سال ہے۔ میں بھی بہت سے بھائیوں کی طرح ہی ہوں اور اپنی بہن کو بہت چاہتا بھی ہوں اور میری یہ چاہت ایک بھائی کی طرح کی ہی ہے۔ لیکن ایک گناہ جو مجھ سے سرزد ہو گیا اس پر بہت شرمندہ ہوں اور جانتا ہوں کے اس کا کفارہ ممکن نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کے اس گناہ کے کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے جو میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے دوں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سعدیہ کچھ دنوں سے ہماری خالہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ کیونکہ سکول میں اس کے امتحان ہو چکے تھے اور وہ فارغ تھی۔ حمیرا جو ہماری خالہ زاد ہے نے بہت
اصرار کر کے امی جان سے سعدیہ کو اپنے
ہاں کچھ دن کیلئے لے جانے کی اجازت لے لی تھی۔ اور جیسے ہی سعدیہ امتحانوں سے فارغ ہوئی حمیرا اسے لینے کیلئے اپنی ماں کے ساتھٓ ا دھمکی۔ اورٓ اج تقریبً ا دو ہفتے ہونے کو تھے کہ سعدیہُ ان کے ہاں رہ رہی تھی ۔امی جان نے مجھے کہا کہ میں خالہ کے گھر سے سعدیہ کو لےٓ أ وں۔ میں نہا دھو کر تیار ہوا اور موٹرسائیکل نکال کے خالہ کے گھر کے لیئے روانہ ہوا۔ خالہ کا گھر ایک دوسرے گأ وں میں تھا جو کے ہمارے گأ وں سے چودہ پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ میں کوئی آادج رھگ ےک ہلاخ یہ ںیم ےٹنھگ ےھے گھنٹے میں ہی خالہ کے گھر ج پہنچا۔ حال احوال کے بعد حمیرا چائے بنا کر لےٓ ائی۔ چائے پیُ چکنے کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو خالہ نے کہا کے اتنی جلدی کیا ہے ابھی
ائے اور ابھی چل دیئے۔ٓ ارام سے بیٹھوٓ
کھانا وغیرہ تیار ہوتا ہے تو کھا کرٓ ارام سے چلے جانا۔ اب خالہ کہہ رہی تھیں تو میں انکار کیسے کرتا ویسے بھی میرا دل چاہ رہا تھا کے میں کچھ دیر اور یہیں رکوں کیونکہ میں دل ہی دل میں حمیرا کو بہت پسند کرتا تھا۔ اور اس کو بارہا دل ہی دل میں اپنیبیویکےروپمیںدیکھ اُچکاتھا۔مناج بسانم عقوم یھب ےن ںیں نے بھی موقع مناسب جان اور سوچا کے چلو اسی بہانے کچھ دیر اس کے ساتھ بھی وقت بیت جائے گا۔ خالہ نے اسے کہا کے جلدی سے کھانا تیار کرو۔ اور خود میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کے خالہ کے پڑوس سے ایک عورتٓ اگئی۔ خالہ اس عورتکےپاسبیٹھگئیںتومیںُ چپکے سے وہاں سےُ اٹھا اور کچن میں چال گیا
جہاں حمیرا کھانا بنا رہی تھی۔ سعدیہ
بھیُ اس کی بھرپور مدد کر رہی تھی۔ میں سائیڈ پر کھڑا ہو کےُ ان سے ادھر اُادناھک یھب ہو ۔اگل ےنرک ںیتاب یک رھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی کھان بناتے ہوئے مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں چور نگاہوں سے حمیرا کے بھرپور سراپے کا بھی جائزہ لے رہا تھا۔ وہ یقینً ا قدرت کا شاہکار تھی۔ وہ بھی سعدیہ کی ہی ہم عمر تھی۔ گورے رنگ کے ساتھ خوبصورت اور پر فیکٹِ فگرُ اس پر قیامت خیز لباس مجھ پر بجلیاں گرا رہے تھے۔ اس کی ہر ہر ادُا پر میری جان نکل رہی تھی۔ میں باتیں تو ان کے ساتھ کر رہا تھا لیکن لیکن دماغ سے میں کسی اور ہیُ دنیا میں تھا۔ وہ دونوں کھانا بنانے میں مصروف تھیں جبکہ میں حمیرا کے سحر ُم یں گرفتار تھا۔ میں بار بار بہانے بہانے سے اس سے ٹکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دو تین دفعہ میں نے اپنے کندھے سےُ اس کے مموں کو دبایا تھا جبکہ ایکٓ ادھ دفعہ ہاتھ اس کی گانڈ پر بھی لگایا تھا۔ میں سرور اور مستی کُی سی کیفیت میں تھا۔ حمیرا سے چھونا اسےُ برا نہیں لگا تھا یا پھرُ اس کی نظر میں یہ سب حادثاتی تھا۔ کیونکہ کوئی خاص ری ایکشنُ اس کی جانب سے دیکھنے کو نہیں مال تھا۔ پر سچ بات یہ ہے کے میری حالت غیرتھی۔ خیر کھانا تیار ہوا اور ٹیبل پر لگا دیا گیا۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا ۔ اس کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو انہوں نے بھی اجازت دیتے ہوئے کہا کے دھیان سے جانا راستے میں موٹرسائیکل چالتے ہوئے مستی نہ کرنا۔ میں نے جی اچھا کہہ کر سعدیہُ کو چلنے کو کہا۔ سعدیہ بھی تیار تھی بس اس
نے کپڑے تبدیل کرنے تھے۔ وہ پانچ منٹ
میں کپڑے تبدیل کر کےٓ ا گئی۔ ہم گھر کیلئے نکلے تو شام ہونے کو تھی لیکن فاصلہ کوئی بہت زیادہ نہیں تھا اس لیئے کوئی زیادہ فکر بھی نہ تھی۔ سعدیہ ہلکے پیلے رنگ کی قمیض جبکہ سفید شلوار اور دوپّ ٹے میں قیامت لگ رہی تھی۔ ہم ابھی کوئیٓ اٹھ نو کلومیٹر ہیٓ ائے ہوں گے کے کھڑاک کی ایک سختٓ اواز کے ساتھ موٹر سائیکل کی چین ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنے طور پر اسے مرمت کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ٓ اس پاس کسی مکینک کا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ یہ چند دیہاتوں کو مالنے والی ایک چھوٹی سی روڈ تھی۔ اور میں اگلے تمام راستے تک اسے دھکیل کر بھی نہیں لے جا سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کے کوئی پانچ چھ سو گز
دور ایک گھر تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کے
موٹرسائیکل اس گھر میں کھڑی کر کے باقی تمام فاصلہ پیدل طےُ کرتے ہیں۔ اور موٹرسائیکل کو دھکیل کر اس گھر تک لے گیا۔ گھر کے مکین اچھے تھےُ انہوں نے بھی وہاں موٹرسائیکل کھڑی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہاں پر موٹرسائیکل چھوڑنے کے بعد میں اور سعدیہ پیدل ہی گھر کیلئے روانہ ہوگئے۔ سڑک سے ہٹ کر ایک اور راستہ بھی ہمارے گأ وں کی طرف جاتا تھا جو کے نسبتً ا چھوٹا تھا ہمُ اسی راستے پر ہو لیئے۔ تا کہ جلد سے جلد گھر پہنچ سکیں۔ لیکن کہتے ہیں نا کے مصیبتٓ انی ہو تو چھوٹی مسافتیں بھی لمبی ہو جاتی ہیں۔ ُکچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہونے جا رہا تھا۔ سعدیہ اور میں نے ابھیُ مشکل سے ایکٓ ادھ کلومیٹر ہی طے کیا ہو گا کہ
اسمان یکا یک بادلوں سے بھرنے لگا۔ ہمٓ
اپنی بساط بھر تیز تیز چلنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بارش شروع ہوگئی۔ ہم دونوں بہن بھائی بالکل اکیلے تھےُ دور اُدھت ںیہن ناشن مان اک ناسنا یسک کت رور تک کسی انسان کا نام نشان نہیں تھ اور راستہ بھی قدرےُ سنسان تھاُ اس پر بارش نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہمارے کپڑےُ بری طرحسےبھیگُ چکےتھے۔ ہمنےخودکو بارش سے بچانے کیلئے درختوں کے ایک گھنے جُ ھنڈ کی اوٹ لی۔ بارش مزید تیز ہو رہی تھی جبکہ اندھیرا بھی بڑھ رہا تھا۔ سعدیہ ُکچھ بھیگنے کی وجہ سے اور ُکچھ اسُ سنسان جگہ پر خوف کی وجہ سےُ بری طرح سے کانپ رہی تھی۔ میںُ اس کا دھیان بٹانے کیلئے اُھت اہر رک ںیتاب یک رھداُ رھدا ےس ساس سے ادھ رُادھر کی باتیں کر رہا تھ تاکہ اس کا دھیان باتوں میں لگا رہا تاکہ ۔ُاوہ ہن ساسحا اک یدرس روا فوخ ےسے خوف اور سردی کا احساس نہ ہو
لیکنُ اس کی حالت غیر سے غیر ہوتی جا
رہی تھی۔ وہ میرے ساتھ بالکل چپک کر کھڑی تھی۔ میںُ اسے دالسہ دیئے جا رہا تھا کہ ابھی بارشُ رک جائے گی اور ہم گھر پہنچ جائیں گے۔ لیکن بارش تھی کے مزید رفتار پکڑ رہی تھی۔ بھائیُ مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ سعدیہ نے ُا نتہائی کانپتیٓ اواز میں بمشکل کہا۔ میں نے اسے کہا کے اپنے بیگ سے چادر یا کوئی اور کپڑے نکال کر لپیٹ لو ” ،لیکن بھائی بیگ تو موٹرسائیکل کے ساتھ ہی رہ گیا۔ سعدیہ نے انتہائی معصومیت سے کہا۔ میں بھیُ بدھو ہی تھا کہ اندازہ ہی نہیں کر پایا کے ہم خالی ہاتھ ہی بھاگے چلے ےٓارئاوس اھت اتکس وہ ایک با ریخ ۔ےھت ےہے تھے۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا سوائ اس کے کہ سردی کو برداشت کیا جائے ۔ لہذا میں نے سعدیہ کو یہی کہا کہ سردی کو برداشت کرے۔ اور
ہمت سے کام لے لیکن۔ وہ نازک اندام نہ تو
برداشت ہی کر پا رہی تھی اور نہ ہیُ اس کے پاس ہمت تھی۔ قریب تھا کہ وہ گر جاتی میں نے فورً اُ اسے سنبھاال دیا۔ اور ۔ُاایل ٹیمس ںیم ںوؤ زاب ںونود ےنپا ےسے اپنے دونوں با زٔووں میں سمیٹ لیا وہ بہتُ بری طرح کانپ رہی تھی۔ُ اس کی یہ حالت دیکھ کرُ مجھے بھی ڈر سا لگ گیا۔ میں نے باری باریُ اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھوں سے رگڑنا شروع کیا تاکہُ اسے ُکچھ حرارت پہنچا سکوں۔ لیکن ایسا کرنا کچھ فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ میں سعدیہ کا سر اپنی گود میں لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اور اس کے دونوں ہاتھوں کی مالش کر رہا تھا۔ لیکنُ اس کی حالت بدستور غیر سے غیر ہو رہی تھی۔ میں نےُ اسے کھینچ کر گود میں لے لیا۔ بڑی عجیب سی کیفیت تھی۔ میں
درخت سے ٹیک لگائے ٹانگیں لمبی کر کے
بیٹھا تھا جبکہ سعدیہ کو میں نے گود میں لیا ہوا تھا۔ُ اس کا سر میرے بائیں کندھے پر تھا جبکہ میں نے اپنے دونوں بازوںُ اس کے بازٔ ووں کے نیچے سے ُگذار کرُ اس کیُ پشت پر لے گیا تھا۔ اور اپنے بازٔ ووں سے اسکے سینے کو اپنے سینے سے بھینچ رکھا تھا۔ اب میں دائیں ہاتھ سے سعدیہ کی کمر کو رگڑ رہا تھا تاکٓہ اس کو کچھ نہ کچھ حرارت ملتی رہے۔ اپ کو بتاتا چلوں کے میں جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ ایک بھائی کی بہن کیساتھ خالص برادرانہ شفقت کے سوا کچھ نہ تھا۔ سعدیہ کی کپکپاہٹ کسیُ طور کم نہیں ہو رہی تھی۔ سردی کے مارے اس کی حالتُ بری تھی۔ میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلیُ اس کی کمر پر رگڑ رگڑ کرُ اس کو حرارت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک سعدیہ کی قمیض کچھ ہٹ گئی اور میرا ہاتھُ اس کی ننگی کمر پر چال گیا۔ مجھے اس کا جسم بہت ٹھنڈا لگا۔ میں ادھر ہیُ اس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ وہ کیفیت کیا تھی میرے لیئے اس کا اظہار اتنآ اسان نہیں ہے۔ بہرحال میں نے اپنا ہاتھ سعدیہ کی کمر پر نیچے سے اوپر تک پھیرنا شروع کر دیا۔ سعدیہ تقریبً آ نیم بیہوشی کی سی حالت میں تھی اور انکھیں بند کیئے میرے ساتھ چپک کے لگی ہوئی تھی ۔ُ اس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے پرُ اس نے میری طرفٓ انکھ کھول کے دیکھا اور پھرٓ انکھ کو بند کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے لگا کے سعدیہ کا جسم ابھی بھی ٹھنڈا ہے لیکن پہلے جیسا نہیں تو میں نے اسے اٹھا کر پوری طرح اپنی گود میں اس طرح لیا کے
اس کی دونوں ٹانگیں میری کمر کی
دونوں اطراف میں تھیں اس کا منہ میری طرف تھااورہمدونوںکےسینے ھُجڑےہوئےتھتاہ ںونود ےریم ہکبج ۔ے۔ جبکہ میرے دونوں ہات اب اس کی کمر پر تھے۔ میں دونوں ہاتھ اوپر سے نیچے تک اس کی کمر پر پھیرنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا شائید جب ایک بھائی کی شفقت ایک مرد کی چاہت میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اور اسی کمزور لمحے میں میں سعدیہ کے جسم سے مزہ لینے لگا۔ مجھے ناف کے نیچے اپنی ٹانگوں کے درمیان ہلچل سی محسوس ہوئی۔ اور میرے ہاتھ سعدیہ کی کمر پر اوپر گردن کے قریب سے لے کر نیچے اسکے کولہوں تک حرکت کر رہے تھے۔ ان ہی لمحوں میں میں نے سعدیہ کے بریزیئر کیُ ہک بھی یُاٹروپ یک ساُ ہنادازآ ھتاہ ےریم ۔ید اھا دی۔ میرے ہات ھٓازادان ہُاس کی پور کمر کی پیمائش کر رہے تھے۔ میں نے
دھیرے دھیرے اپنے ہونٹوں کو سعدیہ کے
کان کی لو کے بالکل نیچے اس کی گردن پر لگا دیا۔ میرا لن بڑی تیزی سے سختی پکڑ رہا تھا۔میرے ہاتھ اب کمر سے ہوتے ہوئے سعدیہ کے مموں کی جانب بھی بڑھ رہے تھے۔ میرے ہونٹ گردن سے ٹھوڑی اور گالوں تک کی مسافت کر رہے تھے۔ میں اپنے ہونٹ اب سعدیہ کے منہ تک لے گیا اورٓ اہستہ سے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما دیئے۔ میرے ہاتھ اب مزید نیچے کی طرف سعدیہ کی چوتڑ تک سہال رہے تھے۔ سعدیہ کی شلوار میں االسٹک ہونے کی وجہ سے میرے ہاتھوں کو نیچے تک جانے میں کچھ رکاوٹ نہیں ہو رہی تھی۔ میرا لن پوری طرح کھڑا ہوگیا تھا اور وہ شلوار کے اوپر سے ہی سعدیہ کی پُ ھدی سے رگڑ کھائے ہوئے تھا۔ میں ایک بھائی کی بجائے ایک
عام مرد تھا اور سعدیہ میرے لیئے بس
ایک عورت ہی تھی۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ سے اپنآ ازاربند کھوال پھردونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو اوپرُ اٹھا کراس کی شلوار کو نیچے کھینچ لیا۔ سعدیہ جو پہلے صرف کسمسا رہی تھی۔ جیسے ہی اس کی ننگی گانڈ میرے برہنہ لن کے ساتھ لگی اسے بھی شائید جھٹکا سا لگا۔ اس کیٓ انکھیں بھی کھل گئیں اور اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکال بھائی کیا کر رہے ہو۔ لیکن یہ وہ وقت تھا شائید جہاں سے پیچھے نہیں جایا جا سکتا۔ میں نے بھیگویاکچھنہیںُ سناتھا۔ نہمیرےہاتھُ رکے نہ ہونٹوں نے اپنا کام روکا اور نہ ہی میرے لن کو کوئی فرق پڑا۔ میرا لن سعدیہ کی پُ ھدی سے رگڑ کھاتا ہواُ اس کی ناف سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نےُ ادھر ہی جھٹکے
دےکرلنکونافاورپُ ھدیسےرگڑنا شروع کر
دیا جبکہ میرے ہاتھ سعدیہ کے گول مٹول مموں کا مساج کر رہے تھے۔ جبکہ سعدیہ کے ہونٹوں کو میں اب باقاعدہ چوس رہا تھا۔ سعدیہ اب ہوش میںٓ ا یُچک ےناڑھچ وک دوخ روا یھت یکی تھی اور خود کو چھڑانے ک کوشش بھی کر رہی تھی۔ لیکن یہ اب اس کیلئے شائید ممکن نہیں تھا۔بھائی مت کرو ایسا ،بھائی ہوش کرو ،بھائی رکو وغیرہ کے بہت سے جملے میرے کانوں سے ٹکرا رہے تھے ،لیکن میںسبان ہُسنیکرتےہوئےاپنےکاممن ےریم۔اہر اگل ںیں لگا رہا۔میرے ن تو جھٹکےُ رکے نہ اس کے ہونٹ چومنا رکے اور نہ ہی میرے ہاتھ۔ سعدیہ کے بدن کو حرارت دیتے دیتے میرے اپنے اندر االٔ و بھڑکُ اٹھا تھا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کے سعدیہ کا جسم بھی اب پہلے سا ٹھنڈا نہیں بلکہ اس کا پورا بدن
بھی گرم تھا۔ مجھے اب یہ بھی لگ رہا
تھا کہ سعدیہ اب خود کو چھڑانے کی بھی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ میں نے اسی طرح اپنے لن کو سعدیہ کی پُ ھدی پر رگڑتے ہوئے جھٹکے جاری رکھے۔ جبکہ اب میں سعدیہ کی دونوں نپلز کو مسل رہا تھا جس پر سعدیہ کے منہ سے سسکاری سی نکل رہی تھی۔ ہماری پوزیشن اب بھی وہی تھی۔ یعنی میں اپنی ٹانگیں لمبی کیئے درخت کے ساتھ بیٹھا تھا اور سعدیہ میری طرف منہ کیئے ہوئے میری رانوں پر بیٹھی تھی ،جہاں میرا ل ن ا س ک ی پُ ھ د ی س ے ر گ ڑ ک ھ ا ت ے ہ و ئ ے ا س کی ناف سے ٹکرا رہا تھا۔ میرا لن تن کر لوہے کی طرح سخت اور کسی انگارے کی طرح گرمہو ےُچکاتھا۔ایس ٓلمےح ٓمجھےلگاک ہیدعس ہکہ سعدیہ ک ہاتھ بھی اہستہ اہستہ میری کمر
پر گھوم رہے ہیں اور ان کی گرفت بھی
سخت ہو رہی ہے۔ مجھ پر گویا ایک جنون کی سی کیفیت طاری تھی۔ میری سوچ سمجھ سب مفلوج ہو کےرہ گیا تھا۔ سعدیہ کے اس عمل سے مجھے اور ہمت ہوئی میں نے دیکھا کے سعدیہ بھی جیسے ہلکے ہلکے جھٹکے لے رہی تھی اور شائید میرے لن کاُ اس کی پُ ھدی سے رگڑ کھانا ُُایھت ہجوُ یہی ۔اھت اہر ےد ازم یھب ےسے بھی مزا دے رہا تھا۔ یہ یُوجہ تیھ کے میں جب بھی اپنے لن کو اس کی پھدی سے رگڑتے ہوئے اوپرُ اٹھاتا وہ پ ۔ُھیتاھڑب ؤ ابد انپا رپ نل ےریم ےس یدی سے میرے لن پر اپنا دب أو بڑھاتی اس کیُ پھدی نے پانی چھوڑناُ شروع کر دیا جو کہُ مجھے اپنے لن پر محسوس ہو رہا تھا۔ میں مسلسل سعدیہ کےہونٹوںکو یُچوسرہاتھاجبکہدائک ساُ ےس وزاب ںیں بازو س ےُاس ک کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کیئے ہوئے تھا۔جبکہ بایاں ہاتھُ اس کے پورے جسم کی پیمائش کر رہا تھا۔ میں نے اب اگال قدم لینے کا فیصلہ کیا۔ میرا بایاں ہاتھ اب سعدیہ کی ٹانگوں کے درمیان ٹھیکُ اس کی پُ ھدی پر تھا۔ میرے ہاتھ کی درمیانیُ انگلی سعدیہ کی پُ ھدی کے دونوں ہونٹوں کے درمیان میں تھی۔ ُکچھ دیر میں نے سعدیہ کی پُ ھدی پر یونہی ہاتھ پھیرتا رہا پھر میں نے اپنی تُانگہب ۔اید لاڈ ردنا ےک یدھُ پ وک یلی کو پُھدی کے اندر ڈال دیا۔ بہ تنگ سوراخ تو تھا ہیُ بہت زیادہ گرم بھی تھا۔ُ انگلی جیسے ہی پُ ھدی کے اندر گئی سعدیہ کی چیخ بھی نکل گئی۔ میں نے کچھ لمحوں کیلئے ہاتھ روک لیا اور پھر دوبارہ سےُ انگلی کو مزید اندر کیا تو سعدیہ پھر چیخ پڑی۔ میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک لمبی کس کی اور دونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو اوپر اٹھایا ا و ر ا پ ن ے ل ن ک و ٹ ھ ی کُ ا س ک ی پُ ھ د ی ک ے
ہونٹوں کے بیچ ٹکا دیا۔ اور لن کے ٹوپے
کو سوراخ پر دھیرے دھیرے رگڑنے لگا۔ سعدیہ کی پُ ھدی سے نکلنے واال پانی بہت گھنا اور چکنا تھا جس سے میرے لن کا پورا ٹوپا بھیگ کر چکنا ہو چکا تھا یہی وجہ تھی کے وہ سوراخ میں جانے کے بجائےٓ اگے پیچھے پھسل رہا تھا۔ُ سعدیہ ابھی تک کنواری تھی اور اس کی پھدی کا سوراخ بہت چھوٹا اوًر تنگ تھا جبکہ میرا لنٓ اٹھ انچ لمبا اور تقریبا ڈیڑھ انچ گوالئی میں موٹآ تھا۔ سعدیہ بیہوشی سے مدہوشی تک ا گئی تھی۔ وہ بھی سیکس میں پورا مزہ لے رہی تھی۔ میں نے اپنے ُب ائیں ہاتھ سے لن کو پکڑ کر سعدیہ کی پھدی کے عین سوراخ پر رکھ کر تھوڑا سا دبأ و ڈاال تو لن کا ٹوپا تھوڑا سا پُ ھدی کے اندر چال گیا لیکن اسی وقت سعدیہ کی ایک دلخراش چیخ بھی نکلی
جس سے میرے دل میںُ اس کیلئے رحم
جاگا پر شیطان مردودٓ اج رحمدلی کے سارے جذبوں کو قتل کرنے پرٓ امادہ تھا۔ میں نے چند لمحے انتظار کے بعد دوبارہ لن کو جھٹکا دیا اس بار بھی سعدیہ کا ردعمل ویسا ہی تھا۔ ایک اور چیخ " اوئی ماں میں مر گئی ” کے الفاظ کے ساتھ اس کے منہ سے نکلی۔ اس دفعہ لن کا ٹوپا اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا لن کسی شکنجے میں جکڑ گیا ہو۔ سعدیہ شدید درد کی کیفیت میں تھی وہ درد کے مارے پیچھے کو جُ ھک گئی۔ میرے دونوں ہاتھ ابُ اس کے کولہوں پر تھے اور میںُ اس کے پیٹ پر بوسے دے رہا تھا۔ وہیں سے میں نے کولہوں پر نیچے کی جانب دبأ و ڈاال جبکہ نیچے سے لن کو اوپر کی جانب زرا زور سے جھٹکا دیا۔ کوئی دو ڈھائی انچ تک لن پُ ھدی کے اندر تھا لیکن ابھی اسے ُکچھ اور مسافت طے کرنی تھی۔ سعدیہ سے شائید اب برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے مجھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ ” بھائی میں مر جأ وں گی ،بھائی پلیز اسے باہر نکالو ،ہائے ماں میں کیا کروں ” ،میں نےُ اس کی کمر کے گرد اپنے بازٔ ووں کا گھیرا بنا کر مضبوطی سے پکڑ لیا ،اور وہیں سے اسے ایک اور جھٹکا دیا۔ لنٓ اہستہٓ اہستہ اندر جا رہا تھا جبکہ سعدیہ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ُ اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ مسلسل کہے جا رہی تھی۔ ” بھائی قسم سے میں مر جأ وں گی ،میری پُ ھدی جل رہی ہے ،پلیز اسے نکالو باہر ،بہت درد ہو رہی ہے ” ،میں جیسے
گونگا بہرا ہو گیا تھا۔ اس کی کسی بات
پر کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔ُ اس وقتُ مجھے بس ایک ہی دھیان تھا ،وہ یہ کے کسطرحسےلنکومکملپُ ھدیکےاندر گھسیڑنا ہے۔ اور میں اپنی پوری کوشش بھی کر رہا تھا۔ اس کوشش میں میں ابھیٓ ادھا ہی کامیاب ہوُا تھا۔ سعدیہ واقعی میں مری جا رہی تھی۔ اس کی آانکھک ےرہچ روا ںیھت یلھُ ک یروپ ںیں پوری کُھلی تھیں اور چہرے ک رنگ زرد ہو رہا تھا۔ شائید یہ درد کی شدت ہی تھی جسے وہ برداشت کر رہی تھی۔ اب کی بار میں نے جھٹکا دیا تو وہ بلبال کرُ اچھل پڑی۔ُ اس کاُ اچھلنا اتنا اچانک اور شدید تھا کہ وہ میری گرفت سے نکل کر پرے جا پڑی۔ میرا لن پُ ھدی سے نکل گیا اور وہ جیسے سختُ غصے میں تن تنا رہا تھا۔ جبکہ سعدیہ نے اپنے دونوں ہاتھ پُ ھدی پر رکھ دیئے۔ وہ
پُ ھدی کو دونوں ہاتھوں سے سہالتے
ہوئے منہ سے پھونکیں مارنے لگی جیسے حقیقت میںُ اسکیپُ ھدیجلگئیہواوروہ یُاک ےنرک اڈنھٹ رک رام ںیکنوھپ ےسے پھونکیں مار کر ٹھنڈا کرنے ک کوشش کر رہی ہو۔ اسی وقت اسے اپنے ہاتھوں پر لگا خون نظرٓ ایا تو وہ زور سے رونے لگی۔اپنے دونوں ہاتھوں کو میری آانکھھچوپ ےئوہ ےتال ےٓنماس لکلاب ےک ںوں کے بالکل سانم ٓےل اتے ہوئے پوچھ بھیا یہ خون کیسا ہے؟ اپ نے کیا کیا میرے ساتھ؟ میں مر جأ وں گی بھائی۔ وہ بہت ڈر گئی تھی۔ میں نےُ اسے بازو سے پکڑ کر قریب کرتے ہوئے کہا کے ُکچھ نہیں ہوا۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے اور زندگی میں ایک ہی بار ہوتا ہے۔ تم نے جو درد اٹھانا تھا وہ اٹھا لیا اب وہ مزہ شروع ہونا تھا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے اس کا ڈر ختم کرنے کیلئے اسے بانہوں میں بھر کے اس کے ہونٹوں پرُ اس کی گردن کندھوں اور مموں پر بوسے دینے شروع کر دیئے۔ اور ساتھ ساتھ میں اسے بتا بھی رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں بار بارُ اسےٓ انے والے مزے کا کہہ رہا تھا تاکہُ اس مزے کیلئے تجسس پیدا ہو اور وہ جلد سیکس کیلئے دوبارہٓ امادہ ہو جائے۔ٓ اگ توُ اسے بھی جُ ھلسائے ہوئے تھی۔ جلد ہی مجھے لگا کے وہ اب نہیں روکے گی۔ میں نےُ اسے پکڑ کے واپسُ اسی پوزیشن پر بٹھایا۔ میں اب جلدی میں تھا میں نے لن کو تھوک سے گیال کیا اور پُ ھدی پر رکھ کر زور کا جھٹکا دیا۔سعدیہ اب کی بار بھی تڑپ کر رہ گئی لیکن اب میری گرفت بہت مضبوط تھی۔ میں نے دوسرا پھر تیسرا جھٹکا دیا تو لن اپنیٓ ادھی منزل طے کر چکا تھا۔ سعدیہ اب کی بار بھی چیخ رہی ،تھی۔ بھائی رک جأ و
بھائی اس کو نکالو بہت درد ہو رہی ہے،
میں مر جأ وں گی ،میں نے اس کے ہونٹوں کوُ چوستےہوئےکہاسعدیہیقینکروتمہیں ُکچھ نہیں ہو گا اس کے تمہارے اندر جانے سے تم نہیں مرو گی پر اگر میں نے اس کو نکال لیا تو میں ضرور مر جأ وں گا۔ میں مسلسل جھٹکے دے رہا تھا اور ہر جھٹکے کے ساتھ لن پُ ھدی کے اندُر غرق ہو رہا تھا۔ ہر جھٹکے پر سعدیہ تڑپ اٹھتی۔ ہر جھٹکے کے بعد اگلے جھٹکے کے لیئے میرا جوش اور بڑھ جاتا۔ میرا پورا لن سعدیہ کی پُ ھدی کے اندر پہنچ گیا۔ پُ ھدی اتنی تنگ تھی کے میرے لن پر شکنجہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ پُ ھدی کی دیواروں نے پوری طرح لن کو جکڑ لیا تھا۔ اور لگ رہا تھآ جیسے لنٓ اگ میں رکھ دیا ہو۔ سعدیہ کی انکھیں بند منہ کھال ہوا جبکہہونٹخشکتھےجنکومیںُ چوس
چوس کر تر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ُ
میںُ کچھ دیر کیلئے رکا ،میں اس احساس کو کچھ دیر برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ سعدیہ سے پوچھا کے اب بھی درد ہو رہی ہے توُ اس نے بتایا کہ اب درد کم ہے اور عجیب سیُ پرلطف کیفیت ہے ،میں نے مُاتُ روا اگ ےہر ںیہن درد با ےک اہک ےسے کہا کے اب درد نہیں رہے گا او رُت کو بہت مزہٓ ائے گا۔ پھر میں نے لن کو پھدی کے اندر ہی گُ ھمانا شروع کیا چند لمحوں کے بعد میں نے لن کوٓ اہسٓت ہٓ اہستہ واپس کھینچا اور ٹوپے تک باہر ا جانے دیا اور پھر جھٹکے سے اسے واپس پُ ھدی کے اندر دھکیل دیا۔ سعدیہ کی ایک مرتبہ پھرٓ اہ نکلی۔ لیکن اب اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ میں نے لن کو اندر باہر دھکیلنے کآ عمل دھیرے دھیرے جاری رکھا۔ سعدیہ انکھیں بند کیئے ہوئے
تھی جبکہُ اس کاُ منہ کھال تھا اور جب
بھی میں لن کو اندر دھکیلتاُ اس کاُ منہ تھوڑا اور ُکھل جاتا۔ میں نے ہونٹُ اس کے ہونٹوں پر رکھ کر زبانُ اس کے منہ میں ڈال دی اور اس کے منہ کے اندر زبان کو گھمانے لگا ساتھ ہی میں نے لن کو جھٹکے دینے کی رفتار بھی بڑھا دی۔ سعدیہ کو بھی مزہٓ انے لگا تھا۔ وہ بھی اب اپنی گانڈ کو ہال ہال کرُ اچھل رہی تھی۔ُ اس کے منہ سے نکلنے والیٓ اہہہہ اووو ھمممم ممممممم کیٓ اوازیں پتہ دے رہیں تھیں کے وہ اب پوری طرح سے مزے کی وادی میںُ اترُ چکی ہے۔ میں نے بھی جھٹکے دینے کی رفتارُ تیز کر دی۔ سعدیہ بےخود ہو رہی تھیُ اس نے مجھےُ چومنا چاٹنا شروع کر دیا۔ اس کے اس عمل نے مزہ دوگنا کر دیا۔ میں بھی پورے جوش سے جھٹکے دے رہا تھا۔ اچانک مجھےُ اس
کے جسم میں ُکچھ تنأ و لگا میں نےُ اس
کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ سانس روکےٓ انکھیں بند کیئے ہوئے تھی۔ پھرُ اس نےٓ اہستہٓ اہستہ سانس چھوڑنا شروع کی اور اس کا تنا ہوا بدنُ بھی ڈھیال پڑنے لگا۔ وہُ چھوٹ رہی تھی اس کی پُ ھدی سے نکلنے واال پانی میرے پیٹ پر پھیل گیا۔ میرا لنُ اس کی پُ ھدی کے پانی سے پورا تر تھا۔ اور میں ابُ پوری رفتار سے لن کو اندر باہر جھٹکے دےُ رہا تھا۔ سعدیہٓ کے منہ سے نکلنے والی اممممم ممممم اہہہہہ اووووو کیٓ اوازیں بدستور جاری تھیں۔ اس کی پُ ھدی سے نکلنے واال پانی رگڑ کھا کھا کر کریم کیُ صورت گاڑھا ہو گیا تھا۔ میرے جھٹکے اپنی پوری رفتار سے جاری تھے سعدیہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔ ُکچھ دیر بعد مجھے لگا کہ میرا لن بھی الواُ اگلنے
واال ہے۔ میں نے جھٹکے دینا روک دیا۔
کیونکہ میں اس مزے اور سرور کی وادی میں ُکچھ دیر اور رہنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی میں اپنی قوت کو جمع کر کے دوبارہ شروع ہو گیا۔ سعدیہ کے منہ سے بدستورٓ اوازیں نکل رہی تھیںُ اور وہ میرے لن کے ہر ہر جھٹکے پر اپنی پھدی سے واپس جھٹکے دے رہی تھی۔ مجھے لگا کے وہ دوبارہ سے چُ ھوٹنے والی ہے تو میں نے بھیُ اس کے ساتھُ چھوٹنے کا فیصلہ کیا۔ میں کسی مشین کی طرح تیزی سے جھٹکے دینے لگا -سعدیہ کے منہ سے عجیب سیٓ اوازیں برٓ امد ہو رہی تھیں۔ میں مسلسلُ اس کے مموں اور ہونٹوں پر بوسے دیئے جا رہا تھا۔ سعدیہ بھی بھرپور جواب ُد ے رہی تھی۔ اس نے لن کے اوپر تیز تیز اچھلنا شروع کیا تو مجھے علم ہو گیا کہ وہ اب
پھر سے چُ ھوٹنے والی ہے۔ میں نے بھی
جھٹکے لگانے کی رفتار تیز کر دی۔ میرے لن کی رگیںُ ابھر سی گئیں تھیں۔ الوا تیار تھا اور بس نکلنے کو ہی تھا۔ اچانک سعدیہ ہلکان ہو کر میرے سینے پر گر سی گئی۔ وہ دوبارہفارغہوُ چکیتھی۔میںبھیالوا ےُاگلھجم کناچا رھپ روا اھت الاو یہ ےنے ہی ولاا تھا اور پھر اچانک مجھ لگا کہ تپتے ہوئے صحرا میں جیسے بادل سے چھا گئے ہوں۔ اک سکون سا تھا۔ ہم دونوں ُکچھ دیرُ اسی حالت میں ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر کر بیٹھے رہے۔ جب سب سکون ہو گیا تو تب ہمیں حاالت اور واِ قعات کی نزاکت کا احساس ہوا۔ سعدیہ میرے سینے پے سر رکھے رونے لگی میں بھی شرم ،ندامت اور ُگناہ کے احساس سے زمینٓ میں گڑھا جا رہا تھا۔ ُکچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا کیا کروں کیا نہ کروں۔ میں سعدیہ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ جو ُگناہ مجھ سے سرزد ہو گیا ہے اگرچہ میں کسی صورت بھی معافی کا حقدار نہیں پھر بھی تم سے معافی مانگتا ہوں ہو سکے تو اس گناہگار کو معاف کر دینا کیونکہ میں نے اب زندہ نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ُ تم کو گھر پہنچا کر میں کہیں دور جا کے خودُکشی کر لوں گا۔سعدیہنےیہ ھُسناتورونابندکردیتاہ ںونود ےریم ۔ا۔ میرے دونوں ہات پکڑ کر بولی ،بھائی جو ُگناہٓ اپ نے کیا ہے میں بھیُ اس ُگناہ میں شریک تھی۔ٓ اپ خودُکشی کر لو گے تو کیا میں زندہ رہ پا تٔوم حرط سا یک ںونود مہ روا ۔یگ ںوں گی۔ اور ہم دونوں کی اس طرح مو پر لوگُ انگلی نہیںُ اٹھائیں گے کیا۔ُ دنیا ہمارے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا جینا حرام نہیں کر دیں گی کیا؟ تو کیا کروں مجھے ُکچھ سمجھ نہیںٓ ا رہا
میں نے پوری بےبسی اور رو دیتے ہوئے
کہا۔ کیوں نا ہم اس وقت کو ہی مار دیں جو ہم پربیتُ چکاہے۔ سعدیہنےرازدارانہانداز میںُ مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ میں نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا مطلب؟ مطلب یہ کے کیوں نہ ہم اس وقت اور اس واقعے کو یہیں دفن کر دیں اور بھول جائیں کے یہ واقعہ کبھی ہمارے ساتھ پیشٓ ایا تھا۔ ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دوگھنٹے پہلے ہم تھے۔ اگرچہ میںُ اس کی بات سے ےُمتک ہانگ نکیل اھت ایگ وہ قفق ہو گیا تھا لیکن گناہ ک بوجھسےمیرےکندھےُ جھکےہوئےتھے اور نگاہ اوپرُ اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔ ہم دونوںُ اٹھے تو دیکھا کپڑے کیچڑ سے بھرے تھے۔ بارش کا پانی ایک جگہ جمُع ہوا تھا جس سے ہم نے کپڑوں سے کیچڑ اتاری۔ سعدیہ کی شلوار پر خون بھی لگا تھا جسے
ہم نے دھونے کی کوشش کی لیکن دھبے
بدستور برقرار رہے تو ہمنے ان دھبوں پر اچھی طرح سے کیچڑ مل دی تاکہ خون
نظر نہٓ ائے۔ وہاں سے ہم یہ عہد کر کے چلے
کے یہ جو وقت ُگذرا ہے ہم اسے بالکل بھول جائیں گے جیسے ُکچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم گھر پہنچے تو گھر میں تمام لوگ کافی پریشان تھے۔ جیسے ہی ہم کو دیکھا تو ان کی جان میں جانٓ ائی۔ امی تو ہم دونوں پر فدا ہو رہی تھیں کبھی مجھے اور کبھی سعدیہکوبانہوںمیںبھربھرکے ےُچومرڑپک رک وھد اہن ےن مہ ۔ںیھت یہی تھیں۔ ہم نے نہا دھو کر کپڑ تبدیل کیئے۔ پھر کھانا سب نے مل کر ہی کھایا۔ کھانے کے دوران میں کبھی کبھی ےٓانک ھُاٹھجم ۔اتیل ھکید وک ہیدعس رک اھا کر سعدیہ کو دیکھ لیتا۔ مجھ نہیں معلوٓم کے وہ بھی مجھے دیکھ رہی تھی یا نہیں۔ اج ہمارے ساتھ بیتنے واال ہر پل میری نظروں میں گھوم جاتا۔ مجھے خود پرُ غصہٓ ا جاتا کے کیسے میں نے ان کمزور لمحوں کو خود پر ہاوی ہونے دیا۔ کیسے میں رشتے کا آ تقدس نہ کر سکا۔ مجھے خود سے شرم رہی تھی۔ اگرچہ سعدیہ نے کہا تھا کے ہم اس وقت کو ہی یاد نہیں رکھیں گے اور سمجھیں گے کے یہ ہماری زندگی کا حصہ ہی نہیں۔ لیکن یہ خیال کے کیا ہم واقعی اس تلخ حقیقت کو بھول پائیں گے اور ساتھ ہی یہ ڈر اور خوف کے اگر کسی کو اس بات کا پتہ چل گیا تب کیا ہو گا۔ سعدیہ بھی شائید اپنی طور پر انہیں سوچوں میں ُگم تھی۔ کھانے کی میز سے ےُاٹنھٹیب ںیم جنؤ ال یو یٹ ےئاجب وت ےھے تو بجائے ٹی ویل أونج میں بیٹھن کے میں اپنی روم میں چال گیا۔ امی نے سعدیہ سے بھی کہا کےُ اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی وہ بھی جا کر اپنے بیڈ روم میںٓ ارام کرے۔
سعدیہ جو امی کو برتن سمیٹنے میں ہیلپ
کررہیتھی،جیاچھاکہہکراپنیبیڈٓ روم میں چلی گئی۔ُ صبح کافی دن چڑھ ایا تھا جب میریٓ انکھ کُ ھلی وقت دیکھا تو دن کا ایک بج رہا تھا۔ میں جھٹکے سےُ اٹھ بیٹھا۔ گھر کے تمام کمروں میں جھانک کر دیکھا پر گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔ میں ٹی ویٓ ان کر کے بیٹھ گیا۔ ہزار طرح کی سوچیں تھیں جو میرے دماغ کو بوجھل کیئے ہوئے تھیں۔ خوف میرے دماغ میں گھنٹیاں بجا رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے میں پاگل ہو جأ وں گا۔ اگر تھوڑی ہی دیر بعد امی اور سعدیہ واپس نہ ےٓاگئک اھت نیقی اروپ ےھجم وت ںیتوہ ںیں ہوتیں تو مجھے پورا یقین تھا ک میں چیخنے چالنے لگتا۔ اندر کی وحشت تھی جو مجھے پاگل کیئے دے رہی تھی۔ امی نےٓ اتے ہی مجھے پوچھا کے میری طبیعت اب کیسی ہے۔ تو
میں نے کہا ٹھیک ہوں ۔ تب امی نے بتایا
کے رات میں اور سعدیہ سخت بخار میں تھے۔ لیکن صبح چونکہ میں گہری نیند میں تھا اس لیئے وہ سعدیہ کو اکیلے ہی ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر سے الئی ہوئی دوائی مجھے اور سعدیہ کو پالئی وہ کہہ رہی تھیں ” فکر نہ کرو شام تک تم دونوں بالکل ٹھیک ہو جأ و گے ،کل بارش میں بھیگتے رہے ہو نا آس لیئے بخار ہو گیا ہے۔ ” میں نے بس اوں اں میں ہی جواب دیا جبکہ سعدیہ صوفے کے کونے پر کمبل کیئےٓ انکھیں بند کر کے لیٹی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔ میں چور نگاہوں سے کبھی کبھی سعدیہ کو دیکھ لیتا اور پھر نظریں جھکا لیتا۔ شام تک واقعی ہم ٹھیک تھے۔ سعدیہ بھی شام کو امی کیساتھ کچن میں ان کی ہیلپ کر رہی تھی اور میں بھی تھوڑی دیر
کیلئے گھر سے باہر نکلٓ ایا۔ میں کوشش
کر رہا تھا کے اس واقعے کو دماغ کے کونے کھدروں سے کُ ھرچ کر پھینک دوں لیکن لیکن میری ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔ میں جتنا بھولنا چاہتا تھا وہ اتنا ہی دماغ میں فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتا۔ میں بظاہر ٹھیک تھا لیکن میرے اندر کا خلفشار مجھے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ رات جب کھانا کھانے کے بعد ہم سب ٹی و ی الٔ و ن ج م ی ں ٹ ی و ی د ی ک ھ ر ہ ے ت ھ ے ت و امی نے شائید نوٹ بھی کیا کہ میں ذہنی طور پر حاضر نہیں ہوں تو انہوں نے پوچھ بھی لیا” ، جہانزیب تم ٹھیک تو ہو ..ایسے کہا کھوئے ہوئے ہو ،کوئی پریشانی ہے کیا؟ ” امی نے ایک دم سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تو میں بوکھال سا گیا۔ ” جی .... جی جی وہ کچھ بھی نہیں بسٓ اج کالج نہیں
جا سکا نا اس لیئے کالج کے بارے میں
سوچ رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میری نظر سعدیہ کی طرفُ اٹھی تو وہ میرا جواب تُاب یئوک وت " ۔یھت یہر سنہ رک نسن کر ہنس رہی تھی۔ " تو کوئی با نہیںُ صبح تم کالج چلے ہی جأ وں گے اس میں پریشانی کیا ہے۔ ” امی دوبارہ سے ٹی وی کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں۔ ” جی ہاں ...ایسے ہی ہے۔ ” میں نے بھی ٹی وی پر نظریں گاڑ دیں۔ُ صبحُ اٹھ کر کالج گیا تو وہاں بھی ہر چیز عجیب سی لگ رہی تھی۔ واپس گھر پہنچا تو سعدیہ گھر میں اکیلی تھی۔ اس سے پوچھنے پر پتا چال امی پڑوس کے کسی گھر گئ ہیں۔ سعدیہ نے میرے لیئے کھانا نکاال اور میرے پاس ہی بیٹھ گئی۔ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ ابھی پہالُ لقمہ ہی لیا تھا کے مجھے سعدیہ کیٓ اوازُ سنائی دی ” بھائی یہ احمقوں کا طرزعمل بند
کریں اور خود کو سنبھالیں ،ورنہٓ اپ کے ر
وّ ی ے س ے س ب ک و ش ق ہ و گ ا ک ے ک و ئ ی ب ا ت ہوئی تھی۔ ” ” میں کیا کروں سعدیہ ،جو ُکچھ ہوا وہ میرے دماغ سے جاتا ہی نہیں ” میں نے نظریں جھکائے ہی جواب دیا۔ ” میں جتنا بھولنے کی کوشش کرتا ہوں ،یہ اتنا ہی میرے دماغ میں چپک جاتا ہے۔ ” میری حالت کسی ہارےُ ہوئے جواری سے بھی بدتر تھی۔ سعدیہ اٹٓھی اور گوشت کاٹنے والی بڑی چُ ھری لے ائی ”ُ ,اگر خود کو سنبھال نہیں سکتے تو یہ چھری لو اور پھیر دو میرے گلے پر ،کیونکہ جو ہوا اس میں میں بھی شریک تھی۔ ” اس کے تیور دیکھ کر میرےُ پورے بدن میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اگرچہ وہ مجھ سے تین سال چھُو ٹی تھی اور ساتھ میں لڑکی تھی لیکن اس کے اعصاب
مجھ سے مضبوط تھے وہ اتنے بڑے واقعے
کو اتنا جلدی فراموش کر دے گی بلکہ مجھے بھی حوصلہ دے گی کہ میں بھی اسے فراموش کر دوں۔ ایسا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ " سعدیہ اگر کسی کو علم ہو گیا تو؟ ” میں اس ذلت کا سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں۔ ” ابھی الفاظ میرے منہ میں تھے کے سعدیہ بول پڑی ” کسی کو کیسے علم ہو گا ،اس بات کوٓ اپ جانتے ہیں یا میں۔ کیآ اپ بتائیں گے؟ کیونکہ میں تو کسی کو بتانے والی نہیں۔ ” سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے بولے جارہیتھیاورمیںُ سنرہاتھا۔اسکی باتیں مجھے حوصلہ دے رہی تھیں۔ سعدیہ نے ایک بار پھرُ مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس واقعے کو بھول جأ وں گا اور اپنے کسی عمل یا بات سے کبھی اسے ظاہر نہیں ہونے
دوں گا۔ُ کچھ دن کرب و اذیت کے گذرے
لیکن پھرٓ اہستہٓ اہستہ حاالت معمول پر سٓاا ںیم ےک اتہک ںیہن وت ہی ںیم ۔ےگل ےنے لگے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کے میں ا واقعے کو بالکل بھول گیا تھا۔ مگر یہ ضرور تھے کے میںٓ پہلے جیسی نارمل زندگی کی طرف لوٹ ایا تھا۔ ہر چیز پہلے جیسی تھی لیکن کبھی کبھی یہ احساس ہوتا کے کچھ نہ کچھ ضرور بدلہ ہوا ہے۔ لیکن پھر سب کو اپنی اپنی زندگی میں مگن دیکھ کر اسے اپنا وہم خیال کر کے ذہن سے جھٹک دیتا۔ لیکن ایک روز مجھے لگا کے میں جسے وہم سمجھ رہا تھا وہ محض وہم نہ تھا۔ بلکہ حقیقت میں بدالٔ و تھا۔ اور یہ بدالٔ و سعدیہ کے رویے میں تھا۔ میں جب بھی گھر ہوتا وہ میرے قریب ہونے کی کوشش کرتی۔ میرے ساتھ اس کے انداز بڑے دلربانہ ہوتے۔ وہ میرے سامنے
ہاتھُ اٹھاُ اٹھا کر اور چھاتی پھیال پھیال
کر انگڑائیاں لیا کرتی۔ میں اگر کچن میں اس کے ہوتے ہوئے کچھ لینے چال جاتا تو وہ بہانے بہانے سے مجھ سے ٹکراتی۔ میں صوفےپرہوتاتووہمیرےساتھُ جڑکے بیٹھنے کی کوشش کرتی۔ اگر اسے دوسرے صوفے پر بیٹھنا پڑتا تو وہ ایسے انداز سے بیٹھتی کے میری نظر اس کی گانُڈ پر ضرور پڑے۔ بہت دفعہ میرے قریب سے گذرتے ہوئے بڑے غیر محسوس انداز سے اس کے ہاتھ نے یا گانڈ نے میرے لن کو چھوا تھا۔ صوفے پر اگر اسے میرے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو وہ ہمیشہ اپنا ہاتھ میری ران پرُ رکھ دیتی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگتی۔ اسے چونکہ سکول یا کالج جانا نہیں ہوتا تھا اسی لیئے رات سونے والے پاجامے میں ہی سارا دن گھر میں گھومتی رہتی
جس سے اس کی گانڈ کی گوالئیوں کے
بُابھس نا ںیم ۔ےتآ رظن حضاو رار واضح نظ رٓاتے۔ میں ان س چیزوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور اگر دماغ میں کوئی باتٓ اتی بھی تُو یہ سوچ کر کے چونکہہمایکواقعےسےگذر ےُچکےہیںہ راشفلخ ینہذ اریم ہی ےئیل ساس لیئے یہ میرا ذہنی خلفشار ہ ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس واقعے سے پہلے اور بعد میں ہونے والی چیزوں کا موازنہ کرتا۔ اور پھر خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا کے سعدیہ کے ساتھٓ ایک صوفے پر بیٹھنا یا پھر گھر میں اگے پیچھے ٹکرانا پہلے بھی ہوا کرتا تھا لیکن پہلے کبھی خیاالت ایسے نہیں ہوتے تھے۔ُ اور پھر خود کو کہتا کے میرا وہم ہے۔ لیکن اس دن میں کالج سےٓ ایا تو امی گھر میں نہیں تھیں اور سعدیہ اپنے کمرے میں تھی۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اس لیئے میں اسے کھانا لگانے کا کہنے کے لیئے اسے آاوازلچ ںیم ےرمک ےک سا اوہ اتید ںیں دیتا ہوا اس کے کمرے میں لچ گیا تو دیکھا وہ بغیر قمیض پہنے ہوئے صرف برا میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ شائید وہ کچھ کر رہی تھی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں کچھ لمحوں کیلئے وہیں ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر الٹے قدموں اس کے کمرے سے باہرٓ ا گیا۔ باہر ںٓایم ہیدعس ید زاوآ ےسا رھپ ےن ںیم رکر میں نے پھر اس ےٓاواز دی سعدیہ می تمہیںٓ اوازیں دے رہا تھا تو تم مجھے ٹھہرنے کا کہہ سکتی تھی کے تم ایسیٓ حالت میں ہو تو میں بے دھڑک اندر نہیں اتا۔ مُی ں اوٹ سے ہی بول رہا تھا۔ وہ اسی طرح اٹھ کر دروازے میںٓ اگئی ” ،بھائی یہ قمیض ہی ہے جسے سی رہی تھی، تھوڑی پھٹ گئی تھی ،اورٓ اپ سے کیا پردہ ” میں نے اسے یوں دروازے میں برہنہ جسم
اتے دیکھ تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ٓ
وہ میرے سامنےٓ اتے ہوئے بولی ”ٓ اپ منہ تو ایسے پھیر رہے ہیں جیسےٓ اپ کے دیکھے بھالے نہیں ” ” وہی ہیں جنہیںٓ اپ نے پہلے دیکھا بھی ہے اور ٹیسٹ بھی کیا ہوا ہے۔ ” وہ برا کے اوپر سے ہے اپنے مموں کو دبا کر بولی۔ اس کی اس بات نے مجھےُ بت کی طرح ساکت کر دیا تھا کیونکہ اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر اس خیال نے جگا دیا کے اگر اس وقت اچانک کوئی گھر میںٓ ا گیا تو وہ ہمیں ایسی حالت میں دیکھ لے گا۔ میں نے سعدیہ کو بازو سے پکڑ کر کمرے میں دھکیل دیا اور کہا جلدی قمیض پہنو اور مجھے کھانے کیلئے کچھ دو بہت بھوک لگی ہے۔ اس واقعے کے بعد سے یہٓ اج پہال موقع تھا جب سعدیہ نے میرے سامنے یوں بیباکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس
دن وہ میرے جذبات پھر سے بھڑکا دیتی
لیکن امیٓ اگئیں تو وہ بھی قمیض پہن کر میرے لیئے کھانا تیار کر کے لےٓ ائی۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئےُ مسکرا رہی تھی۔ لیکن میں کسی اور سوچ میں غرق تھا۔ میں سوچ رہا تھا کےٓ اگے کیا ہونے واال ہے۔ لیکن میری سوچنا ال حاصل رہا۔ سعدیہ برتن اٹھانےٓ ائی تو سرگوشی سے کہہ گئی بھائی سوچ کر اپنی جان ہلکان نہ کریں بس زندگی کے دھارے پر بہتے رہیں۔ میں اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔ اس دن کے بعد میری انتہائی کوشش ہوتی کے میں سعدیہ سے دور رہوں۔ کیونکہ سعدیہ کے اندر مجھے شیطان نظرٓ ا رہا تھا۔ ابھی دو دن ہی گذرے تھے کے سعدیہ نے مجھے کالج جانے کیلئے نکلتے وقت ایک چٹ ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے گیٹ سے نکلتے وقت اسے کھول کے دیکھا تو اس پر صرف اتنا لکھا تھا ” ،ایک بار یا بار بار ” میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا کے یہ کیا پیغام ہے اور سعدیہ کس چیز کے ٓب ارے میں اشارہ کر رہی ہے۔ کالج سے واپس ایا تو میں جیسے ہی اپنی روم میں داخل ہوا تو بیڈ کے کونے پر ایک کاغذ پڑا مالُ اٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا۔ " کوئی فرق نہیں پڑتا ” پہلے تو سمجھ نہٓ ائی لیکن صبح کی تحریر اور اسے مال کر پڑھا تو سب سمجھٓ ا گئی یعنی سعدیہ مجھے پھر سے دعوِ ت ُگناہ دی رہی تھی۔ " ایک بارً یا بار بار ،کوئی فرق نہیں پڑتا ” میں فورا سعدیہ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کیا کرتا امی گھر میں موجود تھیں۔ شام کو تو چانس ہی نہیں تھا کیونکہ شام کو تو سبھی گھر ہوتے ہیں۔ مجھے پتا تھا کے جو بات مجھے سعدیہ
سے کرنی ہے اس کیلئے خاصہ وقت چاہیئے
اور یقینً ا یہ بات ہم کسی بھی دوسرے کے سامنے نہیں کر سکتے تھے۔ میںُ نے بھی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا " مجھے تم سے فوری بات کرنی ہے ” اور پانی پینے کے بہانے کچن میں جا کر سعدیہ کے ہاتھ میں تھما کر واپس ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔ میں انتظار کر رہآ تھا کے سعدیہ کی طرف سے کوئی جواب ائے گا۔ لیکن کوئی جواب نہ مال صبح کالج جانے کیلئے نکال تو سعدیہ نے نکلنے سے پہلے ایک کاغذ تھما دیا ٓ،جس پر لکھا تھا۔ ” کالج سے جلدی واپس ا جانا ،مجھے اور امی کوٓ اج شاپنگ کرنے بازار جانا ہے لیکن میں نہیں جأ وں گی اور کوئی بہانہ کر کے گھر ہی رہ جأ وں گی۔ امی گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے تین بجے تک گھر نہیں ہوں گی۔ ” میں نے تحریر پڑھنے کے
بعد کاغذ کےُ پرزےُ پرزے کر کے پھینک
دیئے۔ اور گھڑی پر وقت دیکھا تو ساڑھے نو بجُ چکےتھےمیرےلیئےمحالتھاکےمیں دس بجے کالج پہنچوں اور گیارہ بجے واپس گھرٓ اجأ وں۔ اس لیئے میں نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ڈیڑھ گھنٹہ یونہیٓ اگے پیچھے گذارنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی گیارہ بجنے میں کچھ وقت باقی تھا جب میں گھر کے ُق ریب ہیٓ ا گیا۔ اور ایک سائیڈ کی گلی میں نکڑ پر کھڑا ہوٓ گیا۔ یہاں سے میں اپنے گھر کے گیٹ کو بااسانی دیکھ سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا کے امی کے گھر سے نکل جانے کا یقین کر لوں تو میں گھر جأ وں ۔ گیارہ بجے سے دس منٹ اوپر ہوں گے جب میں نے امی کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ میں سائیڈ میں چھپ گیا اور یہ یقین کر لینے کے بعد کے امی چلی گئی ہیں۔
تب وہاں سے نکال اور گیٹ کھول کر گھر
میں داخل ہو گیا۔ میں نے سعدیہ کوٓ اواز دے کر پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے اپنے کمرے سےٓ اواز دی ،میں اپنی روم میں ہی ہوںٓ اپ بھی ادھر ہیٓ اجأ و۔ میں اس کی روم کے اندر داخل ہوا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سٹول پر بیٹھی تھی ،اس کے بال کُ ھلے تھے جبکہ کپڑوں کے نام پر صرف ایک پینٹی تھی جو اس کی شرم گاہ کو چھپائے ہوئے تھی۔ باقی سارا جسم برہنہ تھا۔ سعدیہ تم جو چاہ رہی ہو ٹھیک نہیں ہے ،میں نےٓ اگے بڑھ کر اس کے بیڈ سے چادر کھینچی اور اس کا جسم ڈھانپتے ہوئے کہا۔ اگرچہ اسے ننگا دیکھ کر میرے تن بدن میں بھیٓ اگ لگ گئی تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو جو غلطی ہوئی سو ہوئی اب ضروری نہیں کے ہم وہی
غلطی دوبارہ کریں۔ میری بات ابھی مکمل
نہیں ہوئی تھی کہ سعدیہ بول پڑی ،کیا غلط اور کیا صحیح یہ سوچنے کی حد ہم نے بہت پہلے عبور کر لی ،اب فرق نہیں پڑتا کے ہم ان حدوں کو کتنی بار پھالنگتے ہیں۔ لیکن سعدیہ .....میں نے بات کرنا چاہی تو سعدیہ نے پھر درمیان میں ہی میری بات کاٹ دی ،لیکن کیا؟ٓ اپ ہی بتأ و اس دن میریُ چدائی کرتے ہوئےٓ اپ کو مزہٓ ایا تھا کے نہیں؟ یہ کیسا سوال ہے؟ میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا تو سعدیہُ اٹھ کر میری طرف بڑھتے ہوئے بولی ،بات گول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہٓ بتائیں مزہٓ ایا تھا کے نہیں؟ مجھے تو بہت ایا تھا ،یہ کہتے ہوئے ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔ مجھے بھیٓ ایا تھا پر سعدیہ وہ حاالت کچھ اور تھے ،جن کی
وجہ سے ہم سے یہ شیطانی فعل سرزد
ہوا۔ میں بات کر رہا تھا اور وہ میرے بالکل سامنےٓ اکر کھڑی ہوگئی۔ اس کے انار جیسے ممے تنے ہوئے تھے اور بالکل میری یٓانکھھب وج تالاح ۔ےھت یزاوتم ےک ںوں کے متوازی تھے۔ حلاات جو بھ تھے ،لیکن ہم ایسا کر چکے ،سعدیہ میرے اتنا قریبٓ ا گئی کے مجھےُ اس کے جسم کی گرمی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس حرارت سے سعدیہ کا بدن چمک رہا تھا۔ سعدیہ ہم بھائی بہن ہیں ۔ مجھ پر میرا کنٹرول ختم ہو رہا تھا۔ بھائی بہن تو ہم یُقرت ہب یقرت ہیدعس ۔ےھت یھب ند ساس دن بھی تھے۔ سعدیہ ترقی بہ ترق جواب دے رہی تھی۔ تم کو پتا ہے سعدیہ کے اس دن تم سردی سے مر رہی تھی اور جو کچھ ہوا اس میں نظریہ لذت حاصل کرنے کا نہ تھا۔ بلکہ برادرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر میں تمہارے جسم کو حرارت دینے کی کوشش
کر رہا تھا کے شیطان کے بہکاوے میںٓ ا کر
بہک گیا ۔ میں نے گویا اپنی صفائی پیش کی لیکن سعدیہ کاُ موڈ کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے پیٹ پر رکھ دیا اور کہا ‘ بھائی اگر میں کہوں کے میںٓ اج بھی مر رہی ہوں تو کیا اآ یک جآ ؟ےگ ؤ اچب ںیہن یگدنز یریم جُج میری زندگی نہیں بچ أو گے ؟ٓاج کی اس دن کے بعد سے تو میں روز مرتی ہوں ہر روز خواب میں تمہیں ہی دیکھتی ہوں دن کو جب بھی سامنےٓ اتے ہو میرے بدن میںٓ اگ لگ جاتی ہے۔ اس نے باتیں کرتے کرتے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھتے ہوئے کہا تمہارے اس لن نے جو لذت مجھے اس دن دی میں اس لذت کے سحر سےٓ اج تک نہیں نکلی۔ مجھےُ تمہارا لن ہر وقت اپنی پُ ھدی میں محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یہ چاہئے سعدیہ نے جو بات کرتے ہوئے میرے لن کو پکڑا تو وہٓ اگ کی طرح تپنے لگا۔ اکڑ کے سخت تو وہ کب کا ہو چکا تھا لیکن سعدیہ کے ہاتھ لگتے ہی مچلنے لگا تھا۔ بھائی یہ صرفٓ میرے دل کی خواہش نہیں ،سعدیہ کی اواز پھر میری سماعتوں میں گونج اٹھی۔ مجھے علم ہے کےٓ اپ بھی یہی چاہتے ہو، میں جانتی ہوں کے جب بھیٓ اپ کے قریب سے گذروں تو سامنے سےٓ اپ کی نظر میرے مموں پر جبکہ پیچھے سےٓ اپ میری گانڈ کو دیکھتے رہتے ہو۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کے میں جب کام کر رہی ہوتی ہوں توٓ اپ میرے جھکنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہو تاکہ میں جھکوں توٓ اپ میرے مموں کو جھانک سکیں۔ نہیں یہ بہتان ہے ،میں نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو سعدیہ پھر بول پڑی اگرُ اس دنٓ اپ مجھے تھپڑ لگا دیتے جس دن میں کمرے میں ننگی بیٹھی
اپنی قمیض سی رہی تھی تو میں سمجھ
جاتی کےٓ اپ کے بارے میں جو میری رُا ئے قائم ہو رہی ہے وہ صحیح نہیں۔ لیکن اس دن جس طرح میرے ننگے بدن کے گردٓ اپ کیٓ انکھیں گھوم رہی تھیں وہ مجھے یقین دالنے کیلئے کافی تھیں کےٓ اپ کے دل میں میرے بدن سے کھیلنے کی خواہش ابھی ہے۔ بھائی اگرٓ اجٓ اپ کالج چلے جاتے اور میرے یوں بالنے پر کے جس وقت میں گھر میں اکیلی ہوں نہٓ اتے تو تب بھی میں یقین کر لیتی۔ میں مانتی ہوں کے میرے دل میںٓ اپ کے لیئے خواہش ہے۔ اب ےٓندوچ ےھجم روا ںیراتا باقن یھب پاپ بھی نقاب اتاریں اور مجھے چودن کی جو خواہش ہے اسے پورا کر لیں۔ دیکھیں میں توٓ بالکل تیار ہوں۔ بس ایک یہ پینٹی ہے جسے اپ نےُ اتارنا ہے۔