You are on page 1of 73

‫‪ 

‬‬

‫‪Sadia Aapi ‬‬
‫‪ ‬‬

‫سعدیہ میری بہن ہے اور اس کی عمر ‪18‬‬


‫سال ہے۔ میں بھی بہت سے بھائیوں کی‬
‫طرح ہی ہوں اور اپنی بہن کو بہت چاہتا‬
‫بھی ہوں اور میری یہ چاہت ایک بھائی‬
‫کی طرح کی ہی ہے۔ لیکن ایک گناہ جو‬
‫مجھ سے سرزد ہو گیا اس پر بہت‬
‫شرمندہ ہوں اور جانتا ہوں کے اس کا‬
‫کفارہ ممکن نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کے‬
‫اس گناہ کے کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں‬
‫ہے جو میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے‬
‫دوں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سعدیہ کچھ‬
‫دنوں سے ہماری خالہ کے گھر گئی ہوئی‬
‫تھی۔ کیونکہ سکول میں اس کے امتحان‬
‫ہو چکے تھے اور وہ فارغ تھی۔ حمیرا جو‬
‫ہماری خالہ زاد ہے نے بہت‬

‫اصرار کر کے امی جان سے سعدیہ کو اپنے‬


‫ہاں کچھ دن کیلئے لے جانے کی اجازت لے‬
‫لی تھی۔ اور جیسے ہی سعدیہ امتحانوں‬
‫سے فارغ ہوئی حمیرا اسے لینے کیلئے اپنی‬
‫ماں کے ساتھٓ ا دھمکی۔ اورٓ اج تقریبً ا‬
‫دو ہفتے ہونے کو تھے کہ سعدیہُ ان کے ہاں‬
‫رہ رہی تھی ۔امی جان نے مجھے کہا کہ‬
‫میں خالہ کے گھر سے سعدیہ کو لےٓ أ وں۔‬
‫میں نہا دھو کر تیار ہوا اور موٹرسائیکل‬
‫نکال کے خالہ کے گھر کے لیئے روانہ ہوا۔‬
‫خالہ کا گھر ایک دوسرے گأ وں میں تھا‬
‫جو کے ہمارے گأ وں سے چودہ پندرہ‬
‫کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ میں کوئی‬
‫آادج رھگ ےک ہلاخ یہ ںیم ےٹنھگ ےھے گھنٹے میں ہی خالہ کے گھر ج‬
‫پہنچا۔ حال احوال کے بعد حمیرا چائے بنا‬
‫کر لےٓ ائی۔ چائے پیُ چکنے کے بعد میں نے‬
‫خالہ سے اجازت چاہی تو خالہ نے کہا کے‬
‫اتنی جلدی کیا ہے ابھی‬

‫ائے اور ابھی چل دیئے۔ٓ ارام سے بیٹھوٓ‬


‫کھانا وغیرہ تیار ہوتا ہے تو کھا کرٓ ارام‬
‫سے چلے جانا۔ اب خالہ کہہ رہی تھیں تو‬
‫میں انکار کیسے کرتا ویسے بھی میرا دل‬
‫چاہ رہا تھا کے میں کچھ دیر اور یہیں‬
‫رکوں کیونکہ میں دل ہی دل میں حمیرا‬
‫کو بہت پسند کرتا تھا۔ اور اس کو بارہا‬
‫دل ہی دل میں اپنیبیویکےروپمیںدیکھ‬
‫اُچکاتھا۔مناج بسانم عقوم یھب ےن ںیں نے بھی موقع مناسب جان‬
‫اور سوچا کے چلو اسی بہانے کچھ دیر‬
‫اس کے ساتھ بھی وقت بیت جائے گا۔‬
‫خالہ نے اسے کہا کے جلدی سے کھانا تیار‬
‫کرو۔ اور خود میرے ساتھ باتیں کرنے‬
‫لگیں۔ ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کے‬
‫خالہ کے پڑوس سے ایک عورتٓ اگئی۔ خالہ‬
‫اس عورتکےپاسبیٹھگئیںتومیںُ چپکے سے‬
‫وہاں سےُ اٹھا اور کچن میں چال گیا‬

‫جہاں حمیرا کھانا بنا رہی تھی۔ سعدیہ‬


‫بھیُ اس کی بھرپور مدد کر رہی تھی۔‬
‫میں سائیڈ پر کھڑا ہو کےُ ان سے ادھر‬
‫اُادناھک یھب ہو ۔اگل ےنرک ںیتاب یک رھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی کھان‬
‫بناتے ہوئے مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔‬
‫میں چور نگاہوں سے حمیرا کے بھرپور‬
‫سراپے کا بھی جائزہ لے رہا تھا۔ وہ یقینً ا‬
‫قدرت کا شاہکار تھی۔ وہ بھی سعدیہ کی‬
‫ہی ہم عمر تھی۔ گورے رنگ کے ساتھ‬
‫خوبصورت اور پر فیکٹِ فگرُ اس پر‬
‫قیامت خیز لباس مجھ پر بجلیاں گرا رہے‬
‫تھے۔ اس کی ہر ہر ادُا پر میری جان نکل‬
‫رہی تھی۔ میں باتیں تو ان کے ساتھ کر‬
‫رہا تھا لیکن لیکن دماغ سے میں کسی اور‬
‫ہیُ دنیا میں تھا۔ وہ دونوں کھانا بنانے‬
‫میں مصروف تھیں جبکہ میں حمیرا کے‬
‫سحر ُم یں گرفتار تھا۔ میں بار بار بہانے‬
‫بہانے سے اس سے ٹکرانے‬
‫کی کوشش کر رہا تھا۔ دو تین دفعہ میں‬
‫نے اپنے کندھے سےُ اس کے مموں کو دبایا‬
‫تھا جبکہ ایکٓ ادھ دفعہ ہاتھ اس کی گانڈ‬
‫پر بھی لگایا تھا۔ میں سرور اور مستی‬
‫کُی سی کیفیت میں تھا۔ حمیرا سے‬
‫چھونا اسےُ برا نہیں لگا تھا یا پھرُ اس‬
‫کی نظر میں یہ سب حادثاتی تھا۔ کیونکہ‬
‫کوئی خاص ری ایکشنُ اس کی جانب سے‬
‫دیکھنے کو نہیں مال تھا۔ پر سچ بات یہ‬
‫ہے کے میری حالت غیرتھی۔ خیر کھانا تیار‬
‫ہوا اور ٹیبل پر لگا دیا گیا۔ ہم نے مل کر‬
‫کھانا کھایا ۔ اس کے بعد میں نے خالہ سے‬
‫اجازت چاہی تو انہوں نے بھی اجازت‬
‫دیتے ہوئے کہا کے دھیان سے جانا راستے‬
‫میں موٹرسائیکل چالتے ہوئے مستی نہ‬
‫کرنا۔ میں نے جی اچھا کہہ کر سعدیہُ کو‬
‫چلنے کو کہا۔ سعدیہ بھی تیار تھی بس‬
‫اس‬

‫نے کپڑے تبدیل کرنے تھے۔ وہ پانچ منٹ‬


‫میں کپڑے تبدیل کر کےٓ ا گئی۔ ہم گھر‬
‫کیلئے نکلے تو شام ہونے کو تھی لیکن‬
‫فاصلہ کوئی بہت زیادہ نہیں تھا اس لیئے‬
‫کوئی زیادہ فکر بھی نہ تھی۔ سعدیہ ہلکے‬
‫پیلے رنگ کی قمیض جبکہ سفید شلوار‬
‫اور دوپّ ٹے میں قیامت لگ رہی تھی۔ ہم‬
‫ابھی کوئیٓ اٹھ نو کلومیٹر ہیٓ ائے ہوں گے‬
‫کے کھڑاک کی ایک سختٓ اواز کے ساتھ‬
‫موٹر سائیکل کی چین ٹوٹ گئی۔ میں نے‬
‫اپنے طور پر اسے مرمت کرنے کی کوشش‬
‫کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ٓ اس پاس‬
‫کسی مکینک کا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔‬
‫کیونکہ یہ چند دیہاتوں کو مالنے والی‬
‫ایک چھوٹی سی روڈ تھی۔ اور میں اگلے‬
‫تمام راستے تک اسے دھکیل کر بھی نہیں‬
‫لے جا سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کے کوئی‬
‫پانچ چھ سو گز‬

‫دور ایک گھر تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کے‬


‫موٹرسائیکل اس گھر میں کھڑی کر کے‬
‫باقی تمام فاصلہ پیدل طےُ کرتے ہیں۔ اور‬
‫موٹرسائیکل کو دھکیل کر اس گھر تک لے‬
‫گیا۔ گھر کے مکین اچھے تھےُ انہوں نے‬
‫بھی وہاں موٹرسائیکل کھڑی کرنے پر‬
‫کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہاں پر‬
‫موٹرسائیکل چھوڑنے کے بعد میں اور‬
‫سعدیہ پیدل ہی گھر کیلئے روانہ ہوگئے۔‬
‫سڑک سے ہٹ کر ایک اور راستہ بھی‬
‫ہمارے گأ وں کی طرف جاتا تھا جو کے‬
‫نسبتً ا چھوٹا تھا ہمُ اسی راستے پر ہو‬
‫لیئے۔ تا کہ جلد سے جلد گھر پہنچ سکیں۔‬
‫لیکن کہتے ہیں نا کے مصیبتٓ انی ہو تو‬
‫چھوٹی مسافتیں بھی لمبی ہو جاتی ہیں۔‬
‫ُکچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہونے جا رہا‬
‫تھا۔ سعدیہ اور میں نے ابھیُ مشکل سے‬
‫ایکٓ ادھ کلومیٹر ہی طے کیا ہو گا کہ‬

‫اسمان یکا یک بادلوں سے بھرنے لگا۔ ہمٓ‬


‫اپنی بساط بھر تیز تیز چلنے کی کوشش‬
‫کر رہے تھے لیکن بارش شروع ہوگئی۔ ہم‬
‫دونوں بہن بھائی بالکل اکیلے تھےُ دور‬
‫اُدھت ںیہن ناشن مان اک ناسنا یسک کت رور تک کسی انسان کا نام نشان نہیں تھ‬
‫اور راستہ بھی قدرےُ سنسان تھاُ اس پر‬
‫بارش نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہمارے‬
‫کپڑےُ بری طرحسےبھیگُ چکےتھے۔‬
‫ہمنےخودکو بارش سے بچانے کیلئے‬
‫درختوں کے ایک گھنے جُ ھنڈ کی اوٹ لی۔‬
‫بارش مزید تیز ہو رہی تھی جبکہ اندھیرا‬
‫بھی بڑھ رہا تھا۔ سعدیہ ُکچھ بھیگنے کی‬
‫وجہ سے اور ُکچھ اسُ سنسان جگہ پر‬
‫خوف کی وجہ سےُ بری طرح سے کانپ‬
‫رہی تھی۔ میںُ اس کا دھیان بٹانے کیلئے‬
‫اُھت اہر رک ںیتاب یک رھداُ رھدا ےس ساس سے ادھ رُادھر کی باتیں کر رہا تھ‬
‫تاکہ اس کا دھیان باتوں میں لگا رہا تاکہ‬
‫۔ُاوہ ہن ساسحا اک یدرس روا فوخ ےسے خوف اور سردی کا احساس نہ ہو‬

‫لیکنُ اس کی حالت غیر سے غیر ہوتی جا‬


‫رہی تھی۔ وہ میرے ساتھ بالکل چپک کر‬
‫کھڑی تھی۔ میںُ اسے دالسہ دیئے جا رہا‬
‫تھا کہ ابھی بارشُ رک جائے گی اور ہم‬
‫گھر پہنچ جائیں گے۔ لیکن بارش تھی کے‬
‫مزید رفتار پکڑ رہی تھی۔ بھائیُ مجھے‬
‫بہت سردی لگ رہی ہے۔ سعدیہ نے ُا نتہائی‬
‫کانپتیٓ اواز میں بمشکل کہا۔ میں نے اسے‬
‫کہا کے اپنے بیگ سے چادر یا کوئی اور‬
‫کپڑے نکال کر لپیٹ لو‪ ” ،‬لیکن بھائی بیگ‬
‫تو موٹرسائیکل کے ساتھ ہی رہ گیا۔‬
‫سعدیہ نے انتہائی معصومیت سے کہا۔‬
‫میں بھیُ بدھو ہی تھا کہ اندازہ ہی نہیں‬
‫کر پایا کے ہم خالی ہاتھ ہی بھاگے چلے‬
‫ےٓارئاوس اھت اتکس وہ ایک با ریخ ۔ےھت ےہے تھے۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا سوائ‬
‫اس کے کہ سردی کو برداشت کیا جائے ۔‬
‫لہذا میں نے سعدیہ کو یہی کہا کہ سردی‬
‫کو برداشت کرے۔ اور‬

‫ہمت سے کام لے لیکن۔ وہ نازک اندام نہ تو‬


‫برداشت ہی کر پا رہی تھی اور نہ ہیُ اس‬
‫کے پاس ہمت تھی۔ قریب تھا کہ وہ گر‬
‫جاتی میں نے فورً اُ اسے سنبھاال دیا۔ اور‬
‫۔ُاایل ٹیمس ںیم ںوؤ زاب ںونود ےنپا ےسے اپنے دونوں با زٔووں میں سمیٹ لیا‬
‫وہ بہتُ بری طرح کانپ رہی تھی۔ُ اس کی‬
‫یہ حالت دیکھ کرُ مجھے بھی ڈر سا لگ‬
‫گیا۔ میں نے باری باریُ اس کے دونوں‬
‫ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھوں سے‬
‫رگڑنا شروع کیا تاکہُ اسے ُکچھ حرارت‬
‫پہنچا سکوں۔ لیکن ایسا کرنا کچھ فائدہ‬
‫مند ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ میں سعدیہ کا‬
‫سر اپنی گود میں لیئے ایک درخت سے‬
‫ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اور اس کے دونوں‬
‫ہاتھوں کی مالش کر رہا تھا۔ لیکنُ اس کی‬
‫حالت بدستور غیر سے غیر ہو رہی تھی۔‬
‫میں نےُ اسے کھینچ کر گود میں لے لیا۔‬
‫بڑی عجیب سی کیفیت تھی۔ میں‬

‫درخت سے ٹیک لگائے ٹانگیں لمبی کر کے‬


‫بیٹھا تھا جبکہ سعدیہ کو میں نے گود‬
‫میں لیا ہوا تھا۔ُ اس کا سر میرے بائیں‬
‫کندھے پر تھا جبکہ میں نے اپنے دونوں‬
‫بازوںُ اس کے بازٔ ووں کے نیچے سے ُگذار‬
‫کرُ اس کیُ پشت پر لے گیا تھا۔ اور اپنے‬
‫بازٔ ووں سے اسکے سینے کو اپنے سینے سے‬
‫بھینچ رکھا تھا۔ اب میں دائیں ہاتھ سے‬
‫سعدیہ کی کمر کو رگڑ رہا تھا تاکٓہ اس کو‬
‫کچھ نہ کچھ حرارت ملتی رہے۔ اپ کو‬
‫بتاتا چلوں کے میں جو کچھ بھی کر رہا‬
‫تھا وہ ایک بھائی کی بہن کیساتھ خالص‬
‫برادرانہ شفقت کے سوا کچھ نہ تھا۔‬
‫سعدیہ کی کپکپاہٹ کسیُ طور کم نہیں‬
‫ہو رہی تھی۔ سردی کے مارے اس کی‬
‫حالتُ بری تھی۔ میں اپنے دائیں ہاتھ کی‬
‫ہتھیلیُ اس کی کمر پر رگڑ رگڑ کرُ اس کو‬
‫حرارت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫اچانک سعدیہ کی قمیض کچھ ہٹ گئی‬
‫اور میرا ہاتھُ اس کی ننگی کمر پر چال‬
‫گیا۔ مجھے اس کا جسم بہت ٹھنڈا لگا۔‬
‫میں ادھر ہیُ اس کی ننگی کمر پر ہاتھ‬
‫پھیرنے لگا۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ وہ‬
‫کیفیت کیا تھی میرے لیئے اس کا اظہار‬
‫اتنآ اسان نہیں ہے۔ بہرحال میں نے اپنا‬
‫ہاتھ سعدیہ کی کمر پر نیچے سے اوپر تک‬
‫پھیرنا شروع کر دیا۔ سعدیہ تقریبً آ نیم‬
‫بیہوشی کی سی حالت میں تھی اور‬
‫انکھیں بند کیئے میرے ساتھ چپک کے‬
‫لگی ہوئی تھی ۔ُ اس کی ننگی کمر پر ہاتھ‬
‫پھیرنے پرُ اس نے میری طرفٓ انکھ کھول‬
‫کے دیکھا اور پھرٓ انکھ کو بند کر لیا۔‬
‫تھوڑی ہی دیر بعد مجھے لگا کے سعدیہ کا‬
‫جسم ابھی بھی ٹھنڈا ہے لیکن پہلے جیسا‬
‫نہیں تو میں نے اسے اٹھا کر پوری طرح‬
‫اپنی گود میں اس طرح لیا کے‬

‫اس کی دونوں ٹانگیں میری کمر کی‬


‫دونوں اطراف میں تھیں اس کا منہ میری‬
‫طرف تھااورہمدونوںکےسینے‬
‫ھُجڑےہوئےتھتاہ ںونود ےریم ہکبج ۔ے۔ جبکہ میرے دونوں ہات‬
‫اب اس کی کمر پر تھے۔ میں دونوں ہاتھ‬
‫اوپر سے نیچے تک اس کی کمر پر پھیرنے‬
‫لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا شائید جب ایک‬
‫بھائی کی شفقت ایک مرد کی چاہت میں‬
‫تبدیل ہو رہی تھی۔ اور اسی کمزور لمحے‬
‫میں میں سعدیہ کے جسم سے مزہ لینے‬
‫لگا۔ مجھے ناف کے نیچے اپنی ٹانگوں کے‬
‫درمیان ہلچل سی محسوس ہوئی۔ اور‬
‫میرے ہاتھ سعدیہ کی کمر پر اوپر گردن‬
‫کے قریب سے لے کر نیچے اسکے کولہوں‬
‫تک حرکت کر رہے تھے۔ ان ہی لمحوں میں‬
‫میں نے سعدیہ کے بریزیئر کیُ ہک بھی‬
‫یُاٹروپ یک ساُ ہنادازآ ھتاہ ےریم ۔ید اھا دی۔ میرے ہات ھٓازادان ہُاس کی پور‬
‫کمر کی پیمائش کر رہے تھے۔ میں نے‬

‫دھیرے دھیرے اپنے ہونٹوں کو سعدیہ کے‬


‫کان کی لو کے بالکل نیچے اس کی گردن‬
‫پر لگا دیا۔ میرا لن بڑی تیزی سے سختی‬
‫پکڑ رہا تھا۔میرے ہاتھ اب کمر سے ہوتے‬
‫ہوئے سعدیہ کے مموں کی جانب بھی بڑھ‬
‫رہے تھے۔ میرے ہونٹ گردن سے ٹھوڑی‬
‫اور گالوں تک کی مسافت کر رہے تھے۔‬
‫میں اپنے ہونٹ اب سعدیہ کے منہ تک لے‬
‫گیا اورٓ اہستہ سے اسکے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ جما دیئے۔ میرے ہاتھ اب مزید نیچے‬
‫کی طرف سعدیہ کی چوتڑ تک سہال رہے‬
‫تھے۔ سعدیہ کی شلوار میں االسٹک ہونے‬
‫کی وجہ سے میرے ہاتھوں کو نیچے تک‬
‫جانے میں کچھ رکاوٹ نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫میرا لن پوری طرح کھڑا ہوگیا تھا اور وہ‬
‫شلوار کے اوپر سے ہی سعدیہ کی پُ ھدی‬
‫سے رگڑ کھائے ہوئے تھا۔ میں ایک بھائی‬
‫کی بجائے ایک‬

‫عام مرد تھا اور سعدیہ میرے لیئے بس‬


‫ایک عورت ہی تھی۔ میں نے وہیں بیٹھے‬
‫بیٹھے ایک ہاتھ سے اپنآ ازاربند کھوال‬
‫پھردونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو‬
‫اوپرُ اٹھا کراس کی شلوار کو نیچے‬
‫کھینچ لیا۔ سعدیہ جو پہلے صرف کسمسا‬
‫رہی تھی۔ جیسے ہی اس کی ننگی گانڈ‬
‫میرے برہنہ لن کے ساتھ لگی اسے بھی‬
‫شائید جھٹکا سا لگا۔ اس کیٓ انکھیں بھی‬
‫کھل گئیں اور اس کے منہ سے بس اتنا ہی‬
‫نکال بھائی کیا کر رہے ہو۔ لیکن یہ وہ وقت‬
‫تھا شائید جہاں سے پیچھے نہیں جایا جا‬
‫سکتا۔ میں نے بھیگویاکچھنہیںُ سناتھا۔‬
‫نہمیرےہاتھُ رکے نہ ہونٹوں نے اپنا کام‬
‫روکا اور نہ ہی میرے لن کو کوئی فرق‬
‫پڑا۔ میرا لن سعدیہ کی پُ ھدی سے رگڑ‬
‫کھاتا ہواُ اس کی ناف سے ٹکرا رہا تھا۔‬
‫میں نےُ ادھر ہی جھٹکے‬

‫دےکرلنکونافاورپُ ھدیسےرگڑنا شروع کر‬


‫دیا جبکہ میرے ہاتھ سعدیہ کے گول‬
‫مٹول مموں کا مساج کر رہے تھے۔ جبکہ‬
‫سعدیہ کے ہونٹوں کو میں اب باقاعدہ‬
‫چوس رہا تھا۔ سعدیہ اب ہوش میںٓ ا‬
‫یُچک ےناڑھچ وک دوخ روا یھت یکی تھی اور خود کو چھڑانے ک‬
‫کوشش بھی کر رہی تھی۔ لیکن یہ اب اس‬
‫کیلئے شائید ممکن نہیں تھا۔بھائی مت‬
‫کرو ایسا‪ ،‬بھائی ہوش کرو‪ ،‬بھائی رکو‬
‫وغیرہ کے بہت سے جملے میرے کانوں سے‬
‫ٹکرا رہے تھے‪ ،‬لیکن میںسبان‬
‫ہُسنیکرتےہوئےاپنےکاممن ےریم۔اہر اگل ںیں لگا رہا۔میرے ن‬
‫تو جھٹکےُ رکے نہ اس کے ہونٹ چومنا رکے‬
‫اور نہ ہی میرے ہاتھ۔ سعدیہ کے بدن کو‬
‫حرارت دیتے دیتے میرے اپنے اندر االٔ و‬
‫بھڑکُ اٹھا تھا۔ مجھے یہ بھی احساس‬
‫ہوا کے سعدیہ کا جسم بھی اب پہلے سا‬
‫ٹھنڈا نہیں بلکہ اس کا پورا بدن‬

‫بھی گرم تھا۔ مجھے اب یہ بھی لگ رہا‬


‫تھا کہ سعدیہ اب خود کو چھڑانے کی‬
‫بھی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ میں نے‬
‫اسی طرح اپنے لن کو سعدیہ کی پُ ھدی‬
‫پر رگڑتے ہوئے جھٹکے جاری رکھے۔ جبکہ‬
‫اب میں سعدیہ کی دونوں نپلز کو مسل‬
‫رہا تھا جس پر سعدیہ کے منہ سے‬
‫سسکاری سی نکل رہی تھی۔ ہماری‬
‫پوزیشن اب بھی وہی تھی۔ یعنی میں‬
‫اپنی ٹانگیں لمبی کیئے درخت کے ساتھ‬
‫بیٹھا تھا اور سعدیہ میری طرف منہ کیئے‬
‫ہوئے میری رانوں پر بیٹھی تھی‪ ،‬جہاں‬
‫میرا ل ن ا س ک ی پُ ھ د ی س ے ر گ ڑ‬
‫ک ھ ا ت ے ہ و ئ ے ا س کی ناف سے‬
‫ٹکرا رہا تھا۔ میرا لن تن کر لوہے کی طرح‬
‫سخت اور کسی انگارے کی طرح گرمہو‬
‫ےُچکاتھا۔ایس ٓلمےح ٓمجھےلگاک ہیدعس ہکہ سعدیہ ک‬
‫ہاتھ بھی اہستہ اہستہ میری کمر‬

‫پر گھوم رہے ہیں اور ان کی گرفت بھی‬


‫سخت ہو رہی ہے۔ مجھ پر گویا ایک جنون‬
‫کی سی کیفیت طاری تھی۔ میری سوچ‬
‫سمجھ سب مفلوج ہو کےرہ گیا تھا۔‬
‫سعدیہ کے اس عمل سے مجھے اور ہمت‬
‫ہوئی میں نے دیکھا کے سعدیہ بھی جیسے‬
‫ہلکے ہلکے جھٹکے لے رہی تھی اور شائید‬
‫میرے لن کاُ اس کی پُ ھدی سے رگڑ کھانا‬
‫ُُایھت ہجوُ یہی ۔اھت اہر ےد ازم یھب ےسے بھی مزا دے رہا تھا۔ یہ یُوجہ تیھ‬
‫کے میں جب بھی اپنے لن کو اس کی‬
‫پھدی سے رگڑتے ہوئے اوپرُ اٹھاتا وہ پ‬
‫۔ُھیتاھڑب ؤ ابد انپا رپ نل ےریم ےس یدی سے میرے لن پر اپنا دب أو بڑھاتی‬
‫اس کیُ پھدی نے پانی چھوڑناُ شروع کر‬
‫دیا جو کہُ مجھے اپنے لن پر محسوس ہو‬
‫رہا تھا۔ میں مسلسل سعدیہ کےہونٹوںکو‬
‫یُچوسرہاتھاجبکہدائک ساُ ےس وزاب ںیں بازو س ےُاس ک‬
‫کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کیئے ہوئے‬
‫تھا۔جبکہ بایاں ہاتھُ اس‬
‫کے پورے جسم کی پیمائش کر رہا تھا۔‬
‫میں نے اب اگال قدم لینے کا فیصلہ کیا۔‬
‫میرا بایاں ہاتھ اب سعدیہ کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان ٹھیکُ اس کی پُ ھدی پر تھا۔‬
‫میرے ہاتھ کی درمیانیُ انگلی سعدیہ کی‬
‫پُ ھدی کے دونوں ہونٹوں کے درمیان میں‬
‫تھی۔ ُکچھ دیر میں نے سعدیہ کی پُ ھدی‬
‫پر یونہی ہاتھ پھیرتا رہا پھر میں نے اپنی‬
‫تُانگہب ۔اید لاڈ ردنا ےک یدھُ پ وک یلی کو پُھدی کے اندر ڈال دیا۔ بہ‬
‫تنگ سوراخ تو تھا ہیُ بہت زیادہ گرم بھی‬
‫تھا۔ُ انگلی جیسے ہی پُ ھدی کے اندر گئی‬
‫سعدیہ کی چیخ بھی نکل گئی۔ میں نے‬
‫کچھ لمحوں کیلئے ہاتھ روک لیا اور پھر‬
‫دوبارہ سےُ انگلی کو مزید اندر کیا تو‬
‫سعدیہ پھر چیخ پڑی۔ میں نے اس کے‬
‫ہونٹوں پر ایک لمبی کس کی اور دونوں‬
‫ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو اوپر اٹھایا‬
‫ا و ر ا پ ن ے ل ن ک و ٹ ھ ی کُ ا س‬
‫ک ی پُ ھ د ی ک ے‬

‫ہونٹوں کے بیچ ٹکا دیا۔ اور لن کے ٹوپے‬


‫کو سوراخ پر دھیرے دھیرے رگڑنے لگا۔‬
‫سعدیہ کی پُ ھدی سے نکلنے واال پانی‬
‫بہت گھنا اور چکنا تھا جس سے میرے لن‬
‫کا پورا ٹوپا بھیگ کر چکنا ہو چکا تھا‬
‫یہی وجہ تھی کے وہ سوراخ میں جانے کے‬
‫بجائےٓ اگے پیچھے پھسل رہا تھا۔ُ سعدیہ‬
‫ابھی تک کنواری تھی اور اس کی پھدی‬
‫کا سوراخ بہت چھوٹا اوًر تنگ تھا جبکہ‬
‫میرا لنٓ اٹھ انچ لمبا اور تقریبا ڈیڑھ انچ‬
‫گوالئی میں موٹآ تھا۔ سعدیہ بیہوشی‬
‫سے مدہوشی تک ا گئی تھی۔ وہ بھی‬
‫سیکس میں پورا مزہ لے رہی تھی۔ میں نے‬
‫اپنے ُب ائیں ہاتھ سے لن کو پکڑ کر سعدیہ‬
‫کی پھدی کے عین سوراخ پر رکھ کر‬
‫تھوڑا سا دبأ و ڈاال تو لن کا ٹوپا تھوڑا سا‬
‫پُ ھدی کے اندر چال گیا لیکن اسی وقت‬
‫سعدیہ کی ایک دلخراش چیخ بھی نکلی‬

‫جس سے میرے دل میںُ اس کیلئے رحم‬


‫جاگا پر شیطان مردودٓ اج رحمدلی کے‬
‫سارے جذبوں کو قتل کرنے پرٓ امادہ تھا۔‬
‫میں نے چند لمحے انتظار کے بعد دوبارہ لن‬
‫کو جھٹکا دیا اس بار بھی سعدیہ کا‬
‫ردعمل ویسا ہی تھا۔ ایک اور چیخ " اوئی‬
‫ماں میں مر گئی ” کے الفاظ کے ساتھ اس‬
‫کے منہ سے نکلی۔ اس دفعہ لن کا ٹوپا‬
‫اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔‬
‫مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا لن کسی‬
‫شکنجے میں جکڑ گیا ہو۔ سعدیہ شدید‬
‫درد کی کیفیت میں تھی وہ درد کے مارے‬
‫پیچھے کو جُ ھک گئی۔ میرے دونوں ہاتھ‬
‫ابُ اس کے کولہوں پر تھے اور میںُ اس‬
‫کے پیٹ پر بوسے دے رہا تھا۔ وہیں سے‬
‫میں نے کولہوں پر نیچے کی جانب دبأ و‬
‫ڈاال جبکہ نیچے سے لن کو اوپر کی جانب‬
‫زرا زور سے جھٹکا دیا۔ کوئی دو‬
‫ڈھائی انچ تک لن پُ ھدی کے اندر تھا‬
‫لیکن ابھی اسے ُکچھ اور مسافت طے‬
‫کرنی تھی۔ سعدیہ سے شائید اب برداشت‬
‫نہیں ہو رہا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے‬
‫مجھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے‬
‫خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے‬
‫لگی۔ ” بھائی میں مر جأ وں گی‪ ،‬بھائی‬
‫پلیز اسے باہر نکالو‪ ،‬ہائے ماں میں کیا‬
‫کروں‪ ” ،‬میں نےُ اس کی کمر کے گرد اپنے‬
‫بازٔ ووں کا گھیرا بنا کر مضبوطی سے پکڑ‬
‫لیا‪ ،‬اور وہیں سے اسے ایک اور جھٹکا دیا۔‬
‫لنٓ اہستہٓ اہستہ اندر جا رہا تھا جبکہ‬
‫سعدیہ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ُ اس نے‬
‫دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر پیٹنا‬
‫شروع کر دیا۔ وہ مسلسل کہے جا رہی‬
‫تھی۔ ” بھائی قسم سے میں مر جأ وں‬
‫گی‪ ،‬میری پُ ھدی جل رہی ہے‪ ،‬پلیز اسے‬
‫نکالو باہر‪ ،‬بہت درد ہو رہی ہے‪ ” ،‬میں‬
‫جیسے‬

‫گونگا بہرا ہو گیا تھا۔ اس کی کسی بات‬


‫پر کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔ُ اس‬
‫وقتُ مجھے بس ایک ہی دھیان تھا‪ ،‬وہ یہ‬
‫کے کسطرحسےلنکومکملپُ ھدیکےاندر‬
‫گھسیڑنا ہے۔ اور میں اپنی پوری کوشش‬
‫بھی کر رہا تھا۔ اس کوشش میں میں‬
‫ابھیٓ ادھا ہی کامیاب ہوُا تھا۔ سعدیہ‬
‫واقعی میں مری جا رہی تھی۔ اس کی‬
‫آانکھک ےرہچ روا ںیھت یلھُ ک یروپ ںیں پوری کُھلی تھیں اور چہرے ک‬
‫رنگ زرد ہو رہا تھا۔ شائید یہ درد کی‬
‫شدت ہی تھی جسے وہ برداشت کر رہی‬
‫تھی۔ اب کی بار میں نے جھٹکا دیا تو وہ‬
‫بلبال کرُ اچھل پڑی۔ُ اس کاُ اچھلنا اتنا‬
‫اچانک اور شدید تھا کہ وہ میری گرفت‬
‫سے نکل کر پرے جا پڑی۔ میرا لن پُ ھدی‬
‫سے نکل گیا اور وہ جیسے سختُ غصے‬
‫میں تن تنا رہا تھا۔ جبکہ سعدیہ نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھ پُ ھدی پر رکھ دیئے۔ وہ‬

‫پُ ھدی کو دونوں ہاتھوں سے سہالتے‬


‫ہوئے منہ سے پھونکیں مارنے لگی جیسے‬
‫حقیقت میںُ اسکیپُ ھدیجلگئیہواوروہ‬
‫یُاک ےنرک اڈنھٹ رک رام ںیکنوھپ ےسے پھونکیں مار کر ٹھنڈا کرنے ک‬
‫کوشش کر رہی ہو۔ اسی وقت اسے اپنے‬
‫ہاتھوں پر لگا خون نظرٓ ایا تو وہ زور سے‬
‫رونے لگی۔اپنے دونوں ہاتھوں کو میری‬
‫آانکھھچوپ ےئوہ ےتال ےٓنماس لکلاب ےک ںوں کے بالکل سانم ٓےل اتے ہوئے پوچھ‬
‫بھیا یہ خون کیسا ہے؟ اپ نے کیا کیا‬
‫میرے ساتھ؟ میں مر جأ وں گی بھائی۔‬
‫وہ بہت ڈر گئی تھی۔ میں نےُ اسے بازو‬
‫سے پکڑ کر قریب کرتے ہوئے کہا کے ُکچھ‬
‫نہیں ہوا۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے اور‬
‫زندگی میں ایک ہی بار ہوتا ہے۔ تم نے جو‬
‫درد اٹھانا تھا وہ اٹھا لیا اب وہ مزہ‬
‫شروع ہونا تھا جس کا تم تصور بھی‬
‫نہیں کر سکتی۔ میں نے اس کا ڈر ختم‬
‫کرنے کیلئے اسے بانہوں میں بھر کے اس‬
‫کے‬
‫ہونٹوں پرُ اس کی گردن کندھوں اور‬
‫مموں پر بوسے دینے شروع کر دیئے۔ اور‬
‫ساتھ ساتھ میں اسے بتا بھی رہا تھا کہ‬
‫ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں بار بارُ اسےٓ انے‬
‫والے مزے کا کہہ رہا تھا تاکہُ اس مزے‬
‫کیلئے تجسس پیدا ہو اور وہ جلد سیکس‬
‫کیلئے دوبارہٓ امادہ ہو جائے۔ٓ اگ توُ اسے‬
‫بھی جُ ھلسائے ہوئے تھی۔ جلد ہی مجھے‬
‫لگا کے وہ اب نہیں روکے گی۔ میں نےُ اسے‬
‫پکڑ کے واپسُ اسی پوزیشن پر بٹھایا۔‬
‫میں اب جلدی میں تھا میں نے لن کو‬
‫تھوک سے گیال کیا اور پُ ھدی پر رکھ کر‬
‫زور کا جھٹکا دیا۔سعدیہ اب کی بار بھی‬
‫تڑپ کر رہ گئی لیکن اب میری گرفت بہت‬
‫مضبوط تھی۔ میں نے دوسرا پھر تیسرا‬
‫جھٹکا دیا تو لن اپنیٓ ادھی منزل طے کر‬
‫چکا تھا۔ سعدیہ اب کی بار بھی چیخ رہی‬
‫‪،‬تھی۔ بھائی رک جأ و‬

‫بھائی اس کو نکالو بہت درد ہو رہی ہے‪،‬‬


‫میں مر جأ وں گی‪ ،‬میں نے اس کے ہونٹوں‬
‫کوُ چوستےہوئےکہاسعدیہیقینکروتمہیں‬
‫ُکچھ نہیں ہو گا اس کے تمہارے اندر جانے‬
‫سے تم نہیں مرو گی پر اگر میں نے اس‬
‫کو نکال لیا تو میں ضرور مر جأ وں گا۔‬
‫میں مسلسل جھٹکے دے رہا تھا اور ہر‬
‫جھٹکے کے ساتھ لن پُ ھدی کے اندُر غرق‬
‫ہو رہا تھا۔ ہر جھٹکے پر سعدیہ تڑپ‬
‫اٹھتی۔ ہر جھٹکے کے بعد اگلے جھٹکے کے‬
‫لیئے میرا جوش اور بڑھ جاتا۔ میرا پورا‬
‫لن سعدیہ کی پُ ھدی کے اندر پہنچ گیا۔‬
‫پُ ھدی اتنی تنگ تھی کے میرے لن پر‬
‫شکنجہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ پُ ھدی‬
‫کی دیواروں نے پوری طرح لن کو جکڑ لیا‬
‫تھا۔ اور لگ رہا تھآ جیسے لنٓ اگ میں رکھ‬
‫دیا ہو۔ سعدیہ کی انکھیں بند منہ کھال‬
‫ہوا جبکہہونٹخشکتھےجنکومیںُ چوس‬

‫چوس کر تر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ُ‬


‫میںُ کچھ دیر کیلئے رکا‪ ،‬میں اس‬
‫احساس کو کچھ دیر برقرار رکھنا چاہتا‬
‫تھا۔ سعدیہ سے پوچھا کے اب بھی درد ہو‬
‫رہی ہے توُ اس نے بتایا کہ اب درد کم ہے‬
‫اور عجیب سیُ پرلطف کیفیت ہے‪ ،‬میں نے‬
‫مُاتُ روا اگ ےہر ںیہن درد با ےک اہک ےسے کہا کے اب درد نہیں رہے گا او رُت‬
‫کو بہت مزہٓ ائے گا۔ پھر میں نے لن کو‬
‫پھدی کے اندر ہی گُ ھمانا شروع کیا چند‬
‫لمحوں کے بعد میں نے لن کوٓ اہسٓت ہٓ اہستہ‬
‫واپس کھینچا اور ٹوپے تک باہر ا جانے دیا‬
‫اور پھر جھٹکے سے اسے واپس پُ ھدی‬
‫کے اندر دھکیل دیا۔ سعدیہ کی ایک مرتبہ‬
‫پھرٓ اہ نکلی۔ لیکن اب اس نے دونوں‬
‫ہاتھوں سے میرے کندھوں کو مضبوطی‬
‫سے پکڑ رکھا تھا۔ میں نے لن کو اندر باہر‬
‫دھکیلنے کآ عمل دھیرے دھیرے جاری‬
‫رکھا۔ سعدیہ انکھیں بند کیئے ہوئے‬

‫تھی جبکہُ اس کاُ منہ کھال تھا اور جب‬


‫بھی میں لن کو اندر دھکیلتاُ اس کاُ منہ‬
‫تھوڑا اور ُکھل جاتا۔ میں نے ہونٹُ اس کے‬
‫ہونٹوں پر رکھ کر زبانُ اس کے منہ میں‬
‫ڈال دی اور اس کے منہ کے اندر زبان کو‬
‫گھمانے لگا ساتھ ہی میں نے لن کو جھٹکے‬
‫دینے کی رفتار بھی بڑھا دی۔ سعدیہ کو‬
‫بھی مزہٓ انے لگا تھا۔ وہ بھی اب اپنی‬
‫گانڈ کو ہال ہال کرُ اچھل رہی تھی۔ُ اس کے‬
‫منہ سے نکلنے والیٓ اہہہہ اووو ھمممم‬
‫ممممممم کیٓ اوازیں پتہ دے رہیں تھیں‬
‫کے وہ اب پوری طرح سے مزے کی وادی‬
‫میںُ اترُ چکی ہے۔ میں نے بھی جھٹکے‬
‫دینے کی رفتارُ تیز کر دی۔ سعدیہ بےخود‬
‫ہو رہی تھیُ اس نے مجھےُ چومنا چاٹنا‬
‫شروع کر دیا۔ اس کے اس عمل نے مزہ‬
‫دوگنا کر دیا۔ میں بھی پورے جوش سے‬
‫جھٹکے دے رہا تھا۔ اچانک مجھےُ اس‬

‫کے جسم میں ُکچھ تنأ و لگا میں نےُ اس‬


‫کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ سانس‬
‫روکےٓ انکھیں بند کیئے ہوئے تھی۔ پھرُ اس‬
‫نےٓ اہستہٓ اہستہ سانس چھوڑنا شروع کی‬
‫اور اس کا تنا ہوا بدنُ بھی ڈھیال پڑنے‬
‫لگا۔ وہُ چھوٹ رہی تھی اس کی پُ ھدی‬
‫سے نکلنے واال پانی میرے پیٹ پر پھیل‬
‫گیا۔ میرا لنُ اس کی پُ ھدی کے پانی سے‬
‫پورا تر تھا۔ اور میں ابُ پوری رفتار سے‬
‫لن کو اندر باہر جھٹکے دےُ رہا تھا۔‬
‫سعدیہٓ کے منہ سے نکلنے والی اممممم‬
‫ممممم اہہہہہ اووووو کیٓ اوازیں بدستور‬
‫جاری تھیں۔ اس کی پُ ھدی سے نکلنے‬
‫واال پانی رگڑ کھا کھا کر کریم کیُ صورت‬
‫گاڑھا ہو گیا تھا۔ میرے جھٹکے اپنی پوری‬
‫رفتار سے جاری تھے سعدیہ بھی میرا‬
‫ساتھ دے رہی تھی۔ ُکچھ دیر بعد مجھے‬
‫لگا کہ میرا لن بھی الواُ اگلنے‬

‫واال ہے۔ میں نے جھٹکے دینا روک دیا۔‬


‫کیونکہ میں اس مزے اور سرور کی وادی‬
‫میں ُکچھ دیر اور رہنا چاہتا تھا۔ تھوڑی‬
‫دیر میں ہی میں اپنی قوت کو جمع کر کے‬
‫دوبارہ شروع ہو گیا۔ سعدیہ کے منہ سے‬
‫بدستورٓ اوازیں نکل رہی تھیںُ اور وہ‬
‫میرے لن کے ہر ہر جھٹکے پر اپنی پھدی‬
‫سے واپس جھٹکے دے رہی تھی۔ مجھے‬
‫لگا کے وہ دوبارہ سے چُ ھوٹنے والی ہے تو‬
‫میں نے بھیُ اس کے ساتھُ چھوٹنے کا‬
‫فیصلہ کیا۔ میں کسی مشین کی طرح‬
‫تیزی سے جھٹکے دینے لگا ‪ -‬سعدیہ کے منہ‬
‫سے عجیب سیٓ اوازیں برٓ امد ہو رہی‬
‫تھیں۔ میں مسلسلُ اس کے مموں اور‬
‫ہونٹوں پر بوسے دیئے جا رہا تھا۔ سعدیہ‬
‫بھی بھرپور جواب ُد ے رہی تھی۔ اس نے‬
‫لن کے اوپر تیز تیز اچھلنا شروع کیا تو‬
‫مجھے علم ہو گیا کہ وہ اب‬

‫پھر سے چُ ھوٹنے والی ہے۔ میں نے بھی‬


‫جھٹکے لگانے کی رفتار تیز کر دی۔ میرے‬
‫لن کی رگیںُ ابھر سی گئیں تھیں۔ الوا تیار‬
‫تھا اور بس نکلنے کو ہی تھا۔ اچانک‬
‫سعدیہ ہلکان ہو کر میرے سینے پر گر سی‬
‫گئی۔ وہ دوبارہفارغہوُ چکیتھی۔میںبھیالوا‬
‫ےُاگلھجم کناچا رھپ روا اھت الاو یہ ےنے ہی ولاا تھا اور پھر اچانک مجھ‬
‫لگا کہ تپتے ہوئے صحرا میں جیسے بادل‬
‫سے چھا گئے ہوں۔ اک سکون سا تھا۔ ہم‬
‫دونوں ُکچھ دیرُ اسی حالت میں ایک‬
‫دوسرے کو بانہوں میں بھر کر بیٹھے رہے۔‬
‫جب سب سکون ہو گیا تو تب ہمیں حاالت‬
‫اور واِ قعات کی نزاکت کا احساس ہوا۔‬
‫سعدیہ میرے سینے پے سر رکھے رونے لگی‬
‫میں بھی شرم ‪ ،‬ندامت اور ُگناہ کے‬
‫احساس سے زمینٓ میں گڑھا جا رہا تھا۔‬
‫ُکچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا کیا کروں کیا‬
‫نہ کروں۔ میں‬
‫سعدیہ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کے‬
‫کھڑا ہو گیا اور کہا کہ جو ُگناہ مجھ سے‬
‫سرزد ہو گیا ہے اگرچہ میں کسی صورت‬
‫بھی معافی کا حقدار نہیں پھر بھی تم‬
‫سے معافی مانگتا ہوں ہو سکے تو اس‬
‫گناہگار کو معاف کر دینا کیونکہ میں نے‬
‫اب زندہ نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ُ تم کو‬
‫گھر پہنچا کر میں کہیں دور جا کے‬
‫خودُکشی کر لوں گا۔سعدیہنےیہ‬
‫ھُسناتورونابندکردیتاہ ںونود ےریم ۔ا۔ میرے دونوں ہات‬
‫پکڑ کر بولی‪ ،‬بھائی جو ُگناہٓ اپ نے کیا ہے‬
‫میں بھیُ اس ُگناہ میں شریک تھی۔ٓ اپ‬
‫خودُکشی کر لو گے تو کیا میں زندہ رہ پا‬
‫تٔوم حرط سا یک ںونود مہ روا ۔یگ ںوں گی۔ اور ہم دونوں کی اس طرح مو‬
‫پر لوگُ انگلی نہیںُ اٹھائیں گے کیا۔ُ دنیا‬
‫ہمارے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا جینا‬
‫حرام نہیں کر دیں گی کیا؟ تو کیا کروں‬
‫مجھے ُکچھ سمجھ نہیںٓ ا رہا‬

‫میں نے پوری بےبسی اور رو دیتے ہوئے‬


‫کہا۔ کیوں نا ہم اس وقت کو ہی مار دیں‬
‫جو ہم پربیتُ چکاہے۔‬
‫سعدیہنےرازدارانہانداز میںُ مشورہ دیتے‬
‫ہوئے کہا۔ میں نے حیرانی سے اسے دیکھتے‬
‫ہوئے پوچھا کیا مطلب؟ مطلب یہ کے‬
‫کیوں نہ ہم اس وقت اور اس واقعے کو‬
‫یہیں دفن کر دیں اور بھول جائیں کے یہ‬
‫واقعہ کبھی ہمارے ساتھ پیشٓ ایا تھا۔ ہم‬
‫وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دوگھنٹے‬
‫پہلے ہم تھے۔ اگرچہ میںُ اس کی بات سے‬
‫ےُمتک ہانگ نکیل اھت ایگ وہ قفق ہو گیا تھا لیکن گناہ ک‬
‫بوجھسےمیرےکندھےُ جھکےہوئےتھے اور‬
‫نگاہ اوپرُ اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔ ہم‬
‫دونوںُ اٹھے تو دیکھا کپڑے کیچڑ سے‬
‫بھرے تھے۔ بارش کا پانی ایک جگہ جمُع‬
‫ہوا تھا جس سے ہم نے کپڑوں سے کیچڑ‬
‫اتاری۔ سعدیہ کی شلوار پر خون بھی لگا‬
‫تھا جسے‬

‫ہم نے دھونے کی کوشش کی لیکن دھبے‬


‫بدستور برقرار رہے تو ہمنے ان دھبوں پر‬
‫اچھی طرح سے کیچڑ مل دی تاکہ خون‬

‫نظر نہٓ ائے۔ وہاں سے ہم یہ عہد کر کے چلے‬


‫کے یہ جو وقت ُگذرا ہے ہم اسے بالکل‬
‫بھول جائیں گے جیسے ُکچھ ہوا ہی نہیں۔‬
‫ہم گھر پہنچے تو گھر میں تمام لوگ کافی‬
‫پریشان تھے۔ جیسے ہی ہم کو دیکھا تو ان‬
‫کی جان میں جانٓ ائی۔ امی تو ہم دونوں‬
‫پر فدا ہو رہی تھیں کبھی مجھے اور‬
‫کبھی سعدیہکوبانہوںمیںبھربھرکے‬
‫ےُچومرڑپک رک وھد اہن ےن مہ ۔ںیھت یہی تھیں۔ ہم نے نہا دھو کر کپڑ‬
‫تبدیل کیئے۔ پھر کھانا سب نے مل کر ہی‬
‫کھایا۔ کھانے کے دوران میں کبھی کبھی‬
‫ےٓانک ھُاٹھجم ۔اتیل ھکید وک ہیدعس رک اھا کر سعدیہ کو دیکھ لیتا۔ مجھ‬
‫نہیں معلوٓم کے وہ بھی مجھے دیکھ رہی‬
‫تھی یا نہیں۔ اج ہمارے ساتھ بیتنے واال ہر‬
‫پل میری نظروں‬
‫میں گھوم جاتا۔ مجھے خود پرُ غصہٓ ا‬
‫جاتا کے کیسے میں نے ان کمزور لمحوں کو‬
‫خود پر ہاوی ہونے دیا۔ کیسے میں رشتے کا‬
‫آ تقدس نہ کر سکا۔ مجھے خود سے شرم‬
‫رہی تھی۔ اگرچہ سعدیہ نے کہا تھا کے ہم‬
‫اس وقت کو ہی یاد نہیں رکھیں گے اور‬
‫سمجھیں گے کے یہ ہماری زندگی کا حصہ‬
‫ہی نہیں۔ لیکن یہ خیال کے کیا ہم واقعی‬
‫اس تلخ حقیقت کو بھول پائیں گے اور‬
‫ساتھ ہی یہ ڈر اور خوف کے اگر کسی کو‬
‫اس بات کا پتہ چل گیا تب کیا ہو گا۔‬
‫سعدیہ بھی شائید اپنی طور پر انہیں‬
‫سوچوں میں ُگم تھی۔ کھانے کی میز سے‬
‫ےُاٹنھٹیب ںیم جنؤ ال یو یٹ ےئاجب وت ےھے تو بجائے ٹی ویل أونج میں بیٹھن‬
‫کے میں اپنی روم میں چال گیا۔ امی نے‬
‫سعدیہ سے بھی کہا کےُ اس کی حالت‬
‫بھی ٹھیک نہیں لگ رہی وہ بھی جا کر‬
‫اپنے بیڈ روم میںٓ ارام کرے۔‬

‫سعدیہ جو امی کو برتن سمیٹنے میں ہیلپ‬


‫کررہیتھی‪،‬جیاچھاکہہکراپنیبیڈٓ روم میں‬
‫چلی گئی۔ُ صبح کافی دن چڑھ ایا تھا‬
‫جب میریٓ انکھ کُ ھلی وقت دیکھا تو دن‬
‫کا ایک بج رہا تھا۔ میں جھٹکے سےُ اٹھ‬
‫بیٹھا۔ گھر کے تمام کمروں میں جھانک کر‬
‫دیکھا پر گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔‬
‫میں ٹی ویٓ ان کر کے بیٹھ گیا۔ ہزار طرح‬
‫کی سوچیں تھیں جو میرے دماغ کو‬
‫بوجھل کیئے ہوئے تھیں۔ خوف میرے‬
‫دماغ میں گھنٹیاں بجا رہا تھا۔ مجھے لگا‬
‫جیسے میں پاگل ہو جأ وں گا۔ اگر تھوڑی‬
‫ہی دیر بعد امی اور سعدیہ واپس نہ‬
‫ےٓاگئک اھت نیقی اروپ ےھجم وت ںیتوہ ںیں ہوتیں تو مجھے پورا یقین تھا ک‬
‫میں چیخنے چالنے لگتا۔ اندر کی وحشت‬
‫تھی جو مجھے پاگل کیئے دے رہی تھی۔‬
‫امی نےٓ اتے ہی مجھے پوچھا کے میری‬
‫طبیعت اب کیسی ہے۔ تو‬

‫میں نے کہا ٹھیک ہوں ۔ تب امی نے بتایا‬


‫کے رات میں اور سعدیہ سخت بخار میں‬
‫تھے۔ لیکن صبح چونکہ میں گہری نیند‬
‫میں تھا اس لیئے وہ سعدیہ کو اکیلے ہی‬
‫ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے‬
‫ڈاکٹر سے الئی ہوئی دوائی مجھے اور‬
‫سعدیہ کو پالئی وہ کہہ رہی تھیں ” فکر‬
‫نہ کرو شام تک تم دونوں بالکل ٹھیک ہو‬
‫جأ و گے‪ ،‬کل بارش میں بھیگتے رہے ہو نا‬
‫آس لیئے بخار ہو گیا ہے۔ ” میں نے بس‬
‫اوں اں میں ہی جواب دیا جبکہ سعدیہ‬
‫صوفے کے کونے پر کمبل کیئےٓ انکھیں بند‬
‫کر کے لیٹی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔ میں‬
‫چور نگاہوں سے کبھی کبھی سعدیہ کو‬
‫دیکھ لیتا اور پھر نظریں جھکا لیتا۔ شام‬
‫تک واقعی ہم ٹھیک تھے۔ سعدیہ بھی‬
‫شام کو امی کیساتھ کچن میں ان کی‬
‫ہیلپ کر رہی تھی اور میں بھی تھوڑی دیر‬

‫کیلئے گھر سے باہر نکلٓ ایا۔ میں کوشش‬


‫کر رہا تھا کے اس واقعے کو دماغ کے‬
‫کونے کھدروں سے کُ ھرچ کر پھینک دوں‬
‫لیکن لیکن میری ہر کوشش ناکام ہو رہی‬
‫تھی۔ میں جتنا بھولنا چاہتا تھا وہ اتنا ہی‬
‫دماغ میں فلم کی طرح چلنا شروع ہو‬
‫جاتا۔ میں بظاہر ٹھیک تھا لیکن میرے‬
‫اندر کا خلفشار مجھے چین نہیں لینے دے‬
‫رہا تھا۔ رات جب کھانا کھانے کے بعد ہم‬
‫سب ٹی و ی الٔ و ن ج م ی ں ٹ ی و ی د‬
‫ی ک ھ ر ہ ے ت ھ ے ت و امی نے شائید‬
‫نوٹ بھی کیا کہ میں ذہنی طور پر حاضر‬
‫نہیں ہوں تو انہوں نے پوچھ بھی لیا‪” ،‬‬
‫جہانزیب تم ٹھیک تو ہو ‪ ..‬ایسے کہا‬
‫کھوئے ہوئے ہو‪ ،‬کوئی پریشانی ہے کیا؟ ”‬
‫امی نے ایک دم سے سوالوں کی بوچھاڑ‬
‫کر دی تو میں بوکھال سا گیا۔ ” جی ‪....‬‬
‫جی جی وہ کچھ بھی نہیں بسٓ اج کالج‬
‫نہیں‬

‫جا سکا نا اس لیئے کالج کے بارے میں‬


‫سوچ رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میری نظر‬
‫سعدیہ کی طرفُ اٹھی تو وہ میرا جواب‬
‫تُاب یئوک وت " ۔یھت یہر سنہ رک نسن کر ہنس رہی تھی۔ " تو کوئی با‬
‫نہیںُ صبح تم کالج چلے ہی جأ وں گے اس‬
‫میں پریشانی کیا ہے۔ ” امی دوبارہ سے ٹی‬
‫وی کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں۔ ” جی‬
‫ہاں ‪ ...‬ایسے ہی ہے۔ ” میں نے بھی ٹی وی‬
‫پر نظریں گاڑ دیں۔ُ صبحُ اٹھ کر کالج گیا‬
‫تو وہاں بھی ہر چیز عجیب سی لگ رہی‬
‫تھی۔ واپس گھر پہنچا تو سعدیہ گھر‬
‫میں اکیلی تھی۔ اس سے پوچھنے پر پتا‬
‫چال امی پڑوس کے کسی گھر گئ ہیں۔‬
‫سعدیہ نے میرے لیئے کھانا نکاال اور میرے‬
‫پاس ہی بیٹھ گئی۔ میں اس کی طرف‬
‫نہیں دیکھ رہا تھا۔ ابھی پہالُ لقمہ ہی لیا‬
‫تھا کے مجھے سعدیہ کیٓ اوازُ سنائی دی ”‬
‫بھائی یہ احمقوں کا طرزعمل بند‬

‫کریں اور خود کو سنبھالیں‪ ،‬ورنہٓ اپ کے ر‬


‫وّ ی ے س ے س ب ک و ش ق ہ و گ ا ک‬
‫ے ک و ئ ی ب ا ت ہوئی تھی۔ ” ” میں‬
‫کیا کروں سعدیہ‪ ،‬جو ُکچھ ہوا وہ میرے‬
‫دماغ سے جاتا ہی نہیں ” میں نے نظریں‬
‫جھکائے ہی جواب دیا۔ ” میں جتنا بھولنے‬
‫کی کوشش کرتا ہوں‪ ،‬یہ اتنا ہی میرے‬
‫دماغ میں چپک جاتا ہے۔ ” میری حالت‬
‫کسی ہارےُ ہوئے جواری سے بھی بدتر‬
‫تھی۔ سعدیہ اٹٓھی اور گوشت کاٹنے والی‬
‫بڑی چُ ھری لے ائی ‪”ُ ,‬اگر خود کو‬
‫سنبھال نہیں سکتے تو یہ چھری لو اور‬
‫پھیر دو میرے گلے پر‪ ،‬کیونکہ جو ہوا اس‬
‫میں میں بھی شریک تھی۔ ” اس کے تیور‬
‫دیکھ کر میرےُ پورے بدن میں ایک سرد‬
‫لہر دوڑ گئی۔ میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔‬
‫اگرچہ وہ مجھ سے تین سال چھُو ٹی تھی‬
‫اور ساتھ میں لڑکی تھی لیکن اس کے‬
‫اعصاب‬

‫مجھ سے مضبوط تھے وہ اتنے بڑے واقعے‬


‫کو اتنا جلدی فراموش کر دے گی بلکہ‬
‫مجھے بھی حوصلہ دے گی کہ میں بھی‬
‫اسے فراموش کر دوں۔ ایسا میں نے کبھی‬
‫سوچا بھی نہ تھا۔ " سعدیہ اگر کسی کو‬
‫علم ہو گیا تو؟ ” میں اس ذلت کا سوچ‬
‫سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں۔ ” ابھی الفاظ‬
‫میرے منہ میں تھے کے سعدیہ بول پڑی ”‬
‫کسی کو کیسے علم ہو گا‪ ،‬اس بات کوٓ اپ‬
‫جانتے ہیں یا میں۔ کیآ اپ بتائیں گے؟‬
‫کیونکہ میں تو کسی کو بتانے والی نہیں۔‬
‫” سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے‬
‫بولے جارہیتھیاورمیںُ سنرہاتھا۔اسکی‬
‫باتیں مجھے حوصلہ دے رہی تھیں۔‬
‫سعدیہ نے ایک بار پھرُ مجھ سے وعدہ لیا‬
‫کہ میں اس واقعے کو بھول جأ وں گا اور‬
‫اپنے کسی عمل یا بات سے کبھی اسے‬
‫ظاہر نہیں ہونے‬

‫دوں گا۔ُ کچھ دن کرب و اذیت کے گذرے‬


‫لیکن پھرٓ اہستہٓ اہستہ حاالت معمول پر‬
‫سٓاا ںیم ےک اتہک ںیہن وت ہی ںیم ۔ےگل ےنے لگے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کے میں ا‬
‫واقعے کو بالکل بھول گیا تھا۔ مگر یہ‬
‫ضرور تھے کے میںٓ پہلے جیسی نارمل‬
‫زندگی کی طرف لوٹ ایا تھا۔ ہر چیز پہلے‬
‫جیسی تھی لیکن کبھی کبھی یہ احساس‬
‫ہوتا کے کچھ نہ کچھ ضرور بدلہ ہوا ہے۔‬
‫لیکن پھر سب کو اپنی اپنی زندگی میں‬
‫مگن دیکھ کر اسے اپنا وہم خیال کر کے‬
‫ذہن سے جھٹک دیتا۔ لیکن ایک روز مجھے‬
‫لگا کے میں جسے وہم سمجھ رہا تھا وہ‬
‫محض وہم نہ تھا۔ بلکہ حقیقت میں بدالٔ و‬
‫تھا۔ اور یہ بدالٔ و سعدیہ کے رویے میں‬
‫تھا۔ میں جب بھی گھر ہوتا وہ میرے‬
‫قریب ہونے کی کوشش کرتی۔ میرے ساتھ‬
‫اس کے انداز بڑے دلربانہ ہوتے۔ وہ میرے‬
‫سامنے‬

‫ہاتھُ اٹھاُ اٹھا کر اور چھاتی پھیال پھیال‬


‫کر انگڑائیاں لیا کرتی۔ میں اگر کچن میں‬
‫اس کے ہوتے ہوئے کچھ لینے چال جاتا تو‬
‫وہ بہانے بہانے سے مجھ سے ٹکراتی۔ میں‬
‫صوفےپرہوتاتووہمیرےساتھُ جڑکے بیٹھنے‬
‫کی کوشش کرتی۔ اگر اسے دوسرے صوفے‬
‫پر بیٹھنا پڑتا تو وہ ایسے انداز سے‬
‫بیٹھتی کے میری نظر اس کی گانُڈ پر‬
‫ضرور پڑے۔ بہت دفعہ میرے قریب سے‬
‫گذرتے ہوئے بڑے غیر محسوس انداز سے‬
‫اس کے ہاتھ نے یا گانڈ نے میرے لن کو‬
‫چھوا تھا۔ صوفے پر اگر اسے میرے ساتھ‬
‫بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو وہ ہمیشہ اپنا‬
‫ہاتھ میری ران پرُ رکھ دیتی اور چھیڑ‬
‫چھاڑ کرنے لگتی۔ اسے چونکہ سکول یا‬
‫کالج جانا نہیں ہوتا تھا اسی لیئے رات‬
‫سونے والے پاجامے میں ہی سارا دن گھر‬
‫میں گھومتی رہتی‬

‫جس سے اس کی گانڈ کی گوالئیوں کے‬


‫بُابھس نا ںیم ۔ےتآ رظن حضاو رار واضح نظ رٓاتے۔ میں ان س‬
‫چیزوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور‬
‫اگر دماغ میں کوئی باتٓ اتی بھی تُو یہ‬
‫سوچ کر کے چونکہہمایکواقعےسےگذر‬
‫ےُچکےہیںہ راشفلخ ینہذ اریم ہی ےئیل ساس لیئے یہ میرا ذہنی خلفشار ہ‬
‫ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں ان‬
‫چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس واقعے سے‬
‫پہلے اور بعد میں ہونے والی چیزوں کا‬
‫موازنہ کرتا۔ اور پھر خود کو سمجھانے‬
‫کی کوشش کرتا کے سعدیہ کے ساتھٓ ایک‬
‫صوفے پر بیٹھنا یا پھر گھر میں اگے‬
‫پیچھے ٹکرانا پہلے بھی ہوا کرتا تھا لیکن‬
‫پہلے کبھی خیاالت ایسے نہیں ہوتے تھے۔ُ ‬
‫اور پھر خود کو کہتا کے میرا وہم ہے۔‬
‫لیکن اس دن میں کالج سےٓ ایا تو امی‬
‫گھر میں نہیں تھیں اور سعدیہ اپنے‬
‫کمرے میں تھی۔‬
‫مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اس لیئے‬
‫میں اسے کھانا لگانے کا کہنے کے لیئے اسے‬
‫آاوازلچ ںیم ےرمک ےک سا اوہ اتید ںیں دیتا ہوا اس کے کمرے میں لچ‬
‫گیا تو دیکھا وہ بغیر قمیض پہنے ہوئے‬
‫صرف برا میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔‬
‫شائید وہ کچھ کر رہی تھی۔ مجھے ایک‬
‫جھٹکا لگا اور میں کچھ لمحوں کیلئے‬
‫وہیں ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر الٹے‬
‫قدموں اس کے کمرے سے باہرٓ ا گیا۔ باہر‬
‫ںٓایم ہیدعس ید زاوآ ےسا رھپ ےن ںیم رکر میں نے پھر اس ےٓاواز دی سعدیہ می‬
‫تمہیںٓ اوازیں دے رہا تھا تو تم مجھے‬
‫ٹھہرنے کا کہہ سکتی تھی کے تم ایسیٓ ‬
‫حالت میں ہو تو میں بے دھڑک اندر نہیں‬
‫اتا۔ مُی ں اوٹ سے ہی بول رہا تھا۔ وہ اسی‬
‫طرح اٹھ کر دروازے میںٓ اگئی ‪ ” ،‬بھائی‬
‫یہ قمیض ہی ہے جسے سی رہی تھی‪،‬‬
‫تھوڑی پھٹ گئی تھی‪ ،‬اورٓ اپ سے کیا‬
‫پردہ ” میں نے اسے یوں دروازے میں برہنہ‬
‫جسم‬

‫اتے دیکھ تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ٓ‬


‫وہ میرے سامنےٓ اتے ہوئے بولی ”ٓ اپ منہ‬
‫تو ایسے پھیر رہے ہیں جیسےٓ اپ کے‬
‫دیکھے بھالے نہیں ” ” وہی ہیں جنہیںٓ اپ‬
‫نے پہلے دیکھا بھی ہے اور ٹیسٹ بھی کیا‬
‫ہوا ہے۔ ” وہ برا کے اوپر سے ہے اپنے مموں‬
‫کو دبا کر بولی۔ اس کی اس بات نے‬
‫مجھےُ بت کی طرح ساکت کر دیا تھا‬
‫کیونکہ اس بات کا میرے پاس کوئی‬
‫جواب نہیں تھا۔ پھر اس خیال نے جگا‬
‫دیا کے اگر اس وقت اچانک کوئی گھر‬
‫میںٓ ا گیا تو وہ ہمیں ایسی حالت میں‬
‫دیکھ لے گا۔ میں نے سعدیہ کو بازو سے‬
‫پکڑ کر کمرے میں دھکیل دیا اور کہا‬
‫جلدی قمیض پہنو اور مجھے کھانے کیلئے‬
‫کچھ دو بہت بھوک لگی ہے۔ اس واقعے‬
‫کے بعد سے یہٓ اج پہال موقع تھا جب‬
‫سعدیہ نے میرے سامنے یوں بیباکی کا‬
‫مظاہرہ کیا تھا۔ اس‬

‫دن وہ میرے جذبات پھر سے بھڑکا دیتی‬


‫لیکن امیٓ اگئیں تو وہ بھی قمیض پہن کر‬
‫میرے لیئے کھانا تیار کر کے لےٓ ائی۔ وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئےُ مسکرا رہی تھی۔‬
‫لیکن میں کسی اور سوچ میں غرق تھا۔‬
‫میں سوچ رہا تھا کےٓ اگے کیا ہونے واال ہے۔‬
‫لیکن میری سوچنا ال حاصل رہا۔ سعدیہ‬
‫برتن اٹھانےٓ ائی تو سرگوشی سے کہہ گئی‬
‫بھائی سوچ کر اپنی جان ہلکان نہ کریں‬
‫بس زندگی کے دھارے پر بہتے رہیں۔ میں‬
‫اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔ اس دن کے‬
‫بعد میری انتہائی کوشش ہوتی کے میں‬
‫سعدیہ سے دور رہوں۔ کیونکہ سعدیہ کے‬
‫اندر مجھے شیطان نظرٓ ا رہا تھا۔ ابھی دو‬
‫دن ہی گذرے تھے کے سعدیہ نے مجھے‬
‫کالج جانے کیلئے نکلتے وقت ایک چٹ ہاتھ‬
‫میں تھما دی۔ میں نے گیٹ سے‬
‫نکلتے وقت اسے کھول کے دیکھا تو اس‬
‫پر صرف اتنا لکھا تھا‪ ” ،‬ایک بار یا بار بار‬
‫” میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا کے یہ کیا‬
‫پیغام ہے اور سعدیہ کس چیز کے ٓب ارے‬
‫میں اشارہ کر رہی ہے۔ کالج سے واپس ایا‬
‫تو میں جیسے ہی اپنی روم میں داخل ہوا‬
‫تو بیڈ کے کونے پر ایک کاغذ پڑا مالُ اٹھا‬
‫کر دیکھا تو لکھا تھا۔ " کوئی فرق نہیں‬
‫پڑتا ” پہلے تو سمجھ نہٓ ائی لیکن صبح‬
‫کی تحریر اور اسے مال کر پڑھا تو سب‬
‫سمجھٓ ا گئی یعنی سعدیہ مجھے پھر سے‬
‫دعوِ ت ُگناہ دی رہی تھی۔ " ایک بارً یا بار‬
‫بار‪ ،‬کوئی فرق نہیں پڑتا ” میں فورا‬
‫سعدیہ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کیا‬
‫کرتا امی گھر میں موجود تھیں۔ شام کو‬
‫تو چانس ہی نہیں تھا کیونکہ شام کو تو‬
‫سبھی گھر ہوتے ہیں۔ مجھے پتا تھا کے‬
‫جو بات مجھے سعدیہ‬

‫سے کرنی ہے اس کیلئے خاصہ وقت چاہیئے‬


‫اور یقینً ا یہ بات ہم کسی بھی دوسرے‬
‫کے سامنے نہیں کر سکتے تھے۔ میںُ نے‬
‫بھی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا " مجھے تم‬
‫سے فوری بات کرنی ہے ” اور پانی پینے کے‬
‫بہانے کچن میں جا کر سعدیہ کے ہاتھ میں‬
‫تھما کر واپس ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔‬
‫میں انتظار کر رہآ تھا کے سعدیہ کی طرف‬
‫سے کوئی جواب ائے گا۔ لیکن کوئی جواب‬
‫نہ مال صبح کالج جانے کیلئے نکال تو‬
‫سعدیہ نے نکلنے سے پہلے ایک کاغذ تھما‬
‫دیا‪ ٓ،‬جس پر لکھا تھا۔ ” کالج سے جلدی‬
‫واپس ا جانا‪ ،‬مجھے اور امی کوٓ اج‬
‫شاپنگ کرنے بازار جانا ہے لیکن میں نہیں‬
‫جأ وں گی اور کوئی بہانہ کر کے گھر ہی‬
‫رہ جأ وں گی۔ امی گیارہ بجے سے لے کر‬
‫ساڑھے تین بجے تک گھر نہیں ہوں گی۔ ”‬
‫میں نے تحریر پڑھنے کے‬

‫بعد کاغذ کےُ پرزےُ پرزے کر کے پھینک‬


‫دیئے۔ اور گھڑی پر وقت دیکھا تو ساڑھے‬
‫نو بجُ چکےتھےمیرےلیئےمحالتھاکےمیں‬
‫دس بجے کالج پہنچوں اور گیارہ بجے‬
‫واپس گھرٓ اجأ وں۔ اس لیئے میں نے کالج‬
‫نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ڈیڑھ گھنٹہ‬
‫یونہیٓ اگے پیچھے گذارنے کا فیصلہ کیا۔‬
‫ابھی گیارہ بجنے میں کچھ وقت باقی تھا‬
‫جب میں گھر کے ُق ریب ہیٓ ا گیا۔ اور ایک‬
‫سائیڈ کی گلی میں نکڑ پر کھڑا ہوٓ گیا۔‬
‫یہاں سے میں اپنے گھر کے گیٹ کو‬
‫بااسانی دیکھ سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا‬
‫کے امی کے گھر سے نکل جانے کا یقین کر‬
‫لوں تو میں گھر جأ وں ۔ گیارہ بجے سے‬
‫دس منٹ اوپر ہوں گے جب میں نے امی‬
‫کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ میں سائیڈ میں‬
‫چھپ گیا اور یہ یقین کر لینے کے بعد کے‬
‫امی چلی گئی ہیں۔‬

‫تب وہاں سے نکال اور گیٹ کھول کر گھر‬


‫میں داخل ہو گیا۔ میں نے سعدیہ کوٓ اواز‬
‫دے کر پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے اپنے‬
‫کمرے سےٓ اواز دی ‪ ،‬میں اپنی روم میں ہی‬
‫ہوںٓ اپ بھی ادھر ہیٓ اجأ و۔ میں اس کی‬
‫روم کے اندر داخل ہوا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل‬
‫کے سامنے سٹول پر بیٹھی تھی‪ ،‬اس کے‬
‫بال کُ ھلے تھے جبکہ کپڑوں کے نام پر‬
‫صرف ایک پینٹی تھی جو اس کی شرم‬
‫گاہ کو چھپائے ہوئے تھی۔ باقی سارا‬
‫جسم برہنہ تھا۔ سعدیہ تم جو چاہ رہی ہو‬
‫ٹھیک نہیں ہے‪ ،‬میں نےٓ اگے بڑھ کر اس کے‬
‫بیڈ سے چادر کھینچی اور اس کا جسم‬
‫ڈھانپتے ہوئے کہا۔ اگرچہ اسے ننگا دیکھ‬
‫کر میرے تن بدن میں بھیٓ اگ لگ گئی‬
‫تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کرتے‬
‫ہوئے کہا۔ دیکھو جو غلطی ہوئی سو ہوئی‬
‫اب ضروری نہیں کے ہم وہی‬

‫غلطی دوبارہ کریں۔ میری بات ابھی مکمل‬


‫نہیں ہوئی تھی کہ سعدیہ بول پڑی‪ ،‬کیا‬
‫غلط اور کیا صحیح یہ سوچنے کی حد ہم‬
‫نے بہت پہلے عبور کر لی‪ ،‬اب فرق نہیں‬
‫پڑتا کے ہم ان حدوں کو کتنی بار پھالنگتے‬
‫ہیں۔ لیکن سعدیہ ‪ .....‬میں نے بات کرنا‬
‫چاہی تو سعدیہ نے پھر درمیان میں ہی‬
‫میری بات کاٹ دی‪ ،‬لیکن کیا؟ٓ اپ ہی بتأ و‬
‫اس دن میریُ چدائی کرتے ہوئےٓ اپ کو‬
‫مزہٓ ایا تھا کے نہیں؟ یہ کیسا سوال ہے؟‬
‫میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال‬
‫کیا تو سعدیہُ اٹھ کر میری طرف بڑھتے‬
‫ہوئے بولی ‪ ،‬بات گول کرنے کی کوشش نہ‬
‫کریں۔ یہٓ بتائیں مزہٓ ایا تھا کے نہیں؟‬
‫مجھے تو بہت ایا تھا‪ ،‬یہ کہتے ہوئے ایک‬
‫شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر‬
‫تھی۔ مجھے بھیٓ ایا تھا پر سعدیہ وہ‬
‫حاالت کچھ اور تھے‪ ،‬جن کی‬

‫وجہ سے ہم سے یہ شیطانی فعل سرزد‬


‫ہوا۔ میں بات کر رہا تھا اور وہ میرے‬
‫بالکل سامنےٓ اکر کھڑی ہوگئی۔ اس کے انار‬
‫جیسے ممے تنے ہوئے تھے اور بالکل میری‬
‫یٓانکھھب وج تالاح ۔ےھت یزاوتم ےک ںوں کے متوازی تھے۔ حلاات جو بھ‬
‫تھے‪ ،‬لیکن ہم ایسا کر چکے‪ ،‬سعدیہ میرے‬
‫اتنا قریبٓ ا گئی کے مجھےُ اس کے جسم‬
‫کی گرمی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس‬
‫حرارت سے سعدیہ کا بدن چمک رہا تھا۔‬
‫سعدیہ ہم بھائی بہن ہیں ۔ مجھ پر میرا‬
‫کنٹرول ختم ہو رہا تھا۔ بھائی بہن تو ہم‬
‫یُقرت ہب یقرت ہیدعس ۔ےھت یھب ند ساس دن بھی تھے۔ سعدیہ ترقی بہ ترق‬
‫جواب دے رہی تھی۔ تم کو پتا ہے سعدیہ‬
‫کے اس دن تم سردی سے مر رہی تھی اور‬
‫جو کچھ ہوا اس میں نظریہ لذت حاصل‬
‫کرنے کا نہ تھا۔ بلکہ برادرانہ شفقت سے‬
‫مغلوب ہو کر میں تمہارے جسم کو‬
‫حرارت دینے کی کوشش‬

‫کر رہا تھا کے شیطان کے بہکاوے میںٓ ا کر‬


‫بہک گیا ۔ میں نے گویا اپنی صفائی پیش‬
‫کی لیکن سعدیہ کاُ موڈ کچھ اور ہی لگ‬
‫رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے‬
‫پیٹ پر رکھ دیا اور کہا ‘ بھائی اگر میں‬
‫کہوں کے میںٓ اج بھی مر رہی ہوں تو کیا‬
‫اآ یک جآ ؟ےگ ؤ اچب ںیہن یگدنز یریم جُج میری زندگی نہیں بچ أو گے ؟ٓاج کی‬
‫اس دن کے بعد سے تو میں روز مرتی ہوں‬
‫ہر روز خواب میں تمہیں ہی دیکھتی ہوں‬
‫دن کو جب بھی سامنےٓ اتے ہو میرے بدن‬
‫میںٓ اگ لگ جاتی ہے۔ اس نے باتیں کرتے‬
‫کرتے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھتے ہوئے کہا‬
‫تمہارے اس لن نے جو لذت مجھے اس دن‬
‫دی میں اس لذت کے سحر سےٓ اج تک‬
‫نہیں نکلی۔ مجھےُ تمہارا لن ہر وقت اپنی‬
‫پُ ھدی میں محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یہ‬
‫چاہئے سعدیہ نے جو بات کرتے ہوئے میرے‬
‫لن کو پکڑا تو‬
‫وہٓ اگ کی طرح تپنے لگا۔ اکڑ کے سخت تو‬
‫وہ کب کا ہو چکا تھا لیکن سعدیہ کے ہاتھ‬
‫لگتے ہی مچلنے لگا تھا۔ بھائی یہ صرفٓ ‬
‫میرے دل کی خواہش نہیں‪ ،‬سعدیہ کی‬
‫اواز پھر میری سماعتوں میں گونج اٹھی۔‬
‫مجھے علم ہے کےٓ اپ بھی یہی چاہتے ہو‪،‬‬
‫میں جانتی ہوں کے جب بھیٓ اپ کے قریب‬
‫سے گذروں تو سامنے سےٓ اپ کی نظر‬
‫میرے مموں پر جبکہ پیچھے سےٓ اپ میری‬
‫گانڈ کو دیکھتے رہتے ہو۔ مجھے یہ بھی‬
‫پتہ ہے کے میں جب کام کر رہی ہوتی ہوں‬
‫توٓ اپ میرے جھکنے کا انتظار کر رہے ہوتے‬
‫ہو تاکہ میں جھکوں توٓ اپ میرے مموں‬
‫کو جھانک سکیں۔ نہیں یہ بہتان ہے‪ ،‬میں‬
‫نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو‬
‫سعدیہ پھر بول پڑی اگرُ اس دنٓ اپ‬
‫مجھے تھپڑ لگا دیتے جس دن میں کمرے‬
‫میں ننگی بیٹھی‬

‫اپنی قمیض سی رہی تھی تو میں سمجھ‬


‫جاتی کےٓ اپ کے بارے میں جو میری رُا ئے‬
‫قائم ہو رہی ہے وہ صحیح نہیں۔ لیکن اس‬
‫دن جس طرح میرے ننگے بدن کے گردٓ اپ‬
‫کیٓ انکھیں گھوم رہی تھیں وہ مجھے‬
‫یقین دالنے کیلئے کافی تھیں کےٓ اپ کے دل‬
‫میں میرے بدن سے کھیلنے کی خواہش‬
‫ابھی ہے۔ بھائی اگرٓ اجٓ اپ کالج چلے جاتے‬
‫اور میرے یوں بالنے پر کے جس وقت میں‬
‫گھر میں اکیلی ہوں نہٓ اتے تو تب بھی‬
‫میں یقین کر لیتی۔ میں مانتی ہوں کے‬
‫میرے دل میںٓ اپ کے لیئے خواہش ہے۔ اب‬
‫ےٓندوچ ےھجم روا ںیراتا باقن یھب پاپ بھی نقاب اتاریں اور مجھے چودن‬
‫کی جو خواہش ہے اسے پورا کر لیں۔‬
‫دیکھیں میں توٓ بالکل تیار ہوں۔ بس ایک‬
‫یہ پینٹی ہے جسے اپ نےُ اتارنا ہے۔‬
‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved‬‬

You might also like