھے آواز دی کے یاسر‬
‫میں نے کہا جی باجی‬
‫تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں‬
‫کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو‬

‫میں اچھا باجی کہتے ھوے اٹھا اور‬


‫کمرے میں داخل ھوگیا‬
‫جب میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف‬
‫مجھے کمرے میں نظر نہ آئی کمرے‬
‫کے ساتھ ایک دروازہ تھا جو شاید‬
‫سٹور روم تھا‬
‫میں دروازے کی طرف چل دیا جیسے‬
‫ھی میں اندر داخل ھوا تو‬
‫صدف پیٹی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی‬
‫تھی‬
‫تو میں اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور‬
‫اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال کہ‬
‫باجی کہاں ھے ٹرنک جو اوپر رکھنا‬
‫ھے تو وہ آگے بڑھی اور میرا بازو‬
‫پکڑ کر مجھے سٹور کی نکر کی طرف‬
‫لے گئی اور پھر میرے سامنے اپنی‬
‫بغلوں ہاتھ دے کر ایسے کھڑی ھوگئی‬
‫جیسے اسے بہت سردی لگ رھی ھو‬
‫اور آہستہ سے بولی تم نے باز آنا ھے‬
‫کہ نھی‬

‫میں نے حیران ھوکر پوچھا کے باجی‬


‫اب میں نے کیا کیا ھے تو صدف جھٹ‬
‫سے بولی‬
‫زیادہ معصوم مت بنو‬

‫میں تو جو تمہیں سمجھتی تھی تم تو‬


‫میری سوچ کے بلکل برعکس نکلے‬

‫میں نے پھر کہا باجی کچھ بتائیں تو‬


‫سہی کہ میں نے کیا کیا ھے‬
‫تو صدف بولی پہلے تو تم مجھے یہ‬
‫باجی باجی کہنا بند کرو میں تمہاری‬
‫باجی نھی سمجھے‬

‫کوئی اپنی باجیوں کو بھی اس نظر سے‬


‫دیکھتا ھے‬

‫میں نے سر جھکا لیا‬

‫تو صدف آگے بڑھی اور مجھے دونوں‬


‫کندھوں سے پکڑ کر بولی‬
‫سچ سچ بتاو تم چاھتے کیا ھو‬

‫میں نے سر جھکائے کہا کچھ نھی‬


‫باجی‬
‫تو صدف بھی جھنجھال کر بولی پھر‬
‫باجی‬
‫میں نے تمہیں کہا کہ مجھے باجی نہ‬
‫کہو‬
‫تو میں نے سرجھکاے ھے کہا کہ اچھا‬
‫اب نھی کہتا‬

‫تو صدف تھوڑے نرم لہجے میں بولی‬


‫یاسر میری طرف دیکھو‬
‫میں نے سر اٹھایا تو میری آنکھوں سے‬
‫آنسو نکل رھے تھے‬

‫تو صدف نے پیار سے اپنے ایک ھاتھ‬


‫سے میرے آنسو صاف کیے جبکہ‬
‫دوسرا ھاتھ ابھی تک میرے ایک‬
‫کندھے پر ھی تھا اور بولی دیکھو یاسر‬
‫تمہارے دل میں جو بھی ھے مجھے‬
‫سچ سچ بتا دو‬
‫میں وعدہ کرتی ھوں کسی کو نھی‬
‫بتاوں گی‬
‫مگر شرط یہ ھے اگر تم مجھے اپنا‬
‫دوست سمجھ کر سچ بتاو گے تب‬

‫تو میں نے کہا کچھ بھی نھی ھے ایسا‬

‫تو صدف بولی پھر جھوٹ‬


‫میں نے کہا نہ کہ اس وقت یہ سمجھو‬
‫کہ ہم دونوں دوست ہیں‬
‫کیا تم مجھے اپنا دوست نھی بنا سکتے‬
‫میں نے ہاں میں سر ہالیا تو‬
‫صدف بولی کہ دوستوں سے دل کی‬
‫بات چھپاتے ہیں کیا‬
‫میں نے ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف‬
‫کرتے ھو نھی میں سر ہالیا‬

‫تو صدف بولی‬


‫تو پھر مجھے بتاو اپنے دل کی بات‬
‫تو میں سمبھلتے ھوے کہا‬
‫کہ آپ ناراض ھوجاو گی تو‬
‫صدف بولی‬
‫یار جب میں خود کہہ رھی ھوں تو‬
‫ناراض کیسے ھو جاوگی‬

‫پھر کچھ دیر صدف بولی اچھا یہ بتاو‬


‫کہ میں تمہیں اچھی لگتی ھوں‬

‫تو میں نے سر ہال کر ھاں میں جواب‬


‫دیا تو صدف نے مجھے کندھوں سے‬
‫ہالتے ھوے کہا‬
‫یہ کیا گونگوں کی طرح اشارے‬
‫کررھے ھو زبان نھی ھے منہ میں‬

‫میں نے آہستہ سے کہا ھاں جی‬


‫تو صدف نے پھر پوچھا کہ کتنی اچھی‬
‫لگتی ھوں تو میں نے کہا بہت اچھی‬
‫لگتی ھو‬

‫تو صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ‬


‫میرے جسم کا کون سا حصہ تمہیں‬
‫زیادہ اچھا لگتا ھے‬

‫تو میں نے کہا آپ سر سے پاوں تک‬


‫ھی اچھی لگتی ھو‬

‫تو صدف بولی‬


‫پھر بھی کوئی حصہ تو ھوگا جو تم‬
‫زیادہ اچھا لگتا ھے‬
‫تو میں نے اشارے سے اسکے مموں‬
‫کی طرف انگلی کرتے ھوے کہا یہ‬
‫تو صدف نے پوچھا‬
‫اور‬

‫میں نے اسکی گانڈ کی طرف اشارہ کیا‬


‫کہ یہ‬

‫تو صدف نے کہا‬


‫اچھا جی‬
‫اور پھر صدف نے اپنے ممے پر ہاتھ‬
‫رکھتے ھوے کہا یہ تمہیں کتنا کہ اچھا‬
‫لگتا ھے‬
‫تو میں نے کہا بہت تو اچانک صدف‬
‫نے‬
‫میرے دونوں ھاتھ پکڑے اور‪......‬‬

‫اپنے مموں پر رکھ کر اپنے ھاتھوں کو‬


‫دبا دیا جس سے اسکے ممے میری‬
‫مٹھی میں بھینچے گئے‬
‫اور صدف کے منہ سے ایک سسکاری‬
‫سی نکلی سسسسی اور بڑی سیکسی‬
‫آواز نکال کر بولی لو پھر انکو اچھی‬
‫طرح دباو‬
‫اندھا کا چاھے دو آنکھیں‬

‫میں نے آہستہ آہستہ صدف کے گول‬


‫مٹول مموں کو دبانا شروع کردیا‬

‫کچھ دیر ایسے ھی دباتا رھا اور صدف‬


‫میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھے منہ‬
‫چھت کی طرف کرکے آنکھیں بند کیے‬
‫سسسییی سسسییی کرتی رھی‬
‫میں نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھا‬
‫اور اپنا ایک ھاتھ صدف کی کمر پر‬
‫رکھ کر اسے اپنی طرف کیا اور صدف‬
‫نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور‬
‫میری طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھا‬
‫اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے صاف‬
‫نظر آرھے تھے‬

‫میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬


‫کر ایک جھٹکا دیا اور صدف میرے‬
‫سینے سے لگ گئی اور ساتھ ھی میں‬
‫نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ‬
‫دیے‬

‫صدف کو فرنچ کس نھی کرنا آتی تھی‬


‫اس لیے وہ اوپر اوپر سے میرے‬
‫ہونٹوں کو چوم رھی تھی‬
‫میں نے بہت کوشش کی کے صدف کا‬
‫اوپر واال یا نیچے واال ہونٹ اپنے‬
‫ہونٹوں میں بھر لوں مگر وہ منہ ھی‬
‫نھی کھول رھے تھی بس ہونٹوں سے‬
‫ہونٹ مال کر چومی جارھی تھی میرے‬
‫دونوں ھاتھ اسکی کمر پر تھے اور‬
‫اسکے دونوں ھاتھ میری کمر پر اور‬
‫جسم بلکل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ‬
‫کر ایک جسم بنے ھوے تھے میرا لن‬
‫بھی نیچے سے تن کر صدف کی پھدی‬
‫کے اوپر ٹکریں مار مار کر اسے‬
‫ھوشیار باش کر رھا تھا‬

‫تبھی میں نے صدف کے ہونٹوں سے‬


‫اپنے ہونٹ جدا کیے اور زبان اسکے‬
‫ہونٹوں پر پھیرنے لگ گیا اور زبان کی‬
‫نوک اسکے ہونٹوں کے بیچھ اندر کی‬
‫طرف دبانے لگ گیا تھوڑی سی کوشش‬
‫کے بعد اسکے نرم مالئم گالب کی کلی‬
‫کیطرح تھوڑا سا کھلے اور میری زبان‬
‫کو اندر جانے کا راستہ دیا اور میری‬
‫زبان نے باقی کا راستہ خود ھی ہموار‬
‫کر لیا اور کافی ساری زبان اسکے منہ‬
‫میں ڈال کر اسکا اوپر واال ہونٹ اپنے‬
‫ہونٹوں میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے‬
‫لگ گیا اور اپنی زبان کو اسکے منہ‬
‫کے اندر چاروں اطراف پھرنے لگ گیا‬
‫اور کبھی اسکے زبان سے چھیڑ چھیڑ‬
‫کرنے لگا جاتا‬
‫صدف بھی اپنی زبان کو میری زبان‬
‫سے ٹکرانا شروع ھوگئی اور میرا‬
‫نیچے واال ہونٹ بھی چوسنے لگ گئی‬
‫منہ کے اندر زبان کی زبان کے ساتھ‪.‬‬
‫لڑائی جاری تھی اور باھر ھونٹوں کی‬
‫ہونٹوں کے ساتھ لڑائی جاری تھی اور‬
‫نیچے سے لن اور پھدی ابھی تک ایک‬
‫دوسرے سے مشورہ کرنے میں‬
‫مصروف تھے اور صدف کے ممے‬
‫میرے سینے میں دبے ھوے تھے اور‬
‫میرے ھاتھ اب اسکی گانڈ کی دونوں‬
‫پھاڑیوں کو جکڑے ھوے تھے اور‬
‫صدف کا ھاتھ میری کمر پر تھا اور‬
‫دوسرا میری گردن کے اوپر بالوں میں‬

‫کہ اتنے میں اچانک باھر سے کمرے‬


‫سے برتن گرنے کی آواز آئی اور ہم‬
‫دونوں کو کرنٹ لگا اور ہوش میں آتے‬
‫ھے جھٹکے سے ایک دوسرے سے‬
‫الگ ھوے‬
‫اور صدف نے مجھے جلدی سے پٹیوں‬
‫کے اوپر چڑھنے کو کہا میں بجلی سی‬
‫تیزی سے جمپ مار کر پیٹی کے اوپر‬
‫چڑھ گیا اور ایسے ھی پیٹی کے اوپر‬
‫پڑے ٹرنک کو ادھر ادھر کرنے میں‬
‫مصروف ھوگیا‬
‫صدف نے خود سنبھاال اور اپنے کپڑے‬
‫سہی کرتی ھوئی دوسرے کمرے میں‬
‫چلی گئی‬

‫میں کافی دیر ویسے ھی پیٹی کے اوپر‬


‫بیٹھا رھا اور میرے کان باہر کی طرف‬
‫کھڑے تھے اور میری ٹانگیں کانپ‬
‫رھی تھی تقریبا ً دس منٹ بعد صدف‬
‫مسکراتی ھوئی سٹور میں داخل ھوئی‬
‫اور مجھے یوں سہمے ھوے دیکھ کر‬
‫ہنستے ھوے بولی‬

‫تیری کیوں جان تے بنی ھوئی اے چل‬


‫تھلے آجا ُکش نئی ھویا بلی نے برتن‬
‫پھینکے تھے‬

‫میں بلی کو گندی گالیاں دیتے ھوے‬


‫شکر کرتے نیچے آگیا اور‬
‫صدف نے کہا کہ تم باہر جاکر بیٹھ جاو‬
‫اور تھوڑی دیر تک سب کوچھٹی ھو‬
‫جانی ھے تم گھر کا چکر لگا کر پھر‬
‫آجانا‬
‫امی ابھی ایک گھنٹہ سے پہلے نھی آتی‬
‫میں نے کہا آنٹی تو درزن کے پاس گئی‬
‫تھی اتنی دیر کیسے لگائیں گی تو‬
‫صدف بولی‬
‫تمہیں میری امی کا نھی پتہ وہ بہت‬
‫باتونی ھے تم بے فکر رھو اگر وہ آ‬
‫بھی گئی تو میں انکو کہہ دوں گی کہ‬
‫میں اکیلی تھی اس لیے تمہیں روک لیا‬
‫تھا‬

‫میں نے پھر ڈرتے ھوے انداز میں کہا‬


‫کہ دیکھنا کہیں مروا نہ دینا تو صدف‬
‫نے مجھے باھر جانے کے لیے دھکہ‬
‫دیا کہ اب جاو بھی میں سب سنبھال لوں‬
‫گی اور پھر پیچھے سے آہستہ سے‬
‫آواز دی کے یاسر جلدی آجانا‬

‫میں باہر آکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬


‫عظمی مجھے غور سے دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫تمہیں اتنی سردی میں بھی پسینہ کیوں‬
‫آیا ھوا ھے‬

‫تو میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر پھیرتے‬


‫ھوے کہا کہ‬
‫تمہاری باجی صاحبہ نے اتنا بھاری‬
‫ٹرنک جو مجھ سے اٹھوا کر پیٹی پر‬
‫رکھوایا ھے‬

‫میں نے نھی کل سے پڑھنے آنا تو‬


‫عظمی بولی کیوں کیا ھوا تو میں نے‬
‫برا سا منہ بناتے ھوے کہا کہ میں یہاں‬
‫کام کرنے آتا ھوں یاں پڑھنے‬
‫تو عظمی ہنستے ھوے بولی‬
‫کوئی بات نھی کسی کا کام کردینے سے‬
‫تم چھوٹے تو نھی رھ جاو گے‬

‫کچھ دیر ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے‬


‫اتنے میں صدف کمرے سے باہر نکلی‬
‫اور سب کو چھٹی کرنے کا کہا‬
‫ہم نے جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں‬
‫رکھی اور سالم لے کر باہر کو نکلنے‬
‫لگے میں سب سے آخر میں تھا تو میں‬
‫نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صدف نے‬
‫مجھے ھاتھ کے اشارے سے جلدی آنے‬
‫کا کہا اور میں نے اثبات میں سر ہالیا‬
‫اور باہر نکل آیا اور تیز تیز قدموں سے‬
‫گھر پہنچا اور بیگ رکھتے ھی امی کو‬
‫کہا کہ باجی صدف نے مجھے بلوایا‬
‫ھے تو امی‬
‫نے کہا ابھی تو انکے ھی گھر سے‬
‫آرھے ھو تو میں نے کہا کہ باجی نے‬
‫کہا تھا کہ گھر بیگ رکھ کر جلدی آنا‬
‫شاید انہوں نے کچھ منگوانا تھا‬

‫تو امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا‬


‫نہ کرنا‬
‫دھند پڑنا شروع ھوجاتی ھے میں نے‬
‫ابھی تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور‬
‫بھاگتا ھوا صدف کے گھر پہنچ گیا اور‬
‫دروازہ کھوال اور اندر داخل ھوا تو‬
‫صدف سامنے ھی چارپائی پر بیٹھی‬
‫ھوئی دروازے کی طرف ھی دیکھ‬
‫رھی تھی اور مجھے اشارے سے‬
‫دروازہ بند کرنے کا کہا تو میں نے‬
‫دروازہ بند کردیا اور سنگلی کی بنی‬
‫کنڈی کو لگا دیا‬

‫اور چلتا ھوا صدف کے پاس آگیا صدف‬


‫کھڑی ھوئی اور مجھے اپنے پیچھے‬
‫آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے‬
‫چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور‬
‫صدف نے کمرے کا دروازہ بھی بند‬
‫کردیا‬
‫اور مجھے کمرے میں بچھی چارپائی‬
‫بیٹھنے کہا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ‬
‫گئی‬
‫میں نے اسکے جسم کا جائزہ لیا تو اس‬
‫نے اب جرسی نھی پہنی ھوئی تھی‬

‫صدف نے میرا ھاتھ پکڑ کر کہا‬


‫تم کیا چیز ھو‬
‫میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں کیا‬
‫ھوا تو وہ میری گال پر چٹکی کاٹتے‬
‫ھوے بولی‬

‫یہ کس کرنا کہاں سے سیکھا ھے تو‬


‫میں نے کہا آپ سے‬
‫تو میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے‬
‫بولی‬
‫چل شوخا‬
‫سچ بتاو کہاں سے سیکھا ھے تو میں‬
‫کہا‬
‫صحیح کہہ رھا ھوں آپ سے کس‬
‫کرتے وقت ھی مجھے پتہ ھی نھی چال‬
‫کہ میں کیا کررھا ھوں اور ساتھ ھی‬
‫میں نے اپنے دونوں ھاتھوں سے‬
‫اسکے بازوں کے نیچے سے سائڈ‬
‫کیطرف سے جپھی ڈال دی اور اسکو‬
‫پیچھے کی طرف دھکیل کر چارپائی پر‬
‫لٹا دیا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی‬
‫لیٹ گیا تو صدف بولی چھوڑو مجھے‬
‫کیا کررھے ھو میں نے اس لیے تمہیں‬
‫بلوایا ھے کیا‬
‫تو میں نے اسکی بات سنی ان سنی کر‬
‫کے ایک ھاتھ سے صدف کا مما مسلنا‬
‫شروع کردیا صدف بلکل سیدھی لیٹی‬
‫ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں نیچے فرش‬
‫کی طرف لٹکی ھوئی تھی میں اسپر‬
‫ترچھا لیٹا ھوا تھا میرا ایک بازو اسکی‬
‫کمر کے نیچے تھا اور دوسرا اسکے‬
‫سینے پر اور میرا ھاتھ مسلسل اسکے‬
‫ممے کو مسلی جارھا تھا‬

‫کچھ دیر بعد عظمی بولی یاسر تمہارا‬


‫بازو میری کمر میں ُچبھ رھا ھے اسے‬
‫نکالو میں نے بازوں اس کی کمر کے‬
‫نیچے سے نکال کر اسکی گردن کے‬
‫نیچے رکھ دیا اور تھوڑا اوپر ھوکر‬
‫اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنے‬
‫لگا تو صدف نے منہ دوسری طرف کر‬
‫کے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھ لیا‬

‫اور نہ نہ میں سر ہالنے لگ گئی‬

‫میں نے اسکا مما چھوڑا اور اسکا ھاتھ‬


‫پکڑ کر منہ سے ہٹا دیا اور ہونٹوں کو‬
‫اسکے ہونٹوں پر رکھ کر کسنگ شروع‬
‫کردی‬
‫صدف کچھ دیر احتجاج کرتی رھی مگر‬
‫پھر ٹھنڈی ھوکر میرا ساتھ دینے لگ‬
‫گئی میں نے اسی دوران اسکی قمیض‬
‫کو آگے سے تھوڑا اوپر کیا اور ھاتھ‬
‫قمیض کے اندر ڈال کر مموں تک لے‬
‫گیا صدف نے میرا ھاتھ پکڑنے کی‬
‫کوشش کی مگر اس سے پہلے اسکا مما‬
‫میرے ھاتھ میں آچکا تھا میں یہ دیکھ‬
‫کر حیران رھ گیا کہ اس نے بریزیر‬
‫بھی نھی پہنا ھوا تھا‬

‫یعنی سالی نے پوری تیاری کررکھی‬


‫تھی بس نخرے کررھی تھی‬
‫عظمی کے ممے میرے ھاتھ سے بڑے‬
‫تھے اس لیے پورا مما ھاتھ میں نھی‬
‫آرھا تھا میں کبھی ممے کو دباتا کبھی‬
‫اکڑے ھوے نپلوں کو انگلیوں کے‬
‫درمیان پھنسا کر مسل دیتا‬
‫تب صدف لمبی لمبی سسکاریاں لیتی‬
‫اور اففففف آہستہ کرو آرام سے کرو‬
‫کہتی‬

‫اور پورے جوش سے میرے ہونٹ‬


‫چوس رھی تھی کافی دیر یہ ھی سین‬
‫چلتا رھا میں نے اس کے ممے سے‬
‫ھاتھ ہٹا کر پیچھے اسکی کی کمر کی‬
‫طرف لی گیا اور گردن کے پیچھے‬
‫والے ھاتھ سے اسکی گردن کو اوپر کیا‬
‫اور اسکو چارپائی پر سیدھا کردیا اب‬
‫ہم دونوں کی ٹانگیں بھی چار پائی پر‬
‫تھیں‬
‫اور صدف بلکل سیدھا چارپائی پر لیٹی‬
‫تھی جبکہ میں سائڈ لے کر اسکے اوپر‬
‫تھا میں نے صدف کی کمر سے قمیض‬
‫اوپر کی طرف کردی اور پھر ھاتھ‬
‫آگے الکر آگے سے بھی ساری قمیض‬
‫اٹھا کر اسکے مموں سے اوپر کرتے‬
‫ھوے اسکے گلے تک کردی‬
‫اب صدف لے نیم گورے چھت کی‬
‫طرف تنے ممے بلکل ننگے میری‬
‫آنکھوں کے سامنے تھے‬
‫میں اسکے اتنے دلکش موٹے گول‬
‫مٹول مموں کو دیکھ کر انپر ٹوٹ پڑا‬
‫اور باری باری دونوں مموں کو چوسنا‬
‫شروع کردیا صدف میرے سر پر ھاتھ‬
‫رکھ کر مموں پر دبا رھی تھی اور‬
‫نیچے سینے کو اوپر اٹھا اٹھا کر مزے‬
‫لے لے کر مجھے ممے چوسنے لو‬
‫سگنل دے رھی تھی اور ساتھ ساتھ‬
‫لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬

‫میں کبھی صدف کے اکڑے ھوے نپل‬


‫پر زبان پھیرتا کبھی پورا مما منہ‬
‫میں لینے کی کوشش کرتا کچھ دیر یہ‬
‫ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر میں نے اپنا ایک ھاتھ اسکے پیٹ‬
‫پر رکھ کر اسکی ناف میں انگلی‬
‫گھمانے لگ گیا‬
‫میں جیسے اسکی ناف کو چھیڑتا صدف‬
‫اتنا ذیادہ مچلتی‬
‫پھر میں نے پھرتی سے اپنا ہاتھ اسکی‬
‫شلوار میں ڈال دیا اور یہ دیکھ کر‬
‫حیران ھوا کہ اس نے بھی میری طرح‬
‫بس السٹک ھی پہنی ھوئی ھے اس لیے‬
‫میرا ھاتھ آسانی سے اندر چال گیا اور‬
‫اسکی پھدی کی مالئم جلد سے ھوتا ھو‬
‫اسکی پھدی کے ہونٹوں پر جا پہنچا‬
‫میرا ھاتھ جیسے ھی صدف کی پھدی‬
‫کے اوپر لگا صدف نے ایک زور دار‬
‫جھر جھری لی لمبی سی‬
‫ھاےےےےےےے میں مر گئی کیا‬
‫اور مجھے کس کر جپھی ڈال کر سر‬
‫نھی نھی میں ہالنے لگ گئی‬
‫مگر میں اب کہاں رکنے واال تھا‬
‫میں نے محسوس کیا کہ صدف کی‬
‫پھدی کے ہونٹ کافی گیلے ہیں جس‬
‫سے میری انگلیاں اسکی پھدی کے اوپر‬
‫چپک رھی تھی‬

‫میں مسلسل اسکی مالئم ریشم سی نازک‬


‫بالوں سے پاک پھدی کو مسل رھا تھا‬
‫اور ساتھ ساتھ اسکے ایک ممے کو بے‬
‫دردی سے منہ کی مار مار رھا تھا‬
‫اور میرا لن اسکے پٹ میں گھسنے کی‬
‫کوشش میں تھا جسکو صدف بخوشی‬
‫سے برداشت کر کے مزے میں ڈوبی‬
‫سسکیاں لے رھی تھی کہ اچانک اس‬
‫کی سسکیوں میں شدت پیدا ھوگئی‬
‫مجھے بھی جوش آگیا‬
‫میں نے لن کو مزید اسکے کولہے کے‬
‫ساتھ رگڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ‬
‫اپنے ھاتھ کی سپیڈ تیز کردی اور ایکدم‬
‫سے درمیان والی انگلی پھدی کے اندر‬
‫تک گھسا دی جیسے ھی انگلی اندر‬
‫گئی تبھی صدف کا چھوٹنے کا وقت سر‬
‫پر تھا صدف نے زور سے گانڈ کو‬
‫اوپر کی طرف کر کے ایکدم نیچے‬
‫چارپائی پر پھینکا‬
‫اور ھاےےےےےےےے امییییییک‬
‫کی آواز آتے ھی صدف کہ جسم نے‬
‫جھٹکے لینے شروع کردیے اور پھدی‬
‫کو سکیڑ لیا جس میں میری انگلی تھی‬
‫اور انگلی ایسے تھی جیسے آگ کی‬
‫بھٹی میں ھو اور ٹانگوں کو زور سے‬
‫آپس میں بھینچ لیا اور صدف نے اسی‬
‫سمے اپنا ھاتھ نیچے کر کے میرے لن‬
‫کو بھی ذور سے پکڑ لیا اور ذور ذور‬
‫سے جھٹکے لینے لگی اور ساتھ ھی‬
‫سیییییی افففففف اممممم ہمممممم‬
‫ھاےےےےےےےے کر کہ ٹھنڈی‬
‫ھوگئی اور اسکی ٹانگوں جکڑا میرا‬
‫ھاتھ اسکی پھدی کے پانی اور منی سے‬
‫گیال ھوگیا تھا‬
‫اسکی پھدی سے مسلسل پانی نکل رھا‬
‫تھا‬
‫اب صدف کا جسم وقفے وقفے سے‬
‫ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رھا تھا‬
‫‪e‬‬
‫صدف کے جسم نے ہلکے ہلکے‬
‫جھٹکے کھاے اور ساتھ ھی وہ بےجان‬
‫سی ھوگئی‬
‫جیسے ھی اسکی ٹانگیں ڈھیلی ہوئی‬
‫میں نے ہاتھ باہر نکال کر اس کی‬
‫شلوار سے اپنے ھاتھ کو صاف کیا اور‬
‫پھر سے اسکے مموں کو چوسنا شروع‬
‫کردیا‬
‫صدف پہلے تو کچھ بےچین سی رھی‬
‫پھر کچھ ھی دیر بعد وہ دوبارا سے گرم‬
‫ہونا شروع ھوگئی‬
‫میں نے آہستہ آہستہ سے صدف کی‬
‫شلوار کو نیچے کھسکانا شروع کردیا‬
‫پہلے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی‬
‫اور پھر آگے سے کھینچ کر گھٹنوں‬
‫تک نیچے کردی‬
‫صدف نے تھوڑا احتجاج کیا مگر میں‬
‫نے تھوڑی سی زبردستی کی اور شلوار‬
‫نیچے کرنے میں کامیاب ہوگیا‬
‫اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی‬
‫اور صدف کے اوپر آکر لن اسکی پھدی‬
‫کے اوپر رکھنے لگا تو صدف نے‬
‫جلدی سے اپنا ھاتھ اپنی پھدی کے اوپر‬
‫رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی یہ کیا‬
‫کرنے لگے ھو پاگل تو نھی ھوگئے‬
‫تو میں نے کہا کچھ نھی ھوتا‬
‫تو اس نے کہا چھوڑو مجھے خبردار‬
‫اگر اندر کیا مجھے برباد کرنا ھے‬
‫میں نے کہا اندر کرنے سے تم کیسے‬
‫برباد ھوجاو گی کسی کو پتہ تھوڑا لگنا‬
‫ھے‬
‫تو صدف بولی تم پاگل ھو جو میری‬
‫بات نھی سمجھ رھے مجھے مارنا ھے‬
‫میں نے کہا یار بس تھوڑا سا اندر‬
‫کروں گا ایک دفعہ ھاتھ تو پیچھے کرو‬
‫تو صدف نھی میں سر ہالتے ھوے‬
‫کہنے لگی‬
‫ہرگز بھی نھی کیوں مجھے برباد کرنے‬
‫پر تلے ھو‬
‫میں کنواری ھوں شادی شدہ نھی جو‬
‫کچھ نھی ھوگا‬
‫مگر میرے دماغ پر منی سوار تھی میں‬
‫نے زبردستی صدف کا ھاتھ پکڑ کر‬
‫اسکے سر کے قریب کر دیا اس نے‬
‫دوسرا ھاتھ نیچے لیجانا چاھا مگر میں‬
‫نے راستے میں اسکا ھاتھ پکڑ کر‬
‫اسکے سر کے پاس لیجا کر چارپائی پر‬
‫دبا دیا اب میرے دونوں ھاتھوں میں‬
‫اسکی دونوں کالئیاں تھی اور صدف‬
‫سر ادھر ادھر مار رھی تھی اور نیچے‬
‫سے گانڈ اٹھا کر دائیں بائیں کرتے‬
‫ھوے میرے نیچے سے نکلنے کی‬
‫کوشش کرتی رھی مگر مرد کے آگے‬
‫عورت بے بس ھی ھوتی ھے میں نے‬
‫اپنی گانڈ ہال ہال کر لن اسکی پھدی پر‬
‫سیٹ کرنا شروع کردیا مگر وہ نیچے‬
‫سے ہلے جارھی تھی اور مجھے‬
‫دھمکیاں دینے لگ گئی کہ میں اپنی‬
‫امی کو بتاوں گی ابو کی بتاوں گی مگر‬
‫مجھ پر صدف کی دھمکیوں کا کوئی‬
‫اثر نھی ھورھا تھا‬
‫مجھے جب بھی لگتا کہ لن سہی نشانے‬
‫پر ھے تو میں ذور سے گھسا مارتا‬
‫مگر لن پھدی سے سلپ ھوکر اس کے‬
‫چڈوں کے درمیان گھس جاتا‬
‫ایک تو صدف کی پھدی بہت گیلی تھی‬
‫دوسرا جب بھی گھسا مارتا تو صدف‬
‫اوپر کی طرف کھسک جاتی اور میرا‬
‫وار خالی جاتا‬
‫مگر جب بھی میرا لن اسکے چڈوں کے‬
‫درمیان جاتا تو میرے جسم میں مزے‬
‫کی لہر دوڑ جاتی‬
‫صدف اب رونے لگ گئی تھی اور‬
‫مجھے اموشنل بلیک میل کرتے ھوے‬
‫کہنے لگی‬
‫یاسر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی‬
‫لڑکے کو دوست بنایا ھے اور مجھے تم‬
‫پر بہت بھروسہ تھا کہ تم میرے ساتھ‬
‫کچھ غلط نھی کرو گے‬
‫مگر تم بھی ہوس کے پجاری نکلے‬
‫کیا ملے گا تمہیں میری عزت برباد‬
‫کرکے‬
‫میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست‬
‫سمجھتی تھی‬

‫اگر تم مجھے دوست سمجھتے ھو تو‬


‫پلیز اندر مت کرنا‬
‫ورنہ میں کسی کو منہ دیکھانے کے‬
‫قابل نھی رھوں گی اور ساتھ ساتھ روئی‬
‫جارھی تھی‬

‫مجھے بھی اب صدف کے چڈوں میں‬


‫گھسے مارنے میں مزہ آرھا تھا‬

‫اس لیے میں نے بھی اندر کرنے کا‬


‫ارادہ ملتوی کرتے ھوے کہا‬

‫اچھا یار نھی اندر کرتا مگر مجھے‬


‫ایسے تو کرنے دو‬
‫تو صدف بولی ایسے بھی اندر جاسکتا‬
‫ھے تو میں نے کہا یار ایک دفعہ کہہ‬
‫دیا نہ کہ نھی اندر کرتا تو نھی کرتا‬
‫تو صدف بولی دیکھ لو یاسر اب میں‬
‫تمہیں نھی روکوں گی‬
‫اگر تمہیں میری عزت پیاری ھوئی تو‬
‫اندر نھی کرو گے‬
‫میں نے کہا یار مجھے تمہاری عزت‬
‫پیاری ھے تو کہہ رھا ھوں کہ اندر نھی‬
‫کرتا‬
‫صدف نے اب ہلنا بند کردیا تھا اور میں‬
‫اب اسکی چڈوں کے بیچ ھی لن کو اندر‬
‫باھر کر رھا تھا‬
‫میں اب صدف کی کالئیاں بھی چھوڑ‬
‫دی تھی اور بلکل سیدھا اس کے اوپر‬
‫لیٹ کر اسکی پھدی کو اپنے لن سے‬
‫رگڑیں لگاتا ھوا اوپر نیچے ھورھا تھا‬
‫مجھے بہت مزہ آرھا تھا‬
‫اب صدف کہ بھی آنکھیں بند ھونا‬
‫شروع ھوگئی‬

‫میں گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ‬


‫صدف کا پورا چہرہ چوم رھا تھا‬
‫آہستہ آہستہ میرے گھسوں میں شدت‬
‫آرھی تھی اور چارپائی چیخ چیخ کر‬
‫آہستہ کرنے کا کہہ رھی تھی‬

‫نیچے سے چارپائی کی چوں چوں کی‬


‫آوزیں پورے کمرے میں گونج رھی‬
‫تھی اور میں اب ایک ردھم سے گھسے‬
‫ماری جارھا تھا اور مزے کی شدت‬
‫میں بھی اضافہ ھوتا جارھا تھا‬
‫صدف نے میری کمر کو ذور سے جکڑ‬
‫رکھا تھا‬
‫کہ اچانک صدف نے اپنی ٹانگوں کو‬
‫آپس میں کس کر مالنا شروع کیا اور‬
‫اسکے چڈوں نے میرے لن کو جکڑ لیا‬
‫اور پھر ڈھیال چھوڑ دیا‬

‫جب صدف نے میرے لن کو جکڑا تو‬


‫میرا لن پھنس کے اسکے چڈوں میں گیا‬
‫تو مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیان نھی‬
‫کرسکتا‬
‫میں نے صدف کو کہا جانی ویسے ھی‬
‫کرو‬
‫تو صدف نے پھر چڈوں کو آپس میں‬
‫جوڑ کر جسم کو اکڑا لیا‬
‫میں گھسے مارتے ھوے بوال‬
‫ھاں ھاں ایسے ھی بڑا مزہ آرھا ھے‬
‫ایسے ھی رکھنا بس‬
‫تو صدف بھی فل نشے میں تھی اور ہم‬
‫دونوں کے ہونٹ آپس میں ملتے اور‬
‫کبھی جدا ھوتے‬

‫صدف بڑی نشیلی آواز میں بولی یاسر‬


‫میں نے کہا‬
‫جی جان‬
‫صدف بولی مزہ آرھا ھے میں نے‬
‫اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا‬
‫بُہہہہتتتت مزہ آرھا ھے‬
‫تمہیں بھی مزہ آرھا ھے‬
‫تو صدف نشے کی سی حالت میں بولی‪.‬‬
‫بہتتتت مزہ آرھا ھے‬

‫پھر وہ بولی یاسر مجھے چھوڑو گے‬


‫تو نھی‬
‫میں نے کہا نھی جان‬
‫پھر بولی مجھے دھوکا تو نھی دو گے‬
‫میں نے کہا نھی جان‬
‫صدف پھر بولی‬
‫یاسر مجھے بدنام تو نھی کرو گے‬
‫میں نے کہا سوچنا بھی مت‬
‫پھر بولی‬
‫یاسر تم نے پہلے بھی کسی کے ساتھ‬
‫کیا ھے‬
‫تو میں نے کہا نھی جان میرا بھی پہلی‬
‫ھی دفعہ ھے‬
‫تو وہ بولی‬
‫سچ کہہ رھے ھو نہ میں نے کہا جی‬
‫جان‬
‫تو صدف نیند کی سی حالت میں بولی‬
‫کھاو میری قسم‬
‫میں نے کہا‬
‫تمہاری قسم جان جی‬
‫پھر صدف کو ایکدم جوش چڑھا اور‬
‫دونوں ھاتھون سے میرا چہرہ پکڑ کر‬
‫بڑی سپیڈ کے ساتھ پورے چہرے پر‬
‫چھوٹی چھوٹی پاریاں کرنے لگ گئی‬
‫اور پھر آنکھیں بند کر کے میری کمر‬
‫پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ کس‬
‫کے لگا لیا‬

‫میری گھسے مارنے کی سپیڈ بہت تیز‬


‫ھوچکی تھی اور صدف کی بالوں سے‬
‫صاف چکنی مالئم نرم پھدی کے ساتھ‬
‫رگڑ رگڑ کر اندر باھر ھو رھا تھا‬

‫اچانک مجھے لگا جیسے میرا سارا‬


‫خون میرے لن میں اکھٹا ھو رھا ھے‬
‫اور مجھے بہت تیز کا پیشاب آرھا ھے‬
‫پھر وہ وقت آگیا کہ مجھ سے برداشت‬
‫نہ ھوا اور سارے جہان کا مزہ اکھٹا‬
‫ھوکر میرے لن میں آگیا اور میں نے‬
‫بے ساختہ صدف کے ہونٹوں میں اپنے‬
‫ہونٹ جکڑ لیے اور جتنا ممکن تھا‬
‫اسکو اپنے جسم میں سمونے لگا اور‬
‫کس کر صدف کو جپھی ڈال دی‬
‫صدف کے بڑے بڑے ممے میرے‬
‫سینے میں دب گئے تھے‬
‫اور پھر میرے جسم کو ایک زبردست‬
‫جھٹکا لگا اور میرے لن سے منی نکلتی‬
‫گئی مجھے نھی پتہ کہ کتنی دفعہ میرے‬
‫لن سے منی نکلی بس مجھے تو مزے‬
‫ھی مزے آرھے تھے‬

‫جیسے جیسے میرے لن سے منی نکلنا‬


‫کم ھورھی تھی‬
‫ویسے ھی میرے گھسے بھی سلو‬
‫موشن میں لگ رھے تھے اور پھر‬
‫صدف کے چڈوں نے میرے لن کو‬
‫اچھی طرح نچوڑ لیا‬
‫میں صدف کے مموں پر اپنے گال رکھ‬
‫کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا اور‬
‫صدف اس دوران میرے بالوں میں‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے بولی اب خوش‬
‫میں کافی دیر ایسے ھی پڑا رھا پھر‬
‫صدف نے مجھے ہالیا کہ اب اٹھ بھی‬
‫جاو کہ امی آے گی تب ھی اٹھو گے‬
‫میں امی کا نام سنتے ھی صدف کے‬
‫اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو دیکھنے‬
‫لگ گیا جو سرخ ھو چکا تھا اور نیم‬
‫مرجھا گیا تھا میں نے صدف کی شلوار‬
‫سے ھی لن کو صاف کیا تو صدف‬
‫کہنے لگی پاگل ھوگئے ھو میرے‬
‫کپڑے گندے کررھے ھو مگر میں نے‬
‫تب تک‬
‫لن صاف کرلیا تھا اور شلوار اوپر کی‬
‫تب صدف بھی جلدی سے اٹھی اور‬
‫اپنی قمیض نیچے کر کے کھڑی ھوکر‬
‫شلوار اوپر کرلی‬
‫اور چارپائی سے چادر اکھٹی کرتی‬
‫ھوئی بولی یاسر تم گھر جاو امی بھی‬
‫آنے ھی والی ھے میں امی کے آنے‬
‫سے پہلے چادر بدل دوں‬
‫میں نے چادر کی طرف دیکھا تو چادر‬
‫ایک جگہ سے کافی گیلی ھوگئی تھی‬
‫اور اس پر گاڑھی گاڑھی منی اب بھی‬
‫نظر آرھی تھی‬

‫میں نے صدف کو بازوں سے پکڑ کر‬


‫اپنی طرف اسکا منہ کیا اور ایک لمبی‬
‫سی فرنچ کس کی تو صدف اپنا آپ‬
‫چھڑواتے ھوے بولی‬
‫اب دفعہ بھی ھوجاو‬
‫میں اسکو چھوڑ کر کمرے سے نکلنے‬
‫ھی لگا تھا کہ‬
‫میرا ایک قدم ابھی دروازے کی دہلیز‬
‫کے باہر ھی گیا تھا کہ پیچھے سے‬
‫صدف نے مجھے آواز دی کہ یاسر میں‬
‫نے پلٹ کر اسکو دیکھا‬
‫تو وہ مجھے ہوائی چمی دیتے ھوے‬
‫بولی شکریہ‬
‫میں نے کہا کس بات کا تو صدف بولی‬
‫میرا بھروسہ نہ توڑنے کا‬
‫اور میں نے ہممم کیا اور باھر نکل آیا‬
‫اور بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی‬
‫اور گلی میں نکال تو گلی میں کافی‬
‫اندھیرا ھوچکا تھا‬
‫میں تیز تیز قدموں سے چلتا گھر کی‬
‫طرف چال گیا‬

‫رات کو نیند بڑے مزے کی آئی صبح‬


‫سکول کی لیے تیار شیار ھوکر‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا تو آنٹی‬
‫سے سالم دعا لی آنٹی نے پیار سے‬
‫میری گال اور ماتھے کو چوما اور‬
‫کہنے لگی میرے شزادے کی پیپروں‬
‫کی تیاری کیسی جارھی ھے میں نے‬
‫کہا بہت اچھی جارھی ھے‬
‫تو آنٹی میرے سر پر ھاتھ پھیرتے‬
‫ھوے بولی شاباش‬
‫بس انج ای دل ال کہ پڑیا کر‬
‫ایس دفعہ وی فرسٹ ای آویں‬
‫تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اب میں کیا بتاتا کہ میرے تو پاس ھونے‬
‫کی بھی چانس نھی‬

‫اتنی دیر میں عظمی اور نسرین بھی‬


‫تیار ھوکر کمرے سے نکل آئیں‬
‫اور نسرین مجھے آنٹی کی بغل میں‬
‫بیٹھا دیکھ کر بولی‬

‫امی تُسی کی ہر ویلے اینوں گودی وچ‬


‫واڑی رکھدے او‬
‫تو آنٹی غصے سے بولی‬
‫تینوں کی تکلیف اے میرا اکو اک ای‬
‫تے پتر اے‬
‫سنکھا‬
‫ہے کو ایدے ورگا سوہنا ُ‬

‫تو نسرین کی بجاے عظمی بولی‬


‫شکل دیکھی اسکی آیا وڈا شزادہ‬

‫تو میں نے زبان نکال کر اسکو منہ‬


‫چڑھایا‬
‫اور آنٹی نے مزید مجھے اپنے ساتھ لگا‬
‫کر کہا‬
‫چلو دفعہ‬
‫ھووو کی ہر ویلے میرے منڈے دے‬
‫پچھے پئیاں رہندیاں جے‬

‫تو نسرین بولی جے ماں پتر دا پیار ختم‬


‫ھوگیا ھوے تے سکول جان دی اجازت‬
‫مل سکدی اے‬
‫تو میں ہنستے ھو آنٹی سے الگ ھوا‬
‫اور جانے لگا تو آنٹی بولی یاسر پتر‬
‫بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا آج‬
‫باہر دُھند بھی کافی پڑی ھوئی ھے‬
‫میں نے جی اچھا کہا اور‬
‫انکو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر‬
‫صدف کے گھر کی طرف چلدییے‬
‫گلی سے نہر کی طرف دیکھ کر صاف‬
‫پتہ چل رھا تھا کہ دھند کی شدت کتنی‬
‫ھے کیوں کہ ہمیں تو کھیت بھی نظر‬
‫نھی آرھے تھے خیر ہم صدف کے گھر‬
‫پہنچے تو‬
‫صدف بھی تیار ھی بیٹھی تھی ہمیں‬
‫دیکھ کر جلدی سے وہ بھی باہر کو آنے‬
‫لگی تو اسکی امی بھی ساتھ ھی آگئی‬
‫اور مجھے وہ ھی بات کہنے لگ گئی‬
‫جو آنٹی فوزیہ نے کہی تھی کہ دھند‬
‫بہت ھے بہنوں کو دھیان سے لے کر‬
‫جانا‬
‫میں نے جی اچھا کہا اور دل ھی دل‬
‫میں کہا چلو جی اک ھور پین دا اضافہ‬
‫ھوگیا‬
‫ہم سکول کی طرف چل دیے‬
‫صدف ایسے شرما شرما کر مجھے‬
‫دیکھ رھی تھی جیسے میری منگیتر‬
‫ھو‬
‫راستے میں دھند کافی پڑی ھوئی تھی‬
‫اس لیے ہم سنبھل سنبھل کر جارھے‬
‫تھے تھوڑا سا بھی ایک دوسرے کا‬
‫فاصلہ بڑھتا تو ایکدوسرے کی نظروں‬
‫سے اوجھل ھوجاتے عظمی اور نسرین‬
‫بھی ڈر ڈر کر جارھی تھی جبکہ صدف‬
‫میرے آگے تھی اور بلکل میرے ساتھ‬
‫ساتھ ھی جارھی تھی‬

‫مجھے اچانک شرارت سوجھی تو میں‬


‫نے ھاتھ آگے کر کے صدف کی گانڈ‬
‫میں پورا چپہ دے دیا صدف نے ایکدم‬
‫ھائی کیا اور جھٹکے سے میرا ہاتھ‬
‫جھٹک دیا‬
‫تبھی عظمی نے پیچھے مڑ کر پوچھا‬
‫کیا ھوا باجی تو صدف بولی کچھ نھی‬
‫میرا پیر پھسلنے لگا تھا‬
‫تو عظمی بولی باجی دھیان سے چلیں‬
‫آگے سے تو کچھ نظر بھی نھی آرھا‬
‫صدف نے پیچھے مڑ کر غصے سے‬
‫دیکھا اور عظمی کی طرف اشارہ کیا‬
‫کہ کچھ تو کیال کرو اگر عظمی دیکھ‬
‫لے گی تو‬
‫تھوڑا سا ھی آگے گئے تھے کہ میں‬
‫نے پھر آگے بڑھ کر صدف کی گانڈ پر‬
‫پیار سے ہاتھ پھیرا اس دفعہ صدف‬
‫بولی تو کچھ نہ مگر میرا ھاتھ پیچھے‬
‫کرنے لگ گئی ایسے ھی میں‬
‫کھڑمستیاں کرتا رھا اور ہم نہر کہ پل‬
‫پر پہنچ گئے وہاں کچھ ذیادہ ھی دھند‬
‫تھی‬
‫جب ہم نے نہر کا پل کراس کیا تو‬
‫عظمی اور نسرین کچھ زیادہ ھی آگے‬
‫چلی گئی تھی جبکہ صدف اور میں‬
‫تھوڑا پیچھے تھے تب صدف نے کہا‬
‫تمہیں چھٹی کس وقت ھوتی ھے میں‬
‫نے نے کہا آج تو ہاف ڈے جمعرات‬
‫ھے آج تو گیارہ بجے چھٹی ھوجانی‬
‫ھے ویسے‪ .‬ایک بجے چھٹی ھوتی‬
‫ھے‬
‫تو صدف بولی میں دوبجے واپس آتی‬
‫ھوں آج میں ٹانگے کی بجاے ادھر سے‬
‫واپس آوں گی تم پُل پر میرا انتظار کرو‬
‫گے پھر ہم اکھٹے واپس گاوں آجائیں‬
‫گے میں نے کہا‬
‫واپسی پر میرے ساتھ یہ دونوں‬
‫مصیبتیں ھوتی ہیں‬
‫میں انکو گھر چھوڑ کر دوبارا نہر کے‬
‫پل پر آسکتا ھوں‬
‫آج تو ویسے ھی جمعرات ھے‬
‫تو تم بھی جلدی آجانا‬
‫تو صدف کچھ دیر سوچنے کے بعد‬
‫بولی‬
‫میں کوشش کروں گی کہ باراں بجے‬
‫تک واپس آجاوں‬
‫تم ساڑھے باراں بجے پُل موجود ھونا‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے مگر تم آجانا یہ‬
‫نہ ھو کہ میں انتظار ھی کرتا رہوں تو‬
‫صدف نے میری گال پر چٹکی کاٹتے‬
‫ھوے کہا فکر نہ کر میرے شزادے‬
‫صدف اپنے وعدے توں نئی ُمکربوال‬
‫اور پھر ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم‬
‫سکول پہنچ گئے صدف اپنی اکیڈمی‬
‫کے راستے کی طرف چلی گئی اور ہم‬
‫اپنے اپنے سکول میں چلے گئے‬

‫کالس میں اسد سے بھی کچھ خاص بات‬


‫نہ ھوئی بس وہ ھی سیکسی رسالہ‬
‫دیکھا اور کچھ سیکسی باتیں کی‬
‫اور اسد نے میرا لن پکڑا جو رسالہ‬
‫دیکھنے کی وجہ سے کھڑا ھوچکا تھا‬
‫تو اسد نے حیرانگی سے کہا واہ جگر‬
‫تیرا لن تو پورے جوبن پر آگیا ھے‬
‫یہ تو اب پھدی پاڑ لن بن گیا‬
‫میں لکھ کر گارنٹی دیتا ھوں کہ تو‬
‫جسکی بھی ایک دفعہ پھدی مارے گا‬
‫دوبارا وہ تیرے لن کو ترسے گی تیری‬
‫ُچدی پھدی تیری مرید ھوجاے گی‬
‫میں خوش ھوتے ھوے بوال‬
‫بس یار یہ تیری مہربانی ھے‬
‫تو وہ ہنس کر بوال دیکھ لیا پھر ہماری‬
‫یاری کا رزلٹ‬

‫میں نے اسکی کمر پر تھپکی دیتے‬


‫ھوے کہا یار تیرا یہ احسان کبھی نھی‬
‫بھولوں گا تو اسد نے کہا گانڈو یاری‬
‫میں احسان نھی ھوتا‬

‫تو اچانک مجھے صدف کے کہے‬


‫ھوے الفاظ یاد آے کہ‬
‫اندر مت کرنا میں برباد ھوجاوں گی‬
‫میں شادی شدہ نھی کنواری ھوں‬

‫تو میں نے اسد سے کہا یار ایک بات‬


‫پوچھنی تھی‬
‫اسد بوال‬
‫دو پوچھ یار‬

‫تو میں نے کہا یار یہ کنواری لڑکی اور‬


‫شادی شدہ میں کیا فرق ھوتا ھے‬

‫تو اسد بوال کیا مطلب‬

‫میں نے کہا مطلب کہ‬


‫کنواری لڑکی کے ساتھ سیکس کیا جاے‬
‫اور شادی شدہ کے ساتھ کیا جاے تو اس‬
‫میں کیا فرق ھوتا ھے‬

‫تو اسد بوال‬


‫کنواری سیل پیک ھوتی ھے‬
‫اسکی سیل کھولنا پڑتی ھے جبکہ شادی‬
‫شدہ کی پہلے ھی کھلی ھوتی ھے‬

‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ‬


‫یار یہ سیل کیا ھوتی ھے تو اسد ہنستے‬
‫ھوے بوال‬
‫جا اوے چلیا تینوں حالے تک اے ای‬
‫نئی پتہ‬
‫کملیا سیل لڑکی کے کنوارے ھونے کا‬
‫ثبوت ھوتا ھے‬
‫اسکی پھدی کے اندر ایک پردہ ہوتا‬
‫ھی‬
‫جب لن اسکی پھدی میں جاتا ھے اور‬
‫پردے کو پھاڑ کر آگے چال جاے تو‬
‫اسکی سیل یعنی پردہ پھٹ جاتا ھے اور‬
‫اسکی پھدی سے خون نکل آتا ھے‬
‫اسے سیل ٹوٹنا کہتے ہیں‬

‫میں نے حیران ھوتے ھوے اسد کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫یار اس سے لڑکی کو درد بھی ھوتا‬
‫ھے‬
‫اور خون کتنا نکلتا ھے‬

‫تو اسد بوال‬


‫کسی کسی لڑکی کے بہت ذیادہ درد بھی‬
‫ھوتی ھے اور خون بھی ذیادہ نکلتا ھے‬
‫اور کسی لڑکی کے نارمل سی درد‬
‫ھوتی ھے اور خون بھی کچھ خاص‬
‫نھی نکلتا‬
‫اور کچھ تو کنواری بھی ھوتی ہیں اور‬
‫سیل بھی خود ھی توڑ لیتی ہیں‬

‫میں نے پوچھا وہ کیسے‬

‫تو اسد بوال‬


‫جیسے ہم مٹھ مار کر فارغ ھوجاتے ہیں‬
‫ایسے ھی کچھ گرم اور سیکسی لڑکیاں‬
‫اپنی پھدی میں انگلی کرتی ہیں اور جو‬
‫جوش میں آکر انگلی ذیادہ اندر کردیتی‬
‫ہیں انکی سیل ٹوٹ جاتی ھے‬
‫اور میں نے تو ایک انگلش فلم میں‬
‫دیکھا تھا کہ‬
‫لڑکی اپنی پھدی میں کھیرا اور بینگن‬
‫بھی لے رھی تھی اور ایک تو موم بتی‬
‫اپنی پھدی میں لے رھی تھی‬
‫اور ایک لڑکی تو اپنی بنڈ کی موری‬
‫میں بھی پورا کھیرا لے رھی تھی‬

‫میں حیران ھوتے ھوے اسد کو دیکھی‬


‫جارھا تھا کہ سالے کو لڑکیوں کہ بارے‬
‫میں کتنا پتہ ھے‬

‫تو میں نے کہا واہ یار بڑی معلومات‬


‫ھے تیری‬

‫یار مجھے ایک بات کی سمجھ نھی آئی‬


‫کہ پھدی میں تو چلو مان لیا کہ سب‬
‫کچھ لے سکتی ہیں مگر یہ گانڈ میں‬
‫کیسے لیتی ہیں ۔۔۔‬

‫تو اسد بوال‬


‫جناب کئی کنواری لڑکیاں تو گانڈ بھی‬
‫بڑے شوق سے مرواتی ہیں اور جنکو‬
‫چسکا پڑ جاے تو وہ اتنی پھدی نھی‬
‫مرواتی جتنی گانڈ مرواتی ہیں‬

‫میں ہیییں کہا‬

‫اور اسد کو کہا یار انکے درد نھی ھوتا‬


‫تو اسد نے کہا پہلے پہلے ھوتا ھے‬
‫مگر بعد میں یہ گانڈ پیچھے کر کر کے‬
‫پورا لیتی ہیں‬

‫اور کنواری لڑکی کو یہ فائدہ ھوتا ھے‬


‫کہ اسکی سیل ٹوٹنے سے بھی بچ جاتی‬
‫ھے اور لن کا سواد بھی چکھ لیتی ھیں‬
‫ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ‬
‫ماسٹر جی کمرے میں داخل ھوے اور‬
‫ہم دونوں شریف زادے بن کر بیٹھ گئے‬
‫‪...‬‬
‫ُچھٹی ہوتے ھی میں عظمی لوگوں کو‬
‫ساتھ لے کر گھر چال گیا اور کھانا‬
‫وغیرہ کھا کر میں کھیلنے کے بہانے‬
‫سے گھر سے نکال اور نہر کی طرف‬
‫چل دیا گھر سے میں ٹائم دیکھ کر نکال‬
‫تھا اس لیے مقررہ وقت میں ابھی پندرہ‬
‫منٹ پڑے تھے‬
‫میں تیز تیز قدموں سے چلتا نہر پر پہنچ‬
‫گیا اور نہر کے کنارے پر بیٹھ کر‬
‫صدف کا انتظار کرنے لگ گیا‬
‫تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر نہر‬
‫کی دوسری طرف شہر کو جاتی کچی‬
‫سڑک کی طرف دیکھتا رہتا‬
‫کہ شاید اب صدف آتی ھوئی نظر‬
‫آجاے‬
‫وقت تھا کہ گزر ھی نھی رہا تھا‬
‫ایک ایک منٹ مجھے ایک گھنٹے جیسا‬
‫لگ رھا تھا‬
‫جیسے جیسے وقت گزرتا جارھا تھا‬
‫میری‬

‫بےچینی بڑھتی جارھی تھی سچ کہا‬


‫ھے شاعر نے‬
‫در پر نظر آہٹ پر کان دل میں‬
‫اضطراب‪،‬۔‬
‫پوچھے کوئی ستم گروں سے مزہ‬
‫انتظار کا۔‬

‫میرا حال بھی کچھ ایسا ھی تھا‬


‫دل میں وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی‬
‫صدف نے آنا ھے کہ نھی کہیں وہ‬
‫ٹانگے پر تو نھی چلی گئی وغیرہ‬
‫وغیرہ‬

‫تقریبا ً‬
‫ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی‬
‫جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے‬
‫ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل‬
‫دیا‬
‫اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے‬
‫گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ‬
‫میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا‬
‫ھوں تو صدف نے اپنی عادت کے‬
‫مطابق‬
‫میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے‬
‫ھوے کہا‬

‫پھر کیا ھوا میرے میاں مٹھو‬


‫تو میں اپنی گال کو مسلتے ھوے بوال‬

‫یہ کیا تم ہر وقت میری گال پر چٹکیاں‬


‫کاٹتی رہتی ھو‬
‫تو صدف بولی میری مرضی‬
‫میں تو کاٹوں گی جاو جو کرنا ھے‬
‫کرلو‬

‫تو میں نے کہا جس دن میں نے کاٹی نہ‬


‫تو اس دن تم نے رونے لگ جانا ھے‬

‫اسی دوران ہم پُل کراس کر کے گاوں‬


‫کی طرف آگئے تھے میں نے ادھر‬
‫ادھر دیکھا کہ کوئی آ تو نھی رھا‬
‫جب میری تسلی ھوئی تو‬
‫میں نے چلتے چلتے ھی صدف کا نقاب‬
‫نیچے کھینچا اور اسکی گال کو چوم لیا‬
‫تو صدف مصنوعی غصے سے بولی‬
‫شرم کرو سرعام گندی حرکتیں کر‬
‫رھے ھو‬

‫تو میں نے کہا دیکھ لے جس نے دیکھنا‬


‫ھے‬
‫تو صدف میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫واہ جی واہ‬
‫بڑی گل اے منڈا تے رانجھا بن گیا اے‬
‫میں پھر صدف کی گال پر ُچمی لیتے‬
‫ھوے کہا‬
‫کہ جب ہیر اتنی پیاری ھو تو ہر‬
‫دیکھنے واال رانجھا بن جاتا ھے‬
‫تو صدف بولی‬

‫اچھا جی‬
‫میں نے کہا‬
‫ہاں جی‬
‫صدف بولی‬
‫بڑی گل اے‬
‫میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے‬
‫مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا‬
‫کرنا تھا‬
‫میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب‬
‫ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر‬
‫باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے‬
‫ویسے بھی تو تمہاری اکیڈمی کی چھٹی‬
‫میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور‬
‫گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا‬
‫ھے‬

‫تو صدف بولی نھی یاسر مجھے ڈر لگتا‬


‫ھے اگر کسی گاوں والے دیکھ لیا تو تم‬
‫سوچ بھی نھی سکتے کہ ہمارے ساتھ‬
‫کیا ھوگا‬

‫تو میں نے کہا یار ہم ادھر کہیں چھپ‬


‫کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے ہمیں کوئی‬
‫دیکھ بھی نھی سکتا‬
‫تو صدف بولی‬
‫پاگل ادھر کدھر ایسی جگہ ھے جہاں‬
‫کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا‬

‫تو میں نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور کہا‬


‫چلو‬

‫تو صدف اپنا ھاتھ چھڑواتے ھو بولی‬


‫تم پاگل تو نھی ھو‬
‫ھاتھ تو چھوڑو میرا‬
‫تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے‬
‫پیچھے آتی ھوں‬
‫مگر میری ایک شرط ھے‬
‫تو میں نے پوچھا کیا شرط ھے جناب‬
‫کی‬

‫تو صدف بولی اگر مجھے وہ جگہ‬


‫محفوظ نہ لگی تو میں نے پھر ادھر‬
‫نھی رکنا‬
‫تو میں نے کہا یار چلو تو سہی ایک‬
‫دفعہ‬
‫نہ پسند آے جگہ تو بیشک چلی جانا‬

‫اور یہ کہ کر میں صدف کے آگے آگے‬


‫چلنے لگ گیا‬

‫میں صدف کو لے کر اسی جگہ پہنچ‬


‫گیا جہاں عظمی کے ساتھ کھڑمستیاں‬
‫کرتا ھوتا تھا‬

‫صدف نے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو‬


‫اسے بھی جگہ پسند آگئی‬

‫دوستو اب وہ جگہ پہلے سے بھی ذیادہ‬


‫محفوظ تھی‬
‫کیوں کہ اسکے دونوں اطراف مکئی‬
‫اگی ھوئی تھی جو اب اتنی اونچی ھو‬
‫چکی تھی کہ ہم کھڑے بھی ھوتے تو‬
‫کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا تھا‬
‫صدف اور میں ٹاہلی کی اوٹ میں ایک‬
‫دوسرے کے سامنے گھاس پر بیٹھ‬
‫گئے‬
‫صدف بولی یاسر تمہیں اس جگہ کا‬
‫کیسے پتہ ھے تو میں نے کہا گرمیوں‬
‫میں ہم جب لُکن میٹی کھیلتے تھے تب‬
‫ہم ادھر آکر ُچھپ جاتے تھے‬

‫تو صدف بولی کون کون‬

‫میں نے گلی کے دوتین لڑکوں کا نام‬


‫لیتے ھوے بتایا کہ ہم سب ادھر ھی آکر‬
‫ُچھپتے تھے‬
‫تو صدف بولی عظمی اور نسرین بھی‬
‫تمہارے ساتھ ھوتی تھی میں نے کہا‬
‫نھی یار وہ اتنی دور آنے سے ڈرتی‬
‫تھی اس لیے وہ پیچھے کپاس میں ھی‬
‫ُچھپ جاتی تھی‬

‫تو صدف ہمممم کر کے خاموش ھوگئی‬

‫میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد‬


‫بوال صدف اس دن مزہ آیا تھا تو صدف‬
‫نے شرما کر منہ نیچے کر لیا اور‬
‫بولی‬
‫گندی باتیں نہ کرو‬
‫تو میں نے کہا یار گندی باتیں کیسے‬
‫ھوئی‬
‫وہ تو پیار تھا‬
‫اور پیار کی باتیں گندی تھوڑی ھوتی‬
‫ہیں‬

‫تو صدف ایکدم میری طرف دیکھتے‬


‫ھوے بولی‬

‫تم چیز کیا ھو‬


‫مجھے تو تم نے پریشان کرکے رکھا‬
‫ھوا ھے‬

‫میں نے کہا‬
‫وہ کیسے جی‬

‫تو صدف بولی‬


‫تمہاری عمر کتنی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یہ ھی کوئی سولہ سال‬
‫تو صدف بولی‬
‫سولہ سال کی عمر میں تم ایک منجھے‬
‫ھوے مرد بن گئے ھو‬
‫تو میں نے کہا‬
‫وہ کیسے‬
‫تو صدف بولی ذیادہ معصوم بننے کی‬
‫ایکٹنگ مت کرو‬
‫تم اچھی طرح جانتے ھو میں کیا کہنا‬
‫چاھ رھی ھوں‬
‫تو میں نے پھر معصوم سا چہرہ بناتے‬
‫ھوے کہا‬
‫سچی مجھے نھی پتہ کہ تم ایسا کیوں‬
‫کہہ رھی ھو‬

‫تو صدف بولی اپنی حرکتوں پر غور‬


‫کرو خود ھی سمجھ آجاے گی‬
‫میں نے پھر کہا‬
‫کون سی حرکتیں جناب‪،،‬‬

‫اسی دوران میں نے صدف کا ھاتھ پکڑ‬


‫کر اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا‬
‫ھاتھ اسکے ھاتھ پر پھیرنے لگ گیا تھا‬

‫تو صدف بولی وہ ہی جو میرے ساتھ‬


‫کرتے رھتے ھو اور کل تو تم نے‬
‫مجھے حیران پریشان کردیا تھا میں تو‬
‫ساری رات تمہارے بارے میں ھی‬
‫سوچتی رھی کہ جسے میں بچہ سمجھ‬
‫کر الڈ سے چھیڑتی تھی اس بچے نے‬
‫تو میری نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں‪،،‬‬

‫تو میں نے کہا یار بتاو بھی کہ ایسا میں‬


‫نے کیا کردیا ھے جس سے تم اتنی‬
‫پریشان ھو‬

‫تو صدف بولی پہلی بات تو یہ ھے کہ‬


‫تمہاری عمر کے بچوں کو سیکس کے‬
‫بارے میں تو بلکل بھی پتہ نھی ھوتا‬
‫مگر تم تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے‬
‫اکسپرٹ ھو‬
‫اور صدف نے میرے لن کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے کہا‬

‫) جو ہلکا سا سر اٹھا چکا تھا (‬

‫تمہارا یہ تو اتنا بڑا ھے کہ جب میں‬


‫نے ھاتھ میں پکڑا تھا تو میں ایکدم ہل‬
‫گئی تھی کہ یہ تمہارا وہ ھے یا لوھے‬
‫کا راڈ ھے‬
‫میں نے کہا یار نام لے کر بتاو نہ کہ‬
‫کیا لوھے کا راڈ ھے‬
‫تو صدف شرماتے ھوے اپنی گود کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫مجھے شرم آتی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یار کل تم خود ھی کہہ رھی تھی کہ‬
‫دوستی میں شرم نھی ھوتی اب تمہیں‬
‫چھمیں آرھی ہیں‬

‫اور اسکے ساتھ ھی میں میں نے صدف‬


‫کا پکڑا ھوا ھاتھ اپنے لن پر رکھا‬
‫اور‪ ،‬کہا‬
‫بتاو نہ یار‬
‫اسے کیا کہتے ہیں‬
‫جیسے ھی صدف کا ہاتھ میرے لن کے‬
‫ساتھ ٹچ ھوا‬
‫لن ساب نے زور سے اوپر کو جھٹکا‬
‫مارا‬
‫جیسے کہتا ھو‬
‫کہ‬
‫نہ چھیڑ ملنگاں نوں‬
‫صدف نے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی‬
‫کوشش کی‬
‫تو میں نے ھاتھ کو اور مضبوطی سے‬
‫پکڑتے ھو صدف کو کہا یار نہ کرو کیا‬
‫ھوتا ھے بتاو نہ اسے کیا کہتے ہین‬

‫تو صدف بولی مجھے شرم آتی ھے‬

‫تو میں نے پھر سے اصرار کیا‬

‫تو صدف نے سر نیچے کیے ھوے ھی‬


‫آہستہ سے کہا لن‬
‫میں نے کہا‬
‫کیا کہا مجھے سنا نھی‬
‫تو صدف بولی مجھے نھی پتہ چھوڑو‬
‫میرا ھاتھ‬
‫میں نے کہا یار اب ایسے نخرے تو نہ‬
‫کرو‬
‫صدف نے ھاتھ کی ُمٹھی کو زور سے‬
‫بند کیا ھوا تھا میں نے اپنی انگلیوں کی‬
‫مدد سے‬

‫اسکی مٹھی کو کھولنے کی کوشش‬


‫کرنے لگ گیا کچھ دیر زور ازمائی‬
‫کے بعد میں نے اسکی ُمٹھی کو کھول‬
‫دیا‬
‫تب اس نے ہلکی سی شرارتی چیخ‬
‫مارتے ھوے کہا ھوے میری انگلیاں‬
‫ٹوٹ گئی‬
‫تو میں نے اسکی ہتھیلی کو چومتے‬
‫ھوے کہا‬
‫میری جان کی انگلیاں کیسے ٹوٹ‬
‫سکتی ہیں‬
‫اور ساتھ ھی اسکی کھلی ہتھیلی کو‬
‫اپنے لن پر رکھ کر اسکی مٹھی بند‬
‫کردی صدف نے تھوڑا سا پھر نخرا کیا‬
‫مگر پھر اس نے میرے لن کو نرمی‬
‫سے پکڑ لیا‬
‫لن ساب پورے جوبن پر تھے اور لن‬
‫کی ٹوپی پھنکارے مار رھی تھی‬

‫صدف نے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو بولی‬


‫یاسر اتنا بڑا کیسے کیا‬
‫تو میں نے اسے تیل کا بتانا مناسب نہ‬
‫سمجھا‬
‫اور جھوٹ بولتے ھوے کہا‬
‫یار میں نے اسے کیسے بڑا کرنا ھے‬

‫خود ھی بڑا ھوگیا ھے مجھے تو خود‬


‫سمجھ نھی آئی کہ میرا لن اتنی جلدی‬
‫کیسے بڑا ھوگیا ھے‬

‫تو صدف بولی چل چوٹھا‬

‫میں نے کہا سچی کہہ رھا ھوں‬

‫صدف بولی‬
‫اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت‬
‫کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر‬
‫رھے تھے اور جیسے میرے انکو‬
‫چوس رھے تھے‬
‫صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف‬
‫کرتے ھوے کہا‬
‫یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا‬

‫میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین‬


‫کیوں نھی آرھا ھے اگر تمہیں مجھ پر‬
‫یقین ھی نھی تو پھر ہماری دوستی کا‬
‫کیا فائدہ‪،‬‬

‫اور میں نے روٹھنے واال منہ بنا لیا‬


‫تو صدف نے پھر میری گال پر ُچٹکی‬
‫کاٹتے ھوے کہا‬

‫ڈرامے بازا میں سب سمجھنی آں‬

‫تو میں نے کہا یار ہم لڑنے کے لیے‬


‫ادھر بیٹھیں ہیں تو صدف بولی‬
‫نہ جھوٹ بولو پھر‬

‫میں نے غصے سے صدف کا ھاتھ‬


‫اپنے لن سے ہٹاتے ھوے کہا اور اٹھتے‬
‫ھوے بوال جب تمہیں میری ہر بات ھی‬
‫جھوٹ لگ رھی ھے تو پھر میرا یہاں‬
‫بیٹھنے کا کیا کام‬
‫صدف نے ساتھ ھی میرا بازو نیچے‬
‫کھینچا اور میں پھر اسی جگہ صدف‬
‫کے سامنے بیٹھ گیا‬

‫صدف بولی ایک تو تم ڈرامے بہت‬


‫کرتے ھو‬

‫تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا‬


‫یار ڈرامے کیسے مجھے دکھ ھوتا ھے‬
‫جب میری سچی بات سن کر بھی تم‬
‫اسے جھوٹ سمجھتی ھو‬

‫تو صدف بولی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے‬


‫کہ کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے دو‬

‫میں نے کہا اگر تمہیں ایسا لگتا ھے تو‬


‫پھر آج کے بعد میں تمہیں شکل بھی‬
‫نھی دیکھاوں گا‬
‫تو صدف نے آگے کو ہو کر میری‬
‫دونوں کانوں پر ھاتھ رکھے اور میرے‬
‫ہونٹ چوم کر بولی‬
‫یاسر تمہیں نھی پتہ تم مجھے کتنے‬
‫پیارے لگتے ھو‬

‫میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر‬


‫لیجاتے ھوے اسے پیچھے کی طرف‬
‫لیٹانے لگا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا‬
‫اور کچھ بولے بغیر ھی اسکے ہونٹوں‬
‫پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو صدف نے‬
‫مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے کہا‬

‫اوےےےےےے میرا بُرقعہ گندا ھوگیا‬


‫کیوں مجھے پھنسواے گا‬
‫میں بھی جلدی سے اسکے اوپر سے‬
‫ہٹ گیا‬
‫اور صدف پھر اٹھ کر بیٹھ گئی‬

‫میں نے صدف کو کہا کہ برقعہ اتار دو‬


‫تو صدف بولی‬
‫یاسر اگر کوئی آگیا تو‬
‫تو میں نے کہا یار ادھر کوئی نھی آتا تم‬
‫اس بات کی پرشانی نہ لو‬
‫اور ساتھ ھی میں نے صدف کے دونوں‬
‫ھاتھ پکڑے اور اسے کھڑا کرنے لگ‬
‫گیا تو صدف کھڑے ھوتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کوئی آ نہ‬
‫جاے‬
‫میں نے کہا یار مجھ پر بھروسہ رکھو‬
‫مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال‬
‫ھے‬

‫تو صدف بولی ایسے ھی کھڑے کھڑے‬


‫کسنگ کرلیتے ہیں‬
‫تو میں نے اسی دوران نیچے جھک کر‬
‫صدف کے برقعے کا پال پکڑا اور اوپر‬
‫اسکے پیٹ تک لے آیا اور بوال یار کچھ‬
‫نھی ھوتا‬
‫اور پھر اسکے برقعے کو اسکے مموں‬
‫تک کردیا مموں پر برقعہ پھنسا ھوا تھا‬
‫اس لیے میں تھوڑا زور لگا برقعہ اوپر‬
‫کرنے لگا تو صدف‬
‫بولی او ہو‬

‫کیا ھے میرا برقعہ پھاڑنا ھے‬

‫میں نے کہا اتنا تنگ پہنتی کیوں ھو‬


‫تو صدف بولی تنگ نہ پہنتی تو تم‬
‫مجھے ایسے دیکھتے کیسے اور ہماری‬
‫دوستی کیسے ھوتی‬

‫اور ساتھ ھی صدف نے پہلے دونوں‬


‫ھاتھوں سے برقعہ اپنے مموں سے‬
‫اوپر کیا اور اپنے بازو اوپر کر کے‬
‫برقعہ اتارنے لگی‬
‫جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے‬
‫اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے‬
‫سامنے صدف کے تنے ھوے ممے‬
‫مجھے گھورتے ھوے نظر آئے صدف‬
‫کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور‬
‫گوالئی شیپ میں تھے‬
‫صدف نے پہلے دونوں ھاتھوں سے‬
‫برقعہ اپنے مموں سے اوپر کیا اور‬
‫اپنے بازو اوپر کر کے برقعہ اتارنے‬
‫لگی‬
‫جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے‬
‫اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے‬
‫سامنے صدف کے تنے ھوے ممے‬
‫مجھے گھورتے ھوے نظر آئے صدف‬
‫کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور‬
‫گوالئی شیپ میں تھے کچھ صدف نے‬
‫جب برقعہ اتارنے کے لیے بازو اوپر‬
‫کیے تو اس کے ممے مذید آگے کی‬
‫طرف آگئے‬

‫مجھ سے رھا نہ گیا‬


‫ابھی برقعہ صدف اپنے سر سے نکالنے‬
‫میں مصروف تھی کہ میں نے اسکے‬
‫دونوں مموں کو پکڑ کر پی پی پی پی‬
‫کر کے بجایا اور ایسے ھی اسکو جپھی‬
‫ڈال لی صدف نے برقعے سے سر‬
‫نکالتے ھوے اپنے بالوں کو صحیح‬
‫کرتے ھوے مجھے کہا‬

‫صبر نئی ہندا اصلوں ای بے صبرا ھو‬


‫جانا اے میں ِکتے پج چلی آں‬

‫تو میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے‬


‫کہا‬
‫میری جانو تمہارے دُدو دیکھ کر اور‬
‫تمہارا سیکسی جسم دیکھ کر مجھے‬
‫ہوش کہاں رھتا ھے‬
‫تو صدف بولی مسکے بڑے النے آندے‬
‫نے‬

‫میں نے کہا میرے پیار کو مسکے تو نہ‬


‫کہو‬
‫اور میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ دیے‬

‫اسکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ‬


‫لگ کر دبی ہوئی تھی اور میرے ھاتھ‬
‫اسکی کمر پر تھے‬

‫صدف نے بھی اپنے ھاتھ میرے کمر پر‬


‫رکھ لیے تھے‬
‫اور نیچے سے میرا لن اسکی پھدی‬
‫سے تھوڑا اوپر اسکی ناف سے تھوڑا‬
‫نیچے لگا ہوا تھا‬

‫صدف بے شک عمر میں مجھ سے دو‬


‫تین سال بڑی تھی مگر اسکا قد مجھ‬
‫سے تھوڑا سا چھوٹا ھی تھا‬
‫اسکے ہونٹ چومت ھوے بھی مجھے‬
‫تھوڑا سر جھکانا پڑا تھا‬

‫ہم کچھ دیر ایسے ھی ایک دوسرے کے‬


‫ہونٹ چوستے رھے کبھی میں صدف کا‬
‫اوپر واال ہونٹ چوستا تو صدف میرا‬
‫نیچے واال ہونٹ چوستی کبھی میں اسکا‬
‫نیچے واال ہونٹ چوستا تو وہ میرا اوپر‬
‫واال ہونٹ چوستی‬
‫کبھی زبانوں کی لڑائی ھوتی تو کبھی‬
‫سانسوں کے ایکے دوسرے کے اندر‬
‫ٹرانسفر ھوتا‬
‫تو کبھی ایک دوسرے کے لباب کو‬
‫نگھلتے‬
‫اسی دوران میں نے صدف کی پیچھے‬
‫سے قمیض اوپر کر کے اسکی السٹک‬
‫والی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اسکی گول‬
‫مٹول سڈول گانڈ کے چوتڑوں کو پکڑ‬
‫کر مٹھیاں بھرنے لگ گیا‬
‫صدف کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی‬
‫اور کافی گوشت چڑھا ھوا تھا‬

‫ساتھ ساتھ میں اپنی گانڈ کو دائیں بائیں‬


‫ہال ہال کر لن اسکے جسم کے ساتھ رگڑ‬
‫رھا تھا‬
‫صدف کا بھی یہ ھی حال تھا‬

‫وہ بھی ایڑیاں اٹھا کر لن کو پھدی کے‬


‫ساتھ مالنے کی کوشش کررھی تھی‬
‫میں بھی تھوڑا سا نیچے ھوا اور لن‬
‫اور پھدی کا مالپ کر دیا‬
‫اب میرے ہونٹ صدف کے ہونٹوں کو‬
‫چوم اور چوس رھے تھے اور میرے‬
‫سینے کے نپل صدف کی چھاتیوں کے‬
‫نپلوں کو چوم رھے تھے‬
‫اور نیچے سے لن اور پھدی بھی‬
‫بھرپور انداز میں مشاورت کررھے‬
‫تھے‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫پھر ہم دونوں الگ ھوے اور صدف‬
‫اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھوئی بولی‬

‫میرے ساڑ پین لگ گیا اے‬

‫میں نے صدف سے پوچھا تمہارے پاس‬


‫کوئی دوپٹہ یا چادر ھے تو اس نے کہا‬
‫کیا کرنی ھے تو میں نے کہا بتاو تو‬
‫سہی ھے کہ نھی‬
‫تو اس نے اپنے شولڈر بیگ کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے کہا اس میں چادر‬
‫پڑی ھے میں نے آگے بڑھ کر اسکے‬
‫بیگ کی زپ کھولی تو اوپر ھی مجھے‬
‫چادر نظر آگئی میں نے چادر نکالی جو‬
‫کہ گرم شال تھی اسکو گھاس پر بچھا‬
‫دیا‬
‫صدف آگے بڑھ کر چادر پکڑ کر‬
‫اٹھانے لگی کہ میری چادر گندی کرنی‬
‫ھے سارے گھاس کے داغ لگ جانے‬
‫ہین‬
‫میں نے کہا یار اسکا رنگ‬
‫اسکا رنگ گہرہ ھے داغ نظر نھی آئیں‬
‫گے تو صدف بولی پاگل میں نے‬
‫اکیڈمی میں اوپر لینی ھوتی ھے تو میں‬
‫نے کہا یار کل کون سا تم نے جانا ھے‬
‫کل دھو لینا‬

‫تو صدف چپ ھوگئی‬

‫میں نے چادر درست کر کے بیچھا دی‬


‫اور صدف کو لے کر چادر کے اوپر‬
‫بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی میں نے صدف‬
‫کو سیدھا لٹا دیا اور اسکی قمیض پیٹ‬
‫سے اوپر تک کردی تو‬

‫صدف بولی کیا کررھے ھو اگر کوئی‬


‫اچانک آگیا تو مرواو گے تم‬

‫میں نے کہا یار ایک تو تم ڈرتی بہت‬


‫ھو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ‬
‫تو صدف چپ کر گئی میں نے اسکے‬
‫پیٹ پر ھاتھ پھیرا اور ھاتھ کو نیچے‬
‫اسکی کمر تک لے گیا اور ھاتھ سے‬
‫اسکو تھوڑا اوپر ہونے کا کہا تو صدف‬
‫نے گانڈ اٹھا کر کمر اوپر کو کی تو‬
‫میں نے نیچے سے اسکی قمیض اوپر‬
‫کردی اور پھر ھاتھ آگے ال کر آگے‬
‫سے بھی اسکی قمیض اسکے مموں‬
‫سے اوپر کردی‬

‫صدف نے سکن کلر کا بریزیر پہنا ھوا‬


‫تھا‬

‫میں نے اسکے مموں کو بریزیر کے‬


‫اوپر سے ھی مسلنا شروع کردیا‬
‫جوش میں آکر مجھ سے اسکا مما ذیادہ‬
‫دبایا گیا تو‬
‫صدف نے زور سے سیییییییی کیا اور‬
‫بولی جانور نہ بنو آرام سے کرو‬

‫میں نے ھاتھ نرم کر لیا اور پھر بریزیر‬


‫کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کردیا اور‬
‫اسکے کھلتے ھوے ممے ایکدم میرے‬
‫سامنے آے میں مموں پر ایسے جھپٹا‬
‫جیسے بچہ بھوک کی حالت میں مموں‬
‫کو منہ مارتا ھے‬
‫صدف میرے سر کے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیر کر سسکیاں لینے لگ گئی‬

‫میں نے ایک ھاتھ اسکی شلوار میں‬


‫ڈالدیا اور پھدی کو مسلنے لگ گیا‬
‫صدف کا برا حال ھورھا تھا‬
‫صدف کی پھدی کافی‬
‫گیلی ھوچکی تھی‬

‫میں نے دوسرے ھاتھ سے اپنی شلوار‬


‫نیچے کی اور لن کو باھر نکال لیا‬
‫اور صدف کا ایک ھاتھ پکڑ کر اپنے‬
‫ننگے لن پر رکھا‬
‫تو صدف پہلے ھی سیکس میں ُچور‬
‫ُچور ھوئی تھی اس نے بھی بنا کچھ‬
‫کہے لن کو پکڑ لیا اور مٹھیاں بھرنے‬
‫لگی ساتھ ساتھ وہ میرے لن کے سائز‬
‫کو بھی ناپ رھی تھی کبھی ٹوپے کو‬
‫انگلیاں لگا کر اسکی موٹائی کو چیک‬
‫کرتی کبھی لن کو جڑ سے پکڑتی اور‬
‫پھر ٹوپے تک ھاتھ کو ال کر لمبائی‬
‫چیک کرتی‬
‫میں صدف کی پھدی مسلنے کے ساتھ‬
‫ساتھ اسکی شلوار بھی نیچے کردیتا‬
‫یہاں تک کہ اسکی شلوار اسکے گھٹنوں‬
‫سے نیچے کردی تھی اور میں نے اپنی‬
‫شلوار بھی اپنے پیروں تک نیچے‬
‫کردی تھی اور پھر اسی پوزیشن میں‬
‫شلوار کو پاوں کے ساتھ ھی اتار دیا‬
‫اور پھر اپنی قمیض اوپر گلے تک کی‬
‫اور اپنے ننگے جسم کو صدف کے‬
‫ننگے جسم کے ساتھ ٹچ کرنے لگ گیا‬

‫صدف ابھی تک لن کو ٹٹول رھی تھی‬


‫جیسے اسے ابھی تک یقین ھی نھی ھوا‬
‫ھو کہ یہ واقعی میرا ھی لن ھے‬

‫تو میں نے اپنی ایک ٹانگ صدف کی‬


‫ٹانگوں کے درمیان کی اور پاوں کے‬
‫ذریعے اسکی شلوار مزید نیچے کی‬
‫طرف لے گیا اور اسکے پاوں سے اتار‬
‫دی‬

‫صدف اور میری قمیض ھی جسم پر‬


‫تھی وہ بھی دونوں کے کندھوں تک‬
‫تھیں‬
‫جبکہ ہم دونوں کا سینے سے پیروں‬
‫تک کا جسم بلکل ننگا تھا‬

‫میں نے صدف کے ھاتھ میں پکڑے لن‬


‫پر ھاتھ رکھ کر ہالتے ھوے کہا اپنے‬
‫اس شزادے کے ہونٹوں پر ایک کس تو‬
‫کردو تو صدف نے میرے ھونٹوں پر‬
‫کس کردی میں نے کہا اس شزادے کے‬
‫نھی اس کے اور ساتھ ھی میں گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھ گیا اور لن ہال کر اسکے‬
‫منہ کی طرف کردیا تو صدف نے‬
‫پریشان ھوکر کہا شرم کرو گندے کام‬
‫مجھ سے کرواتے ھو‬

‫کیا ایسے بھی کوئی گندے کام کرتا ھے‬


‫تو میں نے کہا‬
‫بس ایک چھوٹی سی کس کردو کچھ‬
‫نھی ھوتا‬
‫اور لن صدف کے ہونٹوں کے بلکل‬
‫قریب کردیا صدف نھی نھی میں سر‬
‫ہالنے لگ گئ اور ہونٹوں کو مضبوطی‬
‫سے آپس میں بھینچ لیا‬
‫میں مزید آگے کی طرف ھوا اور لن‬
‫اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے کہنے‬
‫لگا‬
‫بس ایک چمی بس بس ایک‬
‫تو صدف نے آنکھیں بند کر کے کڑوی‬
‫دوائی پیتے ھوے ایک چھوٹی سے‬
‫ُچمی لی اور دوسری طرف منہ کر کے‬
‫تھوکنے لگ گئی‬

‫اور کہنے لگ گئی‬

‫گندے بےشرم گندے کام کرتے ھو‬

‫میں نے کہا تم کو مجھ سے پیار نھی‬


‫ھے‬

‫پیار کیا ھوتا ھے اور کسکو پیار کہتے‬


‫ہیں یہ میں تمہیں بتاتا ھوں‬

‫اور میں یہ کہتے ھی اسکی ٹانگوں کے‬


‫پاس آیا اور اسکی دونوں ٹانگیں اوپر‬
‫کی تو صدف گبھرا کر بولی کیا کرنے‬
‫لگے ھو‬

‫تو میں نے کہا پیار کرنے لگا ہوں‬


‫تو صدف بولی کیڑا پیار اے جیڑا لتاں‬
‫ُچک کے کری دا‬

‫تو میں نے کہا بس دیکھتی جاو تو‬


‫صدف نے اپنی پھدی پر ھاتھ رکھ کر‬
‫ھاتھ کو دباتے ھوے کہا اندر کرنے‬
‫لگے ھو‬

‫تو میں نے کہا نھی میری جان جب نے‬


‫منع کردیا ھے کہ اندر نھی کرنا تو پھر‬
‫بار بار کیوں مجھے کہہ رھی ھو تو‬

‫صدف بولی پھر کیا کرنے لگے ھو تو‬


‫میں نے کہا یار ایک دفعہ ھاتھ تو ہٹاو‬
‫تو صدف نے ڈرتے ڈرتے ھاتھ پیچھے‬
‫کرلیا‬

‫تو میں کھلتی کلی کو غور سے دیکھنے‬


‫لگ گیا‬
‫صدف کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ‬
‫سے چمک رھی تھی‬
‫اور پھدی کے دونوں باریک سے ہونٹ‬
‫آپس میں ملے ہوے تھے‬

‫اور ہونٹوں کی لمبائی بھی چھوٹی سی‬


‫تھی‬
‫میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور دو انگلیاں‬
‫جوڑ کر پھدی کے ہونٹوں کو کھوال‬

‫تو گالبی ہونٹ تھوڑا سا کھلے اور اندر‬


‫کی جلد ایسے سرخ نظر آئی جیسے‬
‫سارا خون ادھر ھی جمع ھو‬
‫پھدی کے شروع کے حصے میں‬
‫چھوٹی سی جھلی تھی شاید پیشاب‬
‫کرنے کا سوراخ تھا‬

‫میں نے اس جھلی کو انگلی سے دبا کر‬


‫مسلنا شروع کیا تو صدف ایک دم تڑپی‬
‫اور میری کالئی کو مضبوطی سے پکڑ‬
‫لیا‬
‫میں کچھ دیر چھوٹی سی جھلی کے‬
‫ساتھ کھیلتا رھا‬
‫پھر میں نے پھدی کے قریب منہ کر‬
‫سونگھا تو مجھے بدبو سی آئی اور‬
‫ابھکائی سی آنے لگی میں نے تھوڑا سا‬
‫اپنا منہ پیچھے کیا‬

‫کہ اچانک مجھے اپنا چیلنج یاد آگیا‬


‫کہ پیار کیا ہوتا ھے میں بتاتا ھون‬

‫تو میں نے سانس روک کر زبان باہر‬


‫نکالی اور پھدی کے لبوں کے درمیان‬
‫ایک چھوٹے سے ابھرے ھوے دانے‬
‫کے اوپر رکھ کر زبان کو اوپر نیچے‬
‫کر کے چاٹنا شروع کردیا‬

‫جیسے ھی میں نے یہ عمل کیا صدف‬


‫کے منہ سے آواز نکلی‬

‫ھاےےےےےےےےےے میییییں‬
‫مرگئیییییییی‬
‫اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو‬
‫اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر‬
‫کو پیچھے کی طرف دھکیال اس کے‬
‫اس اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو‬
‫میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون‬
‫سے نکل گءی مگر میں نے اسکی‬
‫ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی اور‬
‫اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ‬
‫کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور‬
‫پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان‬
‫پھیرنے لگ گیا‬

‫صدف ذور ذور سے سر دائیں بائیں مار‬


‫رھی تھی اور اپنا آپ مجھ سے‬
‫چھڑوانے کی کوشش کررھی تھی مگر‬
‫میں نے اسکو قابو ھی ایسے کیا ھوا تھا‬
‫کہ میرے شکنجے سے نکل ھی نھی‬
‫سکتی تھی‬

‫صدف ساتھ سسکیاں اور اففففففف‬


‫یاسرررررررر نہ کرو میں مرجاوں‬
‫گی‬
‫ھاےےےےے یاسر میری جان نکل‬
‫رھی ھے‬

‫یاسرررررر پلیززززززز نہ کرو‬


‫ھاےےےےےے امممممممم اففففففف‬
‫صدف کی سسکیاں اور آہیں سن کر‬
‫مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا‬

‫اور میں زور زور سے پھدی کو ِلک‬


‫کر رھا تھا کہ اچانک صدف کی‬
‫سسکیاں اور آہیں تیز ھوگئی اور اس‬
‫نے بُنڈ اوپر کر کے پُھدی کو میرے منہ‬
‫کے ساتھ مزید جوڑ کر اوپر کو گھسے‬
‫مارنے شروع کردیا اور دونوں ھاتھ‬
‫سے چادر کو مٹھی میں بھر لیا‬
‫اچانک صدف نے اپنی ٹانگیں بلکل‬
‫سیدھی آسمان کی طرف کر کے اکڑا‬
‫لیں‬

‫اور پھر وہ ھوا جسکی وجہ سے عظمی‬


‫کو الٹیاں آئی تھی‬

‫صدف کی پھدی سے ایک لمبی سی‬


‫پھوار نکلی‬
‫اور صدف نے زور سے‬
‫ھاےےےےےےےےے میں گئیییییییی‬
‫اور اسکی پھدی سے نکلنے والی پھوار‬
‫میرے منہ پر میرے ناک پر میری‬
‫آنکھوں پر پڑی اس سے پہلے کے‬
‫دوسری پھوار بھی میرے منہ پر پڑتی‬
‫میں پیچھے کو ہٹ کر منہ کے آگے‬
‫ہاتھ رکھ لیا‬
‫اور باقی کی تین چار منی اور پانی کی‬
‫پھواریں میرے ھاتھ پر گری‬

‫اور ساتھ ھی صدف کی پھدی کے ہونٹ‬


‫کھلتے بند ھوتے مجھے گالیاں دیتے‬
‫نظر آے‬

‫اور صدف بےجان ھوکر جسم ڈھیال‬


‫چھوڑ کر لیٹی لمبے لمبے سانس لینے‬
‫لگ گئی‬

‫کچھ دیر بعد صدف کچھ سنبھلی تو میں‬


‫اسکی ٹانگوں کے درمیان اسکے اوپر‬
‫لیٹ کر اپنا منہ اسکے منہ کے قریب‬
‫کیا تو اچانک اس نے میرے دونوں‬
‫کانوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر‬
‫ذور سے میرے سر کو ہالتے ھوے‬
‫کہا‬

‫میں تیری جان کڈ لینی اے‬

‫تو میں نے مسکرا کر کہا‬


‫دیکھ لیا میرے پیار کا ثبوت اسے کہتے‬
‫ہیں پیار تو صدف نے ویسے ھی میرے‬
‫کان پکڑے میرا منہ اپنے منہ کے قریب‬
‫کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی‬
‫اور بولی‬
‫آئی لو یو‬
‫یاسر میں تیری ھوں میرا سب کچھ تیرا‬
‫ھے‬
‫یہ جسم بھی تیرا ھے یہ جان بھی تیری‬
‫ھے‬
‫جیسے چاھے کر میں تجھے کبھی نھی‬
‫روکوں گی‬

‫میں نے یہ سن کر کہا‬

‫اندر کردوں‬
‫تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے‬
‫ھوے بولی کردو‬

‫میں نے کہا سیل ٹوٹ جاے گی‬


‫صدف بولی ٹوٹنے دو‬

‫میں نے کہا عزت چلی جاے گی‬

‫تو صدف بولی جانے دو‬


‫میں نے کہا کسی کو منہ دیکھانے کے‬
‫قابل نھی رھو گی‬

‫تو صدف بولی نھی پروا‬

‫میں نے کہا برباد ہو جاو گی‬

‫تو صدف بولی‬


‫ہونے دو‬
‫صدف ایسے بول رھی تھی جیسے اس‬
‫پر جادو کیا ھو اور وہ سحر میں‬
‫جکڑے ہر بات کا پوزٹیو جواب دے‬
‫رھی ھو‬

‫میں ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رھا تھا‬


‫اور ساتھ ساتھ اسکی ٹانگوں کو مزید‬
‫کھول کر اپنے لن کے پھولے ھوے‬
‫ترسے ھوے پیاسے ٹوپے کو اسکی‬
‫چوت کے لبوں میں سیٹ کرچکا تھا‬
‫اب پوزیشن یہ تھی کہ بس مجھے ایک‬
‫دھکا لگانا تھا‬
‫میں نے صدف سے پھر کہا سوچ لو‬

‫تو وہ اسی نشیلے انداز میں بولی سوچ‬


‫لیا‬

‫میں نے کہا پھر مجھے مت کہنا‬

‫تو صدف بےساختہ بولی نھی کہتی‬


‫میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے‬
‫مزید قریب کیے‬
‫اور کہا تیار ھو‬
‫تو اس نے کہا تیار ھوں‬

‫میں نے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر‬


‫اسکا منہ بند کیا اور اپنے دونوں ھاتھ‬
‫اسکے کندھوں پر رکھ کر کندھوں کو‬
‫مضبوطی سے پکڑا‬

‫اور ایک زور دار گھسا مارا صدف کی‬


‫پھدی گیلی تھی میرا لن خشک تھا‬
‫گھسا اتنا جاندار تھا کہ پھدی کو چیرتا‬
‫ھوا ساری رکاوٹوں کو ہٹاتا ھوا سارے‬
‫کا سارا اندر چال گیا صدف‬
‫میرے نیچے سے ایسے تڑپی جیسے‬
‫مرغی کو چھری پھیر کر ٹھنڈا ھونے‬
‫کے لیے چھوڑ دیا ھو‬

‫صدف نے پورے زور سے چیخ ماری‬


‫تھی‬
‫مگر اسکی چیخ میرے منہ کے اندر ھی‬
‫گونج کر خاموش ھوگئی صدف ایک دم‬
‫اوپر کو اچھلی مگر اسکے کندھے‬
‫میرے ھاتھوں میں تھے اس نے پھدی‬
‫اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے کی‬
‫پوری کوشش کی مگر میرا سارا وزن‬
‫اسکے پھدی والے حصہ پر تھا‬

‫صدف کی آنکھون سے آنسووں کی‬


‫جھڑی لگ گئی جو اس کی بند آنکھوں‬
‫سے بہہ رھی تھی‬

‫میں گھسا مار کر اسکے اوپر لن اندر‬


‫کیے ھی لیٹا رھا‬
‫صدف تین چار منٹ تک مجھے پیچھے‬
‫کرنے کی کوشش کرتی رھی اور میں‬
‫اسے دالسا دیتا رھا‬
‫کچھ دیر بعد صدف کچھ ریلکس ھوگئی‬
‫میں نے اب اسکے کندھے چھوڑ دیے‬
‫تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر‬
‫رھا تھا اسکے آنسو صاف کر رھا تھا‬

‫صدف کچھ بول نھی رھی تھی بس‬


‫روے‬

‫جارھی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا‬


‫کہ میرا لن کسی گرم بھٹی میں ھے اور‬
‫اسکی پھدی نے میرے لن کو اپنے‬
‫شکنجے میں جکڑا ھوا ھے‬

‫میں اس سے باتیں کر رھا تھا مگر وہ‬


‫گم سم سی بس روے جارھی تھی اسکی‬
‫یہ حالت دیکھ کر میرا بھی دل بھر آیا‬
‫میں ایک جھٹکے سے اس سے الگ‬
‫ھوا اور لن باہر ایک جھٹکے سے باہر‬
‫آیا تو صدف نے پھر زور سے چیخ‬
‫ماری مجھے اس کا دھیان ھی نھی تھا‬
‫کہ لن نکالتے ھوے بھی درد ھوگا‬
‫اس لیے اسکی چیخ الزمی آس پاس تک‬
‫گئی تھی اور میرا رنگ اڑ گیا‬
‫میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا تو لن‬
‫خون کے ساتھ لت پت تھا اور اسکی‬
‫پھدی سے کافی خون نکل کر نیچے‬
‫چادر میں سمو گیا تھا‪ ،‬اسکی پھدی سے‬
‫اب بھی سرخ پانی سا نکل رھا تھا‬

‫مجھے تو یہ ٹینشن پڑ گئی تھی کہ اگر‬


‫کسی نے صدف کی چیخ سنی ھوگی تو‬
‫الزمی ادھر آے گا‬
‫مگر صدف اس سب سے العلم ھوکر‬
‫نیم بے ہوشی کی سی حالت میں مجھے‬
‫دیکھی جارہی تھی اور اسکی آنکھوں‬
‫سے آنسو اب بھی جاری تھے‬

‫مجھے تو سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں‬


‫اب کیا کروں‬
‫کہ اچانک میرے دماغ کی بتی جلی اور‬
‫میں نے جلدی سے چادر کے ساتھ اپنے‬
‫لن کو اچھی طرح صاف کیا‬
‫اور صدف کو سنبھالتے ھوے اٹھا کر‬
‫بیٹھا دیا اور خود ھی اسکی پھدی کو‬
‫صاف کرنے لگا میں نے جیسے ھی‬
‫چادر کے ساتھ اسکی پھدی کو صاف‬
‫کرنے کے لیے اسکی پھدی کے ساتھ‬
‫چادر لگائی تو صدف پھر تڑپ کر آگے‬
‫کو ھوئی اور میرا ھاتھ پکڑ کر غصے‬
‫سے جھٹک دیا‬

‫تو میں نے اسے کندھوں سے ہالتے‬


‫ھوے کہا کہ‬
‫صدف صدف صدف ہوش کرو‬
‫جلدی سے شلوار پہنو کوئی آجاے‬
‫صدف کچھ سنبھل گئی تھی ویسے ھی‬
‫بیٹھے بیٹھے اس نے شلوار پہننے کی‬
‫کوشش کرنے لگ گئی میں نے جلدی‬
‫جلدی اسکی شلوار اسے پہنائی اور‬
‫اسکا ھاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا‬
‫تو وہ ایکدم لڑکھڑا کر گرنے لگی مگر‬
‫نے اسے سنبھال لیا‬
‫اور پھر اسے ہالنے لگا کہ صدف ہوش‬
‫کرو یار‬

‫صدف بولی یاسر مجھے پتہ نھی کیا‬


‫ہورھا ھے‬
‫مجھ سے تو کھڑا ھی نھی ھورھا‬
‫تم نے اچھا نھی کیا میرے ساتھ‬

‫تو میں اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے‬


‫ھوے کہا مجھے معاف کردو مجھے‬
‫نھی پتہ تھا کہ‬
‫تمہیں اتنی درد ھوگی‬

‫تو صدف نے میرے جڑے ھاتھ پکڑ کر‬


‫سنبھلتے ھوے کہا‬
‫اب کیا فائدہ یاسر جب پیچھے بچا ھی‬
‫کچھ نھی‬

‫تو میں نے پھر سے رو دینے والے‬


‫انداز سے اس مافیاں مانگنے لگ گیا‬

‫تقریبا ً دس پندرہ منٹ میں اس کے ترلے‬


‫کرتا رھا۔‬
‫دوستو اسکی جو حالت تھی میں واقعی‬
‫ڈر گیا تھا اور سیریس ہوکر ھی اس کی‬
‫منتیں کررھا تھا‬

‫خیر اب صدف کافی سنبھل چکی تھی‬


‫میں نے اسکی حالت بہتر ھوتے دیکھ‬
‫کر اسکو برقعہ پکڑایا کہ اسے پہن لو‬
‫تو صدف نے مشکل سے برقعہ پہنا اور‬
‫میں نے جلدی سے چادر اکھٹی کی اور‬
‫صدف کے ہینڈ بیگ میں ڈال دی‬
‫جب میں نے چادر اٹھائی تو نیچے‬
‫گھاس بھی خون سے سرخ ھو چکی‬
‫تھی میں نے پاوں مار کر مٹی اور‬
‫گھاس جو مکس کر دیا‬

‫اور صدف کو چلنے کا کہا تو صدف‬


‫چلنے لگی تو پھر ایکدم لڑکھڑائی‬
‫تو میں نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر‬
‫اسے سہارا دے کر سنبھال لیا‬

‫صدف بولی یاسر مجھ سے نھی چال‬


‫جارھا میرے پیٹ میں اور میرے نیچے‬
‫بہت درد ھوے جارھی ھے‬

‫تم جاو میں نے ابھی نھی جانا‬


‫تو میں اسے کہا یار پاگل ھو کیا جو‬
‫ایسی باتیں کررھی ھو میں تمہیں کیسے‬
‫اس حال میں چھوڑ کر جاسکتا ھوں‬
‫مجھے تو بس تمہاری عزت کا خیال‬
‫ھے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا‬
‫بنے گا‬
‫یہ کہہ کر‬

‫میں نے اسے کھڑا کیا اور اسکا پیٹ‬


‫دبانے لگ گیا اور ساتھ ساتھ پھدی سے‬
‫اوپر واال حصہ بھی دبا دیتا‬

‫میرا رنگ اڑا ھوا تھا میرے چہرے‬


‫سے پریشانی اور خوف صاف نظر‬
‫آرھا تھا جسکو صدف نے بھی نوٹ‬
‫کرلیا تھا‬

‫ایسے تقریبا ً ہمیں آدھا گھنٹہ ایسے گزر‬


‫گیا‬
‫صدف کبھی بیٹھتی کبھی کھڑی ھوتی‬
‫اور کبھی آہستہ آہستہ سے ادھر ادھر‬
‫چلتی‬
‫اور میں کھالے کے بنے پر کھڑا ھوکر‬
‫ادھر ادھر دیکھتا رھا کہ کوئی آ تو نھی‬
‫رھا مزید کچھ دیر بعد صدف نے‬
‫مجھے چلنے کو کہا‬
‫تو میں اس کا ھاتھ پکڑ کر اس کے‬
‫ساتھ ساتھ کھالے پر بنی ایک چھوٹی‬
‫سی پُلی کی طرف چل پڑے کیوں کے‬
‫صدف سے اب کھاال تو نھی پھالنگا جا‬
‫سکتا تھا‬
‫اور میں کوئی اتنا بھی شیر جوان نھی‬
‫تھا کہ اسے اٹھا کر چھالنگ لگا کر‬
‫دوسری طرف چال جاتا‬

‫صدف اب بھی کچھ لڑکھڑا کر چل‬


‫رھی تھی اور اس نے ٹانگوں کو بھی‬
‫تھوڑا کھوال ھوا تھا‬
‫میں نے صدف کو کہا یار اگر ایسے‬
‫چلو گی تو ہر دیکھنے والے کی نظر تم‬
‫پر پڑے گی اور تمہاری امی کو بھی‬
‫شک ھوجاے گا‬
‫خود کو سنمبھالو یار۔۔‬
‫تو صدف تھوڑا غصے سے بولی‬
‫اتنی فکر تھی تو میرے ساتھ یہ ظلم نہ‬
‫کرتے یہ سب تمہارا ھی کیا دھرا ھے‬
‫میں نے کہا یار مجھے اگر پتہ ھوتا تو‬
‫میں کبھی بھی ایسا کرنے کے بارے‬
‫میں سوچتا بھی نہ‬

‫تو صدف غصے سے بولی‬


‫اگر تم سے صبر نھی ھی ھوتا تھا تو‬
‫آرام سے کرلیتے ایک دم جانور بن‬
‫گئے تھے ۔‬
‫میں نے کہا یار اب معاف بھی کردو‬
‫تو صدف بولی معاف تو تم مجھے کرو‬
‫۔۔‬
‫میں نے کہا یار اب ایسے غصہ تو نہ‬
‫کرو۔۔‬
‫تو صدف جنجھال کر بولی میری زندگی‬
‫تباہ کردی اور میں غصہ بھی نہ‬
‫کروں۔۔۔‬

‫میں نے روھانسے ہوکر صدف کو کہا‬


‫کہ مجھے سزا دے دو جو تمہارا دل‬
‫کرے ۔۔‬

‫صدف بولی سزا میں نے کیا دینی ھے‬


‫جو تم نے مجھے سزا دی ھے میرے‬
‫لیے وہ ھی کافی ھے۔۔۔‬

‫ایسے ہم ِگلے شکوے کرتے گاوں کی‬


‫طرف چلے جارھے تھے صدف کی‬
‫حالت کافی بہتر ھوچکی تھی اور اس‬
‫نے کافی حد تک خود پر کنٹرول کرلیا‬
‫تھا اور اسکی چال بھی کافی بہتر ہوگئی‬
‫تھی ۔۔۔‬

‫صدف چلتے چلتے ایکدم رکی اور‬


‫میری طرف دیکھتے ھوے بولی یاسر‬
‫سچ سچ بتانا کہ تم میرے اندر فارغ تو‬
‫نھی ھوے ۔۔۔‬

‫میں تھوڑے سے طنزیہ انداز سے بوال‬

‫واہ میڈم جی واہ میں تے حالے اک‬


‫گھسا مار کے سارا اندر کیتا سی تے‬
‫تواڈیاں اکھاں پُٹھیاں ہوگیاں سی‬
‫میں تے تواڈی حالت دیکھ کے دوسرا‬
‫گھسا مارنا ھی پُل گیا سی۔۔۔۔‬

‫تو صدف شرم اور غصے اور رونے‬


‫والے ملے جلے انداز میں میرے ُمکا‬
‫مارتے ہوے بولی‬
‫میرا اب مزاق اڑا رھے ھو نہ‬

‫تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا‬


‫نھی جناب میری اتنی جرات کہاں کہ یہ‬
‫گستاخی کروں‬
‫تو صدف تھوڑا سا ہنسی اور بولی چل‬
‫آیا وڈا‬
‫۔۔‬
‫اور پھر ہم چلتے چلتے گاوں پہنچ گئے‬
‫۔۔۔‬
‫اور صدف کو میں گلی نکر پر چھوڑ‬
‫کر واپس گھر آگیا‬

‫شام کو ہم ٹیوشن کے لیے گئے تو‬


‫صدف کی امی نے بتایا کہ آج چھٹی‬
‫کرو‬

‫تمہاری باجی کی طبعیت سہی نھی ھے‬


‫عظمی نے آنٹی سے پوچھا کیا ھوا ھے‬
‫باجی کو تو آنٹی بولی‬
‫پتہ نھی جب سے اکیڈمی سے آئی ھے‬
‫تب سے لیٹی ھے اور ہلکا سا بخار بھی‬
‫ہے اسے‬

‫کہتی کے اکیڈمی میں بھی الٹیاں آتی‬


‫رھی ہیں‬
‫تو ہم صدف کے کمرے کی طرف‬
‫جانے لگے تو آنٹی نے آواز دی کہ‬
‫ابھی وہ سورھی ھے اور اس نے کہا‬
‫تھا کہ اسے کوئی جگاے نہ‬
‫اور ہم آنٹی کی بات سن کر واپس آگئے‬
‫اگلے دن ویسے ھی چھٹی تھی‬
‫دوسرے دن میں گیارہ بجے تک گھر‬
‫ھی رھا پھر مجھے صدف کا خیال آیا‬
‫کہ وہ کیا سوچے گی کہ میں اسکا پتہ‬
‫بھی نھی کرنے آیا تو میں گھر سے‬
‫نکل کر سیدھا صدف کے گھر جا‬
‫پہنچا۔۔‬
‫دروازہ کھال ھوا تھا‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو سامنے‬
‫برآمدے میں صدف کا ابو بیٹھا ھوا تھا‬
‫اور اپنے پاوں کے ناخن کاٹنے میں‬
‫مصروف تھا‬
‫میں اسے دیکھ کر ایکدم رک گیا اور‬
‫واپس پلٹنے کے لیے مڑا ھی تھا کہ‬
‫پیچھے سے انکل کی آواز آئی‬

‫کیویں آیا ایں کاکا‬


‫میں نے انکل کی طرف منہ کیا اور کہا‬
‫وہ مممم میں باجی کا پتہ کرنے آیا تھا‬
‫اور باجی سے پوچھنا تھا کہ‬
‫صبح ہم پڑھنے آجائیں تو انکل‬
‫مونچھوں کو تاو دیتے ھوے بولے‬
‫۔۔‬
‫جاو اندر کمرے میں چلے جاو ادھر‬
‫ھے تمہاری باجی‬
‫۔۔‬
‫میں جی کہا اور سہما سہما صدف کے‬
‫کمرے کی طرف چل دیا‬
‫میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف‬
‫رضائی لے کر لیٹی ھوئی تھی‬
‫اور اسکی امی اسکے سرہانے کی‬
‫طرف بیٹھی صدف کا سر دبا رھی تھی‬

‫میں نے اندر جاکر سالم کیا تو آنٹی نے‬


‫میرے سر پر پیار دیا ۔۔‬
‫صدف نے جب میری آواز سنی تو اس‬
‫نے میری طرف دیکھا بھی نھی اور‬
‫آنکھیں بند کرلیں‬

‫میں نے آنٹی سے پوچھا کیسی طبعیت‬


‫ھے اب باجی کی‬
‫میں آنٹی سے بات کرتے ھوے صدف‬
‫کے چہرے کی طرف ھی دیکھ رھا تھا‬

‫میں نے جیسے ھی آنٹی سے باجی کا‬


‫پوچھا تو صدف نے آنکھیں کھول کر‬
‫مجھے گھورا‬
‫جیسے کہنا چاہ رھی ھو‬
‫کہ‬
‫میری پُھدی وی پاڑ دتی اے تے حالے‬
‫وی میں تیری باجی ای آں۔۔‬

‫تو آنٹی بولی‬

‫پُتر پتہ نئی کل دا ایس ُکڑی نوں کی‬


‫ہویا اے بخار نال تپدی پئی اے‬
‫پتہ نئی لگدا اے کسے پکی جگہ تو‬
‫ننگ آئی اے‬
‫تے ایدھے تے کوئی بارلی شے دا اثر‬
‫ہوگیا اے ۔۔۔‬

‫۔(بیٹا پتہ نھی کل کا اسکو کیا ھوگیا ھے‬


‫بخار سے اسکا جسم بہت زیادہ گرم‬
‫ھے مجھے تو لگتا ھے کسی ایسی جگہ‬
‫سے گزری ھے جہاں پر جنات کا اثر‬
‫ھو اور انکا اثر اس پر بھی پڑ گیا ھے‬
‫)۔۔‬

‫تو میں نے کہا آنٹی شاہ صاحب سے دم‬


‫کروا کے دیکھ لیں کہیں سچ میں ایسا نہ‬
‫ھو‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫پُتر َگل تے تیری سئی اے میں جانی آں‬
‫شاہ جی دے کاار‬

‫میں نے کہا آنٹی جی آپ نے جانا ھے‬


‫تو چلی جائیں ابھی پھر شاہ جی نے‬
‫جمعہ پڑھانے *****چلے جانا ھے‬
‫میں باجی کا سر دبا دیتا ہوں‬

‫تو آنٹی پھر بولی‬


‫میں ایس کملی نوں سمجھایا وی سی کہ‬
‫ِشکر دوپیرے پیدل نیر ولوں نہ آیا کر‬
‫ٹانگے تے آجایا کر پر اے میری گل‬
‫مندی ای نئی ہن پے گئی اے نہ منجھی‬
‫تے‬
‫۔۔(میں نے اس بیوقوف کو‬
‫سمجھایا بھی تھا کہ اتنی دوپہر کو نہر‬
‫کی طرف سے نہ آیا کرے تانگے پر‬
‫آجایا کر مگر یہ میری بات مانے تو‬
‫پھر نہ‬
‫)اب بیمار ھوکر چارپائی پر پڑی ھے ۔۔‬

‫میں نے صدف کی طرف دیکھا جو‬


‫مجھے گھورے جارھی تھی‬
‫اور بولی میں سہی ھوں کچھ نھی ھوا‬
‫مجھے بس میرے پیٹ مین درد تھا اس‬
‫لیے ایسے ھوگیا تھا‬
‫کوئی سایہ نھی ھے مجھ پر‬

‫میں نے آنٹی سے پوچھا کہ میرے لیے‬


‫کوئی کام ھو تو بتا دیں کچھ منگوانا ھو‬

‫آنٹی بولی پُتر توں ایتھے اپنی باجی کول‬


‫بیٹھ میں شاہ جی دے کروں پتہ کر کے‬
‫آئی‬

‫تو عظمی کچھ بولنے لگی تھی تو میں‬


‫نے اسے آنکھ مار کر چپ رھنے کا کہا‬
‫تو وہ خاموش ھوگئی‬

‫اور آنٹی اٹھ کر باہر چلی گئی‬

‫اور باھر سے انکل کے ساتھ بات‬


‫کرتے ھوے بولی‬
‫جمعہ نھی پڑھنا تو انکل بولے ھالے‬
‫ایک گھنٹہ پڑا ھے ابھی جا کر ******‬
‫میں بیٹھ جاوں‬

‫تو آنٹی نے انکل کو شاہ صاحب کے‬


‫گھر جانے کا کہا اور باہر کو چلی گئی‬

‫میں صدف کے پاس بیٹھ کر اسکا سر‬


‫دبانے لگا تو‬
‫صدف نے مجھے دھکا دیتے ھوے کہا‬
‫اٹھو یہاں سے میرے ساتھ ہمدردیاں مت‬
‫کرو‬
‫میں نے رونے واال منہ بناتے ھوے کہا‬
‫کہ اب میں اس الئک بھی نھی رھا‬

‫۔ تو صدف آہستہ سے بولی الئک کے‬


‫بچے‬
‫ابو باہر ہیں اگر کمرے میں آگئے تو‬
‫تمہیں میرے پاس بیٹھا دیکھ کر تمہاری‬
‫اور میری بےعزتی کریں گے‬
‫اس لیے سامنے والی کرسی چارپائی‬
‫کے قریب کر کے بیٹھ جاو ۔‬
‫میں اسکے ابو کا سنتے ھی جلدی سے‬
‫کھڑا ھوگیا اور سامنے لکڑی کی‬
‫کرسی اٹھا کر صدف کے قریب بیٹھ‬
‫گیا‬

‫اور اسکا حال احوال پوچھنے لگ گیا‬


‫کہ اچانک کمرے میں انکل داخل ھوے‬
‫اور مجھے کہنے لگے‬
‫چل کاکا شاباش اپنے کار جا‬

‫اپنی باجی نوں آرام کرن دے‬

‫میں شرمندہ سا ہوکر نیواں نیواں ہوکے‬


‫انکے گھر سے نکل آیا‬

‫اور سارے راستے صدف کے ابو کو‬


‫گالیاں دیتا رھا‬

‫گھر پہنچ کر میں بھی نہا دھو کر جمعہ‬


‫کی تیاری کرنے لگ گیا‬

‫دوستو‬
‫ایسے ھی تین چار دن صدف ہمارے‬
‫ساتھ شہر بھی نھی گئی اور نہ ھی ہم‬
‫ٹویشن پڑھنے گئے‬

‫سکول میں اسد سے بھی وہ ھی روز‬


‫مرہ کی سیکسی باتیں چلتی رہتی‬
‫میں نے باتوں ھی باتوں میں اس سے یہ‬
‫بھی پوچھ لیا کہ کنواری لڑکی کی پھدی‬
‫میں لن کیسے ڈالتے ہیں اور اندر فارغ‬
‫نھی ھوتے جسکی وجہ سے لڑکی‬
‫پریگنٹ ھو جاتی ھے‬
‫دوستو ایسے ھی وقت گزرتا رھا‬
‫صدف ہمارے ساتھ جاتی تو تھی مگر‬
‫دوبارا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا‬
‫موقع نھی مال اور ٹیوشن میں بھی کچھ‬
‫خاص نہ ھو بس ہلکا پھلکا آنکھ مٹکا‬
‫چلتا رھتا تھا‬
‫ایسے ھی پیپر ہونا شروع ھوگئے میں‬
‫نے بھی اب ذیادہ توجہ پڑھائی کی‬
‫طرف کردی تھی‬
‫اور صدف نے مجھ پر کافی توجہ دے‬
‫کر میرے پیپروں کیا تیاری کروا دی‬
‫تھی‬
‫اس لیے میرے پیپر اچھے ھوے‬
‫اور پھر اکتیس مارچ کو رزلٹ آگیا‬
‫مجھے کو پوزیشن تو نہ ملی مگر‬
‫اچھے نمبروں سے پاس ھوگیا تھا اور‬
‫اسد بھی مشکل سے پاس ھوگیا تھا‬

‫اور اس دفعہ عظمی اور نسرین کے‬


‫نمبر مجھ سے اچھے تھے‬
‫جس کے طعنے مجھے کئی دنوں تک‬
‫سننا پڑے‬
‫نئی کالسیں شروع ھوگئی تھی اس‬
‫سکول میں میرا السٹ ائیر تھا اسکے‬
‫بعد میں ھائی سکول میں داخلہ لینا تھا‬
‫اور عظمی لوگوں کا بھی میرے جیسا‬
‫حال تھا‬

‫سیون کالس میں میری بدقسمتی ھی‬


‫رھی کہ ساال اسد پھر میرے ھی‬
‫سیکشن میں تھا‬

‫صدف اب بھی ہمارے ساتھ ھی جاتی‬


‫تھی مگر واپسی پر وہ تانگے پر آتی‬
‫تھی‬
‫ایک دن میں سکول کے لیے عظمی‬
‫لوگوں کو لینے گیا تو پتہ چال کہ نسرین‬
‫کو بخار ھے اور اس نے سکول نھی‬
‫جانا‬
‫عظمی اکیلی میرے ساتھ جانے کے‬
‫لیے تیار بیٹھی تھی‬

‫آنٹی نے ہمیں گھر سے نکلتے وقت تک‬


‫کہا کہ بہن کا خیال رکھنا اور دھیان‬
‫سے جانا اور سیدھے سکول ھی جانا‬
‫اور سیدھے گھر ھی آنا‬

‫میں جی جی کرتے ھوے عظمی کو لے‬


‫کر صدف کے گھر گیا اور اسکے ساتھ‬
‫ہم سکول کی طرف چل پڑے‬
‫میں نے اب اکثر نوٹ کیا تھا کہ صدف‬
‫اب میرے آگے نھی چلتی تھی کبھی‬
‫عظمی میرے آگے ھوتی تو کبھی‬
‫نسرین‬

‫آج بھی عظمی ھی میرے آگے آگے چل‬


‫رھی تھی‬
‫کافی دن ھوگئے تھے مجھے عظمی کا‬
‫جسم ٹچ کیے‬
‫میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح‬
‫عظمی کی گانڈ۔کو ٹچ کروں مگر‬
‫عظمی صدف کے ڈر کی وجہ سے‬
‫صدف سے باتیں کرتی ھوئی اسکے‬
‫بلکل پاس ہو کر چل رھی تھی‬
‫میں اسے دل ھی دل میں گالیاں بھی دیتا‬
‫جارھا تھا‬

‫پھر میں نے دل میں ھی کہا کہ کوئی‬


‫بات نھی واپسی پر تو اکیلی ھی ھوگی‬
‫نہ آج تیری ساری اگلی پچھلی کسر نہ‬
‫نکالی تو کہنا۔۔‬

‫عظمی کو سکول چھوڑ کر میں واپس‬


‫اپنے سکول میں آگیا اسمبلی کے لیے‬
‫سب لڑکے باہر گراونڈ میں قطاریں بنا‬
‫رھے تھے میں بھی اسد کو ڈھونڈتا‬
‫ھوا‬
‫اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا‬

‫سامنے سٹیج پر پی ٹی ماسٹر ھاتھ میں‬


‫سٹک پکڑ کر سٹک کے اشارے سے‬
‫قطاریں سیدھی کروا رھا تھا‬

‫اور تین لڑکے مائک کے سامنے ترانہ‬


‫پڑھنے کے لئے سٹینڈ اپ تھے‬

‫کہ اچانک پی ٹی ماسٹر دل پر ھاتھ رکھ‬


‫کر بیٹھ گیا اور اسکے منہ سے الٹیاں‬
‫نکلنا شروع ھوگئی‬
‫اور ماسٹر پیچھے کو گر گیا‬
‫آگے کھڑے لڑکے دوڑ کر سٹیج پر‬
‫چڑھے اور مائک والے لڑکے بھی پی‬
‫ٹی ماسٹر کے ارد گرد اکھٹے ھوگئے‬
‫سب لڑکوں میں کھلبلی سی مچ گئی‬

‫اتنے میں اندر سے باقی اساتذہ بھی باہر‬


‫کی طرف دوڑے آرھے تھے‬

‫میں نے اور اسد نے کافی کوشش کی‬


‫کہ کسی طرح پی ٹی ماسٹر کے قریب‬
‫پہنچ کر اسکی حالت کا اندازہ کیا جاے‬
‫مگر رش اتنا ھوگیا تھا کہ ہم آگے نھی‬
‫جا سکے‬

‫خیر ہم دونوں ایک سائڈ پر کھڑے‬


‫ھوگئے‬
‫اور اتنی دیر میں ایمبولینس بھی آگئی‬
‫ماسٹر جی کو سٹریچر پر ڈال کر‬
‫ایمبولینس میں ہسپتال لے گئے‬

‫کچھ لڑکے کہہ رھے تھے کہ‬


‫ماسٹر جی فوت ھوگئے ہیں اور کچھ‬
‫کہہ رھے تھے کہ بےہوش ھوگئے ہیں‬

‫تبھی ایک ٹیچر نے مائک میں سب‬


‫لڑکوں کو اپنی اپنی کالسوں میں جانے‬
‫کا کہا‬
‫اور ہم دونوں بھی اپنی کالس میں چلے‬
‫گئے‬

‫تقریبا َ ََ بیس منٹ بعد باہر سے لڑکوں‬


‫کی آوازیں سنائی دی کہ پی ٹی ماسٹر‬
‫جی فوت ھوگئے ہیں اس لیے چھٹی‬
‫ھوگئی ھے ہم دونوں اور باقی کالس‬
‫کے لڑکے بھی جلدی سے اپنے اپنے‬
‫بیگ اٹھا کر کالس سے نکلے‬

‫تو باہر آکر پتہ چال کہ واقعی سچ ھے‬

‫لڑکوں کو ماسٹر جی کے فوت ہونے کا‬


‫غم کم تھا اور چھٹی کی خوشی ذیادہ‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے اسد کو کہا یار اب میں کیا‬
‫کروں‬
‫میں تو چھٹی کے وقت سے پہلے گھر‬
‫نھی جا سکتا کیوں کہ میری کزنوں نے‬
‫میرے ساتھ ھی جانا ھوتا ھے‪،‬‬

‫دوستو میں نے اسد کو عظمی اور‬


‫نسرین کے بارے میں یہ ھی بتایا تھا کہ‬
‫یہ میری آنٹی کی بیٹیاں ہین‬

‫مگر اسد نے انکو دیکھا نھی ھوا تھا‪،‬‬

‫اسد بوال تو چل میرے ساتھ آج پھر‬


‫مزے کرتے ہیں‬
‫میں نے کہا کہاں تو بوال پہلے گیموں‬
‫پر چلتے ہیں‬
‫پھر گھر چلیں گے‬
‫اور چھٹی کے وقت میں تمہیں سکول‬
‫چھوڑ جاوں گا‬

‫اسد کے گھر کا سن کر میری آنکھوں‬


‫کے سامنے پھر سے اس حسین پری کا‬
‫چہرہ آگیا‬
‫اور سوچنے لگ گیا کہ کیا نام تھا اسکا‬
‫پھر میرے ذہن میں ھاں مہری بلکل‬
‫مہری ھی کہہ کر اسد نے آواز دی‬
‫تھی‬
‫میں نے کہا یار سیدھے گھر ھی چلتے‬
‫ہیں میرا گیموں پر جانے کو دل نھی‬
‫کررھا‪،،،‬‬

‫تو اسد بوال یار ابھی ایک گھنٹے تک‬


‫میرے ساتھ گھر نھی جاسکتے میں نے‬
‫پوچھا وہ کیوں تو اس نے بتایا کہ ابھی‬
‫مما گھر پر ھی ھوں گی‪،،،‬‬

‫تو میں نے نے کہا پھر کیا کیا جاے‬

‫تو اسد بوال چل ایسا کر کہ اگر ممی‬


‫تجھ سے پوچھیں بھی کہ واقعی ماسٹر‬
‫فوت ھونے کی وجہ سے چھٹی ھوئی‬
‫ھے تو تم بلکل سچ ھی بتانا‬
‫باقی میں سنبھال لوں گا‬

‫اور میرے کندھے پر ھاتھ رکھتے‬


‫ھوے بوال‬

‫چل جگر سیدھا گھر ھی چلتے ہیں‪،‬‬


‫دیکھی جاے گی جو ہوگا‬

‫تو میں نے کہا یار‬

‫میرے جانے سے اگر تمہیں کوئی پرابلم‬


‫ھے تو میں نھی جاتا تم جاو میں ادھر‬
‫ھی بیٹھ کر چھٹی کا انتظار کر لیتا ھوں‬
‫۔۔‬
‫تو اسد بوال نہ یار۔۔‬

‫کیسی باتیں کرتا ھے کچھ نھی ھوتا‬


‫ایسی بھی کوئی خطرے کی بات نھی‬

‫تو ہم دونوں گھر کی طرف چلدیے‬


‫تقریبا َ ََ دس پندرہ منٹ تک ہم پیدل‬
‫چلتے اسد کے گھر کے سامنے کھڑے‬
‫تھے ۔۔‬
‫اسد نے بیل دی تو اسکی مما نے ھی‬
‫گیٹ کا چھوٹا دروازہ‬

‫کھوال اور اسد کو اور مجھے سامنے‬


‫دیکھ کر حیران ھوتے ہوے پوچھنے‬
‫لگی‬
‫کیا ہوا بیٹا سکول نھی گئے تو اسد نے‬
‫پی ٹی ماسٹر کے بارے میں سب کچھ‬
‫بتا دیا‬
‫اور اندر داخل ہوگیا‬
‫میں بونگا بن کر اسکی مما کے چہرے‬
‫کو ھی دیکھی جارھا تھا جسکو آنٹی‬
‫نے بھی نوٹ کیا‬

‫آنٹی کی شکل ہو با ہو مہری جیسی تھی‬


‫جیسے دونوں فوٹو کاپی ہوں اور انکے‬
‫چہرے سے لگتا ھی نھی تھا کہ یہ اسد‬
‫اور مہری کی مما ھے بلکہ ایسے لگ‬
‫رھا تھا جیسے ان دونوں کی بڑی بہن‬
‫ھے‬

‫آنٹی نے براون کلر کی لپسٹک لگائی‬


‫ہوئی تھی جو اس کے حسن کو مزید‬
‫چار چاند لگا رھی تھی آنٹی نے صرف‬
‫سر ھی باھر نکاال تھا باقی کے جسم کا‬
‫مجھے اندازہ نہ ھوسکا کیوں کہ وہ‬
‫دروازے کی اوٹ میں تھا‬

‫آنٹی کا رنگ بھی مہری کی طرح چٹا‬


‫سفید تھا اور چہرے کی جلد بھی ایکدم‬
‫کلین تھی‬

‫تھوڑی دیر بعد اسد نے بیٹھک کا‬


‫بیرونی دروازہ کھوال اور مجھے اندر‬
‫آنے کا کہا‬
‫تو میں بیٹھک کے اندر چال گیا‬
‫اور اندر جاتے ھی اسد سے پوچھا‬
‫کوئی مسئلہ تو نھی بنا‬

‫تو اسد بوال سب اوکے ھے‬

‫اور مجھے صوفے پر بیٹھنے کا کہا‬

‫تو میں صوفے پر آرام سے بیٹھ گیا‬


‫مجھے کہنے لگا کہ جگر تو بیٹھ میں‬
‫ذرہ چینج کر کے آیا‪،‬‬
‫میں صوفے پر بیٹھا اندر کمرے کا‬
‫جائزہ لینے لگ گیا‬

‫کچھ ھی دیر بعد اندرونی دروازے کا‬


‫پردہ ہٹا اور اسد کی مما ہاتھ میں چھوٹی‬
‫سی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی جس‬
‫میں مشروب کا ایک گالس پڑا ھوا تھا‬

‫میں آنٹی کو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا‬


‫اور ایکدم سے کھڑا ہوگیا‬
‫اور آنٹی کو سالم کرنا ھی بھول گیا‬
‫بلکہ آنٹی‬
‫کے گورے چٹے رنگ تیکھے ناک‬
‫بڑی بڑی آنکھیں کندھوں تک شولڈر‬
‫کٹنگ سنہری بال‬
‫فٹنگ والے کالے سوٹ میں ‪ 38‬سائز‬
‫کے ابھرے ہوے بڑے بڑے ممے ہلکا‬
‫سا باہر کو نکال پیٹ پانچ فٹ سات انچ‬
‫قد کو دیکھنے لگ گیا‬
‫آنٹی نے بڑے غور سے میری طرف‬
‫سر سے پیر تک دیکھا‬
‫اور ایک ہاتھ میں ٹرے تھی اور‬
‫دوسرے ہاتھ کو میری آنکھوں کے آگے‬
‫ہالتے ھو ہیلو کہا‬

‫تو مجھے ایک دم سے ہوش آیا اور میں‬


‫شرمندہ سا ہو کر سر نیچے کر کے‬
‫کھڑا ہوگیا‬

‫تو آنٹی کے چہرے پر ہلکی سی مسکان‬


‫آئی اور مجھے کہنے لگی کیا نام ہے‬
‫تمہارا‬
‫میں ہکالتے ھوے کہا ییییییاسر تو آنٹی‬
‫میرے سامنے میز پر ٹرے رکھتے‬
‫ہوے جھکی تو آنٹی کے ریشمی بالوں‬
‫نے اسکے منہ کو ڈھانپ لیا اور میری‬
‫ایکدم نظر آنٹی کے گلے پر پڑی‬
‫تو آنٹی کے کالے رنگ کے سوٹ کے‬
‫کھلے َگلے میں چاند کی طرح چمکتے‬
‫چٹے سفید مموں کا تھوڑا سا درشن ھوا‬
‫اور آنٹی پھر سیدھی ھوگئی اور‬
‫مسکراتے ھوے میرے سامنے والے‬
‫صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ‬
‫گئی اور ایک ھاتھ اپنے گھٹنے پر رکھ‬
‫کر پاوں کو زور زور سے ہالتے ہوے‬
‫بولی‬
‫بیٹھ جاو میں اسی وقت سیدھا ھی نیچے‬
‫بیٹھتا گیا‬

‫آنٹی میری حالت کو کافی انجواے کر‬


‫رھی تھی‬
‫پھر آنٹی کی پنکھڑیاں ہلی اور آنٹی‬
‫بولی‬
‫کہاں رہتے ھو‬
‫تو میں نے گاوں کا نام بتا دیا‬

‫پھر آنٹی نے میرے گھر کے افراد اور‬


‫ہماری پوزیشن کے بارے میں معلومات‬
‫لیں‬

‫میں انکے ہر سوال کا جواب ہکالتے‬


‫ھوے ھی دیتا تھا‬

‫تھوڑی ھی دیر بعد اسد کمرے میں‬


‫داخل ھوا اور بوال مما مہری آپکو بُال‬
‫رھی ھے‬
‫تو آنٹی بڑی ادا سے اٹھی اور اسد کو‬
‫بولی تمہارا دوست اچھا ھے‬

‫سیدھا سادھا پینڈو ٹائپ کا ھے‬

‫تو میں نے جھینپ کر سر نیچے کر لیا‬


‫مجھے اپنی بےعزتی سی محسوس‬
‫ہوئی‬
‫مگر اپنی تعریف سن کر اچھا بھی لگا‬
‫اور آنٹی کمرے سے باہر نکل گئی آنٹی‬
‫کی جب گانڈ میری طرف ہوئی تو میں‬
‫نے جھٹ سے سر اٹھا کر‬

‫انکی باہر کو نکلی موٹی سی گول مٹول‬


‫گانڈ کا نظارا کیا جو قمیض میں پھنسی‬
‫ھوئی تھی‬

‫تو اسد میرے پاس آیا اور مجھے کہنے‬


‫لگا‬
‫جگر مما کی بات کا برا تو نھی منایا تو‬
‫میں نے نفی میں سر ہالدیا‬

‫پھر میں اور اسد بیٹھ کر ادھر ادھر کی‬


‫باتیں کرنے لگ گئے‬

‫تقریبا ً آدھے گھنٹے بعد اسد کی مما پھر‬


‫اندر آئی اور یاسر کو کہا کہ گیٹ بند‬
‫کر لو میں بوتیک پر جارھی ھوں اور‬
‫گھر ھی رہنا‬
‫اور‬
‫پھر آنٹی نے پرس سے تین چار وزٹنگ‬
‫کارڈ نکالے اور میری طرف بڑھاتے‬
‫ھوے کہا کہ یہ ہمارے بوتیک کے کارڈ‬
‫ہیں‬
‫اپنے پاس رکھ لو گاوں میں کسی نے‬
‫شادی وغیرہ کی شاپنگ کرنی ھو تو‬
‫خصوصی ڈسکاونٹ پر سوٹ مل جائیں‬
‫گے‬

‫اور یاسر کو کہا کہ اپنے دوست کو‬


‫بوتیک بھی دیکھانا‬

‫میں نے آگے بڑھ کر کارڈ پکڑ لیے‬


‫اور جیب میں ڈال کیے اور یاسر اپنی‬
‫مما کو باہر چھوڑ کر گیٹ بند کرکے‬
‫کہ پھر میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور ہم‬
‫ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے‬
‫میں بار بار آنٹی کے خیالوں میں کھو‬
‫جاتا تھا‬
‫مجھے آنٹی کی آنکھوں عجیب سی‬
‫کشش نظر آئی تھی جیسے کوئی پیاسا‬
‫پانی کو دیکھ کر کرتا ھے‬

‫بلکل ایسے ھی آنٹی کی آنکھوں میں وہ‬


‫تڑپ اور بےچینی سی تھی‬
‫خیر کچھ دیر بعد دروازے کہ اوٹ سے‬
‫ایک ترنم سی آواز آئی‬

‫اسد بات سنو‪،،،‬‬

‫اسد آواز سنتے ھی اٹھ کر اندر چال گیا‬


‫اور کچھ ھی دیر بعد واپس آیا‬

‫اورمجھے کہنے لگا‬


‫یار میں زرہ سامنے گلی سے ہوکر آیا‬
‫تم بیٹھو تو میں نے کہا یار میں بھی‬
‫تمہارے ساتھ چلتا ھوں تو اسد بوال نھی‬
‫وہ میری کزن آئی ھوئی ھے اسکو‬
‫اسکے گھر چھوڑنے جانا ھے میں بس‬
‫دس پندرہ منٹ میں آیا‬

‫میں چپ کرگیا اور اسد نے مجھے پھر‬


‫کہا یار پریشان نہ ھونا میں بس ابھی‬
‫آیا‪،‬‬
‫تو میں نے سر ہال کر اوکے کیا اور‬
‫اسد اندر چال گیا‬

‫اور کچھ دیر بعد مجھے کسی لڑکی اور‬


‫اسد کی باتیں کرنے کی آواز آئی‬
‫اور پھر اسد کی آواز آئی کہ مہری گیٹ‬
‫بند کرلو اور‪ ،‬ساتھ ھی باہر کا گیٹ‬
‫کھلنے اور بند ھونے کی آواز آئی ۔۔‬

‫کچھ ھی دیر بعد کمرے کا پردہ ہٹا اور‬


‫وہ حسینہ اندر آئی‬
‫اور آتے ھی مجھ پر بجلی گرا دی‬
‫پنک کلر کا سوٹ پہنے سینے کو تانے‬
‫کیا پٹاخہ لگ رھی تھی ۔۔‬

‫مجھے سامنے دیکھ کر ٹھٹک کر وہیں‬


‫رک گئی‬
‫جیسے اسے کمرے میں میری‬
‫موجودگی علم نہ ھو‬
‫اور حیران ھوتے ھوے مجھ سے‬
‫پوچھنے لگی‬
‫جی آپ اووووو سوری مجھے پتہ نھی‬
‫تھا‬
‫میں نے کہا کوئی بات نھی جی‬

‫تو وہ واپس مڑنے لگی‬


‫اور پھر ُرک کر میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬
‫آپ وہ ھی ھو نا جو اس دن ہمارے گھر‬
‫آے تھے اور اوپر گئے تھے‬

‫میں نے جب اسکی آواز سنی اور اپنے‬


‫ساتھ بات کرتے دیکھا تو میرا ویسے‬
‫ھی ستیاناس ھوگیا‬
‫میں نے ہکالتے ھوے کہا‬
‫ججججی جی‬
‫تو وہ مسکرا کر بولی‬
‫سو کیوٹ‬
‫میں نے کہا جی میں سمجھا نھی‬
‫تو وہ پھر مسکرا کر بولی‬
‫آپ کسی گاوں کے رہنے والے ھو‬

‫تو میں نے کہا ججججج جی‬

‫تو مہری بولی آپکا نام یاسر ھی ھے نہ‬


‫تو میں نے حیران ھوکر پوچھا‬

‫ججججج جی ممگر آپ کو کیسے پتہ‬

‫تو مہری بولی اسد نے بتایا تھا‬

‫میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا آپ کا نام‬


‫مہری ھے تو وہ ہنستے ھوے بولی‬
‫یس مگر میرا یہ نک نیم ھے‬
‫میرا رئیل نیم مہرالنساء ھے‬
‫تو میں اسکا اصلی نام سن کر سوچنے‬
‫لگ گیا کہ واقعی مہرالنساء ھی ھے‬

‫جیسا حسن ویسا ھی نام تھا‬


‫میرے منہ سے بےاختیار نکال‬
‫ماشاءہللا‬
‫جی آپکی طرح آپکا نام بھی بہت‬
‫خوبصورت ھے‬
‫تو اسکے چہرے پر ایک رونق سی‬
‫آئی‬
‫اسکے باریک سے خوبصورت لب پھر‬
‫ہلے اور بولی‬
‫اتنے دنوں بعد آے ہو‬

‫میں نے کہا جی بس وہ ٹائم ھی نھی‬


‫مال‬
‫پیپر شروع ھوگئے تھے اس وجہ سے‬

‫تو مہری بولی گڈ‬


‫میں نے پوچھا جی آپ سکول نھی جاتی‬
‫تو مہری بولی میں نے میٹرک کے پیپر‬
‫دیے ہیں‬

‫اب رزلٹ کا انتظار ھے‬

‫میں نے کہا بہت اچھے جی‬

‫تو مہری مسکرا کر بولی‬


‫تھینکس‬
‫آپ بھی اسد کی طرح فیل ھوتے ھو جو‬
‫ابھی تک سیون میں ھی ھو‬

‫تو میں نے کہا نھی جی میں تو پانچویں‬


‫تک فرسٹ پوزیشن لیتا آیا ھوں اور اس‬
‫دفعہ بھی میرے بہت اچھے نمبر آے‬
‫ہیں‪،‬‬

‫تو مہری حیران ہوتے ھوے بولی کہ‬


‫آپ کی عمر کتنی ھے‬
‫میں نے کہا ‪ 17‬سال میں لگ گیا ہوں‬
‫تو‬
‫مہری بولی میری ایج ‪ 18‬سال ھے تو‬
‫میں نے میٹرک بھی کر لیا ھے اور آپ‬
‫ابھی تک سیون میں ھی ھو وہ کیوں‬

‫تو میں نے استفسار کرتے ھوے کہا کہ‬


‫ہمارے گاوں میں بچوں کو سکول ھی‬
‫لیٹ داخل کرواتے ہیں‬

‫میں ‪ 9‬سال کی عمر میں سکول داخل‬


‫ہوگیا تھا‬

‫تو مہری بولی واوووو کیا بات ھے‬


‫مجھے گاوں دیکھنے کا بہت شوق ھے‬
‫سنا ھے وھاں بڑے بڑے کھیت اور‬
‫باغات ھوتے ہیں اور بھینسیں ھوتی ہیں‬
‫بکریاں ھوتی ہیں اور بڑا پر سکون‬
‫ماحول ھوتا ھے وھاں‬

‫تو میں نے کہا جی بلکل ایسے ھی‬


‫ھے‬

‫آپ آجائیں کسی دن ہمارے گاوں آپکو‬


‫سارے گاوں کی سیر کرواوں گا‬

‫تو مہری نے برا سا منہ بنایا مگر اسکا‬


‫برا سا منہ بنانا بھی میرے دل پر‬
‫چھریاں چال رھا تھا‬

‫مہری بولی دل تو بہت کرتا ھے مگر‬


‫مما ھی نھی جانے دیتی‬

‫تو میں نے کہا اسد کو کہیں وہ لے آے‬


‫گا‬
‫تو مہری بولی‬
‫اس الو کو میں نے کہا تھا کہ اب تو‬
‫تمہارا دوست بھی گاوں کا ھے چلتے‬
‫ہیں اسکے گھر مگر وہ بھی مما سے‬
‫ڈرتا ھے‬

‫تو میں نے کہا میں کہوں آنٹی جی کو‬

‫تو مہری خوش ھوکر بولی‬


‫اگر آپ مما کو منا لیں تو آپکا احسان‬
‫میں زندگی بھر نھی چکا سکوں گی‬

‫میں اس کملی معصوم کی باتیں سن کر‬


‫ہنسنے لگ گیا‬
‫اور بول‬
‫جی یہ آپ احسان والی بات مت کریں‬
‫میں تو کوشش کروں گی‬

‫مہری خوش ھوکر بولی‬


‫اگر آپ مما کو منا لیں تو آپکا احسان‬
‫میں زندگی بھر نھی چکا سکوں گی‬
‫میں اس کملی معصوم کی باتیں سن کر‬
‫ہنسنے لگ گیا‬
‫اور بوال‬
‫جی یہ آپ احسان والی بات مت کریں‬
‫میں تو کوشش کروں گا اگر آنٹی مان‬
‫گئی تو‬

‫اتنے میں باھر کی بیل بجی اور مہری‬


‫جلدی سے کمرے سے نکلی اور مجھے‬
‫بولی پلیز اسد کو مت بتانا کہ میں نے‬
‫آپ سے بات کی ھے‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور‪،‬‬
‫دوازے کی طرف چلی گئی‬
‫اسد سیدھا بیٹھک میں آیا اور بوال‬
‫سوری یار‬
‫بور تو نھی ھوے‬
‫میں نے کہا نھی یار‬

‫اور دل میں کہا سالیا ھور تھوڑی دیر‬


‫تک آجاندا‬
‫اس کے بعد ہم اوپر گئے بلیو پرنٹ‬
‫دیکھا اور مقابلے پر ُمٹھ ماری جس میں‬
‫جیت میری ھوئی‬
‫اور اسد مجھے سکول کے قریب چھوڑ‬
‫کر‬
‫واپس چال گیا‬
‫میں نے عظمی کو ساتھ لیا اور ہم‬
‫دونوں گاوں کی طرف چل دیے‬
‫جب نہر کا پل کراس کیا‬
‫تو میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اسے‬
‫روک لیا‬
‫میں نے عظمی کو روک کر کہا‬
‫یار تم مجھ سے دور دور کیوں بھاگتی‬
‫ھو‬
‫تو عظمی بولی ۔‬
‫میں کیوں دور بھاگوں گی ۔‬
‫میں نے کہا میں کتنے دنوں سے دیکھ‬
‫رھا ہوں تم مجھے کوئی لفٹ ھی نھی‬
‫کرا رھی‬
‫نہ کھیلنے آتی ھو نہ ھی سکول جاتے‬
‫ھوے میرے ساتھ چلتی ھو ۔۔۔‬

‫تو عظمی بولی پیپروں کی وجہ سے‬


‫میں کھیلنے نھی آتی تھی اور اب امی‬
‫نے ویسے ھی منع کردیا ھے کہ تم‬
‫بڑی ھوگئی ھو اب باہر کھیلنے مت‬
‫جایا کرو‬
‫اور سکول جاتے وقت باجی ساتھ اور‬
‫نسرین ساتھ ھوتی ہیں‬
‫اب میں ان کے سامنے تمہارے ساتھ‬
‫جپھیاں ڈالنے سے رھی ۔‬

‫تو میں نے پہلے ِادھر اُدھر دیکھا اور‬


‫عظمی کو اپنی طرف کھینچ کر جپھی‬
‫ڈالتے ھوے کہا اب تو کوئی نھی ھے‬
‫نہ ساتھ‬

‫تو عظمی گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے‬


‫ھوے بولی‬

‫پاگل تو نھی ہوگئے کیا چھوڑو مجھے‬


‫یہ کوئی جگہ ھے اگر کسی نے دیکھ‬
‫لیا نہ تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی‬
‫مرواو گے‬

‫اس کے ساتھ ھی عظمی نے مجھ سے‬


‫اپنا آپ چھڑوا لیا‪،‬‬
‫اور میرے آگے پگڈنڈی پر بھاگتے‬
‫ھوے بولی‬
‫بے شرم انسان‬
‫میں بھی اسکے پیچھے بھاگا‬
‫وہ مجھے آتا دیکھ کر اور تیز بھاگنے‬
‫لگی‬
‫اور میں جان بوجھ کر تھوڑا آہستہ دوڑ‬
‫رھا تھا۔‬
‫کہ عظمی مکئی کے اندر داخل ھوجاے‬
‫اور کھالے کی پُلی تک پہنچ جاے پھر‬
‫اسے ادھر دھر لوں گا‬

‫‪.‬تھوڑی ھی دیر بعد‬


‫عظمی کھالے کے کچھ فاصلے پر تھی‬
‫کہ میں نے اپنی سپیڈ تیز کی اور اسے‬
‫کھالے سے پیچھے ھی جا لیا ۔۔‬
‫اور اسکو پیچھے سے جپھی ڈال لی‬
‫اور جپھی ڈال کر اسکی بُنڈ کے ساتھ‬
‫لن واال حصہ لگا کر اسے آگے سے‬
‫اوپر اٹھانے لگا تو ۔۔‬
‫عظمی بولی۔۔‬
‫ھاےےےےے امیییییی‬
‫چھوڑو مجھے میرا سانس بند ھو رھا‬
‫ھے‬
‫مگر میں نے اسے چھوڑا نھی‬
‫تو عظمی بولی‬

‫چھڈ مینوں نئی تے میں روال پا دینا اے‬

‫میں نے اسے اوپر کو اٹھاے ھوے ھی‬


‫کہا‬
‫پا دے روال‬

‫تو عظمی بولی یاسر مجھے نیچے تو‬


‫اتارو‬
‫میں نے کہا ہاں تاکہ تم دوڑ لگا دو‬

‫تو عظمی بولی نھی لگاتی دوڑ‬

‫تو میں نے کہا‬


‫مجھے پتہ ھے تم نے دوڑ لگا دینی‬
‫ھے‪،‬‬

‫تو عظمی نے قسم کھاتے ھوے کہا‬


‫کہ *******کی قسم نھی دوڑ لگاتی‬

‫تو میں نے اسے نیچے اتار دیا مگر‬


‫میرے ھاتھ اب بھی اس کے پیٹ پر ھی‬
‫تھے‬
‫عظمی نے پیچھے منہ کر کے کہا ھاں‬
‫بتاو کیا تکلیف ھے‬

‫تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن‬


‫پر رکھتے ھوے کہا مجھے نھی‬
‫تمہارے اس عاشق کو تکلیف ھے‬

‫میرا لن فل ٹائٹ ھو چکا تھا‬


‫تو عظمی نے شوخی سے میرے لن کو‬
‫پوری مٹھی میں لے کر دبایا اور کچھ‬
‫کہنے ھی لگی تھی‬
‫کہ اچانک اس نے میرے لن کو چھوڑا‬
‫اور میری باہوں میں ھی گھوم کر میری‬
‫طرف منہ کر لیا۔‬
‫اور میرے بازوں کا گھیرا توڑ کر‬
‫تھوڑا پیچھے ہٹ کر میرے لن کی‬
‫طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ‬
‫گئی‬
‫میرے لن نے قمیض کو اوپر اٹھا کر‬
‫تمبو بنایا ھوا تھا‬

‫تو‬
‫عظمی نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر رکھا‬
‫اور حیرانگی سے بولی‬

‫اینوں کی کیتا ای‬


‫میں نے کہا کیا ھوا‬

‫تو عظمی بولی‬

‫ھاے میرے ******اینوں کییییی کیتا‬


‫ای‬

‫تو میں نے ہنستے ھوے‬


‫اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی قمیض کے‬
‫نیچے سے لن پر رکھتے ھوے کہا‬
‫خود ھی دیکھ لو‬
‫کیا ھوا ھے‬
‫تو عظمی نے جلدی سے ہاتھ ایسے‬
‫پیچھے کیا جیسے میں نے اسکا ھاتھ‬
‫گرم توے پر رکھ دیا ھو‬

‫میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور‬


‫درختوں کی طرف لے کر چلنے لگا‬
‫تو‬
‫عظمی بولی‬
‫ہن کتھے جانا اے‬

‫میں نے کہا چلو‪ .‬تو سہی یار ایسا موقعہ‬


‫دوبارا پتہ نھی کب ملنا ھے‬

‫تو عظمی اوپر اوپر سے نہ نہ کرتی‬


‫میرے ساتھ چلی جارہی تھی‬
‫میں عظمی کو لے کر اسی جگہ آگیا‬
‫جہاں صدف کی سیل توڑی تھی‬

‫عظمی ٹاہلی کے پیچھے جاکر اپنا بیگ‬


‫نیچے رکھتے ھوے بولی تمہیں اس‬
‫جگہ سے کچھ زیادہ ھی پیار نھی‬

‫تو میں نے کہا‬


‫یہ جگہ تب ھی پیاری لگتی ھے جب تم‬
‫میرے ساتھ ھوتی ھے‬
‫تو عظمی بولی‬
‫چل چوٹھا‬
‫میں نے اسے جپھی ڈالتے ھوے کہا‬
‫قسم سے‬
‫اور ساتھ ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ کر اسکے ہونٹ چوسنے لگ‬
‫گیا‬

‫عظمی پہلے تو نخرے کرتی رھی‬


‫مگر پھر کسنگ میں میرا ساتھ دینے‬
‫لگ گئی‬

‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی بُنڈ‬


‫کی دونوں پھاڑیوں کو ُمٹھیوں میں‬
‫بھرنا شروع کردیا‬

‫عظمی کی گانڈ اتنی نرم تھی جیسے‬


‫میرے ھاتھ میں روئی کے گولے ھوں‬

‫میرا لن عظمی کی پھدی کے اوپر‬


‫ٹھونگے مار رھا تھا اور اسکے مالٹے‬
‫کے سائز کے ممے میرے سینے میں‬
‫دبے ھوے تھے‬

‫میں کسنگ کے ساتھ ساتھ اسکی پھدی‬


‫پر لن سے نشانے لگا رھا تھا‬

‫جس سے عظمی بھی لطف اندوز ہوتے‬


‫ھوے گانڈ آگے کو کر کے لن کو سہی‬
‫سمت نشانہ لگانے میں مدد کررھی‬
‫تھی‬
‫صدف نے اپنے دونوں ھاتھ میرے‬
‫بازوں کے نیچے سے گزار کر میرے‬
‫پیچھے سے کندھوں کو مضبوطی سے‬
‫پکڑا ھوا تھا‬

‫ہم چار پانچ منٹ ایسی ھی پوزیشن میں‬


‫رھے‬

‫عظمی کافی گرم ھو چکی تھی میں نے‬


‫عظمی کی قمیض اوپر کی جو نیلے‬
‫رنگ کی ریشمی کپڑے میں تھی‬
‫اسکی قمیض آسانی سے اوپر ہوگئی‬
‫اور میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا‬
‫اور اسکے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا‬
‫عظمی کی قمیض اسکے گلے تک کر‬
‫کے اسکو قمیض پکڑے رکھنے کا کہا‬
‫اور اسکے پیٹ کو چومنے لگ گیا‬
‫اسکا پیٹ گورا چٹا اور ریشم کی طرح‬
‫مالئم تھا‬

‫میں نے سارے پیٹ کو اچھی طرح‬


‫چوما اس دروان عظمی اپنے پیٹ کو‬
‫اندر کی طرف کھینچتی رھی‬
‫میں نے اپنی زبان نکالی اور اسکی ناف‬
‫کے سوراخ میں پھیرنے لگا عظمی کو‬
‫جیسے کرنٹ لگ گیا وہ ایک جھٹکے‬
‫سے پیچھے ھوئی‬
‫۔اور منہ سے سسسکاری نکال کر بولی‬
‫ھاےےےےےےےے میں مرگئی‬

‫میں نے تھوڑا آگے ھوکر پاوں کے بل‬


‫بیٹھے ھی اسکی ننگی کمر کو پکڑا‬
‫اور‬
‫پھر سے اسکی ناف کے سوراخ میں‬
‫زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫تو عظمی پھر سسکاریاں لیتے ھو‬
‫پیچھے ھونے کی کوشش کرتی رھی‬
‫مگر اب میں نے اسکی کمر کو پکڑا‬
‫ھوا تھا‬
‫اس لیے وہ پیچھے نھی ھو سکتی تھی‬
‫تب عظمی بولی‬
‫ھائیییییی یاسر پلیز نہ کرو مجھے گد‬
‫گدی ھوتی ھے‬
‫میں نے‬
‫اسکی ناف سے زبان نکالی اور ناف‬
‫کے نیچے پھیرنے لگ گیا‬
‫ناف کے نیچے زبان پھیرتے ھوے‬
‫میری نظر‪ .‬عظمی کی شلوار پڑی تو‬
‫اسکی شلوار گیلی نظر آئی‬
‫میں نے کمر سے ہاتھ نیچے کر کے‬
‫اسکی شلوار کے نیفے پر رکھ دیے‬
‫اور بڑی پھرتی سے جھٹکے سے‬
‫اسکے شلوار نیچے کو کھینچی شلوار‬
‫میں السٹک تھی‬
‫اس لیے شلوار بنا کسی رکاوٹ کے‬
‫نیچے ھوتے ھوے عظمی کے پاوں‬
‫میں گر گئی‬
‫اور عظمی کی کلین شیو پھدی میری‬
‫آنکھوں کے سامنے تھی جس کے‬
‫باریک سے ہونٹ اندر سے نکلے ھوے‬
‫پانی سے چمک رھے تھے‬

‫عظمی ایکدم مستی اور مزے سے باھر‬


‫آئی اور نیچے کو جھک کر اپنی شلوار‬
‫پکڑ کر اوپر کرنے کی کوشش کرنے‬
‫لگی مگر میں نے جلدی سے اسکے‬
‫دونوں ہاتھ پکڑ لیے‬
‫اور اسکو سیدھے ھونے کا کہا‬

‫تو عظمی نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کر‬


‫پھدی کو ُچھپا لیا‬
‫اور کہنے لگی‬
‫بے شرم انسان شرم نھی آتی مجھے‬
‫سارا ننگا کردیا‬

‫تو میں نے کہا‬


‫میں تمہارا کچھ اتارنے تو نھی لگا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫اتنی جرات ھے تمہاری‬
‫تو میں نے کہا مجھے غصہ دلوا رھی‬
‫ھو تو عظمی بولی‬
‫غصہ آگیا تو کیا کرلو گے‬
‫تو میں نے کہا بتاوں کیا کر لوں گا پھر‬
‫رونا مت‬
‫تو عظمی بولی‬
‫میں رونے والی نھی ھوں‬
‫تم اپنی فکر کرو‬
‫تو میں ایکدم کھڑا ہوگیا اور اپنی شلوار‬
‫نیچے پاوں تک کر دی اور پھر پیروں‬
‫سے نکال دی‬

‫عظمی یہ دیکھتے ھی اپنی طرف سے‬


‫بھاگنے لگی تو اسکی شلوار اسکے‬
‫پاوں میں تھی تو آگے کو منہ کے بل‬
‫گھاس پر گرنے لگی ابھی اسکے‬
‫گھٹنے گھاس پر نھی لگے تھے کے‬
‫میں نے پیچھے سے اسکو جپھی ڈال‬
‫کر گرنے سے بچا لیا‬
‫اب میرے لن کے آگے میری قمیض‬
‫تھی اور عظمی کی گانڈ کےآگے اسکی‬
‫قمیض تھی‬
‫جبکہ ہم دونوں کی شلواریں اتری ہوئی‬
‫تھی‬
‫عظمی اب گانڈ میری طرف کر کے‬
‫کھڑی تھی‬

‫اور میرا تنا ھوا لن میری اور اسکی‬


‫قمیض کو لے کر اسکی گانڈ کے دراڑ‬
‫میں گھسا ھوا تھا‬
‫میں نے اسکو سیدھا کرتے ھوے کہا‬

‫ہن کتھے پجن لگی ایں‬

‫تو صدف اپنے دونوں ھاتھ پیچھے کر‬


‫کے میرے پیٹ پر رکھ کر مجھے‬
‫پیچھے دھکا دینے کی کوشش کرتے‬
‫ھوے بولی‬

‫چھڈ مینوں چنگا ریں گا نئی تے میرے‬


‫تو بُرا کوئی نئی ہونا‪،‬‬

‫میں نے ویسے ھی اسکو جپھی ڈالے‬


‫ھوے کہا‬

‫میں نے کہا نھی چھوڑتا اگر ہمت ھے‬


‫تو چھڑوا کر دیکھ لو‬
‫تو عظمی زور آزمائی کرنے لگی‬

‫اسی دوران میں نے اپنی قمیض کو‬


‫آگے سے لن کے اوپر سے ہٹایا اور‬
‫عظمی کی پیچھے سے قمیض کو اسکی‬
‫گانڈ سے اوپر کردیا اور لن اسکے‬
‫چڈوں میں ُگھسا کر گھسے مارنے لگ‬
‫گیا‬
‫عظمی ایسے ھی تھوڑی دیر مچلتی‬
‫رھی‬
‫مگر جب میرے لن کے ٹوپے نے‬
‫اسکی پھدی کو رگڑنا شروع کیا تو‬
‫عظمی کی مزاحمت دم توڑ گئی‬

‫اور عظمی بھی گانڈ پیچھے کر کر‬


‫کے‬
‫لن کے ٹوپے کا اپنی پھدی سے مالپ‬
‫کروانے لگ گئی‬
‫میں نے عظمی کی قمیض کو پیچھے‬
‫سے اور اوپر کر کے اسکے کندھوں‬
‫تک کر کے اسکی کمر کو ننگا کر دیا‬
‫اور پھر ھاتھ آگے لیجا کر آگے سے‬
‫بھی قمیض اسکے مموں سے اوپر کر‬
‫کے اکھٹی کردی اور اسکا ایک ہاتھ‬
‫پکڑ کر اسکو قمیض وہیں پکڑ کر‬
‫رکھنے کا کہا‬
‫عظمی پر بھی اب خماری سوار ھو‬
‫چکی تھی وہ مزید آگے کو جھک گئی‬
‫اور اپنی قمیض کو ایک ھاتھ میں پکڑ‬
‫کر اپنے گلے سے لگا لیا اور ایک ھاتھ‬
‫نیچے لیجا کر اپنی پھدی کے اوپر آتے‬
‫جاتے لن پر رکھا دیا‬
‫اب نیچے پھدی اوپر میرا لن اور میرے‬
‫لن کے اوپر اسکی ُکھلی ھوئی انگلیاں‬
‫اور ہتھیلی تھی‬
‫جب میرا لن اسکی پھدی سے ٹچ ھوتے‬
‫ھوے آگے جاتا تو‬
‫عظمی اپنی انگلیوں سے میرے لن کو‬
‫اوپر پھدی کے ساتھ لگا دیتی جس سے‬
‫میرا لن اس کی پھدی کے لبوں کو‬
‫کھولتا ھو پھدی کے دانے کو رگڑتا ھوا‬
‫آگے چلے جاتا اور ویسے ھی رگڑ‬
‫لگاتا ھوا پیچھے آتا‬

‫میں نے اسکے دونوں ممے برا سے‬


‫آزاد کردیے تھے اور ایک ہاتھ اسکے‬
‫کندھے پر رکھا اور ایکھ ھاتھ سے‬
‫اسکا مما پکڑا‬
‫اور زور زور سے گھسے مارنے لگ‬
‫گیا صدف کے منہ سے سسکاریاں نکلی‬
‫جارھی تھی اور اپنی انگلیوں سے‬
‫میرے لن کا مساج کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫اپنی پھدی پر بھی زور دے کر لن اور‬
‫پھدی کی جپھیاں ڈلوا رھی تھی‬

‫میرے پٹ عظمی کے گول چوتڑوں پر‬


‫تھپ تھپ سے لگ رھے تھے‬

‫عظمی ایکدم سے اپنی گانڈ کو آگے‬


‫پیچھے کرنے لگ گئی اور‬
‫منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکال‬
‫رھی تھی‬

‫ھااےےےےے افففففف سسسسیییی‬


‫یاسسسرررررر تیززز کرو تیززز‬
‫اور میں ویسے ھی سپیڈ کو تیز کرتا‬
‫جارھا تھا‬

‫عظمی کی پھدی اور سائڈ والی جگہ‬


‫پہلے ھی گیلی تھی اس لیے میرا لن‬
‫مزے لے لے کے آگے پیچھے کا سفر‬
‫کررھا تھا‬

‫عظمی بولی جارھی تھی‬


‫ھااااں یاسسسر ایسے ھی کرو ایسے‬
‫ھی کرووووو اففففف ھااےےےے‬
‫یاسررررر مجھے کیا ھو رھا ھے‬
‫ھاےےےےے اممممممم‬
‫اور مجھے بھی جوش آئی جارھا تھا‬
‫میں پہلے ھی مٹھ مار کے آیا تھا اس‬
‫لیے میرا ابھی چھوٹنے کا وقت بہت‬
‫دور تھا‬

‫جبکہ عظمی کی جان نکلنے والی‬


‫ھوچکی تھی‬

‫ایسے ھی دھپ دھپ دھپ گھسے ماری‬


‫جارھا تھا کہ عظمی کی ٹانگیں اکڑ گئی‬
‫اور اس نے میرے لن کو اپنے چڈوں‬
‫میں کس کے دبا لیا‬
‫اور ایکدم عظمی کے جسم نے جھٹکے‬
‫مارنے شروع کردیے‬
‫اور مجھے اپنے لن پر اسکی گرم گرم‬
‫منی بہتی محسوس ھوئی‬
‫عظمی نے اپنے گانڈ کو پورے ذور‬
‫سے بھینچا ھوا تھا جس سے میرا لن‬
‫اس کے چڈوں میں پھنسا ھوا تھا‬

‫کچھ دیر ایسے عظمی کا جسم جھٹکے‬


‫کھاتا رھا اور پھر عظمی لمبے لمبے‬
‫سانس لیتے ھو آگے کو ھوئی اور‬
‫گھاس پر بیٹھ گئی‬
‫منی اور پانی سے اسکی دونوں ٹانگیں‬
‫گیلی ھو چکی تھی‬

‫عظمی کی شلوار ابھی بھی اسکے پاوں‬


‫میں ھی تھی‬
‫عظمی ننگی گانڈ ھی گھاس پر رکھ کر‬
‫گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی‬
‫میں آگے بڑھا اور‬
‫عظمی کے سامنے پاوں کے بل بیٹھ گیا‬
‫اور اسکی شلوار اسکے پاوں سے‬
‫نکالنے لگا‬

‫تو عظمی نے سر اوپر کیا اور اکھڑی‬


‫سانسوں کے ساتھ بولی‬
‫کی اےےےے ہن کی کرنا اے رجیا‬
‫نئی ھالے‬

‫میں نے شلوار اسکے پاون سے علیحدہ‬


‫کرتے ھوے ایک سائڈ پر رکھ دی‬
‫اور آگے سے قمیض اٹھا کر اپنا تگڑا‬
‫کھڑا ھوا لن اسے دیکھاتے ھوے کہا‬

‫اسکا کیا قصور ھے یہ ابھی بھی پیاسا‬


‫ھے‬
‫تم خود تو فارغ ھوگئی ھو‬
‫اسکو کس نے کرنا ھے‬

‫تو عظمی بولی ۔‬


‫میں ایسا ٹھیکہ لیا اے آپی کر لے‬
‫فارغ۔۔۔‬

‫تو میں نے غصے میں کہا‬


‫واہ اپنی واری اینج کرن دئی ایں تینوں‬
‫وہ اینے ای مزے دے دے کہ فارغ کیتا‬
‫اے‬
‫احسان فراموش‬
‫مطلبی‬

‫تو عظمی ایکدم اکڑ کر بولی مجھے‬


‫مطلبی مت کہو سمجھے‬

‫تو میں نے کہا‬

‫مطلبی نھی ھو تو اور کیا ھے بیچارے‬


‫نے اتنی محنت کر کے تمہیں فارغ کیا‬
‫ھے میں نے لن کو پکڑ کر اسکے‬
‫سامنے ہالتے ھوے کہا‬

‫دیکھو بیچار ے کا کیا حال ھوگیا ھے‬


‫الل سرخ ھوچکا ھے‬
‫اور اب تم اسکو ناراض کررھی ھو‬

‫تو عظمی بولی بتاو کیا کروں جس سے‬


‫تمہارا یہ بیچارا خوش ھوگا‬

‫تو میں نے اسکی ننگی پھدی پر انگلی‬


‫لگاتے ھوے کہا‬
‫بس اسکے اندر کی سیر کروا دو‬
‫یہ خوش ھوجاے گا‬
‫تو عظمی کانوں کو ہاتھ لگاتے ھوے‬
‫بولی‬

‫مینوں مارنا اے‬


‫اینوں کھوتے نوں ویکھ پیلے‬
‫تے ایس نکی جئی نوں‬
‫ویکھ‬

‫پاڑنا اے اینوں‬

‫میں نے کہا یار یہ دونوں ایک دوسرے‬


‫کے لیے ھی تو بنے ہیں‬

‫تو عظمی بڑی شوخی سے بولی‬


‫جب وقت آے گا تب ھی یہ ایک‬
‫دوسرے کے لیے موثر ھوتے ہیں‬

‫ورنہ دونوں میں سے ایک کا نقصان‬


‫ھی ھوتا ھے‬

‫ابھی ہم چھوٹے ہیں جب بڑے ہوں گے‬


‫تو شادی کے بعد یہ سب کچھ کریں‬
‫گے‬

‫میں نے کہا یار‪ .‬تم بھی بڑی ھو کون‬


‫سا چھوٹی ھو ابھی تو تم کہہ رھی تھی‬
‫کہ آنٹی نے کہا ھے کہ اب تم بڑی‬
‫ھوگئی ھو‬
‫اور میں تمہارے سامنے ھی ھوں‬

‫تو عظمی بولی نھی یاسر‬


‫ابھی ایسا ویسا کچھ نھی کرنا‬
‫اگر مجھے کچھ ہوگیا تو‬
‫میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا بس ہلکی‬
‫سی درد ھوگی جیسے ٹیکہ لگوانے پر‬
‫ھوتی ھے‪ .‬اور پھر مزے ھی مزے‬

‫تو عظمی بولی‬

‫مینوں پاگل نہ بنا‬


‫مینوں پتہ اے جان نکل جاندی اے پیلی‬
‫واری‬

‫تے نالے بچہ وی ہون واال ھو جاندا‬


‫اے‬

‫میں نے کہا تمہیں کیسے پتہ ھے‬

‫تو عظمی بولی سکول میں میری ایک‬


‫سہیلی نے بتایا تھا‬

‫تو میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے‬


‫تو عظمی بولی‬
‫اسکو اسکی بھابھی نے بتایا تھا‬
‫تو میں نے کہا‬
‫اسکی بھابھی مر گئی تھی کروانے کے‬
‫بعد‬
‫۔تو عظمی بولی‬
‫جا اوے پاگل اودھے درد بوت ہویا سی‬

‫تو میں نے کہا مری تو نھی تھی نہ درد‬


‫ھی ھوا تھا‬
‫وہ بھی اسکے شوہر نے ایکدم سارا‬
‫اندر کردیا ھوگا‬

‫تو عظمی بولی اور جو بچہ ہونے واال‬


‫ھو جاتا ھے وہ‬
‫تو میں نے کہا یار میری بات غور سے‬
‫سنو‬

‫جب ایکدم اندر کرتے ہیں تب درد ھوتی‬


‫ھے‬
‫اور میں آہستہ آہستہ اندر کروں گا وہ‬
‫بھی اتنا جتنا تم برداشت کر سکو جہاں‬
‫تم کہو گی میں رک جاوں گا‬
‫اسکے بعد دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا‬
‫ھے‬

‫پھر تم خود ھی مجھے کہو گی کے‬


‫یاسر سارا ھی اندر کردو‬
‫اور رھی بچے کی بات تو بچہ تب‬
‫ہونے واال ہوتا ھے جب میں تمہارے‬
‫اندر ھی فارغ ھوجاوں گا ۔‬
‫اور میں فارغ ہونے سے پہلے ھی اندر‬
‫سے نکال لوں گا‬

‫تو عظمی بولی‬


‫تینوں کیویں پتہ اےےےے‬

‫میں نے کہا میرے بھی دوست نے بتایا‬


‫ھے‬

‫تو عظمی پھر میری نقل اتارتے ھوے‬


‫بولی‬
‫اونوں کیویں پتہ اےےےےےے‬

‫تو میں جنجھال کر بوال‬


‫یار اسکے دوست کی ایک سہیلی تھی‬
‫تو وہ اس کے ساتھ کرتا رھتا تھا‬

‫تو اس لیے اسے پتہ تھا‬

‫تو عظمی پھر بولی‬

‫مگر ہماری تو شادی نھی ھوئی نہ‬

‫تو میں نے کہا یار تم نے مجھ سے ھی‬


‫شادی کرنی ھے نہ تو شادی سے پہلے‬
‫کیا اور بعد میں کیا‬

‫تو عظمی کچھ سوچتے ہوے بولی یاسر‬


‫تم بھی اپنے دوستوں کو بتاو گے کے‬
‫میرے ساتھ تم نے کیا ھے‬

‫تو میں نے جزباتی ڈائیالگ بولنا شروع‬


‫کردیے‬

‫کہ‬

‫تم نے مجھے بے غیرت سمجھ رکھا‬


‫ھے تم میری سہیلی نھی ھو تم میری‬
‫جان ھو تمہیں پتہ ھی نھی کہ تم میرے‬
‫لیے کیا ھو اور تم میرے بارے میں‬
‫ایسی سوچ رکھتی ھو‬
‫بہت دکھ ھوا تمہاری بات سن کر‬
‫عظمی‬
‫تو عظمی اپنے بارے میں‪ .‬میرے‬
‫جزبات دیکھ کر موم کی طرح پگھل‬
‫گئی اور بولی‬

‫یاسر کچھ کرنے سے پہلے اچھی طرح‬


‫سوچ لو‬

‫یہ نہ ھو کہ ہمارے پاس سواے‬


‫پچھتاوے اور بدنامی کے کچھ نہ بچے‬
‫میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر بھروسہ‬
‫نھی ھے‬

‫تو عظمی نے ہنستے ھوے کہا نھی‬


‫ھے‬

‫تو میں نے کہا پھر بات ھی ختم ھوگئی‬


‫جب تمہیں مجھ پر بھروسہ ھی نھی اور‬
‫میں یہ کہہ کر جیسے ھی کھڑا ھونے‬
‫لگا‬
‫تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے‬
‫نیچے کھینچا تو میرا توازن برقرار نہ‬
‫رھا اور میں سیدھا اسکے اوپر گر گیا‬
‫اور عظمی بھی جان بوجھ کر پیچھے‬
‫لیٹ گئی‬
‫اب میں اسکی ٹانگوں کے درمیان تھا‬

‫اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے‬


‫کے ہونٹوں کے بلکل قریب تھے‬

‫تو عظمی بڑے رومینٹک انداز میں‬


‫بولی‬

‫بتاو کیا کرنا ھے‬

‫تو میں نے کہا‬


‫پہلے اپنی قمیض اتار لو ساری گندی‬
‫ھو جانی ھے‬
‫تو عظمی نے مجھے پیچھے ھونے کا‬
‫کہا اور میں اس کے اوپر سے اٹھ کر‬
‫سائڈ پر ھوگیا اور عظمی ویسے ھی‬
‫ٹانگیں سیدھی کیے بیٹھ گئی اور اپنی‬
‫قمیض اتارنے لگ گئی‬
‫میں نے جلدی سے ھاتھ عظمی کی کمر‬
‫کے پیچھے کیے اور اسکے بریزیر کی‬
‫ہک کو پیچھے سے کھول دیا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫اسکو تو رہنے دو‬

‫میں نے کہا آج فل مستی کریں گے‬


‫تو عظمی بولی مستی کے بچے‬
‫ٹائم بھی دیکھ لو اتنی دیر ہمیں پہلے‬
‫ھی ھوگئی ھے‬

‫تو میں نے کہا ابھی تو ہمیں آدھا گھنٹہ‬


‫بھی نھی ھوا‬

‫تم جلدی کرو نہ‬


‫تو عظمی نے قمیض اور برا اتار کر‬
‫ایک سائڈ پر رکھی میں نے بھی اپنی‬
‫قمیض اتار دی‬

‫اور اسکی قمیض کے اوپر رکھ دی‬


‫ہم دونوں سیکس کی بھوک میں اتنے‬
‫پاگل ھوگئے تھے کہ ہمیں یہ نھی پروا‬
‫تھی کہ کوئی ادھر آ بھی سکتا ھے یا‬
‫گھاس میں سے کو ئی زہریلی چیز کاٹ‬
‫سکتی ھے‬

‫نہ وقت کی فکر نہ کسی کے آنے کا ڈر‬


‫نہ جگہ کا خوف‬
‫بس دماغ پر منی سوار تھی‬

‫سچ کہتے ہیں کہ‬

‫بندے نوں پھدی دا شوق پھدی وچ واڑ‬


‫دیندا اے‬
‫ہم ہر چیز سے بے خبر‬
‫مادر زاد ننگے ایک دوسرے کے اوپر‬
‫لیٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوسنے‬
‫میں مصروف تھے‬
‫عظمی پھر گرم ھوچکی تھی میرا لن تو‬
‫پہلے ھی کھڑا تھا اور اب اسکے چڈوں‬
‫کے درمیاں اسکی پھدی کے اوپر دباو‬
‫ڈال رھا تھا‬

‫عظمی نے منہ ایک طرف کیا‬

‫اور بولی‬
‫یاسر جو کرنا اے چھیتی چھیتی کر‬
‫پیلے ای دیر ھوگئی اے امی بولے گی‬
‫کہ اینی دیر کتھے ال کے آندی اے‬

‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ‬


‫سمجھا اور جلدی سے اسکی ٹانگوں کو‬
‫کھول کر اسکی پھدی کے سامنے لن‬
‫کر کے بیٹھ گیا اور تین چار اسکے‬
‫مموں کے چوپے لگاے‬

‫تو عظمی پھر بولی یاسر جلدی کر لو‬


‫مجھے اب ڈر لگ رھا ھے‬
‫میں نے دل میں کہا سالی دی سوئی ہن‬
‫جلدی تے پھس گئی اے‬

‫میں نے جلدی سے لن پر تھوک کا گوال‬


‫پھینکا اور مٹھ مارنے کے انداز سے‬
‫تھوک کو پورے لن پر پھیال دیا اور‬
‫دوبارہ سے پھر ٹوپے پر تھوک لگا کر‬
‫ٹوپے کو تھوک سے تر کر دیا‬

‫اور اپنی عظمی کی پھدی کے ہونٹوں‬


‫میں پھیر کر پھدی کی چکنائی چیک‬
‫کرنے لگ گیا‬

‫جیسے ھی پھدی کے ہونٹوں سے میری‬


‫انگلی ٹچ ھوئی‬
‫تو‬
‫عظمی نے سئیییییی کیا‬
‫اور میں نے لن کو جڑ سے پکڑا اور‬
‫ٹوپے کو پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا‬
‫کر ٹوپے کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا‬
‫عظمی پھر سسک رھی تھی اور اسکی‬
‫ٹانگیں کانپ رھی تھی شاید خوف کی‬
‫وجہ سے‬

‫میں اسکی کنڈیشن سمجھتے ھوے بوال‬

‫عظمی میری جان‬


‫برداشت کرنا اور خود کو ریلیکس کر‬
‫لو ۔۔‬
‫تو عظمی نے کانپتی آواز میں کہا یاسر‬
‫میرا دل گبھرا رھا ھے‬

‫تو میں اسکے اوپر لیٹ گیا اور اسکی‬


‫ٹانگوں کو مزید کھول دیا اور ھاتھ‬
‫نیچے لے جاکر کر لن اس کی پھدی‬
‫کے ہونٹوں میں پھنسا دیا‬

‫اور دونوں ہاتھ عظمی کے ماتھے سے‬


‫لے کر پیچھے بالوں تک پھیرتے ھوے‬
‫اسکی ڈھارس بندھانے لگا‬

‫اور ہلکا سا لن کو اندر پُش کیا تو ٹوپا‬


‫اندر گھس گیا اور عظمی نے اپنا ایک‬
‫ھاتھ منہ پر ذور سے رکھ کر‬
‫ھاےےےےےے میں مرگئی امیییییییی‬
‫جییییییییی اور ساتھ ھی اوپر کو ہوگئی‬
‫جس سے ٹوپا باہر نکل گیا‬
‫میں نے کہا‬
‫میری جان حوصلہ کرو بس تھوڑا سا تو‬
‫اندر لو نہ ایسے کرو گی تو پھر درد‬
‫ذیادہ ھوگی‬

‫تو عظمی بولی نھیییییی یاسررر بہتتت‬


‫درد ھوا ھے‬

‫تو میں نے پھر ٹوپے کو اسکی پوزیشن‬


‫پر سیٹ کیا اور عظمی سے کہا اب باہر‬
‫مت نکالنا‬
‫اور پھر ہلکا سا اندر کی طرف پُش کیا‬
‫تو‬
‫عظمی نے پھر اپنے منہ کو دبا کر‬
‫آنکھیں ذور سے بند کیے ھوے‬
‫اوئییییییییی اممییییی جییییی کہا اور ساتھ‬
‫ھی اسکی آنکھوں سے دو موٹے آنسو‬
‫نکل کر سائڈوں سے بہتے ھوے کان‬
‫کی طرف چلے گئے‬

‫میں نے اندر کرتے ھوے عظمی کے‬


‫کندھے پکڑ لیے تھے کہ پھر آگے کو‬
‫نہ جاے‬
‫کچھ دیر میں ایسے ھی ٹوپا عظمی کی‬
‫پھدی کے اندر کر کے رکا رھا‬

‫مجھے ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے‬


‫میرے لن کو کسی بہت ھی گرم چیز‬
‫نے چاروں طرف سے بھینچا ھوا ھے‬

‫عظمی کی پھدی بہت ھی ٹائٹ تھی‬

‫پھدی تو صدف کی بھی ٹائٹ تھی مگر‬


‫عظمی کی پھدی نے تو میرے ٹوپے کو‬
‫ھی راستے میں روک رکھا تھا‬
‫شاید دونوں کی عمر کا فرق تھا یا پھر‬
‫میرے گھسے کا فرق تھا‬
‫خیر‬
‫عظمی ھاےےےےے اوئییییییی‬
‫اففففففف کرتی رھی‬

‫کچھ دیر بعد عظمی تھوڑی سی ریلکس‬


‫ھوئی تو میں نے کہا اور کروں تو وہ‬
‫بولی نھی بس اتنا ھی اندر رکھ کر اندر‬
‫باھر کرتے رھو‬

‫تو میں نے کہا یار ایسے نہ تو مجھے‬


‫مزہ آنا ھے اور نہ ھی میں نے فارغ‬
‫ھونا ھے‬
‫تو عظمی بولی بس تھوڑا سا اور کردو‬
‫مگر آرام سے‬

‫اور یہ کہتے ھوے اس نے ایک ھاتھ‬


‫اپنے منہ پر رکھ لیا اور دوسرا ھاتھ‬
‫میرے پیٹ پر کہ مجھے زیادہ اندر نہ‬
‫کرنے دے‬

‫میں نے لن کو تھوڑا سا اور اندر کیا تو‬


‫عظمی نے میرے پیٹ پر اپنی ہتھیلی کا‬
‫دباو ڈال کر مجھے پیچھے رکنے کا‬
‫اشارہ کیا‬
‫میں وہیں رک گیا‬

‫عظمی اپنا سر دائیں بائیں ماری جارھی‬


‫تھی‬

‫اور ھوے ھوے کررھی تھی‬

‫میرا لن دو انچ اندر جا چکا تھا‬

‫کچھ دیر بعد میں نے عظمی کو بتاے‬


‫بغیر ھی لن کو آگے پیچھے کرنے لگ‬
‫گیا‬
‫میرا لن کا دو انچ کا حصہ بہت بری‬
‫طرح عظمی کی پھدی کی گرفت میں‬
‫تھا جو اسے ہلنے نھی دے رھی تھی‬
‫نہ‬
‫آگے جانے کی اجازت دیتی نہ واپس‬
‫جانے کی اجازت دیتی‬

‫میں بھی الجھن کا شکار ھوگیا تھا کہ‬


‫اب کیا کروں‬
‫جب میرے دماغ میں یہ آتا کہ ایک‬
‫جاندار گھسہ مار کر قصہ تمام شد‬
‫کردوں تو میری آنکھوں کے سامنے‬
‫صدف کا تڑپتا ھوا چہرا اور کانوں میں‬
‫درد ناک چیخ سنائی دیتی‬

‫اور یہ سوچ کر اپنا ارادہ ملتوی کردیتا‬


‫کہ‬
‫صدف تو اس سے بڑی تھی اسکا برا‬
‫حال ھوگیا تھا‬

‫اے سالی اونج ای نہ مر جاوے‬

‫اور مجھے مزہ بھی بلکل نھی آرھا تھا‬

‫تب میرے دماغ میں ایک جھماکہ ھوا‬


‫اور شیطان نے میرے کان میں کہا‬
‫کاکا پہلے اسکو گرم کرو اسکا دھیان‬
‫دوسری طرف کرو جب اسکا دھیان‬
‫دوسری طرف جاے گا تو اس کے دماغ‬
‫سے ڈر نکل جاے گا‬
‫پھر یہ خود تجھے کہے گی‬

‫کہ کردو سارا‬

‫مجھے استاد کا مشورہ معقول لگا اور‬


‫میں نے لن ساب کو تسلی دی اور‬
‫سمجھا بجھا کر وہیں رکنے کا کہا‬

‫اور عظمی کا ھاتھ اسکے منہ سے ہٹا‬


‫کر‬
‫اسکے ہونٹ چوسنے لگا ‪،،‬‬
‫کچھ دیر بعد عظمی بھی میرا ساتھ دینے‬
‫لگ گئی اور میں نے لن کو تھوڑا سا‬
‫پیچھے کیا اور پھر اتنا ھی اند کر دیا‬
‫صدف تھوڑا سا ہلی‬
‫تو استاد کی آواز پھر میرے کانوں میں‪.‬‬
‫گونجی‬
‫کہ‬

‫کاکا ہالے نئی تھوڑا ہور گرم کر آپے‬


‫ای تنیوں کوے گی‬

‫میں نے استاد کا حکم سر آنکھوں پر کیا‬


‫اور پھر‬
‫سے اسکے ہونٹ چوستا رھا کبھی‬
‫اسکے ممے کو ھاتھ سے مسلتا کبھی‬
‫اسکی گردن کے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتا‬

‫کبھی اسکے ممے کے اکڑے ھو نپل‬


‫کو انگلیوں میں لے کر مسلنا شروع کر‬
‫دیتا کبھی زبان نکال کر اسکے گلے‬
‫سے پھیرتا ھوا اوپر لیجا کر دوبارہ‬
‫عظمی کے منہ میں ڈال دیتا‬

‫میں نے محسوس کیا کہ عظمی نیچے‬


‫سے اپنی گانڈ اٹھانے کی کوشش کر‬
‫رھی ھے‬

‫اچانک مجھے اپنی کمر پر تھپکی دیتا‬


‫ہاتھ محسوس ھوا‬
‫میں سمجھا شاید استاد مجھے شاباش‬
‫دے رھا ھے‬

‫مگر غور کرنے پر پتہ چال کہ عظمی‬


‫مجھے اندر کرنے کا کہہ رھی ھے‬

‫میں نے آہستہ آہستہ عطمی کی پھدی‬


‫کے اندر کی طرف لن کو لیجانا شروع‬
‫کردیا تقریبا ً چار انچ تک لن اندر گیا تو‬
‫مجھے ٹوپے کے ساتھ کچھ ٹچ ھوتا‬
‫محسوس ھوا‬

‫اور اسی سمے عظمی نے میری کمر‬


‫کو زور سے بھینچ کر مجھے رکنے کا‬
‫سگنل بھی دے دیا تھا‬

‫اور میں لن کو وہیں سے واپس کھینچ‬


‫الیا اور پھر اتنا ھی اندر کرنے لگ گیا‬

‫اس دوران عظمی کی پھدی کافی گیلی‬


‫ھوجانے کی وجہ سے میرے لن پر‬
‫اسکی پھدی کی گرفت کم ہوگئی تھی‬
‫اور لن پھدی کو رگڑ لگاتا اندر باھر ھو‬
‫رھا تھا‬
‫جیسی پہلے لن پر پھدی کی ٹائٹنس تھی‬
‫اب ویسے نھی تھی‬
‫مجھے بھی اب مزہ آنے لگ گیا تھا‬

‫عظمی اب کافی حد تک لن کو برداشت‬


‫کرنے میں کامیاب ھو چکی تھی‬

‫میں ساتھ ساتھ آرام آرام سے اندر باہر‬


‫بھی کر رھا تھا اور اسکے ہونٹ بھی‬
‫چوس رھا‪ .‬تھا اور ممے بھی دبا رھا‬
‫تھا تھا‬

‫عظمی بھی میرے نیچے بےقرار‬


‫ھورھی رھی اور آہستہ آہستہ اپنی گانڈ‬
‫اٹھا رھی تھی‬
‫پھر عظمی نے آنکھیں کھولیں جو مزے‬
‫کی شدت میں بند تھی‬
‫اور ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ ٰکیے‬
‫اور اکھڑی ھوئی سانس لیتے ھوے‬
‫بولی‬
‫یاسر ایک ھی جھٹکے میں سارا اندر‬
‫کرد‬
‫عظمی کی یہ بات سنتے ھی‬
‫استاد نے میرے کان میں کہا‬
‫سنا فیر منیا نہ‬

‫تو میں نے جی استاد کہا‬

‫اور عظمی کی طرف دیکھتے ھوے‬


‫بوال‬
‫دیکھ لو میری جان کو درد نہ ھو تو‬
‫عظمی بولی جتنی میں نے برداشت کی‬
‫ھے اس سے ذیادہ کیا ھوگی‬

‫گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر ھے‬


‫ایک ھی دفعہ زہر کا پیالہ پی لوں‬
‫تم کرو اندر‬

‫میں نے اسکا دوپٹہ پکڑا اور اسے اکھٹا‬


‫کر کے اسے پکڑاتے ھو کہا اسے‬
‫دانتوں کے بیچ لے لو‬

‫تو عظمی نے میری بات سمجھتے‬


‫ھوے دوپٹے کو منہ میں لے کر دانتوں‬
‫میں بھینچ لیا‬

‫میں نے عظمی کے کندھوں کو‬


‫مضبوطی سے پکڑا اور اسکی ٹانگوں‬
‫کو اپنی ٹانگوں کی مدد سے تھوڑا اوپر‬
‫کیا‬

‫عظمی بھی خود کیا تیار کر چکی تھی‬

‫اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی‬

‫میں نے اپنی پوزیشن سیٹ کی اور‬


‫استاد سے اجازت لی‬
‫اور لن کو تھوڑا پیچھے کیا‬
‫اور ایک جاندار گھسہ مار کر لن‬
‫عظمی کی پھدی کی جڑ تک بچے دانی‬
‫میں گھسا دیا‬

‫لن نے پھدی کو چیر کے رکھ دیا تھا‬


‫پھدی کا ستیاناس ہوچکا تھا اور ہچکیاں‬
‫لے کر پھدی لن کو بدعائیں دے رھی‬
‫تھی‬

‫جبکہ عظمی بن پانی کے مچھلی کی‬


‫طرح تڑپ رھی تھی اور اسکے منہ‬
‫سے بُھمممم بُھمممممم کی آوازیں آرھی‬
‫تھی‬
‫آنکھوں سے آنسووں کی برسات جاری‬
‫تھی‬

‫اسکے ہونٹ کپکپا رھے تھے ٹانگیں‬


‫کانپ رھی تھی‬
‫لبوں سے تھوک باہر کو نکل کر کپڑے‬
‫کو گیال کر رھا تھا میرے سر کے‬
‫بالوں کو اس نے دبوچ رکھا تھا‬

‫پھدی کے ہونٹوں سے رت بہہ بہہ کر‬


‫گھاس کو سرخ کر رھا تھا‬

‫کچھ دیر مین اسکے اوپر لیٹا اسکو‬


‫تسلیاں دیتا رھا‬

‫تقریبا ً دس منٹ بعد عظمی سنبھلی تو‬


‫میں نے پھر استاد کا بتایا ھوا ُگر‬
‫آزماتے ھوے اسکے ہونٹ چوسنا‬
‫شروع کردیے‬
‫عظمی کافی حد تک سنبھل گئی تھی‬
‫اور پھر میں نے لن آگے پیچھے کرنا‬
‫شروع کردیا‬
‫لن کافی گیال ہوچکا تھا اور پھدی کا‬
‫راستہ بھی کھل چکا تھا‬

‫میں نے آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانی شروع‬


‫کردی‬
‫عظمی پہلے تو مجھے روکتی رھی‬
‫اور‬
‫‪.‬ھاےےے مرگئی‬
‫بولی کر ھولی کر‬
‫بسسسسس بسسسسس‬
‫اوئییییی امممییییییی‬
‫میرے دل نوں کش ھو چال‬
‫یاسسرررررر بسسسسسس کررررر‬

‫مگر کچھ ھی دیر بعد اس کے ڈائالگ‬


‫بدل گئے اور‬
‫موسم خوشگوار ھوا‬
‫اور اسکی پھدی نے برسات شروع‬
‫کردی‬
‫اور عظمی گانڈ اٹھا اتھا کر پورا لن‬
‫اندر لینے لگ گئی‬

‫کچھ ھی دیر بعد میرا بھی بوالوا آگیا‬


‫اور میں نے جلدی سے لن کو باھر‬
‫نکاال اور عظمی کے پیٹ کی طرف‬
‫ٹوپا کر کے مٹھ مارنے لگ گیا اور‬
‫آخر کر لن صاحب نے پہلی الٹی اتنے‬
‫پریشر سے کی کے عظمی کے ممے‬
‫اور منہ تک چھینٹے گئیے پھر تین چار‬
‫مزید الٹیاں کرنے کے بعد لن صاحب‬
‫سکون میں ھوگئےب‬
‫اور عظمی غصے سے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬

‫میرے اُتے ضرور گند مارنا سی‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور مکئی کے پتے‬


‫توڑ کر اس سے اسکا منہ اور ممے‬
‫اور پیٹ صاف کرنے لگ گیا‬

‫عظمی کچھ دیر ھاے اوئی کرتی رھی‬


‫کبھی اٹھتی کبھی بیٹھتی کبھی رکتی‬
‫کبھی چلتی اور میں بھی اسکے نخرے‬
‫اٹھاتا اسکو راستے میں ھی چنگی پلی‬
‫کر کے اسکے گھر پہنچا آیا‬
‫‪......‬‬

‫شام کو ٹیوشن جانے کے لیے عظمی‬


‫کے گھر گیا‬
‫تو آنٹی فوزیہ نے بتایا کو دونوں بہنیں‬
‫بخار سے تپ رھی ہیں پتا نھی ان‬
‫دونوں کو ایک ساتھ ھی بخار چڑھنا‬
‫تھا‬

‫میں یہ سن کر کمرے کی طرف چل دیا‬


‫اور آنٹی بھی میرے پیچھے پیچھے‬
‫کمرے میں آگئی‬

‫نسرین تو سو رھی تھی مگر عظمی‬


‫چارپائی پر ٹانگیں سیدھی کیے دیوار‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی‬
‫میں جا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫عظمی نے مجھے گھور کر دیکھا‬
‫میں نے شرارت سے کہا‬

‫تینوں وی بہانہ لب گیا اے ٹیویشن تو‬


‫ُچھٹی کرن دا‬

‫تو عظمی غصے دے بولی‬

‫ایویں پونکی نہ جا‬


‫میں بخار نہ مرن دئی آں تینوں سواے‬
‫بکواس کرن دے ُکش نئی آندا۔۔۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫عظمی ایسے کیوں بکواس کر رھی ھو‬
‫بھائی ھے تمہارا‬
‫شرم کرو کیسے اسکے ساتھ بات‬
‫کررھی ھو‬

‫تو عظمی بولی اپنے اس الڈلے کو کہیں‬


‫کہ میرے ساتھ کوئی فضول بات نہ کیا‬
‫کرے‬
‫اور یہ کہتے ھی وہ سیدھی لیٹ گئی‬
‫اور چادر جو اسکی ٹانگوں پر تھی‬
‫کھینچ کر منہ پر لے لی‬
‫آنٹی بولی پتر دفعہ کر ایس ُکتی نوں‬
‫چل توں آجا بار جا کے بیٹھنے آں‬

‫میں نے کہا نھی آنٹی جی میں تو ٹویشن‬


‫جانے لگا تھا سوچا نسرین کا پتہ کرتا‬
‫چلو‬

‫تو آنٹی بولی ٹھیک ھے چل جا شاباش‬


‫میرا پتر دل ال کے پڑیا کر‬

‫اور میں سر ہالتا ھوا‬


‫گھر سے نکل کر‬
‫صدف کے گھر کی طرف چل پڑا‬
‫گھر میں داخل ھوا تو صدف کرسی پر‬
‫بیٹھی پانچ چھ چھوٹے چھوٹے چھ سات‬
‫سال کے بچوں کو پڑھانے میں‬
‫مصروف تھی‬

‫اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور‬


‫پھر مجھے اکیال دیکھ کر میرے پیچھے‬
‫بھی نظر دوڑائی‬
‫اور پھر مجھے نظر انداز کر کے‬
‫منہ بچوں کی طرف کر لیا‬

‫میں تو یہ سوچ رھا تھا کہ صدف‬


‫مجھے اکیلے کو دیکھ کر خوش ھوگی‬
‫مگر اس سالی نے تو مجھے گھاس بھی‬
‫نہ ڈالی‬

‫میں نے جاکر سالم کیا اور ذرہ‬


‫ذوررررر دے کر باججججججی کہا‬
‫تو صدف نے چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا‬
‫اور گھورنے لگ گئی‬
‫اور پھر ادھر ادھر دیکھا کہ آنٹی تو‬
‫نھی‬
‫اور پھر میری طرف ھاتھ کا پنجہ‬
‫کرتے ھوے آہستہ سے بولی‬
‫لکھ دی لس‬
‫النت تیری شکل تے‬
‫میں نے بھی چاروں طرف دیکھا کہ‬
‫کوئی ھے تو نھی‬

‫تو میں نے اسکے قریب بیٹھتے ھوے‬


‫کہا‬

‫کیا ھوا باجججججججیییییی‬

‫تو صدف کا رنگ جو پہلے ھی تھوڑا‬


‫سا گندمی تھا مزید گہرا ھوتا گیا‬

‫اور پھر آہستہ سے بولی‬


‫بککککواسسسسس بند کر‬
‫تو میں نیچے سر کر کے ہنسنے لگ‬
‫گیا‬
‫اور اپنا بیگ کھول کر کتاب باہر نکالی‬
‫اور گود میں رکھ کر بیٹھ گیا‬

‫کچھ دیر بعد صدف نے مجھ سے‬


‫پوچھا‬
‫عظمی نسرین کیوں نھی آئیں‬
‫تو میں نے کہا‬
‫چھوٹے بچوں کے انداز میں معصوم‬
‫سا‪ ،‬منہ بنا کے کہا‬

‫باججججیییی ۔۔۔‬
‫وہ دونوں بیمار ہیں اور انکی امی نے‬
‫کہا تھا کہ اپنی‬
‫باجججیییی‬
‫کو بتا دینا کہ وہ آج چھٹی کریں گی‬

‫تو صدف نے پیر آگے کیا اور جوتے‬


‫کی نوک میرے گھٹنے پر مارتے ھوے‬
‫بولی‬

‫تیرییی بکواس بند ھونی اے کہ نئی‬

‫میں نے پھر اسی انداز میں سارے جہاں‬


‫کی معصومیت اپنے چہر ے پر التے‬
‫ھوے کہا‬
‫باججیییی آپ نے خود ھی تو پوچھا تھا‬
‫تو صدف نے ہاتھ میں پکڑی ھوئی‬
‫کتاب میرے منہ پر ماری جو میں نے‬
‫ھاتھ آگے کر کے منہ کو بچا لیا‬

‫اور غصے سے اٹھی اور مجھے منہ‬


‫ھی منہ میں گالیاں دیتی پیر پٹختی اندر‬
‫کمرے کی طرف چلی گئی‬

‫میں ہنستا ھوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔۔۔‬

‫میں نے اسکے اگنور کرنے کا بدلہ‬


‫باجی کہہ کر لے لیا تھا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد صدف پھر کمرے سے‬
‫نکلی اور برآمدے میں ھی کھڑی ھوکر‬
‫بولی امی آج پکانا کچھ نھی ھے‬

‫تو اسکی امی کی دوسرے کمرے سے‬


‫آواز آئی‬
‫کہ‬
‫پُتر کسے بچے نوں پیج کے ہانڈی‬
‫واسطے ُکش منگوا لے‬
‫میرے کولوں نئی جایا جانا‪،،،‬‬

‫تو صدف بولی امی‬


‫بچوں کو کیا پتہ کہ کون سی چیز سہی‬
‫ھے اور کون سے خراب آپ خود چلی‬
‫جاو‬
‫سیمے کی دکان بھی دوسرے چوک میں‬
‫ھے اور بچے اتنی دور کیسے جائیں‬
‫گے انہوں نے راستے میں ھی کھلینے‬
‫لگ جانا ھے تو بس پک گئی ہانڈی‬
‫پھر‪،،،‬‬

‫تو آنٹی پھر بولی‬

‫پُتر یاسر آگیا اے تے اونوں پیج دے او‬


‫کیڑا بچہ اے اونوں کہ اپنے چاچے دا‬
‫سائکل لے جاے‪،‬‬

‫صدف جنجھال کر بولی‬


‫اس نے پیپر کی تیاری کرنی ھے پہلے‬
‫ھی اسکو سبق یاد نھی آیا بھی لیٹ ھے‬
‫صبح اس نے پیپر دینا ھے‪ ،،،‬۔۔۔‬
‫میں صدف کی بات سن کر ہکا بکا رھ‬
‫گیا‬
‫کہ میرا کیڑا پیپر اے کل‬
‫تے کیڑا سبق یاد نئی مینوں‬
‫آنٹی آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر‬
‫نکلی‬
‫اور بولی‬
‫اک تے میرے گوڈے کم نئی کردے‬
‫اُتوں اینی دور ٹُر کے جانا پیندا اے‪،‬‬

‫میں دوپیرے تینوں کیا وی سی کے‬


‫ریڑھی والے کولوں سبزی لے لے پر‬
‫توں میری َمنیں تے فیر ناں‪،‬‬

‫تو صدف بولی اچھا کل سے لے لیا‬


‫کروں گی آج تو لے آئیں‬
‫پھر رات کو ابو بولیں گے کہ کچھ پکایا‬
‫نھی ۔۔۔‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫ال دے پیسے‬
‫تو صدف نے ہاتھ میں پکڑے پیسے‬
‫آنٹی کو پکڑا دیے اور آنٹی‬
‫پاوں رینگتی باہر کو چلی گئی‬

‫مجھے صدف پر غصہ بہت آیا کہ‬


‫کیسے وہ جھوٹ بول رھی تھی اور‬
‫بوڑھی ماں کو اس حال میں اتنی دور‬
‫بھیج رھی تھی‪ ،،،‬۔‬

‫آنٹی کے جانے کے بعد صدف بیرونی‬


‫دروازے کی طرف گئی اور‬
‫باہر گلی میں جھانک کر دروازہ بند کر‬
‫کے اندر سے کنڈی لگا دی اور آکر‬
‫ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی‬

‫تھوڑی دیر بعد صدف نے مجھے‬


‫اونچی آواز میں کہا یاسر کمرے میں‬
‫جاو اور جاکر پیٹی کے اوپر کھڑے‬
‫ہوکر چھت سے جالے اتار دو اور‬
‫نیچے کچھ سامان پڑا ھے اسکو بھی‬
‫اوپر رکھ دینا‬

‫میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور‬


‫اسے پھر چھیڑتے ھوے‬
‫اونچی آواز میں کہا اچھا باجییییی‬
‫اور جلدی سے اٹھ کر‬

‫کمرے کی طرف چلدیا‬

‫میں کمرے کی طرف جاتے سوچ رھا‬


‫تھا کہ سالی کا کیا دماغ ھے کیسی فلم‬
‫چالئی ھے اس نے ماں کو بھی بیوقوف‬
‫بنا دیا‬
‫پھر سوچا کہ تم آم کھاو بس ُگھٹلیاں مت‬
‫گنو‬

‫میں کمرے میں جاکر چارپائی پر جاکر‬


‫بیٹھ گیا مجھے سب سمجھ آگئی تھی کہ‬
‫کہاں سے جاال اتارنا ھے اور کون سا‬
‫سامان اٹھا کر اوپر رکھنا ھے‬

‫کچھ ھی دیر بعد دروازے سے صدف‬


‫اندر داخل ہوئی اور دروازہ بند کرکے‬
‫ُکنڈی لگا دی‬

‫اور دونوں ہاتھ آگے کر کے دوڑی‬


‫میری طرف آئی‬

‫میں سمجھا شاید جپھی ڈالنے کے لیے‬


‫ایسے ہاتھ کھولے باہیں میری طرف کر‬
‫کے آرھی ھی ابھی میں سوچ ھی رھا‬
‫تھا کہ‬

‫سالی نے آتے ھی دونوں ھاتھ میرے‬


‫گلے پر رکھے اور گال دباتے ھوے‬
‫مجھے پیچھے دھکیل کر چارپائی پر لٹا‬
‫کر خود میرے اوپر آگئی‬

‫میں اس کے اچانک اس حملے سے‬


‫بےخبر تھا اس لیے اسکے تھوڑے سے‬
‫زور سے میں پیچھے گر گیا‬
‫اور صدف غصے سے بولی‬

‫میں تیرا گآل ُکٹ دینا اے‬

‫اسکا سارا وزن میرے گلے پر ھی تھا‬

‫تو میرا تو سانس رکنے واال ھوگیا تھا‬


‫میری آواز نھی نکل رھی تھی اور کچھ‬
‫دیر ایسے ھی میرا گال دبا رہتا تو‬
‫واقعی میرا سانس بند ہو جانا تھا‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکی‬
‫کالئیاں پکڑی اور پورے زور سے‬
‫اسے جھٹکا دیا اور اپنا گال اسکے‬
‫ہاتھوں سے آزاد کروا لیا‬
‫اور زور زور سے کھانسنے لگ گیا‬

‫صدف میرے پیٹ کے اوپر چڑھ کر‬


‫دونوں ٹانگیں میرے اردگرد کیے بیٹھی‬
‫ھوئی تھی‬

‫صدف نے جب میری یہ حالت دیکھی‬


‫تو وہ بھی گبھرا گئی اور میرا منہ پکڑا‬
‫کر میری گالوں پر تھپکیاں دیتے ھوے‬
‫بولی‬
‫یاسر یاسر کیا ھوا ذیادہ گال دبایا گیا‬

‫میں نے غصے سے اسکا ھاتھ جھٹک‬


‫دیا‬
‫میری آنکھوں سے پانی نکلنا شروع‬
‫ھوگیا تھا‬

‫صدف کا منہ بھی رونے واال بن گیا‬


‫تھا‬

‫میں نے اسے اپنے اوپر سے دھکا‬


‫دیتے ھوے کہا اترو نیچے چھوڑو‬
‫مجھے‬
‫تو صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑ‬
‫کر چارپائی کے ساتھ لگا دیے اور پورا‬
‫زور لگا کر دبا دیے‬
‫جیسے زبردستی میری عزت لوٹنے‬
‫لگی ھو‬

‫اور صدف بولی‬


‫تم نے مجھے غصہ کیوں دالیا‬
‫میں نے کہا مجھے نھی تم سے بات‬
‫کرنی چھوڑو مجھے‬

‫اگر میں چاھتا تو ایک ھی جھٹکے سے‬


‫اس کو چارپائی سے نیچے پھینک سکتا‬
‫تھا‬
‫مگر صدف کی پھدی مارنے کا موقع‬
‫ھاتھ سے نکل جانا تھا اس لیے میں‬
‫ڈرامے کر رھا تھا‬

‫تو صدف بولی نھی چھوڑنا‬


‫کر لو جو کرنا ھے ‪،،‬‬
‫ایک تو مجھے تنگ کرتے ھو الٹا مجھ‬
‫پر رعب جھاڑتے ھو‬

‫میں نے کہا‬
‫میں نے کیا تنگ کیا ھے‬
‫تو صدف بولی تمہیں شرم نھی آتی‬
‫مجھے باجی کہتے‬
‫تو میں نے کہا اب کیا سب کے سامنے‬
‫تمہیں‬
‫صدف ڈارلنگ کہوں‬
‫تو صدف بولی‬
‫میں نے ایسا کب کہا ھے‬
‫مگر تم جس انداز سے مجھے چڑا‬
‫رھے تھے میں سب سمجھتی ھوں ۔۔‬

‫تو میں نے کہا اب اتر بھی جاو نیچے‬


‫کیوں بچے کی جان لینی ھے‬

‫تو صدف بولی آہو بچہ تے دیکھو‬

‫اس بچے نے مجھے ایک ھفتہ چارپائی‬


‫سے نھی اٹھنے دیا‬

‫آج تم سے بچو سارے حساب کتاب‬


‫چکتا کرنے ہیں‬
‫تیار ہو جاو‬

‫تو میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے‬


‫ھوے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ھوے‬
‫کہا‬

‫عالی جا معاف کردو آئیندہ غلطی نھی‬


‫ھوگی‬

‫میرا منہ دیکھ کر صدف کی ہنسی نکل‬


‫گئی‬
‫اور میری گال پر ُچٹکی کاٹ کر بولی‬
‫تجھے کچا کھا جاوں گی‬

‫میں نے کہا‬
‫عالی جا آپ کے قبضہ میں ہوں کچا کھا‬
‫لو یا پکا کہ کھالو‬
‫جیسے آپ کو بہتر لگے‬

‫تو صدگ ہنستے ھوے بولی‬


‫شکل دیکھ پیلے اپنی‬
‫آیا وڈا مغل اعظم دی اوالد‬

‫تو میں نے صدف کو اوپر سے نیچے‬


‫اتارنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے‬
‫مس نھی ھو رھی تھی‬
‫میں نے اسکی بغلوں میں گد گدی کرنی‬
‫شروع کردی تو صدف ہنستے ھوے‬
‫دُھری ھوتی میرے اوپر لیٹنے لگ‬
‫گئی‬
‫اور میں نے اسے جپھی ڈال کر‬
‫چارپائی پر سیدھا کر کے لٹا دیا اور‬
‫اسکے ساتھ لیٹ کر اسکے ہونٹوں پر‬
‫پاریاں کرنے لگ گیا‬

‫اور ایک ھاتھ سے اسکے ممے کو پکڑ‬


‫کر دبانے لگ گیا‬
‫صدف بھی میرے ہونٹوں کو چوم رھی‬
‫تھی‬

‫میں نے اسکی گال کو اپنے ہونٹوں میں‬


‫بھر کر چوسنا شروع کردیا اور اسکی‬
‫قمیض اوپر کرنے لگ گیا جس میں‬
‫صدف نے بھی گانڈ اٹھا کر میری مدد‬
‫کی اور اسکی قمیض اسکے بڑے سے‬
‫گول مٹول مموں سے اوپر کردی‬

‫اور بریزیر کے اوپر سے ھی اسکے‬


‫مموں پر ُمٹھیاں بھرنے لگ گیا‬

‫صدف کے منہ سے سسکاریاں نکل‬


‫رھی تھی‬

‫میں کبھی اسکی گالوں کو چومتا کبھی‬


‫چوستا کبھی ہلکی ہلکی کاٹی کر لیتا‬
‫جس سے صدف مذید مچلنے لگ جاتی‬

‫میں نے صدف کو الٹا ھونے کا کہا‬


‫تو صدف الٹی ھوکر لیٹ گئی‬

‫میں نے پیچھے سے قمیض مزید اونچی‬


‫کر کے اسکی گردن کے پاس کردی‬
‫اور‬
‫اسکی گانڈ کے اوپر چڑھ کر ٹانگیں‬
‫دونوں طرف کر لیں‬

‫اسکی کمر بلکل سیدھی تھی میں نے‬


‫منہ اسکی گردن کے پاس کیا اور زبان‬
‫نکال کر اسکی گردن پر پھیرنے لگ‬
‫گیا صدف سے برداشت نہ ھوا‬
‫تو اس نے سسیییییی کرتے ھو ے‬
‫چارپائی پر بچھی چادر کو اپنی دونوں‬
‫ُمٹھیوں میں بھر لیا‬

‫میرا لن بلکل تنا ھوا تھا اور صدف کی‬


‫موٹی گانڈ میں اسکی شلوار کو اندر لے‬
‫کر گھس گیا تھا اور صدف زور ذور‬
‫سے گانڈ کو بھینچ رھی تھی جس سے‬
‫میں مزے کی وادیوں میں کھوتا جارھا‬
‫تھا‬

‫میں نے زبان کی نوک کو گھماتے‬


‫ھوے اسکے کان کے پیچھے پھیرتا تو‬
‫صدف کا جسم کانپ جاتا‬

‫اور وہ مزید گانڈ کو بھیچنے لگ جاتی‬


‫اور منہ سے لمبی سی سسسکاری لیتی‬
‫سسسسسسییییی اففففففف اممممممم کی‬
‫اواز آتی‬

‫میں بھی لن کو اسکی گانڈ پر دبا رھا‬


‫تھا اور وہ بھی مزے لے لے کر اپنی‬
‫گانڈ کو بھینچ کر مجھے مزے دے‬
‫رھی تھی‬

‫میں اب تھوڑا سا اوپر ھوا اور اپنی‬


‫قمیض اوپر کر کر اپنا اگال حصہ ننگا‬
‫کیا اور پھر اپنے ننگے جسم کو اسکی‬
‫ننگی کمر کے ساتھ مال کر اسکے اوپر‬
‫لیٹ گیا اور سائڈ سے اسکی گال کو‬
‫چومتے ھوے گھسے مارنے لگ گیا‬

‫صدف میرے نیچے مچلی جارھی تھی‬

‫میں کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد‬


‫اسکے اوپر اٹھا اور اسکے پاوں کی‬
‫طرف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکی‬
‫شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچ کر‬
‫اسکی پنڈلیوں تک کر دیا‬
‫اب اسکی موٹی سے گول گانڈ میرے‬
‫سامنے‪ .‬تھی میں نے جھک کر اسکی‬
‫گانڈ کی پھاڑیوں کو چومنے لگ گیا‬

‫اور ھاتھوں سے اسکی‪ .‬گانڈ کو پکڑ کر‬


‫مٹھیوں میں بھینچنے لگ گیا‬

‫میں نے اسکی گانڈ کو کھوال تو مجھے‬


‫اسکی گانڈ کے اندر چھوٹی سی موری‬
‫نظر آئی‬
‫تو میں نے اسکی موری پر تھوک‬
‫پھینکا اور انگلی اسکی موری میں‬
‫گھسانے لگ گیا ابھی تھوڑی سی انگلی‬
‫اندر گئی تھی کہ صدف جھٹکے سے‬
‫گھوم کر سیدھی ھوگئی‬
‫اور مجھے گھور کر بولی‬
‫بے شرم انسان یہ کیا کر رھے ھو‬
‫تو میں نے کہا پیار کررھا ھوں‬
‫تو وہ بولی‬
‫تمہارا سارا پیار اندر کر کے ھی ھوتا‬
‫ھے‬

‫نے کہا میرے شونے پیار کا ‪.‬تو میں‬


‫ثبوت اندر کرکے ھی دیا جاتا ھے‬
‫تو صدف بولی مجھے نھی چاھیے ایسا‬
‫ثبوت اور یہ کہہ کر وہ سیدھی لیٹ گئی‬

‫صدف کی پھدی میرے سامنے تھی جس‬


‫پر ہلکے ہلکے بال تھے‬

‫میں نے پھدی پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا‬


‫کہ‬
‫یہ بال کیسے اگ آے اس دن تو نھی‬
‫تھے‬

‫تو صدف بولی شرم نھی آتی گندی باتیں‬


‫کرتے ھو ے‬
‫میں نے اپنی چاروں انگلیاں اسکی ناف‬
‫کے نیچے رکھی اور انگھوٹھے کو‬
‫پھدی کے اوپر کر کے انگھوٹے سے‬
‫پھدی کے دانے کو مسلنے لگ گیا‬

‫صدف ایک دم اوپر کو اچھلی اور لمبی‬


‫سی‪ .‬سسسسکاری بھری‬
‫اور مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا‬

‫میں ایک ھاتھ سے صدف کے دانے کو‬


‫مسلنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے‬
‫اسکے مموں سے بریزیر اوپر کیا اور‬
‫اسکے گول مٹول مموں کو پکڑ کر‬
‫دبانے لگ گیا‬

‫صدف بولی جلدی کرو امی نے آجانا‬


‫ھے‬

‫تو میں نے کہا کر تو رھا ہوں‬

‫تو وہ بولی زیادہ شوخے مت بنو جلدی‬


‫کرو‬
‫امی آگئی نہ تو پھر نہ کہنا مجھے‬

‫میں اسکی بات سمجھتے ھوے جلدی‬


‫سے آگے کو کھسکا اور اپنے لن کو‬
‫تھوک سے اچھی طرح گیال کر نے لگ‬
‫گیا‬

‫اور صدف کی پھدی تو پہلے ھی گیلی‬


‫تھی اسکی پھدی کے بالوں پر پانی‬
‫چمک رھا تھا‬

‫میں نے اسکی ٹانگوں کو کھوال اور‬


‫جیسے ھی لن اسکی پھدی کے لبوں پر‬
‫رکھ کر دبانے لگا تو صدف نے میرے‬
‫پیٹ پر ھاتھ‪ .‬رکھ لیا اور کہنے لگی‬
‫یاسر پلیز آرام سے کرنا‬
‫میں نے ہلکا سا اندر پُش کیا تو لن کا‬
‫ٹوپا اسکی‪ .‬پھدی میں ُگھس گیا‬
‫صدف نے ہلکی سی سسسسیییی کی اور‬
‫مجھے کہا‬
‫ہولی‬
‫میں نے لن کو آہستہ آہستہ اندر کی‬
‫طرف دھکیلنا شروع کردیا‬
‫صدف کافی حد تک لن کو برداشت کر‬
‫رھی تھی‬

‫لن پانچ انچ اندر چال گیا تھا تب صدف‬


‫نے ادھر ادھر سر مار کر میرے پیٹ‬
‫پر ہاتھ رکھے مجھے رکنے کا کہا تو‬
‫میں وہیں رک گیا اور لن کو پیچھے لے‬
‫آیا اور پھر آہستہ آہستہ اندر کی طرف‬
‫کرتا گیا صدف نے پھر مجھے روک دیا‬
‫اور مجھے کہا یاسر بس اتنا ھی کرتے‬
‫رھو‬

‫میں لن کو باہر کی طرف آرام آرام سے‬


‫لے جاتا اور پھر اسی سپیڈ سے اندر کر‬
‫دیتا‬

‫کچھ دیر ایسے ھی سلوموشن گھسے‬


‫مارتا رھا‬
‫صدف کی پھدی کافی گیلی ھوتی‬
‫جارھی تھی‬

‫میں نے جب دیکھا کہ صدف اب‬


‫انجواے کررھی ھے اور سسسکیاں لے‬
‫رھی ھے‬

‫تو میں ہر گھسے کے ساتھ لن مزید‬


‫آگے کر نا شروع کر دیا‬

‫یہاں تک کہ میرا لن صدف کی پھدی‬


‫میں جڑ تک چال گیا‬

‫اور صدف نے بھی پورا لن لے کر‬


‫اوکے کا سگنل اپنی مستی بھری‬
‫آوازوں سے دے دیا‬

‫میں اب لن کو پورا باہر کھینچتا صرف‬


‫ٹوپا ھی اندر رھنے دیتے اور پھر‬
‫جھٹکے سے لن اندر کردیتا اور صدف‬
‫ساتھ ھی‬
‫کہتی ھاےے مرگئی آرام نال‬

‫میں ایسے ھی کرتا رھا‬


‫صدف بھی اب میرا ساتھ دی رھی تھی‬

‫وہ بھی لن اندر جاتے سسکاریاں بھر‬


‫رھی تھی‬
‫میں نے اب مسلسل دھکے مارنے‬
‫شروع کردیے اور گھسوں کی سپیڈ تیز‬
‫کر دی میں جیسے جیسے گھسہ مارتا‬
‫صدف کے ممے ویسے ویسے اوپر کو‬
‫جاتے میرےگھسوں اسکے ہلتے ممے‬
‫دیکھ کر مجھے اور جوش چڑھتا‬
‫اور میں مزید گھسا زور کے مارتا‬

‫صدف بھی ھاےےےےےے مرگئی‬


‫اففففففف ھاےےےےےے کی اواز‬
‫نکال میرے مزے کو دوباال کررھی‬
‫تھی‬

‫صدف کی پھدی نے اب میرے لن کو‬


‫راستہ دے دیا تھا میرا لن فراوانی سے‬
‫اندر باھر ھو رھا تھا‬

‫صدف نے میرے چہرے کو اپنے‬


‫ھاتھوں پکڑ لیا اور میرے ہونٹو ں کو‬
‫اپنے ہونٹوں لے کر زور زور سے‬
‫چوسنے لگی اور نیچے سے گانڈ اٹھا‬
‫اٹھا کر لن پورا اندر تک لینے کی‬
‫کوشش کرتی لن اسکی بچے دانی سے‬
‫ٹکرا رھا تھا‬
‫کہ اچانک صدف نے اپنے دونوں‬
‫ٹانگوں کو میری کمر کے گرد لپیٹ لیا‬
‫اور پیروں کی مدد سے شکنجہ بنا کر‬
‫میری کمر کو اپنی ٹانگوں میں بھینچ لیا‬
‫اور گانڈ کو پورا اوپر کر کے میرا لن‬
‫اندر لے لیاب‬
‫میں بھی مسلسل گھسے ماری جارھا تھا‬
‫اسکے ممے میرے سینے میں دبے‬
‫ھوے تھے اور میرے ہونٹ اسکے‬
‫ہونٹوں میں تھے‬

‫کہ اچانک صدف کی ٹانگوں کی گرفت‬


‫میری کمر کے گرد مزید سخت ھوتی‬
‫گئی اور اسکی سانسیں اکھڑنا شروع‬
‫ھوگئی اور اس نے اپنی گانڈ کو زور‬
‫زور سے اوپر نیچے کرنے لگ گئی‬
‫پھر ایکدم صدف نے ہلکی سی چیخ‬
‫ماری آئیییییییی امممممممممم میییییی‬
‫گگگگئییییییی‬
‫اور ساتھ ھی صدف نے پورے زور‬
‫سے گانڈ اٹھا کر پھدی کے اندر میرے‬
‫لن کو پورا نگل لیا اور اسکی پھدی‬
‫سے گرم گرم الوا اگلنا شروع ھوگیا‬
‫صدف نے میرے سر کے بالوں کو بہت‬
‫بری طرح دبوچا ھوا تھا‬

‫اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬

‫میں کچھ دیر ایسے ھی رکا رھا‬

‫پھر صدف نے جسم ڈھیال چھوڑ دیا اور‬


‫میری کمر کو بھی اپنی ٹانگوں سے‬
‫آزاد کردیا‬

‫میں نے پھر گھسے مارنے شروع‬


‫کردیے اب اسکی پھدی اور زیادہ گیلی‬
‫ھوچکی تھی اور لن بھی ِچپ ِچپ کر‬
‫رھا تھا‬

‫اور کمرے میں دھپ دھپ پُچ ُپچ کی‬


‫آواز گونج رھی تھی‬

‫کچھ دیر بعد مزے نے شدت پکڑی اور‬


‫مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی‬
‫محسوس ھوئی تو میں جھٹکے تیز‬
‫کردیے اب میرے جھٹکے اتنے شدید‬
‫تھے کے چارپائی نے بھی اب چوں‬
‫چوں ک‬
‫کر کے احتجاج رکارڈ کروانا شروع‬
‫کردیا‬
‫پھر میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا‬
‫اور لن کو پکڑ کر اسکی پھدی کے‬
‫اوپر کردیا میرے لن سے منی کی‬
‫بارش صدف کی پھدی پر‬
‫پڑنے لگ گئی اور میں لن کو اسکی‬
‫پھدی کے اوپر دبا کر صدف کے اوپر‬
‫لیٹ گیا‬
‫ابھی میری سانسیں بھی درست نھی‬
‫ھوئی تھی‬

‫کہ‬
‫کمرے کے دروازے کو کسی نے زور‬
‫زور سے بجانا شروع کردیا‬
‫میری تو جان ہلک میں اٹک گئی میں‬
‫جمپ مار کر چار پائی سے اترا اور‬
‫صدف نے بھی جلدی سے اٹھنے کی‬
‫کوشش کی کہ اچانک باہر‬
‫سے؟؟؟؟؟؟اچانک باہر دروازے سے‬
‫ایک بچی کے رونے کی آواز آئی‬
‫تو صدف نے پوچھا کیا تکلیف ھے تو‬
‫بچی نے روتے ہوے کہا‬
‫ساجد ماری جارھا ھے‬

‫تو صدف بولی چلو دفع ہو جاو ادھر‬


‫جاکر بیٹھو میں آکے پوچھتی ہوں اسے‬

‫تو بچی کے رونے کی آواز دور ہوتی‬


‫گئی‬
‫میری جان میں جان آئی اور صدف بھی‬
‫ریلکس ھوگئی‬

‫ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور صدف‬


‫نے جلدی جلدی چارپائی کی چادر‬
‫اکھٹی کی اور اسکی جگہ دوسری چادر‬
‫بچھا دی‬

‫میں نے پوچھا صدف مزہ آیا تو وہ بولی‬


‫مزے کے بچے میں پہلے باہر جاتی‬
‫ھوں تم تھوڑی دیر کے بعد آجانا‬
‫اور یہ کہہ کر صدف باہر چلی گئی میں‬
‫بھی کچھ دیر بعد باہر جاکر بیٹھ گیا شام‬
‫کافی ڈھل چکی تھی ہلکا ہلکا اندھیرا‬
‫ہونا شروع ھوگیا تھا‬

‫دوستو‬
‫اسد کی دوستی نے مجھے پھدی پاڑ‬
‫مرد بنا دیا تھا‬
‫میرا تجربہ اور ناولج میری عمر سے‬
‫بڑھ کر ھوگیا تھا‬
‫جو تھوڑی بہت جھجک تھی وہ عظمی‬
‫اور صدف کی پھدی مارنے کے بعد اتر‬
‫گئی تھی‬
‫بلیو فلم سے میں نے بہت کچھ سیکھ لیا‬
‫تھا اور سیکسی رسالوں سے سب‬
‫سیکسی پوز ذہن نشیں کر چکا تھا‬
‫میرا رنگ پہلے ھی بہت سفید تھا اور‬
‫اب ہلکی ہلکی مونچھیں اور ٹھوڑی پر‬
‫ہلکے ہلکے ڈاڑھی کے بال بھی آنا‬
‫شروع ھوگئے تھے‬
‫اور میرا قد پہلے ھی عمر کے حساب‬
‫سے لمبا تھا اور ان دو سالوں میں مزید‬
‫لمبا ہوچکا تھا‬

‫مطلب کہ اب میں ایک خوبرو جوان کی‬


‫شکل اختیار کر چکا تھا‬
‫دماغ سے بچپنے نے نکل کر سیکس‬
‫نے جگہ بنا لی تھی‬

‫مجھے جب بھی موقع ملتا‬


‫کبھی عظمی کی پھدی بجا دیتا کبھی‬
‫صدف کی‬

‫ہر وقت بس دماغ میں پھدی پھدی پھدی‬


‫اور بس پھدی ھی رہتی‬

‫ہر آتی جاتی آنٹی یا لڑکی کے مموں کو‬


‫تاڑنا پیچھے سے گانڈ کو گھورنا‬
‫میری عادت بن چکی تھی‬
‫آٹھویں کالس کے پیپر شروع ھوے تو‬
‫مجھے ٹائی فیڈ بخار ھو گیا‬

‫جس کی وجہ سے میں پیپر نھی دے‬


‫سکا اور گھر والوں سے بھی ضد کی‬
‫کے میں نے اب نھی جانا سکول مجھے‬
‫مار بھی پڑی پیار سے بھی سمجھایا‬
‫گیا‬

‫مگر پتہ نھی کیوں میرے دماغ میں بس‬


‫اب ایک ھی بات بیٹھ گئی تھی‬
‫کہ میں نے کپڑے کا کام سیکھنا ھے‬

‫ہماری گلی میں ایک سجاد نامی آدمی‬


‫تھا جس کی شہر میں کپڑے کی دکان‬
‫تھی‬

‫میں نے ضد کی کہ مجھے اسکی دکان‬


‫پر چھوڑ دیا جاے‬

‫گھر والوں نے بھی میری ضد کہ آگے‬


‫ہار مان لی اور میرے بڑے بھائی نے‬
‫ابو کو سمجھایا کہ ایسے یہ آوارہ پھرے‬
‫یا تو اسے میرے ساتھ پنڈ میں ھی‬
‫کریانے کی دکان پر بیٹھا دو یا پھر‬
‫اسے شہر سجاد کی دکان پر چھوڑ دو‬
‫ایک دو دن بعد مجھے سجاد نامی انکل‬
‫کے پاس ابو چھوڑ آے‬
‫عظمی اور نسرین اب آٹھویں کالس میں‬
‫ھوچکی تھی‬

‫میں انکے ساتھ اب بھی شہر جاتا تھا‬


‫پہلے انکو سکول چھوڑتا پھر ادھر سے‬
‫ھی دکان پر چال جاتا تھا‬
‫دوستو جمعہ کا دن تھا‬
‫اور میں گھر پر ھی تھا کہ باہر کا‬
‫دروازہ کھڑکا تو امی نے کہا کہ‬
‫یاسر پتر باھر دیکھ کون ھے‬
‫تو میں نے جیسے ھی دروازہ کھوال تو‬
‫میرا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا سانس‬
‫نیچے رھ گیا‬
‫اور میں‬
‫اسد کو دیکھ کر ہکا بکا رھ گیا‬

‫اور میں کبھی اسکی طرف دیکھتا کبھی‬


‫اسکی کار کی طرف دیکھتا‬
‫اچانک کار کا دروازہ ُکھال اور اس میں‬
‫وہ حسینہ بلیک گالسس پہنے نکلی‬
‫جسے صرف دیکھ کر ھی میری‬
‫سانسیں رک جاتی تھی جو حسن کا ایک‬
‫مجسمہ تھا‬
‫جسکی تعریف شروع کردیں تو الفاظ کم‬
‫پڑ جاتے تھے‬

‫اسد نے مجھے یوں حیران پریشان‬


‫ھوتے دیکھ کر کہا‬

‫بے وفا جھوٹے سکول چھوڑ کر مجھے‬


‫بھول ھی گیا تھا‬

‫تو میں نے آگے بڑھ کر اسے کس کر‬


‫جپھی ڈال لی اور کافی دیر ایک‬
‫دوسرے کے گلے لگ کر گلے شکوے‬
‫کرتے رھے‬

‫اس دوران مہری چلتی ھوئی ہمارے‬


‫پاس آگئی تھی اور بڑے غور سے‬
‫مجھے دیکھے جارھی تھی‬
‫مہری نے پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا‬
‫تھا اور سفید شلوار اور سفید ھی دوپٹہ‬
‫تھا‬
‫اور اسکے گورے رنگ پر بہت ھی‬
‫جچ رھا تھا‬
‫وہ کسی پری سے کم نھی لگ رھی‬
‫تھی حسن کی ساری تعریفیں اس پر تمام‬
‫شد تھیں‬

‫اسے اچانک اپنے غریب خانے پر دیکھ‬


‫کر مجھے شعر یاد آگیا‬
‫جسکو دل ھی دل میں کہہ دیا‬
‫کہ‬
‫وہ آے ہمارے گھر خدا کی قدرت‬
‫کبھی انکو دیکھتے ہیں تو کبھی اپنے‬
‫گھر کو‬

‫میں نے مہری کو غور سے دیکھتے‬


‫ھوے سالم کیا تو میں یہ دیکھ کر‬
‫حیران رھ گیا کے اس نے میرے‬
‫سامنے ھاتھ کر دیا سالم لینے کے لیے‬
‫تو میں نے جھجکتے ھوے اسکے ساتھ‬
‫ہینڈ شیک کیا‬
‫اور انکو اندر لے آیا‬
‫امی‬
‫ان دونوں کو دیکھ کر حیران پریشان‬
‫کھڑی کبھی انکو دیکھتی کبھی میری‬
‫طرف دیکھتی‬
‫میں نے امی سے دونوں کا تعارف‬
‫کروایا تو امی نے اسد کے سر پر پیار‬
‫دیا اور مہری کا آگے بڑھ کر ماتھا‬
‫چوما اور دعائیں دینے لگ گئی‬

‫امی مہری کو اندر کمرے میں لے گئی‬


‫جہاں میری بہن نازی تھی‬
‫اور میں اسد کو لے کر اپنی بیٹھک میں‬
‫آگیا‬
‫میں اندر اندر سے اپنے گھر کی‬
‫پوزیشن اور اسد کے سٹیٹس کا موازنہ‬
‫کر کے شرمندہ ہو رھا تھا۔‬

‫اسد نے بھی میری احساس کمتری کو‬


‫نوٹ کر لیا تھا‬

‫۔اسد کو بیٹھک میں الکر میں نے‬


‫چارپائی کی چادر کو جھاڑا اور دوبارہ‬
‫چارپائی پر بچھا دیا‬
‫اور اس کی طرف شرمندگی سے‬
‫دیکھتے ھوے کہا کہ یار ہم تو غریب‬
‫لوگ ہیں اور ہمارا غریب خانہ بھی ہم‬
‫جیسا ھی ھے‬
‫تو اسد نے مجھے تھپڑ مارتے ہوے کہا‬
‫شرم کر یار‬
‫انسان کا دل امیر ہونا چاھیے‬
‫آئیندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ تیری‬
‫میری دوستی ختم سمجھ‬
‫اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگا‬
‫میں نے تجھ سے یاری صرف تمہارے‬
‫سادے پن اور دل کے صاف ھونے کی‬
‫وجہ لگائی ھے‬
‫ورنہ شہروں میں دوستوں کی کمی‬
‫نھی‬

‫اب کبھی یہ امیری غریبی کا فرق نہ‬


‫مجھے بتانا‬
‫یہ میرا ھی گھر ھے سمجھے‬

‫ایسی کافی باتیں کر کے اس نے میری‬


‫کمتری دور کردی اور چھالنگ لگا کر‬
‫چارپائی پر چڑھ کر بیٹھ گیا‬
‫اور چارپائی پر ھاتھ مار کر بوال چل‬
‫آجا میرے پاس ادھر بیٹھ‬
‫میں نے کہا تم بیٹھو میں ابھی آیا‬
‫تو اسد نے مجھے آواز دی کدھر‬
‫جارھے ہو تو میں نے کہا‬
‫یار کچھ ٹھنڈا لے آوں‬
‫تو اسد بوال یار ہم گاوں بوتلیں نھی پینے‬
‫آے‬
‫ایسا کر لسی لے آ‬

‫میں نے ہنس کر کہا ابے تو لسی پیے‬


‫گا‬
‫تو اسد بوال‬
‫کیوں لسی انسان نھی پیتے کیا‬

‫تو میں نے کہا یار تم نے پہلے کبھی پی‬


‫نھی نہ اس لیے کہہ رھا ھوں‬
‫تو اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫اسی لیے تو کہہ رھا ھوں کہ لسی لے‬
‫آ‬
‫پہلے کبھی پی نھی نہ تو میں ہمممم کہہ‬
‫کر گھر میں چال گیا‬
‫اور سیدھا آپی کے کمرے میں گیا جہاں‬
‫مہری اور امی بھی تھی‬
‫تو میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ‬
‫مہری بلکل دیسی انداز میں چارپائی پر‬
‫چونکڑی مار کر بیٹھی تھی اور آپی‬
‫سے ایسے ہنس ہنس کر باتیں کررھی‬
‫تھی جیسے پتہ نھی کتنی پُرانی دوست‬
‫ھو‬

‫مہری کو یوں دیکھ کر میری ہنسی نکل‬


‫گئی‬

‫تو آپی مجھے گھورتے ھوے بولی‬


‫تیرے کیوں دند نکلن دے نے‬
‫تو میں نے اسکی بات کو نظر انداز‬
‫کرتے ھوے امی کو باہر آنے کا کہا‬

‫امی باہر آئی‬


‫تو میں نے کہا لسی ٹھنڈی کر دو‬
‫تو امی حیران ہوتے ھوے بولی لسی‬
‫کی کرنی اے‬

‫میں نے کہا اسد نے پینی ھے‬


‫تو امی غصے سے بولی‬
‫پیلی واری پرونے آے نے تے توں‬
‫اوناں نو لسی پالویں گا‪،،،‬‬
‫‪ ،‬جا پج کے جا تے ویرے(‪.‬میرا بڑا‬
‫بھائی) دی دکان تو شیزان تے پیپسی دی‬
‫بوتل پھڑ لیا‬

‫میں نے امی کو کہا کہ میں بوتلیں ھی‬


‫لینے جارھا تھا‬
‫لیکن اسد نے منع کردیا کہ ہم گاوں لسی‬
‫پینے آے ہیں بوتلیں نئی‬
‫اتنے میں اندر سے مہری بھی نکل آئی‬
‫اور وہ بھی لسی کا ھی اصرار کرنے‬
‫لگ گئی‬
‫می نے جلدی جلدی لسی ٹھنڈی کی اور‬
‫دو بڑے بڑے پیتل کے گالسوں میں ڈال‬
‫کر‬
‫سٹیل کی ٹرے میں رکھ کر مجھے پکڑا‬
‫دئے اور آپی مہری کے لیے جگ میں‬
‫ڈال کر اور سٹیل کے گالس لے کر‬
‫اندر چلی گئی‬

‫میں نے اسد کے سامنے ٹرے کی تو وہ‬


‫بڑی حیرانگی سے اتنے لمبے لمبے‬
‫گالسوں کو دیکھنے لگ گیا‬

‫پھر اس نے ایک گالس اٹھا‬


‫اور پہلے ایک گھونٹ پیا اور مزے‬
‫سے کہا واہ یار بڑی مزے کی ھے‬
‫لسی‬
‫اور پھر ایک ھی دفعہ گالس کو منہ لگا‬
‫کر ساری لسی ختم کردی میں ابھی‬
‫دوسرا گالس ٹرے میں رکھے ھی کھڑا‬
‫تھا تو اسد نے دوسرا گالس بھی اٹھا لیا‬
‫اور میری طرف دیکھتے ھوے شرارت‬
‫سے کہا‬
‫پلیز ڈونٹ مائینڈ‬
‫اور دوسرے گالس کو بھی خالی کر‬
‫کے ٹرے میں رکھ دیا اور بوال‬
‫تھینکس‬
‫یار پہلی دفعہ اتنا مزہ آیا ھے واہ واقعی‬
‫یار لسی پنڈ کی سوغات ھے‬

‫میں ہنسنے لگ گیا اور مزاق میں اسے‬


‫کہا‬

‫ماما میری وی پی گیاًں اے‬


‫تو وہ قہقہ مار کر ہنس پڑا اور بولی‬
‫اتنے مزے کی چیز بھی کوئی چھوڑتا‬
‫ھے‬
‫۔۔‬
‫ایسے ھی ہم کافی دیر ہنس ہنس کر‬
‫باتیں کرتے رھے‬
‫اور پرانی یادیں تازہ کرتے رھے‬

‫اسد نے مجھے پڑھائی چھورنے کی‬


‫وجہ پوچھی تو میں نے اسے کپڑے کی‬
‫دکان پر کام سیکھنے اور وہاں پر آنے‬
‫والی رنگ برنگی تتلیوں کا بتایا‬
‫تو اسد نے پوچھا کون سے بازار میں‬
‫دکان ھے تو میں نے بتایا کہ کارخانے‬
‫بازار میں تو اسد حیرانگی سے بوال‬
‫یار ادھر ھی تو میری ماما کی بوتیک‬
‫ھے‬

‫تو میں ایکدم حیران ھوکر بوتیک کی‬


‫لوکیشن پوچھنے لگ گیا‬
‫مجھے یاد آیا کہ آنٹی نے مجھے اپنی‬
‫بوتیک کا کارڈ بھی دیا تھا‬
‫مگر پتہ نھی وہ کارڈ مین کدھر رکھ‬
‫بیٹھا تھا اس لیے میرے ذہن سے آنٹی‬
‫کے بوتیک کا نکل گیا تھا‬
‫ورنہ انکی بوتیک ہماری دکان سے‬
‫کچھ ھی دور ایک مارکیٹ کے اندر‬
‫تھی‬

‫میں اور اسد باتیں ھی کررھے تھے کہ‬


‫مہری اندر داخل ھوئی اور بڑی شوخی‬
‫سے بولی‬
‫اگر جناب کی باتیں ختم ھوگئی ھوں تو‬
‫مجھے گاوں کی سیر کرنی ھے‬

‫تو اسد بوال چل یار اس نے میری جان‬


‫کھائی ھوئی تھی کہ میں‪ .‬نے گاوں‬
‫دیکھنا ھے‬

‫آج بڑی مشکل سے ماما سے اجازت لی‬


‫تھی‬
‫وہ بھی تمہارے گاوں اور سے ملنے‬
‫کی وجہ سے اجازت ملی ورنہ مما‬
‫کبھی بھی ہمیں نھی آنے دیتی‬

‫اور ہاں مما نے شکوہ بھی کیا ھے کہ‬


‫تم گھر بھی نھی آے اور بوتیک پر بھی‬
‫نھی‬

‫خیر ہم تینوں گھر سے نکل آے اسد بوال‬


‫گاڑی میں چلیں تو مہری بولی‬
‫نھی میں نے پیدل ھی جانا ھے‬

‫تو میں نے بھی اسد کو کہا ماما کھیتوں‬


‫میں کار چالے گا‬

‫تو اسد شرمندہ سا ہوگیا‬

‫اور ہم کھیتوں کی طرف چل دیے‬


‫آتے جاتے لوگ اسد اور خاص کر‬
‫مہری کو ایسے دیکھ رھے تھے جیسے‬
‫یہ انسان نھی کوئی خالئی مخلوق ھو‬

‫میں نے مہری سے پوچھا کہ پہلے‬


‫کھیت دیکھنے ہیں یا پھر امرود اور‬
‫مالٹوں کے باغ‬

‫تو مہری جھٹ سے بولی‬


‫سب کچھ دیکھنا ھے‬

‫تو میں نے کہا کھیت سامنے ہیں اور‬


‫باغ ٹرین کی پٹری کے اس پار ہیں‬
‫تو مہری بولی چلو پہلے باغ میں چلتے‬
‫ہیں تو‬
‫میں انکو لے کر پٹری کی طرف چل‬
‫دیا‬
‫میری نے بلیک سن گالسس لگاے ھوے‬
‫تھے‬
‫وہ کسی میم سے کم نھی لگ رھی تھی‬

‫تھوڑا آگے جاکر کچی جگہ شروع ھو‬


‫جاتی تھی‬
‫جس میں کافی مٹی تھی‬
‫جب ہم کچی جگہ سے گزرنے لگے تو‬
‫مہری نے اپنی شلوار پنڈلیوں سے اوپر‬
‫کو کرلی تاکہ مٹی نہ لگے اور وہ‬
‫شلوار کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر‬
‫چل رھی تھی‬
‫جب ہم پٹری کے قریب پہنچے اسد دوڑ‬
‫کر پٹری کے اوپر چڑھ گیا اسکے‬
‫پیچھے ھی مہری دوڑتی ھوئی پٹری‬
‫کے اوپر چڑھ گئی‬

‫جب مہری پٹری کے اوپر چڑھ رھی‬


‫تھی تو چڑھائی چڑھتے وقت اسکی‪.‬‬
‫گول مٹول گانڈ باہر کو نکل آئی‬
‫اور بڑا ھی دلکش سین میری آنکھوں‬
‫کو دیکھنا نصیب ھوا‬

‫مہری پٹری پر چڑھ کر بہت خوش‬


‫ھورھی تھی اور چاروں طرف بڑے‬
‫غور سے دیکھ دیکھ کر ُکھلے ماحول‬
‫کو انجواے کر رھی تھی‬

‫میں سوچ رھا تھا کہ انسان کی بھی‬


‫عجیب نفسیات ھے‬
‫پینڈو شہر کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں‬
‫اور‬
‫شہری پنڈ کو دیکھ کر خوش ھوتے ہیں‬

‫اتنے میں‬
‫میں بھی انکے پاس پہنچ گیا‬
‫اور انکو بتانے لگ گیا کہ وہ سامنے‬
‫باغ ہین اور اسطرف فالں فالں چیز کے‬
‫درخت ہین‬
‫میں انکو ایک ایک چیز درختوں پودوں‬
‫کے نام بتاتا جارھا تھا کہ یہ کیسے‬
‫اگتے ہین کیسے انکی کاشت ہوتی ھے‬
‫کب کٹائی ھوتی ھے‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم باغ میں‬
‫پہنچ گئے تھے‬

‫اس دوران اسد کے سامنے ھی مہری‬


‫میرے ساتھ کافی حد تک فرینک ھو‬
‫چکی تھی‬
‫اور کبھی وہ میرے کندھے پر ھاتھ رکھ‬
‫کر باتیں کرتی کبھی ہنستے ہنستے‬
‫میرے ہاتھ پر ھاتھ مارتی‬
‫اور میں حیران تھا کہ اسد کو ذرہ بھی‬
‫بُرا نھی لگ رھا تھا‬
‫کافی بولڈ قسم کے واقعہ ھوے دونوں‬
‫بہن بھائی‬

‫ورنہ ہمارے ماحول میں تو ویسے ھی‬


‫کسی انجان سے بات کرنے‪ .‬یا فری‬
‫ھونے پر لڑکی کو کاٹ دیا جاتا تھا‬

‫مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا‬

‫باتوں باتوں میں‪ .‬میں نے نوٹ کیا کہ‬


‫کافی دفعہ مہری نے مجھے یار کہہ کر‬
‫مخاطب کیا تھا‬

‫ہم باغ میں پہنچے‬


‫باغ کے مالک کا بیٹا میرا دوست ھی‬
‫تھا‬
‫میں پہلے اس سے مال اور اسے بتایا کہ‬
‫شہر سے میرے مہمان آے ہیں‬
‫انکو باغ دیکھنا‪ .‬ھے تو اس نے خوشی‬
‫خوشی اجازت دی کہ یار تمہارے نھی‬
‫ہمارے مہمان ہیں جیسے مرضی‬
‫گھومیں جو دل کرے توڑ کر کھائیں‬
‫میں نے اسکا شکریہ ادا کیا‬
‫اور ہم باغ میں داخل ھوگئے‬
‫مہری بڑی خوش نظر آرھی تھی وہ باغ‬
‫میں چلتے چلتے کبھی بازوں کو اٹھا‬
‫کر گھومتی کبھی پودوں کے پتوں کو‬
‫توڑتی وہ پورا انجواے کر رھی تھی‬

‫ایک جگہ جا کر مہری بولی میں نے‬


‫امرود کھانے ہیں تو میں نے کہا میں‬
‫توڑ دیتا ہوں تو وہ بولی نھی میں نے‬
‫خود توڑنے ہیں تو میں نے کہا توڑ لو‬
‫کس نے روکا ھے‬

‫تو وہ امرود توڑنے لگی‬


‫اسد بوال یار مجھے پیشاب بہت تیز آیا‬
‫ھے تو میں نے کہا یہیں کرلو ایک سائڈ‬
‫پر تو وہ بولی یار چھوٹا نھی بڑا پیشاب‬
‫آیا ھے‬
‫تو میں نے کہا یار‬
‫چلو پھر گھر چلتے ہیں تو مہری کہنے‬
‫لگی نھی ابھی تو میں نے پورا باغ‬
‫دیکھنا ھے اسے جانا ھے تو چال جاے‬

‫تو میں نے بےچارگی سے اسد کی‬


‫طرف دیکھا کہ اب کیا کیا جاے تو اسد‬
‫بوال تم مہری کو باغ دیکھاو‬
‫میں گھر سے پیشاب کر کے آجاتا ھوں‬
‫تو میں نے کہا یار یہ مناسب نھی‬
‫تو وہ بوال‬
‫یار میری نکلنے والی ھوئی ھے‬
‫تم مہری کو باغ دیکھاو میں نے بس آن‬
‫جان کرنا ھے‬

‫اور یہ کہتے ھوے وہ بھاگ کر پٹری‬


‫کی طرف چال گیا‬

‫اور میں حیران پریشان کھڑا اسے جاتا‬


‫دیکھتا رھا‬

‫تو مہری نے مجھے بازو سے ہالیا اور‬


‫بولی کم ان یار جانے دو اسے آجاے گا‬
‫بچہ تو نھی جو گم ھو جاے گا‬
‫تو میں مہری کی طرف متوجہ ھوگیا‬
‫ہم چلتے چلتے باغ کے کافی اندر پہنچ‬
‫گئے تھے‬

‫ایک درخت کے پاس کھڑے ہوکر‬


‫مہری بولی یاسر وہ دیکھو کتنا پیارا‬
‫سرخ امرود لگا ھے تو میں جمپ مار‬
‫کر توڑنے لگا تو مہری نے مجھے‬
‫بازو سے پکڑ کر توڑنے سے منع‬
‫کرتے ھوے کہا‬
‫او نو یار اسے میں نے اپنے ہاتھ سے‬
‫توڑنا ھے‬

‫دوستو پہلے بھی مہری نے مجھے ٹچ‬


‫کیا تھا مگر اب جیسے ھی اس نے‬
‫میرے بازو کو پکڑا تو اس کے نازک‬
‫ہاتھ کے لمس سے میرے جسم میں‬
‫کرنٹ سا دوڑنے لگا شاید یہ خلوت میں‬
‫اتنی قربت کا نتیجہ تھا کہ میری یہ‬
‫حالت ھوگئی‬

‫میں نے کہا مہری وہ امرود اونچا ھے‬


‫تمہارا ہاتھ نھی پہنچنا‬
‫میں توڑ دیتا ھوں تو وہ بچوں کی طرح‬
‫اچھل اچھل کر کہنے لگی مجھے نئی‬
‫پتہ میں نے وہ اپنے ہاتھ سے توڑنا‬
‫ھے‬
‫جیسے مرضی کرو مجھے وہ امرود‬
‫توڑنا ھے‬

‫تو میں نے جان چھڑواتے ھوے کہا کہ‬


‫پھر میں تمہیں اٹھا لیتا ھوں اور تم توڑ‬
‫لینا‬

‫میں نے تو اس لیے کہا تھا کہ مہری‬


‫ایسا کرنے سے انکار کردے گی اور‬
‫میری جان چھوٹ جاے گی‬

‫مگر مہری نے جب کہا کہ‬


‫ُگڈ آئڈیا یار‬
‫یور آر ُگڈ بوائے‬
‫کم آن یار‬
‫یہ سنتے ھی میرے طوطے اڑ گئے کہ‬
‫اگر اسد نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے‬
‫گا کہ تم نے میری ھی بہن پر ٹرائیاں‬
‫مارنی شروع کردی‬

‫پھر سوچا وہ تو ابھی گیا ھے اسے آتے‬


‫بھی آدھا گھنٹہ لگ جانا ھے‬

‫میں نے ڈرتے ڈرتے مہری کے پاس‬


‫گیا اور اسکے سامنے نیچے بیٹھ کر‬
‫اسکی دونوں ٹانگوں کے گرد اپنے بازو‬
‫کیے اور ٹانگوں کو کس کے جپھی ڈال‬
‫کر اسکو اوپر اٹھا لیا‬
‫مہری کا وزن کافی تھا میں نے اسکو‬
‫اٹھا تو لیا مگر مجھ سے سہی طرح‬
‫کھڑے نھی ھوا جارھا تھا‬
‫مہری‪ .‬بھی کبھی دائیں طرف جھکتی‬
‫کبھی بائیں طرف‬
‫تو مہری بولی ایسے میں گر جاوں گی‬
‫سہی طرح تو اٹھاو تو میں نے اپنے‬
‫بازوں کو تھوڑا ڈھیال کیا تو مہری‬
‫میرے بازوں کے احسار میں کھسکتی‬
‫میرے ساتھ جڑی نیچے کی طرف‬
‫آگئی‬
‫مہری جیسے جیسے نیچے آرھی تھی‬
‫تو میرے ہاتھ پہلے اسکی رانوں پر آے‬
‫پھر وہ اور نیچے آئی تو میرے ھاتھ‬
‫جیسے ھی اسکی گانڈ پر آے تو مجھے‬
‫چالیس ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا‬

‫اتنی نرم اتنی نرم اتنی نرررررم گانڈ کہ‬


‫بے ساختہ میں نے اسکی گانڈ کو دبا کر‬
‫چھوڑ دیا اور ساتھ ھی میرے لن نے‬
‫جھٹکا کھایا اور کھڑا ھوگیا اور مہری‬
‫کی ٹانگوں کے بیچ ھی سیدھا مہری کی‬
‫پھدی کے ساتھ لگ گیا‬

‫مہری کی قمیض پہلے ھی شارٹ سی‬


‫تھی اوپر سے ریشمی اور سوفٹ سا‬
‫کپڑا تھا‬
‫جب مہری نیچے آئی تو اسکی پیچھے‬
‫سے قمیض میرے ھاتھوں میں اٹک کر‬
‫خود ھی اسکی گانڈ سے اوپر ھوگئی‬
‫تھی اور آگے سے بھی میرے پیٹ کے‬
‫ساتھ لگتے ھی اوپر ھوگئی تھی اور‬
‫میرے لن کو کھال راستہ مل گیا تھا‬

‫مہری کے دونوں ھاتھ میرے کندھوں‬


‫پر تھے اور اسکے نرم نرم روئی کے‬
‫گولے چونتیس سائز کے ممے میرے‬
‫سینے میں دبے ھوے تھے اور اسکے‬
‫ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے ایک‬
‫دوسرے کو دیکھ کر ترس رھے تھے‬

‫ایک دفعہ تو ہم دونوں ایک دوسرے کی‬


‫آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھی‬
‫جارھے تھے‬
‫کچھ دیر بعد جب مہری کو میرے لن کا‬
‫احساس ہو جو اسکی پھدی پر دستک‬
‫دے رھا تھا تو‬
‫مہری نے گبھرائی ھوئی آواز مین‬
‫مجھے کہا کہ ووو امرود‬
‫تو مجھے بھی ہوش آیا‬
‫تو میں نے ایکدم اسے چھوڑ دیا‬

‫اور اسے کہا سوری‬

‫تو وہ حیران ھوکر میری طرف دیکھتے‬


‫ھوے بو‬
‫ہ حیران ھوکر میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬
‫سوری کس بات کی۔۔۔‬
‫تو میں شرمندہ سا سر جھکائے کھڑا‬
‫رھا تو‬
‫مہری پھر بولی‬
‫کم ان یار‬
‫کیا لڑکیوں کی طرح شر ما رھے ھو‬

‫اٹھاو مجھے‬

‫میں نے پھر اسے ویسے ھی اٹھایا تو‬


‫پھر وہ ھی حال ھوا اور مہری پھر‬
‫میرے بازوں میں کھسکتی ھوئی نیچے‬
‫آگئی اس دفعہ تو سب کچھ الٹ پلٹ ھو‬
‫گیا تھا‬

‫کیونکہ‬
‫اس دفعہ میرا لن پہلے ہی کھڑا تھا‬
‫جسکو مہری نے محسوس بھی کیا تھا‬
‫اور ایک نظر دیکھا بھی تھا‬
‫اسکے باوجود اس نے مجھے پھر‬
‫اٹھانے کا کہا تھا‬
‫اب جب وہ کھسکتی نیچے آئی تو میرا‬
‫ایک ھاتھ سیدھا اسکی گانڈ کی پھاڑی‬
‫کے اندر چال گیا تھا اور میری انگلیاں‬
‫اسکی پھدی کو ٹچ ھوگئی تھی اور میں‬
‫یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ جہاں‬
‫میری انگلیاں لگی تھی وھاں سے مہری‬
‫کی شلوار گیلی تھی اورآگے سے میرا‬
‫لن اسکے پٹوں میں پھدی کو رگڑ لگا‬
‫کر دباے ھوا تھا میری انگلیاں اسکی‬
‫پھدی کے ساتھ ساتھ میرے لن کے‬
‫ٹوپے کو بھی چھورھی تھی‬
‫مجھے جب اسکی شلوار گیلی ھونے کا‬
‫پتہ چال تو میں نے جان بوجھ کر اپنی‬
‫انگلیاں ادھر ھی روکے رکھی‬
‫اور مہری اسی انداز میں میرے کندھوں‬
‫پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے میرے ساتھ‬
‫چپکی ھوئی تھی‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں ُخماری دیکھ‬
‫لی تھی‬
‫اور سمجھ بھی گیا تھا کہ‬
‫یہ سب ڈرامے کررھی ھے جان بوجھ‬
‫کر نیچے آتی ھے لن کا مزہ لینے کے‬
‫لیے‬
‫ورنہ میری گرفت اتنی بھی کمزور نہ‬
‫تھی کہ یہ مجھ سے سمبھالی نہ جاتی‬

‫مہری‬
‫کی گانڈ میں میرا ھاتھ ویسے ھی تھا‬
‫میں نے ھاتھ نکاال نھی تھا‬
‫مہری کے گالبی ہونٹ بلکل میرے‬
‫سامنے تھے اور وہ بلکل ساکت کھڑی‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫دیکھی جارہی تھی‬
‫ہماری سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا‬
‫رھی تھی‬
‫اسکی سانسیں بتا رھی تھی کہ وہ کسی‬
‫اور دنیا میں پہنچی ھوئی ھے جہاں‬
‫سے سیل تُڑوا کر ھی لوٹا جاسکتا تھا‬

‫مجھ سے اب برداشت نھی ھو رھا تھا‬


‫شاید مہری بھی پہل کرنے سے ڈر‬
‫رھی تھی‬

‫جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ھونے‬


‫لگا تو میں نے اپنے ہونٹوں کو بس ایک‬
‫انچ ھی آگے کیا تو مہری نے اپنے‬
‫ہونٹوں کو دو انچ آگے کر کے میرے‬
‫ہونٹوں سے مال دیا‬
‫بس‬
‫پھر کیا تھا‬
‫اسکے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں کے اندر‬
‫سمانے لگے‬
‫اسکی گرم سانسیں میرے اندر منتقل‬
‫ھورھی تھی اور میری سانسیں اس کے‬
‫اندر منتقل ھو رھی تھی‬

‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کانوں‬


‫کے اوپر رکھے اور‬
‫اور دو گونگے آپس میں باتیں کرنا‬
‫شروع ھوگئے‬
‫میں تو اسکے ہونٹوں کو چوسنے کو‬
‫ترسا ھوا ھی تھا‬
‫مگر مہری کے کسنگ کرنے کے انداز‬
‫سے لگ رھا تھا کہ وہ برسوں کی‬
‫پیاسی اور ترسی ھوئی ھے‬
‫میں نے مہری کی گانڈ کو اپنی مٹھیوں‬
‫جکڑ لیا تھا‬
‫اور لن اسکی پھدی کے اوپر رگڑنے‬
‫لگ گیا تھا‬

‫مہری میرے ہونٹوں کو بری طرح‬


‫کھانے کی کوشش میں تھی وہ جنگلی‬
‫بلی بنی ھوئی تھی‬
‫میں نے ہاتھ آگے کر کے اسکی قمیض‬
‫اوپر کو کی اور قمیض کے اندر ھی‬
‫ہاتھ ڈال کر اسکے ممے کو پکڑ لیا‬
‫اسکا مما اتنا نرم تھا اور مالئم تھا کہ‬
‫میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا‬
‫اتنی سوفٹنس‬
‫عظمی اور صدف کے مموں میں نہ‬
‫تھی‬
‫جتنی مہری کے ممے میں تھی‬
‫مہری میرے لن کو ٹانگوں میں بھینچی‬
‫جارھی تھی مجھ سے بھی اب صبر نہ‬
‫ھو سکا‬
‫میں نے دوسرے ھاتھ سے اسکے گانڈ‬
‫سے شلوار نیچے کرنا شروع کردی‬
‫اور اسکی ننگی سوفٹ گانڈ کو دبانے‬
‫لگ گیا‬

‫اور میں نے ویسے ھی ہاتھ اسکی گانڈ‬


‫سے گھما کر‬
‫آگے کی طرف لے آیا اور آگے سے‬
‫اسکی شلوار نیچے کی تو شلوار اسکے‬
‫پاوں میں گر گئی‬
‫اور میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال‬
‫پتہ نھی مجھے کس بات کی جلدی تھی‬
‫میں ترسوں کی طرح سب کچھ جلدی‬
‫جلدی کر رھا تھا‬

‫میں نے اپنا ناال کھوال تو میری شلوار‬


‫بھی میرے پاوں میں گر گئی میں نے‬
‫اپنے لن کو پکڑا اور جیسے ھی اسکی‬
‫کلین شیو نرم پھدی کے لبوں پر رکھا‬
‫تو مہری کو ایکدم جیسے ہوش آگیا ھو‬
‫اس نے مجھے زور سے دھکا دیا‬
‫اور بولی‬
‫وٹ از ِدس‬
‫اسکا دھکا اتنا شدید تھا کہ میں پیچھے‬
‫لڑکھراتا ھوا نیچے گھاس پر جا گرا‬
‫میرے گرنے کی وجہ میرے پاوں میں‬
‫شلوار بھی تھی‬

‫اور مہری اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھو‬


‫جلدی سے نیچے جھک کر اپنی شلوار‬
‫اوپر کرنے لگی‬

‫میں بھی ڈر گیا تھا اس لیے خاموشی‬


‫سے وہیں بیٹھا اپنی شلوار اوپر کر کے‬
‫ناال باندھنے لگ گیا‬
‫اور اسی حال میں بیٹھا حیرانگی سے‬
‫مہری کی طرف دیکھنے لگ گیا‬

‫اصل میں‬
‫مہری کے ساتھ میری سیکس کے‬
‫موضوع پر پہلے کو ڈسکس نھی ھوئی‬
‫تھی اور نہ ھی میں اس معاملے میں‬
‫اسکے ساتھ فرینک تھا کہ اٹھ کر اس‬
‫سے دھکا دینے کی وجہ پوچھتا یا اس‬
‫سے ذبردستی کرتا یا اسکا منت ترال‬
‫کرتا کہ مجھے الزمی پھدی دو‬

‫یہ تو سب اچانک اور فٹافٹ ھوا تھا کہ‬


‫نہ مجھے پتہ چال نہ مہری کو‬
‫بس آگے کے سامنے گھی جیسا حال‬
‫ھوا تھا‬

‫مہری بھی حیران پریشان میری طرف‬


‫دیکھی جارہی تھی‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫اس نے منہ دوسری طرف کیا اور اپنے‬
‫بال اور دوپٹہ سہی کرنے لگی‬
‫اور دوسری طرف منہ کیے ھی مجھے‬
‫کہنے لگی مجھے گھر جانا ھے‬

‫میں اب اسے کیا کہتا‬


‫میں کھڑا ھوا اور سر جھکائے‬
‫چل پڑا میں نے اسے یہ بھی نھی کہا‬
‫کہ چلو‬
‫کہتا بھی کیسے‬
‫مجھ میں ہمت نھی تھی‬

‫شاید میری غریبی وجہ تھی یا میرا‬


‫اپنے آپ کو مہری سے کمتر سمجھنا‬
‫تھا‬

‫۔ میں بے شک غریب تھا‬


‫مگر حسن کے معاملے میں‬
‫میں بھی نواب تھا‬
‫اگر وہ حسین تھی تو کچھ کم میں بھی‬
‫نھی تھا‬

‫مگر اس کے باوجود بھی‬


‫میری ہمت جواب دے چکی تھی‬
‫اور میں گونگا بن کر چلنے لگا تو وہ‬
‫مجھے جاتا دیکھ کر میرے پیچھے‬
‫پیچھے سر جھکائے چلنے لگی‬

‫تو اچانک مجھے اسد کی آواز آئی کہ‬


‫یاسررر کدھر ھو یار‬
‫میں نے جب اسد کی آواز سنی تو‬
‫میرے جسم میں کچھ جان آئی‬
‫اور میں نے پیچھے مڑ کر مہری کو‬
‫دیکھا جو شاید میری طرف پہلے سے‬
‫ھی دیکھ رھی تھی‬

‫اسکی طرف دونوں ھاتھ جوڑے اور‬


‫اپنے لب ہالے کہ‬
‫پلیز پہلے کی طرح اپنا موڈ کر لو ورنہ‬
‫اسد کو شک ھوجاے گا‬

‫تو اسکی سمجھ مین بھی میری بات‬


‫آگئی‬
‫اور اس کے چہرے کا تاثرات بدلنے‬
‫لگے‬

‫اب اسکا چہرہ پچھتاوے اور غصے‬


‫واال نھی تھا کچھ بہتر تھا‬
‫مگر پہلے جیسا نہ تھا‬

‫کچھ ھی دیر میں اسد ہمیں ڈھونڈتا ھوا‬


‫ہمارے پاس آگیا اور کہنے لگا یار‬
‫میری تو بس ھوگئی ھے‬
‫میں نے کہا کیا ھوا تو اس نے کہا یار‬
‫واش روم کے چکر لگا لگا کر برا حال‬
‫ھوگیا ھے‬

‫تو میں نے کہا لسی کا ایک اور گالس‬


‫پی لینا تھا‬
‫تو وہ بوال بس یار مزے لیتے لیتے ب‬
‫اپنے پیٹ کا بیڑہ غرق کرلیا‬

‫اسکی یہ بات سن کر مہری کھل کھال‬


‫کر ہنس پڑی‬

‫اسد بوال‬

‫پتہ نھی یار تم لوگ کیسے اتنی پاور فل‬


‫خوراک کھالتے ھو‬

‫میں نے کہا‬
‫ہم کام بھی اتنا ھی سخت کرتے ہیں‬

‫اس لیے ہمارے معدے بھی مضبوط‪.‬‬


‫ہیں‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم نہر کی‬
‫طرف سے گھر آگئے‬
‫سارے راستے مہری بس نارمل ھی‬
‫رھی جیسے وہ پہلے چہک رھی تھی‬
‫اب اسکی ساری چہک نکل چکی تھی‬

‫اب وہ ایسے بات کررھی تھی‬

‫جیسے بڑی میچور اور سمجھدار ھو‬


‫گھر آکر امی نے روٹی کا کہا مگر اسد‬
‫کا پیٹ پہلے ھی لسی کی وجہ سے‬
‫خراب تھا‬
‫اوپر سے امی نے دیسی گھی کا ساگ‬
‫اور مکئی کی روٹی کا کہا تو اسد نے‬
‫بھاگنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی‬
‫اور جلدی سے جاکر کار کا سٹیرنگ‬
‫سنبھال کر بیٹھ گیا‬

‫جبکہ مہری امی اور آپی سے مل رھی‬


‫تھی اور انکو اپنے گھر آنے کی دعوت‬
‫دے رھی تھی اور جاتے جاتے بھی‬
‫آنے کا اصرار کرتی رھی‬
‫اور اسد مجھے گاڑی میں ھی بیٹھا مال‬
‫جبکہ مہری مجھ سے نظریں ُچرا رھی‬
‫تھی‬

‫اسد نے مجھے تاکید کی کی آنٹی اور‬


‫آپی کو لے کر ضرور ہمارے گھر آنا‬
‫میں نے کوشش کروں گا کہا‬
‫تو تب مہری نے مجھے مخاطب کر‬
‫کے کہا‬
‫اگر آپ نہ آے تو ہم نے بھی دوبارا‬
‫کبھی نھی آنا‬

‫تو وہ مجھ سے آنے کا وعدہ لے کر‬


‫چلے گئے‬
‫اور میں انکی دھول اڑاتی گاڑی کو‬
‫پیچھے سے دیکھتا رھا‬
‫‪...............‬‬
‫میں روزانہ سکول ٹائم پر ھی گھر سے‬
‫نکلتا اور عظمی نسرین اور صدف کو‬
‫ساتھ لے کر انکو سکول چھوڑتا اور‬
‫خود دکان پر چال جاتا‬

‫انکل سجاد اچھے انسان تھے میرے‬


‫ساتھ انکا اخالق بھی اچھا‬

‫اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک تو وہ‬


‫ہماری گلی کے تھے دوسرا انکی وائف‬
‫آنٹی رضیہ کا میری امی سے کافی اچھا‬
‫تعلق تھا‬
‫انکل نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ تم‬
‫میرے ساتھ موٹر سائیکل پر چلے جایا‬
‫کرو‬

‫مگر مجھے عظمی اور صدف کا قرب‬


‫حاصل تھا‬
‫میں کیسے انکی قربت سے دور ہو‬
‫سکتا تھا‬

‫اس لیے میں انکو ٹال مٹول کردیتا‬


‫ایک بات سے وہ بھی خوش تھے کہ‬
‫میں پیدل بھی ان سے پہلے دکان پر‬
‫پہنچ جاتا تھا‬

‫اور انکے آنے سے پہلے‬


‫دکان کے آگے سے‬
‫صفائی وغیرہ کر کے بیٹھا ھوتا تھا‬

‫انکل کی دکان‬
‫میں دو مالزم اور بھی تھے‬
‫اور انکی دکان بھی اچھی چلتی تھی‬
‫مالزم دکان کھلنے کے بعد آتے تھے‬
‫اس لیے میں انکے آنے سے پہلے ھی‬
‫دکان کی اندر سے بھی صفائی کر لیتا‬
‫اور الماریوں میں لگے کپڑوں کو‬
‫جھاڑن سے جھاڑ لیتا‬
‫جس کی وجہ سے میں چند ھی دنوں‬
‫میں انکل کی آنکھ کا تارا بن گیا‬
‫دکان میں ذیادہ ورائٹی لیڈیز کی ھی‬
‫تھی‬
‫جس میں موسم کے لحاظ سے ہر طرح‬
‫کے کپڑے میں ورائٹی موجود ھوتی‬
‫زیادہ کام فینسی سوٹ اور بوتیک کے‬
‫سوٹوں کا تھا جو شادی بیاہ میں استعمال‬
‫ھوتے تھے‬

‫دکان کے آخر میں بلکل سامنے ایک‬


‫بڑا سا شیشے کا ریک تھا جس میں‬
‫بوتیک کے سوٹ ٹانگے ہوتے تھے‬
‫اور ریک کے ساتھ ھی ایک چھوٹا سا‬
‫دروازہ ٹرائی روم کا تھا‬
‫جس میں آنٹیاں اور پوپٹ بچیاں سوٹ‬
‫پہن کر اپنی فٹنگ چیک کرتی تھی‬

‫باقی دکان میں پھٹے نما کاونٹر تھے‬


‫جن پر ہم بیٹھ کر‬
‫کسٹمر کو کپڑے پسند کرواتے‬

‫اور کسٹمر کے بیٹھنے کے لیے پوشش‬


‫کیے ھوے بینچ پڑے تھے جن پر آنٹیاں‬
‫اور گرما گرما بچیاں اپنی پتلی موٹی‬
‫گول مٹول باہر کو نکلی یا نارمل‬
‫تشریف‬
‫رکھ کر بیٹھ کر اپنی پسند کی ورائٹی‬
‫دیکھانے کی فرمائش کرتیں‬
‫اور کچھ ایسی بھی ھوتیں جو بار بار‬
‫ہاتھ لمبا کر کے انگلی کے اشارے سے‬
‫اپنی پسند کا سوٹ بتاتی کے وہ‬
‫دیکھائیں تو بے ساخط دھیان انکے تنے‬
‫ھوے مموں پر چال جاتا یاں جب اٹھ کر‬
‫جاتی تو پیچھے سے انکی گانڈ میں‬
‫پھنسی قمیض کو دیکھنے کا مزہ ھی‬
‫الگ ھوتا‬
‫پہلے تو میں کچھ دن دکان‬
‫پر شرماتا رھا‬
‫مگر میری یہ شرم صرف جینٹری کی‬
‫آنٹیوں اور ممی ڈیڈی بچیوں کو دیکھ‬
‫کر ہوتی‬
‫اور میرا حوصلہ بھی نہ ھوتا کہ ان‬
‫سے پوچھ ھی سکوں کہ آپ کو کس‬
‫طرح کی ورائٹی چاھیے‬

‫باقی جو دیہات کے تھکی ہوئی مائیاں‬


‫ھوتی انکو میں دیہاتی انداز میں تھوڑا‬
‫بہت پوچھ لیتا تھا‬

‫پہلے پہل تو مالزموں نے مجھے چاے‬


‫النے بوتل النے روٹی النے پر ھی‬
‫لگاے رکھا‬

‫مگر آہستہ آہستہ وہ دن بھی آگئے جب‬


‫میں کسٹمر کو ڈیل کرنے لگ گیا بلکہ‬
‫مالزموں سے زیادہ سیل میری ھوتی‬

‫انکل اب مجھ پر بہت اعتماد کرنے لگ‬


‫گئے تھے‬
‫وہ اکثر الہور جاتے تو دکان کی چابیاں‬
‫مجھے دے دیتے‬
‫اور میں بڑی ذمہ داری اور ایمانداری‬
‫سے سارے دن کی سیل لکھتا اور انکو‬
‫ایک ایک روپے کا حساب دیتا تھا‬

‫جس سے وہ مذید مجھ پر اعتماد کرنے‬


‫لگ جاتے‬

‫دوستو‬
‫میں جب بھی آنٹی فوزیہ کے گھر جاتا‬
‫تو‬
‫آنٹی مجھے روز چھیڑتی کے‬
‫میرا شزادہ جوان ھوگیا ھے اور میری‬
‫ٹھوڑی کو پکڑ کر کہتی واہ اب تو‬
‫داڑھی مونچھیں بھی نکل رھی ہیں‬
‫اور کبھی کہتی کہ منڈا کاروباری ھوگیا‬
‫ھے‬
‫اب تو اسکی ٹوریں ھی بدل گئی ہیں‬

‫میں ہنستا رہتا اور آنٹی کو بھی چھیڑ‬


‫دیتا کہ‬
‫انٹی آپ بھی تو ابھی تک جوان ھو انکل‬
‫آپ کے سامنے بوڑھے لگتے ہیں‬
‫تو آنٹی جوتا اٹھاتے ھوے مجھے‬
‫مارنے کی ایکٹنگ کرتی اور کہتی‬
‫ٹھہر جا ابھی تجھے بتاتی ھوں‬

‫شہر جا کر خراب ھوگیا ھے‬

‫اب میں کیا بتاتا کہ خراب تو آپ کی‬


‫بیٹی نے کیا ھے‬

‫آنٹی اب بھی میرے ساتھ ویسے ھی‬


‫رہتی جیسے تین سال پہلے تھی‬
‫میں ایسے ھی آنٹی کے ساتھ چپکا رہتا‬
‫اور آنٹی نے بھی کبھی برا محسوس‬
‫نھی کیا تھا‬

‫وہ اب بھی میرے سامنے بغیر دوپٹے‬


‫کے ھی رہتی‬

‫اور میں انکی بڑی بڑی چھاتیوں کو کن‬


‫اکھیوں سے دیکھتا رہتا‬

‫دوستو‬

‫جمعہ کو دکان سے چھٹی ہوتی تھی‬

‫میں چھٹی والے دن ذیادہ وقت آنٹی کے‬


‫ھی ساتھ گزارتا تھا‬
‫انکل کبھی گھر ھوتے کبھی اپنی‬
‫تھوڑی سے ٹھیکے پر لی ھوئی زمین‬
‫پر ھوتے‬

‫ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا میں صبح‬


‫صبح ھی آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی گھر‬
‫میں اکیلی تھی‬
‫میں نے عظمی نسرین کا پوچھا تو آنٹی‬
‫نے بتایا کہ وہ ٹیویشن گئی ہیں‬

‫میں نے حیرانگی سے پوچھا آج تو‬


‫چھٹی ھے پھر وہ کیوں گئی ہیں اور‬
‫اتنی صبح صبح‬
‫تو آنٹی نے بتایا انکے پیپر سر پر ہیں‬
‫اور پیپر بھی بورڈ کے ہیں اس لیے‬
‫انکو میڈم نگہت کے پاس ٹیویشن رکھوا‬
‫دیا ھے‬

‫میڈم نگہت کافی عمر رسیدہ خاتون تھی‬


‫جو شہر گورمنٹ سکول میں پڑھاتی‬
‫تھی‬

‫میں نے ہمممم کہا اور آنٹی کے ساتھ‬


‫بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا‬

‫آنٹی کے بال گیلے تھے جس سے‬


‫صاف لگ رھا تھا کہ آنٹی فوزیہ ابھی‬
‫تھوڑی دیر پہلے ھی نہائی ہیں انہوں‬
‫نے ہلکے سکن کلر کا الن کا باریک‬
‫سوٹ پہنا ھوا تھا‬

‫نیچے شمیض بھی نھی پہنی ھوئی تھی‬


‫جس کی وجہ سے انکا کالے رنگ کا‬
‫برا صاف نظر آرھا تھا‬
‫اور قمیض بھی کئی جگہ سے گیلی تھی‬
‫جس کی وجہ سے انکا گورا جسم‬
‫کپڑوں سے نمایاں نظر آرھا تھا‬
‫جس کو دیکھ کر میرے لن نے انگڑائی‬
‫لینا شروع کردی‬
‫آنٹی فوزیہ نے بال ُکھلے چھوڑے ھوے‬
‫تھے اور صحن میں چارپائی پر بیٹھی‬
‫ہوئی تھی‬

‫میں انکے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ گیا ہم‬


‫دونوں کی ٹانگیں چارپائی سے لٹکی‬
‫ہوئی تھی‬
‫میری اور آنٹی کی ٹانگ آپس میں جڑی‬
‫ہوئی تھی‬

‫میں نے اپنا بازو آنٹی کے پیچھے سے‬


‫گزار کر انکی دوسری طرف کندھے‬
‫سے ذرہ نیچے بازو پر رکھتے ھوے‬
‫کہا‬
‫آنٹی آج خیر ھے‬
‫صبح صبح ھی تیار شیار ھو رھی ہیں‬
‫کہیں جانا تو نھی‬

‫تو آنٹی ہنستے ھوے بولی‬


‫بےشرم انسان‬
‫ضرور تو نھی کہ کہیں جانا ھو تو ھی‬
‫تیار ھوا جاتا ھے‬

‫اور ویسے بھی میں نے کونسا سرخی‬


‫پاوڈر لگایا ھے یا الل جوڑا پہنا ہے جو‬
‫تم ایسے کہہ رھے ھو‬

‫میں نے ایک لمبی سی آہ بھرتے ھوے‬


‫کہا‬

‫آنٹی جی آپکو سرخی پاوڈر لگانے کی‬


‫کیا ضرورت ھے‬
‫آپ تو ایسے ھی بس نہا لو تو جوان‬
‫لڑکیوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ھو‬
‫تو آنٹی نے میرے پیٹ میں کہنی مارتے‬
‫ھوے کہا‬

‫شرم کرو بےشرم‬


‫میں تمہاری آنٹی ھوں اور تم اپنی آنٹی‬
‫پر ھی الئن مار رھے ھو‬

‫آ لینے دو تمہارے انکل کو بتاتی ھوں‬


‫انکو کہ یہ شہری بابو آپک کی بیگم کو‬
‫سیٹ کرنے میں لگا ھوا ھے‬
‫تو میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی آپ چیز ھی ایسی ھو اس میں‬
‫میرا کیا قصور‬
‫یہ کہتے ھی میں اٹھ کر صحن میں دوڑ‬
‫پڑا‬
‫انٹی ہنستے ھوے بولی ٹھہر تجھے‬
‫بتاتی ہوں بے شرما‬
‫اور آنٹی مجھے پکڑنے کے لیے میرے‬
‫پیچھے بھاگی میں آگے آگے بھاگ رھا‬
‫تھا اور آنٹی میرے پیچھے پیچھے‬
‫میں نے صحن کا ایک چکر لگایا‬
‫اور بیری کے درخت کے چاروں طرف‬
‫گھومنے لگ گیا‬
‫آنٹی میری پیچھے پیچھے تھی‬

‫میں نے بیری کے گرد دو تین چکر‬


‫لگاے‬
‫اور کمرے کی طرف بھاگ گیا آنٹی‬
‫بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں‬
‫آگئی‬
‫میں چارپائی کے پاس جاکر کھڑا‬
‫ھوگیا‬

‫آنٹی کو بھی سانس چڑھا ھوا تھا انہوں‬


‫نے ہانپتے ھوے میرے دونوں بازوں‬
‫کو پکڑا اور مجھے پیچھے چارپائی پر‬
‫دھکا دیتے ھوے میرے اوپر جھک‬
‫گئیں‬
‫آنٹی کے پاوں زمین پر تھے اور میرے‬
‫بازوں کو پکڑے ہوے میرے اوپر‬
‫جھکی ھوئی تھی‬

‫میرے دونوں گ ُھٹنے آنٹی کے پٹوں کے‬


‫ساتھ لگے ھوے تھے اور آنٹی کے‬
‫بڑے بڑے ممے میرے منہ سے اوپر‬
‫مجھے گھورے جارہے تھے‬
‫آنٹی ہانپتی ھوئی مجھے کہنے لگی‬

‫ہُن پچ پُتر ِکتھے پَجیں گاں کیڑی ماں‬


‫کو نس کے چال سی‬

‫میں ڈرنے کے انداز میں اپنے بازوں‬


‫ُچڑانے کی کوشش کر رھا تھا اور آنٹی‬
‫سے مصنوعی معافیاں مانگتے ھوے‬
‫کہہ رھا تھا‬
‫آنٹی ہُن نئی کیندا معاف کردو ہُن نئی‬
‫کیندا‬

‫آنٹی پھر بولی‬


‫توں باز نئی آنا انج‬

‫اور آنٹی میرے ُگدُ ُگدی کرنے لگ گئی‬


‫اور ساتھ کہتی رھی‬
‫ہن میرے تے لین ماریں گا دس ہن لین‬
‫ماریں گا‬
‫میں ہنس ہنس کر دُھرا ہوتے جا رھا‬
‫تھا‬
‫اور آنٹی سے معافیاں مانگی جارھا تھا‬
‫کہ اب نھی کہتا پلیز چھوڑ دو‬
‫میرا ہنس ہنس کر بُرا حال ھوگیا تھا‬
‫میری آنکھوں سے پانی نکلنے لگ گیا‬
‫تھا‬
‫انٹی بھی میری حالت سے محفوظ‬
‫ھورھی تھی‬

‫مجھ سے جب ُگد ُگدی برداشت نہ ہوئی‬


‫تو میں نے آنٹی کی کمر کو زور سے‬
‫پکڑا اور جمپ مار کر آنٹی کو بھی‬
‫ساتھ لیتا ھوا کھڑا ھوگیا‬

‫اب آنٹی بلکل میرے ساتھ ُجڑی کھڑی‬


‫تھی انکے ممے میرے سینے کے ساتھ‬
‫لگے ھوے تھے‬

‫مگر آنٹی پھر بھی میرے ُگد ُگدی کرے‬


‫جارھی تھی‬
‫میں پھر کبھی ایک سائڈ کو ُجھکتا کبھی‬
‫دوسری سائڈ کو ُجھکتا‬
‫مجھ جب بلکل ھی برداشت نہ ھوا تو‬
‫میں ایکدم سے گھوما اور آنٹی کے‬
‫پیچھے آگیا میرے دونوں بازو پہلے ھی‬
‫آنٹی کی کمر کے گرد تھے‬
‫اس لیے میں تھوڑا جھک کر انکے‬
‫ایک بازو کے نیچے سے اپنا سر نکال‬
‫کر انکے پیچھے آگیا‬

‫اب آنٹی کی نرم گانڈ میرے لن کے‬


‫نشانے پر تھی اور میرے دونوں ھاتھ‬
‫آنٹی کے پیٹ پر تھے‬
‫آنٹی نے اب اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر‬
‫میری بغلوں کے تھوڑا نیچے ُگد ُگد ی‬
‫کرنے کی کوشش کی مگر میں تھوڑا‬
‫سا پیچھے ھوگیا جس سے میرے لن‬
‫اور آنٹی کی گانڈ کا فاصلہ بڑھ گیا‬

‫میں نے جلدی سے آنٹی کے پیٹ پر ھی‬


‫انگلیوں سے ُگد ُگدی کرنا شروع کردی‬
‫آنٹی کو ایک دم جھٹکا لگا اور آنٹی نے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اور آگے کو‬
‫ُجھکی جس سے انکی نرم گانڈ میرے‬
‫لن کے ساتھ ُجڑ گئی‬
‫آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے‬
‫میرے ھاتھ پکڑے ھوے تھے اور زور‬
‫لگا کر میرے ھاتھ پیٹ سے الگ کرنے‬
‫کی کوشش کررھی تھی‬

‫ادھر میرے لن کو پتہ‪ .‬نھی کیا سوجھی‬


‫لن ساب نے اپنی ہی ٹرائیاں مارنی‬
‫شروع کردی‬

‫اور ایکدم کھڑا ھوکر آنٹی کی گانڈ کی‬


‫دراڑ میں ٹھونگے مارنے لگ گیا آنٹی‬
‫بلکل آگے کو جھکی میرے ھاتھ اپنے‬
‫پیٹ سے ہٹانے کی کوشش کررھی‬
‫تھی‬
‫اور ہنسی جارھی تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ کہی جارھی رھی تھی‬

‫نہ کرو ھھھھھھ نہ کرو چھڈ مینوں بتمیز‬


‫ھھھھھھھھ‬
‫میں بوال‬
‫اب پتہ لگا نہ‬
‫تو انٹی بولی اچھا ہن نئی کردی چھڈ‬
‫دے‬

‫آنٹی کو میرے لن کی سختی محسوس‬


‫ھوگئی تھی مگر آنٹی ایسے کر رھی‬
‫تھی جیسے اسکو پتہ ھی نھی‬

‫اور میں بھی ایسے ھی ریکٹ کر رھا‬


‫تھا جیسے مزاق مزاق میں ھی سب‬
‫کچھ ھورھا ھو‬

‫آنٹی نے‬
‫اچانک میرے ھاتھوں کو جھٹک کر‬
‫اپنے پیٹ سے الگ کیا اور جھکے‬
‫ھوے ھی آگے کو بھاگنے لگی تو میں‬
‫نے بے دھیانی سے پھر آنٹی کو پکڑنا‬
‫چاھا تو میرے دونوں ھاتھوں میں آنٹی‬
‫کے بڑے بڑے نرم ممے آگئے‬

‫اور بےدھیانی میں ھی مموں کو‬


‫پکڑتے ھی دبا دیا‬
‫تو آنٹی کے منہ سے سییییییییی نکال‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی بولی‬
‫بتمیزززز‬
‫میں نے جلدی سے انٹی کے مموں کو‬
‫دبا کر چھوڑ دیا اور‬
‫آنٹی سے الگ ھوگیا‬
‫آنٹی ایکدم سیدھی ھوئی اور چارپائی پر‬
‫بیٹھ گئی اور دونوں ھاتھوں پر ماتھا‬
‫رکھ کر‪ .‬لمبے لمبے سانس لینے لگ‬
‫گئی‬

‫میں ویسے ھی آنٹی کے سامنے بُت‬


‫بنے کھڑا آنٹی کو دیکھے جارھا تھا‬

‫مجھے یہ بھی احساس نھی تھا کہ نیچے‬


‫لن ساب شلوار میں تمبو بناے بھی آنٹی‬
‫کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رھے‬
‫ہیں‬

‫کچھ دیر بعد آنٹی نے منہ اوپر کیا اور‬


‫میری طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫یاسر تم بہت بتمیز ھوگئے ھو میرا کیا‬
‫حال کردیا ھے‬

‫میں نے کہا سوری آنٹی‬

‫آنٹی نے جیسے ھی اپنی نظر نیچے کی‬


‫تو لن ساب نے بھی آنٹی کو آنکھ مار‬
‫دی‬
‫تمبو کو دیکھ کر آنٹی کی انکھیں کھلی‬
‫کی کھلی رھ گئی آنٹی سکتے کی عالم‬
‫میں تمبو کے اندر لن کا اندازہ لگانے‬
‫کی کوشش میں ٹِکٹکی باندھے لن کو‬
‫دیکھی جا رھی تھی‬

‫کچھ دیر ایسے ھی آنٹی گم سم لن کو‬


‫دیکھے جارھی تھی‬
‫کہ اچانک آنٹی نے ایک ھاتھ منہ پر‬
‫رکھا اور دوسرا ہاتھ آگے کر کے لن‬
‫کو پکڑا اور پھر ایکدم چھوڑ کر ہاتھ‬
‫پیچھے کو جھٹکا‬
‫جیسے کرنٹ پڑا ھو‬
‫اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬

‫اے کی اےےےے یاسسرررررر دے‬


‫بچے‬

‫اینوں کی کیتا اییی‬

‫تو میں چپ ھی کھڑا رھا‬


‫آنٹی کچھ دیر ایسے ھی کبھی میرے لن‬
‫کو دیکھتی تو کبھی میرے منہ کی‬
‫طرف دیکھتی‬

‫میں نے حوصلہ کر کے پوچھ ھی لیا‬


‫کیا ھوا آنٹی جی‬

‫تو آنٹی بولی میں تو تمہیں ابھی تک بچہ‬


‫ھی سمجھتی تھی مگر تم تو‬

‫یہ کہہ کر‬

‫آنٹی خاموش ھوگی‬


‫میں آنٹی کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا تو‬
‫آنٹی کھسک کر مجھ سے دور ھوگئی‬
‫اور بولی‬
‫یاسررررر‬
‫تم نے اسے کچھ کیا ھے‬
‫میں نے کہا نھی آنٹی جی‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫ہو ھی نھی سکتا‬
‫ہرگز نھی‬
‫تو میں نے کہا آنٹی جی بتاو تو سہی‬
‫ھوا کیا ھے‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫اتنا بڑا تو تمہارے انکل کا بھی نھی‬
‫ھے‬
‫مگر تم نے یہ کیسے‬
‫کر لیا‬
‫میری تو سمجھ سے باہر ھے‬

‫میں نے ناسمجھی کے انداز میں کہا‬


‫کسکو کیا کر لیا آنٹی جی میں آپ کی‬
‫بات سمجھا نھی‬

‫تو آنٹی ابھی تک ششوپن کا شکار تھی‬


‫ان سے بات بھی سہی طرح نھی ھو‬
‫رھی تھی‬
‫آنٹی بولی‬
‫کچھ نھی تم جاو‬
‫میں نے کہا آنٹی بتائیں ھوا کیا ھے‬
‫تو انٹی بولی کچھ نھی بس تم جاو‬
‫تمہارے انکل آنے والے ہیں‬

‫میں آنٹی کی بات سن کر حیران و‬


‫پریشان ھوگیا‬
‫کہ آنٹی کو اچانک ھوا کیا ھے‬
‫پہلے انکل کونسا نھی آتے یا میں انکل‬
‫کے سامنے نھی آتا میں تو انکل کے‬
‫سامنے ھی آنٹی سے چمٹا رھتا تھا‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا آنٹی‬
‫جی کیا مطلب انکل کے آنے سے‬
‫مجھے کیا ھے‬
‫تو آنٹی بولی میں نے کہا نہ کہ جاو‬
‫بحث کیوں کررھے ھو‬

‫میں روہانسی آواز میں بوال آنٹی جی‬


‫میں جاوں‬

‫کیوں کہ آنٹی نے پہلی بار مجھ سے‬


‫اتنی بےرخی کا مظاہرہ کیا تھا‬

‫میں سچی میں رونے واال ھوگیا تھا‬


‫میں اٹھ کر کھڑا ھوا اور آنٹی کے‬
‫سامنے انکی طرف منہ کر کے کھڑا‬
‫ھوا‬

‫تو میں نے دیکھا آنٹی کا چہرہ پسینے‬


‫سے شرابور ھے‬
‫اور انٹی اپنی قمیض کے پلو سے منہ‬
‫صاف کر رھی تھی‬

‫میں نے انٹی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے‬


‫اور آنٹی سے پوچھا‬
‫آنٹی جی کیا ھوا‪،‬‬
‫میری آواز پہلے ھی گلوگیر تھی‬

‫تو آنٹی نے اپنی پلکوں کو اوپر کر کے‬


‫میرے چہرے کو دیکھتے ھوے کہا‬
‫کچھ نھی‬
‫تو میں نے آنٹی کے ماتھے کو صاف‬
‫کرتے ھوے کہا‬
‫کہ آنٹی جی بتاو نہ کیا ھوا آپکی طبعیت‬
‫تو سہی ھے‪ .‬میں دوائی ال دوں‬

‫تو آنٹی بولی یاسر مجھے کچھ نھی ھوا‬


‫تم خدا کے لیے چلے جاو‬
‫مجھے کچھ دیر اکیال رہنا ھے‬
‫آنٹی نے جب یہ الفاظ کہے‬
‫جو سیدھے میرے دل دماغ پر کسی‬
‫ُچھری کی طرح لگے‬
‫کیوں کہ میں دل سے صاف تھا آنٹی‬
‫کے جسم کو میں دیکھتا ضرور تھا‬
‫مگر کبھی ان کے بارے میں سیکس کا‬
‫زہن میں نھی الیا تھا‬

‫یہ جو کچھ بھی ھوا تھا بس اچانک ھی‬


‫ھوا تھا‬

‫اور اس میں ساری غلطی‬


‫پین چود لن کی ھی تھی‬
‫نہ گانڈو آنٹی کو چھیڑتا نہ انٹی ایسے‬
‫سختی سے پیش آتی میں قدموں کو‬
‫گھسیٹتا ھوا دروازے کی طرف چال‬
‫جارھا تھا‬
‫میں نے کمرے کے دروازے کے پاس‬
‫جاکر پھر مڑ کر دیکھا کہ شاید اب آنٹی‬
‫مجھے آواز دے مگر آنٹی سر نیچے‬
‫کئے ھوے ہلتے پیروں کو دیکھ رھی‬
‫تھی اور کسی گہری سوچ میں ُگم تھی‬

‫میری انکھوں سے آنسو نکل آے اور‬


‫میں آنسووں کو صاف کرتے ھوے‬
‫کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آیا‬
‫اور بیرونی دروازے کی طرف تیز تیز‬
‫قدموں سے چلتا ھوا باہر گلی میں اگیا‬
‫اور اپنے گھر کی طرف چل دیا‬

‫گھر آکر میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا‬


‫اور چھت واال پنکھا فُل سپیڈ میں چال‬
‫کر چارپائی پر لیٹ کر انٹی کے بارے‬
‫میں سوچنے لگ گیا سوچتے سوچتے‬
‫میں کب سویا مجھے نھی پتہ چال‬

‫جب میری آنکھ ُکھلی تو شام ھوچکی‬


‫تھی اور میں حیران تھا کہ سارا دن میں‬
‫سویا ھی رھا‬

‫میں اٹھ کر بیٹھا ھی تھا کہ آپی کمرے‬


‫میں داخل ہوئی اور بولی‬
‫ُکھل گئی آنکھ نواب زادے کی‬

‫خیر تھی سارا دن سو کر ھی گزارا نہ‬


‫کھانے کی فکر نہ پینے کی‬

‫تو میں نے کہا جا دفعہ ھو‬


‫کی میرا سر کھان لگ گئی ایں‬

‫دوستو بہن بھائی کا لڑکپن میں رشتہ‬


‫ایسا ھوتا ھے کہ سب سے بڑے دشمن‬
‫بھی اور سب سے ذیادہ دوست بھی اور‬
‫سب سے ذیادہ ہمدرد بھی‬
‫بہنیں پرایا گھر ھوتی ہیں جب انکی‬
‫شادی ھوجاتی ھے تو پھر انکی کمی کا‬
‫احساس ھوتا ھے‬
‫۔پہلے تو ہر بات بات پر لڑنا جھگڑنا‬
‫ہوتا ھے مگر شادی کے بعد وہ ھی بہن‬
‫ایک مہمان بن جاتی ھے‬

‫میں کچھ تلخ باتیں یہاں بیان کرنے لگا‬


‫ہوں جن بھائیوں کو برا لگے تو وہ بُرا‬
‫منانے سے پہلے اس حقیقت اور اپنی‬
‫غیرت کو سامنے رکھتے ھوے ضرور‬
‫ایک بار سوچیں‪ ،،،‬۔۔۔‬

‫میں نے اس فورم یا دیگر فورم پر‬


‫انسسٹ سٹوری کے ٹائٹل دیکھے ہیں‬
‫اور شروع شروع میں چند ایک سٹوری‬
‫کو ریڈ بھی کیا تھا‬
‫جب مجھے انسسٹ لفظ کے مفہوم کا‬
‫بھی نھی پتہ تھا اس لیے چند سٹوری کو‬
‫پڑھ لیا‬
‫مگر ان سٹوری کو پڑھ کر‬
‫میں لکھنے والے کو بھی گالیاں دیتا‬
‫اور اس سٹوری کو ایپلیشیڈ کرنے والوں‬
‫کو بھی‬

‫اور سوچتا‬
‫کہ یار کیا ھے کس طرف لوگ جارھے‬
‫ہیں کیا ان میں غیرت نام کی چیز ختم‬
‫ھوگئی ھے یا پھر یہ معاشرے کو ایسی‬
‫طرف لے کر جارھے ھیں کہ اگر ان‬
‫سب میں یہ سٹوری پڑھ پڑھ کر ریالٹی‬
‫آگئی اور ایسی سٹوری کے نوعمر‬
‫ریڈرز اسکو حقیقت کارنگ دینے کی‬
‫کوشش کرنے لگ پڑے تو‬
‫کس بہن کو اپنے بھائی پر ناز ھوگا‬
‫کون بہن اپنے بھائی کو اپنی عزت کا‬
‫رکھواال سمجھے گی کون بہن اپنے ھی‬
‫گھر میں اپنی عزت کو محفوظ رکھ پاے‬
‫گی‬
‫ارے ظالمو‬
‫تمہاری بہن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا‬
‫کر بھی دیکھے تو تمہاری غیرت کا یہ‬
‫عالم ہونا چاہیے کہ تم اس آنکھ کو‬
‫اکھاڑ کر باہر پھینک دو‬
‫جو ہاتھ تمہاری بہن کی طرف اٹھے اس‬
‫ھاتھ کو کاٹ دو‬
‫تم اپنی بہن کے محافظ ہو اسکی عزت‬
‫کے رکھوالے‬
‫تمہاری بہنیں اپنی سہیلیوں کو فخر سے‬
‫بتاتی ہیں کہ میرے اتنے بھائی ہیں‬
‫ارے بدبختو‬
‫یہ نہ ھو کہ جیسے پہلی امتوں پر‬
‫عزاب نازل ھوا کرتا تھا‪ .‬تم بھی اس‬
‫عزاب میں مبتال ھوجاو‬

‫اس لیے اپنے اندر غیرت کا مادہ جگاو‬


‫تمہاری ایسی‪ .‬سٹوری سے نوجوان نسل‬
‫پر کیا اثر پڑ رھا ھے اسکا خمیازہ بھی‬
‫تمہیں ھی بھگتنا پڑے گا‬
‫ماں بہن بیٹی یہ وہ محرم اور پاکیزہ‬
‫رشتےہیں‬
‫جنکو تم پر ناز ھوتا ھے فخر ھوتا‬
‫ھے‬
‫جن کی عزتیں ھی تمہاری وجہ سے‬
‫محفوظ ہیں‬

‫اگر تم ھی انکی عزتوں کو لوٹنے لگ‬


‫گئے‬
‫تو پھر اس دنیا سے انسان نام کی چیز‬
‫ھی نھی بچے گی‬
‫بچے گا تو بس‬
‫جانور‪ ،،،،،‬۔۔۔‬
‫دوستو معذرت میں کچھ ذیادہ ھی بول‬
‫گیا مگر یہ غبار بہت دنوں سے میرے‬
‫دل میں تھا‬

‫آپی میری جھاڑ سن کر بُڑ بُر کرتی باہر‬


‫چلی گئی‬

‫میں اٹھا اور باہر صحن میں آکر بیٹھ گیا‬


‫۔۔‬

‫مجھے ابھی بیٹھے کچھ دیر ھی ھوئی‬


‫تھی کے آنٹی فوزیہ گھر میں داخل‬
‫ہوئیں‬

‫میں دروازے کے بلکل سامنے چارپائی‬


‫پر بیٹھا ھوا تھا میرا منہ دروازے کی‬
‫ھی طرف تھا‬
‫میں نے جیسے ہی آنٹی کو اندر داخل‬
‫ہوتے دیکھا تو میری اور آنٹی کی‬
‫نظریں ملیں تو آنٹی مسکرا دی اور میں‬
‫غصہ سے اٹھ کر دوبارا اپنے کمرے‬
‫میں چال گیا‬

‫میں اندر جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا کچھ‬


‫دیر بعد‬
‫آنٹی فوزیہ اندر داخل ہوئیں اور آتے‬
‫ھی میرا کان پکڑ کر زور سے مروڑ‬
‫دیا‬
‫اور بولیں‬

‫بڑی آکڑ اے نواب زادے وچ‬

‫میں کچھ بوال تو نہ مگر میری آنکھوں‬


‫سے موٹے موٹے آنسو نکل کر گرنے‬
‫لگے اور میں بے آواز رونے لگ گیا‬

‫آنٹی نے جب میرے آنسو دیکھے تو‬


‫وہ گبھرا کر میرے ساتھ جڑ کر بیٹھ‬
‫گئیں اور میرا چہرہ اپنی طرف کیا اور‬
‫میری گال پر اور ماتھے پر بوسا لیتے‬
‫ھوے بولی‬

‫ھے چال نہ ھوے تے ایویں بچیاں‬


‫ونگوں رون لگیا اے‬

‫تو میں نے آواز کے ساتھ رونا شروع‬


‫کردیا تو انٹی نے میرا سر اپنے سینے‬
‫کے ساتھ لگا لیا اور میری کمر تھپ‬
‫تھپا کر مجھے ُچپ کروانے لگ گئی‬

‫میری رونے کی آواز سن کر امی بھی‬


‫دوڑی کمرے میں آگئی ۔‬
‫اور پوچھنے لگ گئی کی ہویا اے سب‬
‫خیر تے ہے نہ‬

‫تو آنٹی امی سے بولی‬

‫منڈا کیندا میرا ویا کردو میں وڈا ھوگیاں‬


‫آں‬
‫انٹی کی بات سن کر میں روتا ھوا‬
‫ہنسنے لگ گیا‬
‫تو امی بولی لے کردو ویا‬

‫بُنڈ تون دا ول نئی آیا تے کردو ایسا ویا‬

‫تو میں امی کی بات سن کر چڑ گیا اور‬


‫غصے سے اٹھنے لگا‬
‫تو آنٹی نے مجھے پکڑ کر بٹھا لیا‬

‫انٹی امی کو بولنے لگ گئی کہ‬


‫آپاں ُکج تے خیال کریا کر ہن اے بچہ‬
‫نئی ریا وڈا ھوگیا اے‬

‫تو امی بولی‬


‫اے جنا مرضی وڈا ھوجاے‬
‫میرے واسطے تے بچہ ای رے گا‬

‫کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے‬


‫بعد آنٹی بولی‬
‫یاسر پتر کل توں کم تے نئی جانا‬
‫میں نے امی اور آنٹی کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے حیران ھوکر پوچھا‬

‫کیوں نھی جانا‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫آج میں نے کپڑے دھونے نہر پر جانا‬
‫تھا مگر عظمی اور نسرین ٹویشن سے‬
‫ھی لیٹ واپس آئی کل انہوں نے سکول‬
‫چلے جانا ھے‬
‫پھر اگلے جمعہ پر بات چلی جاے گی‬
‫تو‬
‫تم کل میرے ساتھ نہر پر چلے جانا‬
‫پھر عظمی اور نسرین بھی وہیں ھی‬
‫آجائیں گی‬

‫میں نے کہا میں کیسے چھٹی کر سکتا‬


‫ھوں سیزن ھے دکان پر رش ھوتا ھے‬

‫تو امی میری بات کاٹتے ھوے بولی‬

‫بیجا ایڈا توں وڈا کاماں ریندہ نئی‬

‫اک دن کم تے نئی جائیں گا تے کیڑا‬


‫قیامت آن لگی اے ۔‬
‫تو میں امی کی بات سن کر ُچپ ھوگیا‬
‫امی یہ کہہ کر باہر چلی گئی تو‬
‫آنٹی اٹھی اور پھر بولی‬
‫اب میں بے فکر ھوجاوں نہ‬

‫تو میں نے پھر بہانہ بناتے ھوے کہا کہ‬


‫وہ عظمی اور نسرین سکول کس کے‬
‫ساتھ جائیں گی تو انٹی بولی‬

‫تم انکی فکر مت کرو‬


‫وہ چلی جائیں گی‬

‫بلکہ تم سکول ٹائم پر ھی آجانا وہ بھی‬


‫نہر تک ہمارے ساتھ ھی چلی جائیں‬
‫گی‬
‫اور پھر آگے تو شہر آجاتا ھے ادھر‬
‫کوئی مسئلہ نھی‬

‫تو میں چپ کرگیا‬

‫تو آنٹی پھر میرا سر ہالتے ھوے بولی‬


‫دس فیر آئیں گا کہ نئی‬
‫تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا‬
‫اور آنٹی میرے سر پر ہلکی سی ہاتھ‬
‫سے چپت لگاتے ھوے بولی‬
‫آجائیں چھیتی مینوں تیرے نال اک ہور‬
‫وی کم اے‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا انٹی‬
‫گانڈ ہالتی ھوئی کمرے سے نکل کر‬
‫چلی گئی‬
‫اور میں بیٹھا سوچتا ھی رھا کہ‬
‫کیڑا ایسا کم اے جیڑا نہر تے جا کہ‬
‫ہونا اے‪ ،،،‬۔۔‬
‫اگلے دن میں سکول ٹائم پر ھی گھر‬
‫سے نکال اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ‬
‫گیا‬
‫تو آنٹی کپڑوں کو گٹھری میں باندھ‬
‫رھی تھی آنٹی نے کل واال ہی سوٹ پہنا‬
‫ھوا تھا اور عظمی اور نسرین تیار‬
‫ہوکر ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں‬
‫آنٹی نے مجھے ناشتہ کرنے کا کہا ۔۔‬
‫تو نسرین جھٹ سے بولی کر کے ھی‬
‫آیا ہوگا ۔۔‬

‫تو میں نے کہا کھاؤ کھاو میں تمہارے‬


‫حصہ کا تو نھی کھانے لگا کھا کھا کر‬
‫بھینس بنتی جارہی ھو‬

‫تو وہ بولی تمہیں کوئی تکلیف ھے گھر‬


‫سے ھی کھاتی ہوں تمہارے گھر تو‬
‫کھانے کو نھی جاتی‬

‫تو میں نے کہا آجایا کرو جہاں اتنے‬


‫فقیروں کو روٹی دیتے ہیں وہاں تم بھی‬
‫لے جایا کرو‬
‫تو نسرین جھنجھال کر بولی پونکو‬
‫پونکو تمہیں سواے پونکنے کے آتا بھی‬
‫کیا ھے‬

‫تو میں نے کہا تمہارا جوٹھا جو کھا لیا‬


‫ھے‬

‫تو نسرین رونے کے سے انداز میں‬


‫بولی امییییی‬

‫تو آنٹی بولی نہ پنگے لیا کر فیر رون‬


‫لگ جانی اے‬

‫آنٹی نے پھر مجھے کہا کہ ناشتہ بناوں‬


‫تمہارے لیے‬

‫میں نے آنٹی کو کہا کہ میں ناشتہ‬


‫کرکے آیا ہوں ۔۔‬

‫کچھ دیر بعد ہم سب نہر کی طرف نکل‬


‫پڑے ایک گٹھری میں نے اٹھائی ہوئی‬
‫تھی‬

‫جبکہ ایک ایک عظمی اور نسرین نے‬

‫ہم ایسے ھی فصلوں کے بیچ چلتے نہر‬


‫پر چلے گئے‬
‫اور عظمی اور نسرین سکول کی طرف‬
‫چلدیں‬

‫اور جاتے جاتے یہ کہہ گئیں کہ جب‬


‫تک ہم نہ آئیں گھر نھی جانا‬

‫آنٹی نے ایک گٹھڑی کھول کر کپڑے‬


‫باہر نکالنے شروع کردیے اور نہر کے‬
‫پانی کے پاس کنارے پر پاوں کے بل‬
‫بیٹھ گئی میں بھی ایک سائڈ پر بیٹھ کر‬
‫آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھتا رھا‬

‫آنٹی کپڑے بھی دھو رھی تھی اور ساتھ‬


‫ساتھ مجھ سے باتیں بھی کر رھی تھی‬
‫مگر میں انٹی کی باتوں کا ہوں ھاں میں‬
‫ھی جواب دے رھا تھا‬

‫یہ بات انٹی نے بھی محسوس کی آنٹی‬


‫نے کافی کوشش کی کہ میں انکے ساتھ‬
‫ویسے ھی ہنسی مزاق کروں‬
‫مگر میں سیریس ھو کر بیٹھا رھا اور‬
‫گھاس کے تینکھوں کو توڑ توڑ کر‬
‫کھیتوں کی طرف پھینکتا رھا‬

‫تبھی آنٹی نے‬


‫مجھے کہا یاسر ادھر میرے پاس آکر‬
‫بیٹھ جاو کیسے دور بیٹھے ھو جیسے‬
‫اٹھ کر بھاگنا ھو‬
‫میں آنٹی کے بلکل سامنے بیٹھ گیا مگر‬
‫میری نظریں نیچی ھی تھی‬

‫آنٹی نے مجھے آواز دی کے یاسر‬

‫میں نے سر نیچے کیے ھی کہا جی‬


‫آنٹی جی‬

‫تو‬
‫آنٹی بولی میری طرف دیکھو‬
‫تو میں نے سر اٹھا کر انکے چہرے‬
‫کی طرف دیکھا‬
‫تو آنٹی مسکراتے ھوے بولی‬
‫ناراض ھو ابھی تک‬
‫تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫کہ نھی‬

‫تو آنٹی بولی پھر ایسے منہ لٹکائے‬


‫کیوں بیٹھے ھو‬

‫تو میں نے کہا ویسے ھی آنٹی جی‬

‫تو آنٹی بولی ویسے ھی نھی‬

‫کچھ تو بات ھے مجھے پتہ ھے تم کل‬


‫میرے ڈانٹنے کی وجہ سے ناراض ھو‬

‫تو میں نے کہا نھی آنٹی جی ایسی‬


‫ویسی کوئی بات نھی‬
‫اگر میں ناراض ھوتا تو میں نے آنا ھی‬
‫نھی تھا‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫تو پھر تم اداس اداس کیوں ھو پہلے‬
‫جیسی شرارتیں کہاں گئی‬

‫تو میں نے ہمت کر کے کہا‬


‫میری شرارتوں کی وجہ سے کل آپ‬
‫پریشان ھوگئی تھی اس لیے‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫تم کو پتہ ھے کہ میں تم سے کیوں اتنا‬
‫پیار کرتی ھوں‬
‫تو میں نے کہا جی‬

‫تو آنٹی نے خود ھی وضاحت کرتے‬


‫ھوے کہا‬
‫کہ‬
‫کیوں کہ میرا کوئی بیٹا نھی ھے اور‬
‫میں تم کو اپنا بیٹا ھی سمجھ کر پیار‬
‫اور الڈ کرتی آرھی ھوں‬

‫گلی میں اور بھی کتنے لڑکے ہیں کبھی‬


‫کسی کو ہمارے گھر دیکھا ھے‬
‫یا تمہاری بہنوں نے کبھی کسی لڑکے‬
‫کے ساتھ مزاق وغیرہ کیا ھے‬
‫تو میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫نھی آنٹی جی‬

‫تو آنٹی بولی‬

‫کل تم نے جو کیا تمہیں پتہ بھی ھے کہ‬


‫اسکا صدمہ مجھے کتنا ھوا‬
‫مگر پھر بھی میں تمہارے پیار میں‬
‫کھینچی چلی تمہارے گھر تمہیں منانے‬
‫آگئی تھی‬

‫میں نے کہا‬
‫آنٹی جی میں نے ایسا کیا کیا تھا‬
‫تو آنٹی بولی تمہیں نھی پتہ کہ کیا کیا‬
‫تھا‬

‫تو میں نے نفی میں سر ہال دیا‬

‫تو آنٹی بولی دیکھو یاسر میں مانتی ہوں‬


‫کہ تم اب بچے نھی رھے بلکہ بڑے‬
‫ھوگئے ھو‬
‫مگر تم کو ہمارے رشتے اور عمر کا‬
‫خیال رکھنا چاہیے تھا‬

‫تم نے کل جو میرے ساتھ کیا مجھے‬


‫ذرا سی بھی تم سے یہ امید نھی تھی‬
‫میں نےکہا‬
‫آنٹی جی آپ بھی مجھے ُگد ُگدی کر‬
‫رھی تھی‬
‫وہ تو میں نے اپنا آپ بچانے کے لیے‬
‫آپکو بھی ُگد گدی کردی‬

‫اور میں نے سوری بھی کرلی تھی‬


‫مگر آپ اتنا ناراض ھوگئیں کہ مجھے‬
‫گھر سے ھی نکال دیا‬

‫آپکو پتہ ھے کہ میں گھر آکر کتنا رویا‬


‫تھا‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫ھے نہ کمال جیا میں کیڑی گل کرن دئی‬
‫آں تے اے منڈا گل کدر لے کے جاندا‬
‫پیا اے‬

‫تو میں نے پھر معصوم سا منہ بنا کر‬


‫کہا‬
‫کہ‬
‫آنٹی تو پھر آپ بتا دیں کہ کس بات کی‬
‫وجہ سے آپ ناراض ہوئیں تھی ۔‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫تینوں سچی اے نئی پتہ‬
‫تو میں نے پھر نفی میں سر ہال دیا‬

‫تو آنٹی بولی کل جو تم میرے پیچھے‬


‫کھڑے میرے ساتھ کیا کررھے تھے‬

‫میں نے کہا ُگد گدی‬

‫تو آنٹی جھنجھال کر بولی گد گدی کی‬


‫بات نھی کررھی‬

‫میرے پیچھے کیا کررھے تھے‬

‫میں نے پھر کہا آنٹی جی گد گدی ھی‬


‫کررھا تھا‬
‫تو آنٹی اپنے ماتھے پر ھاتھ مارتے‬
‫ھوے بولی‬
‫کوئی حال نئی تیرا‬

‫تینوں سچی اے نئی پتہ‬

‫میں نے کہا آنٹی جی آپکی قسم مجھے‬


‫نھی پتہ کہ آپ کیا کہنا چاھ رھی ھو‬

‫تو آنٹی بولی‬


‫چلو مان لیا کہ تمہیں نھی پتہ کچھ بھی‬
‫تو پھر تمہارا لن اتنا بڑا کیسے ھوگیا‬
‫تھا‬

‫میں آنٹی کے منہ سے لن کا لفظ سن کر‬


‫ہکا بکا ہو کر آنٹی کا منہ دیکھنے لگ‬
‫گیا‬

‫تو آنٹی نے پھر کہا بتاو اب الو کی‬


‫طرح آنکھیں کھولے مجھے کیا دیکھ‬
‫رھے ہو‬

‫مجھے ایکدم ہوش آیا تو میں نے شرم‬


‫سے سر ُجھکا لیا‬
‫آنٹی نے پھر کہا‬
‫اب ُچپ کیوں ھو بولو‬

‫میں پھر ُچپ ھی رھا اب میں کیا بتاتا‬


‫آنٹی کو مجھے تو ویسے ھی اس بات‬
‫کی شرم آرھی تھی کے آنٹی نے میرے‬
‫لن کا ذکر کیسے بےباکی سے کیا ھے‬
‫ذرا سی بھی شرم نھی کی‬

‫آنٹی بولی جھوٹے ھو نہ اس لیے اب تم‬


‫سے بوال نھی جارھا‬
‫تو میں نے جھٹ سے سر اوپر اٹھایا‬
‫اور آنٹی کو کہا کہ میں جھوٹا نھی‬
‫ھوں‬
‫تو آنٹی پھر بولی بتاو پھر تمہارا لن‬
‫کیسے کھڑا ھوا‬

‫تو میں نے کہا آنٹی جی آپ کیسی باتیں‬


‫کررھی ھو‬

‫تو آنٹی بولی تم ایسے کام کرسکتے ھو‬


‫تو میں ایسی باتیں نھی کر سکتی‬

‫جتنی تمہاری عمر ھے اس سے زیادہ‬


‫میرا تجربہ ھے اور تم ھو کہ مجھے‬
‫پاگل بنانے کی کوشش کررھے ھو‬
‫میں نے تھوڑا غصے سے کہا کہ میں‬
‫نے آپ کو پاگل کیوں بنانا ھے‬

‫آنٹی بولی تو اور کیا کررھے ھو‬

‫پاگل ھی بنا رھے ھو‬

‫میں نے کہا آنٹی جی اب آپکو مجھ پر‬


‫یقین ھی نھی تو میں کیا کرسکتا ھوں‬

‫آنٹی بولی یقین کیسے کروں میں خود‬


‫گواہ ہوں‬

‫میں نے کہا کس بات کی‬


‫آنٹی بنا جھجھک بولی‬
‫میرے پیچھے لن کھڑا کر کے لگانے‬
‫کی‬

‫مجھے ذرا بھی امید نھی تھی کہ آنٹی‬


‫اتنی واحیات باتیں بھی کرسکتی ھے‬
‫اور وہ بھی میرے ساتھ‬

‫میں سر نیچے کر کے دانت پیسنے لگ‬


‫گیا مجھے شرم بھی آرھی تھی اور آنٹی‬
‫پر غصہ بھی‬

‫آرھا تھا‬
‫تب آنٹی بولی بولو اب کیا کہتے ھو‬

‫میں پہلے ھی جال بُھنا بیٹھا ھوا تھا‬


‫غصہ سے سر اوپر کیا‬
‫اور بوال‬

‫آنٹی آپ کی گانڈ ھی اتنی نرم تھی اور‬


‫آپکا جسم اتنا نرم تھا کہ مجھے خود پتہ‬
‫نھی چال اور میرا لن کھڑا ھوگیا اس‬
‫میں میرا کوئی قصور نھی آپ کے‬
‫سیکسی جسم کا قصور ھے جس نے‬
‫مجھے بہکا دیا‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں سارا فلسفہ‬
‫کہہ ڈاال‬

‫آنٹی نے جب میرے منہ سے اپنی گانڈ‬


‫اور نرم سیکسی جسم جیسے الفاِظ سنے‬
‫تو آنٹی کا چہرہ ایکدم سرخ ھوگیا‬

‫اور انکی آنکھوں میں سیکس کی بھوک‬


‫کی چمک نظر آئی‬

‫آنٹی نے یہ سنتے منہ نیچے کر لیا اور‬


‫بولی‬
‫بے شرم انسان شرم کرو میں تمہاری‬
‫آنٹی ہوں اور تم میرے ساتھ ایسی‬
‫واحیات باتیں کررھے ھو‬
‫میں نے انٹی پر ایک اور وار کردیا‬

‫میں نے کہا‬
‫سچ ھی تو کہا ھے آنٹی جی آپ ھو ھی‬
‫اتنی خوبصورت اب میں کیا کروں‬

‫میرا یہ وار کامیاب رھا آنٹی ایسے‬


‫شرمائی جیسے میری منگیتر ھو‬
‫اور کپڑے دھونے واال ڈنڈا مجھے‬
‫ڈرانے کے لیے میری طرف کیا جیسے‬
‫مجھے مارنے لگی ھو‬
‫اور بولی‬
‫ٹھہر جا میں کڈنی آ تیری ساری‬
‫خوبصورتی‬

‫بغیرت نہ ھوے تے‬


‫آنٹی نے جیسے ھی میری طرف ڈنڈا‬
‫کیا میں شوخی سی پیچھے کی طرف‬
‫ھوا اور اٹھ کر بھاگنے لگا تو میرا پاوں‬
‫وھاں سے پھسال اور میں دھڑام سے‬
‫نہر میں جاگرا‪،‬‬
‫میں جیسے ھی نہر میں گرا تو مجھے‬
‫ایکدم غوطہ آیا میرے ناک اور منہ میں‬
‫پانی چال گیا‬

‫یہ تو شکر تھا کہ نہر اتنی گہری نھی‬


‫تھی پانی میرے کندھوں تک ھی تھا‬
‫مگر اچانک گرنے کی وجہ سے غوطہ‬
‫آگیا تھا‬
‫آنٹی نے جب مجھے گرتے دیکھا تو‬
‫انہوں نے بھی کچھ سوچے سمجھے‬
‫بغیر میرے اوپر ھی چھالنگ لگا دی‬
‫مجھے بچانے کے لیے‬

‫اور میں غوطہ آنا کی وجہ سے پانی‬


‫میں ھاتھ مار رھا تھا جبکہ آنٹی نے‬
‫میری کمر کے گرد بازو ڈال کر مجھے‬
‫اپنے سینے کے ساتھ لگایا ھوا تھا‬
‫دوستو گاوں کا ماحول پہلے ایسا ھوتا‬
‫تھا کہ اگر نہر پر عورتیں کپڑے دھو‬
‫رھی ھوتی تو‬
‫کوئی مرد بھی اس جگہ کے ارد گرد‬
‫نظر نہ آتا اگر کوئی اچانک ادھر آ بھی‬
‫جاتا تو دور سے ھی اپنا راستہ بدل لیا‬
‫کرتا تھا‬

‫یہ ڈر یا خوف کی وجہ نھی‬


‫بلکہ ثقافت ھوتی تھی‬

‫اس لیے ہم جس جگہ پر تھے کسی کے‬


‫آنے کا کوئی خطرہ نھی تھا‪ ،،،،‬۔۔۔‬
‫میرے اور آنٹی کے کپڑے مکمل بھیگ‬
‫چکے تھے آنٹی کا رنگ بھی اڑا ھوا‬
‫تھا‬

‫آنٹی نے کس کر مجھے اپنے ساتھ لگایا‬


‫ھوا تھا انکی چھاتیاں میرے سینے کے‬
‫ساتھ چپکی ھوئی تھیں اور نیچے سے‬
‫بھی ہم دونوں کی تھائیاں ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ لگ رھی تھی‬
‫نہر چھوٹی سی تھی اس لیے پانی کا‬
‫بہاو بھی کچھ ذیادہ نھی تھا اس لیے ہم‬
‫دونوں کے پاوں پانی کے اندر ریت میں‬
‫ایک جگہ ٹھہرے ھوے تھے میں نے‬
‫آنٹی کے کندھوں پر ھاتھ رکھے ھوے‬
‫تھے‬
‫جبکہ پہلے اپنا آپ سنبھالتے میرے ھاتھ‬
‫آنٹی کی پھدی اور پیٹ پر لگ گئے‬
‫تھے مگر وہ غیر ارادی طور لگے‬
‫تھے‬

‫میں بلکل ریلکس ھوچکا تھا‬


‫جبکہ آنٹی ابھی بھی مجھ سے پوچھ‬
‫رھی تھی کہ چوٹ تو نھی لگی پاگل تو‬
‫نھی ھوگئے تھے اگر ذیادہ غوطہ آجاتا‬
‫تو کیا ھوتا‬

‫ڈوبنے کا تو چانس ھی نھی تھا کیوں کہ‬


‫پانی ھی بہت کم سطح پر تھا‬
‫آنٹی نہر کے اندر ھی میرا منہ سر چوم‬
‫رھی تھی‬

‫کہ بچ گیا ھوں میں جبکہ ایسی کوئی‬


‫خطرے والی کنڈیشن بھی نھی تھی‬

‫میں نے کہا‬
‫آنٹی آپ مجھے ڈنڈا مارنے لگی تھی‬
‫اس لیے میں ڈر گیا تھا اور میرا پیر‬
‫پھسل گیا تھا‬

‫تو آنٹی بولی میں تجھے مار سکتی ھو‬


‫بھال‬
‫چال ھویاں اے‬

‫میں نے کہا مارنے تو لگی تھی آپ‬

‫آنٹی بولی‬
‫میں تو ڈرا رھی تھی‬
‫تم جو گندی باتیں کررھے تھے‬

‫ہم دونوں نے وہیں کھڑے پھر گلے‬


‫شکوے شروع کردیے تھے اور یہ‬
‫بھول گئے تھے کہ باہر بھی نکلنا ھے‬
‫آنٹی بولی تمہیں شرم نھی آتی‬

‫میں نے کہا کس بات کی تو نے میری‬


‫کمر کے گرد گرفت تھوڑی ڈھیلی کی‬
‫جس سے ہمارا جسم جو پہلے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ چپکا ھوا تھا اب ذرا‬
‫ڈھیال ھوگیا مگر انکا نیچے واال حصہ‬
‫اب بھی میری ٹانگوں کے ساتھ ھی لگ‬
‫رھا تھا اصل میں میرا روخ اسطرف تھا‬
‫جدھر کو پانی کا بہاو تھا اور آنٹی کا‬
‫رخ پانی کے بہاو کے مخالف تھا اس‬
‫لیے مجھے پانی پیچھے سے دھکلینے‬
‫کی کوشش کرتے ھوے میرا لن واال‬
‫حصہ آنٹی کی پھدی والے حصہ کے‬
‫ساتھ ٹچ کرتا‬
‫یوں کہہ لیں جیسے سلو موشن میں‬
‫گھسے مارتے ہیں بلکل کچھ ایسا ھی‬
‫سین پانی کے اندر تھا‪،،،،‬۔‬

‫خیر آنٹی بولی میرے ساتھ ایسی باتیں‬


‫کرتے ھو شرم نھی آتی‬

‫میں نے کہا‬
‫آنٹی آپ سچ سن کر بھی غصہ کرتی‬
‫ھو اور جھوٹ سن کر بھی‬

‫میری اچانک آنٹی کے گلے پر نظر‬


‫پڑی تو ایسے لگ رھا تھا کہ آنٹی بلکل‬
‫ننگی ھے بس کالے رنگ کا بریزیر‬
‫ھی پہنا ھے اس میں سے آنٹی کا گورا‬
‫جسم چمک رھا تھا‬

‫آنٹی نے سکن کلر پہنا ھوا تھا جو انکے‬


‫رنگ کے ساتھ میچ ھورھا تھا‬
‫اوپر سے جب انکے کپڑے گیلے ھوے‬
‫تو‬
‫سکن کلر ویسے ھی غائب ھوگیا‬
‫الن کا سوٹ تھا انکے جسم کے ساتھ‬
‫ایسے چپکا جیسے جسم کا حصہ ھی‬
‫ھو‬
‫آنٹی کے آدھے ممے پانی کے اندر‬
‫تھے آدھے پانی کے باہر‬
‫انکے مموں کے درمیان والی الئین جو‬
‫بریزیر سے باہر تھی وہ صاف نظر‬
‫آرھی تھی‬

‫اور اوپر سے قیامت کے انکے مموں‬


‫کی نوک میرے سینے کے ساتھ ٹچ‬
‫ھورھی تھی‬
‫اور نیچے سے لن اور پھدی مالپ‬
‫کرنے کو ترس رھے تھے‬

‫آنٹی کے ادھ ننگے اور سیکسی ممے‬


‫دیکھ کر میرا لن پانی کے اندر ھی کھڑا‬
‫ھوگیا اور آنٹی کی پھدی کے اوپر‬
‫چونچیں مارنے لگ گیا‬
‫اب پھدی کھڑی تو ہو نھی سکتی تھی‬
‫اس لیے مجھے پھدی کی کنڈیشن کا‬
‫اندازہ نھی تھا کہ وہ بیچاری کس حال‬
‫میں ھے‪، ،‬۔۔‬

‫آنٹی بولی سچ سچ ھی ھوتا ھے اور‬


‫جھوٹ جھوٹ ھی‬

‫میں نے کہا تو آنٹی پھر سچ سن کر‬


‫غصہ کیوں کرتی ھو‬
‫آنٹی بولی کون سا سچ‬
‫میں نے کہا‬
‫جس کی وجہ سے یہ سب ھوا تھا‬

‫نیچے سے میرا لن فل اکڑ کر آنٹی کے‬


‫چڈوں میں گھس جاتا اور باھر آجاتا یہ‬
‫سب پانی کی مہربانی تھی جو نیچے‬
‫سے ہماری مدد کررھا تھا‬

‫آنٹی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ نیچے کیا‬


‫ھورھا ھے‬

‫آنٹی کی بھی اب آواز اور لہجہ بدلتا‬


‫جارھا تھا‬
‫وہ جان بوجھ کر باتوں کو طویل‬
‫کررھی تھی جبکہ یہ باتیں باھر نکل کر‬
‫بھی ھوسکتی تھی‬

‫مگر تب جب آنٹی چاھتی ۔۔۔‬


‫آنٹی بولی کونسا کام‬
‫میں نے کہا‬
‫وہ ھی جس کی وجہ سے آپ ناراض‬
‫ھوئی تھی‬

‫آنٹی کی انکھوں میں الل ڈورے آنے‬


‫شروع ھوچکے تھے‬

‫آنٹی کی آواز انکا ساتھ دینا چھوڑ رھی‬


‫تھی‬

‫نیچے لن اپنا کام کر چکا تھا آنٹی نیچے‬


‫سے لن کو اپنے چڈوں میں دبا کر پھدی‬
‫کے اوپر رگڑ لگا کر چھوڑتی لن باہر‬
‫آتا تو پانی پھر میرے گانڈ کو دھکا‬
‫مارتا اور لن پھر آنٹی کے چڈوں میں‬
‫پھدی کے اوپر پھدی کے ہونٹوں کو‬
‫رگڑتا ھوا اندر جاتا اور آنٹی پورے لن‬
‫کو اپنے چڈوں میں دبا کر چھوڑ دیتی‬
‫اور لن پھر پھدی کو رگڑتا ھوا باہر‬
‫آجاتا‬

‫آنٹی بولی بتاوووو نہ کونسا کام‬


‫میں نے کہا وہ ھی‬
‫تو آنٹی فل نشیلی آواز میں بولی‬
‫کونسسسا‬

‫میں سمجھ چکا تھا کہ لوھا اب فُل گرم‬


‫ھو چکا ھے‬

‫میں نے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور آنٹی کا‬


‫ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا کر اپنے اور آنٹی‬
‫کے چڈوں کے پاس لیجا کر اپنے لن‬
‫کے اوپر رکھتے ھوے کہا‬
‫یہ والی بات‬

‫تو آنٹی نے ویسے ھی مدہوشی میں لن‬


‫کو مٹھی میں پکڑ لیا میرے کپڑے بھی‬
‫گیلے تھے اور لن کے ساتھ چپکے‬
‫ھوے تھے اس لیے پورا لن ھی‬

‫آنٹی کے ہاتھ میں آگیا آنٹی نے لن کی‬


‫تین چار دفعہ اوپر نیچے سے ُمٹھیاں‬
‫بھریں‬
‫اور لن کے سائز کو چیک کیا اسکی‬
‫موٹائی کو چیک کیا‬
‫اور بولی‬

‫یاسسسرررر تم پھر باز نھی آرھے نہ‬

‫اور لن کو اپنے چڈوں میں لے کے پھر‬


‫ھاتھ میری کمر کے گرد ڈال لیے اور‬
‫ہلکا ہلکا آگے کو پُش کرنے لگ گئیں‬

‫تو میں نے کہا‪ .‬آنٹی میرا کوئی قصور‬


‫نھی ھے‬

‫تو آنٹی میرے لن کو اپنے چڈوں مین‬


‫لیے گھسے مارے ھوے بولی‬
‫کس کا قصور ھے‬

‫میں نے ہاتھ نیچے لیجا کر دونوں‬


‫ھاتھوں سے آنٹی کی بنڈ کی پھاڑیوں‬
‫کو پکڑ لیا اور مٹھی میں بھینچنا شروع‬
‫کردیا‬
‫اور بوال‬

‫آنٹی جی آپکی اس نرم اور موٹی سی‬


‫گانڈ کا قصور ھے انٹی کے دونوں‬
‫ھاتھوں نے میری کمر پر کی جلد کو‬
‫اپنی مٹھیوں میں بھینچنا شروع کردیا‬
‫تھا ۔‬

‫آنٹی فل گرم ھوچکی تھی انکی آنکھیں‬


‫بند ھو رھی تھی‬

‫آنٹی بولی‬
‫میری گانڈ اتنی بھی موٹی نھی ھے جو‬
‫تم اسے موٹی کہہ رھے ھو‬
‫میں نے آنٹی کے نیچے پر انگلیاں لگا‬
‫کر چیک کیا تو آنٹی نے السٹک پہنی‬
‫ھوئی تھی‬

‫میں نے اندازے سے قمیض کے نیچے‬


‫ہاتھ کیے انکی قمیض پہلے ھی پانی‬
‫کے بہاو سے گانڈ سے اوپر ھوک پانی‬
‫میں بہہ رھی تھی‬
‫اس لیے آسانی سے میں نے انکی‬
‫شلوار میں ہاتھ ڈاال اور انکی شلوار گانڈ‬
‫سے نیچے کردی اور انکی ننگی مالئم‬
‫گانڈ کو مٹھیوں میں بھر لیا اور کہا‬

‫موٹی ھے دیکھیں کیسے میرے ہاتھ‬


‫میں بھی نھی آرھی‬
‫اور دیکھیں آنٹی جی کتنی مالئم بھی‬
‫ھے‬

‫آنٹی بولی‬
‫تمہارا لن بھی کتنا بڑا ھے یہ کون سا‬
‫چھوٹا ھے‬
‫دیکھو میرے آگے سے ہوکر پیچھے‬
‫میری بُنڈ کے پاس سے بھی نکل رھا‬
‫ھے‬

‫اور ساتھ ھی آنٹی نے نیچے ھاتھ کر‬


‫کے میرے نالے کے سرے کو پکڑا‪،‬‬
‫کر کھینچا جس سے میری شلوار بھی‬
‫نیچے چلی گی اور انٹی نے میرا لن‬
‫پکڑا کر اپنی بالوں سے پاک نرم پھدی‬
‫کے ساتھ لگا دیا اور‬
‫بولی یہ دیکھو کتنا بڑا ھے تمہارا یاسر‬

‫آنٹی نے جب خود دعوت سیکس نامہ‬


‫بھیج دیا تو میری ساری جھجک اور‬
‫شرم جاتی رھی میں نے ہاتھ نیچے کیا‬
‫اور لن کو جڑ سے پکڑا اور تھوڑا سا‬
‫نیچے ھوا اور اپنے ایک ُگھٹنے کی‬
‫مدد سے آنٹی کی ٹانگ کو تھوڑا سا‬
‫کھوال اور لن کے ٹوپے کو آنٹی کی‬
‫پھولی ھوئی موٹے موٹے ہونٹوں والی‬
‫پھدی پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا‬
‫مارا تو لن سارے کا سارا‬
‫بغیر سوچے سمجھے اندر چال گیا‬

‫آنٹی نے ایکدم چیخ ماری اور میرے‬


‫کندھے پر دانت گاڑھ دیے آنٹی کی‬
‫آدھی چیخ نکلی تھی اور آدھی میرے‬
‫کندھے میں دب گئی‬

‫اور پھر آنٹی بولی‬

‫مار دتا ایییییی کھسماں‬

‫اوییییی‬
‫اینی زوررررر دی سارا ای کردتا‬
‫ایییییییی ظالماں‬
‫مار سٹیا ای‬
‫افففففف‬
‫میں نے آنٹی کی چیخ اور آہوں اور‬
‫سسکیوں کی پروا کیے بغیر لن کو پھر‬
‫باہر نکاال اور پھر ویسے ھی سارا اندر‬
‫کردیا‬

‫تو انٹی‬
‫بولی‬

‫ھاااےےےےے ماردتا ایییییی‬


‫ہولییییییی کرلے‬
‫کیڑے بدلے لین لگاں ایییییء‬

‫آنٹی کی اس طرح کی آوازیں سن کر‬


‫مجھے اور جوش چڑھنے لگا اور میں‬
‫نے چھ سات دفعہ ایسے ھی لن کو باہر‬
‫نکاال اور اندازے سے ھی نشانہ لگا کر‬
‫اندر کر دیتا‬

‫میرا نشانہ بلکل درست لگتا‬

‫لگتا بھی کیسے نہ کتنی دیر سے تو لن‬


‫پھدی کی صالح مشورے ہورے تھے‬
‫اچھی جان پہچان ھوجاے تو کون راستہ‬
‫بھولتا ھے‬

‫اس لیے لن سہی دشہ میں چوٹ لگا رھا‬


‫تھا‬

‫اب میں نے آنٹی کی گانڈ کو دونوں‬


‫ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا اور‬
‫مسلسل لن کو پھدی‪ .‬کی سیر کروا رھا‬
‫تھا‬

‫پھدی بھی چکنی اور پانی کی وجہ سے‬


‫گیلی تھی اس لیے لن روانی کے ساتھ‬
‫ایک ردھم میں چل رھا تھا میں آنٹی‬
‫کے ممے کو کپڑوں کے اوپر سے ھی‬
‫پانی کے اندر ھی منہ میں لے کر چوس‬
‫رھا تھا‬
‫جس سے انکے کپڑوں کا اور نہر کے‬
‫پانی کا ذائقہ میرے منہ میں جارھا تھا‬

‫اس وقت تو مموں پر زہر بھی لگا ہوتا‬


‫تو میں پھر بھی ممے چوس لیتا‬
‫یہ تو پھر بھی نہر کا گدال پانی تھا‬

‫آنٹی اب پورا مزا لے رھی تھی اور‬


‫میرے ہونٹ میری گال میرے ماتھے کو‬
‫چومی جارھی تھی‬

‫ہم دونوں ھی فل مستی میں لگے ھوے‬


‫تھے‬

‫اچانک آنٹی کا جنون بڑھتا گیا‬


‫آنٹی نے مجھے کس کر جپھی ڈال لی‬
‫اور زور زور سے گانڈ کو آگے کرنے‬
‫کی کوشش کرتی رھی اس جنون کے‬
‫آگے پانی کا بہاو بھی دم توڑ گیا اور‬
‫آنٹی کی گانڈ پانی کو چیرتی ھوئی‬
‫پیچھے سے آگے کو آکر دھکا مارتی‬
‫جس سے لن جھٹکے سے اندر جاتا‬
‫اور‬

‫آنٹی منہ سے کہتی‬


‫ھاےےےےے امممم ۔ افففففف‬
‫ایتھے مار ایتھے ہاں انج ای مار ایتھے‬
‫ہاں ہٹ ہٹ کہ مار شاوا ش‬

‫مجھے بھی ایسی آوازیں سن کر مزید‬


‫جوش انے لگ جاتا اور میں بھی پانی‬
‫جو چیرتا ھوا زور زور سے ک‬
‫گھسے مارنے لگ گیا‬

‫اچانک آنٹی کے جسم کو جھٹکے لگنے‬


‫شروع ھوگئے اور آنٹی‬
‫نے زور سے لن کو پھدی میں بھینچتے‬
‫ھو میری گانڈ کو پکڑ کر اپنی طرف‬
‫زورر لگا کر اپنے چڈے ساتھ مال لیے‬
‫اور بولی ھاےےےےےےے گئیییییییی‬
‫میں اور پھر کافی جھٹکے لینے کے‬
‫بعد پھدی کو بھی ڈھیال چھوڑ دیا چڈوں‬
‫کو بھی اور میری گانڈ کو بھی‬

‫میں نے پھر گیلی اور گرم گرم منی‬


‫سے بھری پھدی میں ھی گھسے مارنا‬
‫شروع کردیے‬
‫اور میرا لن نہر کے پانی سے آنٹی کی‬
‫پھدی کی اندر سے صفائی کرنے لگ‬
‫گیا‬

‫کچھ دیر بعد میرا بھی چھوٹنے کا وقت‬


‫آگیا میں‪ .‬نے آنٹی کے ہونٹوں کو اپنے‬
‫ہونٹوں جکڑ لیا آنٹی کو۔فرنچ کس تو‬
‫کرنی نھی آتی تھی بس ایسے ہی‬
‫بُچ بُچ کرتے ھوے چومی جارھی تھی‬

‫پھر میری سپیڈ بھی تیز ھوگئی اور میں‬


‫نے آٹھ دس جاندار سٹروک لگاے اور‬
‫آنٹی کی پھدی کے اندر ھی لن نے‬
‫الٹیاں شروع کردیں اور آخری قطرے‬
‫تک لن اندر ھی ہچکیاں لے لے کر‬
‫ایک آنکھ سے آنسو بہاتے رھا‬

‫اس سے پہلے کہ ہم علیحدہ ھوتے‬


‫اور میں لن پھدی سے نکالتا‬
‫کہ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے‬
‫کا نیچے اٹک گیا جب میں نے سامنے‬
‫‪....‬دیکھا؟؟؟‬

‫میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو‬


‫مجھے دور سے ایک موٹرسائکل سوار‬
‫آتا ھوا نظر آیا‬

‫میں نے آنٹی کو کہا آنٹی جلدی سے‬


‫شلوار اوپر کرلو پیچھے دیکھو۔۔‪،،،‬۔‬

‫آنٹی نے بھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو‬


‫آنٹی کا بھی رنگ اڑ گیا‬

‫میں نے جلدی سے نہر میں ڈبکی لگائی‬


‫اور پاوں کے بل بیٹھ کر شلوار کو پکڑا‬
‫اور کھڑا ھوگیا‬
‫اور جلدی سے میں نے ناال باندھا‬

‫اور آنٹی فوزیہ ابھی بھی سکتے کے‬


‫عالم میں کھڑی کبھی میری طرف دیکھ‬
‫رھی تھی کبھی پیچھے موٹر سائکل‬
‫سوار کو۔‬

‫میں نے آنٹی کو پکڑ کر ہالیا‬


‫آنٹی جلدی کرووووو‬

‫آنٹی نیچے جھک کر شلوار پکڑنے کے‬


‫لیے ھاتھ مارنے لگ گئی‬
‫مگر شلوار نیچے پاوں تک تھی‬

‫آنٹی بولی یاسر‬


‫مجھ سے شلوار نھی پکڑی جارھی‬

‫میں نے جواب دیے بغیر‬


‫پھر اپنی ناک کو پکڑ کر دبایا اور‬
‫نیچے پانی میں چال گیا‬

‫اور آنٹی کی شلوار کو ایک ھاتھ سے‬


‫پکڑ کر اوپر کی طرف کر کے آنٹی‬
‫کے ھاتھ میں پکڑا دی‬

‫شلوار اوپر کرکے آنٹی کے ہاتھ میں‬


‫پکڑواتے وقت میرا ھاتھ دو دفعہ آنٹی‬
‫کی پھدی کے اوپر لگا‬

‫مگر اس وقت میری اپنی جان پر بنی‬


‫ھوئی تھی‬

‫اس لیے پھدی دماغ سے اتر چکی تھی‬

‫میں نے آنٹی کے ہاتھ میں شلوار‬


‫پکڑاتے ھی‬
‫پانی کے اندر ھی مخلف سمت ُجست‬
‫لگائی اور اندر ھی اندر تیرتا ھو‬
‫دوسرے کنارے کے پاس جا کر پانی‬
‫سے سر نکاال‪ .‬اور‬
‫آنٹی کی طرف دیکھا جو حیران پریشان‬
‫ھوئی ادھر ادھر دیکھ کر مجھے تالش‬
‫کررھی تھی‬

‫آنٹی نے جیسے ھی مجھے دوسرے‬


‫کنارے پر دیکھا تو ان کی جان میں جان‬
‫آئی‬

‫اتنی دیر میں موٹر سائکل سوار‬


‫ہم سے کچھ ھی دور پیچھے سے ھی‬
‫نہر کی پٹری سے اتر کر نیچے چالگیا‬
‫تھا‬
‫شاید اس نے آنٹی کو پانی میں اترے‬
‫دیکھ لیا تھا اور وہ یہ سمجھا ھوگا کہ‬
‫آنٹی نہا رھی ھے‬

‫مگر اسے کیا پتہ تھا‬


‫کہ کچھ دیر پہلے آنٹی مجھ دے ُچدوا‬
‫رھی تھی‬

‫خیر آنٹی نے مجھے آواز دی کہ اب‬


‫آجاو‬
‫وہ چال گیا‬

‫میں نے پھر پانی کے اندر سے ڈبکی‬


‫لگائی اور‬
‫پانی کے اندر ھی تیرتا ھوا‬
‫آنٹی کی ٹانگوں کے پاس آیا اور دونوں‬
‫ھاتھوں سے آنٹی کی پنڈلیاں پکڑ لی‬

‫آنٹی پہلے تو ایکدم گبھرا گی کے کس‬


‫نے انکی پنڈلیوں کو دبوچا ھے مگر‬
‫جیسے ھی میں پانی سے سر نکال کر‬
‫انکے بلکل سامنے آیا‬
‫تو آنٹی نے میرے سر پر چپت مارتے‬
‫ھوے کہا‬

‫میری جان ای کڈ دتی سی‬

‫میں نے کہا آنٹی جی جان تو میری‬


‫نکال دی آپ نے‬
‫تو آنٹی میری گال کو پکڑ کر مسلتے‬
‫ھوے بولی‬

‫جیڑی میری جان کڈی اے اووووو‬

‫تو میں نے موضوع بدلتے ھوے کہا‬


‫آنٹی جلدی سے باہر نکلیں یہ نہ ھو کہ‬
‫کوئی آجاے‬

‫اور یہ کہتے ھوے ھی میں پانی سے‬


‫باھر نکل آیا‬

‫تو آنٹی باھر نکلنے کی کوشش کرنے‬


‫لگی مگر ان سے نکال نھی جا رھا تھا‬
‫وہ بار بار سلپ ھوکر پھر پانی میں‬
‫چلی جاتی‬

‫آنٹی نے اپنا ہاتھ میری طرف کیا کہ‬


‫مجھے نکالوں باہر‬

‫میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور انکو باہر‬


‫کھینچا تو آنٹی گیلے کپڑوں کے ساتھ‬
‫جھک کر گھاس کو پکڑے باہر نکلنے‬
‫لگی آنٹی جب جھکی تو انکے گلے میں‬
‫سے پانی باھر نکلنے لگا جو کے‬
‫بریزیر میں بھرا ھوا تھا‬
‫میری جیسے ھی نظر آنٹی کے گلے‬
‫میں پڑی تو انکے ادھ ننگے ممے‬
‫قمیض سے باھر کو آنے کے لیے بے‬
‫چین تھے‬

‫آنٹی جب باھر نکلی تو انکا سارا جسم‬


‫ننگا نظر آرھا تھا‬
‫انکے کپڑے انکے ساتھ چپکے ھوے‬
‫تھے آگے سے انکی پھدی نے انکی‬
‫شلوار اور قمیض کو اہنے ہونٹوں میں‬
‫بھینچا ھوا تھا‬

‫انکا کالے رنگ کا بریزیر بلکل واضع‬


‫نظر آرھا تھا‬
‫میں تو آنٹی کے فگر میں کو دیکھ کر‬
‫ھی بے ہوش ھونے واال ھوگیا‬

‫میں آنکھیں پھاڑے آنٹی کی جسم کو‬


‫دیکھی جارھا تھا‬

‫آنٹی نے جب مجھے اپنے جسم کو‬


‫گھورتے دیکھا تو جلدی سے سر نیچے‬
‫کر کے قمیض کا پلو پکڑ کر نچوڑتے‬
‫ھوے مجھ سے‬
‫َُکہنے لگی‬

‫مینوں وی سارا ِگال کر دتا ای‬


‫ہن میں کیڑے کپڑے پاواں گی‬
‫سارے تے تُون والے نے‬

‫پھر ایکدم آنٹی نے میری طرف دیکھا‬


‫اور کہنے لگی‬
‫یاسر آج جو ھوا اچھا نھی ھوا‬
‫میں کیسے تمہارا سامنا کروں گی‬
‫مجھے تو تمہارے سامنے کھڑے ہونے‬
‫میں بھی شرم آرھی ھے‬

‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے معاف‬


‫کردیں اس میں میری بھی غلطی ھے‬
‫میں بھی بہک گیا تھا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫یاسر غلطی میری بھی ھے مجھے خود‬
‫ہوش نھی رھا کہ جسے آج تک اپنا بیٹا‬
‫سمجھتی رھی اس کے ساتھ ھی‪ ،،،،‬۔۔۔۔‬

‫میں نے کہا آنٹی جی‬


‫چھوڑیں اب اس بات کو ۔۔‬

‫پریشان مت ہوں یہ بات ہم دونوں کے‬


‫بیچ ھی رھے گی کسی کو پتہ نھی چلے‬
‫گا‬

‫آنٹی کچھ دیر ایسے ھی پریشان رھی‬


‫اور خود کو کوستی رھی کہ میں کیا کر‬
‫بیٹھی ہوں وغیرہ وغیرہ‪،‬‬

‫میں نے کپڑوں کی گٹھری میں سے‬


‫ایک سوٹ نکاال اور آنٹی کی طرف‬
‫بڑھاتے ھوے کہا یہ‬
‫دھونے واال سوٹ ھی پہن لیں آپ ساری‬
‫گیلی ھوگئی ہیں اگر کوئی آگیا تو کیا‬
‫سوچے گا ۔۔‬
‫تو آنٹی نے میرے ھاتھ سے کپڑے‬
‫پکڑتے ھو کہا‬

‫شرم کر ہُن تے مینوں آنٹی نہ کہ‬


‫میں نے کہا‬
‫اچھا آنٹی جی پھر کیا کہوں‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫مجھے میرے نام سے پکارا کرو‬
‫میں نے کہا ایسے سب کہیں گے کہ‬
‫میں بتمیز ہوں‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫سب کے سامنے تھوڑی نام سے‬
‫پکارنے کا کہا ہے‬
‫جب اکیلے ہوں تو تب مجھے نام سے‬
‫پکارا کرو‬

‫تو میں نے کہا آنٹی جی‬


‫وہ کیوں‬

‫توآنٹی بولی پہلے تو تم مجھے آنٹی کہنا‬


‫بند کرو‬
‫جب تم مجھے آنٹی کہتے ھو تو میں‬
‫اندر ھی اندر مرنے لگ جاتی ہوں‬

‫تو میں نے کہا اچھا نھی کہتا‬


‫آپ پہلے کپڑے بدل لیں‬
‫تو آنٹی فوزیہ‬
‫بولی‬
‫کپڑے کہاں بدلوں‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میری نظر‬
‫نہر کے ساتھ والے کھیت میں مکئی پر‬
‫نظر پڑی تو میں نے کہا‬
‫آئیں میرے ساتھ‬
‫تو آنٹی میرے پیچھے پیچھے نہر کی‬
‫پٹری سے اترتی ھوئی مکئی کی طرف‬
‫آنے لگی‬

‫میں مکئی کے اندر داخل ھوا اور‬


‫مکئی کے پودوں کو پانی لگانے کے‬
‫لیے درمیان میں بنی دو تین فٹ کی‬
‫کیاری میں چلنے لگا اور آنٹی کو‬
‫پیچھے آنے کا اشارا کیا آنٹی تھوڑا سا‬
‫آگے آکر رک گئی اور مجھے کہنے‬
‫لگی تم تو باہر جاو‬
‫میں کپڑے بدل لوں گی ادھر ھی‬

‫تو میں نے کہا آنٹٹٹٹ او سوری فوزیہ‬


‫جی‬
‫آپ میرے سامنے ھی بدل لو‬
‫تو آنٹی فوزیہ نے مجھے بازو سے‬
‫پکڑا کر کہا جاتے ھو کہ لگاوں ایک‬

‫میں پھر ڈھیٹ بن کر کھڑا رھا اور‬


‫بوال‬
‫آپ میرے سامنے بدل لو کیا ھے تو‬
‫آنٹی بولی کہ مجھے شرم آتی ھے‬
‫تم باہر جاو‬

‫میں نے آنٹی کو دونوں کندھوں سے‬


‫پکڑ لیا‬
‫اور اپنے سامنے کرتے ھوے کہا‬
‫مجھے نھی پتہ میں نے آپ کو کپڑے‬
‫بدلتے دیکھنا ھے تو‬
‫آنٹی بولی یاسر‬
‫تم کیا بچوں کی طرح ضد ال لیتے ھو‬
‫چلو جاو‬
‫میں نے ابھی کپڑے دھونے ہیں سارے‬
‫کپڑے ویسے کے ویسے ھی پڑے ہیں‬

‫میں نے کہا نھی فوزیہ جی‬


‫میں تو ایسے جانے واال نھی‬
‫اور میں نے ساتھ ھی آنٹی کو اپنے‬
‫ساتھ لگا لیا‬
‫اور انکے بازوں کو چھوڑ کر انکے‬
‫بازوں کے نیچے سے اپنے ھاتھ گزار‬
‫کر انکی کمر کہ گرد ڈال کر جپھی ڈال‬
‫لی‬
‫اب ہم دونوں کے گیلے کپڑے تھے تو‬
‫ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے‬
‫ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ ملے‬
‫ہیں‬
‫آنٹی نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے‬
‫مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی‬
‫کہ چھوڑو کیا کررھے ھو پاگل تو نھی‬
‫ھوگئیے‬
‫مگر میرا لن سر اٹھا چکا تھا اور اس‬
‫نے پھدی کو بھی اشارہ کر دیا تھا کہ‬
‫تیار ھوجاو۔۔‬
‫میں نے لن پورے زور سے آنٹی فوزیہ‬
‫کی پُھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا‬
‫تھا‬
‫اور‬
‫آنٹی فوزیہ اب بھی احتجاج کرتے ھوے‬
‫مجھے پیچھے دھکیل رھی تھی‬
‫کہ یاسر پاگل نہ بنو ایک دفعہ کر تو لیا‬
‫ھے‬
‫کوئی آجاے گا‬
‫نہ کرو چھوڑو مجھے‬

‫میں نے کہا فوزیہ جان ایک دفعہ سے‬


‫کہاں دل بھرتا ھے‬
‫اور میں آنٹی فوزیہ کے ہونٹوں کو‬
‫چومنے کی کوشش کرنے لگا تو آنٹی‬
‫فوزیہ اپنے سر کو اِدھر اُدھر کر کے‬
‫اپنے ہونٹ بچانے لگ گئی مگر میں‬
‫نے کوشش جاری رکھی‬

‫اور آنٹی کے ہونٹوں کو پکڑنے میں‬


‫کامیاب ھوگیا‬

‫اور ان کو چوسنے لگ گیا‬

‫آنٹی بھی اب ہتھیار ڈالتے جارھی تھی‬


‫میں نے آنٹی کے ہاتھ سے کپڑے‬
‫پکڑے اور انکو مکئی کے پودے کے‬
‫ساتھ لگے سٹے اور ٹہنی کے ساتھ لٹکا‬
‫دئیے اور‬
‫پیچھے سے انکی گانڈ کو پکڑ کر‬
‫مسلنے لگا آنٹی اب مکمل میرے‬
‫کنٹرول میں آچکی تھی‬
‫میں لن کو مسلسل اسکی پھدی کے ساتھ‬
‫رگڑ رھا تھا‬

‫اور وہ بھی میرے ساتھ ُجڑ ُجڑ کر‬


‫مزے لے رھی تھی‬

‫میں نے آنٹی کی گیلی قمیض پیچھے‬


‫سے پکڑ کر اوپرکرنے لگا اور ایک‬
‫ھاتھ آگے کر کے آگے سے بھی قمیض‬
‫اوپر کرنا شروع ھوگیا پہلے تو آنٹی‬
‫نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکنے‬
‫کی کوشش کی مگر میں نے اسکا ھاتھ‬
‫جھٹک کر ہٹا دیا اور اسکی قمیض کو‬
‫اسکے مموں تک لے آیا‬

‫قمیض گیلی تھی اور جسم کے ساتھ‬


‫چپکی ھونے کی وجہ سے مجھے کافی‬
‫مشکل ھو رھی تھی کہ اسکے ممے‬
‫قمیض سے آزاد کرواوں‬

‫کہ آنٹی بولی کیوں میری قمیض پھاڑو‬


‫گے رکو ایک منٹ‬
‫اور یہ کہتے ھوے آنٹی نے اپنے ایک‬
‫ھاتھ کو پیچھے کیا اور ایک کو آگے‬
‫کیا اور قمیض کو آگے پیچھے سے پکڑ‬
‫کر اوپر سر کی جانب لے گئی اور پھر‬
‫قمیض اتار کر ایک سائڈ پر پھینک دی‬
‫اور میری طرف دیکھنے لگ گئی‬

‫میں نے بریزیر کی طرف اشارہ کیا کہ‬


‫اسے بھی اتارو‬

‫تو وہ ہنستے ھوے بولی ایک تو تم‬


‫نہ‪ ،،،‬۔۔۔۔‬

‫اور ہاتھ پیچھے کر کے بریزیر کی ہک‬


‫کھول دی اور‬
‫اور ھاتھ نیچے کر لیے‬
‫میں نے جلدی سے بریزیر پکڑ کر‬
‫فوزیہ کے جسم سے الگ کیا‬
‫اور اس کے مموں کو غور سے‬
‫دیکھنے لگ گیا‬

‫تو فوزیہ میری طرف دیکھتے ھوے‬


‫بولی‬

‫ہُن خوش ایں ۔۔‬

‫میں نے کہا ھممممم‬


‫اور ساتھ ھی فوزیہ کے بڑے بڑے‬
‫گورے نرم مالئم مموں کو دونوں‬
‫ھاتھوں میں پکڑ لیا اور دبانے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے منہ سے سیییییییی نکال اور‬
‫بوال آرام سے‬

‫تو میں نے ھاتھوں کی گرفت ڈھیلی کی‬


‫اور آرام آرام سے دبانے لگ گیا‬

‫فوزیہ کے ممے بہت ھی نرم تھے‬


‫اور اسکی عمر کے حساب سے بلکل‬
‫بھی ڈھلکے ھوے نھی تھے‬
‫بلکہ ایک دم تنے ھوے تھے‬

‫میں مزے لے لے کر مموں کو کھولنا‬


‫سمجھ کر انسے کھیل رھا تھا‬
‫فوزیہ بھی سیییی سیییی کررھی تھی‬
‫میں تھوڑا سا ُجھکا اور ایک ممے کے‬
‫براون تنے ھوے موٹے سے نپل پر‬
‫زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے ممے گیلے اور چکنائی‬
‫والے تھے‬
‫ممے کے نپل سے عجیب سا ذائقہ‬
‫میری زبان پر لگ رھا تھا‬
‫میں جیسے ھی ممے کے گول براون‬
‫دائرے پر زبان پھیرتا اور پھر نپل کو‬
‫ہونٹوں میں لے کر چوستا تو‬
‫فوزیہ لمبی سی سسکاری لیتی اور‬
‫میرے سر پر ھاتھ رکھ کر ممے پر دبا‬
‫دیتی‬

‫میں اب ممے کو پورا منہ میں لینے کی‬


‫ناکام کوشش کرنے لگ گیا‬
‫اور ممے کے تھوڑے سے حصے کو‬
‫منہ میں بھر کر نپل کو اپنے حلق کی‬
‫طرف کھینچتا‬
‫جس سے فوزیہ‬
‫کو بھی جوش چڑھتا اور وہ‬
‫میرے سر کو اور ذور سے پکڑ کر‬
‫ممے پر دباو بڑھا دیتی‬
‫میں باری باری دونوں مموں کو کبھی‬
‫چوستا کبھی نپل پر دانت گاڑھتا‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫میں اور نیچے ھوا اور فوزیہ کے‬
‫ہلکے سے باہر نکلے گورے نرم پیٹ‬
‫کو چومنے لگ گیا‬

‫پیٹ کو چومتے چومتے میں ناف کے‬


‫نیچے پھدی کے اوپر‪ .‬شلوار کے نیچے‬
‫کے پاس زبان پھیرنے لگ گیا‬

‫فوزیہ کے جسم کو ایک دھم جھٹکا لگا‬

‫اور افففففففف سییییییییی ممممممم‬


‫کر نے لگ گئی اور پیار سے میرے‬
‫سر کے بالوں میں انگیلیاں پھیرنے لگ‬
‫گئی‬
‫میں پاوں کے بل بیٹھ چکا تھا‬
‫اور میر منہ فوزیہ کی پھدی کے‬
‫سامنے تھا‬

‫میں نے دونوں ھاتھوں سے فوزیہ کی‬


‫شلوار کو پکڑا اور کھینچ کر نیچے کر‬
‫دیا‬

‫فوزیہ نے بھی مجھے نہ روکا‬

‫میری انکھوں کے سامنے فوزیہ کی‬


‫چٹی سفید بالوں سے پاک پھدی تھی‬
‫جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے جن‬
‫میں ایک جھلی سی باہر کو نکلی ھوئی‬
‫تھی‬
‫جس پر ایک موٹا سا دانا تھا‬

‫میں بڑے غور سے پھدی کا جائزہ لینے‬


‫لگ گیا‬

‫میں نے زبان اپنے خشک ہونٹوں پر‬


‫پھیری اور‬
‫زبان کو باہر نکاال اور پھدی کے اوپر‬
‫رکھ‪ .‬دیا‬
‫فوزیہ ایک دم تڑپی اور پیچھے کو‬
‫ھوگئی‬
‫اور بولی‬
‫وے پاگل ھوگیاں ایں اے کی کرن دیاں‬
‫اے‬

‫میں نے سر اوپر کیا اور‬


‫فوزیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے‬
‫بوال‬

‫اپنی جان کو پیار کرنے لگا ھوں‬

‫تو فوزیہ‬
‫بولی‬
‫نئی یاسر یہ گندی جگہ ھے‬
‫اس پر زبان مت لگاو‬

‫میں نے کہا ایک دفعہ بس پیار کرنے‬


‫دو‬
‫تو‬
‫فوزیہ بولی نھی یاسر‬
‫پلیززز میری بات مانو یہ مناسب نھی‬

‫تو میں نے دو تین دفعہ آگے ھوکر‬


‫پھدی کو چومنا چاھا مگر‬
‫فوزیہ پھدی پر ھاتھ رکھ کر پیچھے‬
‫ھوجاتی‬
‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ‬
‫سمجھا اور‬
‫کھڑا ھو کر اپنی گیلی قمیض اتاری اور‬
‫پھر شلوار کا ناال کھول کر شلوار بھی‬
‫اتار دی‬

‫فوزیہ نے بھی اپنی شلوار پاوں سے‬


‫نکال کر ایک سائڈ پر رکھ دی‬

‫میرا لن فل تنا ھوا تھا جیسے ھی فوزیہ‬


‫کی میرے ننگے لن پر نظر پڑی‬
‫تو اسکی آ نکھوں میں ایک چمک سی‬
‫آئی اور میرے لن کو پکڑ کر بولی‬

‫ھاےےےے میں مرگئی اینا وڈا لن اے‬


‫تیر ا یاسر‬

‫اففففف توبہ‬

‫اتنا بڑا تو کسی بڑے مرد کا نھی ھوگا‬

‫کیا کیا ھے اسے‬

‫میں نے کہا‬
‫فوزیہ جی بس یہ آپکی سیکسی پھدی کو‬
‫دیکھ کر بڑا ھوگیا ھے ویسے تو نھی‬
‫ھے‬

‫اور اسکے ساتھ ھی میں نے فوزیہ کو‬


‫جپھی ڈال کر لن اسکے چڈوں کے‬
‫درمیان گھسا دیا اور پھدی کے لبوں‬
‫کے اوپر رگڑتے ھوے گھسے مارنے‬
‫لگ گیا‬

‫کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد‬


‫میں نے فوزیہ کی ایک ٹانگ اٹھائی‬
‫اور لن کو پھدی کے لبوں کے اندر‬
‫سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکا مارا لن‬
‫بغیر کی چوں چراں کے جڑ تک اندر‬
‫چال گیا‬

‫فوزیہ کے منہ سے چیخ نکلی جسے وہ‬


‫اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے ھوے دباکر‬
‫بولی ھاےےےےے میں مرگئی‬
‫ھاےےےےےےےے میری مائیں۔‬

‫میں مرگئییییییی اور اسکے ساتھ ھی‬


‫فوزیہ پیچھے کو ہوئی اور توازن‬
‫برقرار نہ رکھتے ھوے پیچھے کو‬
‫گرتی گئی‬
‫میں نے بھی اسکی ٹانگ کو پکڑا ھوا‬
‫تھا‬
‫تو میں بھی ویسے ھی اسکے اوپر‬
‫اسکے ساتھ آگے کی طرف گرتا گیا‬
‫فوزیہ اب کھیت کی کیاری میں لیٹی‬
‫ھوئی تھی اور میں اسکے اوپر‪ .‬تھا اور‬
‫لن‬
‫باھر نکل گیا تھا‬

‫فوزیہ بولی‬

‫ہاے میرا لَک ٹُٹ گیا‬


‫ہے نی میری ےے مائیں‬

‫میں نے فوزیہ کی ھوے ھوے کی پروا‬


‫کیے بغیر‬
‫دونوں ٹانگوں کو اوپر اٹھایا اور پھر‬
‫ایک ھی جھٹکے میں لن فوزیہ کی‬
‫بچے دانی تک پہنچا دیا‬

‫فوزیہ پھر تڑپی اور مجھے گالی دیتے‬


‫ھوے بولی‬

‫تیرے وچ انساناں والے کم نئی اے‬


‫جانور کسے تھاں دا‬
‫کیوں میرا اندر پاڑنا ای‬

‫جان کڈ کے رکھ دتی اے‬

‫میں نے سور ی کہا اور‬


‫لن کو پیچھے کھینچا اور پھر زور دار‬
‫طریقے سے گھسہ مارتے ھوے پورا‬
‫لن پھدی کے اندر کر دیا‬

‫فوزیہ نے مجھے پیچھے دھکے مارتے‬


‫ہوے رونے والے انداز میں کہنا شروع‬
‫کردیا‬

‫پچھے ہو چھڈ مینوں میں نئی کروانا‬


‫ھاےےےےے ماں‬
‫ھاےےےےےے مرگئی‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫چھڈ پچھے ھو جا‬

‫ھاےےےےےےےےے‬

‫میں نے کہا‬
‫اچھا جان بس ایک دفعہ معاف کردو‬
‫پھر نھی کرتا اتنے زور سے‬
‫میں نے فوزیہ کو مسکے شسکے لگا‬
‫کر شانت کر لیا اور‬
‫آہستہ آہستہ‬
‫لن کو پھدی کے اندر باہر کرنے لگ‬
‫گیا‬

‫اب فوزیہ ریلکس تھی اور میرے پیٹ‬


‫پر ھاتھ رکھے اپنی مرضی سے جتنا‬
‫لن اس‪ ،‬سے برداشت ھورھا تھا لے‬
‫رھی تھی‬

‫جہاں اسے درد ھوتی وہیں میرے پیٹ‬


‫کو دبا کر مجھے مزید اندر کرنے سے‬
‫روک دیتی‬

‫فوزی کی پھدی کافی گیلی تھی جس کی‬


‫وجہ سے لن مزے سے اندر باہر کی‬
‫سیر کر رھا تھا‬

‫میرے گھسوں سے فوزیہ کے بڑے‬


‫بڑے ممے اچھل اچھل کر اسکے منہ‬
‫کی طرف جارھے تھے‬

‫فوزیہ‬
‫فل مزے لے لے کر مجھ سے چد ُوا‬
‫رھی تھی‬
‫فوزیہ نے اب دونوں ھاتھ میرے سینے‬
‫پر رکھے ھوے تھے اور میرے نپلوں‬
‫کو اپنی انگلیوں سے مسل رھی تھی‬
‫جس سے مجھے مزید مزہ آرھا تھا‬
‫اور میں جوش میں لن پھدی کی جڑ تک‬
‫پہنچا رھا تھا‬

‫فوزیہ کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے‬


‫مزے سے بھری آوازیں نکال رھی‬
‫تھی‬

‫ھاےےےےے ہمممممم ایتھے مار سٹ‬


‫ھاں انج مار‬
‫ھاےےےے زور دی مار سٹ‬
‫‪.‬ھمممممم پورا کردے اندر‬
‫ھااےےےے اففففففف بڑا مجا آریا‬
‫اےےےےےے افففففف‬

‫پورا کردے پورا کردے سارااااااا‬


‫کردےےےےےےےےےے‬
‫اسکے ساتھ ھی فوزیہ کا جسم اکڑ گیا‬
‫اور اسکی پھدی سے گرم گرم منی نکلنا‬
‫شروع ھوگئی‬
‫مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر منی کی‬
‫دھاریں ٹکراتی محسوس ھورھی تھی‬

‫میں کچھ دیر رکا‬


‫جب فوزیہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکا جسم‬
‫ڈھیال ھوگیا تو میں نے پھر گھسے‬
‫مارنے شروع کردئے‬

‫فوزیہ اب مجھ سے جان چھڑوا رھی‬


‫تھی‬
‫جلدی کر جلدی کر کری جارھی تھی‬
‫تقریبا ً دس منٹ میں جوش سے گھسے‬
‫مارتا رھا‬
‫اچانک مجھے لگا جیسے میری ٹانگوں‬
‫سے جان نکل رھی ھے اور سارا خون‬
‫لن میں جمع ھوگیا تو‬
‫میں نے جاندار گھسے مارنا شروع‬
‫کردیے‬
‫فوزیہ‪ .‬کے ممے اچھل رھے تھے‬
‫اسکے ساتھ ھی میرے لن نے زبردست‬
‫انگڑائی لی اور اپنی ایک آنکھ کھولی‬
‫اور اور سارے آنسو پھدی کے اندر ھی‬
‫گرانے لگ گیا‬

‫ابھی میرے سانس بھی بحال نھی ھوے‬


‫تھے‬
‫کہ میرے کانوں میں آواز‬
‫گونجی‬
‫کیڑاں اےےےےے ۔۔۔۔۔‬

‫میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو ایک‬


‫ضعیف العمر بابا دھوتی بنین پہنے‬
‫آنکھوں پر ہاتھ رکھے غور سے میری‬
‫طرف دیکھتا ھوا کیاری میں چھڑی ٹکا‬
‫ٹکا کر چال آرھا تھا‬

‫بابے کی شاید نظر کمزور تھی اس لیے‬


‫وہ بڑے غور سے دیکھ رھا تھا‬
‫میں نے جھٹکے سے لن باہر کھینچا‬
‫اور فوزیہ بھی جمپ مار کے بیٹھ گئی‬

‫اور کھڑے ھوتے ھو ے گبھراے ھوے‬


‫پیچھے دیکھنے لگ گئی‬

‫میں نے کہا آنٹی بھاگگگگگگ‬


‫اور فوزیہ نے جلدی سے کچھ کپڑے‬
‫جتنے ھاتھ لگے پکڑے اور ننگی باہر‬
‫نہر کی طرف بھاگی میں نے بھی اپنے‬
‫کپڑے پکڑے اور جو فوزیہ کے رہ‬
‫گئے تھے وہ پکڑے اور اس کے‬
‫پیچھے ننگا ھی بھاگ کھڑا ھوا‬

‫یہ شکر تھا کہ بابے کی پہچان میں ہم‬


‫دونوں ھی نھی آے‬

‫مکئی سے باہر نکلتے ھوے ہم آگے‬


‫پیچھے نہر پر ننگے ھی چڑھ گئے اور‬
‫میں نے تو جاتے ھی نہر میں چھالنگ‬
‫لگادی اور فوزیہ جلدی جلدی سے‬
‫شلوار پہننے لگی اور پھر جلدی سے‬
‫قمیض پہن کر کنارے پر بیٹھ کر کپڑے‬
‫دھونے میں مصروف ھوگئی‬
‫فوزیہ کا رنگ اب بھی پیال پڑا ھوا تھا‬
‫اور پاوں کے بل بیٹھی کی ٹانگیں کانپ‬
‫رھی تھی‬

‫میں نہر کے اندر سے ھوتا ھوا دوسری‬


‫طرف پہنچ گیا اور کنارے کو پکڑ کر‬
‫پانی میں ھی کھڑا ہوکر فوزیہ کی‬
‫طرف دیکھنے لگ گیا‬
‫فوزیہ کی نظر مکئی کی ھی طرف تھی‬
‫میں نے فوزیہ کو اشارہ کیا کے میرے‬
‫کپڑے ادھر پھینک دے‬
‫فوزیہ کی اب بھی سانس اکھڑے ھوے‬
‫تھے‬

‫بابا ابھی تک مکئی کے اندر ھی تھا نہر‬


‫کی طرف باہر نھی نکال تھا‬

‫فوزیہ نے میرے گیلے کپڑے اکھٹے‬


‫کیے اور مروڑ کر رول بنا کر زور‬
‫سے میری طرف پھینک دیے‬

‫میں نے کپڑے کیچ کیے‬


‫اور کپڑوں کو کھول کر دیکھنے لگ‬
‫گیا میرے سارے کپڑے مٹی سے بھر‬
‫چکے تھے اور جگہ جگہ کیچڑ لگا ھوا‬
‫تھا‬

‫میں نے پہلے شلوار پکڑی اور اسکو‬


‫پانی سے دھویا‬
‫اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کی‬
‫کہ کوئی ھے تو نھی‬
‫اور گھاس کو پکڑ کر نہر سے باہر‬
‫نکال اور جلدی سے شلوار پہن کر ناال‬
‫باندھا اور پھر قمیض کو دھویا‬
‫اور اسکو سوکھنے کے لیے وہیں‬
‫گھاس پر ڈال دیا‬
‫بابا پتہ نھی کدھر ُگم ھوگیا تھا‬
‫شاید وہ ادھر سے ھی واپس چال گیا تھا‬
‫فوزیہ کی بھی حالت قدرے سنبھل گئی‬
‫تھی‬
‫فوزیہ نے مجھے آواز دی کے آجاو‬
‫ادھر اب‬
‫بابا نھی نکال‬

‫میں نے قمیض اٹھائی اور اسے بازو‬


‫اوپر کر کے پکڑ کر نہر میں اتر گیا‬
‫اور ایسے ھی چلتا ھوا دوسرے کنارے‬
‫پر فوزیہ کے پاس آگیا‬
‫اور فوزیہ سے بوال شکر اے بچ گئے‬

‫تو فوزیہ میری طرف گھورتے ھوے‬


‫بولی‬

‫بچ گئے دے بچے‬


‫تیری کالیاں تے ضداں نے اج مروا دینا‬
‫سی‬

‫شکر کر کے او نمبڑاں دا بڈھا مالزم‬


‫سی جے کوئی ھو ھوندا نہ تے فیر پجیا‬
‫وی نئی سی جانا‬

‫میں نے کہا کش نئی ھوگیا بچ گئیں آں‬


‫تو فوزیہ نے میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے‬
‫سینے پر رکھتے ھوے کہا‬

‫اے ویکھ میرا دل کیویں پھڑکن دیا اے‬

‫واقعی فوزیہ کا دل تیز تیز دھڑک رھا‬


‫تھا‬

‫مجھے پھر شرارت سوجھی میں نے‬


‫فوزیہ کا مما دبا دیا‬

‫فوزیہ نے میرے سر پر چپت مارتے‬


‫ھوے کہا کہ‬
‫ہالے رجیا نئی‬

‫تو میں نے کہا ایسے گرم سیکسی مال‬


‫سے کس دل بھرتا ھے‬

‫تو فوزیہ غصہ کے انداز میں بولی‬


‫بتاوں تجھے‬

‫کھسماں مینوں پیلے ای ٹُرن جوگا نئی‬


‫چھڈیا میرا اندر ھال کے رکھ دتا ای‬
‫میں تے تینوں بچہ سمجھدی سی پر توں‬
‫تے پورا افالطون نکلیا ایں‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آپکو دیکھ کر بابے جوان ھوجاتے ہیں‬
‫میں تو پھر ابھی جوان ھو رھا ھوں‬

‫تو فوزیہ نے منہ پر ھاتھ رکھا اور ایک‬


‫ھاتھ اپنے کانوں کو لگاتی بولی‬
‫توبہ توبہ توبہ‬
‫میرے کولوں کوئی پُچھے کہ اے بچہ‬
‫اے کہ کی شئے اے‬
‫میں نے کہا تو بتاو میں کیا شئے ھوں‬
‫تو فوزیہ بولی چل ھن گالں چھڈ عظمی‬
‫نسرین آن والیاں نے‬
‫تے جلدی نال اپنے کپڑے سکا لے‬

‫کچھ دیر بعد میں نہر سے نکال اور اپنی‬


‫قمیض کو سکھانے کے لیے گھاس پر‬
‫ڈال دیا‬

‫تو فوزیہ میری طرف ایک چادر‬


‫پھینکتے ھوے بولی‬

‫اے چادر بن لے تے شلوار وی سکنے‬


‫پا دے‬

‫میں نے چادر پکڑی اور‬


‫شلوار اتار کر چادر باندھ لی اور شلوار‬
‫کو بھی سوکھنے ڈال دیا‬

‫اور فوزیہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا‬


‫تو کبھی دھوے ھوے کپڑوں کو‬
‫سوکھنے ڈال دیتا‬

‫ایسے کچھ دیر بعد عظمی اور نسرین‬


‫بھی آگئی اور مجھے چادر میں دیکھ کر‬
‫میرا مزاق اڑانے لگ گئی‬

‫کچھ دیر ایسے ھی ہم ہنسی مزاق کرتے‬


‫رھے‬
‫اور پھر کپڑے سمیٹے اور گھر کی‬
‫طرف چلدیے‬
‫اگلے دن میں دکان پر پہنچا اور باہر کی‬
‫صفائی وغیرہ کر کے بیٹھ گیا کچھ ھی‬
‫دیر گزری تھی کہ ایک نقاب پوش سفید‬
‫یونیفارم میں لڑکی میری طرف بڑے‬
‫غور سے دیکھتی ھوئی چلی آرھی تھی‬
‫میں بھی بڑے غور سے اسے دیکھ رھا‬
‫تھا کہ آنکھیں اور جسامت جانی پہچانی‬
‫لگ رھی ھے‬
‫کہ اتنے میں وہ میرے قریب آکر میرے‬
‫سامنے کھڑی ھوگئی اور میرے سامنے‬
‫ھاتھ کر کے بڑی شوخ اور چنچل سی‬
‫اپنی مترنم آواز میں بولی السالم وعلیکم‬
‫میں ایک دم گبھرا کر اٹھ کے کھڑا‬
‫ھوگیا مجھے ہکا بکا پریشان دیکھتے‬
‫ھوے بولی یاسر ادھر بیٹھے کیا‬
‫کررھے ھو‬
‫تو میں فورن اسکی آواز سے پہچان گیا‬
‫کہ یہ تو مہرالنسا ھے‬
‫تو میں نے بڑی گرمجوشی سے اسکے‬
‫ھاتھ کو تھام لیا اور اس سے مصافحہ‬
‫کرتے ھوے بوال‬
‫مہری تم ادھر کیسے تو وہ بولی پہلے‬
‫تم بتاو کہ تم ادھر کیا کررھے ھو تو‬
‫میں نے اسے یاددھانی کرواتے ھوے‬
‫دکان کے شٹر کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ھوے کہا کہ یہ ھی تو دکان ھے جس‬
‫پر میں کام کرتا ھوں تو [] مہری بولی‬
‫او آئی سی گڈ دراصل آج اسد مجھ سے‬
‫پہلے ھی تیار ھوکر نکل گیا تھا شاید‬
‫اس نے کہیں جانا تھا اس لیے میں آج‬
‫پیدل ھی کالج کے لیے نکل آئی ۔۔‬
‫میں نے کہا کالج تو کافی دور ھے تم‬
‫اکیلی کیسے جاو گی تو مہری بولی‬
‫کوئی بات نھی میں اکثر اکیلی ھی چلی‬
‫جاتی ھوں‬
‫نو برابلم میں نے کہا نھی نھی ایسے‬
‫کیسے اکیلی جاو گی چلو میں تمہیں‬
‫چھوڑ کر آتا ھوں‬
‫تو مہری کے الکھ انکار پر بھی میں‬
‫اسے ساتھ لے کر کالج کی طرف چل‬
‫پڑا کچھ آگے چل کر مہری نے ایک‬
‫مارکیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اس‬
‫مارکیٹ میں مما کا بوتیک ھے تو میں‬
‫نے مارکیٹ کی طرف دیکھا جو ابھی‬
‫تک ساری ھی بند تھی اور میں‪ .‬ہمممم‬
‫کر کے مہری کے ساتھ آگے چل پڑا‬
‫بازار سے نکل کر ہم گلی میں داخل‬
‫ھوگئے تو میں نے مہری کو کہا کہ‬
‫سوری مہری میں اس دن کے لیے بہت‬
‫شرمندہ ہوں مجھے ایسا تمہارے ساتھ‬
‫نھی کرنا چاھیے تھا تو مہری نے ایک‬
‫دم میری طرف چونک کر دیکھا اور‬
‫کہنے لگی‬
‫اٹ از اوکے یار جو ہوا بھول جاو اس‬
‫میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے‬
‫اسلیے یہ سوری شوری کرنے کی‬
‫ضرورت نھی میں مہری کے اس بے‬
‫باک لہجے پر حیران رھ گیا کہ کیسے‬
‫اتنی بڑی بات کو ہوا میں اڑا دیا‬
‫خیر اسکی بات سن کر مجھے کچھ‬
‫حوصلہ ہوا‬
‫تو میں نے مہری سے کہا‬
‫مہری ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو‬
‫تو مہری میری طرف بڑی گہری نظر‬
‫ڈالتے ھوے بولی‬
‫بولو میں نے کہا مہری تم بہت اچھی‬
‫ھو تو مہری ہنستے ہوے بولی لو بتاو‬
‫بھال اس میں برا ماننے والی کون سی‬
‫بات ھے میں نے کہا نھی میرے کہنے‬
‫کا مطلب ھے کہ تم مجھے بہت اچھی‬
‫لگتی ھو مہری چلتی چلتی ایکدم رک‬
‫گئی اور میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫ہیلو خیر تو ہے نہ میں نے شرمندہ سا‬
‫ھوکر سر نیچے کرلیا‬
‫مہری بولی کیا ھوا چپ کیوں ھوگئے‬
‫میں نے کہا سوری میں اپنی اوقات‬
‫بھول گیا تھا‬
‫مہری بولی نونسینس دوبارا ایسی بات‬
‫کی تو تمہارا منہ توڑ دوں گی اوقات کا‬
‫کچھ لگتا‬
‫میں نے کہا تم ناراض جو ہوگئی تھی‬
‫میں سمجھا شاید میں غریب ھوں اس‬
‫لیے میں تمہارے قابل نھی ھوں‬
‫مہری بولی کیا مطلب قابل نھی ھوں‬
‫میں سمجھی نھی کھل کر بات کرو کیا‬
‫کہنا چاھتے ھو‬
‫میں نے کہا تم نے پھر ناراض ھو جانا‬
‫ھے [مہری بولی اب تم نے نہ بتایا نہ‬
‫تو پھر میں نے تم سے کبھی بات نھی‬
‫کرنی ۔۔‬
‫میں نے کہا مہری تم مجھے بہت اچھی‬
‫لگتی ہو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی‬
‫سوچتا رہتا ھوں مگر جب تمہارے اور‬
‫اپنے سٹیٹس کے بارے میں سوچتا ھوں‬
‫تو مجھے اپنی غریبی پر غصہ آتا ھے‬
‫مہری بولی پہلے تو یہ امیری غریبی‬
‫واال رونا میرے سامنے مت روو اگر‬
‫بات کرنی ھے تو چند الفاظ میں بات کو‬
‫کہہ کر ختم کرو۔۔‬
‫میں نے کہا مہری میں تم کو پسند کرتا‬
‫ہوں اور تم سے دوستی کرنا چاھتا ہوں‬
‫مہری ہنستے ھوےبولی لو کر کو گل‬
‫کھودا پہاڑ نکال چوھا میں سمجھی پتہ‬
‫نھی جناب کو کونسی ایسی بات کرنی‬
‫ھے جسکی وجہ سے جناب کہتے ھوے‬
‫اتنا گبھرا رھے ہیں ۔‬
‫ارے بُدھو پہلے کونسا ہم ایک دوسرے‬
‫کے دشمن ہین‬
‫اور تمہارا دماغ کام نھی کرتا کہ ایک‬
‫لڑکی کیسے کسی انجان لڑکے کے‬
‫ساتھ یوں باتیں کرتے ھوے جاسکتی‬
‫ھے کیا‪،،‬‬
‫مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا‬
‫کہ واقعی میں بُدھو ھی ھوں‪،‬‬
‫میں نے خوش ہوکر کہا کہ واقعی ہم‬
‫دوست ہیں‪ ،‬مہری ہنستے ھوے بولی‬
‫افکورس‬
‫میں نے خوشی سے جمپ مارا اور‬
‫دونوں ھاتھوں کو ھوا میں کر کے‬
‫مکے بنا کر کہا یسسسسسسسس‬
‫مہری میری اس حرکت پر ہنسس ہنسس‬
‫کر دھری ھوتی گئی اور میری طرف‬
‫ھاتھ سے اشاری کرتے ھوے بولی‬
‫کوئی حال نھی تمہارا۔۔‬
‫میں نے مہری کا ہاتھ پکڑ لیا‬
‫مہری نے جلدی سے مجھ سے ہاتھ‬
‫ُچھڑوایا اور بولی پاگل ہوگئے ھو کیا‬
‫ابھی اتنی بھی دوستی نھی بڑھی کے تم‬
‫میرا سرعام ہاتھ پکڑ کر چلنے لگو‬
‫میں شرمندہ سا ھوکر رھ گیا میں نے‬
‫ست کھجاتے ھوے آہستہ سے کہا‬
‫جب دوست اتنا خوبصورت ھو تو نہ‬
‫زمانے کا ڈر نہ گھر والوں کا ڈر‬
‫مہری نے شاید میری بات سن لی تھی‬
‫وہ ایکدم بولی کیا کہا‬
‫دوبارا کہنامیں نے کہا کچھ نھی مہری‬
‫بولی تم باز آجاو کچھ زیادہ ھی اوور‬
‫ایکٹ کر رھے ھو میں نے کہا ایسا تو‬
‫کچھ نھی کچھ دیر بعد میں نے مہری‬
‫سے پوچھا مہری پھر کب ملو گی‬
‫تو مہری نے شرارت بھری نظر سے‬
‫میری طرف دیکھتے ھو کہا‬
‫کیوں مل کہ کیا کرنا ھے‬
‫میں نے کہا کچھ نھی بس تم سے باتیں‬
‫کر کے اچھا لگتا ھے‬
‫مہری بولی اچھااااا جیییی‬
‫میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے‬
‫کہا‬
‫ھااااں جییییی‬
‫مہری بولی جب مرضی آجاو گھر تمہیں‬
‫کس نے روکا ھے‬
‫میں نے کہا کہ گھر میں تو اسد کے‬
‫بغیر نھی آسکتا اور ویسے بھی اسد کیا‬
‫سوچے گا‬
‫مہری بولی کیوں پہلے اسد کے سامنے‬
‫مجھ سے بات نھی کرتے تھے‬
‫میں نے کہا اسد کے سامنے جپھی تو‬
‫نھی ڈال سکتا نہ‬
‫مہری ایک دم شرمندہ سی ھوگئی اور‬
‫شرما کر بولی چل شوخا میں نے پھر‬
‫کہا بتاو نہ یار مہری بولی مجھے کیا‬
‫پتہ تم آجاو جب مرضی میں نے جنجھال‬
‫کر پھر پوچھا یار میں اکیلے مین ملنا‬
‫چاھتا ہوں‬
‫مہری پھر گہری نظر میں میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی خیر ھے اکیلے مل‬
‫کر کیا کرنے کا پروگرام ھے میں نے‬
‫کہا یار تمہیں روس کر کے کھانا ھے‬
‫مہری یہ سن کر کھلکھال کر ہنس پڑی‬
‫اور ہنستے ھوے بولی سٹوپٹ روس‬
‫نھی ھوتا روسٹ ھوتا ھے کچھ پڑھ‬
‫لیتے تو انگلش کی بےعزتی نہ کرتے‬
‫میں پھر شرمندہ ہوکر بوال جو بھی ھے‬
‫یار بتاو نہ تو مہری بولی شام کو چار‬
‫سے سات بجے تک میں اکیلی ھی‬
‫ھوتی ھوں یاسر اکیڈمی چال جاتا ھے‬
‫اگر اس وقت آسکتے ھو تو آجانا‬
‫میں نے کیا پکی بات ھے نہ کوئی‬
‫ٹینشن تو نھی بنے گی تو مہری بولی نو‬
‫ٹینشن یار کہہ دیا نہ‬
‫میں نے کہا چھٹی کتنے بجے ھوتی‬
‫ھے تو مہری بولی ایک بجے میں نے‬
‫کہا چھٹی کے وقت لینے آوں تمہیں‬
‫مہری بولی نو تھینکس اسد لے جاے گا‬
‫اس نے مجھے کیا تھا کی میں لینے‬
‫آجاوں گا اتنی دیر میں کالج آگیا اور‬
‫میں نے مہری کو باے بات کیا اور‬
‫واپس دکان کی طرف چل دیا‬
‫دکان پر جب میں پہنچا تو انکل نے‬
‫دکان‬
‫کھول لی تھی میں نے انکل کو سالم کیا‬
‫اور جوتا اتار کر کاونٹر پر چڑھ گیا‬
‫انکل نے پوچھا کہاں چلے گئے تھے‬
‫میں نے پیشاب کرنے کا بہانہ بنایا‬
‫کیونکہ انکل میرے آنے سے کچھ دیر‬
‫پہلے ھی آے تھے اس لیے مجھے یہ‬
‫بہانہ معقول لگا‬
‫میں نے جھاڑن پکڑی اور دکان کی‬
‫الماریوں میں لگے کپڑوں کو جھاڑنا‬
‫شروع کردیا‬
‫پھر ساری دکان کی صفائی کی اور‬
‫سٹک پکڑ کر کچھ سوٹ دکان کے باھر‬
‫لٹکاے ۔۔‬

‫تو انکل نے مجھے بتایا کہ یاسر بیٹا‬


‫میں نے مال لینے آج فیصل آباد جانا‬
‫ھے‬
‫تو تم دھیان سے بیٹھنا‬
‫اور لڑکوں کا خیال رکھنا کہ پیسے‬
‫آگے پیچھے نہ کریں‬
‫میں جی انکل کہا اور انکو مکمل تسلی‬
‫دی کے آپ بےفکر ھو کر جائیں‬

‫کچھ دیر بعد ایک لڑکا آگیا‬


‫تو انکل نے اس لڑکے کو کہا کہ‬
‫مجھے الری اڈے پر چھوڑ آو‬
‫اس لڑکے نے جسکا نام جنید تھا مجھے‬
‫سے دو تین سال ھی بڑا ھوگا اس‪ ،‬نے‬
‫موٹر سائکل باھر نکالی اور انکل‬
‫اسکے پیچھے بیٹھ گئے اور وہ انکل کو‬
‫لیے الری اڈے کی طرف روانا ھوگیا‬

‫میں گدی پر بیٹھ کر باہر کی طرف‬


‫دیکھنے لگ گیا‬
‫تو ایک عمر رسیدہ خاتون اور ایک‬
‫نقاب پوش برقعہ پہنے آنٹی ٹائپ عورت‬
‫ھی کہہ لیں باہر لٹکے سوٹ دیکھنے‬
‫لگ گئیں‬

‫میں نے انکو آواز دی کے آنٹی اندر‬


‫آجائیں اندر کافی ورائٹی مل جاے گی‬

‫تو وہ دونوں ماں بیٹی یا ساس بہو تھی‬


‫دونوں اندر آگئیں اندر داخل ہوتے وقت‬
‫نقاب پوش آنٹی مجھے بڑے ھی غور‬
‫سے دیکھی جارہی تھی میں نے بھی‬
‫ایک دو دفعہ اسکی طرف دیکھا تو وہ‬
‫نظریں پھیر لیتی‬
‫میں انکو لیے پیچھے دکان کے آخر‬
‫میں چال گیا‬
‫کیوں کے انہوں نے بوتیک کے سلے‬
‫سالے سوٹ لینے تھے اور بوتیک کی‬
‫ساری ورائٹی پیچھے پڑی تھی‬

‫میں نے ان سے پوچھا جی آنٹی جی‬


‫کس طرح کی ورائٹی چاھیے تو‬
‫وہ برقعے والی آنٹی جو اب بھی بار بار‬
‫مجھے ھی دیکھی جارہی تھی‬

‫بولیں کہ وہ سامنے گرین کلر کا سوٹ‬


‫دیکھائیں‬
‫میں نے اسکی آواز سنی تو مجھے آواز‬
‫جانی پہچانی سی لگی‬

‫میں نے سوچتے ھوے سوٹ کی طرف‬


‫بڑھا اور ریک کا شیشہ کھول کر سوٹ‬
‫نکال کر انکے سامنے کردیا‬
‫اور انکو کپڑے کی کوالٹی اور امبرائڈڈ‬
‫کی تعریفیں کرنے لگ گیا‬

‫تو وہ نقاب پوش آنٹی بڑی اداوں سے‬


‫بات کری جارھی تھی‬
‫اور کافی فرینک ھونے کی کوشش کر‬
‫رھی تھی‬
‫عمررسیدہ اماں جی بولی‬
‫بیٹا اسکا کلر تو نھی خراب ہوتا‬

‫تو وہ نقاب پوش آنٹی بولی‬


‫امی اگر کلر خراب ھوگیا تو انکے گھر‬
‫دے آیں گے‬
‫یہ ہمارے گاوں کا ھی ھے‬

‫تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا‬


‫انٹی آپ کہاں رھتی ہیں تو وہ ہنستے‬
‫ھوے بولی‬
‫اب جوان ھوگئے ھو تو اپنے دوست کی‬
‫مما کو بھی نھی پہچانتے تو میں نے‬
‫اسکو غور سے دیکھتے ھوے کہا‬

‫آنٹی جی میں نے واقعی آپکو ابھی تک‬


‫بھی نھی پہچانا‬

‫تو آنٹی ہنسی اور ساتھ ھی بولی‬

‫تم یاسر ھی ھو نہ‬


‫تو میں اپنا نام سن کر اور حیران ھوگیا‬
‫کہ یہ کون ھے جسکو میرے نام کا بھی‬
‫پتہ ھے‬
‫آواز بھی جانی پہچانی لگ رھی‬

‫اتنے میں آنٹی نے نقاب پر لگی پن‬


‫نکالی اور نقاب ہٹا دیا‬

‫میری جیسے ھی اسکے چہرے پر نظر‬


‫پڑی میں تو ایکدم سکتے کے عالم میں‬
‫ٹکٹکی باندھے اسکو دیکھے جارھا تھا‬

‫یہ تو میری پہلی سیکس ٹیچر تھی‬


‫اس گشتی نے ھی تو میری اچھی بھلی‬
‫سادا سی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا‬
‫اسکی وجہ سے میں سیکس سے آشنا‬
‫ھوا تھا‬
‫اس ظالم نے ھی تو مجھے پہلی بار‬
‫مموں کی ڈیزائنگ دیکھائی تھی‬
‫اس خرافہ نے ھی تو مجھے پھدی کی‬
‫خوبصورت شیپ سے آشنا کیا تھا‬
‫اسی کی ھی لذت بھری آوازوں نے‬
‫میری نیندیں اڑائیں تھی‬

‫جی بلکل دوستو آپ سہی سمجھے‬

‫یہ اور کوئی نھی فرحت تھی‬

‫مجھے حیران پریشان دیکھ کر فرحت‬


‫نے ہلکا سا کھانسا تو میں ایکدم خیالوں‬
‫سے باہر آیا‬
‫اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫جججججی آپپپپ‬
‫تو وہ بڑی ادا سے بولی‬
‫ھاں جی اب پہچانہ کہ اب بھی انجان‬
‫بنے ھو‬

‫میں نے نھی میں سر ہالتے ھوے کہا‬


‫ننننھی جی اب تو پہچان لیا‬
‫آپ قیصر کی مما ہیں نہ‬

‫تو وہ بولی ھاں جی شکر ھے پہچان‬


‫لیا‬

‫تو میں انکا حال احوال پوچھنے لگ گیا‬


‫اور قیصر کے بارے میں کہ وہ اب‬
‫کہاں پڑھتا ھے‬
‫تو فرحت نے بتایا کہ وہ اب الھور اپنے‬
‫ماموں کے پاس‪ .‬چال گیا ھے اور ادھر‬
‫ھی پڑھتا ھے‬
‫ادھر آوارہ گرد ھوتا جارھا تھا اس لے‬
‫اس کی نانی نے اسے اسکے ماموں‬
‫کے پاس بھیج دیا ھے‬

‫میں اتنا ایکسائڈڈ تھا کہ‬


‫میرے منہ سے اچانک نکل گیا‬
‫اور ماسٹر جی کیسے ہیں‬

‫تو فرحت ایک دم گبھرا گئی اور جلدی‬


‫سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ھو بولی‬
‫کککون‬
‫ممماسسٹرر‬

‫فرحت کی حالت دیکھ کر‬

‫مجھے ایکدم اپنی غلطی کا احساس ھوا‬


‫تو میں نے جلدی سے بات کو سنبھالتے‬
‫ھوے کہا‬
‫وہ سر صفدر صاحب کا پوچھا تھا کیوں‬
‫میں نے تو سکول چھوڑ دیا تھا اور‬
‫قیصر مجھ سے دو کالس پیچھے تھا‬

‫تو آپ قیصر کا پتہ وغیرہ کرنے جاتی‬


‫رھی ھوں گی اس لیے انکا پوچھ لیا‬

‫تو فرحت نے خود کو سنبھالتے ھوے‬


‫کہا‬
‫پتہ نھی مجھے کیا پتہ‬
‫میں تو بس ایک دو دفعہ ھی گئی تھی‬
‫اس کے بعد قیصر کو بھی ہٹا لیا تھا‬
‫سکول سے‬

‫میں نے ہممممم کیا اور‬


‫پھر ایک دو سوٹ اور انکو دیکھانے‬
‫لگ گیا‬

‫ایک سوٹ سرخ کلر کا تھا‬


‫میں نے اس سوٹ کو انکی طرف کیا‬
‫اور کہا کہ آنٹی آپ یہ سوٹ لے لیں یہ‬
‫آپ پر بہت اچھا لگے گا‬

‫تو فرحت نے بڑی ادا سے میری طرف‬


‫دیکھا اور سوٹ کو الٹ پلٹ کر کے‬
‫دیکھنے لگ گئی‬

‫تو اسکی امی نے کہا‬


‫پُتر دو ِتن سوٹ شاپر وچ پا دے اسی‬
‫کار جاکے ویکھ لواں گے جیڑا چنگا‬
‫لگیا اور رکھ لواں گے باقی توں آن‬
‫لگے لے آویں یا فیر تواڈے کار پھڑا‬
‫دیاں گے‬
‫میں نے کہا ماں جی کوئی بات نھی‬
‫اگر ادھر بھی پہن کر چیک کرنا ھے تو‬
‫اس الماری کے پیچھے بھی سٹور ھے‬
‫ادھر پہن کر بھی چیک کر سکتے ہین‬
‫میں نے الماری کے پیچھے سٹور ھے‬
‫کو ذرا لمبا کر کے کہتے ہوے فرحت‬
‫کی طرف‬

‫گہری نظر سے دیکھا‬

‫تو فرحت بھی ایکدم چونک کر میری‬


‫طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫اور جلدی سے بولی‬
‫ننننھی نھی ہم گھر میں ھی پہن چیک‬
‫کرلیں گے‬

‫تو میں نے کہا آنٹی جی آپ نے اپنے‬


‫لیے لینا ھے یا کسی اور کے لیے‬

‫تو فرحت بولی میں نے اپنے لیے ھی‬


‫لینا ھے کیوں ایسا کیوں پوچھ رھے‬
‫ھو‬

‫تو میں نے کہا آپ کہہ رھی ہیں نہ کہ‬


‫ہم گھر جاکر پہن کر دیکھ لیں گی‬
‫تو فرحت مسکرا کر بولی میرا مطلب‬
‫ھے کہ میں گھر جاکر پہن کر چیک‬
‫کرلوں گی‬

‫میں نے ہممممم کیا اور انکی پسند کے‬


‫تین چار سوٹ شاپر میں ڈال دیے اور‬
‫فرحت پرس سے پیسے نکال کر دینے‬
‫لگی تو میں نے کہا‬

‫رہنے دیں پہلے آپ سوٹ پسند کر لیں‬


‫جونسا پسند ھوا‬
‫میں گھر سے لے لوں گا اور باقی کے‬
‫سوٹ بھی لیتا آوں گا‬
‫تو فرحت نے ہممم کہا اور‬
‫پھر نقاب کر کے پن لگائی اور‬
‫اٹھنے لگی تو میں نے کہا‬
‫کتنے بجے آوں‬

‫توفرحت بولی چاھے رات کو ھی آجانا‬


‫یا صبح‬

‫فرحت کی امی دکان سے باہر نکل گئی‬


‫تھی جبکہ فرحت ابھی تک دکان کی‬
‫مزید ورائٹی کی طرف‬
‫نظریں گھما رھی تھی‬
‫میں نے پھر کہا آنٹی جی سرخ سوٹ‬
‫ایک دفعہ پہن کر ضرور دیکھنا آپ پر‬
‫بہت اچھا لگے گا‬

‫تو فرحت نے میری طرف دیکھا اور‬


‫بڑی شوخی سے‬
‫بولی اچھا جی‬
‫سرخ بھی پہن لوں گی‬

‫تو میں نے کہا اگر آپکی مرضی ھو تو‬


‫الماری کے پیچھے بنے ھوے‬
‫سٹورررر میں بھی پہن کر دیکھ سکتی‬
‫ہیں‬

‫یہاں کسی قسم کی کوئی ٹینشن نھی‬


‫ھوگی‬
‫تو فرحت نے مجھے بڑی گہری نظر‬
‫سے دیکھا‬

‫اور بولی اچھاااا جی امی ساتھ نہ ھوتی‬


‫تو تمہاری الماری کے پیچھے سٹور کو‬
‫بھی دیکھ لیتی کہ وہاں کیا اتنی خاص‬
‫بات ھے جو تم بار بار سٹور کا کہہ‬
‫رھے ھو‬

‫اور یہ کہہ کر فرحت نے کپڑوں کا‬


‫شاپر پکڑا اور باہر نکل گئی‬
‫میں اسے جاتی ھوئی کو پیچھے سے‬
‫دیکھنے لگ گیا‬
‫برقعے میں بھی اسکی گانڈ ہلتی نظر‬
‫آرھی تھی‪ ،،‬۔۔‬

‫فرحت دکان کے تھڑے پر جاکر رکی‬


‫اور ایکدم پیچھے کو گردن گھما کر‬
‫دیکھا‬
‫جیسے اسکی گانڈ کو دیکھنے کی میری‬
‫چوری کو اس نے پکڑ لیا ھو‬
‫اور پھر ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی‬
‫اور اپنی امی کے ساتھ آگے چلی گئی‬

‫اور میں اہستہ آہستہ چلتا ھوا‬


‫پھر کیش دراز کے پاس گدی پر بیٹھ گیا‬
‫اتنے میں جنید بھی انکل سجاد کو چھوڑ‬
‫کر آگیا‬

‫میں نے کاپی پکڑی اور اسپر فرحت‬


‫کے بیٹے کا نام درج کر کے ایڈریس‬
‫کے ساتھ سوٹوں کی تعداد لکھی اور‬
‫کاپی کو دراز میں رکھ دیا‬

‫جنید نے مجھ سے پوچھا آیا کوئی‬


‫کسٹمر تو میں نے اسے بتایا کہ ہمارے‬
‫گاوں کی آنٹی تھی‬
‫وہ پانچ سوٹ گھر دیکھانے کے لیے‬
‫لے گئی ھے‬
‫تو وہ ہمممم کر کے میرے پاس ھی بیٹھ‬
‫گیا‬

‫اور مجھ سے پوچھنے لگ گیا کہ شاہد‬


‫نھی آیا تو میں نے کہا ابھی تک تو نھی‬
‫آیا کہیں چھٹی کا پروگرام نہ بنا لیا ھو‬
‫اس نے‪ ،‬۔۔‬

‫تو وہ بھی اسکی بُرائیاں کرنے لگ گیا‬


‫کہ اسکو کوئی پروا نھی کل اسکو انکل‬
‫نے بتایا بھی تھا کہ میں نے صبح‬
‫فیصل آباد جانا ھے پھر بجی چھٹی کر‬
‫کے بیٹھ گیا ھے‬
‫اتنے میں شاہد بھی اگیا اور مجھ سے‬
‫سالم دعا کے بعد سوری کرنے لگا کہ‬
‫یار انکل کو نہ بتانا کہ میں لیٹ آیا‪ ،‬تھا‬
‫میرا بیٹا بیمار تھا اسکی دوائی لینے گیا‬
‫تھا‬

‫میں نے اسکو تسلی دی کہ کوئی بات‬


‫نھی نھی بتاتا‬

‫پھر ایسے ھی کسٹمر آنا شروع ھوگئے‬


‫اور ہم سارا دن مصروف ھی رھے‬

‫رات کو کافی لیٹ دکان بند کی کیونکہ‬


‫انکل نے آنا تھا تو ھی دکان بند کرنی‬
‫تھی‬

‫رات کو دیر ھونے کی وجہ سے میں‬


‫بھی فرحت کے گھر نھی گیا دوسرے‬
‫دن صبح صبح ھی میں انکے گھر چال‬
‫گیا‬

‫گھر کا مجھے پتہ تھا‬


‫میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو فرحت کی‬
‫آواز آئی کون ھے‬
‫تو میں نے اپنا بتایا کہ یاسر‬

‫فرحت نے دروازہ کھوال اور مجھے‬


‫اندر آنے کا کہا‬
‫میں اندر چال گیا‬

‫فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے‬


‫مین آگئی اس کمرے میں بیڈ اور‬
‫ڈریسنگ ٹیبل پڑا تھا‬
‫مجھے اس نے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا‬
‫اور ایک منٹ کا کہہ کر کہ میں آئی‬
‫اور باہر چلی گئی‬
‫میں بیٹھا‬
‫کمرے کا جائزہ لیتا رھا‬

‫کہ فرحت ہاتھ میں کپڑوں کا شاپر لیے‬


‫اندر داخل ھوئی‬
‫اور اس نے سرخ سوٹ نکال کر کہا‬
‫یہ مجھے اچھا لگا ھے‬
‫ویسے تمہاری پسند کافی اچھی ھے‬
‫میں نے فخر سے سینہ چوڑا کرتے‬
‫ھوے کہا‬
‫آنٹی دیکھ لین میں نے کہا تھا نہ کہ‬
‫سرخ سوٹ آپ پر بہت اچھا لگے گا‬

‫فرحت بولی ھاں ویسے تمہاری پسند کو‬


‫بھی داد دینی پڑے گی‬

‫میں نے دل میں ھی کہا‬


‫داد کے بدلے پھدی دے دو تو مزہ‬
‫آجاے تجھے ماسٹر بھی بھول جاے گا‪،،‬‬
‫۔۔‬

‫فرحت بولی یاسر تمہیں کیسے پتہ تھا‬


‫کہ مجھے سرخ رنگ ھی پسند آے گا‬
‫اور مجھ پر بہت اچھا لگے گا تم نے یہ‬
‫اتنے یقین سے کیسے کہا‬

‫میں نے کہا آنٹی جی آپ کا رنگ بہت‬


‫سفید ھے‬
‫اور اس سوٹ کی فٹنگ بلکل آپکے‬
‫جسم کے مطابق تھی اور سرخ رنگ‬
‫آپ کے گورے رنگ پر چار چاند لگا‬
‫دے گا‬
‫اس لیے میں نے سرخ رنگ ھی آپکو‬
‫لینے کے لیے کہا تھا‬

‫فرحت حیران ھوتے ھوے بولی‬


‫واہ بڑی معلومات ھے تمہیں میرے‬
‫بارے میں‬

‫میں نے کہا بس جی دیکھ لیں کام کرتے‬


‫تجربہ تو ھوھی جاتا ھے‬

‫فرحت بولی یاسر ایک بات تو بتاو مگر‬


‫سچ بتانا‬
‫میں نے کہا جی آنٹی پوچھیں میں کیوں‬
‫جھوٹ بولوں گا‬

‫فرحت بولی‬
‫تم نے ماسٹر جی کا مجھ سے کیوں‬
‫پوچھا تھا‬

‫میں نے کہا‬
‫ووووہ میں نے ایسے ھی پوچھ لیا تھا‬
‫فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی‬
‫یاسر دیکھو مجھے سچ سچ بتاو میں‬
‫کوئی بچی نھی ھوں‬

‫میں نے دل میں ھی کہا کہ واقعی‬


‫توں ماسٹر کولوں کدوں بچی سی‬
‫ہن میرے کولوں وی نئی‬
‫بچدی‬

‫میں نے کہا میں سچ ھی کہہ رھا ھوں‬

‫فرحت بولی پھر جھوٹ بول رھے ھو‬


‫اور یہ جو تم بار بار الماری کے‬
‫پیچھے سٹور سٹور لگے تھے‬
‫اور ماسٹر جی کا پوچھ رھے تھے‬
‫اسکے پیچھے جو سچ ھے وہ مجھے‬
‫بتاو‬

‫مجھے پتہ ھے کہ تم کالس کے مانیٹر‬


‫تھے اور ماسٹر جی کے بہت الڈلے‬
‫بھی‬

‫اگر تمہیں ماسٹر جی نے کچھ الٹا سیدھا‬


‫میرے بارے میں بتایا ھے‬
‫تو پلیززز مجھے سچ سچ بتا دو‬
‫میرا تم سے وعدہ ھے کہ میں تمہیں‬
‫کچھ نھی کہوں گی‬

‫تمہاری ان باتوں نے مجھے ساری رات‬


‫نھی سونے دیا‬

‫میں نے کہا آنٹی جی آپ کو کوئی غلط‬


‫فہمی ھوئی ھے‬
‫فرحت بولی یاسررر تم مجھے بیوقوف‬
‫نھی بنا سکتے جو سچ ھے وہ بتا دو‬
‫میں نے تم سے وعدہ کیا ھے نہ کہ‬
‫کچھ نھی کہتی۔۔‬

‫میں سوچنے لگ گیا کہ چور کی داڑھی‬


‫میں تنکا سچ ھی کہا ھے کسی نے‬

‫سالی کی چھٹی حس کتنی تیز ھے‬

‫ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا‬


‫کہ فرحت میرے قریب آکر بیڈ پر بیٹھ‬
‫گئی فرحت نے اچانک‬
‫فرحت نے میرا ھاتھ پکڑا اور میرے‬
‫ھاتھ پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫تم اپنی امی سے کتنا پیار کرتے ھو‬
‫تو میں نے کہا یہ کیسا سوال ھے‬
‫فرحت بولی بتاو نہ کتنا پیار کرتے ھو‬
‫میں نے کہا اپنی جان سے بھی ذیادہ‬
‫اپنی ماں سے پیار کرتا ھوں‬
‫فرحت بولی‬
‫تمہیں تمہاری ماں کی جان کی قسم‬
‫مجھے سچ سچ بتاو‪ .‬اگر جھوٹ بولو‬
‫گے تو اپنی مری ماں کا منہ دیکھو‬
‫گے‬
‫فرحت کی یہ بات سن کر میرا دماغ‬
‫چکرا گیا کہ سالی نے کیسا سچ اگلوانے‬
‫کے لیے میرا ویک پوائنٹ پکڑا ھے‬

‫میں ہاتھ چھڑوا کے ایک دم کھڑا ھوگیا‬


‫اور کپڑوں کا شاپر پکڑ کر باہر نکلنے‬
‫لگا تو‬
‫فرحت نے میرا بازو پکڑ لیا اور جلدی‬
‫سے کمرے کے دروازے کو بند کر‬
‫کے کنڈی لگا دی‬
‫میں نے کہا مجھے دکان سے دیر‬
‫ھورھی ھے مجھے جانیں دیں‬
‫فرحت بولی جب تک سچ نھی بتاو گے‬
‫جانے نھی دوں گی‬

‫میں نے کہا‬
‫آپ کی امی کیا سوچے گی کہ کمرے کا‬
‫دروازہ کیوں بند ھے تو فرحت بولی‬
‫انکی فکر مت کرو وہ سوئی ھوئی ہیں‬
‫دوائی کھا کر دس بجے سے پہلے نھی‬
‫اٹھتی‬

‫مین نے کہا مگر مجھے تو جانے دیں‬

‫فرحت بولی یاسر مجھے یقین ھے کہ تم‬


‫جھوٹ بول رھے ھو اب تو تمہیں‬
‫تمہاری امی کی قسم بھی دے دی ھے‬
‫اب بھی جھوٹ بولو گے یا کچھ چھپاو‬
‫گے تو‬
‫پھر اس کے تم خود ھی ذمہ دار‬
‫ھوگے‬

‫میں نے کہا‬
‫آنٹی سچی مجھے دیر ھورھی ھے‬
‫میں نے انٹی فوزیہ کی بیٹیوں کو بھی‬
‫ساتھ لے کر جانا ھے‬
‫وہ میرا انتظار کررھی ہوں گی ابھی‬
‫مجھے جانے دیں‬
‫میں رات کو آکر سب کچھ سچ سچ بتا‬
‫دوں گا‬
‫مگر ایک بات بتاتا چلوں کہ تب بتاوں‬
‫گا جب آپ کی امی پاس نہ ھوں گی‬

‫فرحت بولی قسم کھاو کہ تم رات کو آو‬


‫گے اور سب کچھ بتاو گے‬

‫میں نے قسم کھا کر فرحت کو یقین‬


‫دلوایا‬
‫تو فرحت نے مجھے وقت بتایا کہ اس‬
‫وقت امی سو جاتی ھے میں بیٹھک کے‬
‫دروازے کی کنڈی کھول دوں گی اور‬
‫دروازہ ویسے ھی بند کردوں گی‬
‫تم دروازے کو ہلکا سا کھولنا اور اندر‬
‫آجانا‬

‫اور گلی میں دیکھ کر آنا کہ کوئی تمہیں‬


‫اندر آتے نہ دیکھے‬

‫میں نے فرحت سے وعدہ کیا اور جلدی‬


‫سے کمرے سے نکل کر صحن میں‬
‫آگیا اور پھر بیرونی دروازے سے نکل‬
‫کر اپنے گھر کی طرف چل دیا‬

‫آدھے راستے میں جاکر مجھے یاد آیا‬


‫کہ میں نے پیسے تو لیے ھی نھی‬
‫پھر یہ سوچ کر واپس نھی گیا کہ‬

‫سالی نے نواں کٹا کھول کہ بے جانا اے‬


‫مجھے پہلے ھی کافی دیر ھوچکی تھی‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا‬

‫فوزیہ کے گھر پہنچ گیا تو فوزیہ نے‬


‫مجھے شرما کر دیکھا جیسے کل ھی‬
‫اس نے میرے ساتھ سہاگ رات منائی‬
‫ھو‬

‫عظمی اور نسرین میرے انتظار میں‬


‫ھی بیٹھی ھوئی تھی‬
‫مجھے دیکھتے ھی نسرین مجھ پر‬
‫بھڑک اٹھی‬

‫کہ روزانہ ہمیں سکول سے دیر کروا‬


‫دیتا ھے نواب زادہ‬

‫میں اسکی باتوں کو نظر انداز کرتا ھوا‬


‫فوزیہ کے پاس کھڑا ھوگیا‬
‫تو نسرین کی اچانک نظر میرے ھاتھ‬
‫میں پکڑے شاپر پر پڑی اور بولی یاسر‬
‫اس میں کیا ھے‬

‫میں پہلے ھی اسکی جلی سڑی باتوں‬


‫سے غصے میں تھا‬
‫میں بوال‬
‫ُکش نئی بیجا آرام نال‬

‫تو نسرین بولی بتا دے کیا ھے بھائی‬


‫نھی میرا‬

‫میں نے کہا سوٹ ہیں فینسی بوتیک‬


‫کے‬
‫تو وہ جلدی سے آگے بڑھی اور میرے‬
‫ھاتھ سے شاپر پکڑنے کی کوشش کی‬
‫تو میں نے جلدی سے شاپر اوپر کر‬
‫کے دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اس نے‬
‫جمپ مار کر شاپر پکڑنے کی کوشش‬
‫کی شاپر میرے سر کے بلکل اوپر تھا‬
‫تو اسکے دونوں ممے میرے سینے کے‬
‫ساتھ لگے‬
‫پہلی دفعہ نسرین کا جسم میرے جسم‬
‫کے ساتھ ٹچ ھوا تھا‬
‫اسکے مموں کے لمس سے میرے جسم‬
‫میں کرنٹ سا دوڑ گیا‬

‫جبکہ اسکے بارے میں میرے دماغ میں‬


‫کبھی بھی ایسی ویسی بات نھی آئی تھی‬
‫اسکا جسم بھی عظمی کی طرح بہت‬
‫سیکسی تھا‬
‫اب تو اسکے ممے بھی چونتیس سائز‬
‫کے ھوچکے تھے اور جسم بھی بھرا‬
‫بھرا تھا‬
‫مگر میں نے کبھی اسکو غلط نگاہ سے‬
‫دیکھا ھی نھی تھا‬
‫کیونکہ وہ میرے ساتھ کبھی اتنا فری‬
‫نھی ھوئی تھی اور ویسے بھی وہ‬
‫سڑئیل مزاج کی تھی اس لیے بھی میں‬
‫اسکو زیادہ منہ نھی لگاتا تھا ۔۔۔‬
‫خیر اسکے مموں کے لمس نے مجھے‬
‫چونکا دیا اور لن ساب نے بھی کہا کہ‬
‫ماما اے وہ جوان اے‬
‫میں نے جلدی سے شاپر دوسرے ھاتھ‬
‫میں کر لیا اور شاپر کو مزید اونچا‬
‫کردیا تو نسرین نے پھر شاپر کو‬
‫پکڑنے کے لیے جمپ لگایا تو اس دفعہ‬
‫پہلے سے ذیادہ اسکے ممے میرے‬
‫ساتھ ٹچ ھوے‬

‫عظمی شاید یہ سب دیکھ رھی تھی‬


‫اس لیے وہ غصے سے بولی‬
‫تیری کیوں جان نکل رئی اے پہلے ھی‬
‫سکول سے اتنی دیر ھوگئی ھے‬
‫چلو چلیں‬
‫اگر اتنا ھی شوق چڑھا ھے تو دکان پر‬
‫جاکر دیکھ لینا‬

‫نسرین نے بُرا سا منہ بنایا اور اپنے منہ‬


‫پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی کوئی بات‬
‫نھی دیکھ لوں گی تجھے‬
‫اور میں ہنستہ ھوا‬
‫انکو لے کر صدف کے گھر پہنچا تو‬
‫اس سے بھی یہ ھی سب کچھ سننے کو‬
‫مال‬
‫اور ہم چاروں شہر کی طرف چل پڑے‬
‫راستے میں بھی نسرین سب سے آگے‬
‫منہ بسورے جلدی جلدی تیز قدموں سے‬
‫چلی جارہی تھی اور اسکی گانڈ بھی‬
‫اس حساب سے‬
‫ون ٹو کرتی جارھی تھی‬

‫صدف میرے آگے تھی اس نے بھی‪.‬‬


‫مجھ سے پوچھا کہ دیکھاو کون سے‬
‫ڈیزائن ہیں میں بھی ویسے سی لوں گی‬
‫دیکھ کر تو میں نے اس کو بھی ٹال دیا‬
‫کہ پھر کبھی تمہیں دیکھا دوں گا ابھی‬
‫دیر ھورھی ھے‬

‫ایسے ھی چلتے چلتے ہم سکول پہنچ‬


‫گئے‬

‫انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں‬


‫سیدھا دکان پر چال گیا‬

‫اور پھر روز مرہ کی طرح کام میں‬


‫مصروف رھا‬

‫تین بجے اچانک میرے ذہن میں آیا کہ‬


‫میں نے تو چار بجے مہری سے ملنے‬
‫جانا ھے‬
‫خیر‬
‫تین سے چار بجے کا وقت مجھے پتہ‬
‫ھے کہ میں نے کیسے گزارہ تھا‬
‫بڑی مشکل سے چار بجے‬

‫میں نے انکل سے بہانہ کیا کہ میرے‬


‫دوست کے والد کی طبعیت بہت خراب‬
‫ھے تو میں نے انکا پتہ کرنے اسکے‬
‫گھر جانا ھے‬

‫تو انکل نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نھی‬


‫کی کیوں کے میں نے کبھی فضول‬
‫چھٹی نھی کی تھی اور نہ ھی دکان‬
‫سے کبھی ادھر ادھر گیا تھا‬
‫یہ پہال موقع تھا کہ میں چھٹی سے‬
‫پہلے دکان سے جارھا تھا‬

‫خیر میں انکل سے اجازت لے کر‬


‫جانے لگا تو انکل نے مجھے آواز دی‬
‫کہ یاسر اگر تمہارے دوست کا گھر دور‬
‫ھے تو جنید تمہیں موٹر سائیکل پر‬
‫چھوڑ آتا ھے‬

‫تو مجھے انکل کا مشورہ معقول لگا‬


‫کیوں کہ مجھے جتنی بے چینی تھی‬
‫مہری کے قرب کی مجھ سے تو اسکے‬
‫گھر کا راستہ بھی جلدی طے نھی ھونا‬
‫تھا‬
‫میں نے کہا نیکی اوت پوچھ پوچھ‬
‫اور انکل سے کہا اگر جنید کو کوئی‬
‫کام نھی ھے تو بھیج دیں‬

‫انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کو‬


‫اسکے دوست کے گھر چھوڑ آو‬

‫جنید نے موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور‬


‫مجھے پیچھے بٹھا کر مجھ سے راستہ‬
‫پوچھتے ھوے جانے لگا‬

‫مہری کے گھر سے کچھ ھی دور گلی‬


‫کی نکڑ پر میں نے جنید کو رکنے کا‬
‫کہا اور میں موٹرسائیکل سے اتر گیا‬
‫اور اسکا شکریہ ادا کرتے ھوے اسے‬
‫جانے کا کہا‬
‫جیند نے موٹرسائیکل گھمائی اور واپس‬
‫چال گیا مجھے جب تسلی ھوگئی کہ‬
‫جنید چال گیا ھے تو میں‬
‫مہری کے گھر کی طرف چلنے لگ‬
‫گیا‬
‫گلی سنسان تھی‬

‫اس لیے میں بنا کسی پریشانی کے چلتا‬


‫ھوا مہری کے گھر کے سامنے پہنچ کر‬
‫کھڑا ھوگیا‬
‫اور ڈور بیل بجائی‬

‫کچھ دیر بعد‬


‫اس قاتل حسینہ کی مترنم آواز میرے‬
‫کانوں کو‬
‫چھوئی‬
‫کون ہے‬
‫تو بے ساختہ میرے دل نے کہا‬
‫سر بام۔۔‬
‫سخن آرائے ِ‬ ‫ہم خاک نشیں ۔تم ُ‬
‫پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو‬
‫ہو‪،‬۔‬

‫میں نے کہا جی میں یاسر‬


‫تو دوسری طرف سے کچھ دیر‬
‫خاموشی رھی اور پھر گیٹ کا چھوٹا‬
‫دروازہ کھال‬
‫اور اس دروازے سے وہ حسین چہرہ‬
‫نکال جیسے بادلوں سے چاند نکلتا ہے‬

‫میرے دل سے پھر آواز آئی‬

‫حسین چہرہ ۔گالبی رنگت۔‬


‫جھیل سی آنکھیں۔‬

‫ہو تم اپنی مثال آپ جاناں‪،‬‬


‫اس جہاں میں تجھ سا حسین دیکھا‬
‫نھی‪،‬‬
‫مہری نے مجھے اپنے ُحسن کے سحر‬
‫میں ڈوبا دیکھا تو شرما کر بولی اب‬
‫ادھر ھی کھڑے رھو گے کی اٹھا کر‬
‫اندر الوں‬

‫اور یہ کہہ کر وہ ایک سائڈ پر ھوگئی‬


‫اور میں اس کے خیالوں سے باہر آیا‬
‫اور جلدی سے اندر چال گیا‪،‬‬

‫مہری بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو‬


‫ویری ُگڈ‪،‬‬
‫اور یہ کہتے ھوے اس نے دروازہ الک‬
‫کر دیا‬
‫مہری نے الئٹ گرین الن کا سمپل سا‬
‫مگر قیمتی سوٹ پہنا ھوا تھا‬
‫اور اسکے جسم پر سوٹ بھی انمول‬
‫ھوگیا تھا‬

‫کمال کی حسین لگ رھی تھی شارٹ‬


‫شرٹ چونٹوں والی بیلٹ والی شلوار‬
‫جو اسکی قمیض کی سائد سے نظر‬
‫آرھیں تھی‬
‫وہ کسی ُگڑیا سے کم نھی لگ رھی‬
‫تھی‬
‫میں نے اسکو سر سے پاوں تک دیکھا‬
‫اور ساتھ ھی میرے منہ سے نکال‬
‫ما*****تو مہری نے شرما کر سر‬
‫نیچے کرلیا اور مجھے دھکا دیتے‬
‫ھوے کہنے لگی چلو اندر کہ یہاں‬
‫کھڑے کھڑے مجھے ھی گھورتے رہنا‬
‫ھے‬

‫میں نے ادھر کھڑے ھی اسکو کندھوں‬


‫سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کردیا‬
‫اور غور سے اسکی آنکھوں میں‬
‫دیکھنے لگ گیا‬
‫مہری نے میری آنکھوں آنکھیں ڈال کر‬
‫اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو بےساخطہ میرے لب ہلے‬
‫ُ‬
‫مرےزلف کو پھیالؤ ناں‬ ‫چہرے پہ‬
‫کیا روز گرجتے ہو‪ ،‬آج جی بھر کہ‬
‫برس جاؤ ناں‬

‫رازوں کی طرح اُترو مرے دل میں آج‬


‫دستک پہ مرے ہاتھ کی ُکھل جاؤ ناں‬

‫مہری نے شرما کر مجھ سے اپنا آپ‬


‫ُچھڑوایا اور اندر کمرے کی طرف‬
‫بھاگ گئی‬
‫میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکے‬
‫کمرے میں آگیا‬

‫اسکا کمرہ بھی اسکی طرح خوبصورت‬


‫تھا‬
‫یا شاید اس کے حسن نے کمرے کو اور‬
‫حسین بنا دیا تھا‬
‫مہری کمرے میں جا کر اپنے بیڈ پر‬
‫بیٹھ گئی اور منہ کے اگے دونوں ہاتھ‬
‫رکھ لیے‬
‫میں جاکر اسکے قدموں میں پاوں کے‬
‫بل بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے‬
‫حسین نرم ھاتھوں پر رکھے‬
‫اور اسکے ھاتھوں کو چاند سے ہٹانے‬
‫لگا‬
‫جیسے ھی اسکے ھاتھ اسکے چہرے‬
‫سے ہٹے تو میں نے دیکھا کہ چودہویں‬
‫کا چاند تو شرم سے ھی سرخ ھورھا‬
‫ھے‬
‫مہری نے آنکھیں بند کی ہوئی تھی‬

‫میں نے کہا مہری‬


‫مہری نے ایسے آنکھیں کھولی جیسے‬
‫گڑیا بےبی ڈول آنکھیں کھول کر پھر‬
‫بند کرلیتی ھے‬
‫مگر میری بے بی ڈول نے آنکھیں‬
‫کھولی تھی مگر بند نھی کی تھی‬

‫اور مجھے پھر اشارے سے پوچھا کیا‬


‫ھے اور ہنسنے لگ گئی‬

‫میں نے کہا مہری مجھ سے شرما کیوں‬


‫رھی ھو‬
‫مہری بولی‬
‫تم پلیز مجھے اسطرح نہ دیکھو مجھے‬
‫شرم آرھی ھے‬

‫میں اٹھ کر اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا‬


‫اور اسکی‬
‫ٹھوڑی کیا ریشم کا زرہ تھا‬
‫جس پر میری انگلیاں رکھتے ھی نشان‬
‫پڑ گئے‬
‫میں نے اس حسین چہرے کو اپنی‬
‫طرف گھماتے ھوے کہا‬
‫مہری تم واقعی ھی بہت خوبصورت ھو‬
‫مجھے یقین نھی ھورھا کہ تم جیسی‬
‫حسین پری میری دوست بن سکتی ھے‬
‫اور مجھے اس کا قرب حاصل ھوسکتا‬
‫ھے‬

‫مہری بولی‬
‫اچھا جی خیر ھے آج بڑے رومینٹک‬
‫موڈ میں ھو‬

‫میں نے کہا‬
‫جس خوش نصیب کے سامنے یہ گالب‬
‫کا پھول ھو تو وہ اس کی خوشبو سے‬
‫مدہوش نہ ھو تو لعنت ھے اس وصال‬
‫یار پر‬

‫مہری تھوڑا سے پیچھے کھسکتی ھوئی‬


‫بولی مجھے تمہاری طبعیت اور نیت‬
‫کچھ سہی نھی لگ رھی‬

‫میں نے کہا طبعیت تو بلکل سہی ھے‬


‫مگر‬
‫یہ حسن یہ دیدار صنم دیکھ کر نیت کی‬
‫کیا گارنٹی کہ وہ خراب نہ ھو‬
‫مہری جلدی سے اٹھی اور مجھ سے‬
‫کہنے لگی اچھا مجنوں جی‬
‫پہلے کچھ کھا پی لو‬
‫پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‬

‫میں نے کہا‬
‫اگر پالنا ھی ھے تو پھر سن شربتی‬
‫گالبی پنکھڑیوں کا رس پال دو‬
‫جسے پی کر ہم بھی امر ھو جائیں‬

‫مہری بولی‬
‫تمہارا گال دبا دینا ھے‬

‫میں نے کہا‬
‫دیر کس بات کی میری خوش نصیبی‬
‫ھوگی‬
‫جو در یار پر میری جاں نکلے‬

‫تو فری اففففففف کرتی ھوئی اپنے‬


‫ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے باہر نکل‬
‫گئی میں اسے جاتا ھوا اسکی مٹکتی‬
‫ھوئی گول گانڈ کو دیکھتا رھا‬
‫مہری کے جانے کہ بعد میں اسکے‬
‫حسن میں کھویا اسکے تصور میں‬
‫ہاتھ پیچھے بیڈ پر رکھے ٹانگیں بیڈ‬
‫سے نیچے لٹکاے‬
‫آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا‬
‫کہ اچانک میرے منہ پر پانی کے‬
‫چھینٹے پڑے اور میں نے ایکدم آنکھیں‬
‫کھولی تو‬
‫وہ حسینہ جس کو آنکھیں بند کئے دیکھ‬
‫رھا تھا‬
‫آنکھیں ُکھلتے ھی میرے سامنے ھاتھ‬
‫میں ٹرے پکڑے جس میں دو مشروب‬
‫کےگالس تھے‬
‫مجھے دیکھے مسکرا رھی تھی‬
‫پھر اسکے لب ہلے اور بولی جناب‬
‫سونے آے ہیں ادھر‬

‫میں نے کہا‬
‫نیند اب کہاں رھی‬
‫آنکھیں بند بھی کروں تو صرف تیرا ھی‬
‫چہرہ سامنے آتا ھے‬

‫مہری بولی اچھا جی جناب شاعر بھی‬


‫ہیں مجھے تو آج پتہ چال‬

‫میں نے کہا‬
‫تیرے ُحسن نے شاعر بنا دیا ورنہ‬
‫شاعری ہمارے بس کا کام نہ تھی‬
‫مہری نے ایک گالس مجھے پکڑایا اور‬
‫ایک گالس خود پکڑ کر ٹرے سائڈ ٹیبل‬
‫پر رکھ دی اور مشروب کی چسکی‬
‫لیتی ھوئی میرے پاس بیٹھ گئی‬

‫میں نے بھی مشروب کا ایک گھونٹ‬


‫بھرا اور‬
‫منہ بسور کر کہا کہ‬
‫یار یہ تو پھیکا ھے‬
‫مہری ایکدم گبھرائی اور بولی پھیکا‬
‫کیسے ھو سکتا ھے میں بھی یہ ھی پی‬
‫رھی تھی‬
‫میں نے گالس اسکی طرف کرتے‬
‫ھوے کہا یہ پی کر دیکھو‬
‫مہری نے ایک گھونٹ بھرا اور نگلتے‬
‫ھوے بولی‬
‫جھوٹے اتنا تو میٹھا ھے‬
‫تو میں نے پھر گھونٹ بھرا اور‬
‫گھونٹ بھرتے اوپر منہ کر کے‬
‫آہہہہہہہہہہ کیا اور مہری کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا‬

‫اب میٹھا ھوگیا ھے‬

‫مہری نے میرے پیٹ میں کہنی ماری‬


‫اور بولی‬
‫چل شوخا بتمیز‬

‫میں نے کہا تمہاری لباب نے اسے میٹھا‬


‫کیا ھے پہلے تو یہ پھیکا ھی تھا‬

‫میں نے دو تین لمبے لمبے گھونٹ‬


‫بھرے اور گالس خالی کر کے ٹرے‬
‫میں رکھ دیا‬

‫کچھ دیر میں مہری نے بھی گالس خالی‬


‫کر کے ٹرے میں رکھ دیا‬

‫میں نے مہری سے پوچھا کہ اسد کب‬


‫گیا ھے مہری بولی وہ تو اوپر ھے‬
‫کمرے میں‬

‫میں جمپ مار کے کھڑا‬


‫ہوگیا اور گبھراے ھوے انداز میں بوال‬
‫او ِشٹ یار پہلے کیوں نھی بتایا‬
‫مہری بولی اب بتا دیا ھے‬
‫کیوں کیا ھوا اتنے پریشان کیوں ھوگئے‬
‫ھو‬

‫میں جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا‬


‫اور مہری کو کہا‬
‫میں جارھا ھوں‬

‫مہری جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر‬


‫مجھے بازو سے پکڑ کر ہنستے ھوے‬
‫بولی‬

‫ڈرپوک‬
‫میں مزاق کررھی تھی‬
‫تم سچی میں بڑے ڈرپوک ھو نکل گئی‬
‫نہ ایک منٹ میں ساری شاعری‬

‫دوستو اسد کا سن کر واقعی میری ہوا‬


‫نکل گئی تھی‬

‫میں نے مصنوعی غصہ دیکھاتے ھوے‬


‫مہری کی طرف دیکھ کر کہا جاو میں‬
‫نھی بولتا تمہارے ساتھ‬
‫اور اس سے بازو ُچھڑوا کر باہر جانے‬
‫لگا تو مہری نے مجھے پیچھے سے‬
‫جپھی ڈال لی اور بولی‬

‫دل توڑ کہ نہ جا منہ موڑ کے نہ جا‬


‫ایسے گانا ُگن گناتے ھوے میرے ساتھ‬
‫جھولنے لگ گئی‬

‫مہری کے نرم نرم ممے جیسے ھی‬


‫میری کمر کے ساتھ لگے‬
‫تو میرے اندر پھر ہوس پیدا ھو گئی‬

‫اور میں نے مہری کے ہاتھ پکڑ لیے‬


‫جو اس نے میرے پیٹ پر باندھے ھوے‬
‫تھے‬

‫میں نے آہستہ سے اسکے ہاتھ کھولے‬


‫اور گھوم کر اسکی طرف منہ کرلیا اور‬
‫اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے‬
‫کر اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا‬

‫میں ڈرتا نھی ھوں‬

‫میں نے نے جیسے ھی مہری کے‬


‫ہونٹ چومنے کے لیے اپنے ہونٹ‬
‫اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھاے تھے‬
‫مہری نے میرے ہونٹوں کو اتنا قریب‬
‫آتے دیکھ کر آنکھیں بند کرلی تھی اور‬
‫اسکے ہونٹ کانپنے لگ پڑے تھے‬

‫میں نے پھر اس کے نرم گالبی ہونٹوں‬


‫کو چوما اور‬
‫مہری کو ویسے ھی گالوں سے پکڑے‬
‫اسکو پیچھے دھکیلتے ھوے بیڈ کی‬
‫طرف بڑھنے لگا‬
‫مہری بھی میرے ہر قدم کے ساتھ‬
‫پیچھے ھوتی جارھی تھی‬
‫کہ بیڈ کے ساتھ اسکی ٹانگیں لگ گئی‬
‫اور میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے‬
‫اسے پیچھے بیڈ پر لیٹا دیا اور خود‬
‫اسکے اوپر لیٹ گیا ہم دونوں کی ٹانگیں‬
‫بیڈ سے نیچے تھی میرا لن مہری کی‬
‫پھدی کے بلکل اوپر‬
‫اسکی پھدی کو دبا رھا تھا‬

‫میں اب مسلسل اسکے ہونٹوں کو چومی‬


‫جارھا تھا اور مہری نے ابھی تک‬
‫آنکھیں بند ھی کی ھوئی تھی‬

‫میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں پر اپنے‬


‫ہونٹ رکھی رکھے‬
‫پھر اسکی دونوں ٹانگوں کے نیچے‬
‫ھاتھ لیجا کر اسکی ٹانگوں کو بیڈ کے‬
‫اوپر کی اور سرھانے والے سائڈ پر‬
‫اسکا سر کرکے‬
‫مہری کو بلکل سیدھا بیڈ پر لٹا کر‬
‫اسکی دائیں طرف اسکے اوپر جھک‬
‫گیا‬

‫مہری نے ایک دفعہ اپنی آنکھیں کھولی‬


‫تو مجھے اسکی آنکھوں میں سرخی‬
‫نظر آئی اور اس نے پھر جلدی سے‬
‫ایسے آنکھیں بند کر لی جیسے‬
‫کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا‬
‫ھے‬

‫میں اسکے اوپر جھکا مہری کے‬


‫چہرے کو غور سے دیکھ رھا تھا اور‬
‫ھاتھ کی ایک انگلی کو اسکے چہرے‬
‫پر پھیر رھا تھا مہری کا ایک مما‬
‫میرے سینے کے ساتھ لگا تھا‬
‫جس سے اسکے سینے کی تیز دھڑکن‬
‫کا پتہ چل رھا تھا‬
‫مہری کی کنپٹی سے انگلی کو پھیرتے‬
‫ھوے اسکے ماتھے سے گزار کر‬
‫اسکی نرم روئی جیسی سوفٹ گال پر‬
‫پھیرتا ھوا ٹھوڑی سے لے کر اسکے‬
‫دوسرے گال تک لیجا کر اسکی بند‬
‫آنکھوں کی پلکوں کو ٹچ کرتا ھوا‬
‫اسکی چھوٹی سی تیکھی ناک پر‬
‫پھیرتے ھوے اسکے نرم گالبی ہونٹوں‬
‫پر انگلی کو پھیرتا تو مہری کا جسم‬
‫کانپ جاتا اسکے ہونٹ تھرتھرانے لگ‬
‫جاتے اسکی پلکیں کپکپانے لگ جاتی‬

‫اسکے ممے تیز سانسوں کی وجہ سے‬


‫میرے سینے کو ٹچ ھوکر واپس اپنی‬
‫جگہ پر چلے جاتے‬

‫میں اسکی یہ حالت دیکھ کر کافی‬


‫محفوظ ھورھا تھا‬
‫وہ کسی بے جان مورت کی طرح پڑی‬
‫تھی‬

‫نہ مجھ سے بات کررھی تھی نہ مجھے‬


‫روک رھی تھی‬
‫بس میری انگلی کے جادو سے تھر‬
‫تھرا رھی تھی‬

‫اسکے بالوں کی ایک لٹ پنکھے کی‬


‫ہوا سے اسکے چاند سے چہرے پر داغ‬
‫لگانے بار بار اڑ کر آجاتی تھی جسے‬
‫میں انگلی سے ھی ہٹا کر اسکے کان‬
‫کی لو کے پیچھے کرتا‬

‫اور غور سے اپنے مجازی محبوب کے‬


‫حسن میں ڈوبا اس چاند سے چہرے کو‬
‫دیکھ کر سوچ رھا تھا کہ‬
‫یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی‬
‫جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب‬
‫ہے۔اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ ‪ ،‬اور‬
‫اب ‪ ،‬خال اور قد غرض سراپائے جسم‬
‫کی تعریف و توصیف بیان کروں تو‬
‫کیسے کروں‬
‫اور اسکی بالوں کی جو لٹ بار بار اڑ‬
‫کر اس چاند پر گرتی تھی‬
‫اسکو سنبل ‪ ،‬سانپ ‪ ،‬ناگن ‪ ،‬زنجیر ‪،‬‬
‫سائباں ‪ ،‬بادل ‪ ،‬رات کا اندھیرا اور‬
‫ساون کی گھٹا جیسے استعاروں سے‬
‫تشبیہ دوں یا کیا نام دوں‬
‫یا پھر یہ کہہ دوں کہ‬

‫زلف جاں سے ملی فکر و نظر کی‬


‫چاندنی۔۔‬
‫زلفوں کے پیچ و خم میں یہ عارض کی‬
‫دھوپ چھاؤں۔۔‬

‫کس نے کھوال ہے ہوا میں گیسوؤں کو‬


‫ناز سے۔۔‬

‫اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں‬


‫کے راز مچل گئے‬

‫بے ساخطہ میرے لب ہلے اور میں نے‬


‫کہا‬

‫رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا‬


‫نام۔۔‬

‫موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا‬


‫نام۔۔‬

‫مہری نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی‬


‫اور غور سے میری آنکھوں میں‬
‫جھانکنے لگ گئی‬
‫مہری کی آنکھوں میں نشہ تھا سرور‬
‫تھا سرخی تھی‬
‫اک عجیب سے کشش تھی جو مجھے‬
‫اپنی طرف کھینچے جارھی تھی اور‬
‫میں اسکی‪ .‬جھیل جیسی آنکھوں میں‬
‫ڈوبتا جارھا تھا‬
‫اور ڈوبتے ڈوبتے میرے پھر لرزتے‬
‫ہونٹ ہلے‬
‫اور میں مہری کی آنکھوں میں کھویا‬
‫بول پڑا‬

‫‪-----------------------‬‬
‫تمہاری کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر‬
‫سب۔۔‬
‫چاقو واقو‪ ،‬چھریاں ُو ریاں‪ ،‬خنجر ونجر‬
‫سب‬
‫‪-----------------------‬‬
‫پھر میں بوال‬

‫دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں‬


‫پارسائی خراب ہو جائے‬
‫‪--------------------------‬‬
‫یہیں پر بس نھی ھوئی‬
‫تو پھر کہا‬
‫مہری تمہاری آنکھیں بتاؤں کیسی ھیں؟‬
‫جھیل سیف الملوک جیسی ہیں‬
‫‪---------------------------‬‬
‫مہری اور بتاوں‬

‫‪,‬گالب آنکھیں شراب آنکھیں‬


‫یہی تو ہیں الجواب آنکھیں‬

‫انہیں میں الفت انہیں میں نفرت‬


‫سوال آنکھیں عذاب آنکھیں‬

‫کبھی نظر میں بال کی شوخی‬


‫کبھی سراپا حجاب آنکھیں‬
‫کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے‬
‫کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں‬

‫کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی‬


‫کسی نے پائی شراب آنکھیں‬

‫وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے‬


‫حضور آنکھیں جناب آنکھیں‬

‫عجب تھا یہ گفتگو کا عالم‬


‫سوال کوئی جواب آنکھیں‬

‫یہ مست مست بے مثال آنکھیں‬


‫نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں‬

‫اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں‬


‫گریں تو کر دیں کمال آنکھیں‬

‫کوئی ہے انکے کراہ کا طالب‬


‫کسی کا شوق وصال آنکھیں‬
‫نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں‬
‫کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں‬

‫ہیں جینے کا اک بہانہ یارو‬


‫یہ روح پرور جمال آنکھیں‬

‫دراز پلکیں وصال آنکھیں‬


‫ّ‬
‫مصوری کا کمال آنکھیں‬

‫شراب رب نے حرام کر دی‬


‫مگر کیوں رکھی حالل آنکھیں‬

‫ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں‬


‫‪.‬خدا کی بندی سنبھال آنکھیں‬

‫مہری میرے سحر میں جکڑ چکی تھی‬


‫مجھے یوں اپنے اوپر نچھاور دیکھ کر‬
‫مسکرا کر کچھ بولنے گی لگی تھی کہ‬
‫میں نے مہری کے گالبی ہونٹوں کو‬
‫چوما اور کہا‬
‫شییییی‬
‫آج کچھ نہ بولو بس مجھے جی بھر کے‬
‫دیکھنے دو‬
‫اور جی بھر کے کہنے دو‬
‫اور مہری کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر‬
‫کہا‬
‫نازکی تمہارے کے لب کی کیا کہنے‬
‫پنکھڑی اک گالب کی سی ہے‬

‫مہری اکھڑے ھوے سانس لیتے ھوے‬


‫بولی آج میری جان لینی ھے‬
‫اتنا ظلم مت کرو مجھ پر کہ دور رہنا‬
‫مشکل ھوجاے‬

‫میں نے کہا کون کمبخت دور رہنا چاہتا‬


‫ھے میری تو آرزو بھی یہ ھے کہ‬
‫میری جاں بھی تیری قربت میں نکلے‬

‫مہری نے دونوں بازو کھولے اور‬


‫مجھے کس کر جپھی ڈال لی‬

‫اور میرے ہونٹوں کو بے دردی سے‬


‫چوسنے لگ گئی‬

‫میں نے بھی اسکے ہونٹوں کو اپنے‬


‫ہونٹوں میں جکڑنا چاھا‬
‫مگر مہری مجھ پر سبقت برقرار رکھے‬
‫ھوے تھی‬

‫کچھ دیر دیوانہ وار کسنگ کر کے‬


‫مہری نے لمبی آہہہہہہہ بھری اور زور‬
‫سے سر پیچھے میٹرس پر رکھے تکیہ‬
‫پر مارا‬
‫میں تھوڑا سا جھکا اور اسکے پیٹ کے‬
‫پاس منہ کیا اور اسکی شرٹ کے پلو‬
‫کو اپنے دانتوں میں جکڑا اور دانتوں‬
‫جکڑے ھوے پلو کو لے کے مہری کے‬
‫سینے سے ھوتا ھوا اسکے منہ پر آکر‬
‫پلو کو چھوڑ دیا اور پھر ادھر سے ھی‬
‫واپس اسکے ننگے نرم نازک چٹے‬
‫سفید دودیا مانند پیٹ پر آگیا اور اسکی‬
‫ناف کے سوراخ پر ایک کس کی‬
‫تو مہری کا پیٹ وائبریٹ ھونے لگ‬
‫گیا‬
‫مہری نے دونوں ھاتھوں میں سرھانے‬
‫کے نُکریں پکڑ کر بھینچتے ھو سر کو‬
‫دائیں بائیں کرتے ھو سسسسکاریاں لینی‬
‫شروع کردی‬

‫میں پیٹ کو چومتا ھو مہری کے مموں‬


‫کے قریب تر ھوتا گیا یہاں تک کے‬
‫اسکی شرٹ جو مموں پر تھی وہ میرے‬
‫ناک کو چھونے لگی‬
‫میں نے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے‬
‫کیے اور اسکو تھوڑا سا اوپر ھونے کا‬
‫اشارہ کیا تو مہری اوپر ھوگئی‬
‫میں نے اسکی شرٹ کمر سے اوپر‬
‫اسکے بریزیر تک کردی‬
‫اور ساتھ ھی اسکے مموں کے اوپر‬
‫سے شرٹ کو دانتوں میں لے کر اسکے‬
‫ممے شرٹ سے آزاد کردیے‬

‫میری جسے ھی مہری کے مموں پر‬


‫نظر پڑی اففففففففف‬
‫کیا بتاوں دوست‬
‫ممے تھے کہ کیا قیامت تھے‬
‫شاید کوئی انگریزوں کی کسی گوری‬
‫میم کے بھی ایسے ممے نہ ھوں جیسے‬
‫اس قیامت کی پڑیا کے تھے‬
‫ظلم پر ظلم کہ بریزیر بھی سرخ رنگ‬
‫کا پہنا ھوا تھا‬

‫بندے کی جان نہ نکلے تو کیا ھو‬

‫میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا‬


‫اگر کھانے والی چیز ھوتی تو اب تک‬
‫ڈکار مار چکا ھوتا‬

‫مگر یہ تو کھیلنے والی پیار کرنے‬


‫والے سنبھال کر رکھنے والے چیز‬
‫تھی‬

‫میں نےمموں کے درمیان چومنا شروع‬


‫کردیا‬

‫کچھ دیر بعد ایسے ھی چومتے ھوے‬


‫مہری کی برا کو مموں سے الگ کردیا‬

‫اففففففف میرے خدایا کیا آج میرا آخری‬


‫دن ھے‬
‫کیا بچے کی جان لے گی‬
‫ممے افففففف‬
‫کیا لکھوں کیا کہوں نہ میرے پاس الفاظ‬
‫ہیں نہ اور کچھ‬
‫بس اسکے سفید مموں کے اوپر بنے‬
‫پنک گول دائرے اور اکڑے ھوے پنک‪.‬‬
‫نپل پر میں بے دردی سے ٹوٹ پڑا اور‬
‫پورے ممے کو ایک ھی نوالے میں‬
‫نگھلنے کی کوشش کرنے لگا‬

‫تبھی مہری نے زور سے سیییییی کیا‬


‫اور بولی افففففففف نھیییی‬
‫یاسسررررر‬
‫پلیززززز آہستہ‬
‫کاٹو تو نہ‬

‫تو مجھے اپنے جانور بننے کا احساس‬


‫ھوا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ممے پر دباو کم‬
‫کر دیا اور آرام آرام سے ممے کو‬
‫چوسنے لگ گیا مجھے ایسے لگ رھا‬
‫تھا کہ میں نے منہ میں روئی ڈالی‬
‫ھوئی ھے‬
‫یا جیسے لچھا ھوتا ھے بلکل نرم اور‬
‫سوفٹ‬
‫خیر کچھ دیر ایسے ھی میں دونوں‬
‫مموں کو باری باری چومتا رھا‬

‫پھر میں نے ایک ھاتھ مہری کی شلوار‬


‫میں ڈال دیا اور جیسے ھی میری‬
‫انگلیاں اسکی مالئم نرم نازک بالوں‬
‫سے پاک پھدی پر لگی‬
‫تو مہری ایکدم اوپر کو اچھلی اور زور‬
‫سے ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا جس‬
‫سے میری انگلیاں اس کی پھدی کے‬
‫ساتھ چپک گئی او ر مہری نے میرے‬
‫سر کے بالوں کو زور سے پکڑ لیا اور‬
‫ایکدم مہری کے منہ سے‬
‫نکال‬
‫ھاےےےےےےےےےےےے‬
‫ممممممممممممممم افففففففففف‬
‫سیییییییییج‬
‫اور ساتھ ھی میری انگلیوں پر گرم گرم‬
‫الوا پڑتا محسوس ھوا اور مہری کا‬
‫جسم ذور ذور سے جھٹکے کھانے لگ‬
‫گیا‬
‫مہری کا جسم ایسے ھوگیا جیسے برف‬
‫میں لگ گئی ھے‬
‫ہری نے ساتھ ھی کروٹ لی جس سے‬
‫میرا ھاتھ اسکے نرم مالئم چڈوں سے‬
‫نکل گیا اور مہری نے اپنے گوڈے‬
‫اپنے پیٹ کے ساتھ لگاے اور منہ‬
‫دوسری طرف کر کے لمبے لمبے‬
‫سانس لیتی ھوئی لیٹ گئی اور میں‬
‫حیران پریشان اسکی ننگی گانڈ کو‬
‫دیکھنے لگا گیا ۔۔۔‬
‫مہری کی گانڈ آدھی ننگی تھی اور‬
‫پیچھے سے اسکی قمیض بھی اوپر‬
‫کندھوں تک تھی جس سے اسکی چٹی‬
‫سفید کمر اور گانڈ نظر آرھی تھی‬
‫مہری تو فارغ ھو کر کروٹ لیے اکھٹی‬
‫سنگڑ کر لیٹی تھی‬ ‫ُ‬
‫مگر میرے دماغ اور لن کی گرمی ابھی‬
‫ویسے ھی باقی تھی‬

‫مہری کا ننگا گورا جسم دیکھ کر میرا‬


‫مذید دماغ خراب ھونے لگ گیا‬

‫میں نے مہری کی کمر پر ھاتھ پھیرنا‬


‫شروع کیا تو مہری نے میرا ھاتھ پکڑ‬
‫کر جھٹک دیا‬
‫میں کہاں باز آنے واال تھا‬
‫ننگے کنوارے گورے بدن تو پہلے بھی‬
‫دیکھ چکا تھا‬

‫مگر مہری کا جسم اور اسکی رنگت‬


‫اور بناوٹ ان سب سے انمول تھی جس‬
‫کی جتنی تعریف کی جاے کم تھی‬

‫میں مہری کے پیچھے اسکی طرف منہ‬


‫کر کے ٹیڑھا ھوا اور اسکو پکڑ کر الٹا‬
‫کردیا‬
‫مہری نے کوشش کی کہ سیدھی ھو‬
‫جاے مگر میں وقت ضائع کئے بغیر‬
‫ھی اسکے اوپر الٹا لیٹ گیا‬

‫مہری میں نیچے دبی ھوئی مجھے اوپر‬


‫سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی‬
‫مگر میں مرد تھا اور وہ ایک کھلتا‬
‫گالب جسکو پہلی دفعہ کسی مرد نے‬
‫چھوا تھا‬
‫اور اسے پہلی دفعہ مرد کے جسم کا‬
‫لمس محسوس ھوا تھا‬
‫میں نے ہاتھ نیچے کیا اور اپنی قمیض‬
‫اپنے پیٹ سے اوپر کر کے اپنے سینے‬
‫کو بھی ننگا کر دیا اور مہری کی‬
‫پیچھے سے قمیض کو پکڑ کر مزید‬
‫اوپر کرکے اسکی کمر کے اوپر اپنا‬
‫ننگا جسم رکھ دیا اور پیچھے سے اپنے‬
‫پیروں کی انگلیوں کو مہری کے نرم‬
‫پیروں کے پیچھے رکھ کر لن اسکی‬
‫گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا اور اسکے‬
‫ریشم جیسے بالوں کو اسکی گردن سے‬
‫ہٹا کر ایک طرف کر کے اسکی ننگی‬
‫گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے‬

‫مہری کا سارا جسم ھی ایک جیسا نرم‬


‫نازک تھا‬
‫اس کے جس عضاء کو میں چھوتا‬
‫مجھے اسکا جسم اک نئی لذت سے آشنا‬
‫کروا دیتا‬

‫میرے ہونٹوں نے جیسے ھی مہری کی‬


‫گردن کو چھوا مہری کی مزاحمت وہاں‬
‫ھی دم توڑ گئی‬
‫اور اس نے سیییییییییییی کیا اور اپنا منہ‬
‫سرھانے میں دبا لیا‬
‫میں نے اسکی گردن کو چومنا شروع‬
‫کردیا‬
‫اور ساتھ ھی زبان نکالی اور مہری کی‬
‫گردن پر پھیرتے ھوے اسکے کان کے‬
‫قریب لے جاتا اور مہری سسکیاں‬
‫بھرتے ھوے خود کو سمیٹنے کی‬
‫کوشش کرتی اور اپنی گانڈ جے دراڑ‬
‫میں پھنسے ھوے لن کو بھینچ لیتی‬

‫اور کہتی یاسرررررر پلیزززززز نہ‬


‫کرو‬

‫میں ایسے ھی کچھ دیر اسکی گردن کو‬


‫چومتا اور گردن کے دونوں اطراف‬
‫زبان پھیرتا رھا‬
‫اور مہری میری قربت میں سسکتی‬
‫رھی‬

‫میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور‬


‫میرا لن مہری کے چتڑوں سے نکل کر‬
‫اسکے چڈوں میں آگیا اور میرے ہونٹ‬
‫مہری کی مالئم کمر کو چومنے لگ‬
‫گئے‬

‫میں کمر کے ایک ایک حصہ کو چومتا‬


‫ھوا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرھا‬
‫تھا‬
‫مہری میرے نیچے کانپ رھی تھی‬
‫میرے ہونٹوں کا لمس اس سے برداشت‬
‫کرنا مشکل ہورھا تھا‬

‫کچھ دیر تک میں اسکی گانڈ کے بلکل‬


‫قریب آچکا تھا‬

‫میں نے زبان نکالی اور گانڈ کے اوپر‬


‫جہاں سے ریڑھ کی ہڈی شروع ھوتی‬
‫ھے وہاں پر رکھ دی اور مہری کے‬
‫ریڑھ کی ہڈی کو زبان لمبی کر کے‬
‫چاٹنے لگا‬
‫مہری سے برداشت نہ ھوا مہری ایکدم‬
‫پورے زور سے جھٹکا مار کے سیدھی‬
‫ھوگئی‬
‫اور میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬

‫مجھ پر ترس کھا یاسر کیوں مجھے‬


‫مارنے پر تُلے ھوے ھو‬

‫میں نے کہا مہری تم چیز ھی ایسی ھو‬


‫تمہارا جسم ھی اتنے کمال کا ھے کہ‬
‫میرا بس چلے تو اس جسم کو اپنے‬
‫جسم میں سما لوں‬
‫تمہارے اس جسم کو اتنا پیار کروں کہ‬
‫میری ساری عمر گزر جاے اور میری‬
‫جان نکل جاے‬
‫تو مہری نے جلدی سے اپنا ھاتھ میرے‬
‫منہ پر رکھ دیا اور بولی‬
‫*****‬
‫نہ کرے کیسی باتیں کر رھے ھو یاسر‬
‫خبردار اگر دوبارا ایسی بات کی‬

‫تو میں نے اسکا ہاتھ پیار سے پکڑا اور‬


‫ہاتھ کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگایا‬
‫اور‬
‫ساتھ ھی اسکے اوپر جھک کر اسکے‬
‫گالبی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ‬
‫لیا‬

‫مہری بھی میرا برابر ساتھ دے رھی‬


‫تھی‬

‫میری گردن پر اپنا نرم نازک ھاتھ رکھ‬


‫کر انگلیوں کو میرے بالوں میں پھیر‬
‫رھی تھی‬
‫۔جس سے مجھے اور جوش چڑھ رھا‬
‫تھا کچھ دیر ایسے ھی ہم کسنگ کرتے‬
‫رھے‬

‫میں نے مہری کے ہونٹوں کو چھوڑا‬


‫اور نیچے کی طرف سرکتا ھوا اسکے‬
‫ننگے مموں پر آگیا اور باری باری‬
‫دونوں مموں کو چومتا ھوا‬
‫نیچے اسکے پیٹ کی طرف آیا اور‬
‫اسکے روئی جیسے نرم اور ریشم‬
‫جیسے مالئم پیٹ پر زبان پھیرتے ھوے‬
‫میری کی ناف کے نیچے تک آگیا‬
‫مہری بلکل مدہوش ھو کر‬
‫ہممممم اففففففف مممممم سسسسییییی کر‬
‫رھی تھی تھی اور میرے بالوں میں‬
‫اپنی انگلیاں پھنساے ھوے کبھی بالوں‬
‫کو مٹھی میں بھرتی تو کبھی میرے سر‬
‫میں مساج کرنے کے انداز میں پھیرنے‬
‫لگ جاتی‬

‫کچھ دیر ایسے ھی میں کبھی ناف کو‬


‫چومتا چاٹتا تو کبھی ناف کے اوپر تک‬
‫چال جاتا‬
‫مہرے کے پیٹ کا کوئی حصہ ایسا نہ‬
‫بچا ہوگا جو میں نے نھی چوما چاٹا‬
‫جسکا ثبوت اسکے سارے پیٹ کا میری‬
‫تھوک سے گیال ھونا تھا‬

‫میں پھر اٹھا اور میں نے جلدی سے اپنا‬


‫ناال کھوال اور لن باہر نکاال اور مہری‬
‫کی شلوار جو پہلے ھی کافی اتری‬
‫ھوئی تھی اسے پکڑ کر مزید نیچے‬
‫کرتے ھوے‬
‫اتار دیا‬

‫مہری کی انکھیں بند تھی اس نے ابھی‬


‫تک میرے لن کو نھی دیکھا تھا‬

‫ورنہ ابھی الت مار کر مجھے بیڈ سے‬


‫نیچے پھینک دیتی‬

‫خیر‬
‫میں نےمہری کی شلوار بھی اتار دی‬
‫میں مہری کی دونوں ٹانگوں کے بیچھ‬
‫ُگھٹنوں کے بل بیٹھا ھوا تھا‬

‫میرے سامنے مہری کی بالوں سے پاک‬


‫نرم پھدی‪ .‬تھی‬
‫جس کے ہونٹ بھی پنک تھے اور پھدی‬
‫کی رنگت اتنی سفید تھی کہ میں نے‬
‫پہلے کبھی ایسی پھدی خواب میں بھی‬
‫نھی دیکھی تھی‬

‫میں نے منہ پھدی کے قریب کر کے‬


‫پھدی کو سونگھا تو پھدی سے منی کی‬
‫دھیمی دھیمی خوشبو میرے ناک کو‬
‫چھوتی ھوئی میرے دماغ میں چلی گئی‬
‫اور میں اس خوشبو میں مذید مدھوش‬
‫ھوتا چال گیا‬

‫میں نے زبان باہر نکالی اور پھدی کے‬


‫ہونٹوں کے درمیان گھسا کر پھدی کے‬
‫ہونٹوں کو کھوال اور پھدی کی ہڈی پر‬
‫زبان کی نوک سے دباو ڈال دیا‬
‫مہری پھدی کو سک کرنے سے پہلے‬
‫کی میری ساری کاروائی سے بے خبر‬
‫تھی‬

‫جیسے ھی پھدی پر میری زبان لگی‬

‫مہری نے چیخ ماری اور بیڈ سے دوفٹ‬


‫اچھل کر میرے سر کو پکڑ کر مجھے‬
‫پیچھے دھکا دے دیا اور ساتھ ھی ٹانگو‬
‫کو سکیڑ کر پیچھے ہٹ کر بیڈ کے‬
‫ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی‬
‫اور آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬

‫وٹ اس دس یاسر‬

‫تم اتنا گر سکتے ھو‬


‫آئی شیم یو‬

‫میں نے کہا مہری مجھے تمہارے جسم‬


‫نے پاگل کر دیا ھے‬

‫پلیز مجھے نہ ترساو بس ایک بار پیار‬


‫کرنے دو پلیززززززز‬
‫مہری نے زور زور سے انکار میں سر‬
‫ہالتے ھوے کہا‬

‫پلیزززز ڈونٹ ٹچ می‬

‫یاسرررررر‬
‫یہ کیسا پیار ھے‬
‫کیا تم اسکو پیار کہتے ھو‬
‫کس جاہل نے اس گندی حرکت کو پیار‬
‫کا نام دیا‬

‫یہ پیار نھی ہوس ھے‬


‫اگر تمہیں مجھ سے پیار نھی بس ہوس‬
‫پوری کرنی ھے‬

‫تو لو یاسر‬
‫ہوس کے پجاری بنو اور اپنی ہوس کو‬
‫پوری کرلو‬
‫اور ساتھ ھی مہری ٹانگیں چوڑی کر‬
‫کے پھدی کو میرے سامنے کر کے لیٹ‬
‫گئی‬

‫اور بولی‬
‫یاسر میں تمہیں نھی روکوں گی میرا‬
‫جسم بھی تمہاری ملکیت ھے اور میری‬
‫روح بھی‬
‫تم پہلے مرد ھو جس نے مجھے ٹچ کیا‬
‫ھے اور میرے اتنے قریب آے ھو‬

‫تمہارا جو دل کرے میرے ساتھ کرتے‬


‫رہنا‬

‫مگر اس کے بعد میرے اور تمہارے‬


‫درمیان پیار نام کا شبت نھی رھے گا‬
‫اگر رھے گی تو بس‬
‫ہوسسسسسسس‪ ،،،،،،‬۔۔۔۔‬
‫مہری نے ٹانگیں میرے کندھوں پر رکھ‬
‫دیں‬
‫اور بولی‬
‫کم ان لیٹس گو‬

‫میں اسکی باتیں سن کر ہکا بکا آنکھیں‬


‫پھاڑے سکتے کے عالم میں لن اسکی‬
‫پھدی کے پاس کر کے بیٹھا اسے‬
‫دیکھی جارھا تھا‬

‫مہری نے ٹانگوں سے میرے کندھے‬


‫کو ہالیا‬

‫اور مجھے دوبارا ہوش آئی تو میں نے‬


‫مہری کی ٹانگوں کو کندھوں سے ذور‬
‫سے ہٹا کر نیچے کیا اور جلدی سے‬
‫کھڑا ھوگیا میرا لن فل تنا ھوا تھا جو‬
‫اب مہری کی آنکھوں کے سامنے لہرا‬
‫رھا تھا‬
‫مہری کی نظر جب میرے لن پر پڑی‬
‫تو اسکی آنکھیں ایکدم پتھرا سی گئیں‬
‫وہ کچھ بولنے لگی تھی مگر اسکی‬
‫آواز اس کے ہلک میں ھی اٹک گئی‬

‫اور میں اس حسن کے مجسمہ کو اسی‬


‫حالت میں ننگا چھوڑ کر جلدی سے‬
‫شلوار پہن کر کمرے سے باہر نکال اور‬
‫تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا مین گیٹ کے پاس‬
‫آیا اور دروازہ کھول کر گلی میں نکل‬
‫کر دکان کی طرف چلدیا‬
‫میں نے پیچھے بھی مڑ کر نھی دیکھا‬
‫تھا‬
‫کہ مہری مجھے آواز دے گی کہ نھی‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مہری کی باتیں میرے دماغ میں‬
‫ہتھوڑے کی طرح ذربیں لگا رھی تھیں‬
‫اور میرا ضمیر مجھے لعن طعن کر‬
‫رھا تھا‬
‫کہ یاسر کیا تم ہوس کے پجاری ھو کیا‬
‫تمہارے نذدیک صرف سیکس کرنا ھی‬
‫فرض ھے‬
‫کیا تم اسکو پیار کہتے ھو‬
‫نھی یہ پیار نھی ہوس ھے ہوس‬
‫اگر تم نے مہری کے ساتھ بھی‬
‫صدف عظمی اور فوزیہ کی طرح‬
‫سیکس ھی کرنا تھا تو‬
‫پھر اس معصوم سے پیار نام شبد کیوں‬
‫بولے‬
‫اگر تمہیں اس سے واقعی پیار ھے تو‬
‫کبھی سوچنا بھی نہ کہ تم شادی سے‬
‫پہلے اس کے ساتھ بھی باقی لڑکیوں‬
‫جیسا سلوک کرو گے‬

‫کیا عظمی کے بارے میں تمہاری‬


‫ویسے فیلنگ ھے جیسی پہلے ھوتی‬
‫تھی‬
‫وہ تو تمہاری بچپن کی دوست تھی‬
‫میں ایسے ھی ضمیر سے بےعزتی‬
‫کرواتا دکان پر پہنچ گیا اور جاکر‬
‫خاموشی سے کاونٹر پر بیٹھ گیا‬
‫انکل شاید ***پڑھنے گئے تھے‬
‫جنید نے مجھ سے پوچھا خیریت تو‬
‫ھے اتنی جلدی واپس آگئے اور پریشان‬
‫بھی لگ رھے ھو ۔‬
‫میں نے اسکو ٹال مٹول کر کے اور‬
‫دوست کے والد کی طبعیت کو ذیادہ‬
‫سیریس ۔۔۔بتا کر مطمئن کر لیا۔۔‬

‫شام کو انکل کے ساتھ ھی میں گاوں‬


‫چال گیا۔‬
‫انکل کو میں نے بتا دیا تھا کہ فرحت‬
‫نے ایک سوٹ رکھا تھا اور شام کو‬
‫پیسے لینے کا کیا تھا ۔‬

‫انکل نے بھی ہمممم‪ .‬کردیا۔۔‬

‫اور مجھے تاکید کی کہ جاکر پیسے‬


‫الزمی لے آنا۔۔‬

‫میں گھر گیا اور کچھ دیر بعد امی کو‬


‫بتایا کہ‬
‫میں نے کسی سے پیسے لینے ہیں‬
‫انکے گھر جارھا ہوں ۔‬
‫امی نے بھی ذیادہ تفصیل نھی پوچھی‬
‫تو میں گھر سے نکل کر سیدھا فرحت‬
‫کی گلی میں جاپہنچا۔‬

‫اندھیرا ہونے کی وجہ سے گلی تقریبا‬


‫سنسان ھی تھی‬

‫میں انکی بیٹھک کے دروازے کے پاس‬


‫پہنچا اور‬
‫دروازے کو اندر کی طرف دھکیال تو‬
‫حسب وعدہ فرحت نے دروازہ کھال‬
‫چھوڑا ھوا تھا۔‬

‫میں اندر داخل ھوتے وقت گبھرا بھی‬


‫رھا تھا‬
‫کہ کوئی ٹینشن نہ بن جاے‬
‫مگر پھر بھی میں حوصلہ کرکے اندر‬
‫داخل ھوگیا‬

‫جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو‬


‫سامنے فرحت چارپائی پر بیٹھی ھوئی‬
‫تھی‬
‫مجھے دیکھ کر کھڑی ھوکر بولی‬
‫اتنی دیر کردی‬
‫میں کب سے تمہارا انتظار کررھی‬
‫تھی‬

‫میں نے کہا خیر تھی‬


‫تو وہ بولی بیٹھک کا دروازہ کھال‬
‫چھوڑا ھوا تھا‬

‫تو مجھے بھی ادھر بیٹھنا پڑا ایسے‬


‫کوئی بھی اندر آسکتا تھا‬

‫گھر میں کونسا مرد ھے‬


‫میں اور امی ھی ہیں‬
‫امی ویسے ھی شام کو ھی دوائی کھا‬
‫کر سوجاتی ہیں‪ ،‬۔‬

‫میں نے ہمممم کیا اور چارپائی پر بیٹھ‪.‬‬


‫گیا‬
‫فرحت بولی گلی میں کسی نے تمہیں‬
‫اندر آتے تو نھی دیکھا میں نے کہا نھی‬
‫جی‬
‫گلی بلکل خالی تھی‬

‫تو فرحت مطمئن ہو کر بولی اچھا کیا‬


‫جو احتیاط سے اندر آگئے۔‬

‫میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا‬


‫تو فرحت بولی‬
‫وہ تو کب کی سوگئی ہیں۔‬

‫میں نے پھر کہا کہ ایک دفعہ تسلی‬


‫کرلیں‬
‫تو فرحت بولی‬
‫مجھے پتہ ھے وہ کب سوتی ھیں اور‬
‫کب اٹھتی ہین ۔۔‬

‫میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی‬


‫اور چپ کر گیا‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر کیا کھاو گے کھانا لے کر آوں یا‬
‫چاے پیو گے میں نے کہا نھی شکریہ‬
‫میں سب کچھ کھا پی کر ھی آیا ہوں‬

‫فرحت بولی چلو چاے پی لو اسی بہانے‬


‫میں بھی تمہارے ساتھ پی لوں گی‬

‫میں نے بھی ذیادہ نخرہ نھی کیا اور‬


‫چاے کا کہہ دیا‬

‫فرحت بولی اندر میرے کمرے میں‬


‫آجاو ادھر سے آواز باہر جاتی ھے‬

‫میں اٹھا اور اسکے پیچھے پیچھے چلتا‬


‫ھوا صحن مین آگیا‬

‫انکا صحن کافی ُکھال تھا اور سامنے‬


‫چار کمرے ایک ھی الئن میں بنے‬
‫ھوے تھے اور انکے آگے برآمدہ تھا‬
‫اور ایک سائڈ پر کچن تھا اور ایک‬
‫طرف لکڑیاں وغیرہ رکھنے کے لیے‬
‫کچا سا‬
‫برآمدہ تھا۔‬

‫فرحت مجھے لیے ھوے اپنے کمرے‬


‫میں آگئی اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر‬
‫خود چاے بنانے چلی گئی‬

‫میں بیٹھا آنے والے لمحات کے بارے‬


‫میں سوچنے لگا اور پالننگ کرنے لگا‬
‫کہ پوری کوشش کروں گا کہ آج ھی‬
‫اس کی پھدی مار کر‬
‫اس دماغ سے ماسٹر کو نکال کر اسکو‬
‫اپنی مریدنی بنا لوں ۔‬

‫کچھ دیر بعد فرحت چاے لے کر کمرے‬


‫میں داخل ھوئی اور ٹرے کو سائڈ ٹیبل‬
‫پر رکھتے ھوے بولی‬

‫یاسر جوتا اتار کر بیڈ کے اوپر ھو جاو‬


‫ایسے ٹانگیں لٹا کر کیوں بیٹھے ھو۔‬

‫میں نے جوتا اتارا اور بیڈ پر چوکڑی‬


‫مار کر بیٹھ گیا۔‬

‫فرحت بھی میرے سامنے بیڈ پر‬


‫چوکڑی مار کر بیٹھ گئی اور مجھے‬
‫چاے پینے کا کہا‬

‫میں نے چاے کا کپ پکڑا اور فرحت‬


‫کو پکڑا دیا اور دوسرا خود پکڑ کر‬
‫چاے کی چسکیاں لینے لگ گیا‬

‫فرحت بولی‬
‫دیکھو یاسر‬
‫تم اچھے لڑکے ھو اور سمجھدار ھو‬

‫دیکھو میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ‬


‫ہمارے بیچ مین ھونے والی بات بس ہم‬
‫دونوں میں ھی رھے گی اور تم کو میں‬
‫نے ماں کی قسم بھی دی ھے‬
‫اس لیے تم بنا کسی پریشانی کے‬
‫دوستانہ ماحول میں ریلیکس ہوکر‬
‫مجھے سب کچھ بتاو‬

‫جو تمہیں اس کنجر ماسٹر نے بتایا ھے‬

‫میں نے کہا مجھے ماسٹر جی نے کچھ‬


‫نھی بتایا‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر پھر جھوٹ۔۔۔۔‬

‫میں نے بات کاٹتے ھوے کہا‬


‫پہلے میری بات تو سن لیں‬
‫فرحت بولی ھاں بولو‬

‫میں نے کہا کہ مجھے ماسٹر جی نے‬


‫نھی بتایا کچھ بھی‬

‫میں نے خود آپکو اور ماسٹر جی کو دو‬


‫دفعہ گندے کام‬
‫کرتے ھوے دیکھا ھے۔‬

‫فرحت کا ایکدم رنگ اڑ گیا‬


‫اور وہ ہکالتے ھوے بولی‬

‫کککککب ککیسے کککہاں دیکھا تھا۔‬


‫میں نے کہا سکول کے کمرے میں‬
‫دفتر کی بیک سائڈ پر الماری کے‬
‫پیچھے سٹور میں ۔۔‬

‫فرحت اپنے دوپٹے سے پسینہ صاف‬


‫کرتے ھوے بولی ۔‬

‫تتم نے کہاں سے دیکھا تھا‬


‫میں نے کہا‬
‫پہلے جب آپ نے ماسٹر جی کو دھکا‬
‫دیا تب تھوڑا سا ھی گندا کام کیا تھا‬
‫اس وقت میں نے پردے سے دیکھا تھا‬
‫اور دوسری دفعہ جب آپ نے کافی دیر‬
‫گندہ کام کیا تھا‬
‫تب میں نے الماری کے پیچھے سوراخ‬
‫سے بھی دیکھا تھا‪ ،‬اور کمرے کے‬
‫پیچھے بنی کھڑکی سے بھی دیکھا تھا‬

‫فرحت منہ میں بُڑبڑائی‬


‫کنجر نوں کیا وی سی کہ کوئی ہے‬
‫کمرے وچ پر اوس کنجر نے منی ای‬
‫نئی۔۔‬

‫میں نے کہا جیییییی‬

‫فرحت ایکدم ہڑبڑا کر بولی کچھ نھی ۔۔‬


‫فرحت کی ہوائیاں اُڑ چکی تھی‬
‫اسکا لہجہ اسکا ساتھ نھی دے رھا تھا‬

‫پھر بولی‬
‫تم اندر کیسے آے تھے‬

‫تو میں نے کہا‬


‫کہ‬
‫میں پیشاب کرنے کے لیے کمرے کے‬
‫پیچھے گیا تھا‬
‫تو اچانک مجھے آپ کی چیخ کی آواز‬
‫سنائی دی تو میں گبھرا کر آپکو‬
‫دیکھنے کے لیے اندر آیا تو مجھے‬
‫دفتر میں آپ نظر نہ آئیں تو میں نے‬
‫پردے کو تھوڑا سا ہٹا کر اندر جھانکا‬
‫تو‬

‫ماسٹر جی نے آپکی قمیض اوپر اٹھا‬


‫رکھی تھی اور آپ کے ممے چوس‬
‫رھے تھے‬

‫۔۔۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر مموں کا ذکر‬
‫کیا۔۔‬

‫فرحت شرم سے مری جارھی تھی‬


‫اور اس کا رنگ سرخ ھوچکا تھا۔‬
‫اچانک فرحت آگے ھوئی اور ۔‬
‫دونوں ہاتھ آگے کئے اور میرے پیروں‬
‫کو پکڑ کر رونے لگ گئی اور‬
‫مجھ سے معافیاں مانگنے لگ گئی‬
‫یاسر پلیزز میری عزت کا سوال ھے‬
‫میں اس کنجر کی باتوں میں آکر بہک‬
‫گئی تھی مجھ سے غلطی ھوگئی تھی‬
‫پلیززز کسی کو یہ بات مت بتانا‬
‫ورنہ میں بدنام ھو جاوں گی‬
‫میں تو پہلے ھی بیوا عورت ھوں‬
‫ان گاوں والوں نے ہمارا جینا حرام‬
‫کردینا ھے‬

‫میں نے فرحت کے دونوں ھاتھ پکڑ کر‬


‫اپنے پاوں سے ہٹاے اور پاوں کو‬
‫پیچھے کھینچ لیا‬

‫اور بوال‬
‫آپ کیا کررھی ہیں پلیززززز‬

‫فرحت بولی‬
‫یاسر تم نے کسی کو یہ بات بتائی تو‬
‫نھی‬

‫تو میں نے پالننگ کے مطابق کہا کہ‬


‫پہلے تو کسی سے یہ بات نھی کی تھی‬
‫مگر وہ زاہد ہمارے گھر کے سامنے‬
‫واال میرا دوست ھے اس‬
‫کو پچھلے جمعہ ایسے ھی باتوں باتوں‬
‫میں تھوڑا سا بتایا تھا مگر آپ کا نام‬
‫نھی لیا تھا ابھی اس سے‬
‫کیوں کے باتوں کے دوارن ھی مجھے‬
‫ایک کام یاد آگیا تھا تو میں نے اسے‬
‫پھر بتانے کا کہا تھا اور ادھر سے گھر‬
‫آگیا تھا‬

‫اب شاید کل ہم پھر بیٹھیں گے تو وہ پھر‬


‫پوچھنے لگ جاے گا۔‬

‫تو فرحت اور اونچی اونچی آواز میں‬


‫رونے لگ گئی اور میرے سامنے ھاتھ‬
‫جوڑ کر بیٹھ گئی‬
‫یاسر پلیزز اسے نہ بتانا تمہیں فالں کی‬
‫قسم فالں کی قسم‬
‫میں نے خودکشی کرلینی ھے اسکے‬
‫زمہ دار تم ھوگے‬

‫ہم گاوں میں کسی کو منہ دیکھانے کے‬


‫قابل نھی رہیں گے‬
‫فرحت ایک ھی سانس میں بولی جارھی‬
‫تھی اسکے آنکھوں سے آنسوؤں کی‬
‫جھڑی لگی ہوئی تھی‬

‫مجھے اسکی حالت پر ترس آنے لگ‬


‫گیا‬
‫میں نے آگے ہوکر اسکے ھاتھ پکڑ کر‬
‫نیچے کئے اور اسکو تسلی دیتے ھوے‬
‫کہا‬
‫کہ پلیز آپ ریلکس ھو جائیں اگر آپ‬
‫نے یوں ھی رونا ھے تو میں جارھا‬
‫ھوں‬
‫۔اور یہ کہتے ھی میں بیڈ سے نیچے‬
‫اترنے لگا تو‬
‫فرحت نے میری دونوں ٹانگوں کو پکڑ‬
‫لیا اور سر نفی میں ہالتے ھوے بولی‬

‫نہی نہی جانا تم نے‬

‫اچھا بیٹھو تو سہی‬


‫میں نھی روتی اب‬
‫میں کچھ بولتی بھی نھی‬
‫اسکی آواز میں خوف تھا التجاء تھی‬

‫میں نے پھر ٹانگیں اوپر کرلیں اور‬


‫بوال‬
‫سنیں‬
‫دیکھیں میری بات غور سے ُ‬
‫اور پہلے یہ رونا دھونا بند کریں‬

‫تو فرحت نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں‬


‫اور منہ صاف کرتے ریلکس ھوتے‬
‫ھوے کہا‬

‫ھاں جی بولیں‪،‬‬
‫میں نے کہا یہ تو اچھا ھوا کہ آپ نے‬
‫مجھے منع کردیا ورنہ آج یا کل میں‬
‫تفصیل سے ذاہد کے ساتھ کرنے واال‬
‫تھا‬

‫خیر اب میں وعدہ کرتا ھوں آپ سے کہ‬


‫یہ بات ادھر ھی دفن کر کے جاوں گا‬
‫اور مرتے دم تک میرے منہ سے کبھی‬
‫سنیں گی‬
‫آپ یہ بات دوبارا نھی ُ‬

‫لیکن‪ ،،‬۔۔۔‬

‫کہہ کر میں چپ ھوگیا اور فرحت کی‬


‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگ‬
‫گیا۔‬

‫جو بڑے غور سے میری بات سن رھی‬


‫تھی‬
‫میرے لیکن کہہ کر ُچپ ہوجانے پر وہ‬
‫چونک کر بولی‬

‫لیکن کیا‪ ،،،‬۔۔۔‬

‫میں نے کہا چھوڑیں آپ ناراض‬


‫ھوجائیں گی ۔۔‬

‫فرحت قسم کھا کر بولی کہ تم بتاو میں‬


‫نھی ناراض ہوتی ۔۔‬

‫میں نے پھر کہا‬


‫دفعہ کریں‬

‫فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی یاسر پلیز‬


‫بتاو میرا دل بیٹھا جارھا ھے میں پہلے‬
‫ھی بڑی پریشان ہوں پلیز مجھے اور‬
‫پریشان مت کرو‪ ،،‬۔۔‬

‫تو میں نے ایکدم بولتے ھوے کہا کہ‬


‫اس میں میرا کیا فائدہ ھوگا کہ میں آپ‬
‫کے اس راز کو ہمیشہ کے لیے راز ھی‬
‫رکھوں ۔۔‬
‫فرحت حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر‬
‫میری طرف گھورنے کے انداز سے‬
‫بولی کیا مطلب میں سمجھی نھی۔‬

‫میں نے کہا میری بات کا مطلب صاف‬


‫ھے‬
‫کہ اس کے بدلے میں میرا کیا فائدہ‬
‫ھوگا‬

‫فرحت بولی کون سا فائدہ تم چاھتے ھو‬


‫پیسے لینے ہیں اسکے بدلے‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬


‫پیسے نھی آپ کی پُھدی لینی ھے‬

‫فرحت کا رنگ ایکدم الل پیال ھوگیا اور‬


‫اس نے غصے سے میرے منہ پر ایک‬
‫ذور دار تھپڑ مارا‬
‫اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ھوگئی‬
‫اور بولی‬
‫بےشرم گھٹیا انسان‬
‫تمہیں شرم نھی آئی یہ بات کرتے‬
‫ھوے‬
‫میں تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر بنا کسی‬
‫خوف کے اندر کمرے میں لے آئی اور‬
‫تیری میرے بارے میں اتنی گندی سوچ‬
‫ھے‬
‫تمہاری جرات کیسے ھوئی یہ بات‬
‫سوچنے کی بھی‬
‫اپنی عمر دیکھو‬
‫کم از کم اپنی اور میری عمر کا لحاظ‬
‫ھی کرلیتے گھٹیا انسان نکلو ادھر سے‬

‫فرحت کا تھپڑ کھاتے ھی میری ساری‬


‫ہوا نکل گئی کہ اس سالی نے تو سارا‬
‫معاملہ ھی الٹ پلٹ کردیا میں تو بڑی‬
‫پالننگ سے آیا تھا‬

‫میں اپنی گال پر ھاتھ رکھے غصے اور‬


‫ڈرے ھوے ملے جلے تاثرات سے‬
‫فرحت کی طرف دیکھتا ھوا اٹھا‬
‫اور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑا ھوگیا‬

‫فرحت پھر بولی تمہیں ذرہ سی بھی‬


‫شرم نھی آئی یہ بات کرتے ھوے‬

‫اس کنجر نے میرے ساتھ زبردستی کی‬


‫ایک دفعہ اور تم نے مجھے چلتی‬
‫پھرتی عورت سمجھ لیا‬

‫نکل جاو ابھی کہ ابھی‬

‫میری تو سمجھ میں نھی آرھا تھا کہ اب‬


‫میں اس خرافہ عورت کو کیا کہوں‬
‫سالی مزے لے لے کر پھدی مرواتی‬
‫رھی تھی‬
‫اور اب کہتی ھے کہ میرے ساتھ‬
‫ذبردستی کی ھے ۔‬

‫مجھے اور تو کچھ نہ سوجا‬


‫میں نے کہا ووووہ سوٹ کے پیسے دے‬
‫دو‬

‫اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف‬


‫کیا اور اپنی اے ٹی ایم‪ .‬مشین میں ھاتھ‬
‫ڈال اور کچھ پیسے نکال کر میرے منہ‬
‫پر مارے‬
‫اور کہا پکڑ اپنے پیسے اور چل دفعہ‬
‫ھوجا ادھر سے دوبارہ اپنی شکل بھی‬
‫دیکھائی نہ تو تیرا وہ حال کروں گی کہ‬
‫تجھے تیرے گھر والے بھی نھی پہچان‬
‫سکیں گے‬

‫میں نے پیسے پکڑے اور بند دروازے‬


‫کے پاس آکر اسکی طرف منہ کر کے‬
‫اپنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا‬

‫دیکھ لوں گا تجھے‬


‫جتنی تو شریف ذادی ھے مجھے پتہ‬
‫ھے‬

‫پورے ِپنڈ وچ بدنام نہ کیتا تے فیر‬


‫کویں‬

‫سن کر بھوکی شیرنی کی‬ ‫فرحت یہ ُ‬


‫طرح مجھ پر جھپٹی اور مجھے دونوں‬
‫کندھوں سے پکڑ کر‬
‫کہنے لگی کیا کہا کہ‬
‫پورے ِپنڈ وچ مینوں بدنام کریں گا‬

‫دسنی آں تینوں ایتھوں سئی سالمت‬


‫جاویں گا تے فیر ای کسے نوں دسیں‬
‫گا‬

‫فرحت نے مجھے بازوں سے پکڑے‬


‫ھی گھما کر بیڈ کی طرف دھکا دیا‬
‫گشتی وچ اینی جان پتہ نئی کتھوں آگئی‬
‫سی‬

‫اسکے ایک ھی دھکے سے میں کمزور‬


‫عورت کی طرح بیڈ پر جاگرا‬
‫فرحت مجھ پر پھر جپٹی اور میرا گال‬
‫دبانے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ میرے‬
‫گلے کی طرف بڑھاے میں اب کچھ‬
‫سنبھل چکا تھا‬

‫میں نے اسکے بازو پکڑ کر اسکے ہاتھ‬


‫راستے میں ھی روک لیے‬
‫اور اسکو ایسے ھی گھما کر اپنے ساتھ‬
‫بیڈ پر گرادیا‬

‫ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے لٹک رھی‬


‫تھی‬

‫جیسے ھی فرحت بیڈ پر گری‬


‫میں جلدی سے سائڈ بدل کر اسکے اوپر‬
‫چڑھ گیا اور‬
‫اسکے دونوں بازوں کو کالئیوں سے‬
‫پکڑ کر اس کے سر کے ساتھ لگا دئے‬

‫اب ہم دونوں کے پاوں فرش پر تھے‬


‫اور میرا لن اسکی پھدی کے بلکل اوپر‬
‫تھا‬
‫اور میرا منہ اسکے بڑے سے گول‬
‫مٹول مموں پر تھا‬

‫فرحت بولی چھڈ دے مینوں میں روال‬


‫پان لگی آں‬

‫میں اسکی بات سن کر ڈر بھی گیا تھا‬


‫کہ یہ ھے تو بڑی حرامذادی اس لیے‬
‫کچھ بھی کرسکتی ھے‬

‫میں نے اسے کہا‬


‫سالیے ماسٹر نوں اپنی پھدی وی چٹوانی‬
‫اے تے پھدی وچ لن وی مزے لے لے‬
‫کے لینی اے تے میری واری شریف‬
‫ذادی بندی ایں‬

‫فرحت بولی‬

‫بکواس نہ کر کتے بغیرت گھٹیا انسان‬


‫میں تیری ماں نو دسنی ایں تیری‬
‫کرتوت‬

‫میں نے کہا جا دس دے میں وی دس‬


‫دیواں گا کہ ماسٹر کولوں پھدی‬
‫مرواندی رئی اے تے اپنا سارا گند‬
‫میرے تے پان دئی اے‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ایک ہاتھ سے‬
‫فرحت کی کالئیاں پکڑی اور دوسرے‬
‫ہاتھ سے اسکے ممے کو دبانے لگ‬
‫گیا‬

‫فرحت کافی زور لگاتی رھی اپنے ھاتھ‬


‫ُچھڑوانے کے لیے‬

‫مگر میں نے اسکی کالئیوں کو پکڑ کر‬


‫پورے وزن کے ساتھ بیڈ پر دباے رکھا‬
‫تھا‬

‫میرا لن بھی فل تن ُچکا تھا‬


‫میں نے ھاتھ نیچے لیجا کر فرحت کی‬
‫پھدی کو مسلنے لگا تو فرحت نے‬
‫ٹانگوں کو آپس میں بھینچ کر چیخ‬
‫ماری‬
‫اب پتہ نھی اسکی چیخ کمرے سے باہر‬
‫نکلی بھی تھی کہ نھی کیوں کے دروازہ‬
‫بند تھا‬

‫جو خود ھی اس گشتی نے بند کیا تھا‬


‫اور ویسے بھی کمرے میں کوئی‬
‫کھڑکی نھی تھی جس سے اسکی آواز‬
‫باہر جانے کا چانس ھوتا‬
‫مطلب کمرہ ساونڈ پروف تھا‬
‫مجھ پر تو جنون سوار ھوچکا تھا کہ‬
‫سالی نے مجھے تھپڑ مارا ھے اسکی‬
‫اتنی جرات‬

‫میں نے سوچ لیا تھا کہ جو ھوگا دیکھا‬


‫جاے گا ایک دفعہ اس کو سبق سکھا کر‬
‫جاوں گا‬

‫میرا ھاتھ اسکی ٹانگوں کے بیچ پھنسا‬


‫ھوا تھا‬
‫میں نے اسکی چیخ کو نظرانداز کرتے‬
‫ھو ہاتھ باھر کھینچا اور اسے کہا چیخ‬
‫گشتی عورت اب تجھے میں بتاتا ھوں‬
‫کہ گھر بُال کر کسی کو کیسے ذلیل‬
‫کرتے ہیں‬

‫آج تیرا پھدا نہ پھاڑا تو پھر کہنا۔‬


‫تیرے پھدے میں آج اتنا بڑا لن ڈالوں گا‬
‫کہ تو ماسٹر کا لن بھول جاے گی‬

‫میری بات سن کر پہلے تو فرحت کے‬


‫چہرے پر حیرت کے تاثرات آے پھر‬
‫غصے سے بولی‬
‫یاسر اپنی اوقات میں رہ تجھے پتہ نھی‬
‫کہ تو کس سے اور کیا کررھا ھے‬
‫مجھے چھوڑ دے اور شرافت سے چال‬
‫جاے‬
‫ورنہ تم ساری عمر پچھتاو گے‬

‫تو میں نے کہا ماسٹر تو نھی پچھتایا جو‬


‫میں پچھتاوں گا‬

‫فرحت سے باتیں کرنے کے دوران میں‬


‫اپنا ناال کھول چکا تھا اور میری شلوار‬
‫پیروں میں گر گئی تھی‬

‫فرحت بولی میرے بھائی کو پتہ چل گیا‬


‫نہ تو تجھے ویسے ھی وہ قتل کردے گا‬

‫میں نے کہا‬
‫لن وڈ لے تیرا پرا تے توں وی‬
‫بس اک واری میرا لن تیرے پھدے وچ‬
‫چال جاوے‬
‫بعد وچ ویکھی جاوے گی جو ھوے گا‬

‫فرحت نے جب دیکھا کہ اسکے کسی‬


‫وار کا اثر مجھ پر نھی ھورھا‬

‫تو فرحت کے اندر ایکدم عورت جاگی‬


‫اور اس نے رونا اور منتیں کرنا شروع‬
‫کردی کہ یاسر پلیز مجھے معاف کردو‬
‫تم میرے تھپڑ مار لو پھر تم خوش‬
‫اچھا چلو میں کسی کو نھی بتاتی‬
‫جتنا تم نے میرا ساتھ کرنا تھا کرلیا اب‬
‫چھوڑ دو مجھے‬

‫تم میرے بیٹے جیسے ھو سوچو کوئی‬


‫بیٹا اپنی ماں کے ساتھ ایسا کرتا ھے کیا‬

‫فرحت کی یہ آخری بات سن کر میرا‬


‫پارہ چڑھ گیا اور میں نے ایک زور دار‬
‫تھپڑ اسکے منہ پر مارا اور بوال‬

‫بکواس بند کر گشتی عورت اگر تو ماں‬


‫کہنے کے الئق ھوتی تو تیرے پیر دھو‬
‫دھو کہ پیتا‬
‫کون بیٹا ماں کو کسی غیر مرد سے‬
‫ُچدتا دیکھ کر اس ماں کو زندہ چھوڑ‬
‫دیتا ھے‬

‫تو ماں نھی بلکہ ایک گشتی عورت ھے‬


‫اور گشتی عورت اور ماں میں زمین‬
‫آسمان کا فرق ھوتا ھے‬

‫ماں سر پر ہوتی ھے‬


‫اور گشتی لن کے نیچے‬
‫لحاظ اپنا منہ بند رکھ یہ نہ ھو کہ پھدی‬
‫کے ساتھ ساتھ تیری گانڈ بھی پھاڑ دوں‬

‫فرحت میری بات سن کر اور بات‬


‫کرنے کے انداز کو دیکھ کر‬
‫سہم گئی اور رونے لگ گئی‬
‫اور آہستہ آہستہ آواز میں روتے ھوے‬
‫کہے جارھی تھی‬
‫مجھے معاف کردو معاف کردو معاف‬
‫کردو‬
‫ہاےےےےے امی‬

‫اسکے رونے کا اثر مجھ پر نھی ھو‬


‫رھا تھا‬
‫میں نے اسکی قمیض کو پکڑ کر پھدی‬
‫والے حصے سے اوپر کیا اور اس کے‬
‫نالے کے سرے کو پکڑ کر کھینچ دیا‬
‫جس سے فرحت کی شلوار ڈھیلی‬
‫ھوگئی‬
‫جیسے ھی اس کا ناال کھال اور شلوار‬
‫ڈھیلی ھوئی تو‬
‫فرحت نے جھٹکے سے ایک کالئی‬
‫میرے ھاتھ سے چھڑوائی اور جلدی‬
‫سے شلوار کو کس کے پکڑ لیا اور‬
‫نفی میں سر دائیں بائیں مارتے ھوے‬
‫کہنے لگ گئی‬

‫یاسر پلیزز تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ‬


‫فالں کا واسطہ مجھے چھوڑ دو ایسا‬
‫ظلم مت کرو‬

‫میں مر جاوں گی‬


‫پلیززززز چھوڑ دو‬
‫میں نے اسکی کالئی کو پکڑ کر جھٹکا‬
‫مارا اور اسکی کالئی کو واپس اسی‬
‫جگہ لے جاکر‬
‫دوسری کالئی کے ساتھ جکڑ کر پکڑ‬
‫لیا‬
‫اور جلدی سی ھاتھ نیچے کیا اور اسکی‬
‫شلوار کو کھینچ کر نیچے کردیا شلوار‬
‫خود ھی اس کے پیروں میں گر گئی‬

‫فرحت نے پھر زور دار چیخ ماری اور‬


‫اپنا آپ چھڑوانے کے لیے ٹانگوں کو‬
‫اوپر اٹھانے لگی‬
‫فرحت نے جیسے ھی اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کو اوپر کر کے فولڈ کیا تو‬
‫خربوزہ خود ھی چھری کے نیچے آگیا‬

‫فرحت کی پھدی بلکل میرے لن کے‬


‫سامنے تھی‬

‫میں نے اس کے گھٹنوں کو اپنی بغلوں‬


‫میں جکڑتے ھوے‬
‫ایک ہاتھ پر بڑا سا تھوک کا گوال پھینکا‬
‫اور لن کے ٹوپے پر مل لیا اور لن کو‬
‫پھدی کے لبوں پر رکھتے ھی پوری‬
‫جان سے ایک ھی گھسے میں سارا لن‬
‫فرحت کی پھدی کے اندر بچے دانی‬
‫تک پہنچا دیا‬

‫فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ‬


‫نکلی‬

‫ھاےےےءےےے میں مرگئی‬

‫اے کی واڑ دتا اییییییییی‬


‫ھوے امیییییییییی‬
‫ھاےےےےءءےےےےےےےے‬

‫ابھی میں نے لن واپس نھی کھینچا تھا‬


‫کہ‬
‫فرحت نے پورے ذور سے میرے پیٹ‬
‫میں پاوں مارے اور میں اچھل کر‬
‫پیچھے ھوا اور گرتے گرتے بچا۔‬

‫لن کڈن دا بڑا چنگا طریقہ ازمایا سالی‬


‫نے۔۔‬

‫لن جیسے ھی فرحت کی پھدی سے‬


‫نکال‬
‫فرحت درد سے بلبال کر دُھری ہو کر‬
‫اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھے دوسری طرف‬
‫منہ کر کے اپنے گوڈے پیٹ کے ساتھ‬
‫لگا کر ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی‬
‫اور رونے لگ گئی‬
‫ہاے میرا اندر گیا ھاےےے میں‬
‫مرگئی‬
‫ھاےےےےے‬
‫ماں میرئیے ھاےےےےےےے‬
‫فرحت ساتھ ساتھ روے جارھی تھی اور‬
‫آنکھیں پھاڑے میرے لن کو بھی دیکھی‬
‫جارہی تھی۔‬
‫میں غصے سے آگے بڑھا اور پھر‬
‫سے فرحت کو سیدھا کرنے کی کوشش‬
‫کی مگر سالی نے مجھے ٹانگیں مارنی‬
‫شروع کردی‬
‫میں نے بڑی مشکل سے اسکی ٹانگوں‬
‫کو قابو کیا اور فرحت کو سیدھا تو نہ‬
‫کر سکا مگر اسے الٹا کرنے میں‬
‫کامیاب ھوگیا فرحت کی ٹانگیں اب بھی‬
‫بیڈ سے نیچے تھی اور پھدی بیڈ کے‬
‫ساتھ لگی ھوئی تھی اور گانڈ اوپر تھی‬
‫میں نے فرحت کو الٹا کر کے اسکے‬
‫دونوں ھاتھ پکڑ کر پیچھے اسکی کمر‬
‫کے ساتھ لگا کے پورے ذور سے‬
‫اسکی کمر پر دبا کے قابو کر لیے‬

‫فرحت پھر ذور ذور سے چالے جا‬


‫رھی تھی اور مجھے واسطے دیئے جا‬
‫رھی تھی‬

‫فرحت کو میں نے اچھی طرح قابو کیا‬


‫ھوا تھا‬
‫اور مجھے شیطان نے قابو کیا ھوا تھا‬
‫میرے دل میں ذرہ سا بھی رحم نھی‬
‫آرھا تھا‬
‫شاید مہری کے غصہ اور تھپڑ کے‬
‫غصہ نے مجھے پاگل کیا ھوا تھا‬

‫بس ہوس ھی ہوس میرے دماغ پر سوار‬


‫تھی‬
‫خیر‬
‫فرحت نیچے سے گانڈ کو دائیں بائیں‬
‫ہال کر اپنا بچاو کرنے کی پوری کوشش‬
‫کررھی تھی‬
‫فرحت کے شور شرابے سے میں تنگ‬
‫آچکا تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو‬
‫مجھے تکیہ پڑا نظر آیا میں نے ایک‬
‫ھاتھ سے فرحت کی دونوں کالئیاں قابو‬
‫کیں اور دوسرا ھاتھ لمبا کر کے تکیہ‬
‫پکڑا اور تکیے کو فرحت کے سر کے‬
‫اوپر رکھا اور دبا دیا جس سے اسکی‬
‫آواز بیڈ کے میٹرس اور تکیے میں دب‬
‫گئی اب اسکی آواز ایسے آرھی تھی‬
‫جیسے بہت دور سے آرھی ھو‬

‫میرا لن پھدی کے پانی سے کافی گیال‬


‫ھو چکا تھا‬
‫میں نے فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں‬
‫لن رکھا اور اندازے سے پھدی کا نشانہ‬
‫لگا کر پھر زور سے گھسا مارتے‬
‫ھوے‬
‫فرحت کے اوپر ھی لیٹتا گیا‬
‫میں نے جیسے ھی اندازے سے گھسا‬
‫مارا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا لن‬
‫کسی تنگ سوراخ میں گھس گیا ھو اس‬
‫کے ساتھ ھی فرحت ایسے تڑپی جیسے‬
‫کسی نے اسے ذیبحہ کردیا ھو اسکی‬
‫تکیہ کے نیچے سے غوں غوں کی آواز‬
‫آرھی تھی‬

‫فرحت پہلے تو اپنی گانڈ کو ایکدم اوپر‬


‫کو کیا جس لن مزید اسکی گانڈ کے اندر‬
‫چال گیا‬
‫تو اسی وقت فرحت نے گانڈ کو ذور‬
‫سے بھینچ کر میٹرس کی طرف زور‬
‫لگانا شروع کردیا‬
‫مجھے اپنے کے گرد فرحت کی گانڈ‬
‫کے سوراخ کی گرفت اتنی ذیادہ ٹائٹ‬
‫محسوس ھوئی جیسے فرحت کی گانڈ‬
‫ابھی میرے لن کا کچومر نکال دے گی‬

‫میں ایسے ھی سارا وزن فرحت پر ڈال‬


‫کر اسکے اوپر لیٹا رھا‬

‫فرحت بری طرح تڑپ رھی تھی‬


‫اب وہ نیچے سے گانڈ کو ہال نھی رھی‬
‫تھی‬
‫شاید ہلنے سے اسکو درد ھوتی تھی۔‬

‫اچانک مجھے محسوس ھوا کہ فرحت‬


‫مجھے کچھ کہنا چاھ رھی تھی‬
‫میں نے گھسا مارتے وقت اسکے‬
‫دونوں ھاتھ کھول کر اسکے پاس لے‬
‫گیا تھا تو اب وہ ھاتھ کے اشارے سے‬
‫مجھے کچھ سمجھا رھی تھی اسکی‬
‫غوں غوں بھی بند ہوگئی تھی‬

‫میں نے تکیہ اسکے سر سے اٹھا کر‬


‫سر سے آگے ھی پھینک دیا تو‬
‫فرحت نے لمبا سانس لیا جیسے اسکا‬
‫سانس رکا ھوا تھا‬

‫فرحت روتے ھوے بولی یاسر اسے‬


‫باہر نکال لو تم نے میری گانڈ پھاڑ دی‬
‫ھے‬
‫ایسے بھی کوئی کرتا ھے کیا‬
‫میں نے کہا‬
‫جب ایسے ہلتی رھو گی تو لن کہیں‬
‫بھی جاسکتا ھے‬
‫آرام سے کروا لیتی تو اتنی تکلیف نہ‬
‫اٹھاتی بلکہ ماسٹر سے بھی ذیادہ مزا‬
‫دیتا تم کو۔‬
‫فرحت بولی یاسر ادھر سے نکال لو تم‬
‫جیسے کہو گے میں ویسے ھی کروا‬
‫لوں گی‬
‫شور بھی نھی کرتی مگر ادھر سے‬
‫نکال لو نھی تو میں مر جاوں گی‬
‫میری جان نکل رھی ھے‬
‫میں نے بھی محسوس کیا کہ فرحت کی‬
‫ٹانگیں بری طرح کانپ رھی ہیں‬
‫تو میں نے فرحت کے منہ پر ھاتھ رکھا‬
‫اور ایک جھٹکے سے لن باہر کی‬
‫طرف کھینچا‬
‫تو فرحت کے منہ سے پھر چیخ نکلی‬
‫جو میرے ھاتھ میں ھی دب گئی اور‬
‫ساتھ ھی فرحت نے بڑا سا پد مارا‬
‫پڑووووووں‬
‫فرحت نے چیخ مارنے کے بعد میری‬
‫ہتھیلی پر دندی کاٹ لی‬
‫مجھے تکلیف تو بہت ھوئی مگر‬
‫برداشت کرگیا‬

‫اور ساتھ ھی میں فرحت کے ساتھ ٹیڑھا‬


‫ہوکر لیٹ گیا میں نے فرحت کو چھوڑا‬
‫نھی تھا کہ سالی بھاگ نہ جاے‬

‫فرحت ایک دم سکون میں ہوگئی‬


‫اور ویسے ھی بےجان ھوکر الٹی لیٹی‬
‫رھی اور ایک ھاتھ پیچھے کرکے اپنی‬
‫گانڈ کی دراڑ میں انگلیاں ڈال کر دبانے‬
‫لگ گئی‬
‫مین نے اپنے لن کو دیکھا تو میرے لن‬
‫پر خون اور گندگی لگی ھوئی تھی میں‬
‫نے بیڈ کی چادر کے ساتھ ھی لن کو‬
‫صاف کرنا شروع کردیا‬

‫فرحت کچھ دیر ایسے ھی بلکل خاموش‬


‫لیٹی رھی‬

‫میں نے فرحت کو سیدھا کیا تو اس سے‬


‫سیدھا نہ ھوگیا گیا‬

‫اسکو واقعی ھی تکلیف بہت ذیادہ‬


‫ہورھی تھی‬
‫میں بیڈ سے نیچے اترا اور فرحت کو‬
‫پکڑ کر سیدھا کیا‬
‫اور اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر بیڈ پر کیا‬
‫اور خود بھی بیڈ پر چڑھ کر اسکی‬
‫ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھ‬
‫گیا اور لن کو پکڑ کر فرحت کی‬
‫انکھوں کے سامنے لہرانے لگا‬

‫فرحت گم سم سی آنکھیں پھاڑے میرے‬


‫لن کو دیکھی جارھی تھی‬

‫میں نے فرحت کی شلوار جو پیروں‬


‫میں اٹکی ھوئی تھی اسکو اتارا اور‬
‫فرحت کی ٹ اس ٹانگوں‪ .‬کو اٹھا کر‬
‫اپنے کندھوں پر رکھا‬
‫اور لن کو پکڑا کر فرحت کی پھدی پر‬
‫پھیرنے لگ گیا‬

‫فرحت کو جب لن پھدی پر لگنے کا‬


‫احساس ھوا‬
‫تو فرحت نے دونوں ھاتھ جوڑے اور‬
‫میری آنکھوں کے سامنے کرتے ھوے‬
‫بلبال کر رونے لگ گئی اور کانپتی آواز‬
‫میں‬
‫‪.‬بولی یاسر‬
‫تم نے اگر کرنا ھی ھے تو کل آجا نا‬
‫ابھی مجھ میں ہمت نھی ھے‬
‫میری جان نکل رھی ھے‬
‫کل تم جیسے کہو گے میں ویسے ھی‬
‫کروں گی‬

‫فرحت کی آواز میں اتنا درد تھا کہ‬


‫اسکی آواز نے میرا دل نرم کردیا اور‬
‫اسکے لیے میرے دل میں نرم گوشہ‬
‫پیدا ھوگیا‬

‫میں نے کہا اچھا جی‬


‫کل میں آوں تو تم مجھے دروازے پر‬
‫ھی ذلیل کر کے بھگا دو‬

‫فرحت بولی یاسر اب میرے پاس بچا‬


‫ھی کیا جو تم سے چھپاوں گی‬
‫میں اپنے بیٹے کی قسم کھا کر کہتی‬
‫ھوں کہ میں سچ کہہ رھی ھوں‬

‫اگر جھوٹ بولوں تو اپنے بیٹے کا مرا‬


‫منہ دیکھوں‬

‫اب بھی تم کو یقین نھی تو بیشک تمہارا‬


‫جو دل کرتا ھے کرلو‬

‫میں مرتی ھوں تو مجھے مرنے دو‬


‫مگر یاسر یہ یاد رکھنا تمہارے دومنٹ‬
‫کے مزے نے میری جان لے لینی ھے‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا فرحت کے‬
‫چہرے کو غور سے دیکھتا رھا‬
‫اس کے چہرے پر سواے ندامت شرم‬
‫اور تکلیف کے کچھ نھی تھا‬
‫میں جمپ مار کر کھڑا ھوا اور اپنی‬
‫شلوار کو پہنتے ھوے بوال‬
‫فرحت میں تم پر یقین کر کے تمہیں‬
‫چھوڑ رھا ھوں‬
‫اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر تم نے‬
‫مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تو‬
‫اسکا خمیازہ تمکو بھگتنا پڑے گا‬

‫فرحت غور سے میری طرف بس‬


‫دیکھے جارھی تھی‬
‫میں نے اسکو پھر کہا‬
‫میری بات یاد رکھنا‬
‫میں کل آوں گا‬
‫اگر بیٹھک کا دروازہ کھال ھوا تو میں‬
‫اندر آجاوں گا اگر دروازہ بند ھوا تو‬
‫پھر میں یہ ھی سمجھوں گا کہ تم‬
‫جھوٹی مکار ھو‬
‫یہ کہتے ھی میں اسکا جواب سنے بغیر‬
‫کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا‬
‫اور بیٹھک کے دروازے سے باھر گلی‬
‫میں نکال اور گھر کی طرف چل دیا ۔۔۔‬
‫میں گھر آیا تو امی ابھی تک صحن میں‬
‫ھی بیٹھی ھوئی تھی شاید میرا ھی‬
‫انتظار کر رھی تھی جیسے ھی میں‬
‫اندر داخل ھوا امی مجھ پر ناراض‬
‫ھونے لگ گئی کہ اتنی دیر لگادی نہ‬
‫کھانے کی فکر ھے تجھے‬
‫پہلے کھانا تو کھا لیتا پھر آوارہ گردی‬
‫کرنے نکل جاتے‬
‫دوستو ایک واحد ماں ھی ھوتی ھے‬
‫جسے بچے کی کھانے پینے کی فکر‬
‫ھوتی ھے جب ماں کا سایہ سر سے اٹھ‬
‫جاے تو ھی ماں کی قدر ھوتی ھے‬
‫ساری دنیا کی لڑکیوں کی محبت ایک‬
‫ترازو میں رکھ دو تو ماں کی محبت کا‬
‫ایک ذرہ بھی اسکے قابل رکھ دو تو‬
‫ماں کی محبت کا وہ زرہ بھی ان پر‬
‫بھاری ھوگا‬
‫اس لیے بھائیو جن کی مائیں ان کے سر‬
‫پر سالمت ہیں انکی جتنی خدمت کر‬
‫سکتے ھو کرلو‬
‫دنیا اور آخرت سنور جاے گی‬
‫ماں کی ڈانٹ بھی دودھ کی نہر ھوتی‬
‫ھے‬
‫وہ کہتے ہیں نہ کہ‬
‫ماں پیو دیاں گاالں‬
‫تے دودہ دیاں ناالں‬

‫امی کی ڈانٹ سن کر میں کمرے میں‬


‫چال گیا‬

‫کچھ دیر بعد امی کھانا لے کر آگئی اور‬


‫پھر سے اپنی ممتا دیکھاتے ھوے‬
‫مجھے سمجھانے لگ گئی میں چپ کر‬
‫کے سنتا رھا اور کھانا کھاتا رھا میں‬
‫نے کھانا کھایا اور امی سے پوچھا کی‬
‫نازی کدھر گئی ھے تو امی جان مجھ‬
‫سے پوچھنے لگ گئی کہ اپنی آنٹی کہ‬
‫گھر نھی گئے تو میں نے کہا نھی امی‬
‫جی‬

‫امی بولی تیری آنٹی کا بھائی فوت ھوگیا‬


‫ھے اور وہ دوپہر کو ھی سرگودھے‬
‫چلی گئی تھی‬
‫عظمی اور نسرین اکیلی گھر پر تھی‬
‫تو تیری آنٹی نے کہا تھا کہ‬
‫نازی کو انکے ساتھ سال دینا‬
‫اور ھوسکے تو یاسر کو بھی کہنا کہ‬
‫بہنوں کے پاس سو جاے‬

‫میں نے کہا کہ آنٹی انکو بھی ساتھ لے‬


‫جاتی تو امی بولی بیٹا انکے پیپر ھونے‬
‫والے ہیں وہ کیسے سکول سے چھٹی‬
‫کر سکتی تھی‬

‫تم ایسا کرو دودھ پی کر بہنوں کے پاس‬


‫چلے‬
‫اور ادھر ھی سوجانا‬
‫صبح انکو ساتھ بھی لیتے جانا‬
‫کل بھی ھوسکتا ھے کہ تمہاری آنٹی نہ‬
‫آے‬

‫میرے اندر تو لڈو پھوٹنے لگ گئے کہ‬


‫دو پھدیاں تو نھی ملی چلو‬
‫آج رات پُرانی پھدی ھی سہی‬
‫نکالنا تو پانی ھی تھا‬
‫ورنہ ُمٹھ مار کر سونا پڑتا‬

‫میں نے مصنوعی غصے سے کہا امی‬


‫کیا مصیبت ھے‬
‫انٹی انکو ساتھ لے جاتی‬
‫مجھے انکے گھر نیند نھی آنی‬
‫میں نے صبح جلدی اٹھنا ھوتا‬
‫تو امی پیار سے مجھے پچکارتے بولی‬
‫کہ نہ پتر بہنیں اکیلی ھیں جا میرا بچہ‬
‫کچھ نھی ھوتا دو راتوں کی تو بات‬
‫ھے‬

‫میں نے اچھے بچے کی طرح اثبات‬


‫میں سر ہالیا‬
‫اور اٹھ کر جانے لگا تو‬
‫امی نے آواز دی‬
‫ہن کتھے چالں آں‬
‫میں نے کہا کہ امی آپ نے خود ھی تو‬
‫کہا ھے کہ آنٹی کے گھر سونا ھے‬

‫تو امی بولی پتر دودھ تو پیتا جا‬


‫میں نے کہا امی جی ابھی تو روٹی‬
‫کھائی ھے‬

‫میں انکے گھر سے پی لوں گا‬

‫تو امی میرے پیچھے پیچھے دروازے‬


‫تک آئی اور پیچھے سے بھی آواز دے‬
‫کر بولی پتر یاد نال دودھ پی لینا‬

‫میں نے اونچی آواز میں کہا اچھا امی‬


‫جی‬

‫پی لوں گا دودھ‬


‫اور‬
‫اچھلتا کودتا ٹھک کر کے عظمی کے‬
‫گھر جا پہنچا‬

‫اور دروازہ کھٹکھٹایا کچھ دیر بعد اندر‬


‫سے نسرین کی آواز ائی کون ھے‬

‫میں نے بلی کی آواز نکالتے ھوے‬


‫میاوں کیا‬
‫تو نسرین نے پھر پوچھا کون‬
‫میں نے پھر میاوں کیا‬

‫نسرین کی اب غصہ سے آواز آئی‬


‫منہ وچ زبان نئی ھے گی‬
‫میں نے کہا چور ہوں چوری کرنے آیا‬
‫ھوں دروازہ کھولو‬

‫نسرین نے دروازہ کھوال‬


‫اور غصے سے مجھے دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫منہ وچ زبان نئی ھے‬

‫میں کب سے پوچھ رھی ھوں کہ کون‬


‫ھے کون ھے‬

‫تو میں نے اسے منہ چڑھایا اور اندر‬


‫آگیا اور اس سے آگے آکر بوال‬
‫دروازہ بند کر کے آئیں‬

‫تو نسرین غصے سے دروازہ کھال‬


‫چھوڑ کر کمرے کی طرف چلدی اور‬
‫بولی‬

‫میں تیری نوکر نئی آپے بند کرلے ہتھ‬


‫نئ ٹُٹے تیرے‬

‫میں نے ہنستے ھوے دروازہ بند کیا اور‬


‫اس کے پیچھے تیز قدم چلتا ھوا اسکے‬
‫پیچھے پہنچا اور پیچھے سے اسکے‬
‫کندھوں پر ھاتھ رکھ کر اسپر وزن ڈال‬
‫کر جمپ لگایا‬
‫تو نسرین بولی‬
‫ھاےےےےے مرگئی‬
‫ُکتا کسے تھاں دا‬
‫بغیرتا میرے موڈے توڑ دیتے ای‬

‫شرم تے نئی آندی‬

‫میں اسکی گالیوں کو انجواے کرتے‬


‫ھوے‬
‫ہنستا ھوا اس کے سر پر چپت لگا کر‬
‫اسکے آگے بھاگ کر کمرے میں آگیا‬
‫نسرین مجھے مارنے کے لیے میرے‬
‫پیچھے بھاگی مگر میں تیز بھاگ کر‬
‫اس سے پہلے کمرے میں پہنچ چکا تھا‬

‫کمرے میں نازی اور عظمی چارپائی‬


‫پر بیٹھی گپیں لگا رھی تھیں‬
‫مجھے دیکھ کر عظمی کے چہرے پر‬
‫چمک سی ائی اور ناذی شروع ھوگئی‬
‫کتھے گیا ھویا سی آوارہ گردا‬
‫میں نے کہا‬
‫پونک نہ ایویں اپنا منہ بند رکھ‬

‫تو نسرین جو میرے پیچھے ھی کھڑی‬


‫تھی اس نے ایڑیاں اٹھا کر میرا کان‬
‫پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی شرم نھی‬
‫آتی بڑی بہن کے ساتھ بتمیزی کرتے‬
‫ھو‬

‫میں نے اپنا کان چھڑواتے ھوتے کہا‬


‫ھاےےےےےے چھڈ میرا کن چولے‬
‫تو عظمی نے نسرین کو گھورتے ہوے‬
‫کہا شرم کر‬
‫اور میں نے کان چھڑوایا اور کان کو‬
‫مسلتا ھوا‬
‫عظمی اور نازی کے پاس دوسری‬
‫چارپائی پر بیٹھ گیا‬
‫عظمی نے پوچھا یاسر کھانا لے کر آوں‬
‫تو میں نے کہا نھی میں کھا کر آیا ھوں‬

‫دودھ پیوں گا مگر ابھی نھی اور ساتھ‬


‫ھی نازی سے بچا کر اسے آنکھ‬
‫ماردی‬

‫عظمی نے شرما کر منہ نیچے کرلیا‬

‫میں نے عظمی اور نسرین سے انکے‬


‫ماموں کا افسوس کیا اور کچھ دیر‬
‫افسوس کا ماحول چلتا رھا‬
‫پھر نسرین بولی‬
‫چلو سب صحن میں سب پکڑن پکڑائی‬
‫کھیلتے ہیں‬
‫تو میں چارپائی پر لیٹتے ھوے بوال نہ‬
‫بابا میں نے تو نھی کھیلنا‬

‫تو نسرین نے میرے پیر کو پکڑا اور‬


‫کھینچتے ھو مجھے چارپائی سے‬
‫گرانے کی کوشش کرتے ھو کہنے لگی‬
‫آرام سے اٹھتے ھو کی گراوں نیچے‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا اچھا چھوڑو‬
‫آتا ھوں تو ہم چاروں باہر صحن میں‬
‫آگئے‬

‫صحن کافی ُکھال تھا‬


‫جس میں ایک بیری کا درخت لگا ھوا‬
‫تھا‬

‫اور صحن میں ‪100‬واٹ کا بلب لگا ھوا‬


‫تھا جس کے نیچے چولہا تھا اور دھویں‬
‫سے بلب کی روشنی نہ ھونے کے‬
‫برابر تھی‬

‫باہر آکر میں نے کہا اندھیرے میں‬


‫کیسے پکڑن پکڑائی کھیلیں گے‬
‫تو عظمی بولی کچھ نھی ہوتا اتنے دنوں‬
‫بعد تو کھیلنے کا موقع مال ھا‬

‫میں نے کہا چلو جی جیسے آپ کی‬


‫مرضی‬
‫پھر ہم نے اپنی اپنی باری پگنا شروع‬
‫کردی‬
‫پہلی دفعہ نسرین ھار گئی‬

‫نسرین کی انکھوں پر دوپٹہ باندھ دیا‬


‫اور وہ اندھوں کی طرح باہیں پھیالے‬
‫ادھر ادھر ہاتھ چالتے ھوے گھومنے‬
‫لگ گئی‬

‫جدھر سے آواز آتی وہ اسطرف بھاگ‬


‫پڑتی دو دفعہ بیچاری بیری کے درخت‬
‫سے ٹکرائی‬
‫ہمارا ہنس ہنس کے براحال ھوتا رھا‬
‫دس پندرہ منٹ تک وہ ایسے ھی کبھی‬
‫میری آواز سن کر میری طرف بھاگتی‬
‫کبھی نازی کی طرف اور کبھی عظمی‬
‫کی طرف‬
‫مجھے اس بیچاری پر ترس آیا تو میں‬
‫نے جان بوجھ کر اسکے قریب ھوا تو‬
‫اس نے میرا بازو پکڑ کر بڑی فاتحانہ‬
‫انداز میں چیخ کر فاتح کا اعالن کیا‬

‫اب میری باری تھی‬


‫تو نسرین نے جلدی دوپٹہ پکڑا اور‬
‫میرے پیچھے آکر میری آنکھوں پر‬
‫دوپٹہ باندھنے کی کوشش کرنے لگ‬
‫گئی‬
‫میرا قد نسرین سے لمبا تھا اس لیے‬
‫نسرین ایڑیاں اٹھا کر میری آنکھوں پر‬
‫دوپٹہ باندھ رھی تھی تو اسکے ممے‬
‫میری کمر کو چھو رھے تھے‬
‫نسرین کے نرم ممے جیسے میری کمر‬
‫پر لگتے تو میرے جسم میں کرنٹ سا‬
‫دوڑ جاتا نسرین جیسے ھی میری آنکھ‬
‫پر دوپٹہ سہی کرنے کی کوشش کرتی‬
‫تو میں جان بوجھ کر آگے کو جھک‬
‫جاتا تو نسرین بھی میرے پیچھے میرے‬
‫اوپر جھک جاتی جسکی وجہ سے‬
‫نسرین کے ممے میری کمر کے ساتھ‬
‫رگڑ کھا جاتے‬
‫میں نے چار پانچ دفعہ ایسے کیا تو‬
‫نسرین جنجھال کر بولی مجھ سے نھی‬
‫اس لمبو کے دوپٹہ باندھا جاتا‬
‫تو نازی آگے بڑی اور نسرین کے ھاتھ‬
‫سے دوپٹہ لے کر میرے باندھنے لگ‬
‫گئی‬
‫میں نے آرام سے نازی سے دوپٹہ‬
‫بندھوا لیا اور‬
‫ہاتھ لمبے کر کے جس طرف سے آواز‬
‫آتی اسطرف بھاگنے لگ جاتا تو مخالف‬
‫مجھے چکما دے کر دوسری طرف ھو‬
‫جاتا میں اندھوں کی طرح ایسے ھی‬
‫ھاتھ مار رھا تھا‬

‫کافی دیر ایسے ھی بھاگ دوڑ ھوتی‬


‫رھی‬
‫کہ مجھے نسرین کی آواز اپنے دائیں‬
‫طرف سے آئی تو میں نے اسکو‬
‫محسوس نھی ھونے دیا کہ مجھے‬
‫اسکی آواز سنائی دی ھے جبکہ‬
‫دوسری طرف سے نازی اور عظمی‬
‫کی آواز آرھی تھی جو کچھ دور لگ‬
‫رھی تھی‬

‫میں نے پہلے بازوں نازی کی آواز کک‬


‫سمت ایسے کیے جیسے میں اسکو‬
‫پکڑنے کے لیے بھاگنے لگا ھوں‬

‫مگر میرا ٹارگٹ نسرین تھی جو میرے‬


‫قریب ھی کھڑی تھی‬

‫میں نے ایکدم بازوں کا رخ نسرین کی‬


‫آواز کی طرف کیا اور تھوڑا آگے بڑھا‬
‫تو میرے دونوں ھاتھ کسی نرم سی چیز‬
‫سے ٹکراے تو میں نے جلدی سے ان‬
‫نرم چیزوں کو اپنی مٹھی میں بھر لیا‬
‫اسکے ساتھ ھی نسرین کے ہلکی سی‬
‫چیخ نکلی اور ساتھ ھی اس نے کہا‬
‫ہارے ربا‬

‫اور نسرین نے میرے ھاتھوں پر ھاتھ‬


‫رکھ کر نرم نرم چیزوں کو چھڑوانا‬
‫چاھا اور پیچھے کو ہٹنے لگی تو میرا‬
‫پیر کسی چیز سے ٹکرایا اور میں‬
‫نسرین کے مموں کو پکڑے ھوے اسکو‬
‫ساتھ لیے نیچے جاگرا نسرین میرے‬
‫نیچے تھی اور میں اسکے اوپر گرتے‬
‫وقت نسرین کے ممے میرے ھاتھ سے‬
‫نکل گئے تھا اور اب میعء سینے کے‬
‫ساتھ اس کے ممے چپکے ھوے تھا‬
‫نسرین کی دونوں ٹانگیں کھلی تھی اور‬
‫میرا لن واال حصہ اسکی پھدی کے‬
‫بلکل ساتھ ایسے چپکا ھوا تھا جیسے‬
‫میں لن اسکی پھدی میں ڈال کر اسے‬
‫چود رھا ھوں‬

‫نسرین کے منہ سے چیخ نکلی تھی‬


‫اور گرتے وقت میں نے اسکے کندھوں‬
‫کے پیچھے اپنے بازو کردیے تھے‬
‫جس کی وجہ سے اسے چوٹ تو نھی‬
‫لگی مگر میرے ممے پکڑنے اور پھر‬
‫ایسے اسکے ساتھ چپک جانے کی وجہ‬
‫سے وہ ڈر گئی تھی‬
‫اس لیے اس کے منہ سے چیخ نکل‬
‫گئی‬
‫ایسا بس چند سیکنڈ ھی ھوا تھا‬
‫اس سے پہلے کہ نازی اور عظمی ہمار‬
‫ے سر پر پہنچتی میں جلدی سے نسرین‬
‫کے اوپر سے اٹھا اور دوپٹے کو‬
‫آنکھوں سے اتار کر حیرانگی سے‬
‫ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا جیسے ابھی‬
‫آسمان سے گر کر زمین پر پہنچا ھوں‬
‫نسر ین اپنی کمر کو پکڑے بیٹھی ھوے‬
‫ھوے کررھی تھی‬
‫عظمی اور نازی بھی بھاگتی ھوئی‬
‫ہمارے پاس پہنچ گئی‬
‫اور میری دشمن نے آتے ھی نسرین‬
‫سے پوچھنا شروع کردیا کہ بچ گئی‬
‫چوٹ تو نھی لگی‬

‫اور میری ہمدرد عظمی نے مجھ سے‬


‫پوچھنا شروع کردیا کہ چوٹ تو نھی‬
‫لگی میں نے اسے تسلی دی کہ کچھ‬
‫نھی ھوا بچ گئے ہین‬
‫تو عظمی نسرین کو بولنے لگ گئی کہ‬
‫ہن مزہ آگیا کھیلن دا تینوں وی بڑا چا‬
‫سی پھڑن پھڑائی کھیلن دا‬

‫تو نسرین چپ تھی کچھ بولی نہ بس‬


‫عظمی کو گھور گھور کر دیکھی‬
‫جارھی تھی‬
‫نازی نے بھی نسرین کو اٹھا کر کھڑا‬
‫کردیا تھا اور‬
‫نسرین کی گانڈ کو جھاڑ رھی تھی‬

‫میں نے جیسے ھی نسرین کی طرف‬


‫دیکھا اور اس سے پوچھا کہ چوٹ تو‬
‫نھی لگی‬
‫تو نسرین نے میری طرف دیکھا اور‬
‫شرما کر نظریں نیچے کرلیں اور بولی‬
‫بچ گئی ھوں ورنہ تم نے تو کوئی کسر‬
‫نھی چھوڑی تھی کہ میری کمر توڑنے‬
‫کی‬

‫ایسے ھی ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے‬


‫رھے‬
‫پھر کمرے میں چلے گئے‬

‫کمرے میں دو ھی چار پائیاں تھی ایک‬


‫پر نسرین اور نازی لیٹ گئی دوسری پر‬
‫عظمی‬
‫میں نے پوچھا کہ‬
‫میں نے کہاں لیٹنا ھے‬
‫تو نازی بولی تم ساتھ والے کمرے میں‬
‫لیٹ جاو‬

‫تبھی‬
‫عظمی اٹھی اور بولی چلو میں بستر کر‬
‫دیتی ھوں‬
‫اور میں عظمی کے پیچھے چلتا ھوا‬
‫دوسرے کمرے میں آگیا‬

‫کمرے میں آتے ھی میں نے عظمی کو‬


‫جپھی ڈال لی اور اس کے ہونٹوں کو‬
‫چومنے لگ گیا‬
‫اور اسکا مما پکڑ کر دبانے لگ گیا‬
‫عظمی آہستہ سے بولی‬
‫چھوڑو مجھے پاگل ھوگئے ھو‬
‫وہ دونوں جاگ رھی ہیں‬

‫میں نے کہا جاگنے دو‬


‫۔تو عظمی بولی‬
‫یار سمجھا کرو‬
‫اگر ان میں سے کوئی آگئی تو بڑا‬
‫مسئلہ بن جاے گا‬

‫میں کہیں بھاگی تو نھی جارھی تھوڑا‬


‫صبر کرلو انکو سونے دو میں ادھر‬
‫آجاوں گی‬

‫میں نے کہا یار مجھ سے صبر نھی‬


‫ھورھا کتنے دن ہوگئے ہیں‬

‫عظمی میرے سینے پر مکہ مارتے‬


‫ھوے بولی‬
‫میں نے کہا نہ کہ آتی ھوں تھوڑی دیر‬
‫کہ بعد اور عظمی نے میرے ہوننٹوں‬
‫پر ایک لمبی سی ذور دار کس کی اور‬
‫مجھ سے علیحدہ ھو کر چارپائی کی‬
‫طرف چلی گئی جو پہلے ھی بچھی‬
‫ھوئی تھی اس پر چادر بچھا کر جانے‬
‫لگی تو دروازے کے قریب پہنچ کر‬
‫رک گئی اور میری طرف گھوم کر‬
‫بولی دودھ گرم پینا ھے کہ ٹھنڈا‬

‫میں نے کہا منہ لگا کر تازہ پینا وہ بھی‬


‫جب تم آو گی‬
‫تو ہنسی اور ہاتھ میری طرف کر کے‬
‫اشارے سے بولی کوئی حال نئی‬
‫تمہاری‬
‫اور کمرے سے باہر چلی گئی‬
‫میں چارپائی پر لیٹ گیا اور نسرین کے‬
‫نرم مموں میں کھو گیا کہ کیا کمال کے‬
‫ممے تھے میرا تو کبھی دھیان ھی نھی‬
‫گیا اسطرف‬

‫کافی دیر میں ایسے ھی سوچتا رھا اور‬


‫سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی‬
‫اور خواب میں نسرین کو چودنے لگ‬
‫گیا‬
‫اس سے پہلے کہ میں خواب میں نسرین‬
‫کی پھدی کے اندر ھی فارغ ھوتا‬

‫اچانک مجھے ایسا لگا کہ مجھے کو ئی‬


‫جنجھوڑ رھا ھے‬
‫میں نے جیسے ھی آنکھیں کھولی تو‬
‫جو چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا‬
‫میں اسے آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا‬
‫تھا‬
‫‪..‬کیونکہ وہ چہرہ‬
‫میں آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا‬
‫کہ جسکو خواب میں چود رھا تھا‬
‫یہ چہرہ تو وہ نھی‬
‫کہ عظمی نے میری گال تھپتھپا کر‬
‫مجھے خواب سے باہر نکال دیا‬
‫اور غصے سے دبی آواز میں بولی‬
‫مجھے آنے کا کہہ کر خود گھوڑے بیچ‬
‫کر سوے ھوے ھو‬

‫میں نے عظمی کو دونوں بازوں سے‬


‫پکڑا اور اپنے سینے کے اوپر گرا لیا‬
‫عظمی میرے سینے پر لیٹے ھوے‬
‫میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫کب سے اٹھا رھی ہوں‬
‫جناب کو کوئی ہوش ھی نھی تھا‬

‫میں نے کہا بس یار تمہیں یاد کرتے‬


‫کرتے سوگیا پتہ ھی نھی چال‬

‫عظمی کی ٹانگیں چارپائی سے نیچے‬


‫تھی اور وہ چارپائی پر گانڈ میرے ساتھ‬
‫لگا کر میرے سینے پر اپنے ممے‬
‫رکھے ھوے لیٹی تھی اسکا منہ میرے‬
‫منہ سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اسکی‬
‫گرم سانسیں میرے منہ پر پڑ رھی تھی‬
‫عظمی بولی چل جھوٹا‬
‫جب کوئی کسی کو یاد کرتا ھے اسکی‬
‫تو نیندیں اڑ جاتی ہیں‬
‫اور تم جسے یاد کرنے کا جھوٹ بول‬
‫رھے ھو‬
‫وہ کب سے تمہیں اٹھانے لگی ھے‬

‫میں نے کہا‬
‫اچھا چھوڑو یہ بتاو کہ وہ دونوں‬
‫چڑیلیں سو گئی کہ نئی‬
‫تو عظمی نے پیارے سے میری گال پر‬
‫چپت لگاتے ھوے بولی‬
‫پاگل اگر وہ جاگتی ھوتی تو میں نے آنا‬
‫تھا‬
‫میں نے کہا‬
‫یعنی کہ وہ سوگئی ہیں تو عظمی نے‬
‫دھیمی ہنسی ہنستے ھوے کہا‬
‫بدھو وہ تو کب کے سوئی ہوئی ہیں‬
‫میں تو صحن کی الئٹ بھی بند کرکے‬
‫آئی ھوں‬

‫میں نے اپنے منہ کو تھوڑا آگے کیا اور‬


‫عظمی کے ہونٹ چومتے ھوے کہا گڈ‬
‫سیانی ھوگئی ھو‬

‫عظمی نے تین چار دفعہ میرے ہونٹوں‬


‫پر کس کی‬
‫اور بولی‬
‫کیا ساری رات مجھے ایسے ھی بیٹھاے‬
‫رکھنا ھے میں تھک گئی ھوں تھوڑا‬
‫سے پیچھے ہٹو‬

‫یہ کہتے ھوے عظمی میرے ساتھ لیٹ‬


‫کر مجھے دوسری طرف دھکیلتے‬
‫ھوے جگہ بنانے لگ گئی‬

‫میں نے عظمی کو کہا یار نیچے کوئی‬


‫چیز بچھا لو چارپائی پر تنگ ھوں گے‬
‫ساری جگہ تو تم نے ھی گھیر لی ھے‬
‫یہ دیکھو میں نیچے گرنے واال ھوگیا‬
‫ھوں‬
‫میں نے جان بوجھ کر چارپائی کے‬
‫کنارے پر پہنچ کر گرنے کی ایکٹنگ‬
‫کرتے ھوے کہا تھا ۔۔‬

‫عظمی نے میرے سینے پر مکا مارتے‬


‫ھوے کہا‬
‫چل شوخا‬
‫میں اتنی بھی موٹی نھی ھوں‬

‫میں نے کہا یار پھر‬


‫ایسے چارپائی کی چوں چوں نے پورا‬
‫محلہ اکھٹا کر لینا ھے‬
‫عظمی میری بات سن کر ہنستے ھوے‬
‫اٹھی اور مجھے بھی اٹھنے کا کہا‬
‫اور پھر چارپائی سے گدا اٹھا کر نیچے‬
‫بچھا دیا میں نے گدے کے اوپر چڑھ‬
‫کر پیروں پر وزن ڈالتے ھوے کہا‬
‫یار اگر ایک گدا اور بچھا دو تو مزہ‬
‫آجاے گا‬

‫عظمی کچھ دیر سوچتی رھی پھر بولی‬


‫ایک منٹ میں دیکھ کر التی ھوں اور‬
‫وہ دبے پاوں چلتی ھوئی دوسرے‬
‫کمرے میں گئی اور وہاں سے ایک اور‬
‫گدا اٹھا کر لے آئی‬
‫اور ال اسے بھی اسی گدے کے اوپر‬
‫بچھا دیا‬
‫اور دو سرھانے بھی رکھ دیے‬

‫اور چوکڑی مار کر گدے پر ایسے بیٹھ‬


‫گئی جیسے میرے ساتھ تاش کھیلنے‬
‫لگی ھو‪،‬‬

‫میں نیچے بیٹھا اور ساتھ ھی لیٹ گیا‬

‫اور عظمی کو پکڑ کر بھی لٹا لیا‬


‫اور ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ جپھی ڈال کر لیٹے ھوے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ چومنے لگ گئے‬
‫میرا لن فل کھڑا ھوگیا تھا اور عظمی‬
‫کی پھدی پر دستک دے رھا تھا کہ‬
‫جلدی دروازہ کھولو آج صبح سے‬
‫کھجل ھورھا ھوں ۔‬
‫کچھ دیر ایک دوسرے کے ہونٹ‬
‫چوسنے کے بعد‬

‫میں اٹھا اور اپنی قمیض اتار دی اور‬


‫پھر بنیان بھی اتار کر ایک سائڈ پر رکھ‬
‫دی‬
‫اور پھر عظمی کو اٹھنے کا کہا تو وہ‬
‫بولی کیا ھے‬

‫میں نے اسکی قمیض پکڑ کر کہا کہ‬


‫اسے اتارو‬
‫تو عظمی بولی نھی قمیض نھی اتارنی‬
‫اگر وہ اٹھ گئیں تو اتنی جلدی مجھ سے‬
‫نھی پہنی جانی‬

‫میں نے کہا یار اگر تمہیں انکا اتنا ھی‬


‫ڈر تھا تو آتی ھی نہ‬

‫چلو اٹھو اتارو قمیض‬


‫عظمی کی مصیبت اے کہتی ھوئی اٹھی‬
‫اور اپنی قمیض اتار کر سیدھی کر کے‬
‫رکھ دی اور بریزیر پکڑ کر بولی اسکو‬
‫بھی اتار دوں میں نے کہا ھاں جی‪ ،‬۔۔۔‬
‫اس نے پھر پیچھے ھاتھ کر کے اپنا‬
‫بریذیر کھوال اور اسے بھی اتار دیا‬
‫اور قمیض کے اوپر ھی رکھ دیا‬

‫عظمی کا گورا بدن اندھیرے میں بھی‬


‫چمک رھا تھا‬
‫صحن میں چاند کی روشنی تھی جو‬
‫ہلکی ہلکی اندر بھی آرھی تھی‬
‫کمرے میں اندھیرا تھا مگر اتنا بھی‬
‫نھی کہ ایک دوسرے کو بلکل بھی دیکھ‬
‫نہ سکتے‬

‫میں نے عظمی کو جپھی ڈال کر پھر‬


‫اسی پوزیشن میں لٹا لیا اب عظمی کا‬
‫اور میرا اوپر واال ننگا حصہ ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ ُجڑا ھوا تھا ۔‬

‫اور پھر سے ایک دوسرے کے ہونٹ‬


‫چوسنے میں مصروف تھے‬
‫میں نے ایک ھاتھ نیچے کیا اور‬
‫اپنا ن‬
‫ازاربند کھوال اور لن کو ہوا لگائی‬
‫اور ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے ھاتھ‬
‫کو پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا‬

‫عظمی بھی فل گرم ھوچکی تھی اس‬


‫نے میرے لن کو مٹھی میں بھر کر مٹھ‬
‫مارنے کے انداز میں ھاتھ کو اوپر‬
‫نیچے کرنے لگ گئی‬

‫عظمی کبھی ھاتھ کو کھول کر انگلیوں‬


‫سے لن کا مساج کرتی اور کبھی ٹوبے‬
‫کے گرد انگلیوں کو گھماتی اور‬
‫انگوٹھے سے ٹوپے کی اکلوتی آنکھ کو‬
‫ناخن کی مدد سے کھولتی اور انگوٹھے‬
‫کے پورے سے ٹوپے کو مسلتی ایسے‬
‫ھی مزے لے لے کر لن کے ساتھ‬
‫کھیلتی اور کبھی ھاتھ پورا نیچے لیجا‬
‫کر ٹٹوں کو انگلیوں سے مسلتی اور‬
‫پھر ویسے ھے ہتھیلی لن پر رکھ کر‬
‫انگلیوں کو اوپر کی طرف لے آتی‬
‫اور میرا لن اسکی شرارتوں سے‬
‫جھٹکے کھانے لگ جاتا‬

‫میں نے ایک ھاتھ اسکی السٹک والی‬


‫شلوار میں ڈال کر اسکی مالئم گانڈ پر‬
‫پھیر رھا تھا اور آہستہ آہستہ اسکی‬
‫شلوار بھی نیچے کرتا جارھا تھا‬

‫میں نے جب اسکی پوری گانڈ سے‬


‫شلوار اتار دی تو ھاتھ کی درمیان والی‬
‫انگلی کو اسکی گانڈ کی دراڑ میں‬
‫پھرنے لگ گیا‬
‫عظمی کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور وہ‬
‫گانڈ کو بھینچنے لگ گئی تھی میری‬
‫انگلی جیسے ھی اسکی گانڈ کے‬
‫سوراخ پر لگتی تو وہ گانڈ کو ذور سے‬
‫بھینچ لیتی‬
‫میں نے ھاتھ تھوڑا سا لمبا کر کے گانڈ‬
‫کی موری سے تھوڑا آگے کیا تو میری‬
‫انگلیاں عظمی کی پھدی سے ٹکرائیں‬
‫اور ساتھ ھی میری انگلیاں آگے سے‬
‫گیلی ھوگئی‬
‫عظمی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی‬

‫جس سے میری انگلیاں گیلی ھوگئی اور‬


‫میں ان گیلی انگلیوں کو پیچھے کر کے‬
‫اسکی گانڈ کی مورے کے کنگروں پر‬
‫سارا پانی مل کر انگلیاں صاف کر کے‬
‫پھر پھدی کی طرف لے جاتا اور پھدی‬
‫کے تالب میں انگلیوں کو گیال کرتا اور‬
‫پھر ال کر گانڈ کے سوراخ کو مزید گیال‬
‫کر دیتا ایسے کئی دفعہ کرنے سے‬
‫اسکی گانڈ کی موری میں کافی چکنائی‬
‫ھو گئی تھی اور اسکی موری کے‬
‫کنگرے بھی نرم ھو چکے تھے‬
‫اب میں نے ایک انگلی اسکی موری پر‬
‫رکھی اور ہلکے سے اندر کی‬
‫تو عظمی نے اوئییییی کیا اور میرے‬
‫بازو کو کہنی مار کر پیچھے کرنے کو‬
‫کہا میں نے آہستہ سے کہا آرام سے‬
‫لیٹی رھو‬
‫تو عظمی بولی پیچھے سے کیوں کر‬
‫رھے ھو اپنے ھاتھ گندے کرو گے‬

‫میں نے کہا‬
‫تینوں ٹٹی آئی اے تے جا پج کے کر آ‬

‫تو عظمی نے میرے لن کو ذور سے دبا‬


‫کر کہا چل گندا‬
‫شرم نھی آتی ایسی گندی باتیں کرتے‬
‫ھوے‬

‫میں نے کہا تم جو کہہ رھی ھو کہ ھاتھ‬


‫گندے کرنے ھے‬
‫تو عظمی بولی میرا مطلب ھے کہ‬
‫گندی جگہ ھے ادھر نہ کرو‬

‫میں نے کہا تم فکر نہ کرو میں نے‬


‫تمہاری پھدی کے پانی سے اچھی طرح‬
‫دھو لی ھے وہ جگہ‬
‫۔عظمی نے شرما کر اپنا منہ میرے‬
‫گلے میں دیتے ھوے کہا‬
‫یاسر تم بہت ھی بے شرم ھو گئے ھو‬

‫تو میں نے کہا‬


‫شرم ساری اتار کر سائڈ پر رکھ دی‬
‫ھے اس لیے تم بھی اب ڈرامے نہ کرو‬
‫اور یہ کہتے ھی میں نے عظمی کی‬
‫گانڈ میں کافی ساری انگلی اندر کردی‬
‫تو عظمی نے ساتھ ھی‬
‫اوئییییییییییی میں مرگئی‬

‫یاسر نہ کر ادھر سے درد ھوتا ھے‬


‫میں نے انگلی اندر باہر کرتے ھوے کہا‬
‫دیکھنا ابھی کتنا مزہ آتا ھے‬

‫عظمی بولی مجھے نھی لینا ایسا مزہ‬

‫میں نے عظمی کی گانڈ کے سوراخ‬


‫سے انگلی نکالی اور پھر اسکی شلوار‬
‫آگے سے بھی نیچے کی اور اپنی‬
‫شلوار کو بھی اتار کر ہاوں سے نکال‬
‫کر سائڈ پر رکھا‬
‫اور عظمی کی شلوار بھی پاوں سے‬
‫نکال کر رکھنے لگا تو عظمی میرے‬
‫ھاتھ سے شلوار پکڑی اور اسکو‬
‫سیدھی کر کے قمیض کے اوپر رکھ دیا‬
‫میں اور عظمی اب مادر زاد ننگے‬
‫تھے‬
‫میں نے عظمی کی پھدی پر ھاتھ پھیرا‬
‫تو عظمی تڑپ کر میرے ساتھ چپک‬
‫گئی میں نے عظمی کو اہنے سے الگ‬
‫کیا اور سیدھا لٹا دیا اور خود اٹھ کر‬
‫بیٹھ گیا اور تین چار دفعہ اسکے گول‬
‫مموں کو باری باری چوما عظمی کے‬
‫نپل۔ایک دم اکڑے ھوے تھے اور سخت‬
‫ھوگئے تھے‬
‫میں اٹھا اور کھڑا ھوکر عظمی کے‬
‫سینے کے دونوں اطراف ٹانگیں کی‬
‫اور مموں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر‬
‫نیچے اسکے مموں کے درمیان لن کو‬
‫رکھ کر مموں کو آپس میں جوڑ کر‬
‫گھسے مارنے لگ گیا‬
‫عظمی میرے اس نئے طریقے کو فل‬
‫انجواے کر رھی تھی میں عظمی کو‬
‫کہا کہ اپنے دونوں مموں کو پکڑ کر لن‬
‫کو اس میں بھینچ لے عظمی نے جلدی‬
‫سے دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں‬
‫مال دیا اور میں لن عظمی کے مموں‬
‫کے درمیان آگے پیچھے کرنے لگ گیا‬

‫لن آگے سے نکل کر عظمی کی ٹھوڑی‬


‫کے ساتھ لگ رھا تھا مجھے ایسا کر‬
‫کے بہت ھی مزہ آرھا تھا‬

‫میں نے عظمی کے سر کو پیچھے سے‬


‫پکڑ کر اوپر کیا اور ہاتھ اسکی گردن‬
‫میں پر رکھ کر سر کو مزید اوپر کردیا‬
‫اب میرے لن کا ٹوپا عظمی کے ہونٹوں‬
‫پر لگتا‬
‫عظمی پہلے تو ہونٹوں کو سختی سے‬
‫بھینچ کر ٹوپے کو اپنی طرف آتے دیکھ‬
‫کر نفرت کا اظہار کرتی‬
‫تو میں نے کہا عظمی اسکو کس کرو‬
‫عظمی نے میرے اصرار پر ٹوپے کو‬
‫چومنا شروع کردیا جب بھی ٹوپا اسے‬
‫کے ھونٹوں کو چھوتا تو عظمی ٹوپے‬
‫کو چوم لیتی‬

‫عظمی کا تو پتہ نھی مجھے یہ سب کر‬


‫کے بہت اچھا لگ رھا تھا‬
‫میں نے یہ بلیو فلم میں دیکھا تھا‬
‫اور اس کا پریکٹیکل آج پہلی دفعہ کر‬
‫رھا تھا‬

‫کچھ دیر ایسے ھی مموں میں گھسے‬


‫مارتا رھا اور عظمی متواتر میرے‬
‫ٹوپے کو چومتی رھی‬
‫میں نے اسی پوزیشن می ایک ھاتھ‬
‫پیچھے کیا اور عظمی کی پھدی پر دو‬
‫انگلیاں رکھ کر پھدی کے دانے کو ہڈی‬
‫کے ساتھ لگا کر مسلنے لگ گیا‬
‫میں نے جیسے ھی دانے کو مسال‬
‫عظمی نے مزے کی لزت میں آہ آہہہہہ‬
‫کیا اور ایسا کرنے سے اسکا منہ کھال‬
‫ادھر ٹوپا اسکے منہ کے پاس پہنچ گیا‬
‫تو میں تھوڑا اور آگے کو ہوا اور‬
‫اسکی گردن کے پیچھے رکھے ھوے‬
‫ھاتھ کو مزید اوپر کیا جس سے عظمی‬
‫کا منہ مذید میرے لن کے قریب ھوگیا‬
‫اور ٹوپا سیدھا عظمی کے منہ کے اندر‬
‫چال گیا‬
‫عظمی نے جلدی سی منہ ہپپپ کر کے‬
‫بند کیا تو پوراٹوپا اسکے منہ کے اندر‬
‫ھی اسکے ہونٹوں میں دب گیا‬
‫عظمی نے جلدی سے سر ادھر ادھر‬
‫کرنے کی کوشش کی مگر اسکی گردن‬
‫میرے ھاتھ میں تھی میں نے اسکے سر‬
‫کو ہلنے ھی نھی دیا بلکہ گردن کو اور‬
‫اوپر کر دیا جس سے ٹوپا اسکے منہ‬
‫کت اندر پھنس گیا‬
‫میں نے ساتھ ھی کہا جان چوسو اسے‬

‫تو عظمی نفی میں سر ہالنے کی‬


‫کوشش کرنے لگ گئی ادھر میں اسکی‬
‫پھدی کے دانے کو مسلی جارھا تھا‬
‫آخر پھدی کے دانے کی لذت نے عظمی‬
‫کو لن چوسنے پر مجبور کر دیا اور‬
‫صر ف‬‫عظمی نے ہار مانتے ھوے ٍ‬
‫ٹوپے کو چوسنا شروع کردیا‬
‫لن ایسے ھی اسکے مموں کو چود رھا‬
‫تھا اور جب بھی لن عظمی کے منہ کے‬
‫قریب جاتا عظمی دلی گیٹ کی طرح‬
‫منہ کو کھول کر ٹوپے کو اندر جانے کا‬
‫راستہ دے دیتی اور ٹوپا جب اندر جاتا‬
‫تو ہونٹوں کو بھینچ لیتی اور میں ٹوپے‬
‫کو واپس کھینچتا تو ایک مزے کی لہر‬
‫میرے سارے جسم میں دوڑتی‬
‫مجھے ایکدم ایسے لگا جیسے میری‬
‫منی نکلنے والی ھوگئی ھے‬
‫میں نے پھدی کے دانے کو مسلنا تیز‬
‫کردیا اور عظمی نے مزے کی بڑھتی‬
‫ھوئی شدت کی وجہ سے آنکھیں بند‬
‫کرلی اور اسے پریکٹس بھی ھوگئی‬
‫تھی کہ کب لن کے ٹوپے کو چوسنا‬
‫ھے اور کب اسے اندر انے کا راستہ‬
‫دینا ھے‬
‫مموں کے درمیان میرے گھسوں کی‬
‫سپیڈ تیز ھوگئی‬
‫ادھر میری انگلی بھی تیزی سے پھدی‬
‫کے دانے کو مسلی جارھی تھی ادھر‬
‫میری ٹانگوں سے جان نکل رھی تھی‬
‫ادھر عظمی کا جسم اکڑ رھا تھا‬
‫جیسے جیسے میری سپیڈ بھڑتی جارھی‬
‫تھی ویسے ھی عظمی کی جان نکلنے‬
‫والی ھوگئی تھی‬
‫کہ اچانک عظمی کے جسم نے ذور دار‬
‫جھٹکا لیا اور عظمی نے اپنی ٹانگوں‬
‫کو زور سے بھینچ لیا دوسری طرف‬
‫میرا بھی آخری گھسا لگا اور عظمی‬
‫کے جسم کے جھٹکے جاری تھے کہ‬
‫عظمی نے جھٹکے مارتے ھوے لن‬
‫کے ٹوپے کومزید اندر نگل کر منہ میں‬
‫جکڑ کر چوسنا شروع کردیا‬
‫میرے لن سے بھی اتنا زبردست چوپا‬
‫برداشت نہ ھو تو‬
‫میرے لن سے منی کے فوارے عظمی‬
‫کے منہ میں ھی نکلنے لگے میں بھی‬
‫کانپتے ھو عظمی کی گردن کو مذید‬
‫جکڑ لیا اور لن کی منی عظمی کہ منہ‬
‫میں ھی برسانے لگا‬
‫ادھر عظمی کے جسم کو جھٹکے لگ‬
‫رھا تھے اسکی پھدی منی اگل رھی‬
‫تھی اور اس دوران اس کے منہ میں‬
‫زہر بھی ھوتا تو نگل جاتی‬
‫عظمی فارغ ھوتے ھوے مزے میں‬
‫اتنی ڈوبی ھوئی تھی کہ اسے یہ بھی‬
‫احساس نہ ھوا کہ نیچے اسکی پھدی‬
‫منی اگل رھی ھے اور اوپر اسکے منہ‬
‫کے اندر میرا ببر شیر منی اگل رھا‬
‫ھے اور عظمی ویسے ھی لن کو‬
‫چوس۔چوس کر منی گلے کے اندر ھی‬
‫نگل رھی تھی‬
‫کہ ۔۔۔۔‬

‫عظمی کو یکلخت ہوش آیا کہ وہ میرے‬


‫لن کی ساری منی نگل گئی ھے‬
‫عظمی نے جلدی سے سر کو پیچھے‬
‫کیا میرے ہاتھ کی گرفت بھی ڈھیلی‬
‫ہوگئی جس کی وجہ سے میرا لن جو‬
‫آخری ہچکیاں لے رھا تھا ۔‬
‫عظمی کے منہ سے باھر آگیا‬
‫عظمی نے ایک ھاتھ اپنے منہ پر رکھا‬
‫اور دوسرا ھاتھ میرے پیٹ پر رکھ کر‬
‫مجھے پیچھے دھکیل دیا میں بھی ٹھنڈا‬
‫ھوچکا تھا‬
‫دماغ کی ساری گرمی لن کے راستے‬
‫سے عظمی کے منہ میں نکل کر اسکے‬
‫معدے میں اتر چکی تھی ۔‬
‫عظمی جلدی سے اٹھ کر گدے کے‬
‫دوسری طرف منہ کر کے الٹی کرنے‬
‫کی کوشش کرتے ھوے ذور لگا کر‬
‫کھانسنے لگ گئی مگر منی اس کے‬
‫معدے میں جاچکی تھی اور معدے نے‬
‫منی ہضم کرلی تھی اب سواے تھوک‬
‫اور پانی کے اسکے منہ سے کچھ نھی‬
‫نکل رھا تھا‬
‫میں عظمی کی حالت سے بے خبر‬
‫ھوکر سیدھا لیٹا‬
‫لمبے لمبے سانس لے کر خود کو‬
‫ریلیکس کر رھا تھا۔‬

‫کچھ دیر بعد عظمی نے میری طرف‬


‫منہ کیا اور میرے نیم مردہ ننگے لن کو‬
‫پکڑ کر مروڑتےھوے غصے سے‬
‫بولی‬

‫میں اینوں توڑ دینا اے‬

‫عظمی کی گرفت کافی مضبوط تھی‬


‫جس کی وجہ سے مجھے کافی درد‬
‫ھوئی اور میں ٹانگیں سکیڑ کر‬
‫ھاےےےےےے کیا اور اسکی کالئی‬
‫پکڑ کر زور سے دبا دی جس سے‬
‫عظمی کو اپنی نازک سی کالئی میں‬
‫درد کا احساس ھوا تو اس نے گرفت‬
‫ڈھیلی کی اور لن کو چھوڑ کر میرے‬
‫پیٹ کے اوپر ٹانگیں دونوں اطراف کر‬
‫کے بیٹھ گئی‬
‫عظمی کی چکنی پھدی سے پانی نکال‬
‫جس سے میرا پیٹ بھی گیال ھوگیا‬

‫عظمی نے میرے پیٹ پر سوار ھوتے‬


‫ھی میرا گال دبانے کے لیے ھاتھ آگے‬
‫بڑھاے اور بولی‬
‫شوخیا میں تیرا گال ُکٹ دینا اے سارے‬
‫جہان دے گندے کم تیرے وچ ای اے‬

‫میں نے ہنستے ھوے اسکے دونوں‬


‫ھاتھوں کو کالئیوں سے پکڑ لیا‬
‫اور انکو پکڑے ھوے ھی پیچھے‬
‫اسکی کمر کے ساتھ لگا کر عظمی کو‬
‫آگے اپنے اوپر ُجھکا لیا‬

‫عظمی بولی‬
‫یاسر یہ اچھا نھی کیا تم نے‬

‫میں نے کہا یار تم نے چوپا ھی بڑے‬


‫کمال کا لگایا تھا‬
‫مجھے پتہ ھی نھی چال‬

‫عظمی کے مموں کے نپل میرے سینے‬


‫کے ساتھ ٹچ ھو رھے عظمی کا منہ‬
‫میرے منہ کے کچھ فاصلے پر تھا‬

‫عظمی بولی اچھا میرے ھاتھ تو‬


‫چھوڑو‬
‫میں نے کہا نھی جی تم نے میرا گال دبا‬
‫دینا ھے‬
‫عظمی بولی نھی دباتی چھوڑ دو بازو‬

‫میں نے عظمی کے بازو چھوڑ دیے‬


‫اور ویسے ھی اسکی کمر کے گرد‬
‫بازو رکھے عظمی‬
‫بولی‬
‫اب جاوں میں تو میں نے بازوں کا‬
‫گھیرا تنگ کر کے عظمی کو مزید‬
‫اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ھوے کہا‬

‫ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور جناب‬


‫جانے کی باتیں کررھی ھے‬

‫عظمی مصنوعی غصے سے میرا کان‬


‫پکڑ کر مروڑتے ھوے بولی‬
‫گندے بچے میرا سارا منہ گندا کردیا‬
‫ھے اور ابھی کہتے ھو کہ کچھ کیا ھی‬
‫نھی‬

‫میں نے عظمی کو کہا‬


‫ابھی بتاتا ھوں کہ کیا کرنا باقی ھے‬
‫اور ساتھ ھی میں نے عظمی کے دونوں‬
‫مموں کو پکڑا اور اپنے منہ کی طرف‬
‫مموں کے نپل کئے اور سر اونچا کر‬
‫کے مموں کو باری باری چوسنے لگ‬
‫گیا۔‬

‫عظمی کے منہ سے یکلخت سسکاری‬


‫نکلی‬
‫اور عظمی نے ساتھ ھی پھدی کا دباو‬
‫میرے پیٹ پر بھڑا دیا‬
‫کچھ دیر عظمی کے ممے چوسنے کے‬
‫بعد‬
‫میرے لن نے بھی سر اٹھانا شروع‬
‫کردیا‬
‫اور پیچھے سے عظمی کی گانڈ کے‬
‫دراڑ کے ساتھ لگنے لگ گیا‬

‫عظمی مزے لے لے کر خود اپنے‬


‫ممے کو پکڑے نپل کو میرے منہ ڈال‬
‫رھی تھی‬

‫میرا لن بھی فل تن چکا تھا‬


‫میں نے عظمی کی کمر کو پکڑا اور‬
‫اسے اوپر کیا تو عظمی نے اپنی پھدی‬
‫میرے لن سے اٹھا کر تھوڑی اوپر کی‬

‫میں عظمی کو کہا تھوڑا پیچھے ھو‬


‫جاو‬

‫عظمی ڈوگی سٹائل میں ھی پیچھے‬


‫ھوئی اور پھدی کو لن کے اوپر کر دیا‬
‫میں ہاتھ نیچے لیجا کر‬
‫لن کو جڑ سے پکڑا اور عظمی کی‬
‫پھدی کے ہونٹوں کے بیچ سیٹ کرنے‬
‫لگا‬
‫عظمی سمجھ گئی تھی اب کاال ناگے‬
‫پھدی کا ستیاناس کرنے لگا ھے‬
‫تو عظمی نے جھٹ سے پھدی کو لن‬
‫سے اوپر کیا اور‬
‫خود ہاتھ نیچے کر کے لن سے میرا‬
‫ھاتھ ہٹا کر خود لن کو پکڑتے ھوے‬
‫بولی‬
‫یاسر میں خود اندر کروں گی‬
‫تم پلیز دھکا نہ مارنا نھی تو میری چیخ‬
‫انکے کمرے تک جانی ھے‬

‫میں نے بھی لن کو چھوڑ دیا اور اسکی‬


‫کمر کو دونوں طرف سے پکڑ لیا‬

‫عظمی نے لن کی ٹوپی کو پھدی کے‬


‫لبوں میں اچھی طرح پھیر کر پھدی کے‬
‫تھوک سے گیال کیا اور لن کو پھدی‬
‫کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ آہستہ‬
‫نیچے بیٹھنے لگ گئی‬

‫آدھا لن عظمی نے پھدی میں آہ آہ آہ‬


‫اوییییی کرتے لے لیا اور پھر گانڈ کو‬
‫اٹھا ااٹھا کر اوپر نیچے کرتے ھوے‬
‫آدھے لن کا ھی مذہ لینے لگ گئی ۔‬

‫میں بھی نیچے سے گانڈ اٹھا کر لن مذید‬


‫اندر کرنے کی کوشش کرتا مگر عظمی‬
‫ساتھ ھی اوپر ھو جاتی اور کہنے لگ‬
‫جاتی یاسر تم کچھ مت کرو آج میں خود‬
‫ھی کروں گی‬
‫میں ہمممم کر کے مما منہ میں لے کر‬
‫چوسنے لگ گیا‬

‫کچھ دیر ایسے ھی عظمی آدھے لن پر‬


‫اوپر نیچے ھوتی رھی اور میں عظمی‬
‫کے دونوں مموں کو باری باری چوستا‬
‫رھا‬

‫عظمی نے آہستہ آہستہ پورا لن پھدی‬


‫کے اندر اتار لیا‬

‫اور ٹانگیں میری ٹانگوں کے اوپر لمبی‬


‫کر کے پورا لن اندر لے کر میرے اوپر‬
‫لیٹ گئی‬
‫اور بڑے فخر سے سیکسی اواز میں‬
‫بولی یاسر سارا چال گیا نہ اندر‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال کر اوکے کیا‬

‫عظمی نے مجھے کس کر جپھی ڈال‬


‫کر گانڈ کو اوپر نیچے کر کے آہستہ‬
‫آہستہ گھسے مارنے شروع کردئے‬

‫میں نے دونوں ھاتھ عظمی کی گانڈ پر‬


‫رکھ کر گانڈ کو بھینچنے لگ گیا‬
‫عظمی جیسے ھی گانڈ اوپر کرتی تو‬
‫میں ھاتھوں کا دباو دے کر گانڈ کو لن‬
‫کی طرف جھٹکے سے دبا دیتا‬
‫عظمی ھاےےے کرتی اور مدہوش‬
‫آواز میں کہتی یاسر بڑا مزہ آرھا ھے‬
‫ھممممم افففففف آہ آہ آہ‬

‫میں اسکی ایسی آواز میں سیکسی باتیں‬


‫سن کر جوش میں آجاتا اور زور زور‬
‫سے گانڈ کو ھاتھوں میں دبوچ دبوچ کر‬
‫نیچے کی طرف دباتا‬

‫کچھ دیر بعد عظمی نے گھسے مارنے‬


‫کی سپیڈ تیز کردی اور ساتھ ھی‬
‫مدہوشی میں بولے جارھی تھے‬
‫ہاں یاسر ایسے کرو ایسے ھی آہہہہہ آہ‬
‫ھممممم سسسسسسیییی یاسر سارا کرو‬
‫اور میں نیچے گانڈ اٹھا کر پورے ذور‬
‫سے لن کو پھدی کے اندر تک کر دیتا‬

‫عظمی نے گھسے مارنے بند کردئے‬


‫اور لن کو پھدی میں جکڑ کر میرے‬
‫اوپر سے کھسک کر پاوں کی طرف‬
‫چلی گئی‬
‫جس سے میرا لن پھدی کی ہڈی کے‬
‫ساتھ لگ گیا‬
‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ عظمی کا‬
‫سارا وزن میرے لن پر ھی آگیا ھے‬
‫میرا لن بری طرح پھدی میں جکڑا ھوا‬
‫تھا اور پھدی کی ہڈی کے ساتھ رگڑ‬
‫کھاے ھوے تھا‬
‫عظمی لن کو پھدی میں جکڑ کر سانپ‬
‫کی طرح بل کھاتے ھوے گانڈ کو ہال‬
‫رھی تھی اور مزید لن پر ہڈی کو رگڑ‬
‫رھی تھی اور پیچھے جانے کی کوشش‬
‫کررھی تھی میری تو درد سے جان‬
‫نکلنے والی ھوگئی‬

‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ پھدی کی‬


‫ہڈی نے میرے لن کو توڑ دینا ھے میں‬
‫نے دونوں بازو لمبے کیے اور عظمی‬
‫کی گانڈ کو دبوچ کر آگے کی طرف‬
‫زور لگانے لگ گیا‬
‫عظمی میں پتہ نھی کون سا جن آگیا تھا‬

‫عظمی کی سانسیں بری طرح اکھڑی‬


‫ہوئی تھیں اسکے ممے میرے سینے‬
‫میں پوست تھے عظمی بس ایک بات‬
‫ھی کری جارھی تھی‬
‫یاسر بُوتتتتت مزہ آرھا ھے‬
‫کہاں تھا یہ مزہ سییییی ہممممم ایسے‬
‫کرتی کرتی نے یکدم اپنی ٹانگوں کو‬
‫بھینچ کر لن کو پھدی میں مزید جکڑ لیا‬
‫اور میرے ہونٹوں کو بےدردی سے‬
‫اپنے دانتوں سے کاٹتے ھوے‬
‫رک کر گانڈ کو پورے زور سے میرے‬
‫لن کی طرف دبا دیا‬
‫جسم کو جھٹکے دینے لگ گئی‬

‫درد کے ماری میری بری حالت‬


‫ھوچکی تھی‬

‫ایک منٹ تک عظمی ایسے ھی میرے‬


‫اوپر لیٹی رھی‬

‫اور پھر اسکو میری حالت پر ترس آیا‬


‫تو اسکی پھدی نے میرے لن کی جان‬
‫چھوڑی اور عظمی کا جسم ڈھیال ہو کر‬
‫میرے اوپر پڑا تھا اور عظمی کی تیز‬
‫دھڑکن مجھے اپنے سینے پر صاف‬
‫محسوس ھورھی تھی‬

‫میں نے عظمی کو کہا‬


‫اچھا ریپ کیا ھے میرا‬
‫عظمی ہنستے ھوے اکھڑی آواز میں‬
‫بولی‬

‫کیوں کیا ھوا‬

‫میں نے کہا میرا لن ٹوٹنے واال ھوگیا‬


‫تھا اور تم کہہ رھی ھو کیا ھوا تھا‬

‫آج تمہیں ھوکیا گیا تھا‬


‫سہی بدال لیا تم نے جنگلی بلی‬

‫عظمی ہنستے ھوے بولی‬


‫جب تم میری جان نکالتے ھو تب تمہیں‬
‫احساس ھوتا ھے کہ مجھے کتنی درد‬
‫ھوتی ھے‬
‫خود سے تھوڑی دیر کے لیے درد‬
‫برداشت نھی ھوتی‬

‫ہم ابھی باتیں ھی کر رھے تھے کہ‬


‫اچانک‬
‫میرے لن نے عظمی کی پھدی میں‬
‫جھٹکا مار کر مجھے اپنی طرف توجہ‬
‫کیا کہ‬
‫سائیں میرا وی ُکش سوچو۔۔۔‬
‫میں نے عظمی کو تھوڑا اوپر کیا اور‬
‫اسکی ٹانگوں دونوں طرف سے پکڑ‬
‫کر آگے کی طرف کھینچ کر اسے اپنے‬
‫اوپر گھوڑی کی شکل میں کردیا۔‬
‫عظمی نے دونوں بازوں گدے پر‬
‫کہنیوں کے بل کیے اور گھٹنوں کے بل‬
‫گانڈ اوپر کر کے لن کے کچھ فاصلے‬
‫پر پھدی کو کرلیا ۔‬
‫میں نے اسکےدونوں چوتڑوں پر ھاتھ‬
‫رکھے اور نیچے اپنی گانڈ اٹھا کر لن‬
‫عظمی کی پھدی میں ڈال کر اوپر کی‬
‫طرف گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫میں جیسے جیسے گانڈ اٹھا کر گھسے‬
‫مارتا‬
‫عظمی کے ممے میرے منہ کے سامنے‬
‫ہلتے‬

‫میرا لن پھدی کی گہرائی تک جا رھا‬


‫تھا‬
‫میرے ھاتھ عظمی کی گانڈ کو دبوچ کر‬
‫گانڈ کو نیچے کی طرف پُش کررھے‬
‫تھے‬
‫میری انگلیاں ساتھ ساتھ عظمی کی گانڈ‬
‫کے دراڑ میں جاکر گانڈ کے سوراخ کا‬
‫مساج بھی کرتی جارھی تھی‬

‫عظمی نے بھی یس یس اففففف اممممم‬


‫کرنا شروع کردیا ۔‬

‫جس سے میرا جوش مذید بڑھ رھا تھا‬


‫عظمی کی سسکاریاں میرے لطف میں‬
‫مذید اضافہ کرتی جارھی تھی‬
‫عظمی کی پھدی کافی گیلی تھی اور‬
‫اسکی پھدی سے نکلنے والی منی‬
‫میرے لن پر پر ھی لگ گئی تھی جس‬
‫کی وجہ سے لن پھدی میں فراوانی سے‬
‫اندر باھر ھو رھا تھا‬

‫میں گھسے مارنے کے دوران اپنا سر‬


‫اونچا کر کے عظمی کے ممے کو بھی‬
‫چوم لیتا‬
‫میرے گھسوں سے ہلتے ممے کمال لگ‬
‫رھے تھے‬
‫اس کے مموں کی تھرتھراہٹ سے‬
‫مجھے اپنے گھسوں کی شدت کا اندازہ‬
‫ھورھا تھا‬

‫کچھ دیر بعد میں گھسے مار مار کر‬


‫تھک گیا‬
‫عظمی بھی پھر فارغ ھونے کے قریب‬
‫تھے‬

‫میرے گھسوں کی رفتار کم ھوئی تو‬


‫عظمی پھدی کو نیچے کی طرف پُش‬
‫کرنے لگ گئی اور پھر عظمی کی‬
‫سسکیاں اور پھدی کو لن پر پُش کرنے‬
‫کی رفتار تیز سے تیز تر ھوتی ھوگئی‬
‫اور پھر عظمی نے پورا وزن میرے لن‬
‫پر ڈال کر لن کو پھدی کی گہرائی تک‬
‫پہنچا دیا اور میرے ساتھ چمٹ گئی اور‬
‫اسکا جسم جھٹکے کھانے لگا‬
‫عظمی کی پھدی کے اندر ھی منی کی‬
‫دھاریں میرے ٹوپے سے ٹکرا رھی‬
‫تھی ۔‬

‫عظمی لمبے لمبے سانس لیتی ھوی‬


‫میرے اوپر سے دوسری طرف گر گئی‬
‫اور‬
‫دونوں ھاتھ اپنے منہ پر رکھ کر‬
‫افففففففففف‬
‫ھاےےےےےےے‬
‫ھوے ھوے ھوے‬
‫کرنے لگ گئی‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور عظمی کی‬


‫ٹانگوں کے درمیان آیا اور عظمی کی‬
‫ٹانگیں اٹھا کر اسکے گھٹنے‬
‫اسکے پیٹ کے ساتھ لگا دیے اور لن‬
‫کو پھدی پر سیٹ کر کے ایک دھکے‬
‫میں سارا لن پھدی کے اندر اتار دیا‬

‫عظمی نے اپنے منہ پر ھاتھ رکھتے‬


‫ھوے‬
‫ابھھھھھپھھھھ کیا‬
‫اور ذور ذور سے سر دائیں بائیں‬
‫مارنے لگی‬
‫چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں‬
‫اسکے چہرے پر تکلیف کے ایثار نظر‬
‫آرھے تھے‬

‫عظمی منہ سے ہاتھ ہٹا کر آہستہ سے‬


‫بولی‬

‫ماردتا ای ظالماں کیڑا بدلہ لیا ای‬

‫میں نے اسکو کوئی جواب نہ دیا اور لن‬


‫کو باہر کھینچ کر پھر ویسے ھی ذور‬
‫سے اندر کیا میرا لن اسکی ریڑھ کی‬
‫ہڈی سے ٹکرایا‬
‫تو عظمی نے بری طرح اپنے ہونٹوں‬
‫اور آنکھوں کو بھینچ اور میرے سر‬
‫کے بالوں کو ذور سے پکڑ کر میرا سر‬
‫ہالتے ھوے بولی‬
‫یاسرررررررررر‬
‫جانور نہ بنو‬
‫میں انسان ھوں جانور نھی جو تم ایسے‬
‫کر رھے ھو‬
‫میں نے پھر لن پیچھے کو کھینچا اور‬
‫اس سے پہلے کہ تیسری دفعہ گھسا‬
‫مارتا‬
‫عظمی نے گانڈ ہال کر پھدی کو سائڈ پر‬
‫کرنے کی کوشش کی تو میرا ٹوپا بھی‬
‫باہر تھا تو میں نے بنا سوچے سمجھے‬
‫ویسے ھی گھسا ماردیا میرا لن عظمی‬
‫کی پھدی کے نیچے اور گانڈ کے‬
‫سوراخ سے اوپر ذور سے لگا‬
‫جس سے مجھے تو درد ھوئی ھی ساتھ‬
‫عظمی بھی تڑپ گئی‬
‫اور ٹانگوں کی مدد سے مجھے پیچھے‬
‫دھکیل کر‬
‫بولی‬
‫جاو میں نے نھی کروانا‬
‫تم سے انسان بن کر نھی کیا جاتا‬

‫تو میں نے عظمی کو پھر پچکار کر‬


‫ریلیکس کیا اور‬
‫آرام سے کرنے کا کہہ کر پھر اسکی‬
‫ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور لن کو‬
‫پھدی کے اوپر سیٹ کر کے آرام سے‬
‫اندر اتارا دیا اور‬
‫گھسے مارتے ھوے عظمی کو جپھی‬
‫ڈال لی‬
‫عظمی کے ممے میرے سینے کے ساتھ‬
‫چپکے ھوے تھے اور میں اسکی گالوں‬
‫کو چومتا اور ہونٹوں کو عطمی نے‬
‫اپنے دونوں ھاتھ میری کمر پر رکھے‬
‫ھوے تھے ۔‬

‫میں دس پندرہ منٹ عظمی کو ایسے ھی‬


‫چودتا رھا اور پھر میری سپیڈ تیز ھوئی‬
‫اور عظمی کی سیکسی آوازیں بھی‬
‫نکلنا شروع ھوگئے‬
‫اس سے پہلے کہ میرا لن عظمی کی‬
‫پھدی کو منی سے بھرتا میں نے ھاتھ‬
‫نیچے کیا آخری جاندار گھسہ مارا اور‬
‫لن کو باہر نکال کر پھدی کے اوپر ھی‬
‫ساری منی نکال دی‬
‫کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنے کپڑے پہنے‬
‫میں نے صرف شلوار اور بنیان ھی پہن‬
‫لی اور‬
‫عظمی نے گدا اٹھایا اور باھر نکل گئی‬
‫دوسرا گدا میں نے اٹھا کر چارپائی پر‬
‫بیچھا دیا اور لیٹ گیا‬
‫میں نے کچھ دیر عظمی کا انتظار کیا‬
‫کہ شاید گدا رکھ کر واپس آے مگر وہ‬
‫آئی کہ نھی آئی میں پتہ نھی کب سوگیا‬

‫صبح میری تب آنکھ کھلی جب نازی‬


‫مجھے جنجھوڑ کر اٹھا رھی تھی کہ‬
‫اٹھ جاو دکان پر نھی جانا‬
‫عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر بیٹھی‬
‫تمہارا انتظار کررھی ہیں اور تم‬
‫گھوڑے بیچ کر سوے ھوے ھو‬
‫اٹھو جلدی‬

‫میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور نازی کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے کہا کہ‬
‫کیا تکلیف ھے سونے بھی نھی دے‬
‫رھی ھو‬
‫تو نازی بولی‬

‫سونے کے بچے ٹائم دیکھ کیا ھوگیا‬


‫ھے‬

‫انکو بھی سکول سے لیٹ کرواے گا‬


‫میں نے منہ دیوار کی طرف کر کے‬
‫کالک پر جب ٹائم دیکھا تو جمپ مار‬
‫کر چارپائی سے اترا اور ناذی کو‬
‫گھورتے ھوے بوال‬
‫کہ جلدی نھی اٹھا سکتی تھی مجھے‬

‫تو ناذی بولی ایک گھنٹہ ہوگیا ھے‬


‫تم کو اٹھاتے ھوے‬
‫تم پتہ نھی کونسی نشے کی گولی کھا‬
‫کر سوے تھے کہ اٹھنے کا نام ھی نھی‬
‫لے رھے تھے‬

‫میں ناذی کو گھورتا ھوا منہ ھی منہ‬


‫میں اسے برا بھال کہتا باہر نکال تو‬
‫عظمی اور نسرین سکول یونیفارم پہنے‬
‫ھوے بیٹھی تھی‬
‫نسرین مجھے دیکھ کر بولی کھل گئی‬
‫جناب کی انکھ‬

‫میں نے اس کی بات سنی ان سنی کی‬


‫اور جلدی سے واش روم میں گھس گیا‬
‫اور ناذی کو کہا گھر سے میرے کپڑے‬
‫لے آو جلدی‬
‫میں نہانے لگا ہوں‬

‫نازی بولی جلدی نہاو میں ابھی لے کر‬


‫آتی ہوں‬
‫میں نے جلدی جلدی نہایا اور نازی کو‬
‫آواز دی کے مجھے کپڑے دے دے اس‬
‫نے واش روم کے بڑے سے روشن دان‬
‫میں کپڑے رکھ دیے میں نے کپڑے‬
‫پہنے تو عظمی بولی ناشتہ کیا کرنا ھے‬
‫تو میں نے کہا جلدی چلو پہلے ھی دیر‬
‫ھوگئی ھے ناشتہ میں دکان پر کر لوں‬
‫گا‬

‫ہم جلدی سے باہر نکلے اور میں نے‬


‫نازی کو کہا کہ گھر کے دروازوں کو‬
‫اچھی طرح بند کر کے گھر چلی جانا ۔‬

‫اور ہم تیز تیز قدم بھرتے صدف کے‬


‫گھر پہنچے تو اسکی امی نے بتایا کہ‬
‫وہ تو چلی گئی تم لوگوں کا انتظار‬
‫کرتے کرتے‬

‫میں دل میں صدف کو گالیاں دیتا ھوا ان‬


‫دونوں کو ساتھ لے کر شہر کی طرف‬
‫چل دیا‬
‫سکول والی گلی میں پہنچے تو گلی میں‬
‫کافی رش تھا لڑکے لڑکیاں سکول کے‬
‫لیے آ جارھے تھے‪،‬‬

‫ہم ابھی سکول سے تھوڑا پیچھے ھی‬


‫تھے کہ‬
‫ہمارے پیچھے کار کے بریک لگانے‬
‫اور ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز آئی‬
‫تو عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر‬
‫ایک طرف ھو گئیں اور میں نے بھی‬
‫بڑے غصے سے پیچھے مڑ کر دیکھا‬
‫تو‬
‫اسد کار کے شیشے سے سر نکال کر‬
‫میری طرف دیکھ کر ہنسے جارھا تھا‬
‫اسے دیکھ کر میرا غصہ بھی کم ہوگیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی اسد کار کا دروازہ کھول‬
‫کر باہر نکال اور وہ میری طرف اور‬
‫میں اسکی طرف بڑھا اور دونوں بغل‬
‫گیر ھوگئے‬
‫اسد مجھ سے گلے شکوے کری جارھا‬
‫تھا‬
‫عظمی اور نسرین بڑی حیرانگی سے‬
‫اسد کی طرف اور اسکی گاڑی کی‬
‫طرف دیکھی جارھی تھی ۔‬

‫میں نے انکو حیران پریشان کھڑے‬


‫دیکھ کر انکو مخاطب کیا کہ یہ میرا‬
‫کالس میٹ اور بیسٹ فرینڈ اسد ھے‬

‫اور اسد کو بتایا کہ یہ میری کزنیں ہیں‬


‫میں نے تعارف کرواتے وقت عظمی‬
‫کی طرف دیکھا‬
‫جو بڑے غور سے اسد کو دیکھی‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫اور اسد نے بھی شاید نوٹ کیا تھا جو‬
‫بار بار آنکھ چرا کر عظمی کو دیکھ‬
‫رھا تھا‬

‫مجھے عظمی پر بہت غصہ آرھا تھا‬


‫اور عجیب سی جیلسی ھو رھی تھی‬

‫جبکہ نسرین منہ دوسری طرف کر کے‬


‫کھڑی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر اسد سے بات کی اور‬
‫اسکو بتایا کہ ہمیں پہلے ھی دیر ھوگئی‬
‫ھے میں ان دونوں کو چھوڑ کر آتا ھوں‬
‫تم ادھر ھی رکو تو اسد بوال چلو میں‬
‫گاڑی میں چھوڑ آتا ھوں اور انکو اتار‬
‫کر ہم آگے چلے جائیں گے‬

‫میں نے کہا نھی یار وہ سامنے تو‬


‫سکول ھے‬

‫تو اسد بوال چل نہ یار ایسے تکلف میں‬


‫مت پڑو ۔‬
‫اور میرا بازو کھینچتے ھوے مجھے‬
‫فرنٹ سیٹ کی طرف کر دیا اور عظمی‬
‫کی طرف دیکھتے ھوے بولی آجائیں‬
‫میں آپکو ڈراپ کردیتا ھون‬

‫نسرین جلدی سے بولی نھی بھائی ہم‬


‫چلے جائیں گے شکریہ اور عظمی کا‬
‫بازو کھینچ کر بولی چلو‬
‫عظمی میری اور اسد کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے پاوں گھسیٹتی ھوئی‬
‫چلنے لگ گئی‬

‫تو میں نے اسد کو کہا یار تم بس ادھر‬


‫ھی رکو میں ابھی آیا اور یہ کہتے‬
‫انکے پیچھے بھاگ کر انکے ساتھ مل‬
‫گیا اسد پیچھے کھڑا دیکھی جارھا تھا‬

‫ہم سکول کے قریب پہنچے تو عظمی‬


‫نے گھوم کر ایک دفعہ پیچھے کی‬
‫طرف دیکھا اور جلدی سے سکول کے‬
‫گیٹ میں داخل ھوگئ اور میں اسے‬
‫گھورتا ھوا واپس اسد کے پاس آگیا‬
‫اور اسد نے فرنٹ گیٹ کھوال تو میں‬
‫کار کے اندر بیٹھ گیا۔‬
‫میں پہلی دفعہ کار میں بیٹھا تھا تو‬
‫میرے اندر سے عجیب فیلنگ پیدا‬
‫ھورھی تھی اور میں ایسے ھی سامنے‬
‫دیکھ دیکھ کر ہنسی کو دبا رھا تھا اور‬
‫ہر پیدل آتے جاتے کو غور سے دیکھتا‬
‫کہ وہ مجھے کار میں ببیٹھا دیکھ رھا‬
‫ھے‬
‫اور میں کار میں ایسے بیٹھا ھوا تھا‬
‫جیسے میں ھی کار کا مالک ھوں اور‬
‫اسد میرا ڈرائیور ھے‬
‫اور میں کوئی دنیا کی انوکھی چیز میں‬
‫بیٹھا ھوا ھوں‬

‫اسد نے مجھے کہا کدھر چلنا ھے‬


‫جگر‬

‫میں نے ایکدم چونکتے ھوے کہا کہ‬


‫میں نے کدھر جانا ھے یار‬

‫دکان کی طرف چلو اور مجھے ادھر‬


‫اتار دینا‬

‫اسد بوال چھوڑو یار دکان پر چلو کہیں‬


‫گھومنے چلتے ہیں‬
‫میں نے کہا تم نے سکول نھی جانا تو‬
‫اسد بوال‬

‫لن تے چڑ گیا سکول‬

‫سکول بھی چال جاوں گا‬


‫آج تو چھٹی کرنے کا پروگرام ھے‬
‫تم اگر نہ ملتے تو میں مہری کو کالج‬
‫چھوڑ کر سکول ھی جارھا تھا کہ‬
‫اچانک میری نظر تم پر پڑی‬

‫میں نے کہا نھی یار تم مجھے دکان پر‬


‫چھوڑ کر سکول چلے جاو پیپر بھی سر‬
‫پر ہیں‬

‫تو اسد ہنستے ھوے میری تھائی پر ہاتھ‬


‫مارتے ھوے بوال‬
‫یار پہلے کونسا میں سکول میں فرسٹ‬
‫آتا تھا جو ایک دن نہ جانے سے پیچھے‬
‫رہ جاوں گا‬
‫اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اسد نے‬
‫کار کو سپیڈ سے گھمایا جس سے‬
‫ٹائروں کی زبردست چرچراہٹ گونجی‬
‫اور اردگرد کے سب لوگ ہماری طرف‬
‫متوجہ ھوے‬
‫اسد نے جس برے طریقے سے کار کو‬
‫گھمایا تھا‬
‫تو ایک دفعہ ۔‬
‫میرے ٹٹے تاں چڑ گئے‬

‫میں بھی گھومتی کار کے ساتھ شیشے‬


‫کے ساتھ سر لگا کر ایک ٹانگ ہوا میں‬
‫کیے چکرا گیا اور پھر ایکدم خود کو‬
‫سنبھال کر سیدھا ھوگیا‬

‫اسد میری حالت دیکھ کر مسکرا دیا ۔۔۔‬

‫میں نے اسد کو پھر کہا یار ادھر کدھر‬


‫جارھے ھو تو اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫النگ ڈرائیو پر جانی‬
‫تو میں نے کہا وہ کس جگہ ھے تو اسد‬
‫نے حیران ھوتے ھوے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا‬

‫کون؟؟؟؟؟‬
‫تو میں نے مشکل سے نام لیتے ھوے‬
‫کہا لونگ ڈرائیو ‪،،‬‬

‫اسد میری بات سن کر کھل کھال کر‬


‫ہنسی جا رھا تھا اور میری طرف ھاتھ‬
‫کر کے کہتا کوئی حال نئی تیرا یار‬

‫میں نے کہا کیا مطلب ہنس کیوں رھے‬


‫ھو یار‬
‫اسد بوال تیری سادگی پر ہنسی آتی ھے‬

‫النگ ڈرائیو کسی جگہ کا نام نھی ھے‬

‫میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے بوال‬

‫تو‬

‫اسد بوال النگ ڈرائیو کا مطلب ھے کہ‬


‫ہم لمبے سفر پر جارھے ہیں‬

‫میں اسکی بات سن کر جھینپ گیا اور‬


‫بوال‬
‫یار لمبے سفر پر کیا ہم کراچی جارھے‬
‫ہیں‬

‫تو اسد بوال نھی یار‬


‫بس ایسے ھی سڑک پر آوارہ گردی‬
‫کریں گے اور جب کالج کی چھٹی کا‬
‫وقت ھوا تو مہری کو لے کر گھر ڈراپ‬
‫کر کے تمہارے گاوں چلیں گے‬

‫میں نے ہہ۔ممم کیا‬

‫اور شیشے میں سے بھاگتے ھوے‬


‫درختوں اور بھاگتی ھوئی سڑک کو‬
‫دیکھنے لگ گیا‬

‫اسد نے بوال‬
‫یار کون سا گانا سنے گا‬
‫میں نے کہا جونسا تجھے پسند ھے‬

‫تو اسد نے ٹیپ میں کیسٹ ڈالی اور‬


‫آواز اونچی کر کے گانا چال دیا‪،،،‬‬
‫اسد نے ٹیپ کا فل والیم کیا ہوا تھا‬
‫اور اس وقت کا مشہور گانا چل رھا‬
‫تھا‪ ،‬۔‬

‫تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم‬


‫پیار ہوتا ھے دیوانہ ھے صنم۔‬

‫اور اسد ٹیپ کی آواز سے بھی بلند آواز‬


‫کرنے کی کوشش میں جھوم جھوم کر‬
‫گا رھا تھا اور بار بار میرے پٹ پر‬
‫ھاتھ مار کر میری طرف مسکرا کر‬
‫بھی دیکھ لیتا۔‬

‫مجھے اسکے اس چھچھورے پن پر‬


‫غصہ آرھا تھا‬

‫میں نے ھاتھ آگے بڑھا کر ٹیپ کی آواز‬


‫کم کرتے ھوے کہا‬
‫یار کیا کان پھاڑ رھے ھو یا خود گا لو‬
‫یا پھر اسے گانے دو‬

‫اسد ہنسنے لگ گیا اور بوال جا یار اتنا‬


‫مزہ آرھا تھا سارے مزے دی پین نو‬
‫یے دتا ای‪ ،‬۔‬

‫کچھ دیر بعد ایک اور گانا شروع ھوگیا‬


‫اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے‬
‫کھلتا گالب۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اسد نے پھر آواز بلند کر دی اور پھر‬


‫جھوم جھوم کر اپنی بےسری آواز میں‬
‫گانے لگ گیا‬
‫میں نے پھر آواز کم کردی اور اسے‬
‫کہا‬
‫گانڈو تو مجھے گانے سنانے کے لیے‬
‫الیا ھے ۔مجھے ایسے ھی غصہ آئی جا‬
‫رھا تھا‬
‫اور گانے کے بول سن کر اور اسد کی‬
‫فیلنگ دیکھ کر‬
‫میرے دماغ میں‬
‫عظمی کا اسد کو بار بار دیکھنا اور پھر‬
‫سکول کے گیٹ میں داخل ہوتے وقت‬
‫پھر مڑ کر دیکھنا‬
‫یاد آرھا تھا‬
‫حاالنکہ مجھے عظمی سے کوئی پیار‬
‫ویار نھی تھا‬

‫بس سیکس کی حد تک ھی تعلق تھا اس‬


‫سے‬
‫مگر پھر بھی عظمی کا کسی اور کی‬
‫طرف دیکھنا مجھ سے برداشت نھی ھو‬
‫رھا تھا‬

‫اور یہ چیز مجھے اپسیٹ کیے ھوے‬


‫تھی ۔‬

‫اسد بوال یار ہم انجواے کرنےنکلے ہیں‬


‫کوئی فوتگی پر تو نھی جارھے ۔‬
‫میں نے غصے سے منہ دوسری طرف‬
‫کیا اور شیشے سے باھر دیکھنے لگ‬
‫گیا‬
‫اسد کار شہر سے نکال کر‬
‫ہمارے شہر سے کچھ فاصلے پر ایک‬
‫چھوٹا سا قصبہ ٹائپ عالقہ تھا چونڈہ‬
‫جو اب کافی اچھا شہر بن چکا ھے ۔۔‬

‫اسد نے کار اس عالقے کی طرف‬


‫لیجانے لگ گیا تھا۔‬

‫اسد نے جب میرا خراب موڈ دیکھا تو‬


‫ٹیپ بند کردی اور میرے بازو پر مکا‬
‫مارتے ھوے بوال‬
‫سالیا کوئی مرگیا اے جیڑا شکل وگاڑ‬
‫کے بیٹھا ایں ۔‬

‫میں نے بازو کو مسلتے ھوے کہا‬


‫گانڈو خود تو گانے سننے میں مست ھوا‬
‫ھے‬

‫تو اسد بوال چل اب بند کردی ھے ٹیپ‬


‫اب موڈ سہی کر‬
‫اور کچھ دیر بعد‪ .‬ایک ڈھابے نما ہوٹل‬
‫پر اسد نے بریک ماری اور میری‬
‫طرف دیکھ کر بوال چل آ کچھ کھاتے‬
‫ہیں ادھر سے‬
‫اور ہم دونوں کار سے اتر کر ڈھابے‬
‫کے باہر بچھی چارپائیوں پر جا بیٹھے‬
‫اور تبھی ایک چھوٹا سا لڑکا آیا اور ہم‬
‫سے پوچھنے لگ گیا کیا کھاو گے بھا‬
‫جی‬
‫اسد نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا‬
‫کھاو گے جگر‬
‫میں نے کہا کچھ نھی یار ابھی تو ناشتہ‬
‫کر کے آیا ہوں ۔‬
‫جبکہ میں نے صبح کا کچھ بھی نھی‬
‫کھایا تھا۔‬

‫اسد نے اسے لسی اور بن وغیرہ کا‬


‫کہا‪،‬۔[تو میں نے اسد کی طرف دیکھ کر‬
‫ہنستے ھوے کہا‬

‫ماما لسی پی کہ فیر تینوں ٹٹیاں لگ‬


‫جانیاں نے‪ ،‬۔‬

‫اسد جھینپ سا گیا اور بوال‬

‫گانڈو یہ وہ لسی نھی ھے‬


‫یہ دہی کی لسی ھے‪،‬‬

‫جو میں گھر پر بھی صبح پیتا ھوں ۔]‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬


‫دیکھنا یار یہ نہ ھو کہ سارے راستے‬
‫بریکیں مارتے رھو ۔‬

‫اسد ہنستے ھوے بوال۔‬

‫چل ہن اپنی بکواس بند وی کر لے‬

‫اتنی دیر میں لڑکا ایک جگ میں لسی‬


‫اور دو شیشے کے گالس لے آیا اور‬
‫ساتھ دو بن بھی ۔‬

‫ہم نے لسی وغیرہ پی‬


‫اور اسد اٹھا اور‬
‫کاونٹر پر پیسے دے کر واپس آیا اور‬
‫جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور‬
‫دو سگریٹ نکال کر ایک اپنے منہ میں‬
‫لی اور دوسری میری طرف بڑھاتے‬
‫ھوے بوال لے پی یار۔‬

‫میں نے اسے انکار کرتے ھوے کہا‬

‫نھی یار میں نے سگریٹ نھی پی کبھی‬


‫بھی ۔‬

‫اسد نے کافی اسرار کیا مگر میں نے‬


‫انکار کردیا۔‬

‫تو اسد نے کندھے اچکا کر کہا مرضی‬


‫تیری اور سگریٹ‬
‫واپس ڈبی میں ڈال کر پیکٹ پینٹ کی‬
‫جیب میں ڈال لیا۔‬

‫میں نے کہا ]‬
‫یار تمہاری مما کچھ نھی کہتی تمیں‬

‫تو اسد بوال میں کونسا انکے سامنے پیتا‬


‫ھوں۔‬

‫یہ تو بس ایسے ھی جب گھومنے نکلوں‬


‫تو پی لیتا ھوں ۔۔‬

‫میں اسکو سمجھانے لگ گیا کہ یہ‬


‫صحت کے لیے نقصان دہ ھے نہ پیا‬
‫کرو‪ ،،‬۔۔‬

‫تو اسد نے تاویلیں شروع کردیں۔‬

‫ایسے ھی کافی دیر ہم ادھر بیٹھے باتیں‬


‫کرتے رھے ۔‬

‫اسد نے کالئی پر بندھی گھڑی کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬

‫چل جگر مہری کو کالج‬


‫سے چھٹی ھونے والی ھے اسے گھر‬
‫چھوڑ کر پھر ۔‬
‫تمہارے گاوں چلتے ہیں‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور ہم‬
‫گاڑی میں بیٹھ کر واپس شہر کی طرف‬
‫چل دیے ۔‬
‫راستے میں بھی وہ طنز مزہ چلتا رھا‬
‫کوئی خاص بات نہ ہوئی ۔‬
‫ہم کالج کے گیٹ پر پہنچے تو‬
‫اسد نے گیٹ پر کھڑے چوکیدار کو‬
‫اشارا کیا‬
‫جو شاید اسد کا پہلے سے واقف تھا۔‬
‫چوکیدار اندر چال گیا اور کچھ دیر بعد‬
‫اس کے پیچھے‬
‫چوکیدار اندر چال گیا اور کچھ دیر بعد‬
‫اس کے پیچھے پیچھے مہری چلتی‬
‫ھوئی کار کے پاس آئی اور مجھے‬
‫دیکھ کر ۔‬
‫اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی ۔‬

‫اور حیران ھوتے ھوے پچھال دروازہ‬


‫کھول کرگاڑی میں بیٹھ گئی اور بیٹھتے‬
‫ھی ہاتھ میری طرف بڑھا کر سالم لیا‬
‫میں نے کن اکھیوں سے اسد کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے ۔‬
‫اس سے ہاتھ مال لیا۔‬
‫اسد اپنی مستی میں بیٹھا گیٹ سے‬
‫نکلتی باقی لڑکیوں کو تاڑ رھا تھا‪،‬‬
‫مہری نے میرا اور گھر والوں کا حال‬
‫احوال پوچھا ۔‬
‫اور اسد کو چلنے کا کہا۔‬
‫اسد نے کار آگے بڑھائی اورگھر کی‬
‫طرف چل دیا۔‬
‫گھر پہنچ کر اسد گاڑی سے اترا اور‬
‫مین گیٹ کھول کر گاڑی اندر کردی‪،‬‬
‫اور ہم اندر گیراج میں ھی گاڑی سے‬
‫اترے ۔مہری نے مجھے ٹی وی الونج‬
‫میں صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔‬
‫اور خود چ کرنے اپنے کمرے میں چلی‬
‫گئی اور اسد بھی چینج کرنے اوپر اپنے‬
‫کمرے میں چال گیا ۔‬
‫اور میں اکیال بیٹھا ٹی وی الونج کا‬
‫جائزہ لینے لگ گیا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری کپڑے بدل کر آگئی‬
‫اور آکر میرے سامنے والے صوفے پر‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫اور دونوں ھاتھ گردن پر لیجا کر بالوں‬
‫میں انگلیاں پھیر کر اپنے سنہری سلکی‬
‫بالوں کو اپنے کندھوں پر پھیالنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫ھاتھ پیچھے کرنے کی وجہ سے مہری‬
‫کے ممے آگے کی طرف آے جس کی‬
‫وجہ سے اس کے ابھار مزید ابھر گئے۔‬
‫اور میں غور سے اس کے مموں کو‬
‫تاڑ رھا تھا۔‬
‫مہری نے مجھے اپنے مموں کو تاڑتے‬
‫ھوے دیکھا تو میری آنکھوں کے آگے‬
‫ھاتھ ہال کر اشارے سے بولی کیا دیکھ‬
‫رھے ھو۔‬
‫میں ایکدم جھینپ گیا اور سر نیچے کر‬
‫کے اپنے پیروں کو دیکھنے لگ گیا۔‬
‫مہری نے مجھ سے چاے کا پوچھا تو‬
‫میں نے انکار کردیا ۔‬
‫اور اس سے کوئی خاص بات نہ ہوئی‬
‫کہ اسد تیز تیز سیڑیاں پھالنگتا ہوا ]‬
‫نیچے آگیا ۔‬
‫مہری اٹھ کر کچن میں چلی گئی ۔اور‬
‫میں نے جب اسد کی طرف دیکھا تو‬
‫میں اسکو دیکھ کر دیکھتا ھی رھ گیا‬
‫‪/‬سکاے کلر کی جینز کی پینٹ اوپر‬
‫بلیک رنگی کی ہاف بازو ٹی شرٹ‬
‫بلیک سن گالسس پہنے کسی ہیرو سے‬
‫کم نھی لگ رھا تھا۔‬
‫اسد نے مجھے اپنی طرف یوں غور‬
‫سے دیکھتے ھوے کہا کیا دیکھ رھے‬
‫ھو نظر لگاو گے۔‬
‫میں نے کہا کہیں شادی پر جارھے ھو‬
‫کیا اتنا بن ٹھن کر۔‬
‫اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا‬
‫شادی پر ایسے کپڑے پہن کر تھوڑی‬
‫جایا جاتا ھے ۔‬
‫یہ تو میرا ریگولر ڈریس ھے۔۔‬
‫میں حسرت بھری نگاہ ڈال کر ہمممم کر‬
‫کے خاموش ھوگیا۔‬
‫اسد نے مہری کو آواز دی کہ چاے‬
‫بنادے۔میں نے اٹھتے ھوے کہا نھی یار‬
‫میرا دل نھی کررھا چاے پینے کو۔‬
‫تو اسد نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬

‫چل تم نے نھی پینی تو میں نے تو پینی‬


‫ھے نہ اور تمہیں میرے ساتھ پینی پڑے‬
‫گی ۔‬

‫اور یہ کہتا ھوا وہ میرے سامنے‬


‫صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ‬
‫گیا۔‬

‫اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ‬


‫گیا۔کچھ دیر بعد مہری چاے لے آئی اور‬
‫ہم تینوں چاے پیتے ھوے‬
‫ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے ۔‬
‫میں نے اسد کی ایک بات نوٹ کی کہ‬
‫اسد تھوڑی تھوڑی دیر بعد کالئی کو‬
‫اوپر کر کے گھڑی پر ٹائم دیکھتا‬
‫وہ کافی بے چین نظر آرھا تھا جیسے‬
‫اسے کسی کے آنے کا انتظار ھو اور‬
‫وقت گزر نہ رھا ھو۔چاے پیتے ھی اسد‬
‫کھڑا ھوا اور مجھے بوال چل جگر‬
‫چلتے ہیں۔‬

‫مہری بولی کدھر جارھے ہو۔اس سے‬


‫پہلے کہ اسد بولتا میں نے کہدیا کی‬
‫گاوں جارھے ہیں ۔تو اسد نے مجھے‬
‫گھور کر دیکھا اور آنکھ دبا کر اشارہ‬
‫کیا کہ اسے نھی بتانا تھا‬
‫وہ دیکھو لگتا ہے تمہاری کزنیں‬
‫جارھی ہیں‬
‫میں چونک کر دیکھا تو واقعی‬
‫عظمی اور نسرین سائڈ پر چلی جا رھی‬
‫تھیں ۔‬

‫میں نے کہا ہے تو وہ ھی۔‬


‫اسد بوال گاڑی روکوں انکو بھی ساتھ‬
‫ھی لے چلتے ہیں بیچاری کیسے اتنی‬
‫دھوپ میں اکیلی جائیں گی‬

‫میرا شک یقین میں بدل گیا کہ اسد‬


‫عظمی کے چکر میں ھی اتنا تیار شیار‬
‫ھو کر آیا ھے اور یہ اسکی ھی وجہ‬
‫سے سکول والی گلی میں آیا تھا‬
‫ورنہ دوسرے راستے سے بھی جاسکتا‬
‫تھا۔‬

‫میں نے کچھ سوچتے ھوے کہا‬


‫نھی یار یہ روز ھی اکیلی جاتی ہیں‬
‫خود ھی چلی جائیں گی۔‬

‫اسد بوال نھی یار تمہاری کزنیں ھیں‬


‫تمہارا بھی اخالقی حق بنتا ھے کہ انکو‬
‫ساتھ لے کر چلو اگر ہم نہ آتے اس‬
‫طرف تو اور بات تھی ۔‬

‫اتنے میں مہری بولی‬


‫یاسر‬
‫اسد سہی کہہ رھا ھے ویسے بھی تو ہم‬
‫گاوں ھی جارھے ہیں‬

‫اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا۔‬


‫مہری نے اسد کو کہا‬
‫اسد ان کے پاس پہنچ کر گاڑی روکو‬

‫یاسر نے تو ایسے ھی کہتے رہنا ھے ۔‬

‫اور اتنی دیر میں‪ .‬کار انکے قریب پہنچ‬


‫چکی تھی تو اسد نے ہارن بجایا اور‬
‫بریک لگا دی ۔‬

‫عظمی اور نسرین نے کار کے ہارن‬


‫کی وجہ سے کار کی طرف متوجہ ھو‬
‫کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ پر مجھے‬
‫بیٹھے دیکھ کر حیران ھو کر دیکھنے‬
‫لگ گئی‬
‫میں نے شیشہ نیچے کیا اور انکو آواز‬
‫دی کہ گاڑی میں بیٹھو‬

‫تو عظمی جلدی سے کار کے قریب‬


‫آگئی‬

‫بیچاریوں نے کبھی خواب میں بھی نھی‬


‫سوچا ھوگا کہ کار میں بیٹھیں گی ۔‬

‫عظمی قریب آکر کار کے اندر جھانک‬


‫کر مہری کو دیکھتے ھوے بولی‬

‫یاسر تم دکان پر نھی گئے تو میں نے‬


‫مہری کا اور اسد کا تعارف کرواتے‬
‫ھوے بتایا کہ انہوں نے گاوں جانا تھا‬
‫اس لیے دکان سے چھٹی کی‬

‫اتنے میں مہری نے پیچھے واال دروازہ‬


‫کھول کر انکو اندر بیٹھنے کا کہا‬

‫عظمی تو جلدی سے بیٹھ گئی اور‬


‫نسرین تھوڑا جھجھک رھی تھی‬
‫اور اس نے ایک دو دفعہ انکار بھی کیا‬
‫کہ ہم چلی جائیں گی‬

‫مگر میرے کہنے پر وہ بھی منہ‬


‫بسورتے ھوے کار میں بیٹھ گئی۔‬
‫اور اسد نے کار آگے بڑھا دی اور سلو‬
‫سلو ھی چالتے ھوے‬
‫بہانے بہانے سے مہری سے بات‬
‫کرتے ھوے پیچھے کی طرف دیکھتا‪،‬‬

‫مجھے اسد کی حرکت پر بہت غصہ‬


‫آئی جا رھا تھا‬

‫میرا بس نھی چل رھا تھا کہ اسے‬


‫کھری کھری سنا کر کار سے نیچے اتر‬
‫جاوں‬

‫مگر مہری کی وجہ سے ُچپ کر کے‬


‫برداشت کرتی رھا۔‬

‫کچھ دیر بعد ہمارے گاوں کی سڑک‬


‫آگئی اسد نے کار گاوں کی طرف موڑ‬
‫دی اور گاوں کے اندر داخل ہوتے‬
‫ھوے‬

‫چھوٹے بڑے سب کار کو اور مجھے‬


‫دیکھ کر حیران ھو رھے تھے‬

‫اور میں اسی میں فخر محسوس کر رھا‬


‫تھا جب گلی میں داخل ھوے تو میں نے‬
‫عظمی کے گھر کے قریب اسد کو‬
‫رکنے کا کہا‬
‫کہ انکو ادھر اتار دو ۔‬

‫تو اسد نے بریک لگا دی‬

‫اور وہ دونوں اتر گئی‬


‫تو عظمی نے انکو اندر آنے کا اسرار‬
‫کیا‬

‫تو میں نے عظمی کو گھورتے ھوے‬


‫کہا‬
‫کہ تیری امی گھر پر نھی ھے‬
‫اس لیے مناسب نھی تم جاو‬
‫جب تمہاری امی ھوگی تو میں ان‬
‫لوگوں کو ضرور لے کر آوں گا ۔‬
‫عظمی برا سا منہ بنا کر گھر چلی گئی‬

‫تو اسد بوال یار تم نے بیچاری کا دل‬


‫توڑ دیا‬
‫کتنے خلوص سے کہہ رھی تھی‬

‫کچھ دیر کے لیے چلے جاتے تو کیا تھا‬


‫۔‬

‫میں نے کہا نھی یار اسکی امی گھر‬


‫نھی ھے یہ مناسب نھی ھوگا ۔‬
‫تو اسد نے کندھے اچکا کر کار آگے‬
‫بڑھا دی اور میرے گھر کے پاس جا‬
‫کر بریک لگائی‬

‫اور میں آگے سے اتر کر گھر میں‬


‫داخل ہوا‪،‬‬

‫صحن میں کوئی بھی نھی تھا آپی اور‬


‫امی کمرے میں تھیں اور بھائی دکان پر‬
‫گیا ہوا تھا اور میں نے جلدی سے‬
‫بیٹھک کا دروازہ کھوال اور اسد کو اندر‬
‫آنے کا کہا مہری اور اسد بیٹھک میں‬
‫آگئے اور مہری اندر دوسرے کمرے‬
‫کی طرف چلی گئی‬
‫میں نے اسد کو اندر لیجانا مناسب نھی‬
‫سمجھا‬
‫کیونکہ پہلے جب اسد اندر آیا تھا تو‬
‫امی نے بعد میں مجھے سمجھایا تھا کہ‬
‫گھر میں جوان بہن ھے تو آئیندہ کسی‬
‫دوست کو ایسے منہ اٹھا کر اندر نھی‬
‫لے کر آنا‪ ،،‬۔۔‬
‫خیر میں اسد کو بیٹھنے کا کہہ کر‬
‫اندر کمرے میں گیا تو مہری امی اور‬
‫نازی سے مل کر ہنس ہنس کر باتیں‬
‫کرنے میں مصروف تھی‬

‫امی نے مجھے کولڈ ڈرنک النے کا‬


‫کہا‬
‫تو میں باہر دکان سے دو بوتلیں لے ایا‬
‫اور ایک بوتل مہری کو دے کر‬
‫دوسری بوتل لے کر بیٹھک میں آگیا‬
‫اور اسد کو دے دی ۔‬

‫اسد بوتل پینے میں مصروف ھوگیا‬

‫میں نے دو تین چکر اندر کے لگاے‬


‫اور مہری کو باتوں میں مصروف دیکھ‬
‫کر پھر بیٹھک میں آجاتا‬
‫اور اسد کے ساتھ باتیں کرنے لگ جاتا‬

‫اسد نے عظمی اور اسکی فیملی کے‬


‫بارے میں پوچھا اور انکی امی کی‬
‫غیرموجودگی کی وجہ پوچھی تو میں‬
‫نے بتایا کہ ان کے ماموں فوت ھوگئے‬
‫ہیں تو آنٹی نے کل ھی آنا ھے‬

‫کچھ دیر میں اسد کے ساتھ گپ شپ‬


‫کرتا رھا‬
‫کہ مہری بیٹھک میں داخل ہوئی اور‬
‫کہنے لگی یاسر چلو نہر پر چلتے ہیں ۔‬

‫میں نے کہا چلو۔‬

‫تو ہم تینوں گلی میں نکل آے اور پیدل‬


‫ھی نہر کی طرف چلنے‪ .‬لگے جب ہم‬
‫عظمی کے گھر کے سامنے سے‬
‫گزرنے لگے تو‬
‫عظمی دروازے میں کھڑی‬
‫باہر ھی دیکھ رھی تھی‬

‫میں نے عظمی کو گھورا اور غصے‬


‫کے انداز میں بوال‬

‫تم دروازے میں کھڑی کیا کررھی ھو ۔‬


‫تو عظمی بولی تمہیں کیا تکلیف ھے‬
‫خود تو آوارہ گردی کرنے جارھے ھو‬

‫عظمی کے اس جواب سے میں جھینپ‬


‫سا گیا‬
‫اور مہری کے سامنے مجھے اپنی‬
‫بےعزتی سی محسوس ھوئی ۔‬

‫تو میں نے غصہ سے کہا بکواس مت‬


‫کر آ لینے دو آنٹی کو ۔‬
‫تمہاری زبان بس میں کرواتا ھوں‬
‫تو عظمی غصے سے بولی جا جو‬
‫کروانا ای کروا لویں میں نئی ڈر دی‬
‫کسے توں ۔‬

‫اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا‬

‫مہری بیچ میں ٹپک پڑی اور مجھے‬


‫ڈانٹتے ھوے بولی‬
‫یاسر کیا بتمیزی ھے کس طرح کا لہجہ‬
‫اپنا رھے ھو بات کرتے ھوے‬

‫پھر کیا ھوا اگر وہ دروازے میں کھڑی‬


‫ھے‬

‫تو میں نے دیکھا عظمی کی آنکھوں‬


‫میں آنسو تھے جو وہ دوپٹے سے صاف‬
‫کررھی تھی‬
‫شاید اسکو بھی میرے اس لہجے سے‬
‫اسد اور مہری کے سامنے بےعزتی کا‬
‫احساس ھوا تھا۔‬
‫عظمی روتی ھوئی اندر چلی گئی‬

‫تو میں آگے بڑھنے لگا تو مہری بولی‬


‫ٹھہرو یاسر‬
‫پہلے اپنی کزن سے سوری کرو‬
‫وہ بیچاری‬
‫کیسے روتی ھوئی اندر گئی ھے‬

‫میں نے کہا چھوڑو یار چلو یہ اس کا‬


‫روز کا کام ھے‬

‫تو اسد بوال نھی یار تم نے اس بےچاری‬


‫کے ساتھ ذیادتی کی ہے‬

‫مہری نے میرا بازو پکڑا اور مجھے‬


‫کھینچتی ھوئی‬
‫اندر لے گئی‬

‫عظمی کمرے میں تھی‬


‫مہری مجھے لیے ھوے سیدھا کمرے‬
‫میں لے گئی‬

‫اسد بھی ہمارے پیچھے ھی کمرے میں‬


‫آگیا‬

‫عظمی چارپائی پر گھٹنوں میں سر دے‬


‫کر روئی جارھی تھی‬

‫مہری مجھے چھوڑ کر اس کے پاس جا‬


‫بیٹھی اور مجھے گھورتے ھوے‬
‫اسکو چپ کروانے لگ گئی‬
‫اور مجھے کہنے لگی چلو سوری کرو‬
‫اتنی پیاری گڑیا جیسی تمہاری بہن ھے‬

‫اور تم نے اسے روال دیا‬

‫مہری نے جب لفظ بہن کہا تو‬


‫عظمی نے ایکدم سر اٹھا کر مجھے‬
‫دیکھا‬
‫اور میں بھی شرمندہ سا کھڑا اسے‬
‫دیکھ رھا تھا‬
‫مہری پھر بولی‬
‫چلو سوری کرو سنا نھی تمہیں‬

‫میں تھوڑا سا آگے بڑھا اور عظمی کو‬


‫کہا سوری یار‬
‫بس ایسے ھی غصہ آگیا تھا‬

‫تو عظمی کچھ نارمل ھوئی تو‬


‫مہری بولی چلو تم بھی ہمارے ساتھ ھی‬
‫نہر پر چلتے ہیں‬
‫تو میں نے کہا نھی مہری گھر میں‬
‫کوئی نھی ھے اسکو گھر ھی رہنے دو‬

‫تو مہری ضد کرتے ھوے بولی کچھ‬


‫نھی ھوتا ابھی تو ہم نے آجانا ھے‬

‫چلو عظمی بڑا مزہ آے گا‬

‫عظمی میری طرف دیکھنے لگ گئی‬


‫جیسے مجھ سے اجازت مانگ رھی ھو‬

‫تو میں نے کہا مرضی ھے اسکی‪ .‬آنا‬


‫ھے تو آجاو‬

‫عظمی اوپر اوپر سے انکار کر رھی‬


‫تھی‬

‫تو مہری نے عظمی کا بازوں کھینچ کر‬


‫چارپائی سے اسے اٹھاتے ھوے کہا‬
‫کم ان یار‬
‫عظمی اٹھنے ھی لگی تھی کہ ۔‬

‫نسرین اندر داخل ہوئی اور مہری سے‬


‫سالم دعا کرنے کے بعد بولی‬
‫یاسر میں تمہارے گھر جارھی ہوں‬
‫نازی کو لینے‬
‫تو میں نے کہا ٹھیک ھے چلی جاو‬
‫اور ایسا کرنا تم ادھر ھی رہنا جب میں‬
‫واپس آوں گا تو تم لوگوں کو لے آوں‬
‫گا‬

‫تو نسرین بولی عظمی گھر میں اکیلی‬


‫رھے گی‬
‫تو میں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ‬
‫جارھی ھے‬

‫تو نسرین‪ .‬بولی ادھر ماموں جان فوت‬


‫ھوے ہیں ادھر محترمہ کو سیر سپاٹے‬
‫کی پڑی ھے ۔۔۔‬

‫تو مہری ہنستے ھوے بولی‬


‫ریلیکس بےبی‬
‫کچھ نھی ھوتا تم بھی چلو ہمارے ساتھ‬
‫تو نسرین بولی توبہ توبہ‬
‫اسکو ھی لے جاو اسکو ھی شوق ھے‬
‫پھرنے کا‬
‫تو عظمی بولی‬
‫پونک نہ ُکتی‬

‫تو میں نے نسرین کو بازو سے پکڑا‬


‫اور باہر لے آیا اور اسے سمجھا بجھا‬
‫کر اپنے گھر بھیج دیا‬

‫اور ہم چارو گھر سے نکل کر نہر کی‬


‫طرف چل دیے‬

‫جب ہم گلی کی نکڑ پر پہنچے تو‬


‫مہری بولی ادھر ٹرین کی پٹری کی‬
‫طرف سے چلتے ہیں‬
‫فصلوں کے بیچ سے مجھے ڈر لگتا‬
‫ھے‬

‫تو میں نے کہا جیسے تمہاری مرضی‬

‫مجھے اس دفعہ کچھ زیادہ خوشی نھی‬


‫ھورھی تھی‬

‫کہ مہری میرے ساتھ جارھی ھے‬


‫پتہ نھی کیوں اسد اور عظمی کو لے کر‬
‫میرا دماغ اپسیٹ ھوچکا تھا‬

‫خیر ہم ایک ساتھ سڑک پر چل رھے‬


‫تھے میرے دائیں طرف عظمی تھی اور‬
‫بائیں طرف مہری اور مہری کے ساتھ‬
‫اسد تھا‬

‫ہم چلتے ھوے پٹری پر پہنچ گئے‬


‫تو مہری بازو پھیال کر گھومنے لگ‬
‫گئی جیسے بڑی جنت میں آگئی ھو اور‬
‫پھر شوخی سے پتھر اٹھا اٹھا کر باغ‬
‫کی طرف پھینکنے لگ گئی‬

‫ٹرین کی پٹری کی دوسری باغ تھا جو‬


‫کہ نہر تک جاتا تھا‬
‫اور دوسری سمت مکئی تھی‬
‫ہم ایسے ھی چلتے ھوے نہر کی طرف‬
‫جارھے تھے‬
‫مہری اور عظمی کافی فرینک ھوگئی‬
‫تھی‬

‫عظمی کا اور اسد کا بار بار ایک‬


‫دوسرے کو دیکھنا‬
‫مجھے مذید پریشان کررھا تھا‬

‫وقفے وقفے سے دونوں ہنسی مزاق‬


‫بھی کرلیتے تھے‬

‫جبکہ میں ایسے جارھا تھا جیسے کسی‬


‫جنازے کے ساتھ جا رھا ھوں‬

‫کچھ آگے چل کر مہری نے مکئی کی‬


‫طرف اشارہ کرتے ھوے کہا کہ میں‬
‫نے سٹے توڑنے ہیں‬

‫میں نے کہا چلو توڑ لو‬

‫اور مہری پٹری سے نیچے دوڑتی‬


‫ھوئی مکئی کے کھیت کہ طرف چلی‬
‫گئی مین بھی اسکے پیچھے ھی دوڑتا‬
‫ھوا نیچے اتر آیا جبکہ عظمی اور اسد‬
‫ابھی تک اوپر ھی کھڑے تھے ۔‬
‫میں پٹری سے نیچے اتر کر انکی‬
‫طرف منہ کر کے بوال تم لوگ بھی‬
‫آجاو کہ ادھر ھی کھڑے رہنا ھے‬

‫تو اسد بوال نہ یار مجھے نھی شوق میں‬


‫نے اپنے کپڑے گندے نھی کرنے‬
‫اس پاگل کو لے جاو اور سٹے توڑ کے‬
‫لے آو ۔۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے اسد پٹری کے اوپر‬


‫ھی پینٹ اونچی کر کے بیٹھ گیا‬
‫عظمی ابھی تک کھڑی میری طرف‬
‫دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے طنزیہ انداز میں اسے گھورتے‬
‫ھوے کہا‬

‫جناب نیچے تشریف لے آئیں گی کہ‬


‫تمہارے کپڑے بھی گندے ھونے ھیں‬

‫تو عظمی بولی میں نے نھی آنا جاو‬


‫سڑیل انسان‬

‫تو میں اسے گھورتا ھوا مہری کے‬


‫پیچھے چال گیا جو کھالے کے پاس‬
‫کھڑی سوچ رھی تھی کے دوسری‬
‫طرف کیسے جایا جاے ۔‬
‫میں نے مہری کے قریب پہنچ کر اسے‬
‫کہا اب مارو چھالنگ دوسری طرف تو‬
‫مہری بولی نہ بابا نہ‬
‫مجھے ڈر لگتا ھے‬

‫اسد اور عظمی پٹری پر مہری کی‬


‫طرف دیکھ کر ہنس رھے تھے‬
‫جبکہ عظمی کی ہنسی مجھے زہر لگ‬
‫رھی تھی ۔‬

‫میں نے چھالنگ لگائی اور کھالے کی‬


‫دوسری طرف چال گیا‬
‫اور مہری کو کہا تم بھی ایسے ھی‬
‫چھالنگ لگا کر آجاو‬
‫مہری پھر بھی ڈر رھی تھی‬

‫اور نفی میں سر ہالئی جارھی تھی‬

‫میں نے کہا اچھا ایسے کرو میں سٹے‬


‫توڑ کر پھینک دیتا ھون‬
‫تو مہری بولی نھی میں نے اپنے ہاتھ‬
‫سے توڑنے ہیں۔‬

‫کچھ دیر سوچتے ھوے میں نے کہا ایسا‬


‫کرو‬
‫کہ تم تھوڑا آگے چلو اور آگے جاکر‬
‫ایک پُلی آے گی اسکے اوپر سے اس‬
‫طرف آجانا‬

‫تو مہری ہمممم کرکے آگے چل پڑی‬


‫اور میں نے عظمی اور اسد کی طرف‬
‫دیکھا جو ابھی تک مہری کا مزاق اڑا‬
‫کر ہنس رھے تھے‬
‫اور عظمی ابھی تک کھڑی ھی تھی ۔‬

‫میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کر ان‬


‫دونوں کو انکے حال پر چھوڑا اور‬
‫مہری کے پیچھے چل پڑا جو کافی‬
‫آگے جا چکی تھی ۔‬

‫آگے جاکر پلی آگئی تو مہری اسکے‬


‫اوپر سے گزر کر مکئی کی طرف‬
‫آگئی‬
‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی‬
‫ابھی بھی ہماری طرف ھی دیکھ رھی‬
‫تھی اور اسد اسے کچھ کہہ رھا تھا‬

‫ہمارا اور ان دونوں کا فاصلہ کافی ذیادہ‬


‫ھوچکا تھا‬

‫مہری نے میرا ہاتھ پکڑا اور پگڈنڈی پر‬


‫چلتے ھوے مکئی کے اندر چل پڑی‬

‫دوستو یہ راستہ بھی اس طرف ھی جاتا‬


‫تھا‬
‫جدھر میں نے پھدیاں مارنے کی‬
‫شروعات کی تھی‬

‫ہم دونوں مکئ کے اندر داخل ھوگئے‬


‫تھے‬

‫اب نہ تو میں عظمی کو دیکھ سکتا تھا‬


‫اور نہ ھی وہ لوگ ہم کو دیکھ سکتے‬
‫تھے‬
‫کچھ آگے آکر مہری بولی اس دن تم‬
‫بھاگ کیوں گئے تھے‬

‫میں نے کہا ویسے ھی بس‬


‫تو مہری بولی مجھے پتہ ھے کہ تم‬
‫کیوں بھاگے تھے‬

‫میں نے کہا‬
‫بتاو کیوں بھاگا تھا‬

‫تو مہری بولی مجھ سے پیار کرتے ھو‬


‫نہ اسکا ثبوت دینے کے لیے بھاگے‬
‫تھے‬

‫ورنہ تم چاھتے تو میرے ساتھ سیکس‬


‫بھی کرسکتے تھے‬
‫میں نے کہا‬
‫مہری اگر میں کچھ کردیتا تو ۔۔۔۔‬

‫مہری بولی پہلی بات تو یہ تھی کہ اگر‬


‫تم میرے ساتھ کچھ کرنے لگتے تو مین‬
‫نے کرنے ھی نھی دینا تھا‬
‫کیونکہ میں تو تمہیں آزما رھی تھی‬

‫اور اگر تم ذبردستی کر بھی لیتے تو‬


‫وہ مالقات ہماری آخری ھونی تھی ۔۔‬

‫اس کے بعد میں نے تمہاری شکل نھی‬


‫دیکھنی تھی‬
‫میں نے رک کر مہری کے کندھوں کو‬
‫پکڑ کر ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس‬
‫کرتے ھوے کہا۔‬

‫مہری تمہیں اندازہ بھی نھی ھے کہ میں‬


‫تمہیں کتنا چاھتا ھوں‬

‫‪I �� u‬‬
‫مہری‬

‫مہری کا جسم ایک دم کانپنے لگ گیا‬


‫ہونٹ میری گرم سانسوں کی وجہ سے‬
‫تھرتھرانے لگ گئے اور اسکے ساتھ‬
‫ھی مہری نے‬

‫اپنے تھرتھراتے ہونٹ میرے ہونٹوں پر‬


‫رکھ دیے اور‬
‫بازوں کے احصار میں مجھے لے کر‬
‫کس لیا‬

‫میں بھی عظمی اور اسد کو بھول کر‬


‫مہری کے سحر میں جکڑ کر مہری‬
‫کے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا‪ ،،،‬۔۔۔‬

‫اسد۔۔ بس کریں وہ چلے گئے ہیں‬


‫عظمی۔۔۔ ججی‬

‫۔اسد۔آپ کون سی کالس میں پڑھتی ہیں‬


‫۔‬

‫عظمی۔۔۔‬
‫جججی ایٹ کالس میں‬

‫اسد ۔۔ واوووو ُگڈ‬

‫اسد۔۔۔۔ بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک‬


‫جائیں گی انکو پتہ نھی کتنی دیر لگنی‬
‫ھے ۔‬
‫عظمی ۔۔۔۔‬
‫جججی نھی ٹھیک ھوں میں۔‬

‫اسد۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑتے ھوے۔‬


‫بیٹھ جائیں پلیز میرے پاس یا میں اس‬
‫قابل نھی ھوں۔‬

‫عظمی یکلخت گبھراتے ھوے۔‬

‫پپلیز میرا ھاتھ چھوڑ دیں یاسر نے‬


‫دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا۔۔‬

‫اسد عظمی کا ہاتھ کھینچ کر اسے پاس‬


‫بیھٹانے کی کوشش کرتے ھوے۔‬
‫کچھ نھی ہوتا پلیزز کول ڈاون‬
‫یاسر نھی آتا ابھی ۔‬

‫عظمی نخرے سے اسد کے ساتھ‬


‫بیٹھتے ھوے‪،‬‬

‫اچھا بیٹھتی ھوں مممگر میرا ھاتھ تو‬


‫چھوڑ دیں ۔‬

‫اسد۔۔۔ آپکا ہاتھ اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔‬

‫عظمی ۔۔۔پلیزززز اسد ھاتھ چھوڑ دو‬


‫اگر یاسر نے دیکھ لیا تو آپکو نھی پتہ‬
‫کہ کونسی قیامت آجانی ھے ۔۔‬
‫اسد۔۔۔‬
‫ہاتھ کو چوم کر چھوڑتے ھوے‬
‫آپ کے ہاتھ بہت پیارے ہیں چومنے کی‬
‫گستاخی معاف۔۔‬

‫عظمی ۔۔ڈر کر یاسر کی سمت دیکھتے‬


‫ھوے۔۔‬

‫ہاےےےے*****یہ کیا‬
‫کیا آپ نے ۔۔۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬
‫گستاخی کی معافی مانگ چکا ھوں‬
‫دوبارا مانگ لوں۔۔۔‬

‫عظمی ہاتھ چھپاتے ھوے خود سمیٹتے‬


‫ھوے۔۔‬
‫نھی نھی رہنے دیں رہنے دیں ۔‬
‫اسد۔۔مسکراتے ھوے‬
‫ایک تو آپ ڈرتی بہت ھو‬
‫یاسر ھے جن تو نھی ۔۔‬

‫عظمی ۔۔گبھراے ھوے ہاتھ کی انگلیوں‬


‫کو چٹختے ھوے ۔۔‬

‫نھی ایسی تو کوئی بات نھی بس ویسے‬


‫ھی ڈر لگتا ھے کہ وہ ہمارے بارے‬
‫میں کیا سوچے گا۔۔‬

‫اسد۔۔‬
‫محفوظ ھوتے ھوے مسکرا کر۔۔‬
‫اچھا یہ بتائیں کہ میں آپکو کیسا لگتا‬
‫ھوں اچھا کہ برا۔۔‬

‫عظمی ۔۔۔ججی آپ اچھے ھو۔‬


‫اسد ۔۔‬
‫بس اچھا ھی ہوں۔‬

‫عظمی پلیز آپ اس طرح کی باتیں نہ‬


‫کریں‬
‫میں ایسی ویسی لڑکی نھی ہوں جیسی‬
‫آپ مجھے سمجھ رھے ھو۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬

‫آپ کیسی لڑکی ھو بتاءیں نہ۔‬

‫عظمی‬
‫چپپپپ‬

‫اسد‬
‫چلیں ہم باغ سے اتنی دیر امرود توڑ کر‬
‫التے ہیں‬
‫عظمی۔۔ ننننننھی‬
‫آپ جائیں میں ادھر ھی ٹھیک ھوں۔‬

‫اسد ۔۔کم ان یار‬


‫میں تمہیں کھا تو نھی جاوں گا۔۔‬
‫عظمی ۔۔۔‬
‫نھی میں نے کہا نہ کہ آپ جائیں ۔۔‬

‫اسد بات کاٹتے ھوے ۔۔‬


‫کیا آپ مہمانوں کے ساتھ اسطرح کا‬
‫سلوک کرتی ہین۔‬
‫وہ یاسر کو دیکھو ایک دفعہ مہری نے‬
‫کہا اور وہ اڑتا ھوا اسکے پیچھے چال‬
‫گیا یہ ھوتی ھے مہمان نوازی ۔۔‬

‫اور آپ ھیں کے نخرے کر رھی ھو‪،‬‬

‫عظمی شرمندا سی ھوکر۔۔۔‬

‫جی چلیں ہم بھی کسی سے کم نھی ہیں‬


‫۔۔‬

‫اسد ۔۔عظمی کا ہاتھ پکڑے اٹھاتے‬


‫ھوے‬
‫باغ کی طرف جاتے ھوے‬
‫چلیں پھر اٹھیں‬

‫میں نے مہری کو خود سے علیحدہ کیا‬


‫اور‬
‫اسے لے کر اپنی پرانی جگہ پر جا‬
‫پہنچا‬

‫اور ٹاہلی کے پیچھے‬


‫لے جاکر پھر سے مہری کو جپھی ڈال‬
‫لی مہری‬
‫بولی یاسر اس جگہ کا کوئی آتا تو نھی‬
‫میں نے کہا نھی ادھر کوئی نھی آتا‪،‬‬
‫تو مہری پھر بولی یہ نہ ھو کہ اسد‬
‫ادھر آجاے‬
‫تو میں نے کہا اس نواب کے کپڑے‬
‫گندے ھو جانے تھے وہ بھی نھی آتا‬

‫اس کے ساتھ ھی میں نے مہری کے‬


‫ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور‬
‫ایک ہاتھ اس کے سوفٹ سے مموں پر‬
‫رکھ کر دبانے لگا۔‬

‫مہری بے چین ھو کر اپنی پھدی کو‬


‫میرے کھڑے لن کے ساتھ رگڑنے‬
‫لگی‬
‫کچھ دیر ہم ایک دوسرے کے ہونٹ‬
‫چوستے رھے‬
‫میں نے ہاتھ نیچے کیا اور مہری کی‬
‫شرٹ اٹھا کر اوپر کردی اور مہری‬
‫کے گول مموں کو بریزیر کے اوپر‬
‫سے ھی مسلنے لگ گیا‬

‫مہری آہیں بھر رھی تھی‬


‫میں نے مہری کے ہونٹ چھوڑے اور‬
‫سر نیچے کر کے مہری کے بریزیر کو‬
‫اوپر کیا اور اس کے گالبی نوک والے‬
‫چٹے مموں کو باری باری منہ میں ڈال‬
‫کر چوس چوس کر الل کررھا تھا‬
‫مہری میرے سر کے بالوں کو مٹھی‬
‫میں بھر کر مموں کی طرف دبا رھی‬
‫تھی‬

‫میں نے ایک ھاتھ نیچے لیجا کر مہری‬


‫کی شلوار میں ڈال دیا اور مہری کی‬
‫مالئم پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے‬
‫لگا مہری کی پھدی جو گیلی ھو چکی‬
‫تھی‬
‫میری انگلیاں بھی گیلی ھو رھی تھی ۔‬

‫مہری کی بےچینی بڑھتی جارھی تھی‬


‫مہری میرے ہاتھ کا لمس پھدی پر‬
‫برداشت نھی کر پارھی تھی‬
‫میں نے کچھ دیر مہری کی پھدی کو‬
‫مسال اور ھاتھ پیچھے لیجا کر اسکی‬
‫شلوار گانڈ سے نیچے کی اور مہری کا‬
‫منہ دوسری طرف کر دیا مہری ننگی‬
‫گانڈ میری طرف کیے دوسری طرف‬
‫منہ کر کے کھڑی ھوگئی میں نے آگے‬
‫ھاتھ لیجا کر مہری کے شرٹ کے‬
‫نیچے سے ڈال کر اسے ننگے ممے‬
‫پکڑ لیے اور مسلنے لگا ۔۔‬

‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے‬


‫ہاتھوں پر رکھے تھے جو اس کے‬
‫ممے مسل رھے تھے‬
‫مہری کی شرٹ جو پہلے اوپر تھی سائڈ‬
‫تبدیل کرنے کی وجہ سے نیچے‬
‫ھوچکی تھی‬

‫میرا لن اسکی شرٹ کو بھی اسکی گانڈ‬


‫کی دراڑ‬
‫میں ُگھساے ھوے تھا‬

‫میں نے‬
‫مہری کا ایک مما چھوڑا اور ہاتھ نیچے‬
‫لیجا کر اپنا ناال کھوال اور میری شلوار‬
‫میرے پاوں میں گر گئی‬
‫اور میں نے مہری کی قمیض کو اسکی‬
‫گانڈ سے اوپر کیا اور لن اسکی گانڈ کی‬
‫دراڑ میں ڈال کر اسکے چڈوں کی‬
‫طرف گھسہ مارا‬
‫لن مہری کی گانڈ کی دراڑ سے ھوتا‬
‫ھوا اسکی پھدی کے نرم نازک ہونٹوں‬
‫کو چومتا ھوا رگڑتا ھوا آگے چال گیا‬

‫مہری میری اس اچانک حرکت سے‬


‫گبھرا گئی‬

‫اور بولی یاسررررر کیا کرنے لگے ھو‬

‫میں نے کہا‬
‫میری جان مجھ پر بھروسہ رکھو‬
‫اندر نھی کرتا‬
‫اگر اندر کرنا ھوتا تو اس دن ھی کر‬
‫دیتا۔‬

‫مہری بولی یاسر یہ نہ ھو کہ اندر چال‬


‫جاے‬
‫میں نے کہا مجھ پر یقین نھی‬
‫تو مہری بولی یقین نہ ھوتا تو بات یہاں‬
‫تک کیسے پہنچتی‬

‫تو میں نے کہا‬


‫بس پھر سکون سے کھڑی رھو اور‬
‫مزہ لو‬
‫مہری چہ کر گئی تو میں نے لن مہری‬
‫کے چڈوں میں اندر باھر کرنا شروع‬
‫کردیا‬

‫لن پوری طرح مہری کی پھدی کو رگڑ‬


‫رھا تھا‬

‫مہری بھی مزے سے سسک رھی تھی‬


‫اور گانڈ میرے ساتھ جوڑ رھی تھی‬

‫مہری کی گانڈ اتنی نرم تھی کہ میں‬


‫جب گھسا مارتا تو مہری کی گانڈ کا‬
‫گوشت اندر کی طرف چال جاتا‬
‫اور مہری سسک جاتی‬

‫کچھ دیر بعد مہری نے اپنا ہاتھ نیچے‬


‫پھدی کے پاس کر لیا اور میرے ٹوپے‬
‫کو اسکی انگلیاں چھوتی تو مجھے مزید‬
‫جوش چڑھتا‬

‫مہری نے پھدی کے اوپر ہاتھ ھی ایسے‬


‫رکھا ھوا تھا کہ میرا لن اوپر سے‬
‫اسکی پھدی کو رگڑتا اور لن کا نچال‬
‫حصہ مہری کی ہتھیلی سے رگڑتا میں‬
‫مزے کی اتھاء گہرائیوں میں ڈوبتا جا‬
‫رھا تھا‬
‫ادھر مہری کا حال بھی مجھ سے جدا‬
‫نہ تھا‬

‫وہ بھی لن کو پھدی کے ساتھ مسلسل‬


‫رگڑنے کے لیے لن کو اوپر کی طرف‬
‫کر دیتی جس سے لن پھدی کے نازک‬
‫لبوں میں سے ھوتا ھوا ہڈی کو ٹچ‬
‫کرتا‬

‫مہری کو ایک دم جوش چڑھا اور گانڈ‬


‫پیچھے کو کر کے لن کو پھدی کے‬
‫ساتھ لگا کر ٹانگوں کو بھینچ لیا اور‬
‫جھٹکے کھانے لگی اسکی پھدی سے‬
‫گرم منی میرے لن کے اوپر والے‬
‫حصے سے بہتی ھوئی اسکے چڈوں‬
‫کو گیال کرتے ھوے نیچے اسکے‬
‫پیروں کی طرف جارھی تھی ۔‬

‫مہری لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬


‫ادھر مجھے بھی جوش چڑھ گیا میں‬
‫ایسے ھی بھینچے ھو چڈوں میں گھسے‬
‫مارنے لگ گیا اور مہری کو کہا‬

‫مہری پلیز کچھ دیر ایسے ھی رھنا‬

‫اور تیز تیز گھسے مارتا ھوا‬


‫اسکے چڈوں میں ھی لن سے منی کی‬
‫بارش شروع کردی اور کس کے مہری‬
‫کے دونوں مموں کو ھاتھ میں پکڑ لیا‬
‫اور اسکی گردن کو ہونٹوں میں بھرنے‬
‫کی کوشش کرنے لگ گیا ۔۔‬

‫کچھ دیر بعد دونوں ریلیکس ھوے اور‬


‫مہری نے چار پانچ سٹے توڑے اور‬
‫واپس جانے لگے‬
‫**************‬

‫اسد ۔۔۔‬
‫عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے پٹری سے‬
‫نیچے اترتے ھوے۔۔‬

‫دھیان سے اترنا کہیں گر نا جانا۔۔‬


‫عظمی ہاتھ چھڑوانے کی کوشش میں۔۔‬
‫نھی گرتی پلیز میرا ھاتھ چھوڑ دو‬
‫مجھے ڈر لگ رھا‬
‫میں جا تو رھی ھوں آپ کے ساتھ۔۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬
‫باغ میں داخل ھوتے ہوے‪،،‬‬
‫آپ کو کون سے امرود پسند ہیں ۔‬

‫عظمی ۔۔اسد کے ساتھ ساتھ چلتے ھوے۔‬

‫میں امرود نھی کھاتی ۔۔‬


‫اسد۔۔‬
‫مسکراتے ھوے عظمی کے مموں کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے ۔‬
‫ویری بیڈ اس کا مطلب ھے کہ امرود‬
‫مجھے ھی توڑنے پڑیں گے‬

‫عظمی ۔۔۔۔اسد کی نظروں کو سمجھتے‬


‫ھوے۔‬

‫آپ مرد ہو تو امرود توڑنے کا کام‬


‫مردوں کو ھی اچھا لگتا ھے ۔۔‬

‫عظمی ۔۔شرماتے ھوے۔۔‬


‫تو پھر توڑ لیں امرود کس نے روکا‬
‫ھے‬

‫اسد۔۔۔۔معنی خیز نظروں سے عظمی‬


‫کے مموں کو دیکھتے ھوے ۔۔‬
‫اگر میں امرود توڑوں گا تو باغ کے‬
‫مالک کو اعتراض تو نھی ھوگا۔۔‬

‫عظمی ۔۔نخرے اور اترا کر بولتے‬


‫ھوے ۔۔۔۔‬

‫اس باغ کے مالک اتنے سنگدل اور‬


‫کنجوس نھی کہ مہمانوں کے ہاتھ‬
‫روکیں گے ۔۔‬
‫اسد ۔۔‬
‫شوخی سے بھوکھی نظروں سے مموں‬
‫کو تاڑتے ھوے۔۔‬
‫دیکھ لیں بعد میں مالک اپنی اس ثقافت‬
‫کو بھول جاے ۔۔‬

‫عظمی۔۔ فخر سے‬

‫گاوں کی ثقافت زبان پر چلتی ھے گاوں‬


‫والے زبان کے پکے ہوتے ہیں۔۔۔‬

‫اسد۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر دونوں مموں کو‬


‫پکڑ کر دباتے ھوے‬
‫واہ کیا زبردست نرم امرود ہیں ایسے‬
‫امرود تو زندگی میں پہلی دفعہ دیکھے‬
‫ہیں اور پہلی دفعہ ایسے نرم نازک‬
‫امرودوں کو پکڑنے کا شرف حاصل‬
‫ھوا ھے ۔۔‬

‫عظمی گبھرانے کی ایکٹنگ کرتے‬


‫ھوے اسد کے ہاتھ پکڑ کر۔۔۔‬

‫سسییییی چھوڑیں یہ کیا بتمیزی ھے‬


‫کیون مجھے بدنام کرنے پر تلے ھوے‬
‫ہیں‬
‫یہ آپکا شہر نھی گاوں ھے یہاں کسی‬
‫نے دیکھ لیا تو دونوں کو چوک میں‬
‫کھڑا کر کے قتل کردیں گے ۔۔‬
‫اسد ۔۔نڈر پن کا مظاہرہ کرتے ھوے‬
‫عظمی کا ہاتھ جھٹکتے ھوے۔‬

‫ایسے نرم نازک حسن کی دیوی کے‬


‫لیے ہزار جانیں قربان ہیں‪ ،،‬۔۔۔‬

‫عظمی ۔۔ آنکھیں موندھتے ھوے۔۔‬

‫اسد پلیز یہاں سے چلو میرا دل گبھرا‬


‫رھا ھے پلیززززز چھوڑ دو نہ ۔۔‬

‫اسد ۔۔۔عظمی کے ممے مسل کر چھوڑ‬


‫تے ھی اسے جپھی ڈال کر ہونٹوں کو‬
‫چومتے ھوے۔۔‬

‫عظمی پلیز مجھے آج نہ روکو صبح‬


‫جب تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تو‬
‫تب سے میں تمہارے اس سیکسی جسم‬
‫اور تتمہارے شربتی ہونٹوں اور یہ‬
‫ساگر جیسی آنکھوں کا دیوانہ ھوگیا‬
‫ھوں پلیززز مجھے ان ساگر سی‬
‫آنکھوں ڈوبنے دو‬
‫مجھے ان شربتی ہونٹوں کو پینے کا‬
‫شرف دو‬
‫مجھے اس سیکسی جسم کو چھونے‬
‫سے مت روکو‬
‫میں صبح سے تڑپ رھا ھوں ۔۔۔‬
‫عظمی یکدم گبھراتے ھوے اپنا آپ‬
‫چھڑواتے ھوے ۔۔۔‬

‫نھی اسد یہ ظلم مت کرو‬


‫اگر تم مجھے چاھتے ھو تو میری‬
‫عزت مت خراب کرو‬
‫نہ یہ جگہ سہی ھے اور نہ یہ موقع‬
‫یہاں کوئی بھی آسکتا ھے‬
‫اور یاسر لوگ بھی کسی وقت آسکتے‬
‫ہین ۔۔‬

‫ابھی مجھے چھوڑ دو‬


‫پھر جدھر موقع مال‬
‫میں تمہیں نھی روکوں گی‬
‫پلیزززززز۔۔۔۔‬

‫اسد ۔۔۔۔جپھی کو کس کر عظمی کے‬


‫مموں کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتے‬
‫ھوے سر کو جھکا کر عظمی کے‬
‫گالبی ھونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے‬
‫ھوے ۔۔۔‬

‫عظمی بس ایک کس کرنے دو پھر‬


‫چھوڑ دوں گا ۔۔۔‬

‫عظمی۔۔۔۔ کانپتے ہونٹ کھولتے ھو ے ۔۔‬

‫اسد ۔۔۔۔۔‬
‫عظمی کے کانپتے ہونٹوں کو اپنے‬
‫ہونٹوں میں بھرتے ھوے لمبا سا چوسا‬
‫لگا کر چھوڑتے ھوے ۔۔۔۔‬

‫بس اب خوش چلو چلیں ۔۔۔‬

‫عظمی۔۔۔اپنے ہونٹوں سے اسد کا تھوک‬


‫صاف کرتے ھوے ۔۔‬

‫گندا ۔۔۔۔‬

‫اسد۔۔۔شوخی سے‬

‫اچھا جی ۔۔۔‬
‫عظمی شرماتے ھوے ۔۔۔‬
‫ھاں جی ۔‬

‫اسد ۔۔عظمی کے ساتھ باھر کی طرف‬


‫چلتے ھوے۔۔‬

‫کب ملو گی ۔‬

‫عظمی شرما کر نیچے دیکھتے ھوے۔۔۔‬

‫پتہ نھی ۔۔‬

‫اسد۔۔۔۔ کسے پتہ ھے۔‬


‫عظمی۔۔‬
‫آپکو پتہ ھوگا۔۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬
‫میں تو کہتا ھوں چلو میرے ساتھ ھی ۔۔۔‬

‫عظمی ۔۔۔‬

‫ذیادہ گرم گرم نھی کھاتے منہ جل جاتا‬


‫ھے۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬
‫جلنے دو میرا منہ ھے نہ کوئی بات‬
‫نھی ۔۔۔‬

‫عظمی ۔۔۔‬
‫بڑے تیز ھو آپ‬

‫اسد ۔۔‬
‫وہ کیسے جی ۔‬

‫عظمی۔۔۔‬
‫پہلی مالقات میں اتنا کچھ کرلیا توبہ‬
‫توبہ ۔۔۔‬

‫اسد ۔۔۔‬
‫اتنا کچھ کیا کیا ھے بس ان شربتی‬
‫ہونٹوں کا ایک گھونٹ ھی بھرا ھے‬
‫ورنہ تو میرا ارادہ تھا کہ ان کا سارا‬
‫شربت نگھل جاتا۔۔‬

‫عظمی ۔۔۔‬
‫بڑی باتیں بنانی آتی ہیں آپکو لگتا ھے‬
‫کافی لڑکیاں اپنی ایسی باتوں سے‬
‫امپریس کی ھونگی۔۔۔‬

‫اسد ۔۔۔۔‬

‫جونسی مرضی قسم لے لو تمہارے‬


‫عالوہ کسی کو چھوا بھی ہو تو۔۔۔۔‬
‫عظمی ۔۔ادا دیکھاتے ھوے ۔۔‬
‫بڑی گل اے‬
‫ویسے ماننے میں نھی آتی بات۔۔‬

‫اسد پٹری پر چڑھتے ھوے۔۔‬

‫مرضی ھے آپکی نہ مانیں‬

‫یہ تو آپ کے ُحسن کی مہربانی ھے‬


‫جس نے پہلی ھی نظر میں مجھے اپنے‬
‫سحر میں جکڑ لیا اور یہ دیوانہ اس‬
‫حسن کے پیچھے یہاں تک چال آیا۔۔۔‬

‫عظمی ۔سرخ ھوتے ھوے۔۔‬


‫بس بس اب اتنا بھی نہ بنائیں‬
‫کہاں آپ وڈے وڈے لوگ‬
‫کہاں ہم چھوٹے لوگ‬
‫کہاں آپ کوٹھیوں میں رہنے والے کہاں‬
‫ہم جھونپڑی میں رہنے والے‬

‫اسد ۔۔۔۔‬
‫عظمی کے ہونٹوں پر ھاتھ رکھتے‬
‫ھوے ۔۔۔‬

‫عظمی پلیزززززز دوبارا یہ بات کر‬


‫کے مجھے شرمندہ مت کرنا میرے پیار‬
‫کو گالی مت دینا‬
‫عشق امیری غریبی نھی دیکھتا اونچ نیچ‬
‫نھی دیکھتا‬
‫بادشاہ فقیر نھی دیکھتا‬
‫بس یہ ھوجاتا ھے‬
‫اور جس سے ھوتا ھے‬
‫تو اس عاشق کے لیے‬
‫۔ اسکا معشوق مجازی ھوتا ھے‬
‫سب کچھ اسکے لیے قربان کردیتا ھے‬

‫عظمی آنکھیں پھاڑے دیکھتے ھوے ۔۔۔۔‬

‫اسد پلیز مجھے ایسے خواب مت دیکھو‬


‫جو پورے نہ ھوسکیں ۔۔‬
‫اسد۔۔۔۔‬
‫عظمی تم آزما کر دیکھ لینا‬
‫تمہارے لیے یہ اسد کیا کرسکتا ھے ہر‬
‫کسی سے ٹکرا سکتا ھے ۔۔‬

‫عظمی پٹری کے اوپر پہنچتے ھوے‬


‫یاسر کی سمت دیکھ کر ۔۔۔‬
‫بات کو پلٹتے ھوے۔۔‬
‫دیکھو انکو ابھی تک نھی نکلے۔۔‬

‫اسد۔۔۔‬
‫نھی نکلے تو ہمارا ھی فائدہ ھے مجھ‬
‫خوش نصیب کو تمہاری قربت نصیب‬
‫ھوئی‬
‫عظمی پھر ادھر دیکھتے ھوے‪ ،،،‬۔۔‬

‫لگتا ھے وہ آرھے ہیں ۔آپ ادھر بیٹھ‬


‫جائیں یاسر بہت شکی مزاج ھے ۔۔۔‬

‫اسد ۔۔ جلدی سے پٹری کے اوپر بیٹھتے‬


‫ھوے۔۔‬

‫جو حکم میرے بادشاہ کا۔۔۔‬

‫عظمی ۔۔اداوں سے ہاتھ کا اشارہ کرتے‬


‫ھوے۔۔۔‬
‫چل شوخا۔۔۔‬

‫اسد ۔۔دل پر ھاتھ رکھتے ھوے‬


‫سٹیا ای۔۔۔‬
‫۔۔ھاےےےےےے مار ُ‬

‫************‬
‫میں مہری کو لے کر جیسے ھی باہر‬
‫نکال تو عظمی ابھی تک ویسے ھی‬
‫کھڑی ہماری طرف دیکھ رھی تھی‬

‫اور اسد بھی اسی جگہ بیٹھا ھوا تھا‬


‫میں تو اچانک مکئی سے نکال تھا کہ‬
‫شاید یہ دونوں کوئی حرکت کررھے‬
‫ھوں ۔‬
‫مگر وہ تو ویسے کے ویسے ھی‬
‫بیٹھےتھے‬
‫مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگ گیا‬
‫کہ خامخواہ ھی بیچاری عظمی پر شک‬
‫کیا‬
‫اور وہ بیچاری کیسے میری طرف دیکھ‬
‫کر بے چینی سے انتظار کررھی ھے‬

‫یہ ھی سوچتے ھوے‬


‫ہم ان دونوں کے پاس پہنچے ۔۔‬
‫تو عظمی مجھ پر برس پڑی کہ اتنی‬
‫دیر سے کھڑی ھو ھو کر میری ٹانگیں‬
‫درد کرنے لگ گئی ہیں‬
‫تو میں نے کہا بیٹھ جاتی یار تمہیں کسی‬
‫نے منع کیا تھا۔۔‬

‫اسد بوال یار تمہاری کزن تو بہت ھی‬


‫سنجیدہ طبعیت کی مالک ہے‬

‫محترمہ بات کرنا بھی گوارہ نھی کرتی‬


‫۔۔‬

‫تو مجھے عظمی پر فخر ھونے لگا‬


‫کہ اچھا کیا جو اسے گھاس نھی ڈالی‬
‫اور میں عظمی کی وفاداری کو دل ھی‬
‫دل میں سراہنے لگا‬
‫اور خود کو ایک بات پھر کوسنے لگا‬
‫کہ جیسے خود ھو ویسے ھی عظمی کو‬
‫سمجھنے لگ گئے‬
‫مہری نے نہر پر جانے کا فیصلہ بدل‬
‫لیا اور واپس جانے کا اصرار کرتے‬
‫ھوے گھر کی طرف چل دی‪ .‬مجبورا ً‬
‫ہمیں بھی اسکی تقلید میں چلنا پڑا۔۔‬

‫گھر پہنچ کر اسد اور مہری باہر سے‬


‫ھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر باے باے‬
‫کرتے ھوے چلے گئے اور میں کچھ‬
‫دیر گھر میں ھی رھا‬
‫تو نازی نسرین اور عظمی کو ساتھ لیے‬
‫ان کے گھر چلی گئی اور مجھے جلدی‬
‫آنے کی تاکید کی‬

‫میں انکے جانے کے بعد واش روم میں‬


‫گھس گیا‬

‫اور نہا کر انھی کپڑوں میں باہر آیا‬


‫اور ٹائم دیکھا تو ابھی چھ بجے تھے‬
‫تو میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے‬
‫لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ھوگیا‬

‫کہ اچانک میرے دماغ میں‬


‫فرحت کا خیال آیا کہ اسنے تو مجھے‬
‫آج آنے کا کہا تھا‬
‫فرحت کا خیال آتے ھی میں ۔۔۔‬
‫فرحت کا خیال آتے ھی‬
‫میں سوچنے لگ گیا کہ‬
‫مجھے جانا چاھیے یا آج بھی عظمی‬
‫کے ساتھ ھی سیکس کروں‬
‫ذہن ڈبل مائنڈڈ ھو چکا تھا‬

‫فرحت کہ ھاں چانس ففٹی ففٹی تھا‬


‫جبکہ‬
‫عظمی کے ساتھ سیکس کرنے کا پورا‬
‫موقع میسر تھا۔۔‬

‫ایسے ھی سوچتے سوچتے میری آنکھ‬


‫لگ گئی‬

‫جب میری آنکھ کھلی تو‬


‫مجھے کوئی کندھوں سے ہال رھا تھا۔۔‬

‫تو میں نے آنکھیں مل کر غور سے‬


‫دیکھا تو نسرین تھی جو غصے کے‬
‫ملے جلے انداز میں مجھے اٹھا رھی‬
‫تھی ۔۔‬

‫میں‪ .‬اٹھ کر بیٹھ گیا اور جنجھال کر‬


‫بوال‬
‫کیا مصیبت ھے کوئی قیامت آگئی ھے‬
‫کیا جو سونے نھی دیتے تم لوگ ۔‬
‫نسرین بولی‬
‫ذرہ باہر نکل کر دیکھو پھر تمہیں پتہ‬
‫لگے کیوں اٹھا رھی ھوں ۔‬

‫میں گبھرا کر جلدی سے اٹھا اور جوتا‬


‫پہن کر باہر آیا تو اندھیرے گھپ میں‬
‫ادھر ادھر دیکھتے ھوے‬
‫نسرین سے پوچھنے لگ گیا کیا ھے ۔۔‬

‫نسرین بولی‬
‫آنکھیں ہیں یا ٹچ بٹن‬
‫نظر نھی آرھا کتنی رات ھوگئی ھے‬
‫اور ہم اکیلیں تمہارا انتظار کررھیں ہیں‬
‫۔۔‬

‫تو اچانک مجھے ہوش آیا اور غور‬


‫کرنے پر یقین ھوا کہ واقعی کافی ٹائم‬
‫ھوگیا ھے‬
‫فارغ ھونے کہ بعد نیند آتی ھی ایسے‬
‫ھے جیسے کوئی نشہ آوار چیز کھا لی‬
‫ھو یا نیند کی گولی کھا کر سوے ہوں ۔۔‬

‫میں نے نسرین کو کہا تم چلو میں آتا‬


‫ھوں ۔‬

‫نسرین نے غصہ سے میرا بازو پکڑا‬


‫اور کہا‬
‫اگے لگ آیا وڈا نواب ۔۔‬
‫نسرین نے جس انداز سے دونوں ہاتھوں‬
‫سے میرا بازو پکڑ کر اپنا کندھا مجھے‬
‫مارتے ھوے آگے چلنے کا کہا تھا تو‬
‫اس کا مما میری کمر کے ساتھ لگ گیا‬
‫تھا‬

‫اور ایسے ھی وہ مجھے دھکیلتی ھوئی‬


‫باہر کے دروازے کی طرف لے کر‬
‫چلنے لگی ۔۔‬
‫دروازے سے باھر نکل کر اس نے امی‬
‫کو آواز دی کہ خالہ دروازہ بند کرلو۔۔۔‬
‫اور اسی انداز میں مجھے آگے‬
‫گھسیٹتے ھوے لے کر جارھی تھی ۔۔‬

‫جیسے پولیس والے مجرم کو لے کر‬


‫جاتے ہیں ۔۔‬
‫نسرین کے ممے کا لمس میری کمر پر‬
‫محسوس ھوتے ھی میرے لن میں‬
‫خارش شروع ھوگئی‬

‫میں نے جان بوجھ کر ہاتھ اپنی کمر کی‬


‫طرف لیجا کر‬
‫اس جگہ خارش کرنے کی ایکٹنگ کی‬
‫جس جگہ نسرین کا مما لگا ھوا تھا‬
‫میری انگلیاں سیدھی نسرین کے ممے‬
‫سے ٹچ ھوئیں مگر نسرین جوں کی‬
‫توں میرے ساتھ لگی رھی‬
‫میرا حوصلہ مذید بڑھ گیا میں نے‬
‫دوبارا پھر خارش کرنے کے لیے ھاتھ‬
‫الٹا کر کے پیچھے لے گیا‬
‫کے میری ہتھیلی والی سائڈ‬
‫نسرین کے ممے پر لگے اور اسکا مما‬
‫میرے ھاتھ میں آجاے‬

‫گلی میں کافی اندھیرا تھا‬


‫جسکا مجھے یہ فائدہ تھا کہ کوئی ہمیں‬
‫اسطرح جاتے دیکھ نھی سکتا تھا‬

‫میں نے الٹا ھاتھ پیچھے لیجا کر نسرین‬


‫کے ممے‬
‫کے نیچے سے گزار کر ہاتھ اس انداز‬
‫سے ہالیا کہ نسرین کے نپل پر میری‬
‫ہتھیلی کی رگڑ لگے اور نسرین کی‬
‫توجہ اس لزت کی طرف جاے۔‬

‫اور میرا یہ خطرناک وار کامیاب ھوا‬

‫جیسے ھی میری ہتھیلی سے نسرین‬


‫کے ممے کے نپل نے رگڑ کھائی تو‬
‫نسرین نے سییی کیا اور ممے کو مزید‬
‫میری ہتھیلی کے ساتھ دبا کر مجھے‬
‫آگے چلنے کا کہا‬
‫نسرین نے اپنی طرف سے مجھے اپنی‬
‫‪.‬سسکاری محسوس نھی ھونے دی تھی‬
‫مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہ کرشمہ‬
‫میری ھی پالننگ سے ھوا ھے ۔‬
‫اسکی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ‬
‫نسرین نے بریزیر نھی پہنا ھوا تھا‬
‫جس کے وجہ سے اسکے ممے کہ نپل‬
‫کو میری ہتھیلی کی رگڑ نے سواد دیا‬
‫تھا‪ .‬اور وہ سواد نسرین کے دماغ پر‬
‫اثر کر گیا‬
‫ممے سے اٹھنے والے مزے کی ایک‬
‫چھوٹی سی جھلک سے وہ آشنا ھو‬
‫چکی تھی ۔۔‬

‫میں نے پھر تیزی سے ھاتھ کو آگے‬


‫پیچھے کیا۔‬
‫تو نسرین نے پھر وہ ھی حرکت کی‬
‫مگر اس دفعہ جیسے ھی اس نے میری‬
‫ہتھیلی پر مما دبایا‬
‫تو میں نے مٹھی بند کرکے ممے کو‬
‫مٹھی میں دبا لیا۔۔‬

‫نسرین کو جھٹکا لگا اور اس نے فل‬


‫مزے میں پہلے سسکاری بھری‬
‫سسسسیییی‬
‫پھر ایکدم پیچھے ہو کر مجھے چھوڑ‬
‫دیا اور اسکا مما میرے ھاتھ سے‬
‫نکلتے وقت بھی مسال گیا تھا۔۔‬
‫میں نے پیچھے منہ کر کے کہا‬
‫کیا ھوا اب چھوڑ کیوں دیا۔‬

‫تو نسرین کو جواب تو کچھ نہ آیا بس یہ‬


‫کہہ کر چلنے لگی‬
‫جلدی چلو‬
‫اور میں ہنستا ھوا‬

‫انکے گھر میں داخل ھوا‬


‫تو نسرین بھی میرے پیچھے ھی داخل‬
‫ھو کر دروازہ بند کر کے کنڈی لگانے‬
‫لگ گئی‬

‫اور میں حیران ھوکر دیکھنے لگ گیا‬


‫کہ آج اس نے مجھے نھی کہا کہ خود‬
‫ھی کنڈی لگا لو۔۔۔‬

‫میں اس کے پاس ھی رک گیا کیوں کہ‬


‫نازی اور عظمی کمرے میں ھی تھی‬

‫میں نے نسرین کو کہا‬


‫آج بھی پکڑن پکڑائی کھیلیں گے‬

‫اور شرارت بھرے انداز سے اسکی‬


‫ٹھوڑی کو پکڑ کر ہالتے ھوے کہا‬
‫کل سے بھی ذیادہ مزہ آے گا دیکھ لینا‬

‫نسرین نے شرم والی ہنسی ہنستے ھوے‬


‫میرا ھاتھ پکڑ کر جھٹک دیا اور بھاگ‬
‫کر اندر چلی گئی میں اسے پکڑنے کے‬
‫لیے بھاگا مگر وہ مجھ سے پہلے ھی‬
‫کمرے میں داخل ھوچکی تھی ۔۔۔‬

‫نسرین کمرے میں داخل ہوکر جلدی‬


‫سے نازی کے پاس جاکر بیٹھ گئی‬
‫اور میں بھی اس کے پیچھے کمرے‬
‫میں داخل ہوا تو نازی بولی آگئے نواب‬
‫ساب‬

‫میں نے غصے اور طنزیہ مسکراہٹ‬


‫سے کہا ھااااں جی آگیا ھوں‬
‫کوئی تکلیف ھے۔۔‬

‫تو نازی میری طرف ھاتھ کا اشارا‬


‫کرتے ھوے بولی‬
‫دفعہ ھو میں تیرے منہ نئی لگنا‪ ،‬۔۔‬
‫عظمی بولی چل چھوڑ نازی‬
‫ایسے لڑتے رہتے ھو‪،‬‬

‫میں بھی انکی چارپائی کے پاس پڑی‬


‫دوسری چارپائی پر بیٹھ گیا‪ ،‬۔۔‬
‫اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ طنز‬
‫مزاح کرنے لگ گئے۔۔‬
‫کافی دیر ایسے ھی بیٹھے ہنستے اور‬
‫لڑتے رھے‬
‫میرے دماغ سے فرحت کے گھر جانے‬
‫کا خیال بھی نکل چکا تھا‬

‫ایک تو رات کافی ھوگئی تھی دوسرا‬


‫انکے گھر بھی رہنا ضروری تھا ۔‬

‫نسرین میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬


‫چلو سب پکڑن پکڑائی کھیلتے ہیں ۔‬

‫میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬


‫بوال‬
‫سچیییی‬

‫تو نسرین بھی اسی انداز میں بولی‬


‫ُمچییییی۔‬

‫عظمی بولی کل گری تھی بھول گئی‬


‫ھو‬
‫پھر کمر کو پکڑ کر ھاے ھاے کرتی‬
‫رھی ھو۔۔‬

‫نسرین بولی‬
‫تم نے نھی کھیلنا تو نہ کھیلو‬
‫میرے پے روعب ت جھاڑو‬
‫عظمی ہاتھ سے اشارہ کرتے ھوے‬
‫بولی جا دفعہ ھو کھیلدی پھر کلی ای‬

‫میں تے نئی آندی ہن میں تے سون لگی‬


‫آں‬

‫نسرین بولی‬
‫ھاں ھاں مجھے پتہ ھے محترمہ اس‬
‫شہری بابو کے ساتھ پھر پھر کر تھک‬
‫جو گئی ھے‪،،‬‬

‫عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور‬


‫غصے سے پھنکارتے ھوے بولی‬
‫زبان سنبھال کر بات کی ہتمیز‬
‫بےحیاء بے شرم‬

‫نسرین اسکو ھاتھ سے دھتکارتے ھوے‬


‫بولی پونکی جا‬
‫اور یہ کہہ کر نسرین باہر چلی گئی‪،،،‬‬
‫۔۔۔‬

‫میں اس کو غصے سے باہر جاتے‬


‫دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگا اور باہر‬
‫آگیا۔۔‬

‫نسرین صحن میں بنے تندور کے ساتھ‬


‫ٹیک لگا کر بغلوں میں ہاتھ دے کر‬
‫ٹانگ کو ٹانگ پر رکھے کھڑی ناک‬
‫منہ پھال رھی تھی اور منہ ھی منہ میں‬
‫عظمی کو برا بھال کہہ رھی تھی ۔۔‬

‫میرے دماغ میں فورن ایک پالن آیا کہ‬


‫گرم لوہے پر اگر ضرب لگائی جاے تو‬
‫یقینا ً‬
‫نسرین کی قربت بھی حاصل ھو سکتی‬
‫ھے‬
‫اور موقع بھی خلوت کا تھا‬
‫دونوں صحن میں اکیلے تھے‬

‫مجھے یقین تھا کہ عظمی نھی آتی اب‬


‫اور نازی کا ویسے ھی موڈ نھی تھا‬
‫کھیلنے کا۔۔‬

‫میں دھیرے دھیرے چلتا ھوا‬


‫نسرین کے پاس گیا اور اسکی ٹھوڑی‬
‫پکڑ کر بوال‬
‫کیا ھوا میرے چھونے چھونے کاکے‬
‫کو۔۔‬

‫تو نسرین ہلکے سے مسکراتے ھوے‬


‫میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫دیکھ تو آے ھو‬
‫کہ کیسے میری بےعزتی کی ھے‬
‫تمہاری اس الڈلی نے‬
‫تو میں نسرین کے بلکل سامنے کھڑا‬
‫ھوگیا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر‬
‫بولی‬

‫پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ میری الڈلی‬


‫نھی ھے جیسے وہ تمہارے ساتھ‬
‫بتمیزی کرتی ھے ویسے ھی میرے‬
‫ساتھ بھی بتمیزی کرتی ھے ۔‬

‫اور دوسری بات یہ کہ تم نے بھی تو‬


‫غلط بات کی کہ شہری بابو کے ساتھ‬
‫پھرتی رھی ھے ایسے بھی کوئی کہتا‬
‫ھے کیا۔۔‬
‫نسرین بولی میں نے کچھ غلط نھی کہا۔‬

‫تو میں نے کہا‬


‫یار میں لب کہہ رھا ھوں کے تم نے‬
‫غلط کہا۔‬

‫تو نسرین حیران ہوکر میری طرف‬


‫دیکھتے ہوے بولی‬
‫کیا واقعی یہ سچ ھے کہ عظمی اس‬
‫لڑکے کے ساتھ ھی تھی ۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا‬


‫ہاں۔۔۔‬
‫نسرین آنکھیں پھاڑے اپنے منہ پر ھاتھ‬
‫رکھ کر بولی‬
‫ھاےےےے*****واقعی‬

‫میں نے کہا‬
‫یار میں نے اپنی آنکھون سے دیکھا تھا‬
‫کہ وہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نسرین بولی ۔۔ کیا وہ دونوں بتاو ناں ۔۔‬

‫میں نے کہا رہنے دو تم اسے یا آنٹی کو‬


‫بتا دو گی اور ایسے فضول میں سارا‬
‫الزام مجھ پر آجانا ھے ۔۔‬

‫نسرین میرے بازوں کو پکڑتے ھوے‬


‫بولی ۔‬
‫۔*****کی قسم نھی بتاتی کسی کو پلیز‬
‫بتاو نہ ۔۔۔‬

‫نسرین کی آواز تھوڑی اونچی ھوگئی‬


‫تھی میں نے جلدی سے اسکے منہ پر‬
‫ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کہا‬
‫ہولی بول او اندر اے سن لوے گی ۔۔‬

‫تو نسرین نے اثبات میں سر ہالیا اور‬


‫میں نے اسکے منہ سے ھاتھ کو ہٹا لیا۔۔‬
‫اور آہستہ سے بوال‬
‫پہلے تم میرے ساتھ وعدہ کرو کہ یہ‬
‫بات ہم دونوں میں ھی رھے گی ۔۔‬
‫تو نسرین پھر قسم کھاتے ھوے بولی‬
‫نھی بتاتی۔۔‬

‫میں نے اچھی طرح تسلی کر کے اسے‬


‫کہا‬
‫میں جب انکے ساتھ نہر کی طرف‪ .‬گیا‬
‫تو عظمی میرے دوست کے ساتھ ہنس‬
‫ہنس کر باتیں کررھی تھی ۔‬

‫پھر جب ہم مکئی کے پاس پہنچے تو‬


‫میرے دوست نے کہا میں نے چھلیاں‬
‫توڑنی ہیں تو عظمی جلدی سے بولی‬
‫چلو اسد میں چلتی ھوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔‬
‫نسرین تمہیں تو پتہ ھی ھے کہ یہ کتنی‬
‫بتمیز ھے میں نے سے کہا بھی کہ نہ‬
‫جاو مگر میری ایک نگی سنی اس نے‬
‫اور بولی یاسر تم اور مہری ادھر ٹرین‬
‫کی پٹری پر رکو میں ااسد کو چھلیاں‬
‫توڑ کر ال کے دیتی ھوں ۔۔‬

‫نسرین انکھیں پھاڑے منہ پر ھاتھ‬


‫رکھے میری بات غور سے سن رھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫نسرین بیچ میں ھی بےصبری سے بول‬
‫پڑی ۔۔‬

‫تو کیا عظمی چلی گئی اس کے ساتھ ۔۔‬


‫میں نے ادھر ادھر دیکھ کر رازداری‬
‫سے کہا ہاں وہ چلی گئی تھی اور‬
‫دونوں مکئی کے اندر چلے گئے۔۔‬

‫نسرین کا رنگ اڑا ھوا تھا‬


‫وہ پھر بے صبری سے بولی‬
‫اور تم انکے پیچھے نھی گئے۔۔‬

‫میں نے پھر ادھر ادھر دیکھا اور کہا‬


‫میں کچھ دیر بعد گیا تو وہ مجھے کہیں‬
‫نظر نہ آے میں پریشان ہونے‬
‫کھالے کے ساتھ جو درخت نھی لگے‬
‫ھوے‬
‫نسرین بولی ہاں ہاں‬
‫لگے ھوے ہیں‬

‫میں نے کہا میں جیسے ھی ان درختوں‬


‫کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا دونوں‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میں اتنا کہہ کر چپ ہوگیا اور کمرے‬


‫کے دروازے کی طرف دیکھنے لگ‬
‫گیا اور نسرین سے جلدی سے بوال لگتا‬
‫ھے کہ عظمی یا نازی آرھی ہیں ۔‬

‫تم رات کو جب یہ سو جائیں تو دوسرے‬


‫کمرے میں آجانا میں تم کو ساری بات‬
‫بتا دوں گا مگر تم یہ بات کسی سے‬
‫کرنا مت‬
‫میں ایک ھی سانس میں اسے سارا سبق‬
‫سنا کر اس کا جواب سنے بغیر کمرے‬
‫کی طرف چال گیا‬
‫اور نسرین ہکی بکی مجھے روکتے‬
‫روکتے چپ ھوگئی کیوں کے میں اتنی‬
‫دیر میں کمرے میں داخل ھوگیا تھا۔۔‬

‫کمرے میں آیا تو عظمی اور نازی ایک‬


‫ھی چارپائی پر لیٹی ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ُکھسر پُھسر کررھیں تھی ۔۔‬

‫میں جا کر انکے پاس بیٹھ گیا۔‬


‫تو عظمی بولی منا آے اس الڈلی کو‬

‫میں نے کہا یار ایک تو تم دونوں ھی‬


‫ایک سے بڑھ کر ایک ھو‬
‫ایک کو سمجھاوں تو دوسری بگڑ جاتی‬
‫ھے دوسری کو سمجھاوں تو پہلی بگڑ‬
‫جاتی ھے ۔‬

‫تو نازی عظمی کو چپ کرواتے ھوے‬


‫بولی دفعہ کر اینوں اور ساتھ ھی دونوں‬
‫پھرباتیں کرنے لگ گئی‬
‫میں عظمی کی ایک بات نوٹ کر رھا‬
‫تھا کہ وہ مجھ میں کچھ خاص توجہ‬
‫نھی لے رھی‬
‫وہ ایسے ریکٹ کر رھی تھی کہ جیسے‬
‫اسکی نظروں میں میری کوئی اہمیت‬
‫ھی نھی ھے ۔‬

‫خیر میں کچھ دیر انکے پاس بیٹھا رھا‬


‫مگر نسرین ابھی تک باھر ھی تھی اندر‬
‫نھی آئی ۔۔‬

‫میں بھی انکے پاس سے اٹھا اور‬


‫عظمی کو کہا کہ میرا بستر کیا ھے کہ‬
‫نھی‬
‫تو عظمی پھر بے رخی سے بولی جاو‬
‫اپنی اس الڈلی سے کہو کہ بستر بھی‬
‫کردے ۔۔‬

‫میں پیر پٹختا ھوا کمرے سے باہر نکل‬


‫گیا اور دیکھا کہ نسرین ابھی تک ادھر‬
‫ھی کھڑی کسی گہری سوچ میں گم تھی‬
‫۔‬

‫میرے چلنے کی آہٹ سن کر وہ چونکی‬


‫اور میری طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں اسکے پاس پہنچا اور کہا تم نے‬
‫ساری رات ادھر ھی کھڑے رہنا ھے‬
‫جاو جا کر سوجاو صبح سکول بھی جانا‬
‫ھے ۔‬
‫نسرین بولی جب وہ ُکتی سوے گی تب‬
‫ھی اندر جاوں گی ‪،‬‬

‫میں نے پھر اسے پیار سے پچکارتے‬


‫ھوے کہا ۔‬

‫یار میں کہہ رھا ھوں نہ کہ جاو اندر‪ ،‬۔‬


‫تو نسرین بولی مجھے نیند نھی آرھی‬
‫جب آے گی تو چلی جاوں گی ۔‬

‫تم نے سونا ھے تو چلے جاو کمرے‬


‫میں سوجاو‬

‫میں نے کہا مجھے نیند تو بہت آرھی‬


‫ھے ۔‬
‫مگر سوؤں گا کہاں‬
‫کمرے میں تو بستر بھی نھی کیا ھوا۔‬

‫تو نسرین بولی‬


‫او ھو یہ ہڈحرام اتنا سا کام بھی نھی‬
‫کرسکتی آواراگرد‬

‫چلو میں کردیتی ھوں ۔‬

‫اور نسرین میرے اگے آگے چل پڑی‬


‫میں اسکے جسم کا پیچھے سے معائنہ‬
‫کرنے لگ گیا کہ‬
‫عظمی سے کم بھی جسم نھی نسرین کا‬
‫گول مٹول سی باہر کو نکلی گانڈ اور‬
‫چلتے ھوے ہلتے ھوے نرم کولہے‬
‫کمر ‪30‬‬
‫ممے‪34‬‬
‫گانڈ‪36‬‬

‫بھرا بھرا جسم‬


‫میری ہوس جوبن پکڑ چکی تھی‬
‫نتیجہ کیا نکلتا اسکی فکر نھی تھی‬
‫بس دل کر رھا تھا کہ اندر جاتے ھی‬
‫نسرین کے نرم مموں کو پکڑ کر لن کو‬
‫اسکی بپھری ھوئی مست گانڈ کے ساتھ‬
‫لگا کر جپھی ڈال لوں‬
‫اور اس شہد کی بوتل کو نچوڑ نچوڑ‬
‫کر پی جاوں‬

‫نسرین میری ہوس سے بے خبر اپنی‬


‫دھن میں چلتی ھوئی کمرے میں پہنچی‬
‫میں بھی اسکے پیچھے پیچھے اسکی‬
‫ہلتی گانڈ کو دیکھ کر گنتی کرتا ھوا کہ‬
‫کتنی دفعہ اوپر گئی اور کتنی دفعہ‬
‫نیچے‬
‫گئی۔‬
‫میں کمرے میں داخل ھوا تو ‪100‬واٹ‬
‫کا بلب جل رھا تھا اور نسرین جلدی‬
‫سے چارپائی بچھا کر بستر کرنے لگ‬
‫گئی اور‬
‫کمرے سے جانے لگی تو میں نے اسے‬
‫آواز دی کہ‬
‫میں سو جاوں تو نسرین‪ .‬بولی سونے‬
‫کے لیے ھی تو بسترا کیا ھے اور تم‬
‫نے تارے گننے ہیں تو بسترا باھر‬
‫کردیتی ھوں ۔۔‬

‫اسکا جواب سن کر میں جھینپ سا گیا‬


‫اور مجھے اپنی ساری منگھڑت کہانی‬
‫سنانے کی محنت پر پانی پھرتا ھوا نظر‬
‫آرھا تھا ۔۔‬

‫سہی کہتے ھیں‬


‫بوتے کراں دا پروناں پُکھا ای ریندا‬
‫اے‬

‫میں منہ بسور کر چارپائی پر گرا اور‬


‫لیٹ کر سوچنے لگا‬

‫چنگی ھوئی کا کا‬

‫عظمی کی پھدی کے لیے فرحت کی‬


‫پھدی چھوڑی اور نسرین کی پھدی کے‬
‫چکر میں عظمی کی پھدی بھی گنوائی‬
‫اور نسرین وی لن وکھا کے چلی گئی‬

‫ہن مار ُمٹھ تے سوجا‬


‫شاباش۔۔۔‬
‫کچھ دیر نسرین کو اور اپنی جلد بازی‬
‫کو کوستا ھوا سوچتا رھا اور پھر دل‬
‫کو تسلی دے کر سونے کی کوشش‬
‫کرنے لگا کہ شاید نسرین یا عظمی خود‬
‫ھی آجائیں ۔۔‬

‫نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور‬


‫مجھے ایسے لگا جیسے مجھے کوئی‬
‫جنجھوڑ رھا ھے میں نے آنکھ کھولی‬
‫تو میری نظروں کے سامنے نسرین‬
‫تھی‬
‫جو مجھے اٹھا رھی تھی کہ یاسر اٹھو‬
‫مجھے آنے کا کہہ کر خود سو رھے‬
‫ھو ۔‬
‫میں نے نسرین کو اسی حالت میں کمر‬
‫سے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا اور‬
‫نسرین کے ہونٹ چومنے لگ گیا نسرین‬
‫منہ ادھر ادھر کر کے میرے سینے پر‬
‫ھاتھ رکھ کر پیچھے کو ہونے کی‬
‫کوشش کررھی تھی اور کہے جارھی‬
‫تھی کی چھوڑو مجھے یہ کیا بتمیزی‬
‫ھے میں تمہیں بھائی سمجھتی ہوں پلیز‬
‫یاسر چھوڑ دو یہ سب غلط ھے ۔۔‬

‫میں اسکی کسی بات کا جواب نھی دے‬


‫رھا تھا‬
‫اور مسلسل اسکو اپنے اوپر بازوں میں‬
‫بھینچ کر اسکے ہونٹوں کو چومے جا‬
‫رھا تھا‬

‫میرا لن فل کھڑا ھو چکا تھا‬


‫میں نے کچھ دیر اسکے ہونٹوں کو‬
‫چومنے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل‬
‫مجھ سے اپنا آپ بچا رھی تھی ۔‬

‫میں نے نسرین کی کمر کے گرد ڈالے‬


‫بازوں کو جھٹکا دے کر نسرین کو‬
‫چارپائی کے اوپر کرلیا اور اسکو اسی‬
‫حالت میں اپنے نیچے کرلیا ۔‬
‫اور اپنے دونوں ھاتھ کمر کے نیچے‬
‫سے نکال کر اسکے ھاتھ پکڑ کر‬
‫چارپائی کے ساتھ اسکے سر کے قریب‬
‫رکھ کر دبا دئیے‬

‫اور بوال نسرین تمہارے اس سیکسی‬


‫مموں اور سیکسی گانڈ نے مجھے پاگل‬
‫کیا ھوا ھے‬

‫پلیز چپ کر کے مجھے اپنے ان بے‬


‫قابو مموں کو چوسنے دو‬
‫دیکھنا تمہیں کتنا مزہ آتا ھے‬
‫نسرین سر دائیں بائیں مار کر نفی کر‬
‫رھی تھی‬
‫مگر میرے دماغ کو منی چڑھی ھوئی‬
‫تھی‬
‫میں نے کچھ دیر زبردستی نسرین کے‬
‫ہونٹ چوسے‬
‫تو نسرین بھی گرم ھوگئی‬
‫اسکو ذیادہ گرم میرے اکڑے ھوے لن‬
‫نے کیا تھا جو اسکی کنواری پھدی کو‬
‫دبا کر رکھے ھوے تھا۔‬

‫نسرین کی مزاحمت دم توڑ رھی تھی‬


‫اور آخر کار اس نے اپنا جسم میرے‬
‫حوالے کر دیا‬
‫میں نے نسرین کی قمیض اوپر کی اور‬
‫اسکے گورے گورے ممے جن پر‬
‫بریزیر بھی نھی تھا‬
‫میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔۔‬

‫اور میں بھوکے شیر کی طرح مموں پر‬


‫جھپٹ پڑا‬

‫اور دونوں مموں کو باری باری‬


‫چوسنے لگ گیا‬
‫نسرین کے ممے بلکل عظمی کے‬
‫مموں جیسے تھے‬
‫مجھے ایسے ھی لگ رھا تھا کہ چہرہ‬
‫نسرین کا ھے مگر ممے عظمی کے‬
‫ہیں‬

‫نسرین سسک رھی تھی‬


‫میں کبھی اکڑے ھوے نپل کو دانتوں‬
‫سے کاٹتا تو نسرین آہ آہ سیییییی کرتی‬
‫تو کبھی میں پورے ممے کو منہ میں‬
‫بھرنے کی کوشش کرتا‬

‫نسرین کی سسکاریاں جنون میں بدلتی‬


‫جارھی تھیں۔۔‬

‫اور وہ میرے بالوں کو نوچنے لگ گئی‬


‫تھی‬
‫میرا لن پھدی کو بری طرح مسل رھا‬
‫تھا اور نسرین بھی گانڈ اوپر کر کے‬
‫پھدی کو مزید لن کے ساتھ رگڑ رھی‬
‫تھی‬

‫میں نے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا‬


‫نیچے کھسک کر نسرین کی شلوار اتار‬
‫دی اور نسرین نے بھی گانڈ اوپر کر‬
‫کے شلوار اتارنے میں میری مدد کی‬

‫شلوار اتار کر میں نے چارپائی سے‬


‫نیچے پھینک دی اور‬
‫نسرین کی پھدی پر ھاتھ پھیرا تو پھدی‬
‫پر بال تھے اور پھدی کے ہونٹ‪ .‬بھی‬
‫آپس میں جڑے ھوے تھے‬

‫پھدی کو جب میرے ھاتھ نے چھوا تو‬


‫نسرین نے مزے سے بھری سییییییی‬
‫کی اور گانڈ کو اوپر اٹھایا‬

‫میں نے لن پر تھوک کا گوال پھینکا اور‬


‫لن پر تھوک کو گیال کیا اور لن کو‬
‫پھدی کے ہونٹوں پر رکھ کر لن کو اوپر‬
‫نیچے کرنے لگ گیا‬

‫مجھے لن کی ٹوپی پر گیال گیال سا‬


‫محسوس ھورھا تھا لن تو پہلے ھی گیال‬
‫تھا مگر نسرین کی پھدی سے نکلنے‬
‫والے پانی نے اسے مزید گیال کر دیا‬

‫میں نے نسرین کی ٹانگیں کھول کر‬


‫تھوڑی اوپر کی اور لن کے ٹوپے کو‬
‫پھدی کے لبوں پر سیٹ کیا اور خود‬
‫جھک کر نسرین کے منہ کے پاس اپنا‬
‫منہ کر کے اسکے ہونٹوں کو اپنے میں‬
‫بھر لیا کہ اسکی آواز نہ نکل پاے‬

‫اس سے پہلے کی نسرین کچھ سمجھتی‬


‫میں نے جھٹکا مار کر لن کو پھدی کے‬
‫اندر کردیا‬
‫آدھا ن لن نسرین کی پھدی کو پھاڑتا‬
‫ھوا اندر اترگیا‬
‫نسرین میرے نیچے تڑپ رھی تھی رو‬
‫رھی تھی فریادیں کر رھی تھی‬
‫مگر اسکی غوں غوں کرتی آواز کو‬
‫میں ان سنی کررھا تھا‬

‫میں نے دوسرا گھسہ مارا تو لن پورا‬


‫پھدی کے اندر اتر گیا اور‬
‫نسرین نے پھر میرے نیچے بری طرح‬
‫مچلنا شروع کردیا‬
‫نسرین بری طرح تڑپ رھی تھی‬
‫نسرین کی سیل ٹوٹ چکی تھی‬
‫اسکی پھدی سے گرم گرم خون نکل کر‬
‫چارپائی پر گر رھا تھا‬
‫نسرین نیم بےھوش ھو کر بےدم‬
‫ھوگئی‬
‫میں نے تین چار گھسے مزید مارے‬
‫مگر نسرین بےہوشی کی حالت میں پتہ‬
‫نھی کیا بولی جارھی تھی‬
‫مگر مجھ پر جنون سوار تھا‬

‫میں بغیر کسی ڈر خوف کے اسکی‬


‫پھدی پھاڑ رھا تھا‬

‫پھدی کے اندر اتنی گرمی تھی‬


‫کے میں صرف چار پانچ مذید گھسے‬
‫مار سکا اور لن نے ساری منی نسرین‬
‫کی کنواری پھدی کے اندر ھی اگلنا‬
‫شروع کردی‬

‫اور میں بھی مدھوش ھو کر اسکے‬


‫اوپر لیٹ گیا اور میرا جسم جھٹکے کھا‬
‫رھا تھا‬

‫کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر‬


‫ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے‬
‫دیکھا تو‬
‫نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ‬
‫کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬

‫۔دوستو اس اپڈیٹ میں مجھ سے آخر‬


‫میں ایک غلطی ھوگئی‬
‫جو کہ‬
‫یوں لکھی گئی کہ۔۔۔‬

‫کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر ہالیا‬


‫تو میں نے نیم بند آنکھوں سے دیکھا‬
‫تو‬
‫نازی کھڑی میرے سر کے بال کھینچ‬
‫کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬

‫۔۔‬
‫جب کہ اصل یہ تھا ۔۔۔۔‬
‫اس لیے آپ اس سین کو ھی ذہن میں‬
‫رکھیں غلطی کی معافی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کہ کسی نے میرے بالوں کو پکڑ کر‬


‫ہالیا تو میں نے نیم بند آنکھوں سے‬
‫دیکھا تو‬
‫نسرین کھڑی میرے سر کے بال کھینچ‬
‫کر کچھ کہہ رھی تھی ۔۔۔‬
‫تو میں پریشان ہوکر آنکھیں پھاڑے‬
‫اسے دیکھ رھا تھا کہ اگر نسرین یہ‬
‫ھے تو میرے نیچے کون ھے جسکی‬
‫سیل توڑ کر میں اندر ھی فارغ ھوگیا‬
‫جیسے ھی میں نے الٹے لیٹے اپنی‬
‫پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو‬
‫مارے شرمندگی کے میرا برا حال‬
‫ھوگیا کہ‬
‫جسے میں نسرین سمجھ کر ذبردستی‬
‫چود رھا تھا وہ نسرین نھی بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے نیچے نہ نسرین تھی نہ ھی‬
‫عظمی‬
‫بلکہ نرم سرھانہ میرے نیچے دبا ھوا‬
‫تھا‬
‫اور میری شلوار نیچے سے ساری گیلی‬
‫ھوچکی تھی‬

‫نسرین میرے سر کے بالوں کو پکڑ کر‬


‫ہال ہال کر مجھے اٹھا رھی تھی کہ اٹھ‬
‫جاو ہمیں سکول سے دیر ھو رھی ھے‬
‫۔‬

‫میں شرمندہ سا الٹا ھی لیٹا رھا کہ‬


‫نسرین کے سامنے کیسے سیدھا ھوکر‬
‫اٹھوں کیوں کے منی سے میری شلوار‬
‫اور قمیض دونوں گیلی ھوچکی تھی۔‬

‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے نسرین‬


‫کی طرف غصے سے دیکھتے ھوے‬
‫کہا جاو دفع ھو جاو‬
‫یہ کیا بتمیزی ھے‬
‫چھوڑو میرے بال‬
‫اور میں نے اسکی کالئی پکڑ کر زور‬
‫سے جھٹک دی ۔‬

‫تو نسرین بُڑ بُڑ کرتی باھر کو چلی گئی‬


‫۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی الٹا لیٹا رھا اور‬
‫پھر‬
‫ہمت کر کے اٹھا اور ڈرتے ڈرتے‬
‫کمرے سے باھر جھانکا کہ صحن میں‬
‫کوئی ھے تو نھی‬
‫تو صحن کو خالی پا کر میں نے اپنی‬
‫گیلی جگہ پر ہاتھ رکھا اور میں سپیڈ‬
‫سے بھاگا اور سیدھا واش روم میں‬
‫داخل ھوگیا۔‬
‫میں نے کپڑے اتار کر منی والی جگہ‬
‫کو دھویا اور کپڑوں کو نچوڑ کر واش‬
‫روم میں لگے کیل کے ساتھ لٹکا دیا‬
‫اور‬
‫نہا کر کپڑوں کو نیچے گیلے فرش پر‬
‫پھینک دیا تاکہ دیکھنے والے کو یہ نہ‬
‫پتہ چلے کہ میں نے شلوار اور قمیض‬
‫کو آگے سے دھویا ھے اور نہا کر‬
‫نازی کو آواز دی کہ میرے کپڑے دے‬
‫دو تو نازی شاید پہلے ھی گھر سے‬
‫میرا سوٹ لے آئی تھی اس واش روم‬
‫کے روشن دان میں پہلے میری شلوار‬
‫رکھی جب میں نے شلوار اٹھائی تو اس‬
‫نے قمیض رکھ دی ۔۔‬

‫میں نے قمیض بھی اٹھا کر پہن لی اور‬


‫سر کے بالوں میں انگلیاں مارتا ھوا‬
‫باہر نکل آیا‬
‫عظمی نے میرے لیےناشتہ بنا دیا تھا۔۔۔‬

‫میں نے ناشتہ کیا اور ہم گھر سے‬


‫نکلنے ھی لگے تھے کہ دروازے کے‬
‫سامنے ٹانگہ آکر رکا‬
‫جس میں فوزیہ اور انکل بیٹھے ھوے‬
‫تھے‬

‫ہم ان کو دیکھ کر رک گئے فوزیہ اور‬


‫انکل ٹانگے سے اترے اور تانگے‬
‫والے کو پیسے دے کر چلتا کیا‬

‫اور عظمی نسرین اور نازی کے سر پر‬


‫پیار دیا‬
‫میں نے بھی فوزیہ کے آگے سر کیا تو‬
‫اس نے پیار دینے کی بجاے میرے سر‬
‫میں چپت لگائی اور ہنستے ھوے اندر‬
‫چلی گئی ۔‬

‫انکل بولے یاسر بیٹا‬


‫بہنوں کو سکول چھوڑ کر جاتے تھے‬
‫نہ میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫تو انکل نے میرے سر پر پیار دیتے‬


‫ھوے دعا دی جیتے رھو بیٹا‬

‫تو عظمی بولی ابو ہمیں سکول سے دیر‬


‫ھو رھی ھے‬
‫تو انکل نے کہا جاو جاو دھیان سے‬
‫جانا‬

‫اور ہم صدف کی طرف گئے‬


‫صدف آج بڑی بنی سنوری تھی‬
‫پوچھنے پر پتہ چال کہ انکی اکیڈمی‬
‫میں آج فنکشن ھے‬
‫خیر ہم سب شہر کی طرف چل پڑے۔‬
‫انکو سکول چھوڑ کر میں دکان کی‬
‫طرف چل دیا‬
‫انکل سجاد نے دکان کھول لی تھی اور‬
‫مجھ سے کل نہ آنے کی وجہ پوچھی تو‬
‫میں نے مہمانوں کا بہانہ کردیا‬
‫اور دکان کی صفائی وغیرہ میں‬
‫مصروف ھوگیا۔‬

‫کچھ دیر بعد کسٹمر آنے شروع ھوگئے۔‬

‫ایسے ھی سارا دن کام میں گزر گیا‬


‫شام ڈھلنے لگی‬
‫میں دکان کے باہر بینچ پر بیٹھا گزرتے‬
‫ھوے کسٹمر کو دیکھ رھا تھا کی دو‬
‫شوخ سے لڑکیاں میرے پاس سے گزر‬
‫کر دکان میں چلی گئی‬

‫میں بھی جلدی سے اٹھا اور انکو ڈیل‬


‫کرنے کے لیے‬
‫انکے پاس پہنچ گیا۔‬

‫دونوں لڑکیاں ھی ایک سے بڑھ کر‬


‫ایک تھی‬
‫دونوں نے جینز کی پینٹیں اور اوپر‬
‫النگ شرٹ پہنی ھوئی تھی‬
‫جسم انکا ایسے تھا جیسے وہ فٹنس کلب‬
‫جاتی تھی‬

‫کمال کا فگر تھا انکا‬

‫دونوں کی شولڈر کٹنگ تھی اور گولڈن‬


‫کلر کے بال تھے‬
‫مجھے تو کوئی انڈین فلم سٹار لگ رھی‬
‫تھی‬

‫ایک لڑکی کافی شوخی لگ رھی تھی‬


‫وہ ریک میں لگے ڈیزائن دیکھ کر منہ‬
‫بسور کر ساتھ والی لڑکی کو کہہ رھی‬
‫تھی کہ سب اولڈ ڈیزائنگ ھے‬
‫چلو یار فضول میں ٹائم برباد کرنا ھے ۔‬

‫میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھ رھا‬


‫تھا‬
‫کہ اتنی اچھی ڈیزانگ لگی ھوئی ھے‬
‫اور یہ محترمہ کیسے انکو رد کررھی‬
‫ھے ۔‬
‫وہ واپس مڑنے لگی تو میں نے‬
‫کہا میم بات سنیں‬
‫تو وہ ایک دم چونک کر میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بڑی ادا سے بولی‬
‫جی فرمائیں ۔۔‬
‫میں نے کہا آپ کو کس طرح کی‬
‫ورائٹی چاہیے تو وہ ناک چڑھا کر‬
‫بولی‬
‫ہمارے مطلب کی ورائٹی آپ کے پاس‬
‫نھی ھے۔۔‬

‫میں نے کہا آپ بیٹھیں تو سہی‬


‫اور بتائیں کس طرح کولیکشن پسند‬
‫کرتیں ہیں انکے عالوہ بھی ہمارے پاس‬
‫کافی ورائٹی ھے‬

‫تو دوسری لڑکی جو پہلے ھی بیٹھی‬


‫ھوئی تھی اور کھڑی ہونے ھی لگی‬
‫تھی‬
‫وہ بولی‬
‫بھائی ہمیں سلیو لیس امبرائڈڈ میں النگ‬
‫شرٹس چاھیے جن کے ساتھ فٹنگ میں‬
‫ٹراوزر ھو‬

‫تو میں نے کہا مل جائیں گی آپ پلیز‬


‫تھوڑا آگے آجائیں ۔‬

‫تو وہ لڑکی اٹھی اور دوسری شوخ‬


‫لڑکی کا ھاتھ پکڑ کر بولی آو یار دیکھ‬
‫لیتیں ہیں شاید کوئی پسند آجاے‪ ،،‬۔۔‬

‫تو وہ لڑکی اس کے پیچھے چلتی ھوئی‬


‫دکان کے اینڈ پر آگئیں‬
‫اور پہلے والی لڑکی بیٹھ گئی اور وہ‬
‫شوخ چنچل حسینہ ابھی بھی کھڑی تھی‬
‫جیسے اسکی گانڈ میں درد ھو ۔۔‬

‫جنید جو کہ فرنٹ پر میرے ساتھ ھی‬


‫بیٹھا ھوا تھا وہ بھی ادھر بیٹھا ان کو‬
‫ھی تاڑ رھا تھا جبکہ دوسرا لڑکا‬
‫کسٹمر کو ڈیل کر رھا تھا۔۔‬
‫میں نے اس شوخ حسینہ کو کہا میم آپ‬
‫بھی بیٹھ جائیں کھڑی کھڑی تھک جائیں‬
‫گی ۔‬

‫تو وہ بولی آپ جلدی سے سوٹ دیکھا‬


‫دیں ہمارے پاس وقت بہت کم ھے ہمیں‬
‫جلدی ھے ۔۔‬

‫میں نے کہا میم آپ پلیز بیٹھیں تو سہی ۔‬


‫میں دیکھانے لگا ہوں ۔‬
‫تو دوسری لڑکی نے اسکا ھاتھ‬
‫کھینچتے ھوے کہا کہا‬
‫ضوفی بیٹھ تو جاو یار ایسی بھی کیا‬
‫جلدی ھے‬
‫تو وہ بولی یار میں نے برائیڈل تیار‬
‫کرنی ھے جا کر‬
‫تم ایسے مجھے لے آئی‬
‫ھو‬

‫برائڈل کو تیار کرنے کا سن کر مجھے‬


‫یہ تو کنفرم ھوگیا کہ یہ پالر والی ھے‬
‫۔۔۔۔‬

‫مجھے ضوفی کا نام سن کر یہ سمجھ‬


‫آئی کہ دوسری لڑکی نے اسے صوفی‬
‫کہہ کر بُالیا ھے ۔۔‬
‫میں حیران ھوکر اسکے چہرے کی‬
‫طرف دیکھنے لگ گیا کہ‬
‫یہ صوفی کیا نام ھوا‬

‫تو ضوفی بولی‬


‫بھائی دیکھائیں سوٹ آپ تو ہماری باتیں‬
‫سننے لگ گئے ۔‬
‫میں جھینپ سا گیا اور جلدی سے نئے‬
‫مال سے سوٹ نکال کر انکو دیکھانے‬
‫لگ گیا‬
‫ادھر انکل نے بڑے بلب جو ‪500‬واٹ‬
‫کے ہوتے تھے وہ چال دیے‬
‫جن کی گولڈن الئٹ میں ان دونوں‬
‫پریوں کے رنگ چمکنے لگ گئے اور‬
‫انکے بال مزید گولڈن ہو کر چمکنے‬
‫لگ تھے ۔۔‬

‫میں نے چھ سات نیو ڈیزائن کھولے تو‬


‫ضوفی پھر بھی منہ بسور کر رجیکٹ‬
‫کر رھی تھی ۔۔‬

‫میں نے ضوفی سے پوچھا میم آپ نے‬


‫اپنے لیے لینا ھے‬
‫یا پھر کسی اور کے لیے‬
‫تو وہ بڑے مغرور سے بولی‬
‫کہ آپکو اس سے کیا مطلب تو میں نے‬
‫کہا‬
‫میم آپ تو ناراض ھو رھی ہیں ۔‬
‫میں تو اس لیے پوچھ رھا ھوں کہ پھر‬
‫آپ کی پرسنیلٹی کے حساب سے مذید‬
‫ورائٹی دیکھا دوں۔۔‬

‫تو ضوفی نے جب اپنی تعریف سنی تو‬


‫کچھ ٹھنڈی پڑ گئی اور تھوڑے نرم‬
‫لہجے میں بولی ۔‬
‫جی میں نے اپنے لیے ھی لینا ھے ۔‬

‫تو میں نے ایک پنک کلر کی سلیو لیس‬


‫شرٹ کھولی اور اپنے ساتھ لگا کر‬
‫اسے دیکھاتے ھوے کہا‬
‫میم آپ یہ لے لیں یقین کریں آپ کے‬
‫کلر کے ساتھ میچ ھوگی اور بہت ھی‬
‫خوبصورت لگے گئی‬

‫تو ضوفی بڑے غور سے شرٹ کو پکڑ‬


‫کر دیکھنے لگ گئی‬
‫ساتھ والی لڑکی نے بھی میری تائید‬
‫کرتے ھوے کہا ۔ضوفی واقعی یار کمال‬
‫کی ڈیزاننگ ھے ۔۔‬

‫تو میں نے ایک بار پھر تعریف کے پُل‬


‫باندھتے ھوے کہا‬

‫میم یہ پہلی آپ ھی کسٹمر ہیں جنکو‬


‫کھول کر دیکھا رھا ھوں بلکل لیٹس‬
‫ڈیزائن ھے‬
‫تو ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬
‫کیوں جی ہمیں کیوں دیکھا رھے ہیں‬
‫کیا بیچنے کے لیے نھی لے کر آے ۔۔‬

‫میں نے کہا نھی میم ایسی بات نھی‬


‫ہم ہر کسٹمر کی لُک کے حساب سے‬
‫ھی اسے ورائٹی دیکھاتے ہیں۔۔‬
‫جیسے آپکا کلر پنک ھے ویسے ھی‬
‫اس سوٹ کا کلر آپ کے کلر کے ساتھ‬
‫میچ کرے گا‬
‫اور ہر دیکھنے واال آپ کی تعریف‬
‫کئے بغیر نھی رھ سکے گا ۔۔‬

‫میری باتیں ضوفی کے دل دماغ پر اثر‬


‫کررھی تھی ۔‬

‫میں نے کہا‬
‫اگر آپ کو یقین نھی تو یہ ٹرائی روم‬
‫ھے آپ پہن کر چیک کرلیں‬
‫اگر میری بات غلط ھو تو پھر آپ بے‬
‫شک نہ لینا ۔۔‬

‫ضوفی نے ٹرائی روم کے دروازے کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے‬
‫میرے ھاتھ سے شرٹ پکڑی اور‬
‫دوسری لڑکی کو کہا ثانیہ چلو پہن کر‬
‫دیکھ لیتے ہیں ۔‬

‫ثانیہ بولی پاگل تم جاو اندر میں ادھر‬


‫ھی بیٹھتی ھوں‬

‫تو ضوفی شرٹ پکڑے ھوے ٹرائی روم‬


‫میں چلی گئی ۔‬
‫اور دوسری لڑکی جس کا نام ثانیہ تھا‬
‫وہ ادھر ھی بیٹھی رھی اور دوسرے‬
‫سوٹوں کو پکڑ کر دیکھنے لگ گئی ۔‬

‫اور مجھے مخاطب کرتے ھوے بولی‬


‫بھائی دعا کریں اسے پسند آجاے‬
‫ورنہ اس نے تو دو گھنٹے سے مجھے‬
‫ذلیل کیا ھوا ھے‬

‫تو میں نے کہا آپ گبھرائیں نہ یہ شرٹ‬


‫انکو بہت سوٹ کرے گی‬

‫پھر میں نے ثانیہ کو کہا میم ایک بات‬


‫کروں اگر آپ ناراض مت ہوں تو۔۔‬

‫ثانیہ نے ایکدم چونکتے ھوے بڑی‬


‫حیرانگی سے میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬
‫جی پوچھیں ۔‬
‫میں نے کہا انکا نام صوفی کیوں ھے‬
‫تو ثانیہ کھل کھال کر بولی‬
‫نھی بھائی اس کا نام صوفی نھی‬
‫ضوفی ھے اور یہ اسکا ِنک نیم ھے‬
‫اصل نیم ضوفشاں ھے ۔۔‬

‫میں نے کہا ہممم سوری میم مجھے‬


‫سمجھ آئی تھی کہ آپ نے انکو صوفی‬
‫کہا ھے‬
‫اور میں تب سے پریشان تھا کہ صوفی‬
‫تو مولویوں کو کہا جاتا ھے ۔۔‬

‫تو ثانیہ ہنسنے لگ گئی ۔‬


‫ثانیہ ہنستے ھوے بہت ھی پیاری لگ‬
‫رھی تھی اسکے موتیوں جیسے‬
‫چمکتے ھوے دانت جب ہنستے ھوے‬
‫دکھتے تو اسکی ہنسی کو اور چار چاند‬
‫لگ جاتے۔‬

‫میں نے پھر ثانیہ کو مخاطب کرتے‬


‫ھوے کہا‬
‫میم آپ کا پالر ھے‬
‫تو وہ حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫آپکو کیسے پتہ‬

‫تو میں نے کہا‬


‫‪.‬ضوفی میم‬
‫برائڈل کو تیار کرنے کا کہہ رھی تھی‬
‫تو میں سمجھا شاید آپکا پالر ھے ۔‬

‫تو ثانیہ بولی جی ضوفی کا پالر ھے‬


‫جبکہ میں تو ابھی سٹڈی کر رھی ھوں‬
‫اور یہ میری بیسٹ فرینڈ ھے‬
‫ابھی ہم باتیں ھی کررھے تھے‬
‫کہ ٹرائی روم کا تھوڑا سا دروازہ ُکھال‬
‫تو ضوفی نے سر باھر نکال کر ثانیہ‬
‫کو آواز دی کے اندر آنا‬
‫تو ضوفی اٹھ کر اندر چلی گئی‬
‫میرا بھی بڑا دل کررھا تھا کہ کسی‬
‫طریقے سے ضوفی کو شرٹ بدلتے‬
‫دیکھوں ۔‬
‫کہ اچانک میرے دماغ میں ایک خیال‬
‫آیا کہ۔۔۔۔۔‬

‫کہ اگر میں بہانے سے اندر چال جاوں‬


‫تو اچانک ضوفی کو دیکھ سکتا ھوں‬
‫پھر خیال آیا کہ دروازے کو ہلکا سا‬
‫کھول کر دیکھ لوں ۔۔‬

‫پھر اپنی بیوقوفی پر ہنسا کہ ماما‬


‫تم کونسا اکیلے ھو دکان میں‬
‫انکل اور باقی کے دونوں لڑکے بھی‬
‫ہیں ۔‬

‫ابھی میں اپنے خیالوں میں ھی گم تھا‬


‫کہ ٹرائی روم کا دروازہ ُکھال اور‬
‫دونوں حسینائیں دروازہ کھول کر ہنستی‬
‫ھوئی باہر نکلی‬

‫اور ضوفی نے بڑی گہری نظر سے‬


‫مجھے دیکھتے ھوے شرٹ مجھے‬
‫پکڑاتے ھوے کہا‬

‫اسے پیک کردیں اور پرائس بتا دیں‬


‫میں نے سینہ چوڑا کرتے ھوے کہا‬
‫کیسی لگی شرٹ میم۔‬

‫تو ضوفی بولی ذبردست آپ واقعی‬


‫انٹیلیجنٹ ھو گڈ اچھی ڈیلنگ ھے آپکی‬
‫‪I like it‬‬
‫مجھے اس کی آدھی انگلش کی سمجھ‬
‫آئی اور ادھی اوپر سے گزر گئی۔‬

‫میں نے سوٹ کو پیک کیا اور انکو‬


‫مناسب سے پرائس بتاے‬
‫تو ضوفی نے حیران ھوتے ھوے میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے کہا‬
‫اتنے کم پرائس کہیں اسکا سٹف دونمبر‬
‫تو نھی ۔۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا میم یہ صرف‬


‫آپکے لیے خصوصی ڈسکاونٹ ھے‬
‫ورنہ ہم اس کا ڈبل ریٹ کرتے ہیں۔‬
‫ضوفی نے مسکراتے ھوے میری‬
‫طرف دیکھ کر اپنا پرس کھوال اور‬
‫مجھے پیسے پکڑاتے ھوے بڑی ادا‬
‫سے بولی‬

‫ویسے میں وجہ جان سکتی ھوں کہ‬


‫مجھ پر اتنی مہربانی کی۔‬

‫میں نے کہا میم اسکی کافی وجہ ھے‬


‫بس آپ نے وجہ جان کر کیا کرنا ھے ۔‬

‫تو فوضی نے دلچسپی لیتے ھوے پھر‬


‫کہا‬
‫بتائیں نہ کیا وجہ ھے‬
‫اس کے استفسار کرنے پر میں بوال۔۔‬
‫میم پہلی وجہ یہ ھے کہ‬
‫آپ ہماری دکان پر پہلی دفعہ تشریف‬
‫الئی ہیں۔‬
‫اور دوسری وجہ یہ ھے کہ آپ کو‬
‫ہماری ورائٹی پسند نھی آرھی تھی ۔‬
‫اور تیسری وجہ یہ ھے کہ‬
‫یقینا َ ََ آپ پر یہ شرٹ بہت جچی ھوگی‬

‫اور چوتھی وجہ یہ ھے کہ آپ دوبارہ‬


‫بھی ہمارے پاس تشریف الئیں‬

‫تو ضوفی نے مسکرا کر میری طرف‬


‫دیکھا اور میرے ھاتھ سے سوٹ واال‬
‫شاپر پکڑا اور بولی‬
‫بہت تیز ھو آپ‬
‫اور ہرنی کی چال چلتی ھوئی باہر نکل‬
‫گئی‬

‫تو میں بھی مسکراتا ھوا اس کی گانڈ‬


‫کو تاڑتا ھوا پیچھے پیچھے کیش کاونٹر‬
‫تک آیا اور انکل کو پیسے پکڑاے‬

‫انکل بڑی اشتیاق نظروں سے مجھے‬


‫دیکھ کر بولے‬
‫واہ یاسر کیا بات ھے‬
‫بڑی محنت سے انکو قابو کر لیا‬
‫تو میں ہنستے ھوے بوال‬
‫انکل جی آپ کا شاگرد ھوں تو کیسے‬
‫کسٹمر کو نکلنے دیتا‬

‫اور میں پھر باہر جاکر جنید کے پاس‬


‫بیٹھ گیا‬
‫تو جنید آہستہ سے بوال‬
‫یار مال بڑا چوکس تھا‬

‫میں نے کہا ھاں یار دونوں بچیاں ھی‬


‫بڑی زبردست تھی‬

‫تو جنید بوال ایک کو تو میں جانتا ھوں‬


‫میں نے چونکتے ھوے کہا کسکو‬
‫تو جنید بوال‬
‫وہ جس نے گولڈن کلر کی شرٹ پہنی‬
‫ھوئی تھی جو شرٹ پہن کر چیک‬
‫کرنے اندر گئی‬

‫تو میں نے کہا ھاں ھاں‬


‫تم اسے کیسے جانتے ھو۔‬

‫تو جنید بوال یار یہ ساتھ والی مارکیٹ‬


‫کی بیسمنٹ میں اسکا پالر ھے بڑی گرم‬
‫بچی ھے‬
‫اسکے محلے کے سارے لڑکے اسکے‬
‫پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں‬
‫مگر یہ سالی کسی کو گھاس نھی ڈالتی‬
‫تو میں نے جنید سے اسکے محلے کا‬
‫پوچھا تو جنید نے محلے کے ساتھ ساتھ‬
‫مجھے گلی اور گھر کا نقشہ بھی بتا‬
‫دیا۔۔‬

‫میں بڑی حیرانگی سے جنید کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بوال‬
‫واہ یار بڑی معلومات رکھتا ھے‬
‫کہیں تم بھی اسکے پیچھے تو نھی۔‬

‫تو جنید ٹھنڈی آہ بھر کر بوال‬


‫نھی یار میری اتنی قسمت کہاں کہ ایسی‬
‫پوپٹ بچی کو پھنسا سکوں‬
‫میں تو اسکے نام کی بس ُمٹھ ھی‬
‫مارلیتا ھوں ۔‬

‫تو میں نے ہنستے ھوے جنید کی کمر‬


‫پر ہاتھ مارتے ھوے کہا‬
‫چھڈ یار کوئی حال نئی تیرا۔‬

‫ٹرائی تو مارنی تھی شاید پھنس ھی‬


‫جاے۔‬

‫تو جنید بوال اس سالی کے پیچھے ایک‬


‫سے بڑھ کر ایک لڑکا ھے‬
‫مگر یہ دیکھتی سب کی طرف ھے‬
‫مگر کسی کو لفٹ نھی کرواتی ۔‬

‫تو بھی ٹرائی کر کے دیکھ لے شاید‬


‫تیرا کام بن جاے تو بھی پوپٹ بچہ ھے‬
‫۔‬

‫میں نے کانوں کو ھاتھ لگاتے ھوے‬


‫کہا‬
‫نہ یار میں ٹھہرا پینڈو اور وہ ٹھہری‬
‫شہری میم اور اوپر سے ہے بھی پالر‬
‫والی‬
‫نہ بابا نہ پٹواے گا اس سے مجھے‬

‫تو جنید بوال سوٹ لیتے وقت تو تیرے‬


‫ساتھ بہت ہنس ہنس کر باتیں کررھی‬
‫تھی‬
‫میں نے کہا یار مجھے کیا لینا اسکی‬
‫ہنسی سے‬
‫میں نے تو بس اسکے پرس سے پیسے‬
‫نکلوانے تھے‬
‫سو نکلوا لیے‬
‫اب لن پر چڑھے‬

‫تو جنید ہنستے ھوے بوال‬


‫ماما لن تے اونے ایویں نئی چڑ جانا‬
‫پتہ نئی کنے لن اودھے انتظار وچ روز‬
‫روندے نے‬
‫میں ہنسس پڑا‬
‫کہ اتنے میں انکل کی آواز آئی کے‬
‫چلو ُمنڈیو سامان اندر رکھو دکان بند‬
‫کرئیے‬

‫اور ہم ہنستے ھوے اٹھے اور باہر سے‬


‫سوٹ اتار کر اندر رکھنے لگ گئے‬
‫اور دکان بند کر کے میں انکل کہ ساتھ‬
‫ھی گاوں آگیا ۔۔‬

‫گھر آکر میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور‬


‫پھر باہر گلی میں نکل کر فوزیہ کے‬
‫گھر کی طرف چل دیا۔‬
‫اندر داخل ھوا تو صحن میں انکل اور‬
‫فوزیہ بیٹھی ھوئی تھی جبکہ عظمی‬
‫اور نسرین مجھے نظر نہ آئیں شاید وہ‬
‫کمرے میں تھیں ۔‬

‫میں نے فوزیہ اور انکل کو سالم کیا‬


‫اور فوزیہ کے پاس بیٹھنے کی بجاے‬
‫انکل کے پاس جاکر بیٹھ گیا‬
‫اور انسے انکے سالے کا افسوس کرنے‬
‫لگ گیا‬

‫فوزیہ اپنے بھائی کا ذکر سن کر رونے‬


‫لگ گئی میں اٹھ کر ان کے پاس جاکر‬
‫بیٹھ گیا اور فوزیہ کو کندھے سے پکڑ‬
‫کر اپنے ساتھ لگاتے ھوے حوصلہ‬
‫دینے لگ گیا کہ‬
‫ہم جانے والے کو روک تو نھی سکتے‬
‫جس کا جتنا وقت دنیا میں لکھا ھے اس‬
‫نے اتنا ھی گزارنا ھے ۔۔‬

‫فوزیہ بولی ابھی اسکی عمر ھی کیا‬


‫تھی ابھی تو اسکی ایک بیٹی جوان‬
‫کنواری تھی جسکی شادی کرنے کا‬
‫بیچارا سوچ رھا تھا بیچارے کو اپنی‬
‫بیٹی کی شادی دیکھنا نصیب بھی نہ‬
‫ھوا۔‬

‫میں نے فوزیہ سے پوچھا‬


‫آنٹی انکے کتنے بچے ہین۔‬
‫تو فوزیہ اپنے آنسو دوپٹے سے صاف‬
‫کرتے ھوے بولی‬
‫دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے جو جوان‬
‫ھے ۔‬
‫بیٹے بھی ابھی چھوٹے ہین‬

‫بھابھی بیچاری بھی کیسے انکی کفالت‬


‫کرے گی‬

‫جانے واال تو چال گیا‬


‫بچوں کا کیا بنے گا‬
‫اور بیچاری گھر کیسے چالے گی ۔‬
‫فوزیہ یہ کہہ کر پھر رونے لگ گئی ۔۔‬
‫میں پھر انکو اپنے ساتھ لگا کر چپ‬
‫کروانے لگ گیا‪،‬‬

‫فوزیہ کے رونے کی آواز سن کر‬


‫عظمی اور نسرین بھی باھر آگئی اور‬
‫وہ بھی فوزیہ کے قریب آکر فوزیہ کو‬
‫چپ کروانے لگ گئی‬
‫کہ امی بس کریں جب سے آئیں ہیں‬
‫روئی جارھی ھیں صبر کریں ۔‬
‫تو فوزیہ اور رونے لگ جاتی‬
‫کچھ دیر بعد فوزیہ کچھ سنبھل گئی‬
‫اتنے میں محلے کی دو تین عورتیں‬
‫اندر داخل ھوئی تو میں انکے بیٹھنے‬
‫کے لیے جگہ چھوڑ کر اٹھ کر اندر‬
‫کمرے کی طرف چال گیا میرے پیچھے‬
‫ھی نسرین بھی آگئی ۔‬

‫اور افسردہ سی ھو کر بیٹھ گئی‬


‫تو میں نے بھی موقع کی مناسبت سے‬
‫کوئی ایسی ویسی بات نہ کی اور کچھ‬
‫دیر ادھر ھی بیٹھا رھا‬
‫اور پھر گھر آگیا‪ ،‬اگلے دن جمعہ تھا‬
‫اور مجھے دکان سے چ ُھٹی تھی‬

‫اور عظمی لوگوں نے بھی سکول نھی‬


‫جانا تھا ۔‬
‫صبح میں اٹھا تو ناشتہ وغیرہ کر کے‬
‫صدف کے گھر کی طرف چل دیا‬
‫اور دروازہ کھال دیکھ کر اندر جھانکا‬
‫کے اس کا سڑیل باپ تو نھی‬
‫مگر صحن میں صرف صدف کی امی‬
‫بیٹھی کپڑوں کو گھٹری میں باندھ رھی‬
‫تھی‬
‫میں نے آنٹی کو سالم کیا‬
‫اور پوچھا آنٹی کیا کررھی ہیں‬
‫تو آنٹی بولی۔۔‬
‫ُکش نئی پُتر اے تون والے کپڑے نے‬
‫کنے اکھٹے ھو گئے نے‬
‫تیری پین نوں تے ٹیم نئی ملدا وچاری‬
‫شام نوں سکولوں آندی اے تے آندے ای‬
‫بچے پڑن آجاندے نے‬
‫تے اج نال والی صغراں نہر تے چلی‬
‫سی کپڑے تون تے میں سوچیا میں وی‬
‫اودے نال چلی جاواں اودیاں ِتن چار‬
‫کڑیاں نے ہتھوں ہتھ چھیتی نال میرے‬
‫کپڑے وی تو دین گیا۔۔۔‬

‫میں نے کہا آنٹی صدف کو کہیں وہ بھی‬


‫آپ کے ساتھ چلی جاے‬

‫تو آنٹی بولی۔‬


‫اوس وچاری کولوں ٹیم کتھے‬

‫میں نے کہا آنٹی میرے لیے کچھ کام‬


‫ھو تو بتا دینا‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫جیوندہ رہ پُتر‬
‫شاال جوانیاں مانے‪،‬‬

‫بس میرے نال اے کپڑیاں دی پَنڈ نہر‬


‫تے َچھڈ آ‬
‫تے فیر اپنی پین کول آجاویں او نمانی‬
‫کلی اے کار‬
‫تیرا چاچا تے تیرا ویر وی اج کم تے‬
‫اے او وی پتہ نئی رات نوں آندہ اے کہ‬
‫اگلے دن ۔‬
‫تُوں میرا پُتر چھیتی نال واپس آجاویں‬
‫تے جدوں تک میں نہ آواں تے تُوں‬
‫کروں بار نہ نکلیں۔۔‬

‫خوشی کے مارے میری تو باچھیں کھل‬


‫اٹھیں کہ اج دکان توں ُچھٹی اے پر‬
‫پُھدی تو ُچھٹی نئی واہ جی واہ بلے‬
‫بلے‬

‫۔تبھی صدف کمرے سے کچھ دھونے‬


‫والے کپڑے پکڑے ہوے باہر نکلی اور‬
‫مجھے دیکھ کر حیران ھوگئی‬
‫اور بولی خیر اے صبح صبح ای چن‬
‫ِکدروں نکل آیا‬

‫میں نے کہا آنٹی کے ساتھ نہر پر جارھا‬


‫ھوں کپڑے دھونے کے لیے ۔‬

‫تو صدف ہنستے ھوے بولی‬


‫امی اس سے کپڑے دھلوانے ہیں کیا۔‬

‫تو آنٹی بولی ۔۔‬


‫کملی ھوگئی ایں‬
‫اے کیڑا ُکڑی اے‬
‫جیڑا میرے نال کپڑےتواے‬

‫ااینے مینوں چھڈ کے آنا اے تے فیر‬


‫ایتھے تیرے کول رے گا ۔‬

‫تےاینوں تنگ نہ کریں‬


‫تیرا چھوٹا ویر اے۔۔‬

‫میں نے آنٹی کے پاس جاکر آنٹی کو‬


‫بڑے الڈ سے کہا‬
‫آنٹی جی اسکو اچھی طرح سمجھا دیں‬
‫یہ ایسے ھی مجھ پر رعب جھاڑتی‬
‫رھتی ھے اور بھاری بھاری کام مجھ‬
‫سے کرواتی ھے ۔۔‬

‫تو آنٹی صدف کی طرف دیکھتے ھوے‬


‫بولی ۔‬

‫سن لےکاکی ہن توں میرے پُتر نوں‬ ‫گل ُ‬


‫تنگ کیتا ناں تے تیریاں لتاں میں توڑاں‬
‫گی ۔۔‬

‫صدف مجھے گھورتے ھوے منہ پر‬


‫ھاتھ پھیر کر بولی‬
‫امی یہ جھوٹ بول رھا ھے میں اسے‬
‫کیوں تنگ کروں گی‪،‬‬

‫میں نے ڈرنے کے انداز سے پھر آنٹی‬


‫کو کہا‬
‫آنٹی دیکھ لیں مجھے پھر گھور رھی‬
‫ھے اور دھمکی دے رھی ھے‪،‬‬

‫تو انٹی بولی‬


‫صدف شرم کر تیرے توں چھوٹا اے‪،‬‬
‫تو صدف پیر پٹختی ھوئی اندر چلی‬
‫گئی‪،‬‬

‫اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی اندر ائی‬


‫اور بولی‬

‫خالہ امی کیندی اے نہر تے چلیے‬


‫تو انٹی بولی‬
‫ہاں پتر اپنی امی نوں کے چھیتی نال‬
‫آجاوے میں‬
‫لیڑیاں دی پَنڈ بَن لئی اے ۔۔‬

‫کچھ دیر بعد ساتھ والی آنٹی اور اسکی‬


‫تین چار بیٹیاں جو ابھی جوان ھورھی‬
‫تھی‬
‫دروازے کے پاس کھڑی ھوکر‬
‫انٹی کو آواز دینے لگ گئی‬
‫آنٹی نے مجھے کپڑوں کی بڑی سی‬
‫گھٹری اٹھانے کا کہا‬
‫تو میں نے جلدی سے گٹھری کو اٹھا‬
‫کر سر پر رکھا اور باہر نکل آیا تو انٹی‬
‫نے صدف کو آواز دی کہ پُتر دروازہ‬
‫بند کرلے‬

‫اور ہم نہر کی طرف چل پڑے‬

‫کچھ دیر بعد ہم نہر پر پہنچ گئے تو آنٹی‬


‫نے مجھے دعائیں دیتے ھوے کہا‬
‫پتر سدھا کار جاویں تیری پین کلی اے‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور تیز تیز‬
‫قدموں سے چلتا ہوا صدف کے‬
‫دروازے پر جا پہنچا‬
‫اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد‬
‫صدف کی آواز آئی کون‬

‫میں نے کہا‬
‫تمہارا عاشق‬

‫تو وہ کچھ دیر خاموش رھی پھر بولی‬


‫ھاں جی فرماو کنوں ملنا اے‬

‫میں نے ادھر ادھر دیکھتے ھوے کہا‬


‫اس گھر میں ایک حسن کی دیوی رھتی‬
‫ھے‬

‫اسکی پوجا کرنے کے لیے حاضر ھوا‬


‫ھوں‬
‫تو صدف بولی‬
‫جناب غلط اڈریس پر آے ہیں یہاں ایسی‬
‫ویسی کوئی دیوی نھی رھتی لحاظ‬
‫جاءیں ادھر سے‬

‫میں نے کہا ٹھیک ھے جی جو جناب کا‬


‫حکم‬
‫اور میں نے جان بوجھ کر قدموں کو‬
‫ایسے زمین پر مارا کے صدف کو یہ‬
‫لگے کے میں واپس جارھا ھوں ۔‬

‫تو ایکدم دروازہ کھال اور صدف نے‬


‫پورا سر باہر کو نکاال‬
‫تو میں اس سے پہلے گلی کا جائزہ لے‬
‫چکا تھا کہ کوئی ھے تو نھی۔‬

‫جیسے ھی صدف نے چہرہ باہر کو‬


‫نکاال تو میں سائڈ سے اچانک نکل کر‬
‫اس کے سامنے منہ کیا اور اسکے‬
‫ہونٹوں کو چوم کر بوال‬
‫میری دیوی مل گی ۔‬
‫صدف میرے اس طرح اچانک سامنے‬
‫آنے اور اسکے ہونٹ چومنے کی وجہ‬
‫سے بری طرح ڈر گئ تھی اگر اسکی‬
‫نظر مجھ پر نہ پڑتی تو بالشبہ اسکی‬
‫چیخ نکل جانی تھی‬

‫صدف ایکدم پیچھے اندر کی طرف‬


‫ھوگئی اور ایک ھاتھ اپنے ہونٹوں پر‬
‫اور ایک ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر‬
‫مجھے گھور کر بولی ۔۔۔۔۔‬

‫بے غیرت گندا ُکتا میری جان نکال دی‬


‫شرم تو نھی آتی کیسے مجھے ڈرا دیا‬
‫ھے۔‬
‫صدف نے ایک ھی سانس میں میری‬
‫اچھی سیوا کردی ۔‬
‫میں ہنستا ھوا اندر داخل ہوا اور دروازہ‬
‫بند کر کے صدف کی طرف ایسے بڑھا‬
‫جیسے ِولن ہیروئن کی عزت لوٹنے کے‬
‫لیے قدم بڑھاتا ھے۔۔‬

‫میں ایسے ھی سلوموشن میں قدم آگے‬


‫بڑھا رھا تھا اور صدف اپنی عزت‬
‫بچانے کے لیے ۔میری طرف منہ کیے‬
‫پیچھے کی طرف چل رھی تھی‬

‫میں نے قہقہہ لگایا ھا ھا ھا ھا‬


‫تو صدف میں مشرقی پینڈو لڑکی کی‬
‫روح نازل ہوئی‬
‫اور صدف نے مجھے گریبان سے پکڑ‬
‫کر ُمکا لہراتے ھوے کہا‬

‫میں اک مارنی اے تیری بوتھی تے آیا‬


‫وڈا ہیرو‪،‬‬

‫تو میں تھوڑا سا نیچے کو ُجھکا اور‬


‫ایک ھاتھ صدف کی ٹانگوں کے پیچھے‬
‫کیا اور ایک ھاتھ صدف کی کمر کے‬
‫گرد‬
‫اور ایک جھٹکے سے اسے بازوں میں‬
‫بھر کر اٹھا لیا اور اسے اٹھاتے ھوے‬
‫میری اووئی بھی نکل گی‬

‫صدف اپنا آپ مجھ سے ُچھڑوا رھی‬


‫اور ٹانگیں مار رھی تھی‬
‫کہ چھوڑو مجھے‬
‫میں نے شور مچا دینا ھے‬
‫کہ میری عزت لوٹنے لگا ھے‬
‫میں کمرے کی طرف چلتا ھوا پھر‬
‫قہقہہ مار کر بوال‬
‫ھا ھا ھا ھا مار لو چیخ مچا لو شور آج‬
‫تمہیں کوئی نھی بچا سکتا‬

‫صدف بولی‬
‫تیری اتنی جرات ھے کہ تم میری عزت‬
‫لوٹ سکو‬
‫میں نے کہا‬
‫جرات ھے نھی جرات ھوگئی ھے اور‬
‫ابھی کچھ دیر بعد‬
‫میں تمہیں چیڑ پھاڑ دوں گا‬
‫ھا ھا ھا ھا‬

‫ایسے ھی میں ڈرامہ کرتے ھوے‬


‫صدف کو لے کر برآمدے میں پہنچ گیا۔‬

‫صدف ہنسی بھی جارھی تھی اور‬


‫میرے سینے پر کے بھی ماری جارھی‬
‫تھی‬
‫اور مجھے جعلی دھمکیاں بھی دے‬
‫رھی تھی ۔‬

‫میں اسے اٹھاے ھوے اندر کمرے میں‬


‫لے گیا اور اسکو چارپائی پر پھینک‬
‫دیا‬

‫صدف چارپائی پر گرتے ھی بولی‬


‫ھاےےےے امی میری کمر ٹوٹ گئی۔‬

‫میں صدف کے اوپر ُجھکتے ھوےبوال‬


‫کمر تو اب ٹوٹے گی‬
‫جب ذور ذور سے جھٹکے لگے گیں‬
‫تو صدف بولی‬
‫چل دفعہ ھو آیا وڈا جھٹکے مارنے واال‬
‫پیچھے ھو میں نے ابھی صفائیاں کرنی‬
‫ہیں۔‬
‫میں نے صدف کی ٹھوڑی کو پکڑا کر‬
‫کہا‬
‫کیا بات ھے‬
‫بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں‬
‫دل کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں ۔‬

‫صدف ہنس کر ٹھوڑی کو پکڑے میرے‬


‫ہاتھ کو پکڑ کر بولی‬
‫جناب شاعر کب کے ہوگئے‬
‫میں نے کہا‬
‫جب سے جناب کی قرابت نصیب ھوئی‬
‫ھے تب سے ہمیں ہر چیز پر شاعری‬
‫کرنے کا شوق پیدا ھوگیا ہے‬

‫تو صدف بولی اچھا جی بڑی گل اے‬


‫میں اس کے ساتھ ھی چارپائی‪ .‬کے‬
‫اوپر چڑھ کر ادھ لیٹی ھوئی صدف کے‬
‫اوپر دونوں اطراف بازو کر کے بازوں‬
‫کے وزن پر اسپر جھک گیا‬
‫صدف کے ہونٹ میرے ہونٹوں کے‬
‫سامنے تھے‬
‫اس کی تیز تیز سانسیں میرے منہ پر پڑ‬
‫رھی تھی‬
‫اس کے اوپر نیشچے ھوتے ممے‬
‫میرے سینے سے لگ رھے تھے‬
‫صدف تھوڑا پیچھے کو کھسکی میں‬
‫میں ھاتھوں کے بل چلتا ھوا ایک ہاتھ‬
‫آگے بڑھا‬
‫تو صدف شرماتے ھوے بولی‬
‫کیا ھے یاسر مجھے جانے دو‬
‫گھر میں سارا سامان بکھرا پڑا ھے‬
‫اماں آگئی تو کیا سوچے گی کہ میں نے‬
‫صفائی بھی نھی کی ۔۔۔‬

‫میں نے کہا مجھے پتہ ھے جناب انٹی‬


‫تین چار گھنٹوں سے پہلے نھی آتی۔۔‬
‫اس لیے جناب بےغم ھوجاو‬

‫صدف بولی‬
‫کیا چاہتے ھو‬
‫میں نے اسی انداز میں کہا تمہیں۔۔۔‬
‫صدف بولی یاسرررر مجھے صفائی تو‬
‫کر لینے دو۔‬

‫میں نے نفی میں سر ہال دیا۔۔‬

‫تو صدف نے ہار مانی اور سیدھی‬


‫میرے نیچے ڈھے گئی ۔‬
‫اور منہ دوسری طرف پھیر لیا‬
‫میں نے اسکے اوپر لیٹتے ھوے کہا‬
‫صدف ۔۔‬

‫تو اس نے منہ دوسری طرف کئے ھی‬


‫کہا‬
‫جی‬
‫میں نے کہا کیا ھوا ناراض ھوگئی ھو۔‬

‫تو وہ نفی میں سر ہال کر بولی‬


‫نھی‬
‫میں نے کیوں ناراض ھونا ھے‬
‫تو میں بوال‬
‫پھر یہ بےرخی کیوں دیکھا رھی ھو۔‬
‫میں آج سپیشل تم سے ملنے کے لیے آیا‬
‫ھوں اور تم ھو کہ نخرے کر رھی ھو۔‬

‫صدف کی تیز چلتی سانسیں اسکے گرم‬


‫ھونے کا اعالن کررھیں تھی‬
‫جبکہ صدف اپنے مشرقی ھونے کا‬
‫ثبوت پیش کررھی تھی ۔‬

‫صدف نے میری طرف منہ کیا تو‬


‫میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے قریب‬
‫کئے‬
‫تو صدف نے اپنی آنکھیں بند کر کے‬
‫اپنے نرم ہونٹ کھول کر اعالن جنگ کا‬
‫اعالن کردیا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے اپنے میں سے‬
‫تلوار نکال کر اسکے ہونٹوں پر پھیرتے‬
‫ھوے منہ کے اندر گھسا دی‬
‫تو صدف نے اپنے ہونٹوں کا دروازہ بند‬
‫کر کے اس تیز تلوار کو ہونٹوں میں‬
‫بھینچ کر چوسنا شروع کردیا‬
‫کچھ دیر بعد صدف نے اپنا منہ کھوال‬
‫اور اپنی گالبی زبان کی نوک کو‬
‫لہراتے ھے باہر نکاال‬
‫اور ادھر میں نے بھی اسکی تقلید میں‬
‫ایسا ھی کیا‬
‫اور نوک کے ساتھ نوک کو مال کر‬
‫عجب مزے کا لطف لینے لگ گیا‬
‫کچھ دیر ایسے ھی نوک سے نوک ملتی‬
‫رھی ٹکراتی رھی‬
‫اور جب جنون بڑھا تو‬
‫دونوں کے لبوں کے پٹ کھلے اور‬
‫ہونٹوں میں ہونٹ سمانے لگے‬
‫ایک دوسرے کا لباب اپنے اندر اتارتے‬
‫رھے۔۔۔‬

‫صدف کے ممے میرے سینے میں‬


‫جزب ھورھے تھے‬

‫میرا لن تن کر پھدی کے ساتھ ملن کے‬


‫لیے بے چین تھا اور پھر کے در پر‬
‫ٹکریں مار مار کر دخول کرنے کا‬
‫احتجاج کررھا تھا۔‬

‫مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں دونوں‬


‫ڈوب چکے تھے‬

‫میں صدف سے اوپر اٹھا تو اور صدف‬


‫کو بازوں سے پکڑ کر اوپر کو اٹھایا‬

‫اور صدف کی قمیض آگے اور پیچھے‬


‫سے پکڑ کر اوپر کرنے لگا تو‬
‫صدف بولی‬
‫یاسر کمر ے کا دروازہ تو بند کردو‬
‫میں نے کہا باہر کا تو بند ھے کھال‬
‫رھنے دو‬
‫تو صدف بولی نھی یاسر اسے بھی بند‬
‫کردو‬
‫تو میں اپنا کام ادھورا چھوڑ کر‬
‫چارپائی سے اترا اور دروازہ بند کرنے‬
‫چال گیا‬

‫دروازہ بند کر کے میں پھر چارپائی‬


‫کے پاس آکر کھڑا ھوگیا‬

‫صدف ویسے ھی بیٹھی تھی‬

‫میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا اور اسے‬


‫چارپائی سے نیچے اترنے کا کہا تو‬
‫صدف بھی چارپائی سے نیچے اتر کر‬
‫میرے مقابل کھڑی ھوگئی ۔‬

‫میں نے صدف کی کمر کر گرد بازوں‬


‫کا گھیرا ڈاال‬
‫اور لن کو پھدی والی جگہ پر لگا کر‬
‫صدف کے کان کے نیچے گردن پر‬
‫ہونٹ رکھ کر اسے کس کر جپھی ڈال‬
‫لی ۔‬

‫صدفے نے بھی ھاتھ میرے پیچھے لیجا‬


‫کر مجھے بازوں میں کس لیا‬
‫دو جسم ایک جسم بن گئے‬
‫ایک دوسرے میں سما گئے‬
‫دونوں پر شہوت سوار ھو چکی تھی‬
‫پھدی اور لن ایک دوسرے کے لمس‬
‫سے مچل رھے تھے‬
‫سینے ایک دوسرے میں سامنے کی‬
‫کوشش کررہے تھے‬

‫صدف کی آہیں سسکیاں نکل رھی تھی‬

‫میرے ہونٹ صدف کی گردن کو‬


‫چومتے ھوے گلے تک آرھے تھے اور‬
‫یہ سفر چھوٹی چھوٹی پاریاں کر کے‬
‫طے کررھے تھے‬

‫میں نے صدف کی کمر سے ھاتھ تھوڑا‬


‫نیچے کیا اور اسکے گوشت سے بھری‬
‫گول گانڈ کی پھاڑیوں کو مٹھیوں میں‬
‫بھر لیا‬

‫صدف بے چین ھوکر پھدی کو لن پر‬


‫دبا رھی تھی‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫میں نے صدف کی قمیض کو پیچھے‬
‫سے پکڑ کر اوپر کیا تو صدف مجھ‬
‫سے الگ ھوگئی اور خود قمیض کو‬
‫آگے اور پیچھے سے پکڑ کر اتارنے‬
‫لگ گئی‬
‫قمیض اتار کر اس نے چار پائی پر رکھ‬
‫دی اور گھوم کر کمر میری طرف کر‬
‫کے مجھے بریزیر کی ہک کھولنے کا‬
‫اشارا کیا‬
‫تو میں نے پہلے اسکے ننگے کندھوں‬
‫پر ہونٹ رکھ کر چوما جس سے صدف‬
‫نے جھرجھری لی اور میں نے ہاتھ‬
‫بڑھا کر اسکی بریزیر کی ہکا کھول‬
‫کر‬
‫بریزیر کے سٹرپ کو اسکے کندھوں‬
‫سے اتارا اور ھاتھوں کو اسکی بغلوں‬
‫کے نیچے سے گزار کر بریزیز کے‬
‫کپ کے اندر سے اسکے دونوں ننگے‬
‫مموں کو پکڑ کر انگوٹھے سے کپوں‬
‫کو آگے کی طرف پُش کیا تو بریزیر‬
‫صدف کے پیروں میں گر گیا اور‬
‫صدف کا اوپر واال حصہ کپڑوں سے‬
‫بے نیاز ھوگیا‬

‫میں نے لن صدف کی گانڈ کی دراڑ‬


‫میں ڈال کر صدف کے ننگی کمر کو‬
‫اپنے سینے سے لگا کر ھاتھوں میں‬
‫ممے پکڑ کر جپھی ڈال لی‬
‫صدف کی سسکاریاں بلند ھوگئی‬

‫دونوں کو کوئی ڈر خوف نھی تھا کسی‬


‫کے آنے کا ڈر نھی تھا کسی کے‬
‫دیکھنے کا ڈر نھی تھا تو اس لیے بے‬
‫دریغ اپنے مزے کا اعالن بلند‬
‫سسکاریوں اور آہوں سے کر رھے‬
‫تھے ۔‬

‫کچھ دیر ایسے ھی میں صدف کی کمر‬


‫سے چمٹا اسکی گانڈ میں لن کو رگڑتا‬
‫رھا‬
‫اور اسکے ممے مسلتا ھوا اسکے‬
‫کندھوں اور گردن کو چومتا رھا‬

‫پھر میں نے اسکا منہ اپنی طرف کیا‬


‫اور اپنی قمیض اتارنے لگ گیا‬
‫قمیض اتار کر میں نے بھی صدف کی‬
‫قمیض کے اوپر اپنی قمیض رکھ دی‬
‫صدف‬
‫میرے ننگے سینے پر ھاتھ پھیرتی‬
‫رھی‬
‫اور پھر آگے ھوئی اور میرے سینے پر‬
‫اپنے ہونٹ رکھ کر میرے ننگے سینے‬
‫کو چومنا شروع کردیا۔‬

‫اور سینے کو چومتی ھوئی ساتھ دونوں‬


‫ہاتھ کھول کر میرے سینے پر رکھے‬
‫نیچے میری ناف کی طرف جارھ تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ پاوں کے بل نیچے بیٹھ‬
‫رھی تھی‬
‫اسکے نرم ہاتھ میرے سینے سے‬
‫رینگتے ھوے میرے پیٹ کی طرف‬
‫آتے ھوے میرے جسم میں کرنٹ پید‬
‫کررھی تھی اور مجھے مزے کی شدید‬
‫لہر اپنے جسم میں دوڑتی محسوس ھو‬
‫رھی تھی‬

‫صدف پاوں کے بل بیٹھ چکی تھی‬


‫اور میرے پیٹ کو چومتے ھوے ناف‬
‫سے نیچے زبان کو پھیر رھی تھی‬
‫میرا لن صدف کے گلے لگا ھوا تھا‬

‫دوستو اس وقت مجھے جو مزہ جو‬


‫لطف آرھا تھا وہ مین بیان نھی کرسکتا‬
‫صدف کے ہونٹوں کا لمس مجھے جنت‬
‫کی وادیوں میں لیے جارھا تھا‬
‫میں مزے کی نئی دنیا سے واقف ھو‬
‫رھا تھا۔‬

‫صدف نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور‬


‫میرا ناال کھولنے لگ گی‬
‫میں حیران ھوکر صدف کو دیکھ رھا‬
‫تھا کہ اسے کیا ھوگیا آج۔۔‬

‫صدف نے میرے نالے کا سرا پکڑا اور‬


‫کھینچ کر نالے کی گانٹھ کو کھول دیا‬
‫اور میری شلوار کو کھول کر نیچے‬
‫میرے پیروں کی طرف چھوڑ دیا شلوار‬
‫خود ھی میرے قدموں میں گر گئی‬
‫میرا ننگا لن لہرا کر باہر نکال اور‬
‫صدف کے ہونٹوں کو ہونٹوں سے چھو‬
‫کر اسکی ناک کر لگا‬

‫صدف بڑے غور سے لن کا معائنہ‬


‫کررھی تھی اور ایک ھاتھ لن کی جڑ‬
‫پر اور ایک ھاتھ لن کے ٹوپے پر رکھ‬
‫کر درمیان والی خالی جگہ کو چوم‬
‫رھی تھی ۔‬

‫صدف میری جان لینے پر تلی ھوئی‬


‫تھی‬
‫اس کا یہ نیا روپ ۔مجھ پر بھاری پڑ‬
‫رھا تھا۔‬
‫صدف نے زبان نکالی اور ٹوپے کے‬
‫ہونٹوں کے درمیان زبان کی نوک لگا‬
‫کر نوک کو دبانے لگ گئی میرا لن‬
‫پھنکارنے لگ گیا کسی ازدھے کی‬
‫طرح پھن کو پھالنے لگ گیا میرے لن‬
‫کی نسیں پھول چکی تھی جیسے ابھی‬
‫پھٹ جائیں گی‬

‫صدف کا ہر اگال قدم مجھ پر بھاری پڑ‬


‫رھا تھا‬
‫صدف نے منہ کھوال اور لن کو جڑ‬
‫سے پکڑ کر ٹوپے کو منہ میں بھر لیا۔‬
‫اور لولی پپ کی طرح چوپا لگا کر‬
‫ٹوپے کو باہر نکال دیا۔‬
‫اور زبان نکال کر ٹوپے کے اوپر‬
‫پھیرنے لگ گئی ۔‬

‫اسکی زبان ٹوپے کو چاروں طرف سے‬


‫اپنے احسار مین لے رھی تھی اور‬
‫صدف لن کو جڑ سے پکڑ کر ساتھ‬
‫ساتھ مٹھ بھی مار رھی تھی‬

‫یہ مزہ بھی میرے لیے نیا تھا۔۔‬

‫صدف کسی ایکسپرٹ کال گرل کی‬


‫طرح۔ لن میں کھوئی ھوئی ہر چیز سے‬
‫بےگانی ھو کر لن کے ساتھ کھیل رھی‬
‫تھی‬

‫لن کو صدف نے جڑ سے پکڑا اور پھر‬


‫ٹوپے سے چومتی ھوئی لن کے جڑ‬
‫تک آئی اور پھر ایسے ھی چومتے‬
‫ھوے اوپر ٹوپے کی طرف چلی گئی‬
‫کچھ دیر صدف ایسے ھی میرے لن کو‬
‫چاروں اطراف سے چومتی سک کرتی‬
‫رھی اور پھر وہ کھڑی ھوگئی اور‬
‫میری طرف خمارآلود انکھوں سے‬
‫دیکھتے ھوے بولی مزہ آیا۔۔۔‬

‫میں نے اسکی گالوں پر ھاتھ رکھ کر‬


‫چومتے ھوے اسکے ھونٹ چوم کر کہا‬
‫واہ میری جان‬
‫بہتتتتتت مزہ آیا‬

‫اور میں نے ساتھ ھی جھک کر صدف‬


‫کے ممے کو منہ میں بھر لیا اور باری‬
‫باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا‬

‫کچھ دیر دونوں مموں کو چوس چوس‬


‫کر میرے من کی پیاس بجھائی‬
‫اور صدف کو چارپائی پر لیٹنے کو کہا‬
‫تو صدف نے کپڑے اٹھا کر دوسری‬
‫چارپائی پر رکھے اور سیدھی لیٹ گئی‬
‫میں شلوار پاوں سے نکال کر ایک‬
‫طرف رکھی اور چارپائی پر چڑھ گیا۔‬

‫صدف ایک ٹانگ کو کھڑی کر کے‬


‫ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹی ھوئی تھی‬
‫میں‬
‫صدف کی ٹانگ اسکے گھٹنے سے‬
‫اتاری اور اسکی شلوار پکڑ کر نیچے‬
‫لیجانے لگا تو پھدی والے حصے‬
‫سےطساری شلوار گلی تھی‬
‫میں نے شلوار کو نیچے کی طرف کیا‬
‫تو صدف نے گانڈ اٹھائی تو میں نے‬
‫شلوارنیچے کھینچ کر اسکے پیروں‬
‫سے نکال دی‬
‫اب میری آنکھوں کے سامنے صدف‬
‫کی بالوں سے پاک مالئم پھدی تھی جس‬
‫کے ہونٹ پھدی کے پانی سے گیلے‬
‫تھے‬
‫میں نے پھدی کے نزدیک ناک کی اور‬
‫پھدی کو سونگھا تو مجھے پھدی سے‬
‫مدہوش کر دینے والی سمیل نے مجبور‬
‫کردیا اور میری زبان خود باخود باہر‬
‫نکلی اور زبان کی نوک نے پھدی کے‬
‫دانے کو ٹچ کیا‬
‫تو صدف کے جسم کو ایک جھٹکا لگا‬
‫اور صدف لمبی سی سسکاری بھر کر‬
‫دھری ھوگئی‬
‫جس سے مجھے مزید جوش چڑھا تو‬
‫زبان اور لمبی کر کے پھدی کے دانے‬
‫کو چاٹنے لگ گیا‬
‫صدف کی جیسے جان نکل رھی تھی‬
‫اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی‬
‫آنکھیں بند کئے سر دائیں بائیں مار‬
‫رھی تھی‬
‫اور سییییییی اممممممم کر رھی تھی‬

‫میں نے صدف کی پھدی کے دانے کو‬


‫ہونٹوں میں بھر کر چوسنا شروع کردیا‬
‫صدف چارپائی سے اچھلتی اور پھر‬
‫چارپائی پر ڈھے جاتی‬

‫صدف کی حالت قابل رحم تھی‬


‫وہ بری طرح مچل رھی تھی کمرے‬
‫میں اس کی سسکیاں گونج رھی تھی ۔‬

‫یکلخت صدف کا جسم اکڑا اور پھدی‬


‫سے گرم منی کا الوا پھوٹ پڑا میں نے‬
‫منہ جلدی سے پیچھے کیا مگر پھر بھی‬
‫منی کی چھینٹیں میرے منہ پر پڑ گئی ۔‬

‫صدف کا جسم جھٹکے لے رھا تھا اور‬


‫منی بہہ کر چادر کو گیلی کر رھی تھی‬
‫۔‬

‫صدف اب لمبے لمبے سانس لے رھی‬


‫تھی‬

‫میں نے صدف کی ٹانگوں کو کھوال جو‬


‫اس نے بھینچی ھوئی تھی ۔‬
‫اور ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا‬
‫اور لن کو پھدی پر سیٹ کر کے‬
‫لن کو اندر کرنے لگا تو صدف نے‬
‫میرے پیٹ پر ھاتھ رکھ کر کہا‬
‫یاسر پلیز ایکدم سارا اندر نہ کرنا۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور لن کو‬


‫آہستہ آہستہ اندر دھکیل کر پورا لن‬
‫صدف کی پھدی میں اتار دیا‬
‫پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے لن آسانی‬
‫سے اندر چال گیا‬
‫صدف نے بھی آہہہہہہہ کیا اور سییییییی‬
‫پر ختم کیا‬

‫اور میں صدف کی ٹانگیں کندھوں پر‬


‫رکھے اسکے اوپر‪ .‬جھک کر گھسے‬
‫مارنے لگ گیا‬
‫صدف آہ آہ آہ آہستہ آرام سے کرو‬
‫کر رھی تھی‬

‫پھدی کی گرمی اور صدف کی سیکسی‬


‫آوازوں نے مجھے ذیادہ دیر ٹھہرنے‬
‫نھی دیا اور میں مزے کی اتنی گہرائی‬
‫مین چال گیا تھا کہ جب تک میں مزے‬
‫سے باہر نکلتا‬
‫میرے لن نے صدف کی پھدی کے اندر‬
‫ھی پچکاریاں مارنا شروع کردیں‬

‫جب دونوں کو ہوش آیا‬


‫تو لن آکری ہچکیاں لے رھا تھا‬

‫صدف کو جیسے ھی احساس ھوا کہ‬


‫میرے لن نے ساری منی اسکی پھدی‬
‫میں اُگل دی ھے تو‬
‫صدف ایک جھٹکے سے اٹھی اور‬
‫مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے میرے‬
‫نیم مرجھاے ھوے لن کو پھدی سے‬
‫نکال کر مجھے گھورتے ھوے بولی‬

‫یاسررر یہ کیا کردیا‬


‫تم میرے اندر فارغ ھوگئے‬
‫ھاےےےے اب کیا ھوگا‬

‫اگر کچھ ہوگیا تو‬


‫میں کیا کروں گی کس کو منہ دیکھاوں‬
‫گی‬
‫یاسر تمہیں اندازہ بھی ھے کہ تم نے کیا‬
‫حرکت کی ھے‬
‫تمہاری‪ .‬اس حرکت کی وجہ سے میری‬
‫زندگی تباہ ھو سکتی ھے‬

‫میں بھی گبھرا گیا تھا واقعی غلطی‬


‫ھوگئی تھی‬
‫صدف ایک ھی سانس میں بولی جارھی‬
‫تھی‬

‫میں نے ہمت کرکے اسے تسلی دیتے‬


‫ھوے کہا کہ صدف گبھراو مت کچھ‬
‫نھی ھوتا‬
‫میں ہوں نہ‬
‫تو صدف رونے لگ گئی‬
‫اور ایک ھی بات کو دھرانے لگ گئی‬
‫یاسر تم نے کیا کردیا اب کیا ھوگا۔۔‬
‫میں اسکے اس طرح مسلسل رونے کی‬
‫وجہ سے چڑ سا گیا اور‬
‫اسے کندھوں سے پکڑ کر ہال کر بوال‬

‫یار میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا‬


‫تم تو ایسے رو رھی ھو جیسے‬
‫ابھی کاکا باہر نکل آنا ھے‬

‫مجھ پر بھروسہ کرو‬

‫صدف پھر روتے ھوے بولی‬


‫تم پر بھروسہ کر کے ھی تو یہ سب‬
‫کچھ ھوا ھے‬
‫تو میں نے کہا یار میں کونسا تم سے‬
‫دور جارھا ھوں‬
‫پہلی بات تو ھے کہ کچھ ھوگا ھی نھی‬
‫اگر کچھ ھوا بھی تو اسکا حل نکال لیں‬
‫گے‬
‫پلیز تم اس حسین موقع کو رونے میں‬
‫صرف مت کرو‬

‫اگر آنٹی آگئی تو وہ تم کو روتا دیکھ کر‬


‫کیا سوچیں گی اور پوچھنے پر انکو کیا‬
‫جواب دو گی‬
‫کہ میں تمہارے اندر فارغ ھوگیا ھوں‬
‫اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یار‬

‫اور ساتھ ھی میں صدف کے ہونٹ‬


‫چومنے لگ گیا‬

‫صدف بیٹھی اپنے بازو سے میرا منہ‬


‫پیچھے ہٹانے لگی کہ یاسر نہ کرو پلیز‬
‫میں پہلے ھی پریشان ھوں ۔‬

‫تو میں نے صدف کو ذبردستی چارپائی‬


‫پر لٹا دیا اور خود اسکے ساتھ لیٹ گیا‬
‫صدف کی پھدی سے میری منی ابھی‬
‫بھی تھوڑی تھوڑی نکل رھی تھی ۔‬

‫میں نے صدف کی طرف اپنی سائڈ‬


‫تبدیل کی اور اس کے اوپر ھو کر منہ‬
‫اسکے قریب کر کے‬
‫صدف کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے‬
‫لگ گیا اور اسے پچکار کر ریلیکس‬
‫کرنے لگ گیا‬

‫صدف کافی حد تک ریلیکس ھو چکی‬


‫تھی‬
‫ہم دونوں کے مادر زاد ننگے جسم ایک‬
‫دوسرے کے لمس سے پھر گرم ھونا‬
‫شروع ھو چکے تھے‬

‫میں نے صدف کے ممے کو ھاتھ میں‬


‫پکڑ کر دبا رھا تھا‬
‫اور ممے کے اکڑے نپل کو چٹکی میں‬
‫لے کر مسل رھا تھا‬
‫جس سے صدف پھر انکھیں موند کر‬
‫سسکیاں بھرنے لگ گئی‬

‫میں اب صدف کے مممے کو منہ میں‬


‫ڈال چکا تھا اور چوس چوس کر صدف‬
‫کو مذید گرم کر رھا تھا‬
‫میرا لن جو چھوارا بنا ھوا تھا‬
‫اس میں بھی جان ڈلنی شروع ھوگئی‬
‫تھی اور اس نے بھی سر اٹھا کر‬
‫جھٹکے مارنے شروع کئے ھوے تھے‬
‫۔‬
‫صدف پھر مجھ میں سمانے کی کوشش‬
‫کر رھی تھی‬
‫۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا بالخرہ‬
‫میں نے صدف کو گھوڑی بننے کا کہا‬
‫تو صدف کچھ دیر انکار کرنے کے بعد‬
‫گھوڑی بن کر مجھے سواری کرنے کا‬
‫موقع دے ھی دیا‬
‫میں صدف کی گانڈ کے پیچھے لن‬
‫اکڑاے ھوے کھڑا تھا اور صدف گانڈ‬
‫اونچی کر کے سر آگے تکیہ پر رکھے‬
‫میرے سامنے لُنڈی گھوڑی بنی ھوئی‬
‫تھی‬

‫اور میں پیچھے سے لن پھدی میں‬


‫ڈالنے کی پوزیشن میں بیٹھا‬
‫صدف کی گانڈ کی دراڑ کو ہاتھ سے‬
‫مزید کھول کر اسکی گانڈ کے گول‬
‫چھوٹے سے سوراخ کا جائزہ لے رھا‬
‫تھا‬
‫صدف کے مموں کے نپل چارپائی کے‬
‫ساتھ ٹچ ھو رھے تھے‬

‫اور وہ بھی میرا انتظار کر ھی تھی کہ‬


‫میں کب پیچھے سے وار کروں اور‬
‫اسکا نتیجہ کیا کیسا نکلتا ھے‬
‫اسی تجسس میں صدف بھی بے چین‬
‫تھی‬
‫کہ میں نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور‬
‫ایک تھوک کر بڑا ساگوال اپنی ہتھیلی‬
‫پر پھینا اور اپنے لوڑے پر مل دیا میرا‬
‫لن پہلے ھی چکنا تھا تھوک سے مزید‬
‫چکنا ھو گیا‬
‫میں نے ٹوپے کو پھدی پر سیٹ کیا اور‬
‫دونوں ھاتھوں سے صدف کی کمر کو‬
‫پکڑا اور لن پھدی کی طرف دھکیلنا‬
‫شروع کردیا‬

‫آدھا لن میں نے آرام سے ڈاال اور پھر‬


‫کمر کو مضبوطی سے پکڑے ایک ذور‬
‫دار دھکا مارا تو کمرے میں تھپ کی‬
‫آواز کے ساتھ ساتھ صدف کی چیخ کی‬
‫آواز بھی گونجی اور صدف آگے کو‬
‫ھوئی جس سے میرا لن پھر باہر کو‬
‫نکل آیا ۔‬
‫صدف بولی یاسرررر کے بچے آرام‬
‫سے کرلو‬
‫جانور مت بنا کرو پتہ نھی تمہیں ھو کیا‬
‫جاتا ھے‬

‫میرے اندر جا کر لگا ھے‬

‫َُمیں نے کہا یار مجھے مزہ ھی ایسے‬


‫آتا ھے‬

‫تو صدف غصے سے بولی واہ واہ‬


‫اگلے کی جان گئی جناب کا مزہ ٹھہرہ۔۔۔‬

‫میں نے ہنس کر کہا تم تو زندہ ھو‬


‫تمہاری تو جان نھی گئی‬
‫تو صدف بولی اب کیا جان لینی ھے‬
‫تو میں اسے پھر گھوڑی بناتے ھوے‬
‫بوال‬
‫اس جان میں تو میری جان ھے‬

‫تو صدف گھوڑی بنتے ھوے گانڈ کو‬


‫ہال کر پیچھے ھوئی اور بولی اگر‬
‫ایسے کرنا ھے تو آرام سے کرنا۔۔‬

‫میں نے کہا جو حکم آقا‬


‫اور اس کے ساتھ ھی میں نے لن آرام‬
‫سے پورے کا پورا صدف کی پھدی میں‬
‫اتار دیا جسے صدف نے صدق دل سے‬
‫قبول کر لیا‬
‫اور صدف کی کمر کو پکڑ کر آرام‬
‫آرام سے اندر باہر کرنے لگ گیا‬
‫صدف کو بھی مزہ مزہ آنا شروع ھوگیا‬
‫اور وہ بھی سسکیاں لیتے ھوے‬
‫گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر لن‬
‫پورا اندر لینے کی کوشش کرتی‬

‫میں نے آہستہ اہستہ اپنی سپیڈ تیز‬


‫کردی‬
‫اور ایک ھاتھ سے صدف کی کمر پکڑ‬
‫لی اور ایک ھاتھ آگے بڑھا کر صدف‬
‫کے پونی کیے ھوے بال پکڑ لیے جس‬
‫سے صدف کا منہ بھی تھوڑا سا اوپر‬
‫اٹھ گیا‬
‫اس سٹائل میں صدف کو چودنے کا مزہ‬
‫ھی بہت آرھا تھا‬
‫اور صدف بھی یس یس یس آہ آہ اہ‬
‫سسسسسسس ممممممم کر رھی تھی‬

‫صدف کا جوش بڑھتا جارھا تھا اور اس‬


‫کے جوش کو دیکھ کر میری سپیڈ حد‬
‫سے تجاوز کر چکی تھی‬
‫میرے جھٹکوں سے صدف کے بڑے‬
‫بڑے ممے ہل رھے تھے‬
‫کیا منظر تھا کیا نظارا تھا کیا مزہ تھا‬

‫صدف کی سسکیاں اور آہیں اب چیخوں‬


‫میں بدل چکی تھی‬
‫پورے کمرے میں تھپ تھپ ِچپ ِچپ آہ‬
‫آہ آہ ھاےےےےےے مرگئی‬
‫ھاےےےے میں گئی میں گئی میں گئی‬
‫یاسسسسررررر کی آوازیں گونجی اور‬
‫اس کے ساتھ ھی‬
‫صدف نے پورے ذور سے گانڈ میرے‬
‫ساتھ چپکا دی اور اسکی پھدی میرے‬
‫لن کو بھینچ بھینچ کر چھوڑنے لگی‬
‫اور پھدی سے منی کا اخراج جاری‬
‫ھوگیا‬

‫صدف لمبی سانس لیتی ھوئی آگے کو‬


‫گرتی گئی اور اسکے ممے چارپائی‬
‫کے ساتھ چپک گئے اور منہ تکیے میں‬
‫دب گیا اور پیچھے سے گانڈ ابھی بھی‬
‫اونچی اور میرے ساتھ چپکی ہوئی‬
‫تھی‬

‫اور صدف کی پھدی ابھی بھی رو رھی‬


‫تھی ہچکیاں لے رھی تھی‬
‫اسکے چوتڑے آپس میں مل کر ُکھل‬
‫رھے تھے ۔‬

‫کچھ دیر بعد جب صدف ریلکس ھوئی‬


‫تو اب بدلہ لینے کی میری باری تھی‬
‫میں نے پھر گیلی پھدی میں ھے لن‬
‫پھیرنا شروع کردیا اور لن کو صاف‬
‫اور خشک کرنا بھی گوارہ نہ کیا بس‬
‫اسی غلطی نے مجھے بہت جلد نیچا‬
‫دیکھا دیا اور میرے لن نے ایک بار‬
‫پھر صدف کی پھدی میں ھی منی کی‬
‫بوچھاڑ کردی‬
‫اس سے پہلے کہ صدف سنبھلتی یا میں‬
‫لن کو باہر کھینچتا‬

‫باہر کے دروازے پر زوردار دستک‬


‫ھوئی جیسے وہ کب کا دستک دے رھا‬
‫تھا اور ہم سیکس کے نشے میں اندھے‬
‫گونگے بہرے ھوے اپنے کام میں‬
‫مصروف تھے ۔۔۔‬
‫میں نے جلدی سے صدف کی پھدی‬
‫سے لن نکاال‬
‫اور چارپائی سے چھالنگ لگا کر‬
‫نیچے اترا صدف بھی گبھرا کر جلدی‬
‫سے اٹھی اور دونوں اپنے اپنے کپڑے‬
‫پہن کر آگے پیچھے کمرے سے نکل‬
‫کر صحن میں‬
‫آگئے‬

‫تو دروازہ پھر کھڑکا اور ساتھ ھی ایک‬


‫آواز آئی جسے سن کر ہم دونوں کی‬
‫ہنسی نکل گئی اور ہنس ہنس کر بُرا‬
‫حال ھوگیا‬
‫میں آگے بڑھا اور دروازہ کھوال تو‬
‫سامنے ایک بچی کندھے پر گندہ سا‬
‫بیگ لٹکاے‬
‫سدائیں دے رھی تھی‬
‫اور خیرات مانگ رھی تھی‬

‫میں نے اسے غصے سے کہا یہ کیا‬


‫بتمیزی ھے‬
‫کسی کا دروازہ ایسے کھٹکھٹاتے ہیں‬
‫۔تم تو ایسے کر رھی ھو جیسے ہم سے‬
‫قرض لینا ھے‬

‫تو وہ بولی بابو ***کے نام کا مانگ‬


‫رھی ہوں‬
‫آٹا ھی دے دو‬

‫اتنی دیر میں صدف پلیٹ میں آٹا ڈال کر‬


‫لے آئی اور اس بچی نے اپنے کندھے‬
‫سے لٹکایا ھوا میال سا تھیال آگے کیا‬
‫اور اسکا منہ کھول کر پلیٹ اس میں‬
‫انڈھیل دی ۔‬

‫میں نے دروازہ بند کیا اور ہم دونوں‬


‫آگے پیچھے چلتے دوبارہ کمرے میں‬
‫آگئے‬

‫صدف نے اندر آتے ھی مجھے چارپائی‬


‫پر دھکا دیا تو میں جان بوجھ کر‬
‫چارپائی کے اوپر ایسے گرا جیسے‬
‫واقعی اس کے ھی دھکے سے میں گرا‬
‫ھوں‬

‫تو صدف میرے اوپر لیٹ کر میرا گال‬


‫دبانے کی ایکٹنگ کرتے ھوے بولی‬

‫یاسر کے بچے تم دوبارہ پھر میرے‬


‫اندر ھی فارغ ھوے ھو نہ‬

‫تو میں نے کہا یار میرا گال تو چھوڑو‬


‫پھر ھی بتاوں گا تو‬
‫صدف نے ھاتھ میرے گلے سے ہٹاے‬
‫اور‬
‫میرے منہ کی طرف دیکھ کر میرے‬
‫جواب کا انتظار کرنے لگی‬

‫میں نے کھنگارہ بھرا اور بوال‬

‫یار پہلے ھی اندر فارغ ھوا تھا دوسری‬


‫دفعہ میرا لن خود ھی باھر آگیا تھا ۔۔‬

‫صدف بولی‬
‫جھوٹ مت بولو یاسر‬
‫مجھے خود محسوس ھوا تھا کہ تم‬
‫میرے اندر ھی فارغ ھوے تھے‬
‫میں نے کہا نھی یار جہاں تک مجھے‬
‫پتہ ھے کہ فارغ ہوتے وقت‬
‫لن باھر نکل آیا تھا۔۔‬

‫صدف بولی میں کہہ رھی ھوں کہ تم‬


‫میرے اندر ھی فارغ ھوے ھو۔‬

‫تو میں نے ہنستے ھوے کہا کہ ھو‬


‫سکتا ھے‬
‫تو صدف پھر میرا گال دبانے کے لیے‬
‫مجھ پر جھپٹی مگر میں نے خود کو‬
‫بچاتے ھو اسکے ھاتھ پکڑے اور اسکو‬
‫گھما کر اپنے نیچے کر لیا ۔میں نے‬
‫اسکے دونوں ھاتھ کالئیوں سے پکڑے‬
‫ھوے تھے اور میری ٹانگیں اسکی‬
‫ٹانگوں کے بیچ تھی اور میرا سویا ھوا‬
‫لن اسکی پھدی کے اوپر لگا ھوا تھا ۔‬

‫صدف پورا زور لگا کر مجھ سے اپنا‬


‫آپ ُچھڑوا رھی تھی‬
‫اور مجھے کہہ رھی تھی‬

‫اگر کچھ الٹا سیدھا ہوگیا نہ تو میں نے‬


‫تمہارے گھر آجانا ھے‬
‫پھر تم جانو اور تمہارا کام‬
‫میں اسے تسلیاں دے رھا تھا کہ یار‬
‫گبھراو نہ کچھ نھی ھوتا۔‬

‫کچھ دیر ہم یونہی زور آزمائی کرتے‬


‫رھے ۔‬
‫آخر صدف تھک ہار کر لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگی اور ساتھ ھی اپنا جسم‬
‫بھی ڈھیال چھوڑ دیا ۔۔‬

‫میں اسکے اوپر لیٹا رھا اور اس سے‬


‫بوال‬
‫صدف یار تمہاری پھدی ھی اتنی گرم‬
‫ھے کہ مجھے پتہ ھی نھی چلتا کہ میں‬
‫کب فارغ ھوجاتا ھوں ۔۔‬

‫تو صدف برا سا منہ بنا کر بولی‬


‫آئندہ میں تمہیں کچھ کرنے دوں گی تو‬
‫ھی اندر فارغ ھوگے نہ ۔‬
‫تو میں نے کہا۔‬
‫یار تم میرے بغیر رھ لو گی‬
‫تو وہ بڑے اعتماد سے بولی ھاں رھ‬
‫لوں گی‬
‫تو میں نے کہا‬
‫تمہارا جب دل کرے گا کچھ کرنے کو‬
‫تو پھر کیا کرو گی۔۔‬

‫صدف بولی۔‬

‫میرا دل نھی کرتا۔۔‬

‫میں نے کہا سوچ لو۔‬


‫تو وہ بولی سوچ لیا۔‬

‫میں نے کہا اگر میرا دل کیا کرنے کو‬


‫تو میں کیا کروں گا۔۔‬

‫تو وہ بولی‬
‫یہ تمہارا مسئلہ ھے میرا نھی۔‬

‫میں نے کہا سوچ لو۔‬

‫وہ پھر اعتمادی انداز میں بولی سوچ لیا۔‬

‫میں نے کہا مجھ سے تو نھی رھا جانا۔‬


‫صدف بولی۔‬
‫تو میں کیا کروں۔‬

‫میں نے کہا پھر میں کسی اور لڑکی‬


‫کے ساتھ یہ کام کرلوں گا پھر تم‬
‫ناراض مت ھونا۔۔‬

‫صدف ایک دم مجھ پر پھر جھپٹی‬


‫اور غصے سے بولی‬
‫تیری جان ناں کڈ دیواں گی کسے ہور‬
‫ُکڑی ول ویکھیا وی۔‬

‫تو میں اپنا بچاو کرتے ھوے بوال ۔‬


‫پھر تم ھی بتاو میں کیا کروں۔‬

‫صدف بولی تم نے کسی اور لڑکی کے‬


‫بارے میں سوچا بھی کیسے‬
‫کیا میں تمہارے لئے کھلونا ھوں کہ‬
‫جب دل کیا کھیل لیا جب دل کیا توڑ کر‬
‫پھینک دیا۔‬
‫اور ساتھ ھی رونے لگ گئی ۔‬

‫تو میں اسے پچکارتے ھوے بوال۔‬

‫یار مزاق کررھا ھوں تمہارے عالوہ تو‬


‫کسی اور کی طرف دیکھنا بھی گناہ‬
‫سمجھتا ھوں ۔‬
‫کچھ دیر میرے مسکے سننے کے بعد‬
‫صدف نارمل ھوگئی‬

‫میں نے پھر کہا اب بتاو نہ کہ جب میرا‬


‫دل کیا کرے گا تو پھر میں کیا کروں‬
‫گا۔‬

‫تو وہ شرما کر بولی‬


‫جو ابھی میرے ساتھ کیا تھا وہ ھی کرو‬
‫گے۔‬

‫تو میں بوال‬


‫کس کے ساتھ۔‬

‫تو وہ پھر چیخ کر میری طرف مکا‬


‫لہراتے ھوے بولی‬
‫میرے ساتھ ۔‬

‫تو میں نے کہا۔‬

‫مجھ سے تو اب باہر نھی فارغ ھوا جاتا‬


‫۔‬

‫تو کچھ گبھرا کر بولی‬


‫یاسر تمہیں میری عزت کی پرواہ نھی‬
‫ھے کیا۔‬
‫تو میں نے کہا بلکل ھے بلکہ اپنی‬
‫عزت سے بڑھ کر تمہاری عزت کی‬
‫فکر ھے۔‬

‫تو صدف بولی پھر اندر فارغ ھونے کا‬


‫کیوں کہتے ھو۔‬

‫تو میں نے کہا ایک طریقہ ھے جس‬


‫سے میں اندر بھی فارغ ھوجاوں گا اور‬
‫تمہیں کچھ ھوگا بھی‬
‫۔نھی ۔‬
‫تو صدف جلدی سے بولی وہ کونسا۔‬

‫تو میں کچھ دیر چپ رہنے کے بعد‬


‫بوال‬
‫اسکے لیے بس تمہیں کچھ دیر کے لیے‬
‫تکلیف سہنا پڑے گی ۔‬

‫تو وہ حیران ہوتے ھوے بولی کیا مطلب‬


‫میں سمجھی نھی ۔‬

‫تو میں نے کہا جب کریں گے تو بتاوں‬


‫گا ۔‬

‫تو صدف استفسار کرنے لگی کہ ابھی‬


‫بتاو مجھے نھی پتہ ۔‬
‫وہ کافی تجسس کا شکار تھی ۔‬

‫میں نے کہا یار ابھی کیسے بتاوں جب‬


‫کریں گے تو تب ھی بتاوں گا نہ ۔‬

‫تو صدف جلدی سے بولی ابھی کر لو۔‬

‫تو میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کیا‬


‫کہ ابھی یہ دو دفعہ فارغ ھو چکا ھے‬
‫اب یہ کھڑا ھوگا تو ھی کروں گا۔‬

‫تو صدف بولی‪ .‬مجھے نھی پتہ جیسے‬


‫مرضی اس کو کھڑا کرو۔‬
‫میں کچھ پل سوچنے کے بعد بوال ۔‬

‫اسے ا ب تم ھی کھڑا کر سکتی ھو۔‬

‫تو صدف بولی وہ کیسے۔‬

‫میں نے کہا اپنے ہونٹوں سے اپنی زبان‬


‫سے جیسے پہلے کیا تھا۔‬

‫صدف بولی نہ بابا اب تو یہ گندہ ھے ۔‬

‫میں نے کہا تو پھر رھنے دو‬


‫جب صاف ھوا تو بتا دوں گا۔‬
‫تو صدف ایکدم بولی نھی نھی میں‬
‫کرتی‪ .‬ھوں کچھ‬
‫اور یہ کہتے ھوے اس نے مجھے اپنے‬
‫اوپر سے اٹھنے کو کہا ۔‬
‫تو میں اسکے اوپر سے اٹھ کر اسکے‬
‫ساتھ لیٹ گیا‬
‫اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔‬

‫اور شلوار کے اوپر سے ھی لن کو ہاتھ‬


‫میں پکڑ لیا جس میں پہلے سے کچھ‬
‫جان پڑ چکی تھی ۔‬

‫صدف لن لو پکڑ کر مٹھی بھرنے لگ‬


‫گئی‬

‫لن میں ہلکی سے جنبش پیدا ھونے لگی‬


‫۔‬

‫تو صدف دوسرے ھاتھ سے میرا ناال‬


‫کھولنے لگ گئی ناال کھول کر اس نے‬
‫میری شلوار نیچے کی اور میرے لن‬
‫کو باہر نکال کر غور سے ادھر ادھر‬
‫کر کے دیکھنے لگ گئی اور لن کو‬
‫میری شلوار سے اچھی طرح صاف‬
‫کرکے اس کے ٹوپے کو چومنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫لن آہستہ آہستہ جھٹکے کھاتا ھواجوبن‬
‫میں آنا شروع ھوگیا‬
‫صدف کے ہونٹوں کالمس لن میں سختی‬
‫پیدا کررھا تھا اور صدف بھی لن کو‬
‫لولی پاپ سمجھ کر چوس رھی تھی‬

‫آخر کار صدف کی محنت رنگ الئی‬


‫اور لن فل تن کر پھنکارنے لگ گیا‬

‫صدف نے جب لن کو پورے جوبن میں‬


‫دیکھا تو ٹوپے کو منہ لیے اپنی لمبی‬
‫پلکوں کی چادر کو آنکھیں سے ہٹا کر‬
‫میری طرف بڑے فخریہ انداز سے‬
‫دیکھا جسے کے ٹو کی چوٹی فتح کرلی‬
‫ھو۔‬

‫اور پھر لن کو منہ کے اندر کرنے‬


‫لگی‬
‫آدھے سے کم ھی لن وہ منہ میں لے‬
‫سکی اور اسی طرح جتنا لن وہ منہ میں‬
‫لے سکتی تھی اتنا ھی لے کر ہونٹوں‬
‫سے بھینچ کر اند باہر کرنے لگ گئی‬

‫میں بھی مزے کی گہرائیوں میں ڈوبنے‬


‫لگ گیا۔‬

‫کچھ دیر صدف میرے لن کے ساتھ‬


‫کھیلتی رھی جب اسکا شوق پورا ھوگیا‬
‫تو میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫بسسسسس‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور‬


‫صدف کو کھینچ کر اپنے ساتھ لٹا کر‬
‫اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا اس‬
‫کے ممے دبانے لگ گیا اور اسکی‬
‫قمیض اوپر کر دی اور اسے اتارنے کو‬
‫کہا تو صدف نے اتارنے کا انکار کردیا‬
‫اور ویسے ھی کھینچ کر مموں سے‬
‫اوپر کر کے گلے تک کر لی‬

‫میں اوپر اٹھا اور صدف کی شلوار کو‬


‫پکڑ کر نیچے کھینچ کر اسکے پیروں‬
‫سے نکال دی‬
‫صدف نے جلدی سے اپنی ٹانگیں‬
‫کھولی لی‬
‫اور پھدی میرے سامنے کردی‬

‫میں نے نفی میں سرہالتے ھوے اسے‬


‫کہا ایسے نھی الٹی لیٹو تو صدف بولی‬
‫ایسے ھی کرلو‬

‫میں نے کہا ایسے تمہیں درد ذیادہ‬


‫ھوگی ۔‬

‫تو صدف حیرانگی سے بولی‬


‫پہلے بھی تو کرتے ھو کونسا نیا کرنا‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے طنزیہ انداز سے ہنستے ھوے‬


‫کہا تم الٹی تو ھو پھر بتاتا ھوں‬

‫تو صدف حیران ھوکر میری طرف‬


‫دیکھتے ھوے الٹی لیٹ گئی‬

‫میں نے اسکی گانڈ کے پاس منہ کیا‬


‫اور اس کے چوتڑوں کو کھول کر‬
‫تھوک کا گوال اسکی موری پر پھینکا تو‬
‫صدف تھوڑی سی ہلی‬
‫اور ساتھ ھی میں نے انگھوٹا اسکی‬
‫گانڈ کی موری پر رکھ کر تھوک کو‬
‫موری کے اوپر جزب کرنے لگ گیا‬
‫اور اسی دوران انگوٹھے کا پورا اندر‬
‫چال گیا‬
‫تو صدف نےایک دم سائڈ تبدیل کرنے‬
‫کی کوشش کرتے ھوے بولی یہ کیا‬
‫کررھے ھو ۔‬

‫تو میں نے اسکی گانڈ کو ادھر ھی‬


‫دباتے ھوے کہا کچھ نھی۔‬
‫ہوتا صبر تو کرو‬

‫صدف بولی کچھ الٹا سیدھا نہ کرنا۔۔‬


‫بتا رھی ھوں‪ ،‬۔‬
‫میں اسکی بات کو نظر انداز کر کے‬
‫اپنے لن کو تھوک سے اچھی طرح گیال‬
‫کرنے لگا‪،‬‬

‫اور لن کے گیلے ٹوپے کو صدف کی‬


‫گانڈ کے دراڑ کے اندر موری پر رکھ‬
‫کر صدف کےکندھوں پر ہاتھ رکھ کر‬
‫اسکے اوپر ھوا اور ہلکا سا پُش کیا‬

‫صدف کی گانڈ اور سوراخ‬


‫اتنا سوفٹ تھا کہ ٹوپا اسکی کنواری‬
‫گانڈ کے کنوارے سوراخ میں چال گیا‬
‫صدف کے منہ سے ایک ذبردست چیخ‬
‫نکلی مگر اسی سمے میں نے دوسرا‬
‫جاندار گھسا مارا اور لن کافی حد تک‬
‫اندر‪ .‬اتر گیا اور میرے پٹ اسکی گانڈ‬
‫کے ساتھ لگ گئے ۔‬

‫صدف درد سے بلبال اٹھی اور رونے‬


‫لگ گئی‬
‫ھاےےےےےےے میں مرگئی‬
‫ھاےےےےےےے امی جییییییی‬
‫ہہہہ*****ھاےےےےےےےےے‬
‫میں صدف کے اوپر مکمل الٹا لیٹا ھوا‬
‫تھا‬
‫اور میری شلوار میرے پیروں میں تھی‬
‫اور میرا پیٹ اور سینہ صدف کی کمر‬
‫کے ساتھ چپکا ھوا تھا‬
‫میرا لن صرف اتنا ھی باھر تھا جتنا‬
‫صدف کی گانڈ کا ابھار تھا‬
‫باقی سارا لن گانڈ کو بری طرح چھلنی‬
‫چھلنی کر کے اندر گھس گیا تھا‬

‫صدف‬
‫۔بس روے جا رھی تھی گانڈ کو نہ اوپر‬
‫کر رھی تھی نہ ھی ادھر ادھر‬

‫میں نے منہ اسکے کان کے پاس کیا‬


‫اور اسے کہا صدف بس کچھ دیر درد‬
‫برداشت کرو کچھ نھی ھوتا‬
‫پھر تمہیں بھی مزہ آے گا۔۔‬

‫صدف رو رو کر ہلکان ہورہی تھی۔‬


‫صدف منہ سے کچھ نہ بولی بس نفی‬
‫میں سر ہالنے لگی‬
‫اور پھر اسکے منہ سے بس اتنا ھی‬
‫نکال‬
‫یاسرررررر نھیییییییی برداشت ھورھا۔‬

‫میں نے اسے پھر تسلی دینا شروع‬


‫کردیب‬
‫مگر صدف کو شاید درد بہت ذیادہ‬
‫ھورھا تھا وہ مزید روے جارھی تھی‬
‫اور ھاےےےےےےے مرگئی‬
‫ھاےےےےےےےے امی‬
‫بس امی کو ھی یاد کر رھی تھی جیسے‬
‫اس نے آکر لن باہر نکال دینا ھے ۔‬

‫کچھ دیر میں ایسے ھی صدف کے اوپر‬


‫لیٹا رھا اور اسے پچکارتا رھا‬

‫صدف ہچکیاں لے رھے تھی ۔اور‬


‫کہنے لگی یاسرررر پلیز باہر نکال لو‬
‫میری جان نکل رھی ھے‬
‫اتنا بڑا ھے سارا ھی اندر کردیا‬
‫مجھے بتا تو دیتے کہ ادھر کرنے لگے‬
‫ھو ھاےےےےے امی جی ۔‬
‫میں نے کہا صدف یار برداشت کر لو‬
‫کچھ ھی تو دیر کی بات ھے‬
‫ادھر میں اندر بھی فارغ ھوگیا تو کچھ‬
‫نھی ھوتا۔‬

‫تو صدف بولی نھییییی یاسسرررر‬


‫مجھ سے نھی برداشت ھورھا‬
‫تم آگے سے کرلو بیشک اندر ھی فارغ‬
‫ھوجانا میں تمہارا بچہ بھی پیدا کرنے‬
‫کو تیار ھوں بس ایک دفعہ باہر نکال‬
‫لو۔‬

‫تو میں نے کہا یار اندر تو چال ھی گیا‬


‫بس اب کچھ دیر برداشت کرلو‬
‫میرا یقین کرلو‪ .‬۔‬

‫تو صدف بولی‬


‫تیرے یقین نے ای تے مینوں مروا دتا‬
‫ایییییی‬

‫کچھ‪ .‬دیر صدف ھاے ھاے کرتی رھی‬


‫پھر کچھ نارمل ھوئی‬
‫تو میں نے پوچھا کچھ فرق پڑا تو‬
‫صدف بولی تھوڑی سی درد کم ھوئی‬
‫ھے‬

‫میں نے ہلکا سا لن کو باہر کھینچا تو‬


‫صدف پھر تڑپنے لگ گئی اور ھاتھ‬
‫پیچھے کر کے میری کمر کو پکڑ کر‬
‫مجھے رکنے کا اشارا کرتے ھوے نفی‬
‫میں سرہال کر بولی‬

‫نھی نھی نھی یاسر ابھی نھی ہلنا‬


‫پھر درد ھونے لگ گئی ھے ۔‬

‫میں ادھر ھی رک گیا۔‬

‫اور پھر صدف کہ بالوں پر ھاتھ‬


‫پھیرتے ھوے انکو سہالنے لگ گیا اور‬
‫اسے پھر تسلیاں دینے لگ گیا‬
‫مجھے دس منٹ ھوگئے تھے ایسے‬
‫ھی‬
‫میں خود تنگ آگیا تھا‬

‫کہ‬
‫کیڑی ُکھڈ وچ لن پا بیٹھا واں۔‬

‫صدف اب کافی حد تک نارمل ھوگئی‬


‫تھی‬
‫میں نے صدف کو کہا یار اب برداشت‬
‫کرنا تھوڑی سے درد ھوگی مگر‬
‫برداشت کرلینا‬
‫صدف پھر میری منتیں کرنے لگ گئی‬
‫کہ‬
‫یاسررر پلیز آگے کرلو‪ .‬مجھ سے نھی‬
‫برداشت ھوگا‬
‫تم چاھے اندر ھی فارغ ھوجانا۔‬

‫اس سے پہلے کہ صدف اپنی بات ختم‬


‫کرتی میں نے لن باھر کھینچ کر پھر‬
‫اندر کردیا اور گھسے مارنے لگ گیا‬
‫صدف پھر چالنے لگ گئی اور میرے‬
‫نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے‬
‫لگ گئی مگر میں نے اسے بری طرح‬
‫نیچے جکڑا ھوا تھا اور اپنا سارا وزن‬
‫اس پر ڈاال ھوا تھا۔‬

‫میں صدف کی چیخوں اور شور کو‬


‫نظرانداز کرتے ھوے گھسے ماری‬
‫جارھا تھا‬

‫صدف کی آواز بیٹھ چکی تھی‬


‫اور اب اس نے بھی ھار مان لی تھی‬
‫اور دھیمی آواز میں رو رھی تھی‬

‫میں پندرہ بیس منٹ تک مسلسل صدف‬


‫کی گانڈ کو چودتا رھا‬

‫صدف نے بھی حالت سے سمجھوتا کر‬


‫لیا تھا اور اب وہ بھی خاموش ھوچکی‬
‫تھی‬
‫کچھ دیر مزید گھسے مارنے کے بعد‬
‫میں بھی فارغ ہونے کے قریب پہنچ‪ .‬گیا‬
‫اور جاندار گھسے مارنے لگ گیا۔‬

‫صدف بولی یاسررررر کرلو ظلم آج‬


‫جتنا کرسکتے ھو‬
‫مگر اس کے بعد میرے سامنے بھی نہ‬
‫آنا۔‬
‫مگر اس دوران میں خود مزے میں ڈوبا‬
‫ھوا تھا مجھے اس کی ان باتوں میں‬
‫بھی مزہ آرھا تھا‬
‫میرے آخری گھسے شدت اختیار کر‬
‫چکے تھے‬
‫اور پھر آخری وہ گھسا جس میں ساری‬
‫دنیا کا مزہ بھرا تھا مارا اور لن نے‬
‫صدف کی گانڈ میں الٹیاں کرتے ھوے‬
‫ساری منی اندر بہا دی اور میں صدف‬
‫کے اوپر لیٹے لمبے لمبے سانس لینا‬
‫شروع کردیے اور لن باھر کھینچ کر‬
‫گھٹنوں کے بل بیٹھ کر لن کو دیکھنے‬
‫لگ گیا‬
‫لن کی حالت صدف کے قُرب کی‬
‫وضاحت کر رھی تھی‬

‫سارا لن خون سے لت پت تھا‬

‫صدف بے جان ھوکر ابھی تک ویسے‬


‫ھی ننگی لیٹی ھوئی تھی‬
‫میں ایسے ھی ننگا باہر صحن میں نکال‬
‫اور واش روم میں جا کر لن کو اچھی‬
‫طرح دھویا‬
‫اور واپس آیا تو صدف آہستہ آہستہ‬
‫سیدھا ھونے کی کوشش کررہی تھی‬
‫اور مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ‬
‫دوسری طرف کرلیا‬

‫میں اس کی حالت سمجھ گیا تھا‬


‫کہ اب اس سے سواے گالیاں سننے کے‬
‫کچھ نھی ملنا‬

‫تو میں نے جلدی سے شلوار پہنی‬


‫صدف بھی اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور‬
‫ایک ھاتھ سے گانڈ کو دبا رھی تھی ۔‬
‫میں نے صدف کو آواز دی مگر اس‬
‫نے میری طرف دیکھا بھی نہ‬
‫میں اسے‪ .‬اسی حال میں چھوڑ کر‬
‫واپس گھر کی طرف آگیا اور آتے وقت‬
‫صدف کو بس اتنا ھی کہا‬
‫کپڑے پہن کر دروازہ بند‬
‫کرلینا؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫میں صدف کی گانڈ پھاڑ‬


‫۔ ‪:asshole:‬‬
‫۔کر اسکو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے‬
‫گھر آگیا‬
‫تھکاوٹ نے میرا بُرا حال کردیا تھا‬
‫جسم ٹوٹ رھا تھا‬
‫زندگی میں پہلی دفعہ ایک ھی وقت میں‬
‫مسلسل تین دفعہ فارغ ھوا تھا ۔‬
‫اس وجہ سے جسم میں کافی کمزوری‬
‫محسوس کر رھا تھا اور آنکھیں بھی‬
‫بھوجل ھورھی تھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور‬
‫پنکھا چال کر بستر پر لیٹ گیا‬
‫اور کچھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں‬
‫چال گیا۔۔‬

‫شام کو امی نے اٹھایا کہ پتر اٹھ جا‬


‫دوپہر کا سویا ھوا ھے تھکا نھی سو سو‬
‫کر رات کو پہرہ دینا ھے کیا۔‬
‫۔۔‬
‫یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ جو دوست‬
‫گاوں کے رہنے والے ہیں وہ اس بات‬
‫سے باخوبی واقف ہیں کہ پہلے یا اب‬
‫بھی گاوں میں رات کو پہرہ گاوں کے‬
‫لوگ ھی دیتے تھے اور ہر روز تین‬
‫گھروں سے ایک ایک فرد کی باری‬
‫ھوتی تھی ۔میں ابھی چھوٹا تھا اس وجہ‬
‫سے میری جگہ میرا بھائی چال جاتا تھا۔‬
‫اور شاید کچھ عرصہ تک میرا نمبر‬
‫بھی لگنا شروع ھوجانا تھا۔۔‬
‫خیر۔۔۔۔‬
‫میں آنکھیں ملتا ھوا اٹھا اور امی سے‬
‫پوچھا ٹائم کیا ھوا ھے تو امی بتایا کہ‬
‫پتر چھ بج چکے ہیں‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور نہانے کے لیے‬
‫واش روم میں گھس گیا‬
‫نہا کر کپڑے بدلے‬
‫تو خود کو کافی بہتر محسوس کیا ۔‬
‫امی نے روٹی کا کہا کہ روٹی کھا کر‬
‫باہر نکلنا‬
‫صبح کا بھوکا ھے دوپہر کو بھی کچھ‬
‫نھی کھایا‬
‫تو میں نے کہا روٹی پکائی ھے تو امی‬
‫بولی‬
‫تو بیٹھ ابھی دومنٹ میں پکا کر الئی‬
‫میں پھر کمرے میں چال گیا اور جاکر‬
‫ریڈیو کو اون کیا اور ایک سٹیشن پر‬
‫انڈین گانے لگے ھوے تھے وہ سننے‬
‫لگ گیا‬

‫کچھ دیر بعد امی روٹی لے کر آگئی‬


‫میں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا لسی پی‬
‫اور فٹ ھوکر پھر گھر سے نکل کر‬
‫سیدھا فوزیہ کے گھر چال گیا۔‬

‫اندر داخل ہوا تو فوزیہ کو پھر گاوں کی‬


‫عورتوں نے گھیرا ھوا تھا اور فوزیہ‬
‫رو رو کر انکو بھائی کی جدائی کا غم‬
‫اور اسکی گزری زندگی کے بارے میں‬
‫بتا رھی تھی ۔‬

‫دوستو انسان نے بہت ھی اچھا بننا ھو‬


‫نہ تو بندا مر جاے‪ ،‬۔۔‬

‫رونے والے تعریفوں کے پُل باندھ دیتے‬


‫ہیں۔‬
‫جو زندگی میں ملنا بھی گوارا نھی‬
‫کرتے میت پر انکے رونے کی آواز‬
‫سب سے بلند ھوتی ھے‬
‫کچھ تو ساتھ ھی جانے کی ضد کرتے‬
‫ہیں ۔۔۔‬
‫ناراض نہ ھونا میری بات پر دوستو یہ‬
‫تلخ حقیقت ھے اور کڑوا سچ‬
‫۔۔۔۔‬
‫میں بھی افسردہ سا منہ بنا کر فوزیہ‬
‫کے پاس چال گیا اور انکو سالم کیا اور‬
‫انکی نرم کمر پر ھاتھ پھیر کر انکو‬
‫دالسا دینے لگ گیا‬
‫فوزیہ کے رونے کی آواز اور بلند‬
‫ھوگئی‬
‫عورتیں بھی ایسی چول تھی‬
‫ساتھ ساتھ انکو چپ بھی کروا رھی تھی‬
‫اور جب وہ چپ ھوجاتی تو‬
‫ان میں سے پھر ایک بول پڑتی‬
‫ھاےےےے وچارے دے باالں دا کی‬
‫بنے گا۔‬

‫فوزیہ پھر بچوں کا سن کر بین کرنے‬


‫لگ جاتی۔‬

‫فوزیہ چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی اور‬


‫میں نیچے اسکے ساتھ لگا فوزیہ کی‬
‫کمر کو سہال رھا تھا‬
‫فوزیہ نے روتے ھوے ایکدم میری کمر‬
‫میں ھاتھ ڈال کر اپنا منہ میرے پیٹ‬
‫سے تھوڑا اوپر سینے کے قریب لگا دیا‬
‫اور اسکے ممے میرے لن سے اوپر‬
‫ناف پر لگ گئے‬
‫اور مجھے کہنے‬
‫لگی‬
‫یاسر میں کی کراں‬
‫میں نے دل میں ھی کہا‬
‫مینوں پھدی دے ہور توں کی کرنا اے ۔‬

‫میں بھی رونے واال منہ بنا کر عورتوں‬


‫کی طرف دیکھتے ھوے بوال آنٹی صبر‬
‫کریں جو چال جاے وہ واپس نھی آتا‬
‫یہ ھی دنیا کا دستور ھے‬
‫بس حوصلہ کریں‬
‫صبر کریں‬

‫فوزیہ پھر روتے ھوے بولی ۔کیویں‬


‫حوصلہ کراں یاسر میرا اکو اک پرا‬
‫سی‬
‫میں اودھے بغیر کیویں رواں گی۔۔‬

‫جبکہ سالی میری ہوش میں ایک دفعہ‬


‫بھی اسکو نھی ملنے گئی تھی اور نہ‬
‫ھی وہ کبھی آیا تھا۔۔‬

‫میں نے پھر فوزیہ کی کمر پر بریزیر‬


‫کے سٹرپ پر ہاتھ پھیرتے ھوے‬
‫اسے تسلیاں دینی شروع کردیں۔‬

‫عورتیں ایک ایک کرکے کھسکنے لگ‬


‫گئیں اور پھر آخری عورت بھی بولی‬
‫چنگا پین میں چلنی آں تیرا پرا آن واال‬
‫اے روٹی ٹُکر دا وی بندو بست کرنا‬
‫اے‬
‫******‬
‫تینوں حوصلہ دیوے‬
‫میں اسکے جانے کہ بعد فوزیہ کے‬
‫پاس ھی بیٹھ گیا اور‬
‫عظمی اور نسرین کا پوچھا تو فوزیہ‬
‫بولی وہ ٹیویشن سے نھی آئیں‬

‫تو ایسا کر جا اپنی بہنوں کو لے آ‬


‫میں نے کہا اچھا جاتا ھوں‬
‫دوستو ماحول ھی کچھ ایسا تھا کہ میرا‬
‫حوصلہ ھی نہ ھوا کہ فوزیہ سے کوئی‬
‫چھیڑ چھاڑ کرتا ۔‬

‫میں جلدی سے اٹھا تو فوزیہ نے مجھے‬


‫پیچھے سے آواز دی کہ آتے ھوے‬
‫شیمے کی دکان سے اکلو چینی اور دس‬
‫پانچ روپے والی پتی کی ڈبی لیتے آنا‬
‫اور اسے کہنا‬
‫کھاتے میں لکھ لے‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے‬
‫ٹیویشن والی آنٹی کے گھر کی طرف‬
‫چل دیا‬

‫مجھے فرحت کی گلی سے ُگزر کر‬


‫جانا تھا‬

‫کیونکہ ٹیویشن والی آنٹی کا گھر فرحت‬


‫کی گلی کے موڑ پر تھا۔‬

‫میں جیسے ھی فرحت کی گلی میں‬


‫داخل ہوا تو مجھے ایکدم فرحت کا خیال‬
‫آیا‬
‫میں تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا‬
‫فرحت کے گھر کے قریب پہنچا اور‬
‫گلی میں گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو‬
‫ایک سائکل سوار آتا ھوا نظر آیا‬
‫میں نے جلدی سے ناال کھوال اور‬
‫فرحت کے گھر کے باہر بنی نالی پر‬
‫پیشاب کرنے کے بہانے بیٹھ گیا‬

‫جیسے ھی سائکل واال گزرا تو میں‬


‫اسے جاتے ھوے دیکھتا رھا جب وہ‬
‫موڑ مڑا تو‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور ناال باندھ کر‬
‫بیٹھک کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا‬
‫مگر دروازہ اندر سے بند تھا‬

‫مجھ میں ہمت نھی ھو رھی تھی کہ‬


‫کیسے اسکا دروازہ کھٹکھٹاؤں‬
‫کچھ دیر میں اسی تجسس میں ڈوبا کھڑا‬
‫رھا پھر کچھ سوچنے کے بعد میں‬
‫جیسے ھی آگے کی طرف چال تو‬
‫‪...‬اچانک ۔۔۔۔۔؟؟‬

‫مجھے سامنے سے عظمی اور نسرین‬


‫گلی میں داخل ہوتی نظر آئیں اور میں‬
‫نے شکر ادا کیا کہ میں فرحت کے گھر‬
‫نھی چال گیا‬

‫نھی تو ان چنڈالوں نے طرح طرح کے‬


‫سوال کرنے تھے ۔‬

‫انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا‬


‫میں انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف‬
‫چل دیا اور راستے سے چینی پتی لی‬
‫اور انکے گھر آگیا اور فوزیہ کو سامان‬
‫پکڑاتے ھوے پوچھا کہ اور کچھ تو‬
‫نھی منگوانا‬
‫تو فوزیہ میرا شکریہ ادا کرنے لگ گئی‬
‫کہ میرے پیچھے سے تم نے گھر کی‬
‫ذمہ داری بڑے اچھے طریقے سے‬
‫نبھائی ۔‬
‫]‪[/size‬‬
‫میں کچھ دیر بیٹھا رھا انکل ]‪[/size‬‬
‫بھی آگئے اور میں اٹھ کر انسے اجازت‬
‫لے کر اپنے گھر آگیا۔‬
‫]‪[/size]****[/color‬‬
‫اگلی صبح بروز ہفتہ میں ]‪[/size‬‬
‫عظمی اور نسرین کو لے کر جب‬
‫صدف کے گھر گیا تو صحن میں اکیلی‬
‫آنٹی ھی تھی صدف نظر نھی آرھی تھی‬
‫]‪[/color‬‬

‫عظمی نے آنٹی سے پوچھا کہ ]‪[/size‬‬


‫]‪ [/color‬باجی نے جانا نھی تو‬
‫آنٹی مجھے مخاطب کرتے ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬ھوے بولی ۔‬

‫یاسر پتر میں نے تجھے کہا ]‪[/size‬‬


‫بھی تھا کہ جب تک میں نہ آوں تم نے‬
‫]‪[/color‬گھر نھی جانا۔‬

‫میرے تو ایک دم ٹٹے اوپر ]‪[/size‬‬


‫چڑھ گئے کہ کہیں آنٹی کو پتہ تو نھی‬
‫]‪[/color‬چل گیا۔‬

‫میں نے کہا سوری آنٹی جی ]‪[/size‬‬


‫مجھے گھر کام تھا اس لیے چال گیا‬
‫]‪[/color‬۔‬

‫تو آنٹی بولی تمہارے جانے کی ]‪[/size‬‬


‫وجہ سے تمہاری باجی سیڑھی سے گر‬
‫گئی تھی اور کل کی چوٹ لگوا کر‬
‫]‪[/color‬چارپائی پر پڑی ھے ۔‬
‫]‪ [/color‬میں نے شکر کیا]‪[/size‬‬
‫اور آنٹی سے معذرت کی ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬۔‬

‫تو عظمی اور نسرین جلدی ]‪[/size‬‬


‫سے صدف کے کمرے کی طرف‬
‫بھاگیں اور میں وہیں کھڑا رھا‬
‫]‪[/color‬‬
‫تو آنٹی بولی تم بھی اپنی باجی ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬کا پتہ لے لو۔‬

‫میں نے ڈرنے والے انداز سے ]‪[/size‬‬


‫]‪ [/color‬کہا‬
‫نھی آنٹی جی باجی مجھ سے ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬ناراض ھونگی‬
‫]‪ [/color‬مجھے ڈر لگتا ھے]‪[/size‬‬

‫]‪[/color‬تو آنٹی بولی ۔]‪[/size‬‬


‫جھلیا جو ہونا سی ھوگیا اس ]‪[/size‬‬
‫نمانی نے تینوں کیڑا کھا جانا اے‬
‫]‪[/color‬۔‬

‫چل کوئی نہ جا توں وی چٹ ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬اپنی باجی کول بے جا۔‬

‫میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ھوا ]‪[/size‬‬


‫کمرے کی طرف جانے لگ‬
‫]‪[/color‬گیا۔‬

‫میرا حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ ]‪[/size‬‬


‫میں صدف کا سامنا کر سکوں‬
‫]‪[/color‬۔‬

‫میرے قدم پیچھے کی طرف ]‪[/size‬‬


‫بھاگنے کی کوشش کررہے تھے مگر‬
‫میں انکو مخالف سمت اٹھا رھا‬
‫]‪[/color‬تھا۔‬

‫میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬‬
‫آنٹی واش روم میں ُگھس رھی ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬تھی‬
‫تو میں وہیں کھڑا ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬ھوگیا۔‬

‫اس سے پہلے کہ آنٹی واش ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬روم سے نکلتی ۔‬
‫عظمی اور نسرین کمرے سے ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬نکل آئیں‬
‫اور وہ دونوں مجھے کھا جانے ]‪[/size‬‬
‫والی نظروں سے دیکھتے ھوے میرے‬
‫پاس سے گزر کر باہر کے دروازے کی‬
‫]‪ [/color‬طرف چل دی‬

‫انکا اسطرح مجھے دیکھنا]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬‬
‫میرے دل کے چور کو پھر ]‪[/size‬‬
‫جگا گیا اور میں اضطراب میں انکے‬
‫]‪ [/color‬پیچھے چلنے لگا‬
‫کہ کہیں انکو تو صدف نے ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬نھی بتا دیا۔‬

‫]‪[/color‬ہم باھر گلی میں آگئے]‪[/size‬‬

‫]‪ [/color‬تو کچھ دور جاکر]‪[/size‬‬


‫نسرین میری طرف گھور کر ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬بولی‬
‫تمہیں زرہ سی بھی شرم حیاء ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬نھی ھے‬
‫میں نے کہا کیا ھوا ھے]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬‬

‫تو وہ پھر مجھے گھورتے ]‪[/size‬‬


‫]‪ [/color‬ھوے اسی انداز میں بولی‬
‫]‪ [/color‬تمہیں نھی پتہ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬کیا ھوا ھے]‪[/size‬‬
‫سب تمہاری وجہ سے ھی ھوا ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬ھے‬
‫کچھ شرم کرو حیاء کرو]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬‬
‫بے شرمی کی بھی حد ھوتی ]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬ھے ۔۔‬
‫میرے تو رنگ اڑ گئے]‪[/size‬‬
‫]‪[/color‬‬
‫میرے قدموں نے آگے بڑھنے ]‪[/size‬‬
‫]‪ [/color‬سے انکار کردیا‬
‫]‪[/color‬میں ایکدم رک گیا۔]‪[/size‬‬

‫تو عظمی بولی اب کیا تکلیف ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬ھے چال نھی جارھا ھے کیا ۔‬

‫میں نے گبھراتے ھوے ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬کہا۔‬

‫پپپپہلے ببتاوو ھوا کیا ھے جو ]‪[/size‬‬


‫تم میرے ساتھ ایسے بات کر ھی‬
‫]‪[/color‬ھو۔‬

‫نسرین بولی یہ تم اتنے ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬بوکھالے ھوے کیوں ھو۔‬

‫میں نے خود کو سنبھالتے ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬ھوے کہا۔‬

‫کککچھ نھی بس ایسے ھی ]‪[/size‬‬


‫]‪[/color‬میری طبعیت سہی نھی ھے۔‬

‫تو نسرین بولی یاسر تم اب ]‪[/size‬‬


‫بچے نھی رھے کچھ عقل سے کام لیا‬
‫]‪[/color‬کرو‬

‫کل جب باجی نے تمہیں کہا تھا کہ چھت‬


‫سے جالنے والی لکڑیاں اتار دو تو تم‬
‫اتار دیتے‬

‫تم انکو بہانہ بنا کر گھر چلے آے گھر‬


‫جاکر نے کونسی چکی چالنی تھی ۔‬

‫بیچاری باجی کے کولہوں پر اتنی‬


‫ذبردست چوٹ لگی ھے ان سے تو اٹھ‬
‫کر بھی نھی بیٹھا جاتا‬

‫تمہاری دومنٹ کی الپرواہی نے انکو‬


‫بستر پر ڈال دیا۔‬

‫اور اوپر سے تم انکا پتہ کرنے کمرے‬


‫میں بھی نھی آے۔۔‬

‫نسرین کی تقریر سن کر میری جان میں‬


‫جان آئی اور میں دل ھی دل میں صدف‬
‫کے دماغ کی داد دینے لگ گیا اور‬
‫شکر کا کلمہ پڑھا کہ اس نے حقیقت‬
‫کسی کو نھی بتائی۔۔‬

‫میں نے کہا‬
‫مجھے بچہ بلوانے آیا تھا کہ تمہاری‬
‫امی بلوا رھی ہہے‬
‫گھر میں کچھ کام تھا‬
‫اب میں انکا نوکر تو نھی کہ سارا دن ]‬
‫انکے ھی کام میں لگا رھوں‬
‫ایسے ہی ہم چونچیں لڑاتے ھوے شہر‬
‫پہنچ گئے۔‬

‫عظمی لوگوں کو انکے سکول چھوڑا‬


‫اور میں پونڈی کرتا ھوا دکان کی طرف‬
‫چلدیا۔۔‬

‫روزمرہ کی طرح‬
‫ّ‬ ‫اور دکان پر پہنچ کر‬
‫باہر سے صفائی کر کے شٹر کے باہر‬
‫بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد انکل آگئے اور میں نے ان‬
‫سے چابیاں لی اور دکان کے تالے‬
‫کھول کر شٹر اوپر کیا اور دکان میں‬
‫داخل ھوکر دکان کی جھاڑ پونچھ کر‬
‫کے فرنٹ پر آکر بیٹھ گیا اور کسٹمر کا‬
‫انتظار کرنے لگ گیا ۔۔۔‬

‫کچھ دیر بعد کسٹمر آنا شروع ہوگئے۔‬


‫اور میں کام میں مصروف ھوگیا دوپہر‬
‫کب ھوئی ٹائم کا پتہ ھی نھی چال‬
‫انکل نے جنید کو کہا کہ آج کھانا کچھ‬
‫نھی تو جنید بوال پیسے دے دیں میں‬
‫اور یاسر جاکر کھانا لے آتے ہیں ۔‬
‫تو انکل بولے تم ہوٹل سے نہ لے کر آنا‬
‫بلکہ میرے گھر میں آج چاولوں کی‬
‫دیگ پکی ھے ختم دالیا تھا تو تم یاسر‬
‫کو ساتھ لے جاو اور گھر سے چاول‬
‫لے آو اور کچھ ذیادہ لے آنا تاکہ‬
‫دوسرے دکانداروں کو بھی چاول دے‬
‫دیں گے‬
‫جنید نے جی انکل جی کہا اور‬
‫موٹرسائیکل کی چابی پکڑی اور مجھے‬
‫آواز دی کہ چلو گاوں سے جانا ھے تو‬
‫میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا‬
‫اور ہم گاوں کی طرف چل دئیے ۔‬
‫شہر سے نکل کر جب ہم گاوں کی‬
‫طرف جاتی سڑک پر گئے تو میں نے‬
‫جنید کو کہا یار مجھے بھی موٹر‬
‫سائیکل چالنا سیکھا دو تو جنید بوال یار‬
‫یہ کونسا مشکل کام ھے میں نے کہا یار‬
‫مشکل ان کے لیے نھی جن کو چالنی‬
‫آتی ھے میرے لیے تو ابھی مشکل ھی‬
‫ھے‬
‫تو جنید نے ایک سائڈ پر بریک ماری‬
‫اور نیچے اتر کر مجھے آگے بیٹھنے‬
‫کر چالنے کو کہا‬
‫اور مجھے سمجھانے لگا کہ پہلےکک‬
‫مار کر اتنی ریس دے کر سٹارٹ کرتے‬
‫ھیں پھر ایسے کلچ دبا کر اسطرح گیئر‬
‫لگاتے ہیں اور گیا۔ ا۔‬
‫یس دے کر آہستہ آہستہ کلچ چھوڑتے‬
‫ہیں اور پھر دوسرا اور تیسرا چوتھا‬
‫گیئر کتنی دیر بعد اور کیسے لگاتے ہیں‬
‫۔‬

‫میں اسکی باتوں کو ذہن نشین کرنے‬


‫لگ گیا۔‬
‫اور کک مار کر ریس دی تو مجھ سے‬
‫ریس ذیادہ ھوگئی اور موٹرسائیکل کی‬
‫گانڈ پھٹنے لگ گئی‬
‫جنید نے جلدی سے میرے ہاتھ پر ہاتھ‬
‫رکھ کر ریس کم کی‬
‫اور پھر مجھے کہا کہ اب کلچ دباو میں‬
‫نے کلچ دبا کر گیئر لگا دیا‬
‫اور کلچ کو چھوڑنے لگا مگر‬
‫موٹرسائیکل بند ھوگئی میں نے پھر‬
‫سٹارٹ کی اور دوبارہ گیئر لگا کر‬
‫چالنے لگا تو جنید نے کلچ اور ریس پر‬
‫میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھ کر‬
‫آہستہ آہستہ چالنا شروع کردی‬
‫مجھ سے ہینڈل کا بیلنس سہی طرح سے‬
‫نھی ھورھا تھا‬
‫موٹرسائیکل ڈگمگا رھی تھی کبھی‬
‫اسطرف جاتی تو کبھی اسطرف‬
‫کچھ دور جاکر میری کنفیوژن کچھ دور‬
‫ھوئی تو میں کافی حد تک موٹرسائیکل‬
‫کو قابو کرنے میں کامیاب ھوگیا‬
‫جنید نے بھی اپنے ھاتھ ہٹا لیے اور‬
‫میں آہستہ آہستہ سپیڈ بڑھانے لگا‬
‫جنید مجھے کہتا بھی رھا کہ یاسر ابھی‬
‫آرام سے چالو‬
‫مگر مجھ پر جنون سا سوار تھا اور میں‬
‫ریس کو بڑھائی جارھا تھا‬
‫کہ اچانک سڑک کے ساتھ لگے‬
‫درختوں میں سے ایک کتا نکل کر دوڑ‬
‫کر سڑک کی دوسری طرف جانے لگا‬
‫ُکتے کو دیکھ کر میں اتنا گبھرا گیا کہ‬
‫میں نے بریک لگانے کی بجاے ریس‬
‫بڑھا دی‬
‫پھر مجھے جنید اور اپنی بس چیخ ھی‬
‫سنائی دی‬
‫اسکے بعد مجھے بس اتنا ھی یاد رھا‬
‫کہ ُکتا اگلے ٹائر کے نیچے آیا اور ہم‬
‫دونوں موٹرسائیکل سے اچھل کر سڑک‬
‫پر گرےتھے۔۔۔‬

‫جب میری آنکھ ُکھلی تو میں ہسپتال کے‬


‫بیڈ پر پڑھا تھا اور مجھے اپنے چاروں‬
‫طرف دھندلے دھندلے چہرے نظر‬
‫آرھے تھے‬
‫کچھ دیر غور کرنے کے بعد ان چہروں‬
‫کو پہچانا تو‬
‫امی ابو نازی عظمی فوزیہ اور انکل‬
‫جاوید کی بیوی تھیں ۔‬
‫میں نے ایک نظر سب کو دیکھا اور‬
‫پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آیا اور‬
‫میں پھر بے ہوشی کی حالت میں چال‬
‫گیا۔ جب مجھے دوبارا ہوش آئی تو امی‬
‫میرے سر کے پاس بیٹھی میرے سر پر‬
‫ھاتھ پھیر رھی تھی‬
‫اور فوزیہ میرے پیروں کی طرف‬
‫بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫میں منہ ھی منہ میں بُڑبڑانے لگ گیا‬
‫امی امی امی‬

‫میری آنکھیں کھلتے اور مجھے‬


‫بڑبڑاتے دیکھ کر امی روتے ھوے میرا‬
‫ماتھا چومتے ھوے بولی۔‬
‫جی امی کی جان‬
‫میں نے کہا امی جان میں کہاں ھوں کیا‬
‫ھوا ھے مجھے آپ کیوں رو رھی ہیں‬
‫۔‬
‫جنید کہاں ھے‬

‫امی بولی ماں صدقے جاے شکر ھے‬


‫میرے بچے کو ہوش آگیا۔‬
‫کچھ نھی ھوا تجھے جنید بھی ٹھیک‬
‫ھے ذیادہ بول نہ ابھی تیری طبعیت‬
‫سہی نھی ھے‬

‫تبھی فوزیہ بھی اٹھ کر میری ناف کے‬


‫پاس بیٹھ کر میرے اوپر جھک کر‬
‫مجھے خاموش رہنے کا کہنے لگ‬
‫گئی‬
‫اور امی کو بھی مجھ سے بات کرنے‬
‫سے روکتے ہوے بولی‬
‫آپاں ابھی اس سے بات نہ کریں‬
‫چپ رہیں‬
‫میں ڈاکٹر کو بال کر التی ہوں ۔‬

‫اور فوزیہ اٹھ کر وارڈ سے باہر چلی‬


‫گئی اور کچھ دیر بعد‬
‫اسکے پیچھے ایک عورت چلتی ھوئی‬
‫میرے بیڈ کے پاس آگئی اس عورت نے‬
‫نرسنگ ڈریس پہنا ھوا تھا‬
‫میں غور سے اسکو دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مجھے وہ شکل جانی پہچانی سی لگ‬
‫رھی تھی ۔‬
‫وہ عورت مجھ پر جھک کر میرے‬
‫ماتھے پر بندھی پٹی کو سہی کرتے‬
‫ھوے میرے گال تھپتھپا کر مجھ سے‬
‫مخاطب ھوئی‬
‫کیسی طبعیت ھے اب یاسر‬
‫اس عورت کا چہرہ جب میرے چہرے‬
‫کے بلکل قریب ھوا تو میں جب غور‬
‫سے دیکھا تو مارے حیرانگی کے‬
‫مجھے ایک بار پھر چکر آگیا‬
‫وہ عورت تو فرحت تھی‬
‫یہ یہاں ہسپتال میں کیا کررھی ھے‬
‫میں آنکھیں بند کر کے سوچنے لگ گیا۔‬
‫فرحت نے سمجھا شاید میں پھر بےہوش‬
‫ھوگیا ہوں ۔‬
‫وہ پھر میری نبض پکڑ کر میری گال‬
‫تھپتھپا کر مجھے ہوش میں النے کی‬
‫کوشش کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر یاسر یاسر۔‬
‫ہوش کرو‬
‫آنکھیں کھولو ادھر دیکھو میری طرف ۔‬
‫میں نے پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں‬
‫اور پھر اسکے چہرے کو دیکھنے لگ‬
‫گیا۔‬
‫تو وہ بولی کیسا محسوس کر رھے ھو ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال کر بہتر‬
‫محسوس کرنے کا اشارہ کیا۔‬
‫تو فرحت پھر بولی مجھے پہچانا۔‬

‫میں نے پھر اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫پھر اس نے امی کی طرف اشارہ کیا یہ‬


‫کون ہیں بتاو‬
‫میں نے آہستہ سی آواز میں کہا امی اور‬
‫ساتھ ھی میری آنکھوں سے آنسو بہنا‬
‫شروع ھوگئے۔‬

‫فرحت میری گال پر ھاتھ پھیرتے ھوے‬


‫بولی اچھے بچے روتے نھی ہیں‬
‫تم تو بڑے بہادر ھو‬
‫اور پھر فرحت فوزیہ کی طرف اشارہ‬
‫کر کے بولی‬
‫اچھا بتاو یہ کون ہیں ۔‬
‫میں نے بوجھل آنکھوں سے فوزیہ کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫آنٹی۔۔۔‬
‫تو فرحت پھر میری گال پر شاباشی‬
‫دیتے ھوے بولی‬

‫ُگڈ بواے‬

‫تم بہت جلد سہی ھوجاو گے‬

‫دیکھو تمہاری امی کتنی پریشان ھے‬


‫اور تمہارے سب گھر والے بھی‬
‫تمہاری وجہ سے کتنے پریشان ہیں۔‬

‫میں پھر امی اور فوزیہ کی طرف‬


‫دیکھنے لگ گیا۔‬

‫اور فرحت میرے اوپر سے سیدھی‬


‫کھڑی ھوئی‬
‫اور امی کو مخاطب کرتے ھوے بولی‬
‫آنٹی پریشان ہونے کی کوئی بات نھی‬
‫یاسر اب بلکل ٹھیک ھے ۔‬

‫تو امی بولی ۔‬

‫پتر ہور کنے دن ہسپتال رہنا پوے گا۔‬


‫تو فرحت بولی‬
‫ویسے تو اسکی حالت کافی بہتر ھے‬
‫پھر بھی رات کو ڈاکٹر صاحب راونڈ پر‬
‫آئیں گے تو وہ ھی اسکی پوزیشن دیکھ‬
‫کر بہتر بتا سکیں گے‬
‫اور یہ کہتے ھوے وہ پھر مجھ پر‬
‫جھکی اور پھر میری گال کو تھپتھپا کر‬
‫بولی‬
‫جلدی سے ٹھیک ھو جاو‬
‫میں نے سوٹ لینے پھر تمہاری دکان‬
‫پر آنا ھے ۔۔۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے وہ دوسرے بیڈ پر‬


‫مریض کو دیکھنے کے لیے چلی گئی۔‬

‫فوزیہ میرے تھائی کے ساتھ پھر اپنی‬


‫گانڈ لگا کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے فوزیہ کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫پوچھا آنٹی مجھے کیا ھوا تھا اور‬
‫میرے ساتھ میرا دوست جنید تھا وہ‬
‫کدھر ھے‬
‫اور میں کب سے ادھر ہسپتال میں ۔۔۔۔۔۔‬
‫فوزیہ نے جلدی سے میری بات پوری‬
‫ھونے سے پہلے میرے اوپر جھکی اور‬
‫ممے میرے سینے کے ساتھ لگا کر‬
‫میری گال پر اپنا ھاتھ رکھ کر بولی‬
‫یاسر ذیادہ بولو مت‬
‫میرے شزادے کو کچھ بھی نھی ھوا‬
‫اور تمہارا دوست بھی بلکل سہی ھے‬
‫وہ کل ھی اپنے گھر چال گیا‬
‫ہم بھی ایک دو دن میں گھر چلے جائیں‬
‫گے‬
‫تم بس جلدی سے سہی ھوجاو‬
‫اور مجھے چھیڑتے ھوے‬
‫بولی‬
‫پھر میں اور میرا شزادہ نہر پر کپڑے‬
‫دھونے جائیں گے‬
‫چلو گے نہ میرے ساتھ‬

‫امی بھی فوزیہ کی بات سن کر ہنس‬


‫پڑی جو کافی دیر سے گم سم بیٹھی‬
‫تھی‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال دیا۔۔‬

‫امی بیچاری اب اندر کی بات کیا جانتی‬


‫تھی کہ کون سے کپڑے کہاں دھونے‬
‫ہیں ۔‬

‫فوزیہ پھر میری گال تھپتھپا کر بولی‬


‫یہ ہوئی نہ بات ۔‬
‫اور پھر فوزیہ اپنے ممے میرے سینے‬
‫سے اوپر کر کے سیدھی ھوکر بیٹھ‬
‫گئی ۔‬

‫مجھے ڈرپ لگی ہوئی تھی اس کی‬


‫وجہ سے شاید مجھ پر پھر غنودگی‬
‫چھانے لگی اور میں پھر نیند کی‬
‫وادیوں میں کھوگیا۔‬

‫جب میری آنکھ کھلی تو وارڈ میں بلکل‬


‫سناٹا سا تھا‬
‫شاید رات کا کوئی پہر تھا۔‬

‫میں اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس‬


‫کررھا تھا ۔‬
‫میں نے سر گھما کر سائڈ پر پڑے بینچ‬
‫کی طرف دیکھا تو وہاں فوزیہ میری‬
‫طرف منہ کر کے گانڈ دوسری طرف‬
‫کئے گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ لگا کر‬
‫بےسدھ سوئی ھوئی تھی اور ہلکے‬
‫ہلکے خراٹے اسکے منہ سے نکل‬
‫رھے تھے ۔‬

‫مجھے پیشاب بہت تیز آیا ھوا تھا میں‬


‫نے اٹھنے کی کوشش کی تو میرے سر‬
‫میں ہلکی سی درد کی چییس اٹھی اور‬
‫میں نے ایک دفعہ دونوں ھاتھوں سے‬
‫اپنے سر کو پکڑ لیا اور پھر اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کو ہال کر دیکھا تو ایک‬
‫گھٹنے سے درد کی لہر پوری ٹانگ‬
‫میں دوڑی ۔‬

‫مجھے محسوس ھوا کہ میرے سر میں‬


‫ذیادہ چوٹ لگی ھے اور باقی ہڈیاں‬
‫وغیرہ ٹوٹنے سے بچ گئی ہین‬
‫اور کہنی اور گھٹنوں پر بس معمولی‬
‫رگڑیں لگی ہیں‬
‫میں آہستہ آہستہ اپنے سارے جسم کے‬
‫اعضاء کو ہال ہال کر چیک کررھا تھا ۔‬

‫اسی دوران میں نے اپنے لن کو بھی‬


‫اچھی طرح چیک کیا کہ میرا نصیب تو‬
‫سالمت ھے نہ ۔‬

‫مجھے پیشاب کی حاجت بہت ھورھی‬


‫تھی‬
‫میں کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رھا ۔‬
‫مگر سب سے ھوے تھے‬
‫نرسیں بھی شاید اپنے سٹاف روم تھیں‬

‫اور مجھے تو یہ بھی نھی پتہ تھا کہ‬


‫واش روم کسطرف ہیں۔۔۔‬

‫میں پہلے تو فوزیہ کو آواز دینے لگا‬


‫پھر یہ سوچ کر خاموش ھوگیا‬
‫کہ پتہ نھی بیچاری کتنے دنوں سے‬
‫ادھر ھی میری وجہ سے خوار ھو رھی‬
‫ھے ۔‬

‫میں خود ھی حوصلہ کر کے اٹھا اور‬


‫کراہتا ھوا بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر‬
‫بیٹھ گیا بیٹھنے کی وجہ سے میری کمر‬
‫میں بھی تکلیف کا احساس ہوا۔‬

‫مگر میں پھر بھی برداشت کرگیا‬


‫پیشاب تھا کہ جیسے ابھی بیچ میں نکل‬
‫جاے گا ۔‬

‫میں پوری ہمت اکھٹی کر کے کھڑا ھوا‬


‫تو مجھے ایکدم چکر آیا اور میں سیدھا‬
‫فوزیہ کے پیٹ پر گر گیا اور ایک ھاتھ‬
‫میرا فوزیہ کی کمر کے پیچھے چال گیا‬
‫دوسرا ھاتھ اس کے ممے کے اوپر‬
‫فوزیہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور مجھے‬
‫سنبھالتے ھوے پکڑ لیا اور بولی یاسر‬
‫کیا ھوا کدھر جارھے تھے‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے پھر‬
‫کھڑے ھونے کی کوشش کی اور فوزیہ‬
‫بھی مجھے اپنے سینے سے لگا کر‬
‫کھڑی ھوگئی اور مجھے بیڈ پر بیٹھانے‬
‫لگی‬
‫میں نے درد بھری آہ بھرتے ھوے کہا‬
‫آنٹی مجھے پیشاب کرنا ھے ۔‬

‫تو فوزیہ بولی‬


‫مجھے آواز دے دیتے‬
‫ہے نہ کمال ُمنڈا‬
‫پتہ بھی ھے کہ ابھی چلنے پھرنے کے‬
‫قابل نھی ھوا اور چال ھے خود ھی‬
‫جوان بننے ۔‬

‫اور پھر فوزیہ مجھے کھڑا کر کہ بولی‬


‫چل میں تیرے ساتھ چلتی ھوں‬
‫میں اب کافی حد تک سنبھل چکا تھا‬
‫شاید کتنے دن ھوگئے تھے بستر پر ھی‬
‫لیٹے ھوے تو ایکدم کھڑے ھونے کی‬
‫وجہ سے چکر آگیا تھا۔‬
‫پہلے شاید مجھے پیشاب کی نالی لگائی‬
‫ھوگی مگر اب وہ بھی اتار دی تھی‬
‫ورنہ مجھے اٹھنے کی ضرورت نہ‬
‫پڑتی ۔‬
‫فوزیہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر میری‬
‫کمر میں بازو ڈال کر واش روم کی‬
‫طرف آہستہ آہستہ چلتے ھوے لے کر‬
‫جانے لگی ۔‬

‫وارڈ سے باہر نکل کر ایک طرف گلی‬


‫سی تھی اس طرف کو ہم مڑ کر واش‬
‫روم کے پاس پہنچ گئے‬

‫ہسپتال میں بلکل سناٹا سا چھایا ھوا تھا‬


‫واش روم کے دروازے پر پہنچ کر‬
‫فوزیہ نے دروازہ کھوال اور مجھے لے‬
‫کر واش روم کے اندر چلی گئی‬
‫واش روم میں کمپووڈ تھا اور فلیش‬
‫بھی‬
‫میں فلیش کی طرف بڑھنے لگا تو‬
‫فوزیہ بولی ادھر کمپووڈ میں کھڑے‬
‫ہوکر کر لو پیشاب‬
‫میں ناال کھولنے لگ گیا مگر میرے‬
‫ہاتھ پر سوئی لگی ھوئی تھی‬
‫جس کی وجہ سے مجھے ناال کھولنے‬
‫میں دکت پیش آرھی تھی ۔‬

‫فوزیہ نے جب دیکھا کہ مجھ سے ناال‬


‫نھی ُکھل رھا تو وہ آگے بڑھی اور‬
‫میری قمیض اوپر کر کے میرا ناال‬
‫کھولنے لگ گئی ۔‬
‫ناال کھول کر اس نے شلوار تھوڑی سی‬
‫نیچے کی تو میں ہاتھ نیچے کر کے‬
‫اپنے لن کو پکڑ کر کمپووڈ کی طرف‬
‫کرنے لگا تو میرے ہاتھ پر لگی ہوئی‬
‫سوئی میرے جلدی سے ھاتھ نیچے‬
‫لیجانے کی وجہ سے میری قمیض کے‬
‫پلو کے ساتھ اٹک گئی جس سے مجھے‬
‫اتنی درد ھوئی کے میرے منہ سے‬
‫ھاےےےے نکل گیا ۔۔‬
‫فوزیہ نے گبھرا کر میرے ھاتھ پر لگی‬
‫ھوئی سوئی کی طرف دیکھا اور جلدی‬
‫سے میرا ہاتھ پکڑ کر سوئی کے اوپر‬
‫اپنا انگوٹھا رکھ کر ہلکا سا دبانے لگی‬
‫اور پھر‬
‫فوزیہ نے اپنا ھاتھ آگے کیا اور میرا لن‬
‫پکڑ کر کمپووڈ کی طرف کرتے ھو‬
‫ھوے بولی چلو کرو پیشاب میں پکڑ کر‬
‫رکھتی ھوں ۔‬

‫جیسے ھی فوزیہ کے ھاتھ کا لمس‬


‫میرے لن کو محسوس ھوا تو‬
‫زخمی اور درد کی حالت میں بھی‬
‫نجانے کیوں میرے لن نے ہلکا سا‬
‫جھٹکا مار کر اپنے ہونے کا اشارہ کیا۔‬

‫اور لن کو ھاتھ میں پکڑتے ھوے فوزیہ‬


‫کے چہرے پر بھی ایک رنگ آکر گزر‬
‫گیا‬

‫اور ساتھ ھی پیشاب کی لمبی دھار‬


‫کمپووڈ میں گرنے لگی ۔‬

‫پیشاب تھا کی رکنے کا نام ھی نھی لے‬


‫رھا تھا‬
‫جیسے صدیوں بعد پیشاب کررھا تھا۔‬

‫کچھ دیر پیشاب نکلتا رھا اور پھر لن‬


‫نے ہلکے ہلکے جھٹکے لینے کے بعد‬
‫پیشاب کے قطرے فوزیہ کے ہاتھ پر‬
‫ھی بہانے شروع کردیے ۔‬
‫فوزیہ نے لن کو تین چار بار جھٹکا دے‬
‫کر نچوڑا میرے لن میں ہلکی سی‬
‫سختی واقع ھو چکی تھی‬

‫فوزیہ نے لن کو جھٹک کر‬


‫مسلم شاور پکڑا اور بٹن دبا کر شاور‬
‫سے میرا لن دھونے لگ گئی ۔‬

‫لن فوزیہ کے ہاتھ کے لمس سے فل تن‬


‫گیا ایک تو انٹی بیٹک میڈیسن اوپر سے‬
‫فوزیہ کا گرم ھاتھ‬

‫لن بیچارا کی کرے‬


‫ٹھنڈا پانی پی مرے۔‬
‫فوزیہ نے لن کو مٹھی میں بھر کر‬
‫میری طرف شرارت سے دیکھتے‬
‫ھوے کہا‬
‫گندے بچے اب تو باز آجاو‬
‫اپنی حالت دیکھو اور لن کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے ۔‬
‫اور اپنے کام دیکھو۔۔‬

‫میں نے کہا کیا ھوا آنٹی‬

‫میں نے حیران ھوتے ھوے ایسے‬


‫پوچھا جیسے مجھے کسی بات کا علم‬
‫نہ ھو‬
‫تو فوزیہ میرے لن کو ہالتے ہوے‬
‫بولی‬
‫آنٹی کے بچے‬
‫یہ کیا ڈرامہ ھے‬
‫ایک منٹ میں اتنا بڑا کر لیا۔‬

‫میں نے جھینپ کر کہا‬


‫مجھے کیا پتہ‬
‫آپ نے ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا‬

‫تو فوزیہ میرے لن کو مٹھی مٹھی میں‬


‫دبا کر چھورتے ھوے بولی‬
‫جلدی سے سہی ھوجا‬
‫پھر اس کی آکڑ بھی توڑتی ھوں ۔‬

‫تو میں بھی ہنس پڑا اور پھر فوزیہ نے‬


‫میری شلوار اوپر کی اور میرا ناال‬
‫باندھتے ھوے بولی اب اس کو ٹھنڈا‬
‫کرلو نھی تو وارڈ کی طرف جاتے‬
‫ھوے اگر کسی نرس کی نظر پڑ گئی نہ‬
‫تو پھر اس نے تم پر ترس نھی کھانا‬
‫میں ہلکے سے مسکر کر بوال آپ کو‬
‫دیکھ کر کھڑا ھوگیا تھا آپ ھی اسے‬
‫سمجھا دیں ۔‬
‫تو فوزیہ ناال باندھ کر تمبو بنے لن پر‬
‫ہلکے سے تھپڑ مارتے ھوے بولی‬
‫تم ٹھیک ھو جاو کرتی ھوں اسکا عالج‬
‫بھی‬
‫اور اسکے ساتھ ھی فوزیہ نے مجھے‬
‫پھر اپنے مموں کے ساتھ لگایا اور لے‬
‫کر واش روم سے جیسے ھی باہر آئی‬
‫تو اچانک؟؟؟؟؟؟؟‬

‫مجھے چکر آیا اور میں پھر لڑکھڑایا‬


‫اور فوزیہ نے مجھے مذید اپنے ممے‬
‫کے ساتھ چپکاتے ھوے لے کر وارڈ‬
‫کی طرف چل دی‬
‫میں بھی ڈرے ھوے اور سہمے ھوے‬
‫بچے کی طرح فوزیہ سے چپکا ھوا تھا۔‬
‫فوزیہ نے مجھے بیڈ پر بیٹھایا اور پھر‬
‫مجھے لیٹا کر میری ٹانگیں اوپر کردیں‬
‫۔‬
‫اور خود بینچ کو گھسیٹ کر بیڈ کے‬
‫قریب کر کے بیٹھ گئی اور مجھ سے‬
‫بوچھنے لگ گئی کہ اب کیسی طبعیت‬
‫ھے‬
‫تو مجھے اس حال میں بھی مزاق‬
‫سوجھا میں نے شرارتی انداز میں کہا‬
‫کس کی۔‬

‫تو پہلے تو فوزیہ نے حیران ھوکر‬


‫میری طرف دیکھتے ھوے بس اتنا ھی‬
‫کہا کہ تمہاری اور کس‪،،،،،،‬‬
‫جب اسے سمجھ آئی تو میرے بازو پر‬
‫ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی‬

‫ٹھہر جا ۔۔‬
‫گندا بچہ۔۔۔‬

‫میں بھی ہنسنے لگ گیا۔‬

‫میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ مجھے‬


‫ہسپتال کون الیا تھا اور جنید جو میرے‬
‫ساتھ تھا وہ کدھر ھے‬

‫تو وہ بولی جہاں تم لوگ گرے تھے‬


‫وہاں سے گزرنے والے گاوں کے ھی‬
‫لوگ تم دونوں کو ہسپتال لے کر آے‬
‫تھے‬
‫ہمیں تو بعد میں پتہ چال تھا کہ تمہارا‬
‫ایکسیڈنٹ ھوگیا ھے ۔‬

‫تو ہم سب نے سالم تانگہ کروایا اور‬


‫ہسپتال جب پہنچے تو تمہارے کپڑے‬
‫سارے پھٹے ھوے تھے اور سر پر پٹی‬
‫کی ھوئی تھی اور تمہارے دوست کو‬
‫اتنی ذیادہ چوٹ نھی آئی تھی مگر تم‬
‫دونوں ھی بےہوش تھے‬
‫تمہاری امی تو تمہاری حالت دیکھ کر‬
‫گر گئی تھی‬
‫میں نے کہا مجھے کتنے دن ھوگئے‬
‫ہیں تو فوزیہ بولی تمہیں آج چوتھا دن‬
‫ھے‬
‫تمہارے دوست کو تو اسی دن ہسپتال‬
‫والوں نے گھر بھیج دیا تھا‬
‫مگر تمہارے سر میں چوٹ لگنے کی‬
‫وجہ سے اور بے ہوشی کی وجہ سے‬
‫ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ جب تک تسلی‬
‫نھی ھو جاتی تب تک گھر نھی جا‬
‫سکتے۔۔‬

‫تو میں نے کہا کہ آپ اس دن سے رات‬


‫ادھر ھی ٹھہرتی ھو تو فوزیہ بولی‬
‫پہلے دن تو تمہاری امی ھی ادھر رکی‬
‫تھی‬
‫اور پھر انکی بھی طبعیت خراب ھوگئی‬
‫تھی تمہاری حالت دیکھ کر تو انکو پھر‬
‫گھر بھیج دیا اور میں ادھر رکنے لگ‬
‫گئی ۔۔‬

‫مجھے اچانک فرحت کا خیال آیا کہ یہ‬


‫ہسپتال میں کیا کررھی تھی ۔‬

‫میں نے فوزیہ سے پوچھا کہ صبح جو‬


‫عورت آئی تھی وہ کون تھی ۔‬

‫تو فوزیہ ہنستے ھوے بولی‬


‫تم نے اسے پہچانہ نھی‬
‫وہ اپنے گاوں کی ھی ھے فرحت ھے‬
‫اسکا نام‬
‫بےچاری بیوہ ھے اور بوڑھی ماں کے‬
‫ساتھ رہتی ھے اور ہسپتال میں نرس‬
‫ھے‬
‫اس بےچاری نے تمہارا بڑا خیال رکھا‬
‫ورنہ سرکاری ہسپتالوں میں ماڑے‬
‫بندے کو کون پوچھتا ھے ۔‬

‫وہ بےچار جب بھی ڈیوٹی پر ھوتی‬


‫ہر دس منٹ بعد تمہیں دیکھنے آتی اور‬
‫ڈاکٹر کو بھی اس نے یہ کہا کہ یہ‬
‫میرے جاننے والے ہیں ۔‬
‫میں نے کہا یہ ظہیر کی امی ہیں نہ جو‬
‫اپنے ماموں کے پاس چال گیا ھے ۔‬

‫تو فوزیہ بولی ھاں ھاں وہ ھی ھے‬

‫تو میں نے کہا یہ کب سے نرس لگی‬


‫ھوئی ہے تو فوزیہ بولی‬
‫اسکو تو کافی عرصہ ھوگیا ھے ۔‬
‫بےچاری کا اور کمانے واال بھی کون‬
‫ھے‬

‫ہم ایسے ھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے‬


‫رھے‬
‫اور کچھ دیر بعد نرس آگئی مجھے‬
‫چیک کرنے اور پھر سے مجھے ڈرپ‬
‫لگا کر چلی گئی تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا کہ ہم گھر کب تک جا سکتے ہیں‬
‫۔‬

‫تو وہ بولی صبح ڈاکٹر صاحب آئیں گے‬


‫تو وہ ھی بتائیں گے ۔‬

‫میں چپ کر کے لیٹ گیا‬


‫اور کچھ ھی دیر بعد مجھے پھر نیند‬
‫نے اپنی آغوش میں لے لیا۔‬

‫صبح میری آنکھ کھلی تو امی نازی‬


‫عظمی نسرین اور صدف آگئی‬
‫صدف کی طرف میں نے ایک نظر ھی‬
‫دیکھا مگر اس کی سوالیا نظروں کی‬
‫تاب نہ التے ھوے اپنی آنکھیں پھیر لی‬
‫کچھ دیر سب نے میرا حال احوال‬
‫پوچھا‬
‫تو فرحت بھی آگئی‬
‫میں نے اسے غور سے دیکھا‬
‫سفید لباس میں اوپر سفید ۔ واسکٹ میں‬
‫کسے ھوے ممے ۔ہونٹوں پر ہلکے پنک‬
‫رنگ کی لپسٹک جو اس کے پہلے سے‬
‫گالبی ہونٹوں کو مزید نکھار رھی تھی‬
‫مسکراتے ھوے گانڈ ہالتی ھوئی ھاتھ‬
‫میں فائل پکڑے میرے پاس آئی اور‬
‫بڑی ادا سے مسکرا کر بولی‬
‫یاسر کیسے ھو اب‬
‫میں نے بھی مسکرا کر کہا جی بلکل‬
‫ٹھیک ھوں اور آپ کا شکریہ آپ نے‬
‫ہمارے ساتھ تعاون کیا‬
‫تو وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔‬

‫بس بس رہنے دو شکریہ کو‬

‫اگر اتنا ھی شوق ھے شکریہ ادا کرنے‬


‫کا تو جب دکان پر سوٹ لینے آوں تو‬
‫ڈسکاونٹ پر دے دینا‬

‫فرحت کی بات سن کر سب ہنس پڑے‬


‫اور‬
‫پھر وہ مجھے مبارک باد دیتے ھوے‬
‫بولی مبارک ھو یاسر‬
‫تمہاری سب رپورٹ کلیر ہیں اور ڈاکٹر‬
‫صاحب نے تمہیں گھر جانے کی‬
‫اجازت دے دی ھے‬
‫اب تم آرام کر سکتے ھو اور کوئی بھی‬
‫ذور واال کام نھی کرنا اور ایک ہفتہ‬
‫گھر پر آرام کرنا ھے‬

‫یہ میڈیسن ہیں وقت پر لینی ہیں ۔‬

‫میں مذید تمہیں گھر پر بھی دیکھنے آیا‬


‫کرون گی‬
‫اور جاتے ھوے بولی‬
‫چاے تو پالیا کرو گے نہ‬
‫تو پھر سب گھر والے ہنس پڑے‬
‫تو امی بولی‬
‫پتر تیرا اپنا کار اے جدوں مرضی آ‬

‫اور وہ بڑی ادا سے مڑتے ھوے میری‬


‫طرف دیکھتے ھوے دوسرے بیڈ پر‬
‫چلی گئی ۔‬

‫اور کچھ دیر بعد ہم سب تانگے پر گھر‬


‫آگئے اور مجھے میرے کمرے میں‬
‫چارپائی پر لٹا دیا گیا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد محلے کی عورتیں آنا‬
‫شروع ھوگئیں اور میرا حال احوال‬
‫پوچھنے لگ گئی‬
‫اور کچھ اپنے درد بتا کر چلی گئیں شام‬
‫تک ایسے ھے ایک گئی دو آ گئیں میں‬
‫تو گھر آکر پچھتا رھا تھا‬
‫۔اچھا بھال ہسپتال میں سکون تھا ۔۔‬

‫میں سونے کی کوشش کرتا تو ان‬


‫عورتوں کی آوزیں مجھے سونے نھی‬
‫دے رھی تھی‬

‫کہ فرحت کمرے میں داخل ہوئی اور‬


‫آکر میرے جب میرے پاس بیٹھی تو‬
‫ساتھ ھی مجھے سب کچھ اچھا لگنے‬
‫لگ گیا‬
‫فرحت کا نرم نرم جسم جب میرے جسم‬
‫کے ساتھ ٹچ ھوا‬
‫جب اسکی نرم گانڈ میری تھائی کے‬
‫ساتھ لگی تو سارے دن کی بوریت ایک‬
‫لمحہ میں ختم ھوگئی‬
‫اور میں فرحت کی گانڈ کے لمس کو دل‬
‫جان سے محسوس کرنے لگ گیا۔‬

‫فرحت مسکراتے ھوے میری طرف‬


‫دیکھ کر بولی‬
‫سناو کیسی طبعیت ھے اب۔‬
‫میں نے کہا جی بلکل فٹ ھوں ۔‬

‫تو وہ ہنس کر بولی ابھی اتنے بھی فٹ‬


‫نھی ھو جتنا کہہ رھے ھو۔‬

‫تو میں نے کہا جی بس آپ کی مہربانی‬


‫ھے جو میں چلنے پھرنے کے قابل‬
‫ھوگیا ھوں۔۔‬

‫تو فرحت بولی بس بس اب بار بار یہ‬


‫مہربانی اور شکریہ والے الفاظ استعمال‬
‫مت کرو‬

‫میرا تو کام ھی یہ ھے کہ ہر مریض‬


‫کی دیکھ بھال کرنا۔‬

‫میں نے کہا جی بلکل مگر کچھ خاص‬


‫بھی ھوتے ہیں جن پر سب کو چھوڑ کر‬
‫توجہ دی جاتی ھے ۔‬

‫تو فرحت میری گال پر ہاتھ پھیر کر‬


‫بولی یہ تو ھے ۔‬

‫اور پھر فرحت نے میرے سر کی پٹی‬


‫کھولی اور میرے زخم کو دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬
‫گڈ جلدی بھر جاے گا زخم ۔‬
‫اور پھر فرحت نے دوبارا نئی بینڈیج‬
‫کی اور میرے گھٹنے سے شلوار اوپر‬
‫کر ک گھٹنے پے زخم کے اوپر‬
‫پاویوڈین لگا کر صاف کیا اور پھر‬
‫میری کہنی پر سے ۔۔۔۔۔۔‬

‫کچھ دیر بعد امی چاے لے کر اگئی‬


‫تو فرحت بولی آنٹی جی یہ کیا تکلف کیا‬
‫میں تو مزاق کررھی تھی ۔‬

‫تو امی بولی بیٹی تیرا اپنا گھر ھے تو‬


‫نہ بھی کہتی تو بھال ہم تمہیں چاے پینے‬
‫کے بغیر جانے دیتے‬
‫میرے پتر کو اتنی جلدی صحیح کرنے‬
‫میں سارا ھاتھ تمہارا ھے۔‬
‫میں نے امی کی بات سن کر دل میں‬
‫کہا‬
‫واہ امی تینوں کی پتہ کہ مینوں خراب‬
‫کرن وچ وی ایس دا ای سارا ہتھ تے‬
‫کی پوری باں ای اے۔‬

‫فرحت بولی نھی آنٹی جی یہ تو میرا‬


‫فرض تھا‬
‫اور آپ تو میرے گاوں کے ھو اور‬
‫ویسے بھی اتنا پیارا بچہ ھے آپ کا‬
‫۔۔‬

‫امی بھی فرحت کے پاس بیٹھ گئی اور‬


‫دونوں باتیں کرنے لگ گئی‬
‫اور امی فرحت کے شوہر کی وفات کے‬
‫بارے میں بات چھیڑ کر بیٹھ گئی جس‬
‫سے فرحت کی آنکھیں نم ھونا شروع‬
‫ھوگئی۔‬

‫اور مجھے انکی باتوں سے کوفت ھو‬


‫رھی تھی‬

‫کچھ دیر بعد فرحت نے اجازت طلب‬


‫کی اور کل پھر آنے کا کہہ کر چلی‬
‫گئی ۔‬

‫اور اسکے جانے کے بعد‬


‫فوزیہ اور اسکی ساری فیملی آگئی اور‬
‫کافی دیر باتوں کا تسلسل جاری رھا۔‬
‫پھر انکل جاوید اور انکی بیگم آگئی ۔‬

‫۔۔۔۔۔۔‬

‫اگلے دن جب میں سو کر اٹھا‬


‫تو میری طبیعت کافی حد تک بہتر ھو‬
‫چکی تھی اور میں خود بغیر کسی کے‬
‫سہارے چلنے لگ گیا تھا ۔‬

‫کچھ دیر صحن میں چہل قدمی کرنے‬


‫کے بعد میں دوبارا اندر کمرے میں چال‬
‫گیا ۔‬
‫تین چار دن تک یہ ھی معمول رھا‬
‫فرحت آتی اپنی مسکراہٹوں کو میرے‬
‫نام کر کے چلی جاتی ادھر فوزیہ بھی‬
‫بےچین تھی میری تھکاوٹ اتارنے کے‬
‫لیے‬

‫دو دو پھدیاں بے چینی سے میرا انتظار‬


‫کررھی تھی ۔‬

‫آخر کار وہ دن بھی آگیا کہ جس دن میں‬


‫گھر سے تیار شیار ھو کر عظمی اور‬
‫صدف کے گھر سے ہوتا ھوا انکو ساتھ‬
‫لے کر دکان کی طرف چل دیا‬
‫صدف کا غصہ بھی کافی حد تک کم‬
‫ھوگیا تھا‬
‫مگر میرے ساتھ اسکا پہلے جیسا رویہ‬
‫نھی تھا‬
‫بس روکھے پن کا مظاہرہ کر رھی تھی‬
‫۔‬
‫میں کافی دن گزرنے کے بعد دکان پر‬
‫گیا تھا‬
‫تو ساتھ والے دکانداز بھی میری خیریت‬
‫دریافت کرنے آے‬
‫جنید تو دو دن بعد ھی دکان پر آگیا تھا۔‬

‫جنید مجھ سے مل کر کافی خوش ھوا‬


‫اور مجھ سے ناراض بھی ھونے لگا کہ‬
‫تمہاری چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے‬
‫ہم موت کے منہ سے بچے تھے‬

‫انکل نے بھی جنید کی اچھی خاصی‬


‫کالس لی تھی کے مجھے کیوں موٹر‬
‫سائیکل چالنے دی ۔‬
‫میں دکان کے فرنٹ پر ھی بیٹھا ھوا تھا‬
‫کہ وہ ھی دونوں حسینائیں جلوہ گر‬
‫ہوئیں‬
‫ثانیہ اور ضوفشاں ۔‬

‫اور مجھ سے سالم لینے کے بعد اندر‬


‫چلی گئیں ۔‬
‫میں بھی اٹھا اور انکے پیچھے چال گیا‬
‫اور ان دونوں کو بیٹھنے کا کہا اور‬
‫دوبارا آنے کا شکریہ ادا کیا تو ضوفی‬
‫بڑی ادا سے بولی ہم تو پرسوں بھی‬
‫آئیں تھی مگر آپ نھی تھے پوچھنے پر‬
‫آپ کا پتہ چال کہ آپ کے چوٹ لگی‬
‫ھے‬
‫کیسے ہیں آپ اب‬
‫میں نے کہا جی شکر ھے اب کافی بہتر‬
‫ھوں تو انہوں نے ایکسیڈنٹ کی وجہ‬
‫پوچھی جو میں نے انکو تفصیل سے‬
‫بتادی تو ضوفی بولی‬
‫آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے چوٹ‬
‫لگی ھے‬
‫اور کچھ مزید مجھے سمجھانے کے‬
‫بعد بولیں‬
‫ہم نے دلہن کا ڈریس رینٹ پر لینا تھا‬
‫تو ہمیں ایک سوٹ پسند آیا تھا مگر آپ‬
‫کے انکل نے رینٹ ھی بہت ذیادہ بتایا‬
‫تو ہم نے پھر آنے کا کہہ کر نھی لے‬
‫کرگئیں‬
‫ہم نے تو سوچا تھا کہ آپ ہمیں مزید‬
‫ڈسکاونٹ دیں گے مگر آپ کے انکل‬
‫نے تو لہنگے کی ہاف قیمت جتنا رینٹ‬
‫بتا دیا تھا ۔۔‬

‫میں ضوفی کی تقریر اور گلے شکوے‬


‫سننے کے بعد بوال‬
‫میں معذرت خواہ ھوں کہ آپ کو لہنگے‬
‫کی وجہ سے دوبارا آنا پڑا‬
‫آپ بتائیں کون سا لہنگا ھے‬
‫تو ثانیہ نے اپنے گالبی ہونٹ ہالے اور‬
‫سامنے الماری میں پیک کئے ھوے‬
‫شاکنگ پنک کلر کے لہنگے کی طرف‬
‫اشارہ کر کے کہا‬
‫جی وہ واال لہنگا ھے ۔‬

‫تو میں نے وہ لہنگا نکاال اور ان کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے پوچھا آپ میں‬
‫سے کس کی شادی ھے تو دونوں ہنس‬
‫پڑیں اور ضوفی بولی ۔‬
‫ہماری نھی بلکہ میری کسٹمر کی شادی‬
‫ھے جمعہ کو تو اس کے لیے لینا ھے‬
‫میں نے پوچھا کہ میں سمجھا نھی کہ‬
‫آپکی کسٹمر کیا مطلب ۔۔۔‬

‫تو ضوفی نے پرس سے ایک کارڈ‬


‫نکال کر میری طرف بڑھاتے ھوے کہا‬
‫میرا پارلر ھے شاہین مارکیٹ کی بیس‬
‫منٹ میں اور یہ میرا کارڈ ھے‬
‫اور میں نے دلہن تیار کرنی ھے تو اس‬
‫کے لیے لینا ھے‬
‫اتوار کو آپ کو واپس مل جاے گا ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور کارڈ پکڑ کر‬
‫جیب میں ڈال لیا‬
‫اور لہنگا شاپر میں ڈال کر انکی طرف‬
‫بڑھاتے ھوے کہا یہ لیں‬
‫تو ضوفی بولی آپ رینٹ تو بتا دیں۔‬
‫آپ کے انکل تو چار ہزار مانگ رھے‬
‫تھے‬
‫ہم اتنا افورڈ نھی کرسکتے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫آپ کتنے دینا چاھتی ہیں ۔‬

‫تو وہ بولی میں دوہزار دے سکتی ھوں‬

‫تو میں نے کہا ویسے تو ہم چار ہزار‬


‫سے کم نھی لیتے‬
‫آپ لے جائیں اور میں انکل کو خود ھی‬
‫سمجھا دوں گا۔‬

‫آپ خود لہنگا نہ دینے آنا میں آپ کے‬


‫پارلر سے پکڑ لوں گا‬

‫تو ضوفی نے پرس سے دوہزار نکال‬


‫کر مجھے دئیے اور بڑی غور سے‬
‫مجھے دیکھتے ھوے شکریہ کہا اور‬
‫ایک جھٹکے سے کھڑی ھوئی جس‬
‫سے اس کے بھاری ممے ایسے ہلے‬
‫جیسے ابھی نیچے گرنے لگے ھوں‬
‫میں تو اسکے مموں کو دیکھتا ھی رھی‬
‫گیا‬
‫مجھے اپنے مموں کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے ۔‬

‫ضوفی گال کھکنگار کر بولی‬


‫جی ہم جائیں‬
‫تو میں جھینپ کر بوال ججججی جی‬
‫۔‬
‫تو ثانیہ اس سے پہلے دکان سے باہر‬
‫نکلنے لگی تو ضوفی نے مجھ ہر ایک‬
‫گہری نظر ڈالی اور پھر تھینکسس کہا‬
‫اور اپنی گول گانڈ مٹکاتی ہوئی باہر کی‬
‫طرف جانے لگی اسکی گانڈ جو کہ‬
‫اسکی شارٹ شرٹ کی وجہ سے اسکی‬
‫شرٹ کو بھی اوپر نیچے کررھی تھی‬
‫میرا تو اسکی گانڈ دیکھ کر دل کر رھا‬
‫تھا کہ ابھی جاکر پورا چپہ چڑھا دوں‬
‫اسکی گانڈ میں ۔‬

‫ضوفی جب دکان کے فرنٹ پر پہنچی‬


‫تو اس نے یکلخت گھوم کر دیکھا تو‬
‫میں اسکی گانڈ کے دلکش نظارے میں‬
‫کھویا ھوا تھا تو میری نظریں اسکی‬
‫نظروں سے ملیں تو اس نے بڑی‬
‫سیکسی سی سمائل دی اور ہرنی کی‬
‫طرح دکان کی تین سیڑھیاں پھالنگتے‬
‫ھو باھر چلی گئی ۔‬
‫جس انداز سے وہ اتری تھی‬
‫استاد اسکی چھلکتی گانڈ دیکھ کر میرا‬
‫تو لن کھڑا ھوگیا جسکو میں نے اسی‬
‫جگہ بیٹھ کر چھپا لیا‬

‫اور کچھ دیر تک اس کی گانڈ کے‬


‫خیالوں مین ھی کھویا رھا‬
‫کہ کس خوش نصیب کو اسکی گانڈ‬
‫نصیب ھوگی ۔‬

‫کہ جنید میرے پاس آکر شرارتی انداز‬


‫میں بوال‬
‫سر جی چلی گئی ھے ۔۔۔‬
‫میں ہڑبڑا کر بوال‬
‫لن تے چڑے جاندی اے تے جاوے۔‬

‫تو وہ ہنس کر بوال‬


‫استاد بچی تیرے پر مر گئی ھے پکی‬
‫بات بتا رھا ھوں ۔‬

‫تو میں نے کہا جاندے یار کیوں مزاق‬


‫کررھا ھے‬

‫تو جنید بوال جانی میرا بھی تجربہ ھے ۔‬

‫میں نے کہا یار لگ تو مجھے بھی رھا‬


‫جیسے ہرنی کی طرح گانڈ مٹکا کر کمر‬
‫کو ہال کر پیچھے مڑ کر دیکھ کر گئی‬
‫تھی‬
‫اگر انکل دیکھ لیتے تو‬
‫میرے چھتر پڑ جانے تھے‬

‫تو جنید بوال استاد لوھا گرم ھے بس‬


‫تیری طرف سے چوٹ مارنے کی دیر‬
‫ھے‬

‫مین نے کہا سالی موقع تو دے میں تو‬


‫ایسی چوٹ لگاوں گا کہ کسی اور کی‬
‫طرف یہ دیکھے گی بھی نھی‬
‫تو جنید بوال یار اس بچی کے پیچھے‬
‫آدھا شہر پڑا ھوا ھے‬
‫اور یہ پکے آم کی طرح تیری جھولی‬
‫میں گر رھی ھے ۔‬

‫میں نے کہا جگر تو صبر کر بس ایک‬


‫دفعہ چانس بننے دے پھر دیکھ میں نے‬
‫تو اس آم کی گٹھلی بھی نھی چھوڑنی ۔‬

‫ابھی ہم باتیں ھی کر رھے تھے کہ‬


‫انکل جو پیشاب کرنے گئے تھے دکان‬
‫میں داخل ھوتے نظر آے تو ہم جلدی‬
‫سے الگ ھوکر بکھرے سوٹ طے‬
‫کرنے لگ گئے ۔۔ میں نے سوٹ طے‬
‫کر کے انکل کو دوہزار پکڑاے اور کہا‬
‫کہ ایک کسٹمر کو لہنگا کراے پر دیا‬
‫ھے تو انکل نے پوچھا کونسا لہنگا تو‬
‫مین نے لہنگے کا بتایا تو انکل نے کہا‬
‫یار بہت کم رینٹ لیا ھے اتنا مہنگا ھے‬
‫تو میں نے استفسار پیش کیا اور کہا کہ‬
‫وہ ہمارے پرانے کسٹمر تھے‬
‫کسی اور چیز میں کسر نکال لیں گے ۔‬

‫تو انکل چپ کرگئے ۔‬

‫شام ہوئی اور میں انکل کے ساتھ گھر‬


‫چال گیا‬
‫اور کھانا وغیرہ کھایا تو‬
‫ایک بچہ گھر میں داخل ھوا اور بوال‬
‫یاسر بھائی آپکو آنٹی فرحت بال رھی‬
‫ھے ۔‬

‫تو امی بھی میرے پاس بیٹھی تھی ۔‬

‫مین نے جان بوجھ کر کہا انکو کہو کہ‬


‫یاسر کی طبعیت سہی نھی ھے ۔‬

‫بچہ جیسے ھی جانے لگا تو امی نے‬


‫اسے آواز دے کر رکنے کا کہا‬
‫اور مجھے غصہ ھو کر بولی کہ‬
‫یاسر اتنے احسان فراموش نھی بنتے‬
‫ایک دفعہ انکی بات سن آو ھو سکتا‬
‫ھے کوئی کام ھو‬

‫ہمارے مشکل وقت میں اس نے کتنا‬


‫ساتھ دیا اور اگر پہلی دفعہ اس نے‬
‫بلوایا ھے تو جا میرا شزادہ جا کہ بات‬
‫سن آ۔‬
‫میں تھوڑا سا نخرہ دیکھا کر بچے کو‬
‫ساتھ لے کر فرحت کے گھر کی طرف‬
‫چل پڑا‬
‫بچہ مجھے دروازے پر چھوڑ کر اپنے‬
‫گھر کی طرف بھاگ گیا ۔۔‬

‫میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے‬


‫آواز آئی یاسر آجاو دروازہ کھال ھوا‬
‫ھے ۔تو میں حیران ھوتا ھوا اندر داخل‬
‫ھوگیا کہ اسے کیسے پتہ چال کہ میں‬
‫ھوں‪،‬‬

‫صحن میں آیا تو فرحت چولہے کے‬


‫پاس بیٹھی چاے بنا رھی تھی ۔‬

‫مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی‬


‫بڑے بے وفا ھو‬
‫بھول ھی گئے کہ کوئی جناب کے‬
‫انتظار میں روز بیٹھک کا دروازہ کھال‬
‫چھوڑتا ھے ۔‬

‫میں نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو گھر‬


‫بلکل خالی تھا شاید اسکی امی اپنے‬
‫کمرے میں سوچکی تھی ۔‬

‫میں نے کہا خالہ جان کہاں ہیں تو‬


‫فرحت نے بڑے سٹائل سے اپنے دونوں‬
‫ھاتھ اپنی گال پر رکھ کر اشارہ کیا کہ‬
‫وہ سو رھی ہین ۔‬

‫میں فرحت کے پاس ھی بیٹھنے لگا تو‬


‫فرحت نے باہر کے دروازے کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے کہا کہ‬
‫دروازہ تو بند کر آو‬
‫میں اٹھا اور باہر کے دروازے کی‬
‫طرف دروازہ بند کرنے چال گیا‬
‫دروازہ بند کر کے میں پھر چولہے کے‬
‫پاس آگیا تو فرحت بولی اندر کمرے میں‬
‫چلو میں چاے لے کر ابھی آئی ادھر‬
‫دھویں میں کیسے بیٹھو گے‬

‫میں نے فرحت کا جائزہ لیا تو دیکھ کر‬


‫اسے بس دیکھتا ھی رھ گیا ۔‬

‫گورے رنگ پر‬

‫ہلکا پیلے رنگ کا سوٹ پہنے ھوے‬


‫سرخ لپسٹک لگاے ھوے‬
‫حسن کی ساری حدیں پار کرنے پر‬
‫اتری ھوءی تھی‬
‫چاند کی اور بلب کی روشنی میں‬
‫دوسرا چاند اس صحن میں چمک رھا‬
‫تھا‬

‫مجھے اپنی طرف غور سے دیکھتے‬


‫ھوے‬
‫فرحت مسکراتے ھوے بولی کیا دیکھ‬
‫رھے ھو ۔‬

‫میں نے نفی میں سر ہالیا اور فرحت‬


‫کے بیڈ روم کی طرف چال گیا اور‬
‫کمرے میں داخل ھوا تو کمرہ بلکل‬
‫صاف ستھرا اور بیڈ پر بھی بلکل نئی‬
‫بیڈ شیٹ بچھا ئی ھوئی تھی‬
‫جیسے کسی خاص مہمان کی آمد پر‬
‫خاص اہتمام کیا گیا ھو‬
‫میں جاکر بیڈ پر بیٹھ گیا اور کمرے‬
‫کے دروازے کی دہلیز پر ٹکٹی لگا کر‬
‫دیکھتے ھوے فرحت کے دلفریب جسم‬
‫کی جھلک کا انتظار کرنے لگا‪،،،،،‬‬

‫میں فرحت کے انتظار میں دروازے کی‬


‫دہلیز پر نظر ٹکاے اسکے سیکسی جسم‬
‫اور آنے والے حسین لمحات میں ڈوبا‬
‫ھوا تھا‬
‫کہ فرحت اندر داخل ھوئی اور مجھے‬
‫یوں سوچ میں ڈوبا ھوا دیکھ کر میری‬
‫آنکھوں کے آگے ھاتھ ہال کر بڑی‬
‫شوخی سے بولی‬
‫شہزادہ کدھر کس کے خیالوں میں ُگم‬
‫ھے ۔‬

‫تو میں نے فرحت کے مسکراتے ہوے‬


‫ہونٹوں کی طرف دیکھا جن میں عرصہ‬
‫دراز کی پیاس تھی اور اسکی بڑی سی‬
‫جھیل جیسی آنکھوں میں دیکھا جس میں‬
‫اک شرارت تھی تو میرے منہ سے‬
‫بےاختیار نکال۔‬
‫روئے‪ ،‬نہ لب ہالئے‪ ،‬نہ جھپکی کبھی‬
‫پلک‪ ،‬۔‬
‫تیرے انتظار میں ہم پتھر کے ہوگئے‪ ،‬۔‬

‫تو فرحت کھلکھال کر ہنستے ھوے‬


‫چاے کی ٹرے سائڈ ٹیبل پر رکھتے‬
‫ھوے بولی ۔واہ واہ واہ تو جناب شاعر‬
‫بھی ہیں ۔‬
‫تو میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اسے‬
‫اپنے پاس بٹھاتے ھوے کہا۔‬

‫حسرت۔‬
‫ؔ‬ ‫کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی‬
‫بہت ہے تمہیں اک نظر دیکھ لینا۔‬
‫تو فرحت میرا ہاتھ چومتے ھوے بولی‬
‫خیر ھے آج بڑے رومینٹک موڈ میں‬
‫ھو۔‬
‫تو میں نے کہا‬
‫تمہیں کیا خبر اے جاناں‬
‫کب سے دیوانہ ھے یہ دل تیرا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫اس رات آے نھی تھے تم‬
‫میں نے فوزیہ کے بھائی کی اچانک‬
‫موت کا بتادیا اور پھر اس کے بعد‬
‫ایکسیڈنٹ کا بتایا تو فرحت بولی‬
‫میں آدھی رات تک تمہارا انتظار کرتی‬
‫رھی مگر تم آے نھی‬
‫اور اس کے ساتھ ھی فرحت نے آگے‬
‫ھوکر میری چاے کا کپ پکڑا اور‬
‫مجھے پکڑاتے ھوئے بولی‬

‫اگر تم آج بھی نہ آتے تو میں نے‬


‫تمہارے گھر خود تمہیں لینے آجانا تھا۔‬

‫تو میں نے کہا‬


‫آپ کا حکم مال تو میں دوڑا آیا ۔‬
‫تو فرحت بولی گھر کیا بتا کر آے ھو‬
‫تو میں نے کہا امی نے ھی تو مجھے‬
‫بھیجا تھا۔فرحت ہممم کرکے چاے کی‬
‫چسکی لینے لگ گئی ۔‬

‫اور پھر دونوں نے کپ خالی کیے اور‬


‫فرحت ایک منٹ آئی کہہ کر باہر چلی‬
‫گی اور کچھ دیر بعد فرحت اندر آئی‬
‫اور دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی‬
‫اور پردہ اچھی طرح آگے کر کے بیڈ‬
‫پر چڑھ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی‬

‫میں بھی جوتا اتار کر اوپر پاوں کر کے‬


‫فرحت کے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ گیا ۔‬

‫فرحت ایکدم چونک کر میری طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی آنٹی کو کیا بتاو گے‬
‫کہ میں نے کیوں بلوایا تھا ۔‬
‫یہ سن کر میں بھی کچھ پریشان ھوگیا‬
‫کہ مجھے تو کافی دیر ھوجانی ھے یہ‬
‫نہ ھو کہ بھائی یا ابو مجھے لینے ادھر‬
‫پہنچ جاے‬

‫تو میں نے کہا یہ تو میں نے بھی نھی‬


‫سوچا‬
‫ایسا کرتا ھوں کہ میں ابھی چلتا ھوں‬
‫اگر آپ کے پاس کوئی تاال ھے تو دے‬
‫دیں‬
‫کچھ دیر بعد جب گھر والے سو جائیں‬
‫گے تو میں بیٹھک کو باہر سے تاال لگا‬
‫کر آجاوں گا ۔‬
‫ایسے کسی کو شک بھی نھی ھوگا‬
‫چاھے میں رات بھر آپ کے پاس رہوں‬
‫آپ بس اپنی بیٹھک کا دروازہ کھال‬
‫چھوڑ دینا ۔‬

‫فرحت کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی‬


‫بات تو تمہاری سہی ھے کافی سمجھدار‬
‫ھوگئے ھو‬

‫مگر یہ نہ ھو کہ اس دن کی طرح تم‬


‫پھر نہ آو تو میں نے وعدہ کیا کہ‬
‫الزمی آوں گا تم انتظار کرنا۔‬
‫فرحت بیڈ سے نیچے اتری اور سائڈ‬
‫ٹیبل کا دراز کھول کر مجھے ایک تاال‬
‫نکال کر دیا اور کہنے لگی دھیان سے‬
‫نکلنا گھر سے یہ نہ ھو کہ تمہیں کوئی‬
‫آتا دیکھ لے‬
‫میں نے کہا آپ بےفکر رھو جی‬
‫میں تسلی کر کے ھی آوں گا ۔‬
‫میں تاال لے کر جیب میں ڈالتا ھوا‬
‫کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا تو‬
‫فرحت بھی میرے پیچھے آگئی اور‬
‫دروازہ کھول کر مجھے باہر نکال کر‬
‫پھر آہستہ سے کہا کہ جلدی آجانا میں‬
‫اثبات میں سر ہالتا ھوا گھر کی طرف‬
‫چال گیا‬
‫گھر میں داخل ھوا تو صحن کی الئٹ‬
‫بھی بند تھی شاید گھر والے سب کمروں‬
‫میں تھے میں سیدھا امی کے کمرے‬
‫میں گیا اور بھائی کا پوچھا کہ دکان بند‬
‫کر کے آگیا ھے کہ نھی تو امی نھ بتایا‬
‫کہ وہ تو کب کا آگیا ھوا ھے‬
‫وہ تو شاید سو بھی گیا ھو صبح چار‬
‫بجے تو بیچارہ اٹھتا ھے‬

‫پھر امی نے پوچھا کہ کیا کہتی تھی‬


‫فرحت تو میں نے کہا بس ایسے ھی‬
‫حال چال پوچھ رھی تھی اور کہہ رھی‬
‫تھی ایک دفعہ پھر اپنا چیک اپ کروا‬
‫لینا تو امی فرحت کے صدقے واری‬
‫جانے لگ گئی‬
‫میں نے امی سے سونے کی اجازت لی‬
‫اور کمرے کی بجاے بیٹھک میں لیٹ‬
‫گیا‬
‫جو کہ اکثر میں لیٹ جایا کرتا تھا کیوں‬
‫کہ میرا بھائی سوتے ھوے خراٹے بہت‬
‫مارتا تھا اور اکثر میں اسکے خراٹوں‬
‫سے تنگ آکر بیٹھک میں سوجاتا تھا‬
‫مگر آج کا بیٹھک میں جانا روٹین سے‬
‫کچھ الگ تھا‬
‫دل میں چور تھا اس لیے ڈر بھی لگ‬
‫رھا تھا‬

‫میں بیٹھک میں لیٹ گیا اور سب کے‬


‫سونے کا انتظار کرنے لگ گیا وقت تھا‬
‫کہ گزر ھی نھی رھا تھا‬
‫ایک ایک سیکنڈ گھنٹے جیسا لگ رھا‬
‫تھا ۔‬
‫آخر کار جیسے تیسے ایک گھنٹہ گزر‬
‫گیا ساتھ والے کمرے سے بھائی کے‬
‫خراٹوں کی آواز بیٹھک میں سنائی دے‬
‫رھی تھی میں چپکے سے اٹھا اور‬
‫پہلے کمرے کی طرف واال دروازہ اندر‬
‫سے الک کیا اور پھر بڑے آرام سے‬
‫بیٹھک کا بیرونی دروازہ کھوال اور‬
‫جیب سے تاال نکال کر ہاتھ میں پکڑا‬
‫اور کنڈی لگا کر اس میں تاال لگا کر‬
‫چابی جیب میں ڈالی اور پھر فرحت کے‬
‫گھر کی طرف چل دیا گلیاں سنسان‬
‫تھی‬
‫بس کتوں کے بھونکنے کی آواز آجاتی‬
‫۔‬
‫مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کیوں کہ‬
‫پہلی دفعہ اتنی رات کو گھر سے اکیال‬
‫نکال تھا ۔‬
‫آخر کار ڈرتا ھوا فرحت کے گھر کے‬
‫پاس پہنچ گیا اور ادھر ادھر دیکھتے‬
‫ھوے بیٹھک کا دروازہ کھوال تو دروازہ‬
‫اندر کی طرف کھلتا گیا‬
‫اور میں جلدی سے اندر داخل ھوکر‬
‫دروازہ بند کرکے کنڈی لگا کر لمبے‬
‫لمبے سانس لینے لگ گیا جیسے بڑا‬
‫لمبا سفر طے کر کے آیا ھوں ۔۔‬

‫فرحت بیٹھک میں ھی بیٹھی ھوئی تھی‬


‫میری حالت دیکھ کر جلدی سے میرے‬
‫پاس آئی اور پریشانی سے پوچھنے لگ‬
‫گئی سب خیر تو ھے اتنے گبھراے‬
‫ھوے کیوں ھو تو میں نے اسے ہاتھ‬
‫سے تسلی دیتے ھوے‬
‫کہا کہ خیر ھی ھے سب ۔‬
‫اور پھر میں بیٹھک سے نکل کر اسکے‬
‫کمرے کی طرف ایسے چل دیا جیسے‬
‫میرا اپنا گھر ھو فرحت بھی میرے‬
‫پیچھے پیچھے کمرے میں اگئی میں‬
‫کمرے میں داخل ھوتے ھی بیڈ پر ڈھے‬
‫گیا‬
‫میری ٹانگیں نیچے تھی اور میں آدھا‬
‫بیڈ پر بازو پھیالے لیٹا ھوا تھا‬
‫فرحت نے اندر آکر دروازہ بند کیا اور‬
‫پردہ سہی کر کے میرے پاس آکر بیٹھ‬
‫گئی اور میں بھی خود کو ریلیکس کر‬
‫کے بیڈ کے اوپر ھوکر بیٹھ گیا فرحت‬
‫بھی جوتا اتار کر میرے قریب ھوکر‬
‫بیٹھ گئی‬
‫ہم دونوں خاموش بیٹھے ھوے تھے اور‬
‫اب ہم۔دونوں پہل کرنے کا انتظار کرنے‬
‫لگے کہ کس کی طرف سے پہل ھوتی‬
‫ھے‬
‫مجھے پتہ نھی کیوں فرحت کو اتنا‬
‫قریب پاکر بھی پہل کرنے میں جھجک‬
‫محسوس ھورھی تھی ۔‬

‫آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور‬


‫فرحت کا ھاتھ پکڑ کر اسے چوم کر‬
‫بوال‬
‫اس دن کے لیے معافی چاھتا ھوں بس‬
‫ایسے ھی جزبات میں آکر میں نے آپ‬
‫کے ساتھ غلط کیا اور فضول باتیں بھی‬
‫کی ۔‬

‫تو فرحت میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ بولی‬


‫چھوڑو جو ھوا سو ہوا‬
‫غلطی دونوں کی تھی‬
‫میں نے بھی تمہارے ساتھ غلط کیا‬
‫جس کی وجہ سے میں بعد میں بہت‬
‫پچھتائی تھی ۔‬
‫اور ساری رات تمہارے بارے میں ھی‬
‫سوچتی رھی۔‬
‫اور پھر ساتھ ھی بولی چلو چھوڑو یہ‬
‫وقت ایسی باتیں کرنے کا نھی ھے ۔‬

‫تو میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا اور‬


‫اسے اسکے گلے سے علیحدہ کردیا ۔‬
‫اور اتار کر ایک طرف رکھ دیا فرحت‬
‫کے کالے لمبے بال اسکی گانڈ تک‬
‫تھے جس میں فرحت نے اوپر کیچر‬
‫لگایا ھوا تھا اور باقی بال کھلے اسکی‬
‫کمر کو ڈھانپے ھوے تھے‬
‫میں نے اسکے ریشمی بالوں میں اپنی‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے اوپر سے نیچے‬
‫اسکی نرم گانڈ تک لے آیا اور فرحت‬
‫نے بڑی دلفریب ادا سے سر کو جھٹک‬
‫کر بالوں کو جھٹکا دیا اور بال جو‬
‫میری انگلیوں میں تھے پھسل کر‬
‫انگلیوں سے ایسے نکلے جیسے ریت‬
‫کے ذرے نکلتے ھیں ۔‬
‫اور ساتھ ھی فرحت نے گانڈ اٹھا کر‬
‫نیچے سے قمیض باہر نکالی اور ھاتھ‬
‫پیچھے لیجا کر بالوں کو پکڑ کر جوڑا‬
‫بنانے لگی تو میں نے فرحت کا ہاتھ‬
‫پکڑ لیا اور اس نے میری طرف دیکھا‬
‫اور اشارے سے پوچھا کیا ھے‬
‫تو میں نے کہا رہنے دو ایسے ھی‬
‫کھلے ھوے تو‬
‫فرحت مسکرا کر بولی کیوں‬
‫فرحت کے دونوں بازو اوپر تھے ۔‬
‫جس کی وجہ سے‬
‫فرحت کے باریک سوٹ سے اسکا کاال‬
‫بریزیر صاف نظر آرھا تھا‬
‫اسکے ‪ 38‬سائز کے بڑے بڑے ممے‬
‫بریزیر میں پھنسے ھوے تھے اور بلکل‬
‫آگے کو تنے ھوے تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو اسی حالت میں کمر‬
‫میں ھاتھ ڈال کر گھما کر اپنے اوپر ال‬
‫کر خود لیٹ گیا فرحت کے ممے میرے‬
‫سینے میں دب گئے اسکے لمبے بال‬
‫اسکے کندھوں سے آدھے ایک طرف‬
‫اور آدھے ایک طرف بکھر کر میرے‬
‫کندھوں کے دونوں اطراف آگئے۔‬
‫میں نے کمر سے ھاتھ ہٹایا اور فرحت‬
‫کے بالوں میں لگا کیچر کھول کر‬
‫کھینچا تو اس میں کچھ بال اٹک گئے تو‬
‫فرحت نے آئیییییی کیا اور بال نکال‬
‫دیے‬
‫جیسے ھی کیچر سے بال آزاد ھوے تو‬
‫فرحت کے سلکی سیاہ بالوں نے اسکے‬
‫حسین چہرے کو دونوں اطراف میں‬
‫ایسے ڈھانپ لیا جیسے چاند کو کالے‬
‫بادل گھیر لیتے ھیں ۔‬

‫فرحت کا آدھا جسم بیڈ پر تھا اور پیٹ‬


‫سے اوپر واال حصہ میراے سینے کے‬
‫ساتھ لگا ھوا تھا اور فرحت کا چاند سا‬
‫چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا اور ہم‬
‫دونوں کے چہروں کو فرحت کے سیاہ‬
‫ریشمی بالوں کی چادر نے دونوں‬
‫اطراف سے ڈھانپ رکھا تھا۔‬

‫میں نے ہاتھ آگے کیے اور فرحت کی‬


‫نرم گالوں کے دونوں اطراف ھاتھ‬
‫رکھے اور اس سیکس کی پُڑیا کے‬
‫چہرے کو اپنے منہ کے مزید قریب کیا‬
‫اور اسکے سرخ لپسٹک والے ہونٹوں‬
‫پر ایک کس کی اور اس کی آنکھون‬
‫میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫تو فرحت نے شرماتے ھوے مجھ سے‬
‫آہستہ سے پوچھا کیا ھے ۔‬
‫تو میں نے کہا‬

‫ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو تو‬


‫رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو۔‬
‫تو فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ‬
‫چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو‬
‫ہو یاسر تم ۔۔۔‬

‫ھو سویٹ۔‬

‫تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور‬


‫فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی‬
‫میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی‬
‫لٹ کو ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں‬
‫میں انکھیں ڈال کر پھر کہا‬

‫چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی‬


‫رخساروں کو‬
‫تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا‬
‫ہے۔‬

‫فرحت نے بے ساختہ میر‪-‬ے ہونٹوں پر‬


‫ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ‬
‫گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے‬
‫ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرنے‬
‫لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر‬
‫اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔‬

‫فرحت نے بے اختیار میرے ہونٹ ‪.‬‬


‫چوم لیے اور بولی بڑے رومینٹک کو‬
‫ہو یاسر تم ۔۔۔‬

‫ھو سویٹ۔‬

‫تبھی بالوں کی ایک لٹ نیچے آئی اور‬


‫فرحت کے ہونٹوں کو چومنے لگ گئی‬
‫میں نے انگلی سے اس رقیب بالوں کی‬
‫لٹ کو ہٹاتے ھوے فرحت کی آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر پھر کہا‬

‫چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی‬


‫رخساروں کو‬
‫تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا‬
‫ہے۔‬

‫فرحت نے بے ساختہ میر‪-‬ے ہونٹوں پر‬


‫ہونٹ رکھے اور مسلسل چومنے لگ‬
‫گئی اور میرا اوپر واال ہونٹ اپنے‬
‫ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرنے‬
‫لگ گئی میں نے ہلکا سا منہ کھول کر‬
‫اسکی مشکل کو آسان کردیا ۔‬
‫اور فرحت جنونی انداز میں میرے‬
‫ہونٹ کو چوس رھی تھی اور میں اسکا‬
‫نیچے واال ہونٹ چوستے ھوے اسکے‬
‫بالوں میں دونوں اطراف سے انگلیان‬
‫پھیر رھا تھا ۔‬

‫فرحت کے ہونٹوں پر لگی ساری‬


‫لپسٹک میرے میدے کے اندر جا چکی‬
‫تھی‬

‫اب فرحت کے گالبی موٹے ہونٹوں کی‬


‫باری تھی ۔‬
‫فرحت کے ہونٹوں کا ذائقہ میرے اندر‬
‫سیکس کی بھوک کو مزید بڑھا رھا تھا‬
‫اور فرحت کا بھی حال مجھ سے الگ‬
‫نھی تھا‬
‫فرحت کا بس نھی چل رھا تھا کہ میرے‬
‫ہونٹ کھا جاتی ۔‬

‫وہ اس وقت کسی بھوکی شیرنی کی‬


‫طرح میرے ہونٹوں کو بےدردی سے‬
‫چوس رھی تھی‬

‫کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے‬


‫کے اوپر نیچے والے ہونٹوں کو باری‬
‫باری چوستے کبھی ایک دوسری کی‬
‫زبان کو قابو کر کے زبان کا سارا لباب‬
‫اندر نگھل لیتے۔‬
‫مگر پیاس تھی کے بُھجنے کی بجاے‬
‫بڑھ رھی تھی‬
‫میں نے جوش میں آکر فرحت کے‬
‫دونوں کانوں پر ھاتھ رکھ کر دبا کے‬
‫ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے فرحت کو گھما‬
‫کر اپنے نیچے کیا اور خود اسکے اوپر‬
‫آگیا اور اپنے آپ کو فرحت کی ٹانگوں‬
‫کے درمیان اڈجسٹ کرنے لگ گیا‬
‫فرحت نے بھی ٹانگیں کھول کر اپنی‬
‫پھدی والی جگہ کو ُکشادہ کیا اور جب‬
‫میرا فل ٹائٹ لن پھدی کے اوپر اپنا ذور‬
‫لگانے لگا تو فرحت نے اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کو کھول کر اوپر کیا اور میری‬
‫کمر کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ کر پاوں‬
‫میں پاوں پھنسا کر قینچی ڈال لی اور‬
‫اس جنون میں فرحت مجھ پر سبقت لے‬
‫رھی تھی ۔‬
‫فرحت کے ممے میرے سینے میں‬
‫ایسے دبے ھوے تھے جیسے میں کسی‬
‫مولٹی فوم کے اوپر لیٹا ھوا ہوں فرحت‬
‫کا جسم بھرا بھرا تھا اور اتنا ھی سوفٹ‬
‫بھی تھا ۔‬

‫میرا لن اور فرحت کی پھدی مالپ کے‬


‫لیے بےچین تھے‬

‫فرحت میں اسقدر جنون آچکا تھا کہ اس‬


‫نے اپنی گانڈ اٹھا کر پھدی کو لن پر‬
‫جتنا دباو ڈال سکتی تھی ڈال رھی تھی‬
‫اور میری کمر کے گرد اسکی ٹانگوں‬
‫کی گرفت اسقدر سختی پکڑے جارھی‬
‫تھی کہ مجھے اپنا سانس بند ھوتا‬
‫محسوس ھورھا تھا‬

‫فرحت میرے نیچے لیٹی مجھکو قابو‬


‫کر کے ٹانگوں کے زور سے کبھی‬
‫دائیں طرف لے جاتی کبھی بائیں طرف‬
‫اور میں بے بس کمزور لڑکی کی طرح‬
‫اسکی ٹانگوں کی گرفت میں پھنسا‬
‫اسکی ٹانگوں کے اشاروں پر ادھر‬
‫ادھر ھورھا تھا‬
‫فرحت نے میرے ہونٹ اسقدر ذور سے‬
‫چوس رھی تھی کہ جیسے ابھی کھا‬
‫جاے گی‬

‫یکلخت فرحت نے مجھے تین چار دفعہ‬


‫ٹانگوں سے جکڑے دائیں بائیں کیا اور‬
‫پھر اسکے منہ سے ممممممممم نکال‬
‫اور زور زور سے اسکی گانڈ اور کمر‬
‫جھٹکے لینے لگ گئی اور پھر فرحت‬
‫کا جسم ایسے ھوگیا جیسے‬
‫موت کا فرشتہ اپنی امانت نکال کر لے‬
‫گیا ھو ۔‬

‫فرحت نے میری کمر سے ٹانگیں ہٹا کر‬


‫ذور سے بیڈ پر ایسے گرائیں جیسے ان‬
‫میں جان ختم ھوگئی ھو اور ساتھ ھی‬
‫فرحت نے میرے ہونٹوں پر ترس‬
‫کھاتے ھوے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹا‬
‫کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی ۔‬

‫میں نے شکر ادا کیا کہ کچھ دیر اور یہ‬


‫مجھے اسی حال میں رکھتی تو بس میں‬
‫تو گیا تھا۔‬

‫واقعی استاد استاد ھی ھوتا ھے ۔‬


‫میری سیکس ٹیچر تھی تو میں تو‬
‫اسکے آگے بچہ ھی تھا نہ ۔‬
‫مگر یہ اسکی بھول تھی‬
‫کیوں کہ‬
‫پکچر تو ابھی باقی تھی ۔۔۔۔‬

‫فرحت بےسدھ ہوکر لیٹ گئی اور اپنا‬


‫بازوں آنکھوں پر رکھ لیا جیسے سونے‬
‫لگی ھو۔‬
‫فرحت کی تیز سانسوں کی وجہ سے‬
‫ممے اوپر نیچے ھورھے تھے‬

‫میں نے فرحت کا دوپٹہ پکڑا‪ ،‬اور‬


‫اسکے گالبی ہونٹوں کے گرد پھیلی‬
‫ھوئی سرخ لپسٹک صاف کی ۔‬
‫اور اسکا بازوں اسکی آنکھوں کے آگے‬
‫سے ہٹایا تو فرحت کی آنکھیں بند تھیں ۔‬
‫میں فرحت کے اوپر سے اٹھا اور‬
‫اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگ اسکی‬
‫پُھدی کے اوپر رکھ لی اور اس کے‬
‫تنے ھوے ممے کو پکڑ کر دبانے لگا‬
‫فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور‬
‫اس نے اپنا ھاتھ میرے ھاتھ کے اوپر‬
‫رکھ کر کہا آرام سے‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں کو چوما اور کہا‬
‫درد ھوتی ھے تو فرحت نے اپنی‬
‫پلکوں کو اٹھایا اور نشیلی آنکھوں سے‬
‫میری طرف دیکھ کر صرف ھاں میں‬
‫سر ہالیا۔‬

‫فرحت کے ممے ایک دم ٹائٹ تھے‬


‫جیسے ابھرتی جوان ہوتی بچی کے‬
‫ھوتے ہیں جبکہ اس عمر میں اکثر‬
‫عورت کے ممے ڈھلک جاتے ہیں۔‬

‫میرے ہونٹ بار بار خشک ھورے تھے‬


‫جن کو زبان سے تر کر کے فرحت کے‬
‫شربتی ہونٹوں کو چوم کر اس کے حسن‬
‫کو دیکھنے لگ جاتا ۔‬
‫فرحت مجھے یوں اپنے چہرے کو غور‬
‫سے دیکھتے ھوے شرما کر آنکھیں بند‬
‫کرلیتی اور پھر آنکھیں کھول کر میری‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی‬
‫کیا دیکھ رھے‬
‫میں نے کیا تمہارے حسن کو دیکھ رھا‬
‫ہوں کہ کتنی فرصت سے بنایا ھے‬
‫بنانے والے نے‬
‫اور یہ کہہ کر میں پھر اس کے گالبی‬
‫ہونٹوں کو چوم لیتا‬
‫فرحت پھر آنکھیں بند کرلیتی‬
‫فرحت کے مموں کو میں باری باری دبا‬
‫رھا تھا مسل رھا تھا انکے ساتھ کھیل‬
‫رھا تھا ۔‬
‫فرحت آنکھیں موندھ کر میرے ھاتھ کے‬
‫لمس کو اپنے تنے ھوے ممے پر‬
‫محسوس کر کے مزے کی گہرائیوں‬
‫میں اتر رھی تھی‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور‬
‫اسکی نرم گال پر زبان پھیرنے لگ گیا‬
‫اور زبان کو گال پر پھیرتے ھوے‬
‫اسکے کان کے قریب لے گیا تو فرحت‬
‫نے اپنے مموں کو اوپر اٹھایا اور اپنے‬
‫چہرے کو مذید اوپر لے جاے‬
‫کر میری سر کے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھنسا کر‬
‫افففففففف سسییییییی کیا اور پھر ایسے‬
‫ھی مموں کو نیچے لے آئی‬

‫میری زبان جب بھی اسکے کان کے‬


‫ساتھ ٹکراتی فرحت یوں ھی سسکاریاں‬
‫بھرتی اور میرے سر میں مساج کرنے‬
‫کے انداز میں اپنی انگلیوں کو حرکت‬
‫دیتی‬
‫جب اسکی انگلی میرے سر کے زخم‬
‫سے ٹکراتی جو ابھی تک مکمل سہی‬
‫نھی ھوا تھا تو مجھے تکلیف ہوتی‪ .‬تو‬
‫میرے منہ سے بھی سی نکل جاتی تو‬
‫فرحت فورن اس جگہ سے انگلی ہٹا‬
‫لیتی‬

‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا ۔فرحت‬


‫اب پھر فل گرم ھوچکی تھی‬
‫میں نے فرحت کی حالت کا اندازہ‬
‫لگاتے ھوے اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹا‬
‫اور اپنی قمیض کے بٹن اور بازوں کے‬
‫بٹن کھولنے لگ گیا فرحت کی آنکھیں‬
‫اب بھی بند تھی‬
‫پتہ نھی وہ کس جگہ کس مقام پر پہنچی‬
‫ھوئی تھی ۔‬

‫مجھ سے بے خبر وہ اپنی مستی میں‬


‫لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫میں نے قمیض اتاری اور ایک سائد پر‬
‫رکھ دی پھر اپنی بنیان اتار کر سائڈ پر‬
‫پڑی قمیض کے اوپر رکھ دی‬
‫میں نے‬
‫فرحت کی گردن کے پیچھے اپنا بازو‬
‫کیا اور اسکو اوپر اٹھانے لگا ۔‬
‫فرحت نے آنکھیں کھول کر میری‬
‫طرف دیکھا اور‬
‫مسکرا کر اٹھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫فرحت جب اٹھ کر بیٹھی تو اسکے‬
‫لمبے سلکی ُکھلے ھوے بالوں نے‬
‫اسکی کمر کو ُچھپا لیا‬
‫اور کچھ بال اسکے چہرے کے آگے‬
‫آگئے‬
‫میں نے فرحت کے کان کے پاس سے‬
‫اسکے بالوں میں انگلیاں ڈالیں اور‬
‫انگلیوں سے بالوں کو اوپر اٹھاتا ھوا‬
‫ھاتھ کو بالوں کے سروں تک لے گیا‬
‫فرحت کا جسم تو سیکسی تھا ھی مگر‬
‫اس کے ریشمی سلکی بالوں میں بھی‬
‫ایک عجیب سی کشش تھی جو میرے‬
‫اندر کی ہوس کو آگ لگا کر جلتی پر‬
‫تیل کا کام ۔‬
‫کر رھی تھی فرحت کے بالوں میں‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے‬
‫میری جب انگلیاں فرحت کان کے‬
‫نیچے گردن سے ہلکی سی ٹکراتی تو‬
‫فرحت کے منہ سے سیییی نکلتی اور‬
‫فرحت ساتھ ھی اپنے سر کو میرے ھاتھ‬
‫کی طرف خم کردیتی دیتی ۔‬

‫میں نے بالوں کے قریب منہ کیا اور‬


‫ناک سکیڑ کر ایک لمبا سا سانس اندر‬
‫کھینچ کر بالوں سے اٹھتی ھوئی مہک‬
‫کو اپنے اندر اتارنے لگا‬
‫دوستو فرحت کے بالوں سے جو مہک‬
‫میرے اندر منتقل ھوئی تھی وہ مہک‬
‫نھی تھی بلکہ میرے اندر لگی ھوئی‬
‫آگ پر پھینکا گیا تیل تھا جس نے‬
‫مجھے مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں‬
‫پہنچا دیا تھا‬

‫کچھ دیر میں اسکے بالوں سے کھیلتا‬


‫رھا۔‬
‫اور ٹانگیں سیدھی کرکے بیٹھی ھوئی‬
‫فرحت کے آگے کو تنے ھوے مموں‬
‫کو‬
‫ایک ھاتھ سے دباتا رھا‬
‫جب میری برداشت ختم ھوگئی اور اندر‬
‫لگی ہوئی آگے کی تپش دماغ تک‬
‫پہنچنے لگ گئی تو‬
‫میں نے فرحت کی قمیض کو پکڑا اور‬
‫اوپر کرنے لگ گیا فرحت کی پیچھے‬
‫سے قمیض اسکی گانڈ کے نیچے تھی‬
‫جسکو اس نے گانڈ اٹھا کر نیچے سے‬
‫نکلنے میں میری مدد کی اور پھر میں‬
‫اٹھ کر فرحت کے بلکل مقابل بیٹھ گیا‬
‫اور قمیض کو آگے پیچھے سے پکڑ‬
‫کر اوپر کرنے لگا تو قمیض کی فٹنگ‬
‫ذیادہ تھی اس لیے مشکل سے مموں‬
‫تک ھوئی اور مموں پر آکر قمیض‬
‫پھنس گئی ۔‬

‫فرحت نے میرے ھاتھ پیچھے کئے‬


‫اور‬
‫قمیض کے نیچے سے ھاتھ ڈال کر‬
‫پہلے ایک ممے کو پکڑ کر قمیض کی‬
‫گرفت سے آزاد کروایا‬
‫اور پھر دوسرے ممے کو بھی قمیض‬
‫سے آدھی آزادی دلوای‬
‫۔‬
‫اور پھر قمیض کو پکڑ کر بازو اوپر‬
‫کر کے اپنا سر قمیض سے نکاال اور‬
‫پھر قمیض کو بازوں میں اٹکاے ھوے‬
‫آگے سینے پر لے آئی فرحت کے آدھے‬
‫بال اب بھی قمیض کے گلے میں تھے‬
‫جو میں نے پیار سے پکڑ کر باہر نکال‬
‫دیئے ۔‬

‫فرحت نے پھر بازو آگے کی طرف‬


‫لمبے کیے اور باری باری بازوں کو‬
‫کھینچ کر قمیض کو اتار کر ایک طرف‬
‫رکھ دیا اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولی‬
‫بہت مشکل کام ھے ۔۔‬

‫فرحت کا گورا جسم جب میری آنکھوں‬


‫کے سامنے آیا تو میں بھوکے شیر کی‬
‫طرح اپنے پنجوں کو اسکے مموں کی‬
‫طرف کر کے جھپٹا اور بریزیر میں‬
‫پھنسے ھوے حسین گورے چٹے مموں‬
‫کو بریزیر سمیت پنجوں میں دبوچ لیا‬
‫فرحت نے چھت کی طرف منہ کر‬
‫آھھھھھھھھ سسییییییی کیا اور دونوں‬
‫ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھ کر مموں ہر‬
‫دباو مذید بڑھا دیا ۔۔‬
‫اففففففففففف کیا نظارا تھا کیا مزہہہہہ تھا‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫۔تُسی سڑو سڑو تے اگلی اپڈیٹ دا‬


‫انتظار کرو‬
‫ھھھھھھھھ‬
‫فرحت کے گورے گورے ممے کالے‬
‫بریزیر میں ایسے چمک رھے تھے‬
‫جیسے کوئلےکی کان میں دو ہیرے‬
‫چمک رھے ھوں ۔‬

‫میں نے بےاختیار اپنے ہونٹ آگے‬


‫بڑھانے اور فرحت کے مموں کے اس‬
‫ننگے حصے کو چوم لیا جو بریزیر‬
‫سے باہر تھا‬
‫اور ایک دفعہ چومنے سے من نھی‬
‫بھرا تو لگا تار چومتا گیا بس چومتا گیا‬
‫اور ہونٹوں کے زور سے ھے فرحت‬
‫کو پیچھے دھکیل کر لیٹا دیا اور پھر‬
‫سامنے پڑی حلوے کی پلیٹ پر‬
‫جسطرح حلوہ خور مولوی ٹوٹتے ھیں‬
‫بلکل اسی طرح فرحت کے ننگے جسم‬
‫پر عرصہ دراز سے بھوکے کی طرح‬
‫ٹوٹ پڑا‬
‫فرحت کے انگ انگ کو چوم رھا تھا‬
‫چاٹ رھا تھا۔‬
‫فرحت میرے ہونٹوں کی گدگدی اور‬
‫زبان کی شرارتوں سے تڑپ رھی تھی‬
‫سسک رھی تھی اففففففف سیییییی‬
‫آہہہہہہہ جیسی آوازیں اس کے منہ سے‬
‫متواتر نکل رھی تھیں ۔‬

‫فرحت کا جسم کنواری لڑکی کے جسم‬


‫کو جوتے کی نوک پر رکھ رھا تھا‬
‫کیا مالئم ریشم کی طرح جسم تھا اس‬
‫قیامت کی پڑیا کا ۔‬
‫فرحت سیدھی لیٹی ھوئی تھی اور میں‬
‫اسکے سائڈ پر لیٹا اسکے ننگے جسم‬
‫کو ہوس بھری نظروں سے گھور رھا‬
‫تھا‬
‫اگر یہ کھانے کی چیز ہوتی تو میں کب‬
‫کا چٹ کر جاتا اور ڈکار بھی نہ مارتا‬
‫کہ ڈکار سے اس کی مہک باہر نکل کر‬
‫ضائع ھو جاتی‬

‫فرحت کے گورے جسم پر کالے رنگ‬


‫کا بریزیر اس کے حسن کو ایسے‬
‫نکھار رھا تھا‬
‫کہ جیسے‬

‫کالے بریزیر میں گورا بدن یوں لگے‬


‫ایمان سے۔۔۔‬
‫ہیرا نکل رھا ھو۔۔جیسے کوئلے کی کان‬
‫سے۔۔۔‬
‫میرے ہونٹ میری آنکھوں کو کہہ‬
‫رھے تھے‬
‫کہ اے ظالم بتاو مجھے اس حسن‬
‫مجسمہ کا وہ کون سا حصہ ایسا رھ گیا‬
‫ھے‬
‫جسکو میں چوم نہ سکا ۔‬
‫اور آنکھیں کہتی صبر کرو بتاتی ھوں‬
‫پہلے مجھے تو جی بھر کے دیکھ لینے‬
‫دو۔‬

‫کہ آنکھوں نے ہونٹوں کو پیٹ کی‬


‫طرف اشارہ کیا‬
‫اور ہونٹ جب نرم روئی کے گولے‬
‫جیسے ریشم کے دھاگے کی طرح‬
‫نازک سے پیٹ پڑ لگے تو فرحت نے‬
‫سسکاری مار کر میرے سر کو پیٹ‬
‫کے اوپر دبا لیا‬
‫اور ہونٹ اس نرم دلدل میں دھنستے‬
‫گئے‬

‫میں نے سر ہلکا سا اوپر کیا اور زبان‬


‫باہر نکال کر پیٹ کے چاروں اطراف‬
‫پھیرنے لگ گیا اور زبان کو ناف کے‬
‫اوپر ال کر نوک کو ناف کے اندر ٹچ‬
‫کی تو فرحت کا پیٹ مزید اندر کی‬
‫طرف گیا اور ایکدم پھڑپھڑایا۔‬

‫میں نے زبان کو ادھر ھی کچھ دیر‬


‫گھمایا اور پھر زبان کا رخ۔‬
‫اوپر مموں کی طرف کرتا ھوا اٹھ کر‬
‫فرحت کی ٹانگوں کے بیچ آگیا‬
‫اور زبان کو بریزیر کے اوپر سے‬
‫پھیرتے ھوے‬
‫مموں کے درمیان زبان کو لے گیا اور‬
‫ادھر ھی ہونٹوں سے اس نرم اعضاء‬
‫کو ہونٹوں میں بھر لیا‬
‫فرحت نے پھر سسکاری ماری میں نے‬
‫سر اوپر کیا اور فرحت کے بریزیر کو‬
‫پکڑ کر اوپر کردیا اور مموں کو مکمل‬
‫آزادی مل گئی‬
‫ممے ایسے چھلک کر باہر آے جیسے‬
‫بالٹی سے دودہ چھلک کر باہر گرتا‬
‫ھے۔‬
‫فرحت کے گورے مموں پر گہرے‬
‫براون کلر کے گول سے دائرے اوپر‬
‫اکڑے ھوے موٹے سے نپل‬
‫مموں کی شان بیان کررھے تھے‬

‫فرحت کے حسین تنے ھوے ممے‬


‫مجھے ٹوٹ پڑنے کی دعوت دے رھے‬
‫تھے‬
‫میں نے ایک ممے سے افتتاح کیا اور‬
‫ممے کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگ‬
‫گیا‬
‫میرا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ‬
‫جپھیاں ڈال کر مبارک باد دے رھا تھا ۔‬
‫میں ممے کے چوتھائی حصے کو ھی‬
‫منہ میں بھر سکا‬
‫جتنا کے مما میرے منہ جاتا میں اسکو‬
‫سک کرتا ھوا اندر کھینچ لیتا۔‬
‫فرحت کی آہیں اور سسکاریاں میرا‬
‫جوش مذید بڑھا رھی تھیں‬

‫کچھ دیر ممے چوسنے کے بعد میں‬


‫فرحت کے اوپر سے اٹھا اور کھڑا‬
‫ھوکر ناال کھوال اور شلوار نیچے کر‬
‫کے پاوں سے نکال کر ایک طرف رکھ‬
‫دی ۔‬
‫فرحت میری طرف ھی نشیلی آنکھوں‬
‫سے دیکھ رھی تھی ۔‬
‫جیسے ھی میرا لن پھنکارتا ھوا اسکی‬
‫آنکھوں کے سامنے آیا فرحت کی‬
‫آنکھیں پھٹنے والی ھوگئی اور ایکدم‬
‫اس نے ہاتھ منہ پر رکھتے ھوے کہا‬
‫ھاےےےےے ****ایناں وڈا‬
‫اور حیرت سے آنکھیں پھاڑے میرے‬
‫لن کو دیکھی جارھی تھی اور میرا لن‬
‫ایک آنکھ کھولے اسے دیکھ کر‬
‫جھٹکے کھا رھا تھا ۔‬
‫میں لن کو آگے بڑھا کر فرحت کے منہ‬
‫کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور‬
‫لن کو جڑ سے پکڑ کر ٹوپے کو فرحت‬
‫کے منہ پر رکھے ھوے ھاتھ پر مارنے‬
‫لگا اور اسکے ھاتھ کے نیچے ٹوپے‬
‫کو لگا کر اسکا ھاتھ اسکے منہ سے‬
‫ہٹانے لگا فرحت نے ھاتھ منہ سے ہٹا‬
‫لیا‬
‫مگر ساتھ ھی منہ دوسری طرف پھیر‬
‫لیا۔‬
‫میں نے فرحت کا ھاتھ پکڑ کر لن پر‬
‫رکھا اور اسکی ہتھیلی میں لن کو دے‬
‫کر اسکی ُمٹھی بند کردی‬
‫فرحت بولی کچھ نہ بس لن کو ہتھیلی‬
‫میں دباے منہ دوسری طرف کیے لیٹی‬
‫ھوئی تھی ۔‬

‫میں نے کہا‬
‫اسے پیار نھی کرو گی جو تمہاری‬
‫جوانی اور سیکسی جسم کی طلب بچپن‬
‫سے اپنے اندر چھپاے ھوے ھے‬
‫اگر اسے آج موقع مل ھی گیا ھے تو آج‬
‫تم اس بے چارے سے منہ پھیرے ھوے‬
‫ھو ۔‬

‫اور ساتھ ھی میں نے لن کو پکڑے ھاتھ‬


‫پر اپنا ھاتھ رکھ کر اسکے ھاتھ کو دبا‬
‫کر لن کو دبانے کا اشارا کیا‬

‫فرحت نے آہستہ آہستہ لن کو مٹھی میں‬


‫بھرنا شروع کردیا اور دباتے ھوے‬
‫میری طرف منہ کر کے بولی‬

‫یاسر اس عمر میں اس کو اتنا بڑا‬


‫کیسے کر لیا‬
‫میری تو سوچ میں بھی نھی تھا کہ اتنا‬
‫بڑا ھے تمہارا۔‬

‫میں نے کہا اس دن اندر تو گیا تھا ۔‬

‫فرحت جھینپتے ھوے بولی‬


‫مگر پھر بھی مجھے نھی اندازہ تھا کہ‬
‫دیکھنے میں اتنا بڑا ھے‬
‫تبھی تو تم نے میری ایک دفعہ میں ھی‬
‫چیخیں نکال دی تھی‬
‫مجھے تو یقین نھی ھورھا کہ یہ تمہارا‬
‫ھی ھے‬

‫میں نے کہا اب تو دیکھ بھی لیا ھے اب‬


‫تو یقین ھوگیا ھے نہ‬
‫تو فرحت نے لن کو غور سے ایسے‬
‫دیکھا جیسے کہیں جعلی تو نھی‬
‫اور پھر اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو‬
‫کھول کر ٹوپے پر رکھ کر چوم کر‬
‫بولی اب تو یقین آگیا ھے ۔‬
‫میں نے کہا فرحت سچی سچی بتاو‬
‫ماسٹر سے بڑا ھے کہ نھی ۔‬

‫تو فرحت کا چہرہ ایکدم اتر گیا اور اس‬


‫نے لن کو چھوڑتے ھوے کہا‬
‫یاسر اب تو تم نے یہ بات کردی ھے‬
‫دوبارا کبھی میرے سامنے اس کنجر کا‬
‫نام مت لینا ۔‬

‫میں نے دیکھا کہ فرحت کو کافی غصہ‬


‫آگیا ماسٹر کا نام سنتے ھی تو‬
‫میں نے اس حسین وقت کو برباد کرنے‬
‫سے گریز کرتے ھوے‬
‫فرحت سے معافی مانگ لی اور آئندہ‬
‫اسکا ذکر نہ کرنے کا وعدہ بھی کرلیا‬
‫تو فرحت کا موڈ درست ھوا‪،‬‬

‫اور میں نے پھر لن اس کے ہونٹوں کے‬


‫پاس کیا‬
‫اور فرحت نے بھی ہونٹوں کا دروازہ‬
‫کھوال اور ٹوپے کو منہ کے اندر جانے‬
‫کا راستہ دیا ۔‬
‫اور پھر ہونٹوں کو بھینچ کر لن کے‬
‫گرد ہونٹوں کی گرفت سخت کرتے‬
‫ھوے ٹوپے کو چوسنے لگ گئی‬
‫فرحت نے ایک ھاتھ سے لن کو جڑ‬
‫سے پکڑا ھوا تھا‬
‫تاکہ لن ذیادہ اندر نہ چال جاے ۔‬
‫جتنا وہ منہ کے اندر لے سکتی تھی‬
‫اتنا لن منہ میں لے کر کبھی چوستی تو‬
‫کبھی اندر باھر کرتی‬
‫لن بھی اسکی تھوک سے کافی گیال‬
‫ھوچکا تھا‬
‫اور فرحت لولی پاپ سمجھ کر لن کو‬
‫چوسے جارھی تھی اور فرحت کے‬
‫ہونٹوں اور زبان کا لمس سے میرے لن‬
‫کی رگیں پھول رھی تھیں ۔‬

‫ممیرا ایک ھاتھ فرحت کے بالوں کو‬


‫سہال رھا تھا اور ایک ھاتھ میں فرحت‬
‫کا مما تھا جسے میں کبھی دباتا اور‬
‫کبھی اسکے نپل کو پکڑ کر مسل دیتا‬
‫جس سے چوپا لگانے میں فرحت کی‬
‫سپیڈ اور ذیادہ ھورھی تھی‬
‫ممے کیا تھے فرحت کے چوپا لگانے‬
‫کی سپیڈ بڑھانے کی ریس تھی‬
‫میں جتنا نپل کو مسلتا فرحت اتنا ھی‬
‫تیز تیز چوپا لگاتی‬

‫فرحت کا تھوک اسکے منہ سے نکل‬


‫کر اسکی گالوں سے بہہ کر اسکے‬
‫کانوں کی طرف جارھا تھا‬
‫تقریبا َ ََ دس منٹ فرحت نے اچھی طرح‬
‫چوپا لگایا۔۔‬
‫میں بھی کئی دنوں سے رکا ھوا تھا‬
‫اوپر سے میڈیسن کی گرمی میرے اندر‬
‫تھی‬
‫تو میں ذیادہ دیر برداشت نہ کرسکا اور‬
‫میرے لن کی رگیں پھولیں میں نے‬
‫فرحت کے بالوں اور ممے کو گرفت‬
‫میں لیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی میری گرفت سخت ھوئی‬
‫اور میرے لن نے فرحت کے منہ کے‬
‫اندر ھی پچکاریاں مارنی شروع کردیں‬
‫۔‬
‫پہلی دو تین پچکاریاں لن منہ کے اندر‬
‫مارنے میں کامیاب ھوا مگر فرحت کو‬
‫جیسے ھی منہ میں منی کے گرنے کا‬
‫احساس ھوا تو فرحت نے بےدردی‬
‫سے لن کو منہ سے باہر نکاال اور گھوم‬
‫کر بیڈ کے کنارے پر پہنچ گئی اور منہ‬
‫نیچے فرش کی طرف کرکے تھوکنے‬
‫لگ گئی اور الٹی کرنے کے انداز میں‬
‫زور لگاتے ھوے کھانس رھی تھی‬
‫فرحت نے جب منہ سے لن کو نکاال تو‬
‫ایک پچکاری اسکے منہ پر بھی پڑی‬
‫اور ایک پچکاری سائڈ تبدیل کرتے‬
‫وقت اسکے بالوں پر پڑی فرحت بری‬
‫طرح کھانسے جارھی تھی ۔میں بیٹھا‬
‫اپنے آدھے مزے کو خراب ھونے کا‬
‫ماتم منا رھا تھا ۔۔۔۔‬
‫فرحت کافی دیر دوسری طرف منہ کر‬
‫کے لیٹی رھی‬
‫اور میرا لن بھی اپنا چھڑکاو کر کے‬
‫گنے سے گنڈیری بن چکا تھا ۔‬
‫مجھے اپنی بیوقوفی اور جلد بازی پر‬
‫غصہ آرھا تھا کہ اتنا اچھا ماحول‬
‫خراب کردیا‬
‫چنگی پلی فرحت خود ھی سب کچھ‬
‫شوق سے کررھی تھی‬
‫مگر میری چھوٹی سی غلطی کی وجہ‬
‫سے اسکا موڈ خراب ھوگیا تھا۔‬
‫میں نے ڈرتے ڈرتے فرحت کے ننگے‬
‫بازو پر ہاتھ رکھا‪ .‬اور اسکو اپنی طرف‬
‫منہ کرنے کے لیے ہلکا سا ذور لگایا تو‬
‫فرحت نے غصے سے میرا ھاتھ پکڑ‬
‫کر جھٹک دیا ۔‬

‫میں ابھی تک ویسے ھی ُگھٹنوں کے بل‬


‫بیٹھا ھوا تھا‬
‫تو میں اسی حال میں گھٹنوں کے بل‬
‫ھی آگے بڑھا اور فرحت کی ننگی کمر‬
‫کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور فرحت کے‬
‫منہ کے قریب اپنا منہ کرکے کہا۔‬

‫سوری مجھے پتہ ھی نھی چال‬


‫آپ کے نرم ہونٹوں کا لمس ھی ایسا تھا‬
‫اور اوپر سے آپ کے منہ کی گرمی‬
‫اور آپ کا اتنی شدت سے پیار کرنا‬
‫ان سب نے مجھے مزے کی گہرائی‬
‫میں اسقدر پہنچا دیا تھا کہ مجھے‪ .‬پتہ‬
‫ھی نھی چال کب میں ڈسچارج ھوگیا ۔۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے میں نے فرحت کے‬


‫دونوں مموں پر ہاتھ رکھ کر فرحت کو‬
‫سیدھا کیا تو‬
‫اسکی آنکھوں سے پانی نکل رھا تھا۔‬
‫کھانس کھانس کر‬
‫فرحت کا رنگ سرخ ھوگیا تھا‬
‫فرحت تلخ مگر تھوڑا آرام سے بولی ۔‬

‫یاسر ایسی بھی کیا بے خبری تھی کہ تم‬


‫نے اتنی گھٹیا حرکت کی اگر فارغ ھی‬
‫ھونے لگے تھے تو مجھے بتا دیتے یا‬
‫باہر نکال دیتے‬

‫میں نے ھاتھ سے فرحت کے چہرے‬


‫کو صاف کرتے ھوے اور پانی کی‬
‫وجہ سے آنکھوں کے گرد پھیلے ھوے‬
‫کاجل کو صاف کرتے ھوے‬

‫فرحت کے ماتھے کو چوما اور پھر‬


‫کہا۔‬
‫میری جان آپ کے ُحسن کے سحر میں‬
‫جکڑا ھوا تھا‬
‫کیسے سمجھتا کیسے احساس ھوتا‬
‫مجھے تو آپ نے مذہ ھی ایسا دیا تھا‬
‫کہ سب کچھ آپ کے کنڑول میں تھا میں‬
‫تو بے بس بُت بنا ھوا تھا ۔‬

‫تو فرحت ہلکا سا مسکرا کر بولی‬


‫یاسرررر تم بہت تیز ھو‬
‫جتنا تم اوپر ھو اس سے ذیادہ تم نیچے‬
‫ھو‬

‫تو میں نے فرحت کا موڈ دیکھتے ھوے‬


‫ایک اور ضرب لگائی اور‬
‫معصوم سا چہرہ بناتے ھوے‬
‫گھٹنوں کے بل کھڑا ھوکر اپنے سکڑے‬
‫ھوے لن کو فرحت کی آنکھوں کے‬
‫سامنے کرتے ھوے کہا‬

‫کہاں جی‬
‫نیچے تو یہ حال کردیا آپ نے‬
‫دیکھو آپ کے غصے سے ڈر کر یہ‬
‫بیچارا کتنا سہم کر بیٹھا ھوا ھے ۔‬

‫تو فرحت کھلکھال کر ہنس پڑی اور‬


‫میرے لن پر مکا مارنے کے انداز میں‬
‫بولی ٹہھر جاو بتاتی ھوں اس معصوم‬
‫کو اور میں ڈرنے کے انداز میں جلدی‬
‫سے دونوں ھاتھ لن پر رکھ لیے اور‬
‫فرحت کا مکا میرے ھاتھ پر لگا ۔‬

‫تو میں نے کہا‬


‫اب آپ نے معاف کردیا اس بیچارے کی‬
‫غلطی کو کہ ابھی بھی غصہ باقی ھے ۔‬

‫فرحت بولی ۔‬
‫‪.‬یہ کیا تم مجھے آپ آپ کہہ رھے ھو‬
‫تو میں فرحت کے ساتھ لیٹ کر فرحت‬
‫کے ممے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر اسکی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بوال۔‬
‫تو جناب کو کیا کہہ کر بالوں‬
‫تو فرحت بڑی شوخی سے بولی‬
‫میرا نام لے لو اور کچھ کہہ لو‬
‫اب تو ہم ہم نھی رھے‬
‫بلکہ‬
‫ہم سے تم ھوگئے ہیں ۔‬

‫تو میں نے اسی انداز میں ممے پر‬


‫ٹھوڑی رکھے ھوے اپنا ھاتھ آگے‬
‫بڑھایا اور فرحت کے گالبی ہونٹوں پر‬
‫انگلی پھیرتے ھوے کہا‬
‫دل تو کرتا ھے کہ تمہیں‬
‫تمہارے حسن کے مطابق نام دوں مگر‬
‫جب حسن کو دیکھتا ھوں تو کوئی نام‬
‫اس الئک ھی نھی لگتا کہ جو تمہارے‬
‫حسن پر پورا اتر سکے ۔‬

‫تو فرحت میری انگلی کو دانتوں میں‬


‫لے کر دبا کر چھوڑتے ھوے بولی ۔‬

‫بہت شوخے ھو۔‬


‫مسکے لگانا کوئی سے سیکھے ۔‬
‫میں نے کہا نھی جان میں حقیقت بیان‬
‫کر رھا ھوں‬
‫تمہیں کیا پتہ کہ ۔‬

‫َمیں تو تم کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں‬


‫سے ۔‬
‫جب زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی‬
‫میری۔۔‬

‫میری انگلی اب بھی فرحت کے ہونٹوں‬


‫کے چاروں اطراف گردش کررہی تھی‬
‫۔‬
‫فرحت میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ھوے بولی یاسر تم اپنی عمر سے بڑھ‬
‫کر باتیں کرجاتے ھو‬
‫تمہارے ساتھ جس لڑکی کی بھی شادی‬
‫ھوگی وہ خوش نصیب لڑکی ھوگی‬
‫تم ہر لحاظ سے فٹ ھو ۔‬
‫تو میں نے فرحت کے ہونٹ پر انگلی‬
‫کو پھیرتے ھوے اسکے منہ کے اندر‬
‫انگلی کا ایک پورا ڈالتے ھوے اسکے‬
‫نچلے ہونٹ کو دباتے ھوے کہا‬

‫میری شاعری کا مرکزی خیال عشق‬


‫ہے ۔‬
‫اِدھر اُدھر کے بھی کردار آتے جاتے‬
‫رہے‬
‫مرے سخن کا مگر مرکزی خیال تم ھو۔‬

‫تو فرحت نے میرے کانوں پر دونوں‬


‫ھاتھ رکھے اور میرے سر کو اپنے منہ‬
‫کی طرف کھینچتے ھوے اپنا منہ میرے‬
‫منہ کہ قریب کیا اور میرے ہونٹوں میں‬
‫ہونٹ ڈال کر میرے ہونٹوں کا لمبا سا‬
‫چوسا لے کر بولی‬
‫یاسر تم میرے ساتھ ایسا ظلم مت کرو‬
‫یہ نہ ھو کہ میں تمہیں پانے کہ لیے‬
‫بغاوت پر اتر آوں ۔‬

‫تو میں نے کہا جان تمہیں پتہ ھے کہ‬


‫عورت کے جسم سے مجھے تم نے‬
‫آشنا کیا تھا‬
‫میں تو چار سال سے تمہارے جسم کے‬
‫ایک ایک اعضاء کو اپنے دل دماغ میں‬
‫بساے بیٹھا ھوں ۔‬
‫اور خوابوں میں تمہارا یہ سیکسی جسم‬
‫مجھے دیکھائی دیتا رہتا تھا‬
‫اور میں خواب میں تمہارے اس حسین‬
‫جسم کو چھوتا تھا چومتا تھا چاٹتا تھا‬
‫اور سوچتا تھا کہ پتہ نھی میرا خواب‬
‫کبھی سچ بھی ھوگا کہ نھی‬

‫اور آج میرا خواب میری حسرت میری‬


‫آرزو پوری ھونے جا رھی ھے‬

‫اور آج کی رات میری زندگی کی سب‬


‫سے خوبصورت رات ھوگی ۔‬

‫ملتا ہے یہ حسن کا مجسمہ بھی نصیب‬


‫والوں کو‬
‫ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے‬
‫ہیں۔‬

‫اور پھر ساتھ ھی میں نے فرحت کے‬


‫ہونٹوں کو چوم لیا۔‬
‫فرحت مجھ پر واری جا رھی تھی‬
‫فرحت بولی‬
‫کیا واقعی تم اتنی دیر سے میرے بارے‬
‫میں سوچتے آرھے ھو تو میں نے کہا‬
‫میں جھوٹ نھی بولتا‬
‫تو فرحت میری گالوں کو اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں میں لے کر بولی‬
‫اچھا میری جان کے ٹوٹے آج سے‬
‫میرے جسم کے مالک تم ھو میری روح‬
‫کے مالک تم ھو‬
‫آج سے تم میرے مالک اور میں تمہاری‬
‫کنیز‬
‫اپنی اس کنیز کو حکم دو کہ آج کی‬
‫رات یہ کنیز اپنے مالک کے لیے کیا‬
‫کرے۔‬
‫تو میں فرحت کے مموں کے ساتھ اپنا‬
‫سینہ لگا کر اسکے ماتھے پر ہتھیلی‬
‫رکھ کر بالوں کی طرف پھیرتے ھوے‬
‫اور اپنے ہونٹ فرحت کے ہونٹوں کے‬
‫قریب کر کے اس کی سانسوں کو اندر‬
‫کھینچتے ھوے بڑے رومینٹک انداز‬
‫سے آہستہ سے بوال۔‬

‫اپنے احساس سے چھو کر مجھے‬


‫صندل کر دو۔‬
‫میں صدیوں سے ادھورا ہوں‬
‫مجھےمکمل کر دو ۔‬

‫نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش‬


‫رہے ۔‬

‫اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر‬


‫دو ۔‬

‫تم ہتھیلی کو میرے پیار کی مہندی سے‬


‫رنگو ۔‬

‫اپنی آنکھوں میں میرے نام کا کاجل کر‬


‫دو ۔‬

‫تیری زلفوں کے سائے میں میرے‬


‫خواب دہک اٹھیں ۔‬

‫میرے چہرے پہ سیاہ چمکتا ہوا آنچل‬


‫کر دو ۔‬
‫دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے‬
‫برسو مجھ پر۔‬

‫اس قدر برسو میری روح میں جل تھل‬


‫کر دو ۔‬

‫جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی‬


‫ہے۔‬

‫اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل‬


‫تھل کر دو۔‬
‫تم چھپا لو میرا دل اوٹ میں اپنے دل‬
‫کی۔‬

‫اور مجھے میری نگاہوں سے بھی‬


‫اوجھل کر دو۔‬

‫مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے۔‬

‫اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل‬


‫کر دو۔‬

‫اپنے غم سے کہو ہر وقت میرے ساتھ‬


‫رہے۔‬
‫ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو۔‬

‫جاو کسی آگ کی صورت‬


‫مجھ پہ چھا ٔ‬
‫جاناں ۔‬

‫اور میری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر‬


‫دو۔‬
‫برسوں سے پیاسا ھوں تیرے اس ُحسن‬
‫مجسمہ کا۔‬
‫آج اس ُحسن مجسمہ کو میرے نام‬
‫کردو۔‬
‫حسرت سے دیکھتا تھا تمہارے ان‬
‫ابھاروں کو۔‬
‫وقت ھے اب آیا میرے سینے سے لگا‬
‫کر اس میں جزب کردو۔‬

‫تمہاری یہ مٹکتی ہوئی گانڈ جو خوابوں‬


‫میں تھی تڑپاتی ۔‬
‫آج رات اسکو میرے لوڑے کے نام‬
‫کردو‬
‫فرحت نے مجھے کس کر جپھی ڈالی‬
‫اور مجھے گھما کر اپنے نیچے کرلیا‬
‫اور۔۔۔‬
‫میری آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر‬
‫مسکرائی اور پھر آنکھیں بند کر کے‬
‫پتہ نھی کیا سوچنے لگ گئی‬
‫میرا لن جو اب اکڑ چکا تھا فرحت‬
‫میرے اوپر اپنی پھدی کو لن کے ساتھ‬
‫لگاے ھوے اور اپنے مموں کو میرے‬
‫ننگے سینے کے ساتھ لگ کر میرے‬
‫اوپر لیٹی ھوئی تھی اور فرحت کے‬
‫پاوں میرے پاوں کے ساتھ ملے ھوے‬
‫تھے‬
‫فرحت کا منہ میرے منہ کے بلکل قریب‬
‫تھا‬
‫اسکی تیز چلتی ھوئی سانسیں میرے‬
‫منہ پر پڑ رھی تھی‬
‫اسکی دل کی تیز دھڑکن میرے سینے‬
‫پر محسوس ھو رھی تھی‬
‫میں نے اپنے دونوں ہاتھ فرحت کی‬
‫کمر پر رکھے‬
‫اور‬
‫فرحت کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگ‬
‫گیا اسکی لمبی پلکوں کی چادر نے‬
‫اسکی آنکھوں کے موتی کو چھپایا ھوا‬
‫تھا ۔‬
‫میں نے کمر پر رکھے ھاتھ کی انگلیوں‬
‫کو فرحت کی ننگی مالئم نرم سی کمر‬
‫میں پیوست کر کے فرحت کو مخاطب‬
‫کیا ۔‬
‫اب اٹھاؤ نقاب آنکھوں سے‬
‫ہم بھی چن لیں گالب آنکھوں سے ۔‬

‫تمہارے پاس مے کے پیالے ہیں‬


‫میں پیئوں گا آج شراب آنکھوں سے۔‬

‫الکھ روکا تمہارے آنچل نے۔‬

‫ہم نے دیکھا حجاب آنکھوں سے۔‬

‫الجھی الجھی ہے زلف ساون کی‬


‫برسا برسا شباب آنکھوں سے۔‬
‫لوگ کرتے ہیں خواب کی باتیں‬
‫ہم نے دیکھا ہے خواب‬

‫آنکھوں سے۔‬
‫فرحت نے جیسے ھی پلکوں کی جھالر‬
‫کو اٹھا کر اپنی جھیل سے آنکھوں کو‬
‫بے نقاب کیا تو میں نے آنکھوں میں‬
‫اللی اور ہوس کا نشہ دیکھتے ھی کہا‬

‫آبرو رکھ لو آج رات کی‬


‫مل گیا ہے جواب آنکھوں‬
‫سے۔‬
‫تو فرحت میں جنگلی بلی کی روح نازل‬
‫ھوگئی اور وہ میرے چہرے کو جگہ‬
‫جگہ سے چومنے لگ گئی‬
‫جیسے چھؤٹے سے بچے پر بہت ذیادہ‬
‫پیار آجاے تو بچے کے چہرے کو‬
‫چومتے ہیں‬
‫بلکل ایسا ھی حال اسکا تھا‬
‫وہ مسلسل میرے چہرے کو ہونٹوں کو‬
‫آنکھوں کو ماتھے کو چومی جارھی‬
‫تھی۔‬

‫اور ایسے ھی چومتی چومتی نیچے کو‬


‫کھسکنے لگ گئی‬
‫اور میرے گلے سے نیچے میرے‬
‫سینے سے ہوتی ھوئی میرے پیٹ تک‬
‫آگئی میرا لن اسکے مموں کے درمیان‬
‫پھنسا ھوا فرحت کا گال دبا‬
‫رھا تھا‬

‫کچھ ھی دیر بعد فرحت کے ہونٹوں کا‬


‫لمس پھر مجھے اپنے لن کے ٹوپے پر‬
‫محسوس ھوا اور ساتھ ھی فرحت کی‬
‫زبان نکلی اور لن کے ٹوپے پر پھرنا‬
‫شروع ھوگئی اور یکلخت فرحت نے‬
‫ٹوپا منہ کے اندر لیا اور ذور سے‬
‫چوسا لگا کر منہ سے باہر نکال دیا‬
‫میرے منہ سے بےاختیار آہہہہہہہہ نکال‬
‫اور میرے دونوں ھاتھوں نے فرحت کر‬
‫سر تھام لیا اور سر کو پھر لن کی‬
‫طرف دبا کر لن فرحت کے منہ میں‬
‫گھسا دیا اور میں نیچے سے گانڈ اٹھا‬
‫کر لن کو منہ کے اندر باہر کرنے لگ‬
‫گیا‬

‫کچھ دیر ایسے ھی کرنے کے بعد‬


‫فرحت نے لن منہ سے نکال دیا اور لن‬
‫کے پیچھے سے پھولی ھوئی نالی پر‬
‫زبان پھیرتے ھوے ٹٹوں کی جانب‬
‫بھڑی اور میرے ٹٹوں کو ہتھیلی میں‬
‫بھر کر مساج کرنے لگ گئی‬
‫میری تو مزے سے جان نکلنے والی‬
‫ھوگئی تھی ۔‬
‫فرحت نے لن کی جڑ پر زبان لیجا کر‬
‫لن کے نذدیک پٹ اور لن کے درمیان‬
‫والی جگہ پر جیسے ھی زبان پھیری‬

‫دوستوں مجھے جو اس وقت مزہ آیا وہ‬


‫میں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا۔‬
‫کہ اس وقت مزے کی کیا کیفیت تھی ۔‬

‫میرے جسم کو ایک ذور دار جھٹکا لگا‬


‫تو فرحت جان بوجھ کر زبان کو ادھر‬
‫ھی پھیرنے لگی جیسے میری جان کی‬
‫دشمن ھو‬
‫اور میں کیسے برداشت کرتا رھا یہ‬
‫میں ھی جانتا ھوں ۔‬
‫آخر کار اسے میری حالت پر ترس آ‬
‫ھی گیا اور فرحت میرے پٹوں کو‬
‫چومتی اور چاٹتی ھوئی میرے گھٹنوں‬
‫تک چلی گئی اور پھر وہ خود گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھ گئی اور نشیلی آنکھوں سے‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫کیسا لگا۔‬

‫میں نے دونوں ھاتھ اسکے سامنے‬


‫جوڑے اور کہا‬
‫میری جان نکالنی ھے کیا۔‬
‫تو فرحت مسکرا کر گھٹنوں کے بل‬
‫بیٹھی ھوئی تھوڑا سا اوپر ھوئی اور‬
‫گانڈ کو اٹھا کر اپنی شلوار کو نیچے‬
‫کرنے لگ گئی شلوار میں آج السٹک‬
‫تھا اسی وجہ سے شلوار آسانی سے‬
‫نیچے چلی گئی اور پھر فرحت کھڑی‬
‫ھوئی اور جھک کر شلوار کو پیروں‬
‫سے نکال کر بڑے رومینٹک انداز سے‬
‫گھما کر بیڈ سے‬
‫نیچے پھینک دیا۔‬
‫اور پھر نیچے جھکی‬

‫اور گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل‬


‫چوپایوں کی طرح میرے دونوں اطراف‬
‫ھاتھ اور گھٹنے بیڈ پر رکھ کر چلتی‬
‫میرے منہ کی طرف آنے لگی ۔‬
‫میری ٹانگیں بلکل سیدھی تھیں اور ایک‬
‫ساتھ جڑی ھوئی تھی‬
‫اور میرا لن تنا ھوا کھڑا فرحت کو‬
‫للکار رھا تھا۔‬
‫فرحت ڈوگی سٹائل میں چلتی ھوئی‬
‫میرے لن کے ساتھ مموں کو رگڑ کر‬
‫میرے پیٹ سے مموں کے نپلوں کو‬
‫مسلتے ھوے ممے میرے سینے تک‬
‫لے آئی اور پھر مموں کو تھوڑا اوپر‬
‫کیا اور پھدی کو لن کے اوپر سیٹ‬
‫کرنے لگ گئی فرحت نے ایک ہاتھ‬
‫میرے سینے پر رکھا اور دوسرا ھاتھ‬
‫نیچے لیجا کر میرے لن کو پکڑا اور‬
‫پھدی کے ہونٹ ٹوپے کے ساتھ کھول‬
‫کر لن کو پھدی کے گیٹ پر سیٹ کیا‬
‫اور مجھ سے بولی یاسر ہلنا مت اور‬
‫میرا جواب سنے بغیر ھی آہستہ آہستہ‬
‫گانڈ کو نیچے کی طرف لیجا کر لن کو‬
‫پھدی کے اندر کرنے لگی‬
‫فرحت کی پھدی گیلی ھی اتنی تھی کہ‬
‫پھدی کے پانی نے ھی لن کو سیراب‬
‫کر کے گیال کردیا تھا۔‬

‫اور لن بغیر کسی رکاوٹ کے اندر‬


‫جارھا تھا‬

‫فرحت نے آدھا لن ایک ھی دفعہ میں‬


‫بغیر سٹاپ کے اندر لے لیا تھا اور پھر‬
‫رک گئی اور دوبارا آرام آرام سے لن‬
‫کو باہر نکال کر پھر اندر لے گئی‬
‫ایسے ھی چار پانچ دفعہ سسکاریاں‬
‫مارتے ھوے فرحت نے لن سارا پھدی‬
‫کے اندر کر لیا اور پھدی کے لبوں کو‬
‫لن کے جڑ تک لے جا کر فخر سے‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے ۔‬

‫آنکھوں سے کہا دیکھ لو پورا لے لیا نہ‬


‫۔‬

‫اور فرحت لن کو پورا اندر لیے ھوے‬


‫میرے پٹوں پر بیٹھ کر گانڈ کو میرے‬
‫پٹوں پر مسلنے لگی میرا ٹوپا فرحت‬
‫کی پھدی کے اندر کسی انتہائی نرم اور‬
‫گرم سے گوشے میں گھسا ھوا تھا شاید‬
‫بچے دانی تھی ۔‬

‫اور فرحت نے اب دونوں ہاتھ میرے‬


‫سینے پر رکھے ھوے تھے اور لن کو‬
‫پورا اندر لے کر گانڈ سے چکی چال‬
‫رھی تھی‬
‫اور منہ چھت کی طرف کر کے آنکھیں‬
‫بند کئے ھوے‬
‫سیییییییی اففففففف آہہہہہہہہ کی آوازیں‬
‫نکال رھی تھی‬
‫کچھ دیر ایسے ھی کرنے کہ بعد فرحت‬
‫پھر مجھ پر جھکی اور گانڈ کو اٹھا اٹھا‬
‫نیچے ال رھی تھی اور پھدی لن کو ھی‬
‫گھسے مار مار کے چود رھی تھی‬
‫پھدیاں چودنے واال لن آج خود پھدی‬
‫سے ُچد رھا تھا‬

‫فرحت کی گانڈ کی سپیڈ تیز ھوتی‬


‫جارھی تھی‬

‫میں نے بھی دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ‬


‫کی چھلکتی ھوئی پھاڑیوں پر رکھے‬
‫ھوے تھے‬
‫فرحت کی گانڈ بہت ھی مالئم تھی اور‬
‫اسکی سپیڈ اتنی تیز ھوگئی تھی‬
‫کے میرے ھاتھ اسکی گانڈ پر ٹک نھی‬
‫رھے تھے‬
‫بلکہ اسکے ہر واپس اوپر کو آتے‬
‫گھسے سے میرے ھاتھ اسکی گانڈ سے‬
‫اچھل جاتے‬
‫اور فرحت اسی سپیڈ سے پھدی کے‬
‫لبوں کو ٹوپے تک ال کر واپس جڑ تک‬
‫لے جاتی‬
‫یکلخت فرحت کی سسکاریاں تیز ھوئی‬
‫فرحت نے دونوں ھاتھ میری بغلوں سے‬
‫نیچے سے گزار کر میرے کندھوں کو‬
‫ذور سے پکڑ لیا اور ممے میرے سینے‬
‫کے ساتھ چپکا کر اپنا اگال سارا وزن‬
‫مجھ پر ڈال کر پیٹ سے اوپر والے‬
‫حصے کو میرے ساتھ چپکا لیا اور‬
‫پیچھے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر میرے‬
‫لن کو پھدی سے چودنے لگی‬
‫اسکے گھسوں کی شدت سے بیڈ ہلنے‬
‫لگ گیا اور کمرے میں تھپ تھپ کی‬
‫آواز آنے لگ گی فرحت کے ناخن‬
‫میرے کندھے میں چبھنے لگ گئیے‬
‫اور فرحت نے آخری گھسا اس ذور‬
‫سے مارا کے بیڈ ذور سے ہال جیسے‬
‫زلزلہ آگیا ھو‬
‫اور فرحت کے منہ سے بس اتنا ھی‬
‫نکال‬
‫ھاےےےےےےےےےےےےےےے‬
‫ےےےےےےےےےےےےگگےگگ‬
‫گگگ گئی۔‬
‫اور ساتھ ھی میرے لن کو گرم گرم منی‬
‫نے نہال دیا ۔‬
‫اور فرحت سے جتنا زور لگ سکا اس‬
‫نے اتنا ھی گانڈ کا ذور لگا کر پھدی‬
‫کے اندر جڑ تک لن کو پہنچا کر میرے‬
‫اوپر وزن ڈال دیا اور جھٹکے کھاتا ھوا‬
‫اسکا جسم مجھے بھی ساتھ ہال رھا تھا‬
‫اور فرحت کی اکھڑی اور تیز تیز‬
‫سانسیں اور دل کی تیز دھڑکن میرے‬
‫سینے پر دھک دھک کر رھی تھی‬

‫اور فرحت‬
‫بُنڈ واال زور ال کے فارغ ھو گئی‬
‫اور۔۔۔۔۔‬

‫فرحت فارغ ہوکر بےجان ہوکر پورا‬


‫وزن مجھ پر ڈالے لیٹی ہوئی تھی ۔‬
‫اور میں اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر‬
‫رہا تھا۔‬

‫کچھ دیر بعد فرحت نارمل ہوئی اور میں‬


‫نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اور اسکو‬
‫گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود‬
‫اسکے اوپر آگیا‬
‫فرحت بلکل خاموشی سے لیٹی ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫فرحت کے یوں خاموشی سے لیٹے‬


‫رہنے پر مجھے اپنے استاد محترم کا‬
‫قول یاد آگیا‬
‫کہ پتر‬

‫سیکس کے بعد عورت کی خاموشی کا‬


‫مطلب یہ نہیں کہ تم نے چود چود کر‬
‫اسے الجواب کر دیا ہے۔‬

‫میرا لن ابھی بھی فرحت کی گیلی پھدی‬


‫میں ھی تھا ۔‬
‫فرحت بولی یاسر میری بس ہوگئی ہے‬
‫میں نے کہا اتنی جلدی میں نے تو ابھی‬
‫کچھ کیا ھی نھی ۔‬
‫تو فرحت بولی یاسر آج تم نے میری‬
‫برسوں کی پیاس بجھا دی ھے‬
‫تو میں نے کہا‬
‫یاسر کی جان ابھی تو میں نے اپنی‬
‫برسوں کی پیاس بجھانی ھے ۔‬
‫اور اسکے ساتھ ہی میں نے فرحت کی‬
‫ٹانگیں اوپر کیں اور گھسے مارنے‬
‫شروع کردیے ۔‬
‫میرے گھسوں سے فرحت کے ممے‬
‫کبھی میری طرف آتے تو کبھی فرحت‬
‫کے منہ کی طرف‬
‫فرحت کے ہلتے ممے دیکھ‪ .‬کر میرا‬
‫جوش مذید بڑھ رھا تھا۔۔‬
‫فرحت آہ آہ آہ آرام سے آرام سے کرو‬
‫نہ درد ہورہی ھے آرام سے آرام سے‬

‫کہی جارھی تھی اور اسکی آہ میں بھی‬


‫مزہ تھا اسکی آواز میں بھی نشہ تھا‬
‫میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا‬
‫اور ٍفرحت کی سیکسی آوازوں سے‬
‫مجھ پر نشہ طاری ہوتا جارھا تھا۔‬

‫دس پندرہ منٹ میں فرحت کو اسی‬


‫سٹائل میں چودتا رھا‬
‫فرحت بولی یاسر میری ٹانگیں تھک‬
‫گئی ہیں ۔‬

‫میں نے فرحت کی ٹانگیں نیچے کی‬


‫اور فرحت کو گھوڑی بننے کا کہا۔‬

‫تو فرحت تھوڑا نخرہ کرنے کے بعد‬


‫الٹی ہوگئی‬

‫اور اپنی گول مٹول گانڈ کو ہالتے ہوے‬


‫اپنی پوزیشن سیٹ کر نے لگی ۔‬
‫میں بھی فرحت کے پیچھے گھٹنوں کے‬
‫بل ہوکر لن کو جڑ سے پکڑ کر فرحت‬
‫کی گانڈ کے دراڑ میں پھیرنے لگ گیا‬
‫میرا ٹوپا جیسے ھی فرحت کی گانڈ کی‬
‫موری کے ساتھ لگا‬
‫فرحت نے جلدی سے ہاتھ پیچھے‬
‫کرکے لن کو موری سے ہٹا کر پھدی‬
‫کی طرف کردیا اور مجھ سے بولی‬
‫یاسر پلیز‬
‫پیچھے سے نہ کرنا مجھ سے برداشت‬
‫نھی ھوگا۔‬

‫تو میں نے کہا کچھ نھی ہوتا جان بس‬


‫ہلکا سا درد ھوگا‬
‫اسکے بعد مزے ھی مزے ہیں ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫یاسر پیچھے سے بھی بھال کوئی کرتا‬
‫ھے‬
‫لن پھدی کے لیے بنا اور پھدی لن کے‬
‫لیے ۔‬
‫تو پھر گانڈ میں کیوں کررھے ھو ۔‬

‫میں نے کہا جان تمہاری گانڈ ھی اتنی‬


‫مست اور سیکسی ھے کہ میں چار سال‬
‫سے اسکا ُچھپا ہواعاشق ہوں ۔‬
‫اور آج میرے لن کے نصیب ُکھلے ہیں‬
‫تو تم‬
‫یوں انکار کر کے اس بیچارے کا دل تو‬
‫نہ توڑو۔‬

‫تو فرحت بولی ۔‬


‫پہلے آگے سے تو کرو پھر جب میں‬
‫کہوں گی تو پیچھے سے بھی کرلینا۔‬

‫فرحت نے یہاں عیاری دیکھائی تھی‬


‫کے میں ذیادہ دیر پھدی سے مقابلہ نھی‬
‫کرسکوں گا اور پھدی میرے لن کو‬
‫مات دے دے گی تو اس طرح اسکی‬
‫گانڈ کی جان بخشی ھوجاے گی۔‬

‫مگر یہ اسکی بھولی تھی ۔۔‬


‫کیوں کے میری پکچر کے تو ابھی نمبر‬
‫ھی چل رھے تھے پوری پکچر تو ابھی‬
‫باقی تھی ۔‬
‫خیر میں نے لن کو سمجھا بجھا کر‬
‫فرحت کی گول مالئم گانڈ پر ایک ہاتھ‬
‫رکھا اور دوسرا ہاتھ فرحت کے کندھوں‬
‫کے پاس لیجا کر نیچے کو دبایا جس‬
‫سے فرحت آگے سے نیچے جھک گئی‬
‫اور اسکی گانڈ مذید پیچھے سے اونچی‬
‫ہوگئی تھی ۔‬

‫میں نے ٹوپے کو پھدی کے لبوں پر‬


‫سیٹ کیا‬
‫اور دونوں ہاتھوں سے فرحت کی کمر‬
‫کو پکڑا اور ایک جاندار گھسا مارا لن‬
‫نان سٹاپ پھدی کی گہرائی میں چال گیا‬
‫اور کمرے میں تھپ کی آواز گونجی ۔‬
‫ایک ھی جھٹکے میں جب جڑ تک پورا‬
‫لن بچے دانی تک گیا‬
‫فرحت کے منہ سے‬
‫آئییییییی مرگئی میں یاسررررر‬

‫نکال اور اسکا سر جاکر بیڈ کے ٹیک‬


‫سے لگا اور لن باہر نکل کر گانڈ کے‬
‫اوپر جھومنے لگا۔‬
‫فرحت کی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر‬
‫ایک بار پھر‬
‫مجھے اپنے استاد محترم کا قول یاد آگیا‬
‫کہ‬
‫پُتر‬
‫جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے‬
‫ایک عورت ہوتی ہے جو اس کی‬
‫کامیابی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔اسی‬
‫طرح ہر گھوڑی بنی عورت کے‬
‫پیچھے ایک مرد کھڑا ہوتا ہے جو اسے‬
‫چودنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‬

‫استاد محترم کی بات یاد آتے ھی مجھے‬


‫اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا‬
‫اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر پھر‬
‫فرحت کی کمر کو پکڑا‪ ،‬اور‬
‫گاڑی بیک کی اور ِڈکی اوپر کر کے‬
‫پھر لن کو اسکی آرام گاہ تک پہنچایا‬
‫جیسے ھی لن پھدی کے پاس پہنچا تو‬
‫فرحت گردن گھما کر بولی یاسر اب‬
‫آرام سے کرنا‬
‫میرا اندر ہال کے رکھ دیا تھا‬
‫اتنا بھی جوش مت دیکھو‬
‫مانا کہ تم جوان ھو۔‬

‫میں نے فرحت کی گول مٹول گانڈ پر‬


‫ایک ذور دار تھپڑ مارتے ہوے کہا آج‬
‫درد کا بھی مزہ لو جان ۔۔۔‬
‫تو فرحت کے منہ سے سسکاریییی‬
‫نکلی اور فرحت بولی‬
‫ھاےےےےےےے مار دتا ایییی‬
‫ظالماں‬
‫اور اس کےساتھ لن کو پھر ایک دھکے‬
‫میں سارا اندر پہنچا دیا‬
‫فرحت نے پھر آگے کو ہونے کی‬
‫کوشش کی مگر میں نے اسکی کمر کو‬
‫پہلے ھی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا‬
‫فرحت پھر ھاےےےےے کر کے بولی‬
‫یاسرررررر نھی باز آے نہ ۔‬

‫میں نے پھر اسکی گانڈ پر تھپڑ مارا‬


‫اور فرحت کی سسکاری سن کر‬
‫چار پانچ گھسے لگا تار مار دیے اور‬
‫ساتھ ھی اس کے لمبے بالوں کو اکھٹا‬
‫کر کے ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫گھوڑی کی لگامیں قابو کر لیں اور‬
‫گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫میرے جاندار گھسوں سے فرحت کے‬
‫ممے اسکے منہ تک جانے کی کوشش‬
‫کررہے تھے‬
‫اور اسکی گانڈ تھر تھرا کر اپنی‬
‫سوفٹنس کا اظہار کر رھی تھی‬
‫فرحت کا بال میں نے کھینچے ہوے‬
‫تھے جسکی وجہ سے فرحت کا منہ‬
‫اوپر کو اٹھا ھوا تھا‬
‫میں مسلسل گھسے مار رھا تھا فرحت‬
‫کی مزے میں ڈوبی سسکاریاں پورے‬
‫کمرے میں گونج رہیں تھی ۔‬
‫فرحت کی گانڈ کے ساتھ گھسوں سے‬
‫لگنے والے میرے پٹ‬
‫تھپ تھپ کررھے تھے‬

‫پھدی کی چکناہٹ اور لن کی فراوانی‬


‫سے‬
‫پچ پچ کی آواز آرھی تھی‬
‫کمرے میں فل میوزک شو چل رھا تھا‬
‫سروں واال سیکس‬ ‫سات ُ‬
‫خاموش رات میں اپنا ھی سنگیت سنا‬
‫رھا تھا‬

‫فرحت مزے میں پھر غرق ہوتی‬


‫جارھی تھی‬
‫اور اس کی سیکسی آوازیں مجھے‬
‫گرانے پر مجبور کر رھی تھیں‬
‫مگر میرے ارادے بھی پختہ تھے‬
‫میں کیسے اسکی پھدی کے آگے ہار‬
‫مان لیتا‬
‫میں تو پھدی پر سبقت لینے کے چکر‬
‫میں گھسوں کی سپیڈ بھڑاے جارھا تھا‬
‫اور آخر کار ہار پھدی کے نصیب میں‬
‫ہوئی اور پھدی نے ہاتھ جوڑ کر آنسو‬
‫بہاتے ھوے میرے لن کو بھی گیال کرنا‬
‫شروع کردیا‬
‫اور فرحت پیچھے کو پورا ذور لگا کر‬
‫گانڈ میرے پٹوں کے ساتھ جوڑ کر‬
‫پھدی کو بھینچنے لگ گئی اور فرحت‬
‫کی آخری آہ ہہہہہہہہ نکلی اور فرحت‬
‫سر خم کر کے تکیے پر گر گئی اور‬
‫میں پھر گانڈ پر ہاتھ رکھے‬
‫فرحت کی پھدی سے نکلتی گرما گرم‬
‫منی اپنے لن پر اور ٹٹوں پر محسوس‬
‫کرنے لگا اور گھسوں کو روک کر‬
‫کہا۔‬

‫آئی وڈی سیاست دان۔۔۔۔‬

‫فرحت کی حالت دو دن قبل مرے ہوے‬


‫ُکتے جیسی ھوگئی تھی‬
‫ہوتی بھی کیسے نہ تین دفعہ تو فارغ‬
‫ہوچکی تھی ۔‬

‫فرحت نڈھال گھوڑی بنی سر تکیے پر‬


‫رکھے لمبے لمبے سانس لے رھی تھی‬
‫۔‬
‫اور میں اسکی کمر پر انگلیاں پھیر کر‬
‫اپنی ھی انگلش لکھ رھا تھا اور اسکے‬
‫ریلیکس ہونے کا انتظار کررھا تھا۔‬
‫تین چار منٹ گزر گئے فرحت خاموش‬
‫لیٹی رھی میں نے اسے ہالے کہ کہیں‬
‫سو تو نئی گئی ۔‬

‫تو فرحت غنودگی سی حالت میں بولی‬


‫یاسر بسسسسسسسس‬
‫اور ساتھ ھی اس نے ٹانگیں سیدھی کی‬
‫اور گانڈ نیچے کر کے پھدی میٹرس‬
‫کے ساتھ لگا کر الٹی لیٹ گئی ۔‬

‫میرا لن ترسی اکلوتی نگاہ سے گانڈ کو‬


‫دیکھ رھا تھا میں فرحت کے اوپر جھکا‬
‫اور لن کو گانڈ کی دراڑ میں کر کے‬
‫فرحت سے کہا‬
‫اجازت ھے ۔‬
‫تو فرحت نے گردن گھما کر پھر تھکے‬
‫ھوے انداز میں کہا‬
‫معافی نھی مل سکتی‬
‫میں نے کہا آج معافی نھی ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫تو پھر ایسا کرو‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کے دراز میں‬
‫سرسوں کے تیل کی شیشی پڑی ھے‬
‫وہ نکال کر لے آو اور اچھی طرح اپنے‬
‫اس گھوڑے پر اور میرے معصوم‬
‫سوراخ پر لگا دو میں جلدی سے‬
‫چھالنگ لگا کے ڈریسنگ ٹیبل کے‬
‫پاس پہنچا اور دراز کھول کر پلسٹک‬
‫کی تیل والی ُکپی نکالی اور اسکا ڈھکن‬
‫کھول کر اپنی ہتھیلی پر تیل نکاال اور‬
‫ہتھیلی کو لن پر الٹ دیا اور اچھی طرح‬
‫تیل سے لن کو چوپڑ کر تیل والی ُکپی‬
‫کو لے کر بیڈ پر آگیا‬

‫فرحت کی گانڈ کی پھاڑیوں کو کھول‬


‫کر دراڑ کے اندر نیم کنواری موری پر‬
‫تیل کی کپی سے تیل چھوٹی سی دھار‬
‫پھینکی اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو‬
‫پھدی کے پاس رکھ کر نیچے جاتے‬
‫ھوے تیل کو واپس موری پر ال کر‬
‫اچھی طرح موری کے ِکنگروں کو تیل‬
‫سے تر کیا اور تیل سے موری کے‬
‫کنگرے کافی سوفٹ یوچکے تھے‬

‫پھر میں لن کے ٹوپے کو موری پر‬


‫سیٹ کرنے لگا‬
‫ابھی میں دباو ڈالنے ھی لگا تھا کہ‬
‫فرحت بولی یاسر آرام سے کرنا‬

‫میں نے ہلکا سا پُش کیا تو موری کا منہ‬


‫کھولتا ھوا ٹوپا اندر چال گیا‬
‫فرحت کے منہ سے‬
‫ھاےےےےےےےے نکال‬
‫اور اس نے گانڈ کو ذور سے بھینچ لیا۔‬

‫اور مجھے باہر نکالنے کو کہا‬


‫میں نے ٹوپے کو باہر نکاال اور کچھ‬
‫دیر بعد دوبارہ ٹوپے کو اندر کردیا‬
‫فرحت نے پھر‪ .‬ھاےےےےےےے‬
‫مرگئی کیا‬
‫مگر اب اس نے باہر نکالنے کو نھی‬
‫کہا تھا‬

‫میں آہستہ آہستہ لن کو اندر لیجانے لگا ۔‬


‫فرحت کو جہاں ذیادہ درد ہوتی وہ‬
‫مجھے روک دیتی۔‬

‫کچھ دیر ایسے ھی تھوڑا سا لن اندر‬


‫لیجاتا اور پھر باہر نکال لیتا۔‬

‫میں نے فرحت کو کہا کہ تم ٹیڑھی ھو‬


‫کر لیٹو تو فرحت دوسری طرف منہ کر‬
‫کے گانڈ میری طرف کر کے لیٹ گئی‬
‫میں فرحت کے پیچھے تھوڑا نیچے‬
‫ھوکر لیٹ گیا‬

‫میں نے فرحت کی ناف کے نیچے ہاتھ‬


‫رکھ کر اسکو گانڈ مزید پیچھے کرنے‬
‫کو کہا‬
‫تو فرحت نےگانڈ کو کھسکا کر اور باہر‬
‫نکال لیا میں نے اسکی ٹانگوں کو‬
‫اسکے پیٹ کی طرف کیا اب اس کے‬
‫دونوں ُگھٹنے اسکے پیٹ کے ساتھ‬
‫لگے ھوے تھے‬
‫اور گانڈ کی دراڑ پوری کھلی ھوئی‬
‫تھی‬
‫میں نے لن کو پکڑ کر موری پر رکھا‬
‫اور ایک ہاتھ سے فرحت کا مما پکڑا‬
‫اور ایک گھسا مار کے آدھا لن گانڈ کے‬
‫اندر اتار دیا۔‬

‫فرحت پھر ھاےےےےےےےھھ‬


‫افففففففف کر کے رہ گئی۔‬

‫میں نے پھر لن کو باہر نکاال اور پھر‬


‫گھسا مار کر موری کو مذید کھولتے‬
‫ہوے آدھے سے ذیادہ لن اندر اتار دیا‬
‫اور فرحت نے غصے میں آکر گانڈ کو‬
‫پورے ذور سے آئییییییی کرتے ھوے‬
‫پیچھے میرے پٹوں کے ساتھ مال کر‬
‫قصہ ھی تمام کردیا اور لن سارا گانڈ‬
‫کے اندر چال گیا۔‬

‫کچھ دیر میں لن کو اندر کیے لن کو‬


‫گوالئی میں گھوماتا رھا اور پھر‪ .‬اپنا‬
‫ایک بازو فرحت کی بغل میں سے گزار‬
‫کر آگے کی طرف لے گیا اور اسکا‬
‫ایک مما پکڑ لیا۔‬

‫پھر دوسرا بازو فرحت کے دوسرے‬


‫بازو کے نیچے سے گزار کر دوسرا‬
‫مما بھی پکڑ لیا ۔‬
‫اور دونوں مموں کو مٹھیوں میں قابو‬
‫کر کے گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫فرحت درر سے ھاےےےےھھ امییی‬
‫ھاےےےےھ مرگئی‬
‫اففففففف ظالماں ہولی‬
‫کر ہولی کر ۔۔‬
‫کری جارھی تھی اور مجھے اس کی‬
‫آوازوں سے مذید شیاری آرھی تھی‬
‫اورمیں ذور ذور سے گھسے مار رھا‬
‫تھا‬

‫چار پانچ منٹ ایسے ھی فرحت کی گانڈ‬


‫کو چودتا رھا‬
‫تو فرحت کی جب بس ہوگئ اور درد‬
‫بڑھ گئی تو فرحت نے میری گانڈ کو‬
‫تھپتھپا کر مجھے رکنے کا اشارا کیا‬
‫اور بولی یاسر میں الٹی ہوتی ہوں تم‬
‫اوپر آجاو۔‬

‫میں جس حال میں تھا ویسے ھی فرحت‬


‫کے دونوں مموں کو پکڑے اور لن گانڈ‬
‫میں اتارے فرحت کو گھما کر الٹا کیا‬
‫اور اس کے اوپر الٹا لیٹ کر‬
‫گھسے مارنے لگ گیا‬

‫دوستوں فرحت کا جسم تھا کہ ماسٹر‬


‫کے مولٹی فوم کا گدا‬
‫میرے دونوں ہاتھوں میں فرحت کے‬
‫ممے تھے جو میٹرس کے ساتھ لگے‬
‫تھے‬
‫مگر میرے الٹے ھاتھ میٹرس کے ساتھ‬
‫لگے تھے اور میری ہتھیلیوں میں‬
‫فرحت کے نرم نرم ممے تھے اور جب‬
‫میں گھسا مارتا تو فرحت کے ابھرے‬
‫ھوے چتڑوں پر آکر جب میرے پٹ‬
‫لگتے تو‬
‫کیا مزہ آتا کیا ھی نشہ چڑھتہ۔‬

‫فرحت میرے نیچے الٹی لیٹی تڑپ رھی‬


‫تھی سسک رھی تھی‬
‫اور کہہ رھی تھی‬
‫یاسرررر جلدی کرلو‬
‫ھاےےھھھ اور کتنی دیر‬
‫لگاو گے ۔۔ھاےےےےےےے میریے‬
‫مائیں ۔‬

‫ھاےےےےےےےے مرگئی ۔۔۔۔‬

‫یاسر بسسس کرو‬


‫توبہ ھے‬
‫جتنا لمبا تمہارا لن ھے اتنا لمبا ھی‬
‫تمہارا چھوٹنے کا ٹائم ہے‬

‫نہ لن تھوڑا نہ ٹیم تھوڑا‬


‫میرے گھسے شدت اختیار کررھے‬
‫تھے اور‬
‫فرحت کی فریادیں اور گلے شکوے‬
‫بھی شدت اختیار کررھے تھے‬

‫پھر یوں ھوا ۔‬

‫کہ‬

‫کیا ھوا‬

‫وہ ھی ھوا‬
‫‪.‬جو ہوتا ھے‬
‫میرے گھسوں کی رفتار بڑھی اور ساتھ‬
‫ھی فرحت کی گانڈ کو میرے لن نے‬
‫منی سے سیراب کرنا شروع کردیا‬
‫اور فرحت نے بھی شکر ادا کیا‬
‫کہ جان چھوٹی‬
‫اور میرے پیارے ریڈرز بھائیوں نے‬
‫بھی ۔۔۔۔۔‬

‫میں فارغ ہوکر فرحت کے اوپر ھی لیٹا‬


‫رھا اور لمبی لمبی سانسیں لے کر لن‬
‫گانڈ سے نکال کر اسکے ساتھ ھی لیٹ‬
‫گیا‬
‫فرحت کچھ دیر ایسے الٹی لیٹی رھی‬
‫اور پھر فرحت نے ھاتھ بڑھا کر سائڈ‬
‫ٹیبل کے دراز کو کھوال اور اس میں‬
‫سے ایک کپڑا نکال کر اپنی گانڈ کی‬
‫موری پر رکھا اور گانڈ سے نکلتی منی‬
‫کو صاف کر کے کپڑا میری طرف‬
‫بڑھایا میں نے بھی کپڑے سے اچھی‬
‫طرح لن کو صاف کیا اور کپڑا نیچے‬
‫پھینک دیا۔‬

‫فرحت ھاےےےےے کر کے سیدھی‬


‫ہوئی اور ایک ٹانگ کو بینڈ کر کے‬
‫دوسری ٹانگ اس کے اوپر رکھ کر لیٹ‬
‫گئی‬
‫اور میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫یاسر تم بہت ظالم ہو ۔میں نے مسکرا‬
‫کر کہا کیا ھوا جان جی ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫توبہ توبہ کرادی ھے اور اب بھی پوچھ‬
‫رھے ہو کیا ہوا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ابھی تو ایک شارٹ اور لگانا ھے ۔‬

‫تو فرحت نے تکیہ اٹھا کر مجھے‬


‫مارتے ھوے کہا‬
‫ٹہھر جا بتاتی ہوں تمہیں۔‬

‫مارنا ھے مجھے ۔‬
‫پہلے ھی میرے آگے پیچھے درد‬
‫ھورھی ھے‬
‫اور تم پھر کرنے کو کہہ رھے ھو‬
‫ابھی دل نھی بھرا کیا۔‬

‫میں نے کہا‬
‫دل اتنی جلدی بھرنے واال نھی‬
‫تم چیز ھی ایسی ھو کہ ساری رات بھی‬
‫تمہیں چودوں تو دل نھی بھرے گا۔‬

‫اور نہ ھی میں تھکوں گا ۔‬

‫تو فرحت نے کالک کی طرف اشارہ‬


‫کرتے ھوے کہا زرہ ٹائم دیکھو کتنی‬
‫دیر لگائی ھے تم نے ۔‬
‫میں نے کالک کی طرف دیکھا تو‬
‫ایک بج چکا تھا‬
‫میں بھی پریشان ھوگیا کہ‬
‫اتنا وقت گزرگیا اور مجھے پتہ بھی‬
‫نھی چال۔‬

‫فرحت بولی یاسر ایک بات پوچھوں سچ‬


‫سچ بتانا۔‬

‫جھوٹ مت بولنا‬
‫میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم سے نہ‬
‫ناراض ہوں گی اور نہ ھی کچھ کہوں‬
‫گی‬
‫مگر تم سچ بولو گے ۔‬

‫میں نے فرحت کے ساتھ لیٹتے ھوے‬


‫پوچھا‬
‫جی پوچھیں ۔‬

‫تو فرحت بولی‬


‫تم نے پہلے کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا‬
‫ھے‬
‫۔‬

‫میں فرحت کے اس اچانک کئے گئے‬


‫سوال سے گبھرا گیا اور‬
‫بوال‬
‫کککسی سے بھی نھی ۔‬

‫تو فرحت بولی‬


‫یاسر میرے ساتھ جھوٹ نہ بولو‬
‫تم جس انداز سے میرے ساتھ کررھے‬
‫تھے‬
‫یہ ہو ھی نھی سکتا کہ تم نے کسی کے‬
‫ساتھ نہ کیا ھو۔‬

‫تم ایک تجربہ کار اور منجھے ھوے‬


‫چودو ھو‬

‫تمہارا چودنے کا ہر طریقہ ھی‬


‫تمہارے‬
‫تجربہ کار ہونے کی گواہی دیتا ھے ۔‬

‫اگر تم مجھے نھی بتانا چاہتے تو بیشک‬


‫نہ بتاو‬
‫میں یہ ھی سمجھوں گی کہ تم مجھے‬
‫اس الئک نھی سمجھتے۔‬

‫میں نے کہا کیسی باتیں کررھی ھو۔‬

‫فرحت میری بات کاٹتے ھوے بولی‬


‫تو پھر بتاو نہ کہ کس کس لڑکی کو‬
‫چود ُچکے ھو۔‬

‫میں نے کہا‬
‫پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم اس‬
‫لڑکی سے بات نھی کرو گی اس بارے‬
‫میں۔‬

‫فرحت بولی میں پہلے بھی اس بات کا‬


‫وعدہ کرچکی ہوں‬

‫میں نے کہا‬
‫وہ میری ٹیویشن ٹیچر ھے ہماری‬
‫پچھلی گلی میں رہتی ھے‬
‫اس سے دو تین دفعہ کیا ھے ۔‬

‫فرحت بولی اسکا نام کیا ھے میں نے‬


‫کہا‬
‫صدف‬
‫تو فرحت حیرانگی سے بولی‬
‫یہ وہ ھی لڑکی ھے نہ جو شہر سالئی‬
‫کڑھائی کا کام دیکھنے جاتی ہے۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔‬

‫تو فرحت منہ بسور کر بولی بڑی ُچھپی‬


‫ُرستم ھے ۔‬

‫میں نے فرحت کے چہرے اور لہجے‬


‫میں حسد محسوس کرلیا تھا ۔‬

‫اور مذید کچھ نہ بتانے کا بھی سوچ لیا‬


‫تھا۔‬

‫فرحت بولی اس سے کیسے سیٹنگ‬


‫ہوگئی تمہاری‬
‫اور کتنی دفعہ کیا ھے اور کہاں کیا‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے فرحت کو مختصرا ً بتا دیا کہ‬


‫بس ایسے ھی آنکھ مٹکے سے سیٹنگ‬
‫ہوگئی تھی اوت بس تین دفعہ ھی کرنے‬
‫کا موقع مال وہ بھی اسکے گھر ھی‬

‫تو فرحت جیلسی پن سے بولی ۔‬


‫اب کب کرو گے اسکے ساتھ‬
‫میں نے اسکی ذہنیت دیکھتے ھوے کہا۔‬

‫جب تمہارے جیسی حسین دوشیزہ کی‬


‫قربت نصیب ہوگئی ھے تو میں اس کی‬
‫طرف دیکھوں بھی نہ‬
‫کہاں وہ ۔کہاں تم‬

‫تو فرحت کے چہرے پر غرور کی لہر‬


‫آئی اور‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا‬
‫ہاتھ میرے لن کی طرف لیجا کر لن کو‬
‫مٹھی میں بھر لیا اور بولی‬
‫تمہارے اس گھوڑے نے بھی مجھے‬
‫تمہارا مرید کر لیا ھے ۔‬

‫اور لن کو مٹھی میں لے کر دبانے‬


‫لگی‬
‫لن بھی پھر سے سختی پکڑنے لگ گیا۔‬

‫صدف کا ذکر چھڑتے ھی مجھے اسکی‬


‫بات یاد آگئی کے یاسر تم میرے اندر‬
‫فارغ ہوگئے ھو اگر کچھ ہوگیا تو‬
‫میں سوچنے لگ گیا کہ فرحت سے اس‬
‫کے بارے میں پوچھوں کہ نہ پوچھوں ۔‬
‫پھر میں نے سوچا کہ اگر اب صدف کا‬
‫ذکر کیا تو یہ سالی پھر نہ موڈ بنا لے‬
‫اسلیے میں نے ارادہ بدل دیا ۔‬
‫اور فرحت کے ممے کو پکڑ کر‬
‫کھیلنے لگ گیا۔‬
‫میرا لن فرحت کے ھاتھ میں آتے ھی‬
‫فل ٹائٹ ھوگیا‬
‫اور‬

‫میرا پھر موڈ بننے لگا کہ ایک شفٹ ہو‬


‫جاے‬
‫لن بھی تیار تھا فرحت کا موڈ بھی بن‬
‫رھا تھا‬
‫مگر ٹائم بہت ذیادہ ہوگیا تھا‬
‫میں نے دوبارا کالک کی طرف دیکھا‬
‫تو آدھا گھنٹہ مذید گزر چکا تھا ۔‬
‫میں نے فرحت کو کہا کیا موڈ ہے ۔‬
‫تو فرحت بولی ساری کسر آج ہی نکال‬
‫دینی ھے کچھ پھر کسی دن کے لیے‬
‫باقی رہنے دو۔‬

‫تو میں نے کہا آپ کی امی اتنی بےسد‬


‫سورھی ھوتی ھے ۔‬
‫تو فرحت بولی‬
‫میں نے آج انکو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی‬
‫اس لیے مجھے انکی کوئی پریشانی‬
‫نھی ھے ۔‬
‫میں نے شرارت سے پوچھا‬
‫کہ‬
‫لگتا ھے آج پورے موڈ میں تھی‬
‫اگر میں نہ آتا تو۔‬

‫فرحت بولی نہ آتے تو تمہیں گھر سے‬


‫اٹھا کر لے آنا تھا۔‬

‫میں نے کہا واہ جی واہ‬


‫ہن ساڈے نال بدمعاشیاں چلن گئیاں ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫کبھی کبھی کچھ پانے کے لیے بدمعاشی‬
‫بھی کرنا پڑتی ھے ۔‬

‫میں اچھا جی کہہ کر فرحت کے ہونٹوں‬


‫پر کس کی اور کپڑے پہننے لگا‬
‫فرحت بولی پھر کب آو گے تو میں نے‬
‫کہا جب جناب کا حکم ہوا‬
‫فرحت بولی‬
‫اب جب ملنا ھوگا تو میں تمہیں ایک دن‬
‫پہلے بتا دوں گی ۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ہے اگلی دفعہ کچھ‬
‫نیا کروں گا کہ تم یاد رکھو گی ۔‬

‫فرحت میرے بازو پر مکا مارتے ھوے‬


‫بولی ابھی بھی کچھ نیا کرنے والے رہتا‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے کہا ۔‬
‫وہ تو کب ملیں گے تو پتہ چلے گا کہ‬
‫ابھی کتنا کچھ رہتا ھے ۔‬
‫فرحت بولی‬
‫یاسر یہ سب کہاں سے سیکھا ھے‬

‫اتنی دیر میں‬


‫میں نے کپڑے پہن لیے تھے اور شلوار‬
‫کا ناال باندھتے ہوے بوال۔‬

‫جب دوبارا آیا تو بتاوں گا ۔‬

‫فرحت جان بوجھ کر باتوں میں لگا‬


‫رھی تھی کہ پھر کچھ کروں مگر میرا‬
‫دھیان پیچھے گھر کی طرف تھا اور ڈر‬
‫بھی رھا تھا کہ اتنی رات کو کیسے‬
‫جاوں گا اگر کسی پہرے دار نے دیکھ‬
‫لیا تو اس نے صبح ابو کو یا بھائی کو‬
‫بتا دینا ہے۔‬

‫تو میری خیر نھی پھر ۔‬

‫میں نے کپڑے درست کیے اور کالک‬


‫کی طرف دیکھا تو دو بج چکے تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کو کہا ٹائم کافی ہوگیا‬
‫ھے ابھی مجھے جانا چاھیے ۔‬
‫تین بجے ابو اٹھ جاتے ہیں ۔‬

‫تو فرحت جلدی سے اٹھی اور کپڑے‬


‫پہننے لگی‬
‫فرحت نے کپڑے پہنے اور مجھے‬
‫رکنے کا کہا اور دروازہ کھول کر باہر‬
‫صحن میں نکل گئی کچھ دیر بعد۔‬

‫فرحت اندر آئی اور مجھے چلنے کا‬


‫کہا‬
‫میں اس کے پیچھے چلتا ہوا‬
‫بیٹھک میں پہنچا اور اس نے بیٹھک کا‬
‫دروازہ کھوال اور باہر سر نکال کر گلی‬
‫کا جائزہ لیا ۔‬

‫اور اوکے کا اشارہ کیا اور میں باہر‬


‫نکلنے لگا تو فرحت بولی ایسے ھی‬
‫جاو گے ۔‬

‫تو میں واپس مڑا اور اسکو جپھی ڈال‬


‫کر اسکے ہونٹوں کا لمبا سا چوسا لیا‬
‫اور باہر گلی میں نکل کر ڈرتا ڈرتا‬
‫گھر تک پہنچا اور تاال کھول کر بیٹھک‬
‫میں داخل ہوا ۔‬

‫کان لگا کر گھر کے حاالت کا جائزہ‬


‫لیا‬
‫مگر ہر طرف شانتی ھی تھی ۔‬

‫میں نے شکر ادا کیا اور بستر پر لیٹ‬


‫گیا کچھ دیر فرحت کے ساتھ گزرے‬
‫لمحات کو یاد کرتا ھوا نہ جانے کب‬
‫سوگیا۔‬
‫صبح امی نے مجھے جھنجھوڑ‬
‫جھنجھوڑ کر اٹھایا۔‬
‫میرا اٹھنے کو دل ھی نھی کر رھا تھا‬
‫مگر مجبوری تھی‬
‫اٹھا نہا دھو کر تیار ہو کر ناشتہ کیا‬
‫اور‬
‫سیدھا فوزیہ کے گھر پہنچا‬
‫تو دیکھا فوزیہ گھر میں اکیلی ھی تھی‬
‫میں نے عظمی اور نسرین کا پوچھا تو‬
‫فوزیہ بولی عظمی کو گئے تو ایک‬
‫گھنٹہ ہوگیا ھے۔‬
‫اور نسرین کی طبعیت سہی نھی تھی‬
‫اس لیے وہ نھی گئی۔‬
‫میں نے حیران ہوکر فوزیہ سے پوچھا‬
‫کہ عظمی اتنی جلدی کیوں گئی ھے‬
‫اور آپ نے اسے اکیلی کو بھیج دیا۔‬

‫فوزیہ بولی ۔‬
‫وہ کہہ رھی تھی کہ اسکے پیپر کی‬
‫کچھ تیاری رہتی تھی‬
‫تو اس کی سہیلی نے کچھ گیس دینے‬
‫تھے اسے اور وہ اس لیے جلدی چلی‬
‫گئی تھی شاید اس نے سکول میں تیاری‬
‫کرنی ہو ۔‬

‫مجھے دال میں کچھ کاال لگا اور غصہ‬


‫بھی آیا عظمی پر ۔‬
‫میں نے کہا پھر بھی آپکو اسے اکیلی‬
‫کو نھی بھیجنا چاہیے تھا‬

‫فرحت بولی‬
‫اس کے باپ نے سر پر چڑھا رکھا‬
‫ھے‬
‫میں کچھ کہتی ہوں تو ۔‬
‫تمہارا چاچا مجھے بولنے لگ جاتا ۔‬
‫اپنی مرضیاں کرتی ھے ۔‬

‫میں نے کہا بھی تھا کہ خالہ کے گھر‬


‫چلی جاو اور یاسر کو ساتھ لیتی جاو‬
‫مگر اس لڑکی پر جلدی جانے کا بھوت‬
‫سوار تھا جیسے اس کی گاڑی نکل‬
‫جانی تھی ۔‬

‫میں نے نسرین کا پوچھا اس کی طبیعت‬


‫کو کیا ہوا تو فوزیہ کچھ چھپانے کے‬
‫انداز میں بولی‬
‫کچھ نھی بس ہلکا سا بخار ھوا ھے دو‬
‫تین دن میں اتر جاے گا۔‬

‫میں نے ہممم کہا اور ذیادہ تفصیل نھی‬


‫پوچھی اور‬
‫فوزیہ کو سالم کر کے گھر سے نکل آیا‬
‫۔‬
‫پہلے تو میں سیدھا دکان کی پر جانے‬
‫لگا‬
‫پھر مجھے خیال آیا کہ صدف شاید ابھی‬
‫گھر پر ھی ھو اسے ساتھ لیتا جاتا ہوں‬

‫اور راستے میں اس سے معافی بھی‬


‫مانگ لوں گا‬
‫کیوں کہ وہ ابھی تک مجھ سے ناراض‬
‫تھی ۔‬

‫میں سیدھا صدف کے گھر پہنچا تو گھر‬


‫میں داخل ہوتے ھی سامنے دیکھا تو‬
‫صدف برقعہ پہنے برآمدے میں ٹہل‬
‫رہی تھی ۔‬
‫مجھے دیکھ کر میرے پیچھے دیکھنے‬
‫لگ گئی اور مجھے اکیال دیکھ کر‬
‫عظمی اور نسرین کا پوچھا کہ وہ نھیں‬
‫آئی ۔‬

‫تو میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بوال‬


‫کہ وہ گلی کی نکر پر کھڑی ہیں ۔‬

‫صدف حیرانگی سے میری طرف دیکھ‬


‫کر میرا جھوٹ پکڑنے کی کوشش‬
‫کرتے ہوے بولی ادھر کھڑی کیا‬
‫کررھی ہیں دو قدم آگے نھی آسکتی‬
‫نواب زادیاں‬
‫میں نے کہا‬
‫انکی کوئی سہیلی مل گئی تھی تو اس‬
‫کے ساتھ باتیں کرنے کھڑی ہوگءیں‬

‫اور مجھے کہا کہ تم باجی کو لے آو۔‬

‫صدف کندھے اچکا کر‬


‫اپنا ہینڈ بیگ پکڑ کر ااپنی امی کو بتا‬
‫کر باہر نکل آئی اور میرے ساتھ ساتھ‬
‫‪.‬چلتی ہوئی گلی کی نکڑ پر آگئی‬

‫اور چاروں طرف دیکھتے ھوے بولی‬


‫کدھر ہیں دونوں۔۔‬
‫میں نے کہا چلو تو بتاتا ہوں تو صدف‬
‫میری طرف حیرانگی سے دیکھتے‬
‫ہوے بولی‬
‫یاسر کدھر ہیں وہ جھوٹ کیوں بوال تم‬
‫نے ۔‬

‫میں نے صدف کا ھاتھ پکڑا‪ ،‬اور اسے‬


‫چلنے کہا کہ بتاتا ھوں یار چلو تو سہی‬
‫۔‬

‫صدف نے غصے سے اپنا ہاتھ‬


‫چھڑوایا‬
‫اور گبھرا کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫شرم نام کی کوئی چیز ھے تم میں ۔‬

‫اب تمہاری اتنی جرات ہوگئی کے‬


‫سرعام میرا ہاتھ پکڑ لو ۔‬

‫میں نے کہا صدف چلو تو سہی ایسے‬


‫کوئی دیکھ لے گا ہمیں بحث کرتے‬
‫ہوے تو کیا سوچے گا۔‬

‫صدف قہر آلود نظروں سے مجھے‬


‫دیکھ کر میرے آگے تیز تیز قدم اٹھاتی‬
‫چلنے لگی ۔‬
‫جیسے مجھ سے پہلے اس نے شہر‬
‫پہنچ کر کپ جیت لینا ھے ۔‬

‫تیز چلنے کی وجہ سے صدف کی گانڈ‬


‫برقعے کو پھاڑنے کی کوشش کرتے‬
‫ھوے اوپر نیچے ہورھی تھی‬

‫میں نے بھی اپنی کچھ سپیڈ بڑھائی‬


‫اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کھیتوں‬
‫میں داخل ہوگیا ۔‬

‫آگے چل کر مکئی شروع ھوگئی تھی‬


‫اور مکئی کے درمیان جو پگڈنڈی تھی‬
‫اس پر ہم برابر میں نھی چل سکتے‬
‫تھے تو مجبورا ً مجھے اس کے پیچھے‬
‫ہونا پڑا‬
‫میں بڑے غور سے اسکی مٹکتی ہوئی‬
‫گانڈ کو دیکھ رھا تھا جسکو چند روز‬
‫پہلے میں نے بےدردی سے پھاڑا تھا۔‬

‫صدف خاموشی سے تیز تیز چل رھی‬


‫تھی ۔‬

‫کچھ دور جاکر میں تھوڑا تیز ہوا اور‬


‫صدف کا ہاتھ پکڑ لیا صدف ایکدم رک‬
‫گئی اور مڑ کر میری طرف دیکھ کر‬
‫بولی کیا بتمیزی ھے‬
‫ہاتھ چھوڑو میرا۔‬

‫میں نے کہا‬
‫یار بات تو سن لو۔‬

‫صدف بولی خبردار مجھے اب یار کہہ‬


‫کر مخاطب کیا ۔‬

‫میرے ساتھ کوئی رشتہ بڑھانے کی‬


‫کوشش مت کرو۔‬

‫میں نے کہا‬
‫صدف بس ایک دفعہ میری بات تو سن‬
‫لو ۔‬
‫پھر چاھے تم مجھے اپنی شکل بھی مت‬
‫دیکھانا۔‬
‫بلکہ میں بھی تمہارے سامنے کبھی نھی‬
‫آوں گا‬

‫صدف بولی پہلے میرا ہاتھ چھوڑو میں‬


‫نے ہاتھ چھوڑا‬
‫تو صدف پھر چلتے ھوے بولی‬
‫مجھے تم سے کوئی بات نھی کرنی ۔‬
‫میں پھر دوڑ کر اسکو کراس کر کے‬
‫اس سے آگے نکال اور اسکی طرف منہ‬
‫کر کے اسکا راستہ روک کر کھڑا‬
‫ہوگیا اور اسکو بازوں سے پکڑ کر بوال‬
‫صدف کیا میں اتنا ھی برا ھوگیا ھوں‬
‫کہ تم میرے ساتھ اس طرح کا رویہ‬
‫اختیار کررھی ھو۔‬

‫میری غلطی کیا ھے بس یہ بتا دو۔‬

‫صدف اپنے بازو مجھ سے ُچھڑواتے‬


‫ہوے بولی۔‬
‫تمہیں نھی پتہ کہ تم نے کونسی گھٹیا‬
‫حرکت کی ھے ۔‬

‫اب مجھے صفائیاں دینے چلے ھو۔‬

‫راستہ چھوڑو میرا ۔‬


‫تمہیں ایک بار کہی بات سمجھ میں نھی‬
‫آرھی کہ میں تم سے کوئی بات نھی‬
‫کرنا چاھتی نہ کوئی رشتہ رکھنا چاھتی‬
‫ہوں ۔‬

‫میں نے صدف کی ٹھوڑی کو پکڑا اور‬


‫کہا اتنا غرور آگیا ھے تم میں ۔‬

‫صدف نے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور میرے‬


‫منہ پر پورے ذور سے تھپڑ مار دیا‬
‫اور بولی‬
‫تمہیں پیار کی زبان سمجھ میں نھی‬
‫آرھی کیا۔‬
‫پھر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آے ھو۔‬

‫مجھے ذرہ سی بھی امید نھی تھی کے‬


‫صدف اتنی جرات کر سکتی ھے کہ‬
‫مجھ پر ہاتھ اٹھا لے ۔‬

‫میں اپنی گال پر ہاتھ رکھے‬


‫آنکھیں پھاڑے اسکے منہ کو دیکھنے‬
‫لگ گیا۔‬

‫صدف میرے دائیں طرف سے نکل کر‬


‫مجھے حیران پریشان گال پر ہاتھ‬
‫رکھے کھڑے کو چھوڑ کر انجان بن‬
‫کر ایسے چلی گئی جیسے مجھے جانتی‬
‫ھی نہ ھو اور اس نے مجھے تھپڑ بھی‬
‫نہ مارا ھو۔۔۔۔۔‬

‫مجھے جب ہوش آیا‬


‫تو میں نے مڑ کر دیکھا تو صدف کافی‬
‫دور جاچکی تھی ۔‬

‫مجھے سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں کیا‬


‫کروں‬
‫میں ابھی تک ادھر ھی کھڑا اسے جاتا‬
‫ھوا دیکھ رھا تھا ۔‬

‫اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ‬


‫دیکھا کہ مجھ پر کیا بیت رھی ھے ۔‬
‫صدف کا اور میرا فاصلہ کافی بڑھ گیا‬
‫تھا ۔‬

‫میں آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ھوا اس‬


‫کے پیچھے جانے لگا ۔‬

‫مگر وہ تو میری نظروں سے بھی‬


‫اوجھل ہو چکی تھی ۔‬

‫میں بوجھل قدموں سے اپنی بےعزتی‬


‫کا بوجھ لیے چال جارھا تھا‬
‫میرے دماغ نے سوچنا بند کردیا تھا‬
‫بلکل گم سم ھوگیا تھا میں ۔‬
‫میں چلتا ھوا مکئی سے باہر نکل کر پُل‬
‫کے پاس پہنچ گیا‬
‫صدف مجھے اب بھی نظر نہ آئی ۔‬

‫میں جب پُل کے اوپر پہنچا تو مجھے‬


‫کافی دور صدف جاتی ہوئی نظر آئی وہ‬
‫اب بھی اسی سپیڈ سے چلی جارھی تھی‬
‫۔‬

‫میں ادھر پل پر ھی بیٹھ گیا ۔‬


‫اور اسکو جاتا ھوا دیکھنے لگ گیا ۔‬

‫میرا آگے جانے کو دل ھی نھی کررھا‬


‫تھا میرے قدم ادھر ھی رک گئے تھے‬

‫صدف اب مجھے نظر آنا بھی بند ہوگئی‬


‫تھی ۔‬

‫میں تقریبا ً ایک گھنٹہ نہر کے پُل پر ھی‬


‫بیٹھا رھا ۔‬

‫میری آنکھوں سے خود ھی آنسو نکل‬


‫نکل کر اب خشک ہو چکے تھے ۔‬

‫میں نے حوصلہ کیا اور‬


‫نہر کے پانی سے منہ پر چھینٹے‬
‫مارے ۔‬
‫اور اپنی قمیض سے ہی منہ صاف کیا‬
‫اور‬
‫پھر شہر کی طرف چل دیا‬
‫دکان پر پہنچا تو انکل سجاد اور دونوں‬
‫لڑکے بھی آچکے تھے بلکہ ایک‬
‫کسٹمر بھی بیٹھا ہوا تھا ۔‬

‫میں افسردہ سا دکان میں داخل ھوا اور‬


‫انکل کو سالم کیا تو انکل میرے منہ کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بولے ۔‬

‫یاسر بیٹا کیا ھوا خیریت تو ھے اتنی‬


‫لیٹ آے ھو اور منہ کیوں لٹکایا ھوا‬
‫ھے‬
‫سب خیریت تو ھے طبعیت تو سہی ھے‬
‫۔‬
‫انکل نے ایک ھی سانس میں مجھے‬
‫کتنے سارے سوال کردئے۔‬
‫میں نے صرف اتنا ھی کہا‬
‫کچھ نھی انکل جی بس سر میں درد‬
‫ھے۔‬

‫انکل بولے بیٹا چھٹی کرلینی تھی ۔‬


‫دوائی وغیرہ لی کہ نھی ۔‬

‫میں نے کہا انکل جی ایسی بھی کوئی‬


‫خاص بات نھی کہ دوائی لوں ۔‬
‫بس ہلکی سی درد ھے کچھ دیر بعد‬
‫سہی ھو جاوں گا۔‬

‫انکل نے جنید کو کہا کہ جاو یاسر کے‬


‫لیے چاے کا کہو‬
‫اور انکل نے دراز کھوال‬
‫اور دو گولیاں‬
‫شیر مارکہ پیراسٹامول نکال کر مجھے‬
‫دی کہ یہ کھا لو ابھی سہی ہو جاو گے ۔‬

‫میں نے چاروناچار گولیاں پکڑی اور‬


‫کولر سے پانی کا گالس بھرا اور‬
‫گولیاں منہ میں ڈال کر پانی سے نگھل‬
‫گیا۔‬
‫اور پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھ کر باہر‬
‫آتے جاتے کسٹمر کو دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫مگر میرا دماغ صدف پر اٹکا ھوا تھا‬
‫کہ اس نے‬
‫۔‬
‫مجھے تھپڑ مارا مجھے ُ۔۔‬
‫اسکی اتنی جرات‬
‫بس قیاس آرائیاں شروع تھی دماغ کی‬
‫کہ یہ کروں گا اسکے ساتھ اسے قتل‬
‫کر دوں گا اسے بدنام کروں گا‬
‫پتہ نھی کیا کیا سوچ رھا تھا کہ‬
‫اچانک میری آنکھوں کے سامنے‬
‫آنکھوں کے سامنے سے گاڑی گزری‬
‫اور اس میں سے ایک چہرے نے میری‬
‫طرف دیکھا اور جلدی گبھرا کر‬
‫دوسری طرف منہ کر لیا۔‬

‫میں ایک دم چونکا اور گاڑی کی طرف‬


‫دیکھنے لگ گیا جو رش کی وجہ سے‬
‫آہستہ آہستہ آگے بڑھ رھی تھی ۔‬
‫میں نے جیسے ھی گاڑی اور ڈرائیور‬
‫کو دیکھا تو ہکا بکا رھ گیا‬

‫کہ یہ تو اس اسد کی گاڑی ھے اور اس‬


‫نے مجھے دیکھ کر بھی منہ دوسری‬
‫طرف کیوں کیا اور وہ اچانک گبھرایا‬
‫کیوں‬
‫ایک ساتھ میرے دماغ میں کئی سوال‬
‫اٹھے۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں مذید کچھ سوچتا‬
‫یا کھڑا ھوکر گاڑی کی طرف جاتا‬
‫اسد نے تیزی سے گاڑی کو رش میں‬
‫سے نکال کر کچھ آگے ایک اور بازار‬
‫کی طرف گاڑی کو موڑ دیا اور کار‬
‫سپیڈ سے دوڑا کر لے گیا ۔‬

‫یہ ہوا بھی اتنا اچانک تھا کہ نہ تو میں‬


‫یہ دیکھ سکا کہ اسد کے ساتھ کون تھا‬
‫اور نہ ھی میں کار کے اندر جھانک‬
‫سکا‬
‫میں تو اپنے خیالوں میں گم سم سا بیٹھا‬
‫ھوا تھا۔‬

‫ابھی میں اسد کی بے رخی کے بارے‬


‫میں ھی سوچ رھا تھا کہ اچانک میرے‬
‫دماغ میں جھماکہ ھوا ۔‬

‫کہ کہیں عظمی ۔۔۔۔۔۔‬

‫تو دل میں خیال آیا کہ‬

‫ھاں اسد کے ساتھ یقینا ً عظمی ھی‬


‫ھوگی‬
‫اسکا گھر سے اکیلے جلدی آنا‬
‫پیپر کی تیاری کا بہانہ کرنا۔‬
‫اور سکول ٹائم سے پہلے سکول جانا‬
‫اسی طرف اشارہ کررھا تھا کہ ہو نہ ہو‬
‫یہ عظمی ھی اسد کے ساتھ تھی۔‬

‫پھر دماغ نے میرے دل کے خیال کو‬


‫جھٹالتے ھوے کہا۔‬

‫اگر عظمی تھی تو وہ تمہاری دکان کے‬


‫سامنے سے کیوں گزرتی اور اسد نے‬
‫بھی اسے لے کر تمہاری ھی دکان کے‬
‫سامنے سے گزرنا تھا‬
‫پاگل ہو کیا‬
‫کچھ ہوش کے ناخن لو۔‬

‫پھر دل کے خیال نے دماغ پر چڑھائی‬


‫شروع کردی کی ۔‬

‫تمہاری دکان کا نہ تو عظمی کو پتہ ہے‬


‫کہ کس جگہ دکان ھے اور نہ ھی اسد‬
‫نے تمہاری دکان دیکھی ھے ۔‬

‫آخر کار دماغ کو یہ بات ماننا پڑی کہ‬


‫اسد کے ساتھ عظمی ھی تھی اسی لیے‬
‫جب اسد نے مجھے دیکھا تو مجھے‬
‫اچانک سامنے دیکھ کر گبھرا گیا اور‬
‫گاڑی کو بھگا کر لے گیا‬
‫ورنہ وہ ضرور رکتا اور تم سے ملے‬
‫بغیر آگے نہ جاتا۔‬

‫میں اپنے آج کے منحوس دن کو ھی‬


‫کوسنا شروع ھوگیا‬
‫کہ پتہ نھی آج کس منحوس کی شکل‬
‫دیکھ لی ھی ۔‬
‫ساال دن ھی پریشانیوں سے شروع ھو‬
‫رھا ھے۔‬

‫ساال اج دا دن ای ماڑا اے ۔‬

‫ایک ساتھ دو دو پریشانیوں سے میرا‬


‫دماغ پھٹنے واال کردیا تھا۔‬

‫میں سر کو پکڑ کر ادھر بینچ پر ھی‬


‫بیٹھ گیا۔‬

‫اور کچھ سوچ کر کھڑا ھوا اور انکل‬


‫سے کہا کہ میں تھوڑی دیر تک آیا‬
‫اور عظمی کے سکول کی طرف چل‬
‫دیا۔۔۔‬

‫**************************‬
‫****‬

‫دوستو اب آپ‬
‫عظمی اور اسد کے بیچ میں ہوا مکالمہ‬
‫پڑہیں گے جسکا علم مجھے بعد میں ہوا‬
‫تھا۔ پہلے بتانے کا مقصد کہ آپ سب‬
‫ریڈرز کو حقیقت معلوم ہو جاے‬
‫یہ مکالمہ آج سے تین دن پہلے سے‬
‫شروع ھوتا ھے۔۔۔۔۔۔۔‬
‫**************************‬
‫*****‬

‫عظمی نسرین کے ساتھ سکول والی‬


‫گلی میں بوائز سکول سےتھوڑا پیچھے‬
‫بوائز سکول کی دیوار کے ساتھ کھڑی‬
‫۔اسد کی کار کو دیکھ کر چونک کر کار‬
‫کی طرف متوجہ ہوئی اور نسرین سے‬
‫نظریں بچا کر نظروں سے اسد کو‬
‫تالش کرنے لگی‬

‫اسد بھی شاید اس کے انتظار میں کار‬


‫میں بیٹھا بیک مرر سے انکو دیکھ رھا‬
‫تھا اور جیسے ھی اسد کی نظر ان‬
‫دونوں پر پڑی تو وہ جلدی سے کار کا‬
‫دروازہ کھول کر باہر نکال۔‬
‫بلیو جینز پر اورنج ہاف بازو ٹی شرٹ‬
‫پہنے بلیک سن گالسس لگاے ۔‬
‫کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوکر‬
‫سڑک کی دوسری طرف آتی ہوئی‬
‫عظمی کی طرف دیکھنے لگ گیا۔‬
‫عظمی نے جب اسد کو اور اس کی‬
‫شاندار ڈریسنگ کو دیکھا تو اسد سے‬
‫نظریں ہٹانا اس کے لیے مشکل ہوگیا‬

‫مشکل ھوتا بھی کیسے نہ۔‬

‫جس شہزادے کو وہ سپنوں میں دیکھتی‬


‫تھی‬
‫جیسا آئیڈیل وہ سوچتی تھی‬
‫کہ اونچا لمبا جوان کلین شیو گورا چٹا‬
‫شہزادہ ہو اور اس کے پاس بڑی سی‬
‫کار ہو جس میں اسے بڑی شان سے‬
‫اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر دور‬
‫بڑی بڑی سڑکوں پر گھمانے لے جاے‬
‫اور شاندار ہوٹل میں اپنے سامنے بیٹھا‬
‫کر کھانا کھالے‬
‫اور مہنگے سے مہنگے ڈریس اسے‬
‫گفٹ کرے جس کو پہن کر جب بھی‬
‫باہر نکلے تو پنڈ کی سب لڑکیاں اسکو‬
‫حسرت کی نگاہ سے دیکھیں ۔‬

‫اور آج اس کے سپنوں کا شہزادہ اسکی‬


‫راہ میں آنکھیں بیچھا کر کھڑا تھا ۔‬

‫عظمی اسد کو ٹکٹکی باندھے دیکھے‬


‫چلی آرھی تھی۔‬
‫نسرین کی بھی نظر اسد پر جب پڑی تو‬
‫اسد کو دیکھتے ھی اس نے عظمی کی‬
‫جانب دیکھا جو ہر چیز سے بے خبر‬
‫ھوکر اسد کو ھی دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫نسرین سے جب برداشت نہ ھوا تو اس‬
‫نے عظمی کو کہنی ماری اور عظمی‬
‫چونک کر اسکی طرف دیکھ کر بولی‬
‫کی تکلیف اے۔‬
‫نسرین بولی‬
‫اپنے ڈیلے تے بوتھی سدھی کر کے‬
‫ٹُر‬
‫تو عظمی گبھرا کر بولی‬

‫کی مطبل اے تیرا‪،‬‬


‫نسرین ۔‬
‫میں ویکھ رئی آں جتھے آنے ٹَڈ ٹَڈ‬
‫ویکھن دئیں اے۔‬

‫تو عظمی بولی‬


‫سدھی طراں بکواس کر کی کیناں چانی‬
‫ایں۔‬

‫نسرین بولی ۔‬

‫او باندر جیا جیڑا کھڑا اے اودے ول ای‬


‫دیکھن دئی ایں ناں۔‬
‫عظمی انجان بن کر بولی ۔‬
‫کیڑا باندرررررد‪،،،،‬‬

‫نسرین نے اسد کی طرف اشارہ کیا‬


‫اوہ جیڑا پَد ُکٹنی جئی پا کے کھڑا اے۔‬

‫اتنی دیر میں دونوں اسد کے کچھ‬


‫فاصلے پر پہنچ گئی تو اسد جلدی سے‬
‫سڑک کراس کر کے ان کہ سر پر پہنچ‬
‫گیا۔‬

‫اور ان دونوں کو سالم کرتے ہوے ۔بوال‬


‫معاف کرنا جی آج آپ اکیلی آرھی ہیں‬
‫یاسر نھی آیا آپ کے ساتھ۔‬
‫دونوں اسد کے یوں سامنے آجانے پر‬
‫رک گئیں‬
‫جبکہ نسرین گبھرا گئی ۔‬

‫عظمی نقاب میں اپنی آنکھوں سے تیر‬


‫چالتے ھوے آنکھوں کو مٹکا کر بڑی‬
‫ادا سے بولی‬
‫آپ کو نھی پتہ یاسر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا‬
‫تھا اور ساتھ ھی عظمی یاسر کے‬
‫موٹرسائیکل سے گرنے اور ہسپتال تک‬
‫کا سارا واقعہ تفصیل سے سنانے لگی ۔‬

‫جبکہ نسرین اسکو گھور رھی تھی اور‬


‫بار بار اسکا ھاتھ کھینچ کر اسے چلنے‬
‫کا کہہ رھی تھی ۔‬

‫اسد حیران پریشان ہونے کی ایکٹنگ‬


‫کرتے ھوے بوال‬
‫کمال ھے کسی نے مجھے بتایا ھی نھی‬
‫اتنے دن ہوگئے ہیں یاسر کا ایکسیڈنٹ‬
‫ھوے اور مجھے خبر ھی نھی ۔‬

‫تو نسرین جان ُچھڑواتے ہوے سڑیل‬


‫انداز میں بولی ۔‬

‫ویرے تینوں ہن تے پتہ لگ گیا اے ناں‬


‫ہن جا کہ پتہ لے لویں ۔‬
‫چل عظمی سکولوں دیر ہُندی پئی اے۔۔۔‬

‫تو اسد پھر انکا راستہ روکتے ہوے بوال‬


‫معاف کرنا جی‬
‫اگر کہیں تو جب تک یاسر سہی نھی‬
‫ہوتا میں آپ کو چھوڑ آیا کروں سکول ۔‬

‫تو نسرین غصے سے بولی۔‬

‫وے پراوا تیری یاری یاسر نال اے تے‬


‫اودے نال ای رکھ‬
‫تیری مہربانی اے سانوں سکول جان‬
‫دے تے اج توں بعد ساڈا ایویں رستہ نہ‬
‫روکیں ۔‬
‫عظمی تُوں چلنا اے کے نئی ۔‬

‫نئی تے میں جاواں تے توں ایس شہری‬


‫بابو نال گڈی وچ بے کے آجاویں ۔‬

‫اور نسرین آگے چل پڑی‬


‫اسد نے جلدی سے عظمی کا ہاتھ پکڑا‬
‫اور ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ جو وہ کب‬
‫سے چھپا کر کھڑا تھا‬
‫عظمی کی ُمٹھی میں دے دیا۔‬

‫عظمی اسد کی اس جھٹ پٹ حرکت‬


‫سے گبھرا گئی اور جلدی سے نسرین‬
‫کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے آگے‬
‫جارھی تھی‬
‫اس نے شکر ادا کیا کہ نسرین نے نھی‬
‫دیکھا ورنہ پتہ نھی کیا ھوجاتا ۔‬

‫اسد عظمی کے ہاتھ میں خط پکڑا کر‬


‫بنا کچھ کہے سڑک کراس کر کے کار‬
‫کے پاس پہنچ گیا‬
‫اور عظمی ہونکی بنی کبھی نسرین کو‬
‫دیکھتی کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑے خط‬
‫کو اور کبھی اسد کی طرف جو کار میں‬
‫بھی بیٹھ چکا تھا‬
‫۔‬

‫اتنے میں اسکے کانوں میں پھر نسرین‬


‫کی آواز آئی‬

‫ہن ٹُر وی پے کے موچ پے گئی پیراں‬


‫وچ ۔‬

‫تو عظمی ہڑبڑا کر مٹھی کو چادر میں‬


‫چھپاتے ھوے‬
‫تیز تیز قدم بڑھاتے ھوے نسرین کے‬
‫پاس پہنچ گئی‬

‫تو نسرین جلی بُھنی بولی‬


‫کی کیندا سی او ُکھسرا جیا۔‬
‫تو عظمی بولی تمیز سے بات کرو‬
‫شرم نھی آتی کسی کے بارے میں یوں‬
‫بکواس کرتے ھوے۔‬
‫تو نسرین بولی تینوں بڑا ہیجال آندا اے‬
‫اوس ُکھسرے دے منہ والے دا‪،،‬‬

‫تو عظمی اپنے غصے پر کنٹرول‬


‫کرتے ھوے بولی ۔‬

‫میں نے کیوں اسکی سائڈ لینی ھے‬


‫میں تو اس لیے کہہ رھی تھی‬
‫یاسر کا دوست ھے‬
‫تو وہ کیا سوچے گا کہ یاسر کی کزنیں‬
‫کتنی بتمیز ہیں ۔‬

‫تو نسرین بولی‬


‫یار ھوے گا تے یاسر دا ہوے گا‬
‫ساڈا مامے دا پُتر نئی جیڑا سڑکاں دے‬
‫کَھڑ کے اودے نال گالں کرئیے۔‬
‫مینوں تے اے اونج ای ذہر لگدا اے‬
‫ُمچھ کٹا اوتوں پَد ُکٹنی جئی پا پھردا اے‬
‫پتہ نئی ایدے وچ لتاں کیویں واڑ دا ہوے‬
‫گا۔‬

‫عظمی نسرین کی سادگی پر ہنستی ہوئی‬


‫بولی ۔‬

‫کملی بہن یہ پینٹ شرٹ شہر کے لوگوں‬


‫کا لباس ھے‬
‫دیکھا نھی کتنا خوبصورت لگ رھا‬
‫تھا‪،‬‬

‫نسرین غصے سے عظمی کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫توں اک واری کار تے چل امی نوں‬
‫دساں گی ناں تے فیر تیریاں پینٹاں‬
‫شرٹاں تے سوہنا سونکھا امی کڈے گی ۔‬

‫تو عظمی گبھراتے ھوے اپنے جزبات‬


‫پر قابو پا کر بولی۔‬
‫مممممیں لعنت بھیجتی ہوں مجھے کیا‬
‫لگے ان شہری لوگوں سے جو مرضی‬
‫پہنیں‬
‫میں تو ویسے ھی کہہ رھی تھی‬
‫اور تم ہر بات کو الٹ لیتی ھو۔‬
‫نسرین بولی‬
‫میں سب جاننی آں بچی نئی آں‬

‫اتنے میں سکول کا گیٹ آگیا اور دونوں‬


‫خاموش ھوگئیں اور سکول میں داخل‬
‫ھوگئیں ۔‬

‫سکول میں داخل ھوتے ھی عظمی نے‬


‫مٹھی میں پکڑا خط جلدی سے اپنے‬
‫گلے میں ہاتھ ڈال کر بریزیر میں چھپے‬
‫مموں میں رکھ دیا اور کالس روم کی‬
‫طرف چل دی ۔‬
‫کالس میں بھی عظمی کو بےچینی نے‬
‫گھیرے رکھا۔‬
‫اور سکول کے جتنا وقت بھی گزرا‬
‫اسکا تجسس بڑھتا رھا کہ پتہ نئی خط‬
‫میں کیا لکھا ھوگا‬

‫عظمی کا بس نھی چل رھا تھا۔‬


‫کہ ابھی گھر چلی جاے اور جاکر اپنے‬
‫سپنوں کے شہزادے کے ہاتھ سے لکھا‬
‫ہوا پہال محبت نامہ پڑھ لے۔‬
‫جیسے تیسے‬
‫سکول کی چھٹی کا وقت ہوا اور‬
‫چھٹی کی گھنٹی کی آواز عظمی کے‬
‫کانوں میں پڑی تو عظمی کے چہرے‬
‫پر سارے جہاں کی خوشی اور گھر‬
‫پہنچنے کی بےچینی آگئی ۔‬

‫سکول سے نکل اسد کے سکول کے‬


‫آگے سے گزرتے ھوے بھی عظمی کی‬
‫نظریں اسد کو ڈھونڈتی رہیں مگر وہاں‬
‫نہ تو اسد تھا اور نک ھی اسد کی‬
‫گاڑی‬
‫عظمی مایوس ہوکر جلدی جلدی سے‬
‫گھر پہنچی‬
‫اور‬
‫جاتے ھی بیگ کمرے میں رکھا اور‬
‫واش روم کی طرف بھاگی ۔‬
‫اور واش روم میں داخل ہوتے ھی‬
‫جلدی سے اپنے بریزیر میں ہاتھ ڈاال‬
‫اور‬
‫پہال محبت نامہ نکال کر‬
‫اپنی آنکھوں کے سامنے کیا اور‬
‫دھڑکتے دل کے ساتھ‬
‫تحریر کو پڑھنے لگی ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جان سے پیاری عظمی‬

‫پیار کا پہال خط لکھنے میں وقت تو لگتا‬


‫ہے‬
‫نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا‬
‫ہے۔‬
‫۔میرے پیاری عظمی جان میری آنکھوں‬
‫!میں بسے سپنے بہت‬
‫سوچا کہ تمہیں بتاؤں یا نہیں کہ مجھے‬
‫تم سے محبت ہو گئی ہے۔‬

‫ان حاالت میں یہ بتانا مشکل ہے اس‬


‫اظہار کے لیے راستہ ڈھونڈنا بہت‬
‫مشکل تھا ۔‬
‫سوچا اپنی محبت کا اظہار خط کے‬
‫ذریعے کر دوں ۔‬
‫مجھے اس بات کا خوف قطعا ً نہیں کہ‬
‫میرے خط کو تحریری ثبوت کے طور‬
‫پہ کوئی پکڑ لے گا۔‬

‫یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں پھر میں اتنا‬


‫نڈر تو ہوں کہ اپنے جذبات کا اظہار‬
‫کھل کے کر سکوں ۔‬

‫تم سوچتی ہو گی کہ مجھے خط لکھنے‬


‫کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات‬
‫کسی اور طرح سے بھی کہی جا سکتی‬
‫تھی ۔‬

‫لیکن مجھے فینٹسی میں رہنا اچھا لگتا‬


‫ہے تو سوچا خط لکھوں مجھے پتہ ہی‬
‫نہیں چال کہ کب تم میری روح میں آ‬
‫بسی تمہیں عجیب لگے گا کہ میں اور‬
‫روح کی بات تو سچا ئی یہی ہے‬
‫تمہاری محبت نے مجھے بتایا کہ واقعی‬
‫دنیا میں ایسے جذبے بھی ہیں جنہیں‬
‫ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا۔‬

‫دو جمع دو کر کے بتایا نہیں جا سکتا تو‬


‫یہی میرے ساتھ ہوا۔‬

‫تم میری سوچ میں آ بسی ہو ۔‬


‫جانتی ہو کہ وہ لوگ جن سے ہم محبت‬
‫کرتے ہیں ان کی کوئی ادا‪ ،‬انداز‪،‬‬
‫مسکراہٹ ‪،‬سوچنے ‪،‬محسوس کرنے یا‬
‫بولنے کا انداز کب ہمارے وجود کا‬
‫حصہ بن جاتا ہے ہمیں گمان بھی نہیں‬
‫ہوتا اور جس لمحے میں ہم یہ محسوس‬
‫کرتے ہیں اس وقت تک وہ‬
‫روح تک سما چکا ہوتا ہے ۔‬

‫اور ایک مطمئن مسکراہٹ کے سوا‬


‫کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا کہ محبوب‬
‫روح میں اتر چکا ہے ہر سانس میں‬
‫سما چکا ہے۔‬
‫تب قربت اور ساتھ بے معنی ہو چکے‬
‫ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ہے تم سوچتی‬
‫ہو گی کہ یہ ولیوں کی باتیں ہیں مجھ‬
‫جیسے مادیت پسند لڑکے کے منہ سے‬
‫اچھی نہیں لگتی لیکن ایسا ہی ہوا ۔‬
‫تم میری روح میری ذات کا اتنا مکمل‬
‫حصہ ہو جیسے سانس لینے کا عمل۔‬

‫کہ نہ لیا تو حرکت ختم زندگی ناپید۔‬


‫نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا ۔شائید جاننا‬
‫چاہوں بھی نہیں ۔‬
‫جب جذبوں کا پوسٹمارٹم ہو جاتا ہے وہ‬
‫کھل کے سمجھ آ جائیں تو ان کی کشش‬
‫اور چارم اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔‬
‫دریافت میں یہی مسئلہ ہے کہ یہ اسرار‬
‫کی گرہیں کھول دیتی ہے اور انسان کی‬
‫فطرت ہے کہ جو چیز بہت واضح ہو‬
‫اس میں دلچسپی نہیں لیتا خواہ وہ کتنی‬
‫ہی اہم کیوں نہ ہو۔‬
‫تم جانتی ہو کہ مجھے ادراک ہے کہ تم‬
‫اور میں دو مختلف دنیاؤں کے لوگ‬
‫ہیں۔بغاوت اور روایت کی دنیا‪ ،‬حقیقت‬
‫اور تخیل کی دنیا‪ ،‬بے فکری اور‬
‫احساس ذمہ داری کی دنیا۔‬
‫کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ کیا‬
‫ضروری تھا کہ مجھے تم سے ہی‬
‫محبت ہوتی۔ جہاں ہجر کا طویل صحرا‬
‫ہے اور دور تک نخلستان کا نام و نشان‬
‫نہیں‪ .‬میرے شاطر ذہن کو تمھارے سادہ‬
‫دل سے ہی شکست ہونا تھی۔ تو وصل‬
‫و قربت کا کوئی تو امکان ہوتا کہ عقل‬
‫دھوکے میں رہتی‪.‬لیکن نہیں وہ محبت‬
‫ہی کیا جو حقائق جانچے پرکھے اصول‬
‫بنائے فرار کے راستے کھوجے مقصود‬
‫کو حاصل کرنے کی جستجو میں دیوانہ‬
‫وار کوشش کرے یہ تو ایسا جذبہ ہے‬
‫محبوب ‪.‬جو جینے کی امنگ دیتا ہے‬
‫سے بات ہو نه ہو دل اسی سے محو‬
‫کالم رہتاہے‪.‬اس کا خیال کٹھن ترین‬
‫وقت کو بھی سہل کر دیتا ہے ۔‬
‫جہاں حسن ہے‪ ،‬خوشی ہے ‪،‬سکون‬
‫ہے‪،‬میرا جسم تمہاری قربت کا خواہاں‬
‫ایک دھن ایک ردھم ہے جو ہر ‪.‬ہے‬
‫سو طاری ہے جس میں سر مستی و بے‬
‫خودی ہے سودو زیاں کا خیال نہ کوئی‬
‫خوف بس محبت‪ ،‬محبت اور محبت۔ میں‬
‫جانتا ہوں تمہیں میری باتیں عجیب لگی‬
‫ہوں گی ۔جھوٹ کا گمان گزرے گا ایسا‬
‫ہونا بھی چاہیے ۔میں اپنی سچائی ثابت‬
‫کرنے کی کوشش ہر گز نہیں کروں گا‬
‫کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ کیا یہ‬
‫میرے ہی الفاظ ہیں؟‬
‫یا مجھ میں کوئی اور بول رہا ہے ؟‬
‫تمہارے جسم کی خوشبوں آج بھی‬
‫مجھے اپنے آپ سے آتی‬
‫تمہارے نازک اعضاء کو جو میرے‬
‫ہاتھوں نے چھوا تھا‬
‫تمہارے اس نرم نازک ابھار کا لمس آج‬
‫بھی مجھے اپنے ہاتھوں میں محسوس‬
‫ہوتا ھے‬
‫ساری دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں‬
‫میں ڈال کر‬
‫تمہیں اپنانا چاہتا ہوں‬
‫مجھ سے تنہائی میں ایک مالقات تمہیں‬
‫میرے پیار کا ثبوت دے گی ۔۔‬

‫خیر چھوڑو جو بھی ہے ۔مجھے تو بس‬


‫تمہیں بتانا ہے۔یہ میرا تمہارے نام پہال‬
‫محبت نامہ ھے‬
‫مجھے نھی پتہ کہ میں کیسا لکھ رھا‬
‫ھوں کیا لکھ رھا ہوں‬
‫میں کل تمہارے خط کا انتظار کروں گا‬
‫اسی جگہ‬
‫اگر نسرین کا خوف ھو‬
‫تو میرے خط کا جواب میرے پاس سے‬
‫گزرتے ھوے نیچے پھینک دینا میں اٹھا‬
‫لوں گا ۔‬
‫تمہاری ایک مالقات اور قربت کا منتظر‬
‫تمہارا خادم‬
‫اسد‬

‫عظمی خط کو پڑھ کو پھولے نھی‬


‫سمارھی تھی‬
‫عظمی نے دو تین دفعہ خط کو پڑھا‬
‫اور خط کو لپیٹ کر پھر اپنے بریزیر‬
‫میں رکھ کر واش روم سے باہر آگئی‬
‫کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر گھر کے‬
‫کام کاج میں مصروف رھی‬
‫اور پھر ٹیوشن کے لیے چلی گئی‬
‫وہ سارا وقت خط کا جواب لکھنے کے‬
‫بارے میں سوچتی رھی کے کیا لکھے‬
‫اسے کچھ سمجھ نھی آرھا تھا کہ کیا‬
‫لکھے اسے اسد کی طرح الفاظ کا چناو‬
‫نھی کرنا آتا تھا اور جتنے مشکل الفاظ‬
‫اسد نے خط میں لکھے تھے انکو‬
‫سمجھنے کہ لیے بھی اس کو خط بار‬
‫بار پڑھنا پڑا تھا۔‬

‫اور وہ یہ سوچتی رھی کہ شہری‬


‫لوگوں کا محبت کا اظہار کرنے کا‬
‫طریقہ بھی کیا نراال ھے اور محبت کے‬
‫اظہار میں کہاں کہاں سے الفاظ ڈھونڈ‬
‫کر التے ہیں‬
‫اور ہم جیسے پینڈو تو بس سواے‬
‫بونگیاں مارنے کے اور کچھ کر بھی‬
‫نھی سکتے۔‬

‫خیر‬
‫ٹیوشن سے آکر‬
‫رات کو موقع پاکر عظمی نے اپنے‬
‫رجسٹر سے ایک ورق پھاڑ کر‬
‫اسپر‬
‫اپنے پہلے محبت نامے کا جواب لکھنا‬
‫شروع کیا۔‬
‫جان سے پارے اسد‬
‫آپکا خط پڑھا‬
‫دل کو بہت سکون مال‬
‫اسد جی میں نے بھی جب سے آپکو‬
‫دیکھا ھے‬
‫آپ کے ھی بارے میں سوچتی رھتی‬
‫تھی‬
‫مگر آپ سے بات کرنے آپ سے ملنے‬
‫کا موقع میسر نہ ہوا‬
‫جس کی وجہ میرے ساتھ میری سڑیل‬
‫بہن اور میرا سڑیل کزن تھا۔‬

‫اس دن آپ نے باغ میں مجھے جب‬


‫چھوا تھا‬
‫تو آپ کے ہاتھوں کے لمس نے رات‬
‫بھر مجھے بے چین رکھا‬
‫میرا خود دل کررھا تھا کہ ابھی اڑ کر‬
‫آپ کی بانہوں میں چلی جاوں اور آپ‬
‫مجھے اپنی بانہوں بھر کر سینے سے‬
‫لگا لیں‬
‫اور یوں ھی رات بیت جاے‬
‫آپ سے ملنے کو میرا بھی بہت دل‬
‫کرتا ھے مگر آپ کے سامنے میری‬
‫مجبوری بھی ھے‬
‫آپ دعا کریں کہ کبھی ایسا موقع آجاے‬
‫کہ میں اکیلی سکول آوں اور پھر ہم‬
‫دونوں جہاں مرضی مل سکیں‬
‫اس وقت کا آپ بھی انتظار کریں اور‬
‫میں بھی‬
‫اور ایک بات کہنی تھی ناراض مت‬
‫ہونا۔‬
‫نسرین اور یاسر کے سامنے مجھ سے‬
‫بات مت کیا کریں انکو شک ھوجاے گا‬
‫اور خاص کر میرا وہ کزن یاسر بہت‬
‫سڑیل ھے اور مجھے تو وہ ذہر لگتا‬
‫ھے‬
‫خود کو پتہ نھی کیا سمجھتا ھے ۔‬
‫میں بھی پتہ نھی کیا باتیں لے کر بیٹھ‬
‫گئی ۔‬
‫اچھا اب اجازت چاھتی ہوں‬
‫جب موقع مال آپ کو بتا دوں گی‬

‫آپکی صرف آپکی خادمہ‬


‫عظمی ۔‬
‫عظمی نے جیسے تیسے خط مکمل کیا‬
‫اور اسکو طے کر کے اپنے بریزیر‬
‫میں رکھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے‬
‫لگی سوچتے ھوے اسے پتہ نھی چال‬
‫کہ رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگ‬
‫گئی اور صبح نسرین کے اٹھانے پر وہ‬
‫اٹھی‬
‫اور سکول کی تیاری میں مصروف‬
‫ھوگئی‬
‫جلدی جلدی ناشتہ کیا اور سکول کہ‬
‫لیے نکلنے لگی تو‬
‫عظمی کی امی نے کہا۔‬
‫کہ پتر‬
‫تمہارا بھائی ٹھیک ھوگیا ھے اس سے‬
‫پوچھتی جانا شاید آج وہ بھی دکان پر‬
‫جاے تو اسکے ساتھ چلی جانا۔‬

‫تو عظمی منہ بنا کر بولی‬


‫امی ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے‬
‫اسکو جانا ہوتا تو ابھی تک اجانا تھا۔‬

‫اور امی کا جواب سنے بغیر دونوں باہر‬


‫نکل گئیں‬

‫سکول والی گلی میں پہنچ کر عظمی‬


‫جان بوجھ کر‬
‫دوسری طرف چلنے لگی جس طرف‬
‫کل اسد کہ کار کھڑی تھی‬

‫اسد کے سکول کے قریب پہنچ کر‬


‫عظمی کو اسد کھڑا نظر آگیا۔‬

‫آج بھی اسد بہت پیارا لگ رھا تھا۔‬

‫نسرین اسد کو دیکھتے ھی دوسری‬


‫طرف جانے لگی تو عظمی بولی‬
‫اسطرف ھی چال اگر آج اس نے روکا‬
‫تو میں تمہارے سامنے اسکی بےعزتی‬
‫کروں گی ۔‬
‫نسرین حیرانگی عظمی کا منہ تکنے‬
‫لگی تو بےیقینی سے بولی خیر ھے‬
‫ایک دن میں ھی اتنی تبدیلی‬

‫تو عظمی بولی میں نے رات بھر‬


‫تمہاری بات پر غور کیا کہ تم سہی‬
‫کہتی تھی‬
‫یار ھو گا تو یاسر کا ھوگا ہمیں اس‬
‫سے کیا لینا۔‬

‫اتنی دیر میں دونوں چلتی اسد کے قریب‬


‫پہنچی‬
‫عظمی نے بڑی چالکی سے خط پہلے‬
‫ھی مموں سے نکال کر ھاتھ میں پکڑ‬
‫لیا تھا‬
‫اور اسد کے پاس سے انجان بن کر‬
‫گزرتے ھوے اس نے بڑی فنکاری سے‬
‫اپناپہال محبت نامہ محبوب کے قدموں‬
‫میں پھینک دیا اور نسرین کو پتہ بھی‬
‫نھی چلنے دیا‬
‫اور دونوں سکول کی طرف بڑھ گئیں ۔‬

‫اسد نے جلدی سے خط اٹھایا اور جلدی‬


‫سے کار میں بیٹھ کر بے چینی سے‬
‫جلدی جلدی سے خط کو کھولنے لگا‬
‫۔اور جیسے جیسے اسد خط پڑھتا جاتا‬
‫اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ‬
‫آتی جاتی اور‬
‫آخری الفاظ پڑھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا‬
‫اور بڑبڑاتے ھوے بوال‬
‫ھا ھا ھا‬
‫تمہاری صرف تمہاری‬
‫۔ھھھھھھھھھب‬
‫عظمی‬
‫ھھھھھھھب‬
‫اور خط کو مرؤڑ کر ڈسٹ بین میں‬
‫پھینک کر‬
‫کار کو سٹارٹ کیا اور تیزی سے گاڑی‬
‫کو گھما کر گرلز کالج کی طرف چال‬
‫گیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی کالس میں بیٹھی اپنے محبوب‬
‫کے بارے میں رھی تھی کہ اسد کتنا‬
‫خوش ھوا ھوگا میرا خط پڑھ کر‬
‫کیسے اس نے بار بار چوما ھوگا میرے‬
‫خط کو‬
‫کتنی بار پڑھا ھوگا خط کو‬
‫کیسے رات کو بھی خط کو سینے سے‬
‫لگا کر سوے گا ۔‬
‫سکول سے چھٹی ہوئی تو عظمی‬
‫نسرین کو لے کر سکول سے نکلی اور‬
‫بوائز سکول کے سامنے سے گزرتے‬
‫ہوے‬
‫اسکی نظر پھر اسد کو ڈھونڈتی رہی‬
‫مگر اسد اسے نظر نہ آیا‬
‫راستے میں نسرین بار بار اپنی کمر پر‬
‫ہاتھ رکھتی اور مشکل سے چل رہی‬
‫تھی ۔‬
‫عظمی نے نسرین کی حالت دیکھ کر‬
‫اسے پوچھا کہ کیا ہوا ھے طبعیت تو‬
‫سہی ھے ۔‬

‫تو نسرین نے بتایا کہ میری کمر میں‬


‫پتہ نھی کیوں درد ہورھی ھے ۔‬

‫تو عظمی بولی کوئی بھاری چیز تو‬


‫نھی اٹھائی تو‬
‫نسرین بولی نھی میں نے کونسی بھاری‬
‫چیز اٹھانی ھے ۔‬
‫تو عظمی بولی گھر چل کر بام لگا کر‬
‫ٹکور کر لینا ۔‬
‫نسرین بولی ۔‬
‫مجھے تو لگتا ھے جیسے ماہواری کے‬
‫ہونے والی ھی بس آج کل میں ھی اسی‬
‫لیے میرا یہ حال ہو رھا ھے ۔‬

‫عظمی بولی ہوسکتا ھے ایسا ھی ھو۔‬

‫میرے سے دس دن بعد ھی تمہاری‬


‫تاریخ آتی ھے‬
‫اور مجھے تو نہاے ھوے بھی تین دن‬
‫ہوگئے ہیں اس حساب سے تو تم دو دن‬
‫لیٹ ھو۔‬

‫نسرین بولی‬
‫ہر مہینے ھی ایسا ھوتا ھے کبھی دو‬
‫دن پہلے خون آنا شروع ھو جاتا ھے تو‬
‫کبھی بعد میں ۔‬

‫کل پیپر بھی ھے اور دعا کرو مذید‬


‫ایک دن گزر جاے ورنہ مجھے کل‬
‫سکول سے چھٹی کرنی پڑ جاے گی ۔‬
‫یہ سنتے ھی عظمی کے چہرے پر‬
‫خوشی کی لہر دوڑ گئی‬
‫کہ عنقریب‬
‫وصل یار کا موقع میسر ہونے واال ھی‬
‫ھے ۔‬

‫نسرین کی حالت کو بھول کر اسکی‬


‫اپنی پھدی میں خارش شروع ھوگئی ۔‬
‫اس کو ساتھ یہ بھی پریشانی الحق تھی‬
‫کہ اگر کل نسر ین نہ آئی اور یاسر کل‬
‫ساتھ آگیا تو کیسے اسد کے ساتھ مالقات‬
‫ہوگی‬
‫انہیں سوچوں میں ُگم وہ گھر پہنچ گئیں‬
‫۔‬
‫باقی کا دن بھی کچھ ٹیوشن میں گزر گیا‬
‫کچھ گھر کے کام کاج میں‬
‫رات کو عظمی نے نسرین سے پوچھا‬
‫کے کیسی طبعیت ھے بلیڈنگ شروع‬
‫ھوئی کہ نھی ۔‬
‫نسرین نے بتایا کہ ابھی تک تو نھی‬
‫صبح ھی پتہ چلے گا ۔‬
‫دعا کرو نہ ھی ہو نھی تو کل کا پیپر‬
‫ضائع ہو جانا ھے ۔‬
‫عظمی بولی تم پریشان نہ ھو جو ھوگا‬
‫بہتر ھی ھوگا ۔‬
‫رات جیسے تیسے گزری۔‬

‫صبح بھی نسرین کو بلیڈنگ نہ ہوئی‬


‫اور دونوں سکول کی تیاری کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫تیار ہوکر ابھی ناشتہ ھی کررھی تھیں ۔‬
‫کہ یاسر آگیا‬
‫یاسر کو دیکھ کر عظمی پریشان ہوگئی‬
‫کہ اب کیا ھوگا‬
‫میں تو آج بڑی پالننگ کئے ھوے تھی‬
‫مگر نہ نسرین نے چھٹی کی اور اوپر‬
‫سے یہ یاسر بھی آن ٹپکا۔‬

‫یاسر نے امی کے ساتھ‬


‫سالم دعا لی حال احوال بتانے کے بعد‬
‫تینوں گھر سے نکل پڑے‬
‫صدف کو ساتھ لیا اور شہر کی طرف‬
‫چل پڑے راستے میں بھی کچھ خاص‬
‫بات نہ ہوئی ۔‬
‫صدف اپنی اکیڈمی کی طرف چلی گئی‬
‫اور یاسر کے ساتھ دونوں‬
‫سکول والی گلی میں داخل ہوگئی ۔‬
‫عظمی کا دل دھک دھک کررھا تھا‬
‫کہ کہیں اسد پھر نہ راستے میں کھڑا‬
‫ھو ۔‬
‫اگر یاسر نے اسے یوں کھڑے دیکھ لیا‬
‫تو اسکو شک ہوجانا ھے‬
‫اور اگر یاسر نے نسرین سے پوچھ لیا‬
‫تو نسرین نے تو سب کچھ بتا دینا ھے ۔‬
‫انہی سوچوں میں وہ سکول کی طرف‬
‫چلی آرھی تھی اور دل میں دعائیں‬
‫مانگ رھی تھی کہ اسد کا سامنا نہ ھی‬
‫ھو۔‬

‫آخر کار تینوں بوائز سکول کے قریب‬


‫پہنچے تو عظمی نے سکھ کا سانس لیا‬
‫کیونکہ اسکو اسد نظر نھی آیا‬
‫یاسر انکو سکول کے گیٹ پر چھوڑ کر‬
‫دکان پر چال گیا ۔‬

‫عظمی اور نسرین کا پیپر دس بجے‬


‫شروع ھونا تھا‬
‫مگر ابھی آٹھ بجے تھے دو گھنٹے وہ‬
‫دونوں کالس میں بیٹھی پیپر کی مذید‬
‫تیاری میں مصروف تھی۔‬
‫کہ نسرین پھر ھوے ھوے کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫عظمی نے نسرین کو تکلیف میں دیکھ‬
‫کر پوچھا کہ کیا ہوا پھر درد شروع‬
‫ہوگئی ھے ۔‬
‫تو نسرین بولی‬
‫عظمی مجھ سے تو بیٹھا بھی نھی‬
‫جارھا‬
‫اور نیچے بھی گیال گیال محسوس‬
‫ھورھا‬

‫یہ نہ ھو کہ ادھر ھی بلیڈنگ شروع‬


‫ھوجاے ۔‬
‫عظمی بولی تم نے انڈرویر پہنا ھے کہ‬
‫نھی ۔‬
‫تو نسرین بولی ۔‬
‫ہاں میں نے تو رات کو ھی پہن لیا تھا‬
‫کہ کہیں کپڑے نہ خراب ہوجائیں ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫کچھ نھی ہوتا برداشت کرو‬

‫نسرین بھی درد کو برداشت کررھی‬


‫تھی‬
‫اور ساتھ ساتھ پیپر کی تیاری بھی‬
‫کررھی تھی ۔‬
‫عظمی پالننگ کرنے لگ گئی کہ کل تو‬
‫پکا نسرین نھی آے گی اور رھا یاسر کا‬
‫مسئلہ تو یاسر سے پہلے اگر میں امی‬
‫سے بہانہ لگا کر آجاوں تو یاسر کو بھی‬
‫پتہ نھی چلے گا ۔‬
‫اور میں اسد سے تین گھنٹوں کی‬
‫مالقات بھی کرسکوں گی‬
‫کیوں کہ پیپر تو دس بجے شروع ہونا‬
‫ھے‬
‫اور اگر میں گھر سے سات بجے بھی‬
‫نکلوں تو اسد سے مالقات کر کے پیپر‬
‫شروع ھونے تک سکول پہنچ سکتی‬
‫ہوں ۔‬

‫اور پھر سوچنے لگ گئی کہ اسد کو‬


‫کیسے بتاوں گی کہ کل ہم نے ملنا ھے‬
‫۔‬

‫یہ سوچ کر عظمی نے جلدی بیگ سے‬


‫کاپی نکالی اور ایک ورق پھاڑ کر اس‬
‫پر‬
‫اسد کو کل کی مالقات اور وقت کے‬
‫بارے میں لکھ کر کاغذ کو طے کر کے‬
‫اپنے ممے میں رکھ لیا ۔‬

‫پیپر دینے کے بعد‬


‫دونوں سکول سے نکلیں تو نسرین سے‬
‫چلنا دشوار ہو رھا تھا ۔‬
‫جیسے ھی وہ اسد کے سکول کی پاس‬
‫پہنچیں تو اسد پھر انکے سر پر آٹپکا‬
‫اور‬
‫نسرین کو سالم کیا اور عظمی کو‬
‫آنکھوں سے سالم کرنے کے بعد نسرین‬
‫کو مخاطب کر کے بوال ۔‬

‫آپی اگر آپ کہیں تو آپکو گاوں تک‬


‫ڈراپ کردوں‬
‫میں بھی ادھر ھی جارھا ھوں ۔‬

‫نسرین بولی‬
‫نھی بھائی ہم چلی جائیں گی ۔‬

‫اسد نے پھر کہا مگر نسرین نے سختی‬


‫سے جب منع کیا تو‬
‫اسد خاموش ہوگیا‬
‫اور نسرین آگے بڑھ گئی عظمی اسی‬
‫تاک میں تھی کہ نسرین اس سے کچھ‬
‫آگے ھو‬
‫تو وہ رقعہ اسد کو پکڑا دے یا اسے‬
‫دیکھا کر نیچے پھینک دے ۔‬

‫جیسے ھی نسرین تین چار قدم آگے‬


‫بڑھی تو‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنے ممے سے‬
‫رقعہ نکاال اور‬
‫اسد کو دیکھاتے ھوے اپنے پیروں میں‬
‫پھینک کر جلدی سے نسرین کے‬
‫پیچھے چل پڑی‬
‫اور کچھ دیر بعد‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫اسد نے رقعہ نیچے سے اٹھا لیا تھا‬
‫اور اسکو اپنی طرف دیکھ کر باے باے‬
‫کا اشارا کیا۔‬

‫نسرین اور عظمی گھر پر پہنچی تو‬


‫نسرین کا انڈرویر راستے میں ھی‬
‫خراب ہونا شروع ھوگیا تھا‬
‫اور گھر تک پہنچتے اسکی شلوار پر‬
‫بھی خون کا دھبہ لگ گیا تھا۔‬
‫نسرین جلدی سے واش روم میں گھس‬
‫گئی اور شلوار اتار کر پھدی کو‬
‫دیکھنے لگ گئی جس سے ہلکا ہلکا‬
‫خون رس رھا تھا‬

‫نسرین نے ایک کپڑا لیا اور اسکو طے‬


‫لگا کر پھدی پر رکھا اور پھر دوسرا‬
‫انڈرویر پہن دوسرے کپڑے پہن لیے‬
‫اور آکر کمرے میں لیٹ گئی ۔‬
‫عظمی کے خوشی کے مارے پاوں‬
‫زمین پر نھی لگ رھے تھے ۔‬

‫کچھ دیر بعد عظمی واش روم میں داخل‬


‫ہوئی اور سارے کپڑے اتار کر پھدی‬
‫کو دیکھنے لگ گئی پھدی پر کافی بال‬
‫آچکے تھے‬
‫عظمی نے واش روم پڑی پیالی میں بال‬
‫صفا کے پاوڈر کو ڈاال اور تھوڑا سا‬
‫پانی ڈال کر اسکو مکس کر کے ہاتھ‬
‫سے پھدی پر لیپ کرنے لگ گئی اچھی‬
‫طرح پھدی کے بالوں پر لیپ لگا کر‬
‫اسکے سوکھنے کا انتظار کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫دس منٹ بعد عظمی نے پھدی پر پانی‬
‫ڈاال‬
‫تو نیچے سے چمکتی ہوئی اسکی‬
‫صاف چٹی پھدی نکل آئی عظمی ہاتھ‬
‫سے رگڑ رگڑ کر پھدی کو اچھی طرح‬
‫دھو رھی تھی ۔‬

‫پھدی کو دھونے کے دوران جب عظمی‬


‫کی انگلیاں پھدی کے دانے کو مسلتیں‬
‫تو عظمی کے جسم میں مزے کی لہر‬
‫دوڑ جاتی ۔‬

‫اور عظمی آنکھیں بند کرکے مزے کی‬


‫اس لہر کا انجواے کرتی ۔‬

‫کچھ دیر بعد عظمی نے پھدی اور‬


‫ٹانگوں کو اچھی طرح دھویا اور‬
‫تاول سے ٹانگوں کو اور پھدی والے‬
‫حصے کو اچھی طرح صاف کیا‬

‫اور کپڑے پہن کر باہر آئی‬


‫تو اسکی امی بولی‬
‫سوگئی تھی کیا واش روم اتنی دیر لگا‬
‫دی ۔‬

‫عظمی بولی امی نہا رھی تھی‬


‫گرمی بہت لگ رھی تھی ۔آپ بھی نہ ہر‬
‫وقت نوکا ٹوکی کرتی رہتی ھو ۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے عظمی کمرے میں‬


‫چلی گئی‬
‫اور اسکی امی اس کے تلخ لہجے پر‬
‫اسکا منہ ھی تکتی رہ گئی‬
‫اگلے دن عظمی چھ بجے ھی اٹھ کر‬
‫تیار سکول کے لیے تیار ہونے لگ‬
‫گئی‬
‫تو اس کی امی نے پوچھا خیر ہے اتنی‬
‫جلدی سکول جانے کی تیاری کر رھی‬
‫ھو‬
‫یاسر کو تو آنے دو‬
‫تو عظمی تلخی سے بولی‬
‫مجھے جاکر پیپر کی تیاری کرنی ھے‬
‫میری دوست نے مجھے پیپر کے گیس‬
‫دینے ہیں ۔‬
‫اب میں اس نواب ذادے کے انتظار میں‬
‫بیٹھی رہوں ۔‬
‫تو عظمی کی ماں بولی‬
‫پتر تم اکیلی کیسے جاو گی ۔‬

‫تو عظمی جھوٹ بولتے ھوے بولی‬


‫کہ میں باجی صدف کے ساتھ جاوں‬
‫گی‬
‫کوئی نھی مجھے کھانے لگا‬
‫آپ بھی بس وہ پرانے زمانے کا ذہن‬
‫لے کر سوچتی ھو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی ناشتہ کئے‬
‫بغیر اپنا بیگ اٹھا کر‬
‫سات بجے سے ھی پہلے سکول کے‬
‫لیے نکل گئی۔‬
‫اور اس کی امی اپنی بیٹی کا منہ تکتی‬
‫رھ گئی ۔‬

‫صدف تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی شہر کی‬


‫طرف جارھی تھی‬
‫آج اسے گاوں سے شہر تک کا سفر‬
‫بھی پہاڑ لگ رھا تھا‬
‫راستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام نھی لے‬
‫رھا تھا۔‬
‫جب عظمی پل کراس کر کے کچھ ہی‬
‫آگے گئی تھی کہ اسے اسد کی کار اپنی‬
‫طرف آتی ہوئی نظر آئی ۔‬

‫کار کو دیکھ کر عظمی کا دل ذور ذور‬


‫سے دھڑکنے لگا ۔‬

‫کچھ ھی دیر بعد کار عظمی کے قریب‬


‫آکر رکی ۔‬
‫تو عظمی نے دھڑکتے ہوے دل کہ‬
‫ساتھ‬
‫کار میں بیٹھے اپنے محبوب کو دیکھا‬
‫اور شرما کر نظریں جھکا لیں‬
‫اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور اسے‬
‫اندر بیٹھنے کا اشارا کیا‬

‫عظمی نے پہلے ادھر ادھر‬


‫دیکھا کہ کوئی گاوں کا جاننے واال تو‬
‫نھی آ جا رھا‬
‫اور تسلی کر کے جلدی سے فرنٹ سیٹ‬
‫پر بیٹھ گئی اور دروازہ بند کردیا ۔‬
‫اسد نے بازوں آگے کیا اور ہاتھ عظمی‬
‫کے پٹوں کے ساتھ رگڑتے ہوے دوبارا‬
‫کار کا دروازہ کھول کر زور سے بند‬
‫کیا‬
‫اور عظمی کی طرف دیکھ کر‬
‫مسکراتے ہوے کار واپس موڑنے لگا‬
‫عظمی کا دل گھبرا بھی رھا تھا‬
‫اور اندر سے خوشی کے لڈو بھی پھوٹ‬
‫رھے تھے ۔‬
‫پہلی دفعہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ‬
‫کر وہ خود کو رئیس زادی محسوس کر‬
‫رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر دونوں خاموش رھے ۔‬
‫تو اسد نے کہا کہاں چلیں ۔‬

‫تو عظمی مشرقی لڑکی بنتے ھوے‬


‫بولی‬
‫بس مجھے سکول ڈراپ کر دیں ۔‬

‫تو اسد مسکرا کر‬


‫بوال‬
‫سکول میں تو ابھی گیٹ مین بھی نھی‬
‫آیا ھوگا‬
‫تو عظمی سر نیچے کیے ھوے اپنی‬
‫انگلیاں چٹختے ھوے بولی‬
‫ججی وہ ہوسکتا ھے آگیا ھو۔‬

‫تو اسد بوال‬


‫کیا صرف سکول ڈراپ کرنے تک ھی‬
‫یہ مالقات محدود ھے ۔‬

‫تو عظمی کی سمجھ میں کچھ نھی آرھا‬


‫تھا کہ کیا کہے وہ بس شرماے جارھی‬
‫تھی ۔‬
‫اسد نے پھر کہا‬
‫بتائیں کدھر جانا پسند کریں گی کسی‬
‫ہوٹل میں یا پھر میں اپنی مرضی سے‬
‫لے جاوں ۔‬
‫عظمی آہستہ سے بولی ۔‬
‫جیسے آپ کی مرضی مجھے کیا پتہ کہ‬
‫کونسی جگہ سہی ھے ۔‬

‫تو اسد مسکراتے ھوے سامنے دیکھنے‬


‫لگ گیا‬
‫کچھ ھی دیر بعد اسد نے گاڑی ایک‬
‫سنسان سڑک کی طرف موڑ دی‬
‫تو عظمی سامنے سامنے سنسان راستہ‬
‫دیکھ کر کچھ گبھرا گئی‬
‫اور پریشانی سے اسد کی طرف‬
‫دیکھنے لگ گئی ۔‬

‫اور گبھراتے ھوے بولی‬


‫ادھر کدھر جارھے ہیں ۔‬

‫تو اسد قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال تمہیں‬


‫اغواہ کرنے لگا ہوں ۔‬

‫عظمی اسد کی بات سن کر اندر سے‬


‫گبھرا گئی مگر پھر بھی خود پر کنٹرول‬
‫کرتے ھوے بولی‬
‫اسد سہی بتاو اسطرف کیوں جارھے‬
‫ھو‬
‫تو اسد پھر ہنستے ھوے بوال‬
‫ڈر گئی نہ‬
‫ھھھھھھھھھھ‬
‫عظمی بولی نھی اسد اگر ڈرتی ہوتی تو‬
‫تمہارے ساتھ آتی ھی نہ۔‬

‫اسد بوال‬
‫تو پھر گبھراو نہ‬
‫ہم ایسی جگہ جارھے ہیں جہاں صرف‬
‫میں اور تم ہو گی‬
‫اور میں جی بھر کر اپنے سپنے کو‬
‫پورا کرسکوں گا‬

‫عظمی بولی‬
‫کون سا سپنا ہے جناب کا‬

‫تو اسد مسکر کر بوال‬

‫لگ جاے گا پتہ‬


‫اتنی دیر میں اسد نے کار کو سڑک سے‬
‫اتار کر ایک کچے راستے کی طرف‬
‫موڑ دیا‬
‫اور کچھ آگے جا کر ایک پرانی سی‬
‫حویلی نظر آنے لگ گئی‬
‫جیسے کسی زمیندار کا ڈیرا ہو۔‬

‫اسد نے کار حویلی کے گیٹ کے باہر‬


‫روکی‬
‫اور ہارن بجایا تو‬
‫کچھ دیر بعد گیٹ کھال اور ایک اونچا‬
‫لمبا جوان بڑی بڑی مونچھوں واال‬
‫بدمعاش ٹائپ کا آدمی نمودار ہوا‬
‫جس کو دیکھ کر عظمی کے ہاتھ پیر‬
‫پھول گئے اور وہ گبھرا کر اسد کو‬
‫بولی‬

‫ییییہ کون ھے اسسد‬


‫اسد نے ہنستے ھوے کہا‬
‫تم کیوں ڈر گئی ھو‬
‫یہ یار ھے اپنا‬

‫عظمی نے دوبارا‬
‫اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ۔‬
‫جو سات فٹ لمبا چوڑھے کندھوں کا‬
‫مالک انتہائی مکرو شکل کا تھا‬
‫اور وہ سگریٹ کا کش بھر کر‬
‫اسد کو اشارے سے کار اندر النے کو‬
‫کہہ رھا تھا۔‬

‫عظمی نے جب غور سے اسکو دیکھا‬


‫تو‬
‫وہ مزید ڈر گئی‬
‫اور اسد کو کہنے لگی۔‬

‫اسسسسد واپسسس چلو مجھے نھی اندر‬


‫جانا‬

‫تو اسد عظمی کو ڈرے ھوے دیکھ کر‬


‫اسے پچکارتے ھوے بوال۔‬

‫میری جان تم کیوں خامخواہ ڈر رھی‬


‫ھو‬

‫یہ جگر ھے اپنا‬


‫تم میرے ساتھ ھو‬
‫پھر بھی ڈر رھی ھو ۔‬

‫تو عظمی کچھ سنبھلی مگر پھر بھی‬


‫اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی اور‬
‫ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار‬
‫ھوگئے تھے‬
‫جسکو وہ اپنی چادر سے‬
‫صاف کررھی تھی‬
‫اتنی دیر میں اسد کار کو گیٹ کے اندر‬
‫لے جاچکا تھا‬
‫اور اس آدمی نے گیٹ بند کردیا تھا‬

‫اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور باہر‬


‫نکل آیا اور‬
‫عظمی کو بھی باہر آنے کا کہا۔‬
‫مگر عظمی کو ایک انجانے سے خوف‬
‫نے گھیرا ھوا تھا۔‬

‫اسد نے جب عظمی کو سوچ میں پڑے‬


‫دیکھا تو‬
‫جلدی سے کار کے اگے سے گھوم کر‬
‫دوسری طرف آیا اور خود ھی کار کا‬
‫دروازہ کھول کر عظمی کو پیار سے‬
‫بازو سے پکڑ کر باہر آنے کا کہا‬

‫عظمی پھر بولی اسد پلیز چلو یہاں سے‬


‫مجھے بہت ڈر لگ رھا‬
‫تو اسد بوال یار تمہیں مجھ پر یقین نھی‬
‫ھے کیا جو تم ایسے کررھی ھو میرا‬
‫دوست کیا سوچے گا ۔‬

‫کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔‬

‫عظمی نے جب اسد کے منہ سے‬


‫بھابھی کا لفظ سنا تو‬
‫عظمی کا سارا ڈرا خوف ایکدم سے‬
‫جاتا رھا اور وہ اسی میں ھی خوش‬
‫ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی بیوی‬
‫بنانے کا بھی سوچ لیا ھے اسی لیے اس‬
‫کے دوست کی بھابھی ہوئی ۔‬
‫عظمی باہر نکلی اور اسد کے ساتھ‬
‫کھڑی ہوگئی ۔‬

‫اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال‬


‫شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے‬
‫چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور‬
‫عظمی کی طرف اپنی سرخ بڑی بڑی‬
‫سی آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد‬
‫سے بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور‬
‫اسد کا حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫اس دوران بھی اس کی نظریں عظمی‬
‫پر ھی جمی ھوئی تھیں‬
‫اور بڑی ہوس بھری نظروں سے‬
‫عظمی کو سر سے پاوں تک دیکھ رھا‬
‫تھا۔‬

‫عظمی اسکی نظروں کی تاب نہ التے‬


‫ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری‬
‫طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی‬
‫مگر اب بھی اسے ایسے محسوس‬
‫ھورھا تھا کہ‬
‫اس آدمی کی آنکھیں اسکی گانڈ میں ُچبھ‬
‫رھی ہیں ۔‬

‫اسد سے گلے ملے ھوے وہ شخص‬


‫ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا‬
‫اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے‬
‫عظمی کو دوسری طرف منہ کیے‬
‫کھڑے ھوے دیکھا‬
‫تو عظمی کو مخاطب کر کے بوال‬

‫عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری‬


‫جموں ہے‬
‫اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ‬
‫مگر اپنا جگر ھے‬
‫اور اکری یہ میری ہونی والی بیگم اور‬
‫تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔‬
‫اکری نے پھر عظمی کو سر سے پاوں‬
‫تک دیکھا اور‬
‫بوال واہ یارا‬
‫کیا بھابھی ڈھونڈی ھے‬
‫ہیرا ھے ہیرا‬
‫خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی‬

‫اسد بوال‬

‫یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا‬


‫ھے‬
‫یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے‬

‫تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو‬


‫گھنٹے ہیں‬

‫پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے‬


‫جانا ھے ۔‬
‫اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال‬

‫او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے‬


‫جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں‬
‫بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار‬
‫کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی‬
‫مار سکتی ۔‬

‫اور اکری پھر بڑے غور سے عظمی‬


‫کے ابھاروں کو جو چادر میں بھی نظر‬
‫آرھے تھے انکو دیکھتے ھوے بوال‬

‫چلیں بھابھی جی آپکو آپ دونوں کا‬


‫کمرہ دیکھاوں ۔‬

‫عظمی اکری کی جب انکھوں کو‬


‫دیکھتی تو اس کا جسم کانپ جاتا‬
‫مگر پھر وہ جب بھابھی شبد اس کے‬
‫منہ سے سنتی تو اسے کچھ حوصلہ ہو‬
‫جاتا ۔‬

‫اکری بڑی شان سے اسد اور عظمی‬


‫کے آگے چلتا ھوا‬
‫حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف‬
‫بڑھنے لگا‬
‫اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے‬
‫سے دروازے کو کھول کر اندر داخل‬
‫ھوا تو عظمی اندر داخل ھوتے ھی‬
‫حیرانگی سے اندر بڑے سے حال کو‬
‫دیکھنے لگ گئی‬
‫باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی‬
‫حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ‬
‫رھی تھی‬

‫اسے کہتے ہیں‬


‫ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہوتے‬
‫ہین‬
‫اور کھانے کے اور ہوتے ہیں ۔‬

‫عظمی حیرانگی سے حال کو چاروں‬


‫طرف دیکھے جارھی تھی‬
‫جس میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا‬
‫اعالن کررھی تھی ۔‬

‫حال کے اندر کافی سارے دروازے‬


‫تھے‬
‫جو شاید کمروں کے تھے ۔‬
‫اکری نے جب عظمی کو حیران پریشان‬
‫ھوتے دیکھا تو اپنی مونچھوں کو تاو‬
‫دیتے ھوے بھاری بھرکم آواز میں بوال۔‬

‫کیوں پرجائی ساڈا غریب خانہ چنگا‬


‫لگیا‬

‫تو عظمی صرف سر ہال کر رھ گئی‬


‫اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے‬
‫درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا‬
‫جس کا دروازہ باقی کمروں کے‬
‫دروازوں سے بڑا تھا اور‬
‫دروازہ‪ .‬کھول کر کسی خادم کی طرح‬
‫جھک کر ہاتھ سے عظمی کو اندر‬
‫جانے کا اشارا کرتے ھوے بوال‬

‫یہ آپ دونوں کا کمرہ ھے‬


‫یہاں پر کسی قسم کی پریشانی مت لینا‬
‫بے خوف ھو کر جب تک چاہیں رہیں ۔‬

‫اور اسد کو مخاطب کرکے بوال‬


‫چن مکھنا کسے شے دی لوڑ ھوے تے‬
‫دس دیویں‬
‫اور ہنستا ھوا‬
‫باھر چال گیا۔‬

‫عظمی نے جب کمرے کا جائزہ لیا تو‬


‫اسے ایسے لگا جیسے وہ کوئی خواب‬
‫دیکھ رھی ھے‬
‫کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور‬
‫سامنے بڑی سی الماری جس میں فل‬
‫سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا‬
‫تھا‬
‫اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا‬
‫شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں‬
‫مہنگے سے مہنگا ڈیکوریشن پیس لگا‬
‫ہوا تھا‬
‫بیڈ کے اوپر اے سی لگا ہوا تھا جو‬
‫شاید پہلے سے چل رھا تھا جس کی‬
‫وجہ سے کمرا کافی ٹھنڈا تھا۔‬

‫عظمی کو حیرانگی سے کمرے کی‬


‫ایک ایک چیز دیکھتے ھوے‬
‫اسد آگے بڑھا اور اسکو کندھوں سے‬
‫پکڑ کر قریب کرتے ھوے‬
‫ہاتھ اسکے منہ کی طرف لیجا کر‬
‫عظمی کا نقاب ہٹا دیا‬
‫اور بوال اب تو چاند سے پردہ ہٹا دو کہ‬
‫ہمیں بھی دیدار یار ھو جاے‬
‫اور ساتھ ھی اسکی چادر پکڑ کر اتاری‬
‫اور بیڈ کے ایک طرف پھینک دی‬
‫اور عظمی کو بازوں سے پکڑ کر‬
‫سینے کی طرف کھینچا‬
‫اس سے پہلے کہ اسد عظمی کو جپھی‬
‫ڈالتا یا اس کے گول تنے ہوے مموں کو‬
‫پکڑتا کہ اچانک ۔۔۔۔۔‬

‫عظمی اسد کو پیچھے کرتی ہوئی بولی‬


‫جناب پہلے دروازہ تو الک کرلیں ۔‬
‫اسد عظمی کو چھوڑ کر دروازہ بند‬
‫کرنے کے لیے گیا تو باہر نکل گیا‬
‫عظمی نے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی‬
‫اور اپنے اوپر اوڑھ کر بغلوں مین ہاتھ‬
‫دے کر اسد کو باہر جاتا ھوا دیکھنے‬
‫لگ گئی اسے حیرانگی بھی ہوئی کہ یہ‬
‫باہر کیوں چال گیا ھے‬
‫اور پھر بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫کہ اتنے نرم بیڈ پر سیکس کرنے میں‬
‫کتنا مزہ آے گا اور پھر اسکی نظر ایک‬
‫کونے میں پڑے شاندار ڈریسنگ ٹیبل‬
‫پر پڑی جس پر بڑے سائز کا شیشہ لگا‬
‫ہوا تھا وہ بے اختیار ڈریسنگ ٹیبل کی‬
‫طرف بڑھی اور آئینے میں اپنا چہرہ‬
‫دیکھنے لگ گئی‬
‫کہ ایکدم اسکے ضمیر نے اسے‬
‫جنھجوڑا‬
‫کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے‬
‫جارھی ھے‬
‫کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد‬
‫سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی‬
‫سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے‬
‫تاکہ اسے پہلے جی پتہ چل جاے کہ تو‬
‫کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے‬
‫پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا‬
‫ہرگز ھی نھی‬
‫اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ‬
‫جاے گی ۔‬
‫جیسے تو یاسر کی رکھیل ھے‬
‫یاسر تو شاید تم سے شادی بھی کرلے‬
‫مگر اسد تجھے چودنے کے بعد تجھ پر‬
‫تھوکے گا بھی نھی‬
‫آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے‬
‫یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی‬
‫دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر‬
‫اس سے شادی کے خواب دیکھ رھی‬
‫ھے‬
‫کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو‬
‫غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے‬
‫والی معمولی سی لڑکی‬
‫اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی‬
‫ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد‬
‫تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم‬
‫سے شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے‬
‫چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور‬
‫دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔‬

‫عظمی ابھی اپنے ضمیر کی جھاڑ سن‬


‫ھی رھی تھی کہ اسے اچانک اپنے‬
‫کندھوں پر ھاتھ محسوس ھوے تو اس‬
‫نے جلدی سے گھوم کر دیکھا تو اسد‬
‫کھڑا مسکرا رھا تھا‬
‫دونوں ارنے قریب تھے کے دونوں کی‬
‫سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ‬
‫رھی تھیں اور عظمی کے ممے اسد‬
‫کے سینے کے ساتھ لگ رھے تھے‬
‫عظمی ایکدم گبھرا کر پیچھے ھوئی تو‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ اسکی گانڈ لگ‬
‫گئی‬
‫اسد اس کے اور قریب ھوا اور عظمی‬
‫کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال‬
‫جناب اپنے حسن کا جائزہ لے رھے‬
‫تھے‬
‫کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا‬
‫پروگرام ھے ۔ عظمی گبھرا کر اسد کو‬
‫پیچھے کرتے ھوے پھر دروازے کے‬
‫پاس آگئی اور‬
‫بند دروازے‬

‫کی طرف دیکھنے لگ گئی‬

‫جب اسد واپس اسکی طرف مڑا تو‬


‫عظمی بولی یاسر کنڈی تو لگا دو‬
‫یاسر ہنس کر بوال‬

‫جان یہ آٹوالک ھے‬


‫انکی کنڈیاں نھی ہوتی‬
‫عظمی نے جب غور سے دیکھا تو‬
‫واقعی دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی‬
‫تھی ۔‬
‫عظمی شرمندہ سی ہوگئی‬
‫اپنے پینڈو پن پر ۔‬
‫اسد پھر عظمی کے پاس آکر کھڑا‬
‫ھوگیا‬
‫اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی‬
‫مجھ سے کیسی شرم‬
‫اور پھر عظمی کو ساتھ لگانے لگا تو‬
‫عظمی بولی ۔‬
‫اس ایک منٹ رکو تو سہی‬

‫اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا‬

‫تو عظمی بولی ایک بات تو بتاو‬


‫اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں‬
‫کرنے کا نھی ھے‬

‫باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی‬


‫ھے‬
‫مگر عظمی اسد کو پیچھے کرتے ھوے‬
‫بیڈ پر بیٹھ گئی‬
‫اور اسد‬
‫عظمی کا منہ تکتا رھ گیا۔‬
‫اسد پھر بوال کیا ھے یار‬
‫ایسے کیوں کررھی ھو۔‬

‫عظمی بولی‬
‫اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے‬
‫تم تو ایسے کررھے ھو جیسے‬
‫میں کہیں بھاگی جارھی ہوں‬
‫ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔‬

‫اسد غصے پر قابو کرتا ھوا کندھے‬


‫اچکا کر عظمی کے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫اور پھر مسکہ لگاتے ہوے عظمی کا‬
‫ہاتھ پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔‬

‫میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا‬


‫کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے ۔‬

‫ہم لیٹ نہ ہو جائیں ۔‬

‫عظمی دیوار پر لگے کالک کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے‬
‫بہت ٹائم پڑا ھے ۔‬
‫اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر‬
‫بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے‬
‫جناب کی مرضی‬
‫پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر‬
‫ھورھی ھے‬
‫پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔‬

‫عظمی مسکرا کر اسد کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫نھی کہتی جی۔‬

‫جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے‬


‫اب خوش‬
‫مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔‬

‫اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے‬


‫بولو کیا پوچھ رھی تھی‬
‫اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو‬
‫عظمی نیچے جھک کر سکول شوز‬
‫اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں‬
‫اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔‬

‫اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ‬


‫سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے‬
‫انداز میں ہوا اور عظمی کو بھی اپنے‬
‫قریب لیٹنے کا کہا۔‬
‫عظمی چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے‬
‫قریب بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر‬
‫سمٹ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو‬
‫اتار دو۔‬
‫عظمی بولی اچھا اتارتی ھوں‬
‫اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔‬
‫اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے‬
‫خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا کر عظمی کے ساتھ‬
‫ُجڑ کر بیٹھ گیا۔‬

‫اور آہہہہ بھر کر بوال‬

‫جی بولو‬
‫عظمی اسکے طنزیہ انداز سے‬
‫جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو‬
‫کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے‬
‫لیے بالیا تھا‬

‫کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق‬


‫ھی رکھنا چاھتے ھو۔‬

‫اسد نے عظمی کو روہانسے انداز میں‬


‫بولتے ھوے دیکھا‬
‫تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ‬
‫بدلتے ھوے بوال‬
‫نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی‬
‫بھی کیسے‬
‫کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی ھے‬
‫میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا‬
‫چاھتا ہوں‬
‫میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی‬
‫ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں‬
‫گے وہ کریں گے‬
‫میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی‬
‫مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں‬
‫گے ۔‬

‫عظمی بولی‬
‫اسد‬
‫یہ آدمی کون ھے جس کے گھر ہم آے‬
‫ہیں‬
‫مجھے تو یہ کوئی بدمعاش لگتا ھے‬
‫اسد بوال‬
‫لوجی ابھی تک تمہاری سوئی اس‬
‫بیچارے شریف آدمی پر اٹکی ہوئی‬
‫ھے‬
‫اگر تم یہاں نھی رکنا چاھتی تو چلو پھر‬
‫جہاں تم کہو گی ادھر چلتے ہیں‬
‫عظمی بولی اسد وہ شریف آدمی تو نھی‬
‫لگتا‬
‫وہ تو شکل سے ھی بدمعاز اور عیاش‬
‫قسم کا انسان لگتا ھے ۔‬
‫اسد ہنستے ھوے بوال‬
‫یار‬
‫وہ لوگوں کے لیے بدمعاش ھے‬
‫مگر اپنا جگری یار ھے ۔‬

‫عظمی بولی وہ ھی تو میں کہہ رھی‬


‫ھوں کہ تم ایسے لوگوں سے دوستی‬
‫کیوں رکھتے ھو۔‬

‫اسد بوال‬
‫چھوڑو یار کیسی فضول قسم کہ باتوں‬
‫میں وقت برباد کررھی ھو‬
‫آو کوئی پیار کی باتیں کرتے ہیں‬
‫۔یہ کہتے ھو اسد نے عظمی کی گردن‬
‫میں بازو ڈال کر اس کی گال پر ہاتھ‬
‫رکھتے ھوے ۔‬
‫عظمی کا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا‬
‫اور عظمی کے ہونٹوں کو چومنے لگا‬
‫تو‬
‫عظمی نے جلدی سے اہنے ہونٹوں پر‬
‫ہاتھ رکھ لیا‬
‫اور اسد کے ہونٹ عظمی کے ہاتھ کو‬
‫چومتے ھوے واپس پلٹے اور‬
‫اسد نے غصے سے عظمی کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے بوال‬
‫یار یہ کیا حرکت ھے‬
‫کیا میں اس الئک بھی نھی کہ‬
‫تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں ۔‬
‫تو عظمی بولی‬
‫نھی یاسر ابھی نھی ۔‬

‫جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے‬


‫نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح‬
‫بھی تمہارے قبضے میں ھوگی‬
‫مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔‬

‫اسد حیران ہوتے ھوے عظمی کی‬


‫طرف دیکھتے ھوے بوال‬

‫میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا‬


‫وقت‬
‫ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا۔‬

‫عظمی نے اسد کے چہرے کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے کہا‬
‫اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو‬

‫تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے‬


‫عظمی بولی شک نھی مگر تمہارے منہ‬
‫سے سننا چاہتی ہوں‬
‫اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے‬
‫کہا‬
‫ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے‬
‫پیار کرتا ھوں ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫مجھ سے شادی کرو گے نہ‬

‫اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے‬


‫ھوے کہا۔‬
‫ماں قسم کروں گا۔‬

‫عظمی بولی‬
‫کب‬
‫اسد بوال‬
‫جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫تو ایسا نھی ھوسکتا۔‬
‫کہ ہم جسمانی تعلق‬
‫سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔‬

‫یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے‬


‫کی ایک لہر آکر گزرگئی‬
‫مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور‬
‫پھر عظمی کو اپنی طرف کھینچتے‬
‫ھوے بوال‬

‫اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو‬


‫ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا‬
‫ھوں‬
‫مگر میری بھی ایک شرط ھے‬
‫عظمی خوش ھوکر بولی‬
‫میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں ۔‬

‫اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم‬


‫سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے‬
‫مگر آج موقع ھے‬
‫مجھے پیار تو کرنے دو۔‬
‫کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا‬
‫لہجہ روہانسہ ہوگیا‬
‫جیسے ابھی رونے لگا ھو۔‬

‫عظمی نے جلدی سے اسد کے گالوں پر‬


‫ھاتھ رکھ اور اپنے گالبی ہونٹ اسد کے‬
‫ہونٹوں پر رکھ کر چومنے لگ گئی‬
‫اندھا کیا چاہے‬
‫دو آنکھیں‬
‫اسد نے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ‬
‫عظمی اتنی جلدی مان جاے گی ۔‬
‫اور خود ھی فرنچ کس میں پہل کرے‬
‫گی‬

‫اسد بھی عظمی کے ہونٹ چومنے لگ‬


‫گیا۔‬
‫اور ساتھ ساتھ عظمی کی چادر بھی‬
‫اتارنے لگ گیا۔‬

‫اسد عظمی کا اوپر واال ہونٹ چوس رھا‬


‫تھا اور عظمی اسد کا نیچے واال ہونٹ‬
‫چوس رھی تھی ۔‬

‫اسد سے ذیادہ عظمی اپنا تجربہ استعمال‬


‫کر رھی تھی اور بڑی مہارت سے اسد‬
‫کے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اسکی‬
‫زبان کو اپنی زبان سے پکڑنے کی‬
‫کوشش کرتی عظمی کو اپنی مہارت‬
‫دیکھانا مہنگی پڑی‬
‫اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو‬
‫وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی‬
‫سمجھ رھا تھا‬
‫وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے‬
‫انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔‬
‫ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر‬
‫رھا ھوگا ۔‬
‫تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے‪ .‬۔‬

‫اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور‬


‫ساتھ ساتھ سوچوں میں گم‬
‫عظمی کے بڑے بڑے مموں کو ایک‬
‫ھاتھ سے باری باری پکڑ کر دبا رھا‬
‫تھا۔‬

‫عظمی نے دونوں ھاتھوں سے اسد کر‬


‫سر پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے‬
‫اپنے یار کے ہونٹ چوس رھی تھی‬
‫کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے‬
‫ھو ے عظمی کو بھی ساتھ لیٹانے لگا‬

‫عظمی بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی‬


‫گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف‬
‫منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رھے‬
‫تھے‬
‫اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے‬
‫لیے بے چین تھا اور عظمی کی پھدی‬
‫کے ساتھ لگ رھا تھا عظمی بھی مزے‬
‫میں ڈوب چکی تھی اور کچھ دیر پہلے‬
‫کی سوچ اس کے دماغ سے نکل چکی‬
‫تھی‬
‫اسکا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا‬
‫اعالن کررکھا تھا‬

‫اسد نے آہستہ اہستہ عظمی کو سیدھا لیٹا‬


‫دیا اور اسکی قمیض کے اندر ھاتھ ڈال‬
‫کر اس کے نازک اور نرم پیٹ پر‬
‫پھیرنے لگ گیا‬
‫عظمی کے سرور میں اور اضافہ ہوگیا‬
‫اور عظمی اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے‬
‫پر تُل گئی اسد نے جب عظمی کا جنون‬
‫دیکھا کہ یہ اب فل گرم ھوگئی ھے تو‬
‫اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا‬
‫شروع کردیا‬
‫اور آخر کار اسد کا ہاتھ عظمی کے‬
‫مموں تک پہنچ گیا‬
‫اور اسکا ہاتھ‬
‫آپے سے باہر آے ھوے مموں سے‬
‫چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گیا‬
‫عظمی اسد کے ہاتھ کے لمس سے مزید‬
‫بے چین ھوکر اپنی پھدی کو اسکے‬
‫پینٹ کے ابھار پر رگڑنے لگی‬

‫اسد کو بھی علم ھوگیا کہ‪ .‬لوہا اب‬


‫مکمل گرم ھو چکا ھے‬

‫تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ‬


‫نیچے لیجا کر اپنے پنٹ کی زپ کھولی‬
‫اور‬
‫انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ‬
‫سے باہر نکال لیا‬

‫اور پھر ھاتھ اوپر کر کے عظمی کے‬


‫مموں کو دبانے لگا‬
‫عظمی اپنی مستی میں گم تھی‬
‫اسے پتہ ھی نھی چال کہ‬
‫نیچے کیا واردات ھونے والی ھی‬
‫اسد نے لن عظمی کی شلوار کے اوپر‬
‫سے ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع‬
‫کردیا‬
‫عظمی نے لن کو اہنے چڈوں میں بھینچ‬
‫لیا اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی‬

‫اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ‬


‫نیچے لیجا کر عظمی السٹک والی‬
‫شلوار میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر‬
‫رکھ دیا پھدی تو پہلے نکو نک بھری‬
‫ہوئی تھی جیسے ھی اسد کی انگلیاں‬
‫عظمی کی مالئم پھدی سے ٹکرائیں‬
‫عظمی کے منہ سےلمبی سسکاری‬
‫نکلی‬
‫اور سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی گھوم کر‬
‫اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے اپنے‬
‫بازوں میں جکڑ کر کس لیا اور ساتھ‬
‫ھی چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو جکڑ لیا‬
‫اور پھدی سے ساون کی جھڑی شروع‬
‫ھوگئی جو جمعرات سے شروع ھو کر‬
‫اگلی جمعرات کو ھی ختم ھوتی ھے‬
‫اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور‬
‫عظمی کی سانسیں اکھڑنے لگی‬
‫اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں‬
‫بھی تھم گئی‬
‫اور عظمی کا جسم ڈھیال پڑ گیا‬
‫تو اسد نے جلدی سے گیلی پھدی سے‬
‫ھاتھ ہٹایا اور عظمی کی شلوار سے ھی‬
‫ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے اپنے‬
‫ساتھ چمٹی ھوئی عظمی کی گانڈ سے‬
‫شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے‬
‫نیچے کی‬
‫اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے‬
‫لگا‬

‫جیسے ھی عظمی کی پھدی کے ساتھ‬


‫اسد کا لن ٹچ ہوا‬
‫تو عظمی کو ایکدم ہوش آگیا اور وہ ا‬
‫سد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے‬
‫سینے پر رکھتے ھوے اسے زور سے‬
‫دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے‬
‫شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور‬
‫اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا‬
‫کرنے لگے تھے‬
‫عظمی کے اچانک دھکے سے‬

‫اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے‬


‫پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا‬
‫اور غصے اور حیرت کے ملے جلے‬
‫تاثرات سے عظمی کو گھورنے لگ گیا‬
‫۔‬
‫اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے‬

‫عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے‬


‫تھے‬

‫تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا‬


‫کر وعدہ کیا تھا‬
‫کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں‬
‫گے‬
‫مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے‬
‫اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اسد ۔ غصے سے بوال‬

‫یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ‬


‫اتنی پارسا بن رھی ھو۔‬

‫عظمی اسد کی پارسا والی بات سن کر‬


‫حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫اسد کیا مطلب ھے تمہارا‬

‫تو اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب‬


‫صاف ھے کہ‬
‫تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ‬
‫کروانے لگی ھو۔‬

‫عظمی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا‬


‫اور وہ جلدی سے اٹھی کر بیٹھ گئی اور‬
‫غصے سے بولی‬

‫کیا بکواس کر رھے ھو اسد‬

‫تو اسد ہنستے ھوے بولے بکواس نھی‬


‫سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے کر رھی‬
‫تھی‬
‫کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔‬
‫عظمی اسد کی بات اور طعنہ سن کر‬
‫رونے والی ھوگئی‬
‫اور روتے ھوے بولی‬
‫اسد بکواس بند کرو‬
‫میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور‬
‫تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر‬
‫سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر‬
‫پیار کیا کر لیا‬
‫تو تم‬
‫میری محبت میرے پیار میرے اعتماد‬
‫کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے‬
‫ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔‬
‫میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں‬
‫آگئی‬
‫اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر‬
‫تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی‬
‫آئی‬
‫خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی‬
‫شکل بھی دیکھائی‬
‫جھوٹے مکار‬

‫اور یہ کہتے ھوے عظمی نے اپنی‬


‫چادر اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔‬

‫تو‬
‫اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال‬
‫اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال‬

‫جا کدھر رھی ھو جان من‬


‫میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم‬
‫اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل‬
‫نھی رہو گی‬
‫اور‬
‫ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو‬
‫مگر جاو گی میری مرضی سے‬

‫چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر‬


‫سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو‬
‫مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا‬


‫کہ عظمی نے ایک ذور دار تھپڑ اسد‬
‫کے منہ پر مارا‬

‫اور روتے ھوے بولی‬


‫جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام‬
‫زادے‬

‫میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا‬


‫سب ڈرامہ کیا تھا‬
‫میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک‬
‫کر دیکھاو ۔‬
‫دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے‬
‫عظمی یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے‬
‫نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک‬
‫اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا‬

‫اس نے‬
‫عظمی کو بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ‬
‫سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا‬
‫اور خود عظمی کے پیٹ پر سوار‬
‫ھوگیا اور عظمی کے دونوں ہاتھ پکڑ‬
‫لیے عظمی ٹانگیں چال رھی تھی اور‬
‫اونچی آواز میں اسد کو گالیاں دے کر‬
‫ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی‬
‫اسد نے جیسے تیسے عظمی کے‬
‫دونوں ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک‬
‫ھاتھ میں کیں‬
‫اور ایک ذور دار تھپڑ عظمی کے منہ‬
‫پر مارتے ھوے بوال‬

‫ُچپ کر گشتئے‬
‫تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ‬
‫اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی‬
‫آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد‬
‫پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے‬

‫آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے‬


‫تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی‬
‫بیڈ پر چودتا ھوں‬
‫اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور‬
‫میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا‬
‫پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر‬
‫مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب‬
‫برابر ھوگا ۔‬
‫ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں‬
‫دو لن جائیں گے‬

‫اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ‬

‫اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے‬


‫تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں‬
‫نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی‬
‫عظمی اسد کا تھپڑ کھانے اور اسکی‬
‫دھمکیاں سننے کے بعد سہم گئی اور‬
‫انکھیں پھاڑے اسد کو دیکھی جارھی‬
‫تھی‬
‫اسد کے خاموش ہوتے ھی‬
‫عظمی بولی‬
‫چھوڑ مجھے کتے‬
‫میں یاسر کو بتاوں گی‬
‫اور اپنے ابو کو بھی‬

‫تو اسد غصے سے بوال‬

‫جا دس دے جنوں دسنا ای‬


‫لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری‬
‫ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی‬

‫عظمی اب خود کو بے بس محسوس‬


‫کرنے لگ گئی تھی‬
‫ایک تو انجان جگہ دوسرا وہ اکیلی‬
‫جان‬
‫اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا‬
‫لیا تو میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔‬

‫عظمی نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات‬


‫کا اثر نھی ھورھا تو‬
‫عظمی نے روتے ھوے اسد کی منتیں‬
‫شروع کردیں اور‬
‫بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ‬
‫مجھے جانے دو‬

‫تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی‬


‫اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا‬
‫بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا‬
‫بیتے گی‬
‫میری عزت نہ خراب کرو‬
‫میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں‬
‫گے‬
‫اسد نے اسکی بات سنی ان سنی کی اور‬
‫پیچھے ھو کر عظمی کی ٹانگوں کے‬
‫پاس پہنچ کر اسکی شلوار پکڑ کر‬
‫نیچے کھینچ دی ۔عظمی نے ایک ذور‬
‫دار چیخ ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ‬
‫آگے کی اور پورے زور سے اپنی‬
‫ٹانگ اسد کے لن پر ماری ۔‬
‫اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا‬
‫اور ایک ذور دار چیخ مارے‬
‫ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن‬
‫کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ‬
‫سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی‬
‫باہر کا دروازہ دھڑم دے کھال اور۔۔۔‬
‫عظمی نے جیسے ھی دروازے کی‬
‫طرف دیکھا۔‬
‫عظمی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے‬
‫کا نیچے رک گیا ۔‬
‫اکری دروازے کے دونوں اطراف بازو‬
‫رکھ کر آنکھیں پھاڑے کبھی عظمی کی‬
‫طرف دیکھتا تو کبھی لن پر ہاتھ رکھے‬
‫فرش پر تڑپتے ہوے اسد کی طرف‬
‫دیکھتا ۔‬

‫اور پھر اکری کی کرخت دار آواز‬


‫کمرے میں گونجی ۔‬

‫او پرجائی اے کی کیتا ای ۔‬

‫اسد رندھی آواز میں بوال۔‬


‫اکری پکڑ اس گشتی کو بھاگنے نہ پاے‬
‫۔‬
‫عظمی بیڈ سے نیچے اتری اور باہر‬
‫بھاگنے لگی تو‬

‫اکری نے بازو ہوا میں لہرایا اور اپنے‬


‫ہاتھ کے پنجے کو کھول کر عظمی کے‬
‫منہ کی طرف کرتے ھوے بوال‬
‫رک جا پرجائی ایتھے ای ۔‬

‫عظمی اکری کی آگ کی طرح دھکتی‬


‫غضب ناک آنکھوں کو دیکھ کر اور اس‬
‫کی کرخت دار دھمکی آمیز آواز سن کر‬
‫سہم کر اسی جگہ بت بن کر کھڑی‬
‫ہوگئی اور‬
‫بری طرح کانپنے لگی ۔‬
‫اکری اپنی لمبی ٹانگوں سے دوقدم بڑھ‬
‫کر عظمی کے سر پر پہنچ گیا اور‬

‫عظمی کے سامنے کھڑا ہوکر‬


‫اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اپنا بڑا سا پنجہ‬
‫کھول کر عظمی کے سر پر رکھ کر‬
‫بوال ۔‬

‫پرجائی کی ہویا جیڑا توں میرے یار‬


‫نوں تڑفا کے پج چلی آں ۔‬

‫عظمی روتے ہوے بولی‬


‫مجھے جانے دو تمہیں ******* کا‬
‫واسطہ‬
‫تمہارا یہ دوست مجھے بہکا کر یہاں‬
‫الیا ھے‬
‫اور میری عزت لوٹنا چاہتا ہے۔‬

‫اسد بوال اکری پھینک اسکو بیڈ پر اور‬


‫اس کی پھدی پھاڑ دے میری طرف‬
‫سے اجازت ھے ۔‬

‫اکری نے غصے سے اسد کہ طرف‬


‫دیکھا اور اسکی طرف ہاتھ کا اشارہ کر‬
‫کے بوال‬
‫ٹھنڈ رکھ اوے منڈیا‬
‫مینوں ایس کڑی نال گل کرلین دے۔‬
‫اسد ہاےےےےے کرتا ھوا خاموش‬
‫ہوگیا‬

‫اکری عظمی کی طرف دیکھ کر بوال۔‬


‫تم اس کے ساتھ اپنی مرضی سے نھی‬
‫آئی عظمی بولی‬
‫یہ مجھے بہکا کر الیا ھے مجھ سے‬
‫پیار کے دعوے کرتا تھا ۔‬
‫مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا‬
‫مگر یہاں آکر یہ میری عزت لوٹنا چاھتا‬
‫ہے ۔‬

‫آپ کی مہربانی بھائی جان‬


‫ہم غریب لوگ ہیں‬
‫مجھے جانے دیں‬
‫اکری عظمی کی بات سن کر بوال‬
‫دیکھ کڑیئے‬
‫توں مینوں پرا کیا اے تے فیر گل سن‬
‫میری‬
‫چپ کر کے ایتھے بیٹھ جا‬
‫اے اکری دا ڈیرہ اے ۔‬
‫کسے للو پنجو دا نئی‬
‫تے میرے وی کج اصول نے‬
‫کوئی لوڑ‬
‫صبر کر تے تینوں ڈرن دی ٰ‬
‫نئی‬
‫اکری نے ساری ذندگی کسے دی عزت‬
‫نہ تے لُٹی اے تے نہ ای کسے نوں‬
‫ذبردستی کسے دی دھی پین دی عزت‬
‫لُٹن دتی اے ۔‬
‫میں ذرا ایس ُمنڈے نال وی گل کر‬
‫لیواں۔‬

‫اسد اتنی دیر تک لن پر ہاتھ رکھے بیڈ‬


‫پر بیٹھ گیا تھا اور اب بھی تکلیف سے‬
‫اسکا بُرا حال تھا۔‬

‫اکری چلتا ھوا‬


‫اسد کے پاس گیا اور اس سے پوچھا‬
‫تم اس سے شادی کرنا چاھتے ھو۔‬

‫اسد نفی میں سر ہالتے ھوے بوال‬


‫نھی یار میں تے ایدی پُھدی مارن‬
‫واسطے ایتھے لے کے آیا سی‬
‫پر ایس گشتی نے میرے ٹٹیاں تے لت‬
‫ماردتی اے ھاےےےےے‬

‫اکری کا رنگ سرخ ہوتا جارھا تھا‬

‫اکری بوال۔‬

‫ایس دا مطبل اے کے توں میرے نال وہ‬


‫جھوٹ بولیا کہ‬
‫اے میری ہون والی پرجائی اے۔‬

‫اسد بوال چھڈ یار‬


‫ایس گشتی نوں لمے پا تے ایدی اج‬
‫پھدی پاڑ دے‬

‫اسد کے منہ سے اکری نے جب یہ بات‬


‫سنی‬
‫تو اس نے ایک نظر عظمی کی طرف‬
‫دیکھا‬
‫اور ایک زناٹے دار تھپڑ‬
‫اسد کے منہ پر ماردیا ۔‬

‫اسد قالبازی کھا کر بیڈ سے نیچے گرا‬

‫اور اکری بوال‬


‫ُکتے دیا پُترا‬
‫توں مینوں کنجر سمجھیا اے‬
‫اسی عزتاں دے رکھوالے آں کوئی‬
‫بےغیرت نئی‬

‫تیری اینی جرات کے اکری نوں توکھا‬


‫دے کہ کسے شریف ُکڑی دی عزت‬
‫نوں ہتھ پاویں‬

‫ایس توں پیالں کے میں تیری بُنڈ وچ‬


‫فائر نار دیواں‬
‫پج جا ایتھوں‬
‫گندی نسل دیا۔‬
‫اسد کا رنگ پیال پڑ گیا اور عظمی کی‬
‫طرف گھورتے ھوے بوال۔‬
‫اکری‬
‫تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے‬
‫مجھے اس کے سامنے بےعزت‬
‫کررھے ھو اپنی ساری یاری بھول‬
‫گئے‬

‫اس سے پہلے کے اسد مذید کچھ کہتا۔‬

‫اکری نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈاال اور‬


‫دھوتی میں سے پسٹل نکال کر بولٹ‬
‫مار کر اسد کی طرف کرتے ھوے بوال‬
‫بکواس بند کر اوے ُکتے دیا پُترا‬
‫ہن اک سیکنڈ وی ایتھے ُرکیا تے تیری‬
‫بُنڈ وچ فائر ماردینا اے‬

‫تیرے نال چار دن چنگے لنگے نے تے‬


‫ہن تک بچیا ہویاں اے‬

‫نئی تے تیری الش وی تیرے کار والیاں‬


‫نوں نئی لبنی سی۔‬

‫پج جا ایتھوں‬
‫نئی تے میں سب کج پُل جاناں اے‬

‫عظمی نے جیسے ھی اکری کے ہاتھ‬


‫میں ریوالور دیکھا تو عظمی کی چیخ‬
‫نکلی مگر آواز ہلک میں اٹک گئی اور‬
‫دونوں ھاتھ منہ پر رکھ کر کبھی اکری‬
‫کی طرف دیکھتی تو کبھی اسد کی‬
‫طرف‬

‫اسد کی بھی گانڈ پھٹنے والی ہوگئی‬


‫وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اکری جو‬
‫کہتا ھے وہ کرنے میں دیر بھی نھی‬
‫کرتا۔‬

‫اسد نے کھسکنے میں ھی اپنی عافیت‬


‫سمجھی‬
‫اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے‬
‫لڑکھڑاتا ھوا کمرے سے باہر جانے‬
‫لگا‬
‫تو اکری نے پھر‬
‫اسے مخاطب کیا‬

‫اوے گل سن‬
‫اک گل کن کھول کے سن لے جے اج‬
‫توں بعد‬
‫توں ایس کڑی دے آسے پاسے وی نظر‬
‫آیا ناں تے او دن تیرا آخری دن ہوے گا۔‬

‫اے ُکڑی ہن کوئی معمولی نئی بلکہ‬


‫اے اکری دی پین اے‬
‫پین‬

‫سمجھ آئی کہ نئی ۔‬

‫اسد نے صرف اثبات میں ھی سر ہالیا‬


‫اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا‬
‫۔۔‬
‫اسد کے جاتے ھی‬
‫اکری عظمی کی طرف مڑا اور اس‬
‫کے سر پر ہاتھ پھیر کر بوال‬
‫گبھرا نہ ہن‬
‫توں اے ای سمجھ اپنے کار وچ ای‬
‫بیٹھی ایں‬
‫عظمی ایکدم اٹھی اور اکری کے پاوں‬
‫میں گر گئی اور اونچی آواز میں رونے‬
‫لگ گئی‬
‫اور اسکا شکریہ ادا کرنے لگ گئی‬
‫جیسے ھی عظمی اکری کے پاوں میں‬
‫گری تو اکری جلدی سے ایک قدم‬
‫پیچھے ہٹا اور‬
‫اسے بازوں سے پکڑ کر اٹھایا اور‬
‫پھر اسکے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے‬
‫بوال‬
‫۔ھے ناں کملی‬

‫ایویں مینوں گناہ گار کرن دئی ایں‬


‫چل چادر لے سر تے‬
‫میرا نوکر تینوں سکول چھڈ آندا اے‬
‫اتنے میں اکری نے دروازے کہ طرف‬
‫منہ کر کے آواز دی اوے غفورے‬

‫تو اسی وقت ایک لمبا چوڑا بڑی بڑی‬


‫مونچھوں واال خطرناک بدشکل سا‬
‫کندھے پر گن لٹکاے اندر داخل ہوا اور‬
‫ادب سے سر جھکا کر بوال جی سائیں‬
‫۔تو اکری بوال جا ایس کڑی نوں ایدے‬
‫سکول چھڈ آ ۔‬

‫تو وہ پھر ادب سے بوال‬


‫جو حکم سائیں‬
‫اور باہر جانے لگا تو‬
‫اکری نے پھر اسے آواز دی کے گل‬
‫سن نالے‬

‫او چھور اسد‬


‫جے ایدے اگے پچھے وی نظر آوے‬
‫ناں تے اودیاں لتاں وچ فائر ماردیویں‬
‫تو غفورا جی سائیں کہتا ھوا باہر نکل‬
‫گیا‬

‫عظمی شکر ادا کررھی تھی اور اسے‬


‫اپنے آپ پر غصہ بھی آرھا تھا‬
‫اور جسے وہ ایک خطرناک بدمعاش‬
‫سمجھ رھی تھی آج اسکی وجہ سے ہی‬
‫اسکی عزت بچی‬
‫اور جسے عزت کا رکھواال سمجھ رھی‬
‫تھی‬
‫وہ ھی اسکی عزت کو تار تار کرنے‬
‫واال نکال ۔‬

‫عظمی پھر اکری کے سامنے ہاتھ‬


‫جوڑتے ھوے بولی بھائی آپ کا شکریہ‬
‫میں کیسے ادا کروں‬
‫اکری ہنستے ھوے بوال‬
‫پیناں ویراں دا شکریہ ادا نئی کردیاں‬
‫ہوندیان‬

‫میں تے اے سوچ سوچ کے پریشان‬


‫ھوندا پیاں واں‬
‫کہ جے او کنجر دا پتر تیری عزت لٹ‬
‫لیندا تے ۔۔‬

‫میں تاں کدی وی اپنے آپ نوں معاف‬


‫نئی کرنا سی‬
‫کہ میری حویلی وچ کسے شریف کڑی‬
‫دی عزت لٹی جاوے او وی اکری دے‬
‫یار دے ہتھوں ۔‬

‫مینوں پیلے پتہ ہندا کہ‬


‫اے کتے دا پتر تینوں توکھے نال لیایا‬
‫سی تے‬
‫میں گل ایتھے تک وی نئی پُنچن دینی‬
‫سی‬

‫خیر چنگا ھو یا توں جو وی اودے نال‬


‫کیتا‬

‫تے گل سن‪ .‬اگوں جے اے تینوں تنگ‬


‫کرے تے‬
‫بس اک واری اپنے ویر نوں دس دیویں‬

‫فیر ایسا جو حال ہوے گا‬


‫سارا شہر کناں نوں ہتھ الوے گا۔‬

‫اور یہ کہتے ھو اکری‬


‫عظمی کو اپنے ساتھ لگاے ھوے‬
‫کمرے سے باہر آیا‬
‫اور حال سے ہوتا ھوا‬
‫باہر حویلی میں اگیا‬
‫سامنے ھی ایک جیپ کھڑی تھی جس‬
‫میں غفورا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا‬
‫عظمی کا انتظار کر رھا تھا‬
‫عظمی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی جیپ کے‬
‫پاس پہنچی ۔‬
‫اور‬
‫اچانک عظمی کو خیال آیا کہ اسکا پیپر‬
‫واال دستہ اور ایک بُک تو اسد کی کار‬
‫میں ھی رھی گئی‬
‫تھی‬
‫وہ مڑی اور اکری کی طرف دیکھنے‬
‫لگی مگر اس سے بولنے کی ہمت نھی‬
‫ھورھی تھی‬
‫اکری نے جب عظمی کو اپنی طرف‬
‫دیکھتے ھوے‬
‫دیکھا‬

‫تو چلتا ھوا عظمی کے قریب آیا‬


‫اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے‬
‫ھوے بوال کی گل اے پُتر۔‬
‫عظمی گبھرائی ہوئی آواز میں بولی‬
‫وووووو بببھائی جان‬
‫میری بک اور میرا دستہ اس کی کار‬
‫میں رھ گیا ھے ۔‬
‫اکری کچھ سوچتے ھوے بوال‬
‫وہ تجھے مل جاے گا‬
‫پریشان نہ ہو۔‬

‫عظمی بولی میرا ابھی پیپر ھے‬


‫تو میں پیپر کیسے دوں گی ۔‬

‫تو اکری نے غفورے کو کہا کہ‬


‫اوے غفورے کڑی نوں جیڑی شے‬
‫چائی دی ھوے اینوں رستے وچوں لے‬
‫کے دے دیویں تے فیر سکولے چھڈ‬
‫کے آویں ۔‬
‫غفورا جی سائیں کہہ کر چپ ھوگیا ۔‬

‫تو اکری عظمی کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے بول جا میرا پتر جیڑی شے چائی‬
‫دی اے غفورے نوں دس دیویں تینوں‬
‫لے دے گا۔‬

‫عظمی پھر اکری کا شکریہ ادا کرتی‬


‫ھوئی‬
‫لُنڈی جیپ میں سوار ھوئی اور غفورا‬
‫جیپ گیٹ سے باہر لے گیا اور جیپ کا‬
‫رخ شہر کی طرف کردیا‬

‫راستے میں ایک بک ڈبو سے اس نے‬


‫نئی بک لی اور پھر غفورا اسے سکول‬
‫کے پاس لے کر پہنچا جیسے ھی‬
‫عظمی جیپ سے اترنے لگی تو اسکی‬
‫نظر جیسے ھی سامنے سے آتے ھوے‬
‫یاسر پر پڑی جو اسی کی ھی طرف‬
‫دیکھ رھا تھا۔‬

‫عظمی کا ڈر کے مار حلق خشک ہوگیا‬


‫اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اسد دیار یار سے بےعزت ہو کر گاڑی‬


‫بھگاتا ھو شہر کی طرف جانے لگا‬
‫اسکو عظمی پر اور اکری پر بہت‬
‫غصہ آرھا تھا‬
‫اور وہ سارا غصہ گاڑی کے گئیر پر‬
‫نکال رھا تھا ۔‬

‫اسکو ذرہ سی بھی امید نھی تھی کہ یوں‬


‫عظمی کے ساتھ ساتھ اپنے دوست سے‬
‫بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔ٹٹوں میں تکلیف‬
‫اب بھی ھو رھی تھی اور‬
‫اسد بار بار کبھی ٹٹوں کو پکڑ کر ہلکا‬
‫سا دباتا تو کبھی اکری کے پڑے تھپڑ‬
‫کی وجہ سے گال پر ہوتی جلن پر ہاتھ‬
‫رکھ کر گال کو مسلتا ہوا‬
‫غصے میں گاڑی کی رفتار حد سے‬
‫ذیادہ کر کے گاڑی کو ہوا میں اڑا رھا‬
‫تھا‬
‫اسے سمجھ نھی آرھی تھی کہ کدھر‬
‫جاے‬
‫سکول جانے کو تو اسکا دل نھی کررھا‬
‫تھا۔‬

‫ایسے میں وہ شہر میں داخل ھوگیا اور‬


‫پھر اس نے سوچا کہ چلو گھر ھی چلتا‬
‫ہوں‬
‫پھر اسکو خیال آیا کہ مما تو بوتیک پر‬
‫چلی گئی ھوگی اور مہری بھی کالج‬
‫چلی گئی ھوگی‬
‫اور آج تو اس کے پاس گھر کی چابی‬
‫بھی نھی ھے‬
‫صبح پھدی کے چا میں چابی بھی لینا‬
‫بھول گیا ۔‬

‫پھر اس نے سوچا کہ‬


‫مما سے چابی لے کر طبعیت خراب‬
‫ہونے کا بہانہ بنا کر گھر چال جاوں گا‬
‫تو اس نے کار بازار کی طرف موڑ لی‬
‫اور‬
‫بازار میں رش تھا تو گاڑی کی سپیڈ‬
‫بھی اسے آہستہ کرنی پڑی‬

‫ابھی وہ اپنی مما کے بوتیک سے کچھ‬


‫ھی پیچھے تھا کہ اسکی کار کے اگے‬
‫ایک سائکل واال آگیا جس کہ وجہ سے‬
‫اسے بریک مارنا پڑی‬
‫اور ساتھ ھی اسد نے ہارن بھی بجا دیا‬
‫اور شیشے سے دوسری طرف دیکھا‬
‫تو اسے ایک دکان کے باہر بیٹھا ھوا‬
‫یاسر نظر آیا جو بڑے غصے سے‬
‫اسکی طرف دیکھ رھا تھا جیسے ابھی‬
‫اسکو قتل کردے گا‬

‫اسد کہ دماغ میں فورن جھماکہ ھوا کہ‬


‫کہیں اسے پتہ تو نھی چل گیا‬
‫اور اس نے جلدی سے منہ دوسری‬
‫طرف کیا اور‬
‫گاڑی کو بھگا کر ایک گلی میں لے گیا‬
‫اور شکر ادا کیا‬
‫کہ اس مصیبت نے اسکا پیچھا نھی کیا‬
‫اور کار دوسرے بازار کی طرف لے‬
‫گیا ۔‬
‫‪+++++++++++++++++‬‬

‫میں پریشان حال چلتا ہوا عظمی کے‬


‫سکول کی طرف جارھا تھا‬
‫میرے دماغ میں جھماکے ھورے تھا‬
‫ایک ھی دن میں مجھکو ڈبل پریشانی‬
‫نے گھیر لیا‬
‫ابھی تو میں صدف سے ہوئی اپنی‬
‫بےعزتی کو نھی بھوال تھا کہ اوپر سے‬
‫یہ اسد کا یوں گبھرا کے میری طرف‬
‫دیکھنا اور پھر جلدی سے گاڑی کو‬
‫بھگا کر لے جانا۔‬
‫مجھے اضطراب میں ڈالے ھوے تھا‬
‫میرے قدم بوجھل ھوچکے تھے چلنا‬
‫مجھ سے محال ھورھا تھا‬
‫دماغ تو پھٹنے واال تھا ]‬

‫مجھے پورا یقین ھو چکا تھا‬


‫کہ عظمی آج سکول نھی گئی بلکہ اسد‬
‫کے ساتھ کار میں رنگ رلیاں مناتی‬
‫پھر رھی ھے‬
‫اور اسد نے جب مجھے دیکھا تو گبھرا‬
‫کر اسی لیے بھاگا کہ کہیں میں عظمی‬
‫کو اسکے ساتھ دیکھ نہ لوں ۔مگر آج‬
‫میں دودہ کا دودھ اور پانی کا پانی کر‬
‫کے ھی رہوں گا‬

‫مجھے آج اپنی بے بسی پر بھی غصہ‬


‫آرھا تھا‬
‫کاش میرے پاس موٹرسائیکل ہوتی تو‬
‫آج میں اسد اور عظمی کو یوں بھاگنے‬
‫نہ دیتا بلکہ میں موٹرسائیکل پر اسد کی‬
‫گاڑی کا پیچھا کرتا اور ان دونوں کو‬
‫رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا۔‬

‫مگر میرا تو آج کا دن ھی منحوس‬


‫جارھا تھا‬
‫ایسے ھی خیالوں میں چلتا ھوا میں‬
‫سکول والی گلی میں داخل ھوا اور‬
‫عظمی کے سکول کی طرف بڑھنے لگا‬
‫میں ابھی گیٹ سے کچھ پیچھے ھی تھا ۔‬
‫کہ مجھے ایک لُنڈی جیپ آتی ہوئی نظر‬
‫آئی جسکی فرنٹ سیٹ پر ایک بڑی‬
‫بڑی مونچھوں واال بدمعاش بیٹھا ھوا تھا‬
‫اور‬
‫ساتھ میں ایک نقاب پوش لڑکی ]‪[/size‬‬
‫بیٹھی ہوئی تھی‬

‫میں گیٹ کے قریب تھا اور ]‪[/size‬‬


‫جیب کچھ فاصلے پر تھی‬
‫اس سے پہلے کہ میں جیپ کی ]‪[/size‬‬
‫طرف سے نظر کو ہٹاتا جیپ بلکل‬
‫میرے سامنے کچھ فاصلے پر آکر رکی‬
‫تو جیسے ھی میری نظر اس نقاب پوش‬
‫لڑکی پر پڑی ۔‬

‫میرے تو پاوں تلے سے زمین ]‪[/size‬‬


‫ھی نکل گئی‬

‫وہ لڑکی کوئی اور نھی بلکہ ]‪[/size‬‬


‫عظمی تھی‬
‫اور عظمی نے بھی مجھے ]‪[/size‬‬
‫دیکھ لیا تھا اور اس کی آنکھوں سے‬
‫گبھراہٹ صاف نظر آرھی تھی‬

‫عظمی جیپ سے نیچے اتری ]‪[/size‬‬


‫اور آہستہ آہستہ چلتی میری طرف آرھی‬
‫تھی‬
‫اور میں بت بنا کبھی عظمی کی ]‪[/size‬‬
‫طرف دیکھتا تو کبھی اس مونچھوں‬
‫والے بدمعاش کی طرف‬
‫وہ بدمعاش بھی پہلے ادھر ادھر ]‪[/size‬‬
‫دیکھ رھا تھا ۔‬
‫پھر اسکی مجھ پر نظر پڑی کہ ]‪[/size‬‬
‫میں عظمی کو دیکھ رھا ہوں تو وہ‬
‫مجھے گھورنے لگ گیا۔‬

‫عظمی چلتی ھوئی میرے قریب ]‪[/size‬‬


‫سے نظریں جھکائے گزرنے لگی تو‬
‫میں نے‬
‫اسکو بازو سے پکڑ لیا اور ]‪[/size‬‬
‫پوچھنے لگا کہ‬
‫کدھر سے آرھی ھو اور یہ ]‪[/size‬‬
‫بدمعاش کون ھے ۔‬

‫اتنے میں وہ بدمعاش چھالنگ ]‪[/size‬‬


‫مارتے ھوے گاڑی سے اترا اور پیچھے‬
‫سے بڑی سی گن اٹھا کر سیدھی میری‬
‫طرف کردی اور بوال‬
‫ہتھ چھڈ اوے کڑی دا ]‪[/size‬‬
‫عظمی نے جب دیکھا کہ اسکے ]‪[/size‬‬
‫ساتھ آنے واال بدمعاش مجھے گولی‬
‫مارنے پر اتر آیا ھے ۔‬
‫تو عظمی جلدی سے میرے ]‪[/size‬‬
‫آگے ہوگئی اور بولی نھی‬
‫بھا غفورے ]‪[/size‬‬
‫اینوں ُکج نئی کیناں اے تے ]‪[/size‬‬
‫میری خالہ دا پتر اے ۔‬
‫اس بدمعاش ٹائپ بندے نے ]‪[/size‬‬
‫جسکو عظمی بھا غفورے کہہ رھی تھی‬
‫۔‬
‫اس نے عظمی کے کہنے پر ]‪[/size‬‬
‫گن نیچے کر لی ۔‬

‫اور مجھے گھورتا ھوا واپس ]‪[/size‬‬


‫جیپ میں بیٹھ گیا‬

‫اس ُمچھل کو اور اسکو یوں ]‪[/size‬‬


‫مجھ پر گن تانے دیکھ کر ایک دفعہ تو‬
‫میری بھی ہوا نکل گئی تھی‬
‫اور میں آنکھیں پھاڑےکبھی ]‪[/size‬‬
‫عظمی کو دیکھتا اور کبھی اس بدمعاش‬
‫کو۔‬

‫عظمی مجھ سے بولی یاسر ]‪[/size‬‬


‫ابھی جاو‬
‫چھٹی کے وقت مجھے لینے ]‪[/size‬‬
‫اجانا‬
‫پھر تمہارے سب سوالوں کے ]‪[/size‬‬
‫جواب دے دوں گی‬
‫تمہیں]‪[/size‬‬
‫*****]‪[/size‬‬
‫کا واسطہ ابھی تم ادھر سے ]‪[/size‬‬
‫چلے جاو‬
‫میں تمہارا انتظار کروں گی ۔]‪[/size‬‬
‫اور یہ کہتے ھوے عظمی ]‪[/size‬‬
‫سکول میں داخل ھوگئی اور عظمی کے‬
‫اندر داخل ھوتے ھی‬
‫وہ بدمعاش گاڑی کو گھما کر ]‪[/size‬‬
‫ایک دفعہ پھر مجھے گھورتا ھوا‬
‫چال گیا ]‪[/size‬‬
‫اور میں بت بنے اس نئے گھن ]‪[/size‬‬
‫چکر کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔‬

‫عظمی سکول میں داخل ہوگئی اور جو‬


‫شخص اسے چھوڑنے آیا تھا وہ بھی چال‬
‫گیا‬
‫مگر میں بت بنا ادھر ھی کھڑا سوچتا‬
‫رھا کہ‬
‫اگر عظمی اسد کے ساتھ تھی تو اس‬
‫شخص کے ساتھ کیسے اتنی جلدی ادھر‬
‫آگئی؟؟؟‬

‫اور اگر یہ اسد کے ساتھ نھی تھی تو اسد‬


‫مجھے دیکھ کر بھاگا کیوں ؟؟؟؟؟‬

‫اور یہ بدمعاش ٹائپ کا شخص کون تھا‬


‫جو عظمی کا ھاتھ پکڑنے پر مجھے‬
‫مارنے پر تل گیا تھا؟؟؟؟؟‬

‫نہ تو یہ کوئی عظمی کا رشتہ دار تھا نہ‬


‫ھی کوئی ینگ خوبصورت تھا کہ‬
‫اسکے ساتھ عظمی کا چکر ھو بلکہ یہ‬
‫تو عظمی کہ باپ کی عمر کا تھا تو آخر‬
‫یہ تھا کون؟؟؟؟؟؟‬

‫عظمی گھر سے صبح چھ بجے کی‬


‫نکلی ہوئی ھے اور اب دس بجنے والے‬
‫ہیں اور یہ چھ بجے کی گھر سے آئی‬
‫اب سکول پہنچی ھے وہ بھی ایک‬
‫بدمعاش شخص کے ساتھ چار گھنٹے‬
‫گزارنے کے بعد‬
‫یہ چکر کیا ھے؟؟؟؟؟؟‬
‫یہ سوال میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا‬
‫رھے تھے‬
‫اور میں سکول کے گیٹ کے پاس بت‬
‫بنا کھڑا اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک‬
‫مجھے کسی نے کندھے سے ہالیا۔‬
‫تو میں خیالوں کی بستی سے باہر نکل‬
‫کر مخاطب کرنے والے کی طرف‬
‫متوجہ ھوا تو ۔‬
‫گارڈ کی وردی پہنے ھوے ایک شخص‬
‫میرا کندھا ہال کر پوچھ رھا تھا‬
‫کہ بھائی کس سے ملنا ھے‬
‫میں نے جب غور کیا تو وہ سکول کا‬
‫گارڈ تھا‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا ۔وہ‬
‫میں اپنی کزن کو چھوڑنے آیا تھا‬
‫تو اس لیے ادھر ھی کھڑا ہوگیا ۔‬

‫تو وہ گارڈ بوال بھائی یہاں لڑکوں کا‬


‫کھڑا ھونا ممنوع ھے ۔آپ اس طرف‬
‫چلے جائیں یا جب چھٹی ھو جاے تب‬
‫آجانا ۔۔‬

‫میں اثبات میں سرہالتا ھوا‬


‫ادھر سے چل پڑا مجھے تو اب سمت کا‬
‫بھی نھی اندازہ ھورھا تھا‬
‫کہ اب میں جا کدھر رھا ھوں میری‬
‫منزل کونسی ھے میرا پڑاو کہاں پر‬
‫ھے ۔‬

‫میں کچھ دیر ایسے ھی چلتا ہوا‪ ،‬بوائز‬


‫سکول کے پاس پہنچ گیا‬
‫اتنی دیر میں کچھ سوچنے کے قابل ھوا‬
‫کہ اب دکان پر جاوں یا ادھر ھی عظمی‬
‫کی چھٹی کا انتظار کروں ۔‬
‫میرا میرے دماغ میں اٹھتے ھوے‬
‫سوالوں کا جواب عظمی سے سننے کا‬
‫تجسس مجھے دکان پر جانے سے روک‬
‫رھا تھا ۔‬
‫مگر مسئلہ یہ بھی تھا کہ انکل کو بھی‬
‫میں بس یہ ھی بتا کر آیا تھا کہ‬
‫میں ابھی آیا‬
‫وہ بھی میرے واپس نہ انے کی وجہ‬
‫سے پریشان ہوں گے۔‬

‫اب یہ بھی نھی پتہ تھا کہ عظمی کو‬


‫چھٹی کس وقت ھونی ہے‬

‫کیوں کہ ابھی تو پیپر شروع ھوا ھوگا‬


‫اور اسکے بعد کب چھٹی ھونی ھے‬
‫اسکا بھی مجھے کنفرم نھی تھا۔‬

‫میں کچھ دیر کھڑا پھر سوچتا رھا‬


‫اور پھر واپس گرلز سکول کی طرف‬
‫چل پڑا گیٹ بند ھوچکا تھا‬
‫میں نے گیٹ کے پاس پہنچ کر گیٹ پر‬
‫دستک دی تو گیٹ کی ایک چھوٹی سی‬
‫کھڑکی کھلی اور اسی گاڈ نے سر باہر‬
‫نکاال اور مجھے دیکھ کر گھورتا ھوا‬
‫بول‬
‫جی بھائی اب کیا ھے ۔‬

‫میں نے کہا ججییی سر معاف کرنا‬


‫وہ میں نے پوچھنا تھا کہ چھٹی کب‬
‫ھونی ھے‬
‫تاکہ میں اندازہ کرسکوں کہ میں ادھر‬
‫ھی کھڑ ا ھوکر انتظار کرلوں یا پھر‬
‫گھر چال جاوں ۔‬

‫گارڈ نے حیرت سے مجھے اوپر سے‬


‫نیچے دیکھ کر کہا‬
‫۔پہلی دفعہ آے ھو کیا۔‬

‫میں نے نھی سر میں پہلے صرف‬


‫چھوڑنے آتا تھا‬
‫مگر آج گھر ضروری کام ھے اس لیے‬
‫میں نے دکان سے چھٹی کی ھے تو‬
‫سوچا کزن کو ساتھ ھی لیتا جاوں‬
‫میرے دماغ میں جو بہانہ آیا وہ لگادیا۔‬
‫جبکہ یہ بہانہ معقول نھی تھا‬
‫دماغ حاضر ھوتا تو سیدھی طرح کہدیتا‬
‫کہ ۔پہلے میری دوسری کزن بھی آتی‬
‫تھی اس لیے میں نھی لینے آتا تھا مگر‬
‫آج یہ اکیلی آئی ھے اس وجہ سے‬
‫مجھے آنا پڑا۔‬

‫خیر‬

‫گارڈ بوال‬
‫بھائی جی‬
‫دو بجے چھٹی ھونی ھے‬
‫آپ گھر چلے جاو یا اپنی دکان پر‬
‫اور ساتھ ھی اسکا سر غائب ھوا اور‬
‫کھڑکی بند ھوگئی ۔‬

‫میں کچھ دیر سوچتا رھا اور تذبذب کا‬


‫شکار رھا‬
‫پھر دکان کی ھی طرف چل پڑا‬
‫کچھ دیر بعد دکان پر پہنچا‬
‫اور انکل سے جھوٹ بول کر بہانہ کیا‬
‫اور پھر دکان پر کام میں مصروف‬
‫ھوگیا۔‬

‫میرا دھیان بار بار گھڑی کی ھی طرف‬


‫تھا‬
‫آخرکار ایک بج گیا‬
‫اور‬
‫میری بے چینی مذید بڑھ گئی‬
‫مذید آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد میں نے‬
‫انکل سے بہانہ کیا کہ میں نے دوائی‬
‫لینے جانا ھے میری طبعیت کچھ ذیادہ‬
‫ھی خراب ھورھی ھے‬
‫تو انکل نے خوشی سے مجھے چھٹی‬
‫دی اور جیب سے پچاس روپے نکال کر‬
‫مجھے دئیے کی بیٹا یہ لو دوائی بھی‬
‫لے لینا اور پیدل مت جانا تانگے پر‬
‫چلے جانا‬

‫میں نے پچاس روپے پکڑ کر جلدی سے‬


‫جیب میں ڈالے اور‬
‫انکو سالم کر کے سکول کی طرف چل‬
‫دیا۔‬
‫سکول کے پاس پہنچا تو گیٹ کے‬
‫اطراف میں پہلے سے اپنی بچیوں اور‬
‫بہنوں کو لیجانے والوں کا کافی رش تھا‬

‫میں بھی کچھ آگے جاکر کھڑا ھوگیا۔‬

‫کوئی پندرا منٹ بعد چھٹی ھوئی تو‬


‫رنگ برنگی بچیاں سکول سے نکل کر‬
‫اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں ۔اور‬
‫میری نظریں عظمی کو تالش کرنے‬
‫لگی‬

‫کچھ دیر کے انتظار کے بعد عظمی آتی‬


‫ہوئی نظر آئی ۔‬
‫اسکی جب مجھ پر نظر پڑی تو اس نے‬
‫ایک نظر دیکھ کر نظریں جھکالیں ۔‬
‫اور میرے قریب سے مجھے مخاطب‬
‫کیے بغیر گزر گئی‬

‫مجھے غصہ تو بہت چڑھا‬


‫کہ‬
‫نالے چور تے نالے چتر۔‬
‫خیر‬
‫میں بھی اسکے پیچھے چلتا ھوا اسکے‬
‫ساتھ ساتھ چلنے لگ گیا ۔‬
‫وہ ایسے انجان بن کر جارھی تھی کہ‬
‫جیسے مجھے جانتی ھی نہ ھو‬
‫اس کی نظریں سڑک کی طرف تھی ۔‬

‫جب ہم رش سے نکل کر گاوں کی‬


‫طرف جاتی سڑک پر پہنچے تو میں‬
‫نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫کہا۔‬

‫عظمی میں تمہاری خاموشی دیکھنے‬


‫کے لیے دکان چھوڑ کر نھی ھے ۔‬
‫تو عظمی نے میری طرف دیکھا تو‬
‫میں اسکی آنکھوں کو دیکھ کر حیران‬
‫رھ گیا اسکی آنکھیں ایسی سرخ تھیں‬
‫جیسے‬
‫وہ رات بھر روتی رھی ھے‬
‫اور اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں‬
‫نمی تھی ۔‬

‫عظمی نے میری طرف دیکھ کر پھر‬


‫منہ سیدھا کرکے آنکھیں جھکا کر چلتی‬
‫رھی ۔‬
‫میں نے پھر پوچھا عظمی کچھ بولو گی‬
‫کہ نھی ھوا کیا ھے‬
‫تمہاری آنکھیں کیوں الل ہیں‬
‫تم رو کیوں رھی ھو‬
‫کچھ تو بولو کچھ تو مجھے بتاو۔‬

‫ایسے ھی ہم نہر کے پل پر پہنچ گئے‬


‫آدھا رستہ طے ھوچکا تھا‬
‫مگر عظمی کی زبان سے ایک لفظ‬
‫سننے کو میرے کان ترس گئے تھے‬
‫پل سے گزر کر جب ہم نہر سے نیچے‬
‫اترے تو میں نے عظمی کا بازو پکڑ لیا‬
‫اور‬
‫اسکو روک کر‬
‫اپنی طرف گھما کر اسکے گالوں پر‬
‫ھاتھ رکھ کر اسکا منہ اوپر کیا تو دیکھا‬
‫عظمی رو رھی تھی اور آنسوؤں کی‬
‫جھڑی نے اسکا نقاب بھی گیال کردیا‬
‫تھا۔‬

‫میں نے اسکے گال چھوڑے اور اسکو‬


‫کندھوں سے پکڑ کر جنجھوڑ کر‬
‫پوچھا‬
‫عظمی کچھ تو بول ھوا کیا ھے‬
‫یہ کیا ماجرا ھے وہ مونچھوں واال چاچا‬
‫کون تھا تم کدھر تھی‬
‫میں نے ایک ھی سانس میں کتنے سوال‬
‫کردیے‬
‫عظمی نے شہر کی طرف انگلی کر‬
‫کے اتنا ھی کہا‬
‫ووووہہہہ اسد نے مجھےےےےے‬
‫کہتے ھوے عظمی چکرا کر میرے‬
‫اوپر گری تو میں نے جلدی سے اسکو‬
‫تھام لیا اور اسکی گالوں کو تھپ تھپانے‬
‫لگا‬
‫عظمی عظمی ہوش کرو عظمی‬
‫‪....‬‬
‫میں عظمی کی کفیت دیکھ کر ڈر گیا‬
‫کہ اسے کیا ھوا۔‬
‫اور اسد نے کیا‬
‫کیا اس کے ساتھ جو عظمی صدمے‬
‫سے بےہوش ہوگئی ۔‬

‫میں عظمی کی گالوں کو تھپتھپانے لگ‬


‫گیا‬
‫مجھے سمجھ نھی آرھا تھا کہ میں کیا‬
‫کروں‬
‫میں نے گردن گھما کر چاروں طرف‬
‫دیکھا مگر مجھے کوئی نظر نہ آیا‬
‫دوپہر کا وقت تھا‬
‫دور دور تک بندا نہ بندے کی ذات نظر‬
‫آرھی تھی ۔‬

‫عظمی بلکل میرے ساتھ چپکی ہوئی‬


‫تھی اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ‬
‫چپکے ہوے تھے‬
‫اور میں نے ایک ہاتھ عظمی کی بغل‬
‫سے گزار کر اسکی کمر کو مضبوطی‬
‫سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا‬
‫عظمی کا چہرا میرے کندھے پر تھا‬
‫اسکی ھاتھ سے دستہ اور بک نیچے گر‬
‫گئی تھی ۔‬
‫جسے وہ سینے کے ساتھ لگا کر چلی‬
‫آرھی تھی ۔‬

‫مجھے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے‬


‫عظمی کو سیدھا کیا مگر وہ‬
‫کھڑی نھی ھورھی تھی‬
‫سارا وزن مجھ پر ھی ڈال رھی تھی ۔‬

‫میں نے عظمی کی گانڈ کے نیچے بازو‬


‫ڈاال‬
‫اور اسکو اٹھا لیا عظمی کے ممے‬
‫میرے کندھے سے اوپر ھوے اور‬
‫عظمی میرے کندھے پر جھول گئی‬
‫اور اسکا سارا وزن میرے کندھے پر‬
‫آگیا ۔‬

‫میں نے عظمی کو کندھے پر الدے‬


‫بڑی مشکل سے نیچے سے اسکا دستہ‬
‫اور بک اٹھائی اور اسے لے کر مکئی‬
‫کے درمیان میں بنی پگڈنڈی پر چل پڑا‬
‫میں بھی جھول جھول کر چل رھا تھا‬

‫عظمی کا وزن کافی تھا مگر قابل‬


‫برداشت تھا۔‬
‫میں چلتا ھوا کھالے کے پاس پہنچا اور‬
‫اپنی پرانی جگہ مجھے اس وقت سب‬
‫سے ذیادہ محفوظ لگی ۔‬
‫تو میں عظمی کو اٹھاے ھوے بڑی تگ‬
‫ودو کے بعد ٹاہل کے قریب پہنچ گیا ۔‬

‫اور ادھر ادھر دیکھتے ھو عظمی کو‬


‫ٹاہلی کے پیچھے گھاس پر لیٹا دیا‬
‫اور پھر اسکی گالوں کو دونوں ہاتھوں‬
‫میں لے کر ہلکا ہلکا تھپتھپا کر اسے‬
‫آوازیں دینے لگا مگر عظمی بے سدھ‬
‫ھی لیٹی رھی ۔‬

‫میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھ کر‬


‫کھالے کی طرف بھاگا‬
‫اور ہاتھوں کو جوڑ کر کھالے میں سے‬
‫پانی ہاتھوں ڈاال‬
‫اور دوڑتا ھوا عظمی کے پاس پہنچا‬
‫اور پانی اسکے منہ پر گرا دیا ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد عظمی نھ آنکھیں‬
‫کھولیں اور مجھے غور سے دیکھنے‬
‫لگی‬
‫عظمی کی آنکھیں سرخ اور سوجی‬
‫ہوئی تھیں ۔‬
‫میں نے عظمی کی گالوں پر سے پانی‬
‫صاف کرتے ہوے اسکی گردن میں‬
‫بازوں ڈال کر سر اوپر کر کے اپنا‬
‫چہرہ عظمی کے قریب کیا اور‬
‫پھر سے پوچھا‬
‫عظمی کیا ھوا تمہیں اتنی پریشان کیوں‬
‫ھو‬
‫کیا‬
‫کیا تمہارے ساتھ اسد نے بولو پلیز کچھ‬
‫تو بولو ۔‬

‫عظمی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے‬


‫اور پھوٹ پھوٹ‬
‫کر روتے ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے معاف کردو‬
‫میں دولت پیسہ شہرت پانے کے لیے‬
‫اندھی ھوگئی تھی‬
‫اور تم کو دھوکا دے کر اسد کے‬
‫ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اور پھر وہ اونچی آواز میں رونے لگ‬


‫گئی‬
‫اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی‬
‫لگ گئی‬
‫اور بار بار بس یہ ھی کہے جارھی‬
‫تھی‬
‫یاسر میں تمہاری گناہ گار ہوں میرے‬
‫ساتھ ایسا ھی ھونا چاھیے تھا‬
‫میں نے تمہیں دھوکا دیا‬
‫مجھے معاف کردو‬

‫میں عظمی کے ماتھے سے بالوں تک‬


‫ہاتھ پھیرتے ھوے اس کی ڈھارس بندھا‬
‫رھا تھا اسے حوصلہ دے رھا تسلیاں‬
‫دے رھا اس سے بس ایک دفعہ پوری‬
‫بات پوچھنے کی کوشش کر رھا تھا‬
‫اسد کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رھا‬
‫تھا‬
‫اسکی بہن مہری کو اس کی آنکھوں‬
‫کے سامنے چودنے کا کہہ رھا تھا‬
‫عظمی رو رو کر ہلکان ہو رھی تھی ۔‬

‫آخر کار میری کوشش رنگ الئی اور‬


‫عظمی کافی سنبھل گئی مگر اسکی‬
‫ہچکیاں باقی تھیں ۔‬

‫کچھ دیر بعد مکمل طور پر وہ ریلیکس‬


‫ہوئی ۔‬
‫تو میں نے اسکا ماتھا چوما‬
‫اور‬
‫عظمی کو کہا ۔‬

‫عظمی مجھے پہلے سے ہی تم پر اور‬


‫اسد پر شک تھا‬
‫مگر پھر بھی میں نے تمہیں محسوس‬
‫نھی ہونے دیا۔‬

‫مگر اسد نے جو تمہارے ساتھ کیا اور‬


‫کیسے تمہاری اس سے بات ہوئی اور‬
‫کیسے یہ بات یہاں تک پہنچی کہ تم ہم‬
‫سب کو دھوکا دے کر‬
‫بنا کچھ سوچے سمجھے‬
‫اسد کے ساتھ چلی گئی‬
‫اور یہ مالقاتوں کا تسلسل کب سے‬
‫جاری ھے‬
‫مجھے ایک ایک حرف سچ سچ بتا دو‬
‫میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتا ھوں‬
‫کہ اسد کا وہ حال کروں گا کہ‬
‫وہ ساری زندگی کسی لڑکی کو دھوکا‬
‫دینے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا ۔‬

‫مگر میں تب ھی کچھ کر پاوں گا اگر تم‬


‫مجھے اب دھوکے میں نہ رکھو گی‬
‫اور حرف بحرف سب کچھ سچ سچ بتاو‬
‫گی ۔‬

‫اور رھی بات مجھے دھوکا دینے کی‬


‫تو عظمی تم مجھے نھی اپنے آپ کو‬
‫دھوکا دے رھی تھی‬
‫اس لیے مجھ سے معافی مانگنے کی‬
‫بجاے اپنے آپ سے معافی مانگو‬
‫اپنے ضمیر سے معافی مانگو‬
‫اور تمہارا ضمیر تب ھی تمہیں معاف‬
‫کرے گا جب‬
‫تم اب مجھے سب کچھ سچ سچ بتاو گی۔‬
‫اگر اب بھی جھوٹ بولنا ھے تو اٹھو‬
‫چلو گھر چلتے ہیں‬
‫اور یہ بھی ذہن میں مت رکھنا کہ میں‬
‫کسی اور سے یہ بات کروں گا یا‬
‫تمہاری امی کو یا نسرین کو بتاوں گا ۔۔‬

‫اور یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی‬


‫نے میرا بازو پکڑ لیا اور پھر روتے‬
‫ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے اپنے کئے کی سزا مل گئی‬
‫ھے اور اس سے ذیادہ کیا ہوگی جو آج‬
‫مجھے ملی ھے ۔‬
‫جس اذیت سے میں گزری ہوں یہ میں‬
‫ھی جانتی ہوں ۔‬
‫مگر اتنا کچھ ھونے اور سننے کے بعد‬
‫بھی تم میرے لیے کتنے پریشان ھو‬
‫کتنے دکھی ھو‬
‫اور لعنت ھے مجھ پر جو میں تمہیں‬
‫سمجھ نہ سکی‬
‫میری آنکھوں پر‬
‫اللچ کی رتبے کی‬
‫پٹی بندھی ھوئی تھی‬
‫میں اندھی ہوگئی تھی گونگی ھوگئی‬
‫تھی ۔بہری ھوگئی تھی‬
‫مگر آج مجھے احساس ھوگیا کہ پیشہ‬
‫شہرت دولت جائدادیں ھی سب کچھ نھی‬
‫ہوتیں‬
‫ان سب سے اہم رشتے ہیں‬
‫وہ رشتے جو میرے ساتھ مخلص ہیں‬
‫جنکو میری فکر ھے‬
‫جو میرے لیے تڑپتے ہیں جو میرے‬
‫لیے پریشان ھوتے ہیں ۔جنکو میری‬
‫فکر ھے ۔‬
‫یاسر مجھے معاف کردو معاف کردو‬
‫معاف کردو‬
‫عظمی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ کر‬
‫روتے ھوے معافیاں مانگنے لگ گئی۔‬
‫میں نے اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا‬
‫اور چومتے ھو ے کہا بس کرو عظمی‬
‫تم نے بہت رو لیا ۔۔اب رونے کی باری‬
‫اس گشتی کے بچے کی ھے‬
‫تم بس مجھے تفصیل سے سب کچھ‬
‫بتاو‬
‫پھر دیکھنا تمہارا یہ یاسر‬
‫تمہارے لیے کیا کرتا‬
‫جس اذیت سے تم گزر رھی ھو‬
‫اس سے ہزار گنا اذیت اسے پہنچاوں‬
‫گا‬
‫اور وہ اذیت وقتی نھی ھوگی‬
‫ساری ذندگی کے لیے ھوگی‬
‫عظمی نے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫اگے بڑھی اور میرے ہونٹ گال انکھیں‬
‫ماتھا چومنے لگ گئی ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد سنبھل کر مجھ سے‬
‫الگ ہوئی‬
‫اور بولی‬
‫یاسر جب تم اسد کو ہمارے گھر لے کر‬
‫آے تھے اور جب تم مہری کے ساتھ‬
‫چھلیاں توڑنے گئے تھے‬
‫اور جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا‪،،،،،‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪،،،،،،،،‬۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی نے سب کچھ حرف با حرف‬
‫مجھے بتا دیا‬
‫‪،،،،‬۔۔۔‬
‫دوستو جو عظمی نے مجھے حرف با (‬
‫حرف بتایا وہ سب کچھ میں تفصیل سے‬
‫گذشتہ اپڈیٹ میں لکھ چکا ھوں‬
‫اب عظمی نے واقعی سب کچھ سچ ھی‬
‫بتایا تھا‬
‫یا کچھ چھپایا تھا ۔‬
‫یہ آگے چل کر خود سب کچھ سامنے‬
‫آجاے گا ۔۔۔۔۔‬

‫میں جیسے جیسے عظمی کی باتیں سنتا‬


‫جارھا تھا‬
‫ویسے ویسے ھی میرا چہرہ غصہ سے‬
‫سرخ ھوتا جارھا تھا‬
‫کچھ غصہ مجھے عظمی پر بھی آرھا‬
‫تھا‬
‫جب گوشت کا ٹکڑا کتے کے سامنے‬
‫کھال رکھ دیں تو کتے سے کیا بعید کے‬
‫وہ اسپر جھپٹے نہ اسے نوچے نہ اسے‬
‫کھاے نہ۔‬

‫اسد سے ذیادہ عظمی خود اس کی ذمہ‬


‫دار تھی ۔‬
‫خیر میں سب کچھ خاموشی سے سنتا‬
‫رھا اور برداشت کرتا رھا‬
‫جب عظمی نے بات مکمل کی تو میں‬
‫کافی دیر خاموش بیٹھا اسکی طرف‬
‫دیکھتا رھا وہ پھر رونے لگ گئی تھی ۔‬
‫میں نے عظمی کو کہا ۔‬

‫چلو اٹھو گھر چلو ۔۔۔‬


‫اور یہ بات کسی سے مت کرنا‬
‫اب یہ سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو ۔‬
‫اور اگر کبھی مہری سے بھی سامنا ھو‬
‫تو اس کو بلکل محسوس مت ھونے دینا‬
‫کہ اسد نے تمہارے ساتھ کچھ کیا ھے‬
‫بلکہ میں بھی اسد پر یہ ظاہر نھی‬
‫ھونے دوں گا کہ‬
‫تم نے مجھے سب کچھ بتا دیا ھے ۔۔۔۔۔‬
‫کیونکہ‬
‫میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے کیا‬
‫کرنا ھے ۔۔۔‬

‫عظمی نے پھر مجھے بازو سے پکڑ‬


‫لیا اور پھر روتے ھوے بولی‬
‫یاسر تم نے مجھے معاف کردیا ناں۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور اسکے‬


‫ہاتھ کو پکڑ کر اپنے بازو سے الگ کیا‬
‫اور اپنے ہونٹ اسکے ہاتھوں پر رکھ‬
‫کر اسکے ھاتھوں کو چوم لیا۔‬

‫اور اسے کہا تم اب یہ سب کچھ بھول‬


‫جاو اور یہ ھی سمجھو کہ یہ ایک برا‬
‫سپنا تھا‬
‫اور اٹھو تمہیں کافی دیر ہوگئی ھے‬
‫تمہاری امی پریشان ھوگی‬

‫میں نے اسکی گال پر چٹکی کاٹتے‬


‫ھوے کہا‬
‫اور ایسا کرو کھالے سے یہ سونا سا‬
‫مکھڑا دھو لو اور فریش ھوکر گھر چلو‬
‫نھی تو آنٹی کو شک ھوجاے گا کہ‬
‫کہیں اسکی بیٹی کو یاسر نے راستے‬
‫میں ھی تو نھی چود دیا ۔‬

‫عظمی میری بات سن کر ہنس پڑی اور‬


‫میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫چل شوخا۔‬
‫کچھ کسر رہتی ھے تو پوری کر لو۔‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور قمیض اوپر کر‬


‫کے ناال کھولتے ھوے بوال‬
‫چل فیر سدھی ھو۔‬

‫تو عظمی ہنستی ھوئی اٹھی اور‬


‫بولی آرام نال شوخے۔‬

‫میں نے اسکی بات کاٹتےھوے کہا‬


‫آرام سے ھی کروں گا۔‬
‫میں اسد تھوڑی ہوں۔‬
‫عظمی میری بات سن کر ایکدم سیریس‬
‫ھو گئی اور پھر رونے لگ گئی اور نم‬
‫انکھوں سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی‬

‫یاسر اب تم مجھے اسی طرح طعنے‬


‫دیتے رھو گے‬
‫میں نے ذہر کھا کر مرجانا ھے‬

‫مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا مگر‬


‫میں کیا کرتا میرے اندر حسد اور‬
‫غصے کی جو آگ جل رھی تھی وہ‬
‫اتنی جلدی تو بھجنے والی نھی تھی ۔‬

‫میں نے خود پر کنٹرول کرتے ھوے‬


‫عظمی سے معذرت کرنے لگ گیا کہ‬
‫یار غلطی ھوگئی‬
‫آئیندہ کبھی بھی میرے منہ سے اس‬
‫کنجر کا نام نھی سنو گی‬
‫اب موڑ صحیح کرو اور گھر چلو‬
‫اس کے ساتھ ھی میں نے عظمی کے‬
‫ساتھ جپھی ڈال لی اور اس کے چہرے‬
‫کو چومنے لگا‬
‫عظمی کچھ ریلیکس ھوئی اور مجھ‬
‫سے علیحدہ ھوئی اور کھالے کی طرف‬
‫چل دی اور منہ ھاتھ دھو کر‬
‫چادر سے اچھی طرح چہرے کو اور‬
‫انکھوں کو صاف کیا اور‬
‫اپنی چادر کو صحیح کر کے اوپر لیا‬
‫اور اچھی طرح نقاب کرکے میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کو مٹکا‬
‫کر بولی اب صحیح ھے‬
‫تو اسکی اس معصومانہ ادا کو دیکھ کر‬
‫میں آگے بڑھا اور ایک ہاتھ سے اسکا‬
‫مما پکڑ کر دباتے ھوے اسکی آنکھوں‬
‫کو چوم لیا‬
‫مما دبانے سے عظمی کے منہ سے‬
‫سسکاری نکلی اور وہ مجھ سے لپٹ‬
‫گئی ۔‬
‫کچھ دیر ہم ایسے ھی لپٹے رھے پھر‬
‫عظمی مجھ سے علیحدہ ھوئی اور ہم‬
‫گھر کی طرف چل دئیے ۔‬

‫گھر پہنچے تو فوزیہ مجھے عظمی‬


‫کے ساتھ دیکھ کر حیران ھوئی ۔‬

‫اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ ۔تم‬


‫دکان پر نھی گئے میں نے کہا‬
‫آنٹی جی میری طبعیت سہی نھی تھی‬
‫تو میں گھر آرھا تھا تو سوچا اس چڑیل‬
‫کو بھی ساتھ لیتا جاوں جو صبح مجھے‬
‫چھوڑ کر صدف کے ساتھ ھی چلی گئی‬
‫تھی ۔‬

‫عظمی کمرے کی طرف جاتی ھوئی‬


‫میری بات سن کر رک گئی تھی اور‬
‫میرا جھوٹ سن کر کہ وہ اکیلی شہر‬
‫نھی گئی بلکہ صدف کے ساتھ گئی تھی‬
‫۔۔‬
‫وہ میری طرف دیکھ کر آنکھوں ھی‬
‫آنکھوں میں میرا شکریہ ادا کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫آنٹی فوزیہ میری طبعیت خراب کا سن‬
‫کر پریشانی سے بولی کیا ھوا میرے‬
‫شزادے کو ۔‬
‫اور ساتھ ھی مجھے کندھے سے پکڑ‬
‫کر اپنے بڑے بڑے مموں کے ساتھ لگا‬
‫لیا میں نے مزید ساتھ جڑتے ھوے‬
‫دونوں ھاتھ انٹی فوزیہ کی کمر میں ڈال‬
‫کر کہا ۔‬
‫آنٹی میرے سر میں بہت درد ھے‬

‫آنٹی بولی‬
‫چل جا اندر بیٹھ جا کہ اپنی پیناں کول‬
‫میں چا بنا کہ لیانی واں‬
‫نال کوئی گولی کھا لے ۔‬

‫میں نے کہا نھی آنٹی جی میں گھر چلتا‬


‫ھوں بس کچھ دیر آرام کروں گا تو‬
‫ٹھیک ھوجاوں گا ۔‬
‫فوزیہ بولی شرم نھی اتی یہ تیرا گھر‬
‫نھی ھے‬
‫چل اندر جا میں آنی واں‬
‫میں کمرے کی طرف چل دیا‬
‫کمرے میں پہنچا تو نسرین چارپائی پر‬
‫لیٹی ھوئی تھی ۔‬
‫اور عظمی کپڑے تبدیل کرنے کے لیے‬
‫دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی ۔‬

‫میں نسرین کے پاس دوسری چار پائی‬


‫پر بیٹھ گیا ۔‬
‫اور نسرین سے حال احوال پوچھنے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫نسرین بھی مجھ سے دکان سے جلدی‬


‫آنے کی وجہ پوچھنے لگ گئی‬
‫میں نے وہ ھی روداد دوبارہ دھرا دی ۔‬
‫نسرین دروازے کی طرف دیکھتے‬
‫ہوے آہستہ سے بولی‬
‫یاسر اس نواب زادی سے پوچھا کہ یہ‬
‫صبح اتنی جلدی کیوں سکول گئی تھی‬
‫اور وہ بھی اکیلی ۔‬

‫نسرین کی بات سن کر میرے دماغ میں‬


‫پھر وہ ھی اپنی ادھوری کوشش کو‬
‫دوبارا مکمل کرنے کا پالن‪ .‬جنم لینے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬


‫نسرین نے پھر دروازے کی طرف‬
‫دیکھا اور بڑے رازدارانہ انداز میں‬
‫پوچھا کیا کہا اس نے ۔‬

‫تو میں نے بھی اسکی نقل اتارتے ھوے‬


‫پیچھے گردن گھما کر دروازے کی‬
‫طرف دیکھا اور‬
‫نسرین کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا‬
‫میں نے تو اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ‬
‫لینے لگا تھا بس میری بدقسمتی کہ‬
‫اسکی مجھ پر نظر پڑ گئی‬
‫اور۔‬
‫میں چپ ھوگیا تو نسرین بڑے تذبذب کا‬
‫شکار ھوکر حیران ہوتے ھوے آنکھیں‬
‫پھاڑے مجھے دیکھ کر بولی اور کیا؟‬
‫‪.‬؟؟؟؟‬

‫میں پھر گردن گھما کر پیچھے دیکھ کر‬


‫کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ‬
‫میرے پالن اور سسپنس کو منزل تک‬
‫پہنچانے کے لیے‬
‫خوش قسمتی سے عظمی کمرے میں‬
‫داخل ہوئی‬
‫تو نسرین کی نظریں اسی وقت عظمی‬
‫پر پڑیں‬
‫تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے‬
‫چوکس کیا ۔‬
‫تو میں نے بھی اپنے منہ سے نکلتے‬
‫الفاظ کو روک کر جلدی سے گردن‬
‫گھما کر پیچھے عظمی کی طرف دیکھا‬
‫اور ساتھ‬
‫ھی بات کو بدلتے ھوے نسرین کو‬
‫کہنے لگا ۔‬
‫تمہارا آج کا پیپر ضائع ھوگیا ھے‬

‫نسرین کی بجاے عظمی بولی‬


‫میں نے اس کی درخواست لکھ کر میڈم‬
‫کو دے دی تھی‬
‫اس کے جتنے پیپر رھ گئے بعد میں‬
‫دے دے گی ۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫کیا مطلب یعنی کہ یہ کل بھی سکول‬
‫نھی جاے گی ۔‬
‫عظمی منہ کو بسورتے ھوے بولی اس‬
‫میڈم کو پتہ ھوگا کہ کل بھی جانا ھے‬
‫کہ نھی ۔‬

‫نسرین جو پہلے ھی عظمی کی مداخلت‬


‫کی وجہ سے جلی بھنی ھوئی تھی‬

‫عظمی پر پھٹ پڑی ۔‬

‫ھاں ھاں تم تو چاہتی ھی ھو کہ میں‬


‫سکول ھی نہ جاوں بس اکیلی تم ہو‬
‫اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫عظمی بولی کیا مطلب‪ ،،،،،‬۔۔۔‬

‫اس سے پہلے کہ انکی تکرار بڑھتی‬


‫آنٹی فوزیہ چاے لیے ھوے اندر داخل‬
‫ھوئی ۔‬

‫اور انکو یوں چونچیں لڑاتے ھوے‬


‫دیکھ کر بولی ۔‬
‫توبہ ہے تم دونوں کی ایک منٹ نھی‬
‫بنتی آپس میں پتہ نھی سکول میں بھی‬
‫کیسے ایک دوسرے کو برداشت کرتی‬
‫ہوں گی ۔‬

‫میں نے فورن ماحول کو تبدیل کرنے‬


‫کی کوشش کرتے ھوے‬
‫چٹکلہ بھرا‬

‫آنٹی جی ۔وھاں انکو پتہ ھے نہ کہ میڈم‬


‫کالس میں ھی انکے کان پکڑا کر‬
‫دونوں کو ڈیسکوں پر مرغا بنا دے گی‬
‫‪.‬اس لیے یہ ادھر شانتی سے رہتی ہیں‬

‫نسرین بولی‬

‫ھاں ھاں تیرے کان روز ماسٹر پکڑواتا‬


‫ھوگا نی اس لیے تمہیں پتہ ہے۔‬

‫آنٹی فوزیہ ہنستے ھوے‬


‫نسرین کو ڈانٹتے ھوے بولی‬
‫چل ہن توں ایس وچارے نال شروع‬
‫ھوجا۔‬

‫تو وہ جل بھن کر بولی‬


‫ھاں ھاں اس گھر میں سب ھی بیچارے‬
‫ہیں‬
‫بس ایک میں ھی پاگل ہوں ۔‬

‫میں نے اسکی بات ختم ھوتے ھی اسے‬


‫مذید چڑاتے ھوے کہا‬
‫واہ واہ اج سچی گل کیتی اے‬
‫واہ واہ مزہ آگیا۔‬
‫نسرین روہانسی ھوتے ھوے نیچے سے‬
‫جوتا اٹھا کر مجھے مارنے لگی تو میں‬
‫دونوں ٹانگیں اوپر کر کے ہاتھ آگے کر‬
‫کے اپنا آپ بچانے کے لیے چارپائی پر‬
‫لیٹ گیا اور آنٹی فوزیہ نسرین کو‬
‫ڈانٹنے لگ گئی کہ شرم کرو تمہارا‬
‫بھائی ھے اب تم بچے نھی رھے‬

‫بڑے ھوگئے ھو۔نسرین نے جوتا نیچے‬


‫رکھا اور میری طرف گھورتے ھوے‬
‫منہ ھی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔‬
‫میں نے اسکے چہرے کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے پھر اسے چھیڑتے ھوے‬
‫آنٹی کو کہا آنٹی جی دیکھ لیں یہ منہ‬
‫میں مجھے گالیاں دے رھی ھے ۔‬

‫تو نسرین بولی میں تیرے منہ نئی‬


‫لگدی۔۔‬
‫اور ہاتھ جوڑ کر بولی جا جان چھڈ‬
‫میری ۔میں ہنستا ھوا چارپائی پر پڑی‬
‫ٹرے میں سے چاے کی پیالی اٹھا کر‬
‫پینے لگا اور پھر کچھ دیر مزید ہم باتیں‬
‫کرتے رھے ۔‬
‫مگر نسرین کے ساتھ دوبارا وقت خلوت‬
‫نہ مال۔‬
‫شام ہونے والی ہوگئی تھی۔‬
‫تو میں آنٹی سے اجازت لے کر گھر‬
‫آنے لگا تو آنٹی نے کہا یاسر کل‬
‫تمہارے چاچا نے ختم پر جانا ھے‬
‫میرے بھائی کے‬
‫میں نے بھی جانا تھا مگر بچیاں اکیلی‬
‫ہیں انکے پیپر بھی ہورھے ہیں ۔تو تم‬
‫کل رات کو ادھر سوجانا‬
‫میں تمہاری امی کو بتا دوں گی ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا اور انکے‬
‫گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف‬
‫چل پڑا‬
‫گھر پہنچا تو‬
‫امی گھر ہر نھی تھی شاید ہمسایوں کے‬
‫گھر گئی تھی۔‬
‫نازی بھی اپنے کمرے میں تھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور کچھ‬
‫دیر بیٹھا رھا اور پھر لیٹ گیا اور‬
‫سوچوں میں گم ھوگیا میں نے یہ تو‬
‫طے کر لیا تھا کہ اب صدف کے گھر‬
‫بھی نھی جانا اور اس کو منہ بھی نھی‬
‫لگانا‬
‫اور پھر‬
‫کل عظمی کے ساتھ اکیلے جانے کے‬
‫بارے میں سوچنے لگ گیا‬
‫اسد کے مسئلے پر بھی سوچتا رھا‬
‫اور نہ جانے کب انکھ لگی اور میں نیند‬
‫کی وادیوں میں چال گیا۔۔۔‬
‫اگلے دن میں اٹھا اور نہا دھو کر ناشتہ‬
‫کر کے آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا ۔‬
‫نسرین کی آج بھی چھٹی تھی‬
‫اس لیے اکیلی عظمی ھی میرے ساتھ ۔‬
‫آئی اور گلی کے موڑ پر پہنچ کر میں‬
‫کھیتوں کی طرف بڑھنے لگا‬
‫تو عظمی بولی باجی کو نھی لے کر‬
‫جانا‬
‫میں نے کہا نھی میں اس چول کو ساتھ‬
‫نھی لے کر جاوں گا اگر تم نے جانا‬
‫ھے اسکو لے کر تو اکیلی ھی جاو پھر‬
‫میں جارھا ھوں‬
‫یہ کہہ کر میں کھیت کی طرف چل پڑا‬
‫۔‬
‫عظمی بھی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی‬
‫میرے پیچھے آئی اور قریب پہنچ کر‬
‫دوڑ کر میرے ساتھ چلتی ہوئی بولی‬
‫یاسر کیا ھوا‬
‫وہ ہماری ٹیچر رھی ھے ایسا کیا ھوا‬
‫کہ تم اسے چول بول رھے ھو اور‬
‫اسکو ساتھ نھی لے کر جارھے۔‬
‫میں نے عظمی کی طرف غصے سے‬
‫دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫میں نے ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ اسے‬
‫میں نے ساتھ نھی لے کر جانا تو نھی‬
‫جانا۔‬
‫بات ختم ۔‬
‫اب اسکا ذکر بھی میرے سامنے مت‬
‫کرنا ورنہ تم بھی مجھ سے جاو گی۔‬
‫عظمی حیران ھوتے ھوے بولی‬
‫یاسر کچھ بتاو تو سہی ھوا کیا ھے‬
‫باجی نے تم سے کچھ کہا ھے کیا‬
‫تمہاری لڑائی ہوئی ھے‬
‫پرسوں تو اچھے بھلے ساتھ گئے تھے‬
‫پھر ایک دن میں اچانک ایسا کیا ہوا جو‬
‫تم اتنا ناراض ھورھے ھو۔‬

‫عظمی کی بات سن کر میں رک گیا ۔‬


‫اور پھر اسی انداز میں بوال۔‬
‫تمہیں ایک دفعہ میری بات سمجھ میں‬
‫نھی ائی ۔‬
‫عظمی مجھے یوں غصے میں دیکھتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫اچھا بابا مجھ پر تو غصہ نہ ھو۔‬
‫نھی کچھ کہتی اب بسسسسسس۔‬
‫اور پھر ہم چلتے ھوے مکئ میں داخل‬
‫ھوے تو عظمی میرے آگے آگے‬
‫جارھی تھی اور میں اسکے پیچھے‬
‫پیچھے ۔‬
‫میں نے عظمی کو کہا۔‬
‫عظمی آج بھی چھٹی دو بجے ھونی‬
‫ھے‬
‫تو عظمی نے گھوم کر میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا ہاں کیوں کیا ھوا۔‬
‫میں کچھ نھی کہہ کر چپ ہوگیا۔‬
‫کچھ آگے جاکر میں نے کہا‬
‫عظمی کیا پیپر ھی دو بجے ختم ھوتا‬
‫ھے ۔‬
‫تو عظمی پھر سر گھما کر مجھے ایک‬
‫نظر دیکھ کر منہ سامنے کر کے بولی ۔‬
‫نھی پیپر کا وقت تو بارہ بجے تک ھوتا‬
‫ھے‬
‫اسکے بعد جس لڑکی کا گھر واال لینے‬
‫آجاے تو وہ چلی جاتی ہے‬
‫نھی تو پھر دو بجے ھی مین گیٹ کھلتا‬
‫ھے تو سب لڑکیاں جاتی ہیں‬
‫اس سے پہلے کوئی لڑکی اکیلی نھی‬
‫جاسکتی ۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا۔‬
‫اور کچھ دیر پھر بوال۔‬
‫عظمی اگر میں تمہیں لینے آوں بارہ‬
‫بجے تو تم آسکتی ھو۔‬
‫عظمی چلتے چلتے رک کر میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے ہنس کر بولی‬
‫اچھااااااااا تو جناب اس لیے بار بار‬
‫پوچھ رھے تھے ۔‬
‫میں نے بے ساختہ عظمی کوجپھی ڈال‬
‫لی‬
‫اور باہوں میں کستے ہوے کہا‬
‫یار بہت دل کررھا ھے‬
‫کتنے دن ھوگئے ہیں ۔‬
‫عظمی نے کتاب اور پیپر لکھنے واال‬
‫گتہ پکڑا ھوا تھا جسکو وہ سینے کے‬
‫ساتھ لگا کر کھڑی تھی تو میرے سینے‬
‫کے ساتھ اسکا بازو ھی لگا مممے تو‬
‫کتاب اور گتے کے پیچھے چھپے ھوے‬
‫تھے۔‬
‫عظمی اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر دل تو میرا بھی بہت کرتا ھے‬
‫مگر دن کے وقت تم نے پھر اسی جگہ‬
‫کرنے کو کہنا ھے‬
‫اور مجھے اس جگہ ڈر بہت لگتا ھے‬
‫اور ویسے بھی یہ جگہ غیر محفوظ‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کچھ نھی ھوتا‬
‫ہم نے پہلے بھی تو ادھر کتنی دفعہ کیا‬
‫ھے ۔‬
‫عظمی بولی یاسر برا وقت آنے میں‬
‫کوئی پتہ نھی لگتا ۔‬
‫اور عظمی مجھ سے اپنا آپ چھڑوا کر‬
‫پھر چل پڑی۔‬
‫میں چپ کرکے اسکے پیچھے چلتا ھو‬
‫ا‬
‫مکئی سے باہر آگیا اور پھر پل پر سے‬
‫ہم ایک ساتھ چلتے ھوے دوسری طرف‬
‫آگئے ۔‬
‫میں نے پھر کہا۔‬
‫یار تم میرے لیے اتنا بھی نھی‬
‫کرسکتی۔‬
‫عظمی بولی میں تمہارے لیے جان بھی‬
‫دے سکتی ھوں‬
‫نہی یقین تو کسی دن آزما کر دیکھ لینا‬
‫تم‬
‫اور آزما کر بھی پچھتاو گے۔‬

‫میں نے کہا۔‬
‫تبھی تو ڈر رھی ھو۔‬
‫عظمی بولی ڈرتی صرف اپنے ماں باپ‬
‫کی عزت سے ہوں ۔‬
‫تو میرے دماغ میں فورن آیا کہ اتنا‬
‫عزت کا خیال ھوتا تو‬
‫یوں کار میں نہ پھرتی‬
‫مگر پھر اپنے آپ پر مالمت کرتے‬
‫ھوے خیال کو جھٹک دیا کہ اب اگر اس‬
‫نے غلطی کر ھی لی ھے تو وہ اسپر‬
‫ندامت بھی ھے‬
‫اور تم کتنے دودھ کے دھلے ھو‬
‫یا تم کون سا اس سے شادی کرنا‬
‫چاھتے ھو جو اسکی اتنی فکر ھے‬
‫اسے تو صرف تمہیں چھوڑ کر ایک‬
‫دوسرے مرد سے مراسم بڑھانے پر اتن‬
‫ندامت ھے کہ وہ تیرے سامنے گھنٹوں‬
‫ھاتھ جوڑ کر روتی رھی‬
‫اور تم تو کتنی لڑکیوں کی پھدیاں مار‬
‫چکے ھو تجھے تو کبھی یہ احساس‬
‫نھی ھوا ۔‬
‫عظمی اور میں بلکل ساتھ ساتھ چل‬
‫رھے تھے ۔‬

‫الوں‬
‫عظمی نے مجھے خاموش اور خی ً‬
‫میں ڈوبے دیکھا تو مجھے کندھا مار‬
‫کر بولی‬
‫ہیلو‬
‫کس سوچ میں گم ھوگئے ھو۔‬
‫میں دفعتا ً چونکا‬
‫اور خود کو سنبھالتے ھوے خود کو‬
‫اس پر ایسے ظاہر کیا جیسے اسکے‬
‫انکار پر میں صدمے میں چال گیا ھوں ۔‬

‫مگر اسے کیا پتہ تھا کہ‬


‫اپنے ضمیر سے چھترول کروا رھا تھا‬
‫عظمی پھر بولی‬
‫اچھا بابا آجانا‬
‫تمہاری خاطر سب کچھ قربان ۔‬

‫اب تو منہ سہی کرلو ۔‬


‫میں عظمی کی ہاں سن کر یکلخت کھل‬
‫اٹھا اور شوخی سی بھاگ کر اسکے‬
‫آگے آیا اور اسکی طرف منہ کر کے‬
‫بیک چلتا ھوا بوال‬
‫سچیییییی‬

‫عظمی میری طرف دیکھ کر ہنستے‬


‫ھوے میری نکل اتارتے ھوے بولی‬
‫ُمچیییییی‬
‫میں پھر سیدھا ہوکر اسکے ساتھ چلنے‬
‫لگا۔‬

‫عظمی بولی یاسر مجھے تو یاد آیا کہ‬


‫آج تو ابو نے ماموں کے ختم پر جانا‬
‫ھے‬
‫اور تم نے ہمارے گھر سونا ھے ۔‬
‫تو رات کو اگر میں آجاوں تو کیسا‬
‫رھے گا‬
‫ساری رات انجواے کریں گے‬
‫میں نے اسکی بات سنتے ھی اسکے‬
‫ھی انداز میں اسکی نقل اتارتے ھوے‬
‫کہا‬

‫انجواے کریں گے اور آنٹی سے چھتر‬


‫کھائیں گےےےےےے‬
‫عظمی برا سا منہ بنا کر بولی‬
‫امی تو جلدی سوجاتی ھے‬
‫اور صبح ھی اٹھتی ھے ۔‬

‫میں نے کہا یار کوئی پتہ نھی کہ کب‬


‫اٹھ سکتی ہیں ۔‬
‫تو عظمی بولی یاسر کچھ کرو نہ‬
‫کہ ہم ساری رات خوب مزے کریں‬
‫میں نے کہا‬
‫یار میں کیا کرسکتا ھوں‬

‫اب میں آنٹی کو لوری تو نھی سنا سکتا‬


‫یا کوئی نشہ آور گولیاں تو نھی‬
‫کھالااااااااا۔‬
‫کھال میرے منہ میں ھی اٹک گیا اور‬
‫ایک شیطانی خیال آیا۔۔۔۔‬
‫جو آج کے دور میں روز مرہ کا معمول‬
‫کام سمجھا جاتا ھے ۔‬

‫عظمی مجھے کھالااا پر اٹکے میرے‬


‫منہ کی طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬

‫میں نے کہا‬
‫یار ایک آئڈیا آیا ھے دماغ میں اگر‬
‫ااسپر عمل ھوجاے تو ساری رات خوب‬
‫انجواے کر سکتے ہیًں کسی کو کانوں‬
‫کان خبر نھی ھوگی ۔‬

‫عظمی تجسس کا شکار ھوے بولی‬


‫بتاو بھی کیا کریں۔‬

‫میں نے اہستہ سے منہ عظمی کے کآن‬


‫کے پاس لیجا کر کہا‬
‫نشے کی گولیاں آنٹی کو کھال دیتے ہیں‬
‫پھر آنٹی صبح ھی اٹھے گی ۔‬

‫عظمی منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی‬


‫ھاےےےے میں مرگئی ۔ نہ بابا نہ‬
‫مینوں مروانا ای ۔‬
‫توبہ توبہ توبہ‬
‫میں نے جھال کر کہا۔‬

‫سن لے‬‫گل تے پیلے پوری ُ‬


‫پیلے ای توں مرن والی ہو جانی ایں ۔‬

‫عظمی پھر نہ نہ نہ ۔‬
‫کر رھی تھی ۔‬
‫میں نے غصے سے کہا‬
‫وڑ پانڈے وچ نئی تے نہ سئی۔‬

‫جدوں گل ای نئی پوری سننی تے پتہ‬


‫میرے لن دا لگنا اے۔‬
‫عظمی میرا برا سا منہ دیکھ کر نقاب‬
‫کے اوپر ھی منہ پر ھاتھ رکھ کر‬
‫ہنسنے لگ پڑی ۔‬
‫تو میں غصے سے چلتا ھوا اس سے‬
‫آگے نکل گیا۔‬

‫عظمی بھاگ کر میرے ساتھ شامل قدم‬


‫با قدم ھوئی‬
‫اور بولی ۔‬
‫اچھا بتاو کیا کہنے لگے تھے۔‬

‫میں نے کہا کچھ نئی یار چھڈ سارا موڈ‬


‫ای خراب کردیا ھے ۔‬

‫عظمی بڑی ادا سے مجھے کندھا‬


‫مارتے ھوے بولی‬
‫رات ہونے دو جناب کا موڈ سہی کردوں‬
‫گی ۔‬

‫رات کا سن کر میں پھر واپس اپنی ٹون‬


‫میں آگیا اور عظمی کے دوبارا اسرار‬
‫کرنے کا انتظار کرنے لگا ۔‬
‫مجھے خاموش دیکھ کر عظمی پھر‬
‫بولی بتا بھی دو سکول بھی آنے واال‬
‫ھے‬
‫پھر نہ گھر کے رہیں گے نہ کھیت کے‬
‫رہیں گے ۔‬

‫میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ‬


‫سمجھا‬

‫اور بوال‬
‫رات کو چاے کون کون پیتا ھے‬
‫عظمی بولی سب ھی پیتے ہیں ۔‬

‫میں نے کہا‬
‫بناتا کون ھے ۔‬
‫عظمی بولی‬
‫کبھی میں کبھی عظمی اور کبھی امی‬
‫بھی بنا لیتی ھے ۔‬
‫میں نے کہا تو سمجھو اپنا کام تو ھوگیا۔‬
‫عظمی حیرانگی سے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫وہ کیسے جی۔‬

‫میں نے کہا‬
‫رات کو میں جب آوں گا تو تمہیں‬
‫چپکے سے گولیاں پکڑا دوں گا تم آنٹی‬
‫کے کپ میں ڈال دینا اور جب آنٹی‬
‫سوجائیں گی تو تم چپکے سے دوسرے‬
‫کمرے میں آجانا۔‬
‫عظمی بولی اور نسرین ۔‬

‫میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور ساتھ‬


‫ھی میرے منہ سے ھای بھی نکلی‬
‫اور کہا کہ اسکا تو مجھے یاد ھی نھی‬
‫تم دونوں کے کپ میں ڈال دینا‬
‫اور میں ماتھے کو دبانے لگا۔‬
‫عظمی نے پوچھا کیا ھوا‬
‫میں نے کہا وہ چوٹ کی جگہ پر ہاتھ‬
‫لگ گیا تھا‬
‫عظمی بولی دھیان سے رھا کرو نہ‬
‫میں نے کہا‬
‫جب ایسا پرزہ ساتھ ھو تو پھر دھیان‬
‫کہیں اور کیسے جاے ۔‬

‫عظمی بولی‬
‫چل شوخا۔‬
‫اتنی دیر میں ہم سکول والی گلی میں‬
‫داخل ہوے اور بوائز سکول کے گیٹ‬
‫کے سامنے سے گزرے تو میں نے‬
‫عظمی کی طرف دیکھا جو وھاں سے‬
‫چلنے کی سپیڈ تیز کر کے اور گبھراے‬
‫انداز سے چل رھی تھی ۔‬
‫میں نے بھی اسے کچھ نھی کہا کہ بات‬
‫خامخاہ کہیں اور نکل جاے گی ۔‬

‫عظمی کو سکول چھوڑ کر میں دکان پر‬


‫چال گیا ۔‬
‫دکان ابھی بند ھی تھی‬
‫میں نے باھر سے صفائی وغیرہ کی ۔‬
‫کچھ دیر بعد انکل بھی آگئے۔‬
‫اور دکان کھول کر دکان کی بھی‬
‫صفائی وغیرہ کی اور پھر میں دکان‬
‫کے فرنٹ پر بیٹھ کر کسٹمر کا انتظار‬
‫کرنے لگا‬
‫کچھ دیر بعد جنید بھی آگیا‬
‫اور انکل اور مجھ سے سالم دعا لینے‬
‫کہ بعد میرے پاس ھی بیٹھ گیا ۔‬
‫اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ‬
‫گئے‬
‫اچانک میرے ذہن میں آیا کہ‬
‫عظمی کو گولیوں کا کہہ تو دیا ھے‬
‫مگر گولیاں الوں گا کہاں سے میرا تو‬
‫کوئی واقف بھی نھی ھے اور نشہ آور‬
‫گولیاں کوئی میڈیکل سٹور واال دے بھی‬
‫کہ نہ دے ۔‬
‫میں نے جنید سے پوچھنے کا سوچا کہ‬
‫یہ تو شہر میں ھی رہتا ھے اور‬
‫اسکا کا شاید کوئی میڈیکل سٹور واال‬
‫واقف ھو۔‬

‫میں نے جنید سے پوچھا یار ایک کام‬


‫ھے اگر تو کر دے تو تیری مہربانی‬
‫ھے ۔‬
‫جنید ایک دم میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بوال۔‬

‫کہیں موٹر سائیکل تو نھی سیکھنی ۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے اسکی کمر پر ہاتھ‬


‫مارتے ھوے کہا‬
‫نھی یار‬
‫موٹر سائیکل نے تو میرے کانوں کو‬
‫ھاتھ لگا دیے ہیں ۔‬

‫جنید بوال تو پھر اور کیا کام ھے۔‬

‫میں نے کہا یار مجھے نیند کی گولیاں‬


‫چاہیے‬
‫اسد حیران ھوتے ھوے بوال۔‬
‫خیر ھے کوئی بچی تو نھی پھنسا لی ۔‬

‫میں نے حیران ہوتے ھوے اسکی‬


‫طرف دیکھتے ھوے کہا۔‬
‫واہ یار بڑا تجربہ ھے تیرا‬
‫تجھے کیسے پتہ ۔‬

‫جنید بڑے فخر سے سینہ چوڑا کر کے‬


‫بوال۔‬

‫تیرے ویر نے بہت بچیاں ساری ساری‬


‫رات بجائی ہیں ۔‬
‫میں نے کہا واہ یار بڑی گل اے ۔‬

‫تم تو ُچھپے رستم نکلے‬


‫تو وہ آہستہ سے دوسرے لڑکے کی‬
‫طرف اشارہ کرکے بوال‬
‫یار اسے مت بتانا یہ بات صرف تم میں‬
‫اور مجھ میں ھی رھے ۔وہ بڑا چغل‬
‫خور ھے ۔اس نے انکل کو بتا دینا ھے‬
‫۔‬
‫میں نے کہا یار کیسی باتیں کررھا ھے‬
‫میں یاروں کا یار ھوں‬
‫سوچنا بھی نہ کہ تمہاری بات لیک آوٹ‬
‫ھوگی‬
‫اور میں بھی تم پر یقین کرتے ھوے‬
‫ھی تم سے بات کی ھے کہ تم یہ بات‬
‫اپنے تک ھی محدود رکھو گے ۔‬

‫جنید بوال یار تم بھی بےفکر رہو۔‬


‫میں نے پھر کہا بتایا نھی کہ گولیاں مل‬
‫جائیں گی ۔‬
‫جنید بوال کتنے لوگوں کو کھالنی ہیں ۔‬

‫میں نے کہا دو لوگوں کو کھالنی ھے ۔۔‬

‫جنید بوال‬
‫جب ہم کھانا لینے ہوٹل پر جائیں گے تو‬
‫میرا دوست ھے میڈیکل سٹور پر ۔میری‬
‫گلی کا ھی ھے‬
‫اس سے تجھے ایک پتہ ال دوں گا‬
‫اس میں سے دو گولیاں چاے یا دودھ‬
‫میں حل کر کے ان دونوں کو پالدینا‬
‫بس پھر وہ صبح سے پہلے نھی اٹھتی‬
‫۔‬
‫میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا یار تیرا‬
‫یہ احسان زندگی بھر نھی بھولوں گا‬
‫جنید بوال چھڈ یار‬
‫یہ بھی کوئی کام ھے ۔‬
‫اتنے میں ایک کسٹمر اندر داخل ہوا تو‬
‫جنید اٹھ کر کسٹمر کو ڈیل کرنےلگ‬
‫گیا۔‬
‫اور میں پھر باہر کی طرف متوجہ‬
‫ھوکر اپنے خیالوں میں بیٹھا رھا۔‬
‫میری سوئی ایکدم اسد پر اٹک گئی کہ‬
‫سالے نے عظمی کے ساتھ اچھا نھی‬
‫کیا‬

‫اگر عظمی اس سے پیار کرتی ھی تھی‬


‫چاھے دولت کی ھی اللچ میں تو اسد‬
‫دعوی اور شادی‬
‫ٰ‬ ‫جیسے اسکو پیار کا‬
‫کی اللچ دیتا رھا‬
‫۔‬
‫اگر اس سے شادی نھی کرنی تھی یا‬
‫پھر پیار ھی نھی تھا تو اسے دھوکے‬
‫سے بال کر اسکے ساتھ یوں زبردستی‬
‫تو نہ کرتا۔‬

‫اگر عظمی اپنی رضا مندی سے اسکے‬


‫ساتھ جو مرضی کرتی وہ الگ بات‬
‫تھی‬
‫مگر اسے ایسے ایک بدمعاش کے‬
‫ڈیرے پر لیجا کر اسکی عزت پر ہاتھ‬
‫ڈالنا‬
‫تو سرا سر بدمعاشی ھے۔‬

‫میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور منہ میں ھی‬


‫بڑبڑایا۔‬
‫اچھا اسد اسکا حساب تیری بہن سے‬
‫چکتا کروں گا‬
‫اور پھر تجھے احساس ھوگا کہ کیسے‬
‫کسی کے ساتھ ذبردستی کی جاتی ھے ۔‬
‫مگر میں ذبردستی نھی کروں گے بلکہ‬
‫تیری بہن خود میرا لن پکڑ کر اپنی‬
‫کنواری پھدی میں لے گی ۔‬

‫کچھ دیر بعد دکان میں کافی کسٹمر‬


‫اگئے اور میں بھی کسٹمر ڈیل کرنے‬
‫میں مصروف ھوگیا ۔‬
‫مصروفیت میں پتہ ھی نھی چال کہ کب‬
‫دوپہر ھوگئی ۔‬
‫اور پھر میں اور جنید ہوٹل سے کھانا‬
‫لینے چلے گئے ۔‬

‫راستے جنید بوال بچی کیسی ھے جس‬


‫کی لینی ھے ۔میں نے جھوٹ بولتے‬
‫ھوے کہا نھی یار بچی نھی بلکہ آنٹی‬
‫ھے ۔‬
‫اسکا شوہر الہور میں کام کرتا ھے‬
‫اور وہ اپنی ساس اور نند کے ساتھ‬
‫ہماری دوسری گلی میں رہتی ھے ۔‬
‫بس ایسے ھی اس سے آنکھ مٹکا ھوگیا‬
‫اور اس نے آج رات ملنے کا کہا اور‬
‫ساتھ میں مجھے گولیاں النے کا بھی‬
‫کہا‬
‫مجھے تو یہ پتہ نھی کہ یہ گولیاں ھوتی‬
‫کیسی ہیں اور کہاں سے ملتی ہیں‬
‫اس لیے میں کل سے پریشان تھا اور‬
‫ڈرتا تجھ سے پوچھ نھی رھا تھا۔‬
‫جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر‬
‫کندھے کو دباتے ہوے بوال چھڈ یار‬
‫کوئی حال نئی تیرا۔‬

‫تم مجھے کل ھی بتا دیتے یہ کونسی‬


‫گیدڑسنگی تھی جو ملنی نھی تھی ۔‬
‫ایسے ھی ہم باتیں کرتے ھوے میڈیکل‬
‫سٹور پر پہنچے تو جنید مجھے باہر‬
‫کھڑے ھونے کا کہہ کر اندر گیا اور‬
‫کچھ دیر بعد باہر آیا اور مجھے چلنے‬
‫کا کہا۔‬
‫مجھ سے رھا نہ گیا اور بےصبری‬
‫سے اس سے پوچھنے لگ گیا کہ‬
‫مل گئی ۔‬
‫جنید نے برا سا منہ بنا کر کہا نھی یار‬
‫وہ کہتا ھے کہ کل لے جانا آج ختم‬
‫ھوگئی ہیں ۔‬
‫میں چلتا ھوا ایک دم رک گیا‬
‫اور اسکی طرف پریشان حال ھوکر‬
‫دیکھتے ھوے بوال‬
‫نئی یار‬
‫جنید بوال چل کل پر رکھ لینا پروگرام‬
‫کونسا قیامت آجانی ھے ۔‬

‫میں نے کہا یار پہلے ھی تو بڑی مشکل‬


‫سے کام بنا ھے اور آج رات کا ھی‬
‫موقع ھے‬
‫اور میں افسردہ سا ھوکر چلنے لگا ۔‬
‫جنید میرے چہرے کی طرف دیکھ کر‬
‫جیب میں سے ہاتھ ڈال کر کاغذ والے‬
‫چھوٹے سے لفافے میں لپٹا گولیوں کا‬
‫پتہ مجھے دیتے ھوے ہنستا ھوا بوال ۔‬
‫لے فیر یار کی یاد کریں گا ۔‬

‫میرے ہاتھ میں گولیوں کا پیکٹ آتے‬


‫ھی میرے چہرے پر ایسے رونق آئی‬
‫جیسے مجھے کوئی خزانہ مل گیا ھوں‬
‫۔‬

‫میں نے پیکٹ پکڑ کر جلدی سے جیب‬


‫میں ڈالتے ھوے‬
‫جنید کے بازو پر مکا مارتے ھوے کہا۔‬
‫ماما مینوں ڈرا ای دتا سی ۔‬

‫ہم ایسے ھی ہنستے ھوے ہوٹل پر‬


‫پہنچے اور کھانا لے کر دکان پر چلے‬
‫گئے کھانا وغیرہ کھا کر فری ہوے اور‬
‫پھر کسٹمرز میں مصروف ہوے شام‬
‫ہونے کا نام ھی نھی لے رھی تھی ۔‬
‫آخرکار وقت وصل قریب آیا اور میں‬
‫گھر پہنچا تو امی نے بتایا کہ تیری آنٹی‬
‫اکیلی ھے‬
‫تم آج رات انکے گھر سو جانا‬
‫میں نے منہ بسور کر اچھا کیا‬
‫اور کھانا وغیرہ کھا کر‬
‫عظمی کے گھر پہنچ گیا۔‬
‫جاتے ھی آنٹی فوزیہ کو سالم کیا‬
‫تینوں ماں بیٹیاں صحن میں ھی بیٹھی‬
‫کھانا کھا رھی تھیں ۔‬

‫مجھے دیکھ کر فوزیہ اور عظمی کے‬


‫چہرے پر ایک الگ ھی خوشی نظر‬
‫آئی۔‬

‫میں انکے پاس ھی بیٹھ گیا آنٹی فوزیہ‬


‫نے مجھے کھانے کا کہا مگر میں نے‬
‫کہا کہ میں گھر سے کھا کر آیا ہوں ۔‬
‫تو آنٹی ناراض ہوتے ھوے بولی تمکو‬
‫کہا بھی تھا کہ رات ادھر سونا ھے تو‬
‫کھانا بھی ادھر ھی کھا لیتے ۔‬
‫میں نے کہا کوئی بات نھی آپکے اور‬
‫ہمارے گھر کا کونسا کوئی فرق ھے‬
‫ایک ھی بات ھے ۔‬
‫پھر کچھ دیر ادھر ادھر کیا باتیں چلتی‬
‫رھی ۔‬

‫نسرین بیچاری تو پھدی کی لیکج کو لے‬


‫کر افسردہ سی بیٹھی کھانا کھا رھی‬
‫تھی‬
‫اور عظمی رات کو پھدی چودوانے کے‬
‫لیے بے چین تھی‬
‫اور آنٹی فوزیہ کا بھی من کر رھا تھا‬
‫کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاے ۔‬
‫آنٹی فوزیہ کے آج تیار شیار ہونے سے‬
‫ھی اسکے ارادوں کا پتہ چل رھا تھا ۔‬
‫آنٹی فوزیہ نے پیج کلر کا سوٹ پہنا ہوا‬
‫تھا‬
‫جس میں اس کا گورا رنگ اور بھی‬
‫کھل رھا تھا ۔‬
‫میں آنٹی کے پاس ھی بیٹھا ھوا تھا ان‬
‫کے جسم سے صابن کی بھینی بھینی‬
‫سے خوشبو اٹھ رھی تھی جیسے کچھ‬
‫دیر پہلے ھی نہائی ھو۔‬
‫میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا کہ کب‬
‫واپس آئیں گے تو آنٹی بولی کل کا کہہ‬
‫کر گئے تھے کہ الزمی آجاوں گا۔‬
‫میں نے ہممم کیا ۔‬
‫عظمی بار بار مجھے آنکھوں سے‬
‫اشارے کر کے گولیوں کا پوچھ رھی‬
‫تھی میں نے اسے آنکھ مار کر مطمئن‬
‫کردیا۔‬
‫اور آنٹی کے سامنے بیٹھ کر اسکے‬
‫جسم کا نظارا کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا‬
‫اور وہ چارپائی پر ایک ٹانگ کو فولڈ‬
‫کرکے گھٹنا اوپر کئے اور دوسری‬
‫ٹانگ کو نیچے فولڈ کر کے پیر پھدی‬
‫کے ساتھ لگاے بیٹھی ھوئی تھی‬
‫جبکہ عظمی اور نسرین دوسری‬
‫چارپائی پر ایک دوسرے کے آمنے‬
‫سامنے بیٹھی‬
‫کھانا کھانے میں مصروف تھیں ۔‬

‫آنٹی جب جھک کر روٹی کے نوالے کو‬


‫پلیٹ سے سالن لگاتی تو آنٹی کے آدھے‬
‫ممے گلے سے نظر آتے‬
‫اور آنٹی کو بھی پتہ تھا کہ میں اس کے‬
‫مموں کا نظارا کررھا ھوں ۔‬
‫وہ بھی جان بوجھ کر ذیادہ جھکتی ۔‬
‫کچھ دیر بعد کھانا ختم کیا اور آنٹی نے‬
‫عظمی کو برتن سمیٹنے کا کہا‬
‫نسرین اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی‬
‫اور‬
‫عظمی برتن سمیٹ کر‬
‫نلکے کے پاس لے گئی اور دھونے‬
‫میں مصروف ھوگئی‬
‫میں نے آہستہ سے آنٹی کو کہا‬
‫آج میرا نمبر لگ جاے گا کہ نھی ۔‬
‫تو آنٹی نے جلدی سے میرا ھاتھ دباتے‬
‫ھوے عظمی کی طرف اشارہ کیا‬
‫تو میں نے آہستہ سے کہا وہ تو اتنی‬
‫دور بیٹھی ھے اسکو‬
‫ہماری آواز کہاں سننی ھے ۔‬
‫آنٹی بولی صبر کرلو‬
‫اتنے بے صبرے مت بنو۔‬
‫میں نے کیا ۔آنٹی آپ کے ممے دیکھ کر‬
‫ھی میں بےصبرا ھوگیا ھوں‬
‫اور اپنے لن کو پکڑ کر کہا یہ دیکھو‬
‫کیسے بےچین ھے ۔‬
‫آنٹی نے گبھرا کر اپنے ہونٹوں پر‬
‫انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا‬
‫اشارا کیا مگر میں کہا چپ رہنے واال‬
‫تھا۔‬
‫میں نے پھر پوچھا بتا تو دیں کہ میں‬
‫انتظار کروں آپ کا ۔تو آنٹی آہستہ سے‬
‫بولی ۔‬
‫میں کوشش کروں گی‬
‫اب چپ ھوجاو ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے آنٹی چارپائی سے‬
‫اٹھی اور جوتا پہنتے ھوے اپنی گانڈ‬
‫میں پھنسی قمیض کو نکال کر عظمی‬
‫کو برتن اچھی طرح دھونے کا کہتی‬
‫ھوئی اسکی طرف چلی گئی ۔‬
‫میں اب اکیال بیٹھا ھوا تھا‬
‫میں بھی اٹھ کر اندر کمرے میں نسرین‬
‫کے پاس چال گیا اور جاکر اس سے‬
‫اسکی طبعیت کا پوچھنے لگ گیا ا کچھ‬
‫دیر بعد ھی آنٹی برتنوں کی ٹوکری‬
‫اٹھاے کمرے میں داخل ھوئی ۔‬
‫اور آنٹی کے پیچھے ھی عظمی بھی‬
‫اندر آگئی ۔‬
‫عظمی نے اندر آتے ھی مجھے باہر‬
‫آنے کا اشارہ کیا‬

‫عظمی نے اندر آتے ھی مجھے باہر‬


‫آنے کا اشارہ کیا‬
‫تو میں پیشاب کرنے کے بہانے باہر‬
‫نکل آیا اور واش روم میں چال گیا اور‬
‫دروازہ بند کر کے اندر کھڑا ھوگیا اور‬
‫جیب سے گولیاں نکال کر ہاتھ میں پکڑ‬
‫لیں ۔‬
‫اور لکڑی کے دروازے کی دراڑ سے‬
‫آنکھ لگا کر صحن میں دیکھنے لگا تو‬
‫عظمی دیگچی اٹھاے کمرے سے نکلی‬
‫اور چولہے کی طرف جانے لگی تو‬
‫میں جلدی سے دروازہ کھول کر باہر‬
‫نکال اور چلتا ھوا عظمی کے قریب‬
‫پہنچا اور اسکے ہاتھ میں گولیوں کا پتہ‪.‬‬
‫دیتے ھوے کہا ایک ایک گولی دونوں‬
‫کی پیالی میں ڈال دینا اور اسکا جواب‬
‫سنے بغیر پھر کمرے کی طرف چال‬
‫گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد عظمی چاے لے کر اندر‬
‫داخل ہوئی تو میں نے اسکی طرف‬
‫دیکھ کر آنکھوں کے اشارے کام‬
‫ہوجانے کا پوچھا تو عظمی نے پلکوں‬
‫کو جھکا کر اثبات میں جواب دیا۔‬
‫اور پھر عظمی نے ایک پیالی آنٹی کو‬
‫پکڑائی ایک مجھے اور پھر نسرین کو‬
‫ہم چاے پیتے ھوے گپیں مارتے رھے ۔‬
‫ساتھ میں نسرین کے ساتھ بھی چونچ‬
‫لڑتی رھی اور جوابا ً اسکی جلی کٹی‬
‫باتیں سن کر قہقہے لگاتے رھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے آنٹی سے پوچھا‬
‫کہ میں نے کہاں سونا ھے ۔تو آنٹی‬
‫بولی چلو میں ساتھ والے کمرے میں‬
‫تمہارا بستر لگا دیتی ہوں ۔‬
‫عظمی اور نسرین بھی لیٹ گئی تھیں‬
‫میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چال گیا۔‬

‫میرے پیچھے ھی آنٹی گانڈ مٹکاتی‬


‫ہوئی آگئی ۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے آنٹی‬
‫کو کس کر جپھی ڈال لی‬
‫اور آنٹی کے ہونٹوں کو چومنے لگ‬
‫گیا‬
‫آنٹی میرے اچانک یوں جپھی ڈالنے‬
‫سے گبھرا گئی اور مجھے پیچھے‬
‫دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے آہستہ‬
‫سے بول رھی تھی‬
‫یاسر چھوڑو‬
‫پاگل ھوگئے ھو وہ دونوں جاگ رھی‬
‫ہیں کوئی ادھر آگئی تو مجھے مرواو‬
‫گے میں آنٹی کو تسلی دیتے ھوے کچھ‬
‫نھی ہوتا آنٹی وہ سونے لگی ہیں اب‬
‫نھی آتی باہر‬
‫کہتے ھوے آنٹی کی ہونٹ چوم رھا تھا‬
‫اور آنٹی منہ ادھر ادھر کر رھی تھی‬
‫آنٹی کے دونوں بازو میرے سینے اور‬
‫آنٹی کے مموں کے درمیان تھے اور‬
‫میرا لن فل ٹائٹ ھو کر آنٹی کی پھدی‬
‫کے ساتھ رگڑ رھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر آنٹی احتجاج کرتی رھی مگر‬
‫جب لن نے پھدی کو گرم کردیا اور‬
‫میرے ہونٹوں کے لمس نے آنٹی کے‬
‫جسم میں ہوس جگا دی تو آنٹی نے بھی‬
‫اپنے بازوں سینے سے نکال کر میری‬
‫کمر کے گرد ڈال لیے اور اپنے ممے‬
‫میرے سینے میں جزب کر لیے‬
‫میں نے آنٹی کا اوپر واال ہونٹ منہ میں‬
‫ڈال کر چوسنے لگ گیا جبکہ آنٹی نے‬
‫میرا نچال ہونٹ قابو کر لیا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے آنٹی کی‬
‫موٹی گانڈ کی پھاڑیوں کو ھاتھوں میں‬
‫جکڑا ھوا تھا‬
‫اور ھاتھوں کا دباو ڈال کر گانڈ کو آگے‬
‫کی طرف دھک رھا تھا‬
‫اور میرا لن آنٹی کے نرم پٹوں کے‬
‫درمیان پھدی کے ساتھ رگڑ کھا رھا‬
‫تھا‬
‫جس سے آنٹی بھی فل انجواے کرتی‬
‫ھوئی‬
‫اپنے پٹوں کو آپس میں بھینچ رھی تھی‬
‫۔‬
‫میں کچھ دیر ایسے ھی کرتا رھا ہم‬
‫دونوں اتنا مستی میں ڈوبے ھوے تھے‬
‫کہ یہ بھی خیال نہ رھا کہ کمرے کا‬
‫دروازہ کھال ھوا ھے اور‬
‫عظمی یا نسرین میں سے کوئی بھی‬
‫اندر آسکتی ھے ۔‬
‫مگر جب منی دماغ پر سوار ھو تو سب‬
‫اندھے گونگے بہرے ھی نظر آتے ہیں‬
‫۔‬

‫ایسا ھی حال ہمارا اس وقت تھا۔‬


‫بس کمرے کی الئٹ بند تھی شاید اس‬
‫وجہ سے دماغ بھی کچھ مطمئن تھا‬
‫میں نے ھاتھ آگے کیا اور آنٹی کی‬
‫قمیض کے اندر سے ھاتھ ڈال کر آنٹی‬
‫کے نرم نرم مموں کو پکڑ کر دبانے‬
‫لگا ۔‬
‫میں یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ آنٹی نے‬
‫بریزیر بھی نھی پہنا ہوا تھا ۔‬
‫جبکہ جب میں آیا تھا تو میں نے آنٹی‬
‫کے کپڑوں میں خود اپنی آنکھوں سے‬
‫کالے رنگ کے بریزیر کا عکس دیکھا‬
‫تھا ۔‬
‫جب میرا ہاتھ آنٹی کے ننگے ممے پر‬
‫گیا اور جاتے ھی میں نے آنٹی کے‬
‫تنے ھوے نپل کو انگلیوں میں مسال تو‬
‫آنٹی کے منہ سے سییییییی کی آواز‬
‫نکلی‬
‫میں نے تھوڑی دیر ھی مموں کو باری‬
‫باری جلدی جلدی مسل کر چھوڑ دیا۔‬
‫اور آنٹی کو پیچھے دھکیلتے ھوے‬
‫دیوار کے ساتھ لگا دیا اور ساتھ ھی اپنا‬
‫ھاتھ آنٹی کی السٹک والی شلوار میں‬
‫ڈال کر پھدی پر رکھ دیا‬
‫پھدی تو ایسے مالئم تھی جیسے آج ھی‬
‫اسکی صفائی کی ھو ۔‬
‫یعنی آج صبح سے ھی آنٹی کا چدوانے‬
‫کا موڈ تھا۔ میرا ھاتھ پھدی کو کیا چھوا‬
‫پھدی نے میرا ھاتھ ھی گیال کردیا‬
‫میری انگلیاں چپ چپ کرنے لگ گئی‬
‫آنٹی نے پھدی کو ھاتھ لگتے ھی اپنی‬
‫ٹانگوں کو آپس میں بھینچ لیا اور‬
‫سییییییی آہہہہہہہہہ کیا میرا ھاتھ آنٹی‬
‫کے چڈوں میں ھی پھنس گیا‬
‫میں نے کوشش کر کے ہاتھ باہر نکاال‬
‫اور آنٹی کا منہ دوسری طرف کرنے‬
‫کے لیے آنٹی کی کمر میں بازو ڈال کر‬
‫آنٹی کو گھما دیا انٹی آہستہ سے بولی‬
‫کیا ھے میں نے کہا بتاتا ھوں منہ تو‬
‫دوسری طرف کرو اور آنٹی نے‬
‫لےےےےےےے کیا اور منہ دیوار کی‬
‫طرف کر کے کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے جلدی سے اپنا ناال کھوال شلوار‬
‫کو ڈھیال کیا تو شلوار میرے پاوں میں‬
‫گر گئی ۔‬
‫اور پھر آنٹی کی قمیض گانڈ سے اوپر‬
‫کی اور شلوار پکڑ کر گانڈ سے نیچے‬
‫کرنے لگا تو آنٹی نے جلدی سے شلوار‬
‫پکڑ لی اور گھوم کر پھر سیدھی‬
‫ھوگئی‬
‫اور مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی‬
‫یاسر پاگل تو نھی ھوگئے‬
‫اور ساتھ ھی کمرے سے باہر نکل گئی‬
‫میرے منہ سے بس اتنا ھی نکال بات تو‬
‫سنننننن۔۔‬

‫اور میں لن ھاتھ میں پکڑے آنٹی کو‬


‫جاتا دیکھتا رھا۔‬
‫مجھے غصہ تو بہت آیا کہ سالی خود‬
‫تو فارغ ھوگئی مگر مجھے ادھورا‬
‫چھوڑ کر چلی گئی‬
‫میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی اور‬
‫ناال باندھ کر کھڑے لن کے ساتھ ھی‬
‫چارپائی پر بیٹھ گیا‪ .‬۔‬
‫سالی بستر بھی نھی لگا کر گئی تھی‬
‫ویسے ھی چارپائی پڑی تھی جس پر‬
‫میں بیٹھا‬
‫سوچ رھا تھا اور نیچے سے میرا لن‬
‫مجھے‬
‫وکھرا منہ چڑھا رھا تھا ۔‬
‫میں کچھ دیر بیٹھا دل ھی دل میں آنٹی‬
‫فوزیہ کو گالیاں دیتا رھا‬
‫مجھے غصے میں دیکھ کر لن بھی ڈر‬
‫کر بیٹھ گیا۔‬
‫میں اٹھا اور باہر نکل کر واش روم کی‬
‫طرف چال گیا ۔‬
‫پیشاب کر کے میں باہر آیا تو میں انکے‬
‫کمرے کی طرف چل پڑا اور دروازے‬
‫کہ قریب کھڑا ھوکر کان لگا کر اندر‬
‫کے حاالت معلوم کرنے لگ گیا ۔‬
‫مگر اندر مکمل سکوت طاری تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں ادھر ھی کھڑا رھا پھر یہ‬
‫سوچ کر دوسرے کمرے کی طرف چل‬
‫پڑا کہ لگتا ھے آنٹی جاتے ھی سوگئی‬
‫ھے‬
‫اور نسرین تو پہلے ھی سوگئی ھوگی‬
‫اور عظمی سونے کا ناٹک کر رھی‬
‫ھوگی۔‬
‫بس ایسے ھی قیاس آرائیوں سے دل کو‬
‫دالسے دیتا ھوا کمرے میں داخل ھوا‬
‫اور الئٹ جال کر بستر ڈھونڈ کر خود‬
‫ھی بستر کیا اور پھر الئٹ بند کر کے‬
‫پنکھا چال کے لیٹ گیا اور عظمی کا‬
‫انتطار کرنے لگ گیا‬
‫آنٹی کے آنے کی تو اب امید ھی نھی‬
‫تھی‬
‫کیونکہ گولیاں اب تک اپنا اثر کرچکی‬
‫ہونگی ۔‬

‫اور ویسے بھی آنٹی کی پھدی ایک دفعہ‬


‫مینہ برسا چکی تھی اور ایسی حالت‬
‫میں ویسے ھی نیند بہت جلد آجاتی ھے‬
‫کافی دیر تک میں ایسے ھی سوچوں‬
‫میں گم رھا‬

‫کہ مجھے باہر سے کسی کے قدموں‬


‫کی آواز آئی جیسے وہ کمرے کی‬
‫طرف آرھا ھو ۔‬
‫میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ‬
‫پڑے اور عظمی کو تنگ کرنے کے‬
‫لیے میں جلدی سے آنکھیں موند کر‬
‫سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔‬
‫قدموں کی آواز کی سمت کان لگائے‬
‫میں آنکھیں موند کر لیٹا رھا اور قدموں‬
‫کی آواز جب بلکل کمرے کے دروازے‬
‫کے پاس آگئی تو میں سونے کی‬
‫ایکٹنگ کرتے ھوے آہستہ آہستہ خراٹے‬
‫مارنے لگ گیا۔‬
‫اور عظمی کو دفعتا ً ڈرانے کے لیے‬
‫تیار کرنے لگ گیا۔‬
‫عظمی نے اندر آتے ھی دروازہ بند کیا‬
‫اور آکر چارپائی کے قریب کھڑی‬
‫ہوگئی ۔‬

‫میرا لن تو اسکے قدموں کی آواز سن‬


‫کر ھی اس کے آنے کی خوشی میں سر‬
‫اٹھاے شلوار کو تمبو بنا کر اسکو تمبو‬
‫کے ساے تلے بیٹھانے کا بندوبست‬
‫کرچکا تھا۔‬
‫عظمی‬
‫کچھ دیر کھڑی مجھے ہاتھ سے ہالتی‬
‫رھی تو میں جو پہلے سیدھا لیٹا ھوا تھا‬
‫اسکے ہالنے سے کروٹ لے کر اسکی‬
‫طرف پیٹھ کر کے لیٹ گیا‬
‫عظمی چارپائی سے اٹھی اور الئٹ جال‬
‫کر پھر میرے پاس چارپائی پر بیٹھ‬
‫گئی‬
‫وہ خود اتنی ڈر رھی تھی کہ اسکی‬
‫ہمت نھی ھورھی تھی کے مجھے آواز‬
‫دے کر اٹھاے‬
‫اس نے چارپائی پر بیٹھ کر مجھے پھر‬
‫ہالیا مگر میں نے پھر بھی اسکی طرف‬
‫منہ نھی کیا‬
‫عظمی میرے ساتھ لیٹ گئی‬
‫اور میرے کان کے پاس منہ کر کے‬
‫میرے کان پر ہلکی سے دندی کاٹ لی ۔‬
‫میں نے سیییییی کرتے ھوے‬
‫کان کو مسال‬
‫اور غصے سے اسکی طرف گھوم کر‬
‫کہا سسییییی‬
‫عظظظظظظظظظظظ‬
‫آآآ آ آ آ آ‬
‫بس اتنا ھی میرے منہ سے نکال‬
‫اور آآ کی چیخ نکلی‬

‫اور میں نے آنکھوں کو ملتے ھوے‬


‫ناقابل یقین سے پوری آنکھیں کھول کر‬
‫جب دیکھا تو وہ عظمی نھی بلکل آنٹی‬
‫فوزیہ تھی‬
‫اور میں خود کو سنبھالتے ھوے‬
‫عظظظظ کو‬
‫اظظظظالمیں کہہ کر مکمل کیا‬

‫میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنٹی‬


‫کو آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھا تھا‬

‫کہ یہ سالی آنٹی فوزیہ ھی ھے کہیں‬


‫کوئی چڑیل تو نھی‬
‫کیونکہ مجھے تو پکا یقین تھا کہ‬
‫آنٹی اور نسرین تو بےہوشی کی نیند‬
‫سوگئی ہوں گی‬
‫مگر یہ بال کہاں سے نازل ہوگئی‬
‫انکھیں بھی وہ ھی ناک بھی وہ ھی‬
‫ہونٹ بھی وہ سوٹ بھی پیج کلر ھی‬
‫ھے ہاتھ پیر بھی سیدھے ھی ہیں‬
‫اگر یہ آنٹی ھے تو‬

‫عظمی کدھر گئی ۔‬

‫مجھے یوں حیران پریشان دیکھ کر آنٹی‬


‫مجھے کندھے سے ہالتے ھوے بولی‬
‫خیر اے میں ای آں‬
‫کی ڈیلے پاڑ پاڑ ویکھی جاناں ایں ۔‬
‫آنٹی کی آواز سن کر مجھے کچھ‬
‫حوصلہ ھوا‬
‫میں نے کہا آآنٹیییی آپپپپپ‬
‫تو آنٹی نے مجھے پھر کندھے سے‬
‫ہالتے ھوے‬
‫کہا‬

‫او کاکا ہوششش کر‬


‫میں ای آں‬
‫اینا ڈریاں ہویاں کیوں ایں ۔‬
‫میں نے جب دوبارا آنٹی کی آواز سنی‬
‫تو مجھے یقین ھوا کہ واقعی یہ چڑیل‬
‫نھی آنٹی فوزیہ ھی ہے۔‬

‫میں نے خود کو کنٹرول کرتے ھوے‬


‫کہا‬
‫وہ میں سو گیا تھا ۔اور آپ نے میرے‬
‫کان پر کاٹا تو میں ڈرگیا‬
‫آنٹی ہنستے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ‬
‫مارتے ھوے بولی جا اوے کوئی حال‬
‫نئی تیرا۔‬
‫پورا پائی بن گیا ایں پر فیر وی اندروں‬
‫بچہ ای ایں ۔‬

‫اب میں کافی ریلیکس ھوچکا تھا۔‬


‫اور دل کو سمجھا بیٹھا تھا‬
‫کہ چلو‬
‫کڑی نئی تے اودھی ماں ای سئی۔‬
‫آپاں تے پانی ای کڈنا اے‬
‫موٹر نئی تے ڈونکی پمپ ای سئی۔‬

‫میں نے آنٹی کو جپھی ڈال کر چارپائی‬


‫پر لیٹاتے ھوے کہا۔‬
‫جان من آج اس بچے کا کمال تو دیکھنا‬
‫اور ساتھ ھی میں نے آنٹی کہ ہونٹوں پر‬
‫ہونٹ رکھ دیے‬
‫اور ہونٹ چوسنے لگ گیا۔‬
‫میرے دماغ میں پھر عظمی آگئی کہ یہ‬
‫نہ ھو کہ وہ سالی اوپر سے آجاے‬
‫اور میں نہ ماں کو چود سکو ں نہ‬
‫اسکی بیٹی کو۔‬
‫میں نے آنٹی کے لبوں سے اپنے لب‬
‫ہٹاے اور آنٹی سے پوچھا کہ عظمی‬
‫اور نسرین سوگئی‬

‫تو آنٹی بولی وہ تو کب کی سوگئی ہیں‬


‫میں نے تو انکو دو تین دفعہ آوازیں‬
‫بھی دیں مگر وہ تو پتہ نئی کون سا نشہ‬
‫پی کر سوئی ہیں ۔‬

‫میں عجیب ھی کشمکش میں تھا کہ یہ‬


‫ساال ھو کیا رھا ھے یہاں تو سب کچھ‬
‫ھی الٹ ھوگیا‬
‫بیٹی کو چودنے کی خاطر‬
‫ماں کو سالنے کہ لیے گولیاں کھالئیں‬
‫مگر یہاں ماں بیٹی کو سال کر خود‬
‫چدنے آگئی‬
‫واہ ****؛تیرے کیا رنگ ہیں۔‬
‫لن جو موتر کی جھاگ کی طرح بیٹھ‬
‫گیا تھا‬
‫انٹی کی پھدی کو قریب دیکھ کر پھر‬
‫سے انگڑائی لے کر آنٹی کے چڈوں‬
‫میں سر دے چکا تھا‬
‫میں نے بھی سب خیالوں کو لن پر‬
‫کنڈوم کی طرح چڑھا کر ۔‬
‫سر کو جھٹکا اور‬
‫پھر سے‬
‫میرے انتظار میں کھڑے گالبی ھوتے‬
‫ھوے ہونٹوں پر پر اپنے ہونٹ رکھ‬
‫دیے اور انکو چوسنے لگ گیا۔‬
‫آنٹی بھی گرم ہوچکی تھی‬
‫میں نے آنٹی کو سیدھا کیا اور انٹی کی‬
‫قمیض کو اوپر کر کے مموں کو باہر‬
‫نکاال‬
‫‪100‬‬
‫واٹ کے بلب کی گولڈن الئٹ میں آنٹی‬
‫کے ممے چمکتے ھوے باہر آے اور‬
‫مجھے ٹوٹ پڑنے کا دعوت نامہ پیش‬
‫کرنے لگے‬
‫جسے میں نے خوش دلی سے قبول کیا‬
‫اور مموں پر ہاتھ صاف کرنے لگا‬
‫جیسے جیسے مموں کو میں چوستا آنٹی‬
‫کندھے اٹھا اٹھا کر ممے میرے منہ کے‬
‫اندر گھسانے کی کوشش کرتی اور ایک‬
‫ہاتھ سے مما پکڑ کر میرے منہ میں‬
‫ایسے دیتی جیسے مجھے دودھ پال‬
‫رھی ھو‬
‫اور چھت کی طرف منہ کر کے بند‬
‫انکھوں سے سسکاریاں بھرتی ۔‬
‫کچھ دیر مموں کی چنگی تسلی کی ۔‬
‫اور پھر میں اٹھ کر آنٹی کی ٹانگوں‬
‫کے درمیان آگیا۔‬

‫پہلے میں نے خود کو کپڑوں سے آزاد‬


‫کیا اور مادر زاد ننگا ھوگیا اور پھر‬
‫آنٹی کا بازو پکڑ کر کھینچتے ھو اسے‬
‫بھی اٹھا کر بیٹھا لیا اور اسکی قمیض‬
‫بھی اتار دی بریزیر تو پہلے ھی نھی‬
‫جسم پر تھا‬
‫آنٹی کا ننگا جسم بلب کی گولڈن الئٹ‬
‫میں دیکھ کر میری تو باچھیں کھل‬
‫گئیں‬
‫کیا جسم تھا آنٹی کا‬
‫چٹا سفید گولڈن سیب‬
‫میرا رنگ بھی کافی سفید تھا مگر‬
‫آنٹی کے اوپر لیٹا ھوا میں‬
‫نان پر کباب ھی لگ رھا تھا‬
‫انٹی کی گوری چمکتی رنگت کے‬
‫سامنے میرا سفید رنگ بھی مانند پڑگیا۔‬

‫میں نے آنٹی کی قمیض اتار کر آنٹی کو‬


‫پھر لیٹا دیا اور پھر شلوار کو پکڑا کر‬
‫پھدی اور گانڈ سے نیچے کرتے ھوے‬
‫پیروں سے بھی الگ کردیا۔‬
‫اب دونوں‬
‫الف ننگے تھے‬
‫ایک کچی جوانی اور ایک پکی ُکھنگ‬
‫جوانی۔‬
‫آپس میں ٹکرانے کے لیے بے چین‬
‫تھیں‬
‫دونوں کی سانسیں بے ترتیبی سے چل‬
‫رھی تھیں‬
‫پھدی لن کو اور لن پھدی کو گھور رھا‬
‫تھا‬
‫قارئین اضطراب کا شکار تھے‬
‫رات ابھی آدھی باقی تھی‬
‫حوصلے دونوں کے بلند تھے‬

‫مجھے اپنی جوانی اور جنون کا غرور‬


‫آنٹی کو اپنے تجربہ اور قوت برداشت‬
‫کا تکبر‬
‫جیت کس کی ھوتی‬
‫یہ اختتام جنگ کے بعد ھی معلوم ہونا‬
‫تھا۔‬

‫میں نے آنٹی کی پھدی کی طرف دیکھا‬


‫تو‬
‫پھدی شیشے کی پلیٹ کی طرح چمک‬
‫رھی تھی‬
‫میں نے دو انگلیوں کو جوڑا اور انکو‬
‫پھدی کے لبوں کی درمیان گھسیڑ کر‬
‫اندر کردیا‬
‫آنٹی کے کندھے چار پائی سے اوپر کو‬
‫اٹھے اور ھائیییییی کی آواز آئی‬
‫اور پہلی شاٹ پر جنون کا پوائنٹ بڑھا‬
‫اور قوت برداشت صفر پر‬
‫انگلیاں میں نے جڑ تک اندر کردیں ۔‬
‫پھدی ابھی اتنی گیلی نھی تھی‬
‫اس لیے آنٹی کو ہلکی سی تکلیف‬
‫ھوئی‬
‫جسکا اظہار انکی ہائیییییی سے ہوا۔‬
‫میں آنٹی کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھا‬
‫اپنے ھاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑے‬
‫پھدی کے اندر باہر کرنے لگا‬
‫آنٹی کی اہیں اب سسکاریوں میں بدل‬
‫گئی‬
‫اس سے پہلے کے آنٹی کو پہلے ھی‬
‫اوور میں صفر پر آوٹ کر دیتا‬
‫آنٹی کا تجربہ کام آیا اور آنٹی نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑ لیا ۔‬
‫اور نھی میں سر ہال کر پھدی سے‬
‫انگلیاں باہر نکال دیں ۔‬
‫مجھے پہال وار خالی جانے پر دکھ ہوا‬
‫خیر‬
‫ابھی تو گیم شروع ھوئی تھی ۔۔۔‬
‫آنٹی پھدی سے میری انگلیاں نکالنے‬
‫کے بعد تیز سانس لے کر میری طرف‬
‫مستانی آنکھوں سے دیکھنے لگ گئی‬
‫میں نے پھر انگلیوں کو پھدی کی جانب‬
‫بڑھایا تو آنٹی نے جلدی سے میری‬
‫انگلیوں کو ھی پکڑ لیا ۔‬
‫میں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو‬
‫آنٹی نے نفی میں سر ہالتے ھوے روکا‬
‫اور انگلیوں کو کھینچ کر آنکھوں کے‬
‫اشارے سے اور سر کو خم دے کر‬
‫مجھے اپنے اوپر آنے کا کہا۔‬
‫مگر میرا ابھی پھدی کے ساتھ مستی‬
‫کرنے کو دل کررھا تھا۔‬
‫میں ایک دفعہ تو آنٹی کا دل رکھتے‬
‫ھوے ۔‬
‫اسکے اوپر سے سیدھا اسکے چہرے‬
‫کے پاس منہ کر کے اسکے اوپر ھی‬
‫لیٹ گیا اور میرا لن پھدی کے اوپر لگ‬
‫گیا‬
‫آنٹی نے جلدی سے چالکی کھیلتے‬
‫ھوے ۔ اپنی ٹانگوں کو کھوال۔‬
‫اور گانڈ کو نیچے سے اوپر کی طرف‬
‫جھٹکا دیا کہ لن اندر چال جاے ۔‬
‫مگر میں نے لن کو اس انداز سے کر‬
‫لیا کہ لن پھدی سے سلپ ھو کر انٹی‬
‫کی گانڈ کی طرف چال گیا۔‬
‫آنٹی نے تین یکے بعد دیگرے گانڈ اٹھا‬
‫کر لن کو گھسے مارے مگر میں ہر‬
‫دفعہ پھدی کا وار خالی جانے دیتا۔‬
‫میں تو لمبی سیریز کھیلنے کے موڈ‬
‫میں تھا مگر آنٹی تو بس ٹی ٹونئٹی میں‬
‫ھی کام نپٹانا چاھتی تھی ۔‬

‫میں نے آنٹی کے ہونٹوں کو چوسا اور‬


‫نیچے کھسکنے لگا تو آنٹی بولی‬
‫یاسر اندر کرو نہ‬
‫میں نے کہا صبر رکھیں ۔کرتا ھوں ۔‬
‫آنٹی بولی نھی صبر ہوتا‬
‫سارااااا ایییی کردو‬

‫میں نیچے کھسکتے ھو ے بوال‬


‫میری جان سارا ھی کروں گا‬
‫بس دومنٹ ۔‬

‫میں کھسکتا ھوا آنٹی کے مموں کے‬


‫پاس پہنچا تو‬
‫مموں نے میرا راستہ روک لیا‬
‫کہ‬
‫کدرررررر۔‬

‫میں نے وھاں ٹھہر کر کچھ دیر دونوں‬


‫مموں کو سمجھایا‬
‫اور پھر نیچے کی طرف آگیا۔‬
‫مموں کو منہ میں بھرتے ھی آنٹی نے‬
‫مجھے مذید ساتھ چپکا لیا اور مموں کو‬
‫اوپر کر کر کے مجھ سے چوسا‬
‫لگوانے لگ گئی ۔‬

‫میں نے مموں کو انکا حصہ دیا‬


‫اور واپس اپنی منزل کی طرف لوٹتے‬
‫ھوے نیچے کھسکنا شروع ہوگیا۔‬
‫آنٹی نے مجھے نیچے جانے کے لیے‬
‫پھر روکا مگر میں کیسے رکتا‬
‫پھدی میرا انتظار کررھی تھی‬
‫میں انٹی کے پیٹ کو چومتا ھوا ناف‬
‫سے نیچے آیا اور‬
‫پھدی کے لبوں کو چوما اور پھر‬
‫دوزانوں ہوکر پھدی کے سامنے بیٹھ‬
‫گیا‬
‫میں نے پھدی کے اوپر دونوں ہاتھ‬
‫رکھے اور دونوں انگوٹھوں کی مدد‬
‫سے پھدی کے لب کھولے اور پھدی‬
‫کے اندر کا منظر دیکھنے لگ گیا ۔۔‬
‫پھدی اندر سے سرخ تھی‬
‫اور پھدی کی سرخی پھدی میں لگی‬
‫ہوئی آگ کی وضاحت کر رھی تھی ۔‬
‫میں پھدی کو غور سے دیکھ کر اندر‬
‫کے حاالت معلوم کررھا تھا‬
‫آنٹی آنکھیں بند کر کے سی سی کر‬
‫رھی تھی ۔‬
‫پھدی کے اندر جاکر اندھیری سرنگ‬
‫شروع ہو جاتی تھی‬
‫جس سے آگے کچھ نظر نھی آرھا تھا ۔‬
‫پھدی کے اندر نرم ریشوں پر پھدی‬
‫سے گرنے والی شبنم کے قطرے چمک‬
‫رھے تھے ۔‬
‫میں نے سر پھدی کی جانب بڑھایا ۔‬
‫انٹی ٹانگوں کو فولڈ کر کے گھٹنے‬
‫اوپر کر کے پھدی کو میرے سامنے‬
‫ایسے کھول کرلیٹی ہوئی تھی جیسے‬
‫بچہ پیدا کرتے وقت عورت ٹانگیں‬
‫کھول کر لیٹتی ھے ۔‬
‫میں نے پھدی کے قریب منہ کیا اور‬
‫اپنی زبان نکال کر پھدے کے مٹر‬
‫جتنے دانے کو زبان کی نوک سے‬
‫چھیڑا ۔تو‬
‫آنٹی نے سییییییییی کیا اور دونوں‬
‫ٹانگیں جوڑ کر چڈوں میں میرا سر‬
‫بھینچ کر چھوڑ دیا ۔‬
‫آنٹی کی تڑپ دیکھ کر مجھے آنٹی کا‬
‫چور سوئچ مل گیا میں نے دانے کو‬
‫زبان سے رگڑنا شروع کیا‬
‫تو آنٹی تڑپنے لگ گئی اور بار بار‬
‫اپنے چڈوں میں میرا سر بھینچ کر‬
‫چھوڑتی‬
‫آنٹی کی بےچینی اور سسکاریوں نے‬
‫مجھے جوش چڑھایا تو میں نے پھدی‬
‫کے دانے کو جھلی سمیت منہ میں ڈال‬
‫کر چوسنے لگا‬
‫آنٹی چارپائی سے اچھلی اور‬
‫ایک ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھا کر‬
‫میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں دبوچ‬
‫لیا اور‬
‫دوسرا ھاتھ چارپائی پر مارنا شروع کر‬
‫دیا اور سسکاریاں مارتے ھوے اپنا سر‬
‫دائیں بائیں مارنے لگ گئی‬
‫میں جیسے جیسے پھدی کے دانے کو‬
‫زور زور سے چوستا آنٹی اتنی ھی‬
‫زور سے میرے بالوں کو مٹھی میں‬
‫دبوچتی ھوئی چارپائی پر تڑپتی ھوئی‬
‫سسکاریاں مارنے لگ جاتی‬
‫آنٹی کی یہ حالت میرے جوش میں‬
‫اضافہ کررھی تھی ۔‬
‫کہ آنٹی کا جنون حد سے تجاوز کرنے‬
‫لگا‬
‫آنٹی کا جسم اکڑنا شروع ھوگیا‬
‫میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی‬
‫انٹی کی لمبی سسکاری نکلی‬
‫سسسیہہہہہ مممممممم اممممم‬
‫یاھھھھھھھھ یاسررررررر میں‬
‫گگگگئییییییییی‬
‫اور ساتھ ھی‬
‫آنٹی نے میرا سر پورے ذور سے پھدی‬
‫کے اوپر دبا دیا‬
‫اور گانڈ کو نیچے سے اٹھا کر پھدی کو‬
‫میرے منہ کے ساتھ دبا کر اپنی دونوں‬
‫ٹانگیں جوڑ لیں جس سے میرا سر آنٹی‬
‫کے چڈوں میں پھنس گیا‬
‫آنٹی نے کے جسم نے ایک ذورداد‬
‫جھٹکا لیا اور آنٹی کی پھدی نے میرے‬
‫منہ کے اندر باہر ناک آنکھوں کو منی‬
‫سے بھر دیا ۔‬
‫میرا سانس بند ھورھا تھا‬
‫میں سر پیچھے کھینچنے کی کوشش‬
‫کررھا تھا‬
‫مگر آنٹی نے میرے سر کے بال مٹھی‬
‫میں بھرے ھوے تھے اور چڈوں کو‬
‫ذور سے بھینچ رکھا تھا‬
‫آنٹی کی تیز سانسیں اور جھٹکے جاری‬
‫تھے‬
‫میری جب جان نکلنے والی ھوگئی اور‬
‫جب تک آنٹی کی سانسیں درست ہونی‬
‫تھی‬
‫میری سانسیں رک جانی تھی ۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ آنٹی کے چڈوں پر‬
‫رکھے اور پورا زور لگا کر اپنا سر‬
‫آنٹی کے چڈوں سے نکالنے میں کامیاب‬
‫ھوگیا‬
‫آنٹی اپنے مزے میں ڈوبی میری حالت‬
‫سے بے خبر لمبے لمبے سانس لے‬
‫رھی تھی اور میرے بال ھاتھ سے‬
‫نکلتے ھی آنٹی نے ہاتھ پھدی پر رکھ‬
‫کر پھر چڈوں کو بھینچ لیا تھا اور ہلکے‬
‫ہلکے جھٹکے جاری تھے ۔‬
‫میں سر باہر نکال کر لمبا سانس لے کر‬
‫کھانسنے لگا گیا‬
‫میرا سر آنٹی کے چڈوں سے ایسے‬
‫نکال جیسے پھدی سے نومولود بچہ باہر‬
‫آتا ھے‬
‫اور میرا سارا منہ پھدی کے پانی اور‬
‫منی سے ایسے بھرا ھوا تھا جیسے‬
‫پھدی سے نکلنے کے بعد بچے کا منہ‬
‫اور سر پانی سے بھرا ھوتا ھے میں‬
‫کھانستے ھوے‬
‫منہ کو بھی صاف کررھا تھا‬

‫آنٹی کچھ ٹھنڈی ہوئی اور ساتھ ھی‬


‫ٹیڑھی ھوکر لیٹ گئی آنٹی کا ھاتھ اب‬
‫بھی پھدی پر ھی تھا۔‬
‫میں انٹی کے قدموں میں بیٹھا‬
‫اسکی چٹی سفید گانڈ کو دیکھ رھا تھا‬
‫جو سائڈ لے کر لیٹنے کی وجہ سے‬
‫باھر کو نکل آئی تھی ۔‬
‫میں اپنا منہ اچھی طرح صاف کر کے‬
‫آنٹی کے ساتھ آنٹی کی کمر کے ساتھ‬
‫لگ کر لن آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں‬
‫ڈال کر لیٹ گیا اور ایک ھاتھ آنٹی کی‬
‫بغل سے گزار کر آنٹی کا مما پکڑ لیا ۔‬
‫اور ممے کو دباتے ھوے کہا‬
‫مزہ آیا ۔‬
‫تو آنٹی بولی‬
‫بوتتتتتتتتتت‬
‫میں نے آنٹی کو کہا‬
‫کہ آپ نے اپنے مزے کے چکر میں آج‬
‫بچے کی جان لے لینی تھی ۔‬

‫آنٹی بولی بچہ نہ پُٹھے کم کرے ۔‬

‫میں نے کہا جان من تم نے پھدی کو‬


‫سپیشل میرے لیے تیار کیا تھا‬

‫اگر میں اس کی تیاری کو سراہتا نہ تو‬


‫یہ پھدی کے ساتھ ذیادتی ہونی تھی ۔‬
‫آنٹی نے ہاتھ پیچھے کر کے میرے سر‬
‫پر چپت مارتے ھوے کہا۔‬

‫بے شرم‬

‫شرم نھی آتی گندی باتیں کرتے ھوے ۔‬

‫میں نے کہا لو جی اب میں نے کیا‬


‫گندی باتیں کردی‬
‫تو آنٹی بولی ایک تو گندی حرکتیں‬
‫کرتے ھو اور پھر کیسے چسکے لے‬
‫لے کر اپنی حرکتوں کی وضاحت‬
‫کرتے ھو ۔‬

‫میں آنٹی سے گفتگو کے دوران لن کو‬


‫انٹی کی گانڈ کے دراڑ میں مین اندر‬
‫باھر بھی کر رھا تھا ۔‬

‫میں نے باتوں کے دوران ھی ھاتھ‬


‫نیچے کیا اور لن کو پکڑ کر ٹوپے کو‬
‫گانڈ کی موری پر سیٹ کر چکا تھا‬

‫اور آنٹی کو باتوں میں لگا کر‬

‫جیسے ھی گھسا مار کر لن آنٹی کی بُنڈ‬


‫میں اتارنے لگا تو انٹی جھٹکے سے‬
‫آگے ہوئی اور میرا ٹوپا موری سے‬
‫سلپ ھوکر پھدی سے رگڑتا ھوا آگے‬
‫چال گیا۔‬
‫آنٹی گردن گھما کر میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی بے شرم یہ کیا‬
‫کرنے لگے تھے‬

‫مجھے مارنا تھا کیا‬

‫ابھی اندر چال جاتا تو میری چیخ پورے‬


‫سننی تھی ۔‬‫محلے نے ُ‬

‫میں نے کہا‬
‫کچھ نھی ہوتا بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔‬

‫آنٹی بولی‬

‫نئی یاسر یہ بھی کوئی کرنے کی جگہ‬


‫ھے‬

‫آگے سے کرو‬
‫میں نے کہا نھی مجھے پیچھے سے‬
‫ھی کرنا ھا ۔‬

‫کچھ بھی نھی ھوتا‬

‫انٹی بولی نئی یاسر مجھ سے برداشت‬


‫نھی ھونا۔‬

‫میں نے کہا کیوں ۔‬


‫کیا انکل نے پیچھے سے کبھی نھی کیا۔‬

‫تو آنٹی آہ بھر کر بولی ۔‬

‫اس بیچارے سے تو اب آگے سے بھی‬


‫نھی ھوتا‬

‫پیچھے سے کیا کرے گا۔‬

‫میں نے حیران ھوتے ھوے کہا۔‬


‫وہ کیوں جی ۔‬

‫تو آنٹی بولی چھوڑو کن باتوں کو لے‬


‫کر بیٹھ گئے ھو ۔‬

‫مگر میرا یہ جاننے کے لیے تجسس‬


‫بڑھ گیا کہ ایسا کیا ھے کہ انکل سے‬
‫کچھ بھی نھی ھوتا ۔‬
‫اور اتنی حسین اور ایسی سیکسی فگر‬
‫کی مالک بیوی کو دیکھ کر بوڑھوں‬
‫کے بھی لن کھڑے ھوجائیں تو پھر‬
‫انکل نے ایسی سیکسی لیڈی کو چودنا‬
‫کیوں چھوڑ دیا ۔‬

‫میں نے انٹی کو پھر کہا کہ بتائیں نہ کہ‬


‫انکل نے کب سے آپ کے ساتھ سیکس‬
‫نھی کیا اور کیوں نھی کیا اسکی وجہ‬
‫کیا ھے ۔‬

‫آنٹی بولی بیچارا اب تو بوڑھا ھوگیا‬


‫ھے ایک تو پہلے ھی مجھ سے دس‬
‫سال بڑا تھا ۔‬

‫میری تو جب سے شادی ھوئی ھے‬


‫اسکے ساتھ‬

‫شروع شروع میں میرے ساتھ کرتا رھا‬

‫اور‬
‫جب عظمی اور نسرین ہیدا ھوئی تو اس‬
‫کے ایک سال بعد تمہارا انکل بلکل ھی‬
‫فارغ ھوگیا‬

‫پہلے تو اسکا جلدی کھڑا ھی نھی ھوتا‬


‫تھا اگر ھوتا بھی تو بس ایک دو گھسے‬
‫مار کر فارغ ھو جاتا‬

‫اور میں ادھوری رھ جاتی‬

‫بچیاں ھونے کے بعد سوال سال میں نے‬


‫کیسے گزارے مجھے پتہ ھے‬

‫بس بچیوں کو اور اپنے ماں باپ کی‬


‫عزت کو دیکھتے ھوے اپنی جوانی‬
‫گنوا کر حالت سے سمجھوتا کرلیا تھا‬

‫اور میں تو سیکس نام کی چیز کو بھی‬


‫بھول چکی تھی‬

‫میرے ماں باپ کے غلط فیصلے نے‬


‫میری جوانی رول دی۔‬
‫میں نے جب آنٹی کی یہ باتیں سنیں تو‬
‫میرا تو حیرت کے مارے برا حال‬
‫ھوگیا کہ پندرہ سولہ سال سے آنٹی لن‬
‫کو ترستی رھی اور اس کا حوصلہ کہ‬
‫کیسے صبر کر کے ایک نامرد کے‬
‫ساتھ گزارا کرتی رھی اور کبھی کسی‬
‫غیر مرد کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی‬
‫نھی دیکھا ۔‬

‫میں دل ھی دل میں آنٹی کے حوصلے‬


‫اور صبر کو داد دینے لگا۔‬
‫میں نے حیران ھوتے ھوے انٹی سے‬
‫پوچھا ۔‬

‫کہ اس دوران آپکا کبھی دل نھی کیا تھا‬


‫تو آنٹی بولی دل تو بہت کرتا تھا مگر‬
‫خالی دل کے کرنے یا نہ کرنے کا کیا‬
‫کرتی جب آگے کچھ نظر ھی نھی آتا‬
‫تھا ۔‬

‫یا پھر اس سے طالق لے لیتی یا پھر‬


‫باہر منہ کاال کرواتی ۔‬

‫آنٹی کی باتیں سن کر میرے ذہن سے‬


‫ایک دفعہ تو سیکس نکل چکا تھا۔‬

‫میں نے کہا‬
‫۔پھر بھی جب اپکا بہت ذیادہ دل کرتا تھا‬
‫تو کیا کرتی تھی ۔‬
‫تو آنٹی بولی ۔یاسر سہی بتاوں تو پہلے‬
‫پہل مجھے بہت پریشانی ھوئی میں اس‬
‫بات کو لے کر دن رات سوچتی رھتی‬
‫تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‬

‫میری قوت برداشت بڑھتی گئی اور پھر‬


‫آہستہ آہستہ سیکس نام کی چیز ھی‬
‫میرے دل دماغ سے نکل گئی اسکی‬
‫سب سے بڑی وجہ‬
‫میری جرواں بیٹیاں تھی‬

‫جنہوں نے مجھے مصروف رکھا‬

‫اور پتہ ھی نھی چال کہ کب سوال سال‬


‫گزر گئے۔‬

‫اور جوانی کب گئی یہ بھی احساس تک‬


‫نہ ھوا۔‬
‫وہ تو اس دن تم میرے ساتھ مزاق مزاق‬
‫میں میرے پیچھے لگے تو‬

‫تم نے سوال سال پرانی بجھی آگ کو‬


‫چنگاری دے دی اور وہ آگ ایسی جلی‬
‫کہ مجھے یہ بھی احساس نہ رھا کہ‬
‫تمہاری اور میری عمر کا کتنا فرق ھے‬
‫۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ آنٹی اب کچھ‬
‫ذیادہ ھی اموشنل ھورھی ھے تو میں‬
‫نے سنجیدہ ماحول کو خوشگوار بنانے‬
‫اور آنٹی کو دوبارا سیکس کی طرف‬
‫راغب کرنے کے لیے آنٹی کے ممے‬
‫کو دباتے ھوے کہا۔‬

‫فوزیہ جان جوانی تو اب آئی ھے تم پر‬


‫۔‬

‫تم تو اب بھی کسی نوجوان لڑکی سے‬


‫کم نھی ھو تمہیں پتہ ھے کہ‬

‫میں نے جب پہلی دفعہ تمہارے سیکسی‬


‫جسم کو دیکھا تھا اور‬
‫تمہاری پھدی کے اندر اپنا لن کیا تھا تو‬
‫میں خود حیران ھوگیا تھا کہ‬

‫تم کسی حساب سے بھی دو جوان‬


‫بچیوں کی ماں نھی لگتی ھو۔‬

‫آنٹی نے پھر میرے سر پر چپت مارتے‬


‫ھوے کہا‬

‫چل بےشرم‬

‫کیسی گندی باتیں کرتا ھے۔‬

‫بہت تیز ھوگیا ھے ۔‬

‫میں نے مذید انٹی کے ساتھ جڑتے‬


‫ھوے کہا‬
‫ُ‬
‫جان من اب تو اجازت ھے ۔‬

‫اور لن کو پکڑ کر پھر گانڈ کی موری‬


‫پر سیٹ کیا تو‬

‫آنٹی نے آگے سے اپنا ھاتھ پھدی کے‬


‫اوپر سے لیجاکر‬

‫لن کو پکڑ کر پھدی کے سوراخ کے‬


‫اوپر رکھا‬

‫اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا یا کرتا‬

‫آنٹی نے گانڈ کو جھٹکے سے پیچھے‬


‫کیا اور لن کو گانڈ میں لے کر سسیییییی‬
‫کیا‬

‫اور سسکتے ھوے بولی‬


‫ایس شیر دی جگہ‬
‫ایتھےےےےےےےے اےےےےے‬
‫ھاےےءءءءءءءء‬

‫اور لن اندر لے کر آنٹی نے گانڈ میرے‬


‫ساتھ چپکا دی‬

‫اور پھر بولی یاسر ایسے ھی کرو نہ‬


‫جلدی۔‬
‫میں نے بھی بُنڈ مارنے کا ارادہ ملتوی‬
‫کیا اور پیچھے سے ھی سٹروک لگانے‬
‫لگا ۔‬

‫آنٹی مزے سے سسک رھی تھی‬

‫اور ساتھ ساتھ‬


‫آہیں بھر رھی تھی اور مجھے مذید ذور‬
‫سے کرنے کا کہتے ھوے‬

‫آہہہہہ سیییی افففففف‬

‫زور سے یاسرررر ذور سے‬


‫ہاں ایتھے سٹ مار ایتھے‬

‫میں انٹی کی ایسی باتیں سن کر مزید‬


‫جوش میں اگیا اور آنٹی کے کندھوں پر‬
‫دونوں ھاتھ رکھ کر‬

‫پورے ذور سے گھسے مار رھا تھا‬

‫پھدی سے پانی نکل نکل کر لن کو‬


‫فراوانی مہیا کر رھا تھا‬
‫میرے شدید گھسوں سے‬

‫آنٹی کے ممے آگے سے ہل ہل کر آنٹی‬


‫کی ٹھوڑی تک جارھے تھے‬

‫کمرے میں تھپ تھپ اور آنٹی کی‬


‫سسکاریوں‬

‫اور‬
‫ایتھے سٹ مار یاسر‬

‫ھاں اینج ای اینج ای‬

‫ہٹ ہٹ کہ مار ہٹ ہٹ کے مار‬

‫سارا کردے اج ساراااااااا‬


‫کردےےےےے‬
‫کی آوازیں پورے کمرے میں گونج‬
‫رھی تھیں‬

‫ہم دونوں ہر چیز سے بیگانے ھو کر لن‬


‫پھدی کا مزہ لے رھے تھے‬
‫نہ اندر کی خبر نہ باہر کی‬
‫آنٹی کی آوازیں اتنی بلند تھی کہ اگر‬
‫کوئی دروازے کے باہر کھڑا ھوتا تو‬
‫آسانی سے سن لیتا‬
‫مگر ہمیں کسی کی پرواہ نھی تھی ۔‬
‫میں مسلسل گھسے ماری جارھا تھا‬
‫آنٹی کے شور اور آہوں نے وہ ھی کیا‬
‫جسکا مجھے ڈر تھا‬
‫اچانک میرے جھٹکوں کی سپیڈ تیز‬
‫ھوگئی‬
‫لن کی رگیں پھولنا شروع ھوگئیں ۔‬
‫آنٹی کےجوش اور سیکسی آوازوں نے‬
‫اور آنٹی کی دھکتی بھٹی کے آگے میں‬
‫ذیادہ دیر ِٹک نھی سکا اور میرے لن‬
‫نے آنٹی کی پھدی کے اندر ھی‬
‫پچکاریاں مارنی شروع کردیں اور اسی‬
‫دوران آنٹی نے بھی اپنی گانڈ کو میرے‬
‫ساتھ چپکا دیا اور پھدی کو بھینچ کر‬
‫میرے لن کو سارا نچوڑنے لگی ۔‬
‫اور پھر مجھے اپنے ٹوپے پر پھدی‬
‫کے اندر سے انٹی کی منی کی دھاریں‬
‫گرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔‬
‫میں اور آنٹی اکھٹے ھی فارغ ہوگئے‬
‫آنٹی بھی کروٹ لیے بے سدھ ہوکر لیٹ‬
‫گئی اور میں میں بھی کروٹ لیے آنٹی‬
‫کے ساتھ چپک کر جھٹکے کھاتا ھوا‬
‫آنٹی کو جپھی ڈالے لیٹا رھا‬
‫کچھ دیر بعد میرا لن ش ِلنگ ہوکر پھدی‬
‫سے باہر نکل آیا اور آنٹی بھی اٹھ کر‬
‫بیٹھ گئی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو بازو سے پکڑ کر پھر‬
‫اپنے اوپر کھینچنا چاھا تو آنٹی بولی‬
‫بس یاسر ٹائم کافی ھوگیا ھے عظمی یا‬
‫نسرین اٹھ نہ جائیں ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ابھی تو کچھ کیا بھی نھی اور آپ جانے‬
‫کی بات کررھی ھو۔‬
‫انٹی اپنا بازو چھڑواتے ھوے بولی‬
‫تمہارا جی نھی بھرنا‬
‫اگلے کی چاھے بس ھو جاے ۔میری‬
‫کمر درد کرنے لگ گئی ھے‬
‫آنٹی بلکل ننگی چارپائی سے ٹانگیں‬
‫لٹکا کر بیٹھی ھوئی تھی اور میں کروٹ‬
‫لے کر اسکی گانڈ کے ساتھ اپنا سویا‬
‫ھوا لن لگا کر لیٹا ھوا تھا‬
‫آنٹی بولی‬
‫اب مجھے جانے دو ۔‬
‫میں نے آنٹی کا ھاتھ پکڑ کر‬
‫کہا ایک دفعہ تو اور کرنے دو‬
‫ابھی تو میرا جی بھی نھی بھرا ۔‬
‫آنٹی نے جلدی سے اپنا ھاتھ کھینچا اور‬
‫کھڑی ھوگئی ۔‬
‫آنٹی کی پھدی سے میری اور آنٹی کی‬
‫منی مکس ھوکر پانی بن کر ٹانگوں‬
‫سے بہہ کر آنٹی کے پیروں تک آگئی‬
‫تھی ۔‬
‫اور ٹانگوں پر پانی ٹانگوں پر پانی‬
‫چمک رھا تھا۔‬
‫آنٹی جب کھڑی ہوئی تو اسکی گانڈ‬
‫میری طرف تھی‬
‫انٹی کی گانڈ عظمی کی گانڈ کی طرح‬
‫بلکل گول مٹول اور باہر کو ابھری ہوئی‬
‫تھی‬
‫مجھے گانڈ دیکھ کر‬
‫اسپر بے اختیار پیار آیا تو میں نے گانڈ‬
‫کی طرف اپنا پاوں بڑھایا اور پیر کے‬
‫انگھوٹھے کو گانڈ کی دراڑ میں ڈال دیا۔‬
‫آنٹی جو میری طرف گانڈ کر کے‬
‫کھڑی اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے‬
‫بال سنوار رھی تھی‬
‫گانڈ کی دراڑ میں انگوٹھا لگتے ھی‬
‫تڑپ کر آگے کو ھوئی اور ہاتھ سے‬
‫میرے پاوں کو جھٹکتے ھوے بولی‬
‫بتمیززززز۔‬
‫اور چارپائی سے دور ہٹ کر اپنے‬
‫کپڑے پہننے لگ گئی‬
‫میں نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔‬
‫میں ہُن ناں ای سمجھاں۔‬
‫تو آنٹی ایک ٹانگ اٹھا کر شلوار پہنتے‬
‫ہوے شوخی سے بولی ۔‬
‫توں تے رجناں نئی مینوں مروائیں گا۔‬
‫اور پھر شلوار اوپر کر کے‬
‫قمیض کو درست کرتے ھوے بولی‬
‫چل اٹھ کے کپڑے پہن لے اور دروازہ‬
‫اندر سے بند کرلے میں جارھی ھوں ۔‬
‫اور آنٹی میرا جواب سنے بغیر آہستہ‬
‫سے دروازہ کھول کر باہر جھانک کر‬
‫نکل گئی‬
‫اور میں آنٹی کو جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ننگا لیٹا رھنے کے‬
‫بعد میں اٹھا اور اپنے کپڑے درست کر‬
‫کے الئٹ بند کی اور پھر چارپائی پر‬
‫لیٹ گیا۔‬
‫اور کچھ دیر بعد نیند کی آغوش میں‬
‫چال گیا ۔‬
‫صبح مجھے آنٹی نے ھی اٹھایا اور میں‬
‫جلدی سے اٹھ کر اپنے گھر گیا اور نہا‬
‫دھو کر ناشتہ کیا‬
‫اور پھر واپس آنٹی کے گھر آگیا ۔‬
‫جب گھر میں داخل ھوا تو صحن میں‬
‫بیٹھی صدف کو دیکھ کر چونک گیا‬
‫اس نے بھی میری طرف ایک نظر‬
‫دیکھا‬
‫میں نے اسے نظر انداز کیا اور اسکو‬
‫مخاطب کیے بغیر اسکے پاس سے‬
‫گزر کر اندر کمرے کی طرف چال گیا۔‬
‫عظمی اور نسرین دونوں ھی سکول‬
‫کے لیے تیار بیٹھی تھیں ۔‬
‫میں نے عظمی کو گھورتے ھوے دیکھا‬
‫تو وہ میری طرف دیکھ کر شرمندہ سی‬
‫ھوگئی اور سر جھکا کر میرے پاس‬
‫سے گزر کر باہر چلی گئی میں نے‬
‫نسرین کو کہا‬
‫جناب نے بھی جانا ھے سکول ۔‬
‫نسرین غصے سے بولی‬
‫جانا اے ۔تینوں کوئی تکلیف اے ۔‬
‫میں نے کہا۔‬
‫مجھے کیوں تکلیف ھونی ھے مجھے‬
‫تو خوشی ھے کہ‬
‫تمہاری طبعیت بہتر ھوگئی ھے ۔۔‬
‫نسرین‬
‫ہنکارا بھر کر میرے پاس سے گزر کر‬
‫باہر چلی گئی‬
‫میں نے نسرین کی گانڈ کو غور سے‬
‫دیکھا تو اسکی گانڈ کی دراڑ میں‬
‫مجھے کو چیز ابھری سی نظر آئی‬
‫جیسے اس نے گانڈ کی دراڑ میں کچھ‬
‫پھنسایا ھوا ھو ۔‬
‫میں بڑے تجسس سے اسکی گانڈ کو‬
‫دیکھتا ھوا اسکے پیچھے پیچھے‬
‫کمرے سے باہر آگیا‬

‫عظمی اور صدف بیرونی دروازے کے‬


‫پاس کھڑی نسرین کو جلدی جانے کا‬
‫کہہ رھی تھی ۔‬
‫نسرین بھی تیز تیز قدموں سے چلتی‬
‫ھوئی انکے پاس پہنچی‬
‫اور تینوں گھر سے نکل پڑیں‬
‫میں بھی انکے پیچھے پیچھے چل رھا‬
‫تھا‬
‫میں صدف کی وجہ سے انسے کچھ‬
‫فاصلے پر چل رھا تھا۔‬
‫ایسے ھی چلتے ھوے‬
‫ہم شہر پہنچ گئے راستے میں کچھ‬
‫خاص بات نھی ھوئی ۔‬
‫وہ تینوں آپس میں باتیں کرتی رہیں مگر‬
‫میں نے انکی کسی بات میں مداخلت‬
‫نھی کی ۔‬
‫انکو سکول چھوڑنے کے بعد میں ۔‬
‫دکان پر چال گیا‬
‫صفائی وغیرہ کرنے کے بعد‬
‫کچھ دیر کسٹمروں میں مصروف رھے‬
‫مجھے اچانک یاد آیا کہ ضوفی نے‬
‫لہنگا پارلر سے لے کر جانے کا کہا تھا‬
‫یہ خیال آتے ھی میں نے انکل سے‬
‫پوچھا جو لہنگا رینٹ پر دیا تھا کیا وہ‬

‫واپس آگیا ھے انکل نے کہا‬


‫بیٹا تجھے پتہ ھو‬
‫مجھے تو کوئی واپس نھی دے کر گیا ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کوئی بات نھی ۔ادھر ساتھ ھی انکا گھر‬
‫ھے میں دوپہر کو جاکر لے آوں گا۔‬

‫میں نے انکل کو نھی بتایا کہ وہ پالر‬


‫والی ھے ۔‬
‫انکل کو یہ علم تھا کہ نھی‬
‫‪I don't know‬‬
‫۔انکل بولے ٹھیک ھے یاد سے لے آنا ۔‬
‫میں نے جی اچھا کیا اور پھر کام میں‬
‫مصروف ھوگیا‬
‫کام میں مصروفیت کی وجہ سے وقت‬
‫کا پتہ ھی نھی چال اور دو بج گئے‬
‫جنید نے مجھے کھانا النے کے لیے‬
‫ساتھ چلنے کا کہا‬
‫تو میں جوتا پہن کر انکل سے کھانے‬
‫کے پیسے لے کر اسکے ساتھ ہوٹل کی‬
‫طرف چل پڑا۔‬
‫جنید راستے میں مجھ سے وصل یار‬
‫کے حاالت معلوم کرتا رھا ۔‬
‫جو میں نے اسے مختصرا ً بتا دیے ۔‬
‫باتوں باتوں میں‬
‫میں نے ضوفی کا ذکر چھیڑ لیا کہ‬
‫اسکے گھر میں کون کون ھے‬
‫تو جنید نے بتایا کہ‬
‫وہ تین بہنیں ھیں ایک چھوٹی ھے اور‬
‫بڑی کی شادی ھوگئی ھے اور اسکا‬
‫پارلر ھے‬
‫اور انکا بھائی کوئی نھی ھے‬
‫اور باپ بھی نھی ھے‬
‫ماں بوڑھی ھے‬
‫اس لیے گھر کی ساری ذمہ داری‬
‫ضوفی پر ھی ھے ۔‬

‫میں نے جنید کو ضوفی کا نام نھی بتایا‬


‫تھا‬
‫وہ اس لیے پھلجھڑی بلبل پٹاخہ جیسے‬
‫نام لے کر اسکا ذکر کر رھا تھا۔‬
‫میں نے ضوفی کے بارے میں مذید‬
‫معلومات لینے کی کوشش کی مگر جنید‬
‫کو بس اتنا ھی علم تھا‬
‫کہ وہ بڑی سیکسی ھے سارے محلے‬
‫کے لڑکے اس کے سمیت‬
‫اس پر الئن مارنے کی کوشش کرتے‬
‫ہیں مگر وہ کسی کو لفٹ نھی کرواتی‬
‫سالی بڑی مغرور ھے ۔‬
‫اور پھر ٹھنڈی اہ بھر کر بوال خوش‬
‫قسمت ھی ھوگا وہ جسکو اس قیامت کی‬
‫پڑیا کا سیکسی جسم نصیب ھوگا۔‬

‫جنید کی اس طرح کی باتیں سن کر‬


‫میرے اندر ضوفی کی قربت پانے کا‬
‫تجسس بڑھتا گیا۔‬
‫اور سوچتا ھوا واپس دکان کی طرف‬
‫آگیا‬
‫کہ آج اس پر ٹرائی مار کر دیکھوں‬
‫گا۔‬
‫اگر ہنس پڑی تو سمجھو پھنس گئی‬
‫ورنہ کہہ دوں گا باجی ڈر گئی باجی ڈر‬
‫گئی‬

‫میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ منہ دھوکر‬


‫بال بناے‬
‫دوستو میرے بال کافی سلکی تھے اور‬
‫اجے دیوگن کی طرح میرا قدرتی پف‬
‫بنا ھوا تھا ۔‬
‫اور میرا رنگ تو قدرتی سفید تھا اور‬
‫اکثر میں شیشے کے سامنے کھڑا ھوکر‬
‫بالوں کو سنوارتا ھوا خود ہولی ووڈ کا‬
‫ہیرو تصور کرتا ھوتا تھا۔‬
‫چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اور‬
‫مونچھیں بھی نکل آئی تھیں‬
‫جنید اکثر مجھے پٹھان کہتا تھا‬
‫کہ تمہارا رنگ پٹھانوں اور کشمیریوں‬
‫جیسا چٹا سفید ھے‬
‫اسی لیے مجھے آنٹی فوزیہ اور گلی‬
‫کی دیگر خاتون شہزادہ کہتی تھیں ۔‬
‫خیر میں بھی کیا اپنے منہ میاں مٹھو بن‬
‫رھا ہوں۔۔‬
‫میں اپنے آپ کو تیار شیار کررھا تھا‬
‫تو انکل میری طرف حیرانگی سے‬
‫دیکھتے ھوے مجھے چھیڑتے ھوے‬
‫بولے‬
‫خیر ھے کدھر کی تیاری ھو رھی ھے‬
‫۔‬
‫میں شیشے میں انکل کو دیکھ کر‬
‫جھینپ سا گیا۔‬
‫اور بات بناتے ھوے بوال۔‬
‫کچھ نھی انکل جی بس ایسے ھی منہ‬
‫پر مٹی پڑی تھی تو منہ دھولیا۔‬
‫انکل پھر شرارت سے بولے‬
‫میں تو سمجھا کہ‬
‫منڈا ویا تے چال اے ۔‬

‫میں ہنستے ھوے بوال‬


‫نھی انکل جی ایسی تو کوئی بات نھی‬
‫ھے ۔‬
‫ماحول کی نذاکت کو دیکھتے ہوے اب‬
‫مجھے حوصلہ نھی پڑ رھا تھا کہ انکل‬
‫کو لہنگا النے کا کہوں ۔‬
‫کچھ دیر میں بیٹھا انتطار کرتا رھا کہ‬
‫انکل خود ھی مجھے کہیں تو میں لہنگا‬
‫لینے کے بہانے ۔دیدار ُحسن کے لیے‬
‫جاوں۔‬
‫میں نے کچھ دیر انتظار کیا مگر انکل‬
‫اپنے کام میں مصروف رھے ۔‬
‫تو میں اٹھا اور لہنگوں والی الماری‬
‫کے پاس جاکر لہنگوں کو سیٹ کرنے‬
‫لگا۔‬
‫اور انکل سے کہا انکل وہ شاکنگ پنک‬
‫کلر کا لہنگا ھی گیا تھا نہ ۔۔‬
‫انکل بولے ھاں وہ ھی گیا ھے ۔اور‬
‫انکل نے کالک کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے کہا تم نے تو کہا تھا کہ دوپہر کو‬
‫خود ھی جاکر لہنگا لے آوں گا ۔‬
‫تم میں چونکنے کے ڈرامائی انداز سے‬
‫بوال ۔اوووووو سوری انکل میرے تو‬
‫دماغ سے ھی نکل گیا‬
‫میں ابھی جاتا ھوں ۔‬
‫انکل بولے ھاں جلدی لے آ‬
‫اگر ذیادہ دن ھوگئے تو‬
‫شادی بیاہ میں مصروف یہ لوگ رینٹ‬
‫والی چیز کی احتیاط نھی کرتے‬
‫میں انکل کا آڈر ملتے ھی جلدی سے‬
‫کاونٹر سے اترا اور جوتا پہن کر شیشہ‬
‫کے پاس سے گزرتے ھوے‪،‬آئنے میں‬
‫پھر اپنا معائنہ کیا اور بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتا ھوا سیٹی بجاتا دکان سے باہر‬
‫نکل کر شاہین مارکیٹ کی طرف چل‬
‫پڑا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں شاہین مارکیٹ کی‬
‫بیس منٹ میں سیڑیاں اترتا ھوا چال گیا‬
‫۔‬
‫نیچے پہنچا تو دیکھا‬
‫ایک ھی الئن میں تین پارلر تھے ۔‬
‫اب مجھے کنفیوژنگ ھونے لگ گئی‬
‫کہ ان میں سے ضوفی کا پارلر کون سا‬
‫ھے ۔‬
‫اچانک مجھے یاد آیا کہ ضوفی نے اپنا‬
‫کارڈ دیا تھا‬
‫میں نے جیب میں ھاتھ مارا اور اپنا بٹوا‬
‫نکاال اسکو کھول کر دیکھنے لگ گیا‬
‫تو خوش قسمتی سے مجھے کارڈ مل‬
‫گیا۔‬
‫میں نے کارڈ پر پارلر کا نام دیکھا تو‬
‫آخری پارلر ضوفی کا ھی تھا‬
‫جسکا نام کاجل بیوٹی پارلر تھا۔‬

‫میری انکھیں چمک اٹھی‬


‫اور میں پارلر کی طرف اپنے پف کو‬
‫سنوارتا ھوا چل پڑا‬
‫پارلر کے گالس ڈور کے پاس پہنچ کر‬
‫میں رک گیا اور کانپتے ھاتھ کے ساتھ‬
‫ڈور پر ناک کیا تو‬
‫کچھ دیر بعد‬
‫شیشے کے آگے سے پردہ سرکا اور‬
‫سانولی سی لڑکی کا چہرہ نمودار ھوا‬
‫اور اس نے مجھے دیکھا اور پھر ڈور‬
‫کھول کر‬
‫سر باہر نکاال اور باقی سارا جسم پردے‬
‫کی اوٹ میں کرکے بولی‬
‫جی فرمائیں۔‬
‫میں پہلے ھی کنفیوژن کا شکار تھا ۔اس‬
‫لڑکی کی جی سن کر‬
‫ہکالتے ھوے بوال‬
‫وہہہ ضوفففی میڈم سے ملنا ھے ۔‬
‫اس لڑکی نے مجھے سر سے پاوں تک‬
‫بڑے غور سے دیکھا اور میرا نام‬
‫پوچھا تو میں نے نام بتا دیا‬
‫اور لڑکی‬
‫پھر پردے کے پیچھے غائب ہوگئی ۔۔۔‬
‫میں باہر کھڑا دوسرے پارلروں کا‬
‫جائزہ لینے لگ گیا ۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد پھر پردہ سرکا تو‬
‫اس حسینہ کا چہرہ شیشے کے اُس پار‬
‫نظر آیا‬
‫اور ضوفی نے مجھے دیکھتے ھی‬
‫دروازہ کھوال اور مجھے بڑی‬
‫گرمجوشی سے ویلکم کیا حال احوال‬
‫کے بعد میں نے کہا جی وہ میں لہنگا‬
‫لینے آیا تھا تو ضوفی نے مسکرا کر‬
‫میری طرف دیکھا اور تھوڑا پیچھے‬
‫ہٹ کر مجھے اندر آنے کی دعوت دی‬
‫جسے میں نے باخوشی قبول کیا اور‬
‫میں اندر داخل ھوگیا‬
‫اندر داخل ہوتے ھی میں پارلر کو‬
‫چاروں طرف سے دیکھنے لگ گیا‬
‫دیواروں پر بڑے بڑے شیشے لگے‬
‫ھوے تھے‬
‫ایک طرف تین بڑے بڑے کیبن تھے‬
‫دیوارں پر مختلف ماڈلز اور انڈین‬
‫اداکاروں کے پوسٹر چسپا تھے‬
‫تین صوفے ایک طرف دیوار کے ساتھ‬
‫رکھے ہوے تھے ضوفی نے مجھے‬
‫صوفے کی طرف اشارہ کرکے بیٹھنے‬
‫کا کہا اور اس سانولی لڑکی کو آہستہ‬
‫سے کچھ کہا تو وہ باہر نکل گئی‬
‫وہ لڑکی ابھی کچی کلی تھی‬
‫تیرا چودہ سال کی تھی‬
‫شاید پارلر کی صفائی وغیرہ کے لیے‬
‫اسے رکھا ہوا تھا۔‬
‫لڑکی کے جانے کے بعد ضوفی اپنے‬
‫بڑے بڑے ابھرے ھوے مموں کو‬
‫میرے سامنے لہراتے ھوے بڑی ادا‬
‫سے میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور اپنے‬
‫گلزار کو ہالتے ھوے بولی‬
‫کیسا لگا میرا غریب خانہ‬
‫میں نے کہا‬
‫جانے دیں یہ غریب خانہ ھے‬
‫اتنا پیارا ماحول بنایا ھوا کافی خرچہ کیا‬
‫ھوا ھے آپ نے سیٹنگ پر‬
‫تو وہ ہنستے ھوے‬
‫بولی‬
‫سیٹنگ اچھی ھو تو ھی کسٹمر مطمئن‬
‫ھوتا ھے‬
‫جتنی اچھی شاپ کی لُک ھوگی اتنا ھی‬
‫اچھا کسٹمر آتا ھے‬
‫ورنہ تو پینڈو منہ اٹھا کر اندر داخل‬
‫ھوجاتے ھیں اور ریٹ سن کر بھاگ‬
‫جاتے ہیں ۔ضوفی کی پینڈوں کے بارے‬
‫میں راے اور حقارت آمیز لہجے کو‬
‫دیکھ کر مجھے غصہ تو بہت آیا‬
‫مگر میں پھر بھی خود پر کنٹرول‬
‫کرتے ھوے برداشت کرگیا ۔‬
‫کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے‬
‫رھے اور وہ لڑکی میرے لیے کولڈ‬
‫ڈرنک لے آئی‬
‫میں نے کچھ دیر میں ڈرنک ختم کی‬
‫اور جانے کی اجازت مانگی تو ضوفی‬
‫بولی اتنی جلدی کیا ھے‬
‫میں نے کہا نھی جلدی تو نھی‬
‫ضوفی بولی آئیں آپکو سارا پارلر‬
‫دیکھاتی ہوں اور یہ کہہ کر ضوفی‬
‫اٹھی‬
‫اور کیبن کی طرف جانے لگی‬
‫ضوفی نے شارٹ شرٹ پہنی ھوئی تھی‬
‫جس میں اسکی گول مٹول گانڈ بہت ھی‬
‫دلکش نظارا پیش کررھی تھی‬
‫میں بھی اسکی گانڈ کو تاڑتا ھوا اسکے‬
‫پیچھے کیبن کی طرف چل پڑا ۔‬
‫۔ضوفی چلتی ہوئی پہلے کیبن میں داخل‬
‫ہوئی میں بھی اسکے پیچھے ہی کیبن‬
‫میں داخل ہوگیا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫یاسر یہ برائڈل روم ہے یہاں دلہن کو‬
‫تیار کیا جاتا ہے ۔۔‬
‫کیبن کی سیٹنگ واقعی کسی روم کی‬
‫طرح کی گئی تھی ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا کیا دلہا بھی‬
‫تیار کردیتی ہیں آپ ۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر کھلکھال‬
‫کر ہنس پڑی اور بولی‬
‫کیوں تم نے تیار ہونا ہے‬
‫میں نے کہا میری ابھی قسمت کہاں‬
‫ابھی تو میری اتنی عمر ہی نھی ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫چلو خیر ہے جب تمہاری شادی ہوگی‬
‫تو میں تمہاری دلہن کو فری میں تیار‬
‫کردوں گی۔‬
‫میں ہنس کر بوال‬
‫اور مجھے‬
‫ضوفی بولی تمہیں بھی تیار کردوں گی‬
‫۔‬
‫میں نے کہا واہ جی واہ اتنی اچھی آفر‬
‫پھر تو مجھے جلد ہی شادی کرلینی‬
‫چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫بڑی جلدی ہے شادی کرنے کی ۔کہیں‬
‫منگنی شگنی تو نھی کروا رکھی یا گرل‬
‫فرینڈ تو نھی بنا رکھی ہے ۔‬

‫میں نے کہا ایسی بات نہی ہے ۔‬


‫میں تو آپکی آفر کو دیکھتے ہوے کہہ‬
‫رہا تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫واقعی یاسر تمہاری کوئی گرل فرینڈ‬
‫نہیں ہے‬
‫میں نے کہا‬
‫جی واقعی ہی نہیں ہے‬
‫میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی‬
‫نہیں اور نہ ہی کبھی کسی لڑکی کی‬
‫طرف اتنا راغب ہوا ہوں۔‬
‫ضوفی بڑی حیرانگی سے میری طرف‬
‫دیکھتے ہوے بولی‬
‫بڑی بات ہے جی‬
‫تمہاری عمر کے لڑکے تو جس‬
‫خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہیں‬
‫اسکے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں اور تم‬
‫ہو کہ ابھی تک‪ .‬فری ہینڈ‬
‫ہو۔‬

‫میں نے آہستہ سے کہا۔‬


‫خوبصورت لڑکی کے پیچھے پڑ تو گیا‬
‫ہوں ۔‬
‫ضوفی نے دفعتا ً میری طرف دیکھتے‬
‫ہوے کہا۔‬
‫کیا کہا۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا‬
‫کچھ نہیں۔‬
‫تو ضوفی میرے سینے پر ہاتھ مارتے‬
‫ہوے بولی‬
‫بہت نوٹی ہو۔‬
‫میں نے سن لیا ہے‬
‫جو تم نے کہا ہے۔‬
‫میں نے گبھرانے کی ایکٹنگ کرتے‬
‫ہوے کہا۔‬
‫میں نے تو کچھ نہیں کہا جی ۔‬
‫ضوفی بُرا سا منہ بنا کر بولی ۔‬
‫تم بہت تیز ہو جیسے اوپر سے شریف‬
‫اور معصوم لگتے ہو اندر سے اتنے ہی‬
‫بدمعاش ہو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نے تو کچھ نہیں کہا اب آپ نے پتہ‬
‫نہیں کیا سن لیا ہے۔‬
‫میں ضوفی کے ساتھ کافی فرینگ‬
‫ہوچکا تھا۔‬
‫میری ججھک بھی ختم ہوگئی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا چھوڑو چلو تمہیں مینی پیڈی کیور‬
‫روم دیکھاتی ہوں ۔‬
‫میں نے حیرانگی سے ضوفی کی‬
‫طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫او کی بال اے۔‬

‫ضوفی پھر چونک کر میری طرف‬


‫دیکھتے ہوے بولی کیا کہا۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میرا مطلب ہے کہ مینی پیڈی کیور کیا‬
‫چیز ہے ۔‬
‫ضوفی ہنس کر بولی چلو دیکھاتی ہوں۔‬
‫اور ضوفی اور میں کیبن سے نکل کر‬
‫دوسرے کیبن میں اگئے ۔‬
‫اس کیبن میں ایک سٹریچر پڑا ہوا تھا‬
‫اور دو کرسیاں تھی جن کے پاوں کی‬
‫طرف ٹپ بنے ہوے تھے جن میں پانی‬
‫تھا۔‬
‫ضوفی مجھے بتانے لگ گئی کے‬
‫مینی پیڈی کیور کیسے کیا جاتا ہے ہاتھ‬
‫اور پاوں کو گرم پانی میں کچھ لیکویڈ‬
‫چیزوں کو مال کر ہاتھ پاوں کو دھویا‬
‫جاتا ہے اور کیسے پورے جسم پر‬
‫ویکس کے ذریعے غیر ضروری بالوں‬
‫کو اتارا جاتا ہے ۔‬
‫میری سمجھ میں کچھ باتیں تو آرہیں‬
‫تھی اور کچھ میرے سر سے گزر رہیں‬
‫تھی۔‬
‫میں تو بس ضوفی کے سیکسی فگر کو‬
‫دیکھ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کررھا تھا۔‬
‫میں نے کہا ضوفی جی کیا میری‬
‫ویکس بھی ہوسکتی ہے ۔‬
‫ضوفی پھر ہنسنے لگ گئی‬
‫اور شوخی سے بولی چلو کپڑے اتارو‬
‫اور سٹریچر پر لیٹو کرتی ہوں تمہاری‬
‫ویکس۔‬
‫میں نے ڈرنے کے انداز میں اپنی بغلوں‬
‫میں ہاتھ لیتے ہوے نفی میں سر ہالتے‬
‫ہوے کہا ۔‬
‫ننننھی نھی‬
‫میں نے ویکس کروانی ہے‬
‫وڈا اپریشن نہیں۔‬

‫میری حالت اور میری جگت سن کر‬


‫ضوفی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر میرے‬
‫سامنے ُجھکے کھلکھال کر ہنستی رہی ۔‬
‫اور میں اسکے جھکنے کی وجہ سے‬
‫کھلے گلے سے آدھے ننگے مموں کا‬
‫نظارہ کرتے ہوے اپنے ہوش گنوا بیٹھا‬
‫اور میرے لن نے بھی سر اٹھا لیا‬
‫ضوفی کے چٹے سفید موٹے نرم نازک‬
‫مموں کے درمیان والی لکیر اور مموں‬
‫کا کچھ حصہ میری آ نکھوں کے‬
‫سامنے تھا اور میں بغلوں میں ہاتھ‬
‫دئیے ٹکٹکی باندھے مموں کو دیکھی‬
‫جارھا تھا‬
‫کہ اچانک ضوفی کو احساس ہوا کے‬
‫میں اس کے گلے میں تاڑ رہا ہوں تو‬
‫ضوفی جلدی سے سیدھی ہوگئی اور‬
‫اسکی نظر جب میرے نیچے شلوار میں‬
‫بو بناے ہوے لن پر پڑی تو گبھرا کر‬
‫نظریں پھیر لیں اور دوسری طرف‬
‫دیکھتے ہوے بولی ۔‬
‫تو پھر کیا پروگرام ہے ۔‬
‫میں نے جلدی سے لن کو اپنی ٹانگوں‬
‫میں بھینچ لیا اور ضوفی کو مخاطب‬
‫کرتے ہوے‬
‫کہا جو آپ کا پروگرام ہے وہ ہی میرا‬
‫پروگرام ہے ۔‬
‫ضوفی پھر میری طرف دیکھتے ہوے‬
‫شوخی سے بولی چلو اتارو کپڑے‬
‫میں نے کہا شلوار بھی ۔‬

‫ضوفی پھر ہنستے ہوے بولی چل بے‬


‫شرم‬
‫میں قمیض کی بات کررھی ہوں ۔‬
‫اور ساتھ ہی ضوفی نظر چرا کر میرے‬
‫لن کی طرف بھی دیکھتی جو اب وہاں‬
‫سے غائب ہوچکا تھا اور اس کے‬
‫چہرے پر حیرانگی کے ایثار بھی‬
‫نمایاں ہوے ۔‬
‫ضوفی کی بات سنتے ہی‬
‫میں جلدی سے قمیض کے بٹن کھولنے‬
‫لگا تو‬
‫ضوفی گبھرا کر جلدی سے بٹن پر‬
‫رکھے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر‬
‫ہنستے ہوے بولی‬
‫رہنے دو رہنے دو بھئی تم تو سچی میں‬
‫تیار ہوگئے میں تو مزاق کررھی تھی ۔‬

‫میں منہ بسور کر دوبارا بٹن بند کرنے‬


‫لگ گیا۔‬
‫ضوفی میرے منہ کو دیکھ کر صدف‬
‫کی طرح میری گال پر چٹکی کاٹتے‬
‫ہوے بولی‬
‫سو کیوٹ کتنے پیارا منہ بنا لیا ہے ۔‬
‫میں نے گال کو مسلتے ہوے پھر ویسے‬
‫ہی منہ بناتے ہوے کہا ۔‬
‫آپ نے میرا دل توڑ دیا‬
‫ضوفی مسکرا‬
‫کر بولی‬
‫پاگل ابھی کسی وقت بھی کوئی کسٹمر‬
‫آسکتا ہے‬
‫اگر تم نے واقعی ویکس کروانی ہے تو‬
‫تم جمعہ کو آجانا‬
‫میں جمعہ کو فری ہوتی ہوں‬
‫میں نے ہنستے ہوے کہا‬
‫نئی ضوفی جی میں بھی مذاق کررھا‬
‫تھا‬
‫میں بھال عورتوں والے کام کیوں‬
‫کروں‬
‫ضوفی بولی یاسر‬
‫تم میری ایک بات مانو گے ۔‬
‫میں نے کہا جی حکم کریں ۔‬
‫ضوفی مسکرا کر بولی‬
‫تم اگر کلین شیو کرلو نہ تو بہت پیارے‬
‫لگو گے‬
‫جیسی تمہاری کلین سکن ہے تو دیکھنا‬
‫ہر لڑکی تم پر مرے گی‬
‫اور شلوار قمیض کی بجاے پینٹ شرٹ‬
‫پہنا کرو۔‬
‫بہت ہینڈ سم لگو گے‬

‫میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے کہا‬


‫نہ بابا نہ‬
‫کیوں گاوں میں میرا مزاق بنانا ہے ۔‬
‫ضوفی حیرانگی سے بولی‬
‫یاسر تم گاوں میں رہتے ہو۔‬
‫میں نے کہا جی بلکل ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری شکل صورت تو‬
‫گاوں والوں جیسی نہیں ہے۔‬
‫میں نے کہا آپ کبھی گاوں گئی ہو۔‬
‫ضوفی بڑی حقارت سے بولی توبہ میں‬
‫کیوں جاوں گی گاوں‬
‫وہاں تو ڈسٹنگ اور ہر طرف سمیل ہی‬
‫ہوتی ہے‬
‫چھی چھی‬

‫مجھے ضوفی کے ایسے گاوں کے‬


‫متعلق حقارت امیز جملے کسنے پر‬
‫غصہ بہت آیا مگر میں خود پر کنٹرول‬
‫کرگیا اور‬
‫میں نے‬
‫برا سا منہ بناتے ہوے‬
‫کہا گاوں کے لوگ اتنے بھی برے نھی‬
‫ہوتے۔‬
‫کبھی آپ آو ہمارے گاوں اور دیکھو کہ‬
‫وہاں کتنا پیار ملتا ہے آپکو کتنا سبزا‬
‫ہے وہاں کتنی آب ہوا صاف ہے‬
‫کتنا سکون ہے‬
‫۔کتنا چاہنے والے لوگ ہیں ۔‬
‫ضوفی میری باتیں سن کر شرمندہ سی‬
‫ہوگئی اور بولی‬
‫سوری یاسر میری وجہ سے تمہیں‬
‫تکلیف ہوئی‬

‫اور پھر مسکراتے ہوے بولی‬


‫تم جمعہ کو آو گے‬
‫میں نے کہا جمعہ کو مجھے چھٹی‬
‫ہوتی ہے‬
‫ضوفی بولی‬
‫کچھ نھی ہوتا بس تم نے جمعے کو آنا‬
‫ہے اور دیکھنا میں تمہارا روپ ھی بدل‬
‫دوں گی ۔‬
‫میں نے مسکراتے ہوے کہا‬
‫اوکے دیکھوں گا اگر کوئی ضروری‬
‫کام نہ پڑا تو آجاوں گا‬
‫اور یہ نہ ہو کہ میں آوں اور آپ کا‬
‫پارلر ھی بند ہو‬
‫ضوفی میری گال پر پھر چٹکی کاٹتے‬
‫ہوے بولی‬
‫بے فکر ہوکر آجانا۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے جی ۔‬
‫اور جانے کی اجازت مانگی تو ضوفی‬
‫بولی ۔۔۔۔۔۔‬

‫میں کیبن سے باہر نکلنے لگا تو ضوفی‬


‫نے مجھے آواز دی‬
‫یاسرررر‬
‫میں نے مڑ کر دیکھا‬
‫اور پوچھا جییی‬
‫ضوفی بولی وہ لہنگا تو لیتے جاو‬
‫مجھے بھی باتوں اور ضوفی کی قربت‬
‫میں لہنگا بھول گیا تھا‬
‫میں بوال اووووو سوری مجھے یاد ہی‬
‫نھی رہا۔‬
‫ضوفی تیسرے کیبن میں گئی اور‬
‫لہنگے کا شاپر ال کر مجھے دیا اور‬
‫میرا شکریہ ادا کرتے ہوے بولی جمعہ‬
‫کو الزمی آجانا میں نے جی کہا اور‬
‫پارلر سے نکل کر سیدھا دکان پر پہنچا‬
‫اور انکل کو بتایا کہ لہنگا لے آیا ہوں‬
‫انکل بولے اچھی طرح چیک کرلیا میں‬
‫نے کہا جی انکل میں نے ادھر ھی‬
‫چیک کرلیا تھا۔‬
‫جنید میری طرف دیکھ کر آنکھ مار کر‬
‫ہنسنے لگ گیا ۔‬
‫پھر دکان پر تو کچھ خاص نہ ہوا اور‬
‫شام کو گھر پہنچا‬
‫اور وہ ہی روٹین کے مطابق کھانا‬
‫وغیرہ کھایا اور کچھ دیر امی ابو کے‬
‫پاس بیٹھ کر گپ شپ لگائی اور پھر‬
‫اپنے بستر پر لیٹ کر ضوفی کے بارے‬
‫میں سوچتے سوچتے سو گیا۔‬
‫صبح اٹھا ناشتہ وغیرہ کر کے آنٹی کے‬
‫گھر پہنچا‬
‫تو پتہ چال کہ عظمی اور نسرین کے‬
‫پیپر ختم ہوگئے ہیں لحاظ انہوں نے اب‬
‫پندرہ بیس دن سکول نہیں جانا ۔‬
‫آنٹی سے کچھ دیر گپ شپ کرنے کے‬
‫بعد میں اکیال ہی شہر چال گیا ۔‬
‫صدف کا نہ میں نے پوچھا اور نہ ہی‬
‫کسی نے میرے ساتھ اسکی بات کی ۔‬
‫روزمرہ کے‬
‫ّ‬ ‫دکان پر پہنچا اور وہ ہی‬
‫کام کر کے دکان کے فرنٹ پر بیٹھ گیا ۔‬
‫آج جمعرات تھی اس لیے صبح صبح‬
‫دکان پر رش شروع ہوگیا‬
‫دوپہر کب ہوئی نھی پتہ چال۔‬
‫جنید نے کھانا النے کا کہا اور ہم بازار‬
‫چلے گئے‬
‫ہم دونوں باتیں کرتے ہوے ہوٹل کی‬
‫طرف جارہے تھے کہ اچانک پیچھے‬
‫سے کسی نے میرا نام لے کر مجھے‬
‫پکارا‬
‫تو میں نے پلٹ کر دیکھا‬
‫تو اسد کی مما تھیں ۔‬
‫میں انکو دیکھ کر رک گیا اور ان سے‬
‫سالم دعا کے بعد حال احوال پوچھا‬
‫تو آنٹی بولی کیا بات ہے کبھی گھر‬
‫چکر نہیں لگایا ۔‬
‫میں نے کہا بس کام میں مصروفیت ہے‬
‫اس لیے وقت نہیں مال ۔‬
‫آنٹی بولی اتنی بھی کیا مصروفیت ہوئی‬
‫کہ کسی اور کہ لیے وقت ھی نہیں‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی دراصل میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔‬
‫اور میں ایک ہفتہ تو ہسپتال اور گھر‬
‫ھی رھا‬
‫آنٹی میرے ایکسیڈنٹ کا سن کر کافی‬
‫پریشان ہوئی اور مجھ سے گلہ کرنے‬
‫لگ گئیں کہ ہمیں پھر غیر ہی سمجھا‬
‫کہ بتانا بھی پسند نہیں کیا‬
‫میں نے کہا آنٹی جی مجھے تو خود اپنا‬
‫ہوش بھی نہیں تھا ۔‬
‫اور نہ ہی اسد یا مہری سے مالقات ہو‬
‫سکی اس وجہ سے نہیں بتا سکا ۔‬
‫انٹی کچھ دیر گلے شکوے اور میری‬
‫خیریت معلوم کرتی رہیں ۔‬
‫اور پھر بولی یاسر وہ سامنے مارکیٹ‬
‫میں میرا بوتیک ہے ۔‬
‫تم نے کبھی بوتیک پر بھی چکر نہیں‬
‫لگایا میں نے کہا جی آنٹی وقت نکال‬
‫کر آپ کے بوتیک پر چکر لگاوں گا‬
‫ابھی تو میں دوست کے ساتھ ہوٹل سے‬
‫کھانا لینے جارہا ہوں‬
‫تو آنٹی نے الزمی آنے کی تاکید کی‬
‫اور میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوے‬
‫چلی گئیں‬
‫جنید آنٹی کو بڑے غور سے دیکھتا اور‬
‫کبھی میری طرف ۔‬

‫آنٹی جب چلی گئیں تو‬


‫جنید میرے بازو ہر تھپڑ مار کر بوال‬
‫اوے تم اسے کیسے جانتے ہو‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے پوچھا کیا‬
‫مطلب‬
‫میرے دوست کی امی ھے ۔‬
‫تو جنید کچھ سوچ کر چپ کرگیا۔‬

‫مگر مجھ سے اسکی خاموشی ہضم نہ‬


‫ہوئی تو‬
‫میں نے کہا‬
‫تم کیوں اتنے حیران ہوکر کہہ رھے ہو‬
‫کہ‬
‫میں اسے کیسے جانتا ہوں۔‬

‫تو جنید پھر جان چھڑواتے ہوے بوال‬


‫کچھ نہیں یار ۔انکا بوتیک ہے اس‬
‫مارکیٹ میں ۔‬

‫میں اس لیے پوچھ رہا تھا۔‬

‫میں نے جنید کو کہا مجھے گولی مت‬


‫دے جو اصل بات ہے وہ بتا‬
‫دوستی میں جھوٹ نہیں بولتے۔‬
‫جنید کچھ دیر خاموش رھا تو میں نے‬
‫پھر اسے کہا تو جنید بوال‬
‫یار تیرے دوست کی امی ہے‬
‫تو تم ناراض مت ہونا۔‬
‫میں نے کہا لن تے چڑ گیا دوست‬
‫اتنا خاص بھی نھی ہے‬
‫تو بتا کیا بات ہے ۔‬
‫جیند بوال‬
‫یار یہ ایک نمبر کی بچے تاڑ ہے ۔‬
‫میں حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے‬
‫ہوے بوال کیا مطلب‬
‫بچے تاڑ ہے ۔‬

‫جنید بوال‬
‫یہ سالی ینگ ینگ لڑکوں کو پھنسا کر‬
‫ان سے چدواتی ہے اور انکو اپنے پاس‬
‫سے پیسے بھی دیتی ہے اور عیش بھی‬
‫کرواتی ہے‬
‫میں تو سمجھا شاید تم بھی اسکے چکر‬
‫میں آگئے ہو تو اس لیے میں نے پوچھا‬
‫تھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو ۔‬

‫میں حیران پریشان ہوکر جنید کی باتیں‬


‫سن رھا تھا ۔میں نے کہا‬
‫تجھے کیسے پتہ کہ یہ بچے تاڑ آنٹی‬
‫ھے ۔‬
‫جنید بوال۔‬
‫یار یہ پوری مارکیٹ کو پتہ ہے‬
‫اور میرے دوست نے اسکی کتنی دفعہ‬
‫لی ہے تجھے نھی یقین تو میں تجھے‬
‫اسکے منہ پر کروا دیتا ہوں ۔‬
‫سالی ینگ لڑکوں کو چوستی ہے‬
‫تبھی تو اس عمر میں بھی جوان لگتی‬
‫ہے ۔‬
‫ینگ خون چوس چوس کر خود بھی‬
‫ینگ ہے ۔‬
‫مجھے خیال آیا کہ تبھی سالی پہلی‬
‫مالقات میں ھی مجھے بڑی ہوس بھری‬
‫نظروں سے دیکھ رھی تھی اور آج بھی‬
‫یہ مجھے اسی لیے بوتیک پر آنے کا‬
‫کہہ رھی تھی ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار یہ تو پھر بڑی چھپی ہوئی آئٹم ہے‬
‫تو جنید ہنس کر بوال‬
‫یار یہ تیرے لیے چھپی ھے ویسے تو‬
‫ہر دوسرے بندے کو اس کے کریکٹر‬
‫کے بارے میں علم ھے ۔‬
‫میری بات پلے باندھ لے یہ تجھے بھی‬
‫معاف نھی کرے گی ۔‬
‫اور تم اس سے بچ کر رہنا‬
‫ورنہ اپنی جوانی گنوا بیٹھو گے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں یار پہلی بات تو یہ ھے کہ وہ‬
‫میرے ساتھ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ‬
‫میرا انکے ساتھ گھریلو تعلق ہے‬
‫اور اگر ایسا اس نے کچھ کرنے کی‬
‫کوشش بھی کی تو مجھ سے بےعزتی‬
‫کرواے گی ۔‬

‫جنید ہنستے ہوے بوال‬


‫یار تو بھی کمال ہے ۔‬
‫یہ بڑی آئیٹم ھے‬
‫یہ جس بچے کو بھی پھنساتی ہے‬
‫اسکے ساتھ گھریلو تعلق ھی بناتی ھے‬
‫۔‬
‫اسکی ایک بیٹی بھی ھے ۔ نہ ۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے کہا ہاں یار‬
‫ھے اسکی بیٹی‬
‫مگر تجھے اسکے بارے میں کیسے پتہ‬
‫۔‬

‫تو جنید ہنستے ہوے بوال‬


‫ماما یہ آنٹی اپنی بیٹی‪ .‬کو دیکھا کر‬
‫بچے پھنساتی ہے‬
‫لڑکا اسکی بیٹی کے چکر میں‬
‫اس کی ہر بات مان لیتا ھے‬
‫مگر سالی نے کبھی کسی کو بیٹی کے‬
‫قریب نھی جانے دیا بس دور دور سے‬
‫ھی درشن اور ہلکی پھلکی ہیلو جاے‬
‫تک محدود رکھتی ہے ۔‬
‫مجھ پر تو جیسے بم گر گیا تھا‬
‫میرا دماغ چکرا گیا ۔‬
‫میں نے جیند کو کہا یار‬
‫تجھے اتنی معلومات کیسے ہے ۔‬
‫جنید بوال‬
‫یار تجھے بتایا تو ھے کہ میرے دوست‬
‫کی اسکے ساتھ سیٹنگ تھی اور وہ‬
‫کتنی دفعہ انکے گھر بھی گیا تھا‬
‫تو یہ جان بوجھ کر اپنی بیٹی کو اپنے‬
‫شکار کے سامنے التی‬
‫اور شکار اسکی بیٹی کے حسن کو‬
‫دیکھ کر پھنس جاتا ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫یار اسکی بیٹی بھی اسکی طرح دونمبر‬
‫ھے کیا ۔‬

‫جنید بوال‬
‫اسکا مجھے علم نھی‬
‫کہ وہ کس طرح کی سوچ رکھتی ھے‬
‫ہوسکتا ھے کہ وہ بھی اپنی ماں کی‬
‫طرح ھو یا یہ بھی ہو سکتا ھے کہ وہ‬
‫اپنی ماں کی کرتوت اور اسکے شکار‬
‫کرنے کے طریقہ سے ناواقف ہو‬
‫مگر اتنا کنفرم ھے کہ کوئی لڑکا اسکی‬
‫بیٹی تک پہنچ نہیں سکا ۔‬

‫میرے دل کو کچھ تسلی بھی ہوئی اور‬


‫میرے تجسس میں اضافہ بھی‬
‫کہ مہری کہیں مجھے الو تو نہیں بنا‬
‫رہی‬
‫یا پھر سچ میں وہ میرے ساتھ سریس‬
‫ہے ۔‬
‫یہ تو اب اس سے مالقات کے بعد ھی‬
‫معلوم ہونا تھا ۔‬
‫کیوں کہ میرا اگال پالن‪ .‬مہری کی پھدی‬
‫چیک کرنے کا تھا کہ سیل پیک ھے یا‬
‫پھر‬
‫میں دکان پر آکر بھی مہری اور اسکی‬
‫مما کے بارے میں سوچ سوچ کر‬
‫پریشان ہوتا رہا کہ دنیا میں کتنے‬
‫رنگوں کے لوگ رہتے ہیں۔‬
‫بظاہر کچھ نظر آتے ہیں مگر اندر سے‬
‫کچھ ۔‬
‫گھر جا کر بھی میری حالت کچھ ایسی‬
‫ھی رھی‬
‫اگلے دن جمعہ تھا‬
‫اور میں وقت سے پہلے ہی اٹھ گیا‬
‫جبکہ ہر جمعرات کو یہ ھی سوچ کر‬
‫سوتا تھا کہ صبح چھٹی ھے تو جی بھر‬
‫کر سووں گا مگر صبح ہوتے ھی‬
‫معاملہ سوچ کے برعکس ہوتا تھا۔‬
‫میں اٹھ کر نہانے چال گیا اور پھر ناشتہ‬
‫کرکے امی کو کہا کہ میں نے شہر جانا‬
‫ھے تو امی نے حیران ہوتے ہوے‬
‫پوچھا کہ خیر ھے پہلے تو جمعے کو‬
‫چھٹی کرتے تھے ۔‬
‫میں نے امی کو دوست سے ملنے کا‬
‫بہانہ کیا اور امی کے طرح طرح کے‬
‫سوالوں کے جواب دے کر امی کو‬
‫مطمئن کر کے ان سے اجازت لے کر‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر چال گیا کیوں کہ‬
‫ابھی صبح صبح کا ھی وقت تھا تو میں‬
‫نے اتنی جلدی ضوفی کے پارلر پر جانا‬
‫مناسب نھی سمجھا اس کی وجہ یہ بھی‬
‫تھی کہ ابھی اسکا پارلر کھال بھی نھی‬
‫ہوگا ۔‬
‫تو ایسے فضول میں ادھر خوار ہونا‬
‫پڑنا تھا ۔‬
‫اپنے گھر تو میں بس سونے کے لیے‬
‫ھی آتا تھا‬
‫کیوں کہ گھر میں امی ابو نازی اور‬
‫بڑے بھائی کے عالوہ کوئی اور تھا‬
‫نھی‬
‫امی ابو کے پاس میں اتنا بیٹھتا نھی تھا‬
‫نازی سے میری ویسے ھی نہیں بنتی‬
‫تھی ۔‬
‫اور بڑے بھیاء ویسے ھی سڑیل سے‬
‫تھے اور وہ ذیادہ وقت اپنی کریانے کی‬
‫دکان پر ھی دیتے تھے‬
‫تو اس لیے میں گھر سے بھاگنے کی‬
‫جلدی کرتا‬
‫آنٹی فوزیہ کے گھر میرا دل لگا رھا‬
‫تھا‬
‫اور وقت بھی اچھا پاس ہوجاتا تھا۔‬
‫خیر میں آنٹی کے گھر گیا تو آنٹی‬
‫صحن میں جھاڑو لگا رھی تھی‬
‫آنٹی پاوں کے بل بیٹھی‬
‫گانڈ سے قمیض اٹھاے بیرونی دروازے‬
‫کی طرف گانڈ کیے بیٹھی ہوئی تھی‬

‫میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو‬


‫اکیلی آنٹی کو صحن میں دیکھ کر اور‬
‫انکی سیکسی گانڈ کو دیکھ کر مجھے‬
‫شرارت سوجھی ۔‬
‫میں دبے پاوں چلتا ہوا آنٹی کے قریب‬
‫پہنچ گیا آنٹی میری آمد سے بےخبر‬
‫اپنی مستی میں جھاڑو لگا رھی تھی ۔‬
‫میں نے پہلے چاروں طرف دیکھ کر‬
‫اچھی طرح تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو‬
‫نہیں۔‬

‫اور آنٹی کی گانڈ کے کچھ فاصلے پر‬


‫کھڑا ہوکر تھوڑا سا جھکا اور ہاتھ آگے‬
‫کر کے آنٹی کی گانڈ میں چال چڑھا دیا‬
‫۔‬
‫آنٹی ایکدم گبھرا گئی اور چیخ مار کر‬
‫گھٹنوں کے بل کوڈی ہوکر گرتے‬
‫گرتے بچی‬
‫ورنہ آنٹی نے منہ کے بل گرنا تھا۔‬
‫آنٹی نے جب مجھے دیکھا تو ہاتھ میں‬
‫پکڑا جھاڑو مجھے مارتے ہوے بولی‬
‫بتمیز‬
‫یہ کیسا مزاق ھے میری جان نکال دی‬
‫میں جھاڑو سے بچتے ہوے ایک طرف‬
‫بھاگا‬
‫آنٹی جھاڑو پکڑے میرے پیچھے‬
‫پیچھے بھاگ رھی تھی اور میں آنٹی‬
‫کے آگے اگے صحن کا چکر لگا رھا‬
‫تھا۔‬
‫آنٹی کی چیخ سن کر عظمی اور نسرین‬
‫بھی کمرے سے باہر نکل آئیں‬
‫انکو باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا تھا‬
‫شاید وہ سو رھی تھیں ۔‬
‫انکے چہرے پر کافی گبھراہٹ تھی ۔‬
‫مگر جب انہوں نے ہم دونوں کو ایک‬
‫دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوے دیکھا‬
‫تو دونوں ہنسنے لگ گئی‬
‫اور عظمی نے آنٹی سے کہا کیا ہوا‬
‫امی صبح صبح اس بیچارے کی شامت‬
‫کیوں آئی ہوئی ھے ۔‬

‫آنٹی بولی‬
‫تمہارے‬
‫اس بیچارے نے میری جان نکال دی‬
‫آنٹی تھک کر کھڑی ہوکر لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گئی ۔‬
‫نسرین غصے سے بولی یاسر تمہیں‬
‫شرم آنی چاہیے‬
‫ایسے کسی کو ڈراتے ہیں ۔‬
‫میں نے نسرین کو منہ چڑاتے ہوے کہا۔‬
‫تمہیں کوئی تکلیف ھے‬
‫یہ میری اور آنٹی کی بات ہے تم‬
‫خامخواہ‬
‫بیچ میں چوہدرانی نہ بنو ۔‬
‫تو نسرین مجھے منہ چڑھا کر جا دفعہ‬
‫ہو کہہ کر اندر چلی گئی اور عظمی‬
‫مسکراتی ہوئی کھڑی رھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں آنٹی کے قریب آیا اور‬
‫انکو سائڈ سے جپھی ڈال کر سوری‬
‫کرنے لگ گیا‬
‫کچھ نخرے دیکھانے کے بعد آنٹی‬
‫مان گئی اور میں اندر کمرے میں چال‬
‫گیا جہاں سڑیل نسرین اور میری دلربا‬
‫عظمی بیٹھی ہوئی تھیں ۔‬

‫عظمی مجھ سے پوچھنے لگ گئی خیر‬


‫ھے آج کدھر کی تیاری ھے اتنی صبح‬
‫صبح۔‬
‫میں نے کہا کہ شہر جارھا تھا تو سوچا‬
‫آنٹی سے پوچھتا جاوں کہ کچھ منگوانا‬
‫تو نھی ۔‬
‫عظمی بولی خیریت ھے جمعہ کو تو تم‬
‫چھٹی کرتے ھو ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫دکان پر لڑکا ھے میرا دوست ھے اس‬
‫سے ملنے جانا ھے‬
‫عظمی بولی کیوں روز ملتے نھی اس‬
‫سے ۔‬
‫میں نے کہا روز ملتا ہوں ۔‬
‫مگر آج جمعہ ھے تو ہم نے کہیں‬
‫گھومنے پھرنے جانا ھے ۔‬
‫عظمی کچھ کہنے لگی تھی کہ آنٹی‬
‫کمرے میں آگئی تو عظمی کچھ کہتے‬
‫کہتے چپ ہوگئی ۔‬
‫آنٹی نے اندر آتے ھی میرے سر پر‬
‫چپت لگاتے ہوے کہا ۔‬
‫یاسر بہت بتمیز ہوگئے ہو قسم سے‬
‫میری جان نکال دی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫آنٹی میں نے تو بس واو کیا تھا اور آپ‬
‫ڈر گئی ۔‬

‫آنٹی مجھے گھوری ڈالتے ہوے بولی‬


‫تیرے واو نے میری جان کڈ لینی سی ۔‬
‫میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی بولی وہ‬
‫دوسرے کمرے میں سو رھا ھے‬
‫ساری رات کھانستا رھا ھے نہ خود‬
‫سویا نہ مجھے سونے دیا۔‬
‫میں کچھ دیر مذید آنٹی کے گھر بیٹھا‬
‫گپیں لگاتا رھا‬
‫نسرین اور آنٹی کی وجہ سے میں‬
‫عظمی سے گولیوں کا معاملہ نھی پوچھ‬
‫سکا‬
‫کہ آنٹی اور نسرین کو گولیاں دی تھی‬

‫یا پھر مجھے گولی دے دی تھی ۔‬


‫خیر میں آنٹی سے اجازت لے کر دس‬
‫گیارہ بجے کے دوران گھر سے نکل‬
‫کر شہر کی طرف چل پڑا‬
‫آدھے گھنٹے میں شہر پہنچا اور‬
‫راستے میں ایک حمام سے منہ پر اور‬
‫سر پر شاور سے پانی مار کر راستے‬
‫میں پڑی دھول کو صاف کیا اور بال بنا‬
‫کر ضوفی کے پارلر کی طرف چل پڑا‬
‫۔‬
‫مارکیٹ کے پاس پہنچا تو ساری‬
‫مارکیٹ کو بند دیکھ کر میں پریشان سا‬
‫ہوگیا کہ کہیں مجھے فضول چکر تو‬
‫نہیں پڑگیا ۔‬
‫میں حوصلہ کر کے بیس منٹ کی‬
‫سیڑیاں اترنے لگا تو یہ دیکھ کر دل کو‬
‫سکون مل گیا کہ‬
‫ضوفی کا پارلر کھال ہوا ھے اور‬
‫اسکے ساتھ واال چھوڑ کر تیسرا پارلر‬
‫بھی کھال ہوا تھا‬
‫باقی ساری مارکیٹ کی دکانیں بند تھیں‬
‫۔‬
‫میں سیڑیاں اتر کر سیدھا ضوفی کے‬
‫پارلر کے پاس پہنچا اور ڈور کو ناک‬
‫کیا تو وہ ھی سانولی کچی کلی نمودار‬
‫ہوئی ۔‬
‫اور مجھے دیکھ کر کچھ کہے سنے‬
‫بغیر ھی پردے کے پیچھے غائب‬
‫ہوگئی ۔‬
‫کچھ دیر بعد پھر وہ ہی لڑکی نمودار‬
‫ہوئی اور ڈور کھول کر مجھے اندر‬
‫آنے کا کہا۔‬
‫میں بالجھجک اندر چال گیا‬
‫مگر جیسے پالر کے اندر‬
‫انٹر ہوا‬
‫تو سامنے دیکھتے ھی میری اوپر کی‬
‫سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے‬
‫رک گئی اور میرے اٹھتے قدم رک‬
‫گئے میں بت بنا کھڑا سامنے دیکھ رھا‬
‫تھا کہ۔‬

‫سامنے مجسمہ حسن ملکہ حسن شربتی‬


‫ہونٹ جھیل سی آنکھیں‬
‫پتلی کمر‬
‫صراحی دار گردن‬
‫گلے کو پھاڑ کر باہر کو نکلنے کے‬
‫لیے بےتاب ابھار‬
‫۔‬

‫حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے‬


‫ہیں‬
‫ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے‬
‫ہیں‬

‫اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن‬


‫دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں‬
‫وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں‬
‫واقف‬

‫پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے‬


‫ہیں‬
‫پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو‬
‫کیا‬

‫ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے‬


‫ہی‬
‫وہ حسن کی دیوی آج میرا قتل کرنے ‪.‬‬
‫کے درپے تھی ۔‬
‫ضوفییییی ہاں ضوفی‬
‫ایک ہاتھ کمر پر رکھے‬
‫سلیو لیس پنک شرٹ جو مجھ سے‬
‫پرچیز کی تھی پہنے ہوے نیچے سکن‬
‫فٹنگ لیکرا سٹف میں ٹراوزر جس میں‬
‫اسکی سڈول پنڈلیاں اور سائڈ سے سڈول‬
‫پٹ نمایاں نظر آرھے تھے‬
‫کیا قیامت ڈھانے کے ہر تول رھی تھی‬
‫کس جنم کا بدال وہ ظالم مجھ سے لے‬
‫رھی تھی‬
‫کیوں آج پہلی نظر میں مجھے بہکنے‬
‫کی دعوت دے رھی تھی‬
‫میں بت بنا کھڑا دل ھی دل میں اس‬
‫مجسمہ حسن پر پوری غزل کہہ گیا‬
‫اور وہ حسینہ میری حالت کو دیکھ کر‬
‫مذید مغرور ہوگئی اور بڑی ادا سے‬
‫چلتی ہوئی میری طرف بڑھی جیسے‬
‫کوئی ماڈل میم سٹیج پر کیٹ واک کرتی‬
‫چلی آرھی ھو۔‬
‫میرے قریب آکر‬
‫اس سیکس کی پڑیا نے اپنا نازک سا‬
‫ہاتھ اٹھایا‬
‫اور ہاتھ کی لکیریں میری آنکھوں کے‬
‫سامنے یوں کی جیسے کہہ رھی ہو‬
‫دیکھو اور ڈھونڈو اپنی قسمت کی لکیر‬
‫۔‬
‫اس سے پہلے کہ میری نظر اپنی قسمت‬
‫کی لکیر پر پڑتی اس ظالم نے ہتھیلی‬
‫میری آنکھوں کے سامنے ہالتے ہوے‬
‫اپنے گل گلزار کو کھوال اور ایک‬
‫سریلی سی آواز میرے کانوں سے‬
‫ٹکرائی ۔‬

‫ہیلوووو مسٹر‬
‫کدھر کھو گئے‬

‫میں ہوش میں ھی کہاں تھا جو ہوش‬


‫میں آتا‬
‫اب کیسے اسکو بتاتا کہ کہاں کہاں سے‬
‫ہوں‬
‫ہوکر کہاں کہاں کھوگیا ً‬
‫میں اسے کیا بتاتا کہ‬

‫وہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے‬


‫مجھے‬
‫کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے‬
‫مجھے‬

‫میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے‬


‫کو‬
‫بدن مرا ہی سہی دوپہر نہ بھائے‬
‫مجھے‬
‫بہ رنگ عود ملے گی اسے میری‬
‫خوشبو‬
‫وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے‬
‫جالئے مجھے‬

‫میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب‬


‫نکلوں‬
‫برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے‬
‫مجھے‬

‫وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں‬


‫میرا‬
‫جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے‬
‫مجھے‬

‫میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس‬


‫کا‬
‫جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے‬
‫مجھے‬

‫زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا‬


‫گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے‬
‫مجھے‬
‫وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے‬
‫معلوم‬
‫دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے‬
‫مجھے‬

‫وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا‬


‫وہ بد گماں ہے تو سو بار آزمائے‬
‫مجھے‬

‫میں اپنی ذات میں نیالم ہو رہا ہوں یاسر‬


‫غم حیات سے کہہ دو خرید الئے‬
‫مجھے۔‬

‫ضوفی نے پھر میری آنکھوں کے‬


‫سامنے ہاتھ ہالیا کہ‬
‫جناب کدھر گم ہو۔‬
‫میں ایکدم ہوش میں آیا اور‬
‫اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر‬
‫بوال‬
‫بنانے والے نے بھی آپکو کیا خوب بنایا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫واہ واہ خیر ھے آج ناشتہ شاعری کا کر‬
‫کے آے ہو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اس مجسمہ حسن کو دیکھ کر کس‬
‫کمبخت کو بھوک لگے۔‬
‫جو خود سر سے پاوں تک شاعری ہو‬
‫تو اسپر اس نکمے کی شاعری کیا لگے‬
‫۔‬
‫ضوفی ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی مارنے‬
‫کی انداز میں بولی‬
‫واوووو تو جناب چھپے رستم نکلے‬
‫جسکو ہم سادہ لوح سمجھتے تھے‬
‫وہ ھی قاتل جاں نکلے ۔‬
‫میں نے کہا واہ شاعرہ تو آپ بھی ہو۔‬

‫ضوفی ہنستے ہوے بولی ۔ایسی بھی‬


‫بات نھی‬
‫بس ہ‬
‫تمہاری کیفیت دیکھ کر منہ سے چند‬
‫الفاظ شعر بن کر نکلے مگر جناب تو‬
‫پورے شاعر ہین ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں جناب‬
‫یہ تو آپ کے حسن کا کمال تھا کہ آپکی‬
‫تعریف میں میرے منہ سے آپکے حسن‬
‫جمال پر غزل کی صورت میں میرے‬
‫دل کی بات نکل آئی‬
‫ورنہ ہم گاوں کے سادہ سے لوگ اس‬
‫قابل کہاں ۔‬
‫تو ضوفی‬
‫مسکرا کر بولی اگر جناب کو شاعری‬
‫سے فرصت مل گئی ہو تو‬
‫اندر تشریف رکھیں گے‬
‫میں نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا میں‬
‫تو پہلے ھی اندر ہوں‬
‫تو ضوفی ہنستے ہوے بولی‬
‫اندر تو ہو مگر دروازے کے پاس‬
‫کھڑے ھو ۔‬
‫میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف بڑھا‬
‫اور‬
‫صوفے پر بیٹھ گیا صوفی میرے پاس‬
‫آکر بیٹھ گئی اور بولی‬
‫مجھے یقین تھا کہ تم الزمی آو گے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫دیکھ لیں میں نے آپکے یقین کو ٹوٹنے‬
‫نہیں دیا۔‬

‫ضوفی بولی‬
‫تمہاری وجہ سے میں نے تین کسٹمر‬
‫واپس موڑ دیے کہ یہ نہ ہو کہ میں‬
‫کسٹمر میں مصروف ہوجاوں اور تم‬
‫باہر کھڑے کھڑے سوکھ جاو ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫اچھا جی پھر تو آج میری وجہ سے آپکا‬
‫نقصان ہوگیا۔‬
‫ضوفی بڑے رومینٹک انداز میں بولی‬
‫نقصان تو میں تم سے وصول کر پورا‬
‫کر لوں گی‬
‫میں نے کہا‬
‫میں نوکر جناب کا ۔‬
‫ضوفی کھلکھال کر ہنسی اور پھر ایکدم‬
‫سیریس ہوکر بولی ۔‬
‫یاسر ایک بات کہوں ۔‬
‫میں نے کہا حکم کریں ۔‬
‫تو ضوفی نے اس سانولی لڑکی کی‬
‫طرف دیکھا‬
‫جو منہ پھاڑے ہم دونوں کی گفتگو میں‬
‫محو تھی ۔‬

‫ضوفی نے اسے کہا‬


‫ثریا تم جا کر اندر کیبن میں بیٹھو ۔‬
‫وہ اٹھی اور کیبن میں چلی گئی ۔‬
‫ضوفی نے میری طرف دیکھا اور‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تمہیں پتہ ہے کہ تم‬
‫پہلے لڑکے ہو جس کے ساتھ میں اتنی‬
‫فرینک ہوگئی ہوں‬
‫اور میں نے اپنے پارلر میں بھی تمکو‬
‫بنا کسی خوف کے اندر آنے کی اجازت‬
‫دے دی ۔‬
‫اب تم یہ نہ سمجھنا کہ میں ایسی ویسی‬
‫لڑکی ہوں ۔‬
‫جب پہلی دفعہ میں نے تمکو دیکھا تھا‬
‫تو تمہارے چہرے میں ایک عجیب سی‬
‫کشش نے مجھے تمہاری طرف متوجہ‬
‫ہونے پر مجبور کردیا ۔‬
‫میں نے کہا ضوفی جی‬
‫مجھے پتہ ہے کہ آپ شریف لڑکی ہو‬
‫یہ ضروری نہیں کہ ہر فیشن ایبل لڑکی‬
‫غلط ھی ھو ۔‬
‫سچ پوچھیں تو آپ کو بھی پہلی دیکھتے‬
‫ہی ۔میرے دل میں آپ گھر کر گئی تھی‬
‫اور میں دن رات آپکے بارے میں ہی‬
‫سوچتا رہتا تھا‬
‫مگر آپ سے بات کرتے ججھکتا تھا۔‬
‫مگر آپ میری طرف سے بےفکر‬
‫ہوجائیں کہ میری اور آپ کی بات باہر‬
‫کسی اور کو پتہ چلے گی ۔‬
‫مجھے آپکی عزت کا احساس ھے آپ‬
‫کی عزت میری عزت ہوگی ۔‬
‫ضوفی میرا ہاتھ پکڑ تے ہوے بڑی‬
‫گرمجوشی سے بولی‬
‫یاسر مجھے تم سے یہ ہی امید تھی ۔‬
‫آج سے تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو‬
‫میں نے اسکے نرم مالئم ہاتھ پر اپنا‬
‫ہاتھ رکھتے ہوے کہا۔‬
‫ضوفی جی میں گاوں کا سادہ سا لڑکا‬
‫ہوں اور جسکی‪ .‬طرف ایک دفعہ‬
‫دوستی کا ہاتھ بڑھا لیا تو‬
‫جان جاتی ھے جاے مگر دوستی پر آنچ‬
‫نھی آنے دیتا میری باتیں سن کر ضوفی‬
‫کے چہرے پر خوشی کے اثار نمایاں‬
‫نظر آرھے تھے‬
‫جیسے اس کی آرزو پوری ہوگئی ہو۔‬
‫مگر اسے کیا پتہ کہ میری اپنی حسرت‬
‫پوری ہونے کو جارھی تھی ضوفی کی‬
‫قربت پانے کا قرعہ میرے نام نکال اس‬
‫سے بڑی خوش نصیبی میرے لیے کیا‬
‫ہوتی ۔‬
‫کچھ دیر مذید باتیں کرنے کے بعد‬
‫ضوفی بولی چلو یاسر تمہارے سارے‬
‫جسم کی ویکس کرتی ہوں دیکھنا تم‬
‫اپنے آپ میں کیسی چینجنگ محسوس‬
‫کرتے ھو۔‬

‫میں نے حیرانگی سے منہ بنا کر کہا‬


‫سارےےےےےے جسم کی ۔‬
‫ضوفی بولی ہاں‬
‫میں نے پھر ناقابل یقین ہوتے ھوے کہا‬
‫کہ‬
‫واقعی سارےےےےے جسم کی ۔‬

‫ضوفی میری بات کا مطلب سمجھتے‬


‫ہوے بولے ۔‬

‫شوخےےےےے چلو اٹھو‬


‫کرتی ہوں تمہارے سارےےےےےے‬
‫جسم کی ویکس۔‬
‫میں اٹھ کر ضوفی کے ساتھ‬
‫ویکس روم میں آگیا ۔‬
‫ضوفی مجھے ادھر بٹھا کر باہر نکل‬
‫گئی اور کچھ دیر بعد واپس آئی تو اس‬
‫کے ہاتھ میں کریم کے دو بڑے بڑے‬
‫ڈبے تھے ۔‬
‫ضوفی چلتی ہوئی میرے پاس آگئی اور‬
‫میری طرف دیکھتے ہوے ایسے بولی‬
‫جیسے ڈاکٹر بچے کو ڈراتا ھے‬
‫۔یاسر چلو تیار ہوجاو قمیض اتارو اور‬
‫سٹریچر پر لیٹ جاو۔‬

‫میں نے کہا ضوفی جی‪ .‬آپ تو سچ مچ‬


‫ہی میری ویکس کرنے لگی ہیں ۔‬
‫ضوفی بولی‬

‫تمہیں کیا لگا میں مزاق کررھی تھی ۔‬

‫چلو شاباش اتارو قمیض ۔‬


‫میں نے کہا مجھے شرم آرھی ہے ۔‬
‫ضوفی ہنستے ہوے بولی‬
‫تم لڑکی ہو جو تمہیں شرم آرھی ہے‬
‫یہاں تو لڑکیاں نہیں شرماتی اور تم‬
‫لڑکے ہوکر میرے سامنے شرما رہے‬
‫ہو ۔‬
‫ضوفی چٹکی بجا کر بولی‬
‫چلو شاباش‬
‫اتارو قمیض ۔‬
‫میں نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے‬
‫ہوے کہا‬
‫ضوفی جی آپ دوسری طرف منہ کرو ۔‬
‫ضوفی کھلکھال کر ہنس پڑی‬
‫اور بولی پہلے تو یہ تم مجھے ضوفی‬
‫جی اور آپ کہنا چھوڑو۔‬
‫ہم اب فرینڈ ہیں یار۔‬
‫مجھے صرف ضوفی کہہ کر مخاطب‬
‫کیا کرو اور آپ کی بجاے تم کہا کرو۔‬
‫اور یہ شرم اتارو اور جلدی کرو۔‬
‫میں نے قمیض کے بٹن کھولے اور‬
‫شرماتے ہوے قمیض اتار کر‬
‫ہینگر کے ساتھ لٹکا دی ۔‬
‫اور سٹریچر پر لیٹنے لگا تو ضوفی‬
‫میرے گورے کندھوں اور بازوں کو‬
‫بڑے غور سے دیکھتی ہوئی‬
‫بولی جناب یہ بنیان بھی اتار دو۔‬

‫میں نے منہ بسورتے ہوے بنیان بھی‬


‫اتار دی ۔‬
‫اور سٹریچر پر لیٹ گیا‬
‫ضوفی نے اتنی دیر میں کریموں کو‬
‫مکسچر کر کے ایک باول میں ڈال کر‬
‫باول لے کر اس میں برش کو گھماتے‬
‫ہوے میری طرف بڑھی‬
‫ایک تو میں آدھا ننگا لیٹا ہوا تھا‬
‫دوسرا ضوفی نے گلے سے دوپٹہ بھی‬
‫اتار دیا تھا‬
‫اور اسکے تنے گول مٹول ممے میری‬
‫آنکھوں کے سامنے تھے اور مجھے‬
‫گھور رہے تھے۔‬
‫میں سیدھا لیٹا گردن گھما کر اسکے‬
‫مموں کو دیکھے جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی میرے بلکل قریب آگئی اور‬
‫برش سے باول میں سے کریم نکال کر‬
‫میرے سینے پر لیپ کرنے لگ گئی‬
‫مجھے گدگدی سی ہورھی تھی‬
‫میں نے ذور سے آنکھیں بند کرلیں ۔‬
‫میرے بازو بلکل سیدھے تھے ۔‬
‫مجھے اچانک احساس ہوا کے میرے‬
‫بازو کے ساتھ کچھ نرم نرم سی چیز‬
‫ٹکرا رھی ہے ۔‬
‫میں نے آنکھ کھول کر دیکھا تو ضوفی‬
‫کی پھدی واال حصہ میرے بازو کے‬
‫ساتھ وقفے وقفے سے ٹچ ہوتا‬
‫میرے دماغ میں تو دھماکے شروع‬
‫ہوگئے‬
‫اور دھماکوں کی آواز جب لن تک‬
‫پہنچی تو لن ساب نے بھی ایک جھٹکا‬
‫مارا اور میری شلوار میں تمبو بنا کر‬
‫باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگ گئے‬
‫اتنی دیر میں ضوفی اپنے دھیان میں‬
‫میرے سینے پر لیپ کرتے ہوے میرے‬
‫پیٹ کی طرف آگئی‬
‫اور اچانک جب اسکی نظر میرے لن‬
‫کی طرف پڑی تو اسکا چلتا ہو ہاتھ رک‬
‫گیا‬
‫میں نے ہلکی سی آنکھ کھول کر دیکھا‬
‫تو ضوفی آنکھیں پھاڑے لن کی طرف‬
‫دیکھی جارھی تھی‬
‫میں بھی انجان بن کر آدھی آنکھیں بند‬
‫کر کے لیٹا رھا‬
‫جیسے مجھے کسی بات کا علم ھی نہیں‬
‫ہے ۔‬
‫ضوفی کچھ دیر ایسے ھی بت بنی‬
‫کھڑی کبھی میرے لن کی طرف‬
‫دیکھتی تو‬
‫کبھی آنکھ چرا کر میرے چہرے کی‬
‫طرف دیکھتی تو میں آنکھیں بند کرلیتا ۔‬
‫ضوفی کا ہاتھ ابھی تک میری ناف پر‬
‫ھی رکا ہوا تھا‬
‫نہ وہ برش کو آگے پھیر رھی تھی نہ‬
‫نیچے کیطرف پھیر رھی تھی ۔‬
‫میں نے پھر ہلکی سی ایک آنکھ کھول‬
‫کر ضوفی کے چہرے کی طرف دیکھا‬
‫تو‬
‫ضوفی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رھی‬
‫تھی شاید گبھراہٹ کی وجہ سے اسکے‬
‫ہونٹ خشک ہورھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی نے ناف کا حصہ‬
‫چھوڑا اور میرے لن کی طرف چمکتی‬
‫آنکھوں سے دیکھتی ہوئی‬
‫میرے کندھوں کی طرف آئی اور میرے‬
‫بازوں پر کریم لیپ کرنے لگ گئی‬
‫اب میرے بازو سیدھے ہونے کی وجہ‬
‫سے میری کالئیاں بھی میرے لن کے‬
‫قریب تھیں‬
‫ضوفی میری کہنیوں سے جب نیچے‬
‫گئی تو اسکے ہاتھ پھر رک گئے ۔‬
‫میرے لن کی نظر سے جب بھی ضوفی‬
‫کی نظر ملتی تو لن ایک جھٹکا مار کر‬
‫اسکی نظروں کو کہتا‬
‫کہ‬
‫بنی سال فیر۔‬
‫میں بھی میسنا بن کر لیٹا رھا‬
‫اس دوران ہم دونوں ھی خاموش تھے‬
‫ضوفی پھر کچھ دیر کھڑی رھی ۔‬
‫اور میری کالئیوں اور میرے ناف کے‬
‫حصے کو ویسے ھی چھوڑ کر صوفے‬
‫پر جا کر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھ منہ‬
‫پر رکھ کر اپنے چہرے کو صاف‬
‫کرنے لگ گئی اسکی نظریں اب بھی‬
‫میرے لن کی طرف ہی تھیں‬
‫کہ ۔‬
‫میں نے آنکھیں کھول کر ضوفی کی‬
‫طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کہ ضوفی ہوگئی ویکس۔‬
‫تو ضوفی اچانک بوکھال کر مجھ سے‬
‫نظریں چرا کر بولی نننن نھی ابھی‬
‫ٹانگوں کی رہتی ہے‬
‫میں نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھ‬
‫کر پوچھا‬
‫کیا ہوا پریشان کیوں ہو ۔‬
‫طبعیت تو سہی ہے ۔‬
‫ضوفی خود کو سنبھالتے ہوے زبردستی‬
‫مسکرا کر بولی ہاں ہاں‬
‫ٹھیک ہوں بھال مجھے کیا ہونا ہے۔‬
‫میں نے اٹھتے ہوے کہا کہ پریشان کیوں‬
‫ہو ۔‬
‫تو ضوفی جھٹکے سے اٹھی اور مجھے‬
‫اٹھنے سے منع کرتے ہوے بولی‬
‫لیٹے رہو‬
‫ساری ویکس خراب ہو جانی ہے ۔‬
‫میں اسکے حکم کی تعمیل کرتے ہوے‬
‫لیٹ گیا‬
‫ضوفی جب جھٹکے سے میری طرف‬
‫ہاتھ کے اشارے مجھے روکتے ہوے‬
‫اٹھی تو اس کے دودھ کے مٹکے ایسے‬
‫ابھرے جیسے ابھی گلے سے نکل کر‬
‫باہر نکل کر گر جائیں گے ۔‬

‫ضوفی کی پریشانی دیکھتے ہوے میرے‬


‫لن نے بھی کچھ سمجھداری کا کام کیا‬
‫اور کچھ نرم ہوکر سر جھکا لیا مگر‬
‫ابھی بھی ابھار کے اثرات واضع نظر‬
‫آرھے تھے ۔‬
‫میں پھر سیدھا لیٹ گیا مگر میں نے‬
‫ضوفی سے نظر بچا کر آہستہ سے لن‬
‫کو نیچے کر کے چڈوں میں دبا لیا‬
‫کیوں کے میں نہیں چاہتا تھا کہ ضوفی‬
‫پہلی مالقات میں ہی میرے بارے میں‬
‫غلط تاثرات نہ لے لے‬
‫کیوں کہ اسکی نظر میں‬
‫میں ایک سیدھا سادھا پینڈو لڑکا تھا‬
‫اور وہ میری سادگی اور میری‬
‫خوبصورتی کی وجہ سے میری طرف‬
‫راغب ہوئی تھی‬
‫ورنہ تو سینکڑوں لڑکے اسکی راہ میں‬
‫آنکھیں بچھاے صبح دوپہر شام بیٹھے‬
‫رہتے تھے ۔‬

‫تو میں نہیں چاہتا تھا کہ گرم گرم ھی‬


‫نگھل لوں ۔‬

‫ضوفی کو بس لن کا سائز دیکھانا تھا‬


‫وہ دیکھا دیا تھا‬
‫جو عورت کی سب سے بڑی کمزوری‬
‫ہوتی ھے ۔چاہے عورت کتنی بھی پاکباز‬
‫ہو‬
‫بڑے اور تگڑے لن کو دیکھ کر ایک‬
‫دفعہ تو اسکی پھدی سے پانی کا قطرہ‬
‫گر ھی جاتا ھے ۔‬
‫ضوفی کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کر‬
‫کے اٹھی اور پھر باول پکڑ کر مجھ‬
‫سے کچھ فاصلے پر ہوکر‬
‫میری ناف کے نیچے اور میری کالئیوں‬
‫پر لیپ کر کے پھر میری ٹانگوں کی‬
‫طرف بڑھی اور بولی یاسر اپنی ٹانگوں‬
‫کو فولڈ کر کے کھڑی کرلو میں نے‬
‫گھٹنے اوپر کر کے ٹانگیں فولڈ کیں‬
‫تو میرا لن چڈوں سے آزاد ہوگیا مگر‬
‫تھا ابھی تک نارمل حالت میں‬
‫نہ چھوٹا نہ بڑا۔‬
‫ضوفی نے میری پنڈلیوں سے شلوار‬
‫اوپر کرنی شروع کی اور میرے گھٹنوں‬
‫تک لے آئی اور پھر گھٹنوں سے اوپر‬
‫کرنے لگی تو میرے پہنچہ میرے پٹ‬
‫میں پھنس گیا‬
‫ضوفی نے اپنے ہاتھ کے دونوں‬
‫انگوٹھے میرے پہنچے میں پھنسا کر‬
‫تھوڑا سا زور لگایا تو اسکا ایک ہاتھ جو‬
‫میری ٹانگوں کے بیچ تھا وہ سلپ ہوا‬
‫اور انگوٹھا پہنچے سے نکل گیا اور‬
‫ضوفی کا ہاتھ سیدھا میرے لن پر جا‬
‫لگا‬
‫لن نے بھی ہلکا سا جھٹکا مارا ضوفی‬
‫نے گبھرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ اوپر‬
‫کر لیا اور گبھراے ہوے ھی آنکھ چرا‬
‫کر میری طرف بھی دیکھا‬
‫ضوفی کا رنگ تو پہلے ھی پنک تھا لن‬
‫کو چھوتے ہی اسکا رنگ ٹماٹر کی‬
‫طرح سرخ ہوگیا‬
‫ضوفی نے دوبارا پہنچے کو ہاتھ نھی‬
‫لگا اور باول پکڑ کر میری ٹانگوں پر‪.‬‬
‫برش سے ویکس کا لیپ کرنےلگ گئی‬
‫ضوفی کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔‬
‫اور وہ جلدی جلدی اپنا کام نپٹانے میں‬
‫لگی ہوئی تھی‬
‫کچھ دیر میں ضوفی نے میری ٹانگوں‬
‫پر لیپ مکمل کردیا اور پھر جا کر‬
‫صوفے پر بیٹھ گئی ۔‬
‫مجھے ایسے محسوس ہو رھا تھا جیسے‬
‫میرا جسم اکڑنے لگ گیا ہو‬
‫مجھے عجیب سی الجھن محسوس‬
‫ھورھی تھی‬
‫ضوفی میری حالت دیکھتے ہوے بولی‬
‫بس کچھ دیر لیٹے رھو ابھی صاف کر‬
‫دیتی ہوں ۔‬
‫اور پھر ضوفی اٹھی اس نے جینز کا‬
‫کپڑا پکڑا اور میرے پیٹ اور سینے کے‬
‫اوپر چپکانے لگ گئی‬
‫جب اچھی طرح اس نے لیپ کے اوپر‬
‫کپڑا چپکا دیا تو‬
‫پھر کپڑے کے دونوں کونوں کو پکڑا‬
‫اور مجھے کہنے لگی کہ یاسر ہلکی‬
‫سی درد ہوگی برداشت کر لینا ۔‬

‫اور میرا جواب سنے بغیر اس نے‬


‫جھٹکے سے کپڑے کو کھینچا۔‬
‫اور سارے کپڑے کو ایک ھی جھٹکے‬
‫میں میرے سینے اور پیٹ سے الگ‬
‫کردیا۔‬

‫میری تو ایک دفعہ جان نکل گئی میرے‬


‫منہ سے آئیییییی اور سسییییییی نکال ۔‬
‫تو ضوفی بولی بس بس بس‬
‫ہوگیا۔‬
‫اور پھر میری آنکھوں کے سامنے کپڑا‬
‫کر کے دیکھاتے ہوے بولی یہ دیکھو‬
‫میں نے جب کپڑے کی طرف دیکھا تو‬
‫سارا کپڑا بالوں سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫میں نے کپڑے کو دیکھ کر اپنے سینے‬
‫سے پیٹ تک ہاتھ پھیرا تو میرا جسم‬
‫ایسے سوفٹ اور کلین تھا جیسے‬
‫لڑکیوں کا ہوتا ھے ۔‬
‫میں نے تین چار دفعہ ایسے ھی ہاتھ‬
‫پھیرا اور‬
‫ضوفی کی طرف بڑی ستائش نگاہ سے‬
‫دیکھتے ہوے کہا‬
‫واہ ضوفی جی‬
‫ایک ھی جھٹکے میں سب کچھ صاف‬
‫کردیا‬
‫ضوفی مسکرا کر بولی دیکھ لو پھر میرا‬
‫کمال۔‬
‫مان گئے نہ پھر۔‬
‫میں نے کہا مان تو آپ کو پہلے دن ھی‬
‫گیا تھا ۔‬
‫ضوفی‬
‫مسکراتی ہوئی میری ٹانگوں کی طرف‬
‫آئی اور پھر اسی عمل کو دھرایا اور‬
‫ٹانگوں سے بھی بال صاف کردئیے‬
‫کچھ دیر بعد اس نے ایک لوشن پکڑا‬
‫اور اسکو اپنی ہتھیلی پر لگا کر میرے‬
‫سینے سے لے کر پیٹ کی طرف مساج‬
‫کرتے ہوے میری ناف کی طرف ہاتھ‬
‫لیجانے لگی اس کی نرم مالئم ہتھیلیوں‬
‫کا میرے نرم مالئم جسم پر لمس کا ہونا‬
‫لن نے پھر انگڑائی لی مگر ‪.‬ھی تھا کہ‬
‫میں نے ٹانگوں کو اکھٹی کر کے لن کی‬
‫انگڑائی کو راستے میں ھی روک لیا‬

‫ضوفی میری ٹانگوں کو اکھٹا ہوتے‬


‫ہوے یکلخت چونکی اور اپنی آنکھوں‬
‫کو گھما کر میری ٹانگوں میں چھپے‬
‫رستم کو دیکھا اور پھر میرے پیٹ اور‬
‫سینے پر لوشن کا مساج کرنے لگ گئی‬
‫ضوفی کے ہاتھ اتنے نرم تھے اور‬
‫مساج کا انداز اتنا زبردست تھا کہ میرے‬
‫سارے جسم میں بجلی کی لہریں دوڑ‬
‫رہیں تھی اور میرا دل کر رھا تھا کہ‬
‫بس ضوفی کا ہاتھ چلتا رھے اور میں‬
‫ایسے ھی ساری ذندگی لیٹا رہوں ۔‬
‫ضوفی کی انگلیاں جب رینگتی ہوئی‬
‫میری ناف کے نیچے جاتیں تو میرا لن‬
‫میری ٹانگوں کو دھکے دے کر باہر‬
‫نکلنے کی کوشش کرتا ۔‬
‫میری برداشت دم توڑ رھی تھی میرا‬
‫خود پر سے کنٹرول ختم ہو رھا تھا‬
‫مگر میں حیران تھا‬
‫ضوفی کی برداشت پر‬
‫کہ وہ اپنی کیفیت کو مجھ پر ذرہ بھی‬
‫ظاہر نہیں ہونے دے رہی تھی جبکہ‬
‫اسکے چہرے کی اللی اور آنکھوں‬
‫سرخ ڈورے کھل کر اعالن کر رھے‬
‫تھے‬
‫کہ‬
‫لگی ہے آگ دونوں طرف۔‬
‫اگر میں ضوفی آنکھوں کے سامنے‬
‫اسکے تنے ہوے مموں اور اسکے ہاتھ‬
‫کے لمس کو برداشت نھی کرپارھا تھا‬
‫تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ضوفی میرے‬
‫تنے ہوے لن کو دیکھ کر اور میرے‬
‫جسم سے اٹھتی ہوئی گرمی کو ہاتھ پر‬
‫محسوس کرتے ہوے بھی اپنے آپ سے‬
‫باہر نہ ہو رھی ہو‬
‫یقینا َ ََ اسکی پھدی سے کچھ نہ کچھ تو‬
‫بوندیں گری ہی ہوں گی ۔‬
‫ضوفی جان بوجھ کر میرے صبر کا‬
‫امتحان لینے کے لیے بار بار اپنی ہتھیلی‬
‫کو سرکاری ہوئی انگلیوں کو میری‬
‫نالے کے ساتھ ٹچ کرتی اور پھر واپس‬
‫اپنے ہاتھ کو میری ناف کے اوپر لے‬
‫جاتی ۔‬
‫مجھے ایک پالن سوجھا کہ شاید جلتی‬
‫پر تیل کا اثر ہو‬
‫اور میں نے اپنے چڈوں میں خارش‬
‫کرنے کے بہانے سے ہاتھ نالے کی‬
‫گانٹھ کے اوپر سے لیجا کر چڈوں میں‬
‫خارش کرنے لگا جس سے ضوفی نے‬
‫اپنا ہاتھ ادھر سے ہٹا لیا‬
‫اور میں نے انگلیوں کی مدد سے نالے‬
‫کے سرے کو اس انداز سے کھینچا کہ‬
‫ضوفی کو ذرا سا بھی شک نہ ھو کہ‬
‫میں خارش کر رھا ہوں یا ناال کھول رہا‬
‫ہوں ۔‬
‫میں نے کچھ سیکنڈ میں ھی اپنا ناال‬
‫کھول کر شلوارا کے اندر کی طرف ھی‬
‫کردیا کہ اسے یہ بھی محسوس نہ ھو کہ‬
‫ناال کھال ہوا ھے‬
‫اس دوران مجھے یہ بینیفٹ مال کہ‬
‫ضوفی کیبن کے دروازے کی طرف‬
‫متوجہ ہوگئی تھی‬
‫اور اسی دوران میں نے اپنے پری پالن‬
‫کو عملی جامعہ پہنایا اور اس میں سو‬
‫فیصد کامیاب بھی رھا۔‬
‫جب میں نے ہاتھ پھر اپنی ٹانگوں کے‬
‫پاس سٹریچر پر رکھ لیا تو‬
‫ضوفی نے پھر بوتل سے تھوڑا سے تیل‬
‫نما لوشن ہتھیلی پر ڈاال اور پھر میرے‬
‫سینے اور پیٹ پر مساج شروع کر دیا‬
‫میں نے جان بوجھ کر سسکاری بھری‬
‫تو ضوفی نے مسکرا کر میری طرف‬
‫دیکھا اور بڑی شوخی سے بولی‬
‫مزہ آرھا ھے ۔‬

‫میں نے کہا ان مخملی ہاتھوں کا جادو‬


‫اثر کررھا ھے ۔‬
‫تو ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫اچھا جی ۔‬
‫دیکھنا کہیں یہ جادو تمہارے دماغ پر‬
‫اثر نہ کرجاے‬
‫میں نے کہا‬
‫تم دماغ کی بات کرتی ہو‬
‫یہ پتہ نہیں کہاں کہاں پر اثر کر چکا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی میرے سینے پر میرے چھوٹے‬
‫سے معصوم نپل پر ہلکی سی چٹکی‬
‫کاٹ کر بولی‬
‫بتانا پسند کرو گے کہ کہاں کہاں پر اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫میں نے سیییییی کیا اور کہا خود ہی‬
‫معلوم کرلو ۔‬
‫ہاتھ تمہارا ہے جادو کا اثر تمہارا ھے ۔‬
‫تو پتہ بھی تمہیں ھی ہونا چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا جی دیکھتی ہوں کہ کہاں کہاں اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫اور پھر مسکراتے ہوے نشیلی آنکھیں‬
‫کے ڈورے میری آنکھیں میں ڈال کر‬
‫ہتھیلی سے منتر پڑھ پڑھ کر آنکھوں‬
‫سے مجھ پر پھونکتے ہوے‬
‫میری ناف کی طرف بڑھنا شروع ہوئی‬
‫اور میری ناف کے چھوٹے سے‬
‫سوراخ میں اپنی باریک سی انگلی ڈال‬
‫کر گھماتے ہوے بولی یہاں تو نہیں‬
‫جادو ہوا‬
‫اور ساتھ ھی اسے زبردست جھٹکا لگا‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫جب ضوفی نے میری ناف میں انگلی‬
‫پھیری تو مجھے اچانک اتنی ذبردست‬
‫گدگدی ہوئی جسکو برداشت نہ کرتے‬
‫ہوے میں اوپر کو اچھال اور میرا ایک‬
‫ہاتھ جو ضوفی کی پھدی کے بلکل‬
‫قریب تھا وہ اوپر آتے ہوے ضوفی کی‬
‫پھدی کے اوپر سے رگڑکھاتا ہوا اسکی‬
‫ناف سے ٹچ ہوکر اسکے ایک ممے کو‬
‫چھو کر واپس بھی اسی حالت میں‬
‫جاتے ہوے اپنا کام کرکے ضوفی کی‬
‫نرم کالئی کو پکڑ لیا‬
‫ضوفی اس اچانک رگڑ سے ایک دم‬
‫اچھلی اور اپنا آپ تھوڑا سا پیچھے‬
‫کرنے کی کوشش کی مگر تب تک ہاتھ‬
‫نے اپنا کام پورا کرلیا تھا‬
‫میں نے ایسے ظاہر کرتے ہوے ضوفی‬
‫کی کالئی کو پکڑتے ہوے کہا نہہہہہہ‬
‫کرو ضوفییی اسکو یہ محسوس ہوا‬
‫جیسے یہ سب غیر ارادی طور پر ھوا‬
‫ھو‬
‫اور ہوا بھی یہ سب غیرارادی طور پر‬
‫ھی تھا‬
‫اگر ضوفی میری ناف میں انگلی نہ‬
‫گھسیڑتی تو‬
‫میری اتنی جرات کہاں تھی کہ اس‬
‫حسینہ کے جسم کو اسکی اجازت کے‬
‫بغیر چھو لیتا۔‬
‫ضوفی نے بھی کوئی ایسا ریکٹ نہ کیا‬
‫کہ جس سے لگا ہو کہ اسے برا فیل ہوا‬
‫ھے ۔‬
‫اور میری اس حالت پر ہنستے ہوے‬
‫بولی‬
‫اب مزہ آیا نہ بچو۔‬

‫میں نے کہا نہ کرو یارررر‬


‫‪.‬بہت گدگدی ہوتی ہے‬
‫ضوفی نے اپنی فنگر میری ناف سے‬
‫باہر نکالی پھر سے میرے پیٹ پر مساج‬
‫کرتے ہوے ناف کے نیچے ہاتھ کو‬
‫سرکانے لگی‬
‫میں نے بھی اسکی کالئی چھوڑ دی‬
‫تھی۔‬
‫اب اسی موقعہ کا مجھے انتظار تھا کہ‬
‫آگے کیا ہوتا‬
‫کیونکہ اچانک ہلنے سے میرا لن بھی‬
‫میرے چڈوں سے ازاد ہو چکا تھا اور‬
‫اب وہ فری ہینڈ تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے ھی حساب سے اپنی‬
‫انگلیوں کو سرکاتے ہوے جیسے ھی‬
‫میرے نالے کی طرف لے گئی اور‬
‫اسکا ٹارگٹ تو ناال تھا کہ جیسے ھی‬
‫اسکی فنگر سے نالے لی گانٹھ ٹچ ہو تو‬
‫اسے پتہ چل جاے کے آگے خطرناک‬
‫عالقہ شروع ہوجاتا ھے مگر اب تو اس‬
‫خطرناک عالقے کی سرحد پر سے باڑ‬
‫ہٹ گئی تھی اور انگلیاں اپنی مستی‬
‫سے آگے کی آگے سرکتی ہوئی جیسے‬
‫ھی میری چوؤں سے ٹکراتے ہوئی‬
‫میرے لن کی جڑ سے ٹکرائیں۔‬
‫ضوفی نے ہائییییی کیا اور ہاتھ باہر‬
‫کھینچ کر آنکھیں پھاڑے میری ُکھلی‬
‫شلوار کی طرف دیکھتے ہوے اپنی‬
‫انگلیوں کو دوسرے ہاتھ سے مسلتے‬
‫ہوے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔‬

‫میں بھی تھوڑا سا گبھرا گیا کہ اب پتہ‬


‫نہیں کیا ہوگا اور ڈر بھی رہا تھا کہ‬
‫کہیں ساری گیم الٹ ہی نہ ہوجاے ۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ہوے انجان‬
‫بن کر چونکنے کے انداز میں ضوفی‬
‫کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کیا ہوا۔‬

‫ضوفی غصے اور حیرت ہونے کے‬


‫ملے ُجلے لہجے میں میری شلوار کی‬
‫طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے بولی‬
‫یہیہیہ تتتم نے شششلوار کب اتاری‬
‫میں نے حیران ہوکر شلوار پکڑ کر کہا‬
‫کہ‬
‫کیا ہوااااشلوار تو پہنی ہوئی ہے‬
‫ضوفی بولی مممیرا مطلب ھے کہ ننناال‬
‫کیوں کھوال۔‬
‫میں پالن کے مطابق‬
‫بات کو مزاق میں ڈالتے ہوے بوال‬
‫اپنی ناف کے نیچے والے بالوں کی‬
‫طرف اشارہ کر کے کہا کہ‬
‫میں نے اس لیے کھوال تھا‬
‫کہ ادھر والے بال بھی تو اتارنے ہیں ۔‬

‫ضوفی کا رنگ ٹماٹر کی طرح ہوگیا‬


‫تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫نننھی بھئی میں یہاں سے کیسے‬
‫کرسکتی ہوں‬
‫تتم جلدی سے اسے باندھو‬
‫یہ میں نہیں کرسکتی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ضوفی کیا ہوا یار ۔‬
‫کیا دوستی میں اتنا سا کام بھی نہیں‬
‫کرسکتی ۔‬

‫مرضی ہے تمہاری‬
‫خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی‬
‫سے سب کچھ کررھی تھی‬
‫جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی‬
‫بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی‬
‫جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔‬

‫اور میں نے بُرا سا منہ بناتے ہوے‬


‫روٹھنے کے انداز میں‬
‫اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب‬
‫نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی‬
‫گہری سوچ میں گم تھی ۔‬

‫میں نے ناال باندھ کر اپنی شلوار کے‬


‫پوہنچوں کو بھی پکڑ کر نیچے کرلیا‬
‫اور سٹریچر سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر‬
‫جوتا پہننے لگا تو ۔‬
‫ضوفی جیسے ہوش میں آئی اور میرے‬
‫کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس‬
‫لیٹاتے ہوے بولی ۔‬
‫کدھر چلے ہو ابھی تو ٹانگوں پر لوشن‬
‫لگانا ہے‬
‫ورنہ الرجی ہوجاے گی سکن خراب‬
‫ہوجاے گی ۔‬
‫میں نے موڈ بناے ہوے کہا‬
‫رہنے دو کچھ نہیں ہوتا‬
‫میں چلتا ہوں‬
‫ضوفی چہرے پر مصنوعی غصہ التے‬
‫ہوے مجھے کندھے سے پیچھے‬
‫دھکیلتے ہوے بولی ذیادہ شوخاااااااااا‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر گری۔‬
‫اور شوخا نہ بن اس کے منہ میں ہی‬
‫اٹک گیا۔‬
‫کیونکہ‬
‫ضوفی نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا‬
‫تھا تو میں جان بوجھ کر پیچھے گرنے‬
‫کی ایکٹنگ کرتے ہوے ضوفی کی کمر‬
‫کو پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے اوپر ھی‬
‫سٹریچر پر لےگیا۔‬
‫اب میری اور ضوفی کی ٹانگیں نیچے‬
‫تھیں‬
‫اور میں سٹریچر کے اوپر اور میرے‬
‫اوپر ضوفی تھی‬
‫ضوفی کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر‬
‫تھا اتنا سا اوپر تھا کہ اسکی گرم‬
‫سانسیں میرے منہ پر پڑ رہیں تھیں‬
‫اور ضوفی کے گول مٹول سڈول ممے‬
‫میرے ننگے سینے کے ساتھ دبے ہوے‬
‫تھے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ ضوفی کی کمر‬
‫کے گرد تھے اور ضوفی کے دونوں‬
‫ہاتھ میرے ننگے شولڈر پر شولڈروں‬
‫کو تھامے ہوے تھے‬
‫ضوفی کا پیٹ میرے ننگے پیٹ کے‬
‫ساتھ لگا ہوا تھا‬
‫اور اسکی پھدی اور میرے نیم کھڑے‬
‫لن کا پہال مالپ ہورھا تھا۔‬

‫ضوفی یوں اچانک میرے اوپر گرنے‬


‫سے کافی گبھرا گئی تھی اور چند‬
‫لمحوں میں اسی حالت میں میرے اوپر‬
‫لیٹی بولی‬
‫یاسر بہت بتمیز ہو ابھی‬
‫تم نے خود بھی سٹریچر سے نیچے‬
‫گرنا تھا اور مجھے بھی گرانا تھا۔‬

‫میں نے کہا ان مخملی ہاتھوں کا جادو‬


‫اثر کررھا ھے ۔‬
‫تو ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫اچھا جی ۔‬
‫دیکھنا کہیں یہ جادو تمہارے دماغ پر‬
‫اثر نہ کرجاے‬
‫میں نے کہا‬
‫تم دماغ کی بات کرتی ہو‬
‫یہ پتہ نہیں کہاں کہاں پر اثر کر چکا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی میرے سینے پر میرے چھوٹے‬
‫سے معصوم نپل پر ہلکی سی چٹکی‬
‫کاٹ کر بولی‬
‫بتانا پسند کرو گے کہ کہاں کہاں پر اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫میں نے سیییییی کیا اور کہا خود ہی‬
‫معلوم کرلو ۔‬
‫ہاتھ تمہارا ہے جادو کا اثر تمہارا ھے ۔‬
‫تو پتہ بھی تمہیں ھی ہونا چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا جی دیکھتی ہوں کہ کہاں کہاں اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫اور پھر مسکراتے ہوے نشیلی آنکھیں‬
‫کے ڈورے میری آنکھیں میں ڈال کر‬
‫ہتھیلی سے منتر پڑھ پڑھ کر آنکھوں‬
‫سے مجھ پر پھونکتے ہوے‬
‫میری ناف کی طرف بڑھنا شروع ہوئی‬
‫اور میری ناف کے چھوٹے سے‬
‫سوراخ میں اپنی باریک سی انگلی ڈال‬
‫کر گھماتے ہوے بولی یہاں تو نہیں‬
‫جادو ہوا‬
‫اور ساتھ ھی اسے زبردست جھٹکا لگا‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫جب ضوفی نے میری ناف میں انگلی‬
‫پھیری تو مجھے اچانک اتنی ذبردست‬
‫گدگدی ہوئی جسکو برداشت نہ کرتے‬
‫ہوے میں اوپر کو اچھال اور میرا ایک‬
‫ہاتھ جو ضوفی کی پھدی کے بلکل‬
‫قریب تھا وہ اوپر آتے ہوے ضوفی کی‬
‫پھدی کے اوپر سے رگڑکھاتا ہوا اسکی‬
‫ناف سے ٹچ ہوکر اسکے ایک ممے کو‬
‫چھو کر واپس بھی اسی حالت میں‬
‫جاتے ہوے اپنا کام کرکے ضوفی کی‬
‫نرم کالئی کو پکڑ لیا‬
‫ضوفی اس اچانک رگڑ سے ایک دم‬
‫اچھلی اور اپنا آپ تھوڑا سا پیچھے‬
‫کرنے کی کوشش کی مگر تب تک ہاتھ‬
‫نے اپنا کام پورا کرلیا تھا‬
‫میں نے ایسے ظاہر کرتے ہوے ضوفی‬
‫کی کالئی کو پکڑتے ہوے کہا نہہہہہہ‬
‫کرو ضوفییی اسکو یہ محسوس ہوا‬
‫جیسے یہ سب غیر ارادی طور پر ھوا‬
‫ھو‬
‫اور ہوا بھی یہ سب غیرارادی طور پر‬
‫ھی تھا‬
‫اگر ضوفی میری ناف میں انگلی نہ‬
‫گھسیڑتی تو‬
‫میری اتنی جرات کہاں تھی کہ اس‬
‫حسینہ کے جسم کو اسکی اجازت کے‬
‫بغیر چھو لیتا۔‬

‫ضوفی نے بھی کوئی ایسا ریکٹ نہ کیا‬


‫کہ جس سے لگا ہو کہ اسے برا فیل ہوا‬
‫ھے ۔‬
‫اور میری اس حالت پر ہنستے ہوے‬
‫بولی‬
‫اب مزہ آیا نہ بچو۔‬

‫میں نے کہا نہ کرو یارررر‬


‫‪.‬بہت گدگدی ہوتی ہے‬
‫ضوفی نے اپنی فنگر میری ناف سے‬
‫باہر نکالی پھر سے میرے پیٹ پر مساج‬
‫کرتے ہوے ناف کے نیچے ہاتھ کو‬
‫سرکانے لگی‬
‫میں نے بھی اسکی کالئی چھوڑ دی‬
‫تھی۔‬
‫اب اسی موقعہ کا مجھے انتظار تھا کہ‬
‫آگے کیا ہوتا‬
‫کیونکہ اچانک ہلنے سے میرا لن بھی‬
‫میرے چڈوں سے ازاد ہو چکا تھا اور‬
‫اب وہ فری ہینڈ تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے ھی حساب سے اپنی‬
‫انگلیوں کو سرکاتے ہوے جیسے ھی‬
‫میرے نالے کی طرف لے گئی اور‬
‫اسکا ٹارگٹ تو ناال تھا کہ جیسے ھی‬
‫اسکی فنگر سے نالے لی گانٹھ ٹچ ہو تو‬
‫اسے پتہ چل جاے کے آگے خطرناک‬
‫عالقہ شروع ہوجاتا ھے مگر اب تو اس‬
‫خطرناک عالقے کی سرحد پر سے باڑ‬
‫ہٹ گئی تھی اور انگلیاں اپنی مستی‬
‫سے آگے کی آگے سرکتی ہوئی جیسے‬
‫ھی میری چوؤں سے ٹکراتے ہوئی‬
‫میرے لن کی جڑ سے ٹکرائیں۔‬
‫ضوفی نے ہائییییی کیا اور ہاتھ باہر‬
‫کھینچ کر آنکھیں پھاڑے میری ُکھلی‬
‫شلوار کی طرف دیکھتے ہوے اپنی‬
‫انگلیوں کو دوسرے ہاتھ سے مسلتے‬
‫ہوے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔‬

‫میں بھی تھوڑا سا گبھرا گیا کہ اب پتہ‬


‫نہیں کیا ہوگا اور ڈر بھی رہا تھا کہ‬
‫کہیں ساری گیم الٹ ہی نہ ہوجاے ۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ہوے انجان‬
‫بن کر چونکنے کے انداز میں ضوفی‬
‫کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کیا ہوا۔‬

‫ضوفی غصے اور حیرت ہونے کے‬


‫ملے ُجلے لہجے میں میری شلوار کی‬
‫طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے بولی‬
‫یہیہیہ تتتم نے شششلوار کب اتاری‬
‫میں نے حیران ہوکر شلوار پکڑ کر کہا‬
‫کہ‬
‫کیا ہوااااشلوار تو پہنی ہوئی ہے‬
‫ضوفی بولی مممیرا مطلب ھے کہ ننناال‬
‫کیوں کھوال۔‬
‫میں پالن کے مطابق‬
‫بات کو مزاق میں ڈالتے ہوے بوال‬
‫اپنی ناف کے نیچے والے بالوں کی‬
‫طرف اشارہ کر کے کہا کہ‬
‫میں نے اس لیے کھوال تھا‬
‫کہ ادھر والے بال بھی تو اتارنے ہیں ۔‬
‫ضوفی کا رنگ ٹماٹر کی طرح ہوگیا‬
‫تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫نننھی بھئی میں یہاں سے کیسے‬
‫کرسکتی ہوں‬
‫تتم جلدی سے اسے باندھو‬

‫یہ میں نہیں کرسکتی ۔‬


‫میں نے کہا‬
‫ضوفی کیا ہوا یار ۔‬
‫کیا دوستی میں اتنا سا کام بھی نہیں‬
‫کرسکتی ۔‬
‫مرضی ہے تمہاری‬
‫خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی‬
‫سے سب کچھ کررھی تھی‬
‫جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی‬
‫بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی‬
‫جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔‬

‫اور میں نے بُرا سا منہ بناتے ہوے‬


‫روٹھنے کے انداز میں‬
‫اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب‬
‫نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی‬
‫گہری سوچ میں گم تھی ۔‬
‫میں نے ناال باندھ کر اپنی شلوار کے‬
‫پوہنچوں کو بھی پکڑ کر نیچے کرلیا‬
‫اور سٹریچر سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر‬
‫جوتا پہننے لگا تو ۔‬
‫ضوفی جیسے ہوش میں آئی اور میرے‬
‫کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس‬
‫لیٹاتے ہوے بولی ۔‬
‫کدھر چلے ہو ابھی تو ٹانگوں پر لوشن‬
‫لگانا ہے‬
‫ورنہ الرجی ہوجاے گی سکن خراب‬
‫ہوجاے گی ۔‬
‫میں نے موڈ بناے ہوے کہا‬
‫رہنے دو کچھ نہیں ہوتا‬
‫میں چلتا ہوں‬
‫ضوفی چہرے پر مصنوعی غصہ التے‬
‫ہوے مجھے کندھے سے پیچھے‬
‫دھکیلتے ہوے بولی ذیادہ شوخاااااااااا‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر گری۔‬
‫اور شوخا نہ بن اس کے منہ میں ہی‬
‫اٹک گیا۔‬
‫کیونکہ‬
‫ضوفی نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا‬
‫تھا تو میں جان بوجھ کر پیچھے گرنے‬
‫کی ایکٹنگ کرتے ہوے ضوفی کی کمر‬
‫کو پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے اوپر ھی‬
‫سٹریچر پر لےگیا۔‬
‫اب میری اور ضوفی کی ٹانگیں نیچے‬
‫تھیں‬
‫اور میں سٹریچر کے اوپر اور میرے‬
‫اوپر ضوفی تھی‬
‫ضوفی کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر‬
‫تھا اتنا سا اوپر تھا کہ اسکی گرم‬
‫سانسیں میرے منہ پر پڑ رہیں تھیں‬
‫اور ضوفی کے گول مٹول سڈول ممے‬
‫میرے ننگے سینے کے ساتھ دبے ہوے‬
‫تھے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ ضوفی کی کمر‬
‫کے گرد تھے اور ضوفی کے دونوں‬
‫ہاتھ میرے ننگے شولڈر پر شولڈروں‬
‫کو تھامے ہوے تھے‬
‫ضوفی کا پیٹ میرے ننگے پیٹ کے‬
‫ساتھ لگا ہوا تھا‬
‫اور اسکی پھدی اور میرے نیم کھڑے‬
‫لن کا پہال مالپ ہورھا تھا۔‬

‫ضوفی یوں اچانک میرے اوپر گرنے‬


‫سے کافی گبھرا گئی تھی اور چند‬
‫لمحوں میں اسی حالت میں میرے اوپر‬
‫لیٹی بولی‬
‫یاسر بہت بتمیز ہو ابھی‬
‫تم نے خود بھی سٹریچر سے نیچے‬
‫گرنا تھا اور مجھے بھی گرانا تھا۔‬

‫میں نے ضوفی کی کمر کے گرد اپنے‬


‫بازوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوے اسکے‬
‫نرم جسم اور موٹے مموں کو مذید خود‬
‫کے ساتھ چپکاتے ہوے کہا۔‬

‫نہیں ضوفی جی‬


‫دھکا تو آپ نے دیا تھا‬
‫میں نے تو اپنے آپ کو سمبھاال تھا اور‬
‫سمبھالتے ہوے آپ بھی میرے ساتھ ہی‬
‫میرے اوپر گرگئی‬
‫مگر میرے بازو اتنے کمزور نہیں کہ‬
‫آپ کو نیچے گرنے دیتا‬

‫میں نے کہا ان مخملی ہاتھوں کا جادو‬


‫اثر کررھا ھے ۔‬
‫تو ضوفی بڑی ادا سے بولی‬
‫اچھا جی ۔‬
‫دیکھنا کہیں یہ جادو تمہارے دماغ پر‬
‫اثر نہ کرجاے‬
‫میں نے کہا‬
‫تم دماغ کی بات کرتی ہو‬
‫یہ پتہ نہیں کہاں کہاں پر اثر کر چکا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی میرے سینے پر میرے چھوٹے‬
‫سے معصوم نپل پر ہلکی سی چٹکی‬
‫کاٹ کر بولی‬
‫بتانا پسند کرو گے کہ کہاں کہاں پر اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫میں نے سیییییی کیا اور کہا خود ہی‬
‫معلوم کرلو ۔‬
‫ہاتھ تمہارا ہے جادو کا اثر تمہارا ھے ۔‬
‫تو پتہ بھی تمہیں ھی ہونا چاہیے۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھا جی دیکھتی ہوں کہ کہاں کہاں اثر‬
‫ہوا ھے ۔‬
‫اور پھر مسکراتے ہوے نشیلی آنکھیں‬
‫کے ڈورے میری آنکھیں میں ڈال کر‬
‫ہتھیلی سے منتر پڑھ پڑھ کر آنکھوں‬
‫سے مجھ پر پھونکتے ہوے‬
‫میری ناف کی طرف بڑھنا شروع ہوئی‬
‫اور میری ناف کے چھوٹے سے‬
‫سوراخ میں اپنی باریک سی انگلی ڈال‬
‫کر گھماتے ہوے بولی یہاں تو نہیں‬
‫جادو ہوا‬
‫اور ساتھ ھی اسے زبردست جھٹکا لگا‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫جب ضوفی نے میری ناف میں انگلی‬
‫پھیری تو مجھے اچانک اتنی ذبردست‬
‫گدگدی ہوئی جسکو برداشت نہ کرتے‬
‫ہوے میں اوپر کو اچھال اور میرا ایک‬
‫ہاتھ جو ضوفی کی پھدی کے بلکل‬
‫قریب تھا وہ اوپر آتے ہوے ضوفی کی‬
‫پھدی کے اوپر سے رگڑکھاتا ہوا اسکی‬
‫ناف سے ٹچ ہوکر اسکے ایک ممے کو‬
‫چھو کر واپس بھی اسی حالت میں‬
‫جاتے ہوے اپنا کام کرکے ضوفی کی‬
‫نرم کالئی کو پکڑ لیا‬
‫ضوفی اس اچانک رگڑ سے ایک دم‬
‫اچھلی اور اپنا آپ تھوڑا سا پیچھے‬
‫کرنے کی کوشش کی مگر تب تک ہاتھ‬
‫نے اپنا کام پورا کرلیا تھا‬
‫میں نے ایسے ظاہر کرتے ہوے ضوفی‬
‫کی کالئی کو پکڑتے ہوے کہا نہہہہہہ‬
‫کرو ضوفییی اسکو یہ محسوس ہوا‬
‫جیسے یہ سب غیر ارادی طور پر ھوا‬
‫ھو‬
‫اور ہوا بھی یہ سب غیرارادی طور پر‬
‫ھی تھا‬
‫اگر ضوفی میری ناف میں انگلی نہ‬
‫گھسیڑتی تو‬
‫میری اتنی جرات کہاں تھی کہ اس‬
‫حسینہ کے جسم کو اسکی اجازت کے‬
‫بغیر چھو لیتا۔‬

‫ضوفی نے بھی کوئی ایسا ریکٹ نہ کیا‬


‫کہ جس سے لگا ہو کہ اسے برا فیل ہوا‬
‫ھے ۔‬
‫اور میری اس حالت پر ہنستے ہوے‬
‫بولی‬
‫اب مزہ آیا نہ بچو۔‬

‫میں نے کہا نہ کرو یارررر‬


‫‪.‬بہت گدگدی ہوتی ہے‬
‫ضوفی نے اپنی فنگر میری ناف سے‬
‫باہر نکالی پھر سے میرے پیٹ پر مساج‬
‫کرتے ہوے ناف کے نیچے ہاتھ کو‬
‫سرکانے لگی‬
‫میں نے بھی اسکی کالئی چھوڑ دی‬
‫تھی۔‬
‫اب اسی موقعہ کا مجھے انتظار تھا کہ‬
‫آگے کیا ہوتا‬
‫کیونکہ اچانک ہلنے سے میرا لن بھی‬
‫میرے چڈوں سے ازاد ہو چکا تھا اور‬
‫اب وہ فری ہینڈ تھا ۔‬
‫ضوفی اپنے ھی حساب سے اپنی‬
‫انگلیوں کو سرکاتے ہوے جیسے ھی‬
‫میرے نالے کی طرف لے گئی اور‬
‫اسکا ٹارگٹ تو ناال تھا کہ جیسے ھی‬
‫اسکی فنگر سے نالے لی گانٹھ ٹچ ہو تو‬
‫اسے پتہ چل جاے کے آگے خطرناک‬
‫عالقہ شروع ہوجاتا ھے مگر اب تو اس‬
‫خطرناک عالقے کی سرحد پر سے باڑ‬
‫ہٹ گئی تھی اور انگلیاں اپنی مستی‬
‫سے آگے کی آگے سرکتی ہوئی جیسے‬
‫ھی میری چوؤں سے ٹکراتے ہوئی‬
‫میرے لن کی جڑ سے ٹکرائیں۔‬
‫ضوفی نے ہائییییی کیا اور ہاتھ باہر‬
‫کھینچ کر آنکھیں پھاڑے میری ُکھلی‬
‫شلوار کی طرف دیکھتے ہوے اپنی‬
‫انگلیوں کو دوسرے ہاتھ سے مسلتے‬
‫ہوے پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔‬

‫میں بھی تھوڑا سا گبھرا گیا کہ اب پتہ‬


‫نہیں کیا ہوگا اور ڈر بھی رہا تھا کہ‬
‫کہیں ساری گیم الٹ ہی نہ ہوجاے ۔‬
‫میں نے خود کو سنبھالتے ہوے انجان‬
‫بن کر چونکنے کے انداز میں ضوفی‬
‫کی طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫کیا ہوا۔‬

‫ضوفی غصے اور حیرت ہونے کے‬


‫ملے ُجلے لہجے میں میری شلوار کی‬
‫طرف آنکھوں سے اشارہ کر کے بولی‬
‫یہیہیہ تتتم نے شششلوار کب اتاری‬
‫میں نے حیران ہوکر شلوار پکڑ کر کہا‬
‫کہ‬
‫کیا ہوااااشلوار تو پہنی ہوئی ہے‬
‫ضوفی بولی مممیرا مطلب ھے کہ ننناال‬
‫کیوں کھوال۔‬
‫میں پالن کے مطابق‬
‫بات کو مزاق میں ڈالتے ہوے بوال‬
‫اپنی ناف کے نیچے والے بالوں کی‬
‫طرف اشارہ کر کے کہا کہ‬
‫میں نے اس لیے کھوال تھا‬
‫کہ ادھر والے بال بھی تو اتارنے ہیں ۔‬

‫ضوفی کا رنگ ٹماٹر کی طرح ہوگیا‬


‫تھا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫نننھی بھئی میں یہاں سے کیسے‬
‫کرسکتی ہوں‬
‫تتم جلدی سے اسے باندھو‬
‫یہ میں نہیں کرسکتی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ضوفی کیا ہوا یار ۔‬
‫کیا دوستی میں اتنا سا کام بھی نہیں‬
‫کرسکتی ۔‬

‫مرضی ہے تمہاری‬
‫خود ھی تو تم اپنی پسند اور مرضی‬
‫سے سب کچھ کررھی تھی‬
‫جب میرا دل کیا کہ تم ادھر سے بھی‬
‫بال اتار دو تو تم ایسے گبھرا گئی‬
‫جیسے یہاں سے جن نکل آیا ہو۔‬
‫اور میں نے بُرا سا منہ بناتے ہوے‬
‫روٹھنے کے انداز میں‬
‫اٹھ کر بیٹھ گیا اور ناال پکڑ کر باندھنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫ضوفی نے میری بات کا کوئی جواب‬
‫نہیں دیا اور خاموشی سے کھڑی کسی‬
‫گہری سوچ میں گم تھی ۔‬

‫میں نے ناال باندھ کر اپنی شلوار کے‬


‫پوہنچوں کو بھی پکڑ کر نیچے کرلیا‬
‫اور سٹریچر سے نیچے ٹانگیں لٹکا کر‬
‫جوتا پہننے لگا تو ۔‬
‫ضوفی جیسے ہوش میں آئی اور میرے‬
‫کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے واپس‬
‫لیٹاتے ہوے بولی ۔‬
‫کدھر چلے ہو ابھی تو ٹانگوں پر لوشن‬
‫لگانا ہے‬
‫ورنہ الرجی ہوجاے گی سکن خراب‬
‫ہوجاے گی ۔‬
‫میں نے موڈ بناے ہوے کہا‬
‫رہنے دو کچھ نہیں ہوتا‬
‫میں چلتا ہوں‬
‫ضوفی چہرے پر مصنوعی غصہ التے‬
‫ہوے مجھے کندھے سے پیچھے‬
‫دھکیلتے ہوے بولی ذیادہ شوخاااااااااا‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر گری۔‬
‫اور شوخا نہ بن اس کے منہ میں ہی‬
‫اٹک گیا۔‬
‫کیونکہ‬
‫ضوفی نے مجھے پیچھے کو دھکا دیا‬
‫تھا تو میں جان بوجھ کر پیچھے گرنے‬
‫کی ایکٹنگ کرتے ہوے ضوفی کی کمر‬
‫کو پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے اوپر ھی‬
‫سٹریچر پر لےگیا۔‬
‫اب میری اور ضوفی کی ٹانگیں نیچے‬
‫تھیں‬
‫اور میں سٹریچر کے اوپر اور میرے‬
‫اوپر ضوفی تھی‬
‫ضوفی کا چہرہ میرے چہرے کے اوپر‬
‫تھا اتنا سا اوپر تھا کہ اسکی گرم‬
‫سانسیں میرے منہ پر پڑ رہیں تھیں‬
‫اور ضوفی کے گول مٹول سڈول ممے‬
‫میرے ننگے سینے کے ساتھ دبے ہوے‬
‫تھے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ ضوفی کی کمر‬
‫کے گرد تھے اور ضوفی کے دونوں‬
‫ہاتھ میرے ننگے شولڈر پر شولڈروں‬
‫کو تھامے ہوے تھے‬
‫ضوفی کا پیٹ میرے ننگے پیٹ کے‬
‫ساتھ لگا ہوا تھا‬
‫اور اسکی پھدی اور میرے نیم کھڑے‬
‫لن کا پہال مالپ ہورھا تھا۔‬

‫ضوفی یوں اچانک میرے اوپر گرنے‬


‫سے کافی گبھرا گئی تھی اور چند‬
‫لمحوں میں اسی حالت میں میرے اوپر‬
‫لیٹی بولی‬
‫یاسر بہت بتمیز ہو ابھی‬
‫تم نے خود بھی سٹریچر سے نیچے‬
‫گرنا تھا اور مجھے بھی گرانا تھا۔‬

‫میں نے ضوفی کی کمر کے گرد اپنے‬


‫بازوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوے اسکے‬
‫نرم جسم اور موٹے مموں کو مذید خود‬
‫کے ساتھ چپکاتے ہوے کہا۔‬

‫میں نے ضوفی کی کمر کے گرد اپنے‬


‫بازوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوے اسکے‬
‫نرم جسم اور موٹے مموں کو مذید خود‬
‫کے ساتھ چپکاتے ہوے کہا۔‬

‫نہیں ضوفی جی‬


‫دھکا تو آپ نے دیا تھا‬
‫میں نے تو اپنے آپ کو سمبھاال تھا اور‬
‫سمبھالتے ہوے آپ بھی میرے ساتھ ہی‬
‫میرے اوپر گرگئی‬
‫مگر میرے بازو اتنے کمزور نہیں کہ‬
‫آپ کو نیچے گرنے دیتا‬
‫۔‬
‫آپ نے اگر مجھ خوش نصیب کو دوست‬
‫کہا ھے تو پھر یہ سوچنا بھی نہ کہ آپکا‬
‫یہ غریب دوست کبھی آپکو گرنے دے‬
‫گا۔‬

‫ضوفی نے سوفٹ سٹف کا ڈریس پہنا‬


‫ہوا تھا اور اوپر سے اس کا جسم اتنا‬
‫نرم تھا‬
‫کہ میرا لن تو اپنے پورے عروج پر‬
‫آگیا تھا‬
‫اور ضوفی کی کنواری پھدی نے بھی‬
‫پہلی دفعہ لن کا لمس پاتے ہی‬
‫لن کو ویلکم کیا اور لن ضوفی کی پھدی‬
‫سے رگڑ کھاتا ہوا ضوفی کے چڈوں‬
‫میں گھس گیا۔‬
‫ضوفی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے‬
‫ہوے ھوے بولی‬
‫شوخے میں سب سمجھتی ہوں تم نے‬
‫جان بوجھ کر مجھے اپنے اوپر گرایا‬
‫ھے ۔‬
‫تمہارے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگ‬
‫رہے ۔‬
‫میں نے بھی ضوفی کی گمنام جزیرے‬
‫جیسی آنکھوں میں گم ہوتے ہوے کہا۔‬
‫ضوفی جی میں نے آپکو اپنے اوپر ھی‬
‫گرایا ھے‬
‫نیچے تو نہیًں۔‬
‫اور کس کم بخت کے ارادے غلط ہیں ۔‬
‫یہ آپ کا وہم ہے ۔‬
‫بس آپ کے حسن اور آپ کے سیکسی‬
‫فگر کو دیکھ کر اور آپ کے نرم اور‬
‫ریشم کی طرح مالئم ہاتھوں کے لمس‬
‫سے یہ ناچیز سیدھا سادھا پینڈو مرنے‬
‫واال ہوگیا ھے جنکے ارادے غلط ہوتے‬
‫ہیں وہ اتنا نذدیک آکر وقت ضائع نہیں‬
‫کرتے ۔‬
‫آپ شریف لڑکی ہیں‬
‫تو میں بھی شریف لڑکا ھی ہوں ۔‬
‫مگر کیا کروں‬
‫آگ کے سامنے گھی کب تک جما رہ‬
‫سکتا ہے ۔‬

‫ضوفی نے میرے کندھے سے ہاتھ ہٹا‬


‫کر پیار سے میری گال پر ہلکی سی‬
‫چپت لگائی اور بولی‬
‫باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کی کمر کو مذید کستے‬
‫ہوے‬
‫ضوفی کے منہ سے ہلکی سی ہائیییی‬
‫نکالتے ہو ے‬
‫کہا‬
‫اور مجھ جیسے سیدھے سادہ کو بہکانا‬
‫بھی کوئی آپ سے سیکھے۔‬

‫ضوفی میری آنکھوں میں اپنی مستانی‬


‫آنکھیں ڈال کر بولی‬
‫اب چھوڑ بھی دو میں تھک گئی ہوں ۔‬
‫میں نے نفی میں سرہالیا‬
‫ضوفی مسکین سا منہ بنا کر بولی‬
‫پلیززززززز‬
‫جبکہ مجھے واضح محسوس ہورھا تھا‬
‫کہ ضوفی میرے لن کو اپنے چڈوں میں‬
‫لیے ہلکا ہلکا سا دبا کر پھدی کے اوپر‬
‫لن کا دباو بڑھا رھی تھی ۔‬

‫مگر اوپر اوپر سے نخرے کررھی تھی‬


‫۔‬

‫میں نے لوہا گرم دیکھ کر‬


‫ایک چوٹ لگانے کا سوچا اور‬
‫ضوفی کو کہا ایک شرط پر چھوڑوں گا‬
‫ضوفی اپنے چہرے پر آئی بالوں کی‬
‫لٹ کو کو انگلی سے ہٹاتے ہوے بڑی‬
‫شوخی سے بولی ۔‬
‫اب کون سی شرط ھے جناب کی ۔‬

‫میں نے کہا۔‬
‫میرے نیچے والے بال بھی تم ھی اتارو‬
‫گی‬
‫ورنہ میں سمجھوں گا کہ تم مجھے اس‬
‫قابل ہیں نہیں سمجھتی ۔‬

‫ضوفی کے چہرے پر یکلخت سارے‬


‫جہاں کی شرم حیاء ٹپک پڑی اور‬
‫ضوفی بالوں کی شرارتی لٹ کو پھر‬
‫اسی انداز میں چہرے سے ہٹاتے ہوے‬
‫بولی‬
‫اگر نہ کروں تو۔‬

‫میں نے کہا۔‬

‫تو میں یہ ھی سمجھوں گا کہ میں ابھی‬


‫تمہاری دوستی کے الئق نہیں ہوں ۔‬

‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ہوے‬


‫اور نیچے سے اپنے چڈوں کو بھینچتے‬
‫ہوے بولی‬
‫شرم تو نہیں آتی ایسی بات کہتے ہوے ۔‬
‫اور ساتھ ہیں ضوفی میرے اوپر سے‬
‫اٹھنے کی کوشش کرتے ہوے بولی‬
‫چلو چھوڑو مجھے‬
‫کرتی ہوں جناب کے نیچے والے بالوں‬
‫کی بھی صفائی ۔‬
‫دوست مال بھی تو الڈال۔‬
‫اور یہ کہتے ہوے ضوفی اوپر کو ہوئی‬
‫تو میں نے بھی اپنے بازو ضوفی کی‬
‫نرم گوشت سے بھری کمر کو چھوڑ‬
‫دیا۔‬
‫اور ضوف اٹھ کر کھڑی ہوئی تو اسکی‬
‫نظر میرے لن ہر پڑی جو پورے جوبن‬
‫میں‬
‫پھدی کی برسات سے بچنے کے لیے‬
‫شلوار کو چھتری بناے کھڑا تھا۔‬
‫ضوفی ساتھ ساتھ اپنی شرٹ کو بھی‬
‫سہی کررھی تھی جو لن نے اسکے‬
‫چڈوں میں گھسا دی تھی اور ساتھ ساتھ‬
‫میرے لن کو بھی ُکن اکھیوں سے دیکھ‬
‫رھی تھی۔‬
‫میں نے بھی ٹانگیں‪ .‬پھر اوپر کرلیں‬
‫اور ضوفی کو مذید ترسانے کے لیے‬
‫لن کو چڈوں میں دبا لیا ۔‬
‫ضوفی نے چونک کر میری طرف‬
‫ایسے دیکھا جیسے ۔‬
‫میں نے اسکا بہت بڑا نقصان کردیا ہو۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی پھر دوسری طرف‬
‫منہ کر کے اپنی گول مٹول نرم گانڈ کو‬
‫میری طرف کرکے باول اٹھانے چلی‬
‫گئی اور‬
‫دوسری طرف منہ کیے باول میں پھر‬
‫ویکس تیار کرنے لگ گئی‬
‫دو تین منٹ ضوفی مجھے اپنی گانڈ کا‬
‫دلکش نظارہ کروانے کے بعد اچانک‬
‫میری طرف گھومی اور مجھے اپنی‬
‫گانڈ کو تاڑتے دیکھ کر بڑی معنی خیز‬
‫آنکھوں سے میری آنکھوں میں دیکھتے‬
‫ہوے اپنے شربتی لبوں پر سیکسی سی‬
‫سمائل ال کر آنکھوں سے اشارا کر کے‬
‫مسکرا دی‬
‫کہ خیر ھے میری گانڈ کو کیوں دیکھ‬
‫رھے تھے۔‬
‫اور کولہوں کو مٹکاتی ہوئی باول میں‬
‫برش سے ویکس کے لیکوڈ کو مکسچر‬
‫کرتے ہوے میری طرف بڑھی‬
‫اور‬
‫بولی ۔‬
‫تم ابھی تک ایسے ہی لیٹے ہوے ھو ۔‬
‫میں نے سوالیا نظروں سے اسکی‬
‫طرف دیکھتے ہوے کہا‬
‫تو کیا کروں ۔‬
‫ضوفی بولی بالوں کی جگہ کو ننگا‬
‫کرو‬
‫اور صرف بالوں کی جگہ کو ھی ننگا‬
‫کرنا ھے سمجھے ۔‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالتے ہوے‬
‫جلدی سے ناال کھوال‬
‫اور شلوار نیچے کرنے لگا تو‬
‫ضوفی نے مجھے رکنے کا کہا اور‬
‫خود آگے بڑھی‬
‫اور میری شلوار کو ڈرتے ڈرتے دو‬
‫انگلیوں سے پکڑ کر بس تھوڑا سا‬
‫نیچے کیا‬
‫اور میرے غیر ضروری بالوں کو ھی‬
‫بس ننگا کیا‬
‫جبکہ اتنی شلوار نیچے کرنے سے بھی‬
‫ضوفی کی انگلی میرے ننگے لن کے‬
‫ساتھ ٹکرا چکی تھی‬
‫جس کی وجہ سے ضوفی نے جلدی‬
‫شلوار کو چھوڑ دیا تھا۔‬
‫میں اب بھی ٹانگوں کو فولڈ کیے ہوے‬
‫لن کو چڈوں میں دباے ہوے تھا۔‬

‫ضوفی شلوار نیچے کرنے کے بعد‬


‫بولی اب ٹانگیں تو سیدھی کر کے‬
‫گھٹنے نیچے کر لو ایسے کیسے میں‬
‫ویکس کروں گی‬
‫میں نے جیسے ھی ٹانگیں سیدھی کیں‬
‫تو لن پھر آزاد امیدوار بن کر جھومنے‬
‫لگ گیا‬
‫ضوفی ایک دم چونکی اور بڑے غور‬
‫سے میرے کھڑے لن کو اور ناف کے‬
‫نیچے گولڈن بالوں کو دیکھنے لگ گئی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے اسے یوں اپنے لن اور بالوں‬
‫کو دیکھتے ہو‬
‫دیکھا تو میں نے کہا ضوفی جی ذیادہ‬
‫بڑا تو نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔‬

‫بالوں کا سائز۔۔۔۔‬

‫تو ضوفی نے چونک کر میری طرف‬


‫دیکھتے ہوے کہا نننہیں‬
‫اور یہ کہتے ہوے ضوفی نے باول سے‬
‫برش نکال کر بالوں پر ویکس کا لیپ‬
‫کرنے لگ گئی ۔‬
‫اس کا ہاتھ کا ہاتھ کانپ رھا تھا ۔‬
‫میں نے کہا ضوفی جی ایسے تو میری‬
‫شلوار بھی گندی ہوجاے گی تو ضوفی‬
‫گبھرا کر میری طرف دیکھتے ہوے‬
‫بولی‬
‫تھوڑی سے اور نیچے کرلو میں ٹشو‬
‫لگا دیتی ہوں‬
‫اور ضوفی یہ کہتے ھی ٹشو لینے چلی‬
‫گئی ۔‬
‫میں نے جلدی سے شلوار ایسے نیچے‬
‫کردی‬
‫کہ میرے لن کی جڑ اور ٹٹوں کی‬
‫جھلک ضوفی کو نظر آجاے ۔‬
‫ضوفی جب ٹشو لے کر میرے قریب‬
‫آئی‬
‫تو ضوفی نے جیسے ھی ٹشو کو میری‬
‫شلوار کے نیچے میں لگانے کے لیے‬
‫ہاتھ بڑھایا تو ضوفی کی جب نظر‬
‫میرے ننگے موٹے تگڑے لن کی تگڑی‬
‫جڑ اور ٹٹوں پر نظر پڑی تو ضوفی‬
‫نے یکلخت۔‬

‫میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھیں‬


‫بند کیے دیکھ کر ہاتھ کو پیچھے کھینچ‬
‫لیا‬
‫۔جبکہ میں نے آنکھ کا پردہ ہلکا سا‬
‫کھوال ہوا تھا۔‬

‫میں نے اسی حالت میں ضوفی کو کہا‬


‫کہ ٹشو اچھی طرح لگا دینا۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫اچھی طرح ھی لگا دیا ھے‬
‫اور پھر کچھ دیر بعد ضوفی نے جینز‬
‫کا کپڑا پکڑ کر پھاڑا اور اسکا ٹکڑا‬
‫میری ناف کے نیچے لگانے لگی‬
‫ضوفی کانپتے ہاتھوں سے کپڑا چپکا‬
‫رہی تھی‬
‫اس دوران تین چار دفعہ ضوفی کا ہاتھ‬
‫میرے لن سے ٹکرایا تو لن نے بھی‬
‫اتنے ھی جھٹکے لگا کر ضوفی کو‬
‫اپنی بےچینی بتائی۔‬

‫ضوفی کپڑا چپکا کر میری طرف‬


‫دیکھتے ہوے بولی‬
‫یاسر ادھر سے درد ذیادہ ہوگی برداشت‬
‫کرلو گے ۔‬

‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔‬


‫تمہارے ہاتھ سے تو ہر درد مزے میں‬
‫بدل جاتا ھے ۔‬

‫ضوفی بولی اچھا لگ جاتا ھے پتہ ۔‬

‫اور اس کے ساتھ ھی ضوفی نے لن‬


‫والی سائڈ سے کپڑے کو پکڑا‬
‫ضوفی کا ناخن میرے لن پر چبھا اور‬
‫ساتھ ھی ضوفی نے جھٹکے سے‬
‫کپڑے کو کھینچا تو‬
‫سییییی کرکے کھڑی ہوگئی۔‬

‫ضوفی کی گانڈ میرے منہ کی طرف‬


‫تھی ۔‬
‫ضوفی میرے لن کی طرف منہ اور‬
‫میرے منہ کی طرف اپنی گوشت سے‬
‫بھری گانڈ کر کے کھڑی تھی ۔‬
‫اور میرا ھاتھ اسکی گانڈ کے بلکل پاس‬
‫تھا‬

‫ضوفی نے جیسے ھی کپڑا کھینچا‬


‫درد کے مارے میرا برا حال ہوگیا‬
‫مگر انا کی وجہ سے اپنے منہ سے‬
‫چیخ نھی نکلنے دی‬
‫بلکہ سییییی کرکے ضوفی کی گانڈ کی‬
‫ایک موٹی پھاڑی کو اپنی ُمٹھی میں‬
‫بھر لیا‬
‫ادھر میری سییییی نکلی‬
‫اور دوسری طرف ضوفی کی سیییی‬
‫نکلی اور وہ جھٹکے سے سیدھی کھڑی‬
‫ہوگئی اور جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ کر‬
‫جھٹک دیا۔‬

‫ضوفی نے میری طرف دیکھا اور بولی‬


‫سناو بچو نکلی نہ جان‬
‫اور ساتھ میں میری بھی نکال دی نہ‬
‫جان۔‬
‫میں نے کہا‬
‫نہیں ضوفی یہ درد نھی بلکہ مزے کی‬
‫سیییی تھی ۔‬
‫ضوفی نے حیران ہوکر میری طرف‬
‫دیکھا اور بولی‬
‫یاسر واقعی تم کو درد نہیں ہوا۔‬
‫اب میں اسے کیا بتاتا کہ میری تو گانڈ‬
‫پھٹنے والی ہوگئی تھی ۔‬

‫میں نے اعلی نسل کا ڈھیٹ بنتے ہوے‬


‫کہا نہیں یار سچ میں مجھے درد نہیں‬
‫مزہ آیا تھا۔‬
‫تو ضوفی اپنی گانڈ کو مسلتے ہوے‬
‫بولی‬
‫بتمیز پھر میرے ادھر سے کیوں اتنی‬
‫ذور سے پکڑا تھا۔‬
‫میں نے ذبردستی ہنستے ہوے کہا۔‬
‫یار مزے کی شدت ہی اتنی تھی کہ مجھ‬
‫سے برداشت نہ ہوا۔‬
‫میں نے ساتھ ہی اپنا ہاتھ اپنی ناف کے‬
‫نیچے پھیرنا شروع کیا میری سکن تو‬
‫ایسی سوفٹ تھی جیسے کنواری لڑکی‬
‫کی پھدی سوفٹ ہوتی ھے ۔‬
‫تو ضوفی بولی ٹھہرو ابھی ہاتھ نہ لگاو‬
‫اور اس نے میرا بازو پکڑ کر اوپر‬
‫کھینچا تو میری انگلیوں کے ساتھ شلوار‬
‫بھی میرے لن سے اوپر اٹھ کر لن سے‬
‫نیچے گر گئی میرا میرا تنا ہوا لن جو‬
‫درد کی وجہ سے نرم پڑ گیا تھا مگر‬
‫سائز اتنا ھی تھا‬
‫سر جھکائے ضوفی کی نظروں کے‬
‫سامنے کھڑا تھا‬
‫میرے لن کو دیکھ کر ضوفی کے‬
‫چہرے کا امپریشن کیسا تھا میں یہ تو‬
‫نہیں دیکھ سکا کیوں کے ضوفی کا منہ‬
‫میرے لن کی طرف تھا ۔‬

‫مگر ضوفی کا سر ایک جگہ ھی رک‬


‫گیا تھا جس سے مجھے یہ اندازہ لگانے‬
‫میں دیر نہ لگی کہ ضوفی میرے لن کو‬
‫ٹکٹی باندھے دیکھ رھی ھے۔‬

‫ضوفی کچھ دیر اسی حالت میں ھی‬


‫رھی۔‬
‫میں نے ھی اسکا سکتہ توڑا اور کہا‬
‫یار ادھر بھی مساج کردو تو ضوفی کو‬
‫سمجھ نہیں آرھی تھی کہ مجھے کیسے‬
‫کہے کہ میرا لن ننگا ہوگیا ھے ۔‬
‫وہ بنا کچھ کہے‬
‫الماری میں رکھے لوشن کی طرف چلی‬
‫گئی ۔‬
‫شاید وہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ اسکی‬
‫واپسی تک میں خود ھی لن اندر کرلوں‬
‫گا۔‬
‫مگر میرے جیسا ڈھیٹ کوئی روز روز‬
‫پیدا ہونا تھا۔‬

‫میں بھی ویسے ہی نیم آنکھیں بند کیے‬


‫لیٹا رھا ۔‬

‫ضوفی کچھ دیر بعد لوشن لے کر پلٹی‬


‫تو میرے ننگے لن کو اسی حالت میں‬
‫پایا جس حالت میں چھوڑ کر گئی تھی ۔‬

‫ضوفی کا قدم وہیں رکا اس نے میری‬


‫طرف دیکھا اور مجھے پھر آنکھیں بند‬
‫کیے پایا تو‬
‫آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میرے لن کی‬
‫طرف بڑھی ۔۔۔‬
‫مجھے لیٹے لیٹے ایک گھنٹہ ہو چکا‬
‫تھا‬
‫اور ایک گھنٹے سے مسلسل ضوفی‬
‫کے ہاتھ کا لمس اسکے جسم کا لمس‬
‫اسکے مموں کا لمس اور اسکی گانڈ‬
‫کے لمس کو انجواے کرکر کے میرا تو‬
‫حال برا ہورھا تھا مگر میں پہل کرنے‬
‫سے ڈر رھا تھا ۔‬
‫ورنہ ابھی تک میرا لن ضوفی کی پھدی‬
‫پھاڑ چکا ہوتا۔‬
‫میں سٹریچر پر بلکل سیدھا چت لیٹا ھوا‬
‫میرے دونوں بازو بھی بلکل سیدھے‬
‫سٹریچر پر تھے ۔‬
‫ضوفی میرے چہرے کو غور سے‬
‫دیکھتی ہوئی میرے لن کے پاس آکر‬
‫کھڑی ہوگئی ۔‬
‫اور لوشن کو ہاتھ پر ڈال کر میری ناف‬
‫کے نیچے مساج کرنے لگ گئی‬
‫ضوفی کی پھدی واال حصہ سٹریچر‬
‫سے تھوڑا اوپر میرے ہاتھ کے بلکل‬
‫قریب تھا ۔‬
‫میری انگلیوں اور ضوفی کی پھدی کے‬
‫درمیان بس ایک انچ کا فاصلہ تھا اگر‬
‫میں ہاتھ کو ذرہ سا بھی پھدی کی طرف‬
‫سرکاتا تو میری انگلیاں ضوفی کی‬
‫پھدی کے ساتھ الزمی ٹچ ہوجاتیں ۔‬
‫کیوں کے ضوفی جب مساج کرتے ہوے‬
‫ھاتھ کو ہالتی تو اسکی سوفٹ شرٹ‬
‫میری انگلیوں کے ساتھ لگتی ۔‬

‫میں ضوفی کے حوصلے کو دیکھ کر‬


‫حیران رھ گیا کہ کیسے میرے ننگے لن‬
‫کو دیکھ کر بھی اس کے کچھ فاصلے‬
‫پر مساج کررھی ھے اور‬
‫اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔‬

‫پتہ نہیں اب ضوفی کے دل میں کیا تھا‬


‫یا وہ بھی فل گرم تھی‬
‫بس پہل کرنے سے گبھرا رھی تھی ۔‬
‫ضوفی نے جیسے ہے ھی میرے لن‬
‫کے نذدیک اپنا نرم مالئم ہاتھ دھیرے‬
‫سے رکھا میرے لن نے انگڑائی لی‬
‫۔جب اس نے ہاتھ کو سرکاتے ہوے‬
‫مساج شروع کیا اور اسکی انگلیوں کے‬
‫پورے میرے لن سے ٹکراے تو لن فل‬
‫کھڑا ہوکر‬
‫یس میم کہنے لگ گیا۔‬

‫ضوفی نے چند سیکنڈ کے بعد ھی‬


‫اپنی پھدی کو سٹریچر کے ساتھ چپکانہ‬
‫شروع کردیا‬
‫میں نے بھی موقع کی مناسبت سے‬
‫اپنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ہتھیلی‬
‫کے بل انگوٹھا ضوفی کی پھدی کی‬
‫طرف کردیا اور ہاتھ کو سرکاتے ھوے‬
‫انگوٹھے کو پھدی کے بلکل ساتھ لگا‬
‫دیا۔‬

‫ضوفی پتہ نہیں کس مستی میں ایک‬


‫جگہ ہی بڑے پیار سے اور سلو موشن‬
‫سے مساج کررھی تھی ۔‬
‫اسے یہ احساس تک نہیں ہوا کہ میرے‬
‫ہاتھ کا انگھوٹھا اسکی پھدی کے ساتھ‬
‫لگ چکا ہے ۔‬

‫کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ‬


‫ضوفی پھدی کو خود انگوٹھے کے ساتھ‬
‫لگا رھی ھے تو میرا بھی حوصلہ بڑھا‬
‫اور میں نے ہتھیلی کو سیدھا کیا اور‬
‫اپنے ہاتھ کی چاروں انگلیوں کو سیدھا‬
‫کر کے پھدی کی طرف کردیا۔‬

‫ضوفی کے ھاتھ کی گردش کچھ سخت‬


‫ہوتی جارھی تھی ۔‬

‫اور ضوفی نے اپنی پھدی کو میری‬


‫انگلیوں کے ساتھ لگا کر آہستہ آہستہ‬
‫گانڈ کو دائیں بائیں کرنا شروع کردیا‬
‫اور میری انگلیاں اسکی نرم پھدی کے‬
‫ساتھ رگڑ کھانے لگ گئیں ۔میں نے بھی‬
‫تھوڑا سا حوصلہ مذید کیا اور انگلیوں‬
‫کی مدد سے ضوفی کی شارٹ شرٹ کو‬
‫اوپر کرنا شروع کردیا کچھ دیر کی‬
‫محنت کے بعد میری انگلیاں اب ٹراوزر‬
‫کے کپڑے کے اوپر سے پھدی کو ٹچ‬
‫کرنے لگ گئیں‬
‫پھدی کی جگہ سے ٹراوزر پہلے ھی‬
‫گیال تھا جو انگلیوں کو بھی گیال‬
‫کرچکی تھیں ۔‬
‫میری انگلیاں جیسے ہیں ریشمی‬
‫ٹراوزر کے اوپر سے پھدی کے ساتھ‬
‫لگیں تو ضوفی نے اپنی ٹانگوں میں‬
‫میری انگلیوں کو بھینچ کر چھوڑتے‬
‫ہوے سسکاری بھری‬
‫میں نے ساتھ ھی سینٹر والی لمبی انگلی‬
‫کو تھوڑا سا خم کیا اور ٹراوزر کے‬
‫اوپر سے ھی پھدی کے لبوں کے‬
‫درمیان رکھ کر انگلی کو پھدی کی‬
‫طرف دبا دیا تو‬
‫ضوفی نے سییییییییییی کیا اور ساتھ ھی‬
‫میرے لن کو اپنی مٹھی میں پھر کر دبا‬
‫لیا اور سر اوپر کر کے جھت کی طرف‬
‫کرلیا۔‬

‫اندھا کو اور کیا چاھیے‬


‫میں نے ساتھ ھی تین انگلیاں پھدی کے‬
‫انگلیوں کو پھدی پر دبا کر‬
‫ً‬ ‫اوپر رکھ کر‬
‫پھدی کو رگڑنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی میرے لن کو مٹھی میں دباے‬
‫جارھی تھی‬
‫ضوفی کی سسکاریاں بڑھتی جارہی‬
‫تھی‬
‫ضوفی کبھی اپنے چڈوں کو بھینچ کر‬
‫میری اس انگلیوں کو بھی‬
‫پھدی کے ساتھ دبا لیتی تو کبھی گانڈ کو‬
‫آگے پیچھے کر کے انگلیوں پر گھسے‬
‫مارنے لگ جاتی‬
‫میری برداشت بھی ختم ہوچکی تھی‬
‫میں نے چاروں انگلیاں پھدی پر رکھیں‬
‫اور انگوٹھے کو اوپر ٹراوزر کے نیفے‬
‫میں اڑایا اور السٹک والے ٹراوزر‪،‬‬
‫میں انگوٹھا پھنسا کر ٹراوزر نیچے کی‬
‫طرف کھینچا اور جھٹکے سے چاروں‬
‫انگلیاں اس کے ٹراوزر میں گھسا کر‬
‫ضوفی کی پھدی پر رکھ دیں‬
‫ضوفی کی پھدی تھی کہ روئی کو گوال‬
‫تھا چو پانی سے بھیگا ہوا تھا پتہ نہیں‬
‫کب سے اسکی پھدی پانی چھوڑی‬
‫جارہی تھی ۔‬
‫جیسے ہی میری انگلیاں اسکی ریشم‬
‫جیسی مالئم کلین پھدی کے ننھے ننھے‬
‫سوفٹ ہونٹ میری انگلیوں کی گرفت‬
‫میں آے تو ضوفی کو ایک ذبردست‬
‫جھٹکا لگا اور اسکے ساتھ ھی ضوفی‬
‫نے ۔۔‬
‫لمبی سسکاری بھری اور ساتھ ھی اس‬
‫نے میرے لن کو اپنی مٹھی میں جکڑ‬
‫لیا اور پورے ذور سے مٹھی کو بھینچ‬
‫دیا اور اپنے چڈوں کو بھینچ کر میری‬
‫انگلیوں کو پھدی کے اوپر ھی جکڑ لیا‬
‫اور میرے لن کو پکڑے اور چڈوں میں‬
‫میرا ھاتھ لیے‬
‫اپنے ممے میرے پیٹ پر رکھ کر دھری‬
‫ہوتی میرے اوپر لیٹ گئی اور میں نے‬
‫بھی اپنی انگلیاں پھدی کے اوپر دبا دیں‬
‫۔۔ اور انگلیوں کو پھدی پر دبا کر‬
‫انگلیوں کو اوپر نیچے کرنے لگ گیا‬
‫میں نے کوئی پانچ چھ دفعہ ھی ایسے‬
‫کیا تو‬
‫ضوفی نے ٹانگوں کو پورے ذور سے‬
‫بھینچا اور لمبی سی سسسسسسسس‬
‫کرتے ہوے‬
‫نننننہہہہہیی یاسسسسسررررررر‬
‫ممممممم گگگگگگگءییییی اففففففففف‬
‫آہہہہہہہہہ‬
‫کرتے ہوے جسم کو جھٹکے لگاتے‬
‫ہوے اوپر کا پورا وزن میرے اوپر ڈال‬
‫کر ایسے مجھ سے چپک گئی جیسے‬
‫میرے جسم میں ھی اسکا جسم جزب ہو‬
‫جانا ھو ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی اسی حالت میں میرے‬
‫اوپر لیٹے جسم کو جھٹکے لگاتی رھی‬
‫اور سسکاریاں بھرتی رھی ۔‬
‫اسکی پہلی گرم گرم منی کی برسات‬
‫نے میری انگلیوں کو سارا گیال کردیا‬
‫تھا ۔‬
‫اور منی اسکی ٹانگوں سے بہہ کر‬
‫اسکے پیروں تک چلی گئی تھی ۔‬

‫ضوفی جب اچھی طرح فارغ ہوئی اور‬


‫اسے جب ہوش آیا کہ وہ کس کنڈیشن‬
‫میں میرے اوپر لیٹی ھے اور میرا اکڑا‬
‫ھوا لن اسکی مٹھی میں اور اسکی پھدی‬
‫میری مٹھی میں ھے ۔تو ضوفی کو ایک‬
‫ذبردست جھٹکا لگا اور اس نے جلدی‬
‫سے میرے لن کو چھوڑا اور میری‬
‫کالئی کو پکڑ کر میرا ھاتھ اپنے‬
‫ٹراوزر سے نکال دیا اور جلدی سے‬
‫کھڑی ہوکر اپنے کپڑے درست کرتے‬
‫ہوے‬
‫دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اور باہر‬
‫بھاگ گئی ۔‬

‫ضوفی نے نہ مجھ سے کوئی بات کی‬


‫نہ ھی میری طرف دیکھا‬
‫بس پریشان حال بھاگتی ہوئی کیبن سے‬
‫نکل کر باہر چلی گئی اور میں ننگا لیٹا‬
‫ہوا اسے جاتا دیکھتا رھا ۔‬

‫اسکی حالت اور یوں اسکے بھاگنے‬


‫سے مجھے یقین ہو چال کہ ضوفی اب‬
‫اندر نہیں آے گی ۔‬
‫میں نے کچھ دیر بیکار سا انتظار کیا‬
‫مگر ضوفی اندر نہیں آئی ۔‬

‫تو میں نے کپڑے پہنے اور اپنا حلیہ‬


‫درست کیا اور کیبن سے باہر آیا تو‬
‫وہ سانولی کچی کلی‬
‫کاونٹر پر بیٹھی ہوئی تھی ۔‬
‫اس کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی تو‬
‫اس نے بڑے غور سے سوالیا نظروں‬
‫سے مجھے دیکھا جیسے‬
‫اس نے میری چوری پکڑ لی ہو۔‬
‫میں باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھتے‬
‫ہوے ضوفی کو دیکھا تو ضوفی مجھے‬
‫پورے پارلر میں نظر نہ آئی میں‬
‫دوسرے کیبنوں میں دیکھ آیا مگر‬
‫ضوفی کا نام نشان تک نہ نظر آیا۔‬
‫مجھے یوں پھرتا دیکھ کر وہ لڑکی‬
‫بولی‬
‫بھائی‬
‫باجی چلی گئیں‬
‫ہیں‬
‫اور وہ کہہ کر گئیں تھیں کے آپ باہر‬
‫آو تو آپ کو بتا دوں کہ انکو گھر میں‬
‫ضروری پڑگیا ھے اس لیے وہ جارھی‬
‫ہیں‬
‫اور آپ انکا انتظار مت کریں ۔‬

‫لڑکی کے چہرے پر سیکسی سی سمائل‬


‫تھی ۔‬
‫میں نے اس سے پوچھا کہ‬
‫کب گئیں تھی تو وہ لڑکی بولی‬
‫انکو تو دس منٹ ہوگئے ہیں‪،‬‬
‫میں نے اس سے ذیادہ تفصیل نہیں‬
‫پوچھی کیونکہ مجھے اچھی طرح علم‬
‫تھا کہ وہ کیوں گئی ھے ۔‬

‫گھر کا تو بہانہ تھا ۔۔۔‬


‫اصل وجہ تو ضوفی کو اپنے کئے پر‬
‫شرمندگی تھی جو وہ جنون میں‬
‫کرگزری تھی ۔‬

‫میں باہر نکلنے لگا تو وہ لڑکی بڑے‬


‫سٹائل سے مجھے مخاطب کر کے‬
‫بولی‬
‫بات سنیں ۔‬
‫میں باہر نکلتے اسکی طرف گھوم کر‬
‫دیکھتے ہوے بوال جی فرمائیں ۔‬
‫تو وہ لڑکی بولی‬
‫آپ نے باجی کو کچھ کہا تھا تو میں نے‬
‫کہا کیوں کیا ہوا ۔‬
‫تو وہ کہنے لگی باجی روتے ہوے گئی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے اسکو جواب دینے کی بجاے‬
‫باہر کا راستہ اختیار کیا اور چپ کر‬
‫کے پارلر سے نکال اور مارکیٹ سے‬
‫نکل کر میرا رخ اسد کے گھر کی‬
‫طرف ہوگیا‬
‫کچھ دیر بعد میں اسد کے گھر کے باہر‬
‫کھڑا بیل بجا رھا تھا‬

‫کچھ دیر بعد اسد نے دروازہ کھوال اور‬


‫جیسے ہی اس نے سر دروازے سے‬
‫باہر نکال کر مجھے دیکھا تو اسکے‬
‫منہ سے بس اتنا ھی نکال تتتتممم اور‬
‫پھر اسکی آنکھیں باہر کو نکل آئیں اور‬
‫رنگ زردی مائل ہوگیا۔‬
‫اور وہ سکتے کے عالم میں کھڑا‬
‫مجھے دیکھنے لگ گیا۔‬
‫میں نے بڑے شوخ لہجے سے اسے‬
‫مخاطب کرتے ہوے کہا۔‬
‫اوے ماما ہاں میں ای آں پر‬
‫تیرے منہ تے باراں کیوں وجے ہوے‬
‫نے ۔‬
‫تو اسد‬

‫پھر ہلکاتے ہوے بوال ۔‬


‫مممیرا مطلب ککہ تتتم اچانک آے ہو۔‬

‫اور بات کرتے ہوے اسد مجھے بڑی‬


‫معنی خیز نظروں سے دیکھ رھا تھا‬
‫شاید وہ فیصلہ نہیں کر پارھا تھا کہ‬
‫مجھے عظمی والے واقعہ کا علم ھے‬
‫کہ نہیں ۔‬
‫میں آگے بڑھا اور اسکا کان پکڑتے‬
‫ہوے اسے پیچھے دھکیل کر اندر داخل‬
‫ہوگیا‬
‫اور اسد کو کہا‬
‫گانڈو‬
‫کس دنیا میں پہنچا ہوا ھے‬
‫کیا ہوا ھے تجھے اتنا ڈرا سہماں کیوں‬
‫ہے ۔‬

‫اسد کو یقین ہوچکا تھا کہ مجھے عظمی‬


‫کہ واقعہ کا علم نہیں ھے‬
‫اور نہ ھی میں نے اپنے رویے سے‬
‫اسے ظاہر ہونے دیا کہ مجھے واقعی‬
‫سب کچھ علم ھے ۔‬
‫اسد بوال ککچھ نہیں یار بس رات سے‬
‫میری طبعیت خراب ھے چلو اندر چلو‬
‫اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔‬

‫میں آگے ٹی الونج کی طرف بڑھ گیا‬


‫اور اسد گیٹ بند کرنے لگ گیا۔‬
‫میں چلتا ہوا ٹی الونج میں پہنچا تو‬
‫مہری کمرے سے نکلتی ہوئی دیکھائی‬
‫دی‬
‫نظروں سے نظریں ملیں دل کے تار‬
‫چھڑے اور مہری کی آنکھوں سے‬
‫محبت بھرا پیغام مال‬
‫مہری کا چہرہ گالب کی طرح کھال اور‬
‫اس کے گالبی ہونٹوں پر مسکان آئی‬
‫اور وہ چلتی ہوئی میرے قریب سے‬
‫قریب تر ہوئی اور اپنا مخملی ہاتھ میری‬
‫طرف بڑھا کر بڑی گرمجوشی سے‬
‫میرا استقبال کیا ۔‬
‫میں جو اس کے چونتیس سائز کے گول‬
‫مٹول تنے ہوے مموں اور صراحی دار‬
‫لہراتی ہوئی کمر میں گم تھا اسکے یوں‬
‫اپنے سامنے ہاتھ کرنے سے چونک پڑا‬
‫اور اپنا ھاتھ اسکے ھاتھ میں دے کر‬
‫راضی نامے کا اظہار کیا۔‬
‫مہری میری ہتھیلی میں انگلی پھیر کر‬
‫اور میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چہک‬
‫کر بولی خیر ھے آج چاند کدھر سے‬
‫نکل آیا ۔‬
‫میں نے اسے کچھ کہنے سے پہلے‬
‫گردن گما کر پیچھے دیکھا تو اسد کو‬
‫آتا دیکھ کر چپ کر گیا اور‬
‫اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑواتے‬
‫ہوے‬
‫کہا بس ویسے ھی بازار آیا تھا تو سوچا‬
‫کہ بےوفا الپرواہ لوگوں سے ملتا جاوں‬
‫۔‬

‫مہری نے میری طرف چونک کر دیکھا‬


‫اور بولی‬

‫جناب ہم کیسے بےوفا اور الپرواہ‬


‫ٹھہرے۔۔۔‬

‫میں نے کہا‬
‫بیٹھنے کی اگر اجازت ہو تو‬
‫بیٹھ کر بتا دوں ۔‬
‫مہری جھینپ کر بولی‬
‫اوووو سوری‬
‫تشریف رکھیے۔‬
‫میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر‬
‫بیٹھ گیا۔‬
‫مہری ایک منٹ کہہ کر کچن کی طرف‬
‫چلی گئی اور اسد آکر میرے سامنے‬
‫بیٹھ گیا وہ اب بھی کنفیوژ تھا‬
‫اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔‬
‫میں نے شوخی سے اسکی آنکھوں کے‬
‫آگے ہاتھ ہالتے ہوے کہا‬
‫ہیلوووووو‬
‫اسد نے چونک کر میری طرف نظریں‬
‫کیں ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کیا ھوا پریشان لگ رھے ھو سب‬
‫خیریت تو ھے ۔‬
‫اسد بوال ۔‬

‫ککچھ نہیں یار بس ایسے ھی طبعیت‬


‫خراب تھی‬
‫میں نے کہا اسکا مطلب ھے میں نے‬
‫تمہیں ڈسٹرب کیا ۔‬
‫اسد ذبردستی سے مسکراتے ہوے بوال۔‬
‫نہیں یار کیسی باتیں کررھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫تو ماما موڈ سہی کر ایسے منہ بنایا ھوا‬
‫ھے جیسے کسی فوتگی پربیٹھا ھو۔‬

‫اسد خود کو سنبھالتے ہوے بوال‬


‫اور سنا کیا حال چال ھے‬
‫کام کیسا جارھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا۔‬

‫تمہیں کیا لگے کوئی مرے یا جیے۔‬


‫اسد بوال کیا مطلب ۔‬

‫اتنی دیر میں مہری بھی ٹرے میں کولڈ‬


‫ڈرنک لے کے چلی آرھی تھی ۔‬
‫میں نے مہری کی طرف دیکھتے ہوے‬
‫کہا جو میرے ھی طرف بڑی نشیلی‬
‫آنکھوں سے دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں بوال‬
‫بھائی تم امیر لوگ ہو ہم غریب مر بھی‬
‫جائیں تو تم کو کیا فرق پڑے گا ۔‬

‫اسد جوخود کو سنبھال چکا تھا ۔‬


‫اپنی ٹون میں آکر بوال ۔‬
‫ماما اگے وی پونک ہویا کی اے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میرا ایکسیڈنٹ ھوگیا تھا ۔‬
‫اور میں پندرہ دن ہسپتال اور گھر پڑا‬
‫رھا مگر جناب کو خبر تک نہ ہوئی ۔‬

‫اسد تو کچھ خاص حیران پریشان نہ ھوا‬


‫مگر مہری ایک دم چونک کر بولی‬
‫ھاے****** کب ہوا ایکسیڈنٹ کیسے‬
‫ہوا کیوں ہوا‬
‫مہری کی پریشانی میں اپنا پن تھا مگر‬
‫اسد کی حیرانگی میں بناوٹ تھی‬
‫اسد نے بھی ایسا ھی کچھ ریکٹ کیا۔‬
‫میں نے ٹرے سے گالس اٹھاتے ہوے ۔‬
‫چسکی لے کر ساری روداد سنا دی ۔‬
‫میں نے اسد کو یہ بھی ظاہر نہ کیا کہ‬
‫میں نے اسے بازار میں دیکھا تھا۔‬

‫مہری اور اسد مجھ سے اکسیوز اور‬


‫گلہ بھی کرنے لگے کہ ہمیں کسی نے‬
‫بتایا نہیں ۔‬

‫میں تھوڑا حیران بھی ھوا کہ کل آنٹی‬


‫کو بتایا تھا تو اس نے ان کو نھیں بتایا۔‬

‫کچھ دیر ایسے ہی ہم باتیں کرتے رہے ۔‬


‫میں نےآنٹی کا پوچھا تو اسد نے بتایا کہ‬
‫آج وہ الہور گئی ہیں دکان کے لیے کچھ‬
‫سامان خریدنا تھا ۔‬
‫میں ہمممم کرکے خاموش ہوگیا ۔‬
‫اتنے میں جمعہ کی اذان ہونی شروع‬
‫ہوگئی ۔‬
‫تو اسد بوال چلو یاسر جمعہ پڑھ کر آتے‬
‫ہین۔‬
‫میں نے کہا یار میں تو ‪1:30‬واال پڑھ‬
‫آیا ہوں ۔اسد نے ٹائم دیکھتے ہوے کہا‬
‫ٹھیک ھے تم بیٹھو میں جمعہ‬
‫پڑھ کر ایا پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‬
‫۔‬
‫اور یہ کہتے ہوے ۔‬
‫اسد باہر نکلتے ہوے مہری کو کہہ گیا‬
‫کہ گیٹ بند کرلے اور کچھ دیر بعد اسد‬
‫کی گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی‬
‫اور کچھ دیر بعد گیٹ الک ہونے کی‬
‫آواز سنتے ھی میرے لن نے یہ کہتے‬
‫ہوےانگڑائی لی کہ‬
‫ہن موجاں ای موجان‬

‫مہری گیٹ بند کر کے ٹی وی الونج‬


‫میں آتے ہی بڑی حیرانگی سےبولی ۔‬
‫یاسر آج تو معجزہ ہوگیا۔‬
‫میں نے سوالیا نظروں سے اسکی‬
‫طرف دیکھتے ہوے کہا۔‬
‫کیوں کیا ھوا۔‬
‫مہری میرے پاس صوفے پر بیٹھتی‬
‫ہوئی بولی ۔‬
‫یار اسد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گیا‬
‫ھے۔‬
‫میں نے حیران ہوتے ہوے کہا کیوں ۔۔۔‬

‫کیا پہلے نھی جاتا تھا۔‬


‫مہری نے نفی میں سر ہالتے ہوے کہا‬
‫***** نہیں یار اس نے تو کبھی‬
‫کا منہ نہیں دیکھا۔‬

‫میں نے ہمممم کیا اور کہا چلو اچھی‬


‫بات ھے‬
‫کچھ تو سدھرا۔‬

‫میں نے کہا‬
‫مہری تمہیں واقعی نہیں پتہ تھا‬
‫کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔‬
‫مہری قسم اٹھا کر بولی نھی یاسر‬
‫کیا تم یہ سوچ بھی سکتے ھو کہ مہری‬
‫کو تمہارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلے اور‬
‫مہری آرام سے بیٹھی رھے‬
‫مجھے اگر علم ھوتا تو میں اڑتی ہوئی‬
‫تمہارے پاس آجاتی ۔‬
‫یہ کہتے ہوے مہری نے اپنے دونوں‬
‫بازو سائڈ سے میری کمر کے گرد ڈال‬
‫کر اپنے ممے میرے بازوں کے ساتھ‬
‫چپکا کر میرے کندھے پر سر رکھ کے‬
‫مجھے بازوں کے احصار میں لے لیا۔‬

‫میں نے پیار سے اسکی روئی جیسے‬


‫گال پر ہاتھ رکھا اور گال کو تھپتھپا کر‬
‫ہاتھ کی انگلیوں کو اسکے کان کے‬
‫اوپر آے ہوے ریشمی بالوں میں‬
‫سرکاتے ہوے‬
‫ہاتھ کو اسکے سر کے پیچھے لے گیا‬
‫اور مسلسل ایسے کرتا رھا اور مہری‬
‫کی طرف غور سے دیکھ کر اسکی‬
‫اصلیت جاننے کی کوشش کرتا رھا۔‬
‫مگر سواے اس کے چہرے پر خلوص‬
‫محبت اور معصومیت کے سوا کچھ‬
‫نظر نہیں آرھا تھا ۔‬
‫میں مسلسل اس کے حسین چہرے کو‬
‫ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رھا تھا‬
‫مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں‬
‫سے اٹھایا اور میرے ہاتھ پر اپنا مخملی‬
‫ہاتھ رکھا اور میرے ہاتھ کو پیار سے‬
‫سہالتے‬
‫ہوے بولی‬
‫کیا دیکھ رھے ہو۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی جھیل سی‬
‫آنکھوں میں دیکھتے ہوے نفی میں سر‬
‫ہالیا کہ کچھ نہیں ۔‬
‫مہری‬
‫بولی کچھ تو دیکھ رہے ہو‬
‫میں نے اسکی آنکھوں میں شہوت‬
‫طاری ہوتی دیکھ کر رومینٹک انداز‬
‫میں مہری کے بالوں کو سہالتے ہوے‬
‫کہا‬
‫دیکھ رہا ہوں کہ کتنی فرصت سے تم‬
‫کو بنانے والے نے بنایا ھے‬
‫تمہارا ایک ایک انگ میرے جزبات کو‬
‫چنگاری دیتا ھے ۔‬
‫مہری تم حسن کی دیوی ہو۔‬
‫مہری میرا دل کرتا ہے کہ تمہارے‬
‫جسم کے ایک ایک ذرے کو اپنے‬
‫ہونٹوں سے چھو کر اپنی خواہش کو‬
‫امر کرلوں ۔‬
‫مہری کے گالبی گال سرخی مائل‬
‫ہورھے تھے ۔‬
‫مہری نے میری بات سن کر میری کمر‬
‫کے گرد سے بازو ہٹاے اور مجھ سے‬
‫الگ ہوکر میرے سامنے کھڑی ہوگئی‬
‫اور اپنے گلے میں ڈاال ہوا دوپٹہ اتار‬
‫کر شیشے کے میز پر پھینک کر بازو‬
‫پھیال کر آنکھیں بند کر کے رومینٹک‬
‫انداز سے بولی۔‬
‫یاسر آو اپنی خواہش کو آج جی بھر کر‬
‫پورا کرلو‬
‫یہ جسم یہ جان سب کچھ تمہارا ھے ۔‬
‫ضوفی کے ہوا میں کھلے بازوں سے‬
‫اسکے گول مٹول ممے بھی ہوا میں‬
‫لہراتے ہوے نظر آے‬
‫اسکی فٹنگ والی شارٹ شرٹ میں‬
‫اسکے مموں کا ابھار ایسے تھا جیسے‬
‫ابھی دونوں ممے اسکی شرٹ پھاڑ کر‬
‫باھر آجائیں گے ۔‬
‫یہ سیکسی منظر دیکھتے ہی‬
‫میرے تو ہوش و ہواس گم ہوگیے‬
‫اور میرا دماغ مہری کے سیکسی فگر‬
‫کو دیکھتے ہی تمام شد ہوگیا۔‬
‫مہری کے مموں کے سحر میں جکڑا‬
‫میں بےاختیار اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫اور اسکے سامنے اسکے نزدیک‬
‫اسکے ابھاروں کے قریب اپنا سینہ کر‬
‫کے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ اسکے گالب کی کلی‬
‫کی طرح کھلتے ہوے چہرے کی طرف‬
‫بڑھاے‬
‫اور اسکی روئی جیسی نرم اور ریشم‬
‫جیسی مالئم گالوں پر اپنے ہاتھوں کی‬
‫۔ہتھیلیاں رکھیں اور ہاتھوں کی انگلیوں‬
‫کو مہری کے کانوں کی لوں کے ساتھ‬
‫لگا کر‬
‫اس معصوم چہرے کو دونوں ہاتھوں‬
‫میں بھر لیا۔‬

‫اور اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوے‬


‫اپنا چہرہ چودویں کے چاند کی طرف‬
‫بڑھایا۔‬
‫مہری کے چمبیلی جیسے کھلتے ہونٹوں‬
‫کے پاس اپنے ہونٹ ال کر اپنی زبان کو‬
‫پھر اپنے ہونٹوں پر پھیرتے ہوے زبان‬
‫کو مزید لمبا کیا اور زبان کی نوک کو‬
‫مہری کی گالبی پنکھڑیوں پر پھیرنے‬
‫لگ گیا۔‬
‫مہری کے جسم کو ایک جھٹکا لگا‬
‫میری نے بھوکی شیرنی کی طرح منہ‬
‫کھول کر میری زبان پر حملہ کیا اور‬
‫زبان کو اپنی پنکھڑیوں میں جکڑ کر‬
‫اندر کھینچنے کی کوشش کرنے لگ‬
‫گئی۔‬
‫شیرنی کی تڑپ دیکھ کر شیر بھی ہوش‬
‫کھو بیٹھا اور شیر کے پنجے شیرنی‬
‫کی گالوں کو اپنے شکنجے میں لے کر‬
‫شیرنی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں‬
‫بھینچنے لگیا۔‬

‫آگ تھی کہ دونوں طرف بھڑک اٹھی‬


‫نہ اسے ہوش رھا نہ مجھے‬
‫۔‬
‫منہ کے اندر مہری کی اور میری زبان‬
‫آپس میں ذور آزمائی کررہیں تھی‬
‫اور باہر دونوں کے ہونٹ آپس میں گتھم‬
‫گتھا تھے‬

‫دونوں میں سے کوئی بھی ہار تسلیم‬


‫کرنے کو تیار نہ تھا۔‬

‫کچھ دیر بعد ہونٹوں سے ہونٹ اور‬


‫زبان سے زبان الگ ہوئی‬
‫تو میں نے مہری کی شرٹ کو پیچھے‬
‫سے پکڑ کر اوپر کی طرف کرنے لگا‬
‫مہری نے بھی باخوشی اپنی شرٹ‬
‫اتارنے میں میری مدد کرتے ہوے‬
‫شرٹ کو اپنے مخملی گورے گالبی‬
‫شفاف بدن سے الگ کر کے اپنے‬
‫دوپٹےکے اوپر رکھ دیا۔‬
‫مہری کے گورے بدن کو دیکھ کر‬
‫میری آنکھیں تڑپ اٹھیں ہونٹ پر‬
‫خشکی چھانے لگی زبان بے اختیار‬
‫ہونٹوں کی طرف بڑھی اور انکو ہوش‬
‫دالنے کے لیے اپنے لباب سے ہونٹوں‬
‫کو تر کرتے ہوے حوصلہ دینے لگی ۔‬
‫مہری کےگالبی مموں پر گالبی بریزیر‬
‫اسکے بدن کا حصہ ہی لگ رہا تھا‬
‫ظالم نے کیا میچنگ کی تھی اپنے رنگ‬
‫کے ساتھ‬

‫میرا سر خم ہوا اور‬


‫اسکے بریزیر سے باہر کے حصے کی‬
‫طرف میرے ہونٹ بڑھے اور اس‬
‫مخمل کو ہونٹوں نے چوم لیا‬
‫مہری کے منہ سے سسکاری بلند ہوئی‬
‫۔‬
‫میں نے ہونٹوں کو مہری کے ننگے‬
‫گالبی مموں کے حصے کوچومنا‬
‫شروع کردیا‬
‫میرے ہونٹوں کا لمس مہری کو تڑپا‬
‫رھا تھا سسکا رھا تھا ۔‬
‫مہری کی انگلیاں میرے سر کے بالوں‬
‫کو سہال رہیں تھیں ۔‬
‫میرے ہونٹ مہری کو تڑپا رھے تھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے دونوں ہاتھ مہری‬
‫کی کمر کے پیچھے کیے اور اسکی‬
‫سوفٹ پنک کلر کی برا کو کی ہک کو‬
‫کھول دیا اور اسکے ممے بریزیر سے‬
‫آزاد ہوتے ہی چھلک کر بریزیر سے‬
‫باہر آنے کو بےتاب ہوگئے‬
‫میں نے مہری کی کمر سے سڑیپ‬
‫کھولنے کے بعد اپنے ہاتھ کی انگلیوں‬
‫کے پوروں کو اسکی مخملی کمر پر‬
‫سرکاتے ہوے اسکے مموں کی طرف‬
‫النے لگا‬
‫مہری کی سانسیں اس کے کنٹرول سے‬
‫باہر ہونے لگ گئی‬
‫اور میں اپنی انگلیوں کو اسکی کمر‬
‫سے سرکاتا ہوا اسکے مموں کے پاس‬
‫ال کر اسکے بریزیر کو انگلیوں سے‬
‫اسکے جسم سے الگ کیا تو بریزیر‬
‫نیچے ہمارے پاوں میں گر گیا۔‬
‫اسکے دودھیا ممے ننگے میری آنکھوں‬
‫کے سامنے تھے ۔‬
‫اسکی گالبی مموں پر گالبی دائرے میں‬
‫گالبی نپل اکڑے ہوے تھے‬
‫میں نے اپنا منہ مموں کے قریب کیا‬
‫اور پھر سے زبان کی نوک سے اسکے‬
‫مموں کے اکڑے نپلوں کو چھیڑنے لگ‬
‫گیا مہری تھی کہ اب مری ۔‬

‫میری زبان کی نوک نپل کا چاروں‬


‫طرف سے طواف کررھی تھی اور‬
‫مہری اپنے ہونٹوں کو زبان سے تر‬
‫کرتے ہوے ہونٹوں کو بھینچ بھینچ کر‬
‫سییییییی ممممممممم کر کے میری زبان‬
‫کی چھیڑ خانیوں کو برداشت کرنے کی‬
‫ناکام کوشش کررھی تھی ۔‬

‫مہری کے مموں پر میری زبان کی ‪.‬‬


‫نوک اپنا جادو پھونک رھی تھی‬
‫مہری نیچے سے اپنی ٹانگوں کو آپس‬
‫میں بھینچے ہوے سسکاریاں بھر رھی‬
‫تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں کو چبا‬
‫رھی تھی میں نے اسکے ایک ممے کو‬
‫مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور اسکے نپل‬
‫کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیان‬
‫دبوچ کو مسل رھا تھا اور دوسرے‬
‫ممے کے نپل کو زبان کی نوک سے‬
‫سک کررھا تھا‬
‫میں مہری کے نپل کو کبھی ہونٹوں میں‬
‫بھر کر چوستا تو کبھی آدھے سے کم‬
‫ممے کو منہ میں ڈال کر اندر کی طرف‬
‫کھینچتا‬
‫مہری کے ممے اتنے سوفٹ تھے‬
‫کہ میرے چوسنے کی وجہ مہری کے‬
‫ممے کا نپل اور نچلے واال حصہ سرخ‬
‫ہوچکا تھا۔‬
‫میں باری باری دونوں مموں کے ساتھ‬
‫اپنی مرضی سے کھیل رھا تھا‬

‫مہری کے مموں تھے ھی اتنے سیکسی‬


‫کے انکو چھوڑنے کا میرا من ھی نھی‬
‫کررھا تھا مگر ساال صاحب کے آنے‬
‫کے ڈر کی وجہ سے میں۔‬
‫کچھ دیر اور ممے چوسنے کے بعد‬
‫کھڑا ہوا اور مہری کو ایک ہگ کیا اور‬
‫فرنچ کس کرنا شروع کردی تو مہری‬
‫میرے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ ڈال کر‬
‫میرے ہونٹوں کو چوستی ہوئی مجھے‬
‫پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوے اپنے‬
‫کمرے کی طرف لیجانے لگی ۔‬
‫میں بھی اس کا ارادہ بھانپتے ہوے اپنے‬
‫قدموں کو پیچھے کی طرف لیجانے لگا‬
‫میں ساتھ ساتھ مہری کی نرم گانڈ کی‬
‫پھاڑیوں کو بھی اپنے دونوں ھاتھوں‬
‫میں دبوچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی‬
‫ننگی مخملی کمر پر بھی ہاتھ پھیرتا ھوا‬
‫پیچھے کی طرف چلتا جارھا تھا اور‬
‫مہری میرےہونٹوں کو چوستی ہوئی‬
‫ایک ہاتھ میری گردن کے بالوں میں‬
‫پھیرتے ھوے اور ایک ہاتھ میرے‬
‫سینے پر رکھے ہوے مجھے پیچھے کو‬
‫دھکیلتے ھوے کمرے کے دروازے‬
‫کے پاس لے گئی اور پھر کمرے کے‬
‫اندر لیجا کر مہری نے مجھے بیڈ کے‬
‫قریب پہنچا دیا اور میرے ہونٹوں میں‬
‫ہونٹ ڈالے میری قمیض کے بٹن کھولنا‬
‫شروع کردیے ۔‬
‫میں نے مہری کی بےچینی دیکھتے‬
‫ہوے اسکی کمر سے ہاتھ ہٹاے اور‬
‫اسکو ذور لگا کر خود سے الگ کیا اور‬
‫اپنی قمیض پکڑ کر اتار دی‬

‫مہری ترسی نگاہوں سے مجھے قمیض‬


‫اتارتے ہوے دیکھ رھی تھی‬
‫پھر جیسے ھی میں نے بنیان کو اتارنے‬
‫کے لیے پکڑا تو‬
‫مہری سے صبر نہ ہوا تو اس نے خود‬
‫اپنے ہاتھ بنیان کی طرف بڑھا کر‬
‫میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بنیان‬
‫اتارنے میں میری مدد کی۔۔۔‬
‫میں نے جیسے ھی بنیان اتاری تو‬
‫مہری کی نظر جب میری کلین باڈی پر‬
‫پڑی تو مہری کے منہ سے بےاختیار‬
‫نکال‬
‫واووو سو سیکسی باڈی یار۔‬
‫اور ساتھ ھی اس نے اپنے ہونٹ میرے‬
‫بالوں سے پاک سینے پر رکھ دیے اور‬
‫ساتھ ھی اس نے لمبا سانس اندر کو‬
‫کھینچا اور ہونٹ ہٹا کر میری طرف‬
‫بڑی حیرانگی سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫۔‬
‫یاسر‬
‫تم ویکس کروا کر آے ھو ۔میں نے‬
‫حیران ہوکر اسکی طرف دیکھتے ھوے‬
‫کہا‬
‫ہممممم‬
‫مگر تمہیں کیسے پتہ چال۔‬
‫تو مہری مسکرا کر بولی تمہارے سینے‬
‫سے آفٹر ویکسنگ لوشن کی سمیل‬
‫آرھی ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫وا جی بڑی بات ھے لگتا ھے تم بھی‬
‫ویکسنگ کرواتی ھو ۔‬
‫مہری بولی ہاں کرواتی ہوں‬
‫مگر میں حیران ہوں‬
‫کہ تم بھی ویکس کرواتے ہو‬
‫تو میں نے کہا‬
‫چھوڑو یار کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ھو‬
‫اور اس سے پہلے کہ مہری کوئی اور‬
‫بات کرتی‬
‫میں نے مہری کو اپنے باہوں کے‬
‫احصار میں لے لیا اور اپنے ننگے جسم‬
‫کے ساتھ اسکا ننگا نرم نازک جسم لگا‬
‫کر مہری کے ساتھ چپک کر کھڑا‬
‫ھوگیا‬
‫مہری کے مالئم ممے میرے ننگے‬
‫سینے میں پیوست ھوگئے اسکے اکڑے‬
‫نپل سینے پر لگے مہری کے گرم‬
‫ہونے کی دلیل پیش کررھے تھے ۔‬
‫مہری نے کچھ کہنے کے لیے جیسے‬
‫ھی منہ کھوال تو میں نے اسکے ہونٹوں‬
‫پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسکی آواز کو‬
‫اپنے منہ کے اندر ھی نگھل کر ہضم‬
‫کرگیا اسکے گالبی ہونٹوں کو چوستے‬
‫ہوے مین نے مہری کو گھما کر اسکی‬
‫گانڈ بیڈ کی طرف کی اور اپنا وزن‬
‫اسپر ڈالتے ہوے اسکو پیچھے کی‬
‫طرف پُش کیا تو مہری کمر کے بل‬
‫پیچھے بیڈ پر گرتی گئی اور میں‬
‫اسکے سینے کے ساتھ چپکا ہوا اسکے‬
‫اوپر ھی گرتا چال گیا۔‬

‫ہم دونوں کے ننگے جسم ایک دوسرے‬


‫کے اوپر ایک جسم بنے ھوے تھے اور‬
‫میرا لن فل اکڑ کر مہری کی شلوار‬
‫سمیت اسکے چڈوں میں گھس کر اسکی‬
‫پھدی کو رگڑیں لگا کا چدنے کے لیے‬
‫اکسا رھا تھا‬
‫مہری نے بیڈ پر گرتے ھی میری کمر‬
‫کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا ڈال لیا‬
‫اور میری کمر پر ہاتھ رکھ لیے‬
‫اور میرے دونوں ہاتھ مہری کی کمر‬
‫کے نیچے تھے ۔‬
‫میرے اور مہری کے ہونٹ اب بھی‬
‫ملے ھوے تھی کہ مہری نے اپنا منہ‬
‫دوسری طرف کیا اور مجھے بیڈ‬
‫کےاوپر آنے کا اور خود بھی اوپر‬
‫ہونے کا کہا۔‬
‫میں مہری کے اوپر سے ھی پلٹ کر‬
‫اسکے ساتھ لیٹ کر اپنی ٹانگیں اوپر کر‬
‫کے بیڈ پر ہوگیا۔‬
‫مہری نے بھی ٹانگیں اوپر کیں اور‬
‫سیدھی ہوکر بیڈ کی ٹیک کی طرف‬
‫تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی اور میں‬
‫بھی اسکی بغل میں سرہانے پر سر رکھ‬
‫کر لیٹ گیا۔‬
‫تو مہری میری طرف منہ کر کے سائد‬
‫کے بل ہوئی اور گھوم کر میرے اوپر‬
‫آگئی اور میرے سینے پر اپنے ممے‬
‫اور میرے لن کو اپنے چڈوں میں لے‬
‫کر میرے اوپر لیٹ گئی ۔‬
‫میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ مہری‬
‫نے‬
‫اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھ کر‬
‫شییییییی کہہ کر مجھے خاموش رہنے‬
‫کا کہا‬
‫میں وی سرکاراں دا حکم من کے چپ‬
‫کرگیا۔۔‬
‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے‬
‫چہرے کی طرف کیے اور دونوں‬
‫ہاتھوں کو میری آنکھوں پر پھیرتے‬
‫ہوے مجھے آنکھیں بند کرنے کا حکم‬
‫نامہ جاری کیا۔‬
‫مجھے بھی حکم ماننا پڑا اور جیسے‬
‫ھی مہری کے دونوں ہاتھوں کے نیچے‬
‫چھپی میری آنکھوں پر سے اسکی‬
‫ہتھیلیاں سرکتی ہوئی میری گالوں طرف‬
‫جاتے ہوے میری آنکھوں سے اپنی‬
‫نازک ہتھیلیوں کا پردہ ہہٹایا تو جناب‬
‫کے حکم کی تعمیل ہوئی اور میری‬
‫آنکھوں کو بند پایا ۔۔۔‬
‫تو مہری نے اپنے نرم ہونٹوں کو میرے‬
‫ماتھے پر ٹکا کر میرے ماتھے کو‬
‫چوما اور پھر میری آنکھوں کو باری‬
‫باری چوما اور میرے گالوں کو چومتی‬
‫ہوئی ہونٹوں پر آئی تو‬

‫مہری تھوڑا سا نیچے کو کھسکی اور‬


‫میری ٹھوڑی کو چومتے ہوے میرے‬
‫گلے پر اپنی گالبی پنگھڑیوں‬
‫کو پھیالتے ھوتے‬
‫مذید نیچے کو کھسکتی گئی اور‬
‫میرے سینے کو چومنا شروع کردیا‬
‫مزے سے میرے منہ سے سیییییی نکال‬
‫اور میں نے ہاتھ نیچے کر کے مہری‬
‫کی دونوں مسمیوں کو پکڑ کر مسلنا‬
‫شروع کردیا‬
‫میرا لن مہرے کے پیٹ کے ساتھ لگا‬
‫ہوا اسکے نرم پیٹ کو اندر دھکیلے‬
‫ہوے تھا‬
‫مہری میرے مالئم سینے پر کبھی زبان‬
‫پھیرتی تو کبھی چھوٹی چھوٹی پاریاں‬
‫کرتی ہوئی میرے سینے پر چھوٹے‬
‫سے نپلوں کی طرف متوجہ ہوئی اور‬
‫زبان نکال کر میرے زبان کی نوک‬
‫سے میرے سینے پر نپلوں کو چھیڑنے‬
‫لگ گئی میں مزے کی ایک نئی لذت‬
‫سے واقف ہوتے ہوے سسک پڑا اور‬
‫ساتھ ھی میری آنکھیں جب کھلیں تو‬
‫مہری آنکھیں کو کھولے نظریں میرے‬
‫چہرے کی طرف ٰکئے ہوے تھی ۔‬
‫آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کی‬
‫آنکھوں میں ہوس ایک دوسرے سے‬
‫متعارف ہوئی‬
‫تو مہری نے آنکھوں کے اشارے سے‬
‫ھی آنکھوں کو پیغام بھیجا کہ بند ہو جاو‬
‫۔‬

‫آج مجھے اس سے سارے اگلے پچھلے‬


‫حساب چکتا کرنے ہیں‬
‫تو میری آنکھیں مہری کی آنکھوں کا‬
‫حکم سنتے ہی دوبارا بند ہوگئیں ۔‬
‫مہری کچھ دیر باری باری میرے‬
‫دونوں نپلوں کو چومنے کے بعد‬
‫اپنی زبان کو نکال کر میرے سینے کے‬
‫درمیان پھیرتے ہوے میرے گلے تک‬
‫الئی اور پھر زبان کو میرے سینے‬
‫سے سرکاری ہوئی‬
‫اور خود بھی نیچے کو سرکتی ہوئی‬
‫میرے پیٹ پر زبان کو ال کر پیٹ کے‬
‫چاروں اطراف پھیرنے لگ گئی‬
‫مہری کے نیچے کھسکنے کی وجہ‬
‫سے اسکے ممے میرے ھاتھ سے نکل‬
‫گئے اور میری انگلیوں میں اسکے نپل‬
‫آگئے جنکو میں نے انگلیوں سے ھی‬
‫قابو کر لیا اور مسلنا شروع کرد یا۔‬
‫مہری ڈوگی سٹائل میں میرے اوپر‬
‫جھکی میرے پیٹ کو چاٹ رھی تھی‬
‫اور میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں‬
‫اسکی دونوں مسمیوں کی ڈوڈیوں کو‬
‫پکڑے مسل رہیں تھیں۔‬

‫میں نے اپنے دونوں پیر اوپر کیے اور‬


‫مہری کی کمر پر اپنی ایڑیاں رکھیں‬
‫اور پاوں کو اسکی کمر کے اوپر لٹا کر‬
‫اپنے پاوں کے انگوٹھوں کی مدد سے‬
‫اسکی السٹک والی شلوار کو نیچے کی‬
‫طرف کھسکانا شروع کردیا۔‬
‫کچھ دیر بعد مہری کی شلوار اسکی‬
‫گانڈ سے اتر کر اسکے گھٹنوں تک‬
‫چلی گئی تھی مہری کی پھدی اور گانڈ‬
‫اب بلکل ننگی تھی ۔‬
‫مہری اپنی مستی میں میرے سارے‬
‫جسم کو زبان سے چاٹ چاٹ پاگل‬
‫ہورھی تھی اسکا جنون قابل تسکین تھا ۔‬
‫مہری ننگی گانڈ کو لہراتی ہوئی‬
‫گھٹنوں کے بل تھوڑا اور پیچھے کو‬
‫کھسکی اور زبان کو میری ناف کے‬
‫نیچے میرے نالے کی گانٹھ کے قریب‬
‫لے آئی تو میرا اکڑا ہوا لن اسکے گلے‬
‫ملنے لگا تو مہری نے اپنا ایک ہاتھ‬
‫میرے لن کی طرف کیا اور ۔۔‬
‫مہری میرے لن کو پکڑتے ھی ‪. .‬‬
‫چونکی اور مٹھی کو بھینچ کر لن کی‬
‫موٹائی کو چیک کرتے ہوے پھٹی‬
‫آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگ‬
‫گئی‬

‫میں نے نیم بند آنکھوں سے جب مہری‬


‫کو اپنی طرف دیکھتے ہوے دیکھا تو‬
‫آنکھ کھول کر اسکی طرف دیکھ کر‬
‫آنکھ مار دی۔‬
‫مہری میرے لن کو مٹھی میں بھینچتے‬
‫ہوے بولی‬

‫یاسررررررر‬

‫اتنا موٹا اور اتنا لمبا اففففففففف‬

‫میں نے مسکرا کر کہا۔‬


‫پسند نہیں آیا‬

‫مہری نے پلکوں کی جھالر کو آنکھوں‬


‫پر بچھاتے ہوے اثبات میں سر ہال کر‬
‫لن کو پسند کرنے کا اظہار کیا اور‬
‫مہری نے پھر زبان باہر نکال کر میری‬
‫ناف کے نیچے پھیرنا شروع کردی‬

‫مزے کی شدت سے میرا جسم تھر تھرا‬


‫رھا تھا ۔‬
‫مہری نے لن کو چھوڑا اور میرے‬
‫نالے کی گانٹھ کو کھولنا شروع کردیا‬

‫میں مہری کے اس جنون کو دیکھ کر‬


‫حیران پریشان ھوگیا کہ‬

‫میرے کرنے والے کام آج مہری خود‬


‫ھی نبٹا رھی ھے ۔‬
‫مہری نے گانٹھ کے سرے کو پکڑا کر‬
‫کھینچا‬

‫اور ناال کھول دیا۔‬

‫ناال کھول کر مہری نے شلوار کو پکڑ‬


‫کر نیچے کھینچا تو میں نے بھی اپنی‬
‫گانڈ اوپر کی تو شلوار آسانی سے‬
‫نیچے میرے گھٹنوں تک چلی گئی‬

‫میرا لن شیش ناگ کی طرح پھن‬


‫پھیالئے تن کر کھڑا تھا۔‬

‫مہری کچھ دیر لن کو ہر ذاویعے سے‬


‫دیکھتے رھی‬

‫پھر مہری نے میرے ننگے پھنئر سانپ‬


‫کو مٹھی میں بھر کر دبانے لگی ۔‬

‫مہری کی نرم ہتھیلی اور مخملی انگلیاں‬


‫جیسے ھی میرے لن کے ساتھ لگیں تو‬
‫میرے لن نے ایک ذور دار جھٹکا مارا‬
‫اور مہری کی مٹھی میں میرے لن کی‬
‫رگیں پھولنا شروع ہوگئی رگیں تھیں کہ‬
‫اب پھٹیں۔‬

‫مہری نے دوسرا ہاتھ بھی لن پر رکھا‬


‫اور ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ‬
‫لیا اور دوسرا ہاتھ اوپر ٹوپے سے‬
‫نیچے رکھ کر لن کی پیمائش کرنے لگ‬
‫گئی‬

‫مہری تو مزے سے نہال ہورھا تھا‬


‫اور سوچ رھا تھا کہ جس حسن کی‬
‫دیوی کی مٹھیاں اتنی سوفٹ ہیں تو‬
‫اسکی پھدی اور گانڈ کا سوراخ کتنا‬
‫سوفٹ ہوگا ۔‬

‫مہری کچھ دیر میرے لن کو دونوں‬


‫مٹھیوں میں لے کے دباتی رہی ۔‬

‫تو میں نے مہری کو کہا ۔‬


‫مہری ۔‬

‫اسکو کس تو کرو ۔‬

‫مہری نے نشیلی آنکھوں سے میری‬


‫طرف دیکھا اور مسکرا کر اپنے ہونٹ‬
‫لن کے ٹوپے پر رکھ کر چھ سات‬
‫چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتے ھوے‬
‫میری طرف دیکھ کر بولی بسسسس۔‬
‫مہری کے ہونٹوں کے لمس نے میرے‬
‫منہ سے سسکاری نکال دی تھی‬

‫مہری کے بس کہنے پر‬

‫میں نے نفی میں سر ہالیا‬

‫اور بوال تھوڑا سا منہ میں ڈال کر‬


‫چوسو۔‬
‫مہری نے مجھے سیکسی انداز میں‬
‫گھورا اور پھر اپنے ہونٹوں کو کھول‬
‫کر لن کے ٹوپے کو منہ میں بھر کر‬
‫ٹوپے پر تین چار چوسے لگا کر ٹوپا‬
‫منہ سے نکال کر میری طرف دیکھتے‬
‫ہوے پھر بولی بسسسسسس‬
‫میں نے سسکاری مارتے ہوے کہا‬

‫سسسسسس نننھیی تھوڑا اور چوسو‬


‫مہری۔‬

‫مہری نے پھر ہونٹ لن کے ٹوپے پر‬


‫رکھے اور پھر پورے ٹوپے کو‬
‫چوسنے لگ گئی۔‬
‫اس سے پہلے کہ مہری ٹوپا منہ سے‬
‫نکالتی میں نے دونوں ہاتھوں سے‬
‫مہری کا سر پکڑ کر ٹوپے کی طرف‬
‫دبا کر نیچے سے گانڈ اٹھا کے لن‬
‫مہری کے منہ کے اندر کرتے ھوے‬
‫گھسے مارنے لگ گیا ۔‬

‫مہری میرے ایسا کرنے سے گبھرا گئی‬


‫تھی اور سر کو پیچھے کر کے لن منہ‬
‫سے نکالنے کی کوشش کرتے وقت‬

‫غوں غوں غوں پھپپپ پھپ‬

‫کی آوازیں نکال رھی تھی‬

‫چند سیکنڈ ہی مہری لن کو منہ میں‬


‫برداشت کرسکی‬

‫اور پھر ایک جھٹکا مار کر سر کو‬


‫پیچھے کر کے لن منہ سے نکال کر تیز‬
‫تیز سانس لیتے ہوے کھانستے ہوے‬
‫بولی ۔‬

‫یاسرررر کے بچے میرا سانس بند‬


‫کردیا ھے ۔‬

‫میں نے کہا‬

‫یار تمہارے لبوں کے لمس کا مزہ ھی‬


‫اتنا آرھا تھا کہ دل کر رھا تھا کہ بس‬
‫ایسے ھی کرتا رھوں ۔‬

‫مہری گھٹنوں کے بل میری ٹانگوں کے‬


‫درمیان بیٹھی لمبے لمبے سانس لیتی‬
‫نے میری ٹانگ پر چپت مارتے ھوے‬
‫کہا‬

‫تمہارے مزے کے چکر میں میری جان‬


‫نکل جانی تھی ۔‬

‫کچھ دیر بعد مہری ریلیکس ہوئی‬


‫اور میری ناف کے نیچے اپنے سوفٹ‬
‫ہاتھ پھیر کر بولی ۔یاسر کتنی سوفٹ‬
‫ھے تمہاری سکن ۔‬

‫میں نے کہا‬

‫تم سے ذیادہ تو نہیں ۔‬

‫تمہاری سکن تو مخمل جیسی نرم نازک‬


‫ھے‬

‫یہ کہتے ہوے میں نے مہری کے‬


‫دونوں بازوں کو کالئیوں سے پکڑ کر‬
‫اپنے اوپر کھینچا تو مہری میرے اوپر‬
‫لیٹتی گئی‬

‫مہری جب مکمل طور پر میرے اوپر‬


‫لیٹ گئی اور میرا لن اسکی پھدی کے‬
‫اوپر رگڑیں لگانے لگا تو میں نے‬
‫مہری کی کمر کے گرد بازوں ڈالے‬
‫اور مہری کا گھما کر اپنے نیچے کیا‬
‫اور خود اسکے اوپر آگیا‬

‫اب میری پوزشین‬

‫ایسی تھی کہ‬

‫میری دونوں ٹانگیں مہری کی ٹانگوں‬


‫کے درمیان تھیں اور‬

‫اور میرے لن کا نشانہ سیدھا مہری کی‬


‫پھدی کیطرف تھا۔‬

‫میں مہری کا ماتھا آنکھ گال ٹھوڑی‬


‫چومتا ہوا گھٹنوں کے بل ہوتا جارھا‬
‫تھا‬

‫اور میری گانڈپیچھے کو نکلتی جارھی‬


‫تھی‬

‫میں مہری کے دونوں تنے ھوے گالبی‬


‫مموں کو باری باری چوستا ھوا مہری‬
‫کے روئی جسے نرم پیٹ سے ہوتا ھوا‬
‫مہری کی ناف سے نیچے السٹک والی‬
‫شلوار کے قریب جا پہنچا اور مہری‬
‫کی ناف کے نیچے زبان پھیرنے لگ‬
‫گیا۔‬

‫مہری کی سانسیں اکھڑنیں شروع ھو‬


‫چکی تھیں ۔‬

‫اسکی حالت دیکھ کر لگ رھا تھا کہ‬


‫مہری انھی فارغ ہونے ھی والی‬
‫اسکی اس حالت میں میرا ہر کام آسانی‬
‫سے بن سکتا تھا‬

‫مہری اپنے ہوش ہواس کھو بیٹھی تھی‬

‫اور سینے کو چھت کی طرف بلند کر‬


‫کے لمبے لمبے سانس بھر رھی تھی‬
‫اممممم یاسررر نہ کرو نہ‬

‫پلیززززز یاسر پلیزززز‬

‫مہری کی مدہوش آواز مجھے مزید‬


‫گرما رھی تھی اور میں بھی اسکی ناف‬
‫کے نیچے زبان پھیرتا ھوا اسکی شلوار‬
‫اتارنے میں مشغول تھا۔‬
‫میں نے شلوار کی السٹک میں اپنی‬
‫انگلیاں پھنسا کر مہری کی آنکھوں میں‬
‫دیکھتے ہوے شلوار کو نیچے کھینچا‬
‫تو مہری نے گانڈ اٹھا کر شلوار اتارنے‬
‫کی اجازت دے دی‬
‫اجازت نامہ ملتے ہی میں نے شلوار‬
‫نیچے کھینچ کر گانڈ سے اتار کر مہری‬
‫کے گھٹنوں تک کر دی اور پھر گھٹنوں‬
‫سے نیچے کرتا ھوا مہری کے پاوں‬
‫کے پاس لیجا کر شلوار کو اتار کر ایک‬
‫طرف رکھ دیا مہری اب مادر زاد ننگی‬
‫میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی اور‬
‫میں اسکے گورے گالبی مخملی بدن کو‬
‫دیکھ کر اپنی پیاسی آنکھوں کو سیراب‬
‫کر رھا تھا۔۔‬
‫مہری کےسارے ننگے جسم کو آج میں‬
‫پہلی دیکھ رھا مہری کا جسم اتنا کلین‬
‫اور پنک کلر کا تھا کہ‬
‫میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔‬
‫۔مہری کے ننگے مموں کو دیکھتا ہوا‬
‫میں اسکی پھدی کی طرف جب متوجہ‬
‫ہوا تو اسکی چھوٹے سائز کی چٹی سفید‬
‫پھدی کے ننھے ننھے گالبی ہونٹ پھدی‬
‫سے نکلنی والی شبنم کے قطروں سے‬
‫چمک رھے تھے ۔۔‬
‫دوستو پھدیاں تو بہت دیکھیں تھیں بہت‬
‫مگر مہری کی پھدی کی بات ہی کچھ‬
‫اور تھی‬
‫مہری کی پھدی کی شیپ دیکھ کر ھی‬
‫پتہ چل رہا تھا کہ ابھی اس معصوم کو‬
‫لن نصیب نہیں ہوا ۔‬

‫ہاےےےےےےے کیا سین تھا کیا‬


‫چمکتی مالئم پھدی تھی‬
‫مجھے اپنے لن کی قسمت پر رشک‬
‫آنے لگا‬
‫کہ سالے نے کیا قسمت پائی ھے ۔‬
‫مہری اپنی آنکھوں پر بازو رکھے‬
‫آنکھوں کو چھپاے لیٹی ہوئی تھی کہ‬
‫مہری کی چھٹی حس نے کام کیا اور‬
‫اس نے اپنے بازو جھیل سے اٹھاے اور‬
‫اپنی بڑی لمبی پلکوں کی جھالر کو اٹھا‬
‫کر میری طرف دیکھا‬
‫اور مجھے اپنی پھدی کی طرف ندیدوں‬
‫کی طرح دیکھتے ہوے پایا‬
‫تو‬
‫مہری نے گالب کی پنکھڑیوں کو کھوال‬
‫اور اپنی مدبھری آواز میں بولی‬
‫یاسر ررررر‬
‫اس سے پہلے کہ پھدی کو میری نظر‬
‫لگ جاتی میری نظریں پھدی ہٹ کر‬
‫مہری کی طرف گئیں‬
‫آنکھوں سے آنکھیں ملیں‬

‫مہری بولی‬
‫بےشرمممممممم‬
‫اور ساتھ ھی مہری نے اپنے دونوں ہاتھ‬
‫اس معصوم پر رکھ کر اپنی ٹانگوں کو‬
‫بھینچ کر‬
‫میری للچائی نظروں سے اپنی پھدی کو‬
‫چھپا لیا۔‬

‫میں نے اسکے آپس میں جڑے گھٹنوں‬


‫کو چوما اور اپنے دونوں ہاتھ مہری‬
‫کے گھٹنوں پر رکھ کر انکو ذور لگا‬
‫کر کھولنے لگا تو مہری ہنستے ہوے‬
‫گھٹنوں کو دائیں بائیں کرنے لگ گئی ۔‬
‫اور ساتھ نفی میں سر ہال کر مجھے منع‬
‫کرتے ہوے بولی نہ کرو بے شرم انسان‬
‫۔‬
‫میں نے کہا‬
‫پلیززز مہری آج مجھے نہ روکو آج‬
‫مجھے بےشرم ھی ہونے دو آج کوئی‬
‫شرم کوئی ججھک ہمارے درمیان مت‬
‫آنے دو۔۔‬

‫مہری نے میری مسکین سی شکل دیکھ‬


‫کر اپنے گھٹنوں کو ڈھیال کردیا اور‬
‫میں دوزانوں بیٹھے نے مہری کے‬
‫گھٹنے کھول کر اسکی پھدی کو ننگا‬
‫کیا مگر مہری نے اب بھی اپنی معصوم‬
‫پھدی کو بچانے کے لیے‬
‫پھدی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔‬
‫میں تھوڑا سا پیچھے کو کھسکا اور‬
‫پھدی کے آگے اپنا سر خم کیا اور‬
‫پھدی پر رکھے مہری کے ہاتھوں کو‬
‫چوم لیا اور پیار سے اسکے ہاتھ پکڑ‬
‫کر‬
‫اس معصوم کی جان چھڑوائی ۔‬
‫ہاتھ ہٹاتے ھی‬
‫میں نے پھدی کے لبوں کو چوم لیا‬
‫مہری‬
‫کی پھدی پر جیسے ھی میں نے ہونٹ‬
‫رکھے‬
‫مہری‬
‫تڑپ گئی‬
‫اور بیڈ سے دو فٹ اچھلی اور‬
‫سسسکاری بھر کر بولی‬
‫سسسسسس نھیییییی یاسررررررر‬
‫اممممممم‬
‫پلیزززززز نہ کرو‬
‫مگر میں اس معصوم کا حق کیسے مار‬
‫سکتا تھا۔‬
‫میں نے زبان نکالی اور پھدی کے لبوں‬
‫کو زبان کی نوک سے کھول کر پھدی‬
‫کے اندر زبان کر کے زبان کو اوپر‬
‫پھدی کے اوپر والی ہڈی کی طرف لیجا‬
‫کر ہڈی کو زبان سے چاٹ لیا۔‬

‫مہری کے منہ سے زورر کی چیخ‬


‫نکلی اور مہری نے اپنے ہاتھ مجھ سے‬
‫چھڑوا کر میرے سر کے بالوں کو‬
‫دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور میرے‬
‫سر کو پھدی پر دبا دیا اور نیچے سے‬
‫اپنی گانڈ کو بھی اٹھا کر پھدی کو‬
‫میرے منہ کے ساتھ چپکا دیا‬
‫اور‬
‫ھاےےےےےےے مرگئیییییی میں‬
‫یاسررررررر‬
‫کہتے ہوے‬
‫سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔‬
‫مہری کے اس جنون نے میرے جنون‬
‫کو بڑھا دیا اور میں پھدی کے چھوٹے‬
‫سے دانے کو منہ میں لے کر چوستا تو‬
‫کبھی پھدی کے اندر تک زبان کو لیجا‬
‫کر پھدی کے سارے حصے کو منہ میں‬
‫بھر لیتا‬
‫تو کبھی پھدی کے گالبی ہونٹوں کو‬
‫اپنے ہونٹوں بھر لیتا‬
‫مہری کا جسم کانپنا شروع ہوگیا‬
‫میرے بالوں پر اسکے ھاتھوں کی‬
‫گرفت سخت سے سخت تر ہوگئی ۔‬
‫مہری کی گانڈ ہوا میں بلند ہوئی‬
‫پھدی میرے ہونٹوں کے ساتھ چپکی‬
‫ہاتھوں کا دباو میرے سر پر پھدی کی‬
‫جانب بڑھا‬
‫مہری کی دونوں ٹانگوں نے میری‬
‫گردن کو دبوچا‬
‫مہری کا سارا جسم ایکدم اکڑا‬
‫اور مہری کی بس اتنی سی آواز میرے‬
‫کانوں میں پڑی ۔‬
‫ھاےےےےےےے یسسسسسسس ایم‬
‫کمنگگگگگگ‬
‫اسکے بعد مجھے کچھ سنائی نہیں دیا‬
‫بس میرے منہ پر مہری کی پھدی سے‬
‫منی کی پہلی دھاریں پڑنی شروع‬
‫ہوگئیں‬
‫میرے کان بہرے ھو چکے تھے ۔‬
‫کیونکہ مہری کے پٹوں نے میرے‬
‫کانوں کو دونوں اطراف سے گھیر کر‬
‫جکڑ رکھا تھا‬

‫مہری کی پھدی سے آبشار کا آخری‬


‫قطرہ جب میرے منہ پر گرا تو مہری‬
‫اپنی ٹانگوں کو ڈھیال چھوڑ‬ ‫نے یکلخت ٰ‬
‫کر میرے سر کو آزاد کیا‬
‫اور اپنی ٹانگوں کو ایسے بیڈ پر پھینکا‬
‫جیسے ان میں سے جان نکل گئی ہو۔‬
‫مہری کے پٹ ھی اتنے نرم تھے‬
‫مہری کے پٹوں میں مجھے اپنا سر‬
‫ایسے لگ رھا تھا‬
‫جیسے‬
‫کسی نے میرے کانوں کے دونوں‬
‫اطراف وکی سرہانے رکھ کر میرے‬
‫سر کو تکیوں میں جکڑا ھوا تھا۔‬

‫مہری لمبے لمبے اکھڑے سانس لے‬


‫رھی تھی اور اب بھی اسکا جسم وقفے‬
‫سے ایک آدھا جھٹکا کھاتا‬
‫اور مہری کا پورا جسم لرزتا۔‬
‫مہری بےجان ہوکر بیڈ پر لیٹی ہوئی‬
‫تھی‬
‫اور میں گھٹنوں کے بل اس کے قدموں‬
‫میں بیٹھا‬
‫اس کے فارغ ھوتے وقت کا جنون دیکھ‬
‫رھا تھا‬
‫مہری نے اب دونوں ہاتھ اپنے‬
‫منہ پر رکھ کر ہاتھوں کے بیچ میں‬

‫افففففففف ھاےےےےےے کر رھی‬


‫تھی‬
‫کہ اتنے میں۔۔۔‬

‫اتنے میں میرے لن نے جھٹکا مار ‪.‬‬


‫کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا‬

‫کہ جناب میرا کی قصور اے۔۔۔‬

‫میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسے‬


‫حوصلہ دیا‬

‫اور اسکو ہاتھ میں پکڑے گھٹنوں کے‬


‫بل آگے ہوا‬
‫مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی‬
‫تھی ۔‬

‫مہری بھی اب ریلیکس ہوکر لیٹی ہوئی‬


‫تھی ۔‬

‫میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے‬


‫گیلے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔‬

‫مہری نے ایکدم چونک کر میری طرف‬


‫دیکھا اور بولی یاسر کیا کرنے لگے‬
‫ہو‬
‫میں نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے‬
‫ہونٹوں پر رکھ کر اسے شیییییییی کر‬
‫کے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔‬

‫اور ٹوپے کو پھدی کے دانے سے‬


‫رگڑنے لگ گیا۔‬

‫مہری کے منہ سے سییییییی نکلی اور‬


‫بولی‬
‫یاسررررر اندر مت کرنا ۔‬

‫میں نے اسکی بات سنی ان سنی کی‬


‫اور ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں سیٹ‬
‫کر کے‬

‫ہاتھوں کے بل مہری کے اوپر جھکا‬


‫اور اپنے ہونٹ مہری کے ہونٹوں پر‬
‫رکھ کر ہونٹ چوسنے لگ گیا‬

‫مہری نے اپنے دونوں ہاتھ میرے لن‬


‫کے پاس ھی پٹوں پر رکھ لیے تاکہ میں‬
‫لن پھدی میں نہ اتار سکوں ۔‬

‫میرے تو دماغ پر اس وقت مہری کی‬


‫پھدی کا نشہ سوار تھا‬

‫اور مرد کی طاقت سے ذیادہ ہوس اور‬


‫شہوت کی طاقت ذیادہ ہوتی‬
‫ورنہ تو مرد بے جان ہوتا ھے ۔‬

‫جب منی سر پر سوار ہو تو انسان کی‬


‫طاقت میں دگنا اضافہ ھو جاتا ھے ۔‬

‫اور وہ ھی ھوا‬

‫میں نے اپنے سینے کو جھکا کر مہری‬


‫کے مموں پر رکھا اور پیٹ مہری کے‬
‫پیٹ کے ساتھ مالیا اور مہری کے‬
‫ہونٹوں کو اچھی طرح اپنے ہونٹوں میں‬
‫بھرا‬

‫اور ایک جاندار گھسا مارا‬

‫اور آدھا لن مہری کی کنواری ٹائٹ‬


‫مگر گیلی پھدی میں اتار دیا‬

‫گھسا کیا مارا مہری کہ جان ہلک میں‬


‫اٹکا دی‬
‫جیسے ھی ایک جھٹکے میں آدھا لن‬
‫مہری کی کنواری پھدی کو چیرتا ہوا‬
‫پھدی کے نرم ریشوں کو زخمی کرتا‬
‫ہوا اندر گھسا‬

‫پھدی کے شکنجے میں میرا آدھا لن‬


‫پھنسا ھوا تھا اور میرے لن کے گرد‬
‫پھدی کا گھیرا اتنا تنگ تھا کہ مجھے‬
‫ایسے لگ رھا تھا کہ کسی شے نے‬
‫میرے لن کو دبوچ لیا ھے‬
‫میری تھائیوں پر رکھے مہری کے‬
‫دونوں ہاتھ بھی میرے جھٹکے سے‬
‫پیچھے ھوگئے اور مہری کے دونوں‬
‫ھاتھوں نے میری تھائیوں کو اسکا قدر‬
‫بھینچا کے مہری کے ناخن میری سکن‬
‫کو زخمی کرتے ہوے اندر دھنس گئے‬

‫مہری نے کمر اٹھا کر اپنے ممے‬


‫میرے سینے میں دبا دیے اور‬

‫میرے ہونٹوں میں اسکے ہونٹ ہونے‬


‫کی وجہ سے‬

‫مہری کی آواز بس اتنی سی نکلی‬

‫مممممم غوں غوں آبببب ھھگگگگ‬


‫ھاااااا‬

‫مہری کا رنگ ٹماٹر جیسا سرخ اور‬


‫جھیل کے کناروں سے بہتے آنسو‬
‫اسکی تکلیف کا ثبوت پیش کررھے‬
‫تھے ۔‬
‫اس سے پہلے کہ میں مہری کی درد‬
‫اور اسکی تکلیف کو دیکھ کر پگھل‬
‫جاتا میں نے‬

‫لن کو باھر کھینچا‬

‫اور ٹوپا اندر ھی رہنے دیا‬

‫اور دوسرا جھٹکا مار کر لن کو پھدی‬


‫کی گہرائیوں میں اتار دیا۔‬

‫مہری نے پورے زور سے میرے‬


‫ہونٹوں سے ہونٹ نکالے اور میری‬
‫ٹانگوں سے ہاتھ ہٹا کر میرے سینے پر‬
‫رکھ کر پورے زور سے مجھے پیچھے‬
‫کو دھکیلتے ہو ے اونیچی آواز میں‬
‫چیخی ہاےےےےے‪-‬ےے مر‬
‫گئیییییییییییییییییی‬
‫مممممااااااااااا جییییییییی‬

‫اور ساتھ ھی مہری بےجان ہوکر واپس‬


‫بیڈ پر گر گئی ۔‬

‫مہری کو یوں بے جان گرتے دیکھ کر‬


‫میں بھی ڈر گیا اور لن کو واپس کھینچا‬
‫تو مہری کا جسم جھٹکے سے ہال۔‬

‫اور پھر بےجان ہوگیا۔‬


‫مہری کو یوں بے جان گرتے دیکھ کر‬
‫میں بھی ڈر گیا اور لن کو واپس کھینچا‬
‫تو مہری کا جسم جھٹکے سے ہال۔‬

‫اور پھر بےجان ہوگیا۔‬

‫لن کو باہر نکال کر میں نے لن کو‬


‫دیکھا تو لن خون سے لتھڑا ھوا تھا اور‬
‫پھدی سے خون بہہ کر بیڈ کی چادر کو‬
‫سرخ کرتا جارھا تھا۔‬
‫میں جلدی سے اٹھا اور مہری کے‬
‫چہرے کے پاس آکر مہری کی گالوں‬
‫کو تھپتھانے لگا‬

‫اور مہری مہری کہہ کر آوازیں دینے‬


‫لگا مگر مہری بےسدھ لیٹی ہوئی تھی‬

‫میں نے اسکے ممے پر کان لگا کر‬


‫مہری کے دل کی دھڑکن کو سنا تو‬
‫مجھے کچھ حوصلہ ہوا کہ مہری زندہ‬
‫ھے اور صرف بےہوش ھی ھوئی ھے‬
‫۔‬

‫میں چھالنگ مار کر بیڈ سے اترا‬

‫اور ننگا ھی باہر کچن کی طرف بھاگا‬

‫کچن میں پہنچ کر فریج سے پانی کی‬


‫بوتل نکالی اور بھاگ کر‬
‫کمرے میں پہنچا تو مہری ویسے ھی‬
‫بیڈ پر ٹانگیں پھالے بےہوش پڑی تھی‬
‫اور اسکی پھدی اور پھدی کے دونوں‬
‫اطراف کی جگہ بیڈ کی چادر سمیت‬
‫خون سے سرخ ہوچکی تھیں‬

‫پھدی سے اب بھی خون جاری تھا۔‬

‫میں نے بوتل کا ڈھکن کھوال اور بیڈ پر‬


‫چڑھ کر مہری کے چہرے کے اوپر اپنا‬
‫ہاتھ کیا اور بوتل میں سے ٹھنڈا پانی‬
‫ہاتھ پر ڈال کر‬

‫مہری کے منہ پر پانی کے چھینٹے‬


‫مارنے لگ‪ ،‬گیا‬

‫کچھ دیر چھینٹے مارنے اور مہری کو‬


‫آوازیں دینے سے مہری نے کراہتے‬
‫ھوت آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنا شروع‬
‫کیں ۔‬
‫تو میری جان میں جان آئی ۔‬

‫میں نے بوتل سائڈ ٹیبل پر رکھی اور‬


‫مہری کے بالوں کو سہالتے ھوے اسے‬
‫آوازیں دینے لگا۔‬

‫مہری مہری‬
‫ہوش کرو‬

‫اٹھو مہری اٹھو۔‬

‫مہری نے آنکھیں کھولیں‬

‫اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے‬


‫لگ گئی ۔‬
‫جیسے جیسے مہری مجھے پہچانتی‬
‫گئی اسکی آنکھوں میں نفرت اور‬
‫غصے کے شعلے بڑھکتے گئے ۔‬

‫کچھ دیر بعد جب مہری جب بہتر ھوئی‬


‫تو مہری نے دونوں ہاتھ میرے سینے‬
‫پر رکھتے ھوے مجھے پورے ذور‬
‫سے دھکا دیا اور زور سے چیخی‬

‫گیٹ الس ایڈیٹ‬

‫آئی ِکل یو باسٹڈ‬


‫میں مہری کے اوپر جھکا ھوا تھا‬

‫مجھے ذرہ بھی مہری اس ریکشن کی‬


‫امید نھی تھی‬

‫اس لیے اسکے اچانک یوں دھکا دینے‬


‫سے‬

‫میں پیچھے کو ہوا اور میں جو پہلے‬


‫ھی بیڈ کے کنارے سے پر بیٹھا ھوا‬
‫تھا‬

‫اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ھوے‬


‫پیچھے کو قالبازی کھا کر کارپٹ پر جا‬
‫کر گرا‬

‫مہری مجھے متواتر انگلش میں پتہ‬


‫نہیں کیا کیا گالیاں دیئے جارھی تھی ۔‬

‫میں نیچے گرتے ھی‬


‫خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور پھر‬
‫مہری کی طرف بڑھا اور اسکے سر پر‬
‫ہاتھ پھیرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے‬
‫لگا تو مہری نے قہر آلود نظروں سے‬
‫مجھے دیکھتے ہوے میرے ہاتھ کو ہوا‬
‫میں ھی اپنے ہاتھ سے جھٹک دیا۔‬
‫اور بولی دفعہ ھو جاو ذلیل کمینے‬
‫انسان جانور پینڈو ۔۔‬

‫میں نے کہا مہری بات تو سنو۔‬

‫مہری پھر ذور سے چالئی آئی سے‬


‫گیٹ السسسسسسس‬

‫بلیڈی فوووولللللل‬
‫اور رونے لگ گئی‬

‫مہری کی آنکھوں سے آگ برس رھی‬


‫تھی ۔‬

‫میں نے جب دیکھا کہ مہری‬

‫اب کسی طور بھی میری بات سننے‬


‫کے لیے تیار نہیں‬

‫تو میں نے جلدی سے اپنے کپڑے پہننا‬


‫شروع کردئے۔‬

‫اور مہری کو یوں ھی بیڈ پر خون سے‬


‫لتھڑا ہوا چھوڑ کر‬

‫کمرے سے باہر نکل آیا اور گیٹ کی‬


‫طرف چل دیا ۔‬

‫اس سے پہلے کے میں گیٹ کھول کر‬


‫باہر نکلتا‬

‫میں نے ابھی گیٹ کی طرف ھاتھ بڑھایا‬


‫ھی تھا کہ اچانک???????۔‬

‫مجھے پیچھے کمرے سے دھڑام کی‬


‫آواز آئی جیسے کوئی چیز گری ہو‬
‫گیٹ کی طرف بڑھتا ھوا میرا ہاتھ رک‬
‫گیا اور میرے دماغ میں مہری آگئی کہ‬
‫کہیں وہ تو نہیں گری میں الٹے پاوں‬
‫کمرے کی طرف بھاگا‬

‫اور ٹی وی الؤنج سے ہوتا ہوا کمرے‬


‫میں داخل ہوا تو مہری بیڈ سے نیچے‬
‫قالین پر گری ہوئی تھی اور وہ بیڈ کو‬
‫پکڑ کر اٹھنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬

‫میں بھاگ کر مہری کے پاس پہنچا اور‬


‫اسکو کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگا‬
‫تو مہری نے اپنے کندھے مجھ‬
‫چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوے‬

‫غنودگی کی حالت میں مجھے پھر برا‬


‫بھال کہنے لگی میں نے اسکی گالیوں‬
‫کہ پرواہ نہ کرتے ھوے‬

‫مہری کے کندھوں کو مضبوطی سے‬


‫پکڑا اور اسکو کھڑا کر کے بیڈ پر بیٹھا‬
‫دیا ۔‬

‫مہری کا رنگ پیال پڑ چکا تھا‬

‫بیڈ کی چادر پر خون کا بڑا سا دھبہ بنا‬


‫ہوا تھا‬
‫مہری کی پھدی بھی خون سے سرخ‬
‫ہوچکی تھی اور پھدی سے پاوں تک‬
‫دونوں ٹانگوں پر خون کی لکیریں بنی‬
‫ہوئی تھیں ۔‬

‫مہری بیڈ پر بیٹھی تو پھر آگے کو‬


‫گرنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا تو‬
‫مہری میرے کندھے پر سر رکھ کر‬
‫میرے سینے پر مکے مارتے ھوے‬
‫مدہوشی میں بولی جارھی تھی اور رو‬
‫رھی تھی‬

‫یاسررر تم نے ایسا کیوں کیا‬


‫میرے یقین کو کیوں توڑا میں نے‬
‫تمہارا کیا بگاڑا تھا‬

‫مہری پھوٹ پھوٹ کر رو رھی تھی ۔‬

‫میں مہری کو کندھے سے لگا اسکے‬


‫بالوں کو سہالتے ھوے اس سے معافیاں‬
‫مانگنے لگ گیا۔‬

‫مہری چپ ہونے کا نام ھی نہیں لے‬


‫رھی تھی اور مجھے ماری جارھی تھی‬
‫۔‬
‫کچھ دیر تک یہ ھی سین چلتا رھا ۔‬

‫میں بھی مہری کے ریلیکس ہونے کا‬


‫انتظار کرتا رھا۔‬

‫پندرہ بیس منٹ گزر گئے مجھے اسد‬


‫کے آنے کا بھی ڈر تھا کہ وہ نہ آجاے‬

‫اتنی جلدی تو مہری سے بھی نہیں‬


‫سنبھال جانا تھا اور بیڈ کی حالت بھی‬
‫کچھ ایسی تھی کے کمرے میں داخل‬
‫ہونے والے کی سیدھی نظر بیڈ پر لگے‬
‫خون کے بڑے سے دھبے پر جانی تھی‬
‫۔‬
‫مہری کچھ دیر رونے اور مجھے پیٹنے‬
‫کے بعد ریلیکس ھوئی تو میں نے اسے‬
‫اسکی شلوار پکڑی اور اسکے قدموں‬
‫میں بیٹھ کر اسکی شلوار مہری کے‬
‫پاوں میں ڈال کر اوپر اسکے گھٹنوں‬
‫تک کردی اور مہری کو بازوں سے‬
‫پکڑ کر کھڑا کیا تو مہری دونوں ہاتھ‬
‫میرے کندھوں پر رکھ کر میرے سینے‬
‫پر سر رکھ کر سہارہ لے کر کھڑی‬
‫ھوگئی ۔‬

‫میں نے مہری کی شلوار پکڑ کر اوپر‬


‫کرنے لگا تو‬
‫مہری آہستہ سے بولی‬

‫مجھے واش روم جانا ھے ۔‬

‫میں نے مہری کی شلوار واپس نیچے‬


‫کر کے اہنے پیر کی مدد سے اسکے‬
‫پیروں سے نکال دی اور پھر مہری کو‬
‫مادر زاد ننگی حالت لے کر‬

‫اسی حالت میں ھی سینے سے لگاے‬


‫مہری کی کمر میں بازو ڈالے‬

‫واش روم کی طرف لے کر چل پڑا‬


‫مہری سے چلنا دشوار تھا وہ ٹانگوں کو‬
‫کھول کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رھی تھی‬
‫مہری نے ایک ہاتھ ناف کے نیچے اور‬
‫پھدی کے اوپر رکھا ھوا تھا‬

‫مہری کی حالت دیکھ کر میں نے اسے‬


‫کہا کہ میں اٹھا کر لے جاوں تمہیں‬

‫مہری نے نفی میں سر ہال کر کہا نہیں‬


‫میں نے ایسے ھی جانا ھے‬

‫مہری بلکل معصوم بچوں کی طرح‬


‫اپنی بات منوانے کی ضد کررھی تھی‬
‫میں مہری کو لے کر واش روم کے‬
‫دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھول کر‬
‫اسکے ساتھ اندر جانے لگا تو‬

‫مہری بولی چھوڑ دو مجھے اور جاو‬


‫میں نے کہا مہری تم پھر گر جاو گی‬

‫مہری بولی‬

‫گرنے دو مجھے‬

‫مرنے دو مجھے‬
‫میرے پاس اب بچا ھی کیا ھے‬

‫میں نے جی کر کیا کرنا ھے ۔‬

‫میں نے مہری کو کہا‬

‫مہری مجھے معاف کردو مجھے نہیں‬


‫پتہ چال بس سب کچھ اچانک ھوگیا تھا ۔‬

‫میں ہوں نہ مجھے جو چاھے سزا دے‬


‫ہوں مگر پلیز ایسی‬
‫دو میں تمہارا مجرم ً‬
‫بے رخی مت دیکھاو۔‬

‫اور خود کو سنبھالو‬


‫اسد کسی وقت بھی آسکتا ھے ۔‬
‫اگر اس نے تمہاری یہ حالت دیکھ لی تو‬
‫اسکو کیا جواب دوگی ۔‬

‫مہری بلکل نیم بےہوشی کی حالت میں‬


‫تھی اور میرے سینے کے ساتھ لگی‬

‫مجھے وقفے وقفے سے مکے ماری‬


‫جارھی تھی‬

‫میں بھی اسے دل کی بھڑاس نکالنے کا‬


‫موقع فراہم کررھا تھا ۔‬
‫تاکہ مہری کا سارا غصہ اتر جاے اور‬
‫اس کی حالت سنبھل جاے ۔‬

‫میں نے مہری کو پکڑ کر واش روم‬


‫کے اندر لے گیا اور اسے کمپاوڈ کا‬
‫ڈھکن اٹھا کر اسکے اوپر بیٹھا دیا‬

‫مہری سرخ اور نشیلی آنکھوں سے‬


‫میری طرف دیکھ رھی تھی‬

‫مہری پھر بولی یاسر جاو باہر‬

‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬


‫مہری پلیز ایک دفعہ مجھے تسلی‬
‫ھوجاے کہ تمہاری طبعیت سہی ھوگئی‬
‫ھے‬

‫تو میں خود ھی چال جاوں گا مگر‬

‫ابھی میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر‬


‫نہیں جاسکتا‬

‫اتنی دیر میں مہری کی پھدی سے‬


‫پیشاب کی دھار نکلی تو مہری کے منہ‬
‫سے ھاےےےےےے سیییییییی کی‬
‫آواز نکلی اور مہری نے ناف کے‬
‫نیچے رکھے ھاتھ سے اس جگہ کو‬
‫دبانے لگ گئی ۔‬

‫مہری کی حالت اور اسکی تکلیف دیکھ‬


‫کر مجھے اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا‬

‫کہ میں واقعی انسان نھی جانور ھی‬


‫ھوں اگر میں آرام سے کرتا تو مہری‬
‫کو اتنی تکلیف بھی نہیں ہونی تھی اور‬

‫مہری کی نظروں سے بھی نہیں گرنا‬


‫تھا ۔‬
‫میں دل ھی دل میں اپنی بےغیرتی کو‬
‫کوس رھا تھا۔‬

‫مہری نے جیسے تیسے پیشاب کیا اور‬


‫پھر مسلم شاور کو پکڑ کر پھدی کی‬
‫طرف کر کے بٹن کو پریس کیا تو‬
‫شاور سے پانی نکل کر پھدی پر پڑنے‬
‫لگا‬
‫مہری کو پانی سے بھی جلن ہورھی‬
‫تھی‬
‫اور اس کے منہ سے اب بھی‬
‫ھاےےےےے سییییی نکل رھا تھا اور‬
‫ساتھ میں مجھے بھی نفرت سے دیکھ‬
‫رھی تھی ۔مہری نے جب پھدی کو واش‬
‫کرلیا تو اٹھنے کی کوشش کرنے لگی‬
‫تو میں آگے بڑھا اور مہری کو کندھوں‬
‫سے پکڑ کر کھڑا کیا اور شاور کو‬
‫پکڑا کر مہری کی پھدی کی طرف کر‬
‫کے دوبارا اسکی پھدی اور ٹانگوں پر‬
‫لگے خون کو دھونے لگا‬

‫میں نے ہاتھ مہری کی پھدی کی طرف‬


‫کیا اور پھدی کی دونوں اطراف کی‬
‫جگہ کو مل مل کر دھونے لگا ایسے‬
‫ھی اسکی دونوں ٹانگوں کو ہاتھ سے‬
‫مل کر خون صاف کیا میری نظر جب‬
‫مہری کی پھدی پر پڑی تو‬
‫پھدی کے ہونٹ کافی سوجے ھوے‬
‫تھے‬

‫اور ہونٹوں کے شروع میں مجھے ہلکا‬


‫سا کٹ لگا نظر آیا‬

‫شاید پھدی چھوٹی تھی اور لن زیادہ‬


‫موٹا تھا تو لن نے مہری کی پھدی کو‬
‫چیر دیا تھا ۔‬
‫پھدی بیچاری بھی مجھے لعن طعن‬
‫کررھی تھی ۔‬

‫ٹانگوں کو صاف کرتے وقت مہری‬


‫میرے ہاتھوں کو جھٹک رھی تھی مگر‬
‫م ِیں ڈھیٹ بن کر لگا رھا اور مہری کی‬
‫پھدی اور ٹانگوں کو اچھی طرح واش‬
‫کیا اور پھر مہری کو لے کر واش روم‬
‫سے باہر آگیا‬

‫مہری اب کافی بہتر محسوس کررھی‬


‫تھی‬

‫مگر وہ اب بھی ٹانگوں کو کھول کر‬


‫ھی چل رھی تھی ۔‬

‫کمرے میں آکر میں نے مہری کو بیڈ‬


‫پر جیسے ھی بٹھایا‬
‫تو مہری پیچھے کو گرتی بیڈ پر لیٹ ‪..‬‬
‫گئی ۔ اور دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر‬
‫پھر رونے لگ گئی‬
‫مہری کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکی‬
‫ہوئی تھیں‬
‫اور باقی سارا جسم بیڈ پر ڈھیر تھا ۔]‬
‫میں نے مہری کو بازو سے پکڑ کر‬
‫ہالیا‬
‫اور بوال مہری یار اب بس بھی کرو‬
‫اور کپڑے پہن لو‬
‫اسد کسی وقت بھی آسکتا‬
‫ھے‬
‫مہری منہ سے ہاتھ ہٹا کر غصے سے‬
‫چیختے ھوے بولی‬
‫مجھے نہیں پہننے کپڑے آنے دو جسے‬
‫بھی آنا ھے ۔‬
‫میں نیچے جھکا اور کارپٹ پر پڑی‬
‫مہری کی شلوار کو اٹھا کر اسکے‬
‫قدموں میں بیٹھ گیا اور‬
‫شلوار کو مہری پاوں سے گزار کر‬
‫اسکی پھدی کے قریب کر دی‬
‫مہری نے تھوڑی بہت مزاحمت کی تھی‬
‫مگر میں نے ذبردستی اسے شلوار پہنا‬
‫کر ھی دم لیا ۔‬
‫شلوار اوپر کرنے کے بعد میں نے‬
‫مہری کی دونوں کالئیوں کو پکڑا اور‬
‫اسکو اوپر کھینچا تو مہری نا چاہتے‬
‫ھوے بھی اٹھ کر بیٹھ گئی‬
‫میں نے مہری کو کندھوں سے پکڑ کر‬
‫کھڑا کیا اور شلوار اسکی گانڈ سے‬
‫اوپر کر کے پھر پھدی سے بھی اوپر‬
‫کردی ۔‬
‫شلوار پہنتے ھی مہری پھر بیڈ پر بیٹھ‬
‫گئی تو میں نے ہاتھ لمبا کر کے مہری‬
‫کی بریزیر‬
‫پکڑی اور بیڈ پر چڑھ کر مہری کی ‪.‬‬
‫کمر کے پیچھے بیٹھ گیا‬
‫اور بریزیر کو آگے لیجاکر مہری کے‬
‫دونوں بازوں میں سے بریزیر کے‬
‫اسٹرپ گزارے اور بریزیر کو‬
‫اسکے کندھوں تک لے آیا۔][‬
‫پھر اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اور‬
‫مموں کے اوپر آے ھوے بریزیر کے‬
‫کپ کو پکڑ کر مموں کے اوپر کیا‬
‫جیسے ھی مہری کے مموں کو میرا‬
‫ہاتھ چھوا میرے اندر پھر شہوت کے‬
‫کیڑے نے جھر جھری لی‬
‫اور میں نے مہری کے دونوں مموں کو‬
‫اپنی مٹھیوں میں بھر کر دبا دیا ۔‬
‫مہری کے منہ سے سییییییییی نکلی اور‬
‫مہری نے بازو پیچھے کر کے میرے‬
‫پیٹ میں کہنی مارتے ھوے کہا۔‬
‫اب کوئی کسر رھتی ھے جو پوری‬
‫کرنی ھے‬
‫اور پھر مہری نے مموں کو پکڑے‬
‫میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے‬
‫گلے کے ساتھ لگا کر دباتے ھوے کہا‬
‫ویسے ھی میرا گال دبا دو‬
‫مار دو مجھے اپنے ھاتھ سے ھی مار‬
‫دو۔‬
‫اور ساتھ ھی مہری نے پھر اونچی آواز‬
‫میں رونا شروع کردیا۔‬
‫میں نے جلدی سے اس سے اپنے ہاتھ‬
‫چھڑواے اور پیچھے سے سٹریپ کی‬
‫ہک بند کرتے ھوے‬
‫اسکے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر‬
‫اسکے کان میں دھیرے سے بوال‬
‫مہری میں کیا کروں تم چیز ھی ایسی‬
‫ھو‬
‫تمہارا ایک ایک انگ مجھے بہکنے پر‬
‫مجبور کردیتا ھے ۔‬
‫قصور میرا نھی تمہارے اس مخملی بدن‬
‫کا ھے‬
‫تم سر سے پاوں تک آب حیات ہو‬
‫جس کو پی کر میں ہمیشہ کے لیے امر‬
‫ھونا چاہتا تھا‬
‫مہری نے میری بات سنتے ھی‬
‫مجھےپیچھے کو دھکا دیا اور آگے‬
‫سے اپنے بریزیر کو سیٹ کرتی ھوئی‬
‫کھڑی ہوئی اور پلٹ کر مجھے غصے‬
‫سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫تم ہوس کو پیار کا نام دیتے ھو‬
‫تم ایک ہوس کے پجاری ھو‬
‫اور تمہاری انہیں باتوں میں آکر میں‬
‫اپنی عزت گنوا بیٹھی ھوں ۔‬
‫یاسرررردد اگر تم اپنی خیریت چاھتے‬
‫ھو تو ابھی کہ ابھی دفعہ ھوجاو یہاں‬
‫سے‬
‫اور آج کے بعد مجھے شکل مت‬
‫دیکھانا‬
‫تم نے میرے اعتبار کو توڑا ھے‬
‫میرے جزبات سے کھیلے ھو تم‬
‫میں نے کہا مہرررر‬
‫ابھی میرے منہ میں اتنا ھی لفظ نکال‬
‫تھا کہ مہری‬
‫پھر چنگاڑ کر بولی‬
‫شٹ اپ‬
‫اور دروازے کی طرف انگلی کرتے‬
‫ھوے ۔‬
‫بولی ۔گیٹ الس فرام مائی ہاوس‬

‫میں بھی کب سے اس کی بکواس سن‬


‫رھا تھا‬
‫اور اسکو برداشت کررھا تھا‬
‫مہری سے انگریزی بےعزتی کرواتے‬
‫ھی میں چھالنگ مار کر غصے سے‬
‫بیڈ سے نیچے اترا اور اپنا جوتا پہن کر‬
‫کمرے کے دروازے کے پاس پہنچ کر‬
‫گردن گھما کر مہری کی طرف دیکھا‬
‫جو میری ھی طرف دیکھ رھی تھی‬
‫میں نے مہری کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالیں‬

‫نظروں سے نظریں ملیں‬

‫دونوں کی نظروں میں غصہ تھا‬


‫آگ تھی‬

‫قہر تھا‬

‫میں دھاڑتے ھوے گرجا‬

‫اور رعب دار آواز نکالتے ھوے‬


‫مہری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بوال۔‬

‫مہریییییییییی‬

‫مہری میری گرجدار آوا ز سن کر سہم‬


‫گئی‬
‫اور ایکدم اسکے چہرے پر غصے کی‬
‫بجاے ڈر جھلکنے لگ گیا۔‬

‫میں پھر غصہ سے دھاڑا‬

‫مہرییییی میں جارھا ہوں اور میری بات‬


‫کان کھول کر سن لو کہ‬
‫یاد سے بیڈ کی چادر بدل لینا یہ نہ ھو‬
‫کہ تمہاری امی یا اسد آکر کمرے کا‬
‫نظارہ دیکھ لیں ۔۔۔‬
‫میں غصے میں بھی مہری کو مذاق کر‬
‫کے باہر کی طرف چل دیا مہری میری‬
‫بات سن کر دانت بھینچ کر رھ گئی ۔‬
‫میں گیٹ کے پاس پہنچا اور گیٹ کھول‬
‫کر باہر جھانکا تو گلی میں بچوں کو‬
‫کھیلتے دیکھ کر میں باہر نکال اور‬
‫بازار کی طرف چل دیا ۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا‬
‫اور باہر نکل گیا کچھ دیر گلی کے‬
‫دوستوں کے ساتھ گپیں مارنے کے بعد‬
‫واپس گھر آگیا‬
‫اگلے دن دکان پر بھی کچھ خاص نہ‬
‫ہوا‬
‫عظمی اور نسرین کو سکول سے‬
‫چھٹیاں تھیں اور صدف کو ویسے ھی‬
‫میں ساتھ نہیں لے کر جاتا تھا ۔‬
‫اس لیے مجھے اکیلے ھی جانا پڑتا‬
‫تقریبا َ ََ ایک ہفتہ ایسے ھی گزر گیا‬
‫ضوفی بھی ان دنوں میں دوبارا دکان پر‬
‫نہیں آئی اور نہ ھی مجھے اسکا سامنا‬
‫کرنے کی ہمت ہوئی ۔‬
‫ہفتہ پورا ھی میرا کام میں مصروفیت‬
‫کی وجہ سے بغیر پھدی کے ھی گزر‬
‫گیا ۔‬
‫ایک دن شام کو انکل سجاد نے مجھے‬
‫بتایا کہ یاسر بیٹا کل‬
‫میں نے مال لینے الہور جانا ھے اور تم‬
‫دکان پر ذرہ ہوشیار رہنا اور توجہ سے‬
‫دکان داری کرنا‬
‫میں نے کہا جی انکل آپ بےفکر ہوکر‬
‫جانا میں سنبھال لوں گا ۔‬
‫دوسرے دن میں انکل سجاد کے گھر‬
‫گیا تو انکل سجاد مجھ سے پہلے ھی‬
‫چلے گئے تھے اور دکان کی چابیاں‬
‫گھر ھی دے گئے تھے میں نے گھر‬
‫سے چابیاں لیں اور دکان پر چال گیا‬
‫دکان پر پہنچا تو انکل کی موٹر سائکل‬
‫دکان کے باہر ھی کھڑی تھی میں نے‬
‫دکان کے شٹر کھولے اور دکان کی‬
‫صفائی کرنے لگ گیا کچھ دیر بعد ساتھ‬
‫والی دکان کا لڑکا مجھے موٹرسائیکل‬
‫کی چابی دے گیا اور ساتھ میں انکل کا‬
‫میسج بھی دے دیا کہ موٹر سائیکل یاسر‬
‫کو کہنا موٹر سائکل کو لے کر کہیں‬
‫جاے نہ ھی کسی اور کے دے‬
‫میں نے اچھا کہہ کر اس سے چابی لی‬
‫اور دراز میں رکھ دی ۔‬
‫کچھ دیر بعد جنید آگیا‬
‫مگر دوسرا لڑکا شاہد ابھی تک نھی آیا‬
‫تھا‬
‫جنید نے آتے ھی انکل کا پوچھا تو میں‬
‫نے بتایا کہ انکل تو الہور مال لینے‬
‫گئے ہیں ۔‬
‫جنید نے حیران ھوتے ھوے کہا‬
‫کل انکل نے تو ہمیں بتایا ھی نہیں ۔‬
‫میں نے کہا شاید انکا اچانک پروگرام‬
‫بنا ھو ۔‬
‫ایسے ھی ھم باتیں کرتے رھے‬
‫کسٹمرز کی بھی آمد شروع ھوگئی‬
‫شاہد دکان پر نھی آیا ۔‬
‫اسنے شاید چھٹی کرلی تھی ۔‬
‫مجھے اسپر غصہ بھی بہت چڑھا کہ‬
‫انکل بھی دکان پر نہیں ھیں اور یہ ساال‬
‫بھی چھٹی کرکے بیٹھ گیا ھے ۔‬
‫دوپہر کا وقت ہوا تو جنید کھانا لینے‬
‫چال گیا اور میں دکان کے فرنٹ پر بیٹھ‬
‫گیا ۔‬
‫کچھ ھی دیر گزری تھی کہ فرحت‬
‫برقعہ پہنے اپنی امی کے ساتھ دکان‬
‫میں داخل ہوئی اور بڑی شوخی سے‬
‫مجھے سالم کیا اور دکان کے سینٹر‬
‫میں ھی بیٹھ گئی ۔‬
‫فرحت کی امی کافی ضعیف العمر‬
‫خاتون تھی‬
‫جس عمر کی سٹیج پر فرحت کی امی‬
‫تھی اس عمر میں نظر بھی کافی کمزور‬
‫ھوجاتی ہے‬
‫اس لیے فرحت اپنی امی کا ہاتھ پکڑے‬
‫ھوے چلتی تھی ۔‬
‫بینچ پر بیٹھتے ھوے فرحت بڑی شوخ‬
‫نظروں سے مجھے دیکھ کر بولی‬
‫یاسر کوئی نئی ورائٹی آئی ھے دکان پر‬
‫تو دیکھا دو۔‬
‫میں بھی ان کے پاس پہنچ چکا تھا اور‬
‫انکا حال احوال پوچھنے کے بعد ۔‬
‫فرحت کو بوال آپ آگے آجائیں تو بہتر‬
‫ھے ساری ڈزائنگ آگے پڑی ھے ۔‬
‫فرحت اپنی امی کو ادھر ھی بیٹھے‬
‫رھنے کا کہہ کر دکان کے آخر میں‬
‫چلی گئی ۔‬
‫اور بینچ پر بیٹھتے ھوے آہستہ سے‬
‫بولی‬
‫آج کل کدھر مصروف رہتے ھو ۔‬
‫کبھی چکر ھی نھی لگایا ۔‬
‫میں نے کہا بس دکان پر کام کا ذور‬
‫ھے اس لیے رات کو‬
‫بھی لیٹ ھی جاتا ھوں اس لیے تھکا‬
‫ھوتا ھوں تو ٹائم نھی مال‬
‫اور آپ نے بھی تو دوبارا رابطہ نہیں‬
‫کیا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫جناب میں اسی لیے آج سپیشل آئی ہوں‬
‫کہ نواب ساب کو یاد کروا دوں کہ ہم‬
‫بھی تمہاری راہ دیکھنے والوں میں‬
‫سے ہیں ۔‬
‫فرحت نے یہ بات بڑی دومعنی انداز‬
‫سے کی تھی ۔‬
‫میں نے چونک کر فرحت کی طرف‬
‫دیکھا‬
‫اور کہا‬
‫دیکھنے والوں کا کیا مطلب ۔‬
‫فرحت ہنس کر بولی کچھ نہیں ۔‬
‫میں نے تو ویسے ھی کہا ھے‬
‫تم تو ایسے چونکے ھو جیسے‬
‫واقعی کوئی بات ھے ۔‬
‫میں نے الماری سے سوٹ نکال کر‬
‫فرحت کے اگے کھولتے ھوے کہا‬
‫جناب میں تو آپ کے اشارے کا منتظر‬
‫تھا‬
‫مگر آپ کو تو اشارا کرنے کی بھی‬
‫فرصت نہی تھی ۔‬
‫فرحت بولی ۔‬
‫لو پھر میں اشارہ کرنے ھی آئی ھوں‬
‫کہ اگر وقت ملے تو آج رات کو حسین‬
‫بنانے کے لیے میں نے یہ سنتے ھی‬
‫ہاتھ میں پکڑے ہوے سوٹ کو اس انداز‬
‫میں کھول کر فرحت کے چہرے کی‬
‫طرف پھینکا کے سوٹ کا کنارہ جا کر‬
‫فرحت کے منہ پر لگا اور فرحت کا‬
‫نقاب آدھا اتر کر اسکے ہونٹوں تک‬
‫آگیا‬
‫فرحت اپنی امی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے آہستہ سے بولی‬
‫ذیادہ شوخا نہ بن امی بیٹھی ہوئی ہین۔‬

‫میں نے فرحت کی امی کی طرف دیکھا‬


‫جو باہر کی طرف دھیان کر کے آتے‬
‫جاتے لوگوں کو دیکھنے کی ناکام‬
‫کوشش کررھی تھی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫شوخا تو آج رات کو بنوں گا‬
‫جب تمہاری ٹانگیں چھت کی طرف کیں‬
‫۔‬

‫فرحت شرماتے ھوے اپنا نقاب صحیح‬


‫کرتے ھوے بولی ۔‬
‫شرم کر بےشرما۔‬
‫اور ساتھ ھی سوٹ کو پکڑ کر دیکھنے‬
‫لگ گئی ۔‬
‫اور پھر بولی‬
‫یاسر کوئی اور اچھا سا ڈزائن دیکھاو‬
‫میں نے فرحت کی طرف شرارتی انداز‬
‫میں دیکھتے ھوے اپنی قمیض آگے‬
‫سے اٹھا کر نیم کھڑے لن کو ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر فرحت کی طرف کرتے ھوے‬
‫کہا‬
‫یہ ڈیزائن کیسا ھے ۔‬
‫فرحت شرمندہ سی ہوکر میری طرف‬
‫مکا لہراتے ہوے میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬
‫تمہارے اس ڈیزائن کی رات کو ایسی‬
‫کی تیسی کروں گی بےشرم انسان جگہ‬
‫تو دیکھ لیا کرو۔‬
‫میں نے ٹرائی روم کی طرف اشارہ‬
‫کرتے ھوے کہا‬
‫جگہ بھی دستیاب ھے اگر موڈ ھے تو‬
‫ادھر ھی ایک شارٹ سا میچ ھوجاے۔‬
‫فرحت نے ٹرائی روم کی طرف دیکھا‬
‫تو اسکی آنکھوں میں چمک سی آئی‬
‫اور‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے مصنوعی‬
‫غصے سے بولی‬
‫میرا مرنے کا ارادہ نہیں۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا‬
‫یقین کرو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا‬
‫بس تھوڑی دیر کے لیے جلدی جلدی‬
‫کرلیں گے ۔‬
‫فرحت کی آنکھیں بتا رھی تھی کہ وہ‬
‫بھی اندر سے راضی تھی بس اوپر اوپر‬
‫سے مشرقی خاتون بننے کی ایکٹنگ‬
‫کررھی ھے۔‬
‫فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی‬
‫امی بیٹھی ہین۔‬
‫میں نے جب فرحت کی رضامندی اور‬
‫بناوٹی انکار کو دیکھا تو ۔‬
‫میں نے تھوڑا سیریس ھوتے ھوے کہا‬
‫۔‬
‫یار کچھ نہیں ھوتا بس دو منٹ لگنے‬
‫ہیں‬
‫آج انکل بھی نھی ہین اور لڑکے بھی‬
‫چھٹی پر ہین ۔‬

‫فرحت بولی نہ بابا نہ مجھے ڈر لگتا‬


‫ھے تم رات کو ھی آجانا ۔‬
‫میں نے کہا یار رات کو بھی کرلین گے‬
‫ابھی بس تھوڑا سا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے لن کو پکڑتے ھوے اسے‬
‫دیکھاتے ھوے کہا یہ دیکھو تمہیں دیکھ‬
‫کر ھی بےچین ھوگیا ھے‬
‫فرحت بے چین سی ہوکر ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫تم اپنی امی کو بہانہ لگاو کہ میں سوٹ‬
‫پہن کر چیک کرلوں کہ فٹنگ سہی ھے‬
‫کہ نہیں۔‬
‫تو تم اندر چلی جانا اور موقع دیکھ کر‬
‫میں بھی اندر آجاوں گا۔‬
‫یقین کرو کسی کو کانوں کان بھی خبر‬
‫نہیں ہونی ۔‬
‫فرحت کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد‬
‫بولی یاسر کہیں پھنسوا نہ دینا ۔‬
‫میں نے کہا یار اگر کوئی ٹینشن والی‬
‫بات ھوتی تو میں نے تمہیں کہنا ۔‬
‫ھی نہیں تھا۔‬
‫اسلیے بے فکر رھو اور مجھ پر‬
‫بھروسہ رکھو ۔‬

‫فرحت کچھ دیر بیٹھی مذید سوچتی رھی‬


‫اور اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک‬
‫دوسرے میں پھنسا کر انگلیوں کو آپس‬
‫میں مسلتی رھی‬
‫میں نے اسے ششوپن پڑا دیکھ کر کہا‬
‫یار اٹھو اور یہ لو سوٹ اور اپنی کو‬
‫بہانا بنا کر اندر چلی جاو‬
‫فرحت نے میرے ھاتھ سے سوٹ پکڑا‬
‫اور اٹھ کر اپنی گانڈ میں پھنسا ہوا‬
‫برقعہ نکالتے ھوے‬
‫اپنی امی کی طرف جانے لگی ۔‬
‫میری بے چینی مذید بڑھتی جارہی تھی‬
‫اور میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا‬
‫جارھا تھا کتنے دنوں سے پھدی کی‬
‫شکل بھی نھی دیکھی تھی تو منی لن‬
‫کے ٹوپے پر اٹکی ہوئی تھی‬
‫میرا لن مجھ سے بھی ذیادہ جلدی میں‬
‫تھا ۔‬
‫فرحت اپنی امی کو سوٹ دیکھاتے‬
‫ھوے اس کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں‬
‫کررھی تھی اور اسکی امی سوٹ کو‬
‫آنکھوں کے قریب کرکے سوٹ کو پسند‬
‫کرنے کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نے اپنی امی سے‬
‫سوٹ پکڑا اور اٹھ کر میری آنکھوں‬
‫نشیلے انداز سے دیکھتی ھوئی میرے‬
‫پاس سے گزرتے ھوے مجھے مکا‬
‫دیکھاتے ھوے ٹرائی روم میں چلی گئی‬
‫اور میں باہر کی طرف دیکھ کر اٹھنے‬
‫ھی لگا تھا کہ‬
‫جنید شیطان کی طرح ٹپک پڑا اور‬
‫کھانا ہاتھ میں پکڑے سیٹی بجاتا دکان‬
‫میں داخل ہونے لگا‬
‫جنید کو دیکھتے ھی مجھے پھدی ھاتھ‬
‫سے جاتے نظر آنے لگ گئی ۔‬
‫مگر منی میرے دماغ پر سوار تھی‬
‫میں نے جلدی میں ایک پالن سوچا اور‬
‫اٹھ کر جنید کے پاس چال گیا‬
‫اور اسکو آہستہ اے بوال‬
‫یار ٹرائی روم میں ایک پوپٹ آنٹی‬
‫سوٹ پہن کر چیک کرنے گئی ھے اور‬
‫وہ میرے ساتھ کافی فری بھی ھورھی‬
‫تھی‬
‫میرا تو دل کررھا ھے کہ اس کے‬
‫پیچھے ھی اندر جاکر اس کو جپھی ڈال‬
‫لوں ۔‬
‫جنید حیرانگی سے کبھی میری طرف‬
‫دیکھتا تو کبھی ٹرائی روم کی طرف تو‬
‫کبھی اماں کی طرف ۔‬
‫میں نے اسے یوں سکتے کے عالم میں‬
‫دیکھا تو اسکو کندھے سے ہالتےھوے‬
‫کہا ۔‬
‫ماما توں کیڑیاں سوچاں وچ پے گیا ایں‬
‫۔‬
‫میں کی کیا اے۔‬

‫جنید ہڑبڑا کر بوال‬


‫دیکھنا یار اپنے ساتھ ساتھ مجھے‬
‫پھنسوا نہ دینا‬
‫میں نے کہا یار تو بےفکر ھوجا‬
‫اس آنٹی نے مجھے فل لفٹ کروائی‬
‫ھے‬
‫تم بس دکان کو سبھالنا اور اس اماں کو‬
‫باتوں میں لگاے رکھنا اسکی ویسے‬
‫بھی نظر کمزور ھے‬
‫میں بس گیا اور آ یا‬
‫اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا میں‬
‫اسکا کندھا تھپتھپا کر ٹرائی روم کی‬
‫طرف چل دیا‬
‫اور دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے‬
‫ہلکا سا درواز اندر کو پش کیا تو‬
‫فرحت ہاتھ میں سوٹ پکڑے دیوار کے‬
‫ساتھ لگی بڑی بےچین نظروں سے‬
‫دروازے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔‬
‫میں اندر گیا اور دروازے کو الک کیا‬
‫اور‬
‫جاتے ھی فرحت کے ھاتھ سے سوٹ‬
‫پکڑ کر نیچے پھینکا اور اسکے دونوں‬
‫ممے مٹھیوں میں بھر لیے‬
‫فرحت نے سییییییی کر کے اپنے دونوں‬
‫ھاتھ مموں پر رکھے میرے ھاتھوں پر‬
‫رکھ دیے ۔‬
‫اور بولی‬
‫سیییییییی یاسر آرام سے‬
‫میں نے دو تین دفعہ مموں کو دبایا اور‬
‫پھر فرحت کا برقعہ پکڑ کر اتارنے لگا‬
‫۔‬
‫فرحت برقعہ اتارتے ھوے بولی‬
‫اگر کوئی کسٹمر آگیا تو ۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں آتا اگر آیا بھی تو چال‬
‫جاے گا ۔‬
‫فرحت نے برقعہ اتار کر ایک طرف‬
‫رکھا اور میں نے فرحت کو جپھی ڈال‬
‫کر اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع‬
‫کردیا‬
‫کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے‬
‫فرحت کے آگے سے قمیض اوپر کرنے‬
‫لگ گیا اور قمیض کو مموں سے اوپر‬
‫کر دیا فرحت نے سکن کلر کی بریزیر‬
‫پہنی ھوئی تھی میں نے بریزیر کو بھی‬
‫پکڑ کر مموں کو آزاد کر دیا‬
‫فرحت کے چٹے سفید بڑے بڑے ممے‬
‫میرے سامنے بلکل ننگے تھے میں‬
‫تھوڑا سا جھکا اور دونوں مموں کو‬
‫ہاتھوں میں پکڑ کر چوسنے لگ گیا‬
‫میں باری باری دونوں مموں کو منہ‬
‫بھرتا تو کبھی اکڑے ھوے براون نپلوں‬
‫کو ہونٹوں میں لے کر چوستا‬
‫فرحت سسکاریاں مار کر میرے بالوں‬
‫کو سہالنے میں مصروف تھی ۔‬
‫کچھ دیر میں ایسے ھی مموں کو چوستا‬
‫رھا‬
‫میرا لن فل اکڑا ھوا تھا‬
‫اور پھدی میں جانے کے لیے بےچین‬
‫تھا ۔‬
‫میں نے مموں کو چھوڑا اور فرحت کو‬
‫گھما کر اسکا منہ دیوار کی طرف کیا‬
‫اور پیچھے سے اسکی قمیض گانڈ سے‬
‫اوپر کر کے اسکے السٹک والی شلوار‬
‫کو کھینچ کر نیچے کیا تو فرحت نے‬
‫گردن گھما کر میری طرف دیکھا میں‬
‫میں اسکی نظروں کا مطلب سمجھے‬
‫بغیر نیچے جھکا اور اسکی بُنڈ کی‬
‫دونوں پھاڑیوں کو باری باری چومنے‬
‫لگا اور پھر کھڑا ھو کر جلدی سے‬
‫اپنی شلوار کا ناال کھوال تو میری شلوار‬
‫میری پیروں میں گر گئی‬
‫میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑ کر جیسے‬
‫ھی فرحت کی گانڈ کی دراڑ میں ڈاال‬
‫فرحت نے گانڈ کو بھینچ کر میرے لن‬
‫کو راستے میں ھی روک کر آگے کو‬
‫ھوئی اور میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی کیا کرنے لگے ہو۔‬
‫میں نے کہا سیدھی تو ہو جاو اندر ھی‬
‫کرنے لگا ہوں۔‬

‫فرحت بولی پیچھے سے نھی کرنا ۔‬


‫میں نے کہا نھی یار آگے سے ھی‬
‫کروں گا‬
‫تم سیدھی تو ھو جاو‬
‫فرحت پھر دیوار کی طرف منہ کر کے‬
‫گانڈ میری طرف کر کے کھڑی ھوگئی‬
‫۔‬
‫میں تھوڑا سا پیچھے ھوا اور فرحت‬
‫کی گانڈ کو پکڑ کر پیچھے کیا تو‬
‫فرحت آگے کو جھک گئی اور اسکی‬
‫گانڈ پیچھے کو ھوگئی‬
‫میں نے لن کو ھاتھ میں پکڑا اور اپنی‬
‫ٹانگوں کو تھوڑا سا فولڈ کر کے نیچے‬
‫ھوا اور سر نیچے کر کے ہاتھ فرحت‬
‫کی پھدی پر رکھ کر پھدی کو دیکھنے‬
‫لگ گیا‬
‫پھدی پانی سے گیلی ھوچکی تھی‬
‫میں نے لن کے ٹوپے کو پھدی کے‬
‫قریب کر کے فرحت کے پیچھے سے‬
‫ھی ٹوپا پھدی پر رگڑنے لگا‬
‫فرحت سسکاری مار کر اور جھک گئی‬
‫اور دونوں ھاتھ دیوار پر رکھ کر گانڈ‬
‫پیچھے کو نکال کر کھڑی ھوگئی‬
‫مذید جھکنے سے فرحت کی گانڈ مین‬
‫سے پھدی نظر آنے لگ گئی‬
‫میں نے لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی‬
‫کے پانی سے ٹوپے کو اچھی طرح گیال‬
‫کیا‬
‫اور ٹوپا پھدی پر سیٹ کر کے‬
‫دونوں ھاتھوں سے‬
‫فرحت کی گانڈ کے اوپر سے کمر کو‬
‫پکڑ لیا‬
‫اور ہلکا سا دھکا مار کر لن اندر کیا تو‬
‫پھدی کے گیلے ھونے کی وجہ سا لن‬
‫کافی اندر چال گیا‬
‫فرحت نے ایک ہاتھ پیچھے کرتے‬
‫ھوے میرے پیٹ پر رکھ کر‬
‫ھاےےےےے کیا اور بولی‬
‫ہولیییی یاسرررر۔‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا‬
‫اور دوسری دفعہ فرحت کی کمر کو‬
‫پکڑ کر پورے زور سے گھسا مار کر‬
‫لن کو پھدی کی گہرائی میں پہنچا دیا ۔‬
‫فرحت نے ہاےےے مرگئی‬
‫اففففففف سییییییی کیا اور گردن گھما کر‬
‫غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫آرام نال نئی ہندا‬
‫جانور جیا۔‬
‫میں نے مسکرا کر اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے لن کو واپس کھینچا اور‬
‫پھر دوسری دفعہ بھی ویسے ھی سپیڈ‬
‫سے لن اندر کردیا فرحت کے منہ سے‬
‫پھر آہہہہہہہہہہہ مرگئی نکال۔‬
‫اور ھاےےےےے کرتی بولی‬
‫توں باز نئی آنا۔۔‬

‫میں نے اسکی بات کو سنی ان سنی‬


‫کرتے ھوے‬
‫فرحت کی کمر کو پکڑ کر گھسے‬
‫مارنے شروع کردئیے فرحت‬
‫ھاےےےء ہمممم سییییی ہولی ہولی‬
‫ہولی کرتی رھی‬
‫میرے گھسوں کی سپیڈ تیز ھوتی گئی‬
‫فرحت کے ممے اچھل اچھل کر اسکے‬
‫منہ کی طرف جارھے رھے‬
‫اسکی گانڈ کے ساتھ جب میری رانیں‬
‫ٹکراتی تو فرحت کی گانڈ چھلک چھلک‬
‫جاتی‬
‫کچھ دیر مذید گھسے مارے تو فرحت‬
‫کی پھدی نے منی اگلنا شروع کردی‬
‫اور فرحت نے لمبے سانس لیتے ھوے‬
‫گانڈ میری رانوں کے ساتھ چپکا کر لن‬
‫پورا اندر لے لیا اور پھدی سے لن کو‬
‫جکڑنے لگی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے پھر گھسے‬
‫مارنے شروع کردیے اور پھدی کی‬
‫گرمی اور میرے اندر کی گرمی نے‬
‫مجھے ذیادہ دیر ٹکنے نہیں دیا اور‬
‫میرے آخری جھٹکوں نے فرحت کا‬
‫پورا جسم ہال کر رکھ دیا اور روم میں‬
‫کچھ دیر تھپ تھپ تھپ کی آوازیں اور‬
‫فرحت کی آہیں گونجیں اور میرے لن‬
‫نے فرحت کی پھدی کے اندر ھی اپنا‬
‫سارا غبار نکال دیا اور میں فرحت کی‬
‫کمر کو پکڑے ھوے فرحت کی گانڈ‬
‫کے ساتھ جڑ کر اسکے اوپر ھی اوندھا‬
‫لیٹ گیا اور اس کی کمر کو چومنے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫کچھ دیر میں فرحت کے اوپر ایسے ھی‬


‫جپھی ڈالے لیٹا رھا میرا لن سکڑ کر‬
‫خود ھی پھدی سے باہر آگیا اور میں‬
‫بھی فرحت کے اوپر سے ہٹ کر سیدھا‬
‫ھوگیا‬
‫فرحت جب سیدھی ہوئی تو اسکی پھدی‬
‫سے میری منی پانی بن کر بہنے لگی‬
‫اور اسکی رانوں سے لے کر پاوں تک‬
‫منی کی لکیر بن گئی فرحت نے مجھے‬
‫گھورتے ھوے کہا یاسر تم بڑے ظالم‬
‫ھو‬
‫میں نے ہنستے ھوے اپنی شلوار اوپر‬
‫کر کے ناال باندھتے ھو ے کہا‬
‫سیکس میں ظالم نہ بنو تو پاٹنر کو مزہ‬
‫ھی نہی آتا فرحت بھی اپنی شلوار اوپر‬
‫کرچکی تھی اور کپڑے درست کرتی‬
‫ہوئی بولی مجھے ایسا مزہ نھی چاہیے‬
‫میں اگے بڑھ کر فرحت کے ہونٹ چوم‬
‫کر بوال‬
‫تو میری جان کو کیسا مزہ چاہیے۔‬
‫فرحت میری ناک پر انگلی رکھ کر‬
‫مجھے پیچھے کرتے ھوے بولی رات‬
‫کو آو گے نہ تو بتاوں گی کہ مجھے‬
‫کیسا مزہ چاھیے ۔‬
‫میں نے ایک بار پھر فرحت کے ہونٹوں‬
‫پر کس کی اور بوال اچھا دیکھ لیں گے‬
‫جب وقت آیا‬
‫ابھی میں باہر جا رھا ہوں جب میں‬
‫دروازہ ناک کروں تو تم باہر آجانا‬
‫فرحت نے اثبات میں سر ہالیا اور میں‬
‫نے دروازہ کھوال اور باہر آگیا‬
‫باہر نکال تو جنید ایک کسٹمر کو سوٹ‬
‫دیکھا رھا تھا اور مجھے باہر نکلتا‬
‫دیکھ کر جنید نیچے سر کر کے ہنسنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫میں نے اہنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر‬
‫اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور‬
‫باہر نکل کر فرشی کاونٹر پر چڑھ کر‬
‫چلتا ھوا جنید کے پاس گیا تو جنید آہستہ‬
‫سے مسکراتے ھوے بوال‬
‫بن گیا کام‬
‫میں نے کہا ہممممم‬
‫جنید بوال‬
‫اب میں جاوں اندر‬
‫میں نے کہا ابھی نہیں‬
‫پہلے مجھے اچھی طرح اس سے‬
‫سیٹنگ کر لینے دو پھر تیرے لیے بھی‬
‫اسکو راضی کرلوں گا‬
‫پھر مین نے کہا جلدی سے اس کسٹمر‬
‫کو بشیر حسین کر دے ۔‬

‫دوستو ہماری یہ زبان ھوتی تھی کہ‬


‫جس کسٹمر کو بھگانا ھو یا سوٹ نہ‬
‫دیکھانے ھوں تو ہم آپس میں کہتے‬
‫تھے کہ یہ‬
‫ہوکا پارو ھے اسکو بشیر حسین کردو‬
‫یا لیکاں کردو‬
‫اور جو اچھا کسٹمر ھوتا تھا یا‬
‫خوبصورت بچی ھوتی تھی تو اسے‬
‫دیکھ کر کہتے تھے کہ اسکو چوکس‬
‫کرو یا چوکس بچی ھے ۔‬

‫یہ ہمارے کوڈ ورڈ ہوتے تھے ۔‬

‫خیر‬
‫جنید نے جلدی ہی کسٹمر کو بشیر کر‬
‫دیا‬
‫اور میں نے فرحت کی امی کی طرف‬
‫دیکھا تو وہ بیچاری بیٹھی بیٹھی سوگئی‬
‫تھی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک‬
‫لگا کر آنکھیں بند کئےبیٹھی اونگ رھی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے جنید کو کہا تم ذرہ سائڈ پر ھو‬
‫جاو آنٹی کو اندر سے نکلنے دو پھر‬
‫اجانا ایسے وہ ڈرجاے گی کہ تمہیں‬
‫سب کچھ پتہ ھے‬
‫اور یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے متنفر‬
‫ہوجاے ۔‬
‫جنید سر ہالتا ھوا دکان سے نکل گیا‬
‫تو میں جلدی سے دروازے کے پاس‬
‫پہنچا اور دروازے کو ناک کر کے‬
‫جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ کر سوٹ‬
‫طے کرنے لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد ھی فرحت برقعہ پہنے اور‬
‫نقاب کیے سوٹ ہاتھ میں پکڑے باہر‬
‫آگئی ۔‬
‫اور آکر سیدھی اپنی امی کے پاس گئی‬
‫اور اپنی امی کو کندھے سے ہالتے‬
‫ھوے اٹھاتے ھوے بولی‬
‫امی آپ سو گئی ھو‬
‫تو اسکی امی نے آنکھیں کھولتےھوے‬
‫کہا‬
‫پتر مینوں پتہ ای نئی لگیا کیڑے ٹیم‬
‫میری اکھ لگ گئی‬
‫فرحت نے اپنی امی کو بتایا کہ کوئی‬
‫سوٹ اسے فٹ نھی آیا اور ڈزائنگ بھی‬
‫اچھی نھی لگی‬
‫فرحت اپنی امی کو لے کر مجھے رات‬
‫کو آنے کا اشارہ کرکے چلی گئی‬
‫دکان سے نکلتے وقت ھی جنید بھی آگیا‬
‫اور اس نے فرحت کو بڑے غور سے‬
‫دیکھا اور میری طرف انگلی اور‬
‫انگوٹھے سے گول دائرہ بنا کر اشارہ‬
‫کیا کہ بڑا پوپٹ مال ھے۔‬
‫فرحت چلی گئی اور جنید شروع ہوگیا‬
‫کہ یار آنٹی تو بڑی ذبردست ھے‬
‫کیسے پھنسا لی‬
‫اور اندر جاکر کیا کیا کرتے رھو ھو‬
‫میں نے جنید کو مختصرا بتایا کہ بس‬
‫اس کے ممے دباے اور کسنگ کی‬
‫اصل بات میں حزف کرگیا ۔‬
‫جنید نے بڑی کوشش کی مگر میں نے‬
‫اسکو منگڑت کہانی سنا کر مطمئن کر‬
‫دیا اور کہا کہ اگلی دفعہ اسکی پھدی‬
‫مارنے کی کوشش کروں گا ۔‬
‫شام تک ہم وقفے وقفے سے فرحت کو‬
‫لے کر باتیں کرتے رھے اور پھر سات‬
‫بجے انکل بھی آگئے اور میں انکل کے‬
‫ساتھ ھی دکان بند کرکے گھر آیا‬
‫گھر آکر نہا دھو کر فریش ھوا اور‬
‫کھانا وغیرہ کھا کر میں کچھ دیر باہر‬
‫دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتا‬
‫بجے میں گھر آیا تو ‪9‬رھا تقریبا َ ََ‬
‫سب گھر والے سو رھے تھے‬
‫اور صرف بھائی کمرے میں جاگ‬
‫رھے تھے‬
‫میں کمرے سے ہوتا ھوا بیٹھک میں‬
‫جانے لگا تو بھائی نے مجھے آواز دی‬
‫کہ آجا میرے پاس بھی بیٹھ جایا کر یار‬
‫میں مجبورا ً بھائی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫اور ایک دوسرے کے کاروبار کے‬
‫متعلق باتیں شروع کردیں‬
‫ایک گھنٹہ ہم ایسے ھی باتیں کرتے‬
‫رھے ۔‬
‫تو بھائی نے کہا چنگا یار توں وی سو‬
‫جا کل دکان تے جانا اے تے مینوں وی‬
‫نیندر آرئی اے‬
‫میں نے شکر ادا کیا کہ ٹیم نال ای‬
‫ویرے نوں نیندر آگئی اور‬
‫بیٹھک میں چال گیا اور بھائی کے‬
‫خراٹوں کا انتظار کرنے لگ گیا ۔‬
‫دس پندرہ منٹ ھی گزرے تھے کہ‬
‫کمرا بھائی کے خراٹوں سے گونجنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر کمرے اور‬
‫صحن کا چکر لگا تسلی کر کے واپس‬
‫بیٹھک میں آگیا کہ کوئی جاگ تو نہیں‬
‫رھا مگر سب ھی‬
‫گہری نیند سے ھوے تھے‬
‫میں نے مزید کچھ دیر اور انتظار کیا‬
‫اور پھر کمرے کی طرف والے‬
‫دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور‬
‫تاال اٹھایا جو میں نے ایک خفیہ جگہ پر‬
‫چھپا کر رکھا تھا‬
‫اور چپکے سے باہر کا دروازہ کھوال‬
‫اور گلی میں سر نکال کر دیکھا تو گلی‬
‫میں گھپ اندھیرا تھا دوررر سے پہرے‬
‫دار کی وقفے وقفے سے آواز آرھی‬
‫تھی‬
‫جاگدے رووووو‬
‫میں نے باہر نکل کر بیٹھک کو باہر‬
‫سے کنڈی لگا کر فرحت کے گھر کا‬
‫رخ کیا‬
‫ہر طرف ہو کا عالم تھا‬
‫میں ڈرتا ہوا چال جارھا تھا‬
‫کہ کہیں کسی پہرے دار سے میرا ٹاکرا‬
‫نہ ہوجاے‬
‫کچھ دیر چلنے کے بعد میں فرحت کی‬
‫گلی میں داخل ہوا‬
‫اتو گلی میں بھی کافی اندھیرا تھا‬
‫مجھے چلتے چلتے ایسے لگتا جیسے‬
‫میرے پیچھے کوئی آرھا ھے‬
‫اور میں ایکدم پیچھے گھوم کر دیکھتا‬
‫تو کسی کو بھی نہ پاتا‬
‫بس میرا وہم مجھے ڈراے جارھا تھا ۔‬
‫مشکل سے میں فرحت کے گھر کے‬
‫پاس پہنچا ھی تھا کہ‬
‫مجھے پیچھے سے‬

‫مجھے اپنے پیچھے سے کتے بھونکتے‬


‫ہوے اپنی طرف دوڑتے نظر آے میں‬
‫تو پہلے ھی اندر سے ڈرا ہوا تھا کتوں‬
‫کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے‬
‫جلدی سے بیٹھک کے دروازے کو اندر‬
‫دھکیال اور دروازہ حسب وعدہ کھال‬
‫ہونے کی وجہ سے اندر کو کھلتا گیا‬
‫اور میں دوڑ کر اندر داخل ہوگیا ۔‬
‫سامنے ھی فرحت چار پائی پر لیٹی‬
‫ہوئی تھی مجھے یوں اچانک اندر داخل‬
‫ہوتے ھوے گبھرا کر سینے پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوے اٹھ کر بیٹھتے ہوے بولی ۔‬
‫ہاےےےے***کون اےےےےےےے‬
‫جب فرحت کی مجھ پر نظر پڑی تو‬
‫کچھ سنبھل گئی اور گبھراے ھوے‬
‫بولی‬
‫خریت تو ھے یاسر کیا ھوا‬
‫میں نے لمبے لمبے سانس لیتے ھوے‬
‫کہا وہ کتے میرے پیچھے پر گئے تھے‬
‫فرحت ہنس کر میری طرف ھاتھ سے‬
‫اشارہ کرتے ھوے بولی‬
‫جا اوے کوئی حال نئی تیرا میری تے‬
‫جان ای کڈ دتی سی ۔‬
‫میں نے دروازے کو اندر سے الک کیا‬
‫اور فرحت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور‬
‫اپنی تیز چلتی ہوئیں سانسوں کو درست‬
‫کرنے لگ گیا۔‬
‫فرحت بولی‬
‫اتنی دیر کردی آنے میں‬
‫میں نے کہا‬
‫بس یار میں نے جلدی آجانا تھا مگر‬
‫بیٹھک میں بارے وقت بھائی نے مجھے‬
‫پاس بیٹھا لیا تھا اور ادھر ادھر کی‬
‫باتوں میں کافی وقت لگ گیا تھا اور‬
‫ویسے بھی دکان سے بھی لیٹ آیا تھا‬
‫اس وجہ سے دیر ہوگئی ۔‬
‫فرحت بولی میں تو سمجھی شاید نواب‬
‫صاب کا دل بھر گیا ھوگا‬
‫میں نے فرحت کے پٹ پر ھاتھ پھیرتے‬
‫ھوے اسکی نرم نرم جلد کو مٹھی میں‬
‫بھر کر کہا‬
‫دل بھر جاے اور وہ بھی تم جیسی‬
‫سیکسی اور خوبصورت حسن کی دیوی‬
‫سے ۔‬

‫کدییییی ویییی نئییییی‬


‫فرحت اپنے پٹ پر رکھے میرے ھاتھ‬
‫کو پکڑتے ھوے سیییییی کرتی ہوئی‬
‫بولی‬
‫مسکے لگانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔‬
‫میں نے برا سا منہ بناتے ھوے روٹھنے‬
‫کے انداز میں کہا‬
‫میرا پیار تمہیں مسکا لگتا ہے‬
‫جاو میں نہیں بولتا۔‬

‫فرحت میری کمر کے گرد بازو ڈال کر‬


‫اپنے ممے میرے ساتھ لگا کر بولی ۔‬

‫چچچچچچ میرا کاکا ناجججج ہوگیا‬


‫اےےےے۔‬
‫میں نے کہا‬
‫کاکے کو اب دودھو پالو گی تو کاکا‬
‫مانے گا۔‬

‫فرحت بولی چل آ میرا کاکا‬


‫میں اپنے کاکے کو گودی میں بٹھا کر‬
‫دودھو پالتی ہوں ۔‬
‫میں نے ہنستےہوے کہا کاکے نے‬
‫گودی میں نئی بلکہ اوپر لیٹ کر دودھو‬
‫پینا ھے ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں اٹھ کر کھڑا‬
‫ہوگیا تو فرحت بھی ہنستی ھوئی‬
‫چارپائی سے اتر کر کھڑی ھوگئی ۔‬
‫میں نے فرحت سے اسکی امی کا پوچھا‬
‫تو فرحت بتایا کہ آج میں نے انکو نیند‬
‫کی گولی دے دی ھے انکی طرف سے‬
‫بےفکر رھو‬
‫اور یہ کہتے ھوے ہم دونوں بیٹھک‬
‫سے نکل کر فرحت کے کمرے کی‬
‫طرف چل دئیے۔‬
‫کمرے میں پہنچ کر فرحت نے مجھے‬
‫بیٹھنے کا کہا اور خود ایک منٹ آئی‬
‫کہہ کر باہر چلی گئی‬
‫میں جوتا اتار کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔‬
‫دس پندرہ منٹ میں بیٹھا فرحت کا‬
‫انتظار کرتا رھا تو محترمہ مجھ غریب‬
‫پر بجلیاں گرانے کے لیے جلوہ گر‬
‫ہوئی تو میں اس سیکسی لیڈی کو دیکھ‬
‫کر دیکھتا ھی رھ گیا ۔‬
‫بلیک کلر کی سوفٹ سلک میں نائٹی‬
‫پہنے اپنے لمبے بال کھولے ھوے ھاتھ‬
‫میں ٹرے پکڑے جس میں ایک جگ‬
‫اور گالس تھا‬
‫مستانی چال چلتی کولہوں کو ہالتی‬
‫چلتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی اور میری‬
‫للچائی نظروں کو اپنے سیکسی جسم کا‬
‫ایکسرا کرتے دیکھ کر گالبی پنکھڑیوں‬
‫پر مسکان التے ھوے آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر‬
‫رومینٹک انداز سے بولی دیکھنا نظر نہ‬
‫لگا دینا۔‬
‫میں نے آہہہہہہہہ بھری اور میرے لب‬
‫ہلے‬

‫کچھـ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے‬


‫جب تک ہمارے پاس رہے‪ ،‬ہم نہیں‬
‫رہے‬
‫پھر‬
‫میں نے کہا بیشک تم اتنی حسین ھو کہ‬
‫میری کہیں نظر نہ لگ جاے‬
‫فرحت سائڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر بڑے‬
‫الڈ سے میری ناک کو پکڑ کر ہالتے‬
‫ھوے بولی تم بھی ناں۔۔۔۔‬

‫میں بے اختیار بول پڑا‬


‫دھیان میں آ کر بیٹھ گئی ہو تم بھی ناں‬
‫مجھے مسلسل دیکھ رہی ہو تم بھی ناں‬

‫دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے‬


‫جیسے پہلی بار ملی ہو تم بھی ناں‬

‫ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں‬


‫مجھ میں ایسے آن بسی ہو تم بھی ناں‬

‫عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا‬


‫اب تو تم بھی کہہ دیتی ہو تم بھی ناں‬

‫فرحت میرے پاس بیڈ پر بیٹھتے ھوے‬


‫میرے ہاتھوں کو ہاتھ میں لے کر بولی‬

‫خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں‬


‫میں‬
‫آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں‬

‫بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو‬


‫اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں‬

‫میں نے فرحت کے ہاتھوں کو اوپر کیا‬


‫اور اسکے گورے ہاتھوں کو چوم کر‬
‫بوال‬

‫میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتی ہو‬


‫مجھ کو اتنا جان چکی ہو تم بھی ناں‬

‫فرحت شرما کر اٹھ کر مجھ سے اپنا‬


‫ہاتھ چھڑوا کر باہر جانے کے لیے‬
‫اٹھی‬
‫تو میں اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے‬
‫پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرحت‬
‫سیدھی میری لمبی کی ہوئی ٹانگوں کے‬
‫اوپری حصے رانوں پر لیٹتی گئی تو‬
‫میں اسکے بالوں کو سہالتے ھوے‬
‫بوال‬

‫مانگ رہی ہو رخصت اور خود ہی‬


‫ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھی ہو تم بھی ناں‬
‫فرحت کر سر میرے لن کے اوپر تھا‬
‫اور اسکے لمبے گیسو بیڈ پر اپنے ہر‬
‫پھالے ھوے تھے فرحت کی ٹانگیں بیڈ‬
‫سے نیچے تھیں‬
‫اور میں فرحت کے بالوں کو سہالتا‬
‫ھوا‬
‫اسکی بڑی بڑی آنکھوں اور گالبی‬
‫پنکھڑیوں کے نشیب وفراز کو دیکھ کر‬
‫انپر شاعری کے توڑ جوڑ لگا رھا تھا۔‬
‫فرحت‬
‫بھی کسی کنواری دوشیزہ کی طرح ناز‬
‫نخرے دیکھا کر میرے جزبات کو مذید‬
‫گرما رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت میری رانوں سے‬
‫سر اٹھاتے ھوے اور اپنے گیسوؤں کو‬
‫کو اپنی انگلیوں سے سہالتی ہوئی‬
‫اٹھتے ھوے بولی‬
‫یاسر پہلے دودھ پی لو ۔‬
‫میں نے ہاتھ اوپر کر کے پیچھے سے‬
‫فرحت کی بغلوں ڈال کر آگے کی طرف‬
‫کر کے اسکے تنے ھوے دونوں مموں‬
‫کو پکڑ کر دباتے ھوے کہا‬
‫میں تو ان پیالوں کو منہ لگا کر دودھ‬
‫پیوں گا ۔‬
‫فرحت میرے ہاتھوں پر ھاتھ رکھتے‬
‫ہوے منہ چھت کی طرف کر کے بولی‬
‫سییییییییی‬
‫اور پھر سر نیچے کرے میری طرف‬
‫شراب کے نشے سے چور آنکھوں کا‬
‫وار کرتے ھوے بولی‬
‫میری جان پہلے جگ واال دودھ تو ختم‬
‫کرلو پھر ان پیالوں کو بھی جی بھر کر‬
‫پی لینا۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے فرحت اٹھی اور‬
‫اسکی سلکی نائٹی سے اسکے مموں‬
‫سے پھسلتے ھوے میرے ہاتھ اسکے‬
‫پیٹ سے ہوتے ھوے اسکی گانڈ تک‬
‫آگئے اور فرحت آگے کو ہوئی تو‬
‫فرحت کی گانڈ بھی میرے ھاتھوں سے‬
‫نکل گئی اور فرحت گول مٹول کو گانڈ‬
‫کو لہراتی ھوئی‬
‫بیڈ کے سائڈ ٹیبل کی طرف گئی اور‬
‫جگ میں سے دودھ کو گالس میں ڈال‬
‫کر میری طرف گالس بڑھایا میں نے‬
‫گالس پکڑ کر منہ کو لگا کر ایک ھی‬
‫سانس میں گالس خالی کیا تو فرحت نے‬
‫گالس میں پھر دودھ ڈال کر میری‬
‫طرف بڑھا دیا‬
‫میں نے انکار کیا تو فرحت نے‬
‫ذبردستی مجھے دوسرا گالس بھی پالدیا‬

‫میں نے انکار کیا تو فرحت نے‬


‫ذبردستی مجھے دوسرا گالس بھی‬
‫پالدیا‬
‫دودہ نیم گرم تھا اور اس میں بادام کی‬
‫گریاں ڈالی ہوئیں تھی‬
‫میں بھی مزے لے کر پی گیا ۔‬
‫اور گالس خالی کر کے فرحت کی‬
‫طرف بڑھاتے ھوے کہا بسسسسس‬
‫فرحت ہنس کر بولی ایک گالس تو اور‬
‫پی لو۔‬
‫میں منہ میں بڑبڑایا۔‬
‫کہ توں کیڑا اندر رہن دینا اے جنا‬
‫مرضی پی لواں‬

‫فرحت نے چونک کر میری طرف‬


‫دیکھا اور بولی کیا کہا۔‬
‫میں نے کہا کچھ نھی جناب ۔۔۔۔‬
‫میری کیا مجال کہ میں کوئی گستاخی‬
‫کرسکوں۔‬

‫فرحت بولی تم بھی ناں بہت پہنچی‬


‫ھوئی روح ھو۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے اپنے سینے پر‬


‫ہاتھ رکھتے ھوے کہا‬

‫واقعی جتھے کوئی نئی پہنچ سکتا‬


‫اوتھے اے روح پہنچ جاندی اے‬
‫کچھ دیر مذید ہم آپس میں طنز و مذاح‬
‫کرتے رھے ۔‬
‫پھر فرحت اٹھی اور دروازہ بند کر کے‬
‫کنڈی لگادی اور پردہ آگے کو کھسکا‬
‫کر میری طرف کیٹ واک کرتی ہوئی‬
‫آئی ۔۔۔‬
‫فرحت بلیک نائٹی میں بہت ھی سیکسی‬
‫لگ رھی تھی اور اسکا گورا رنگ‬
‫کالے لباس میں بلکل کوئلے کی کان‬
‫میں چمکتے ھوے ہیرے جیسا لگ رھا‬
‫تھا‬
‫اوپر سے چھتیس سائز کے تنے ھوے‬
‫ممے ‪ 38‬سائز کی گول مٹول گانڈ‬
‫تیس کی کمر‬
‫ہلکا سا باہر کو نکال پیٹ‬
‫اس وقت وہ کسی ماڈل گرل سے کم‬
‫نھی لگ رھی تھی ۔‬
‫ایک تو اس کا سیکسی جسم دیکھ کر‬
‫میرا پہلے سے ھی دماغ خراب ہوچکا‬
‫تھا‬
‫اوپر سے گرم دودھ پی کر میرا تو برا‬
‫حال تھا ھی مگر میرا گھوڑا تو سر‬
‫اٹھاے میری شلوار کو پھاڑ کر باہر‬
‫نکلنے کے لیے بے چین تھا۔‬
‫دودہ پی کر مجھ پر عجیب سا نشہ سوار‬
‫ھو رھا تھا اور میرا حلق خشک ھورھا‬
‫تھا‬
‫میری آنکھوں سے اور کانوں سے‬
‫سینک نکل رھا تھا ۔‬
‫میرا دل کررھا تھا کے ابھی اپنے‬
‫سارے کپڑے اتار کر پھینک دوں ۔‬
‫فرحت آکر بیڈ پر چڑھی اور ٹانگوں کو‬
‫پھیالتے ہوے میرے ساتھ بیٹھ کر میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے بولی ۔۔۔۔۔‬

‫یاسر مجھے اس حالت میں دیکھ کر تم‬


‫میرے بارے میں کچھ غلط مت سوچنا‬
‫میں صرف تمہارے لیے تیار ہوئی ہوں‬
‫اور یہ نائٹ ڈریس اس مالقات کو حیسن‬
‫بنانے کے لیے صرف تمہارے لیے ھی‬
‫پہنا ھے اور زندگی میں پہلی دفعہ‬
‫مجھے شوق پیدا ھوا ھے کہ میں ایسا‬
‫لباس پہنوں‬
‫اور وہ بھی صرف اور صرف تمہارے‬
‫ھی لیے‬
‫یاسر مجھے خود نہیں پتہ کہ میں‬
‫تمہاری طرف کیوں کھینچی چلی آئی‬
‫جبکہ تم مجھ سے بہت چھوٹے ھو‬
‫مگر تم میں ایک ایسے مرد جیسی‬
‫خصوصیات ہیں کہ کسی بھی لڑکی کو‬
‫تم اپنا دیوانہ بنا سکتے ھو ۔‬
‫اور اسکا منہ بولتا ثبوت میں خود ہوں‬
‫نہ چاہتے ھوے بھی میرے قدم تمہاری‬
‫طرف بڑھے ہیں ۔‬
‫میں نے فرحت کا ہاتھ پکڑا اور اپنے‬
‫ہاتھ میں لے کر دوسرے ھاتھ سے اسکا‬
‫ھاتھ سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫فرحت میں نے جب پہلی دفعہ تمہارا‬
‫جسم دیکھا تھا تو تب سے میرے اندر‬
‫تمہیں پانے کی تڑپ پیدا ھوگئی تھی‬
‫مگر میں ڈرتا تھا کہ کہیں‬
‫تم میرے گھر میری شکایت نہ لگا دو‬
‫مگر جب پہلی دفعہ تم سے سیکس کیا‬
‫تو‬
‫میری برسوں کی پیاس اور تمہیں پانے‬
‫کی آرزو تمہارے ساتھ سکیس کرنے‬
‫کے بعد ختم ھونے کی بجاے مذید‬
‫بڑھتی گئی ۔‬
‫میرا تو دل کرتا ھے کہ میری ہر رات‬
‫تمہارے پہلو میں گزرے‬
‫تمہارے ان گیسووں کی چھاوں میں‬
‫ساری رات گزاروں تمہارے اس نازک‬
‫جسم کو ساری رات اپنی باہوں میں بھر‬
‫کر تمہارے اس مخملی جسم کا لمس‬
‫پاوں ۔‬
‫تمہارے یہ بڑے بڑے دودھ کہ پیالوں‬
‫کو اپنے لبوں سے لگا کر رات بھر‬
‫انکو پیتا رھوں‬
‫اور تمہیں بے لباس کر کے تمہارے اس‬
‫ریشم جیسے مالئم جسم کے ہر اعضاء‬
‫کو چومتا چاٹتا رھوں ۔‬

‫میں فرحت کے جسم کی تعریف اور‬


‫اس سے رومینٹک باتیں کرتا ھوا‬
‫اس کے ہر ہر اعضاء کو سہالتا جاتا۔‬
‫فرحت میری باتیں سن کر بے چین‬
‫ہوکر مجھ سے لپٹ گئی ۔‬
‫اور میرے ہونٹوں میں ہونٹ بھر کر‬
‫مجھے اپنے ساتھ بیڈ پر دراز ہوگئی ۔‬
‫ہم دونوں سائڈ کے بل ایک دوسرے‬
‫سے چمٹے ھوے تھے فرحت کہ ممے‬
‫میرے سینے کے ساتھ چپکے ھوے‬
‫تھے میرا اکڑا ھوا لن میرے کپڑوں‬
‫سمیت فرحت کی سلکی نائٹی کو بھی‬
‫لے کر فرحت کی رانوں میں پھدی کو‬
‫رگڑتا ہوا گھسا ھوا تھا اور فرحت نے‬
‫اپنی رانوں میں میرے لوہے کے راڈ کو‬
‫جکڑا ھوا تھا‬
‫ہم دونوں کے بازو ایک دوسرے کی‬
‫کمر کے گرد لپٹے ہوے تھے ۔‬
‫دو جسم ایک جسم ہونے جارھے تھے ۔‬
‫آگ تھی کہ دونوں کہ اندر جل رھی‬
‫تھی ۔‬
‫بےچینی تھی کہ دونوں کو تڑپا رھی‬
‫تھی ۔‬
‫پیاس تھی کے بجھنے کا نام نھیں لے‬
‫رھی تھی ۔‬
‫وقت تھا کہ تھم گیا تھا‬
‫ہونٹوں میں ہونٹ جکڑے زبانوں کی‬
‫لڑائی جاری تھی ۔‬
‫پھدی کی بے چینی اور لن کی تڑپ دیدہ‬
‫زیب تھی ۔‬
‫فرحت کا جنون کسی کنواری کنیا سے‬
‫کم نہ تھا ۔‬
‫فرحت آج اپنی ساری حسرتیں پوری‬
‫کرنے کے پر تول رھی تھی ۔‬
‫میرے دماغ سن ہوتا جارھا حلق خشک‬
‫اور لن سخت ہوچکا تھا ۔‬
‫کچھ دیر دو جسم بیڈ پر سانپوں کے ملن‬
‫کی طرح ایک دوسرے سے لپٹے‬
‫پورے بیڈ پر گھومتے رھے‬
‫کبھی فرحت میرے اوپر تو کبھی میں‬
‫فرحت کے اوپر ۔‬
‫بیڈ کی چادر ایسے ہوچکی تھی جیسے‬
‫اسپر گھمسان کی جنگ ہوچکی ھو ۔‬
‫آخر کار فرحت کے جسم کو چند‬
‫جھٹکے لگے اور اسکی رانوں نے‬
‫اپنے بیچ پھنسے میرے پھٹتے ھوے لن‬
‫کا کچومر نکالنے کی کوشش کی مگر‬
‫لن اسکی جکڑ کی پرواہ نہ کرتے ھوے‬
‫ویسے کا ویسا راڈ بنا رھا‬
‫اور فرحت میرے نیچے لمبے لمبے‬
‫سانس لیتی اپنی ہار مان گئی‬
‫اور میرے لن نے اسکی پھدی کو دبا‬
‫کر دھول چٹانے کا اعالن کردیا۔‬
‫فرحت کی آنکھیں بند تھی اور ہاااااا‬
‫آہہہہہہہہ ھمممممممم کر کے لمبے‬
‫لمبے سانس لے رھی تھی ۔‬
‫اسکی پھدی میرے لن کی سختی کو‬
‫دیکھ کر اپنے سارے آنسو بہا چکی تھی‬
‫۔‬
‫کچھ دیر بعد میں گھٹنوں کے بل فرحت‬
‫کی رانوں کے اوپر بیٹھ گیا اور فرحت‬
‫میرا وزن اٹھاے ٹانگیں سیدھی کئے‬
‫بلکل سیدھی لیٹی رھی ۔‬
‫میں نے فرحت کی نرم رانوں پر بیٹھے‬
‫اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور قمیض‬
‫اور بنیان کو ایک ساتھ ھی اتار دیا ۔‬
‫اور فرحت کے پیٹ پر نائٹی کی بیلٹ‬
‫کی لگی گانٹھ کو کھول کر نائٹی کے‬
‫دونوں پٹ کھول کر فرحت کے گورے‬
‫گورے جسم کو ننگا کر دیا ۔‬
‫فرحت نے بریزیر بھی نہیں پہنا ھوا تھا‬
‫جسکی وجہ سے فرحت کے گول مٹول‬
‫چٹے سفید ممے چمکتے ھوے نمودار‬
‫ھوے‬
‫اور اسکے مموں پر براوں دائرے کے‬
‫اوپر تنے ھوے گول نپل میری طرف‬
‫دیکھ کر مسکراتے ھوے نظر آے ۔‬
‫میں نے فرحت کی رانوں پر بیٹھے‬
‫ھوے ھی اپنےدونوں ھاتھ آگے کی‬
‫طرف بڑھاے اور دونوں ھاتھوں میں‬
‫فرحت کے دودھ سے بھرے پیالوں کو‬
‫مٹھیوں میں بھر لیا ۔‬
‫آہہہہہہہہہہہہ ھااااااا کیا نظارہ تھا کیا‬
‫نرم مالئم ممے تھے جیسے میری‬
‫مٹھیوں میں روئی کے دوگولے ہوں ۔‬
‫ادھر میری مٹھیاں فرحت کے ممے کو‬
‫بھینچتی ادھر فرحت میرے ہاتھوں پر‬
‫اپنے ہاتھ رکھ کر منہ چھت کی طرف‬
‫کئے سر کو مزید اوپر کر کے‬
‫اففففففف سییییییییی کرتی ھوئی‬
‫آہیں بھرتی ۔‬
‫فرحت تو برسوں سے پیاسی ہونے کا‬
‫منظر پیش کررھی تھی‬
‫اسکی ہر ہر ادا‬
‫مجھے جلد بازی کرنے پر اکسا رھی‬
‫تھی‬

‫مگر میں آج اب کچھ ٹھہر ٹھہر کر کرنا‬


‫چاہتا تھا ۔‬
‫ساری رات پڑی تھی‬
‫نہ کسی کے آنے کا ڈر اور نہ جانے‬
‫کی جلدی ۔‬
‫آج وقت بھی میرا تھا اور پہلو نشین‬
‫صنم کا جسم بھی میرا تھا‬
‫تو پھر بھی اپنی مرضی نہ کرتا تو‬
‫مجھ سے بڑا‬
‫پُھدو کون ہونا تھا۔‬
‫فرحت نے جو آگ میرے اندر بھڑکائی‬
‫تھی‬
‫اسے اب ساری رات اسی آگ میں جلنا‬
‫تھا ۔‬
‫میں نے کچھ دیر فرحت کے مموں کو‬
‫سہالتےھوے‬
‫فرحت کی سسکاریاں نکالی ۔‬
‫اور پھر اسکی رانوں سے کھسکتا ھوا‬
‫اپنی گانڈ کو پیچھے لے گیا اور اسکے‬
‫اوپر ھی الٹا لیٹ گیا‬
‫فرحت کی نائٹی کا اپر کھل چکا تھا‬
‫نیچے بس سلکی ٹراوزر تھا جس میں‬
‫چھپی اسکی گیلی پھدی اور اسکے اوپر‬
‫میری شلوار میں چھپا لوھے کا راڈ جو‬
‫پھر اسکی رانوں میں گھس گیا تھا‬
‫اوپر سے دونوں کے ننگے جسم پھر‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے تھے ۔‬
‫میں تھوڑا سا اور پیچھے کو کھسکا‬
‫اور‬
‫اپنا منہ فرحت کے گول مٹول تنے ہوے‬
‫مموں پر لے ایا اور پہلے ایک پیالے‬
‫کو منہ لگا کر جی بھر کر پینے لگا‬
‫مگر من کی پیاس مذید برھتی جارھی‬
‫تھی ۔‬
‫جب ایک سے جی نہ بھرا تو اس سے‬
‫ہونٹ ہٹاے اور دوسرے پیالے کو ہونٹ‬
‫لگا کر جی بھر کر پینے لگ گیا‬
‫فرحت کی سسکاریاں پورے کمرے میں‬
‫گونج رھی تھی‬
‫اور وہ کمر کو اٹھا کر اپنے مموں کو‬
‫میرے منہ کے ساتھ چپکا رھی تھی‬
‫فرحت کا بس نہیں چل رھا تھا کہ اپنا‬
‫سارا مما میرے منہ کے اندر ڈال دیتی ۔‬
‫مگر میرا منہ چھوٹا تھا اور فرحت کا‬
‫مما بڑا تھا‬
‫مگر ممے کی سوفٹنس اتنی تھی کے‬
‫میرے منہ کے اوپر فرحت کا مما ایسے‬
‫دب جاتا جیسے میں نے مممے کا‬
‫ماسک اپنے منہ پر پہنا ھو۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت نے مجھے کندھوں‬
‫سے پکڑ کر ایک طرف کیا تو میں‬
‫اسکے اوپر سے پلٹ کر اسکے ساتھ‬
‫سیدھا لیٹ گیا تو فرحت اٹھی اور اپنی‬
‫نائٹی کو اہنے کندھوں سے اتارتے‬
‫ھوے بازوں سے نکال کر ایک طرف‬
‫رکھ دیا اور پھر میرا ناال پکڑ کر اسکی‬
‫گرا کھول دی اور شلوار کو ڈھیال کر‬
‫کے نیچے کھینچنے لگ گئی میں نے‬
‫بھی گانڈ اٹھا کر شلوار اتارنے میں‬
‫فرحت کی مدد کی ۔‬
‫فرحت نے میری شلوار اتار کر ایک‬
‫طرف رکھ دی‬
‫میں اب مادر ذاد ننگا لیٹا ہوا تھا جبکہ‬
‫فرحت ٹراوزر پہنے میرے لن کے پاس‬
‫دوزانوں بیٹھی میرے اکڑے اور چھت‬
‫کے طرف منہ کئے اھوے لن کو‬
‫آنکھیں پھاڑے دیکھ رھی تھی‬
‫جیسے پہلی دفعہ میرا لن دیکھ رھی‬
‫ھو‬
‫اور میرا لن اسے سٹیٹ کھڑا تھا جیسے‬
‫باڈر پر کوئی فوجی احساس حالت میں‬
‫الرٹ کھڑا ھو ۔‬
‫اور حاالت بھی کچھ ایسے تھے‬
‫کسی وقت بھی لن اور پھدی کی جنگ‬
‫چھڑ سکتی تھی ۔‬
‫فرحت دوزانوں بیٹھی گھٹنوں کے بل‬
‫پیچھے کو ہو کر میرے لن کو مٹھی‬
‫میں پکڑ کر ہالتے ھوے‬
‫منہ سی اففففففففف‬
‫کرتے ھوے اپنے سر کو جھکا کر‬
‫میرے لن کی طرف الئی اور اپنی‬
‫گالبی پنکھڑیوں کو کھول کر فوجی کی‬
‫ٹوپی پر رکھ کر ایک بوسا لیا ۔‬
‫فرحت کے ہونٹوں کا لمس میرے لن‬
‫کے ٹوپے کو مزید پھولنے پر مجبور‬
‫کر رھا تھا‬
‫مزے کی لہر نے میرے منہ سے بھی‬
‫سسکاری نکال دی ۔‬
‫فرحت نے پتہ نہیں کس انگریجی میم‬
‫کی مووی دیکھی تھی جو آج وہ سب‬
‫کچھ کرنے پر مجبور ھورھی تھی ۔‬
‫فرحت نے ٹوپے کو ایک بار چوما اور‬
‫دوسری دفعہ ٹوپے کو کناروں تک‬
‫ہونٹوں میں بھر کر ایک لمبا سا چوسا‬
‫لے کر ہونٹوں کو ڈھیال چھوڑ کر پھر‬
‫ہونٹوں کی گرپ ٹوپے کے گرد سخت‬
‫کرتے ھوے ایسے چوسا لگایا جیسے‬
‫گرمیوں میں برف والے گولے کو چوسا‬
‫لگاتے ہیں ۔‬
‫پھر فرحت نے ٹوپے کو ہونٹوں میں‬
‫بھرے ھوے اپنی زبان کی نوک کو‬
‫ٹوپے کی ہونٹوں کے بیچ پھیر کر ٹوپے‬
‫کے ہونٹوں کو چھیڑنے لگ گئی ۔‬

‫افففففففففف آہہہہہہہہہہہہہہہ سییییییییی‬


‫۔میرے منہ سے بےاختیار نکلنے لگ‬
‫‪.‬گئیں‬
‫فرحت بڑے سلو موشن سے میرے‬
‫ٹوپے کے ساتھ کھیل رھی تھی ۔‬
‫میری برداشت دم توڑ رھی تھی‬
‫ٹوپا پھول پھول کر پھنکار رھا تھا‬
‫میرے لن کی رگیں پھٹنے والی ہو چکی‬
‫تھی ۔‬
‫فرحت کی نرم ہتھیلی میرے لن کا‬
‫آحاطہ کیے ھوے تھی‬
‫کچھ دیر میرے لن اور فرحت کے‬
‫ہونٹوں کا کھیل جارھی رھا مجھ سے‬
‫اب صبر نہ ھو رھا تھا‬
‫تو میں نے فرحت کی ٹانگوں کو کھینچ‬
‫کر اپنے منہ کی طرف کیا اور ایک ہاتھ‬
‫سے ھی اپنی انگلیاں اسکے ٹراوز کی‬
‫السٹک میں پھنسا کر انگلیوں کی مدد‬
‫سے اس کے ٹراوزر کو نیچے‬
‫کھینچنے لگا تو فرحت نے دوسری‬
‫طرف سے خود ھی ٹراوز کو پکڑ کر‬
‫نیچے کھینچ دیا اور اسکی چٹی سفید‬
‫گانڈ میرے سامنے تھی اور اسکی گانڈ‬
‫کے دونوں پٹ میرے منہ کی طرف‬
‫تھے ۔‬
‫میں نے فرحت کے ٹراوزر کو اسکے‬
‫ٹانگوں سے بھی کھینچ کر اتار دیا اور‬
‫اسکی ایک ٹانگ کو پکڑ کر اپنے اوپر‬
‫سے گزار کر فرحت گانڈ کو اپنے منہ‬
‫کے اوپر لے آیا‬

‫اب فرحت کی پھدی میرے منہ کے‬


‫اوپر تھی اور فرحت کے ممے میرے‬
‫پیٹ کے ساتھ لگ رھے تھے اور‬
‫فرحت میرے لن کو منہ میں لیے میرے‬
‫اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی ۔‬
‫میں نے فرحت کی پھدی کو غور سے‬
‫دیکھا تو پھدی پانی سے فل گیلی تھی‬
‫اور پھدی کے سمیل میرے نتھنوں میں‬
‫داخل ھورھی تھی ۔‬
‫میں نے لمبی سانس اندر کھینچ کر‬
‫پھدی کی سمیل کو اہنے دماغ میں اتار‬
‫لیا ۔‬
‫اور فرحت کی دونوں رانوں کو پکڑ کر‬
‫اپنی زبان باہر نکالی اور پھدی کے‬
‫دانے کو زبان کی نوک سے چھیرڑنے‬
‫لگ‪ ،‬گیا ۔‬
‫جیسے ھی میری زبان نے فرحت کی‬
‫پھدی کے دانے کو چھوا‬
‫فرحت نے مزے سے سسکاری بھرتے‬
‫ھوے لن کو ہونٹوں میں ذور سے بھینچ‬
‫لیا اور ذور ذور سے لن کو چوستے‬
‫ھوے میرے منہ کے اوپر ھی اپنی گانڈ‬
‫کو ہالنے لگی ۔‬
‫ادھر جیسے ھی فرحت نے میرے لن‬
‫کو ذور ذور سے چوسنا شروع کیا تو‬
‫مزے کی شدت سے میں نے پھدی کے‬
‫دانے کو ھی منہ میں بھر لیا اور اسے‬
‫چوسنے لگا گیا ۔‬
‫ادھر میری زبان سے پھدی کا مزہ اور‬
‫سواد فرحت میرے لن پر نکالتی ۔‬
‫ادھر فرحت کے منہ میں اپنے لن کا‬
‫مزہ اور سواد میں فرحت کی پھدی کے‬
‫دانے اور اسکی پھدی کی ہڈی کے اوپر‬
‫لٹکی جھلی کو زبان سے چاٹ چاٹ ۔‬
‫کر نکالتا ۔‬
‫قسمت کب دھوکا دیتی ھے‬
‫انسان کو نہیں پتہ چلتا‬
‫ابھی پھدی چاٹنے سے میرا دل بھی‬
‫نہیں بھرا تھا ابھی میری پیاس بھی نہیں‬
‫بھجی تھی ابھی میں پھدی کو مذید چاٹنا‬
‫چاہتا تھا مگر قسمت کو کچھ اور‬
‫منظور تھا‬
‫میرے سارے ارادے پر پھدی سے‬
‫نکلنے واال پانی پھر گیا اور پھدی سے‬
‫پانی کا فواراہ چھوٹا جس نے میرا سارا‬
‫منہ بھر دیا اور فرحت نے دوسرا ظلم‬
‫یہ کیا کہ اپنی گانڈ کا وزن میرے منہ‬
‫پر ڈال دیا اور ظلم پر ظلم کہ ادھر‬
‫میرے لن پر دانت گاڑ ٰدیے ۔‬

‫اففففففف یارو تُسی دسو بھئ اینج دا وی‬


‫کی مزہ کہ اگلے دی پین نوں لن وڑ‬
‫جاوے تے جناب دا ُچھٹن دا سٹائل بن‬
‫جاوے ۔‬

‫دوستو‬
‫اوپر سے میرا سانس بند اور نیچے سے‬
‫میرے لن میں درد ۔‬
‫مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے‬
‫پھدی کے ہونٹوں کو ھی اپنے دانتوں‬
‫میں بھینچ کر اپنے لن کی جان‬
‫چھڑوائی‬
‫اور فرحت ہاےےےےےےےےے‬
‫مرگئییییییی کرتی ہوئی میرے لن کو‬
‫چھوڑ کر اپنی چوت کو چھڑوانے کے‬
‫لیے گانڈ اوپر کر کے جھٹکا مار کر‬
‫میرے اوپر سے اٹھتی ہوئی میرے ساتھ‬
‫گری اور ٹانگوں کو پھیال کر پھدی کو‬
‫ھاتھ سے مسلتے ھوے‬
‫سیییییییییییی اور پھدی ہر پھونکیں‬
‫مارتے ھوے پھووووو پھووووووو‬
‫پھوووووو کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں بھی جلدی سے ایک ہاتھ سے اپنا‬
‫منہ صاف کرتے ھوے اور ایک ھاتھ‬
‫سے اپنے لن کو۔مسلتے ھوے‬
‫فرحت کے سٹائل میں ٹانگیں پھیال کر‬
‫بیٹھ کر سیییییییی کرنے لگ گیا۔‬
‫ادھر پھدی زخمی تھی‬
‫ادھر لن زخمی تھا ۔‬
‫قصور سارا جنون کا تھا۔‬
‫نہ فرحت میری طرف دیکھ رھی تھی‬
‫نہ میں فرحت کی طرف‬
‫اسے اپنی پھدی کی اور مجھے اپنے لن‬
‫کی پڑی تھی ۔‬
‫مگر میں حیران تھا کہ‬
‫میرے لن پر فرحت کے دانت لگنے کی‬
‫وجہ سے جلن اور درد کے باوجود بھی‬
‫میرے لن کی آکڑ نھی ٹوٹی تھی‬
‫ساال ویسے کا ویسا ھی تن کر کھڑا تھا‬
‫۔‬
‫کچھ دیر ہم یوں ھی بیٹھے رھے ۔‬
‫فرحت کی جلن کچھ کم ھوئی تو میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫‪.‬یاسر کیا ھوگیا تھا تمہیں‬
‫میں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ھوے کہا‬
‫جو تمہیں ھوا تھا‬

‫فرحت گبھرا کر اپنے سپنوں کے‬


‫شہزادے کو کو دیکھنے لگ گئی‬
‫ٹوپے سے تھوڑا نیچے ایک جگہ سے‬
‫لن سرخ ھوچکا تھا ۔‬
‫فرحت ایک ھاتھ اپنی پھدی پر رکھے‬
‫دوسرے ہاتھ سے میرا لن پکڑا کر‬
‫انگلیوں سے سہالنے لگی‬
‫اور مجھ سے ایکسیوز کرنے لگی کہ‬
‫مزے کی شدت سے مجھے پتہ نہیں‬
‫چال۔‬
‫میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا۔‬

‫جناب تواڈا مزہ بن جانا سی‬


‫تے میرا نصیب وڈیا جانا سی۔‬

‫فرحت کھل کھال کر ہنس پڑی اور‬


‫میرے ہونٹوں کو چومتے ھوے بولی ۔‬

‫تیرا ایویں نصیب اے‬


‫بلکہ‬
‫اے میرا نصیب اے ۔‬
‫اور کچھ دیر بعد ھی ہم لن پھدی کی‬
‫درد کو بھول کر پھر ایک دوسرے کے‬
‫ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے میں‬
‫مصروف ھوگئے ۔‬
‫ایک دوسرے سے لپٹے ھوے ھی میں‬
‫نے فرحت کو گھما کر اپنے نیچے کیا‬
‫اور گھٹنوں کے بل ھوکر اسکی گوری‬
‫گوری ٹانگوں کے درمیاں بیٹھ گیا۔‬
‫میں نے فرحت کی پنڈلیوں کو پکڑا اور‬
‫اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر فرحت کی‬
‫ایڑیوں کو اپنے کندھوں پر رکھ کر‬
‫اپنے کندھوں کو اسکے کندھوں کے‬
‫پاس لے گیا فرحت کی پھدی میرے لن‬
‫کے سامنے تھی اور اور اسکے پیر‬
‫اسکے سر کے پاس پہنچ کر فرحت کا‬
‫جسم دھر ھوچکا تھا ۔‬
‫میں نے ہاتھ لمبا کر کے تکیہ پکڑا اور‬
‫اسے اٹھا کر فرحت کی گانڈ کے شروع‬
‫میں ریڑھ کی ہڈی کے نیچے رکھ دیا۔‬
‫فرحت حیرت سے میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے انگلی کا اشارا کرتے ہوے بولی ۔‬

‫بڑے پکے پیٹھے ھو۔‬

‫میں نے مسکراتے ھوے اسکی طرف‬


‫دیکھا اور اپنا ہاتھ لن کی طرف لیجا کر‬
‫لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں سیٹ‬
‫کیا‬
‫لن کو گیال کرنے کی ضرورت ھی‬
‫نہیں تھی‬
‫کیونکہ پھدی سے ھی اتنی برسات‬
‫ھوچکی تھی کہ جس کا کیچڑ ابھی تک‬
‫سوکھا نہیں تھا ۔‬
‫مزید لن کو گیال کر کے‬
‫چپ چپ اور پچ پچ پچ ھی کرنی تھی‬
‫اس لیے سوکھا لن ھی پھدی کے گیلے‬
‫ہونٹوں میں رکھا‬
‫تو فرحت نےمیرے ارادے کو جانچتے‬
‫ہوے اپنے دونوں ہاتھ میری رانوں پر‬
‫رکھ کر التجائی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫کہا‬
‫یاسررررر پلیزززز آرام سے کرنا اتنا‬
‫بڑا مجھ سے ایکدم‬
‫برداشششششششششششش‬
‫ہاےےےےےےےےےے میں‬
‫مرگئییییییییی اوے ظالماں‬
‫ھاےےےےےےےےے میں‬
‫اندررررررررر پاٹ گیا۔‬
‫اور فرحت دائیں بائیں سر مارنے لگ‬
‫گئی‬
‫فرحت کی آنکھیں ابھل کر باہر آنے کو‬
‫تھیں چہرہ سرخ اور آنکھوں میں نمی‬
‫تیر آئی تھی ۔‬
‫فرحت کی ادھوری بات میں ھی میرے‬
‫جاندار گھسے نے اسکی آنکھوں کے‬
‫آگے تارے بچھا دئے تھے ۔‬
‫میرا پہال گھسا ھی اتنا جاندار تھا کا‬
‫پورا لن فرحت کی پھدی کی گہرائی‬
‫میں جاکر بچے دانی میں گھس گیا تھا‬
‫اور ٹانگیں زیادہ اونچی ہونے کی وجہ‬
‫سے لن کی ضرب فرحت کی ریڑھ کی‬
‫‪.‬ہڈی پر لگی تھی‬

‫ایک پھدی گیلی تھی دوسرا لن فل ٹائٹ‬


‫تھا دھکا مارتے ھی‬
‫لن بنا کسی رکاوٹ کے پھدی کے نرم‬
‫ریشوں کو رگڑتا ھوا جڑ تک اندر چال‬
‫گیا تھا ۔‬
‫فرحت کے چہرے کے تاثرات اسکے‬
‫قرب کی گواہی دے رھے تھے‬
‫مگر اس درد کی ذمہ دار وہ خود تھی‬

‫اونوں کنے کیا سی کہ گرم دودھ پال کہ‬


‫سٹے‬‫بلدی تے تیل ُ‬
‫فرحت نے اپنے دونوں ہاتھوں کے‬
‫پنجوں سے میری رانوں کے گوشت کو‬
‫بھینچا ھوا تھا‬
‫اور مجھے پیچھے کرنے کو زور‬
‫لگاتے ھوے‬
‫اپنی ٹانگیں میرے کندھوں سے اتارنے‬
‫کی کوشش کررھی تھی ۔‬
‫مگر میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکے‬
‫بازوں پر رکھ کر اسے قابو کیا ھوا تھا‬
‫۔‬
‫میں گھسا مار کر لن کو اندر ھی کیے‬
‫کچھ دیر رکا رھا‬
‫اور پھر میں نے لن کو آدھا باہر کھینچا‬
‫اور پھر دھڑم سے اندر کردیا‬
‫فرحت پھر‬
‫بولی‬
‫ہاےےےےےےے وے یاسرررااااا‬
‫ہولییییییی‬

‫میں نے کہا‬
‫چپ کر ہن جان دے ہولی ہولی‬
‫ہن نہ بولی۔‬
‫اور میں گھسے مارنا شروع ھوگیا‬

‫دے گھسے تے گھسا دے گھسے گھسا ۔‬


‫فرحت کا رنگ سرخ سے سرخ تر ھوتا‬
‫جارھا تھا‬
‫آنکھوں سے پانی کی لکیریں‬
‫اسکے کانوں کی لو تک جارہیں تھی‬
‫ممے اسکے ہلتے ھوے اسکے منہ کے‬
‫پاس جاکر اسے تسلیاں دے رھے تھے‬

‫فرحت میرے ہر گھسے پر‬

‫ھاےےےءء مرگئی‬
‫گھساااا‬
‫ھاےےےےے مرگئی۔۔‬
‫گھسا‬
‫ھاےےےےےے مرگئیییی۔‬
‫گھسا‬
‫ھاےےےےےےےے مرگئیءءءءء‬

‫اففففففف آہہہہہ آہہہہہہ آہہہہہہہ‬


‫فرحت کی آہوں اور مزے والی درد کی‬
‫آوازوں سے میرا جوش میرے سر چڑھ‬
‫رھا تھا‬
‫اور میں اسکے ہاےےےےے‬
‫مرگئییییییی‬
‫پر اگال گھسا مذید ذور سے مارتا اور‬
‫لن کو پھدی کی گہرائی میں لیجا کر‬
‫اسکی ریڑھ کی ہڈی پر مارتا ۔‬
‫مجھے مزہہہہ بہت آرھا تھا‬
‫منی لن کی ٹوپی میں اٹکی ہوئی تھی‬
‫مگر باہر نکلنے کا نام نہیں لے رھی‬
‫تھی‬
‫فرحت مجھ سے جان چھڑوانے کے‬
‫سارے حربے استعمال کررھی تھی ۔‬
‫مگر‬
‫اسکے ہر حربے کا جواب میں ذور دار‬
‫گھسے سے دیتا ۔‬
‫میں پانچ منٹ لگاتار فرحت کو ایک ھی‬
‫سٹائل میں چودتا رھا‬
‫درد اور تکلیف کہ باوجود فرحت کی‬
‫پھدی پھر پانی چھوڑنے لگ گئی تھی‬
‫آخر کار فرحت کی پھدی نے میرے لن‬
‫کے گرد گرفت سخت کی اور ساتھ ھی‬
‫فرحت نے میرے کندھوں کو مظبوطی‬
‫سے پکڑ لیا اور آہہہہہہہہہ یاسسسسسر‬
‫ممممم گئییییی کہتے ھی فرحت کے‬
‫جسم نے جھٹکے لینے شروع کردئے‬
‫فرحت کی پھدی سے گرم منی میرے‬
‫گھسوں سے باہر نکل رھی تھی‬
‫اور اس کی منی سے میرا لن لتھڑ گیا‬
‫تھا‬
‫اب پھدی میں پُچ پُچ شروع ھوچکا تھا‬
‫فرحت کی پھدی اتنی گیلی ہوگئی تھی‬
‫کہ میرا سارامزہ کرکرا ھوگیا۔‬
‫فرحت نے بھی جسم ڈھیال چھوڑ دیا‬
‫اور میں نے بھی اسکی ٹانگوں کو‬
‫کندھوں سے اتار دیا اور اپنا لن باہر‬
‫نکال کر فرحت کی ٹانگوں کے درمیان‬
‫پھدی کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا۔‬
‫فرحت کی سانسیں بحال ہوئی تو فرحت‬
‫نے مجھے یوں منہ اٹھا کر بیٹھے دیکھا‬
‫تو سوالیا نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا میں نے لن کی طرف اشارہ کیا‬
‫کہ میرا لن تمہاری پھدی کی برسات‬
‫سے بھیگ چکا ھے‬
‫فرحت نے ھاتھ لمبا کر کے سائڈ ٹیبل‬
‫کے دراز کو کھوال اور اس میں سے‬
‫کپڑا نکال کر میری طرف بڑھایا ۔‬
‫میں نے کپڑے سے اچھی طرح لن‬
‫صاف کیا اور پھر فرحت کی پھدی کو‬
‫اچھی طرح کپڑے سے خشک کیا ۔‬
‫اور فرحت کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا‬
‫کر بٹھایا ۔‬
‫فرحت کمر پر ہاتھ رکھ کر‬
‫ھاےےےےے کرتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ‬
‫گئی اسکی حالت سے لگ رھا تھا کہ وہ‬
‫کافی تھکی تھکی لگ رھی ھے ۔‬

‫میں نے فرحت کو چھیڑتے ھوے کہا‬


‫کہ اتنی جلدی تھک گئی ھو‬
‫فرحت میرے تنے ھوے لن کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ھوے بولی ۔‬
‫تمہارے اس سانڈ نے میری مت مار دی‬
‫ھے میری کمر میں درد شروع ہوگیا‬
‫ھے ۔‬
‫ایک تو تم اتنی ذور سے کرتے ھو‬
‫دوسرا یہ اتنا بڑا میرے آگے جاکر لگتا‬
‫ھے ۔‬
‫میں بیڈ کی ٹیک کی طرف لیٹتے ھوے‬
‫بوال‬
‫چل آجا میرے اوپر‬
‫ابھی تو ساری رات پڑی ھے تم ابھی‬
‫سے تھک گئی ۔‬

‫فرحت میری رانوں کے اوپر اپنی‬


‫ٹانگوں کو دونوں اطراف کرتے ھوے‬
‫لن سے تھوڑا پیچھے بیٹھ گئی میں نے‬
‫فرحت کے گول مٹول مموں کو ہاتھوں‬
‫میں بھر کر مموں کو اپنی طرف کھینچا‬
‫تو فرحت بھی ساتھ میرے اوپر جھکتی‬
‫گئی اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں‬
‫کے آگے لیجا کر میٹریس پر رکھ کر‬
‫میرے اوپر جھک گئی فرحت کا چہرہ‬
‫میرے چہرے کے اوپر آگیا اور فرحت‬
‫کے لمبے بالوں نے دونوں اطراف سے‬
‫ہم دونوں کے کے چہرون کو چھپا لیا‬
‫فرحت کے ممے میرے سینے کے اوپر‬
‫تھے اور مموں کے نپل میرے سینے‬
‫کو چھو رھے تھے‬
‫میں نے بازو لمبے کیے اور فرحت‬
‫کے کولہوں کو پکڑ کر تھوڑا اوپر کیا‬
‫اور ایک ہاتھ نیچے لیجا لن کو پھدی‬
‫کے لبوں پر سیٹ کیا اور ہاتھ واپس‬
‫لیجا کر فرحت کے دونوں چوتڑوں کو‬
‫پکڑ کر نیچے سے گانڈ اٹھا گھسا مارا‬
‫تو لن بھی سوکھا پھدی بھی خشک کچھ‬
‫نہ کچھ تو ہونا ھی تھا۔‬
‫جیسے ھی میں نے گھسا مارا فرحت‬
‫کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫ھاےےےےےے امییییییی مرگئی اور‬
‫فرحت آدھے سے بھی کم لن کو پھدی‬
‫سے باہر نکالتے ھوے آگے کو ہوئی‬
‫اور فرحت کے ممے میرے سینے سے‬
‫ھوتے ھوے میرے منہ پر آگئے۔‬
‫فرحت غصے سے بولی یاسررررر‬
‫کے بچے انسان بن جانور نہ بن ۔‬
‫پہلے گیال تو کرلے میری جان نکال دی‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے فرحت کو پچکارتے ھوے پھر‬


‫اسی پوزیشن پر لے آیا اور ہاتھ کو‬
‫اپنے منہ کے پاس ال کر انگلیوں پر‬
‫تھوک لگا کر ہاتھ کو لن کی طرف لیجا‬
‫کر تھوک کو ٹوپے پر مل دیا اور پھر‬
‫گیلی انگلیوں کو پھدی کے لبوں کے‬
‫درمیان پھیر کر پھدی کو بھی تر کیا۔‬
‫اور لن کو جڑ سے پکڑ کر پھدی کے‬
‫لبوں میں پھنسا کر آہستہ سے اوپر کو‬
‫ہوکر لن کو اندر کیا‬
‫فرحت کے منہ سے سییییی نکلی اور‬
‫آدھا لن اندر۔۔۔۔۔‬

‫میں نے لن کو واپس کھینچا‪ ،‬اور پھر‬


‫آہستہ سے اندر کردیا اس دفعہ پہلے‬
‫سے کچھ ذیادہ لن پھدی میں اتر گیا ۔‬
‫فرحت نے پھر سسکاری بھری ۔‬
‫تین چار دفعہ ایسے کرنے سے سارا لن‬
‫پھدی کے اندر تک چال گیا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھ فرحت کی گانڈ پر‬
‫رکھے ھوے تھے اور ہاتھوں سے‬
‫فرحت کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو‬
‫دبوچا ھوا تھا‬
‫اور نیچے سے گانڈ اٹھا اٹھا کر گھسے‬
‫مار رھا تھا‬
‫لن اب فراوانی سے اندر باہر ھورھا‬
‫تھا‬
‫فرحت کے بڑے بڑے ممے ذور ذور‬
‫سے ہل رھے تھے فرحت کے بال لہرا‬
‫رھے تھے‬
‫گھسوں کا ردھم جاری تھا کہ ۔‬
‫فرحت نے نے بھی آہ آہ آہ ذور نال ذور‬
‫نال سارااااا اندر کر دے یاسر بڑا مزہ‬
‫آریا اے ھاں ھاں اینج ای اینج ای آہ آہ آہ‬
‫اففففف بوتتتتت مزا آریا اے یاسر‬
‫یاسر آئی لو یو یاسر آئی لو یو‬
‫آہ آہ آہ آہ ہمممممم ممممممممم‬
‫گگگگگگئی یاسررررررررر‬
‫کرتے ھوے پھدی کو لن پر دبا کر لن‬
‫کو بچے دانی تک لے گئی اور پھدی‬
‫کے اندر سے فرحت کی منی میرے‬
‫ٹوپے سے ٹکراتی ھوئی مجھے‬
‫محسوس ھونے لگی اور فرحت نے‬
‫میری گردن کے گرد بازو ڈال کر اپنے‬
‫ممے میرے سینے سے چپکا کر مجھے‬
‫اپنے ساتھ لگا لیا اور فرحت کا جسم‬
‫کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد ڈھیال‬
‫ھوگیا فرحت بےجان ھوکر میرے اوپر‬
‫ھی ڈھیر ھوگئی ۔‬
‫فرحت کا سینہ ذور ذور سے دھڑک‬
‫رھا تھا اسکی دل کی دھڑکن مجھے‬
‫اپنے سینے پر محسوس ھورھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر فرحت میرے اوپر ھی لیٹی‬
‫رھی۔‬
‫میں نے فرحت کی کمر کے گرد بازو‬
‫ڈالے ھوے تھے تو اور میں اسکی کمر‬
‫کو سہال رھا تھا۔‬
‫جب فرحت نارمل ھوئی تو میں نے‬
‫فرحت کی کمر کو تھپتھپاتے ہوے اسے‬
‫اوپر ھونے کو کہا تو فرحت تھکی‬
‫تھکی سی ھاےےےےےے کرتی ھوئی‬
‫اوپر ھوئی ۔‬
‫تو میں نے اسے پھر اسی پوزیشن پر‬
‫کر کے‬
‫گیلی پھدی میں ھی گھسے مارنے‬
‫شروع کردئے کچھ دیر ایسے ھی‬
‫گھسے مارتا رھا‬
‫فرحت کا اور میرا جسم پسینے سے‬
‫شرابور ھوچکا تھا‬
‫مگر میرا لن چھوٹنے کا نام نھی لے‬
‫رھا تھا ۔‬
‫فرحت نڈھال ھوچکی تھی اور مجھے‬
‫بس کرنے کا کہی جارہی تھی‬
‫مگر میرا جوش ویسے کا ویسا تھا ۔۔‬
‫مجھے آدھا گھنٹہ ہوچال تھا مسلسل‬
‫گھسے مارتے ھوے‬
‫فرحت بےجان ھوکر میرے اوپر گری‬
‫ھوئی تھی فرح نے اپنا چہرہ میرے‬
‫کندھے پر رکھا ھوا تھا‪ ،‬اور اس کے‬
‫خاموش آنسو میرے کندھے کو گیال‬
‫کررھے تھےاور وہ بڑے صبر سے‬
‫میرے گھسوں کی شدت برداشت‬
‫کررھی تھی ۔‬
‫مجھے ایک دم جوش چڑھا اور میں نے‬
‫فرحت کی کمر کو دبوچ کر پوری جان‬
‫سے گھسے مارنے شروع کردیے‬
‫میرے ان گھسوں سے‬
‫فرحت کا صبر دم توڑ گیا اور فرحت‬
‫ھاےےےےے جھٹکے سے اوپر ہوئی‬
‫اور مجھے سے علیحدہ ھوتے ھوے‬
‫میرے اوپر سے مجھ سے علیحدہ ہوکر‬
‫میرے ساتھ گر گئی اور ایک ہاتھ اپنی‬
‫ناف کے نیچے رکھ کر دبانے لگ گئی‬
‫اور دوسرے ھاتھ سے اپنی پھدی کو‬
‫دباتے ھوے رونے لگ گئی ۔‬
‫میں نے کروٹ بدلی اور فرحت کے‬
‫بہتے آنسو صاف کرتے ھوے اسے چپ‬
‫کروانے لگ گیا۔‬
‫فرحت بس ھاےےےے مرگئی کرتے‬
‫ھوے اپنی ناف کو اور پھدی کو دباے‬
‫جارھی تھی ۔‬

‫میں کافی دیر فرحت کو چپ کرواتا رھا‬


‫۔‬
‫میری نظر اچانک کالک پر پڑی تو ٹائم‬
‫دیکھ کر پریشان ھوگیا‬
‫دو بج چکے تھے مجھے حیرانگی‬
‫ھورھی تھی کے تین گھنٹوں سے‬
‫فرحت کو چود رھا ہوں اور ابھی تک‬
‫فارغ کیوں نھی ھورھا۔‬
‫فرحت اب کافی حد تک نارمل ھوچکی‬
‫تھی ۔‬
‫میں لن کو پکڑ کر سیدھی لیٹی فرحت‬
‫کے اوپر آیا اور گھٹنوں کہ بل فرحت‬
‫کی ٹانگوں میں بیٹھ گیا۔‬
‫فرحت بولی نہی یاسر مجھ میں ہمت‬
‫نہیں ھے اب میرے نیچے بہت جلن اور‬
‫درد ھورھی ھے ۔‬
‫میں نے اب نھی کروانا۔‬
‫میں نے بہت کوشش کی مگر فرحت‬
‫نے پھدی سے ہاتھ نہیں ہٹایا۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ اب فرحت پھدی‬
‫میں لن لینے کے لیے بلکل بھی تیار‬
‫نہیں تو میں نے فرحت کی ٹانگ کو‬
‫پکڑ کر دوسری طرف لیجا کر دونوں‬
‫ٹانگوں کو مال دیا اور فرحت کو ٹیڑھا‬
‫کر دیا اب فرحت سائڈ کے بل دوسری‬
‫طرف منہ کر کے پھدی پر ھاتھ رکھے‬
‫لیٹی تھی اور میں اسکی موٹی گول‬
‫مٹول گانڈ کے پاس لن ھاتھ میں لیے‬
‫بیٹھا تھا۔‬
‫میں نے فرحت کی گانڈ پر ھاتھ پھیرنا‬
‫شروع کردیا‬
‫اور فرحت کی کمر کے ساتھ لگ کر‬
‫سائڈ کے بل لیٹ گیا میرا لن فرحت کی‬
‫گانڈ کے دراڑ میں لگ رہا تھا‬
‫میں نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا‬
‫اور اسکو لن پر مسل دیا اور پھر ھاتھ‬
‫پر تھوک لگا کر فرحت کی گانڈ کے‬
‫دراڑ میں انگلیاں گھسا کر بنڈ کی موری‬
‫پر تھوک مل دیا‬
‫جیسے ھی میری انگلیاں فرحت کی‬
‫موری پر لگیں تو‬
‫فرحت کو کرنٹ لگ اور وہ جلدی سے‬
‫گانڈ کو اگے کھسکا کر گردن میری‬
‫طرف گھما کر بولی‬
‫ذیادہ شوخا نہ بن آرام نال رے ۔‬
‫پیلے ای میری درد نال جان نکلن دئی‬
‫اے‬
‫تے توں نویں جگہ لب لئی اے ۔‬
‫مینوں مارنا ای ۔‬
‫میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا‬
‫بس آرام آرام سے کروں گا ۔‬
‫فرحت نفی میں سر ہالتے ھوے بولی۔‬

‫توں پاویں آرام نال کر یا تیز کر جدوں‬


‫میں کروانا ای نئی تے فیرررررر۔‬

‫مجھے اس پر غصہ چڑھی جارھا تھا‬


‫کہ سالی خود تین چار دفعہ فارغ‬
‫ھوچکی ھے اور مجھے ایک دفعہ بھی‬
‫فارغ نہیں ھونے دے تھی ۔‬
‫میں نے تین چار دفعہ فرحت کی مذید‬
‫منت ترال کیا مگر وہ نہ آگے سے‬
‫کرنے دے رھی تھی نہ پیچھے سے ۔‬
‫میں نے غصے سے اسکی گانڈ پر ہاتھ‬
‫رکھتے ھوے اسے آگے کو دھکا دیا‬
‫اور کہا۔‬
‫لن تے چڑ نئی تے نہ سئی‬
‫آپ مزے لے لو کہ ہن رون لگ پئی‬
‫ایں‬
‫ایویں ڈرامے کرن لگی ہوئیں این ۔‬
‫میں یہ کہہ کر اٹھا اور بیڈ سے نیچے‬
‫اتر کر شلوار پہننے کے لیے بیڈ پر‬
‫پڑی شلوار پکڑنے لگا تو فرحت نے‬
‫میری شلوار کو پکڑ کر کھینچا تو میں‬
‫بھی شلوار کے ساتھ کھینچا ھوا بیڈ پر‬
‫جاگرا ۔‬
‫کچھ زور فرحت نے لگایا تھا اور کچھ‬
‫گرنے کا ڈرامہ میرا تھا‬
‫کیونکہ جانے کا ارادہ تو میرا بھی اندر‬
‫سے نہیں تھا بس اوپر اوپر سے ڈرامہ‬
‫کررھا تھا۔‬
‫فرحت شلوار کھینچتے ھوے بولی‬
‫جان دینی آں تینوں ۔آرام نال بے جا ۔‬
‫میں بیڈ پر اوندھا گرا اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے اجازت نامہ ملنے کا‬
‫انتظار کرنے لگ گیا۔‬
‫فرحت میرا ھاتھ پکڑ کر بولی کیڑی‬
‫ماں کول چالں ایں ۔‬

‫میں نے منہ بناتے ھوے کہا جب تم نے‬


‫کرنے ھی نہیں دینا تو میرا ادھر رکنے‬
‫کا کیا فائدہ ۔‬
‫فرحت دوسرا ھاتھ میرے بالوں میں‬
‫پھیرتے ھوے بولی میری کاکا ناج‬
‫ھوگیا اے ۔‬
‫میں نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ھوے کہا‬
‫چھوڑو یار مجھے جانے دو دیر‬
‫ھورھی ھے ۔‬
‫فرحت میرا ھاتھ کھینچتے ھوے سیدھی‬
‫ھوکر بولی آرام سے ادھر آو میرے‬
‫اوپر ۔‬
‫میں بھی شریف بچا بن کر فرحت کے‬
‫اوپر آگیا اور اسکی ٹانگیں کھول کر لن‬
‫پر تھوک لگا کر پھدی کے اوپر سیٹ‬
‫کیا اور گھسا مار کر لن سارے کا سارا‬
‫اندر کر دیا فرحت نے‬
‫ھاےےےےےےےے ہولی‬
‫وےےےےےےے منڈیاااا۔۔۔۔‬
‫کیا اور میری رانوں کو مٹھیوں میں‬
‫بھینچ لیا ۔‬
‫میں نے بھی سارا غصہ دوسرے‬
‫گھسے پر نکال دیا فرحت میرے‬
‫دوسرے جاندار گھسے سے تڑپ اٹھی‬
‫اور مجھے پیچھے دھیکلنے کی کوشش‬
‫کرنے لگ گئی مگر میں نے اب فرحت‬
‫کو کندھوں سے پکڑ کر قابو کیا ھوا تھا‬
‫اور اس کے رونے اور واویال مچانے‬
‫کی پرواہ کیے بغیر‬
‫ذور ذور سے گھسے مارتا جارھا تھا‬
‫دس پندرہ منٹ فرحت کو میں چودتا رھا‬
‫فرحت روتی رھی مجھے بس کرنے کا‬
‫کہتی رھی‬
‫ھاےےے مرگئیییی‬

‫کہتی رھی مگر میں مسلسل گھسے‬


‫مارتا رھا‬
‫بالخرہ فرحت کی سنی گئی اور میری‬
‫ٹانگوں سے سارا خون لن کی طرف‬
‫جمع ہونا شروع ھوگیا‬
‫اور میرے آخری گھسے مذید شدت‬
‫اختیا کر گئے فرحت کی بھیگی آنکھیں‬
‫مجھ سے رحم کی اپیل کررھیں تھی‬
‫فرحت کے ممے چھلک رھے تھے‬
‫کمرہ تھپ تھپ تھپ اور فرحت کی‬
‫آہوں سے گونج رھا تھا‬
‫کہ فرحت کی آنکھوں کی اپیل منظور‬
‫کرتے ھوے میرے لن نے فرحت کی‬
‫پھدی میں پچکاریاں مارنی شروع‬
‫کردیں۔‬
‫اور میرے جسم نے جھٹکے کھاے اور‬
‫فرحت کی پھدی کو منی سے بھر دیا‬
‫فرحت نے بھی سکھ کا سانس لیا‬
‫میں بھی نڈھال ہوکر فرحت کے اوپر‬
‫گر گیا۔‬
‫۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی لیٹے رہنے کے بعد‬
‫میں نے پھدی سے لن نکاال تو یہ دیکھ‬
‫کر حیران رھ گیا کہ لن ابھی تک‬
‫ویسے کا ویسا ھی اکڑا ھوا تھا ۔‬
‫میں اس تبدیلی پر حیران رھ گیا کہ‬
‫میرے اندر ایسی تبدیلی کیسے آگئی‬
‫ورنہ تو لن فارغ ھوتے ھی چھوارہ بن‬
‫جاتا ھے مگر لن صاب تو ابھی ویسے‬
‫کہ ویسے ھی کھڑے تھے جیسے جناب‬
‫نے کچھ کیا ھی نہ ھو۔‬

‫میں نے کالک کی طرف دیکھا تو‬


‫ساڑھے تین بج چکے تھے میں جلدی‬
‫سے اٹھا تو میرا لن فرحت کی آنکھوں‬
‫کے سامنے لہرانے لگ گیا فرحت‬
‫آنکھیں پھاڑے میرے لن کو دیکھتے‬
‫ھوے اپنے ایک ھاتھ سے اپنے دونوں‬
‫کانوں کو باری باری چھو کر توبہ توبہ‬
‫کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے فرحت کو یوں لن کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا‬
‫کیا پروگرام گے ایک بازی اور‬
‫ھوجاے۔‬
‫فرحت آنکھیں باہر نکالتے ھوے میرے‬
‫سامنے دونوں ھاتھ جوڑتے ھوے بولی‬
‫۔‬
‫میں نے کل کا سورج دیکھنا ھے ابھی ۔‬
‫میں ہنستا ھوا بیڈ سے نیچے اترا اور‬
‫اپنے کپڑے پہننے لگ گیا کپڑے پہن‬
‫کر میں نے فرحت کو آواز دی کی میں‬
‫نے جانا ھے تم بھی جلدی سی کپڑے‬
‫پہن لو ۔‬

‫فرحت جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی‬


‫ہوئی تھی‬

‫ھاےےےےےےکرتی ہوئی اٹھی اور‬


‫کپڑے سے اپنی پھدی کو صاف کرنے‬
‫لگ گئی اور پھر کپڑے پہن کر بیڈ سے‬
‫اتری تو لڑکھڑا کر گرنے لگی میں نے‬
‫فرحت کو کندھوں سے پکڑ کر سہارا‬
‫دے کر گرنے سے بچا لیا‬

‫فرحت بولی یاسر تم نے آج ساری اگلی‬


‫پچھلی کسریں نکال دیں ہیں مجھ سے‬
‫تو کھڑا بھی ہونا دشوار ھے ۔‬
‫کچھ دیر بعد فرحت کچھ نارمل ھوئی تو‬
‫پاوں گھسیٹتی ھوئی دروازے کی طرف‬
‫بڑھی میں نے آگے بڑھ کر خود دروازہ‬
‫کھول دیا اور جلدی سی باہر نکال اور‬
‫بیرونی دروازے کے پاس پہنچ کر‬
‫دروازہ کھول کر باہر گلی میں دیکھنے‬
‫لگ گیا‬

‫گلی بلکل سنسان تھی‬


‫اتنی دیر میں فرحت بھی میرے پاس‬
‫پہنچ گئی میں نے فرحت کی گالوں کو‬
‫دونوں ھاتھوں میں تھاما اور اسکے‬
‫ہونٹوں پر لمبی سی کس کی اور پھر‬
‫باہر جھانک کر گلی میں نکل گیا اور‬
‫پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا میں تیز تیز‬
‫قدم اٹھاتا ھوا گھر کے دروازے پر‬
‫پہنچا اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر‬
‫اندر داخل ھوا تو مجھے دوسرے‬
‫کمرے سے کسی کے چلنے کی آواز‬
‫آئی ۔‬

‫میں ایکدم ڈر گیا کہ لگتا ھے کہ بھائی‬


‫اٹھ گیا ھے ۔‬

‫اس سے پہلے کہ میں بستر پر لیٹتا‬


‫بیٹھک کا اندرونی دروازہ ذور ذورے‬
‫بجا ۔‬

‫میرا تو رنگ اڑ گیا ۔‬

‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں‬


‫کیا کروں‬
‫ابھی میں یہ سوچ ھی رھا تھا کہ۔‬

‫دوبارا دروازہ ذور سے کھڑکا اور بھا‬


‫قیصر کی آواز آئی‬
‫اوے یاسر دروازہ کھول جلدی کر۔‬

‫میں نے نیند کی کیفیت میں ایکٹنگ‬


‫کرتے ھوے کہا‬
‫کیا ھے بھا اتنی بھی کیا مصیبت آن‬
‫پڑی ھے ۔‬
‫بھا قیصر کی پھر آواز آئی دروازہ تو‬
‫کھول دسنا اے۔‬
‫میں نے دروازہ کھوال‬
‫اورآنکھیں ملتا ھوا‬
‫بھا قیصر کی طرف دیکھتےھوے بوال‬
‫کیا ھے۔‬

‫بھا قیصر نے مجھے اوپر سے نیچے‬


‫تک دیکھا‬
‫اور بوال‬
‫کہ یار کب سے دروازہ کھڑکا رھا ہوں‬
‫تو گھوڑے بیچ کر سویا ھوا ھے ۔‬
‫اوپر سے اندر سے کنڈی لگائی ہوئی‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫بھا میں تھکا ھوا تھا اس لیے گہری نیند‬
‫سویا ھوا تھا۔‬
‫بھا قیصر بوال ۔‬
‫میں دکان کے لیے دودھ لینے جارھا‬
‫ہوں‬
‫کل کی مویشی منڈی لگی ھوئی ھے‬
‫میں نے حیران ھوکر پوچھا کہ‬
‫بھا اتنی صبح صبح ابھی تو اذانیں بھی‬
‫نہیں ھوئیں‬
‫تو بھا بوال‬
‫پہلے پہنچوں گا تو ٹائم سے دودھ لے‬
‫کر دکان پر آجاوں گا ۔‬
‫میں نے بھی ذیادہ بحث نھی کی اور سر‬
‫ہالتا ھوا اسکے پیچھے چل پڑا۔‬
‫بھا نے اپنا سائکل نکاال اور پیچھے‬
‫دودھ کی ڈرمیاں رکھیں اور‬
‫سائکل باہر نکال کر مجھے کہا کہ چل‬
‫دروازہ بند کرلے میں نے بھی بھا کو‬
‫کہا کہ دھیان سے جانا‬
‫اور وہ مجھے جواب دئیے بغیر سائکلپر‬
‫چڑھ کر نکل گیا ۔‬
‫میں نے بھی دروازہ بند کیا اور آکر‬
‫بیٹھک کی بجاے بھا قیصر کے بستر پر‬
‫ھی ڈھیرھوگیا اورکچھ ھی دیربعد نیند‬
‫کی وادیوں میں چال گیا۔‬
‫صبح امی نے مجھے اٹھایا کہ پتر اٹھ‬
‫جا ٹیم دیکھ کی ہوگیا اے دکان تےنئی‬
‫جاناں ۔‬
‫میں نے آنکھیں ملتے ھوے کالک‬
‫کیطرف دیکھا تو آٹھ بج چکے تھے ۔‬
‫میں جلدی جلدی تیار ھوکر ناشتہ کرکے‬
‫دکان کی طرف چل دیا۔‬
‫میں نے گلی کراس کی اور جیسے ھی‬
‫سڑک سے کھیتوں کی طرف بڑھا‬
‫مجھے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز‬
‫سنائی دی‬
‫یاسررررر رکو۔۔۔۔۔‬
‫میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو‬
‫صدف تیز تیز قدم اٹھاتی میری طرف‬
‫چلی آرھی تھی ۔‬
‫میں نے جب اسےدیکھا تو ۔‬
‫مجھے اسکا تھپڑ اور اپنی بےعزتی یاد‬
‫آگئی ۔‬
‫میں نے بس ایک جھلک اسے دیکھا‬
‫اور منہ سیدھا کر کے تیز تیز قدم‬
‫اٹھاتے نہرکی طرف چل دیا۔‬
‫مجھے دو تین دفعہ صدفنے آوازیں دیں‬
‫مگر میں اسکی باتوں کو سنی ان سنی‬
‫کر کے چلتا رھا ۔‬
‫جب میں مکئی کی پگڈنڈی پر گیا تو‬
‫مجھے پیچھے سے دوڑتے قدموں کی‬
‫آوازسنائی دی ۔‬
‫اور پھر میرے دونوں کندھوں کو نرم‬
‫ھاتھوں نے دبوچ لیا اور صدف کی‬
‫روہانسی آواز آئی ۔‬
‫یاسرررر میری بات تو سن لو‬
‫کیامیں اتنی ھی بری ھوگئی ھوں کہ‬
‫مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں‬
‫کررھے۔‬
‫میں نے نفرت سے اسکی طرف دیکھا‬
‫صدف نے نقاب کیا ھوا تھامگر اسکی‬
‫آنکھیں آنسووں سے نم تھی ۔‬
‫میں نے اسکے آنسوؤں کو بھی نظر‬
‫انداز کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے‬
‫اپنے کندھوں پر رکھے صدف کے‬
‫ہاتھوں کوپکڑ کر جھٹک دیا اورپھر‬
‫چلنے لگ گیا ۔‬
‫صدف نے دوڑ کر پھر میرے کندھے‬
‫کو پکڑنا چاھا مگر میں نے ہوا میں ھی‬
‫اسکے ہاتھ کو جھٹک دیا اور بنا کچھ‬
‫بولے تیز تیز قدموں سے صدف کے‬
‫آگے چلنے لگا صدف نے دوڑ لگائی‬
‫اور میری سائڈ سے آگے نکل کر‬
‫میرے سامنے آکر کھڑی ھوگئی ۔‬
‫اور میرا راستہ روک کر بولی‬
‫یاسر *****کا واسطہ ھے میری ایک‬
‫دفعہ بات تو سن لو‬
‫پھر چاھے تو میری شکل بھی نہ‬
‫دیکھنا۔‬
‫میں نے صدف کی طرف قہر بھری‬
‫نظروں سے دیکھا اور اسکو بازو سے‬
‫پکڑ کر ایک طرف کرتے ھوے بوال ۔‬
‫مجھے دکان پر جانے دو میرے پاس‬
‫فضول وقت نھی ھے کہ تمہاری فضول‬
‫باتیں سنوں‬
‫اور یہ مکر کسی اور کو دیکھانا ۔‬
‫یہ کہتےھوے میں نے اسکو ایک طرف‬
‫کیا اور پھر آگے چلنے‬

‫لگ گیا‬

‫صدف اونچی آواز میں روتے ھوے‬


‫بولی یاسر مجھ سے کون سی غلطی‬
‫ھوگئی ھے جو تم مجھ سے اتنی نفرت‬
‫کرنے لگ گئے ھو اور صدف پھر‬
‫بھاگتی ھوئی میرے سامنے آگئی ۔اور‬
‫ہاتھ جوڑ کر میرے آگے کھڑی ھوگئی‬
‫بولی یاسر مجھے معاف کردو مجھے‬
‫مار لو مجھے گالیاں دے لو جو تمہارا‬
‫دل کرتا ھے وہ میرے ساتھ کرلو مگر‬
‫میری بات تو سن لو ۔‬
‫میں نے صدف کو دونوں کندھون سے‬
‫پکڑا اور اونچی آواز میں چیختے ھوے‬
‫کہا‬
‫میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں مین تم‬
‫سے نفرت کرتا ھوں نفرت کرتا ھوں‬
‫نفرت کرتا ھوں سمجھ آئی میری بات‬
‫مجھے تمہاری کوئی فضول بات نہیں‬
‫سننی خبردار اب تم نے میرا راستہ‬
‫روکا یا مجھ سے بات کرنے کی کوشش‬
‫کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھوگا ۔‬
‫میں ایک ھی سانس میں سب کچھ بول‬
‫کر صدف کو ایک طرف جھٹک کر‬
‫آگے نکل گیا کہ‬
‫اچانک پیچھے سے صدف کی ہچکیوں‬
‫میں آواز آئی ۔۔‬
‫یاسر میری بات فضول نہیں ھے‬
‫میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی‬
‫ھوں اگر تم نے مجھ سے اتنی ھی‬
‫نفرت کرتےھو تو میں تمہارے سامنے‬
‫نہر میں چھالنگ لگا کر خودکشی‬
‫کرلینی ھے ۔‬
‫صدف کے منہ سے ماں بننے کے الفاظ‬
‫سنتے ھی میرے قدم ایسے رک گئے‬
‫جیسے زمین نے میرے قدم پکڑ لیے‬
‫ھوں ۔‬
‫میں نے گھوم کر صدف کی طرف‬
‫دیکھا تو صدف پگڈنڈی پر پیروں کے‬
‫بل بیٹھی میری طرف دیکھ کر رہے‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫میں بھاری قدموں سے چلتا ھوا اسکی‬
‫طرف بڑھنے لگ گیا ۔‬
‫صدف کے پاس پہنچ کر میں نیچے‬
‫جھکا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر‬
‫اٹھایا تو صدف سر جھکائے میرے‬
‫سامنے کھڑی زاروقطار روئی جارھی‬
‫تھی ۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ میں‬
‫اس سے کیا بات کروں ۔‬
‫میرے کانوں میں بس ایک ھی آواز‬
‫گونجے جارھی تھی کہ‬
‫یاسر میں تمہارے بچے کی ماں بننے‬
‫والی ھوں ماں بننے والی ھوں ماں‬
‫بننے والی ہوں ۔‬
‫میرے دماغ میں ہتھوڑے برس رھے‬
‫تھے ۔‬
‫میں صدف کے کندھوں کو پکڑے‬
‫ہکالتے ھوے بوال ۔‬
‫کککیا کہا تتتم نے ۔۔‬

‫صدف نظریں اور سرجھکاے بس روئی‬


‫جارھی تھی ۔‬
‫میں نے دو تین دفعہ اپنی بات دھرائی‬
‫مگر صدف سواے رونے کہ کچھ نہیں‬
‫بولی ۔‬
‫میں نے صدف کے کندھوں کو ہالکر‬
‫چیخ کر کہا۔‬
‫بولوووووو کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔‬
‫صدف نے سر اوپر کیا اور نظریں‬
‫اٹھائیں اور میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫ییییاسر میں پریگنٹ ہوں ۔‬
‫اور تم میرے ہونے والے بچے کے باپ‬
‫ھو ۔‬
‫اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو‬
‫میرے ابو یہ کہ کر صدف پھر رونے‬
‫لگ گئی ۔‬
‫صدف کی بات سنتےھی‬
‫میں نے صدف کے دونوں کندھے‬
‫یکلخت چھوڑے اور اس سے دوقدم‬
‫پیچھے ہٹ کرکھڑا ھوگیا اور دونوں‬
‫ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کرنفی میں سر‬
‫ہالتا ہوا نہر کی طرف بھاگ کھڑا ھوا ۔‬
‫مجھے کچھ نہیں سمجھ آرھا تھا کہ میں‬
‫کیا کررھا ھوں کدھر جارھا ھوں‬
‫مجھے صدف کےپاس ٹھہرکر اس سے‬
‫بات کرنی چاھیے تھی اسے حوصلہ‬
‫دینا چاھیے تھا ۔‬
‫مگر مجھے تو ایسے لگ رھا تھا کہ‬
‫جیسے ابھی صدف کا باپ کلہاڑی لے‬
‫کر میرے ٹوٹے ٹوٹے کردے گا ۔‬
‫میرے اندر کا خوف مجھے بزدل بنا کر‬
‫میری دوڑ لگوا رھا تھا‬
‫اور میں کسی کمزور اور ڈرپوک انسان‬
‫کیطرح بس دوڑی جارھا تھا۔‬
‫مجھے نہیں پتہ چال کہ میں نے کب نہر‬
‫کراس کی کب میں شہر پہنچا اور کب‬
‫میں دکان کے آگے جاکر دکان کے‬
‫تھڑے پر بیٹھا‬
‫لمبے لمبے سانس لے رھا تھا ۔‬
‫مجھ پر عجب سا خوف طاری تھا ۔‬
‫مجھے ہر آتا جاتا شخص صدف کا باپ‬
‫یا بھائی لگ رھا تھا ۔‬
‫ابھی تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ‬
‫انکل کی موٹر سائیکل دکان پر آکر‬
‫رکی‬
‫میری یہ کیفیت تھی کہ میں انکل کو‬
‫دیکھ بھی رھا تھا مگر اپنی جگہ پر بت‬
‫بنا بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫انکل مجھے یوں بت بنے بیٹھے دیکھ‬
‫کر حیران ھوتے ھوے موٹر سائیکل‬
‫سے اترے اور چلتے ھوے میرے‬
‫قریب آکر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر‬
‫سر ھو ہالتے ھوے بولے یاسر پتر‬
‫کتھے پہنچیا ھویاں ایں‬
‫سب خیر تے ہے ناں ۔۔۔۔‬

‫میں ایکدم چونکا اور ایسے کھڑا ھوا‬


‫جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ھوں‬
‫۔‬
‫انکل نے پھر میرے کندھے کو ہالتے‬
‫ھوے کہا‬
‫یاسررررر پتر کی گل اے ۔‬

‫میں ایکدم ھوش میں آتے ھوے ہکالتے‬


‫ھوے بوال کککچھ نہیں انکل جی اور‬
‫انکل سے چابیاں لے کر میں دکان‬
‫کھولنے لگ گیا۔۔۔۔۔۔‬

‫دوستو میں نہ تو کمزور تھا اور نہ ھی‬


‫ڈرپوک‬
‫اصل میں اس وقت میرا بچپنا ھی تھا‬
‫اورمیں ابھی میچور تو نہ تھا کہ موقع‬
‫کی مناسبت سے حالت کو سمجھ کر‬
‫اسے دماغ سے ہینڈل کرتا‬
‫جبکہ یہ بات بھی واضع تھی کہ صدف‬
‫کے عالوہ یہ بات کسی اورابھی تک‬
‫معلوم نہیں تھی‬
‫اور صدف تو میری منتیں کررھی تھی‬
‫کہ اسکا کوحل نکالیں‬
‫مگر میرا بچپنا تھا کہ اس کے انجام‬
‫تک فٹا فٹ پہنچ کر وھان سے دوڑ لگا‬
‫دی ۔۔۔۔۔۔‬
‫خیر۔‬
‫میں نے صفائی وغیرہ کی مگر میں بار‬
‫بار باہر کی طرف ھی دیکھتا رھا کہ‬
‫اب صدف کا باپ کلہاڑی یا بندوق‬
‫پکڑے نمودار ھوگا اور‬
‫مجھے قتل کردے گا ۔‬
‫میں نے جیسے تیسے صفائی کی اور‬
‫پھر دکان کے فرنٹ پر بیٹھنے کی‬
‫بجاے بلکل اینڈ پر ٹرائی روم کے پاس‬
‫بیٹھ کر ایسے ھی لہنگوں کو نکال کر‬
‫سیٹ کرنے لگ گیا اور چور اکھیوں‬
‫سے باہر کی جانب بھی دیکھتا رھتا۔‬
‫کچھ دیر میں بیٹھا لہنگے بار بار سیٹ‬
‫کرتا رھا ۔‬
‫کہ میری نظر باہر کی طرف گئی تو‬
‫میری گانڈ پھٹنے والی ہوگئی میری‬
‫سانسیں رکنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ صدف چلتی ھوئی‬
‫انکل کے پاس آئی اور انکل کو سالم‬
‫کر کے ان سے سر پر پیار لینے کے‬
‫بعد انکے پاس ھی کاونٹر پر بیٹھ کر‬
‫آہستہ آہستہ ان سے باتیں کرنے لگ‬
‫گئی میں پہلے الماری کی طرف منہ کر‬
‫بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫اور صدف کو انکل کے پاس بیٹھے‬
‫دیکھ کر میں اپنی پشت بازار کی طرف‬
‫کر کے بیٹھ گیا کہ جیسے صدف سمیت‬
‫مجھے کوئی دیکھ نہ سکے ۔‬
‫دل مضطرب تھا حلق خشک تھا بیٹھے‬
‫کی میری ٹانگیں کانپ رھیں تھی اس‬
‫وقت کے نزا کو پچھتا رھا تھا اور اندر‬
‫ھی اندر خود کو کوس رھا تھا اپنے آپ‬
‫کو لعن طعن کئے جارھا تھا کہ چند‬
‫سیکنڈ کے مزے نے مجھے زندگی اور‬
‫موت کے بیچ ال کھڑا کردیا ھے‬
‫پتہ نہیں اب کیا ہوگا‬
‫صدف کے گھر والوں کو پتہ چال تو‬
‫بھی موت پکی‬
‫میرے گھر والوں کو پتہ چال تو میرے‬
‫ساتھ ساتھ میری امی اور بہن کا پتہ نھی‬
‫کیا بننا تھا‬
‫اگر گاوں میں یہ بات نکلتی تو پنڈ کی‬
‫پنچائت نے ھی مجھے چوک کے‬
‫چوراھے پر الٹا لٹکا کر میرے ٹکڑے‬
‫ٹکڑے کردینے تھے ۔‬
‫وسوسوں نے مجھے کچھ ھی دیر میں‬
‫نفسیاتی مریض بنا دینا تھا‬
‫میرے کان انکل اور صدف کی دھیمی‬
‫گفتگو کی طرف ھی تھے مگر مجھے‬
‫سنائی کچھ نہیں دے رھا تھا‬
‫بس میرے دماغ میں قیاس آرائیاں چل‬
‫رہی تھی‬
‫کہ صدف انکل کو اب کچھ بتا رھی ھو‬
‫گی ۔‬
‫اب انکل میرے ابو کو بالئیں گے اور‬
‫ان سے بات کریں گے ۔‬
‫میرے ابو کا یہ سن کر تو ویسے ھی‬
‫ہارٹ فیل ھوجانا تھا ۔‬
‫ابھی میری قیاس آرائیاں جاری ھی تھیں‬
‫کہ‬
‫انکل کی آواز میرے کانوں میں گونجی‬
‫۔‬
‫یاسررررر۔‬
‫میں نے انکل کی آواز کو وہم سمجھ کر‬
‫مذید سوٹوں کی الماری میں سر دے کر‬
‫ایسے ھی سوٹوں کو الٹ پلٹ کرنے‬
‫لگ گیا کہ‬
‫پھر انکل کی پہلے سے اونچی آواز‬
‫آئی‬
‫اوے یاسررررررررر بوالں ایں ۔‬
‫میں نے چونک کر وہاں چوکڑی مارے‬
‫بیٹھے بیٹھے ھی اپنے آپ کو پورا‬
‫گھمایا اور انکل کی طرف دیکھا تو‬
‫انکل کچھ غصے میں لگ رھے تھے‬
‫جب کے صدف کی پشت میری طرف‬
‫تھی اور منہ دوسری طرف تھا ۔‬
‫میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے‬
‫ہکالتے ھوے کہا‬
‫ججججی انکککل ججی۔‬

‫انکل حیرانگی اور تلخی سے بولے‬


‫انکل کے بچے ادھر آیا وہاں کیا آنڈے‬
‫دئے ہیں جن کہ اوپر بیٹھا ھے ۔‬
‫میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ھوگیا‬
‫میری ٹانگیں کانپی جارہیں تھی ۔‬
‫میں منوں وزن اٹھاے قدموں کو‬
‫گھسیڑتا ھوا انکل کی طرف چال جارھا‬
‫تھا ۔‬
‫مشکل سے انکل کے پاس پہنچا تو انکل‬
‫بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں‬
‫تک دیکھتے ھوے غصے سے بولے ۔۔‬

‫تینوں خیر تے ہے کیویں سویر دا ‪.‬‬


‫بوندلیاں پھرداں ایں۔‬
‫کم کتے کرداں ایں تے تیان تیرا کسے‬
‫ہور پاسے اے۔‬
‫میں نے ہکالتے ھوے کہا۔‬
‫کککچھ نہی انکل جی میری طبعیت نئی‬
‫سئی ھے ۔‬
‫انکل نے پھر مجھے غور سے دیکھا‬
‫اور کہا‬
‫طبعیت تو سہی ھے مگر نیت سہی نہیں‬
‫لگ رھی کوئی پریشانی ھے تو مجھے‬
‫بتا دے ۔‬
‫شاید میں تیری پریشانی کا کوئی حل‬
‫نکال سکوں۔‬
‫میں نے پھر اسی انداز میں گبھراے‬
‫ھوے کہا کہ انکل کچھ نھی ھے بس‬
‫ایسے ھی سر میں درد ھے ۔‬
‫انکل نے کندھے اچکاتے ھوے کہا کہ‬
‫مرضی تیری پتر نہ دس ۔‬
‫میں سر جھکائے ناف ہر ہاتھ باندھے‬
‫ادب سے کھڑا تھا ۔‬
‫تو انکل پھر بولے چل اینج کر اے کڑی‬
‫نوں جاننا ایں اے کون اے ۔‬
‫میری تو ایکدم ہوا نکل گئی ۔میں نے‬
‫پہلے نفی میں سر ہالیا اور پھر اسی‬
‫وقت اثبات میں سر ہالتے ھوے بوال‬
‫جججججج جی انکل جی ۔‬
‫انکل میری کیفیت دیکھ کر کافی پریشان‬
‫سے ہورھے تھے ۔‬
‫انکل بولے جا پیلے ٹھنڈے پانی دے منہ‬
‫تے چھٹے مار کے آ تینوں کج ہوش‬
‫آوے‬
‫کسی ناں وچ ُمنڈی ہالنا ایں تے کدی‬
‫ہاں وچ ۔‬
‫میں بونگا بن کر سچ میں کولر کی‬
‫طرف چل دیا‬
‫تو انکل نے پیچھے سے آواز دی کہ ہن‬
‫کتھے چلیاں ایں‬
‫میرے چلتے کدم وہیں رک گئے اور‬
‫روبورٹ کی طرح گھوم کر انکل کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بوال‬
‫وووہ جی انکل جی منہ دھونے چال تھا‬
‫۔‬
‫انکل اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے‬
‫بولے کوئی حال نئی تیرا کاکا ۔‬
‫سویرے کروں نہا کے نئی آیا‬
‫میں نے پھر پہلے نفی میں اور پھر‬
‫اثبات میں سر ہالتے ھوے کہا جججی‬
‫نہا کر آیا تھا ۔‬
‫تو انکل بولے تے نہا کہ ہوش نئی آئی‬
‫سی جیڑا ھن فیر منہ تون چالں ایں‬
‫میں نے جنید کی طرف دیکھا جو منہ‬
‫پر ہاتھ رکھ کر میری طرف دیکھ کر‬
‫ہنسی جارھا تھا‬
‫جبکہ صدف کی پیٹھ میری طرف تھی‬
‫اس لیے اسکا مجھے نہیں پتہ کہ وہ‬
‫ہنس رھی تھی یا رو رھی تھی ۔‬
‫میں انکل کی بات سن کر جھینپ گیا‬
‫اور‬
‫سر جھکائے پھر انکل کے پاس ناف پر‬
‫ھاتھ باندھے کھڑا ھوگیا۔‬
‫انکل بولے‬
‫گل سن میری کن کھول کے‬
‫میری پھر ہوا نکل گئی ۔‬
‫اب انکل کیا کہیں گے ۔ ‪.‬کہ پتہ نھی‬
‫میں نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫تو انکل بولے‬
‫اوکاکا‬
‫تینوں منڈے والے ویکھن آے نے جیڑاں‬
‫سٹیا ہویا اے ۔‬‫شرما کہ سر تَھلے ُ‬
‫جنید کھلکھال کر ہنس پڑا انکل نے‬
‫گھور کر اسکی طرف دیکھا تو اسکی‬
‫ہنسی وہیں رک گئی جبکہ مجھے‬
‫محسوس ھورھا تھا کہ صدف بھی ہنس‬
‫رھی ھے ۔‬
‫مجھے جنید پر تو نھی صدف پر غصہ‬
‫آنے لگ گیا کہ میری یہاں جان پر بنی‬
‫ھوئی ھے اور اس سالی کی دندیاں نکل‬
‫رھیں ہیں۔‬
‫انکل بولے ادھر میری طرف دیکھ ۔‬
‫میں نے سر اٹھا کر انکل کی طرف‬
‫دیکھا تو انکل بولے‬
‫اینج کر پنڈ جا تے نالے ایس ُکڑی نوں‬
‫ایسے کار چھڈ آویں تے نالے کار جاکہ‬
‫اج دن چنگی طراں سو کے گزاریں تے‬
‫کل ای نا تو کے دکان تے آویں ۔‬
‫جا میرا پتر ۔‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے کاونٹر‬
‫سے نیچے اترا اور جوتا پہننے لگ گیا۔‬
‫تو انکل نے جیب سے سو روپے‬
‫مجھے نکال کر دئے کہ تانگے پر چلے‬
‫جانا اور اگر تمہاری طبعیت واقعی‬
‫خراب ھے تو ڈاکٹر سے دوائی لے کر‬
‫گھر جانا ۔‬
‫سمجھ آئی کہ اگلی وی گئی ۔میں نے نہ‬
‫چاھتے ھوے بھی انکل سے سو روپے‬
‫پکڑے اور جیب میں ڈالتے ھوے جی‬
‫انکل کہا اور سپیڈ سے دکان سے باہر‬
‫نکل کر چل پڑا ۔‬
‫کہ میرے کانوں میں انکل کی پھر آواز‬
‫گونجی‬
‫اوے ہن کتھے چلیاں ایں ۔‬
‫میں انہی قدموں واپس مڑا اور کہا‬
‫ججججی گھر ۔۔۔۔۔‬
‫انکل پھر ماتھے پر ھاتھ مارتے ھوے‬
‫صدف کی طرف اشارہ کرتے ھوے‬
‫بولے ۔‬
‫ایس باجی نوں تے نال لے جا کہ کالں‬
‫ای جائیں گا ۔‬
‫میں خود کو کوستے ھوے جھینپ کر‬
‫صدف کی طرف دیکھنے لگ گیا کہ‬
‫نواب زادی خود ھی اٹھ کر آجاے یا‬
‫مجھے اسے اٹھا کر لیجانا ھے ۔‬
‫انکل نے صدف کے سر پر پیار سے‬
‫ہاتھ پھیرتے ھوے کہا جاپتر اپنے ویر‬
‫نال چلی جا‬
‫تے اپنے ابے نوں میرا سالم کویں نالے‬
‫اونوں کویں کہ کسی دکان تے مل ای‬
‫جایا کرے‬
‫اپنے لنگوٹیے یار نوں۔‬
‫صدف اثبات میں سر ہالتے ھوے جی‬
‫انکل کہتے ھوے میری طرف چل پڑی‬
‫اور جنید نے میری طرف دیکھ کر آنکھ‬
‫ماری کہ‬
‫بچی ٹیٹ اے۔‬
‫میں اوس سالے نوں کی دس دا کہ ایس‬
‫بچی نے ای میری ِٹبری ٹیٹ کیتی ہوئی‬
‫اے ایدی وجہ توں ای تے میرے ہوش‬
‫گواچے ھوے نے تے میری مت وجی‬
‫ھوئی اے ۔۔۔‬
‫میں جیند کو نظر انداز کرتے ھوے‬
‫صدف کو یہ سوچتے ھوے ساتھ لے کر‬
‫چل پڑا کہ سالی نے پتہ نھی انکل کو‬
‫کیا بین سنائی ھے جو انکل نے مجھے‬
‫اسکے ساتھ اس چڑیل کو گھر چھوڑنے‬
‫کے لیے بھیج دیا ھے ۔‬
‫میری تو سمجھ سے باہر تھی ساری گیم‬
‫۔‬
‫میں ایکدم صدف سے آگے ھی چل رھا‬
‫تھا اور صدف میرے پیچھے پیچھے‬
‫چلی آرھی تھی‬
‫تانگے والے چوک تک ہمارا سفر‬
‫خاموشی سے گزرا‬
‫جیسے ھی میں‪ .‬چوک کی طرف مڑنے‬
‫لگا تو صدف نے آگےبڑھ کر میرا بازو‬
‫پکڑ کر مجھے چوک کے ساتھ ایک‬
‫گلی کے طرف کھینچ کر لیجانے لگی‬
‫اور بولی کہ میں تمہارے پیچھے تانگے‬
‫کا سفر کرنے کے لیے نہیں آئی‬
‫چپ چاپ میرے ساتھ چلو ورنہ بہت برا‬
‫ھوگا۔‬
‫میں تو پہلے ھی ڈرا ھوا تھا‬
‫صدف کی بات مانتے ھوے اسکی تقلید‬
‫میں گلی کیطرف چل دیا ۔‬
‫گلی میں کچھ آگے جاکر محلہ شروع‬
‫ھوجاتا تھا اور اس محلے سے ایک گلی‬
‫باہر مین سڑک پر کھلتی تھی اور سڑک‬
‫سے آگے ہمارے گاوں کی طرف جاتی‬
‫کچی سڑک شروع ھوجاتی تھی جس‬
‫سے ہم روز شہر آتے تھے ۔‬
‫صدف اور میں خاموشی سے چلے‬
‫جارھے تھے ۔‬
‫محلے سے گزر کر مین سڑک کراس‬
‫کی اور پھر گاوں کی طرف جاتی‬
‫شارٹ کٹ کچی سڑک پر چلتے ھوے‬
‫ہم نہر کے پل پر جا پہنچے‬
‫پل پر پہنچ کر صدف مکئی کیطرف‬
‫جانے کی بجاے نہر کے کنارے پر‬
‫ٹرین کی پٹری کے پل کی طرف چل‬
‫پڑی میں بھی خاموشی سے اسکے ساتھ‬
‫ساتھ چال جارھا تھا‬
‫کچھ دور جاکر صدف رک گئی اور‬
‫ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی‬
‫جب اسے تسلی ہوگئی کہ ادھر کوئی‬
‫نہیں دیکھ رھا تو صدف نے میرا ھاتھ‬
‫پکڑا اور نہر کے کنارے سے نیچے‬
‫دوڑتی ھوئی مجھے بھی ساتھ لے کر‬
‫مکئی میں داخل ھوگئی ۔‬
‫مکئی کے بیچوں بیچ لیجاکر جب ہم‬
‫آگے نکلے تو میں یہ دیکھ کر حیران‬
‫رھ گیا کہ‬
‫یہ تو وہ ھی جگہ ھے بچھڑے تھے ہم‬
‫جہاں سے ۔‬
‫میں حیران ھوکر صدف کی طرف‬
‫دیکھنے لگ گیا کہ اسے کیسے اتنے‬
‫شارٹ کٹ راستے کا پتہ ھے حاالنکہ‬
‫اس راستے کا مجھے بھی نہیں پتہ تھا‬
‫کہ ادھر سے بھی ٹاہلی کے پاس پہنچ‬
‫سکتے ہیں ۔‬
‫ٹاہلی کے پیچھے پہنچ کر صدف نے‬
‫مجھے بیٹھنے کا اشارا کیا اور خود‬
‫چوکڑی مار کر ایسے بیٹھ گئی جیسے‬
‫گھر میں بیڈ یا چارپائی پر بیٹھی ھو‬
‫اس سے پہلے کہ میں بیٹھتا کہ ۔۔۔۔۔۔‬

‫میں نے چاروں اطراف نظر دوڑا کر‬


‫تسلی کرلی کہ کوئی ہے تو نہیں ۔‬
‫تسلی کرنے کے بعد میں صدف کے‬
‫سامنے چوکڑی مار کر بیٹھ گیا صدف‬
‫میرے چہرے کی طرف نم آنکھوں سے‬
‫دیکھی جارہی تھی اور میں اس سے‬
‫نظریں چرا رھا تھا ۔‬
‫اوراپنے ھاتھوں کی انگلیوں کو چٹخ‬
‫رھا تھا۔‬
‫آخرکار صدف نے ھی خاموشی توڑی‬
‫اور اپنا نقاب اتار کر برقعے کا دوپٹہ‬
‫اتار کر ایک طرف رکھا اور میرا ھاتھ‬
‫پکڑ کر بولی‬
‫یاسر اتنی بھی کیا بے رخی ھے کہ تم‬
‫مجھ سے یوں دور بھاگ رھے ھو ۔‬
‫بیشک میری غلطی ھے میں نے‬
‫تمہاری انسلٹ کی تھی‬
‫مجھے اپنے کئے پر بہت پچھتاوا ھے‬
‫بہت دفعہ میں نے کوشش کی کہ تم سے‬
‫معافی مانگوں مگر مجھ میں ہمت نہیں‬
‫ہورھی تھی کہ تمہارا سامنا کس منہ‬
‫سے کروں ۔‬
‫پلیز مجھے معاف کردو‬
‫صدف میرا ھاتھ چھوڑ کر میرے‬
‫سامنے ھاتھ جوڑے رونے لگ گئی ۔‬
‫مجھ سے بھی اب صدف کا رونا دیکھا‬
‫نہیں گیا میں نے صدف کے دونوں ھاتھ‬
‫پکڑ کر ھاتھوں کو چومتے ھو روہانسی‬
‫آواز میں اسے کہا‬
‫صدف میرا قصور‪ .‬کیا تھا جو تم اتنی‬
‫سخت دل ہوگئی تھی ۔‬
‫صدف اور ذور سے رونے لگ گئی‬
‫اور بس یہ ھی کہتی رھی‬
‫مجھ سے غلطی ھوگئی تھی یاسر مجھ‬
‫سے غلطی ھوگئی تھی یاسر‬
‫مجھے معااااااففففف کردو‬
‫میرا بھی رونا نکل گیا میں نے آگے‬
‫ھوکر صدف کو گلے لگا لیا‬
‫ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بازوں‬
‫میں جکڑا ھوا تھا‬
‫اور دونوں کے آنسو جاری تھے‬
‫میں بھی صدف سے معافی مانگ رھا‬
‫تھا اور صدف مجھ سے دونوں لپٹے‬
‫ھوے ھی گلے شکوے کررھے تھے‬
‫صدف نے دونوں ھاتھوں سے میرا‬
‫چہرہ پکڑا اور میرے ہونٹوں کو گالوں‬
‫کو ماتھے کو چومنے لگ گئی اور ساتھ‬
‫ساتھ بولی جارھی تھی‬
‫یاسر آئی لو یو یاسر اب مجھے چھوڑ‬
‫کر نہ جانا یاسر میں تمہارے بنا‬
‫ادھوری ھوں آئی لو یو یاسر آئی لو یو۔‬
‫میں نے بھی صدف کی گالوں کو ھاتھ‬
‫میں پکڑلیا اور روتے ھوے بوال۔‬
‫لو یو ٹو صدف لو یو ٹو۔‬
‫تم بھی اب میرے ساتھ نہ لڑنا‬
‫بہت تڑپایا ھے تمہاری بے رخی نے‬
‫بہتتتت۔‬
‫ہم دونوں کے ڈائلگ کافی دیر چلتے‬
‫رھے ۔‬
‫کبھی صدف میرے ہونٹوں کو چومتی‬
‫تو کبھی میں صدف کے ہونٹوں کو‬
‫چومتا۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں کا جنون کچھ کم‬
‫ھوا تو ۔‬
‫صدف ایکدم گم سم ھوگئی‬
‫میں نے اسے یوں گم سم ھوتے دیکھا‬
‫تو اس سے پوچھا کہ کیا ھوا صدف۔۔۔۔۔‬
‫صدف اپنے برقعے کے دوپٹے سے‬
‫اپنی آنکھیں اور گالوں کو صاف کرتے‬
‫ھوے بولی‬
‫یاسر مجھے بیس دن ھوگئے ہیں‬
‫ماہواری نہیں آئی ۔‬
‫اور میرا ہر وقت دل خراب ھوتا رھتا‬
‫ھے‬
‫کچھ بھی کھانے کو دل نہی کرتا بلکہ‬
‫چار پانچ دنوں سے مجھے الٹیاں آئی‬
‫جارہی ہیں ۔‬
‫میری فرینڈ نے مجھے بتایا ھے کہ ایسا‬
‫تو تب ہوتا ھے جب لڑکی ماں بننے‬
‫والی ھوتی ۔‬
‫میرا تو تب سے برا حال ھے کہ اگر‬
‫میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ میں‬
‫پریگنٹ ھوں تو میرے ساتھ ساتھ وہ تم‬
‫کو بھی جان سے ماردیں گے ۔‬
‫صدف کی بات سن کر میری پھری گانڈ‬
‫پھٹنے والی ھوگئی ۔‬
‫ساری عاشقی ایکدم نکل گئی ۔‬
‫خوف پھر میرے دماغ پر سوار ھوگیا۔‬
‫میری بیٹھے کی ٹانگیں کانپنا شروع‬
‫ھوگئی ۔‬
‫صدف میری حالت دیکھ کر‬
‫بولی یاسر گبھرانے یا بھاگنے سے اس‬
‫پریشانی کا حل نہیں نکلنا ۔‬
‫ریلیکس ہوجاو‬
‫اور کچھ سوچو کہ کیا کریں جس سے‬
‫ہم دونوں کی جان بھی بچ جاے اور‬
‫ہمارے گھر والوں کی عزت بھی بچ‬
‫جاے ۔‬
‫میں نے کہا صصصدف میں کیا کرسکتا‬
‫ھوں ۔‬
‫مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرھا۔‬
‫صدف میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی‬
‫یاسر کولڈ ڈاون پلیزززززز‬
‫میں لڑکی ھوکر اتنا نھی گبھرا رھی‬
‫جتنا تم لڑکے ھوکر گبھرا رھے ھو‬
‫ایسے تو ہم دونوں پھنس جائیں گے‬
‫صدف کی باتوں سے میں کچھ ریلیکس‬
‫ھوگیا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے‬
‫بعد میرے دماغ میں فرحت آئی کہ اگر‬
‫اس کو ساری حقیقت بتا دوں تو ہو سکتا‬
‫ھے وہ اس پرابلم کا حل نکال سکے ۔‬
‫پھر میرے دماغ میں منفی خیاالت نے‬
‫جنم لیا کہ وہ بڑی خرافہ عورت ھے‬
‫کہیں حسد میں کچھ الٹا سیدھا نہ کردے‬
‫۔‬
‫میں دونوں ھاتھوں سے سر پکڑے بیٹھا‬
‫سوچوں میں گم تھا ۔‬
‫کہ صدف بولی یاسر اب کیا ھوگا‬
‫میں نے کہا یار صبر کرو کچھ سوچنے‬
‫دو کوئی نہ کوئی حل تو نکلے گا ھی ۔‬
‫میں نے اچانک چونکتے ھوے کہا کہ‬
‫صدف تمہاری سہیلی کو پتہ ھے کہ تم‬
‫پریگنٹ ھو ۔‬
‫صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی‬
‫پتہ میں نے تو بس ‪.‬نہیں اسے نہی‬
‫ایسے ھی باتوں باتوں میں اس سے‬
‫ساری معلومات لی تھی ۔‬
‫میں نے کہا اسے کیسے پتہ ھے ان‬
‫باتوں کا ۔‬
‫صدف بولی وہ شادی شدہ ھے اس کے‬
‫تین بچے ہیں سالئی سکول میں وہ‬
‫سالئی کا کام سیکھاتی ھے ۔‬
‫ھے تو میری ٹیچر مگر میری دوست‬
‫بن گئی تھی اس لیے اس سے پوچھ لیا ۔‬
‫میں ہممممم کر کے پھر خاموش ھوگیا‬
‫اور ھاتھ پر مکا مارتے ھوے پھر‬
‫سوچنے لگ گیا ۔‬
‫اور پھر میرے دماغ میں جنید آیا کہ‬
‫شاید وہ کوئی بہتر مشورہ دے سکے یہ‬
‫سوچ کر میں نے صدف کو حوصلہ‬
‫دیتے ھوے کہا کہ‬
‫تم پریشان مت ھو میں کل ھی اسکا‬
‫کوئی نہ کوئی حل تالش کرلوں گا ۔‬
‫تم یہ بات کسی سے مت کرنا اور ذیادہ‬
‫پریشان مت رہنا یہ نہ ھو کی تمہارے‬
‫گھر والوں کو شک پڑ جاے۔‬
‫صدف نے دونوں ھاتھوں میں میرا ھاتھ‬
‫پکڑا اور بولی‬
‫یاسر پلیززززز کچھ کرو جیسے جیسے‬
‫دن گزرتے گئے بہت بڑا مسئلہ بن جانا‬
‫ھے ۔‬
‫میں نے دوسرا ھاتھ اس کے ھاتھوں پر‬
‫رکھ کر اسے تسلی دی کہ یار اب کچھ‬
‫دن تو صبر کرنا ھی پڑے گا ۔‬
‫فٹافٹ تو یہ مسئلہ حل نھی ھونے واال۔‬
‫کچھ دیر مذید ہم مشاورت کرتے رھے‬
‫ہمیں ایک گھنٹہ ادھر بیٹھے ھوگیا تھا۔‬
‫میں نے کہا صدف اب تم نے گھر جانا‬
‫ھے یا شہر ۔۔صدف بولی ابھی تو کافی‬
‫وقت پڑا ھے ابھی گھر گئی تو امی نے‬
‫سو سوال کرنے ہیں۔‬
‫میں نے ہممممم کیا اور کہا کہ پھر ادھر‬
‫ھی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو صدف‬
‫نے بھی اثبات میں سر ہال کر ہاں کہہ‬
‫دی ۔‬

‫اب ہم دونوں کافی نارمل ھوچکے تھے‬


‫اور ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف‬
‫ھوگئے‬
‫میری نظر صدف کے تنے ھوے مموں‬
‫پر پڑی جو برقعے میں پھنسے ھوے‬
‫تھے اور برقعہ بھی سوفٹ سٹف میں‬
‫تھا جس میں صدف کے ممے بہت‬
‫سیکسی لگ رھے تھے ۔‬
‫مموں کو دیکھتے ھی میرے دماغ میں‬
‫شیطان نے پھونکیں مارنا شروع کردیں‬
‫میں آہستہ آہستہ کھسکتا ھوا‬
‫صدف کے قریب ھوتا گیا ۔‬
‫اور فرحت کی بغل میں اسکے ساتھ جڑ‬
‫کر بیٹھ گیا اور اپنا ایک بازو اسکے‬
‫کندھوں پر رکھ ھاتھ اسکے ممے کے‬
‫اوپر اس‪ ،‬انداز سے رکھ دیا جیسے یہ‬
‫سب اچانک اور غیر ارادی طور پر‬
‫ھورھا ھو۔۔میرے ہاتھ کی انگلیاں صدف‬
‫کے ممے کو چھو رھیں تھی‬
‫بظاہر میں صدف سے ادھر ادھر کی‬
‫باتیں کررھا تھا مگر میرا دھیان اسکے‬
‫ممے پر رکھے اپنے ھاتھ کی طرف تھا‬
‫۔‬
‫میں نے جان بوجھ کر موضوع تبدیل‬
‫کرتے ھوے‬
‫صدف سے پوچھا‬
‫کہ صدف تمہارا دل نہیں کیا دوبارا‬
‫کرنے کو۔‬
‫صدف میرے اس اچانک سوال پر‬
‫چونک کہ میری طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫میری جان پر بنی ھوئی ہے اور تم دل‬
‫کرنے کی بات کررھے ھو۔‬
‫میں نے کہا یار میں اب کی بات نہیں‬
‫کر رھا‬
‫یہ تو تمہیں کچھ دن پہلے پتہ چال ھے‬
‫مگر ہمیں کئے ھوے تو دو مہینے‬
‫ھوچکے ہیں ۔‬
‫میں پہلے کی بات کررھا ھوں۔‬
‫صدف شرما کر سر نیچے کر کے بولی‬
‫مجھے نہیں پتہ ۔۔۔‬
‫میں نے کہا تو کسے پتہ ھے ۔‬
‫صدف میرے کندھے پر مکا مارتے‬
‫ھوے بولی تمہیں پتہ ھوگا۔‬
‫میں نے صدف کو کندھے سے پکڑے ‪.‬‬
‫مذید ساتھ لگاتے ھوے کہا۔‬
‫مجھے تو اپنا پتہ ھے‬
‫کہ میرا بہتتتتتتتت دل کرتا تھا ۔‬
‫مگر میں تمہارے دل کا حال جاننا چاھتا‬
‫ھوں‬
‫کہ میری جان کا دل کیا کرتا تھا۔‬
‫صدف نے سر اٹھایا اور دونوں ھاتھوں‬
‫کے پنجے کھول کر میرے گلے کو‬
‫پکڑ کر مجھے پیچھے کی طرف‬
‫دھکیل کر پیچھے گراتے ھوے اور‬
‫خود بھی میرے ساتھ ھی میرے اوپر‬
‫لیٹے ھوے بولی میرا تو دل تمہارا گال‬
‫دبانے کو کرتا تھا ۔‬
‫میں نے صدف کی کالئیوں کو پکڑا اور‬
‫کہا لو اب اپنی حسرت پوری کر لو اور‬
‫دبا دو میرا گال۔‬
‫میں گھاس پر بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا‬
‫اور صدف میرے گلے پر دونوں ھاتھ‬
‫رکھے سائڈ کے بل آدھی میرے اوپر‬
‫لیٹی ھوئی تھی اور اسکے دونوں تنے‬
‫ھوے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ‬
‫رھے تھے۔‬
‫صدف بولی یہ ھی تو میں کر نہیں‬
‫سکتی ورنہ اس دن جو تم میرا حال‬
‫کرکے گئے تھے میں تمہیں گولی مار‬
‫دیتی اور جناب نے مڑ کر میری خبر‬
‫بھی نہ لی کہ میں زندہ ھوں یا مرگئی‬
‫ھوں ۔‬
‫میں نے چومی لینے کے انداز میں‬
‫ہونٹ صدف کی طرف کرتے ھوے‬
‫اپنے ھاتھ سے صدف کی گردن کو پکڑ‬
‫کر نیچے کر کے اسکے ہونٹوں کو‬
‫چوما اور کہا تم نھیں مر سکتی صدف‬
‫میرا گال چھوڑ کر میری قمیض کے‬
‫بٹنوں سے کھیلتی ھوئی میری طرف‬
‫نشیلی آنکھوں سے دیکھتے ھوے بولی‬
‫تم نے تو مجھے مارنے کی کوئی کسر‬
‫نہیں چھوڑی تھی ایسے بھی بھال کوئی‬
‫کرتا ھے جیسے تم میرے ساتھ کرکے‬
‫بھاگ گئے تھے اگر مجھے کچھ ھوجاتا‬
‫۔‬
‫میں صدف کے ریشمی بالوں میں‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے انکو سہالتے‬
‫ھوے کہا‬
‫پیار میں تکلیف نہ ھو تو پیار پیار نہیں‬
‫ھوتا ۔‬
‫صدف میرے سینے پر مکا مارتے‬
‫ھوے بڑے الڈ سے بولی مجھے نہیں‬
‫چاہیے ایسا پیار ۔‬
‫صدف کی اس ادا پر میں فدا ھوتا گیا‬
‫اور پھر اسکی گردن پر ھاتھ رکھ کر‬
‫اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کے‬
‫قریب کر کے چومتے ھوے بوال۔‬
‫میری جان کو کیسا پیار چاھیے۔‬
‫صدف نے میری آنکھوں آنکھیں ڈالیں‬
‫اور پھر اپنی پلکوں کو جھکا کر میری‬
‫قمیض کے بٹنوں کو انگلیوں سے‬
‫مروڑتے ھوے بولی ۔‬
‫جس میں سکون ھی سکون ھو اپنا پن‬
‫ہو دکھ تکلیف میں ساتھ ساتھ ھوں۔‬
‫صدف کے جسم کا لمس پاتے ھی میرا‬
‫لن کھڑا ھوچکا تھا۔‬
‫کچھ دیر پہلے کا رونا دھونا پریشانی‬
‫دونوں کے دماغ سے نکل چکا تھا ۔‬
‫میں نے صدف کی کمر میں ھاتھ ڈال‬
‫صدف کو اپنے سینے کے ساتھ لگاتے‬
‫ھوے کہا‬
‫تو کیا مجھ سے سکون نہیں ملتا اپنا پن‬
‫نھی ملتا۔‬
‫صدف نفی میں سر ہالتے ھوے بولی ۔‬
‫تم گندے ھو ظالم ھو مجھے تکلیف دے‬
‫کر تم خوش ھوتے ھو۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اپنے کان‬
‫پکڑ کر کہا‬
‫اگر معافی کی گنجائش ھو تو تمہارہ یہ‬
‫خادم دوبارا یہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ‬
‫کرتا ھے ۔‬
‫صدف ہنستے ھوے میرے ہاتھوں کو‬
‫پکڑ کر میرے کانوں سے ہٹاتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫ڈرامے باز بہتتتت تیز ھو تم ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے صدف نے اپنے‬
‫ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔‬
‫اور میرا ھاتھ صدف کی گردن کو اپنے‬
‫حصار میں لے کر گردن کو سہالنے‬
‫لگا اور ہم دونوں کے ہونٹ ایک‬
‫دوسرے میں جزب ہونے کی کوشش‬
‫کرنے لگ گئے‬
‫میرا لن شلوار کے اندر ھی جھٹکے‬
‫کھانے لگ گیا۔‬
‫کافی دیر ہم ایسے ھی ایک دوسرے‬
‫کے ہونٹ چوستے رھے‬
‫صدف کی ٹانگیں اور گانڈ گھاس پر‬
‫تھی اور باقی کا اوپر جسم میرے اوپر‬
‫تھا صدف کے ممے میرے سینے کے‬
‫ساتھ ملن کر رھے تھے اور صدف کا‬
‫پیٹ میرے پیٹ کے اوپر تھا اور سائڈ‬
‫کے بل ھونے کی وجہ سے صدف کی‬
‫پھدی میری ران کے ساتھ لگی ھوئی‬
‫تھی ۔‬
‫اور ہم ہر شے سے بیگانے ھوکر ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں‬
‫مصروف تھے ۔‬
‫سہی کہتے ہیں کہ‬
‫خلوت میں نیند اور شہوت موقع محل ‪.‬‬
‫نہی دیکھتیں انسان چاھے جس حال مین‬
‫بھی ھو جس جگہ بھی ھو یہ دونوں سر‬
‫پر سوار ھوجائیں تو سب کچھ بھال دیتی‬
‫ہیں ۔‬
‫ہمیں دو گھنٹے ھو چلے تھے اس جگہ‬
‫پر آے ھوے مگر ہم وقت اور جگہ کو‬
‫بھولے ھوے اپنی ہوس میں ڈوبے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ چوسی جارھے‬
‫تھے۔‬

‫میں نے ہاتھ آگے کر صدف کے برقعے‬


‫کے اوپری بٹن کھولنے شروع کردیے‬
‫صدف بھی فل تیار ہوچکی تھی اور‬
‫جیسے وہ پھدی کو میری ران کے ساتھ‬
‫مسل رھی اس سے اسکے گرم جزبات‬
‫اور پھدی سے بہتے پانی کا اندازہ‬
‫مجھے ہوچکا تھا اس لیے میں نے موقع‬
‫کی مناسبت سے اگال قدم بڑھایا اور‬
‫صدف کے برقعے کو اتارنے لگ گیا‬
‫جس میں اس نے میری مدد کرتے‬
‫ھوے خود ھی برقعے کو اپنے سیکسی‬
‫جسم سے الگ کر کے ایک طرف رکھ‬
‫دیا۔‬
‫اب صدف گہرے رنگ کے سوٹ میں‬
‫تنے ھوے مموں کے ساتھ میرے اوپر‬
‫پھر لیٹ چکی تھی ۔‬
‫اور میں صدف کے مموں کو ہاتھوں‬
‫میں بھر کر بھینچ رھا تھا اور صدف‬
‫کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں‬
‫۔‬
‫صدف کے گول مٹول سوفٹ ممے‬
‫دبانے میں مجھے بہت مزہ آرھا تھا اور‬
‫صدف بھی ممے دبوانے کا مزہ‬
‫سسکاریاں بھر بھر لے رھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے صدف کو اپنے‬
‫اوپر سے اٹھا کر اپنے ساتھ سیدھا لیٹا‬
‫کر خود اسکے اوپر آگیا اور اسکی‬
‫قمیض کو پکڑ کر اوپر کرکے مموں کو‬
‫قمیض سے آزاد کروا دیا۔‬
‫صدف کے چٹے سفید ممے کالے‬
‫بریزیر میں چمک رھے تھے میں نے‬
‫جلدی سے بریزیر کو مموں سے ہٹایا تو‬
‫صدف کے چٹے ممے میرے سامنے‬
‫بلکل ننگے جگ مگ جگ مگ کر‬
‫رھے تھے ۔‬
‫میں نے جی بھر کر مموں کو چوسا‬
‫میرے چوسے سے ممے سرخی مائل‬
‫ہو چکے تھے اور صدف مزے کی‬
‫شدت سے آنکھیں‬
‫بند کیے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ‬
‫پھیرتے ھوے لیٹی سسکاریاں بھر رھی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے مموں پر ہاتھ صاف کیا اور‬
‫پھر صدف کی ٹانگوں کو کھول کر ان‬
‫میں دوزانوں بیٹھ گیا اور صدف کی‬
‫السٹک والی شلوار کو پکڑ کر نیچے‬
‫کھینچنے لگا تو صدف نے گانڈ اوپر کر‬
‫کے شلوار اتارنے میں میری مدد کی‬
‫میں نے شلوار ایک ٹانگ سے نکال دی‬
‫اور صدف کی دوسری ٹانگ میں شلوار‬
‫رہنے دی اور جلدی سے اپنی قمیض‬
‫اوپر کر کے اپنا ناال کھوال اور شلوار‬
‫نیچے کر کے لن کو پکڑ کر صدف کی‬
‫گیلی پھدی کے لبوں کے درمیاں‬
‫پھیرنے لگ گیا صدف مزے میں دھری‬
‫ھو رھی تھی گانڈ کو اٹھا کر پھدی کو‬
‫جلدی سے لن اندر لینے کا اشارا کر‬
‫رھی تھی ۔‬
‫صدف کی بے چینی دیکھتے ھوے میں‬
‫نے صدف کی گوری گوری نرم رانوں‬
‫پر ھاتھ رکھا کر ٹانگوں کو ہوا میں کیا‬
‫اور گھسا مار کر لن اندر کردیا آدھا لن‬
‫پہلے ھی گھسے میں صدف کی ٹائٹ‬
‫پھدی میں چال گیا‬
‫صدف کے منہ سے آہہہہہہہہہ نکال اور‬
‫بولی‬
‫آراااممممم نال یاسسسسر‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا اور پھر‬
‫گھسا مار کر پورا لن پھدی میں اتار دیا‬
‫اور خود گھٹنوں کے بل صدف کے‬
‫اوپر ھوگیا ۔‬
‫پورا لن جاتے ھی صدف کے منہ سے‬
‫ہلکی سی چیخ نکلی اور میں نے ساتھ‬
‫ھی اپنے ہونٹ صدف کے ہونٹوں پر‬
‫رکھ دیے اور آرام آرام سے گھسے‬
‫مارنے لگ گیا‬
‫صدف پہلے تو کچھ دیر ھاے ھاے‬
‫ھاے کرتی رھی صدف کی پھدی کافی‬
‫ٹائٹ تھی جس نے میرے لن کو پوری‬
‫طرح اپنے قابو میں کر کے دبوچا ھوا‬
‫تھا صدف نے دونوں بازو میری کمر‬
‫کے گرد ڈالے ھوے تھے اور میری‬
‫کمر کو اپنے ناخنوں سے کھرچ رھی‬
‫تھی اور میں گھسے پے گھسے ماری‬
‫جارھا تھا‬
‫کچھ ھی دیر بعد صدف نے مجھے‬
‫بازوں میں بھینچا‬
‫اور مجھے زور ذور سے کرنے کا‬
‫بولی‬
‫میں نے بھی گھسوں کی سپیڈ تیز کردی‬
‫۔‬
‫صدف ھاےےےےےے ممممممم تیز‬
‫تیز تیز کرو یاسر ھاں ہااااااں‬
‫ایسےےے ھییی آہ آہ آہ مممممم گئی ‪.‬‬
‫گگگگگئییییییییییی‬
‫کہتی نے مجھے ذور سے اپنے بازوں‬
‫میں بھینچ کر پھدی کو لن کے گرد‬
‫جکڑ بند کر کے منی کے فوارے‬
‫چھوڑنے شروع کردئے‬

‫صدف کی پھدی کے اندر اتنی گرمی‬


‫تھی کہ میں بھی مذید ٹک نہ پایا اور‬
‫چند تیز تیز گھسوں کے بعد میں بھی‬
‫صدف کی پھدی کے اندر ھی اپنا سارا‬
‫مادہ گرا کر صدف کے اوپر ھی لیٹ‬
‫گیا۔‬
‫دوستو جلدی جلدی سیکس کرنے کا بھی‬
‫اپنا ھی مزہ ھوتا ھے ۔‬
‫جب میں نے منی کا آخری قطرہ بھی‬
‫صدف کی پھدی کے اندر بہا دیا تو‬
‫صدف میرے سینے پر مکے مارتے‬
‫ھوے بولی پھر اندر فارغ ھوگئے ھو نہ‬
‫۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫کملیئے ہن کیڑا بچہ اوتے بچہ ہونا اے‬
‫اگلے دا بندو بست ھو لین دے فیر اندر‬
‫نئی فارغ ہوندا۔‬
‫صدف پھر مجھے مکا مارتے ھوے‬
‫بولی بڑا پتہ اے تینوں ۔۔۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں نے اپنی‬
‫شلواروں کو اوپر کیا اور کپڑوں کو‬
‫درست کر کے گاوں کی طرف چل دیے‬
‫راستے میں بھی صدف مجھے بار بار‬
‫یاد دھانی کراتی رھی اور صبح اکھٹے‬
‫شہر جانے کا کہتی رھی۔۔۔۔۔‬
‫میں صدف کو گھر چھوڑ کر جب اپنی‬
‫گلی میں داخل ھوا اور آنٹی کے گھر‬
‫کے پاس سے گزرنے لگا تو آنٹی‬
‫دروازے پر کھڑی تھی مجھے دیکھتے‬
‫ھی غصے سے بولی‬
‫ننگ جا ننگ جا‬
‫چپ کر کے ۔‬
‫میں شرمندہ سا ھوکر آنٹی کی طرف‬
‫چل دیا اور آنٹی سے سالم لے کر اندر‬
‫داخل ھوا تو نسرین دروازے کے پاس‬
‫ھی بیٹھی برتن دھو رھی تھی اور‬
‫عظمی شاید کمرے میں تھی میں نے‬
‫کے پاس سے گزرتے ھوے اسکے سر‬
‫پر چپت لگاتے ھوے اسے چھیڑا اور‬
‫آنٹی کی طرف منہ کر کے بوال‬
‫آنٹی اے کم والی مائی کدوں رکھی اے۔‬
‫نسرین سٹیل کے گالس کو دھو رھی‬
‫تھی اس نے ہاتھ میں پکڑا گالس مجھے‬
‫مارنے کے لیے میری طرف پھینکا‬
‫میں اس کے ارادے کو جانتے ھوے‬
‫پہلے ھی تیار تھا میں نے گالس کو ہوا‬
‫میں ھی کیچ کر لیا اور گالس میں جو‬
‫تھوڑا سا پانی تھا وہ نسرین پر پھینک‬
‫کر اندر کمرے کی طرف بھاگ گیا۔‬
‫نسرین برتنوں کو وہیں چھوڑ کر ایک‬
‫اور گالس میں پانی ڈال کر گالس‬
‫پکڑے میرے پیچھے بھاگی‬
‫آنٹی ہنستے ھوے اسے منع کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫میں بھاگتا ھوا کمرے میں داخل ھوا تو‬
‫عظمی چارپائی پر بیٹھی دوپٹے پر‬
‫کڑھائی کا کام کررھی تھی مجھے یوں‬
‫اچانک دیکھ کر چونک کر میری طرف‬
‫متوجہ ھوئی اس سے پہلے کہ عظمی‬
‫کچھ بولتی پیچھے ھی نسرین پانی کا‬
‫بھرا ھوا گالس لیے کمرے میں داخل‬
‫ھوئی اور آتے ھی ہاتھ لمبا کر کے‬
‫گالس کا پانی میری طرف اچھاال میں‬
‫نے جلدی سے چارپائی پر پڑا تکیہ اٹھا‬
‫کر آگے کردیا پانی کی کچھ چھینٹیں‬
‫میرے منہ پر پڑیں اور باقی پانی تکیہ‬
‫پر گرا اتنے میں آنٹی اندر داخل ہوئیں‬
‫تو نسرین کو بولنے لگ گئیں کہ تم بہت‬
‫بتمیز ھو گئی ھو یہ بھی کوئی طریقہ‬
‫ھے کیا۔‬
‫نسرین نے ہاتھ میں پکڑا ھوا گالس ذور‬
‫سے نیچے پھینکا اور روتے ھوے‬
‫بولی‬
‫اپنے اس الڈلے کو کچھ نہیں کہنا اس‬
‫نے پہلے مجھے کیوں مارا تھا‬
‫شیطان کسے تھاں دا‬
‫چنگا پال سکون سی کتھوں نازل ھوگیا۔‬
‫یہ کہتے ھوے نسرین پیر پٹختی ھوئی‬
‫باہر چلی گئی ۔‬
‫میں اور عظمی ہنس ہنس کے دھرے‬
‫ھو رھے تھے۔‬
‫آنٹی بولی‬
‫یاسر تم بھی اس چڑیل کو نہ چھیڑا کرو‬
‫پتہ بھی ھے کہ کتنی بتمیز ھے‬
‫میں نے کہا کچھ نھی ھوا آنٹی ایسا چلتا‬
‫رہتا ھے آپ نے خوامخواہ بیچاری کو‬
‫ڈانٹ دیا۔‬
‫آنٹی بولی‬
‫اچھا دفعہ کرو اسے‬
‫یہ بتاو جناب اتنے دنوں سے کہاں‬
‫مصروف تھے نہ کوئی خیر نہ کوئی‬
‫خبر۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی آجکل سیزن‬
‫چل رھا ھے تو دکان سے فرصت ھی‬
‫نہیں ملتی پہلے تو عظمی اور نسرین‬
‫کو ساتھ لے‬
‫کر جانا ھوتا تھا اس لیے میں آجاتا تھا ‪.‬‬
‫آنٹی بولی اچھا اس کا مطلب ھے کہ‬
‫جناب کو کوئی مجبوری ہوگی تو ھی‬
‫ہمارے گھر تشریف الئیں گے میں نے‬
‫کہا نہیں آنٹی جی ایسی بھی کوئی بات‬
‫نہیں میں بس آنے ھی واال تھا‬
‫آنٹی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔‬
‫تم تو اب بھی سیدھے اپنے گھر‬
‫جارھے تھے اگر میں نہ دیکھتی تو تم‬
‫نے کب آنا تھا۔‬
‫میں آنٹی کے قریب ھوا اور آنٹی کو‬
‫سائڈ سے جپھی ڈال کر الڈ سے آنٹی‬
‫کے ساتھ جھولتے ھو بوال نہیں آنٹی‬
‫جی آپ نہ بھی ھوتی تو میں نے آجانا‬
‫تھا ۔‬
‫آنٹی میرے سر کے بالوں کو سہالتے‬
‫ھوے بولی ۔‬

‫خیر ھے آج بڑی جلدی آگئے دکان سے‬


‫۔‬
‫میں نے برا سا منہ بنا کر ایکٹنگ‬
‫کرتے ھوے کہا۔‬
‫شکر ھے آنٹی جی کہ آپ کو میری فکر‬
‫ھوئی ورنہ جب سے آیا ھوں جھاڑ ھی‬
‫سن رھا ہوں ۔‬
‫آنٹی ایکدم پریشان ھوکر میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر‬
‫طبعیت تو سہی ھے تمہاری۔‬
‫میں صدیوں سے بیمار ھونے کی‬
‫ایکٹنگ کرتے ھوے آنٹی کو چھوڑ کر‬
‫گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر‬
‫ھاےےےےےے کرتا ھوا چارپائی پر‬
‫بیٹھ گیا آنٹی مذید پریشان ھوکر میرے‬
‫ساتھ بیٹھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ھوے اور میرے ماتھے پر الٹا ھاتھ‬
‫لگاتے ھوے بولی کیا ھوا یاسر بتاو بھی‬
‫۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی چھوڑو کیا‬
‫بتاو۔‬

‫آنٹی مذید ششوپن کا شکار ھوتے ھوے‬


‫بولی یاسر بتاو نہ کیا ھوا ھے سب‬
‫خیریت ھے نہ ۔‬
‫میں چہرے کو مذید لٹکا کر رونے واال‬
‫منہ بنا کر آنٹی کی طرف دیکھنے لگ‬
‫گیا عظمی بھی بڑی سنجیدگی سے‬
‫میری طرف دیکھنے لگ گئی‬
‫آنٹی میری گال کو تھپتھپا تے ھوے‬
‫بولی یاسر بولوووووو میرا دل بیٹھا‬
‫جارھا ھے ۔‬
‫میں نے سارے جہاں کا حوصلہ اکھٹا‬
‫کیا اور رونے واال منہ بنا کر‬
‫بوال؟؟؟؟؟؟‬
‫آنٹی جی میں صبح دکان پر گیا جاکر‬
‫میں نے صفائی شروع کردی کچھ دیر‬
‫بعد میرا دل گبھرانے لگ گیا میرا سر‬
‫چکرانے لگ گیا مجھ سے کھڑا ھونا‬
‫دشوار ھوگیا میری آنکھوں کے آگے‬
‫اندھیرا چھانے لگا ۔اور میں نیچے گرا‬
‫تو انکل دوڑے آے اور مجھے اٹھا کر‬
‫بولے ۔۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی اور عظمی بڑے غور سے میری‬
‫لمبی تمہید سن رہیں تھیں اور انکے‬
‫چہرے کے تاثرات بدلتے جارھے تھے‬
‫میں چپ ھوگیا تو آنٹی بولی پھر ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے رونے کی ایکٹنگ کرتے ھوے‬
‫کہا‬
‫پھر میں نے انکل کو کہا انکل جی انکل‬
‫جی انکل جی‬
‫مجھے اپنی آنٹی کی بہت یاد آرھی ھے‬
‫انکل بولے جا پُترررر جاااا اپنی آنٹی‬
‫کو مل آ اور میرا دوڑا آپ کے پاس چال‬
‫آیا‬

‫آنٹی نے مجھے دونوں ہاتھوں سے‬


‫دھکا دیا اور بولی جا دفعہ ھو بغیرت‬
‫میری جان ای کڈ دتی سی میں آنٹی کے‬
‫دھکے سے پیچھے چارپائی پر گر گیا‬
‫اور قہقہ لگا کر ہنسنے لگ گیا عظمی‬
‫بھی ہنسنے لگ گئی آنٹی غصہ سے‬
‫کھڑی ھوگی اور نیچے جھک کر جوتا‬
‫اٹھا کر میری ٹانگوں پر مار نے لگ‬
‫گئی اور ساتھ ساتھ بولتی جارھی تھی‬
‫ہن تنگ کریں گے بے شرماں‬
‫میں ہوا میں ٹانگیں چال رھا تھا اور ہاتھ‬
‫آگے کر کے اپنا بچاو کر رھا تھا ۔‬
‫تبھی نسرین برتنوں کی ٹوکری اٹھاے‬
‫ھوے اندر داخل ھوئی تو مجھے مار‬
‫پڑتے دیکھ کر بڑی خوش ہوئی اور‬
‫بولی امی اسے اور مارو بلکہ دو چار‬
‫میرے حصے کی بھی لگا دو ۔‬
‫آنٹی نے جوتا نیچے پھینکا اور بولی‬
‫شہر جاکر تم بڑے بدمعاش ھوگئے ھو ۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫آنٹی جی کچھ کھانے پینے کو بھی ملے‬
‫گا یا بس چھتروں سے ھی میرا پیٹ‬
‫بھرنا ھے ۔‬
‫آنٹی کو سانس چڑھا ھوا تھا آنٹی بولی‬
‫کیا کھانا ھے میرے شہزادے نے‬
‫میں نے کہا جو بھی پکا ھے لے آئیں‬
‫قسم سے بڑی بھوک لگی ھے شہر سے‬
‫دوڑ کر آیا ھوں‬
‫آنٹی ہنستے ھو پھر جوتا اٹھانے کے‬
‫لیے نیچے جھکی اور بولی ٹھہر جا‬
‫دسنی آں تینوں ۔۔۔ آنٹی کے جھکنے‬
‫سے آنٹی کے ُکھلے گلے سے انکے‬
‫چٹے سفید ممے صاف نظر آرھے تھے‬
‫چند سیکنڈ ھی مموں کی جھلک‬
‫دیکھنے کو ملی پھر آنٹی سیدھی ھوگئی‬
‫اور بولی‬
‫ھاتھ منہ دھو لے ابھی روٹی التی ھوں ۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی روٹی لے آئیں‬
‫شیراں دے ہتھ منہ توتے ای ہندے نے ۔‬
‫نسرین بولی شیر ویکھو بغیر پوش توں‬
‫۔۔۔‬
‫آنٹی ہنستی ھوئی باہر چلی گئی اور‬
‫نسرین الماری میں برتن سیٹ کرنے‬
‫لگ گئی‬
‫عظمی پھر کڑھائی کرنے میں‬
‫مصروف ھوگئی ۔ اور میں بیٹھا کبھی‬
‫عظمی کو چھیڑتا رھا تو کبھی نسرین‬
‫کو کچھ دیر بعد آنٹی روٹی لے کر اندر‬
‫داخل ھوئی میں نے پیٹ بھر کر کھانا‬
‫کھایا اور شام تک بیٹھا گپ شپ کرتا‬
‫رھا اور پھر گھر چال گیا ۔‬
‫اگلے دن میں ٹائم سے اٹھا اور تیار ھو‬
‫کر صدف کے گھر چال گیا صدف کی‬
‫امی نے مجھ سے کافی گلے شکوے‬
‫کیے کہ اب آتے نہیں‬
‫میں نے بھی بس ہوں ہاں میں جواب دیا‬
‫اور صدف کو لے کر شہر کی طرف‬
‫چل دیا‬
‫راستے میں بھی بس وہ ھی پرانی باتیں‬
‫ہوتی رہیں اور صدف مجھے پھر یاد‬
‫دہانی کراتی ھوئی اپنے سکول کی‬
‫طرف چلی گئی میں نے بھی اسے کہا‬
‫کہ تم بھی کوشش کرو میں بھی کوشش‬
‫کرتا ھوں جلد ھی کوئی بہتر نکل آے گا‬
‫۔‬
‫میں سیدھا دکان پر پہنچا تو انکل نے‬
‫دکان کھولی ھوئی تھی مجھے دیکھ کر‬
‫انکل بولے آ گئے جناب‬
‫میں نے سالم دعا کے بعد اپنی طبیعت‬
‫بہتر ھونے کا بتایا اور پھر دکان کی‬
‫سیٹنگ کرنے میں مصروف ھوگیا کچھ‬
‫دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا اور آکر‬
‫میرے پاس ھی بیٹھ گیا اور کل کے‬
‫بارے میں مجھ سے پوچھنے لگ گیا‬
‫کہ‬
‫مجھے کیا ھوا تھا میں نے اسکو یہ کہہ‬
‫کر ٹال دیا کہ فارغ وقت میں تفصیل‬
‫سے بتاوں گا ۔‬
‫دوپہر کو میں اور جنید کھانا لینے کے‬
‫لیے بازار گئے تو میں نے جنید کو‬
‫ساری تفصیل بتا دی اور اس راز کو‬
‫راز رکھنے کے لیے اس سے قسم لی‬
‫جنید بھی پریشان ھوگیا اور بوال ماما‬
‫تینوں ایڈی کادی اگ لگی ھوئی سی بار‬
‫فارغ ھوجاندا یا ساتھی چڑھا لیندا ۔‬
‫میں نے کہا بس یار میری قسمت ماڑی‬
‫تھی غلطی ھوگئی تیری مہربانی ھے‬
‫میرے سر سے یہ بوجھ ہٹا دے ورنہ‬
‫میں نے پاگل ھوجانا ھے ۔‬
‫جنید بوال یار پریشان مت ھو میں ہوں‬
‫نہ کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ۔‬
‫میں نے کہا یار وقت بہت کم ہے اور‬
‫اگر مزید دن اوپر گزر گئے تو بہت‬
‫مسئلہ بن جاے گا‬
‫اس سے پہلے کہ اسکے گھر والوں کو‬
‫پتہ چلے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا چاھیے‬
‫اور تمہارے سوا میرا کوئی مسیحا نہیں‬
‫ھے ۔۔۔جنید میرے کندھے پر ہاتھ رکھ‬
‫کر تھپتھپا کر بوال یار پریشان مت ھو‬
‫میں ہوں نہ ۔اور یہ کہتے ھوے جنید‬
‫مجھے لے کر اپنے دوست کے میڈیکل‬
‫سٹور کی طرف چل پڑا اور مجھ سے‬
‫ساری تفصیل پوچھ لی کہ کتنے دن کی‬
‫پریگنینسی ھے ۔‬
‫میں نے اسے سب کچھ بتا دیا دکان پر‬
‫پہنچ کر جنید نے مجھے دکان کے باہر‬
‫کھڑے ھونے کا کہا‬
‫اور خود اندر چال گیا دس پندرہ منٹ‬
‫بعد جنید باہر نکال اور میرے پاس آکر‬
‫بوال‬
‫یار کام سمجھو ھوگیا‬
‫مگر یار وہ پیسے بہت مانگ رھا ھے‬
‫تمہیں تو پتہ ھے کہ میں بھی نوکری‬
‫کرتا ھوں ورنہ میں اپنے پاس سے‬
‫سارے پیسے دے دیتا ۔‬
‫میں نے پوچھا کتنے پیسے کی‬
‫میڈیسن ھے ۔‬
‫تو جنید بوال چار ہزار کی ۔‬
‫میں چار ہزار کا سن کر پریشان ھوگیا‬
‫کہ اتنے پیسے میں کہاں سے الوں گا‬
‫میری تو تنخواہ بھی پندرہ سو ھے‬
‫جنید مجھے سوچ میں پڑا دیکھ کر بوال‬
‫بتا اب کیا کرنا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار میرے پاس اتنے پیسے‬
‫نہیں ہیں ۔‬
‫اسے کہہ کچھ کم کرلے جنید بوال‬
‫یار اس نے میری وجہ سے یہ میڈیسن‬
‫دینی ہیں ورنہ وہ اس معاملے میں کسی‬
‫کو میڈیسن نہیں دیتے چاھے کوئی دس‬
‫ہزار بھی دے ۔‬
‫میں نے کہا یار اسکو کہہ دو کہ پیسے‬
‫تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گا ۔‬
‫جنید کچھ دیر سوچتا رھا اور پھر بوال‬
‫ایک منٹ رک میں آتا ھوں یہ کہہ کر‬
‫جنید پھر دکان کے اندر چال گیا‬
‫اور کچھ دیر بعد ایک لڑکا اسکے ساتھ‬
‫بایر آیا اور آکر مجھ سے ہاتھ مالیا تو‬
‫جنید نے اس سے میرا تعارف کروایا‬
‫اور اسکا مجھ سے ۔ کہ یہ سنی ھے‬
‫میری گلی میں رہتا ھے وغیرہ۔۔۔‬
‫سنی بوال یاسر بھائی یہ میڈیسن میں‬
‫صرف جنید کی وجہ سے آپ کو دے‬
‫رھا ہوں جنید نے مجھے ساری بات‬
‫بتائی ھے اور آپ کی مالی حالت کا‬
‫بھی تو‬
‫میرے بھائی تم دوہزار پہلے دے دو اور‬
‫باقی کا دوہزار اگلے مہینے دے دینا ۔‬
‫اور اسکی ضمانت بھی جنید ھی دے‬
‫رھا ھے میں نے اس سے ھی لینے ہیں‬
‫۔‬
‫جنید بوال یار سنی تو پریشان نہ ہونا یہ‬
‫بھی اپنا جگر ھی ھے ۔تجھے پیسے‬
‫وقت پر مل جائیں گے ۔‬
‫میں نے جنید کو ایک طرف لیجا کر کہا‬
‫یار میرے پاس تو ابھی دوہزار بھی نہی‬
‫ہیں‬
‫ایسا کر شام کو انکل سے ادھارے لے‬
‫کر دے دوں گا ۔‬
‫جنید بوال ٹھیک ھے تو پھر شام کو ہم‬
‫میڈیسن بھی لے لیں گے ۔‬
‫میں نے اوکے کیا ۔‬
‫جنید نے سنی سے میری بات دھرائی‬
‫تو سنی بوال‬

‫تم میڈیسن ابھی لے جاو‬


‫شام کو میڈیکل سٹور کا مالک جو ڈاکٹر‬
‫ھے وہ آجاتا ھے پھر اس کے سامنے‬
‫میں یہ والی میڈیسن نہیں دے سکتا۔‬
‫جنید نے کہا ٹھیک ھے میں شام کو‬
‫تجھے گلی میں ھی پیسے دے دوں گا‬
‫تو میڈیسن ابھی دے دے یہ کہہ کر‬
‫دونوں اندر چلے گئے اور کچھ دیر بعد‬
‫جنید میڈیسن کا شاپر پکڑے باہر آیا‬
‫اور شاپر کھول کر مجھے سمجھانے‬
‫لگا کہ کون سی ٹیبلٹ کب اور کتنی‬
‫کھانی ہیں ۔‬
‫میں نے اچھی طرح سمجھ لیا اور شاپر‬
‫پکڑ کر شلوار والی جیب میں ڈال لیا ۔‬
‫شاپر میں تین قسم کی گولیاں تھیں جن‬
‫کی تعداد کوئی پندرہ تھیں‬
‫میں حیران تھا کہ اتنی مہنگی میڈیسن‬
‫ھے ۔‬
‫مگر مجبوری تھی کیا کرتا ۔‬
‫جب کہ فرحت سے یہ کام میں فری‬
‫کروا سکتا تھا مگر ۔مجھے اسپر‬
‫بھروسہ نہیں تھا ۔‬
‫اور ایسے صدف کی بھی بدنامی کا ڈر‬
‫تھا ۔‬
‫ہم دکان پر پہنچے تو انکل کی کچھ‬
‫سڑی باتیں سننے کو ملی کہ پیچھے‬
‫سے دکان پر رش پڑ گیا تھا اور تم‬
‫دونوں نے اتنی دیر لگا دی ۔‬
‫پتہ نہیں کہاں آوارہ گردی کرتے رھے‬
‫ھو۔‬
‫ہم نے ہوٹل پر رش کا بہانہ لگا کر بات‬
‫کو گول مول کردیا اور کھانا وغیرہ کھا‬
‫کر ہم پھر دکان پر کسٹمرز میں‬
‫مصروف ھوگئے‬
‫شام کو انکل کو مسکے شسکے لگا کر‬
‫دوہزار لے کر میں نے جنید کو دیا اور‬
‫اگلے دن دکان پر آتے ھوے میں نے‬
‫میڈیسن صدف کو دیں اور اسکو ساری‬
‫تفصیل سمجھا دی ۔‬
‫صدف کافی خوش ھوگئی ۔‬
‫اور پوچھنے لگ گئی کہ میڈیسن کیسے‬
‫لی اور کتنے کی لی میں نے کہا بس‬
‫چھوڑو تم آم کھاو بس۔‬
‫صدف بولی یاسر ڈاکٹر نے کوئی پرہیز‬
‫تو نہیں بتایا۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ہفتے میں دو دفعہ‬
‫تسلی سے پورا لن اندر لینا جس سے‬
‫جلدی یہ مسئلہ حل ھوجاے گا‬
‫صدف نے میرے کندھے پر مکا مارتے‬
‫ھوے کہا‬
‫چل شوخا جیا‬
‫ہر ویلے اپنا الو سدھا کردا ریا کر ۔‬
‫ایسے ھی ہنسی مزاق میں ہم شہر‬
‫پہنچے میں نے اسے سکول چھوڑا اور‬
‫خود دکان پر چال گیا ۔‬
‫دوستو ایسے ھی تین چار دن مذید گزر‬
‫گئے جن میں ایسا کچھ خاص نہ ھوا‬
‫جسکو بیان کرنا ضروری ہے ۔طوالت‬
‫کے ڈر سے سٹوری کو تھوڑا آگے‬
‫بڑھا رھا ھوں ۔‬
‫جمعرات کا دن تھا میں دکان کے فرنٹ‬
‫پر بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫کہ ایک برقعہ پوش لڑکی نقاب کیے‬
‫دکان میں داخل ھوئی اور میرے پاس‬
‫سے گزرتے ھوے بولی یاسر بھائی‬
‫میری بات سنیں اور یہ کہتے ھوے وہ‬
‫دکان کے اندر داخل ھوگئی‬
‫دکان میں پہلے بھی دو تین کسٹمر‬
‫بیٹھے ھوے تھے‬
‫میں اس لڑکی سے اپنا نام سن کر ایکدم‬
‫چونک گیا کہ یہ کون ھے جو میرے نام‬
‫سے بھی واقف ھے ۔‬
‫کہ اچانک میرے دماغ میں جھماکہ ھوا‬
‫کہ‬

‫مجھے اس لڑکی آواز جانی پہچانی سی‬


‫لگی میں اسکے پیچھے ھی دکان میں‬
‫چال گیا وہ لڑکی باقی کسٹمرز کے آگے‬
‫سے گزرتی ہوئی دکان کے آخر میں‬
‫جاکر بینچ پر بڑے کانفیڈینس کے ساتھ‬
‫ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئی میں چلتا‬
‫ھوا اس کے سامنے پہنچا تو وہ نقاب‬
‫میں آنکھوں مٹکا کر میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر بھائی کیا حال ہیں میں اسکو فورن‬
‫پہچان گیا کہ یہ تو وہ ھی کچی کلی‬
‫ھے جو ضوفشاں کے پارلر پر کام‬
‫کرتی ھے۔‬
‫میں نے حال احوال پوچھنے کے بعد‬
‫کہا جی فرمائیں تو وہ لڑکی ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ھوے سامنے الماری کی طرف‬
‫اشارہ کر کے بولی بھائی وہ واال سوٹ‬
‫دیکھا دیں میں نے سوٹ نکاال اور‬
‫کھول کر اسے دیکھانے لگ گیا ۔‬
‫مجھ سے کچھ فاصلے پر جنید بیٹھا‬
‫کسٹمر کو سوٹ دیکھا رھا تھا کچی کلی‬
‫بار بار جنید کی طرف دیکھی جارہی‬
‫تھی شاید وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی‬
‫تھی اور جنید کی وجہ سے گبھرا رھی‬
‫تھی ۔‬
‫اور جنید بھی بار بار کبھی میری طرف‬
‫دیکھتا تو کبھی کچی کلی کی طرف۔‬
‫میں سوٹ کھول کر اسکے قریب ھی‬
‫بیٹھ گیا اور سرگوشی میں اس سے‬
‫ضوفی کا پوچھا کہ کیسی ھے وہ اور‬
‫کدھر مصروف رہتی ھے ۔‬
‫کچی کلی بھی ادھر ادھر دیکھتے ھوے‬
‫سرگوشی میں بولی کہ باجی نے ھی‬
‫مجھے میسج دے کر بھیجا کہ آپ فری‬
‫ھوکر پارلر پر آکر انکی بات سن جائیں۔‬
‫میں نے کہا ابھی تو میرے پاس ٹائم‬
‫نہیں البتہ میں فری ہوکر آجاوں گا‬
‫اپنی باجی کو کہنا میرا انتظار کرلے یہ‬
‫نہ ھو کہ میں آوں اور تمہاری باجی‬
‫کہیں گئی ھو۔‬
‫کچی کلی سر ہالتے ھوے کہنے لگی‬
‫ٹھیک ھے بھائی میں کہہ دوں گی آپ‬
‫الزمی آنا باجی نے کوئی ضروری بات‬
‫کرنی ھے ۔‬
‫میں نے اوکے کہا تو کچی کلی اٹھ کر‬
‫باہر نکل گئی جنید بڑے غور سے اسے‬
‫جاتی ھوئی کو دیکھنے کے بعد پھر‬
‫میری طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ کیا‬
‫چکر ھے ۔‬
‫میں سوٹ کو تہہ کرتے ھوے بوال ۔‬
‫ایویں بشیر حسین سی ۔۔۔۔‬
‫جنید میرے چہرے کو بڑے غور سے‬
‫دیکھ رھا تھا جیسے وہ اصل حقائق‬
‫جاننا چاہتا ھو۔‬
‫مگر میں نے اسے رتی برابر بھی‬
‫محسوس نہیں ہونے دیا اور سوٹ کو‬
‫تہہ کر کے الماری میں لگا کر واپس‬
‫باہر آکر بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد باقی کے کسٹمرز بھی‬
‫چلے گئے ۔‬
‫جب میں نے دیکھا کہ اب فارغ اوقات‬
‫ھے تو میں نے انکل کو پیشاب کرنے‬
‫کا بہانہ کیا اور شاہین مارکیٹ کی‬
‫طرف چل دیا ۔‬
‫مارکیٹ پہنچ کر میں بیسمنٹ کی‬
‫سیڑھیاں اترتے ھوے چاروں اطراف کا‬
‫جائزہ لینے لگا اور بڑے محتاط انداز‬
‫سے ضوفی کے پارلر کے سامنے پہنچ‬
‫کر دروازہ ناک کیا کچھ دیر بعد کچی‬
‫کلی پردے سے نمودار ہوئی اور مجھے‬
‫دیکھ کر ہنس کہ پردے کے پیچھے‬
‫غائب ہوگئی۔۔۔‬
‫کچھ ھی دیر میں ضوفی نے ڈور کھوال‬
‫اور میری طرف دیکھ کر محبت بھری‬
‫مسکان دی اور اپنا حسین چہرہ باہر‬
‫نکال کر دونوں اطراف دیکھ کر مجھے‬
‫اندر آنے کا اشارہ کیا میں جلدی سے‬
‫اندر داخل ھوا‬
‫تو ضوفی نے دروازہ الک کر کے دکان‬
‫بند ھے کی پلیٹ پلٹ کر باہر کی طرف‬
‫کردی ۔۔‬
‫میں اندر داخل ہوکر صوفے کی طرف‬
‫بڑھا تو ضوفی نے مجھے کیبن میں‬
‫چلنے کا کہا ۔‬
‫کچی کلی کاونڑ پر بیٹھی میری طرف‬
‫دیکھ کر ایویں ای ہنسی جارھی تھی‬
‫کملی کسے تھاں دی۔۔۔‬
‫میں کیبن کی طرف چلدیا۔‬
‫ضوفی میرے آگے آگے چل رھی تھی‬
‫بلیک فٹنگ میں پہنے ہوے سوٹ اسکی‬
‫ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے‬
‫میں اسکے پیچھے پیچھے کیبن میں‬
‫داخل ہوا۔‬
‫ضوفی مجھے آخری کیبن میں لے گئی‬
‫۔‬
‫جس میں تھری سیٹر صوفہ پڑا تھا شاید‬
‫اس کیبن کو ویٹنگ روم کے طور پر‬
‫استعمال کیا جاتا تھا ۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا‬
‫کہا‬
‫میں ضوفی کے سیکسی جسم کو دیکھتا‬
‫ھوا بیٹھ گیا ضوفی نے گلے میں دوپٹہ‬
‫ڈاال ھوا تھا اور دوپٹے کے دونوں پلو‬
‫مموں کے اوپر تھے کندھوں تک ڈائی‬
‫کئے ھوے سنہری بال چہرے پر ہلکا‬
‫سا میک اپ الئٹ کلر کی لپسٹک لمبی‬
‫پلکیں تھوڑے سے موٹے ہونٹ تیکھا‬
‫ناک لمبی صراحی دار گردن چھتیس‬
‫کے تنے ھوے ممے‬
‫تیس کی کمر اڑتیس کی گانڈ ضوفی‬
‫بلکل بےبی ڈول لگ رھی تھی ۔‬
‫ضوفی کی قربت مجھے خوش نصیب‬
‫ثابت کرتی تھی ۔‬
‫ضوفی کیٹ واک کرتی میرے ساتھ‬
‫صوفے پر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ‬
‫رکھ کر گھٹنے پر دونوں ہاتھ باندھ کر‬
‫میری طرف بڑے غور سے دیکھتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫جناب کدھر مصروف تھے اتنے دن ۔‬
‫میں نے کہا واہ جی واہ ٹائم خود نہیں‬
‫تمہارے پاس الٹا مجھے کہہ رھی ھو ۔‬
‫ضوفی بولی‬
‫میں نے کہاں مصروف ہونا ھے میں تو‬
‫خود تمہارا انتظار کرتی رھی کہ تم‬
‫خود ھی پارلر پر چکر لگا لو گے مگر‬
‫مصروف بندے ھو اتنا وقت کہاں کہ‬
‫کسی اور کی پرواہ ھو۔‬
‫میں نے بڑے غور سے ضوفی کی‬
‫طرف دیکھا اور بوال ۔‬
‫مجھے بہت پرواہ ھے تمہاری ضوفی‬
‫میں تو ہر وقت تمہارے بارے میں ھی‬
‫سوچتا رھتا ہوں ۔‬
‫مگر اس دن تم جیسے مجھ کو اکیلے‬
‫پارلر پر چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔‬
‫اور دوبارا مجھ سے رابطہ بھی نہیں‬
‫کیا میں سمجھا شاید مجھ سے کوئی‬
‫غلطی ہوگئی ھے ۔‬
‫اس لیے تم مجھے اگنور کررھی ھو۔‬
‫ضوفی نے اپنے گھٹنوں سے ھاتھ‬
‫اٹھاے اور میرا ھاتھ پکڑ کر بولی ۔‬
‫یاسر میں خود حیران ہوں کہ تم میں‬
‫ایسی کون سی بات ھے کون سی ایسی‬
‫چیز ھے جو مجھے تمہاری طرف‬
‫کھینچتی جارھی ھے ۔‬
‫میں کافی دنوں سے تمہاری دکان پر‬
‫آنے کا سوچ رھی تھی مگر میں اس دن‬
‫کی اپنی حرکت سے شرمندہ تھی کہ تم‬
‫پتہ نہیں کیا سوچتے ھوگے ۔‬
‫بس اسی شرمندگی کی وجہ سے میں‬
‫تمہارا سامنا نہیں کرسکی ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ پر اپنا دوسرا‬
‫ھاتھ رکھتے ھوے اس کے ہاتھ کو‬
‫سہالتے ھو کہا۔‬
‫یار کیسی باتیں کررھی ھو ۔‬
‫میرے لیے تو یہ ھی کافی ھے کہ تم‬
‫میری دوست ھو اور اس سے بڑ کر‬
‫میری خوش نصیبی اور کیا ھوگی‬
‫کہ تم نے اس دیسی پینڈو کو اپنے نرم‬
‫گوشے میں جگہ دی ھے‬
‫میں تم سے ناراض ہونے کا تو سوچ‬
‫بھی نہیں سکتا ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری انہیں باتوں نے تو‬
‫مجھے تمہارا گرویدہ کرلیا ھے ۔‬
‫باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھ کو پکڑے اوپر‬
‫کیا اور اسکی نازک انگلیوں کو چوم لیا‬
‫ضوفی کا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا اور‬
‫ضوفی نے شرما کر سر نیچے کر لیا‬
‫اور اپنا ہاتھ میرے ھاتھ سے آہستہ سے‬
‫سرکاتے ھوے کھینچ لیا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر کل دکان پر آنا ھے یا‬
‫چھٹی کرنی ھے میں نے کہا کل تو‬
‫جمعہ ھے چھٹی ھے ۔‬
‫اگر میرے لیے کوئی حکم ھے تو بتا دو‬
‫خادم حاضر ھے ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی بس بس اتنے‬
‫بھی فرمابردار مت بننے کی کوشش‬
‫کرو۔‬
‫میں نے کہا‬
‫میں جھوٹ نہیں کہہ رھا ھے کبھی ازما‬
‫کر دیکھ لو کبھی خدمت کا موقع دے‬
‫کر دیکھ لو خدمت میں رتی برابر کمی‬
‫پیش آے تو جو مرضی سزا دے دینا۔‬
‫ضوفی میری باتیں سن کر صوفے پر‬
‫بیٹھی ھی پیٹ پر ھاتھ رکھے ہنس ہنس‬
‫کر دھری ھو رھی تھی ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫جناب میں نے کوئی خدمت نہیں کروانی‬
‫۔‬
‫دراصل میں نے کل الہور جانا تھا پارلر‬
‫کا سامان لینے کچھ کاسمیٹکس کی‬
‫چیزیں لینی تھیں تو سوچا اگر تم فری‬
‫ھو تو میرے ساتھ چلو رات کو واپسی‬
‫ھوجاے گی ۔‬
‫میں الہور جانے کا سن کہ میرا چہرہ‬
‫ایکدم کھل اٹھا اور میرے اندر لڈو‬
‫پھوٹنے لگ گئے۔‬
‫پھر اپنی مالی حالت کا سوچ کر چہرہ‬
‫مرجھا گیا۔‬
‫ضوفی میرے چہرے کو غور سے‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫کیا ھوا یاسر‬

‫پریشان کیوں ہوگئے ھو۔‬


‫اگر میرے ساتھ جانے میں کوئی پرابلم‬
‫ھے یا کوئی کام ہے تو ڈونٹ ویری یار‬
‫میں اکیلی بھی چلی جاوں گے جیسے‬
‫پہلے بھی جاتی رہتی ہوں ۔‬
‫وہ تو بس ایسے ھی تمہیں کہہ دیا کہ‬
‫چلو سفر اچھا گزر جاے گا۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے کہا نہیں یار ایسی بات نہیں ھے‬
‫میری تو خوش قسمتی ھے کہ تم نے‬
‫مجھے اس قابل سمجھا ۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ھوے میرا‬
‫ھاتھ پکڑ کر بولی ۔‬
‫پھر پریشان کیوں ھو۔‬
‫میں نے سر جھکاے ہوے کہا کچھ نہیں‬
‫بس ایسے ھی ساتھ ہی میں اموشنل‬
‫ھوگیا مجھے آج اپنی غریبی اور بے‬
‫بسی پر غصہ آرھا تھا اور احساس‬
‫ندامت سے میری آنکھوں سے نکلنے‬
‫کو تھے ۔‬
‫ضوفی میرے پریشان چہرے کو‬
‫دیکھتے ھوے میرے ھاتھ کو اپنی نرم‬
‫مالئم انگلیوں سے سہالتے ھوے بولی ۔‬
‫یاسر ادھر میری طرف دیکھو میں نے‬
‫آہستہ سے سر اٹھایا اور ضوفی کی‬
‫آنکھوں میں دیکھنے لگا ضوفی بولی‬
‫کیا بات ھے یاسر پریشان کیوں ھو۔‬
‫میں اب ضوفی کو کیا کہتا کہ میرے‬
‫پاس الہور جانے کے لیے نہ تو نئے‬
‫کپڑے ہیں اور نہ ھی نیا جوتا بلکہ‬
‫میرے پاس تو کرایہ بھی نہیں ھے ۔‬
‫میں منہ سے تو کچھ نہ بوال ۔‬
‫مگر میری آنکھوں سے ساون کی‬
‫جھڑی نے میری خاموشی کے سارے‬
‫پول کھول دئے۔‬
‫ضوفی مجھے روتے دیکھ کر جلدی‬
‫سے کھسک کر میرے قریب ہوگئی اور‬
‫میری گالوں کو اپنے نازک ھاتھوں میں‬
‫لے کر بولی یاسسسرررر کیااااا ھوا رو‬
‫کیوں رھے ھو اور ساتھ ساتھ اپنی‬
‫روئی جیسی نرم انگلیوں سے میرے‬
‫آنسو صاف کرنے لگ گئی ۔‬
‫مجھ سے کچھ بھی نہیں بوال جارھا تھا ۔‬
‫دل تو کہہ رھا تھا ۔‬
‫کہ چیخ چیخ کر ضوفی سے اپنے دل کا‬
‫حال کہوں مگر میری زبان میرے دل کا‬
‫ساتھ نہیں دے رھی تھی ۔‬
‫دل کا درد آنکھوں کے راستے سے‬
‫پگھل کر بہہ رھا تھا۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو ضوفی‬
‫میرے سر کے بالوں کو سہالتے ھوے‬
‫بولی یاسر تم مجھے اپنی دوست‬
‫سمجھتے ھو کہ نہیں ۔‬
‫میں نے نم آنکھوں سے ضوفی کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے اثبات میں سر‬
‫ہالیا۔‬
‫ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی‬
‫ایسے نہیں بول کر بتاو۔‬
‫میں جی کہا۔‬
‫ضوفی میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫کیا جی۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا جی دوست ھی سمجھتا‬
‫ھوں ۔‬
‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے‬
‫بولی بس دوست ھی ۔‬
‫میں نےچونک کر اسکی آنکھوں میں‬
‫دیکھا جہاں پیار تھا شرارت تھی بہت‬
‫سے سوال تھے ۔‬
‫میں نے ضوفی کی جھیل سی آنکھوں‬
‫میں ڈوبتے ھو نفی میں سر ہالیا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یعنی تم مجھے دوست نہیں‬
‫سمجھتے ۔۔‬
‫میں نے مجبورا ً ہنستے ھوے کہا میں‬
‫تو تمہیں اپنا سب کچھ سمجھتا ھوں‬
‫میرے لیے جو تم ھو اس کے لیے‬
‫دوستی بہت چھوٹا سا لفظ ھے ۔‬
‫مگر ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟‬
‫ضوفی میرے خاموش ھونے پر بولی‬
‫مگر کیا۔۔۔۔۔‬
‫میں نے رک رک کر بولتے ھوے کہا۔‬
‫مگر میری غریبی اور میری سادگی‬
‫مجھے طعنے دیتی ھیں کہ تم اپنی‬
‫اوقات میں رہو کہاں تم ھو اور کہاں‬
‫میں ہوں ۔۔۔۔‬
‫ضوفی شاید میرے اندر والی بات کی‬
‫تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے میرے سر پر چپت‬
‫لگاتے ھوے بولی ۔‬
‫اڈیٹ۔۔۔۔۔‬
‫مجھے سب کچھ بھی سمجھتے ھو اور‬
‫یہ امیری اور غریبی کا فرق بھی‬
‫رکھتے ھو ۔‬
‫اور پھر ضوفی ایکدم سریس ہوتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫یاسر تمہیں پتہ ھے کہ میں تمہارے اتنا‬
‫قریب کیوں ہوگئی ھوں ۔‬
‫صرف تمہاری سادگی اور تمہاری‬
‫صاف دلی کی وجہ سے ۔‬
‫ورنہ اس شہر میں ایک سے بڑھ کر‬
‫ایک لڑکے ھیں جو خوبصورت بھی‬
‫ھیں اور پیسے والے بھی ۔‬
‫میرے ایک اشارے پر وہ میرے آگے‬
‫پیچھے پھریں ۔‬
‫مگر میں نے آج تک کسی نامحرم کی‬
‫طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ۔‬
‫لوگ چاہیں میرے بارے میں کچھ بھی‬
‫سوچیں کچھ بھی کہیں ۔‬
‫مگر یہ مجھے پتہ ھے میرا ضمیر‬
‫مطمئن ھے کہ میں پاکباز ھوں ۔‬
‫میری زندگی میں تم پہلے لڑکے ھو‬
‫جس نے مجھے چھوا ھے اور جس کہ‬
‫قریب میں خود ھوگئی ھوں ۔‬
‫میں نے بھی غریبی دیکھی ھے میرا‬
‫کوئی بھائی نہیں ھے میرے ابو بھی‬
‫فوت ھوچکے ہیں گھر کی ساری ذمہ‬
‫داری مجھ پر ھے میں آج یہاں تک‬
‫صرف اپنی محنت اور لگن کی وجہ‬
‫سے پہنچی ہوں آج شکر ھے کہ میرے‬
‫پاس پیسہ بھی اور عزت بھی ھے مگر‬
‫کبھی اپنا برا وقت نہیں بھولی ہوں ۔‬
‫آج کہ بعد دوبار اگر تم نے ایسی بات‬
‫سوچی بھی نہ تو میں نے تم سے کبھی‬
‫بات نہیں کرنی۔‬
‫اوکےےےے میں نے اثبات میں سر‬
‫ہالیا ۔۔‬
‫ضوفی پھر بولی ۔‬
‫اچھا یہ بتاو کہ کل تمہیں گھر پر کوئی‬
‫کام تو نہیں ھے ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫ضوفی بولی اور کیا تمہارے گھر والے‬
‫تمہیں الہور جانے کی اجازت دے دیں‬
‫گے ۔‬
‫میں نے کہا اجازت تو میں لے لوں گا‬
‫کسی نہ کسی طریقے سے ۔‬
‫مگر۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫پھررررر مگر۔‬
‫میں دل پر پتھر رکھتے ھوے ایک ھی‬
‫سانس میں بول پڑا۔‬
‫مگر ضوفی میرے پاس الہور جانے‬
‫کے لیے نہ پیسے ہیں اور نہ ھی‬
‫ڈریس۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی میری بات کاٹتے ہوے بولی‬
‫بس اتنی سی بات پر میری جان نے‬
‫اتنے قیمتی آنسو بہا اینوں۔۔۔‬
‫بھی نہ ایک نمبر کے بدھو ھو۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی اٹھی اور ایک منٹ کا کہہ کر‬
‫باہر نکل گئی اور میں پھر اپنی بے‬
‫بسی کو کوسنے لگ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی ہاتھ پیچھے گانڈ پر‬
‫رکھے بڑے غصے سے اندر داخل‬
‫ھوئی اور مجھ سے بولی کھڑے‬
‫ھوجاو۔۔۔۔۔‬
‫میں ایکدم گبھرا کر ایسے کھڑا ھوا‬
‫جیسے میرے نیچے سپرنگ لگے ہوں‬
‫اور میں پھٹی آنکھوں سے حیران‬
‫پریشان کھڑا ضوفی کے چہرے کو‬
‫دیکھنے لگ گیا۔۔۔‬
‫ضوفی تیز تیز قدم اٹھاتی ھوئی میرے‬
‫پاس آئی اور میرے سامنے کھڑی ھوکر‬
‫مجھے گھورنے لگ گئی‬
‫میری تو ایکدم جان نکل گئی کہ اسے‬
‫پتہ نہیں اچانک کیا ھوگیا ھے ۔۔‬

‫چنگی پلی تے بار گئی سے بار جا کہ‬


‫پتہ نئی کیڑا سپ لڑ گیا اینوں۔۔۔‬
‫ضوفی نے گانڈ پر رکھے ہاتھوں میں‬
‫سے اپنا ایک ھاتھ تیزی آگے کیا اور‬
‫ہاتھ کو کھول کر میرے منہ کی طرف‬
‫ایسے الئی جیسے مجھے ذور دار تھپڑ‬
‫مارنے لگی ھو ۔‬
‫میرا تو مارے حیرت کے ہلک خشک‬
‫ہوگیا میری ٹانگوں سے جان نکل گئی‬
‫ضوفی نے ہتھیلی کو کھول کر پورے‬
‫زور سے میرے۔۔۔؟؟؟؟‬
‫سینے پر رکھ کر مجھے پیچھے کو‬
‫دھکا دیا‬
‫میں تو پہلے سے ھی ڈرا ھوا اور‬
‫گبھرایا ھوا ششوپن میں کھڑا تھا‬
‫ضوفی کے دھکے سے میں لڑکھڑاتا‬
‫ھوا پیچھے صوفے پر جاگرا اور‬
‫آنکھیں پھاڑے سکتے کے عالم میں‬
‫ضوفی کو دیکھی جارھا تھا ضوفی‬
‫جلدی سے آگے بڑھی اس سے پہلے‬
‫کے میں خود کو سنبھالتا یا کچھ سوچتا‬
‫ضوفی اپنی ٹانگوں کو کھول کر میری‬
‫رانوں کے دونوں اطراف کرلے میرے‬
‫بے ہوش لن کے اوپر بیٹھ گئی میں‬
‫صوفے کی ٹیک کے ساتھ کمر لگاے‬
‫بیٹھا تھا۔‬
‫اور ضوفی میری رانوں پر ایسے بیٹھی‬
‫تھی جیسے میرا گال دبانے لگی ھو‬
‫ضوفی نے اپنا دوسرا ہاتھ جو ابھی تک‬
‫اسکی کمر پر تھا اسکو آگے ایسے لے‬
‫کر آئی جیسے ہاتھ میں خنجر ھو اور‬
‫میرے سینے میں خنجر اتارنے لگی ھو‬
‫میں نے گبھرا کر اسکے ہاتھ کی طرف‬
‫دیکھا تو اسکے ہاتھ میں پالسٹک کا‬
‫انچی ٹیپ تھا ۔‬
‫میں سمجھا ضوفی میرے گلے میں‬
‫انچی ٹیپ ڈال کر میرا گال دبانے گی ۔‬
‫دوستو میری تو سچی میں گانڈ پھٹنے‬
‫والی ہوگئی ۔‬
‫اور ضوفی نے کیا بھی وہ ھی جو میں‬
‫سوچ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی نے انچی ٹیپ کو سیدھا کیا اور‬
‫دونوں ہاتھوں میں اسکے سرے پکڑ کر‬
‫ایسے گھمانے لگ گئی جیسے رسی کو‬
‫وٹ چڑھاتے ہیں ۔‬
‫اور ضوفی نے انچی ٹیپ کو گھماتے‬
‫گھماتے اچانک میرے سر کے پیچھے‬
‫کیا انچی ٹیپ میری گردن پر جا لگا‬
‫ضوفی کے ہاتھ میں انچی ٹیپ کے‬
‫دونوں سرے تھے اور اس نے انکو‬
‫ایسے پکڑا ھوا تھا جیسے گھڑ سوار‬
‫کے ہاتھ میں گھوڑے کی لگامیں ہوتی‬
‫ہیں ۔‬
‫اور ہے بھی کچھ ایسا ھی تھا ضوفی‬
‫کے ہاتھ میں میری گردن کی لگامیں‬
‫تھیں ۔‬
‫ضوفی میرے لن پر اپنی نرم مولٹی فوم‬
‫جیسی گانڈ کو رکھے ھوے میری‬
‫لگامیں پکڑے سواری کررھی تھی‬
‫میں ابھی تک ڈرا سہما ضوفی کو‬
‫آنکھیں پھاڑے دیکھے جارھا تھا سب‬
‫کچھ خاموشی سے ھورھا تھا نہ میں‬
‫نے کوئی بات کی نہ ھی ضوفی نے ۔۔۔‬
‫ضوفی نے لگاموں کو کھینچا تو میری‬
‫گردن پر فیتے کا ذور پڑا تو میرا سر‬
‫آگے کو ہوگیا اور آہ کے ساتھ میرا منہ‬
‫کھال ضوفی ساتھ ھی آگے کو جھکی‬
‫اور میرے کھلے ہونٹوں پر اپنی گالب‬
‫کی پنکھڑیوں کو رکھ کر میرے اوپر‬
‫والے ہونٹ کو اپنے منہ میں بھر لیا اور‬
‫ضوفی کا نچال ہونٹ میرے منہ میں‬
‫خود بخود آگیا‬
‫میری تو آنکھیں مذید ابھل کر باہر‬
‫نکلنے کو آگئیں ۔‬
‫ضوفی نے فیتے کو چھوڑا اور اپنے‬
‫مخملی ہاتھوں کو میری گردن کے‬
‫دونوں اطراف رکھ کر میرے ہونٹ کو‬
‫بے دردی سے چوس رہی تھی‬
‫ضوفی میری لن کے اوپر گانڈ رکھے‬
‫اپنے ہاتھوں کی مخملی ہتھیلیاں میرے‬
‫کانوں کے نیچے رکھے اپنی نرم نازک‬
‫انگلیوں کو میری گردن کا احصار کر‬
‫سہالتے ھوے اور اپنے انگوٹھوں کو‬
‫میرے کانوں کی لو کے گرد مساج کے‬
‫انداز سے پھیرتے ھو میرے ہونٹوں‬
‫میں ہونٹ ڈالے جنگلی بلی بنی چوسی‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد میرا ڈر میرا خوف ہوس‬
‫میں بدل گیا اور نیچے سے میرے لن‬
‫نے انگڑائی لی اور میرے دونوں ھاتھ‬
‫ضوفی کی تقلید میں اسکی گردن اور‬
‫اسکے کانوں کے اوپر ریشمی بالوں کو‬
‫سہالنے لگے اور میں بھی جنونی حالت‬
‫میں ضوفی کی پنکھڑیوں کا رس‬
‫چوسنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا‬
‫فیتہ ابھی تک میرے گلے میں ھی تھا۔‬
‫ضوفی نے پھر میرے سینے پر ہاتھ‬
‫رکھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے‬
‫الگ کئے اور ہاتھ کا وزن میرے سینے‬
‫پر ڈال کر خود پیچھے ہوگئی اور پھر‬
‫سے فیتے کو پکڑ کر میرے کندھوں پر‬
‫لگا کر درزی کی طرح سائز لینے لگ‬
‫گئی سائز لے کر فیتے پر ایک نظر‬
‫ڈالی اور پھر فیتے کے سرے کو پکڑ‬
‫کر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ممے پر‬
‫رکھ دیا میں نے ہاتھ میں‬
‫ضوفی کا مما پکڑ لیا اور ممے کو‬
‫دبانے لگ گیا ضوفی نے سسکاری‬
‫بھرتے ھوے اپنا ہاتھ لمبا کیا اور فیتے‬
‫کو میرے کندھے سے لگا کر دوسرے‬
‫ھاتھ سے فیتہ پکڑ کر اپنے ممے کے‬
‫پاس لیجا کر میری کالئی پر رکھ کر‬
‫میرے بازو کا سائز کرنے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں ضوفی کے اس نئے انداز سے‬
‫حیران تو ھو ھی رھا تھا مگر مجھے‬
‫مزہ بہت آرھا تھا ۔‬
‫بازو کا سائز لینے کے بعد ضوفی نے‬
‫میری کالئی کا بھی سائز کیا اور پھر‬
‫میرا ھاتھ پکڑ کر اپنے ممے سے ہٹایا‬
‫اور میرے ھاتھ کو پکڑے اپنے ہونٹوں‬
‫کے پاس لے گئی اور باری باری میری‬
‫پانچوں انگلیوں کو چوسا اور ہاتھ واپس‬
‫نیچے لیجا کر چھوڑتے ھوے پھر فیتے‬
‫کو پکڑ کر میری گردن میں ڈال کر‬
‫میرے سر کو صوفے کی ٹیک سے لگا‬
‫دیا میرا منہ چھت کی طرف ھوگیا‬
‫ضوفی آگے کو ھوئی اور اپنی زبان‬
‫بایر نکال کر میری شہ رگ پر رکھی‬
‫اور ادھر سے زبان پھیرتے ھوے میری‬
‫ٹھوڑی تک لے آئی اور پھر میرے‬
‫ہونٹوں کو چوم کر واپس سیدھی ھوکر‬
‫بیٹھ گئی میرا لن فل تنا ھوا تھا اور‬
‫ضوفی کی نرم گانڈ کی دراڑ میں اور‬
‫پھدی کے نیچے دبا ھوا جھٹکے مار کر‬
‫اٹھنے کی کوشش کررھا تھا۔‬
‫ضوفی میرے گلے کو زبان سے چاٹ‬
‫کر سیدھی ھوکر بیٹھی اور فیتے کو‬
‫پکڑ کر میری گردن کے گرد لپٹ کر‬
‫میری گردن کا سائز لیا اور فیتے پر‬
‫ایک نظر مار کر میرے گلے سے فیتہ‬
‫کھینچ کر نکال دیا۔۔‬
‫ضوفی فیتہ کھینچے ھوے ساتھ ھی‬
‫میری رانوں سے اتر گئی اور میرے‬
‫سامنے کھڑی ھوکر مسکراتے ھوے‬
‫نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھ‬
‫کر اپنے دونوں بازو پھیال کر ہاتھ میری‬
‫طرف کیئے اورانگلیوں کے اشارے‬
‫سے مجھے ہاتھ تھام کر اٹھنے کو کہا‬
‫میں نےاپنی طرف بڑھے ضوفی کے‬
‫دونوں ھاتھوں کو تھاما تو ضوفی نے‬
‫میرے ھاتھوں کو اپنے نازک ہاتھوں‬
‫میں بھینچ کر زور سے اپنی طرف‬
‫کھینچا تو میں اٹھ کر کھڑا ھوگیا اور‬
‫میرا لن بھی میری شلوار میں قمیض کا‬
‫تمبو بنا کر سامنے نمودار ھوا۔۔۔‬
‫ضوفی نے مجھے کھڑا کرتے ھی‬
‫کھینچ کر اپنے سینے کے ساتھ لگاتے‬
‫ھوے میرے ھاتھوں کو چھوڑ کر میری‬
‫بغلوں سے اپنے بازوں گزار کر مجھے‬
‫اپنے بازوں میں بھر لیا‬
‫میرا لن کپڑوں سمیت ضوفی کے چڈوں‬
‫میں گھس چکا تھا‬
‫اور ضوفی کی پھدی کو رگڑ لگا رھا‬
‫تھا۔۔اور ضوفی بھی چڈوں کو بھینچ کر‬
‫لن کو پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی‬
‫ضوفی مجھ سے لپٹی ہوئی پھر میرے‬
‫ہونٹؤں کو چوسنے لگ گئی اور ساتھ‬
‫ساتھ پیچھے سے فیتے کو سیدھا کر‬
‫کے دونوں ہاتھوں میں پکڑا کر مجھ‬
‫سے علیحدہ ھوکر میری کمر کے گرد‬
‫فیتے کو ڈال کر نیچے جھک کر پاوں‬
‫کے بل بیٹھ گئی اور میری ناف کے‬
‫نیچے سے فیتے کے دونوں سروں کو‬
‫مال کر فیتے پر میری ویسٹ کا سائز‬
‫چیک کر کے ساتھ ھی فیتہ میری کمر‬
‫سے اوپر میرے سینے پر لے گئی اور‬
‫سینے کا سائز لیتے ھی فیتے کو میری‬
‫کمر کے گرد سے کھینچ لیا۔۔۔ اور ساتھ‬
‫ھی ضوفی پھر پیروں کے بل بیٹھ گئی‬
‫میرا لن بلکل تن کر کھڑا ضوفی کے‬
‫منہ کو سالمی دے رھے تھا میرے تمبو‬
‫کو دیکھ کر ضوفی کی آنکھوں میں‬
‫چمک سی آئی ۔‬
‫اور ضوفی نے پاوں کے بل بیٹھی نے‬
‫ھی پھر فیتے کا سرا ایک ہاتھ میں پکڑا‬
‫اور اسی ہاتھ سے میرے لن کو پکڑ کر‬
‫مسلنے لگ گئی میرے منہ سے‬
‫سسسسییییی نکلی ضوفی کے نرم ہاتھ‬
‫میرے لن کو مذید تڑپنے پر مجبور‬
‫کررھے تھے اور لن نے ساتھ ھی‬
‫پھنکارنا شروع کردیا ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی نے میرے لن کو مسال‬
‫اور پھر میری قمیض کو آگے سے پکڑ‬
‫کر اوپر اٹھایا اور میرے لن کو مٹھی‬
‫میں بھر کر اپنی انگلیوں میں فیتہ پھنسا‬
‫کر میرے نالے کے ساتھ لگایا اور فیتے‬
‫کے‬
‫دوسرے حصے کو دوسرے ہاتھ سے‬
‫میرے پاوں کو لگا کر میری شلوار کی‬
‫لمبائی چیک کرنے لگ گئی ضوفی نے‬
‫اوپر سے میرے لن کو بھی پکڑا ھوا‬
‫تھا اور فیتے کا سرا انگلیوں سے‬
‫میرے نالے کے ساتھ بھی لگایا ھوا تھا‬
‫اور میرے لن کو انگھوٹھے اور ایک‬
‫انگلیوں کے درمیان گول دائرے سے‬
‫بھینچ بھی رھی تھی‬
‫میں مزے سے جھت کی طرف منہ کر‬
‫کے سسکاریاں بھر رھا تھا۔‬
‫کچھ دیر اسی حالت میں رہنے کے بعد‬
‫ضوفی کھڑی ھوئی اور فیتے کو ایک‬
‫طرف پھینک کر میرے ساتھ لپٹ کر‬
‫میرے ہونٹوں کو چوستے ھوے مجھے‬
‫پھر صوفے پر گرا دیا اور میرے ساتھ‬
‫بیٹھ کرمیرے سینے پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ھوے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بولی مزہ آیا ۔۔۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسکے‬
‫گالوں کو پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر‬
‫لمبی کس کرتے ھوے کہا مزہہہہ تو‬
‫بہت آیا مگر ایک دفعہ تو تم نے میری‬
‫جان نکال دی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی جان تو میں پہلے ھی نکال‬
‫چکی ھوں‬
‫ضوفی میری شہ رگ پر انگلی پھیرتے‬
‫ھوے بولی اب یہ جان میری جان ھے ۔‬
‫ضوفی ساتھ ساتھ اپنے پیر کو میری پیر‬
‫پر ہھیرتے ھوے میرے پیر سے چپل‬
‫اتارنے لگ گئی اور کچھ دیر بعد میرے‬
‫ننگے پیر پر اپنا ننگا پیر پھیرنے لگ‬
‫گئی ضوفی کا پاوں انتہائی نرم تھا‬
‫اسکے پاوں کا لمس ھی میری جان‬
‫نکال رھا تھا ۔‬
‫کچھ دیر ضوفی یوں ھی میری پیر کو‬
‫مسلتی رھی اور پھر مجھ سے بولی‬
‫یاسر تم نے کل صبح چھ بجے ادھر‬
‫پارلر پر ہونا ھے ۔‬
‫اور ہم کل الھور جارھے ہیں میں‬
‫تمہارا انتظار کروں گی ۔۔‬
‫میں نے کہا مگر۔۔۔۔۔۔ضوفی میرے‬
‫ہونٹوں ہر ہونٹ رکھ کر بولی اگر مگر‬
‫کچھ نہیں‬
‫تم نے کل آنا ھے تو بس آنا ھے ۔۔‬
‫اگر نھی آنا تو مجھے ابھی بتا دو۔۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر خاموش رینے کے بعد‬
‫اثبات میں سر ہال کر بوال ٹھیک ھے‬
‫۔۔آجاوں گا۔۔۔‬
‫ضوفی خوش ھوکر مجھ سے لپٹ گئی‬
‫اور میرے سارے چہرے کو چومنے‬
‫کے بعد بولی تھینکیو۔۔۔۔۔‬
‫مجھے اچانک خیال آیا کہ میں تو انکل‬
‫کو ہیشاب کرنے کا بہانہ کرکے آیا تھا‬
‫لے کاکا ہن تیری خیر نئی میں جلدی‬
‫سے اٹھا اور ضوفی سے ایکسیوز کیا‬
‫کہ مجھے دکان سے آے کافی دیر ھو‬
‫چکی ھے انکل ناراض ہوں گے اس‬
‫لیے مجھے اجازت دے ۔۔۔‬
‫ضوفی پھر مجھ سے لپٹ کر میرے‬
‫ھونٹوں کو چومتے ھو بولی اوکے‬
‫مگر صبح جلدی آجانا میں چھ بجے‬
‫ادھر ھی ہوں گی اور گھر بتا کر آنا‬
‫میں نے ہممممم کیا اور پارلر سے نکل‬
‫کر دکان پر پہنچ گیا۔۔۔‬
‫انکل کی چند باتیں اور نصحتیں سننے‬
‫کے بعد کام میں مصروف ھوگیا اور‬
‫شام کو گھر پہنچ کر کھانا وغیرہ کھا‬
‫کر امی کو جھوٹی کہانی سنا کر منا لیا‬
‫اور رات کو الہور دیکھنے کی خوشی‬
‫میں سوچتے سوچتے سوگیا ۔‬

‫صبح میں پانچ بجے اٹھا اور تیار ہوکر‬


‫کھیت کے راستے کی بجاے میں چوک‬
‫کی طرف چل دیا کہ شاید کوئی سواری‬
‫مل جاے اور میں جلدی سے شہر پہنچ‬
‫جاوں ۔‬
‫دوستو مجھے ضوفی کے ساتھ سفر‬
‫کرنے سے ذیادہ الہور دیکھنے کا‬
‫تجسس تھا میں چوک میں پہنچا تو وہاں‬
‫کوئی تانگہ نہیں کھڑا تھا تو میں سڑک‬
‫پر ھی شہر کی جانب چل پڑا اتنے میں‬
‫پیچھے سے مجھے موٹر سائکل آنے‬
‫کی آواز آئی تو میں نے گھوم کر‬
‫پیچھے دیکھا تو ہمارے گاوں کا ھی‬
‫ایک شخص موٹر سائکل پر آرھا تھا‬
‫میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو اس‬
‫نے بریک لگا کر مجھے لفٹ دے دی‬
‫میں اسکا شکریہ ادا کرتا ھوا اس کے‬
‫پیچھے بیٹھ گیا پانچ منٹ میں شہر پہنچ‬
‫گیا اتفاقا ً اس آدمی نے بھی بازار کی‬
‫طرف سے جانا تھا جس کا مجھے فائدہ‬
‫ھوا کہ میرا کافی وقت ضائع ہونے سے‬
‫بچ گیا۔‬
‫میں اپنی دکان کے سامنے اتر گیا اور‬
‫اس کا پھر شکریہ ادا کیا‬
‫جب وہ شخص میری نظروں سے‬
‫اوجھل ہو گیا تو میں شاہین مارکیٹ کی‬
‫طرف چل دیا۔‬
‫میں ابھی کچھ پیچھے ھی تھا کہ مجھے‬
‫مارکیٹ کے باہر ضوفی رکشے سے‬
‫اتر رھی تھی ۔‬
‫ضوفی نے رکشے والے کو کرایہ دیتے‬
‫ھوے گردن گھما کر میری طرف دیکھا‬
‫تو ایک سیکسی مسکراہٹ میری طرف‬
‫پھینکتے ھوے مجھے ہاتھ ہال کر ہاے‬
‫کیا ۔‬
‫میں نے بھی جوابا ً مسکرا دور سے ہاتھ‬
‫ہالیا‬
‫رکشے واال چال گیا۔‬
‫ضوفی ادھر ھی کھڑی تھی ۔میں جب‬
‫ضوفی کے پاس پہنچا تو اس کے جسم‬
‫سے پرفیوم کی دھیمی سی خوشبو‬
‫میرے نتھنوں سے ٹکرائی اورضوفی‬
‫نے مسکراتے ھوے ہاتھ میری طرف‬
‫بڑھایا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو‬
‫بازار سنسان ھی تھا تقریبا ً ساری دکانیں‬
‫بند تھیں‬
‫میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کا ہاتھ‬
‫تھاما اور ضوفی کے ساتھ بیسمنٹ کی‬
‫سیڑھیاں اترتے ھوے ضوفی بولی ٹائم‬
‫کے بڑے پابند ہو میں نے کہا میں تو‬
‫اس خوشی میں ھی ساری رات سویا ہی‬
‫نہیں کہ تمہارے ساتھ سفر کرنے کا‬
‫موقع مل رہا ھے‬
‫ضوفی میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫مسکے بہت لگاتے ھو تم میں نے کہا‬
‫سچ کہہ رھا ہوں یار ایسے ھی ہم باتیں‬
‫کرتے ھوے پارلر کے پاس پہنچے‬
‫ضوفی نے الک کھوال اور ڈور کھول‬
‫کر ہم دونوں اندر داخل ہوگئے ضوفی‬
‫نے دروازہ الک کر کے دکان بند ھے‬
‫کی پلیٹ باہر کو کر دی اور ضوفی نے‬
‫اوپر لی چادر اتار کر صوفے پر‬
‫پھینکی اور سینے کو آگے کر کے‬
‫دونوں ھاتھوں سے بالوں کو سنوارتے‬
‫ھوے آئینے میں دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫اففففففففففدف ضوفی نے جیسے ھی‬
‫چادر اتاری تو اس کی ڈریسنگ دیکھ‬
‫کر میں سکتے میں آگیا ضوفی نے‬
‫ڈارک لپسٹک ہلکا سا میک اپ اور‬
‫بلیک سوفٹ جینز کی پینٹ اور پنک‬
‫کلر کی شاٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی‬
‫شرٹ کا کپڑا بھی اتنا سوفٹ تھا کہ‬
‫ضوفی کے تنے ہوے ممے ایسا منظر‬
‫پیش کررھے تھے ۔جیسے ضوفی بغیر‬
‫کپڑوں کے کھڑی ھو ۔ ایک تو ضوفی‬
‫کے ممے تنے ھوے تھے دوسرا جب‬
‫ضوفی نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ھوے سینے کو آگے کی طرف کیا تو‬
‫افففففففففففف کیا ھی نظارہ تھا ممے‬
‫ایسے آگے کو ھوے جیسے ابھی شرٹ‬
‫کو پھاڑ کر باہر آجائیں گے ۔‬
‫میرا تو خود سے کنٹرول ختم ھو رھا‬
‫تھا میرا تو دل کر رھا تھا کہ ضوفی‬
‫کے مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر لوں‬
‫۔‬
‫جب ضوفی نے میری طرف کمر کی‬
‫اور چہرہ آئینے کی طرف کر کے بال‬
‫بنانے لگی تو پیچھے سے ضوفی کی‬
‫گانڈ بھی کیا ذبردست نظارہ پیش‬
‫کررھی تھی میرا ھی حوصلہ اور‬
‫برداشت تھی کی ایسا ظلم برداشت‬
‫کررھا تھا میری جگہ اگر کوئی سو‬
‫ساال بوڑھا بھی ھوتا تو وہ بھی اپنا‬
‫ہتھیار ہاتھ میں پکڑ لیتا۔‬
‫ضوفی کچھ دیر بعد مجھے بولی یاسر‬
‫ادھر آو اور پالر چیئر پر بیٹھو میں نے‬
‫کہا کیوں خیر ھے‬
‫ضوفی بولی یار ٹائم کم ھے جلدی کرو‬
‫میں تجسس کا شکار ہوتے ھوے‬
‫کندھے اچکا کر کرسی پر بیٹھ گیا‬
‫ضوفی نے دراز کھوال اور تاول نکال‬
‫کر میرے سینے پر ایسے رکھ دیا‬
‫جیسے نائی شیو کرنے کے دوران‬
‫رکھتا ھے ۔‬
‫میں نے کہا یار کیا کرنے لگی ھو۔‬
‫ضوفی اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر‬
‫شیییی کرتے ھوے بولی ۔‬
‫چپ کر کے بیٹھ جاو میں ضوفی کا‬
‫حکم مانتے ھوے ھوے چپ کر کے‬
‫بیٹھ گیا ۔۔ضوفی نے ایک بوتل سے جل‬
‫نکال کر میرے چہرے پر لگائی اور‬
‫پھر ریزر پکڑ کر میری شیو کرنے‬
‫لگی تو میں نے کچھ بولنے کے لیے‬
‫منہ کھوال ھی تھا کہ ضوفی نے مجھے‬
‫گھور کر دیکھا تو میں سہم کر بیٹھ گیا ۔‬
‫ضوفی بڑی احتیاط سے میری شیو‬
‫کرنے لگ گئی میں نے بھی آنکھیں بند‬
‫کرلیں کہ جو ھوگا دیکھا جاے گا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی نے شاور سے‬
‫میرے چہرے پر پانی مارا اور ٹشو‬
‫سے میرا چہرہ صاف کر کے بولی‬
‫واووووووووو‬
‫سو کیوٹ یار اور ساتھ ھی ضوفی نے‬
‫میری دونوں گالوں پر چٹکیاں کاٹ دیں‬
‫میں نے جیسے ھی آنکھیں کھول کر‬
‫آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو میری‬
‫آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئیں ۔‬
‫میں تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر ھی‬
‫اپنے آپ پر نہال ھورھا تھا‬
‫کلین شیو میں گورا رنگ میں تو بلکل‬
‫لڑکیوں جیسا لگ رھا تھا ۔‬
‫مجھے یقین نہیں ھورھا تھا کہ یہ میں‬
‫ہی ہوں میں آنکھیں پھاڑے شیشے میں‬
‫اپنے چہرے کو دیکھی جارھا تھا۔‬
‫ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے‬
‫ھوے بولی‬
‫ایسے نہیں میں تم پر مر مٹی تھی ۔‬
‫ہیرے کی پہچان جوہری ھی کرسکتا‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی کرسی کے پیچھے کھڑی میرے‬
‫گلے میں باہیں ڈال کر میرے کندھے پر‬
‫ٹھوڑی رکھ کر اپنے نرم گال کو میرے‬
‫نرم اور سوفٹ گال کے ساتھ رگڑتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫ابھی تو میرا شہزادہ تیار ھوگا تو‬
‫دیکھنے والے دیکھتے رھ جائیں گے‬
‫یہ کہتے ھوے ضوفی نے میری گال کو‬
‫چوما اور کیبن کی طرف چلی گئی‬
‫میری گال پر ضوفی کی لپسٹک کے‬
‫ہونٹ بن گئے تھے ۔‬
‫میں نے ٹشو پکڑ کر اپنی گال سے‬
‫لپسٹک صاف کی اور پھر آئینے میں‬
‫اپنے حسن کو دیکھنے لگ گیا کچھ دیر‬
‫بعد ضوفی کی آواز آئی بس کرو میرے‬
‫شہزادے کو نظر نہ لگا دینا۔‬
‫میں نے چونک کر ضوفی کی طرف‬
‫دیکھا تو ضوفی ہینگر ہاتھ میں پکڑے‬
‫ہوے کھڑی تھی میں نے کرسی سے‬
‫اٹھتے ھوے گھوم کر دیکھا تو ضوفی‬
‫کے ہاتھ میں جینٹس پینٹ شرٹ پکڑی‬
‫ہوئی تھی‬

‫الئٹ پنک کلر کی شرٹ اور بلیک‬


‫ڈریس پینٹ بلکل ویسی کلر میچنگ‬
‫جیسی ضوفی نے خود پہنی ھوئی تھی‬
‫میں حیران ہوکر پوچھنے لگا یہ کیا‬
‫ھے‬
‫ضوفی بولی یہ تمہارے لیے ھے ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫نہیں یار میں یہ نہیں پہن سکتا کم از کم‬
‫مجھ سے پوچھ تو لیتی ایسے فضول‬
‫میں پیسے لگاے اور یہ مناسب بھی‬
‫نہیں کہ میں تمہارے پیسوں سے کپڑے‬
‫پہنوں ضوفی بولی ۔‬
‫تم میں اور مجھ میں فرق ھے ۔‬
‫بہت دکھ ھوا یاسر تمہاری بات سن کر‬
‫میں نے اپنی خوشی اور شوق سے‬
‫تمہارے لیے یہ پینٹ شرٹ خریدی ھے‬
‫اور تم ھو کہ ۔۔۔۔۔‬
‫چلو جلدی سے کیبن میں جاکر چینج‬
‫کرو ہمیں دیر ھو رھی ھے ۔‬
‫سات بجے ہم نے نکلنا ھے ۔۔‬
‫اور یہ کہتے ھو ضوفی نے میرے ھاتھ‬
‫میں ہینگر پکڑایا اور مجھے دھکا‬
‫لگاتے ھوے کیبن میں چھوڑ آئی ۔‬
‫میں نے بھی چاروناچار دل کو سمجھا‬
‫کر کپڑے اتار کر پہلے شرٹ پہنی اور‬
‫پھر انڈر ویر پین کر پینٹ پہن کر باہر‬
‫آیا تو ضوفی مجھے دیکھ کر ہنس کر‬
‫بولی تم بھی نہ یار اور جلدی سے‬
‫میرے قریب آکر میری شرٹ کو پینٹ‬
‫کے اندر کیا اور بیلٹ لگا کر ایک شاپر‬
‫سے بلیک اور پنک الئنگ والی ٹائی‬
‫نکال کر میرے گلے میں باندھ دی اور‬
‫پھر الماری کے دراز سے ایک شاپر‬
‫نکاال اس میں سے ایک ڈبہ نکال کر‬
‫بلیک نوک دار کوٹ شوز نکال کر‬
‫مجھے بازو سے پکڑ کر صوفے پر‬
‫بٹھایا اور خود میرے قدموں میں بیٹھ‬
‫گئی میں ضوفی کے جزبے اور شوق‬
‫کو دل ھی دل میں سہرا رھا تھا ۔‬
‫کہ پاگل کتنا پیار کرتی ھے مجھ سے ۔‬
‫اور کتنا خرچا کردیا ۔‬
‫ضوفی نے اسی شاپر سے سوکس نکال‬
‫کر خود ھی میرے پاوں میں پہنا کر‬
‫پھر شوز میرے پاوں میں پہنانے لگ‬
‫گئی‬
‫ضوفی مجھے ایسے تیار کررھی تھی‬
‫جیسے بچے کو سکول کے لیے تیار‬
‫کیا جاتا ھے ۔‬
‫پھر ضوفی نے ہیئر برش پکڑ کر‬
‫میرے بال بنانے لگ گئی ۔‬
‫بال بنا کر مجھے بازو سے پکڑ کر‬
‫دیوار پر لگے بڑے سے آئنے کے پاس‬
‫لے آئی اور میرے پیچھے کھڑے ہوکر‬
‫میری کمر کر گرد باہیں ڈال کر ھاتھ‬
‫میرے پیٹ پر باندھ کر اپنے ممے‬
‫میری کمر کے ساتھ لگا کر میرے‬
‫کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر آئینے میں‬
‫دیکھتے ھوے بولی ‪++++++‬نظر نہ‬
‫لگ جاے اور ضوفی نے اپنی چھوٹی‬
‫فنگر کو اپنی آنکھ سے لگا کر فنگر پر‬
‫آنکھ سے کاجل لگا کر میری گردن پر‬
‫ٹیکہ لگا دیا۔‬
‫میں آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر پھولے ‪.‬‬
‫نہیں سما رھا تھا اور مجھے یقین ھی‬
‫نہیں ھو رھا تھا کہ یہ میں ھی ھوں ۔‬
‫پینٹ شرٹ میں ایک پینڈو‬
‫ہینڈ سم ُگڈ لُکنگ سمارٹ بواے بن گیا‬
‫تھا جسے جو لڑکی بھی ایک نظر دیکھ‬
‫لے تو پلکیں جھکانا بھول جاے اور بس‬
‫اپنا دل تھام کر بیٹھ جاے ۔‬
‫ایک ان پڑھ پینڈو‬
‫اب ایک گریجویٹ ینگ مین بن چکا تھا‬
‫۔‬
‫ضوفی میرے پیچھے کھڑی تھی اور‬
‫مجھے بڑے غور سے آئینے میں سے‬
‫دیکھی جارھی تھی‬
‫ضوفی نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر‬
‫گھما کر اپنی طرف کیا اور بولی تمہارا‬
‫آئینہ ادھر ھے‬
‫اور مجھے سر سے لے کر پاوں تک‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬
‫یاسررررررر قسم سے تمہاری جیسی‬
‫لُک میں نے دماغ میں بیٹھائی ھوئی‬
‫تھی تم تو اس سے بھی کہیں ذیادہ‬
‫ُگڈلُکنگ نکلے یارررررر‬
‫سہی پوچھو تو میں تمہاری بیوٹی سے‬
‫جیلس ھورھی ہوں ۔‬
‫اور خود کو خوش نصیب بھی سمجھ‬
‫رھی ہوں کہ میں نے الکھوں میں جو‬
‫ہیرا چنا ھے وہ واقعی انمول ہیرا ھے ۔‬
‫آئی لو یو یاسررررررد یہ کہتے ھوے‬
‫ضوفی مجھ سے لپٹ گئی اور بڑے‬
‫ذور سے مجھے ہگ کیا۔‬
‫اور مجھ سے علیحدہ ھوتے ھوے میری‬
‫گالوں کو اپنی ہتھیلیوں سے سہالتے‬
‫ھوے بولی یاسر مجھے ڈر لگ رھا‬
‫ھے کہ کوئی تم کو مجھ سے چھین نہ‬
‫لے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ہاتھوں پر اپنے‬
‫ھاتھ رکھتے ھوے نفی میں سر‬
‫ہالتےھوے بوال نہیں ضوفی‬
‫یہ یاسر آج سے تمہارا ھے صرف‬
‫تمہارا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر اگر تم نے مجھے‬
‫دھوکا دیا نہ تو میں تمہاری بھی جان‬
‫لے لوں گی اور اپنی بھی جان دے دوں‬
‫گی‬
‫تمہارہ یہ روپ دیکھ کر مجھے ڈر‬
‫لگنے لگ گیا ھے ۔‬
‫کہیں کوئی تم کو مجھ سے چھین کر نہ‬
‫لے جاے ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ھاتھوں کو سہالتے‬
‫ھوے کہا نہیں ضوفی میرا یہ روپ‬
‫تمہارا دیا ھوا ھے میں اتنا بھی سیلفش‬
‫نہیں ہوں کہ تمہارے اس احسان کو‬
‫بھول جاوں ۔‬
‫ضوفی کافی اموشنل ھورھی تھی‬
‫ضوفی نفی میں سر ہالتے ھوے بولی‬
‫نہیں یاسر یہ احسان نہیں میرے پیار کو‬
‫میرے خلوص کو میری محبت کو‬
‫میرے جزبے کو احسان کا نام مت دو ۔‬
‫میرا بس چلے تو میں تمہارے لیے‬
‫ساری دنیا کی خوشیاں اکھٹی کر کے‬
‫تمہارے قدموں میں رکھ دوں ۔‬

‫ضوفی کی آنکھوں میں نمی آگئی اور‬


‫وہ اموشنل ھوتی ھوئی میری گالوں کو‬
‫سہالتے ھوے میری آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالے‬
‫ایک ھی سانس میں بولی‬

‫بتاوں میں تمہیں‬


‫کیسے ْ‬
‫میرے لیئے تم کون ہو‬
‫تم دھڑکنوں کا گیت ہو‬
‫جیون کا تم سنگیت ہو‬
‫تم زندگی‬
‫تم بندگی‬
‫تم روشنی‬
‫تم تازگی‬
‫تم ہر خوشی‬
‫تم پیار ہو‬
‫تم پریت ہو‬
‫من میت ہو‬
‫آنکھوں میں تم‬
‫سانسوں میں تم‬
‫آہوں میں تم‬
‫نیندوں میں تم‬
‫خوابوں میں تم‬
‫تم ہو میری ہر بات میں‬
‫تم ہو میرے دن رات میں‬
‫تم صبح میں‬
‫تم شام میں‬
‫تم سوچ میں‬
‫تم کام میں‬
‫میرے لیئے پانا بھی تم‬
‫میرے لیئے کھونا بھی تم‬
‫میرے لیئے ہنسنا بھی تم‬
‫میرے لیئے رونا بھی تم‬
‫اور جاگنا سونا بھی تم‬
‫جاوں کہیں‬
‫ْ‬
‫دیکھوں کہیں‬
‫تم ہو وہاں تم ہو وہیں‬
‫بتاوں میں تمہیں‬‫کیسے ْ‬
‫تم بن تو میں کچھ بھی نہیں‬
‫بتاوں میں تمھیں میرے لیے تم‬
‫کیسے ْ‬
‫کون ہو‬
‫یہ جو تمہارا روپ ہے‬
‫یہ زندگی کی دھوپ ہے‬
‫چندن سے ترشا ہے بدن‬
‫بہتی ھے جس میں اک اگن‬
‫یہ شوخیاں ‪،‬یہ مستیاں‬
‫ہواوں سے ملیں‬ ‫تم کو ْ‬
‫گھٹاوں سے ملیں‬
‫ْ‬ ‫زلفیں‬
‫ہونٹوں میں کلیاں کھل گئیں‬
‫آنکھوں کو جھیلیں مل گئیں‬
‫چہرے میں سمٹی چاندنی‬
‫آواز میں ہے راگنی‬
‫شیشے کے جیسا انگ ہے‬
‫پھولوں کے جیسا رنگ ہے‬
‫ندیوں کی جیسی چال ہے‬
‫کیا حسن ہے کیا حال ہے‬
‫یہ جسم کی رنگینیاں‬
‫جیسے ہزاروں تتلیاں‬
‫تمہارے جسم کا یہ لمس‬
‫یہ نگریاں ہیں خواب کی‬
‫بتاوں میں تمہیں‬
‫کیسے ْ‬
‫حالت دل بیتاب کی‬
‫بتاوں میں تمہیں میرے لیے تم‬
‫کیسے ْ‬
‫کون ہو‬
‫بتاوں میں تمہیں۔۔۔۔‬
‫کیسے ْ‬
‫میرے لیئے تم دھرم ہو‬
‫میرے لیئے ایمان ہو‬
‫تم ہی عبادت ہو میری‬
‫تم ہی تو چاہت ہو میری‬
‫تم ہی میرا ارمان ہو‬
‫تکتی ہوں میں ہو پل جسے‬
‫تم ہی تو وہ تصویر ہو‬
‫تم ہی میری تقدیر ہو‬
‫تم ہی ستارا ہو میرا‬
‫تم ہی نظارا ہو میرا‬
‫کس حال میں میرے ہو تم‬
‫جیسے مجھے گھیرے ہو تم‬
‫پورب میں تم‬
‫پچھم میں تم‬
‫اتر میں تم‬
‫دکھن میں تم‬
‫سارے میرے جیون میں تم‬
‫ہر پل میں تم‬
‫ہر چھل میں تم‬
‫میرے لیئے رستہ بھی تم‬
‫میرے لیئے منزل بھی تم‬
‫میرے لیئے ساگر بھی تم‬
‫میرے لیئے ساحل بھی تم‬
‫میں دیکھتی تو تم کو ہوں‬
‫میں سوچتی تو تم کو ہوں‬
‫میں جانتی تو تم کو ہوں‬
‫میں مانتی تو تم کو ہوں‬
‫تم ہی میری پہچان ہو‬
‫بتاوں میں تمہیں‬
‫کیسے ْ‬
‫دیوتا ہو تم ۔۔ میرے لیے‬
‫میرے لیئے بھگوان ہو‬
‫بتاوں میں تمہیں میرے لیے تم‬
‫کیسے ْ‬
‫کون ہو‬
‫ضوفی بولتی گئی میں سنتا گیا آج پہلی‬
‫دفعہ میرا دل دھڑکا اور اس دھڑکن میں‬
‫ضوفی کے لیے سچی محبت تھی جس‬
‫میں ہوس نہیں تھی‬
‫صرف پیار تھا سچا جذبہ تھا ضوفی ‪.‬‬
‫کا جنون ضوفی کی محبت ضوفی کے‬
‫اخالص نے میرے دل میں گھر کرلیا آج‬
‫مجھ میں تبدیلی آگئی تھی جو فیلنگ‬
‫میرے اندر ضوفی کے لیے جاگی وہ‬
‫پہلے کبھی کسی لڑکی کے لیے نہیں‬
‫جاگی تھی پہلے بس لڑکیوں کے جسم‬
‫کی کشش مجھے اپنی طرف مائل کرتی‬
‫مگر آج ضوفی نے میری ظاہری حالت‬
‫کے ساتھ ساتھ میرا باطن بھی بدل کے‬
‫رکھ دیا ۔‬
‫ضوفی کی آنکھیں اسکی سچی محبت‬
‫کی گواہی دے رہیں تھیں ۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی ضوفی مجھ پر نہال‬
‫ہوتی رھی اور میں اسکے پیار کے‬
‫بندھن میں مزید بندھتا گیا ۔‬
‫آخر کار ضوفی کو احساس ھوا کہ‬
‫الہور کی بس نکل جانی ھے تو ضوفی‬
‫مجھ سے علیحدہ ھوئی اور جلدی سے‬
‫اپنے ہینڈ بیگ میں کچھ ضروری سامان‬
‫رکھنے لگ گئی ۔‬
‫اور پھر ضوفی کیبن میں گئی اور جب‬
‫باہر آئی تو اس نے گاون پہنا ھوا تھا‬
‫جو مجھے بھی اچھا لگا ورنہ شاید اس‬
‫لباس میں اسے یوں سرعام لے کر پھرنا‬
‫مجھے اچھا نہیں لگتا اور ایسی فیلنگ‬
‫بھی پہلی دفعہ میرے اندر پیدا ھوئی‬
‫تھی‬

‫شاید مجھے بھی ضوفی سے سچا پیار‬


‫ھوگیا تھا‬
‫ورنہ تو میرا یہ ھی شوق ھوتا کہ‬
‫ضوفی ایسے ھی اپنے مموں کا نظارا‬
‫مجھے کرواتی جاتی ۔‬
‫خیر ہم پارلر سے باہر نکلے اور رکشہ‬
‫پر بیٹھ کر الری اڈے پہنچے ۔‬
‫بس اسٹینڈ پر الہور جانے والی کوسٹر‬
‫منی بس تیار کھڑی تھی ۔‬
‫ضوفی جلدی سے گاڑی کے پاس کاونڑ‬
‫پر بیٹھے شخص سے ٹکٹ لینے لگ‬
‫گئی اور پرس سے پیسے نکال کر‬
‫دینے لگی تو مجھے پھر اپنی غربت‬
‫اور بےبسی پر غصہ آنے لگ گیا‬
‫مگر سواے اندر ھی اندر ُکڑھنے کے‬
‫کر بھی کیا سکتا تھا‬
‫ہمیں آخر کی چار سیٹوں میں سے دو‬
‫سیٹیں ملیں مجبوری تھی بیٹھنا پڑا ورنہ‬
‫دو گھنٹے بعد دوسری گاڑی جانی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد گاڑی اڈے سے نکل پڑی‬
‫ضوفی شیشے والی سائڈ پر بیٹھی تھی‬
‫اور ضوفی کے ساتھ میں بیٹھا ھوا تھا‬
‫اور میرے ساتھ ایک بزرگ اور اس‬
‫کے ساتھ اماں جی بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫ضوفی نے نقاب کیا ھوا تھا اور بلیک‬
‫سن گالسس لگاے ھوے تھے کچھ دیر‬
‫بعد میں نے ضوفی سے پوچھا یار ایک‬
‫بات تو بتاو‬
‫ضوفی جو شیشے کے باہر دیکھنے‬
‫میں مصروف تھی میری طرف متوجہ‬
‫ھوکر بولی ہممممم بولو۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار تمہیں میری پینٹ شرٹ‬
‫کے سائز اور میرے جوتے کے سائز‬
‫کا کیسے پتہ چال۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی دیکھ لو‬
‫چاہنے والے سب کچھ معلوم کرلیتے‬
‫ہیں ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑتے ھوے ہاتھ کو سہالتے ھوے کہا۔‬
‫ضوفی سچ بتاو نہ یار کیسے پتہ چال۔۔۔‬
‫ضوفی بولی چھوڑو یار ۔‬
‫میں نے نفی میں سر ہالتے ھوے کہا‬
‫نہیں یار بتاو نہ ۔‬
‫ضوفی بولی کل جو کچھ ہورھا تھا تو‬
‫میں تمہارا سائز ھی لے رہی تھی ۔‬
‫میں نے چونکتے ھوے ضوفی کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بوال۔‬
‫لو جی میں ایویں سمجھتا رھا کہ تم‬
‫میرے ساتھ رومانس کر رھی تھی‬
‫ضوفی ہنستی ھوئی سرگوشی میں بولی‬
‫۔‬
‫پاگل اگر میں تمہیں سیدھی طرح کہتی‬
‫کہ تمہارے لیے پینٹ شرٹ لینی ھے‬
‫اس لیے اپنا سائز دو تو تم نے کبھی‬
‫بھی نہیں ماننا تھا اس لیے مجھے ایک‬
‫تیر سے دونشانے لگانے پڑے رومانس‬
‫کا رومانس اور سائز کا سائز۔۔۔‬
‫میں نے کہا بڑی تیز ھو تم ۔۔۔ضوفی‬
‫مجھے کندھا مارتے ھوے بولی تمہارا‬
‫کچھ تو اثر مجھ پر پڑنا ھی تھا۔‬
‫میں نے آہستہ سے ضوفی کے کان میں‬
‫کہا ضوفی صرف کپڑوں کا ھی سائز‬
‫لیا تھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ضوفی میری ادھوری بات پر چونکتے‬
‫ھوے بولی‬
‫کیا مطلب میں سمجھی نہیں ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں ۔‬
‫ضوفی نے مجھے کہنی مارتے ھوے‬
‫کہا ۔‬
‫بتاو نہ یاسر تنگ نہ کرو‬
‫میں نے کہا‬
‫جسکو ھاتھ میں پکڑ کر مسل رھی تھی‬
‫اسکا سائز نہیں کیا۔‬
‫ضوفی میری بات سمجھتے ھوے‬
‫میرے بازو پر چٹکتی کاٹتے ھوے بولی‬
‫۔‬
‫شوخےےےےےےے آرام نال ۔۔۔‬
‫میں نے کہا اب بتاو نہ ۔‬
‫ضوفی بولی شرم کرو یاسر ہم گھر پر‬
‫نہیں گاڑی میں ہیں ۔‬
‫میں نے آہستہ سے کہا کان میں بتا دو ۔۔‬
‫ضوفی بھی میری نقل اتارتے ھوے‬
‫اسی انداز میں بولی گھر جاکر بتاوں‬
‫گی۔۔‬
‫میں نے کہا میرے گھر ۔‬
‫ضوفی بولی نہیں جی میرے گھر۔‬
‫میں نے کہا کیا مطلب ۔‬
‫ضوفی بولی کیوں کہ ہمیں واپسی پر‬
‫رات کافی ھوجانی ہے اور تم اتنی رات‬
‫کو گھر کیسے جاو گے اس لیے رات‬
‫میرے گھر ھی رکنا۔‬
‫میں نے کہا مگر یار میں تو گھر نہیں‬
‫بتا کر آیا کہ میں رات کو نہیں آوں گا‬
‫میری امی تو پریشان ھوں گی ۔‬
‫ضوفی بولی تمہاری گلی میں کسی کے‬
‫گھر فون لگا ھے ۔‬
‫میں نے کہا گھر میں تو نہیں بلکہ‬
‫ہمارے چوک میں ایک دکان پر فون‬
‫ھے پورے گاوں کے فون ادھر ھی آتے‬
‫ہیں اور جسکا فون ھو وہ لڑکے کو‬
‫بھیج کر انکے گھر بتا دیتا ھے ۔‬
‫ضوفی ھاتھ پر ھاتھ مارتے ھوے بولی‬
‫لو پھر اپنا کام تو ھوگیا تم اب بےغم‬
‫ھوجاو۔ الہور پہنچ کر گھر فون کر کے‬
‫بتا دینا‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔‬
‫اور میں نے جیسے ھی آگے والی سیٹ‬
‫پر بیٹھے لڑکے کی طرف دیکھا تو‬
‫میرا چہرہ ۔۔‬

‫میرا چہرہ غصے سے الل ہوگیا وہ‬


‫لڑکا بار بار گردن گھما کر ضوفی کو‬
‫دیکھ رھا تھا میں پہلے تو اسے اتفاق‬
‫سمجھ رھا تھا مگر وہ بہانے بہانے سے‬
‫گردن گھما کر پیچھے دیکھتا۔‬
‫کچھ دیر میں برداشت کرتا رھا مگر وہ‬
‫لڑکا باز نہ آیا۔‬
‫ضوفی نے بھی شاید یہ بات نوٹ کی‬
‫تھی اور ضوفی میرا ریکشن بھی دیکھ‬
‫رھی تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا کہ اس چول نے‬
‫مجھ سے چھتر کھا لینے ہیں کیسے بار‬
‫بار گردن گھما کر تمہیں دیکھ رھا ھے‬
‫۔‬
‫ضوفی میرا ہاتھ دباتے ھوے بولی دفعہ‬
‫کرو دیکھنے دو کچھ لوگوں کی عادت‬
‫ہوتی ھے ایسے ھی ہر لڑکی کو‬
‫گھورنے کی ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫مجھے اچھی طرح ایسے لوگوں کو‬
‫سیدھا کرنا آتا ھے ۔‬
‫اب اگر اس نے دوبارا یہ حرکت کی تو‬
‫میں نے سالے کی ُمنڈی مروڑ دینی‬
‫ھے ۔‬
‫ضوفی بولی دفعہ کرو یاسر ایسے‬
‫تماشہ بنے گا ۔‬
‫میں نے کندھے اچکاتے ھوے کہا بننے‬
‫دو ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے‬
‫کہ اس لڑکے نے پھر گردن گھمائی اور‬
‫ضوفی کی طرف دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫میں نے پیچھے سے اسکی گردن کو‬
‫پکڑ کر گھما کر کہا ۔‬
‫اوے پھدی دیا اپنی پین ول کی بار بار‬
‫ویکھن لگیا ہویا ایں ۔‬
‫تیرے کولوں سدھا ہوکہ نئی بیٹھیا جاندا۔‬
‫لڑکا ایکدم گبھرا گیا اور ممممم کرنے‬
‫لگ گیا کہ میں نے کب دیکھا ھے ۔‬
‫میں نے پھر غصے اور اونچی آواز‬
‫میں دھاڑتے ھوے کہا۔‬
‫سالیا میں کدوں دا تیرے ولی ای ویکھی‬
‫جاندیاں واں پر توں باز نئی آریا ۔‬
‫اتنے میں کنڈیکٹر بھی بھاگا پیچھے آیا‬
‫اور میرے ساتھ بیٹھا ھوا بزرگ بھی‬
‫مجھے چپ کروانے لگ گیا کنڈیکٹر‬
‫اور دیگر سواریوں نے معاملہ رفع دفع‬
‫کروا دیا ۔‬
‫لڑکا بھی اب انسان کا بچہ بن کر بیٹھ‬
‫گیا۔‬
‫ضوفی بولی یاسر میں نے کہا بھی تھا‬
‫کہ دفعہ کرو ایسے خوامخواہ تماشا بنا‬
‫دیا۔‬
‫میں نے کہا یار مجھ سے نہیں برداشت‬
‫ھوتا کہ کوئی تمہیں یوں گندی نظروں‬
‫سے دیکھے میں اس پین یک دیا اکھاں‬
‫نہ کڈ دیواں ۔‬
‫ضوفی میرا ھاتھ تھام کر سہالتے ھوے‬
‫میرے کندھے پر سر رکھ کر بولی ۔‬
‫اتنا پیار کرتے ھو مجھ سے ۔۔۔۔‬
‫میں بھی سینہ چوڑا کر کے بوال ۔‬
‫میرا بس چلے تو تم سات پردوں میں‬
‫چھپا کر رکھوں کہ تمہارا کوئی بال بھی‬
‫نہ دیکھ سکے ۔‬
‫ضوفی میرے کندھے سے سر اٹھا کر‬
‫مجھے کندھا مارتے ھوے بولی اوے‬
‫ھوے میرا دیوداس۔۔۔۔۔‬
‫ایسے ھی باتوں باتوں میں ہمیں پتہ بھی‬
‫نہ چال کہ کب الہور آیا اور گاڑی رک‬
‫گئی تو کنڈیکٹر نے آواز دی کے الری‬
‫اڈا آگیا ھے ۔۔۔‬
‫سب سواریاں اتر گئی تو ہم آخر میں‬
‫اترے ۔۔‬
‫گاڑی سے باہر نکلے تو مجھے وہ لڑکا‬
‫کہیں نظر نہ آیا جو ضوفی پر الئن مار‬
‫رھا تھا۔۔۔‬
‫اتنے میں ہمارے قریب ایک رکشہ رکا‬
‫تو ضوفی نے اسے شاہ عالم مارکیٹ‬
‫جانے کا کہا اور اس سے کرایہ طے‬
‫کر کے ہم رکشے میں بیٹھ گئے۔۔‬
‫رکشے میں بیٹھتے ھی ضوفی نے اپنے‬
‫پرس سے دوہزار روپے نکال کر‬
‫مجھے دیے کہ یاسر یہ جیب میں ڈال لو‬
‫مجھ سے بار بار پرس نہیں کھوال جاتا‬
‫تم خود ھی کرایہ وغیرہ دیتے رہنا میں‬
‫انکار کیا مگر ضوفی ذبردستی میری‬
‫پیٹ کی جیب میں ڈال دیے ۔۔۔‬
‫میں رکشے میں بیٹھا بڑے شوق سے‬
‫باہر کا نظارا کر رھا تھا‬
‫رنگ برنگی کاریں اونچی اونچی‬
‫عمارتیں ۔۔۔‬
‫کہ اتنے میں میری نظر مینار پاکستان‬
‫پر پڑھی تو میں نے خوشی سے تالی‬
‫بجاتے ھوے ضوفی کو کہا کہ ضوفی‬
‫وہ دیکھو مینار پاکستان افففففف کتنا بڑا‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے‬
‫ھوے بولی مارکیٹ سے فارغ ہوکر ہم‬
‫ادھر بھی آئیں گے اور اوپر بھی‬
‫چڑھیں گے ۔‬
‫میں خوش ھوتے ھوے ضوفی کا ھاتھ‬
‫پکڑ کر بوال سچیییییی ضوفی بولی‬
‫ُمچییییی ۔‬
‫میں نے دونوں‬
‫ُمٹھیاں بھر کر یاااااا کیا اور پھر دور‬
‫سے ھی مینار پاکستان کو دیکھنے لگ‬
‫گیا رکشہ شاید مینار پاکستان کے گرد‬
‫ھی گھوم رھا تھا کیونکہ کتنی دیر دی‬
‫ایک ھی لوکیشن نظر آے جارھی تھی ۔‬
‫کہ اتنے میں میری نظر دوسری طرف‬
‫پڑی تو مجھے پرانی سے تاریخی‬
‫عمارت نظر آئی میں نے ضوفی سے‬
‫پوچھا یہ کس کا گھر ھے اتنی اونچی‬
‫اونچی دیواریں ہیں ۔‬
‫ضوفی میری بات سن کر کھلکھال کر‬
‫ہنس پڑی اور میرے سر پر چپت لگاتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫پینڈو یہ گھر نہیں بلکہ بادشاہی قلعہ ھے‬
‫اور وہ سامنے جو مینار نظر آرھا ھے‬
‫وہ بادشاہی ****ھے ۔۔‬
‫میں نے جھینپ کر ہممممم کیا اور پھر‬
‫سے شاہی قلعہ کو دیکھنے لگ گیا کچھ‬
‫ھی دیر بعد یہ منظر میری آنکھوں سے‬
‫غائب ہوگیا میں پھر رکشہ سے سر باہر‬
‫نکال کر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے لگ‬
‫گیا۔‬
‫کہ رکشے واال بوال۔‬
‫سوہنے ِسڑ اندڑ کڑلے ایویں کوئی نال‬
‫ای لے جاوے گا۔‬
‫ضوفی نے مجھے بازو سے کھینچتے‬
‫ھوے کہا یاسر سر اندر کرلو کیا دیکھ‬
‫رھے ھو۔‬
‫میں شرمندہ سا ھوکر بوال کچھ نہیں اور‬
‫پھر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔‬
‫کچھ دیر بعد میری نظر سامنے دربار‬
‫پر پڑی تو ضوفی نے بتایا کے یہ الہور‬
‫کا مشہور دربار ھے ۔۔‬
‫میں بڑی حسرت سے دیکھتا رھا کچھ‬
‫دیر مذید سفر کے بعد ہم مارکیٹ پہنچے‬
‫تو میں نے جیب سے ہزار روپیہ نکال‬
‫کر رکشے والے کو دیا جو بڑے غور‬
‫سے مجھے سر سے پاوں تک دیکھ‬
‫رھا تھا ۔‬
‫اور شاید یہ سوچ رھا ھو کہ ۔‬
‫پینڈو بتیاں ویکھن آے نے ۔۔۔‬
‫ہزار کا نوٹ دیکھ کر رکشے واال بوال ۔‬
‫ویڑے سویڑے سویڑے ہزار کتھوں‬
‫کھال کرواں گا ۔‬
‫ضوفی نے پرس کھوال اور اس کا‬
‫مطلوبہ کرایہ دے کر مجھے ہزار جیب‬
‫میں ڈالنے کا کہا اور ۔۔۔۔‬
‫ہم مارکیٹ کے اندر انٹر ھوگئے‬
‫مارکیٹ میں بھاگم بھاگ پڑی ھوئی تھی‬
‫ہر طرف رش ھی رش تھا۔‬
‫میں اتنا رش دیکھ کر پریشان ھورھا تھا‬
‫کہ جمعہ کو بھی اتنا رش ھے تو آگے‬
‫پیچھے کیا ھوتا ھوگا ۔‬
‫مختلف بازاروں سے ھوتے ھوے ہم‬
‫ایک پالزے پر پہنچے جہاں صرف‬
‫کاسمیٹک کے ھی پروجیکٹ تھے‬
‫ضوفی نے اپنی مطلوبہ چیزیں لیں اور‬
‫اسکو ایک بڑے سے کارٹن میں پیک‬
‫کروا کر دکاندار کو پیمنٹ کر کے اپنے‬
‫پارلر کا نام اور لوکیشن کا بتایا جسکو‬
‫وہ دکاندار ایک پرچی پر لکھتا گیا ۔‬
‫اور پھر ضوفی نے اسے کہا کہ بھائی‬
‫اسکو احتیاط سے بلٹی کروا دینا تو‬
‫دکاندار نے بھی خوش اسلوبی سے‬
‫ھامی بھری اور ہم واپس اسی جگہ‬
‫آگئیے ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر انارکلی بازار چلیں‬
‫ادھر سے میں نے اپنے لیے اور‬
‫چھوٹی سسٹر کے لیے کچھ شاپنگ‬
‫کرنی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کندھے اچکا کر کہا چلو ۔۔۔‬
‫مجھے تو بس الہور دیکھنا تھا اور اوپر‬
‫سے اتنا حسین ساتھ ۔‬
‫میں تو ہواؤں میں اڑ رھا تھا ۔‬
‫ہم دوبارا رکشے میں بیٹھے اور انار‬
‫کلی بازار پہنچے تو ابھی کافی دکانیں‬
‫بند ھی تھیں ۔‬
‫رکشہ سے اتر کر میں نے پھر جھٹ‬
‫سے ہزار کا نوٹ نکال کر رکشے والے‬
‫کی طرف بڑھایا تو رکشے والے نے‬
‫پھر مجھے وہ ھی الہوڑی سنا دی ۔۔‬
‫ضوفی نے مسکراتے ھوے پھر پرس‬
‫سے پیسے نکال کر رکشے والے کو‬
‫دیے‬
‫تو میں نے جنجھال کر دوسرا نوٹ بھی‬
‫نکال کر ضوفی کو پکڑاتے ھوے کہا‬
‫یار یہ مجھے کیوں دئیے تھے اگر ہر‬
‫جگہ تم نے ھی پیسے دینے ہیں ضوفی‬
‫ہنستے ھوے میرے بڑھاے ھوے ھاتھ‬
‫کو واپس کر کے کہ بولی ۔‬
‫سونے ابھی تو بہت جگہ پھرنا ھے‬
‫اسے اپنے پاس ھی رکھو ۔‬
‫جہاں بڑا خرچا ھوا وہاں تمہاری جیب‬
‫سے ھی لگواوں گی ۔‬
‫ضوفی کے اس بڑے پن پر مجھے اس‬
‫پر بڑا پیار آیا کہ ایسے کہہ رھی ھے‬
‫جیسے یہ پیسے واقعی میرے ہی ہیں‬
‫۔۔۔میں نے منہ بسورتے ھوے پیسے‬
‫واپس اپنی جیب میں ڈال لیے ۔‬
‫ضوفی بولی چلو یاسر پہلے ہم ناشتہ‬
‫کرلیں مجھے تو بھوک بہت لگی ھے ۔‬
‫بھوک تو مجھے بھی لگی تھی کیونکہ‬
‫ناشتہ میں نے بھی نہیں کیا تھا۔‬
‫ہم ایک دیسی ہوٹل کی طرف چل پڑے‬
‫اندر لیڈیز کے لیے علیحدہ پردہ لگا ھوا‬
‫تھا ہم ایک کیبن میں گھس گئے اور‬
‫کچھ دیر بعد ایک بچہ کندھے پر کپڑا‬
‫رکھے آڈر لینے آیا ضوفی نے اس سے‬
‫پوچھا کہ کیا پکا ھے تو اس نے ایک‬
‫ھی سانس میں پانچ چھے ایٹم گنا دیں‬
‫جن میں سے مجھے تو دو کی ھی‬
‫سمجھ آئی کہ سری پائے اور مرغ چنے‬
‫۔۔‬
‫ہم نے ناشتہ کا آڈر دیا اور کچھ دیر بعد‬
‫ناشتہ کر کے ہم باہر نکلے تو میں‬
‫جلدی سے کاونٹر کی طرف بڑھا اور‬
‫ہزار روپیہ نکال کر اسکی طرف بڑھایا‬
‫اور شکر ادا کیا کہ اس نے الہوڑی‬
‫نہیں سنائی۔۔۔‬
‫اس نے پیسے کاٹ کر باقی مجھے دے‬
‫دئیے۔۔۔۔‬
‫ہم ہوٹل سے نکلے اور بازار میں چلنے‬
‫لگے کافی دکانیں کھل چکی تھیں ہم‬
‫ایک لیڈیز بوتیک میں داخل ھوے تو‬
‫میں ورائٹی دیکھ کر دنگ رہ گیا ہر‬
‫سوٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھا ضوفی‬
‫بولی یاسر پسند کرو کون سا سوٹ اچھا‬
‫ھے ۔‬
‫میں کافی ڈریس دیکھنے کے بعد چار‬
‫پانچ سوٹوں کو سلیکٹ کیا جسکو‬
‫ضوفی نے بھی بہت پسند کیا اور میری‬
‫پسند کی داد دینے لگ گئی ۔۔‬
‫ضوفی نے سوٹ پیک کروا کر پیمنٹ‬
‫کی اور ہم دکان سے باہر نکلے تو‬
‫ضوفی مجھے لے کر ایک جینٹس پینٹ‬
‫شرٹ والی دکان میں داخل ہوئی تو میں‬
‫نے ضوفی کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫پوچھا کہ ادھر سے کس کے لیے‬
‫شاپنگ کرنی ھے تو ضوفی بولی چلو‬
‫تو سہی بتاتی ہوں ۔۔اس دکان میں بھی‬
‫ایک سے بڑھ کر ایک پینٹ شرٹ پینٹ‬
‫کوٹ شیروانی دلہا ڈریس کی ورائٹی‬
‫تھی ۔۔‬
‫ضوفی میری ویسٹ کے حساب سے‬
‫پینٹیں دیکھنے لگ گئی ضوفی نے چھ‬
‫سات پینٹیں پسند کرلیں جن میں کچھ‬
‫جینز کی تھیں اور کچھ کاٹن کی اور‬
‫انکے ساتھ شرٹس بھی کافی اچھی‬
‫ڈیزائننگ کی تھیں ۔‬
‫ضوفی نے کو پیک کروایا اور بل ادا‬
‫کر کے پہلے والے سوٹ اور پینٹ‬
‫شرٹس ادھر ھی جمع کروا دئیے کہ ہم‬
‫واپسی پر لے جائیں گے اور رسید لے‬
‫کر ہم دکان سے باہر نکل پڑے ۔‬
‫جہاں تک مجھے یقین تھا کہ ضوفی نے‬
‫میرے لیے ھی پینٹ شرٹس خریدیں ہیں‬
‫۔۔۔‬
‫کیونکہ ضوفی کہ گھر میں کوئی بھی‬
‫میل نہیں تھا ۔‬
‫میں پھر بھی بار بار ضوفی سے پوچھتا‬
‫رھا کہ اتنا خرچہ کس کے لیے کررھی‬
‫ھو مگر ضوفی ہر دفعہ مجھے خاموش‬
‫رہنے کا کہہ دیتی ۔۔۔‬
‫ہم چلتے ھوے انار کلی بازار سے باہر‬
‫آگئے وھاں سے ہم رکشہ لیا اور مینار‬
‫پاکستان آگئے ۔۔۔‬
‫وہاں کچھ خاص رش نہیں تھا‬
‫کیونکہ الہور دن کو سوتا ھے اور رات‬
‫کو جاگتا ھے دن کے وقت اکثریت‬
‫سیرو تفری کے لیے آے ھوے دور‬
‫عالقوں کے لوگ ھی تفریحی‬‫ً‬ ‫دراز کے‬
‫مقامات پر ھوتے تھے ۔‬
‫۔ہم لفٹ کے ذریعے مینار پاکستان پر‬
‫چڑھے اور اوپر کھڑے ہوکر خوب‬
‫انجوائے کیا ۔‬
‫وہاں ایک کام یہ ھوتا تھا جو شاید اب‬
‫بھی ھوتا ھو کہ دور بین والے ذبردستی‬
‫دور بین پکڑا دیتے تھے اور بعد میں‬
‫اس کے چارجز اپنی مرضی کے‬
‫وصول کرتے تھے ۔۔‬
‫خیر ہمارے ساتھ بھی ایسا ھوا‬
‫کیونکہ انکا انداز ھی ایسا تھا جیسے‬
‫فری میں دے رھے ھوں۔‬
‫ہم نے کافی انجواے کیا میں نے تو جی‬
‫بھر کر اوپر سے نیچے کا نظارا کیا‬
‫نیچے چلتے ھوے لوگ اور گاڑیاں‬
‫چیونٹیوں جتنی نظر آتی تھی یہ منظر‬
‫مجھے بہت اچھا لگا ۔‬
‫اور پھر دور سے چھوٹی چھوٹی‬
‫عمارتیں افففففف کیا ھی دلفریب نظارہ‬
‫تھا ہم دو گھنٹے اوپر ھی رھے پھر‬
‫نیچے آکر پارک میں کچھ دیر بیٹھ کر‬
‫کولڈ ڈرنک اور ساتھ میں چپس وغیرہ‬
‫کھائی اور ایسے ھی ہم نے شاہی قلعہ‬
‫اور اردوگرد کے مقامات کی‬
‫کی سیرو تفریح کرتے رھے اور خوب‬
‫انجوائے کیا ۔۔۔‬
‫شام ڈھلنے لگی وقت کا پتہ ھی نہیں‬
‫چال ۔‬
‫تو ضوفی بولی یار میں تو تھک گئی‬
‫ھوں کیا پروگرام ھے اب واپس چلیں ۔‬
‫تھک تو میں بھی گیا تھا میں نے کہا‬
‫چلو واپس چلتے ہیں ۔۔‬
‫مجھے اچانک خیال آیا کہ گھر کال کر‬
‫کے بتا دوں میں نے ضوفی کو بتایا تو‬
‫ضوفی بولی انارکلی بازار سے کسی پی‬
‫سی او سے کال کرلیں گے ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور ہم پھر رکشہ میں‬
‫بیٹھ کر انار کلی بازار کی طرف روانہ‬
‫ہوگئے ۔۔۔‬
‫دوستو میں حیران تھا کہ سارا دن‬
‫ضوفی کے ساتھ گزارنے اور وہ بھی‬
‫اتنے قریب سے اسکے ساتھ رہنے کے‬
‫باوجود میرے دماغ میں ایک دفعہ بھی‬
‫ضوفی کے متعلق غلط خیال نہیں آیا کہ‬
‫اسکے جسم کو جسن بوجھ کر ٹچ کروں‬
‫یا اسکی گانڈ کو یا مموں کو چھوؤں۔‬
‫پتہ نہیں اب‬
‫الہور دیکھنے کا نشہ وجہ تھی ۔‬
‫میری ظاہری تبدیلی وجہ تھی‬
‫یا پھر‬
‫مجھے ضوفی سے سچا پیار ھوگیا تھا ۔‬
‫خیر ہم انار کلی پینچے اور ادھر سے‬
‫کال کر کے میں نے دکان والے کو اپنا‬
‫تعارف کروایا اور اسے کہا کہ میرے‬
‫گھر پیغام بھیج دے کہ میں نے رات کو‬
‫گھر نہیں آنا کہ الہور سے لیٹ ھوجاوں‬
‫گا۔۔۔‬
‫اور پھر ہم اپنی کی ہوئی شاپنگ کے‬
‫بیگ پکڑ کر وہاں سے ھی رکشہ میں‬
‫بیٹھ کر الری اڈے پہنچے اور سیالکوٹ‬
‫کی گاڑی میں بیٹھ گئے سیٹوں پر‬
‫بیٹھتے ھی ہم نے ٹھنڈی آہ بھری اور‬
‫تھکاوٹ کا اظہار کرتے ھوے ایک‬
‫دوسرے سے باتیں کرتے رھے کچھ‬
‫دیر بعد گاڑی بھی چل پڑی باہر کافی‬
‫اندھیرا ھوچکا تھا اور مجھے لگ رھا‬
‫تھا کہ ہم دس بجے سے پہلے نہیں‬
‫پہنچیں گے ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد ضوفی میرے کندھے‬
‫پر سر رکھ کر سوگئی اور میں ضوفی‬
‫کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہالتے‬
‫ھوے سوچوں میں گم پتہ نہیں کب‬
‫سوگیا۔‬
‫ایسے ھی کبھی آنکھ کھلتی کبھی بند‬
‫ھوجاتی ضوفی نے تو اچھے طریقے‬
‫سے نیند پوری کر کے تھکاوٹ اتار لی‬
‫۔‬
‫سارا سفر خاموشی سے ھی گزرا ۔‬
‫آخر کار ہم واپس اپنے شہر سیالکوٹ‬
‫پہنچے اڈے سے رکشہ لیا اور سیدھا‬
‫ضوفی کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔۔ضوفی کا‬
‫گھر باہر سے اچھا بنا ھوا تھا اور ڈبل‬
‫سٹوری لگ رھا تھا مگر تھا چھوٹا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو کہا یار تم اپنے گھر‬
‫کیا بتاو گی تو ضوفی بولی تم بے فکر‬
‫رھو میرے گھر والوں کی ٹینشن مت‬
‫لینا اور اسے اپنا گھر ھی سمجھنا ۔‬
‫میں نے ضوفی کو ذیادہ کریدا نہیں۔۔۔‬
‫ضوفی نے گھر کی ڈور بیل دی تو کچھ‬
‫دیر بعد اندر سے کسی لڑکی کی پیاری‬
‫سی آواز آئی کون ۔۔۔‬
‫ضوفی نے آواز دی ماہی دروازہ‬
‫کھولو۔۔‬
‫دروازہ کھال تو سامنے جو چہرہ دیکھا‬
‫تو ایسے ھی لگا کہ ضوفی ھی کھڑی‬
‫ھے ہو باہو ضوفی کی ہم شکل اسکی‬
‫چھوٹی بہن کھڑی حیرانگی سے مجھے‬
‫دیکھی جارہی تھی ۔‬
‫ضوفی اندر گئی اور مجھے بھی اندر‬
‫آنے کا کہا اور میں بھی جھجھکتا ھوا‬
‫اندر چال گیا ۔ ماہی نے دروازہ بند کیا‬
‫اور حیرانگی سے میرے پیچھے چلتی‬
‫ھوی ٹی وی الونج میں آگئی ضوفی نے‬
‫مجھے بیٹھنے کا کہا اور ماہی سے‬
‫میرا تعارف کرواتے ھوے بولی یہ‬
‫یاسر ھے جسکا تمہیں بتایا تھا‬
‫اور یاسر یہ ماہ نور ھے جسے میں‬
‫پیار سے ماہی کہتی ہوں ۔۔‬
‫اتنے میں کمرے سے ایک عمر رسیدہ‬
‫آنٹی ھی کہہ لیں تقریبا ً پچاس سال کے‬
‫لگ بھگ عمر تھی برآمد ہوئیں اور‬
‫مجھے حیرانگی سے دیکھتے ھوے‬
‫ضوفی کے سر پر پیار دیا میں نے بھی‬
‫اٹھ کر انکو سالم کیا تو انہوں نے‬
‫میرے سر پر بھی پیار دیا۔۔۔‬
‫ضوفی نے آنٹی کا تعارف مجھ سے‬
‫کروایا کہ یہ میری امی ہیں اور اپنی‬
‫امی سے میرا تعارف کروایا کہ یہ یاسر‬
‫ھے اور ضوفی نے مجھے آنکھ مارتے‬
‫ھوے کہا میری دوست‬
‫ثانیہ ھے نہ اسکا کزن ھے ادھر گاوں‬
‫میں رھتا ھے میرے ساتھ الہور گیا تھا‬
‫تو رات ہونے کی وجہ سے میں اسے‬
‫اپنے ساتھ ھی لے آئی کیونکہ رات کو‬
‫انکے گاوں کی سواری نہیں ملتی‬
‫آنٹی مجھے سر سے پاوں تک ایسے‬
‫دیکھ رھی تھی جیسے انکو یقین نہ آرھا‬
‫ھو کہ میں کسی گاوں کا رہنے واال‬
‫ھوں‬

‫آنٹی شاید نیند سے بیزار ھوکر آئی تھیں‬


‫انہوں نے بھی ذیادہ پوچھ گچھ نہیں کی‬
‫اور مجھے دعائیں دیتی ھوئی واپس‬
‫اپنے کمرے میں چلی گئی ۔‬
‫ماہی نظر نہ آئی شاید وہ اپنے کمرے‬
‫میں چلی گئی تھا یا پھر کچن میں ۔۔‬
‫کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ضوفی‬
‫اٹھی اور مجھے اپنے ساتھ اوپر آنے کا‬
‫اشارہ کرتے ھوے سیڑھیاں چڑھنے‬
‫لگ گی میں بھی اسکے پیچھے اوپر‬
‫چھت چھت پہنچا تو اوپر بھی ایک‬
‫کمرہ تھا ضوفی کمرے میں داخل ھوئی‬
‫تو میں بھی اسکے پیچھے ھی کمرے‬
‫میں داخل ھوا کمرے کی اچھ سیٹنگ‬
‫کی گئی تھی بیڈ اور صوفے رکھے‬
‫ھوے تھے کارنر میں ڈریسنگ ٹیبل اور‬
‫ایک طرف اٹیچ باتھ تھا۔۔۔ضوفی کا گھر‬
‫تین کمروں پر ھی مشتمل تھا‬
‫ایک کمرہ نیچے تھا اسکے آگے ٹی وی‬
‫الونج تھا اور اس سے آگے گیراج اور‬
‫ایک طرف بیٹھک تھی ۔۔‬
‫ضوفی بولی یہ میرا اور ماہی کا کمرہ‬
‫ھے ۔۔‬
‫میں ہمممم کرتے ھوے کمرے کا‬
‫چاروں اطراف سے جائزہ لینے لگ‬
‫گیا۔۔۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم بیٹھو میں چینج‬
‫کرلوں اور کھانے کا بھی کچھ کروں‬
‫ماہی گئی تو ھے کچن میں‬
‫میں ذرہ اسکی بھی ہیلپ کروا دوں ۔۔۔‬
‫ضوفی جانے لگی تو میں نے اسکا ھاتھ‬
‫پکڑ لیا ضوفی نے گردن گھما کر میری‬
‫طرف دیکھتے ھوے آنکھوں کے‬
‫اشارے سے پوچھا کیا ھے۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو کھینچ کر اپنے ساتھ‬
‫لگا کر باہوں میں بھرتے ھوے کہا‬
‫ابھی چینج مت کرنا ابھی تو میں نے‬
‫جی بھر کہ دیکھا ھی نہیں ۔‬
‫ضوفی نے دونوں بازوں فولڈ کر کے‬
‫میرے سینے پر رکھے تھے ضوفی‬
‫میرے سینے پر مکا مارتے ھوے بولی‬
‫چھوڑو پاگل ماہی اوپر آگئی تو کیا‬
‫سوچے گی ۔۔۔۔میں نے کہا سوچنے دو‬
‫جو کوئی سوچتا ھے ۔۔‬
‫تم نے چینج نہیں کرنا۔۔‬
‫ضوفی بولی اچھا بابا نہیں کرتی اب‬
‫چھوڑ تو دو کیوں مروانا ھے ۔۔‬
‫میں نے بازوں کا گھیراو ڈھیال کیا تو‬
‫ضوفی میرے بازوں سے نکل کر میری‬
‫گال پر چٹکی کاٹتے ھوے ہنستی ھوی‬
‫باہر کی طرف بھاگ گئی اور میں اسے‬
‫جاتا ھوا دیکھتا رھا ۔‬
‫ضوفی کے جانے کہ بعد میں صوفے‬
‫پر بیٹھ کر کمرے کا جائزہ لیتے ھوے‬
‫سوچنے لگ گیا کہ ایسی کیا بات ھے‬
‫کہ ضوفی نے میرا سب کچھ بدل کر‬
‫رکھ دیا ایک ھی دن میں ضوفی میری‬
‫روح میں اتر چکی تھی ۔‬
‫ضوفی سے ایک منٹ کی بھی دوری‬
‫اب مجھ سے برداشت نہیں ھورھی‬
‫تھی‬
‫مجھے بے چینی سی ھورھی تھی کہ‬
‫ضوفی جلدی سے واپس کمرے میں‬
‫آجاے اور میں اسے سامنے بیٹھا کر‬
‫بس دیکھتا رہوں ۔۔۔‬
‫کیا اسی کا نام پیار تھا ۔‬
‫یا عشق تھا جنون تھا‬
‫تھا تو آخر کیا تھا ۔‬
‫جس نے مجھے اتنا بے چین کرکہ رکھ‬
‫دیا تھا‬
‫اور کمال کہ بات کہ ماہی بھی اتنی‬
‫خوبصورت تھی مگر ضوفی کی‬
‫موجودگی میں میرا اسکی طرف دھیان‬
‫ھی نہیں گیا تھا۔‬
‫ہر خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر جس‬
‫یاسر کے منہ سے الریں ٹپکنا شروع‬
‫ھوجاتیں تھی آج ضوفی کے حسن کے‬
‫عالوہ کسی اور حسینہ کا حسن اس پر‬
‫اثر نہیں کر پارھا تھا ۔‬
‫ماہی کا جسم بھی بہت سیکسی تھا رنگ‬
‫گورا قد کاٹھ کی بھی ٹھیک تھی جسم‬
‫بھی بھرا بھرا ابھری چھاتیوں کے ساتھ‬
‫دل کو مو لیتا مگر میری نظریں اسکو‬
‫دیکھ کر بھی نہ ڈگمگائیں ۔‬
‫ضوفی کے حسن اور اسکی محبت کے‬
‫سحر نے تو الہور کی ایک سے بڑھ کر‬
‫ایک بچی کی طرف بھی مجھے آنکھ‬
‫اٹھا کر دیکھنے نہ دیا ۔‬
‫اففففف ھاےےےےےے یہ‬
‫کمبخت عشق ساال پتہ نہیں آگے کتنا‬
‫رالے گا۔۔۔۔‬
‫میں اپنے ھی خیالوں میں گم تھا کہ‬
‫ماہی ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے‬
‫اندر داخل ہوئی اور کھانا ٹیبل پر لگانے‬
‫لگ گئی ماہی اپنے سڈول سینے کو‬
‫میرے سامنے جھکاے میرے آگے‬
‫رکھے ٹیبل پر کھانا لگا رھی تھی اور‬
‫میری نظریں بجاے اسکے گلے میں‬
‫جھانکنے کے اپنے پیروں کو دیکھ‬
‫رہیں تھی ۔‬
‫ماہی کے کچھ ھی دیر بعد ضوفی بھی‬
‫اندر آگئی جسکو دیکھتے ھی میراچہرہ‬
‫کھل اٹھا۔۔۔‬
‫ضوفی آکر میرے ساتھ چپک کر بیٹھ‬
‫گئی اور میں حیران ھوا کہ ماہی نے‬
‫اسکا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ سر‬
‫جھکائے ضوفی سے بولی آپی آپ کھانا‬
‫کھاو میں نیچے چاے بنا لوں ضوفی‬
‫بولی تم بھی آجاو تو ماہی بولی نہیں آپی‬
‫میں نے کھانا کھا لیا ھے آپ کھاو میں‬
‫چاے بنا کر التی ھوں اگر کسی چیز‬
‫کی ضرورت ھو تو آواز دے دینا ۔‬
‫ضوفی نے پھر اصرار کیا مگر ماہی‬
‫انکار کرتی ھوئی نیچے چلی گئی ۔۔‬
‫میں نے کہا ضوفی یار ماہی کو بھی‬
‫ساتھ بیٹھا لیتی‬
‫ضوفی بولی یہ بہت شرمیلی ھے‬
‫تمہاری وجہ سے نہیں بیٹھی ورنہ یہ‬
‫میرے بغیر کھانا کھاتی ہی نہیں ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار اسے بال الو پھر ایسے‬
‫اچھا نہیں لگے گا۔۔‬
‫ضوفی بولی کوئی فائدہ نہیں مجھے پتہ‬
‫ھے یہ نہیں آے گی ۔‬
‫اور ضوفی ساتھ ساتھ کھانا میرے‬
‫سامنے پیش کرنے لگ گئی‬
‫میں چپ کر کے کھانا کھانے میں‬
‫مصروف ھوگیا۔‬
‫تقریبا ً آدھے گھنٹے کے بعد ماہی چاے‬
‫لے کر کمرے میں داخل ہوئی تب تک‬
‫ہم نے کھانا کھا لیا تھا۔۔۔‬
‫میں نے کھانے کی تعریف کرتے ھوے‬
‫ماہی کا شکریہ ادا کیا ۔‬
‫تو ماہی منہ سے تو کچھ نہ بولی بس‬
‫مسکرا کر میری طرف ایک نظر دیکھ‬
‫کر سر نیچے کرکے ٹیبل پر چاے‬
‫رکھنے لگ گئی ۔۔‬
‫میں نے پہلی دفعہ ماہی کو مخاطب‬
‫کرتے ھوے مزاق کے ساتھ کہا چاے‬
‫پی لیں کہ وہ بھی نیچے جاکر اکیلی ھی‬
‫ٰپئیں گی ۔۔۔‬
‫ماہی نے تو کوئی جواب نہ دیا مگر‬
‫ضوفی ہنس کر بولی ماہی یاسر سے‬
‫کیسی شرم کررھی ھو ۔‬
‫یہ بھی اب ہماری فیملی کا حصہ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اتنا کہہ کر ضوفی خاموش ہوگئی میں‬
‫نے بھی چونک کر ضوفی کی طرف‬
‫دیکھا۔‬
‫ضوفی ساتھ ھی بات کو بدلتے ھوے‬
‫بولی ۔‬
‫گھر آے مہمان سے شرماتے نہیں ورنہ‬
‫مہمان سمجھے گا کہ شاید میزبان کو‬
‫اس کے آنے کی خوشی نہیں ھوئی ۔‬
‫ماہی سر نیچے کئے ھی بولی نہیں آپی‬
‫ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی بیٹھو ادھر ھی پھر ۔‬
‫ماہی سر نیچے کئے دوسرے صوفے‬
‫پر بیٹھ گئی تو ضوفی نے چاے کا کپ‬
‫اسکی طرف بڑھایا تو اس نے کپ کو‬
‫پکڑا مگر بیٹھی اسی حالت میں رھی‬
‫جیسے لڑکے والے اسے دیکھنے کے‬
‫لیے آے ھوں اور وہ شرماتے ھوے سر‬
‫نہیں اٹھا رھی ۔۔۔‬
‫چاے ختم کی تو ضوفی بولی ماہی‬
‫نیچے جو شاپر پڑے ھیں اوپر لے آو‬
‫تمہارے لیے سوٹ الئی ہوں ۔‬
‫ماہی بچوں کی طرح خوش ھوکر نیچے‬
‫بھاگ گئی اور کچھ ھی دیر بعد سارے‬
‫شاپر ھاتھ میں پکڑے اوپر آئی ۔‬
‫اور سب شاپر کو بیڈ پر رکھ دیا ضوفی‬
‫نے شاپر کھول کر اپنے اور ماہی کے‬
‫سوٹ نکال کر اسے دیکھانے لگ گئی‬
‫ماہی سوٹ دیکھ کر بہت خوش ہورھی‬
‫تھی ماہی بولی ان میں سے میرے کون‬
‫سے ہیں ۔‬
‫ضوفی بولی تمہیں جونسے پسند ہیں لے‬
‫لو ۔‬
‫ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی‬
‫پسند ہیں بہت ھی اچھی چوائس ھے‬
‫آپکی ۔‬
‫ضوفی بولی یہ میری نہیں یاسر کی‬
‫چوائس ھے ۔‬
‫ماہی نے میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫ہنستے ھوے بولی بہت اچھی چوائس‬
‫ھے آپکی ۔‬
‫میں نے تعریف کرنے کا شکریہ ادا کیا‬
‫ماہی بولی آپی مجھے تو سارے ھی‬
‫پسند ہیں‬
‫ضوفی پیار سے ضوفی کے سر پر‬
‫ھاتھ پھیرتے ھوے بولی‬
‫میرا بچہ سارے لے لے تم سے سوٹ‬
‫اچھے ہیں‬
‫میں دونوں بہنوں کے پیار کو رشک‬
‫بھری نظروں سے دیکھ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی واقعی ھی چھوٹی عمر میں‬
‫بڑے دل کی مالک تھی اور اسکا ظرف‬
‫اور اسکا بڑا پن دیکھ کر مجھے اسپر‬
‫اور پیار آنے لگ گیا۔‬
‫ضوفی کو اسکے گھر کے حاالت نے‬
‫میچور کردیا تھا ویسے تو اس عمر کی‬
‫لڑکیوں کو تو اتنی سمجھ بوجھ بھی‬
‫نہیں ھوتی ۔‬
‫اور ضوفی گھر میں باپ بھائی بہن بیٹی‬
‫کا رول ادا کررھی تھی ۔۔‬
‫ضوفی کے اس مقام کو دیکھ کر میرے‬
‫دل میں اسکی عزت بڑھتی جارہی تھی‬
‫۔‬
‫کچھ دیر بعد ماہی نے سارے سوٹ پیک‬
‫کیے اور لے کر نیچے چلی گئی ۔‬
‫تو ضوفی بولی یاسر تھک گئے ھوگے‬
‫آرام کرلو ۔‬
‫میں نے کہا تمہیں دیکھ کر میری ساری‬
‫تھکاوٹ دور ھو گئی ھے ضوفی بولی‬
‫صبح کا مجھے اب دیکھا ھے ۔‬
‫میں نے کہا تمہارا یہ روپ اب ھی‬
‫دیکھا ھے ضوفی حیران ھوکر بولی‬
‫کون سا روپ میں نے کہا ۔‬
‫ماہی کے ساتھ جس شفقت اور پیار سے‬
‫تم پیش آرھی تھی ۔‬
‫وہ واال روپ ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر ماہی میری بہن ھی‬
‫نہیں بلکہ ایک بہت اچھی دوست بھی‬
‫ھے اور میں تو اسے اپنا بچہ سمجھتی‬
‫ہوں ۔‬
‫بہت پیار کرتی ھے مجھ سے ۔۔‬
‫میں نے کہا نظر نہ لگے تم بہنوں کے‬
‫پیار کو ۔۔۔سدا ایسے ھی محبت پیار سے‬
‫رھو۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم ادھر لیٹ جاو میں‬
‫اور ماہی نیچے لیٹ جاتے ہین ۔‬
‫میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑتے ھوے‬
‫کہا ۔‬
‫جان من میرا سب کچھ چھین کر اب‬
‫مجھے اکیال چھوڑ کر جارھی ھو۔‬
‫ضوفی بولی ۔‬
‫یاسر دل تو میرا بھی نہیں کررھا ۔۔‬
‫مگر ماہی کیا سوچے گی اور اگر امی‬
‫اٹھ گئی تو مجھے تمہارے ساتھ یوں‬
‫ایک کمرے مین دیکھ کر کیا سوچیں‬
‫گی ۔‬
‫اس لیے مجبوری ھے پلیزززززز‬
‫ناراض مت ھونا۔۔‬

‫میں نے کہا یار کچھ نہیں ہوتا تم صبح‬


‫جلدی نیچے چلی جانا اور ماہی کو‬
‫سمجھا دینا وہ سمجھ جاے گی‬
‫پلیززززززز یہ وقت دوبارا پتہ نہیں‬
‫کب آنا ھے ابھی تو میں تمہیں جی بھر‬
‫کر دیکھا بھی نہیں ھے ۔۔‬
‫ضوفی کچھ دیر خاموش رھ کر سوچتی‬
‫رہی پھر بولی اچھا تم لیٹو میں کچھ دیر‬
‫بعد اوپر آجاتی ھوں ۔‬
‫میں نے کہا پرامس ضوفی بولی کوئی‬
‫شک میں نے نفی میں سر ہالیا تو‬
‫ضوفی نے مسکرا کر میری گال پر‬
‫چٹکی کاٹی اور سوکیوٹ کہتی ھوئی‬
‫دروازے کی طرف بڑھی تو میں نے‬
‫پیچھے سے آواز دی ۔۔ضوفی ۔۔۔۔‬
‫ضوفی نے رک کر پیچھے کو مڑ کر‬
‫دیکھا تو میں نے کہا کپڑے نہیں تبدیل‬
‫کرنے ابھی ۔۔۔‬
‫ضوفی مسکرا کر میری طرف ہاتھ سے‬
‫جا اوے کا اشارا کرتے ھوے اثبات میں‬
‫سر ہالتے ھوے سیڑھیاں اترتی نیچے‬
‫چلی گئی ۔‬
‫اور میں دھڑام سے بیڈ پر گرا اور‬
‫ضوفی کے بارے میں سوچنے لگ‬
‫گیا۔۔۔‬
‫آدھے گھنٹے بعد ضوفی کمرے میں‬
‫داخل ہوئی تو میں چونک کر اٹھ کر‬
‫بیٹھ گیا ضوفی نے دروازہ الک کیا اور‬
‫میرے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر بولی تم‬
‫ابھی تک ویسے ھی بیٹھے ھو کم ان‬
‫یار جوتے اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھو‬
‫اور یہ ٹائی تو اتار دو۔۔ اور کیا پینٹ‬
‫پہن کر ھی سوؤ گے ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔تم‬
‫آگئی ھو تو اب سب کچھ اتر ھی جاے‬
‫گا ۔۔‬
‫ضوفی میرے پیٹ پر گد گدی کرتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫میرے گھر میں میری ھی عزت لوٹنے‬
‫کی دھمکی دے رھے ھو۔۔۔‬
‫میں نے کہا ایسی حسین بچی اکیلی‬
‫کمرے میں ھو اور میرے جیسا پینڈو‬
‫پھسلے نہ یہ کیسے ھو سکتا ھے ۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے‬
‫ھوے بولی شوخے جلدی سے یہ ٹائی‬
‫اور جوتے اتارو اور اوپر ھوکر بیٹھو۔۔‬
‫میں نے ٹائی ڈھیلی کی اور گلے سے‬
‫اتار کر شوز بھی اتارے اور بیڈ کے‬
‫اوپر بیٹھ کر بیک سے ٹیک لگا لی ۔‬
‫ضوفی بھی اوپر ھوکر میرے ساتھ ھی‬
‫ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور‬
‫چومتے ھوے بوال ضوفی تم کتنی اچھی‬
‫ہو جتنی تم خوبصورت ھو اس سے بھی‬
‫ذیادہ تمہاری سیرت خوبصورت ھے‬
‫تمہاری سوچ اور تمہارا بڑا پن دیکھ کر‬
‫تمہاری میرے دل میں اور عزت بڑھ‬
‫گئی ھے ۔‬
‫ضوفی بولی ایسی بھی بات نہیں ھے‬
‫ذیادہ مسکے مت لگاو۔۔‬
‫کچھ دیر بیٹھے ہم باتیں کرتے رھے‬
‫ضوفی نے اپنے بارے میں بتایا کہ اس‬
‫کے ابو اسکے بچپن میں ھی فوت‬
‫ہوگئے تھے اور اسکی والدہ نے کیسے‬
‫محنت مزدوری کر کے انکو پاال اور‬
‫کیسے اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ بٹایا‬
‫اور پارلر کا کام سیکھ کر آہستہ آہستہ‬
‫کیسے ترقی کی ۔‬
‫ضوفی کی داستاں سن کر میرا تو دل‬
‫بھر آیا میرے ساتھ ساتھ ضوفی بھی‬
‫باتیں کرتی کرتی اموشنل ھوگئی ۔‬
‫میں نے ضوفی کو دالسا دیا اور اسے‬
‫اپنے ساتھ لگا کر ہم دونوں لیٹ گئے ہم‬
‫دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر‬
‫کے سائڈ کے بل لیٹے ھوے تھے ۔‬
‫ضوفی میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹی‬
‫ھوئی تھی اور میں اسکے ریشمی بالوں‬
‫میں ہاتھ پھیر رھا تھا ۔‬
‫ضوفی کی سانسیں میرے منہ پر پڑ‬
‫رھی تھیں ضوفی کے ممے میرے‬
‫سینے کے ساتھ لگ رھے تھے اتنے‬
‫قریب ھونے کے باوجود بھی مجھ میں‬
‫نہ شہوت آرھی تھی نہ ھی ہوس تھی‬
‫بس مجھے ضوفی پر پیار آئی جارھا‬
‫تھا اور میرا دل کررھا تھا کہ بس‬
‫ساری عمر ضوفی ایسے ھی میرے‬
‫کندھے پر سر رکھ کر میرے ساتھ لیٹی‬
‫رھے اور میں اسکو بس دیکھتا رہوں‬
‫۔۔۔‬
‫میں ٹکٹی باندھے ضوفی کے چہرے‬
‫کو دیکھی جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی نے پلکوں کی جھالر آنکھوں‬
‫سے ہٹائی اور میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے اپنے خوبصورت ہونٹوں کو کھوال‬
‫اور بولی کیا دیکھ رھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ میں کتنا‬
‫خوش قسمت ھوں کہ تم میرے پہلو میں‬
‫لیٹی ھو ۔‬
‫میرا تو دل کرتا ھے ضوفی کے میری‬
‫عمر تمہیں یوں ھی دیکھتے گزر جاے‬
‫۔‬
‫تم یوں ھی میرے سامنے رھو ایک پل‬
‫بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ھو۔۔‬
‫مجھے ڈر ھے کہ یہ رات بیت نہ جاے‬
‫صبح کا اجاال نہ ھو جاے ۔‬
‫کاش یہ وقت میرے بس میں ھوتا یہ‬
‫لمحے میرے بس میں ھوتے تو کبھی‬
‫انکو گزرنے نہ دوں ۔‬
‫ضوفی میرے ہونٹوں کو چومتی ہوئی‬
‫بولی یاسر مجھے اتنے خواب مت‬
‫دیکھو کہ جن کے ٹوٹنے کے ڈر سے‬
‫میں کبھی آنکھیں نہ کھول سکوں ۔‬
‫میں نے ضوفی کے ماتھے کو چوما‬
‫اور اسکے سنہری سلکی بالوں کو‬
‫سہالتے ھوے بوال ۔‬
‫ضوفی کاش تم میرے اندر جھانک سکو‬
‫کاش تم میرے دل کو چیر کر دیکھ سکو‬
‫کاش تم میری سانسوں کو محسوس کر‬
‫سکو کہ یہ دل صرف تمہارے لیے‬
‫دھڑک رھا ھے یہ سانسیں صرف‬
‫تمہارے نام ہیں ۔‬
‫تم میرے ظاہر باطن کی مالک بن چکی‬
‫ھو میرے سپنوں کی ملکہ بن چکی ھے‬
‫۔‬
‫ضوفی میری بات سن کر ۔‬
‫مجھ سے مذید چپک گئی اور مجھے‬
‫گھما کر نیچے کر کے میرے اوپر‬
‫اوندھی لیٹ گئی اور میرے ماتھے پر‬
‫آے میرے پف کو انگلیوں سےسہالتے‬
‫ھوے ماتھے سے ہٹا کر میرے ماتھے‬
‫کو چوما پھر میری آنکھوں کو میرے‬
‫گالوں کو اور پھر میرے ہونٹوں پر‬
‫اپنے شربتی ہونٹ رکھ کر میرے‬
‫ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی ۔۔۔‬
‫ضوفی کے مموں سمیت اسکا سارا جسم‬
‫میرے جسم کے ساتھ چپکا ھوا تھا ۔‬
‫مجھے نہیں پتہ کہ کب میرے لن نے‬
‫پینٹ میں ابھار بنا لیا تھا اور ضوفی کی‬
‫پھدی کے ساتھ رگڑ رھا تھا ۔‬
‫ضوفی پاگلوں کی طرح میرے چہرے‬
‫کو اور میرے ہونٹوں کو چومی جارھی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے ضوفی کے مولٹی فوم جیسے‬
‫نرم جسم کے گرد بازو ڈال کر ضوفی‬
‫کی کمر کو سہالنے لگا ۔‬
‫ایک تو ضوفی کا جسم بہت نرم تھا‬
‫اوپر سے ضوفی نے ریشمی شارٹ‬
‫شرٹ پہنی ھوئی تھی جو میرے اوپر‬
‫لیٹنے کی وجہ سے اسکی گانڈ سے‬
‫اوپر ھوکر کمر کے کچھ حصے کو‬
‫ننگا‬
‫ننگا کر چکی تھی مجھے ایسے لگ‬
‫رھا تھا جیسے ضوفی کی کمر بلکل‬
‫ننگی ھے میں مزے سے ضوفی کی‬
‫فرنچ کسنگ کا جواب بھی دے رھا تھا‬
‫اور ساتھ ساتھ ضوفی کی نرم مالئم کمر‬
‫کو بھی سہال رھا تھا ضوفی بھی فل‬
‫گرم ھوچکی تھی نہ اسے پتہ تھا کہ وہ‬
‫کیا کررھی ھے اور نہ مجھے ہوش تھا‬
‫کہ میں کس حد تک جارھا ھوں ۔‬
‫دونوں کے ہوش و حواس گم ھوچکے‬
‫تھے دو جسم ایک دوسرے کے جسموں‬
‫میں سمانے کی کوشش کررہے تھے ۔‬
‫میرے گستاخ ہاتھوں نے ضوفی کی‬
‫شرٹ کو مذید اوپر کر کے اسکی کمر‬
‫کو آدھا ننگا کردیا تھا ۔‬
‫میرے ہاتھ جب ضوفی کی نرم مالئم‬
‫کمر کو سہالتے ہوے اسکی ابھری‬
‫ھوئی گول مٹول ڈبل روٹی پر جاتے تو‬
‫میں ڈبل روٹی کے دونوں پیسوں کو‬
‫الگ الگ مٹھی میں بھینچ لیتا جب میں‬
‫ضوفی کی گانڈ کو بھینچتا تو ضوفی‬
‫اپنی پھدی کو میرے لن کے ابھار پر‬
‫دباو دے کر رگڑتی جس سے میرا لن‬
‫مذید اوپر کو آنے کی کوشش کرتا مگر‬
‫بےچارا دو چیزوں میں قید تھا انڈر‬
‫ویئر اور پینٹ میں ۔‬
‫ضوفی نے تو پینٹ ھی اتنی سوفٹ اور‬
‫فلیکس ول پہنی ھوی تھی کے اسکی‬
‫گانڈ اور پھدی بلکل ننگی محسوس‬
‫ھورھی تھی میری بے چینی بڑھتی‬
‫جارھی تھی تمام حدیں توڑنے کی‬
‫طرف میں بڑھتا جارھا تھا اور ان‬
‫حدوں کا راستہ ضوفی ہموار کرتی‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫کہ اتنے میں ضوفی مجھ سے الگ‬
‫ہوئی اور میرے لن کے اوپر ھی اپنا‬
‫پورا وزن ڈال کر بیٹھ گئی اور میری‬
‫شرٹ کے بٹن کھولنے لگ گئی میں نے‬
‫بھی اپنی طرف گھورتے ھوے ضوفی‬
‫کے گول مٹول مموں کو مٹھیوں میں‬
‫بھر لیا ضوفی نے منہ چھت کی طرف‬
‫کر کے سسکاری بھری ۔‬
‫اور میری شرٹ کے ایک ایک کر کے‬
‫سارے بٹن کھول دیے ادھر میں نے‬
‫بھی ضوفی کی شرٹ پکڑ کر اسکے‬
‫مموں سے جیسے ھی اوپر کی تو‬
‫ضوفی نے جلدی سے ۔۔۔۔‬

‫اپنی شرٹ پکڑ کر لہراتے ھوے ایک‬


‫طرف پھینک دی ضوفی کے سرخ رنگ‬
‫کے بریزیر میں چٹے سفید ممے دیکھ‬
‫کر میری تو آنکھیں ابھل کر باہر گرنے‬
‫کو تھیں میں نے ضوفی کی کمر پر ھاتھ‬
‫رکھے اور اسے اوپر سے پلٹ کر اپنے‬
‫نیچے لے آیا جب ضوفی کو میں نے بیڈ‬
‫پر پھینکا تو اسکے ممے اسے چھلکے‬
‫جیسے بریزیر کو پھاڑ کر باہر نکل‬
‫جایں گے ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کو اپنے نیچے گراتے‬
‫ھی اسکے اوپر آکر اسکے چٹے سفید‬
‫مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے ضوفی‬
‫کے ممے اتنے سوفٹ تھے کہ مجھے‬
‫ایسے لگا جیسے میں نے روئی پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ دئیے ھیں اتنی سوفٹنس تھی‬
‫کہ اففففففف کیا بتاوں یارو کہاں سے وہ‬
‫الفاظ الوں جو اس قابل ہوں کہ ضوفی‬
‫کے مموں کی تعریف بیان کرسکیں ۔۔‬

‫میں بریزیر سے باہر والے حصے کو‬


‫چوم چوم کے سرخ کر چکا تھا اور‬
‫ضوفی کی سسکاریاں پورے کمرے میں‬
‫گونج رہیں تھیں ۔‬
‫میرا تو دل کررھا تھا کہ انکو کھا جاوں‬
‫اپنے اندر نگھل جاوں ۔‬

‫میں کافی دیر ضوفی کے مموں کے‬


‫اوپری حصے کو چومتا رھا چاٹتا رھا‬
‫دانتوں میں لے کر ہلکا سا کاٹتا رھا ۔‬

‫ضوفی کی سسکاریاں گونجتی رہیں اس‬


‫کے دونوں ھاتھ میرے سر کو اپنے‬
‫احصار میں لے کر مموں پر دباتے‬
‫رھے ۔‬

‫میں نے جوش میں آکر ضوفی کے‬


‫بریزیر کو پکڑ کر مموں سے الگ‬
‫کرنے لگا تو ضوفی نے میرے ھاتھ‬
‫پکڑ لیے میں نے ضوفی کی طرف‬
‫دیکھا تو ضوفی نے نفی میں سر ہالیا‬
‫اور بولی نہیں یاسر اس سے آگے نہیں ۔‬

‫ورنہ دونوں بہک جائیں گے اور پھر ہم‬


‫میں وہ محبت وہ چاہت وہ تڑپ باقی‬
‫نہیں رھے گی اگر تم یہ چاہتے ھو کہ‬
‫ہماری یہ مالقات آخری مالقات ھو تو‬
‫ضوفی نے ہاتھ ہٹاتے ھوے کہا جو‬
‫تمہارا دل کرتا ھے وہ کرلو ۔‬

‫میں نے ضوفی کی آنکھوں میں آنکھیں‬


‫ڈالیں تو نجانے کیوں میں نے ضوفی‬
‫کے مموں سے ہاتھ ایسے ہٹاے جیسے‬
‫مموں میں کرنٹ آگیا ھو ۔‬

‫افففففف‬

‫سہی کہا کہنے والے نے‬

‫جو مزہ تکرار میں ھے وہ اقرار میں‬


‫نہیں۔‬

‫غالب شوق بڑھتا گیا ان کی نہیں نہیں‬


‫میں۔‬

‫میں نہیں چاہتا تھا کہ میں ضوفی کے‬


‫ساتھ زبردستی کروں یا اسکی رضامندی‬
‫کے خالف جاوں‬
‫میں تو اس حسن مجسمہ کا پجاری تھا‬
‫میں تو اس کا خادم تھا اسکا عاشق تھا وہ‬
‫میری روح کی مالک تھی میرا انگ‬
‫انگ اسکے سحر میں جکڑا ھوا تھا‬
‫اسکی غالمی میرے تن من نے قبول کر‬
‫لی تھی اور ایک خادم اپنے مالک کے‬
‫حکم کے خالف اسکی مرضی کے‬
‫خالف کیسے جاسکتا تھا۔‬

‫میں ایک جھٹکے سے ضوفی کے اوپر‬


‫سے اترا اور ضوفی کے ساتھ لیٹ کر‬
‫چھت کی طرف گھورتے ھوے لمبے‬
‫لمبے سانس لینے لگ گیا ۔ضوفی سائڈ‬
‫کے بل میرے اوپر ھوئی اور میرے‬
‫ننگے سینے کو چومتے ھوے بولی‬
‫یاسر ناراض ہوگئے ھو ۔‬

‫میں نے نفی میں سر ہالیا‬

‫ضوفی مذید میرے اوپر آئی اور اپنے‬


‫ننگے جسم کو میرے ننگے سینے اور‬
‫پیٹ پر رکھتے ھوے اپنی گالب کی‬
‫پنکھڑیوں کو میرے ہونٹوں کے قریب‬
‫کرتے ھوے اپنی گرم سانسوں کو میرے‬
‫چہرے پر پھینک کر مجھے مذید‬
‫اکساتے ھوے میرے اندر کی آگ کو‬
‫مذید سلگاتے ھوے بولی ۔‬

‫یاسرررر میں نے جو اسکی گرم‬


‫سانسوں کی وجہ سے آنکھیں بند کرلیں‬
‫تھیں آنکھیں کھول کر اسکی جھیل میں‬
‫ڈبکی لگاتے ھوے اپنے لرزتے ہونٹ‬
‫ہالے اور بڑی مشکل سے بوال جججی‬
‫جان ضوفی میرے ہونٹوں پر اپنی‬
‫پنکھڑیوں کو رکھ کر ایک لمبی کس‬
‫کرتے ھوے بولی ۔‬

‫ایسے کیوں منہ بنا لیا ھے ۔‬

‫میں نے ضوفی کے چاند پر آے ھوے‬


‫سرخ دھکتے ھوے بادلوں کی لہروں کو‬
‫ہٹاتے ھوے کہا نہیں جان میں تم سے‬
‫ناراض ہوجاوں میری سانسیں نہ رک‬
‫جایں‬
‫ضوفی نے تڑپ کر میرے ہونٹوں پر‬
‫اپنے مخملی ہاتھ کو رکھ کر کہا سانسیں‬
‫بند ھوں تمہارے دشمنوں کی آئیندہ ایسی‬
‫بات منہ سے نکالی تو جان نکال دوں‬
‫گی ۔‬

‫میں نے کہا جان کہاں مجھ باقی ھے‬


‫میری ہر سانس تو تم نے چھین لی ھے‬
‫تمہاری ہر سانس کے ساتھ تو میری‬
‫سانس چل رھی ھے ۔‬

‫ضوفی نے چھ سات دفعہ میرے ہونٹوں‬


‫کو سپیڈ سے چوما اور گھوم کر میرے‬
‫اوپر آگئی اور پھر پہلی پوزیشن بنا کر‬
‫میرے سخت لن کے اوپر اپنی نرم گانڈ‬
‫رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پیچھے‬
‫لیجا کر اپنے بریزیر کی ہک کھولنے‬
‫لگی ضوفی کے ایسے کرنے سے‬
‫ضوفی کے ممے مذید تن کر میرے‬
‫سامنے آگئے ۔ مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا‬
‫میں نے آنکھیں بند کیں اور اپنے دونوں‬
‫ہاتھ اسکے ابھرے ھوے مموں کی‬
‫طرف بڑھاے اور ایک ھی جھٹکے میں‬
‫۔۔‬

‫میں نے ضوفی کے بازوں کو پکڑ لیا‬


‫اور نفی میں سر ہالتے ہوے اسکو‬
‫بریزیر کی ہک کھولنے سے منع کیا‬
‫ضوفی کی آنکھوں میں خمار چھایا ہوا‬
‫تھا اسکی نشہ سے چور آنکھیں نیم بند‬
‫تھیں ضوفی نے پلکوں کو کھوال اور‬
‫میری طرف دیکھتے ھوے بولی ۔‬

‫کیوں کیا ہوا۔ اب میں اپنی مرضی سے‬


‫اتار رھی ہوں تو اب مجھ روک کیوں‬
‫رھے ھو ۔۔‬

‫میں نے کہا نہیں ضوفی میں تمہیں‬


‫ایسے ھی دیکھنا چاہتا ہوں ۔‬

‫تمہارا حسن مجھے لباس میں ھی اچھا‬


‫لگتا ھے بے لباس ہوگئے تو بہک‬
‫جائیں گے اور اگر بہک گئے تو حد‬
‫سے گزر جائیں ۔۔۔‬

‫میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔‬

‫ضوفی خماری میں ڈوبی میرے اوپر‬


‫مذید جھکی اور میرے ہونٹوں کے‬
‫قریب اپنے ہونٹ کر کے نشیلی آنکھوں‬
‫کو میری آنکھوں میں ڈالتے ہوے‬
‫مدہوشی کے عالم میں بولی یاسررررر‬
‫میرا بہکنے کو دل کررھا ھے ۔‬

‫میں نے اپنا سر اوپر کر کے ضوفی‬


‫کے ہونٹوں کی طرف اپنے ہونٹ‬
‫بڑھاے اور ضوفی کے مدمست ہونٹوں‬
‫کو چومنے لگا تو ضوفی نے اپنا سر‬
‫پیچھے کو کیا جس سے میرے اور‬
‫ضوفی کے ہونٹوں کا فاصلہ بڑھ گیا‬
‫میرے ہونٹ ہوا میں ھی رھ گئے‬
‫ضوفی شرارت بھرے انداز سے مسکرا‬
‫کر میری طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫مجھے بے لباس ہونے دو یاسر‬
‫پلیزززز مجھے آج بہکنے دو مجھے نہ‬
‫روکو یاسرررررر‬

‫میرے ہاتھ ضوفی کی کمر پر تھے اور‬


‫انگلیاں ضوفی کے بریزیر کے سٹریپ‬
‫پر لگی ہک پر تھیں میرے دماغ اور‬
‫میرے دل کی جنگ جاری تھی دماغ پر‬
‫ہوس سوار تھی اور دل میں ضوفی کے‬
‫لیے سچی محبت کا چراغ روشن تھا‬
‫دماغ مجھے بریزیر کی ہک کھولنے پر‬
‫مجبور کررھا تھا کہ یاسر کھول دو کیا‬
‫سوچ رھے ان دودھ کے پیالوں سے‬
‫جی بھر کر اپنی پیاس بجھا لو یہ موقع‬
‫دوبارا نہیں ملنا پکا ھوا پھل تیری‬
‫جھولی میں خود گر رھا ھے ساری‬
‫حدیں پار کردو آج توڑ دے سیل اسکی‬
‫اور بہت سی مل جائیں گیں دماغ کی‬
‫مانتے ہوے میں جیسے ہی انگلیاں ہک‬
‫کو کھولنے کے لیے حرکت میں التا تو‬
‫میرادل سے آواز آتی ٹھہر جاو یاسر‬
‫تمہیں چاہنے والی بے لوث سچی محبت‬
‫کرنے والی ایسی لڑکی دوبارا نہیں ملے‬
‫گی یہ بس دو منٹ کا مزہ ھے پھر نہ‬
‫اسے تیری طلب رہنی ھے اور نہ‬
‫تجھے اسکی میں ششوپن کا شکار تھا‬
‫ادھر ضوفی مجھے اکسا رھی تھی‬
‫ضوفی کےچٹے سفید ادھ ننگے ممے‬
‫میری آنکھوں میں چبھ رھے تھے‬
‫آخرکار دل کی جیت ہوئی اور میں نے‬
‫نفی میں سرہالتے ھو کہا نہیں ضوفی‬
‫آج ہم ایسے ھی پیار کریں گے ضوفی‬
‫برا سا منہ بنا کر مدہوشی میں ڈوبی‬
‫میرے اوپر اوندھی لیٹ گئی‬

‫میں ضوفی کے کی کمر کو سہال رھا‬


‫تھا میرا ناسمجھ منہ ذور لن وکھرا ای‬
‫پینٹ میں ابھار بناے ضوفی کی پھدی‬
‫سے چھیڑ چھاڑ کررھا تھا۔‬
‫ضوفی بولی یاسررر میں کیا کروں مجھ‬
‫سے کنٹرول نہیں ہورھا میں تم میں‬
‫سمانا چاہتی ہوں میرے انگ انگ کو‬
‫نچوڑ دو آج۔‬

‫ضوفی اپنی پھدی والے حصہ کو میرے‬


‫لن پر رگڑتے ھوے مدہوشی میں بولی‬
‫جارھی تھی‬

‫یاسررررر پلیززز کچھ کرو نہ کرو‬


‫پلیزززز میں ہر درد سہنے کو تیار‬
‫ھوں مجھے ادھورا نہ چھوڑو‬
‫یاسرررررر آہہہہہہہہۃہہہہہہہ کرتے‬
‫ھوے ضوفی نے پورے ذور سے اپنی‬
‫پھدی کو میرے لن پر دبا دیا ۔۔‬
‫اور ضوفی نے میرے کندھے پر دانت‬
‫گاڑ دئیے ۔۔‬

‫کچھ دیر جھٹکے لینے کے بعد ضوفی‬


‫میرے اوپر ھی ڈھے گئی اور میں‬
‫اسکی کمر کو سہالتے ھوے اسے‬
‫ریلیکس کرنے لگ گیا۔‬

‫کچھ دیر ہم خاموشی سے ایسے ھی‬


‫لیٹے رھے میں نے ضوفی کی کمر‬
‫کے گرد دونوں بازو ڈالے اور بازوں‬
‫میں اسکی ننگی کمر کو بھینچ کر اسکو‬
‫گھما کر اپنے نیچے لے آیا اور خود‬
‫ضوفی کے اوپر آگیا اور ساتھ ھی‬
‫اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چوسنے‬
‫لگ گیا ضوفی بھی فرنچ کسنگ میں‬
‫میرا برابر کا ساتھ دے رھی تھی ۔‬

‫ضوفی نے میری کھلی شرٹ کو آگے‬


‫سے پکڑ کر میرے بازوں سے نکال دیا‬
‫اب دو ننگے جسم ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ چپکے ھوے تھے ۔‬

‫کچھ دیر میں ضوفی پھر گرم ہوگئ‬


‫اور‬

‫ضوفی کبھی میری کمر پر اپنے ناخن‬


‫چبھوتی اور ساتھ ھی اپنی پھدی کو‬
‫میرے لن کے ساتھ مسلتی ۔‬
‫جس سے میرے اندر شہوت کو مذید‬
‫چنگاری ملتی ۔‬
‫اور میں بےدردی سے ضوفی کے‬
‫ہونٹوں کو چوستا اور کبھی اسکی زبان‬
‫کو اپنے منہ میں جکڑ کر چوس کر‬
‫اسکا لباب اپنے اندر اتارتا۔ضوفی بھی‬
‫مجھ سے پیچھے نہ تھا وہ بھی اس‬
‫جنونی کسنگ میں برابر میرا ساتھ دے‬
‫رھی تھی ۔‬

‫کچھ دیر ایسے ھی ہماری کسنگ چلتی‬


‫رھی ۔‬

‫جب دونوں تھک گئے تو ضوفی نے‬


‫اپنے ہونٹ ہٹانے میں پہل کی اور اپنے‬
‫ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انکو سہالنے‬
‫لگ گئی میری نظر جب ضوفی کے‬
‫ہونٹوں پر پڑی تو اسکے ہونٹ کافی‬
‫سوجھے سوجھے محسوس ہوے ۔‬

‫میں نے ایک نظر ضوفی کے ہونٹوں‬


‫پر ڈالی جو اس وقت ٹماٹر کی طرح‬
‫سرخ ہورھے تھے ۔‬

‫میں نے ان گالب کے پھولوں پر ہلکا‬


‫سا بوسا لیا اور کھسکتا ھوا۔‬

‫۔ضوفی کے اوپر سے اسکے گے کی‬


‫طرف گیا اور اپنی زبان نکال کر اسکی‬
‫شہ رگ پر رکھی اور نوک کو دباتے‬
‫ہوے ۔‬

‫زبان کو اوپر اسکی ٹھوڑی کی طرف‬


‫لیجانے لگا ضوفی کے منہ سے‬
‫سییییییی نکلی اور اس نے ساتھ ہی منہ‬
‫چھت کی طرف اٹھا کر سر کو پیچھے‬
‫کی جانب‬
‫خم دے کر اپنی صراحی دار گردن کو ‪.‬‬
‫مذید لمبا کر دیا ۔‬

‫میں نے ضوفی کے گلے کے ہر ہر‬


‫حصے کو زبان سے سیراب کیا اور‬
‫پھر چھوٹی چھوٹی پاریاں کرتا ھوا مذید‬
‫نیچے کی جانب کھسکتا ھوا اس کے‬
‫دودھیا رنگ کے ادھ ننگے مموں کی‬
‫دراڑ میں زبان ڈال دی ضوفی کے‬
‫ممے تھے کہ افففففففف اتنی سوفٹنس‬
‫توبہ کیا بتاوں یارا۔۔۔‬

‫میری ساری زبان اس کے مموں کی‬


‫دراڑ میں چلی گئی اور میں زبان کو‬
‫اوپر نیچے کرنے لگ گیا جیسے زبان‬
‫سے ممے چود رھا ھوں ۔‬

‫میں کبھی اسکے مموں کو چومتا تو‬


‫کبھی چاٹتا میری تھوک سے اس کے‬
‫ممے چمکنے لگ گئے تھے ۔۔میرا بس‬
‫نہیں چل رھا تھا کہ ابھی ان دودھ کے‬
‫پیالوں سے ڈھکن اتار کر ان پیالوں کو‬
‫منہ کے ساتھ لگا کر ایک ھی سانس‬
‫میں سارا دودھ پی جاوں بلکہ ان مموں‬
‫کو ھی اپنے منہ کے اندر بھر کر اندر‬
‫ھی نگھل جاوں ایک تو ممے انتہا کے‬
‫چٹے تھے دوسرا سرخ رنگ ان پر‬
‫قیامت ڈاھ رھا تھا ۔‬

‫میرا سچا پیار ھی میرے جزبات کو‬


‫بہکنے نہیں دے رھا تھا‬

‫ورنہ تو کب کی ٹانگیں میرے کندھوں‬


‫پر ھوتی اور لن پھدی کو چیڑ پھاڑ کر‬
‫گہرائیوں میں اترا ہوتا ۔‬
‫مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا ۔‬

‫گھی‪ .‬جلتی آگ پر بھی پگھلنے کا نام‬


‫نہیں لے رھا تھا۔‬

‫مموں کے ننگے حصے کو اپنی‬


‫مرضی سے ہر ہر جگہ سے چوم چاٹ‬
‫کر میں نیچے پیٹ کی جانب بڑھا اور‬
‫جیسے ھی ہونٹ پیٹ پر رکھی ضوفی‬
‫تڑپی اور اسکا اندر کی طرف گیا پیٹ‬
‫تھرتھرایا ۔‬

‫ضوفی نے بیڈ کی چادر کو دونوں‬


‫مٹھیوں میں بھینچا اور سر دائیں بائیں‬
‫مارتے ھوے سییییییی اففففففف کرنے‬
‫لگ گئی مگر میری زبان اور ہونٹ‬
‫اسکے روئی کے گولے جیسے نرم پیٹ‬
‫کو بھی چوم چاٹ رھے تھے ۔‬

‫جب میں مذید نیچے ناف سے بھی‬


‫نیچے گیا تو ضوفی کندھوں سمیت اوپر‬
‫کو اچھلی اور ھاےےےےےےےے‬
‫مممممممم سیییییییی کرتی ھوئی اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے بالوں‬
‫کو دبوچ کر مجھے پیچھے کرنے لگی‬
‫مگر میں کب باز آنے واال تھا خود ھی‬
‫تو ضوفی نے کہا تھا کہ کچھ بھی کرو‬
‫میں ہر درد برداشت کرنے کو تیار ھوں‬
‫مگر یہ تو مزہ تھا درد تو ابھی باقی تھا‬
‫۔‬

‫ضوفی میرے سر کو جتنے ذور سے‬


‫پیچھے کرتے ھوے اپنے گانڈ کو دائیں‬
‫بائیں کر کے میرے نیچے سے نکلنے‬
‫کی کوشش کرتی میں اتنے ھی جنون‬
‫سے اسکی ناف کے نچلے حصے کو‬
‫زبان سے زدوکوب کرتا‬

‫ضوفی کی برداشت دم توڑ گئی ضوفی‬


‫نےپورا ذور لگا کر میرا سر پیچھے‬
‫کرتے ھوے بولی ننننہیییں‬
‫یاسررررررررررر نننننہ کروووووو‬
‫ہاےےےےےےے امییییییی اور میں‬
‫پیچھے ھوگیا تو ضوفی گھٹنوں کو اوپر‬
‫کر کے گھٹنوں پر سر رکھ کر کانپنے‬
‫لگ گئی ۔۔‬

‫میں نے ضوفی کہ بازو کو پکڑا تو‬


‫ضوفی نے میرے ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر‬
‫ذور سے دبا دیا اور سر اٹھا کر سرخ‬
‫آنکھوں اور گالبی گالوں اور رسیلے‬
‫ہونٹوں سے میری طرف دیکھنے لگ‬
‫گئی اور پھر اپنی گالب کی پنکھڑیوں‬
‫کو ہالتے ھوے بولی‬

‫یاسررررررر میری جان نکال دی۔‬

‫میں اسکے ریشمی بالوں میں انگلیاں‬


‫پھیرتے ھوے بوالتمہاری جسن تو کب‬
‫کی نکل چکی ھے اور اب تمہاری جان‬
‫تو میرے اندر ھے‬

‫اور اسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ‬


‫کر کہا یہ دیکھو یہ دل تمہارے لیے‬
‫دھڑک رھا ھے ۔‬

‫ضوفی بولی یاسر آئی لو یو اور یہ‬


‫کہتے ھوے وہ اٹھ کر میرے گلے میں‬
‫بانہیں ڈال کر مجھ سے چمٹ گئی ۔۔‬

‫اور میری گردن میرے کان میری گال‬


‫کو چومتے ھوے بار بار آئی لویو یاسر‬
‫آئی لو یو یاسر کہتی جارھی تھی ۔۔‬
‫دوستو آپ بھی سوچتے ھوگے کہ بار‬
‫بار بس چوما چاٹی ھی ھو رھی ھے تو‬
‫دوستو جس سے سچا پیار ھوتا ھے تو‬
‫بس دل یہ ھی کرتا ھے کہ محبوب بس‬
‫آنکھوں کے سامنے بیٹھا رھے اور‬
‫عاشق اسے دیکھتا رھے ۔‬

‫اور جب معشوق ایسا حسین ھو ایسا‬


‫دلربا ھو تو پھر عاشق تو اس کے جسم‬
‫کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کرتا‬
‫ھے ۔‬

‫میرا بھی اس وقت یہ ھی حال تھا میرا‬


‫تو بس یہ ھی دل کررھا تھا کہ بس‬
‫ضوفی یوں ھی مجھ سے لپٹی رھے‬
‫اور وقت نزا تک یوں ھی مجھ سے‬
‫لپٹی رھے مجھے عجیب سا سکون مل‬
‫رھا تھا میں نے بھی اسکے کمر کے‬
‫گرد بازو ڈال لیے اور ہم ایسے ھی پھر‬
‫لیٹ گئے ۔‬

‫کتنی دیر لیٹے رھے۔۔‬

‫نہیں معلوم۔۔‬

‫کتنی دیر ہونٹوں میں ہونٹ رھے نہیں‬


‫معلوم ۔۔۔‬
‫کتنی دیر ایک دوسرے کی آنکھوں ‪.‬‬
‫میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو‬
‫دیکھتے رھے‬
‫نہیں معلوم ۔۔۔۔‬

‫وقت کتنا گزرا نہیں معلوم کب نیند کی‬


‫وادیوں میں گئے‬

‫نہیں معلوم ۔۔۔‬

‫ہوش تب آیا جب سورج کو ہوش آیا‬

‫آنکھ تب کھلی جب سورج نے آنکھ‬


‫کھولی ۔‬

‫میرے کانوں میں پر ترنم آواز گونجی‬


‫یاسررر اٹھو میں نے آنکھیں کھولی تو‬
‫ضوفی نہا کر کپڑے بدل کر تیار‬
‫ھوچکی تھی ۔‬

‫میں انگڑائی لیتے ھوے اٹھ کر بیٹھ گیا‬


‫اور حسرت بھری نگاہوں سے ضوفی‬
‫کو ایسے دیکھنے لگ گیا جیسے اسے‬
‫مدتوں بعد دیکھا ھو‬

‫پتہ نہیں کم بخت نے کون سے تعویز‬


‫ڈال دیے تھے کہ اسکے سوا اب کچھ‬
‫دکھتا ھی نہیں تھا۔۔‬
‫میں آنکھیں کھولے ضوفی کے کھلے‬
‫کھلے چہرے کو دیکھی جارھا تھا اس‬
‫کے گیلے بالوں سے اٹھتی ہوئی خوشبو‬
‫رات کا افسانہ بیان کررھی تھی ضوفی‬
‫نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ ہالتے‬
‫ھو ے کہا ۔‬

‫جناب کدھر پہنچے ھوے ھو میں ادھر‬


‫ہوں۔۔‬

‫میں نے ضوفی کا بازو پکڑ کر اپنی‬


‫طرف کھینچا تو ضوفی مموں کے بل‬
‫میرے اوپر گر گئی میں نے ساتھ ھی‬
‫اسکی کمر کے گرد بازو ڈالے اور‬
‫بازوں کو بھینچ کر اسکے گیلے بالوں‬
‫میں منہ چھپا کر لمبا سانس اندر کو‬
‫کھینچا ۔ اور آہہہہہہہہ کیا ۔۔‬

‫کیا ھی مدمست خوشبو اٹھ رھی تھی‬


‫ضوفی کے بالوں میں سے افففففففف‬
‫ضوفی میرے سینے پر ممے رکھتے‬
‫ہوے اور منہ میرے منہ کے اوپر‬
‫کرتے ھوے بولی رات کو کوئی کسر‬
‫باقی رھ گئی تھی جو اب پوری کرنے‬
‫کا ارادہ ھے اٹھ جاو کب کی صبح‬
‫ھوگئی ھے ٹائم دیکھو ۔‬

‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے‬


‫ضوفی کے گیلے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتے ھوے کہا میری صبح تو ابھی‬
‫ہوئی ھے تمہارے اس حسین چہرے کی‬
‫کرنوں سے ۔‬

‫ضوفی بولی بڑے ھی تم وہ ھو۔۔۔چھوڑو‬


‫مجھے کوئی اجاے گا دروازہ کھال ھوا‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما‬


‫جو نہانے کی وجہ سے کھلتے گالب‬
‫کی پنکھڑیوں کی طرح چمک رھے‬
‫تھے‬

‫اور ضوفی کو چھوڑ دیا ۔‬

‫ضوفی جلدی سے میرے اوپر سے اٹھی‬


‫اور دونوں ھاتھ اوپر لیجا کر انگلیوں‬
‫کو اپنے بالوں میں پھیرتے ھوے سینے‬
‫کے ابھاروں کو مذید ابھارتے ھوے‬
‫بولی اٹھ جاو اور نہا کر فریش ھوجاو‬
‫میں ناشتہ لگاتی ہوں ۔‬

‫میں نے کہا میرا ناشتہ تو ہوگیا۔‬

‫ضوفی حیران ہوکر میری طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی وہ کیسے جناب ۔‬

‫میں نے چمی لینے کے انداز سے‬


‫ہونٹوں کو کرتے ھوے اشارے سے‬
‫بتایا کہ تمہارے گالب کا رس پی کر ۔۔‬

‫ضوفی مسکراتے ھوے میری طرف‬


‫اشارہ کرتے ھوے بولی چل شوخا ۔اور‬
‫ساتھ ھی اپنی گول مٹول گانڈ کو ڈگمگا‬
‫کر چلتے ھوے کمرے سے باہر نکل‬
‫گئی اور میں دل کو تھام کر اسے جاتے‬
‫ھوے دیکھنے لگ گیا۔‬

‫ضوفی کے جانے کے کچھ ھی دیر بعد‬


‫میں اٹھا اور واش روم میں گھس گیا‬
‫کچھ ھی دیر میں‬

‫میں نہا کر فریش ھوکے واش روم سے‬


‫باہر نکل کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے‬
‫کھڑا بالوں میں برش پھیر رھا تھا ۔‬

‫کہ ضوفی ناشتے کی ٹرے لیے ھوے‬


‫کمرے میں داخل ھوئی اور میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی اففففف یاسر تم نے‬
‫پھر وہ ھی پینٹ شرٹ پہن لی ۔‬
‫کوئی حال نہیں تمہارا‬
‫مگھر نے کہا تو اور کیا پہنتا میرے‬
‫کپڑے تو پارلر پر پڑے ہیں ضوفی‬
‫ماتھے پر ہاتھ مارتے ھوے بولی ۔‬

‫جناب عالی کل جو پینٹ شرٹز خریدی‬


‫ہیں وہ کیا میں نے پہننی ہیں ۔‬

‫مجھے تو پہلے ھی شک کیا بلکہ یقین‬


‫تھا کہ ضوفی نے میرے لیے ھی‬
‫شاپنگ کی ھی ۔‬

‫میں نے روٹھنے کے انداز میں کہا‬


‫ضوفی تم نے بہت ذیادتی کی ھے یہ‬
‫سب کرکے مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو‬
‫جسے میں اٹھا نہ سکوں ۔‬

‫ضوفی ناشتے کے ٹرے ٹیبل پر رکھ‬


‫کر چلتی ھوئی میرے پاس آئی اور میں‬
‫جو اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں‬
‫آتا ھوا دیکھ رھا تھا‬
‫ضوفی نے میرے قریب آکر مجھے‬
‫پیچھے سے جپھی ڈالتے ھوے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ میرے پیٹ پر باندھ کر‬
‫میرے ساتھ لگ کر کھڑی ھوکر میرے‬
‫کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آئینے‬
‫میں دیکھتے ھوے بولی ۔۔‬
‫کون سا بوجھ‬
‫کیا میں تم پر بوجھ ہوں ۔‬

‫میں نے اپنی سائڈ تبدیل کی اور ضوفی‬


‫کے رو برو کھڑا ھوکر ضوفی کو‬
‫باہوں میں بھر کر بوال۔‬

‫نہیں ضوفی میں نے یہ تو نہیں کہا تم‬


‫تو میرا غرور ھو میری جان ھو تم نے‬
‫تو مجھے ایک نئی زندگی دی جینے کا‬
‫ہنر سیکھایا ھے مجھے انسان بنایا ھے‬
‫۔‬

‫تمہارا یہ ھی احسان میں مرتے دم۔۔۔۔۔‬


‫ضوفی نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ‬
‫رکھتے ھوے کہا بکواس بند کرو‬
‫خبردار اب یہ فضول بکواس کی مریں‬
‫تمہارے دشمن ۔‬

‫چلو پہلے ناشتہ کرو اور پھر کپڑے‬


‫تبدیل کرو اور میرے ساتھ ھی پارلر پر‬
‫چلو مجھے ادھر چھوڑ کر تم دکان پر‬
‫چلے جانا ۔‬

‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں پر پھر ایک‬


‫کس کی اور بوال ضوفی تم ہر لحاظ‬
‫سے پرفیکٹ ھو مجھے تو اپنی قسمت‬
‫پر ناز ھو رھا ھے کہ مجھے تمہارا‬
‫پیار مال ۔‬

‫ضوفی نے بھی میرے ہونٹوں کو چوما‬


‫اور بولی اچھا اچھا اب ذیادہ مسکے نہ‬
‫لگاو ناشتہ ٹھنڈا ھورھا ھے ۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے ضوفی مجھ سے‬


‫الگ ھوئی اور ہم دونوں ایک ساتھ ھی‬
‫ناشتے کی ٹیبل کیطرف‬
‫بڑھنے لگے ۔‬

‫ناشتہ کر کے ضوفی نے اپنی پسند کی‬


‫پینٹ شرٹ نکالی بلو جینز اور اورینج‬
‫ہاف بازو شارٹ شرٹ ۔‬
‫جب میں نے پہنی تو ضوفی میری‬
‫بالئیں لینے لگ گئی اور چوم چوم کر‬
‫ساری لپسٹک سے میرے گال بھر دیے‬
‫۔‬

‫اور پھر خود ھی تاول کو گیال کر کے‬


‫میرے گال صاف کرنے لگی اور‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھول کر پھر‬
‫لپسٹک لگا کر گاون پہن کر اور میری‬
‫پینٹ شرٹس کا شاپر پکڑے ہم دونوں‬
‫سیڑیاں اتر کر نیچے آے تو ضوفی کی‬
‫امی مجھے بڑے غور سے دیکھنے‬
‫لگ گئی جیسے لڑکی کی ماں اپنے‬
‫ہونے والے جمائی کو دیکھتی ھے ۔‬
‫میں نے انکے پاس پہنچ کر انکو سالم‬
‫کیا تو آنٹی نے میرے سر پر پیار دیا‬
‫اور میرا ماتھا چومتے ھوے مجھے‬
‫دعائیں دیتے ھوے آتے جاتے رہنے کا‬
‫کہنے لگی اور میں بھی اثبات میں سر‬
‫ہالتا ھوا ان سے اجازت لے کر ضوفی‬
‫کے ساتھ گھر سے نکال اور ہم پیدل ھی‬
‫چلتے ھوے پارلر کی طرف جانے‬
‫لگے ۔‬

‫میں نے ایک بات نوٹ کی کہ جس‬


‫چوک سے بھی گزرتے وہاں کھڑے‬
‫لڑکے مجھے اور ضوفی کو ایسے‬
‫دیکھتے جیسے کوئی‬
‫چڑیا گھر کی نایاب چیز ادھر سے‬
‫بھاگ کر بازار میں آگئی ھو۔۔‬

‫میں کچھ کو نظر انداز اور کچھ کو‬


‫گھوریاں ڈالتے ھوے بازار پہنچا ۔‬

‫میں نے راستے میں ضوفی کو کہا‬


‫ضوفی میری ایک بات مانو گی ۔‬

‫ضوفی بولی دو منوا لو ۔‬

‫میں نے کہا نہیں بس ایک ھی ۔‬

‫ضوفی بولی حکم جناب ۔‬


‫میں نے کہا حکم نہیں گزارش ھے اور‬
‫وہ یہ ھے کہ تم نے اب نہ تو اکیلی گھر‬
‫جایا کرنا ھے اور نہ ھی اکیلی نے گھر‬
‫سے آیا کرنا ھے ۔‬

‫ضوفی نے حیران ھوتے ھوے پوچھا‬


‫وہ کیوں جی ۔‬

‫تو میں نے کہا بس مجھے اچھا لگے گا‬


‫اگر تم خوشی سے میری بات مانو تو‬
‫ٹھیک ھے ورنہ میری کوئی ذبردستی‬
‫نہیں ھے ۔‬

‫ضوفی بولی یاسر وہ تو ٹھیک ھے مگر‬


‫میں کس کے ساتھ آیا جایا کروں گی ۔‬

‫میں نے سینے پر ہاتھ رکھتے ھوے‬


‫کہا۔‬

‫میں میں میں جو ہوں تمہارا خادم تمہارا‬


‫نوکر ۔‬

‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر‬


‫چپت لگاتے ھوے بولی شوخے آرام نال‬
‫۔‬

‫ایسی باتیں کرکے مجھے گناہ گار نہ کر‬


‫۔‬
‫ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم شاہین‬
‫مارکیٹ پہنچے تو مارکیٹ کی کارنر‬
‫والی ایک جیولری کی دکان سے ایک‬
‫بڑا ممی ڈیڈی لڑکا بڑی شوخی سے‬
‫باہر آیا اور مجھے گھور گھور‬
‫کردیکھنے لگ گیا میں نے اسے نظر‬
‫انداز کیا اور ضوفی کو پھر ایک بار‬
‫پوچھا کہ جواب نہیں دیا ۔‬

‫ضوفی بولی جواب ضرور سننا ھے‬

‫مجھے خوشی ھوگی اگر تم مجھے پک‬


‫اینڈ ڈراپ کرو گے‬

‫میں نے کہا تو کتنے بجے آوں ضوفی‬


‫بولی چھ بجے میں نے ہمممم کیا اور‬
‫اسے باے باے کرتا دکان کی طرف چل‬
‫دیا اور شکر ادا کیا کہ ہماری دکان آٹھ‬
‫بجے بند ہوتی ھے اور مجھے دو‬
‫گھنٹے کا وقت فری میں مل گیا ۔‬

‫جیولری واال لڑکا اپنی دکان کے باہر‬


‫کھرا مجھے پیچھے سے بھی گھورتا‬
‫رھا میں نے دو تین دفعہ گھوم کر‬
‫پیچھے دیکھا تو وہ لڑکا ادھر ھی کھڑا‬
‫میری طرف دیکھ رھا تھا۔‬

‫میں دکان پر پہنچا تو دکان کھلی ھوئی‬


‫تھی ۔‬
‫جب میں دکان کے اندر داخل ھوا تو‬
‫انکل مجھے ناقابل یقین نظروں سے‬
‫سکتے کہ عالم میں دیکھتے ھوے ایکدم‬
‫کھڑے ھوگئے میں انکی حالت کو دیکھ‬
‫کر دل ھی دل ہنستے ھوے انکے پاس‬
‫پہنچا اور انکو سالم کیا تو انکل نے بڑا‬
‫لمبا سالم کا جواب دیا ۔‬

‫اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے اور میرے لباس کو دیکھتے ھوے‬
‫حیرانگی سے بولے اوےےےےے‬
‫یاسررررر پتر تینوں کی ھوگیا‬
‫اےےےےمیں نے کہا کچھ نہیں انکل‬
‫جی بس کل ایک دوست کے ساتھ الہور‬
‫گیا تھا تو سوچا اپنے لیے بھی پینٹ‬
‫شرٹ لے لوں ۔‬

‫انکل بولے واہ بھئی واہ منڈا تے‬


‫الہوری بابو بن گیا اے ہن تے پیشانیا‬
‫وی نئی جاندا ۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا انکل جی کیسا‬


‫لگ رھا ہوں ۔‬

‫تو انکل انگلی سے اشارہ کرتے ھوے‬


‫بولی‬

‫ایکدم ہیرو لگ رھا‬


‫‪++++++‬‬

‫نظر سے بچاے جیتے رھو‬

‫میں شوز اتار کر کاونٹر پر چڑھا اور‬


‫جھاڑن سے کپڑوں کو جھاڑنے لگ گیا‬
‫کہ جنید دکان میں داخل ھوتے ھوے‬
‫میری طرف دیکھ کر دونوں ھاتھ منہ پر‬
‫رکھ کر حیرانگی سے آنکھوں کو‬
‫پھاڑے میری طرف آیا اور ۔‬

‫بوال اوے یاسر تینوں کی ھوگیااااااا۔‬


‫میں نے کہا کیوں میرے وچ کیڑا تانگہ‬
‫وجا اے ۔‬

‫جنید بوال نئی یار بڑی ٹور شور کڈی‬


‫ھوئی اے خیر تے اے ۔‬

‫میں نے اسے بھی دوست کے ساتھ‬


‫الہور والی فلم سنا کر جان چھڑوائی ۔‬

‫جنید گھنٹہ بھر میری تعریفیں کرتا رھا‬


‫اور مجھے کندھے مار مار کہتا رھا کہ‬
‫اب اس شہر کی بچیوں کی خیر نئی ۔۔۔۔‬

‫سارا دن دکان پر مصروفیت میں اور‬


‫ہنسی مزاق میں گزر گیا چاربجے کے‬
‫بعد میری بےچینی میں اضافہ ہوتا گیا‬
‫چار سے چھے بجے کہ درمیاں میں‬
‫نے کوئی سو دفعہ ٹائم دیکھا کہ چھے‬
‫بجنے میں ابھی کتنا وقت درکار ھے ۔‬
‫آخر کار چھے بجے اور میں انکل سے‬
‫پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر شاہین‬
‫مارکیٹ کی طرف چل دیا مارکیٹ پہنچا‬
‫تو وہ ھی جیولری واال لڑکا دکان کے‬
‫باہر بیٹھا تھا اسکی نظر جیسے ھی‬
‫مجھ پر پڑی تو ایک دم چونکا اور‬
‫بڑے غور سے مجھے سر سے پاوں‬
‫تک دیکھنے لگ گیا میں اسکو ایک‬
‫نظر دیکھ کر اگنور کرتا ھوا سیڑیاں‬
‫اتر کر نیچے چال گیا اور پارلر پر ناک‬
‫کیا تو شیشے کے آگے سے پردہ سرکا‬
‫اور وہ ھی کچی کلی نمودار ہوئی اسکی‬
‫نظر جیسے جی مجھ پر پڑی تو ایکدم‬
‫وہ بھی سکتے کے عالم میں مجھے‬
‫دیکھنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے اشارا کر کے اسے ڈور‬
‫کھولنے کا کہا تو وہ ڈور کھولنے کی‬
‫بجاے پردے کے پیچھے غائب ہوگئی‬
‫کچھ ھی دیر بعد اس نے ھی دروازہ‬
‫کھوال اور مجھے اندر آنے کا کہا میں‬
‫پارلر کے اندر گیا تو ضوفی اپنا ہیند‬
‫بیگ سنبھال رھی تھی مجھے دیکھ کر‬
‫اس نے محبت بھری مسکراہٹ میری‬
‫طرف پھینکی اور جواب میں نے بھی‬
‫مسکرا دیکھتے ھوے آداب بجا الیا۔‬
‫ضوفی بولی بڑے ٹائم کے پابند ھو ۔‬
‫میں نے کچی کلی کی طرف دیکھا جو‬
‫بونگی بنی مجھے دیکھی جارھی تھی‬
‫اور آہستہ سے بوال ۔‬
‫مجھے تو دکان پر جاتے ھی چھ بجنے‬
‫کا شدت سے انتظار تھا ضوفی‬
‫مسکراتے ھوے کچی کلی کی طرف‬
‫متوجہ ہوئی اور اسے چھٹی کرنے کا‬
‫کہا وہ جلدی سے جی باجی کہتی ھوئی‬
‫اپنی چادر اوڑھ کر سالم کرکے کے‬
‫نکل گئی ۔‬
‫ضوفی میرے قریب آئی اور مجھ سے‬
‫لپٹ گئی اور پھر ہونٹوں کی ہونٹوں‬
‫کے ساتھ جنگ جاری ہوگئی کچھ دیر‬
‫ہم دونوں ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ چپکے رھے اور پھر‬
‫ضوفی مجھ سے الگ ہوئی اور اپنے‬
‫گلے میں ڈالے ہوے دوپٹے سے اپنے‬
‫ہونٹوں کو ٹکور دیتے ھوے بولی یاسر‬
‫تم تو میرے ہونٹوں کی مت مار دیتے‬
‫ھو دیکھو کیسے جلن ہورھی ھے ۔‬
‫میں ضوفی کے قریب ھوا اور اسکی‬
‫کمر کے اطراف میں ہاتھ ڈال کر اسکو‬
‫اپنی طرف کھینچا اور پیار سے آرام‬
‫سے سلو موشن میں اسکی گالب کی‬
‫پنکھڑیوں کو چوم کر بوال لو مرہم لگا‬
‫دی اب جلن نہیں ہوگی ۔۔۔‬
‫ضوفی میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے‬
‫بولی بہت تیز ھو ہر کام میں اپنا مطلب‬
‫آگے رکھ لیتے ھو۔‬
‫میں نے کہا جان جی یہ مطلب نہیں میرا‬
‫پیار ھے میرا جنون ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی مجھ سے الگ ہوکر گاون پہن‬
‫کر کندھے پر شولڈر بیگ لٹکاتے ھوے‬
‫بولی چلیں اور ساتھ ھی ضوفی نے‬
‫ایک بڑا سا شاپر میری طرف بڑھایا کہ‬
‫یہ تمہاری پینٹ شرٹ اور کل والے‬
‫کپڑے ہیں ۔‬
‫میں نے شاپر پکڑتے ہوے سینے پر‬
‫ھاتھ رکھ کر کسی دربان کی طرح‬
‫جھکا اور دوسرا بازو اسکی راہ میں‬
‫بچھاتے ھوے بوال چلیں ضوفی اتراتی‬
‫ھوئی ہرنی کی چال چلتی ھوئی میرے‬
‫آگے سے گزرتے ھوے میرے سر پر‬
‫چپت لگا کر بولی ۔‬
‫بہت شوخے ھو۔۔۔‬
‫اور ساتھ ھی دروازہ کھول کر باہر‬
‫نکلی تو میں بھی اسکے پیچھے پیچھے‬
‫باہر نکال ضوفی نے پرس سے چابی‬
‫نکال کر مجھے پکڑائی میں نے ڈور‬
‫الک کیا اور ہم باتیں کرتے ھوے‬
‫سیڑھیاں چڑھتے ھوے جب اوپر‬
‫پہنچے تو وہ ھی لڑکا پھر ادھر ھی‬
‫کھڑا تھا اور اپنے بالوں کو سنوارتا ھوا‬
‫ضوفی کی طرف دیکھ رھا تھا ۔‬
‫میں نے اسے پھر نظر انداز کیا اور ہم‬
‫اسکے آگے سے گزرتے ھوے ضوفی‬
‫کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔‬
‫ضوفی کو اسکے گھر چھور کر میں‬
‫واپس دکان پر آیا ضوفی بڑا اصرار کیا‬
‫کہ اندر آو مگر میں نے دکان کا بہانہ‬
‫کیا اور باہر سے ھی واپس آگیا۔ دکان‬
‫پر پہنچا تو انکل میرے ھاتھ میں شاپر‬
‫دیکھ کر پوچھنے لگ گئے کہ یہ کیا‬
‫ھے میں نے بتایا کہ پینٹ شرٹس ہیں‬
‫انکل نے اور جنید نے پینٹ شرٹس‬
‫دیکھ کر کافی تعریف کیں ۔‬
‫انکل مجھے شکی نظروں سے دیکھنے‬
‫لگ گئے تھے شاید یہ سوچ کر کہ‬
‫میری اتنی حثیت نہیں تھی ایسے کپڑیں‬
‫خریدنے کی جنید نے بھی باتوں باتوں‬
‫میں مجھے سنا دیا تھا کہ ویسے تو تم‬
‫کہتے ھو کہ ہمارے حاالت سہی نہیں‬
‫ہیں اور کپڑے اتنے مہنگے کیسے‬
‫خرید لیے ۔‬
‫میں نے اسے ٹال مٹول کر کے بہانہ بنا‬
‫دیا ۔‬
‫گھر پہنچا تو گھر والے بھی مجھے‬
‫عجوبہ سمجھ کر میرے ارد گرد اکھٹے‬
‫رھے امی میری بالئیں لیتی رہیں ۔‬
‫جبکہ آپی میرا مزاق اڑاتی رھی کبھی‬
‫کھسرا کہہ کر چھیڑتی تو کبھی کچھ ۔‬
‫آنٹی کے گھر جانے کا موقع نہیں مال ۔‬
‫اگلے دن جب میں پھر نئی پینٹ شرٹ‬
‫پہن کر گلی سے گزرا تو گلی کی آنٹیاں‬
‫جو باہر کھڑیں تھیں مجھے ایسے دیکھ‬
‫رہیں تھیں جیسے میں کوئی خالئی‬
‫مخلوق ہوں اور آپس میں چے مگوئیاں‬
‫کرنا شروع ھوگئیں میں الپرواہی سے‬
‫چلتا ھوا صدف کے گھر پہنچا تو صدف‬
‫کی امی نے پہلے مجھے پہچانا نہ‬
‫اور ایک دم بولی کیڑاں ایں ایویں منہ‬
‫ُچک کے اندر وڑی جاناں ایں مگر جب‬
‫میں انکے قریب پہنچا تو وہ بھی میرا‬
‫منہ متھا چوم کر مجھے دعائیں دیتی‬
‫ھوئی تبدیلی کی وجہ پوچھنے لگ گئی‬
‫میں نے بھی بس منگھڑت کہانی سنا کر‬
‫انکے سوالوں کا جواب دیا اور جب‬
‫صدف نے مجھے دیکھا تو اسکی بھی‬
‫حالت دیکھنے کے قابل تھی ۔۔‬
‫اس نے بھی تعریفوں اور سوالوں کی‬
‫اخیر کردی۔۔۔۔‬
‫خیر ہم شہر کی طرف چل دیے اور‬
‫صدف بہت خوش نظر آرھی تھی اور‬
‫اس نے بتایا کہ مجھے بلیڈنگ ھوگئی‬
‫ھے ۔ اور ساتھ میں اس نے ایک بری‬
‫خبر بھی دی کہ اسکا کورس مکمل‬
‫ہوگیا ھے یہ آخری سال ھے‬
‫میں نے بھی شکر ادا کیا کہ پیسے ظائع‬
‫نہیں گئے اور اسکے کورس مکمل‬
‫ہونے کو میں نے ذیادہ سیریس نہیں‬
‫لیا۔۔۔‬
‫میں دکان کی بجاے سیدھا ضوفی کے‬
‫گھر پہنچا اور دروازہ ناک کیا کچھ دیر‬
‫بعد اندر ضوفی کی آواز آئی کون۔۔‬
‫میں نے بڑے رومینٹک انداز سے کہا‬
‫آپ کا چاہنے واال ۔۔‬
‫اندر سے کچھ دیر کے لیے خاموشی‬
‫چھائی رہی ۔‬
‫اور پھر دروازہ کھال تو میرا رنگ اڑ‬
‫گیا دروازے پر ضوفی نہیں بلکہ ماہی‬
‫تھی ۔۔‬
‫اور وہ کالج کے یونیفارم میں کھڑی‬
‫میری طرف شرارت بھری نظریں ڈال‬
‫کر بولی آجائیں آپی تیار ھو رہی ہیں ۔‬
‫ماہی کی شکل تو شکل آواز اور بولنے‬
‫کا انداز بھی بلکل ضوفی جیسا تھا ۔۔‬
‫میں شرم سے پانی پانی ھوتے ھوے‬
‫اندر داخل ہوا اور آہستہ سے بوال‬
‫سوری ماہی دراصل مجھے لگا کہ‬
‫ضوفی ھے ۔۔‬
‫ماہی نے بس مسکرا کر ھی میری‬
‫سوری کو قبول کیا۔۔‬
‫میں شرمندا سا چلتا ھوا ٹی وی الونج‬
‫میں جاکر بیٹھ گیا تو آنٹی کمرے سے‬
‫نکلی تو میں انکو دیکھ کر کھڑا ہوگیا‬
‫اور سالم کرنے کے بعد ان سے سر پر‬
‫پیار لیا‬

‫آنٹی نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور خود‬


‫میرے ساتھ والے سنگل صوفے پر بیٹھ‬
‫گئی اور میرا حال احوال پوچھنے کے‬
‫بعد بولی بیٹا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ‬
‫ضوفی کو خود گھر چھوڑنے اور لے‬
‫کر جانے کی ذمداری سنبھال لی ۔‬
‫ضوفی نے مجھے رات کو بتایا تھا تو‬
‫مجھے بہت خوشی ہوئی ۔‬
‫جیتے رھو ۔‬
‫آنٹی نے پھر میرے سر پر پیار دیا اور‬
‫پھر کہنے لگ گئیں کہ زمانہ بہت‬
‫خراب ھے مجھے تو بس اسکی فکر‬
‫رہتی تھی کہ بیچاری اکیلی جاتی ھے‬
‫اور اکیلی ھی آتی ھے ۔‬
‫بیٹا تم اسے اپنا گھر ھی سمجھو جب‬
‫تمہارا دل کرے بالجھجھک چلے آیا‬
‫کرو ۔‬
‫میں سر نیچے کر کے بڑے شریفانہ‬
‫انداز سے بیٹھا اپنے پیروں کو دیکھی‬
‫جارھا تھا ۔‬
‫اور آنٹی کی ہر بات پر فرمابرداری‬
‫سے سر ہالتے ہوے جی جی کررھا تھا‬
‫۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد میری جان میری دلربا‬
‫میری سانسوں کی مالک میری ضوفی‬
‫سیڑیاں اترتی ہوئی مجھے نظر آئی‬
‫میری آنکھیں جو اٹھیں تو جھکنا بھول‬
‫گئیں جب محبوب اتنا پیارا ھو اتنا‬
‫سیکسی ھو تو پھر اس دیکھ کر نظر‬
‫جھکانے کا گناہ کون کرے ۔۔۔ضوفی کی‬
‫نظر بھی مجھ پر پڑی تو اپنے حسین‬
‫ہونٹوں کو بکھیرتے ہوے ایک مسکان‬
‫میرے نام کی ۔‬
‫ضوفی کب میرے پاس پہنچی یہ اسکے‬
‫سالم لینے سے مجھے پتہ چال ورنہ‬
‫مجھے تو وہ ابھی بھی سیڑیاں اترتے‬
‫ھی نظر آرھی تھی ۔‬
‫میں نے چونک کر اس کے سالم کا‬
‫جواب دیا‬
‫ضوفی اور آنٹی نے مجھے ناشتے کا‬
‫کافی کہا مگر میں نے ناشتہ کرلیا ھے‬
‫کہہ کر ٹال دیا اور ہم دونوں پریمی‬
‫ہنسوں کی جوڑی‬
‫بازار کی طرف چل دیے ۔‬
‫جب ہم شاہین مارکیٹ پہنچے تو وہ ھی‬
‫لڑکا پھر ادھر ھی کھڑا ضوفی کو بڑی‬
‫عجیب نظرون سے دیکھنے لگ گیا‬
‫مجھے غصہ تو بہت چڑھا مگر خود پر‬
‫کنٹرول کرتے ھوے میں‬
‫ضوفی کو پارلر پر چھوڑ کر دکان کی‬
‫طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو انکل‬
‫دکان کھول ھی رھے تھے‬
‫میں نے سالم دعا کے بعد دکان کھلوا‬
‫کر صفائی وغیرہ کی اور پھر جنید بھی‬
‫آگیا اور ہم کام میں مصروف ہوگے‬
‫سارا دن ایسے ھی گزر گیا ۔‬
‫شام کو میں پھر بہانہ لگا کر ضوفی‬
‫کے پارلر پر پہنچا اور ضوفی سے‬
‫ڈھیر سارا پیار کرنے کے بعد اسے‬
‫گھر چھوڑ کر آگیا ۔۔‬
‫دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے‬
‫اتفاق سے میں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی‬
‫نہ جاسکا پالر پر آتے جاتے کارنر والی‬
‫دکان کا لڑکا مسلسل مجھے اور ضوفی‬
‫کو گھورتا رہتا تھا اس دوران کوئی ایسا‬
‫خاص واقعہ پیش نہ آیا جسکو لکھنا‬
‫ضروری سمجھوں ۔۔۔‬
‫ایک ہفتہ مزید گزر گیا ۔‬
‫میں ضوفی کے گھر والوں کے ساتھ‬
‫کافی فرینک ہوچکا تھا ماہی بھی مجھے‬
‫بھائی بھائی کہتے نہ تھکتی تھی آنٹی‬
‫بھی میری ہر وقت بالئیں لیتی رہتیں‬
‫تھیں ضوفی کے ساتھ جب بھی موقعہ‬
‫ملتا میں موقع ضائع نہیں جاتا یعنی‬
‫چوما چاٹا جپھی شپھی ہوجاتی ۔۔۔‬
‫دوستو۔۔‬
‫میں نے نوٹ کیا کہ انکل مجھے ہر‬
‫وقت شک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے‬
‫جیسے میں چور ہوں پتہ نہیں انکے دل‬
‫میں میرے متعلق کیا شک تھا پہلے‬
‫والی بات نہیں رہی تھی ان میں چھوٹی‬
‫چھوٹی بات پر مجھ سے تلخی سے‬
‫بولتے تھے ۔‬
‫میں انکے رویہ سے خود حیران تھا۔‬
‫ایک دن غالبا َ ََ بدھ کا دن تھا میں جنید‬
‫کے ساتھ کھانا لے کر دکان پر آیا تو‬
‫انکل کے پاس وہ ھی لڑکا بیٹھا ھوا تھا‬
‫جو شاہین مارکیٹ کی کارنر والی دکان‬
‫کا تھا ۔میں اسے دیکھ کر چونکا اس‬
‫لڑکے نے جب مجھے دیکھا تو اسی‬
‫وقت انکل سے اجازت لے کر کھسک‬
‫گیا۔‬
‫میری چھٹی حس نے فورن کام کیا کہ‬
‫ہو نہ ہو یہ ساال میری شکایت لگانے آیا‬
‫ھے ۔۔‬
‫جب میں اندر داخل ہوا تو انکل بھی‬
‫مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگ‬
‫گئے میرا شک یقین میں بدل گیا ۔‬
‫میں نے انکل سے کوئی بات نہ کی اور‬
‫نہ ھی اس لڑکے کے بارے میں پوچھا‬
‫کہ وہ کیا کرنے آیا تھا ۔۔۔‬
‫دن ایسے ھی گزر گیا شام کو میں انکل‬
‫سے پیشاب کرنے کا بہانہ لگا کر جانے‬
‫لگا تو انکل بڑی تلخی سے بولے ۔‬
‫اوے کاکا توں کی نواں کم پھڑیا ہویا‬
‫اے ۔‬
‫روز ایس ٹیم پیشاپ دا بہانہ بنا کہ آوارہ‬
‫گردی کرن نکل جاناں ایں ۔‬
‫بے جا آرام نال کتے نئی جاناں ۔۔‬
‫میں ہکا بکا ہو کر انکل کی طرف‬
‫دیکھنے لگ گیا‬
‫کہ اسے کیا ھوا میرے دماغ میں فورن‬
‫اسی لڑکے کا آیا کہ یہ سب ڈرامہ اسی‬
‫سالے کی وجہ سے ھو رھا ھے ۔‬
‫۔دوستو انسان جب دل کا سچا اور کسی‬
‫کے ساتھ مخلص ھو تو وہ ھی اگر اس‬
‫طرح کی بےرخی یا شک کرے تو پھر‬
‫آپ سب سمجھدار ہیں کہ کیا ہوتا ھے ۔۔‬
‫جی بلکل سہی سمجھے۔۔‬
‫مجھے بھی غصہ آگیا میں بھی تھوڑے‬
‫تلخ لہجے میں بوال۔‬
‫انکل جی توانوں کنے پین یائی اے کہ‬
‫میں آوارا گردی کرن جاناں ایں ۔‬
‫انکل بھی تلخی سے بولے ۔‬
‫تمیز نال گل کر تے نالے اپنی اوقات‬
‫وچ رہ۔ اوس بازاری عورت دی خاطر‬
‫میرے اگے بولن دی تیری جرات کیویں‬
‫ہوئی‬
‫دوستو ۔۔میں سب کچھ برداشت کر لیتا‬
‫سہہ لیتا مگر اس گانڈو نے ضوفی کو‬
‫گالی دے کر میرے دل میں چھرا‬
‫گھونپ دیا بس پھر کیا تھا‬
‫میرا تو پارا چڑھ گیا کہ اس گانڈو کی‬
‫میں نے ایمانداری اور مخلص ھو کر‬
‫اتنی کم تنخواہ میں نوکری کی ھے اور‬
‫ڈیوٹی بھی سب سے ذیادہ اور کام بھی‬
‫سب سے ذیادہ کرتا ھوں اور آج یہ‬
‫مجھے میری اوقات بتا رھا ھے ۔‬
‫میں غصے سے کھڑا ہوگیا اور پہلے‬
‫الفاظ بڑے پیار سے کہے کہ ۔‬
‫ویسے توں ہے تے بڑا ای لن لینی دا‬
‫ایں ۔‬
‫پھر میری آواز دور دور تک سنائی دی‬
‫۔۔کسے گشتی دیا بچیا زبان سنبھال اپنی‬
‫نئی تے ُگتھی وچوں ِکھچ کے کتیاں‬
‫اگے پا دیواں گا ۔۔‬
‫میں تیرے واسطے اینی جان ماری تیرا‬
‫نوکر بن کے ریاں تیرے بعد پوری ذمہ‬
‫داری تے پوری ایمانداری نال کم کرداں‬
‫ریاں تے توں اج مینوں اے سال دے‬
‫ریاں ایں ۔‬
‫اس گانڈو‬
‫نےغصے میں گز اٹھایا اور مجھے‬
‫مارنے کے لیے آگے بڑھا تو جنید نے‬
‫دوڑ کر پیچھے سے گز پکڑ لیا اور‬
‫اسے بھی پکڑ کر کھڑا ہوگیا ۔‬
‫ہماری اونچی آواز سن کر ادھر ادھر‬
‫کے دکان دار اور راہ چلتے لوگ بھی‬
‫اکھٹے ہوگئے ۔‬
‫وہ ساال مجھے گندی گندی گالیاں‬
‫نکالنے لگ گیا میرے منہ میں بھی جو‬
‫آیا میں نے کہہ دیا۔۔‬
‫اس نے کہا خبردار میری دکان تے پیر‬
‫وی رکھیا ۔ ۔‬
‫میں نے بھی کہا میں لن توں واری‬
‫تیری دکان تے تینوں وی ۔‬
‫وہ مجھے مارنے کے لیے دوڑتا میں‬
‫اسے مارنے کے لیے دوڑتا مجھے بھی‬
‫تین چار لوگوں نے پکڑا ھوا تھا اور‬
‫اسے بھی‬

‫خیر کافی ہنگامہ آرائی ہوئی کافی رش‬


‫پڑ گیا کچھ لڑائی کو مذید بڑھانے‬
‫والے‬
‫تھے اور کچھ معاملہ رفع دفع کروانے‬
‫والے خیر تقریبا ً ایک گھنٹہ ہماری منہ‬
‫ماری ہوتی رھی اور میں غصے سے‬
‫پیر پٹختہ ہوا شاہین مارکیٹ کی طرف‬
‫چل دیا غصے سے میرا رنگ سرخ‬
‫ہورھا تھا ۔‬
‫دوستو میری عمر تو اس وقت انیس سال‬
‫تھی مگر میرا قد چھ فٹ کے قریب تھا‬
‫اور جسامت بھی میری گاوں کے گبھرو‬
‫جوان جیسی تھی ۔۔‬
‫میں جب شاہین مارکیٹ پہنچا تو میری‬
‫نظر سیدھی کارنر والی دکان پر ھی‬
‫تھی ۔‬
‫اس لڑکے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ‬
‫ساال مجھے نظر نہیں آیا ۔‬
‫ورنہ آج یا وہ نہیں تھا یا میں نہیں ۔‬
‫میری شرٹ پر جگہ جگہ مجھے‬
‫پکڑنے والوں کے ہاتھوں کے نشان‬
‫لگے ھوے تھے میری شرٹ کے دو‬
‫بٹن بھی ٹوٹ چکے تھے میری حالت‬
‫دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ‬
‫میری کسی کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی‬
‫ھے ۔‬
‫میں بھاگتا ھوا سیڑیاں اتر کر پارلر پر‬
‫پہنچا اور بغیر دروازہ ناک کئے‬
‫دروازے کو ذور سے کھول کر اندر‬
‫داخل ہوا ۔‬
‫میرے دماغ نے یہ بھی کام نہ کیا کہ‬
‫ہوسکتا ھے کہ اندر کوئی لیڈیز نہ ھو‬
‫مگر غصہ عقل کو کھا جاتا ۔‬
‫میں جیسے ھی اندر داخل‬
‫ھوا تو‪,,,,,,,‬‬
‫اتفاق سے پارلر میں اکیلی ضوفی ھی‬
‫تھی اور وہ بھی گاون پہن کر تیار بیٹھی‬
‫میرا ھی انتظار کررھی تھی ۔‬

‫مجھے یوں اچانک دیکھ کر وہ ہڑبڑا‬


‫کر اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔‬

‫اور گبھراے ہوے میری طرف دوڑ کر‬


‫آئی اور مجھے بازوں سے پکڑ کر‬
‫ہالتے ھوے بولی کیاااااا ھوا یاسر یہ کیا‬
‫حالت بنائی ہوئی ھے کسی سے لڑائی‬
‫ہوئی ھے کیا بولووو کیا ھوا ۔‬

‫ضوفی رونے والی ہوچکی تھی اسکی‬


‫آواز میں حقیقی دکھ تھا تکلیف تھی تڑپ‬
‫تھی بے چینی تھی اپنا پن تھا ۔‬

‫میں نے ضوفی کے کندھوں کو پکڑ کر‬


‫اسے صوفے کی طرف لیجاتے ھوے‬
‫آرام سے صوفے پر بیٹھایا اور اسے‬
‫ریلیکس کرتے ھوے کہا کچھ نہیں ھوا‬
‫۔۔‬
‫مجھے ایک گالس پانی کا دو ضوفی‬
‫جلدی سے اٹھی اور بھاگم بھاگ پانی‬
‫لے کر آئی اس کا رنگ پریشانی سے‬
‫سرخ ہوچکا تھا ۔‬

‫میری طرف سوالیا نظروں سے دیکھی‬


‫جارہی تھی ۔‬

‫میں نے ایک ھی سانس میں پانی کا‬


‫گالس ختم کیا ضوفی نے اور پانی الوں‬
‫کہا تو میں نے اثبات میں سر ہالیا‬
‫ضوفی پھر جلدی سے پانی لے آئی اور‬
‫مجھے گالس پکڑا کر میرے ساتھ ھی‬
‫صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔‬

‫اور میرے بالوں میں انگلیوں سے‬


‫کنگھی کرتے ھوے مجھے دیکھنے لگ‬
‫گئی ۔۔‬

‫کچھ دیر بعد میں نارمل ہوا تو میں نے‬


‫ضوفی کو ساری سٹوری بتا دی اور‬
‫جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اسکا‬
‫بھی بتا دیا ۔۔‬
‫ضوفی سابقہ انکل کو اور اس لڑکے کو‬
‫گالیاں اور بدعائیں دینے لگ گئی ۔‬

‫ضوفی ایکدم غصے سے اٹھی اور اپنی‬


‫چادر پکڑ کر اوپر لینے لگ گئی میں‬
‫نے پوچھا کدھر جارھی ھو تو ضوفی‬
‫بولی اس کنجر کا منہ توڑنے جو فساد‬
‫کی جڑا ھے ۔‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور اسے پکڑ کر‬


‫دوبارا صوفے پر بٹھاتے ھوے کہا نہیں‬
‫ضوفی ابھی نہیں ۔اسکو مزہ میں‬
‫چکھاوں گا مگر موقع آنے پر ابھی نہیں‬
‫۔‬

‫ابھی خامخواہ ہم دونوں کا تماشا بنےگا‬


‫میں نے بڑی مشکل سے ضوفی کو‬
‫سمجھا بجھا کر بٹھایا اور اب پانی‬
‫پالنے کی میری باری تھی اور بالوں‬
‫میں انگلیوں سے کنگھی کرنے کی بھی‬
‫۔۔۔۔‬

‫خیر کچھ دیر بعد ہم دونوں پارلر سے‬


‫نکلے اور جب اوپر پہنچے تو وہ لڑکا‬
‫دکان بند کر کے جاچکا تھا شاید اسے‬
‫اس ہنگامے کی خبر مل چکی تھی یا‬
‫پھر ویسے ھی چال گیا تھا‬

‫‪I don't know‬‬

‫ضوفی اسکی بند دکان کو ھی گھورنے‬


‫لگ گئی‬

‫اور ضوفی نے ادھر سے آدھی اینٹ‬


‫اٹھا کر اسکے بند شٹر پر دے ماری‬
‫ھویی‬
‫اور اسکو گالیاں اور بدعائیں دیتی ٰ‬
‫آگے چل پڑی ۔۔‬
‫میں نے ضوفی سے اس لڑکے کے‬
‫بارے میں پوچھا کہ اسکی دکان اپنی‬
‫ھے یا کراے پر ھے اور کیا اسے‬
‫جانتی ھو ضوفی نے بتایا کہ یہ ہماری‬
‫پچھلی گلی میں رہتا ھے اور کراے دار‬
‫ھی ھے جبکہ مارکیٹ کا مالک بہت‬
‫اچھا اور نیک ھے ۔‬

‫مجھے اپنی بیٹی سمجھتا ھے اور انکے‬


‫گھر تو ہمارا آنا جانا بھی ھے ۔میرے‬
‫دماغ میں ایکدم اس گانڈو سے بدلہ لینے‬
‫کی سوجی ۔‬
‫اور میں دماغ میں ھی پوری فلم تیار‬
‫کرنے لگ گیا۔۔‬

‫ضوفی نے مجھے سوچ میں پڑے دیکھ‬


‫کر کہا یاسر مجھے معاف کردو میری‬
‫وجہ سے تمہاری اتنی بےعزتی بھی‬
‫ہوئی اور دکان سے بھی چھٹی ہوگئی ۔۔‬

‫میں نے کہا کیسی باتیں کرتی ھو‬


‫تمہاری قسم مجھے نہ تو اپنی بےعزتی‬
‫کا دکھ ھے اور نہ ھی دکان سے چھٹی‬
‫ہونے کا ۔مجھے تو دکھ ھے کہ اس‬
‫گانڈو نے اس گشتی کے بچے کے‬
‫پیچھے لگ کر تمہیں گالی دی ۔‬

‫ضوفی میں سب کچھ برداشت کرسکتا‬


‫ھوں مگر کوئی تم پر انگلی تو کیا آنکھ‬
‫بھی اٹھاے وہ مجھ سے برداشت نہیں‬
‫ھوگا ۔‬

‫ہم ایسے ھی باتیں کرتے جارھے تھے‬


‫اور میں دماغ میں ہوتا پالن بنا چکا تھا‬
‫کہ اس گشتی کے بچے سے کیسے بدلہ‬
‫لینا ھے ۔‬
‫ضوفی پھر بولی یاسر اگر اس بڈھے‬
‫نے تمہارے گھر جاکر شکایت لگادی تو‬
‫کیا ھوگا۔۔۔‬

‫میں نے الپرواہی سے کہا لگادے لگاتا‬


‫ھے تو ۔‬

‫مجھے نہیں پرواہ کسی کی بھی ۔‬

‫دوستو۔۔یہ ساال عشق بھی نہ‬


‫بسسسسسس‬
‫اپنے معشوق کی خاطر پورے زمانے‬
‫سے لڑنے کے لیے جتنا بہادر بنا دیتا‬
‫ھے نہ ۔‬

‫تو اپنے معشوق کے کھوجانے کے ڈر‬


‫سے اتنا بزدل بھی بنا دیتا ھے ۔۔‬

‫جبکہ قبل مریض عشق گھر والوں سے‬


‫ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹنے لگ‬
‫جاتی تھی مگر یہاں اب معاملہ ھی الٹ‬
‫تھا ۔۔‬
‫سارا زمانہ ایک پلڑے میں اور معشوق‬
‫ایک پلڑے میں پھر بھی کونسا پلڑا‬
‫بھاری۔۔۔۔۔‬

‫جی بلکل سہی سمجھے معشوق کا‬


‫محبوب کا ۔۔۔۔‬

‫ہاےےےےےے رے مرگ عشق۔۔‬

‫ضوفی کی آواز نے مجھے پھر خیالوں‬


‫سے ال باہر کیا اور وہ بولی ۔یاسررر‬
‫اب کیا ھوگا مجھے تو ڈر لگ رھا ھے‬
‫کہ کہیں تمہارے گھر والے بھی میں جو‬
‫پہلے ھی اندر ھی اندر غصے سے کہڑ‬
‫رھا تھا۔۔۔۔۔‬

‫ضوفی کی بات سن کر اونچی آواز میں‬


‫بوال اور یہ بھول گیا کہ ہم بازار سے‬
‫گزر رھے ہیں جہاں لوگوں کی‬
‫آمدورفت ھے ۔‬

‫میں ایکدم چیختے ھوے بوال تو کیا‬


‫نکال دیں گے نہ میرے گھر والے‬
‫مجھے گھر سے تو نکال دیں میں فٹ‬
‫پاتھ پر سوجاوں گا پیار کیا ہے تم سے‬
‫کوئی ڈاکہ تو نہیں ڈاال کسی کا خون تو‬
‫نہیں کیا ۔‬

‫ہمارے سامنے سے ایک بزرگ اور‬


‫ایک اماں آرھیں تھی ۔‬

‫میں انکے سامنے رک گیا اور میاں جی‬


‫کو کندھوں سے پکڑتے ھوے روہانسی‬
‫مگر اونچی آواز سے بوال ۔‬

‫بابا جی آپ ھی بتاو پیار کرنا جرم ھے‬


‫کیا‬

‫بابا یوں میرے ایکدم سامنے آنے اور‬


‫ایسے چیخ کر سوال کر نے سے گبھرا‬
‫گیا اور میری طرف دیکھتے ھوے نفی‬
‫میں سرہالیا میں نے پھر اماں جی سے‬
‫پوچھا اماں جی آپ ھی بتاءیں کیا پیار‬
‫کرنا جرم ھے گناہ ھے ۔۔‬

‫اماں جی بھی نفی میں سر ہالتے ھوے‬


‫مجھ سے جان چھڑوا کر چل دیے شاید‬
‫وہ مجھے نشے میں سمجھ بیٹھے تھے‬
‫کا پاگل سمجھ بیٹھے تھے قریب سے‬
‫گزرتے اور کھڑے لوگ مجھے آنکھیں‬
‫پھاڑے دیکھےجارھے تھے ۔‬

‫مجھ میں اتنا حوصلہ اتنا جزبہ میں اتنا‬


‫نڈر کیسے ھوگیا سمجھ سے باہر ۔۔‬
‫شاید یہ میرے سچے پیار کی طاقت تھی‬
‫۔۔۔‬

‫ضوفی میرے اس رد عمل پر پہلے تو‬


‫سہم گئی پھر ایکدم اس نے مجھے بازو‬
‫سے پکڑ کر ادھر ادھر دیکھتے ھوے‬
‫کہا یاسرررر ہوش کرو کیا ھوگیا ھے‬
‫تمہیں ۔‬

‫میں پاگل ہوچکا تھا میں نے بھی نشے‬


‫کی سی حالت میں ضوفی کے منہ کے‬
‫قریب منہ کر کے کہا تم سے پیار‬
‫ھوگیاھے۔ اور میں پھر اونچی آواز میں‬
‫دھاڑا‬
‫ھانااااااااں تم سے پیار ھوگیا ھے اگر‬
‫کوئی میرے پیار کے بیچ میں آیا تو اس‬
‫سالے کو جان سے ماردوں گا ہاں سن‬
‫لو سب جان سے ماردوں گا ۔‬

‫ضوفی میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ھوے‬


‫مجھے کھینچتے ھوے ایک چھوٹی سے‬
‫سنسان گلی میں لے گئی اور وھاں‬
‫مجھے کھڑا کر کے غصے سے بولی‬
‫یاسر یہ کیا بےہودگی ھے کیوں اپنا اور‬
‫میرا تماشہ بنا رھے ھو یہ گاوں نہیں‬
‫شہر ھے شہر ھے ۔۔۔‬

‫میں حیران ھوکر ضوفی کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بوال ۔۔‬
‫ضوفی تم بھی مجھے غلط کہ رھی ھو‬
‫۔‬

‫تم بھی تم بھی ۔‬

‫ضوفی کچھ نارمل ھوکر بولی یاسر پلیز‬


‫سمجھنے کی کوشش کرو چلو گھر چل‬
‫کر بات کرتے ہیں میں نے ذور سے اپنا‬
‫بازو اس سے چھڑوایا اور غصے سے‬
‫بوال ۔نہیں گھر نہیں ادھر ھی بتاو تم‬
‫مجھ سے پیار کرتی ھو کہ نہیں یہاں‬
‫سب کے سامنے بتاو ۔۔‬

‫دوستو ۔۔میں نہ تو نشے میں تھا اور نہ‬


‫ھی پاگل تھا۔۔‬

‫میں گاوں کا سادہ صاف دل اور سچا‬


‫مخلص ہونے کی وجہ سے اپنا اعتبار‬
‫اور اپنے آپ پر چوری کا الزام اور‬
‫ضوفی کو بازاری عورت سننے اور‬
‫دکان سے چھٹی ہونے اور گھر جاکر‬
‫پتہ نہیں کیا ہوجانے کی وجہ سے دل‬
‫برداشتہ اور ڈپریشن کی وجہ سے دل‬
‫کی بھڑاس دل کی بات کو الفاظوں میں‬
‫ڈھال کر سارے زمانے کے سامنے‬
‫اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی‬
‫کوشش کررھا تھا ۔‬

‫مگر کیا کہوں کہ‬


‫منافقوں کی بستی میں اپنے ڈیرے ہیں‬

‫تیرے منہ پر تیرے میرے منہ پر میرے‬


‫ہیں ۔۔۔‬

‫ان منافقوں کے سامنے دل کا حال بتانا‬


‫اپنا تماشہ بنانے جیسا تھا‬

‫یا یہ کہہ لیں‬

‫کہ‬

‫اندھوں کی بستی میں آئینے ببیچنے کی‬


‫بیوقوفانہ حرکت تھی ۔‬
‫ضوفی ہوش میں تھی اس لیے وہ بھی‬
‫سچی تھی ۔‬

‫مگر میں ضوفی پر ھی پھٹ پڑا‪ .‬۔۔‬

‫ضوفی رونے لگ گئی اور میرے آگے‬


‫ھاتھ جوڑتے ھوے بولی یاسر پلیزززز‬
‫گھر چلو ادھر جاکر مجھے جو مرضی‬
‫کہہ لینا ۔‬

‫مگر میں اسی بات ہر بضد تھا کہ ادھر‬


‫ھی بتاو سب کے سامنے مجھ سے پیار‬
‫کرتی ھو کہ نہیں ۔‬
‫ضوفی تھک ہار کر بولی ہاں کرتی‬
‫ھوں پیار کرتی ھوں اب تو چلو‬

‫لوگ ہمارے اردگر اکھٹے ہوکر ہمارا‬


‫تماشہ دیکھ رھے تھے ۔‬

‫ضوفی مجھے بازو سے پکڑ کر گھر‬


‫کی طرف لیے جارھی تھی‬

‫ہاےےےےےےے رے یہ ساال کم‬


‫بخت عشق کیا کیا رنگ دکھالے گا۔۔۔۔‬

‫ضوفی میرا بازو پکڑے مجھے گھر ‪.‬‬


‫کی طرف لیجارھی تھی اور ساتھ ساتھ‬
‫مجھے ریلیکس کرنے کی کوشش کر‬
‫رھی تھی ۔‬

‫کچھ دور جاکر میں کافی حد تک نارمل‬


‫ہوچکا تھا گھر کے پاس جاکر میں‬
‫واپس آنے لگا تو ضوفی نے مجھے‬
‫بازو سے پکڑ لیا اور ساتھ ھی ڈور بیل‬
‫بجا دی کچھ دیر بعد ماہی نے پوچھ کر‬
‫دروازہ کھوال اور میرے الکھ انکار‬
‫کرنے پر بھی ضوفی مجھے ذبردستی‬
‫اندر لے گئی۔‬

‫میں نے بھی ماہی کی وجہ سے ذیادہ‬


‫ڈرامہ نہ کیا اور چپ چاپ اندر داخل‬
‫ہوگیا ۔‬
‫ماہی میری حالت دیکھ کر پریشان‬
‫ھوگئی اور مجھ سے پوچھنے لگ گئی‬
‫کیا ھوا تو ضوفی نے اسے خاموش‬
‫رہنے کا اشارہ کیا ضوفی سیدھا مجھے‬
‫اوپر والے کمرے میں ھی لے گئی ۔۔‬

‫اوپر جاکر میں صوفے پر نیم دراز‬


‫ھوگیا ۔‬

‫ضوفی مجھے بیٹھا کر نیچے چلی گئی‬


‫اور کچھ دیر بعد چینج کرلے اوپر آئی‬
‫تب تک میں بلکل نارمل حالت میں‬
‫ہوچکا تھا ضوفی نے مجھے پانی کا‬
‫گالس ہیش کیا اور میرے سامنے‬
‫دوسرے صوفے پر بیٹھتے ھوے بولی‬
‫غصہ ٹھنڈا ھوا جناب کا کہ نہیں‬
‫اورساتھ ھی شرارت بھرے انداز میں‬
‫ھاتھ کو کانوں کی لو کے ساتھ لگا کر‬
‫توبہ توبہ کرتے ھوے بولی ۔‬

‫یاسرر تمہیں اتنا غصہ بھی آتا ھے‬


‫اففففف میں تو یقین کرو ڈر گئی تھی کہ‬
‫پتہ نہیں کیا کرگزرو گے ۔۔‬

‫میں صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے‬


‫ھوے لمبا سانس لیتے ھوے بوال ۔‬

‫ضوفی جب انسان سچے دل کا ھو اور‬


‫منافقت سے پاک ھو تو پھر وہ ذیادتی‬
‫برداشت نہیں کرتا ۔‬

‫میں اس سالے کو چھوڑوں گا نہیں ۔‬

‫اسکی قسمت اچھی تھی جو وہ مجھے‬


‫نظر نہیں آیا ورنہ اسکو ایسا سبق‬
‫سکھاتا کہ ساری زندگی یاد رکھتا کہ‬
‫کس سے پنگا لیا ھے ۔۔‬

‫ضوفی مجھے پھر ریلیکس کرتے ھوے‬


‫بولی دفعہ کرو کتوں کا کام ھے بھونکنا‬
‫۔۔‬

‫میں کچھ دیر اس گانڈو کو گالیاں دیتا‬


‫رھا ۔‬
‫اورضوفی مجھے ٹھنڈا کرتی رھی ۔‬

‫میں نے پالن کے مطابق جو میں پہلے‬


‫سوچ چکا تھا‬

‫ضوفی کو کہا کہ ضوفی میں نے اس‬


‫لڑکے کو سبق سکھانا ھے اور اس میں‬
‫مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ھے ۔‬

‫ضوفی بولی میری مدد کی وہ کیسے ۔۔‬

‫میں نے کہا پہلے تم وعدہ کرو کے میرا‬


‫ساتھ دو گی ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تمہارے لیے میری‬
‫جان بھی حاضر ھے ۔‬

‫تم بتاو تو سہی کہ مجھے کیا کرنا ھے ۔‬

‫اور پہلے یہ اپنی حالت درست کرو اور‬


‫یہ کہتے ھوئے ضوفی میری شرٹ کے‬
‫بٹن بند کرنے لگی اور ساتھ ساتھ میرے‬
‫شرٹ پر پڑی سلوٹوں کو بھی‬

‫درست کرنے لگ گئی ۔‬

‫میں نے کہا‬

‫مارکیٹ کا جو مالک ھے ان کے ساتھ‬


‫تمہارے گھریلو تعلقات ہیں نہ ۔‬

‫ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے بولی‬


‫ہمممممم۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫بس تو پھر صبح تم نے مارکیٹ کے‬
‫مالک کے گھر جانا ھے اور اسکو کہنا‬
‫ھے کہ یہ لڑکا روز مجھے تنگ کرتا‬
‫ھے اور مذید اپنے پاس سے مرچ‬
‫مصالحہ لگا کر انکو اس کے خالف‬
‫کرنا ھے ۔‬

‫اور شام کو یہ لڑکا اپنی عادت کے‬


‫مطابق تمہیں دیکھے گا اور تم نے بس‬
‫اس کو ایک گالی نکالنی ہے اور ساتھ‬
‫میں تم نے یہ کہنا ھے کہ تم کیا روز‬
‫مجھے تنگ کرتے رہتے ہو بس اسکے‬
‫بعد میں جانوں اور وہ لڑکا۔۔‬

‫ضوفی گبھرا کر بولی یاسر ایسے تم‬


‫کچھ غلط نہ کر گزرنا کہ بعد میں‬
‫پچھتانا پڑے ۔‬

‫میں نے کہا یار تم پریشان مت ھو اگر‬


‫میں نے اسکو سبق نہ سیکھایا تو میں‬
‫اندر ھی اندر مرجاوں گا ضوفی ایکدم‬
‫اٹھ کر میرے پاس آئی اور میرے منہ‬
‫پر ہاتھ رکھتے ھوے بولی مریں‬
‫تمہارے دشمن ۔۔۔‬
‫میں نے اسکا ھاتھ منہ سے ہٹاتے ھوے‬
‫کہا تو ضوفی پھر تمہیں میری مدد کرنا‬
‫ھوگی ۔‬

‫ضوفی بولی اس کا فائدہ کیا ھوگا میں‬


‫نے کہا اسکے دو فائدے ھوں گے ایک‬
‫تو اسکو یہ سبق مل جاے گا کہ کیسے‬
‫کسی کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی‬
‫کرتے ہیں اور دوسرا مارکیٹ کا مالک‬
‫اس سے دکان خالی کروا لے گا ۔‬

‫اور اسکو سبق ملے گا کہ کیسے کسی‬


‫کی روزی میں ٹانگ مارتے ہیں ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر دکان واال کام تو میں‬
‫انکل کی بیگم کو کہہ کر کروا لوں گے‬

‫تو پھر اس کتے کے منہ ضرور لگنا‬


‫ھے ۔‬

‫میں نے ضوفی کا پکڑا ہوا ہاتھ اپنے‬


‫سینے پر رکھتے ھوے کہا ضوفی‬
‫تمہیں میری ضرورت ھے کہ نہیں‬
‫ضوفی بولی یاسر کیسی باتیں کررھے‬
‫ھو ۔ تمہارے بغیر ایک پل بھی رہنا‬
‫مجھ سے دشوار ھے اور تم۔۔۔۔‬

‫میں نے ضوفی کی بات کاٹتے ھوے‬


‫کہا‬
‫تو پھر جو میں کہہ رھا ہوں وہ کرو ۔‬

‫ضوفی بولی یاسر مجھے تمہاری فکر‬


‫ھے کہ تم کچھ الٹا سیدھا نہ کر بیٹھو۔‬

‫میں نے کہا اگر تم نے میری بات نہ‬


‫مانی تو تب میں نے کچھ الٹا سیدھا‬
‫کربیٹھنا ھے۔۔‬

‫دوستو باالخر‬

‫میں نے ضوفی کو اپنی جان کی قسم‬


‫دے کر مجبورا ً راضی کرلیا۔‬

‫اور اسے صبح آنے کا کہہ کر اس سے‬


‫اجازت لے کر ان کے گھر سے نکل آیا‬
‫۔ضوفی اور آنٹی نے بہت کوشش کی کہ‬
‫میں کھانا کھا کر جاوں مگر میں نے‬
‫لیٹ ھونے کا بہانہ بنا کر وھاں سےنکل‬
‫آیا اندھیرا کافی ھوچکا تھا ۔‬

‫میں سارے راستے صبح کی پالنگ اور‬


‫گھر جاکر گھر والوں کے سوالوں کے‬
‫جواب کے بارے میں سوچتا رھا اور‬
‫گھر پہنچنے سے پہلے ہی کافی لمبی‬
‫چوڑی پالننگ تیار کرچکا تھا۔‬
‫گھر پہنچا تو سب کچھ نارمل ھی تھا‬
‫شاید ابھی تک وہ گانڈو بُڈھا دکان سے‬
‫واپس نہیں آیا تھا ۔‬

‫ورنہ تو گھر داخل ھوتے ھی سب مجھ‬


‫پر چڑھ دوڑتے ۔۔‬

‫میں نے کھانا وغیرہ کھایا اور گھر سے‬


‫نکل کر باہر دوستوں کی طرف چال گیا‬
‫۔‬

‫گاوں میں میرا ایک جگری دوست تھا‬


‫شاہد جسکو شادا شادا کہتے تھے چھ‬
‫فٹ قد چوڑا سینہ ورزشی جسم بڑی‬
‫بڑی مونچھیں اور بڑا دلیر اور مخلص‬
‫یاروں کا یار تھا اسکا پہلے اس لیے‬
‫ذکر نہیں کیا کیوں کہ اسکا کوئی رول‬
‫نہیں تھا ۔‬

‫اس نے مجھے کہا یار آج تو بڑا پریشان‬


‫لگ رھا ھے ۔‬

‫میں نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا‬


‫مگر وہ پوچھنے پر بضد رھا ۔‬

‫میں نےضوفی کے معاملے کو گول‬


‫کرکے اسکو ساری ہسٹری بتا دی ۔‬

‫وہ تو آپے سے باہر ھوگیا اور مجھے‬


‫ابھی شہر چلنے کا کہنے لگا کہ اس پین‬
‫یک دی بُنڈ وچ فیر مارنا اے ۔‬

‫میں نے بڑی مشکل اسے سمجھا بجھا‬


‫کر بٹھایا اور اسکو کہا کہ کل تم نے چھ‬
‫بجے سے پہلے شاہین مارکیٹ کے باہر‬
‫ہونا ھے اور بس میرے پاس کسی اور‬
‫کو نہیں آنے دینا اس پین یک نوں میں‬
‫آپ پننا وا۔۔‬

‫شادا بوال توں فکر نہ کر جے ہور‬


‫بندیاں دی لوڑ ہوئی تے او وی آ جان‬
‫گیں ۔‬

‫میں نے کہا ضرورت تو نہیں پڑے گی‬


‫باقی پھر بھی تم تین چار لڑکوں کو‬
‫ساتھ لے آنا اور وہاں دیکھنے والوں کو‬
‫یہ شک بھی نہ ہو کہ تم میرے لیے‬
‫آےھو اور میری وجہ سے لڑ رھے ھو‬
‫۔۔اور تم میں سے کوئی بھی لڑکا اس‬
‫پین یک کو ہاتھ نہ لگاے اسکو میں خود‬
‫نپٹاوں گا۔۔‬

‫میں نے کچھ دیر بعد کہا یار مجھے اس‬


‫بابے کی ٹینشن ھے وہ ساال میرے گھر‬
‫شکایت نہ لگا دے‬

‫شادا بوال کویں تے ایس بابےدا وہ پٹکا‬


‫پوا دینے آں میں نے کہا نہیں یار وہ‬
‫پھر بھی میرا استاد ھے ۔اسے چھوڑ‬
‫اور جو میں نے کہا ھے اسے ذہن نشین‬
‫کرلو‬

‫شادا بوال‬

‫پر یار جے اونے تیرےکار شکایت ال‬


‫دتی تے فیر۔‬

‫میں سوچ میں پڑ گیا۔۔‬

‫تو شادا بوال‬

‫یاسرے بابے دا تے حل اے ھی اے کہ‬


‫میں اونوں تیرے کار جان توں پیلے ای‬
‫سمجھا دیواں میری گل اودی عقل وچ‬
‫آجاوے گی نئی تے فیر اونوں میرا پتہ‬
‫ای اے‬

‫میں نے شادے کی بات سن کر کہا ھاں‬


‫یار ہن تے او دکان توں آگیا ہناں اے ۔‬

‫شادا بوال چل فیر چلیے ایدھا تے منہ‬


‫ٹھپ کرئیے۔‬

‫میں نے کہا چل فیر ۔‬

‫میں شادا اور دو تین اور لڑکے‬

‫ہم سب دکان والے کے گھر کی طرف‬


‫چل دئیے اپنے گھر کے سامنے سے‬
‫گزر کر ہم سجاد کے گھر کے سامنے‬
‫جا پہنچے شادے نے مجھ سمیت‬
‫دوسرے لڑکوں کو گھر سے کچھ‬
‫پیچھے جانے کو کہا میں ان لڑکوں کو‬
‫اپنے گھر کی بیٹھک کے پاس لے‬
‫ایا۔۔اور ادھر کھڑے ہوکر ہم شادے کو‬
‫دیکھنے لگ گئے شادے نے دروازہ‬
‫کھوال تو‬

‫بابا ھی باہر نکال۔‬

‫ان دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی‬

‫‪I don't know‬‬


‫شادا میری طرف اشارے کر کر اس‬
‫سے باتیں کررھا تھا اور جب انکی بات‬
‫مکمل ھوئی تو شادے نے سجاد کے‬
‫کندھے پر ھاتھ رکھ کر اس سے کچھ‬
‫سختی سے بات کی اور ہماری طرف‬
‫آنے لگ گیا جبکہ سجاد کچھ دیر کھڑا‬
‫شادے کو دیکھتا رھا اور پھر ذور سے‬
‫دروازہ بند کرنے کی آواز آئی شادے‬
‫نے آتے ھی خوشخبری دی کہ اسکی‬
‫عقل میں بات آگئی ۔‬

‫مگر یاسرے اے پالر والی کون اے میں‬


‫نے ہنستے ھوے کہا تیری پرجائی اے‬
‫ہور کون اے ۔‬
‫شادا میرے کندھے پر ھاتھ مارتے‬
‫ھوے بوال وا یار شہری بابو بن دے ای‬
‫شہر دی بچی وی پھنسا لی ۔‬

‫میں اسکے پیٹ میں مکا مارتے ھوے‬


‫بولو پھدی دیا تیری پرجائی اے ادب نال‬
‫نام لے ۔‬

‫شادا قہقہہ مار کر ہنستے ھوے بوال ۔‬

‫ہن تے اوس پین یک دی خیر نئی ساڈے‬


‫ویر دی پسند وچ لت اڑائی ایدی ماں دا‬
‫پھدا ۔‬
‫میں نے اسکے کندھے پر ھاتھ رکھ کر‬
‫اسے ٹھنڈا کیا کہ اسکو تم لوگوں نے‬
‫ہاتھ نہیں لگانا ۔‬

‫یہ کام بس میرا ھے ۔‬

‫تم لوگوں نے بس کسی کو ہم دونوں‬


‫کے بیچ میں نہیں آنے دینا ۔‬

‫ہم کچھ دیر مذید باتیں کرتے رہے اور‬


‫پھر صبح ملنے کا کہہ کر ہم اپنے اپنے‬
‫گھر آگئے ۔‬

‫صبح میں اٹھا اور پینٹ شرٹ یا شلوار‬


‫قمیض پہننے کی بجاے ٹراوزر شرٹ‬
‫اور نیچے جوگر پہن کر شہر کی طرف‬
‫چل دیا میں سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا‬
‫ضوفی میری حالت دیکھ کر ہنستے‬
‫ھوے بولی لگتا ھے کہیں میچ کھیلنے‬
‫جارھے ھو میں نے کہا میچ ھی کھیلنا‬
‫ھے ضوفی پھر مجھے سمجھانے لگی‬
‫مگر میں نے اسکی ایک نہ سنی اور ہم‬
‫دونوں گھر سے نکل کر مارکیٹ کے‬
‫مالک کے گھر کی طرف چل دیے‬
‫راستے میں ضوفی مجھ سے پوچھتی‬
‫رھی کہ اب کدھر کام کرنا ھے اور‬
‫سارا دن کدھر گزارو گے میں بس‬
‫ایسے ھی اسکی بات کو سنی ان سنی‬
‫کرتا رھا ضوفی نے مجھے پالر میں دن‬
‫گزارنے کا بھی کہا مگر میں نے ایک‬
‫دوست سے ملنے کا بہانہ کر کے اسے‬
‫ٹال دیا ایسے ھی باتیں کرتے ھوے ہم‬
‫شاہین مارکیٹ کے مالک کے گھر کے‬
‫دروازے پر پہنچے انکا گھر شاہین‬
‫مارکیٹ سے پچھلی گلی میں ھی تھا‬

‫ضوفی گھر میں داخل ھوتے ھوے بولی‬


‫یاسر تم جاو میں آنٹی سے بات کر کے‬
‫پارلر پر چلی جاوں گی میں نے اسے‬
‫آواز دے کر اندر داخل ہونے سے‬
‫روکتے ھوے کہا کہ تم آنٹی سے میرا‬
‫بھی کچھ تعارف کروا دینا کزن بنا کر‬
‫ضوفی بولی تم یہ سب مجھ پر چھوڑ دو‬
‫اور بے فکر ھو کر جاو ضوفی کو‬
‫ادھر چھوڑ کر میں بازار کی طرف چل‬
‫دیا دکان کے سامنے سے گزرا تو سجاد‬
‫اور جنید اپنے کام میں مصروف تھے‬
‫میں نے بس ایک نظر ڈالی اور آگے‬
‫گزر گیا جب میں ایک مشہور مارکیٹ‬
‫کے سامنے سے گزرنے لگا تو میرے‬
‫دماغ میں اچانک اسد کی مما کے‬
‫بوتیک کا آیا میرے پاس ویسے بھی‬
‫ابھی سارا دن پڑا تھا ۔‬

‫اسد کی مما کا خیال آتے ھی میں‬


‫مارکیٹ کے اندر داخل ھوگیا اور کچھ‬
‫آگے گیا تو مجھے آنٹی کا بوتیک نظر‬
‫آگیا ۔‬

‫بوتیک کا ڈور کھال ھوا تھا مارکیٹ میں‬


‫کچھ دکانیں ابھی بند ہیں تھیں اور کچھ‬
‫کھلی ھوئی تھیں ۔۔‬

‫میں بوتیک کے پاس پہنچ کر بوتیک‬


‫کے کھلے ھوے ڈور پر ھی ناک کرنے‬
‫لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی ھی دروازے پر آئی‬
‫اور مجھے دیکھ کر ایکدم چونکی اور‬
‫منہ پر ھاتھ رکھ کر بڑی حیرانگی سے‬
‫مجھے سر سے پاوں تک دیکھنے لگ‬
‫گئی ۔‬

‫میں نے آنٹی کو سالم کیا تو آنٹی مجھے‬


‫جی صدقے کرتی ھوئی اندر لے گئی‬
‫اور بوتیک کا دروازہ بند کردیا۔‬
‫میری چھٹی حس نے فورن خطرے کا‬
‫االرم بجایا ۔‬

‫کہ لے کاکا ہن تیری خیر نئی ۔۔‬

‫میں بوتیک کے اندر داخل ہوتے ھی ‪.‬‬


‫چاروں اطراف دیکھ کر بوتیک کا‬
‫جائزہ لینے لگ گیا آنٹی نے کافی خرچہ‬
‫کیا ھوا تھی بوتیک کی سیٹنگ اور‬
‫ڈسپلے کمال کا تھا ورائٹی بھی ایک‬
‫سے بڑھ کر ایک تھی ۔‬
‫آنٹی دروازہ بند کرکے مجھے بیٹھنے‬
‫کا کہنے لگی میں کاونٹر کے پاس‬
‫رکھے ھوے صوفے پر بیٹھ گیا آنٹی‬
‫میرے پاس سے گزر کر میرے بلکل‬
‫سامنے رکھی ایزی چیئر پر ٹانگ پر‬
‫ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫آنٹی نے سرخ کلر کی باریک کپڑے‬
‫میں بلکل سادہ سی شرٹ اور نیچے‬
‫بلیک ٹائٹس پہنا ہوا تھا اور باریک سا‬
‫شفون کا دوپٹہ گلے میں لٹکایا ھوا تھا‬
‫جس کے دونوں پلوؤں نے آنٹی کے‬
‫بڑے سائز کے سڈول مموں کو اور‬
‫سے ڈھانپ رکھا تھا۔‬
‫آنٹی کے بڑے بڑے ممے فٹنگ والی‬
‫شرٹ کی وجہ سے مذید ابھرے ھوے‬
‫تھے‬
‫صاف لفظوں میں‬
‫آنٹی کی جوانی پاٹ رھی تھی‬
‫دو جوان بچوں کی ماں ہونے کے‬
‫باوجود بھی آنٹی کا فگر کمال کا‬
‫سیکسی تھا ۔‬
‫آنٹی نے شرٹ بھی شارٹ پہنی ہوئی‬
‫تھی اور نیچے پنسل ہیل پہننے کی وجہ‬
‫سے گانڈ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور‬
‫پیچھے سے شرٹ کو بھی اوپر کیا ھوا‬
‫تھا چلتے ھوے پیچھے سے گانڈ جب‬
‫ہلتی تو بڑوں بڑوں کا ناال ڈھیال‬
‫ہوجاتا‪،‬‬
‫گول مٹول سڈول گانڈ بہت ھی سیکسی‬
‫تھی ۔‬
‫آنٹی جب میرے سامنے سے گزر کر‬
‫کرسی کے جانب مڑی تو آنٹی کی گانڈ‬
‫دیکھ کر ھی میرے لن میں کھجلی‬
‫شروع ھوگئی تھی ۔‬
‫اور جب آنٹی جاکر کرسی پر بیٹھی تو‬
‫آنٹی کے ممے مجھے گھور کر منہ‬
‫چڑھانے لگے اور جب آنٹی نے ٹانگ‬
‫پر ٹانگ رکھی اور دو مست رانیں ایک‬
‫دوسرے کے اوپر آکر ٹائیٹس کو مذید‬
‫ٹائٹ کرنے لگیں تو یہ منظر دیکھ کر‬
‫میرا حلق خشک اور لن پُھرت ہوگیا۔۔‬
‫جیسے ھی میرے لن نے انگڑائی لی‬
‫میں نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر‬
‫سالے کی ِگچی مروڑ دی ۔‬
‫آنٹی نے سرخ لپسٹک گوری گالوں پر‬
‫ہلکا سا میک اپ آنکھوں میں کاجل‬
‫پلکوں پر بلش اون لگا کر خود کو ایک‬
‫سیکس کی پڑیا بنایا ھوا تھا آنٹی کے‬
‫سیکسی فگر کو دیکھتے ھی میرے‬
‫دماغ سے لڑائی جھگڑا اور سارا غصہ‬
‫نکل گیا اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی‬
‫تھی کہ مجھے پندرہ بیس دن سے پھدی‬
‫نصیب نہیں ہوئی تھی اور ضوفی کے‬
‫ساتھ رات گزارنے کے باوجود اس سے‬
‫کچھ نہیں کیا سواے رومانس کے‬
‫ضوفی کا سیکسی جسم دیکھنے اور‬
‫چومنے چاٹنے کے باوجود بھی ادھورا‬
‫رھا اب یہ ظالم اپنے سیکسی جسم کی‬
‫نمائش کر کے میرے صبر کا امتحان‬
‫لے رھی تھی اب خلوت میں ایسی بمب‬
‫آنٹی ہر لحاظ سے دعوت دے رھی ھو‬
‫اور اپنے سیکسی جسم کا ہر ذاویعے‬
‫سے نظارہ کرا رھی ھو تو پھر اس‬
‫ننھی جان پر ظلم کا پہاڑ نہیں تو اور‬
‫کیا ھے ہن ۔ تسی دسو‬
‫ساال یاسر کیا کرے ہن ٹھنڈا پانی پی‬
‫مرے۔‬
‫آنٹی نے میری آنکھوں کا تعاقب کرتے‬
‫ھو اور میری نظروں میں ہوس کو‬
‫تاڑتے ھوے بازوں اوپر کو اٹھاے اور‬
‫سر سے اوپر لیجا کر ایک ظالم‬
‫انگڑائی لی اور انگڑائی لیتے ھی اپنے‬
‫گلے سے دوپٹہ اتار کر کاونٹر پر‬
‫رکھتے ھوے بالوں کو سنوارتے ھوے‬
‫بولی‬
‫واووو یاسر تم نے تو اپنا حلیہ ھی بدل‬
‫لیا اور پھر گھٹنے پر ُکہنی رکھ کر اور‬
‫الٹے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھ کر آگے‬
‫جھکی اور میری آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈال کر بولی‬
‫خیر ھے اس تبدیلی کی وجہ پوچھ‬
‫سکتی ھوں کہیں کوئی لڑکی تو نہیں‬
‫پھنسا لی ۔‬
‫میں نے شرماتے ھوے کہا نہیں آنٹی‬
‫جی ایسی تو کوئی بات نہیں بس ایسے‬
‫ھی کچھ دوستوں زبردستی میری کلین‬
‫شیو کروا دی‬
‫آنٹی ہنستے ھوے بولی بہت خوب اچھا‬
‫کیا ۔‬
‫تمہاری تو لُک ھی تبدیل ہوگئی ھے‬
‫بلکہ تمہارے چہرے سے تو نسوانیت‬
‫جھلک رھی ھے ۔‬
‫زبردست ۔‬
‫مجھے خوشی ہوئی تمہیں دیکھ کر ۔‬
‫اور سناو مصروفیت کیسی جارھی ھے‬
‫۔‬
‫میں نے کہا شکر سب ٹھیک چل رھا‬
‫ھے ۔‬
‫آنٹی پھر گھر نہ آنے کا شکوہ کرنے‬
‫لگ گئی میں نے کاروباری مصروفیات‬
‫کا عزر پیش کیا ۔‬
‫کچھ دیر باتوں کے بعد آنٹی ماتھے پر‬
‫ہاتھ مارتے ھوے بولی افففففف تمہارے‬
‫آنے کی خوشی ھی اتنی ہوئی کہ میں‬
‫تمہاری مہمان نوازی ھی بھول گئی اور‬
‫اٹھ کر بوتیک کے ایک طرف بنے‬
‫دروازے کی طرف چل پڑی میں نے‬
‫آنٹی کو کافی کہا کہ میں ناشتہ وغیرہ‬
‫کر کے آیا ہوں مگر آنٹی نے میری‬
‫کوئی بات نہ سنی اور اپنی مست گانڈ‬
‫کو ہالتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر‬
‫چلی گئی اور کچھ ھی دیر بعد مشروب‬
‫کا گالس پکڑے باہر نکلی اور بڑی ادا‬
‫سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور‬
‫مجھے گالس پکڑا کر پھر میرے‬
‫سامنے کرسی پر بیٹھ گئی ۔‬
‫میں نے چسکیاں لیتے ھوے ڈرنک ختم‬
‫کیا اور گالس کاونٹر پر رکھ دیا اس‬
‫دوران بس نارمل باتیں ہوتی رہیں ۔‬
‫پھر آنٹی بولی ۔‬
‫یاسر کیسا لگا میرا بوتیک ۔‬
‫میں نے شرارت بھرے انداز سے کہا‬
‫آپ کی طرح آپ کا بوتیک بھی‬
‫خوبصورت ھے ۔‬
‫اپنے حسن کی تعریف سنتے ھی آنٹی‬
‫کی آنکھوں میں چمک اور گالوں پر‬
‫اللی آئی ۔‬
‫آنٹی بولی اچھا جی مجھے تو آج پتہ‬
‫چال کہ میں بھی خوبصورت ہوں ۔‬
‫میں نے کہا اس میں کون سا شک ھے‬
‫آپ واقعی ای بہت خوبصورت ہیں ۔‬
‫آپ کو دیکھ کر تو یہ بھی نہیں لگتا کہ‬
‫آپ شادی شدہ ھو ۔‬
‫آنٹی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی اب‬
‫ایسی بھی بات نہیں اتنے بھی مجھے‬
‫مسکے نہ لگاو ۔‬
‫میں نے کہا نہیں آنٹی یہ مسکے نہیں‬
‫بلکہ حقیقت ھے ۔۔‬
‫آنٹی بولی اچھااااا جی میں نے بھی اسی‬
‫انداز میں کہا ھاااااں جی ۔‬
‫آنٹی کچھ سوچنے لگ گئی اور پھر‬
‫ایکدم اٹھی تو اس کے ممے ایسے‬
‫اچھلے جیسے ابھی گال پھاڑ کر باہر‬
‫نکل آئیں گے ۔‬
‫آنٹی بولی یاسر کل میں نے کچھ نیو‬
‫ورائٹی منگوائی ھے ۔‬
‫زرا دیکھنا کیسی ھے میں بھی اثبات‬
‫میں سر ہالتے ھوے اٹھ کر کھڑا ھوگیا‬
‫میں جیسے ھی کھڑا ھوا تو میرا لن‬
‫مجھ سے پہلے کھڑا ہوگیا اور ٹراوزر‬
‫کو آگے سے اٹھا کر اچھا بھال ابھار بنا‬
‫دیا۔‬
‫میں نے انڈرویئر نہیں پہنا ھوا تھا اس‬
‫لیے کچھ ذیادہھی ابھار بن گیا بلکہ‬
‫میرے پھولے ھوے ٹوپے کا ڈیزائن‬
‫ٹراوزر میں صاف نظر ارھا تھا ۔‬
‫آنٹی کی جب نظر میرے ابھرے ھوے‬
‫ٹراوزر پر پڑی تو آنٹی نظر ہٹانا بھولی‬
‫گئی اسکی آنکھوں میں چمک آئی اور‬
‫تھوک نگھلتے ھوے ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیر کر خشکی کو ختم کرنے کی‬
‫کوشش کرنے لگ گئی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو یوں محو لن دیکھا تو‬
‫میں نے کھنگارا بھرا اور بولی کدھر‬
‫ہے ورائٹی ۔‬
‫تو آنٹی ایکدم چونکی ۔‬
‫اور جھینپتے ھوے بولی وہ وہہہ آو‬
‫دیکھاتی ہوں ۔۔اور ساتھ ھی آنٹی مجھ‬
‫سے آگے اگے چل پڑی اور میں اسکی‬
‫موٹی گانڈ کے ہلنے کا نظارہ کرتا ھوا‬
‫اسکے پیچھے چل دیا بوتیک کافی بڑا‬
‫تھا اور آنٹی نے سیٹنگ کچھ ایسی کی‬
‫ہوئی تھی کہ ایک طرف ٹرائی روم اور‬
‫دوسری طرف ایک چھوٹا سا کچن نما‬
‫کیبن اور ایک طرف سٹور بنایا ھوا تھا‬
‫جہاں اضافی مال رکھا جاتا تھا باقی‬
‫سارے حال میں لیڈیز سٹیچو رکھ کر‬
‫انپر مختلف ڈزائننگ کا ڈسپلے کیا ھوا‬
‫تھا ۔‬
‫آنٹی چلتے چلتے پھر رکی اور گھوم کر‬
‫بڑی نشیلی نظروں سے مجھے دیکھا‬
‫اور بولی یاسر تم وہ سامنے سٹور میں‬
‫چلو میں ایک کال کر کے آئی ۔‬
‫میں اثبات میں سر ہالتے ھوے سٹور‬
‫روم کی طرف چل دیا آنٹی کاونٹر کے‬
‫پاس گئی اور پی ٹی سی ایل سے‬
‫رسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫میں ایک نظر آنٹی کو دیکھ کر روم میں‬
‫داخل ھوا تو اندر کافی بڑے بڑے شاپر‬
‫پڑے ھوے تھے جو ایک طرف دیوار‬
‫کے ساتھ اوپر نیچے رکھ کر جوڑے‬
‫ھوے تھے اور ایک طرف نیچے قالین‬
‫بچھا ھوا تھا جہاں بیٹھ کر شاید پیکنگ‬
‫وغیرہ یا پھر مال نکال کر چیک کیا‬
‫جاتا تھا ۔۔‬
‫خیر میں ابھی سٹور کا جائزہ ھی لے‬
‫رھا تھا کہ‬
‫کچھ ھی دیر میں آنٹی واپس سٹور روم‬
‫میں آگئی ۔‬

‫اور آتے ھی بولی سوری وہ کسی کو‬


‫ضروری کال کرنی تھی ۔‬
‫میں نے ہمممم کیا ۔‬
‫تو آنٹی نے ایک بڑے سے شاپر کو‬
‫کھوال اور اس میں سے کچھ سوٹ نکال‬
‫کر کھول کھول مجھے دیکھانے لگ‬
‫گئی اور میں آنٹی کی پسند اور‬
‫پرچیزنگ مینیجمنٹ کی تعریفیں کرنے‬
‫لگا گیا آنٹی ہر سوٹ کو اپنے ساتھ لگا‬
‫لگا کر دیکھاتی اور میں تعریفوں کے‬
‫پل باندھتا کہ یہ سوٹ آپ پر بہت جچ‬
‫رھا ھے آنٹی نے ایک سوٹ نکاال اور‬
‫اپنے ساتھ گا کر بولی یار یہ کیسا لگ‬
‫رھا ھے میں نے کہا واووووو آنٹی جی‬
‫زبردست یہ آپ پہن لو تو جوان لڑکیاں‬
‫آپ سے جیلس ہونے لگ جائیں سوٹ‬
‫تھا بھی کمال کا ہلکے پیچ کلر کا سلیو‬
‫لیس شرٹ اور بلکل شارٹ اور نیچے‬
‫باریک کپڑے کا ٹراوزر جس پر امبرائڈ‬
‫کی تھی ۔‬
‫آنٹی بولی پہن کر دیکھاوں ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی کیوں مجھے‬
‫بےہوش کرنا ھے ۔‬
‫آنٹی مذید پھول گئی اور بولی میں ابھی‬
‫پہن کر دیکھاتی ہوں اور سوٹ پکڑ کر‬
‫سٹور روم سے باہر نکلی اور میں بھی‬
‫اسکے پیچھے ھی باہر نکل آیا ۔‬
‫آنٹی ٹرائی روم میں داخل ہوئی اور‬
‫دروازہ کھال ھی چھوڑ دیا‬
‫میرا دماغ اور لن ایک ساتھ فل گرم ھو‬
‫چکے تھے ۔‬
‫میرا تو بس نہیں چل رھا تھا کہ آنٹی‬
‫کے پیچھے جی ٹرائی روم میں داخل‬
‫ھوجاوں اور آنٹی کے سارے کپڑے‬
‫پھاڑ کر آنٹی کا ریپ کردوں ۔۔‬
‫میں باہر کھڑا ھی امیجینشن کرنے لگ‬
‫گیا کہ اب آنٹی نے شرٹ اتاری ھوگی‬
‫تو ایسا جسم ھوگا اب ٹائٹس اتارا ھوگا‬
‫تو آنٹی کی ٹائٹ گانڈ کیسے باہر کو‬
‫نکلی ھوگی اس کے ممے بریزیر میں‬
‫کیسا نظارا پیش کررھے ہوں گے ۔‬
‫میں ابھی ان ھی خیالوں میں گم تھا کہ‬
‫آنٹی نے دروازے سے سر نکاال اور‬
‫مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آنا ایک‬
‫منٹ ۔‬
‫میں نے چونک کر ٹرائی روم کی‬
‫طرف دیکھا اور میرے قدم خود باخود‬
‫دروازے کی جانب اٹھنا شروع ھوگئے ۔‬
‫میں جیسے ھی ٹرائی روم میں داخل ہوا‬
‫تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے‬
‫کا نیچے اٹک گیا۔‬
‫آنٹی نے سوٹ پہنا ھوا تھا اور کمال کی‬
‫سیکسی لگ رھی تھی ۔‬
‫مجھے یوں منہ کھولے کھڑا دیکھ کر‬
‫آنٹی نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ‬
‫ہالتے ھوے بولی ہیلو مائی ڈیئر کدھر‬
‫گم ہو ۔۔‬
‫میں نے چونک کر آنٹی کی طرف‬
‫دیکھا اور انگلی سے گول دائرہ بنا کر‬
‫بوال آنٹی جی کمال لگ رہی ہیں سوپر‬
‫سے بھی اوپر ذبردست ۔‬
‫آنٹی نے نشیلی آنکھوں سے میری‬
‫طرف دیکھا اور گھوم کر پیٹھ میری‬
‫طرف کرتے ھوے بولی یہ پیچھے سے‬
‫زپ تو بند کردو میں کھلی زپ کے‬
‫اندر کا نظارہ دیکھ کر ھی مذید گرم‬
‫ہوگیا آنٹی کی چٹی سفید گالبی رنگ کی‬
‫مانند اففففففف اس پر کالے بریزیر کا‬
‫سٹریپ ھاےےےےےےےے کیا ھی‬
‫سیکسی سین تھا اس وقت کا وہ نظارا‬
‫اور میری کیفیت کا حال کیا لکھوں‬
‫یاروووووو۔۔‬
‫میری تو بس ہوگئی ۔۔۔۔‬
‫برداشت کی۔‬
‫میں نے کانپتے ھاتھ زپ کی طرف‬
‫بڑھاے اور زپ کی ہک کو پکڑ کر‬
‫تھوڑا سا اوپر ھی کیا تھا کہ میری‬
‫انگلی آنٹی کی گوری چٹی نرم مالئم‬
‫کمر کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔بس پھر کیا تھا‬
‫میرے لن نے ایک ذبردست جھٹکا مار‬
‫کر مجھے ہوشیار کیا اور ساتھ ھی زپ‬
‫کی ہک اوپر جانے کی بجاے نیچے‬
‫چلی گئی اور میرے دونوں ھاتھ کھلی‬
‫زپ کے اندر سے ہوتے ھوے آنٹی کے‬
‫بڑے بڑے مموں پر چلے گئے اور میرا‬
‫لن انٹی کی گانڈ کی دراڑ میں چال گیا‬
‫اور میرے ھاتھوں کی مٹھیوں نے آنٹی‬
‫کے فٹ بال جتنے مموں کو اپنی گرفت‬
‫میں لے کر بھینچ دیا اور آنٹی کے منہ‬
‫سے بس یہ ھی نکال‬
‫ھاےےےےےےے میں مرگئی‬
‫یاسرررررر یہ کیا کر رھے ھو ۔۔۔‬
‫اففففففدفف دوستو‬
‫آنٹی کی چٹی نرم کمر کے ساتھ جیسے‬
‫ھی میری انگلی ٹچ ھوئی میرے اندر‬
‫شہوت کو مذید چنگاری ملی میں نے‬
‫بے اختیار زپ کی ہک کو اوپر لیجانے‬
‫کی بجاے نیچے کھینچ دیا اور بڑی‬
‫پھرتی اور بے صبری سے آنٹی کی‬
‫کھلی زپ میں دونوں ہاتھ ڈال کر اسکی‬
‫بغلوں سے گزارتا ھوا آگے لے گیا اور‬
‫آنٹی کے سڈول مموں کو مٹھیوں میں‬
‫بھینچ کر پیچھے سے اپنا لن آنٹی کی‬
‫موٹی اور سڈول باہر کو ابھری ھوئی‬
‫گانڈ کے ساتھ لگا کر لن کے ٹوپے کو‬
‫گانڈ کی دراڑ میں گھسیڑ کر پیچھے‬
‫سے آنٹی کے ساتھ چمٹ گیا اور اپنی‬
‫ٹھوڑی آنٹی کے کندھے پر رکھ کر‬
‫آنٹی کی گال کو چومنے لگ گیا۔‬
‫میری اس افراتفری میں گئی حرکت‬
‫سے آنٹی نے گبھرا کر شرٹ کے اوپر‬
‫سے ھی میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا‬
‫میرے ہاتھ شرٹ کے اندر بریزیر کے‬
‫اوپر مموں کو پکڑے ھوے تھے اور‬
‫آنٹی نے شرٹ کے اوپر سے میرے‬
‫ہاتھوں کو پکڑ کر بھینچ لیا اور گبھرائی‬
‫ہوئی آواز میں ھاےےےےےے میں‬
‫مرگئی یاسررررر یہ کیا کیا ۔‬
‫اور آگے کو جھک گئی جس سے آنٹی‬
‫کی گانڈ پیچھے سے باہر کو نکل گئی ۔۔‬
‫میں آنٹی کی گھبراہٹ کو نظر انداز‬
‫کرتےھوے ۔‬
‫پاگلوں اور ازل سے ترسے ہوے کی‬
‫طرح آنٹی کی گال اور گردن کو‬
‫چومتے ھوے اسکے مموں کو بریزیر‬
‫سے اوپر ھی دباتے ھوے پیچھے سے‬
‫لن کو آنٹی کی سیکسی اور موٹی گانڈ‬
‫کے ساتھ چپکاے آنٹی کو والہانہ انداز‬
‫سے چمٹا ھوا چوم رھا تھا ۔‬
‫آنٹی بولی یاسررر کیا بتمیزی ھے ۔‬
‫شرم کرو چھوڑو مجھے ۔‬
‫مگر میں خاموشی سے بنا کچھ بولے‬
‫اپنا کام کرتا رھا۔‬
‫آنٹی اپنے مموں سے میرے میرے ہاتھ‬
‫ہٹانے کی بس ہلکی پھلکی کوشش‬
‫کررھی تھی اور ساتھ ساتھ نہیں یاسر نہ‬
‫کرو یاسر پلیززززز چھوڑ دو‬
‫میں تمہاری آنٹی ہوں شرم کرو نہ کرو‬
‫بس کرو کوئی آجاے گا میں بدنام‬
‫ھوجاوں گی ۔‬
‫میں ایسی نہیں ھوں وغیرہ وغیرہ ۔‬
‫کہی جارہی تھی جبکہ میرا کام جاری‬
‫تھا ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی کی مزحمت اور زبان‬
‫بند ھوئی تو میں نے اپنے بازوں کو‬
‫تھوڑا کھوال اور بریزیر کے کپوں کو‬
‫مموں سے اوپر کر کے مموں کو‬
‫بریزیر سے آزاد کر کے ننگے مست‬
‫سڈول مموں کو مٹھی میں بھرا تو‬
‫چررررررررر کی آواز کے ساتھ آنٹی‬
‫کی پیچھے سے زپ والی جگہ سے‬
‫شرٹ پھٹ گئی اور میرے ہاتھ جو پہلے‬
‫شرٹ میں پھنسے ھوے تھے اب انکو‬
‫اپنا کام کرنے کے لیے کافی آسانی مہیا‬
‫ہوگئی ۔‬
‫آنٹی نے جب شرٹ پھٹنے کی آواز سنی‬
‫اور ادھر سے اپنے ننگے مموں پر‬
‫میرے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا تو‬
‫آنٹی نے ڈبل مائنڈڈ ہوکر ہاےےےےے‬
‫میری شرٹ کے ساتھ ھی سیییییییی‬
‫کرتے ھوے سسکاری بھر دی ۔‬
‫ایک طرف شرٹ پھٹنے کا دکھ تو‬
‫دوسری طرف ممے دبوانے کا مزہ‬
‫آخر مزہ دکھ پر بھاری ثابت ھوا‬
‫مزے نے آنٹی کو شرٹ کا دکھ بھالدیا‬
‫اور آنٹی شرٹ کو بھول کر ممے‬
‫دبوانے کا انجواے کرتے ھوے‬
‫سسکاریاں بھرنے لگ گئی اور ساتھ‬
‫ساتھ شرٹ کے اوپر سے میرے ہاتھوں‬
‫کو پکڑ کر دبانے لگ گئی ۔۔‬
‫لوھا گرم ھوچکا تھا آگ دونوں طرف‬
‫بھڑک چکی تھی ۔‬
‫بس اگال قدم بڑھانا تھا ۔‬
‫کچھ دیر میں اسی حالت میں ممے‬
‫دباتے ھوے پیچھے سے لن کو گانڈ کی‬
‫دراڑ میں مسلتا رھا اور آنٹی مستی‬
‫بھری سسکاریاں نکالتی رہیں ۔۔‬
‫پھر آنٹی مدہوشی میں بولی یاسررر‬
‫شرٹ میں میرا سانس بند ھورھا ھے ۔‬
‫میں نے یہ سنتے ھی بازو پیچھے کو‬
‫کھینچے اور ہاتھ شرٹ سے نکال لیے‬
‫۔۔‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی کو گھما کر اسکا منہ‬
‫اپنی طرف کیا اور آگے سے آنٹی کو‬
‫جپھی ڈال لی اور پھر ہونٹوں میں ہونٹ‬
‫اور زبانوں کی آپس میں جنگ شروع‬
‫ھوگئی نیچے سے لن پھدی کے ساتھ‬
‫صالح مشورہ کرنے میں مصروف تھا‬
‫پیچھے سے میرے ھاتھ آنٹی کی گانڈ‬
‫کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑے مسل‬
‫رھے تھے اور آنٹی اپنا تجربے کو‬
‫مدنظر رکھتے ہوے سارے حربے‬
‫استعمال کررھی تھی آنٹی تو فرنچ‬
‫کسنگ میں عمران ہاشمی کی بھی استاد‬
‫ثابت ہوئی اس اس انداز سے وہ کبھی‬
‫میرے ہونٹوں کو چوستی اور کبھی‬
‫میری زبان کو اپنے منہ کے اندر کھینچ‬
‫کر چوستی میں تو حیران رھ گیا‬

‫سالی واقعی ھی پوری منی تنی استاد‬


‫ھے ۔۔‬
‫آنٹی مجھے کسنگ کےدوران کب ٹرائی‬
‫روم سے باہر لے آئی اور کب میں الٹے‬
‫قدموں سے چلتا ھوا باہر آیا مجھے تب‬
‫پتہ چال جب میری ٹانگوں کےساتھ‬
‫صوفہ ٹکرایا اور میں پیچھے صوفے‬
‫پر گرا آنٹی نے صوفے کے پاس ال کر‬
‫میرے سینے پر دونوں ھاتھ رکھ کر‬
‫مجھے پیچھے دھکا دیا تو میں صوفے‬
‫پر گرتا گیا۔۔‬
‫آنٹی نشیلی آنکھوں سے میری طرف‬
‫دیکھتی ھوئی آگے بڑھی اور میری‬
‫رانوں پر دونوں اطراف اپنی ٹانگیں‬
‫رکھ کر بیٹھ گئی ۔‬
‫اور میری گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر‬
‫میرے اوپر ایسے جھک گئی جیسے‬
‫ڈریکوال خون چوستا ھے آنے کے‬
‫شارٹ کٹ ریشمی بالوں نے میرے‬
‫چہرے کو دونوں اطراف سے ڈھانپ لیا‬
‫اور آنٹی میرے کانوں کے نیچے میری‬
‫گردن کے دونوں اطراف ھاتھ رکھ کر‬
‫میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر میرے‬
‫ہونٹوں کو بےدری سے چوسنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫اور ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو میرے لن‬
‫کے اوپر رکھ کر پھدی سے لن کو‬
‫رگڑنے لگ گئی آنٹی کے مموں کی‬
‫نوک میرے سینے کے ساتھ ٹچ ھونے‬
‫لگ گئیں ۔‬
‫میں ساال اسکی عزت لوٹنے کا سوچ‬
‫رھا تھا اور وہ رنڈی میری ھی عزت‬
‫لوٹنے کے درپے تھی ۔‬
‫اور میں معصوم بنا بیٹھا بس آنٹی کی‬
‫کمر کو سہال رھا تھا۔۔۔‬
‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا پھر آنٹی‬
‫کو میرے ہونٹوں پر ترس آیا اور آنٹی‬
‫میرے اوپر سے سیدھی ہوئی اور میری‬
‫رانوں پر وزن ڈال کر بیٹھتے ھوے‬
‫اپنے بالوں میں انگلیاں پھیر کر انکو‬
‫درست کیا اور تھوڑا سا اوپر ھوئی اور‬
‫اپنی شرٹ کو پکڑا کر اتار دیا‬
‫افففففففففففففففف‬
‫کیا نظارا تھا چٹے سفید دودھ کے پیالے‬
‫ھاےےےےےےےے مممممممم‬
‫کیا ھی پلے ھوے ممے تھے اس سے‬
‫پہلے کے آنٹی شرٹ کو بازوں سے‬
‫نکالتی میں بےصبروں کی طرح آنٹی‬
‫کے مموں پر ٹوٹ پڑا اور دونوں‬
‫مٹھیوں میں مموں کو دبوچ کر منہ‬
‫مموں کی طرف بڑھایا اس سے پہلے‬
‫کے میرا منہ مموں کے پاس جاتا آنٹی‬
‫نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی‬
‫اور پھر مجھ پر جھک کر اپنے دونوں‬
‫بات میرے سر کے دونوں اطراف‬
‫صوف پر رکھ دیے جس سے آنٹی کے‬
‫بڑے بڑے ممے میرے منہ کے پاس‬
‫خود ھی آگئے اور مموں نے میرے منہ‬
‫کو آپنی آغوش میں لے لیا‬
‫مموں کے درمیان میرا منہ تھا اور‬
‫مموں نے میرے منہ پر چھاوں کی‬
‫ہوئی تھی میں نے دونوں مموں کو‬
‫مٹھیوں میں بھرا اور باری باری انکو‬
‫چوسنے لگ گیا آنٹی منہ چھت کی‬
‫طرف کئے سسکاریاں بھر رھی تھی ۔‬
‫اور مموں کو میرے منہ پر دبا رھی‬
‫تھی آنٹی کے ممے بہت ھی نرم تھے‬
‫اور ان پر براون دائرے اور ان پر لگے‬
‫دو انگور الگ ھی نظارا پیش کررھے‬
‫تھے ۔‬
‫میں ان موٹے اور تنے ھوے انگوروں‬
‫کو منہ میں لے کر جتنی ذور سے‬
‫چوستا آنٹی کے اندر اتنا ھی جوش‬
‫بڑھتا ۔۔۔‬
‫کافی دیر تک میں مموں کو چوستا رھا‬
‫آنٹی ایک دفعہ مستی میں فارغ ھوتے‬
‫ھوے مجھے دبوچ کر اپنی پھدی سے‬
‫منی کا سیالب نکال چکی تھی ۔‬
‫کچھ دیر بعد آنٹی میرے اوپر سے اٹھی‬
‫اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور‬
‫میرے ٹروازر کی ڈوری کے سرے کو‬
‫پکڑ کر کھینچ دیا اور مجھے اوپر‬
‫ہونے کا اشارہ کیا ۔‬
‫میں نے گانڈ اوپر اٹھائی تو آنٹی نے‬
‫میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کیا اور‬
‫میرے پیروں میں کر دیا میرا لن آزاد‬
‫ھوتے ھی ہوا میں لہرایا آنٹی نے جب‬
‫میرے موٹے ٹوپے اور تگڑے لن کو‬
‫دیکھا تو آنٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی‬
‫رھ گئی جیسے زندگی میں پہلی بار اتنا‬
‫تگڑا لن دیکھ رھی ہو ۔‬
‫آنٹی کتنی دیر میرے لن کو مٹھی میں‬
‫بھر کر دیکھتی اور کبھی میری طرف‬
‫اپنی پلکوں کو اٹھا کر دیکھتی رھی ۔‬
‫میں نے خاموشی توڑی اور بوال آنٹی‬
‫جی کیسا لگا ۔۔ آنٹی بڑی ستائش نظروں‬
‫سے میری طرف دیکھ کر بولی‬
‫واووووو امیزنگ یاسررر کیا ہتھیار‬
‫ھے تمہارا اففففففف میں تو سپنے میں‬
‫بھی اتنے بڑے لن کا کبھی سوچا نہیں‬
‫تھا ۔‬
‫میں نے کہا تو پھر اپنے اس سپنوں کے‬
‫راج کمار کو پیار ھی کرلو آنٹی بولی‬
‫کیوں نہیں اور یہ کہتے ھی آنٹی نے‬
‫اپنی زبان منہ سے نکالی اور پیروں‬
‫کے بل میرے قدموں میں بیٹھی میرے‬
‫لن کے ٹوپے کے ہونٹوں پر زبان کی‬
‫نوک پھیرنے لگ گئی اور پھر زبان کو‬
‫ٹوپے کے چاروں اطراف پھیرتے ھوے‬
‫ہوے پلکوں کو اٹھا کر میری طرف بھی‬
‫دیکھتی جیسے آنکھوں کے اشارے سے‬
‫پوچھ رھی ھو مزہ آرھا ھے ۔۔۔‬
‫مزہہہہہ تو کیا میری ٹانگوں سے سارا‬
‫خون میرے لن کی طرف دوڑ پڑا تھا ۔‬
‫آنٹی بڑی مہارت سے میرے لن پر زبان‬
‫پھیر رھی تھی ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ‬
‫کر کبھی اسطرف کرتے ھوے ٹوپے‬
‫سے جڑ تک زبان پھیرتی تو کبھی لن‬
‫کو دوسری طرف کر کے ٹوپے سے‬
‫زبان پھیرتے ھوے زبان کو ٹٹوں تک‬
‫لے جاتی ۔‬
‫تو کبھی جتنا لن منہ میں لے سکتی اتنا‬
‫لے کر چوستی میں آنکھیں بند کیے‬
‫مزے سے سر کبھی صوفے کی بیک‬
‫کے ساتھ مارتا تو کبھی دائیں بائیں‬
‫مارتے ھوے سسکاریاں بھرتا آنٹی بڑی‬
‫مہارت سے میرے لن کا چوپا لگا رھی‬
‫تھی میرا آدھا لن آنٹی اپنے حلق تک‬
‫لیجا کر اسے منہ میں رکھ کر جب‬
‫چوستی تو مجھے ایسے لگتا جیسے‬
‫میں ابھی فارغ ہونے لگا ہوں زندگی‬
‫میں پہلی باری ایسا ایکسپرٹ چوپا‬
‫لگانے والی آنٹی ملی تھی ۔‬
‫آنٹی کوئی پندرہ بیس منٹ مسلسل لن کو‬
‫ہر زاویعے سے چومتی چاٹتی رھی ۔۔۔‬
‫میں تو بلکل چھوٹنے واال ہوگیا تھا آنٹی‬
‫نے اس بار پھر لن کو منہ میں ڈاال اور‬
‫ہلک تک کھینچ کر لے گئی بس مجھ‬
‫سے برداشت نہ ھوا میں آگے کو جھکا‬
‫اور آنٹی کے سر کو ذور سے پکڑا اور‬
‫لن پر دبا دیا اور ساتھ ھی میرے لن‬
‫سے منی کے فوارے چھوٹتے ھوے‬
‫آنٹی کے گلے میں اترنے لگے جب لن‬
‫نے پہلی پچکاری چھوڑی تو آنٹی نے‬
‫سر کو اوپر جھٹکا دیا کہ لن منہ سے‬
‫باہر آجاے مگر مرد کے اندر جتنا‬
‫جوش اور جتنی طاقت چھوٹتے وقت‬
‫آتی ھے اتنی طاقت عام حالت میں نہیں‬
‫آتی ۔‬
‫آنٹی کے سر کو دبا کر آنٹی کے‬
‫جھٹکے کو وہیں دبا دیا اور ساری منی‬
‫آنٹی کے منہ میں نکالی اور جیسے ھی‬
‫میں نے آنٹی کا سر چھوڑا آنٹی نے‬
‫جھٹکے سے لن منہ سے نکاال اور‬
‫کھانستی ھوئی کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔‬
‫میں ادھر ھی بیٹھا لن کو آنٹی کی شرٹ‬
‫کے ساتھ صاف کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫چار پانچ منٹ کے بعد آنٹی منہ پر‬
‫دونوں ہاتھ رکھے باہر نکلی اور بولی‬
‫بتمیز بتا تو دیتے کہ فارغ ھونے لگے‬
‫ھو اپنا سارا مال میرے منہ کے اندر‬
‫ھی نکال دیا میں ایسے ھی نیم مرجھاے‬
‫ھوے لن کے ساتھ اٹھا اور ٹراوز کو‬
‫پاوں سے نکال کر ننگا ھی آنٹی کی‬
‫طرف بڑھا اور انکو سینے کے ساتھ‬
‫لگا کر سوری کرنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر مسکے لگانے کہ بعد آنٹی کا‬
‫موڈ سہی ھوا تو میں ایسے ھی آنٹی کو‬
‫لے کر صوفے کے پاس آیا اور اسکو‬
‫صوفے پر گرا کر اسکے اوپر جھک‬
‫گیا اور مموں کو چوسنے لگ گیا کچھ‬
‫ھی دیر میں میرا لن پھر ٹائٹ ھوگیا‬
‫آنٹی کی اور میری ٹانگیں صوفے سے‬
‫نیچے تھیں ۔۔‬
‫میرا لن جب اپنے جوبن میں آیا تو میں‬
‫کھڑا ھوا اور آنٹی کے ٹائٹس کو پکڑ‬
‫کر کھینچنے لگا تو آنٹی نے نخرے کی‬
‫فارمیلٹی پوری کرتے ھوے نہیں نہیں‬
‫کرتے ھوے اپنے ٹائٹس کو پکڑ لیا‬
‫مگر میں نے آنٹی کے ہاتھوں کو‬
‫جھٹک کر ٹائٹس کھینچ کر اسکے‬
‫پیروں سے نکال پھینکا اور آنٹی کی‬
‫ٹانگوں کو اٹھا کر اسکو صوفے پر‬
‫سیدھا لیٹایا اور خود بھی دوزانوں ہو‬
‫کر آنٹی کی چکنی پھدی کے سامنے لن‬
‫ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گیا آنٹی کی پھدی‬
‫پانی سے گیلی ہوچکی تھی اور بلکل‬
‫مالئم بالوں سے پاک موٹی پھدی کو‬
‫دیکھ کر میرا لن مذید جھٹکے کھانے‬
‫لگ گیا۔۔‬

‫میں نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور آنٹی‬


‫کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر ٹانگوں‬
‫کو ہوا میں کیا اور اپنے کندھوں پر رکھ‬
‫لیا اور آنٹی کی ٹانگوں کو فولڈ کرتے‬
‫ھوے اسکے کندھوں تک لے گیا۔۔۔‬
‫اور ایک ہاتھ سے لن کو پکڑ کر پھدی‬
‫کے موٹے اور گیلے لبوں میں پھیر کر‬
‫لن کو پھدی کے پانی سے گیال کیا اور‬
‫ٹوپے کو پھدی کے لبوں میں سیٹ‬
‫کرکے ایک جاندار گھسا مارا تو پہلے‬
‫ھی گھسے میں لن آدھے سے ذیادہ‬
‫پھدی میں اتر گیا جیسے ھی لن پھدی‬
‫کے اندر گیا آنٹی نے دونوں ہاتھوں‬
‫سے میری رانوں کو دبوچ کر‬
‫ھاےےےےےےے مرگئی‬
‫آہہہہہہہہہہہہہی‬
‫یاسررررررر کے‬
‫بچےےےےےےےےے آرام نال کر‬
‫سارا ایییییی اندر کردتا اییییی‬
‫میں نے لن کو تھوڑا سا پیچھے کھینچا‬
‫اور یہ کہتے ھوے پھر ذوردار جھٹکے‬
‫سے سارا لن جڑ تک اندر کردیا کہ آنٹی‬
‫جی ابھی تو آدھا گیا ھے آدھا باقی ھے‬
‫۔ جیسے ھی لن کا ٹوپا آنٹی کی بچے‬
‫دانی میں گھسا تو‬
‫درد سے آنٹی کا رنگ سرخ ھوگیا اور‬
‫آنٹی ھاےےےےےےے کرتی ھوئی‬
‫سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔میں‬
‫بغیر رکے گھسے مارنے لگ گیا آنٹی‬
‫کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی پتہ‬
‫نہیں کونسا نسخہ استعمال کرتی تھی‬
‫سالی ۔‬
‫آنٹی میرے ہر گھسے سے‬
‫ھاےےےےےے ہولی کر‬
‫ہاےےےےےے ہولیییییی‬
‫کر رھی تھی میں مسلسل گھسے ماری‬
‫جارھا تھا آنٹی کے ممے آنٹی کے‬
‫سینے پر رقص کررھے تھے دس پندرہ‬
‫منٹ میں اسی سٹائل میں انٹی کو چودتا‬
‫رھا آنٹی فل مزے میں سسکاریاں بھر‬
‫رھی تھی آنٹی نے میری رانوں کو‬
‫چھوڑ کر اب میری کمر کے گرد بازو‬
‫ڈال لیے تھے میرا ہر گھسا آنٹی کی‬
‫بچے دانی تک زرب لگا رھا تھا آنٹی‬
‫مزے لے لے کر چدوا رھی تھی اور‬
‫ساتھ ساتھ یس یس یس فاسٹ فاسٹ کری‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی درد میں پنجابی اور مزے میں‬
‫انگلش بولی جارھی تھی ۔‬
‫آنٹی کی سیکسی آوازیں اور ڈانس‬
‫کرتے ممے میرا جوش بڑھائی جارھے‬
‫تھے ۔‬
‫کچھ دیر مزید چودنے کے بعد آنٹی کی‬
‫آہیں سسکیاں اور کم ان کم ان ایم کم ان‬
‫کی آوازوں کے ساتھ آنٹی نے پھدی کو‬
‫اوپر کر کے لن کو پورا ہضم کیا اور‬
‫جھٹکے کھاتے ھوے فارغ ھوگئی میں‬
‫نے کچھ دیر آنٹی کے جسم کے‬
‫جھٹکوں کو رک کر انجواے کیا ۔‬
‫آنٹی کی پھدی نے جب میرے لن کو‬
‫بھینچنا کم کیا اور آنٹی لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گئی‬
‫میں نے لن باہر نکاال تو میرا لن آنٹی‬
‫کی منی سے لتھڑا ھوا تھا ۔‬
‫میں نے نیچے ہاتھ کر کے آنٹی کا‬
‫ٹائٹس پکڑا اور لن کو صاف کرنے لگ‬
‫گیا ۔‬
‫آنٹی آنکھیں بند کیے لیٹی ھوئی تھی ۔۔۔‬
‫میں صوفے سے نیچے اترا اور آنٹی کا‬
‫بازو پکڑ کر آنٹی کو کھینچا تو آنٹی‬
‫سوالیاں نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے اٹھی ۔‬
‫میں نے آنٹی کو کھڑا کیا اور صوفے‬
‫کے کنارے کے پاس لیجا کر آنٹی کا‬
‫منہ دوسری طرف کر کے آنٹی کو‬
‫جھکنے کا کہا آنٹی بغیر کچھ کہے گانڈ‬
‫میری طرف کر کے ضوفے کے اوپر‬
‫ہاتھ رکھ کر گھوڑی سٹائل میں جھک‬
‫گئی آنٹی کی گانٹ میرے سامنے تھی‬
‫میں تھوڑا سا نیچے کو ہوا اور گانڈ کے‬
‫دراڑ کو کھول کر آنٹی کی موری‬
‫دیکھنے لگ گیا اورانگلی آنٹی کی گانڈ‬
‫کی موری کے اوپر رکھ کر موری کو‬
‫مسلنے لگ گیا آنٹی جھٹکے سے‬
‫سیدھی ھوئی تو میرا انگلی آنٹی‬
‫پھاڑیوں میں پھنس گی آنٹی نے بھی‬
‫پورے ذور سے گانڈ کو بھینچ کر انگلی‬
‫کو سزا دی ۔۔‬
‫آنٹی سیدھی ھوتے ھی میری طرف‬
‫دیکھ کر بولی یہ کیا کر رھے ھو ۔‬
‫میں نے کہا کچھ بھی نہیں ۔‬
‫اور آنٹی کو پھر اسی پوزیشن پر کرنے‬
‫کے لیے آنٹی کی کمر کو دبایا تو آنٹی‬
‫جھکتے ھوے بولی یاسر پیچھے سے‬
‫نہ کرنا۔۔‬
‫تمہارا اتنا بڑا مجھ سے برداشت نہیں‬
‫ہونا میں نے کہا نہیں کرتا الٹی تو‬
‫ھوجاو ۔‬
‫گھوڑی بن کر گانڈ کو مٹکاتے‬ ‫آنٹی پھر ّ‬
‫ھوے میرے لن کے سامنے سیٹ کرنے‬
‫لگ گءی ۔‬
‫میں نے ٹانگوں کو تھوڑا سا خم کیا اور‬
‫لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں‬
‫اڈجسٹ کرکے آنٹی کی کمر کو پکڑ کر‬
‫گیلی پھدی میں لن اتار دیا‬
‫آنٹی نے سر اوپر اٹھا کر‬
‫ھاےےےےےےےے کیا اور ساتھ ھی‬
‫سییییییییی کی آواز نکال کر ایک ہاتھ‬
‫پیچھے میری ران پر رکھ کر بولی آرام‬
‫سے نہیں کیا جاتا‪ ،‬۔‬
‫ایک ھی بار میں جان نکال دیتے ھو ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ھوے آنٹی کو تسلی دی اور پھر کمر کو‬
‫پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگ‬
‫گیا آنٹی آہہہہہہہ افففففف مممممم‪ .‬کی‬
‫آوازیں نکال رھی تھی اور میری جاندار‬
‫گھسوں کی وجہ سے آنٹی کے ممے‬
‫اسکے منہ کی طرف اچھل اچھل کر‬
‫جارھے تھے پیچھے سے آنٹی کی گانڈ‬
‫میرے گھسے سے چھلک چھلک‬
‫جارھی تھی ۔‬
‫مزے کی انتہا تک مجھے سرور آرھا‬
‫تھا آنٹی کی سسکیاں آہیں اور تھپ تھپ‬
‫کی آوازیں میرے مزے کو دوباال‬
‫کررھیں تھی ۔۔‬
‫میں مسلسل ایک ردھم میں آنٹی کو‬
‫چودے جار رھا تھا دس منٹ مذید‬
‫چودنے کے بعد آنٹی کی پھدی نے پھر‬
‫منی نکال دی اور آنٹی گانڈ پیچھے کو‬
‫نکالے صوفے کے بازوں کے اوپر ھی‬
‫ممے رکھ کر ڈھیر ھوگئی میں نے لن‬
‫باہر نکاال تو میرا لن پھر منی اور پانی‬
‫سے لتھڑا ھوا تھا آنٹی کے جھکنے کی‬
‫وجہ سے آنٹی کی گانڈکا سوراخ بلکل‬
‫میرے سامنے تھا اور سوراخ بھی گیال‬
‫ھوچکا تھا میں نے موقع ضائع کیے‬
‫بغیر گیلے لن کو سوراخ پر رکھا اس‬
‫سے پہلے کہ آنٹی کچھ سمجھتی ہے ا‬
‫اٹھنے کی کوشش کرتی میں نے آنٹی‬
‫کی کمر پر دونوں ھاتھ رکھ کر دبایا‬
‫اور گھسا مار کر لن گانڈ میں اتار دیا‬
‫۔۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ھی لن نان سٹاپ آنٹی کی گانڈ‬
‫میں گھسا آنٹی باکاں مارن لگ گئی ۔‬
‫نال ای پنجابی کا نزول ھوا ۔‬
‫آنٹی کے منہ سے چیخ نکلی‬
‫اور ساتھ ھی آنٹی بولی ۔۔‬
‫ہاےےےےےےےےےے میریییییییی‬
‫بنڈ پاڑ دتی اووووو کنجرا‬
‫ھاےےےےےے وےےےے تیرا ککھ‬
‫نہ روے کی کردتا ای ظالماں‬
‫ھاےےےےےے نی میریے مائیں‬
‫ھاےےےےےےےے میں مرگئی‬
‫پچھے ہٹ جا کھوتےدے لن والیا‬
‫ھاےےےےےےے۔‬
‫آنٹی کا برا حال تھا شاید پہلی دفعہ لن‬
‫گانڈ میں لیا تھا آنٹی جتنا ذور اوپر کو‬
‫اٹھنے کے لیے لگاتی میں اتنا ھی ذور‬
‫سے آنٹی کو نیچے دبا دیتاااااا۔۔‬
‫آنٹی مجھے پنجابی میں ھی بد دعائیں‬
‫دیتی ھاےےے مر گئی کری جا رھی‬
‫تھی ۔‬
‫میں نے لن باہر نہ نکاال اور ایک ہاتھ‬
‫آگے کر کے آنٹی کی گردن پر رکھا‬
‫اور آنٹی کے سر کو صوفے کے فوم‬
‫پر دبا دیا جس سے آنٹی کی آوازصوفے‬
‫میں ھی دب گئی ۔۔۔‬
‫اور میں نے ساتھ ھی گھسے مارنے‬
‫شروع کردیے مجھ میں پتہ نہیں کہاں‬
‫سے اتنا جنون آگیا اور میں آنٹی کو‬
‫نیچے دباے اسکی بُنڈ مارے جارھا تھا‬
‫اور آنٹی کی غوں غوں کی آوازیں‬
‫آرہیں تھیں آنٹی نے الکھ کوشش کی کہ‬
‫میرے نیچے سے نکل جاے مگر میں‬
‫نے اسے جکڑا ھی اسطرح تھا کہ‬
‫بچاری ہلنے سے قاصر تھی ۔۔‬
‫میں بڑی بے دردی سے گھسے ماری‬
‫جارھا تھا آنٹی نڈھال ہوکر اوندھی لیٹی‬
‫سسکیاں لے کر رو رھی تھی مگر میں‬
‫پورے جوش سے اسکی بُنڈ کی دھجیاں‬
‫اڑا رھا تھا ۔۔‬

‫بیس منٹ مسلسل آنٹی کی گانڈ چدتی‬


‫رھی آنٹی سسکتی رھی بلکتی رھی‬
‫مگر اسکی سسکیوں میں مجھے مزہ‬
‫آرھا تھا‪ ،‬میں گھسے پر گھسا ماری‬
‫جارھا تھا آنٹی کی بنڈ کی موری بھی‬
‫کافی کھل چکی تھی میرا لن ایسے‬
‫روانی سے چل رھا تھا جیسے اسکی‬
‫پھدی کو چود رھا ہوں بنڈ اور پھدی‬
‫میں فرق ختم ھو چکا تھا آنٹی کا‬
‫احتجاج تمام شد ھوچکا تھا کہ میرے‬
‫ٹانگوں سے ساراخون میرے لن کی‬
‫طرف تیزی سے دوڑنے لگا میرے‬
‫گھسوں کی سپیڈ تیز سے تیز تر ہوتی‬
‫ہوگئی میرے جسم سے پسینہ آنٹی کی‬
‫کمر پر گرنے لگا آنٹی نیم بے ہوشی‬
‫میں گئی میرے آخری گھسے نے آنٹی‬
‫کو ہوش میں الیا ادھر میرا آخری گھسا‬
‫انتہائی جاندار تھا ادھر آنٹی کے منہ‬
‫سے ھاےےےےےےے نکال‬
‫ادھر میرے لن سے بنڈ میں منی کا‬
‫فوارہ نکال ۔‬
‫اور آنٹی کی ہودی کو بھرتا گیا بھرتا‬
‫گیا میں نڈھال ھوکر آنٹی کے اوپر گر‬
‫گیا ۔۔۔آنٹی کو ہوش آیا آنٹی نے غصے‬
‫سے مجھے پیچھے دھکا دیا اور ساتھ‬
‫ہی پلٹ کر صوفے پر گر گئی اور‬
‫دونوں ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر‬
‫ایسے مچلنے لگ گئی جیسے اسکی‬
‫گانڈ میں کسی نے مرچیں ڈال دی ہوں‬
‫۔۔۔میں دھکا لگنے سے پیچھے ہوکر‬
‫کھڑا آنٹی کے تڑپنے کا نظارہ دیکھ‬
‫رھا تھا میری جیسے ھی نظر سامنے‬
‫دیوار پر پڑی میں تو ایکدم۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬
‫میری نظر جیسے ہی سامنے دیوار پر‬
‫لگے کالک کی طرف پڑی تو میں‬
‫حیران رھ‬
‫گیا کہ مجھے تین گھنٹے ہوگئے ہیں ۔‬
‫بارہ بجنے والے تھے ۔‬
‫میں نے جلدی سے ٹراوزر پہنا اور اپنا‬
‫حلیہ درست کرنے لگ گیا تب تک آنٹی‬
‫بھی اٹھ کر اپنا ٹائٹس پہن کر شرٹ پہن‬
‫چکی تھی ۔‬
‫آنٹی سے کھڑا نہیں ہوا جارھا تھا ۔‬
‫آنٹی مجھے گھورے جارھے تھی ۔‬
‫میں آنٹی کے قریب آیا اور آنٹی کو‬
‫کندھوں سے پکڑنے لگا تو آنٹی نے‬
‫غصے سے میرے ہاتھ جھٹک دیے اور‬
‫میری طرف غصے سے دیکھتے ھوے‬
‫بولی کردی نہ وہ ھی پینڈؤں والی‬
‫حرکت تم لوگ کبھی نہیں سدھر سکتے‬
‫پینڈو کے پینڈو ھی رھو گے نانسینس ۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی سوری وہ دراصل‬
‫۔۔۔۔۔آنٹی غصے سے میری بات کاٹ کر‬
‫بولی بولی شٹ اپ بلیڈی فول گیٹ‬
‫لوسسسسسس‬
‫آنٹی کی انگلی دروازے کی طرف تھی‬
‫۔‬
‫میں نے کہا آنٹ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی کا پارہ مذید چڑھ گیا‬
‫آنٹی نے ایک ھاتھ اپنی گانڈ پر رکھا ہوا‬
‫تھا اور دوسرے ھاتھ کی انگلی‬
‫دروازے کی طرف تھی‬
‫میرے منہ سے ابھی آنٹ ۔۔۔۔۔۔ھی نکال‬
‫تھا کہ آنٹی غصے سے دھاڑی آئی سے‬
‫گیٹ لوسسسسسسس میں سرجھکا کر‬
‫دروازے کی طرف چل دیا اور جب میں‬
‫نے مڑ کر دیکھا تو آنٹی نے دونوں‬
‫ھاتھوں سے اپنی گانڈ کو پکڑ رکھا تھا‬
‫میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر آنٹی‬
‫کی طرف دیکھا اور بوال آنٹی جی‬
‫سوریییی‬
‫آنٹی اپنی گانڈ کو پکڑے تکلیف زدہ منہ‬
‫بناے ھوے پھر بولی دفعہ ہوجاؤووووو‬
‫میں سر جھٹک کر دروازہ کھول کر‬
‫باہر نکل گیا ۔‬
‫جب میں بوتیک سے باہر نکال تو‬
‫بوتیک کے سامنے والی دکان والے نے‬
‫چونک کر میری طرف دیکھا میری‬
‫جب اس کی نظر سے نظر ملی تو اس‬
‫نے بڑی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ‬
‫مجھے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر‬
‫لیا ۔۔‬
‫میں اسے دیکھتے ھوے مارکیٹ‬
‫سےباہر نکال اور کچھ دیر ادھر ادھر‬
‫پھرتا رھا ۔‬
‫مجھے بھوک سی محسوس ہوئی میں‬
‫نے ہوٹل کا رخ کیا اور جس ہوٹل سے‬
‫ہم روز کھانا لینے جاتے تھے میں اسی‬
‫ہوٹل پر پہنچا ہوٹل واال میرا واقف تھا‬
‫اس سے سالم دعا کے بعد میں اندر‬
‫ہوٹل میں چال گیا اور ہوٹل کے واش‬
‫روم گھس کر اپنا نچال حصہ اچھی‬
‫طرح دھویا اور پھر منہ ہاتھ دھو کر‬
‫میں کھانے کا آڈر دے کر ٹیبل پر بیٹھ‬
‫گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد کھانا آگیا میں کھانا کھانے‬
‫میں مصروف ہوگیا ۔‬
‫ابھی میں کھانا کھا ھی رھا تھا کہ جنید‬
‫میرے سامنے کرسی پر آکر بیٹھ گیا‬
‫اسے یوں اچانک دیکھ کر میں چونک‬
‫گیا ۔‬
‫اور پھر میں اٹھ کر اس سے گلے مال‬
‫اور کافی گرمجوشی سے ملنے کے بعد‬
‫ایک دوسرے سے باتیں کرنی شروع‬
‫کردیں ۔‬
‫جنید بوال یاسر اس گانڈو کو چھوڑنا‬
‫نہیں ھے میں جانتا ہوں اسے اسکا نام‬
‫نسیم ھے اور وہ ہمارے محلے کا ھی‬
‫ھے‬
‫میں نے کہا تو ٹینشن نہ لے آج اسکا کام‬
‫ھوجانا ھے ۔‬
‫جنید خوش ہوکر بوال کس ٹائم مجھے‬
‫بھی بتا میں بھی اپنے ھاتھ گرم کرلوں‬
‫گا ۔۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار تیرا محلے دار‬
‫ھے بعد میں تجھے کوئی پریشانی نہ‬
‫ھو اس لیے تو اس معاملے میں نہ پڑ‬
‫میں اکیال ھی کافی ہوں اس کے لیے ۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫لن تے چڑے محلے داری ۔‬
‫میرا لن وڈ لے بعد وچوں‬
‫میں کیڑا کمیاں دا بال آں ۔‬
‫میں نے کہا یار تیری یہ ھی مہربانی کہ‬
‫تو نے کہہ دیا تم نے اسکا تماشا دیکھنا‬
‫ھے تو چھ بجے اسکی دکان سے کچھ‬
‫فاصلے پر کھڑے ہوکر اس کی‬
‫چھترول دیکھ لینا ۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫یار تم مجھے اس الئک نہیں سمجھتے‬
‫میں نے کہا چھڈ یار توں اپنا جگر ایں‬
‫کنج دیاں گالں کرن دیاں ایں ۔‬
‫جنید بوال پھر جو مجھ سے ھوگا میں‬
‫کروں گا ۔‬
‫میں نے کہا یار وہ انکل تجھے بھی نہ‬
‫نکال دے جنید بوال لن تے چڑے ہور‬
‫دکاناں تھوڑیاں نے ۔‬
‫نالے میرا تیرے بغیر ہن دل وی نئی‬
‫لگنا اس دکان تے‬
‫میں نے کہا چل ٹھیک ھے تم صرف‬
‫میرے دوستوں کے پاس کھڑے رہنا اگر‬
‫کوئی اور بیچ میں آیا تو تم اسکو سنبھال‬
‫لینا ۔‬
‫میں نے جنید کو اپنے دوستوں کے‬
‫بارے میں بتایا۔‬
‫اور ساری بات سمجھا دی ۔‬
‫جنید مذید کچھ دیر بیٹھنے کے بعد چال‬
‫گیا ۔‬
‫میں مذید ایک گھنٹہ ادھر ھی بیٹھا ٹی‬
‫وی دیکھتا رھا ۔اور بار بار کالک کی‬
‫طرف نظر دوڑاتا رھا‬
‫وقت تھا کہ گزرنے کا نام ھی نہیں لے‬
‫رھا تھا ۔‬
‫پانچ بجے میں ہوٹل سے نکال اور پھر‬
‫بازار کی طرف چل دیا۔۔‬
‫بازار میں ادھر ادھر گھومتا رھا ۔‬
‫اور پھر پارلر کی طرف چل دیا‬
‫میں شاہین مارکیٹ سے ابھی تھوڑا‬
‫پیچھے ھی تھا کہ مجھے سامنے سے‬
‫شادا اور میرے باقی کے دوست جو کل‬
‫مال کر سات آٹھ تھے ۔آتے ھوے‬
‫دیکھائی دئیے ۔‬
‫شادا مجھے دیکھتے ھی دور سے‬
‫بھڑک مار کر باہیں کھول کر میری‬
‫طرف ایسے بڑھا جیسے ساال برسوں‬
‫بعد مل رھا ھو ۔‬
‫شادا جب میرے قریب پہنچا تو گلے‬
‫ملتے ھوے میں نے اسے کہا سالیا‬
‫بازار اے پنڈ دیاں گلیاں نئی جیڑا بڑکاں‬
‫مارنا پیا سو‬
‫شادا بوال‬
‫پین دا پھدا کسے دا جیڑا ساڈے ول اکھ‬
‫ُچک کے وی ویکھے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫گانڈو صبر رکھ پیلے ای سارا کم نہ‬
‫خراب کردیوں ۔‬
‫کچھ دیر ہم ادھر ھی کھڑے باتیں کرتے‬
‫رھے ۔‬
‫میں نے اسے اور باقی دوستوں کو جنید‬
‫کے بارے میں بتایا اور اس کا حلیہ بھی‬
‫سمجھا دیا ۔‬
‫مجھے یہ ڈر تھا کہ یہ سالے کہیں اسے‬
‫ھی نہ پھینٹ دیں اس لیے انکو جنید‬
‫کے بارے میں آگاہ کردیا۔۔۔‬
‫میں نے ٹائم دیکھا تو چھ بجنے میں‬
‫پندرہ منٹ رھ چکے تھے میں ۔‬
‫نے انکو لوکیشن سمجھائی کہ کدھر‬
‫کھڑے ھونا ھے اور پھر میں انکو ادھر‬
‫ھی چھوڑ کر شاہین مارکیٹ کی طرف‬
‫چل دیا۔۔‬
‫میں جیسے ھی مارکیٹ کے پاس پہنچا‬
‫وہ میرا ساال دکان کے باہر کھڑا تھا‬
‫مجھے دیکھ کر طنزیہ انداز میں ہنسا‬
‫میرے چلتے قدم اسکی مسکراہٹ دیکھ‬
‫کر رک گئے میں اسکی طرف بڑھنے‬
‫ھی لگا تھا کہ۔۔۔۔۔‬
‫اچانک میرے دماغ میں خیال آیا کہ‬
‫یاسر ابھی موقع نہیں برداشت کرلے ۔۔‬

‫یہ سوچتے ہی میں سیڑیوں کی جانب‬


‫بڑھا اور بڑی تیزی سے سیڑھیاں اترتا‬
‫ھوا نیچے چال گیا ۔میں نے اپنے آپ‬
‫کو نارمل کیا اور دروازہ ناک کیا تو‬
‫ضوفی نے ھی پردہ سرکا کر دیکھا اور‬
‫عادت کے مطابق پیاری سی سمائل دی‬
‫اور دروازہ کھول دیا میں اندر داخل‬
‫ہونے لگا تو اچانک میری نظر‬
‫سیڑھیوں کی طرف پڑی تو ساال ساب‬
‫اوپر کھڑے مجھے اندر جاتا دیکھ رھا‬
‫تھا ۔‬
‫میں اس پر ایک نظر ڈال کر اندر چال‬
‫گیا اور جاتے ھی ضوفی سے پہال‬
‫سوال یہ ھی کیا کہ کیا بنا ضوفی میرے‬
‫قریب آئی اور میرے بازوں کے نیچے‬
‫سے بازو گزار کر مجھ سے لپٹ گئی‬
‫اور پھر فرنچ کس کے بعد ۔‬

‫بولی کام ہوگیا ھے ۔۔‬

‫میرا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔‬

‫میں نے کہا تفصیل سے بتاو کہ کیا ھوا‬


‫ضوفی بولی میں نے آنٹی اور انکل سے‬
‫بات کی کے یہ جو جیولری واال لڑکا‬
‫ھے بہت دنوں سے مجھے آتے جاتے‬
‫تنگ کرتا ھے میں نے اسے کئی بار‬
‫سمجھایا بھی ھے مگر اس نے آگے‬
‫سے بتمیزی کی اور جب بھی میں‬
‫گزرتی ہوں تو لڑکوں کو کھڑا کر کے‬
‫انکے ساتھ مل کر مجھ پر آوازیں کستا‬
‫ھے ۔‬

‫آنٹی تو اسی وقت تیار تھی میرے ساتھ‬


‫چلنے کو کہ ابھی اسکا سامان اٹھا کر‬
‫باہر مارتی ہوں مگر انکل نے کہا میں‬
‫خود اس سے بات کروں گا اور اس کو‬
‫ایک مہینے کا نوٹس بھی دے دوں گا‬
‫کہ دکان خالی کردے ۔‬
‫میں نے پھر روتے ھوے کہا کہ وہ‬
‫سفارشیں کرواے گا ۔‬

‫تو آنٹی نے انکل کو سختی سے کہا کہ‬


‫اگر آپ نے اس سے دکان خالی نہ‬
‫کروائی تو میری آپ کے ساتھ لڑائی ہو‬
‫جانی ھے اور میں خود جاکر اسکا‬
‫سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکوں گی‬
‫پھر نہ مجھے کہنا اور آنٹی مجھے ساتھ‬
‫لگا کر کہنے لگی تم میری بیٹی ھو اس‬
‫لیے پریشان مت ھونا ۔‬

‫میں نے ضوفی کی بات کاٹ کر کہا کہ‬


‫میرا بھی بتایا کہ نہیں ۔۔‬
‫ضوفی بولی سنو تو۔۔۔‬

‫پھر میں نے انکو بتایا کہ میری کزن‬


‫کے ساتھ منگنی ھوگئی ھے اور میرا‬
‫کزن مجھے لینے اور چھوڑنے آتا ھے‬
‫تو یہ اسکو بھی گھورتا ھے‬

‫اگر لڑائی ہوگئی تو پھر سارا بازار‬


‫تماشا دیکھے گا ۔‬

‫آنٹی بولی کہ تم نے اپنے منگیتر کو‬


‫کہنا تھا کہ اس کنجر کا منہ توڑتا‬

‫تو میں نے کہا آنٹی جی اسی لیے تو آپ‬


‫کے پاس آئی ھوں کہ پھر آپ نے کہنا‬
‫تھا کہ ہمیں تو بتاتی ۔‬

‫تو انکل کہنے لگے بیٹا تم پریشان نہ ھو‬


‫بس ایک دو دنوں میں اسکا حل نکالتا‬
‫ھوں تو آنٹی انکل کو گھورتے ھوے‬
‫بولی حل کیا نکالنا ھے اسکو نوٹس دو‬
‫کہ دکان خالی کرے نہیں تو میں جاتی‬
‫ہوں اس کے پاس ۔‬

‫انکل نے کہا کہ کرتا ہوں کچھ اسکا ۔۔۔‬

‫میں نے ضوفی کو جپھی ڈالی اور دس‬


‫بیس ُچمیاں لیں اور کہا بس اپنا کام بن‬
‫گیا ابھی وہ گشتی کا بچہ باہر ھی کھڑا‬
‫ھے اور تمہیں دیکھے گا ضرور بس تم‬
‫ایک دفعہ اسکو سنا دینا اور پھر دیکھنا‬
‫تماشا ۔۔‬

‫ضوفی اثبات میں سر ہالتے ھوے مجھ‬


‫سے لپٹ کر بولی یاسر مجھے ڈر لگ‬
‫رھا ھے کہ کچھ غلط نہ ھوجاے ۔‬

‫میں نے کہا جتنا میرے ساتھ غلط ھوا‬


‫ھے اس سے ذیادہ نہیں کرتا بس تم بے‬
‫فکر رھو اور جو کہا ھے وہ کرنا اور‬
‫ھاں ڈرنے اور گبھرانے کی ضرورت‬
‫نہیں‬

‫ضوفی نے میرے گال پر کس کی اور‬


‫مجھ سے علیحدہ ہوکر گاون پہننے لگ‬
‫گئی ۔‬

‫کچھ ھی دیر بعد ہم پارلر بند کر کے‬


‫سیڑھیوں کی جانب بڑے تو وہ کنجر‬
‫ادھر ھی کھڑا تھا ہمیں آتا دیکھ کر‬
‫پیچھے ہوگیا ورنہ وہ نیچے ھی جھانک‬
‫رھا تھا ۔‬

‫میں نے جان بوجھ کر ضوفی کا ہاتھ‬


‫‪ .‬پکڑ لیا‬
‫میں اور ضوفی سیڑیاں چڑھ کر جب ‪.‬‬
‫اوپر پہنچے تو اس گانڈو کی قسمت‬
‫ماڑی کے وہ دکان کے باہر کھڑا تھا‬
‫اور اس نے عادت کے مطابق ضوفی‬
‫کو گھورنا شروع کیا میں نے ضوفی کا‬
‫ہاتھ دبایا کہ موقع اچھا ھے ۔‬

‫ضوفی نے اس لڑکے کی طرف گھورا‬


‫جسکا نام نسیم تھا اور ضوفی تیزی‬
‫سے اسکی طرف گئی اور جاتے ھی‬
‫ضوفی نے ایک زوردار تھپڑ نسیم کے‬
‫منہ پر دے مارا اور اونچی آواز میں‬
‫بولی بغیرت کے بچے تیرے گھر میں‬
‫ماں بہن نہیں ھے جا انکو دیکھ نسیم‬
‫نے ہکا بکا ہو کر اپنی گال پر ہاتھ رکھا‬
‫اور جیسے ھی دوسرا ہاتھ اٹھا کر‬
‫ضوفی کو تھپڑ مارنے لگا تو میں بجلی‬
‫کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور‬
‫اسکے اٹھے ھوے ہاتھ کو ہوا میں ھی‬
‫پکڑ لیا اور بوال‬
‫تیری پین دا پھدا گشتی دیا بچیا لڑکی‬
‫تے ہتھ چکنا ایں ۔‬
‫اس سے پہلے کہ نسیم کچھ بولتا میں‬
‫دوسرے ھاتھ کا مکا بنایا اور اسکے‬
‫منہ پر جڑ دیا اور ساتھ ھی ایک زور‬
‫دار الت اسکے پیٹ میں ماری نسیم کے‬
‫پیٹ میں جب الت پڑی تو وہ پیچھے‬
‫کی طرف گرا ۔‬

‫اسی اثنا میں اسکی دکان سے دو لڑکے‬


‫بھاگے باہر آے اور جیسے ھی میری‬
‫طرف بڑھے تو ان میں سے ایک‬
‫لڑکے کے تو آتے ھی میں نے پیٹ میں‬
‫ٹانگ ماری ۔‬
‫وہ لڑکا وہاں سے ھی پیچھے کی طرف‬
‫گرا اور دوسرے لڑکے کو مجھ تک‬
‫پہنچنے کا موقع ھی نہیں مال اسکو‬
‫شادے نے دبوچ لیا اور اسکی گردن کو‬
‫اپنی بغل میں لے کر اسکے پیٹ میں‬
‫اور میں پر مکوں کی بارش کردی‬
‫ضوفی گبھرا کر ایک طرف جا کھڑی‬
‫ہوئی ۔‬

‫نسیم ابھی اٹھ ھی رھا تھا کہ میں دوڑ‬


‫کر اسکے سر پر پہنچا اور پھر ایک‬
‫زوردار ٹھوکر اسکے پیٹ میں ماری وہ‬
‫ٰ‬
‫قالبازی کھاتا ھوا‬ ‫بلبال کر پیچھے کو‬
‫گرا ۔‬
‫دوسرے لڑکے کو جنید نے پکڑ لیا اور‬
‫دونوں گتھم گتھا ہوکر ایک دوسرے پر‬
‫مکوں کی بارش کرنے لگ گئے میں‬
‫نے نسیم کے سر کت بالوں کو پکڑا‬
‫اور اسکے بالوں کو کھینچتا ھوا اسے‬
‫باہر سڑک پر لےآیا‬

‫ایکدم مجمع اکھٹا ھوگیا دو تین دکاندار‬


‫میری طرف بڑھے تو میرے باقی‬
‫دوستوں نے انکو بھڑکیں مارتے ھوے‬
‫وہیں روک دیا ۔‬

‫میں نسیم کو بالوں سے پکڑے گھسیٹتا‬


‫ھوا سڑک پر لے آیا اور اسکو کھڑا کر‬
‫کے اسکے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر‬
‫دی اس نے بھی تین چار مکے مجھے‬
‫مارے مگر میں اس پر بھاری تھا ۔‬

‫ہم دونوں کو چھڑانے کے لیے کوئی‬


‫اگے نہیں بڑھ رھا تھا‬

‫میرے یار مجھ پر ساے کی طرح‬


‫کھڑے تھے ۔‬

‫نسیم کے ہاتھ رک چکے تھے اور‬


‫میرے مکے اور ٹانگیں بجلی کی سپیڈ‬
‫سے اس پر برس رہی تھیں ۔‬

‫نسیم کو بھی میرے دوستوں کا علم‬


‫ھوچکا تھا اور اس کی کتے والی حالت‬
‫کی وجہ سے وہ نڈھال ھوکر نیچے‬
‫گرتا تو میں اسکو بالوں سے پکڑ کر‬
‫کھڑا کرتا اور پھر اسکے منہ پر مکا‬
‫مارتا تو وہ پھر پیچھے جا کر گرتا‬

‫نسیم کی ناک پر مکے پڑنے سے‬

‫اسکی ناک سے خون بہنے لگ گیا ۔‬

‫میں نے اسے بالوں سے پکڑا اور پھر‬


‫کھڑا کر کے ایک ذوردار ٹھوکر اسکی‬
‫ٹانگوں کے بیچ ماری‬

‫نسیم کے منہ سے ایک دردناک چیخ‬


‫نکلی اور وہ دونوں ھاتھ اپنے لن پر‬
‫رکھتا ھوا دھرا ہوکر گھٹنوں کے بل‬
‫سڑک پر بیٹھ گیا میں پھر اسکی طرف‬
‫بڑھا تو نسیم نے دونوں ہاتھ میرے آگے‬
‫جوڑے اور بوال مینوں معاف کردے‬
‫میرے کولوں غلطی ھوگئی ہن نئی کردا‬
‫بس اک واری معاف کردے اور پھر‬
‫میرے پیروں کو پکڑ کر اونچی آواز‬
‫میں رونے لگ گیا اور معافیاں مانگنے‬
‫لگ گیا۔‬
‫میں نے جھک کر پھر اسکے بالوں ‪.‬‬
‫کو پکڑا اور اسے کھڑا کر کے ایک‬
‫ذور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تو‬
‫اسکی آنکھیں ایسے بند ہوئی جیسے وہ‬
‫بےہوش ہونے لگا ھو میں نے اسکے‬
‫بالوں کو پکڑے اسکے سر کو جنجھوڑا‬
‫اور بولی‬

‫پین دی پھدی کھانیا۔‬

‫اپنی باجی نوں کیوں چھیڑدا سی ۔‬

‫نسیم کی ناک سے خون منہ سے خون‬


‫اور تھوک بہہ کر اسکے آگے سے‬
‫سارے کپڑے گیلے کر چکا تھا ۔‬

‫نسیم بوال‬

‫پا جی میں نئی چھیڑیا مینوں اپنی ماں‬


‫دی قسمیں پیو دی قسمیں نئی چھیڑیا ۔‬
‫دوستو میں نے اسے یہ ظاہر ھی نہیں‬
‫ہونے دیا کہ میں اسکو شکایت لگانے‬
‫کی وجہ سے مار رھا ھوں نہیں تو سب‬
‫دیکھنے والوں نے مجھ کو اور ضوفی‬
‫کو ھی قصوروار ٹھہرانا تھا ۔‬

‫نسیم مجھ سے معافیاں مانگی جارھا تھا‬


‫ادھر اسکے دونوں ساتھیوں کا بھی حال‬
‫اس کے جیسا ہوچکا تھا ۔‬

‫میں نے نسیم کو گریبان سےپکڑا اور‬


‫اسے کھینچتا ھوا ضوفی کی طرف لے‬
‫گیا‬
‫ضوفی کا رنگ اڑا ھوا تھا اور وہ‬
‫دونوں ہاتھ منہ پر رکھے کانپتی ٹانگوں‬
‫کے ساتھ مجھے اور نسیم کو دیکھی‬
‫جارہی تھی ۔‬

‫میں نسیم کو کھینچتا ہوا ضوفی کے‬


‫پاس لے گیا اور نسیم کے منہ پر ایک‬
‫اور تھپڑ مارا اور بوال‬

‫معافی منگ اپنی پین دے پیراں وچ پے‬


‫کے ۔‬

‫نسیم کسی فرمابردار کی طرح ضوفی‬


‫کے پیروں میں گرا اور ہاتھ جوڑ کر‬
‫معافیاں مانگنے لگ گیا ۔۔‬
‫ضوفی کے پیروں میں جب نسیم گرا تو‬
‫ضوفی ایکدم پیچھے کو ہٹی ۔‬

‫نسیم کچھ دیر اسی حالت میں نیچے‬


‫بیٹھا معافیاں مانگتا رھا ۔‬

‫ادھر اس کے دو ساتھیوں کا بھی حال‬


‫برا تھا وہ بھی نیچے ایسے بیٹھے تھے‬
‫جیسے پولیس والوں نے مجرموں کو‬
‫مار مار کر بٹھایا ھوتا ھے ۔‬

‫میں نے شادے کی طرف دیکھا تو اس‬


‫نے مجھے نکلنےکا اشارا کیا ۔‬
‫میں نے ایک زوردار ٹھوکر نسیم کی‬
‫کمر پر ماری نسیم فٹ بال کی طرح‬
‫گھومتا ھوا سڑک کے درمیان میں چال‬
‫گیا اور اونچی آواز میں رونے لگ گیا‬
‫اور دیکھنے والوں سے التجائیں کر نے‬
‫لگ گیا‬

‫مینوں بچا لو میں مرجاواں گا مینوں بچا‬


‫لو ۔‬

‫مگر میرے دوستوں سے ڈرتا کوئی منہ‬


‫نہیں کھول رھا تھا اور نہ ھی آگے بڑھ‬
‫رھا تھا ۔‬

‫میں نے ضوفی کو چلنے کا کہا‬


‫ضوفی جلدی سے میرے آگے چلنے‬
‫لگی اور ہجوم نے ہمیں خود ھی راستہ‬
‫دے دیا میں جیسے ھی کچھ آگے گیا تو‬
‫اچانک ۔۔۔؟؟؟‬

‫سے شور سنائی دیا ۔‬

‫میں نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا تو دنگل‬


‫مچا ہوا تھا ۔‬

‫میں نے ضوفی کو کہا کہ تم گھر جاو‬


‫میں آتا ہوں۔‬

‫ضوفی نے میرا بازو پکڑا اور بولی‬


‫نہیں یاسر تم نے نہیں جانا ۔‬

‫میں نے ضوفی کا ھاتھ پکڑ کر اپنا بازو‬


‫ُچھڑوایا اور گرجدار آواز میں بوال‬
‫تمہیں سنا نہیں میں نے کیا کہا جاو‬
‫گھر ۔۔‬

‫ضوفی ایکدم سہم گئی ۔‬

‫میں نے ضوفی کی اگلی بات نہیں سنی‬


‫اور واپس مارکیٹ کی طرف دوڑ‬
‫لگا دی ۔‬

‫جب میں وھاں پہنچا تو چار پانچ لڑکے‬


‫اور دو بڑی عمر کے انکل ٹائپ میرے‬
‫دوستوں کے ساتھ گتھم گتھا تھے ۔‬

‫نسیم بھی اب شیر بنا ھوا تھا‬

‫نسیم کی جب نظر مجھ پر پڑی تو چیخ‬


‫کر بوال او آگیا جے پین چود پھڑ لو‬
‫اینوں وی ۔‬

‫انکل ٹائپ میرے طرف بڑے غصے‬


‫سے بڑھا اور میرے منہ کی طرف مکا‬
‫لہرایا میں نے اسکے مکے کو ایک‬
‫ھاتھ سے روکا اور جست لگا کر ٹکر‬
‫اسکے ناک پر ماری انکل منہ پر ھاتھ‬
‫رکھ کر ادھر ھی د ُہرا ہوکر گھٹنوں کے‬
‫بل نیچے گرا نسیم کو میرے ایک‬
‫دوست نے نیچے گرایا ھوا تھا اور اس‬
‫کے منہ پر مکوں کی بارش کررھا تھا‬
‫شادا بھی دو لڑکوں کے ساتھ لڑ رھا تھا‬
‫کبھی ایک کے مکے اور ٹکریں مارتا‬
‫کبھی دوسرے کے جنید بھی دوسرے‬
‫انکل کے ساتھ گتھم گتھا تھا میرے باقی‬
‫کے چار دوست بھی دوسرے لڑکوں‬
‫کے ساتھ لڑ رھے تھے ۔‬

‫انکل شاید نسیم کا باپ تھا ۔‬

‫وہ منہ پر دونوں ھاتھ رکھے سڑک پر‬


‫گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا کہ میں نے‬
‫اسکے بیٹھے پر ھی مکوں اور التوں‬
‫کی بارش کردی ۔‬
‫اتنے میں میرے پیچھے سے کسی نے‬
‫میرے سر میں ڈنڈا مارا ۔‬

‫میری آنکھوں کے سامنے تو ایک دفعہ‬


‫تارے گھومنے لگ گئے ۔‬

‫میں نے دونوں ھاتھ سر پر رکھے اور‬


‫چکرا کر نیچے گر گیا ۔‬

‫اور ساتھ ھی قالبازی کھاتا ھوا سیدھا‬


‫ھوا تو سامنے والے نے دوسرا وار‬
‫میری ٹانگ پر کیا اور پھر تیسرا وار‬
‫کرنے ھی واال تھا کہ میرا ایک دوست‬
‫اس پر جھپٹا اور اسکے ہاتھ سے ڈنڈا‬
‫پکڑ کر اس سے ڈنڈا چھین لیا ۔‬

‫اور اسی ڈنڈے سے اس پر وار کرنے‬


‫لگ گیا ۔‬

‫میں خود کو سنبھالتے ھوے اٹھا اور‬


‫دوست کی طرف لپکا جو ڈنڈے سے‬
‫اس لڑکے کی پٹائی کر رھا تھا میں نے‬
‫دوست کے ھاتھ سے ڈنڈا چھینا اور اس‬
‫لڑکے کے سر میں دے مارا وہ لڑکا‬
‫بلبالتا ھوا سر پر ھاتھ رکھے نیچے گرا‬
‫۔‬

‫اسکے سر سے خون نکلنا شروع ھوگیا‬


‫میں اسکی حالت کی پروا کیے بغیر‬
‫اسکی ٹانگوں اسکے بازو مختصرا ً‬
‫اندھا دھند اس پر ڈنڈے برسانے لگا اور‬
‫وہ لڑکا نیچے بانکیں مار مار واویال‬
‫کرنے لگ گیا‬

‫ھاےے او میں مر گیا جے ھاے اوے‬


‫او مینوں بچاو کوئی ۔‬

‫جب میں نے چنگی تسلی کر لی اور وہ‬


‫بھی نیم بے ہوش ھوگیا ۔‬

‫تو میں نسیم کو تالش کرنے لگ گیا‬


‫میری نظر جب اس پر پڑی تو وہ خون‬
‫میں لت پت نیچے پڑا تھا اور اس کے‬
‫اوپر جنید سوار تھا جو اس کے پیٹ‬
‫میں سینے پر مکوں کی بارش کررھا‬
‫تھا ۔‬

‫نسیم کے باپ کے منہ سے بھی خون‬


‫نکل رھا تھا اور وہ جنید کو اوپر سے‬
‫مار رھا تھا میں اس کی طرف بھاگا ۔‬

‫اور جاتے ھے ایک فالئنگ کک نسم‬


‫کے باپ کی کمر میں ماری تو وہ‬
‫قالبازی کھا کر جنید سے دور جاگرا ۔‬

‫شادا جن دو لڑکو ں کو مار رھا تھا‬

‫وہ بھی خون سے لت پت تھے میرے‬


‫سر سے بھی خون بہہ کر میرے کپڑوں‬
‫کو رنگین کر چکا تھا۔‬

‫میرے ایک اور دوست کا بھی سر پھٹ‬


‫گیا تھا ۔‬

‫اس کے کپڑے بھی خون سے رنگین‬


‫تھے ۔‬

‫میں نے ھاتھ میں پکڑا ھوا ڈنڈا نسیم کی‬


‫ٹانگوں پر برسانا شروع کردیا ۔۔‬

‫نسیم اونچی اونچی بانکیں مارنے لگ‬


‫گیا نسیم کے پیٹ پر جنید سوار تھا جو‬
‫اسکے مکے برسا رھا تھا جبکہ میں‬
‫کھڑا نسیم کی ٹانگوں پر ڈنڈے برسا‬
‫رھا تھا‬

‫بازار میں ایک جنگ کا سماں تھا ۔‬

‫تماشائی سہمے ھوے لڑائی دیکھ رھے‬


‫تھے کہ اچانک شادے کو پتہ چال کہ‬
‫کسی نے پولیس کو اطالع کردی ھے ۔‬

‫شادا بھاگ کر میرے پاس آیا اور بوال‬


‫یاسرے نکلو سب پولیس پے جانی جے‬
‫۔۔‬

‫میں نے جنید کا بازو پکڑا اور اسے‬


‫کھینچ کر نسیم سے الگ کیا نسیم نیم‬
‫بے ہوش پڑا تھا اور اس کے ساتھ بھی‬
‫زخمی حالت میں پڑے تھے جبکہ دو‬
‫لڑکے بھاگ گئے تھے ۔‬

‫ہم سب اکھٹے ادھر سے نکلے اور‬


‫گلیوں میں سے بھاگتے ھوے گاوں کی‬
‫طرف جانے لگ گئے مجھے شارٹ‬
‫کٹ راستوں کا علم تھا اس لے میں آگے‬
‫تھا اور باقی سب میری تقلید میں میرے‬
‫پیچھے بھاگ رھے تھے ہم جہاں سے‬
‫گزرتے لوگ حیران ھوتے ھوے ہم‬
‫سب کی طرف دیکھتے‬

‫خیر اوکھے سوکھے ہم مختلف گلیوں‬


‫سے ہوتے ھوے کسی طرح نہر پر‬
‫پہنچے اور پل کراس کر کے میں ان‬
‫سب کو مکئی میں لے گیا اور کھالے‬
‫کے پاس پہنچ کر مجھے ٹاہلی والی‬
‫جگہ کا خیال آیا کہ اس وقت اس سے‬
‫محفوظ جگہ کوئی اور نہیں میں نے‬
‫شادے کو اسطرف آنے کا کہا شادا بوال‬
‫دفعہ کرو ادھر نہیں بیٹھنا چلو ہمارے‬
‫ڈیرے پر چلتے ہیں ۔‬

‫میرے باقی سب دوستوں نے بھی اسی‬


‫بات پر اتفاق کیا تو میں نے جیب سے‬
‫پیسے نکالے اور ایک لڑکے کو کہا کہ‬
‫تو گاوں جا اور ادھر سے مرہم پٹی کا‬
‫سامان لے کر شادے کے ڈیرے پر پہنچ‬
‫ہم ادھر ھی ملیں گے اور گاوں میں‬
‫کسی سے بات نہ کرنا کہ ہماری لڑائی‬
‫ھوئی ھے ۔‬

‫وہ لڑکا پیسے لے کر گاوں کی طرف‬


‫چل پڑا جبکہ ہم فصلوں کے بیچو بیچ‬
‫سے شادے کے ڈیرے پر چلے گئے‬
‫ادھر جاکر کچھ دیر ہم نے سانس لی‬
‫۔میرے سر سے خون بہہ بہہ کر خود‬
‫ھی بند ہوگیا تھا جبکہ دوسرے لڑکے‬
‫کے سر سے ابھی بھی خون رس رھا‬
‫تھا شادے نے اور جنید نے ٹیوب ویل‬
‫سے کپڑا گیال کیا اور ہم دونوں کے سر‬
‫اور منہ صاف کرنے لگ گئے اتنے‬
‫میں وہ لڑکا بھی مرہم پٹی کا سامان لے‬
‫کر پہنچ گیا شادے نے اور جنید نے ہم‬
‫دونوں کی مرہم پٹی کی شادا ساتھ ساتھ‬
‫مجھے گالیاں بھی نکال رھا تھا کہ‬

‫پین یکہ جدوں تینوں میں جو کیا سی کہ‬


‫نکل جا تے توں واپس بنڈ مراون‬
‫ضرور آنا سی اسی سارے ای بوت سی‬
‫۔‬

‫میں نے کیا بس یار میں تم لوگوں کو‬


‫کیسے اکیال چھوڑ سکتا تھا ۔‬

‫ایسے ھی ہم بیٹھے باتیں کرتے‬


‫رہےاندھیرا کافی ہوچکا تھا ہم نے ٹیوب‬
‫ویل سے اپنے کپڑے دھو کر وہیں‬
‫سوکھنے کے لیے ڈالے ھوے تھے‬
‫ہمیں ادھر تین گھنٹے ہو چکے تھے کہ‬
‫اتنے میں شادے کا مالزم ہانپتا ھوا آیا‬
‫اور بوال بھا شادے چاچے نوں تے یاسر‬
‫دے ابے نوں پولیس پھڑ کے لے گئی‬
‫اے ۔۔‬

‫ہم سب ایک دم گبھرا گئے اور گاوں کی‬


‫طرف بھاگے ۔‬

‫شادا بوال یاسرے چوہدری دے ڈیرے‬


‫تے چلنے آں‬

‫چوہدری اے ہن ساڈے کم آ سکدا اے ۔‬


‫میں نے بھی ہمممم کیا اور ہم سیدھا‬
‫چوہدری نواب دین کے ڈیرے پر‬
‫پہنچے ۔‬

‫چوہدری شادے کی بہت عزت کرتا تھا‬


‫کیونکہ شادا اسکے پیچھے کئی جگہ‬
‫پنگے لے چکا تھا ۔‬

‫چوہدری نواب دین نے جب ہم سب کو‬


‫دیکھا تو حقہ پیتے ھوے چونک کر‬
‫کھڑا ھوگیا شادا اس سے گلے مال اور‬
‫ہم سب نے بھی باری باری سالم دعا لی‬
‫۔‬

‫چوہدری بوال خیر اے ُمنڈیو کیویں‬


‫کبراے ھوے او سب خیر تے ہے ناں ۔‬

‫شادے نے ساری روداد چوہدری کو سنا‬


‫دی ۔‬

‫چوہدری کچھ دیر سوچتا رھ پھر ہنکارا‬


‫بھرا اور بولی کوئی گل نئی پتر شادے‬
‫پریشان نہ ھو اے کیڑا کم اے میں تے‬
‫سمجھیا کہ کوئی بندا پھڑکا دتا اے جیڑا‬
‫اینے کبراے ھوے او۔‬

‫یہ کہہ کر چوہدری نے اپنے مالزم کو‬


‫آواز دی کے جیپ نکال ۔‬

‫کچھ ھی دیر میں ہم سب جیپ میں سوار‬


‫تھانے کی طرف نکل پڑے کچھ ھی دیر‬
‫میں جیپ تھانے میں رکی اور ہم سب‬
‫باری باری جیپ سے اتر کر چوہدری‬
‫کے پیچھے اندر چل دئیے ۔‬

‫جب ہم تھانے کے برامدے میں پہنچے‬


‫تو ہماری مخالف پارٹی کے لوگ ادھر‬
‫بیٹھے ھوے تھے جن میں دو تین تو وہ‬
‫تھے جنکی مرمت ھوئی تھی باقی شاید‬
‫انکے رشتہ دار تھے یا محلے دار ۔‬

‫چوہدری ہم کو ادھر ھی کھڑا کر کے‬


‫شادے کو لے کر اندر چال گیا ۔‬

‫مخالف کھڑے ہمیں گھور رھے تھے‬


‫اور ہم انکو مگر بول کچھ نہیں رھے‬
‫تھےبس نظروں کی لڑائی ھو رھی تھی‬
‫۔‬

‫ہم تقریبا ً ایک گھنٹہ ادھر ھی کھڑے‬


‫رھے کہ اندر سے ایک اہلکار باہر آیا‬
‫اور مجھے اور جنید کو اندر آنے کا کہا‬
‫اور مخالف پارٹی کے بھی دو افراد کو‬
‫اندر بلوایا ۔‬

‫اندر ایس ایچ او بیٹھا تھا ھوا تھا ۔‬

‫ایس ایچ او نے بتایا کہ انکے دو بندوں‬


‫کی ناک کی ہڈی ٹوٹی ھے اور دو‬
‫ٹانگوں کی ہڈیاں فیکچر ھوئی ہیں اور‬
‫ساتھ میں انکی دکان سے ایک الکھ کے‬
‫قریب رقم بھی چوری ھوئی ھے ۔‬

‫شادے نے کہا لڑائی میں ہڈیاں تو ٹوٹتی‬


‫ہی ہیں مگر یہ پیسوں والی بات بلکل‬
‫جھوٹی ھے ۔‬

‫خیر کافی دیر بحث مباحثہ ھوتا رھا بل‬


‫آخر چوہدری نے دس ہزار پولیس والوں‬
‫کو رشوت دے کر صلح صفائی کروا‬
‫دی اور ہم سب شادے کے ابو اور‬
‫میرے ابو اور جنید کے بھائی کو تھانے‬
‫سے لے کر نکلے ۔‬

‫جنید اور اسکا بھائی اپنے گھر کی‬


‫طرف چلے گئے جبکہ ہم سب جیپ میں‬
‫سوار ہوکر گاوں پہنچے ۔‬

‫گھر آکر میری اچھی کالس لگی ۔‬

‫ابو سے دو تین تھپڑ اور امی سے‬


‫چنگی گالیاں پڑی کہ پتر جوان ھوکہ‬
‫باپ دی باں بندے نے تے توں جوان‬
‫ھوکہ پیو نوں تھانے ویکھاندا ایں ۔‬

‫بارہ بجے سے ایک بجے تک میری‬


‫کالس لگتی رھی اور میں چنگی‬
‫بےعزتی کروان توں بعد لمے ہوگیا‬

‫یعنی سوگیا ۔۔۔۔‬


‫صبح میں کافی لیٹ اٹھا مجھے کسی‬
‫نے اٹھایا ھی نہیں اور میں بھی تھکاوٹ‬
‫اور سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے‬
‫گہری نیند سویا رھا۔‬

‫میں بستر سے اٹھنے لگا تو میرے سر‬


‫میں ذبردست درد کی چیسیں اٹھیں اور‬
‫جب میں ٹانگ کو ہالنے لگا تو ادھر‬
‫بھی ایسے ھی درد ہوئی ۔‬

‫میں کراہتا ھوا اٹھا اور چارپائی پر ھی‬


‫بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ سر کو دبانے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫اتنے میں امی جان اندر داخل ہوئیں تو‬


‫غصے سے میری طرف دیکھ کر بولیں‬
‫۔‬

‫اٹھ گیاں میرا بدمعاش پتر ۔‬

‫میرے چہرے پر درد کے اثار تھے امی‬


‫نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تو‬
‫سارا غصہ بھول کر ممتا جاگی اور امی‬
‫میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور میرے سر‬
‫پر ہاتھ پھیر کر میرا ماتھا چومتے ھوے‬
‫بولی‬

‫ھاے ******میرے پتر نوں کناں تیز‬


‫بخار چڑیا ھویا اے ۔‬

‫اور ساتھ ھی میرے سر پر لگے زخم‬


‫کو دیکھ کر مخالف پارٹی کو گالیاں اور‬
‫بددعائیں دینے لگ گئی ۔‬

‫کچھ دیر ایسے ھی امی الڈ کرتی رھی‬


‫اور پھر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر‬
‫ہاتھ سے میرے سر کے بالوں کو‬
‫سہالنے لگ گئی ۔‬

‫دوستو۔یہاں ایک بات بتانا ضروری‬


‫سمجھتا ہوں۔‬

‫کہ جو سکون ماں کی آغوش میں ملتا‬


‫ھے ویسا سکون پوری کائنات کی کسی‬
‫بھی چیز میں نہیں ملتا ۔‬

‫ساری کائنات کی محبت ترازو کے ایک‬


‫پلڑے میں رکھ دو اور ماں کی محبت کا‬
‫چوتھائی حصہ دوسرے پلڑے میں رکھ‬
‫دو ۔‬

‫تو ماں کی محبت کا وہ پلڑا بھاری ھوگا‬


‫۔‬

‫میں اس شخص کو اس دنیا کا سب سے‬


‫بڑا بدقسمت انسان سمجھتا ہوں جو ماں‬
‫کی حیات میں اسکی خدمت سے محروم‬
‫رھا ھو ۔‬
‫اور دنیا کا سب سے بڑا ذلیل اور‬
‫بیغیرت انسان اسکو سمجھتا ہوں جو‬
‫بیوی یا گرل فرینڈ کے پیچھے لگ کر‬
‫اپنی ماں کے ساتھ برا سلوک کرتا ھے‬
‫اور اسے بڑھاپے میں نظر انداز کرتا‬
‫ھے ۔‬

‫اور دنیا کا سب غلیض اور اس دھرتی‬


‫کا گند اسے سمجھتا ھوں جو اس پاک‬
‫رشتے پر گندی سٹوریاں لکھتا ھے ۔‬

‫دوستو امی کی گود اور سر پر انکے‬


‫شفقت بھرے ہاتھ سے مجھے ساری‬
‫تکلیف بھول گئی اور میں نہ جانے کب‬
‫سوگیا ۔‬

‫محبوب کی آغوش میں ہوس ھوتی ھے‬

‫اور ماں کی آغوش میں جنت کا سکون ۔‬

‫خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنکی ماوں‬


‫کا سایہ انکے سر پر سالمت ھے ۔‬

‫میں پھر نیند کی وادیوں میں چال گیا‬


‫میری تب آنکھ کھلی جب امی ہاتھ میں‬
‫کھانے کی ٹرے پکڑے میرے سرہانے‬
‫کے پاس بیٹھی میرے سر کے بالوں کو‬
‫سہالتے ھوے مجھے اٹھا رھی تھی ۔‬

‫میں نے آنکھ کھولی تو سامنے میری‬


‫جنت مسکرا رھی تھی امی نے شفقت‬
‫سے کہا اٹھ میرا الل اٹھ کے روٹی کھا‬
‫لے ۔‬

‫میں اٹھا اور امی کے کندھے کے ساتھ‬


‫سر لگا کر بیٹھ گیا امی روٹی کے‬
‫نوالے میرے منہ میں ڈالنے لگ گئی ۔‬
‫کھانا ختم کر کے امی اٹھی اور کچھ‬
‫دیر بعد دودھ گرم کر میرے لیے لے‬
‫آئیں ۔‬

‫امی مجھے پھر نصیحتیں کرنے لگ‬


‫گئیں کہ ہم غریب اور عزت دار لوگ‬
‫ہیں ۔‬

‫ایسے لڑائی جھگڑے ہمیں زیب نہیں‬


‫دیتے ۔‬
‫میں فرمانبرداری سے سر ہالتا رھا۔۔پھر‬
‫اچانک امی نے پوچھا پتر اے پالر والی‬
‫کون اے جدے پچھے توں لڑیا سی ۔۔‬

‫میں ایک دم چونکا اور امی کے سوال‬


‫کہ جواب کے لیے الفاظ تالش کرنے‬
‫لگ گیا۔‬

‫امی مجھے خاموش اور یوں گبھراے‬


‫ہوے دیکھ کر بولی دیکھ پتر میں تیری‬
‫ماں ہوں اور ماں سے کچھ بھی نہیں‬
‫چھپاتے ۔‬
‫دوستو اس میں کوئی شک نہیں اس‬
‫دھرتی پر سب سے اچھا اور مخلص‬
‫دوست ماں ھی ھے ۔۔‬

‫میں نے ہکالتے ھوے کہا کہ ووووہ‬


‫میرے دوست کی بہن ھے ۔۔‬

‫امی بولی جھوٹ کیوں بول رھا ھے ۔‬

‫میں پھر بوال نننہیں امی ممممیں کیوں‬


‫جھوٹ بولوں گا ۔‬
‫امی بولی مرضی تیری اگر تو ماں سے‬
‫بھی سچی بات نہیں کرنا چاہتا۔‬

‫میں نے امی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کو‬


‫چومتے ھوے بوال ۔‬

‫لے دس امی میں تیرے نال کیوں چوٹھ‬


‫بوالں گا۔‬

‫امی بولی‬
‫پتر میں تینوں جمیا اے توں مینوں نئی ۔‬

‫میں نے تھوڑا شرماتے ھوے کہا امی‬


‫جججی ووہہ مجھے پسند کرتی ھے ۔‬

‫امی ہنستے ھوے بولی اور تم ۔۔۔‬

‫میں نے بھی شرمیلی مورت بنتے ھوے‬


‫اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫امی مجھے ساتھ لگاتے ھوے میرا ماتھا‬
‫چومتے ھوے بولی ۔‬

‫میرا پتر جوان ھوگیا اے ۔‬

‫چل مینوں نئی ملوایں گا میری نو نال ۔‬

‫میں نے خوش ھوتے ھوے امی کی گال‬


‫کو چوما اور بوال ۔‬

‫ملواوں گا ضرور ملواوں گا ۔‬


‫امی بولی کب ملواو گے میں نے کہا‬
‫جب آپ کہیں میں اسکو گھر لے آوں گا‬
‫۔‬

‫امی بولی ابھی کچھ دن صبر کر تیرے‬


‫ابا کا موڈ جب سہی ھوا تو میں تجھے‬
‫بتاوں گی پھر لے آنا میں خوش ھوکر‬
‫امی کے ساتھ چمٹ گیا کتنی دیر تک‬
‫ایسے ھی امی کے ساتھ ضوفی کے‬
‫بارے میں اور اس کے گھر کے بارے‬
‫میں باتیں کرتا رھا امی کو یہ بات کسی‬
‫سے نہ کرنے کا بھی کہا اور خاص کر‬
‫آنٹی فوزیہ اور نازی سے امی نے‬
‫مجھے تسلی دی اور ۔۔‬

‫پھر امی چلی گئی اور میں بھی اٹھا اور‬


‫کپڑے بدل کر ۔‬

‫گاوں کے ھی ایک ڈاکڑ کے پاس گیا‬


‫اس سے سر پر پٹی کروائی اور دوائی‬
‫لی اور پھر گھر کی طرف چل دیا‬

‫شام ہونے والی تھی ابھی شہر تو جا‬


‫نہیں سکتا تھا ۔‬
‫اور ضوفی کو دیکھنے کا دل بھی بہت‬
‫کر رھا تھا۔‬

‫میں چلتا ھوا ۔‬

‫سیدھا آنٹی فوزیہ کہ گھر گیا ۔۔میں‬


‫جیسے ھی اندر داخل ھوا ۔‬

‫آنٹی صحن میں ھی چارپائی پر بیٹھی‬


‫تھی مجھے دیکھ کر چونکی اور جب‬
‫انکی نظر میرے سر پر بندھی پٹی پر‬
‫پڑی تو چھالنگ مار کر چارپائی سے‬
‫اتری‬

‫اور تیزی سے میری طرف بڑھتے‬


‫ھوے میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں‬
‫میں پکڑا کر بولی ۔‬

‫کی حال کیتا اے کنجراں نے تیرا کیویں‬


‫سٹ لگوائی اے میں تے کل دی پریشان‬
‫آں کنی واری تیرے کار وی گئی پر‬
‫ستا ہویا سی‬
‫توں ُ‬
‫آنٹی ایک ھی سانس میں بولی جارھی‬
‫تھی‬

‫آنٹی کی آواز سن کر عظمی اور نسریں‬


‫بھی دوڑی باہر آئیں میری حالت دیکھ‬
‫کر وہ بھی کافی گبھرا کر میرے پاس‬
‫کھڑی ھوگئیں اور تینوں ماں بیٹیاں‬
‫پوچھنے لگ گئیں کہ کیسے چوٹ لگی‬
‫۔‬

‫میں نے کہا مینوں بیٹھن تے دیو دسنا‬


‫آں کوئی ایڈی خطرے والی گل نئی ۔‬
‫انٹی بولی‬

‫اینی وڈی لڑائی ہوئی تے توں کیناں ایں‬


‫خطرے والی گل نئی ۔‬

‫مجھے یہ ٹینشن پڑ گئی کہ کہیں آنٹی‬


‫کو بھی ضوفی کا نہ پتہ چل گیا ھو کہ‬
‫اسکی وجہ سے لڑائی ھوئی ھے ۔‬

‫پھر انٹی نے جب یہ پوچھا کہ کون تھا‬


‫وہ کنجر اور کیسے لڑائی ھوئی تو‬
‫مجھے کچھ حوصلہ ھوا کہ آنٹی حقیقت‬
‫سے العلم ھے ۔‬

‫میں نے آنٹی کو ایسے ھی منگھڑت‬


‫کہانی سنائی کہ میرے دوست کی بہن‬
‫کو وہ تنگ کرتا تھا اور دوست بھی‬
‫جنید ھی بتایا ۔‬

‫اس وجہ سے اس سے مار پیٹ ھوئی‬


‫آنٹی بھی بدعائیں دینا شروع ھوگئی‬
‫کچھ دیر بعد انکل بھی آے انکو بھی یہ‬
‫ھی سٹوری سنائی ۔‬
‫انکل کچھ دیر بعد اٹھ کر دوسرے‬
‫کمرے میں چلے گئے ۔‬

‫عظمی اور نسرین پہلے تو سیرئس‬


‫ہوکر بیٹھی رہیں جب ماحول کچھ بدال‬
‫تو نسرین میرے چہرے کو دیکھتے‬
‫ھوے بولی‬

‫اے کی کھسرا بن گیا آں ۔‬

‫جبکہ عظمی زبردست کے اشارےکرتی‬


‫رھی‬

‫آنٹی نے نسرین کی اچھی بھلی‬


‫بےعزتی کردی ۔‬

‫نسرین بےعزتی کروا کر کمرے سے‬


‫باہر نکل گئی ۔‬

‫آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا‬


‫اور پھر جب میں اور آنٹی کمرے میں‬
‫رھ گئے تو انٹی جو میرے ساتھ ھی‬
‫چارپائی پر بیٹھی ھوئی تھی دروازے‬
‫کی طرف دیکھتے ھوے میری گال کو‬
‫چوم کر بولی میرا شزادہ تے ہیرو بن‬
‫گیا ھے ۔‬

‫۔********‬
‫بہت سونا لگ ریاں ایں ****نظر تو‬
‫بچاے‬

‫مجھے بھی شرارت سوجی میں نے‬


‫دروازے کی طرف دیکھتے ھوے آنٹی‬
‫کے تنے ھوے ممے پر چٹکی کاٹتے‬
‫ھوے کہا‬

‫تو پھر کیا پروگرام ھے ۔‬


‫آنٹی نے سیییییی کیا اور میرے ہاتھ کو‬
‫اپنے ممے سے جھٹکتے ھوے بولی‬
‫۔اس حال میں تو باز آجا ۔‬

‫میں نے کہا اتنی سیکسی آنٹی سامنے‬


‫ھو تو مردہ بھی زندہ ھوجاتا ھے میرے‬
‫تو بس ہلکی پھلکی چوٹ لگی ھے ۔‬

‫آنٹی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے نیم‬


‫تنے ھوے لن کو مٹھی میں بھینچ کر‬
‫چھوڑدیا اور بولی ۔‬

‫دل تو بہت کرتا ھے پر تمہارے پاس‬


‫ھی اب ٹائم نہیں ھوتا اب تو تم شہری‬
‫بابو بن گئے ھو اب ہم جیسے پینڈوں‬
‫کے گھر آنا بھی پسند نہیں کرتے ۔‬

‫آنٹی نے جیسے ھی میرے لن کو پکڑ‬


‫کر چھوڑا تو میرا لن جھٹکے سے کھڑا‬
‫ھوگیا ۔‬

‫میں نے کہا آنٹی جی بس کام کا سیزن‬


‫ھے اس وجہ سے لیٹ ہوجاتا ھوں انٹی‬
‫بولی جمعہ کو تو چھٹی ھوتی ھے تو‬
‫میں نے بتایا کہ جمعہ کو میں الھور گیا‬
‫تھا دوست کے ساتھ۔‬

‫آنٹی الہور کا سن کے بہت خوش ھوئی‬


‫اور بولی اکیلے اکیلے الہور دیکھ آے‬
‫ھو‬

‫میں نے تنے ھوے لن سے قمیض اٹھا‬


‫کر کہا آپکو ادھر ھی الھور دیکھا دیتا‬
‫ھوں ۔‬

‫انٹی ہنستےھوے میرے لن پر چپت لگا‬


‫کر بولی بےشرم کڑیاں اندر آجان گیاں ۔‬

‫میں نے جلدی سے آنٹی کا ہاتھ پکڑا‬


‫اور لن پر رکھ دیا آنٹی کہ منہ سے بھی‬
‫الریں ٹپک رھیں تھی اور پکا پھدی‬
‫بھی لیک کرگئی ھوگی آنٹی نے‬
‫دروازے کی طرف دیکھتے ھوے لن‬
‫کو مٹھی میں بھینچ لیا ۔‬
‫اس سے پہلے کہ آنٹی لن کو چھوڑتی‬
‫کہ اچانک دروازے سے‪ ،،،،،‬۔۔‬

‫قدموں کی چاپ سنائی دی آنٹی نے‬


‫بجلی کی سی تیزی سے ہاتھ میرے لن‬
‫سے‬
‫کھینچا ادھر آنٹی کا ہاتھ میرے لن سے‬
‫ہٹا ادھر عظمی ہاتھ میں چاے کی ٹرے‬
‫پکڑے کمرے میں داخل ہوئی۔‬

‫میں نے اور انٹی نے بچ جانے پر شکر‬


‫ادا کیا عظمی چاے ہمیں پیش کر کے‬
‫۔دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی‬

‫اور بڑی سیکسی نظروں سے مجھے‬


‫دیکھنے لگ گئی میں بھی آنٹی سے‬
‫نظر چرا کر اسے دیکھ لیتا ۔‬

‫میں کافی دیر ادھر بیٹھا انکے ساتھ گپ‬


‫شپ کرتا رھا ۔‬

‫عظمی نے بتایا کے اگلے ہفتے ہمارا‬


‫رزلٹ آجانا ھے ۔‬
‫پھر ہم نے کالج میں ایڈمیشن لے لینا‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے شرارت سے کہا پاس ھوگی تو‬


‫ھی کالج جاو گی عظمی بولی‬
‫*****فرسٹ آوں گی دیکھ لینا۔۔‬

‫میں نے کہا چلو لگ جاے گا پتہ کچھ‬


‫دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں آنٹی‬
‫لوگوں سے اجازت لے کر نکال اور‬
‫گھر آگیا‬
‫ابو کا موڈ خراب تھا اور ناذی مجھے‬
‫طنزیں کر رھی تھی میری اسکے ساتھ‬
‫ہلکی پھلکی منہ ماری ہوئی رات کو‬
‫امی نے مجھے باہر نہیں جانے دیا اور‬
‫میں بھی تھکاوٹ محسوس کررھا تھا‬
‫اس لیے جلد ھی سوگیا‬

‫اگلے دن بھی میں گھر پر ھی رھا امی‬


‫نے مجھے شہر جانے سے سختی سے‬
‫منع کیا کہ ابھی دو چار دن شہر نہیں‬
‫جانا میرا بہت دل کررھا تھا کہ ضوفی‬
‫کو ایک بار دیکھو پتہ نہیں وہ کس حال‬
‫میں ہوگی مگر امی کسی قمیت پر نہیں‬
‫مان رھی تھی میں نے بہت منتیں کی‬
‫مگر ابو کا سختی سے آڈر تھا کہ اسے‬
‫ابھی شہر نہیں جانے دینا ۔‬

‫گھر میں سارا دن بور ھوتا رھا‬

‫شام کو امی سے پوچھ کر آنٹی کے گھر‬


‫گیا وھاں بھی کچھ خاص بات نہ ہوئی‬
‫مگر ایک خوشخبری ملی کہ صبح آنٹی‬
‫نے اور نسرین نے شہر ڈاکٹر کے پاس‬
‫نسرین کی نظر چیک کروانے جانا ھے‬
‫۔‬
‫آنٹی نے مجھے ساتھ چلنے کا کہا مگر‬
‫میں نے طبعیت خراب ہونے کا بہانہ‬
‫بنایا اور عظمی کو بھی آنکھوں آنکھوں‬
‫میں اشارے سے سمجھا دیا کہ تیار‬
‫رہنا۔‬

‫میں آنٹی کے گھر سے واپس آگیا اور‬


‫رات ضوفی کے سپنوں میں گزری ۔‬

‫صبح آنٹی نے دس بجے شہر جانا تھا‬


‫جبکہ انکل صبح صبح ھی اپنی زمینوں‬
‫پر نکل جاتے تھے اور شام کو ھی‬
‫واپس آتے تھے اور آنٹی اور نسرین کم‬
‫از کم بھی ایک دو بجے سے پہلے‬
‫واپس نہیں آنے والی تھیں‬

‫پیچھے عظمی اکیلی رھ گئی تو اس کے‬


‫لیے مجھے بےچینی لگی ھوئی تھی کہ‬
‫کب دس بجیں میرے کان گلی کی ھی‬
‫طرف تھے کہ کب تانگے کی آواز آے‬
‫میں کبھی صحن میں جاتا تو کبھی‬
‫کمرے میں جب ساڑھے نو بجے تو‬
‫میں بیٹھک میں چال گیا اور کھڑکی‬
‫کھول کر کھڑکی کے پاس کرسی رکھ‬
‫کر بیٹھ گیا اور ریڈیو چال کر گانے‬
‫سنتے ھوے نظر باہر کو رکھی ۔‬
‫تقریبا ً ایک گھنٹے کے بعد مجھے‬
‫نسرین اور آنٹی گلی سے گزرتیں ہوئی‬
‫نظر آئیں ۔‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور باہر کے‬


‫دروازے کا ایک پٹ تھوڑا سا کھوال‬
‫اور آنکھ لگا کر دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫۔ آنٹی اور نسرین ہمارے گھر سے آگے‬
‫چلی گئ میں نے شکر ادا کیا کہ کہیں‬
‫ہمارے گھر ھی نہ اجائیں ورنہ مجھے‬
‫انکے ساتھ جانا پڑنا تھا ۔‬
‫میں نے پانچ دس منٹ مذید انتظار کیا‬
‫اور پھر صحن میں اگیا امی کو باہر‬
‫چوک میں جانے کا کہا تو امی نے‬
‫دوہزار نصحتیں کی پھر مجھے باہر‬
‫نکلنے کی اجازت ملی میں سیدھا چوک‬
‫کی طرف گیا کہ کہیں انٹی لوگ واپس‬
‫ھی نہ آگئے ھوں یا پھر ابھی چوک میں‬
‫ھی نہ کھڑی ہوں مگر میری خوش‬
‫قسمتی کے وہ تانگے میں جاچکی تھیں‬
‫۔‬

‫میں نے دوسرے تانگے والے سے‬


‫کنفرم کیا اور واپس آنٹی کے گھر کی‬
‫طرف اگیا ۔‬
‫میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا‬
‫میں نے درواز ناک کیا کچھ دیر بعد‬
‫عظمی کی آواز آئی کون ۔‬

‫میں نے کہا۔‬

‫چورررررر۔‬

‫عظمی بولی ۔‬

‫گھر میں کوئی بھی نہیں ھے چور‬


‫ساب‬

‫میں نے کہا اسی لیے تو چوری کرنے‬


‫آیا ہوں ۔‬
‫میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر بھی نظریں‬
‫دوڑا رھا تھا کہ گلی کی کوئی چغل‬
‫خور عورت تو نہیں کھڑی ۔‬

‫عظمی بولی میں نے نہیں کھولنا دروازہ‬


‫۔‬

‫میں نے بھی اب ذیادہ دیر باہر ٹھہرنا‬


‫مناسب نہیں سمجھا حاالنکہ ایسی بات‬
‫بھی کوئی نہ تھی اگر کوئی دیکھ بھی‬
‫لیتا تو کوئی فرق نہی پڑنا تھا مگر اپنے‬
‫دل میں چور ھو تو پھر سب پولیس‬
‫والے ھی نظر آتے ہیں‬
‫میں نے تھوڑا سیریس ہوتے ھوے کہا‬
‫یار کھول وی دے کہ جدوں گلی دی‬
‫کسے بُڈی نے ویکھ لیا فیر کھولیں گی‬

‫عظمی کو بھی احساس ھوا اس نے‬


‫جلدی سے دروازہ کھوال تو میں بھی‬
‫پھرتی سے اندر داخل ھوا ۔‬
‫اور مکا بنا کر عظمی کے نرم نازک‬
‫گگلے سے پیٹ میں ہلکے سے مار کر‬
‫ِڈشواں کیا اور سیدھا کمرے میں چال‬
‫گیا عظمی بھی دروازہ بند کرکے‬
‫کمرے میں آگئی میں نے اسے کمرے‬
‫کا دروازہ بند کرنے کو کہا عظمی نے‬
‫کمرے کا دروازہ بھی بند کیا اور ۔‬
‫مڑنے لگی تو میں نے اسے دروازے‬
‫کے پاس ھی بانہوں میں بھر لیا عظمی‬
‫اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی بے‬
‫صبرے تھوڑی دیر صبر کرلے امی‬
‫حالے چوک وچ ای ہوے پاویں ۔‬

‫میں نے کہا جان من میں تسلی کر کے‬


‫ھی آیا ہوں ۔‬

‫اور ساتھ ہی میں نے عظمی کے ہونٹوں‬


‫پر ہونٹ رکھ دیے عظمی کچھ دیر‬
‫مزاحمت کرتی رھی جیسے پہلی دفعہ‬
‫ملی ھو ۔‬

‫پھر میں نے جب گول مٹول مموں کو‬


‫دبایا اور اسکے شربتی ہونٹوں کا رس‬
‫چوسا تو کچھ ھی دیر میں وہ بھی گرم‬
‫ھوگئی اور ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے‬
‫بل میری گردن میں اپنے نرم مالئم ہاتھ‬
‫ڈال کر کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگ‬
‫گئی میں نے ٹراوز پہنا ھوا تھا جو میں‬
‫رات کو پہن کر سوتا تھا‬

‫ٹراوزر میں میرا لن فل ٹائٹ ھوکر‬


‫عظمی کی رانوں میں گھسا ھوا تھا اور‬
‫عظمی کا قد مجھ سے چھوٹا تھا اس‬
‫لیے وہ پنجوں کے بل ھوکر لن کو‬
‫پھدی کے ساتھ رگڑ رھی تھی ۔‬

‫ہم دونوں یوں ھی ایک دوسرے کے‬


‫ساتھ لپٹے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے‬

‫دروازے سے چارپائی تک کا سفر کر‬


‫کے چارپائی کے قریب پہنچے ۔‬

‫میں نے عظمی کو اسی پوزیشن میں‬


‫چارپائی پر لیٹایا اور خود بھی اسکے‬
‫اوپر لیٹ گیا عظمی کو جسم بھرا بھرا‬
‫تھا اور ممے تو اسکے کمال کے تھے‬
‫گول مٹول اور تنے ھوے ۔‬

‫عظمی کے ممے میرے سینے سے‬


‫لپٹے ھوے تھے کچھ دیر میں عظمی‬
‫کے اوپر لیٹا اسکے ہونٹ چوستا رھا ۔‬
‫پھر اسکی ٹانگوں کو چارپائی پر کیا‬
‫اور اسکا سر تکیہ پر رکھا ۔‬

‫اور خود اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ‬


‫گیا۔۔‬

‫میں عظمی کی ٹانگوں کے درمیان‬


‫اسکی پھدی کے قریب گھٹنوں کے بل‬
‫بیٹھ کر چھت کی طرف تنے ھوے‬
‫مموں کے ساتھ سیدھی لیٹی ھوئی‬
‫عظمی کے گول مٹول مموں کو دونوں‬
‫ھاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا ۔‬

‫عظمی سینے کو اوپر کر کے دونوں‬


‫ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھ کر منہ کو‬
‫پیچھے لیجاتے ھوے لمبی لمبی‬
‫سسکاریاں بھرنے لگ گئی میں بھی‬
‫اسکی سیکسی اداوں اور مزے سے بھر‬
‫پور سسکاریوں کو فل انجواے کرتے‬
‫ھوے اسکے ممے ذور ذور سے دبانے‬
‫لگ گیا۔۔۔۔‬

‫میرا لن فل اکڑ کر ٹراوزر سے باہر‬


‫نکلنے کے لیے اوپر کو چھالنگے مار‬
‫‪.‬رھا تھا‬

‫کچھ دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا عظمی‬


‫کے مموں کا مساج کرتا رھا اور عظمی‬
‫مزے سے سسکاریاں بھرتی ھوی پھدی‬
‫سے پانی کا سیالب نکال کر میرے لن‬
‫کو متاثر کرتی رھی ۔‬

‫میں نے عظمی کے مموں کو چھوڑا‬


‫اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اوپر کو‬
‫کھینچا اور اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا ۔‬

‫اور عظمی کی قمیض پکڑ کر اتارنے‬


‫لگا تو عظمی بولی نہیں یاسر قمیض‬
‫نہیں اتارنی کوئی آگیا تو اتنی جلدی‬
‫سنبھال نہیں جانا میں نے کہا یار کوئی‬
‫نہیں آتا عظمی بولی ایسے ھی اوپر کر‬
‫لو مگر میرے اصرار پر اسے ہار‬
‫ماننی پڑی اور یہ کہتے ھوے اس نے‬
‫بازو اوپر کردیے کہ مرواو گے‬
‫مجھے‬
‫میں‬
‫نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض پکڑ کر‬
‫اوپر کر کے اسکے سر سے نکال دی‬
‫باقی کی اس نے خود ھی بازوں سے‬
‫نکال کر سیدھی کر کے دوسری‬
‫چارپائی پر پھینک دی میں نے جلدی‬
‫سے اپنی شرٹ اتاری اور اسکی قمیض‬
‫کی طرف پھینکنے لگا تو عظمی نے‬
‫میری شرٹ راستے میں ھی کیچ کر‬
‫کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا کر‬
‫کے پھر اپنی قمیض کے اوپر پھینک‬
‫دیا ۔‬

‫عظمی کا دودھیا ممے کالے بریزیر‬


‫میں چمک رھے تھے۔‬

‫کافی عرصے کے بعد عظمی کا جسم‬


‫دیکھا تھا تو عجیب سی کیفیت ھورھی‬
‫تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا گورا جسم‬
‫دیکھ رھا ھوں عظمی نے جب میری‬
‫نظروں کو اپنے مموں کو گھورتے‬
‫دیکھا تو بریزیر کی طرف اشارہ کر‬
‫کے بولی اسے بھی اتار دوں کہ ایسے‬
‫ھی کام چل جاے گا ۔‬

‫عظمی کی طنز پر مجھے ہنسی آگئی‬


‫میں نے مسکراتے ھوے کہا‬

‫اتار دو گی تو مہربانی ۔‬
‫عرصہ دراز سے ان دودھ کے پیالوں‬
‫کا درشن نصیب نہیں ھوا۔۔‬

‫عظمی طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے‬


‫ھاتھ پیچھے کمر کی طرف لیجاکر‬
‫بریزیر کی ہک کھولتے ھوے مموں پر‬
‫آے اپنے سلکی اور لمبے بالوں کو‬
‫جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوے بولی لو‬
‫کرلو درشن تم خوش ھو جاو۔‬

‫اس کے ساتھ ھی بریزیر کی ہک کھلی‬


‫اور بریزیر نے مموں کو رھائی دی ۔‬

‫اور عظمی نے بڑے نخرے اور ادا‬


‫سے بریزیر کو بازوں سے باری باری‬
‫نکاال اور بڑا احسان کرتے ھوے مموں‬
‫کے آگے سے پردہ ہٹا کر مموں کو‬
‫جلوہ گر کیا۔‬

‫اففففففف کیا چٹے سفید ممے گول مٹول‬


‫اوپر ہلکے براون رنگ کا گول دائرہ‬
‫اوپر چھوٹا سا مگر تنا ھوا نپل مموں پر‬
‫بریزیر کے نشان مموں کے احساس نرم‬
‫نازک ھونے کی دلیل پیش کررھے‬
‫تھے ۔‬

‫بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے پیچھے‬


‫تکیے پر سر کو گراتے ھوے جب لیٹی‬
‫تو‬
‫اففففففففففف کیا سین تھا کیا نظارا تھا کیا‬
‫غضب ڈھاتے ھوے ممے چھلکے‬
‫جیسے ابھی سارا دودھ باہر کو گر جاے‬
‫گا۔‬
‫عظمی جس انداز سے پیچھے کو گری‬
‫مٹول نرم ممے بھی اپنے اسکے گول‬
‫بڑے اور جوان ھونے کا احساس دالتے‬
‫ھوے چھلک رہے تھے۔‬

‫مموں کا یہ منظر دیکھ کر میرے ھاتھ‬


‫خود با خود مموں کی طرف بڑھے اور‬
‫میرے ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں‬
‫کو مٹھیوں میں بھینچ لیا اففففففف کیا‬
‫سوفٹنس تھی کیا سیکسی ممے تھے میں‬
‫مزے لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں‬
‫بھینچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ انگوٹھوں‬
‫سے مموں پر لگے انگور کے دانوں پر‬
‫مساج کر رھا تھا عظمی پھر تتڑپنے‬
‫لگ گئی اسکی آنکھوں میں نشے کے‬
‫ڈورے تیرنے لگ گئے آنکھوں اور‬
‫گالوں کی اللی بڑھنا شروع ھوگئی‬
‫ً‬
‫عظمی کی سانسیں تیز اور منہ سے‬
‫سسکاریاں بلند ہونا شروع ھوگئی ۔‬

‫عظمی کی بے چینی اور یوں سیکس‬


‫میں تڑپ میرے اندر لگی آگ کو مزید‬
‫تیز کررھی تھی میں مموں کو چھوڑ‬
‫کر عظمی کے اوپر جھکا اور دودھ‬
‫کے پیالوں سے ہونٹ لگا کر من کی‬
‫پیاس جو بھجانے کی کوشش کرنے لگ‬
‫گیا ۔‬

‫پیاس بھجنے کی بجاے بڑھتی جارہی‬


‫تھی بڑھتی جارہی تھی آخر اتنی پیاس‬
‫بڑھی کے مموں کو منہ میں لیے ھی‬
‫اپنا ٹراوز نیچے کیا اور عظمی کی‬
‫شلوار کھینچ کر اسکے گھٹنوں تک کی‬
‫اور جلدی سے اوپر ھوا اور اسکی‬
‫ٹانگوں کو اوپر کیا اسکی شلوار کو‬
‫اتارنا بھی گوارہ نہ کیا عظمی کی شلوا‬
‫اسکے گھٹنو تک تھی میرا ٹراوزر بھی‬
‫میرے گھٹنوں تک تھا ۔‬

‫میں نے لن کو جڑ سے پکڑا نہ پھدی‬


‫کے ساتھ ٹوپے کو رگڑ کر گیال کیا نہ‬
‫تھوک لگایا یوں ھی سوکھا لن گیلی‬
‫پھدی کی نرم ہونٹوں کے درمیان پھنسایا‬
‫اور ہلکا سا جھٹکا مار کر عظمی کی‬
‫ٹائٹ پھدی میں ڈال دیا عظمی کے منہ‬
‫سے چیخ نکلی ھاےےےےےےے‬
‫امییییی جی مگر دوسرے گھسے نے‬
‫اسے ابا بھی یاد کروا دیا کیوں کہ‬

‫۔آہووووو‬

‫سارا لن پھدی کی گہرائی میں اتر چکا‬


‫تھا عظمی سر دائیں بائیں مار مار رو‬
‫رھی تھی مجھے پیچھے دھکیل رھی‬
‫تھی مگر میں ٹھہرا نہ بلکل گھسے‬
‫مارنا شروع کردیے عظمی کی پھدی‬
‫نے چند گھسوں کے بعد ھی میرے لن‬
‫کو روانی دے دی لن بھی پھدی کے‬
‫پانی سے تر ھوکر فروانی سے چل رھا‬
‫تھا کچھ ھی دیر میں عظمی کی آہو‬
‫پکار سسکیوں میں بدل گئی میرے‬
‫گھسوں سے عظمی کے ممے چھلک‬
‫چھلک کر اسکے منہ کی طرف‬
‫جارھے تھے ۔‬

‫عظمی اب گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن‬


‫‪.‬بچے دانی تک لے رھی تھی‬

‫کچھ ھی دیر بعد عظمی کا جسم اکڑنا‬


‫اور پھدی سکڑنا شروع ھوئی اور‬
‫عظمی کی انکھیں نیم بے ہوشی کا‬
‫منظر پیش کرنے لگی اس کے منہ‬
‫سے‬

‫ساراااا کردے یاسرررر اندر تک‬


‫کردےےےےے ساراااااا ایییییی‬
‫سارررااااا اییییییی یاسررررررررر‬
‫کرتی ھوئی نے ہاتھوں سے میرے‬
‫کندھوں کو اور ٹانگوں سے میری کمر‬
‫کو اور پھدی سے میرے لن کو جکڑ‬
‫کر جسم کو جھٹکے مارنا شروع‬
‫کردیے ۔۔ عظمی کی پھدی سے گرم‬
‫گرم منی میرے لن پر گر نا شروع‬
‫ھوگئی عظمی کا جسم جھٹکے کھا رھا‬
‫تھا اور اسکی ٹانگیں بری طرح کانپ‬
‫رھی تھیں کہ اچانک اسکا جسم ڈھیال‬
‫ھوا اور اسکے ھاتھوں نے میرے‬
‫کندھوں کو ٹانگوں نے میری کمر کو‬
‫اور پھدی نے میرے لن کو چھوڑا اور‬
‫عظمی نڈھال ھوکر جسم کو ڈھیال‬
‫چھوڑے لیٹی رھی۔‬

‫کچھ دیر ایسے ھی لن پھدی میں رھا تو‬


‫میں نے عظمی کی ٹانگیں اوپر کی اور‬
‫لن باہر نکال کر عظمی کی شلوار کو‬
‫پکڑ کر گھٹنوں سے نیچے کر کے‬
‫اتارنے لگا ابھی میں نے شلوار کو ہاتھ‬
‫ھی لگایا تھا کہ عظمی کو ایکدم جھٹکا‬
‫لگا اور اس نے بجلی کی سی تیزی‬
‫شلوار کو پکڑ لیا اور مجھے اتارنے‬
‫سے منع کرنے لگ گئی میں اسکے اس‬
‫ردعمل پر حیران ھوگیا کہ اسے اچانک‬
‫کیا ھوا اب پیچھے بچا ھی کیا ھے جو‬
‫یہ چھپا رھی ھے ۔‬

‫میں شلوار کو نیچے کھینچتا مگر‬


‫عظمی شلوار کو اوپر کھینچتی ۔‬

‫عظمی بس یہ ھی کہی جارہی تھی کہ‬


‫میں نے ساری شلوار نہیں اتارنی ایسے‬
‫ھی کرلو اگر کرنا ھا ۔‬

‫میرا تجسس بڑھتا جارھا تھا کہ آخر کیا‬


‫وجہ ھے پہلے تو کبھی اس نے اتنی‬
‫مزاحمت نہیں کی ۔‬
‫میں نے آخر کار بڑی مشکل سے‬
‫اسکے ہاتھوں سے شلوار چھڑوائی اور‬
‫ذبردستی اسکی شلوار کھینچ کر جب‬
‫ٹانگوں سے علیحدہ کی تو عظمی چیخ‬
‫مار کر اونچی اونچی آواز میں رونے‬
‫لگ گئی ۔۔‬

‫میں نے اسکے رونے کی پروا کیے‬


‫بغیر اسکی ٹانگوں کو اوپر کیا اور لن‬
‫کو پکڑ کر پھدی کی طرف لیجانے لگا‬
‫جیسے ھی میری نظر اسکی پھدی پر‬
‫پڑی اور جب میں نے غور سے دیکھا‬
‫تو میں ایکدم جھٹکے سے ایسے‬
‫پیچھے کو گرا جیسے مجھے چالیس‬
‫ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا ۔‬

‫عظمی اونچی آواز میں روے جارھی‬


‫تھی ۔‬

‫پھدی دیکھ کر میرا سرچکرانے لگا میں‬


‫ایک جھٹکے سے اٹھا اور عظمی کے‬
‫منہ پر ایک ذور دار تھپڑ مارا اور‬
‫پوچھا کہ یہ پھدی کو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟‬

‫ول‬
‫میں نے دوبارا ایک نظر عظمی کی ‪.‬‬
‫پھدی پر ڈالی عظمی نے دونوں ہاتھ‬
‫پھدی پر رکھ کر ٹانگوں کو جوڑ کر‬
‫ایک طرف اکھٹی ھوگئی میں غصے‬
‫سے چارپائی سے اتر کر کھڑا ہوگیا‬
‫اور عظمی کے بالوں کو پکڑا اور‬
‫بالوں کو جنجھوڑ کر بوال گشتی جھوٹی‬
‫مکار یاروں کے نام لکھوانے کے لیے‬
‫پھدی ھی ملی تھی ۔‬

‫عظمی اونچی آواز میں روتے ھوے‬


‫بولی ۔‬

‫یاسر مجھے معاف کردو ۔‬

‫بے قصور ہوں اس میں میرا کوئی‬


‫قصور نہیں ھے ۔‬

‫میں نے عظمی کے سر کے بالوں کو‬


‫جھٹکا دے کر چھوڑا بوال بکواس بند‬
‫کر خرافہ مکار عظمی بولی مار لو‬
‫مجھے جتنا تمہارا دل کرتا ھے کہہ لو‬
‫جو کہنا ھے میں ہوں ھی اسی الئک‬
‫اسی لیے میں تم سے دور بھاگتی تھی‬
‫مجھے پتہ تھا کہ تم سارا الزام مجھ پر‬
‫ھی لگاو گے ۔‬

‫میں نے ایک اور تھپڑ عظمی کے منہ‬


‫پر دے مارا اور ٹراوز اوپر کرکے‬
‫ڈوری باندھتے ھوے بوال بکواس بند کر‬
‫کتیا۔۔۔‬

‫اب میں تیرے مکر میں نہیں آوں گا ۔‬


‫اور میں باہر کی جانب لپکا ۔‬

‫عظمی ننگی ھی جمپ مار کر چارپائی‬


‫سے اتری اور بھاگ کر مموں کو‬
‫چھلکاتی ھوئی میرے پیچھے آئی اور‬
‫مجھے دروازے سے پیچھے ھی روک‬
‫کر میرے سامنے ھاتھ جوڑ کر روتے‬
‫ھوے بولی یاسر میری بات تو سن لو‬
‫مجھے ایک موقعہ تو دو کہ میں اپنی‬
‫صفائی پیش کرسکوں ۔‬

‫میں نے کہا ۔‬

‫پیچھے ہٹ جا بے غیرت جھوٹی ورنہ‬


‫تجھے جان سے ماردوں گا ۔‬
‫عظمی نے میرے ھاتھ پکڑے اور اپنے‬
‫گلے پر رکھتے ھوے بولی ۔‬

‫مارو مجھے مار دو مجھے میرا گال دبا‬


‫دو‬

‫میں زندہ بھی نہیں رہنا چاہتی ۔‬

‫میں نے جھٹکے سے اپنے ھاتھ اس‬


‫سے چ ُھڑواے اور اسے پیچھے کو‬
‫دھکا دیتے ھوے بوال ۔‬
‫جا اپنے یاروں کے پاس جا اس کو کہہ‬
‫کہ تیرا گال دباے جن کے نام پھدی پر‬
‫لکھواے پھر رھی ھو گشتی عورت کیا‬
‫میرا لن کم پڑ گیا تھا جو دو دو یار بنا‬
‫لیے رنڈی ہو تم رنڈی ۔‬

‫عظمی جو میرے دھکے سے پیچھے‬


‫جاگری تھی نیچے ھی گھیسی کر کے‬
‫میری ٹانگوں کی طرف بڑھی اور‬
‫میری ٹانگوں کو بازوں میں بھر کر‬
‫ٹانگوں سے چمٹ گئی اور بولی یاسر‬
‫میں بے قصور ہوں بے قصور ھوں‬
‫میری ایک دفعہ بات تو سن لو ۔‬

‫میں نے ٹانگیں چھڑواتے ھوے کہا‬


‫میں نے تیری کوئی بات نہیں سننی‬
‫چھوڑ میری ٹانگیں‬

‫تم ایک پلید عورت ھو رنڈی ھو تم‬


‫رنڈی ۔‬

‫عظمی بولی ۔‬

‫ایسے میں تمہیں نہیں جانے دوں گی‬


‫جب تک تم میری بات نہیں سنو گے ۔‬

‫مجھے بس ایک موقع دے دو ۔‬


‫اس کے بعد جو تمہارا دل کرے وہ کرنا‬
‫میں کچھ نہیں کہوں گی‬

‫عظمی کی حالت دیکھ کر مجھے ترس‬


‫بھی آنے لگ گیا جیسے وہ میرے پیر‬
‫پکڑے گڑگڑا رھی تھی بلبال رھی تھی‬

‫مگر اسکی پھدی پر لکھے دو نام میرا‬


‫دماغ خراب کر رھے تھے ۔‬

‫باالخر میں نے کہا ہاں کرو بکواس کیا‬


‫کرنی ھے بولو جھوٹ کیا بولنا ھے بناو‬
‫نئی کہانی کیا بنانی ھے ۔‬
‫مگر ایک بات یاد رکھنا اب میں تیرے‬
‫مکر میں نہیں آوں گا۔۔‬

‫عظمی بولی ۔‬

‫یاسر بس ایک دفعہ میری بات سن لو‬


‫پھر تم یقین کرنا یا نہ کرنا مجھے اسکی‬
‫پرواہ نہیں مگر میں تمہیں سچ بتا کر‬
‫اپنے دل سے یہ بوجھ ہٹانا چاہتی ھوں۔‬

‫تم جو سزا میرے لیے تجویز کرو گے‬


‫میں ہنس کر قبول کروں گے ۔‬

‫نہ یقین کرو گے تو مجھے پھر بھی دکھ‬


‫نہیں ھوگا ۔‬
‫مگر میرا ضمیر مطمئن ھوجاے گا‬
‫میرے دل پر سے یہ پہاڑ ہٹ جاے گا‬
‫جس کے بوجھ سے ہر وقت میرا سانس‬
‫رکتا ھے اورمیں اندر ھی اندر سے‬
‫صبح شام مرتی جارھی ہوں ۔‬

‫میں تھوڑا سا نرم ھوا ۔‬

‫اور بوال ھاں بتاو کیا بتانا ھے ۔‬

‫عظمی کھڑی ھوئی اور بولی چلو ادھر‬


‫چارپائی پر بیٹھو بتاتی ہوں سب ۔‬

‫میں نے کہا ادھر بتاو۔‬


‫عظمی میرا بازو پکڑ کر کھینچتے‬
‫ھوے بولی چلو تو بیٹھ کر بتاتی ھوں ۔‬

‫میں بوجھل قدموں سے چارپائی کی‬


‫طرف چل پڑا ۔‬

‫اور عظمی کو کہا کہ پہلے کپڑے‬


‫پہنوں مجھے تمہارے اس ننگے وجود‬
‫سے گھن آرھی ھے ۔‬

‫عظمی اثبات میں سر ہالتے ھوے‬


‫ناچارگی سے اپنے کپڑے پہننے کے‬
‫بعد بولی‬
‫یاسر جب میں اسد کے ساتھ کار میں‬
‫گئی تھی تو اسد نے اچانک کار ایک‬
‫سنسان راستے کی طرف موڑ لی میں‬
‫گبھرا گئی میں نے اس سے پوچھا بھی‬
‫کی ادھر کدھر جارھے ہیں مگر اس‬
‫نے مسکے لگا کر مجھے مطمئن کر لیا‬
‫میں اسکی کی باتیں سن کر پھر بھی‬
‫اندر سے گبھرا رھی تھی مگر پھر بھی‬
‫خود پر کنٹرول کرتے ھوے میں نے‬

‫اسدسے پوچھا کہ سہی بتاو اسطرف‬


‫کیوں جارھے ھو‬

‫تو اسد ہنستے ھوے بوال‬


‫ڈر گئی نہ‬

‫ھھھھھھھھھھ‬

‫ھھھھھھھھھھ‬

‫میں نے کہا نھی اسد اگر ڈرتی ہوتی تو‬


‫تمہارے ساتھ آتی ھی نہ۔‬

‫اسد بوال‬

‫تو پھر گبھراو نہ‬


‫ہم ایسی جگہ جارھے ہیں جہاں صرف‬
‫میں اور تم ہو گی‬

‫اور میں جی بھر کر اپنے سپنے کو‬


‫پورا کرسکوں گا‬

‫میں نے پھر اس سے پوچھا کہ‬

‫کون سا سپنا‬

‫تو اسد مسکرا کر بوال‬


‫لگ جاے گا پتہ‬

‫اتنی دیر میں اسد نے کار کو سڑک سے‬


‫اتار کر ایک کچے راستے کی طرف‬
‫موڑ دیا‬

‫اور کچھ آگے جا کر ایک پرانی سی‬


‫حویلی نظر آنے لگ گئی‬

‫جیسے کسی زمیندار کا ڈیرا ہو۔‬


‫اسد نے کار حویلی کے گیٹ کے باہر‬
‫روکی‬

‫اور ہارن بجایا تو‬

‫کچھ دیر بعد گیٹ کھال اور ایک اونچا‬


‫لمبا جوان بڑی بڑی مونچھوں واال‬
‫بدمعاش ٹائپ کا آدمی نمودار ہوا‬

‫جس کو دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول‬


‫گئے اور میں نے گبھرا کر اسد سے‬
‫پوچھا‬
‫ییییہ کون ھے اسسد‬

‫اسد نے ہنستے ھوے کہا‬

‫تم کیوں ڈر گئی ھو‬

‫یہ یار ھے اپنا میں‬

‫نے دوبارا‬

‫اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ۔‬

‫جو سات فٹ لمبا چوڑے کندھوں کا‬


‫مالک انتہائی مکرو شکل کا تھا‬
‫اور وہ سگریٹ کا کش بھر کر‬

‫اسد کو اشارے سے کار اندر النے کو‬


‫کہہ رھا تھا۔‬

‫یاسر میں نے جب غور سے اسکو‬


‫دیکھا تو‬

‫میں مزید ڈر گئی‬

‫اور اسد کو کہنے لگی۔‬


‫اسسسسد واپسسس چلو مجھے نھی اندر‬
‫جانا‬

‫تو اسد نے مجھکو ڈرے ھوے دیکھ کر‬


‫مجھے پچکارتے ھوے بوال۔‬

‫میری جان تم کیوں خامخواہ ڈر رھی‬


‫ھو‬
‫یہ جگر ھے اپنا‬

‫تم میرے ساتھ ھو‬

‫پھر بھی ڈر رھی ھو ۔‬

‫میں اسد کی تسلی سے کچھ سنبھلی‬


‫مگر پھر بھی میری ٹانگیں کانپ رھی‬
‫تھی اور‬

‫ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار‬


‫ھوگئے تھے‬

‫جسکو میں اپنی چادر سے‬

‫صاف کررھی تھی ۔‬

‫اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتی‬

‫اتنی دیر میں اسد کار کو گیٹ کے اندر‬


‫لے جاچکا تھا‬

‫اور اس آدمی نے گیٹ بند کردیا تھا ۔‬

‫یاسر میرا میرے ہاتھ پیر کانپ رھے ‪.‬‬


‫تھے میں اندر ہی اندر سے اپنے آپ کو‬
‫کوس رھی تھی کہ میں کیوں اس کے‬
‫ساتھ آئی ۔‬

‫مگر وہ کنجر مجھے اپنی باتوں سے‬


‫مطمئن کررھا تھا مگر نہ جانے کیوں‬
‫میرا دل ڈر رھا تھا مجھ پر وحشت‬
‫طاری ھورھی تھی ۔‬

‫کار حویلی میں روکتے ھی‬

‫۔اسد نے کار کا دروازہ کھوال اور باہر‬


‫نکل گیا اور‬

‫مجھ کو بھی باہر آنے کا کہا۔‬


‫مگر مجھ کو ایک انجانے سے خوف‬
‫نے گھیرا ھوا تھا۔‬

‫اسد نے جب مجھے سوچ میں پڑے‬


‫دیکھا تو‬

‫جلدی سے کار کے آگے سے گھوم کر‬


‫میری طرف آیا اور خود ھی میری سائڈ‬
‫کا دروازہ کھول کر مجھے بازو سے‬
‫پکڑ کر باہر آنے کا کہا‬
‫میں نے پھر کہا اسد پلیز چلو یہاں سے‬
‫مجھے بہت ڈر لگ رھا‬

‫تو اسد نے مجھے پھر بہالتے ھوے کہا‬


‫یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے جو تم‬
‫ایسے کررھی ھو میرا دوست کیا‬
‫سوچے گا ۔‬

‫کہ اسکی بھابھی اتنی نک چڑھی ھے ۔‬


‫یاسر مجھ سے یہاں سے بس غلطی‬
‫ہوئی جو میں نے اسد کے منہ سے جب‬
‫بھابھی کا لفظ سنا تو‬

‫میرا سارا ڈر اور خوف ایکدم سے جاتا‬


‫رھا اور میں بدنصیب اسی میں ھی‬
‫خوش ھوگئی کہ اسد نے تو مجھے اپنی‬
‫بیوی بنانے کا بھی سوچ لیا ھے اسی‬
‫لیے تو میں اس کے دوست کی بھابھی‬
‫ہوئی ۔‬

‫میں باہر نکلی اور اسد کے ساتھ کھڑی‬


‫ہوگئی ۔‬

‫اتنے میں وہ بڑی بڑی مونچھوں واال‬


‫شخص دھوتی اور لمبا سا کرتا پہنے‬
‫چلتا ہوا اسد کے پاس آیا اور‬

‫میری طرف اپنی سرخ بڑی بڑی سی‬


‫آنکھوں سے گھورتے ہو ے اسد سے‬
‫بڑی گرمجوشی سے گلے مال اور اسد‬
‫کا حال احوال پوچھنے لگ گیا ۔‬

‫اس دوران بھی اس کی نظریں مجھ پر‬


‫ھی جمی ھوئی تھیں‬
‫اور بڑی ہوس بھری نظروں سے‬
‫مجھکو سر سے پاوں تک دیکھ رھا تھا۔‬

‫میں اسکی نظروں کی تاب نہ التے‬


‫ھوے اس سے پیچھے ہٹ کر دوسری‬
‫طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی‬

‫مگر اب بھی مجھے ایسے محسوس‬


‫ھورھا تھا کہ‬

‫اس آدمی کی آنکھیں میری بیک میں‬


‫ُچبھ رھی ہیں ۔‬
‫اسد سے گلے ملتے ھوے وہ شخص‬
‫ہنس ہنس کر اسد سے باتیں کررھا تھا‬

‫اور پھر دونوں علیحدہ ہوے تو اسد نے‬


‫مجھے دوسری طرف منہ کیے کھڑے‬
‫ھوے دیکھا‬

‫تو مجھے مخاطب کر کے بوال‬

‫عظمی ان سے ملو یہ میرا یار اکری‬


‫جموں ہے‬

‫اس عالقے کا بادشاہ ھے بادشاہ‬

‫مگر اپنا جگری یار ھے‬

‫اور اکری یہ میری ہونے والی بیگم اور‬


‫تمہاری بھابھی عظمی ھے ۔‬

‫اکری نے پھر مجھے سر سے پاوں تک‬


‫دیکھا اور‬

‫بوال واہ یارا‬


‫کیا بھابھی ڈھونڈی ھے‬

‫ہیرا ھے ہیرا‬

‫خوش قسمت ہو جو ایسی بیگم مل گئی‬

‫اسد بوال‬
‫یار اب ادھر ھی ہمیں کھڑے رکھنا‬
‫ھے‬

‫یا ہمیں ہمارا کمرہ بھی دیکھاو گے‬

‫تمہاری بھابھی کے پاس صرف دو‬


‫گھنٹے ہیں‬

‫پھر میں نے اسے سکول بھی چھوڑنے‬


‫جانا ھے ۔‬
‫اکری گال پھاڑ کر ہنستے ھوے بوال‬

‫او یارا ۔یہ ساری حویلی ھی تیری ھے‬

‫جس کمرے میں دل کرتا ھے اس میں‬


‫بے فکر ہوکر چال جا یہاں تیرے یار‬
‫کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نھی‬
‫مار سکتی ۔‬

‫اور اکری پھر بڑے غور سے میرے‬


‫سینے کی طرف دیکھتے ھوے بوال‬

‫چلیں بھابھی جی آپکو آپکا کا کمرہ‬


‫دیکھاوں ۔‬

‫یاسر میری جب بھی نظر اکری کی‬


‫سرخ اور خطرناک آنکھوں پر پڑتی تو‬
‫میرا جسم کانپ جاتا‬

‫اور جب میں بھابھی جیسا شبد اس کے‬


‫منہ سے سنتی تو مجھے کچھ حوصلہ‬
‫ہو جاتا۔‬

‫اکری بڑی شان سے ہمارے آگے چلتا‬


‫ھوا‬

‫حویلی کے اندر بنے کمروں کی طرف‬


‫بڑھنے لگا‬

‫اور برآمدے سے ھوتا ھوا ایک بڑے‬


‫سے دروازے کو کھول کر اندر داخل‬
‫ھوا‬

‫میں جب اندر داخل ھوئی تو حیرانگی‬


‫سے اندر بڑے سے حال کو دیکھنے‬
‫لگ گئی‬
‫باہر سے بوسیدہ حالت دکھنے والی‬
‫حویلی اندر سے ایک شان دار محل لگ‬
‫رھی تھی‬

‫عظمی حیرانگی سے چاروں طرف‬


‫دیکھے جارھی تھی‬

‫حویلی میں ہر چیز اپنے قمیتی ہونے کا‬


‫اعالن کررھی تھی ۔‬
‫حال کے اندر کافی سارے دروازے‬
‫تھے‬

‫جو شاید کمروں کے تھے ۔‬

‫اور پھر اکری چلتا ھوا ان کمروں کے‬


‫درمیان والے کمرے کی طرف بڑھا‬
‫جس کا دروازہ باقی کمروں کے مقابلے‬
‫میں بڑا تھا جب میں کمرے میں داخل‬
‫ہوئی تو میں نے چاروں طرف کا جائزہ‬
‫لیا مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی‬
‫خواب دیکھ رھی ہوں‬

‫کمرے میں بڑا جہازی سائز کا بیڈ اور‬


‫سامنے بڑی سی الماری جس میں فل‬
‫سائز کا ٹیلی ویژن اور وی سی آر پڑا‬
‫تھا‬

‫اور کمرے کی دوسری دیوار پر بڑا سا‬


‫شیشے کا ریک بنا ھوا تھا جس میں‬

‫مہنگے سے مہنگا ایک سے بڑھ کر‬


‫ایک ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا تھا اسد‬
‫نے مجھے یوں حیران ہوتے دیکھا تو‬
‫آگے بڑھا اور مجھکو کندھوں سے پکڑ‬
‫کر قریب کرتے ھوے‬

‫ہاتھ میرے منہ کی طرف لیجا کر میرا‬


‫نقاب ہٹا دیا‬
‫اور بوال‬

‫عظمی یہ کمرہ تو کچھ بھی نہیں ھے‬


‫میں نے تو اس سے بھی بڑھ کر‬
‫تمہارے لیے کمرہ تیار کیا ھوا ھے‬
‫جس میں تم دلہن بن کر جاو گی ۔‬

‫یاسر مجھے میرے اللچ اور اونچے‬


‫خوابوں نے سب کچھ بھال دیا اور میں‬
‫پھر اسکی چکنی باتوں میں آکر خوشی‬
‫سے اس کے ساتھ چمٹ گئی ۔۔‬

‫اسد نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور‬


‫مجھے یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ میں‬
‫ابھی آیا ۔‬
‫میرے پاگل دماغ نے پھر بھی کام نہ کیا‬
‫کہ یہ مجھے چھوڑ کر باہر کیوں گیا‬
‫ھے ۔‬

‫میں اسد کے جانے کے بعد ۔بیڈ کی‬


‫طرف دیکھنے لگ گئی کہ ایسے نرم‬
‫بیڈ پر میں یاسر کی دلہن بن کر بیٹھوں‬
‫گی اور اسکے ساتھ سہاگ رات منانے‬
‫کا کتنا مزہ آے گا اور پھر میری نظر‬
‫ایک کونے میں پڑے شاندار ڈریسنگ‬
‫ٹیبل پر پڑی جس پر بڑے سائز کا‬
‫شیشہ لگا ہوا تھا میں بے اختیار‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور‬
‫آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگ گئی‬
‫کہ ایکدم میرے ضمیر نے مجھے‬
‫جنھجوڑا‬

‫کہ اے بیوقوف لڑکی تو کیا کرنے‬


‫جارھی ھے‬

‫کیا تیرا کنوارہ پن باقی ھے اگر تو اسد‬


‫سے شادی کرنا چاھتی ھے تو شادی‬
‫سے پہلے اس سے چودوانے چلی ھے‬
‫تاکہ اسے پہلے ہی پتہ چل جاے کہ تو‬
‫کسی اور سے بھی چدوا چکی ھے‬

‫پھر کیا وہ تجھ سے شادی کرے گا‬


‫ہرگز ھی نھی‬
‫اور تو صرف اس کی رکھیل بن کر رھ‬
‫جاے گی اسد تجھے چودنے کے بعد‬
‫تجھ پر تھوکے گا بھی نھی‬

‫آج تو دومنٹ کے چسکے کے لیے‬


‫یاسر کو دھوکہ دے کر اس کے ھی‬
‫دوست سے چداوانے چلی ھے اور پھر‬
‫اس سے شادی کے خواب دیکھ رھی‬
‫ھے‬

‫کہاں وہ امیر زادہ شہری بابو کہاں تو‬


‫غریب گھرانے کی گاوں میں رہنے‬
‫والی معمولی سی لڑکی‬
‫اگر تجھے اسد سے شادی کرنی ھی‬
‫ھے یا تو یہ دیکھنا چاھتی ھے کہ اسد‬
‫تم سے سچا پیار کرتا ھے اور واقعی تم‬
‫سے شادی کرنا چاھتا ھے تو اس سے‬
‫چدواے بنا ھی یہاں سے چلی جا اور‬
‫دیکھ اسد تجھے کیا کہتا ھے ۔‬

‫یاسر میں اپنے ضمیر کی جھاڑ سن کر‬


‫جیسے ھی مڑنے لگی کہ مجھے‬
‫اچانک اپنے کندھوں پر ھاتھ محسوس‬
‫ھوے میں نے جلدی سے گھوم کر‬
‫دیکھا تو اسد کھڑا مسکرا رھا تھا‬

‫اسد میرے اتنا قریب تھا کے ہم دونوں‬


‫کی سانسیں ایک دوسرے کے منہ پر پڑ‬
‫رھی تھیں اور میرا سینہ اسد کے سینے‬
‫کے ساتھ لگ رھا تھا میں ایکدم گبھرا‬
‫کر پیچھے ھوئی تو ڈریسنگ ٹیبل کے‬
‫ساتھ لگ گئی‬

‫اسد میرے اور قریب ھوا اور میرے‬


‫کندھوں پر ہاتھ رکھتے ھوے بوال‬

‫جان من شیشے میں اپنے حسن کا جائزہ‬


‫لے رھی تھی‬

‫کیا خود ھی اپنے آپ کو نظر لگانے کا‬


‫پروگرام ھے ۔‬

‫میں گبھرا کر اسد کو پیچھے کرتے‬


‫ھوے پھر دروازے کے پاس آگئی اور‬

‫بند دروازے‬

‫کی طرف دیکھنے لگ گئی‬

‫مجھے لگا جیسے دروازہ کھال ھوا‬


‫ھے‬

‫جب اسد واپس میری طرف مڑا تو میں‬


‫نے اسد سے کہا کہ کنڈی تو لگا دو‬
‫اسد ہنس کر بوال‬

‫جان یہ آٹوالک ھے‬

‫انکی کنڈیاں نھی ہوتی‬

‫میں نے جب غور سے دیکھا تو واقعی‬


‫دروازے پر کوئی کنڈی نھی لگی تھی ۔‬

‫میں شرمندہ سی ہوگئی‬


‫اپنے پینڈو پن پر ۔‬

‫اسد پھر میرے پاس آکر کھڑا ھوگیا‬

‫اور بوال یار تم نے پھر چادر اوڑھ لی‬


‫مجھ سے کیسی شرم‬

‫اور پھر مجھکو کو ساتھ لگانے لگا تو‬


‫میں نے اسکو روکتے ھوے کہا ۔ ایک‬
‫منٹ رکو تو سہی‬
‫اسد برا سا منہ بنا کر بوال کیوں کیا ھوا‬
‫میں نے اسے کہا ایک بات تو بتاو‬

‫اسد جنجھال کر بوال یار یہ وقت باتیں‬


‫کرنے کا نھی ھے‬

‫باتیں کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی‬


‫ھے‬

‫مگر میں اسد کو پیچھے کرتے ھوے‬


‫بیڈ پر بیٹھ گئی‬

‫اور اسد‬
‫میرا منہ تکتا رھ گیا۔‬

‫اسد بوال کیا ھے یار‬

‫ایسے کیوں کررھی ھو۔میں نے کہا‬

‫اسد اتنی جلدی بھی کیا ھے‬

‫تم تو ایسے کررھے ھو جیسے‬

‫میں کہیں بھاگی جارھی ہوں‬

‫ادھر بیٹھو کچھ باتیں کرتے ہیں۔‬


‫اسد کے چہرے پر غصہ جھلک رھا تھا‬
‫مگر وہ کنجر غصے پر قابو کرتا ھوا‬
‫کندھے اچکا کر میرے پاس بیٹھ گیا۔‬

‫اور پھر مسکہ لگاتے ہوے میرا ہاتھ‬


‫پکڑ کر چومتے ھوے بوال۔‬

‫میری جان میں تو اس لیے کہہ رھا تھا‬

‫کہ پھر تم نے پیپر دینے بھی جانا ھے‬

‫ہم لیٹ نہ ہو جائیں‬


‫میں دیوار پر لگے کالک کی طرف‬
‫دیکھتے ھوے بولی‬

‫ابھی تو آٹھ بھی نھی بجے‬

‫بہت ٹائم پڑا ھے ۔‬

‫اسد اپنے شوز اتار کر بیڈ کے اوپر‬


‫بیٹھتے ھوے بوال اچھا جی جیسے‬
‫جناب کی مرضی‬

‫پھر جلدی نہ مچانا کہ مجھے دیر‬


‫ھورھی ھے‬
‫پیپر کا وقت نکل جانا ھے ۔‬

‫میں مسکرا کر اسد کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے بولی‬

‫نھی کہتی جی۔‬

‫جب آپ کہو گے تب ھی جائیں گے‬

‫اب خوش‬

‫مگر مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔‬


‫اسد بوال تو پھر ٹھیک ھے‬

‫بولو کیا پوچھ رھی تھی‬

‫اور تم بھی اوپر ھوکر بیٹھ جاو‬

‫میں نیچے جھک کر سکول شوز‬


‫اتارنے لگی اور پھر شوز اتار کر پاوں‬
‫اوپر کر کے بیٹھ گئی ۔‬

‫اسد بیڈ کی ٹیک کے پاس ہو کر تکیہ‬


‫سیدھا کرتے ھوے اسپر لیٹنے کے‬
‫انداز میں ہوا اور مجھکو کو بھی اپنے‬
‫قریب لیٹنے کا کہا۔‬
‫میں چادر لپیٹے سمٹ کر اسد کے قریب‬
‫بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر سمٹ‬
‫کر بیٹھ گئی ۔‬

‫اسد بوال لیٹ جاو یار اور یہ چادر تو‬


‫اتار دو۔‬

‫میں نے اسے ٹالتے ھوے کہا اچھا‬


‫اتارتی ھوں‬

‫اتنے بے صبرے کیوں ھوگئے ھو۔‬

‫اسد پھر خود ہر کنٹرول کرتے ھوے‬


‫خود ھی سیدھا ھوگیا اور بیڈ کی بیک‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا کر میرے ساتھ ُجڑ‬
‫کر بیٹھ گیا۔‬

‫اور آہہہہ بھر کر بوال‬

‫جی بولو‬

‫میں اسکے طنزیہ انداز سے‬

‫جی بولو کہنے پر ۔اسکی طرف‬


‫دیکھتے ھوے بولی ۔‬

‫اسد تم ایک دم بدل کیوں گئے ھو‬

‫کیا تم نے مجھے صرف اسی کام کے‬


‫لیے بالیا تھا‬
‫کیا تم میرے ساتھ صرف جسمانی تعلق‬
‫ھی رکھنا چاھتے ھو۔‬

‫اسد نے مجھے جب روہانسے انداز میں‬


‫بولتے ھوے دیکھا‬

‫تو ساتھ ھی گرگٹ کی طرح رنگ‬


‫بدلتے ھوے بوال‬

‫نھی میری جان تم نے یہ بات سوچی‬


‫بھی کیسے‬

‫۔کہ میری اتنی گھٹیا سوچ ھوسکتی‬


‫ھے‬
‫میں تو ساری عمر تمہارے ساتھ گزارنا‬
‫چاھتا ہوں‬

‫میں نے تو پتہ نھی کیا کیا پالننگیں کی‬


‫ھوئی ہیں کہ ہم شادی کے بعد یہ کریں‬
‫گے وہ کریں گے‬

‫میں نے تو سوچا ھو ا ھے کہ ہم ہنی‬


‫مون ھی باہر کے ملک میں جاکر منائیں‬
‫گے ۔‬

‫میں اس کنجر کی باتوں میں پھر آ گئی‬


‫اور اس پر بھروسہ کرتے ھوے اپنے‬
‫ضمیر کو ھی برا کہنے لگی کہ اسد نے‬
‫میری گردن میں بازو ڈال کر میری گال‬
‫پر ہاتھ رکھتے ھوے ۔‬

‫میرا چہرہ اپنے منہ کی طرف کیا اور‬


‫میرے ہونٹوں کو چومنے لگا تو‬

‫میں نے جلدی سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ‬


‫رکھ لیا‬

‫اور اسد کے ہونٹ میرے ہاتھ کو‬


‫چومتے ھوے واپس پلٹے اور‬

‫اسد غصے سے میری طرف دیکھتے‬


‫ھوے بوال‬
‫یار یہ کیا حرکت ھے‬

‫کیا میں اس الئک بھی نھی کہ‬

‫تمہارے ہونٹوں کو ھی چوم لوں‬

‫میں نے پیار سے اسے کہا نھی ابھی‬


‫نھی‬

‫جب وقت آیا تو میں تمہیں کسی کام سے‬


‫نھی روکوں گی یہ جسم کیا میری روح‬
‫بھی تمہارے قبضے میں ھوگی‬

‫مگر پلیز پہلے کچھ نھی کرنا۔‬


‫اسد حیران ہوتے ھوے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بوال‬

‫میں سمجھا نھی کہ کون سا وقت کیسا‬


‫وقت‬

‫ابھی وقت نھی آیا تو پھر کب آے گا‬

‫میں نے اسد کے چہرے کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے کہا‬

‫اسد تم واقعی مجھ سے پیار کرتے ھو‬

‫تو اسد بوال کیوں تمہیں کوئی شک ھے‬


‫میں نے کہا شک نھی مگر تمہارے منہ‬
‫سے سننا چاہتی ہوں‬

‫اسد نے اپنی شہ رگ کو پکڑتے ھوے‬


‫کہا‬

‫ماں قسم جان سے بھی بڑھ کر تم سے‬


‫پیار کرتا ھوں میں نے کہا‬

‫مجھ سے شادی کرو گے نہ‬

‫اسد نے ویسے ھی شہ رگ کو پکڑے‬


‫ھوے کہا۔‬

‫ماں قسم کروں گا۔‬


‫میں نے پوچھا‬

‫کب‬

‫اسد بوال‬

‫جب تمہاری پڑھائی ختم ھوجاے گی‬

‫میں نے کہا‬

‫تو ایسا نھی ھوسکتا۔‬

‫کہ ہم جسمانی تعلق‬


‫سہاگ رات کو ھی قائم کریں ۔‬

‫یہ سنتے ھی اسد کے چہرے پر غصے‬


‫کی ایک لہر آکر گزرگئی‬

‫مگر اسد نے خود کو کنٹرول کیا اور‬

‫پھر مجھکو اپنی طرف کھینچتے ھوے‬


‫بوال‬

‫شادی سے پہلے بھی میں نے ھی کرنا‬


‫ھے‬
‫اور شادی کے بعد بھی میں نے ھی‬
‫کرنا ھے‬

‫تو پہلے اور بعد میں کیا فرق‬

‫میں نے کہا فرق ھے نہ‬

‫میرا دل کہتا ھے کہ ہم جو بھی کریں‬


‫گے سہاگ رات کو ھی کریں گے اس‬
‫سے پہلے کچھ نھی کریں گے ۔‬

‫اگر تم مجھ سے سچا پیار کرتے ھو‬


‫اور شادی کرنا چاھتے ھو تو تمہیں‬
‫میری بات ماننا پڑے گی‬

‫اسد کچھ دیر سوچتا رھا ۔ پھر بوال چلو‬


‫ٹھیک ھے میں تمہاری بات مان لیتا‬
‫ھوں‬
‫مگر میری بھی ایک شرط ھے‬

‫میں خوش ھوکر بولی‬

‫میں اپکی ہر شرط ماننے کو تیار ھوں‬

‫اسد بوال میں وعدہ کرتا ھوں کہ ہم‬


‫سیکس سہاگ رات کو ھی کریں گے‬

‫مگر آج موقع ھے‬


‫مجھے پیار تو کرنے دو۔‬

‫کہ میں اس الئک بھی نھی ہوں ۔اسد کا‬


‫لہجہ روہانسہ ہوگیا‬

‫جیسے ابھی رونے لگا ھو۔‬

‫میں نے جلدی سے اسد کے گالوں پر‬


‫ھاتھ رکھا اور اپنے ہونٹ اسد کے‬
‫ہونٹوں پر رکھ کر چومنے‬

‫لگ گئی‬

‫ہم دونوں کافی دیر ایک دوسرے کے‬


‫ہونٹ چوستے رھے‬

‫اسد سے ذیادہ میں تجربہ استعمال کر‬


‫رھی تھی جو یاسر تم سے سیکھا تھا‬
‫اور بڑی مہارت سے اسد کے ہونٹ کو‬
‫چوستی تو کبھی اسکی زبان کو اپنی‬
‫زبان سے پکڑنے کی کوشش کرتی مجھ‬
‫کو اپنی مہارت دیکھانا مہنگی پڑی‬

‫اسد تو ہکا بکا رھ گیا کہ جس لڑکی کو‬


‫وہ ایک سیدھی سادھی پینڈو لڑکی‬
‫سمجھ رھا تھا‬

‫وہ فرنچ کس ایسے کررھی ھے جیسے‬


‫انگریزوں نے بھی اس سے سیکھی ھو۔‬
‫ضرور سالی کا کسی کے ساتھ چکر‬
‫رھا ھوگا ۔‬

‫تبھی اتنی ایکسپرٹ ھے‪ .‬۔‬

‫اسد ساتھ ساتھ کسنگ کررھا تھا اور‬


‫ساتھ ساتھ سوچوں میں گم وہ میرے‬
‫مموں کو ایک ھاتھ سے باری باری‬
‫پکڑ کر دبا رھا تھا۔‬
‫میں نے دونوں ھاتھوں سے اسد کا سر‬
‫پکڑا ھوا تھا اور اپنی مستی سے اپنے‬
‫ہونے والے شوہر کے ہونٹ چوس رھی‬
‫تھی‬

‫کہ اسد خود کھسکتے ھوے بیڈ پر لیٹتے‬


‫ھو ے مجھکو بھی ساتھ لیٹانے لگا‬

‫میں بھی اسکے ساتھ نیچے کھسکتی‬


‫گئی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف‬
‫منہ کر کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رھے‬
‫تھے‬
‫اسد کا لن پینٹ پھاڑ کر باہر آنے کے‬
‫لیے بے چین تھا اور میری پھدی کے‬
‫ساتھ لگ رھا تھا میں بھی مزے میں‬
‫ڈوب چکی تھی اور کچھ دیر پہلے کی‬
‫سوچ میرے دماغ سے نکل چکی تھی‬

‫میرا جنون سب حدوں کو پار کرنے کا‬


‫اعالن کررکھا تھا‬

‫اسد نے آہستہ اہستہ مجھکو سیدھا لیٹا‬


‫دیا اور میری قمیض کے اندر ھاتھ ڈال‬
‫کر میرےبپیٹ پر پھیرنے لگ گیا‬
‫میرے سرور میں اور اضافہ ہوگیا‬

‫اور میں اسد کے ہونٹوں کو کاٹنے پر‬


‫تُل گئی اسد نے جب میرا یہ جنون دیکھا‬
‫کہ میں اب فل گرم ھوگئی ھوں تو‬

‫اسد نے ھاتھ کو مموں کی طرف لیجانا‬


‫شروع کردیا‬

‫اور آخر کار اسد کا ہاتھ میرے مموں‬


‫تک پہنچ گیا‬
‫اور اسکا ہاتھ میرے مموں سے چھیڑ‬
‫چھاڑ کرنے لگ گیا میں اسد کے ہاتھ‬
‫کے لمس سے مزید بے چین ھوکر اپنی‬
‫پھدی کو اسکے پینٹ کے ابھار پر‬
‫رگڑنے لگی‬

‫اسد کو بھی علم ھوگیا کہ‪ .‬لوہا اب‬


‫مکمل گرم ھو چکا ھے‬

‫تو اسد نے مموں کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ‬


‫نیچے لیجا کر اپنے پینٹ کی زپ‬
‫کھولی اور‬

‫انڈر وئیر سے لن نکال کر کھلی زپ‬


‫سے باہر نکال لیا‬
‫اور پھر ھاتھ اوپر کر کے میرے مموں‬
‫کو دبانے لگا‬

‫میں اپنی مستی میں گم تھی‬

‫مجھے پتہ ھی نھی چال کہ‬

‫نیچے کیا واردات ھونے والی ھی‬

‫اسد نے لن میری شلوار کے اوپر سے‬


‫ھی پھدی کے ساتھ رگڑنا شروع کردیا‬
‫میں نے لن کو اپنے چڈوں میں بھینچ لیا‬
‫اور سسکاریاں بھرنے لگ گئی‬

‫اسد نے موقع غنیمت جانا اور ھاتھ‬


‫نیچے لیجا کر میری السٹک والی شلوار‬
‫میں ہاتھ ڈال کر پھدی کے اوپر رکھ دیا‬
‫پھدی تو پہلے نکو نک بھری ہوئی تھی‬
‫جیسے ھی اسد کی انگلیاں میری پھدی‬
‫سے ٹکرائیں میرے منہ سےلمبی‬
‫سسکاری نکلی‬

‫اور میں نے سیدھی لیٹی ھوئی نے ھی‬


‫گھوم کر اسد کے ساتھ لپٹ گئی اور‬
‫اسے اپنے بازوں میں جکڑ کر کس لیا‬
‫اور ساتھ ھی چڈوں میں اسد کے ہاتھ کو‬
‫جکڑ لیا‬

‫اور پھدی سے مینہ برسنے لگا اور‬


‫میری سانسیں اکھڑنے لگی‬

‫اور پھر برسات بھی تھم گئی سانسیں‬


‫بھی تھم گئی‬

‫اور میراجسم ڈھیال پڑ گیا‬

‫اسد نے جلدی سے میری گیلی پھدی‬


‫سے ھاتھ ہٹایا اور میری شلوار سے ھی‬
‫ہاتھ کو صاف کیا اور کروٹ لیے‬
‫مجھے اپنے ساتھ چمٹی ھوئی کی گانڈ‬
‫سے شلوار نیچے کی اور پھر آگے سے‬
‫نیچے کی‬

‫اور لن پکڑ کر پھدی کے اندر کرنے‬


‫لگا‬

‫جیسے ھی میری پھدی کے ساتھ اسد کا‬


‫لن ٹچ ہوا‬

‫تو مجھے ایکدم ہوش آگیا اور میں نے‬


‫اسد کے سینے کے ساتھ لگی نے اپنے‬
‫دونوں ھاتھ آگے کیے اور اسد کے‬
‫سینے پر رکھتے ھوے اسے زور سے‬
‫دھکا دے کر پیچھے کیا اور جلدی سے‬
‫شلوار پکڑ کر اوپر کرلی اور‬

‫اسد کی طرف دیکھ کر بولی یہ کیا‬


‫کرنے لگے تھے‬

‫میرے اچانک دھکے سے‬

‫اسد ویسے ھی لن ہاتھ میں پکڑے‬


‫پیچھے کو سیدھا لیٹ گیا‬

‫اور غصے اور حیرت کے ملے جلے‬


‫تاثرات سے مجھے گھورنے لگ گیا ۔‬

‫اسد بوال یہ کیا بتمیزی ھے‬


‫عظمی بولی بتمیزی تو تم کرنے لگے‬
‫تھے‬

‫تم نے مجھ سے اپنی ماں کی قسم کھا‬


‫کر وعدہ کیا تھا‬

‫کہ ہم شادی سے پہلے کچھ نھی کریں‬


‫گے‬

‫مگر تم تو ابھی سب کچھ بھول گئے‬


‫اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اسد ۔ غصے سے بوال‬


‫یار تم اب ایسے بھی نخرے مت کرو کہ‬
‫اتنی پارسا بن رھی ھو۔‬

‫میں اسد کی پارسا والی بات سن کر‬


‫حیران ھوتے ھوے بولی‬

‫اسد کیا مطلب ھے تمہارا‬

‫۔اسد پھر اسی انداز میں بوال مطلب‬


‫صاف ھے کہ‬

‫تم ایسے کررھی ھو جیسے پہلی دفعہ‬


‫کروانے لگی ھو۔‬

‫یاسر بیشک تم نے میرے ساتھ بہت‬


‫دفعہ کیا تھا مگر نجانے کیوں‬

‫میرا رنگ ایکدم سرخ ھوگیا‬

‫اور میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور‬


‫غصے سے بولی‬

‫کیا بکواس کر رھے ھو اسد‬

‫تو اسد ہنستے ھوے بوال بکواس نھی‬


‫سچ کہہ رھا ھوں ۔تم جیسے میرے ساتھ‬
‫کسنگ کر رھی تھی‬
‫کوئی شریف لڑکی ایسے نھی کرتی ۔‬

‫میں اسد کی بات اور طعنہ سن کر‬


‫رونے والی ھوگئی‬

‫اور روتے ھوے بولی‬

‫اسد بکواس بند کرو‬

‫میں تمہارے ساتھ ادھر آگئی اور‬


‫تمہاری اپنے بارے میں فیلنگ دیکھ کر‬
‫سب کچھ بھول کر تم سے تھوڑی دیر‬
‫پیار کیا کر لیا‬

‫تو تم‬
‫میری محبت میرے پیار میرے اعتماد‬

‫کا یہ صلہ دے رھے ھو کہ مجھے‬

‫ایک بازاری چلتی پھرتی لڑکی بنا دیا۔‬


‫میں ھی غلط تھی جو تمہاری باتوں میں‬
‫آگئی‬

‫اور اپنے گھر والوں کو دھوکا دے کر‬


‫تم پر یقین کر کے تمہارے ساتھ چلی‬
‫آئی‬

‫خبردار آج کے بعد تم نے مجھے اپنی‬


‫شکل بھی دیکھائی‬
‫جھوٹے مکار‬

‫اور یہ کہتے ھوے میں نے اپنی چادر‬


‫اٹھائی اور اوپر لینے لگی ۔‬

‫تو‬

‫اسد قہقہہ لگا کر ہنستے ھوے بوال‬

‫جا کدھر رھی ھو جان من‬

‫میری شکل تو تب دیکھو گی جب تم‬


‫اپنی شکل کسی کو دیکھانے کے قابل‬
‫نھی رہو گی‬
‫اور‬

‫ادھر تم آ تو اپنی مرضی سے گئی ھو‬


‫مگر جاو گی میری مرضی سے‬

‫چلو شابا ش خود ھی شلوار اتار کر‬


‫سیدھی ہوکر بیڈ پر لیٹ جاو‬

‫مجھے مجبور مت کرو کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ابھی اسد نے اتنا ھی کہا تھا‬


‫کہ مینن نے ایک ذور دار تھپڑ اسد کے‬
‫منہ پر مارا‬

‫اور روتے ھوے بولی‬

‫جھوٹے مکار بےغیرت کتے حرام‬


‫زادے‬

‫میرے ساتھ پیار اور شادی کرنے کا‬


‫سب ڈرامہ کیا تھا‬
‫میں جا رھی ھوں اور مجھے تم روک‬
‫کر دیکھاو ۔‬

‫دیکھتی ہوں کون مجھے روکتا ھے‬

‫میں یہ کہتے ھوے اٹھ کر بیڈ سے‬


‫نیچے اترنے لگی ۔تو ۔اسد جو ابھی تک‬
‫اپنی گال پر ھاتھ رکھے بیٹھا تھا‬

‫اس نے‬

‫مجھے بازو سے پکڑا اور ایک ھاتھ‬


‫سے ھی گھما کر بیڈ پر دے مارا‬
‫اور خود میرے پیٹ پر سوار ھوگیا اور‬
‫میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے میں ٹانگیں‬
‫چال رھی تھی اور اونچی آواز میں اسد‬
‫کو گالیاں دے کر ہاتھ چھڑوانے کی‬
‫کوشش کر رھی تھی‬

‫اسد نے جیسے تیسے میرے دونوں‬


‫ہاتھوں کی کالئیاں اپنے ایک ھاتھ میں‬
‫کیں‬

‫اور ایک ذور دار تھپڑ میرے منہ پر‬


‫مارتے ھوے بوال‬
‫ُچپ کر گشتئے‬

‫تمہاری اتنی جرات کہ مجھ پر ھاتھ‬


‫اٹھاے دو ٹکے کی حرامزادی‬

‫آج تجھے بتاتا ھوں کہ کیسے کسی مرد‬


‫پر ھاتھ اٹھایا جاتا ھے‬

‫آئی بڑی مجھ سے شادی کرنے والی‬


‫تیرے جیسیاں روز پتہ نھی کتنی اسی‬
‫بیڈ پر چودتا ھوں‬

‫اور آج تجھے میں بھی چودوں گا اور‬


‫میرا یار اکری بھی تجھے چودے گا‬

‫پھر جا کر مجھے سکون ملے گا پھر‬


‫مجھے مارے ھوے تھپڑ کا حساب‬
‫برابر ھوگا ۔‬

‫ایک تھپڑ کے بدلے آج تیری پھدی میں‬


‫دو لن جائیں گے‬
‫اپنی اوقات دیکھ سالی اور مجھے دیکھ‬

‫اور تو چلی ھے مجھ سے شادی کرنے‬

‫تیرے جیسی کو میں اپنے گھر میں‬


‫نوکرانی نہ رکھوں آئی بڑی میں اسد کا‬
‫تھپڑ کھانے اور اسکی دھمکیاں سننے‬
‫کے بعد سہم گئی اور انکھیں پھاڑے‬
‫اسد کو دیکھی جارھی تھی‬

‫اسد کے خاموش ہوتے ھی میں اسپر‬


‫چالئی‬
‫چھوڑ مجھے کتے‬

‫میں یاسر کو بتاوں گی‬

‫اور اپنے ابو کو بھی‬

‫تو اسد غصے سے بوال‬

‫جا دس دے جنوں دسنا ای‬

‫لن وڈ لے تیرا او ییندڑ وی تے تیری‬


‫ماں دا یییندڑ تیرا پیو وی‬

‫میں خود کو بے بس محسوس کرنے‬


‫لگ گئی تھی‬

‫ایک تو انجان جگہ دوسرا میں اکیلی‬


‫جان‬

‫اوپر سے مجھے یہ خوف کہ‬

‫اگر سچ میں اس نے اس ُمچھل کو بلوا‬


‫لیا میں تو ویسے ھی مرجاوں گی ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ اسد پر کسی بات کا‬
‫اثر نھی ھورھا تو‬

‫میں نے پھر روتے ھوے اسد کی منتیں‬


‫شروع کردیں اور‬

‫بولی اسد تمہیں تمہاری ماں کا واسطہ‬


‫مجھے جانے دو‬

‫۔تمہاری بہن بھی جوان ھے اگر کوئی‬


‫اس کے ساتھ ایسا کرے تو تم پر کیا‬
‫بیتے گی سوچو تمہارے ماں باپ پر کیا‬
‫بیتے گی‬

‫میری عزت نہ خراب کرو‬


‫میرے ماں باپ جیتے جی مر جائیں‬
‫گے‬

‫اسد نے میری بات سنی ان سنی کی اور‬


‫پیچھے ھو کر میری ٹانگوں کے پاس‬
‫پہنچ کر میری شلوار پکڑ کر نیچے‬
‫کھینچ دی ۔میں نے ایک ذور دار چیخ‬
‫ماری ۔اور اپنی ایک ٹانگ آگے کی اور‬
‫پورے زور سے اپنی ٹانگ اسد کے لن‬
‫پر ماری ۔‬

‫اسد لن پر ہاتھ رکھ کر بلبالیا‬

‫اور ایک ذور دار چیخ مارے‬


‫ھاےےےےےھھھ میں مرگیا اور لن‬
‫کوپکڑے پیچھے کو قالبازی کھا کر بیڈ‬
‫سے نیچے گرا اور اسکے ساتھ ھی‬
‫باہر کا دروازہ دھڑم سے کھال اور‬
‫اکری ایکدم اندر داخل ھوا اور پہلے‬
‫اس نے مجھے دیکھا اور پھر جب‬
‫اسکی اسد پر نظر پڑی جو بیڈ سے‬
‫نیچے گرا تڑپ رھا تھا تو وہ مجھے‬
‫گھورتا ھوا اسد کی طرف بھاگا‪ .‬اور‬
‫جاکر اسد کوپکڑ کر کھڑا کرنے لگ‬
‫گیا ۔‬

‫میں نے موقع غنیمت جانا اور چادر‬


‫ھاتھ میں پکڑی اور ننگے پاوں باہر کی‬
‫طرف بھاگی ۔‬
‫مگر میں جیسے ھی دروازے سے باہر‬
‫نکلی تو سامنے ایک بڑی بڑی‬
‫مونچھوں واال بدمعاش ہاتھ میں گن لیے‬
‫میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور‬
‫میرے قریب پہنچ کر ایک زوردار تھپڑ‬
‫میرے منہ پر مارا تو میں الٹی واپس‬
‫کمرے کے اندر گری تو اس نے ساتھ‬
‫ھی دروازہ باہر سے بند کردیا ۔‬

‫اور میری جیسے ھی پیچھے نظر پڑی‬


‫تو میری جان حلق میں اٹک گئی کہ ۔۔۔۔‬

‫میں بڑے غور سے عظمی کی بات سن‬


‫رھا تھا‬

‫عظمی ایکدم اونچی اونچی رونے لگ‬


‫گئی ۔‬

‫میں جو پہلے اسکی یہ سب باتیں سن‬


‫چکا تھا ۔‬

‫تو میں جھنجھال کر غصے سے بوال‬


‫بس یہ ھی بکواس سنانی تھی جو پہلے‬
‫بھی سنا چکی ھو ۔‬

‫اور میں ساتھ ھی کھڑا ہوگیا عظمی‬


‫روتے ھوے ایکدم چپ ھوگئی اور بولی‬
‫پوری بات تو سن لو ۔‬

‫میں غصے سے عظمی کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے دوبارا بیٹھ گیا ۔‬
‫عظمی بولی ۔‬

‫میں نے جب پیچھے مڑکر دیکھا تو‬


‫اکری میری طرف بڑے غصے سے بڑ‬
‫رھا تھا‬

‫اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر دوبارہ‬


‫دروازے کی طرف بڑھتی اکری نے‬
‫مجھے سر کے بالوں سے پکڑا اور‬
‫مجھے کھڑا کرتے ھوے بوال بڑی‬
‫جلدی ھے تجھے اکری کے پنجرے‬
‫سے آزاد ہونے کی ۔‬

‫یہاں ہر لڑکی اپنی مرضی سے آتی ھے‬


‫مگر جاتی اکری کی مرضی سے ھے ۔‬

‫یہ کہتے ھوے اکری نے مجھے بالوں‬


‫سے پکڑے بیڈ کی طرف گھسیٹتے‬
‫ہوے لے گیا اور میں بے بس الچار‬
‫روتی ہوئی اسکی منتیں کرتی ہوئی اس‬
‫کے آگے گڑاگڑاتی رھی مگر اس ظالم‬
‫اور سفاک شخص نے میری ایک نہ‬
‫سنی اور مجھے گھسیٹتا ہوا بیڈ کے‬
‫پاس لے گیا اور پھر ایک ذوردار تھپڑ‬
‫میرے منہ پر مارا مجھے ایسے لگا‬
‫جیسے میری گال پر کسی نے ہتھوڑا‬
‫ماردیا ھو اس کا ہاتھ کم اور لوھا ذیادہ‬
‫تھا ۔‬

‫میں تھپڑ کھاتے ھی لڑکھڑا کر بیڈ پر‬


‫جاگری ۔اور اس کو واسطے دینے لگی‬
‫پھر گڑگڑانے لگی کہ شاید اس کے دل‬
‫میں رحم آجاے مگر وہ نشے کی حالت‬
‫میں جھوم رھا تھا اسکی نشے سے‬
‫چور بڑی بڑی خوفناک آنکھیں میرے‬
‫سینے پر ٹکی ہوئیں تھی ۔‬

‫۔دوستو آگے سٹوری میں سیکس کی‬


‫منظر کشی اور سٹوری میں عظمی کے‬
‫ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس نے سادہ الفاظ‬
‫میں مجھے بتایا تھا مگر اس سین کو‬
‫مذید سیکسی بنانے کے لیے عظمی کی‬
‫بات کو میں اپنے انداز‬

‫میں ‪ explain‬کروں گا‬


‫امید ھے آپکو اعتراض نہی ھوگا یہ‬
‫تبدیلی صرف آپ کی انٹرٹینمنٹ کے‬
‫لیے کررھا ھوں‪.‬۔‬

‫ادھر اسد بھی کھڑا ھوگیا تھا اور اپنے‬


‫لن کو ہاتھ میں پکڑے مسل رھا تھا اور‬
‫ساتھ میں اکری کو کہہ رھا تھا ۔‬
‫سکی نہ‬‫اکری اج اے گشتوڑ ایتھوں ُ‬
‫جاوے ایدی پھدی نوں اج پُھدا بنا کے‬
‫پیجنا اے ۔‬

‫یہ کہتے ھوے اسد بھی بیڈ کی دوسری‬


‫سائڈ سے میری طرف بڑھنے لگا ۔‬

‫اب ایک طرف اکری کھڑا تھا اور‬


‫دوسری طرف اسد ۔‬
‫اکری اپنی مکرو شکل کو مذید بگاڑتے‬
‫ھوےمونچھوں کو تاو دیتے ہوے‬
‫بدمعاشی انداز میں قہقہہ لگا کر ہنسا تو‬
‫اس کے گندے دانت نظرے آنے لگے‬
‫اور وہ بوال ۔‬
‫او توں فکر نہ کر اینا ذبردست تے‬
‫سکا کیویں جان دیواں گا‬‫مست مال میں ُ‬
‫۔‬

‫پنڈ دی پلی ہوئی جوانی اج میرے ہتھے‬


‫چڑی اے تے نالے لگدے ہتھ تیرا بدلہ‬
‫وی لینا اے ۔‬
‫جیڑے لن تے اینے لت ماری سی اج او‬
‫ھی لن ایسے منہ وچ جاوے گا تے اے‬
‫چوسے گی ۔‬

‫ھا ھا ھا ھا ھا ۔‬

‫اسد بوال ۔‬
‫ہاں اکری یار اس سالی نے میرے لن پر‬
‫ٹانگ ماری تھی یہ تو شکر ھے کہ اس‬
‫گشتی کا پیر میرے ٹٹوں پر نہی لگا‬
‫ورنہ میں تو گیا تھا۔‬

‫چل آج اسکی سہاگ رات کا ارمان‬


‫سہاگ دن کو پورا کر دیتے ہیں ۔۔اور‬
‫ایک لن کے ساتھ ایک لن منہ دیکھائی‬
‫میں گفٹ بھی دیں گے‬
‫ھا ھا ھا ھا ھاھا ۔‬

‫میں سہمی ہوئی بیڈ پر سمٹی ہوئی کبھی‬


‫اکری کی طرف س دیکھتی تو کبھی‬
‫اسد کی طرف ۔‬

‫مگر دونوں کی طرف سے مجھے‬


‫کوئی رحم کی امید نظر نہ آرھی تھی‬
‫بلکہ‬
‫دو دو لن ایک ساتھ لینے کی یقین دہانی‬
‫کرائی جارھی تھی ۔‬

‫میں نے جب دونوں کے دل کہ ارمان‬


‫انکی زبانوں سے سنے تو میرا حلق‬
‫خشک ھوگیا خوف کے مارے میرا‬
‫جسم کانپنے لگ گیا میرے ہونٹ ایسے‬
‫تھرتھرانے لگے جیسے دسمبر کی‬
‫راتوں میں بارش میں بھیگ جانے کے‬
‫بعد سردی سے تھرتھراتے ہیں ۔‬
‫میں مذید سمٹتی ھوئی پیچھے بیڈ کی‬
‫ٹیک کے ساتھ جا لگی اور اونچی آواز‬
‫میں چالنے لگی بچاو مجھے بچاو بچاو‬
‫۔‬

‫میں مدد کے لیے چال رھی تھی اور وہ‬


‫دونوں میں میرا تمسخر اڑاتے ھوے‬
‫ایک ساتھ قہقہے لگا رھے تھے اور‬
‫ساتھ ساتھ مجھے اکسا رھے تھے اور‬
‫اونچی آواز میں مدد کے لیے بالو اور‬
‫اونچی چالو شاید کو آجاے تمہیں بچانے‬
‫۔‬

‫ھا ھا ھا ھا‬

‫اکری بوال‬

‫مگر کان کھول کر سن لے تیری آواز‬


‫اس حویلی سے باہر تو دور کی بات‬
‫ھے اس کمرے کے باہر کھڑے میرے‬
‫گن مین بھی نہیں سن سکتے ۔‬

‫سمجھی‬

‫پھر بھی تو چال کر اپنا شوق پورا کر‬


‫اور ہم تیری مست جوانی کے ساتھ من‬
‫مستیاں کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں‬

‫ھا ھا ھا ھا‬
‫آہستہ آہستہ ان دونوں کے قہقہے بلند‬
‫ہوتے گئے اور میری آواز دبدتی گئی‬
‫بالخرہ انکے مکرو قہقہوں میں میری‬
‫پکار دب گئی اور دونوں ایک ساتھ‬
‫میرے دائیں بائیں بیڈ پر بیٹھے اور‬
‫دونوں کے ہاتھ میرے جسم کی طرف‬
‫بڑھے ۔‬

‫میں نے جب ان دونوں کو اپنے اتنے‬


‫قریب دیکھا تو اٹھ کر سامنے کی طرف‬
‫بھاگنے لگی تو میرے ایک بازو کو‬
‫اکری نے پکڑ لیا اور میرے دوسرے‬
‫بازو کو اسد نے پکڑ لیا اور کھینچ کر‬
‫مجھے واپس بیڈ پر پھینکا تو میں بلکل‬
‫سیدھی بیڈ پر آکر گری میرے جسم پکو‬
‫صرف سکول یونیفارم تھا ۔‬

‫میری چادر پہلے ھی اتر چکی تھی ۔‬

‫جب میں پیچھے کو گری‬


‫تو میرے بڑے بڑے تنے ہوے ممے‬
‫ذور سے ہلے ۔‬

‫میرے ہلتے ھوے چھلکتے ھوے مموں‬


‫کو اکری نے جب دیکھا تو ۔‬

‫اس نے سییییییییی افففففففففف ھوے‬


‫اوے کیا بُبے ہیں اور دوسرا ہاتھ میرے‬
‫ممے پر رکھ کر میرے ممے کو اپنے‬
‫بڑے سے ہاتھ میں لے کر دباتے ھوے‬
‫بوال‬
‫اسد یار کیا مال گھیر کر الے ھوے دل‬
‫خوش کردیا اسکے ممے اتنے ذبردست‬
‫ہیں تو اسکی پھدی اور گانڈ کیسی کمال‬
‫ہوگی ۔‬

‫واہ یار آج تو تم نے دل خوش کردیا اب‬


‫سمجھ لے تو میرا خاص بندا ھے ۔‬
‫اسد نے کسی خادم کی طرح سینے پر‬
‫ہاتھ رکھ کر سرخم کیا۔‬

‫اکری نے میرے بڑے سائز کے ممے‬


‫کو اپنی مٹھی میں بھرا ھوا تھا اور دبا‬
‫دبا کر مزے سے‪ .‬افففففففف یارررررر‬
‫کیا فوم ھے ۔۔۔‬

‫میں چیخ چیخ کر تھک چکی تھی میرا‬


‫گال بیٹھ گیا تھا ۔مجھے اب پورا یقین ھو‬
‫چکا تھا کہ میں کسی صورت میں دولن‬
‫لیے بغیر ۔یہاں سے نہیں جاسکتی ۔‬

‫مجھے اسد سے ذیادہ اس دیوقامت‬


‫اکری سے خوف آرھا تھا ۔‬

‫جسکا قد اتنا بڑا جسکے ھاتھ اتنے بڑے‬


‫کہ میرے اتنے بڑے ممے کو پورا ھی‬
‫ہاتھ میں لے لے اسکا لن کتنا بڑا ھوگا ۔‬
‫مارے خوف کے اے سی والے کمرے‬
‫میں مجھے پسینہ آرھا تھا ۔‬

‫اتنے میں اکری نے اسد کو کہا کہ یار‬


‫کیمرا تو پکڑ کے ال اس پھلجڑی کی‬
‫ساتھ فلم بھی بناتے ہیں ۔‬

‫بچی ٹائٹ ھی مشکل وقت میں کام آے‬


‫گی ۔‬
‫اور جب چدتے ھوے اسکی فلم ہمارے‬
‫پاس ھوگی تو جب چاہیں گے یہ مٹیار‬
‫دوڑی چلی آے گی ۔۔۔‬

‫ورنہ تو یہ‬

‫پُھر ہوجاے گی ۔‪.‬‬

‫ایسا مال بار بار ہاتھ نہیں آتا۔‬

‫میں نے جب اپنے چدنے کی فلم بننے‬


‫کا سنا تو میں نے پھر پھٹی آواز میں‬
‫چالنا شروع کردیا مگر کون تھا جو‬
‫میری پکار سنتا اسد میرا بازو چھوڑ کر‬
‫کمرے میں بنے ایک اور دروازے کی‬
‫طرف بڑھا میں نے جب اسد کو کیمرہ‬
‫لینے جاتے دیکھا تو میں نے پورا زور‬
‫لگا کر اکری سے اپنا بازو ُچھڑوانے‬
‫کے لیے ذور لگایا مگر میرے بازو پر‬
‫اسکی گرفت ایسی تھی کے میرا سارا‬
‫ذور لگانا بھی میرے کام نہ آیا۔‬

‫میں نے جب دیکھا کہ اب میرا بچنا نہ‬


‫ممکن ھے تو میں نے اکری کو ماں‬
‫بہن کی گالیاں دینا شروع کردیں ۔‬

‫اکری ہنستا ہوا ایکدم سیریس ھوا اور وہ‬


‫اپنے دیوقامت جسم کے ساتھ بیڈ پر‬
‫چڑھا اور میرے سامنے آتے ھی اس‬
‫نے میرے منہ پر ایک زوردار تھپڑ‬
‫مارا اور بوال گشتی کی بچی مجھے‬
‫گالی دیتی ھے اکری جمو کو گالی دیتی‬
‫۔‬
‫ہے اسکے ساتھ ھی پھر میرے منہ پر‬
‫تھپڑوں کی بارش شروع ہوگئی اکری‬
‫نے میرے دونوں بازوں کو کالئیوں‬
‫سے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑا ھوا تھا‬
‫اور مجھے گندی فاحشہ گالیاں دیتا ھوا‬
‫ماری جارھا تھا ۔‬

‫اکری کے تھپڑ کھا کر میری زبان اور‬


‫میری آنکھیں بند ھوگئیں اور میں نڈھال‬
‫ھوکر پیچھے کو گرنے لگی ۔‬

‫مگر اکری نے میری کالئیوں کو پکڑا‬


‫ھوا تھا تو میں ہوا میں ھی جھول رھی‬
‫تھی ۔‬

‫اکری نے جب میری حالت دیکھی تو‬


‫میری کالئیوں کو چھوڑ دیا ۔‬

‫میں بے جان سی ھوکر پیچھے گری‬


‫اور کچھ دیر نیم بےہوشی کی حالت میں‬
‫پڑی ۔‬

‫مجھے اسد کی آواز نے دوبارا ہوش‬


‫دالیا۔‬
‫جب وہ اکری سے کہہ رھا تھا ۔‬

‫استاد اسے کیا کردیا ۔‬

‫سالی پہلے تو بڑا پُھڑپھرا رہی تھی ۔‬

‫کہیں اس کے پر تو نہیں کاٹ دیے ۔‬

‫اکری کی آواز میرے کانوں میں پڑی‬


‫کہ ابھی تو اسکو ایک جھلک دیکھائی‬
‫ھے باقی کی فلم تو باقی ھے ۔‬

‫میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور‬


‫جب میری اکری پر نظر پڑی تو مجھے‬
‫اکری سے پڑے تھپڑوں کی تکلیف‬
‫بھول گئی اور اپنی پھدی کی فکر پڑ‬
‫گئی ۔‬

‫اکری اپنا لمبا اور موٹا لن پکڑےمیرے‬


‫منہ کے قریب بیٹھا تھا ۔‬

‫اکری کے جسم پر صرف بنیان ھی تھی‬


‫باقی کے سارے کپڑے اتار چکا تھا ۔‬

‫اکری کا لن دیکھ کر میری نیم کھلی‬


‫آنکھیں ایکدم پوری کھل گئیں اور میرا‬
‫حلق خشک اور زبان گنگ ہوگئ ۔‬

‫میں سکتے کے عالم میں پھٹی انکھوں‬


‫سے اکری کے تگڑے لن کو دیکھی‬
‫جارھی تھی ۔‬

‫اتنے میں مجھے دوسری طرف بھی‬


‫کسی کی موجودگی کا احساس ھوا ۔تو‬
‫میں نے سکتے کے عالم میں ھی‬
‫نظروں کو گھما کر جب دوسری طرف‬
‫دیکھا تو اسد بھی مادر ذاد ننگا میرے‬
‫بائیں طرف گھٹنوں کے بل اپنا لمبا لن‬
‫لہراتے ہوے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا‬
‫ویڈیو کیمرا پکڑے میرے منہ کی طرف‬
‫کر کے بیٹھا ھوا تھا ۔‬

‫مجھے ایکدم ہوش آیا مجھ سے اور تو‬


‫کچھ نہیں ہوسکا میں نے جلدی سے‬
‫اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنے‬
‫چہرے کو چھپا لیا اچانک میری دونوں‬
‫کالئیوں کو دو ہاتھوں نے پکڑا اور‬
‫میرے چہرے سے میرے ہاتھ ہٹتے‬
‫گئے میں پھر چیخنا چاہ رھی تھی مگر‬
‫میرے حلق سے آواز نہیں نکل رھی‬
‫تھی میرا ایک ہاتھ اکری نے اور دوسرا‬
‫اسد نے پکڑا ھوا تھا میں نے چیخنے‬
‫کے لیے جیسے ھی منہ کھوال تو‬
‫اسکے ساتھ ھی اکری گھٹنوں کے بل‬
‫ھی اگے کو کھسکا اور اس نے ہاتھ‬
‫میں پکڑے ہوے اپنے تگڑے لن کے‬
‫موٹے ھوے ٹوپے کو میرے کھلے منہ‬
‫میں ٹھونس دیا میرے منہ میں اکری‬
‫کے لن کا صرف ٹوپا ھی گیا تھا کہ‬
‫ٹوپے سے ھی میرا منہ بھر گیا میں نے‬
‫ابھی یہ سوچ کر اکری کہ ٹوپے پر‬
‫دانت رکھے ھی تھے کہ ٹوپے کو کاٹ‬
‫لوں کہ اکری نے کرخدار آواز میں کہا‬
‫آرام سے ٹوپا چوس لے اگر کچھ الٹا‬
‫سیدھا کیا تو اس حویلی کے سارے‬
‫نوکروں سے تجھے ُچدواوں گا ۔۔۔‬

‫اکری کی دھمکی سن کر میں مذید سہم‬


‫گئی اور ٹوپے کو کاٹنے کا ارادہ مسترد‬
‫کرتے ھوے میں نے دانتوں کو ٹوپے‬
‫سے ہٹایا اور ہونٹوں کو ٹوپے کے‬
‫نچلے حصہ پر رکھ کر لن کو ہونٹوں‬
‫میں بھر لیا اب لن کا موٹا ٹوپا میرے‬
‫منہ کے اندر تھا اور میرے ہونٹوں نے‬
‫موٹے لن کو اپنے احصار میں لیا ہوا‬
‫تھا ۔‬

‫اکری ہنستے ھوے بوال شاباش‬


‫سمجھدار ھوگئی ھو ۔‬

‫چلو شاباش اب اسے میٹھا گنا سمجھ کر‬


‫چوسو اور تب تک چوستی رہو جب‬
‫تک میں خود نہ تمہیں روکوں ۔‬

‫اور کان کھول کر سن لو میں بات کو‬


‫دھرانے کا عادی نہیں ہوں آگے تم خود‬
‫سمجھدار ھو ۔‬

‫اس کے ساتھ ھی اکری نے میری کالئی‬


‫کو بھی چھوڑ دیا ۔‬

‫میں ٹوپے کو منہ میں لیے لن کو‬


‫ہونٹوں میں دباے ھوے پھٹی آنکھوں‬
‫سے اکری کی طرف دیکھ رھی تھی‬
‫اور اسکی بات ختم ھوتے ھی میں نے‬
‫فرمانبرداری سے ٹوپے کو منہ کے‬
‫اندر کھینچتے ھوے اور لن کے گرد‬
‫ہونٹوں کا گھیرا تنگ کیا اور اکری کے‬
‫لن کا چوپا لگانے لگ گئی اکری کے‬
‫منہ سے سسکاری نکلی اور وہ آنکھیں‬
‫بند کر کے منہ چھت کی طرف کرکے‬
‫چوپا لگوانے کا مزہ لے رھا تھا اور‬
‫میں ناچاہتے ھوے بھی اسکے موٹے‬
‫اور کالے شیش ناگ کو منہ میں لے کر‬
‫چوسی جارھی تھی اکری نے اپنا ایک‬
‫ھاتھ آگے بڑھایا اور میرا تنا ھوا گول‬
‫مما ہاتھ میں پکڑا کر دبانے لگ گیا اور‬
‫دوسرا ھاتھ میرے سر کے نیچے لیجا‬
‫کر میرے سر کو مزید اوپر کردیا اور‬
‫میرے سر کو اوپر کرتے ھوے لن کو‬
‫مزید میرے منہ کے اندر باھر کرنے‬
‫لگ گیا جب لن تھوڑا اور میرے منہ‬
‫کے اندر گیا اور ٹوپا میرے ہلک کے‬
‫قریب پہنچا تو مجھے ابکائی آنے لگ‬
‫گئی اور میرا سانس بند ہونے کو ھوگیا۔‬

‫میں نے اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ کے‬


‫قریب کیا اور اکری کے موٹے گنے کو‬
‫جڑ سے پکڑ کر پیچھے کی طرف‬
‫دھکیلنے لگ گئ۔‬

‫اکری مزے میں لن کو میرے منہ کے‬


‫اندر کرنے کی کوشش کرتا میں سانس‬
‫بند ہونے کی تکلیف سے اسکے لن کو‬
‫پکڑے پیچھے کی طرف دھکیلتی ادھر‬
‫اسکا ھاتھ مسلسل میرے ممے کو اپنی‬
‫گرفت میں لے کر پمپنگ کررھا تھا ۔‬

‫مجھے اسد اور اسکے ہاتھ میں پکڑا‬


‫ہینڈی کیم بھول گیا تھا ۔‬

‫کچھ دیر میں چوپا لگانے کی اذیت سے‬


‫دوچار رہی میرا رنگ ٹماٹر کی طرح‬
‫سرخ اور میری آنکھوں سے پانی کا‬
‫سیالب چل رھا تھا بالخرہ اکری کو‬
‫میری اذیت کا احساس ھوا یا پھر اس کا‬
‫چوپے سے دل بھر گیا تھا ۔‬

‫خیرا اس نے اپنے ہتھیار کو میرے منہ‬


‫سے نکاال تو مجھے سکھ کا سانس آیا‬
‫اور میں لمبے لمبے سانس لے کر‬
‫کھانستے ھوے منہ دوسری طرف کر‬
‫کے کروٹ لے کر لیٹ گئی ۔۔ کھانستے‬
‫کھانستے میرا دھیان جب سامنے پڑا تو‬
‫میری آنکھوں کے سامنے اسد کا لن‬
‫لہرا رھا تھا ۔‬

‫اس سے پہلے کہ میری کھانسی رکتی‬


‫اسد نے اپنے تنے ھوے لن کو میرے‬
‫ہونٹوں پر پھیرنا شروع کردیا ۔‬

‫میں منہ ادھر ادھر کرنے کی کوشش‬


‫کرنے لگی اسد بوال استاد سالی پھر‬
‫نخرے کرنے لگ گئی ھے اسد کی بات‬
‫سنتے ھی اکری نے پھر اسی انداز میں‬
‫کہا ۔‬

‫لگتا ھے کہ تجھے ایک بار کہی بات‬


‫جلدی بھول جاتی ھے‬

‫میں نے چاروناچار پھر منہ کو کھوال‬


‫اور اسد کے موٹے لن کو منہ میں بھر‬
‫لیا اکری کے لن کی نسبت اسد کا لن‬
‫چھوٹا تھا اور موٹائی میں بھی کم تھا ۔‬
‫اس لیے اسد کے لن کا چوپا لگانے میں‬
‫مجھے ذیادہ مشکل پیش نہیں آرھی تھی‬
‫۔‬

‫میری گانڈ اکری کی طرف تھی اور‬


‫میں سائڈ کے بل اسد کی طرف منہ کر‬
‫کے لیٹی ھوئی اسد کے لن کا چوپا لگا‬
‫رھی تھی اور اسد بھی مزے لے لے‬
‫کر سسکاریاں بھر رھا تھا۔۔‬

‫اتنے میں مجھے اپنے پیچھے گانڈ پر‬


‫اکری کا لن محسوس ھوا اور اسکے‬
‫ساتھ ھی اکری سائڈ کے بل میری پیٹھ‬
‫کی طرف منہ کر کے میرے ساتھ لگ‬
‫گیا اور میری شرٹ کو میرے پیٹ سے‬
‫اوپر کر میرے ننگے پیٹ پر ہاتھ‬
‫پھیرتے ھوے قمیض کے اندر سے‬
‫میرے مموں کی طرف لیجاتے ھوے‬
‫شلوار کے اوپر سے ہی لن کو میری‬
‫موٹی گانڈ کی دراڑ میں ڈالنے لگ گیا۔‬

‫میں گبھرا کر تھوڑا سا کسمکسائی تو‬


‫اکری نے میرے ممے کو پکڑ کر دبا‬
‫کر مجھے شانت رہنے کا سگنل دیا ۔‬

‫میں بیچاری بے بس ہوا کی بیٹی کیا‬


‫کرتی چپ کر کے لیٹی ایک لن کو منہ‬
‫میں لیے اور دوسرے لن کو گانڈ کی‬
‫دراڑ میں گھستے برداشت کررھی تھی‬
‫۔‬

‫میں جیسے ھی شانت ہوئی تو اکری نے‬


‫اسد کو کہا بچے اب بس بھی کر کے‬
‫اس بیچاری کا منہ ھی چودنا ھے ۔اسد‬
‫نے جی استاد کہا اور لن کو میرے سے‬
‫کھینچ کر باہر نکاال اور میں نے بھی‬
‫سکھ کا سانس لیا ۔‬

‫سانس کیا لینا تھا کہ اکری نے اسی‬


‫وقت مجھے سیدھا کیا اور مجھے بازو‬
‫سے پکڑ کر اٹھا کہ بٹھا دیا۔‬
‫اور میری قمیض کو پکڑ کر اوپر‬
‫کرنے لگ گیا میں نے تھوڑا سا احتجاج‬
‫کیا مگر اکری نے جب مجھے گھور کر‬
‫دیکھا تو اسکی سرخ خوفناک آنکھوں‬
‫کو دیکھ کر میں ہینڈزاپ کیا تو اکری‬
‫نے شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر التے‬
‫ھوے میری قمیض کو اوپر کرتے ھوے‬
‫میرے سر سے نکال کر میرے بازوں‬
‫سے نکال دی ۔‬

‫اور بیڈ سے نیچے پھینک دی ۔‬

‫اکری کی نظر جب میرے دودھیا جسم‬


‫پر اور کالے بریزیر میں قید چٹے سفید‬
‫بڑے بڑے گول مٹول تنے ھوے مموں‬
‫پر پڑی تو اسکی آنکھیں مزید کھل گئیں‬
‫اور اس کے منہ سے الریں ٹپک پڑی‬
‫جیسے پہلی دفعہ اس نے اتنا گورا جسم‬
‫اور اتنے تندرست ممے دیکھے تھے‬
‫میں نے جب اسے اپنے مموں اور جسم‬
‫کو گھورتے دیکھا تو میں نے دونوں‬
‫ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھ کر بازوں میں‬
‫اپنی ادھ ننگی جوانی کو چھپا لیا۔۔مگر‬
‫اس کمبخت نے اسی وقت میری کالئیوں‬
‫کو پکڑا اور جھٹکے سے میری جوانی‬
‫کو عیاں کرتے ھوے میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے نفی میں سر ہالتے ہوے‬
‫مسکرا کر بوال ۔‬

‫میری جان من اس حسین نظارے کو‬


‫چھپانے کے لیے تمہیں ننگا نہیں کیا ۔‬

‫بےبسی سے میری آنکھوں سے آنسو‬


‫چھلک پڑے ۔‬

‫مگر اس جانور کو کیا میرے آنسووں‬


‫سے اکری نے میرے مموں کی الئن‬
‫میں دو انگلیاں ڈالیں اور ایک جھٹکے‬
‫سے میرے بریزیر کو کھینچا تو بریزیز‬
‫آگے سے دو حصوں میں تقسیم ھوگیا‬
‫اور میں بھی جھٹکے سے ھاےےےے‬
‫کرتی ھوئی اکری کے سینے کے ساتھ‬
‫لگ کر واپس اپنی جگہ پر آئی میرے‬
‫ممے آگے سے ننگے ھوچکے تھے‬
‫اکری نے پھٹے ھوے بریزیر کو میرے‬
‫بازوں سے اتارا اور نیچے پھینک کر‬
‫میرے دونوں مموں کو مٹھیوں میں‬
‫بھینچ لیا ۔‬

‫اکری کی گرفت اتنی سخت تھی کے‬


‫میرے نازک مموں پر اسکی انگلیوں‬
‫کی نشان پڑ گئے اور میں درد سے‬
‫ھاےےےےےےےےےے کر کے‬
‫اکری کے سخت ھاتھوں پر اپنے نرم‬
‫ہاتھ رکھ کر التجائی نظروں سے اسکی‬
‫طرف دیکھنے لگ گئی ۔‬

‫اسد بیڈ سے نیچے اتر کر ننگا کھڑا تھا‬


‫اور ایک ھاتھ میں اپنا لن پکڑ کر مسل‬
‫رھا تھا اور دوسرے ھاتھ سے میری‬
‫اور اکری کی فلم بنا رھا تھا۔‬

‫اکری میرے سامنے گھٹنوں کے بل‬


‫بیٹھا میرے مموں کو سختی سے پکڑ‬
‫کر دبوچ رھا تھا اور میں اسکے‬
‫ھاتھوں پر ھاتھ رکھے درد سے سییییی‬
‫اور ھاےےےےے کر رھی تھی ۔‬

‫اکری نے کچھ دیر میرے مموں کو‬


‫بےدردی سے دبایا اور پھر مموں کو‬
‫پکڑے ھی مجھے پیچھے دھکیل دیا‬
‫اور خود میری ٹانگوں کے درمیان آگیا‬
‫۔‬

‫میں پیچھے کی طرف لیٹ گئی میرا سر‬


‫تکیےپر تھا اور میری ٹانگیں کھلی‬
‫ھوئی تھی اور اکری میری ٹانگوں کے‬
‫بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھا میرے ممے دبا‬
‫رھا تھا ۔‬

‫اکری پھر پیچھے کو کھسکا اور اپنے‬


‫دیو قامت جسم کو میرے اوپر کرتے‬
‫ھوے میرے ایک ممے کو اپنے بڑے‬
‫سے منہ میں لے کر چوسنے لگ گیا ۔‬

‫اکری نے جیسے ھی میرے ممے کو‬


‫منہ میں بھرا اور میرے نپل کو منہ کے‬
‫اندر ھی زبان سے چھیڑا تو میرے جسم‬
‫میں کرنٹ سا دوڑا اور میرے منہ سے‬
‫بےاختیار سییییییییی نکال ۔‬
‫اکری نے میری سسکاری سنتے ھی‬
‫آنکھیں اٹھا کر میرے منہ کی طرف‬
‫دیکھا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس‬
‫ھوا کہ میں نے سیییی کیوں کیا مگر‬
‫میں کیا کرتی کب سے دو لنوں کو‬
‫چوس رھی تھی آخر میں بھی جوان‬
‫تھی نپل کا چوسا لگتے ھی مزے کی‬
‫لہر نے سارے دکھ درد بھالدیے اور‬
‫بےساختہ منہ سے سسکاری نکل گئی‬
‫سسکاری سنتے ھی اکری کو بھی‬
‫جوش آگیا اور وہ میرے نپل کو کبھی‬
‫دانتوں میں لے کر مسلتا تو کبھی‬
‫ہونٹوں میں لے کر چوستا میں خود پر‬
‫بڑا کنٹرول کر رھی تھی مگر پھر بھی‬
‫لزت میرے دماغ پر سوار ھوتی جارھی‬
‫تھی ۔‬

‫اکری کافی دیر باری باری میرےمموں‬


‫کو چوستا رھا ۔‬

‫پھر وہ سیدھا ھوا اور اپنی بنیان اتار دی‬


‫اسکے جسم کو سیاہ بالوں نے چھپا‬
‫رکھا تھا جیسے ریچھ کے جسم پر بال‬
‫ہوتے ہیں بنیان اتار کر وہ پھر میرے‬
‫اوپر جھکا اور میرے ہونٹوں کے قریب‬
‫اپنے ہونٹ کیے اور میں نے منہ‬
‫دوسری طرف کرلیا اسکے منہ سے‬
‫شراب کی اور سگریٹ کی گندی بو‬
‫سے مجھے الٹی آنے والی ھوگئی اکری‬
‫مجھے منہ دوسری طرف کرتے دیکھ‬
‫کر بوال ۔‬

‫شہزادی لن سے تو اچھا ھے میرا منہ‬


‫اور اس کے ساتھ ھی اس نے زبردستی‬
‫میرا منہ سیدھا کیا اور اپنے گندے‬
‫کالے موٹے ہونٹ میرے گالب جیسے‬
‫سرخ نرم مالئم ہونٹوں پر رکھ کر‬
‫میرے ہونٹ چوسنے لگ گیا اور‬
‫آنکھوں سے مجھے دھمکی دیتے ھوے‬
‫میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے‬
‫ہالتے ھو ے مجھے فرنچ کسنگ کرنے‬
‫کا کہنے لگ گیا ۔‬
‫مجبورا ً مجھے بھی اسکا ساتھ دینا پڑا ۔‪.‬‬
‫اکری میری ننگے جسم کے ساتھ اپنا‬
‫ننگا جسم لگا کر مزے لے لے کر‬
‫میرے ھونٹ چوستا تو کبھی میری زبان‬
‫کو اپنے منہ میں بھر کر کھینچ کر‬
‫چوستا مجھے مزے کی بجاے درد ھو‬
‫رھا تھا اسکے منہ کی بدبو اس کے‬
‫لباب کے ذریعے میرے اندر سما چکی‬
‫تھی ۔مگر پھر بھی مجھے الجھن‬
‫ہورھی تھی اسکی بڑی بڑی مونچھیں‬
‫میرے ہونٹ کے اوپر والے حصہ پر‬
‫کانٹوں کی طرح ُچبھ رہیں تھی ۔۔‬

‫بس ایک چیز میرے اندر کی گرمی کو‬


‫میرے دماغ پر سوار کرنے کی کوشش‬
‫کررھی تھی ۔‬
‫جی بلکل‬

‫وہ تھا اکری کا تگڑا موٹا لوڑا جو میری‬


‫پھدی کےاوپر دباو ڈالے ھوے تھا ۔‬

‫بس لن اور پھدی کے درمیان میری‬


‫شلوار آڑ بنے ھوے تھی ورنہ اکری کا‬
‫لوڑا میری پھدی کو پھدا بنانے میں ایک‬
‫سیکنڈ بھی نہ لگاتا مگر میں پھر بھی‬
‫خود پر کنٹرول کررھی تھی کہ مجھ‬
‫سے کوئی ایسی حرکت نہ ھو جس سے‬
‫اکری کو لگے کہ میں چدنے کے لیے‬
‫تیار ھوں ۔‬
‫میں ایسے ھی ریکشن کررھی تھی‬
‫جیسے بڑی مجبوری سے اکری کا ساتھ‬
‫دے رھی ہوں اور یہ حقیقت بھی تھی‬
‫کہ واقعی میں مجبوری میں ھی سب‬
‫کچھ کررھی تھی ورنہ ایسے بدصورت‬
‫شخص پر تھوکنا بھی گوارہ نہ کرتی۔‬

‫خیر اکری لن کو میرے پھدی کے اوپر‬


‫دباے ھوے میرے مموں‬

‫پر اپنا سینہ رکھے مزے کی اتھاہ‬


‫گہرائیوں میں ڈوبا ھوا میرے نازک‬
‫ہونٹوں کیایسی تیسی کررھا تھا اور میں‬
‫بھی اس پُچ پُچ میں اسکا ہلکا پھلکا ساتھ‬
‫دے رھی تھی۔‬
‫کچھ دیر بعد اکری میرے اوپر سے اٹھا‬
‫اور میری شلوار کو پکڑ کر نیچے‬
‫کھینچنے لگا ۔‬

‫تو میرے اندر پھر غیرت شرم حیاء کا‬


‫مادہ پیدا ھوگیا اور میں نے جلدی سے‬
‫شلوار کو السٹک والے حصے سے‬
‫پکڑ لیا اور‪ .‬اونچی آواز میں رونے‬
‫لگی گڑاگڑانے لگی ۔‬

‫واسطے دینے لگی اکری شلوار نیچے‬


‫کرنے کی کوشش کرتا مگر میں شلوار‬
‫کو مضبوطی سے پکڑے اوپر کھینچتی‬
‫اور اسکی منتیں کرتی ۔‬
‫پتہ نہیں مجھ میں اتنا ذور کہاں سے اگیا‬
‫تھا ۔‬

‫اسی تگ ودو میں میرے سینے‬


‫کےابھار چھلک رھے تھے اور جب‬
‫اکری نے دیکھا کہ گھی سیدھی انگلی‬
‫سے نہیں نکل رھا تو اکری نے میری‬
‫شلوار کو چھوڑا اور ایک زناٹے دار‬
‫تھپڑ میرے ابھرے ھوے ممے پر مارا‬
‫اور گرجدار آواز میں بوال سالی کو پیار‬
‫کی زبان سمجھ میں نہیں آتی جب تو‬
‫چدنے کے لیے ھی یہاں آئی ھے تو‬
‫پھر نخرے کیوں کررھی ھے ممے پر‬
‫تھپڑ پڑتے ھی میں درد سے بلبال اٹھی‬
‫اور ہاےےےےےے امی جیییییی‬
‫کرتے ھوے شلوار کو چھوڑ کر اپنے‬
‫ممے کو پکڑ کر سہالتے ھوے تھپڑ‬
‫کی جلن کو دور کرنے لگی ۔‬

‫ادھر میرے ھاتھ ممے کی طرف بڑھے‬


‫ادھر اکری کے ھاتھ میری شلوار پر‬
‫پہنچے اور پھر ایک جھٹکے سے‬
‫میری شلوار میرے گھٹنوں میں پہنچ‬
‫گئی اور میری کلین شیو پھدی اکری کی‬
‫آنکھوں کے سامنے تھی اورشلوار‬
‫اترنے کے غم میں‬

‫میں ممے سے ہاتھ ہٹا کر اپنے منہ پر‬


‫رکھ کر رانوں کو بھینچ کر پھدی کو‬
‫رانوں میں چھپا کر رونے لگ گئی ۔‬

‫اکری نے میرے رونے کی پروا نہ‬


‫کرتےھوے میری شلوار کو کھینچ کر‬
‫میرے پیروں سے نکال کر نیچے‬
‫پھینک دیا۔‬

‫اور میرے گھٹنوں کو پکڑ کر میری‬


‫ٹانگوں کو کھولنے لگا مگر میں نے‬
‫پورے ذور سے ٹانگوں کو بھینچا ھوا‬
‫تھا ۔‬

‫اکری نے آخر زور لگا کر میری‬


‫ٹانگوں کو کھول دیا اور بوال‬
‫گشتوڑ میں نے تو سوچا تھا کہ خود‬
‫بھی مزے سے کروں گا اور تجھے‬
‫بھی مزے دوں گا مگر تو بڑی شانی‬
‫بنتی ھے اب تیری سیل توڑوں گا نہیں‬
‫بلکہ پھاڑوں گا اور وہ بھی ایک ھی‬
‫جھٹکے میں۔۔۔‬

‫میں پھر اس سے رحم کی اپیلیں کرنے‬


‫لگ گئی اور اسکو آرام سے کرنے کا‬
‫بھی کہنے لگ گئی کیونکہ چدنا تو اب‬
‫الزم بن گیا تھا تو پھر آرام سے ھی‬
‫چدنا بہتر تھا بجاے کہ پھدی پڑوانے‬
‫کے۔۔۔ اکری ٹوپا میری پھدی پر سیٹ‬
‫کرنے لگا اور بوال سالی پہلے ھی موڈ‬
‫نہ خراب کرتی اب جو ترلے کررھی‬
‫ھے ۔‬

‫اچانک اسکو پھدی میں پتہ نہیں کیا نظر‬


‫آیا ک اس نے پھدی سے لن کو ایکدم‬
‫پیچھے ہٹا لیا اور اسد کی طرف منہ‬
‫کرکے بڑے غصے سے بوال‬
‫اوےےےے گانڈو۔۔۔‬

‫اسد اکری کو یوں غصے میں دیکھ کر‬


‫ہڑبڑا کر بوال یس باس ۔‬

‫اکری بوال پھدی دیا توں کیندا سی اے‬


‫سیل پیک بچی اے ۔‬
‫اسد منہ کھولے اکری کی طرف بڑھا‬
‫اور بوال ۔‬

‫باس مجھے تو ایسے ھی لگ رھا تھا ۔‬


‫اسد جیسے ھی اکری کے قریب آیا تو‬

‫اکری نے اسد کو گردن سے پکڑ کر‬


‫اسکا چہرہ میری پھدی کی طرف کر‬
‫کے بوال یہ دیکھ اس گشتی کی پھدی پر‬
‫جھلی باہر کو آئی ھوئی ھے اور جھلی‬
‫سیل پیک بچی کی باہر نہیں ہوتی یہ‬
‫ایک دفعہ نہیں بلکہ کافی دفعہ چد چکی‬
‫ھے اور تو اسے سیل پیک کہہ رھا تھا‬
‫۔‬
‫اسد آنکھیں پھاڑے میری پھدی کو‬
‫دیکھی جارھا تھا ۔‬

‫اور پھر اسد نے میری پھدی پر ذور‬


‫سے تھپڑ مارا اور بوال مجھے پہلے‬
‫ھی شک تھا کہ یہ اپنے یار اس پینڈو‬
‫سے چدواتی رھی ھے۔‬

‫پھر اسد اکری کی خوشامد کرتے ھوے‬


‫بوال واہ استاد کیا تجربہ ھے تیرا بغیر‬
‫لن اندر کیے ھی پتہ لگا لیا کہ یہ سالی‬
‫پہلے کی چدی ھوئی ھے ۔‬
‫مگر اب کیا پروگرام ھے باس‬

‫اکری اسد کی خوشامد سے تھوڑا نرم‬


‫ہوا اور پھر بوال چل جا اپنا کام کر جو‬
‫کررھا ھے ۔‬

‫اس سالی نے خوار ہی اتنا کیا ھے کہ‬


‫اب اسکو چودے بغیر نہیں جانے دینا۔‬

‫ورنہ اکری نے آج تک کبھی جوٹھا‬


‫نہیں کھایا۔‬

‫مگر اب اسکی پھدی کو سزا تو ضرور‬


‫ملے گی ۔‬

‫یہ کہتے ھی اکری نے میری ٹانگیں‬


‫کندھوں پر رکھی اور ٹوپا میری پھدی‬
‫کے ہونٹوں میں پھنسایا اس سے پہلے‬
‫کہ میں کچھ سمجھتی یا بولتی‬

‫اکری نے ذوردار گھسا مارا اور میری‬


‫پھدی کچھ گیلی تھی مگر اکری کا لن‬
‫خشک تھا لن پھدی کو چیرتا ھوا میری‬
‫بچے دانی کے اندر چال گیا‬

‫میرے منہ سے دردناک چیخ نکل کر‬


‫پورے کمرے میں گونجی میں داڑھیں‬
‫مار مار رونے لگی ھاےےےےےےے‬
‫امی میں مرگئی جے‬
‫ھاےےےےےےےےے میرا اندر پاٹ‬
‫گیا اےےےےےے‬
‫ھاےےےےےےےے اووووو کنجراں‬
‫دیا دلیا حرامدیا کتی دیا بچیا پچھے‬
‫ھوجا بار کڈ لے تینوں تیری ماں دا‬
‫واسطہ اییییییی‬

‫ھاےےےےے او میری پھدییییی پاٹ‬


‫گئی جے ھاےےےےےےے‬
‫مرگئیییییی‬

‫میں پیچھے کو ھونے کی کوشش کرتی‬


‫مگر میرا سر بیڈ کی ٹیک کے ساتھ لگ‬
‫چکا تھا آگے کو ھو نہیں سکتی تھی اس‬
‫دیو کے نیچے سے نکل نہیں سکتی‬
‫تھی ۔تو بے بسی میں چال چال کر اپنے‬
‫درد کو بیان کر کے جو منہ میں آرھا‬
‫تھا کہی جارھی تھی‬
‫اکری کو مذید غصہ چڑھا اس نے لن‬
‫کو پیچھے کھینچا اور بس ٹوپا ھی اندر‬
‫رہنے دیا اور دوسرا گھسا اس سے بھی‬
‫ذور دار مارا مجھے ایسے لگا جیسے‬
‫اکری کا لن میری بچے دانی کو بھی‬
‫پھاڑ چکا تھا ۔‬

‫میری پھر دلدوز چیخ کمرے کی‬


‫دیواروں سے ٹکرائی اور پھر اکری‬
‫کے گھسوں اور میرے چیخوں سے‬
‫پورا کمرا گونجنےلگ گیا۔‬
‫میں درد سے جتنا ذیادہ چالتی اکری‬
‫اتنی ھی ذور سے گھسا مارتا اکری کے‬
‫گھسوں سے میرے ممے میرے سینے‬
‫پر بھاگ دوڑ کررھے تھے اکری ایک‬
‫ردھم سے گھسے ماری جارھا تھا‬
‫میری پھدی میں جلن اور ٹیسیں اٹھ‬
‫رھی تھیں مجھے لگ رھا تھا جیسے‬
‫کسی نے مرچوں واال ڈنڈا میری پھدی‬
‫میں گھسیڑ دیا ھے چال چال کر میری‬
‫آواز بیٹھ گئی تھی آخر میں نے اپنے‬
‫آپ کو اکری کے حوالے کردیا‬

‫دس منٹ لگا تار چودنے کے بعد اکری‬


‫نے ایکدم اپنا لن باہر نکاال اور میرے‬
‫مموں کی طرف ٹوپا کر کے ُمٹھ مارنے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫میرے سانس اکھڑے ھوے تھے درد‬


‫سے میری جان نکل رھی تھی میرا‬
‫ھاتھ میرے پیٹ پر تھا کہ اکری کے‬
‫ٹوپے سے منی کی دھار نکل کر میری‬
‫ٹھوڑی پر پڑی اور پھر وقفے وقفے‬
‫سے منی نکلتی ھوئی میرے مموں اور‬
‫پیٹ پر پڑتی گئی ۔‬

‫اور اکری فارغ ھوتے ھی ایک طرف‬


‫لڑھک گیا اور سیدھا لیٹ کر لمبے‬
‫لمبے سانس لینےلگ گیا۔‬

‫میں دھواں دھار چدائی کے بعد دونوں‬


‫ھاتھ اپنے منہ پر رکھ کر سکتے ھوے‬
‫اسد کو اور اپنے آپ کو کوسنے لگ‬
‫گئی کچھ دیر بعد اسد میرے قریب آیا‬
‫اور ایک کپڑا میرے منہ پر دے مارا‬
‫اور بوال‬
‫چل گشتی اپنے ممے صاف کر باس نے‬
‫ابھی تیری گانڈ بھی بجانی ھے ۔۔‬
‫میں روتے ھوے سسکتے ھوے کپڑے‬
‫سے اپنا منہ اور ممے صاف کرنے لگ‬
‫گئی ۔‬
‫اور اچھی طرح اکری کی منی کو اپنے‬
‫جسم سے صاف کیا۔‬
‫اور اٹھ کر بیٹھنے لگی تو اکری جو‬
‫میرے ساتھ لیٹا ھوا تھا اس نے مجھے‬
‫پھر بستر پر گرا دیا۔‬
‫اور مجھے گھما کر سائڈ کے بل کرتے‬
‫ہوے میری گانڈ کو اپنی طرف کردیا‬
‫اور پیچھے سے میرے ساتھ چپک کر‬
‫ھاتھ آگے لیجا کر میرے ممے کو پکڑ‬
‫لیا ۔‬
‫میں نے پھر ہلکا پھلکا احتجاج کیا ۔‬
‫مگر اکری کی دھمکی سن کر پھر سہم‬
‫گئی اور چپ کر کے لیٹی اپنے ممے‬
‫دبواتی رہی اکری کا لن پھر اکڑ گیا تھا‬
‫اور میری گانڈ کی دراڑ میں گھس چکا‬
‫تھا ۔‬
‫اکری نے جب میری گانڈ کے سوراخ‬
‫پر اپنے لن کا ٹوپا سیٹ کیا تو میں پہلی‬
‫دفعہ اس سے مخاطب ہوئی اور تھوڑا‬
‫آگے کھسک کر بولی ۔‬
‫پلیز پیچھے سے نہ کرنا مجھ سے‬
‫برداشت نہیں ھوگا میں مرجاوں گی ۔‬
‫میری عزت تو تم نے لوٹ ھی لی ھے‬
‫اگر پھر بھی کرنا ھی ھے تو پلیز میری‬
‫اتنی سی بات مان لو اور آگے سے کر‬
‫لو ۔‬
‫اکری بوال پہلے تم نے کون سا آرام‬
‫سے کروایا ھے سارا مزہ خراب کردیا‬
‫سالی ایسے تڑپ رھی تھی جیسے پہلی‬
‫دفعہ لن لے رھی ھو۔۔۔۔‬
‫میں نے محسوس کیا تھا کہ اکری‬
‫خوشامد سے جلدی بات مان لیتا ھے تو‬
‫میں نے بھی اکری کی کمزوری کو‬
‫پکڑتے ھوے اسکی خوشامد کرتے‬
‫ھوے کہا ۔‬
‫آپ کا تو لن ھی اتنا بڑا ھے کہ میرا‬
‫سارا اندر ہل گیا آپ واقعی مرد ھو ۔‬
‫اور آپ جیسا مرد قسمت والوں کو ملتا‬
‫ھے میں تو آپکی غالم بن گئی ھوں ۔‬
‫اور اسکے ساتھ ھی میں سیدھی ھوگی‬
‫اور سیدھے ھوتے ھی میں نے اکری کا‬
‫لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور لن کو سہالنے‬
‫لگی ۔‬
‫اکر کا چہرہ ایک دم خوشی سے کھل‬
‫اٹھا تعریف چیز ھی ایسی ھے بندے کی‬
‫سوچ بدل دیتی ھے چاھے وہ جھوٹی‬
‫تعریف ھی کیوں نہ ھو۔۔‬
‫اکری نے مونچھوں کو تاو دیتے ھوے‬
‫کہا ۔‬
‫شاباش یہ ھوئی نہ بات ۔۔‬
‫اکری سے جو لڑکی ایک دفعہ چد جاتی‬
‫ھے وہ دوبارا اکری سے چدنے کے‬
‫خواب دیکھتی ھے ترستی ھے پھر‬
‫اکری کی مرضی کہ وہ اسے چودے یا‬
‫نہ چودے ۔‬
‫چل جا تیری ایک خواہش پوری کی ۔‬
‫اب پھدی چدوانے میں میرا ساتھ دے‬
‫اور اگر دوبارا ڈرامہ کیا تو پھر سمجھ‬
‫لینا کہ تیری گانڈ پھٹنے سے تجھے‬
‫کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔‬
‫میں نے شکر ادا کرتے ھوے جلدی‬
‫سے اثبات میں سر ہالیا اور لن کو‬
‫ہالتے ھوے اکری کی طرف دیکھ کر‬
‫مسکراتے ھوے شکریہ ادا کیا ۔‬
‫اکری میری مسکراہٹ پر قربان ھوتا‬
‫ھوا میرے اوپر جھکا اور ہونٹوں کو‬
‫میرے ہونٹوں پر رکھ دیا میں بھی اسے‬
‫خوش کرنے کے لیے اور اس کے‬
‫احسان کا بدلہ چکانے کے لیے اسکے‬
‫ہونٹوں کو چوسنے لگ گئی اور اسکے‬
‫لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے‬
‫اسکو یہ احساس دالنے لگی کہ اب میں‬
‫تجھے پورا مزہ دوں گی۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر ہم دونوں مزے لے لے کر‬
‫کسنگ کرتے رھے اکری ایک دم‬
‫رومینٹک ہوگیا اسکا حیوان مرگیا ان وہ‬
‫انسانوں کی طرح میرے ساتھ سیکس‬
‫کررھا تھا میرے جسم پر آہستہ آہستہ‬
‫انگلیوں کی کنگی بنا کر پھیرتا تو کبھی‬
‫میرے مموں کے نپلوں کو باری باری‬
‫مسلتا رھا ۔‬
‫مجھے اکری کی تبدیلی صاف محسوس‬
‫ھورھی تھی ۔‬
‫میرے دماغ میں اچانک ایک پالن آیا‬
‫اور اس پالن کو عملی طور پر جامعہ‬
‫پہنانے کے لیے اس وقت کا انتظار‬
‫کرنے لگ گئی ۔۔‬
‫اکری میرے پورے جسم پر ھاتھ پھیر‬
‫رھا تھا‬
‫اور میں بھی مصنوعی سسکاریاں بھر ‪.‬‬
‫کر اسکو مذید جوش چڑھا رھی تھی ۔‬
‫اکری مجھے پاگلوں کی طرح چوم رھا‬
‫تھا اور میں اسکے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتے ھوے سییییی اففففف آہہہہہہ‬
‫کررھی تھی ۔۔‬
‫مجھے بھی اب ہلکا سا مزہ آنے لگ گیا‬
‫تھا ۔‬
‫کہ اکری نے میری پھدی کے دانے کو‬
‫انگلیوں میں پکڑ لیا اور مسلنے لگ گیا‬
‫۔‬
‫میرے جسم مین ایک دم کرنٹ دوڑا اور‬
‫شہوت جاگی ۔‬
‫میں نے سیییییییییی کرتے ھوے اپنا سر‬
‫اٹھا کر دوبارا تکیے پر دے مارا ۔‬
‫اور ہاتھ نیچے لیجا کر اکری کے ھاتھ‬
‫کو پکڑ لیا ۔اورھاتھ کو پھدی پر دباتے‬
‫ھوے گانڈ کو اٹھا کر منہ اے لمبی‬
‫سسکاریاں نکالتی جس سے اکری کو‬
‫اور جوش چڑھتا اور وہ مذید سختی‬
‫سے میری پھدی کو مسلتا ۔۔‬
‫میرے اندر شہوت کی چنگاریاں پھوٹنا‬
‫شروع ھویں اور میرا جسم اکڑنے لگا‬
‫اکری نے ساتھ ھی بڑی انگلی پھدی‬
‫کے اندر کی اور پھدی کے دانے کو‬
‫انگلی کے نیچے دبا کر انگلی کو پھدی‬
‫کے اندر باہر کرنے لگ گیا ۔۔۔ادھر‬
‫میری جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی‬
‫انگلی چار پانچ دفعہ ھی اندر باہر ھوئی‬
‫تھی کہ میری پھدی سے منی چھوٹ‬
‫پڑی اور میں نے ھاےےےےےء‬
‫سییییییی میں گئییییییییی کیا اور اکری‬
‫کی انگلی کو پھدی مین اور اسکے ھاتھ‬
‫کو چڈوں میں جکڑ لیا ۔۔۔اور جسم‬
‫جھٹکے کھاتا ھوا کچھ دیر بعد بےجان‬
‫ھوگیا۔۔۔‬
‫اکری میرے ہونٹوں کے قریب اپنے‬
‫ہونٹ الیا اور میرے ہونٹوں کو چوم کر‬
‫بوال واہہہہ یار تو تو بڑی گرم چیز ھے‬
‫۔۔۔‬
‫اور اسکے ساتھ ھی اکری میری ٹانگوں‬
‫کے بیچ آیا اور میری ٹانگوں کو پکڑ‬
‫کر فولڈ کیا اور میرے گھٹنوں کو‬
‫میرے پیٹ کے ساتھ لگا دیا۔۔‬
‫اور لن کا ٹوپا میری پھدی کے اوپر‬
‫رکھ کر اندر کرنے لگا تو میں نے ایک‬
‫نطر اسد کی طرف دیکھا جو ہماری فلم‬
‫بنا رھا تھا ۔۔اور پھر میں نے اکری کے‬
‫مضبوط بازوں کو پکڑ کر اسے اپنی‬
‫طرف کھینچ کر اپنے اوپر لیٹنے کا کہا‬
‫اکری جیسے ھی میرے اوپر ایا میں‬
‫نے اسکے کان میں اہستہ سے کہا کہ‬
‫جان اسکو تو باہر بھیجو پھر ہم کھل کر‬
‫انجواے کریں گے اکری نے بڑی‬
‫حیرت سے میری طرف دیکھا اور بوال‬
‫پکی رانڈ اے توں ۔۔۔۔۔اور پھر اسد کی‬
‫طرف دیکھ کر بوال چل بجے تھوڑی‬
‫دیر واسطے بار چال جا ۔‬
‫اسد نے کیمرہ انکھ سے ہٹاتے ھوے‬
‫حیران ھوکر اکری کی طرف دیکھا اور‬
‫بوال کیوں۔۔۔۔۔۔اکری نے غصے سے کہا‬
‫پھدی دیا تینوں دنیا نئی بار چال جا‬
‫۔۔اگوں سوال جواب کرن لگ پیاں ایں ۔‬
‫اسد نے برا سا منہ بنایا اور کیمرہ سائڈ‬
‫ٹیبل پر رکھ کر اپنے کپڑے اٹھا کر باہر‬
‫کی طرف نکل گیا اور دروازہ کھول کر‬
‫بڑے غصے سے بند کردیا۔۔۔‬
‫اکری میری آنکھوں میں دیکھتے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫اب خوش ۔۔‬
‫میں نے سر اٹھا کر اکری کے ہونٹوں‬
‫کو چوما اور اسکا شکریہ ادا کیا۔۔‬
‫اکری پھر پیچھے ھوا‪ ،‬اور لن کو پکڑ‬
‫کر پھدی پر سیٹ کیا اور جھٹکا مارنے‬
‫لگا تو میں نے اسکی رانوں پر ھاتھ‬
‫رکھتے ھوے کہا جانو آرام سے کرنا‬
‫اکری نے ہلکا سا‬
‫ا جھٹکا مارا تو ٹوپا پھدی میں گھس گیا‬
‫مجھے ہلکی سی تکلیف ھوئی مگر‬
‫ظاہر ذیادہ کرتے ھوے‬
‫آئییییییییییی کیا تو اکری بوال اب بھی‬
‫درد ھوا ۔‬
‫میں نے ھاں میں سر ہالیا ۔۔۔‬
‫اکری نے پھر ہلکا سا گھسا مارا میں‬
‫نے پھر آہہہہہہہہہہ کیا اور تیسرے‬
‫گھسے میں لن پھدی کی گہراءیوں میں‬
‫اتر گیا میں نے اوکھے سوکھے لن کو‬
‫برداشت کرلیا اور اکری کے بازوں کو‬
‫مضبوطی سے پکڑ لیا اکری اب گھسے‬
‫مارنا سٹارٹ ھوچکا تھا اورمیری آہوں‬
‫کا سلسلہ بھی شروع ھوچکا تھا ۔‬
‫اکری تھوڑا سا اوپر ھوا اور میرے‬
‫گھٹنوں کو پکڑ کر گھسے مارنے لگ‬
‫گیا میرے‬
‫ممے ذور ذور سے ہلنے لگ گیے ‪.‬‬
‫میں آہ آہ اہ آہ آہ آہ سیییییییی‬
‫ھاےےےےے کرنے لگ گئی کچھ دیر‬
‫بعد اکری کے گھسون سے مجھے مزہ‬
‫آنے لگ گیا اور میری آہیں سسکاریوں‬
‫میں بدل گئیں ۔‬
‫اور میں چہرہ ایک طرف کیے سییییی‬
‫آہ آہ کرنے لگ گئی اکری کا لمبا لن‬
‫میرے اندر جاکر جب لگتا تو مجھے‬
‫عجیب سا مزہ آتا اور میں چہرہ اوپر‬
‫کر کے آہہہہہہہہ کرتی اور اکری‬
‫میرے اس مزے کو مذید دوباال کرتا ھوا‬
‫بار بار اسی جگا اپنے لن کو مارتا‬
‫جہاں سے میں مزے کی گہراءیوں میں‬
‫چلی جاتی ۔‬
‫اکری کی سپیڈ تیز ھوگئی میری‬
‫سسکاریاں بلند ھوگئیں میں اسے مذید‬
‫تیز کرنے کا کہتی اور ساتھ آہہہ‬
‫آہہہہہہہ اور تیز ھاں ادھر ھی کرو ھاں‬
‫ادھ ھی ھاااااااا آہہہہہ ممممممممم میں‬
‫گگگگئییییی اکککککری کرتے ھوے‬
‫میں اچھل کر اکری کے ساتھ چمٹ گئی‬
‫اور گانڈ کو اٹھا کر پھدی کے اندر‬
‫سارررااااا لن لے لیا اور میرا جسم‬
‫جھٹکے کھانے لگ گیا اور پھر پھدی‬
‫کی برسات شروع ھوگئی ۔۔۔۔۔۔‬
‫اور کچھ ھی دیر میں جسم بےجان‬
‫ھوکر بستر پر گر گیا۔۔۔‬
‫اکر چند لمحے ٹھہر کر میری تیز‬
‫سانسوں سے ابھرتے مموں کا نظارہ‬
‫دیکھتا رھا اور پھر میرے مموں کو‬
‫دونوں ھاتھوں میں پکڑ کر دوبارا‬
‫گھسے مارنے لگ گیا ۔‬
‫گھسوں سے میرا سارا جسم ہل رھا تھا‬
‫اور تھپ تھپ کی آواز گونج رھی تھی‬
‫بیس منٹ کی چدائی کے بعد اکری نے‬
‫ایک جاندار گھسا مارا جس سے میری‬
‫چیخ نکلی اور ساتھ ھی اکری نے لن‬
‫باہر نکال کر میری پھدی کے اوپر ھی‬
‫ساری منی بہا دی ۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر چھالنگ مار کر بیڈ سے نیچے‬
‫اترا اور واش روم کی طرف چال گیا ۔‬
‫میں نے دیکھا کہ جب اکری نے واش‬
‫روم کا دروازہ بند کرلیا ھے تو میں نے‬
‫جلدی سے کیمرہ اٹھایا‪ ،‬اور اسکو‬
‫دیکھنے لگ گئی کے اسکی کیسٹ کہاں‬
‫ڈلتی ھے میرے ھاتھ کانپ رھے تھے‬
‫اور میری نظریں بار بار واش روم کے‬
‫دروازے کی طرف تھیں ۔۔‬
‫اچانک مجھے کیسٹ والی سائڈ مل گئی‬
‫میں نے بٹن دبایا تو کیسٹ والی سائڈ‬
‫کھل گئی میں نے جلدی سے ایک‬
‫چھوٹی سی کیسٹ نکالی اور کیسٹ‬
‫والی ڈبی کو بند کرکے کیمرہ ادھر ھی‬
‫رکھ دیا اور جلدی سے واپس اپنی جگہ‬
‫پر آکر کیسٹ کو تکیے کے نیچے رکھ‬
‫دیا۔۔‬
‫اور کپڑا پکڑ کر پھدی کو صاف کرنے‬
‫لگ گئی اتنی دیر میں اکری واش روم‬
‫سے باہر نکال ۔‬
‫اور میرے قریب اکر بیٹھتے ھوے بوال‬
‫۔‬
‫مزہ آیا چدوانے کا۔‬
‫میں نے شرماتے ھوے سر نیچے کر‬
‫کے اثبات میں ہال دیا ۔‬
‫اکری بوال اب اسد سے بھی ایک دفعہ‬
‫چدوا لے ۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا ۔‬
‫نہیں میں بس اپکی ہوں مجھے اس سے‬
‫سخت نفرت ھے اکری نے قہقہ لگاتے‬
‫ھوے کہا ۔‬
‫واہ عورت ذات تجھ میں کتنے چلتر ہیں‬
‫۔‬
‫پہلے اس سے محبت تھی اور اب مجھ‬
‫سے ھا ھا ھا ھا‬
‫چل شاباش اب اس سے چدوالے اور یہ‬
‫میرے ساتھ پیار شیار کے ڈرامے مت‬
‫کر ۔‬
‫میں نے حیرانگی سے اسکی طرف‬
‫دیکھتے ھوے کہا تم انسان ھو کہ‬
‫جانور ھو تمہارے سینے میں دل نہی‬
‫ھے کیا۔۔‬
‫اکری کا چہرہ ایکدم سرخ ھوگیا اور وہ‬
‫جلدی سے کھڑا ھوا اور میرے سر کے‬
‫بالوں کو پکڑ کر جھنجھوڑتے ھوے‬
‫بوال ایک تو سالی کی زبان بہت چلتی‬
‫ھے اسکے ساتھ ھی اس نے مجھے‬
‫پیچھے کو دھکا دیا میں بیڈ پر گری اور‬
‫اکری ننگا ھی دروازے کی طرف بڑھا‬
‫اور درواز کھول کر باہر منہ نکال کر‬
‫اسد کو آواز دی تو کچھ ھی دیر بعد اسد‬
‫کمرے میں داخل ھوا ۔‬
‫اور آتے ھی قہر بھری نظروں سے‬
‫مجھے دیکھنے لگ گیا ۔‬
‫اور ساتھ ھی اس نے جھٹ پٹ سے‬
‫اپنے کپڑے اتارے اور اکری کو کہا‬
‫چل استاد آج اسکی دونوں طرف سے‬
‫ایک ساتھ بجاتے ہیں ۔‬
‫میں سہم کر پیچھے کو‬
‫کھسکی تو دونوں ایک دوسرے کے ‪.‬‬
‫ہاتھ پر ہاتھ مارتے ھوے ہنسے اور‬
‫اکری بوال سالی مجھے پاگل بنا رھی‬
‫تھی میں نے تو جان بوجھ کر اسے باہر‬
‫بھیجا تھا کہ تو میرا مزہ نہ خراب کر‬
‫اکری ایک عورت کے پیچھے یار نہیں‬
‫چھوڑتا ۔‬
‫اور پھر دونوں ایک ساتھ بیڈ کی طرف‬
‫بڑھے اور اکری نے میرے بازو کو‬
‫پکڑ کر کھینچا تو میں کسی کھلونے کی‬
‫طرح اسکی طرف آگئی اور اکری ساتھ‬
‫ھی بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔‬
‫اور پھر میرے ساتھ چمٹ کر مجھے‬
‫چومنے لگ گیا اور میری دوسری‬
‫طرف اسد آکر لیٹ گیا وہ پیچھے سے‬
‫میری گانڈ کو مسلنے لگ گیا۔‬
‫میرا منہ اکری کی طرف تھا اور میری‬
‫گانڈ اسد کی طرف ۔‬
‫اور میں دونوں کے درمیان سینڈوچ بنی‬
‫ھوئی تھی ۔‬
‫دو مردوں کے ہاتھ میرے جسم پر پھر‬
‫رھے تھے‬
‫کچھ دیر میرے جسم کو سہالنے کے‬
‫بعد اکری نے اپنا لن پکڑ کر‬
‫میری پھدی کے اوپر رکھ کر میرے‬
‫چڈوں میں گھسا دیا‪ ،‬اور مجھے کس کر‬
‫جپھی ڈال لی ادھر پیچھے سے اسد نے‬
‫لن میرے چوتڑوں میں گھسادیا اور‬
‫دونوں کے لنوں کے ٹوپے میری‬
‫ٹانگوں کے بیچ ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫ٹکرا گئے ایک لن پھدی پر اور دوسرا‬
‫لن گانڈ کی دراڑ میں‬
‫پہلے تو مجھے بہت عجیب سا لگا ۔اور‬
‫میں احتجاج کرتی رھی‬
‫مگر کچھ ھی دیر میں میرے اندر بھی‬
‫شہوت جنم لینے لگ گی‪،‬‬
‫اتنے میں اکری نے مجھے بازوں میں‬
‫بھرا اور اپنے اوپر کر لیا میں اکری کا‬
‫لن چڈوں میں لیے اسکے سینے پر‬
‫ممے رکھ کر لیٹ گئی اور اکری نے‬
‫وقت ضائع کیے بغیر ہاتھ نیچے لیجا کر‬
‫لن کو پکڑ کر پھدی میں سیٹ کیا اور‬
‫میری ٹانگوں کو کھول کے گانڈ اٹھا کر‬
‫جھٹکا مارا اور لن پھدی مین اتار دیا‬
‫میں درد سے ھائییییییییی کیا ۔‬
‫تین چار گھسے مارنے کے بعد اسد‬
‫میرے پیچھے آیا اور اپنے لن پر تھوک‬
‫لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر ٹوپے‬
‫کو رکھا ۔‬
‫میں اکری کے اوپر گھوڑی بنی اسکا‬
‫لن پھدی میں لیے ھوے تھی کہ پیچھے‬
‫سے اسد نے ایک ذور دار جھٹکا مارا‬
‫اور اسکا لن میری گانڈ کو چیرتا ھوا‬
‫اندر چال گیا میں نے ایک چیخ ماری‬
‫اور آگے ھونے لگی تو اکری نے‬
‫مجھے کندھوں سے پکڑ کر پیچھے‬
‫دھکیل دیا اسد کا پورا لن میری گانڈ‬
‫مین اور اکری کا پورا لن میری پھدی‬
‫میں تھا ۔‬
‫میری گانڈ میں بہت درد ھورھا تھا ۔‬
‫چند لمحوں کے بعد دونوں نے آہستہ‬
‫آہستہ گھسے مارنا شروع کردیے ۔۔‬
‫میں آہ آہ آہ مرگئییییی افففففف سییییی‬
‫بہت درد ھورھی ھے پلیز مجھے چھوڑ‬
‫دو میں مرجاوں گی‬
‫کری جارھی تھی ادھر وہ دونوں اپنی‬
‫مستی سے میری پھدی اور گانڈ کو چود‬
‫رھے تھے میرے ممے اچھل اچھل کر‬
‫اکری کے منہ کے پاس جارھے تھے‬
‫جب اسد کے گھسے سے میرا مما ہلتا‬
‫ہوا اکری کے منہ کے پاس جاتا تو‬
‫اکری میرے نپل کو ہونٹوں میں بھر کر‬
‫ایک چوسا لگاتا اور ممے کو چھوڑ دیتا‬
‫۔۔‬
‫پانچ منٹ بعد ھی اسد کی گھسوں کی‬
‫سپیڈ تیز سے تیز ھوتی گئی اور میرے‬
‫ممے ہلتے ھوے اکری کے منہ پر‬
‫تھپیڑے مارنے لگ گئے پھر اسد نے‬
‫میری کمر کو ذور سے بھینچا اور ایک‬
‫زوردار گھسا مارتے ھوے پورا لن‬
‫میری گانڈ میں کر کے میرے اوپر ھی‬
‫لیٹ گیا مجھے اپنی گانڈ میں اسد کی‬
‫منی کے فوارے صاف محسوس‬
‫ھورھے تھے ۔‬
‫اسد جب میرے اوپر لیٹا تو میں اسکے‬
‫وزن کے ساتھ اکری کے اوپر لیٹ گئی‬
‫اکری میرے نیچے اور میں اسد کے‬
‫نیچے تھی ایک منٹ ایسے ھی ہم لیٹے‬
‫رھے ۔‬
‫تو اسد نے جھٹکے سے لن میری گانڈ‬
‫سے نکاال اور واش روم کی طرف‬
‫بھاگ گیا ۔‬
‫پھر اکری نے مجھے پندرہ بیس منٹ‬
‫چودا میں مرنے والی ھوچکی تھی دو‬
‫تین گھنٹے کی چدائی نے میرا برا حال‬
‫کردیا تھا اکری بھی لن نکال کر میرے‬
‫اوپر ھی فارغ‬
‫ہوگیا‪ ،‬میں کچھ دیر ایسے ھی پڑی ‪.‬‬
‫رھی بے جان ۔‬
‫کچھ دیر بعد جب میری آنکھ کھلی تو‬
‫اسد ہاتھ میں ایک گن کی طرح مشین‬
‫ھاتھ میں لیے کھڑا تھا جس کے آگے‬
‫سوئی لگی ھوئی تھی ۔‬
‫اکری بوال چل یار جلدی سے میرے‬
‫اور اپنے نام کی مہر اسکی پھدی‬
‫پرلگادے تاکہ یہ جب بھی پھدی کو‬
‫دیکھے اسکو ہماری یاد آے اور جب‬
‫اسکو ہماری یاد آے گی تو پھر اسکو‬
‫اپنی چدائی کی فلم بھی یاد آے گی ۔‬
‫میں ابھی تک مہر کا مطلب نہ سمجھ‬
‫سکی کہ یہ کام سی مہر لگانے کی بات‬
‫کررھے ہین ۔‬
‫جب اکری نے میری ٹانگوں کو پکڑا‬
‫اور اسد مشین کو چلس کر میری طرف‬
‫بڑھا اور میری پھدی کے اوپر والے‬
‫حصہ پرسوئی رکھ کر کچھ لکھنے لگ‬
‫گیا تو مارے درد کے میری جان نکلنے‬
‫لگی اکری مجھے دھمکیاں دیتا ھوا‬
‫مجھے برداشت کرنے کا کہ رھا تھا دو‬
‫تین منٹ کی تکلیف دینے کے بعد اسد‬
‫ہنستا ھوا پیچھے ہٹا اور بوال چل‬
‫گشتیے کپڑے پہن لے اور ایک دفعہ‬
‫پھدی کو غور سے دیکھ لے ۔اور دونوں‬
‫نام یاد رکھنا ۔‬
‫‪،‬اسد&اکری‬

‫میں کافی دیر پھدی اور گانڈ کے درد ‪.‬‬


‫سے روتی رھی ۔‬

‫اکری کپڑے پہن کر باہر چال گیا اور‬


‫اسد کپڑے لے کر واش روم چال گیا ۔‬

‫کمرہ خالی ھوا تو میرے دماغ میں‬


‫ایکدم ویڈیو کیسٹ کا آیا میں جلدی سے‬
‫اٹھی اور بریزیر پہن کر کیسٹ تکیہ‬
‫کے نیچے سے نکال کر بریزیر میں‬
‫رکھی اور جلدی سے پہلے قمیض پہن‬
‫لی اورپھر بڑی مشکل سے شلوار پہن‬
‫ھی رھی تھی کہ کمرے میں ایک‬
‫مونچھوں واال داخل ھوا جسکو دیکھ کر‬
‫میں نے جلدی سے شلوار اوپر کی اور‬
‫چادر پکڑ کر جلدی سے اوپر اوڑھنے‬
‫لگی ۔‬

‫مونچھوں واال بدمعاش کندھے پر بندوق‬


‫لٹکاے دروازے پر کھڑا میری طرف‬
‫دیکھی جارھا تھا میں چادر اوڑھ کر‬
‫کھڑی کبھی اسکی طرف دیکھتی کبھی‬
‫واش روم کے دروازے کی طرف ۔‬

‫کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد وہ بدمعاش‬


‫بوال چلو لڑکی ساب جی بوال رھے ہیں‬
‫میں پاوں گھسیٹتے ہوے دروازے کی‬
‫طرف چل پڑی جب میں کمرے سے‬
‫باہر نکلی تو باہر دو تین گن مین بڑی‬
‫بڑی مونچھوں والے کھڑے تھے اور‬
‫اکری ایک صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ‬
‫رکھے بیٹھا مونچھوں کو تاو دے رھا‬
‫تھا ۔‬

‫اور اس کے گارڈ اسکے ارد گرد‬


‫کھڑے تھے اکری نے مجھے آتا دیکھا‬
‫تو مجھے اشارے سے صوفے پر‬
‫بیٹھنے کا کہا ۔‬

‫میں نے اسے نفرت سے گھورتے ھوے‬


‫دیکھ کر کہا مجھے گھر جانا ھے ۔‬

‫اکری قہقہہ لگا کر ہنسا اور بوال ۔چلی‬


‫جانا میں کون سا تجھے اس حویلی میں‬
‫قید کرنے لگا ہوں اتنے میں اسد بھی‬
‫کمرے سے باہر نکال اور بوال باس اب‬
‫اسکا کیا کرنا ھے ۔‬

‫اکری بوال کرنا کیا ھے تو جا اور اسکو‬


‫میرا مالزم اسکے سکول چھوڑ آتا ھے‬
‫۔‬

‫اسد کندھے اچکا کر باہر نکل گیا اور‬


‫اکری مجھے دھمکاتے ھوے بوال‬
‫تمہارا جسکو جی کرے بتا دینا مجھے‬
‫اسکی کوئی پریشانی نہیں ۔‬

‫اور یاد رکھنا کہ تیرے چدتے ھوے کی‬


‫پوری فلم میرے پاس ھے اور جب بھی‬
‫تجھے میرا پیغام پہنچے بنا کسی‬
‫پریشانی کے ادھر چلی آنا ۔‬
‫اس کے ساتھ ھی اس نے ایک گن مین‬
‫کو کہا کہ یہ جہاں جانا چاھے اسے‬
‫چھوڑ آنا اور اسکا پورا خیال رکھنا ۔‬

‫یہ کہتےھوے اکری صوفے سے اٹھا‬


‫اور باہر کی طرف چل پڑا اسکے‬
‫پیچھے اسکے گن مین بھی باہر نکل‬
‫گئے اور پھر وہ بدمعاش مجھے سکول‬
‫چھوڑ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫عظمی اپنی داستاں سنا کر اونچی‬


‫اونچی آواز میں رونے لگ گئی اور‬
‫میں مارے حیرت کے سکتے کے عالم‬
‫میں اس کی طرف دیکھی جارھا تھا ۔‬

‫مجھے ایکدم ہوش آیا اور میں نے ۔‬

‫بڑی سنجیدگی کے ساتھ عظمی سے‬


‫پوچھا ۔‬

‫عظمی تم نے مجھ سے پہلے جھوٹ‬


‫کیوں بوال تھا ۔‬

‫عظمی بولی یاسر وہ بڑا خطرناک بندا‬


‫ھے میں ڈر گئی تھی کہ کہیں تم اس‬
‫کے ساتھ لڑنے نہ چلے جاو اور مجھ‬
‫میں یہ سب بتانے کہ ہمت بھی نہ تھی ۔‬
‫یاسر مجھ پر بہت ظلم کیا ھے ان‬
‫لوگوں نے جسکی تکلیف آج بھی‬
‫مجھے ہوتی ہے‬

‫میں نے کہا وہ کیسٹ کہاں ھے ۔‬

‫عظمی بولی وہ میں نے توڑ کر نہر میں‬


‫پھینک دی تھی۔‬

‫میں نے ہمممممم کیا اور کچھ دیر‬


‫سوچنے کے بعد بوال ۔‬

‫کیا تم کو راستہ یاد ھے کہ اس کا ڈیرہ‬


‫کس طرف ھے ۔‬
‫عظمی بولی یاسر مجھے یاد ھے مگر‬
‫میں تمہیں بتاوں گی نہیں۔‬

‫میں نے چیخ کر عظمی کو کہا بکواس‬


‫بند کرو اور جو میں نے کہا ھے اسکا‬
‫جواب دو ۔‬

‫عظمی میرے سخت رویہ سے سہم گئی‬


‫اور میرے آگے ھاتھ جوڑ کر بولی‬
‫یاسر وہ بڑے خطرناک لوگ ہیں‬

‫تم بھول کر بھی اسطرف مت جانا ۔‬

‫میں نے کہا تم اس بات کو چھوڑو‬


‫مجھے پتہ ھے میں نے کیا کرنا ھے تم‬
‫بس مجھے وہ راستہ سمجھا دو کہ‬
‫کسطرف ھے باقی میں اسے خود ڈھونڈ‬
‫لوں گا اور جو تمہارے ساتھ ان لوگوں‬
‫نے کیا ھے ۔‬

‫اس سے بڑھ کر انکے ساتھ برا نہ کیا‬


‫تو میں بھی اپنے باپ کا نہیں ۔‬

‫اور اس اسد کو اب حساب برابر کا‬


‫چکتا کرنا پڑے گا اب یہ روز جیئے گا‬
‫اور روز مرےگا ۔‬

‫عظمی کے ساتھ مجھے دلی ہمدردی‬


‫ھوگئی تھی اسکی بس یہ ھی غلطی تھی‬
‫کہ اللچ میں آکر اسد کے چنگل میں‬
‫پھنس گئی اور اس گشتی کے بچے نے‬
‫اسکے ساتھ یہ ظلم کیا ۔‬

‫عظمی کچھ دیر انکار کرتی رھی مگر‬


‫جب میں نے ذیادہ سختی کی تو اس نے‬
‫مجھے سارا اڈریس سمجھا دیا میں‪ .‬نے‬
‫اس سے حویلی کے اندر کا سارا نقشہ‬
‫بھی پوچھ لیا اور کتنے افراد ہیں وہ‬
‫بھی پوچھ لیے ۔۔۔‬

‫اور عظمی کو چھوڑ کر میں اپنے گھر‬


‫آگیا عظمی کے ساتھ جو ظلم ھوا تھا ۔‬

‫اسکی باتیں میرے دماغ پر ہتھوڑے‬


‫برسا رھیں تھی ۔‬

‫میں رات دیر تک جاگتا رھا اور اسد‬


‫اور اکری سے کیسے بدلہ لینا ھے‬
‫اسکے بارے میں پالننگ کرتا رھا ۔‬

‫ضوفی میرے دماغ سے نکل چکی تھی‪.‬‬


‫۔‬

‫رات کو بستر پر لیٹا سوچتے سوچتے‬


‫نہ جانے کب آنکھ لگ گئی ۔‬

‫صبح لیٹ اٹھا اور امی سے بڑی مشکل‬


‫سے اجازت لے کر شہر کی طرف چل‬
‫دیا ۔۔‬
‫جب میں نہر پر پہنچا تو ادھر ھی بیٹھ‬
‫گیا ۔۔۔‬

‫اور بس ایسے ھی ادھر ادھر کی سوچتا‬


‫رھا جب مجھے دو گھنٹے ادھر بیٹھے‬
‫ھوے تو میں اٹھ کر شہر کی طرف چل‬
‫دیا ۔‬

‫شہر پہنچ کر میں سیدھا جنید کی طرف‬


‫گیا دکان کے باہر کھڑے ہوکر میں نے‬
‫جنید کو آواز دی تو جنید مجھے دیکھ‬
‫کر خوشی سے چھالنگیں لگاتا ھوا‬

‫میری طرف آیا اور آتے ھی مجھے‬


‫گلے لگا کر بڑی گرمجوشی سے مال ۔‬

‫اور مجھے دکان کے اندر آنے کا کہا‬


‫مگر میں نے اسے منع کرتے ھوے اس‬
‫سے اس دن کی معذرت کی کہ میری‬
‫وجہ سے تمہارے گھر والوں کو‬
‫پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جنید بوال‬
‫کمال ھے یار ایک طرف مجھے یار‬
‫کہتے ھو دوسری طرف ایسی باتیں‬
‫کرتے ھو ۔‬

‫کچھ دیر ہم کھڑے ایک دوسرے سے‬


‫باتیں کرتے رھے جنید نے بتایا کہ‬
‫شاہین مارکیٹ کے مالک نے نسیم کو‬
‫دکان خالی کرنے کا کہہ دیا ھے اور‬
‫اسے ایک مہینے کا نوٹس دے دیا ھے‬
‫میں نے خوش ھوتے ھوے کہا اس کے‬
‫ساتھ ایسا ھی ھونا چاہیے تھا اسے بھی‬
‫احساس ھو کہ کیسے کسی کی روزی‬
‫میں ٹانگ مارتے ہیں ۔۔کچھ دیر مذید‬
‫باتیں کرنے کے بعد جنید سے اجازت‬
‫لے کر ضوفی کی طرف چل پڑا جنید‬
‫نے مجھے منع بھی کیا کہ ابھی ادھر نہ‬
‫جاو مگر میں ضوفی کے دیدار کے‬
‫لیے بےچین تھا ۔‬

‫بازار میں داخل ھوتے ھی مجھے‬


‫عظمی بھول گئی اور ضوفی کو‬
‫دیکھنے کی بےچینی بڑھ گئی ۔۔‬
‫میں چلتا ھوا شاہین مارکیٹ پہنچا تو‬
‫مارکیٹ میں کسٹمرز کا کافی رش تھا‬
‫تو اس لیے میری طرف کسی کا دھیان‬
‫نہیں پڑا ادھر ادھر کے دکاندار اپنے‬
‫اپنے کام میں مصروف تھے مین‬
‫سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا ۔‬

‫اور پارلر کے دروازے پر دستک دی‬


‫تو کچھ ھی دیر بعد پردہ سرکا اور وہ‬
‫کچی کلی نمودار ھوئی اور مجھے دیکھ‬
‫کر ایسے اس کا چہرہ کھال جیسے وہ‬
‫میری معشوق ھو‬

‫اور اسی وقت وہ پردے کے پیچھے‬


‫غائب ہوئی کچھ ھی دیر بعد ضوفی‬
‫دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر اسکا‬
‫چہرہ کھل اٹھا اور حال احوال اور گلے‬
‫شکوے کے بعد بولی ۔‬

‫اندر کسٹمرز ہیں تم تھوڑی دیر رکو‬


‫میں آتی ھوں اور گھر چلتے ہیں میں‬
‫بھی اسکی مجبوری کو سمجھ کر ہمممم‬
‫کر کے باہر ھی کھڑا ھوکر انتظار‬
‫کرنے لگ گیا تقریبا دس منٹ بعد‬
‫ضوفی گاون پہنے اور نقاب کیے باہر‬
‫نکلی اور بولی چلو ۔‬

‫میًں نے کہا وہ کسٹمر ۔‬

‫ضوفی بولی تم سے عزیز نہیں اور‬


‫میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے چلنے کا کہا۔۔‬

‫میں ضوفی کے ساتھ باہر نکال اور ہم‬


‫نے کچھ اگے جاکر رکشہ لیا اور‬
‫ضوفی کے گھر کی طرف روانہ‬
‫ھوگئے۔‬

‫راستے میں کچھ خاص بات نہ ھوئی‬


‫گھر پہنچ کر ضوفی نے ڈور بیل دی تو‬
‫ماہ نور ماہی نے دروازہ کھوال اور‬
‫مجھے دیکھ کر ماہی کافی خوش ہوئی‬
‫اور کافی گرمجوشی سے میرا استقبال‬
‫کیا ۔‬

‫ضوفی نے ماہی سے امی کا پوچھا تو‬


‫ماہی نے بتایا کہ امی سوئی ھوئی ہیں ۔‬

‫ضوفی مجھے سیدھا اوپر والے کمرے‬


‫میں لے گئی اور اندر داخل ھوتے ھی‬
‫ضوفی نے دروازہ الک کیا اور پھر‬
‫میرے ساتھ ایسے جپھی ڈالی جیسے پتہ‬
‫نہیں کتنے سال بعد ملی ھو ۔‬

‫ضوفی مجھ سے لپٹ کر رونے لگ‬


‫گئی اور میرے چہرے کو دونوں ہاتھوں‬
‫میں پکڑ کر پاگلوں کی طرح چومنے‬
‫لگ گئی ضوفی روتی ھوئی میرے‬
‫چہرے کو چومی جارھی تھی ۔‬

‫اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی تم‬


‫مجھے چھوڑ کر دوبارہ کیوں لڑنے‬
‫گئے تھے اگر تمہیں کچھ ھوجاتا میں تو‬
‫جیتے جی مرجاتی‪ .‬پھر پلٹ کر میرا‬
‫پوچھا آج چار دنوں کے ‪.‬حال بھی نہ‬
‫بعد آے ھو پتہ ھے میں کتنا روتی رھی‬
‫کتنا یاد کرتی رھی تمہارے گھر آنے‬
‫لگی تھی مگر امی نے روک دیا کہ پتہ‬
‫نہی تمہارے گھر والے کیا سوچیں ۔۔۔‬

‫ضوفی کی تڑپ بےچینی بےتابی میرے‬


‫لیے اتنا پریشان ہونا مجھے یوں پاگلوں‬
‫کی طرح چومنا‬

‫اور اسکے یوں رونے پر مجھے اسپر‬


‫پیار آنے لگ گیا اور خود پر فخر‬
‫ھونے لگا کہ مجھے اتنا چاہنے واال‬
‫میرے لیے یوں پریشان ھونے واال بھی‬
‫کوئی ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے ضوفی کی نرم‬
‫گالوں پر ھاتھ رکھے اور انگوٹھے سے‬
‫اسکے آنسوں صاف کرتے ھوے اسے‬
‫چپ کروانے اور تسلی دینے لگ گیا کہ‬
‫مجھے کچھ بھی نہیں ھوا ۔‬

‫لڑائی میں اتنی معمولی سی چوٹ تو‬


‫لگ ھی جاتی ھے ۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے میں نے ضوفی کے‬


‫آنسووں کو اپنے ہونٹوں سے ُچننے لگ‬
‫گیا اور پھر اسکے نمکین آنسووں کو‬
‫اپنے ہونٹوں پر لگا کر ضوفی کے‬
‫ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے‬
‫لگ جاتا‬

‫کافی دیر میں ضوفی کو ایسے ھی الڈ‬


‫پیار سے نارمل کرنے کی کوشش کرتا‬
‫رھا اور ایسے ھی اسکو لے کر میں بیڈ‬
‫پر بیٹھ گیا‬

‫ضوفی اب چپ ھوکر میرے بالوں میں‬


‫انگلیاں پھیرتے ھوے ۔‬

‫مجھے دیکھی جارھی تھی‬

‫پاگل لڑکی۔۔۔‬
‫جب ضوفی مجھے یوں دیکھتی تو میں‬
‫اسکو آنکھ ماردیتا‬

‫ضوفی میرے سینے پر مکا مارتی اور‬


‫چل شوخا کہتے ھوے میرے کندھے پر‬
‫سر رکھ کر میرے کندھے کو چومتی‬
‫اور کچھ دیر دوبارا سر اٹھا کر مجھے‬
‫دیکھنے لگ جاتی ۔‬
‫۔بھی ہمارے الڈ جاری تھے کہ‬
‫دروازے پر دستک ھوئی ۔‬

‫ضوفی جلدی سے اٹھی اور دوپٹے سے‬


‫اپنا چہرہ صاف کرتے ھوے دروازے‬
‫کے پاس گئی اور دروازہ کھول دیا ۔‬
‫ماہی ہاتھ میں ٹرے پکڑے کھڑی تھی‬
‫جس مینں کولڈ ڈرنک تھی ۔‬

‫ضوفی دروازہ کھول کر واپس میری‬


‫طرف آگئی اور ماہی ضوفی کے‬
‫پیچھے پیچھے چلتی ھوئی ٹیبل پر ٹرے‬
‫رکھ کر اس میں سے ایک گالس اٹھا‬
‫کر مجھے پکڑا کر ضوفی کی طرف‬
‫‪.‬حیرانگی سے دیکھنے لگ گئی‬

‫اور پھر میری طرف دیکھتے ھوے‬


‫بولی ۔‬

‫بھائی آپی کو کیا ھوا ھے ۔‬


‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔راستے میں‬
‫ضد کررھی تھی کہ برف واال گوال‬
‫کھانا ھے میں نے کھانے سے منع کیا‬
‫کہ تمہارا گال خراب ھوجاے گا تو گھر‬
‫آکر رونے لگ گئی اور‬

‫اس لیے بےچاری رو رھی ھے‬

‫ضوفی جو سنجیدہ حالت میں بیٹھی‬


‫ھوئی تھی میری بات سن کر ہنس پڑی‬
‫اور مجھے مارنے کے لیے میری‬
‫طرف دوڑی میں جلدی سے بیڈ سے‬
‫اٹھا اور بھاگ کر ماہی کے پیچھے آگیا‬
‫۔‬
‫میں جیسے ھی ماہی کے پیچھے آیا تو‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫میں جیسے ماہی کے پیچھے اپنا بچاو‬


‫کرنے کے لیے کھڑا ھوا تو ماہی بھی‬
‫ہنستے ھوے ضوفی کے اٹھے ہاتھ کو‬
‫پکڑنے لگ گئی۔‬
‫میں ماہی کو کندھوں سے پکڑ کر دائیں‬
‫بائیں ہو رھا تھا اور ضوفی بھی ماہی‬
‫کے آگے کھڑی مجھے مارنے کے لیے‬
‫مکا لہراتے ھوے کبھی دائیں طرف‬
‫سے مجھ پرحملہ آور ہوتی تو کبھی‬
‫بائیں طرف سے ۔‬
‫ماہی بولی آپی بس کریں کہ میرے‬
‫بھائی کو مار کر ھی رہیں گی ۔‬
‫ضوفی بولی تمہارا یہ بھائی بہت بگڑ‬
‫گیا ھے۔‬
‫کچھ دیر بعد ضوفی مجھے گھورتے‬
‫ھوے واپس صوفے پر جا بیٹھی اور‬
‫میں بھی ماہی کے کندھوں کو چھوڑ کر‬
‫جاکہ بیڈ پر جا بیٹھا ۔۔‬
‫ماہی کچھ دیر بیٹھ کر کھانا بنانے کا‬
‫کہہ کر چلی گئی ۔ میں بھی بیڈ کے‬
‫اوپر ہوکر ایسے بیٹھ گیا جیسے میرا‬
‫گھر ھو ۔‬
‫تھا بھی کچھ ایسا ھی مجھے ضوفی‬
‫کے گھر میں آکر اپنائیت کا احساس‬
‫ھوتا تھا ۔‬
‫میری بلکل جھجک ختم ھو چکی تھی ۔۔‬
‫میں بیڈ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر‬
‫بیٹھا ھوا تھا اور ضوفی صوفے پر‬
‫ٹانگ پے ٹانگ رکھے بیٹھی مجھ سے‬
‫باتیں کررھی تھی ۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی سے پوچھا کہ جب میں‬
‫واپس گیا تھا تو تم گھر چلی گئی تھی ۔‬
‫ضوفی بولی میں تمہیں چھوڑ کر کیسے‬
‫جاسکتی میں بھی تمہارے پیچھے آگئی‬
‫تھی مگر وھاں ہجوم اتنا تھا اور مار‬
‫دھاڑ اتنی ھو رھی تھی کہ ۔میں آگے نہ‬
‫جاسکی میرا تو دل گبھرا رھا تھا میں‬
‫نے کافی کوشش کی کہ کسی طریقے‬
‫سے آگے جاکر دیکھوں مگر وھاں ہر‬
‫طرف آدمی ھی کھڑے تھے تھک ہار‬
‫کر میں ایک دکان کے باہر کھڑی‬
‫ھوگئی تھی مجھے بس شور اور‬
‫چیخوں کی آوازیں آرھی تھی ۔جب تم‬
‫لوگ وھاں سے بھاگے تھے تو تمہیں‬
‫خون سے لت پت دیکھ کر میری چیخ‬
‫نکل گئی میں نے تمہیں بہت آوازیں دیں‬
‫پیچھے بھی بھاگی مگر تم نے میری‬
‫طرف دھیان ھی نہ دیا۔‬
‫جب تم لوگ وھاں سے نکلے ھی تھے‬
‫کہ کچھ دیر بعد وھاں پولیس آگئی تھی‬
‫اور پھر ایمبولینس آگئی ۔۔‬
‫میں نےبڑی کوشش کی کہ کسی طرح‬
‫تم سے رابطہ ھوسکے مگر میں ناکام‬
‫رہی ۔‬
‫میں نے کہا مارکیٹ کے مالک کو‬
‫کیسے پتہ چال لڑائی کا اور اس نے کیا‬
‫کہا تھا۔‬
‫ضوفی بولی میں ادھر سے سیدھی‬
‫انکے گھر چلی گئی تھی اور میں نے‬
‫ساری غلطی نسیم کی ھی نکالی اور‬
‫انکو خوب ان لوگوں کے خالف بڑھکایا‬
‫۔‬
‫نسیم کی ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی‬
‫اور اس کے والد کے دانت ٹوٹ گئے‬
‫تھے اور اسکے چاچا کا بازو فیکچر‬
‫ھوگیا تھا باقی لڑکوں کے بھی کافی‬
‫چوٹیں آئیں تھی ۔‬
‫اس کے باوجود بھی آنٹی نے انکل کو‬
‫کہا کہ اگلے مہینے مجھے دکان خالی‬
‫چاھیے ۔‬
‫اور انکل نے انکی ایک بھی نہ سنی‬
‫اور ایک مہینے کا نوٹس دے دیا ۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتے ھوے بولی‬
‫ویسے یاسر تم بہت ظالم ھو اس طرح‬
‫بھی کوئی کسی کو مارتا ھے ان‬
‫بیچاروں کا کتنا برا حال کیا تم نے اور‬
‫تمہارے دوستوں نے ۔‬
‫میں نے کہا‬
‫ایسے لوگوں کا یہ ھی حال ھو تو ھی‬
‫انکو سمجھ آتی ھے پیار کی زبان یہ‬
‫لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔۔‬
‫ضوفی بولی پھر یاسر اگر ان میں سے‬
‫کوئی مرجاتا تو کیا ھوتا۔‬
‫میں نے مکا بنا کر بازو کو ضوفی کی‬
‫طرف کرتے ھوے مکے کو اوپر‬
‫کرتے ھوے کہا لن تے چڑدے مردا تے‬
‫مرجاندا۔۔۔۔‬
‫ضوفی منہ پر دونوں ھاتھ رکھ کر اپنی‬
‫ہنسی کو دباتے ھوے بولی ھوووو‬
‫ھوے کتنے سنگدل ھو۔۔۔۔‬
‫مجھے تو تم سے ڈر لگنے لگ گیا ھے‬
‫۔۔۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے بڑے رومینٹک انداز سے کہا ۔‬
‫تو پھر کیا سوچا ۔۔۔۔‬
‫ضوفی مجھے گھورتی ھوئی بولی‬
‫کیا مطلب ۔۔۔۔‬
‫میں نے کہا مطلب کہ میں پھر اپنی‬
‫چھٹی سمجھوں ۔۔۔ضوفی میری طرف‬
‫دونوں بازو سیدھے کر کے ھاتھوں کو‬
‫کھول کر تیزی سے آئی اور‬

‫میرے گلے کو پکڑ دباتے ھوے بولی‬


‫تمہاری جان لے لینی ھے میں نے جو‬
‫دوبارا یہ بات سوچی بھی۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی کالئیوں کو پکڑا‬
‫اور اپنے گلے سے ہاتھ ہٹاتے ھوے‬
‫اسکو کھینچ کر اپنے سینے پر لیٹا کر‬
‫اسکے بازو اپنے سر کے اوپر لے گیا۔‬
‫ضوفی کے ممے میرے سینے پر دب‬
‫گئے تھے اور اسکا چہرہ میرے چہرے‬
‫کے اتنا قریب تھا کہ اسکی سانسیں‬
‫میرے چہرے پر پڑ رھی تھیں ۔‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سکتے کے‬
‫عالم میں ایک دوسرے دیکھے جارھے‬
‫تھے دونوں کی سانسوں رفتار تیز سے‬
‫تیز ھوتی جارھے تھی ہونٹ ہونٹوں کو‬
‫چھونے کے لیے بےچین ھورھے تھے‬
‫دونوں پلکیں جھپکنا بھول گئے تھے۔‬
‫بالخر سکتہ ٹوٹا ہونٹوں نے اگے‬
‫بڑھنے کی جرات کی اور پھر سب کچھ‬
‫بھول کر ہونٹ ایک دوسرے سے ُگتھم‬
‫گتھا ھوگئے زبانیں آپس میں ٹکرانے‬
‫لگیں لباب دھن ایک دوسرے کے اندر‬
‫اترنے لگا ۔‬
‫میرے ھاتھ ضوفی کی گردن کے‬
‫پیچھے اسکے ریشمی سلکی بالوں کو‬
‫سہالنے لگے ضوفی کی تڑپ بے چینی‬
‫اس کے کسنگ کرنے کا والہانہ انداز‬
‫مجھے مذید گرمانے لگا ۔‬
‫ہونٹ تھے کے ایک دوسرے سے جدا‬
‫ھونے کو نام نہیں لے رھے تھے جسم‬
‫تھے کے ایک دوسرے میں سمانے کی‬
‫کوشش کررہے تھے ضوفی کے نرم‬
‫جسم کو میرے سہالتے ھوے ہاتھ اسکی‬
‫گالب کی پنکھڑیوں کا رس چوستے‬
‫میرے ہونٹ اسکی گرم زبان سے‬
‫ٹکراتی میری زبان مجھے جنت کی‬
‫وادیوں میں پہنچا رہیں تھی‬
‫محبوب کے گیسوں میں عجب سی‬
‫مستی چھاے جارھی تھی ۔‬
‫ضوفی کی گردن سے سرکتے ھاتھ‬
‫اسکی کمر کو ناپتے ضوفی کی ابھری‬
‫گانڈ کی طرف بڑھتے جارھے تھے‬
‫ضوفی کی مستی اسکا جوش بڑھتا‬
‫جارہا تھا کہ اسی سمے ہمارے کانوں‬
‫میں ماہی کے کھنگارنے کی آواز پڑی ۔‬
‫زبان نے زبان کو چھوڑا ہونٹوں نے‬
‫ہونٹوں کو بچھڑنے کی اجازت دی‬
‫۔جسم جسم سے جدا ھوے ضوفی کی‬
‫گانڈ کو سہالتے میرے ہاتھ بجلی کی‬
‫سی تیزی سے ہٹے اور ضوفی گھوم‬
‫کر سیدھی ہوئی اور جلدی سے اٹھی‬
‫اور ہاتھ اہنے ہونٹوں پر رکھ کر سر‬
‫نیچے کر کے شرمندہ سی ھوکر بیٹھ‬
‫گئی ۔۔۔‬
‫میں نے بھی جلدی سے خود کو سمیٹا‬
‫اور مارے شرمندگی کے سر اٹھا کر‬
‫ماہی کی طرف نہ دیکھا ۔۔۔۔۔‬
‫اتنے میں ماہی کی شوخی بھری آواز ہم‬
‫دونوں کے کانوں میں پڑی ۔‬
‫سوری ۔۔وووووہ کھانا الئی تھی ۔۔۔‬
‫بندا کم از کم دروازہ ھی بند کرلیتا ھے‬
‫۔۔۔‬
‫ضوفی نے سر نیچے کیے آہستہ سے‬
‫کہا ٹیبل پر رکھ دو کھانا اور تم جاو۔‬
‫ماہی نے جلدی سے ٹیبل پر کھانا رکھا‬
‫اور الٹے قدموں باہر کو بھاگ گئی ۔۔۔۔‬
‫میں ٹانگیں فولڈ کر کے تکیہ پر ُکہنی‬
‫رکھے سائڈ کے بل سر نیچے کیے‬
‫اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے‬
‫ھوے دیکھ تھا جبکہ ضوفی میرے پیٹ‬
‫کے ساتھ گانڈ لگا کر دوسری طرف منہ‬
‫کیے بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکاے اپنے‬
‫ھاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے ھوے‬
‫شرمندہ سی بیٹھی تھی ۔۔۔‬
‫ماہی کے جاتے ھی میں نے پیچھے‬
‫سے ضوفی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر‬
‫اسکے پیٹ پر رکھے اور اسکو اپنی‬
‫طرف کھینچ لیا ضوفی چھت کی طرف‬
‫منہ کیے میرے اوپر آگئی اور جلدی‬
‫سے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے نرم‬
‫نازک پیٹ سے ہٹانے اور اوپر اٹھنے‬
‫کی کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔۔‬
‫یاسر چھوڑو ماہی پانی لینے گئی ھے‬
‫ابھی آتی ھوگی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ابھی تو وہ نیچے بھی نہیں‬
‫پہنچی ھوگی ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی پلیززززز یاسر مجھے‬
‫پہلے ھی بہت شرمندگی ھورھی ھے کہ‬
‫اس نے ہمیں اس حال میں دیکھ لیا ۔‬
‫نہ جانے کیا سوچے گی ۔۔۔‬
‫میں نے ہاتھوں کی گرفت سخت کرتے‬
‫ھوے کہا ۔‬
‫کیا سوچے گی کہ جیجا جی اپنی ڈیوٹی‬
‫پوری کررھے ہیں ۔۔۔‬
‫ضوفی نے پورا ذور لگاتے ھوے‬
‫اییییییی‬
‫کیا اور میرے ہاتھ اپنے پیٹ سے‬
‫کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بولی‬
‫جیجا جی کے بچے اب چھوڑ بھی دو‬
‫وہ بچی ھے ہمیں یوں دیکھ کر برا اثر‬
‫لے گی ۔۔۔‬
‫میں نے کہا ۔۔۔‬
‫بچی نہیں وہ بھی جوان ھوگئی ھے اور‬
‫سمجھدار بھی ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی زور ازمائی کے بعد اپنی ہار‬
‫مانتے ھوے اپنے پیٹ پر بندھے میرے‬
‫ہاتھوں پر اہنے نرم مالئم ہاتھ رکھ کر‬
‫میرے ھاتھوں کو سہالتے ھوے بولی‬
‫اچھا چھوڑو بابا کھانا ٹھندا ھورھا ھے ۔‬
‫میں کچھ بولنے ھی لگا تھا کہ سیڑیاں‬
‫چڑھتے قدموں کی آواز آئی تو میں نے‬
‫جھتکے سے ھاتھ کھینچ کر ضوفی کو‬
‫آزاد کردیا۔۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی‬
‫اور بولی اب بھی نہ چھوڑتے ۔‬
‫اس کے ساتھ ھی ماہی کمرے میں داخل‬
‫ھوئی اور ہماری طرف دیکھتے ھوے‬
‫شرارت سے بولی لگتا ھے کہ کھانا‬
‫کھانے کا موڈ نہیں ھے ۔۔۔‬
‫ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتے‬
‫ھوے بولی ۔۔‬
‫تمہارا بھائی کہتا ھے کہ ماہی کے ساتھ‬
‫بیٹھ کر ھی کھانا کھائیں گے اس لیے‬
‫تمہارا انتظار کررھے ہیں ۔۔۔‬
‫ماہی مسکراتے ھوے بولی واہ جی واہ‬
‫ابھی سے سالی کی اتنی اہمیت ھوگئی‬
‫۔۔۔‬
‫ضوفی ھاتھ لہراتے ھوے بولی ذیادہ‬
‫بکواس نہ کر ماروں گی ایک ۔۔۔‬
‫ماہی کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫لو جی میں نے کیا غلط کہہ دیا ۔۔‬
‫‪.‬چلو ٹھیک ھے نہیں بنتی سالی‬
‫اور پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ‬
‫دباتے ھوے بولی لگتا ھے کہ اب بھائی‬
‫کی چھٹی ھوگئی ھے ۔۔‬
‫ضوفی ایکدم سیریس ھوگئی اور غصے‬
‫سے ماہی کی طرف دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔۔‬
‫تم کچھ ذیادہ ھی سر پر نہیں چڑھ رھی‬
‫جو منہ میں آتا ھے بکواس کری‬
‫جارھی ھو پانی رکھو ادھر اور دفعہ‬
‫ھوجاو ۔۔۔۔‬
‫ماہی نے ضوفی کی بات کو خاصہ‬
‫محسوس کیا اور ایکدم اس کی آنکھیں‬
‫نم ہوئیں اور پانی ٹیبل پر رکھ کر واپس‬
‫بھاگی میں جو ان دونوں بہنوں کی نوک‬
‫جھونک سے لطف اندوز ھورھا تھا ۔‬
‫ماہی کو یوں روتے دیکھ کر جمپ مار‬
‫کر اسکو آواز دیتا ھوا بیڈ سے نیچے‬
‫اترا اور اسکو دروازے پر ھی جالیا۔۔‬
‫ماہی رو رھی تھی میں نے اسکے سر‬
‫پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور اسکے سر‬
‫کو اہنے کندھے سے لگاتے ھوے اسے‬
‫واپس کھانے کے ٹیبل کی طرف النے‬
‫لگا اور ضوفی کی طرف گھورتے‬
‫ھوے بوال ۔‬
‫یار بولتے وقت کچھ تو خیال کیا کرو ۔۔‬
‫بیچاری نے اتنے شوق سے ہمارے لیے‬
‫کھانا بنایا ھے اور تم اسکی محنت کا یہ‬
‫صلہ دے رھی ھو ۔‬
‫بہت بتمیز ھو تم ضوفی ایسے ھی‬
‫میری گڑیا کو روال دیا ۔‬
‫ماہی اپنے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف‬
‫کرتی میرے کندھے سے لگی صوفے‬
‫کے پاس آئی اور میں نے اسے بازوں‬
‫سے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود‬
‫بھی اسکے ساتھ ھی بیٹھ گیا ۔‬
‫اور ماہی کے سر پر شفقت سے ہاتھ‬
‫پھیرتے ھوے کہا چلو کھانا پلیٹوں میں‬
‫ڈالو آج میں اپنی گڑیا کے ساتھ ھی‬
‫کھانا کھاوں گا ۔‬
‫یہ اکیلی ھی کھاے کھانا اس کی یہ ھی‬
‫سزا ھے ۔۔‬

‫ضوفی میری طرف دیکھ کر مسکراتی‬


‫ھوئی ہمارے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫کچھ دیر مذید مسکے لگانے کے بعد‬
‫ماہی کا موڈ صحیح ھوا اور ضوفی نے‬
‫بھی ماہی سے سوری کی اور اسکی‬
‫گال پر ایک بوسا بھی لیا ۔۔۔‬
‫اور پھر ہم خوشگوار موڈ میں کھانا‬
‫کھانے لگ گئے ۔۔‬
‫کھانا کھانے کہ بعد میں مذید کچھ دیر‬
‫ادھر بیٹھا رھا اور پھر نیچے آکر آنٹی‬
‫سے انکی بیمار پرسی کی اور تقریبا ً‬
‫شام ڈہلنے لگی تو میں ان سے اجازت‬
‫لے کر گھر سے نکل آیا ضوفی نے دو‬
‫تین دفعہ آہستہ سے مجھے رات رہنے‬
‫کا کہا مگر میں گھر بتا کر نہیں آیا تھا‬
‫اس لیے میرا جانا ضروری تھا اور گھر‬
‫کا ماحول بھی خراب تھا اگر میں رات‬
‫کو گھر نہ جاتا تو ابو سے چنگی پلی‬
‫بےعزتی ھو جانی تھی ۔‬
‫ضوفی کے گھر‬
‫سے نکل کر میں سیدھا گاوں پہنچا اور‬
‫گھر چکر لگا کر کھانا وغیرہ کھا کر‬
‫میں باہر نکال اور سیدھا چوک کی‬
‫طرف چلدیا دور سے ھی مجھے شادا‬
‫اور باقی کا گروپ چوک میں لگے‬
‫بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھے نظر‬
‫آگئے ۔۔‬
‫جب میں انکے پاس پہنچا تو خوب‬
‫گرمجوشی سے ملے شادا میرے گھر‬
‫والوں کے رویعے کے بارے میں‬
‫پوچھنے لگ گیا میں نے سب اوکے کہا‬
‫۔‬
‫کچھ دیر بیٹھے خوب ہال گال کرتے‬
‫رھے ایک دوسرے کو جگتیں مارتے‬
‫اور قہقہے لگاتے رھے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے شادے سے اکری‬
‫کے بارے میں پوچھا کہ تم اسے‬
‫جانتےھو تو شادے نے نفی میں سر‬
‫ہالیا اور پوچھنے لگ گیا کہ کون اکری‬
‫۔‬
‫میں نے جب اسے لوکیشن بتائی تو وہ‬
‫ایک دم کھڑا ہوگیا اور میری طرف‬
‫دیکھتے ھوے بڑے گبھراے ھوے‬
‫لہجے سے بوال اوے توں اکری جموں‬
‫دی گل کرریاں ایں ۔۔‬
‫میں نے بڑے اطمینان سے سرہال کر‬
‫ہاں کی ۔۔‬
‫تو اکری میرے سر کو ہالتے ھوے‬
‫بوال‬
‫اوے توں اودے کولوں کی لینا اے ۔‬
‫او بڑا پین یک بندا اے اودے پچھے‬
‫بڑے وڈے ہتھ نے پولیس تھانہ کچہری‬
‫اودی جیب وچ اے۔۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے اسکا ھاتھ پکڑ کر‬
‫اسے کھینچ کر بٹھاتے ھوے کہا۔‬
‫پین یکہ بے تے جا تیری کیوں بُنڈ پاٹ‬
‫گئی اودا ناں سندے ھوے ۔۔۔‬
‫شادا نیچے بیٹھتے ھوے بوال‬
‫پھدی دیا توں ناں ای اوس بندے دا لیا‬
‫اے بنڈ تے پاٹنی ای اے ۔۔۔‬
‫میں نے شادے کی حالت دیکھتے ھوے‬
‫اندازہ لگا لیا کہ یہ میری مدد نہیں کرے‬
‫گا اسکی گانڈ تو اسکا نام سنتے ھی‬
‫پھٹ گئی ۔۔۔۔‬
‫جب اس سے پنگے کا سنے گا تو ساال‬
‫ویسے ھی بھاگ نہ جاے اور کہیں یہ‬
‫بات اکری تک نہ پہنچ جاے۔۔۔‬
‫میں نے بات کو مزاق میں ڈالتے ھوے‬
‫کہا ۔‬
‫یار میں نے تو ویسے ھی پوچھا تھا کہ‬
‫یہ کون ھے اسکا نام بہت سنا ھے شہر‬
‫میں ۔۔‬
‫تو شادے نے لمبا سانس لیا اور شکر ادا‬
‫کرتےھوے بوال کہ میں سمجھا شاید اس‬
‫کے ساتھ کوئی تیرا روال پڑ گیا ھے ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا‬
‫پھدی دیا میں ہن روز رولے ای پانے‬
‫نے ۔۔۔‬
‫میں نے اکری کے معاملے کو فلحال‬
‫موخر کرنے کا سوچا کہ سہی وقت پر‬
‫سہی موقع ملتے ھی کچھ کروں گا‬
‫چاھے مجھے کسی بھی حد تک نہ جانا‬
‫پڑے ۔۔۔‬
‫دوستو میں عمر کے اس دور میں تھا‬
‫جب ایک منٹ میں مرنے مارنے پر اتر‬
‫آتا تھا ایک دفعہ ہر پھڈے میں ٹانگ اڑا‬
‫دینی بس بعد میں جو ہوگا دیکھا جاے‬
‫گا ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر مذید ادھر بیٹھا اکری کے‬
‫بارے میں معلومات لیتا رھا۔‬
‫شادا اسکی بہادری کے قصے سناتا رھا‬
‫کی فالں وڈیرے کا ہاتھ اس کے سر پر‬
‫ھے اس نے فالں بندے کو مارا ھے‬
‫فالں کو مارا ھے شادے نے مجھے‬
‫کوئی دس پندرہ بندے گنا دیے جنکو‬
‫اس نے قتل کیا تھا یا کروایا تھا مگر‬
‫ثبوت نہ ملنے اور اس کے سٹرونگ‬
‫بیک گراونڈ کی وجہ سے پولیس کی‬
‫گرفت میں نہی آیا اور نہ ھی کسی سر‬
‫پھرے نے اس پر ہاتھ ڈاال تھا مگر ایک‬
‫بات میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی کہ ۔۔‬
‫ساال جتنا بڑا بھی بدمعاش ھے مگر‬
‫ھے تو انسان ھی ۔‬
‫اسپر کونسا کوئی گولی اثر نہیں کرتی یا‬
‫اس کے اندر خنجر نہیں اترتا۔۔۔‬
‫جو بھی ھے سالے کو ایک دن تو مرنا‬
‫ھی ھے ۔‬
‫اور ایسے بندے اندھی گولی کا شکار‬
‫بنتے ہیں ۔‬
‫یا پھر پتہ نہی چلتا کہ کون اسکو مار‬
‫گیا ۔۔‬
‫خیر میں قیاس آرائیاں کرتا رھا اور پھر‬
‫سب ادھر سے اٹھے اور اپنے اپنے‬
‫گھروں کی طرف روانہ ھوگئے ۔۔۔‬
‫گھر آکر بھی رات دیر تک بستر پر‬
‫کروٹیں لیتا ھوا اکری کے بارے میں‬
‫سوچتا رھا کہ کیسے میں اس تک پہنچ‬
‫سکتا ھوں اور کبھی اسد پر سوئی اٹک‬
‫جاتی کہ کیسے اسد کو ایسی موت‬
‫ماروں جس سے ساال روز جیے اور‬
‫روز مرے ۔۔۔‬
‫اچانک میرے دماغ میں‬
‫ایک پالن آیا جس سے ایک تیر سے دو‬
‫نشانے لگانے جاسکتے تھے ۔ ۔‬
‫اور پھر اس پالن کو عملی جامعہ‬
‫پہنانے کے لیے قیاس آرائیاں کرتا رھا‬
‫اور بالخرہ پالن کے تحت عملی طور‬
‫پر قدم اٹھانے کا سوچتے ھوے سو گیا‬

‫صبح میں جلدی اٹھا اور تیار ہوکر شہر‬


‫پہنچا اور سیدھا جنید کے گھر پہنچا ۔‬
‫دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد‬
‫جنید نے ھی دروازہ کھوال اور مجھے‬
‫دیکھ کر حیران رھ گیا اور سالم دعا‬
‫کے بعد بیٹھک کا دروازہ کھولنے‬
‫چالگیا‬
‫اور کچھ ھی دیر میں میں جنید کی‬
‫بیٹھک میں بیٹھا ھوا تھا ۔‬
‫جنید بوال خیریت ھے آج صبح صبح‬
‫چاند نکل آیا ۔۔‬
‫میں نے کہا یار بس فارغ رھ کر تھک‬
‫گیا ھوں سارا دن بوریت میں گزرتا ھے‬
‫۔‬
‫اگر کوئی دکان ھے تو مجھے ادھر‬
‫رکھوا دو جنید بوال میری جان میں نے‬
‫تجھ سے پہلے ھی ایک دکان والے سے‬
‫بات کررکھی ھے مجھے پتہ تھا کہ تم‬
‫اب گاوں میں نہیں رھ سکتے ویسے تو‬
‫انکل سجاد بھی تجھے یاد کرتے ہیں‬
‫اور نسیم کو بھی گالیاں دیتے ہیں کہ‬
‫اسکے پیچھے لگ کر تمہارے ساتھ‬
‫ذیاتی کی ۔۔‬
‫اگر تم کہو تو میں انکل سے اپنے طور‬
‫پر بات کروں ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار مجھے اس بندے‬
‫سے نفرت ھوگئی ھے میں اسکے ساتھ‬
‫جتنا مخلص تھا‬
‫اس سالے نے میری قدر نہ کی ۔‬
‫جنید بوال چھوڑ یار پھر بھی وہ تیرا‬
‫استاد ھے اور استاد تو باپ کی جگہ‬
‫ہوتا ھے اگر اس نے غصہ میں کچھ‬
‫کہہ دیا تو دفعہ کر غصہ تھوک دے ۔۔‬
‫وہ ویسے بھی اپنے کیے پر شرمندہ‬
‫ھے ۔‬
‫اور اس کی باتوں سے لگتا ھے کہ وہ‬
‫دل سے چاہتا ھے کہ تم دکان پر واپس‬
‫آجاو۔‬
‫میں نے کہا یار میرا دل نہی مانتا جنید‬
‫بول چل ماما ہن توں کڑیاں ونگوں‬
‫نخرے کر ریاں ایں ۔۔‬
‫میں آج ھی انکل سے بات کرتا ہوں‬
‫بلکہ تو میرے ساتھ ھی چل میں سنبھال‬
‫لوں گا سب ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار ایسے وہ سمجھے‬
‫گا کہ پتہ نہی مجھے کہیں کام نہی مال‬
‫اس وجہ بےشرموں کی طرح واپس آگیا‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫تو ایسا کر آج اس سے بات کرلے اور‬
‫اسکو کہنا کہ رات کو ہمارے گھر آکر‬
‫مجھے کہے ۔۔۔‬
‫جنید بوال چل سہی ھے جیسے تو خوش‬
‫اگر وہ آگیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں‬
‫دوسری دکان پر تجھے کل ھی رکھوا‬
‫دوں گا ۔۔۔‬
‫میں نے ہمممممم کیا اور پھر میں نے‬
‫جنید سے کہا کہ یار ایک اور کام ھے‬
‫اگر تو کردے تو ساری زندگی تیرا‬
‫احسان نہیں بھولوں گا ۔۔‬
‫جنید بوال‬
‫ماما نالے مینوں ویر وی کیناں ایں رے‬
‫نالے اے احسان کرن والیاں چوالں وی‬
‫مارن دیاں ایں ۔‬
‫حکم کر ۔۔‬
‫میں نے کہا یار مجھے کچھ دنوں کے‬
‫لیے ایک کیمرہ چاہیے جس سے ویڈیو‬
‫فلم بنتی ھو اور کیمرہ بھی چھوٹا سا ہو‬
‫۔۔‬
‫جنید بوال خیر ھے کس کی فلم بنانی‬
‫ھے ۔۔۔‬
‫میں نے کہا یار بس وہ تیری پرجائی‬
‫کی فرمائش ھے کہ ہم دونوں کی‬
‫اکھٹے بیٹھے ھوے کی فلم بنے ۔۔۔‬
‫جنید ہنستے ھوے بوال ۔‬
‫واہ یار یہ بھابھی کب سے بن گئی چپ‬
‫کر کے شادی تے نئی کروا لی ۔‬
‫میں نے کہا نہیں یار بھابھی مطلب‬
‫میری ایک سہیلی ھے اسکی فرمائش‬
‫ھے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫کہیں وہ پالر والی تو نہیں ۔‬
‫میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا‬
‫اور پھر خود کو سنبھالتے ھوے بوال‬
‫نہیں یار گاوں کی ھے دیکھاوں گا‬
‫تجھے کسی دن ۔‬
‫بس یہ بتا کہ میرا کام ھوجاے گا ۔۔‬
‫جنید بوال یار کام مشکل ھے مگر‬
‫ناممکن نھی بڑا کیمرہ چاہیے تو چل‬
‫ابھی لے دیتا ھوں مگر یہ چھوٹے سائز‬
‫واال کیمرہ بہت کم لوگوں کے پاس ھے‬
‫۔۔‬
‫مگر پھر بھی تو پریشان مت ھو میں‬
‫جلد ھی تجھے ڈھونڈ دوں گا ۔‬
‫ہے اپنے یار کافی سارے ۔۔۔‬
‫کسی نہ کسی کے گھر تو ھوگا ھی‬
‫ویسے تجھے چاہیے کب میں نے کہا‬
‫مجھے چاھے آج ھی دے دو اگر آج‬
‫نہی تو کم از کم دو تین دن کے اندر تو‬
‫الزمی دے دینا ۔۔۔‬
‫جنید بوال تو واپس کب دو گے ۔‬
‫میں نے کہا تم ایک مہینے کا کہہ دینا‬
‫کیونکہ ہمیں جب بھی موقع مال تب ھی‬
‫فلم بنانی ھے ہو سکتا ھے میں تجھے‬
‫ایک ہفتے میں ھی واپس کردوں۔۔۔‬
‫جنید بوال ٹھیک ھے میں کوشش کرتا‬
‫ھوں کہ جلد ھی مل جاے باقی تم صبح‬
‫دکان پر آنے کے لیے تیار رہنا میں نے‬
‫کہا انکل آے گا تو ھی میں آوں گا ۔۔‬
‫جنید بوال یہ مجھ پر چھوڑ دو اسکو میں‬
‫آج فلم ھی ایسی سناوں گا کہ وہ پہلے‬
‫تیرے پاس جاے گا پھر اپنےگھر جاے‬
‫گا ۔۔۔‬
‫میں نے جنید کا شکریہ ادا کیا اور اس‬
‫سے پوچھا دکان پر کب جانا ھے تو اس‬
‫نے بتایا کہ بس میں تیار ھوں چلو‬
‫اکھٹے ھی نکلتے ہیں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور میں اٹھ کر‬
‫بیٹھک سے باہر ایا اور جنید نےدروازہ‬
‫بند کیا اور مین دروازے سے باہر آیا‬
‫اور ہم بازار کی طرف چل دیے ۔۔‬
‫جنید کا گھر بھی ضوفی کے محلے میں‬
‫ھی تھا ۔۔‬
‫میرا دل تو بہت کیا کہ میں ضوفی کے‬
‫گھر جاوں مگر جنید کی وجہ سے دل‬
‫پر پتھر رکھ کر محبوب کی گلی سے‬
‫انجان بن کر گزرگیا۔۔۔‬

‫بازار پہنچ کر میں جنید سے علیحدہ ھوا‬


‫اور ایسے ھی ادھر ادھر گھومنےلگ‬
‫گیا ۔۔‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرھی تھی کہ کدھر‬
‫جاوں ۔‬
‫جانے کے لیے جگہ تو بہت تھیں مگر‬
‫دل کہیں بھی جانے پر مطمئن نہیں‬
‫ھورھاتھا ۔۔۔۔‬
‫خیر میں یوں ھی چلتا ھوا گاوں کی‬
‫طرف نکل گیا اور نہر کےکنارے پر‬
‫جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔‬
‫اور کنارے پر بیٹھا میں اپنے پالن پر‬
‫ہر پہلو سے غور کرنےلگ گیا اور‬
‫اسکو بہتر انداز میں سرانجام دینے کے‬
‫لیے مذید مغز ماری کرنے لگ گیا۔۔۔‬
‫مجھے بیٹھے کوئی ایک گھنٹہ ھی ہوا‬
‫ھوگا کہ مجھے شہر کی مین سڑک‬
‫والے پل کی طرف سے ایک موٹر‬
‫سائکل سوار آتا نظر آیا جس کے‬
‫پیچھے کالے رنگ کے برقعہ میں‬
‫کوئی عورت بیٹھی ھوئی تھی ۔‬
‫اور وہ بڑے آرام آرام سے ادھر ادھر‬
‫گردن گھما کر دیکھتے ھوے آرھا تھا‬
‫میں اسے دیکھی جارھا تھا وہ کبھی‬
‫رکتا اور پھر موٹرسائیکل آگے بڑھاتا‬
‫اور کچھ آگے آکر پھر رک جاتا ۔‬
‫مجھے اسکی حرکات مشکوک لگیں ۔‬
‫کیونکہ اکثر لڑکے شہر کی لڑکیوں کو‬
‫ورغال کر نہر پر ڈیٹ مارنے لے آتے‬
‫تھے اور موقع پاکر نہر کے اطراف‬
‫میں لگی مکئی کی فصل میں گھس کر‬
‫چدائی بھی کرلیتے تھے ۔۔۔‬
‫میری چھٹی حس نےفورن کام کیا کہ‬
‫یاسر پتر اے پھدی دا کیس اے تے‬
‫ہوشیار ھوجا۔۔۔‬
‫وہ آدمی مجھ سے کافی فاصلے پر تھا‬
‫اس نےمجھےدیکھا تھا یا نہیں‬
‫‪I don't know‬‬
‫مگر میں اسکی حرکات کو نوٹ کرکے‬
‫چوکس ھوچکا تھا ۔۔‬
‫میں جلدی سے کنارے پر ھی لیٹ گیا‬
‫نہر کا کنارہ ایک جگہ سے اونچا تھا‬
‫اور کوئی دو تین فٹ کی جگہ جو پانی‬
‫کے قریب تھی اور نیچے تھی جس‬
‫جگہ بیٹھ کر عورتیں کپڑے دھوتی تھیں‬
‫۔‬
‫میں کھسکتا ھوا اس جگہ پر پہنچ گیا ۔‬
‫اور کچھ دیر ایسے ھی کمانڈو سٹائل‬
‫میں الٹا لیٹا رھا کچھ دیر بعد میں نے‬
‫جب‬
‫سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے موٹر‬
‫سائکل سوار نظر نہ آیا‬
‫میں نے مذید سر اٹھایا تو مجھے پھر‬
‫بھی کوئی نظر نہ آیا ۔‬
‫میں یہ سوچ کر اوپر ھونے لگا کہ‬
‫شکار نکل گیا ھے ۔‬
‫میں اٹھ کر کھڑا ھوا تو مجھے سامنے‬
‫کوئی بندا نہ بندے کی ذات نظر آئی ۔۔‬
‫میں مایوس ہوکر کنارے سے اتر کر‬
‫نیچے گاوں کی طرف جانے ھی لگا تھا‬
‫کہ مجھے کچھ فاصلے پر درختوں کے‬
‫بیچ کھڑی موٹر سائکل کی سرخ رنگ‬
‫کی ٹینکی کی ایک جھلک نظر آئی ۔‬
‫میں جلدی سے وہیں بیٹھ گیا اور الٹے‬
‫پاوں واپس کنارے پر جانے لگا ۔۔۔‬
‫مجھے اب سمجھ نہیں آرھی تھی کہ‬
‫میں کیسے ان تک پہنچوں کہ انکو پتہ‬
‫بھی نہ چلے خیر میں ان کو کچھ وقت‬
‫دینے کی سوچ کر وہیں بیٹھ گیا کہ وہ‬
‫کچھ کرنے لگ جائیں تو ھی اوپر چھاپا‬
‫ماروں ۔۔‬
‫میں نے کوئی دس منٹ انتظار کیا اور‬
‫پھر آگے ھو کر دیکھا تو موٹر سائیکل‬
‫ابھی بھی کھڑی تھی ۔۔‬
‫میں دبے پاوں جھک کر کنارے سے‬
‫نیچے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ھوا ۔۔‬
‫موٹر سائیکل کی طرف بڑھنے لگ گیا‬
‫بارہ بجے کا ٹائم تھا ہر طرف سناٹا تھا‬
‫۔۔میں چلتا ھوا موٹر سائکل کے پاس‬
‫پہنچ گیا موٹر سائیکل بڑے طریقے سے‬
‫چھپا کر کھڑی کی ہوئی تھی مگر‬
‫دیکھنے والے دیکھ ھی لیتے ہیں ۔۔۔‬
‫میں بڑی احتیاط سے موٹر سائیکل کے‬
‫چاروں اطراف دیکھنے لگ گیا مگر‬
‫وھاں کچھ بھی نہیں تھا ۔‬
‫یعنی شکار مکئی کے اندر گھسا ھوا تھا‬
‫۔۔۔‬
‫میں بڑی احتیاط سے دبے پاوں جھک‬
‫کر چلتا ھوا مکئی کے اندر داخل ھوا‬
‫اور پاوں کے بل کیاری میں بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫اور سامنے دیکھنے لگ گیا مجھے دور‬
‫تک کیاری میں کچھ بھی نظر نہ ایا ۔۔۔‬
‫میں پاوں کے بل بیٹھا ھوا ھی آگے‬
‫بڑھنے لگا میں بڑی احتیاط سے‬
‫آگےبڑھ رھا تھا کہ مکئی کے پتوں کی‬
‫آواز نہ پیدا ھو ۔۔۔‬
‫میں کچھ ھی آگے گیا تھا کہ میرے‬
‫کانوں میں نسوانی آواز آئی ۔۔‬
‫اب کر بھی لو کہ کوئی آے گا تو ھی‬
‫کرو گے ۔‬
‫اور پھر ساتھ ھی مردانہ آواز آئی یار‬
‫اسے کھڑا تو کرلوں اور ادھر اس وقت‬
‫کوئی نہیں آتا نوٹینشن۔۔۔‬
‫میں فل چوکس ہوگیا اور آواز کی سمت‬
‫چہرہ گھمایا تو تو مجھے ساتھ والی‬
‫کیاری میں بالوں والی گانڈ نظر آئی میں‬
‫جلدی سے آگے بڑھا تو گانڈ نمایاں نظر‬
‫آنے لگ گئی ۔۔۔۔‬
‫اور جب کچھ اور آگے بڑھا تو میری‬
‫آنکھیں پھٹی کی پھٹی رھ گئی ۔۔۔۔‬

‫سامنے کا سین کچھ ایسا تھا کہ آدمی ‪.‬‬


‫لڑکی کی ٹانگوں میں اسکی پھدی کے‬
‫سامنے گھٹنوں کے بل بالوں سے بھری‬
‫گانڈ میری طرف کر کے بیٹھا ھوا تھا‬
‫اور اس نے پینٹ اتار کر ایک طرف‬
‫رکھی ہوئی تھی اور لڑکی کی گوری‬
‫ٹانگیں اسکی کمر کے دونوں اطراف‬
‫نظر آرھیں تھی لڑکی کے پاوں اتنے‬
‫سفید اور سرخی مائل تھے جیسے‬
‫اسکے پیروں کے تلووں میں خون اتر‬
‫آیا ھو اور اسکی چٹی سفید پنڈلیوں سے‬
‫لگ رھا تھا کہ بچی کافی صحت مند‬
‫ھے ۔۔‬

‫آدمی لن کو پکڑے شاید مٹھ ماررھا تھا‬


‫کیونکہ اسکے بازو کے ساتھ اسکی گانڈ‬
‫بھی ہل رھی تھی ۔۔۔‬

‫لڑکی کا برقعہ اور شلوار بھی ایک‬


‫طرف پڑے تھے اور انہوں نے نیچے‬
‫چادر بچھائی ہوئی تھی یعنی کے‬

‫پورے پار نال آے نے‬


‫میں انکا جائزہ لے رھا تھا کہ کیسے‬
‫انکو للکاروں ۔۔‬

‫جبکہ لڑکی اسے جلدی کرنے کا کہہ‬


‫رھی تھی اور لڑکا اسے حوصلہ‬
‫رکھنے کا کہہ رھا تھا جہاں تک میرے‬
‫قیاس کے مطابق لڑکے کا لن کھڑا نہیں‬
‫ھورھا تھا‬

‫مردانه کمزوری ھوگی یا پھر خوف۔۔۔‬

‫میں نے دماغ میں پالن اور ڈائلگ سوچ‬


‫لیے جو مجھے بولنا تھے ۔۔‬

‫اگر میرے ڈائلگ انپر اثر کرگئے تو‬


‫لڑکے کو تو پتہ نہی مجھے اس شہری‬
‫پوپٹ بچی کی پھدی کا شرف حاصل‬
‫ھوجانا تھا اور پھدی کے اندر لن ڈالنے‬
‫کی رسائی بھی حاصل ھوجانی تھی ۔‬

‫خیر میں نے اپنے آپ کو تیار کیا اور‬


‫کھڑا ہوکر ایک گرجدار اور رعب دار‬
‫آواز نکالتے ھوے بوال اوے کنجرو اے‬
‫کی کرن دیو او ۔‬

‫اور اس کے ساتھ ھی میں نے آگے بڑھ‬


‫کر لڑکی اور لڑکے کے کپڑے بھی اٹھا‬
‫کر اپنے قبضے میں کرلیے ۔۔۔میں نے‬
‫یہ سب اتنی پھرتی سے کیا کہ انکو‬
‫سنبھلنے کا موقع ھی نہ مال ۔‬
‫میری آواز سنتے ھی لڑکے نے حیران‬
‫پریشان ہوکر گردن گھمائی اور وہیں‬
‫سکتے کہ عالم میں لن ھاتھ میں پکڑے‬
‫بیٹھا رھا جبکہ کہ لڑکی کے منہ سے‬
‫ہلکی سی‬

‫چیخ کے ساتھ ھاےےےے‬

‫*****‬

‫نکال اور لڑکی بھی آنکھیں پھاڑے‬


‫سکتے کے عالم میں مجھے دیکھنے‬
‫لگ گئی‬
‫اور انکے ساتھ لڑکی پر نظر پڑتے‬
‫مجھ پر بھی سکتہ طاری ھوگیا۔۔۔‬
‫اففففف لڑکی تھی کہ آسمان سے اتری ‪..‬‬
‫حور‪ .‬چٹی سفید تیکھے نین نقش باریک‬
‫سے ہونٹ تیکھی ناک لمبی پلکوں کے‬
‫نیچے بڑی بڑی آنکھیں جو خوف سے‬
‫مزید بڑی ہوگئیں تھی ۔میں تو لڑکی کو‬
‫دیکھ کر ھی اپنے اگلے ڈائلگ بھول‬
‫گیا ۔‬

‫لڑکی کی قمیض اسکے مموں سے اوپر‬


‫کی ہوئی تھی اور اسکے چونتیس سائز‬
‫کے گالبی رنگت کے ممے اور انپر‬
‫ہلکے براون رنگ کے چھوٹے سے‬
‫تنے ھوے نپل تھے ۔‬
‫لعنت اس بھگوڑے پر جو اس پھلجھڑی‬
‫کو کھیت میں چودنے کے لیے الیا تھا۔۔‬

‫ایسی نایاب چیز کو تو کھیت کی بجاے‬


‫پھولوں کے بستر پر ہونا چاہیے تھا۔۔‬

‫اور اوپر ظلم کہ‬

‫ایسی کمال بچی کے اتنے سیکسی‬


‫ننگے جسم کو دیکھ کر اور چھو کر‬
‫بھی اس گانڈو کا لن کھڑا نہیں ھورھا‬
‫تھا‬

‫ایسا کمال فگر لباس میں دیکھ کر بندہ‬


‫چھوٹنے واال ھوجاے اور یہ ساال‬
‫بدنصیب اس کو بےلباس کر کہ بھی‬
‫ابھی تک لن ھاتھ میں پکڑ کر کھڑا‬
‫کرنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا جا‬
‫اوے پھدی دیا۔۔۔‬

‫لڑکی کے حسن کہ سحر میں جکڑا میں‬


‫سکتے کے عالم میں لڑکی کے جسم کو‬
‫دیکھی جارھا تھا کہ لڑکا ایک دم جمپ‬
‫مار کر لڑکی کی ٹانگوں کو چھوڑ کر‬
‫کھڑا ہوگیا جبکہ لڑکی نے ہوش میں‬
‫آتے ھی سب سے پہلے اپنے مموں پر‬
‫قمیض کر کے حسین مموں کو میری‬
‫نظر نہ لگنے کے ڈر سے چھپا لیا۔۔‬
‫مجھے بھی ایک دم اپنے ڈائلگ یاد آے‬
‫اور میں گرج کر بوال‬

‫اوے پھدی دیا تینوں پھدی مارن‬


‫واسطے ساڈی فصل ای لبی سی میں‬
‫تیری بنڈ وچ فائر مارنا ایں ۔‬

‫اوےےےےے چھادے تے چھیدو جلدی‬


‫آ و اےےے اے بچ کے نہ جاوے ۔۔‬

‫یہ کہتے ھی میں نے اپنے نیفے میں‬


‫ایسے ھاتھ ڈاال جیسے ریوالور نکالنے‬
‫لگا ہوں ۔۔‬

‫اس لڑکے کا رنگ زردی مائل ہوگیا‬


‫اور اس نے جب یہ دیکھا کہ میں کسی‬
‫اور کو بھی بال رھا ہوں اور ساتھ میں‬
‫نیچے سے ہتھیار نکالنے لگا ہوں اور‬
‫میں اسکی طرف بڑھ رھا ہوں تو وہ‬
‫گانڈو ننگا ھی ادھر سے بھاگ کھڑا ھوا‬
‫اس نے لڑکی کو چھوڑ کر مکئی میں‬
‫ھی دوسری طرف دوڑ لگا دی ۔۔۔‬

‫میں اسکے پیچھے دوڑنے کے انداز‬


‫میں تین چار قدم آگے بڑھا اور لڑکی‬
‫کے سر پر جا پہنچا اور ساتھ ھی میں‬
‫نے للکار ماری‬

‫اوے چھیدے چھیتی آ بندا پج چال ایییییی‬


‫پھڑو اوے اینوں پین یک نوں ۔‬
‫لڑکی چند لمحوں میں مکئی کے اندر‬
‫غائب آگیا سالے کی دوڑنے کی سپیڈ‬
‫ھی بہت تھی‬

‫لڑکی اٹھنے کی کوشش کررھی تھی کہ‬


‫میں نے اسکو بازو سے پکڑ لیا اور‬
‫دھمکی دیتے ھوے بوال بے جا ایتھے‬
‫آرام نال جے پجن دی کوشش کیتی تے‬
‫میری اک آواز تے ایتھے سارا پنڈ اک‬
‫منٹ وچ اکھٹا ھو جانا اے ۔۔‬

‫تے فیر تیرا جو حال ہونا اے تینوں پتہ‬


‫ای نئی ۔۔‬
‫لڑکی مجھے کالج کی لگ رھی تھی‬
‫کیونکہ اس نے سفید یونیفارم پہنا ھوا‬
‫تھا ۔‬

‫لڑکی سہم کر اسی جگہ پاوں کے بل‬


‫بیٹھ گئی۔‬

‫اور اس حسن کی دیوی نے اپنے نرم‬


‫نازک ہاتھ میرے آگے جوڑے ۔اور بولی‬
‫پلیززز مجھے جانے دو پلیزز مجھے‬
‫معاف کردو ۔۔۔‬

‫لڑکی کے ہاتھ بھی کانپ رھے تھے‬


‫اور اسکی گالب کی پنکھڑیاں بھی‬
‫۔۔۔۔میں نے اسے پھر دھمکاتے ھوے‬
‫کہا ۔۔‬

‫آرام سے بیٹھی رھو میرے آدمی ابھی‬


‫تمہارے یار کے پیچھے گئے ہیں اسکو‬
‫پکڑ کر التے ہیں تو پھر سوچتا ھوں‬
‫کیا کرنا ہے تم لوگوں کا ۔۔‬

‫لڑکی کانپی جارھی تھی ۔‬

‫اور پھر اچانک اس نے میرے پاوں‬


‫پکڑ لیے اور رونے لگ گئی مجھے‬
‫معاف کردو مجھ سے غلطی ھوگئی‬
‫آئندہ نہیں کروں گی ۔‬

‫اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو‬


‫انہوں نے مجھے جان سے مار دینا‬
‫ھے‬

‫تمہیں فالں کا واسطہ فالں کا واسطہ ۔‬

‫میں نے کہا اگر تجھے اتنا ھی گھر‬


‫والوں کا ڈر تھا تو پھر اس گانڈو کے‬
‫ساتھ ادھر منہ کاال کروانے کیوں آئی‬
‫تھی اور جس گانڈو کے ساتھ تو اپنے‬
‫گھر والوں کو دھوکا دے کر آئی ہو وہ‬
‫تو تجھے یہاں ننگی کو چھوڑ کر بھاگ‬
‫گیا اور ساال اپنی پینٹ بھی ادھر چھوڑ‬
‫گیا ۔۔‬

‫میں نے اس لڑکے کی پینٹ اس کو‬


‫دیکھاتے ھوے کہا۔۔۔۔‬

‫لڑکی بولی ۔۔‬

‫مجھ سے غلطی ھوگئی بس ایک دفعہ‬


‫معاف کردو میں اسکی باتوں میں اگئی‬
‫تھی مجھ سے غلطی ھوگئی پلیززززز‬
‫مجھے جانے دو ۔۔ اگر کسی کو پتہ چل‬
‫گیا تو میں مرجاوں گی مرجاوں گی ۔۔۔۔۔‬

‫یہ کہتے ھوے وہ میرے پیروں میں سر‬


‫رکھ کر رونے لگ گئی ۔۔‬

‫میں دوقدم اس کے سر سے پیچھے ھوا‬


‫اور بوال یہ ڈرامے بازی میرے ساتھ نہ‬
‫کرو گھر سے پڑھنے آتی ھو اور پھر‬
‫یہاں پھدی مروانے آجاتی ھو اور اب‬
‫تجھے اپنی عزت کا بڑا خیال آرھا ھے‬
‫۔۔‬

‫بس دومنٹ رک جاو ابھی میرے دوست‬


‫تیرے یار کو پکڑ کر التے ہیں تو پھر‬
‫تم دونوں کو گاوں لیجا کر تیرے گھر‬
‫والوں کو بال کر انکے حوالے کروں گا‬
‫۔۔‬

‫لڑکی نے جب یہ سنا تو اور اونچی آواز‬


‫میں رونے لگ گئی ۔۔‬

‫اور پھر میری منتیں کرتے ھوے بولی‬


‫پلیز یہ ظلم مت کرنا میرے گھر والوں‬
‫نے مجھے مار دینا ھے ۔۔۔تم جو پلیز‬
‫میرے گھر والوں کو نہ بلوانا۔۔۔‬

‫میں نے کہا اوکے پھر میری ایک شرط‬


‫ھے اگر تم مان لو تو پھر میں وعدہ‬
‫کرتا ھوں کہ تم کو حفاظت کے ساتھ‬
‫شہر پہنچا کرآوں گا اور یہ راز ادھر‬
‫ھی دفن ھوجاے گا۔۔‬
‫لڑکی میری بات سنتے ھی میرے ‪.‬‬
‫آگے ھاتھ جوڑتے ھوے بولی ۔‬

‫مجھے تمہاری ہر شرط منظور ھے ۔۔‬

‫مگر پلیز میرے گھر والوں کو نہ بلوانا‬


‫۔‬

‫میں نے کہا سوچ لو پھر مکر نہ جانا تو‬


‫لڑکی ہچکی لیتے ھوے بولی ۔‬

‫نہیں مکرتی ******قسم‬

‫مجھے میری ماں کی قسم نہیں مکرتی‬

‫تم جو کہو گے میں وہ کرنے کو تیار‬


‫ھوں ۔‬

‫مجھ سے جو مرضی قسم لے لو ۔‬

‫میں نے جب دیکھا کہ پھل تو تھوڑی‬


‫سی محنت سے ھی جھولی میں گر رھا‬
‫ھے تو میں لڑکی کی شلوار اور برقعہ‬
‫اور لڑکے کی پینٹ اپنے پیچھے کر‬
‫کے پاوں کےبل لڑکی کے سامنے بیٹھ‬
‫گیا اور نرم لہجے میں بوال تمہارا نام‬
‫کیا ھے لڑکی تھوڑا رک کر بولی‬
‫سسسسسویرا ۔۔۔۔میں نے تعریفانہ انداز‬
‫میں‪****** ،‬کہا‬

‫اور پھر بوال جو میں پوچھوں گا سچ‬


‫سچ بتانا اگر میرے ساتھ کوئی ہوشیاری‬
‫کی تو پھر اسکی ذمہ دار تم خود ھوگی‬
‫اور میں نے پھر نہ تو تیرا رونا دیکھنا‬
‫ھے اور نہ ھی تیری کوئی بات سننی‬
‫ھے ۔۔‬
‫لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ‬
‫صاف کرتے ھوے اثبات میں سرہالیا۔۔‬

‫میں نے کہا تمہاری عمر کتنی ھے وہ‬


‫بولی انیس سال میں نے کہا کونسی‬
‫کالس میں پڑھتی ھو ۔۔وہ بولی‬

‫سیکنڈ ایئر میں میں نے ہمممم کیا اور‬


‫پھر بوال پہلے اس گانڈو سے کتنی بار‬
‫چدوا چکی ھو سویرا بولی دو دفعہ میں‬
‫نے کہا کس جگہ تو وہ ایک دفعہ‬
‫اسکے دوست کے گھر اور ایک دفعہ‬
‫اسی جگہ ۔۔‬
‫میں نے ہممممم کیا ۔‬

‫اور پھر بوال ۔‬


‫سویرا میری بات دھیان سے سنو اور‬
‫میں بار بار اپنی بات کو دھرانے کا‬
‫عادی نہیں ہوں ۔‬

‫اگر تمہیں میری شرط منظور ھوئی تو‬


‫ہاں کردینا ورنہ میں نے تمہاری منتیں‬
‫نہیں کرنی ۔۔۔‬

‫سویرا نے سر اٹھا کر میری طرف‬


‫سوالیا نظروں سے دیکھا کہ میں کون‬
‫سی شرط کا کہنے لگا ھوں ۔۔مجھے‬
‫خاموش دیکھ کر بولی ۔‬
‫میں نے کہا نہ کہ میں آپ کی ہر شرط‬
‫ماننے کو تیار ھوں ۔‬

‫بس مجھے میرے کپڑے دے دیں اور‬


‫ادھر سے جانیں دیں ۔۔۔‬

‫میں نے کہا تو پھر سنو۔۔‬

‫مجھے ایک دفعہ کرنے دو اور کرنے‬


‫کے دوران نہ کوئی نخرہ کرنا ھے نہ‬
‫کوئی چوں چراں کرنی ھے ۔‬

‫بلکہ چدواتے وقت اور جیسے جیسے‬


‫میں کروں گا ویسے ھی تم نے میرا‬
‫برابر کا ساتھ دینا ھے ۔۔مجھے یہ‬
‫محسوس نہ ھو کہ میں تم سے ذبردستی‬
‫کررھا ھوں اور تم بھی مجبوری سے‬
‫کروا رھی ھو۔۔۔‬

‫جلدی بولو منظور ھے کہ نہیں اور‬


‫سوچ سمجھ کر جواب دینا ۔‬

‫سویرا نے سر نیچے کیا اور سوچنے‬


‫لگ گئی ۔۔۔‬

‫جب وہ کچھ ذیادہ ھی سوچ میں پڑگئی ۔‬

‫تو میں یہ کہہ کر اٹھنے لگا ۔‬


‫کہ اوکے جیسے تمہاری مرضی تو‬
‫سویرا ایک دم خیالوں سے باہر آئی‬
‫۔۔اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے بیٹھنے‬
‫کا کہتے ھوے بولی مجھے منظور ھے‬
‫منظور ھے منظور ھے ۔‬

‫میں پھر واپس بیٹھ گیا ۔۔سویرا بولی‬


‫میری ایک ریکویسٹ ھے وہ مان لیں‬
‫میں آپکو شکایت کا موقع نہیں دوں گی‬
‫۔‬

‫میں نے کہا بولو ۔‬

‫سویرا بولی ۔آپ میرے اندر فارغ نہ‬


‫ھونا اور آپ کے عالوہ مجھے کوئی‬
‫اور ھاتھ بھی نہ لگاے ۔۔۔میں ایسی‬
‫لڑکی نہیں ھوں بس اس کتی کے بچے‬
‫کی باتوں میں آگئی اور مصیبت کے‬
‫وقت میں وہ مجھے یہاں چھوڑ کر خود‬
‫اپنی جان بچا کر بھاگ گیا ۔۔‬

‫میں نے کہا ٹھیک ھے مجھے تمہاری‬


‫دونوں باتیں منظور ہیں ۔‬

‫میرا کوئی نوکر بھی تمہارے پاس بھی‬


‫نہیں آے گا اور میں فارغ بھی باہر ھی‬
‫ھو جاوں گا ۔‬

‫مگر ہم ادھر نہیں کریں گے کیونکہ‬


‫میرے نوکر تمہارے یار کو پکڑ کر‬
‫ادھر ھی الءیں گے اس لیے تم میرے‬
‫ساتھ چلو میں تمہیں ایک محفوظ جگہ‬
‫لے کر چلتا ھوں ۔۔‬

‫سویرا گبھرا کر بولی ننننہیں ادھر ھی‬


‫کرلو ۔‬

‫میں نے کہیں نہیں جانا۔۔‬

‫میں نے تھوڑا غصے سے کہا ۔‬

‫ہم گاوں کے لوگ زبان کے پکے ھوتے‬


‫ہیں جب تمہاری حفاظت کی ذمہ داری‬
‫لی ھے تو جان بھی چلی جاے مگر تم‬
‫پر کسی کی گندی نگاہ بھی نہیں پڑنے‬
‫دوں گا ۔‬

‫اپنے یار پر یقین کر کے بھی دیکھ لیا‬


‫اب اس پینڈو پر بھی یقین کر کے دیکھ‬
‫لو ۔‬

‫تمہیں خود پتہ چل جاے گا ۔۔‬

‫ہمیں باتیں کرتے دس پندرہ منٹ‬


‫ھوچکے تھے میں ساتھ ساتھ ادھر ادھر‬
‫بھی نظریں دوڑا رھا تھا کہ سویرا کا‬
‫ییندڑ واپس نہ آجاے ۔‬

‫مگر اسکا کہیں نام نشاں نظر نہیں آرھا‬


‫تھا ۔‬
‫سویرا میری بات سن کر خاموش ھوگئی‬
‫میں نے کہا وقت ضائع نہ کرو اگر‬
‫میرے بندے ادھر پہنچ گئے تو پھر‬
‫معاملہ خراب ھوجانا ھے ۔۔‬

‫سویرا بولی میری شلوار مجھے دو میں‬


‫پہن لوں ۔۔‬

‫میں نے شلوار اسکی طرف بڑھاتے‬


‫ھوے کہا ۔‬

‫میری بات یاد ھے نہ کہ کوئی بھی‬


‫چاالکی نہیں کرنی ۔‬
‫سویرا سرہالتے ھوے بولی بے فکر‬
‫رھو تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں‬
‫گی‬

‫میں نے یہ سوچتے ھوے شلوار اسکی‬


‫طرف بڑھائی کے ایک دفعہ میرا لن‬
‫پھدی میں لے لو گارنٹی ھے کہ میرے‬
‫لن کو بھی نہیں بھولو گی ۔۔‬

‫سویرا نے جلدی سے شلوار پہنی‬

‫میری نظر اسکی گوری گوری ٹانگوں‬


‫ہر تھی ۔۔‬

‫شلوار پہن کر سویرا نے نیچے بچھی‬


‫ھوئی چادر اٹھائی اور مجھ سے برقعہ‬
‫مانگا تو میں نے نفی میں سر ہالتے‬
‫ھوے کہا ۔۔تم بس یہ چادر ھی اوپر لو‬
‫اور چلو میرے ساتھ ۔‬

‫میں نے آگے بڑھ کر اسکا ہینڈ بیگ‬


‫بھی اپنے قبضے میں کر لیا اور لڑکے‬
‫کی پینٹ ادھر ھی پھینکی اور سویرا کو‬
‫لے کر میں مکئی کے اندر سے ھی‬
‫اپنی پرانی جگہ کی طرف لے کر چل‬
‫پڑا ۔۔‬

‫لڑکا نہر کی طرف بھاگا تھا جبکہ میں‬


‫اسے مخالف سمت لے کر جارھا تھا ۔۔‬
‫سویرا ڈرتے ڈرتے میرے اشاروں پر‬
‫میرے آگے آگے چلی جارہی تھی جبکہ‬
‫میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی گانڈ‬
‫کا معائنہ کرتا ھوا چل رھا تھا ۔‬

‫سویرا کا قد کوئی پانچ فٹ چھ انچ کا‬


‫تھا‪ .‬جبکہ اسکی گانڈ باہر کو نکلی‬
‫ھوئی تھی اور کمر بھی بلکل پتلی تھی‬
‫اور جسم اسکا بھرا بھرا تھا بڑا ھی‬
‫سیکسی فگر تھا ۔۔۔‬

‫میں سویرا کو لیے کافی آگے پہنچ چکا‬


‫تھا سویرا بار بار پوچھ رھی تھی کہ‬
‫اور کتنا آگے جانا ھے ۔‬
‫میں اسے بس تھوڑا سا اور آگے کہتا‬
‫ھوا اسے چلتے رہنے کا کہتا ھوا‬
‫اسکے پیچھے چل رھا تھا ۔‬

‫آخر کار ہم منزل مقصود پر پہنچ ھی‬


‫گئے‬

‫کھالے کے قریب پہنچ کر میں نے‬


‫سویرا کا ہاتھ پکڑا اور اسے درختوں‬
‫کی طرف لے کر چل دیا سویرا کا ہاتھ‬
‫پکڑتے ھی میرے جسم میں سیکس کا‬
‫طوفان سر اٹھانے لگا سویرا کا ہاتھ تھا‬
‫کہ بغیر ہڈی کے گوشت اتنا سوفٹ اتنا‬
‫سوفٹ کہ اففففففف کیا بتاوں یارا‪ ،،،‬۔‬

‫سویرا سہمی ہوئی تھی اور اسکی حالت‬


‫بتا رھی تھی کے وہ فل ڈری ہوئی ھے‬
‫۔اسکا بازو کانپ رھا تھا درختوں کی‬
‫اوٹ میں جاکر میں نے اسے پھر کہا‬
‫کہ دیکھو سویرا تمہیں یہاں ڈرنے کی‬
‫ضرورت نہیں یہ اپنی زمینیں ہیں یہاں‬
‫میری اجازت کے بغیر کوئی نہیں آسکتا‬
‫اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو یہ نہ‬
‫ھو کہ میرا موڈ خراب ہوجاے ۔۔۔‬

‫سویرا خود کو سنبھالتے ھوے بولی‬


‫ججی ٹھیک ھے آپ فکر نہ کریں میری‬
‫طرف سے آپکو شکایت کا موقع نہیں‬
‫ملے گا ۔۔میں نے ہمممم کیا اور گڈ گرل‬
‫کہہ کر اسے نیچے چادر بچھانے کا کہا‬
‫اور خود کان لگا کر چاروں اطراف کی‬
‫سن گھن لینے لگا کہ کہیں کسی طرف‬
‫سے مکئی کے پتوں کی سرسراہٹ تو‬
‫نہیں ھورھی جس سے کسی کے آنے کا‬
‫سگنل مل جاے مگر ہر طرف امن امان‬
‫کا ھی سگنل مال ۔‬

‫میں نے تسلی کر کے جب سویرا کی‬


‫طرف دیکھا تو وہ نیچے چادر بچھا کر‬
‫کھڑی میری طرف بڑے غور سے‬
‫دیکھ رھی تھی ۔۔‬

‫مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوے سویرا‬


‫نے نظریں جھکا لیں ۔۔‬

‫میں نے کہا کیا دیکھ رھی ھو ۔‬

‫سویرا بولی میں نے آپ کو کہیں دیکھا‬


‫ھے مگر مجھے یاد نہیں آرھا ۔۔‬

‫میں نے چونک کر اسکو مزید غور‬


‫سے دیکھا مگر مجھے تو یہ کہیں سے‬
‫جانی پہچانی نہیں لگ رھی تھی ۔‬

‫میں نے کہا ہوسکتا ھے کہیں آتے‬


‫جاتے دیکھا ھو ۔‬

‫سویرا بولی نہیں میں نے آپ کو بڑے‬


‫قریب سے پہلے کہیں دیکھا ھے ۔‬

‫میں نے کہا اچھا بیٹھو جب یاد آجاے تو‬


‫بتا دینا ابھی ان فضول باتوں کے لیے‬
‫میرے پاس وقت نہی ھے ۔‬

‫سویرا مجھے دیکھتی ھوئی نیچے بیٹھ‬


‫گئی سویرا سفید سوٹ میں لمبے سیاہ‬
‫بالوں میں گوری رنگت کے ساتھ واقعی‬
‫سویرا لگ رھی تھی ۔۔۔‬

‫چہرے پر مصومیت دیکھ کر لگتا ھی‬


‫نہیں تھا کہ یہ چداکڑ ھے اور اس کے‬
‫بقول دو دفعہ چدوا بھی چکی ھے ۔۔‬
‫سویرا کے نیچے بیٹھتے ھی‬

‫میں بھی اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا ۔‬

‫اتنے کانفیڈینس کے باوجود مجھے‬


‫اسکے جسم کو چھونے میں جھجھک‬
‫محسوس ہورہی تھی ۔‬

‫میں کچھ دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا‬


‫رھا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر‬
‫سہالتا رھا ۔‬

‫اور پھر ہمت کرکے میں نے اپنا ایک‬


‫ہاتھ اسکے ممے کی طرف بڑھایا اور‬
‫سویرا کا چونتیس سائز کا گول مٹول‬
‫مما پکڑ کر دبا دیا اور پھر اس کو‬
‫مٹھی میں بھر کر ممے کوکبھی دباتا تو‬
‫کبھی سہالنے لگ جاتا ۔‬

‫سویرا کوئی ریکشن نہیں دے رھی تھی‬


‫بلکل بت بنے بیٹھی ھوئی تھی ۔‬

‫مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ جیسے‬


‫میں کسی سٹیچو کا مما دبا رھا ھوں‬
‫۔۔کچھ دیر میں سویرا کے دونوں مموں‬
‫کو دباتا رھا کافی تنے ھوے ممے تھے‬
‫اور ایسے سڈول مموں کو سکول‬
‫یونیفارم کے اوپر سے دبانے کا الگ‬
‫ھی مزہ ہوتا ھے ۔‬
‫سویرا نے بریزیر بھی بہت سوفٹ پہنا‬
‫ھوا تھا میں جب بھی ممے کو ُمٹھی‬
‫میں بھر کر دباتا تو مما میری مٹھی‬
‫سے سلپ ھوکر مٹھی سے نکلنے کی‬
‫کوشش کرتا ۔‬

‫میرا لن تو فل تن چکا تھا مگر سویرا‬


‫کے گرم ھونے کا ابھی تک دور دور‬
‫تک نشان نہیں تھا ۔‬

‫اگر پاٹنر سیکس میں ساتھ نہ دے تو‬


‫سارے مزے کی ایسی کی تیسی‬
‫ھوجاتی ھے ۔‬
‫اور ایسا ھی میرے ساتھ ھورھا تھا ۔‬
‫میں اکیال ھی بس سویرا کے مموں سے‬
‫لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رھا‬
‫تھا جبکہ وہ بس میری طرف دیکھی‬
‫جارھی تھی اسکی آنکھوں میں عجیب‬
‫سی کشش تھی جب میں اسکی آنکھوں‬
‫میں دیکھتا تو مجھے اسکی آنکھوں میں‬
‫کئی سوال نظر آتے اسکی آنکھیں اسکی‬
‫مجبوری کی گواہی دے رہیں تھی ۔‬

‫میں اسکی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر‬


‫کچھ تالش کرنے کی کوشش کرتا تو‬
‫نجانے کیوں میری آنکھیں زیادہ دیر‬
‫تک اسکی آنکھوں کا سامنا نہ کرپاتی‬
‫اور میں جلدی سے نظریں پھیر کر‬
‫اسکے مموں کی طرف دیکھنے لگ‬
‫جاتا یا اس کے گالبی ہونٹوں کی طرف‬
‫۔‬

‫آخر مجھ سے مذید صبر نہ ھوا تو میں‬


‫نے سویرا کو بانہوں میں بھر کر‬
‫پیچھے کی طرف لٹا کر اسکے اوپر‬
‫لیٹ گیا۔‬

‫میرا اکڑا ھوا لن سویرا کی ران کی‬


‫ساتھ لگ گیا اور اسکے ممے میرے‬
‫سینے کے ساتھ لپٹ گئیے میں نے اپنے‬
‫ہونٹ سویرا کے ہونٹوں پر رکھ دیے‬
‫سویرا بےجان سی لیٹی ھوئی تھی ۔‬

‫اور اس نے اپنے ہونٹوں کو کوئی‬


‫حرکت نہ دی میں نے ذبردستی اپنے‬
‫ہونٹوں کی مدد سے اسکے ہونٹ‬
‫کھولے اور آنکھیں بند کر کے اس کے‬
‫نرم مالئم ہونٹوں کا رس پینے لگ گیا ۔‬

‫سویرا نے اپنے دونوں بازو ڈھیلے‬


‫چھوڑ کر گھاس پر رکھے ھوے تھے ۔‬

‫اسکا ایک ھاتھ میرے لن کے بلکل‬


‫قریب تھا میں نے جلدی سے ایک ھاتھ‬
‫نیچے لیجا کر اپنا ناال کھوال اور شلورا‬
‫سے لن کو نکاال اور سویرا کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر اپنے لن پر رکھا سویرا نے پہلے تو‬
‫ویسے ھی میرے لن پر ہاتھ رکھا مگر‬
‫میں نے اسکے ہاتھ کو پکڑ کر اسکی‬
‫مٹھی کو بند کرکے لن اسکی گرفت میں‬
‫کردیا ۔‬

‫میں ساتھ ساتھ سویرا کے ہونٹ چوسی‬


‫جارھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی مٹھی کو‬
‫اپنے لن پر دبا رھا تھا ۔‬

‫میں نے آنکھیں کھول کر سویرا کی‬


‫آنکھوں کو دیکھا تو اسکی آنکھیں بند‬
‫تھیں ۔‬

‫ادھر جب میرے لن کے گرد سویرا کی‬


‫ہتھیلی اور انگلیوں کی گرفت پڑی تو‬
‫سویرا نے اچانک میرے لن کو دبایا اور‬
‫پھر جھٹکے سے چھوڑ کر ایکدم‬
‫آنکھیں کھول کر میری آنکھوں میں‬
‫دیکھنے لگ گئی ۔‬

‫میں نے پھر اسکا ھاتھ پکڑ کر لن پر‬


‫رکھ کر اسکی مٹھی کو بند کردیا ۔‬

‫سویرا نے پھر لن کو آہستہ سے دبا کر‬


‫لن کی موٹائی چیک کی اور پھر ہاتھ‬
‫سرکاتی ھوئی پہلے ٹوپے کی طرف‬
‫الئی اور پھر ہاتھ کو سرکاری ھوئی‬
‫جیسے ھی لن کی جڑ تک گئی تو‬
‫اسکی کھلی آنکھوں میں ایک چمک‬
‫سے آئی اور ساتھ ھی خوف کے اثار‬
‫بھی اور اس نے جھٹکے سے لن کو‬
‫چھوڑا اور میرے ہونٹوں سے اپنے‬
‫ہونٹ آذاد کروا کر میرے سینے پر‬
‫دونوں ھاتھ رکھ کر مجھے ذور سے‬
‫پیچھے دھکا دیا میں اسکے دھکے سے‬
‫اسکے اوپر سے ہٹ گیا اور سیدھا‬
‫زمین پر لیٹتا گیا وہ بڑی سپیڈ سے اٹھ‬
‫کر بیٹھ گئی میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا‬
‫اور میر لن مکئی کے ٹانڈے کی طرح‬
‫آسمان کی طرف منہ کر کے تنا تن‬
‫کھڑا تھا ۔‬

‫سویرا بیٹھتے ھی میرے لن کو پھٹی‬


‫آنکھوں سے دیکھنے لگی اور پھر اس‬
‫نے دونوں ھاتھ منہ پر رکھ لیے اور‬
‫ناقابل یقین انداز سے نفی میں سر ہالتے‬
‫ھوے آنکھیں پھاڑے میرے لن کو‬
‫دیکھی جارہی تھی ۔۔‬

‫میں پہلے تو سمجھا کہ یہ بھاگنے لگی‬


‫ھے مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ تو‬
‫میرے لن کے سائز کے خوف سے تبق‬
‫کر اٹھی ھے تو میں مذید اپنے چڈے‬
‫کھول کر اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر‬
‫کے اسکو مکمل سائز چیک کروانے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫سویرا کا رنگ سرخ ٹماٹر جیسا الل‬


‫ھوچکا تھا اور وہ چہرے پر ھاتھ‬
‫رکھے سر کو نفی میں ہالے جارھی‬
‫تھی اور میں اسکی کیفیت سے لطف‬
‫اندوز ہو رہا تھا ۔‬
‫میں نے سویرا کا بازو پکڑا اور اسے‬
‫کھینچ کر واپس اپنے پہلو میں لٹا دیا‬
‫۔سویرا گم صم سی میرے ساتھ پھر لیٹ‬
‫گئی ۔‬

‫میں نے اسکے ھاتھ اسکے چہرے پر‬


‫سے ہٹاے تو اسکے چہرے پر گبھراہٹ‬
‫دیکھ کر میں اسکے اوپر جھکا اور‬
‫اسکے بالوں کو سہالتے ھوے بوال ۔‬

‫کیا ھوا اتنا گبھرا کیوں گئی ھو۔۔‬

‫سویرا نے صرف نفی میں سرہالنے پر‬


‫ھی اکتفاء کیا۔میں نے پھر پوچھا کیا ھوا‬
‫بولو تو سہی ۔‬

‫سویرا بولی وووہہ تمہارا اتنا بڑا ھے ۔‬

‫مجھ سے نہیں لیا جانا۔۔‬

‫میں نے کہا تمہارے یار کا اتنا بڑا نہیں‬


‫تھا کیا ۔۔‬

‫سویرا نفی میں سر ہال کر بولی نہین۔‬

‫میں نے کہا اسکا کتنا ھے ۔‬


‫وہ بولی اس سے آدھا۔‬

‫میں نے کہا ۔‬

‫میرا لن لوگی تو تم کو سیکس کا اصل‬


‫مزہ آے گا ۔‬

‫سویرا بولی مجھ سے برداشت نہی ھونا‬


‫میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ اتنا بڑا‬
‫بھی ہوتا ھے ۔‬

‫میں نے کہا اب تو دیکھ بھی لیا ھے اب‬


‫تو یقین کرلو ۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے میں نے دوبارا اس‬


‫کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا‬
‫اور ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سویرا کی‬
‫قمیض کو اسکے پیٹ سے اوپر کرکے‬
‫اسکے نرم مالئم پیٹ پر ہاتھ پھرنے‬
‫لگ گیا ۔‬

‫سویرا پتہ نہیں کیوں گرم نہیں ہورھی‬


‫تھی بلکل بےجان گڑیا کی طرح لیٹی‬
‫ھوئی مجھے ہر کام کی اجازت دے‬
‫رھی تھی نہ روک رھی تھی نہ میرا‬
‫ساتھ دے رھی تھی ۔‬

‫میں ہاتھ کو سرکاتا ھوا قمیض کے اندر‬


‫سے ھی اسکے مموں پر لے آیا اور‬
‫بریزیر کے نیچے سے ہاتھ سیدھا کر‬
‫کے اسکے ننگے ممے کو مٹھی میں‬
‫بھرا تو پہلی دفعہ سویرا کے منہ سے‬
‫سیییییییی نکال اور اس نے میرے ھاتھ‬
‫کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔‬
‫سویرا کے ممے کی سوفٹنس میں‬
‫الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا‬
‫اففففففففف کیا روئی جیسے نرم اور‬
‫ریشم جیسے مالئم ممے تھے ۔‬

‫مگر جب میری انگلی میں اسکے ممے‬


‫کا نپل آیا تو نپل فل ہارڈ ھوچکا تھا اور‬
‫نہل کو جب بھی مسلتا سویرا کے منہ‬
‫سے سسکاری ضرور نکلتی مجھے‬
‫اسکا چور سوئچ مل چکا تھا ۔‬
‫سویرا کی جان اسکے ممے کے نپل‬
‫میں تھی ۔‬

‫کچھ دیر میں ھی سویرا نے میرے‬


‫نچلے ہونٹ کو پہلی دفعہ کھینچ کر‬
‫چوسنا شروع کیا تو مجھے اپنی محنت‬
‫کا پھل ملتا محسوس ھونے لگ گیا ۔‬

‫اور میں بار بار اسکے دونوں نپلوں کو‬


‫ھی کبھی مسلتا تو کبھی سہالتا سویرا‬
‫آہستہ آہستہ جوبن میں آتی جارھی تھی ۔‬

‫میں چاہتا تو آتے ھی اسکی شلوار‬


‫نیچے کر کے لن گھسیڑ دیتا مگر ایسا‬
‫سیکس کیا تو پھر کیا کیا ۔‬
‫سیکس کا اصل مزہ ھی تب آتا ھے جب‬
‫دونوں پاٹنر برابر میں ایک دوسرے کا‬
‫ساتھ دیں اور دونوں کے اندر برابر کی‬
‫آگ لگی ھو ۔‬

‫تب ھی چدائی کا حق ادا ھوتا ھے ۔۔‬

‫بے شک سویرا کو میں نے بلیک میل‬


‫کیا تھا اور وہ مجبوری میں سب کچھ‬
‫کروا رھی تھی مگر اسکے باجود بھی‬
‫میں اس سے ایک لور پاٹنر کی امید‬
‫رکھ رھا تھا‬

‫سویر نے میرے نچلے ہونٹ کو قابو کر‬


‫لیا تھا اور اسے چوسنے لگ گئی اور‬
‫اسکے ساتھ ھی اسکا ھاتھ اٹھا اور‬
‫میری گردن کو سہالتے ھوے میرے‬
‫سر کو مذید نیچے کی طرف دبا کر‬
‫میرا نچال ہونٹ چوستی ۔‬

‫سویرا کے ایکشن میں آنے کی دیر تھی‬


‫کہ میرا بھی پارا چڑھ گیا اور میں نے‬
‫بھی والہانہ انداز میں اسکے ممے کو‬
‫دبانا اور اسکے اوپری ہونٹ کو چوسنا‬
‫شروع کردیا ۔۔۔‬

‫مجھے سویرا کی سیکس کی بھوک کا‬


‫اندازہ اسکی والہانہ کسنگ اور کمر اٹھا‬
‫اٹھا کر میرے ساتھ چپکنے سے ہورھا‬
‫تھا اور ساتھ میں جس انداز سے وہ‬
‫میری گردن کو سہالتے ھوے میرے‬
‫بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی ۔‬

‫اس سے میرے اندر انتہاء کا جوش بڑھ‬


‫رھا تھا ۔‬

‫اور میرا لن فل ٹائٹ ہو کر پھٹنے واال‬


‫ھوچکا تھا میرا دل کررھا تھا کہ ابھی‬
‫سویرا کی شلوار اتار کر ایک ھی‬
‫جھٹکے میں سارا لن اسکی پھدی میں‬
‫اتار دوں ۔۔‬

‫مگر میں سویرا کو پورا تیار کرنا چاہتا‬


‫تھا کہ وہ اپنی رضامندی سے مجھے‬
‫پھدی میں لن ڈالنے دے ۔۔‬

‫اس لیے میں لگاتار مسلسل اسکے‬


‫مموں پر اور نپلوں پر انگلیوں سے‬
‫منتر پڑھ کر اسکے اندر سیکس کی‬
‫بھوک کو بڑھا رھا تھا اور اس میں‬
‫قدرے کامیاب بھی ہورھا تھا ۔۔‬

‫کچھ دیر ہم دونوں کے ہونٹوں کا دنگل‬


‫جارہی رھا ۔‬

‫اور بالخرہ میں نے سویرا کے ہونٹوں‬


‫کو چھوڑا اور اس کے اوپر آگیا اور‬
‫اسکی ٹانگوں کو کھول کر گھٹنوں کے‬
‫بل بیٹھ گیا ۔۔‬
‫سویرا میرے سامنے ٹانگیں کھولے لیٹی‬
‫ھوئی تھی اور اسکی قمیض اسکے پیٹ‬
‫سے اوپر اور مموں سے نیچے تھی ۔۔۔‬

‫سویرا کا پیٹ چٹا سفید تھا اور روشنی‬


‫میں چمک رھا تھا پیٹ بلکل اندر کی‬
‫طرف تھا اسکی جلد میں شائنگ تھی‬
‫ایسے جیسی ویکس کی ھو بال کی ایک‬
‫لوں تک نہ دکھ رھی تھی ۔۔‬

‫میں نے اسکے پیٹ کو دیکھا تو بے‬


‫اختیار میں اسکے پیٹ پر سجدہ ریز‬
‫ھوگیا اور ہونٹ اسکے پیٹ پر رکھے‬
‫اور پیٹ کا بوسا لے کر اسکے حسن‬
‫کی تعریف کی ۔۔۔۔میرے ہونٹ سویرا‬
‫کے پیٹ پر لگے تو سویرا کے پیٹ کی‬
‫جلد وائبریشن ہونے لگ گئی اور سویرا‬
‫نے گھاس سے کندھے اٹھا کر سر کو‬
‫پیچھے خم دے کر سسکاری بھرتے‬
‫ھوے میرے بالوں میں‬

‫‪unglian pherni shorro kar den..‬‬

‫میں نے تین چار چھوٹی چھوٹی ‪.‬‬


‫پاریاں سویرا کے پارے سے پیٹ پر‬
‫کیں ۔‬

‫اور ساتھ ھی اپنی زبان کو نکال کر‬


‫ناف میں ڈال دی اور ناف کے دائرے‬
‫میں چاروں اطراف زبان کی نوک کو‬
‫پھیرنے لگ گیا سویرا ایکدم مچل اٹھی‬
‫اور میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں‬
‫بھر لیا اور لمبی لمبی سسکاریاں لیتی‬
‫ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔‬

‫اور ساتھ ھی سیکسی آوازوں میں‬


‫پلیزززز نہ کرو پلیزززز نہ کرو مجھ‬
‫سے برداشت نہیں ہورھا پلیزززززز ۔۔۔‬

‫سویرا کی نہیں نہیں سے میرا شوق‬


‫بڑھتا گیا اور میں زبان کا جادو پیٹ پر‬
‫چالنے کی تگ ودو میں لگ گیا ۔۔‬

‫میں کبھی زبان کی نوک کو ناف کے‬


‫چھوٹے سے سوراخ کے اندر ڈالتا تو‬
‫کبھی سوراخ کے کناروں پر نوک کو‬
‫گھماتا ۔‬

‫اور پھر سلو موشن میں زبان کو سرکاتا‬


‫ھوا ناف کے نیچے االسٹک تک لے‬
‫جاتا ۔‬

‫سویرا کی حالت ایسی تھی کہ جیسی‬


‫ابھی ہلک سے جان نکل جاے ۔۔۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی اس کے پیٹ پر‬
‫زبان اور ہونٹوں کا کھیل جاری رھا ۔‬

‫کچھ دیر بعد میں زبان کو سرکاتا ھوا‬


‫اسکے مموں کی طرف لے گیا اور‬
‫مموں پر قمیض ہونے کی وجہ سے‬
‫بریزیر کی السٹک تک ھی زبان لیجا‬
‫سکا ۔۔‬

‫اور پھر ادھر والے حصے کو چوم کر‬


‫سر اٹھا کر میں پھر سی گھٹنوں کے بل‬
‫بیٹھ گیا ۔۔‬

‫تو سویرا نے شکر ادا کیا اور لمبا‬


‫سانس بھر کر میری طرف بڑی نشیلی‬
‫نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے‬
‫اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا اور‬
‫ھاتھوں کو اوپر کی جانب کیا اور اپنے‬
‫سر کو نیچے جھکا کر اسکے ریشم‬
‫سے مالئم اور روئی سے نرم ہاتھوں‬
‫کو چوم کر ھاتھوں کو ہلکے سے اپنی‬
‫طرف کھینچ کر سویرا کو اٹھ کر‬
‫بیٹھنے کا کہا۔۔‬

‫سویرا کسی جادوگر کے سحر میں‬


‫جکڑی میرے اشارے پر چلتی ھوئی‬
‫بے جان مورت کی طرح اٹھ کر بیٹھ‬
‫گئی ۔۔میں نے اس کے ھاتھوں کو‬
‫اسکے سر کے اوپر لیجا کر بازوں کو‬
‫اوپری جانب کر کے اسکے ہاتھوں کو‬
‫چھوڑ دیا سویرا کسی مجسمے کی‬
‫طرح وہیں اپنے بازوں کو کھڑا کر کے‬
‫میری طرف عجیب سی نظروں‬
‫سےدیکھی جارھی تھی ۔۔‬
‫دوستو سہی بتاوں تو مجھے اسکے یوں‬
‫اپنی طرف دیکھنے سے خوف محسوس‬
‫ھونے لگ جاتا تھا کہ پتہ نہی اس پر‬
‫جنات کا اثر تو نہیں ۔۔‬

‫خیر‬

‫میں نے اسکی قمیض کو دونوں اطراف‬


‫سے پکڑ کر اوپر کیا اور اسکے مموں‬
‫کو ننگا کرتے ھوے اسکے سر سے‬
‫قمیض نکالی اور بازوں میں لیجاکر‬
‫چھوڑ دی ۔۔‬

‫بازوں سے قیمیض اس لیے نہیں نکالی‬


‫تھی کہ باقی کا کام سویرا خود کر لے‬
‫گی یعنی بازوں سے قمیض خود نکال‬
‫لے گی ۔۔۔کیونکہ قمیض اتارتے ھوے‬
‫بھی اس نے مجھے روکا نہیں تھا اور‬
‫نہ ھی کوئی احتجاج کیا تھا ۔‬

‫بلکہ بلکل ایک سٹیچو کی طرح ہاتھ سر‬


‫سے اوپر کر کے بازو بلکل سیدھے‬
‫اوپر کی طرف کیے بیٹھی تھی ۔۔‬

‫جب میں نے اسکی قمیض اسکے جسم‬


‫اور سر سے نکال کر اسکے بازوں میں‬
‫چھوڑی تو اس نے ایکدم بازو نیچے کو‬
‫گراے اور میری طرف یوں بازو‬
‫کردیے کہ جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ‬
‫یہ بھی خود ھی اتار دو ۔‬
‫اور اسکی نظریں ویسے ھی مجھکو‬
‫دیکھ رہیں تھی ۔‬

‫پتھر سی آنکھیں جیسے اسکی آنکھیں‬


‫جھپکتی ھی نہ ھوں ۔‬

‫مجھے یہ لڑکی حسن کی مورت لگ‬


‫رھی تھی ۔۔‬

‫یا پھر نفسیاتی مریض ۔۔۔‬

‫میں نے اسکی بازوں سے قمیض نکال‬


‫کر ایک طرف چادر پر رکھ دی میری‬
‫جیسے ھی نظر اسکی ننگے جسم اور‬
‫ہلکے بلیو کلر کے بریزیر میں چھپے‬
‫مموں پر پڑی ۔۔‬

‫دوستو قسم سے اس حسن مجسمہ کو‬


‫دیکھتے ھی مجھ پر سکتہ طاری ھوگیا‬
‫۔‬

‫میں پلکوں کو جھپکانا بھول گیا سانس‬


‫اندر باہر کھینچنا بھول گیا‬

‫اسکو دوبارا پیچھے کی جانب لیٹانا‬


‫بھول گیا ۔۔‬

‫میرے ھاتھ اسکی رانوں پر تھے تو‬


‫وہیں رک گئے میری کھلی آنکھیں پتھر‬
‫ہوگئی میرا سانس جہاں تھا وہیں رک‬
‫گیا ۔۔۔‬

‫اففففففففففففففف کیا اس ظالم کے حسن‬


‫کی تعریف لکھوں کاش اسکے جسم کی‬
‫بناوٹ اور اسکی خوبصورت گالبی‬
‫رنگت کو الفاظوں میں ڈھال کر آپ‬
‫دوستوں کے سامنے پیش کرسکتا۔۔۔‬

‫سویرا بت بنی میرے چہرے کو دیکھی‬


‫جارہی تھی اور میں بت بنا سویرا کے‬
‫چٹے سفید گالبی رنگت کے چمکتے‬
‫جسم کو دیکھ رھا تھا ۔‬

‫کچھ دیر اسی حالت میں بےجان دو‬


‫جسم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے‬
‫رھے۔‬

‫پھر یوں ہوا کہ مجھے ہوش آیا اور‬


‫میرے ھاتھوں نے اٹھنے کی جرات کی‬
‫اور اس حسن کی دیوی کے گول مٹول‬
‫تنے ھوے چٹے سفید مموں کو بریزیر‬
‫کے اوپر سے پکڑ لیا اور ایک دفا‬
‫دباتے ھی اسے پیچھے کی طرف‬
‫دھکیل دیا اور وہ مورت میری طرف‬
‫دیکھتی ھوئی پیچھے کی جانب گرتی‬
‫گئی اور گھاس کے اوپر بچھی چادر‬
‫کے اوپر لیٹ گئی اور میں اسکو‬
‫پیچھے لیٹاتا ھوا اسکے ننگے جسم کے‬
‫اوپر جھکتا گیا اور اس کے مموں کے‬
‫درمیاں لکیر کے اوپر اپنے ہونٹ اس‬
‫انداز سے رکھ دیے کہ میرے ہونٹوں کا‬
‫ایک طرف کا حصہ اسکے ایک طرف‬
‫کے روئی سے نرم ممے پر تھا اور‬
‫ہونٹوں کی دوسری سائڈ اسکے دوسرے‬
‫ممے کو چھو رھی تھی ۔‬

‫اور میرے ہونٹ اس مخمل میں‬


‫دھنستے گئے افففففففففف یارا کیا‬
‫سوفٹنس تھی کیا مالئمت تھی کیا کشش‬
‫تھی ۔‬

‫میں تو اس کو اپنے سحر میں جکڑنا‬


‫چاہتا تھا مگر سالی کے جسم کا نظارا‬
‫کرتے ھی میرا سارا حساب کتاب ھی‬
‫بگڑگیا۔۔‬

‫الکھ پالننگ سوچی تھی اسکو ننگا کر‬


‫کے چودنے کی ۔‬

‫سالی نے صرف مموں کے جلوے سے‬


‫ھی میرا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا۔‬
‫میں تو دور سے اسکے ممے اور گورا‬
‫جسم دیکھ کر سکتے میں آگیا اب تو‬
‫پھر بھی یہ گورا جسم حسن کی مورت‬
‫میری آنکھوں کے سامنے اور میری‬
‫دسترس میں تھا ۔۔‬

‫تو پھر میری تو ایسی کی تیسی ھونی‬


‫ھی تھی ۔۔‬
‫خیر میرا کچھ خمار کم ھوا تو میں نے‬
‫سویرا کے مموں سے پردہ اٹھا کر اوپر‬
‫کر کے مموں کو جلوہ گر کیا اور‬
‫اسکے روئی سے نرم مموں پر بے‬
‫صبروں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔‬

‫اور سویرا کے منہ سے سسکاریوں کا‬


‫طوفان نکل پڑا ۔‬

‫نہ مجھے کوئی روکنے واال تھا اور نہ‬


‫سویرا کی سسکاریاں رکنے والی تھیں ۔‬

‫مین مموں کے چھوٹے سے اکڑے‬


‫ھوے نپل کو کبھی دانتوں میں بھینچتا‬
‫تو کبھی انہوں ہونٹوں میں لے کر‬
‫چوستا‬

‫سویرا سر اٹھا اٹھا کر مجھے اپنے‬


‫ممے چوستی دیکھتی اور ساتھ میں‬
‫سسکاریاں بھرتی ھوئی میرے سر پر‬
‫ھاتھ رکھ کر مموں پر دباتی اور کبھی‬
‫سر پیچھے لیجا کر کندھوں کو اٹھا کر‬
‫مموں کو مزید اونچا کرتی ۔۔۔‬

‫کچھ دیر یہ کھیل چلتا رھا ۔‬

‫اور جب سویرا کے ممے سرخ ھوگئے‬


‫اور میرے لباب سے تر ھوگئے اور‬
‫سویرا کی سانسیں اکھڑنے کے بعد تھم‬
‫گئی اسکا جسم اکڑنے کے بعد بےجان‬
‫ھوگیا اور مجھے اسکی پھدی گیلی‬
‫ہونی کا یقین ھوچال تو تو میں اس کے‬
‫مموں کو چھوڑ کر پھر سے اسکی‬
‫ٹانگوں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور‬
‫اپنی شلوار کو اپنی ٹانگوں سے نکال‬
‫کر ایک طرف رکھا اور پھر سویرا کی‬
‫شلوار‪ .‬کو السٹک والی جگہ سے پکڑ‬
‫کر اسکی سڈول اور گوری چٹی بالوں‬
‫سے پاک گانڈ سے نکال کر اسکی‬
‫ٹانگوں سے کھینچتا ھوا اسکے پیروں‬
‫پر لے آیا اور پھر شلوار کو اسکے‬
‫پیروں سے باری باری نکال دیا اور پھر‬
‫اپنی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی‬
‫اب دو جسم مادر ذاد ننگے تھے اور‬
‫سویرا کے جسم پر صرف بریزیر تھا‬
‫جو اسکے مموں سے اوپر کی جانب‬
‫اکھٹا ھو کر مموں کو ننگا کیے ھوے‬
‫تھا۔۔‬

‫میں نے سویرا کی پھدی کا غور سے‬


‫معائنہ کیا تو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ‬
‫بلکل کنواری پھدی کی طرح تھی پھدی‬
‫کی ہونٹ اندر کی جانب ایک دوسرے‬
‫سے چپکے ھوے تھے اور نہ ھی پھدی‬
‫کی جھلی لٹک رھی تھی ۔‬

‫جس طرح سویرا کے چہرے پر‬


‫معصومیت جھلک رھی تھی بلکل اسی‬
‫طرح سویرا کی پھدی پر بھی معصومت‬
‫جھلک رھی تھی ۔۔۔‬

‫پھدی کے باریک سے ہونٹوں پر بس‬


‫شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔۔‬

‫میں نے سویرا کی پھدی پر انگلی‬


‫پھیری تو سویرا ایک دم کانپی اور اپنی‬
‫ٹانگوں کو آپس میں مال کر میرے ہاتھ‬
‫کو ٹانگوں کے بیچ جکڑ کر سر اٹھا کر‬
‫سسکاری ماری ۔۔۔‬

‫میں نے اسکی روئی سی نرم رانوں‬


‫میں پھنسے ھاتھ سے ھی انگلی کو‬
‫حرکت دیتے ھوے پھدی سے چھیڑ‬
‫چھاڑ شروع کردی کچھ دیر تو سویرا‬
‫سر دائیں مارتے ھوے سییییہہہی‬
‫افففففف کرتی ھوئی مجھے فنگرنگ‬
‫کرنے سے منع کرتی رھی مگر میں تو‬
‫اسکی گرم پھدی کی گرمائش سے اپنی‬
‫انگلی کو ٹکور دے رھا تھا اور پھدی‬
‫کا درجہ حرارت معلوم کرنے کی‬
‫کوشش کررھا تھا ۔۔۔‬

‫کچھ دیر میں ایسے ھی انگلی کی مدد‬


‫سے سویرا کی پھدی کو چھیڑتا رھا تو‬
‫کبھی پھدی کے چھوٹے سے پھولے‬
‫ھوے دانے کو مسلتا رھا کہ سویرا کو‬
‫ایک دم جوش چڑھا اور اس نے گانڈ‬
‫اٹھا کر میرے انگلی کو پھدی کے اندر‬
‫لیا اور پھر زور سے رانوں کو آپس‬
‫میں بھینچ کر گانڈ کو اوپر نیچے کرتے‬
‫ھوے سییییییی یس یس یس یس کرتی‬
‫ھوئی ایک دم اکڑ کر ڈھیلی ھوئی اور‬
‫پھدی سے گرم الوہ بہتا ھوا نکلنے لگا‬
‫اور پھدی کے اندر میری میری انگلی‬
‫پر منی کی گرم دھاریں پڑتی رہیں ۔۔۔‬
‫سویرا فارغ ھوتے ھی ٹانگوں کو کھول‬
‫کر پھر بےجان مورت بن کر میری‬
‫طرف دیکھنے لگ گئی۔۔‬
‫سالی کو پھر پتہ نہیں کیا ھوا کہ اسکی‬
‫آنکھیں پتھرا سی گئیں اور مجھے یوں‬
‫دیکھنے لگ گی جیسے مجھے پہچاننے‬
‫کی کوشش کررھی ھو یا مجھ پر قربان‬
‫جارھی ھو یا پھر اپنی مجبوری ظاہر‬
‫کر رھی ھو ۔‬
‫کئی سے سوال اسکی انکھیں کررھیں‬
‫تھی جنکو سمجھنے کی کوشش میں‬
‫کرتا تو پاگل ھوجاتا ۔‬
‫میں نے کچھ پل اسکی آنکھوں کو دیکھا‬
‫اور پھر سے اسکی پھدی کی طرف‬
‫متوجہ ھوکر لن کو پکڑ کر پھدی کے‬
‫لبوں کے درمیان ٹوپے کو پھنسانے لگا‬
‫اور ٹوپے کو پھدی کے درمیان ٹوپے‬
‫کو اڈجسٹ کر کے سویرا کے اوپر‬
‫جھکا ۔‬
‫اور ایک جھٹکا مارا تو اسکی پتھرائی‬
‫آنکھیں بھیگ گئیں اور اسکے منہ سے‬
‫اتنا ھی نکال امییییییییییی جییییییییییی ۔‬
‫پھدی کو چیرتا ھوا لن آدھا اندر گھس‬
‫چکا تھا اور سویرا کے ہاتھوں نے‬
‫میرے بازوں کو جکڑ لیا تھا ۔‬
‫اور اس نے پیچھے کھسکنے کی‬
‫کوشش کی تھی مگر میرے ھاتھ اسکے‬
‫کندھوں کو اپنے شکنجے میں لیے‬
‫ھوے تھے ۔‬
‫میرا لن ایسے تھا جیسے کسی آگ کی‬
‫بھٹی میں گھس گیا ھو اور پھدی کی‬
‫جکڑ ایسی تھی جیسے کسی نرم چیز‬
‫نے پوری طاقت سے میرے لن کو اپنے‬
‫احصار میں لے کر جکڑا ھو ۔۔۔‬
‫سویرا نے نہ اوہہہہہہہ کی نہ‬
‫ھاےےےےےےےے کی بس امی کو‬
‫یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی‬
‫طرح رونے لگ گئی ۔۔۔‬
‫میں نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ھی‬
‫دوسرا گھسا مار کر اسکی ننھی سی‬
‫پھدی کی گہرائی کو لن سے ناپ لیا ۔۔‬
‫اور میرے ٹٹے اس کی گانڈ سے جا‬
‫لگے اففففففف کیا ھی پھدی کی گرمائش‬
‫تھی مجھے لگ رھا تھا کہ بس دوسرے‬
‫گھسے میں ھی میں فارغ ھوجاوں گا۔۔۔‬
‫دوسرا گھسا جب مارا تو لن پھدی کی‬
‫گہرائی میں چال گیا اور سویرا نے پھر‬
‫امی کو بڑی شدت سے یاد کیا ۔‬
‫اور اسکی آنکھیں باہر کو ابھلنے والی‬
‫ھوگئیں سویرا سر کو دائیں بائیں مارتے‬
‫ھوے میری رانوں پر ہاتھ رکھ کر‬
‫مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش‬
‫کرتے ھوے امییییییی جی مرگئیییییی‬
‫پلیزززززز مجھے چھوڑ دو اسے باہر‬
‫نکال لو میں مرجاوں گی ۔۔۔۔‬
‫‪.‬مجھ سے برداشت نہیں ھورھا‪.‬‬

‫خاموش گڑیا جو شروع سے ایک‬


‫مجسمہ ایک بت ایک مورت ایک‬
‫سٹیچو بنا ھوا تھا میرے لن نے اندر‬
‫جاتے ھی اس بے جان مجسمے میں‬
‫جان ڈال دی اسکی زبان چلی تو رکنے‬
‫کا نام نہ لی ۔‬

‫جس مورت کو دی زباں ہم نے وہ بولے‬


‫تو ہم پر ھی برس پڑے۔۔۔۔‬

‫سویرا مجھے دھکے دینے کی کوشش‬


‫کررھی تھی مجھ کو برا بھال کہنے پر‬
‫اتر آئی ۔‬

‫مگر میں نے لن اندر سے باہر نہ‬


‫نکلنے دیا کچھ دیر تڑپنے کے بعد‬
‫سویرا ڈھل گیا ہر طرف خاموشی‬
‫چھاگئی ۔۔‬

‫اور مین نے سویرا کے خاموشی کو‬


‫اسکی برداشت کا نام دے کر آہستہ‬
‫آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا‬
‫۔۔‬

‫سویرا پھر سے میرے ہر گھسے پر‬


‫امی کو یاد کرتی ۔‬
‫ماں بیٹی میں کافی پیار لگ رھا تھا جو‬
‫اسے اس موقع پر امی کی یاد شدت سے‬
‫آرھی تھی ۔۔‬

‫میں نے آہستہ آہستہ گھسوں کی رفتار‬


‫تیز کردی اب میرے گھسے سے اس‬
‫کے ممے ہلنا شروع ھوچکے تھے‬
‫دودھ کے پیالے چھلکنے لگ گئے تھے‬
‫اسکے پیٹ کی جلد پر بھی وائبریشن‬
‫ہورھی تھی ۔‬

‫اسکے آنسوں اب بھی بہہ رھے تھے ۔‬

‫پانچ منٹ بعد سویرا کو امی بھی بھول‬


‫گئی اور آنسو بھی تھم گئے مموں نے‬
‫ہلتے ھوے اوپر کو اٹھنا شروع کردیا‬
‫سویرا کے ھاتھ جو مجھے پیچھے کی‬
‫طرف دھکیل رھے تھے اب میری‬
‫رانوں کے آگے سے ہٹ کر میری‬
‫رانوں کے پیچھے چلے گئے اور اسکی‬
‫آہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی ۔‬

‫میرے گھسوں کی بھی رفتار بھی‬


‫ساتھی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے‬
‫بڑھ گئی سویرا نے ٹانگوں کو خود ھی‬
‫مذید اوپر کیا اور میری کمر کے گرد‬
‫ٹانگوں کا شکنجا ڈال کر گاند کو اوپر‬
‫اٹھاتے ھوے‬
‫یس یس یس یس ایم کمنگ فاسٹ فاسٹ‬
‫فک می فک می کرتے ھوے ایکدم مجھ‬
‫سے کسی چمگادڑ کی طرح چمٹ گئی‬
‫اور پھدی سے منی کا مینہ برسنا شروع‬
‫ہوگیا ۔۔۔‬

‫کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد سویرا‬


‫بےدم ھوکر لیٹ گئی میں تھوڑا وقفہ دیا‬
‫اور پھر سے چپو چالنا شروع کردیا‬
‫تقریبا ً پانچ سات منٹ بعد ھی مجھے لگا‬
‫کہ میں چھوٹنے واال ھوگیا ھوں تو میں‬
‫نے آخری جاندار گھسا مارتے ھوے‬
‫سویرا کو پھر امی کی یاد دالئی جس کا‬
‫ثبوت اس نے ھاےےےے امییییی کر‬
‫کے دیا اور میں نے لن کو جھٹکے سے‬
‫باہر نکاال اور اسکی روئی سے نرم‬
‫ران کے اوپر لن کو رکھ کر سویرا کے‬
‫اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں‬
‫جکڑ کر اسکے ہونٹوں کا رس پیتے‬
‫ھوے لن سے منی کے فوارے چھوڑتا‬
‫ھو چھوٹنے کا مزہ لیتا رھا ۔۔۔‬

‫جیسے جیسے میرے لن سے منی نکل‬


‫کر سویرا کی ران پر بہتی جاتی میرے‬
‫جسم کو جھٹکے لگتے اور میں مذے‬
‫کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا ھوا سویرا‬
‫کے اوپر لیٹا ھوا اسکے جسم میں‬
‫سمانے کی کوشش کرتا ۔‬
‫سویرا بھی میرے بالوں کو سہالتی‬
‫ھوئی میرے مزے کو دوباال کررھی‬
‫تھی ۔‬

‫کچھ دیر میں مذید سویرا کے اوپر ھی‬


‫لیٹا رھا اور پھر اسکے اوپر سے ایک‬
‫طرف لُڑھک کر اسکے ساتھ ھی لیٹ‬
‫کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا ۔۔‬

‫سویرا جلدی سے اٹھی اور اپنے پرس‬


‫سے ٹشو نکال کر اپنی پھدی اور ران‬
‫کو صاف کرنے لگ گئی ۔‬

‫اور مجھے ایک دم جھٹکا لگا جب‬


‫سویرا نے ٹشو سے میرا لن صاف کرنا‬
‫شروع کردیا ۔۔‬

‫میری آنکھیں بند تھیں جیسے ھی سویرا‬


‫نے میرے لن کو پکڑا تو جھٹکے سے‬
‫میری آنکھیں کھلیں اور میں سویرا کے‬
‫اس عمل پر حیران رھ گیا ۔‬

‫سویرا بڑے غور سے میرے نیم تنے‬


‫ھوے لن کو دیکھ رھی تھی اور ساتھ‬
‫ساتھ ٹشو سے لن کو صاف کری جارھی‬
‫تھی ۔‬

‫مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ھوے‬


‫سویرا نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور‬
‫مسکرا کر پھر لن کو ایک ھاتھ سے پکڑ‬
‫کر دوسرے ہاتھ سے ٹشو کے ساتھ لن‬
‫کو صاف کرنے میں مصروف ھوگئی ۔۔۔‬

‫میں سویرا کو مخاطب کرتے ھوے بوال‬


‫۔۔۔‬

‫سویرا‬

‫سویرا نے نظریں گھما کر بڑی ادا سے‬


‫میری طرف دیکھا ۔‬

‫میں اسکی سحرانگیز آنکھوں میں‬


‫دیکھتے ہوے بوال مزہ آیا ۔‬

‫سویرا نے آنکھیں بند کر کے میرے‬


‫سوال کا جواب دے دیا اور پھر میرے‬
‫لن کو پکڑ کر ہالنے لگ گئی اور بڑے‬
‫غور سے لن کو ہر زاویے سے دیکھنے‬
‫لگ گئی ۔۔‬

‫میں نے پھر سویرا کو کہا سویرا کیسا‬


‫لگا میرا ہتھیار ۔‬

‫سویرا نے لب ہالے اور آہستہ سےبولی‬


‫۔‬

‫بہت ھی پیارا ھے‬

‫میں نے کہا کتنا پیارا ھے اور ساتھ ھی‬


‫میں نے سویرا کے ممے کو ہاتھ میں‬
‫لے لیا اور نپل کو انگوٹھے کے پورے‬
‫سے مسلنے لگ گیا ۔‬

‫سویرا نے سیییییی کیا اور میری طرف‬


‫نشیلی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی‬
‫واقعی تم اصلی مرد ھو‬

‫میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنا‬


‫بڑا بھی ھو سکتا ھے ۔‬

‫میں نے کہا اگر واقعی تمہیں پسند ھے‬


‫تو پھر اسے پاری نہیں کروگی ۔‬

‫سویرا نے ہونٹوں پر مسکراہٹ التے‬


‫ھوے پلکوں کو جھپکا کر اثبات میں سر‬
‫ہالیا اور پھر میرے نیم مردہ لن کو پکڑ‬
‫کر ہالیا اور اسے ہوش میں النے کی‬
‫کوشش کرتے ہوے زبان نکال کر ٹوپے‬
‫پر پھیرنے لگ گئی ۔‬

‫سویرا سر جھکا کر ٹوپے پر زبان‬


‫پھیرتی تو اسکے کے سلکی بال اسکے‬
‫چہرے کو چھپانے کی بار بار کوشش‬
‫کرتے تو سویرا ٹوپے سے منہ ہٹا کر‬
‫ایک ہاتھ سے سلکی بالوں کو بڑی ادا‬
‫سے اٹھا کر اپنے کان کے پیچھے‬
‫کردیتی مگر جب سویرا سر جھکا پھر‬
‫زبان ٹوپے پر رکھتی تو وہ ظالم پھر‬
‫کان کے پیچھے سے نکل کر سویرا کے‬
‫چہرے کو ڈھانپ دیتے ۔۔‬
‫میں لیٹا ھوا سویرا کے بالوں کی‬
‫بدمعاشیاں دیکھ رھا تھا ۔‬

‫بالخرہ مجھے بیچ میں ٹپکنا پڑا تو میں‬


‫نے سویرا کے ممے کو چھوڑا اور‬
‫اسکے بالوں میں انگلیاں ڈال کر انکو کو‬
‫سہالتے ھو سویرا کے سر کے پیچھے‬
‫لے گیا ۔‬

‫اور اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر بالوں‬


‫کو وہیں ٹکا دیا۔‬

‫سویرا بڑی مہارت سے ٹوپے کے‬


‫اطراف میں زبان پھیرتی تو کبھی زبان‬
‫کی نوک سے ٹوپے کے لبوں کو کھول‬
‫کر زبان کی نوک اندر ڈال کر زبان کی‬
‫نوک کو دبا دیتی ۔‬

‫اففففففف سویرا کی زبان کا جادو میرے‬


‫لن پر حاوی ھو رھا تھا سویرا کی زبان‬
‫نے میرے لن میں پھر سے جان ڈال دی‬
‫اور لوڑے کو ایک نئی زندگی ملی اور‬
‫ساتھ میں نیا مزہ ۔۔‬

‫تو لوڑا ساب پھنکارتے ھوے تن کر‬


‫کھڑے ھوے ۔‬

‫تو سویرا نے پلکوں کو اٹھا کر میری‬


‫طرف بڑی فاتحانہ انداز میں دیکھا ۔‬
‫اور ساتھ ھی ہونٹوں کو کھول کر ٹوپے‬
‫کو منہ کے اندر لے کر چوسا لگا کر‬
‫اپھاااااا کر کے منہ سے نکاال ۔‬

‫سویرا کسی ماہر چدکڑ کی طرح لن کو‬


‫چوس رھی تھی کبھی ٹوپے کو منہ میں‬
‫لے کر چوستی تو کبھی ٹوپے پر زبان‬
‫پھیرتے ھو زبان کو نیچے جڑ تک لے‬
‫جاتی اور پورے لن پر زبان پھیرتی ۔‬

‫میں تو مزے کی وادیوں میں کھو چکا‬


‫تھا ۔‬

‫میرے ھاتھ کی انگلیاں سویرا کے سر‬


‫کے بالوں کو سہال رھی تھیں اور میرے‬
‫منہ سے آہہہہ سییی نکل رھا تھا کچھ‬
‫دیر سویرا میرے لن کو چوستی چاٹتی‬
‫رھی اور پھر میری طرف دیکھتے ھو‬
‫لن کو منہ سے نکاال ۔‬

‫میں نے سویرا کے بازوں کو پکڑ کر‬


‫اسے اپنے اوپر آنے کا کہا‬

‫تو سویرا جھٹ سے میرے لن کے اوپر‬


‫اپنی پھدی کرتے ھوے میری رانوں کے‬
‫اوپر آگئی اور گھٹنوں کے بل ھوکر اپنی‬
‫ٹانگوں کو میری ٹانگوں کے دونوں‬
‫اطراف کرلیا ۔اور میرے اوپر گھوڑی‬
‫بن گئی۔۔‬
‫سویرا کا منہ میرے منہ کے اوپر تھا‬
‫اور اسکے چٹے سفید ممے میرے‬
‫سینے کے اوپر لٹک رھے تھے اور‬
‫اسکے مموں کی نپل میرے سینے کے‬
‫ساتھ ٹچ ھورھے تھے ۔‬

‫سویرا میری نظروں میں نظریں ڈال کر‬


‫بولی آپ کا نام کیا ھے ۔‬

‫میں نے کہا یاسر ۔‬

‫سویرا بولی رئیل نیم ھے یا پھر فیک ۔‬

‫میں نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی‬


‫عادت نہیں ۔۔‬
‫سویرا بولی یاسر تم نے مجھے پہلی‬
‫دفعہ ھی اپنا دیوانہ بنا لیا ھے ۔‬

‫میں نے سواے اپنے فرینڈ کے کبھی‬


‫کسی اور کے بارےمیں کبھی سوچا بھی‬
‫نہیں تھا ۔‬

‫پتہ نہیں تم میں کون سی ایسی کشش‬


‫ھے کہ نہ چاہتے ھوے بھی میں تم پر‬
‫دل ہار بیٹھی ھوں ۔‬

‫میں نے کہا تمہارے فرینڈ کا اب کیا بنے‬


‫گا‪ .‬وہ ساال تو گانڈو نکال سالے نے‬
‫پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ تم‬
‫اکیلی رھ گئی ھو ۔‬

‫اور وہ تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا ۔‬

‫سویرا ایکدم سیریس ہوکر بولی ۔‬

‫میں اس کتے کے بچے کہ منہ پر اب‬


‫تھوکوں گی بھی نہیں ۔‬

‫گھٹیا انسان نکال۔۔‬

‫مجھ سے شادی کے دعوے کرتا تھا‬


‫میرے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں‬
‫کھائی تھیں اس نے ۔‬
‫لعنتی کتا بغیرت ۔۔۔‬

‫سویرا اپنے آپ سے ھی باتیں کررھی‬


‫تھی خودخیالی میں بولی جارھی تھی کہ‬
‫میں نے ھاتھ نیچے لیجا کرلن کو پکڑ‬
‫کر سویرا کی پھدی میں سیٹ کیا تو‬
‫پھدی پر لن کو محسوس کرتے ھی‬
‫سویرا ایکدم خیالوں سے باہر آئی اور‬
‫خمار آنکھوں سے میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بولی یاسر تم اندر مت کرنا میں‬
‫خود کروں گی میں اسکی ادا پر ھی ُجم‬
‫ھوگیا اور ساتھ ھی اپنے لن سے ہاتھ ہٹا‬
‫لیا۔‬

‫سویرا نے ہاتھ پر تھوک کا گوال پھینکا‬


‫اور ہاتھ نیچے لیجا کر لن پر تھوک کو‬
‫لگا کر لن کو اچھی طرح گیال کیا اور‬
‫پھر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں میں‬
‫سیٹ کر کے تین چار دفعہ لن کو پھدی‬
‫کے دانے کے ساتھ مسال اور پھر آہستہ‬
‫سے نیچے بیٹھتے ھوے لن کو پھدی‬
‫کے اندر لینے لگ گئی اور ساتھ ھی اپنا‬
‫چہرہ آسمان کی طرف کرکے سسییییی‬
‫کیا آدھا لن اندر کر کے سویرا نے پھر‬
‫گانڈ کو اوپر کیا اور لن کو باہر نکال کر‬
‫پھر واپس لن پر بیٹھتے ھوے لن کا پورا‬
‫مزہ لیتے ھوے آہہہہہہہہہ سیییییی کرتی‬
‫ھوئی پورا لن پھدی کے اندر ہڑپ‬
‫کرگئی ۔‬
‫جیسے ھی لن سویرا کی بچے دانی کے‬
‫اندر داخل ھوا سویرا نے ذور سے‬
‫آنکھیں بند کر کے آہہہہہہہہہہ آیییییییی‬
‫کیا اور مجھے ایسے محسوس ھوا‬
‫جیسے میرے ٹوپے کو کسی بہت ھی‬
‫نرم چیز نے جکڑ لیا ھو ۔‬
‫سویرا نے دونوں ہاتھ میرے سینے پر‬
‫رکھے اور پورے لن کو پھدی کے اندر‬
‫لے کر منہ آسمان کی طرف اٹھا کر‬
‫پھدی کو مسلتے ھوے گانڈ میری رانوں‬
‫پر آگے پیچھے کرنے لگ گئی ۔۔‬

‫اور ساتھ ساتھ افففففف آہہہہہہہہ‬


‫سسییییییی کرتے ھوے چدائی کا فل مزہ‬
‫لینے لگ گئی‬
‫سویرا جیسے جیسے گانڈ کو آگے‬
‫پیچھے کرتی سویرا کے ممے ویسے‬
‫ویسے اسکے سینے پر ڈانس کرتے‬
‫میری آنکھوں کے سامنے سویرا کے‬
‫ہلتے ممے اور سویرا کا بڑھتا جنون‬
‫میرے اندر کی آگ کو مذید بڑھکا رھا‬
‫تھا ۔‬

‫میں نے دونوں ھاتھ آگے کیے اور‬


‫سویرا کے مموں کو مٹھیوں میں بھینچ‬
‫لیا اور مموں کو دبانے لگ گیا‬

‫کیا ھی سوفٹنس تھی سویرا کے مموں‬


‫کی ۔۔‬
‫سویرا کی سپیڈ تیز سے تیز ھوتی‬
‫جارھی تھی ۔‬

‫میں نیچے بلکل آرام سے لیٹا ھوا سویرا‬


‫کا انداز چدائی دیکھ رھا تھا ۔‬

‫واقعی بڑی گرم بچی تھی اور پکی‬


‫چداکڑ تھی ۔‬

‫کچھ ھی دیر بعد سویرا کی سانسیں‬


‫اکھڑنا شروع ھوگئیں اور ساتھ ھی‬
‫اسکی سپیڈ بھی تیز ھوگئی‬

‫سویرا مسلسل تیزی سے لن کے اوپر‬


‫بیٹھی گانڈ کو آگے پیچھے کرکے فارغ‬
‫ھونے کے قریب ھوتی جارھی تھی اور‬
‫مزید دومنٹ کے بعد سویرا ایکدم مجھ‬
‫پر جھکی اور میرے سینے پر اپنے نرم‬
‫مالئم ممے رکھ کر ٹانگوں جو پیچھے‬
‫لیجا کر بلکل سیدھی ھوکر میرے اوپر‬
‫الٹی لیٹ گئی اور سانپ کی طرح اپنی‬
‫کمر کو بل دے کر گانڈ کو ہالنے لگی‬
‫میں نے بھی ہاتھ پیچھے لیجا کر اسکی‬
‫گول مٹول نرم چوتڑوں پر رکھ لیے‬
‫سویرا کی سانسیں اور اسکی کمر کے‬
‫بل مذید تیز ھوگئے اور سویرا ایم کمنگ‬
‫یاسرر ایم کمنگ یاسر لو یو لو یو اففففف‬
‫آہہہہہ سیییییی ھاےےےےے‬
‫گگگگگگگگگئی کرتی ھوئی نے گانڈ‬
‫کو پورے ذور کے ساتھ لن پر دبا کر لن‬
‫کو پھدی کے اندر لے کر پھدی کو بھینچ‬
‫لیا اور جھٹکے مارتے ھوے سویرا نے‬
‫دانت میرے شولڈر گاڑھ دیے درد سے‬
‫میری جان نکلنے والی ھوگئی سالی نے‬
‫کاٹا ھی اتنی ذور سے تھا ۔۔۔‬

‫میرے منہ سے بھی ٰآییییییییی نکل گیا‬


‫مگر اس کمبخت کو کہاں ہوش تھا ۔‬

‫جیسے جیسے سویرا کی پھدی کی‬


‫گرفت میرے لن سے ڈھیلی ہوتی گئی‬
‫ویسے ویسے میرے کندھے کی جلد پر‬
‫اسکے دانتوں کی گرفت بھی ڈھیلی‬
‫ھوتی گئی ۔‬
‫سویرا کی پھدی سے گرم منی میرے لن‬
‫سے بہتی ھویی میرے ٹٹوں کو بھی گیال‬
‫کرتی ھوئی نیچے چادر پر گر رھی تھی‬
‫۔‬

‫اور سویرا میرے اوپر بےجان ھوکر‬


‫گری ھوئی تھی میرے ھاتھ اسکی کمر‬
‫کو سہال رھے تھے ۔‬
‫میرے کندھے پر بہت جلن ھو رھی ‪.‬‬
‫تھی مگر میں نے سویرا کو محسوس‬
‫نہیں ھونے دیا۔۔‬

‫کچھ دیر بعد سویرا سنبھلی اور میرے‬


‫اوپر سے اٹھنے لگی مگر میں نے‬
‫اسکی کمر کو پکڑ کر اسے وہیں روک‬
‫لیا اور ہاتھ نیچے لیجا کر اسکی رانوں‬
‫کو پکڑ کر آگے کی طرف کھینچ کر‬
‫اسے گھوڑی سٹائل میں گھٹنوں کے بل‬
‫کیا اور اسکی گانڈ کو پکڑ کر نیچے‬
‫سے گانڈ اٹھا کر گھسے مارنے شروع‬
‫کردیے‪ .‬۔‬

‫سویرا کے منہ سے پھر آہیں نکلنا‬


‫شروع ھوگئیں ۔‬
‫اسکی آہیں بڑھتی گئیں میرے گھسے‬
‫تیز ھوتے گئے سویرا آہہہہہہک پلیز‬
‫آرام سے کرو یاسر پلیززززز اندر جا‬
‫کر لگ رھا ھے پلیززززز آہہہہہہ‬
‫یاسرررر پلیزززززز‬
‫مگر اسکی یہ باتیں میرا جوش بڑھا‬
‫رہیں تھیں اور میں بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر‬
‫پورے ذور سے گھسے مارتا اور اسکے‬
‫ہلتے مموں اور اسکی آہوں کا فل‬
‫انجواے کرتا کچھ دیر ایسے ھی میں‬
‫سویرا کو چودتا رھا اور جوش میں آکر‬
‫اسکی گانڈ پر ذور ذور سے تھپڑ بھی‬
‫مارتا رھا ۔‬

‫کافی دیر ایسے چودتے ھوے میری بھی‬


‫بس ھوگئی تو میں نے سویرا کو اپنے‬
‫اوپر ہٹایا اور اسکے نیچے سے نکل کر‬
‫اسے پکڑ کر پھر گھوڑی بنا دیا اور میں‬
‫اسکے پیچھے لن کو لہراتا ھوا آیا ۔۔‬
‫سویرا کہنیوں کے بل آگے کو جھک کر‬
‫گانڈ اٹھاے میرے سامنے گھوڑی بنی‬
‫ھوئی تھی میں گھٹنوں کے بل اسکی‬
‫گانڈ کے سامنے بیٹھ گیا اور لن کو پکڑ‬
‫کر اسکی پھدی پر سیٹ کی اور اسکی‬
‫کمر کو پکڑ کر گھسا مار کر لن ایک‬
‫ھی دفعہ سارا اندر تک کردیا ۔‬

‫سویرا کے منہ سے ہلکی سی چیخ کے‬


‫ساتھ سسکاری بھی نکلی ۔‬

‫اور سر گھما کر پیچھے دیکھتے ھوے‬


‫بولی ظالم آرام سے بھی کرلیا کرو اتنا‬
‫بڑا ایک ھی دفعہ میں اندر کردیتے ھو‬
‫۔۔۔‬

‫میں نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں‬


‫دیا اور کچھ وقفہ دے کر اسکی کمر کو‬
‫پکڑ کر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔۔‬

‫اچانک میری نظر سویرا کی گانڈ میں‬


‫گھسوں‬
‫ً‬ ‫چھوٹے سے سوراخ پر پڑی جو‬
‫سے کبھی کھلتا تو کبھی بند ھوتا ۔۔‬

‫میں نے ایک ھاتھ اسکی کمر سے ہٹایا‬


‫اور اسکے چوتڑے پر رکھ کر انگوٹھا‬
‫اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر‬
‫سوراخ کو مسلنے ھی لگا تھا کہ سویرا‬
‫جھٹکے سے آگے کو ھوئی تو میرا لن‬
‫اسکی پھدی سے نکل گیا اور گانڈ بھی‬
‫ھاتھ سے جاتی رھی ۔۔‬

‫سویرا بولی یہ کیا کررھے ھو میں نے‬


‫کہا کچھ بھی نہیں بس تمہاری حسین گانڈ‬
‫کے حسین سوراخ کو پیار کررھا ھوں‬
‫سویرا بولی ۔‬

‫کچھ غلط نہ کرنا‬

‫میں نے اسے واپس اسی سٹائل میں‬


‫کرتے ھوے کہا ۔‬

‫میری چیز ھے میرا جو دل کیا کروں گا‬


‫۔۔‬
‫سویرا واپس گھوڑی بنتے ھوے بولی‬
‫نہیں یاسر میں نے پہلے کبھی ادھر سے‬
‫نہیں کروایا اور تمہارا اتنا بڑا ھے کہ‬
‫مجھ سے آگے بھی نہیں لیا جاتا تو‬
‫پیچھے تو بہت درد ھوگی ۔‬

‫میں نے لن واپس پھدی میں ڈال کر گھسا‬


‫مارتے ھوے کہا جتنی درد ادھر ھو‬
‫رھی ھے اتنی ھی پیچھے ھوگی ۔‬

‫سویرا آہہہہہہہہ کرتے ھوے بولی یہیں‬


‫کرتے رھو نہ ۔۔۔‬

‫میں نے پھر گھسا مارا اور بوال سویرا‬


‫میں اندر فارغ ھونا چاھتا ھوں باہر نکال‬
‫کر فارغ ھونے میں مزہ نہیں آتا اس لیے‬
‫پیچھے کرنے دو اگر آگے فارغ ھوا تو‬
‫کچھ ھوجاے گا ۔‬

‫سویرا بولی ۔‬

‫نہیں یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے پلیز‬


‫ادھر ھی کرتے رھو کتنا مزہ آرھا ھے‬
‫ھے آہہہہہہہہ ۔‬

‫میں گھسے مارتے ھوے بوال پیچھے‬


‫بھی ایسے ھی مزہ آے گا کروا کر تو‬
‫دیکھو ۔‬
‫سویرا بولی آہہہہہہ آہہہہہہ ننننہیں‬
‫یاسرررر بہت درد ھوگا ۔‬

‫میں بھی گھسے مارتا ھوا مزے سے‬


‫بوال کچھ بھی نہیں ھوتا جانننننن۔‬

‫سویرا بولی‬
‫آہہہہہہ آہہہہہہ یاسرررر پھر تھوڑا سا‬
‫کرنا جب میں کہوں پھر اور کرنا آہہہہہ‬
‫آہہہہہ‬

‫میں نے خوشی سے تیز گھسا مارا اور‬


‫لن کو پھدی سے نکال کر گانڈ کے‬
‫سوراخ پر رکھا سویرا بے آئییییییی کیا‬
‫اور بولی اتنا مزہ آرھا تھا یاسرررررر ۔‬
‫میں نے سویرا کی گانڈ پر تھپڑ مارا اور‬
‫سویرا کو ایسے ھی الٹا لیٹنے کا کہا ۔‬
‫کیوں کے گھوڑی سٹائل میں سالی نے‬
‫ٹوپا ہی اندر لیتے بھاگ جانا تھا ۔۔‬

‫سویرا میری طرف بڑے موڈ سے‬


‫دیکھتی ھوئی لیٹتے ھوے بولی افففففف‬
‫تم بھی نہ بڑے ضدی ھو ۔۔۔‬

‫اور ساتھ ھی الٹی لیٹ گئی ۔‬

‫میں نے سویرا کی گانڈ کی دونوں‬


‫پھاڑیوں کو کھوال اور اسکے گالبی‬
‫سوراخ پر تھوک کا گوال پھینکا اور لن‬
‫کو پکڑ کر ٹوپے کو موری کے اوپر‬
‫رکھا اور سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور‬
‫منہ اسکے کان کے پاس لیجا کر بوال‬
‫تھوڑی سی درد ھوگی برداشت کرلینا۔۔‬

‫سویرا بولی پلیزززز یاسر آرام سے کرنا‬


‫۔۔‬

‫میں نے اسے دالسا دیا کہ آرام سے ھی‬


‫کروں گا بس تم گانڈ کو ڈھیلی چھوڑے‬
‫رکھنا ورنہ درد ذیادہ ھوگا۔۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے میں نے چادر کا پلو‬


‫اکھٹا کر کے سویرا کے منہ کے پاس‬
‫کیا اور اسے کہا اسے منہ میں ڈال لو‬
‫کہیں تمہاری چیخ نہ نکل جاے سویرا‬
‫نے منہ کھوال تو میں نے چادر کو مروڑ‬
‫کر اسکے منہ میں دے دیا ۔۔‬

‫اور پھر ہلکا سا گھسا مارا تو پڑووووچ‬


‫کر کے ٹوپا موری کے اندر گھس گیا‬
‫اور سویرا کے منہ سے غونننننں غوں‬
‫کی آواز نکلی اور اس نے ایک ھاتھ‬
‫سے چادر کو مٹھی میں بھینچ لیا اور‬
‫دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر مجھے‬
‫پیچھے کرتے ھوے سر نفی میں ہالتے‬
‫ھوے مجھے روکنے کا اشارا کرنے‬
‫لگ گئی ۔۔‬

‫میں وہیں رک گیا ۔۔‬


‫کچھ دیر بعد سویرا کی درد کچھ کم‬
‫ھوئی تو اس نے جیسے ھی ہاتھ میری‬
‫ران سے ہٹایا تو میں نے پھر ایک گھسا‬
‫مارا تو لن کافی اندر اتر گیا ۔‬

‫سویرا نے ذور سے چادر کو دانتوں میں‬


‫بھینچ لیا اور مجھے پیچھے کو دھکے‬
‫دینے لگ گئی اسکی حالت بتا رھی تھی‬
‫کے اسے بہت درد ھورھا ھے ۔‬

‫میں نے وقت ضائع کیے بغیر اگال گھسا‬


‫مارا کر لن سارا ھی سویرا کی گانڈ میں‬
‫اتار دیا سویرا بن پانی کے مچھلی کی‬
‫طرح تڑپنے لگ گئی ۔‬
‫اور ایک ذور دار دھکا مار کر میرے‬
‫نیچے سے نکل کر گھوم کے چادر کو‬
‫بھی ساتھ اکھٹا کرتے ھوے ایک طرف‬
‫ھو کر اپنی گانڈ کو پکڑ کر رونے لگ‬
‫گئی ۔‬

‫اچانک جاندار دھکے سے میں سویرا‬


‫کے اوپر سے ہٹ کر ایک طرف لُڑھک‬
‫گیا تھا اور سویرا ذور ذور سے ٹانگیں‬
‫گھاس پر مار کر گانڈ کے سوراخ پر‬
‫انگلیاں رکھ کر دباے جار رھی تھی اور‬
‫ساتھ ساتھ ھاےےےےھ امییی جییییی‬
‫مرگئی کرے جارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے پیار سے اسکی گال پر ھاتھ‬
‫رکھا تو سویرا نے غصے سے میرا‬
‫ھاتھ جھٹک دیا اور بولی جاہل جنگلی‬
‫پیچھے ہٹو ۔۔۔ڈونٹ ٹچ میں اور ساتھ ھی‬
‫رونے لگ گئی ۔۔‬

‫مجھے اپنی غلطی کا احساس ھوا کہ‬


‫میں نے بےچاری کے ساتھ غلط کیا جب‬
‫وہ خود رضامندی سے چدوا رھی تھی‬
‫تو اتنی جلدبازی کرنے کی کیا ضرورت‬
‫تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر میں خاموشی سے سویرا کو‬
‫دیکھتا رھا اور پھر اسے پیار سے‬
‫پچکارتے ھوے سیدھا ھی لیٹا دیا اور‬
‫کچھ دیر مذید اسکی منت سماجت اور‬
‫خوشامد کے بعد میں نے سویرا کی‬
‫ٹانگیں اٹھا کر کندھوں پر رکھی اور لن‬
‫کو پھدی میں ڈال کر گھسے مارنا شروع‬
‫ھوگیا سویرا اب بھی گانڈ کے درد سے‬
‫رو رھی تھی مگر میں پھر بھی اسکی‬
‫پھدی چودے جارھا تھا ۔۔‬

‫کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد سویرا‬


‫کو بھی گانڈ کا درد بھول گیا اور اسکا‬
‫رونا سسکیوں میں بدل گیا میں نے‬
‫اسکی ٹانگوں کو کندھوں سے نیچے کیا‬
‫اور اس کے اوپر لیٹ کر اسکے ہونٹوں‬
‫کو چوستے ھو ے گھسے مارنے لگ‬
‫گیا سویرا نے اب خود ھی ٹانگوں کو‬
‫اوپر کیا ھوا تھا اور میرے بالوں میں‬
‫انگلیاں پھیرتے ھوے مزے لے لے کر‬
‫میرے ھونٹ چوس رھی تھی اور گانڈ‬
‫اٹھا اٹھا کر چدوا رھی تھی ۔۔‬

‫میرے گھسوں کی رفتار تیز ھوتی‬


‫جارھی تھی میں چھوٹنے کے قریب‬
‫ھوتا جارھا تھا ادھر سویرا بھی چھوٹنے‬
‫جے قریب تھی اور اس نے میرے‬
‫ہونٹوں سے ہونٹ ہٹاے اور آہہہہہہہ‬
‫سیییییک افففففف کرتے ھوے بولی‬
‫جارھی تھی تیز یاسر ساراااا اندر کردو‬
‫سارراااا آہہہہ فج فک فک فک فک می‬
‫یاسررررر آہہہہہ ایم کمنگ یاسر‬
‫یاسسررررر میں بھی سویرا کو چومی‬
‫جارھا تھا اور بولی جارھا تھا سارااااا‬
‫ایییی کردیا اندر سارااا ایییی اندر ھء‬
‫فارغ ھونے لگا ھوں جان اندر ھی‬
‫سویرا بھی بولی جارھی تھی ھاں ‪.‬‬
‫‪.‬یاسررررر اندر ھی ھو جاو اندر ھی‬
‫میں گولی کھا لوں گی‪ .‬آہہہہہہہہہ‬
‫یسسسسسسس اس کے ساتھ ھی سویرا کا‬
‫جسم اکڑا اور ادھر میری ٹانگیں اکڑی‬
‫میرا آخری جاندار گھسا لگا اور لن کو‬
‫اندر تک کرتے ھوے پھدی کے اندر ھی‬
‫پچکاریاں مارنی شروع ھوگیا ادھر‬
‫سویرا نے بھی منی چھوڑنا شروع‬
‫کردی ہم دونوں کی سانسیں اکھڑی‬
‫ھوئی تھیں لمبے لمبے سانس لیتے ھوے‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ چچمٹے ھوے‬
‫تھے ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد سانسوں کا طوفان تھما اور‬
‫میرا لن بھی سکڑ گیا جسے سویرا کی‬
‫پھدی نے اُگھل کر باہر پھینک دیا ۔‬

‫میں نے سویرا کے ہونٹوں پر لمبی کس‬


‫کی اور اس سے پوچھا مزہ آیا سویرا‬
‫نے میری گردن کے گرد بازوں کا‬
‫احصار ڈالتے ھوے بازوں کو کس کر‬
‫میرے ہونٹوں پر زورررررر سے ُچما‬
‫لیا اور مستی سےبولی بُتتتتتت مزہ آیا ۔۔۔‬

‫میں نے بھی سویرا کے ایک ممے کو‬


‫ہاتھ میں پکڑ کر دباتے ھوے اسکے‬
‫ہونٹوں کو چوم کر بڑے رومینٹک انداز‬
‫سے کہا کتنا مزہ آیا ۔۔‬

‫سویرا نے بازوں میری گردن سے‬


‫نکالے اور بازوں کو سر سے اوپر لیجا‬
‫کر پہلے ایک سیکسی انگڑائی لی اور‬
‫پھر بازوں کو پھیال کر بولی اتناااااااااااا‬
‫مزہ آیا اور ساتھ ھی بازوں کو میری‬
‫کمر میں ڈال کر مجھے اپنے ساتھ چپکا‬
‫لیا ۔۔۔‬

‫میں نے پھر سویرا کے ہونٹوں پر ہونٹ‬


‫رکھ کر ایک لمبی کس کی اور سویرا‬
‫کے اوپر سے ہٹ گیا ۔‬
‫سویرا کچھ دیر لیٹی بڑی عجیب نظروں‬
‫سے مجھے دیکھتی رھی اور میں اپنے‬
‫دھیان کپڑے پہننے لگ گیا ۔۔‬

‫سویرا اب بھی پیاسی نظروں سے‬


‫مجھے دیکھ رھی تھی ۔‬

‫جیسے سالی پتہ نہیں کتنے عرصہ سے‬


‫سیکس کی بھوکی تھی ۔‬

‫جو ابھی تک اسکی پیاس نہیں بُجھی‬


‫تھی ۔‬

‫میں نے سویرا کو کہا کپڑے پہن لو‬


‫سویرا ایسے بےفکر ھوکر لیٹی ھوئی‬
‫تھی جیسے اپنے گھر میں لیٹی ھو‬

‫کپڑے پہننے کا سن کر سویرا نے نفی‬


‫میں سر ہالیا ۔۔‬

‫مجھے تو یہ ٹینشن لگ گئی تھی کہ‬


‫ہمیں ادھر دو گھنٹے ھو چکے تھے ۔‬

‫اورکوئی بھی ادھر آسکتا تھا ۔‬

‫اور میں سویرا کو یہ بھی نہیں کہہ‬


‫‪.‬سکتا تھا کہ جلدی کرو کوئی آجاے گا‬

‫میں تو پہلے ھی اس کے ساتھ بڑی‬


‫بڑی پُھکریاں مار چکا تھا ۔‬

‫کہ یہ میری زمینیں ہیں میری اجازت‬


‫کے بغیر ادھر کوئی آنہیں سکتا وغیرہ‬
‫۔۔۔‬

‫مگر مجھے اب اندر سے ڈر لگنے لگ‬


‫گیا تھا کہ کوئی پانی لگانے واال مالزم‬
‫ھی نہ ادھر آن ٹپکے ۔۔۔‬

‫میں کپڑے پہن چکا تھا جبکہ سویرا‬


‫ابھی تک ننگی ھی ٹانگ پر ٹانگ‬
‫رکھے بیٹھی پیاسی نظروں سے مجھے‬
‫دیکھی جارھی تھی ۔‬
‫میں نے دو تین دفعہ اسے کہا کہ کپڑے‬
‫پہن لو تمہیں شہر چھوڑ آوں مگر وہ‬
‫سالی ہر دفعہ نفی میں سر ہال دیتی ۔۔‬

‫میرے دماغ میں اچانک ایک پالن آیا‬


‫کیونکہ اب ادھر مذید رکنا پھنسنے والی‬
‫بات تھی اس لیے‬

‫میں اچانک کھڑا ھوا اور ایسے کان لگا‬


‫کر ایسے سننے لگا جیسے کسی کے‬
‫آنے کی آہٹ کو محسوس کرنے لگا ہوں‬
‫۔‬

‫میں نے چہرے پر گبھراہٹ کے اثار‬


‫التے ھوے کہا ۔‬
‫سویرا جلدی کپڑے پہنوں لگتا ھے‬
‫کوئی اس طرف آرھا ھے ۔‬

‫یہ نہ ھو کہ کوئی گاوں واال راہگیر‬


‫اسطرف ھی آجاے ۔۔‬

‫میں نے تو بڑے کانفیڈینس اور بڑی‬


‫گبھراہٹ سے سویرا کو ڈرایا تھا ۔‬

‫مگر اسکا پھر نفی میں سر ہلتا دیکھ کر‬


‫میری گانڈ پھٹنے والی ھوگئی ۔‬

‫میں جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گیا اور‬


‫اسکا بازو ہالتے ھوے بوال سویرا پاگل‬
‫مت بنو ایسے کوئی آگیا تو دونوں پھنس‬
‫جایں گے ۔‬

‫سویرا بولی آنے دو جسے آنا ھے ۔‬

‫میں حیران ھوتے ھوے بوال یار تمہاری‬


‫بدنامی ھوگی ۔‬

‫سویرا بولی ہونے دو مجھے نھیں ڈر‬


‫بدنامی کا۔‬

‫دوستو یقین کرو ۔۔میری تو گانڈ پھٹنے‬


‫والی ھوگئی سویرا کا پاگل پن دیکھتے‬
‫ھوے ۔۔‬
‫میں دل ھی دل میں سوچنے لگ گیا کہ‬
‫لے کاکا اے کڑی تے تیرے گل پے‬
‫گئی۔۔‬
‫میں نے جب دیکھا کہ سویرا پر میری‬
‫کسی بات کا اثر نہیں ھورھا تو میں نے‬
‫تھوڑا غصے سے کہا ۔‬

‫سویرا جلدی سے کپڑے پہنو نہیں تو‬


‫میں جارھا ھوں بعد میں مجھ سے نہ‬
‫گال کرنا ۔‬

‫اور میں ساتھ ھی اٹھنے لگا ۔تو سویرا‬


‫ہنستے ھوے جلدی سے اٹھی اور شلوار‬
‫پکڑ کر سیدھی کرتے ھوے بولی ۔‬
‫ڈر گئے نہ ھاھا ھا ھا ھا‬

‫میں نے گبھراے ھوے لہجے سے کہا ۔‬

‫پاگل مجھے تمہاری عزت کی فکر ھے‬


‫اگر کسی گاوں والے نے دیکھ لیا تو‬
‫تمہیں نہیں پتہ کہ ہمارے گاوں والے‬
‫اسکے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔۔‬

‫میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔‬

‫پھر کبھی کرلیں گے کسی اور جگہ اور‬


‫جتنی دیر تم کہو گی میں اتنی دیر‬
‫تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔‬
‫سویرا شلوار میں ٹانگ ڈالتے ھوے‬
‫بولی ۔‬

‫پکا‬

‫میں نے کہا۔‬

‫ہاں یار پکا۔۔‬

‫سویرا دوسری ٹانگ شلوار میں ڈالتے‬


‫ھوے بولی ۔‬

‫کھاو قسم کہ میں جب بھی کہوں گی تم‬


‫آو گے ۔‬
‫میں نے قسم کھاتے ھوے کہا ہاں یار‬
‫جب بھی تم کہو گی میں پہنچ جاوں گا۔۔‬

‫سویرا شلوار کو گانڈ سے اوپر کرتے‬


‫ھوے بولی ۔‬

‫مگر میں تم کو ملوں گی کیسے یا تم‬


‫تک میسج کیسے پہنچے گا ۔۔‬

‫میں بھی اسکے اس سوال پر پریشان‬


‫ھوگیا ۔۔‬

‫کہ واقعی مجھے تو اسکے گھر کا بھی‬


‫نہیں پتہ کہ یہ رہتی کہاں ھے ۔‬
‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا تم‬
‫مجھے اپنا اڈریس بتا دو میں تمہیں خط‬
‫لکھ دیا کروں گا ۔‬

‫یا تم جس ٹائم کالج جاتی ھو وہ ٹائم بتا‬


‫دو میں تم کو اس ٹائم مل لیا کروں گا‬
‫اور جب تمہارا موڈ ھو مجھے بتا دینا‬
‫میں جگہ کا ارینج کرلوں گا ۔۔‬

‫سویرا بریزیر مموں کے اوپر کرتے‬


‫ھوے بولی ۔‬

‫ٹھیک ھے میں صبح آٹھ بجے کالج‬


‫جاتی ھوں فالں راستے سے ۔۔‬
‫اور دو بجے چھٹی ھوتی ھے تو اسی‬
‫راستے سے واپس جاتی ھوں ۔۔‬

‫میں نے کہا اور تم رہتی کہاں ھو‬


‫۔۔۔سویرا نے جیسے ھی اپنے محلے اور‬
‫گلی کا بتایا تو ۔‬

‫میرے پیروں تلے سے تو ایکدم زمین‬


‫نکل گئی ۔۔۔کیونکہ اس محلے میں اور‬
‫اسی گلی میں تو مہری کا گھر تھا ۔‬

‫مجھے یوں حیران دیکھ کر سویرا‬


‫قمیض پہن کر قمیض کو مموں سے‬
‫سہی کرتے ھوے مموں کو ہالتے ھوے‬
‫بولی کیا ھوا ۔‬
‫پریشان کیوں ہوگئے۔۔‬

‫میں نے خود کو سنبھالتے ھوے کہا‬


‫کچھ نہیں بس ایسے ھی ۔۔۔‬

‫سویرا گھاس سے چادر اٹھا کر جھاڑتے‬


‫ھوے بولی ۔۔سچ بتاو یاسر میرے محلے‬
‫کا سن کر تم پریشان کیوں ہوگئے ۔‬

‫میں نے کہا کچھ نہیں یار بس ایسے ھی‬


‫۔‬

‫سویرا چادر تہہ کرتے ھوے بولی‬


‫مرضی ھے تمہاری اگر نہیں بتانا‬
‫چاھتے تو ۔‬

‫میں نے کہا نہیں یار ایسی تو کوئی بات‬


‫نہیں ۔۔‬

‫بس ایسے ھی ۔۔‬

‫اور پھر میں نے برقعہ اٹھا کر سویرا‬


‫کی طرف بڑھاتےھوے کہا لو یہ پہن لو‬
‫اور جلدی کرو ۔‬

‫سویرا برا سا منہ بناتے ھوے برقعہ‬


‫میرے ھاتھ سے پکڑ کر بولی ۔‬

‫اوہوووو اتنی بھی کیا جلدی پڑ گئی‬


‫تمہیں ۔۔‬

‫اور سویرا برقعہ پہننے لگ گئی برقعہ‬


‫پہن کر سویرا نے چادر شولڈر بیگ‬
‫میں رکھ کر بیگ کی زپ بند کی اور‬
‫بیگ کو کندھے پر لٹکاتے ھوے بولی‬
‫چلیں میں نے کہا ہممممم اور سویرا دو‬
‫قدم آگے بڑھی اور پھر ممجھ سے لپٹ‬
‫کر مجھے ہگ کیا اور پھر ہم دونوں‬
‫آگے پیچھے نہر کی طرف چل دیے ۔۔‬

‫نہر کے پل کے پاس پہنچ کر میں نے‬


‫اس جگہ کی طرف دیکھا جہاں سویرا‬
‫کے چودو کی موٹرسائیکل کھڑی تھی‬
‫مگر اب وھاں موٹرسائیکل کا نام و‬
‫نشان بھی نہیں تھا یعنی کے چودو ساب‬
‫فرار ھو چکے تھے میں نے سویرا کو‬
‫کہا کہ تمہارا فرینڈ تو تمہیں چھوڑ کر‬
‫فرار ھوچکا ھے ۔‬

‫سویرا اپنے چودو کو گندی گندی گالیاں‬


‫دیتے ھوے پل کراس کر کے شہر کی‬
‫طرف چل پڑی میں بھی اسکے ساتھ‬
‫ساتھ چلتا ھوا شہر پہنچا اور پھر سویرا‬
‫کو رکشہ کروا کر اس میں بیٹھا کر میں‬
‫پھر ملنے کا وعدہ کرکے کے واپس‬
‫گاوں کی طرف چل پڑا ۔۔‬

‫گھر پہنچ کر نہا دھو کر فریش ھوا اور‬


‫پھر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر‬
‫کی طرف چل دیا ۔‬

‫آنٹی کے گھر پہنچا تو حسب معمول‬


‫آنٹی چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا‬
‫رھی تھی اور نسرین آنٹی کے پاس‬
‫بیٹھی کھانا بنوانے میں انکا ہاتھ بٹوا‬
‫رھی تھی ۔‬

‫جبکہ عظمی مجھے نظر نہ آئی میں‬


‫نے گھر میں داخل ھوتے ھی سالم کیا‬
‫تو آنٹی اور نسرین نے چونک کر میری‬
‫طرف دیکھا تو آنٹی نے مسکراتے‬
‫ھوے اور نسرین نے برا سا منہ بناتے‬
‫ھوے میرے سالم کا جواب دیا ۔۔‬
‫میں آنٹی کے پاس پہنچا اور نسرین کے‬
‫سر پر چپت مارتے ھوے کہا ۔‬

‫اج بڑیاں مینتاں ہو ریاں نے ۔۔‬

‫نسرین غصے سے میری طرف‬


‫‪.‬دیکھتے ھوے بولی‬

‫تمیز نال ۔‬

‫آندے ای شوخا بن گیا آں ۔۔‬

‫آنٹی ہنستے ھوے نسرین کو ڈانٹنے لگ‬


‫گئی ۔‬
‫اور میری طرف دیکھ کر بولی آج چاند‬
‫کدھر سے نکل آیا لگتا ھے کہ اب‬
‫تمہارا دل نہیں کرتا ہمارے گھر آنے کو‬
‫۔‬

‫میں نے نسرین کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے کہا ۔‬

‫آنٹی جی دل تو بہت کرتا ھے مگر آپ‬


‫کے گھر میں چڑیل کا سایہ ھے اور‬
‫جب میں آپ کے گھر آتا ھوں وہ چڑیل‬
‫مجھے چمٹ جاتی ھے ۔‬

‫نسرین نے چمٹا پکڑا اور میری ٹانگ‬


‫پر مارتے ھوے رونے والے انداز میں‬
‫بولی ۔‬

‫امی دیکھ لو ہن‪ .‬فیر تسی مینوں بولن‬


‫لگ پیندے او ۔۔‬

‫ایویں بکواس کری جاندا اے‪ .‬۔‬

‫میں نے ھائییییی کیا اور آنٹی کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے کہا دیکھ لیں آنٹی میں‬
‫نے کہا تھا نہ کہ آپکے گھر چڑیل کا‬
‫سایہ ھے ۔‬

‫آتے ھی چڑیل نے مجھ پر حملہ کردیا‬


‫نہ ۔‬
‫اور یہ کہتے ھوے میں بھاگ کر اندر‬
‫کمرے میں چال گیا اور نسرین مجھے‬
‫برا بھال کہتی رھی ۔‬

‫کمرے میں پہنچا تو عظمی چارپائی پر‬


‫بیٹھی ھوئی تھی اور کسی ناول پڑھنے‬
‫میں مصروف تھی میری طرف دیکھتے‬
‫ھی اس نے ناول ایک طرف رکھا اور‬
‫بڑے سیریس انداز میں مجھے سالم کیا‬
‫میں اسکے سیریس ھونے کی وجہ جانتا‬
‫تھا مگر میں نے اسے احساس نہیں‬
‫ہونے دیا اور اپنی عادت کے مطابق‬
‫اسے چھیڑتے ھوے بوال ۔‬

‫خیر ھے پڑھائی مکمل ہوگئی ھے جو‬


‫ناول پڑھنے شروع کردیے ۔۔‬

‫عظمی سر جھکا کر بولی نہیں بس‬


‫ایسے ھی فارغ بیٹھی ھوئی تھی توٹائم‬
‫پاس کرنے کے لیے ناول پڑھنا شروع‬
‫کردیا ۔‬

‫میں عظمی کے پاس بیٹھا کچھ دیر اس‬


‫سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رھا ۔‬
‫اور پھر آنٹی اور نسرین بھی کمرے‬
‫میں آگئیں اور آنٹی بتانے لگ گئی کہ‬
‫نسرین کی نظر کمزور ہوگئی ھے اسے‬
‫کل ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تھی ۔‬

‫میں نے چونک کر انجان بنتے ھوے‬


‫کہا کہ آنٹی آپ مجھے بتاتی میں ساتھ‬
‫چال جاتا ۔‬

‫آنٹی بولی کوئی بات نہیں ہم تانگے پر‬


‫ھی چلی گئیں تھیں میں نے ہمممم کیا‬
‫اور انٹی نے کھانا لگا دیا اور پھر ہم‬
‫سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر میں‬
‫آنٹی سے اجازت لے کر گھر واپس اگیا‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫ابھی میں گھر آکر صحن میں بیٹھا ھی‬


‫تھا کہ باہر کے دروازے سے انکل‬
‫سجاد اندر داخل ہوے اور میری طرف‬
‫دیکھ کر مسکراتے ھوے میرے پاس‬
‫آے میں انکو دیکھ کر احتراما ً کھڑا‬
‫ہوگیا ۔۔‬

‫انکل نے میرے سر پر پیار دیا اور میں‬


‫نے انکو چارپائی پر ھی بیٹھنے کا کہا ۔‬
‫اتنے میں امی اور ابو بھی آکر انکل‬
‫کے پاس بیٹھ گئے کچھ دیر ادھر ادھر‬
‫کی باتوں کے بعد انکل نے مجھے کہا‬
‫یاسر پتر دکان پر کیوں نہی آرھے ۔‬

‫ابو بولے اسکی کرتوتیں ہیں دکان پر‬


‫جانے والی ۔‬

‫انکل بولے بھائی آپ خاموش رہیں یاسر‬


‫میرا بھی بیٹا ھے اور میں اسے آپ‬
‫سے ذیادہ جانتا ہوں ۔‬
‫وہ سب کچھ بس غلط فہمی میں ھوا تھا‬
‫اس میں یاسر کا کوئی قصور نہیں ھے‬
‫۔‬

‫میں حیران و پریشان ھوکر انکل کی‬


‫طرف دیکھنے لگ گیا ۔‬

‫کہ اچانک میرے دماغ میں جنید کی‬


‫کہی بات آئی کے میں انکل کو فلم ھی‬
‫ایسی سناوں گا کہ انکل خود تمہیں‬
‫راضی کرنے گھر آئیں گے ۔‬

‫میں مزید سینہ چوڑا کر کے بیٹھ گیا ۔‬


‫انکل کچھ دیر بیٹھے میری صفائیاں‬
‫دیتے رھے اور پھر مجھے کہنے لگے‬
‫کے صبح تم نے دکان پر آنا ھے نہیں‬
‫تو میننے کان سے پکڑ کر لے جانا ھے‬
‫میں نی جی اچھا کہا تو انکل اجازت لے‬
‫کر اپنے گھر چلے گئے ۔‬

‫کچھ دیر ہم سب بیٹھے باتیں کرتے‬


‫رھے ابو کا موڈ بھی میرے ساتھ بہتر‬
‫ھوگیا تھا ۔۔‬

‫اور پھر میں سونے کے لیے بیٹھک‬


‫میں چال گیا۔‬

‫اگلے دن میں صبح ٹائم سے اٹھا اور‬


‫دکان کے لیے تیار ھوکر گھر سے نکل‬
‫پڑا ۔‬

‫دکان پر پہنچا تو انکل نے دکان کھول‬


‫لی تھی ۔‬

‫میں نے دکان کی جھاڑ پونچھ کی اور‬


‫کچھ ھی دیر بعد جنید بھی دکان پر آگیا‬
‫اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوا اور‬
‫بڑی گرمجوشی سے میرے گلے مال ۔‬

‫سارا دن کام میں مصروف رھے کچھ‬


‫خاص نہ ھوا شام کو میں ضوفی کی‬
‫طرف بھی نہیں گیا اور انکل کے ساتھ‬
‫ھی گھر آگیا۔‬
‫دو تین دن میں نے جم کر دکان پر ٹائم‬
‫دیا ۔‬

‫ایک دن جنید نے مجھے خوشخبری دی‬


‫کے تیرا کیمرے واال کام ھوگیا ھے ۔‬

‫میں نے خوش ھوکر پوچھا کہ کدھر‬


‫ھے کیمرا جنید نے بتایا کی آج شام کو‬
‫مل جاے گا‬

‫پھر ہم کام میں مصروف ہوگئے شام کو‬


‫ایک لڑکا دکان پر آکر جنید کو منی‬
‫سائز کا ہینڈی کیم دے گیا ۔‬
‫میں نے جنید سے کیمرا چالنے اور‬
‫زومنگ کرنے کا طریقہ سیکھنے لگ‬
‫گیا جنید نے تفصیل سے مجھے سارے‬
‫فنکشن سمجھا دیے میں نے کیمرہ ایک‬
‫شاپر میں ڈال کر دکان میں ایک الماری‬
‫میں چھپا کر رکھ دیا اور جب شام کے‬
‫چھ بجے تو میں انکل سے چھٹی لے‬
‫کر شاہین مارکیٹ کی طرف اپنے‬
‫محبوب کا دیدار کرنے کے لیے چل پڑا‬
‫۔‬

‫شاہین مارکیٹ پہنچا تو میں نے نسیم کی‬


‫دکان دیکھی تو وہ بند تھی میں سیڑھیاں‬
‫اترتا ھوا نیچے چال گیا اور پارلر پر‬
‫پہنچ کر دروازے کو ناک کیا تو کچھ‬
‫دیر بعد شیشے کے آگے سے پردہ‬
‫سرکا تو میرا چاند مجھے نظر آیا ۔‬

‫ضوفی نے جیسے ھی مجھے دیکھا تو‬


‫اسکے چہرے پر ایکدم رونق آگئی اور‬
‫اس نے جلدی سے دروازہ کھوال ۔‬

‫اور میں بنا اسکے اشارے سے ھی اندر‬


‫داخل ھوگیا ۔ اور اندر کا جائزہ لینے‬
‫لگ گیا کہ اچانک مجھے پیچھے سے‬

‫ضوفی نے جپھی ڈال لی۔‬

‫اور ایڑیاں اٹھا کر میرے کان کے قریب‬


‫منہ کر کے میرے کان کو منہ میں ڈال‬
‫کر کان پر کاٹتے ھوے بولی الپرواہ‬
‫کتنے دنوں بعد آے ھو ۔‬

‫میں نے سیییی کرتے ھوے گھوم کر‬


‫ضوفی کی طرف منہکیا اور اسے باہوں‬
‫میں بھر کر بوال تمہیں کون سا میری‬
‫یاد آئی کہ آکر بندے کا حال ھی پوچھ‬
‫لیتی ۔‬

‫ضوفی ایکدم سیریس ھوکر میری گالوں‬


‫پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر بولی کیا ھوا‬
‫سب خیریت تو ھے ۔‬

‫ضوفی کی بےچینی یوں ایکدم گبھراہٹ‬


‫اور فکر مندی میں اپنا‪ .‬پن تھا‬
‫مجھے ضوفی پر بےاختیار پیار آیا اور‬

‫میں نے بھی ضوفی کی کمر سے ھاتھ‬


‫نکالے اور اسکی روئی سی نرم اور‬
‫ریشم سی مالئم گالوں کو تھام لیا اور‬
‫اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا ۔‬

‫کچھ نہیں ہوا میری جان ۔‬

‫ضوفی برا سا منہ بنا کر بولی تو پھر‬


‫اتنے دنوں سے آے کیوں نہیں پتہ ھے‬
‫میں کتنی پریشان ھوجاتی ھوں تمہیں‬
‫ذرہ سی بھی میری فکر نہیں ۔‬
‫میں نے پھر ضوفی کے ہونٹوں کو‬
‫چوما اور کہامیری جان گھر میں کچھ‬
‫ضروری کام تھا اس لیے میں شہر نہیں‬
‫آیا اب میری جان کو شکایت کا موقع‬
‫نہیں ملے گا ۔‬

‫کیونکہ میں دوبارا اسی دکان پر واپس‬


‫آگیا ھوں ۔‬

‫ضوفی کا چہرہ ایکدم گالب کی طرح‬


‫کھل اٹھا اور میری کمر میں بازو ڈال‬
‫کر میرے ساتھ چمٹتے ھوے بولی ۔‬

‫یہ تو بہت اچھا کیا تم نے یاسر میں اس‬


‫بات کو لے کر بہت پریشان تھی کہ‬
‫میری وجہ سے تمہاری نوکری گئی ۔‬

‫میں نے کہا ایسی الکھ نوکریاں اپنی‬


‫جان پر وار دوں کیسی باتیں کرتی ھو ۔‬

‫ضوفی مذید میرے ساتھ چمٹتے ھوے‬


‫بولی ۔‬

‫لویو یاسر ۔‬

‫میں نے بھی لو یو ٹو کہااور میرے‬


‫بازوں نے بھی ضوفی کی کمر کے گرد‬
‫گھیرا ڈال لیا ۔‬

‫اور دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے میں‬


‫گتھم گتھا ھوگئے ۔‬
‫ضوفی تو ایسے ترسوں کی طرح ‪.‬‬
‫میرے ہونٹوں کو چوس رھی تھی‬
‫جیسے کوئی سال بعد مجھ سے ملی ھو‬
‫۔‬

‫ضوفی ایڑیاں اٹھا اپنی رانوں کو میری‬


‫رانوں کے ساتھ مال کر پھدی والے‬
‫حصے کو میرے نیم تنے لن کے ساتھ‬
‫رگڑ رھی تھی ۔‬

‫دوستو پتہ نہیں کیوں ضوفی کی قربت‬


‫میں میرا لن کیوں نہیں اکڑتا تھا نہ‬
‫میرے دماغ پر شہوت سوار ھوتی تھی‬
‫بس دل کرتا تھا کہ ضوفی کے جسم کو‬
‫اپنے جسم کے اندر سما لوں میرے‬
‫عالوہ کوئی اور آنکھ ضوفی کو نہ‬
‫دیکھے ۔‬

‫میرا بس چلتا تو ضوفی کو سات پردوں‬


‫میں چھپا کر رکھوں ۔۔‬

‫کچھ ددیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے‬


‫ساتھ چمٹے رھے اور پھر ضوفی مجھ‬
‫سے الگ ھوئی اور بولی ایک گڈ نیوز‬
‫ھے ۔‬

‫میں نے حیران ھوکر ضوفی کی طرف‬


‫دیکھتے ھوے کہا وہ کیا جان ۔۔۔‬
‫ضوفی بولی نسیم دکان چھوڑ گیا ھے ۔‬

‫میں نے کہا اتنی جلدی‬

‫ضوفی بولی ۔‬

‫اسکو ایک مہینے کا نوٹس دیا تھا انکل‬


‫نے تو انکو شاید کہیں اور دکان مل گئی‬
‫ھے اس لیے وہ پہلے ھی دکان چھوڑ‬
‫کر چلے گئے ۔‬

‫میں نے ہممممم کیا ۔۔۔‬

‫تو ضوفی برقعہ پہنتے ھوے بولی یاسر‬


‫میرے دماغ میں ایک آئیڈیا ھے اگر تم‬
‫میرا ساتھ دو تو میرے دل کی تمنا بھی‬
‫ھے اور میرا شوق بھی ۔‬

‫میں نےکہا۔‬

‫حکم کرو جان ۔۔‬

‫ضوفی بولی گھر چل کر بتاوں گی ۔‬

‫میں نے بے صبری سے کہا ابھی بتاو‬


‫نہ ضوفی مسکراتی ھوئی میرے قریب‬
‫آئی اور میری گال پر چٹکی کاٹتےھوے‬
‫بولی میرے مجنوں گھر تو چلو پھر‬
‫تسلی سے بات کرتے ہیں ۔‬
‫اور ہاں آج رات کو میں نے تمہیں‬
‫جانے نہیں دینا اس لیے پہلے ھی گھر‬
‫کال کر کے بتا دو۔۔‬

‫میں نے بازو سر سے اوپر کر کے‬


‫انگڑائی لی اور بڑے رومینٹک‬
‫اندازسے انگڑائی لیتے ھوے بوال ۔‬

‫خیر ھے کہیں آج ساری رات‬


‫ہمممممممم‬

‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھے پر‬


‫مکا مارتے ھوے بولی ٹھہر جا شوخے‬
‫۔‬
‫میں سییییییی کرتے ھوے اپنے بازو کو‬
‫مسلنے لگ گیا تو ضوفی مجھے دھکا‬
‫لگاتے ھوے دروازے کی طرف لیجاتے‬
‫ھوے بولی گھر چلو ایک دفعہ بتاتی‬
‫ھوں تمہیں ۔۔۔۔‬

‫میں نے ٹھنڈیآہہہہہہ بھری اور ضوفی‬


‫کہ آگے لگ کر چلتا ھوا پارلر کے‬
‫دروازے سے باہر نکال میں جیسے ھی‬
‫پارلر سے باہر آیا تو اچانک میری نظر‬
‫سیڑیوں پر پڑی تو میرے پیروں تلے‬
‫سے زمین نکلتی گئی ۔۔۔ ۔‬

‫سیڑیوں کی طرف دیکھ کر ایک دفعہ ‪.‬‬


‫تو مجھےجھٹکا لگا کہ انکل سجاد اوپر‬
‫سے نیچے اتر تے ھوے آرھے ہیں میں‬
‫آنکھیں پھاڑے غور سے آنے والے کو‬
‫دیکھی جارھا تھا ۔‬

‫مگر جب وہ آدھی سیڑیاں اترا تو اسے‬


‫دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ یہ‬
‫تو کوئی اور ھی ھے جسے میں انکل‬
‫سجاد سمجھ رھا تھا دور سے بلکل ہو با‬
‫ہو آنے واال انکل سجاد کی فوٹو کاپی‬
‫لگ رھا تھا اتنی ھی جسامت ویسے ھی‬
‫آدھا سر گنجا چھوٹی سی سفید داڑھی ۔۔۔‬

‫میں نے ایک لمبی سانس لے کر‬


‫چھوڑی اور شکر ادا کیا کہ آج رنگے‬
‫ہاتھوں پکڑے جانے سے بچ گیا۔۔‬

‫اتنی دیر میں ضوفی بھی پارلر سے‬


‫باہر نکل آئی اور دروازہ الک کر کے‬
‫مجھے چلنے کا کہنے لگ گئی میں‬
‫سیڑھیاں چڑھتا ھوا پھر اس آدمی‬
‫کیطرف غور سے دیکھنے لگ گیا جس‬
‫سالے کو دیکھ کر میرے ٹٹے شارٹ‬
‫ھوگئے تھے ۔۔‬

‫اور پھر ہم دونوں بیسمنٹ سے باہر نکل‬


‫کر گھر کی طرف چل پڑے باہر نکلتے‬
‫وقت میں نے نسیم کی دکان کو پھر‬
‫غور سے دیکھا تو باہر سے بھی بلکل‬
‫خالی تھی جو شوکیس باہر پڑا ھوا تھا‬
‫وہ بھی نہیں تھا اسکا مطلب تھا کہ سچ‬
‫میں دکان خالی ھوچکی تھی ۔۔‬

‫ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے‬


‫ھوے بازار سے نکلے اور ایک گلی‬
‫میں داخل ھوے تو مجھے اچانک گھر‬
‫فون کرنے کا خیال آیا میں نے ضوفی‬
‫سے پوچھا کے ادھر کوئی پی سی او‬
‫ھے تو بتاو پہلے میں گھر اطالع‬
‫کردوں کہ میں نے آج رات اپنی جانو‬
‫کے ساتھ جپھی ڈال کر سونا ھے ۔۔۔ اس‬
‫لیے گھر نہیں آنا۔۔‬

‫ضوفی میرے بازو پر تھپڑ مارتے‬


‫ھوے بولی آرام سے بڑے شوخے ھو‬
‫تم یاسر‬

‫میں نے مصنوعی غصہ سے ضوفی‬


‫کی طرف دیکھتے ھوے کہا اسکا‬
‫مطلب ھے کہ میں نے اکیلے نے ھی‬
‫سونا ھے ۔‬

‫ضوفی نقاب میں آنکھوں می نشوخی‬


‫التے ھوے بڑی ادا سے اثبات میں سر‬
‫ہال کر بولی ہممممم‬

‫میں وہیں رک گیا جیسے میرے پیر‬


‫زمین نےپکڑ لیے ھوں ۔‬

‫میں نے رکتے ھی کہا‬


‫نہ پائی میں تے چال ایں ایتھوں ای پینڈ‬
‫واپس ۔‬

‫اور میں گھوم کر واپس جانے لگا تو‬


‫ضوفی نے ہنستے ھوے میرا بازو پکڑا‬
‫اور بولی شوخےماروں گی ایک سیدھی‬
‫طرح گھر چلتے ھو کہ ۔لگاوں ایک ۔۔۔‬

‫میں نے کہا‬

‫واہ جی واہ‬

‫نالے کلے وی سوانا اے تے نالے‬


‫بدمعاشیاں وی ۔۔‬
‫ک‬

‫ضوفی ہنستے ھوے دھری ہوتی‬


‫جارھی تھی ۔‬

‫ضوفی میرا بازو کھینچ کر مجھے‬


‫واپس لیجاتے ھوے بولی ۔‬

‫یاسرتنگ نہ کرو چلو اگلی گلی میں پی‬


‫سی او ھے گھر کال کرکے بتادو۔۔۔‬

‫میں نے رونے والے انداز سے کہا ۔‬

‫میں کلے نئی سونااااااااااآا‬


‫ضوفی پھر ہنستے ھوےبولی‬

‫اچھا بابا نہ سونا اب تو چلو ۔‬

‫میں بچے کو عیدی ملنے کی خوشی‬


‫کیطرح خوشی سے اچھل پڑا اور سڑک‬
‫پر ھے بھنگڑا ڈالتے ھوے کہنے لگا‬
‫آہااااااااا اے ہوئی نہ گل ۔۔۔۔‬

‫یہ تو شکر تھا کہ گلی میں کوئی سیانہ‬


‫بندا نہیں تھا بس چھوٹے سے بچے‬
‫کھیل رھے تھے ۔‬

‫ضوفی دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر‬


‫ہنستے ھوے بولی‬

‫ھوووووو ھاے‬

‫یاسر تم بھی نہ واقعی ای پاگل ھو ۔۔۔۔‬

‫جگہ تو دیکھ لو بیچ بازار ھی ناچنے‬


‫لگ گئے ھو ۔‬

‫میں ایکدم سیریس ھو کر ضوفی کے‬


‫قریب ھوا اور بڑے رومینٹک انداز سے‬
‫اسکا ھاتھ پکڑ کر بوال ۔‬

‫کیا کروں جانے من تم نے مجھے پاگل‬


‫کردیا ھے اب اس میں میرا کیا قصور‬
‫ھے ۔‬

‫ضوفی اپنا ھاتھ چھڑواتے ھوے بولی‬


‫مجنو ساب آگے چوک آنے واال ھے‬
‫باقی کے ڈائالگ گھر جاکر بول لینا ۔‬

‫میں نے سامنے دیکھا تو واقعی ہم‬


‫چوک کے قریب آگئے تھے میں سریس‬
‫ہوکر ضوفی کے ساتھ چلنے لگ گیا ۔۔‬

‫چوک کراس کر کے کچھ ھی آگے ایک‬


‫پی سی او تھا میں نے پی سی او میں‬
‫جاکر گاوں کا نمبر مالیا اور دکاندار‬
‫سے کہا کہ میرے گھر پیغام بھیج دے‬
‫کہ میں نے آج گھر نہیں آنا کسی کام‬
‫کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا ھے‬
‫۔‬

‫دکاندار سے تسلی بخش جھوٹ بول کر‬


‫میں نے کال بند کی اور پی سی او سے‬
‫باہر نکل کر ہم دونوں گھر کی طرف‬
‫چل دیے راستے میں مزید کوئی بات‬
‫نہیں ہوئی کیونکہ گلی میں کافی چہل‬
‫پہل تھی ۔‬

‫کچھ دیر بعد ہم گھر کے سامنے کھڑے‬


‫تھے ۔‬

‫ضوفی نے ڈور بیل دی تو کچھ ھی دیر‬


‫بعد ماہی کی آواز آئی‪ .‬کون ۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا آپ کے جیجا‬
‫جی ۔۔۔‬

‫ضوفی نے میرے کندھے پر چپت‬


‫مارتے ھوے کہا ۔‬

‫کسی کو تو معاف کردیا کرو۔۔‬

‫اتنے میں ماہی نے دروازہ کھوال ۔‬

‫اور مسکرا کر ہم دونوں کا سواگت کیا ۔‬

‫پہلے ضوفی اندر داخل ھوئی تو جب‬


‫میں اندر داخل ھونے لگا تو ماہی نے‬
‫کسی دربان کی طرح جھک کر ھاتھ‬
‫آگے کرتے ھوے کہا آئیے جیجا جی‬
‫اندر تشریف لے آئیں ۔۔‬

‫ضوفی نے مڑ کر ماہی کا انداز دیکھا‬


‫تو کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی‬

‫دونوں ھی ایک سے بڑھ کر ایک ھو ۔۔‬

‫میں سینہ تان کر بڑے رعب سے چلتا‬


‫ھوا اندر داخل ھوا تو میری نظر سامنے‬
‫ٹی وی الونج میں پڑی تو آنٹی بیٹھی‬
‫ھوئی تھیں میں ایکدم بلکل معصوم سا‬
‫بن کر چلتا ھوا آنٹی کے پاس پہنچا اور‬
‫انکو سالم کیا آنٹی نے میرے سر پر‬
‫پیار دیا اور گلے شکوے کرنا شروع‬
‫ھوگئیں کہ میری اتنی طبعیت خراب‬
‫رھی اور تم نے خبر لینا بھی مناسب‬
‫نہیں سمجھا مجھے واقعی اپنی‬

‫الپرواھی پر شرمندگی ھونے لگ گئی‬


‫کیونکہ پچھلی دفعہ مجھے ماہی نے‬
‫بتایا بھی تھا کہ امی کی طبعیت خراب‬
‫ھے ۔۔‬

‫میں نے انٹی سے سوری کی اور اپنی‬


‫کچھ منگھڑت مجبوری بتائی ۔‬

‫تو آنٹی نے چلو کوئی بات نہیں جیتے‬


‫رھو کہہ کر میرے گھر والوں کی‬
‫خیریت دریافت کرنے لگ گئی ۔‬

‫ضوفی اوپر کمرے میں چینج کرنے‬


‫چلی گئی ۔‬

‫اور ماہی کچن میں چلی گئی ۔‬

‫میں اور انٹی بیٹھے ادھر ادھر کی‬


‫باتوں میں مصروف ھوگئے کچھ دیر‬
‫بعد ضوفی چینج کر کے نیچے آگئی‬
‫اور میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی‬
‫باتوں کے دوران جب بھی میری نظر‬
‫ضوفی کی نظر سے ملتی تو میں اسے‬
‫اوپر چلنے کا اشارہ کرتا ۔‬
‫ضوفی مشکل سے ہنسی کو کنٹرول‬
‫کرتی ھوئی ہونٹوں کو دانتوں تلے‬
‫دبانے لگ جاتی اور ساتھ میں آنکھوں‬
‫کو کھول کر مجھے گھور کر سر نیچے‬
‫کرلیتی ۔۔‬

‫ہم کچھ دیر بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں‬


‫کرتے رھے اور پھر ماہی کھانا لے کر‬
‫آگئی تو آنٹی اٹھ کر اپنے کمرے میں‬
‫چلی گئی اور ماہی کو کمرے میں ھی‬
‫کھانا لے کر آنے کا کہا میں نے آنٹی‬
‫کو بہت کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ھی‬
‫کھانا کھا لو مگر آنٹی بولی بیٹا مجھ‬
‫سے ذیادہ دیر بیٹھا نہیں جاتا اس لیے‬
‫میں بستر پر ھی ٹیک لگا کر کھانا کھا‬
‫لوں گی ۔‬

‫آنٹی کے جانے کے بعد ہم تینوں نے مل‬


‫کر ایک ساتھ کھانا کھایا۔۔‬

‫اور پھر ضوفی اورماہی نے برتن‬


‫سمیٹے اور ضوفی بولی چلو یاسر چاے‬
‫اوپر چل کر پیتے ہیں ۔۔‬

‫میں تو کب کا اوپر جانے کے لیے‬


‫بےچین بیٹھا ھوا تھا ۔۔‬

‫میں جلدی سے اٹھا اور سیڑھیاں چڑھتا‬


‫ھوا اوپر کمرے میں جا پہنچا میرے‬
‫پیچھے ھی ضوفی بھی آگئی ۔۔‬
‫میں صوفے پر بیٹھ گیا اور ضوفی بھی‬
‫میرے ساتھ ھی جڑ کر بیٹھ گئی ۔۔‬

‫ضوفی میرا ھاتھ پکڑتے ھوے بولی‬


‫یاسر میرا ایک مشورہ ھے تمہیں اگر تم‬
‫مجھے اپنا سمجھتے ھو تو انکار نہیں‬
‫کرو گے ۔‬

‫میں نے ضوفی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے‬


‫ھوے کہا ۔‬

‫حکم کرو جان ۔‬

‫میری کیا جرات کے میں انکار کردوں‬


‫۔۔‬

‫ضوفی میرے ھاتھ کو سہالتے ھوے‬


‫بولی یاسر مزاق نہیں میں سیریس بات‬
‫کرنے لگی ھوں اور میری بات کو‬
‫مزاق میں مت لینا ۔‬

‫اس میں ہمارا بہتر مستقبل بن سکتا ھے‬


‫۔۔اگر تم میرا ساتھ دو تو ۔۔‬

‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے‬


‫ھوے اسکا ھاتھ چوما اور بوال ۔‬

‫بولو جان میں سیریس ھی ھوں ۔‬


‫ضوفی بولی یاسر میرا ایک سپنا ھے‬
‫کہ تمہاری اپنی دکان ھو اپنا کاروبار‬
‫ھو اور تم ایک نواب کی طرح رہو ۔‬

‫میں نے مسکرا کر کہا ۔**********‬

‫۔تمہارا یہ سپنا ضرور پورا ھوگا‬

‫اگر‬

‫*******‬
‫نے چاھا تو ضرور کوئی نہ کوئی سبب‬
‫بن جاے گا ۔‬

‫مگر اس کے لیے کچھ وقت تو لگے گا‬


‫۔‬

‫ابھی تو میری اتنی حثیت نہیں کہ اپنا‬


‫کاروبار شروع کرسکوں۔۔‬

‫ضوفی بولی یاسر‬

‫میری ایک تجویز ھے اگر تم برا نہ‬


‫مانو تو کہوں ۔‬
‫میں نے سوالیہ نظروں سے ضوفی کی‬
‫طرف دیکھا اور مسکراتے ھوے بوال ۔۔‬

‫جی جان کہو۔۔‬

‫میں بھال کیوں برا مانوں گا۔۔‬

‫ضوفی بولی‬

‫یاسر وہ نسیم والی دکان جو خالی ھوئی‬


‫ھے اگر تمہیں وہ دکان مل جاے اور تم‬
‫ادھر بوتیک کا کام کرلو ۔تمہیں تجربہ‬
‫تو ھے پہلے ھی ۔۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا میری جان‬


‫میں پہلے یہ ھی بات کررھا تھا کہ‬
‫میری ابھی اتنی حثیت نہیں ھے ۔۔۔‬

‫ضوفی میری بات کاٹتے ھوے بولی ۔‬

‫یاسر کیا میری اور تمہاری میں کوئی‬


‫فرق ھے ۔‬

‫میں نے کہا نہیں جان ۔‬

‫میرا سب کچھ تمہارا ھے ۔۔‬

‫جتنا کہ میرے پاس ھے وہ سب کچھ‬


‫تمہارے نام ھے میری ہر سانس کی‬
‫مالک تم ھو ۔۔‬
‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی ۔‬

‫اور میرا سب کچھ وہ کسکا ھے ۔۔‬

‫میں نے کہا تمہارا سب کچھ بھی میرے‬


‫نام ھے ۔۔‬

‫ضوفی بولی ۔‬

‫تو پھر یہ جو تم نے بار بار حثیت نہیں‬


‫ھے حثیت نہیں ھے لگا رکھی ھے پلیز‬
‫اسکو بند کرو۔۔‬

‫میں نے کہا نہیں ضوفی جو حقیقت ھے‬


‫وہ میں تم سے چھپانا نہیں چاہتا ۔۔‬

‫میں حقیقت پسند ھوں سپنوں کی زندگی‬


‫بسر نہیں کرتا ۔۔‬

‫ضوفی بولی یاسر میری بات کیوں نہیں‬


‫سمجھ رھے میں کچھ اور کہنا چاھ‬
‫رھی ہوں اور تم پھر وہ ھی باتیں لے‬
‫کربیٹھ گئے ھو ۔‬

‫میں نے تو پھر تم کھل کر بتا دو میں‬


‫واقعی تمہاری بات کو نہیں سمجھا۔۔‬

‫ضوفی بولی دیکھو یاسر ۔‬


‫اگر ہم وہ دکان لے لیں تو کیا تم اکیلے‬
‫دکان کو سنبھال لو گے ۔۔‬

‫میں نے کہا یار مسئلہ تو پھر وہ ھی‬


‫ھے کہ لیں گے کیسے ۔۔‬

‫ضوفی بولی ہم دونوں لیں گے ۔‬

‫میرے پاس کچھ پیسے سیو ہیں جو میں‬


‫نے ماہی کی شادی کے لیے رکھے ہیں‬
‫اور کچھ زیور بھی ھے اتنے پیسے تو‬
‫آسانی سے ھو جائیں گے کہ ہم دکان‬
‫کی اچھی سیٹنگ کرکے مال ڈال سکیں‬
‫رہی دکان لینے کی بات تو میں نے آنٹی‬
‫سے دکان کی بات کی تھی تو آنٹی نے‬
‫کہا جب تمہارا دل کرے چابی لے لینا۔۔‬

‫میں ہکا بکا ھو کر ضوفی کی طرف‬


‫دیکھنے لگ گیا ۔۔‬

‫ضوفی نے مجھے یوں سکتے کے عالم‬


‫میں دیکھا تو میرے بازو کو ہالتے‬
‫ھوے بولی ۔‬

‫یاسررررررر۔۔۔‬

‫میں ایکدم چونکہ‬

‫اور بوال‬
‫ننننننہیں‪ .‬ضوفی میں اتنا بھی گرا ھوا‬
‫نہیں کہ تم سے پیسے لے کر کاروبار‬
‫شروع کروں تمہارا تو پہلے ھی مجھ‬
‫پر اتنا بڑا احسان ھے جسکو میں عمر‬
‫بھر نہیں چکا سکتا اور اوپر سے تم یہ‬
‫دکان اور وہ بھی ماہی کی شادی کے‬
‫پیسوں سے نہ نہ نہ ۔‬

‫ضوفی تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے‬


‫۔۔‬

‫کیوں مجھے اپنی نظروں سے گرا رھی‬


‫ھو۔۔۔۔‬

‫ضوفی بولی اوہووووو میری بات تو‬


‫پوری سن لو پہلے ھی اپنا لیکچر‬
‫جھاڑنا شروع کردیا۔‬

‫میں نے کہا نہیں ضوفی پلیززز اس‬


‫ٹاپک پر مجھ سے بات مت کرو ۔۔‬

‫ضوفی بولی یاسررر ایک دفعہ میری‬


‫پوری بات تو سن لو پھر تمہارا جو دل‬
‫کرے وہ کرلینا۔۔۔‬

‫میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے کہا ھاں‬


‫بولو۔۔‬

‫ضوفی بولی ۔‬
‫دیکھو میں جتنے پیسے بھی دکان کے‬
‫لیے دوں گی وہ تم ادھار سمجھ کر رکھ‬
‫لینا‬

‫ویسے بھی تو وہ پیسے بنک میں ھی‬


‫پڑے ہیں ہمارے کونسا کام کے ہیں‬
‫ابھی ۔‬

‫اور زیور بھی ویسے ھی پڑا ھے ۔‬

‫ماہی کی ابھی چار پانچ سال تو شادی‬


‫نہیں کرنی ابھی اسکی پڑھائی چل رھی‬
‫ھے ۔۔‬

‫اتنے عرصہ میں تم کمیٹیاں ڈال کر‬


‫مجھے پیسے واپس کردینا ۔۔‬

‫یہ ھی سمجھو کہ تم نے کسی سے‬


‫ادھار پیسے لیے ہیں ۔۔‬

‫مجھے تو تم اپنا سمجھتے نہیں ۔‬

‫ضوفی کا ساتھ ھی لہجا گلوگیر ہوگیا۔۔‬

‫میں نے اسکی بھرائی آواز سنی تو‬


‫چونک کر اسکی گالوں کو پکڑ لیا اور‬
‫اسکے بہتے آنسو انگوٹھے سے صاف‬
‫کرتے ھوے بوال ۔۔‬

‫ضوفی میری جان تمہیں کیا پتہ کہ تم‬


‫میرے لیے کیا ھو‬

‫میرا تو مرنا جینا بھی تمہارے لیے ھے‬


‫۔‬

‫میں تو تمہاری ہر سانس کے ساتھ‬


‫سانس لیتا ھوں ۔‬

‫اور تم کہتی ھو کہ میں تمہیں اپنا نہیں‬


‫سمجھتا ۔‬

‫تم میری مجبوری کو بھی سمجھو نہ‬


‫اگر کاروبار نہ چال تو میں کیسے اتنے‬
‫پیسے واپس کروں گا ۔‬
‫کیوں مجھ پر اتنا بڑا بوجھ ڈال رھی ھو‬
‫جسکو میں اٹھا نہ سکوں ۔۔۔‬

‫ضوفی بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔‬

‫یاسر مجھے پورا یقین ھے کہ تم بہت‬


‫جلد ترقی کرو گے مجھے تم پر‬
‫بھروسہ ھے تو میں تمہیں یہ سب کچھ‬
‫کرنے کا کہہ رھی ھوں اور دکان بھی‬
‫بڑے موقع کی ھے ۔‬

‫اگر میں نے آنٹی کو روکا نہ ھوتا تو‬


‫دکان خالی ہونے سے پہلے ھی کرایہ‬
‫پر چڑھ جانی تھی یہ تو انکی مہربانی‬
‫ھے کہ انہوں نے کسی کو دکان نہیں‬
‫دی ۔۔‬

‫لوگ بینک سے الن لے کر بھی تو‬


‫کاروبار کرتے ہیں نہ ۔‬

‫تم یہ ھی سمجھ لینا کہ بنک سے الن لیا‬


‫ھے ۔‬

‫اور رھی کام چلنے کی بات تو دکان‬


‫مین بازار میں ھے یہ تو ممکن ھی نہیں‬
‫کہ کام نہ چلے اور اوپر سے تمہاری‬
‫ڈیلنگ بھی بہت اچھی ھے ۔‬

‫پلیززززززز یاسر میں نے بڑے مان‬


‫سے تمہیں کہا ھے ۔۔‬
‫میں کچھ دیر خاموش بیٹھا رھا ۔‬

‫اور پھر بوال ضوفی آنٹی اور ماہی کیا‬


‫سوچیں گی ۔۔۔‬

‫اتنے میں ماہی چاے لے کر اندر داخل‬


‫ھوئی اور مسکراتےھوے بولی ۔‬

‫ماہی یہ سوچے گی کہ اسکے بھائی کی‬


‫اپنی دکان بن گئی اور امی یہ سوچیں‬
‫گی کہ انکا بیٹا اپنا کاروبار کرنے لگ‬
‫گیا۔۔‬

‫میں آنکھیں پھاڑے ماہی کی طرف‬


‫دیکھنے لگ گیا ۔۔‬

‫ضوفی مسکراتے ھوے میرا ھاتھ پکڑ‬


‫کر دباتے ھوے بولی سن لیا کیا سوچیں‬
‫گی ۔‬

‫دیکھ لو یاسر تم سے کتنے لوگوں کی‬


‫امیدیں وابسطہ ہیں ۔‬

‫میں ماہی کی طرف گھورتے ھوے‬

‫بوال ۔‬

‫تم بھی اس پاگل کی باتوں میں آگئی ۔۔‬


‫ماہی ہنستے ھوے بولی ۔‬

‫جیجا جی ۔‬

‫یہ آپی کا نہیں بلکہ میرا اور امی کا‬


‫پالن ھے ۔۔‬

‫آپی تو پہلے ھی کہہ رھی تھی کہ آپ‬


‫نے نہیں ماننا ۔‬

‫مگر ہمارے مجبور کرنے سے آپی نے‬


‫آپ کے ساتھ بات کی ھے ۔۔۔‬

‫میں اوففففففف کرتے ھوے سر کو‬


‫دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے کوہالتے ھوے‬
‫بولی ۔‬

‫اب تو کوئی بہانہ نہیں جناب کے پاس ۔‬

‫میں نے سر اوپر اٹھایا اور ضوفی‬


‫کیطرف دیکھتے ھوے بھرائی ھوئی‬
‫آواز میں بوال ۔‬

‫ضوفی مجھے اپنی قسمت پر یقین نہیں‬


‫ھورھا کہ آپ لوگوں جیسی فرشتہ‬
‫صفت فیملی کے ساتھ میں اٹیچ ھوگیا‬
‫ھوں ۔‬
‫ضوفی پلیز زززز ایک دفعہ پھر سوچ‬
‫لو‬

‫میں بہت غریب گھرانے اور سادہ سے‬


‫ماحول سے تعلق رکھتا ھوں ۔‬

‫میری اتنی اوقات نہیں ھے جتنا آپ‬


‫لوگ مجھ پر مہربان ہورھے ھو ۔۔‬

‫یہ کہتے ھوے میری آنکھوں سے ٹپ‬


‫ٹپ کرکے آ نسو گرنے لگ گئے۔۔‬
‫ضوفی نے گبھرا کر میری گالوں کو‬
‫تھاما اور بولی پاگل ھوگئے ھو عورتوں‬
‫کی طرح رونے لگ گئے ۔۔‬
‫کون کہتا ھے کہ تم غریب ھو ۔‬

‫انسان پیسے سے نہیں دل سے امیر‬


‫ھوتا ھے ۔‬

‫پیسہ تو ہر کوئی کما لیتا ھے ۔‬

‫مگر نیک دل اورانسانیت کسی کسی کو‬


‫نصیب ھوتی ھے اور تم خوش نصیب‬
‫ھو کہ تمہارے پاس صورت کے ساتھ‬
‫ساتھ اچھی سیرت بھی ھے ۔‬

‫میں ایسے ھی نہیں تم پر لٹو ھوگئی‬


‫تھی ۔۔‬
‫جتنی غریبی میں نے دیکھی ھے تم‬
‫سوچ بھی نہیں سکتے یاسر ۔‬

‫میں نے لڑکی ھوکر اپنے گھر کو‬


‫سنبھاال اور آج ہمارے پاس سب کچھ‬
‫ھے اور یہ سب کچھ میں نے مرد بن‬
‫کر کمایا ھے اور مشکل وقت کا ڈٹ کر‬
‫مقابلہ کیا ھے ۔‬

‫لوگوں کی باتیں سنیں طعنے سنے مگر‬


‫کسی کی پرواہ نہیں کی ۔‬

‫آج سب کے منہ بند ہیں ۔۔‬

‫جو باتیں کرتے تھے آجمیری مثالیں‬


‫دیتے ہیں اور تم ایک مرد ھوکر‬
‫عورتوں کی طرح آنسو بہا رھے ھو ۔کم‬
‫ان یار ۔۔۔۔‬

‫ضوفی کی باتیں سن کر میں نے اپنے‬


‫آپ کو سنبھاال اور ماہی جو کھڑی ہم‬
‫دونوں کا الڈ پیار دیکھ رھی تھی ہنستے‬
‫ھوے بولی ۔‬

‫اگر دونوں کے پاس وقت ھے تو مجھ‬


‫غریب پربھی ترس کھا لو کب کی ٹرے‬
‫ھاتھ میں لیے کھڑی ھوں ۔۔‬

‫میں روتا ھوا ہنس پڑا اور ٹرے سے‬


‫چاے کا کپ اٹھایا اور پھر ضوفی نے‬
‫بھی ۔‬

‫تو ماہی نے چھت کی طرف منہ کر‬


‫کے شکر ادا کیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ‬
‫کر چاے کا کپ اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی‬
‫۔۔‬

‫پھر ضوفی بولی تو پھر صبح آنٹی سے‬


‫دکان کی چابی لے لوں ۔‬

‫ماہی شوخی سے بولی لے لینا آپی بھائی‬


‫کی طرف سے میں ہاں کرتی ھوں ۔‬

‫ماہی کی بات سن کر میں ناچاہتے ھوے‬


‫بھی ہنس پڑا ۔۔‬
‫تو ضوفی بولی ٹھیک ھے پھر کل ھی‬
‫میں چابی لے لیتی ھوں اور یاسر تم‬
‫ایک دو دن میں دکان کی سیٹنگ کی‬
‫تیاری شروع کروا دینا ۔۔‬

‫میں نے آہستہ سے اثبات میں سر ہال دیا‬


‫۔۔‬

‫ماہی میرا ہلتا ھوا سر دیکھ کر تالی‬


‫مارتےھوے بولی یہ ھوئی نہ بات ایسے‬
‫ھی نہیں کہتے کہ سالی آدھے گھر والی‬
‫۔‬

‫تھینکیو جیجا جی ۔۔۔۔۔‬


‫اب تو میں پہلے جیجا جی سے پارٹی‬
‫کھاوں گی پھر دکان کا کام شروع‬
‫کرنے دوں گی ۔۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی یہ‬


‫کونسی بات ھے میری بہن جب کہے‬
‫میں حاضر ھوں ۔۔‬

‫پھر ہم مذید کچھ دیر ہنستے کھیلتے‬


‫باتیں کرتے رہے اور ماہی سونے کا‬
‫کہہ کر اٹھ کر چلی گئی کہ آپ باتیں‬
‫کریں مجھے تو نیند آرھی ھے ۔‬

‫ماہی کے جاتے ھی ۔میں اٹھ کر‬


‫دروازے کی طرف دوڑا اور جلدی سے‬
‫دروازہ بند کر کے الک کر دیا ضوفی‬
‫ہنستے ھوے بولی ۔‬

‫پاگل ابھی ماہی نیچے بھی نہیں پہنچی‬


‫ھوگی‬

‫کیا سوچےگی۔۔۔‬

‫میں نے باہوں کو ہوا میں پھیالیا اور‬


‫ضوفی کی طرف بڑے رومینٹک انداز‬
‫سے چلتا ھوا بوال‬

‫یہ ھی سوچے گی کہ جیجا جی اپنی‬


‫ڈیوٹی پوری کرنے لگے ہیں اور اسکے‬
‫ساتھ ھی میں ۔‬

‫میں سیدھا ضوفی کی طرف بڑھا جو ‪.‬‬


‫صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوچکی تھی‬
‫۔‬

‫میں نے ضوفی کے پاس پہنچتے ھی‬


‫اسے باہوں میں بھر لیا اور کس کے‬
‫جپھی ڈال کر اسے اوپر اٹھا کر گھمانے‬
‫لگا ضوفی نے مجھے کندھوں سے‬
‫پکڑا ھوا تھا اور چال رھی تھی چھوڑو‬
‫یاسر میں گر جاوں گی امییییییی جی‬
‫میں ضوفی کو گھماتا ھوا بیڈ کی طرف‬
‫لے گیا اور دھڑام سے اسے بیڈ پر‬
‫گرایا اور خود اسکے اوپر گرا ضوفی‬
‫میرے نیچے اور میں اسکے اوپر‬
‫میرے ھاتھ اسکی کمر کے نیچے ۔‬

‫ضوفی ہنستے ھوے میرے کندھوں پر‬


‫مکے مارتے ھوے بولی بہت شوخے‬
‫ھو تم یاسر ایک منٹ میں میری مت‬
‫مار دیتے ھو ۔۔‬

‫میں نے ہونٹ ضوفی کی گالب کی‬


‫پنکھڑیوں پر رکھے اور پنکھڑیوں کا‬
‫رس چوس کر بوال ۔‬
‫تم چیز ھی ایسی ھو ضوفی تمہیں‬
‫دیکھتے ھی بس تم میں سما جانے کو‬
‫جی چاہتا ھے ۔۔‬

‫لو یو جانی ۔‬

‫اور پھر میں نے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ‬


‫دیے اور کتنی دیر میں ضوفی کے اوپر‬
‫لیٹا ھوا اسکے ہونٹوں کا رس پیتا رھا ۔‬

‫اور ضوفی بھی مجھ سے پیچھے نہ‬


‫تھی وہ بھی برابر میں میرا ساتھ دیتے‬
‫ھوے کبھی میرا نچال ہونٹ چوستی تو‬
‫کبھی اوپر واال اور کبھی ہم دونوں کی‬
‫زبانیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ۔‬
‫ضوفی کسنگ کے دوران پاگل ھوجاتی‬
‫تھی اسکا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ میرے‬
‫ہونٹوں کو ھی کھاجاے ۔‬

‫ہم دونوں کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں‬


‫میرا لن ضوفی کی پھدی کے بلکل اوپر‬
‫تھا اور ہلکی سی تڑ کے ساتھ ضوفی‬
‫کی پھدی کو دباے ھوے تھا میرا سارا‬
‫جسم ضوفی کے نرم جسم کے ساتھ‬
‫چپکا ھوا تھا ۔۔‬

‫کچھ دیر بعد میں ضوفی کے اوپر سے‬


‫اٹھا اور بیڈ سے نیچے کھڑا ہوگیا۔‬
‫ضوفی بھی ٹانگیں اوپر کر کے بیڈ پر‬
‫سیدھی ھوکر لیٹ گئی ۔‬

‫میں نے قمیض کے بٹن کھولے اور‬


‫قمیض اتار کر صوفے پر پھینکی اور‬
‫پھر ضوفی کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا‬
‫ضوفی بلکل سیدھی لیٹی ھوئی تھی میں‬
‫سائڈ کے بل لیٹ کر ضوفی کے اوپر‬
‫جھک گیا اور اسکے سلکی ریشمی‬
‫بالوں کو سہالتے ھو اسکی جھیل سی‬
‫آنکھوں میں دیکھنے لگ گیا ۔‬

‫ضوفی کی آنکھیں سرخی مائل ہوچکی‬


‫تھیں میں ان آنکھوں کی اس سرخی میں‬
‫ڈوبتا جارھا تھا ۔‬
‫ضوفی پلکوں کو جھپکا کے بولی ۔‬

‫اب میں جاوں ۔‬

‫میں نے اسکے شربتی ہونٹوں پر انگلی‬


‫رکھی اورنفی میں سرہالتے ھوے اپنے‬
‫ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھی انگلی‬
‫کے قریب کیے‬

‫اور بڑے رومینٹک انداز سے بوال‬

‫۔ابھی تو نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬

‫میرے پہلو میں یوں ھی لیٹی رھو ابھی‬


‫رات بہت ہے‬

‫جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں تسکین ہو‬


‫کچھ تو‬

‫مت کرو جانے کی بات کہ ابھی رات‬


‫بہت ہے‬

‫کب پو پھٹے کب رات کٹے کون یہ‬


‫جانے‬

‫مت چھوڑ کے جاؤ کہ ابھی رات بہت‬


‫ہے‬

‫رہنے دو ابھی چاند سا چہرہ میرے‬


‫سامنے‬

‫اپنے شربتی ہونٹوں سے‬

‫مے اور پالؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬

‫کٹ جائے یوں ہی پیار کی باتوں میں ہر‬


‫اک پل‬

‫کچھ جاگو جگاؤ کہ ابھی رات بہت ہے‬

‫۔ضوفی نے ساتھ ھی آنکھیں بند کرلیں‬


‫اور میری غزل میں کھو گئی میں انگلی‬
‫ضوفی کے ہونٹوں سے ہٹائی تو ضوفی‬
‫کے ہونٹ کانپ رھے تھے اسکا اوپر‬
‫نیچے ھوتا ھوا سینہ اسکی تیز سانسوں‬
‫کی گواہی دے رھا تھا‬

‫اسکی دل کی دھڑکن میرے سینے پر‬


‫محسوس ہورھی تھی ۔‬

‫میں نے ہونٹوں کو ضوفی کے بند‬


‫آنکھوں کی طرف بڑھایا اور اسکی‬
‫آنکھوں کو چوم کر ہونٹ اسکے ماتھے‬
‫پر لے گیا ماتھے کو چوما تو ہونٹ‬
‫اسکی روئی سی گالوں میں پوست‬
‫ھوگئے ۔‬

‫ضوفی کے منہ سے سسکاری نکلی‬


‫آہہہہہہ سیییییی اور پلکیں اٹھیں آنکھوں‬
‫میں نشہ پھر دکھا اور میرے ہونٹ ہلے‬
‫اس شب وصل پر ایک اور شعر کہہ‬
‫دیا‬

‫گزرنے ہی نہ دوں آج یہ رات۔۔‬

‫کہو تو‬

‫رکھ دوں ھاتھ گھڑی پر‬

‫۔ضوفی نے پھر پلکوں کو واپس آنکھوں‬


‫پر بیچھا دیا۔‬

‫اور میں ضوفی کے روئی سے نرم‬


‫جسم پر سوار ہوکر نیچے سرکتا ھوا‬
‫اپنے چہرے کو ضوفی کے ابھرے‬
‫ھوے سڈول مموں پر لے آیا اور اسکے‬
‫ُکھلے گلے سے نظر آتی مموں کی‬
‫درمیانی چٹی سفید لکیر پر ہونٹ کیا‬
‫رکھے ضوفی کے جسم میں کرنٹ لگ‬
‫گیا ضوفی نے مموں کو اوپر کرتے‬
‫ھوے لمبی سیییییییی سسکاری بھری‬
‫اور مجھے کندھوں سے پکڑ کر اپنے‬
‫اوپر سے دھکا دے کے اپنے پہلو میں‬
‫گرا لیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گئی اور‬
‫اپنی قمیض پکڑ کر جلدی سے اتار کر‬
‫ایک طرف پھینک دی ۔‬

‫میری نظر جیسے ھی ضوفی دودھیا‬


‫جسم پر پڑی‬
‫اففففففففففدفففففففففففففففففففففففففف۔‬

‫کس کافر نے سانس لینا گوارہ کیا ھو ۔‬

‫آہہہہہہہہہہہہہ۔‬

‫کیا ریشم سا بدن تھا کیا بدن کی بناوٹ‬


‫تھی ظلم پر ظلم کہ گورے مموں پر‬
‫سرخ بریزئیر ۔‬

‫کون کافر بہکے نہ کون کافر جو پلکوں‬


‫کو جھپکاے ۔‬

‫میرے ہاتھ ضوفی کے مموں کی طرف‬


‫بڑھے تو ضوفی نے میرے ھاتھوں کو‬
‫وہیں روک دیا اور ہاتھوں کو پکڑ کر‬
‫واپسی کا راستہ دیکھاتے ھوے میری‬
‫بنیان پر ال رکھا۔۔‬

‫میں ضوفی کا اشارا سمجھتے ھوے اٹھا‬


‫اور بنیان پکڑ کر اتارنے لگا اور بنیان‬
‫میرے منہ اور آنکھوں کو ڈھانپ کر‬
‫میرے سر سے کیا نکلی میرے تو جسم‬
‫سے جان ھی نکل گئی۔‬

‫میری روح پرواز کر گئی ۔‬

‫۔‬
‫سارا ظلم مجھ پر ہی کیوں‬

‫رحم بھی کوئی شے ھے‬

‫ظالم نے میری روح قبض کرلی جب‬


‫میری آنکھیں ضوفی کے ننگے مموں‬
‫کی زیارت کو گئیں ۔‬

‫افففففففففففف آہہہہہہہہہہہ‬

‫کیا بتاوں یارو کیا تعریف کروں اس‬


‫سنگ مرمرکی جسے بنانے والے نے‬
‫فرصت سے بنایا تھا ۔‬

‫کہاں سے الوں وہ الفاظ جو اس کمبخت‬


‫کے حسن کی تعریف پر پورے اتر‬
‫سکیں‬

‫گالبی رنگت کے تنے ھوے گول مٹول‬


‫ممے اففففففف اور مموں پر گالبی رنگ‬
‫کے ھی چھوٹے سے تنے ھوے نپل‬

‫آہہہہہہہہہہہہہہہ۔‬

‫ممے دیکھ کر مجھے تو جو جھٹکا لگا‬


‫سو لگا میرے لن کو مجھ سے بھی ذیادہ‬
‫جھٹکا لگا اور جناب ایک ھی دفعہ میں‬
‫سب احترام بھول کر تن کر کھڑے‬
‫ھوگئے ۔۔‬
‫بنیان اتارتے ھوے بنیان نے میری‬
‫آنکھوں کے آگے پردہ کیا کیا ادھر۔‬

‫صاحب نے موقع غنیمت جانا اور مموں‬


‫سے پردہ ہٹا دیا‬

‫ھاےےےےےےے رے ظالم گھائل‬


‫کرنے کی تیری یہ ادا۔۔‬

‫۔مجھے یوں سکتے کہ عالم میں دیکھ‬


‫کر ضوفی نے دونوں مموں پر ہاتھ‬
‫رکھے اور مموں کو مٹھی میں بھر کر‬
‫زبان باہر نکال کر ہونٹوں پر پھیرتے‬
‫ھوے ۔‬
‫گھٹنوں کے بل میری طرف بڑھی‬

‫میں بھی ٹانگیں پیچھے کیے ھوےبیٹھا‬


‫ھوا تھا ۔‬

‫ضوفی اپنے دونوں مموں کو پکڑے‬


‫ہونٹوں پر زبان پھیرتے ھوے گھٹنوں‬
‫کے بل رینگتی ھوئی میرے بلکل قریب‬
‫آئی اور مموں کو چھوڑ کر میرے گلے‬
‫میں بانہیں ڈال کر ایسے غرائی جیسے‬
‫جنگلی بلی شکار کو دیکھتے ھوے‬
‫حملہ کرنے سے پہلے غراتی ھے اور‬
‫ساتھ ھی اس جنگلی بلی نے سیدھا‬
‫میرے دائیں کان پر حملہ کیا اور کان‬
‫کو منہ میں ڈال کر ہلکی سی کاٹی کی ۔‬
‫میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو‬
‫خون نہیں ۔۔۔‬

‫جیسے ھی ضوفی نے میرے کان کو‬


‫منہ میں ڈال کر ہلکا سا کاٹا اور پھر‬
‫اپنی گرم سانس کو میرے کان میں‬
‫چھوڑا۔۔‬

‫مینوں تے اینج کمبنی چھڑی جیویں‬


‫سردیاں وچ نہا کے بندا کمبدا اے۔۔۔‬

‫میرا سارا جسم کانپ گیا اور دوسرا ظلم‬


‫مجھ غریب پر یہ ھوا کہ ضوفی کے‬
‫ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ لگے‬
‫اور ننگے بازو میری گردن کے ساتھ‬
‫لگے‬

‫اففففففففففففففف مرگیا غریب دا بال۔۔۔۔۔‬

‫میرے ھاتھ کانپنے لگے میری ٹانگیں‬


‫کپکپانے لگی ضوفی نے دائیں کان کو‬
‫چھوڑا تو پھر بائیں کان کو منہ میں ڈال‬
‫کر ہلکا سا کاٹ کر گرم سانس میرے‬
‫کان میں چھوڑی تو ۔‬

‫میرا صبر جواب دے گیا ۔‬

‫میرے اندر پینڈو جاگ پڑا‬


‫میں نے ایکدم ضوفی کے مموں کو‬
‫پکڑا اور ذور سے دبا کر ضوفی کو بیڈ‬
‫پر گرا کر خود ضوفی کے اوپر چڑھ‬
‫گیا اور پاگلوں کی طرح ضوفی کے‬
‫چہرے کو چومنے لگ گیا کبھی‬
‫آنکھوں کو تو کبھی ماتھے کو تو کبھی‬
‫گالوں کو تو کبھی ہونٹوں کو تو کبھی‬
‫ٹھوڑی کو تو کبھی نیگ کو تو کبھی‬
‫کانوں کی لو کو ۔۔‬

‫ضوفی میرا پاگل پن دیکھ کر خود بھی‬


‫پاگل ھوگئی اور وہ بھی میرے چہرے‬
‫کو جگہ جگہ سے چومنے لگ گئی ۔۔‬

‫میں کھسکتا ھوا ضوفی کے اوپر لیٹ‬


‫چکا تھا میرا تنا ھوا لن ضوفی کے‬
‫چڈوں میں گھس چکا تھا ۔‬

‫ضوفی بھی اپنی رانوں کو آپس میں‬


‫بھینچ کر میرے لن کو جکڑ رھی تھی‬
‫اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے‬
‫ساتھ مسل رھی تھی ۔‬

‫میں بھی ایسے ھی گھسے ماری جارھا‬


‫تھا ۔۔۔‬

‫ضوفی کا جوش بڑھتا جارھا تھا ضوفی‬


‫نے میرے اوپر والے ہونٹ کو منہ میں‬
‫ڈال لیا اور بڑے ذور سے چوستے‬
‫ھوے گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کو لن کے‬
‫ساتھ رگڑ رھی تھی اور ضوفی کے‬
‫ننگے ممے میرے سینے کے ساتھ‬
‫چپکے ھوے تھے میں بھی اپنے آپ‬
‫سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ادھر ضوفی‬
‫کے گانڈ اٹھانے کی سپیڈ تیز ھوئی‬
‫ادھر میرے گھسوں کی بھی سپیڈ تیز‬
‫ھوگئی ضوفی نے یکلخت میرے ہونٹ‬
‫کو دانتوں کے بیچ لے کر پورے زور‬
‫سے کاٹ لیا میں نے پورے ذور سے‬
‫ضوفی کے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں‬
‫لے کر کاٹ لیا ضوفی کے ناخن میری‬
‫کمر میں پوست ھوتے گئے میرے‬
‫بازوں کی گرفت اسکی کمر کے گرد‬
‫سخت ھوتی گئی ادھر ضوفی کا جسم‬
‫اکڑا ادھر میری ٹانگوں سے جان نکلی‬
‫ادھر ضوفی کے جسم نے جھٹکے‬
‫کھاتے ھوے پھدی سے منی شلوار نکلنا‬
‫شروع ہوئی ادھر میرے لن سے منی‬
‫کی پھوار شلوار میں ھی نکلنا شروع‬
‫ھوئی‬

‫دونوں کے جسم ایک دوسرے میں‬


‫سمانے کی کوشش کرتے ھوے کانپے‬
‫لگے‬

‫دونوں کے ہونٹ زخمی ہوگئے میری‬


‫کمر کو ضوفی کے ناخنوں نے چھیل‬
‫ڈاال ۔‬

‫لن اور پھدی کی برسات تھمی دونوں کہ‬


‫جسم ایک دوسرے پر بےجان ھوکر‬
‫گرے دونوں کی تیز چلتی سانسیں ایک‬
‫دوسرے کے اندر پہنچی ۔‬

‫کچھ دیر بعد دونوں کو ہوش تب آیا جب‬


‫ایک دوسرے کےخون کا ذائقہ منہ میں‬
‫آیا ۔‬

‫پھر نظروں سے نظریں چرا کر‬


‫جھٹکے سے الگ ھوے اور پھر ۔۔۔۔۔۔‬

‫دونوں شرمسار ہوکر ایک دوسرے کی ‪.‬‬


‫طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئے ۔‬
‫کچھ دیر خاموشی سے گزری ۔‬

‫آخر کار میں نے ہمت کر کے کروٹ لی‬


‫تو ضوفی بریزیر پہن کر دونوں بازو‬
‫مموں پر رکھ کر سمٹ کر دوسری‬
‫طرف لیٹی ھوئی تھی ۔‬

‫میرے منہ میں خون کا ذائقہ اب بھی‬


‫آرھا تھا میں نے ہونٹوں پر ہاتھ لگا کر‬
‫ہاتھ کو دیکھا تو میری انگلیوں پر خون‬
‫لگ گیا ۔‬

‫اور میرے نچلے ہونٹ پر شدید جلن کا‬


‫احساس بھی ھوا‬
‫میں نے ہاتھ بڑھا کر ضوفی کے بازو‬
‫کو چھونا چاھا مگر مجھ میں ہمت نہ‬
‫ھوئی میں نے ہاتھ راستے میں سے ھی‬
‫واپس کھینچ لیا ۔‬

‫اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی گیلی شلوار‬


‫کو دیکھنے لگ گیا میرا لن بھی سکڑ‬
‫چکا تھا۔‬

‫میں کچھ دیر ایسے ھی بیٹھا رھا کہ‬


‫مجھے اپنی کمر پر ضوفی کا ھاتھ‬
‫سرکتا ھوا محسوس ھوا میں نے گردن‬
‫گھما کر دیکھا تو ضوفی سیدھی ھوکر‬
‫میری کمر کو سہال رھی تھی ۔‬
‫اور ضوفی کے اوپر والے ہونٹ سے‬
‫بھی خون رس رھا تھا ۔۔‬

‫میں ضوفی کے ہونٹ کو دیکھ کر‬


‫چونکہ اور جلدی سے ضوفی کی طرف‬
‫منہ کر کے بیٹھتے ھوے اسکے ہونٹ‬
‫کو انگلی سے چھوتے ھوے ۔‬

‫کہا یہ کیا ھوا ضوفی ۔۔‬

‫میری انگلی لگتے ھی ضوفی نے سیییی‬


‫کیا اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے میرے ہونٹ پر انگلی رکھتے‬
‫ھوے کہا ۔۔‬
‫سوری یاسر مجھے پتہ نہیں چال ۔۔‬

‫میں نے کہا سوری تو مجھے بولنا‬


‫چاھیے کہ تمہارے نازک ہونٹ کو‬
‫زخمی کردیا ۔۔‬

‫ضوفی مسکراتے ھوے بولی زخمی تو‬


‫میں نے کیا تھا تم نے تو بدلہ لیا ھے ۔‬

‫میں نے سر جھکا کر کہا ۔‬

‫ضوفی آج جو کچھ بھی ھوا اچھا نہیں‬


‫ھوا ۔‬

‫پتہ نہیں مجھے کیا ھوگیا تھا ۔‬


‫تمہارے جسم میں کشش ھی اتنی ہے کہ‬
‫میں خود سے کنٹرول کھو بیٹھا تھا ۔۔‬

‫ضوفی بولی ۔‬

‫یاسر مجھے شرمندہ مت کرو اصل‬


‫قصور تو میرا ھے ۔‬

‫میں خود بہک گئی تھی پتہ نہیں کیوں‬


‫تمہیں دیکھتے ھی مجھ پر نشہ سا سوار‬
‫ھو جاتا ھے اور دل کرتا ھے کہ تم میں‬
‫سما جاوں ۔۔‬

‫میں نے کہا میری جان میرا بھی یہ ھی‬


‫حال ھے ۔‬

‫مگر پلیز ہمیں خود پر کنٹرول کرنا‬


‫چاھیے ۔۔‬

‫ضوفی بولی ایسا بھی کچھ نہیں ھوا جو‬


‫تم اتنا گبھرا گئے ھو ۔۔‬

‫میں نے اپنی گیلی شلوار ضوفی کو‬


‫دیکھاتے ھوے کہا ۔‬

‫یہ دیکھو کیا ھوا ھے ۔۔‬

‫ضوفی میری گیلی شلوار دیکھ کر‬


‫ہنستے ھوے بولی ۔‬
‫افففففف تم بھی نہ اتنی جلدی گیلے‬
‫ھوگئے ۔۔‬

‫میں نے ضوفی کی پھدی والے حصہ‬


‫سے شلوار کو پکڑ کر کہا ۔‬

‫جان جی میں اکیال نہیں اپنی بھی شلوار‬


‫ذرہ دیکھو۔۔۔‬

‫ضوفی کی شلوار پکڑتے ھوے میری‬


‫انگلیاں ضوفی کی پھدی کے ساتھ ٹچ‬
‫ھوئیں تو مجھے ایکدم جھٹکا لگا اور‬
‫ساتھ میں ضوفی کا جسم بھی کانپا ۔‬
‫اور میری بات سن کر ضوفی شرمندہ‬
‫سی ہوگئی اور جلدی سے ٹانگوں کو‬
‫اکھٹا کر کے گیلی شلوار کو رانوں کے‬
‫بیچ کر لیا ۔۔‬

‫اور بولی نہیں جی یہ بھی تم نے ھی‬


‫گیال کیا ھے‬
‫ضوفی کا اوپر واال حصہ اب بھی ننگا‬
‫ھی تھا بس مموں پر بریزیر ھی تھا ۔۔‬

‫میں نے جلدی سے ہاتھ آگے کیا اور‬


‫ضوفی کا گھٹنا پکڑ کر اسکی ٹانگوں‬
‫کو کھولنے کی کوشش کرتے ھوے بوال‬
‫اب چھپا کیوں رھی ھو ۔‬
‫ضوفی نے اور ذور سے ٹانگوں کو آپس‬
‫میں مال لیا اور ہنستے ھوے بولی ۔‬

‫نہہہہی کرو بتمیز چھوڑو مجھے ۔‬

‫میں نے بھی ذور آزمائی شروع کردی‬


‫ضوفی ہنسی جارھی تھی اور ٹانگوں کو‬
‫کبھی دائیں طرف کرتی تو کبھی بائیں‬
‫طرف اور ساتھ ساتھ کہے جارھی تھی‬
‫چھوڑو یاسر نہ کرو پلیززززز امیییییی‬
‫جییییی‬

‫یاسر پلیزززز میں جان بوجھ کر ہلکا سا‬


‫زور لگا رھا تھا اور ضوفی کی ٹانگیں‬
‫کھولنے کی کوشش کرتے ھوے کہہ‬
‫رھا تھا اب دیکھنے تو دو مجھے کہ‬
‫میں نے گیال کیا ھے یا تم خود گیلی‬
‫ھوگئی ھو۔۔۔‬

‫ضوفی بھی پوری زور ازمائی کرتے‬


‫ھوے ٹانگوں کو بھینچ کررکھےھوے‬
‫تھی اور ہاتھوں سے میرے ھاتھ پیچھے‬
‫کررھی تھی کچھ دیر ہم یوں ھی ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ زور آزمائی کرتے‬
‫رھے ۔‬

‫اور پھر ضوفی نے ہار مانتے ھوے کہا‬


‫اچھا چھوڑو میں خود دیکھاتی ھوں ۔۔‬

‫میں نے جیسے ھی ضوفی کی ٹانگوں‬


‫کو چھوڑا تو ضوفی اٹھ کر بیٹھ گئی اور‬
‫پھر تیزی سے اٹھ کر بھاگنے لگی تو‬
‫میں نے پیچھے سے ھی ضوفی کی کمر‬
‫میں بازو ڈال کر ھاتھ اسکے ننگے پیٹ‬
‫پر لیجا کر اسکو کس کے پکڑتے ھوے‬
‫قابو کرلیا اور ساتھ ھی اسکو کھینچ کر‬
‫اپنے اوپر التے ھوے میں بھی پیچھے‬
‫کی طرف لیٹ گیا ۔۔‬

‫اب میں بلکل سیدھا لیٹا ھوا تھا اور‬


‫ضوفی میرے اوپر کمر کے بل چھت‬
‫کی طرف منہ کیے ھوے لیٹی تھی اور‬
‫میرے ھاتھ اسکے ننگے پیٹ پر تھے‬
‫اور ضوفی کی گانڈ میرے لن پر تھی ۔۔‬
‫اور اسکی ٹانگیں میری ٹانگوں کے‬
‫اوپر بلکل سیدھی تھیں ۔‬

‫ضوفی ہنستے ھوے میرے ھاتھوں کو‬


‫پکڑ کر اپنے پیٹ سے ہٹا کر میری‬
‫گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے‬
‫لگی ۔‬

‫میں نےاپنی گرفت کو اسکے نازک سے‬


‫پیٹ پر مذید کستے ھوے کہا‬

‫جھوٹی مجھے چکما دے کر بھاگنے‬


‫لگی تھی ۔‬

‫اور ساتھ ھی میں نے انگلیوں سے‬


‫ضوفی کے پیٹ پر گدگدی شروع کردی‬
‫۔‬

‫ضوفی نے ذوردار چیخ ماری اور‬


‫کھلکھال کر ہنستے ھوے بولی نننننننہ‬
‫کرو یاسرررررر کے بچے‪.‬‬
‫آےےےےےےےے ےےےےےے‬
‫امییییییی جیییییی‬

‫میں نے کہا اب بتاو بھاگو گی ضوفی‬


‫بولی نہیں بھاگتی پلیزززززز یاسر‪ .‬نہ‬
‫کرو میری پھرچیخ نکل جانی ھے ۔ ۔‬

‫میں نے کہا تم نے پھر بھاگ جانا ھے‬


‫اور میں ساتھ ساتھ ضوفی کے پیٹ پر‬
‫گدگدی بھی کری جارھا تھا ۔‬

‫ضوفی کا ہنس ہنس کے برا حال ھورھا‬


‫تھا اور ساتھ ساتھ وہ ٹانگوں کو ہوا میں‬
‫اٹھا کر ٹانگوں سے سائکل چال کر‬
‫ہاتھوں سے میرے ہاتھ پکڑ کر زور لگا‬
‫کر میری گرفت سے نکلنے کی کوشش‬
‫بھی کر رھی تھی ۔‬

‫جب ضوفی تھک گئی تو آخری حربہ‬


‫استعمال کرتے ھوے بولی ۔‬

‫یاسر تمہیں میری قسم چھوڑ دو نہیں‬


‫بھاگتی ۔۔‬
‫ضوفی کے منہ سے قسم نکلتے ھی میں‬
‫نے ھاتھ اسکے پیٹ سے الگ کرلیے ۔‬

‫ضوفی اسی حالت میں منہ چھت کی‬


‫طرف کرکے ٹانگیں میری ٹانگوں کے‬
‫اوپر کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگ‬
‫گئی ۔‬

‫اور ساتھ میں اففففف کرتے ھوے بولی‬


‫بہت ببدمعاش ھو تم یاسر بہت تنگ‬
‫کرتے ھو ۔۔۔‬

‫میری جان نکلنے والی ھوگئی تھی ۔۔‬

‫میں نے ہاتھ دوبارا اسکے پیٹ پر رکھ‬


‫کر انگلیوں سے پیانو بجاتا ھوا ہاتھ کو‬
‫اسکے مموں کے اوپر لے آیا اور‬
‫بریزیر کے اوپر سے ھے اسکے مموں‬
‫کو پکڑ کو دباتے ھوے بوال ۔‬

‫تنگ تو تم کرتی ھو پہلے ھی آرام سے‬


‫دیکھا دیتی ۔۔‬

‫ضوفی کے منہ سے ایکدم سسکاری‬


‫نکلی اور اس نے میرے ھاتھوں کے‬
‫اوپر ھی اپنے ہاتھ رکھے اور بولی کیا‬
‫دیکھنا ھے ۔‬

‫میں نے ضوفی کے کان کی لو پر زبان‬


‫پھیرتے ھوے ایکدم ھاتھ نیچے لیجا کر‬
‫اسکی گیلی شلوار پر رکھ کر انگلیوں کو‬
‫دباتے ھوے ضوفی کی پھدی کو سہال‬
‫دیا ۔۔‬

‫ضوفی کو ایک ھی وقت میں دو جگہ‬


‫سے مزہ مال ایک کان کی لو سے دوسرا‬
‫پھدی پر پہلے مرد کے ہاتھ کے لمس کا۔‬

‫ضوفی نے جلدی سے پھدی پر رکھے‬


‫میرے ھاتھ کے اوپر ہاتھ رکھا اور‬
‫ٹانگوں کو اوپر کر کے آپس میں بھینچ‬
‫لیا اور کان کی لو کو سر ایک طرف کر‬
‫کے میرے منہ سے دور کرتے ھو ے‬
‫کانپتے جسم کے ساتھ سییییییییءیی کیا‬
‫ضوفی کی سی نے میرے اندر جوش‬
‫پیدا کردیا اور میں نے اسکی ٹانگوں‬
‫کے بیچ پھنسے ھاتھ کی انگلیوں کو‬
‫مزید پھدی پر دبا دیا گیلی شلوار کی‬
‫وجہ سے مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ‬
‫جیسے ضوفی کی پھدی بلکل ننگی‬
‫میرے ہاتھ کے نیچے ھے ۔‬

‫اور دوسرا ھاتھ میرا ضوفی کے ممے‬


‫پر تھا ۔۔‬

‫اورضوفی کی نرم مولٹی فوم جیسی گانڈ‬


‫کا لمس پاتے ھی میرا لن بھی انگڑائیاں‬
‫لینے پر مجبور ھوگیا ۔‬

‫ضوفی کا سر میرے کندھے سے لڑھک‬


‫چکا تھا اور اسکا ایک کان میرےمنہ‬
‫کے پاس تھا اور ضوفی سر پیچھے‬
‫لڑھکاے چھت کی طرف آنکھیں بند کے‬
‫سسکاریاں بھری جارھی تھی ۔‬

‫اور میری انگلیاں پھدی کو مسلنے اور‬


‫ایک ھاتھ ممےکو مسلنے اور میری‬
‫زبان ضوفی‬

‫کے کان کی لو کو چھیڑتے ھوے اور‬


‫لن نیچے گانڈ کی دراڑ میں گھسنے کی‬
‫کوشش کرے جارھا تھا ۔۔‬

‫کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا کہ‬


‫اچانک ضوفی کا جسم پھر اکڑا اسکی‬
‫سسکاریاں پورے کمرے میں گونجنے‬
‫لگیں اور ضوفی نے ایک ھاتھ پیچھے‬
‫لیجاکر میرے سر کے بالوں کو مٹھی‬
‫میں بھرا اور ایک چیخ مارتے ھوے‬
‫میرے بالوں کو کھینچتے ھوے ۔‬

‫پھر پھدی سےگرم گرم منی کا اخراج‬


‫کرتے ھوے میری انگلیوں کو مذید گیال‬
‫کرنے لگ گئی ۔‬

‫ضوفی کا جسم جھٹکے کھانے کے بعد‬


‫ڈھیال ھوا اور بےجان ھوکر میرے اوپر‬
‫ھی ڈھے گئی ۔‬

‫جبکہ میرالن فل ٹائٹ ھوکر ضوفی کی‬


‫گانڈ کی دراڑ میں گھسا ھوا تھا ۔۔‬

‫اس سے پہلے کہ ہم سنبھلتے یا اگال قدم‬


‫اٹھاتےکہ اچانک کمرے کا دروازہ ذور‬
‫ذور سے بجنے لگ گیا ۔۔‬

‫ہم دونوں ایسے ایک دوسرے سے الگ‬


‫ھوے جیسے کتا گیینڈ چھڑوا کر بھاگتا‬
‫ھے ۔۔‬
‫ہم دونوں کے رنگ اڑ گئے کہ اس ‪.‬‬
‫وقت یوں اچانک کون آگیا۔۔۔۔۔‬

‫ضوفی جھٹکے سے میرے اوپر سے ‪.‬‬


‫ہٹ کر ایک طرف لڑھک کر گری اور‬
‫میں نے بھی جلدی سے اپنے کپڑوں‬
‫کی طرف ھاتھ بڑھایا اتنے میں دروازہ‬
‫پھر زور زور سے بجایا جانے لگا ۔‬

‫ضوفی نے بریزیر اٹھا کر بیڈ کے‬


‫نیچے پھینکا اور قمیض پہنتے ھوے‬
‫کانپتی اور تلخ آواز میں پوچھا کون ھے‬
‫۔۔۔‬

‫دوسری طرف سے ماہی کی گبھرائی‬


‫ہوئی آواز آئی آپی مما کو پتہ نہیں کیا‬
‫ھوگیا ھے دروازہ کھولی ماہی کی آواز‬
‫روہانسی تھی ۔‬

‫ماہی کی بات سنتے ھی میں اور ضوفی‬


‫گبھرا گئے اور جلدی سے اپنے اپنے‬
‫کپڑے پہنے اور ضوفی نے بھاگ کر‬
‫دروزہ کھوال۔‬

‫تو ماہی کھڑی روے جارھی تھی ۔میں‬


‫بھی بیڈ سے چھالنگ لگا کر دروازے‬
‫کی طرف بھاگا ۔‬

‫ماہی مذید کچھ کہے نیچے بھاگ گئی‬


‫اسکے پیچھے ضوفی اور میں تیزتیز‬
‫سیڑیاں اترتے ھوے آنٹی کے کمرے‬
‫میں پہنچے تو آنٹی چارپائی پر بے‬
‫ہوش پڑی ھوئی تھی ۔۔‬

‫ضوفی بھاگ کر آنٹی کے پاس پینچی‬


‫اور امی امی کہہ کر آنٹی کو ہالنے لگ‬
‫گئی ۔۔‬

‫میں بھی آنٹی کے پاس پہنچا اور آنٹی‬


‫کی ناک کے پاس ہاتھ کیا تو آنٹی کی‬
‫سانس چل رھی تھی ۔‬

‫میں نے ضوفی کو کہا حوصلہ کرو یار‬


‫کچھ نہی ھوا آنٹی کو تم دوسری طرف‬
‫جاکر آنٹی کی ہتھیلی کو ملو یہ کہتے‬
‫ھوے میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور‬
‫ہتھیلی پر تیز تیز مالش کرنے لگ گیا‬
‫میں نے ماہی کو کہا ماہی جلدی سے‬
‫پانی الو ۔۔‬
‫ماہی کچن کی طرف بھاگی آنٹی کا جسم‬
‫برف کی مانند ٹھنڈا ھوگیا تھا ۔۔‬

‫ضوفی اور میں آنٹی کی ہتھیلیوں پر‬


‫مالش کررھے تھے ۔‬

‫ماہی پانی لے کر آئی تو میں نے پانی‬


‫کا گالس پکڑ کر اسے آنٹی کے پاوں پر‬
‫مالش کرنے کا کہا ۔‬

‫اور میں آنٹی کے منہ پر پانی کے‬


‫چھینٹے مارنے لگ گیا ۔‬

‫کچھ دیر بعد آنٹی نے آنکھیں کھولنا‬


‫شروع کردیں ۔‬
‫ہم سب نے شکر ادا کیا اور میں آنٹی‬
‫کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ھوے آنٹی‬
‫سے بات کرنے لگ گیا ۔۔‬

‫ضوفی آنٹی کے بازو اور ماہی آنٹی کی‬


‫ٹانگیں دبانے میں لگی تھیں ۔‬

‫کچھ دیر بعد آنٹی کی طبعیت کافی بہتر‬


‫ھوگئی ۔‬

‫آنٹی نے بتایا کہ انکا بلڈ پریشر لو ہوگیا‬


‫تھا ۔۔‬

‫پیشاب کرنے کے لیے اٹھی تو چکرا‬


‫کر گرگئی یہ تو شکر ھے کہ ماہی‬
‫کمرے میں ھی تھی اور جاگ رھی تھی‬
‫۔۔‬

‫میں نے ضوفی کو کہا کہ میں رکشہ‬


‫لے کر آتا ھوں ۔‬

‫میں اٹھنے لگا تو آنٹی نے میرا بازو‬


‫پکڑ لیا اور بولیں کہ نہیں بیٹا میں اب‬
‫بلکل ٹھیک ھوں جیتے رھو ۔۔‬

‫میں نے کافی دفعہ کہا کہ ہسپتال ایک‬


‫دفعہ چیک کروا آتے ہیں ۔‬

‫مگر آنٹی نہ مانی اور ویسے بھی بارہ‬


‫ایک بج چکا تھا اس وقت کونسا ڈاکٹر‬
‫ملنا تھا ۔‬

‫کچھ دیر مذید ہم بیٹھے باتیں کرتے‬


‫رھے ۔‬

‫ضوفی نے آنٹی کو بتایا کہ یاسر کو ہم‬


‫نے منالیا ھے دکان کے لیے آنٹی بہت‬
‫خوش ہوئیں ۔‬

‫اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیتی‬


‫رہیں ۔۔‬

‫پھر آنٹی بولی جاو تم لوگ سوجاو صبح‬


‫دکان پر بھی جانا ھے مجھے بھی نیند‬
‫آرھی ھے اور میری طبعیت اب بلکل‬
‫ٹھیک ھے ۔۔‬

‫ماہی بولی آپی آپ بیٹھک میں سوجائیں‬


‫بھائی اوپر سوجاے گا ۔‬

‫اور میں امی کے پاس ھی لیٹ جاتی‬


‫ہوں ۔۔‬

‫ماہی ہم دونوں سے بات کرتے ھوے‬


‫چونک کر کبھی ضوفی کے ہونٹ کی‬
‫طرف دیکھتی تو کبھی میرے ہونٹ کی‬
‫طرف ۔‬

‫ہم دونوں کو بھی اسکے چونکنے کا‬


‫اندازہ ھوچکا تھا اس لیے میں اور‬
‫ضوفی بہانے سے کبھی چہرہ دوسری‬
‫طرف کرتے تو کبھی بہانے سے ہاتھ‬
‫ہونٹوں پر رکھ لیتے ۔‬

‫ماہی ہمیں سونے کی جگہ بتاتے ھوے‬


‫میری طرف دیکھ کر بولی ٹھیک ھے‬
‫نہ بھائی آپ کو اوپر نیند آجاے گی‬
‫ناں۔اااااا‬

‫ماہی کی ناااااں کو لمبا کرنا اور‬


‫شرارتی انداز ۔‬

‫میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کیوں کہہ رھی‬


‫ھے ۔کیونکہ ضوفی کو نیچے سونے کا‬
‫جو کہا ھے ۔۔‬

‫میں نے شرمندہ سا ھوکر کہا ہہہہہااں‬


‫ہاں میں سوجاوں گا ڈونٹ ویری ۔‬

‫اور اسکے ساتھ ھی‬

‫میں اٹھا اور ایک دفعہ پھر آنٹی کے‬


‫ماتھے پر ہاتھ پھیر کر انکی خیریت‬
‫دریافت کی اور انکے ماتھے کا بوسا‬
‫لیا۔۔‬

‫نجانے کیوں آنٹی سے مجھے ممتا کی‬


‫خوشبو آتی تھی ۔‬
‫آنٹی تھی بھی بڑی نرم دل اورمحبت‬
‫کرنے والی مجھے دیکھ کر انکر چہرہ‬
‫ایسے کھل جاتا جیسے میں انکا اصلی‬
‫بیٹا ھوں ۔‬

‫اور آنٹی سے مل کر مجھے لگتا جیسے‬


‫آنٹی میری سگی ماں ہیں ۔۔۔‬

‫خیر۔‬

‫میں کمرے سے نکال اور سیڑھیاں‬


‫چڑھتا ھوا اوپر کمرے میں چال گیا اور‬
‫دروازہ ویسے ھی بند کردیا الک نہ کیا‬
‫۔‬
‫اور سیدھا اٹیچ واش روم میں چال گیا‬
‫اور کپڑے اتار کر پہلے شلوار کو‬
‫اچھی طرح صابن سے دھویا اور پھر‬
‫نہا کر قمیض پہنی اور شلوار کو ویسے‬
‫ھی ہاتھ میں پکڑے باہر آگیا۔۔‬

‫واش روم سے باہر نکلتے ھوے میری‬


‫نظر بیڈ کے نیچے جھکی ضوفی پر‬
‫پڑی ۔‬

‫وہ گھٹنوں کے بل گانڈ پیچھے کیے‬


‫ھوے بیڈ کے نیچے ہاتھ مار کر کچھ‬
‫تالش کررھی تھی ۔۔‬

‫واش روم کا درواز کھلنے کی آواز سے‬


‫ضوفی بھی چونک کر میری طرف‬
‫دیکھنے لگ گئی ۔۔‬

‫میں قمیض پہنے شلوار ہاتھ میں پکڑے‬


‫باہر آگیا ۔‬

‫اور مسکرا کر ضوفی کی طرف‬


‫دیکھتے ہوے بوال کیا تالش کررھی ھو‬
‫۔۔‬

‫ضوفی بولی ووووہ میرا ۔۔۔۔۔‬

‫میں نے کہا کیا تمہاراااا۔‬

‫ضوفی شرمندہ سی ھوکر مجھے جواب‬


‫دینے کی بجاے ۔پھر نیچے سر کرکے‬
‫جھکی اور بازو بیڈ کے نیچے گھسا کر‬
‫کچھ پکڑنے کی کوشش کرنے لگی ۔‬

‫مگر شاید وہ اسکے ہاتھ کی پہنچ سے‬


‫دور تھا ۔۔‬

‫میں ضوفی کے قریب آیا اور پاوں کے‬


‫بل بیٹھ گیا اور شلوار بیڈ پر رکھ کر‬
‫اسکو کہا پیچھے ہٹو میں نکال دیتا ھوں‬
‫۔۔‬

‫ضوفی بولی ننننہیں رہنے دو میں صبح‬


‫نکال لوں گی ۔۔‬
‫میں نے شرارت سے کہا کیاااااا‬

‫ضوفی مجھے دھکا مارتے ھوے بولی‬


‫۔۔‬

‫تم اتنے چوچچچچے کیوں بنتے ھو ۔‬

‫جیسے کسی چیز کا پتہ نہ ھو ۔۔‬

‫میں پہلے ھی پنجوں کے بل ضوفی‬


‫کے سامنے بیٹھا ھوا تھا ۔‬

‫ضوفی نے جب مجھے دھکا دیا تو میں‬


‫توازن برقرار نہ رکھ سکا اور باہیں‬
‫‪.‬پھالتا ھوا پیچھے جاگرا‬
‫گرتے وقت میری قمیض آگے سے اوپر‬
‫ہوگئی اور میری ناف سے پیروں تک‬
‫کا حصہ ننگا ھوگیا ۔۔‬

‫ضوفی کی نظر جیسے ھی میرے لن پر‬


‫پڑی تو ضوفی نے جلدی سے دونوں‬
‫ھاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور کھڑی‬
‫ھوکر منہ دوسری طرف کر کے کھڑی‬
‫ھوگئی ۔۔‬

‫میں ویسے ھی سٹیچو کی طرح ٹانگیں‬


‫اوپر کو کھولے اور بازوں چھت کی‬
‫طرف کیے لیٹا ھوا تھا ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف دیکھتے‬
‫ھوے کہا‬

‫بڑی ظالم ھو ایک تمہاری مدد کرو‬


‫اوپر سے دھکے بھی کھاو ۔‬

‫اور دھکا دے کر اٹھانے کی بجاے منہ‬


‫مروڑ کر کھڑی ھوگئی ھو ۔۔‬

‫ضوفی دوسری طرف منہ کر کے ھی‬


‫بولی ۔‬

‫بہت ڈرامے باز ھو اتنی ذور سے تو‬


‫نہیں میں نے دھکا دیا تھا جتنی تیزی‬
‫سے تم گرے ھو۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی طرف باہیں پھیال کر‬
‫کہا اچھا اب اٹھا تو دویار۔۔‬

‫ضوفی بولی میں نے نہیں اٹھانا بےشرم‬


‫کمرے میں بھی ننگے پھر رھے ھو‬
‫دروازہ تو الک کرلیتے ۔۔۔‬

‫میں ھاےےےےے کرتا ھوا نیچے سے‬


‫اٹھا اور بوال دروازہ کھال تو تمہارے‬
‫لیے چھوڑا تھا مجھے پتہ تھا کہ تم آو‬
‫گی ۔‬

‫اگر دروازہ بند ھوتا تو تم نے دروازے‬


‫سے ہی پلٹ جانا تھا ۔۔‬
‫ضوفی بولی کیوں جی مجھے کمرے‬
‫میں بلوا کر کیا کرنا تھا اب میں اٹھ کر‬
‫کھڑے ھوتے ھوے بوال ادھورا کام‬
‫مکمل کرنا تھا۔۔‬

‫ضوفی گھوم کر میری طرف دیکھ کر‬


‫مصنوعی غصے سے بولی ۔‬

‫کیڑا ادھورا کممممممم‬

‫میں نے باہیں ضوفی کی طرف پھیالئیں‬


‫اور اسکی طرف سلو موشن میں‬
‫چلتاھوا بوال۔‬
‫بتاتا ھوں جان من ۔۔‬

‫ضوفی پلٹ کر دروازے کی طرف‬


‫بھاگنے لگی تو میں سلوموشن میں چلتا‬
‫ھوا بجلی کی سی تیزی سے بھاگا اور‬
‫ضوفی کو پیچھے سے جپھی ڈال لی‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی ۔‬

‫چھوڑو مجھے بدمعاش کہیں کے ۔۔‬

‫میں نے کہا ۔‬

‫ایسا موقع کون سا جلدی نصیب ھوتا‬


‫ھے ۔‬
‫ضوفی بولی نصیب کے بچے دروازہ‬
‫تو بند کرنے دو ۔‬

‫میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو‬


‫واقعی دروازہ کھال ھوا تھا میں نے‬
‫جلدی سے ضوفی کو چھوڑا ضوفی‬
‫آہستہ آہستہ چلتی ھوئی دروازے کی‬
‫طرف بڑھی میں ادھر ھی کھڑا اسے‬
‫دروازے کی طرف جاتے دیکھ رھا تھا‬
‫ضوفی دروازے کے پاس پہنچی اور‬
‫ہینڈل کو پکڑ کر میری طرف دیکھ کر‬
‫مسکرائی اور ہاتھ اوپر کر کے ٹا ٹا ٹا‬
‫کر کے جلدی سے باہر نکلی اور‬
‫سیڑھیاں اترتی ھوئی نیچے بھاگ گئی ۔‬
‫اور میں وہیں بت بنا اسے جاتا دیکھتا‬
‫رھا۔۔۔‬

‫کچھ دیر بعد میں مایوسی سے چلتا ھوا‬


‫دروازے کے پاس گیا اور دروازہ‬
‫ویسے ھی بند کر کے بیڈ کے پاس پہنچ‬
‫کر بیڈ پر اپنے آپ کو گرا دیا ۔‬

‫کافی دیر میں ایسے ھی لیٹا سوچوں‬


‫میں گم رھا پھر اٹھ کر شلوار پہنی اور‬
‫اچھے بچے کی طرح چپ کر کے لیٹ‬
‫گیا۔۔۔۔‬

‫صبح مجھے ضوفی نے اٹھایا کہ جلدی‬


‫اٹھ جاو ٹائم دیکھو کتنا ھوگیا ۔۔‬
‫میں نے انگڑائی لیتے ھوے آنکھیں‬
‫کھولیں تو ضوفی میرے اوپر جھکی‬
‫ہوئی تھی اور اسکے گیلے بالوں سے‬
‫پانی کی بوندیں میرے منہ پر گررہیں‬
‫تھیں ۔‬

‫میں نے آنکھوں کو پورا کھوال اور‬


‫انگڑائی کے لیے اٹھے بازوں کو‬
‫ضوفی کی گردن میں ڈال کر اسکے‬
‫کھلتے گالب جیسے چہرے کو اپنے‬
‫ہونٹوں کے قریب کیا اور اسکی ہونٹوں‬
‫پر کس کی اور بوال رات کو مجھے‬
‫بیوقوف بنا کر بھاگ گئی تھی نہ ۔‬
‫کوئی گل نئی۔۔‬

‫ضوفی نے میرے ہونٹوں کو چوما ۔‬

‫ضوفی کا ہونٹ اب بھی ہلکا سا سوجا‬


‫ھوا تھا ۔‬

‫ضوفی اپنے ہونٹ پر انگلی سے مساج‬


‫کرتے ھوے بولی ۔‬

‫ظالم یہ دیکھو تم نے رات کو کتنا برا‬


‫کاٹا تھا ۔‬

‫ماہی نے دو تین دفعہ مجھے پوچھا ھے‬


‫کہ ہونٹ پر کیا ھوا ھے ۔۔‬
‫میں نے اپنے نچلے ہونٹ کو باہر نکال‬
‫کر کہا یہ دیکھو تم نے کونسا مجھے‬
‫بخشا تھا۔۔‬

‫ضوفی میرے ہونٹ کو انگلی سے‬


‫سہالتے ھوے سوری بولنے لگی ۔‬

‫میں نے اسکی گردن کو مزید نیچے‬


‫کرتےھوے کہا خالی سوری سے کام‬
‫نہیں چلنا‬

‫زخم دیا ھے تو اس پر ملہم لگا کر‬


‫عالج بھی کردو۔‬
‫ضوفی نے اپنی گالب کی پنکھڑیوں کو‬
‫پنکھڑیوں کا‬
‫ً‬ ‫میرے ہونٹ پر رکھ کر‬
‫عرق لگایا اور بولی بس اور میں نے‬
‫سر اٹھا کر اسکے ہونٹ کو چوما اور‬
‫اسکی گردن سے بازو نکال لیے ۔‬

‫تو ضوفی سیدھی ھوکر گیلے بالوں کو‬


‫دونوں ھاتھوں سے جھٹک کر پیچھے‬
‫کرتے ھوے بولی اب اٹھ کر فریش‬
‫ھوجاو میں ناشتہ لگاتی ھوں اور یہ‬
‫کہتی ھوئی ضوفی کمرے سے باہر‬
‫چلی گئی اور میں لیٹا لمبے لمبے سانس‬
‫کھینچ کر اسکے گیلے جسم اور گیلے‬
‫بالوں سے اٹھتی دھیمی دھیمی مہک کو‬
‫اپنے اندر کھینچتا رھا ۔۔ی‬
‫اور پھر اٹھا اور نہا کر فریش ھوا اور‬
‫نیچے چال گیا اور کچھ دیر آنٹی کے‬
‫پاس بیٹھا انکی طبعیت کے بارے میں‬
‫پوچھتا رھا ۔‬

‫اور پھر ماہی نے ناشتہ کرنے کا کہا‬


‫میں اٹھ کر باہر ٹی وی الونج میں آگیا‬
‫اور پھر ہم نے ناشتہ کیا اور کچھ ھی‬
‫دیر بعد میں اور ضوفی بازار کی طرف‬
‫نکل پڑے ضوفی نے مارکیٹ مالک‬
‫کے گھر چھوڑنے اور دوپہر کو آنے کا‬
‫کہا میں ضوفی کو مالک دکان کے گھر‬
‫چھوڑ کر خود دکان پر پہنچا دکان کھلی‬
‫ھوئی تھی ۔‬
‫انکل اور جنید دکان پر تھے ان سے‬
‫سالم دعا کے بعد کام میں مصروف‬
‫ھوگئے ۔‬

‫کچھ دیر بعد میں نے علیحدہ ھوکر جیند‬


‫سے دکان لینے اور کام کرنے کا کہا تو‬
‫جنید حیران پریشان ھوگیا کہ ایکدم اتنی‬
‫بڑی تبدیلی کیسے میں نے کہا بس یار‬
‫جب اوپر واال مہربان ھوتا ھے تو ہر‬
‫ناممکن کام ممکن ھوجاتا ھے ۔‬

‫جنیدمجھ سے پوچھتا رھا کہ پیسے‬


‫کہاں سے آے میں نے اسے گاوں کے‬
‫دوست کا بتایا کہ اس نے پیسے لگانے‬
‫ہیں اور کام میں نے کرنا ھے ۔۔‬

‫خیر کافی باتوں کے بعد جنید کو یقین‬


‫ھوگیا اور وہ بہت خوش ھوا اور مجھے‬
‫مبارک باد دینے لگ گیا کہ یار بڑے‬
‫خوش قسمت ھو کہ اوپر والے نے اتنی‬
‫جلدی تیری سن لی ۔۔‬

‫اور دوپہر کو میں سیدھا پارلر پر پہنچا‬


‫تو ضوفی بڑی خوش نظر آئی اور اندر‬
‫جاتے ھی مجھ سے لپٹ گئی اور‬
‫خوشی سے میری آنکھوں کے سامنے‬
‫دکان کی چابی لہرانے لگی ۔۔‬

‫اور کچھ دیر ہم بیٹھے باتیں کرتے‬


‫رھے ۔‬

‫پھر ضوفی نے مجھے کہا کہ میرے‬


‫ساتھ بنک تک چلو وھاں سے پیسے‬
‫نکلوانے ہیں ۔‬

‫میں نے اثبات میں سر ہالیا ۔‬

‫کچھ دیر بعد ہم بنک پہنچے ضوفی نے‬


‫ایک چیک مجھے پکڑایا اور بولی یہ‬
‫کیش کروا لو ضوفی ایک طرف بیٹھ‬
‫گئی میں کاونٹر ۔پر گیا اور پچاس ہزار‬
‫کی رقم نکلوا کر چھ سات دفعہ گنتی‬
‫کی اور پیسے پورے کر کے کاونٹر‬
‫سے واپس ضوفی کی طرف آگیا اتنی‬
‫بڑی رقم میں نے پہلی دفعہ دیکھی تھی‬
‫اتنے پیسے ہاتھ میں پکڑ کر میری‬
‫فیلنگ ھی الگ تھی ۔۔‬

‫پیسے میں نے ضوفی کی بڑھاے تو‬


‫ضوفی بولی جناب اسے جیب میں ڈالو‬
‫اور صبح سے دکان کی سیٹنگ شروع‬
‫کروا دو ۔۔‬

‫میں نے کہا نہیں ضوفی اتنے ذیادہ‬


‫پیسے مجھ سے نہیں سنبھالے جانے تم‬
‫انکو اپنے پاس رکھو جتنے پیسوں کی‬
‫ضرورت ہوئی میں تم سے لیتا رہوں گا‬
‫۔۔۔‬
‫ضوفی نے اوکے کیا اور پیسے پکڑ کر‬
‫اپنی اے ٹی ایم مشین میں رکھ لیے اور‬
‫ہم بنک سے نکل کر مارکیٹ پہنچے‬
‫میں نے دکان کا تاال کھوال اور شٹر‬
‫اوپر کیا تو آس پاس والے دکاندار‬
‫چونک کر میری طرف اور ضوفی کی‬
‫طرف دیکھنے لگ گئے ۔۔‬

‫خیر ہم دونوں نے دکان کا اندر سے‬


‫جائزہ لیا اور ۔پھر فرنیچراور دکان کو‬
‫کیسے ڈیکوریٹ کرنا ھے ایک دوسرے‬
‫سے مشورہ کرنے لگ گئے ۔‬

‫تقریبا ایک گھنٹے کے سوچ بچار کے‬


‫بعد حتمی پالن کیا اور دکان سے نکل‬
‫کر ہم نے شٹر بند کیا اور نیچے پارلر‬
‫میں آگئے۔‬

‫ضوفی سے اجازت لی اور دکان کا‬


‫فرنیچر بنوانے والے کی طرف جانے‬
‫کا کہہ کر میں نکلنے لگا تو ضوفی نے‬
‫مجھے پانچ ہزار دیا کہ ان سے بات‬
‫پکی کر کے انکو بیانہ دے دینا اور ان‬
‫سے سامان لکھوا لینا جو جو چاہیے وہ‬
‫کل لے آنا آج تو لیٹ ھوجاو گے ۔۔۔‬

‫میں نے ہمممم کیا اور پیسے پکڑ کر‬


‫دکان کی طرف چل دیا دکان پر پہنچا تو‬
‫انکل کچھ تلخی سے بولے کہ اتنی دیر‬
‫کہاں لگا دی دکان پر اتنا رش پڑ گیا تھا‬
‫۔‬

‫یار کچھ تو اپنے آپ خیال کرلیا کرو۔۔‬

‫میں نے کہا انکل جی میں اپنے لیے‬


‫دکان کی بات کرنے گیاتھا ۔‬

‫میں اپنی دکان بنانے لگا ہوں ۔‬

‫انکل کا منہ ایکدم کھلے کا کھال رھ گیا‬


‫۔۔‬

‫اور پھر جنید کی طرح انکو بھی‬


‫سمجھانا پڑا مگر فرق صرف یہ تھا کہ‬
‫انکو شہر کے کسی دوست کا بتایا جس‬
‫کے ساتھ کام شروع کرنا تھا ۔‬

‫انکل اوپر اوپر سے خوش دیکھائی دیے‬


‫مگر اندر سے انسے حسد کی بو ارھی‬
‫تھی ۔‬

‫پہلے تو وہ یہ کہتے رھے کہ تم سے‬


‫ابھی کام نہیں ھونا ابھی تم اس قابل نہیں‬
‫ھوے نقصان اٹھاو گے کام ایسے اتنی‬
‫جلدی نہیں چلتے اپنے دوست کا نقصان‬
‫کرو گے وغیرہ وغیرہ ۔‬

‫مختصرا خوب ساڑ بکا۔۔۔۔‬

‫چار بجے میں نے جنید کو کہا یار‬


‫مجھے کچھ دن کے لیے تمہاری مدد‬
‫کی ضرورت ھے ۔‬

‫اگر تم مناسب سمجھو تو ۔۔‬

‫جنید مجھے مکا مارتے ھوے بوال‬

‫چوالں نہ ماریا کر یار ۔۔‬

‫سدھی بکواس کریا کر کہ میرے‬


‫واسطے کی حکم اے ۔۔‬

‫میں نےکہا یار مجھے دکان کے سیٹنگ‬


‫کے لیے اچھے کاریگر چاہیے اور‬
‫تجھے تو کافی عرصہ ھوگیا ھے اس‬
‫فیلڈ میں اور انسے پیسے وغیرہ بھی‬
‫طے کر سکتے ھو اور کون اچھا کام‬
‫کرتا ھے یہ بھی تجھےعلم ھوگا ۔‬

‫جنید بوالبسسسسسس‬

‫اے کیڑا کم اےیار ۔‬

‫میں بوال۔‬

‫سالیا ہور میں تیرے کولوں بندا مروانا‬


‫اے۔‬

‫جنید بوال یار لوڑ پئی تے بندا وی مار‬


‫دیواں گے بندیاں نوں وی بندے ای‬
‫ماردے نے۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا۔‬

‫بےجاماما‬

‫ایڈا توں اکری بدمعاش۔۔‬

‫جنید بوال ۔‬

‫اکری میرے لن تو واریا اودی پین دے‬


‫پچھے تیرااااااا۔‬

‫جنید ایکدم چپ ھوگیا۔۔۔‬


‫میں نے بھی اکری کی بہن کا سن کر‬
‫چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔‬
‫اور بڑے تجسس سے جنید سے پوچھا‬
‫کیا ھے اکری کی بہن کو ۔۔۔‬

‫جنید گبھرا کر بوال کش نئی بس ایویں‬


‫مزاق چ منہ وچوں نکل گیا۔۔‬

‫میں نے کہا ماما ہن میرے کولوں وی‬


‫گالں لکاویں گا بس اے ھی یاری اے ۔۔۔‬

‫جنید بوال نہیں یار ایسی بات نہی ھے‬


‫میں نے اسکی بات کاٹتے ھوے کہا تو‬
‫پھر بتا کیا ھے اسکی بہن کو ۔‬
‫کہیں اسکے ساتھ تیرا چکر تو نہیں چل‬
‫رھا ۔۔‬

‫جنید گبھرا کر میرے پٹ پر ہاتھ رکھ‬


‫کر دباتے ھوے بوال‬

‫سالیا ہولی پونک کیوں مینوں مروانا اے‬


‫۔۔‬

‫میں نے آہستہ سے پوچھا بتا پھر ۔۔‬

‫جنید بوال سالیا تیرے کولوں صبر نئی‬


‫ہوندا اینج کرن لگ پیاں ایں جیویں او‬
‫تیری باجی اے ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا پھدی دیا‬
‫میری باجی تیری وی تے باجی ای لگی‬
‫۔۔۔‬

‫جنید بوال تے فیر ُمٹھ رکھ جدوں کلے‬


‫ہوے دس دیواں گا ۔۔۔‬

‫میں نے بھی پھر ذیادہ اس موضوع پر‬


‫گفتگو نہ کی ۔‬

‫اور پھر جنید بوال چل فیر اک مستری‬


‫ھے اودے کول چلدے آں۔۔۔‬

‫اور پھر ہم دونوں انکل کی موٹر‬


‫سائیکل لے کر ایک مستری کے پاس‬
‫گئے اسےساتھ لےکر ہم شاہین مارکیٹ‬
‫پہنچے ۔‬

‫کاریگر نے دکان کا جائزہ لیااور میں‬


‫اسے سیٹنگ کا نقشہ سمجھانے لگ گیا‬

‫کچھ ڈریکشن جنید اور مستری نے بھی‬


‫دی جو مجھےکافی پسند آئی جس سے‬
‫دکان کی سیٹنگ مذید اچھی بن سکتی‬
‫تھی ۔۔‬

‫پھر جنید نے کاریگر سے اسکی‬


‫مزدوری طے کی جو میری اور ضوفی‬
‫کی سوچ سے کافی کم تھی ۔۔‬
‫میں نے چار ہزار اسکو بیانہ دیا اور‬
‫اس نے پندرہ دن‬

‫کا ٹائم لیا کہ اتنے دن لگ جانے ہیں ۔‬

‫اور پھر اس سے سارے سامان کی لسٹ‬


‫لکھوائی ۔‬

‫کاریگر کہتا رھا کہ میں ساتھ چلوں گا‬


‫سامان لینے ۔‬

‫مگر جنید نے مجھے آنکھ ماردی تھی‬


‫کہ اسے خود ھی النے کا کہہ دے میں‬
‫نے اسے بہانہ کیا کہ میرے چاچو کی‬
‫اپنی دکان ھے اس لیے تم پریشانی مت‬
‫لو جو چیز نہ پسند ہو وہ واپس کردیں‬
‫گے اس لےتو کل اپنے ہتھیار وغیرہ‬
‫لے کر دکان پر پہنچ جانا ۔۔‬

‫باقی سامان کل دس گیارہ بجے پہنچ‬


‫جاے گا۔۔‬

‫مستری سے اوکے کر کے ہم دکان پر‬


‫پہنچے تو انکل کی سڑی سڑیجنید کو‬
‫سننے کو ملی‬

‫وہ کہتے ہیں نہ کہ کہنا بیٹی کو اور‬


‫سنانا بہو کو ۔‬

‫انکل سنا مجھے رھے تھے اور بول‬


‫جنید کو رھے تھے ۔۔۔‬

‫خیر ہم دکان میں بیٹھ گئے ۔۔‬

‫میں نے جنید سے سوری کی کہ یار‬


‫میری وجہ سے تیری بےعزتی ھوئی ۔‬

‫جنید بوال‬

‫ماما پیلے کیڑا میرے تے چادراں‬


‫چڑدیاں نے ۔‬

‫اینی تے روز کروں کرا کے آنا ایں ۔۔‬

‫میں نے ہنستے ھوےکہا‬


‫اچھااااا‬

‫چلو فیر خیر اے۔۔‬

‫جنید مجھے ٹانگ مارتے ھوے بوال‬

‫سالیا اک میری بےعزتی ھوئی الٹا خیر‬


‫اے کہہ کے جان چھڑوان دیاں ایں ۔۔‬

‫میں وی تیرے کول ای آجانا اے ۔‬

‫بنڈ مار اے ھو جئے مالک دی ۔۔‬

‫میں نےکہا‬
‫سوواری آ یارا‬

‫تیری اپنی دکان اے ۔۔۔‬

‫میرا بھی ذہن تھا کہ جنید کو اپنے پاس‬


‫رکھ لوں گا بڑا کام کا یار تھا‬

‫اور مخلص بےلوث۔۔۔‬

‫اور جنید نے میرے دل کی بات کردی ۔‬

‫میننے جنید کو کہا تو بس پھر تیار رہنا‬


‫بلکہ تم اسی مہینے اس سے حساب‬
‫کرلینا ۔۔‬
‫جنید نے بھی اوکے کیا ۔۔‬

‫اور میں نے جنید کو کہا کہ یار وہ‬


‫کیمرہ تم فلحال گھر لے جاو ۔‬

‫جب مجھےضرورت پیش آئی تجھے بتا‬


‫دوں گا کیوں کہ اب کچھ دن تو میں‬
‫بہت مصروف رہوں گا ۔۔‬

‫جنید بوال چل یہ بھی سہی ھے میں‪.‬‬


‫اسے کیمرہ واپس کردیتا ھوں جب‬
‫ضرورت ھوئی تو اس لے لوں گا ۔‬

‫میں نے کہا یار یہ نہ ھو کہ وقت پڑنے‬


‫پر کیمرہ ھی نہ ملے جنید بوال نوٹینشن‬
‫یار وہ بھی اپنا جگر ھے۔۔‬

‫آدھی رات کو بھی ضرورت پڑی تو وہ‬


‫ساال خود دے کر جاے گا ۔۔۔‬

‫میں نے ہممممم کیا اور جنید کے ساتھ‬


‫کل کا پروگرام بنایا اور شام چھ بجے‬
‫انکل سے پکی پکی چھٹی اور ان سے‬
‫کمی کوتاہی کی معافی مانگ کر الوداع‬
‫کہہ کر زندگی کے نئے سفر کی طرف‬
‫چل پڑا۔ ۔‬
‫میں سیدھا ضوفی کے پاس پہنچا اسے ‪.‬‬
‫ساری تفصیل بتائی اور سامان کی لسٹ‬
‫بھی دیکھائی ضوفی کافی خوش ہوئی‬
‫کے بڑے مناسب پیسے طے کئے ہیں‬
‫کاریگر سے ۔۔‬

‫اور کچھ دیر میں ضوفی کے پاس بیٹھا‬


‫دکان کے مطلق باتیں کرتا رھا ۔‬

‫اور پھر ضوفی کو گھر چھوڑا اور آنٹی‬


‫سے انکی صحت دریافت کرنے کے‬
‫بعد میں گاوں پہنچا امی پہلے تو کافی‬
‫غصے ھوئیں اور گھر داخل ھوتے ھی‬
‫برس پڑیں کہ تجھے کسی کی فکر نہیں‬
‫ھے جب دل کرتا ھے رات باہر رہنے‬
‫لگ جاتا ھے اور نواب ساب فون کر‬
‫کے اطالع بھجوا دیتا ھے ۔‬

‫میں ساری رات نہیں سوئی تیری فکر‬


‫لگی رھی ۔‬

‫امی سے چنگی تسلی بخش بےعزتی‬


‫کروانے کے بعد میں امی کے گلے میں‬
‫باہیں ڈال کر امی کو دکان کی‬
‫خوشخبری سنانے لگ پڑا امی پہلے تو‬
‫حیران پریشان ناقابل یقین انداز سے‬
‫میری طرف دیکھتی رہیں اور پھر جب‬
‫میں نے امی کو قسمیں کھا کر یقین‬
‫دلوایا تو امی خوشی سے نہال ہونے‬
‫لگ گئیں اور ابو اور آپی کو آواز دے‬
‫کر انکو خوشخبری سنانے لگ پڑیں ۔‬

‫ابو اور آپی کا بھی وہ ھی حال تھا کہ‬

‫جیسے کھسرے کے گھر بچہ ھوگیا ھو‬


‫۔‬

‫انکو بھی بڑی مشکل سے یقین دالیا ۔۔‬

‫امی ابو خوشی کے ساتھ کچھ پریشان‬


‫بھی ھوے کہ تم بہت بڑا رسک لے‬
‫رھے ھو اگر کچھ الٹا سیدھا ھوگیا تو‬
‫ہماری تو اتنی اوقات بھی نہیں ھے کہ‬
‫ہم اتنے پیسے بھر سکیں ۔‬
‫میں نے کافی محنت مشقت سے انکو‬
‫یقین دلوایا کہ دکان بڑی موقع کی ھے‬
‫مین بازار میں ھے کام بہت اچھا چلے‬
‫گا بس آپ دعا کریں کے کسی کی نظر‬
‫نہ لگے ہماری خوشیوں کو اب بہت جلد‬
‫ہمارے اچھے دن شروع ھونے والے‬
‫ہیں ۔‬

‫ایسے ھی ہم رات گئے تک شیخ چلی‬


‫کے سپنے سجاتے رھے‬

‫پکا اور گلی میں سب سے اونچا مکان‬


‫ٹیلی فون بیٹھک میں صوفے دیواروں‬
‫پر پردے موٹرسائکل آپی کی دھوم دھام‬
‫سے شادی پھر کوٹھی کار وغیرہ وغیرہ‬
‫۔۔۔۔‬

‫خیر صبح میں جلدی اٹھا اور فریش‬


‫ھوکر ناشتہ کرکے سیدھا ضوفی کے‬
‫گھر پہنچا اسے ساتھ لیا اور واپس‬
‫مارکیٹ پہنچ کر اس سے پیسے لے کر‬
‫میں واپس ضوفی کے محلے کی طرف‬
‫چل دیا کیونکہ جنید ابھی گھر ھی تھا‬
‫اسے ساتھ لے کر میں پھر واپس‬
‫مارکیٹ پہنچا دکان کھول کر خالی دکان‬
‫کا پھر جائزہ لینے لگ گئے۔‬

‫کچھ دیر بعد کاریگر بھی کھوتی ریڑی‬


‫پر اپنا سامان الدھے پہنچ گیا ۔‬
‫اسکا سامان اتار کر دکان کے اندر‬
‫رکھوایا ادھر ادھر کہ دکاندار مجھے‬
‫مبارک باد دینے آے ۔‬

‫کہ بڑی اچھی دکان ملی ھے اور کام کا‬


‫سن کر سب نے ھی کہا کہ یہ کام بہت‬
‫اچھا چلے گا ۔۔‬

‫خیر کاریگر کو چھوڑ کر ہم سامان‬


‫لینے چلے گئے ۔‬

‫تین چار دکانوں سے سارے سامان کا‬


‫بل بنوایا اور پھر ایک دکان کا سب سے‬
‫مناسب ریٹ لگا تو اس سے الماریوں‬
‫کے لیے شیٹیں اور شیشے اور باقی کا‬
‫سارا چھوٹا موٹا سامان لیا شیشے ابھی‬
‫ادھر ھی رکھوا دیے کے بعد میں لے‬
‫جائیں گے اور باقی کا سارا سامان‬
‫ریڑھی پر رکھوا کر دکان پر پہنچایا ۔۔‬

‫پیسے کم پڑ گئے تھے ضوفی نے مزید‬


‫پیسے نکلوا کر مجھے دیے ۔۔ایسے ھی‬
‫دن گزرتے گئے ۔۔‬

‫ان دنوں میں میری ساری توجہ دکان‬


‫کی طرف تھی میں سب کچھ بھول کر‬
‫صرف دکان کی سیٹنگ کروانے اور‬
‫جلد ازجلد کام شروع کرنے پر فوکس‬
‫کیے ھوے تھا ۔۔۔‬
‫ضوفی کے گھر رات رہنے کا موقع‬
‫نہیں مال ویسے اس سے ہلکی پھلکی‬
‫کسنگ جپھی شپھی ھوجاتی ۔‬

‫ان دنوں آنٹی فوزیہ کے گھر بھی نہیں‬


‫جاسکا ۔۔‬

‫صدف کا تو ویسے ھی اتا پتا نہیں تھا‬


‫کیوں کہ وہ بھی سکول چھوڑ چکی تھی‬
‫۔‬

‫اور نہ ھی کافی دنوں سے فرحت کے‬


‫ساتھ مالقات ھوسکی ۔۔‬
‫ان تمام دنوں میں کچھ خاص نہ ھوا‬
‫طوالت کے ڈر سے جسکو لکھنا‬
‫ضروری نہیں سمجھتا‬

‫خیر چند ھی دنوں بعد دکان کی شاندار‬


‫سیٹنگ ھوگئی ۔۔‬

‫میں نے دکان کا شٹر آدھا بند ھی رکھا‬


‫۔۔‬

‫کہ ساری سیٹنگ کرکے مال وغیرہ ڈال‬


‫کر جب افتتاح کروں گا تو تب ھی سب‬
‫دکان کو اندر سے دیکھیں گے ۔۔‬

‫بوتیک کی سیٹنگ ایسی تھی کہ پورے‬


‫بازار میں ایسی سیٹنگ کسی بوتیک کی‬
‫بھی نہیں تھی ۔مہری کی مما کے‬
‫بوتیک کی سیٹنگ بھی میں نے دیکھی‬
‫ھوئی تھی جو کہ بڑی شاندار تھی مگر‬
‫میں نے اس سےبھی اچھی سیٹنگ‬
‫کروائی تھی کیونکہ الہور جب ہم‬
‫شاپنگ کے لیے انار کلی گئے تھے تو‬
‫ادھر میں نے کچھ بوتیک دیکھے تھے‬
‫بس اندازے سے ان سے ملتی جلتی‬
‫ساری سیٹنگ کروائی۔۔‬

‫جس میں ٹرائی روم ایک سٹور شاندار‬


‫الماریاں جو تقریبا ً شیشے کی تھیں‬
‫سٹیچو کے لیے بڑے بڑے ریک باقی‬
‫ہینگرز کے لیے ایک طرف ہکیں باہر‬
‫بھی ایک بڑے سائز کا شوکیس جس‬
‫میں سٹیچو کھڑے کرنے تھے ۔۔‬

‫فرنٹ پر بھی سارا فریم شیشے کا‬

‫مختصرا ً کہ اس دور کے حساب‬


‫سےاپنی اوقات سے بڑھ کر سیٹنگ کی‬
‫۔‬

‫دوستو ان دنوں میں ایک الکھ کے قریب‬


‫صرف سیٹنگ پر ھی خرچہ آیا جو آج‬
‫کے دور میں بڑی خطیر رقم بنتی ھے‬
‫۔۔‬
‫اور سارا خرچہ ضوفی کا ھی ھورھا‬
‫تھا ۔جسے وہ خوش ھو کر اور مجھ‬
‫سے بھی ذیادہ شوق سے لگا رھی تھی‬
‫۔۔‬

‫دوستو سفید پوش لوگ ایسے ھی ھوتے‬


‫ہیں دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ پتہ‬
‫نہیں اسکے پاس کتنا پیسہ ھے مگر‬
‫اندر‬
‫کے معامالت کا اسے ھی پتہ ہوتا ھے‬
‫کچھ لوگ یہ بھی سمجھ رھے تھے کہ‬
‫میں بہت امیر ھوں کچھ دکاندار یہ بھی‬
‫سمجھ رھے تھے کہ پالر والی نے‬
‫مجھے امیر سمجھ کر پھنسایا ھوا ھے‬
‫اور مجھ سے مال کھا رھی ھے ۔‬

‫جتنا جسکا ظرف تھا اتنا وہ ہمارے‬


‫بارے میں سوچ رھا تھا ان میں سے‬
‫ایک انکل سجاد بھی تھے جو یہ سوچ‬
‫رھے تھے کہ میں نے اور جنید نے مل‬
‫کر انکی پھٹی لکھی ھے اور انکی دکان‬
‫کو لوٹ کر اب خود کی دکان بنا لی‬
‫ھے ۔۔‬

‫مختصرا ہر کو نیگٹیو ھی سوچ رھا‬


‫تھا‬

‫خیر‬
‫جنید نے میرا بڑا ساتھ دیا میری وجہ‬
‫سے اس بےچارے کی انکل سجاد کے‬
‫ساتھ منہ ماری بھی ھوگئی دکان سے‬
‫غائب رہنے کی وجہ سے ۔‬

‫جنید نے انکل سے حساب کرلیا تھا اور‬


‫اسکو دکان سے جواب دے دیا تھا۔۔‬

‫جنید کے جواب دینے کے بعد انکل‬


‫سجاد نے ادھر ادھر کے دکانداروں کے‬
‫ساتھ کافی ساڑ بکا تھا ۔۔‬

‫مجھے جب جنید نے بتایا کہ دکان سے‬


‫فارغ ھوگیا ہوں تو میں نے اسی دن‬
‫ضوفی سے مشورہ کرنے کے بعد‬
‫اسکی اجازت سے میں نے جنید کو‬
‫اپنے پاس آنے کی آفر کردی اور معقول‬
‫تنخواہ بھی رکھ دی جسے اس نے‬
‫خوشی سے قبول کیا اور پھر۔۔‬

‫ضوفی کے ھی کہنے پر میں اور جنید‬


‫الہور گئے مارکیٹ اور دکانوں کا ہمیں‬
‫پہلے ھی ایسے پتہ تھا کہ ۔‬

‫ہم نے انکل کی دکان پر مال کے بلوں‬


‫پر سے مارکیٹ کے نام اور دکانوں کے‬
‫نام نوٹ بھی کرلیے تھے اور ذہن نشین‬
‫بھی ۔۔۔۔۔۔‬
‫جب میں الہور کے لیے نکال تو میرے‬
‫پاس مال لینے کے جو پیسے تھے اتنے‬
‫پیسے تو میں نے کبھی خواب میں بھی‬
‫نہ دیکھے تھے ضوفی نے سارا زیور‬
‫بھی بیچ دیا تھا اور بنک میں سے‬
‫ساری جمع پونجی نکال کر مجھے دے‬
‫دی تھی‬

‫میں نے ضوفی سے ھی بنیان کے اندر‬


‫کیطرف ااوپر نیچے کر کے دو تین‬
‫جیبیں لگوالیں تھی اس لیے پیسے تو‬
‫بلکل سیو تھے مگر اتنے ذیادہ پیسوں‬
‫کا پاس ھونے کا احساس مجھے خوف‬
‫زدہ کیے ھوے تھا خیر اوپر والے پر‬
‫بھروسہ کر کے گھر سے امی ابو اور‬
‫شہر سے آنٹی کی نصیحتوں اور دعاوں‬
‫کے ساتھ جنید کو لیے الہور روانہ ھوا‬

‫جس کے ساتھ دو ماوں کی دعائیں اور‬


‫اوپر والے پر بھروسہ ھو تو وہ کیسے‬
‫ناکام ھوسکتا ھے ۔‬

‫الہور پہنچ کر ہم پہلے سے طے شدہ‬


‫پالن کے مطابق پہلے انار کلی بازار‬
‫میں گھومتے رھے جو سب سے اچھے‬
‫بوتیک تھے ان میں گھس کر ورائٹی‬
‫نکل کرتے رھے اور پھر وہیں سے ہم‬
‫رنگ محل گئے ادھر سے کچھ ورائٹی‬
‫لی پھر اعظم مارکیٹ ادھر سے ہمیں‬
‫پتہ چال کہ انار کلی میں بھی ایک گلی‬
‫میں بوتیک کی ہول سیل دکانیں ہیں ہم‬
‫ادھر اعظم مارکیٹ سے واپس پھر انار‬
‫کلی بازار گئے ادھر سے بھی کافی‬
‫اچھی اور بارعایت ورائٹی ملی ۔‬

‫ہم نے پرچیزنگ میں بڑی محنت کی‬


‫مال ہم نے سارا بلٹی کروا دیا اور‬
‫واپسی پر ہمارے پاس صرف کرایہ یا‬
‫مزید کچھ پیسے ھی بچے ۔۔۔۔‬

‫گھر میں آتے ھی بتا آیا تھا کہ میں‬


‫الھور مال لینے جارھا ھوں‬

‫اس لیے رات کو گھر نہیں آوں گا ۔۔‬


‫ہمیں الہور ھی آٹھ بج گئے ہم نے انار‬
‫کلی میں ھی رات کو کھانا کھایا ۔۔‬

‫خیر سیالکوٹ کی بس میں سوار‬


‫ھوگئے تھکن اتنی تھی کہ ہم الہور‬
‫الری اڈہ میں کھڑی ھی بس میں‬
‫سوگئے اور پھر سیالکوٹ الری اڈہ میں‬
‫کھڑی ھی بس میں کنڈیکٹر نے ااٹھایا‬
‫کہ ویرو اٹھ جاو کار آگیا جے ۔۔۔‬

‫ہم آنکھیں ملتے ھوے حیران پریشان‬


‫خالی بس کو دیکھنے لگ گئے میں نے‬
‫کنڈیکٹر کو کہا یار ابھی تک بس نہیں‬
‫بھری ۔۔‬
‫کنڈیکٹر ہنستا ھوا بوال ویر جی بس‬
‫سیالکوٹ الری اڈے وچ کھڑی اے ۔۔۔‬

‫میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اور جنید‬


‫میری طرف اور میں جنید کیطرف دیکھ‬
‫کر حیران پریشان بیٹھے تھے کہ‬
‫کنڈیکٹر پھر بوال‬
‫ویرو ہن اتر وی جاو کہ ایتھے ای‬
‫بسترے ال دیواں یا فیر واپس الہور جانا‬
‫اے ۔‬

‫نئی یقین ہوندا تے بار نکل کے اڈہ پشان‬


‫لو اپنا ای اے ۔۔۔۔‬
‫جنید بوال ہن بس وی کر ماما ایویں‬
‫نِرلے کالجے بےعزتی کری جاناں ایں‬
‫۔۔۔‬

‫کنڈیکٹر آجو آجو آجو کہتا ھوا دروازے‬


‫کی طرف چال گیا اور ہم بھی اسکے‬
‫پیچھے بس سے نیچے اترے اور‬
‫چاروں طرف دیکھ کر پہچاننے لگے‬
‫کہ واقعی ہمارا ھی شہر ھے ۔۔۔‬

‫ادھر سے ہم نے رکشہ کروایا جنید کے‬


‫محلے کا ۔۔‬

‫جنید کو گھر اتارا تو جنید نے کافی‬


‫اصرار کیا کہ رات اسکے پاس رکوں‬
‫مگر مجھے تو کہیں اور جانے کی‬
‫جلدی تھی میں نے اسے گھر الزمی‬
‫جانے کا کہا ۔۔‬

‫اور اسے رکشہ سے اتار کر رکشے‬


‫والے کو واپس چلنے کا کہا رکشے‬
‫والے نے کہا کدھر جانا ھے باو جی‪.‬‬
‫میں کیا چل تے سئی دسنا ایں ۔۔‬

‫کچھ آگے موڑ تھا موڑ مڑ کر میں نے‬


‫کہا بس بس بس ادھر اتار دے رکشے‬
‫واال بوال باو جی کوئی چیز تے نئی پُل‬
‫آے اوتھے کیندے او تے واپس موڑ‬
‫‪.‬لواں‬
‫میں نے او نئی یار میرا ایتھے کااار اے‬
‫۔۔۔‬

‫رکشے واال ہمممم کر کے چپ ھوگیا‬


‫میں نے اسے کرایہ دیا اور پھر سجن‬
‫کی گلی میں چل دیا ۔۔‬

‫سجن کے گھر پہنچا بیل دی پہلی بیل‬


‫کے چند سیکنڈ بعد ھی سجن کی کانوں‬
‫سے ٹکراتی ھوئی سیدھا دل پر لگی‬
‫آواز سن کر ساری تھکاوٹ اتر گئی اور‬
‫جب دیدار ماہی (ضوفی) کا ہوا تو رہتی‬
‫تھکاوٹ بھی اتر گئی ۔‬
‫ضوفی کا چہرہ دیکھتے ھی جسم کو‬
‫توانائی مل جاتی تھی ۔‬

‫ضوفی بڑی گرمجوشی سے دروازے‬


‫پر ھی گلے ملی اور پھر ہم چلتے ھوے‬
‫ٹی وی الونج میں پہنچے اور جب‬
‫میری نظر کالک پر پڑی تو ایک بج‬
‫چکا تھا ۔‬

‫میں نے ماہی اور آنٹی کا پوچھا تو‬


‫ضوفی نے اشارے سے بتایا کہ وہ تو‬
‫کب کی سوگئی ہیں ۔۔‬

‫پھر ضوفی نے مجھے اوپر جانے کا‬


‫کہا اورخود کھانا کھانے کا کہہ کر کچن‬
‫کی طرف چلی تو میں نے کہا یار کھانا‬
‫نہیں بس چاے بنا دو‬

‫ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔‬

‫نواب ساب کھانا کھا آے میں نے اثبات‬


‫میں سر ہالیا ضوفی برا سا منہ بناتے‬
‫ھوے بولی ۔اور میں ۔۔۔۔۔‬

‫میں نے کہا کیا میں ۔۔‬

‫ضوفی نفی میں سر ہال کر افسردہ سی‬


‫کچن کی طرف چل دی ۔‬
‫میں کچھ سوچتے ھوے اپنے ماتھ پر‬
‫ہاتھ مارا‬

‫او تواڈی پین نو۔۔۔۔‬

‫ضوفی کچن میں چلی گئی تھی اور ‪.‬‬


‫مجھے اپنی غلطی کا احساس جب ھوا‬
‫تو میں بھاگا ھوا ضوفی کے پیچھے‬
‫کچن میں جب داخل ھوا تو ضوفی‬
‫شیلف پر رکھے چولہے کے سامنے‬
‫دوسری طرف منہ کر کے کھڑی‬
‫دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھوں کو‬
‫صاف کرتے ھوے چاے کی کیتلی‬
‫چولہے پر رکھ رھی تھی ۔‬

‫میں جب کچن میں داخل ہوا تو ضوفی‬


‫نے گردن گھما کر ایک نظر مجھے‬
‫دیکھا اور پھر دوسری طرف منہ کر‬
‫کے کھڑی ہوگئی ۔‬

‫ضوفی کو روتا دیکھ کر میں اپنے آپ‬


‫کو کوسنے لگ گیا اور چلتا ھوا ضوفی‬
‫کے پیچھے پہنچا اور اسکی کمر کے‬
‫گرد بازو ڈال کر ھاتھ اسکے مخمل‬
‫سےنرم پیٹ پر رکھ کر تھوڑا سا جھکا‬
‫اور اسکے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر‬
‫بوال ۔‬
‫میرا چھونا ناج ھو دیا اے ۔۔‬

‫ضوفی روہانسے لہجے میں بولی تمہیں‬


‫کیا لگے کسی سے ۔۔۔‬

‫میں نے کہا میری جان میں تو مزاق‬


‫کررھا تھا میں تو خود صبح سے خالی‬
‫پیٹ مارکیٹ میں گھومتا رھا اور اسی‬
‫خوشی میں بھوک ھی نہیں لگی کہ آج‬
‫اپنی جان کے ھاتھ کا بنا ھوا کھانا‬
‫کھاوں گا ۔۔‬

‫اور تم اتنی کنجوس ھو کہ ایک دفعہ‬


‫صلح مار کر جان چھڑوا کر جلدی سے‬
‫کچن میں بھاگ آئی ھو ۔۔۔‬
‫ضوفی ایکدم چونک کر گھومی اور‬
‫میری طرف منہ کر کے دونوں بازوں‬
‫میرے سینے پر الکر دونوں ہاتھوں سے‬
‫میرے سینے پر مکے مار کر بولی ۔‬

‫شوخے پہلے کیوں نہیں بتایا میں صبح‬


‫سے تمہارے اتنظار میں بھوکی ھوں‬
‫کچھ بھی نہیں کھایا ۔‬

‫کہ تم آو گے تو ھی تمہارے ساتھ کھانا‬


‫کھاوں گی اور جناب نے آتے ھی کہہ‬
‫دیا کہ کھانا کھا کر آیا ھوں ۔۔‬

‫میں ضوفی کی کمر سے ھاتھ ہٹاے اور‬


‫اسکی روئی سی گالوں کو تھام کر‬
‫اسکی نم آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر‬
‫اسکی پلکوں پر سجے شبنم کے قطروں‬
‫کو اپنے ہونٹوں سے چنا اور بوال ۔‬

‫پاگل ھو تم بھی قسمت سے تو تمہارے‬


‫ھاتھ کا بنا کھانا کھانے کو موقع ملتا‬
‫ھے اور میں پاگل ھوں جو اپنی جان‬
‫کے ساتھ کھانا کھانے کا یہ قیمتی موقع‬
‫ضائع کرتا ۔۔‬

‫اور پھر میں نے ضوفی کے مخملی‬


‫ہاتھوں کو پکڑا اور ہاتھوں کو‬
‫چومتےھوے بوال‬
‫اب جلدی سے ان پیارے سے ہاتھوں‬
‫سے کھانا بناو اور اپنے ہاتھ سے کھالو‬
‫قسم سے بہت بھوک لگی ھے ۔۔‬

‫ضوفی بولی بڑے مسکے لگانا جانتے‬


‫ھو۔‬

‫چلو جا کر نہا کر فریش ھوجاو میں‬


‫ابھی کھانا لے کر آتی ھوں ۔‬

‫میں نے ضوفی کا ہاتھ چھوڑا اور‬


‫اسکے کندھوں کو پکڑ کر بڑے‬
‫رومینٹک انداز سے بوال ۔‬

‫جان فریش تو تمہیں دیکھتے ھی ھوگیا‬


‫۔قسم سے تمہارے چہرے پر نظر پڑتے‬
‫ھی ساری تھکاوٹ اتر گئی تھی‬

‫ضوفی بڑے غور سے آنکھیں جھپکاتے‬


‫ھوے میری بات سن رھی تھی ۔‬

‫میں نے بڑے سسپنس سے کہا جان‬


‫میری ایک بات مانو گی ۔ضوفی جو‬
‫پہلے ھی میری باتوں میں کھوئی ھوئی‬
‫تھی میرے یوں سوال پرچونک کر‬
‫بولی‬

‫حکم کرو جان ۔میں نے بڑا مسکین سا‬


‫منہ بنایا اور بوال‬
‫ضوفی اگر تم مجھے‬

‫پہلے نہانے واال تو کردو تو پھر میں نہا‬


‫بھی لوں گا۔۔‬

‫اور یہ کہہ کر میں باہر کی طرف بھاگا‬

‫ضوفی پیر پٹختی ھوئی کھانے کا چمچہ‬


‫پکڑ کر میرے پیچھے بھاگی‬
‫شوخےےےےےےےےٹھہر جا ابھی‬
‫کرتی ھوں تجھے نہانے واال ۔۔‬

‫میں بھاگتا ھوا اوپر کمرے میں آگیا‬


‫ضوفی بس کچن کے دروازے سے ھی‬
‫واپس مڑ گئی ۔۔‬
‫میں کمرے میں داَخل ھوا اور شرٹ‬
‫اتار کر بیڈ پر ایسے پھینکی جیسے یہ‬
‫کمرہ میرا اور ضوفی کا بیڈ روم ھو‬
‫اور کمرے میں آکر میری فیلنگ بھی‬
‫کچھ ایسی ھی ھو جاتی تھی ۔‬

‫میں سیٹی بجاتا ھوا واش روم میں گھس‬


‫گیا اور نہانے لگ گیا نہا کر فریش‬
‫ھوکر پینٹ پہن کر واش روم سے باہر‬
‫نکال اور پھر شرٹ پہنی اور ڈریسنگ‬
‫ٹیبل کے سامنے کھڑا ھوکر سیٹی‬
‫بجاتے ھوے بالوں میں برش پھیرنے‬
‫لگ گیا۔۔‬
‫کہ ضوفی کے ہنسنے کی آواز آئی تو‬
‫میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ضوفی‬
‫کھانے کی ٹرے پکڑے ہنستے ھوے‬
‫کہہ رھی تھی ۔‬

‫واہ واہ لگتا ھے میرے شہزادے کو‬


‫الہور کی ہوا لگ گئی ھے خیر ھے‬
‫بڑے موڈ میں ھو ۔‬

‫میں جھینپ کر سر نیچے کر کے اپنے‬


‫پیروں کو دیکھنے لگ گیا ۔۔‬

‫ضوفی میری حالت کو دیکھ کر قہقہہ‬


‫لگا کر ہنس پڑی اور ٹرے ٹیبل پر‬
‫رکھتے ھوےبولی او ہوووووو میرے‬
‫چھونے کو چھماں آگیاں ہیں ۔۔‬

‫میں نے سر اٹھایا اور مسکراتا ھوا‬


‫ضوفی کی طرف چلتا ھوا آیا اور بوال ۔‬

‫چھمیں تو اب اتارنی پڑیں گی اور ساتھ‬


‫ھی میں نے پینٹ کی بیلٹ پر ہاتھ رکھا‬
‫اور بیلٹ کو کھولنے لگ گیا ۔‬

‫ضوفی ایکدم گبھرا کر میری طرف‬


‫بھاگ کر آئی اور میرے ھاتھوں کو‬
‫پکڑکر بولی ۔‬

‫بس بس بس ذیادہ شوخے مت بنو ۔۔‬


‫چلو کھانا کھا مجھے بہت بھوک لگی‬
‫ھے ۔۔‬

‫میں ہنستا ھوا صوفے کی طرف چل‬


‫پڑا۔۔‬

‫ضوفی بھی میرے ساتھ بیٹھ گئی اور ہم‬


‫ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالتے‬
‫ھوے کھانا کھانےلگ گئے۔۔۔‬

‫میں ساتھ ساتھ ضوفی کو مال لینے کی‬


‫ڈٹیل بتاتا رھا اور جنید نے جیسے‬
‫میرے ساتھ محنت کرکے مختلف جگہ‬
‫سے ورائٹی اور کلر سکیم لی اسکی‬
‫بھی ساری ڈٹیل بتاتا رھا ۔‬
‫اچانک ضوفی بھولی یاسر ایک بات‬
‫کہوں میں نے چونک کر ضوفی کی‬
‫طرف دیکھا اوربوال ہاں جان بولو ۔‬

‫ضوفی بولی یاسر جنید کو میرے اور‬


‫تمہارے ریلیشن کاپتہ ھے ۔‬

‫میں نےنفی میں سر ہالیا ۔‬

‫ضوفی بولی‬

‫یاسر پہلے کی بات اور تھی اب جنید‬


‫بھائی تمہارے ساتھ ہوگا اور میں نہیں‬
‫چاہتی کہ وہ ہم دونوں کی محبت اور‬
‫اس رشتہ کو غلط نام دے‬

‫اس لیے تم اسے سب بتا دو مگر یہ راز‬


‫ہمیشہ اپنے دل میں چھپاے رکھنا کہ تم‬
‫نے کس سے پیسے لے کر کام کیا ھے‬
‫۔‬

‫یاسر مجھے غلط مت سمجھنا دوستی‬


‫میں دراڑ پڑتے دیر نہیں لگتی میں یہ‬
‫نہیں کہتی کہ جنید بھائی غلط ھے یا وہ‬
‫تمہارے ساتھ مخلص نہیں مگر میں یہ‬
‫ہرگز برداشت نہیں کرسکوں گی کہ‬
‫کوئی تمہیں یہ پیسوں کا طعنہ دے ۔‬

‫راز وہ ھی ہوتا ھے جو اپنے دل میں‬


‫ھو ایسے ہم راز دوست جب علیحدہ‬
‫ھوتے ہیں تو جگہ جگہ بدنام کرتے ہیں‬
‫اس لیے تم جنید کو صرف میرے اور‬
‫اپنے رشتے کے بارے مین بتا دینا تاکہ‬
‫وہ ہم دونوں کے بارے میں غلط راے‬
‫نہ قائم کرے ۔۔‬

‫میں نے کہا ٹھیک ھے جان تم نے بلکل‬


‫سہی کہا مجھے اسکو بتا دینا چاہیے ۔‬

‫یہ نہ ھو کہ وہ تم پر ھی الئن مارنا‬


‫شروع کردے ۔۔‬

‫ضوفی مجھے گھور کر بولی ۔‬


‫میں اودھی بوتھی نہ پن دیواں گی جے‬
‫میرے ول اکھ وی چک کے ویکھیا۔۔‬

‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔۔‬

‫مزاق کر رھا ھوں یار ۔‬

‫جنید ایسا لڑکا نہیں ھے یاروں کا یار‬


‫ھے ۔‬

‫وہ تمہاری عزت بھابھی سمجھ کر ھی‬


‫کرے گا ۔‬

‫تم بے فکر رھو ۔‬


‫مین اسکو اچھی طرح جانتا ھوں ۔۔‬

‫اور میں موقع ملتے ھی اسے بتا دوں گا‬


‫اس لیے اسکی طرف سے بےفکر رھو‬
‫۔‬

‫ضوفی نے ہممممم کیا ۔‬

‫اور پھر‬

‫کچھ دیر میں ہم نے کھانا ختم کیا اور‬


‫ضوفی برتن اٹھاتے ھوے بولی یاسر وہ‬
‫سامنے ٹراوزر لٹکا ھوا ھے وہ پہن لینا‬
‫میں چاے بنا کر التی ھوں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا ضوفی برتن اٹھا کر‬
‫باہر نکل گئی اور میں نے دیوار پر‬
‫ہینگر میں لٹکے ٹراوزر کو اتارا اور‬
‫جلدی سے پینٹ اتار کر ٹراوزر پہنا۔‬

‫اور بیڈ پر تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‬


‫۔‬

‫کچھ دیر بعد ضوفی چاے لے آئی اور‬


‫بیڈ کی سائڈ ٹیبل پر چاے رکھ کر‬
‫میرے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ گئ۔‬

‫ہم دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے بیڈ کی‬


‫بیک کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے‬
‫اور ہم دونوں کی رانیں ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ ملی ہوئیں تھی ۔‬

‫میں نے ضوفی کا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ کی‬


‫انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر‬
‫اسکے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں کی طرف ال‬
‫کر ضوفی کے ہاتھ کی الٹی سائڈ کو‬
‫چوما اور بوال جان دروازہ تو بند کردو‬
‫ضوفی نے چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا اور بولی کیوں جی دروازہ بند‬
‫کرکے کیا کرنا ھے ۔۔۔میں نے ضوفی‬
‫کے کندھے پر سر رکھا اور ھاتھ کو‬
‫پھر چومتے ھوے بوال ۔‬

‫جپھی ڈالنی ھے ۔۔۔ضوفی بولی ۔‬


‫اوے ھوے‬

‫چپ کر کے اچھے بچوں کی طرح‬


‫سوجاو پہلے ھی سارے دن مارکیٹنگ‬
‫کرکے اور پھر سفر میں تھکے ھوے‬
‫ھو اور صبح دکان کی سیٹنگ بھی‬
‫کرنی ھے‬

‫میں نے نفی میں سر ہالیا اور نیچے‬


‫کھسکتا ھوا ضوفی کی گود میں سر‬
‫رکھ کر لیٹ گیا اور ضوفی کے ھاتھ‬
‫کو اپنے سینے پر رکھ کر ضوفی کی‬
‫طرف دیکھتے ھوے بوال ۔‬

‫میں نے تو تمہاری گود میں سر رکھ کر‬


‫سونا ھے ۔‬

‫ضوفی مسکراتے ھوے دوسرے ہاتھ‬


‫سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ھوے بولی ۔‬

‫یاسر تنگ کیوں کرتے ھو ۔سمجھا کرو‬


‫ایسے تمہاری طبعیت خراب ھوجاے‬
‫گی ۔‬

‫میں نے ضوفی کے ہاتھ کو چوما اور‬


‫نظریں اسکے چاند کی طرح چمکتے‬
‫ھوے چہرے کی طرف کرتے ھوے کہا‬
‫کہ تمہاری قربت میں میرے اندر شکتی‬
‫بڑھتی ھے تم سے جدا ہوکر میں‬
‫کمزور پڑجاتا ھوں تم میرے پہلو میں‬
‫ہو تو میں ساری زندگی جاگ کر گزار‬
‫سکتا ھوں ۔۔‬

‫ضوفی ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھی‬


‫ھوئی تھی اور میں ٹانگوں کو دوسری‬
‫طرف کرکے سر ضوفی کی گود میں‬
‫رکھ کر لیٹا ھواتھا‬
‫ضوفی میرے اوپر جھک کر میرے‬
‫ہونٹوں کو چومتی ھوئی بولی ۔‬

‫اوے ھوے میرے مجنوں ۔۔‬

‫چلو اٹھو پہلےچاے پیو پھر میں اپنے‬


‫کاکے کو لوری سناکر سالتی ہوں ۔۔‬
‫میں جھٹکے سے ضوفی کی گود سے‬
‫سر اٹھا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور بڑے‬
‫جوش سے خوش ہوکر بوال سچییییییی‬
‫ضوفی بھی میری نکل اتارتے ھوے‬
‫بولی ُمچییییییی۔‬
‫اور پھر ضوفی نے چاے کا کپ اٹھا ‪.‬‬
‫کر مجھے پکڑایا اور خود بھی چسکیاں‬
‫لے کر چاے پینے لگ گئی ۔۔‬

‫میں نے جلدی سے چاے پی اور سائڈ‬


‫ٹیبل پر کپ رکھنے کے بہانے بیڈ سے‬
‫نیچے اترا اور کپ رکھ کر تیزی سے‬
‫دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ بند‬
‫کر کے الک کر کے بھاگ کرجمپ لگا‬
‫کر ضوفی کے قدموں کی طرف بیڈ پر‬
‫چڑھ گیا ۔۔ اور الٹا لیٹ کر کہنیوں کے‬
‫بل ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر‬
‫ضوفی کو دیکھنے لگ گیا ۔۔‬

‫ضوفی نے جلدی سے ٹانگیں سیدھی‬


‫کیں اور چوکڑی مار کر بیٹھتے ھوے‬
‫مجھے گھور کر دیکھتے ھوے بولی ۔‬

‫بہت ضدی ہو تم یاسر بہت تنگ کرنے‬


‫لگ گئے ھو ۔۔‬

‫میں نے کہا اور کس کے ساتھ ضد‬


‫کروں کس سے اپنی بات منواوں ایک‬
‫تم ھی تو ھو جس پر اپنا حق جتانا‬
‫مجھے اچھا لگتا ھے ۔۔‬

‫ضوفی بولی چلو اٹھو میرے پیروں کی‬


‫طرف مت لیٹو کیوں مجھے گناہ گار‬
‫کرتے ھو ۔‬

‫اور یہ کہتے ھوے ضوفی نے میرا‬


‫ھاتھ پکڑ کر مجھے اوپر کی طرف‬
‫کھینچا اور میں گھٹنوں کے بل چلتا ھوا‬
‫ضوفی کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا ۔۔‬

‫ضوفی نے بھی چاے ختم کرکے کپ‬


‫رکھ دیا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے‬
‫کی طرف منہ کرکے لیٹ گئے ۔‬
‫ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے‬
‫اتنے قریب تھے کہ ہماری سانسیں ایک‬
‫دوسرے کے چہرے پر پڑ رہیں تھی‬
‫میں نے ایک بازو ضوفی کے سر کے‬
‫نیچے کیا ھوا تھا اور دوسرا بازو اسکی‬
‫بغل سے گزار کر ہاتھ اسکی کمر پر‬
‫رکھا ھوا تھا ضوفی کا سینہ میرے‬
‫سینے کے ساتھ لگا ھوا تھا ہم دونوں‬
‫کی رانیں ایک دوسرے کے ساتھ لگی‬
‫ھوئی تھیں میں ضوفی کی آنکھوں میں‬
‫انکھیں ڈال کر اسکی آنکھوں میں کھویا‬
‫ھوا تھا ضوفی نے آنکھوں کے اشارے‬
‫سے پوچھا کہ کیا دیکھ رھے ھو ۔‬

‫میں نے کہا دیکھ رھا ہوں کہ ان‬


‫آنکھوں میں‪ .‬میرے لیے کتنا پیار ھے‬
‫ضوفی بولی پیار آنکھوں میں نہیں دل‬
‫میں ہوتا ھے آنکھیں دھوکا دے دیتی‬
‫ہیں اور دل کبھی دھوکا نہیں دیتا میرا‬
‫دل صرف تمہارے لیے دھڑکتا ھے‬
‫کاش تمہیں اپنا سینہ چیر کر دیکھا‬
‫سکتی کہ تم سے کتنا پیار کرتی ہوں ۔‬

‫میں نے ضوفی کے ہونٹوں کو چوما‬


‫اور اسکی کمر کو سہالتے ھوے بوال ۔‬

‫جان تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت‬


‫نہیں میں تو اپنی قسمت پر ناز کر رھا‬
‫ھوں کہ مجھے تم جیسا جیون ساتھی‬
‫مال تم اوپر سے جتنی خوبصورت ھو‬
‫اندر سے اس سے دگنی خوبصورت‬
‫ھو‬

‫اوپر والے نے تمہیں صورت کے ساتھ‬


‫سیرت سےبھی نوازہ ھے ۔‬

‫پتہ نہیں مجھ سے کون سی ایسی نیکی‬


‫ھوئی جس کے بدلے اوپر والے نے‬
‫تمہارا ساتھ مجھے دیا ۔‬

‫ورنہ میں تو اتنا گناہ گار ھوں کہ سوچ‬


‫بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی تم‬
‫میرے قریب آجاو گی اور اتنی جلدی‬
‫میں اپنے پیروں پر کھڑا ھوجاوں گا ۔‬
‫ضوفی بولی خوش قسمت تو میں ہوں‬
‫کہ مجھے اتنا چاہنے واال جیون ساتھی‬
‫مال ۔‬

‫یاسر کبھی کبھی تو مجھے بہت ڈر لگتا‬


‫ھے کہ کہیں تم ۔۔۔۔۔‬

‫ضوفی ایکدم چپ ھوگئی اور اسکے‬


‫چہرے پر افسردگی چھا گئی ۔‬
‫میں نے کہا کیا۔۔۔۔۔‬

‫ضوفی بولی کچھ نہیں ۔‬

‫میں نے کہا بولو نہ جان کیا کہنے لگی‬


‫تھی ۔‬
‫ضوفی بولی یاسر تم ساری زندگی‬
‫مجھے یوں ھی پیار کرتے رھو گے نہ۔‬

‫میں نے کہا کوئی شک ھے۔‬

‫ضوفی بولی یاسر پتہ نہیں کیوں کبھی‬


‫کبھی مجھے اس زمانے سے ڈر لگنے‬
‫لگ جاتا ھے کوئی تیسرا ہمارےبیچ نہ‬
‫آجاے ۔۔‬

‫میں نے کہا پاگل ھو کیا ۔‬

‫میری ہر سانس تمہاری مقروض ھے‬


‫تمہیں دیکھ دیکھ کر تو جیتا ھوں ۔‬
‫یہ سوچنا بھی نہ کہ کوئی اور تمہاری‬
‫جگہ لے سکتا ھے تم سے بےوفائی‬
‫کروں اس سے پہلے میں مر۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ضوفی نے جلدی سے اپنے ہونٹ میرے‬


‫ہونٹوں پر رکھ کر پیار کا تاال لگا دیا ۔‬

‫اور پاگلوں کی طرح میرے ہونٹوں کو‬


‫چوسنے لگ گئی اور اپنے جسم کو‬
‫میرے جسم کے ساتھ چپکا کر مجھ میں‬
‫سمانے کی کوشش کرنے لگ گئی ۔۔‬

‫ضوفی کے جسم کا لمس پاتے ھی مجھ‬


‫پر بھی خمار چھانے لگ گیا میں بھی‬
‫کسنگ کی ضوفی برابر ساتھ دینے لگ‬
‫گیا ۔۔‬

‫کتنی دیر ہم یوں ھی ایک دوسرے کے‬


‫ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ چپکے لیٹے رھے ۔۔‬

‫اور بیچ میں کبھی ایک دوسرے کے‬


‫اوپر نیچے ہوتے ھوے پورے بیڈ کی‬
‫سیر کرتے رھے ۔‬

‫ضوفی کا جسم اتنا نرم اور سوفٹ تھا‬


‫کہ میں اسکے جسم کے جس اعضاء پر‬
‫بھی ہاتھ رکھ کر انگلیوں کو دباتا میری‬
‫انگلیاں اندر دھنس جاتی ۔‬
‫ضوفی ہر لحاظ سے فٹ تھی ۔۔‬

‫بنانے والے نے کسی چیز کی کمی اس‬


‫میں نہیں رکھی تھی ۔‬

‫ضوفی دیکھ کر بس دل کر تا تھا کہ‬


‫دیکھی جاوں میری نظریں اسکو دیکھ‬
‫دیکھ کر نہ تھکتی تھی ۔‬

‫اور جب اسکا قرب حاصل ھوتا تو دل‬


‫کرتا کہ اسکو اپنے جسم میں سمو لوں‬
‫اسکے ہونٹوں کو کھا جاوں اسکے جسم‬
‫کو ہاتھوں سے نچوڑ دوں ۔‬
‫کافی دیر کے بعد ہم نے ایک دوسرے‬
‫کے ہونٹوں کی جان چھوڑی اور دونوں‬
‫سیدھے ھوکر لیٹ گئے اور لمبے لمبے‬
‫سانس لینے لگ گئے ۔ضوفی بولی یاسر‬
‫تم میری مت مار دیتے ھو ۔‬

‫میں نے سایڈ کے بل بوتے چہرہ ضوفی‬


‫کی طرف کیا اور بوال اصل مت تو‬
‫شادی کے بعد ماروں گا ۔۔‬

‫ضوفی بولی ۔۔کہیں مت مارتے مارتے‬


‫مجھے ھی نہ مار دینا ۔‬

‫میں نے کہا تمہیں مار کر میں نے خود‬


‫مرنا ھے‬
‫بھی تو جینا سیکھا ھے اور مجھے ‪.‬‬
‫ابھی لمبی زندگی جینا ھے ۔‬

‫اورتمہارے بغیر جینا مشکل ھی نہیں‬


‫ناممکن ھے ۔‬

‫یہ میرا پیار ھے میرا جنون ھے میرا‬


‫بس چلے تو تم کو اپنے اندر سمو لوں ۔۔‬

‫ضوفی نے بھی میری طرف سایڈ بدلی‬


‫اور میرےبالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ھوے بولی‬

‫یاسر مجھ سے کیوں اتنا پیار کرتے ھو‬


‫پاگلو ں کی طرح چومتے‬‫ً‬ ‫کیوں مجھے‬
‫چاٹتے ھو ۔‬

‫میں نے کہا ضوفی تم چیز ھی ایسی ھو‬


‫جسے سواے دیکھنے اور چومنے کہ‬
‫اور کچھ کرنے کو دل ھی نہیں کرتا ۔‬

‫ضوفی نے پھر مجھے جپھی ڈال لی‬


‫اور ہم کتنی دیر ایک دوسرے میں‬
‫سمانے کی کوشش کرتے رھے اور‬
‫‪.‬اسی کوشش میًں پتہ نہیں کب آنکھ لگی‬
‫صبح مجھے جنجھوڑ کر اٹھاتے ہوے ‪.‬‬
‫ضوفی کی ُمدھ بھری آواز میرے کانوں‬
‫سے ٹکرائی اٹھ بھی جاو جان اور کتنی‬
‫دیر سونا ھے دس بج چکے ہیں ۔۔‬
‫میں نے آنکھیں کھولیں تو میری آنکھوں‬
‫کے سامنے میری صبح کا سورج چمک‬
‫رھا تھا ۔‬
‫میں نے ایک سیکسی سی انگڑائی لی‬
‫اور ضوفی کو بازوں سے پکڑ کر اپنے‬
‫اوپر کھینچ کر لیٹا لیا اور بازوں میں‬
‫کس کر ساری سستی ضوفی پر اتاری‬
‫ضوفی ھاےےےےےے کر کے رھی‬
‫گئی اور میرے بازو ڈھیلے ھوتے ھی‬
‫جلدی سے میرے اوپر سے اٹھ کر‬
‫دروازے کی طرف دیکھتے ھوے بولی‬
‫۔‬
‫تم بھی نہ یاسرکوئی موقعہ ہاتھ سے‬
‫نہیں جانے دیتے ۔۔‬
‫میں نے اٹھتے ہوے کہا ایسے مواقع‬
‫کون سا روز روزملتے ہیں جو میں‬
‫الپروائی کر کے ان قیمتی مواقع کو ہاتھ‬
‫سے جانے دوں ۔‬
‫ضوفی ہنستے ھوے بولی باتوں میں‬
‫ویسے تم سے کوئی نہیں جیت سکتا ۔‬
‫چلو شاباش اٹھو جلدی سے اور تیار ھو‬
‫جاو پہلے ھی بہت دیر ھوگئی ھے تین‬
‫دفعہ جناب کو اٹھا کر گئی ھوں ۔‬
‫مگر جناب گھوڑے بیچ کر سوے ھوے‬
‫تھے ۔‬
‫اب پھر نہ سوجانا میں ناشتہ لینے‬
‫جارھی ہوں اور میرے آنے تک تم تیار‬
‫ھو۔۔۔‬
‫میں نے فرمانبرداری سے جھکتے‬
‫ھوے کہا جو حکم سرکار کا ۔۔‬
‫ضوفی کے یوں رعب جھاڑنے اور‬
‫ڈانٹنے میں بھی اپنا پن تھا جس پر میں‬
‫فدا ھوجاتا تھا ۔‬
‫ضوفی مسکراتی ھوئی کمرے سے نکل‬
‫کر نیچے چلی گئی اور میں نے کالک‬
‫کی طرف دیکھا تو واقعی دس بج چکے‬
‫تھے میں جلدی سے واش روم کی‬
‫طرف بھاگا اور نہا دھو کر فریش ھوکہ‬
‫باہر نکال اور ضوفی کے آنے سے‬
‫پہلے ھی کپڑے تبدیل کرکے بال بنا کر‬
‫سیڑیاں اترتا ھوا نیچے چال گیا آنٹی ٹی‬
‫وی النج میں بیٹھی ہوئیں تھی مجھے‬
‫دیکھ کر انکے چہرے پر محبت اور‬
‫شفقت بھری مسکراہٹ آئی میں نے آنٹی‬
‫کو سالم کیا اور ان سے سر پر پیارلیا‬
‫اور ڈھیر ساری دعائیں لے کر انکے‬
‫پاس ھی بیٹھ کر انکی صحت کے بارے‬
‫میں پوچھنے لگ گیا ۔‬
‫آنٹی نے بتایا کہ اب انکی طبعیت ٹھیک‬
‫ھے بس کبھی کبھی بلڈ پریشر کبھی لو‬
‫ھو جاتا ھے تو کبھی ہائی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی کو کہا کہ کسی دن میرے‬
‫ساتھ ہسپتال چلیں آپ کا اچھی طرح‬
‫چیک اپ کروا کر الوں گا ۔۔‬
‫مگر آنٹی ٹال مٹول کرتی رہیں اتنے‬
‫میں ضوفی ناشتہ لے آئی میں نے ماہی‬
‫کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کالج‬
‫چلی گئی ھے ۔‬
‫میں ہممم کر کے ناشتہ کرنے میں‬
‫مصروف ھوگیا اور ساتھ ساتھ آنٹی سے‬
‫دکان اور مال کی باتیں ہوتیں رہیں ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہم دونوں مارکیٹ کی‬
‫طرف چل دیے مارکیٹ پہنچے تو دکان‬
‫کے باہر جنید بیٹھا ہوا تھا ۔۔‬
‫مجھے ضوفی کے ساتھ دیکھ کر‬
‫چونک کہ کھڑا ھوگیا اور منہ کھولے‬
‫حیرانگی سے پھٹی آنکھوں سے کبھی‬
‫میری طرف دیکھتا تو کبھی ضوفی کی‬
‫طرف ضوفی نے بھی یہ بات نوٹ کی‬
‫اور مجھے کہنی مار کر جنید کی حالت‬
‫کیطرف متوجہ کیا میں تو پہلے ھی‬
‫اسکی طرف دیکھ رھا تھا ۔۔‬
‫ضوفی سیدھی نیچے بیسمنٹ میں اتر‬
‫گئی ۔‬
‫جبکہ میں باہر دکان کی طرف بڑھا‬
‫جہاں جنید کھڑا اب بھی سیڑھیوں کی‬
‫طرف دیکھ رھا تھا ۔‬
‫میں نے جاکر اسکی آنکھوں کے‬
‫سامنے ہاتھ ہالیا اوربوال ۔‬
‫سالیا بس وی کر کے ہن نظر النی اے‬
‫۔۔‬
‫جنید ایکدم چونک میری طرف دیکھتے‬
‫ھوے بوال ۔‬
‫گانڈو توں کی شےایں ۔‬
‫روز ای کوئی نہ کوئی حیران پریشان‬
‫کرن واال کم کری جاناں ایں ۔۔‬
‫میں نے کہا ۔‬
‫چل دکان کھول کر اندر چل کر بات‬
‫کرتے ہیں ۔‬
‫اور میں نے جیب سےچابیاں نکالیں اور‬
‫دکان کا شٹر آدھا کھول کر اندر داخل‬
‫ھوا اور جنید بھی میرے پیچھے ھی‬
‫اندر داخل ہوگیا ۔۔‬
‫اندر جاتے ھی جنید نے میری گردن کو‬
‫دبوچ لیا اور بوال سالیا کال ای موجاں‬
‫ماری جاناں ایں ۔۔۔‬
‫اس سے آگے جنید کچھ بولتا‬
‫کہ‬
‫میں نے جھٹکے سے گردن چھڑوائی‬
‫اور اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے‬
‫آگے بولنے سے روکتے ھوے بوال ۔‬
‫بسسسسسس اگے کش نہ بولیں‬
‫اے تیری پرجائی اے سمجھیا ۔۔‬
‫جنید بوال مگر یار یہ تو وہ ھی ھے نہ‬
‫پالر والی جو ہمارے محلے میں رہتی‬
‫ھے جسکی ہم اس دن بات کررھے‬
‫تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا ہاں یاروہ ھی ھے ۔‬
‫مگر اسکے بارے میں کچھ کہنے سے‬
‫پہلے یہ سوچ لینا کہ یہ تیری بھابھی‬
‫اور میری عزت ھے ۔۔‬
‫جنید حیران پریشان ھوتا ھوا دونوں‬
‫ہاتھوں سے سر پکڑ کر کرسی پر ڈھے‬
‫گیا ۔۔۔‬
‫میں اسکی حالت دیکھ کر ہنستے ھوے‬
‫بوال ۔‬
‫پانی پالواں ۔۔‬
‫جنید بوال سالیا پانی دیا ۔‬
‫اے کدوں دا چکر چلن دیا اے جیڑا گل‬
‫ایتھوں تک وی پونچ گئی ۔۔‬
‫میں نے کہا یار صبر تے کر سب ُکش‬
‫دس دیناں ایں مرن واال کیوں ہوگیاں ایں‬
‫۔‬
‫جنید بوال‬
‫ماما توں کم ای ایویں دے کرنا ایں اک‬
‫دم ای چن چڑاناں ایں ۔۔۔‬
‫میں ہنستے ھوے جنید کے سامنے‬
‫کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور اسکو‬
‫مختصرا ً یہ بتا دیا کہ میں اور ضوفی‬
‫ایک دوسرے سے سچا پیار کرتے ہیں‬
‫اور عنقریب ہم شادی کرنے والے ہیں ۔‬
‫َُاور ضوفی نہایت شریف اور خاندانی‬
‫لڑکی ھے بس مجبوری سے بےچاری‬
‫پارلر کا کام کرتی ھے جو شادی کے‬
‫بعد چھوڑ دے گی ۔۔‬
‫جنید بوال یار وہ سب تو ٹھیک ھے میں‬
‫یہ بھی جانتا ھوں کہ یہ واقعی بہت‬
‫شریف ھے کیونکہ میں تو اسکو بچپن‬
‫سے جانتا ھوں مگر یہ تیرے چکر میں‬
‫آئی کیسے ۔‬
‫اس نے تو بڑے بڑے مگرمچھوں کو‬
‫گھاس نہیں ڈالی ۔‬
‫میں نے کہا بس یار نصیب کی بات ھے‬
‫اوپر والے نے ہم دونوں کی جوڑی‬
‫بنانی تھی سو ایک دوسرے کے دل میں‬
‫محبت پیدا کردی ۔۔‬
‫کافی دیر بحث مباحثے کے بعد میں نے‬
‫جنید کو یقین دال ھی دیا کہ واقعی‬
‫ضوفی اورمیں شادی کرنا چاھتے ہیں ۔‬
‫جنید اس بات کو لے کر کافی دیر مجھ‬
‫پر برستا بھی رھا کہ اسے پہلے کیوں‬
‫نہیں بتایا ۔‬
‫میں نے ضوفی کی دنامی اور اس کی‬
‫دی ھوئی قسموں کا بہانہ بنا کر جنید‬
‫سے سوری کر کے اسکو منایا ۔۔‬
‫بارہ بجے ریڑھی پر بلٹی آگئی ۔۔‬
‫پلے دار نے مال کے بورے اور‬
‫سٹیچوؤں کی پیٹیاں اور کچھ کارٹن‬
‫وغیرہ دکان کے اندر رکھے ۔۔‬
‫میں نے ریڑھی والے کو بلٹی کے‬
‫پیسے دے کر روانہ کیا اور پھر آدھا‬
‫شٹر نیچے کر کے ۔‬
‫میں اور جنید بورے کھول کر اندر سے‬
‫شاپر نکالنے لگ گئے ۔۔‬
‫اور ساتھ ساتھ ہنسی مزاق بھی کرتے‬
‫رھے ۔۔‬
‫پھر ہم نے سٹیچووں کی پیٹیاں کھولیں‬
‫اور جہاں جہاں سٹیچوں رکھنے تھے‬
‫وھاں سیٹ کیے جنید گانڈو لڑکیوں کے‬
‫سٹیچووں کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا رھا‬
‫کبھی انکے مموں کو پکڑتا کبھی انکی‬
‫گانڈ پر ھاتھ پھیرتا تو کبھی انکے ساتھ‬
‫جپھیاں ڈالتا ۔‬
‫میں اسکی حرکتیں دیکھ دیکھ کر ہنسی‬
‫جارھا تھا ۔‬
‫ایسے ھی ہنسی مزاق کے دوران ہم نے‬
‫دکان کے اندر کافی حد تک سیٹنگ‬
‫کرلی ہمیں وقت کا تب احساس ھوا جب‬
‫باہر اندھیرا ھونا شروع ھوگیا ۔۔‬
‫میں نے ٹائم دیکھا تو سات بج چکے‬
‫تھے میں نے جنید کو کہا کہ یار باقی کا‬
‫کل کر لیں ابھی تیری بھابی کو گھر‬
‫بھی چھوڑنے جانا ھے اور میں نے‬
‫گاوں بھی جانا ھے۔۔‬
‫جنید نے بہت کہا کہ یار کل جمعہ ھی‬
‫ھے ساری رات میں سیٹنگ مکمل‬
‫کرلیں گے اور کل چھٹی ھی ھے دن‬
‫ٹائم سو کر نیند پوری کرلیں گے میں‬
‫نے کہا نہیں یار پہلے ھی کل کی‬
‫تھکاوٹ نہیں اتری ۔‬
‫کچھ دیر ہماری بحث چلتی رھی آخر‬
‫کار جمعہ کو دن کے وقت بقیہ سیٹنگ‬
‫کرنے اورہفتہ کو بوتیک کا افتتاح‬
‫کرنے کا ڈن ھوا اور ہم دکان سے باہر‬
‫نکلے اور شٹر بند کیا جنید ضوفی کے‬
‫متعلق مجھے چھیڑتا ھوا اپنے گھر کی‬
‫طرف چل دیا اور میں نیچے سیڑیاں‬
‫اترتا ھوا پارلر کی طرف چلدیا ۔۔‬
‫پارلر بند کر کے ہم اوپر آے تو ضوفی‬
‫نے دکان کی سیٹنگ دیکھنے کا کہا میں‬
‫نے شٹر کھوال اور ہم بوتیک میں داخل‬
‫ھوے ضوفی دکان کے اندر داخل ہوکر‬
‫چاروں اطراف دیکھتے ھوے بہت‬
‫خوش ہورھی تھی بوتیک کا فرنیچر اور‬
‫سیٹنگ اور ورائٹی دیکھ کر ضوفی‬
‫تعریفوں کے پل باندھی جارھی تھی ۔‬
‫اور میری محنت لگن اور پرچیزنگ کو‬
‫سراہ رھی تھی ۔۔‬
‫کچھ دیر ہم بوتیک میں رھے اور پھر‬
‫دکان بند کر کے میں ضوفی کو گھر‬
‫چھوڑنے چال گیا کچھ دیر ضوفی کے‬
‫گھر ٹھہرنے کے بعد میں واپس اپنے‬
‫گھر گاوں آگیا۔۔‬
‫امی ابو آپی بھا مجھے مبارکیں دے‬
‫رھے تھے میں نے انکو ہفتہ کو بوتیک‬
‫کے افتتاح پر آنے کا کہا آپی اور امی‬
‫کو میں نے اگلے دن ھی جمعہ کو‬
‫بوتیک دیکھنے کا کہا ۔۔‬
‫‪.‬‬

‫اور امی کے کان میں انکو انکی بہو‬


‫سے ملوانے کا بھی کہہ دیا ۔۔‬
‫اگلے دن میں امی اور آپی کو تانگے پر‬
‫لے کر سیدھا ضوفی کے گھر پہنچا‬
‫اور امی کو راستے میں ھی بتا دیا کہ‬
‫ہم پہلے ضوفی کے گھر جائیں گے آپ‬
‫اسکی امی کی خیریت بھی دریافت‬
‫کرلینا اور اپنی بہو سے بھی مل لینا‪،‬‬
‫اور آپی کو بھی ساری تفصیل بتا دی ۔‬
‫اور اسکو سختی سے منع بھی کردیا کہ‬
‫ابھی یہ بات کسی سے نہیں کرنی ۔‬
‫خاص کر آنٹی فوزیہ اور انکی بیٹیوں‬
‫سے ۔‬
‫امی نے بھی آپی کو سختی سے منع‬
‫کردیا ۔‬
‫خیر تانگہ ضوفی کے گھر کے سامنے‬
‫رکا ہم سب تانگے سے نیچے اترے ۔۔‬
‫میں نے ڈور بیل دی تو ضوفی کی آواز‬
‫آئی کون ۔۔‬
‫میں نے دروازے کے پاس منہ کر کے‬
‫آہستہ سے کہا مگر تیز تیز کہا۔۔‬
‫تمہارےسسرال والے آے ہیں جلدی‬
‫دروازہ کھولو۔۔ امی نے پیچھے سے‬
‫میری گردن پر تھپڑ مارا کہ کتنے بتمیز‬
‫ھو ایسے بولتے ہیں ۔‬
‫اتنی دیر میں‬
‫ضوفی نے دروازہ کھوال اور غصے‬
‫سے میری طرف دیکھ کر کچھ بولنے‬
‫لگی کہ اسکی نظر امی اورآپی پر پڑ‬
‫گئی ضوفی وہیں ُگنگ ہوکر کھڑی‬
‫آنکھیں پھاڑے کبھی میری طرف‬
‫دیکھتی کبھی امی لوگوں کی طرف ۔۔‬
‫میں نے ضوفی کی حالت دیکھی اور‬
‫اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہالتے‬
‫ھوے بوال ۔۔۔‬
‫ہیلووووو‬
‫تمہاری ساس اورنند ہیں ۔۔۔‬
‫پریشان کیوں ہوگئی ہو ۔۔‬
‫ضوفی ایک دم سکتے سے باہر آئی اور‬
‫سارے جہاں کی مسکراہٹ چہرے پر‬
‫التے ھوے امی اور آپی کو اندر آنے کا‬
‫کہا ۔‬
‫اوردروازے کے اندر داخل ہوتے ھی‬
‫امی اور آپی سے بڑی گرمجوشی سے‬
‫گلے ملی ۔۔‬
‫میں بعد میں اندر داخل ھوا آپی سے‬
‫ملنے کے بعد ضوفی نے میری طرف‬
‫گھور کر دیکھا تو میں بھی باہیں کھول‬
‫کر ضوفی کے گلے ملنے کے لیے‬
‫آگے بڑھا تو آپی منہ پھاڑے مجھے‬
‫دیکھنے لگ گئی اور ضوفی شرما کر‬
‫سر نیچے کیے انکو لے کر اندر چلی‬
‫گئی ۔۔‬
‫امی اور آپی کو دیکھ کر تو ضوفی کے‬
‫پاوں زمین پر نہیں لگ رھے تھے ۔۔‬
‫خوشی کے مارے وہ نہال ہوئی جارھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫امی اور آپی کو اندر بیٹھا کر ضوفی‬
‫آنٹی کو کمرے سے لینے چلی گئیں‬
‫کچھ ھی دیر میں آنٹی بڑی خوش‬
‫دوڑتی ھوئی کمرے سے باہر آئہی اور‬
‫بڑی گرمجوشی سے امی اور آپی سے‬
‫ملیں ضوفی کچن میں گئی میں بھی‬
‫اسکے پیچھے ھی کچن میں چال گیا‬
‫موقع ملتے ھی ضوفی مجھ پر برس‬
‫پڑی کے کم ازکم مجھے پہلے بتا تو‬
‫دیتے کہ امی نے آنا ھے یوں اچانک‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫میں نے بات کاٹتے ھوے کہا کچھ نہیں‬
‫ہوتا بغیر میک اپ کے اگر تمہیں دیکھ‬
‫لیا ۔۔‬
‫ضوفی میرے کندھے پر مکا مارتے‬
‫ھوے بولی ۔‬
‫الو میں اس لیے کہہ رھی تھی کے گھر‬
‫کی صفائی وغیرہ کرلیتی سب کچھ‬
‫بکھرا پڑا ھے ۔‬
‫میں نے کہا جان وہ تمہیں دیکھنے آے‬
‫ہیں گھر کو نہیں ۔‬
‫اور پھر میں نے ساتھ ھی پلٹی مارتے‬
‫ھوے ضوفی کو چھیڑا کہ ویسے بھی‬
‫امی آنٹی کی خبر لینے آئیں ہیں ۔۔۔‬
‫تم ذیادہ خوش نہ ھو ۔۔۔‬
‫ضوفی گالس مجھے مارنے کے سٹائل‬
‫سے میری طرف بڑھی تو میں پلٹ کر‬
‫پیچھے بھاگا اور کچن سے نکل کر امی‬
‫اور آنٹی کے پاس جا بیٹھا ۔‬
‫امی مجھے گھورے جارھی تھی ۔‬
‫کہ میں ایسے بھاگا پھر رھا ہوں جیسے‬
‫اپنا گھر ہو۔‬
‫میں امی کے گھورنے پر بڑا شریف‬
‫بچہ بن کر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫امی اور آنٹی کچھ ھی دیر میں کافی‬
‫ُگھل مل گئیں تھیں ضوفی نے پہلے‬
‫کولڈ ڈرنک پیش کی اور کچھ دیر امی‬
‫کے پاس بیٹھ‬
‫کر امی کا حال احوال پوچھتی رہی‬
‫ضوفی بڑے سلجے انداز میں امی اور‬
‫آپی کو ٹریٹ کر رھی تھی اور کچھ دیر‬
‫بعد ضوفی کھانا بنانے کا کہہ کر آپی‬
‫کو ساتھ لے کر کچن میں چلی گئی ۔‬
‫ماہی کالج گئی ھوئی تھی ۔‬
‫ورنہ وہ بھی امی اور آپی کو مل کر‬
‫بہت خوش ہوتی ۔۔‬
‫آنٹی امی کے سامنے میری تعریفوں‬
‫کے پُل باندھی جارھی تھی ۔‬
‫میں مزید کچھ دیر بیٹھا اور پھر امی‬
‫اور آنٹی کو دکان کی سیٹنگ کا بتایا کہ‬
‫ابھی کچھ کام رہتا ھے اور آج جنید نے‬
‫بھی آنا تجا وہ انتظار کر رھا ھوگا اس‬
‫لیے میں چلتا ھوں آپ لوگ باتیں کریں‬
‫اور پھر ان سے اجازت لے کر کچن‬
‫میں گیا اور ضوفی کو کہا کہ جب فری‬
‫ھوجاو تو سب کو لے کر بوتیک پر آنا‬
‫۔۔۔‬

‫ضوفی نے اچھا جی کہا ۔۔‬


‫اور میں اسے آنکھ مار کر کچن سے‬
‫باہر نکل گیا باہر نکلتے وقت میری‬
‫نظر جب آپی پر پڑی تو آپی ہاتھ منہ پر‬
‫رکھے ہاےےےےے ***** کر رھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫میں ہنستہ ھوا باہر دروازے کی طرف‬
‫بڑھا اور پھر گلی میں نکل کر دکان کی‬
‫طرف چل دیا ۔۔۔‬
‫دکان پر پہنچا تو جنید پہلے سے وھاں‬
‫موجود تھا ۔‬
‫مجھے دیکھ کر ایڑیاں اٹھا کر میرے‬
‫پیچھے دیکھتے ھوے بوال بھابھی نہیں‬
‫آئی ۔۔‬
‫میں نے امی اور آپی کا بتایا کہ وہ کچھ‬
‫دیر بعد ان کے ساتھ آے گی دکان‬
‫دیکھنے ۔۔‬
‫جنید بڑا حیران ھوکر بوال واہ جی واہ‬
‫تے گل ایتھے تک پہنچ گئی اے ۔اب‬
‫امی اور آپی بھی بھابی کو دیکھنے پہنچ‬
‫گئیں ۔۔‬
‫میں نے کہا بس دیکھ لو یار اوپر واال‬
‫جب مہربان ہوتا ھے تو سب ٹھیک ہو‬
‫جاتا ھے ۔‬
‫جنید نے مجھ سے چابی لے کر دکان کا‬
‫شٹر کھوال ۔‬
‫دوستو‬
‫جنید کا یوں میرے دکان پر آنے کا‬
‫انتظار کرنا اور جب وہ دکان کے تالے‬
‫کھول رھا تھا تو مجھے اپنے دن یاد‬
‫آگئے کہ میں کیسے انکل کا انتظار کیا‬
‫کرتا تھا اور ان سےچابیاں لے کر دکان‬
‫کھوال کرتا تھا ۔۔‬
‫اوپر والے کا شکر ادا کیا جس نے اتنی‬
‫جلدی عزت سے نوازہ ۔۔میں جنید کے‬
‫پیچھے دکان میں داخل ہوا اور صفائی‬
‫کرنے لگا تو جنید بوال رہنے دو میں کر‬
‫لیتا ھوں ۔‬
‫جنید کی بات سن کر میں ہنستے ھوے‬
‫بوال نہیں یار میں اپنی اوقات نہیں بھولنا‬
‫چاہتا اور ہاں تم کبھی بھی مجھ میں اور‬
‫اپنے آپ میں فرق نہ سمجھنا جیسے ہم‬
‫پہلے دوست تھے اب بھی ویسے ھی‬
‫ہیں ۔‬
‫میں تمہیں مالزم نہیں بلکہ اپنا بھائی‬
‫سمجھ کر رکھا ھے ۔۔‬
‫جنید میرے پاس آیا اور مجھ سے جپھی‬
‫ڈال کر بوال ۔‬
‫شکریہ یار جو تم نے مجھے اتنی عزت‬
‫دی ۔۔‬
‫میں نے بھی اسکو بازوں میں کسا اور‬
‫بوال ۔‬
‫بس یہ بات ذہن نشین کرلو کہ یہ‬
‫تمہاری اپنی دکان ھے اور ہم نے مل‬
‫کر اسے سٹینڈ کرنا ھے ۔۔‬
‫جنید بوال ۔‬
‫بلکل اوپر والے نے چاھا تو بہت جلد‬
‫ہماری دکان کا نام ھوگا ۔۔۔پھر ہم ایک‬
‫دوسرے سے علیحدہ ھوے اور جو‬
‫سیٹنگ رھ گئی تھی وہ سیٹنگ کرنی‬
‫شروع کردی ۔‬
‫کام میں وقت کا ھی پتہ نہیں چال ۔کہ‬
‫کب ایک بج گیا *****‪،‬کی آواز سن کر‬
‫جنید بوال یار میں نے جمعہ پڑھنا ھے ۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ھے یار کام تو مکمل‬
‫ھوچکا ھے تم ایسا کرو گھر چلے جاو‬
‫اور میں نے امی لوگوں کا انتظار کرنا‬
‫ھے ۔‬
‫جنید نے یممم کیا اور مجھ سے مل کر‬
‫گھر چال گیا ۔۔‬
‫میں دکان کی صفائی کرنے لگ گیا جو‬
‫شاپر وغیرہ بکھرے پڑے تھے انکو‬
‫اٹھانے میں مصروف ھوگیا ۔۔‬
‫ایک گھنٹے بعد بوتیک کا شیشے کا‬
‫دروازہ کھال اور پہلے امی اندر داخل‬
‫ہوئیں اور آنکھیں پھاڑے حیران پریشان‬
‫بوتیک کو چاروں طرف دیکھنے لگ‬
‫گئی امی کے پیچھے آنٹی اور پھر آپی‬
‫اور ماہی ضوفی ۔۔۔‬
‫سب کے سب بوتیک کو دیکھ کر‬
‫خوشی سے نہال ہورھے تھے امی اور‬
‫آنٹی نے میرا ماتھا چوما اور ڈھیر‬
‫ساری دعائیں دینے لگ گئیں نازی ماہی‬
‫ضوفی بھی مجھے مبارکباد دینے لگ‬
‫گئیں ۔۔۔‬
‫سب ھی بہت خوش تھے ۔۔۔‬
‫میں انکو بیٹھا کر باہر دے کولڈ ڈرنک‬
‫لے آیا اور کافی دیر ہم ہنسی مزاق‬
‫کرتےرھے ۔‬
‫امی اور نازی آنٹی لوگوں سے ایسے‬
‫گھل مل گئے تھے جیسے ایک ھی‬
‫فیملی ھو ۔۔۔‬
‫نازی بار‪ ،‬بار مجھے ضوفی کی طرف‬
‫آنکھوں سے اشارے کر کے ھاتھ سے‬
‫بہت پیاری ھے کہہ رھی تھی ۔‬
‫ناذی ماہی اور ضوفی کے ساتھ ایسے‬
‫فرینک ہوگئی تھی جیسے وہ انکی‬
‫کزنیں ھوں ۔۔‬
‫۔۔‪.‬‬
‫ماہی بولی بھائی اب تو آپ کی طرف‬
‫پارٹی بنتی ھے خالی بوتلوں سے ہمیں‬
‫نہ ٹرکا دینا ۔۔‬
‫میں نے کہا جب کہیں کھال دوں گا ۔۔‬
‫آنٹی ماہی کو جھڑکتے ھوے بولی ۔‬
‫شرم کرو ماہی ابھی اسکو کام تو شروع‬
‫کرنے دو ۔۔‬
‫امی بیچ میں بولیں ۔۔‬
‫آپاں پھر کیا ھوا وہ اتنے پیار اور مان‬
‫سے کہہ رھی ھے ۔‬
‫ایسا کرتے ہیں کل آپ ہماری طرف‬
‫آئیں سب ۔‬
‫ہمارا گاوں بھی دیکھ لینا اور ہمارا‬
‫غریب خانہ بھی ۔۔‬
‫آنٹی بولی جی ضرور آئیں گے کیوں‬
‫نہیں مگر کل تو مشکل ھے اگلے جمعہ‬
‫کو ہم آپکے گھر آئیں گے تب ضوفی‬
‫اور یاسر کو بھی چھٹی ھوگی ۔۔۔‬
‫سب نے یہ تجویز پسند کی ۔۔‬
‫ضوفی ورائٹی دیکھ دیکھ کر بہت ھی‬
‫خوش ھو رھی تھی اور میری پسند کی‬
‫داد دے رھی تھی ۔۔‬
‫کہ اتنے کم پرائس میں اتنی عمدہ‬
‫ورائٹی ۔۔۔‬
‫خیر شام تک سب دکان میں ھی رھے‬
‫پھر امی نے جانے کی اجازت مانگی تو‬
‫میں دو رکشے لے آیا دکان بند کی اور‬
‫ضوفی کو صبح افتتاح کرنے کا کہا‬
‫ضوفی نے میری بات سمجھتے ھوے‬
‫چپکے سے میری پینٹ کی جیب میں‬
‫پیسے ڈال دیے ۔۔‬
‫پھر ہم گاوں آگئے اور آنٹی لوگ اپنے‬
‫گھر چلے گئے ۔‬
‫امی اور نازی آنٹی لوگوں سے مل کر‬
‫بہت خوش تھیں سارے رستے ان سب‬
‫کی تعریفیں کرتی رہیں ۔۔۔گھر آکر بھی‬
‫انکی ھی باتیں ہوتی رہیں ۔۔‬
‫امی نے ابو کو جب دکان کی سیٹنگ‬
‫اور ورائٹی کے بارے میں قصیدے‬
‫سناتے تو ابو بھی بہت خوش ھوے ۔۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر گھر رہنے کے بعد آنٹی‬
‫فوزیہ کے گھر انکو دکان کی‬
‫خوشخبری سنانے چال گیا ۔‬
‫‪.No 2‬‬
‫آنٹی کے گھر پہنچا تو انکا دروازہ بند‬
‫دروازہ ناک کیا تو کچھ دیر بعد آنٹی کی‬
‫آواز آئی کون میں نے کہا آنٹی یاسر‬
‫ہوں ۔۔‬
‫آنٹی نے دروازہ کھوال اور بڑے موڈ‬
‫میں بولی مل گیا ٹائم آگئی یاد ۔۔میں ہنستا‬
‫ہوا اندر داخل ھوا اور آنٹی کی گالوں پر‬
‫چٹکی کاٹ کر ہالتے ھوے بوال ۔‬
‫آپ کو خوشخبری سنانے آیا ھوں ۔۔‬
‫آنٹی ہاےےے کرتی ھوئی اپنی گالوں‬
‫سے میرے ہاتھ ہٹاتے ھوے بولی ۔۔‬
‫شادی تونہیں کروانے لگے ۔۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا لو جی ابھی‬
‫اپنے پاوں پر تو کھڑا ھوجاوں پھر‬
‫شادی کا بھی سوچیں گے ۔۔‬
‫آنٹی دروازہ بند کرتے ھوے آہستہ سے‬
‫بولی ۔‬
‫سب کچھ تو کھڑا ہوگیا ھے اور اب کیا‬
‫کھڑا کرنا باقی ھے ۔۔‬
‫میں بولنے ھی لگا تھا کہ نسرین کمرے‬
‫سے نکل کر باہر آتے ھوے بولی امی‬
‫کون ھے باہر۔۔۔اور مجھ پر نظر پڑتے‬
‫ھی مجھے گھور کر دیکھتے ھوے‬
‫بولی ۔۔‬
‫امی یہ کون اندر آگیا ۔۔‬
‫میں چلتا ھوا نسرین کے پاس پہنچا اور‬
‫بوال ۔۔‬
‫نظر کمزور تھی پہلے لگتا ھے اب‬
‫رہتی نظر چلی گئی ھے ۔‬
‫نسرین بولی او پائی کون ایں کدر منہ‬
‫ُچک کے اندر وڑی جاناں ایں ۔۔۔‬
‫آنٹی میرے پیچھے ہنستے ھوے بولی ۔۔‬
‫ویسے تمہارے ساتھ ہونا ایسے ھی‬
‫چاہیے ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی آپکا اعتراض بنتا‬
‫ھے آپکا غصہ بھی بجا ھے ۔‬
‫مگر پہلے مجھے کچھ کہنے کا موقع تو‬
‫دیں ۔۔‬
‫نسرین بولی ہم تمہیں جانتے ھی نہیں تو‬
‫پھر بات کیوں سنیں ۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا بکواس بند‬
‫کرو آئی وڈی کار دی مالکن ۔۔۔‬
‫اور میں یہ کہتا ھوا کمرے میں داخل‬
‫ھوگیا نسرین میرے پیچھے آئی اور‬
‫میرا بازو پکڑتے ھوے مجھے روکتے‬
‫ھوے بولی ۔‬

‫او ہیلو پائی کدھر منہ اٹھاے کمرے میں‬


‫جارھے ھو ۔۔۔۔‬
‫مجھے اب واقعی غصہ آگیا تھا ۔۔‬
‫میں نے غصے سے نسرین کی طرف‬
‫دیکھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے بازو‬
‫سے جھٹک دیا اور غصے سے واپس‬
‫باہر کیطرف چل دیا ۔۔‬
‫آنٹی نے مجھے یوں غصے سے جاتے‬
‫ھوے دیکھا تو ۔‬
‫نسرین کو گالیاں دیتی میرے پیچھے‬
‫بھاگی اور مجھے بازو سے پکڑ کر‬
‫واپس کمرے کی طرف کھینچتے ھوے‬
‫لیجانے لگی ۔۔‬
‫شور سن کر عظمی بھی کمرے سے‬
‫باہر آگئی ۔۔۔‬
‫نسرین بھی مجھے غصے میں دیکھ کر‬
‫شرمندہ سی ہوگئی ۔۔‬
‫آنٹی مجھے کھینچتے ھوے کمرے میں‬
‫لیجانے لگی ۔۔‬
‫میں بھی نخرے کرتا ھوا آنٹی کے ساتھ‬
‫کمرے میں داخل ہوگیا۔۔‬
‫آنٹی مجھے کمرے میں پڑی لکڑی کی‬
‫کرسی پر بٹھاتے ھوے بولی ۔‬
‫آرام سے بیٹھ جا اب ۔‬
‫اس ُکتی کے بھونکنے کی وجہ سے‬
‫موڈ خراب کررھے ھو پتہ تو ہے تمہیں‬
‫اسکا منہ پھٹ ھے ۔۔‬
‫مجھے نسرین پر بہت غصہ چڑھی‬
‫جارھا تھا نہ جانے کیوں ۔‬
‫پہلے بھی نسرین میرے ساتھ ایسے ھی‬
‫کرتی تھی پہلے میں نے کبھی بھی‬
‫اسکی بات کا برا نہیں مانا تھا ۔۔‬
‫مگر آج مجھے پتہ نہیں کیوں اپنی‬
‫بےعزتی محسوس ہوئی ۔‬
‫نسرین بھی سر جھکائے میرے سامنے‬
‫کھڑی تھی اوراسکی آنکھوں سے ٹپ‬
‫ٹپ آنسو گر رھے تھے ۔‬
‫میں سر جھکائے چپ کر کے بیٹھا‬
‫اپنے ہلتے پاوں کی طرف دیکھی جارھا‬
‫تھا ۔۔‬
‫آنٹی نے عظمی کو چاے بنانے کا کہا‬
‫تو میں نے چاے پینے سے انکار کردیا‬
‫۔۔‬
‫مگر انٹی نے مجھے ڈانٹتےھوے کہا ان‬
‫بس بھی کرو اتنا غصہ بھی صحت کے‬
‫لیے ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔‬
‫میں نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ‬
‫کہا نہیں آنٹی ایسی بات نہیں میں گھر‬
‫سے چاے پی کر ایا ھوں ابھی دل نہیں‬
‫کررھا ۔۔‬
‫انٹی نے عظمی کو ڈانٹتے ھوے کہا‬
‫سنیا نئی ہالے تک اوتھے ای بُن‬ ‫تینوں ُ‬
‫وٹا بن کے کھڑی ایں‪ .‬چھیتی جا تے‬
‫ویر واسطے چا بنا کہ لیا۔۔۔‬
‫آنٹی کے منہ سے ویر سن کر میں نے‬
‫چونک کر عظمی کی طرف دیکھا تو‬
‫عظمی میری نظر کو محسوس کرکے‬
‫شرمسار سی ھوکر باہر چلی گئی ۔۔‬
‫نسرین ابھی تک وہیں دروازے کے‬
‫پاس بت بنی کھڑی تھی آنٹی نے نسرین‬
‫‪.‬کی طرف دیکھا اور غصے سے بولیں‬
‫ہن توں ایتھے ای کھڑی رہنا اے ۔‬
‫جا بار دفعہ ھوجا‬
‫جا کہ پین نال چا بنوا ۔۔۔‬
‫نسرین آنسو صاف کرتی چپ کرکے‬
‫باہر نکل گئی ۔۔۔‬
‫آنٹی دوسری کرسی میرے پاس کر کے‬
‫میرے ساتھ بیٹھتے ھوے میری کمر پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ھوے بولی ۔‬
‫میرے شہزادے کا‬
‫اب غصہ ٹھنڈا ھوا کہ نہیں میں نے‬
‫خود کو نارمل کرتے ھوے مسکراتے‬
‫ھوے کہا ۔‬
‫نہیں آنٹی مجھے کیوں غصہ آنا ھے آپ‬
‫نے خامخواہ نسرین بیچاری کو ڈانت دیا‬
‫۔۔‬
‫آنٹی بولی یاسر یہ لڑکی بہت بتمیز‬
‫ھوتی جارھی ھے بہت منہ پھٹ ھے‬
‫کسی بڑے چھوٹے کا لحاظ نہیں کرتی‬
‫تم بھی اچھی طرح اس پاگل کی عادتوں‬
‫سے واقف ھو ابھی تک اس میں بچپنا‬
‫ھے ۔۔‬
‫میں نے دل میں کہا اسکا بچپنا تو اب‬
‫مجھے ختم کرنا ھی پڑے گا ۔۔۔‬
‫میں نے ہنستے ھوے کہا ۔‬
‫کوئی بات نہیں آنٹی اتنا غصہ کرنے کا‬
‫حق تو اسکا بھی بنتا تھا میں بھی تو‬
‫اتنے دنوں سے نہیں آیا تھا ۔۔‬
‫آنٹی بولی اچھا بتاو کون سی خوشخبری‬
‫سنانے لگے تھے ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی میں نے اپنی‬
‫علیحدہ دکان بنا لی ھے سلے سالے‬
‫لیڈیز سوٹوں کی ۔۔۔‬
‫آنٹی حیرت سے گنگ ھوگئی اور پھر‬
‫بولی واقعی اییییییی سچ کہہ رھے ھو تم‬
‫یاسر ۔‬
‫میں نے کہا قسم اے آنٹی اسی لیے تو‬
‫میں اتنے دن آ نہیں سکا کل میری دکان‬
‫کا پہال دن ھے ۔۔‬
‫آنٹی خوشی سے اٹھ کر میرے منہ ماتھا‬
‫چومنے لگ گئی اور دعاءیں دینے لگ‬
‫گئی ۔۔‬
‫اچانک آنٹی نے سنجیدہ ھوتے ھوے‬
‫پوچھا مگر یاسر تمہارے پاس اتنے‬
‫پیسے کہاں سے آے ۔۔‬
‫میں نے کہا بس آنٹی جی جب اوپر واال‬
‫مہربان ہوتا ھے تو بہت سے اسباب بنا‬
‫دیتا ھے ۔۔‬
‫انٹی بولی وہ تو ٹھیک ھے مگر پھر‬
‫بھی پتہ تو چلے کہ اسباب کیسے بنے ۔‬
‫میں نے آنٹی کو اپنے دوست کی‬
‫منگھڑت کہانی سنائی ۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی میری بین سن کر یقین کرتے ھوے‬
‫بڑی خوش ہوئی اور میرے دوست کو‬
‫دعاءیں دینے لگ گئی ۔۔‬
‫عظمی بھی کافی خوش ہوئی اور نسرین‬
‫نے بس خاموش رہنا ھی مناسب سمجھا‬
‫۔۔‬
‫میں نے انٹی لوگوں کو دکان پر انے‬
‫کی دعوت دی اور انکو دکان کا اڈریس‬
‫بھی سمجھایا ۔۔‬
‫آنٹی نے کہا جب بھی بازار کا چکر لگا‬
‫الزمی آئیں گے ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور پھر کافی دیر‬
‫تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے‬
‫۔‬
‫عظمی کسی نہ کسی بات میں حصہ لے‬
‫لیتی مگر نسرین سڑی بھلی بیٹھی رھی‬
‫۔۔۔‬
‫میں نے بھی اسکو ذیادہ لفٹ نہیں‬
‫کروائی ۔۔‬
‫میں نے آنٹی سے انکل کا پوچھا تو آنٹی‬
‫نے بتایا کہ اسکی طبعیت نہیں سہی وہ‬
‫دوائی کھا کر شام سے ھی سویا ھوا‬
‫ھے ۔۔‬
‫کچھ دیر مذید بیٹھنے کے بعد میں نے‬
‫آنٹی سے کہا میں چلتا ھوں آکر دروازہ‬
‫بند کرلیں ۔‬
‫ساتھ ھی میں‪ .‬نے اآنٹی کو آنکھ ماردی‬
‫۔۔‬
‫آنٹی بھی شاید میری آنکھ کا اشارہ‬
‫سمجھ گئی تھی ۔۔‬
‫میں اٹھ کر کمرے سے باہر نکال اور‬
‫صحن میں کھڑا ھوکر چاروں طرف‬
‫نظریں گھما کر جائزہ لینے لگ گیا۔۔‬
‫رات ہوچکی تھی کافی اندھیرا تھا‬
‫صحن میں ۔۔‬
‫آآنٹی بھی کمرے سے باہر نکل کر‬
‫میرے پیچھے آگئی میں کچھ آگے گیا‬
‫اور اندھیرے میں کھڑا ہوگیا آنٹی میرے‬
‫پاس آئی تو مین نے انٹی کو بازوں میں‬
‫بھر لیا اور کس کے جپھی ڈال لی آنٹی‬
‫آہستہ سے بولی نہ کرو یاسر بچیاں‬
‫جاگ رہی ہیں ۔۔‬
‫میں نے کہا آنٹی جی بہت دل کررھا‬
‫ھے آج کتنے دن یوگئے ہیں ۔۔۔‬
‫کچھ کرو نہ کہ ابھی میرا کام بن جاے‬
‫آنٹی بولی پاگل ھوگئے ھو عطمی‬
‫نسرین جاگ رہی ہیں ۔‬
‫میری نظر اچانک سیڑیوں پر پڑی ۔‬
‫اور پھر کمروں کے اوپر چاروں‬
‫اطراف کیے اونچے پردوں‬
‫پر پڑی ۔۔‬
‫میں نے فٹ انٹی کو کہا انٹی اگر میں‬
‫چھت پر چال جاوں اور آپ کسی طرح‬
‫چھت پر آجاو کسی کو پتہ بھی نہیں‬
‫چلے گا ۔‬
‫آنٹی بولی پاگل مسئلہ تو بچیوں کا ھے‬
‫وہ جاگ رھی ہیں ۔‬
‫میں بچوں کی طرح ضد کرتے ھوے‬
‫کہا مجھے نہیں پتہ انٹی جی کچھ‬
‫کرووووو۔‬
‫‪.‬‬

‫آنٹی کچھ سوچتے ھوے بولی تم مرواو‬


‫گے مجھے ۔‬
‫میں نے کہا کچھ نہیں ھوتا بس کچھ ھی‬
‫دیر کی تو بات ھے ۔۔‬
‫آنٹی بولی چلو پھر دھیان سے اور آرام‬
‫آرام سے سیڑیاں چڑھتے ھوے اوپر‬
‫جانا ۔۔‬
‫اور سٹور والی چھت ہر ھی رہنا‬
‫دوسرے کمرے کی چھت پر مت جانا‬
‫نہیں تو بچیاں چھت پر چلنے کی آواز‬
‫سن لیں گی ۔۔‬
‫میں نے مزید کس کر اانٹی کو جپھی‬
‫ڈالی اور انٹی کے ہونٹوں کو چومتے‬
‫ھوے تھینکیو کیا اور بڑے سلو موشن‬
‫میں سیڑیاں چڑھتا ھوا چھت پر چال گیا‬
‫اور ایک طرف پردے کی چاردیواری‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنٹی‬
‫کا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔‬
‫مجھے بیٹھے آدھا گھنٹا گزر گیا مگر‬
‫آنٹی کا دور دور تک نام نشان نہ تھا ۔‬
‫مجھے گھر جانے کی ٹینشن تھی گھر‬
‫بھی میں ابھی آیا کہہ کر آیا تھا ۔۔‬
‫جب انتظار کی حد ھوگئی تو میں آیستہ‬
‫سے اٹھا اور پردے سے سر اٹھا کر‬
‫صحن میں جھانکا تو مجھے آنٹی واش‬
‫روم سے نکلتی نظر آئی اور پھر آنٹی‬
‫انکل کے کمرے کی طرف جاتی نظر‬
‫آئی ۔۔‬
‫میں انٹی کو کمرے کی طرف جاتے‬
‫دیکھ کر دل میں آنٹی کو گالیاں دینے‬
‫لگ گیا کہ سالی مجھے چھت پر‬
‫سوکھنے ڈال کر پھر کمرے میں گھس‬
‫گئی ھے ۔‬
‫میں واپس جانے کا سوچ ھی رھا تھا کہ‬
‫آنٹی کمرے سے بڑے آرام آرام سے‬
‫نکل کر چلتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف‬
‫آتی نظر آئی آنٹی نے ہاتھ میں کوئی‬
‫کپڑا یا گدا پکڑا ھوا تھا ۔۔۔‬
‫میں خوشی سے یسسسسسسس کر کے‬
‫جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ۔۔‬
‫کچھ ھی دیر بعد آنٹی چھت پر نمودار‬
‫ھوئی اور تھوڑا ُجھک کر چلتی ھوئی‬
‫میرے پاس آئی اور ہاتھ میں پکڑا گدا‬
‫کچی چھت پر بچھا دیا اور منہ پر انگلی‬
‫رکھ کر شییییی کرتے ھوے مجھے چپ‬
‫رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔‬
‫اور گدے پر بیٹھتے ھوے مجھے بھی‬
‫اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔۔۔‬
‫میں جلدی سے انٹی کے پاس بیٹھ گیا‬
‫اور پوچھنے لگ گیا کہ اتنی دیر کردی‬
‫میں تو واپس جانے لگا تھا ۔‬
‫آنٹی بولی جو جاگ رہیں تھیں انکو سال‬
‫کر ھی آنا تھا ۔‬
‫میں نے کہا سوگئیں تو آنٹی بولی انکو‬
‫جھڑک جھڑک کر سال کر کمرے کی‬
‫باہر سے کنڈی لگا کر آئی ہوں ۔۔‬
‫میں نے انکل کا پوچھا تو آنٹی نے کہا‬
‫وہ تو بےہوش پڑا ھے نیند کا سیرپ پی‬
‫کر ۔۔۔‬
‫میں نے انٹی کا دوپٹہ اسکے گلے سے‬
‫نکال کر ایک طرف رکھا اور آنٹی اپنے‬
‫لمبے بالوں کو پیچھے سے اکھٹا کر‬
‫کے انپر پونی چڑھاتے ھوے پیچھے‬
‫کیطرف لیٹ گئی ۔۔‬
‫میں بھی انٹی کی ٹانگوں کے بیچ آنٹی‬
‫کی ٹانگوں کو پھیالتا ھو اسکے اوپر‬
‫لیٹ گیا انٹی کا نرم نرم جسم اور موٹے‬
‫موٹے ممے مجھے میٹرس پر لیٹنے کا‬
‫احساس دال رھے تھے ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے اوپر لیٹتے ھی انٹی‬
‫کے ہونتوں کو اپنے یونٹوں میں جکڑ‬
‫لیا اور ایک ہاتھ سے ایک مما پکڑ کر‬
‫دبانے لگ گیا اور دوسرا بازو انٹی کے‬
‫سر کے نیچے ڈال کر آنٹی کی گردن‬
‫بازو پر رکھ لی میرا لن انڈر ویئر اور‬
‫پینٹ کو ہھاڑ کر باہر نکلنے کے لیے‬
‫بےچین ہوکر آنٹی کی پھدی کے اوپر‬
‫دباو ڈالے ھوے تھا ۔۔‬
‫آنٹی بھی پتہ نہیں کتنے دنوں کی پیاسی‬
‫تھی ۔‬
‫جو بڑے جوش سے کسنگ میں میرا‬
‫ساتھ دیتے ھوے میرے سر کے بالوں‬
‫میں انگلیاں پھیرتے ھوے گانڈ کو اٹھا‬
‫اٹھا کر پھدی کو میری پینٹ کے ابھار‬
‫کے ساتھ مسل رہی تھی ۔‬
‫کچھ دیر ہم اسی پوزیشن میں ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ اور زبانوں کو‬
‫چوستے رھے ۔۔‬
‫انٹی کی تڑپ بےچینی اور جوش بتا‬
‫رھا تھا کہ آنٹی کی پھدی ایک دفعہ اپنی‬
‫گرمی باہر پھینک چکی ھے ۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں انٹی کے اوپر سے‬
‫اٹھا اور آنٹی کے بازوں کو پکڑ کر‬
‫آنٹی کو اوپر اٹھایا اور آنٹی کے نہ نہ‬
‫کرنے کے باوجود بھی قمیض کو پکڑ‬
‫کر ذبردستی انکے بدن سے الگ کر‬
‫دی آنٹی کے چٹے مموں کا اوپر واال‬
‫حصہ کالی رات اور کالے بریزئیر میں‬
‫چمک رھا تھا میں نے جلدی سے آنٹی‬
‫کی کمر پر ہاتھ لیجا کر بریزیر کی ہک‬
‫کھول کر مموں کو قید سے ازادی دال‬
‫دی ۔۔‬
‫‪.‬‬

‫انٹی کے چٹے ممے اندھیرے میں بھی‬


‫چمک رھے تھے ۔۔‬
‫انٹی نخرہ دیکھاتے ھوے بولی بہت تیز‬
‫ھو تم یاسر کتنی جلدی میں مجھے ننگا‬
‫کر کے رکھ دیا ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے چٹے سفید ننگے‬
‫کندھوں کو چوما اور کندھوں پر ہاتھ‬
‫رکھ کر انٹی کو پیچھے کی طرف‬
‫دھکیل کر لیٹا دیا ۔۔‬
‫ہماری گفتگو سرگوشی میں ھی ھو‬
‫رھی تھی ۔۔‬
‫انٹی سیدھی لیٹی تو آنٹی کے بڑے بڑے‬
‫ممے انٹی کے سینے پر پھیل گئے ۔۔‬
‫میں نے اپنی شرٹ اتاری اور پھر بنیان‬
‫بھی اتار کر ایک طرف رکھی اور آنٹی‬
‫کے ننگے جسم کے اوپر اپنا ننگا جسم‬
‫رکھ کر لیٹ گیا اور پھر انٹی کی‬
‫ہونٹوں کو چوسنے لگ گیا ۔‬
‫کچھ دیر بعد ہونٹوں کو چھوڑ کر‬
‫کھسکتا ھوا انٹی کے مموں کی طرف‬
‫آیا اور دونوں ھاتھوں میں انٹی کے گول‬
‫مٹول بڑے بڑے مموں کو پکڑ کر باری‬
‫باری دونوں مموں کو چوسنے لگ گیا‬
‫۔۔‬
‫آنٹی کے بڑے سائز کے نپل فل اکڑے‬
‫ھوے تھے اور انٹی مزے لے لے کر‬
‫سسکاریاں بھرتے ھوے اپنے ممے‬
‫چسوا رھی تھی ۔۔‬
‫مموں کو اچھی طرح چوس کر لباب‬
‫سے گیال کردیا اور پھر میں کھڑ ہوا‬
‫اور جھک کر اپنی پینٹ اور انڈر ویئر‬
‫اتار کر تنے ھوے لن کے ساتھ آنٹی‬
‫کے ننگے پیٹ پر اپنی ننگی گانڈ رکھ‬
‫کر بیٹھ گیا اور انٹی کے دونوں مموں‬
‫کو پکڑ کر لن انٹی کے مموں کے‬
‫درمیان گھسا دیا اور ساتھ ھی آنٹی کو‬
‫ممے پکڑ کر ساتھ مالنے کا کہا ۔‬
‫آنٹی نے میری تقلید کرتے ھوے اپنے‬
‫دونوں مموں کو پکڑ کر آپس میں مال‬
‫لیا اور میں آنٹی کے مموں میں لن گھسا‬
‫کر گھسے مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫انٹی کے نرم مالئم مموں کو چودنے کا‬
‫مزہ ھی الگ آرھا تھا ۔‬
‫میرا ٹوپا انٹی کی ٹھوڑی کے ساتھ لگ‬
‫رھا تھا اور لن روانی سے مموں کے‬
‫درمیان سپیڈ سے چل رھا تھا ۔۔‬
‫آنٹی بھی اس نئے طریقہ کو انجواے‬
‫کررھی تھی میں لن کو مذید اگے کرتے‬
‫ھوے ٹوپا انٹی کے ہونٹوں کے پاس لے‬
‫جاتا ۔‬
‫انٹی ہونٹوں کو بھینچ کر منہ ادھر ادھر‬
‫کرنے لگ جاتی ۔۔‬
‫میں نے انٹی کے سر کو پکڑا اور سر‬
‫کو اوپر کرتے ھوے کہا آنٹی اپنے اس‬
‫دیوانے کو تھوڑا سا چوم ھی لو ۔۔‬
‫انٹی اوں ہوں کرنے لگ گئی میرے‬
‫اصرار پر انٹی نے ہلکا سا ہونٹوں کو‬
‫کھوال اور جب ٹوپا ہونٹوں کے پاس آتا‬
‫تو انٹی ٹوپے کو ہونٹوں میں بھر کر‬
‫چوسا لگا کر چھوڑ دیتی ۔‬
‫انٹی جب ٹوپے کو چوسا لگاتی میری تو‬
‫مزے سے جان نکلنے والی ھوجاتی ۔۔‬
‫کچھ دیر ایسے ھی سین چلتا رھا ۔۔‬
‫پھر انٹی نے سر پیچھے کرتے ھوے‬
‫کہا کہ بس یاسر تھک گئی ھوں ۔۔‬
‫میں نے بھی پیچھے ہٹنے کا سوچا اور‬
‫آنٹی کے مموں سے لن نکال کر انٹی‬
‫کی ٹانگوں میں گھٹنوں کے بل بیتھ گیا‬
‫۔۔۔‬
‫اور آنٹی کی شلوار پکڑ کر اتارنے لگا‬
‫تو شلوار نیچے نہیں ھورھی تھی آنٹی‬
‫ہنستے ھوے بولی ناال تو کھول لو ۔۔۔‬
‫میں نے غور کیا تو انٹی نے السٹک‬
‫کی بجاے ناال باندھا ھوا تھا میں نے‬
‫ٹٹول کر نالے کی گرا کا سرا پکڑا اور‬
‫سرے کو ذور سے کھینچ دیا ۔‬
‫میرا تو لن پھٹنے واال ھو چکا تھا اتنے‬
‫دنوں سے بیچارے کو پھدی کا دیدار‬
‫بھی نصیب نہیں ھوا تھا ۔‬
‫وہ کہتے ہیں نہ کہ‬
‫کالیاں اگے ٹوے۔۔۔۔‬
‫ایسا ھی کچھ میرے ساتھ ھوا ۔‬
‫پھدی میں لن ڈالنے کی بے صبری اور‬
‫جلد بازی میں نالے کی گرا کے‬
‫دوسرے سرے کو ذور سے کھینچ دیا‬
‫گانٹھ کھلنے کی بجاے مزید ٹائٹ ہوگئی‬
‫۔۔۔‬
‫میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا لن وکھری‬
‫بدعائیں دینے لگ گیا ۔۔۔‬
‫میں پھر جلدی جلدی میں گانٹھ کھولنے‬
‫کی کوشش کرنے لگ گیا مگر سالی‬
‫کھل ھی نہیں رھی تھی ۔۔۔‬
‫تھک ہار کر دیسی نسخہ استعمال کرتے‬
‫ھوے ۔‬
‫میں پھدی کے پاس منہ لیجا کر جھکا‬
‫اور پھدی سے نکلنے والی منی کی‬
‫مہک کو نتھنوں میں کھینچتے ھوے‬
‫نالے کی گانٹھ کو دانتوں میں لے کر‬
‫ڈھیال کرنے لگ گیا اور آخر کار‬
‫کامیابی نے میرے قدم چومے اور میں‬
‫ناال کھولنے میں کامیاب ھوگیا۔۔‬
‫انٹی میری جدوجہد دیکھ کر ہنسی‬
‫جارھی تھی ۔۔‬
‫میں نے ناال ڈھیال ھوتے ھی شلوار پکڑ‬
‫کر نیچے کھینچی تو آنٹی نے بھی‬
‫ہنستے ھوے جلدی سے گانڈ اتھا کر‬
‫شلوار کو اترنے کے لیے راستہ دیا ۔‬
‫شلوار اتار کر ایک طرف رکھی اور‬
‫آنٹی کی ٹانگوں کو اتھا کر کندھوں پر‬
‫رکھا تو انٹی دوہری ھوگئی ۔۔اور میں‬
‫نے لن کو پکڑ کر پھدی کے اوپر سیٹ‬
‫کیا تو‬
‫اانٹی نے جلدی سے دونوں بازو‬
‫سیدھے کیے اور میری رانوں پر ہاتھ‬
‫رکھ دیے کے میں ایک ھی دم سارا‬
‫اندر نہ کردوں ۔۔‬
‫اور اسکا اظہار آنٹی نے زبان سے بھی‬
‫کیا کہ یاسر ایکدم اندر نہ کرنا آرام آرام‬
‫سے کرنا ۔۔۔‬
‫میں نے اچھا کہتے ھوے ہلکا سا دھکا‬
‫مارا تو لن کا ٹوپا ۔‬
‫بھڑوووم کی آواز کے ساتھ پھدی میں‬
‫گھس گیا اور انٹی کی انگلیوں نے‬
‫میری رانوں کو گرفت میں لیتے ھوے‬
‫میری ران کے گوشت کو دبا کر آنٹی‬
‫نے منہ سے سییییییییییی کیا ۔۔‬
‫میں نے پھر دوسرا ہلکا سا جھٹکا مارا‬
‫تو لن تھوڑا سا اور اندر چال گیا‬
‫آنٹی کے منہ سے پھر کنوری بچی کی‬
‫طرح اففففففففف سییییییی ہولییییییی نکال‬
‫۔۔۔‬
‫میں نے تیسرا گھسا مارا تو ادھا لن‬
‫پھدی کے اندر چال گیا ۔‬
‫آنٹی کی پھدی ایکدم ٹائٹ تھی ۔۔‬
‫یاں فیر آنٹی نے چپیییٹ وٹی ہوئی سی‬
‫۔۔۔۔‬
‫لن کے گرد پھدی کی کافی گرفت تھی ۔۔‬
‫آنٹی ساتھ ھی سر پیچھے لیجا‬
‫۔ھاےےےےےےےے کرتی ھوئی‬
‫بولی‬
‫یولی وےےےےےےےے ۔‬
‫میں نے لن کو واپس کھینچا اور ٹوپا‬
‫اندر ھی رہنے دیا اور پھر لن کو تھوڑا‬
‫سا اندر کرتا اور پھر بایر نکال لیتا چھ‬
‫سات دفعہ ایسے ھی کرکے آنٹی نوں‬
‫آرے الیا ۔‬
‫اور پھر ایک زوردار گھسا مار کر لن‬
‫کو پھدی کے اندر گہرائی میں اتار دیا ۔‬
‫آنٹی کی انکھیں اُبل کر باہر اگئیں اور‬
‫آنٹی‬
‫اوپھھھھھھھھھھھھھ مممممممممم مر دتا‬
‫اییییییییی کرتی ہوئی ہونٹوں کو ذور‬
‫سے بھینچ کر سر دائیں بائیں مارنے‬
‫لگ گئی اور میری رانوں پر رکھے‬
‫ھاتھوں کو ذور دے کر مجھے پیچھے‬
‫کرتے ھوے گانڈ کو ہال کر میرے‬
‫نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے‬
‫لگ گئی مگر ۔۔‬
‫میں نے انٹی کی ٹانگوں کو اچھی طرح‬
‫قابو کیا ھوا تھا‪ .‬۔۔‬
‫کیسے نکلتی ۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر رکا اور پھر گھسے‬
‫مارنے لگ گیا ۔۔‬
‫انٹی میرے ہر گھسے پر‬
‫آہ آہ آہ آہ آہ آہ ہولی وےےےے ہولی‬
‫وےےےےے‬
‫بوت درد ہُندی پئی اے ۔‬
‫ھاےےےےےے آہ آہ اہ ۔۔‬
‫کر رھی تھی جس سے مجھے مزید‬
‫جوش چڑھ رھا تھا ۔۔‬
‫پانچ منٹ کی چدائی کے بعد ھی انٹی‬
‫کی ٹون چینج ھوگئی ۔۔‬
‫اور آہیں سسکیوں میں بدل گئیں‬
‫ناں ناں‬
‫ہاں ہاں میں بدل گئی‬
‫ہولی ہولی تیزتیز میں بدل گئی‬
‫‪.‬‬

‫میری بھی سپیڈ تیز ھوگئی انٹی کے‬


‫ممے میرے تیز گھسوں سے سینے پر‬
‫ڈانس کرنے میں مصروف تھے میرے‬
‫گھسوں سے تھپ تھپ اور پھدی کے‬
‫گیلے پن کی وجہ سے چپ چپ کی‬
‫آواز رات کی خاموشی کو توڑ رھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫ہم دنیا مافیا سے بیگانے چدائی میں‬
‫لگے ھوے تھے ۔‬
‫انٹی اب میرے ہر گھسے پر سسکاری‬
‫بھرتے ھوے ۔۔‬
‫سارا کردے سارا کردے سارا کردے ۔‬
‫ہاں ہااااں اینج ای اینج ای مار‬
‫ذور نال مار یاسرے ذور نال میری جان‬
‫۔‬
‫ہٹ ہٹ کے مار میرے چن ہت یٹ کے‬
‫مار ۔۔‬
‫انٹی کی سیکسی آوازوں نے مجھے‬
‫مذید ٹکنے نہ دیا ادھر آنٹی کی پھدی‬
‫نے میرے لن کو جکڑا ادھر میرا لن‬
‫‪.‬پھوال‬
‫آنٹی کی پھدی نے پہل کی اور منی کی‬
‫پہلی دھار میرے لن کے ٹوپے پر‬
‫پھینکی ۔‬
‫تو ساتھ ھی میرے لن نے بھی پھدی‬
‫کے اندر ھی پچکاری ماری پھر دونوں‬
‫اطراف سے منی کی برسات ھونا‬
‫شروع ھوگئی ۔‬
‫انٹی نے مجھے اور میں نے انٹی کو‬
‫بازوں میں جکڑا ھوا تھا اور دونوں کی‬
‫سانسیں بےترتیبی سے چل رہیں تھی‬
‫اور کچھ دیر بعد ھی نڈھال ایک‬
‫دوسرے کے اوپر چمٹے بےجان پڑے‬
‫تھے کہ ۔۔۔۔۔‬

You might also like