You are on page 1of 930

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫‪• Part¹‬‬
‫•‬
‫اس لڑکی کی کہانی جسے پانا میری •‬
‫ضد تھی جسے پانا میر ی زندگی کا‬
‫مقصد تھا‬
‫موبائل کی بیل نے مجھے اٹھنےپر •‬
‫مجبور کر دیا۔ راجو کے نام پر میں‬
‫نےیہ بیل محفوظ کی ہوئی تھی ۔ نہیں‬
‫تو میرے موبائل پر صرف ایک بیپ‬
‫والی بیل لگی ہوئی تھی۔ جیسے ہی میں‬
‫نے کال اوکے کی ۔ نیلی آنکھیں باس ۔‬
‫راجو نے بغیر تمہید کے مخصوص‬
‫سگنل دیا ۔ وہ ‪ 125‬پر ہیں اور بائیک‬
‫چالنے وال کوئی بازی گر لگتا ہے میں‬
‫اسے کھو بھی سکتا ہوں ۔ بائیک کا‬
‫نمبر نوٹ کر لو‪ ،‬میں نے اسے ہدایت‬
‫دی ۔ نمبر نہیں ہے باس ‪ ،‬اپالئیڈ فار ہے‬
‫‪ ،‬آپ آجاؤ ‪ ،‬میرے جسم میں جیسے‬
‫بجلیاں دوڑ گئ ۔ میں پاجامے کے اوپر‬
‫ہی ٹی شرٹ پہن کے والٹ ‪ ،‬چابیاں اور‬
‫موبائل ‪ ،‬موبائل تو میرے کان سے لگا‬
‫ہے۔ فلیٹ الک کر کے چار منٹ کے‬
‫اندر میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔ اس‬
‫دوران راجو سے میں اس کی لوکیشن‬
‫پوچھ چکا تھا ۔ تین سال پہلے میں نے‬
‫راجو کو ایک مشن دیا تھا ۔ نیلی‬
‫آنکھوں والی کو ڈھونڈنے کا ۔ تب سے‬
‫اب تک یہ تالش جاری تھی ۔ کچھ نیلی‬
‫آنکھیں ملی پر اس میں وہ نہیں تھی‬
‫جس کی مجھے تالش تھی ۔ اس وقت‬
‫میں بڑی اوور ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔‬
‫صبح صبح بیشتر سڑکیں خالی تھیں ‪،‬‬
‫راجو سے میرا مسلسل رابطہ تھا ۔ میں‬
‫ان کی مخالف سمت سے آرہا تھا ۔ کیا‬
‫خیال ہے راجو کہاں جا رہے ہیں وہ ؟۔‬
‫کسی کالج یا یونیورسٹی کے لگتے ہیں ۔‬
‫راجو نے بات ختم بھی نہیں کی کہ میں‬
‫نے دوسرا سوال کر دیا‪ ،‬رستے میں‬
‫کون کون سے کالج یا یونیو رسٹی آتے‬
‫ہیں ۔ میں نے ایک سگنل توڑتے ہوئے‬
‫پوچھا ۔ جیسے ہی راجو کا جواب آیا‬
‫میں نے تیزی سے فیصلہ کیا اور ایک‬
‫شارت کٹ سے کینال بینک روڈ کی‬
‫طرف گاڑی موڑ دی ۔ کار سے زیادہ‬
‫تیز میرا دماغ چل رہا تھا ۔ باس وہ‬
‫کینال روڈ کی طرف مڑسکتے ہیں‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬۔۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔۔ میں کینال بنک روڈ پر پہنچ چکا •‬


‫ہوں میں نے راجو کی بات ختم ہونے‬
‫سے پہلے بتا دیا ۔ صبح صبح کینال روڈ‬
‫پر بڑا رش ہوتا ہے کئی کالج اسی‬
‫طرف ہیں خاص کر پنجاب یونیورسٹی‬
‫اور دفتروں کو جانے والے کچھ اس‬
‫طرف سے ائیر پورٹ جانے والے ۔‬
‫میری نظریں بیک ِمرر پر تھی ۔ ایک‬
‫‪ 125‬بڑی خطرناک ڈرائیونگ کرتا‬
‫گاڑیوں کو بائیں طرف سے اوور ٹیک‬
‫کررہا تھا۔ میں بھی بائیں قطار میں آگیا‬
‫۔ جیسے ہی اس نے مجھے کراس کرنا‬
‫چاہا ۔ میں نے گاڑی تھوڑی نیچے اتار‬
‫دی ۔ اسے مجبورا بائیک آہستہ کرنی‬
‫پڑی ۔ گاڑی اس رش میں بائیک کے‬
‫سامنے کچھ بھی نہیں تھی ۔ اس لیے‬
‫میں اسے آگے نہیں نکلنے دیا ۔ باس‬
‫میں نے آپ کی کار دیکھ لی ۔ راجو کی‬
‫پرجوش آوازآئی ۔ راجو تم آگے نکل‬
‫جاؤ ۔ اوکے باس ‪ ،‬راجو مجھے دیکھ‬
‫کے پرجوش ہوگیا تھا ۔اورکچھ لمحوں‬
‫شوں کر کے میری دائیں طرف‬ ‫میں ُ‬
‫سے گاڑیوں کے درمیان سے خطرناک‬
‫طریقے سے نکل کے بائیں طرف سے‬
‫کراسنگ کرنے لگ گیا ۔ بائیں طرف‬
‫اوور ٹیک خطرناک ہوتا ہے پر کامیاب‬
‫ہوتا ہے ‪ ،‬میرے اندازے کے مطابق‬
‫‪ 125‬نے بھی راجو کی طرح نکلنا چاہا‬
‫جب وہ میری کار کے درمیان میں آیا‬
‫میں نے کار کو ہلکا سا بائیں طرف کیا‬
‫۔ وہ پھنس گیا کچھ دیر بعد اسے بائیں‬
‫قطار میں جانا پڑا ۔ یہی میں چاہتا تھا‬
‫۔اس کے آگے پیچھے گاڑیاں تھیں‪ ،‬اس‬
‫کے انتہائ بائیں طرف فٹ پاتھ تھا اور‬
‫فٹ پاتھ کے ساتھ نہر تھی ۔ اور ادھر‬
‫میری گاڑی‪ ،‬وہ بائیں قطار میں پھنس‬
‫چکے تھے ‪ ،‬نئی بائیک کو اس نے‬
‫ہوائی جہاز بنایا ہوا تھا۔ اب میں نے‬
‫لڑکی کی طرف دیکھا ۔ وہ غصے سے‬
‫میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔ اف‬
‫خدایا اس کی گہری نیلی آنکھیں اور ان‬
‫آنکھوں میں نیال سمندر اور اس نیلے‬
‫سمندر کے نیلگوں پانیوں میں دل کرتا‬
‫تھا ابھی چھالنگ لگا دوں۔ اس نے سفید‬
‫😘 🌹⚘چادر سے نقاب کیا ہوا تھا ۔‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬
‫بلکہ پورا جسم پر چادر اس طرح •‬
‫تھی کہ اس کے جسمانی خطوط کا کچھ‬
‫اندازہ نہیں ہو رہا تھا ۔ میرے اندازے‬
‫کے مطابق وہ ‪ 23‬سال کی لگتی تھی ۔‬
‫لڑکے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ‪ ،‬اس‬
‫دوران لڑکے نے دو بارکٹ مار کے‬
‫نکلنا چاہا مگر میں نے اس کی چال‬
‫ناکام بنا دی ۔ اسے میری بُھونڈی کا‬
‫اندازہ ہو چکا تھا ۔وہ تو پہلے ہی‬
‫بڑاغصے میں تھا‪ ،‬اسی کشمکش میں‬
‫دو تین کالج پیچھے رہ گئے ۔ مجھے ان‬
‫کی منزل کا اندازہ ہوگیا تو میں نے کار‬
‫آگے نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔ راجو‬
‫تم باہر ہی رہنا ‪ ،‬کال بند کرنے سے‬
‫پہلے میں نے اسے ہدایت کی ۔ پھر میں‬
‫تانیہ کو کال کرنے لگا ۔ بڑے گھر کی‬
‫بگڑی ہوئی تانیہ اپنا کام بخوبی‬
‫سمجھتی تھی تانیہ پیڑنہیں گنتی تھی‬
‫اسے آم کھانے سے مطلب تھا ۔ کچھ ہی‬
‫دیر میں ‪ ،‬میں تیز رفتاری سے گاڑی‬
‫پنجاب یونیورسٹی میں لیتا گیا‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫•‬
‫‪• Part²‬‬
‫•‬
‫گاڑی پارک کر کے میں کینٹین کی •‬
‫طرف چل پڑ ا۔ ‪125‬بائیک واال لڑکا‬
‫سیدھا جمیعت کے لڑکوں کے پاس گیا‬
‫وہ انہیں میرے بارے میں ہی بتا رہا ہو‬
‫گا‪،‬۔ مگر جیسے ہی عرفان نے مجھے‬
‫دیکھا تو جھالہٹ میں اسے ہی ایک‬
‫جھانپڑ رسید کر دیا ۔ عرفان پہلے ہی‬
‫اوپر سے میری وجہ سے جھاڑیں کھا‬
‫چکا تھا ۔عرفان کی ملتجی آنکھیں‬
‫مجھے کچھ کہہ رہیں تھیں ‪،‬میں نے سر‬
‫ہال دیا ۔ میں نے بائیک والے لڑکے کو‬
‫واپس جاتے ہوئے دیکھا ‪ ،‬لگتا ہے وہ‬
‫نیلی آنکھوں کو صرف چھوڑنے آیا تھا‬
‫‪ ،‬میں اس وقت نیلی آنکھوں مے سحر‬
‫میں کھویا ہوا تھا اور میرا کسی سے‬
‫بات کرنے کا بھی موڈ نہیں تھا ۔ اسلیے‬
‫کینٹین میں جا کے بیٹھ گیا ۔ او شہزادہ‬
‫ساڈے الہور دا ۔ ایک خوشامدی آواز‬
‫نے مجھے خیالوں سے باہر کھنچ لیا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔ وہ بشیر تھا ۔ میری سرکار بڑے •‬


‫دنوں بعد درشن دیئے ہیں آپ نے۔ اس‬
‫کی خوشامد جاری تھی ۔ اور بشیر‬
‫کیسے ہو ۔ مجھے اس سے بات کرنی‬
‫ہی پڑی ۔ میں ٹھیک جناب ‪ ،‬ایسے کرو‬
‫دو کولڈ ڈرنک بھیج دو مگرآج پہلے‬
‫اچھا سا ناشتہ کراؤ ۔ او میرے شہزادے‬
‫ساری کینٹین ہی تمھاری ہے ‪ ،‬ابھی میں‬
‫ناشتہ بھیجتا ہوں اپنے شہزادے کیلیے۔‬
‫بشیر چال گیا اور میں پھر خیالوں میں‬
‫کھو گیا ۔ ‪ 4‬سال پہلے میرے اندر نیلی‬
‫آنکھوں کی طلب زیادہ زور مارنے لگی‬
‫۔ لیکن صرف نام کے سہارے اسے‬
‫ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی‬
‫ڈھونڈنے کے مترادف تھا۔ میں نے اپنی‬
‫سی کوشش کی مگر بات نہ بنی ۔‬
‫مجھے کوئی ایسا چاہیے تھا جس کا کام‬
‫ہی آوارہ گردی ہو ‪ ،‬پھر مجھے راجو‬
‫مال ۔ آنٹیوں سے اپنے خرچے نکالتا تھا‬
‫۔ میں اس سے ملتا رہا اسے پرکھتا رہا ۔‬
‫مجھ سے بہت متاثر تھا ۔ ایک دن‬
‫پوچھنے لگا باس ‪،‬کوئی ایسی لڑکی‬
‫بھی ہو جسے آپ پا نہ سکیں ہوں ۔ ہاں‬
‫ایک ہے ‪ ،‬کون ہے وہ باس ؟ اس نے‬
‫حیرانگی سے پوچھا۔ اس کا نام دآلویز‬
‫ہے ۔ کہاں رہتی ہے وہ ‪،‬اس کا تجسس‬
‫بڑھنے لگا‪،‬پتہ نہیں کہاں ہو گی ۔اس‬
‫نیلی آنکھوں والی کو آخری بار دیکھا‬
‫تھا تو وہ ‪ 13‬سال کی تھی اور میں ‪16‬‬
‫سال کا تھا ۔اب تو وہ ‪ 23‬سال کی ہوگئی‬
‫ہوگی ۔اس کا باپ کا نام اور کام ‪ ،‬راجو‬
‫کے سوال جاری تھے ‪،‬سرور خان ‪،‬‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬۔۔۔۔۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬

‫۔۔۔ کمپنی میں کام کرتا تھا ۔ کچھ اور •‬


‫اس کے بارے میں جانتے ہیں آپ ‪،‬‬
‫راجو نے پھر سوال کیا ۔ بس یہی کچھ‬
‫جانتا ہوں ۔ ہاں اس کی ماں کا نام نگینہ‬
‫تھا ۔ نگینہ کے نام سے ہی میرے منہ کا‬
‫ذائقہ جیسے کڑوا ہو گیا۔اور کچھ ان‬
‫کے بارے میں ۔ راجو نے پوچھا ۔‬
‫دونوں میاں بیوی پیدائشی لہوری ہیں‬
‫اور پٹھان خاندان سے ہیں وہ آپ کو کہا‬
‫ملی تھی ؟۔وہ کرائے کے مکان میں‬
‫رہتے تھے اس کا پرانا ایڈریس بتا کہ‬
‫میں راجو کو پر خیال نظروں سے‬
‫دیکھنے لگا۔ اسی کام کیلیے میں اسے‬
‫اپنی مصروفیات سے وقت دیتا تھا باس‬
‫میں الہور کو اپنے ہاتھ کی لکیروں کی‬
‫طرح جانتا ہوں ہر گلی سے میں گزرا‬
‫ہوں ۔ہر گرلز کالج ‪ ،‬ہر یونیورسٹی کا‬
‫مجھے پتہ ہے ‪ ،‬باس میں اسے‬
‫ڈھونڈوں گا آپ کیلیے ‪ ،‬راجو مجھے‬
‫امپریس کرنا چاہتا تھا ۔ اچھا سوچ لو یہ‬
‫کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ایک سال بھی‬
‫لگ سکتا ہے ‪،‬میں نے سے پکا کیا ۔ دو‬
‫سال بھی لگ جائیں تو پرواہ نھیں ہے‬
‫۔اس نے جوش سے کہا ‪ ،‬میں نے اسے‬
‫ایک پرانی ہنڈا ‪ 70‬لے دی ۔ جیب خرچ‬
‫بھی کبھی کبھار دے دیتا ۔ پھر جب‬
‫مجھے تسلی ہوگئی کہ وہ سنجیدگی سے‬
‫تالش کر رہا ہے تو اس کا جیب خرچ‬
‫مستقل کر دیا ۔ چھ سو چوراسی میل پر‬
‫پھیال ہوا الہور کئی شہروں جیسا ایک‬
‫شہر تھا ۔اسوقت دوہزاردس میں اس کی‬
‫آبادی دس کڑوڑ کے لگ بھگ تھی ۔‬
‫بالشبہ راجو کو ایک مشکل مشن دیا تھا‬
‫لیکن وہ اس کیلیے موزوں ترین تھا‬
‫‪،‬ڈھونڈتے ڈھونڈتے دوہزار بارہ آگیا ۔‬
‫لیکن راجو کا جوش کم نہیں تھا ۔ میں‬
‫پرنس جو تھا اس کے جوش کو تیز‬
‫کرنے کیلیے ۔ دوہزار گیارہ میں راجو‬
‫نے اپنی توجہ ہائیر سیکنڈری سکولوز ‪،‬‬
‫کالجز اور یونیورسٹیز پر مبذول کردی‬
‫تھی۔ یہ اس کا پسندیدہ کام بھی تھا ۔ اس‬
‫تالش سے اب پھر ایک نیلی آنکھوں‬
‫انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬والی ملی تھی‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔ کافی دیر ہوگئی تھی تانیہ ابھی تک •‬


‫نہیں آئی تھی ۔ میں اس دوران ناشتہ کر‬
‫چکا تھا ۔ اِدھر دو کولڈ ڈرنک آئی اُدھر‬
‫تانیہ آگئی ‪،‬میں اس کی طرف سوالیہ‬
‫نظروں سے دیکھنے لگا۔ بتاتی ہوں‬
‫پہلے کولڈ ڈرنک تو پینے دو ۔ بڑے‬
‫دنوں بعد تم ہاتھ آئے ہو وہ بھی صبح‬
‫صبح ‪ ،‬جناب کی صبح تو ایک دو بجے‬
‫سے پہلے نہیں ہوتی ۔ تانیہ یہی سمجھ‬
‫رہی تھی کہ میں عام حاالت کی طرح‬
‫کسی کا پیچھا کرتا ہوا آیا تھا‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬
‫‪• Part³‬‬
‫•‬
‫اچھا بتاتی ہوں میرے چہرے کہ •‬
‫بدلتے تاثرات طرف دیکھ کہ وہ بے‬
‫ساختہ بولی۔ اس کا نام دآلویز ہے‬
‫میرے خون کی گردش یکدم تیز ہوگئی ۔‬
‫ایم اے انگلش کے فائنل ایئر میں ہے ۔‬
‫پٹھان فیملی سے ہے ۔ باپ کا نام سرور‬
‫خان ہے ۔ یہ اس کا ایڈریس اور فون‬
‫نمبر ہے ۔ تانیہ نے نوٹس سے پھاڑا ہوا‬
‫کاغذ کا ٹکڑا میری طرف بڑھایا ۔ ہر‬
‫وقت نقاب میں رہتی ہے بلکہ چادر کو‬
‫ایسے لپیٹتی ہے کہ اسکا کچھ پتا نہیں‬
‫چلتا ۔ کافی نک چڑھی ہےکچھ لڑکے‬
‫اس کی طرف بڑھے مگر جب سے اس‬
‫نے ایک لڑکے کو تھپڑ مارےہیں تب‬
‫سے کوئی لڑکا اس کی طرف نہیں‬
‫بڑھتا ۔ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی‬
‫ہے ۔ بڑی آئی ملکہ حسن کہیں کی ۔‬
‫تانیہ نسوانی جالپے سے بولی تو میں‬
‫سمجھ گیا کہ دآلویز کا حسن دیکھنے‬
‫کی چیز ہو گا ۔ اور ایک خاص بات‬
‫اپنی مما سے اس کی جان جاتی ہے‬
‫بہت ڈرتی ہے اس سے۔ اس کی مما کا‬
‫نام کیا ہے ؟ میں نے بے ساختہ پوچھ‬
‫لیا ۔ شاید نگینہ بتا رہی تھی اس کی‬
‫دوست ۔ تو نگینہ میں تم تک پہنچ ہی گیا‬
‫‪،‬میں نے دل میں کہا ۔ تانیہ میری حالت‬
‫سے بے خبر اپنی ہی کہی جا رہی تھی‪،‬‬
‫پتہ ہے ابھی وہ اپنی دوستوں سے کیا‬
‫بات کر ہی تھی ۔ کسی بگڑے ہوئے‬
‫امیر زادے نے آج اس کا پیچھا کیا اور‬
‫انہیں بڑا تنگ کیا۔ ہم دونوں مسکرانے‬
‫لگے۔ آج جس کے ساتھ دآلویز آئی تھی‬
‫وہ کون تھا اس کے پاس نئی ‪125‬‬
‫بائیک ہے اور اسے ہوائی جہاز سمجھتا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬ہے‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬

‫‪ ،‬شاید تم نے اسے دیکھا ہو ۔ ظاہر •‬


‫ہے پیچھے لڑکی بیٹھی ہو اور بائیک‬
‫نئی ہو تو ہوا میں ہی اڑنا ہے ۔ ویسے‬
‫اس کا کوئی کزن ہے ۔ اپنی دوستوں‬
‫سے یہی باتیں کر رہی تھی کہ آج کزن‬
‫کے ساتھ آنے کی غلطی کر لی آئیندہ‬
‫یونیورسٹی کی بس میں ہی آئے گی۔ اس‬
‫دوران میں راجو کو دآلویز کا ایڈریس‬
‫میسج کر چکا تھا ساتھ ہی اسے ہدایت‬
‫کی کہ ہوشیاری سے اس کی پوری‬
‫معلومات لے کے شام کو فلیٹ پر‬
‫آجائے ۔ تو اب آپ کا کام ہو گیا اب‬
‫چلیں فلیٹ پر ‪ ،‬تانیہ نے بڑے ندیدے پن‬
‫سے کہا ۔ تانیہ کو بالیا تھا تو مجھے‬
‫اندازہ تھا کہ پیڑ نہیں گنتی پر آم ضرور‬
‫کھائے گی جب میں اپنی کار میں بیٹھا‬
‫توتانیہ نے فرنٹ ڈور کھولنے کا اشارہ‬
‫کیا ۔ کیا بات ہے لے آؤ اپنی کار میں‬
‫نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا ‪،‬نہیں‬
‫نہیں میں تمھارے ساتھ جاؤں گی تمھارا‬
‫کوئی اعتبار نہیں ہے ملنا تو دور کی‬
‫بات کال تک ریسیو نہیں کرتے جناب‬
‫پرنس صاحب ۔ میں تمھیں چھوڑنے‬
‫نہیں آسکتا ‪ ،‬کوئی بات نہیں میں ٹیکسی‬
‫سے آجاؤں گی‪،‬مجھے اسے بٹھانا ہی‬
‫پڑا ۔ آخری لمحے بھی تم باز نہیں آئے‬
‫۔ تانیہ نے روٹھے انداز میں کہا۔ نہیں‬
‫یار میں تمھیں فیس دیئے بغیر غائب‬
‫نہیں ہونا تھا ‪،‬میری فیس والی بات پر‬
‫تانیہ کی ہنسی نکل گئی۔ شکر کرو ندا‬
‫اور صائمہ کو نہیں بتایا میں نے ۔ نہیں‬
‫تو فیس تین گنا ہو جانی تھی ۔ باتیں‬
‫کرتے ہم فلیٹ پر پہنچ گئے‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫‪• Part⁴‬‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬
‫فلیٹ میں داخل ہوتے ہی تانیہ پاگلوں •‬
‫کی طرح مجھ سے لپٹ گئی اور مجھ‬
‫سے کسنگ کرنے لگی ۔ تانیہ کا انداز‬
‫ایسا تھا جیسے بھوکے کو کئی دن بعد‬
‫کھانا مال ہو۔ او پرنس تم بہت ظالم‬
‫ہو‪،‬کاش تمھیں کسی طرح باندھ سکتی ۔‬
‫تانیہ شدت سے پاگل ہورہی تھی ۔‬
‫ہماری زبان اور ہونٹ بڑے مصروف‬
‫تھے ‪،‬اور ہاتھوں کو کہیں آرام نہیں تھا‬
‫۔ ہم کسنگ کرتے رہے ۔ کسنگ کرتے‬
‫ہوئے تانیہ نے میری ٹی شرٹ اتار دی‬
‫تو میں اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے‬
‫لگ گیا۔ میں نے اس کی شرٹ اتاری‬
‫ہی تھی کہ اسنے میرے پاجامے کی‬
‫ڈوری پکڑ کے کھولی اور ایک‬
‫جھٹکے سے پاجامہ نیچے بیٹھ کے اتار‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬دیا ۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫میں اپنا انڈرویئر اتارنے لگ گیا تو •‬


‫تانیہ نے اپنی جینز اتار کر برا بھی‬
‫کھول دی ۔ تانیہ چوبیس سال کی مست‬
‫جوانی تھی خوبصورت گوالئی نما چہرہ‬
‫۔ گوری رنگت‪ ،‬تنے ہوئےممے ۔‬
‫اسمارٹ جسم جو اب انگارا بنا ہوا تھا ۔‬
‫تانیہ کی سسکاریاں تیز ہونے لگی تھی‬
‫اسے گرم کرنے کی ضرورت نہں تھی‬
‫وہ تو بڑی مشکل سے خود کو سنبھالتی‬
‫آئی تھی ۔ پرنس ڈال دو اندر تانیہ نے‬
‫شدت سے میرے گلے لگتے ہوئے کہا‬
‫اس کی چوت میرے عضو کو چومنے‬
‫لگی ۔ ہم فلیٹ کے دروازے کے ساتھ‬
‫ہی ابھی تک کھڑے تھے میں نے اسے‬
‫دیوار کے ساتھ لگا کے اس کی دائیں‬
‫ٹانگ تھوڑی سی اٹھائی اور اپنا عضو‬
‫اس کی چوت میں ڈال دیا ۔ تانیہ نے‬
‫اپنی بانہوں کا ہار میرے گلے میں ڈاال‬
‫ہوا تھا ۔ میں تانیہ کو چودنے لگ گیا ۔‬
‫تیز چودو پرنس تیز۔ تانیہ چیخی ۔ ایسی‬
‫چیخوں کیلیے ہی تو میرا فلیٹ ساؤنڈ‬
‫پروف تھا ۔ میرے دھکے کوئی عام‬
‫دھکے نہیں تھے ۔ میں پوری شدت سے‬
‫😘 🌹⚘تانیہ کی چدائی کرنے لگا‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫۔ میرے ہر دھکے پر تانیہ مزے کی •‬


‫شدت سے چیخنے لگی ۔ میرے دھکے‬
‫اور اس کی چیخیں جیسے موسیقی کی‬
‫ردھم پر تال میل مال رہے تھے ۔ مار‬
‫دو پرنس مجھے چود چود کے مار دو‬
‫میں تمھاری بانہوں میں چدتے ہوئے‬
‫مرناچاہتی ہوں ۔ تانیہ مجھے پاگل کر‬
‫رہی تھی ۔ میں بھی ایسے چدائی کر رہا‬
‫تھا ۔جیسے اپنے دھکوں سے اس‬
‫انارکلی کو دیوار میں گاڑ دوں گا ۔ تانیہ‬
‫نے پانی چھوڑ دیا تھا ‪ ،‬تو بھی میرے‬
‫دھکوں میں کمی نہ آئی ۔ تانیہ گہرے‬
‫گہرے سانس لینے لگی ۔ بیڈ پر لے چلو‬
‫پرنس مجھ سے اب کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔‬
‫پانی نکلتے ہی وہی دھکے اب درد‬
‫دینے لگے تھے ۔ میں نے اسے اسی‬
‫طرح اٹھایا اور بیڈ پر ال پٹخا۔ تانیہ‬
‫میری عادت سمجھتی تھی وہ کپڑے‬
‫سے اپنی چوت صاف کرنے لگی ۔ میں‬
‫نے پھر اس کی چوت پر اپنے ہتھیار‬
‫انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬سے حملہ کر دیا‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔ اس کی ٹانگیں کھول کے میں ٹھکا •‬


‫ٹھک کھدائی کرنے لگا ۔ پانی نکالنے‬
‫کیلیے گہری کھدائی کرنی ہی پڑتی ہے‬
‫۔ میرا عضو چوت کی گہرائیوں میں‬
‫گھسنے کےلیے بار بار حملے کرتا رہا‬
‫۔ تانیہ کی سسکاریاں پھر شروع ہوچکی‬
‫تھیں ۔ تانیہ انگلش میں (فک می فک‬
‫می) کی گردان کر رہی تھی‬

• ⚘🌹 😘 ꧁[ ‫🤺] انتقام‬ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ

🤺꧂😘🌹⚘


• Part⁵

‫کا شعلہ جسم بھڑک چکا تھا اور اس •‬
‫کی آگ میں ہم جھلس کے دیوانے ہو‬
‫رہے تھے ۔ تانیہ بڑی بے تاب تھی سو‬
‫میں نیچے لیٹ گیا اور اسے گھوڑے پر‬
‫بٹھا کر بے تابی نکالنے کا پورا موقع‬
‫دیا ۔ ایسے موقع پر میں آرام سے‬
‫جوانی کی شدت کا مزہ لینا چاہیئے ۔ اب‬
‫اس کے شعلہ جسم اپنی آگ کو بجھانے‬
‫لگا ۔ لیکن عجیب بات تھی جتنا بجھانے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی اتنی آگ اور‬
‫بھڑک رہی تھی ‪ ،‬ایسی شدت ہو تو‬
‫فراغت کیسے دیر کر سکتی تھی ۔ وہ‬
‫آگئی اور ہمیں ایسا لگا جیسے ٹانگوں‬
‫سے جان نکل رہی ہو۔ کچھ دیر تو‬
‫گہرے سانس لیتے رہے ۔ پھر‬
‫ایکدوسرے کی طرف دیکھا اور ہماری‬
‫ہنسی نکل گئی ۔ اچھا تو میری بانہوں‬
‫🌹⚘میں چدتے ہوئے مرنا چاہتی ہو‪،‬‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫کاش تم میری یہ خواہش پوری کر دو •‬


‫‪،‬تانیہ نے حسرت سے کہا تو مجھے‬
‫اس کے لہجے کی سنجیدگی کی وجہ‬
‫سے محتاط ہونا پڑا ۔ چلو تمھیں‬
‫آسمانوں کی سیر کراتی ہوں ۔ تانیہ نے‬
‫میرا عضو پکڑ کے اپنا منہ اس کے‬
‫پاس لے جاتے ہوئے کہا ۔ جیسے ہی‬
‫اس نے میرا عضو کو چوما اور چوسنا‬
‫شروع کیا ۔ میرے جسم میں کرنٹ سا‬
‫دوڑنے لگ گیا۔ تانیہ مجھے دوسرے‬
‫راونڈ کیلیے تیار کرنے لگی تھی ۔ اسے‬
‫چوسنے میں مہارت تھی ۔ اور مجھے‬
‫اس کا شوق تھا ‪،‬تانیہ میری اس‬
‫کمزوری سے واقف تھی اس نے مجھے‬
‫اتنا کرنٹ لگایا کہ ٹرانسفر بنا دیا تا کہ‬
‫یہی کرنٹ میں اسے چودنے میں لگاؤں‬
‫۔۔ لیکن میرے کچھ اور ہی ارادے تھے‬
‫میں اس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلیے‬
‫لیٹ گیا اور اسے گھوڑے پر بٹھا دیا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫پہلے پہل تو وہ جوش سے لگی رہی •‬


‫اور خوب سواری کی پھر وہ آہستہ‬
‫ہونے لگی لڑکیوں کے لیے یہ کوئی‬
‫آسان کام نہیں ہے میں نے اسے آرام‬
‫نہیں کرنے دیے اور اسے جوش دالتا‬
‫رہا اور تانیہ سواری کرتی رہی ۔ تانیہ‬
‫پھر مدہم پڑنے لگی اسکی بس ہورہی‬
‫تھی ۔اب میں اس کی کمر سے پکڑ کے‬
‫اسے اوپر نیچے کروانے لگا پہلے وہ‬
‫تھکی تھی اب نڈھال ہونے لگی اور پھر‬
‫میرے اوپر گر پڑی ۔ اس کا سانس‬
‫دھونکنی جیسا چل رہا تھا اسے کچھ‬
‫مہلت دے کہ پھر میں شروع ہوگیا اور‬
‫اب کی بار میں نے اس کی تسلی کروا‬
‫دی ۔ آدھے گھنٹے بعد جسم نارمل ہو‬
‫گیا تو میں نہانے چال گیا۔ میں نہا کے‬
‫نکال تو تانیہ اٹھی وہ کچھ تھکی تھکی‬
‫لگ رہی تھی۔ میں نے اسے ایک ٹھنڈی‬
‫بیئر دی ایک خود پینے لگا ۔اس سے وہ‬
‫کچھ بہتر محسوس کرنے لگی ۔ اور‬
‫کپڑے پہن کر چلی گئی۔ جب سے‬
‫دآلویز کا پتہ چال تھا میرے دل میں‬
‫اتھل پتھل ہورہی تھی ۔ اگر تانیہ کی‬
‫جگہ کوئی اور ہوتی تو میں نے بالکل‬
‫دھیان نہیں دینا تھا ‪،‬لیکن تانیہ میرے‬
‫بہت کام آتی تھی ۔ یونیورسٹی میں وہ‬
‫میری آنکھوں کا کام کرتی تھی ۔ سو‬
‫اسے غذا دینی ضروری تھا۔‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫اب میرے دل میں بہت سے خیاالت •‬
‫آنے شروع ہوگئے ۔ ماضی کی یادیں‬
‫مجھے پوری شدت سے ستانے لگی۔‬
‫جو باتیں پہلے دھیمی آنچ پر ستاتی تھیں‬
‫آج وہ ایکدم شعلہ سی بننے لگی ۔ دل تو‬
‫یہی کر رہا تھا کہ ابھی جاؤں اور نگینہ‬
‫کے سامنے اس کی دآلویز کو چیر پھاڑ‬
‫دوں ۔ میں نے ایک اوربیئر نکالی اور‬
‫چسکیوں میں پینے لگا ۔ برہم مزاج کو‬
‫ٹھنڈا کرنے لگا ۔ مگرماضی میرے‬
‫سامنے کسی فلم کی طرح چلتا رہا‬
‫•‬
‫یہ لے اماں تیرا پوتا آگیا ‪،‬تو پوتا پوتا •‬
‫کرتی تھی نہ اب اسے سنبھال ۔ میرے‬
‫والد کے دوست سرور خان نے مجھے‬
‫اپنی ماں کو تھماتے ہوئے کہا ۔ سرور‬
‫خان کی والدہ جیسے میرے بارے میں‬
‫سب جانتی تھی ۔ میں اس وقت بارہ سال‬
‫کا تھا اور غم سے نڈھال تھا ابھی‬
‫پرسوں ہی تو میرے والد صاحب کی‬
‫فیکڑی میں کام کرتے ہوئے وفات‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬ماں تو میرے پیدا ہوتے ہی‬
‫اس دنیا سے چلی گئی تھیں ۔ اب اس‬
‫دنیا کے صحرا میں اکیال تھا ‪،‬مگر نہیں‬
‫کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ خدا نے پال‬
‫پالیا بیٹا دے دیا اس کا جتنا شکر کرو‬
‫کم ہے ۔ سرور خاں کی والدہ نے‬
‫🌹⚘ مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔ لیکن جیسے ہی اس نے مجھے •‬


‫اپنے ساتھ لگایا اسے جیسے جھٹکا لگا‬
‫۔ وہ مجھے غور سے دیکھنے لگی ۔‬
‫پھر ان کے چہرے پر نورانیت ابھر آئی‬
‫اور انھوں میں مجھے اپنے ساتھ لگا‬
‫کے میرا سر چوم لیا۔ مجھے لگا جیسے‬
‫میں صحرا سے کسی نخلستان میں آگیا‬
‫ہوں ۔ کوئی قریبی رشتہ دار تو تھا نہیں‬
‫‪ ،‬اور دور والے پاس آنا نہیں چاہتے‬
‫تھے ۔ مکان کرائے کا تھا مالک مکان‬
‫نے قل خوانی ہوتے ہی سرور خاں سے‬
‫بات کی اور جو تھوڑا سامان تھا وہ لیا‬
‫اور یوں میں اس کا بیٹا بن کے اس کے‬
‫گھر آگیا ۔ یہ بات تو مجھے بعد میں پتہ‬
‫چلی کہ فیکٹری میں والد صاحب کی‬
‫حادثاتی وفات کی وجہ سے سرور خان‬
‫نے فیکڑی مالکان سے مجھےآگے کر‬
‫کے اچھا خاصا پیسا بٹور لیا تھا۔ ایک‬
‫بار تو اس نے مجھے اپنے گھر النا ہی‬
‫تھا ۔ مجھے سرور خان کی والدہ کی‬
‫شکل میں دادی مل گئی ۔ دادی نے‬
‫مجھے اتنا پیار دیا کہ مجھے ماں کی‬
‫کمی بھی بھول گئی۔ گھر کا ایک اور‬
‫فرد بھی تھا۔ وہ تھی دآلویز جس کی‬
‫عمر اس وقت نو سال تھی۔ سرخ وسپید‬
‫رنگت‪،‬نیلی آنکھیں با لکل کسی گڑیا کی‬
‫طرح تھی میں نے اس کے ساتھ کئی‬
‫بار کھیلنا چاہا مگر وہ مجھ سے دور‬
‫رہتی تھی شاید ابھی اس نے مجھے‬
‫قبول نہیں کیا تھا ‪ ،‬میں نے اس کی ہر‬
‫چیز جو آدھی بانٹ لی تھی خاص کر‬
‫دادی تو پوری ہی لے لی تھی ۔ دادی‬
‫آپ اپنی یہ الٹھی اب رکھ دیں میں آپ‬
‫کی الٹھی ہوں ‪،‬میں اکثر دادی سے نہ‬
‫صرف کہتا بلکہ ہر وقت ان کی خدمت‬
‫[‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬میں حاضر بھی رہتا‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫‪،‬دادی بھی اب ہر کام کیلیے مجھے •‬


‫ہی کہتی تھی ‪ ،‬نگینہ بھی پیار کر لیتی‬
‫تھی ۔کسی وقت باہر لڑکوں سے بھی‬
‫کھیل لیا کر سکول سے آتا ہے تو دادی‬
‫کی جان کو چمٹا رہتا ہے ‪ ،‬ایسی باتیں‬
‫کر کے نگینہ مجھے گود میں بٹھا لیتی‬
‫۔ مجھے چومتی مجھے اپنے ساتھ لپٹا‬
‫لیتی‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫•‬
‫‪• Part⁶‬‬
‫•‬
‫•‬
‫اتنی تو سمجھ نہیں تھی مگر نگینہ •‬
‫کے پیار میں دادی والی بات نہ تھی۔ یہ‬
‫تو ویسے ہی تھی جیسے میرے اپنے‬
‫گھر میں ہماری گلی کی خالہ او‬
‫رباجیاں مجھے لپٹاتی تھیں چومتی تھیں‬
‫۔ ہر کوئی یہی جتاتا تھا کہ بن ماں کے‬
‫بچے کا بڑا خیال رکھتی ہیں ۔ کوئی‬
‫میرا نام نہیں لیتا تھا ۔ سب مجھے‬
‫شہزادہ کہتی تھیں پتا نہیں کیا بات تھی‬
‫جو کوئی مجھے دیکھتی تھی مجھے‬
‫اپنے ساتھ لپٹاتی تھی یا کوئی کوئی‬
‫ایسی بھی تھی جو مجھ سے بدکتی تھی‬
‫۔ جیسے پہلی دفعہ دادی مجھ سے بدکی‬
‫تھیں ۔ یہاں بھی میں سب کیلیے شہزادہ‬
‫تھا ۔ باہر نکلتا توکوئی آواز آتی ‪ ،‬ادھر‬
‫آنا شہزادے بات سننا ۔ ہمسائی خالہ نے‬
‫آواز دی ‪ ،‬وہ مجھے اندر لے گئی کتنا‬
‫معصوم ہے اس نے مجھے گود میں لے‬
‫لیا۔بہت ہی پیارا بچہ ہے دوسری نے‬
‫انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬میرے گال چوم لیا‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬
‫•‬

‫۔یہ لے یہ کھیر کھا لے۔ بن ماں باپ •‬


‫کا بچہ ہے اسنے مجھے اپنے ساتھ لپٹا‬
‫کے بھینچ لیا ۔۔ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ بن‬
‫ماں باپ کے بچے کو پیار کر کے اپنے‬
‫دل کوسکون دیتی تھیں ۔ دادی نماز‬
‫روزے کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ہر‬
‫وقت ان کی زبان تسبیح کرتی رہتی‬
‫تھی‪ ،‬ان کے چہرے ہر ایک نورانی ہالہ‬
‫سا محسوس ہوتا تھا‪،‬گلی محلے کی‬
‫عورتیں ان سے مشورے کرتی تھیں ان‬
‫کی بڑی عزت کرتی تھیں بلکہ ان کی‬
‫پوری برادری میں چھوٹے بڑے سب ان‬
‫کی مانتے تھے ۔ ۔ میرا بیٹا‪ ،‬شہزادہ‬
‫ادھر تو آ ‪ ،‬دادی کی بات پوری بھی‬
‫نہیں ہوئی تھی کہ میں ان کے پاس تھا۔‬
‫جی دادی ۔ بیٹا تو کھیلتا ہی رہتا ہے‬
‫ادھر اپنی بوڑھی دادی کے پاس بھی‬
‫بیٹھ جایا کر ۔ ہمیشہ دادی ایسے ہی‬
‫کہتی تھیں اور پھر ان کی باتیں شروع‬
‫ہو جاتیں تھیں ۔پتہ نہیں کہاں کہاں کہ‬
‫قصے کہانیاں مجھے سناتی رہتیں ۔‬
‫دآلویز بھی آکےبیٹھ جاتی لیکن پھر‬
‫بیزار ہو کے اٹھ جاتی تھی ۔ مجھے‬
‫نہیں پتہ تھا دادی میری تربیت کر رہی‬
‫تھیں۔ مجھے اچھائی برائی کا فرق‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪ ،‬رشتوں کا تقدس‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪ ،‬دنیا کی اونچ نیچ‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪،‬ان کی بہت سی باتیں‬
‫میرے شعور میں اور کچھ میرے‬
‫الشعور میں محفوظ ہوتی جاتی تھیں‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫ماں باپ کے بغیر بچوں کے ذہن •‬


‫ویسے بھی جلدی بالغ ہو جاتے ہیں‬
‫دادی نے مجھے پالش کر کے بہت کچھ‬
‫وقت سے پہلے ہی سمجھا دیا ۔ دآلویزا۔‬
‫او ‪،‬۔دآلویزا چل اپنی ماں کے ساتھ کام‬
‫کروا ۔ جب دیکھو کھیلتی رہتی ہے ۔‬
‫جب بھی میں اور دآلویز کھیلتے دادی‬
‫کی یہی آواز سننے کو ملتی ۔ میں‬
‫سوچتا کوئی بات ضرور تھی جو دادی‬
‫کو مجھ میں ناپسند تھی۔ لیکن وہ بات‬
‫سنبھالنا دادی کی دانش سے باہر تھی۔‬
‫تین سال پلک چھپکتے گزر گئے ۔ میں‬
‫پندرھویں سال میں داخل ہوگیا میٹرک‬
‫کے پیپر دے ابھی فارغ ہوا تھا ۔ کہ‬
‫ایک رات دادی سوئی تو پھر نہیں اٹھی‬
‫۔ دادی میں تمھارے ساتھ جاؤں گا ‪،‬‬
‫نہیں میری دادی کو نہ لے جاؤ ۔ دادی‬
‫تم کہاں ہو۔ دادی میں مر جاؤں گا۔ دادی‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬۔۔۔ ۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اتنا مجھے اپنے باپ کا دکھ •‬


‫نہیں ہوا تھا جتنا دادی کے جانے کا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬
‫•‬
‫‪• Part⁷‬‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬
‫چند دن میں ہی گھر کا ماحول بدل •‬
‫گیا ‪،‬دادی کی جگہ نگینہ نے لے لی‬
‫۔ایک دن میرے کانوں میں آواز پڑی ‪،‬‬
‫نگینہ اب بھگا اس کو اماں کی وجہ‬
‫سے بہت دن رہ لیا اسنے ۔ خبردار‬
‫سرورے اگر آئیندہ ایس بات کی تو‬
‫تیری جان نکال لوں گی ۔ نگینہ ایسے‬
‫بولی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب نگینہ‬
‫کی خیر نہیں ہے مگر سانڈ جیسا سرور‬
‫خان چپ چاپ باہر نکل گیا۔ اب نگینہ‬
‫میرا خیال رکھنے لگی ۔مجھے چومنا‬
‫چاٹنا ‪،‬خود سے لپٹانا ۔ مجھے اچھا کھانا‬
‫پینا دینا۔ کیا ہوا گیا ہے تجھے نگینے تو‬
‫🌹⚘اس کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہے‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫۔سرور یہ سب دیکھتا ہوا چپ نہ رہ •‬
‫سکا۔ رکھوں گی تجھے کیا ہے لڑائی‬
‫بڑھنے لگی۔ تو نگینہ نے سرور خان‬
‫کے ایک تھپڑ دے مارا ۔ میں نے کانپنا‬
‫شروع کر دیا ۔ مگر سرور سانڈ سمندر‬
‫کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ میں‬
‫حیران رہ گیا یہ کیا ہے بھئی ۔ دآلویز‬
‫سےنگینہ بھی نہیں کھلینے دیتی تھی ۔‬
‫اور نہ کسی ہمسائی کو مجھے پیار‬
‫کرنے دیتی تھی ۔ میں اکثر دادی کی‬
‫چارپائی پر لیٹا رہتا ‪ ،‬تم کیوں گم سم‬
‫رہتے ہو شہزادے ۔ نگینہ نے میرے‬
‫ساتھ لیٹتے ہوئے مجھے خود سے لپٹا‬
‫لیا ۔ کبھی کبھار میں ایسے دادی سے‬
‫لپٹ جاتا تھا ۔ ایسے ہی نگینہ میرے دل‬
‫بہال رہی تھی ۔ روز بروز اس کا لپٹنا‬
‫چپٹنا زیادہ ہوتا جا رہا تھا وہ بھی تب‬
‫جب سرور خاں کام پراور دآلویز سکول‬
‫گئی ہوتی تھی ۔ نگینہ کے خیال رکھنے‬
‫میں بہلنے لگا ۔ان دنوں کبھی کبھار باہر‬
‫نکلتا تھا ایک دن کریانے کی دوکان‬
‫سے کچھ سودا لینے جا رہا تھا کہ‬
‫کانوں میں آواز پڑی ۔ ادھر آ شہزادے‬
‫دوکان پر جا رہا ہے نہ ‪،‬مجھے بھی‬
‫کچھ منگوانا ہے ‪،‬نکڑا والی باجی نے‬
‫مجھے بالیا۔ جی باجی کیا منگوانا ہے‬
‫میں اس کے پیچھے اندر چالگیا ۔ باجی‬
‫😘 🌹⚘نے مجھے خود سے لپٹا لیا‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫۔ اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں •‬


‫اس کے دوپٹے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ میرا‬
‫منہ اس کے سینے میں چھپا ہوا تھا ۔‬
‫اس کے ہاتھ میرے پتہ نہیں کہاں کہاں‬
‫گھوم رہے تھے ۔ کیا کر رہی ہیں باجی‬
‫۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو‪،‬میں اس کی غیر‬
‫ہوتی حالت سے گھبرانے لگا ۔ کب‬
‫عمر کے‬ ‫سمجھے گا تو شہزادے تیری ُ‬
‫لڑکے تو جانے کیا کچھ کرتے پھرتے‬
‫ہیں ۔ باجی نے مجھے بے تحاشا‬
‫چومتے ہوئے کہا ۔آج تجھے سب سکھا‬
‫دوں گی ۔ مجھے جانے دو باجی ۔ میں‬
‫بہت زیادہ گھبرا گیا‪،‬مجھے کیا پتا تھا‬
‫باجی گھر میں اکیلی ہے ‪ ،‬جانے دوں‬
‫گی پر پہلے زندگی کا مزہ تو لینے دے‬
‫۔ باجی نے میرے ہاتھ اپنے سینے پر‬
‫رکھ دیے‪ ،‬دیکھ میرا دل کیسے دھڑک‬
‫رہا تیرے لیے ‪ ،‬میں باجی سے خود کو‬
‫چھڑا کے بھاگا ۔ خود تو مر گئی پر‬
‫تجھے بگاڑ گئی وہ چنڈال۔ پیچھے سے‬
‫باجی چالئی ۔ دادی کا سوا مہینہ ہو گیا‬
‫تھا۔ اوردو دن بعد چالیسواں رکھ دیا گیا‬
‫۔ دادی کی یاد سے کچھ دل بہال تھا ۔ اب‬
‫پھر غم کی لپیٹ میں آگیا‪ ،‬کسی طرح‬
‫دن گزر گیا ‪،‬ذہنی حالت پہلے ہی ابتر‬
‫تھی اوپر سے سارا دن بھاگ بھاگ کے‬
‫کام کرنے سے تھکن کے ساتھ بخار‬
‫ہوگیا۔اتنےسارے مہمان تھے سب جا‬
‫رہے تھے دآلویز اپنی نانی اور نانا کے‬
‫ساتھ جانے کی ضد کرنے لگی ساتھ‬
‫میں اس کی خالہ بھی تھی اس طرح وہ‬
‫چار ہوگئے اور ایک موٹرسائکل پر‬
‫نہیں جاسکتے تھے مجبوری میں سرور‬
‫سانڈ اپنی موٹرسائیکل نکال کے انہیں‬
‫چھوڑنے چال گیا‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫۔ میں دادی ⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫کے کمرے میں جا کے لیٹ گیا۔ نگینہ‬
‫میرے کمرے میں آگئی کیا ہو گیا ہے‬
‫میرے شہزادے کو ۔ کچھ نہیں بس‬
‫تھکن اور بخار ہے ‪ ،‬تم آرام کرو یہ لو‬
‫پیناڈول کی گولی‪،‬مجھے اٹھا کے نگینہ‬
‫نےمیرا کندھا اپنے سینے پر ٹکایا اور‬
‫گولی کھال دی ۔ اپنی گود میں میرا سر‬
‫رکھ کے دبانے لگی ۔ میرے جسم پر‬
‫اس نے رضائی ڈال دی ‪ ،‬بخار کی وجہ‬
‫سے نگینہ آج میرا کچھ زیادہ ہی خیال‬
‫رکھ رہی تھی ۔ اور میرے اوپر نچھاور‬
‫ہو رہی تھی ۔ تُو تو شہزادہ ہے میرا‪ ،‬وہ‬
‫بڑے الڈ سے میرا سر دبا رہی تھی‬
‫تھکن کی وجہ سے اس سے بیٹھا نہیں‬
‫جا رہا تھا میرے اوپر جھکی جا رہی‬
‫تھی پتہ نہیں کب اس کی گود اور سینے‬
‫کے گداز میں مجھے نیند آگئی۔ جانے‬
‫رات کو کس پہر میری آنکھ کھل گئی‬
‫حلق پیاس سے سوکھ رہا تھا ۔ بخار‬
‫ابھی بھی تھا ‪ ،‬میں اٹھا اور کچن میں‬
‫پانی پینے چال گیا ۔ نگینہ کے کمرے‬
‫مجھے عجیب سی آوازیں آئی جو میں‬
‫نے کبھی پہلے نہیں سنی تھی ‪ ،‬میں‬
‫سمجھا شاید سرور خان واپس آگیا‬
‫ہےاور نگینہ اس سے لڑ رہی ہے ۔‬
‫پرانے دروازے کی درز سے جھانکا تو‬
‫میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ‪،‬نگینہ‬
‫زمین پراونی گدا بچھائے ننگی لیٹی‬
‫تھی اور ایک لڑکا نگینہ کے اوپر جھکا‬
‫ہو ا اسے چود رہا تھا ۔ ان کی آوازوں‬
‫سے میری دماغ کی نسیں پھٹنے‬
‫۔ میرے ‪𝟎𝟎923215920081‬لگی‬
‫اندر دادی اٹھ کے بیٹھ گئی تھی ۔ میرے‬
‫دبلے پتلے جسم میں آتش فشاں پھٹ پڑا‬
‫۔ میں نے پیچھے ہو کہ پورے زور‬
‫سے دروازے کو الت ماری ‪ ،‬دھماکے‬
‫سے دروازہ کھل گیا اس کی کنڈی ٹوٹ‬
‫گئی۔ اس سے پہلے وہ دونوں کچھ‬
‫سمجھتے میں تیزی سے لڑکے پر جھپٹا‬
‫اور اسے کی پسلیوں میں زور سے ٹھڈا‬
‫مارا لڑکا اڑتا ہوا چارپائی سے ٹکرایا ۔‬
‫وہ بھی پٹھان لڑکا تھا مجھ سے پانچ چھ‬
‫سال تو بڑا ہو گا لیکن جسامت مردوں‬
‫کی طرح تھی آج اسے مہمانوں میں‬
‫دیکھا تھا ۔ میں اس پر پھر چھپٹا اور‬
‫اس کو التوں ٹھڈوں سے مارنے لگا ۔‬
‫مار دونگا تجھے کتے۔ مار دوں گا۔‬
‫لڑکا میری وحشت سے ڈر گیا تھا۔ اس‬
‫نے لیٹے لیٹے ایک پلٹنی کھائی اوراپنی‬
‫شلوار اٹھا کے بھاگا۔ مگر میں نے اسے‬
‫جانے نہیں دینا تھا ۔میں اس کی طرف‬
‫لپکا ‪،،،،‬اوغ۔۔۔ میں نیچے گرا‪ ،‬نگینہ‬
‫نے مجھے بھاگتے ہوئے میرے پاؤں‬
‫سے پکڑ لیا تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے‬
‫اسے ایک ٹھڈا مارا۔اور اٹھ کے پھر‬
‫بھاگا ۔ اتنی دیر میں لڑکا صحن پار‬
‫کرکے دروازے کے پاس تھا میں تیزی‬
‫سے اس کی طرف لپکا ‪ ،‬او لعنت تیری‬
‫اوقات پہ مادر چود ‪ ،‬کتی کہ بچے نے‬
‫دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی‬
‫تھی۔ ایک پل میں نے بےبسی سے‬
‫اونچی دیواریں اورلوہے کا دروازہ‬
‫دیکھا دوسرے پل واپس پلٹا اور جنونی‬
‫انداز میں کمرے میں داخل ہوا‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬
‫•‬
‫‪• Part⁸‬‬
‫•‬
‫•‬
‫نگینہ ابھی تک میرے ٹھڈے سے •‬
‫نہیں سنبھلی تھی ۔ میں نے اسے دو تین‬
‫ٹھڈے اور مارے پھر اس کے سینے پر‬
‫بیٹھ کے اسے مارنے لگا بتا کون تھا وہ‬
‫کنجر‪،‬بتا دے نہیں تو گال گھونٹ دوں گا‬
‫تیرا ۔ میں اس کا گال دبانے لگا ۔ نگینہ‬
‫چالیس کی تھی صحت مند تھی ۔ مگر‬
‫اس وقت میری جنونیت اسے ہلنے نہیں‬
‫دے رہی تھی ‪،‬آخراس نے اپنا نچال دھڑ‬
‫اٹھا کے دونوں گھٹنے جوڑ کے پوری‬
‫طاقت سے پیچھے سے میری کمرمیں‬
‫دے مارے میری گرفت کچھ ڈھیلی پڑی‬
‫تو اس نے اوپر تلے دوتین گھٹنے جڑ‬
‫دیئے ۔ میں اس کے اوپر ہی گر پڑا ۔‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫نگینہ نے میری گردن کو دونوں •‬


‫بازوؤں سے کس لیا ‪ ،‬اور مجھے نیچے‬
‫کر کے اپنا وزن میرے اوپر ڈال دیا اور‬
‫اپنی ٹانگوں سے مجھے قینچی ڈال لی ۔‬
‫میں نے دو تین دفعہ نکلنے کی کوشش‬
‫کی لیکن بےبسی سے پھڑپھڑا کے رہ‬
‫گیا۔ ہوش میں آ شہزاے ہوش میں آ ۔‬
‫نگینہ جیسے مجھے سوتے سے جگا‬
‫رہی تھی ۔ میں اس کی پسلیوں میں‬
‫مکے مارنے لگا ‪،‬تو اس نے اسی حالت‬
‫میں میں اپنے دونوں بازو میری گردن‬
‫سے نکال کے میرا گال دبانے لگی ۔‬
‫کچھ سیکنڈ میں میری سانسیں رکنے‬
‫لگی ۔اگلے پل میری آنکھیں باہر آنے‬
‫لگی ۔ چند سیکنڈ اور ایسے گزر جاتے‬
‫تو میں گیا تھا ‪ ،‬لیکن اچانک نگینہ نے‬
‫میرا گال چھوڑ دیا ۔ میری آنکھوں میں‬
‫پانی آگیا اور کھانسی کرنے لگ گیا ۔‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫پھر لمبے لمبے سانس لینے لگا کچھ •‬


‫دیر بعد میری حالت سنبھلنے لگی لیکن‬
‫نگینہ نے مجھے چھوڑا نہیں ۔ میری‬
‫جنونیت اب ختم ہو چکی تھی اور یکدم‬
‫کمزوری نے حملہ کر دیا تھا ۔ بخار‬
‫سے جسم تپ رہا تھا ۔ جوش ختم ہوا تو‬
‫پہال احساس یہی ہوا کہ نگینہ ابھی تک‬
‫ننگی ہے ۔ جاؤ اپنے کپڑے پہن لو۔ میں‬
‫گھبرا کے بوال ۔ کپڑے پہن لیے تو پھر‬
‫کیا ہو گا ‪،‬نگینہ نے عجیب سے لہجے‬
‫میں کہا۔ کیا مطلب ؟ میں حیران ہوا ۔ تُو‬
‫آزاد ہو جائے گا اورمجھے مار دے گا ۔‬
‫نگینہ ڈری ہوئی تھی ۔ نہیں مارتا تمھیں‬
‫مہربانی کرو کپڑے پہن لو ۔ تُو نہیں‬
‫مارے گا تو سرورے کو بتا دے گا ۔‬
‫سرور کچھ نہیں کرے گا وہ تیرا حکم‬
‫کا غالم ہے ۔ جتنا بھی حکم کا غالم ہو‬
‫لیکن اس معاملے میں مجھے چھوڑے‬
‫گا نہیں ۔ نگینہ ہر طرف سے محتاط‬
‫تھی۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا‬
‫اگر تم کپڑے پہن لو۔ میں تم پر اعتبار‬
‫نہیں کر سکتی‬
‫•‬

‫•‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫•‬
‫شہزادے ۔ تیرے اندر کوئی اور بولتا •‬
‫ہے ۔ یہ کیا کر رہی ہو میں اچانک‬
‫گھبرا گیا۔ نگینہ اپنی چوت میرے عضو‬
‫پر رگڑنے لگی۔ یہی ایک رستہ بچا ہے‬
‫ہم دونوں کیلیے ‪ ،‬نگینہ کی فیصلہ کن‬
‫لہجے میں بولی۔ مت کرو ‪ ،‬یہ نہ کرو‬
‫یہ غلط ہے ‪ ،‬ایکدم میرا سوچیں جواب‬
‫دے گئی ۔ تم میری ماں ہو‪ ،‬میں تمہاری‬
‫ماں نہیں ہوں نہ میں نے تمھیں پیدا کیا‬
‫ہے اور نہ ہی تم نے میرا دودھ پیا ہے ۔‬
‫نگینہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کے ادا‬
‫کیا ۔ نگینہ اپنا کام کرتی رہی ۔ کمبخت‬
‫کس مٹی سے بنا ہے تو تیرا کھڑا کیوں‬
‫نہیں ہوتا ۔ کیا کھڑا نہیں ہوتا ۔ میں بے‬
‫اختیار پوچھ بیٹھا ۔ تیرا لوڑا ۔اتنا بھوال‬
‫نہ بنا کر‪ ،‬ایک مہینہ ہو گیا ہے تیرے‬
‫آگے پیچھے گھومتے ہوئے ‪ ،‬سب‬
‫سمجھتی ہوں تو کتنا ُگھنا ہے ۔ جب بھی‬
‫تجھے ِرجھاتی تھی تو میسنا بن جاتا تھا‬
‫‪ ،‬اتنی بچی نہیں ہوں میں جتنا تُو نے‬
‫[‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬سمجھ لیا ہے مجھے‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫‪ ،‬مجھے پتہ ہے اس چڑیل نے تیرے •‬


‫ذہن کو جوان کر دیا ہے ‪،‬وہ تیرے دل‬
‫میں گھسی بیٹھی ہے ۔ مجھے بخار ہے‬
‫میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ‪،‬ایک بار‬
‫مجھے ٹھیک ہونے دے پھر جو کہے‬
‫گی میں کروں گا ‪،‬میں نے اس سے‬
‫جان چھڑائی ‪ ،‬نہ شہزادے نہ اتنی‬
‫چاالکیاں اچھی نہیں ہوتی ‪ ،‬نگینہ میرے‬
‫داؤ میں نہیں آئی ۔ سرور خان کسی بھی‬
‫وقت آسکتا ہے میں نے اسے ڈرایا ‪،‬‬
‫نگینہ ہنسنے لگی وہ حکم کا غالم ہے‬
‫میں نے اسے کہا تھا اُدھر ہی رہنا اور‬
‫صبح دآلویز کو ساتھ لے کہ آنا ‪ ،‬اچھا‬
‫کیوں نہ تمھارے اوپر الزام لگا دوں کہ‬
‫تم نے میری عزت پر ہاتھ ڈاال ہے ۔‬
‫نگینہ نے مجھے رگڑا دیا۔ ٹھیک ہے‬
‫ایسا ہی کر لے میری جان چھوڑ دے ۔‬
‫میں ُمص َمم ارادے سے بوال ۔ مجھے پتہ‬
‫تھا تم اس کیلیے بھی راضی ہوجاؤ‬
‫گے‪ ،‬پر پتہ ہے اصل مسلہء کیا ہے ۔‬
‫پھر تو میرے ہاتھ نہیں آئے گا‪،‬میں تم‬
‫سے مایوس ہوگئی تھی ‪،‬اب تو ہاتھ آیا‬
‫ہے تو یہ موقع جانے نہیں دوں گی ۔‬
‫نگینہ میری بے بسی کا لطف لیتے‬
‫ہوئے کمینگی سے بولی ۔‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 اچھاااااااااااااااااا‬
‫ا ۔ تو کر لو پھر اسے کھڑا ۔ میں ⃣‪• 0‬‬
‫نے اسے چیلنچ دیا ۔ یہ ہوئی نہ بات‬
‫مجھے پتہ تھا تُو سب سمجھتا ہے ۔‬
‫دیکھ شہزادے مان لے ساری زندگی‬
‫عیش کراؤں گی ۔ نگینہ نے تھوڑا سا‬
‫اٹھ کے میری قمیض اتارتے ہوئے کہا ۔‬
‫میں نے مزاہمت کی مگر کچھ نہ کر‬
‫سکا ‪ ،‬تھوڑی دیر میں جسم کی جتنی‬
‫توانائی خرچ کی تھی اب اتنی ہی نقاہت‬
‫اور بخار زیادہ ہو رہا تھا۔ نگینہ تھوڑا‬
‫پیچھے ہوئی اور اپنے بھاری جسم‬
‫کیساتھ میری پنڈلیوں پر بیٹھ گئی پنڈلیاں‬
‫درد کرنے لگی اس دوران نگینہ‬
‫نےمیرا ناڑا کھول کے پھرتی سے‬
‫میری شلوار اتنی نیچے کر دی کہ میرا‬
‫عضو نظر آنے لگا ۔ میں تیزی سے اٹھا‬
‫مگر اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کہ‬
‫انکار میں اپنا سر ہالیا دیا ‪ ،‬اس کی‬
‫آنکھوں میں جنونیت تھی‪ ،‬نہ کرو میں‬
‫نے اس کی ِمنت کی تم میری ماں ہو ‪،‬‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 •‬

‫میں تمہاری ماں نہیں ہوں نہ ⃣‪• 0⃣0⃣8‬‬


‫میں نے تمھیں پیدا کیا ہے اور نہ ہی تم‬
‫نے میرا دودھ پیا ہے ۔ نگینہ نے ایک‬
‫ایک لفظ چبا چبا کرپھر وہی فقرہ بوال ‪،‬‬
‫میرے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫•‬
‫‪• Part⁹‬‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 •‬
‫⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫نگینہ نے ُجھک کہ میرا عضو منہ •‬
‫میں لے لیا ‪ ،‬اور چوسنے لگی ‪،‬کچھ ہی‬
‫دیر میں میرے جسم میں سنسناہٹ سی‬
‫ہونے لگی ۔ نگینہ مزے سے عضو کو‬
‫چوستی رہی ۔ میرے نہ چاہتے ہوئے‬
‫بھی آخر کار وہ ٹن کر کے کھڑا ہو گیا‬
‫۔یہ تو میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ‬
‫عضو کو ایسے کھڑا کر دے گی ‪،‬‬
‫نگینہ پھر بھی نہ رکی ‪ ،‬آہستہ آہستہ‬
‫پنڈلیوں کا درد ‪ ،‬بخار ‪ ،‬نقاہت سب پس‬
‫منظر میں چال گیا۔ مجھے نگینہ کی‬
‫کمر اور کچھ ُممے نظر آنے لگے ‪،‬‬
‫اس کا صحت مند جسم نظر آنے لگا ‪،‬‬
‫اس کی سرخ سپید رنگت نظر آنے لگی‬
‫اس کی خوبصورتی محسوس ہونے لگی‬
‫‪ ،‬اس کے لمبے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرنے کیلیے ہاتھ ہالیا ‪،‬تو نگینہ نے‬
‫ہاتھ نہ چھوڑا ‪،‬چہرہ اٹھا کے مجھے‬
‫دیکھنے لگی ۔ میرے چہرے پر بدلتے‬
‫رنگ دیکھ کے نگینہ نے مجھے سینے‬
‫پر دباؤ ڈال کے نیچے بچھے اونی‬
‫انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬گدے پر لٹا دیا‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫اور خود میرے عضو پر آگئی اپنے •‬


‫ایک ہاتھ سے میرے دونوں ہاتھ پکڑے‬
‫اور دوسرے ہاتھ سے عضو پکڑ کے‬
‫اپنی چوت میں ڈال لیا ‪ ،‬پھرمیرے‬
‫سینے پراپنے ہاتھوں سےمیرے ہاتھ‬
‫تھوڑا دبا کے رکھ دیے ۔ اور کچھ آگے‬
‫پیچھے کچھ اوپر نیچے ہونے لگی ۔‬
‫اووووو تو واقعی شہزادہ ہے مست ہے‬
‫تو مست ‪ ،‬نگینہ سرور کی لہروں میں‬
‫ڈوبتے ہوئے بولی ۔ کیا چیز ہے تو‬
‫صحیح تڑپتی ہیں تیرے لیے عورتیں ۔‬
‫پتہ نہیں کیا جادو ہے تجھ میں ۔ نگینہ‬
‫آپے سے باہر ہو رہی تھی ۔ جو کرنا تھا‬
‫نگینہ ہی نے کرنا تھا اور وہ کرتی رہی‬
‫۔ کبھی تیز کبھی آہستہ ۔کبھی بیٹھ کے‬
‫کبھی میرے اوپر لیٹ کے ‪ ،‬نگینہ کو‬
‫سارے ڈھنگ آتے تھے اس کے جسم‬
‫میں بہت سے رنگ تھے ۔۔ اس کے‬
‫جسم کو دیکھ کے لگتا تھا جوانی بہت‬
‫خاص ہوگی‪،‬اب بھی وہ کم نہیں تھی ۔‬
‫اس کی خوبصورتی میں اس‬
‫کےاسمارٹ جسم کا کافی حصہ تھا ۔‬
‫مجھے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی ۔‬
‫ٹانگوں کی کیفیت بھی یہی تھی پھر یہ‬
‫کیفیت عضو سے نکلنے لگی۔ ارے ٹھر‬
‫😘 🌹⚘تو جا ‪،‬میں بھی آنے والی تھی‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫۔ میں خاموش لیٹا رہا ۔ چلو کو ئی •‬


‫بات نہیں تمھاری چوپا بھی تو زیادہ لگ‬
‫گیا تھا ۔ اب پھر مزا لیتے ہیں ‪ ،‬نگینہ‬
‫نے کپڑے سے میرا عضو صاف کیا‬
‫اور جھک کہ پھر چوپا لگانے لگی ۔‬
‫تھوڑی دیر بعد اس نے میرے ہاتھ‬
‫چھوڑ دیے ۔ میرے جسم میں سرسرایت‬
‫سی پھر ہونے لگی ‪ ،‬میرا جسم اک نئی‬
‫تپش سے جلنے لگا ‪ ،‬عضو پھر کھڑا‬
‫ہو گیا ۔ نگینہ جلدی سے پھر اپنے اندر‬
‫لے کے اوپر نیچے ہونے لگی۔ ویسے‬
‫بھی میرا اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‬
‫‪ ،‬دیکھا شہزادے اس میں کتنا مزہ ہے ۔‬
‫نگینہ پھر بے قابو ہونے لگ‬
‫شہزادے سچی بات تو یہ ہے کہ اتنا •‬
‫مزہ کبھی پوری زندگی میں نہیں آیا‬
‫‪،‬ہانپتی آواز میں اسے بولنے میں بھی‬
‫مزہ آرہا تھا ۔ جس کو بھی چودے گا وہ‬
‫تیری دیوانی بن جائے گی ‪ ،‬پر نہیں تو‬
‫صرف میرا ہے صرف میرا شہزادہ ۔‬
‫نگینہ رک گئی‪ ،‬شہزادددددددے ‪ -‬اس کا‬
‫جیسم معمولی سے جھٹکے لینے لگا ‪-‬‬
‫نگینہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی‬
‫پھر میرے ساتھ لیٹ گئی۔مجھے کچھ‬
‫بے چینی ہونے لگی ‪ ،‬جیسے پیاس لگی‬
‫ہو اور پانی پیتے پیتے درمیان سے‬
‫کوئی گالس چھین لے ‪،‬نگینہ غور سے‬
‫میری طرف دیکھ رہی تھی ‪ ،‬ابھی‬
‫تمھارا پانی نہیں نکال تمھیں بے چینی‬
‫ہو رہی ہو گی ‪ ،‬میں تو تھک گئی ہوں‬
‫‪،‬ایسا کر میرے ممے چوس تو میں تیار‬
‫ہوجاؤں گی اور پھر میں تمھارا پانی‬
‫نکال دوں گی ‪،‬نگینہ میرے ہاتھ اپنے‬
‫ممے پر رکھ دیا۔ مجھے وہ اچھے لگے‬
‫‪،‬میں انہیں آہستہ آہستہ دبانے لگا‪ ،‬ایسے‬
‫نہیں ‪ ،‬انہیں اس طرح سہالؤ ‪،‬نگینہ نے‬
‫جیسے بتایا میں ویسے کرنے لگا ‪،‬‬
‫تھوڑا ُچما بھی لے لے نہ ان کا ‪،‬نگینہ‬
‫نے فرمائش کی‪،‬مجھے ممے اچھے‬
‫لگ رہے تھے میں انہیں چومنے لگا‬
‫‪،‬ایسے نہیں شہزادے میرے اوپر لیٹ‬
‫کے چوس ان کو۔ نگینہ نے مجھے بازو‬
‫سے پکڑ کے اپنے اوپر کھنچا تو میں‬
‫بے اختیار اس کے اوپر لیٹ گیا‪ ،‬ایک‬
‫نپل منہ میں لیا تو اچھا لگا میں اسے‬
‫پکڑا کے چوسنے لگا ‪،‬نگینہ نے میرا‬
‫دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ممے پر رکھ‬
‫دیا ‪،‬اسے بھی دباتا رہ ‪،‬اپنی ہاتھ اور‬
‫انگلیاں سے ‪،‬ایسے‪ ،‬ہاں ایسے ‪ ،‬واہ‬
‫شہزادے تم تو کمال ہو‪ ،‬بہت مزا آرہا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬ہے ۔‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫تمھیں اب بھی بے چینی تو ہو گی •‬


‫بلکہ بڑھ گئی ہو گی ‪،‬ایسے کر ساتھ‬
‫ساتھ اپنا لوڑا میری چوت کے اوپر‬
‫رگڑ‪ ،‬ساتھ ہی میری کمر کو دونوں‬
‫طرف سے پکڑ کے مجھے اپنی چوت‬
‫پر ِکھسنے لگی‪ ،‬مجھے اس سے سکون‬
‫بھی آیا اور تیز کرنے کو بھی دل‬
‫کرنے لگا ‪ ،‬چوت کے اوپر رگڑ ‪،‬‬
‫نگینہ نے بیچ میں ہاتھ گھسا کے عضو‬
‫صحیح رکھا ۔ اچھا لگ رہا ہے نہ‬
‫شہزادے ‪ ،‬اندر ڈال کے کرے گا‬
‫تواصلی مزا آئے گا تمھیں ‪ ،‬چوت نرم‬
‫ہوتی ہے نہ اس لیئے ۔ال میں ڈال دیتی‬
‫ہوں ‪ ،‬لے موری کے اوپر رکھ دیا‬
‫ہےاب تُو تھوڑا تھکا لگا ‪ ،‬میں نے‬
‫آہست آہستہ اندر کیا تو چوت نے میرے‬
‫عضو کو گرفت میں لے لیا‪ ،‬آگے‬
‫پیچھےہو جیسے میں کرتی رہی ہوں‬
‫‪،‬ہاں یوں ‪ ،،‬شاباش شہزادے اب تم‬
‫چودائی کرنا سیکھ گئے ہو‪ ،‬چودو‬
‫مجھے ‪ ،‬تیز کر نہ ‪ ،‬کیا لڑکیوں کی‬
‫طرح لگا ہوا ہے ‪ ،‬ہاں ایسے ‪ ،‬آہ ۔ اور‬
‫‪،‬تیز ‪،‬اور تیز ‪ ،‬نگینہ کی آوازیں مجھے‬
‫ایسے ہی بھگانے لگی جیسے چابُک‬
‫گھوڑے کو بھگاتا ہے ‪ ،‬میں بھی تیز‬
‫تیز کرتا رہا ‪،‬کرتا رہا اور پھر پہلے کی‬
‫طرح جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے‬
‫لگی ‪،‬مجھے رکنا پڑا میں نے نگیہ کو‬
‫جپھا ڈال لیا‪ ،‬نگینہ نے میری کمر‬
‫کودونوں ہاتھوں سے پکڑ کے اپنے‬
‫اوپر کھسنے لگی اس طرح میں آگے‬
‫پیچھے ہونے لگا ‪ ،‬عضو اندر ہی تھا‬
‫اورکچھ جان باقی تھی‬

‫‪• Part¹⁰‬‬
‫•‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 •‬
‫⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫نگینہ بڑبڑائی ‪ ،‬دآلویز انہی کے •‬
‫کمرے میں سوتی تھی ‪،‬شاید اسی لیے‬
‫نیچے یہ طریقہ بنایا ہوا تھا ‪ ،‬پھر نگینہ‬
‫مجھے اپنے ساتھ لگا کے دادی کے‬
‫کمرے میں لے آئی‪ ،‬بہت درد ہے میری‬
‫ٹانگوں میں نگینے ‪،‬نگینہ مجھے لٹا‬
‫کے میری ٹانگوں کو دبانے لگی کافی‬
‫دیر دباتی رہی ‪ ،‬پتہ نہیں کب میں سو‬
‫گیا‪ ،‬اگلے دن دوپہر کواٹھا ‪،‬تو نگینہ‬
‫نے میرے لیے کچھڑی بنائی ہوئی‬
‫تھی‪،‬اسی سے ناشتہ کیا‪،‬نگینہ نے‬
‫مجھے بخار کی دوائی دی ۔شاید وہ‬
‫صبح ہی لے کہ آئی تھی ‪ ،‬طبعیت اب‬
‫بہتر تھی‪،‬سرور سانڈ فیکٹری گیا ہوا تھا‬
‫۔اور دآلویز گھر میں ہی تھی ‪،‬وہ سکول‬
‫نہیں گئی تھی کیونکہ وہ نانی کے گھر‬
‫سے کچھ دیر سے آئے تھے ‪ ،‬مجھے‬
‫پھر نیند آگئی ‪،‬شام کو اٹھا تو طبیعت‬
‫کافی بہتر تھی‪ ،‬نگینہ نے میرے لیے‬
‫یخنی بنائی ہوئی تھی ‪،‬میں وہ دوپہر کی‬
‫کچھڑی پہ ڈال کہ کھا گیا‪،‬‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫مجھے ⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫بھوک لگی ہے روٹی ال کہ دو‪ ،‬روٹی‬
‫ابھی نہ کھاؤ شہزادے بخار کی وجہ‬
‫سے معدہ کمزور ہے روٹی ہضم نہیں‬
‫ہو گی ‪ ،‬اُلٹی آجائے گی‪ ،‬تھوڑا سا بخار‬
‫ہے ابھی ‪،‬نگینہ نے میرے ماتھے پر‬
‫ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ صبح تمھیں‬
‫تگڑا ناشتہ کرواؤں گی ‪،‬نگینہ نے ایک‬
‫آنکھ دباتے ہوئے کہا‪ ،‬میرا سر تو دبا‬
‫دو نگینے‪ ،‬کسی کے سامنے مجھے‬
‫نگینے نہ کہنا ‪ ،‬میرے شہزادے ‪ ،‬نگینہ‬
‫میرا سر دبانے لگی ‪ ،‬کچھ دیر بعد‬
‫مجھے دوائی دے کے چلی گئی ‪،‬رات‬
‫کو پھر آئی میری سر اور ٹانگیں دباتی‬
‫رہی ۔ تو نے تو اسے سگا بیٹا ہی بنا لیا‬
‫نگینے ‪،‬سرور خان یہ سب دیکھ کہ چپ‬
‫نہ رہ سکا ‪،‬نگینہ نے اس کی طرف‬
‫ایک ُگھوری ڈالی تو وہ کھسک گیا‪،‬‬
‫میں پھر سو گیا‪،‬صبح اٹھا تو ہشاش‬
‫بشاش تھا‪ ،‬سرور خان کام پر گیا تھا‬
‫اور دآلویز سکول گئی تھی وہ ساتویں‬
‫میں تھی اور میرا میٹرک کا رزلٹ آنے‬
‫😘 🌹⚘میں ابھی مہینہ تو پڑا تھا‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫‪ ،‬اٹھ گیا میرا شہزادہ صبح سے کئی •‬


‫بار تمھیں دیکھ چکی ہوں ‪ ،‬نگینہ کا‬
‫چہرہ سو واٹ کے بلب کیطرح ہو رہا‬
‫تھا ‪ ،‬میں باتھ ر وم سے ہو کے آیا تو‬
‫نگینہ میرے لیے ناشتہ لے کہ بیٹھی‬
‫تھی۔ یخنی میں روٹی ڈال کے اس نے‬
‫ُچوری سی بنا لی تھی‪،‬میں یہ نہیں‬
‫کھاؤں گا ‪ ،‬بس ابھی یہ کھا لے ‪،‬دوپہر‬
‫کو بھنا ہوا گوشت پکا کے دوں گی‬
‫اپنے شہزادے کو ‪ ،‬نگینہ نے بڑے الڈ‬
‫سے کہا ‪،‬ناشتہ کروا کے وہ برتن لے‬
‫جانے لگی‪ ،‬تم ناشتہ ہضم کر لو‪ ،‬اتنی‬
‫دیر میں میں کچھ کام کر لوں ‪،‬نگینہ نے‬
‫جاتے ہوئے معنی خیز لہجے میں کہا‪،‬‬
‫ایسی باتوں کی اسے بڑی سمجھ تھی‪،‬‬
‫بعد میں بھی نگینہ میری غذا کا خاص‬
‫خیال رکھتی تھی ۔ ایک گھنٹے بعد‬
‫نگینہ میرے پاس آکہ بیٹھ گئی میری‬
‫ٹانگیں دبانے لگی‪ ،‬ٹانگیں تو ایک بہانہ‬
‫تھا پھر وہی کھیل شروع ہو گیا ‪،‬ایک‬
‫بار ‪ ،‬دو بار ‪ ،‬دل تو میرا اور کر رہا‬
‫ہے پر ابھی تم آرام کرو نگینہ نے‬
‫کپڑے پہنتے ہوئے کہا ‪ ،‬جا شہزادے‬
‫لڑکوں کے ساتھ کھیال کر شام کو نگینہ‬
‫نے مجھے نئے کام پر لگا دیا ‪،‬دادی‬
‫ہوتی تھی تو میں انہی کے پاس رہتا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬تھا‪،‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫میرے ہم جولیوں کی باتیں مجھے •‬


‫بچکانہ لگتی تھی ‪ ،‬بہرحال کھیلنا اچھا‬
‫لگتا تھا‪ ،‬ہفتہ گزر گیا ‪ ،‬اب میری نظر‬
‫بھٹکنے لگی تھی ‪ ،‬لڑکیوں کو غور‬
‫سے دیکھنے لگا تھا‪،‬آس پاس کے‬
‫گھروں میں جانے لگا تھا‪ ،‬باہر کی‬
‫لڑکیاں گھورنے لگا تھا تو گھر کی‬
‫لڑکی کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا‬
‫‪ ،‬دآلویز کو دیکھنے والی نظر ہی بدل‬
‫گئی ‪،‬اس کی نیلی آنکھی مجھے بہت‬
‫اچھی لگتی تھی‪ ،‬میں بہانے بہانے سے‬
‫اس کے پاس بیٹھنے لگا ‪،‬آؤ نگینہ‬
‫تمھیں سکول کا کام کروا دوں ‪ ،‬کبھی‬
‫کبھار اسے چھو بھی لیتا تھا ‪ ،‬دوسرا‬
‫ہفتہ گزر گیا‪،‬میرا دھیان دآلویز کی‬
‫طرف زیادہ ہوگیا ‪ ،‬میں دیکھ رہا تھا‬
‫نگینہ مجھے روکنا بھی نہیں چاہتی‬
‫تھی‪ ،‬اوراسے یہ سب اچھا بھی نہیں‬
‫لگ رہا تھا ‪،‬اسی طرح تیسرا ہفتہ گزر‬
‫گیا ‪ ،‬چودائی سے فارغ ہوئے تو نگینہ‬
‫میرے ساتھ لیٹ گئی‪،‬دو ہفتے ہو گئے‬
‫تم چوپا نہیں لگایا مجھے مزہ نہیں آ رہا‬
‫میں روٹھا ہوا بوال ‪ ،‬مجھے یہ اچھا‬
‫نہیں لگتا شہزادے ‪ ،‬کیا ؟ پہلے اسے‬
‫چوستی رہی ہو اور اب اچھا نہیں لگتا‪،‬‬
‫اور پتا نہیں سرور کا کب سے چوس‬
‫رہی ہو‪ ،‬نہیں شہزادے سرور کا تو‬
‫کبھی نہیں چوسا‪ ،‬زندگی میں تمھارا‬
‫پہلی بار چوسا ہے وہ بھی تم نے چیلینچ‬
‫دیا اس لیے مجھے ایسا کرنا پڑا ‪،‬تو‬
‫پھر تم اُس کاچوپا لگاتی ہو گی‪،‬میرا‬
‫اشارہ اُس لڑکے کی طرف تھا جو اس‬
‫رات نگینہ کی چودائی کر رہا تھا ‪ ،‬میں‬
‫😘 🌹⚘ نے تمھیں پہلے بھی روکا تھا‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫شہزادے کہ آئیندہ اُس کی بات نہ کرنا •‬

‫میں ناراض ہوگیا‪ ،‬اچھا تمھارا چوپا •‬


‫لگاتی ہوں مجھ سے ناراض نہ ہوا کر‬
‫‪،‬نگینہ نے جیسے ہی عضو منہ میں لیا‬
‫میں وہ موضوع پھر بھول گیا‪ ،‬ان دنوں‬
‫نگینہ نے مجھے بہت سر چڑھا رکھا‬
‫تھا دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے‬
‫کہ دادی کے بعد نگینہ نے ماں بن‬
‫کرمیری ذمہ داری لے لی ہے بلکہ‬
‫دادی سے بھی بڑھ کے میرا خیال‬
‫رکھتی ہے ۔ اسلیے مجھے یقین ہو گیا‬
‫کہ میں دآلویز کو ضرور چود پاؤں‬
‫گااس خیال سے ہی مجھے سرور آنے‬
‫لگتا تھا ‪،‬نگینہ ہماری کھیلنے کودنے پر‬
‫خاموش تھی‪،‬اور میں اس خامومشی‬
‫کافائدہ اٹھاتے ہوئے دآلویز کے اور‬
‫قریب ہو گیا ‪،‬چوتھا ہفتہ بھی گزر گیا‬
‫نگینہ سارا دن پروانے کی طرح میرے‬
‫ارد گرد رہتی تھی ‪،‬ادھر میں اور‬
‫دآلویز دوست بن گئے تھے ‪ ،‬دآلویز‬
‫مجھ سے کیسے دور رہ سکتی تھی ‪،‬‬
‫اسے نہیں پتہ تھا وہ میرے پاس کیوں‬
‫چلی آتی ہے ایک دن کھیلتے ہوئے میں‬
‫نے دالویز کو گال پر چوم لیا ‪،‬وہ شرما‬
‫کے سمٹ گئی ۔مگر کچھ کہا نہیں ‪،‬‬
‫دآلویزہ۔ او۔ دآلویزا ۔ ادھرآ‪ ،‬کیا ہر وقت‬
‫کھیلتی رہتی ہے ‪،‬میرے ساتھ کام کروایا‬
‫کر گھر کے‪ ،‬اب تم بڑی ہوگئی ہو‬
‫‪،‬یکدم نگینہ کی غصیلی آواز آئی‪ ،‬آخر‬
‫نگینہ بول ہی پڑی‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫۔ اگلے دن ⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫نگینہ میرے پاس آئی تو میں اس سے‬
‫ناراض تھا‪ ،‬میرے ساتھ لیٹ کہ میرے‬
‫عضو کو پکڑ کے مسلنے لگی ۔ میری‬
‫چمیاں لینے لگی ‪ ،‬پر میں ٹس سے مس‬
‫نہ ہوا‪،‬کیا بات ہے شہزادہ حضور‪،‬‬
‫ب دشمناں مزاج کیوں برہم ہیں‬ ‫نصی ِ‬
‫جناب کے‪،‬نگینہ نے ایک فلمی ڈائیالگ‬
‫بوال ‪ ،‬چھوڑ نگینے تم مجھ سے پیار ہی‬
‫نہیں کرتی ہو۔ ایسے نہ کہو شہزادے‬
‫‪،‬جتنا تمھاراخیال رکھتی ہوں نہ‪ ،‬اتنا تو‬
‫سرورے سوچ بھی نہیں سکتا ۔ نگینہ تو‬
‫تمھاری دیوانی ہے شہزادے ‪ ،‬اگر ایسی‬
‫بات ہے تو دآلویز کو میرے ساتھ‬
‫کھیلنے کیوں نہیں دیتی‪ ،‬ارے وہ بچی‬
‫ہے اسے گھر کے کام کاج پہ ابھی نہ‬
‫لگایا تو کل کوگھر کیسے سنبھالے گی‪،‬‬
‫نگینے تم بھی جانتی ہو اور میں بھی‬
‫جانتا ہوں کہ ہم کیا چھپارہے ہیں اورکیا‬
‫بتا رہے ہیں ‪،‬بات سیدھی کروں گا‬
‫‪،‬مجھے دآلویز چاہیے ‪ ،‬مجھے یقین تھا‬
‫کہ وہ میری بات نہیں ٹالے گی ‪ ،‬سارا‬
‫دن تونگینہ میرے آگے بچھی رہتی تھی‬
‫۔ وہ ابھی بچی ہے شہزادے کچھ سال‬
‫ٹھر جا ‪،‬میں بھی تو بچہ ہوں (میں کہنا‬
‫چاہتا تھا کہ میں بھی بچہ تھا جب تم نے‬
‫مجھ سے زبردستی کی تھی) ‪ ،‬ضد نہ‬
‫کر شہزادے ‪ ،‬تم صرف میرے ہو ‪،‬میں‬
‫تمھیں کسی سے نہیں بانٹ سکتی چاہے‬
‫وہ میری بیٹی ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬مجھے‬
‫نہیں پتہ ‪ ،‬مجھے دآلویز‬
‫چاہییےنگینے‪،‬شہزادے میں بے غیرت‬
‫نہیں ہوں ‪،‬کہ جس لوڑے پہ ماں چڑھتی‬
‫ہے اسی لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا‬
‫‪• Part¹¹‬‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬
‫کیا؟؟؟؟ تم نے نگینہ کی منگنی کب •‬
‫کی؟ مجھے تو اس بات کا نہیں پتا‪ ،‬میں‬
‫حیران تھا ‪ ،‬یہ تمھارے آنے سے پہلے‬
‫کی بات ہے ‪ ،‬بعد میں کبھی تمھارے‬
‫ساتھ اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہو گا‬
‫نگینہ نے وضاحت کی ‪ ،‬اچھا نگینے‬
‫اب یہ رسمیں کہاں ہوتی ہیں تم‬
‫توپیدائشی الہورن ہو ‪،‬تمھارے رشتے‬
‫دار بھی الہوری ‪ ،‬کہانیاں نہ ڈال ‪،‬میں‬
‫چالیا ‪ ،‬ہمارے کچھ رشتے دار ادھر‬
‫مستقل آباد ہوگئے ہیں ‪،‬لیکن کچھ ابھی‬
‫بھی فاٹا میں رہتے ہیں یہاں بس کام کاج‬
‫کرنے آتے ہیں ‪ ،‬دآلویز کی منگنی جن‬
‫سے کی ہے وہ فاٹا میں رہتے ہیں‪ ،‬تم‬
‫دآلویز کی شادی مجھ سے کر دینا میں‬
‫نے آخری بات کر دی ‪ ،‬ضد نہ کر‬
‫شہزادے ‪ ،‬ہاں یا نہ ؟ میں نے اس کی‬
‫آنکھونمیں میں دیکھتے ہوئے پوچھا‬
‫مجھے یقین تھا وہ میری بات نہیں ٹال‬
‫سکتی تھی ‪ ،‬نہ شہزادے اپنے پیاروں‬
‫سے اتنا بڑا امتحان نہیں لیتے نگینہ نے‬
‫مجھے گلے لگا لیا ‪ ،‬ہاں یا ناں ‪،‬میں‬
‫نگینہ کو پیچھے ہٹا کے پھر اس کی‬
‫آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا‪،‬مجھے‬
‫اب بھی یقین تھا کہ نگینہ مجھے انکار‬
‫انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬نہیں کرسکتی‪،‬‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫نہیں شہزادے دآلویز تمھاری کسی •‬


‫طرح نہیں ہو سکتی نگینہ اٹل ارادے‬
‫سے بولی ‪ ،‬چل پھر اب میرے پاس نہ‬
‫آنا ‪،‬میں نے اسے تھکا دیا‪ ،‬نگینہ‬
‫چارپائی سے نیچے گر پڑی‪ ،‬وہ اٹھی‬
‫اور مجھے گھورنے لگی ‪،‬سرورے کو‬
‫تھپڑ مارنے والی رانی آج میرے ہر‬
‫سلوک خوشدلی سے سہہ رہی تھی‪ ،‬میں‬
‫بھی ناراض پڑا رہا ‪ ،‬مجھے یقین نہیں‬
‫آرہا تھا کہ نگینہ مجھے انکار کر آرہی‬
‫ہے ‪ ،‬شہزادے ضد نہ کر ‪،‬نگینہ آپ‬
‫بڑی ضدی ہے ‪ ،‬ضد تو تم کر رہی ہو‬
‫نگینے‪ ،‬مجھے پانا ہے تو دآلویز‬
‫مجھے دے دو‪ ،‬ایک ہی گھر میں رہتے‬
‫ہوئے نگینہ کی مرضی کے بغیر یہ‬
‫نہیں ہوسکتا تھا ۔ جبکہ نگینہ ہربات‬
‫سمجھتی بھی ہو ‪ ،‬نگینہ غصے سے‬
‫باہر نکل گئی‪ ،‬ہفتہ اسی کشمکش میں‬
‫پھر گزر گیا ‪،‬اس دوران ہم نے صرف‬
‫چوتھے دن چودائی کی باقی دن نگینہ‬
‫کو ترساتا رہا ‪ ،‬لیکن نگینہ میرا خیال‬
‫پہلے کی طرح رکھتی تھی ‪ ،‬میں اسے‬
‫عضو کو چوسنا تو کیا ہاتھ بھی نہیں‬
‫لگانے دیتا تھا ‪،‬چودائی سے دوری کی‬
‫وجہ سے نگینہ کی بری حالت تھی اور‬
‫مجھے منانے کی کوشش کرتی رہی ‪،‬‬
‫اس کے رویے سے مجھے اب بھی‬
‫یقین تھا کہ نگینہ کو میری بات ماننا‬
‫پڑے گی‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫‪• Part¹²‬‬
‫•‬
‫•‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 •‬
‫⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫سوا ‪،‬نوہو گئے تھے ‪ ،‬کبھی اپنے •‬
‫بیٹے کا بھی حال چال پوچھ لیا کر‬
‫‪،‬نگینہ سرور خان کو کمرے میں‬
‫گھسیٹ الئی ‪،‬سرور سانڈ نے مجھے‬
‫نفرت سے ُگھورا اور باہر نکل گیا ‪،‬‬
‫سرورے سونا نہ ‪،‬میں اس کا سر دبا‬
‫کے آتی ہوں ‪،‬نگینہ کی آواز میں ممتا‬
‫کی چاشنی تھی اور سرور کیلیے سگنل‬
‫تھا ‪ ،‬باہر بارش ہونے لگی ‪ ،‬نگینہ‬
‫میری رضائی میں آ گئی اور میرا سر‬
‫دبانے لگی ‪ ،‬نگینہ نے اپنی چادر اتار‬
‫کے بے پروائی سے پھینک دی ‪ ،‬پھر‬
‫نگینہ نے اپنے بال کھول دیے ‪،‬نگینے‬
‫بڑی رومانٹک موڈ میں تھی ‪،‬اس کا‬
‫ُحسن کمرے کو جگمگ کرنے لگا‪ ،‬بے‬
‫شک وقت نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا‬
‫تھا ‪ ،‬نگینے تم کمال ہو ‪،‬میں اس کے‬
‫ُحسن سے بے خود ہو گیا ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے‬
‫بیس پچیس منٹ اس نے مجھے بڑی‬
‫شدت سے پیار کیا ‪(،‬الف اج دی رات‬
‫سہاگ والی ۔۔۔ بھلکے کی جانے کیہڑا‬
‫رنگ ہوسی) اسے سرورے کا ڈر بھی‬
‫نہیں تھا ‪،‬یا اسے یقین تھاکہ وہ نہیں‬
‫آئے گا ‪ ،‬کاش شہزادے تم مجھ سے ضد‬
‫عمرتمھیں عیش‬ ‫نہ لگاتے تو ساری ُ‬
‫کراتی ‪،‬نگینہ کا موڈ بہت عجیب تھا ‪،‬‬
‫کیا ؟ میں اس طرح موڈ بدلنے پر‬
‫حیران ہوا‪ ،‬بچاؤ ‪،‬بچاؤ نگینہ ُکھٹی ُکھٹی‬
‫آواز میں ایسے چی ِخی جیسے اس کے‬
‫منہ پر کسی نے ہاتھ رکھا ہو ‪ ،‬ساتھ ہی‬
‫اس نے اپنے گریبان پہ ہاتھ ڈاال اور‬
‫😘 🌹⚘ ایک جھٹکے سے پھاڑ ڈاال‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫‪،‬اس کی برا نظر آنے لگی میں •‬


‫سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس نے میری‬
‫رضائی ایک طرف پھینک دی اور اور‬
‫خود چارپائی سے گر پڑی جیسے جان‬
‫چھڑا کہ بھاگی ہو اور گر پڑے ۔ دو پل‬
‫میں یہ سین مکمل ہوا اور سرور خاں‬
‫کمرے میں داخل ہو گیا‪ ،‬زمین پر گری‬
‫ہوئی چادر ‪،‬بکھرے بال ‪ ،‬پھٹی ہوئی‬
‫قمیض ‪،‬ایں ؟ریشمی قمیض ایکدم کیسے‬
‫پھٹ گئ ؟ اور اس کی ننگے جسم پر‬
‫ایک خراش بڑی واضح نظر آرہی تھی‬
‫جو کہ دوپہر کو نہیں تھی ‪ ،‬ایک پل‬
‫میں ساری صورت حال میں سمجھ گیا‬
‫۔ادھر میری جسمانی حالت اتنی اچھی‬
‫نہیں تھی ‪ ،‬کہ میں بھاگ سکوں ‪ ،‬نگینہ‬
‫نے بڑا مکمل حملہ کیا تھا ‪ ،‬سرور خان‬
‫نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نگینہ کو‬
‫اٹھایا ‪،‬سرورے اس نے میری عزت پر‬
‫حملہ کیا ہے آج یہ بچ کر نہ جائے ‪،‬‬
‫نگینہ نے کمرے کا دروازہ بند کرتے‬
‫ہوئے کہا ‪،‬‬
‫سرور سانڈ ‪ ،‬طیش میں مجھ پر حملہ •‬
‫ت حال سمجھ کہ اٹھ‬ ‫آور ہوا‪ ،‬میں صور ِ‬
‫ہی رہا تھا کہ سرور سانڈ میرے اوپر‬
‫گر پڑا اور مجھے گالیاں دیتے ہوئے‬
‫مکے مارنے لگا‪ ،‬نگینہ کے دروازہ بند‬
‫کرنے کا مطلب تھا اسنے مجھے بھگانا‬
‫نہیں ہے مروانا ہے ‪ ،‬لمحوں میں یہ‬
‫سب ہوگیا ‪ ،‬اب سستی کا مطلب موت‬
‫تھا‪ ،‬سرور خان وحشیوں کی طرح‬
‫مجھے مار رہا تھا ‪،‬میرے جسم میں‬
‫بجلیاں دوڑ گئی ‪،‬موت کے سامنے دیکھ‬
‫کہ توچڑیا بھی باز سے لڑ پڑتی‬
‫ہے‪،‬میں تو پھر انسان تھا ‪ ،‬میں بھی ہاتھ‬
‫چالنے لگا ‪ ،‬مگر وہ مجھ پر حاوی تھا‬
‫‪ ،‬میرے اندھا دھند ہاتھ چالنے سے بس‬
‫اتنا ہوا کہ اُس کے مکوں کی رفتار کم‬
‫ہوگئی ‪،‬میری نظر اس کی جنونی‬
‫آنکھوں پر تھی میں اپنی انگلیاں اس کی‬
‫[‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬آنکھوں میں مارنے لگا‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫‪،‬آخر انگلیاں لگ گئی مگر پوری •‬


‫نہیں لگی تھی لیکن اس نے میرا بازو‬
‫چھوڑ کر اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے‬
‫‪ ،‬وہ ڈھیال ہوا تو میں اسے خود پر سے‬
‫دھکا دے کر چارپائی سے کھڑا ہو‬
‫گیا‪،‬میرا جسم بُری طرح درد کر رہا تھا‬
‫‪ ،‬نیچے سے نکلنا میری کامیابی تھی پر‬
‫موت اب بھی سامنے کھڑی تھی‪ ،‬یعنی‬
‫سرور سانڈ بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کھڑا‬
‫ہوا تھا ‪ ،‬میری جسمانی حالت ِدگر ُدوں‬
‫تھی‪ ،‬نگینہ ابھی تک لڑائی میں شامل‬
‫نہیں ہوئی تھی وہ دروازے پر کھڑی‬
‫تھی‪ ،‬کہ میں بھاگ نہ سکوں یا اسے‬
‫یقین تھا کہ میں سرور کے سامنے کچھ‬
‫نہیں ہوں ‪،‬اور بات بھی سچ تھی‪ ،‬سرور‬
‫کے اٹھتے ہی میں نے چارپائی کو‬
‫ٹھوکر ماری جو اسکے گھٹنوں پر لگی‬
‫تھوڑی ُچوک ہوگئی نہیں تو یہی‬
‫چارپائی اٹھتے ہوئے اس کے منہ پر‬
‫لگنی تھی‪،‬میں نے ادھر ادھر دیکھا تو‬
‫دادی کی الٹھی نظر آئی ‪ ،‬میں نے وہ‬
‫اٹھا لی ‪ ،‬سرور ٹانگ کی تکلیف بھول‬
‫کہ میری طرف بڑھا ‪ ،‬سرور اندھا دھند‬
‫میری طرف بڑھا ‪،‬میں نے بے دریغ‬
‫الٹھی گھما دی‪ ،‬اس نے بے اختیار ہاتھ‬
‫آگے کردیے‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫•‬
‫‪• Part 13‬‬
‫•‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡 •‬
‫⃣‪• 0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫‪ ،‬آخر دادی ہی کام آئی‪ ،‬میں •‬
‫دراوزے کی طرف بڑھا ‪،‬نگینہ پریشان‬
‫ہو گئ ‪،‬اور جلدی سے پرانی طرز کا‬
‫پیتل کا گلدان ہاتھ میں پکڑا اور آگے‬
‫بڑھ کے میرا سر پر مارنا چاہا‪،‬اب‬
‫پھرتی میں تو وہ مجھ سے زیادہ نہیں‬
‫تھی‪،‬میں نے ایک طرف ہو کہ نفرت‬
‫میں پوری طاقت سے اسے الٹھی دے‬
‫ماری‪ ،‬الٹھی اس کے بازو اور کندھوں‬
‫پر پڑی اور ٹوٹ گئی‪ ،‬اوپر سے میں‬
‫نے اسے الت دے ماری جو اس کے‬
‫پیٹ پر لگی نگینہ پیچھے جا گری‪،‬‬
‫نگینہ نے بغیر کسی دیر کے لیٹے لیٹے‬
‫پھر گلدان اٹھا کہ میری طرف چالیا جو‬
‫میری پنڈلی کی ہڈی پر لگا پنڈلی کی‬
‫ہڈی نے تو میری جان ہی نکال دی ۔‬
‫مگر موت سامنے تھی میں نے سب‬
‫نظر انداز کر کے دروازہ کھول‬
‫لیا‪،‬سرورسانڈ اٹھنے کی کوشش کر رہا‬
‫تھا اس کاجنون کم ہونے کی بچائے بڑھ‬
‫چکا تھا میں نے جلدی سے بچی کچھی‬
‫الٹھی اس کی طرف چال دی ‪،‬جو‬
‫سیدھی اس کے چہرے کی طرف گئی‪،‬‬
‫دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا‬
‫دی‪ ،‬باہر کی طرف لنگڑاتا ہوا بھاگا تو‬
‫دآلویز اٹھ کے دروازے میں پریشان‬
‫کھڑی تھی ‪،‬میری حالت دیکھ کہ وہ‬
‫چونکی ‪ ،‬اور پریشانی سے میری طرف‬
‫بڑھی ‪ ،‬یقینا ابھی اسے حاالت کاپتہ‬
‫نہیں تھا میں نے اسے زور سے دھکا‬
‫دیا وہ واپس کمرے میں گر پڑی ‪ ،‬اس‬
‫دروازے کو بھی باہر سے بند کر دیا ۔‬
‫اب دالویز مجھ سے نفرت کرے گی ‪،‬‬
‫کیونکہ میں نے اس کی ماں کی عزت‬
‫لوٹنے کی کوشش کی تھی ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫بڑا مکمل وار کیا تھا ‪ ،‬میں تیزی سے‬
‫صحن پار کر کے باہر والے دروازے‬
‫کی طرف بڑھا ُکنڈی کھول کے دروازہ‬
‫کھوال اور کچھ سوچ کر تیزی سے‬
‫لنگڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھا ‪،‬‬
‫میں چھت پر آگیا ‪ ،‬بڑی تیز بارش ہو‬
‫رہی تھی‪ ،‬ہر کوئی کمروں میں ُدبکا ہوا‬
‫تھا ‪ ،‬میں ایک چھت سے دوسری چھت‬
‫پر چال گیا‪ ،‬دروازہ اور کنڈی سرور‬
‫سانڈ کے سامنے کچھ نہیں تھی ‪ ،‬اس‬
‫کی نفرت بہت زیادہ ہوگئی تھی ‪،‬یقینا‬
‫اس نے مجھے ڈھونڈنا تھا ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫پہلے بھی گھٹی ہوئی آواز میں بچاؤ کہا‬
‫تھا اور پھر بعد میں بھی چیخ کے گلی‬
‫والوں کو اکھٹا نہیں کیا تھا یعنی مجھے‬
‫مار کے وہیں گاڑنا اس کا واضح مقصد‬
‫تھا ‪،‬ضد میں نگینہ نے انتہائی فیصلہ‬
‫کر لیا تھا ۔ مجھے کس نے ڈھونڈنا تھا‬
‫‪ ،‬ان سے گلی واال کوئی پوچھتا بھی تو‬
‫کہدیتے کہ میں گھر سے بھاگ گیا ہوں‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫سن •‬
‫‪ ،‬تیز بارش ٹھنڈ میں جسم کو ُ‬
‫کرنے لگی ۔ میں چھتیں پھالنگتا‬
‫نکڑوالی باجی کی طرف جا رہا تھا‪،‬‬
‫ایک گھر کی چھت اونچی تھی مزید اس‬
‫پر پردے بھی بننے سے دیوا سی بن‬
‫گئی تھی ‪ ،‬مجھے اس پر چڑھنے میں‬
‫مشکل پیش آئی ‪،‬اوپر سے بارش نے‬
‫براحال کر رکھا تھا بہرحال چڑھ ہی گیا‬
‫‪،‬کالئیاں ِچھل گئ ‪ ،‬سوچیں مجھ بھی‬
‫تیز رفتار تھیں ‪ ،‬نگینہ نے وقت بھی‬
‫رات کا ُچنا تھا اور سرور سانڈ کو جان‬
‫بوجھ کے میرے کمرے میں الئی تھی‬
‫کہ بعد میں بتا سکے کہ وہ تو میری‬
‫خراب طبیعت کی وجہ سے آئی تھی‬
‫اس نے سرور سانڈ کو جاگنے کا سگنل‬
‫بھی دیا تھا وہ نہ صرف جاگتا رہا بلکہ‬
‫اس کا دھیان بھی نگینہ کی طرف تھا‬
‫اسی لیے وہ نیچی آوز سن کے بھی آگیا‬
‫‪ ،‬نکڑ والی باجی کی چھت پر آکے میں‬
‫چھت کے پردوں سے کمر ٹکا کے بیٹھ‬
‫سن ہو رہا‬‫گیا پنڈلی کا درد بارش میں ُ‬
‫تھا ‪ ،‬میری جسمانی حالت بھی نگینہ کی‬
‫کارستانی تھی اس نے پانچ بار عضو‬
‫چوس کہ محبت کے ڈھونگ سے چدوا‬
‫چدوا کے مجھے بے حال کیا ‪،‬وہ تو‬
‫دآلویز آگئی نہیں تو نگینہ نے مجھے‬
‫ادھ مواء کر دینا تھا ۔ نگینہ نے مجھے‬
‫دوسری دفعہ شکست دے دی تھی ‪ ،‬اس‬
‫کا منصوبہ ہر طرح سے مکمل تھا‪،‬‬
‫یقینا اب وہ میرا پیچھا کروائے گی ‪ ،‬وہ‬
‫سرور اور اپنے بھائیوں کیساتھ برادری‬
‫کو بھی اس میں شامل کرے گی عزت‬
‫لوٹنے والی بات ان اکھڑ لوگوں کیلیے‬
‫تازیانہ تھی‪،‬موت کے سائے میرے آس‬
‫پاس منڈالنے لگے تھے۔ اس کی‬
‫مکاری کے سامنے میں ابھی بچہ ہی‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬تھا ‪،‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫اور اب میری جان خطرے میں تھی •‬


‫مجھے بھاگنے کی بجائے کہیں چھپنے‬
‫کی ضرورت تھی میں بارش میں ننگے‬
‫پاؤں اپنے نڈھال جسم اور زخمی پنڈلی‬
‫کے ساتھ زیادہ بھاگ نہیں سکتا تھا‬
‫‪،‬نکڑ والی باجی اس وقت مفید ترین‬
‫سن ُگن لینے‬
‫تھی‪ ،‬میں نیچے کی ُ‬
‫لگا‪،‬نکڑ والی باجی کا بھائی‪ ،‬بھابی‪،‬‬
‫بچے ‪،‬اور باجی کے ماں باپ اپنے‬
‫کمروں میں رضائیوں میں ُگھسے ہوں‬
‫گے ‪،‬سردیوں کے دس بجے ہوں اور‬
‫بارش ہو رہی ہو تو اس وقت کس نے‬
‫میرا راستہ روکنا تھا‪،‬میرے لیے یہ گھر‬
‫اجنبی نہیں تھا ‪ ،‬اس لیے سیدھا باجی‬
‫کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ مناسب قد‬
‫کی‪ ،‬تیکھے نین نقش والی ‪ ،‬گوری‬
‫چٹی‪ ،‬تیز وطرار‪ ،‬دبلےپتلے جسم والی‬
‫‪، ،‬اور ہمشہ چست (ٹائیٹ فٹنگ )‬
‫کپڑوں میں ممے اور پتلی کمر دکھانے‬
‫والی چوبیس سال کی باجی سحرش کو‬
‫میری وجہ سے جوانی بڑی تنگ کرتی‬
‫تھی ‪ ،‬خوش قسمتی سے دروازہ کھال‬
‫تھا میں نے محتاط ہو کے دروازہ سے‬
‫جھانکا ‪،‬باجی کمرے میں رضائی لپیٹ‬
‫کہ کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی ‪،‬ساتھ‬
‫مونگ پھلی اور ریوڑیاں بھی چل رہی‬
‫تھی ‪ ،‬میں کمرے میں داخل ہو گیا‪،‬‬
‫باجی نے میری طرف دیکھا‬
‫اور۔۔۔۔۔حیران ہوگئی ‪،‬شہزادے تم ؟‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫‪Part14‬‬

‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫میں نے دروازہ بند کر دیا ‪،‬وہ میری‬
‫حالت دیکھ کے پریشان ہوگئی ‪ ،‬کیا ہوا‬
‫شہزادے تم اندر کیسے آئے ‪،‬باجی اٹھ‬
‫کہ میرے پاس آگئی‪ ،‬سرورے سے‬
‫میری لڑائی ہوگئی ‪،‬میں بھاگ آیا میرا‬
‫جواب مختصر تھا‪،‬سرورا نگینہ کا غالم‬
‫ہے اور تُو اس کا شہزادہ ۔ مجھے گولی‬
‫مت دے سیدھی بات بتا‪،‬باجی سحرش‬
‫میری بات میں نہ آئی ‪ ،‬سرور نے‬
‫مجھے اور نگینہ کو اکٹھا دیکھ لیا اور‬
‫مجھے ماررنا چاہا ‪،‬مگر مجھے وہاں‬
‫سے بھاگنے کا موقع مل گیا ‪ ،‬تفصیل‬
‫سے بتا‪ ،‬باجی سحرش کی تسلی نہ ہوئی‬
‫‪ ،‬پوری بات بھی سن لینا ‪،‬پہلے میری‬
‫حالت کا کچھ کر‪،‬باجی نے میری حات‬
‫کا جائزہ لیا ‪،‬گیلے کپڑے اتار دے ‪،‬‬
‫باجی نے کھونٹی سے تولیا اتار لیا‪،‬لیکن‬
‫میں ویسے ہی کھڑا رہا ‪ ،‬کپڑے کیوں‬
‫نہیں اتارتا ‪ ،‬باجی حیران ہوئی ‪ ،‬کوئی‬
‫کپڑے پہننے کو تو دے ‪،‬اور تم بھی‬
‫ادھر منہ کر لو‪ ،‬زیادہ ڈرامے بازی نہ‬
‫کر شہزادے ‪ ،‬تیرے سائیز کا کوئی‬
‫سوٹ نہیں ہے ہمارے گھر میں ‪،‬کپڑے‬
‫اتار کے رضائی میں ُگھس جا‪،‬اب مجھ‬
‫سے کیا شرمانا‪ ،‬باجی نے موقع کا فائدہ‬
‫اٹھانے میں ایک لمحے کی دیر نہیں‬
‫لگائی ‪ ،‬باجی سحرش خود ہی آگے بڑھ‬
‫کے میرے کپڑے اتارنے لگی تو میں‬
‫نے بھی قمیض اور شلوار اتار دی‬
‫سحرش کی آنکھوں میں چمک آگئی ‪،‬وہ‬
‫پیار سے میرا جسم تولیے سے خشک‬
‫کرنے لگی ‪ ،‬میرے بال خشک کیے‬
‫‪،‬جسم خشک کرتے کرتے وہ خود گیلی‬
‫ہو گئی ہوگی‪،‬میں رضائ میں ُگھس گیا‪،‬‬
‫تم اندر کیسے آئے ‪،‬میں چھت سے آیا‬
‫ہوں ۔ سحرش نے دروازہ کھول کہ‬
‫صحن میں دیکھا اور اپنی تسلی کرکے‬
‫دروزہ بند کر دیا ‪،‬بارش جاری‬
‫تھی‪،‬سحرش نے میرے کپڑے نچوڑ‬
‫کے پھیال دیے ‪ ،‬میں سردی سے کانپ‬
‫رہا تھا بلکہ اب ہی تو سردی لگنی‬
‫شروع ہوئی تھی ‪،‬پنڈلی کا درد بے چین‬
‫کرنے لگا ۔ سحرش نے دروازہ کھوال‬
‫اور باہر جانے لگی ‪،‬کہاں جا رہی‬
‫ہو‪،‬میں نے دھیمی آواز میں پوچھا‪ ،‬کچھ‬
‫تمھاری سردی کا کرتی ہوں مجھے‬
‫دیکھ کے سحرش نےگھر اور باہر کے‬
‫سب خطرے نظر انداز کر دیے تھے ‪،‬‬
‫اسی لیے تو میں سحرش کے پاس آیا‬
‫تھا ‪،‬میں اچھی طرح رضائی لپیٹ کے‬
‫بیٹھ گیا دس بارہ منٹ بعد سحرش گرم‬
‫دودھ اور تین دیسی انڈے ابال کے لے‬
‫آئی‪ ،‬پی لے اس میں شہد بھی ڈاال ہے‬
‫‪،‬جو سحرش کی سمجھ میں آیا وہ لے‬
‫آئی ‪،‬میرے ہاتھ کانپ رہے تھے ‪،‬‬
‫سحرش انڈوں کا چھلکا اتارنے لگی‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫‪• Part¹⁵‬‬
‫•‬
‫مجھے ان کے سواد میں اپنی •‬
‫جسمانی تکلیفیں بھولنے لگی ‪ ،‬جسم‬
‫گرم ہو گیا ۔جو کہ میرے لیے اچھا تھا ‪،‬‬
‫پہال پھر دوسرا ‪،‬دوسرا اور پھر‬
‫پہال‪،‬ممے چوسنے سے دل نہیں بھر رہا‬
‫تھا ‪ ،‬جسم ایک دوسرے میں کبُھے‬
‫ہوئے تھے ‪،‬نگینہ سے سیکھا ہوا سبق‬
‫پورا کر کے اب میں اندر ڈالنا چاہتا تھا‬
‫۔ سحرش کی معلومات سننے تک تھی یا‬
‫اس نے کچھ دیکھا بھی ہو ‪ ،‬میں کر‬
‫چکا تھا مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ‬
‫کنواری چوت کے طریقے کچھ اور‬
‫ہوتے ہیں ۔ آجا شہزادے سحرش خود‬
‫بھی لینے کیلیے بےچین تھی ۔ میں نے‬
‫گھٹنوں پر بیٹھا تو پنڈلی کا درد نے بتایا‬
‫🌹⚘ کہ ابھی میں پوری طرح زندہ ہوں‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫‪ ،‬مگر اس وقت اس کو بھول جانا ہی •‬


‫ہر لحاظ سے وقت کا تقاضا تھا ‪،‬چوت‬
‫کے اوپر رکھ کے عضو تھوڑا اندر‬
‫ڈالنا چاہا زور لگایا تو بمشکل ٹوپی چلی‬
‫گئی ‪،‬یہ کیا نگینہ کے اندر تو گھڑاپ‬
‫کر کے چال جاتا تھا ‪،‬میں نے اور دھکا‬
‫لگایا تو سحرش کو درد ہوا ‪ ،‬ٹھر جا‬
‫شہزادے سحرش کو عقل آگئی ‪ ،‬وہ‬
‫شیمپو کی بوتل الماری سے لے آئی اس‬
‫میں سرسوں کا تیل تھا‪ ،‬سیانوں کی بات‬
‫پر عمل کرنا چاہیے ‪ ،‬سحرش نے تیل‬
‫میرے عضو پر لگاتے ہوئے کہا اور‬
‫پھر اپنی چوت میں لگایا ‪ ،‬آجا میرے‬
‫شہزادے ‪ ،‬سحرش نے لیٹتے ہوئے‬
‫ت چدائی دی ‪،‬میں اس کی‬ ‫مجھے دعو ِ‬
‫ٹانگں کھول کے چوت کے سامنے آیا‬ ‫ٰ‬
‫اور پھر موری پر رکھ کے دھکا لگایا ۔‬
‫آہ سکون آگیا ‪ ،‬عضو پھسلتا ہوا اندر‬
‫چال گیا مگر چوت اپنی تنگی پوری‬
‫طرح محسوس کروا رہی تھی‪ ،‬آگے جا‬
‫کے عضو کسی چیز سے ٹکرا کے پھر‬
‫رک گیا ‪ ،‬میرے حساب سے اسے اور‬
‫آگے جانا چاہیے تھا ابھی تو پورا ‪،‬اندر‬
‫ہی نہیں گیا تھا ‪ ،‬شہزادے تھوڑا پیچھے‬
‫ہو کہ پورے زور سے دھکا لگا‪ ،‬اس‬
‫دفعہ بھی سحرش ہی کام آئی ‪ ،‬یقینا اس‬
‫نے اس کی پوری معلومات لی ہوئی‬
‫تھی ‪ ،‬نہیں تو انجان کا چودنا چوت کا‬
‫نقصان والی بات ہو جانی تھی ‪ ،‬میں‬
‫نےعضو تھوڑا باہر نکاال ‪،‬اور پوری‬
‫طاقت سے اندر ڈاال ‪ ،‬میرا عضو کسی‬
‫چیز کو توڑتا ہوا اندر جا گھسا ‪ ،‬اور‬
‫🌹⚘سحرش کے جسم نے جھٹکا لیا ‪،‬‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫اس نے اپنے دانت پر دانت جمائے •‬


‫ہوئے تھے ‪،‬اس کی رخساروں کی ہڈیاں‬
‫ابھری ہوئی تھی‪،‬بعد میں اس نے بتایا‬
‫کے اسے درد ہوا تھا اور وہ اپنی چیخ‬
‫روک رہی تھی ‪،‬اندر چال گیا تھا میں‬
‫سحرش کی حالت سے بے پرواہ‬
‫چودائی کرنے لگا ۔ شہزاے اب رکنا‬
‫نہ‪،‬کچھ دیر بعد سحرش نے جذبات میں‬
‫کہا‪ ،‬اس کے رخسار کی ہڈیاں اب‬
‫نارمل ہو گئ تھی ‪ ،‬مجھے اب چوت‬
‫میں تھوڑی روانی محسوس ہوئی ‪ ،‬تھکا‬
‫تھک ‪،‬پھٹا پھٹ ‪،‬تیز اور تیز‪،‬اس کے‬
‫بعد وہی سب جو نگینہ کو کرتا تھا ‪،‬اب‬
‫سارا کام میرا تھا‪ ،‬میں نے اپنا کام‬
‫بخوبی کیا ہم جوش میں تھے جوش میں‬
‫رفتار خودبخود تیز ہوجاتی ہے ۔ میری‬
‫رفتار بھی تیز ہوگئی ‪ ،‬سحرش میری‬
‫طوفانی رفتار سے خوش تھی اسے مزہ‬
‫آرہا تھا ‪ ،‬شہزادے آج ساری کسریں‬
‫نکال دے ‪،‬آج میری دلی تمنا پوری کر‬
‫دے ‪،‬مجھے اتنا چود کہ میرے اندر جو‬
‫تمھاری طلب ہے اس کے تقاضےۓ‬
‫پورے ہوجائیں ۔ چود شہزادے چود ‪،‬‬
‫سحرش کو کافی معلومات تھیں اور وہ‬
‫ان معلومات کا پورا ستعمال کر رہی‬
‫تھی مجھے سرپٹ گھوڑے کی طرح‬
‫دوڑانے کیلیئے سحرش سیکسی باتیں‬
‫کرتی رہی ‪،‬شہزادے اپنی باجی کو تیز‬
‫چود‪ ،‬شہزادے آج مجھے چود ‪،‬چود‬
‫کے ساری کسریں نکال دے ۔ اتنا چود‬
‫اپنی باجی کو کہ میرے دل کی دھڑکنیں‬
‫بس تیرا ہی نام لیں ۔آہ ‪،‬آہ کیا مست‬
‫چودائی ہے میرے شہزادے کی ‪ ،‬میرے‬
‫شہزادے سحرش تو کب سے تمھاری‬
‫ہے تم ہی اس سے دور بھاگتے تھے‬
‫‪،‬میں تمھاری دلہن ہوں شہزادے اور آج‬
‫ہماری سہاگ رات ہے ۔اس سہاگ رات‬
‫کو اپنی چودائی سے مرادوں بھری‬
‫انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬رات کر دے‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔ایسی باتوں سے میرا جوش جنوں •‬


‫میں ڈھلتا گیا اور جنوں گرما گرم‬
‫چودائی کے بعد پانی بن کر نکلنے واال‬
‫تھا ‪،‬وہی ہوا جو نگینہ کے ساتھ ہوتا‬
‫تھا۔‪،‬جسمانی کیفیت بدلی تو میں نے اور‬
‫سحرش نے ِجن جپھا ڈال لیا ۔ جب‬
‫جنوں پانی بن کے نکال تو پھر ہمیں‬
‫سکون آگیا ‪ ،‬میرے شہزادے تو نے‬
‫میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش‬
‫پوری کر دی ‪،‬دن رات تیرے سپنے‬
‫دیکھ کے میں پاگل ہو چکی تھی‪ ،‬آج‬
‫سےسحرش تمھاری کنیز ہے شہزادے ‪،‬‬
‫سحرش مجھے لپٹائے اپنے دل کی‬
‫حالت بیان کر رہی تھی ‪ ،‬ہم کچھ دیر‬
‫لپٹے رہے ‪ ،‬پھر جیسے سحرش کو‬
‫کچھ یاد آیا ‪ ،‬اس نے اٹھ کے بستر کو‬
‫دیکھا‬
• ⚘🌹 😘 ꧁[ ‫🤺] انتقام‬ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ

🤺꧂😘🌹⚘


• Part¹⁶
• ⚘🌹 😘 ꧁[ ‫🤺] انتقام‬ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ

🤺꧂😘🌹⚘



‫اس کا تو مجھے یاد ہی نہیں رہا •‬
‫‪،‬سحرش بڑبڑائی ‪ ،‬میں نے بھی دیکھا‬
‫وہاں بڑا سا خون کا نشان تھا خون اونی‬
‫گدے نے چوس لیا تھا ۔ اس نے خود کو‬
‫دیکھا اس کی کمر پر خون لگا تھا‬
‫‪،‬سحرش نے اپنا جسم صاف کیا اپنے‬
‫کپڑے پہنے ‪،‬سحرش نے چادر اور گدا‬
‫لپیٹا اور باہر نکل گئ‪ ،‬اب بارش ہلکی‬
‫ہلکی ہو رہی تھی‪،‬میں کمرے کا جائزہ‬
‫لینےلگا ‪،‬کمرے کی دیوار پر ایک انڈین‬
‫اداکاراور اداکارہ کی بڑی سی تصویر‬
‫لگی تھی ‪،‬ڈریسنگ ٹیبل‪،‬دو سنگل‬
‫صوفے اور دو سنگل بیڈ تھے دونوں‬
‫انگلش لفظ ایل کی الٹی شکل میں دیوار‬
‫سے لگے تھے ۔دوسرا بیڈ یقینا سحرش‬
‫کی بڑی بہن کا تھا جس کی شادی‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬ضرور وہ اب بھی ماں باپ‬
‫کے پاس آکہ اسی کمرے میں ر ہتی ہو‬
‫گی ‪ ،‬ہو سکتا ہے سحرش نے سیکس‬
‫کی ساری معلومات اپنی بڑی بہن سے‬
‫لی ہوں ‪ ،‬بیس پچیس منٹ بعد سحرش‬
‫آئی تو جہاں خون لگا تھا وہاں سے‬
‫چادر اور گدا دھال ہوا تھا ‪،‬پھر سحرش‬
‫استری لے آئی‪ ،‬اور چادر اور گدے کو‬
‫استری سے خشک کیا‪ ،‬میں رضائی‬
‫میں لپٹا بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا ‪،‬‬
‫سحرش نے میرے کپڑے بھی استری‬
‫کر دیے ‪،‬پھر اپنے کپڑے اتار کے‬
‫میرے پاس آگئی‪،‬صبح کسی نہ کسی نے‬
‫یہ دیکھ لینا تھا اور طوفان آجانا تھا‬
‫‪،‬سحرش میری گود میں بیٹھتے ہوئے‬
‫کہا‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫‪• Part¹⁷‬‬
‫•‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫‪،‬اسی بہانے وہ مجھے پکڑ کے •‬
‫پولیس میں دینا چاہتے ہیں جہاں سے‬
‫میں شاید بچ سکوں ‪ ،‬تا کہ بعد میں‬
‫کبھی ان سے اپنا حق نہ مانگ سکوں ‪،‬‬
‫آنٹی اب تو خدا کے بعد آپ ہی میرا سہا‬
‫را ہیں ‪ ،‬آنٹی نے ٹھنڈی سانس لی ‪،‬بیٹا‬
‫کیا زمانہ آگیا ہے ‪،‬دولت کیلیے لوگ کیا‬
‫کیا کر جاتے ہیں ‪ ،‬یہ تمھارے والد کے‬
‫پیسے لینے کا توساری گلی کو پتہ ہے‬
‫اسی پیسے سے اس نے موٹر سائیکل‬
‫لی تھی اور سنا ہے اس نے باقی پیسے‬
‫کسی بینک میں رکھوا دیے ہیں ‪،‬بہرحال‬
‫بیٹا یہ تو بڑے اکھڑ لوگ ہیں ہم ان کا‬
‫مقابال نہیں کر سکتے ‪،‬آنٹی آپ بس کچھ‬
‫دن مجھے چھپا لیں میں اس سے زیادہ‬
‫آپ پہ بوجھ نہیں بنوں گا‪،‬نہیں بیٹا بوجھ‬
‫کی کوئی بات نہیں اگر ان لوگوں کا‬
‫مسلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں اپنے پاس ہی‬
‫رکھ لیتے‪ ،‬بیٹا ان کو پتا تو نہیں چال کہ‬
‫تم چھت سے بھاگے ہو‪،‬آنٹی فکرمند‬
‫تھی ۔ نہیں آنٹی وہ سمجھے کہ میں باہر‬
‫نکل گیا ہوں ‪،‬اچھا چلو میں سحرش کے‬
‫ابا سے بات کرتی ہوں ‪،‬آنٹی باہر چلی‬
‫گئی تو سحرش مجھ سے لپٹ گئ‪،‬امی‬
‫مان گئی تو سمجھو ابو بھی مان‬
‫گئے‪،‬اچھا تمھیں یقین ہے نہ وہ نگینہ‬
‫کی عزت پر حملے والی بات کسی سے‬
‫نہیں کریں گے نہیں یار وہ اس بات میں‬
‫اپنی بے عزتی محسوس کریں گے‬
‫اسلیے کوئی اور الزام لگائیں گے ہو‬
‫سکتا ہے چوری والی بات سچی کر دیں‬
‫‪،‬قصہ مختصر سحرش اوراس کی امی‬
‫کیوجہ سے مجھے کچھ دن وہاں رہنے‬
‫کی اجازت مل گئی ‪،‬سحرش بہت فکر‬
‫مند تھی اپنے چھوٹے بھائی کیلیے‪،‬‬
‫اسلیئے اس نے مجھے اپنے کمرے میں‬
‫ہی رکھ لیا‪ ،‬اس کےبھائی اور بھابی‬
‫‪،‬امی اور ابا کے کمرے میں ویسے بھی‬
‫میں کباب میں ہڈی تھاکہانی صرف اور‬
‫صرف اردو دلچسپ کہانیاں پر ہی‬
‫‪ #Rj Mujhal#.‬پوسٹ ہو رہی ہے‬
‫کوئی بھی لڑکی یا آنٹی مکمل۔رازداری‬
‫کے ساتھ کو بات کرنا چاہتی ہے تو اس‬
‫نمبر کے واٹسیپ پر رابطہ کرے‬
‫•‬ ‫‪+49 1573‬‬
‫‪1619908‬‬
‫نیز‪::::‬اس کہانی کو چوری کرنے •‬
‫والے کے خالف قانونی کاروائی کی‬
‫جائے گی ‪،‬بچوں کو کچھ نہیں بتایا گیا‬
‫تھا ‪،‬اس لیے سارا دن کمرے کا دروازہ‬
‫بند رہتا تھا ‪ ،‬سحرش کی بڑی بہن کا بیڈ‬
‫اب میرے قبضے میں تھا‪ ،‬دو دن تک‬
‫پنڈلی کا درد ٹھیک ہو گیا‪ ،‬سحرش‬
‫میری مخبر تھی ‪،‬نگینہ کے گھر موٹر‬
‫سائیکلوں پر آنے جانے والے کافی‬
‫ہوگئے تھے ‪،‬کچھ کے پاس اسلحہ بھی‬
‫دیکھا گیا‪،‬انہوں نے یہی مشہور کیا کہ‬
‫میں ان کی ساری جمع پونجی لے کے‬
‫بھاگ گیا ہوں ‪ ،‬جب سرور نے مجھے‬
‫پکڑنے کی کوشش کی تو شہزادے نے‬
‫اس پر قاتالنہ حملہ کردیا ‪،‬اس طرح‬
‫پولیس میں بھی پرچہ ٹھوک کہ کٹوایا‬
‫گیا اگر میں ان کے ہاتھ آجاتا تو میری‬
‫خیر نہیں تھی ۔کالونی میں چہہ مگوئیاں‬
‫ہورہی تھیں ‪ ،‬سحرش کی امی فکر مند‬
‫رہتی تھی جب سحرش اور اس کی‬
‫بھابی گھر کے کام کاج میں لگی ہوتی‬
‫تھیں تو سحرش کی امی میرے پاس‬
‫کے آکہ بیٹھ جاتی تھی‪ ،‬مجھے لپٹا لیتی‬
‫‪،‬سینے سے لگا لیتی‪ ،‬ان کو میری بڑی‬
‫فکر تھی ‪،‬دروازہ بند ہوتا تھا ‪ ،‬میں سب‬
‫سمجھ کے بھی انجان بن رہا تھا ‪ ،‬رات‬
‫کو سحرش اور میرا جوڑ پڑتا تھا ‪،‬ہم‬
‫تھک کے گر پڑتے تو سو‬
‫جاتے‪،‬سحرش کی بھابی مجھ سے دور‬
‫رہنے کی کوشش کرتی تھی ‪،‬ہفتہ گزر‬
‫گیا ‪ ،‬سحرش میری دیوانی تھی لیکن اب‬
‫میری قربت نے اسے کچھ زیادہ ہی‬
‫دیوانہ کر دیا تھا ۔سرورے کے خاندان‬
‫کی تال ش مدہم پڑنے لگی‪،‬بھائی اور‬
‫ابو کہہ رہیں ہیں کے اب تمھیں یہاں‬
‫سے چال جانا چاہیے ‪،‬سحرش نے رات‬
‫کو پریشانی سے مجھے بتایا‪،‬میں کچھ‬
‫کرتی ہوں ‪ ،‬ہم کھیلنے لگےسحرش اب‬
‫سیکس میں بہت جذباتی ہو جاتی تھی‬
‫‪،‬اس کاانداز بدلنے لگا تھا ‪،‬سحرش کے‬
‫جذبات مجھے بے چین کرنے لگے‬
‫۔اگلے دن سحرش کی ماں موقع دیکھ‬
‫کے آگئی‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫‪• Part¹⁸‬‬
‫۔ دن میں سحرش کی امی موقع بنا •‬
‫کے آتی رہتی اور رات کو سحرش‬
‫سحرش ہوتی رہتی ‪،‬سحرش اب میرے‬
‫نام کی مال جپتی تھی ‪،‬ہرپل اسے میرا‬
‫خیال رہتا تھا ‪ ،‬اسے میری لگن لگ‬
‫گئی تھی ۔ سحرش کو مجھ سے پیار‬
‫ہوگیا تھا ۔کچھ دن گزر گئے سرور کے‬
‫گھر میں برادری کا آنا جانا ختم ہو گیا ۔‬
‫سحرش بتا رہی تھی کہ وہ حیران ہیں‬
‫کہ مجھے زمیں کھا گئی کے آسمان ؟‬
‫سحرش اور اس کی امی کے پاس اب‬
‫مجھے گھر میں رکھنے کا کوئی بہانہ‬
‫نہیں تھا ‪ ،‬دو دن اسی کشمکش میں گزر‬
‫گئے ‪ ،‬رات کو سحرش کی امی اور ابا‬
‫کی لڑائی ہو گئی ‪ ،‬ہم نے اس کا ٹھیکہ‬
‫نہیں اٹھایا ‪،‬اس جیسے ہزاروں پھرتے‬
‫ہیں کیا ہم سب کو گھر لے آئے‪،‬آپ نے‬
‫جوان بیٹی کے کمرے میں ایک آوارہ‬
‫کو رکھا ہوا ہے پتہ نہیں آپ کی سمجھ‬
‫کو کیا ہو گیا ہے امی جان ‪ ،‬یہ سحرش‬
‫کا بڑا بھائی تھا‪ ،‬باتیں میری کانوں میں‬
‫پڑ رہی تھیں‪،‬میں سمجھ گیا اب سحرش‬
‫اور اس کی امی کی نہیں چلے گی ‪،‬‬
‫میں اور سحرش کمرے میں بیٹھے‬
‫تھے‪،‬اچھا سحرش اب میں چلتا ہوں‬
‫‪،‬میں اٹھ کھڑا ہوا ‪،‬کہاں ‪،‬رکو۔ سحرش‬
‫بے چینی سے اٹھ پڑی ‪ ،‬سحرش میری‬
‫جان ‪ ،‬تمھارے گھر میں جھگڑے بڑھ‬
‫گئے تو اس سے ہو سکتا ہے ہمسائیوں‬
‫کو کچھ ِبھنک پڑ جائے‪،‬اس سے بات‬
‫پھیل جائے گی اور جو بھی ہوآخر‬
‫مجھے جانا توہے ہی ‪ ،‬سحرش بھی یہ‬
‫[‪⚘🌹 😘 ꧁‬بات سمجھ گئی تھی‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫‪،‬میں تمھیں نہیں بھال سکتی شہزادے •‬


‫‪،‬وعدہ کرو تم مجھے ملو گے ‪،‬سحرش‬
‫میرے گلے لگ چکی تھی ‪،‬اس کی‬
‫حالت ٹھیک نہیں تھی‪ ،‬یہ کچھ پیسے‬
‫رکھ لو ‪،‬کافی سارے پیسے اس نے‬
‫میری جیب میں ڈال دیا ‪،‬پتہ نہیں اس‬
‫نے کیسے اکٹھے کیے تھے ۔ سحرش‬
‫پھر میرے گلے لگ گئی‪ ،‬اس کا جسم‬
‫کانپ رہا تھا ‪،‬ہم نے ایک لمبی سی‬
‫آخری ِکس لی‪ ،‬میں نے اس کی دی‬
‫ہوئی گرم شال لپیٹی ‪،‬اس سے منگوایا‬
‫ہوا چاقو جیب میں ڈاال ‪ ،‬لنڈے کے‬
‫جوگرز کے تسمے بیڈ پر بیٹھ کر‬
‫کسے‪ ،‬یہ بھی اسی کے دئیے ہوئے‬
‫تھے‬
‫میں کمرے سے باہر نکال ‪،‬دو ہزار •‬
‫دو ‪ ،‬شروع ہو گیا تھا ‪،‬پچھلی صدی کب‬
‫کی چلی گئی تھی ۔ماں باپ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مر‬
‫گیا اور شہزادہ زندہ ہو گیا تھا ‪،‬امی ابو‬
‫سے نہیں ملو گے ‪،‬سحرش نے مجھے‬
‫باہر کی طرف جاتے ہوئے پوچھا ‪،‬‬
‫سحرش کی امی اور ابو کے لڑنے کی‬
‫آواز بلند ہو رہی تھی ‪ ،‬نہیں یار تم ہی‬
‫انھہیں بتا دینا ‪،‬میں دروازے کے کے‬
‫پاس رک گیا‪،‬سحرش نے باہر گلی میں‬
‫دیکھا‪ ،‬کوئی نہیں ہے۔سحرش نے‬
‫سسکتے ہوئے بتایا۔‬
‫مجھے اس پر پیار آگیا ‪ ،‬میں نے اس •‬
‫کی آنکھیں چومی ‪ ،‬ہونٹوں پر ِکس لی‬
‫اور گلی میں نکل گیا ‪ ،‬سحرش روتی‬
‫رہی‪ ،‬گلی میں اندھیرا تھا ‪،‬بلکہ اس دنیا‬
‫میں ہی اندھیرا تھا ‪،‬میں نے ان‬
‫اندھیروں میں خود کو گم کر لیا ‪،‬‬
‫آدمی خود بخود نہیں مرتا ۔۔۔۔۔ ( •‬
‫) دوسرے لوگ مار دیتے ہیں‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫•‬
‫جب راجو نے اٹھایا تو مجھے سوتے •‬
‫ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہوئے تھے‬
‫‪،‬دوپہرکو اٹھا تو نہا دھو کے اپنے ہوٹل‬
‫چال گیا ‪،‬دو سال پہلے یہ ہوٹل میں نے‬
‫خریدا تھا ۔ اپر کالس کا پسندیدہ ہوٹل‬
‫تھا‪،‬اور اسی لیے میں نے اسے خرید لیا‬
‫تھا ‪،‬بہت سی شہزادیاں یہاں آتی جاتی‬
‫تھیں اور میرے جیسے شہزادوں کے‬
‫پیار کا کاروبار چلتا رہتا تھا ‪ ،‬منیجر‬
‫سے کچھ کاروباری معامالت ڈسکس‬
‫کرنے کے بعد میں وہاں سے نکال اور‬
‫کار کو فارم ہاؤس کی طرف موڑ دیا‪،‬‬
‫آٹھ بجے تک میں فلیٹ میں واپس آگیا ‪،‬‬
‫مجھے راجو کا انتطار تھا ‪ ،‬نہیں تو اب‬
‫فلیٹ میں صبح کے وقت ہی آنا ہونا تھا‬
‫‪ ،‬راجو فلیٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا میرا‬
‫انتظار کر رہا تھا ۔ میں نے کار اپنی‬
‫جگہ پر پارک کی ‪ ،‬مجھے فون‬
‫کردیتے راجو ‪ ،‬میں نے فلیٹ کا دروازہ‬
‫کھولتے ہوئے کہا‪ ،‬باس میں ابھی آیا‬
‫ہوں میں نے سوچا کچھ انتظار کر لیتا‬
‫ہوں ‪،‬مجھے امید تھی آپ نے ملنے کو‬
‫کہا ہے تو آپ یہاں ضرور آئیں گے ‪،‬‬
‫فریج سے اپنے لیے کولڈڈرنک یا بیئر‬
‫جومرضی لے لو‪،‬آپ کچھ نہیں پیئں گے‬
‫باس‪،‬راجو نے ایک بیئر لیتے ہو ئے‬
‫پوچھا ‪ ،‬نہیں میں تھوڑی دیر تک‬
‫کھانے کے موڈ ہوں ‪ ،‬ہاں تو بال تمہید‬
‫[‪⚘🌹 😘 ꧁‬شروع ہو جاؤ راجو‪،‬‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫باس یہ سرور خان کی تصویر ہے •‬


‫‪،‬راجو نے اپنا موبائل میری طرف‬
‫بڑھایا ‪ ،‬سرور خان کسی جنرل سٹور‬
‫پر کھڑا تھا ‪،‬جیسے مڈل کالس میں‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬دس سال بعد بھی وہ سانڈ‬
‫ہی تھا ۔اب مونچھیں نارمل اور بال‬
‫مہندی سے رنگے ہوئے تھے ‪ ،‬یہ اس‬
‫کا اپنا جنرل سٹور ہے باس ‪ ،‬اگلی‬
‫تصویر دیکھیں باس ‪،‬میں نے تصویر‬
‫آگے کی تو دآلویز کے ساتھ ایک‬
‫عورت پٹھانی برقعے میں نظر آئی ‪ ،‬یہ‬
‫پنجاب میں ٹوپی واال برقع بھی کہالتا‬
‫ہے اس سے اچھا پردہ کسی میں نہیں‬
‫ہو سکتا‪،‬جسم تو دور کی بات ہے‪،‬‬
‫آنکھیں تک نظر نہیں آتی ‪ ،‬میرے‬
‫اندازے کے مطابق یہ نگینہ تھی‬
‫‪،‬تصویر سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ‬
‫بازار میں اسے کھینچا گیا ہے ‪ ،‬ایک‬
‫تصویر اور بھی ہے باس ‪،‬وہ تصویر‬
‫کسی جوان کی تھی مجھ سے پانچ چھ‬
‫سال بڑا ہو گا‪،‬مجھے وہ کچھ جانا پہچانا‬
‫محسوس ہوا ‪،‬میں اس پر غور کرنے‬
‫لگا کہاں دیکھا ہے اسے‪،‬مونچھیں‪ ،‬بال‬
‫‪ ،‬رنگت‪ ،‬چہرہ ‪،‬ناک ‪،‬آنکھیں ‪ ،‬ہونٹوں‬
‫کی بناوٹ ‪،‬اسکی تھوڈی ۔ ٹھوڈی اور‬
‫رخسار سے سخت گیر‪ ،‬اونچی ناک‬
‫سے مطلب پرست اندر ہوئی آنکھوں‬
‫سے ناقابل اعتبار تھا کپڑوں سے آسودہ‬
‫حال لگتا تھا ۔ کچھ یاد نہیں آیا کہ کون‬
‫تھا ‪،‬شاید ان کی برادری کا ہو میں بس‬
‫کچھ کو جانتا تھا باقیوں کا چہرہ شناس‬
‫تھا ‪،‬یہ ان کے گھر آیا تھا اسی کے‬
‫ساتھ ماں بیٹی بازار گئی تھیں ‪ ،‬کام کی‬
‫چیزیں یہی تصویریں ہی تھی ‪،‬راجو نے‬
‫مزید کچھ معلومات دی‪ ،‬اوکے باس ۔‬
‫راجو جانے کیلیے پر تولنے لگا ‪،‬‬
‫رضوان عرف راجو تم نے تین سال •‬
‫دن رات ایک کر دیئے اور میری‬
‫زندگی کی اہم ترین لڑکی تالش کر دی‬
‫‪ ،‬تم نےکمال کر دیا ہے ‪ ،‬تم نے بہت‬
‫بڑا کام کیا ہے ‪،‬زبردست ‪،‬میں تم سے‬
‫بہت خوش ہوں ‪،‬میں نے کھل کے راجو‬
‫کی تعریف کی‪،‬شکریہ باس ‪،‬میری‬
‫تعریف سے راجو کی باچھیں کھلی‬
‫ہوئی تھی ۔ میں چاہتا ہوں تم مستقل‬
‫میرے ساتھ کرو‪ ،‬تمھیں اچھی‬
‫تنخواہ‪،‬اچھی موٹرسائیکل ‪ ،‬کھانا پینا ‪،‬‬
‫موج مستی ملے گی‪ ،‬آپ کے ساتھ کام‬
‫کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے باس ‪،‬‬
‫راجو نے میری آفر فورا قبول‬
‫کرلی‪،‬میں اسے پرخیال نظروں سے‬
‫دیکھنے لگا ۔اگر اسے میرے ساتھ کام‬
‫کرنا تھا تو اپنا شخصیت کو بدلنا پڑے‬
‫گا ۔نہیں تو یہ میرے ساتھ نہیں چل‬
‫سکے گا ‪ ،‬اس کے الئف اسٹائل کوتبدیل‬
‫کرنا پرے گا ‪،‬میں نے سوچتے ہوئے‬
‫فورا ایک پالن بنایا ‪ ،‬راجو ‪،‬اب بھی‬
‫آنٹیوں سے دوستی رکھتے ہو یا چھوڑ‬
‫دی ‪،‬ان کے بغیر کیسے زندگی گزر‬
‫سکتی ہے باس‪،‬مجھے آنٹیاں پسند‬
‫ہیں‪،‬باس ان کے بڑے بڑے ممے بڑی‬
‫بڑی گانڈ ہوتی ہے‪ ،‬بہت مزہ آتا ہے‬
‫راجومسکرایا ‪،‬نہیں تمھیں آنٹیاں پسند‬
‫نہیں ہیں‪،‬میں نے اسے جھنجھوڑا‪ ،‬باس‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬؟‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫‪،‬وہ حیران ہوا •‬


‫‪• Part¹⁹‬‬
‫•‬
‫•‬
‫اچھا تمھارے پاس ُکھلے پیسے ہوں •‬
‫اور ایک بائیک خریدنی ہو تو نئی لو‬
‫گے یا پرانی‪،‬میں نے اس سے سوال‬
‫کیا‪،‬ظاہر ہے باس نئی ہی لوں گا‪،‬اور‬
‫اگر کپڑے خریدنے ہوں تو ؟ وہ بھی‬
‫باس نئے اور بہترین لوں گا ‪،‬راجو‬
‫میری بات اب بھی نہیں سمجھا تھا‪،‬‬
‫اچھا اگر بھوک لگی ہو اور جیب میں‬
‫پیسے ہوں تو باسی کھانا کھا لو گے؟‬
‫میں نے اپنا گھیرا اور تنگ کیا‪،‬نہیں‬
‫باس ‪ ،‬باسی کھانا کون کھاتا ہے ‪،‬راجو‬
‫حیران ہوا‪ ،‬یا فروٹ پلپال ہو زیادہ پکا‬
‫ہو ا ملے اور تازہ بھی پڑا ہو تو کیا‬
‫کرو گے‪،‬تازہ اور اچھا فروٹ ہی لوں‬
‫گا باس‪ ،‬راجو نے پھر میرے مطلب کا‬
‫جواب دیا‪،‬‬
‫تو تم آنٹیاں کیوں پسند کرتےہو ؟ •‬
‫جب زندگی میں سب کچھ تمھیں نیا‪،‬‬
‫تازہ ‪،‬بہترین چاہیے؟ میں نے راجو سے‬
‫اسی سوال کیلیے اتنے سوال کیے‬
‫تھے‪،‬سچی بات تو یہ ہے باس کہ‬
‫لڑکیاں ہاتھ آتی ہی نہیں‪،‬راجو نے میری‬
‫بات سمجھتے ہوئے حقیقت بیان کی ‪،‬تو‬
‫کیا آنٹیاں ہاتھ آجاتی ہیں ‪ ،‬؟ میں نے‬
‫فورا پوچھا‪،‬باس تھوڑا ان کے آگے‬
‫پیچھے پھرو تو وہ خود ہی پہل کر دیتی‬
‫ہیں ‪،‬یا کوئی واضح سگنل دے دیتی ہیں‬
‫‪،‬اچھا جب تم کسی بھی آنٹی سے ملتے‬
‫ہو تو تازہ ‪،‬بہترین مال کسے ملتا ہے ؟‬
‫تمھیں یا آنٹی کو‪،‬سوچ کے جواب‬
‫دینا‪،‬میں نے اسے صحیح جواب تک‬
‫پہنچنے کیلیے موقع دیا‪،‬‬

‫‪• part²⁰‬‬
‫•‬
‫پھر شہزادے کے قتل میں ناکامی •‬
‫کے بعد مجھے اس کی واپسی کے‬
‫اندیشے تو ستاتے ہوں گے‪،‬مجھے سو‬
‫فیصد یقین ہو گا کہ میں شہزادے کو‬
‫سمجھ چکی ہوں ‪ ،‬تو پھر میں یہ شہر‬
‫چھوڑ کے کیوں نہیں گئی؟ میں‬
‫سرورکو اصل بات تو بتا نہیں سکتی‬
‫تھی ۔اسے مجبور کیا مگر وہ کہتا ہو گا‬
‫شہزادہ ملے یہی تو میں چاہتا ہوں ‪،‬‬
‫جب نگینہ نے شہر چھوڑنے کی بات‬
‫کی ہو گی تو حکم کا غالم نہیں مانا ہو‬
‫گا کیوں کہ یہ بات اس کی غیرت پر‬
‫😘 🌹⚘کوڑے کی طرح لگی ہو گی‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫‪،‬کہ وہ کیوں شہر چھوڑیں ‪،‬بھاگے •‬


‫ان سے شہزادہ ‪،‬جیسے پہلے بھاگا تھا ۔‬
‫سرور نے نگینہ کے بھائیوں اور باپ‬
‫کو بتایا ہوگا سب غصے میں ہوں گے‬
‫کہ سرور یہ شہر چھوڑ کہ کیوں جائے‬
‫‪،‬یہ نگینہ کی ناکامی ہو گی‪،‬پھر اس نے‬
‫کسی طرح وہ مکان چھوڑ دیا ہو گا‬
‫‪،‬بلکہ دو تین مکان بدلے ہوں گے‬
‫‪،‬سرور سے فیکٹری میں کام چھڑوا دیا‬
‫ہو گا ‪ ،‬ان باتوں کا سرور کو سمجھ‬
‫نہیں سکا ہو گا ‪ ،‬ساتھ ہی نگینہ نے‬
‫دآلویز کو ٹارگٹ بنا لیا ہو گا‪،‬کیوں کہ‬
‫حملہ تو دآلویز پہ ہونا تھا ‪،‬نگینہ‬
‫شہزادے کی کشش سے بھی واقف تھی‬
‫‪ ،‬اس لیے دآلویز کے دل میں شہزادے‬
‫کے خالف زہر بھرنے کیلیے نگینہ‬
‫اسے مسلسل بتاتی رہتی ہو گی کہ‬
‫شہزادے نے اس کی ماں کی عزت پر‬
‫حملہ کیا تھا‪،‬دوسری طرف وہ نگینہ کی‬
‫کڑی نگرانی کرتی ہو گی ‪،‬اس کے آنے‬
‫جانےے پر ‪،‬دوستوں پر ‪،‬اس کے‬
‫معموالت پر ‪،‬پابندیاں ہی پابندیاں ‪ ،‬پہلے‬
‫تین سال وہ بہت چوکنی رہی ہو گی‪،‬پھر‬
‫وقت گزرتے نگرانی تو ہوتی رہے‬
‫گی‪،‬پانچویں سال نگینہ کچھ ڈھیلی پڑ‬
‫جائے گی ۔اور ساتویں آٹھویں سال نگینہ‬
‫کو میرے آنے کی امید بالکل نہیں رہے‬
‫گی ۔ اسی لیے تو دالویز یونیورسٹی‬
‫میں نظر آئی ہے ‪،‬ضرور پہلے وہ غیر‬
‫معروف سکولز میں پڑھتی ہو‬
‫‪• Part 21‬‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫مجھے یقین نہیں آرہا ‪،‬مسز ریحان کا •‬
‫بس نہیں چل رہا تھا وہ میرے اوپر گر‬
‫جانا چاہتی تھی‪ ،‬کمال ہے آپ نے‬
‫چھوٹی سی سی بات پہ بہت ری ایکٹ‬
‫کر رہی ہیں‪،‬دوست ہی دوستوں کو‬
‫ملتے ہیں اور ایکدوسرے کے کام آتے‬
‫ہیں‪،‬میں نے اس کی آنکھوں میں مسلسل‬
‫دیکھ رہا تھا ‪ ،‬اوہ ہاں وہ کچھ سمجھی‬
‫کچھ نہیں سمجھی‪،‬ابھی تک اسے‬
‫زارینہ کا کوئی خیال نہیں آیا تھا‪،‬جب‬
‫آپ دوسروں کی خوشیوں کا خیال‬
‫رکھتے ہیں تو آپ کو بھی خوشیاں ملتی‬
‫ہیں ‪ ،‬میں نے اسے پھر کچھ سمجھایا ‪،‬‬
‫اچھا میں چلتا ہوں ‪،‬میں اچانک اٹھنے‬
‫لگا ‪ ،‬نہیں بیٹھو نہ کچھ دیر اور بیٹھو‬
‫پرنس ‪،‬مسز ریحان نے میری توقع کے‬
‫مطابق کہا‪ ،‬وہ دراصل مسز کمال کو‬
‫کوئی کام تھا یا آپ ان سے مل لیں ‪،‬آپ‬
‫سے بہتر ایسی پارٹیوں کے انتظام کو‬
‫کون جانتا ہے ‪،‬میں نے اس کی آنکھوں‬
‫میں دیکھتے ہوئے کچھ سمجھایا ‪،‬‬
‫ٹھیک میں مل لیتی ہوں ‪،‬میں ابھی آئی‬
‫‪،‬وہ اٹھتے ہوئے بولی‪،‬اوہ سوری ‪،،،‬‬
‫سوری میں آپ لوگوں کا تعارف کروانا‬
‫تو یاد ہی نہیں رہا‪،‬اگین سوری‪ ،‬یہ‬
‫مسسز کالپر ہیں‪ ،‬بس یہ سمجھ لو کے‬
‫کنگ میکر فیملی ہے ان کی‪،‬مسزکالپر‬
‫یہ پرنس ہے بہت ہی سحر انگیز‬
‫شخصیت کا مالک ہے اور پتہ نہیں کیا‬
‫کیا ہے‪،‬آپ لوگ بیٹھے میں ابھی آئی‬
‫‪،‬بے چاری مسسز ریحان ایک اور‬
‫بھوکی آنٹی‪ ،‬مگر اس کے پاس اچھا‬
‫کھانا بہت تھا بس پرنس نہیں تھا ‪ ،‬نہ‬
‫پرنس نے اس کے پاس آنا تھا ‪ ،‬نظر‬
‫انداز کیے جانے پرزارینہ کی انا اور‬
‫غرور اس وقت ایسے بن گیا تھا جیسے‬
‫کوئی شیر کی کچھار میں گھس کے‬
‫اسے شکار کرنا چاہے ‪ ،‬سیاست دان‬
‫اور بزنس مین اس فیملی سے ملنے‬
‫کیلیے انتظار کرتے تھے اور یہاں‬
‫زارینہ کو نظر انداز کیا جا رہا تھا‪،‬‬
‫😘 🌹⚘‬
‫⚘🌹😘‪☬༒꧂‬ہمسفر☬‪꧁༒‬‬

‫زارینہ نے اس کا بدلہ یوں لیا کہ مجھے‬


‫یکسر نظرانداز کر دیا جیسے میں‬
‫موجود ہی نہیں ہوں‪،‬اس کی نخوت کا‬
‫عالم ایسا تھا جیسے کوئی زمینی خدا‬
‫ہو‪،‬میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا اس‬
‫کے حسن کےلیے بس ایک فقرہ کہوں‬
‫گا کہ ملکہ حسن کا عالمی اعزاز جیتنا‬
‫اس کے لیے انتہائ آسان تھا ‪ ،‬عمر‬
‫کوئی چھبیس سال‪ ،‬اسمارٹ جسم ‪،‬جسم‬
‫پر ملک کا مہنگا ترین لباس‪،‬نقوش‬
‫جیسے اجنتا الورہ کی مورتی ہو‪،‬‬
‫ملکوتی ُحسن ‪،‬اور ملکوتی ُحسن پر بے‬
‫انتہا دولت کی آسودگی اور آسودگی پر‬
‫طمانیت جیسے اس ملک کے مالک‬
‫ہو۔اور اس ملک کی مالک کو میں نے‬
‫چھیڑ دیا‪،‬چلو بھئ پرنس چلتے ہیں نہیں‬
‫تو لوگ اپنی حسد کی آگ میں جل مریں‬
‫گے‪ ،‬میں نے اٹھتے ہوئے کہا‪ ،‬کیا تم‬
‫نے ہم سے کچھ کہا ہے مسٹر پرنس ؟‬
‫زارینہ کی آنکھوں میں حیرانی اور‬
‫غصے کی تپش تھی ‪ ،‬اس کی تپش میں‬
‫بھی محسوس کر رہا تھا ‪،‬ہاں تم سے ہی‬
‫کہا ہے ‪،‬تھوڑی دیر مسسز ریحان نے‬
‫مجھے توجہ کیا کروا دی تم حسد سے‬
‫جل مری ہو اور پاس بیٹھےانسان‬
‫کوبالنا بھی گوارہ نہیں کیا‪ ،‬میں نے‬
‫اچانک ہی اسے تم کہ دیا ‪،‬حاسد اور‬
‫جل مری کہہ دیا‪،‬اس کے چہرے سے‬
‫ایسے لگنے لگا جیسے میں نے کوئی‬
‫بہت بڑی گستاخی کر دی ہو ۔ ملکہ‬
‫عالیہ ے چہرے پر جالل آگیا تھا‪ ،‬تم‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫۔۔۔۔۔ ⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫اس سے شدت غصب سے کچھ بوال نہ‬
‫گیا‪ ،‬تمھاری یہ جرات ۔۔۔۔۔۔ ہم سے‬
‫ایسے الفاظ ایسے لہجے میں بات کرو ۔۔‬
‫اچھا تو کیا ہو تم خدا ہو یہاں کی‪ ،‬اس‬
‫سے پہلے وہ کچھ کرتی میں نے اسے‬
‫چیلنچ کر دیا‪ ،‬ہم مالک ہیں اس ملک‬
‫کے اورتم جیسے کیڑے مکوڑے ہماری‬
‫رعایا ہو‪ ،‬تم ٹٹ پونجیے پرنس میری‬
‫جوتیاں سیدھی کرنے کے بھی قابل نہیں‬
‫ہو ‪،‬اس کا غرور ایسے اچھل رہا‬
‫تھا‪،‬جیسے سمندر کی طوفانی لہریں‬
‫شہر کوملیا میٹ کر دیتی ہیں‪ ،‬لیکن میں‬
‫بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا ‪ ،‬جیسے وہ‬
‫میرے لیے جوکر ہو‪،‬میرے ہونٹوں پر‬
‫تمسخرانہ مسکراہٹ تھی جو اس کے‬
‫غصے کو جلتی پر تیل جیسا کام کر‬
‫رہی تھی‪ ،‬میں نے تمھاری تقریر نہیں‬
‫سننی ‪،‬میں نے اس کے الفاط اور لہجے‬
‫کو ایک ہی فقرے سے زیرو کر دیا ‪،‬‬
‫میں نے پوچھا کیا ہو تم ؟ مجھے اس‬
‫بات کا جواب دو ۔ اسے نہیں پتا تھا یہ‬
‫شطرنج کی گیم ہے اور وہ میری‬
‫مرضی کی چالیں چل رہی ہے‪ ،‬ہم‬
‫مالک ہیں تمھارے ‪ ،،،،،،‬تم نہیں ہو‪،‬‬
‫میں نے اس کی بات درمیان میں ہی‬
‫کاٹ دی ‪ ،‬وہ تمھارا باپ ہو گا‪ ،‬تم کیا‬
‫ہو؟ میں نے اسے جھنجھوڑا ۔ ہمارا‬
‫انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬خاندان۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬
‫۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے خاندان کا •‬
‫نہیں پوچھا ۔۔۔۔۔ میں نے پھر اس کی بات‬
‫کاٹ دی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تم یہ بتاؤ تم کیا ہو۔۔۔۔۔‬
‫•‬

‫۔۔۔۔۔ میں مسز کالپر ہوں میرے •‬


‫شوہروزیر۔۔۔۔۔ اس نے غرور سے کہنا‬
‫شروع کیا کہ میں نے پھر اس کی بات‬
‫کاٹ دی ۔۔۔۔ اونہہ کتنی بدھو ہو تم‬
‫‪،‬میری بات نہیں سمجھ نہیں رہی ۔ اس‬
‫کے غصے کی کوئی حد نہیں رہی تھی‬
‫اب۔ ایسے لہجے ایسے الفاظ اسنے کب‬
‫سنیں ہو گے ۔۔ تمھارا شوہر تمھاے‬
‫بھائی ‪،‬تمھارا باپ‪،‬تمھار خاندان‬
‫‪،‬اسمبلی‪،‬حکوت ‪ ،‬کنگ میکری ‪ ،‬یہ‬
‫سب بہت بورنگ ہے ‪،‬کچھ اپنا بتاؤ ‪،‬‬
‫کیا ہو تم ۔۔۔ وہ چپ ہو گئی تھی اسے‬
‫اب احساس ہوا تھا کہ میں اس سے کیا‬
‫پوچھ رہا تھا ‪ ،‬اب تمھیں یہ ٹٹ پونجیا‬
‫پرنس بتائے کہ تم کیا ہو‪ ،‬تم اپنے ماں‬
‫پاب کیلیے ایک جائیداد ہو جسے خاندان‬
‫میں ہی کہیں سنبھال کے رکھنا ہے اور‬
‫اپنے شوہر کیلیے ایک سیاسی شادی‬
‫ہو‪،‬بس ۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے ایکدم خالی‬
‫کردیا ۔۔۔۔ میں آکسفورڈ میں پڑھی ہوں‬
‫۔۔۔ بورنگ ۔۔۔ میں ہنسنے لگا‪ ،‬بہت سی‬
‫این جی اوز کی چیئرپرسن ہوں ‪،‬‬
‫زارینہ عامیانہ باتیں کرنے لگی ۔۔‬
‫بورنگ یار ‪،‬اب تم کہیں یہ نہ کہہ دینا‬
‫کہ اتنی جیولری ہے تمھارے پاس اور‬
‫اتنا بینک بیلنس ہے ‪،‬اتنی جائیداد‬
‫ہےتمھارے نام‪ ،‬کوئی ڈھنگ کی بات‬
‫کرو یار ۔۔۔۔ میں نے اس کا مزاق اُڑایا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ تم خود کیا ہو زارینہ نے بےبسی‬
‫سے کہا ۔۔۔ میں اپنی مرضی کا مالک‬
‫ہوں ۔۔۔ وہ تو میں بھی ہوں زارینہ امید‬
‫سے بولی ۔۔۔۔۔ نہں تم نہیں ہو ۔۔۔۔ تمھیں‬
‫پتہ ہے اس وقت تمھارا شوہر کہاں ہے‬
‫اور کیا کر رہا ہے ۔ میں نے اس پر‬
‫ایک اور حملہ کیا۔ نہ جانے کب وہ‬
‫شرف مالقت بخشے گا۔۔۔ میں نے‬ ‫ِ‬ ‫تمھیں‬
‫اس پر بھر پور طنز کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسے‬
‫پھرخاموشی لگ گئی ۔۔وہ کہیں شکار‬
‫کر رہا ہو گا اور تم اس کی وفاداری کا‬
‫بھرم رکھ رہی ہو یا ہو ہی بے بس ۔۔‬
‫بہت بورنگ لڑکی ہو یار تم ۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫اٹھتے ہوئے بوال۔ دو قدم چل کہ میں‬
‫نے اسے دیکھا ۔۔۔ میرے فلیٹ میں باون‬
‫انچ کی ایچ ڈی ایل ای ڈی لگی ہوئی‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬ہے‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬
‫۔۔۔۔۔ اور میرے پاس اچھی فلموں کی •‬
‫زبردست کولیکشن بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم‬
‫اپنی مرضی سے کچھ وقت گزارنا‬
‫چاہتی ہو تو میرے ساتھ آسکتی ہو ۔۔۔۔‬
‫میں نے اسے خود کو ثابت کرنے کا‬
‫ایک موقع دیا ۔۔۔۔۔ میں باہر کار میں‬
‫تمھارا انتظار کر رہا ہوں ۔ کمال مجھے‬
‫ہی دیکھ رہا تھا مجھے ایسے جاتے‬
‫دیکھ وہ ہنسا جیسے کہہ رہا ہو میں نہ‬
‫کہتا تھا کہ یہ تمھارے بس سے باہر ہے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ مسز ریحان نے مجھےخوب موقع‬
‫دیا تھا ۔۔۔مجھے پتہ تھا وہ ضرور آئے‬
‫گی خود کو ثابت کرنے کیلیئے مجھے‬
‫ہرانے کیلیے ۔۔۔ میں اپنی کار میں‬
‫انتظار کر رہا تھا کہ وہ چلتی ہوئی نظر‬
‫آئی۔۔۔۔۔۔۔ اس کی چال بڑی دلربا تھی اور‬
‫جسم سحر انگیز تھا ‪،‬بالشبہ وہ ایٹم بم‬
‫تھی ۔۔۔۔۔ زارینہ نے کار کا دروازہ‬
‫کھوال اور میرے ساتھ بیٹھ گئی ۔( چیک‬
‫میٹ )۔۔ جس اعتماد سے وہ بیٹھی تھی‬
‫میں سمجھ گیا اسے شوہر کے عالوہ‬
‫بھی سیکس کا پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے‬
‫کار فلیٹ کی طرف چال دی ۔۔۔۔ شطرنج‬
‫کے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی‬
‫چالوں سے حملے پرحملہ کرتے جایئں‬
‫۔ مخالف کو سوچنے کا موقعہ نہ دیں ۔‬
‫پھر وہ دفاع پردفاع کرے گا اورآپ کی‬
‫مرضی کی پوزیشن پر آجائے گا‪،‬جہاں‬
‫اسے چیک میٹ کرسکیں گے۔۔۔۔۔۔۔ بھال‬
‫زارینہ کوکیا ضرورت تھی میرے‬
‫سامنے خود کو ثابت کرنےکی ۔۔۔ لیکن‬
‫اس کے غصے نے اسے کچھ سوچنے‬
‫نہ دیا اور اس کی انا خود کو ثابت‬
‫کرتی رہی اور ناکام ہوتی رہی ۔ اب اس‬
‫کے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا خود‬
‫کو ثابت کرنے کا ۔ خود کو آزاد ثابت‬
‫کرنے کا کہ وہ میری جھولی میں آگرے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم فلیٹ پہنچے راستے میں مکمل‬
‫خاموشی رہی ۔۔۔۔ کوئی بات کر کے میں‬
‫اس کا ردھم نہیں توڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ ہم‬
‫فلیٹ میں داخل ہوئے ۔۔۔ میں اپنے‬
‫بیڈروم میں آگیا ‪،‬وہ بھی آہستہ آہستہ‬
‫میرے ساتھ تھی ۔۔ فلم کولیکشن کہاں‬
‫پڑی ہے ۔۔۔۔ اس نے بڑی ہی نرمی سے‬
‫پوچھا ۔۔۔۔ میں نے اپنی پینٹ کی زپ‬
‫نیچے کی انڈرویئر نیچے کیا اور عضو‬
‫پکڑ کے کہا یہ میری کولیکشن ہے ۔۔۔‬
‫بہت بےہودہ انسان ہو تم وہ غصے میں‬
‫میری طرف لپکی اور میرے سامنے‬
‫کھڑی ہوگئی‬

‫‪• Part²²‬‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫لیکن وہ بوائے فرینڈ اسکے خاندان •‬
‫کا حصہ نہیں بن سکتا ہو گا ۔۔ کیا پتہ‬
‫اب بھی اس سے ملتی ہو ۔۔۔ زارینہ کو‬
‫عضو چوستے ہوئے دس منٹ سے اوپر‬
‫ہوگئے تھے ۔ اب وہ بڑے جوش سے‬
‫عضو کو چوس رہی تھی ۔اس کی‬
‫رفتار‪ ،‬پکڑ ‪ ،‬ہونٹ اور زبان کسی کام‬
‫میں شدید مصروف تھے ۔۔۔ اس کی‬
‫آنکھوں میں چمک تھی ۔۔۔ کیا یاد کرو‬
‫گے تم پرنس ۔ کوئی زارینہ تمھیں ملی‬
‫تھی ۔۔۔ اس کے چہرے پر جیت کے‬
‫آثار نظر آنے لگے ایسے جوش اور‬
‫مہارت سے عضو چوسا جائے تو مزے‬
‫کی لہروں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا‬
‫ہے ۔۔۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے‬
‫۔۔۔۔۔۔ پنکھڑی اک گالب کی سی ہے ۔۔‬
‫اور اتنے نازک ہونٹ مزے سے ماریں‬
‫گے نہ تواور کیا ہو گا ۔۔۔ بیس منٹ‬
‫ہونے والے تھے اب اس کے چہرے پر‬
‫حیرانی تھی اور آنکھوں میں مایوسی‬
‫تھی ۔۔۔ اس کا جوش مدہم پڑنے لگا تھا‬
‫۔۔۔۔ بہت اسڑانگ ہو ابھی تک تو تمھارا‬
‫پانی نکل جانا چاہیے تھا۔۔۔۔ زارینہ نے‬
‫مایوس لہجے میں کہا ۔ میں دل ہی دل‬
‫میں ہنسنے لگا جب میں کارمیں بیٹھا‬
‫اس کا انتظار کر رہا تھا تو میں ٹائمنگ‬
‫کی آزمودہ گولی کھا لی تھی ۔۔ میں یہ‬
‫کبھی کبھارکھاتا ہوں کیونکہ ان کا‬
‫مستقل استعمال نقصان دہ ہوتا ہے لیکن‬
‫آج یہ بہت ضروری تھا ۔چوس چوس کہ‬
‫اس نے میرا پانی نکالنے کے بعد یہاں‬
‫نہیں رکنا تھا ۔۔۔ اس نے مجھے شکست‬
‫دینے کی آخری کوشش کی تھی ۔۔۔۔ میں‬
‫نے اس ایٹم بم کو بازووں سے پکڑا‬
‫اور اپنی گود میں بٹھا لیا ۔۔ اس کی‬
‫قمیض اور برا اوپر کر کے اس کے‬
‫ممے چوسنے لگا ۔۔۔۔ زارینہ میرے‬
‫عضو پر بیٹھی تھی عضو اسے نیچے‬
‫سے پریشان کرنے لگا ‪،‬اور ممے اسے‬
‫اوپر سے پریشان کرنے لگے۔۔۔ ممے‬
‫چھیڑنے سے ان کے پیچھے پیٹھ میں‬
‫اس کا پانی ابلنے لگا ۔۔۔ اب اس کے‬
‫جسم میں سرور کی لہریں اٹھنے لگی۔۔‬
‫زارینہ بےچین ہونے لگی ۔۔میں اسے‬
‫جسمانی طور پر انتہائی بے چین کرنا‬
‫چاہتا تھا۔۔ اسے محسوس ہونےلگا کے‬
‫م ِدمقابل کچھ بہت خاص ہے میری‬
‫ہونٹوں نے ہاتھوں نے اسے بےچینی‬
‫کی لہروں میں دکھیل دیا ۔ اب زارینہ‬
‫ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے‬
‫میں اسے کھینچ کے گہرائی میں لے جا‬
‫رہا ہوں ۔ ممے فور پلے کا ایک ایسا‬
‫رستہ ہیں جس سے انسانی جسم ہیجان‬
‫میں مبتال ہوجاتا ہے ‪،‬ساتھ ساتھ زارینہ‬
‫کی کمر پر مخصوص انداز میں دائرے‬
‫بنانے لگا ۔‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫۔ ⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫زارینہ کو اب پتہ چال کہ فور پلے کیا‬
‫ہوتا ہے ۔ پرنس تم بہت اچھا فورپلے‬
‫کرتے ہو ۔ تم کافی ماہر ہو زارینہ کو‬
‫مزے نے اعترف کرنے پر مجبور کر‬
‫دیا۔۔۔ اب میں اس کی قمیض اور برا اتار‬
‫سکتا تھا سو میں نے بڑی نرمی سے‬
‫اس کا اوپری حصہ ننگا کیا ۔۔۔ اسے بیڈ‬
‫پر لٹا دیا ۔۔۔ اپنا نچال حصہ پورا ننگا کیا‬
‫۔اوراس کی شلوار کھینچ کے اسے بھی‬
‫ننگا کر دیا ۔۔ بس لگائے اس میں کچھ‬
‫پل ہی تھے ۔۔ اس کے اوپر لیٹ کے اس‬
‫کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ اس کی جسم‬
‫کی شراب پیتے ہوئے میں مدہوش ہونے‬
‫لگا ۔۔۔ مست ہی مست ہو تم ‪،‬میں نے‬
‫اس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔ تم‬
‫بھی کچھ کم نہیں ہو ۔۔ زارینہ اب باتیں‬
‫کرنے لگی ۔۔ تمھیں دیکھ کے بہت سے‬
‫شعر یاد آرہے ہیں ۔ مگر تمھارے جسم‬
‫کے سامنے دوسرے لمحے وہ شعر‬
‫کمتر لگنے لگتے پیں ۔ اب میں نے‬
‫دوستی کیلیے ماحول ہموار کرنا شروع‬
‫کر دیا ۔ میرا عضو ضرور اسے بے‬
‫چین کر رہا ہو گا ۔ میں نے اسے اسی‬
‫کام پر لگایا ہوا تھا ‪،‬میرے ہاتھ زارینہ‬
‫کو سمجھا رہے ہوں گے کہ پیار کسے‬
‫کہتے ہیں ۔ اور میرے ہونٹ اس کے‬
‫گالب بدن کی پنکھڑیاں ُچننے میں‬
‫سنوں‬‫مصروف تھے ۔۔ اچھا میں بھی تو ُ‬
‫کون سے شعر یاد آ رہے ہیں ‪،‬زارینہ‬
‫شکشت کے بعد اپنی تعریف سننا چاہتی‬
‫تھی ۔۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے‬
‫۔۔۔۔۔ وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے‬
‫(احمد فراز) ۔ایک ہی شعر میں اپنی‬
‫کیفیت بھی بیان کر دی اور اس کے‬
‫ُحسن کی دل کھول کر تعریف بھی کر‬
‫دی ۔ پرنس تمھیں گفتگو میں بھی کمال‬
‫ہے ؟ بات بات پر میری تعریف کا‬
‫مطلب تھا کہ وہ ذہنی طور پر میرے‬
‫اثر میں آ چکی ہے ۔ اتنی نرماہٹ سے‬
‫اتنے پیار سے اتنے احساس سے میں‬
‫زارینہ کو پیار کر رہا تھا جیسے وہ‬
‫کانچ کا پیکر اور میری ِشدتیں اسے‬
‫کوئی ٹھیس نہ پہنچا دے ۔۔۔ مجھے‬
‫اندازہ تھا ایسی چاہت سے اس کا کبھی‬
‫واسطہ نہیں پڑا ہو گا ۔۔ تمھیں اپنی‬
‫بانہوں میں پا کہ بھی میری وحشتوں کو‬
‫سکوں نہیں آرہا ۔۔ جانے کیا ہو تم ۔‬
‫زارینہ کے دل میں میری سرگوشیاں‬
‫ہلچل پیدا کر رہی تھیں تو ہونٹ‪،‬ہاتھ اور‬
‫عضو اس میں میری طلب جگا رہے‬
‫تھے۔ میں نے پیار کے لمحات طویل تر‬
‫کر دیئے تھے مجھے کچھ خاص‬
‫چاہیئے تھا ۔ میرے جذبات میں خود‬
‫طوفان اٹھا ہوا تھا ۔ مگر میں نے ضبط‬
‫کا دامن نہیں چھوڑا تھا ۔ میں چاہتا تو‬
‫اسے چود دیتا ۔ وہ اپنی راہ لیتی میں‬
‫اپنے راہ چل پڑتا ۔ لیکن میں کچھ اور‬
‫چاہتا تھا مجھے وہ مفتوح نہیں چاہیئے‬
‫تھی ۔۔ مجھے وہ اُسی کی دلی مرضی‬
‫سے چاہیئے تھی ۔ میری حالت اس وقت‬
‫کچھ اس شعر جیسی تھی ‪،‬‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫•‬

‫بے قراری سی بے قراری ہے ۔۔۔۔ •‬


‫وصل ہے اور فراق طاری ہے ۔۔۔۔‬
‫(جون ایلیا) مجھے پتہ تھا وہ اس وقت‬
‫میری نہیں تھی ۔ زارینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرنس‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں فتح نہیں کرنا چاہتا‬
‫تمھیں تمھاری مرضی سے پانا چاہتا‬
‫ہوں ۔۔۔ اگر اجازت ہو تو تمھیں حاصل‬
‫کر لوں ؟ زارینہ کے جسم میں ارتعاش‬
‫سا ہوا ۔ اس کا ذہن اور جسم تو پہلے‬
‫ہی میرا ہوچکا تھا ۔۔ زارینہ نے اپنے‬
‫بازوؤں کا ہار میرے جسم کے گرد ڈال‬
‫دیا ۔اور پھر اس ہار کا گھیرا تنگ کردیا‬
‫۔۔ پرنس میں اب بھی تمھیں جیتنے آئے‬
‫تھی ۔ تمھیں اپنے پیچھے لگانے آئی‬
‫تھی ۔ تمھیں تڑپانے آئی تھی ترسانے‬
‫آئی تھی‪ ،‬لیکن تم نے مجھے جیت لیا‬
‫ہے میرے دل کو جیت لیا ہے ۔۔ اب میں‬
‫دل سے چاہتی ہوں کہ تم مجھے پا لو ۔۔‬
‫میں نے اسکی ٹانگیں کھول کے گھٹنوں‬
‫کے بل مخصوص پوزیشن بنائی اور‬
‫۔۔۔۔۔۔ زارینہ نے میرا عضو اپنے ہاتھ‬
‫سے اپنی چوت پررکھا میں نے بڑی‬
‫نرمی سے دھکا لگایا اور عضو اس کی‬
‫چوت میں گھس گیا ۔ چوت ٹھیک تھی ۔‬
‫تنگ تھی ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ دو‬
‫جسم ایک جان ہو گئے ہیں ۔ میں آہستہ‬
‫آہستہ زارینہ کو چودنے لگا۔ زارینہ کی‬
‫آنکھوں میں بے تحاشا پیار تھا ۔ اور اس‬
‫کے ہاتھ مجھے اس طرح پکڑے ہوئے‬
‫تھے جیسے کبھی مجھے کھونا نہیں‬
‫چاہتی ہو۔ جسم کی ضرورتوں کے‬
‫مطابق اب میں تیزہونےلگا ۔اس کا جسم‬
‫میرے دھکوں سے ہلنے لگا ‪ ،‬ممے‬
‫ارتعاشی حالت میں آگئے۔ چہرہ وصال‬
‫کی گواہی دینے لگا تھا اور جسم مزے‬
‫کے سمندر میں ڈوب گیا تھا ۔ جیسے‬
‫جیسے میں چودتا گیا ویسے ویسے‬
‫زارینہ کی جذباتیت بڑھتی گئی۔ جسمانی‬
‫ضرورتوں کے عالوہ ذہنی اور دلی‬
‫ضرورتیں بھی ہوتی ہیں ‪،‬جنہیں اس‬
‫دوران خوراک دی جا سکتی ہے ‪ ،‬بس‬
‫فرق آپ کے انداز میں ہوتا ہے ۔ چاہت‬
‫سے چودنے اور بھوک مٹانے کیلیے‬
‫چودنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں نے‬
‫جس کو بھی آج تک چودا ہے وہ اپنی‬
‫مرضی سے میرے بستر پر آئی ہے ۔‬
‫کیونکہ نگینہ اور میری پہلی رات نے‬
‫پھر کبھی مجھے کسی سے زبردستی‬
‫نہیں کرنے دی ۔ جو مزا باہم ملنے میں‬
‫ہے وہ کسی اور طریقے سے نہیں مل‬
‫سکتا۔اس وقت ہم اسی مزے کے سمندر‬
‫میں ڈوبے ہوئے تھے‬
‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫۔ ⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫پرنس کچھ کرو یہ وقت یہیں رک جائے‬
‫۔ ہم تمھارے بازوؤں سے واپس اس دنیا‬
‫میں نہیں جانا چاہتے ۔زارینہ انتہائی‬
‫جذباتی ہو رہی تھی ۔ چودائی کے ساتھ‬
‫ساتھ میں اس کی آنکھوں کو گالوں کو‬
‫بھی چوم لیتا تھا ۔ سیکس اور پیار کے‬
‫حسین امتزاج نے زارینہ کو بےحال کر‬
‫دیا تھا ۔ میں نے جیسے اس کی نبض‬
‫پر انگلیاں رکھ دی تھی ۔ اور اس کی‬
‫بیماری کے مطابق دوا دے رہا تھا ۔ اور‬
‫یہ دوائی زارینہ کے دل پر اثر کر گئی‬
‫تھی ۔ میں نے ٹائمنگ گولی کا حساب‬
‫بھی ذہن میں رکھا ہوا تھا ‪ ،‬بیس منٹ تو‬
‫زارینہ نے چوستے ہوئے گزار دیے‬
‫تھے ‪،‬پھر میں نے پیار کے لمحات بھی‬
‫طویل کردیئے تھے ۔ جس سے پانی‬
‫ابلتا رہا تھا اوراب بس باہر نکلنے واال‬
‫تھا ۔ لگتا یہی تھا ہم اکھٹے مزل پر‬
‫پہنچے گے ۔۔ یہی میں چاہتا تھا ۔ اب‬
‫دھکے اضطراری تھے ۔ جسم کہتا تھا‬
‫کچھ ہونے واال ہے ۔ جب کچھ ہونےواال‬
‫ہو تو اپنے آپ دھکوں کی رفتار تیز‬
‫ہوجاتی ہے ۔ جیسے پانی پہاڑی نالوں‬
‫سے گرتا ہے ۔ اووو ۔ میں رک گیا‬
‫۔جسم کوجھٹکا لگا ۔ مگر میں رکا نہیں‬
‫زارینہ کو دو جھٹکے اور چاہیئے تھے‬
‫۔ اور پھر اس کے اوپر گر گیا ہم نے‬
‫ایکدوسرے کو جکڑ لیا۔ ہمارے جسم‬
‫وائبریشن پر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو باتیں‬
‫ہوئی ایک تو پانی بہت نکال ۔۔ دوسرا‬
‫زارینہ نے مجھے آئی لو یو(مجھے تم‬
‫سے محبت ہے) کہا ۔۔ برستے پانی میں‬
‫خوشبو سی میں نے کی محسوس ۔۔۔۔۔۔‬
‫مجھے یقیں ہے کہ وہ بھی انہیں گھٹاؤں‬
‫میں تھی ۔۔۔ (شاعر ۔ اعجازعبید) ۔‬
‫کسی نے کبھی ہم سےاجازت نہیں •‬
‫مانگی ۔ والدین سے لیکر شوہر تک ہر‬
‫کسی نے ہمیں اپنی مرضی بتائی ہے‬
‫دنیا کیلیئے ہم ایک پرنسیس کی طرح‬
‫ہیں لیکن ہم جانتی ہیں کہ ہمارے جیسے‬
‫خاندانوں میں لڑکیاں کتنی بے بس ہوتی‬
‫ہیں ۔آج تم نے ایسے طریقے سے ہمیں‬
‫گھیرا ہے جو ہمارے وہم و گماں میں‬
‫بھی نہ تھا ‪،‬لیکن جب تم نے اجازت‬
‫مانگی تب ہم تمھاری ساری بات سمجھ‬
‫گئے ۔ نہ کبھی ایسی چاہت سے کسی‬
‫نے پیار کیا ہے نہ کبھی ہمیں زندگی‬
‫میں ایسا مزہ مال ہے آئی لو یو پرنس‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔۔ تمھارے بوائے فرینڈ کا کیا بنا ‪• ،‬‬


‫میں نے اسے چونکایا ۔ زارینہ حیرانی‬
‫سے میری طرف دیکھنے لگی ۔ تمھیں‬
‫کیسے پتہ چال ؟ کہیں دور سے اس کی‬
‫آوز آتی محسوس ہوئی ۔ میں نے بس‬
‫آئیڈیا لگایا ہے ۔ مجھے شوق ہے لوگوں‬
‫کو پڑھنے کا ان کے دل کے حال‬
‫جاننے کا ۔ اگر تم ہمیں بستر تک ال‬
‫سکتےہو تو بے شک ایسا پرفیکٹ آئیڈیا‬
‫بھی لگا سکتے ہو ۔ زارینہ تو جیسے‬
‫میری معتقد ہو گئی تھی۔ شاید تم لوگ‬
‫آکسفورڈ میں ملے ہوگے وہ بھی‬
‫پاکستانی ہو گا ۔ اظہار کے بعد جسمانی‬
‫مالقات میں اس نے دیر نہیں لگائی ہو‬
‫گی۔ پھر اسے تمھاری فیملی کا پتہ چال‬
‫ہو گا تو پیچھے ہٹ گیا ہو گا وہ بھی‬
‫اس وقت جب تم یا وہ پاکستان مستقل‬
‫آگئے ہو ۔ تم نے دل پر پتھر رکھ لیا ہو‬
‫گا اور والدین کی مرضی کے سامنے‬
‫سر جھکا دیا‬
‫‪• part²³‬‬
‫•‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫جلد ہی تمھاری شادی کر دی گئی ہو •‬
‫گی شاید دو سال کے اندر ۔ لیکن وہ جو‬
‫کوئی بھی تھا اس نے تمھیں جذباتی‬
‫بلیک میل کر کے بس تمھارا فائدہ ہی‬
‫اٹھانا تھا میری بات ختم ہوئی تو زارینہ‬
‫کی آنکھوں میں آنسو نکل رہے تھے ۔‬
‫زارینہ نے مجھے زور سے جکڑ لیا۔‬
‫ہاں ایسا ہی ہوا تھا ہمیں بھی اس کی بے‬
‫وفائی کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ پرنس تمھیں‬
‫چاہنے لگی ہوں ۔ تمھارے ساتھ مستقل‬
‫دوستی چاہتی ہوں ۔ میں ہمہشہ تمھارے‬
‫ساتھ ہوں ۔ میں نے اسے اپنے بازوؤں‬
‫کے گھیرے میں کس لیا۔ یہاں زارینہ‬
‫نے کمال کا شعرسنا دیا ۔ تومال ہےتو‬
‫اب یہ غم ہے ۔۔۔ پیار زیادہ ہے زندگی‬
‫کم ہے ۔‬
‫کیا ستم ظریفی ہے ہم نے تمھارے •‬
‫نام اپنی زندگی لکھ دی اور ہمیں تمھارا‬
‫نام تک نہیں معلوم ؟ زارینہ اب مجھے‬
‫جاننا چاہتی تھی ‪ ،‬میر ا نام پرنس ہی‬
‫ہے ۔ اب میرے ساتھ ایسا سلوک کرو‬
‫گے زارینہ نے خفگی سے کہا ۔ کوئی‬
‫میرا نام نہیں جاننا چاہتا میں بس شہزادہ‬
‫ہوں میں نےاس کی آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے کہا۔ بس وقت نے اتنا‬
‫فرق ڈاال ہے کسی نے مجھے شہزادے‬
‫سے پرنس بنا دیا ۔ میرے سرد لہجے‬
‫نے اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیا‬
‫لیکن زارینہ کے چہرے کے تاثرات بتا‬
‫رہے تھے وہ آسانی سے اس مو ضوع‬
‫کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ زارینہ‬
‫میرے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی‬
‫تھی ۔ میری پسند نا پسند ‪،‬میرے مشاغل‬
‫😘 🌹⚘ ۔میری عادات ۔مزاج ۔نظریات ۔‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬
‫•‬

‫میرا کاوربار ۔ میری سوچیں پڑھنا •‬


‫چاتی تھی ۔ میں اسے ایک بار اور کرنا‬
‫چاہتا تھا لیکن زارینہ کا انداز اتنا‬
‫دلربائی تھا کہ میں نے زارینہ کو اپنے‬
‫بارے میں کافی کچھ بتا دیا ۔ ایکطرح‬
‫سے اچھا ہی ہوا میری آوارگی سے‬
‫زارینہ واقف ہوگئی نہیں تو کچھ گھنٹوں‬
‫کی مالقت میں جس طرح زارینہ میری‬
‫طرف بڑھی تھی مجھےاس کے جذبات‬
‫کی شدت سے ڈر لگنے لگا تھا ۔ دو‬
‫گھنٹےسے اوپر گزر گئے ۔ زارینہ کی‬
‫باتیں ختم نہ ہوئی‪ ،‬اپنا بتاتی رہی میرا‬
‫حال سنتی رہی زارینہ گھما پھرا کے‬
‫میرا ماضی جاننا چاہتی تھی ۔ اور میں‬
‫اسے گھما پھرا کے ماضی سے حال‬
‫میں لے آتا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا ‪ ،‬زارینہ‬
‫کے موبائل پر مسز ریحان کی کال آگئی‬
‫۔ مسز کالپر بہتر یہی ہوتا کہ ہم اس‬
‫وقت گھر ہوتے ۔ مسز ریحان نے‬
‫زارینہ کو کچھ سمجھایا ۔ آواز میرے‬
‫کانوں میں بھی پڑ گئی تھی ۔ میں نے‬
‫وقت دیکھا تو تین بجنے والے تھے‬
‫۔میں نے سر ہال کے اسے مسز ریحان‬
‫کی بات ماننے کا کہا ۔ پارٹی میں‬
‫اسوقت واپس جانا مشکوک بننے کے‬
‫مترادف تھا ۔ یقینا مسز ریحان ہر بات‬
‫سے واقف تھی‪ ،‬میں نے موبائل پکڑ لیا‬
‫۔ مسز ریحان آپ میرے فلیٹ پر آجائیں‬
‫‪ ،‬یہیں سے آپ لوگ گھر چلے جانا ‪،‬‬
‫اوکے پرنس یہی بہتر رہے گا‬
‫‪• Part ²⁴‬‬
‫•‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫وقت بڑی ظالم چیز ہے کبھی یہ •‬
‫رکنے کا نام نہیں لیتا اور کبھی یہ‬
‫گزرنے کا نام نہیں لیتا آج بھی وقت‬
‫گزرنے کا نام ہی نہہیں لے رہا تھا ۔ د ِل‬
‫ناداں کو سمجھانے کا وقت نہیں تھا ‪،‬‬
‫اسے بہالنے کا وقت تھا ۔ سو میں‬
‫دوستوں سے ملتا مالتا ‪،‬ہوٹل گیا‪،‬ایک‬
‫دو نئی فرینڈز سے مال ‪ ،‬بیوٹی پارلر جا‬
‫کے شبنم سے مال ۔ رات کا کھانا بھی‬
‫کھا لیا تھا مگر دو بجنےمیں تو ابھی‬
‫بھی کافی وقت پڑا تھا سوچ سوچ کے‬
‫میں تہمینہ کی طرف چال گیا ۔ تہمینہ‬
‫اپنی ایڈورٹائیزنگ کی کمپنی چال تی‬
‫ہے۔ مجھے امید تھی اس وقت بھی وہ‬
‫اپنے آفس میں ہو گی ‪،‬اس کے سٹوڈیو‬
‫میں کام چلتا رہتا تھا ۔ تہمینہ اپنے‬
‫اسٹوڈیو میں ہی تھی اس نے مجھے‬
‫دیکھ لیا تھا ‪،‬میں اس کے آفس میں جا‬
‫کے بیٹھ گیا ۔ کچھ لمحوں میں کام‬
‫چھوڑ چھاڑ کےتہمینہ آگئی ۔ جی‬
‫فرمائیے ؟ تہمینہ نے سنجیدہ لہجے میں‬
‫انجان بن کے پوچھا ۔ میں مسکراتا رہا‬
‫اور میٹھی میٹھی نظروں سے تہمینہ کو‬
‫دیکھتا رہا ۔ مجھے پتہ تھا تہمینہ مجھ‬
‫سے ناراض ہے ۔ بتیس سالہ تہمینہ میں‬
‫وہ سب کچھ تھا جوکسی بھی مرد کو‬
‫پاگل کر سکتا تھا ‪ ،‬کسی وقت میں بھی‬
‫پاگل تھا ‪،‬اور پھر پاگل پن پانی کے‬
‫ساتھ نکل گیا‪،‬ہر بار یہی ہوتا تھا ۔پھر‬
‫ملنا مالنا کم ہو گیا ۔ آج کافی عرصے‬
‫بعد تہمینہ کی یاد آئی‪ ،‬میری مسکراہٹ‬
‫نے اسے پگھال دیا ۔ بہت ہی ظالم ہو تم‬
‫‪ ،‬تہمینہ میرے گلے لگ چکی تھی‪،‬۔ ہر‬
‫بار دل سے عہد لیتی ہوں کہ تم جب ملو‬
‫تو پتھر ہو جانا مگر پتہ نہیں کیا بات‬
‫ہے تم میں ‪ ،‬تمھیں دیکھتے ہی دل تم‬
‫😘 🌹⚘ سے لپٹنے کو مچلنے لگتا ہے‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬

‫•‬

‫۔ تہمینہ کچھ بیٹھی کچھ میرے اوپر •‬


‫گری ہوئی تھی ۔ تہمینہ تمھارا حسن اور‬
‫تمھاری جسمانی کشش تمھاری ادائیں‬
‫مجھے اپنے پاس کھینچ کے لے آتی ہیں‬
‫یقین مانو میں تمھیں چاہتا ہوں تو‬
‫تمھارے پاس آتا ہوں جب بھی‬
‫مصروفیت سے فرصت ملتی ہے تو‬
‫تمھارے پاس آجاتا ہوں ۔۔میں جانتی ہوں‬
‫تمھاری مصروفیت‪ ،‬تہمینہ نے‬
‫ناراضگی سے کہا ۔ تو کیوں نہ اب‬
‫شکووں کی بجائے ہم بھی مصروف‬
‫ہوجائیں میں نےاسے پیار سے سمجھایا‬
‫۔ تہمینہ اٹھی اور اس نے انٹڑ کام سے‬
‫کال کی‪ ،‬پیک کر دو‪ ،‬باقی کل ۔ کوئی‬
‫مجھے ڈسٹرب نہ کرے اوکے۔ پھر‬
‫میری گود میں گھس آئی ۔ ہم کسنگ‬
‫کرنے لگے ‪ ،‬تہمینہ مجھ سے ایسے‬
‫ترسی ہوئی تھی جیسے پانی کے بناء‬
‫مچھلی ترستی ہو ۔ بےصبری سے‬
‫تہمینہ نے میرے کپڑے اتارے اور پھر‬
‫خود بھی ننگی ہوگئی ۔ اس کا چاندی کا‬
‫جسم چمکنے لگا ‪،‬اس جسم کی رعنائی‬
‫نے مجھے پاگل کر دیا تھا ‪ ،‬اب پھر‬
‫اس کے جسم کا جادو سر پر چڑھ گیا‬
‫مجھے بہکانے لگا ۔ تہمینہ کی طلب‬
‫اتنی زیادہ تھی کہ میں نے کچھ کرنے‬
‫کی بجائے خود کو اس کے حولے کر‬
‫دیا ۔ صوفہ تھوڑا چوڑا تھا ۔ میں کچھ‬
‫بیٹھا کچھ لیٹا ہوا تھا۔ تہمینہ مجھے‬
‫مجنونانہ انداز میں چوم رہی تھی اس‬
‫کے ہاتھ میں میرا عضو تھا ۔ وہ مجھے‬
‫چومتی ہوئی چہرے سے سینے پر اور‬
‫سینے سے پیٹ پر اور پیٹ سے عضو‬
‫تک کا سفر بے تابی سے طے کرتی‬
‫ہوئی منزل پر پہنچی اور عضو منہ میں‬
‫لے کر چوسنے لگی ۔ پتہ نہیں تم اتنے‬
‫بے رحم کیوں ہو پرنس ‪،‬تہمینہ کو‬
‫سکون نہیں آرہا تھا وہ چوستی بھی تھی‬
‫اور شکوے بھی کر رہی تھی۔اس کی‬
‫بے چینی ایسے ہی ہوتی تھی۔ تہمینہ‬
‫انتقام [‪ ⚘🌹 😘 ꧁‬بہت جوشیلی تھی‬

‫⚘🌹😘‪]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬‬

‫•‬

‫۔اس کے ساتھ سیکس کرنے میں بہت •‬


‫مزہ آتا تھا اب بھی وہی ہو رہا تھا تہمینہ‬
‫نے جوش میں مجھ پر چڑھائی کی اپنی‬
‫پوزیشن درست کی اور عضو کو پکڑ‬
‫کے چوت پر رکھا‪،‬چوت پر اپنا وزن‬
‫ڈال کہ عضو اند لینے لگی پورا عضو‬
‫اندر لے کے تہمینہ اپنے جسم اور‬
‫گھٹنوں کے بل اوپر نیچے ہونے لگی۔‬
‫تہینہ کی رفتار سے اس کے جوش کا‬
‫پتا چل رہا تھا۔ اس کے ممے ایک ردھم‬
‫سے ہل رہے تھے بلکہ مجھے ہال رہے‬
‫تھے ۔اوہ تہمینہ تم کمال ہو ‪،‬تم جیسی‬
‫کوئی نہیں ‪ ،‬تہمینہ پہلے ہی جوشیلی‬
‫تھی میری تعریف سے ہوائی گھوڑے‬
‫پر بیٹھ گئی ۔ جسم کے اندر طوفان تھا‬
‫اور طوفان میں میں لہریں اچھل اچھل‬
‫کے بندھے بند کو توڑنا چاہتی تھی ۔‬
‫جب تک جسم سے یہ طوفانی پانی باہر‬
‫نہیں نکلنا تھا لہریں اور سے اور منہ‬
‫زور ہوتی جانی تھیں ۔ تہمینہ اس طوفان‬
‫سے اکیلی ہی نبزد آزما تھی مجھے اس‬
‫پر ترس آیا اس کی حالت بہت بری تھی‬
‫مگر وہ جوشیلے انداز میں چودائی‬
‫کرتی جا رہی تھی ۔میں نے اسے روکا‬
‫اور باہر نکالے بغیر اسے صوفے پر‬
‫لٹایا ‪،‬اس کی ایک ٹانگ صوفےسے‬
‫نیچے لٹکائی ‪،‬اور میں نے وہیں سے‬
‫طوفان اٹھا دیا جہاں سے سلسہ ٹوٹا تھا ۔‬
‫تہمینہ کا سرور سے برا حال تھا آہ‬
‫پرنس یہی تو میں چاہتی ہوں تم مجھے‬
‫چودو ۔میرے اوپر چڑھو ‪ ،‬میرے مالک‬
‫بن کے مجھے حاصل کرو ۔ تہمینہ کی‬
‫باتیں بتا رہی تھیں کہ وہ کب کی ہوش‬
‫کی دنیا سے آگے جا چکی تھی ۔ میں‬
‫ایسی باتیں سننے کا عادی تھا اب یہ‬
‫باتیں مجھ پر کچھ بھی اثر نہیں رکھتی‬
‫تھیں ۔ آج مجھے اپنے بچے کی ماں بنا‬
‫ڈالو ۔ سیکس تہمینہ کے دماغ کو چڑھ‬
‫گیا تھا ۔ چودو‪ ،‬چودو ‪،‬اور تیز کرو نہ ۔‬
‫تب میں نے فورا تہمینہ کو گھوڑی بنا‬
‫کے عضو چوت میں ڈاال ۔ اور اس کی‬
‫گانڈ پر تھپڑ مارنے لگا ۔تہمینہ کا یہی‬
‫عالج تھا ۔‬
‫‪• Part²⁵‬‬
‫•‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫میں نے اسے تنبیہ کی۔ ٹھیک ہے •‬
‫آب ہم پانج بجے تک بات کریں گے‬
‫۔اچھا ساحل آپ ایک بات کا جوا ب دیں‬
‫گے ۔ ضرور پوچھیئے ‪،‬اگر آپ کا‬
‫کوئی بھی دوست آپ کی وجہ سے مرنا‬
‫چاہے تو آپ اسے روکیں گے یا مرنے‬
‫دیں گے ؟ دآلویز کے سوال نے مجھے‬
‫خاموش کر دیا ۔ بتائیں نہ آپ مرنے دیں‬
‫گے یا نہیں ۔ دآلویز نے اپنا سوال دہرایا‬
‫۔ایک دوست اپنے دوست کو کیسے‬
‫مرنے دے سکتا ہے ‪،‬اس کی جگہ میں‬
‫خود مر جاؤں گا‪ ،‬میں نے صحیح‬
‫جواب دیا ۔ اچھا تو اگر آپ کی دوست‬
‫زندہ ہوتی تو کیا وہ آپ کو حرام موت‬
‫مرنے دیتی ۔ نہیں وہ مجھے نہیں مرنے‬
‫۔ 𝟖𝟎𝟗𝟗𝟏𝟔𝟏𝟑𝟕𝟓𝟏𝟗𝟒𝟎𝟎دیتی‬
‫مجھے پھر صحیح جواب دینا پڑا ۔ آپ‬
‫کو پتہ ہے آپ کی دوست مری نہیں ہے‬
‫وہ زندہ ہے بس ایک جگہ سے دوسری‬
‫جگہ منتقل ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتی‬
‫کہ آپ خود کشی کریں ‪،‬وہ آپ کیلیے‬
‫بے چین ہے ۔اگر آپ نے خود کشی کی‬
‫تواس کی روح تڑپتی رہے گی ‪،‬اگر آپ‬
‫حرام موت مر گئے تو آپ کی دوست‬
‫کو کبھی چین نہیں آئے گا ۔ تو اب آپ‬
‫سوچ کر بتائیں ‪،‬کیا آپ اپنی دوست کو‬
‫دکھی کرنا چاہتے ہیں یا اس کی روح‬
‫کو سکون دینے کیلیے دعا کرنا چاہتے‬
‫ہیں ۔ مجھے جیسے خاموشی لگ گئی‬
‫۔ مجھے 𝟖𝟎𝟗𝟗𝟏𝟔𝟏𝟑𝟕𝟓𝟏𝟗𝟒𝟎𝟎‬
‫کوئی جواب نہیں آیا ‪ ،‬آپ کی خاموشی‬
‫بتا رہی ہے کہ آپ میری بات سمجھ‬
‫گئے ہیں لیکن اقرار نہیں کرنا چاہتے‬
‫دآلویز نے درست تجزیہ کیا ۔ لیکن مجھ‬
‫سے اپنی دوست کا دکھ برداشت نہیں‬
‫ہوتا ‪ ،‬میں پہلے ہی بہت تنہا ہوں ۔ کوئی‬
‫بھی تنہا نہیں ہوتا ‪،‬ہر کسی کے ماں‬
‫باپ ‪،‬بھائی بہن ‪،‬دوست احباب ‪،‬رشتے‬
‫دار ہوتے ہیں ‪،‬آپ کمرے سے نکلیں‬
‫اور ان کے ساتھ اپنا دکھ بانٹیں ۔ دآلویز‬
‫نے مجھے سمجھایا ‪ ،‬میرے پاس ایسا‬
‫کوئی رشتہ نہیں ہے ‪ ،‬میرے ماں باپ‬
‫پچھلے سال اتنقال کر گئے تھے ‪،‬مطلب‬
‫پرست رشتہ دار وں سے میں دور رہتا‬
‫ہوں ۔اور ایک یہی دوست تھی ا سی نے‬
‫مجھے اس وقت بھی سنبھاال جب میرے‬
‫والدین کی وفات ہوئی تھی ۔ میں نے‬
‫سچ کو جھوٹ میں مال کر بتایا ۔ اوہ تو‬
‫اب میں آپ کا اصل مسلہ سمجھی ہوں‬
‫‪،‬آپ تنہا ہیں اور آپ کا کوئی دکھ بانٹنے‬
‫واال نہیں ہے ۔ ویری سیڈ ۔ دالویز کی‬
‫حساسیت عروج پو تھی ۔ اچھا تو ایسا‬
‫کرتے ہیں آج سے میں آپ کی دوست‬
‫بن جاتی ہوں ۔اگر آپ خود کشی کا خیال‬
‫دل سے نکال دیں ‪،‬ہا ہا اہا ہاہا ۔ میں‬
‫کرب سے ہنسنے لگا ‪ ،‬کیا ہوا آپ ہنس‬
‫کیوں رہے ہیں؟ دآلویز نے حیرانی سے‬
‫پوچھا ۔ آپ صرف ترس کھا میری‬
‫دوست بن رہی ہیں ‪،‬‬
‫اور کل 𝟖𝟎𝟗𝟗𝟏𝟔𝟏𝟑𝟕𝟓𝟏𝟗𝟒𝟎𝟎‬
‫کوہو سکتا ہے آپ مجھ سے بات بھی نہ‬
‫کریں ‪،‬نہیں نہیں میں اپنے والدین کی‬
‫قسم کھاتی ہوں ‪ ،‬میں آپ کی پکی اور‬
‫سچی دوست بنوں گی ہمیشہ کیلیے ۔۔‬
‫آپ نے والدین کی قسم کھائی ہے میں‬
‫آپ کا اعتبار کر لیتا ہوں اگر آپ نے‬
‫دوستی سے منہ موڑا تو میں اسی دن‬
‫تنہائی کے ڈنگ سے مر جاؤں گا ‪ ،‬میں‬
‫نے آج تک کسی لڑکے سے دوستی‬
‫نہیں کی اب کر لی ہے تو کبھی پیچھے‬
‫نہیں ہٹوں‬
‫‪𝟎𝟎𝟒𝟗𝟏𝟓𝟕𝟑𝟏𝟔𝟏𝟗𝟗𝟎𝟖 ،‬گی‬
‫دآلویز کی آواز اس کے دل سے نکلتی‬
‫ہوئی محسوس ہوئی ۔ ٹھیک ہے تو آج‬
‫سے ہم دوست ہیں مجھے اب اقرار کرنا‬
‫پڑا۔اب آپ وعدہ کریں آپ خود کشی‬
‫نہیں کریں گے‪،‬دآلویز آب بھی محتاط‬
‫تھی ‪،‬میں خود کشی نہیں کروں گا اگر‬
‫آپ ہر رات مجھ سے بات کیا کریں‬
‫‪،‬بس اور میں اپنی دوست سے کچھ نہیں‬
‫چاہتا ۔ ہم ہر رات بات کیا کریں گے‬
‫ساحل ۔ اب آپ ساحل پر آ گئے ہیں اب‬
‫تو اپنا نام بتا دیں دالویز مجھے جاننا‬
‫اور سمجھنا چاہتی تھی ۔میں نے اسے‬
‫بتایا کہ ۔ آج سے میرا نام ساحل ہی ہے‬

‫‪• Part²⁶‬‬
‫•‬
‫•‬
‫•‬ ‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬
‫•‬ ‫⃣‪0⃣0⃣4⃣9⃣1⃣5⃣7⃣3⃣1⃣6⃣1⃣9⃣9⃣0⃣8‬‬
‫پڑا‪،‬پچھلی سیٹ پر ڈبےپڑے •‬
‫تھے‪،‬میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا‪،‬کار‬
‫چلتے ہی میڈم بھی شروع‬
‫ہوگئی‪،‬شہزادے تمھارا نام کیا ہے‪،‬یہی‬
‫میرا نام ہے میں نے تلخی سے کہا‬
‫‪،‬نہیں شہزادے یہ تمھارا اصل نام نہیں‬
‫ہے‪ ،‬تم نے یہ نام انتقاما رکھا ہوا ہے‪،‬تم‬
‫اس دنیا میں اکیلیے ہو‪،‬استاد تمھارا باپ‬
‫نہیں ہے‪ ،‬میرے اندازے کے مطابق‬
‫تمھارے ماں باپ مر چکے ہیں ‪،‬اور تم‬
‫تنہا دنیا کی ٹھوکروں پر ہو‪،‬حال ہی میں‬
‫تمھیں کوئی دکھ مال ہے جس کے نقش‬
‫اب بھی تمھارے چہرے پر دیکھے جا‬
‫سکتے ہیں‪،‬لگتا ہے دنیا نے تمھارے‬
‫ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‪،‬تم بھٹک رہے‬
‫ہو‪،‬کسی نے تمھیں پالش کیا ہے اپنی‬
‫دانش تمھیں دی ہے‪،‬لیکن بس بنیادی‬
‫باتیں سمجھائی ہیں کیونکہ یہ دنیا تمھیں‬
‫پالش کرنے والے کی سمجھ سے بہت‬
‫[‪⚘🌹 😘 ꧁‬آگے ہے‪،‬بہت کمینی ہے‬

‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام‬

‫•‬

‫یہ دنیا‪،‬میں حیران نظروں سے میڈم •‬


‫کی طرف دیکھنے لگا‪،‬حیران نہ ہو میں‬
‫دو دن سے تمھاری سٹڈی کر رہی‬
‫ہوں‪،‬قیافہ شناسی کی میں ماہر ہوں‪،‬اور‬
‫میں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے نفسیات‬
‫میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ‪،‬یہی میں‬
‫پڑھاتی ہوں ‪،‬انسانوں کو اندر جھانکنا‬
‫میرا شوق ہے‪،‬بے شمار پیسہ میرے‬
‫پاس ہے‪،‬میرے پاس وسیع جائیداد‬
‫ہے‪،‬عزت ہے شہرت ہے‪،‬لیکن سکون‬
‫نہیں ہے‪،‬تمھاری طرح میں بھی دنیا‬
‫میں تنہا ہوں‪،‬میرے والد امریکی تھے‬
‫انہیں پہاڑوں کو سر کرنے کا شوق‬
‫تھاوہ یہاں نانگا پربت کی چوٹیوں کو‬
‫فتح کرنے آئے تھے ‪،‬شاید تمھیں پتہ ہو‬
‫کی نانگا پربت دنیا کی خطرناک‬
‫چوٹیوں میں سے ایک ہے ‪،‬یہاں انہوں‬
‫نے اپنا شوق پورا کیا اور نانگا پربت‬
‫کو فتح تو کر لیا لیکن وہیں میری مما‬
‫ان سے ملیں اور انہوں پاپاکو فتح‬
‫کرلیا‪،‬مما جب الہور گھر آئی تو وہ‬
‫شادی شدہ تھیں ان کے ماں باپ نے‬
‫باآلخر ان کی شادہی کو قبول کر لیا۔‬
‫لیکن پاپا نے ان کا زیادہ ساتھ نہ دیا میں‬
‫ابھی مما کے پیٹ میں ہی تھی کہ پاپا‬
‫مما کو پاکستان میں ہی چھوڑ کر‬
‫امریکہ چلے گئے‪،‬میری پیدائش کے بعد‬
‫مما مشکلوں میں پڑ گئی ‪،‬اور انہیں‬
‫😘 🌹⚘ اخراجات کیلیے نوکری کرنی‬
‫⚘🌹😘‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ 🤺꧂‬انتقام [‪꧁‬‬
‫•‬

‫پڑی ‪،‬پاپا کی وجہ سے بھی مما کو •‬


‫بڑی باتیں سننی پڑی ‪،‬بھائی بہنوں نے‬
‫تو پہلے ہی منہ موڑ لیا تھا ‪،‬میرے نانا‬
‫اور نانی کے جانے کے بعد مما اور‬
‫میں بالکل تنہا رہ گئی‪ ،‬مما نے کئی بار‬
‫پاپا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی‬
‫‪،‬لیکن انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ‬
‫دیکھا‪،،‬جیسے جیسے میں بڑھتی گئی‬
‫مما تنہائی سے تنگ زندگی سے منہ‬
‫موڑتی گئی‪ ،‬قسمت خدا کی جب میں‬
‫جوان ہوئی تو پپا کو ہماری یاد آئی اور‬
‫ہمیں امریکہ بلوا لیا وہاں جا کر پتہ چال‬
‫کہ پاپا بہت بیمار ہیں اور اپنی اوالد‬
‫سے ملنے کیلیے تڑپ رہے ہیں یعنی‬
‫مجھ سے ‪ ،‬کیونکہ ان کی ایک بیٹا اور‬
‫بیٹی ایک ایسیڈنٹ میں فوت ہو گئے‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬تھے‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫‪،‬شاید یہ بھی قدرت کے ہونے کا •‬


‫کوئی ثبوت تھا کہ جو باپ ہمیں‬
‫تنہاچھوڑ گیا تھا ب ہمیں بالنے ر‬
‫مجبور ہو گیا تھا‪،‬لیکن مجھے ان سے‬
‫کوئی لگاؤ نہیں تھا۔بہرحال پاپا نے‬
‫ساری زندگی کے دکھوں کا مداوا‬
‫اسطرح کیا کہ جاتے جاتے اپنی جائداد‬
‫میرے نام کر گئے امریکی قوانین نے‬
‫ہمارا ساتھ دیا اور ساری جائیداد مجھے‬
‫مل گئی میں سب کچھ بیچ باچ کر‬
‫پاکستان آگئی کیونکہ مما اپنی سرزمیں‬
‫پر مرنا چاہتی تھی‪،‬یہاں ہم نے اس‬
‫پیسے سے وسیع عریض جائیداد بنا‬
‫لی‪،‬اب زندگی میں کچھ سکھ مال تو مما‬
‫کا وقت پورا ہوچکا تھا میں نے ان کو‬
‫وصیت کے مطابق نانا اور نانی کے‬
‫پہلو میں دفن کر دیا۔ان کے جانے کے‬
‫بعد میرے رشتہ دار میرے پاس آنے‬
‫لگے‪،‬مجھے ان سب سے نفرت‬
‫تھی‪،‬لیکن سموئیل نے مجھے ایسی‬
‫ہمدردی دی کہ وہ چاہت میں بدل گئی‬
‫اور میں نے جذبات میں اس سے شادی‬
‫کر لی ‪،‬کچھ ہی عرصے میں مجھ پر‬
‫واضح ہوگیا کہ سموئیل کی محبت مجھ‬
‫سے نہیں بلکہ میری دولت سے ہے تو‬
‫میں نے اس سے جھٹکارا پا لیا‪،‬اور تمام‬
‫مطلبی رشتہ داروں سے کنارا کر‬
‫لیا‪،‬رشتہ داروں سے دور میں نے یہ‬
‫فلیٹ اپنے سکون کیلیے بنوایا ہے‪،‬بڑی‬
‫حویلیوں اور بنگلوں میں میرا دم گھٹتا‬
‫🌹⚘ہے‪،‬شہزادے مجھے سکون چاہیئے‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫میں تم سے کچھ نہیں چھپاؤں •‬


‫گی‪،‬میں نے اس سکون کیلیے کئی‬
‫دوستیاں کی‪،‬مگر دنیا کا کوئی مرد‬
‫مجھے وہ نہ دے سکا‪،‬جو میں چاہتی‬
‫ہوں‪،‬شہزادے وہ سکون مجھے بس‬
‫تمھی دے سکتے ہو‪،‬میں دے سکتا ہوں‬
‫؟‬
‫•‬

‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪• ⚘🌹 😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫شدید حیران تھا‪،‬ہاں تم ہی دے •‬


‫سکتے ہو کیونکہ تمھارے پاس وہ ہے‬
‫جو دنیا میں کسی کسی کے پاس ہوتا‬
‫ہے‪،‬تمھارے پاس سیکس کی جادوئی‬
‫کشش ہے‪،‬یعنی بے پناہ سیکس اپیل ہے‬
‫تم میں ‪،‬جو تم سے دور ہے وہ تمھارے‬
‫پاس آنا چاہے گی اور جو پاس آجائے‬
‫گی وہ ہمیشہ کیلیے تمھاری ہو جائے‬
‫گی‪ ،‬اور تمھارے چوڑے ماتھے‬
‫سےتمھاری خوش قسمتی کا پتہ لگتا‬
‫ہے‪ ،‬تم بڑے با صالحیت ہو‪،‬دنیا‬
‫تمھارے قدموں میں جھک سکتی‬
‫ہے‪،‬میں میڈم کی بات پر طنزیہ انداز‬
‫میں ہنسنے لگا‪،‬اس طرح مت‬
‫ہنسو‪،‬کیونکہ خوش قسمتی تمھارے‬
‫دروازے پر کھڑی ہے‪ ،‬تمھار ا کیا‬
‫خیال ہے میں تمھیں اپنے بارے میں‬
‫سب کچھ کھل کے کیوں بتا رہی ہوں ‪،‬‬
‫کیونکہ میں تمھیں ایک بہت بڑی آفر‬
‫کرنے لگی ہوں‪ ،‬تمھارے مزاج کے‬
‫عین مطابق تمھاری مرضی سے ‪،‬بغیر‬
‫کسی زبردستی یا چھل فریب کے ‪،‬تم‬
‫مجھے کتنا جانتی ہو؟میں نے الٹا اس‬
‫سے سوال کر دیا‪،‬تم اپنی مرضی کے‬
‫مالک ہو اپنی مرضی سے جینا چاہتے‬
‫ہو‪،‬سب ہی ایساچاہتے ہیں مگر تمھارے‬
‫پاس اپنی مرضی پوری کرنے کیلیے‬
‫قدرت نے تمھیں صالحیتیں بھی دی‬
‫ہیں‪،‬میں چاہوں تو تم میرے اشاروں پر‬
‫ناچو ‪،‬لیکن جلد ہی تم میرا کھیل سمجھ‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬جاؤ گے‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬
‫•‬

‫اور پھر میری طرف پلٹو گے مجھے •‬


‫نقصان پہنچاؤ گے‪،‬جب تک تمھارا بس‬
‫چال‪،‬یہ ہو تم ‪،‬وہ سچ کہہ رہی تھی اسے‬
‫نہیں پتہ تھا وہ میری اور نگینہ کی‬
‫کہانی مجھے ہی سنا رہی تھی‪،‬شاید تم‬
‫ایسا کوئی تجربہ جھیل بھی چکے‬
‫ہو‪،‬مجھے سوچتا دیکھ کر میڈم نے ایک‬
‫اور اندازہ لگایا‪،‬بہت خطرناک تھی یہ‬
‫میڈم ‪،‬انسان اس کے سامنے کھلی کتاب‬
‫کی طرح تھا‪،‬چہرے سے مزاج‪،‬عادات‬
‫‪،‬خیاالت ‪،‬کردار تک جان لیتی‬
‫تھی‪،‬ماضی پڑھ لیتی تھی‪،‬بعد میں‬
‫مجھے سمجھ آئی کے قیافہ شناسی ایک‬
‫علم‬
‫زبردست علم ہے‪،‬اگر اس کے ساتھ ِ‬
‫بروج اور دست شناسی مل جائے تو‬
‫انسان کا کچھ بھی چھپا نہیں رہتا‪ِ ،‬سری‬
‫علوم پر یورپ اور امریکہ میں تو آکلٹ‬
‫سائنس کے نام سے ایک علیحدہ شعبہ‬
‫بن چکا ہے ‪،‬اور اس پر بہت تحقیقات ہو‬
‫رہی ہیں‪،‬ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی اب‬
‫کوئی خواب کی بات نہیں رہی ۔تمھاری‬
‫آفر کیا ہے ‪،‬میں ایک نتیجے پر پہنچ‬
‫چکا تھا‪،‬میں چاہتی ہوں تم ہمیشہ کیلیے‬
‫مجھ سے دوستی کر لو‪،‬میرے ساتھ رہو‬
‫ساری زندگی‪،‬اور مجھے اپنی گرل‬
‫فرینڈ بنا لو صرف میں اور تم ‪،‬اس کے‬
‫بدلے میرا سب کچھ تمھارا ہو گا‪،‬میری‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪⚘🌹 😘 ꧁‬دولت‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫‪ ،‬میرا علم‪،‬میری جائیداد ‪ ،‬اور میں •‬


‫سب کچھ تمھارا ہوگا‪،‬میڈم آپ بہت بڑی‬
‫آفر کر رہی ہیں لیکن آپ کی آفر کی‬
‫بنیاد یہ ہے کہ میں آپ کو بذریعہ‬
‫سیکس میں وہ خوشی دے سکتا ہوں جو‬
‫دنیا کا کوئی اور مرد نہیں دے‬
‫سکتا‪،‬کیونکہ بقول آپ کہ میری پاس‬
‫نیچرلی وہ ہے جو دنیا میں کسی کسی‬
‫کے پاس ہوتا ہے‪،‬تو ہوسکتا ہے آپ کا‬
‫اندازہ غلط ہو یا یہ چیز مجھ میں ہو تو‬
‫کل کو ختم ہو جائے‪،‬پھر کیا ہو گا ؟ کار‬
‫ایک سائیڈ میں رک چکی تھی‪،‬میڈم بہت‬
‫🌹⚘ہی سنجیدہ ہو چکی تھی‪،‬شہزادے‬
‫‪ ]🤺ᶫᵒᵛᵉᵧₒᵤ‬انتقام [‪😘 ꧁‬‬

‫⚘🌹😘‪🤺꧂‬‬

‫•‬

‫یا تم جو بھی ہو میرا ندازہ کبھی غلط •‬


‫نہیں ہو سکتا ‪،‬میں نے جنسیات میں پی‬
‫ایچ ڈی کی ہوئی ہے‪،‬لیکن یہ بات کم‬
‫لوگوں کو معلوم ہے‪،‬میں ایک سیکس‬
‫اسپیشلٹ ہوں‪،‬تم چاہو تو میں تمھیں‬
‫کتابوں میں دکھا سکتی ہوں کہ تم میں‬
‫جو ہے وہ کیا ہے اور کتنا نایاب ہے‬
‫اور یہ کبھی ختم ہونے واال نہیں ہے‪،‬یہ‬
‫تمھارے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے‬
‫تمھاری اندر تمھاری دوسری صالحیتیں‬
‫ہیں‪،‬یہ تمھاری سانسوں کیساتھ ہی ختم‬
‫ہوں گی‪،‬اور یہ کوئی ڈیل نہیں ہے میں‬
‫زندگی بھر کیلیے تمھاری طرف ہاتھ‬
‫بڑھا رہی ہوں ‪،‬اس کیلیے اگر تم کہو تو‬
‫میں اپنی ساری جائیداد تمھارے نام لکھ‬
‫کر دے سکتی ہوں‪،‬میڈم نے بہت بڑی‬
‫آفر کر دی‪،‬تم مجھے وہ بناؤ گی جو‬
‫میں بننا چاہتا ہوں؟ میں نے جیسے‬
‫شرط رکھ دی‬
‫جاری ہے ـــ •‬

‫•‬

‫‪Part²⁷‬‬

‫تم بہت علم حاصل کرنا چاہتے ہو‪،‬میں‬


‫نے اپنی الئیبریری میں جاتےہوئے‬
‫تمھیں دیکھا ہے ‪،‬اسوقت تمھاری‬
‫آنکھوں میں حریصانہ چمک تھی‪ ،‬تم‬
‫مارشل آرٹ سیکھنا چاہتے ہو‪،‬جدید‬
‫ٹریننگ لینا چاہتے ہو‪،‬تم لڑکیوں کو‬
‫عورتوں کو فتح کرنے کیلیے وہ سب‬
‫سیکھنا چاہتے ہو جو اس کیلیے‬
‫ضروری ہے‪،‬مائنڈڈ گیم میں تم ماسٹر‬
‫بننا چاہتے ہو‪،‬تم لوگوں کو پڑھنا چاہتے‬
‫ہو‪،‬تا کہ تم ان سے کھیل سکو وہ نہ تم‬
‫سے کھیل سکیں‪،‬بس بس میڈم ‪،‬اتنا ہی‬
‫بہت ہے‪ ،‬پتہ نہیں کیسے وہ میرے دل‬
‫کی ہر بات جان لیتی تھی‪ ،‬بلکہ ہر کسی‬
‫کی جان لیتی تھی ‪،‬میرا نام میڈم نہیں‬
‫‪،‬جوسلین ہے‪(،‬جوسلین پاکستانی کرسچن‬
‫تھی) جوسلین نے میری طرف ہاتھ‬
‫بڑھاتے ہوئے کہا‪ ،‬اور میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہے میں نے اس سے ہاتھ مال لیا‪،‬‬
‫یاد رکھنا تم اپنی مرضی سے میرے‬
‫پاس آئے ہو اسلیے کبھی مجھے‬
‫چھوڑنے سے پہلے سوچ لینا کہ اسوقت‬
‫بھی تمھارے پاس واپسی کا رستہ‬
‫موجود تھا ۔استاد سے تم ہی بات کر لینا‬
‫اس کی بات کے جواب میں ‪،‬میں نے‬
‫استاد کی ذمہ داری اس پر ڈال دی‪،‬میں‬
‫ہی بات کروں گی تمھاری بات کرنا بنتا‬
‫بھی نہیں ہے‪،‬ویسے اتنی عمر میں تم‬
‫نے ڈبل پی ایچ ڈی کیسے کر لی‪،‬میرے‬
‫ذہن میں کافی دیر سے ایک تجسس‬
‫تھا‪،‬کار چل پڑی تھی ‪،‬تمھارے خیال‬
‫میں میری کتنی عمر ہے‪،‬جوسلین نے‬
‫الٹا مجھ سے سوال کر دیا‪،‬تیس یا بتیس‬
‫کی لگتی ہو تم‪،‬میں نے اسے اپنا اندازہ‬
‫بتایا‪،‬نازیہ ہنسنے لگی‪،‬‬
‫میں چالیس سال کی ہوں‪،‬اور ڈبل پی ایچ‬
‫دی میری صالحیتوں کا ایک نمونہ‬
‫ہے‪،‬لیکن تم اتنی کم عمر کیسے لگتی‬
‫ہو‪،‬میں بہت حیران ہوا‪،‬تمھیں بھی سکھا‬
‫دوں گی‪،‬یہ سب مخصوص غذاؤں اور‬
‫یوگاسے ممکن ہے کچھ مخصوص‬
‫ورزشیں بھی اس کیلیے ضروری‬
‫ہیں‪،‬شام تک کام ختم ہو گیا‪،‬جوسلین نے‬
‫استاد سے پتہ نہیں کیا کہا ‪،‬کہ وہ‬
‫مجھے دعائیں دے کر چلے گئے‬
‫‪،‬جوسلین نے اسے پیسہ بھی دیا تھا‪،‬میں‬
‫وہیں رہ گیا‪ ،‬جوسلین نے تین کمروں‬
‫میں سے مجھے ایک کمرہ دے دیا‬
‫تھا‪،‬میرا خیال تھا کہ ہم آج رات ہی‬
‫چدائی کریں گے مگر نازیہ اور میں‬
‫رات گئے تک باتیں کرتے‬
‫رہے‪،‬ایکدوسرے کا ماضی کھنگالتے‬
‫رہے‪،‬ایکدوسرے کو بارے میں جانتے‬
‫رہے‪،‬باتیں کر کر کے ہم تھک گئے تو‬
‫سو گئے‪،‬اگلی صبح ہم کچھ دیر سے‬
‫اٹھے‪،‬جوسلین نے ناشتہ بنایا ‪،‬ناشتہ کر‬
‫کے جوسلین نے مجھے بازار چلنے کو‬
‫کہا‪،‬نازیہ بہت ہی اوپری درجے ( ہائی‬
‫اسٹینڈرڈ )کی زندگی گزارتی تھی‪،‬بازار‬
‫وہ میرے لیئے شاپنک کرنے‬
‫لگی‪،‬میرے لیے مہنگے ترین کپڑے‬
‫خریدنے لگی‪،‬اور پتہ نہیں اس نے کیا‬
‫کچھ خرید ڈاال۔ اس نے دلہن کا ایک‬
‫لہنگا بھی خریدا جو میری سمجھ سے‬
‫باہر تھا‪،‬جوسلین نے لہنگا انہی کے ٹیلر‬
‫کے پاس سینے کے دے دیا‪،‬اور شام کو‬
‫یہ لہنگا اسے ملنا تھاہم نے ایک‬
‫رسٹورینٹ میں دوپہر کا کھنا چار بجے‬
‫کھایا‪،‬‬
‫پھر باقی کی خریداری کرنے کے بعد‬
‫ہم واپس ہو لیئے‪،‬اس دوران اس نے‬
‫عجیب فرمائش کر دی ‪،‬کہ میں اس‬
‫کیلیے کوئی تحفہ خریدوں ‪،‬میں نے‬
‫ایک جگہ اس کیلیے سونے کی چین‬
‫پسند کی اس میں ڈائمنڈ لگا ہوا تھا ۔ظاہر‬
‫ہے اس کے پیسے بھی اسی نے ادا‬
‫کرنے تھے ‪،‬رستے میں ایک جگہ اس‬
‫نے پھولوں کا آڈر دیا‪،‬تقریبا شام کو ہی‬
‫ہم گھر پہنچے ‪،‬ایک دن میں اس نے‬
‫الکھوں پانی کی طرح بہا دیا تھا ۔‬
‫سامان وہیں رکھ دیا کچھ سامان لیکر‬
‫جوسلین اپنے کمرے میں چلی گئی تو‬
‫میں بھی اپنے کمرے میں جا کہ لیٹ گیا‬
‫۔مجھے تو ہلکی سی جھپکی آگئی ‪،‬آنکھ‬
‫کھلی تو یہ ہلکی سی جھپکی بھی کافی‬
‫ہو گئی تھی رات کے نو بج رہے‬
‫تھے‪،‬کمرہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نازیہ‬
‫یہاں آئی تھی اور جو کچھ الئی تھی اس‬
‫کی سیٹنگ کر گئی تھی وارڈروب‬
‫کھول کہ دیکھا تو اس میں سارے‬
‫کپڑے جڑے ہوئے تھے ‪،‬‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫نازیہ نے کھانا باہر سے منگوایا‬


‫تھا‪،‬کھانا وغیرہ کھاتے باتیں کرتے دس‬
‫بج گئے‪،‬چلو شہزادے تیار ہو جاؤ‬
‫تمھارا ایک سوٹ میں نے نکال دیا ہے‬
‫تمھارے کمرے میں ہی پڑا ہے وہ پہن‬
‫لو اور اچھی طرح تیار ہو جاؤ‪،‬نازیہ‬
‫نے مجھے کہا تو اس کے لہجے میں‬
‫کچھ خاص تھا لیکن میں سمجھ نہ‬
‫سکا‪،‬کیا ہم کہیں جا رہے ہیں ؟ میں‬
‫پوچھے بناء نہ رہ سکا ‪،‬ہاں تم تیار ہو‬
‫جاؤ‪ ،‬میں کمرے میں جا کر کپڑے‬
‫بدلنے لگا‪،‬کمال ہے وہاں ایک شیروانی‬
‫بھی پڑی تھی میں نے پہن لی بالکل‬
‫میرے سائیز کی تھی‪ ،‬سلیم شاہی جوتے‬
‫پہن کے تیار ہو کے میں نےخود کو‬
‫آئینے میں دیکھا ‪،‬کسی ریاست کا‬
‫شہزادہ لگ رہا تھا‪،‬بلکہ اسوقت مجھے‬
‫دولہا بھی کہا جا سکتا تھا‪ ،‬مجھے نظر‬
‫بھی لگ سکتی تھی سو میں نے آئینے‬
‫سے نظریں ہٹا لیں ‪،‬نازیہ نے کہا تھا کہ‬
‫تیار ہو کہ وہیں ٹھہرو میں تمھیں بال‬
‫لوں گی۔میں اس کا انتظار کرنے‬
‫لگا‪،‬آدھا گھنٹا ہو گیا ‪،‬پتہ نہیں یہ‬
‫عورتیں تیار ہونے کیلیئے اتنی دیر‬
‫کیوں لگاتی ہیں ‪،‬خیر انٹر کام کی بیل‬
‫ہوئی تو میں لپک کہ ریسیور اٹھا‬
‫لیا‪،‬تیار ہوگئے شہزادے ؟ جوسلین نے‬
‫پوچھا‪،‬میں تو پونے گھنٹے سے تیار‬
‫ہوں آپ کب تک تیار ہوجائیں گی میں‬
‫نے شوخی سے پوچھا‪،‬میں بھی تیار‬
‫ہوں ‪،‬تم میرے کمرے میں آجاؤ اور‬
‫میرا تحفہ النا نہ بھولنا ‪،‬ریسیور رکھ‬
‫کر میں جوسلین کے کمرے کی طرف‬
‫چل پڑا‪،‬اس کے کمرے کا دروازہ بھڑا‬
‫ہوا تھا میں نے ہاتھ کا دباؤ ڈاال تو‬
‫دروازہ کھلتا گیا‪،‬اور میرے قدم وہیں‬
‫ٹھہر گئے‪،‬‬
‫کمرے کے فرش پر پھولوں کی پتیوں‬
‫سے راہداری بنی ہوئی تھی‪،‬جو کہ بیڈ‬
‫تک جا رہی تھی ‪،‬بیڈ پر بھی پتیاں ہی‬
‫پتیاں تھی ۔اور اس بیڈ پر جوسلین لہنگا‬
‫اور کرتی پہنے دلہن بنی بیٹھی تھی‬
‫‪،‬اس کے ارد گرد لہنگا پھیا ہوا تھا‬
‫۔لہنگا گالبی رنگت کا تھا ‪،‬جو کہ میرا‬
‫پسندیدہ رنگ تھا‪،‬جب یہ لہنگا میں نے‬
‫دن کو دیکھا تھا تو شاید میری آنکھوں‬
‫یا چہرے سے جوسلین نے میری‬
‫پسندیدگی کا اندازہ لگا لیا ہو گا‪،‬یہ سب‬
‫ایک زبردست سرپرائیز تھا ‪،‬اور میں‬
‫ابھی تک کمرے کی دہلیز پر کھڑا تھا‬
‫‪،‬اندر آجاؤ میرے پرنس(پہلی بار مجھے‬
‫پرنس کہا گیا)نازیہ پیار بھری آواز نے‬
‫میرے کانوں میں رس کھوال ‪،‬اور میں‬
‫مسحور انداز میں اس کی طرف چل‬
‫پڑا‪،‬ایک ہاتھ سے میں نے دروازہ واپس‬
‫پش کر دیا‪،‬جو کہ ٹھک سے بند ہو‬
‫گیا‪،‬میں بیڈ کہ پاس جا کہ پھر رک گیا‬
‫میں یک ٹک جوسلین کو دیکھ رہا تھا‪،‬‬
‫گویا اجنتا الورہ کی کوئی دیوی میرے‬
‫سامنے آ کہ بیٹھ گئی تھی‪ 2،،‬دن سے‬
‫میں اسے دیکھ دیکھ کے تڑپ رہا تھا ‪،‬‬
‫جوسلین کا بے پناہ ُحسن میرے دل و‬
‫دماغ پر چھا چکا تھا۔ اس میں کوئی‬
‫شک نہیں کہ اس کا ُحسن ایک ایسا‬
‫مقناطیس تھا جس کے سامنے ہر مرد‬
‫خود کو ایک بے جان لوہے کا ذرہ‬
‫محسوس کرتا تھا۔بیٹھ جاؤ میرے پرنس‬
‫جوسلین میری بے خودی محسوس کر‬
‫چکی تھی‪،‬میں اس کے سامنے بیٹھ گیا‪،‬‬
‫مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا‬
‫کہوں اور کیا کروں ‪،‬میرے پرنس میں‬
‫نے برسوں چاہا تھا کہ وہ مرد جس کا‬
‫میں ذکرمیں نے بس سنا ہے ‪،‬وہ مرد‬
‫مجھے مل جائے‪،‬پھر میں سوچتی تھی‬
‫ایسی (سیکس اپیل)جنسی کشش واال دنیا‬
‫میں ہو گا بھی کہ نہیں ‪،‬پھر میں سوچتی‬
‫کہ ایسے مرد ہو گیں تو ضرور لیکن‬
‫میری قسمت میں شاید ہی ہو‪،‬آج تمھیں‬
‫اپنے سامنے پا کہ بھی مجھے یقین نہیں‬
‫آ رہا ‪،‬جوسلین جذباتی ہو رہی‬
‫تھی‪،‬مجھے موضوع بدلنا پڑا‪،‬یہ سب کیا‬
‫ہے نازیہ میں نے اس کے دلہن بننے‬
‫کی طرف اشارہ کیا‪،‬میرے پرنس تم‬
‫سے مالقات کا اس سے بہتر آئیڈیا نہیں‬
‫تھا‪،‬میں چاہتی ہوں ہماری پہلی رات‬
‫زندگی کی یاد گار رات ہو‪،‬بڑی بڑی‬
‫آنکھیں ‪،‬لمبی پلکیں ‪،‬ستواں ناک‪،‬تیکھا‬
‫چہرہ‪،‬خوشنما گال‪،‬رسیلے ہونٹ ‪،‬لمبے‬
‫گھنے بال‪،‬اسمارٹ جسم ‪،‬اور جھانکتے‬
‫ہوئے دل فریب ممے‪،‬گوری رنگت جس‬
‫میں سرخی شامل ہو‪،‬بار بار میں اس‬
‫کے ُحسن میں گویا نئے سرے سے کھو‬
‫جاتا تھا‪،‬‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫کیا یہ کوئی خواب تو نہیں میں ہاتھ بڑھا‬
‫کہ اسے چھوا‪،‬جوسلین بے تابی سے‬
‫میرے سینے پر آلگی‪،‬میں نے اس کی‬
‫آنکھوں کو چوم لیا پھر اس کے گالوں‬
‫سے چوما‪ ،‬پھر اس کے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ب حیات کے‬ ‫لب رکھ دیا‪،‬جیسے کوئی آ ِ‬
‫پیالے کو منہ لگاتا ہے‪،‬اور پھر میں اس‬
‫کے ہونٹوں کی شراب کو دھیرے‬
‫دھیرے پینے لگا‪،‬میرے ہاتھوں میں‬
‫ایک انمول جینئس عورت تھی‪،‬سیکس‬
‫کے بارے میں اس کی مہارت استاد‬
‫کے درجے سے آگے رہنما تک چلی‬
‫گئی تھی‪،‬اس کی گردن میرے ایک بازو‬
‫پر تھی اور اس کا چہرہ میری طرف‬
‫تھا اس کی گردن کیطرف دیکھتے‬
‫ہوئے مجھے سمجھ آئی کہ اس نے‬
‫اپنے لیے تحفہ کیوں لینے کو کہا تھا‪،‬‬
‫‪Part²⁸‬‬

‫وہ آج کی رات کو یاد گار بنانا چاہتی‬


‫تھی‪،‬میں نے شیروانی کی جیب سے‬
‫چین نکالی تو جوسلین کی آنکھوں میں‬
‫چمک آگئی‪،‬اس کے گال الل رنگ کے‬
‫ہونے لگے‪،‬مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ‬
‫وہ شرما رہی ہے‪،‬بعد میں ایک کتاب‬
‫میں پڑھا کہ طوائف بھی ایسے مرد‬
‫کے پاس آ کہ شرما جاتی ہے جسے دل‬
‫سے اپنا مرد اپنا محبوب مانتی ہے‪،‬میں‬
‫نے ایک ہاتھ سے ہی چین اس کے گلے‬
‫میں ڈال دی‪،‬اور ڈائمنڈ آگے کر دیا‪،‬وہ‬
‫چھوٹے سے دل کی شکل میں‬
‫تھا‪،‬شکریہ میرے پرنس ‪،‬میں ہمیشہ اس‬
‫تحفے کو اپنے دل سے لگا کر رکھوں‬
‫گی‪،‬اب میں بھی اپنےپرنس کو تحفہ دینا‬
‫چاہتی ہوں ‪،‬لیکن سوچ سوچ کے دماغ‬
‫تھک گیا ہے اور سمجھ پھر بھی نہیں‬
‫آیا کہ میں اپنے پرنس کے الئق کیا‬
‫تحفہ دوں ‪،‬بڑا سوچا تو ایک تحفہ سمجھ‬
‫میں آیا‪،‬اگر تم قبول کر لو تو میں‬
‫سمجھوں گی کہ میری زندگی کی ہر‬
‫مراد پوری ہوگئی‪،‬میں سوالیہ نظروں‬
‫سے اس کی طرف دیکھنے لگا‪،‬اپنا ہاتھ‬
‫آگے کرو ‪،‬جوسلین نے کہا تو میں نے‬
‫ہاتھ آگے کر دیا‪،‬جوسلین نے میری‬
‫آنکھوں میں دیکھا اور اپنا ہاتھ میرے‬
‫ہاتھ میں دے دیا‪،‬‬
‫آج سے میں مکمل رضا مندی سے اپنا‬
‫آپ اپنے پرنس کو سونپتی ہوں ‪ ،‬میں‬
‫اس کے الفاظ اور لہجے کی تاثیر میں‬
‫کھو گیا‪،‬جوسلین نے لہنگے کا اوپری‬
‫حصہ اتار دیا ‪،‬جیسے گفٹ کا ریپر اتارا‬
‫جاتا ہے‪،‬اس کا چاندی جیسا جسم تھا یا‬
‫دودھیا بدن تھا ‪ ،‬یا شہد کا ذائقہ کھال‬
‫ہواتھا یا اس کا جسم ریشم جیسا تھا‬
‫سلکی بدن ‪،‬بلکہ نہیں جسمانی تعریف‬
‫میرے لیئے تو لفظوں میں بیان کرنا‬
‫مشکل ہے اور کیفیات بیان کرنے کیلیے‬
‫تو الفاظ کی کم مائیگی کا شدید احساس‬
‫ہوتا ہے بس جو بھی تھا بےحد تھا بے‬
‫پناہ تھا میں نے اس کی کمر اپنے سینے‬
‫سے لگا لی اور اور اس کا بریزیر‬
‫اتارنے لگا‪،‬ہُک کھول کے میں نے ہاتھ‬
‫پیچھے سے اس کی برا میں جانے‬
‫دیئے اور ریشمی ممے پکڑ لیا‪،‬دونوں‬
‫ہاتھوں سے مموں کو آہستہ آہستہ‬
‫مسلنے لگا‪،‬اور ساتھ میں اس کے‬
‫کندھے اور گردن کو چومنے‬
‫لگا‪،‬تھوڑی دیر بعد جوسلین نے اپنا‬
‫چہرہ میری طرف کر لیا‪،‬اور میر‬
‫شیروانی کے بٹن کھولنے لگی‪،‬شیروانی‬
‫اتار کے اس نے میرا کرتا اور بنیان‬
‫بھی اتار دی‪،‬اور ساتھ ہی میرے ناڑے‬
‫پر ہاتھ ڈال دیا‪،‬پاجامہ اتار کہ ہم ساتھ‬
‫ساتھ لیٹ گئے‪،‬اور میں اس کا چہرہ‬
‫چومنے لگا‪،‬چہرہ چومتے ہوئے میں‬
‫اس کے گردن چو متا ہوا اس کے‬
‫کندھے اور سینہ چومنے لگا‪،‬میرے ہاتھ‬
‫مسلسل اس کےممے کو سہال رہے‬
‫تھے‪،‬اسی طرح میں اس حسین وادی‬
‫کے پگڈنڈیوں پر ادھر ادھر پھرتا ہوا‬
‫اس کے پیٹ کو چومتا ہوا اس کا لہنگا‬
‫اتارنے لگا‪،‬لیکن جوسلین نے میرا ہاتھ‬
‫پکڑ لیا‪،‬آہ میرے پرنس بہت اچھا کر‬
‫رے ہو ‪،‬پر جو بھی کرنا ہے اس لہنگے‬
‫کے ساتھ ہی کرنا ہے تا کہ اس کی‬
‫قیمت وصول ہو جائے ‪،‬‬

‫میں نے آہستگی سے اس کا لہنگا اوپر‬


‫اٹھا دیا‪،‬نیچے ۔۔۔۔ اس نے کچھ نہیں پہنا‬
‫انہدام‬
‫ِ‬ ‫ہوا تھا‪،‬میں براہ ِ راست اس کی‬
‫دانی (چوت)کو دیکھنے لگا‪،‬بے شک‬
‫کپڑے اتار کے اس کا ُحسن ُدگناتِگنا ہو‬
‫گیا تھا ‪،‬میں اس کی ٹانگیں چومتا ہوا‬
‫واپس مموں پر آگیا اور ممے چوسنے‬
‫لگا‪،‬اسوقت میں اتنا ماہر نہیں تھا‪،‬پھر‬
‫مجھ پر جوسلین کی شخصیت کا بھی‬
‫رعب تھا‪،‬کیونکہ ایک تو وہ حسین بہت‬
‫تھی اوپر سے سیکس میں استاد سے‬
‫بھی آگے تھی‪،‬میں اسے سیکس میں کیا‬
‫مزہ دے سکتا تھا‪،‬نازیہ نے میری‬
‫جھجک محسوس کر لی‪،‬میرے‬
‫پرنس‪،‬سیکس کے بارے میں دنیا کا سار‬
‫علم بھی کسی کو آجائے تو پھر بھی‬
‫چودائی کیلیے نہ کوئی نیا سوراخ نکل‬
‫آنا ہے اور نہ کوئی چودنے کو عضو‬
‫کےساتھ کچھ اور نکل آنا ہے یہ موری‬
‫ہے اور یہ عضو ہے اور اسی طرح‬
‫چوما چاٹی کیا جاتا ہے‪،‬ویسے بھی‬
‫تمھیں کسی مہارت کی ضرورت نہیں‬
‫ہے ‪ ،‬جو کچھ تمھارے پاس ہے ‪،‬اسے‬
‫کسی مہارت کی ضرورت نہیں ‪،‬تم ہاتھ‬
‫ہی لگا دو تو جسم میں مزے کی لہریں‬
‫اٹھنے لگتی ہیں‪،‬اسلیے کھل کے پیار‬
‫کرو اپنی جوسلین کو‪،‬جوسلین کے الفاظ‬
‫سے مجھ میں بے باکی آگئی اور میں‬
‫عضو اس کی چوت پر رگڑتے ہوئے‬
‫ممے چوسنے لگا‪،‬جو مجھے آتا تھا میں‬
‫وہی کر رہا تھا اور نازیہ کے تاثرات بتا‬
‫رہے تھے وہ ایک ایک پل سے‬
‫محظوظ ہو رہی ہے‪،‬یہ سیکس کے‬
‫اثرات نہیں تھے بلکہ چہرے پر جوش‬
‫تھا جیسے کوئی انمول خزانہ پانے کے‬
‫تاثرات تھے‪،‬آہستہ آہستہ ہم پر سیکس‬
‫غالب آنے لگا‪،‬میں کیا کر رہا تھا میں‬
‫اس کے جسم کو اوپر سے نیچے چوم‬
‫رہا تھا ‪،‬اس کے ممے چوس رہا تھا ‪،‬‬
‫اس کے جسم سے میرا جسم رگڑ کھا‬
‫رہا تھا ‪،‬اس سے اسپارکنگ ہو رہی تھی‬
‫‪،‬اور اس اسپارکنگ سے جسم ہیجان‬
‫میں مبتال ہو رہے تھے‪،‬بعد میں جوسلین‬
‫نے مجھے بتایا کہ اسے فورپلے کہتے‬
‫ہیں ‪،‬ہمارے دیسی ماحول ماحول میں‬
‫اسے گرم کرنا کہتے ہیں ‪،‬لیکن گرم‬
‫کرنے اور فور پلے کی تھیوری اور‬
‫پریکٹیکلی میں بہت فرق ہے‪،‬گرمی تو‬
‫چوت کے پہلے حساس ترین مقام‬
‫المعروف چوت کا دانہ لیکن اس کا (‬
‫اردو میں صحیح نام بظرہے یہ مرغی‬
‫کی کلغی یا مٹر کے دانے جیسا ہوتا ہے‬
‫اور ‪ 5/1‬یا ‪ 4/1‬انچ ہوتا ہے یہ چوت‬
‫کے لبوں کے اندر سوراخ سے ڈیڑھ‬
‫انچ اوپر ہوتا ہے مگر کچھ عورتیں‬
‫چوت کے سوراخ والی جگہ سے زیادہ‬
‫گرم ہو جاتی ہیں بظر کو چودائی کے‬
‫دوران عضو چھو نہیں سکتا اسے‬
‫انگلیاں سے ہی چھیڑا جا سکتا ہے یا‬
‫عضو ہاتھ میں پکڑ کر اس کے ہیڈ کو‬
‫) اس پر رگڑا جا سکتا ہے‬
‫کو چھیڑنے سے بھی چڑھ جاتی ہے‬
‫‪،‬سچی بات تو یہ کہ نازیہ کے جسم‬
‫سے میرا دل نہیں بھر رہا‬
‫تھا‪،‬اورجوسلین اب چودائی کیلیے اُتاولی‬
‫ہو رہی تھی ‪،‬میرے لیے یہ بڑی بات‬
‫تھی کہ جوسلین جیسی سیکس جینئس‬
‫کو میں سیکس کے ہیجان میں مبتال‬
‫کرچکاتھا۔آہ میرے پرنس تمھارا جادو‬
‫سر پر چڑھ گیا ہے‪،‬آج تک مجھے‬
‫چودائی کیلیے کوئی بھی اتنا بے تاب‬
‫نہیں کر سکا‪،‬یہ سب تمھاری جنسی‬
‫کشش کا کمال ہے‪،‬اب اندر ڈال دو اور‬
‫ہمیشہ کیلیے مجھے اپنا بنا لو‪،‬بے شک‬
‫تم وہی ہو جس کی صرف آرزو کی‬
‫جاسکتی تھی‪،‬نازیہ کا ُحکم سرآنکھوں‬
‫پر مگر میرا دل اس کے جسم کی‬
‫رعنائیوں سے نہیں بھرا تھا‪،‬پھر بھی‬
‫میں نے اس کی ٹانگیں کھول کے‬
‫مخصوص پوزیشن بنائی ‪،‬جوسلین‬
‫مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہی‬
‫تھی ‪،‬لہنگے کے پیچھے واال حصہ اس‬
‫کی گانڈ اور ٹانگوں کے نیچے پڑا تھا‬
‫۔میں اسے اوپر کرنا چاہا تو اس نے سر‬
‫ہال کہ مجھے منع کر دیا ‪،‬گویا اس وقت‬
‫بولنے کی بھی حالت نہیں تھی‪،‬بہر حال‬
‫میں نے اس کی ٹانگوں کو موڑا اور‬
‫گھٹنے اوپر کی طرف ہو گئے اور میں‬
‫آگے ہوا ‪،‬میرے گھٹنے لہنگے کے اوپر‬
‫آگئے‪،‬اچھے بھلے لہنگے کا ستیاناس‬
‫ہونے لگا تھا‬
‫کیونکہ ا سکا کپڑا بڑا ہی نازک تھا‬
‫لہنگا تقریبا ڈیڑھ الکھ کا توتھا ہی‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫۔شایدجوسلین اس کا ستنیا ناس ہی چاہتی‬
‫تھی‪،‬میں تھوڑا آگے ہوا اور عضو اوپر‬
‫رکھنے لگا تو جوسلین نے اپنا ہاتھ بڑھا‬
‫کے میرا عضو پکڑ لیا اس کے لیے‬
‫اسے تھوڑا اوپر ہونا پڑا ‪،‬میرا عضو‬
‫اپنی چوت پر صحیح رکھ کہ جوسلین‬
‫نے میری طرف دیکھاتو میں نے اندر‬
‫ڈالنا شروع کر دیا ‪،‬جوسلین کی آنکھیں‬
‫اس منظر پر ایسے چپکی ہوئی تھیں‬
‫جیسے وہ اس لمحے کو اپنی آنکھوں‬
‫میں ہمیشہ کیلیے محفوظ کرلینا چاہتی‬
‫ہو‪ ،‬عضو اندر جاتا ہوا کچھ حیران تھا‬
‫کیونکہ چوت کی دیواروں نے اسے‬
‫گرم جوشی میں لپٹ کر خوش آمدید کہا‬
‫‪،‬جیسا نازیہ نے اپنے بارے میں بتایا‬
‫تھا‪،‬ایسے تو چوت کھلی نہیں تو نارمل‬
‫ہی ہونی چاہیئے تھی‪،‬لیکن یہ تو تنگ‬
‫تھی‪،‬شاید کم عمر نظر آنے کی طرح ا‬
‫سمیں بھی جوسلین کا کوئی کمال تھا ‪،‬‬
‫(تھوڑی سے پھٹکری چوت پر ملنے‬
‫سے وہ سوج جاتی ہے کیونکہ چوت‬
‫حساس ہوتی ہے اور پھٹکری تیز ہوتی‬
‫ہے اوراس سوجن سے چوت ٹائیٹ ہو‬
‫جاتی ہے اس طرح کچھ کال گرلز یا‬
‫شوقین لڑکیاں مزہ دینے کیلیئے یا کنورا‬
‫پن محسوس کروانے کیلیے اور بھی‬
‫کئی ٹوٹکےاستعمال کرتی ہیں ‪،‬لیکن‬
‫جوسلین کی چوت اوریجنل ٹائیٹ تھی)‬
‫میں بہت ُچن کر سیکس پارٹنر بناتی‬
‫ہوں ‪،‬اور شادی صرف ڈیڑھ سال چلی‬
‫تھی شایدجوسلین نے میری حیرانگی‬
‫محسوس کر لی تھی اور بات کو سمجھ‬
‫گئی تھی‪ ،‬چودو پرنس اس لمحے کے‬
‫میں نے برسوں خواب دیکھے‬
‫ہیں‪،‬تمھیں پتہ ہونا چاہیئے خواب صرف‬
‫خوش قسمت لوگوں کے پورے ہوتے‬
‫ہیں اور تم سے ملنے کے بعد مجھے‬
‫یقین ہوگیا ہے کہ میں خوش قسمت‬
‫ب عادت آہستہ آہستہ‬
‫ہوں‪،‬میں حس ِ‬
‫چودنے لگا ‪،‬نازیہ نے اپنی آنکھیں بند‬
‫کر لی‪،‬وہ مزے کے سمندر میں گہرا‬
‫غوطہ لگانے کے لیئے تیار تھی۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫میں بھی تیز ہونے لگا‪،‬میری تیزی میں‬
‫جوسلین کا جسم کا بڑا دخل تھا ‪،‬اس‬
‫وقت میں جسم کے مرکز پر تھا اور‬
‫وہاں پر سارے جسم کا نچوڑ تھا‪،‬اس‬
‫نچوڑ سے میں میں اپنے لیئے مزہ‬
‫نچوڑ رہا تھا‪،‬دھیرے دھیرے میری‬
‫رفتار اور تیز ہونے لگی‪،‬نازیہ کا جسم‬
‫ہلنے لگا‪،‬اگر میں نے جوسلین پر سحر‬
‫کر دیا تھا اور اسے ہیجان میں مبتال کر‬
‫دیا تھا تو اس کے جسمانی ُحسن نے‬
‫مجھے بھی پاگل کر دیا تھا‪،‬اور اس‬
‫پاگل پن میں میری رفتار اور دھکوں‬
‫میں شدت آگئی تھی‪،‬اتنی شدت کے بیڈ‬
‫بھی چوں چوں کرنے لگا تھا‪،‬جوسلین‬
‫سسکاریاں بھرنے لگی‪،‬کبھی کبھی اس‬
‫کی آواز تیز ہوجاتی ‪،‬جو کہ رات کے‬
‫سناٹے میں دور تک جا سکتی تھی ‪،‬میں‬
‫کچھ آہستہ ہوا ‪،‬چودو مجھے چودو‬
‫‪،‬پورا فلیٹ ساؤنڈ پروف ہے‪،‬جوسلین ہر‬
‫بار کی طرح میری الجھن سمجھ‬
‫گئی‪،‬ایک پل کیلیے میں آہستہ ہوا تھا‬
‫اور دوسرے پل ہی میں وہیں سے‬
‫چودائی شروع کر دی‪،‬شکر ہے چودائی‬
‫کا ردھم ٹوٹا نہیں بلکہ ماحول اور زیادہ‬
‫جم گیا‪،‬کیونکہ میں اب اور کھل گیا تھا‬
‫اب میری بے معنی آوازیں نکل رہی‬
‫تھیں ‪،‬جوسلین مسلسل مجھے بڑھاوا‬
‫دیئے جا رہی تھی‪،‬خود اس کا بھی برا‬
‫حال تھا ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا تھا‬
‫کہ ہم اپناکنٹرول کھو بیٹھے تھے‪،‬اور‬
‫پتہ نہیں ایکدوسرے کو کیا کیا کہہ رہے‬
‫تھے‪،‬‬
‫‪Part ²⁹‬‬
‫جوسلین کا جسم میرے دھکوں سے تیز‬
‫ہوا میں سوکھے پتوں کی طرح اڑ رہا‬
‫تھا۔اتنی شدت سے میں نے نہ نگینہ کو‬
‫اور نہ ہی پھر سحرش کو چودسکا تھا۔‬
‫یہ سارا کمال جوسلین کا تھا ‪،‬اور یہ‬
‫جس کی طلب تھی اسے ہی ملنا‬
‫تھا‪،‬جوش میں تھکن کا احساس تو کیا‬
‫ہونا ‪،‬بس میں بھرپور دھکے لگانے‬
‫کیلیے کچھ رفتا ر کم کر بیٹھا ‪،‬اور‬
‫جوسلین اٹھ کے بیٹھ گئی مجھے اس‬
‫نے کمر سے بانہوں کے گھیرے میں‬
‫لے لیا ‪،‬اور اسی حالت میں مجھے‬
‫پیچھے کیا تو میں بیڈ کی دوسری طرف‬
‫سیدھا لیٹ گیا اور جوسلین میرے اوپر‬
‫بیٹھ گئی ‪،‬ابھی تک عضو اس کے اندر‬
‫ہی تھا‪،‬س نے لہنگا سائیڈوں پر پھیال‬
‫لیا‪،‬اور اوپر نیچے ہونے لگی‪،‬‬
‫یقناجوسلین چودائی کے جوش میں اوپر‬
‫آگئی تھی اور اسی جوشیلے انداز میں‬
‫اب چودائی کر رہی تھی‪،‬اب مجھے‬
‫احساس ہو رہا تھا کہ سیکس میں‬
‫استادی کسے کہتے ہیں ‪،‬اس اسٹائل میں‬
‫نگینہ نے بھی چودائی کی تھی مگر اب‬
‫سمجھ آرہا تھا کہ وہ تو بس اندر ڈاال‬
‫اور دھکم پیل شروع کر دی ‪،‬اصل‬
‫چودائی تو یہ تھی‪،‬اسوقت سے یہ میرا‬
‫پسندیدہ اسٹائل بن گیا۔‬
‫یہ دوسرا آسان ترین اور چودائی کیلیے‬
‫بہترین اسٹائل ہے اس میں عورت فاعلی‬
‫کردار ادا کرتی ہے اس میں رفتار اور‬
‫دھکے کچھ نہیں کرتے سب کچھ‬
‫عورت یا لڑکی کا وزن کرتا ہے‪،‬عورت‬
‫نے جوش سے بس اوپر جانا ہے اور‬
‫پھر نیچے آتے ہوئے اس کا جسمانی‬
‫وزن عضو پر ایسی چڑھائی کرتا ہے‬
‫ایسا لپیٹتا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھو کتنا‬
‫مزہ آتا ہے ‪،‬لگے ہاتھوں پہلے مفید‬
‫ترین اسٹائل کی بات بھی ہو جائے اور‬
‫وہ یہ ہے کہ عورت نیچے لیٹی ہو اور‬
‫مرد اوپر لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کچھ بیٹھا‬
‫کچھ لیٹا ‪،‬چودائی کرے‪،‬یہ دنیا کا سب‬
‫سے بہترین ‪ ،‬آسان ترین اور مقبول‬
‫ترین اسٹائل ہے‪ ،‬چوت کی ساخت کے‬
‫اعتبار سے‪ ،‬اور پیار کو سامنے رکھتے‬
‫ہوئے‪،‬ممے اور چہرہ بلکہ پورا جسم سا‬
‫منے اور پہنچ میں ہوتا ہے‪،‬انکھوں سے‬
‫چودائی کو دیکھتے ہوئے مزہ دوگنا‬
‫ہوجاتا ہے تیسرا مقبول ترین اور بہترین‬
‫اسٹائل گھوڑی بنانا ہے اسے عام طور‬
‫پر ڈوگی اسٹائل کہتے ہیں یعنی کہ‬
‫لڑکی کو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل‬
‫ُکتی بنا کر چودنا لیکن میں اسے‬
‫گھوڑی اسٹائل کہنا زیادہ مناسب سمجھتا‬
‫ہو ں‪،‬اس میں مرد اگر اپنے پاؤں پر‬
‫کھڑا ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے‪،‬جی‬
‫اسپاٹ یعنی دوسرے حساس ترین جگہ‬
‫کو اس اسٹائل میں بڑی اچھی طرح‬
‫عضو سے چھوا جاسکتا ہے جس سے‬
‫لڑکی جلدی انتہا پر پہنچ جاتی ہے‪،‬اس‬
‫اسٹائل میں کچھ اور طریقے بھی ہیں‬
‫جیسے لڑکی ہاتھ دیوار سے ٹکا کر ‪،‬یا‬
‫ہاتھ کسی ٹیبل پر ٹکا کر یا کار کے‬
‫دروازے کو پکڑ کر یا ائیر پلین میں‬
‫سیٹ کا سہارا لیکر یا کسی شپ میں‬
‫کسی بھی چیز کا سہارا لیکر گانڈ‬
‫پیچھے نمایا ں کرے اسوقت لڑکی کو‬
‫تھو ڑا جھکا کہ یا کھڑے کر کے چوت‬
‫میں چدائی کی جا سکتی ہےمیرے‬
‫تجربے کیے مطابق یہ تین اسٹائل‬
‫سیکس کا نچوڑ ہیں۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫جوسلین کی ہر حرکت بتا رہی تھی کہ‬
‫مزہ اس طرح لیا اور دیا جاتا‬
‫ہے‪،‬جوسلین میری جان ‪،‬بہت مزہ آ رہا‬
‫ہے میں بے اختیار بول پڑا‪،‬جوسلین‬
‫چودائی کرتی کرتی میرے اوپر لیٹ‬
‫گئی اور میرے چہرے کے سامنے اپنا‬
‫چہرہ کر کے کہنے لگی‪،‬ایکبار پھر‬
‫کہنا ‪،‬کیا کہا مجھے ؟ بہت مزہ آرہا‬
‫ہے‪،‬میں نے اس کی فرمائش پوری‬
‫کی‪،‬نہیں جو اس سے پہلے کہا تھا وہ‬
‫مجھے کہو‪،‬جوسلین تھوڑا آگے پیچھے‬
‫بھی ہورہی تھی جس سے چدائی کا مزہ‬
‫بھی آرہا تھا میں نے کہا جوسلین میری‬
‫جان میں نے اس کی آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے پھر کہا‪ ،‬بہت اچھا لگا‬
‫مجھے ‪،‬سن کر دلی خوشی ہوئی‪،‬اور‬
‫جوسلین پھر بیٹھ کر چدائی کرنے‬
‫لگی‪،‬جوسلین میری جان ‪،‬جوسلین میری‬
‫جان میں اونچی اونچی چالنے‬
‫لگا‪،‬جوسلین کھلکھال کر ہنسنے لگی‪،‬اس‬
‫کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی‬
‫تھی اور اس خوشی میں ‪،‬جوسلین کی‬
‫چدائی کا فن کھل کے سامنے آ رہا تھا‬
‫‪،‬گو کہ میں اس وقت میں سیکس کے‬
‫باے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ کہ وہ جو بھی‬
‫کر رہی ہے بہترین کر رہی ہے‪،‬ابھی‬
‫اس نے کہا تھا کہ سیکس ایکسپرٹ‬
‫ہونے سے چدائی تو پھر بھی ویسے ہی‬
‫ہونی ہے جیسے ہوتی ہے ۔‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫مگر حقیقت یہ تھا کہ ایک ہی کام کو‬
‫عام فرد کے کرنے سے اور استاد کے‬
‫کرنے میں بہت فرق ہے‪،‬میرے پرنس‬
‫کیسا لگا تمھیں یہ اسٹائل ‪،‬جوسلین نے‬
‫مخصوص انداز میں چودائی کرتے‬
‫ہوئے مجھے مخاطب کیا‪ ،‬میں تو اس‬
‫وقت ہواؤں میں اڑ رہا تھا ‪،‬ہر بات‬
‫بوجھ لینے وا لی جوسلین مجھ سے کچھ‬
‫خاص سننا چاہتی تھی ‪،‬زبردست اسٹائل‬
‫ہے‪،‬مزہ آگیا‪،‬میرا پہلے بھی اتفاق ہوچکا‬
‫ہے مگر جو آج ہو رہا ہے اِس میں اور‬
‫اُس میں زمیں اور آسماں کا فرق‬
‫ہے‪،‬زبردست جوسلین میری جان‪،‬میری‬
‫بات سے جوسلین پھر کھلکھال کر‬
‫ہنسنے لگی‪،‬چلو اوپر آجاؤ اب تمھاری‬
‫باری ہے ‪،‬جوسلین میرے اوپر لیٹ گئی‬
‫‪،‬مگر یاد رکھنا باہر نہ نکلے ‪،‬میں نے‬
‫بیٹھ کر جوسلین کو پیچھے کیا وہ‬
‫بازوؤں کے سہارے پیچھے لیٹ گئی‬
‫اور پھر جوسلین میرے نیچے آگئی اور‬
‫میں اس کے اوپر آگیا‪،‬عجیب بات تھی‬
‫اس نے اس دوران لہنگا پھر نیچے لے‬
‫لیا تھا۔میں اس کی چودائی کرنے لگا تھا‬
‫پہلے ہم بہت تیز تھے پھر دھکوں میں‬
‫شدت آتی گئی‪،‬پھر اس ہیجانی حرکات‬
‫بھی آئیں جب ہم خود پر کنٹرول نہ رکھ‬
‫سکے ‪،‬اور پھر جوسلین کے اوپر آنے‬
‫سے ماحول بدل گیا ۔‬
‫سرور میں ڈوب‬ ‫میں اس کی چدائی کے ُ‬
‫گیا‪،‬اور اب میں طاقت سے دھکے لگا‬
‫رہا تھا مگر رفتار نارمل تھی‪،‬میں‬
‫سوچنے لگا میری تو اتنی ٹائمنگ نہیں‬
‫ہے ‪،‬میں تو حد پندرہ منٹ میں فارغ ہو‬
‫جاتا ہوں‪،‬بلکہ ہر انسان کی پانچ سے‬
‫لیکر پندر ہ منٹ تک ہی ٹائمنگ بنتی‬
‫ہے ‪،‬اس سے کم اور اس سے زیادہ یا‬
‫تو میڈیسن سے ممکن ہے یا پھر اس‬
‫انسان کے ساتھ کوئی مسلہ ہے‪،‬جیسے‬
‫پانچ منٹ سے کم والے وہ ہوں گے جو‬
‫سگریٹ پیتے ہوں گے یا ہینڈپریکٹس‬
‫کرتے ہوں گے اور بھی کئی وجوہات‬
‫ہیں جیسے کبھی کبھی ہیجان میں مبتال‬
‫ہوں جائیں یا عرصے بعد سیکس کر‬
‫رہے ہوں تو پانچ منٹ سے پہلے بھی‬
‫فارغ ہو جاتے ہیں ‪،‬اور زیادہ منٹ‬
‫والے وہ ہوں گے جو چرس ‪،‬افیم وغیرہ‬
‫کے عادی ہوتے ہیں‪،‬یا میڈیسن استعمال‬
‫کرتے ہیں ۔یا کچھ اور مسلہ ہو ‪،‬اگر‬
‫کوئی کہے کہ اس وقت آدھا یا پونا گھنٹا‬
‫قدرتی ہے تو پھر جھوٹ ہی ہو گا۔ یا‬
‫کوئی سپر مین ہو شاید ‪،‬زیادہ تفصیل‬
‫کی اسوقت گنجائش نہیں ہے۔‬
‫‪Part³⁰‬‬
‫میں نازو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ہم‬
‫ابھی تک فارغ کیوں نہیں ہوئے‪،‬مگر‬
‫میں لگا رہا ایسی باتوں کو سمجھنے‬
‫کیلیے بڑا وقت پڑا تھا۔ میں اسی بارے‬
‫میں سوچ رہا تھا کہ جوسلین بول پڑی‬
‫‪،‬میرے پرنس ہم آنے والے ہیں‬
‫‪،‬جوسلین نے مجھے کچھ سمجھایا شاید‬
‫اسے وقت کا کچھ اندازہ تھا اسی لیئے‬
‫وہ نیچے آئی تھی ‪،‬نیچے آنے اور‬
‫لہنگے میں ضرور کوئی تعلق تھا‪،‬اب‬
‫میں بھی جوسلین کی طرح اندازہ لگانے‬
‫کی کوشش کر رہا تھا اور میں پھر‬
‫جوش میں پہلے والے موڈ میں آگیا تھا‬
‫اور دھکا دھک چودائی رہا تھا ‪،‬چودائی‬
‫سےجوسلین کے ممے دلفریب انداز میں‬
‫حرکت کر رہے تھے ‪،‬اور مجھے ان‬
‫کو چھونے کی طلب ہو رہی تھی‪،،‬میں‬
‫اپنے گھٹنوں کے بل اس کے اوپر لیٹ‬
‫گیا ‪،‬تا کہ اس پر میرا وزن نہ پڑے اور‬
‫اس کے ممے پکڑ کے چودائی کرنے‬
‫لگا‪،‬میرے پرنس تم جو بھی کرو جسم‬
‫میں مدو جزر کی طرح اُتھل پتھل ہو‬
‫جاتی ہے ۔میں سمجھتی تھی سیکس میں‬
‫مہارت سے چودائی کا مزہ زیادہ سے‬
‫زیادہ لیا جاسکتا ہے مگر میرے اندازے‬
‫کے مطابق تمھیں اس کی ضرورت‬
‫نہیں ہے اور اگر تم سیکس ایکسپرٹ بن‬
‫بھی گئے تو دو آتشہ ہو جاؤ‬
‫گے‪،‬تھوڑی دیر میں ہی ہماری حالت‬
‫بدلنےلگی مجھے محسوس ہوا وقت‬
‫قریب آ رہا ہے ‪،‬جوسلین بھی ایسے ہی‬
‫لگ رہی تھی ‪،‬میرے پرنس سارا پانی‬
‫اندر ڈال دینا ‪،‬میری چوت تمھارے پانی‬
‫کا ذائقہ چکھنا چاہتی ہے‪،‬اس پانی کی‬
‫مہک میں اپنے جسم میں سمونا چاہتی‬
‫ہوں‪،‬اس پانی سے میں اپنی چوت کی‬
‫پیاس بجھانا چاہتی ہوں ‪،‬میں نے سر ہال‬
‫دیا اس وقت میں بولنا نہیں چاہتا تھا‬
‫نہیں تو اسے بتاتا کہ میں نے نگینہ اور‬
‫سحرش کے اندر ہی پانی ڈالتا تھا ‪،‬نگینہ‬
‫تجربے کار تھی اسے حمل کا کوئی ڈر‬
‫نہیں تھا اور سحرش کے ساتھ اس کی‬
‫بہن یا کوئی دوست تھی جو اس‬
‫کوسیکس ٹریننگ دے چکی تھی ۔‬
‫آہ ہ ہ ہ ہ ‪،‬میرے پرنس‪،‬جسم میں جان‬
‫کھچ رہی ہے‪،‬میری بھی حالت ایسے ہی‬
‫تھی‪،‬منزل قریب ہی تھی‪،‬میں نے‬
‫اضطراری انداز میں چدائی کرتے‬
‫ہوئے کچھ دھکے اور پورے اندر جا‬
‫کہ گہرائی میں مارے‪،‬اور میں اور‬
‫نازیہ سسکے‪،‬ہم نے ایکدوسرے کو‬
‫بانہوں میں جکڑ لیا‪،‬بلکہ میں نے تو‬
‫اپنی ٹانگوں سے اس کے جسم کو کس‬
‫لیا‪،‬جوسلین مجھے چمٹ چکی‬
‫تھی‪،‬ہمارے جسم چھوٹے چھوٹے‬
‫جھٹکے لیتے رہے‪،‬میرے پرنس میرا‬
‫کبھی اتنا پانی نہیں نکال‪،‬میرا بھی‪ ،‬میں‬
‫نے اسے کہا‪،‬پھر میں علیحدہ ہونے لگا‬
‫تو نازیہ نے مجھے بانہوں سے جکڑے‬
‫رکھا‪،‬نہیں ابھی نہیں میرے پرنس ‪،‬فورا‬
‫علیحد ہ نہیں ہوتے‪،‬کچھ دیر اسی حالت‬
‫میں پڑے رہتے ہیں‪،‬اور ہوسکے تو‬
‫ایکدوسرے کو چوم کر پیار بھی کرتے‬
‫ہیں ‪،‬جوسلین نے مسکراتے ہوئے‬
‫مجھے پہلی بار سیکس نالج دیتے ہوئے‬
‫کہا‪،‬کبھی کبھی یہیں سے دوبارہ موڈ بن‬
‫جاتا ہے کیونکہ اندر رکھنے سے عضو‬
‫جلدی سست نہیں ہوتا‪،‬ٹھیک ہے‬
‫جوسلین میری جان میں نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬اور ہم نے لبوں کو لبوں سے‬
‫جوڑ دیا‪،‬کچھ وقت ہم نے ایسے گزارا‬
‫اور پھر میں عضو نکال کر جوسلین‬
‫کے پہلو میں لیٹ گیا‪،‬جوسلین اٹھ کے‬
‫بیٹھ گئی اور ہاتھ سے کچھ کرنے‬
‫لگی‪،‬میں نے دیکھا تو ہمارا پانی لہنگے‬
‫پر گرا ہوا تھا اور جوسلین چوت واال‬
‫پانی لہنگے پر گرا رہی تھی‪،‬لہنگے کا‬
‫ستیاناس ہو چکا تھا‪،‬جوسلین نے لہنگا‬
‫اتار کہ ایک سائیڈ میں احتیاط سے رکھ‬
‫دیا‪،‬اور میرے ساتھ لیٹ گئی‪،‬اس نے‬
‫ایک بازو میرے اوپر رکھ لیا اور میری‬
‫گردن سے نیچے سے گزار کر مجھے‬
‫نزدیک کر لیاہمارے چہرے ایکدوسے‬
‫کے سامنے تھے‪،‬میرےپرنس یہ لہنگا‬
‫پہلی مالقات کی یادگار کے طور پر‬
‫ہمیشہ بغیر دھوئے اسی حالت میں‬
‫سنبھال کر رکھوں گی۔یہ ہمیں پہلی‬
‫مالقات کی یاد دالتا رہے گا۔‬
‫ہم ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے پڑے‬
‫تھے ‪،‬جوسلین کا جسم مجھے پھر بال‬
‫رہا تھا میں اسے دوبارہ چودنا چاہتا‬
‫تھا۔جوسلین میرے عضو کو ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر سہال رہی تھی‪،‬دل اس کا بھی‬
‫کر رہا تھا‪،‬میرے پرنس چلو تمھیں جنت‬
‫کی سیر کرواؤں‪،‬نازو نے اٹھ کر میرے‬
‫عضو پر جھکتے ہوئے کہا‪،‬میں گہری‬
‫نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا‬
‫تھا‪،‬جوسلین عضو کو منہ میں لیتے‬
‫لیتے رک گئی ‪،‬کیا بات ہے میرے‬
‫پرنس‪ ،‬اس نے میرے چہرے کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا‪،‬نازو میری جان اس‬
‫میدان میں تم اکیلی ہو گی ‪،‬میں ادھر‬
‫نہیں آؤں گا‪،‬تم بے شک پیچھے ہٹ‬
‫سکتی ہو‪،‬میں نے اسے واضح طور پر‬
‫سمجھا دیا ‪،‬اور وہ سمجھ گئی تمھیں‬
‫میری چوت نہیں چاٹنی تو نہ صحیح‬
‫‪،‬لیکن میں اس عضو کو چوسے بغیر‬
‫نہیں رہ سکتی ‪،‬جوسلین نے جھک کر‬
‫میرا عضو پہال چوما پھر اس کو قلفی‬
‫کی طرح نیچے سے اوپر چاٹا اور پھر‬
‫اسے منہ میں لے لیا‪،‬نازو نے سچ کہا‬
‫تھا کچھ ہی دیر میں مزے کی جنت میں‬
‫پہنچ گیا ‪،‬بالشبہ جوسلین اورل سیکس‬
‫میں ماہر تھی‪،‬اور اس نے مجھے اس‬
‫سے بہت مزے دیئے‪،‬اس رات ہم نے‬
‫کئی باربھرپور چودائی کی‪،‬اور صبح‬
‫سو گئے۔‬
‫میرے پرنس اب اٹھ بھی جاؤ بہت‬
‫بھوک لگی ہےناشتہ تیار ہے جناب‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫جوسلین کی پیار بھری آوز مجھے نیند‬


‫کی وادیوں سے باہر لے آئی‪،‬میں نے‬
‫وقت دیکھا توسہہ پہر ہو رہی‬
‫تھی‪،‬جوسلین نے پہلی رات کو یادگار بنا‬
‫دیا تھا مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے‬
‫میں خواب میں تھا لیکن اب جوسلین کی‬
‫موجودگی بتا رہی تھی کہ گزری رات‬
‫ایک حقیقت تھی میں نے جوسلین‬
‫کوخودسے لپٹا لیا اور اس کے ہونٹوں‬
‫سے ہونٹ جوڑ دئے ‪،‬کچھ دیر ہم‬
‫کسنگ کرتے رہے۔پھر جوسلین نے‬
‫مجھے اٹھا لیا اور بڑے الڈ سے‬
‫کھنچتے ہوئے باتھ روم میں دھکا دیا‬
‫اور باہر سے چٹخنی لگا دی ‪،‬جلدی‬
‫سے نہا لو میرے پرنس‪،‬پھر مل کر‬
‫ناشتہ کریں گے میں نہا کر نکالاور‬
‫کچن میں ہی سیدھا چال گیا‪،‬وہاں‬
‫جوسلین میرے انتظار میں بیٹھی‬
‫تھی‪،‬مجھے دیکھتے ہی جوسلین نے‬
‫ایک ڈبیہ سے کچھ نکاال اسے ایک‬
‫معجون کے ساتھ ایک کپ میں ڈ اال اور‬
‫اسے پانی میں ڈال کر مکس کیا ‪،‬لو‬
‫پرنس اسے پی جاؤ ‪،‬میں اسے پی گیا(‬
‫یہ کشتہ مروارید تھااور اسے خمیرہ گاؤ‬
‫زبان میں ڈال کر مکس کیا تھا اگلے‬
‫پانچ سال تک میں اسے ہر روز نہار‬
‫منہ لیتا رہا‪ ،‬شروع شروع میں جوسلین‬
‫خود دیتی رہی پھر مجھے اس کی‬
‫عادت ہوتی گئی کبھی کبھار خمیرہ‬
‫ق گالب میں بھی‬ ‫گاؤزبان چھوڑ کر عر ِ‬
‫لیتا رہتا کبھی صبح نہ لے سکا تو‬
‫دوپہر کو لے لیا کیونکہ اس وقت بھی‬
‫کھانا کھانے سے پہلے معدہ خالی ہوتا‬
‫ہے‪،‬صرف ایک ماچس کی تیلی کی‬
‫نوک پر جتنا آ تا ا تنا ہی کشتہ مروارید‬
‫میں استعمال کرتا) پھر ہم ناشتہ کرنے‬
‫لگے‪،‬یہ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا‬
‫تھاکیونکہ اب سہہ پہر ہو رہی تھی ۔بڑا‬
‫زبردست کھانا ہے یار ‪،‬کیا ذائقہ ہے‬
‫تمھارے ہاتھ میں ‪،‬میں نے جوسلین کی‬
‫کھل کے تعریف کی‪،‬جوسلین دھیما‬
‫دھیما مسکرانے لگی‪،‬میں نے بڑے‬
‫عرصے بعد اتنے اہتمام سے کھانا بنایا‬
‫ہے‪،‬پرنس مجھے کھانا بناناکچھ خاص‬
‫نہیں آتا تھا ‪،‬اور میری مما کہتی تھی‬
‫جوسلین جب تم دل سے کسی کیلیے‬
‫کھانا بناؤ گی تو کھانا زبردست بن ہی‬
‫جائے گا اور اس دن تمھیں کھانے میں‬
‫ذائقہ ڈالنا آجائے گا‪،‬تو آج پرنس مجھے‬
‫تمھاری بدولت کھانا بنانا بھی آگیا‪،‬میں‬
‫ہنسنے لگا‪،‬بات بے بات ہنسنے کودل‬
‫چاہ رہا تھا‪،‬جوسلین کا چہرا بھی ایسا‬
‫تھا جیسے قمقمہ جل اٹھا ہو‪،‬ہم ڈرائنگ‬
‫روم میں آکر کافی پینے لگے‪،‬پھر وہاں‬
‫باتیں کرتے رہے ‪،‬اور پھر ہم بیڈروم‬
‫میں آگئے‪،‬میں نے جوسلین کو بانہوں‬
‫میں لے کر ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئے‬
‫‪،‬پھر وقت بیتنے کا پتہ ہی نہیں چال‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬۔‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫اسی سر شاری میں ایک ہفتہ گزر‬


‫گیا‪،‬ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا‪،‬بس‬
‫ہم تھے اور ہماری مستیاں تھیں‪،‬اس‬
‫دوران کچن ‪،‬باتھ روم‪ ،‬ڈرائنگ‬
‫روم‪،‬البریری ‪،‬بیسمنٹ ہرجگہ ہم نے‬
‫سیکس کیا ‪،‬گویا یہ ہمارا ہنی مون کا‬
‫پیریڈ تھا‪،‬لیکن ہم نے فلیٹ سے اک‬
‫لمحے کیلیے بھی قدم باہر نہیں‬
‫نکاال‪،‬جوسلین نے یونیورسٹی سے ایک‬
‫ہفتے کی چھٹیا ں لی ہوئی تھیں‪،‬اب کل‬
‫سے اس نے یونیورسٹی جانا تھا‪،‬پرنس‬
‫تم نے میٹرک کیاتھاتو اس کا رزلٹ‬
‫کیسا نکال‪،‬میں نے رزلٹ کا پتہ ہی نہیں‬
‫کیا‪،‬بلکہ سچ کہوں تو جوسلین میرا اس‬
‫طرف دھیان ہی نہیں گیا‪،‬ٹھیک ہے تم‬
‫اپنا رولنمبر بتاؤ اگر تمھیں یاد ہے‬
‫تومیں رزلٹ کا پتہ کرواتی ہوں‪،‬میں‬
‫نے اپنا رولنمبر بتا دیا‪،‬اگلے دن جوسلین‬
‫یونیورسٹی چلی گئی ‪،‬اور میں فلیٹ میں‬
‫تنہا رہ گیا‪،‬اور کچھ نہیں تو میں بائیک‬
‫لے کراستاد کی طرف نکل گیااور گھر‬
‫والوں کیلیے کچھ چیزیں بھی لے‬
‫گیا‪،‬وہاں استاد کی بیوی بڑی چاہت سے‬
‫ملی‪،‬کیوں رے بڑا بے مروت نکال‬
‫تو‪،‬ایک لمحے کیلیے ماں سے ملنے‬
‫بھی نہ آیا‪،‬معافی چاہتا ہوں اماں‬
‫جی‪،‬فوری نہ آسکا‪،‬لیکن آپ لوگوں کی‬
‫یاد مجھے بھی آتی تھی‪،‬استاد کے گھر‬
‫والے میرے ساتھ بہت خوش تھے وہ‬
‫دن بڑی تیزی سے نکل گیا‪،‬اور مجھے‬
‫اداس بھی کر گیا‪،‬دوپہر کا کھانا کھائے‬
‫بناء اماں نے آنے نہ دیا‪،‬پھر ان سے‬
‫اجازت لیکر میں فلیٹ میں پہنچ‬
‫گیا‪،‬جوسلین آچکی تھی میں وہاں ایک‬
‫چٹ لکھ کر گیا تھا اس لیئے وہ میرا ہی‬
‫انتظار کر ہی تھی ‪،‬اسے بڑی بھوک‬
‫لگی تھی ‪،‬جس بے تابی اور محبت سے‬
‫جوسلین میرا نتظار کر رہی تھی‬
‫‪Part³¹‬‬
‫‪،‬میں اسے یہ نہ کہہ سکا کہ میں کھانا‬
‫کھا کر آیا ہوں ‪،‬اور اس کے ساتھ‬
‫کھانے میں شامل ہوگیا‪،،‬کچھ زیادہ ہی‬
‫کھانے میری حالت میں بے زاری سی‬
‫آگئی ‪،‬لیکن جیسے ہی جوسلین کی بنائی‬
‫کافی پی تو حالت بہتر ہونے لگی‪،‬پرنس‬
‫تم میٹر ک میں اچھے نمبروں سے پاس‬
‫ہوگئے ہو‪،‬اب کیا ارادے ہیں تمھارے ؟‬
‫جوسلین جانتے بوجھتے میرے ارادے‬
‫پوچھنے لگی‪،‬جوسلین تم جانتی ہو کہ‬
‫میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں‪،‬ٹھیک ہے تو‬
‫پھر داخلہ کافی لیٹ ہونے کے باوجود‬
‫میں نے تمھیں ایچی سن میں داخل کروا‬
‫دیا ہے ‪،‬مجھے اس کیلیے کچھ‬
‫اثرورسوخ استعمال کرنا پڑا ‪،‬اور اب‬
‫میں چاہتی ہوں کہ کم وقت ہونے کے‬
‫باوجود تم فرسٹ ائیر میں کوئی پوزیشن‬
‫لے کر دکھاؤ‪،‬کل سے تم کالج جاؤ گے‬
‫اور شام کو تمھیں ایک ٹیچر بھی‬
‫پڑھانے آیا کرے گی‪،‬جوسلین سب کچھ‬
‫طے کر چکی تھی اور اسی طرح ہوا‬
‫اگلے دن میں کالج اور جوسلین‬
‫یونیورسٹی چلی گئی‪،‬کالج کے بعد ہم‬
‫آگے پیچھے ہی فلیٹ واپس ہوئے‬
‫‪،‬کھانے اور کچھ دیر کے آرام کے بعد‬
‫سہہ پہر کو ہی ایک ٹیچر مجھے‬
‫پڑھانے آگئی‪ ،‬میں حیران ہوا وہ ایک‬
‫جوان لڑکی تھی۔‬
‫شاید اس کی عمر ‪ 26‬سال ہو‪،‬بعد میں‬
‫اندازہ ہوا وہ جوسلین کی اسٹوڈنٹ رہ‬
‫چکی تھی‪،‬اور اب کوچنگ سنٹرمیں‬
‫پڑھاتی تھی‪،‬اسے کم وقت میں تیاری‬
‫کروانے میں مہارت تھی‪،،‬مجھے‬
‫اسپیشل جوسلین کی وجہ سے فلیٹ پر‬
‫ہی وقت دینے پر رضامند ہوگئی‬
‫تھی‪،‬پڑھانے بیٹھی تو پتہ چال کہ اپنے‬
‫شعبے میں بڑی ماہر ہے‪،،‬اچھی بھلی‬
‫خوبصورت لڑکی تھی‪،‬بڑی ہی دلکش‬
‫اور حسین تھی‪،‬اسے دیکھ کہ مجھے‬
‫خماری چڑھنے لگی۔وہ گئی تو شام کو‬
‫ایک اور استاد آگئے یہ میرے مارشل‬
‫آرٹ کے استاد تھے ۔شاید جوسلین ایک‬
‫ہی بار میں میری ہر خوہش پوری‬
‫کردینا چاہتی تھی‪ ،‬رات کو ہم اکھٹے‬
‫کھانا کھاتے اور اس کے بعد دیر تک‬
‫باتیں کرتے جب کھانا اچھی طرح ہضم‬
‫ہوجاتا تو ہم بیڈ روم میں چلے جاتے‬
‫اور ہماری مستیاں شروع ہو‬
‫جاتی‪،،‬دھیے دھیرے وقت گزرنے‬
‫لگا‪،‬اور میں معموالت کا پابند ہوتا‬
‫گیا‪،‬ٹیوشن ٹیچر بڑی لے دے کہ رہتی‬
‫تھی‪،‬شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ‬
‫جوسلین پڑھائی کے دوران اپنا آپ‬
‫محسوس کرواتی رہتی تھی‪،‬گو کہ ہم‬
‫الئبریری میں پڑھتے تھے‪،‬لیکن مجھے‬
‫محسوس ہوا کہ جوسلین ہمیں اکیال‬
‫چھوڑنے کو بالکل تیار نہیں تھی‪،‬میں‬
‫سمجھ گیا کہ جوسلین کبھی بھی مجھے‬
‫کسی کے ساتھ بانٹے گی نہیں ‪،‬بلکہ‬
‫ق ملکیت جتاتے ہوئے کسی کو‬ ‫اپنے ح ِ‬
‫میرے پاس بھی نہیں آنے دے گی‪،،‬بہر‬
‫حال یہ ضرور تھا کہ ٹیچر پر میری‬
‫شخصیت اثر انداز ہونے لگی تھی ‪،‬بھال‬
‫وہ اس سے کیسے بچ سکتی تھی۔۔‬
‫معموالت چلتے رہے اور جلد ہی‬
‫جوسلین نے مجھے ناولز پڑھنے کیلیے‬
‫دینے لگی ‪،‬پھر اس کے بار ے میں‬
‫پوچھتی کے پڑھا کہ نہیں ‪،‬اگر میں کہتا‬
‫پڑھا ہے تو وہ اس کے بارے میں بحث‬
‫کرتی ‪،‬آہستہ آہستہ مجھے ناولز پڑھنے‬
‫کی عادت ہوگئی‬

‫شروع میں ہی جوسلین نے مجھے‬


‫ممتاز مفتی کا علی پور کا یلی پڑھنے‬
‫کو دیا‪،‬میں اس کی تحریر میں کھو سا‬
‫گیا‪،‬کیا کشش تھی ممتاز مفتی کی تحریر‬
‫میں ‪،‬ایسے لکھاری کم ہی ہوتے ہیں جو‬
‫لفظوں سے سحرطاری کرد یتے ہیں‬
‫اس میں ممتازمفتی کے اینکر اینڈی‬
‫ماباؤ نے مجھے کافی محظوظ کیا‪،‬آخر‬
‫میں نے اس طویل ترین ناول کوختم کر‬
‫ابن صفی‪/‬مظہر‬‫کے ہی دم لیا‪،‬اس طرح ِ‬
‫کلیم ایم اے ‪،‬نسیم حجازی ‪،‬قمر اجنالوی‬
‫‪،‬اے حمید ‪،‬طارق اسماعیل ساگر کے‬
‫دلچسپ ترین ناول پڑھنے لگا‪،‬اور‬
‫مجھے ان کی لت لگ گئی ‪،‬اس وقت‬
‫مجھے نہیں پتہ تھا کہ جوسلین مجھے‬
‫کتابوں کے مطالعہ کیلیے بک ریڈنگ‬
‫کی عادت ڈال رہی ہے ‪،‬ٹیچر سے‬
‫میری آنکھ مچولی چلتی رہی ‪،‬وہ ظاہر‬
‫کرتی رہی کہ اسے مجھ میں کوئی‬
‫دلچسپی نہیں تھی‪،‬لیکن میں سمجھ رہا‬
‫تھ اکہ اس کے دل میں پرنس کی شبیہ‬
‫آچکی تھی‪،‬میرے سامنے بیٹھتے ہی اس‬
‫کی آنکھیں بولنے لگتی‪،‬لیکن وہ جوسلین‬
‫سے بہت محتاط تھی بلکہ ڈرتی تھی‬
‫‪،‬میں یہ سب محسوس کر رہا تھا اور‬
‫میں بس کسی موقع کے انتظار میں‬
‫تھا‪،‬ایک طرح سے میں جوسلین کی‬
‫کڑی نگرانی میں تھا‪،‬ساتھ ہی ساتھ‬
‫جوسلین نے مجھے سیکس کی تھیوری‬
‫سمجھانی شروع کر دی‪،‬پریکٹیکل تو ہم‬
‫ہر رات کرتے تھے۔‬
‫سب سے پہال سبق جو جوسلین نے‬
‫مجھے دیا وہ تھا کہ سیکس کیا ہے‬
‫‪،‬کیوں ہے ‪،‬اور اس کی کتنی قسمیں ہیں‬
‫‪،‬پرنس آج کی میری بات یاد رکھنا‬
‫‪،‬چودائی کی بھوک ہر انسان میں ایسے‬
‫ہی قدرتی طور پر ہے جیسے پیٹ کو‬
‫کھانا کھانے کی بھوک لگتی ہے‬
‫‪،‬سیکس کے حوالے سےنفسیات کے بابا‬
‫آدم سگمنڈفرائڈ کہتا ہے کہ ہر انسان کی‬
‫افزائش نسل کے ساتھ ساتھ سیکس کی‬
‫بھوک پروان چڑھتی ہے‪،‬فرائڈ اسے‬
‫لبیڈو کا نام دیتا ہے چودائی کی بھوک‬
‫قدرت نے اس لیئے انسان میں ڈالی ہے‬
‫کہ اس سے انسان کی نسل بڑھتی رہے‬
‫‪،‬اور اس میں بے مثال مزہ ڈال دیا ہے‬
‫کہ انسان اپنی بھوک مٹانے کیلیے یہ‬
‫کام کرتا رہے اور نس ِل انسانی بڑھتی‬
‫رہے ‪،‬ظاہر سی بات ہے کہ اگر انسانیت‬
‫کی بڑھوتری کا کوئی سامان نہیں ہوتا‬
‫تو انسان کب کا ختم ہو جانا تھا اس‬
‫کیلیے تمام مذاہب شادی کرنے کو کہتے‬
‫ہیں‪،‬لیکن کیونکہ یہ مذہبی بحث ہے اور‬
‫ہم آزاد سوسائٹی کے افراد ہیں ‪،‬تو ہمیں‬
‫اپنی بھوک مٹانے کیلیے جہاں موقع ملتا‬
‫ہے ‪،‬ہم اپنی بھوک کی تسکین کرنے‬
‫لگتے ہیں ‪،‬اس کی کچھ قسمیں بھی ہیں‬
‫‪،‬‬
‫نمبر ‪1‬۔لڑکے کا لڑکی سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪، 2‬لڑکے کا لڑکے سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪، 3‬لڑکی کا لڑکی سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪ ،4‬سیلف سیکس ‪ ،‬یعنی مشت زنی‬
‫۔‬
‫نمبر‪،5‬جانوروں سے سیکس‬
‫بنیادی طور پر یہی سیکس ہیں ‪،‬ان میں‬
‫جنس کو جنس سے تقابل کیا گیا ہے‬
‫‪،‬لیکن کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آئی‬
‫ہیں جو سیکس میں نئی روایات ڈال رہی‬
‫ہیں ان میں جنس سے جنس کا تقابل تو‬
‫نہیں ہے ‪،‬لیکن نئی جدت نے سرگھما‬
‫کہ رکھ دیا ہے‪ ،‬یہ ہے انسیسٹ سیکس ۔‬
‫نمبر ‪6‬خونی رشتوں کا آپس میں سیکس‬
‫۔‬
‫نمبر ‪ ، 7‬وائف سویپنگ یعنی بیویوں‬
‫کی ادال بدلی‬
‫خونی رشتوں کا سیکس ہمارے ہاں‬
‫دیور بھابی اور سالی ‪،‬بہنوئی ‪،‬اور سسر‬
‫اور بہو کی شکل میں موجود تھا لیکن‬
‫اب یورپی وبا سے بہن بھائی اور ماں‬
‫بیٹے میں بھی شروع ہو گیاہے‪،‬اس کی‬
‫بنیاد تاریخ میں تو بہت پرانی‬
‫ہے‪،‬جیسے عظیم ایمپائیر یونان میں‬
‫کیلی گوال اور نیرو کا دور میں یہ ہوتا‬
‫تھا تھا‪،‬مغرب نے سیکس کی تمام‬
‫روایات یونان لی ہیں‪،‬یہ سب یونانی‬
‫ایمپائیر کے معاشرےسے آئی ہیں‪،‬‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫‪،‬آگ پرست طبقہ جو کہ پارسی کہالتا‬
‫ہے اور ایران ان کا مسکن رہا ہے ‪ ،‬یہ‬
‫لوگ مزہبی احکامات کے تحت بہنوں‬
‫اور بیٹیوں سے شادی کر لیتے‬
‫تھے‪،‬ایک اور مثال سندھ کے راجہ داہر‬
‫کی ہے اس نے اپنی بہن سے شادی کر‬
‫لی‪،،‬کچھ کہتے ہیں اس نے سیکس نہیں‬
‫کیا تھا ‪،‬لیکن جب شادی ہوگئی اور‬
‫کوئی روکنے واال بھی نہیں تو پٹرول‬
‫اور آگ ایک دوسرے سے دور کیسے‬
‫رہ سکتے ہیں‪،‬‬
‫پانچ اکتوبر ‪ 2014‬کو پاکستان اخبار (‬
‫میں تازہ نیوز آئی ہے جرمن حکومت‬
‫کی کونسل برائے اخالقیات نے ایک‬
‫تجویز دے دی ہےکو نسل کا کہنا ہے‬
‫کہ جرمن معاشرے میں بہن اور بھائی‬
‫کے آپس میں جنسی تعلق کو قانونی‬
‫اجازت ہونی چاہیے۔ کونسل کا کہنا ہے‬
‫کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ‬
‫کس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔‬
‫اس وقت کونسل پیٹرک سٹیوبنگ کا‬
‫مقدمہ سن رہی تھی‪ ،‬پیٹرک نے اپنی‬
‫سگی بہن سوسین کیرول سے شادی‬
‫کررکھی تھی اور دونوں کے چار بچے‬
‫بھی تھے۔جرمن حکومت کی اس تجویز‬
‫پر دیگر یورپی ممالک میں شدید تنقید‬
‫)بھی کی جارہی ہے۔‬
‫مرد کا مرد سے سیکس ہمارے‬
‫معاشرے میں بہت پرانا ہے مغل‬
‫بادشاہوں نے تو خاص طور پر اس میں‬
‫بڑا حصہ ڈاال ہے‪،‬عورت سے عورت‬
‫کا سیکس بھی ہمارے معاشرے میں‬
‫پہلے سے موجود تھا ‪ ،‬اس راز سے‬
‫پردہ عصمت چغتائی اپنے مشہور‬
‫افسانے لحاف میں کافی پہلے اٹھا چکی‬
‫ہے جانوروں سے سیکس گو کہ ٹرپل‬
‫ایکس موویز کے ذریعے سامنے آیا ہے‬
‫وہاں پیٹس (پالتو جانور کتا بلی وغیرہ )‬
‫کا رواج ہے اور ان کے معاشرے میں‬
‫فرد کی تنہائی بھی مو جود ہے لیکن‬
‫ہمارے ہاں بھی یہ موجود ہے ‪،‬اس انداز‬
‫سے نہیں لیکن ہے ضرورر جیسے‬
‫پالتو جانور گائے بھینس وغیرہ کو‬
‫باڑے میں ہی جنسی تلذذ کیلیے چودنا‬
‫‪،‬اب رہ گیا سیلف سیکس یعنی اپنے ہاتھ‬
‫سے خود کے ساتھ چودائی کا مزہ لینا‬
‫‪،‬جس میں لڑکا اپنے ہاتھ سے چوت بنا‬
‫کے اسے چودتا ہے اور لڑکی اپنے‬
‫انگلی کو عضو بنا کے خود کو چودتی‬
‫ہے ‪،‬یورپ میں تو اس کے لیئے‬
‫کھلونے بھی ملتے ہیں ‪،‬اور نرماہٹ‬
‫کیلیے آئل یا کریمیں بھی ملتی ہیں‪ ،‬وہاں‬
‫یہ سیکس کا ایک حصہ ہے اور اس پر‬
‫کسی کو شرمندگی نہیں ہے ‪،‬لیکن‬
‫ہمارے ہاں یہ ایک بیماری سمجھا جاتا‬
‫ہے ‪،‬ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں نے‬
‫اسے جنسی طاقت کا خاتمہ کہاہے اور‬
‫سارے پاکستان کی دیواریں اور ہفتہ وار‬
‫میگزین مردانہ کمزوری کے عالض‬
‫سے بھرے ہوتے ہیں ۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫لہذا ‪،‬ان نفسیاتی الجھنوں سے پاکستان‬
‫میں سیلف سیکس کرنے والے لڑکے‬
‫ت انزال‬
‫جلد منی نکل جانا یعنی سرع ِ‬
‫اور منی پتلی اور عضو کا ٹیڑھا پن اور‬
‫جریان وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں ‪،‬اور‬
‫کثرت کے ساتھ ہینڈ پریکٹس کرنے‬
‫سے جسم میں خون کی کمی بھی ہو‬
‫جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ طبیعت میں‬
‫شرمیال پن اور تنہائی پسندی بڑھ جاتی‬
‫ہے ‪،‬تم اسے احساس کمتری بھی کہہ‬
‫سکتے ہو ۔اصل میں نفسیاتی الجھنوں‬
‫سے بچا جائے تو اس سے کسی لڑکے‬
‫کو طبی لحاظ سے کو ئی نقصان نہیں‬
‫ہو سکتا ایک طرف ایک انسان دھڑا‬
‫دھڑ چدائی کرتا ہے اور ان مسائل سے‬
‫بچا رہتا ہے اور دوسری طرف ایک‬
‫انسان مشت زنی کرتا ہے تو کئی مسائل‬
‫کا شکار ہوجاتا ہے یہ نفسیاتی الجھنوں‬
‫کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‬
‫‪• Part³²‬‬
‫ایک انگریزی کہاوت ہے کہ‪95 ٪‬‬
‫انسان مشت زنی کرتے ہیں اور جو‬
‫باقی ‪ ٪ 5‬ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں لیکن‬
‫لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیئے یہ‬
‫حقیقت ہے کہ میڈیکلی یہ ان کیلیے‬
‫کافی نقصان دہ ہے اور معاشرتی طور‬
‫پر تو بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ‬
‫پاکستانی مرد خود جو مرضی کرتا‬
‫پھرے لیکن اپنی عورتوں کے ساتھ‬
‫ایسی کوئی بات منسوب ہوتے ہی اس‬
‫کی غیرت ابھر آتی ہےلیکن دوسرے‬
‫کی بیٹیوں پر اس کی رال ٹپکتی ہے‪،‬تو‬
‫ایسے دوغلے معاشرے میں پاکستانی‬
‫لڑکیوں کو بے حد محتاط زندگی بسر‬
‫کرنی چاہیئے ‪( ،‬یاد رہے جوسلین‬
‫کرسچن ہے )اور پرنس یہ جو بتایا جاتا‬
‫ہے کہ یہ ہارڈ کور ہے یہ فیٹش ہے‬
‫‪،‬اینل سیکس ہے ‪ ،‬گروپ سیکس وغیرہ‬
‫یہ سب سیکس کی قسمیں نہیں ‪،‬بلکہ‬
‫چودائی کے انداز ‪/‬طریقے ہیں اور اوپر‬
‫بیٹھ کر کرنا‪،‬نیچے لیٹ کر کرنا ‪،‬کھڑے‬
‫ہو کرنا ‪،‬بیٹھ کر کرنا یہ سب سیکس کہ‬
‫مختلف آسن ہیں اسٹائل ہیں ہے یہ بنیادی‬
‫باتیں ہیں اور تمھیں وقتا فوقتا مزید‬
‫معلومات ملتی رہیں گی‪،‬جوسلین‬
‫رسانیت سے بات کرتے ہوئے اپنی بات‬
‫ختم کر دی ۔‬
‫اسی طرح وقت گزرتا جا رہا تھا‪،‬ایک‬
‫دن جوسلین تھکی ہوئی تھی اور اپنے‬
‫کمرے میں لیٹی تھی ادھر ٹیچر آگئی‪،‬ہم‬
‫پڑھتے رہے جوسلین نے بس ایک چکر‬
‫لگایااور پھر لیٹ گئی جیسا کہ میں بتا‬
‫چکا ہوں کہ وہ ہمارے پاس الئبریری‬
‫میں نہیں آتی تھی بلکہ اپنے ہونے کا‬
‫احساس دالتی رہتی تھی‪ ،‬میں نے موقع‬
‫غنیمت جان کر ٹیچر کا ہاتھ پکڑ‬
‫لیا‪،‬مجھے یقین تھا ٹیچر میری کشش‬
‫میں پھنس چکی ہے ‪،‬جیسے ہی میں نے‬
‫ہاتھ پکڑا اس کی نظریں سب سے پہلے‬
‫دروازے کی طرف اٹھی‪،‬لیکن وہاں‬
‫کسی کو نہ دیکھ کر وہ خاموشی سے‬
‫اپنا ہاتھ چھڑانے لگی‪،،‬میرے لیئے اتنا‬
‫ہی بہت تھا کہ نہ تو اس نے شور مچایا‬
‫تھا اور نہ ہی مجھ سے کسی قسم کہ‬
‫غصے کا اظہار کیا تھا‪،‬آخر میں نے‬
‫اس کا ہاتھ پشت سے چوم کر چھوڑ‬
‫دیا‪،‬ٹیچر میری طرف شاکی نظروں‬
‫سے دیکھنے لگی‪،‬کچھ لمحیں بیتے ہوں‬
‫گے کہ جوسلین دروازہ کے سامنے‬
‫سے گزری‪،‬ہم پڑھ رہے تھے‪،‬جوسلین‬
‫جیسی جیئنس کہ ہوتے ہوئے ایک نیا‬
‫کھیل شروع ہو گیا تھا‪،‬جس کی ابھی‬
‫اسے خبر نہیں تھی‪،‬سال پورا ہونے واال‬
‫تھا میرے پیپرز آگئے تھے اس دوران‬
‫میں دو سو کہ لگ بھگ ناول پڑھ چکا‬
‫تھا اور میری پڑھنے کی رفتار کافی‬
‫تیز ہو گئی تھی‪،‬مارشل آرٹ میں بھی‬
‫میں بھی چل نکال تھا ‪،‬میں اچھے‬
‫نمبروں سے پاس ہوگیا لیکن جوسلین‬
‫اس سے خوش نہیں تھی وہ چاہتی تھی‬
‫میں کوئی پوزیشن لوں‪،‬اس پر جوسلین‬
‫ٹیچر سے غصے بھی ہوئی‪،‬لیکن‬
‫غنیمت تھا کہ اسے نکاال نہیں ۔‬
‫میں سمجھ گیا جوسلین کو میری ٹیچر‬
‫پر بھروسہ ہے اور قابلیت پر اعتماد ہے‬
‫‪،‬شاید اس کی نظر میں ایسی ٹیچر کوئی‬
‫اور نہ ہو‪،‬اسی لیے جوسلین ایک لڑکی‬
‫کو میرے ساتھ برادشت کر رہی‬
‫تھی‪،‬دوسرا سال شروع ہوتے ہی میں‬
‫ٹیچر سے کھل گیا ‪،‬اور پہلے دن ہی‬
‫موقع دیکھ کر اس کے گال پر چوما لے‬
‫لیا‪،‬اسے جیسے جھٹکا لگا‪،‬اور گم سم‬
‫سی ہو گئی‪،‬مجھےاعتمادتھا وہ میری‬
‫کشش سے اب کہیں بھاگ نہیں‬
‫سکتی‪،‬ٹیچر نے کچھ نہیں کہا اور وہ‬
‫مجھے پڑھاتی رہی لیکن اس کے‬
‫چہرے پر غصہ تھااس نے جوسلین‬
‫سے تو کچھ نہیں کہا‪ ،‬لیکن مستقل‬
‫میرے ساتھ اپنا رویہ کافی سخت اپنا لیا‬
‫تھا‪ ،‬دوسرا سال شروع ہوتے ہی جیسے‬
‫جوسلین نے میرا سارا پروگرام بدل‬
‫دیا‪،‬اب مجھے ناولز کی بجائے وہ‬
‫افسانے اور خشک ادبی کتابیں پڑھانے‬
‫لگی‪،‬عصمت چغتائی ‪،‬منٹو ‪ ،‬انتظار‬
‫حسین کا اداس نسلیں ‪،‬قرۃالعین کا آگ کا‬
‫دریا ‪،‬اشفاق احمد ‪ ،‬کا سفر در سفر‬
‫‪،‬ایک محبت سو افسانے احمد ندیم‬
‫قاسمی کا گنڈاسہ ‪،‬بانو قدسیہ کا راجہ‬
‫گدھ رحیم گل کا جنت کی تالش جوسلین‬
‫کے اصرار پر مجھے پڑھنے پڑے‬
‫آہستہ آہستہ ناولز کی بجائے مجھے ان‬
‫کا چسکا پڑتا گیا‪،‬اب مارشل آرٹ کے‬
‫ساتھ جوسلین نے خودمجھے یوگا کی‬
‫تربیت دینی شروع کر دی‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫میرے پاس اپنے لیئے وقت کم ہوتا‬
‫تھا‪،‬چھ مہینےمزید گزرنے کے بعد میں‬
‫نے بلیک بیلٹ حاصل کر لی۔اس دن‬
‫جوسلین کافی خوش تھی اور اس نے‬
‫مجھے ٹریٹ دی اور ہم دو دنوں کیلیے‬
‫اس کی وسیع جاگیر پر پکنک منانے‬
‫چلے گئے‪،‬وہاں ہر کوئی اس کے‬
‫سامنے جھکتا تھا جوسلین وہاں کی‬
‫ملکہ تھی تو میں وہاں کا پرنس تھا‪،‬ہم‬
‫نے وہاں جاگیر میں خوب مزے کیئے‬
‫اور پھر واپس ہو لیئے ‪ ،‬لیکن پھر ہر‬
‫مہینے وہاں ویک اینڈ گزارنے‬
‫لگے‪،‬ٹیچر سے آنکھ مچولی جاری تھی‬
‫اس دوران میں نے کئی بار ٹیچر کی‬
‫چومی لی اب وہ غصے کی بجائے بے‬
‫حس بیٹھی رہتی ‪،‬جیسے وہ کوئی پتھر‬
‫ہے میں اندر ہی اندر تلمالنے لگا‪،‬اور‬
‫اب میں نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا‬
‫‪،‬میں اگر کوئی موقع بناتا تو جوسلین‬
‫سے چھپنا نہیں تھا ‪،‬میں کسی موقع کے‬
‫انتظار میں رہنے لگا‪،‬باقی معموالت‬
‫جاری تھے ۔‬
‫میں ایک دن جان بوجھ کر بات چھیڑ‬
‫دی کے لڑکی کیسے پھنستی ہے ‪،‬تو‬
‫جوسلین شروع ہو گئی ‪،‬میں اس کی یہ‬
‫عادت جان گیا تھا بس اسے کوئی سوال‬
‫دے دو اور وہ شروع ہو جاتی تھی ایک‬
‫تو وہ عورت تھی دوسرا پروفیسر تھی‬
‫اب بھی مجھے تجربے کا نچوڑ سننے‬
‫کا ملنے لگا ‪ ،‬غور سے سنو پرنس‬
‫ُکوک شاستروں کا وقت چال گیا ہے اب‬
‫اس دنیا میں بس دو قسم کی لڑکیاں ہیں‬
‫‪ ،‬ایک وہ جو سیکس کرنا چاہتی ہیں یا‬
‫کر چکی ہیں‪،‬اور دوسری وہ جو کچھ‬
‫اصولوں پر اپنی زندگی گزارتی ہیں‬
‫یعنی شادی وغیرہ‪،‬پہلی قسم کی لڑکیوں‬
‫کو پھنسایا تو کئی طریقوں سے جاتا ہے‬
‫‪،‬لیکن ان سب کی بنیاد دو اصول ہیں‬
‫ایک لڑکی اپنی بھوک مٹانے‬
‫کیلیئےپھنستی ہے دوسرا پیسے کیلییے‬
‫پھنستی ہے‪ ،‬جسے چودائی کی بھوک‬
‫لگی ہے لیکن ابھی کچھ کیا نہیں ہے تو‬
‫وہ کچھ وقت لے گی ۔‬
‫لیکن جس نے چودائی کی ہوئی ہےاور‬
‫وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس‬
‫سے چودائی آسان ہے ‪،‬دوسرے نمبر پر‬
‫پیسے کے بدلے چودائی کروانا ہے‬
‫اسے آپ کسی بھی گفٹ سے شروع ہو‬
‫کہ کہیں بھی لے جاسکتے ہیں کوئی‬
‫بھی نام دے سکتے ہیں‪(،‬موبائل بیلنس‬
‫کی وبا کا اس وقت نام و نشان نہیں تھا‬
‫)گر کوئی ان دو بنیادی باتوں سے نہیں‬
‫پھنستی تو ایک ایک تیسرا طریقہ بھی‬
‫ہے جو کہ منفی ہے اور وہ ہے‪،‬محبت‬
‫کا فریب دینا‪ ،‬اس وقت یہی طریقہ عام‬
‫اظہار محبت کرو اس‬‫ِ‬ ‫ہے ‪،‬لڑکی سے‬
‫کا اعتماد جیتو اور جب وہ آپ کے پیار‬
‫میں اپنا آپ بھال دے تو اس سے سیکس‬
‫کرو جب تک اسے ہوش نہیں آجاتا‬
‫‪،‬جب ہوش آجائے کسی بھی وجہ سے‬
‫تو اسے بھگا دو اور کوئی اور ڈھونڈ لو‬
‫‪،‬یا اسی پر نئی کہانی ڈال کر اپنا کام‬
‫جاری رکھو جب تک ہو سکے ۔‬
‫اس سے بھی کوئی لڑکی تمھیں اپنے‬
‫قریب نہ آنے دے جو کہ بہت کم ہوں‬
‫گی تو اس سے شادی کا وعدہ‬
‫کرلو‪،‬شادی ہر لڑکی کا خواب ہے‪،‬سو‬
‫وہ شادی کے نام پر اپنا آپ اس کے‬
‫حوالے کر دیتی ہے‪،‬اس طریقہ سے‬
‫کوئی خا ص لڑکی ہی بچ سکتی‬
‫ہے‪،‬اور اگر یہ بھی نہ ہو‪،‬یعنی ملتی تو‬
‫ہےیا اس سے دوستی تو ہوگئی ہو لیکن‬
‫ہاتھ نہیں لگانے دیتی تو ایسی میڈیسن‬
‫آچکی ہیں‪،‬جوکسی جوس وغیرہ میں پال‬
‫دی جائیں تو آپ کے پاس بیٹھی لڑکی‬
‫گرم ہو جائے گی اور اسے چھیڑنے‬
‫سے وہ آپ کی جھولی میں آگرے‬
‫گی‪،‬لیکن یہ بھی ایک زبردستی ہے‪،‬اس‬
‫کے بعد جو طریقہ بچ جاتا ہے وہ ہے‬
‫زور بازو عزت لوٹنا‪،‬یا کسی‬
‫زبردستی ب ِ‬
‫کمزوری سے لڑکی کو بلیک میل‬
‫کرنا‪،‬صرف اسی سے آپ کہہ سکتے‬
‫ہیں کہہ آپ نے لڑکی کو اپنی مرضی‬
‫سے حاصل کیا ہے ‪،‬یاد رکھنا پرنس‬
‫دنیا کا کوئی مرد یہ دعوی نہیں کرسکتا‬
‫کہ وہ کسی بھی لڑکی کو پھنسا سکتا‬
‫ہے ‪،‬لڑکی سیکس کی چاہت یا پیسے‬
‫کی ضرورت میں خود پاس آتی ہے‪ ،‬آپ‬
‫تو صرف اسے یہ بتاتے پیں کہ میں‬
‫تمھاری سیکس کی یا پیسے کی‬
‫ضرورت پوری کر سکتا ہوں‬
‫‪،‬اس سلسلے میں اپنا بھی تجربہ بیان ((‬
‫کرتا چلوں‪،‬ڈرائیور طبقہ ایسا ہے جو ہر‬
‫قسم کے لوگوں سے ملتا ہے‪،،‬اور مڈل‬
‫کالس میں کہتے ہیں کہ ‪ 10‬کنجر ہوں‬
‫تو ایک پولیس واال بنتا ہے اور ‪10‬‬
‫پولیس والے ہوں تو ایک ڈرائیور بنتا‬
‫ہے‪(،‬معذرت کے ساتھ)میں ایک خرانٹ‬
‫ڈرائیور سے مالاس کا رینٹ اے کار کا‬
‫کام تھا اس کے پاس اپنی کار تھی‬
‫‪،،‬آگے بات اسی کی زبانی اچھی لگے‬
‫گی‪،‬باؤ جی تسی کہندے او ُکڑی کیویں‬
‫پھسدی اے‪،‬میں تہانوں ایک آودا واقعہ‬
‫دسنا‪ ،،‬میرا کول سوزوکی کلٹس ہے‬
‫سی‪،،‬تو او خراب ہوگئی‪،،‬اُتُوں شادیاں دا‬
‫سیزن آگیا‪،،‬اک شادی وچ میرا اک یار‬
‫بنیا سی‪،‬ساڈے شوق کٹھے سی۔‬
‫اوہندے کول ہنڈا گڈی سی نوا ‪،‬ماڈل ۔‬
‫‪ 2012‬۔میں کہیا یار کجھ دن مینوں دے‬
‫تیرے کول اینی گڈیاں کھڑیاں نے تینوں‬
‫کی فرق پیندا اے‪،،‬تے میں شادیاں دا‬
‫سیزن کما ‪،‬الں گا‪،،‬اوہنے کہیا ‪،‬لے جا‬
‫یار‪،،‬لو جی فیر جتھے لوگ ایکس ایل‬
‫آئی دے ‪ 3000‬لیندا سی اوتھے میں‬
‫‪ 6000‬لین لگیا تے لوگ وی ہس تے‬
‫دیندے سن‪،،‬کتھے ساڈی سوزکی‬
‫کلٹس‪،،‬تے کتھے ایکس ایل آئی ‪12،‬‬
‫الکھ دی تے کتھے ہنڈا ‪ 24‬الکھ دی‪،‬اک‬
‫شادی میں ُچکی تے ‪10000‬‬
‫منگے‪،،‬الڑے نوں لے تے جانا‬
‫سی‪،،‬راہ ِوچ کجھ میری پرسنالٹی تے‬
‫باقی کڈی نے او کم کیتا کے ووہٹی‬
‫نظراں نظراں وچ میرے نال سیٹ‬
‫ہوگئی‪،،‬فیر بادشاہو ‪،،‬اوہندی سفارش‬
‫تےمکالوے آلے دن وی اوہندا خصم‬
‫مینوں ای لے تے گیا‪،،‬اوہنے آودے‬
‫خصم دئے موبائل تُوں میرا نمبر لے‬
‫لیا‪،،‬تے فیر‪،،،‬بادشاہو‪،،،،‬اوس ُکڑی نُوں‬
‫میں ایناہ ‪،‬وجایا کہ ایناہ ‪،‬اوہندے خصم‬
‫نے نہ وجایا ہوئے گا۔‬
‫صاحب جی اگے دوستی ہوندی سی‬
‫‪،‬جذبات دے سر ‪،‬تے‪،،‬ہن ہوندی اے‬
‫پیسے دے سر ‪،‬تے‪،،‬چنگے کپڑےۓ‬
‫‪،‬چنگی گڈی ‪،‬تے کڑی توہاڈی ‪،‬پر‬
‫اوہنوں مال کھوانا پیندا اے بھانویں امیر‬
‫گھر دی ہوے تے بھانویں غریب گھر‬
‫دی ہوے ‪)))،‬۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫جوسلین نے اپنے بات ختم کر چکی‬
‫تھی تو میں سوچنے لگا کی ٹیچر ان‬
‫میں سے کون سی ہے لیکن مجھے اس‬
‫کی سمجھ نہ آئی ‪،‬میں نے ٹیچر سے‬
‫کئی بار بات کرنی چاہی کئی بار اسے‬
‫نوٹ لکھ دیئے لیکن وہ ٹس سے مس‬
‫نہیں ہوئی‪،‬نہ وہ میری شکایت لگاتی‬
‫تھی نہ مجھے ہٹاتی تھی نہ میرے ساتھ‬
‫چودائی پر رضامند تھی ‪،،،‬ایں میں‬
‫سوچنے لگا اگر اسے برا لگتا ہے تو‬
‫جوسلین کو بتا کیوں نہیں دیتی ‪،‬اچھا‬
‫بھال پڑھاتی ہے کافی پیسے کما لیتی‬
‫ہے یعنی اسے کوئی مجبوری بھی نہیں‬
‫تو پھر وہ اتنے عرصے سے یہ سب‬
‫کیوں برداشت کر رہی ہے ‪،‬میرے اندر‬
‫سےآواز آئی کہ وہ راضی ہے لیکن‬
‫جوسلین سے ڈرتی ہے ‪،‬اور اس نے‬
‫اپنے رویے کا نقاب مجھے حد میں‬
‫رکھنے کیلیے لگایا ہوا ہے‪،‬مجھے ایک‬
‫موقع چاہیے تھا ‪،‬جو مجھے مل نہیں‬
‫رہا تھا‪،‬میں ایک دفعہ اس سے ملنے‬
‫کوچنگ سنٹر بھی پہنچ گیا تھالیکن اس‬
‫نے ایسا سخت رویہ اپنا یا کہ مجھے‬
‫دوبارہ جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔‬

‫‪Part³³‬‬
‫پھر یہ سال بھی گزر گیا ‪،‬اس بار میں‬
‫نے کالج میں فرسٹ کالس فرسٹ‬
‫پوزیشن لی‪،‬مارشل آرٹ میں اب میں‬
‫ماہر ہوگیا تھا اور کنگفو میرا پسندیدہ‬
‫آرٹ بن گیا تھا‪،‬تیسرے سال جوسلین‬
‫نے پھر میرا پروگرام بدل دیا اور اب‬
‫مجھے سنجیدہ کتب پر مائل کرنے‬
‫لگی‪،‬تاریخ ‪،‬عمرانیات ‪،‬اور فلسفہ میرے‬
‫مضمون بن گئے ‪،‬ساتھ ہی سرگزشت‬
‫جیسا ڈائجسٹ بھی میرے مطالعے میں‬
‫رہنے لگا‪ ،‬اور اب ممتاز مفتی ‪،‬اور‬
‫علیم الحق حقی کے بعد اب طاہر جاوید‬
‫مغل بھی میرا پسندیدہ لکھاریوں میں‬
‫سے تھا فلسفےسے تو میں نے جلد ہی‬
‫جان چھڑا لی ‪،‬لیکن تاریخ اور‬
‫عمرانیات سے مجھے لگاؤ ہوتا گیا‬
‫کیونکہ اس سے انسان کی‬
‫تہذیبوں‪،‬انسان کی نفسیات اور کردار‬
‫کے بارے میں جاننے کا موقع ملنے‬
‫لگا‪،‬انسانوں کے معاشرے کو سمجھنے‬
‫کا موقع ملنے لگا‪،‬یوگا میں بھی اب میں‬
‫ماہر ہونے لگا‪،‬سانسوں پر قابو پانے‬
‫سے مجھے پتہ چال کہ ہم تو سانس بھی‬
‫صحیح طرح سے نہیں لے رہے ‪،‬اس‬
‫میں سیکس کی طاقت کو برقرار‬
‫رکھنے اور جسم کو جوان رکھنے کے‬
‫کئی آسن تھے جن پر اب میں عبور‬
‫حاصل کرتا جا رہا تھا‪،‬ساتھ ہی ساتھ اب‬
‫کشتہ مروارید اب میرے جسم کا حصہ‬
‫بن گیا تھا۔‬
‫ذہنی تربیت کیلیے جوسلین نے اب‬
‫میرے ساتھ شطرنج کھیلنی شروع کر‬
‫دی‪،‬پرنس یہ کھیل کھیلوں کا بادشاہ ہے‬
‫جتنی کتابیں اس کھیل پر لکھی گئی ہیں‬
‫اتنی کسی اور پر نہیں لکھی گئی‪،‬اس‬
‫میں چونسٹھ خانے ہوتے ہیں اور ہر‬
‫کھالڑی کو ‪ 16، 16‬گوٹیاں ملتی ہیں‪،‬ان‬
‫میں آٹھ پیادے اور ‪ 2‬فیلے یعنی ہاتھی‪2،‬‬
‫رخ یعنی توپ ‪ 2‬گھوڑے اور ایک‬
‫وزیر ایک بادشاہ ہوتا ہے ‪،‬یورپ میں‬
‫فیلے کو بشپ اورتوپ کو قلعہ کہتے‬
‫ہیں ‪،‬اور ان کے ہاں وزیر کی جگہ‬
‫ملکہ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ بادشاہ‬
‫ہوتا ہے کھیلنے کا طریقہ ایک جیسا‬
‫ہے‪،‬گھوڑا ہمیشہ ڈھائی چال چلتا ہے‬
‫اور وزیر جہاں تک رستہ صاف ملے‬
‫چال چل سکتا ہے اسی طرح فیال اور‬
‫توپ بھی جہاں تک جہ صاف ملے‬
‫یعنی درمیان میں کوئی گوٹی نہ ہو‬
‫‪،‬فرق صرف یہ ہے کہ وزیر ترچھا اور‬
‫سیدھا دونوں چالیں چل سکتا ہے جبکہ‬
‫فیال ہمیشہ ترچھا چلتا ہے اور توپ‬
‫ہمیشہ سیدھی چلتی ہے ‪،‬اسی لیے کہتے‬
‫ہیں کہ ایک توپ اور ایک فیال مل کہ‬
‫ایک وزیر کے برابر ہوتے ہیں ‪،‬کھیل‬
‫کے قوانین تو تمھیں آہستہ آہستہ سمجھ‬
‫آجائیں گے لیکن جو بات میں تمھیں‬
‫ابتدء میں ہی ایک بات سمجھانا چاہتی‬
‫ہوں۔‬
‫شطرنج بنانے والے کے بارے میں ایک‬
‫کہاوت کچھ یوں ہے کہ جب شطرنج‬
‫بنانے والے نےشطرنج بنا لی تو اسے‬
‫وقت کے بادشاہ کے پاس لے گیا ‪،‬بادشاہ‬
‫اور اس کے وزیر اور درباریوں نے‬
‫جب یہ کھیل دیکھا تو دنگ رہ گئے اور‬
‫بنانے والے کی عقل کو خوب داد دی‬
‫‪،‬بادشاہ ترنگ میں آگیا اور شطرنج کے‬
‫موجد سے کہا کہ مانگو جو مانگتے ہو‬
‫ہم تمھیں عطا کریں گے‪،‬تم نے ہمیں‬
‫بےحدخوش کیا ہے اور ایک بےمثال‬
‫کھیل ایجاد کیا ہے ‪،‬اس نے کہا بادشاہ‬
‫حضور آپ کی داد ہی میرے لیے سب‬
‫کچھ ہے ‪،‬مجھے کچھ نہیں چاہیے لیکن‬
‫بادشاہ آخر بادشاہ تھا وہ یہ کیسے‬
‫برداشت کرسکتا تھا اس نے بڑا اصرار‬
‫کیا تو شطرنج کے موجد نے کہا کے‬
‫اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو شطرنج‬
‫کے چونسٹھ خانوں میں سے پہلے‬
‫خانے میں ایک چاول ر کھیں اور اسے‬
‫ہر خانے میں دوگنا کرتے جائیں ‪،‬آخری‬
‫خانے میں جتنے چاول ہو جائیں وہ‬
‫مجھے دے دیں ‪،‬بادشاہ اس کی اس‬
‫معصوم خواہش پر ہنستا ہے اور وزیر‬
‫کو کہتا ہے کہ اس کی خوہش ابھی‬
‫پوری کی جائے‪،‬وزیر کچھ سنجیدگی کا‬
‫مظاہرہ کرتا ہے اور ریاضی دانوں کو‬
‫بلوا کر حساب لگواتا ہے کے آخری‬
‫خانے تک کل کتنے چاول بن جائیں‬
‫گے‪،‬پہلے ‪ 15‬خانوں تک تو سب آرام‬
‫سے گنتے ہیں لیکن جب ‪ 16‬خانے میں‬
‫پہنچتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ‬
‫کسی خطرناک کام میں ہاتھ ڈال دیا ہے‬
‫اس سے آگے حیران کن حد تک حساب‬
‫مشکل سے نا ممکن کی طرف چال جاتا‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫بادشاہ کے حضور پیش ہوتا ہے‬
‫‪،‬حضور ِواال ہمارے ملک کے تما م‬
‫چاول اور ہمسایہ ملکوں کے چاول بھی‬
‫یہ شرط بمشکل پوری کرسکیں‬
‫گے‪،‬بادشاہ سن کر حیران ہوجات ہے‬
‫لیکن ریاضی دانوں کو بھی غلط نہیں‬
‫کہہ سکتا ‪،‬بادشاہ کو تب پتہ چلتا ہے کہ‬
‫یہ بھی ایک شطرنج کی چال تھی‪،‬ہم‬
‫تمھاری اس بات سے بھی خوش ہوئے‬
‫‪،‬آخر بادشاہ شاہانہ انداز میں کہتا ہے‬
‫‪،‬تمھیں اس سوال پر بھی انعام دیا جائے‬
‫گا‪،‬اور بادشاہ اسے بھاری انعام اور‬
‫جاگیر عطا کرتا ہے ۔ تو پرنس شطرنج‬
‫سیکھو مگر کھیل نہیں بلکہ شطرنج کو‬
‫اصلی زندگی میں لے آؤ‪،‬جیسے ایک‬
‫اداکار عام زندگی میں بھی ایکٹنگ کرتا‬
‫ہے اور لوگ اسے سچائی سمجھتے ہیں‬
‫‪ ،‬ایسے ہی عام زندگی میں بھی یہ کھیل‬
‫کھیلو‪،‬یاد رکھنا اس کھیل میں تکے کی‬
‫کوئی گنجائش نہیں ہے‪،‬یہ تمھاری ذہنی‬
‫صالحیت پر ہے کے اس میں کتنا‬
‫کامیاب ہوتے ہو‪،‬ہم دن میں میں ‪20، 15‬‬
‫بار تو یہ کھیل کھیلتے‪،‬اور میں ہارتا‬
‫رہتا‪،‬ایک ہفتے بعد میں جوسلین سے‬
‫گیم جیت گیا‪،‬پھر بازی پھنسنے‬
‫لگی‪،‬کبھی وہ کبھی میں جیت جاتا‪،،،‬پھر‬
‫میں ہی جیتنے لگا ‪،‬اب مجھے خواہش‬
‫ہونے لگی کہ کوئی کھالڑی ہو جس‬
‫سے بازی پھنسے ‪،‬میں نے کچھ‬
‫کھالڑی ڈھونڈ لیے اور بازیاں جمنے‬
‫لگی ‪،‬جوسلین یہ سب دیکھ رہی‬
‫تھی‪،‬پھر اس نے ایک دن مجھے پکڑ‬
‫لیا ‪،‬پرنس میں نے تم سے کہا تھا اس‬
‫کھیل میں ماہر نہیں ہونا ‪،‬اس کھیل کے‬
‫ذریعے مائنڈڈ گیم ‪،‬ذہنی جنگ میں ماہر‬
‫ہوناہے ‪،‬بڑی مشکل سے شطرنج کا‬
‫نشہ ٹوٹا اور میں زندگی کی طرف لوٹ‬
‫آیا‪،‬ٹیچر سے میری آنکھ مچولی‬
‫بدستورجاری تھی اور وہ بھی اپنی جگہ‬
‫پر جمی ہوئی تھی ‪،‬مجھے اس کے‬
‫ساتھ تیسرا سال تھا۔لیکن ایک قدم بھی‬
‫آگے نہیں بڑھ پایا تھا‪،‬اب تو میرے‬
‫حوصلے بڑھ گئےتھے اور میں اس کی‬
‫چومیوں کے ساتھ اس کی ممے بھی‬
‫پکڑ کے مسل دیتا تھا ‪،‬لیکن پتہ نہیں‬
‫ٹیچر کس مٹی کی بنی تھی ‪،‬وہ ٹس سے‬
‫مس نہیں ہوتی تھی‪،‬یہ سال بھی گذر ہی‬
‫گ یا ۔‬
‫میں نے پھر فرسٹ کالس پوزیشن لی‬
‫‪،‬اب چوتھا سال شروع ہو گیا‪،‬پروگرام‬
‫پھر بدل گیا‪،‬جیسے ہر سال کیلیے‬
‫علیحدی علیحدہ سلیبس ہو‪،‬اب کی بار‬
‫جوسلین نے نفسیات پڑھانی شروع کر‬
‫دی ‪،‬وہ اس مضمون میں ڈاکٹر تھی اور‬
‫سب سے بہتر تھی ‪،‬مجھے بھی اس کا‬
‫کب سے انتظار تھا‪،‬اب نفسیات کی کتب‬
‫‪،‬انسانوں کو پڑھنا ‪،‬معاشرے کو سمجھنا‬
‫‪ ،‬عورتوں کو سمجھنے لگا‪،‬جوسلین نے‬
‫مجھے قیافہ شانسی پر لگا دیا ‪،‬میں پے‬
‫درپے انسانوں کا مطالعہ کرنے لگا‬
‫علوم کوعملی طور پر آزمانے لگا‪،‬میں‬
‫جہان حیرت میں پہنچ گیا ‪،‬ارے یہ‬
‫ِ‬ ‫ایک‬
‫کیا اس حمام میں تو سب ننگے‬
‫ہیں‪،‬مارشل آرٹ میں بلیک بیلٹ ‪ 1‬ڈان‬
‫کی تیاری کرنے لگا تھا‪،‬پڑھائی پھر‬
‫یوگا‪،‬یہ سال بہت ہی مصروف گزرا‬
‫‪،‬کسی بات کی ہوش نہیں رہا تھا‪،‬ٹیچر‬
‫سے بھی چھیڑا چھاڑی کم ہو گئی‬
‫تھی‪،‬فرسٹ کالس پوزیشن کے بعد‬
‫مجھے ہوش آیا ‪،‬اس دوران میں بلیک‬
‫بیلٹ ‪ 2‬ڈان کر چکا تھا ‪،‬یوگا فائنل‬
‫ہوچکا تھا اور قیافہ شناسی میں ماہر ہو‬
‫چکا تھا ‪ (، ،‬فیس ریدنگ اور باڈی‬
‫لینگوج سے انسان کو پڑھنا اور جاننا‬
‫)‪،‬عورتوں کے بارے کافی کچھ جان‬
‫چکا تھا اب تک میں سیکس کی تھیوری‬
‫اور پریکٹیکل میں ماہر ہوچکا‬
‫ب معمول میں‬ ‫تھا‪،‬رزلٹ آگیا اور حس ِ‬
‫فرسٹ کالس پوزیشن میں تھا‪،‬مجھے‬
‫جوسلین کے پاس چار سال گزر‬
‫گئے‪،‬اس وقت میں ‪ 19‬سال کا ہوگیا تھا‬
‫۔اس دوران میں کیا سے کیا بن گیا‪،‬کئی‬
‫علوم میں ماہر بن گیا‪،‬اس دوران میں‬
‫نگینہ کو ایک پل بھی نہ بھول نہ سکا‬

‫‪،‬میں نے کئی بار کچھ وقت نکال کر‬


‫ان کو تالش کرنے کی کوشش کی‬
‫‪،‬لیکن نگینہ وہ مکان کب کا چھوڑ چکی‬
‫تھی اور اب اس کا کچھ پتہ نہیں‬
‫تھا‪،‬جوسلین یہ کام کرسکتی تھی لیکن‬
‫پہلے پہل احتیاط اور پھر اس کا رویہ‬
‫دیکھ کر میں نے اسے اس راز میں‬
‫شامل نہیں کیا‪،‬مجھے یہ بھی خیال تھا‬
‫کہ دآلویز سے میرا تعلق دیکھ کر کہیں‬
‫جوسلین رقابت میں نہ پڑ جائے۔‬
‫اب میں فلیٹ میں تنہا ہی ہوتا تھا ‪،‬‬
‫اسلیے نگینہ کو دھونڈنے نکل جاتا‬
‫‪،‬سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا‪ ،‬کالونیوں‬
‫میں تانک جھانک کرتا ‪،‬لیکن کچھ ہاتھ‬
‫نہ آیا‪،‬جب جوسلین یونیورسٹی سے‬
‫آجاتی تو میں بھی فلیٹ پر پہنچ جاتا‪،‬اور‬
‫پھر سارا وقت اکٹھے ہی گزرتا‪،‬ٹیچر‬
‫بھی ان دنوں آنا بند کر چکی تھی اپنی‬
‫تماتر کوشش اور کشش کے باوجود میں‬
‫اسے چود نہ سکا‪،‬میں جو جوسلین سے‬
‫سیکھتا وہ ٹیچر پر آزماتا لیکن وہ ہاتھ‬
‫نہ آنی تھی اور نہ ہی آئی ‪،‬میں اس‬
‫نتیجے پر پہنچا تھا ک ٹیچر پر میری‬
‫کشش جتنی بھی اثر انداز ہو لیکن اس‬
‫پر جوسلین کا اثر مجھ سے زیادہ تھا‬
‫‪،،‬یہ بھی طے ہوچکا تھا کہ میں پھنسا‬
‫تو ٹیچر کو رہا تھا لیکن حقیقت یہ تھی‬
‫کہ میرا مقابلہ جوسلین سے تھا ‪،‬اور‬
‫جوسلین میری استاد تھی ‪،‬جب تک اس‬
‫کی مرضی نہیں تھی میں ٹیچر کو‬
‫حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔‬
‫بلکہ کسی کو بھی حاصل نہیں کرسکتا‬
‫تھا ‪ ،‬اب ٹریننگ اور پڑھائی رک سی‬
‫گئی تھی اور میں اگلے پروگرام کا‬
‫منتظر تھا ‪،‬لیکن جوسلین کے ارادے‬
‫کچھ اور ہی تھے‪،‬وہ چپ چاپ تھی‬
‫‪،‬جوسلین میری جان آگے کا کیا‬
‫پروگرام ہے ‪،،،‬یہ تو تم بتاؤ گے پرنس‬
‫کہ تمھارا آگے کا کیا پروگرام‬
‫ہے‪،‬جوسلین میں جو چاہتا تھا وہ تم نے‬
‫مجھے بنا دیا ‪،‬لیکن میں اس مقام پر‬
‫خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں‬
‫کیونکہ میرے سامنے تمھاری مثال ہے‬
‫میں تم جیسا جینئس بننا چاہتا ہوں ‪،‬استاد‬
‫سے آگے کا درجہ چاہتا ہوں‪،‬مجھے پتہ‬
‫نہیں ہے لیکن مجھے کچھ اور چاہیئے‬
‫‪،،‬میں تمھارے اگلے پروگرام کا منتظر‬
‫ہوں ‪،‬میں نے جوسلین کے ہاتھ پکڑ لیا‬
‫تھے ‪،‬اور میری محبت کی گرم جوشی‬
‫میں وہ ہمیشہ کی طرح پگھل گئی‬
‫تھی‪،‬پرنس تمھیں وہ سب سکھا دوں گی‬
‫جو تم چاہتے ہوں ‪،‬لیکن اب تک تم نے‬
‫جو سیکھا ہے تمھیں اس کا ٹیسٹ دینا‬
‫پڑے گا‪،‬تمھیں ثابت کرنا پڑے گا کہ تم‬
‫اب استاد ہو‪،‬اس سے تمھیں تجربے کا‬
‫حصول ہو گا ‪،‬یوں سمجھ لو کہ اس‬
‫ٹیسٹ سے تم تجربہ حاصل کرنے کا‬
‫سفر شروع کرو گے‪،‬تم نے بہت کچھ‬
‫سیکھ لیا ہے لیکن تم باہر کی دنیا میں‬
‫یہ آزمایا نہیں ہے ‪،‬کیونکہ میں نے‬
‫تمھیں اپنے ساتھ ہی رکھا ہے ‪،‬اور اب‬
‫وقت آگیا ہے کہ تم باہر دنیا کے سامنے‬
‫اپنا آپ آزماؤ تا کہ تم جان سکو کہ تم‬
‫کیا بن چکے ہو‪،‬یاد رکھانا پرنس‪،‬ہر‬
‫تھیوری پریکٹیکل کے بغیر ہے ‪،‬دنیا‬
‫میں تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے‬
‫‪،‬اور تمھیں اب تھیوری سے تجربے کی‬
‫طرف قدم بڑھانا ہے ‪،‬اب تم ٹیسٹ‬
‫کیلیے تیار ہو جاؤ‪،‬میں کسی بھی وقت‬
‫تم سےٹیسٹ لے سکتی ہوں‪،‬‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫میں ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے‬
‫لگا ‪،‬جوسلین نےٹیسٹ لینا تھا تو یقینا‬
‫کوئی انتہائی ٹیسٹ ہی ہونا تھا‪،‬میں نے‬
‫بہت سے موضوعات پر سوچا ‪،‬کئی‬
‫باتوں کی طرف دھیان دیا ‪،‬یہ بھی طے‬
‫تھا کہ عملی ٹیسٹ ہی لے گی ‪،‬سو میں‬
‫نے کئی ممکنہ ٹیسٹ سوچے اور ان کو‬
‫جواب تیار کیا‪،‬اور میرا ذہن کچھ‬
‫اطمینان حاصل کرنے لگا‪،‬اسی ادھیڑ بن‬
‫میں دو دن گزر گئے تھے ‪،‬تیسرے دن‬
‫کافی جلدی مجھے جوسلین نے اٹھا‬
‫دیا‪،‬سردیوں کے دن تھے ابھی صبح‬
‫بھی رات کا حصہ ہی لگ رہی تھی اس‬
‫وقت تو بستر سے نکلنے کو با لکل دل‬
‫نہیں کرتا ‪،‬لیکن جوسلین سنجیدہ تھی‪،‬‬

‫‪• Part³⁴‬‬
‫‪،‬مجھے اٹھنا ہی پڑا ‪،‬میں عادت کے‬
‫مطابق نہانے لگا تو جوسلین نے منع کر‬
‫دیا‪،‬میں پاس پڑے کپڑےپہننے لگا جو‬
‫رات کو اتارے تھے اور جوسلین نے‬
‫مجھے ایک چٹ پکڑا دی اس پر ایک‬
‫ایڈریس لکھا تھا ‪ ،‬پرنس یہاں ایک ہی‬
‫گھر میں چار لڑکیاں رہتی ہیں ‪،‬چاروں‬
‫آپس میں سگی بہنیں ہیں ‪،‬تمھیں ان‬
‫چاروں کو ان کی مرضی سے چودنا‬
‫ہے ‪،‬تمھارے پاس صرف دو دن اور دو‬
‫راتیں ہیں ‪،‬تیسرے دن اسی وقت تمھیں‬
‫میرے پاس ہونا چاہیئے ‪ ،‬جوسلین کی‬
‫بات سے مجھے اچھا بھال جھٹکا لگا ۔‬
‫میں نے ابھی پینٹ پہنی تھی کہ میرے‬
‫ہاتھ وہیں رک گئے‪،‬پھر سوچوں میں‬
‫ڈوبا شرٹ پہننے لگا‪،‬میں نے اپنی‬
‫تربیت کی تمام تر صالحیت کو استعمال‬
‫کرتے ہوئے ہر اندازہ لگا لیا تھا‬
‫‪،‬سوائے اس ایک بات کے کیونکہ‬
‫میرے اندازے کے مطابق جوسلین یہ‬
‫کبھی نہیں کرے گی‪،‬استاد آخر استاد ہی‬
‫ہوتا ہے اس نے بھی وہ بات کی جو‬
‫میں سوچ بھی نہ سکتا تھا‪،‬بلکہ اس نے‬
‫خود کو بھی امتحان میں ڈال لیا تھا ‪ ،‬کیا‬
‫ہوا کیا تم یہ نہیں کرسکتے ؟ مجھے‬
‫سوچا دیکھ کر جوسلین نے پوچھا‪،‬نہیں‬
‫میں کچھ اور سوچ رہا تھا ‪ ،‬میں نے‬
‫اپنے جوگر کے تسمے باندھتے ہوئے‬
‫کہا میں جانتا تھا جوسلین کو پتہ ہے کہ‬
‫میں کیا سوچ رہا ہوں ‪،‬اب تم ابھی نکل‬
‫جاؤ ‪،‬جوسلین ایک سخت گیر استاد کی‬
‫طرح بولی تو میں نے اپنی جیکٹ‬
‫اٹھائی اور ایک لمحے کی دیر لگائے‬
‫بغیر فلیٹ سے باہر نکل آیا ‪،‬باہر کہیں‬
‫دور سے اذانوں کی آواز آرہی تھی‪،‬میں‬
‫تو ایسی صبح سے انجان تھا ایڈریس‬
‫ایک مڈل کالس کالونی کا تھا۔‬
‫میرے پاس صرف دو دن تھے اور چار‬
‫لڑکیوں کو چودنا تھا ‪،‬میں بھاگنے لگا‬
‫‪،‬اور جلد ہی میں روڈ پر پہنچ گیا‬
‫جوسلین نے بائیک بھی نہیں لینے دی‬
‫‪،‬میں بھا گنے لگا ‪،‬مجھے پیچھے سے‬
‫ایک موٹر سائکل کی آواز آئی ‪،‬میں نے‬
‫مڑ کے دیکھا تو یہ ایک دودھی تھا جو‬
‫شاید کہیں سے دودھ لینے جا رہا تھا‬
‫‪،‬میں نے ہاتھ دے کر اسے روکا بلکہ‬
‫اس کے رستے میں کھڑا ہوگیا ‪،‬کی گل‬
‫اے صاحب ‪،‬سویرے سویرے پیتی تا‬
‫نہیں ہوئی‪ ،‬یار ساڈے رشتے دار بڑے‬
‫بیمار نیں تے ایس ٹائم کوئی سواری وی‬
‫نہیں ملنی تے جانا وی الزمی اے میں‬
‫‪،‬اوہنا نُوں آودا خون دینا اے ‪ ،‬اتوں یار‬
‫میری گھڈی خراب ہو گئی اے‪،،‬تیری‬
‫بڑی مہربانی مینوں بس اسٹاپ تے ال‬
‫دے‪ ،‬اگے میں آپے چال جاواں‬
‫گا‪،،،،‬شخصیت کے اعتبار سے میں‬
‫کسی بڑے گھر کا امیر زادہ ِدکھ رہا تھا‬
‫‪ ،‬دودھی میری کہانی میں آگیا اور‬
‫مجھے پیچھے بٹھا لیا‪،‬موٹرسائیکل‬
‫بھاگنے لگی ساتھ ہی سوچیں بھی‬
‫بھاگنے لگی ‪،‬جوسلین نے بڑا ہی غیر‬
‫متوقع امتحان میں ڈال دیا تھا ‪،‬دو دن‬
‫میں چار بہنوں کو چودنا ناممکن تھا ‪،‬وہ‬
‫باہر نکلیں ‪،‬ان سے شناسائی ‪،‬ان کو‬
‫پھنسانا ان کا اعتماد حاصل کرنا‪،‬پھر ان‬
‫کو چودنا ‪،‬اس کیلیے بھی کوئی ایسی‬
‫جگہ جہاں وہ اطمینان سے آسکیں ۔‬
‫یہ ایک وقت طلب طریقہ کار تھا ‪،‬اور‬
‫وہ بھی ایک لڑکی کیلے نہ کہ چار‬
‫لڑکیوں کیلیے ‪ ،‬اور چاروں ہوں بھی‬
‫آپس میں بہنیں ‪،‬میں نے فیصلہ کیا کہ‬
‫ان کے گھر میں گھسناپڑے گا‪،‬اور دو‬
‫دن وہیں رہنا پڑے گا‪ ،‬پتہ نہیں وہ‬
‫کیسے لوگ تھے ‪،‬مگر مڈل کالس کی‬
‫کالونی کی وجہ سے میں کچھ آئیڈیے‬
‫لگا چکا تھا ۔ میرے مطلوبہ بس اسٹاپ‬
‫پر دودھی نے مجھے اتارا تو میں نے‬
‫اس کا شکری ادا کیا ‪،‬او کوئی گل نئی‬
‫یار بند ای بندے دا دارو اے ‪ ،،‬ہللا کرے‬
‫توہاڈا ‪،‬رشتے دار ٹھیک ہوجاوے ‪،‬وہ‬
‫چال گیا تو تھوڑی دیر میں بس آگئی ۔‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫گو کہ میں نے بسوں میں کبھی سفر‬


‫نہیں کیا تھا لیکن یہ ایک مشہور بس‬
‫اسٹاپ تھا اور یہاں بس ضرور آنی‬
‫تھی‪،‬بس آگئی اور میں اس میں بیٹھ‬
‫گیا‪،‬اس میں بس چند ہی سواریاں تھی‪،‬‬
‫کرایہ ‪،،،‬کنڈیکٹر میرے سامنے تھا‪،‬میں‬
‫نے بے اختیار جیب میں نے ہاتھ ڈاال‬
‫لیکن وہاں کچھ نہیں تھا ‪،‬جوسلین نے‬
‫بٹوہ اور موبائل بھی رکھ لیا تھا ‪،‬موبائل‬
‫کی تو مجھے ابھی عادت نہیں ہوئی‬
‫تھی ‪،‬کچھ ہی عرصہ ہوا تھا موبائل‬
‫پاکستان میں آئے ہوئے ‪،‬بٹوہ نہ ہونے‬
‫سے میں ایک لمحے کیلیے بھی فکرمند‬
‫نہیں ہوا‪،‬اسٹوڈنٹ ‪،،،‬میں نے بڑے‬
‫اعتماد سے کہا‪ ،‬۔اس وقت اسٹودنٹ کا‬
‫کیا کام تھا‪ ،‬لیکن میری پرسنالٹی کسی‬
‫امیر زادے کی تھی اور اس معاشرے‬
‫میں پیسے کو سالم تھا ‪،‬کنڈیکٹر مجھے‬
‫گھورتا ہوا آگے چال گیا۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫میرے ذہن میں لڑکیوں کو پھنسانے کی‬
‫ساری باتیں تازہ ہونے لگی‪،‬چودائی کے‬
‫شوق میں یا پیسے کیلیے ‪،‬پیسے کی‬
‫ایک شکل دوستانہ بھی تھی‬
‫جیسےتحفے تحائف اور ضرورتیں‬
‫پوری کرنا‪ ،‬پتہ نہیں کون کون سی باتیں‬
‫مجھے یاد آرہی تھیں ‪،‬اپنے مطلوبہ بس‬
‫اسٹاپ پراتر کر میں بھاگنے لگا‪ ،‬میری‬
‫رفتار اچھی خاصی تھی میں اگر منہ‬
‫اندھیرے نکال تھا تو اب صبح نظر آنی‬
‫شروع ہوگئی تھی ‪،‬بھاگنا اس وقت‬
‫ضروری تھا ‪،‬ویسے تو میرا سٹیمنا‬
‫کمال کا ہوچکا تھا ‪ 15‬منٹ بعد میں اپنی‬
‫مطلوبہ کالونی کی مطلوبہ گلی میں‬
‫داخل ہوچکا تھا ‪،‬ایڈریس اتنا واضح اور‬
‫نشانیوں سے لکھا تھا کہ مجھے اسے‬
‫ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں‬
‫آئی‪،‬جس مکان کا ایڈریس تھا وہ بھی‬
‫میری نظروں پر چڑھ گیا اس میں ایک‬
‫باریش آدمی داخل ہورہا تھا ‪ ،‬میں پھر‬
‫فورا بھاگا ‪،‬میرے لیے تو یہ الٹری سے‬
‫کم نہ تھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی‬
‫‪،‬میں تو کچھ اور ہی سوچے ہوئے‬
‫تھا‪،‬باریش آدمی اندر داخل ہوا اور اب‬
‫مڑ کہ دروازہ بند کرنے لگا ہو گا کہ‬
‫میں بھرا مار کے اندر داخل ہوگیا۔‬
‫باریش آدمی میری طرف غصے سے‬
‫بڑھا ‪،‬میں نے کچھ کہنے کی کوشش‬
‫کی ‪ ،‬لیکن میں بڑی تیزی سے ہانپ رہا‬
‫تھا میرا سانس اکھڑ رہا تھا اور میرے‬
‫چہرے پر ڈر تھا‪ ،‬جیسے ہی وہ میری‬
‫طرف بڑھا اور اس نے مجھے پکڑنا‬
‫چاہا میں نیچے گر گیا ‪،‬میرا سانس اکھڑ‬
‫گیا تھا ‪،‬باریش آدمی گھبرا گیا‪،‬اس نے‬
‫کسی کو آواز دی ‪،‬پانی الؤ ‪،،‬ایک لڑکی‬
‫جلدی سے پانی لیکر آگئی وہ حیرانگی‬
‫سے مجھے دیکھ رہی تھی‪ ،‬آنکھوں کی‬
‫معمولی سی جھری سے میں سب دیکھ‬
‫رہا تھا ‪،‬باریش آدمی نے پانی کے‬
‫چھینٹے میرے چہرے پر مارے ‪،‬پھر‬
‫چھینٹے مارے ‪،‬میں سانس روکے پڑا‬
‫رہا‪،‬اتنے میں میرے ارد گرد تین لڑکیاں‬
‫اور ایک عورت جمع ہوچکی تھیں ‪،‬اوہ‬
‫میرے خدا اسے کیا ہوگیا ہے ‪،‬باریش‬
‫آدمی گھبرا گیا‪ ،‬اس نے گھبراہٹ میں‬
‫مجھ پر بقیہ گالس کا سرد پانی پھنکا تو‬
‫میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ‪،‬میں گہرے‬
‫سانس لے رہا تھا ‪،‬بیٹھتے ہی میں پھر‬
‫لیٹ گیا اور میرا سانس تیزی سے چل‬
‫رہا تھا ‪،‬آرام سے بیٹا آرام سے سانس لو‬
‫‪،‬آہستہ آہستہ میرے سانس نارمل ہوتے‬
‫گئے ‪،‬لیکن میرے چہرے پر اب بھی‬
‫ڈر تھا اور میں گھبرایا ہوا تھا ‪،‬پلیز‬
‫دروازہ بند کر دیں ‪،‬وہ مجھے مار دیں‬
‫گے میں گھگیایا‪،‬عورت اور لڑکیوں‬
‫کے چہرے پر میرے لیے ہمدردی تھی‬
‫جبکہ باریش آدمی محتاط تھا ‪،‬ایک‬
‫لڑکی نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا‬
‫‪ ،‬کیا بات ہے بیٹا اور کون ہو تم ؟‬
‫میرے گھر میں ایسے کیوں آئے ہو اور‬
‫تم اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو‪،‬کون تمھیں‬
‫مار دےگا‪ ،‬باریش آدمی نے ایکدم اتنے‬
‫سواالت کر دیئے ‪ ،‬اور میں سوچ رہا‬
‫تھا کہیں یہ کسی مولوی کا گھر تو نہیں‬
‫‪،‬کیونکہ باریش آدمی کا حلیہ بالکل کسی‬
‫مولوی جیسا تھا ‪،‬اور تمام گھر والے‬
‫اس وقت جاگ رہے تھے ‪ ،‬مجھے میرا‬
‫چاچا مار دے گا‪،‬پچھلے دنوں میرے‬
‫والدین کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال‬
‫ہوگیا ہے ‪،‬تب سے میرے چاچا نے‬
‫مجھے اپنی حویلی کے تہہ خانے میں‬
‫قید کر رکھا ہے ‪،‬میرے ابا کے ایک‬
‫وفادار مالزم کی وجہ سے آج میں‬
‫بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تھا‪،‬رات کو‬
‫بھاگا تھا ‪،‬میں سیدھا شہر کی طرف‬
‫آگیا‪،‬مجھے ایک بائیک بھی مل گئی‬
‫تھی ۔‬
‫‪• Part³⁵‬‬
‫۔لیکن شہر تک پہنچنے کے بعد جانے‬
‫کیسے وہ خراب ہوگئی ‪،‬اس دوران‬
‫مجھے اندازہ ہوا کہ میرے چچا کو‬
‫میرے بھاگنے کا پتہ چل گیا ہے‬
‫‪،‬کیونکہ کچھ لوگ میرے پیچھے تھے‬
‫‪،،‬انہوں نے میرا پیچھا تو کیا ‪،‬لیکن جب‬
‫بائیک خراب ہونے کے بعد میں گلیوں‬
‫میں بھاگا تو وہ مجھے نہ پا سکے ‪،‬میں‬
‫تقریبا ایک گھنٹے سے بھاگ رہا‬
‫ہوں‪،‬پلیز بزرگوار میری مدد کریں‬
‫‪،‬میری جان کو خطرہ ہے ‪،‬میں بہت ڈرا‬
‫ہوا تھا ‪ ،‬باریش آدمی ‪،‬عورت اور‬
‫لڑکیاں میرے ارد گرد بیٹھی تھیں ‪،‬اور‬
‫میں فرش پر بیٹھا تھا‪،‬باہر سردی بھی‬
‫تھی اور اب میری طبیعت نارمل بھی‬
‫ہوگئی تھی‪،‬اسے میری باتوں سے میری‬
‫کہانی کا بھی کچھ اندازہ ہوگیا تھا‬
‫‪،‬باریش آدمی نے لمبا سا سانس لیا‪،‬‬
‫جیسے کوئی خود سے سمجھوتہ کر رہا‬
‫ہو ۔‬
‫تمھارا نام کیا ہے بیٹا ‪،‬باریش آدمی نے‬
‫پوچھا ‪،‬شہزادہ میں نے بے اختیار‬
‫جواب دیا‪،‬پھر وہ مجھے لے کر ایک‬
‫کمرے میں لے آیا ‪ ،‬میں مکان کا جائزہ‬
‫لے چکا تھا گھر میں بس دو ہی کمرے‬
‫تھے ‪،‬اور ایک باتھ روم جس پر ٹاٹ کا‬
‫پردہ لگا ہوا تھا ‪،‬اور ایک جھونپڑی نما‬
‫برآمدہ تھا جو بتا رہا تھا کہ یہاں کچن‬
‫ہے‪،‬غربت صاف دکھ رہی تھی‪ ،‬عورت‬
‫جو یقینا اس کی بیوی تھی اور چاروں‬
‫لڑکیاں بھی ہمارے ساتھ ہی کمرے میں‬
‫آگئی‪،‬اچھا تو کون ہے تمھارا چاچا اور‬
‫کہاں کے رہنے والے ہو تم ‪،‬میرے چچا‬
‫کا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ‪،‬میں نے جوسلین کی‬
‫وسیع و عریض جائیداد کے ساتھ والی‬
‫جاگیر کے موجودہ مالک کا نام بتاتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬ان کی آپس میں دشمنی چل‬
‫رہی تھی‪،‬اور پانچ قتل بھی ہوچکے‬
‫تھے حاالت ان کے خراب تھے‪ ،‬میں‬
‫نے تفصیل سے ان کے بارے میں بتایا‬
‫‪،‬لیکن تم تو کسی گاؤں کے نہیں‬
‫لگتے‪،‬باریش آدمی نے شک زدہ لہجے‬
‫میں کہا‪،‬جی میں تو بچپن سے ہی‬
‫بورڈنگ سکولز میں پڑھتا آرہا ہوں ‪،‬اب‬
‫بھی ایچی سن میں فورتھ ایئر کے پیپر‬
‫دے کر فارغ ہوا تھا کہ یہ مصیبت ٹوٹ‬
‫پڑی ‪،‬میرے پاپا مجھے اس ماحول سے‬
‫دور رکھتے تھے ‪،‬اسی لیے مجھے‬
‫یہاں کی اتنی معلومات نہیں تھی اور‬
‫میرے مما ‪،‬پاپا کے جانے کے بعد میں‬
‫ان کے چنگل میں پھنس گیا‪ ،‬میرے‬
‫ایک چچا جو کہ لندن میں رہتے ہیں بس‬
‫میں نے ان سے رابطہ کرنا ہے اور‬
‫پھر اس چچا کی خیریت نہیں ہے ‪،‬لیکن‬
‫تمھارے یہ چاچا بھی تمھارے ساتھ ایسا‬
‫سلوک کر سکتے ہیں باریش آدمی‬
‫مشکوک تھا یا محتاط تھا لیکن لگتا تھا‬
‫وہ کچھ دن مجھے اپنے گھر رکھنے پر‬
‫رضامند ہوگیا ہے ‪،‬میرے لندن والے‬
‫چچا میرے سگے چچا ہیں اور پھر ان‬
‫کی بیٹی سے میری منگنی ہوچکی ہے‬
‫‪،‬اور اصل میں یہی بات تو میرے‬
‫سوتیلے چچا کو بری لگی تھی‪،‬وہ‬
‫اوباش فطرت ہیں ہوسکتا ہیں انہوں نے‬
‫ہی میرے ماں باپ کو قتل کروایا‬
‫ہو‪،‬ایکبار میں نے اپنے لندن والے چچا‬
‫سے رابطہ کرلیا تو پھر سب ٹھیک ہو‬
‫جائے گا‬
‫ہمارے پاس بے شمار دولت ہے لیکن‬
‫اس وقت میں مشکل میں ہوں ‪ ،‬پر میں‬
‫آپ کو یاد رکھوں گا ‪،‬اچھا بیٹا میں‬
‫تمھیں کچھ دن رکھ بھی لیتا ہوں تو تم‬
‫اپنے چچا سے کیسے رابطہ کرو گے‪،‬‬
‫وہ لندن میں ہے اور تم یہاں ‪،‬کوئی ٹیل‬
‫فون نمبر یا کوئی اور رابطے کا ذریعہ‬
‫ہے تمھارے پاس ؟اس وقت موبائل آچکا‬
‫تھالیکن ابھی عام نہیں ہوا تھا ‪،‬نہ ہی یہ‬
‫اسٹیٹس سمبل بنا تھا‪،‬اور نہ ہی لوگوں‬
‫کو موبائل فوبیا ہوا تھا‪،‬انکل ٹیلی فون‬
‫نمبر تومیرے موبائل میں تھے وہ بھی‬
‫وہیں رہ گیا ہے ‪،‬میرا ایک دوست ہے‬
‫جو ایچی سن کالج میں میرا کالس فیلو‬
‫رہا ہے ‪،‬بہت اچھا دوست ہپے ‪ ،‬دراصل‬
‫میں چچا کی قید سے فرار ہو کے آیا ہی‬
‫اسی کا پاس تھا ‪،‬اس کے ذریعے میں‬
‫اپنے چچا سے رابطہ کر لوں گا‪،‬لیکن‬
‫ابھی اس کے پاس نہیں جا سکتا‬
‫‪،‬کیونکہ میرا چچا بھی جانتا ہے کہ وہ‬
‫میرا اچھا دوست ہے اور میں اس کے‬
‫پاس جانے کی کوشش کروں گا‪ ،‬تو وہ‬
‫لوگ میرے اس دوست کے پاس ضرور‬
‫جائیں گے یا اس کی نگرانی کریں‬
‫گے‪،‬میں کچھ دن بس چھپنا چاہتا ہوں‬
‫‪،‬پھر میں اپنے دوست سے رابطہ کر‬
‫لوں گا اور اسی کے پاس چل جاؤں‬
‫گا‪،‬باریش آدمی نیم رضا مند تو پہلے ہی‬
‫تھا ا ب اطمینان کر چکا تھا ‪،‬اسلیے اس‬
‫نے مجھے وہیں رہنے کی اجازت دے‬
‫دی‪،‬جاؤ تم لوگ ناشتہ وغیرہ تیار‬
‫کرو‪،‬باریش آدمی نے لڑکیوں اور‬
‫عورت سے کہا‪،‬جب وہ کمرے سے‬
‫چلی گئی تو وہ مجھے مخاطب‬
‫ہوا‪،‬دیکھو شہزادے بیٹا ۔ میں ایک مسجد‬
‫کا پیش امام ہوں ‪ ،‬یہ چاروں میری بیٹیا‬
‫ں ہیں اور ساتھ ان کی ماں ہے ‪،‬میرے‬
‫گھر میں سخت پردہ ہے اور ہماری‬
‫بچیاں غیر مردوں سے پردہ کرتی ہیں‬
‫‪،‬اسی لیے میں نے ان کومڈل سے آگے‬
‫نہیں پڑھنے دیا‪،‬باقی تعلیم میں نے گھر‬
‫میں ہی دینے کا فیصلہ کیا ہے ‪،‬تم اس‬
‫گھر میں اچانک آئے ہو اور تم سے‬
‫پردہ نہیں ہو سکا ‪،‬دوسرا میرے گھر‬
‫میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمھیں علیحدہ‬
‫رکھ سکوں ‪،‬اسلیے تم یہاں رہو گے‬
‫مگر ہم لوگ غیرت کے معاملے میں‬
‫بہت سخت ہیں ‪ ،‬بس اس بات کا خیال‬
‫رکھنا ‪،‬انکل آپ میری طرف سے بے‬
‫فکر رہیں ‪،‬میں اپنے حاالت کا مارا ہوا‬
‫ہوں اور آپ کا احسان یاد رکھوں گا‬
‫‪،‬جب حاالت بہتر ہوئے تو میں آپ کا‬
‫حسان ضرور چکاؤں گا‪،‬میں ڈھکے‬
‫چھپے لفظوں میں پہلے بھی مولوی کو‬
‫ال لچ دے چکا تھا۔مولوی کی خاموشی‬
‫بتا رہی تھی کہ وہ اس بات کی امید‬
‫رکھتا ہے ۔‬
‫اگر میں امیر گھرانے کا فرد نہ لگتا‬
‫اور جاگیر کی باتیں نہ کرتا تو آج اس‬
‫گھر میں مشکل سے ہی جگہ بنا پاتا‪،‬‬
‫اس معاشرے میں پیسے کو سالم تھا‬
‫اور غریب کو دھکے تھے ‪،‬گو کہ میں‬
‫نے فلمی کہانی سنائی تھی ‪،‬اور میں نے‬
‫سنائی بھی اسلیے تھی کہ ہمارا معاشرہ‬
‫اس کہانی کوقبول کرتا ہے ‪،‬ناشتہ ہم‬
‫سب نے اکٹھے کیا ‪،‬میں نظریں‬
‫جھکائے ناشتہ کرتا رہا‪،‬پھر مولوی تو‬
‫سو گیا اور لڑکیاں کام کاج میں لگ‬
‫گئی‪،‬گھر کے ماحول سے اور کچھ‬
‫مولوی کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ‬
‫یہاں پابند یاں زیادہ ہیں‪،‬گھر میں غربت‬
‫ہے اور سہولتوں آسائشوں تو کیا ہونی‬
‫عام ضرورتیں ہی بمشکل پوری ہوتی‬
‫ہیں‪،‬میں بھی ایک چارپائی پر لیٹ گیا‬
‫اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں‬
‫‪،‬مولوی کی بیٹیاں تو انتہائی خوبصورت‬
‫تھیں ‪،‬گدڑی میں لعل چھپے ہوئے‬
‫تھے ٍ‪،‬جوسلین نے یہ گھر بھی جان‬
‫بوجھ کر ہی چنا تھا ‪،‬کیونکہ اس نے‬
‫مجھے ہر طبقے کی پہچان کروائی تھی‬
‫‪،‬ان کی عادات مزاج ‪،‬اور رہن سہن ‪،‬ان‬
‫کی ضروریات ‪،‬خوہشات اور نفسیات‬
‫کے بارے میں بتایا تھا‪،‬لیکن اس مولوی‬
‫طبقے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا‬
‫تھا‪،‬بلکہ اسے بھی ان کے بارے میں‬
‫کچھ پتا نہیں تھا ‪،‬وہ تو تھی ہی کرسچئن‬
‫‪،‬اور میں بچپن کا تو پتہ نہیں لیکن اب‬
‫تو کبھی اس طبقے کے نزدیک بھی‬
‫نہیں گزرا تھا‪،‬لہذا یہ طے تھا کہ‬
‫جوسلین نے جان بوجھ کر یہ امتحان در‬
‫امتحان والی بات کی تھی۔ میں نے کچھ‬
‫باتیں ذہن میں دہرائی اور باہر صحن‬
‫میں نکل آیا‪،‬آرام سے لیٹے رہنے سے‬
‫تو کچھ نہیں ہونا تھا‬

‫‪،‬میں مولوی کی بیوی کے پاس جا کر‬


‫بیٹھ گیا‪،‬بڑے مہذب انداز میں آنٹی آنٹی‬
‫کرتے میں نے اس سے بات شروع‬
‫کی‪،‬وہ جھجک رہی تھی‪،‬لیکن مجھے‬
‫گفتگو میں ملکہ حاصل تھی ‪،‬یہ ہونہیں‬
‫سکتا تھا کہ کوئی میری باتوں کے جال‬
‫سے بچ سکے‪،‬یہ بھی ایک فن‬
‫تھا‪،‬جیسے کہ سامنے والے کی بات‬
‫کرو ‪،‬اپنی نہ کرو‪،‬میں نے غربت اور‬
‫شوہروں کے حوالے سے کچھ باتیں کی‬
‫تو وہ مجھ سے کھلنے لگی‪،‬آنٹی مجھے‬
‫تو لگتا ہے یہ گھر چلتا ہی آپ کے دم‬
‫سے ہے‪،‬آنٹی اتنے مشکل حاالت میں‬
‫آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں‪،‬آنٹی‬
‫میری مما بھی با لکل آپ جیسی‬
‫تھیں‪،‬آنٹی لگتا ہے مولوی صاحب نے‬
‫آپ کی قدر نہیں کی ہے ‪ ،‬بس آنٹی‬
‫پگھل چکی تھی۔‬
‫آنٹی میں جب اپنے چچا کے پا س پہنچ‬
‫جاؤں گا توآپ کیلیے بہت سے اچھے‬
‫سوٹ اور گفٹ بھیجوں گا‪،‬میرے لیے‬
‫کوئی گولڈوغیرہ کوئی مسلہ نہیں‬
‫ہے‪،‬نہیں شہزادے بیٹا ہمیں کچھ نہیں‬
‫چاہیے‪،‬بس خدا کرے تم ان مشکلوں‬
‫سے نکل جاؤ‪،‬مولوی کی بیوی نے‬
‫اوپری دل سے کہا تو مجھے یقین ہو گیا‬
‫کہ مچھلی نے چارہ نگل لیا ہے‪،‬آنٹی آپ‬
‫کی بیٹیاں تو میری بہنیں ہوئی لیکن‬
‫مجھےتو ان کے نام بھی نہیں‬
‫معلوم‪،‬آنٹی نے اپنی بیٹیاں کو بالیا‪،‬یہ‬
‫تمھارا بھائی ہے ‪،‬سمجھی‪ ،،،‬اسے گھر‬
‫میں کوئی تکلیف نہیں ہونی‬
‫چاہیے‪،‬شہزادے بیٹا‪ ،‬یہ شازیہ ہے ‪،‬یہ‬
‫میری بڑی بیٹی ہے ‪،‬یہ نازیہ ہے اس‬
‫سے چھوٹی‪،‬اور اس کےبعد یہ سعدیہ‬
‫اور یہ رافعہ سب سے چھوٹی ہے‪،‬وہ‬
‫مجھے سالم کرنے لگی‪،‬میں ان سے ان‬
‫کی پڑھائی کی باتیں کرنے لگا‪،‬وہ‬
‫شرماتی لجاتی تھوڑا بہت جواب دینے‬
‫لگی‪،‬رافعہ میٹرک کی تیاری کر رہی‬
‫تھی جبکہ شازیہ اور سعدیہ ایف کر‬
‫کے آگے پڑھائی چھوڑ چکی‬
‫تھیں‪،،‬لیکن نازیہ آگے پڑھنا چاہتی‬
‫تھی‪،‬اور اس وقت تھرڈ ائیر میں‬
‫تھی‪،‬سب سے خوبصورت بھی ان میں‬
‫سے نازیہ ہی تھی ان کو مولوی خود‬
‫پڑھاتا تھا‪،‬مڈل کرنے کے بعدسب ہی‬
‫اوپن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر ہی‬
‫تھیں اور گھر میں دینی تعلیم اور اس‬
‫کے ساتھ گھر کے کام کاج‪،‬لڑکیوں کی‬
‫بس یہی زندگی تھی‪ ،‬کوئی زندگی میں‬
‫رنگینی نہیں تھی ‪،‬میں نےباتوں میں ان‬
‫کے اچھے انداز اور تربیت کی تعریف‬
‫کی‪،‬اور لچھےدار باتوں میں ان کو‬
‫لپیٹنے لگا‪، ،‬اپنے کالج کی باتیں‪،‬دولت‬
‫کے قصے ‪،‬میرا باتوں کا مرکز دولت‬
‫تھا جس کا ان کو اللچ دے رہا تھا۔‬
‫‪• Part³⁶‬‬
‫جب کچھ ماحول بن گیا اور اجنبی پن‬
‫دور ہوتا گیا تووہ بے جھجک باتیں‬
‫کرنے لگی‪،‬وہ مجھ سے میرے بارے‬
‫میں سواالت کرتی رہیں‪،‬میں اپنی امارت‬
‫کے قصے سناتے ہوئے انہیں مرعوب‬
‫کرتا رہا‪،‬مزید کچھ ماحول بن گیا تو میں‬
‫بے تکلفی طرف بڑھا اور کچھ لطیفے‬
‫اپنے گاؤں کا نام لیکر سنا ڈالے‪،‬وہ‬
‫ہنسنے لگی‪،‬میں نے ان کی ماں کو بھی‬
‫گفتگو میں شامل رکھا‪،‬اور گاہے بگاہے‬
‫کہہ دیتا کہ میں اپنی ماں بہت کچھ‬
‫بھیجوں گا‪،‬اور تو اور میں نے لمبی ہی‬
‫چھوڑ دی کی میں اپنی ماں کو لندن ہی‬
‫بلوا لوں گا‪،‬لیکن یہ بات بھی چل‬
‫گئی‪،‬سچی بات ہے دولت میں بڑی‬
‫کشش ہے‪ ،‬غربت بھرے ماحول میں‬
‫لڑکیوں کی خواہشیں کیا پوری ہونی‬
‫تھی اب تو بس حسرتیں تھیں‪،‬اور میں‬
‫ان خواہشوں کو جگانے لگا‪،‬اچھا پہننا‬
‫لڑکیوں کی کمزوری ہے‪،‬اسی طرح‬
‫سراہا جانا ‪،‬کوئی ان کی تعریف کرے‬
‫ان کو چاہے‪،‬تقریبا تین گھنٹے تو ہمیں‬
‫گپیں مارتے ہو گیا تھے‪،‬لڑکیاں کچھ‬
‫بے تکلف تو ہوگئی تھیں اب مجھے لگا‬
‫کہ منزل پاس ہی ہے‪،‬لڑکیاں میرا بڑھا‬
‫ہاتھ نہیں روکیں گی‪،‬خاص کر نازیہ پر‬
‫میری نظر ٹک گئی تھی‪،‬بال کی‬
‫خوبصورت اور جوانی تھی اس پر‬
‫‪،،،‬مولوی صاحب اٹھ گئے ‪،‬لڑکیاں فورا‬
‫کام کاج میں لگ گئیں‪،‬اور تو اور‬
‫مولوی کی بیوی ایسے بیٹھی تھی‬
‫جیسے ابھی اس کی میری علیک سلیک‬
‫ہوئی ہے‪،‬مجھے ایسے لگا جیسے بنا‬
‫بنایا ماحول خراب ہو گیا‪،‬اور یکدم‬
‫مجھے اندازہ ہوا کہ یہ اتنا آسان بھی‬
‫نہیں ہے‪،‬ماحول پر مولوی چھایا ہوا ہے‬
‫اور اس کی پابندیاں ذہنوں میں گھسی‬
‫ہوئی ہیں‪،،‬بیٹا کہیں باہر نہیں جانا‬
‫تم‪،‬مولوی نے مجھے ہدایت کی اور‬
‫خود منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل گیا‪،‬اب یہ‬
‫دوپہر کی نماز پڑھا کر آئیں گے‪،‬مولوی‬
‫کی بیوی نے ہنستےہوئے کہا‪،‬اس کا‬
‫ہنسنا عجیب تھا‪،‬شاید ابھی وہ جو انجان‬
‫بن گئی تھی اس کا ازاال کر رہی تھی‪،‬تو‬
‫مولوی صاحب اب کیا کریں گے‪،‬اب وہ‬
‫حفظ والے بچوں کو پڑھائیں گے‪،‬ان‬
‫کے ساتھ ایک بڑے قاری ہیں‪ ،‬ان کو‬
‫مدرسہ انتظامیہ نے وہیں مکان دیا ہوا‬
‫ہے‪،‬کاش ہمیں بھی وہیں مکان مل جاتا‬
‫تو ان کرایوں سے تو جان چھوٹتی‪،‬‬
‫مولوی کی بیوی نے حسرت سے کہا۔‬
‫کہاں کی بات تھی وہ کہاں لے گئی‪،‬یا‬
‫وہ مجھے اپنا دکھڑا سنا رہی‬
‫تھی‪،‬بیماری ظاہر کرنا‪ ،‬گھر کے کام‬
‫کاجوں میں خود مصروف ظاہر کرنا‬
‫جیسے ان کے بغیر گھر ہی نہیں‬
‫چلتا‪،‬غربت کو رونا اور دوسروں کو‬
‫ڈسکس کرنا‪،‬یہ عورتوں کی خاص‬
‫عادتیں تھیں‪،‬خیر مولوی چال گیا تھا اور‬
‫ایک بار پھر میرے لیے میدان خالی‬
‫تھا‪ ،‬لڑکیوں میں سے ایک صفائی‬
‫کررہی تھی‪،‬ایک برتن دھو رہی تھی‪،‬‬
‫دوسری کمروں میں کچھ بستر وغیرہ‬
‫سمیٹ رہی تھی‪،‬آج تو میری وجہ سے‬
‫ان کو دوپہر ہی ہوگئی تھی‪،‬شازیہ جو‬
‫سب سے بڑی تھی وہ ہمارے پاس آ کر‬
‫بیٹھ گئی‪،‬میں نے اس سے باتیں شروع‬
‫کر دیں‪،‬اب میں اسے نظروں سے ٹٹول‬
‫رہا تھا کہ وہ سیکس میں دلچسپی‬
‫رکھتی ہے کہ نہیں‪،،‬دولت کی کشش تو‬
‫میں دکھا چکا تھا‪،‬میری پرسنالٹی ان کو‬
‫نظر آرہی تھی‪،‬اور کشش تو ان پر اثر‬
‫انداز ہو ہی رہی تھی‬

‫ن شازیہ کے چہرے پر معصومیت‬


‫تھی‪،‬میں نے یہ اندازہ لگانا تھا کہ وہ‬
‫سیکس میں دلچسپی رکھتی ہے کہ‬
‫نہیں‪،‬اور مجھے لگ رہا تھاکہ نہیں وہ‬
‫ایسی کوئی بات نہیں سمجھتی تھی‪،‬ان‬
‫کے گھر میں کیبل وغیرہ تو کیا ہونی‬
‫‪،‬ٹی وی ہی نہیں تھا‪،‬بلکہ گھر میں ایسی‬
‫کوئی چیز نہیں تھی جس سے باہر کی‬
‫دنیا کا کچھ آسکے‪،‬باتوں میں باتوں میں‬
‫ان کی دوستوں کے بارے میں پوچھا تو‬
‫پتہ چال ‪،‬مولوی ایسی باتیں پسند نہیں‬
‫کرتا اور کہیں آنے جانے پر پابندی‬
‫ہے‪،‬شروع شروع میں کچھ کالس فیلو‬
‫آئی تو مولوی کے رویے نے ان کو‬
‫دوبارہ نہ آنے پر مجبور کر‬
‫دیا‪،‬ہمسائیاں بھی آتی ہوئی گھبراتی تھیں‬
‫‪،‬مولوی کی تقریریں شروع ہو جاتی‬
‫تھیں‪،‬شاید مولوی یہ جان بوجھ کرکرتا‬
‫تھا‪،‬وہ یہاں کا ڈکٹیٹر (آمر)تھا‪،‬۔‬
‫شازیہ کھلتی جا رہی تھی‪،‬کسی غلطی‬
‫پر ابا بہت مارتے ہیں‪ ،،،‬مجھے تو بہت‬
‫ڈر لگتا ہے ان سے‪،‬میں نے مولوی کی‬
‫بیوی کی طرف دیکھا تو اس کے‬
‫چہرے سے اندازہ ہوا کے معافی اسے‬
‫بھی نہیں ہے‪(،‬بڑا شدت پسند مولوی‬
‫تھا)اب مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ‬
‫ایک نہات مشکل ٹارگٹ ہے باہر کی‬
‫دنیا سے اگر یہاں کچھ آتا نہیں تو‬
‫لڑکیوں کو سیکس کا کیا پتہ ہو‬
‫گا‪،‬محبت اور پیار کے بارے میں کیا‬
‫جانتی ہوں گی‪،‬الیکڑانک میڈیا‬
‫‪،‬سکولز‪،‬کالج‪،‬اور دوستیاں یہی تو وہ‬
‫سب دروازے تھے جن سے سیکس کا‬
‫پتہ چلتا ہے۔خربوزے کو دیکھ کر‬
‫خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‪،‬اور مولوی نے‬
‫یہ سب دروازے بند کیئے ہوئے‬
‫تھے۔اب دیکھنا یہ تھا کہ لڑکیاں‬
‫پابندیوں بھری زندگی سے اکتائی ہوئی‬
‫ہیں‪،‬یا ان کے ذہنوں میں بھی مولوی‬
‫کے خیاالت ٹھنسے ہوئے ہیں‪،‬میں چاہتا‬
‫تھا کہ ان کی ماں کہیں آس پاس ہو اور‬
‫میں کچھ اگلی باتیں چھیڑوں‪،‬آنٹی آپ‬
‫کھانا دوپہر کو بناتی ہیں یا شام کو‪،،‬بیٹا‬
‫ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا‪،‬مدرسے‬
‫میں طالبعلموں کیلیے کھانا پکتا ہے تو‬
‫وہ بڑے قاری اور ہمیں بھی ملتا‬
‫ہے‪،‬بات بات میں بڑے قاری سے تقابل‬
‫شاید ان کی عادت تھی‪،‬یا ان کےاسٹیٹس‬
‫کا معیار ہی بڑے قاری تھے‪،‬اور آج تو‬
‫ویسے ہی جمعرات ہے دیکھنا کتنا کھانا‬
‫آتا ہے شام کو‪،‬شازو نادر ہی ہم لوگ‬
‫کھانا پکاتے ہیں‪،‬میں سواالت کر رہا تھا‬
‫کہ ان کے گھر شام کو کھانا کیوں آنا‬
‫ہے کہاں سے آنا ہے‪،،‬اس طبقے سے‬
‫میری واقفیت ہو رہی تھی‪،‬باقی بہنیں‬
‫بھی ہمارے پاس آ کہ بیٹھ گئی تھیں‪،‬ان‬
‫کا رویہ ایسے ہی تھا جیسے ہماری‬
‫احساس کمتری کی ماری قوم کا کسی‬
‫گوری چمڑی والے کے ساتھ ہوتا ہے‪،‬یا‬
‫کسی دیسی انگلش بولنے والے کے‬
‫ساتھ ہوتا ہے‪،‬لوگ ہمیں ختم پڑھنے‬
‫کیلے کھانا دے جاتے ہیں ‪،‬شازیہ ہی‬
‫باتیں کرتی تھی مجھ سے‪،‬اور یہ ختم‬
‫کیا ہے‪،‬میں نے پوچھا ‪،‬وہ اپنے علم‬
‫کے مطابق مجھے سمجھانے لگی‪،‬ہم نہ‬
‫ان سب کھانوں کو اکٹھا کردیتے ہیں‪،‬‬
‫پھر ایسا ذائقہ بنتا ہے تم دیکھنا انگلیاں‬
‫چاٹتے رہ جاؤ گے‪،‬نازیہ نے بڑے فخر‬
‫سے کہا‪،‬عجیب زندگی تھی ان کی‪،‬ہر‬
‫طبقے کی اپنی نفسیات ‪،‬ہوتی ہے ‪،‬ان کا‬
‫رہن سہن‪،‬ان کی ضرورتین‪،‬خواہشات‬
‫‪،‬ان کا اسٹیٹس‪،‬جیسےڈاکٹروں کا ماحول‬
‫ہے‪،‬حجاموں کا ماحول ہے‪،‬اسی طرح‬
‫مولویوں کا ماحول سب سے علیحدہ‬
‫ہے‪ ،‬بعد میں اس طبقے کابھی میں نے‬
‫مطالعہ کیا‪،‬انہوں نے نظریات کی بنیاد‬
‫کو سمجھے بناء لکیر کے فقیر بننا ہوتا‬
‫ہے‪،‬اکثریت ان میں پابندیاں اور سختیاں‬
‫ہیں‬
‫میرا واسطہ بھی ایسے لوگوں سے پڑ‬
‫چکا تھا‪،‬صحن میں خوب دھوپ آ گئی‬
‫تھی ‪،‬اور کسی کا اٹھنے کا کوئی موڈ‬
‫نہیں تھا‪،‬سردیوں میں بھرپور دھوپ کا‬
‫مزہ لیا جا جا رہا تھا سستی سی ہو رہی‬
‫تھی‪،‬وہیں شازیہ گنے لے آئی یہ بھی‬
‫کوئی دے گیا تھا‪،‬گنے کو ایک طرف‬
‫سے پکڑ کر منہ سے چھلکا پکڑا ‪،‬اور‬
‫اسے چھیال ‪،‬کچھ چوسا پھر پھینک‬
‫دیا‪،‬اس طرح گنے کی ایک پوری‬
‫چھیلی اور دانتوں سے ہی گنڈیری کاٹ‬
‫کر چوسی پھر دوسری ‪،‬وہ گنا کھانے‬
‫میں ماہر تھی اور میں اناڑی تھی‪،‬وہ‬
‫مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی‪،‬بہرحال‬
‫میں بھی گزارا کر ہی گیا‪،‬ماحول بے‬
‫تکلفانہ اور گھریلو سا ہوگیا تھا‪،‬ابھی‬
‫تک سیکس کی کوئی بات نہیں ہوئی‬
‫تھی‪،‬جبکہ مجھے چاروں کوچودنا‬
‫تھا۔اتنا ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر‬
‫میں تھا اور اب اس سخت موحول والے‬
‫لوگوں میں بے تکلفی سے باتیں کر رہا‬
‫تھا‪،‬مولوی کی بیوی سایہ بنی ہوئی‬
‫تھی‪،‬اسے کسی طرح آگے پیچھے کرنا‬
‫تھا لیکن اس دھوپ میں اس کا ہلنے کا‬
‫کوئی موڈ نہیں تھا‪،‬اتنا ہوا کہ وہ‬
‫چارپائی پر لیٹ گئی ‪،‬پھر اونگھنے‬
‫لگی‪،‬ہم دو چارپائیوں پر بیٹھے تھے‬
‫‪،‬خود بخود ہماری آوازیں دھیمی‬
‫ہوگئی‪،‬اب میں کچھ کھلنے لگا‪،‬بے‬
‫تکلفی کے ماحول میں ان سے لطیفوں‬
‫کا سہارا لیکر کچھ باتیں کی‪،‬لیکن‬
‫جیسے وہ لفظ سیکس سے ہی نا آشنا‬
‫تھی‪،‬چھچھورا پن‪،‬اور گھٹیا انداز لڑکیاں‬
‫ویسے بھی پسند نہیں کرتی تھیں‪،‬لیکن‬
‫اگر میں کرتا بھی تو پھر یہاں رہنا‬
‫مشکل ہوجانا تھا‪،‬دھیرے دھیرے میں‬
‫اپنی بات اشاروں کنایوں میں کہتا رہا‬
‫‪،‬میں انہیں پرکھتا رہا‪،‬سمجھتا رہا ‪،‬لیکن‬
‫وہاں سیکس سے دلچسپی کے کوئی‬
‫آثار نہیں تھے‪،‬دلچسپی کیا‪،‬وہ تو جیسے‬
‫لفظ سیکس سے ہی ناآشنا تھیں‪ ،،‬میں‬
‫نے جیکٹ اتار دی تھی‪،‬دھوپ میں اچھا‬
‫لگ رہا تھا‪ ،‬اب میں نے ان کے‬
‫جسموں کو گھورنا شروع کر دیا میں ان‬
‫کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا‪،‬لڑکیوں کا‬
‫ریڈار اس معاملے میں بہت حساس اور‬
‫تیز ہے ‪،‬کچھ ہی لمحوں میں وہ یہ‬
‫محسوس کر کے بے چین ہونے‬
‫لگی‪،‬شازیہ تو کام کے بہانے فورا اٹھ‬
‫گئی‪،‬میں بھی باتھ روم میں چال گیا‪،‬باتھ‬
‫روم کے ٹاٹ کے پردے سے میں ان‬
‫کو دیکھتا رہا‪،‬وہ کافی سخت تھیں‬
‫کیونکہ اب وہ آنکھوں سے ایکدوسرے‬
‫سے بات کر رہیں تھیں اور پھر سب‬
‫سے چھوٹی رافعہ کے سوا سب اٹھ‬
‫گئی‪،‬بڑا ہی سخت رد عمل دیا تھا انہوں‬
‫نے ‪،‬مجھے بنا بنایا ماحول خراب ہوتا‬
‫محسوس ہوا‪،‬میں باتھ روم سے نکال تو‬
‫رافعہ سے دلچسپ باتیں کرنے لگا‪،‬میں‬
‫نے لندن کی باتیں چھیڑ دیں‪،‬ایک قصہ‬
‫گو کی طرح مجھے یہ فن بھی آتا‬
‫تھا‪،‬کچھ ہی دیر میں باقی بہنوں کے کان‬
‫بھی کھڑے ہوگئے تھے وہ میری کہانی‬
‫نما باتوں میں دلچسپی لے رہی تھیں‬

‫میرے چہرے کے تاثرات ایسے تھے‬


‫جیسے کوئی بہت معصوم ہو‪،‬اور میری‬
‫آنکھیں جھکی ہوئی تھی‪،‬نازیہ میرے‬
‫پاس آکہ بیٹھ گئی‪،‬لیکن میں نے آنکھیں‬
‫نہ اٹھائی‪،‬اور باتیں گھما پھرا کہ کہیں‬
‫سے کہیں لے گیا وہ جیسے یہیں بیٹھی‬
‫دنیا گھوم رہی تھیں‪،‬یہ سب ان سفر‬
‫ناموں کا کمال تھا جو میں نے پڑھے‬
‫تھے‪،‬خاص کرمستنصر حسین تارڑ کو‬
‫سفر ناموں میں ملکہ حاصل تھی‪،‬اس‬
‫کے سفر نامے پڑھ کے دل کرتا تھا کہ‬
‫میں بھی شمالی عالقوں میں نکل‬
‫جاؤں‪،‬ان کا پیرس کے سفر سے ماخوذ‬
‫ناول ‪،‬پیار کا پہال شہر ‪،،‬جب میں نے‬
‫پڑھا تو میں اس ناول کا گرویدہ ہو‬
‫گیا‪،‬پاسکل اور سنان کی دوستی اور‬
‫علیحدگی ناول کا مرکزی خیال ہے۔ اور‬
‫ناول پڑھ کے مجھے بھی ناول کی‬
‫ہیروئین پاسکل سے پیار ہوگیا اس ناول‬
‫نے چند سالوں میں چھپنے کا ریکارڈ‬
‫قائم کیا ہے۔ایک منفرد اور یادگار ناول‬
‫کے طور پر یہ ماسکو یونیورسٹی کے‬
‫شعبہ اردو میں بطور سلیبس شامل‬
‫ہے۔آج بھی پیار کا پہال شہر میرے‬
‫یادوں میں نقش ہے‪،‬بعد میں ایسی‬
‫تحریری جادو میں نے علیم الحق حقی‬
‫کی حج اکبر میں دیکھا اور میرے‬
‫پسندیدہ لکھاریوں علیم الحق حقی بھی‬
‫شامل ہوگئے ‪،‬کبھی یہ علیم شام کے نام‬
‫سے جانے جاتے تھےاور شاعری بھی‬
‫کرتے تھے مشہور ترین شعر ‪،،،،،‬کسی‬
‫کو اتنا نہ چاہو کہ پھر بھال نہ سکو‬
‫‪،،،،،،،‬یہاں مزاج بدلتے ہیں موسموں‬
‫کی طرح ‪ ،،،،‬علیم الحق حقی کا ہی ہے‬
‫‪،،‬یادیں ایسی ہی ہوتی ہیں ‪،‬میں بھی ان‬
‫میں بہتا کہاں سے کہاں پہنچ گیا‪،‬سچی‬
‫بات تو یہ کہ اتنی یادوں میں یہ کہانی‬
‫لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے‪،‬‬
‫چلو اک نظم لکھتے ہیں‬
‫کسی کے نام کرتے ہیں‬
‫مگر اب سوچنا یہ ہے‪،‬‬
‫کہ اس میں ذکر کس کا ہو‬
‫اس میں بات کس کی ہو‬
‫اس میں ذات کس کی ہو‪،‬‬
‫اور یہ بھی فرض کرتے ہیں‪،‬‬
‫کہ جس پہ نظم لکھتے ہیں‬
‫اس سے محبت کرتے ہیں‬
‫ہمارے سارے جذبوں کو‬
‫بس اسکی ہی ضرورت ہے‬
‫اظہار کی خاطر‬
‫اک نظم کی حاجت ہے‪،‬‬
‫چلو اک کام کرتے ہیں‬
‫کہ ہم جو نظم لکھتے ہیں‬
‫تمھارے نام کرتے ہیں‬
‫تمھی عنوان ہو اسکا‬
‫تمھارا ذکر ہے اس میں‬
‫تمھاری بات ہے اس میں‬
‫تمھاری ذات ہے اس میں‬
‫پھر کہانی کی طرف آتے ہیں‪،‬آہستہ‬
‫آہستہ سعدیہ اور پھر شازیہ بھی میرے‬
‫پاس آکر بیٹھ گئی‪ ،‬میں آنکھیں نیچی‬
‫کیے لگا رہا اور جب ماحول میں وہی‬
‫اعتماد واپس آگیا تو میں نے بات ختم‬
‫کر دی‪،‬اور ان کو بولنے کا موقع دیا‪،‬وہ‬
‫سوالت کرتی رہیں‪،‬اور میں ایسے ہی‬
‫بتاتارہا جیسے میں خود ساری دنیا‬
‫گھوما ہوں‪،‬میں نے یہی محسوس کروایا‬
‫کہ جو ابھی میں ان کے جسموں سے‬
‫حظ اٹھا رہا تھا وہ بس ان کا واہمہ‬
‫تھی‪،‬باتیں ان سے کر رہا تھا اور ذہن‬
‫سوچوں کے ادھیڑ بن میں تھا کہ کیسے‬
‫ان کو چدائی کی طرف الؤں‪،‬یہ طے تھا‬
‫کہ وہ سیکس سے انجان تھیں‪،‬اور‬
‫نسوانی غیرت سے بھری ہوئی تھی‪،‬اس‬
‫ماحول اور مولوی نے ان کے ذہنوں کو‬
‫جکڑا ہوا تھا وہ ایک حصار میں رہتی‬
‫تھیں ‪،‬جس میں داخلہ مشکل نظر آرہا‬
‫تھا‪،‬سارا دن ہی باتوں میں گزر گی اتھا‬
‫دوپہر ہوگئی تھی اور اذانیں ہونے‬
‫لگی‪،‬مولوی کی بیوی اٹھ بیٹھی اور سب‬
‫وضو کر کے نماز پڑھنے لگی‪ ،‬میرے‬
‫لیے یہ ماحول ایساتھاجیسے بچپن کی‬
‫کوئی یاد ہو۔۔۔ مجھے بے چینی ہونے‬
‫لگی‪،‬میں جوسلین کے ساتھ یہ سب بھول‬
‫گیا تھا‪،‬میں جتنا بھی برا تھا مجھے اپنی‬
‫بنیاد نہیں بھولنی چاہیئے تھی‪ ،‬میں نے‬
‫خود سے عہد کیا کہ کم از کم اپنی‬
‫بنیادیں ضرور قائم رکھوں گا‪،‬میں نگینہ‬
‫کا ڈسا ہوا تھا اور میں نے عہد کیا تھا‬
‫کہ اس دنیا کو شہزادہ چاہیے تو اسے‬
‫شہزادہ ہی ملے گا‪،‬لیکن اب سوچ رہا‬
‫تھا کہ ایک انسان کا بدلہ سب سے نہیں‬
‫لینا چاہیئے ‪،‬سیکس اسی سے کروں گا‬
‫جو اپنی مرضی سے آئے گی‪،‬زبردستی‬
‫مجھے اچھی نہیں لگی تو کسی کے‬
‫ساتھ زبردستی کیوں کروں‬
‫‪Part³⁷‬‬
‫بدلہ صرف نگینہ سے ہی لینا ہے‪،،‬۔‬
‫چاہے جو مرضی ہو جائے جتنی عمر‬
‫بھی بیت جائے‪،‬میں نے فیصلہ کیا کہ‬
‫اب جوسلین کوساری بات بتا کر اس کی‬
‫مدد چاہوں گا ‪،‬مجھے نگینہ چاہیے ہر‬
‫صورت میں چاہیئے ‪ ،،‬آدھے گھنٹے‬
‫تک مولوی آگیا ۔‬
‫مولوی کے آنے سے ماحول بدل‬
‫گیا‪،‬سب اپنے اپنے دھیان ہوگئے‪،‬مولوی‬
‫اپنے ساتھ کھانا بھی الیا تھا‪،‬کھانا کھا‬
‫کر مولوی تو قیلولہ کرنے کیلیے لیٹ‬
‫گیا‪،‬اس کی بیوی بھی وہیں کمرے میں‬
‫تھی‪،‬لڑکیاں صحن میں تھیں‪،‬یا دوسرے‬
‫کمرے میں‪،‬میں نے محسوس کیا لڑکیاں‬
‫اب والدین کے کمرے میں نہیں جا رہی‬
‫بلکہ اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں‬
‫تھا‪،‬شاید یہ مولوی کا روزمرہ کا معمول‬
‫تھا‪،‬نازیہ میرے ساتھ دوسروں کی بہ‬
‫نسبت کچھ زیادہ بے تکلف ہوگئی تھی‬
‫‪،‬اگر ماحول کا دباؤ نہ ہوتا تو اس نے‬
‫چلبلی اور شوخ و چنچل ہونا تھا‪،‬باپ‬
‫نہیں تو ہوتا تھاتو وہ کچھ نٹ کھٹ‬
‫حسینہ بن جاتی تھی‪،‬نازیہ دوسرا کمرہ‬
‫شاید تم بہنوں کا ہے ‪،‬مجھے اپنا کمرہ‬
‫نہیں دکھاؤ گی‪،‬ضرور آؤ نہ کمرہ دکھاؤ‬
‫‪،‬ویسے ہمارے کمرے میں دیکھنے کو‬
‫ہے ہی کیا‪،‬نازیہ افسردگی سے‬
‫بولی‪،‬شاید میری باتوں کا اس پر اثر‬
‫ہوگیا تھا‪،‬اور اسے اپنے ماحول سے‬
‫بے زاری ہورہی تھی‪،‬میں یہی چاہتا تھا‬
‫کہ وہ اس ماحول کے اثر سے‬
‫نکلے‪،‬کمرے میں داخل ہوتے ہی میں‬
‫نازیہ سے ٹکرایا جیسے مجھے کمرے‬
‫میں داخل ہوتے ہی ٹھوکر لگی ہو‪،‬میں‬
‫نازیہ کی کمر سے ٹچ ہوا ‪ ،،‬نازیہ کو‬
‫جیسے کرنٹ لگا‪،‬اب وہ مجھ سے‬
‫فاصلے پر کھڑی تھی اس کے چہرے‬
‫پر شرماہٹ تھی تو آنکھوں میں شکوک‬
‫کی پرچھائیاں‪،‬کچھ ہی دیر بعد وہ‬
‫کمرے سے باہر نکل گئی اور اب‬
‫میرے ساتھ رافعہ تھی‪ ،‬کمرہ لمبائی پر‬
‫مشتمل تھا اور پیچھے کی طرف جستی‬
‫پیٹیاں تھیں‪،‬ان میں بستر وغیرہ پڑے‬
‫ہوتے ہیں‪،‬وہاں ‪ 4‬چارپائیاں پڑی‬
‫تھی‪،‬دو ایک طرف کی دیوار سے لگی‬
‫تھیں اور دو دوسری طرف کی دیوار‬
‫سے لگی تھیں‪ ،‬دو کرسیاں اور ایک‬
‫میز تھا‪،‬دیوار پر چھوٹے فریم کا شیشہ‬
‫لگا ہوا تھا‪،‬جو کہ ایک لکڑی کی میخ‬
‫سے ٹنگا ہوا تھا‪،‬بس اور کچھ نہیں‬
‫تھا‪،‬میں وہیں ایک چارپائی پر لیٹ‬
‫گیا‪،‬رافعہ میرا موڈ دیکھ کر باہر چلی‬
‫گئی‪،،‬میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں‬
‫‪،،،‬لڑکیاں کسی بھی طرح مجھے‬
‫سیکس کی طرف مائل نہیں لگتی‬
‫تھ ِی‪،‬پھر وقت کم تھا اتنے کم وقت میں‬
‫ایک لڑکی تیار نہیں ہو سکتی او ر یہاں‬
‫‪ 4‬لڑکیاں تھیں۔‬
‫بفرض محال اگر میں تین کو بھی چود‬
‫ِ‬
‫لوں اور ایک کو نہ چود سکوں تو میں‬
‫اس ٹیسٹ میں فیل تھا ‪،‬یہاں تو ایک بھی‬
‫تیار نہیں تھی‪،‬کوئی ایسی لڑکی ہوتی‬
‫جو چودائی کر چکی ہو‪،‬یا شادی شدہ ہو‬
‫تو اس کو پھنسانا آسان تھا بنسبت ان‬
‫کنواری لڑکیوں کے‪،‬سب سے بڑی‬
‫رکاوٹ مجھے ان کا ماحول لگ رہا‬
‫تھا‪،‬ان کی تربیت لگ رہی تھی‪،‬جس نے‬
‫ان کے ذہنوں کو جکڑا ہوا تھا‪،‬وہ لکیر‬
‫کی فقیر ادھر سے ادھر نہیں سوچ‬
‫سکتی تھی‪،‬اور مولوی کا ڈر ان کے‬
‫دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔سوچ سوچ کے‬
‫دماغ درد کرنے لگا‪،‬لیکن کوئی حل‬
‫سمجھ نہ آیا‪،‬کتنی دیر گزر گئی کوئی‬
‫لڑکی بھی کمرے میں نہ آئی‪،،‬میں نے‬
‫نازیہ کی باتوں سے اسے تھوڑا آگے‬
‫کرنے کیلیے بہانے سے چھوا تھا ‪،‬اور‬
‫اب اس بات کا الٹا اثر ہوا تھا ‪،‬وہ بدک‬
‫کر دور ہو گئی تھی‪،‬اسی ادھیڑ بن میں‬
‫سہہ پہر ہوگئی مجھے محسوس ہوا کہ‬
‫مولوی باہر چال گیا ہے تو میں پھر‬
‫صحن میں آگیا‪،‬لڑکیاں مجھے التعلق‬
‫سی محسوس ہوئیں‪ ،،،‬یقینا نازیہ نے‬
‫باقی بہنوں کو بھی بات بتا دی تھی‪،‬جو‬
‫ذرا سا حادثا چھوئے جانے سے اتنا ر ِد‬
‫عمل دے رہی تھیں تو وہ چودائی پر‬
‫کیسے راضی ہوتیں‪ ،‬حاالنکہ میری‬
‫اداکاری کمال کی تھی اور شک کی‬
‫کوئی گنجائش نہیں تھی‪،،‬میں دوبارہ‬
‫ہمت کر کے ان کی ماں کے پاس ہی‬
‫بیٹھ گیا‪،‬ان کی ماحول کا توکوئی توڑ‬
‫نظر نہیں آرہا تھا ‪،‬میں نے پھر غربت‬
‫کو نشانہ بنایا اور ایسی باتیں کرنے لگا‬
‫کہ وہ بھی گھر بیٹھے پیسے کما سکتی‬
‫ہیں‪،‬میری باتوں کا مقصد بس لڑکیوں‬
‫کو متوجہ کرنا تھامیں اِدھر اُدھر کے‬
‫منصوبے بتانے لگا‪،‬کوئی منصوبہ کام‬
‫کا نہیں تھا لیکن دلکش تھا۔‬
‫نہیں بیٹا سب کر کے دیکھ لیا‪،،‬مولوی‬
‫صاحب نہیں مانتے‪،‬وہ کہتے ہیں‪،‬عورت‬
‫گھر کی عزت ہے اور گھر سنبھالنے‬
‫کیلیے ہے اسے کام نہیں کرنا‬
‫چاہیئے‪،‬نہیں تو سالئی کا کام تو میں‬
‫بہت اچھی طرح جانتی ہوں ‪،‬اور بڑے‬
‫قاری صاحب کی بیوی مجھ سے ہی‬
‫کپڑے سلواتی ہے‪،‬لیکن مولوی صاحب‬
‫مجھے کسی اور کے کپڑے نہیں سینے‬
‫دیتے‪،،‬امی آپ گھر میں ٹیوشن اکیڈمی‬
‫کھول لیں‪،،،‬لو بیٹا میں انپڑھ اب کسی‬
‫کو کیا پڑھاؤں گی‪،‬آپ نہیں امی‬
‫جان‪،،‬یہ پڑھائیں گی بچوں کو ٹیوشن‬
‫‪،‬سب ہی پڑھی لکھی ہیں‪،‬پھر کالونی‬
‫والے آپ پر اعتماد کرتے ہیں‪،‬آپ کے‬
‫پاس اپنے بچوں کو ضرور بھیجیں‬
‫گے‪،‬لڑکیوں میری طرف متوجہ ہوگئی‬
‫تھیں۔‬
‫لیکن بیٹا مولوی صاحب نہیں مانیں‬
‫گے‪ ،‬امی جان متفکر تھیں۔ آپ لوگ‬
‫گھر میں سیپارے وغیرہ پڑھائیں‪،‬اور‬
‫پھر آہستہ آہستہ جب مولوی صاحب کو‬
‫اعتماد ہوجائے تو یہ ٹیوش پڑھانے لگ‬
‫جائیں‪،‬شازیہ اور سعدیہ بھی میرے پاس‬
‫آ کر بیٹھ گئیں‪،‬رافعہ تو جیسے پہلے ہی‬
‫انتظار میں تھی‪،‬لیکن نازیہ میرے پاس‬
‫نہیں آئی‪،‬فورا تجویزیں شروع ہو‬
‫گئیں‪،‬پر ابا کو کیسے منائیں‪،‬وہ اس پر‬
‫بھی راضی نہیں ہوں گے‪،‬بھئ کوئی‬
‫دلیل دو نہ ان کو‪،‬جو انہوں نے ہی تم‬
‫کو بتائی ہو‪ ،‬یہ بات تو ٹھیک ہے وہ‬
‫اکثر علم حاصل کرنے پر کئی باتیں‬
‫بتاتے ہیں‪،‬جو انہی کو بتائی جا سکتی‬
‫ہیں‪ ،‬شازیہ نے گفتگو میں اپنا حصہ‬
‫ڈاال ‪،،‬میری بال سے مولوی مانے یا نہ‬
‫مانے‪،‬گپ شپ پھر شروع ہوگئی‬
‫تھی‪،‬آپ سب مولوی صاحب سے کہیں‬
‫کے علم کی شمع سے ہی شمع جلتی‬
‫ہے اور اس کام کو روکنا تو ظلم ہے‬
‫‪،،‬یہ بالکل ٹھیک ہے سعدیہ اور شازیہ‬
‫پرجوش ہوگئی‪،‬لیکن مجال ہے جو نازیہ‬
‫نے تھوڑی سی توجہ دی ہو‪ ،‬لڑکیاں‬
‫پرجوش ہوگئی‪،‬دولت آتی کسے اچھی‬
‫نہیں لگتی تھی‪،‬شام ہو رہی تھی‪،‬چھوٹے‬
‫چھوٹے بچے گھر میں آنے شروع‬
‫ہوگئے ‪ ،‬کوئی کچھ دے رہا تھا کوئی‬
‫کچھ ال رہا تھا ‪،‬میں کمرے میں جا کر‬
‫بیٹھ گیا‪،‬سورج ڈوبنے کے بعد مولوی‬
‫پھر آگیا ‪،‬اب سارا آیا ہوا سالن ایک ہی‬
‫جگہ اکٹھا کیا گیا اور کھانا شروع کیا‬
‫گیا ‪،‬عجیب سواد تھا اس میں لیکن تھا‬
‫مزیدار ‪،‬ایسا سواد پھر کبھی کہیں نہیں‬
‫مال‪،‬کھانا پینا کھا پی کے مولوی لیٹ‬
‫گیا‪،‬کچھ باتیں ہوئیں ‪،‬مولوی کو اذان نے‬
‫پھر بال لیا‪،‬سردیوں کی شامیں تھیں اور‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ مولوی کے گھر‬
‫میں رات ویسے بھی جلدی ہوجاتی‬
‫ہے‪،‬میں سوچ رہا تھا کہ اب کہاں سوؤں‬
‫گا‪،‬مولوی کے کمرے میں یا لڑکیوں‬
‫کے کمرے میں‪،‬دن گزر گیا تھا اور اب‬
‫میں ناامید ہو رہا تھا ‪،‬لیکن اگر لڑکیوں‬
‫کے کمرے میں سونے کا موقع مل‬
‫جائے تو کچھ مزید کوشش ہوسکتی‬
‫تھی‪،‬نازیہ مجھ سے کچھی کچھی سی‬
‫تھی ہم سب مولوی کے کمرے میں‬
‫بیٹھے تھے اورباتیں کر رہے‬
‫تھے‪،‬باتیں ہی وہ دستک ہیں جودلوں کا‬
‫دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں‪،‬ان کی ماں کے‬
‫ہوتے ہوئے میں انہیں کی باتیں کرتا تھا‬
‫لیکن غیر محسوس طور پر انہیں اپنی‬
‫طرف متوجہ کرتا تھا‪ ،‬آٹھ بجے مولوی‬
‫آگیا‪،‬اب وہ کہیں جانے واال نہیں تھا‬
‫لڑکیاں کچھ دیر میں اٹھ کر اپنے کمرے‬
‫میں چلی گئی‪،‬میں وہیں بیٹھا رہا‪،‬کچھ‬
‫لمحوں بعد شازیہ دروازے پر آئی اور‬
‫اس نے مجھے اشارے سے بالیا ‪،،‬میں‬
‫باہر گیا تو وہ مجھے کمرے میں لے‬
‫گئی‪،‬وہاں ایک اضافی چارپائی آگئی‬
‫تھی جو کہ یقینا میرے لیے‬
‫تھی‪،‬شہزادے وہ آپ کا بستر ہے‪،‬آپ‬
‫یہیں سویا کریں گے‪،‬شازیہ نے اپنے‬
‫بستر میں گھستے ہوئے کہا‪،‬‬
‫میں چپ چاپ بستر پر لیٹا اور رضائی‬
‫اوپر لے لی‪،‬مجھے سمجھ نہیں آئی کٹر‬
‫مولوی مجھے اپنی بیٹیوں کے کمرے‬
‫میں سالنے پر کیسے رضامند ہو گیا‪،‬یا‬
‫تو اسے مجھ پر اعتماد ہو گیا تھا ‪،‬یا‬
‫کوئی اور بات تھی‪،‬لڑکیاں خاموش اپنے‬
‫بستر پر لیٹی تھیں‪ ،،‬ان کے پاس ٹی وی‬
‫نہیں تھا لیکن‪،‬میں تو انہیں کچھ کہہ‬
‫سکتا تھا‪ ،‬ویسے جتنی باتیں آج کی تھیں‬
‫اتنا تو میں کبھی نہیں بوال تھا ‪،،‬کیا بات‬
‫ہے بھئی سب چپ چپ ہو‪،‬؟ کیا ایسے‬
‫ہی سو جاتی ہو اتنی جلدی ‪،‬آپ کب‬
‫سوتے ہیں‪،‬شازیہ نے پوچھا ‪،‬بھئی‬
‫مجھے تو ایک بج ہی جاتا ہے‪،‬اتنی دیر‬
‫آپ کیا کرتے ہیں ‪،‬بس ٹی وی فلمیں‬
‫‪،‬کمپیوٹر ‪،‬یا دوستوں سے گپ شپ‪،‬میں‬
‫نے وہ بتایا جو انہیں سمجھانا چاہتا‬
‫تھا‪،‬ہم جلدی نہ سوئیں تو ابا غصے‬
‫ہوتے ہیں‪،‬مارتے بھی ہیں‪،‬پھر صبح‬
‫جلدی اٹھنا ہوتا ہے نہ‪ ،‬اسلیے نیند‬
‫پوری کرنے کیلیے جلدی سو جاتی ہیں‬
‫ہم‪،‬سعدیہ بولی‪،‬آپ فلمیں بھی دیکھتے‬
‫ہیں ‪،‬شازیہ نے حسرت سے کہا‪،‬ہاں‬
‫بھئی تم لوگوں نے کبھی کوئی فلم نہیں‬
‫دیکھی ؟‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫ایک دفعہ شازیہ باجی ہمسایوں کے گھر‬
‫ٹی وی دیکھنے چلی گئی تھی ‪،‬ابا کو‬
‫پتہ چل گیا‪،‬پھر ابا نے باجی کو اتنا مارا‬
‫کے باجی بے ہوش ہوگئیں‪،‬سعدیہ ہی‬
‫اب بات کر رہی تھی‪،‬نازیہ تو جیسے‬
‫روٹھ ہی گئی تھی‪،‬اچھا اگر میں تم‬
‫لوگوں کو ابھی کوئی فلم دکھاؤں تو‬
‫‪،،‬ابھی شازیہ اور سعدیہ اکٹھی بولی‬
‫‪،‬ابھی کیسے ‪،‬بھئی میں نے جو فلم‬
‫دیکھی ہے میں تمھیں اس کہانی سنا دیتا‬
‫ہوں سمجھ لینا تم نے بھی فلم دیکھ لی‬
‫ہے ‪،‬اچھا تو سناؤ نہ ‪،‬شازیہ جوش سے‬
‫مگر دھیمی آوز میں بولی‪،‬میں نے سوچ‬
‫سمجھ کے ایک فلم کی کہانی شروع کر‬
‫دی‪،‬اس میں کچھ باتیں تھیں جو گرم کر‬
‫سکتی تھیں ‪،،‬شروع شروع میں تو وہ‬
‫سب ہی پرجوش تھیں لیکن جیسے ہی‬
‫میں نے ہیرو ہیروئین کی کسنگ کی‬
‫بات کی‪،‬سب بہنیں ایکدوسرے کی‬
‫طرف دیکھنے لگی‪،‬پھر انہوں نے بے‬
‫توجہی برتنی شروع کی ‪،‬میں ان کی‬
‫طرف دیکھنے لگا اور انہوں نے‬
‫رضائیاں منہ پر لے لیں‪،‬دھت تیرے‬
‫کی۔‬
‫اب تو وہ میرے بارے میں سمجھ گئی‬
‫ہوں گی‪،‬بھئی کیا بات ہے میں تو جدید‬
‫ماحول میں رہتا ہوں ‪،‬مجھے نہیں پتہ تم‬
‫لوگوں کو کیا برا اور کیا اچھا لگتا ہے‬
‫‪،‬پلیز مجھے بتاؤ ‪،‬تا کہ مجھ سے کوئی‬
‫غلطی نہ ہو‪،‬میں ے سب کو مخاطب کر‬
‫کے کہا‪،‬لیکن کسی نے کوئی جواب نہ‬
‫دیا‪،‬اکٹھی بھی کوشش کر کے دیکھ لی‬
‫‪،‬اکیلی نازیہ پر بھی کوشش کر کے‬
‫دیکھ لی‪،‬کچھ نہ بنا‪،‬اکٹھے تو ہو ہی‬
‫نہیں سکتا تھا‪،،‬کیوں کہ ایک بہن اگر‬
‫چاہے تو بھی وہ دوسروں کے سامنے‬
‫اظہار نہیں کرے گی‪،‬کہاں پھنسا دیا یار‬
‫جوسلین نے ‪،‬اسنے واقعی مجھے‬
‫امتحان میں ڈال دیا تھا‪،‬سوچوں میں‬
‫غلطاں میں بے چینی سے بستر پر پہلو‬
‫بدلتا رہا‪،‬پتہ نہیں کتنے آئیڈیئے ذہن میں‬
‫آئے اور رد کر دیئے ‪،‬کیا کچھ نہیں‬
‫سوچا اس رات میں نے‪،‬ہر ممکن بات‬
‫کی طرف ہر طریقے کی طرف ‪،‬اپنی‬
‫سیکھی ہوئی ہر بات دہرائی‪،‬ہر بات‬
‫سوچی لیکن نتیجہ وہی ٹھاک کے تین‬
‫پات ‪،‬کہ یہ کام اتنے وقت میں نہیں‬
‫ہوسکتا ‪ ،‬بلکہ ایسے ذہنوں کو تو‬
‫پھنسایا ہی نہیں جا سکتا‪،‬اب میں مایوس‬
‫ہونے لگا تھا‪ 3، 2 ،‬بجے تک میں بے‬
‫چینی سے پہلو بدلتا رہا‪،‬اور مجھے بے‬
‫چین کرنیوالیاں آرام سے سو رہی‬
‫تھیں‪،‬دل تو کرتا تھاکہ ابھی ان پر ٹوٹ‬
‫پڑوں ‪،‬لیکن جوسلین کا خیال آتے ہی‬
‫سلگتی آگ بجھنے لگی‪،‬ایسے ہی‬
‫خیاالت میں جانے کب مجھے نیند آگئی۔‬
‫صبح مجھے کسی نے نہیں اٹھایا لہذا‬
‫میں سوتا رہا اور تقریبادس بجے اٹھا‬
‫ب معمول‬ ‫‪،‬باہر نکال تو سب کچھ حس ِ‬
‫تھا‪،‬مولوی آرام کررہا تھا اور باقی اپنا‬
‫کام کاج‪،‬باتھ روم سے ہوکر منہ ہاتھ‬
‫دھویا تو شازیہ نے چپ چاپ ناشتہ‬
‫میرے آگے ال کر رکھ دیا‪،‬نازیہ مجھے‬
‫سے برگشتہ ہوچکی تھی صاف دکھ رہا‬
‫تھا ‪،‬پراگندا خیاالت کے ساتھ ناشتہ تو‬
‫کر لیا‪،‬لیکن ذہن جیسے ایک ہی نکتے‬
‫پر رک گیا تھا کہ یہ لڑکیاں چودائی‬
‫کیلیے راضی نہیں ہیں‪،‬بلکہ ان کو‬
‫سیکس کاہی کچھ پتہ نہیں ہے‪،‬اوپر سے‬
‫ان کا اسٹوپڈ ماحول ایسا پتھر تھا جس‬
‫سے سر پٹک پٹک کر مرجائیں لیکن یہ‬
‫ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہو‪ ،‬مجھے ان‬
‫کے ماحول پر غصہ بھی تھا اور‬
‫مایوسی میں جھالہٹ بھی تھی‪،‬اب میں‬
‫نے پھر ان کے جسموں کو گھورنا‬
‫شروع کر دیا اب میں بے باک تھا ‪،‬میں‬
‫نے ان کو ذومعنی باتیں بھی کیں‪،،‬کچھ‬
‫فحش اشارے بھی کر دیئے ‪،‬جو کہ‬
‫میری سرشت میں نہیں تھا‪،‬لیکن ان میں‬
‫سے کسی نے کوئی ایسی بات نہ کی‬
‫جس سے مجھے تھوڑی سی بھی امید‬
‫ہوتی‪ ،‬دوپہر تک میں ان کی ماں سے‬
‫گپیں مار تا پھر مولوی آیا ‪،،‬آج جمعہ‬
‫تھا وہ جلدی نکل گیا تھا اور اب بھی‬
‫دیر سے آیا تھا تو کھانا کھاکرمولوی‬
‫اپنے کمرے میں لیٹ گیا اور میں بھی‬
‫دوسرے کمرے میں آکر لیٹ گیا‪،‬میں‬
‫مایوس ہوچکا تھا‪،،‬مایوسی میں عجیب‬
‫عجیب خیاالت آرہے تھے‪،‬جوسلین نے‬
‫مجھ پر کتنا پیسہ لگایا ‪،‬کتنی مجھ پر‬
‫محنت کی ‪،‬اور مجھے کیا سے کیا بنا‬
‫دیا‪،‬لیکن میں نے فیل ہو کر اس کی‬
‫ساری محنت پر پانی پھیر دیا‪،‬‬
‫‪• part³⁸‬‬

‫‪ ،‬ایسے ہی سہہ پہر ہوگئی ‪،‬شاید مولوی‬


‫پھر آگیا تھا ‪،،‬لیکن میں باہر نہ نکال‬
‫‪،‬میں کبھی مایوس نہیں ہوا تھا نہ کبھی‬
‫ہارا تھا ‪،،‬لیکن آج میں ہار رہا تھا‬
‫جیسے جیسے دن ڈھل رہا تھ ااور شام‬
‫قریب آرہی تھی‪،‬میری دل کی دھڑکنیں‬
‫تیز ہو رہی تھیں میرے چہرے پر‬
‫ناکامی لکھی جا رہی تھی ۔پتہ نہیں کون‬
‫کون سے خیاالت میرے ذہن میں آتے‬
‫گئے‪،‬ایسے میں ایک سوچ یہ بھی آئی‬
‫‪،‬کہ اگر یہ سیکس نہیں کرنا چاہتی تو‬
‫مجھے جوسلین نے یہاں کیوں بھیجا ؟‬
‫کیا اس نے مجھے ایسے لوگوں میں‬
‫پھنسایا ہے جو میری ہار کا سبب بنے یا‬
‫اس نے مجھے مشکل ٹارگٹ دیا ہے؟‬
‫ذہن نے جواب دیا کہ اگر ان لڑکیوں‬
‫نے سیکس کرنا ہی نہ ہوتا تو وہ مجھے‬
‫یہاں بھیجتی ہی نہ‪،‬میں جوش میں اٹھ‬
‫بیٹھا۔‬
‫اس خیال نے مجھ میں نئی امنگ پیدا‬
‫کر دی‪،،‬میں پھر سے ترتیب سے‬
‫سوچنے لگا‪،‬مفروضے بنانے لگا‪،‬اگر‬
‫لڑکیاں سیکس کو جانتی ہیں یا کرنا‬
‫چاہتی ہیں‪،‬تو پھر وہ سیکس سے کسی‬
‫طرح متاثر ہو رہی ہیں‪،،،‬تو وہ سیکس‬
‫سے کہاں سے متاثر ہو رہی ہیں ‪،‬ذہن‬
‫نے سوال کیا‪،‬؟ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی‬
‫ذریعہ تو گھر میں ہے نہیں جس سے‬
‫باہر کی دنیا سے گھر میں کچھ‬
‫آئے‪،‬پرنٹ میڈیا ہو شاید ‪،‬میں نے ان‬
‫کے بستروں اورسرہانوں کو اچھی‬
‫طرح دیکھا‪،‬جستی پیٹی اور اس پر پڑے‬
‫ٹرنکوں کو دیکھا‪،‬لیکن وہ سب الک‬
‫تھے‪،‬نہیں پرنٹ میڈیا بھی نہیں ہو‬
‫سکتا‪،‬مولوی کی سختی اور ان کا ڈر‬
‫میرے سامنے آگیا‪،‬تو پھر ان کی کوئی‬
‫دوست اور ہمسائی بھی نہیں ہوگی‪،‬ان‬
‫کے ماحول میں اور مولوی کی بادشاہت‬
‫میں سب ناممکن تھا‪،‬ہو نہ ہو اگر وہ‬
‫سیکس سے متاثر ہیں‪،‬تو وہ چیز ان کو‬
‫گھر میں ہی مل رہی ہے‪،‬میرے ذہن‬
‫میں جھماکا ہوا‪،‬کہیں یہ مولوی اور اس‬
‫کی بیوی کا سیکس تو نہیں دیکھتیں‪،‬یہ‬
‫ممکن تھا ‪،‬اور اس سے مولوی ال علم‬
‫بھی ہو گا‪،‬کل رات مجھے مولوی کے‬
‫کمرے میں کیوں نہیں سالیا گیا‪،‬؟ یہ‬
‫حکم مولوی نے دیا ہو گا‪،‬اس کی‬
‫مرضی کے عالوہ گھر میں ایسا کوئی‬
‫نہیں تھا جو مجھے اس کمرے میں‬
‫سونے کی اجازت دیتا‪،‬اب مجھے سمجھ‬
‫آنے لگی کہ مولوی بیوی سے چودائی‬
‫کرنے کیلیے مجھے لڑکیوں کے کمرے‬
‫میں سونے دیا‪،‬یہیں ایک بات ہے جو‬
‫اس کے خیاالت کو روک سکتی‬
‫تھی‪،‬اس کامطلب ہے مو لوی ناغہ نہیں‬
‫کرتا ہو گا‪ ،‬ویسے بھی مولوی کا کوئی‬
‫بیٹا نہیں تھا ‪،‬تو الزما وہ چار بیٹیوں‬
‫کے بعد مزید کوشش تو کرتا ہو گا‪،‬جو‬
‫کہ اب تک بارآور نہیں ہوئی تھی‬
‫‪،‬کیونکہ چوتھی لڑکی کے بعد سے‬
‫مولوی کی بیوی کو بریک لگے ہوئے‬
‫تھے ‪ ،،‬تو یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکیاں‬
‫کو مولوی کی چودائی کی بھنک پڑ گئی‬
‫ہو۔‬
‫دن میں بھی مولوی قیلولہ کرتا ہے اور‬
‫مولوی کی بیوی اس کے ساتھ ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬لڑکیاں اس معمول کی عادی تھیں‬
‫‪،‬یعنی یہ کتنے عرصے سے جاری ہے‬
‫‪،‬دن میں کچھ دیکھ لیا ہو‪،‬اسی‬
‫مفروضے کو بڑھا کر میں مختلف آپشن‬
‫پر غور کرتا رہا‪،،‬اگر لڑکیاں سیکس پر‬
‫مائل ہیں تو‪ ،،،،،‬مولوی کے عالوہ‬
‫لڑکیوں کو اور کہیں سے‬
‫انسپائریشن(متاثرہونا ) نہیں مل رہی یہ‬
‫میں طے کرچکا تھا‪،،،‬وہ کہاں سے‬
‫دیکھتی ہیں‪،‬؟ ذہن نے سوال کیا‪،،‬میں‬
‫باہر کا منظر ذہن میں ال کے دیکھنے‬
‫لگا‪،،‬باہر سے یہ ممکن نہیں تھا‪،‬مولوی‬
‫نے اس بات کا خیال رکھا ہوا تھا‪ ،‬ونڈو‬
‫اور دروازے کے اندر کی طرف پردے‬
‫لگے ہوئے تھے ‪،‬جس کا مولوی جیسا‬
‫شخص خیال رکھتا ہو گا‪،،‬پھر وہ جو‬
‫کرتی ہیں وہ اسی کمرے میں کرتی‬
‫ہیں‪،‬میں اچھل کر کھڑا ہو گیا‪،‬سامنے وہ‬
‫دیوار تھی جو مولوی اور لڑکیوں کے‬
‫کمرے کی مشترکہ دیوار تھی‪،‬اسمیں‬
‫کوئی اینٹ نکلتی ہوگی‪،‬میں پرخیال‬
‫نظروں سے بغیر پلستر کی دیوار کو‬
‫دیکھنے لگا‪ ،‬لڑکیوں نے کمرے میں کیا‬
‫آنا تھاوہ تو مجھ سے دور رہنا چاہتی‬
‫تھیں ‪،،،‬میں نے لڑکیوں کے قد کو م ِد‬
‫نظر رکھتے ہوئے کئی اینٹوں کو دبایا‬
‫لیکن مجھےکوئی سرکتی اینٹ نہ‬
‫ملی‪،‬پھر میں نے نچلی الئین سے شروع‬
‫ہو کر ایک ایک اینٹ دیکھنے لگا‪21،‬‬
‫الئینوں تک میں نے ایک ایک اینٹ دبا‬
‫کر دیکھی ‪،‬لیکن کچھ نہ مال‪،‬پھر میں‬
‫نے احتیاط ہاتھ اونچے کر کے کچھ‬
‫اوپری الئنیں بھی دیکھ ہی لیں ‪،‬مجھے‬
‫سارا مفروضہ ریت کی دیوار محسوس‬
‫ہوا‪،‬پھر میں آخری کوشش کے طور پر‬
‫دیوار پر لگے شیشے کے پیچھے دیکھا‬
‫‪،‬لیکن وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔‬
‫پھر میں پیچھے پٹا اور ساری دیوار‬
‫کودیکھنے لگا‪،‬اور میری نظریں لکڑی‬
‫کی میخ پر آٹکی‪،‬وہ کوئی باقاعدہ میخ‬
‫نہیں تھی‪،‬بلکہ جالنے والی لکڑی سے‬
‫علیحدہ کی گئی تھی‪،‬اور کافی موٹی میخ‬
‫تھی جبکہ یہاں ایک معمولی سے کیل‬
‫سے بھی کام چل سکتا تھا ‪ ،‬لیکن غربت‬
‫کے ماحول میں وہ چل رہا تھا ‪،‬میں نے‬
‫دروازے کی طرف دیکھا اور جو کہ ا‬
‫س دیوار کے ساتھ ہی تھا‪،‬پھر میں نے‬
‫میخ کو کھینچا‪،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،‬‬
‫میخ آرام سے میرے ہاتھ میں آگئی‪،‬اور‬
‫دیوار میں اینٹوں کی درز کے درمیان‬
‫ایک بڑا سا سوراخ موجود تھا میں نے‬
‫جلدی سے اس میں سے جھانکا‪،‬سامنے‬
‫ہی مولوی کا بستر تھاجس پر وہ سوتا‬
‫تھا بلکہ تقریبا اس طرف کا پورا منظر‬
‫واضح تھا مولوی کے ساتھ ہی اس کی‬
‫بیوی کی چارپائی تھی‪،‬میں نے جلدی‬
‫سے میخ واپس لگا دی‬

‫اور شیشہ بھی میخ پر لٹکا دیا‪،‬اس‬


‫پرکنگھی اور سرسوں کے تیل کی‬
‫شیشی تھی وہ بھی دوبارہ رکھ دی‪،‬اور‬
‫آرام سے آکر بستر پر لیٹ گیا‪،‬لڑکیاں‬
‫کبھی بھی میرے ہاتھ نہیں آنی تھی‪،،‬اور‬
‫سب سے بڑی رکاوٹ ان کے خیاالت‬
‫تھے‪،‬گھر کا ماحول تھا‪،‬اور مولوی‬
‫تھا‪،‬لیکن مولوی کو نہیں پتہ تھا کہ وہ‬
‫خود ہی اپنی ہر بات کی کاٹ کر رہا‬
‫ہے ‪،،‬اب مجھے رات کا انتظار‬
‫تھا‪،،،‬شام تو ہو ہی گئی تھی‪،‬رات کو‬
‫کھانے کا وقت ہوا تو میں ے کم کھانا‬
‫کھایا ‪،‬اور بہانہ کیا کہ میری طبعیت‬
‫کچھ سست ہو رہی ہے ‪،‬میں بس آرام‬
‫کرنا چاہتا ہوں‪،،‬مجھے بہت نیند آئی‬
‫ہے‪ ،‬میں نے ایک ہاتھ منہ پررکھ کر‬
‫لمبی سی جمائی لی‪،‬میں جا کر اپنے‬
‫بستر پر لیٹ گیا اور اچھی طرح‬
‫رضائی لپیٹ لی‪،‬کچھ ہی دیر میں‬
‫مجھے نیند آگئی ‪،‬اور پھر میں گہری‬
‫نیند میں چال گیا‪،،‬سردیاں ویسے بھی‬
‫بڑی پڑ رہی تھی‪،،‬شاید دس بجے ہوں‬
‫گے اور ابھی سے لگ رہا تھا کہ جانے‬
‫رات کتنی ہوگئی ہے ‪،،‬پھر عائشہ اپنے‬
‫بستر سے نکلی اور میری طرف محتاط‬
‫نظروں سے دیکھا‪،‬میں تو ہلکے ہلکے‬
‫خراٹے لے رہا تھا‪،،،‬اورکب سے گہر‬
‫ی نیند میں تھا‪،،‬شازیہ نے دیوار سے‬
‫شیشہ اتارا اور آرام سے نیچے زمین پر‬
‫دیوار سے ٹکا کر رکھ دیا‪،‬پھر میخ‬
‫نکالی اور اس موری سے مولوی کے‬
‫کمرے میں دیکھنے لگی۔‬
‫میخ اس کے ہاتھ میں ہی تھی‪،‬اس نے‬
‫میخ آرام سے نیچے رکھ دی‪،‬اتنے میں‬
‫نازیہ پھر سعدیہ اور رافعہ بھی اٹھ‬
‫بیٹھی ‪،،،‬میں آنکھ کی معمولی سے‬
‫جھری میں سب دیکھ رہا تھا‪،‬کتنی دیر‬
‫سے میں مورچہ جمائے بیٹھا تھا‪،‬اور‬
‫اب شکار کو سامنے دیکھ کر میرا دل‬
‫بلیوں اچھلنے لگا تھا‪،‬چاروں لڑکیاں‬
‫باری باری اس موری سے دیکھنے‬
‫لگی‪،،‬پھر شازیہ نے نازیہ کے ممے پر‬
‫ہاتھ رکھ دیا اور اسے کسنگ کرنے‬
‫لگی‪،‬اور سعدیہ بھی رافعہ کے ساتھ‬
‫کسنگ کرنے لگی‪،،‬وہ باری باری‬
‫سوراخ سے دیکھتی تھیں اور‬
‫ایکدوسرے کو چھیڑتی تھیں‪،،‬پھر انہوں‬
‫نے اپنی قمیضیں اتار دی اور برا اتار‬
‫کر ممے چوسنے لگی‪،،،‬جو ممے‬
‫چوستی اس سے دوسری سوراخ سے‬
‫دیکھتی‪،،،‬چار جوانیاں میرے سامنے‬
‫ننگی تھیں ‪،‬میری آنکھیں پوری کھل‬
‫گئی تھیں لیکن اب لڑکیوں کو میرا‬
‫کوئی خیال نہیں تھا‪ ،‬میں بے آواز‬
‫چارپائی سے اترا ‪،‬لڑکیوں کا دھیان‬
‫سوراخ اور ایکدوسرے کی طرف تھا‬
‫ان کی پشت ہی میری طرف تھی‪،‬میں‬
‫نے اپنے کپڑے اتارے اور ننگا ان کے‬
‫پیچھے جا کھڑا ہوا‪،‬اچانک جیسے انہیں‬
‫میری موجودگی کا احساس ہوا‪،‬اور سب‬
‫سے پہلے شازیہ ہی مڑی ‪،،،‬مجھے‬
‫دیکھ کر انہیں جیسے سکتہ ہوگیا‪،‬جبکہ‬
‫نازیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا‪،‬شاید‬
‫وہ چیخنے لگی تھی‪،،‬وہ انتہائی‬
‫حیرانگی سے مجھے دیکھ رہی‬
‫تھی‪،‬اور اب اچانک انہیں میرے ننگے‬
‫ہونے کا احساس ہوا‪،،‬تو انہیں بڑا زور‬
‫کا جھٹکا لگا‪ ،‬میں نے آگے بڑھ کے‬
‫سوراخ سے دیکھا مولوی جوش و‬
‫خروش سے لگا ہوا تھا ‪ ،،‬بڑی بہن‬
‫ہونے کے ناطے ان کی لیڈر شازیہ‬
‫تھی‪،‬میں نے شازیہ کے کندھے پر ہاتھ‬
‫رکھا اور اسے خود سے لپٹا لیا‪،‬میرا‬
‫عضو اسے چھو رہا تھا ‪،،‬وہ کچھ کہہ‬
‫نہیں سکتی تھی‪،‬نہ چال سکتی تھیں ‪،‬وہ‬
‫اپنی پوزیشن سمجھتی تھیں ‪،،،‬شازیہ‬
‫جو دیکھ دیکھ کر تم ترس رہی ہو وہ‬
‫میں تمھیں دے سکتا ہوں ‪،،‬اگر تم نے‬
‫یہ موقع ضائع کرد یا تو ساری عمر‬
‫ترستی رہو گی جانے کب تمھاری شادی‬
‫ہو‬

‫اپنے اور اپنی بہنوں پر رحم کھاؤمیں‬


‫نے اس کے کان میں سرگوشی‬
‫کی‪،،،‬میرا جسم اس سے لگا ہوا تھا اور‬
‫میرے ہاتھ اس کے مموں پر تھے جو‬
‫اس دوران چھیڑ خانی شروع کر چکے‬
‫تھے‪،،‬کچھ کہنے سننے کی گنجائش‬
‫نہیں تھی‪،،،‬شازیہ تو پہلے ہی بھڑکی‬
‫ہوئی تھی‪،،‬اب اس کے سامنے ایک‬
‫مضبوط عضو اور جوان لڑکا تھا جو‬
‫کہ اس کا ہم عمر ہی تھا‪،‬وہ ابا کو پتہ‬
‫چلے گا تو بہت مارے گا‪،‬شاید قتل ہی‬
‫کر دے ‪،‬شازیہ نے کچھ تو کہنا ہی‬
‫تھا‪،،،‬شازیہ ابا اپنے کام لگا ہوا ہے او‬
‫ر پھر وہ مدہوش ہو کر سو جائے‬
‫گا‪،‬اگر اسے اب تک سوراخ کا پتہ نہیں‬
‫چال تو ہمارا بھی پتہ نہیں چلے گا‪،‬دنیا‬
‫سوئی ہوئی ہے اور ہم کمرے میں بند‬
‫ہیں ‪،‬کسی کو کیا پتہ کے اندر کیا ہورہا‬
‫ہے‪،‬میں نے شازیہ کے کان میں‬
‫سرگوشی کی‪،‬میرے ہاتھ اس دوران اس‬
‫کے مموں کو مسل رہے تھے ‪،،،‬اور‬
‫عضو اسے بے چین کر رہا تھا‪،‬اس‬
‫دوران دوسری بہنیں ہماری طرف ہی‬
‫متوجہ تھیں کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے‪،،،‬میں‬
‫نے شازیہ کے چہرے کے سامنے اپنا‬
‫چہرہ کیا‪،،،‬اس کے ہونٹ کپکپائے اور‬
‫پھر ہم نے ہونٹوں کو ہونٹوں سے جوڑ‬
‫دیا‪،،،‬شازیہ کو سیکس کا کچھ پتہ نہیں‬
‫تھا وہ اناڑی تھی ‪ ،،‬بلکہ ساری بہنیں‬
‫ہی اناڑی تھی ابھی جب وہ آپس میں‬
‫چوماچاٹی کر رہی تھیں تو یہ بھی‬
‫لیسبن نہیں تھا بلکہ وہ صرف مولوی‬
‫کی نقل اتار رہی تھیں‪،‬میں نے شازیہ‬
‫کو ساتھ لگا لیا‪،‬میرا عضو اس کی چوت‬
‫سے لگ رہا تھا اور میرے ہاتھ اس کے‬
‫ممے کو مسل رہے تھے اور ایک ہاتھ‬
‫میرا اس کی گانڈ پر تھا‪،‬نازیہ پیچھے‬
‫سے مجھے لپٹ گئی تھی‪،،‬او رمیری‬
‫کمر چوم رہی تھی‪،‬اس کی دیکھا دیکھی‬
‫سعدیہ اور رافعہ بھی مجھے چوما چاٹی‬
‫کرنے لگی‪،،،،‬میں نے تو کبھی دو‬
‫لڑکیوں سے اکٹھی چودائی نہیں کی‬
‫شدچار ُ‬
‫شد ہو گئیں‬ ‫تھی یہاں تو دو نہ ُ‬
‫تھیں‪ ،‬میں نے سوچا ان کے درمیان‬
‫ُچوں ُچوں کا مربہ بننے سے بہتر ہے‬
‫ایک ایک سے آرام سے نپٹا جائے‪،‬اس‬
‫دوران دوسری جو کرتی ہے وہ کرتی‬
‫رہے۔‬
‫شازیہ گرما گرم تھی‪،‬اسے تیاری کی‬
‫ضرورت نہیں تھی میں نے سوچا‬
‫اسےچودا جائے‪،‬ویسے بھی کل سے ان‬
‫کے بارے میں سوچ سوچ کے اب‬
‫میرے اند آگ جل رہی تھی‪،‬میں‬
‫چارپائیوں کی طرف دیکھا وہاں چودائی‬
‫مناسب نہیں تھی اور مزہ بھی نہیں آنا‬
‫تھا‪،‬نازیہ ‪،،،‬جی‪،،،،‬نیچے چٹائی بچھا‬
‫دو اور اس پر گدے بچھا دو ‪،‬ساتھ‬
‫رضائی بھی رکھ دو ہم چاروں کا یک‬
‫ہی بستر بنا لو‪،‬صبح اٹھا لیں گے‪،،‬نازیہ‬
‫میری بات سمجھ گئی‪،،‬میں نےسعدیہ کو‬
‫اشارہ کیا تو اس نے میخ واپس لگا دی‬
‫اور شیشہ لٹکا دیا‪،‬کنگھی رکھنے کے‬
‫بعد سرسوں کے تیل کی شیشی میں نے‬
‫نیچے ہی رکھنے کا اشارہ کیا‪،‬شازیہ‬
‫مجھے چومتی جارہی تھی‪،،،‬‬

‫‪،،،‬میں نے اس کے ہاتھ میں اپنا عضو‬


‫دے دیا‪،‬اسے جھٹکا سا لگا مگر اسے‬
‫پتہ لگ گیا کہ اس کے ہاتھ میں کیا‬
‫ہےعضو پکڑے شازیہ مجھے چومنے‬
‫لگی‪،،‬میں نے اس کاہاتھ پکڑ کر مٹھ‬
‫مارنے کا طریقہ بتایا اور اسے کام پر‬
‫لگا دیا‪،،‬اس سے شازیہ کا درجہ‬
‫حرارت بڑھتا گیا‪،‬نازیہ نے بستر بہت‬
‫اچھا بنایا تھا اس نے دوگدے‪/‬سرہانے‬
‫ساتھ ساتھ ڈال دیئے تھے اور اس پر دو‬
‫رضائیاں رکھ دی تھیں لیکن سردی کے‬
‫باوجود ہمیں سردی کا احساس تک نہ‬
‫تھا سعدیہ ایک کپڑا النا جس سے کچھ‬
‫صاف کیا جاسکے میں نے شازیہ کو‬
‫لیکر بستر کے درمیان میں بیٹھتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬اور شازیہ کو لٹا دیا‪،‬میرے‬
‫اندر تو آگ بھڑکی ہوئی تھی ‪،‬جیسے‬
‫ہی شازیہ لیٹی میں نے اس کی شلوار‬
‫پکڑ کر کھینچی اور نیچے کر‬
‫دی‪،،،‬شازیہ اس کیلیے تیار نہیں اس‬
‫نے ٹانگیں اکٹھی کر لیں‪،‬میں اس کے‬
‫ساتھ لیٹ گیا‪،‬شازیہ شرماؤ مت‪،‬یہ تو‬
‫پیار کی ابتداء ہے‪،‬ہم نے ابھی یک جان‬
‫ہونا ہے‪،‬میرے سامنے حسین جوانی‬
‫ننگی پڑی تھی ا سکے کچے ممے‬
‫مجھے بال رہے تھے ‪ ،‬میں نے اس کے‬
‫اوپر لیٹ کر اس کے ممے چوسنے‬
‫شروع کر دیئے‪،،‬اور عضو اور اس کی‬
‫چوت پر رگڑنے لگا۔‬
‫شازیہ حسین تھی‪،‬بلکہ چاروں بہنیں ہی‬
‫حسین تھیں گدڑی میں لعل چھپا ہوا‬
‫تھا‪،‬ان میں نازیہ تو کمال تھی ‪،،‬چاروں‬
‫بہنیں دبلی پتلی تھیں بس سعدیہ کا جسم‬
‫تھوڑا فربہی مائل تھا ‪،‬لیکن وہ اس میں‬
‫بھی خوبصورت لگتی تھی‪،، ،‬چاروں‬
‫کی رنگت گوری تھی‪،‬اور یہ حسن انہیں‬
‫اپنے والدین سے مال تھا ‪،،‬شازیہ اور‬
‫نازیہ کے نین نقش ذراتیکھے تھے‬
‫‪،‬جبکہ سعدیہ کا چہرہ گوالئی نما اور‬
‫رافعہ الھڑ جوانی ‪،‬اٹھتا طوفان تھوڑا‬
‫لمبوترا چہرا تھا جس کا اپنا ہی حسن‬
‫تھا‪،‬ہوسکتا تھا کل کو رافعہ نازیہ سے‬
‫بھی آگے نکل جائے‪،‬ان کی عمر بھی‬
‫ایسی تھی کہ اس عمر میں توکھتی کا‬
‫بچہ بھی حسین لگتا ہے ‪،‬ایسی عمر‬
‫جیسے کچے عام جو تھوڑے سے پکے‬
‫ہیں‪،‬یا کھلتی ہوئی کلیاں جو ابھی بند بند‬
‫سی ہیں‪،،‬یا وہ شبنم کے قطرے جو‬
‫ہرے پتوں پر پڑے ہیں یا ہوا کا وہ‬
‫جھونکا جو چھو کر گزرتا ہے تو‬
‫محسوسات جگا دیتا ہے۔جیسے موسیقی‬
‫کی لے ہو‪،‬جو دل کو چھو جائے‪،،‬بس‬
‫شازیہ اور ا سکی بہنیں کچھ ایسی ہی‬
‫تھیں‪،،،‬میرے ذوق کے عین‬
‫مطابق‪،‬جوسلین کو میرے ذوق کا پتہ تھا‬
‫‪،‬اس نے شکار بھی ایساہی ڈھونڈا تھا‬
‫جنہیں دیکھ دیکھ کر میں تڑپوں‪،،،،‬اور‬
‫میں کل سے تڑپ پھڑک رہا تھا‪،‬اب‬
‫میری بس ہوگئی تھی‪،‬جاؤ سرسوں کے‬
‫تیل کی شیشی اٹھا الؤ میں نے رافعہ‬
‫کے کان میں کہا‪،‬جو مجھے کمر سے‬
‫چوم رہی تھی اور باقی کو بھی یہی کام‬
‫تھا‪،‬ان کا اناڑی پن مجھے موقع دے رہا‬
‫تھا کہ میں باری باری ان کو چود‬
‫ڈالوں‪،‬کبھی چودائی کی ہوتی تو ان‬
‫بہنوں نے مجھے سانس تک نہیں لینے‬
‫دینا تھا‪،،‬میں نے تیل عضو پر لگایا اور‬
‫کچھ شازیہ کی چوت میں لگا‬
‫دیا‪،‬کنواری چوت کو چودنے کا ایسا‬
‫طریقہ جس سے اسے بالکل درد نہ‬
‫ہو‪،‬نہ کوئی آواز نکلے ۔‬

‫سوکھا عضو کنواری لڑکی کیلیے عذاب‬


‫بن جاتا ہے اسے مزہ بھول کر اپنی پڑ‬
‫جاتی ہے‪،‬یہ جو کہتے ہیں کہ سوکھا‬
‫عضو اندر ڈاال اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫روانی ہونے لگی اور لڑکی بھی مزہ‬
‫لینے لگی تو یہ جھوٹ ہے پہلی بار میں‬
‫ایسا نہیں ہوتا ‪،‬اور نہ ہی روانی ہوتی‬
‫ہے‪،‬بلکہ اندر ہی نہیں جاتا‪،‬اگر‬
‫زبردستی چال جائے اور چودائی کر لی‬
‫جائے تو لڑکی کا سوا ستیا ناس ہو جاتا‬
‫ہے‪،‬میں تو کہتا ہوں لڑکی کی چوت‬
‫ایک سال تک تنگ رہتی ہے اور مزہ‬
‫دیتی رہتی ہے‪،‬بلکہ عرصے بعد کھلی‬
‫چوت میں بھی ڈاال جائےتو اسے بھی‬
‫احساس ہوتا ہے کہ اندر کچھ آیا‬
‫ہے‪،،‬شازیہ کے چہرے پر جوش تھا‬
‫اسے پتہ تھا کہ اب کیا ہونے واال‬
‫ہے‪،‬وہ ہر روز یہ دیکھتی تھی‪،،،‬باپ کا‬
‫عضو ماں کی چوت میں جاتے‬
‫ہوئے‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ اور رافعہ ‪ ،‬چوما‬
‫چاٹی چھوڑ کر دم سادھے عضو کی‬
‫طرف دیکھ رہی تھیں‪،‬جیسے کوئی‬
‫عجوبہ ہو‪،‬شاید انہوں نے کبھی سوچا‬
‫بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ عضو ان کے‬
‫پاس ہو گا‪،‬اور پرنس ان کی چودائی‬
‫کررہا ہو گا‪،‬میں نے شازیہ کی ٹانگیں‬
‫کھولی اور اس کی گانڈ کے نیچے کپڑا‬
‫بچھا دیا یہ سعدیہ کی چادر تھی اس‬
‫وقت یہی ملی تھی‪،‬اسے نہیں پتہ تھا اس‬
‫چادر پر کیا گرنا ہے‪،‬اور ان ٹانگوں‬
‫میں گھٹنوں بل بیٹھ کر تھوڑا آگے ہو‬
‫کہ جھک کے عضو کو شازیہ کی چوت‬
‫پر رکھا ‪،،‬انگلیوں سے اس کی چوت‬
‫کی پنکھڑیاں کھولی اور عضو کو چوت‬
‫کے سوراخ میں داخل کیا‪،،‬پھر میں نے‬
‫ہاتھ پیچھے کیااور عضو کو آگے‬
‫دھکیال‪،،‬عضو نرمی سے کچھ آگے چال‬
‫‪،‬چاروں بہنوں کے چہرے پر ہیجانی‬
‫کیفیت تھی‪،‬شازیہ کے تو اندر جا رہا تھا‬
‫لیکن باقی بھی اسی کیفیت میں‬
‫تھی‪،‬عضو کو تھوڑا دھکا چاہیئے تھا‬
‫لیکن شازیہ کوچوت بڑی ہی تنگ‬
‫تھی‪،‬پہلی بار جا رہا تھا میں نے تیل‬
‫بھی لگایا تھا لیکن شاید شازیہ نے‬
‫ہیجانی کیفیت میں چوت کو بھینچا ہوا‬
‫تھا‪،‬میں نے جھک کر ا سکے ممے‬
‫چوسنے شروع کر دیے‪،،‬شازیہ کا‬
‫دھیان بٹ گیا‪،‬چوت کی اضافی تنگی‬
‫ختم ہوئی ‪،‬میں اسی کے انتظار میں تھا‬
‫میں نے عضو چوت میں دھکیل‬
‫دیا‪،‬محسوس کرتے ہوئے میں نے عضو‬
‫کو پردہ بکارت کے پاس روک دیا۔‬
‫شازیہ کے چہرے پر میری نظر تھی‬
‫‪،‬اس سے ا سکی دلی کیفیت کا پتہ لگ‬
‫رہا تھا‪،‬وہ اب بھی ہیجان میں تھی‪،‬اور‬
‫اس سے پردہ بکارت کے ٹوٹتے وقت‬
‫اس کی حساسیت بڑھ جانی تھی اور‬
‫زیادہ محسوس ہونا تھا‪،‬میں اس پر جھکا‬
‫اور اس کے ممے پھر چوسنے شروع‬
‫کر دیے‪،،‬ممے ایک ایسا راستہ ہے جو‬
‫چودائی کےدروازے تک لے جاتا‬
‫ہے‪،،‬وہی ہوا شازیہ کی چوت عضو کا‬
‫وصال مانگنے لگی‪،‬شازیہ کی بے چینی‬
‫نہیں سمجھتی تھی کہ اسے کیا چاہیے‬
‫‪،‬لیکن میں جانتا تھا کہ ایسی حالت میں‬
‫چوت قدرتی طور پر عضو لینے کیلیے‬
‫تڑپتی ہے اور اس چاہت میں عضو کو‬
‫اپنے اندر سمو سکتی ہے‪،،،‬مجھے ہر‬
‫حال میں شازیہ کی چوت کا بغیر درد‬
‫کے پردہ توڑنا تھا ‪،،‬تا کہ اس کی بہنیں‬
‫ڈریں نہ ‪،،،‬ان کا ڈر ان کو چودنے میں‬
‫رکاوٹ بن سکتا تھا‪،‬جب شازیہ مسلسل‬
‫بے چینی محسوس کر نے لگی ‪،‬تو میں‬
‫نے وہیں اندر باہر کرنا شروع کر دیا‬
‫‪،‬شازیہ کا دھیان پہلے ہی بٹ چکا تھا‬
‫اب وہ کچھ مزے میں اور اس کی چوت‬
‫پورا اندر لینا چاہتی تھی ‪،‬میں نے‬
‫احتیاط ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھا‬
‫جیسے ان کوچھو رہا ہوں ‪،‬ویسے میرا‬
‫رادہ ان کو دبانے کا تھا اگر چیخ‬
‫نکلتی‪،،‬اور پھر زور کا دھکا لگایا‪،‬اب‬
‫تیل کام کر رہا تھا اور عضو چوت کی‬
‫وادیوں میں گھستا گیا‪،،‬پردہ ٹوٹتے وقت‬
‫شازیہ نے جھٹکا تو لیا‪،‬لیکن یہ ایسے‬
‫ہی تھا جیسے ارتھ لگتا ہے اور بس‪،‬‬
‫کرنٹ لگتا تو اس نے چیخنا ہی‬
‫تھا‪،،‬میں وہاں کچھ دیر ٹھہرا‪،‬ممے‬
‫چوسنے جاری رکھے اور پھر آہستہ‬
‫آہستہ چودائی شروع کر دی‪،‬شازیہ‬
‫چودائی کی لہروں تیرنے لگی‪،‬نازیہ‬
‫۔سعدیہ اور رافعہ کی حالت ٹھیک نہیں‬
‫تھی ان کو چودائی کی شدید بھوک لگ‬
‫چکی تھی‪،‬ان کا ایک ہاتھ چوت پر اور‬
‫دوسرا مموں پر تھا‪ ،‬آہستہ آہستہ میں تیز‬
‫ہونے لگا۔۔شازیہ اب تیر نہیں رہی تھی‬
‫بلکہ ڈوب رہی تھی‪،‬شہزادے دیکھ دیکھ‬
‫کے لگتا نہیں تھا کے اس میں اتنا مزہ‬
‫ہے ‪،‬تڑپ تھی لیکن اسے سکوں کیسے‬
‫دینا ہے یہ نہیں پتہ تھا‪،‬تم نے مجھ پر‬
‫احسان کیا ‪،‬میں کل سے تم سے ناراض‬
‫تھی‪،‬لیکن آج مجھے تم سے پیارا کوئی‬
‫نہیں ہے‪،‬شازیہ ابھی سے جذباتی‬
‫ہوچکی تھی‪،‬میں ‪ 4‬سال سے جوسلین‬
‫کو چود رہا تھا ‪،‬بے شک وہ حسین‬
‫ترین تھی‪،‬اسے چودائی کا فن آتا‬
‫تھا‪،‬مزے دینا وہ جانتی تھی‪،‬چوت بھی‬
‫اس کی ٹھیک تھی‪،‬لیکن مجھے شازیہ‬
‫جو دے رہی تھی‪،‬جو ا سکا کچا پن میں‬
‫مزہ تھا وہ بالکل ایک نئئ چیز تھی‬
‫‪part³⁹‬‬

‫بڑے عرصے بعد سحرش یاد آئی‬


‫‪،‬کنواری چوت کو چودتے ہوئے تب یہ‬
‫مزہ آیا تا‪،‬تب نگینہ کی چدائی مجھے‬
‫بھولنے لگی تھی اور سحرش کا جادو‬
‫سر چڑھ کے بولنے لگا تھا‪،‬سحرش اور‬
‫شازیہ میں مشترکہ چیز جوانی ‪،‬کنواری‬
‫چوت ‪،‬اناڑی پن اور خوبصورتی تھی‬
‫جو آدھی کھلی آدھی بند کلی کی طرح‬
‫تھی‪،‬اب یہ ذائقہ دل میں بیٹھنے لگا‪،‬اور‬
‫جوسلین بھی اس سے کم محسوس ہونے‬
‫لگی‪،‬ایں ‪،‬یہ مجھے کیا ہو گیا ہے‪،‬کیا‬
‫میں جوسلین کی محبت اوراحسانات کو‬
‫بھول کر ایک لڑکی کے جسم میں کھو‬
‫رہا ہوں‪ ،‬میں سر جھٹکا اور شازیہ کی‬
‫چودائی کی طرف دھیان لگایا‪،‬اندر اور‬
‫باہر کرتے ہوئے بہت مزہ آرہا تھا‬
‫کیونکہ چوت نے عضو کو پوری طرح‬
‫گرفت میں لیا ہوا تھا‪،‬رگڑ تو انتہائی لگ‬
‫رہی تھی اسی رگڑ کا ہی تو سار مزہ‬
‫ہے‪،‬تیز تیزشازیہ کو چودتے ہوئے میں‬
‫پھر اس کے حسن میں کھونے لگا‪،‬لیکن‬
‫خود کو کنٹرول کر کے میں نے ا‬
‫سکے مموں کو پکڑ لیا ‪،‬اور چدائی‬
‫کرنے لگا۔‬
‫آہ شہزادے جہاں ہاتھ لگاتے ہو وہیں‬
‫کچھ ہونے لگتا ہے ‪،‬کیا ہے یہ‪،‬شازیہ‬
‫سسکی‪،،‬پلیز مجھے کبھی مت‬
‫چھوڑنا‪،‬شازیہ کی باتوں سے محسوس‬
‫ہوا کہ یہ ایک جذباتی لڑکی ہے ‪،‬تھوڑا‬
‫سا اثر پڑتے ہی ڈوبنے لگتی ہے‪،‬ایسی‬
‫لڑکیاں سیکس میں اچھی ہوتی ہیں کہ‬
‫جب چل پڑتی ہیں تو بہت مزہ دیتی‬
‫ہیں‪،‬لیکن خطرناک بھی ہوتی ہیں کہ‬
‫چودائی کے کھیل کھیل میں دل ہی لگا‬
‫لیتی ہیں‪،‬شازیہ بھی کچھ ایسی ہی لگ‬
‫رہی تھی‪،‬ممے چھوڑ کر میں نے دل‬
‫سے جما کر چودائی شروع کر دی‪،‬اب‬
‫مجھے اس کی چوت کی اتنی پرواہ‬
‫نہیں تھی‪،‬اس کی چوت نے میرے‬
‫عضو کو گرم جوشی سے قبول کرلیا‬
‫تھا‪،‬اور میں پرجوش انداز میں چودائی‬
‫کرنے لگا‪،‬ویسے اتنابے درد بھی نہیں‬
‫کہ اتنی کومل اور نازک لڑکی کاخیال‬
‫ہی چھوڑ دوں ‪،‬شازیہ رومانوی طبیعت‬
‫کی تھی‪،،‬اور ایسی لڑکیاں بڑی اچھی‬
‫ساتھی ثابت ہوتی ہیں‪،،‬شہزادے ذرا تیز‬
‫چودو نہ مجھے‪،‬شازیہ کی طلب بڑھتی‬
‫جا رہی تھی‪،‬میں بھی دھکادھک چدائی‬
‫کر رہا تھا‪،‬اوہ شازیہ نے لذت سے‬
‫آنکھیں بند کر لیں ‪،،،‬شہزاداہ ‪،‬میرا‬
‫شہزادہ‪،‬شازیہ جذباتی ہو چکی‬
‫تھی‪،،‬شازیہ ‪،‬میری جان‪،،‬تمھیں کیسا‬
‫لگ رہا ہے ‪،‬میں نے اس کی جذباتی‬
‫کیفیت میں جان بوجھ کر چودتے ہوئے‬
‫پوچھا‪،‬شہزادے لگتا ہے‪،‬زندگی کا‬
‫حاصل یہی ہے‪،،‬یہ نہیں تو کچھ نہیں۔‬
‫اب میری زندگی کی کہا نی کچھ ایسے‬
‫ہو گی کہ‪،‬سیکس کرنے سے پہلے اور‬
‫سیکس کرنے کے بعد‪،،‬واہ شازیہ نے‬
‫سیکس کے مزے کو بڑی اچھی طرح‬
‫بیان کر دیا تھا ‪،‬شازیہ دل کرتا ہے‬
‫سارے کا سارا تمھاری چوت میں چال‬
‫جاؤں‪،،‬کیا لذت ہے تمھارے جسم‬
‫کی‪،،،‬میں بھی اپنی بھوک کا اظہار‬
‫کیے بناء نہ رہ سکا ‪،‬تو گھس نہ سارے‬
‫کے سارے‪،،‬تمھیں روکا کس نے‬
‫‪،‬شازیہ سسکی‪ ،،‬لیکن ہمارا کیا ہو‬
‫گا‪،،‬نازیہ مسخری سے بولی تو مجھے‬
‫اس مسخری میں چھپی بھوک کا‬
‫احساس ہوا‪،،‬لیکن نازیہ کی چودائی سب‬
‫سے آخر میں ہونی تھی ‪،‬میں اس سے‬
‫بھر پور مزہ لینا چہتا تھا‪،‬مجھے لگ‬
‫رہا تھا کہ منزل بس قریب ہے اورہم‬
‫پانی چھوڑنےوالے ہیں‪،،،‬میں نے‬
‫شازیہ کی طرف دیکھا وہاں کی کیفیت‬
‫بھی تبدیل تھی جیسے طوفان آنے واال‬
‫ہو‪،‬اب رکنا تو تھا ہی نہیں چلتے رہنا‬
‫تھا اور میں نے چودائی میں دھکے‬
‫مارے تو شازیہ نے پانی چھوڑ‬
‫دیا‪،،،‬میں اس سے لپٹ گیا اس وقت‬
‫اسے کسی سہارے کی ضرورت‬
‫تھی‪،،،‬ہم کچھ دیر لپٹے رہے پھر میں‬
‫اس کے ساتھ لیٹ گیا‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ اور‬
‫رافیہ سمجھ رہی تھیں کہ ایک مرحلہ‬
‫طے ہوگیا ہے‪،‬یقینا ان کے ماں باپ بھی‬
‫ایک وقت میں چدائی چھوڑ کے علیحدہ‬
‫ہو جاتے ہوں گے‪،‬مجھے نہیں لگتا‬
‫لڑکیاں سمجھتی ہوں کہ اب چدائی بند‬
‫کیوں ہو گئی ہے‪،‬بس ان کے اندازے ہی‬
‫تھے‪،‬یا ہو سکتا ہے‪،‬کیا ہوا ‪،‬رک کیوں‬
‫گئے نازیہ نے بےچینی سے پوچھا‪،‬وہی‬
‫ہوا نازیہ کا پوچھنا بتا رہا تھا کہ جو‬
‫کچھ ہے وہ دیکھا ہوا ہے ‪،‬کسی نے‬
‫بتایا نہیں کہ یہ چدائی ہے اوریہ فراغت‬
‫ہے‪،‬نازیہ جب کسی کے ساتھ چدائی‬
‫کرتے ہیں نہ تو پھر اس چدائی کی وجہ‬
‫سے جسم میں آگ لگتی ہے ‪،‬جو کہ مزہ‬
‫دیتی ہے‪،‬اس آگ سے جسم میں ایک‬
‫جگہ پانی ہے وہ پگھلتا ہے اور جب‬
‫بہت گرمی چڑھ جاتی ہے تو وہ پانی‬
‫باہر نکل آتا ہے جیسے پیشاب نکلتا‬
‫ہے‪،‬ساری چدائی کی لذت اسی وقت‬
‫ملتی ہے‪،‬اس کے بعد چدائی ختم ہوجاتی‬
‫ہے اور دوبارہ نئے سرے سے شروع‬
‫کیجاتی ہے‪،‬تو اب میری باری ہے‪،‬نازیہ‬
‫نے اشتیاق سے کہا‪،‬برا ِہ راست چدائی‬
‫دیکھ کے ان کا کیا حال ہوگا میں‬
‫محسوس کر سکتا تھا ‪،‬نازیہ ان سب‬
‫سے حسین تھی ‪،‬اناروں جیسے اس کے‬
‫گال تھے اور ریشم جیسا اس کا جسم‬
‫تھا‪،‬بعد میں تو ایسا جسم ہی میرا مستقل‬
‫شوق بن گئے ‪،‬کنواری ‪،‬کم عمر ‪،‬اور‬
‫ریشمی جسم کی نازک اندام حسینہ میرا‬
‫ذوق بنتا گیا‪،‬توابھی میرا نازیہ کو‬
‫چودنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‪،‬اتنے‬
‫میں شازیہ نارمل ہوچکی تھی‪،‬اس کے‬
‫چہرے پر وصال کا اطمینان تھا‪،‬جیسے‬
‫بھوکے کو بڑے عرصے بعد کھانا مال‬
‫ہو‪،‬کمال کامزہ ہے ‪،،‬ہم تو اصل مزے‬
‫سے محروم ہی تھے شازیہ نے اپنی‬
‫بہنوں سے کہا‪،،،‬دیکھ دیکھ کہ برا حال‬
‫ہوگیا تھا ۔‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫لیکن پتہ نہیں تھا کہ اس میں اتنا مزہ‬
‫ہے ‪،‬نازی اب تو مزہ لے اس کا تمھیں‬
‫ایسے لگے گا جیسے جنت مل گئی‬
‫ہو‪،‬شازیہ نے اپنی سمجھ کے مطابق‬
‫اسے بتایا تو نازی کے لبوں پر میٹھی‬
‫مسکان آگئی‪،‬وہ آنے والے وقت کے‬
‫تصور میں سرشار تھی‪،‬شازیہ اٹھی تو‬
‫وہ چادر جو نازیہ نے دی تھی وہ خون‬
‫سے بھیگی ہوئی تھی‪،،‬ارے یہ‬
‫کیا‪،‬نازیہ کی گھبرائی ہوئی آواز آئی‬
‫‪،،‬یہ خون ہے ‪،،‬جب کسی لڑکی کو‬
‫پہلی دفعہ چودا جاتا ہے تو اس کے اندر‬
‫سے خون نکلتا ہے‪،،‬اوہ مجھے‬
‫محسوس تو ہوا تھا لیکن اس وقت میں‬
‫اور ہی ہواؤں میں تھی‪،،‬ویسے یہ خون‬
‫کیوں نکال تھااور کیا یہ سب کے نکلے‬
‫گا‪ ،‬خون اسلیے نکال تھا کہ ہر لڑکی‬
‫کی سیل ہوتی ہے جو پہلی بار کی‬
‫چدائی سے ٹوٹ جاتی ہے‪،،‬اور خون‬
‫نکل آتا ہے‪،‬لیکن تم فکر نہ کرو کچھ‬
‫نہیں ہوگا جیسے شازیہ کو کچھ نہیں ہوا‬
‫اور اس نے مزہ ہی مزہ لیا ہے ایسے‬
‫ہی تم سب بھی بس مزہ لو گی‪،‬میں نے‬
‫باقی کو تسلی دینی ضروری‬
‫سمجھی‪،،‬اچھا یار یہ تو بتاؤ کہ یہ‬
‫سوراخ تم نے دیوار میں بنایا تھا کہ‬
‫اچانک نظر آیا تھا‪،،،‬میں ان سے‬
‫مخاطب ہوا ‪،،‬ساتھ ہی میں نے رافعہ کا‬
‫ہاتھ پکڑ لیا اور سہالنے لگا‪،،،‬اچانک‬
‫سامنے آیا تھا شازیہ نے جواب دیا‪،‬پہلے‬
‫اس میں کیل لگا تھا کیونکہ دیوار کی‬
‫چنائی مٹی کے گارے سے ہوئی ہے‬
‫پھر وہ کیل تھا بھی چھوٹا تو شیشے‬
‫کے وزن سے کچھ ڈھیال ہو گیا‪،‬نازیہ‬
‫نے وہ نکاال اور اس کی جگہ ایک پرانا‬
‫برش کا سرا تورڑکہ وہ ٹھونک دیا ‪،‬اس‬
‫نے اسے اینٹ سے ڈھونکا تھا ضرب‬
‫کچھ زیادہ ہی لگ گئی وہ مٹی میں‬
‫گھستا ہوا دوسری طرف نکل گیا‪،‬ہم نے‬
‫نکاال تو دیوار میں سوراخ ہوگیا تھا‪،‬اور‬
‫اس میں ابا کے کمرے کا منظر کچھ‬
‫نظر آرہا تھا۔‬
‫‪،‬یہ پچھلے سال کی بات ہے ایک دن‬
‫نازیہ نے بات چھیڑ دی کے ابا دوپہر‬
‫کوکمرے میں بند کیوں ہوجاتے ہیں‬
‫‪،‬ساتھ میں امی بھی ہوتی ہے‪،‬بعض دفعہ‬
‫ہم کچھ بے معنی آوازیں بھی سنتے‬
‫ہیں‪،‬اشتیاق میں ایک دن نازیہ نے وہ‬
‫برش ہٹا کر اندر کمرے کا منظر دیکھ‬
‫لیا‪،‬بس پھر وہ منظر دیکھنے کا ایسا‬
‫چسکا لگا ‪،‬کہ ہم خود کو روک نہ‬
‫سکی‪،‬پھر ہم نے رات کو بھی نگرانی‬
‫کی‪،‬اور دن کو تو کبھی کبھی ہوتا تھا‬
‫لیکن رات کو تو مزے آگئے ‪،‬ہر رات‬
‫یہ کام ابا اور امی دو تین بار کرتے‬
‫تھے‪،‬ہماری عمر کی ایک رشتہ دار ہے‬
‫اس کی شادی ہوگئی تھی ‪،‬ہم نے اس‬
‫کچھ معلومات بھی لے لی ‪،،‬اپنی سکول‬
‫کے دور میں بھی چدائی کا سنا تھا لیکن‬
‫تفصیل کا پتہ نہیں تھا ‪،‬بس چوت اور‬
‫عضو کا پتہ تھا‪،‬یا یہ کہ شادی کے بعد‬
‫بچہ ہو جاتا ہے اور وہ پتہ لگا کہ چدائی‬
‫سے ہوتا ہے ‪،‬‬
‫اسی طرح بے ترتیب معلومات ملتی‬
‫رہی‪،‬بعد میں ہم نے بڑی ہوشیاری سے‬
‫اینٹ کے کنارے توڑ کر اس میں لکڑی‬
‫کی موٹی میخ لگا دی اس سے موری‬
‫تھوڑی بڑی ہوگئی اور مزہ آنے لگا‪،‬‬
‫اور کل یہ مزہ تم میری وجہ سے پا‬
‫نہیں سکی تھی۔‬
‫کیونکہ میں کافی دیر جاگ کر پہلو بدلتا‬
‫رہا تھا ‪،،،،‬اسی لیے تم آج اتنی گرم‬
‫ہو‪،،،‬ہم رضائیاں لے چکے تھے اور‬
‫اس دوران میں رافعہ کا ہاتھ سہالتے‬
‫سہالتے اس کو گود میں بٹھا چکا تھا‬
‫اور اس کے ممے چوس رہا تھا‪،‬رافعہ‬
‫کا منہ میری طرف تھا اور ‪ 16‬برس‬
‫کی جوانی کا رس چوسنے کوبےتاب‬
‫تھا‪،‬ممے چوستے ہوئے میرے ہاتھ اس‬
‫کی کمر پر بے تابانہ گردش کر رہے‬
‫تھے‪،‬میں رافعہ کو گود میں بٹھائے‬
‫ممے چوستا رہا میرا عضو رافعہ کوبے‬
‫چین کر ہا تھا تھا یہ رافعہ پہلے سے‬
‫ہی بے چین تھی اس نے تھوڑا اٹھ کہ‬
‫اپنی شلوار کھسکائی اور میں کھینچ کر‬
‫نیچے کر دی وہ سیدھا میرے عضو پر‬
‫بیٹھ گئی‪،‬اور عضو پر گانڈ کو رگڑنے‬
‫لگی‪،‬رافعہ سب سے چھوٹی تھی مگر‬
‫سب سے تیکھی لگ رہی تھی‪،‬اس نے‬
‫ٹانگیں میری پہلوؤں میں سیدھی کر لی‬
‫تو میں سمجھ گیا اور ا سکی شلوار ایک‬
‫ٹانگ سے نکالی اور پھر دوسری سے‬
‫اس نے خود نکالی مگر گود سے نہیں‬
‫نکلی‪،‬شاید وہ سمجھ گئی تھی کہ نازیہ‬
‫کی جگہ وہ آئی ہے اور اب جگہ خالی‬
‫نہیں کرنی‪،،‬جبکہ کے سب سمجھ رہے‬
‫تھے کہ اتفاقا رافعہ گود میں آگئی‬
‫ہے‪،‬میں نے ارادتا باتیں چھیڑ کر یہ کام‬
‫کیا ہے‪،‬میں نازیہ کو آخر میں چودنا‬
‫چاہتا تھا‪،‬اس کا بھرپور مزہ لینا چاہتا‬
‫تھا۔‬
‫کیونکہ چار دفعہ چودائی کے بعد میرا‬
‫دل بھر جانا تھا اور دوبارہ کی نوبت‬
‫نہیں آنی تھی‪،‬یا شاید‪،،،،،،،،‬اب تو میں‬
‫اتنا ماہر ہوگیا تھا کہ ایک ہی بار میں‬
‫اتنا اچھا سیکس کرتا تھا کے جی بھر‬
‫جاتا تھا ‪،‬جیسے پیٹ بھر کے کھانا کھا‬
‫لیا جائے‪،‬رافعہ ایک تیکھی مر چ جیسی‬
‫تھی‪،،‬اس میں چودائی کی چاہت باقی‬
‫بہنوں سے زیادہ تھی‪،‬اور اب یہ چاہت‬
‫ابھر کر باہر آگئی تھی ‪،‬رافعہ گانڈ کو‬
‫عضو پر رگڑتے ہوئے سسک بھی رہی‬
‫تھی جبکہ اس کے ممے اسے بہت بے‬
‫چین کر رہے تھے‪،،،‬اور سب بے چینی‬
‫چوت میں جمع ہو رہی تھی‪،،‬رافعہ لگتا‬
‫ہے تمھاری آگ تو ٹھنڈی کرنے کیلیے‬
‫ابھی چوت میں ڈالنا پڑے گا‪،‬تو پھر دیر‬
‫کس بات کی ہے ڈال نہ چوت میں اور‬
‫میری آگ بھی ٹھنڈی کر دو‪،‬اسے نہیں‬
‫پتہ تھا لیکن وہ ٹھیک کہہ رہی‬
‫تھی‪،‬چدائی کی آگ مرد کے پانی سے‬
‫ہی بجھتی ہے‪،،‬میں نے تیل کی شیشی‬
‫اٹھا ئی تونازیہ نے پہلے ہی اٹھا لی‪،‬اور‬
‫ڈھکنا کھول کر میرے عضو پر تیل لگا‬
‫دیا‪،‬شاید اس طرح وہ اپنی شہوت کو‬
‫تسکین دے رہی تھی‪،‬میں نے رافعہ کی‬
‫ٹانگیں اپنے کندھوں پر ٹکائی ‪ ،‬اس کی‬
‫ٹانگیں سیدھی اوپر کو تھیں اور چوت‬
‫خوب نمایاں ہوگئی تھی‪،‬جیسی لڑکی‬
‫ویسی چدائی‪ ،‬رافعہ اگر گرما گرم تھی‬
‫اور اس میں شدت تھی تو چدائی بھی‬
‫ٹھوکا ٹھکائی جیسی ہونی چایئے ‪،‬‬
‫تھوڑا سا آگے کھسکا اور عضو اس کی‬
‫چوت پر رکھ کر نشانہ باندھا اور‬
‫میزائل چھوڑ دیا‪،،‬عضو اس کی چوت‬
‫میں گھس گیا اور لذت سے رافعہ کی‬
‫سسکاریاں نکل گئی‪،،‬شہزادے سارا ڈال‬
‫دو ‪ ،‬رکو مت‪،،،‬مجھے کچھ نہیں ہوگا‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫اور میں جو پردہ بکارت پر رک گیا تھا‬


‫اور کچھ آگے پیچھے کرنے کا ارادہ کیا‬
‫تھا رافعیہ کے الفاظ سنتے ہی پیچھے‬
‫ہو کر ایک تیز جھٹکا مارا اور رافعہ‬
‫کی چوت کا پردہ پھاڑتا ہوا اس کی‬
‫گہرائیوں میں جا گھسا‪،‬رافعہ نے دانت‬
‫بھینچے ہوئے تھے ‪،،‬اور واقعی اس کی‬
‫کوئی آواز نہیں نکلی‪،‬میں نے دیکھ لیا‬
‫اس کی چوت سے خون نکل رہا‬
‫تھا‪،،‬میں نے چدائی جاری رکھی اور‬
‫ٹانگیں اٹھائے اسے چودنا شروع کیا‪،،‬یہ‬
‫ایسا اسٹائل ہے کہ اس میں عضو چوت‬
‫کی گہرائیوں میں جا کہ لگتا ہے‬
‫‪،‬جیسے پسٹن تیزی سے حرکت کرتا‬
‫ہے ایسے ہی میں تیزی سے اس کی‬
‫موٹر میں دھکم پیل کر رہا تھا‪،‬میں‬
‫عضو اس کے اندر بھیجتا اور پھر اسے‬
‫واپس بلوا لیتا ‪،‬میری اس ادا سے اس‬
‫کی چوت خوش تھی کیونکہ رافعہ مزے‬
‫میں ڈوبی لگ رہی تھی‪ ،‬پرنس اور تیز‬
‫کرو نہ ‪،‬رافعہ سسکی‪ ،‬میں نے رفتار‬
‫بڑھا دی‪،،‬رات کے سناٹے میں جھپاک‬
‫جھپاک کی آواز گونجی ‪،‬میرا جسم اس‬
‫کی رانوں سے ٹکرا رہا تھا‪،‬میں پھر‬
‫تیز چودنے لگا ‪،‬لیکن کوئی آواز نہیں‬
‫نکلنی چاہیے‪،‬میں نے سوچا۔۔ایسی‬
‫آوازیہ بھال مولوی جیسا شخص انجان‬
‫کیسے ہو سکتا ہے‪،‬اس لیے رات کا‬
‫سناٹا احتیاط کا متقاضی تھا‪،‬رافعہ ان‬
‫َ‬
‫لڑکیوں میں سے تھی جو بھرپوار‬
‫وحشیانہ چودائی پر خوش ہوتی‬
‫ہیں‪،‬لیکن ابھی اس کی چوت یہ سب‬
‫برداشت نہیں کرسکتی تھی‪،،،‬نہیں تو‬
‫اس کی چوت کا دھڑن تختہ ہوجانا تھا‬
‫اس پر ایک واقعہ یاد آگیا ‪،‬سہاگ رات‬
‫منانے سے پہلے دوستوں نے دولہے‬
‫کو اچھی طرح سمجھایا کہ یہی رات‬
‫ہے جس میں آنے والی زندگی فیصلہ ہو‬
‫جاتا ہے اس لیےاپنی بیوی کو آج ہی‬
‫اپنے قابو میں کرلو ‪،‬ساری عمر‬
‫تمھارے حکم بغیر ہلے گی بھی‬
‫نہیں‪،،،‬تو پھر اسکے لیے مجھے کیا‬
‫کرنا ہوگا‪،،‬دولہے نے دوستوں سے‬
‫پوچھا ‪،،،،‬یار اسے اچھی طرح‬
‫چودنا‪،،‬نخرے تو کرے گی مگر درد‬
‫وغیرہ کا کہے تو پرواہ نہ کرنا۔تین چار‬
‫بار چودنا اسے‪،،‬دھاک جما دینا اپنی اس‬
‫پر‪،‬سارا کمال ہی اسی کا بات ہے‬
‫‪،،،،‬دولہا صاحب کمرے میں چلے گئے‬
‫‪،‬پہلے تو اس کا ذہن تھا کہ کچھ باتیں‬
‫کریں گا کچھ روما نوی موڈ بنائے گا‪،‬‬
‫اسے سہاگ رات کا تحفہ دے گا ‪،‬کچھ‬
‫اپنا بتائے گا ‪،‬کچھ اس کا پوچھے‬
‫گا‪،‬پھر آدھی رات کے بعد اسے جی بھر‬
‫کے پیار کرے گا‪،‬اس کا انگ انگ‬
‫چومے گا پھر دو دفعہ چودائی کرے‬
‫گا‪،،،‬لیکن اب اس کا ذہن خراب ہوچکا‬
‫تھا‪،،‬اس نے کچھ دیر باتیں کی‪،‬تحفہ‬
‫بھی اجلت میں دیا‪،‬اور پھر دولہن کو لٹا‬
‫دیا ‪،،‬جیسے جیسے دولہا آگے بڑھتا گیا‬
‫‪،‬دولہن کے خواب چکنا چور ہوتے‬
‫گئے‪،،‬وہ کیا کیا سوچ کہ نئی زندگی‬
‫شروع کرنے آئی تھی اور یہاں تو‬
‫جذبات کی پرواہ کیے بغیر کچھ اور ہی‬
‫شروع ہوگیا تھا‪،‬دولہے نے نہ آئل‬
‫استعمال کیا‪،‬نہ چوما چاٹی کی ‪،‬یعنی‬
‫فورپلےیا گرم کرنا اور دھڑاک عضو‬
‫اندر زبردستی داخل کردیا‪،‬دولہن‬
‫نےبمشکل چیخیں روکی مگر دولہا‬
‫صاحب نے کچھ نہ خیال کیا‪،‬اس کے‬
‫بعد وہ تو کرتا رہااور دلہن انتہائی اذیت‬
‫کے باوجود عزت بچانے کیلے بمشکل‬
‫اپنی چیخیں روکنے کی کوشش کرتی‬
‫رہی ایک بار تک تو دولہن برداشت کر‬
‫گئی لیکن دولہے نے فورا پھر‬
‫چودناشروع کو دیا اور جب اس نے‬
‫تیسری دفعہ چودا تو دولہن بے ہوش‬
‫ہوچکی تھی‪،‬سارا بیڈ لہو لہان ہوچکا تھا‬
‫‪،‬جب دولہا فارغ ہوا تو اسے دولہن‬
‫کاخیا ل آیا اس نے ہالیا جالیا مگر وہ‬
‫تو کب کی بے ہوش ہو چکی تھی‬
‫‪• Part⁴⁰‬‬

‫دولہا فورا باہر نکال اور والدین کو‬


‫بالیا‪،،‬دولہن کو ہسپتال لے‬
‫گئے‪،،،‬بمشکل اگلے دن خون رکا‪،‬پتہ‬
‫چال اس کے رحم کا ستیاناس ہوگیاہے‬
‫اور اب کبھی ماں نہیں بن سکے‬
‫گی‪،‬دولہن کے والدین وغیرہ بھی آگئے‬
‫تھے‪،‬بڑی لڑائی ہوئی ‪،،‬اور وہیں طالق‬
‫ہوگئی ‪،‬اسی طرح ایک دولہا صاحب‬
‫نے پہلی رات ہی ٹائمنگ گولی لے‬
‫لی‪،‬اب وہ چھوٹے نہ اور دولہن برداشت‬
‫نہ کرسکی‪،‬اتنی بلیڈنگ ہوئی کہ ہسپتال‬
‫لے جانا پڑا ‪،‬بہر حال بچ بچاؤ ہو‬
‫گیا‪،،،،،‬تو نئی نویلی چوت کو آرام سے‬
‫سہج سہج کے چودنا چاہیئے اور اس‬
‫وقت میری رفتار تو تھی لیکن اتنی ہی‬
‫تھی جتنی رافعہ کی چوت برداشت‬
‫کرسکتی تھی‪،،‬ویسے بھی میں نے‬
‫رافعہ کی ٹانگیں کندھوں سے ٹکائی‬
‫ہوئی تھیں اس میں تو دھکا لگتا ہی بہت‬
‫ہے‪،،‬شہزادے تیز کرو نہ‪،،،‬رافعہ نے‬
‫پھر کہا تو میں نے ٹانگیں چھوڑ دی‬
‫اور ااسے دھکڑ دھکڑ چودنے لگا‪،‬ایک‬
‫تو اس سے آواز کم آتی تھی دوسرا‬
‫جھٹکا اندر کم جا رہا تھا‪،،،،‬نفسیاتی‬
‫طور پر اسے بہالنے کیلے میں نے اس‬
‫ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیا اور چومنے‬
‫لگا‪،‬ابھی تک میں نے اس سے کسنگ‬
‫تو کی ہی نہیں تھی‪،‬نہ ہی وہ کسنگ کی‬
‫لذت سے واقف تھی‪،،‬اس کا دھیان بٹ‬
‫گیا اور اوپر جاتا گراف نیچے آگیا‪،‬میں‬
‫اسے چودتا رہا اور کسنگ کرتا رہا‬
‫‪،‬اگر اس وقت ممے پکڑتا تو پھر اس‬
‫نے اور گرم ہوجاناتھا‪،‬اب دھیان بٹتے‬
‫ہی میں پھر بیٹھ گیا‪،‬اب ایسا بھی نہیں‬
‫تھا کہ اس کی آرزو پوری نہیں کرسکتا‬
‫تھا‪،،‬میں نے اس کے پہلوؤں سے پکڑا‬
‫اور عضو باہر نکال کر چوت کے‬
‫سوراخ پر رکھا اور ایک دھکا‬
‫لگایا‪،‬دھکا اس کی چوت کے حساب‬
‫سے تھا‪،‬ویسے وہ سب سے چھوٹی اس‬
‫کی عمر کے حساب سے اس کی چوت‬
‫باقی بہنوں سے زیادہ ٹائیٹ ہونی‬
‫چاہیےتھی ‪،‬اور مجھے ایسا ہی لگ رہا‬
‫تھا‪،‬پہلے دھکا پھر عضو باہر نکاال‬
‫لیکن پورا نہیں نکالتا تھا پھر اندر‬
‫دھکے سے ڈاال ‪،،،‬اسی طرح ردھم‬
‫سے میں باہر نکالتا اور دھکے سے‬
‫اندر ڈالتا اس میں رفتار اتنی نہیں تھی‬
‫لیکن ہر دھکاا س کی ضرورتوں کو‬
‫پورا کر رہا تھا ‪،،،‬ہاں شہزادے یہ‬
‫ٹھیک ہے‪،،‬رافعہ نے سرگوشی‬
‫کی‪،،،‬شازیہ ‪،‬نازیہ ‪،‬سعدی اپنی چھوٹی‬
‫بہن کو آنکھیں پھاڑ کے دیکھ رہی‬
‫تھی‪،،‬ان کے حساب سے وہ بچی تھی‬
‫‪،‬لیکن بچی تیکھی مرچی تھی‪،،،‬ہر دھکا‬
‫اس کے جسم کی بنیادوں کو ہال دیتا تھا‬
‫اور عضو اس کے رحم کو چوم کر‬
‫آجاتا تھا‪،،‬آخر میں ایک تیسرا اور‬
‫آخری حساس مقام ہوتا ہے میرا عضو‬
‫اسے جا کے چھوتا تھا تو رافعہ کی‬
‫مزے سے سسکاریاں نکلتی‬
‫تھیں‪،،،‬تھوڑا اور دھکا لگاؤ نہ‪،‬رافعہ‬
‫پھر شدت میں آگئی تھی ‪،،‬پتہ نہیں‬
‫رافعہ کیسے اب تک ضبط کرتی آئی‬
‫تھی ۔‬

‫میں پیچھے ہو کر ایک زور دار دھکا‬


‫لگایا تو رافعہ کی ہلکی سی چیخ نکل‬
‫گئی‪،‬اور ساری بہنوں کے چہرے یکدم‬
‫زرد ہو گئے‪،،‬مولوی کا ڈر بہت گہرا‬
‫اور زبردست تھا‪،،،‬یقینا مولوی سو گیا‬
‫تھا‪،،،‬ایک بار تو مجھے بھی خطرہ‬
‫محسوس ہوا تھا لیکن بس اتنا کہ کہیں‬
‫مشن ادھورا نہ رہ جائے‪،،،‬کچھ لمحیں‬
‫خیریت سے گزرے اور میں نے پھر‬
‫دھکم پیلنا شروع کر دیا ۔۔۔ تجھے بڑی‬
‫گرمی چڑھی ہے ‪،،‬تیری ساری گرمی‬
‫ابایک منٹ میں نکال دے گا‪،‬شازیہ‬
‫دھیمی آواز میں رافعہ پرغرائی‬
‫‪،،‬ماحول سے ایکدم چودائی کی گرمی‬
‫غائب ہوگئی تھی‪،،،‬مجھے ماحول بنانے‬
‫کیلیے رافعہ کے مموں پر جھکنا‬
‫پڑا‪،،،‬کچھ ہی دیر میں رافعہ پھر گرم‬
‫تھی‪،‬اس میں ایک طوفان چھپا‬
‫تھا‪،‬جوسمجھا رہا تھا کہ اب سیل کھلنے‬
‫کے بعد مشکل ہی رکے گا‪،،،‬میں دیکھ‬
‫رہا تھا مستقل میں مولوی کو ایک باغی‬
‫لڑکی کا سامنا کرنا پڑے گا‪،،‬رافعہ اب‬
‫پھر بے پرواہ نظر آرہی تھی ‪،‬اور‬
‫شازیہ ایسے چوکنی بیٹھی تھی جیسے‬
‫اب اگر رافعہ نے کوئی بات کی تو‬
‫اسے دبوچ لے گی‪،،‬رافعہ اس سب سے‬
‫بے پرواہ مزہ لے رہی تھی‪،‬اور میں‬
‫دھکے پہ دھکے لگا رہا تھا‪،،‬حاالت‬
‫کے مطابق رافعہ میرا طریقہ سمجھ‬
‫گئی تھی اور اس سے بھرپور لطف‬
‫اندوز ہورہی تھی‪،،‬رگڑ مسلسل نہ‬
‫لگےتو پانی کا آنالیٹ ہوجاتا ہے‪،،،‬ہم‬
‫بھی پندرہ منٹ تو گزار چکے تھے اس‬
‫کا مطلب تھا ابھی مجھے پانی نکالنے‬
‫کیلیے اور کھدائی کرنی پڑے گی‪،،،‬اور‬
‫میں شوق سے کھدائی کرنے‬
‫لگا‪،،،‬نازیہ اور رافعہ نے گرمی سے‬
‫گھبرا کے ایکدوسرے کو پکڑ لیا‪،،‬اور‬
‫ایکدوسرے سے لپٹی ہوئی تھی‪،،‬اور‬
‫منہ میں منہ ڈالے ایکدوسرے کا رس‬
‫پی رہی تھی‪،،‬میں نے پہلے بھی دیکھا‬
‫تھا کہہ یہ ایکدوسرے کی چوت سے‬
‫کچھ نہیں کرتی‪،‬میں بھی انگلی واال کام‬
‫بتانا مناسب نہ سمجھا‪،،‬رافعہ کو پھر‬
‫گرمی چڑھ رہی تھی ۔‬
‫وہ کیا کرتی رکنا اس کے بس سے باہر‬
‫تھا ‪،‬وہ ملتجی آنکھوں سے مجھے‬
‫دیکھنے لگی‪،،،‬کچھ کہ تو نہیں سکتی‬
‫تھی شازیہ اب بھی اس کے سر پر‬
‫تھی‪،،،‬میں نے اس کی ٹانگیں پھر‬
‫کندھوں پر ٹکائی اور اس کی چوت کو‬
‫تھوڑا انچا کیا‪،‬دھکوں کیلیے سیٹنگ‬
‫کی‪،،‬لیکن باہر نہیں نکلنے دیا تھا ‪،،‬اور‬
‫پھر میں نے پیچھے کر کے ایک کم‬
‫طاقت کا دھکا لگا کر اسٹارٹ‬
‫کیا‪،،،‬رافعہ کے چہرے پر کچھ اطمینان‬
‫آیا تو میں نے اگلی بار زیادہ طاقت کا‬
‫دھکا لگایا‪،،‬رافعہ کےچہرے پر خوشی‬
‫کے آثار آگئے‪،،،‬مجھے تسلی‬
‫ہوگئی‪،،،‬میرے ہتھیار کام کرگیا‬
‫تھا‪،،‬میرے پاس موقع محل کے لحاظ‬
‫سے طریقوں کی کمی نہ تھی‪،،‬میں نے‬
‫پھر جوش میں اور طاقت کا دھکا مارا‬
‫‪،،،‬اس بار رافعہ کے ہونٹ بھنچے گئے‬
‫‪،،،‬میں سمجھ گیا اسے کچھ درد تو ہوا‬
‫ہے‪،‬لیکن مزہ لینے والے درد سے کب‬
‫گھبراتے ہیں‪ ،‬شازیہ نے مجھے نظروں‬
‫ہی نظروں میں تنبیہ کی‪،،‬میں اسی‬
‫طاقت کے دھکے لگانے لگا‪،،،‬رافعہ‬
‫منہ کو بھنچے مزے لیتی رہی‪،،،‬اب اس‬
‫کی خوہش پوری ہورہی تھی‪،،،،‬اسی‬
‫ردھم میں چودائی کرتے ہوئے رافعہ‬
‫منزل پر پہنچنے والی ہو گئی‪،،،‬اور اس‬
‫کے چہرے پر بے اختیاری کی کیفیت‬
‫تھی‪ ،،‬ٹانگیں چھوڑ کرمیں نے اسے‬
‫بانہوں میں لے کر کس لیا‪،،،‬اس کا جسم‬
‫ارتعاشی حالت میں تھا‪،،،‬رافعہ نے کچھ‬
‫دیر لگائی اور پھر وہ آرام کی حالت‬
‫میں آگئی‪،،،‬میں نے اسی حالت میں اس‬
‫کا جسم کستے ہوئے رفتار تیز کر دی‬
‫اب میں فارغ ہونا چاہتا تھا‪،،‬‬

‫‪،،‬ابھی میرے سامنے دو مست جوانیاں‬


‫پڑی تھی‪،،،‬دو تین منٹ کی رفتار نے‬
‫مجھے بھی منزل پر پہنچا دیا اور میں‬
‫نے سارا پانی رافعہ کی چوت میں ڈال‬
‫دیا‪،،،‬اس سے رافعہ کی آگ ٹھنڈی‬
‫ہونے میں کافی مدد ملے گی‪،،‬جیسا کے‬
‫مشہور کلیہ ہے کہ آگ ہمیشہ پانی سے‬
‫ہی بجھتی ہے۔‬
‫ہم کیونکہ رک گئے تھے اور اب نازیہ‬
‫اور رافعہ کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ‬
‫پانی نکل گیا ہے اور اب اگلی کی باری‬
‫ہے‪،،،‬وہ ا پنا کام چھوڑ کر میری طرف‬
‫متوجہ ہوگئی تھیں‪،،‬میں بستر پر لیٹ‬
‫گیا‪،،،‬اور آرام کے موڈ میں تھا ‪،،‬شازیہ‬
‫نے ایک لمحے کیلیے دیر نہیں لگائی‬
‫اور مجھے گلے لگا لیا تھا‪،،،‬شہزادے‬
‫کچھ دیر مجھے بھی دے دو‪،‬شازیہ بڑی‬
‫بہن ہونے کے ناطے اپنا حق استعمال‬
‫کر ر ہی تھی‪،،‬میں نے ا سکے ہونٹو‬
‫سے ہونٹ لگا دیے اور اسے ایک لمبی‬
‫کس دی‪،،،‬دوسری طرف نازیہ میرے‬
‫ساتھ لیٹ گئی ‪،،،‬اور میرا سینہ چومنے‬
‫لگی‪،،،‬شازیہ اسے دیکھ کر پیچھے ہٹ‬
‫گئی کہ اب اس کی باری ہے تو رافعہ‬
‫اس کی جگہ میرے ساتھ لیٹ گئی اب‬
‫ایکطرف نازیہ تھی تو دوسری طرف‬
‫سعدیہ لیٹی ہوئی تھی‪،،،‬اور میں درمیان‬
‫میں سینڈوچ بنا ہوا تھا‪،،،‬دونوں مجھ پر‬
‫چڑھی جارہی تھی‪،،،‬جتنا صبر کرنا تھا‬
‫کر لیاکے مصداق دونوں ایک دوسرے‬
‫کا لحاظ کیے بغیر مجھے چوماچاٹی‬
‫میں لگی ہوئی تھیں‪،‬شازیہ نے سعدیہ‬
‫کی کمر پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ میں اس‬
‫کا ارادہ سمجھ گیا کہ وہ سعدیہ کو‬
‫پیچھے کرنے لگی ہے‪،،‬میں نے اسے‬
‫اشارے سے روک دیا‪،‬شازیہ خود‬
‫بمشکل بیٹھی تھی ‪،،،‬پہلے پہل جب اس‬
‫کی سیل توڑی تھی تواسے یہ نہیں پتہ‬
‫تھاکہ وہ کس دنیا میں جا رہی ہے‪،‬پھر‬
‫شازیہ کو مزہ آیا‪،،‬لیکن رافعہ کو دیکھ‬
‫کر اسے احساس ہو اتھا کہ چدائی میں‬
‫کیا کچھ ہوسکتا ہے‪،،،‬اب وہ اور مزے‬
‫لینا چاہتی تھی ‪،،‬وہ نہیں جانتی تھی اب‬
‫مزے کیلیےتو ساری عمر جستجو کرتی‬
‫رہے گی‪،،‬نازیہ وہ لڑکی تھی جو میرا‬
‫ذوق بن گئی تھی‪،‬اس لیے نازیہ مجھے‬
‫کبھی نہیں بھولی‪،،،‬ابھی وہ کچھ‬
‫جھجکی ہوئی تھی ‪،‬یہ ٹھیک تھا کہ‬
‫جیسے جیسے چدائی ہوتی جاتی ہے‬
‫ویسے ویسے بندہ بے شرم ہوتا جاتا‬
‫ہے‪ ،،،‬تب وہ کھل کے مزے لیتا‬
‫ہے‪،،،‬لیکن اتنی بے شرمی بھی نہیں‬
‫ہونی چاہیئے ‪ ،،،‬کہ اپنی عزت کا بھی‬
‫خیال ہی نہ رہے‪،،‬بے دھڑک‬
‫ہونا‪،‬جرات واال ہونا اور بات ہے بے‬
‫شرم ہونا اور بات ہے‪(،،،،،،،‬میں نے‬
‫بھری مارکیٹ کے باتھ روم میں ایک‬
‫لڑکی کوچود ڈاال تھا جبکہ باہر چینچ‬
‫کرنیوالیاں دوسرا باتھ روم استعمال کر‬
‫رہی تھیں اور میں دس منٹ میں چودائی‬
‫کر کے باہر نکال آیا تھا‪،،‬اور کسی کو‬
‫کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی اور آفس‬
‫میں رش کے باوجود کھلے دروازے‬
‫کے پیچھے کسی کی سیکٹری کو چود‬
‫ڈاال تھا تب بھی دس منٹ ہی لگائے‬
‫تھے‪،،‬لیکن موقع کی کیکولیشن کرکے‬
‫میں نے اندازہ کرلیا تھا کہ میں یہ میں‬
‫کر لوں گا مجھے اعتماد تھا آپ بتائیں‬
‫کیا یہ بے شرمی تھی یا جرات تھی؟ ) ۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫میں نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کرسعدیہ‬


‫کا ہاتھ پکڑا او ر اور اس کا ہاتھ اپنے‬
‫عضو پر رکھ دیا‪،،‬سعدیہ نے ایک‬
‫لمحے کی دیر نہیں لگائی اور اسے‬
‫گرفت میں لے لیا‪،‬سعدیہ کو سمجھنے‬
‫میں ذرا بھی مشکل پیش نہ آئی کہ اب‬
‫میں اسے ہی چودنا چاہتا ہوں ۔۔۔سعدیہ‬
‫‪،‬شازیہ کو دیکھ چکی تھی کہ جب میں‬
‫نے اسے عضو کو گرفت میں لیکر‬
‫عضو کو مسلنے کو کہا ‪،‬ٹھیک اب‬
‫سعدیہ بھی ویسے ہی عضو کو مٹھی‬
‫میں لیکر پیار کر رہی تھی‪،،،‬اور عضو‬
‫اس کے ہاتھوں کی گرم جوشی سے‬
‫انگڑائیاں لینے لگا تھا‪،،‬عضو نے کہا‬
‫یار چار چار الھڑ ‪،‬مست ‪،‬کچی جوانیاں‬
‫ہوں توکون کمبخت سو سکتا ہے‪،،،‬میں‬
‫سعدی کی کمر پر ہاتھ پھیرنے‬
‫لگا‪،،،‬میرا ‪،‬ا لتفات سعدیہ کی طرف‬
‫دیکھ کر نازیہ رکی ‪،‬کیا مجھ سے‬
‫ناراض ہو‪،،،‬نازیہ سمجھی کل کی بات‬
‫کو دل پے لے چکا ہوں‪،،،‬میں نے اسے‬
‫ساتھ لگایا اور گالوں کو چومتاہوا کان‬
‫میں کہا‪،،‬سب سے بہترین کو آخر میں‬
‫بہترین وقت دوں گا‪،‬بس کچھ دیر‬
‫اور‪،،،،،‬میری سرگوشی کو پاس بیٹھی‬
‫بہنیں بھی نہ سمجھ سکیں ‪،،‬لیکن نازیہ‬
‫کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئیں بمشکل‬
‫کہی ہوئی بات اس کے کانوں کے‬
‫ذریعے دل میں چلی گئی تھی‪،،،‬سعدیہ‬
‫عضو کو ہاتھ میں پکڑ کر مست کر‬
‫چکی تھی ‪،،‬میں نے اسے نیچے لٹایا‬
‫اور خود اس کے اوپر آگیا‪،،،‬رافعہ کی‬
‫طرح کسی اور انداز میں ڈالو نہ اس کی‬
‫چوت میں‪،‬شازیہ الئیو چودائی کا مزہ‬
‫لینا چاہتی تھی یا کچھ سیکھا یا جاننا‬
‫چاہتی تھی‪،،،‬میں نے سر ہالیا اور‬
‫سعدیہ کے ممے چوسنے لگا‪،،،‬ممے نہ‬
‫چوسے تو پھر مزہ ہی کیا‪،،،‬ان کے‬
‫ممے ان چھوئے تھے نرم و نازک‬
‫‪،،‬بتیس سائیز کے صرف رافعہ کے‬
‫تیس کے تھے‪،،،،‬با لکل نئے نویلی تازہ‬
‫تازہ جوانی کے رس میں بھرے ہوئے‬
‫‪،،‬اپنی طرف بالتے ہوئے‪،،،‬للچاتے‬
‫ہوئے‪،،،‬ممے ہی تو جسم میں سب سے‬
‫پہلے نظروں کا نشانہ بنتے ہیں‪،‬جیسے‬
‫شطرنج کا مہرہ گھوڑا اوپر سے چل‬
‫چلتا ہے ‪،‬ایسے ہی یہ کپڑونکے‬
‫اوپرسے بھی جلوے دکھا تے‬
‫ہیں‪،،،‬ویسے یہ سائیز کی وبا بھی‬
‫مغرب سے آئی ہوئی ہے اور میں اس‬
‫کو اپنے تجربے سے لڑکی کے جسم‬
‫کو پرکھتا ہوں ۔۔خود مغرب فگرز کے‬
‫مقبول ترین ماڈل باربی ڈول پر کتنے‬
‫اعتراض کرچکا ہے اور اسے حقیقی‬
‫زندگی میں غلط ثابت کرنے کیلیے کئی‬
‫آرٹیکل آچکے ہیں‪ ،،،‬جبکہ یہ اسی کا‬
‫بنایا ہوا پیمانہ ہے اور اکثریت اس کو‬
‫رول ماڈل سمجھتے ہیں‪،،،،‬اصل مزہ‬
‫سائیز میں نہیں ان چھوئی جوانی میں‬
‫ہے‪،،،‬ایسے جوانی میں جس میں‬
‫جسمانی حسن ہو نہ کہ کپڑے اترنے‬
‫کےبعد بندہ سر پکر کر رہ‬
‫جائے‪،،‬ایسے ہی اصل حسن چہرے کی‬
‫بناوٹ میں ہے نہ کہ گوری رنگت میں‬
‫ہے‪،،‬ایسی ہی کالی حسینائیں ہیں‪،‬ماڈلز‬
‫ہیں جن کو دیکھ کر بندہ دل تھام کر رہ‬
‫جائے بس ان کے چہرے کے نقوش ہی‬
‫تو پاگل کر دینے والے ہوتے ہیں‪،،،‬اوہ‬
‫ہو بات کہاں سے کہاں جا پہنچی‪،،،‬تو‬
‫بات ہورہی تھی شازیہ ‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ‬
‫‪،‬اور رافعہ کی‪،،‬سعدیہ کے ممے‬
‫چوستے ہوئے مجھے اندازہ ہوا‪ ،‬کہ اس‬
‫کا جسم رسیال ہے‪،،،‬اس کا حسن نراال‬
‫ہے‪،،،‬اس کے چہرے سے نہیں لگتا‬
‫تھاکہ اس کے جسم کا سواد اتنا مزہ دار‬
‫ہو گا‪،‬یقینا اسے چود کر مزہ‬
‫آئےگا‪،،،‬گرم تو سب بہنیں ہی تھیں ان‬
‫کو گرم کیا کرنا لیکن جوانی کا رس‬
‫پیئے بغیر میں آگے کیسے جا سکتا تھا‬
‫‪،،،‬جب میں نے جی بھر کہ اس کے‬
‫ممے چوس لیے تو سعدیہ کو ڈوگی‬
‫اسٹائل میں کیا اور خود اس کے پیچھے‬
‫آگیا‪ ،،،‬کیا کرنے لگے ہو‪،،،‬شازیہ‬
‫گھبرائی‪،،،‬خود ہی تو کہا تھا کہ کچھ‬
‫نئے طریقے سے کرو تو وہیں کرنے‬
‫لگا ہوں‪ ،،،،‬یہ دیکھو یہ چوت ہے اور‬
‫اس میں اس کو ڈالوں گا میں نے عضو‬
‫ہاتھ میں پکڑ کے آگے اس کی گانڈ کے‬
‫نیچے چوت کی موری پر رکھتے ہوئے‬
‫کہا‪،،،،‬اوہ میں سمجھی گانڈ میں چودائی‬
‫کرنے لگے ہو یہ نہ کرنا یہ گناہ ہے‬
‫‪،،،‬آخر مولوی کی بیٹی تھی۔‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫میں دل ہی دل میں ہنسا اور اسے کہا‬


‫نہیں کہ اب ہم جو کررہے ہیں یا جو تم‬
‫اپنے والدین کو دیکھتی تھی وہ کیا‬
‫تھا‪،،،،‬چلو آجاؤ اپنی ڈیوٹی پر میں نے‬
‫شازیہ کو اشارہ کیا‪،‬تو اس نے میری‬
‫بات سمجھتے ہوئے تیل کی شیشی لی‬
‫اور اس کو میرے عضو پر ملنے‬
‫لگی‪،،،‬تھوڑا یار یہ رافعہ نہیں ہے اس‬
‫کی چوت عمر کے حساب سے تنگ‬
‫تھی اسلیے کچھ زیادہ لگایا تھا‪،،‬تو یہ‬
‫کونسی بڑی عمر کی اس میں اور رافعہ‬
‫میں بس ایک سال کا ہی تو فرق‬
‫ہے‪،،‬میری بہن کو ذرا بھی درد نہیں‬
‫ہونا چاہیئے ‪،،‬شازیہ نے الڈ سے‬
‫کہا‪،،،‬ابتک وہ سمجھ چکی تھی کہ تیل‬
‫اسلیے لگایا جاتا ہے کہ پہلی دفعہ چوت‬
‫میں درد نہ ہو‪،،،‬کچھ نہیں ہوگا تمھاری‬
‫بہن کو‪ ،‬اسے پتہ ہونا چاہیے کہ مزے‬
‫کا رستہ آسان نہیں ہے ‪،‬میں نے‬
‫شرارت سے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا‪،،،،‬چلو اب ڈال بھی دو شہزادے‬
‫‪،،‬باتیں بعد میں کرلینا ‪،،،‬سعدیہ بے تابی‬
‫سے بولی تو میں نے چوت پر عضو‬
‫رکھا تھوڑا موری میں داخل کیا اور‬
‫پھر اس کے پہلوؤں سے پکڑ کر اندر‬
‫دھکیال ‪،،،‬جیسے جیسے اندر جاتا‬
‫گیا‪،،،‬سعدیہ کی سسکاری نکلتی‬
‫گئی‪،،،‬شازیہ نے جلدی سے اس کے‬
‫منہ پر ہاتھ رکھ دیا ‪،،‬بڑی بہن ہونے‬
‫کے ناطے وہ کافی ِذمہ داریاں نبھا رہی‬
‫تھی‪،،،،‬میں جو پردے کے پاس جا کر‬
‫رک گیا تھا اور کچھ نرمی سے آگے‬
‫پیچھے کر رہا تھا ‪،‬موقع غنیمت جان‬
‫کر عضو پیچھے کر کے ایک زور دار‬
‫دھکا مارا اور چوت کا پردہ پھاڑتا ہو‬
‫اچوت کی گہرائیوں میں جا پہنچا‬
‫‪،،،‬سعدیہ کے جسم نے اچھا بھال جھٹکا‬
‫لیا اور میں وہیں رک گیا‪،‬اسکی چوت‬
‫سے خون نکل کر چاد پر گر رہا تھا‬
‫‪،،‬جس پر پہلے سے شازیہ اور رافعہ کا‬
‫خون جما ہوا تھا‪،،‬لیکن وہ گرتے وقت‬
‫نظر نہیں آیا تھا کیونکہ ان کی پوزیشن‬
‫اور تھی۔‬
‫شازیہ پریشانی سے میری طرف‬
‫دیکھے لگی‪،،‬میں نے اسے ہاتھ کے‬
‫اشارے سے تسلی دی کچھ نہیں ہوگا‬
‫‪،،‬مجھے اسے کہنا ہی پڑے گا‪،،،‬شازیہ‬
‫نے ہاتھ کے اشارے سے سعدیہ کے‬
‫چہرے کی طرف کی طرف متوجہ‬
‫کیا‪،،،،‬کیا ہوا ؟ میں نے پوچھا ‪،،‬رو‬
‫رہی ہے شازیہ نے سعدیہ کے آنسو‬
‫پونچھتے ہوئے سرگوشی کی‪،،،‬میں نے‬
‫اسی حالت میں اس کی کمر سے لپٹ‬
‫کر اس کے ممے پکڑ لیئے او ر ان کو‬
‫مسلنے لگا‪،،،‬سعدیہ ‪،،،،‬میں نے اسے‬
‫بالیا‪،،،‬جی شہزادے‪،،،،‬کچھ نہیں ہوگا‬
‫یار درد بس ایک دفعہ ہوتا ہے ‪ ،،،‬جو‬
‫ہونا تھا ہو گیا دیکھو خون نکلنا بھی بند‬
‫ہوگیا ہے‪،،‬پریشان نہ ہونا‪،،،‬ٹھیک ہے‬
‫شہزاے اب کچھ آرام ہے‪،،،‬ممے‬
‫مسلتے رہو اچھا لگ رہاہے‪،،،‬تمھارا‬
‫جسم رسیال ہے ‪،‬مزہ دینے واال ہے‬
‫اسلیے نازک بھی ہے‪،،‬میں سمجھ تو گیا‬
‫تھا لیکن شاید تمھارا پردہ کچھ سخت تھا‬
‫اس لیے درد ہوا‪،،،‬آہ اب چودو شہزادے‬
‫باتیں تو پھر کرتے ہی رہیں‬
‫گے‪،،،،‬ٹھہرو ‪،،‬میں نے عضو باہر‬
‫نکاال اور چادر سے اسے صاف کیا اور‬
‫سعدیہ کی چوت کو بھی صاف‬
‫کیا‪،،،‬دوبارہ تیل لگا دوں ؟ شازیہ نے‬
‫فکر مندی سے پوچھا ‪،،،‬ہاں لگا دو‬
‫ابھی تو ا سکی بڑی ضرورت ہے‪،،‬میں‬
‫نے کہا‪،‬شازیہ نے تیل لگایا اور میں‬
‫نےسعدیہ کی چوت میں ڈال کر آرام‬
‫سے آگے کرنے لگا‪،،‬اب مزہ آیا ہے‬
‫سعدیہ نے کہا۔‬
‫تو میں آرام آرام سے سعدیہ کی چدائی‬
‫کرنے لگا ‪،،،،‬سعدیہ واقعی مزے دار‬
‫تھی ابتک کا تجربہ بتا رہا تھا کہ سعدیہ‬
‫مزے دار ہے‪،،‬رافعہ گرما گرم ہے اور‬
‫شازیہ رومانوی طبیعت کی ساتھی کو‬
‫سمجھنے والی حسینہ ہے جیسے جیسے‬
‫اس نے آگے بڑھنا تھا اس نے بڑے‬
‫مزے دینے تھے‪،‬ایسے سیکس پاٹنر ہر‬
‫بات میں ساتھ ہوتے ہیں‪،‬اور الجواب‬
‫سیکس کرواتے ہیں ‪،،‬کمر سے پکڑے‬
‫میں نے اچھی طرح سعدیہ کی چودائی‬
‫کرتے ہوئے محظوظ ہونے لگا‪،،،‬بڑا‬
‫مزہ آرہا تھا ‪،،‬مجھے سرور آنے‬
‫لگا‪ ،،،،،،‬اور میں اس سرور میں بہنے‬
‫لگا‪ ،،،،،،‬جیسے جیسے سرور بڑھتا‬
‫گیا‪،،‬سعدیہ کا جسم مزہ دیتا گیا میری‬
‫رفتار تیز ہوتی گئی‪،،‬بڑا آسان اسٹال ہے‬
‫مگر اس میں کچھ قباحتیں بھی ہیں‪،‬اگر‬
‫میں گھڑا ہوتا تو بڑا اچھا تھا‪،‬اس میں‬
‫بھر پور اور پوری رفتار سے دھکے‬
‫لگتے ہیں‪،‬لیکن میں بھی مزے میں اتنا‬
‫ہی آگے پہنچ گیا تھا کہ ہوش تب آیا جب‬
‫جھپاک جھپاک کی آواز آئی ‪،،،‬کیا‬
‫کرہے ہو شہزادے‬
‫‪• part⁴¹‬‬
‫‪،،،‬کیا کرہے ہو شہزادے ‪،،‬شازیہ کی‬
‫نے گ ُھرکی دی‪،،‬اوہ ‪ ،،‬مجھے خیال ہی‬
‫نہیں رہا اور میری رفتار تیز ہونے سے‬
‫جسموں کے ٹکرانے کی آواز آنے لگی‬
‫تھی ‪،،،،،،‬کچھ ہوش میں آکر پھر‬
‫چودائی شروع کی اور مزہ لینے‬
‫لگا‪،،،‬سعدیہ کمال کی تھی ‪،‬کہہ نہیں‬
‫سکتا تھا اسے کس چیز سے تشبیہ دوں‬
‫‪،‬اس کے جسم میں لذت چھپی ہوئی‬
‫تھی‪،،‬ایسی لذت جو مدہوش کر دیتی‬
‫ہے‪،‬ہر جسم کااپنا ذائقہ ہوتا ہے جیسے‬
‫چہروں میں انفرادیت ہوتی ہے‪،‬ایسے ہر‬
‫جسم میں بھی اندرونی طور پر مزے‬
‫کی تقسیم ہوتی ہے‪، ،‬ممکن ہے میں‬
‫مزے میں ڈوبا اسی طرح پانی نکال دیتا‬
‫‪،،‬میں تو مزے میں کہاں سے کہاں پہنچ‬
‫گیا کہ سعدیہ مجھے واپس کھینچ‬
‫الئی‪،،،،،،،‬شہزادے کیا بات ہے اچھی‬
‫طرح چودو نہ ‪،،،‬لو بھئی کر لو بات‬
‫‪،،،‬اتنی دیر سے کیا جھک مار رہا ہوں‬
‫‪،،،،،‬کیا مطلب تمھیں مزہ نہیں‬
‫آرہا‪،،‬نہیں جتنا باجی اور رافعہ کو مزہ‬
‫لیتے نظر آیا تھا اتنا مجھے محسوس‬
‫نہیں ہو رہا‪،،،‬سعدیہ پہلی بار کروا رہی‬
‫تھی اسے کیا پتہ کہ مزہ اتنا تھا اوراب‬
‫کم ہوگیا ہے لیکن میں اسکی الجھن‬
‫سمجھ گیا ‪ ،‬عضو باہر نکاال اور اسے‬
‫سیدھا لٹا کر ٹانگیں کھولی اور چوت‬
‫کے پاس بیٹھ کراندر ڈاال اور چدائی‬
‫کرنے لگا‪،،‬اب ٹھیک ہے سعدیہ‪،،،‬میں‬
‫نے اس کے ممے پکڑ کے چودتے‬
‫ہوئے پوچھا‪،،‬بہت اچھا لگ رہا ہے‬
‫سعدیہ نے مجھے گہری نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے کہا‪،،،‬ڈوگی اسٹائل میں‬
‫یہی مسلہ ہے اس میں محسوس تو ہوتا‬
‫ہے لیکن نظر نہیں آتا‪،،‬اب سعدیہ دیکھ‬
‫کر بھی مزہ لے رہی تھی اس طرح مزہ‬
‫دوگنا ہو جاتا ہے ۔۔۔یہ طے تھا کہ‬
‫سعدیہ کا جسم دوسری بہنوں سے زیادہ‬
‫سیکسی تھا ا س میں تڑپ پھڑک تھی‬
‫‪،،،‬اس میں مزہ زیادہ تھا ‪،،،‬مجے یہ‬
‫مزہ چاہیئے تھا‪،،،‬اور میرا دل نہیں کر‬
‫رہا تھا کہ میرا پانی نکلے۔‬
‫سعدیہ کو تو ٹائمنگ گولی کھا کر آرام‬
‫سے چودنا چاہیے ۔فرصت سے اس کی‬
‫چوت سے ملنا چاہیے‪،،،‬بلکہ ساری‬
‫رات ملتے رہنا چاہیے‪،،،،‬انہی خیالوں‬
‫میں چدوائی کرتے ہوئے میں نے باہر‬
‫نکاال اور سعدیہ کے ساتھ جا کر لیٹ‬
‫گیا‪،،‬وہ حیرانگی سے میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی کہ میں اسے پہلو کے بل‬
‫لیٹنے کوکہا‪،،‬اور اسکی کمر سے اپنا‬
‫سینہ لگا کر اسے بانہونمیں جکڑ‬
‫لیا‪،،،‬اسے دبوچا ‪،‬چمیاں شمیاں لیں‪،‬اور‬
‫پھر اس کی ایک ٹانگ اٹھا کے تھوڑا‬
‫نیچے کو کھسک کے اسکی چوت میں‬
‫عضو ڈال دیا‪،،‬ادھر میں نے بازو ا س‬
‫کی کمر کے گرد سے اس کے ممے‬
‫پکڑ لیے ‪،،،‬اور اس کی چدائی کرنے‬
‫لگا‪،،،‬بڑا کمال کا سین تھا‪،،‬میں تقریبا‬
‫سعدیہ پر چڑھا ہوا تھا اور مجھے اس‬
‫کا جسم اپنے جسم میں لپیٹ کر بڑا مزہ‬
‫آرہا تھا‪،،،‬سعدیہ بھی اس اسٹائل میں‬
‫مزہ لینے لگی‪،،،‬اسے مجھ پر جیسے‬
‫پیار آگیا‪،،،‬اور چہرہ میری طرف کیا‬
‫میں نے جھک کر اس کے ہونٹوں پر‬
‫ہونٹ رکھ دیئے‪،،‬اب ایک طرف کسنگ‬
‫تھی دوسری طرف ممے پکڑے ہوئے‬
‫تھے تیسری طرف چدائی ہورہی‬
‫تھی‪،،،‬لیکن چدائی اس میں تھی مشکل‪،،‬‬
‫اسلیے رفتار آہستہ تھی‪،،‬کچھ دیر تو‬
‫میں مزے لیتا رہا ‪ ،‬اور اس مزے میں‬
‫سعدیہ کی چودائی کرتا رہا ‪،،‬اور پھر‬
‫میں نے اسٹائل تبدیل کر لیا ‪،،‬اور اسے‬
‫الٹا لٹا دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس‬
‫کی چوت میں چودنے لگا‪،‬اس کے‬
‫چوتڑوں کو جسم کی دھکے لگنے سے‬
‫اسے اور طرح کا مزہ آ رہا تھا ‪،‬اس‬
‫طرح شہوت بڑھتی ہے اور مزہ دوگنا‬
‫ہو جاتا ہے ‪،‬کچھ لوگ اس مزے کی‬
‫چاہت میں گانڈ مارنے لگتے ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫میرا گانڈ مارنے کا کبھی کوئی ارادہ‬
‫نہیں رہا‪،‬جسے چوت سے فرصت ملے‪،‬‬
‫وہ گانڈ مارنے کا سوچے ‪ ،‬۔‬
‫ویسے بھی گانڈ کی ساخت اور بناوٹ‬
‫ایسی ہے کہ اسے مارنے کا اصلی‬
‫سیکس سے کوئی تعلق نہیں ‪ ،‬یہ تو‬
‫وحشتوں کی تسکین ہے‪،‬اور کیونکہ یہ‬
‫لڑکیوں کی گانڈ مارنے کی وبا یورپ و‬
‫امریکہ سےننگی فلموں کے ذریعے آئی‬
‫ہے اس لیئے جدید سیکس میں یہ ِسکہ‬
‫رائج الوقت ہے وہاں کے لوگوں نے‬
‫عام سیکس سے اکتا کر ایسی ایسی‬
‫باتیں نکال لی ہیں کہ طبیعت پر بوجھ‬
‫بن گئی ہیں ‪،‬فیٹش ‪،‬ہارڈ کور اور اینل‬
‫سیکس تو عام سی باتی ہیں ‪ ،‬پیشاب کو‬
‫ہاٹ کافی کا نام دینا اور پاخانے کو‬
‫کھانا وغیرہ اور فیملی سیکس‪،‬وائف‬
‫سوپینگ یعنی بیویوں کی ادال بدلی اور‬
‫جانوروں کے ساتھ سیکس جیسی قبیح‬
‫ترین حرکتیں سیکس نہیں ہے مگر‬
‫سیکس بن گیا ہے اور جو ان کے خالف‬
‫بات کرے پورن میڈیا کے مارے ذہن‬
‫فورا اس کے خالف ہو جاتے ہیں ‪،‬ہم‬
‫سب من حیث القوم یورپ و امریکہ کے‬
‫احساس کمتری کے مارے ہوئے‬ ‫ِ‬ ‫سامنے‬
‫ہیں‪،‬اور جو وہاں سے ملے ہمارے لیئے‬
‫مقدس بن جاتا ہے ‪،‬خیر میں کوئی‬
‫ناصح نہیں ہوں ‪،‬ہر کسی کی اپنی اپنی‬
‫الئف ہے ‪،‬میں خود سیکس میں ڈوبا ہوا‬
‫ہوں ‪،‬پر میں اپنی مرضی کی زندگی‬
‫جیتاہوں ‪،‬میں پورن میڈیا کے ہاتھوں اپنا‬
‫ذہن یرغمال نہیں بنا سکتا کیونکہ پورن‬
‫فلموں کا مطلب ہے دیکھ کر لذت لینا‬
‫‪،‬اور موویز کو بنایا ہی اس طرح جاتا‬
‫ہے کہ دیکھ کر مزہ آئے ‪،‬اس کے تمام‬
‫اسٹائل بہت مشکل یا ناممکن ہیں‬
‫‪،‬سوائے چند ایک کہ ‪ ،‬اور یہ کہ پونا‬
‫گھنٹا بغیر میڈیسن کے کوئی بھی اتنی‬
‫دیر سیکس نہیں کر سکتا‪،‬پھر ان موویز‬
‫میں اکثریت مرد کا پانی نکالنے پر‬
‫ساری توجہ ہوتی ہے‪،،‬‬
‫‪،،‬عورت جیسے مزہ لینے کا کوئی‬
‫سیکسی ٹوائے ہو‪،‬یعنی ان موویز‬
‫کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ‪،‬ان کو‬
‫فالو نہیں کرنا چاہیئے‪،‬بس ان کو دیکھ‬
‫کر مزہ لیں ۔‬
‫بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ‪،‬میں نے‬
‫سعدیہ کو سیدھا لٹا کر میں نے پھر اس‬
‫کے اندر ڈاال اور چودائی شروع‬
‫کردی‪،‬میں سعدیہ کے جسم کا مزہ‬
‫مختلف طریقوں سے لے رہا تھا‪،،‬سعدیہ‬
‫تم سے دل نہیں بھرے گا اور رات بڑی‬
‫تھوڑی ہے‪،،،‬سعدیہ اتنے میں پورا مزہ‬
‫لے چکی تھی اور وقت اس کا آنے واال‬
‫تھا‪،،،‬میں نے رفتار تیز کی اور ایک‬
‫منٹ میں اس کا پانی نکل آیا‪،‬اچھی‬
‫طرح تسلی سے پانی کے قطرے نکلنے‬
‫کے بعد میں نے تیز جھٹکے مارنے‬
‫شروع کیے اور نہ چاہنے کے باوجود‬
‫میرا بھی پانی نکل آیا ‪،،،‬میری کوشش‬
‫ہوتی ہے کے لڑکی کا پانی پہلے نکلے‬
‫اور میرا بعد میں‪ ،‬اس میں آج تک میں‬
‫ناکام نہیں ہوا‪،،،‬میں لیٹ گیا‪،،،‬میں تھک‬
‫بھی گیا تھا‪،،،‬چہرے پر تھکن کے آثار‬
‫تھے‪،،،‬نازیہ کو اپنی پڑی تھی ‪،،‬کیا ہوا‬
‫شہزادے تھک گئے ہو ‪،،،‬اس نے بڑے‬
‫الڈ سے ہوچھا‪،،‬ہاں یار کچھ دیر آرام‬
‫کرتے ہیں پھراپنی جان نازیہ کو چودوں‬
‫گا‪،،،‬کیا میں دبا دوں شہزادے ‪،‬نازیہ‬
‫مجھ نچھاور ہو رہی تھی دبا تو بڑی‬
‫مہربانی ہوگی‪،،‬میں نے کہا ‪،،‬لو اس‬
‫میں مہربانی کی کیا بات ہے تم اتنے‬
‫خاص ہو نہ ہمارے لیے کہ تمھیں بتا‬
‫نہیں سکتے‪،،‬نازیہ تو میری ٹانگیں‬
‫دبانے لگی‪،،‬اسے چودائی کروانی تھی‬
‫اور میں نے اسے انتظار بھی خوب‬
‫کروایاتھا‪،،،‬لیکن شازیہ کو کیا ہوگیا وہ‬
‫اٹھی اوردوسری ٹانگ دبانے‬
‫لگی‪،،،‬ایسے جذباتی ماحول میں میرا‬
‫گزارا مشکل ہوجاتا تھا ‪،‬انہیں نہیں پتہ‬
‫تھا کہ کہ میں نے آج صبح سے پہلے‬
‫جوسلین کے پاس چلے جاناہے‪،،‬لیکن‬
‫رافعہ ان سب سے علیحدہ تھی وہ‬
‫چودائی کےبعد سے چپ چاپ بیٹھی‬
‫تھی اور پتہ نہیں کس سوچ میں‪ ،‬اب جو‬
‫اس نے دیکھا کہ سعدیہ تو سکون میں‬
‫ہے اور نازیہ اور شازیہ اپنے محبوب‬
‫کو آرام دے رہی ہیں‪،‬تو وہ جھٹ سے‬
‫میرے پاس آگئی اورمجھے چومنا‬
‫شروع کردیا ‪،،‬شازیہ اور نازیہ دونوں‬
‫کے چہرے پر ناگواری آگئی‪،‬لیکن میں‬
‫نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے نارمل‬
‫کیا‪،‬میں کسی لوچے میں نہیں پڑنا چاہتا‬
‫تھا‪،،‬رافعہ جس موڈ میں تھی‪،‬اس میں‬
‫کچھ بھی کرسکتی تھی‪،،‬میں نے پرانے‬
‫سے کالک کی طرف دیکھا سوا ‪ ،‬ایک‬
‫ہو گیا تھا‪،،،،‬اگر چودائی کا حساب‬
‫لگاؤں تو ایک گھنٹہ ہی لگا تھا ااور‬
‫چوما چاٹی کا حساب لگاؤں باتوں کا‬
‫وقت جمع کروں تو دو گھنٹے تو لگ‬
‫ہی گئے تھے‪،،،،‬چار گھنٹےتھے میرے‬
‫پاس ‪،،‬میں نے پانچ بجے یہاں سے نکل‬
‫جانا تھا‬

‫رافعہ نے عجیب کام کیا تھا وہ میرے‬


‫نپل چوسنے لگ گئی تھی‪،‬یہ ایک‬
‫عجیب سیکسی چال تھی ‪،،‬شاید رافعہ‬
‫نے جوابی کام کیاتھا میں نے اس کے‬
‫چوسے اور وہ میرے چوس رہی‬
‫تھی‪،،‬اس نے سمجھا شاید مجھے بھی‬
‫اتنا مزہ آئے گا‪،،،‬اور مجھے مزہ آ رہا‬
‫تھا‪،،،‬میرا دل کر رہا تھا کہ رافعہ‬
‫چوستی رہی‪،‬پہلی بار یہ میرے ساتھ‬
‫ہورہا تھا‪،،‬جوسلین نے بتایا تھا کہ ہر‬
‫انسان کا یک سیکسی بٹن ہوتا ہے‪،‬جس‬
‫کو دبانے سے وہ انسان دل سے گرم‬
‫ہوجاتا ہے‪،‬جیسے کسی کےکان کی‬
‫لو‪،،‬یا کسی کی گردن پر کسنگ‪،،‬یا‬
‫کسی کے پشت پر کسنگ‪ ،،،‬یا پیٹ پر‬
‫یا کہیں اور جوسلین نے کئی بار میرا‬
‫بھی بٹن تالش کرنے کی کوشش کی‬
‫لیکن وہ بٹن آج ملنا تھا۔اور آج مجھے‬
‫گرمی چڑھ رہی تھی‪،،،‬شہزادے اور کیا‬
‫کیا کرتے ہیں اس میں ‪،‬رافعہ نے نپل‬
‫چوستے چھوڑ کر پوچھا‪ ،،‬مزہ کرکرہ‬
‫ہونے کی وجہ سے میں جھال گیا تھا‬
‫میں نے بے اختیار کہا لن کوچوستے‬
‫ہیں ‪،،،‬کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟ چاروں بہنیں چال‬
‫اٹھی لیکن ظاہر ہے آواز دھیمی ہی‬
‫تھی‪،‬ہاں یہ بھی کام کرتےہیں میں نے‬
‫شرارت سے کہا‪،،‬ہم نے تو کبھی نہیں‬
‫دیکھا کہ ابا کا لن امی نے چوسا‬
‫ہو‪،،‬شازیہ شکی انداز میں بولی‪،،‬تم‬
‫لوگو ں نے ابھی دیکھا ہی کیاہے میں‬
‫جھالیا ہوا تھا‪،‬اور کچھ بھی ہوتا ہے اس‬
‫میں‪ ،‬رافعہ نے سنجیدگی سے‬
‫پوچھا‪،‬ہاں گانڈ مارتے ہیں لوگ ‪،،‬اور‬
‫؟رافعہ نے پوچھا‪ ،‬اور بس یہی مختلف‬
‫طریقوں سے چودتے ہ جیسے میں‬
‫سعدیہ کو چودا ‪،‬جیسے شازیہ کو اور‬
‫پھر جیسے تمھیں یہ سب مختلف‬
‫طریقے استعمال کرتے ہیں کچھ اور‬
‫‪،‬کوئی نئی بات بتاؤ‪،‬ہاں ہے ایک نئی‬
‫بات لڑکی لڑکے کو چودتی ہے‪،‬وہ‬
‫کیسے سب بہنیں پھر حیران ہوئی‪،،‬وہ‬
‫ایسے کہ لڑکا سیدھا لیٹا ہو اور لڑکی‬
‫اس کے عضو پر بیٹھ کر اسے اپنی‬
‫چوت میں لے اور پھر اوپر نیچےہو کر‬
‫چودائی کرے‪،‬اگر میں پہلے لن چوسوں‬
‫تواور پھر لن اندر لے کر اوپر نیچے‬
‫ہوؤں تو مجھے چودائی کا موقع ابھی‬
‫ملے گا‪،‬رافعہ سیکسی انداز یں‬
‫بولی‪،،،‬دوسری بہنیں جیسے سکتے میں‬
‫آگئی‪،،،‬پھر شازیہ کوغصہ آگیا‪،،‬اس‬
‫سے پہلے وہ کچھ کہتی میں نے اسے‬
‫روک دیا ‪،‬رافعہ سے مخاطب ہوا‪،،‬بات‬
‫یہ ہے کہ رافعہ میں تین بار چودائی‬
‫کرچکا ہوں اب میں بس ایکبار اور کر‬
‫سکتاہوں وہ بھی تقریبا ایک گھنٹہ آرام‬
‫کرنے کے بعد‪ ،،‬تو ابھی نہیں لیکن کل‬
‫جو تم چاہو گی ویسے کرلینا‬
‫‪،،‬اوکے‪،،‬ٹھیک ہے لیکن کل میں دو‬
‫دفعہ کروں گی ‪،،،‬رافعہ نے جیسے‬
‫باقی بہنوں کودھمکی دی‪،،‬اوکے اوکے‬
‫ٹھیک ہے کل جیسے تم چاہے کرنا‬
‫‪،،،‬لیکن اب میں آرام کروں گا ‪،،‬میں‬
‫نے جیسے اعالن کیا‪،‬تو شازیہ اور‬
‫سعدیہ اٹھی اور اپنے بستروں پر جا‬
‫کرلیٹ گئی‪،‬اس سے پہلے وہ اپنے‬
‫کپڑے پہننا نہیں بھولی تھیں ‪،‬رافعہ کا‬
‫بھی سونا ضروری تھا‪،‬نہیں تو اسے‬
‫گرمی چڑھتی رہنی تھی‪،،‬سو میں نے‬
‫نیچے بنایا بستر اٹھانے کا کہا‪،‬رافعہ اپنا‬
‫بستر اور رضائی لیکر اپنی چارپائی‬
‫پربچھا کر لیٹ گئی‪،‬کپڑے پہن لورافعہ‬
‫‪،‬میں نے اسے آواز دی تو رافعہ نے‬
‫چپ چاپ کپڑے پہن لیے اور لیٹ گئی‪،‬‬
‫نازیہ نے میرے اشارے پر اپنا بستر‬
‫بھی اپنی چارپائی پر بچھا دیا‪،،،‬میں جا‬
‫کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔‬
‫میرے کپڑے جستی پیٹی پر رکھ دیئے‬
‫گئے‪،،‬نازیہ ‪،،،‬کیا بات ہے شہزادے‬
‫‪،‬نازیہ نے پوچھا‪،‬اس کے چہرے پر‬
‫مایوسی تھی ‪،،‬ادھر آؤ یار میری ٹانگیں‬
‫تو دبا دو‪،،‬نازیہ میرے بستر میں‬
‫رضائی میں داخل ہوگئی اور میری‬
‫ٹانگیں دبانے لگی‪،،‬اب صرف میں اور‬
‫نازیہ ننگے تھے‪،‬شازیہ میری بات‬
‫سمجھ گئی تھی‪،،‬میں نے اسے آنکھوں‬
‫سے کہا تھا اور سر کا ہلکا سا اشارہ‬
‫کیاتھا‪،‬وہ سمجھ گئی کہ اب سب کاسونا‬
‫ضروری ہے نہیں تو رافعہ کوئی‬
‫جھگڑا کرے گی‪،،‬کچھ دیر نازیہ میری‬
‫ٹانگیں دباتی رہی‪،‬لیکن اسے سردی لگ‬
‫رہی تھی‪،،،‬کتنی دیر سے ہم سب دو‬
‫رضائیوں میں گزارا کر رہے تھے بلکہ‬
‫ہمیں تو سردی لگ ہی نہیں رہی‬
‫تھی‪،‬میں نے نازیہ کو اپنے ساتھ‬
‫رضائی میں لٹا لیا اور اسے گلے لگا‬
‫لیا‪،،،‬اب تو خوش ہو اب صرف میں اور‬
‫تم‪،،،‬اور ساری رات‪ ،‬جتنا کہو گی‬
‫چودوں گا ‪،‬میں نے نازیہ کے کان میں‬
‫سرگوشی کی‪،‬اوہ میں تو سمجھی تھی‬
‫کہ اب مجھے تم نہیں چودو گے اور‬
‫مجھ سے ابھی تک ناراض ہو‪،،‬نازیہ‬
‫نے مجھ سے لپٹتے ہوئے کہا‪،‬اس طرح‬
‫اس کی سردی کم ہو رہی تھی‪،‬تمھیں‬
‫کیسے نہ چودتا‪،،‬میں تمھاری بہنوں کو‬
‫چھوڑ سکتاہوں لیکن تمھیں نہیں چھوڑ‬
‫سکتا۔۔اچھا ۔۔۔۔۔ایسی کیا بات ہے مجھ‬
‫میں نازیہ اٹھالئی‪،‬اپنی تعریف کسے‬
‫بری لگتی تھی‪،‬کیونکہ تم ان سب سے‬
‫حسین ہو‪،،‬اونہہ میں نہیں‬
‫مانتی‪،،،‬چودائی تو تم سعدیہ کی مزے‬
‫لے لے کررہے تھے‪،‬سعدیہ کاجسم‬
‫سیکسی تھا اس میں مزہ تھا ‪،‬اچھا تو‬
‫میرا جسم مزے واالنہیں ہے‪،‬نازو اب‬
‫سارے انتظار کا غصہ اتار رہی‬
‫تھی‪،،‬نازو میری جان تمھارا جسم بھی‬
‫حسین ہے‪،،،‬تمھارا چہرہ بھی حسین‬
‫ہے‪،‬اور ایسا حسین امتزاج کم ہی‬
‫دیکھنے کو ملتاہےسونے پہ سہاگہ‬
‫‪،‬تمھاری طبیعت شوخ وچنچل ہے‪،‬تم‬
‫میں ادائیں بھی ہیں‪،‬میں تو کل سے‬
‫تمھیں دیکھ دیکھ کر ترس رہا تھا‬
‫‪،‬کرو‪،،،‬کوئی کام بھی کیا کرو‪،،‬نازیہ‬
‫شوخی سے بولی‪،،‬میں اس کا مطلب‬
‫سمجھ گیا تھا ‪،،، ،،‬ٹھیک ہے جناب‬
‫نوکر کیا اور نخرہ کیا‪ ،‬ہم ابھی اپنا کام‬
‫شروع کردیتے ہیں۔۔۔اچھا ایسے مالز م‬
‫ہوتے ہوں تو مالک تو گئے کام‬
‫سے‪،،‬نازیہ کب پیچھے رہنے والی‬
‫تھی‪،‬اچھا میرے ساتھ چلو‬
‫گی‪،،،‬کہاں‪،،‬نازیہ نے پوچھا‪،،‬جہاں میں‬
‫کہوں ‪،،‬کہیں مجھے بھگانے کا تو ارادہ‬
‫نہیں ہے‪،،‬نازیہ نے ہنس کے‬
‫پوچھا‪،،،‬اب وہ میرے ساتھ کل والی‬
‫مولوی کی بیٹی تو لگ ہی نہیں رہی‬
‫تھی۔۔یہ تو کوئی چنچل حسینہ تھی‪ ،،،‬تم‬
‫کل سے لگےتھے میرے پیچھے ‪ ،،‬آخر‬
‫مجھے پھنسا کر ہی چھوڑا ‪،‬نازیہ نے‬
‫پھلجھڑی چھوڑی‪،،‬تو تم کل ہی پھنس‬
‫جاتی نہ‪،،،‬کیوں مجھے اتنا تڑپایا‬
‫‪،،‬کیوں اتنا انتظار کروایا‪،،‬کیا تم بہنوں‬
‫کا دل پتھر کا ہے‪،،،‬شہزادے اگر ہم اس‬
‫طرح پکڑی نہ جاتی تو قیامت تک تم‬
‫ہمیں نہیں پا سکتے تھے‪،،،‬نازیہ انتہائی‬
‫سنجیدگی سے بولی‪،،‬لیکن آخرایسی کیا‬
‫بات ہے جو تم سیکس کی چاہت میں‬
‫ڈوب کر بھی سیکس کرنا نہیں چاہتی‬
‫تھی‪،،،‬شہزادے ہمارے ذہن اسطرح سے‬
‫بنے ہوئے ہیں کہ ہم ایسے کام کا سوچ‬
‫بھی نہیں سکتے‪،،،‬اور پھر ابا کا ڈر‬
‫اتناہے کہ ہم میں کسی کام کی جرات‬
‫نہیں ہے‪،،‬تم نے ابا کی ماریں کھائی‬
‫ہوتی نہ تو پھر تمھیں پتہ چلتا کہ ڈر کیا‬
‫ہوتا ہے‪،،‬اتنی حسین لڑکی‬
‫کومارنےوالے کوئی جالد ہی‬
‫ہوسکتاہے۔‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫چھوڑو اتنی حسین رات خراب نہ‬
‫کرو‪،،،‬تمھیں کچھ کرنابھی آتا ہے کہ‬
‫بس باتیں بنانا جانتے ہو‪،،‬نازیہ نے پھر‬
‫مجھے چھیڑا‪،،‬لگتا ہے تمھیں بڑی‬
‫جلدی ہے میں نےنازیہ کے ہونٹوں پر‬
‫ہونٹ رکھ دیے‪،‬باتیں کرتے آدھے‬
‫گھنٹے سے اوپر ہوگیا تھا‪،،،‬لگتا تھا‬
‫لڑکیاں سو گئیں ہیں‪،‬میں یہی چاہتا تھا‬
‫‪،،‬میں نازیہ کی طرف متوجہ ہوا‪،،،‬میرا‬
‫ایک بازو اس کی گرن کے نیچے‬
‫تھااور دوسرا اس کے اوپر میری ایک‬
‫ٹانگ بھی اس کے کولہوں پر تھی‪،،‬اور‬
‫عضو اس کو چھو رہا تھا ‪،،،‬جوں ہی‬
‫ہونٹوں نے ہونٹوں کو چھوا‪،‬نازیہ بے‬
‫تابی سے ہونٹ چوسنے لگی‪،،‬نازیہ‬
‫‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ نے میرے‬
‫ہونٹ چوسے ‪،‬میرے گال چومے‬
‫‪،،،‬میری گرن‪ ،‬میرے سینے پر پیار‬
‫کیا‪،‬آہستہ آہستہ نازیہ نیچے کھسکنے‬
‫لگی‪،،‬اس کے ہاتھ میں میرا عضو‬
‫تھا‪،،‬اور ہونٹوں کی زد میں میرا جسم‬
‫تھا‪،،‬میرے پیٹ سے ہوتی ہوئی اس نے‬
‫میری ٹانگیں چومی‪،‬بستر میں رضائی‬
‫کے اندر ‪ ،،‬لہریں کھا تی ہوئی ندی بہہ‬
‫رہی تھی ‪،‬ایک بھپرتی اور بل کھاتی‬
‫ندی‪ ،،‬جو ندی ہوتے ہوئے بھی سب‬
‫کچھ بہا لے جانا چاہتی تھی‪،‬مجھے الٹا‬
‫کر میرے اوپر لیٹ کر نازیہ میری کمر‬
‫چوم رہی تھی‪،،‬نازیہ کہاں سے سیکھا‬
‫یہ سب تم نے‪،،‬میں پوچھے بناء نہ رہ‬
‫سکا‪،،‬کبھی ابا اور امی بہت موڈ میں‬
‫ہوں تو امی ایسا کرتی تھی‪،،،‬میں جب‬
‫بھی یہ دیکھتی تو بہت مزہ آتا تھا‪،،‬اور‬
‫دل کرتا تھا کہ میں بھی کسی کو اتنا‬
‫پیار کروں‪،،‬کوئی مجھے بھی اتنا پیار‬
‫کرے‪،،‬ابھی سے شادی کی خوہش ہونے‬
‫لگی تھی‪،،،‬اچھا تو شادی کے خواب تو‬
‫جانے کب پورے ہوں‪ ،،‬میں ا بھی اپنی‬
‫نازیہ کی یہ خواہش پوری‬
‫کردیتاہوں‪،،‬میں نے نازیہ کو نیچے لٹایا‬
‫اور اسکے چہرے سے شروع کیا‪،‬اس‬
‫کے ہونٹوں کو پیار کیا‪،‬اس کی گالوں‬
‫سے اپنا حصہ وصول کیا‪،‬اس کی گردن‬
‫پر سیکسی چمیاں لیں ‪،‬اس کے سینے‬
‫کو ہونٹوں سے چھوا ‪،،‬اور ممے ہاتھوں‬
‫سے مسلے ‪،‬پیٹ کو چوما‪،‬اور رانوں پر‬
‫ہاتھ پھیرے ‪،،‬اس کی کمر کواو پر لیٹ‬
‫کر کمر کو چوما‪،،‬اور پھر سیدھا کر‬
‫کے اس کے ممے چوسنے شروع‬
‫کردیئے‪،‬شہزادے تم نے میری آرزو‬
‫پوری کردی‪ ،،‬کیاہم یونہی ملتے‬
‫رہیں‪،‬گے ہمیشہ‪،،،‬نازیہ کی بات سن‬
‫کے میرا دل کو سنسناہٹ سی ہونے‬
‫لگی ‪،،‬میں نے تو صبح سے پہلے چلے‬
‫جانا تھا ‪،‬میں نے ممے چوستے ہوئے‬
‫عضو کو اس کی چوت کے بظر‬
‫(دانہ)پر رگڑنا شروع کر دیا‪،،‬نازیہ کو‬
‫جذبات سے نکال کر ہیجانی کیفیت کے‬
‫حوالے کردیا‪،،‬نازیہ کا چہرہ شدت سے‬
‫تمتمانے لگا‪،،‬ممے اور بظر کو اکٹھا‬
‫چھیڑا جائے تو لڑکی نے تو بے حال‬
‫ہونا ہی تھا‪،،‬نازیہ بھی اب بے چین تھی‬
‫اور اس کا جسم تپا ہواتھا جیسے بخار‬
‫ہو‪،،‬رضائی ہم اتار چکے تھے‪،‬لیکن‬
‫ہمیں سردی ہمارے پاس بھی نہیں‬
‫تھی‪،،،‬شہزادے اب ڈال دو اپنا‬
‫لن‪،،‬میرابہت برا حال ہے‪،،،‬مجھ سے‬
‫اب اور انتظارنہیں ہوتا‪،،‬جب سے تم‬
‫نے ہمیں چودنا شروع کیا ہے تب سے‬
‫مجھے انتظار کروا رہے ہو‪،،،‬بلکہ میں‬
‫تو پتہ نہیں کب سے انتظار کر رہی‬
‫ہوں۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫آج میری پیاس بجھا دو‪،،،‬شہزادے‬
‫‪،،‬شہزادے‪،،،،‬آجاؤ‪،،،‬نازو میں تم سے‬
‫دور کب ہوں ‪،،‬میں نے چارپائی کے‬
‫پائے ساتھ پہلے سے رکھی تیل کی‬
‫شیشی اٹھا اور اسے اپنے عضو پر‬
‫لگایا‪،،،‬نازیہ کی چادر سے ہاتھ صاف‬
‫کیا اور وہی چادر دوہری تہری کر کے‬
‫نازیہ کی چوت کیلیے بچھا دی‪،،‬نازویہ‬
‫تیار ہو‪،،‬ہاں شہزادے ‪،،‬تیار ہوں ‪،،‬میں‬
‫تو جانے کب سے تیار ہوں‪،،‬ایسی باتوں‬
‫کا مقصد گرمی بڑھانا ہوتا ہے‪،،‬میں‬
‫نازیہ کی ٹانگیں کھولی ‪،‬ان میں بیٹھا‬
‫اور عضو چوت کے اوپر‬
‫رکھا‪،،‬چارپائی کی وجہ سے تھوڑی‬
‫مشکل تھی کیونکہ چارپائی درمیان میں‬
‫وزن پڑنے سے بیڈ کی طرح سیدھی‬
‫نہیں رہتی تھی‪،‬بلکہ ُکھب سی جاتی‬
‫تھی‪،،،‬بہر حال میں نے عضو کو دھکا‬
‫لگایا وہ نرمی سے کچھ اندر چال‬
‫گیا‪،،‬ابھی پردے کی منزل نہیں آئی‬
‫تھی‪،،‬میں نے تھوڑا اور زور لگایااور‬
‫اسےاندر ڈاال ‪،،‬عضو کھسکا اور چوت‬
‫میں آگے چال گیا‪،،‬نازیہ پر جوش تھی‬
‫‪،،،‬میں نے پوری طرح دھکیال اور‬
‫عضو کی دیواروں کو کھولتا ہوا‪ ،‬اندر‬
‫پردے پر جا کر رک گیا‪،،،‬یہی میرا‬
‫طریقہ تھاتب بھی اور آج بھی میں نئی‬
‫چوت کو سہج سہج کر محبت اور نرمی‬
‫سے کھولتا ہوں جیسے کوئی گالب کی‬
‫پتیاں ایک ایک کر کے کھلتی ہیں اور‬
‫پھول بن جاتا ہے‪،،،‬تھوڑا سا عضو کو‬
‫پیچھے کیا‪،‬آگے کیا کچھ چوت کو بتیا‬
‫کہ کوئی آیا ہے اور پھر‪،،،،،‬نازو‬
‫‪،،،،‬جی شہزادے ‪،‬نازیہ نے جذباتی‬
‫انداز میں کہا‪،،‬اندر پردہ توڑنے لگا‬
‫ہوں‪،،‬تیار ہو جاؤ ‪،،‬تیار تو کب سے‬
‫ہوں شہزادے رکو نہ بس چوت کا مالک‬
‫اس میں داخل کردو‪،،‬اور میں نے‬
‫مخصوص جھٹکا مارا جو چوت کو‬
‫چیرتاہوا ندر جا پہنچا۔‬
‫‪Part⁴²‬‬

‫اوئی شزادے ‪،،،،،،،،‬نازیہ سے میرا‬


‫صحیح ا نام بھی نہ لیا گیا‪،،،‬مار دیا رے‬
‫ظالم ‪،،،‬نازیہ درد سے پر مدہم آواز میں‬
‫بولی‪،،‬کب سے تیرا انتظار تھا ‪،،‬اور تو‬
‫تڑپا تڑپا کے آیا میرے پاس‪،،،‬اب‬
‫تجھے کہیں جانے نہیں دوں گی‪،،،‬میں‬
‫نے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے‬
‫اس پر اپنا کچھ وزن ڈال دیا‪،‬اور بڑی‬
‫ہی آہستگی سے باہر کیا‪،‬پھر اندر‬
‫کیا‪،‬پھر باہر کیا‪،‬اور پھر اندر باہر‬
‫کرنے لگا‪،،،‬ہونٹ چومنے سے نازیہ‬
‫کی جذباتی باتیں رک گئی ‪،‬پتہ نہیں‬
‫ایسی جذباتی باتوں سے میرا دل کیوں‬
‫بے چین ہونے لگتا تھا‪،،،‬میرے دل میں‬
‫کہیں نگینہ کا سراپا آجاتا تھا اور دل‬
‫کچھ اور کہنے لگتا تھا‪،،‬میں نے اندر‬
‫باہر کرنے کا کام جاری رکھا اور پھر‬
‫بیٹھ گیا‪،،‬میری چودائی میں روانی نہیں‬
‫آئی تھی‪،،‬اس لیے میں نے اس کے‬
‫پہلوؤں پر ہاتھ رکھے اور تھوڑا جھک‬
‫کر مشق جاری رکھی‪،،‬ویسے دیکھا‬
‫ق ستم نہیں تھی ‪،،‬لیکن‬ ‫جائے تو یہ مش ِ‬
‫ق ستم ہی بن جاتی‬ ‫پہلے پہلے یہ مش ِ‬
‫ق سخن بن جاتی‬ ‫تھی‪،،‬اور بعد میں مش ِ‬
‫ق سخن جاری‬ ‫تھی ‪،،‬اب یہ مش ِ‬
‫تھی‪،،‬شہزادے آج سے یہ جسم تمھارا‬
‫ہے‪،،‬نازیہ پھر بولی‪،‬نازیہ کو چودتے‬
‫ہوئے میرے خیاالت بھٹکنے‬
‫لگےتھے‪،،،‬اس کی باتیں مجھے‬
‫بہکانے لگی تھیں‪،،،‬اس میں اس کے‬
‫جسم کا بڑا عمل دخل تھا‪،،،‬کسی وقت‬
‫میں نے اس سے پہلے صرف ایک‬
‫کنواری لڑکی چودی تھی اور وہ‬
‫سحرش تھی ‪،،‬سحرش کو چودتے ہوئے‬
‫اس وقت میرے دل و دماغ سے نگینہ کا‬
‫خمار اتر گیا تھا‪،،،‬اور میں سحرش کی‬
‫جوانی کاشکار ہو گیا تھا‪،،‬اس کے بعد‬
‫آج رات جب سے میں نے ان بہنوں کو‬
‫چودنا شروع کیا تھا میرے دل و دماغ‬
‫سے جوسلین کا خمار اترنا شروع ہوا‬
‫تھا لیکن میں خیاالت کو کنٹرول کرتا‬
‫رہا‪،،‬اور اب نازیہ نے پھر مجھ پر حملہ‬
‫کر دیا تھا‪،،‬کسی کی دنیا تہس نہس ہوئی‬
‫ہوتو وہ میری سمجھے گا ‪،،‬میں نے سر‬
‫جھٹک کر خیاالت کو دفع کیا‪،،‬اور‬
‫چودائی کی طرف دھیان لگایا‪،،،‬میری‬
‫نظریں نازیہ کے بے مثال جسم پر تھیں‬
‫اور اس وقت عضو اندر تھا جیسے یک‬
‫جان ہوگئے تھے‪،،،‬سرور کی انتہا تھی‬
‫‪،،،‬ایساجسم تو جوسلین کا تو نہیں‬
‫ہے‪،،،‬کیا یہ عمروں کا فرق ہے‬
‫یا‪،،،،،‬نازیہ ہے ہی حسین ترین‪،،‬یا یہ‬
‫کنوارے جسم کی مقناطیسیت ہے‪،،،‬یا‬
‫اس میں کچھ اور بات ہے۔‬
‫ذہن نےباغیانہ خیاالت کو جنم دیا تو‬
‫میں سوچنے لگا یہ میرئے ساتھ کیا ہو‬
‫رہا ہے‪،،‬اس بار میں جوسلین کے‬
‫احسانا ت یاد کرنے لگا ‪،،‬اور دل کو‬
‫کچھ شرم آئی میں نازیہ کے جسم سے‬
‫حظ لینے لگا‪،،،‬کانچ کے جسم ایسے ہی‬
‫تو ہوتے ہوں گے‪،،‬خیا الت کا کیا ہے‬
‫یہ روکے سے کب رکتے ہیں‪،،‬نازیہ‬
‫کی چودائی کسی اور ہی ڈھنگ سے‬
‫ستا رہی تھی‪،،‬مجھے اندازہ نہیں تھا کہ‬
‫میرے خیا الت میرے ساتھ ایسے‬
‫باغیانہ رویہ اختیار کریں گے‪،،،‬میں‬
‫نے نازیہ کے ممے چوسنے شروع‬
‫کردیئے‪،،،‬اور چودائی تیز کر‬
‫دی‪،،،‬عجیب بات تھی جس جسم سے‬
‫کی وجہ سے خیاالت آتے تھے ‪،،‬اور‬
‫پھر اسی کی پناہ میں چال جاتا تھا‪،‬ظاہر‬
‫ہے اس نے تو پھر ستانا ہی تھا بہکانا‬
‫ہی تھا‪،،،‬ممے چوستے ہوئے مجھے بڑا‬
‫سرور آتا ہے اور نازیہ بھی سرور میں‬
‫آگئی تھی‪،،‬شہزادے تمھاری یہ ادا‬
‫مجھے بہت اچھی لگتی ہے‪،،،‬میں پھر‬
‫بیٹھ گیا‪،،‬اب بتانے میں تو کچھ باتیں‬
‫بنانی ہی پڑتی ہیں‪ ،،‬نثری ادب میں ہر‬
‫لکھی ہوئی چیز ‪ ،‬فیکٹ ‪،‬ہوتی ہے یعنی‬
‫حقیقت‪ ،‬یا وہ فکش ہوتی ہے یعنی‬
‫فرضیت ‪،،،‬لیکن کافی عرسے سے ایک‬
‫صنف بھی وجود میں آچکی ہے‬ ‫اور ِ‬
‫اور وہ ہے فیکٹ اور فکشن کا‬
‫مالپ‪،،‬یعنی حقیقت اور فرضیت کا‬
‫حسین امتزاج ‪،‬آج کے دور میں اسے‬
‫فیکشن کہتے ہیں‪،،،‬یعنی ایسی سچائی‬
‫جسے نمک مرچ لگا کہ پیش کیا گیا ہے‬

‫‪،،‬میں بتا تو نہیں سکتا کہ چودائی میں‬


‫کتنا مزہ آیا لیکن کوشش کرسکتا ہوں کہ‬
‫میرے خیاالت میں ہلچل سی مچ گئی‬
‫تھی‪،،،‬نازیہ میں تمھیں دوبارہ ضرور‬
‫ملنے آؤں گا‪،،،‬کیا یہ بھی تو کوئی‬
‫امتحان نہیں ہے؟ میرے اندر سے ایک‬
‫آواز آئی‪،،‬جوسلین جیسی جینئس عورت‬
‫کسی نکتے کو فراموش نہیں کر‬
‫سکتی‪،،،‬اسے پتہ ہو گا کہ کھیل کیسے‬
‫کھیال جائے گا‪،،‬نازیہ تم اوپر بیٹھ کر‬
‫چودائی کر لو گی میں نے اس سے‬
‫پوچھا‪،،‬کیا میں؟ نازیہ حیران ہوئی ‪،،‬ہاں‬
‫تم جیسے میں نے بتایا تھا کہ لڑکی‬
‫لڑکے کی چودائی کرتی ہے‪،،‬‬
‫‪،،‬پاگل‪،،،‬چھری خربوزے پر گرے یا‬
‫خربوزہ چھری پر بات ایک ہی‪،،‬نازیہ‬
‫نے اوپر آتے ہوئے کہا‪ ،‬تو میں‬
‫مسکرانے لگا‪،،‬میں سیدھا لیٹا تو وہ‬
‫میرے عضو پر بیٹھ گئی‪ ،،‬نازو اب‬
‫جیسے بتایا تھا عضو ہاتھ میں‬
‫پکڑو‪،،‬نازیہ نے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی‬
‫چوت اس پر رکھی اور اس پر اپنا وزن‬
‫ڈاال‪،،‬عضو پھسلتا ہوا ا سکی چوت میں‬
‫چال گیا‪،،،‬واہ‪،،‬تم نے بڑی خوبصورتی‬
‫سے کام کیا‪،‬اب اوپر نیچے ہو نا شروع‬
‫کرو‪،،‬نازیہ اوپر نیچے ہونا شروع‬
‫ہوگئی‪،،‬مگر ایک تو نیچے چارپائی تھی‬
‫‪،‬دوسرا وہ نئی نئی اس کام میں آئی‬
‫تھی‪،،‬پھر وہ بھی اوپر نیچے ہونے لگی‬
‫اور میرے خیاالت کا سلسلہ رک‬
‫گیا‪،،‬اس کا جسم اس کے ہلتے ممے‬
‫‪،،‬اسکی چوت کی تنگی‪،،،‬اس کی نین‬
‫نقس‪،‬میرے ذہن میں کھبنے‬
‫لگے‪،،،‬مجھے مزہ آنے لگا‪،،،‬یہ اسٹائل‬
‫بڑا ہی پرلطف اور مزے دار ہے ‪،،‬اس‬
‫میں عضو پر چوت کی گرفت اور تہیں‬
‫ایسے چڑھتی ہیں جیسے‪،،‬کوئی بانہوں‬
‫میں بھنچ کے مار ڈالے گا اور ہم‬
‫خوشی سے مرجائیں گے‪،،،‬میں کچھ‬
‫دیرا سی حالت میں مزہ لیتا رہا اور‬
‫نازیہ کو دیکھتا رہا ‪،،‬نازیہ کچھ ِدقت‬
‫سے دھیرے دھیرے کر رہی تھی ‪،،‬جب‬
‫میں نے دیکھا کہ وہ اتنے سے ہی تھک‬
‫گئی ہے تو میں نے اٹھ کے بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬اسی حالت میں نازیہ کے بازو‬
‫پکڑکے میں بیٹھا تو اب نازیہ میری‬
‫ٹانگوں پر تھی اور اسے پہلے تو گلے‬
‫سے لگا لیا اور سے کمر سے کس لیا‬
‫‪،،‬پھر اسے تھوڑا نیچے کر کے اپنی‬
‫کھلی گود بنا کر اس میں بٹھا لیا‪،،‬اور‬
‫تھورا آگے پیچھے ہونے لگا‪،،‬یہ ایک‬
‫رومانوی اسٹائل ہے اور پرجوش بھی‬
‫ہے‪،،‬مزہ بھی آتا ہے اگر مہارت سے‬
‫کیا جائے تو عضو پورا اندر جاتا ہے‬
‫نہیں تو درمیاں سے ہی ہار مان کر‬
‫واپس آجاتا ہے۔‬
‫اس میں چوت عضو کے سامنے ہونے‬
‫کی بجائے تھوڑی اوپرہو‪،،‬جبکہ لڑکی‬
‫کا جسمانی وزن چوت نیچے کرتا ہے‬
‫بازوؤں کے سہارے میں تھوڑا اونچا‬
‫کیے چودائی کرنے لگا تو نازیہ نے‬
‫اپنے بانہیں میرے گلے میں گردن کے‬
‫گرد ڈال لی‪،،‬واؤ شہزادے کمال کا‬
‫طریقہ ہے میری جان بڑا مزہ آرہاہے‬
‫۔۔بس اب اسی طرح کرتے رہنا جب تک‬
‫سفید پانی نکل آئے‪،،‬حسن کا حکم‬
‫سرانکھوں پر ‪،‬میں نے سر کو تھوڑا‬
‫جھکاتے ہوئے کہا‪،،‬میں اپنے تئیں خود‬
‫کو بہالنے میں کامیاب ہوچکا تھا‪،‬لیکن‬
‫خیاالت ہٹانے کی یہ طریقہ بالکل غلط‬
‫ہے الٹا خیاالت بڑی طاقت سےحملہ‬
‫کرتے ہیں‪،‬ان سے لڑو مت ‪،،‬ان کونظر‬
‫انداز کرو‪،‬میرے اندر سے مارشل آرٹ‬
‫کے استاد کی آواز گونجی‪،،‬اور میں‬
‫نظر انداز ہی تو کر رہا تھا‪،،،‬شہزادے‬
‫‪،،،‬ہوں کیا‪،،،‬کہاں گم ہو‪،،‬نازیہ نے‬
‫حیرانگی سے پوچھا ‪،‬میں مزے میں‬
‫ڈوبا ہواتھا‪،،‬اوہ تو مجھے ساتھ لے کہ‬
‫ڈوبو نہ‪،،‬اکٹھے مرتے ہیں ‪،،‬نازیہ‬
‫انجانے میں پھر دل کے تار چھیڑ‬
‫گئی‪،،‬اسے نہیں پتا تھا کہ میرے اندر تو‬
‫پہلے ہی جنگ چھڑی ہوئی ہے‪،،،‬ایسا‬
‫نہیں کہ میں اس سے محبت کرنےلگا‬
‫تھا بس یہ تھا کہ جوسلین کا جسمانی‬
‫سحر اتر رہا تھااور نازیہ کاجسم مجھے‬
‫قابو میں کررہا تھا‪،‬نازیہ میں تم سے‬
‫ضرور ضرور ملنے آؤں گا آخر مجھے‬
‫خود سے عہد کرنا پڑا‪،،‬جوسلین کی‬
‫اہمیت اپنی جگہ لیکن نازیہ کمال تھی‬
‫اور جوانی ‪،‬کنوارہ پن‪،‬جسمانی‬
‫خوبصورتی‪،‬کشش کا کوئی نعم البدل‬
‫نہیں تھااب کچھ دل کو سکون تھا‪،‬میں‬
‫نے پھر چدائی کی طرف دھیان‬
‫دیا‪،،‬مجھے پتہ ہی نہیں چال اور ہم‬
‫اکٹھے چدائی کررہے تھے یعنی اگر‬
‫میں باہر نکالتا تو وہ بھی کمر کے زور‬
‫پر پیچھے ہوتی اور میں اندر داخل کرتا‬
‫تو وہ بھی آگے ہوتی‪،،‬اس طرح ایک‬
‫ردھم بن گیا‪،،‬‬

‫‪ ،،‬جیسے ساز کی لے پر گا نے کے‬


‫بول جمنے لگتے ہیں‪،‬شہزادے ‪،‬بڑا مزہ‬
‫آرہاہے نازیہ کی آنکھیں بند تھیں‪،،‬اس‬
‫کاایک دفعہ پانی نکل چکا تھا اور میں‬
‫تو چوتھی دفعہ کررہا تھا اسلیے مجھے‬
‫کچھ وقت تو لگناہی تھا‪،،‬اب ٹھیک تھا‬
‫‪،‬اب ہم دونوں کاپانی اکٹھا نکلنا تھا‪،‬اور‬
‫پہلے نازیہ کا نکلنا چاہیئے تھا‪،،،‬میں‬
‫نے اپنی کوشش جاری رکھی‪،،‬تو نازیہ‬
‫نے پہلے سے کسے بازوؤں کا گھیرا‬
‫اور تنگ کردیا‪،‬اور میرے سینے میں‬
‫اس کا سینہ کھب گیا ‪،‬اس طرح گود میں‬
‫کچھ آگے بھی ہوگئی اور چوت عضو‬
‫پر اچھی طرح چڑھ گئی ‪،‬یہ وقت ہی‬
‫ایسا ہوتا ہے ‪،،‬ہمیشہ محسوسات میں‬
‫کچھ ایسا ہوتا ہےکہ دل کرتا ہے‬
‫بازووں میں کس لیاجائے اتنا کس لیا‬
‫جائے کہ مار ہی دیا جائے‪(،‬وصی شاہ‬
‫کا شعر ہے یہ)کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے‬
‫رہنے کے بعد میں پیچھے کو لیٹ گیا‬
‫اور نازیہ میرے اوپر آگی‪،،‬پھر میں نے‬
‫اسے ساتھ لٹا لیا‪،‬ہم کافی دیر ایکدوسرے‬
‫کو محسوس کرتے رہے‪،،‬پھر نازیہ‬
‫اٹھی اس نے نیچے سے چادر‬
‫نکالی‪،،‬اسی ایک چادر پر اب چاروں‬
‫بہنوں کا خون لگا ہوا تھا‪،،‬اس نے‬
‫کناروں سے اپنا جسم صاف کیااور‬
‫پھرمیرا جسم بھی صاف کیا‪،‬چادر کو‬
‫ایک طرف رکھنے کے بعد وہ پھر‬
‫میرے ساتھ لیٹ گئی‪،‬ہم کافی دیر باتیں‬
‫کرتے رہے ‪،‬میرا دھیان گھڑی کی‬
‫سوئیوں کی طرف تھا‪،،‬تین بجنے والے‬
‫تھے‪،،‬نازیہ اب سونا چایئے ‪،‬کیا خیال‬
‫ہے‪،،‬ٹھیک ہے شہزادے جیسے تم‬
‫کہو‪،،،‬نازیہ اٹھ کر کپڑے پہننے‬
‫لگی‪،،،‬کپڑے پہن کے اس کا دھیان‬
‫چادر کی طرف گیا ‪،،‬شہزادے پہلے‬
‫میں اسے دھؤں گی‪،،‬پھر سوؤں‬
‫گی‪،،‬صبح امی کے سامنے تو اسے‬
‫دھونا بہت مشکل ہوجائے گا‪،،‬ٹھیک ہے‬
‫تم اسے دھو لو‪،،‬میں نے اس کی مشکل‬
‫سمجھتے ہوئےکہا۔‬
‫وہ گئی ہی تھی‪،‬کہ رافعہ کے بستر میں‬
‫میں ہلچل ہوئی اور وہ اٹھ کے میرے‬
‫پاس آگئی‪،،‬شہزادے مجھے نیند نہیں‬
‫آرہی‪،،،‬رافعہ نے کہااور میری رضائی‬
‫اتار کے ایک طرف کردی میں نے‬
‫ابھی کپڑے نہیں پہنے تھے‪،،‬میرا عضو‬
‫دیکھ کر جیسے اس کی آنکھیں چمکنے‬
‫لگی‪،،‬میں سمجھ گیا وہ کب سے ہمارے‬
‫اٹھنے کی منتظر تھی‪،‬‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫‪،،،‬رافعہ نے بدمست جوانی میں آؤ‬


‫دیکھا نہ تاؤاور میرے عضو پر ایسے‬
‫جھپٹی جیسے چیل گوشت پر جھپٹتی‬
‫ہے‪،،،‬کچھ ہی لمحوں میں میرا عضو‬
‫رافعہ کے منہ میں تھا ‪،،‬اور رافعہ‬
‫اسے چھچھوری بلی کی طرح چاٹنے‬
‫لگی‪،،،‬میں تھوڑا اٹھ کے بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬کرنٹ لگے تو پھر اٹھنا تو پڑتا‬
‫ہے‪،‬رافعہ ااب اسے منہ میں لو اور‬
‫چوسو‪،،‬رافعہ کو رستہ مل گیااور وہ‬
‫قلفی کی طرح چوسنے لگی‪،،،‬ایک دفعہ‬
‫تو اس نے پورا منہ میں لے لیا‪،،،‬رافعہ‬
‫بدمست جوانی تھی‪،،‬اور میں پہلے بھی‬
‫اندازہ لگا چکا تھا کہ اب اس کی اور‬
‫مولوی کی جنگ ہو ہی ہو‪،،‬اچھی طرح‬
‫چوسنے میں تو رافعہ کو مہارت نہیں‬
‫تھی لیکن اس کے اناڑی پن میں کافی‬
‫مزہ تھا کیونکہ اناڑی پن کی کمی اس‬
‫کا جوش پورا کر رہا تھا۔۔کچھ ہی‬
‫لمحوں میں عضو صاحب بدمست‬
‫ہوگئے اور پوچھا کہاں ہے چوت‪،،،‬میں‬
‫نے کہا یہ رافعہ آئی ہے‪،،،‬اوہ‪،‬اسکو‬
‫چودوں گا چودوں گا‪،،،‬چلو اس کو‬
‫چودتے ہیں میں نے سوچ لیا کہ اس‬
‫کےساتھ کیا کرنا ہے‪،،،‬میں اٹھا ننگے‬
‫جسم میں گرمی بھری ہوئی تھی‪،،‬رافعہ‬
‫کوپکڑا اور اسے دیوارکے پاس جاکر‬
‫ہاتھ اس کے دیوار پر ٹکائےتھوڑی‬
‫ٹانگیں پیچھے کی اور گانڈ کو باہر‬
‫نکاالاور چوت کو پھانکیں کھول کے‬
‫اس میں عضو ڈاال اور دے دھکے پہ‬
‫دھکا۔‬
‫میں اسے کہہ چکا تھا کہ رافعہ اگر‬
‫تمھاری چیخ نکلی تو ہم سب مارے‬
‫جائیں گے‪،،‬یقینا رافعہ کے ہونٹ‬
‫بھنچے ہوئے تھے ‪،،‬کیونکہ اس وقت‬
‫میں غصے میں تھا ‪،،‬غصہ اندر تھا اور‬
‫نکال باہر رہا تھا‪،،،‬رافعہ کو ابھی پتہ‬
‫نہیں تھا کہ چوت کا ستنانا سبھی ہوجاتا‬
‫ہے ایسے شوق میں‪،،‬بہر حال ا سکے‬
‫پہلو سے پکڑے میں نے شدت سے‬
‫دھکے لگانے جاری رکھے‪،،،‬چند بار‬
‫تو وہ دیوار سے جا لگی‪،،،‬میرے خیال‬
‫میں کم از کم پندرہ منٹ تونازیہ کو‬
‫چادر دھونے میں لگ ہی جانے تھے‬
‫کیونکہ ا س پر کافی خون لگا تھا‬
‫اورکافی دیر سے لگا تھا ‪ ،‬اتنے میں‬
‫رافعہ کوفارغ کر دینا تھا‪،‬اوہ ‪،،،‬اوہ مزہ‬
‫آ گیا رافعہ نے بمشکل کہا‪،،،‬مگر‬
‫مجھے پتہ تھا وہ خود کو چودکڑ ثابت‬
‫کر رہی ہے ‪،‬جبکہ اس کی ہوا نکل رہی‬
‫تھی‪،،‬اور ساری شدت چوت سے نکل‬
‫رہی تھی‪،،،‬رافعہ ‪،‬کل کا دن ذرا چلنے‬
‫پھرنے میں مشکل ہوگی بس‪ ،‬لیکن‬
‫تمھیں ایسا مزہ آئے گا کہ پھر اس مزے‬
‫کیلیے تڑپو گی ۔رفتار اور اور طاقتور‬
‫دھکا ‪،،‬تال میل سے ہوتی چودائی‪،،،‬اب‬
‫رافعہ نے ایک ہاتھ دیوار سے ہٹا کر‬
‫منہ پر رکھ لیا اس سے ایک تو یہ ثابت‬
‫ہو گیا کہ اس سے چیخیں روکی نہیں‬
‫جارہی تھیں اور دوسرا اس کے دیوار‬
‫کا سہارا کمزور ہوگیا تھا‪،،،‬جو میرا‬
‫ہاتھ اس کے پہلو پر تھا وہ میں نےآگے‬
‫کر کے اس کے پیٹ کے گرد رکھ‬
‫دیااور اسے سہارا دیا ‪،،‬کیونکہ اس‬
‫دوران وہ دو بار دیوار کی طرف پریس‬
‫ہوچکی تھی اور بمشکل بچی‬
‫تھی‪،،‬کیوں کیسا لگا رافعہ ڈارلنگ ‪،‬‬
‫‪،،‬مزہ آرہا ہیے نہ ؟‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫‪،،‬رافعہ نے سر ہال کر بتایا کے اسے‬
‫مزہ آرہا ہے‪،،،‬درد بھرا مزہ‪،،‬میں نے‬
‫رفتاربڑھا دی‪،،‬مجھے پتہ تھا اس میں‬
‫زبردست رگڑ لگ رہی ہے‪،،،‬اور جلد‬
‫پانی آنا متوقع ہے‪،،‬رافعہ درد تو سہہ‬
‫رہی تھی لیکن اس سے درد بھری آہیں‬
‫نہیں روکی جارہی تھی‪،،‬اچانک اس نے‬
‫مجھے روکے بناء دوسرا ہاتھ بھی اپنے‬
‫منہ پر رکھ لیا‪،‬جیسے چیخیں زبردستی‬
‫باہر نکلنے کوبے تاب ہیں‪،،‬ادھر میرا‬
‫دھکا لگا اور اس کا پیٹ دیوار کی‬
‫طرف گیا ‪،‬لیکن میں نے اسے روک لیا‬
‫نہیں تو اس نےدیوار کےساتھ پریس‬
‫ہوجانا تھا‪،،‬تم کہو تو میں روک دوں‬
‫میں نے شرارت سے پوچھا‪،،‬ڈھیٹ‬
‫رافعہ نے نہ میں سر ہالیا میں نے بھی‬
‫کب رکنا تھا اور چڑھائی جاری‬
‫رکھی‪،،،‬اب اس کی روکنے کے باوجود‬
‫چیخیں نکلنے لگی لیکن بس اتنی‬
‫جیسے کوئی کراہ رہا ہو‪،‬رافعہ ڈارلنگ‬
‫چیخ نہ نکلے نہیں توا با آجائے گا میں‬
‫نے پھر سرگوشی کی‪،،،‬اور رافعہ نے‬
‫سر ہال دیا‪،،،‬میرے حساب سے اس کا‬
‫پانی نکلنے ہی واال تھا‪،،‬تقریبا پندرہ‬
‫منٹ میں اس کا بھرتا بن گیا تھا‪،،‬اسے‬
‫اگر یہ پتہ ہوتا کہ میں کون ہوں اور‬
‫میری استاد کیا ہے تو وہ مجھے چدائی‬
‫کا اتنا اشتیاق کبھی نہ دکھاتی‪،،،‬دے‬
‫تیرے کی‪،،،‬اور‪،،،،،،،،‬رافعہ کی بس‬
‫ہوگئی ‪،،‬میں تو پہلے ہی ہوشیار‬
‫تھا‪،،،‬اور اس کی کمر اپنے سینے سے‬
‫لگا لی تھی‪،،‬جیسے ہی وہ گھٹی گھٹی‬
‫آواز میں چیخی میں سمجھ گیا کہ اب‬
‫اس سے چیخ روکی نہیں جائے گی اور‬
‫میں نے بروقت اس کے منہ پر ہاتھ رکھ‬
‫دیا کیونکہ درد کے جھٹکے نے اس‬
‫کے ہاتھ گرا دیئے تھے‪،،،‬خیریت‬
‫گزری اور ایک سیکنڈ کے فرق سے ہم‬
‫بچ گئے ‪،‬میں نے تو نکل جاناتھا‪،،‬مگر‬
‫لڑکیاں قتل ہوجانی تھی‪،،‬میں نے اب‬
‫بھی دھکے لگانے جاری رکھے اب اس‬
‫کی کمر میرے سینے سے لگی تھی اس‬
‫لیے اسٹائل ذرا تبدیل ہوگیا تھا کیونکہ‬
‫دھکا اندر پورا نہیں جارہا تھا۔۔۔‬
‫لیکن ‪،،،،،،،،،،،‬رافعہ ناں میں بمشکل‬
‫سر ہال رہی تھی‪،،‬اس کا منہ تو میری‬
‫پکڑ میں تھا‪،،‬اس کی بس ہوگئی تھی‬
‫‪،،‬اور اسکا پانی بھی نکل گیا تھا لیکن‬
‫میں نے دھکا زور سے لگایا ‪،،‬اور پھر‬
‫لگایا ‪،،‬پھر لگایا ‪،،،‬اور لگاتا گیا‪،،‬میرے‬
‫ہاتھوں پر نمی سی محسوس‬
‫ہوئی‪،،‬رافعہ رو رہی تھی‪،،،‬بس میرا‬
‫کام بھی ہونے واال تھا‪،،‬مجھے سنسناہٹ‬
‫سی محسوس ہوئی تو میں نے آخری‬
‫دھکا لگایااور رافعہ کی چوت میں پانی‬
‫چھوڑ دیا‪،،،،‬آخری دھکے کچھ کم تھے‬
‫کیونکہ اس کے پانی رگڑکم ہوگئی‬
‫تھی‪،،،‬کچھ دیرمیں اسی طرح اندر ڈالے‬
‫کھڑا رہا ‪،،‬رافعہ کاجسم کانپ رہاتھا‬
‫‪،،‬پھر میں علیحدہ ہوگیا اور اس کے منہ‬
‫پر ہاتھ رکھے ہوئے اس کے سامنے‬
‫آگیا‪،،‬اور رافعہ کوگلے لگالیا‪،،،‬کچھ دیر‬
‫اسے ہاتھ وغیرہ پھیرا‪،،،،‬جب مجھے‬
‫یقین ہوگیا کہ اب چیخیں نہیں نکلیں گی‬
‫‪،‬میں نے ہاتھ ہٹا لیا‪،‬‬
‫‪• Part⁴³‬‬
‫‪،،‬اب خوش ہو رافعہ ‪،‬میں نے اس کے‬
‫کان میں پوچھا‪،،،،،‬ڈھیٹ رافعہ نے‬
‫سرہال دیا‪،،‬ہاں بہت خوش ہوں بڑی‬
‫مشکل سے اس کی آواز نکلی‪،،‬میں دل‬
‫ہی دل میں ہنس پڑا‪،،‬اب تم آرام‬
‫کرو‪،،‬میں نے اس کے پہلو سے پکڑ‬
‫کر ساتھ لگایااور چالتاہوا اس کے بستر‬
‫تک الیااور اورآہستگی سے اسے لٹا‬
‫دیا‪،،‬اس کے ہونٹوں پر آخری چومی‬
‫لی‪،،‬بہت ظالم ہو‪،،‬رافعہ کہے بناءرہ نہ‬
‫سکی‪،،‬آرام کرو باقی مزہ کل لیں‬
‫گے‪،،‬میں نے اسے دہالیا‪،‬چودائی کی‬
‫پہلی عمر کو سالم ‪ 16،،،،،،‬برس کی‬
‫بالی عمر کو سالم‪،،‬اب بالی عمر‬
‫سنجیدہ ہوجائے گی اور اپنی چوت کا‬
‫خیال رکھے گی‪،‬کل رات تک اسے آرام‬
‫آجائے گا‪،،،‬یہ تھا وہ ہنر جو میں نے‬
‫سیکھا تھا‪،‬اور جانے کیا کچھ سیکھا‬
‫تھا‪،،،،،،‬اب میں بھی کپڑے پہننے‬
‫لگا‪،،،‬اتنے میں نازیہ آگئی‪،،‬چادر‬
‫اسکے ہاتھ میں تھی اور اس سے پانی‬
‫ٹپک رہا تھا‪،،،‬سردی کی وجہ سے‬
‫چادر اس سے نچوڑی نہیں گئی‬
‫تھی‪،،،‬میں نے اس کے ہاتھ سے چادر‬
‫لیکر کمرے میں پیچھے گیا‪،،‬اور چادر‬
‫کو مڑوڑ ا دے کر نچوڑنے لگا‪،،،‬‬
‫اچھی طرھ نچوڑنے کے بعد میں نے‬
‫چادر نازیہ کوتھما دی‪،،،‬اس نے اسے‬
‫جستی پیٹی پر پھیال دیا‪،،،‬نازیہ نے‬
‫کپڑوں پر سردی سے بچنے کیلی کچھ‬
‫نہیں پہنا تھا‪،،‬اسے سردی لگ رہی‬
‫تھی‪،،‬بلکہ وہ کپکپا رہی تھی‪،‬میں تو‬
‫کپڑے پہن چکا تھا‪،‬میں نے اسے ساتھ‬
‫ہی لپٹا لیا‪،،‬اور رضائی اوپر لے‬
‫لی‪،،‬نازیہ کی سردی کم ہونے‬
‫لگی‪،،‬اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے‬
‫پیچھے کیاطوفان گزر چکا تھا ‪،‬میں‬
‫نازیہ کے بالوں میں انگلیاں پھرنے‬
‫لگا‪،‬اسکا سینہ میرے سینے پر پڑا تھا‬
‫اور میں دیوار کی طرف ٹیک لگا کر‬
‫لیٹا تھااور میرے اوپرلیٹی تھی ہمارے‬
‫چہرے آمنے سامنے تھے‪،،‬ہم دھیمے‬
‫دھیمے پیار بھری باتیں کرنے‬
‫لگے‪،،‬ساڑھے چار بج گئے‪،،،‬نازیہ تم‬
‫سے ایک ضروری بات کرنی ہے‪،،‬میں‬
‫سنجیدہ ہوگیا۔‬

‫کیا بات کرنی ہے نازیہ میرے لہجے پر‬


‫چونکتے ہوئےپوچھا‪،‬میں نے تمھیں بتایا‬
‫تھا کہ میرا ایک دوست ہے یہاں الہور‬
‫میں ‪،‬جو میرا کالس فیلو بھی رہا‬
‫ہے‪،،‬ہاں تم اس سے ملنے کیلیے ہی تو‬
‫الہور آئے تھے‪،‬نازیہ کویاد تھا‪،،،‬ہاں‬
‫وہی دوست ‪،،‬وہ صبح صبح جوکنگ‬
‫کرنے کا شوقین ہے‪،،،‬میں سوچ رہا‬
‫ہوں کی اس وقت اس کی کیا نگرانی‬
‫ہوگی‪،،‬ایک موقع لے لینا چاہیئے اور‬
‫جوکنگ کرتے وقت اس سے ملنے کی‬
‫کوشش کرلینی چاہیے‪ ،،‬کیا خیال ہے‬
‫تمھارا ؟ہاں ٹھیک ہے تم اس سے ملو‬
‫اسوقت‪،‬کوئی پتہ نہیں مالقات ہو ہی‬
‫جائے‪،‬تو ٹھیک ہے میں ابھی کچھ دیر‬
‫بعد نکل جاتاہوں‪،‬اگر تو وہ مجھے مل‬
‫گیا تو میں اس کے پاس ہی ٹھہر جاؤں‬
‫گا‪،‬اور اپنے چچا سے لندن میں رابطہ‬
‫کرنے کی کوشش کروں‪،‬اور اگر وہ نہ‬
‫مال تو میں واپس آجاؤں گا‪،‬ہاں ٹھیک‬
‫ہے‪،‬نازیہ آہستگی سے کہا‪،،،‬مجھے پتہ‬
‫تھا اس نے اداس ہونا ہی تھا‪،،‬پر نہ بتا‬
‫کرجانے سے اچھا تھاکہ میں بتا‬
‫کرجاؤں‪،‬نازیہ چچاسے ملنے کے بعد‬
‫جب یہاں حاالت ٹھیک ہوجائیں گے میں‬
‫تم لوگوں سے رابطہ کروں گا‪،‬یا ہوسکتا‬
‫ہے پہلے ہی رابطہ کر لوں‪،،‬شہزادے‬
‫کیا ایسے نہیں ہوسکتا کہ تم کل تک‬
‫رک جاؤ‪،،‬نازیہ نے میرے سینے پر سر‬
‫رکھتے ہوئے کہا‪،،،‬اسطرح وہ اپنے‬
‫آنسو چھپارہی تھی‪،،‬نازو میری‬
‫جان‪،،‬دشمنوں کا کوئی پتہ نہیں وہ بہت‬
‫طاقتور ہیں ‪،‬اور ان کے پاس بہت سے‬
‫بندے بھی ہیں‪،‬وہ مجھے ڈھونڈتے‬
‫ہوئے یہاں بھی پہنچ سکتے‬
‫ہیں‪،،،‬مجھے اپنی فکر نہیں لیکن‬
‫تمھارے ابا اور امی‪،،‬اور خاص کر تم‬
‫بہنوں سے انہوں نے اچھا سلوک نہیں‬
‫کرنا‪،،‬اب تم جیسے کہو میں کر لوں‬
‫گا‪،،‬کل تک رکنا ہے خطرناک‪،،‬بلکہ‬
‫ایک ایک لمحہ خطرناک ہے‪،،‬ٹھیک‬
‫ہے تم آج ہی چلے جاؤ۔وقت ضائع نہیں‬
‫کرنا چاہیئے‪،،‬نازیہ نے اداسی اور‬
‫بےچارگی سے کہا‪،‬مجھے اندازہ ہوگیا‬
‫کہ وہ مجبورا جانےکو کہہ رہی‬
‫ہے‪،،‬لیکن تم ایک وعدہ کرو اگر‬
‫تمھارے دوست سے مالقات نہ ہوسکی‬
‫تو واپس یہیں آجانا‪،،‬لو کرلو بات ‪،،‬یہ‬
‫بھی کوئی کہنےکی بات ہے‪،،‬ٹھیک ہے‬
‫شہزادے ‪،،‬خداکرے تمھاری مشکل‬
‫آسان ہوجائے‪،،‬نازیہ نے پھر اپنا چہرہ‬
‫میرے سینے میں چھپا لیا‪ ،،‬ہم کچھ دیر‬
‫بعد اٹھے میں نے جوگرز پہنے‪،،‬جیکٹ‬
‫پہنی‪،،‬اور جانے کیلیے تیار ہوگیا‪،،‬ایک‬
‫بات اور نازیہ‪،،،‬اگر تمھیں یا تمھاری‬
‫کسی بہن کو اس دفعہ ماہواری نہ آئے‬
‫تو پریشان نہ ہونا‪،،‬اور فوری طور پر‬
‫مجھ سے رابطہ کرنا‪،،‬رابطہ کیسے‬
‫کرنا ہے‪،،‬نازیہ میری بات سمجھتے‬
‫ہوئے پریشانی سے کہا‪،،،‬میں تمھیں‬
‫ایک فون نمبر لکھ دیتا ہوں ‪،،‬اس پر تم‬
‫مجھ سےرابطہ کرسکو گی‪،،‬باقی میں‬
‫سنبھال لوں گا‪،،‬لیکن اگر تم لندن‬
‫چلےگئےتو کیاہو گا ہمارا؟ نازیہ‬
‫پریشان ہوگئی تھی‪،،‬نہیں میں لندن نہیں‬
‫جاؤں گا۔‬
‫میں نے ایک کاغذ پر نمبر لکھتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫جو ابھی نازیہ نے مجھے پکڑایا تھا‬


‫‪،،،،‬میں چچا کو یہیں بلواؤں گا‪،،‬اور‬
‫آدمی اکٹھے کر کےاپنے سوتیلے چچا‬
‫سے اپنی جائیداد لوں گا‪،‬تم بےفکر‬
‫ہوجاؤ بس رابطہ کرنے کی دیر ہے‬
‫پھردیکھنا میں کیسے پہنچتاہوں۔۔ٹھیک‬
‫ہے نازیہ نے اداسی اور پریشانی کی‬
‫ملی جلی کیفیت میں کہا‪،‬میں نے نازیہ‬
‫کو گلےلگایا اور اس کیاایک طویل کس‬
‫لی‪،،‬اور دروازے سے باہر نکال‪،،‬ایسا‬
‫منظر ایک دفعہ میری زندگی سے پہلے‬
‫بھی گزرچکا تھا جب میں سحرش سے‬
‫رخصت ہوا تھا لیکن پھر میں پلٹ کر‬
‫اس کے پاس نہیں گیا‪،،‬ہاں جب میں‬
‫نگینہ کا پتہ کرنے وہاں گیا تو سحرش‬
‫کے گھربھی گیاتھا تو پتہ چال تھا اس‬
‫کی اس کی شادی ہوگئی تھی اور میں‬
‫نے اندازہ لگایا کہ چودائی ملنے کے‬
‫بعد بہت خوش ہوگی‪،‬لیکن اب میں نازیہ‬
‫سے ملنے کیلیے واپس آناچاہتاتھا‪،‬باہر‬
‫نکال تو نازیہ دروازے میں کھڑی‬
‫ہوگئی‪،،،‬شہزادے اس نے مجھے آواز‬
‫دی‪،،‬میں نے مڑ کردیکھا تو بھاگتی‬
‫ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ‬
‫گئی‪،،‬سنسان گلی میں اندھیرا تھا‪،‬لیکن‬
‫اس کی تڑپ اور گلی میں آنا کوئی عام‬
‫بات نہیں تھی‪،،‬پھر بھی میں نے اسے‬
‫علیحدہ کیا‪،‬نازیہ ایسے مت کرو نہیں تو‬
‫میں جانہیں سکوں گا‪،،‬نازیہ نے چپ‬
‫چاپ میری ایک ُچمی لے کے دروازے‬
‫میں جاکر کھڑی ہوگئی اور میں چلتا ہوا‬
‫گلی سے نکل گیا‪،،‬مجھے یقین تھا جب‬
‫تک میں مڑ نہیں گیا تھاوہ مجھے‬
‫دیکھتی رہی تھی‪،‬میں روڈ پر آکر میں‬
‫جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیکر پیدل ہی‬
‫چلنے لگا‪،،‬کسی سواری کاانتطار فضول‬
‫تھا‪،،‬دس منٹ بعد مجھےایک آٹو رکشہ‬
‫نظر آیا ‪،،‬میں نے اسے ہاتھ دیا تو وہ‬
‫رک گیا‪،،‬فلیٹ کا ایڈریس بتا کہ میں اس‬
‫میں بیٹھ گیا‪،،‬اب مجھے پیسوں کی‬
‫پرواہ نہیں تھی‪،‬کرایہ گھر پہنچ کے‬
‫جوسلین دے دی گی‪،،‬میں نے آنکھیں‬
‫بند کر کے پیچھے ٹکا لی‪،،‬اور نازیہ‬
‫کاسراپا میری آنکھوں کے سامنے‬
‫آگیا‪،،‬گھبرا کے میں نے آنکھیں کھول‬
‫دی‪،‬‬
‫سبب جو ڈھونڈو گے‪--‬تو عمریں بیت‬
‫جائیں گی‬
‫کہا نہ ‪---‬یاد آتے ہو ‪--‬تو بس یاد آتے‬
‫ہو‪،‬‬
‫میں خود کو جوسلین کے خیالوں سے‬
‫بہالنے لگا‪،،‬جوسلین میرا نتظار کررہی‬
‫ہوگی‪،‬ہوسکتا ہے جیسے ہی آٹورکشہ‬
‫فلیٹ کے دروازے پر رکے وہ باہر نکل‬
‫آئے‪،،‬وہ مجھے پوچھے گی سوراخ کب‬
‫اور کیسے مال‪،،‬یقنا ا سے دیوار کے‬
‫سوراخ کاپتہ ہوگا‪،،،‬اوور اس سوراخ‬
‫میں ہی وہ سبق لکھا ہےجو مجھے‬
‫ساری عمر یاد رہے گا‪،،،،‬وہی‬
‫ہوا‪،،‬جیسے ہی آٹو رکشہ فلیٹ کے‬
‫سامنے رکا‪،،‬فلیٹ کادروازہ کھالاور‬
‫جوسلین باہر نظر آئی‪،،‬اسنے چپ چاپ‬
‫رکشے والے کوکرایہ ادا کیا‪،،‬اور میرا‬
‫ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے آئی‪،،‬اندر‬
‫آتے ہی اس نے دروازہ بند کیااور‬
‫میرے گلے لگ گئی‪،،‬میں نے بھی اس‬
‫کے گرد بازوؤں کا گھیراڈال دیا‪،‬ہم نے‬
‫ایک طویل کس لی‪،،‬اور پھر بیڈروم میں‬
‫آگئے‪،،‬نہالو‪،‬اس نے کہااور میں باتھ‬
‫روم میں جاگھسا‪،،‬گرم پانی سےاچھی‬
‫طرح جی بھر کے نہایا ‪،،‬میں روز‬
‫نہانےکا عادی تھا لیکن ایکدن نہیں نہایا‬
‫تھا ‪،‬اب طبیعت کوسکون آگیا‪،‬نہاکے‬
‫نکال تو جوسلین نے میرے پاجامہ اور‬
‫ٹی شرٹ نکال دی تھی‪،،‬وہ پہن کر میں‬
‫ایزی فیل ہوگیا‪،‬جوسلین میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی‪،،‬دودھی مل گیا تھا‪،،‬ایں ‪،،‬میں نے‬
‫کہا کہ دودھی مل گیا تھا ‪،‬جوسلین نے‬
‫دوبارہ پوچھا ‪،،،‬ہاں مل گیا تھا‪،،‬اور بس‬
‫میں کرائے کیلیے کیاکہا تھا ؟اسٹوڈنٹ ؟‬
‫جوسلین نے اگال سوال کیا‪،،‬ہاں یہی کہا‬
‫تھا میں نے مسکراتے ہوئے کہا‪،،،‬اور‬
‫اگر تم بھاگ کے نہ جاتےتو مولوی‬
‫دروازے میں داخل ہوتے ہوئے نہیں‬
‫ملنا تھا اس طرح سنہری موقع تم‬
‫نےضائع کردیناتھاجو کہ تم نے نہیں‬
‫کیا‪،،،‬تو‪،‬جوسلین رک گئی‪،،،،،‬تو کیا ؟‬
‫میں نے پوچھا‪،،،،‬تو پھر سارے حربے‬
‫آزما کہ کب پتہ چال کہ یہ لڑکیاں نہیں‬
‫پھنسے گی‪،،،‬اسی دن رات کو‪،،،،‬جب‬
‫ان کے ساتھ کمرے میں سوئے‬
‫تھے‪،،‬جوسلین شرارت سے‬
‫مسکرائی‪،،‬ہاں میں نے مختصر جواب‬
‫دیا‪،،،‬اور ۔۔۔۔۔دیوار میں سوراخ کا کب‬
‫پتہ چال‪،،‬اگلے دن شام کو‪،،،‬میں نے اس‬
‫کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے‬
‫بتایا‪،،،‬میرے پرنس تم کامیاب‬
‫ہوگئے‪،،‬اب تمھاری خوہش کے مطابق‬
‫کل سے اگال پروگرام شروع ہو جائے‬
‫گا‬

‫‪،،‬تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ ہر شخص‬


‫ساری دنیا سے بچا کہ بلکہ اپنے آپ‬
‫سے بھی بچا کے اپنی دھلی دھالئی‬
‫زندگی میں ایک سوراخ بناتا ہے‬
‫‪،،،‬جس سے وہ سیکس کا مزہ حاصل‬
‫کرتا ہے ‪،،،‬بڑے بڑے شریف لوگ‬
‫‪،،،،،،‬بڑی بڑی پگڑیوں والے ‪ ،،،،‬بڑی‬
‫بڑی ڈگریوں والے ‪،‬امیر اور غریب‬
‫لوگوں کو تم انہیں اس سوراخ کے بغیر‬
‫کبھی بھی جان نہیں سکو گے‪،،،،‬ہاں یہ‬
‫بات میں آج صبح تمھاری طرف آتے‬
‫ہوئے سمجھ گیا تھا‪ (،،،‬پھر ساری‬
‫زندگی میرا یہ اصول بن گیا کہ سب‬
‫سے پہلے اس کی زندگی میں وہ‬
‫سوراخ ڈھونڈا جائے جو اس نے ساری‬
‫دنیا سے چھپا کربنایا ہوا ہے‪،‬ٹھیک‬
‫ایسے ہی جیسے کمرے میں رکھا‬
‫کمپیوٹر بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل آج‬
‫کے دو بڑے سوراخ ہیں‪)،،‬پرنس ایک‬
‫بات اور ہوجائے‪،،،‬جوسلین کچھ سنجیدہ‬
‫تھی‪،،،،‬کیا‪،‬میں اس کی سنجیدگی دیکھ‬
‫کر سمجھ گیا کوئی بہت خاص بات‬
‫ہے‪،،‬تم نےاپنی ٹیچر پر بڑی ٹرائی‬
‫کی‪،،،،،‬جو مجھ سے سیکھا وہ اس پر‬
‫آزمایا‪،،‬لیکن اسے حاصل نہ‬
‫کرسکے‪،،‬میری دل کی دھڑکن تیز‬
‫ہوگئی‪،،‬آج یہ بات بھی دل پرلکھ لو کہ‬
‫کسی بھی لڑکی کو اس کی مرضی کے‬
‫بغیر تم کبھی حاصل نہیں‬
‫کرسکتے‪،،،‬چاہے وہ تمھاری کشش کی‬
‫شکار تمھیں چاہنے لگے‪،،‬چاہے تم اس‬
‫کو اعضاءکو جتنا مرضی‬
‫چھیڑو‪،،‬چاہے وہ دل سے کرنا بھی‬
‫چاہتی ہو‪،،‬چاہے وہ تمھارے ساتھ تنہا‬
‫بھی ہو‪،،‬تم اسے کبھی نہیں پاسکتے‬
‫جب تک وہ خود نہ چاہے‪،،،‬تم‬
‫‪،،،،،‬کسی ‪،،،،،‬لڑکی ‪،،،،‬کو ‪،،،،،،،‬اس‬
‫‪،،،،‬کی‪،،،،،،‬مرضی‪،،،،‬کے ‪،،،،،‬بغیر‬
‫‪،،،،،،‬کبھی‪،،،،،‬حاصل‪،،،،،،‬نہیں‪،،،،،‬کر‬
‫‪،،،‬سکتے‪،،،،،‬سم جھ گئے‪،،،‬وہ ٹیچر‬
‫میری شاگرد تھی اور ذہین شاگرد‬
‫تھی‪،،،‬مجھے پتہ تھا تمھارے منہ‬
‫کوسیکس کا ذائقہ لگاہے اس کی جوانی‬
‫اور حسن دیکھ کر تم اس سے چودائی‬
‫کرنا چاہوگے مگر چار ‪،،،،‬سال‪،،،‬میں‬
‫تم اسے حاصل نہ کرسکے‪،،،‬چار سال‬
‫کافی ہوتے ہیں میں نے جوسلین کی‬
‫بات سمجھتے ہوئے کہا‪،،،‬یہ بھی‬
‫غنیمت ہے کہ تم نے کبھی ادھر ادھر‬
‫ٹرائی نہیں کی‪،،‬ویسے بھی ان چار‬
‫سالوں میں تمھارے پاس اتنا وقت نہیں‬
‫تھا‪،،‬لیکن اب تمھارا داخلہ میں نے‬
‫‪،،،،،،‬یونیورسٹی میں کروا دیا‬
‫ہے‪،،،‬سمجھانے کی ضرورت نہیں ‪،‬تم‬
‫سمجھتے ہوگے‪،،،‬میرے جذبات کا خیال‬
‫رکھنا‪،،،،‬تمھارا جو ٹیسٹ میں نے لیا‬
‫ہے وہ بھی کچھ سوچ کر لیاہے ایک تو‬
‫تم نے اس طرف کبھی سوچنا نہیں تھا‬
‫دوسری طرف تمھیں ان کے بارے کچھ‬
‫جانتے نہیں تھے ‪،،،‬اور تیسری طرف‬
‫وہ سوراخ کے بغیر حاصل نہیں‬
‫ہوسکتی تھیں ‪،،،‬اور میں چاہتی تھی کہ‬
‫تم یہ سوراخ ڈھونڈو ‪،،،‬لیکن وہ صرف‬
‫ایک ٹیسٹ تھا ‪،،،‬اور اب نازیہ کا خیال‬
‫دل سے نکال دینا‪،،،‬مجھے جھٹکے پر‬
‫جھٹکے لگ رہے تھے‪،،،‬تم نے کہا تھا‬
‫تمھیں لڑکیوں کو سمجھنے اور گھیرنے‬
‫میں ماسٹر بنا دوں اور میں نے تمھیں‬
‫چار سالوں میں دو کلیے بتا دیئے‬
‫ہیں(اس سلسلے میں سب کچھ سکھا کہ‬
‫پھر یہ دو کلیے بتائے‪،،‬شاید ہی کوئی‬
‫ہو جو وہ سب سیکھے بغیر ان دو کلیوں‬
‫کی اہمیت سمجھ سکے‪،،،)،،‬اب تم اس‬
‫میں استاد ہو‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫‪،،‬تم ساری رات کے جاگے ہوئے‬


‫ہو‪،،‬بہتر ہے اب تم آرام کرو‪،،،‬تم نے‬
‫کشتہ مروارید بھی نہیں لیا‪،‬چار سالوں‬
‫میں یہ تمھارا پہال ناغہ ہے‪،،‬آئندہ خیال‬
‫رکھنا‪،،،‬میں ناشتہ بنانے لگی ہوں‬
‫‪،،،‬ناشتہ کر کے سونا‪،،‬اوکے جوسلین‬
‫میری جان‪،،،،،‬جوسلین مسکراتے ہوئے‬
‫‪،‬کچن میں چلی گئی‪،،،‬اسے تو ٹیچر کا‬
‫بھی پتہ تھا‪،،،‬نازیہ کا بھی پتہ ہے‪،،‬یہ‬
‫بھی نہیں پوچھ سکا کے اسے اس دیوار‬
‫کے سوراخ کاکیسے پتہ چال‪،،،‬اور میں‬
‫نے تو ارادہ کیا تھا کہ اب اس سے‬
‫نگینہ والی بات کروں گا اور جوسلین‬
‫کی دولت اور اختیارات کے ذریعے‬
‫نگینہ کوڈھونڈ کر دآلویز کوپھنسا کر‬
‫چودوں گا ‪،،‬اور اپنا انتقام پورا کروں‬
‫گا‪،،‬لیکن یہاں تو یہ بھی ہوتا نظر نہیں‬
‫آرہا‪،،،‬ظاہر ہے وہ دآلویز کو کیسے‬
‫برداشت کرے گی‪،،‬ٹیسٹ میں تو کرلیا‬
‫تھا‪،،‬دل نے سوال کیا‪،،،‬استادی شاگردی‬
‫میں وہ ایک امتحان تھا‪،،‬جو بات اس‬
‫نے سمجھائی ہے وہ میں ساری زندگی‬
‫نہیں سمجھ سکتا تھا‪،،‬تمھاری نگرانی‬
‫بھی تو کرواتی ہے‪،،‬خود ہی تو کہ رہی‬
‫تھی کہ چار سالوں میں ادھر ادھر کہیں‬
‫منہ نہیں مارا‪،،،‬فی الحال خاموشی ہی‬
‫بہتر تھی‪،،‬کیونکہ وہ میری استاد‬
‫تھی۔انہیں خیالوں میں تھا کہ جوسلین‬
‫ناشتہ لے آئی ۔ناشتہ کر کے میں سو‬
‫گیا‪،،‬اگلے دن سہہ پہر کا اٹھا‬
‫‪،،،‬جوسلین آچکی تھی‪،،‬اور کھانا بنا‬
‫رہی تھی‪،،‬میں نے جا کر اسے پیچھے‬
‫سے ہی گلے لگا لیا‪،،،‬اور اسے چومنے‬
‫لگا‪،،،‬جوسلین نے میری محبت کا‬
‫بھرپور جواب دیا‪،،‬میں نے پاجامہ‬
‫نیچے کیا‪،،‬تو جوسلین نے مسکراتے‬
‫ہوئے چولہا بندکیا‪،،‬ا س نے پروقار‬
‫میکسی پہنی ہوئی تھی ‪،،‬میں نے اسے‬
‫اوپر کیا‪،‬میں جانتا تھا جوسلین گھر میں‬
‫ہو تو نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی‬
‫‪،،،‬جوسلین نے کمر ٹکا کر ایک ٹانگ‬
‫کھول لی اور میں نے اس کی چوت میں‬
‫عضو داخل کر دیا‪ ،،‬دو دن تم نہیں ملے‬
‫تو براحال ہوگیا تھا‪،،،‬میرا تو دل کرتا‬
‫تھا کہ جیسے ہی تم آئے ہم چودائی‬
‫کریں گے‪،،‬لیکن تم کافی تھکے ہوئے‬
‫تھے‪،،‬اسلیے میں نے دل پرپتھر رکھ‬
‫لیا‪،‬جوسلین فراق کی باتیں کرہی تھی‬
‫جبکہ اب وصال تھا اور میں نے اس کا‬
‫دھیان وصال کی طرف لگایا تو وہ سب‬
‫بھول گئی‪،،،‬پندرہ منٹ بعد ہم فارغ‬
‫ہوگئے‪،،،‬اب جوسلین نے نہانا ضرور‬
‫تھا ‪،،‬بلکہ مجھے بھی نہانا پڑنا‬
‫تھا‪،،،‬بڑی نفیس طیعت تھی اس کی‪،،‬نہا‬
‫کہ کھانا کھا کہ کافی لیکر ہم ڈرائنگ‬
‫روم میں آبیٹھے ‪،،،‬اب بتا بھی‬
‫دو‪،‬کیا‪،،‬جوسلین نے پوچھا ‪،،‬میں نے‬
‫اس کی طرف دیکھنا جاری‬
‫رکھا‪،،،‬تمھارا مطلب ہے کہ مجھے‬
‫دیوار کے سوراخ بارے کیسے پتہ‬
‫چال‪،،‬تو میں ان کے گھر گئی تھی ایک‬
‫دفعہ ‪،،،،،‬نازیہ اوپن یونیورسٹی سے‬
‫تھرڈ ایئر کر رہی ہے‪ ،،،‬جس‬
‫یونیورسٹی میں پڑھاتی ہوں وہاں نازیہ‬
‫اپنی اسائنمنٹ دینے آئی تھی‪،،‬جب اس‬
‫نے اپنی ٹیوٹر کو اسائنمنٹ دی تواس‬
‫وقت میں بھی وہیں تھی ۔میں اسے دیکھ‬
‫کہ دنگ رہ گئی ‪،‬کیالڑکی تھی‪،،‬ویسے‬
‫اس نے پورا پردہ کیاہوا تھا‪،‬لیکن اس‬
‫وقت بس اس کا چہرہ دیکھا تھا ‪،،،‬ساتھ‬
‫اس کا باپ تھا‬

‫مینباتوں باتوں میں اس سے نتھی ہوگئی‬


‫‪،،،‬اور باتیں کرتے ہم باہر آئے تو میں‬
‫نے ان کو آفر کی میں بھی نکل رہی‬
‫ہوں ان کو بھی چھوڑ دیتی ہوں اسطرح‬
‫میں ان کوچھوڑنے ان کے گھر بھی‬
‫گئی ‪،،‬وہیں انہوں نے مجھے چائے کی‬
‫آفر کی ‪،‬میں تو یہی چاہتی تھی‪،،‬مولوی‬
‫تو ہمیں چھوڑ کر مسجد چال گیا اور‬
‫میں دو گھنٹے ان کے پاس رہی‪،،‬بس‬
‫وہیں ان کا مزاج‪،‬عادات‪،،‬نفسیات‪،،‬اور‬
‫خیاالت کا پتہ چال‪ ،،،‬نازیہ اپنے کمرے‬
‫میں لے گئی وہاں میخ اور شیشہ بھی‬
‫دیکھا میخ مجھے کچھ بڑی لگی‪،،‬اور‬
‫دوسرے کمرے میں چائے پینے بیٹھے‬
‫وہاں میخ کی نکلتی نوک بھی دیکھی‬
‫‪،،‬نازیہ ‪،‬رافعہ ‪،‬سعدیہ‪،‬اور شازیہ کی‬
‫آنکھوں میں چودائی کی پیاس بھی‬
‫دیکھی تو میں ساری بات سمجھ‬
‫گئی‪،،‬آپ نازیہ کےساتھ کیوں‬
‫گئی‪،،،‬میں پوچھے بناء نہ رہ‬
‫سکا‪،،،‬میں کبھی لیسبن بھی کرتی تھی‪،‬‬
‫اب کرنا ورنہ تو کچھ نہیں تھا بس‬
‫ٹھرکا ٹھرکی میں چلی گئی ‪،،،‬جب سے‬
‫تم ملے ہو‪،،‬سب کچھ چھوٹ گیا اور اب‬
‫زندگی میں سکون ہی سکون ہے‪،،‬وہاں‬
‫ان کاماحول دیکھ کر اور ساری بات‬
‫سمجھ کر میں نے اس بات کو استعمال‬
‫کرنے کافیصلہ کیا‪،،،‬اور تمھیں وہاں‬
‫بھیج دیا‪،،‬یہ ہے کل کہانی‪،،‬جوسلین نے‬
‫مجھے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا‬
‫‪،،،،‬جوسلین رافعہ کو دیکھ کر مجھے‬
‫کچھ افسوس ہوا ہے کہ میں نے ان‬
‫لڑکیوں کو سیکس کی راہ پرلگا کر‬
‫اچھا نہیں کیا ہے ‪،،،‬رات سے کھٹکتی‬
‫بات کو زبان پر النے سے روک نہ‬
‫سکا‪،،‬پرنس‪،،‬میری بات سنو‪،،‬یہ لڑکیوں‬
‫تم سے پہلے سیکس کی راہ پر لگ‬
‫چکی تھی‪،،،‬اور رافعہ نے آج نہیں تو‬
‫کل اس رستے میں آنا ہی تھا‪،‬اس لڑکی‬
‫کوروکنا مشکل تھا‪،،،‬اور تم ایک بات‬
‫بتاؤ ‪،،‬کہ جب وہ سوراخ میں دیکھ رہی‬
‫تھی تو تم نے ان سے کیا کہا‪،،‬میں نے‬
‫کہا تھا جو تم دیکھ دیکھ کہ ترس رہی‬
‫ہو وہ میں تمھیں ابھی دے‬
‫سکتاہوں‪،،‬جوانی ضائع کرلو گی مگر‬
‫ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‪،،،‬ساتھ ہی میں‬
‫ننگا ہو کر ان کے پاس گیا تھا‪،‬اس سے‬
‫جب میراعضو لگا اور میں نے مموں‬
‫کوچھوا تو وہ کچھ کہہ ہی نہ سکیں اور‬
‫چودائی شروع ہو گئی‪،،‬میرے ننگے‬
‫جانے پر جوسلین کافی محظوظ ہوئی‬
‫‪،،،،‬پرنس تم اگر یہ کہتے کہ اگر تم‬
‫سب نے چودائی نہ کروائی تو تمھارے‬
‫ابا کو بتا دوں گا تو پھر یہ غلط ہونا تھا‬
‫یہ بلیک میلنگ ہو جانی تھی لیکن تم‬
‫نے ایسا نہ کیا‪،،،،،‬تم نے ان کی مرضی‬
‫سے کیا ہے ‪،،‬اسلیے یہ کوئی غلط کام‬
‫نہیں ہوا‪،،‬یہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی‬
‫تھا‪ ،،‬کوئی ایسا جو ‪،‬ان کا راز جان‬
‫جاتا۔۔اس نے یہ کر دینا تھا ۔یہ ہونا ہی‬
‫تھا ‪،،‬اور ایک بات سمجھ لو کہ اگر تم‬
‫ان کوبلیک میل کرتے تو تم نے اس‬
‫ٹیسٹ میں فیل ہوجانا تھا ‪،،،‬لیکن مجھے‬
‫یقین تھا کہ تم ایسا نہیں کرو‬
‫گے‪،،‬کیونکہ یہ تمھاری فطرت میں‬
‫نہیں ہے‪،،،‬شاید تمھیں زندگی میں‬
‫بہترین سبق مل چکا ہے جس کی وجہ‬
‫سے تم کسی سے اب زندگی بھر‬
‫زبردستی نہیں کرسکتے۔۔میری آنکھوں‬
‫کے سامنے نگینہ کاچہرہ آگیا ‪،،‬لیکن‬
‫میں نے اس کے تاثرات چہرے پر نہیں‬
‫آنے دیئے‪،،،‬جب میں نے اسے رافعہ‬
‫کی چودائی کابتایا تو جوسلین خوب‬
‫ہنسی‪،،،‬واہ تم نے رافعہ کو مزہ‬
‫چکھادیا‪،،‬ایک بات کہنا چاہتا ہوں ‪،،‬ہاں‬
‫کہو‪ ،،‬اس طرح اٹکنا کب سے شروع‬
‫ہوگئے تم ‪،،،‬‬
‫میں چاہتاہوں تم ایک چکر مولوی کے‬
‫گھر لگاؤ‪،،،‬اور ان لڑکیوں کو پریگنٹ‬
‫ختم کرنے کیلیے کسی طریقہ سے‬
‫ٹیبلٹ دے آؤ‪،،،،‬جوسلین نے غور سے‬
‫میری طرف دیکھا‪،،،‬ٹھیک ہے میں یہ‬
‫کام کر دوں گی ‪،،‬وہ بھی صرف اسلیے‬
‫کہ تم ان کے خیاالت ذہن سے نکال‬
‫دو‪،،‬جوسلین نے مجھے جتایا‪،،،‬رقابت‬
‫میں عورت اپنا سارا جینئس پن ختم‬
‫کردیتی ہے‪،،‬عورت آخر عورت ہی‬
‫ہوتی ہے‪،‬میں نے دل میں سوچا‪،،،‬‬
‫ٹھیک ہے کل سے کام شروع ‪،،‬جوسلین‬
‫نے جیسے اعالن کیا‪،،،‬میں پہلے دن‬
‫یونیورسٹی گیا‪ ،،،‬جوسلین یہاں شروع‬
‫سے پڑھا رہی تھی‪،،‬یہاں میں نے‬
‫جوسلین کی علمی لحاظ سے عزت اور‬
‫قدردانی دیکھی‪،،،‬بلکہ یہیں کیا پورے‬
‫شہر میں ایک بہترین پروفیسر کے‬
‫لحاظ سے اس کو مانا جاتا تھا‪،،‬پہلے دن‬
‫ہی یونیورسٹی میں مشہور ہوگیا کہ‬
‫جوسلین کے لے پالک بیٹے نے یہاں‬
‫داخلہ لے لیاہے ‪،‬لیکن میں نے اسے‬
‫کبھی زندگی میں ماں نہیں کہا نہ لوگوں‬
‫کے سامنے اور تنہائی میں تو ممکن ہی‬
‫نہیں تھا‪،،‬میں یہاں جوسلین کی ہی‬
‫کالس میں تھا‪،،‬اس سے بہتر شہر بھر‬
‫میں نفسیات دان اور کون ہونا تھا‪،،‬دن‬
‫گزرنے لگے‪،،‬گھر میں بھی جوسلین‬
‫مجھے ٹیوشن پڑھانے لگی‪ ،‬نفسیات تو‬
‫میں نے پچھلے سال ہی شروع کردی‬
‫تھی۔اب اس سے ماسٹرز کرنے کا ارداہ‬
‫تھا۔۔دوسری طرف اب سنجیدہ‬
‫موضوعاتی کتابیں پڑھنے پر لگا دیا‬
‫آواز‬
‫‪،،،،،‬جیسےمختار مسعود کی ِ‬
‫دوست ‪،‬قدرت ہللا کا شہابنامہ اور اشفاق‬
‫احمد کی زاویہ سے میری ابتداء ہوئی‬
‫اور پھر پیچھے مڑ کے نہ دیکھا‪----‬‬
‫اور ساتھ ہی جوسلین نے مجھے‬
‫شاعری پڑھنے کی طرف لگایا‪،،‬اس‬
‫سے پہلے نثری اوردو ادب کا خالصہ‬
‫تو وہ مجھے کھول کے پال چکی‬
‫تھی‪،،‬اور یہ خالصہ بھی اچھا خاصہ‬
‫تھا‪،،‬میں اس سے ٹیوشن پڑھ رہا تھا کہ‬
‫جوسلین اپنے مخصوص انداز میں‬
‫لیکچر دینے لگی‪،‬پرنس‪،،‬اظہار کیلیے‬
‫انسان نے سب سے پہلے اشاروں سے‬
‫باتیں کرنا شروع کیا‪ ،،‬پھر اس میں‬
‫تصویری زبانیں آگئی‪،،،،‬پھر اسے زبان‬
‫کا شعور ہوا تو بول کرباتیں ہونے‬
‫لگی‪،،‬مجسمہ سازی ‪،،‬مصوری ‪،،‬بھی‬
‫اظہار کیلیے ہی اختیار کی گئی‪ ،،‬انسان‬
‫جب شعور کی منزلیں طے کرتا ہوا‬
‫لکھنے لگا تب نثری ادب آگیا‪،،‬اور‬
‫شاعری آگئی‪،‬موجودہ دور میں‬
‫الیکٹرونک میڈیا آیا تو اس میں فلمیں‬
‫اور ڈرامے بھی اظہار کا ایک ذریعے‬
‫ہی بنے‪،،‬کیونکہ یہ زبان فی زمانہ سب‬
‫سے زیادہ سمجھی اور بولی جاتی‬
‫ہے‪،،،،‬لیکن معلوم تاریخ سے لیکر آج‬
‫تک اپنے جذبات کے اظہار کیلیے اپنے‬
‫مدعا بیان کرنے کیلے شاعری سے‬
‫بہتر ذریعہ سامنے نہیں آیا‪،،‬جو بات تم‬
‫ایک پوری کتاب میں کہتے ہو وہی ایک‬
‫شعر میں کہی جا سکتی ہے ‪،،‬اس سے‬
‫تم شعر کی معنویت اور گہرائی کا‬
‫اندازہ کرسکتے ہو‪،‬کہ کہاں ایک کتاب‬
‫اور کہاں ایک شعر‪،‬۔لیکن بدقسمتی سے‬
‫ہمارے ہاں شاعری صرف محبت پر ہی‬
‫کی جاتی ہے بلکہ محبت کو ہی شاعری‬
‫سمجھا جاتا ہے‪،،‬اگر ہمارے شاعر ہجر‬
‫وصال سے آگے کی سوچتے تو آج یہ‬
‫قوم بھی عاشقی معشوقی ایک شوق کے‬
‫طو پر کرتی ہوتی نہ کہ ُکل وقتی کرتی‬
‫ہوتی‪،،‬غو ر کرو ‪،،‬کیا مغربی اقوام‬
‫سیکس نہیں کرتی ہم سے زیادہ سیکس‬
‫کرتی ہے‪،،‬کیا وہ جواء نہیں کھیلتے کیا‬
‫وہ شراب نہیں پیتے ‪،‬ہم سے زیادہ پیتے‬
‫ہیں‪،‬لیکن وہ ترقی یافتہ اور ہم پس ماندہ‬
‫ہیں‪،،‬اس لیے کے جو جزوقتی ہونا‬
‫تھاوہ کل وقتی ہوگیا اور جوکل وقتی‬
‫ہونا تھا وہ جز وقتی ہوگیا‪ ،‬عشقیہ‬
‫شاعری کیلیے تو یہ ایک شعر ہی کافی‬
‫ہے‬
‫یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ‬
‫لیجیئے‬
‫اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا‬
‫ہے‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ ‪،‬‬


‫اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی‬
‫ہوئی‬
‫لیکن جب ہم زمانے کی گہرائیوں کو‬
‫سمجھتے ہیں تو فیض احمد فیض ہمیں‬
‫بتاتا ہے کہ‬
‫مجھے سے پہلی سی محبت میرے‬
‫محبوب نہ مانگ‬
‫اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے‬
‫سوا‬
‫راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے‬
‫سوا‬
‫دونوں قسم کی شاعر ی میں فرق تم نے‬
‫دیکھ لیا ہے اب‬
‫شاعری پڑھنا مگر ایک دائرے میں بند‬
‫مت ہوجانا‪،،‬یہ نہ ہو کہ وہیں گھومتے‬
‫رہو‪،،،‬یہ جو کتابیں ہیں نہ ‪،‬یہ ہی سوچ‬
‫کو بالغ کرتی ہیں‪،،‬جیسے جسم کی عمر‬
‫ہوتی ہے نہ‪،،‬ایسے ہی ذہن کی بھی‬
‫عمر ہوتی ہے‪،،‬بہت سے لوگ چالیس‬
‫سال کے ہو جاتے ہیں‪،،‬لیکن وہ ذہنی‬
‫طور پر بچے ہی ہوتے ہیں‪،،‬جب تم‬
‫مجھے ملے تھے تم تب بھی ذہنی طور‬
‫پر اچھے تھے لیکن اب توبلوغت سے‬
‫بہت آگے نکل چکے ہو‪،،‬باقی کا کام‬
‫شاعری کرے گی‪،،،،‬اب تم نفسیات میں‬
‫ماسٹر کر رہے ہو‪،،‬لیکن درحقیقت‬
‫تمھارا یہ وقت ماسٹرز سے آگے کا ہے‬
‫پی ایچ ڈی کا ہے اب تم اپنے سیکھے‬
‫ہوئے ہر فن میں ڈاکٹر بنو گے‪،،،‬ٹھیک‬
‫ہے یہی تم چاہتے تھے نہ‪،،،‬میں نے‬
‫سنجیدگی سے سر ہال دیا‪،،‬اس طرح‬
‫میرا یہ سفر شروع ہوچکا تھا۔۔سب سے‬
‫زیادہ مجھے خوشی مجھے اسو قت‬
‫ہوئی جب میرا مارشل آرٹ کا استاد‬
‫آیا‪،،‬یہ ایک چائنیز تھا‪،‬میں اپنے استاد‬
‫کا یہاں نام عظیم ترین استاد لکھوں گا۔‬
‫عظیم استاد بڑھاپے کی طرف مائل تھا‬
‫اور درمیانے قد کا تھا‪،،‬پہلے پہل میں‬
‫بس اتنا خوش ہوا کہ وہ چائنیز ہے اور‬
‫کچھ اچھا ہوگا‪،،‬لیکن جب اس نے‬
‫مجھے اپنا آپ ظاہر کیا‪ ،‬تو میں حیران‬
‫رہ گیا‪،،،‬وہ ان استا دوں میں تھا جو‬
‫خاص الخاص ہوتے ہیں‪،‬پہلے پہل میں‬
‫یہی سمجھا کہ یہ جوسلین کی دولت کا‬
‫کرشمہ تھا کہ ایسا استاد میری قسمت‬
‫میں آیا‪ ،‬جوسلین کے بینک بیلنس کا‬
‫خود اسے نہیں پتہ تھا وسیع و عریض‬
‫جائیداد سے ملنا واال منافع جمع ہوتا جا‬
‫رہا تھا ‪،‬اور جوسلین کو دولت اڑانے کا‬
‫کوئی شوق نہیں تھا‪،‬اس نے میرا شوق‬
‫پورا کرنے کیلے انٹرنیٹ پر دنیا کے‬
‫جانے مانے ماشل آرٹ استاد ڈھونڈے‬
‫‪ 2004،‬میں پاکستان میں انٹر نیٹ اتنا‬
‫عام نہیں تھا بلکہ موبائل نیا نیا شروع‬
‫ہوچکا تھا ‪،‬پھر وہ فون پررابطے کرنے‬
‫لگی‪ ،،‬وہ یہ کام پچھلے چھ مہینے‬
‫سےکر ر ہی تھی ان گنت دولت کی‬
‫وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ دنیا کا‬
‫بہترین استاد حاصل کرے ‪،‬اس لیے وہ‬
‫بڑے ناموں سے رابطہ کرتی‬
‫رہی‪،،‬لیکن وہ سب یہاں آ کر ٹریننگ‬
‫دینے سے انکاری تھے اور جو سلین‬
‫مجھے کہیں بھیجنا نہیں چاہتی تھی‬
‫‪،،،‬بے شک جوسلین کی آفر ناقابل یقین‬
‫تھی ‪،‬لیکن کوئی بھی اپنا بنا بنایا سیٹ‬
‫اپ ‪،‬برسوں کی محنت چھوڑ کر آنے‬
‫کیلے تیار نہیں تھا‪،‬چوٹی کے ماسٹرز‬
‫سے جب بار بار رابطہ کیا جانے لگا‬
‫اور اپنی واقفیت سے ان پر دباؤ ڈالنے‬
‫کی کوشش کی تو وہ جان چھڑانے لگے‬
‫‪،‬اور انہوں نے واضح انکار کی‬
‫بجائے۔۔زونگینگ کوانلی ۔۔ کا نام لے دیا‬
‫‪• part⁴⁴‬‬
‫(اس نام کا مطلب ہے سنٹرل پاور یعنی‬
‫مرکزی طاقت یہ نام اپنے عظیم ترین‬
‫استاد کی شخصیت کے اظہار کیلیے‬
‫لکھا ہےکیونکہ وہ اپنے دور میں کنگفو‬
‫کی سنٹرل پاورتھے اور ان کے پاس وہ‬
‫تھا جو کسی کے پاس نہیں تھا‪،،‬یہ‬
‫سنہری دور کی آخری یادگار تھااور‬
‫آئندہ ان کو اسی نام زونگ ینگ کوان‬
‫لی سے یا کوان لی کے نام سےیاد کیا‬
‫جائے گا)کوان لی نک چڑھے تے اور‬
‫کسی کوخاطر میں نہیں التے تھے‪،،،،‬‬
‫جب جوسلین نے اس سے رابطہ کیا تو‬
‫کوان لی نے ترنت انکار کر دیا‪،‬وہ اپنے‬
‫حال میں مست تھا ‪ ،‬جوسلین اس پر دباؤ‬
‫ڈالنے لگی‪،،‬جیسے جیسے کوان لی‬
‫انکار کرتےگئے جوسلین اس کیلے‬
‫بضد ہوتی گئی‪،،‬کیونکہ ایک گرینڈ‬
‫ماسٹر نے اسے یقین دال دیا تھا کہ اس‬
‫دنیا میں زونگ ینگ کوان لی سے بہتر‬
‫کوئی نہیں ہے ‪،،‬لیکن خود کوان لی‬
‫گوشہ نشین تھے‪،،‬کسی کو بھی گھاس‬
‫نہیں ڈالتے تھے ‪، ،‬پھر آخر کار‬
‫جوسلین نے مجھے ہی وہاں بھیج‬
‫دیا‪،،،‬یعنی میری فائیٹ کی ویڈیو جو‬
‫اس کے اصرار پر میں نے بنوائی تھی‬
‫‪،،‬بس اس ویڈیو کو دیکھ کر کوان لی‬
‫مان گئے ‪،،‬آخر وہ عظیم استاد تھے ‪،،‬‬
‫انسانوں کوپڑھنے میں جوسلین جیسے‬
‫کئی جینئس بھی ان کے سامنے کچھ‬
‫نہیں تھے‪، ،‬جانے اس نے مجھ میں کیا‬
‫دیکھاہو گا کہ کوان لی میرے پاس‬
‫آگیا‪،‬اور جوسلین کا ان گنت بینک بیلنس‬
‫ختم ہوگیا‪،،‬لیکن اسے کوئی فکر نہیں‬
‫تھی‪ ،،‬اصل جائیداد تو پڑی ہوئی تھی‬
‫بینک بیلنس پھر جمع ہوجانا تھا‪،،،،‬پہلے‬
‫دن ہی کوان لی نے لیکچر شروع‬
‫کیا‪،،‬پرنس‪،،‬یا جو بھی تم ہو‪،،‬میں‬
‫شاگردنہیں بناتا ‪،،‬تمھاری یہ میڈم یا یہ‬
‫جو بھی تمھاری ہے‪ (،،‬دلوں کوپڑھنے‬
‫واال عظیم ترین استاد )اس نے مجھے‬
‫تمھاری ویڈیو بھیجی تھی اس میں تم‬
‫فائیٹ کر رہے تھے ‪،،‬دوسرا شاید‬
‫تمھارا ستاد تھا اور تم اس کا لحاظ‬
‫کررہے تھے نہیں تو وہ اس وقت‬
‫تمھارے سامنے کچھ بھی نہیں تھا‪،،‬میرا‬
‫خیال ہے اس فائیٹ کے بعد تمھارے‬
‫استاد نے تمھیں سکھانا چھوڑ دیا ہوگا‪(،‬‬
‫کوان لی سچ کہہ رہا تھا )‪،،‬بس تمھاری‬
‫یہ ادا دیکھ کر میں اتنی دور سے‬
‫تمھارے پاس آیا ہوں ہمارا ایک سال‬
‫کامعا ہدہ ہوا ہےاور میں نے اس سے‬
‫بہت بڑی رقم لی ہے بہت۔۔ بڑی ۔۔رقم ۔‬
‫سمجھ گئے ‪،‬میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے‬
‫اور اپنے آپ کوشرمندہ نہ کرنا‪،،‬تم جو‬
‫سیکھنے جا رہے ہو اس فن کا نام ہے‬
‫کنگفو‪،،‬اس کے تقریبا نوے سٹائل ہیں‬
‫لیکن سب کاکام ایک ہی ہے‪ ،،‬اسی‬
‫طرح امریکن مارشل آرٹ ‪،‬چائنیز‬
‫مارشل آرٹ‪،‬کورین مارشل آرٹ‪،‬یورپین‬
‫مارشل آرٹ‪،‬جاپانی مارشل آرٹ ہیں‬
‫‪،،،،،‬اور ان سب میں خطرناک فنون‬
‫کے نام ہیں‪ -‬کراٹے(جاپان)‪، ،،،‬موئے‬
‫تھائی(تھائی لینڈ)‪،،،،،‬ایم ایم اے یعنی‬
‫مکس مارشل آرٹ‪،،،،‬‬
‫تائیکوانڈو(کوریا)‪، ،،،‬برازیلین جیو‬
‫جتسو ‪،،،‬کریو ماگا‬
‫(اسرائیل)‪،،،،،‬کائپوئریا‬
‫(برازیل)‪،،،،،‬جوڈو(جاپان)‬
‫‪،،،،‬کنگفو(چائنہ)‪،،،‬ایکیڈو(جاپان)‪،،‬ننجِ‬
‫سٹو(جاپ ان) ‪،،،‬جوجسٹو(جاپان)‪،،،،‬ان‬
‫میں سے جوجسٹو ‪،‬جوڈو‪،‬اور‬
‫ننجسٹو‪،،‬ایک ہی خفیہ اور خطرناک‬
‫اور مشکل ترین فن تھا‪،‬اس کو سیکھنے‬
‫میں بہت جانیں جاتی تھیں اسے عام‬
‫کرنے کیلیے اس کے تین حصے‬
‫کردیئے ‪،‬جس میں سب سے خطرناک‬
‫ننجسٹو(ننجا) کو علیحدہ کردیا ا سکے‬
‫بعد جیوجسٹو اور جوڈو بنایا گیا‪،،‬لیکن‬
‫اب یہ تینوں علیحدہ علیحدہ بھی اپنی‬
‫جگہ خطرناک ہیں‪ ،،‬اب غور سے سنو‬
‫تمام مارشل آرٹ کی تھیوری اور‬
‫پریکٹیکل مختلف ہے لیکن ان کی بنیاد‬
‫ایک ہی ہے ‪،،‬اور وہ ہے اپنے جسم کو‬
‫ہی ہتھیار بنانا۔کنگفو ان تمام مارشل‬
‫آرٹ میں بہترین ہے ‪،،‬جومیں تمھیں‬
‫سکھاؤں گے ‪،‬آج سے تمھاری تربیت‬
‫شروع ہوتی ہےاب یہ ‪ 2‬ڈان اور ‪ 3‬ڈان‬
‫وغیرہ بھول جاؤ‪، ،‬بیلٹ کے چکر سے‬
‫نکل آؤ یہ نوسیکھیوں کیلیے ہوتی‬
‫ہیں‪،،،،،‬یوگا بندہوگیا تھا اور اب سب‬
‫زونگ ینگ کوان لی کے حوالے‬
‫تھا‪،،‬جوسلین نے علم بروج اور دست‬
‫شناسی بھی سکھانی شروع کر‬
‫دی‪،،‬نفسیات ‪،‬علم قیافہ ‪،‬دست شناسی‬
‫اور علم بروج‪ ،‬یہ ہوئی نہ‪ ،،‬بات‬

‫تم کمال ہو‪،‬اب یہ سب تھا اور میں‬


‫تھا‪،،،‬یونیورسٹی میں میرا آنا جانا‬
‫شروع ہوگیا تھا‪،،‬اس کاماحول اور طرح‬
‫کاتھا کھال ڈال ماحول تھا‪،،‬رنگ برنگ‬
‫لباسوں میں چلتے پھرتے جسم مجھے‬
‫بہت تنگ کرتے تھے‪،،‬شروع شروع‬
‫میں مجھے بڑی بے چینی ہوتی‬
‫تھی‪،،‬میری حالت ایسی تھی جیسے‬
‫کسی بھوکے کو ڈھیر سارے کھانے‬
‫میں چھوڑدیا ہو‪،،‬یہاں خودبخود گود‬
‫میں گرنے والیاں بھی تھی‪،،‬محبت پر‬
‫مرنے والیاں تھیں‪،‬اور معصوم لڑکیاں‬
‫بھی تھیں جن پر کوئی بات اثر نہیں‬
‫کرتی‪،،‬دھیرے دھیرے میری کشش‬
‫یونیورسٹی میں محسوس کی جانے‬
‫لگی‪،،‬میرے دوست بننے لگے‪،،‬ویسے‬
‫بھی جوسلین کے نام کی وجہ سے‬
‫میرے کئی دوست بن گئے‬
‫تھے‪،،‬لڑکیوں کی طرف تو میں نہیں‬
‫جاتا تھا لیکن لڑکیوں پر تو پابندی نہیں‬
‫تھی لہذا چودائی کی بھوکی اور محبت‬
‫پر مرنے والیاں میری طرف بڑھنے‬
‫لگی‪،،‬میں اس ماحول سے گھبرانے‬
‫لگا‪،،‬اور فلیٹ کے بیسمنٹ میں اپنے‬
‫ق ستم ڈھاتا‪ ،،،‬میرا زیادہ‬
‫جسم پر مش ِ‬
‫وقت کوان لی لیتا تھا ‪،،‬روز پانچ گھنٹے‬
‫اس کے تھے‪،‬اس کے عالوہ بھی اس کا‬
‫کوئی وقت نہیں تھا‪،،‬وہ کسی بھی وقت‬
‫مجھ سے کچھ بھی کہہ سکتا تھا ‪،‬کوان‬
‫لی ‪،‬جوسلین کو بھی خاطر میں نہیں التا‬
‫تھااور جوسلین بھی کوان لی کے‬
‫سامنے بولتی نہیں تھی‪،‬بمشکل میری‬
‫نیند پور ی ہوتی تھی ‪،،‬پھر کوان لی کی‬
‫وجہ سے میری مشکل آسان ہونے لگی‬
‫کیونکہ اس نے مجھے سونے کاا یک‬
‫طریقہ بتایا جس میں ایک گھنٹے میں‬
‫سو کر اپنی نیند پور کرلیتا تھا‪،‬اب‬
‫دوسرے مہینے ہی شام سے لیکر رات‬
‫گئے تک کوان لی ہوتا تھا اور میں ہوتا‬
‫تھا‪،‬یونیورسٹی جانے سے میں گھبراتا‬
‫تھا اور بس ضروری پیریڈ لے کر فلیٹ‬
‫میں آجاتا تھا ‪،‬کوان لی میرے انتظار‬
‫ق ستم شروع‬ ‫میں ہوتا تھا ‪،‬اور مش ِ‬
‫ہوجاتی تھی‪،،‬جوسلین کو بھی اتنا وقت‬
‫نہیں ملتا تھا‪ ،،‬کوان لی اب ‪ 10‬گھنٹے‬
‫لےجاتا تھا‪،،‬رات کو جوسلین مختلف‬
‫علوم پڑھاتی‪،،‬اب میرا حافظہ بہترین‬
‫ہوگیا تھا اور صرف ایک بار پڑھنے‬
‫سے ہربات یاد ہوجاتی تھی ‪،،‬یہ بھی‬
‫کوان لی کی مہربانی تھی ‪،،،‬لہذا یہاں‬
‫بھی میرا کام آسان ہوگیا تھا۔ کوان لی‬
‫انسانی جسم میں چھپی صالحیتوں سے‬
‫کام لینا جانتا تھا‪،،‬تیسرے مہینے ہی میں‬
‫جسم سے نکل کر ‪،‬چی ‪،‬میں داخل ہوگیا‬
‫تھا‪،‬واقعی اوشان نے صحیح کہا تھا‬
‫بیلٹ کا یہاں کیا کام یہ تو بہت آگے کی‬
‫چیز تھی‪،،‬میں نے بلیک بیلٹ ‪ 10‬ڈان‬
‫تک جانے کا رادہ کیا تھا ‪،،‬اس سے‬
‫آگے ریڈبیلٹ تھی جو کہ میں بس سوچ‬
‫ہی سکتا تھا اور آخر میں گولڈن بیلٹ‬
‫تھی ‪،‬جو دنیا میں چند استادوں کےاستاد‬
‫کو ملتی تھی (چائنیز مارشل آرٹ میں‬
‫آخری گریڈ کو گولڈن ڈریگن کہتے‬
‫ہیں)‪،‬ہر اسٹائل کی اپنی گولڈن بیلٹ‬
‫ایسوسی ایشن تھی‪،،،،‬لیکن کوان لی کے‬
‫سامنے بیلٹ کوئی چیز ہی نہیں‬
‫تھی‪،،‬آخر اس کے پاس کیا تھا جو وہ‬
‫کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا کسی کو‬
‫یہ فن دینا نہیں چاہتا تھا‪،،،‬اور کیا وہ‬
‫واقعی اپنے سارے کام چھوڑ کر جمی‬
‫جمائی زندگی کو چھوڑ کر اپنی فیملی‬
‫چھوڑ کر دوست احباب چھوڑ کر‬
‫صرف پیسے کیلیے میرے پاس آیا تھا؟‬

‫ایسے باکمال شخص کو پیسے کی کیا‬


‫فکر تھی‪،،‬وہ جب چاہے دنیا اس کے‬
‫سامنے جھک جائے لیکن وہ گوشہ‬
‫نشینی کی زندگی گزار رہا تھا‪،،،‬کئی‬
‫سوالت مجھے ستاتے تھے جن کا کوئی‬
‫جواب میرے پاس نہیں تھا‪،،،،‬اب وہ‬
‫میرے ساتھ کھلتا جا رہا تھا‪،،،‬میرے دل‬
‫میں اس کی قدر بڑھتی جارہی تھی ‪،‬اگر‬
‫میں یہ کہوں توجھوٹ نہ ہوگا کہ‬
‫اسوقت اگر وہ کہتا کہ جوسلین‬
‫کوچھوڑدو تو میں جوسلین کیا سب کچھ‬
‫چھوڑ کر اس کے ساتھ ہوجانا‬
‫تھا‪،،‬چوتھے مہینے سب کام بس کچھ‬
‫وقت لیتے تھے یونیورسٹی جو میں نے‬
‫بڑے ارادوں سے شروع کی تھی اسے‬
‫سب سے کم وقت ملتا تھا‪،،‬بس جوسلین‬
‫کی وجہ سے میرا داخلہ چل رہا تھا اور‬
‫دوسرا میری کارکردگی اچھی تھی‪،،‬اب‬
‫سارا وقت کوان لی کا تھا‪،،‬اس سے‬
‫آگے جو کچھ کوان لی نے مجھے دیا وہ‬
‫بتاؤں تو مبالغہ آرائی کہالئے گی‪،،‬لیکن‬
‫جو مجھے مال اس نے میری زندگی‬
‫بدل دی‪،‬مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ‬
‫ایسی بلند نعمت میری قسمت میں لکھی‬
‫ہوئی ہے ‪،،،‬جوسلین کو وقت سب سے‬
‫کم مل رہا تھا‪،،‬کیونکہ اب میں کوان لی‬
‫کو میں فلیٹ میں لے آیا تھا پہلےبھی وہ‬
‫زیادہ وقت یہیں گزارتا تھا ‪،‬اس نے‬
‫نیچے بیسمنٹ اپنے لیئے پسند کی‪،‬وہ‬
‫شاید نہیں چاہتا تھاکہ میرے اور‬
‫جوسلین کے درمیان آئے‪،،‬پہلے بھی‬
‫اس کی ضروریات اور زندگی بڑی‬
‫محدود تھی ۔کیونکہ وہ کم کھاتا تھا ‪،،‬کم‬
‫سوتا تھا‪،،‬اور کم بولتا تھا سوائے‬
‫مارشل آرٹ تھیوری کہ‪،،‬فارغ وقت میں‬
‫آنکھیں بند کیے کسی دھیان میں ڈوبا‬
‫رہتا تھا ‪،،،‬چھ مہینے میں دست‬
‫شناسی‪،،‬بروج‪،‬اور نفسیات کا میں ماہر‬
‫بن گیا تھا‪،‬گو کہ میں نے اسے کم وقت‬
‫دیا تھا لیکن مجھے نہیں پتہ کیسے‬
‫‪،‬میری صالحیتیں‪ 10‬گنا ہو گئی‬
‫تھیں‪،‬کوان لی سے میں ُکھل مل گیا میں‬
‫نے اسے اپنی ساری کہانی بتائی‪،،‬نگینہ‬
‫کی بھی‪،‬جوسلین سے ملنے کی ‪،‬اس‬
‫نے مجھے اپنی بتائی‪،،‬ہمارے راز و‬
‫نیاز ہو گئے‪،،‬اور تب مجھے احساس‬
‫ہوا کہ اس دنیا میں میرا استاد ہی میرا‬
‫سب سے بہترین رشتہ ہے‪،‬میرے اندر‬
‫جو ایک خال تھا وہ جیسے پر ہوگیا‬
‫‪،‬مجھے ایسے لگا جیسے باپ کی شفقت‬
‫کا سایہ پھر مجھ پر آگیا ہے ‪،‬آخر سال‬
‫ختم ہونے واال ہوگیا‪،،‬وقت کبھی نہیں‬
‫رکا ‪،،‬سال گزر گیا‪،،‬اور کوان لی نے‬
‫میری تکمیل کردی‪،،‬ایک ایسی تکمیل‬
‫جو میرے وہم وگماں میں بھی نہیں‬
‫تھی‪،،‬بلکہ میں تو ایسا خواب بھی نہیں‬
‫دیکھ سکتا تھا‪،،‬اب مجھے دنیا اپنے‬
‫سامنے ہیچ لگتی تھی‪،،‬مجھ میں وہ‬
‫اعتماد تھا کہ ہر چیز مفتوح لگتی‬
‫تھی‪،،‬مگر ساتھ ہی کوان لی نے مجھے‬
‫کنٹرول کرنا سکھا دیا ‪،،‬اس نے بتایا تھا‬
‫کہ مجھ میں ظرف ہے اور یہ وہ میر ی‬
‫ویڈیو دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا‪،،‬اسے‬
‫یقن ہوگیا تھا کہ میں چھلکنے کی‬
‫بجائے اس کی امانت کو سنبھال کر‬
‫رکھوں گا ااور اس کا صحیح استعمال‬
‫کروں گا ‪،‬اسی لیے وہ اپنا فن مجھے‬
‫دینے آیا تھا ‪،‬بقول اس کے میں اس‬
‫امانت کا اہل تھا ‪،‬آخرکوان لی چال‬
‫گیا‪،،‬لیکن ہمارا رابطہ کبھی نہیں‬
‫ٹوٹا۔۔نہ مجھےکبھی احسا س ہوا کہ‬
‫کوان لی مجھ سے دور ہے‪،‬کہانی کا یہ‬
‫طرز زندگی سے میل‬‫ِ‬ ‫حصہ شاید میری‬
‫نہیں کاکھاتا یا اسے یہاں نہیں ہونا‬
‫چاہیے‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫یہی حصہ میرا اہم ترین حصہ ہے اس‬
‫کے بغیر میں ادھورا ہوں ‪،‬نا مکمل‬
‫ہوں‪،،‬اب میری زندگی ہی بدل گئی‬
‫تھی‪،،‬کوان لی کے جانے کے بعد‬
‫جوسلین کو میرے قریب آنے کا موقع‬
‫مال‪،،‬کیونکہ آخر ی تین مہینے میں‬
‫‪،‬میں بھی بیسمنٹ میں ہی رہنے لگا تھا‬
‫‪،‬بلکہ سیکس تو ہم نے ‪ 4‬مہینے سے‬
‫نہیں کی ‪،‬کوان لی کے جانے کے‬
‫تیسرے دن میں الئبریری میں ایک‬
‫کتاب پڑھ رہا تھا ‪،‬شا م کا وقت‬
‫تھا‪،،‬جب جوسلین دروازے میں نمودار‬
‫ہوئی‪،،‬اس ایک چادر لی ہوئی تھی میں ا‬
‫سکی طرف دیکھ کر مسکرایا‪،،‬آپ کا‬
‫تحفہ حاضر ہے حضور‬
‫‪ (،‬ہماری سب سے پہلی رات جوسلین‬
‫نے خود کو میرے لیے تحفہ کہا تھا‬
‫)‪،‬جوسلین نے ایک ادا سے کہا‪،،‬‬
‫‪،،‬جوسلین نے چادر گرا دی ‪،،‬اور‬
‫خراماں خراماں چلتی ہوئی میرے پاس‬
‫آئی‪،،‬میں کھڑا ہوگیا‪،،‬اور اسے گلے‬
‫سےلگالیا‪ ،،‬وہ ہجر ِ یار کی ماری ہوئی‬
‫تھی‪،،‬اور اب اپنے محبوب کے وصال‬
‫سے مخمور ہونے آئی تھی‪،،‬ایک لمبی‬
‫سی کسنگ کے بعد میں نے اسے‬
‫رائٹنگ ٹیبل پر اس کے چوتڑ ٹکا کر‬
‫اس کی ایک ٹانگ کرسی پر‬
‫رکھی‪،،‬جوسلین نے میری پینٹ کی‬
‫بیلٹ کھول کر نیچے کر دی‬
‫اورانڈرویئر بھی نیچے کردیا‪،،‬میں نے‬
‫اس کے اندر ڈاال اور چودائی شروع کر‬
‫دی ‪،،‬جوسلین میری چودائی سے ہمیشہ‬
‫محظوظ ہوتی تھی‪،،‬بھرپور مزہ لیتی‬
‫تھی‪،،‬اسے نشہ چڑھ جاتا تھا‪ ،،‬لیکن آج‬
‫میرے پہلے جھٹکے سے پتہ نہیں اس‬
‫نے کیا محسوس کیا تھا کہ وہ گہری‬
‫نظروں سے مجھے دیکھ رہی‬
‫تھی‪،،،‬میں چودائی کرتا رہا اور جوسلین‬
‫مجھےگہری نظروں سے دیکھتی‬
‫رہی‪،،‬آخرہمارا پانی نکل گیا‪ ،،‬فارغ‬
‫ہونے کے بعد میں وہیں ایک کرسی پر‬
‫بیٹھ گیا‪،،‬جوسلین ٹیبل پربیٹھ‬
‫گئی‪،،‬جوسلین اب بھی مجھے گہری‬
‫نظروں سے دیکھ جا رہی تھی‪،،‬جیسے‬
‫مجھے پڑھنا چاہتی ‪،‬یا میرے اندر کچھ‬
‫کھوجنا چاہتی ہو‪،،‬لیکن اسے ناکامی‬
‫انداز‬
‫ِ‬ ‫ہورہی تھی‪،،‬پرنس تم نے یہ‬
‫چودائی کہاں سے سیکھا؟ با آلخر‬
‫جوسلین نے بات شروع کی‪،،‬آج سے‬
‫پہلے میں ہی سوال کرتا تھا اور اس نے‬
‫کچھ پوچھنا ہو تو یا کہنا ہو تو میں اس‬
‫کے تاثرات سمجھ کر خود ہی بول پڑتا‬
‫تھا‪،‬لیکن آج اتنا گہرائی میں دیکھنے‬
‫کے بعد بھی مجھ پر اس کی شخصیت‬
‫کا جادو ویسا نہیں چال‪،،‬کہیں سے نہیں‬
‫سیکھا جوسلین‪،،‬سچ بولو پرنس ‪،،‬کیا یہ‬
‫سب کوان لی نے سکھایا‬
‫تمھیں‪،،‬جوسلین کوان لی نے مجھے‬
‫ایسا کچھ نہیں سکھایا‪،،‬لیکن اس نے‬
‫مجھے جو بھی سکھایا ہے اب اس سے‬
‫میں ہر وہ کام بہترین کر سکتا ہوں جس‬
‫میں جسم شامل ہو‪،،‬جوسلین کسی گہری‬
‫سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی‪،،‬پرنس تم‬
‫ہمیشہ میرے سامنے ایک کھلی کتاب‬
‫کی طرح رہے ہو‪،،‬میں تمھارے دل کی‬
‫ہربات جان لیتی تھی‪،،‬اور تم میرے‬
‫سامنے ایک بچے جیسے تھے‪،،‬ایک‬
‫ایسا بچہ جس کی ہر خواہش پوری کرنا‬
‫میرے لیے ضروری تھا‪،،‬تم تب بھی‬
‫میرے سامنے بچے تھے جب تم نے‬
‫چار سال میرے ساتھ گزار لیے تھے‬
‫اور میں نےتمھیں یونیورسٹی میں داخل‬
‫کروایا تھا‪،،‬جو تم نے سیکھنا چاہا وہ‬
‫سیکھ کہ بھی تم میرے سامنے بچے‬
‫تھے‪،،‬لیکن آج مجھے لگ رہا ہے‬
‫جیسے وہ بچہ یکدم بڑا بزرگ بن گیا‬
‫ہے‪،،،‬اور میں چھوٹی سی بچی بن گئی‬
‫ہوں‪،،‬تم مجھے جیئنس سمجھتے ہو‬
‫‪،،،‬اور یہ جیئنس آج تمھارے سامنے‬
‫کچھ نہیں ہے‪،،‬تمھارا اعتماد‪،‬تمھارا‬
‫سکون‪،،‬تمھارا انداز‪،،‬جیسے ہر چیز‬
‫تمھارے لیے مفتوح ہے‪،،‬اور جیسا‬
‫سیکس تم نے کیا ہے ‪،،‬ایسا تو میں‬
‫کبھی سوچ بھی نہیں سکتی‪،،‬یہ تو کسی‬
‫کتاب میں بھی نہیں ہے‪،،‬ایسا مزہ‬
‫مجھے پچھلے چار سال میں نہیں‬
‫مال‪،،‬شاگرد ہمیشہ استاد سے بڑھ جاتے‬
‫ہیں‪،،،‬لیکن میرا اندازہ تھا کہ تم مجھ‬
‫سے آگے جاتے جاتے بھی اتنا وقت لے‬
‫جاؤ گے کہ میری کہانی تمام ہوجائے‬
‫گی‪ ،‬لیکن آج یہ شاگرد مجھ سے بہت‬
‫آگے چال گیا ہے‪،،‬کیونکہ یہ میرے بس‬
‫میں نہیں ہے‪،،‬میری سمجھ میں نہیں‬
‫آرہا‬

‫‪،،،‬پلیز مجھے بتاؤکوان لی نے تمھیں‬


‫ایسا کیا دیا ہے کہ تم اس درجے تک‬
‫پہنچ گئے ہو‪،،‬یقینا جوسلین کو زبردست‬
‫جھٹکا لگا تھا‪ ،،‬اسے اچانک آگاہی ہوئی‬
‫تھی‪،،‬جو ا سے خود پر کنٹرول نہیں رہا‬
‫تھا اور کھل کھال کے میری برتری اور‬
‫اور اپنی کمتری کا اعالن کر رہی‬
‫تھی‪،‬جوسلین یہ تو تم جانتی ہی ہوگی کہ‬
‫عام آدی کسی علم کو کسی فن کو دس‬
‫سال سیکھنے میں لگا دیتے ہیں۔‪،‬اور‬
‫وہی علم خاص آدی ایک سال میں سیکھ‬
‫جاتا ہے‪،،‬ہاں میں جانتی ہوں‪،،‬جوسلین‬
‫نے سعادت مندی سے کہا‪،‬کبھی اس‬
‫طرح میں اس کے سامنے شاگردانہ‬
‫انداز میں کہتا تھا‪،،‬اب تو میرا بات‬
‫کرنے کا انداز ہی بدل گیا تھا اور اپنے‬
‫موجودہ علم کو بہترین انداز میں‬
‫استداللی طریقہ سے استعمال کرتا‬
‫تھا۔میرے پاس تھوڑا بھی بہت ہوگیا‬
‫تھا‪ ،،‬تو جوسلین میری جان اسی طرح‬
‫کچھ علوم اور فنون ایسے ہوتے ہیں جو‬
‫باقی علوم و فنون پر حاوی ہوتے ہیں‬
‫۔ان میں اتنا کچھ ہوتا ہے جو باقی سب‬
‫کچھ اپنے اندر سمو لیتا ہے‪،،‬جیسے‬
‫ِسری علوم باقی علوم پر حاوی ہوتے‬
‫ہیں‪،،‬کوان لی کا فن ایسا ہی تھا جو بہت‬
‫کچھ پر حاوی ہے‪،‬کوان لی اپنے فن‬
‫میں اتنا آگے ہے کہ دنیا اس کے فن‬
‫کے سامنے کچھ نہیں ہے‪ ،‬تم نے میری‬
‫خواہش پوری کرنے کیلیےاس فن میں‬
‫دنیا کا انتہائی آدمی تالش کیا‪،،‬تم‬
‫سمجھتی تھی کہ یہ بس لڑنے بھڑنے‬
‫کیلیے ہے‪،،‬لیکن یہ فن جسم سے آگے‬
‫نکل جاتا ہے ‪،،،‬اندر کی باتیں شروع‬
‫ہوجاتی ہیں‪ِ ،،‬سری علوم میں یہ انتہا پر‬
‫ہے‪،،‬اگر تم ا سکے بارے میں مزید‬
‫کچھ جاننا چاہتی ہو تو کراٹے کی‬
‫بجائے( کراٹے ڈُو )پر کچھ پڑھنا‬
‫‪،‬تمھیں سمجھ آجائے گی کہ مجھے کون‬
‫سا خزانہ مل گیا ہے‪،‬تم اپنے تجربے‬
‫اور علم اور صالحیتوں سے انسان کو‬
‫پڑھنے اور انکو استعمال کرنے کی‬
‫قدرت پر تھی‪،،‬یعنی انسان کے اندر‬
‫قبضہ کرلیتی تھی‪،‬بات کرتے کرتے‬
‫میں رک گیا‪،‬کیونکہ جوسلین بولنے لگ‬
‫گئی تھی‪،،،‬اور اب تمھارا اندر میرے‬
‫بس سے باہر ہے‪،،‬کیونکہ تمھارے اندر‬
‫کوان لی کا فن آگیاہے جوسلین خاموش‬
‫ہوگئی‬

‫‪،،‬کوان لی میرے باپ کی جگہ پر‬


‫ہے‪،‬میں نے دل کی گہرائیوں سے‬
‫کہا‪،،،‬میں نے جوسلین کا جتانا ضروری‬
‫سمجھا‪،،‬جوسلین نے مجھے چونک کر‬
‫دیکھا‪،،،‬اسے پتہ ہی نہیں چال اور میرا‬
‫اور کوان لی کا رشتہ کتنا گہرا بن گیا‬
‫تھا اور اس باپ نے مجھے اپنی ساری‬
‫عمر کی محنت مجھے وراثت میں دے‬
‫دی تھی ‪،،‬گڈلک ۔۔۔۔۔جو تم بننا چاہتے‬
‫تھے وہ تم بن گئے‪،،‬اتنا کہہ کر جوسلین‬
‫آہستگی سے چلتی ہوئی الئیبریری سے‬
‫باہر نکل گئی‪،،‬واہ استاد ‪ ،‬پہلے ہلے‬
‫میں ہی پہاڑ گرا دیا ‪،‬میں نےکوان لی کا‬
‫تصور کرکے کہا‪،،‬مجھے ایسا لگا‬
‫جیسے اسنے مسکرا کر میرے سر پر‬
‫چپت ماری ہوآج وہ بہت خوش تھا‬
‫‪،،،‬ادھر آج بہت عرصے بعدجوسلین‬
‫نے میرا اصل نام لیا تھا‪،،‬میں اس کے‬
‫احساسات سمجھ رہا تھا اور یہ بھی‬
‫سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی‬
‫ہے‪،،‬وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ اب‬
‫مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی‪،،‬‬
‫میں اسکے پیچھے چال گیا‪،،‬وہ بیڈ پر‬
‫آنکھیں بند کیے لیٹی تھی‪،،‬میں چپ لیٹ‬
‫گیا اور اسے بانہوں میں لے‬
‫لیا‪،،،‬مجھے پتہ ہی نہیں چال کہ تم آئے‬
‫ہو‪،،‬جوسلین آہستگی سے بولی‪،،‬اب یہ‬
‫توہو نہیں سکتاتھا اسے میرے آنے کا‬
‫پتہ چلتا۔ دشمن کے پاس جاؤ اور‬
‫اسےتب پتہ چلے جب اس کی جان نکل‬
‫رہی ہو میرے ذہن میں کوان لی کا فقرہ‬
‫گونجا ‪،،،،‬تو جوسلین کو میرے آنے کا‬
‫احساس کیسے ہوسکتا تھا‪ ،،‬میں نے‬
‫سوچا اب جوسلین کو میری بہت سی‬
‫باتوں سے سمجھوتہ کرنا پڑے‬
‫گا‪،،‬میری جان جوسلین‪،،‬میں جوبھی آج‬
‫ہوں‪،،‬تمھاری بدولت ہوں‪،،‬اسلیے میرے‬
‫لیے تم سب سے اہم ہو اور میں ہمیشہ‬
‫تمھارے ساتھ ہوں‪،،‬جوسلین نے چونک‬
‫کر میری طرف گردن موڑ کر دیکھا‪،،‬‬
‫وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے دل کی‬
‫بات جان گیا ہوں‪ ،،‬یہ اس کیلیے جھٹکا‬
‫تھا‪ ،‬کہ میں اس کی دل کی باتیں‬
‫سمجھنے لگا ہوں‪،،‬وہ دسروں کی دلی‬
‫باتیں سمجھنے اور اپنی چھپانے میں‬
‫ماہر ترین تھی ‪،‬مجھے پتہ تھا کہ میں‬
‫اسے کچھ وقت میں نارمل کر لوں گا‬
‫‪،،،‬ہم لیٹے رہے ‪،،‬پھر کھانے کا وقت‬
‫ہو گیا‪،،‬تو میں کھانا لے کر بیڈ پر ہی‬
‫آگیا‪،،‬ہمیشہ کھانا جوسلین ہی بناتی تھی‬
‫وہی التی تھی‪،‬وہی میرے کپڑے دھوتی‬
‫‪،،‬انہیں استری کرتی‪،،‬میرے جوتے‬
‫پالش کرتی تھی‪،،‬غرضیکہ جوسلین‬
‫میرا ہر کام کرتی تھی ۔۔جیسے میں اس‬
‫کا مجازی خدا ہوں اور و ہ میری کنیز‬
‫ہو‪،،‬گھر میں صفائی کیلیے ایک جز‬
‫وقتی ماسی آتی تھی‪،،‬اور جوسلین کے‬
‫کپڑے اور برتن وغیرہ وہ دھوتی تھی‪،‬‬
‫جوسلین نے کروڑوں پتی ہونے کے‬
‫باوجود میرا ہر کام اپنے ہاتھ سے کیا‬
‫تھا‪،،‬اور میری ہر خواہش پوری کرنے‬
‫کیلے پیسہ پانی کی طرح بہایا‪،،‬اور‬
‫مجھے بھرپور محبت دی‪،،‬جب میرے‬
‫پاس کچھ نہیں تھا اس نے مجھے سہارا‬
‫دیا‪،،‬میں جوسلین کو کیسے چھوڑ سکتا‬
‫تھا‪،،‬اگلے دن سے میں باقاعدگی سے‬
‫یونیورسٹی جانے لگا‪،،‬میں شاید آج چار‬
‫ماہ بعد آیا تھا‪ ،،‬یہ میرا فائنل ائیر‬
‫تھا‪،،‬لیکن جتنی نفسیات سیکھنی چاہیے‬
‫تھی اتنی سے زیادہ نفسیات کو مکمل‬
‫کرچکا تھا‪،،‬میں بس جوسلین کو دکھانے‬
‫آیا تھا کہ سب کچھ پہلے کی طرح‬
‫نارمل ہے‪،،‬پرنس ‪،‬پرنس ‪،،‬دوستوں کے‬
‫حلقے میں نام گونجا‪،‬وہ میرے گرد جمع‬
‫ہونے لگے‪،،‬کیا بات ہے یار ‪،‬کہاں گم‬
‫ہوگئے تھے ‪،‬بس کچھ مصروف تھا‪،،‬تم‬
‫لوگ سناؤ‪،،‬ہم ٹھیک ہیں‪،،‬‬

‫جوسلین کا پیریڈ آ گیا تھا ہم کالس کی‬


‫طرف چل دیئے‪،‬میں اپنی جگہ پر جا‬
‫کر بیٹھ گیا‪،‬اور میرے ساتھ ایک لڑکی آ‬
‫کر بیٹھ گئی‪،،‬جیسے خوشبو کا جھونکا‬
‫آتا ہے‪،،‬ویسے مجھے اس کے جسم کی‬
‫خوشبو محسوس ہوئی‪،،‬انسان مجھے‬
‫پہلے ایسے محسوس نہیں ہوتے‬
‫تھے‪،‬آس پاس بیٹھے لڑکوں کی توجہ‬
‫اس کی طرف تھی اور فضا میں شہوت‬
‫کی مالوٹ ہو گئی تھی‪،،‬یہ سب اس کی‬
‫لڑکی وجہ سے ہورہا تھا اور مجھے‬
‫کسی کی طرف دیکھے بغیر سب‬
‫محسوس ہو رہا تھا کوئی اور وقت ہوتا‬
‫تو میں اس لڑکی کی طرف ضرور‬
‫دیکھتا‪،،‬لیکن سامنے جوسلین کھڑی‬
‫تھی‪،‬اور اس کی نگاہیں مجھ پر ہی‬
‫تھی‪،‬یقینا یہ لڑکی کالس روم میں نئی‬
‫آئی تھی اور یہ واقعہ میرے بعد ان‬
‫پچھلے تین مہینوں میں ہوا تھا‪،‬لڑکی‬
‫میں کشش تھی‪،،‬اس کے سامنے رکھے‬
‫ہاتھوں سے اندازہ ہوا کہ اس کی رنگت‬
‫سفید گالبی ہے اور انگلیاں لمبی‬
‫مخروطی تھیں ‪،‬جن سے نازک مزاجی‬
‫اور آرٹسٹک خیاالت کا ندازہ ہوتا‬
‫تھا‪،،‬جسم اس کا سمارٹ لگ رہا تھا‪،‬بال‬
‫لمبے تھے اس کالباس موجودہ فیشن‬
‫کے مطابق تھا‪،،‬پاس بیٹھے ہوئے اس‬
‫کے اثرات مجھ پر اثر کر ہے تھے‬
‫‪،‬یقینا یہ کوئی عا م لڑکی نہیں تھی‪،،‬میں‬
‫پھر مشکل میں پڑ گیا‪،،‬کیونکہ جوسلین‬
‫کا دھیان میری ہی طرف تھا لیکن وہ‬
‫پڑھا رہی تھی‪،،‬اب اس مصیبت کا کیا‬
‫حل تھا‪،،‬کیا میں پھر یونیورسٹی سے‬
‫بھاگ جاؤں‪،،‬جیسے تیسے پیریڈ‬
‫گزرا‪،،‬جوسلین اپنا دوسرا پیریڈ لینے‬
‫چلی گئی‪،،‬میں نے لڑکی کی اور اس‬
‫نے میری طرف دیکھا‪،،‬پروفیسر کی‬
‫توجہ مسلسل تمھاری طرف تھی‪،،‬اس‬
‫نے مجھے سرگوشی کی‪،‬جیسے ہم‬
‫پرانے کال س فیلو ہوں‪،،‬ہاں کیوں کہ‬
‫میں اس کا ‪،‬لے پالک ہوں‪(،‬میں نے‬
‫کبھی اسے اپنی ماں نہیں کہا‪،،)،‬لڑکی‬
‫نے یکدم میری طرف دیکھا‪،،،‬میں اس‬
‫کی طرف دیکھ رہا تھا‪،‬اسکے چہرے‬
‫پر شرمندگی تھی‪،‬سوری مجھے معلوم‬
‫نہ تھا ‪،‬میں اس کالس میں نئی ہوں‪،‬دو‬
‫مہینے پہلے آئی ہوں‪،‬اور میں تقریبا‬
‫چار ماہ بعد آیا ہوں‪،‬اس طرح دیکھا‬
‫جائے تو آپ کا کوئی قصور نہیں‬
‫ہے‪،،‬میرا نام پرنس ہے ‪،‬اور میرا نام‬
‫غزل ہے‪،،،‬کس شاعر کی غزل ہیں آپ‬
‫؟ میں نے ازرا ِہ مزاق کہا‪،‬ابھی تک اس‬
‫بال(محبت) سے بچی ہوئی ہوں‪،،،‬غزل‬
‫نے شگفتگی سے کہا‪،،‬نئے پروفیسر اپنا‬
‫پیریڈ شروع کرچکے تھے‪،‬ہم نے ان‬
‫کی طرف توجہ کی‪،‬نہیں تو وہ ہماری‬
‫طرف توجہ کرلیتے‪،،‬غزل انتہائی‬
‫خوبصورت تھی‪،،‬جوسلین کیا نازیہ بھی‬
‫اس کے سامنے کچھ نہیں تھی‪،‬ابھی تک‬
‫یونیورسٹی میں اتنی حسین لڑکی میں‬
‫نے نہیں دیکھی تھی‪،‬میرا اندازہ تھا کہ‬
‫چہرے کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھی‬
‫خطرناک حد تک حسین ہے‪،،‬یہ تو چلتا‬
‫پھرتا ایٹم بم تھی‪،،‬پتہ نہیں وہ میرے‬
‫بارے میں سوچ رہی تھی کہ نہیں مگر‬
‫میں اسے محسوس کیے جا رہا تھا بلکہ‬
‫اس کی سانسوں کی مہک بھی محسوس‬
‫کر رہا تھا و ہ پورا دن میں یونیورسٹی‬
‫میں رہا‪،‬اور غزل میرے ساتھ رہی‪،،‬ہم‬
‫جیسے ایکدوسرے کے ہی منتظر تھے‬
‫اسی دن ہم میں دوستی ہوگئی‪،‬اور‬
‫بےتکلفی پاس آنے لگی‪،،‬ہم بڑی تیزی‬
‫سے قریب آئے‪،،‬سہہ پہر کو جب میں‬
‫فلیٹ پر پہنچا تو جوسلین کھانا بنائے‬
‫میرا انتظار کر رہی تھی‪،‬جاتے ہی میں‬
‫کھانا شروع کردیا‪ ،‬بڑی خوبصورت‬
‫لڑکی ہے غزل ‪،،‬جوسلین نے نوالہ‬
‫لیتے ہوئے کہا‪،،‬میں نے جوسلین کی‬
‫طرف دیکھا اور خاموشی سے کھانا‬
‫کھاتا رہا ‪،‬بڑی تیزی سے تم دونوں‬
‫قریب آئے ہو‪،،‬جوسلین جیسے کافی دیر‬
‫سے ضبط کر رہی تھی اور اب پھٹ‬
‫رہی تھی‪،،‬‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫‪،،‬جوسلیں میری جان‪،،‬وہ اچھی لڑکی‬
‫ہے‪،،‬اور میں اسے اچھی دوست مانتا‬
‫ہوں ‪،،‬بس اور کچھ نہیں ہے۔اچھا یک‬
‫ہی دن میں دوستی ہوگئی ہے‪،‬جوسلین‬
‫نے طنزیہ لہجے میں کہا‪،‬دوستی کیلیے‬
‫کوئی وقت تو مقرر نہیں ہے کہ اتنی‬
‫دیر میں ہونی ہے اور اتنی دیر میں‬
‫نہیں ہونی ‪،،‬جوسلین کاانداز برقرار‬
‫تھا‪،،‬وہ ایک شکی بیوی کا کردار ادا کر‬
‫رہی تھی‪،‬میری طرف سے تحمل کا‬
‫مظاہر بڑا ضروری تھا‪،‬لیکن جب‬
‫جوسلین گنوار عورتوں کی طرح طرح‬
‫جلی کٹی سنا تی گئی تو میں کھانا‬
‫چھوڑ کر الئبریری میں چال گیا اور‬
‫کرسی پر بیٹھ کر سر ٹیبل پر ٹکا‬
‫دیا‪،‬اور دھیان لگا دیا‪،،‬میں ایسی باتوں‬
‫کا عادی نہیں تھا‪،،‬کچھ ہی دیر میں‬
‫میرے سر پر انگلیاں پھرتی محسوس‬
‫ہوئیں‪،‬میرے پرنس ‪،‬کیا ناراض ہوگئے‬
‫تم‪،‬تمھاری دل آزاری تو میرا مقصد‬
‫نہیں تھی‪،،‬سوری ‪،،‬پلیز‬
‫‪،‬سوری‪،،‬جوسلین میرے پاس فرش پر‬
‫بیٹھ گئی‪،‬اب جانے بھی نہ‪،،‬معاف کر‬
‫دو اب آئیندہ ایسا نہیں ہو گا‪،،‬جوسلین‬
‫نے اپنے کان پکڑتے ہو ئے مزاحیہ‬
‫انداز میں کہا‪،،‬اس کے انداز سے میں‬
‫بھی ہنسنے لگا‪،،‬جوسلین نے معافی‬
‫مانگ کر مجھے منا لیا‪،،‬لیکن اس نے‬
‫پینترا بدل لیا اور غزل کی دشمن‬
‫ہوگئی‪،‬اپنی پیریڈ میں وہ طرح طرح‬
‫کوزچ کرنے لگی‪،،‬ادھر‬‫سے غزل ِ‬
‫ہماری قربت بڑھتی گئی‪،،‬میں بس اس‬
‫کے حسن کا دیوانہ ضرور تھا لیکن‬
‫غزل کو اچھی دوست ہی سمجھتا تھا‬
‫‪،‬کیونکہ پہلی مالقات میں ہی میں جان‬
‫گیا تھا کہ وہ میرے ٹائپ کی لڑکی نہیں‬
‫ہے یعنی وہ چودائی کی شوقین نہیں ہے‬
‫بلکہ ایسی باتوں سے دور بھاگتی‬
‫ہے‪،‬وہ ایک اچھی اور معصوم لڑکی‬
‫تھی‪،،‬اور میں نے پہلے دن سے ہی اس‬
‫خلوص دل سے ایک اچھے‬ ‫ِ‬ ‫کی طرف‬
‫دوست کے طور پر ہاتھ بڑھایا‬
‫تھا‪،،‬ہماری دوستی تو بڑھتی گئی اور‬
‫مالقاتیں بھی ہوتی تھیں‪،‬لیکن جوسلین‬
‫اس کا مطلب اور لیتی گئی‪،،‬جوسلین‬
‫نے اس دن کے بعد مجھ سے تو کچھ‬
‫کہا نہیں لیکن غزل کو ہر طرح سے‬
‫تنگ کیا‪،‬غزل سمجھ نہیں رہی تھی کہ‬
‫یہ کیوں ہو رہا ہے‪،‬ادھر یہ مسلہ بن گیا‬
‫کہ غزل مجھ سے منسلک جذبات کو‬
‫کوئی اور ہی رخ دے بیٹھی‪،،‬مجھے‬
‫احساس ہو گیا لیکن اب دیر ہوچکی‬
‫تھی‪،،‬ویسے بھی میں اسے اپنے بارے‬
‫میں تقریبا ہر بات بتا چکا تھا ‪،‬بلکہ‬
‫جوسلین کا رویہ دیکھ کہ میں نے اسے‬
‫جوسلین اورا پنا تعلق بھی بتا دیا‬
‫تھا‪،،‬میں غزل پر ہر طرح سے اعتما‬
‫دکرنے لگا تھا‪،‬نگینہ کی کہانی تو اسے‬
‫میں پہلے ہی بتا چکا تھا‪ ،‬جانے کب‬
‫کیسے غزل میری ساتھ محبت کر بیٹھی‬
‫‪،‬یا یہ میری غفلت تھی کہ میں نے اس‬
‫سے آنکھیں بند کر لیں‪،‬ایسی ہی کچھ‬
‫بات تھی‪،‬دن پر دن گزرتے گئےغزل تو‬
‫میرا اور جوسلین کا تعلق سمجھنے کے‬
‫بعد جوسلین کا رویہ نظر انداز کرنے‬
‫لگ گئی تھی‪،‬لیکن میں جوسلین کو‬
‫سمجھانے کے بعد اب تپنے لگا‬
‫تھا‪،،‬اور اسی غصے میں‪،،‬ایک دن میں‬
‫مولوی کہ گھر جاپہنچا‪،،‬میں کار میں‬
‫تھا یہ جوسلین نےلیکر دی تھی‪،،‬اور‬
‫میرے پاس کافی تحائف‬
‫تھے‪،،‬یونیورسٹی کے بعد میں سیدھا‬
‫ادھر گیا تھا ‪،،‬مولوی گھر میں ہی‬
‫تھا‪،،‬مجھے دیکھ کر حیران رہ‬
‫گیا‪،،‬مجھے گھر میں لے گیا‪،،‬شہزادے‬
‫میں تو سمجھا تھا کہ تم ہمیں بھول‬
‫گئے‪،،‬مولوی جوش میں تھا ‪،،‬مولوی‬
‫صاحب بس معامالت حل ہونے میں‬
‫کافی دیر لگ گئی ۔ چچا مجھے لندن‬
‫لے گئے اور پھر وہیں سے سارے‬
‫معامالت کنٹرول کیے۔مولوی کی بیوی‬
‫اور اس کی بیٹیاں بھی آگئی وہ بھی‬
‫مجھے دیکھ کر حیران ہوگئی‪،،‬میں ان‬
‫کے شکوے شکائیتوں کے محبت سے‬
‫جواب دیتا رہا‪،‬اور ان کو الئے ہوئے‬
‫تحائف دینے لگا‪،،‬مولوی اور اس کی‬
‫بیوی تحائف پا کر خوش ہو‬
‫گئے‪،،‬مجھے دعائیں دینے لگے‪ ،،‬البتہ‬
‫شازیہ ‪،‬نازیہ‪،‬سعدیہ‪،‬اور رافعہ مجھ سے‬
‫خوش نہیں تھیں‪،‬وہ کچھ نہیں کافی‬
‫روٹھی روٹھی تھیں‪،،‬گھنٹے بعد مولوی‬
‫تو اٹھ کر چال گیا‪،،‬اور میں وہیں بیٹھا‬
‫رہا۔مکان کا ماحول بدال ہوا تھا‪،‬‬
‫‪Part⁴⁵‬‬
‫باتیں چلتی رہی کچھ ہی دیر میں وہاں‬
‫مختلف عمروں کے بچے آنے لگے ان‬
‫کے ساتھ بستے تھے‪،،‬میں سمجھ گیا وہ‬
‫ٹیوشن پڑھنے آئے تھے‪،‬کچھ ہی دیر‬
‫میں اچھی خاصی تعداد ہوگئی‪،،‬وہاں تو‬
‫ٹیوشن اکیڈمی کھلی ہوئی تھی‪،‬اب‬
‫مجھے آسودگی کی وجہ سمجھ‬
‫آنےلگی‪،،‬تینوں بہنیں پڑھانے لگی‬
‫جبکہ نازیہ اور اس کی ماں میرے پاس‬
‫ہی بیٹھی رہی‪،،‬نازیہ کیا تم نہیں پڑھاتی‬
‫بچوں کو‪،،‬میں تو صبح پڑھا کے تھک‬
‫جاتی ہوں اسوقت آرام کرتی ہوں‪،‬صبح‬
‫تم ٹیوشن پڑھاتی ہو‪،‬میں نے پوچھا‪،‬نہیں‬
‫بیٹا یہ ایک سکول میں ٹیچر لگ گئی‬
‫ہے وہاں پڑھاتی ہے ‪،‬میں حیران‬
‫ہوگیا‪،،‬مولوی کے گھر یہ کیسی کایا‬
‫پلٹ آگئی ہے‪،‬ہاں میں ساتھ میں ایم ‪،‬اے‬
‫بھی کر رہی ہوں اس کے بعد بی ایڈکا‬
‫رادہ ہے‪،‬نازیہ نے بتایا ‪،‬کیا کسی‬
‫پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہی ہو‪،‬میں‬
‫نے وضاحت سے پو چھا‪،‬ہاں لیکن‬
‫سیلری اچھی ہے اور سکول ٹاپ کا‬
‫ہے‪،،‬میں سوچنے لگا ایسے سکول میں‬
‫نازیہ کونوکری کیسے ملی‪،،‬بہرحال‬
‫قصہ مختصر شام کو میں جانے لگا تو‬
‫مولوی نے مجھے روک لیا کہ اتنے‬
‫عرصے بعد آیا ہوں ‪،‬اب ایک رات ان‬
‫کے ساتھ رہوں‪،‬اس نے مجھ سے کوئی‬
‫توقع تو لگائی ہوئی تھی ‪،‬اب اتنے‬
‫عرصے بعد پھر صحیح ‪،‬میں بھی یہی‬
‫چاہتا تھا اس لیے تھوڑی پس وپیش کے‬
‫بعد رک گیا‪،‬رات گئے تک باتیں ہوتی‬
‫رہیں‪،، ،‬میں تقریبا ایک سال اور کچھ‬
‫مہینے بعد لوٹا تھا‪،‬اسوقت بھی سردیاں‬
‫جا چکی تھیں‪،‬موسم نارمل تھا ‪ ،‬پھر‬
‫بھی میرا بسترکمرے میں لگا دیا گیا‬
‫اور وہ بھی لڑکیوں کے کمرے‬
‫میں‪،‬ویسے بھی مجھے موسم کی کوئی‬
‫پرواہ نہیں تھی ‪،‬اب میں ہر موسم میں‬
‫اپنے جسم کا درجہ حرارت اسی کے‬
‫مطاق کرلیتا تھا‪،‬کافی رات ہوئی تو میں‬
‫تو سونے چال گیا‪،،‬مولوی اور اس کی‬
‫بیوی بھی سو گئی‪،،‬لڑکیاں میرے ساتھ‬
‫ہی اپنے کمرے میں آگئی‪،‬کمرہ بدلہ ہوا‬
‫تھا‪،‬جستی پیٹیوں کی جگہ بڑی سی‬
‫دیوار گیر الماری بن چکی تھی‪،‬ایک‬
‫سٹڈی ٹیبل‪،‬اور کچھ سامان بھی آچکا‬
‫تھا‪ ،‬دیوار پر شیشہ ابھی بھی لگاہوا تھا‬
‫‪،‬لیکن میخ کی جگہ لوہے کا بڑا کیل لگا‬
‫ہوا تھا جو کہ میرے خیال دیوار کی‬
‫دوسری طرف ضرور گیا ہوا تھا‪،‬‬
‫چارپائیوں کی جگہ چا ر سنگل بیڈ‬
‫آگئے تھے ‪،‬نازیہ نے کمرے کادورازہ‬
‫بند کردیا‪،‬اور میں نے اسے پیچھے سے‬
‫بانہونمیں لے لیا‪،،‬شازیہ ‪،‬سعدیہ اور‬
‫رافعہ میری طرف دیکھ رہی تھی‪،‬میں‬
‫نازیہ کے پاس واپس آنا چاہتا تھا اور‬
‫اب آ پہنچا تھا‪،‬لیکن وہ ناراض تھیں‬
‫‪،‬میں نے ان کو منا لیامیرے پاس لندن‬
‫جانے کا حوالہ تھا‪،،،‬وہ کچھ نہ کہہ‬
‫سکیں‪،،‬اور پھر شازیہ ‪،‬نازیہ‪،‬سعدیہ‪،‬اور‬
‫رافعہ میرے اوپر گر سی پڑیں‪ ،‬بہت‬
‫ظالم ہو تم ‪،‬اور بہت یاد آئی اس ظالم‬
‫کی‪،‬رافعہ نے کہا‪،،‬شازیہ ‪،‬سعدیہ اور‬
‫نازیہ خاموش تھیں لیکن ان کے جسم بو‬
‫ل رہے تھے‪،،‬جلد ہی ہم کپڑوں کی قید‬
‫سے آزاد ہوگئے ‪،‬رافعہ بال جھجک‬
‫میرے عضو کو چوسنے لگی‪،،‬میں نے‬
‫باقی بہنوں کی طرف دیکھا تو وہاں‬
‫کوئی خاص بات نہ تھی‪،‬حیرانگی تب‬
‫ہوئی جب سعدیہ بھی رافعیہ کے ساتھ‬
‫عضو کو چوسنے لگی‪،،‬چاروں بہنوں‬
‫کے انداز میں چدکڑ پن نمایاں تھا‪،‬میں‬
‫سمجھ گیا میرے بعد انہوں نےکوئی اور‬
‫ڈھونڈلیا تھا‪،‬سعدیہ اور رافعہ بڑی‬
‫مہارت سے عضو کو چوس رہی‬
‫تھیں‪،،‬مجھے بڑا سواد آیا‪، ،،‬واہ مزہ‬
‫آگیا ‪،‬میں نے سعدیہ کے منہ پر آتے بال‬
‫ایک طرف کرتے ہوئے کہا‪،،‬چاروں‬
‫بہنوں کے بال کھلےہوئےتھے ‪ ،‬میں‬
‫نے دیکھا وہ کٹے ہوئے تھے‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫مجھے دھچکا لگا ‪،‬ان کے بال لمبے‬


‫اور خوبصورت تھے خاص کر نازیہ‬
‫کے بالوں میں ا س رات میں باتیں‬
‫کرتے ہوئے انگلیاں پھیرتا رہا‬
‫تھا‪،‬شازیہ اور نازیہ مجھے چومنے‬
‫لگی‪،،‬شازیہ میرے ساتھ کسنگ کرنے‬
‫لگی‪،،‬جبکہ نازیہ اپنی چوت کو‬
‫چھیڑنے لگی‪،،‬نازیہ کیلیے ہی تو آیا‬
‫تھا‪،،‬پر یہ کیا‪،‬ایسی لڑکیاں تو‬
‫یونیورسٹی میں بہت تھیں‪،‬بس ہاتھ‬
‫بڑھانے کی دیر تھی‪،‬سعدیہ اور رافعیہ‬
‫نےعضو چوس چوس کر مجھے پاگل‬
‫کردیا ‪،‬اورمزید پاگل میں اس وقت ہوا‬
‫جب ان کی جگہ نازیہ اور شازیہ نے‬
‫لے لی‪،‬نازیہ میرا عضو چوس رہی‬
‫تھی‪،،‬یہ میرے لیے جھٹکا تھا‪،‬نازیہ کے‬
‫بعد میں شازیہ کو پیار کرتا تھا‪،‬اور وہ‬
‫بھی میرے عضو کو بڑی مہارت سے‬
‫چوس رہی تھی‪،،‬رومانوی طبعیت کی‬
‫شازیہ اب عضو سے رومان لڑا رہی‬
‫تھی‪،‬سعدیہ اور رافعہ میری طرف‬
‫کسنگ کرنے آئی تھیں ‪،‬لیکن میں نے‬
‫ہاتھ کے اشارے سے روک دیا‪،‬وہ‬
‫ہنسنے لگی‪،،‬ارے تم تو لندن سے آئے‬
‫ہو‪،‬پھر یہ کیا‪،‬میں کوئی جواب دیئے‬
‫بناء آنکھیں بند کر کے سرور لینے‬
‫لگا‪،،‬چاروں بہنیں ایک جیسے مہارت‬
‫اور طریقے سے عضو چوستی‬
‫تھیں‪،‬مجھےبڑا مزہ آیا‪،،‬رافعہ اور‬
‫سعدیہ کسنگ کرنے لگی‪،،‬اور بڑا اچھا‬
‫لیسبن کرر ہی تھیں‪،‬وہ چار تھیں تو میں‬
‫بھی تیاری کر کے آیا تھا‪،‬میں آدھا گھنٹا‬
‫پہلے جب واش روم میں گیا تھا تو‬
‫ٹائمنگ گولی کھا چکا تھا‪،‬اور اب میں‬
‫نے جوش سے بھرپور سب سے پہلے‬
‫نازیہ کو ہی پکڑا اور اسے بیڈ پر لٹا‬
‫کر اس کی ٹانگیں اٹھائی اور اندر ڈال‬
‫کر چودائی کرنے لگا‪،،‬میں اس وقت‬
‫کسی رحم کے موڈ میں نہیں تھا‪،‬پیار‬
‫کے موڈ میں آیا تھا لیکن اب ان بہنوں‬
‫کی چدکڑی دیکھ کے میرا موڈبدل گیا‬
‫تھا‪،‬میری رفتار اور طاقت کا فی تھی‬
‫لیکن نازیہ مزہ لے رہی تھی‪،،‬میں اور‬
‫طاقت سے دھکے لگاے لگا‪،‬لیکن نازیہ‬
‫مزہ ہی لے رہی تھی‪،،‬میں نے جی‬
‫بھرکے چودا اور نازیہ کا پانی نکل‬
‫آیا‪،،‬اس کے بعد سعدیہ بیڈ پر ڈوگی‬
‫اسٹائل میں آگئی اورمیں نے اندر ڈا ل‬
‫کے خوب رگڑائی کی‪،‬یہ وہی سعدیہ‬
‫تھی جسے ڈوگی اسٹائل میں مزہ نہیں‬
‫آیا تھا‪،،‬سعدیہ کا جسم سیکسی تھا میں‬
‫اس کا سیکسی جسم کو چود چود کر‬
‫تھکا دیا لیکن وہ بھی مزے ہی لیتی‬
‫رہی‪،،‬بلکہ مجھے لگا اسے یہی چاہیے‬
‫تھا‪،،‬اس سے زیادہ میں طاقت لگانا نہیں‬
‫چاہتا تھا ورنہ چوت کا بھرکس نکل جانا‬
‫تھا‪،‬سعدیہ نے بھی مزے لیکر پانی نکال‬
‫دیا‪،،‬شازیہ سٹڈی ٹیبل پہ بیٹھ گئی‪،،‬شاید‬
‫وہ کچھ منفرد چاہتی تھی‪،،‬میں نے اس‬
‫کی ٹانگیں کھولی اور ان میں کھڑا ہو‬
‫کر چوت میں عضو ڈال دیا‪،،‬اب شازیہ‬
‫بیٹھی تھی ٹانگیں کھول کر‪،‬اور میں‬
‫کھڑا چود رہا تھا‪،‬شازیہ نے بازوپیچھے‬
‫ٹکائے ہوئے تھے‪،،‬اس کے ممے ہل‬
‫رہے تھے اور جسم چودائی میں خوش‬
‫تھا‪،‬مولوی سے سب سے زیادہ شازیہ‬
‫ہی ڈرتی تھی‪،‬لیکن اسوقت شازیہ ہی‬
‫سب سے زیادہ بے دھڑک لگ رہی تھی‬
‫‪،‬شازیہ چودائی سے مسرور سسکاریاں‬
‫لینے لگی‪،‬میں نے اس کی طرف‬
‫پریشان نظروں سے دیکھا تو اس نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا ‪،،‬پاپا اور مما اس‬
‫وقت گہری نیند میں ہیں میں نے انہیں‬
‫لیکسوٹانل گولی کھال دی ہے بلکہ اس‬
‫گولی پر لگا دیاہے‪،‬میں وحشیانہ انداز‬
‫میں چودنے لگا‪،‬ٹیبل جیسے گرنے لگی‬
‫ہو‪،‬لیکن شازیہ سکوں سے مزے لیتی‬
‫رہی‪،،‬اب مزید حیرانگی میرے لیے‬
‫ٹھیک نہیں تھی‪،‬اور میں نے وہ تصور‬
‫توڑ دیا جس میں ان کے پاس آیا تھا‪،‬اوہ‬
‫مزہ آگیا شہزادے‪،،‬تم اسوقت سے‬
‫بہترین بہتر چودائی کرنے لگے ہو‪،‬ایسا‬
‫مزہ تو کبھی آیا ہی نہیں ‪،‬عجیب مدہوش‬
‫کرتا مزہ ہے‪،‬بالکل منفرد انداز ہے‬
‫تمھارا ‪،‬شازیہ ایسے کہ رہی تھی‬
‫جیسے بڑی چودکڑ ہو‪،‬لگتا ہے لندن‬
‫میں گوریوں کوچودتے رہے ہو‪،‬میں‬
‫بھی ہنسنے لگا‪،‬اور شازیہ کوچود چود‬
‫کر مزہ لینے لگا‪،‬توقعات ختم کردیں تو‬
‫پھر کوئی دکھ نہیں ہوتا‪،‬اور اب میں‬
‫مزہ لے رہا تھا‪،،‬شازیہ نے کچھ وقت لیا‬
‫اور پھر اس کا بھی پانی نکل گیا‪،،،‬اب‬
‫مجھے تو چودائی میں رکنا اچھانہیں‬
‫لگ رہا تھا اسلیےرافعہ کی طرف بڑھا‬
‫لیکن وہ دیوار کے ساتھ جا لگی اور‬
‫گانڈ میری طرف نمایاں کر لی‪،،‬آؤ نہ‬
‫کچھ یادیں تازہ ہو جائیں‪،‬رافعہ نے‬
‫معنی خیز لہجے میں کہا‬
‫نے کچھ کہے بغیر اس کی چوت میں‬
‫عضو ڈاال اور دھکے لگانے لگا‪،،‬تھوڑا‬
‫تیز کرو نہ‪،‬رافعہ نے طنز کیا‪،‬تو میں‬
‫سمجھ گیا وہ اس دن کا بدلہ آج مجھے‬
‫ِزچ کر کے لینا چاہتی ہے‪،‬میں نے اتنی‬
‫رفتار اور طاوقت کر دی جتنی اس رات‬
‫کی تھی‪،‬لیکن رافعہ مزے لیتی رہی‬
‫‪،‬بلکہ لہر میں آگئی‪،،‬اسی لہر میں اس‬
‫نے مجھے کہا‪،،،،‬بس شہزادے‪،،،،‬اور‬
‫میں پھر شروع ہوگیا‪،‬اسے اندازہ نہیں‬
‫تھا کہ میں اس دوران کیا سے کیا بن‬
‫چکا ہوں‪،‬اگر میں پہلے واال پرنس ہوتا‬
‫تو شاید رافعہ کامیاب ہی ہو جاتی‪،‬اس‬
‫کی برداشت کا اندازہ میں کرچکا تھا اب‬
‫میں نے اس کے پہلوؤں پر ہاتھ رکھا‬
‫اور پہال درد ناک جھٹکا دیا‪،‬آہ رافعہ‬
‫کراہی‪،‬میں نہ رکا‪،‬اور دے دھکے پہ‬
‫دھکا‪،‬رافعہ پہلے تو کراہتی رہی‪،‬لیکن‬
‫پھر آہستہ آہستہ چیخنے لگی‪،‬بہنیں اس‬
‫کے پاس جمع ہوگئی ‪،‬ان کے چہرے پر‬
‫حیرت تھی ‪،‬شاید ان کے خیال میں‬
‫رافعہ ہر قسم کی چودائی کروا سکتی‬
‫تھی۔ہلکی ہلکی چیخیں روکنے کیلے‬
‫رافعہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ چکی تھی‬
‫لیکن میں نہیں رکا‪،‬پھر رافعہ کی‬
‫آنکھوں میں آنسو آگئے‪،‬روک دو پلز‬
‫روک دو وہ روتے ہوئے بولی لیکن میں‬
‫اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھے اسے چودتا‬
‫رہا رافعہ نے میرے ہاتھ سے نکلنا چاہا‬
‫لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ کس کا ہاتھ‬
‫ہے‪،،‬میں اسے چودتا رہا ویسے بھی‬
‫میرا وقت پورا ہونے واال تھا‪،‬اسلیے‬
‫مجھے پانی نکالنا تھا‪،‬رافعہ میرے‬
‫ہاتھوں میں دوہری ہو رہی تھی‪،،‬شازیہ‬
‫آگے بڑھی اور اس نے میرے کندھے‬
‫پر ہاتھ رکھا تو میں پیچھے ہوگیا‪،‬لیکن‬
‫رافعہ بے ہوش ہوچکی تھی‪ ،‬میں نے‬
‫اسے بیڈ پر لٹا دیا‪،‬سعدیہ میری طرف‬
‫غصےسے دیکھ رہی تھی‪،‬اس نے خود‬
‫مصیبت کو دعوت دی تھی شازیہ نے‬
‫اسے کہا‪،‬اسے کچھ نہیں ہوگا ‪،،‬یہ‬
‫آدھے گھنٹے میں ہوش میں آجائے‬
‫گی‪،،‬میں نے اس کی نبض دیکھتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬میں ایسی حالت سے واقف‬
‫ہوں ‪،‬پریشانی کی کوئی بات نہیں ‪،‬بس‬
‫درد برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے‬
‫بے ہوش گئی ہے‪،‬کچھ دیر میں ہوش‬
‫میں آجائے گی‪،‬اب میرا کچھ کرو‪،،‬میں‬
‫کھڑا تھا اور میراعضو بھی کھڑا‬
‫تھا‪،‬شازیہ اور نازیہ نے یہ ڈیوٹی‬
‫سنبھال لی اور نیچے بیٹھ کر میرا عضو‬
‫چوسنے لگی‪،،‬میں نے آنکھیں بند کر‬
‫لیں‪،‬کچھ ہی دیر میں میرے جسم میں‬
‫کپکپاہٹ ہوئی اور میرا پانی نکل‬
‫آیا‪،‬شازیہ اور نازیہ نے اپنے سینے‬
‫آگے کر دیے‪،،‬میں نے ان پر سارا پانی‬
‫گرا دیا‪،‬کبھی یہ ریشمی ممے میرے‬
‫لیے ایک خواب تھے اور اس خواب‬
‫کے تصور میں مجھے یہاں آنا پڑا ‪،‬‬
‫بہرحال بالکل ننگی فلم جیسا منظر‬
‫تھا‪،‬ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رافعہ ہوش‬
‫میں آگئی بہنوں کے چہرے پر بھی‬
‫اطمینان آگیا‪،‬اور وہ سونے کی تیاری‬
‫کرنے لگی‪،،‬جبکہ میں سو بھی چکا‬
‫تھا‪،‬صبح ناشتہ کرکے پھر ملنےکا وعدہ‬
‫کر کے میں مولوی سے اجازت لیکر‬
‫وہیں سے سیدھا یونیورسٹی چال گیا‪،‬یہ‬
‫پہلی رات تھی جو ساڑھےپانچ سال بعد‬
‫میں نے اپنی مرضی سے جوسلین کے‬
‫عالوہ کسی اور کے ساتھ گزاری‬
‫تھی‪،‬یونیورسٹی میں ہی ناشتہ کیا‪،‬اور‬
‫موبائل آن کیا‪،‬کچھ ہی دیر میں جوسلین‬
‫کی کال آگئی‬

‫‪،،‬ہیلو‪،،‬کہاں تھےتم‪،،‬جوسلین نے بے‬


‫اختیار پوچھا‪،‬میں یونیورسٹی میں ہوں‬
‫تم کہانہو‪،،‬آئی نہیں یونیورسٹی‬
‫میں‪،،‬میں نے اس کے سوال کا جواب‬
‫دینے کی بجائے نیا سوال کردیا‪،‬وہیں‬
‫رہنا میں آرہی ہوں‪،‬میں غزل سے مال‬
‫‪،،‬کہاں تھے یار ‪،،‬تمھارا موبائل کیوں‬
‫بند تھا‪،،‬میں مصروف تھا‪،‬اچھاکیا‬
‫مصروفیت تھی‪،‬مصروفیت تمھارے‬
‫طرح خوبصورت نہ تھی‪،‬لیکن غزل‬
‫اسے مذاق سمجھی‪،‬ہم پیریڈلینے چلے‬
‫گئے‪،‬جوسلین نے پیریڈ لینا تھا اور وہ‬
‫دیر سے آئی‪،‬میں غزل کے ساتھ اپنی‬
‫جگہ پر بیٹھا تھا‪،‬مجھے دیکھ کر‬
‫جوسلین کو جیسے قرار آ گیا‪،‬پیریڈ ختم‬
‫ہوتے ہی مجھے جوسلین نے بالیا‪،‬اور‬
‫مجھے ایک سائیڈ میں لے گئی‪،‬پرنس تم‬
‫مجھے سے ناراض رہنے لگے ہو‪،‬اگر‬
‫اس کی وجہ میرا غزل سے رویہ ہے‬
‫تو میں تمھیں یقین دالتی ہوں کہ آج سے‬
‫میں اسے کچھ نہیں کہوں گی‪،‬جوسلین‬
‫نے جیسے ہار مانتے ہوئے کہا‪،‬میں‬
‫سمجھ گئی ہوں کہ غزل تم سے کبھی‬
‫چودائی نہیں کروائے گی‪،‬یہ ان عورتوں‬
‫میں سے ہے جو خالص نسوانی مزاج‬
‫کی رومانوی طبیعت کی ہوتی ہیں‪،‬ایسی‬
‫لڑکیاں اپنے محبوب کو اپنا دل دے‬
‫دیتی ہیں‪،‬لیکن اپنا جسم تبھی دیتی ہیں‬
‫جب ان سے شادی کرتی ہیں‪،‬پرنس میں‬
‫نے تم پراپنا سب کچھ نچھاور کر‬
‫دیا‪،‬اور تمھارےلیے‪،‬اپنی زندگی تبدیل‬
‫کر لی‪،‬اور تمھارے سوا دنیا سے کنارا‬
‫کر لیا‪،‬میرے لیے تم ہی زندگی‬
‫ہو‪،‬مجھے تنہا نہ چھوڑنا ‪،‬نہیں تو میں‬
‫خود کشی کر لوں گی۔جوسلین انتہائی‬
‫جذباتی ہو رہی تھی‪،‬میں اسے فلیٹ پر‬
‫لے گیا‪،‬لیکن جوسلین پر جذبات کا دورہ‬
‫اظہار محبت‬
‫ِ‬ ‫پڑ چکا تھا‪،‬بس مجھ سے‬
‫اور اپنی چاہت کا مختلف انداز میں بیان‬
‫ہی آجکل اس کی گفتگو کا مرکز‬
‫تھا‪،‬اسے جیسے ڈر ہو گیا تھا کہ میں‬
‫اسے چھوڑ رہا ہوں‪،‬اس کا دھیان بٹانے‬
‫کیلے میں کچھ دن کی چھٹی لے کر‬
‫میں اسے جاگیر پر لے گیا‪ ،‬وہ وہاں‬
‫کے معامالت میں مصروف ہوگئی‪،‬اور‬
‫رات کو میں اس کو چودتا‪،‬تو اس طرح‬
‫اس کا دل بہل گیا‪،‬ایک ہفتہ ہم وہاں رہ‬
‫کر واپس ہو لیے‪،‬واپسی پر رستے میں‬
‫ایک جگہ گاڑی روکنی پڑی‪ ،‬کیونکہ‬
‫سامنے ایک بڑا سا درخت گرا ہوا تھا‬
‫اور اس نے سارا رستہ روک رکھا‬
‫تھا‪،‬مجھے فضا میں خون کی بُو‬
‫محسوس ہوئی میں چوکنا ہوچکا تھا‪،‬‬
‫پرنس باہر نہیں نکلنا‪،‬اندر ہی بیٹھے‬
‫رہو‪،‬جوسلین ڈر گئی تھی ‪،‬شاید وہ‬
‫چوکنی رہتی تھی‪،‬ہماری گاڑی بلٹ‬
‫پروف تھی ‪ ،‬یہ عام گاڑی نہیں تھی‬
‫‪،‬بڑی مہنگی گاڑی تھی‪،‬میں نے گاڑی‬
‫اسی حالت میں پیچھے کی طرف‬
‫بھگانی چاہی اور پیچھے دیکھا تو وہاں‬
‫ایک اور درخت کا تنا پڑا تھا ‪،‬اب‬
‫کھیتوں میں گاڑی اتارنا بھی خطرناک‬
‫لگ رہا تھا‪،‬جوسلین اپنی جاگیر میں کال‬
‫کرنے لگی‪،‬اس کا رادہ گاڑی کے اندر‬
‫ہی وقت گزارنے کا تھاجب تک مدد‬
‫نہیں آجاتی‪،‬اس وقت تک اندر ہی بیٹھے‬
‫رہنا چاہتی تھی ہم اندر ہی بیٹھے‬
‫رہے‪،‬کچھ منٹ اسی طرح گزر‬
‫گئے‪،‬جب ہم باہر نہیں نکلے تو اطراف‬
‫کے کھیتوں دونوں طرف سے چار ‪4،‬‬
‫آدمی نکلے‪،‬ان کے ہاتھوں میں‬
‫کالشنکوف تھیں‪،‬ایک کے ہاتھ میں بڑا‬
‫سا ہتھوڑا تھا‪،‬میں ان کا منصوبہ سمجھ‬
‫گیا‪،‬وہ ہتھوڑے سے شیشہ توڑنا چاہتے‬
‫تھے تا کہ پھر ہمیں قتل کر سکیں‪،‬ان‬
‫کو معلوم تھا کہ گاڑی بلٹ پروف‬
‫ہے‪،‬اور ہم یہاں سے اسوقت گزریں‬
‫گے‪،‬یہ صرف چند پل کا منظر ہے‪،‬اور‬
‫گاڑی میں رکنا موت کے مترادف‬
‫تھا‪،‬میں اسی پل فیصلہ کرچکا تھا کہ‬
‫مجھے کیاکرنا‪،‬دروازہ بند کرلینا میں‬
‫نے جوسلین سے کہا‪،‬میرے الفاظ ختم‬
‫نہیں ہوئے تھے کہ کوان لی کی آواز‬
‫میرے ذہن میں گونجی‪،‬میرے بچے‬
‫کسی کے خون سے اپنے ہاتھ مت رنگنا‬

‫‪،،‬جیسے ہی ہتھوڑے واال نزدیک آیا‬


‫اور اس نے ہتھوڑا بلند کیا‪،‬میں نے‬
‫دروازہ جھٹکے سے کھوال دروازہ‬
‫اسے لگا وہ دوہرا ہوا‪،‬اور میں باہر‬
‫نکال‪،‬مجھ پر فائرنگ ہوئی‪،‬لیکن میں‬
‫ہتھوڑے والے کی آڑ میں آچکا تھا‪،‬اس‬
‫سے پہلے وہ کچھ سوچتے ہتھوڑے واال‬
‫اڑتا ہوا کسی میزائل کی طرح اسطرف‬
‫کے باقی تینوں آدمیوں پر جا گرا‪،‬کسی‬
‫نے فائرنگ کر دی تھی اور ہتھوڑے‬
‫والے کی الش ہی ان پر جا گری‪،‬اس‬
‫سے پہلے وہ کہ سنبھلتے میں ان کے‬
‫سر پر پہنچ چکا تھا‪،‬مجھے محسوس ہوا‬
‫کہ درمیان میں گاڑی ہونے کی وجہ‬
‫سے دوسری طرف کے چار‬
‫آدمی‪،‬میری طرف بھاگ چکے ہیں‪،‬یہ‬
‫سارا لمحوں کا کھیل تھا‪،‬میں نے اپنی‬
‫طرف کے گرے آدمیوں میں سے ایک‬
‫کے بازو پر ٹھوکر ماری اس کابازو‬
‫ٹوٹ گیا‪،‬دوسرا اٹھنے کی کوشش کرہا‬
‫تھا کہ میں نے اس کی تھوڑی کے‬
‫نیچے مکا مارا وہ وہ زمیں کی طرف‬
‫‪،‬کشش ثقل نے اسے‬
‫ِ‬ ‫ایسے گیا جیسے‬
‫پوری طاقت سے کھینچ لیا ہو‪،‬جب اس‬
‫کا سر زمین پر لگاتو اس کا جبڑا ٹوٹ‬
‫چکا تھا اور وہ بے ہوش ہوچکا‬
‫تھا‪،‬تیسرا اٹھ بیٹھا تھااور بیٹھے بیٹھے‬
‫مجھ پر فائرنگ کی‪،‬لیکن میں تو وہاں‬
‫نہیں تھا‪،‬میں کہاں ہوں‪،‬اس بات کا پتہ‬
‫اسے اسوقت چال جب جب اس کی کنپٹی‬
‫پر مکا پڑ چکا تھا‪،‬اور مردہ مکھی کی‬
‫طرح زمیں پر گر گیا وہ بھی بے ہوش‬
‫ہوگیا تھا‪،‬ابھی دوسری طرف کے چار‬
‫آدمی گاڑی کے پاس پہنچے تھے وہ‬
‫میری رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتے‬
‫تھے‪ ،‬میں مڑا ایک طرف سے دو‬
‫آدمیوں کی طرف بھاگا‪،‬انہوں نے مجھ‬
‫پر فائرنگ کی‪،‬لیکن میں زمیں پر نہیں‬
‫تھا‪،‬انہوں نے کبھی کسی انسان کو اسے‬
‫اڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔لیکن‬
‫حیرانگی کی بجائے انہوں نے پھر‬
‫فائرنگ کی لیکن انہیں دیر ہوچکی‬
‫تھی‪،‬جب میں ان پر گرا تو میرے‬
‫گھٹنے سے ایک کی ہنسلی کی ہڈی‬
‫ٹوٹ گئی اور دوسرا میرے کھڑی‬
‫ہتھیلی سے اپنا بازو کٹوا چکا‬
‫تھا‪،‬دوسری طرف کہ ایک آدمی میری‬
‫طرف بھاگا اور ایک نیچے لیٹ گیا‬
‫‪،‬اور نیچے سے میرے پاؤں پر فائرنگ‬
‫کرنی چاہی‪،‬گاڑی کی رکاوٹ کی وجہ‬
‫سے مجھے سارا موقع مال تھا‪،‬دوسرا‬
‫میری طرف بھاگا‪،‬لیکن اسے مجھ سے‬
‫ملنے کی حسرت ہی رہ گئی کیونکہ‬
‫میں گاڑی کے اوپر سے اس آدمی پر‬
‫جا گرا‪،‬جو نیچے لیٹ کر فائرنگ‬
‫کرچکا تھا‪،‬میری کہنی اس کی کمر پر‬
‫لگی‪،‬اور نیچے لیٹے آدمی کی ریڑھ کی‬
‫ہڈی ٹوٹ چکی تھی اب وہ کبھی بھی‬
‫اٹھ کے بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا‪،‬جو‬
‫میری طرف جا رہا تھا وہ پلٹا اور میری‬
‫طرف آیا ‪،‬لیکن میں تو اس کے پیچھے‬
‫تھا‪،‬میری لَو ِکک اس کے رانوں پر‬
‫پڑی اور ہڈی ٹوٹنے کی آواز اس نے‬
‫بھی سنی ہوگی تب اسے پتہ چال ہو‬
‫گاکہ میں کہاں ہوں‪،،‬وہ ریت کی بوری‬
‫کی طرح نیچے گرا لیکن اس پہلے اپنی‬
‫بازو کی ہڈی بھی تڑوا بیٹھا‪،‬جس کا‬
‫سب سے پہلے ہاتھ توڑا تھا وہ دوسرے‬
‫ہاتھ سے کال شنکوف سنبھال چکا تھا‬
‫تکلیف کہ باوجود اس نے میری طرف‬
‫فائرنگ کی‪،‬لیکن میں وہاں نہیں تھا‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫‪،‬اس نے اپنی سمجھ کے مطابق میرے‬


‫ہیولے پر فائرنگ کی‪،‬لیکن میں تو وہاں‬
‫بھی نہیں تھا ‪،‬میں فضا سے نیچے آیا‬
‫اور سیدھا اس کے اسی ہاتھ پر آیا اس‬
‫کا ہاتھ گن سمیت میرے دونوں جوتوں‬
‫کے درمیان تھا میں تیزی سے گھوما تو‬
‫اس کا دوسرا ہاتھ بھی کالئی سے ٹوٹ‬
‫چکا تھا‪،‬کچھ لمحوں کا ہی تو سارا کھیل‬
‫تھا جس کا ہاتھ کٹا تھا اس کی فلک‬
‫شگاف چیخیں باقی سب سے اونچی‬
‫تھیں‪،‬شاید اسے سمجھ نہیں آرہی تھی‬
‫کہ میرے ہاتھ میں کوئی تلوار وغیرہ‬
‫نہیں تھی تو اس کا ہاتھ کیسےکٹ‬
‫گیا‪،‬جس کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹی تھی‬
‫اور جس کا ہاتھ کٹا تھا اسے پکڑ کر‬
‫ایک سائیڈ میں کیا ان میں سے کٹے‬
‫بازو واال بے ہوش ہوچکا تھا اور ہنسلی‬
‫کی ہڈی ٹوٹنے والے کا سر عجیب سے‬
‫انداز میں دھنسا ہوا تھا ‪،‬پھر میں گاڑی‬
‫میں بیٹھا اور کھیتوں میں گاڑی کھسا‬
‫دی ‪،،‬مکئی کے کھیتوں میں کچھ نظر‬
‫نہیں آرہا تھا اس لیے میں نے گاڑی‬
‫جتنی ریورس کر سکتا تھاکی اور ذرا‬
‫لمبا چکر کاٹ کر پھر سولنگ لگی‬
‫سڑک کی طرف آگیا‪،‬جوسلین میری‬
‫طرف زبردست حیرانگی سے دیکھے‬
‫جا رہی تھی‪،،‬کیا بات ہے ‪،‬میں نے اس‬
‫سے پوچھا‪،،‬تو یہ سیکھا ہے تم نے‬
‫کوان لی سے‪،‬وہ ابھی تک حیران‬
‫تھی‪،،،‬ہاں تم کہہ سکتی ہو‪،،‬کہہ سکتی‬
‫ہو کا کیا مطلب ہے‪،،‬آٹھ ہتھیار بند آدمی‬
‫اور تمھارے پاس کچھ نہیں تھا‪،،‬لیکن‬
‫وہ سب تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکے‪،،‬ہاں‬
‫یہ کنگفو کا اسٹائل پاکوا تھا‪،،‬اس میں‬
‫آٹھ سمتوں کا دھیان رکھا جا تا‬
‫ہے‪،،‬لیکن کوئی آدمی یہ کیسے کر‬
‫سکتا ہے‪،،‬اتنی تیزی تو انسانی جسم‬
‫سے ممکن ہی نہیں‪،‬جوسلین کا سوال‬
‫جائز تھا‪،،‬مارشل آرٹ میں رفتار ہی تو‬
‫سب کچھ ہے‪،،‬جو جتنا تیز ہے وہ اتنا‬
‫ہی بڑا ماسٹر ہے‪،،‬تو کیا تم کوئی ماسٹر‬
‫ہو‪،،‬جوسلین کے چہرے سے حیرانگی‬
‫نہیں جا رہی تھی‪،‬میرے عظیم ترین‬
‫استاد زونگ ینگ کوان لی کا یہ کمال‬
‫ہے میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‬
‫‪• part⁴⁶‬‬

‫‪،،‬میں سمجھتی تھی کہ اب تک ایسا‬


‫فلموں میں ہوتا آیا ہے اور اس کا حقیقت‬
‫سے کوئی تعلق نہیں ہے‪،،‬ہاں تم ٹھیک‬
‫کہتی ہو۔عام طور پر یہی سمجھا جاتا‬
‫ہے ‪،‬لیکن اگر مارشل آرٹ کی‬
‫اساطیری داستانیں پڑھیں تو حقیقت‬
‫سمجھ میں آجاتی ہے ‪،‬کہ یہ حقیقت‬
‫تھا‪،،‬لیکن جس طرح بہت سے فنون‬
‫جدت کی نظر ہو گئے ہیں‪،‬اسی طرح‬
‫جدید آتشی ہتھیاروں کے سامنے یہ فن‬
‫بھی مٹ رہے ہیں‪،‬کیونکہ برسوں کی‬
‫تپسیا سے ایک ماسٹر بننے واال شخص‬
‫کسی اسٹریٹ فائٹر کی ایک گولی سے‬
‫زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‪،،‬تب اس‬
‫فن کی طرف کون دھیان دے گا‪،‬دوسرا‬
‫اس فن کو غلط استعمال کرنے والے‬
‫بھی تھے اسلیے استاد حضرات اہل‬
‫لوگوں کے حوالے اپنا فن کرتے‬
‫تھے‪،‬اور فی زمانہ آپا دھاپی کے دور‬
‫میں کسی انسان کے حوالے ایسا‬
‫خطرناک فن سونپ جانا کہ وہ قاتل‬
‫مشین بن جائے اور کوئی اس کا کچھ نہ‬
‫بگاڑ سکے بڑا خطرناک ہے‪،،‬اس لیے‬
‫اس لیے کوان لی کے پائے کے استاد‬
‫اپنے ساتھ ہی اپنا فن لے جانے‬
‫لگے‪،،‬اب تو بس باقیات ہی رہ گئی‬
‫ہیں‪،‬اس لیے ماسٹرز اب وہ نہیں رہے‬
‫نہ وہ حقیقتیں رہیں‪،‬اچھا تو اب سمجھی‬
‫کہ کوان لی کسی کو اپنا شاگرد کیوں‬
‫نہیں بناتا تھا‪،،‬ہاں وہ کسی کی تالش‬
‫میں تھا جسے اپنی وراثت دے کر جا‬
‫سکے‪،‬اور اس نے اپنی وراثت‬
‫کیلیےتمھیں چن لیے‪،،‬آخر اس نے تم‬
‫میں ایساکیا دیکھا کہ وہ راضی ہوگیا‬
‫تھا‪،،‬میں یہ بات سمجھ نہیں‬
‫سکی‪،،‬میرے خیال میں وہ گوشہ نشیں‬
‫شخص ہے اور اسے دولت کی کوئی‬
‫پرواہ نہیں ہے‪،،‬اب یہ تو تم ہی بتاؤ گی‬
‫کہ اس نے مجھ میں کیا دیکھا ‪،‬کیونکہ‬
‫تم بھی میری استاد ہو‪،،‬میں تمھاری‬
‫استاد تھی‪،،‬اب تو لگ رہا ہے کہ میں‬
‫کوئی نادان بچی ہوں‪،،‬پتہ نہیں کوان لی‬
‫نے تمھیں کیا بنا دیا ہے‪،،‬تم ہر جگہ‬
‫آگے ہو جبکہ یہ ایک لڑنے بھڑنے کا‬
‫فن ہے اور بس‪،،‬میں ہنسنے لگا‪،،‬یہ بات‬
‫تم نہیں سمجھو گی‪،،‬کہ جب ایسے فن‬
‫میں انتہا تک پہنچا جائے تو اس سے‬
‫اختیار حاصل ہوجاتا ہے‪،،‬اور پھر وہ‬
‫شخص اپنا اختیار کو جہاں چاہے‬
‫استعمال کر لے‪،،‬ویسے کیا تم ان لوگوں‬
‫کو جانتی ہو‪،،‬نہی میں نہیں جانتی‪،،‬میں‬
‫نے دھیان لگایا تو اک شبیہ‬
‫ابھری‪،،‬لیکن کوان لی کی آوز پھر‬
‫ابھری‪،،‬ایسا مت کرو میرے بچے‪،‬اسے‬
‫نہ بتانا ‪،‬اس طرح تم اس کے سامنے اپنا‬
‫آپ ظاہر کر رہے ہو‪،،‬ویسے میں جاتے‬
‫ہی آئی جی سے ملنے کا ارداہ رکھتی‬
‫ہوں‪،‬اس دوران وہ اپنی جاگیر میں بھی‬
‫دوبارہ بات کر چکی تھی اور تفصیالت‬
‫بتا کر وہاں پڑے لوگوں سے اصل‬
‫مجرم کےمعلوم کرنے کا کہہ چکی‬
‫تھی‪،‬یہ لوگ چھپے نہیں رہیں‬
‫گے‪،،‬جوسلین کی آواز مجھے خیالوں‬
‫سے کھینچ الئی‪،‬لیکن مجھے اب کوئی‬
‫ڈر بھی نہیں ہے میرے ساتھ میرا سپر‬
‫مین ہے‪،‬جوسلین کافی مضبوط اعصاب‬
‫کی تھی نہیں تو اتنی جلدی نہ‬
‫سنبھلتی‪،،‬ہم باتیں کرتے رہے اور فلیٹ‬
‫تک کے راستےکا پتہ ہی نہیں‬
‫چال‪،،‬اگلے دن یونیورسٹی گئے تو غزل‬
‫کے شکوے شکائتیں شروع ہو گئی‬
‫لیکن میں نے اسے رام کر لیا‪،‬میرا خیال‬
‫تھا کہ جوسلین اب غزل سے کنارہ کر‬
‫لگی۔۔لیکن یہ میری خام خیالی‬
‫تھی‪،،‬جوسلین نے بس اپنا انداز بدال تھا‬
‫‪،‬میں نے اس چک چک سے جان‬
‫چھڑانا چاہتا تھا‪،،‬مجھے اس کیلیے یہی‬
‫مناسب لگا کہ میں یونیورسٹی چھوڑ‬
‫دوں‪،‬لیکن اصل بات یہ تھی کہ غزل‬
‫بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی‪،،‬وہ‬
‫اتنا آگے بڑھ گئی تھی کہ اس کیلیے‬
‫واپسی ممکن نہیں تھی‪،‬حاالنکہ میں نے‬
‫اپنے بارے میں کھل کے سب کچھ بتا‬
‫دیا کہ میں کیا ہوں خاص کر میں نے‬
‫اس کے سامنے اپنا سیکسی روپ بھی‬
‫کھول دیا تھا کہ مجھے چودائی میں‬
‫دلچسپی ہے‪،‬‬

‫جوسلین ‪،‬نگیہ‪،‬سحرش‪،‬شازیہ‪،‬رافیہ‬
‫‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ‪،‬اسے سب کا پتہ‬
‫تھا‪،،‬لیکن غالب نے سچ کہا ہے ‪،،‬‬
‫عشق نے غالب نکما کر دیا‬
‫ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‪،‬‬
‫غزل کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے‬
‫یونیورسٹی چھوڑ دی ‪،،‬پرنس تم اب‬
‫یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے‪،‬جوسلین‬
‫نے تین دن بعد مجھ سے پوچھا‪،،‬میں‬
‫نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے۔۔کیا یہ‬
‫تمھارا فائنل ائیر ہے اور ابھی تم نے پی‬
‫ایچ ڈی بھی کرنی ہے‪،،،‬کیا اپنی بات‬
‫ہی بھول گئے ‪،‬تم ماسٹر سے اگلے‬
‫درجے تک جانا چاہتے تھے‪ ،‬اب میرا‬
‫پڑھنے کو دل نہیں کرتا‪،،‬اسلیے میں‬
‫آگے نہیں پڑھوں گا‪،،‬میں نے جوسلین‬
‫کو صاف جواب دے دیا‪،‬جوسلین‬
‫خاموشی سے میری طرف دیکھنے‬
‫لگی‪،،‬دیکھو میں نےتمھیں بنایا ہے اور‬
‫میں اپنے شاہکار کو مکمل دیکھنا‬
‫چاہتی ہوں‪،،‬میں خاموشی سے الئبریری‬
‫گیا اور وہاں سے ایک فائل ال کر‬
‫جوسلین کو پکڑا دی‪،،‬کیا ہے‬
‫یہ‪،،‬جوسلین نے فائل کھولتے ہوئے‬
‫پوچھا‪،،‬یہ میں نے نفسیات پر ایک مقالہ‬
‫لکھا ہے اس میں سیکس اورایک فرد‬
‫کی انسانی نفسیات اور مجموعی طور‬
‫پر پورے معاشرے کی نفسیات تینوں کو‬
‫موضو ع بنایا گیا ہے‪،‬تم یہ دیکھ لینا‬
‫‪،‬مجھے نہیں لگتا کہ مجھے آگے‬
‫پڑھنے میں وقت ضائع کرنا‬
‫چاہیے‪،،‬لوگ ڈگریوں کو دیکھتے‬
‫ہیں‪،‬لیکن ایک کالس میں زیادہ سے‬
‫زیادہ آٹھ کتابیں ہوتی ہیں‪،،‬اگر ہم ون کو‬
‫بھی اور ایم اے کو بھی آٹھ آٹھ مضمون‬
‫دےدیں تو یہ‪ 16‬ضرب ‪ 8‬ہوا ‪126‬‬
‫‪،،‬یعنی ‪ 126‬کتابیں پڑھنے واال عالم‬
‫فاضل ہے اور جس کے پاس اپنی‬
‫الئبریری میں‪ 1000‬یا ‪ 10000‬کتابیں‬
‫ہیں جو ا سنے پڑھی ہیں تو وہ اس‬
‫ڈگری کے سامنے کچھ بھی‬
‫نہیں‪،‬کیونکہ اس کے پاس ڈگری نہیں‬
‫ہے‪،‬ایسی ڈگری جس کے سلیبس کا‬
‫کوئی معیار نہیں ہے‪،،،‬مجھے یہ دوغال‬
‫معیار اچھا نہیں لگا‪،‬اب میں نے پڑھنا‬
‫ہے اپنے لیے‪،،‬آج سے میں یونیورسٹی‬
‫کے کنویں سے نکل کر اپنے آپ کو‬
‫الئبریریوں کے سمندر کے حوالے کر‬
‫دیا ہے‪،‬ہاں پروفیشنل ایجوکیشن میں‬
‫کچھ مزہ ہے اس سے کچھ علوم میں‬
‫مہارت حاصل ہوجاتی ہے لیکن مجھے‬
‫کون سا روزگار کمانا ہے ‪،‬تم ہو‬
‫نہ‪،‬جوسلین میری طرف آنکھیں پھاڑیں‬
‫دیکھ رہی تھی‪،‬کچھ لمحیں چپ رہنے‬
‫کے بعد جوسلین نے ٹھنڈا سانس بھرا‬
‫جیسے میرے استدالل کے سامنے اس‬
‫کو کوئی جواب نہ مال ہو‪،‬پھر بھی‬
‫پرنس زندگی میں کچھ نہ کچھ تو کرنا‬
‫ہی پرتا ہے‪،‬کوئی مصروفیت تو پالنی‬
‫چاہیے ‪،‬اپنی صالحیتوں کو استعمال‬
‫کرنا چاہیے‪،،‬اگر تم محسوس کرتے ہو‬
‫کہ تم کسی بھی پروفیشنل میں بہترین ہو‬
‫تو اسے دنیا کے سامنے الؤ‪ ،‬کیوں نہ‬
‫تم بین االقوامی طرز پر مارشل آرٹ کا‬
‫کلب کھول لو‪،،،‬یہ ممکن نہیں ہے‬
‫جوسلین‪،،‬اگر زندگی میں کوئی اہل مل‬
‫گیا تو اسے اپنی وراثت دے جاؤں گا‪،‬‬
‫نہیں تو کوئی شاگرد کبھی نہیں بناؤں‬
‫گا‪ ،‬اور کیونکہ تم صحیح کہتی ہو کہ‬
‫کسی شعبے میں اپنی صالحیتیں دنیا‬
‫کے سامنے النی چاہیے تا کہ جو آپ کہ‬
‫پاس ہے اس سے دنیا مستفید ہو سکے‬
‫‪،‬یہ بھی ایک امانت ہے جو حقدار کے‬
‫پاس پہنچا دینی چاہیے‪،،‬اسلیے میں نے‬
‫اپنے لیے ایک کام چن لیا ہے‪،‬اور وہ‬
‫ہے ‪،‬لکھنا‪،،‬میں سمجھتا ہوں مجھے‬
‫لکھنے کی طرف جانا چاہیے‪،‬کیا لکھوں‬
‫گے ناولز‪،‬کہانیاں‪،‬جوسلین نے بےاختیار‬
‫پوچھا ‪،،‬دیکھوں گا ابھی میں آرٹیکلز‬
‫کی طرف مائل ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ‬
‫کچھ سنجیدہ لکھوں‪ ،،‬اگر ناولز وغیرہ‬
‫کی طرف آیا تو زندگی برائے ادب ہی‬
‫لکھوں گا‪ ،‬کیونکہ مجھے ادب برائے‬
‫ادب کی بجائے زندگی برائے ادب اچھا‬
‫لگتا ہےاور کوئی بامقصد ادب تخلیق‬
‫کروں گا ‪،‬تو پھر تم اردو ‪ -‬ادب میں‬
‫کیوں نہیں کالسیں لے لیتے ‪،‬مجھے‬
‫یقین ہے ‪،‬کم وقت ہونے کے باوجود تم‬
‫اس میں اچھی پوزیشن لے لو گے‪،‬ہاں‬
‫وہ ماسٹر کورس کی چند کتابیں میں‬
‫پڑھ چکاہوں تم چاہو تو میرا ٹیسٹ لے‬
‫لو‪،،‬اس سے کسی نے ادیب تو کیا بننا‬
‫ڈھنگ سے منشی بھی نہیں بن سکتا‪،‬بہر‬
‫حال تمھارا اصرار ہےتو جب فائنل کے‬
‫ایگزام ہوں تو میں پیپرز دے دوں‬
‫گا‪،‬جس میں تم کہو گی‪،‬پرنس مجھے‬
‫بہت خوشی ہوگی کہ اگر تم لکھنے کی‬
‫طرف آؤ ‪،‬کیونکہ اوردو ادب پر بھی‬
‫تمھیں میں نے ہی لگایا ہے اور میں‬
‫محسوس کر رہی ہوں کہ میرا لگایا ہوا‬
‫پودا آج تناور درخت بن گیا ہے‬
‫میں خود کو جوسلین کے خیالوں سے‬
‫بہالنے لگا‪،،‬جوسلین میرا نتظار کررہی‬
‫ہوگی‪،‬ہوسکتا ہے جیسے ہی آٹورکشہ‬
‫فلیٹ کے دروازے پر رکے وہ باہر نکل‬
‫آئے‪،،‬وہ مجھے پوچھے گی سوراخ کب‬
‫اور کیسے مال‪،،‬یقنا ا سے دیوار کے‬
‫سوراخ کاپتہ ہوگا‪،،،‬اوور اس سوراخ‬
‫میں ہی وہ سبق لکھا ہےجو مجھے‬
‫ساری عمر یاد رہے گا‪،،،،‬وہی‬
‫ہوا‪،،‬جیسے ہی آٹو رکشہ فلیٹ کے‬
‫سامنے رکا‪،،‬فلیٹ کادروازہ کھالاور‬
‫جوسلین باہر نظر آئی‪،،‬اسنے چپ چاپ‬
‫رکشے والے کوکرایہ ادا کیا‪،،‬اور میرا‬
‫ہاتھ پکڑ کر مجھے اندر لے آئی‪،،‬اندر‬
‫آتے ہی اس نے دروازہ بند کیااور‬
‫میرے گلے لگ گئی‪،،‬میں نے بھی اس‬
‫کے گرد بازوؤں کا گھیراڈال دیا‪،‬ہم نے‬
‫ایک طویل کس لی‪،،‬اور پھر بیڈروم میں‬
‫آگئے‪،،‬نہالو‪،‬اس نے کہااور میں باتھ‬
‫روم میں جاگھسا‪،،‬گرم پانی سےاچھی‬
‫طرح جی بھر کے نہایا ‪،،‬میں روز‬
‫نہانےکا عادی تھا لیکن ایکدن نہیں نہایا‬
‫تھا ‪،‬اب طبیعت کوسکون آگیا‪،‬نہاکے‬
‫نکال تو جوسلین نے میرے پاجامہ اور‬
‫ٹی شرٹ نکال دی تھی‪،،‬وہ پہن کر میں‬
‫ایزی فیل ہوگیا‪،‬جوسلین میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی‪،،‬دودھی مل گیا تھا‪،،‬ایں ‪،،‬میں نے‬
‫کہا کہ دودھی مل گیا تھا ‪،‬جوسلین نے‬
‫دوبارہ پوچھا ‪،،،‬ہاں مل گیا تھا‪،،‬اور بس‬
‫میں کرائے کیلیے کیاکہا تھا ؟اسٹوڈنٹ ؟‬
‫جوسلین نے اگال سوال کیا‪،،‬ہاں یہی کہا‬
‫تھا میں نے مسکراتے ہوئے کہا‪،،،‬اور‬
‫اگر تم بھاگ کے نہ جاتےتو مولوی‬
‫دروازے میں داخل ہوتے ہوئے نہیں‬
‫ملنا تھا اس طرح سنہری موقع تم‬
‫نےضائع کردیناتھاجو کہ تم نے نہیں‬
‫کیا‪،،،‬تو‪،‬جوسلین رک گئی‪،،،،،‬تو کیا ؟‬
‫میں نے پوچھا‪،،،،‬تو پھر سارے حربے‬
‫آزما کہ کب پتہ چال کہ یہ لڑکیاں نہیں‬
‫پھنسے گی‪،،،‬اسی دن رات کو‪،،،،‬جب‬
‫ان کے ساتھ کمرے میں سوئے‬
‫تھے‪،،‬جوسلین شرارت سے‬
‫مسکرائی‪،،‬ہاں میں نے مختصر جواب‬
‫دیا‪،،،‬اور ۔۔۔۔۔دیوار میں سوراخ کا کب‬
‫پتہ چال‪،،‬اگلے دن شام کو‪،،،‬میں نے اس‬
‫کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے‬
‫بتایا‪،،،‬میرے پرنس تم کامیاب‬
‫ہوگئے‪،،‬اب تمھاری خوہش کے مطابق‬
‫کل سے اگال پروگرام شروع ہو جائے‬
‫گا‪،،‬تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ ہر‬
‫شخص ساری دنیا سے بچا کہ بلکہ‬
‫اپنے آپ سے بھی بچا کے اپنی دھلی‬
‫دھالئی زندگی میں ایک سوراخ بناتا ہے‬
‫‪،،،‬جس سے وہ سیکس کا مزہ حاصل‬
‫کرتا ہے ‪،،،‬بڑے بڑے شریف لوگ‬
‫‪،،،،،،‬بڑی بڑی پگڑیوں والے ‪ ،،،،‬بڑی‬
‫بڑی ڈگریوں والے ‪،‬امیر اور غریب‬
‫لوگوں کو تم انہیں اس سوراخ کے بغیر‬
‫کبھی بھی جان نہیں سکو گے‪،،،،‬ہاں یہ‬
‫بات میں آج صبح تمھاری طرف آتے‬
‫ہوئے سمجھ گیا تھا‪ (،،،‬پھر ساری‬
‫زندگی میرا یہ اصول بن گیا کہ سب‬
‫سے پہلے اس کی زندگی میں وہ‬
‫سوراخ ڈھونڈا جائے جو اس نے ساری‬
‫دنیا سے چھپا کربنایا ہوا ہے‪،‬ٹھیک‬
‫ایسے ہی جیسے کمرے میں رکھا‬
‫کمپیوٹر بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل آج‬
‫کے دو بڑے سوراخ ہیں‪)،،‬پرنس ایک‬
‫بات اور ہوجائے‪،،،‬جوسلین کچھ سنجیدہ‬
‫تھی‪،،،،‬کیا‪،‬میں اس کی سنجیدگی دیکھ‬
‫کر سمجھ گیا کوئی بہت خاص بات‬
‫ہے‪،،‬تم نےاپنی ٹیچر پر بڑی ٹرائی‬
‫کی‪،،،،،‬جو مجھ سے سیکھا وہ اس پر‬
‫آزمایا‪،،‬لیکن اسے حاصل نہ‬
‫کرسکے‪،،‬میری دل کی دھڑکن تیز‬
‫ہوگئی‪،،‬آج یہ بات بھی دل پرلکھ لو کہ‬
‫کسی بھی لڑکی کو اس کی مرضی کے‬
‫بغیر تم کبھی حاصل نہیں‬
‫کرسکتے‪،،،‬چاہے وہ تمھاری کشش کی‬
‫شکار تمھیں چاہنے لگے‪،،‬‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫‪،،‬تم نے مجھے اس محبت سے ہٹانے‬
‫کیلیے بڑا کچھ کیا‪،‬خود کو برا بھی‬
‫ثابت کیا جبکہ لوگ خود کو اچھا ثابت‬
‫کرتے ہیں‪،،‬لیکن میں کیا کرتی‪،‬تمھاری‬
‫محبت میں تو میں اسی وقت گرفتار‬
‫ہوگئی تھی جب تمھیں پہلی بار دیکھا‬
‫تھا‪،‬اسی وقت میں تمھاری تی ِرنظر کی‬
‫گھائل ہوگئی تھی‪،‬تم اگر باتوں کی‬
‫گہرائی تک جاتے ہو‪،‬ہر چیز کی الگ‬
‫الگ تقسیم کر کہ اس کی پہچان کرتے‬
‫ہو تو میں بھی تمھیں بتانا چاہتی ہوں‪،‬کہ‬
‫تم میری پسند نہیں ہو‪،‬نہ یہ سیکس ہے‬
‫‪،‬کیونکہ میں تم سے کبھی سیکس نہیں‬
‫کروں گی اور شادی سے میں نے تمھیں‬
‫خود آزاد کررہی ہوں ‪،‬نہ تم میری تمنا‬
‫ہو نہ آرزو ہو‪ ،‬نہ خواہش ہوکہ میں‬
‫تمھیں اپنی زندگی میں کسی چیز کی‬
‫طرح حاصل کرنا چاہوں‪،،‬نہ یہ دل لگی‬
‫ہے‪،،‬یہ عشق بھی نہیں ہے کہ میں‬
‫حواس ہی کھو بیٹھوں‪،،‬یہ ہے محبت‬
‫‪،‬جیسے چاہے اسے پرکھ لو‪،،‬اگر ا پنے‬
‫لفظوں میں کھوٹی نکلوں تو میرا خون‬
‫تم پر حالل ہو گا‪(،‬اظہار کی ادائیگی‬
‫میں کمال کردیا)لیکن میرا تم سے‬
‫محبت کرنے کا حق تم مجھ سے چھین‬
‫نہیں سکتے‪،‬اور میں ہر سانس کے ساتھ‬
‫تمھارے نام کی ماال جپتی رہوں‬
‫(عزم صمیم تھا اس کا چہرہ)‪،‬اب‬
‫ِ‬ ‫گی‬
‫ایسا بھی نہیں کے مجھے وصال کی‬
‫چاہت ہی نہیں ہے اور میں کوئی آفاقی‬
‫محبت کر رہی ہوں (شرم سے گلنار اور‬
‫سر جھکا ہوا)‪ ،‬لیکن یہ شاید میری‬
‫قسمت میں ہی نہیں ہے اور میں خدا کی‬
‫رضا پر راضی ہوں‪(،‬انتہائی پرسکون‬
‫تھا اس کا چہرہ ) یہ میری نسوانیت کے‬
‫اظہار محبت‬
‫ِ‬ ‫خالف ہے کہ میں تم سے‬
‫کروں ‪،‬لیکن بہت سوچ کر میں یہ اس‬
‫لیے کہہ رہی ہوں کہ تم مجھ سے نہ‬
‫بھاگو‪،‬میری طرف سے تم آزاد ہو تمھیں‬
‫اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے‪(،‬واقعی‬
‫وہ میری محبت میں راضی ہو چکی‬
‫تھی‪،‬اس نے محبت کی معراج پا لی‬
‫تھی)لیکن اگر مجھ سے دوستی رکھو تو‬
‫مجھے خوشی ہوگی کہ تم نے مجھے‬
‫اس قابل سمجھا‪،‬اب تم کہو تو میں‬
‫جوسلین کے بارے میں کچھ باتیں کرنا‬
‫چاہتی ہوں‪،‬غزل نے آج وہ سب کہہ دیا‬
‫جو وہ مجھ سے سننا چاہتی تھی‪،‬سچی‬
‫بات ہے میں گم سم تھا‪،،‬ٹھیک ہے غزل‬
‫تم جوسلین کے بارے میں جو کہنا‬
‫چاہتی ہو‪،‬کہو ‪،‬میں غور سے سنوں‬
‫گا‪،‬پرنس نگینہ نے تمھارے ساتھ‬
‫زبردستی کی تھی‪،،‬اور تمھیں ایسے‬
‫رستے پر لگا دیا تھا ‪،‬جس سے شاید‬
‫واپسی ممکن نہیں تھی‪،،‬یا اس نے جو‬
‫گھاؤ لگایا تھا اس کا بھرنا ممکن نہیں‬
‫تھا‪،،‬اسلیے تم نے اس سے اسی وقت‬
‫اپنی عقل کے مطاق بدلہ لینا چاہا اور نہ‬
‫لے سکے‪،،‬بالکل ا سی طرح ہی‬
‫جوسلین ہے ‪،‬اس کے انداز میں فرق‬
‫ہے ‪،‬اس نے تمھاری فطرت دیکھ کر‬
‫مزاج سمجھ کر تمھیں ایسی کہانی ڈالی‬
‫جس سے تم بچ نہ پائے‪،‬وہ سمجھ گئی‬
‫تھی کہ تمھاری کشش کی وجہ سے‬
‫کوئی تمھارے ساتھ زبردستی سیکس‬
‫کروا چکا ہے اس لیے اس نے میٹھا بن‬
‫کے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا‪،‬جب‬
‫اس نے کہا کہ وہ تمھیں تمھاری مرضی‬
‫سے حاصل کرنا چاہتی ہے ‪،‬تو یہ ایک‬
‫شطرنج کی چال تھی جس کو تم سمجھ‬
‫نہ سکے اور اس کے ساتھ رہنے‬
‫لگے‪،،‬اگر تم نہ کہتے تو اس نے کئی‬
‫طریقے اور استعمال کرنے تھے‪،،‬لیکن‬
‫اس کا پہال وار ہی اتنا خطرناک تھا کہ‬
‫کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا‬
‫تھا‪،،‬رکو رکو رکو‪،،‬غزل تمھارا مطلب‬
‫ہے کہ جب اس نے کہا کہ وہ مجھے‬
‫میری مرضی سے حاصل کرنا چاہتی‬
‫ہے تو وہ حقیقت میں مجھے دانہ ڈال‬
‫رہی تھی اور میری نظر دانے پر تھی‬
‫اس کے پیچھے جو پھندا تھا میں اسے‬
‫دیکھ نہ سکا‪،،‬ہاں میں یہی کہنا چاہتی‬
‫ہوں۔مجھے ایکدم چپ لگ گئی اور پھر‬
‫جوسلین کے احسانات یاد آنے‬
‫لگے‪،،‬نہیں غزل ایسا نہیں ہوسکتا ‪،‬اس‬
‫نے مجھے چاہا ہے اور میرا ہاتھ اس‬
‫وقت پکڑا تھا جب میرے پاس کچھ بھی‬
‫نہیں تھا‪،‬اس نے میرے لیے سب کچھ‬
‫چھوڑ دیا‪،‬یہ بھی تمھاری خام خیالی ہے‬
‫پرنس‪،،‬اس نے کبھی بھی تمھارے لیے‬
‫کچھ نہیں چھوڑا ‪،،‬وہ پہلے کی طرح‬
‫مردوں سے دوستیاں کرتی رہتی ہے‬
‫اور بھی کافی کچھ کرتی ہے‪،‬تم‬
‫سمجھتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ ہر پل‬
‫رہتی تھی تو یونیورسٹی کے وقت یا‬
‫جب وہ بازار جاتی تھی‪،‬یا اپنی کولیگ‬
‫کے پاس ‪،‬یا کسی اور کام کے‬
‫بہانے‪،‬اس کی جاگیر اور آخر وہ ایک‬
‫مشہور پروفیسر تھی اس کی کافی‬
‫مصروفیات تھی ‪،‬بس یہ تمھیں سمجھایا‬
‫گیا تھا ‪،‬اور تم نے مان لیا کیونکہ اسنے‬
‫تمھاری آنکھوں اپنی مکاری سے پٹی‬
‫باندھ دی تھی‪،‬اعتماد اور محبت کی‬
‫پٹی۔دوستی کی پٹی‪،‬دیکھو پرنس تم جو‬
‫کہتے ہو کہ اس نے تم پر احسانات کیے‬
‫درحقیقت وہ اس نے تمھاری قیمت‬
‫بھری تھی۔۔قسطوں میں ۔‬

‫میں یہ نہیں چاہتی کہ تم اس سے‬


‫برگشتہ ہو کرمیری طرف آجاؤ ‪،‬لیکن‬
‫میں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ تم اس کی‬
‫ذہنی غالمی سے آزاد ہو جاؤ‪،‬غزل نے‬
‫اعتماد سے کہا۔چودائی کی زبان میں‬
‫غزل کہہ رہی تھی کہ آنٹی‬
‫(جوسلین)نے گھر میں بچہ رکھا ہوا ہے‬
‫جس کی قیمت بس کچھ زیادہ‬
‫تھی‪،،،‬ٹھیک ہے غزل تم نے مجھے‬
‫بہت کچھ بتایا ہے‪،‬اب تم ایسا کرو‬
‫مجھے تنہا چھوڑ دو‪،،‬ہم پھر ضرور‬
‫ملیں گے‪،،‬میں نے پژمردگی سے‬
‫کہا۔غزل میری کیفیت سمجھ چکی تھی‬
‫کہ میں اس وقت تنہائی چاہتا‬
‫ہوں‪،،‬اسلیے وہ چپ چاپ اٹھ کے چلی‬
‫گئی‪،‬وہ جاتے جاتے رکی۔واپس مڑی‬
‫۔میرے پاس آئی۔جھک کے میرا ماتھا‬
‫چوما ۔ اور کہا اپنا خیال رکھنا۔۔پھر وہ‬
‫چلی گئی۔اگر وہ کوان لی کے ملنے‬
‫سے پہلے مجھ سے یہ سب باتیں کہتی‬
‫تو آج اتنی آسانی سے یہاں سے جا نہیں‬
‫سکتی تھی‪،‬اور نہیں تو کم از کم اس کی‬
‫ریکارڈ بےعزتی ہونی تھی‪،‬لیکن میرے‬
‫عظیم استاد کی بدولت میں جوسلین کے‬
‫سحر سے آزاد ہوچکا تھا‪،‬اور یہ بات‬
‫جوسلین بھی محسوس کر چکی‬
‫تھی‪،‬میں تو بس جوسلین کے احسانات‬
‫تلے دبا اس کی پرستش کرر ہا تھا‪،‬میں‬
‫وہیں صوفے پر لیٹ گیا‪،‬اور سوچنے‬
‫لگا اگر جوسلین بھی ایسی نکلی تو میں‬
‫تو دنیا میں تنہا رہ جاؤں گا‪،‬بالکل تم تنہا‬
‫ہی تو ہو الوکے پٹھے ‪،‬کیونکہ تمھار‬
‫اباپ تو مر گیا ہے نہ‪،‬کوان لی کی آواز‬
‫میرے دل میں آئی‪،،‬آپ پٹھہ مجھے کہہ‬
‫رہے ہیں تو الو کسے کہہ رہے‬
‫ہیں‪،،‬خود کو الو کہہ رہاہ ہوں ‪،‬کیونکہ‬
‫مجھے تم جیسا ناالئق شاگرد مال‪،‬جو‬
‫ایک عورت کی وجہ سے رونے لگ‬
‫گیاہے‪،‬کوان لی شگفتگی سے بات‬
‫کرتے ہوئے طنز بھی کرتا گیا‬
‫‪• Part⁴⁷‬‬

‫‪،،‬اس سے اتنا ہوا کہ میرے اندر اترتے‬


‫اندھیرے چھٹنے لگے اور میں پھر سے‬
‫وہی بن گیا‪ ،‬یعنی عظیم کوان لی کا‬
‫ناالئق شاگرد۔پھر کوان لی کی آوز نہ‬
‫آئی‪،‬غزل نے جو کچھ بتایا تھا اگر وہ‬
‫سچ تھا تو جوسلین تو بہت بڑی مکار‬
‫تھی‪،‬عورت کی تریا چلتر میں آخری‬
‫چوٹی پر نظر آئی‪،‬غزل کو نہیں پتہ تھا‬
‫کہ مجھے جوسلین کو جاننے کیلیے اس‬
‫کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں‬
‫ہے‪،‬مجھے صرف آنکھیں بند کرکے‬
‫دھیان لگانا تھا اور دودھ کا دودھ اور‬
‫پانی کا پانی ہوجانا تھا‪،‬لیکن میں اس‬
‫کیلیے اپنے اندر ہمت نہیں کر پا رہا‬
‫تھا‪،‬میں ڈر رہا تھا کہ اگر جوسلین‬
‫دغاباز نکلی تو کیا کروں گا‪،،‬کیا اس‬
‫سے بھی بدلہ لوں گا‪،‬جو بھی تھا میں‬
‫آج جو بھی ہوں جوسلین کی وجہ سے‬
‫ہوں۔ان دنوں میں بکھرا بکھرا سا تھا‬
‫انگلش میں کہوں تو ڈبل مائنڈڈ تھاحقیقت‬
‫جاننے کی ہمت نہیں ہو رہی‬
‫تھی‪،‬جوسلین ان دنوں میری حالت دیکھ‬
‫رہی تھی ‪،‬پرنس امریکہ میں رائیٹنگ‬
‫پر ایک اونچے درجے کی ورکشاپ ہو‬
‫رہی ہے‪،‬چوٹی کے لکھاریاس ورکشاپ‬
‫کے انسٹرکٹر ہیں‪،‬میں چاہتی ہوں تم اس‬
‫میں شامل ہوجاؤ‪،‬اگر تم نے لکھنا ہے‬
‫تو یہ ورکشاپ میں شامل نہ ہونا بڑی‬
‫بدقسمتی ہوگی‪،‬نہیں جوسلین میرا ابھی‬
‫کسی چیز کو دل نہیں چاہ رہا‪،‬نہیں تم‬
‫جاؤ‪،‬پلیز میری بات مان لو‪،‬تم نے‬
‫مجھے کہا تھا کہ میں تمھیں بناؤں اور‬
‫میں تمھاری تکمیل دیکھنا چاہتی ہوں‪،‬تم‬
‫واپس آؤ اور ماسٹرز کے پیپرز دو اور‬
‫پھر ادب میں پی ایچ ڈی کیلیےآکسفورڈ‬
‫یونیورسٹی میں میں تمھیں خود لے کہ‬
‫جاؤں گی‪،،‬ساتھ ساتھ دنیا بھر میں‬
‫رائٹنگ پر ہونے والی ورکشاپ میں‬
‫حصہ لو یا رائیٹنگ پر کسی انسٹیٹیوٹ‬
‫میں چلے جاؤ دنیا میں بڑے کمال کے‬
‫لکھنے والے ہیں‪،‬اور وہ یہ سکھانے کو‬
‫بھی تیار ہیں‪،‬پاکستان میں اس قسم کے‬
‫کاموں کیلیے کوئی انسٹیٹیوٹ نہیں‬
‫ہیں۔جبکہ امریکہ اور یورپ میں باقاعدہ‬
‫کالج اور یونیورسٹیز ہیں ان شعبوں‬
‫پر‪،،‬جوسلین پاکستان میں بہت اچھا‬
‫لکھنے والے ہیں‪،‬جو دلوں کو چھو لیتا‬
‫ہے‪،‬یہاں باقاعدہ انسٹیٹیوٹ نہ صحیح‬
‫لیکن ہنر کمال کا ہے اور وہ یہ فن اہل‬
‫آدمی کو دے بھی دیں گے‪،‬ٹھیک ہے تم‬
‫یہاں کسی کی شاگردی کرنا چاہو تو وہ‬
‫بھی ہوسکتا ہے لیکن اس ورکشاپ‬
‫ضرور میں حصہ لو‪،‬اوکے جوسلین‬
‫میں سوچوں گا‪،‬سوچنے کا وقت نہیں‬
‫ہے‪،‬میں تمھارے ڈاکومنٹ تیارکرو رہی‬
‫ہوں ‪،‬وہ یونیورسٹی چلی جاتی تو‬
‫مجھے سوچیں گھیر لیتی‪،‬یا مجھےغصہ‬
‫آنے لگتا‪،‬اسی ادھیڑ بن میں ایک چہرہ‬
‫میری آنکھوں کے سامنے آگیا‪،‬میں نے‬
‫گاڑی نکالی اور اس کے کوچنگ سنٹر‬
‫پہنچ گیا‪،‬وہ ابھی بھی وہیں تھی ‪،‬بلکہ‬
‫اب تو اس کوچنگ سنٹر کی مالک‬
‫تھی‪،‬مجھے دیکھ کر حیران ہو گئی‪،‬کیا‬
‫مما سے پوچھ کرآئے ہو‪،‬اسنے طنز‬
‫کیا۔جس سے تمھار ی جان نکلتی‬
‫تھی‪،‬میں نے بھی جوابی طنز کیا‪،‬آج‬
‫تمھیں کیسے یاد آگئی‪،‬اس نے پھر طنز‬
‫کیا‪،‬تم ایسی تو نہیں ہو کہ جس کی یاد‬
‫دل سے آسانی سے چلی جائے‪،‬اچھا‬
‫اسوقت تو بچے کو اتنی باتیں نہیں آتی‬
‫تھیں‪،‬وہ مسلسل طنزیہ باتیں کر رہی‬
‫تھی‪،‬بچے نے تو بڑی کوشش کی تھی‬
‫تم نے کبھی کوئی اشارہ ہی نہیں‬
‫دیا‪،‬میں اسے رام کر رہا تھا‪،،‬بچہ‬
‫اسوقت بچہ ہی تھا ‪،‬کیا اسے کسی‬
‫اشارے کی ضرورت تھی‪،‬اس نے پھر‬
‫طنز کیا‪،‬بکواس بند کرو اس وقت‬
‫تمھاری جوسلین کے ڈر سے ہوا نکلی‬
‫ہوئی تھی اور اب سارا غصہ مجھ پر‬
‫نکال رہی ہو‪،،‬مجھے غصہ آگیا‪،‬اب کیا‬
‫لینے آئے ہو‪،‬اس نے موضوع بدل دیا‪،‬‬
‫بچہ بڑا ہوگیاہے‪،،‬تو پھر میں کیاکروں‬
‫‪،‬اس نے بے اعتنائی برتی۔۔‬

‫چلو میرے ساتھ میں نے اعتماد سے‬


‫کہا‪،‬وہ مجھے گہری نظروں سے‬
‫دیکھنے لگی۔۔ میں چل پڑا اور پیچھے‬
‫مڑ کر نہیں دیکھا ‪،‬گاڑی میں بیٹھا تو‬
‫وہ دوسرا دروازہ کھول کہ میرے ساتھ‬
‫بیٹھ گئی‪،‬بہت دیر کر دی مہرباں آتے‬
‫آتے وہ گنگنائی۔۔مدت ہوئی ہے یار کو‬
‫مہماں کیے ہوئے میں نے جوابی‬
‫مصرعہ پڑھا۔اس کے چہرے پر شفق‬
‫کے رنگ بکھرنے لگے‪،،‬وہ میری‬
‫ٹیوشن ٹیچر تھی‪،‬میں اس کے پاس چار‬
‫سال پڑھا تھا‪،‬اور ان چار سالوں میں‬
‫اسے پھنسانے کی کوئی کسر نہ‬
‫چھوڑی تھی‪،‬وہ مجھے چاہتی تھی‪،‬لیکن‬
‫جوسلین کے ڈر کی وجہ سے ہمارا‬
‫کچھ نہ ہوسکا۔اس کا نام ثمینہ تھا ‪،‬اُس‬
‫وقت وہ ‪ 26‬سال کی تھی اور میں پندرہ‬
‫سال کا تھا آج وہ تقریبا ‪32‬کی ہو گئی‬
‫تھی‪،‬اس وقت اس کی جوانی اٹھتی ہوئی‬
‫لہریں تھی ‪،‬اب وہ پرانی شراب کی‬
‫طرح ہوچکی تھی۔جس کا مزہ وقت کے‬
‫ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ درمیانہ قد سانولی‬
‫رنگت لیکن جسم تباہی تھا اس کے جسم‬
‫کی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے چار‬
‫سال ستایا تھا ‪،‬اس کے چہرہ تھوڑا‬
‫لمبوترا تھا لیکن نقش اس کے بھلے‬
‫بھلے سے تھے‪،‬جسم نہ اسمارٹ تھا نہ‬
‫دبال پتال نہ موٹاپا ‪،‬جب چلتی تو اس کے‬
‫جسم کی اتھل پتھل سے بڑے لوگوں‬
‫کے دل مچلتے ہوں گے‪،‬ثمینہ کی‬
‫آنکھیں بڑی بڑی اور ماتھا چوڑا تھا‬
‫۔اور جسم کے اعضاء سیکسی تھے‬
‫‪،،‬اپنے شعبے میں چلنے کیلیے ا وہ‬
‫ایک بڑی سی چادر لیتی تھی‪،‬لیکن‬
‫واقفان حال جانتے تھے کہ اندر کیا‬
‫ِ‬
‫خزانہ چھپا ہوا ہے ‪،‬ہم ایک دوسرے‬
‫میں گم تھے۔اسے ہوش تب آیا جب فلیٹ‬
‫آگیا‪،‬یہاں کیوں آئے‪،،‬اس نے اچھنبے‬
‫سے پوچھا۔۔تمھیں کہا نہ بچہ بڑا ہو گیا‬
‫ہے‪،‬میں نے اترکر اس کی طرف کا‬
‫دروازہ کھوال اور اسے فلیٹ میں لے‬
‫آیا‪،‬وہ کچھ شاکنگ تھی اسے یہاں آنے‬
‫کی قطعی امید نہیں تھی‪،‬میں بھی اسے‬
‫اسی بیڈ پر لے گیا جس بیڈ پر میں اور‬
‫جوسلین سیکس کرتے تھے‪،‬وہ میرا‬
‫ارادہ سمجھ گئی‪،‬بچہ واقعی بڑا ہوگیاہے‬
‫اسنے مسکرا کے کہا‪،‬اور میرے گلے‬
‫لگ گئی‪،‬اور بے صبری کے ساتھ‬
‫ہونٹوں کیساتھ ہونٹ جوڑ دیے‪،‬مجھے‬
‫بھی اس کے ہونٹوں کو چوسنےکا بہت‬
‫شوق تھا۔ چار سال وہ میرے سامنے‬
‫بیٹھی رہی تھی اور اس کے رسیلے‬
‫ہونٹ مجھےتڑپاتے رہے تھے۔کئی بار‬
‫میں نے مختصر لمحوں کیلیے ا سکے‬
‫ہونٹوں سے رس پینے کی کوشش کی‬
‫تھی‪،‬لیکن وہ ایسے بیٹھی رہتی‬
‫تھی۔جیسے وہ پتھر ہے۔اور آج اس کے‬
‫اشتیاق نے بتادیا کہ آگ دونوں طرف‬
‫ہے برابر لگی ہوئی۔میرے ہاتھ اسکی‬
‫کمر پر کوہ پیمائی کر رہے تھے‪،‬پھر‬
‫مشکل حصوں میں چلے گئے‪،‬یعنی اس‬
‫کی گانڈ کو چھونے لگے۔میں نے اس‬
‫کی گانڈ جوش میں آگے دبائی ‪،‬آگے‬
‫میرا عضو تھا وہ اسے مست کرنے‬
‫لگا۔ادھر ہونٹوں نے اس پر قیامت‬
‫مچائی ہوئی تھی‪،‬ظالم اس وقت‬
‫زبردستی چود بھی دیتے تو اُف بھی نہ‬
‫کرتی‪،‬ثمینہ نے ہونٹ پیچھے کر کے‬
‫کہا اور پھر لپٹ گئی‪،‬مجھے اندازہ تھا‬
‫اسے میری کشش نے مجھے بھولنے‬
‫نہیں دیا۔کبھی نچلے ہونٹ اور کبھی‬
‫اوپری ہونٹ پھر اس کی زبان چوستے‬
‫ہوئے ہم نے پرجوش کسنگ جاری‬
‫رکھی۔ایک ہاتھ اس کی گانڈ پر اور‬
‫دوسرا میں نے اس کے مموں پر رکھ‬
‫دیا‪،‬ممے ‪،‬ہونٹ گانڈ‪،‬اور چوت پر لگتا‬
‫ہوا میرا عضو اسے کہیں چین نہیں‬
‫لینے دے رہا تھا‪،‬ثمینہ کی آگ ایسے‬
‫بھڑکی جیسے آگ پر پٹرول ڈال‬
‫دیاہو۔وہ علیحدہ ہوئی اور بے چینی سے‬
‫اپنے کپڑے اتارنے لگی۔اس کی حالت‬
‫دیکھ کر میں مسکرایا او ر ادھر وہ‬
‫ننگی ہوئی تو ادھر میں بھی ننگا‬
‫ہوگیا۔اس بار وہ مجھ سے ایسے لپٹی‬
‫جیسے مقناطیس سے لوہے کا ٹکڑا لپٹتا‬
‫ہے۔جسم سے جسم لگےتو ہماری آگ‬
‫اور بھڑک اٹھی‪،‬اب میں نے عضو اس‬
‫کی ٹانگوں میں گھسا دیا اور گانڈ پر‬
‫ہاتھ رکھ کہ اسے دبایا اور ممے‬
‫سہالتےہوئے پھر اس کا چہرہ چومنے‬
‫لگا‪،‬کسنگ کرنے لگا‪،‬گویا جہاں سے‬
‫سلسلہ ٹوٹا تھا‬

‫۔وہیں سے جوڑ دیا۔کبھی کبھار ایسی‬


‫حالت ہوجاتی ہےکہ سمجھ نہیں آتا کہ‬
‫کیاکریں‪،‬بس دل کرتا ہے ایکدوسرے‬
‫میں سما جائیں‪،‬یہ چودائی کی بھرپور‬
‫خواہش ہوتی ہے۔ثمینہ اورمجھ میں‬
‫چودائی کی بھرپور خواہش بڑے‬
‫عرصے سے موجود تھی‪،‬اور آج اس‬
‫خواہش کو اپنی حسرتیں نکالنے کا موقع‬
‫مال تھا تو ہمارا بس نہیں چل رہا تھا ہم‬
‫ہونٹوں کی لذت میں ڈوبے ایکدوسرے‬
‫کو پی جانا چاہتے تھے یا ایکدوسرے‬
‫میں سما جانا چاہتے تھے۔ثمینہ مجھ‬
‫سے ایسے لپٹی ہوئی تھی۔جیسے‬
‫آکٹوپس اپنے شکار سے لپٹتا ہے‪،‬اس‬
‫کی ایک بازو میری گردن سے لپٹا‬
‫تھا۔دوسرا کمر سے لپٹا تھا‪،‬ایک ٹانگ‬
‫اٹھ کر میرے پہلو سے لگی تھی‪،‬ثمینہ‬
‫نے مجھے جکڑا ہوا تھا‪،‬ایک ٹانگ‬
‫اٹھانے کی وجہ سے میرے عضو اور‬
‫اس کی چوت کا مالپ ہو گیا تھا‪،‬میں‬
‫نے ایسے لپٹے ہوئے اس کی چوت پر‬
‫رکھا اور آگے دھکیال‪،‬عضو اندر جانے‬
‫لگا‪،‬ثمینہ نے مجھے کس کے پکڑ‬
‫لیا‪،‬میں اندر ڈالتے ہوئے زور لگایا اور‬
‫پورا اندر چال گیا۔وہیں میں اندر باہر‬
‫کرنے لگا۔ثمینہ سسکیاں لینے لگی‪،‬اس‬
‫طرح اندر باہر کرنے میں مزہ آرہا‬
‫تھا۔آہستہ آہستہ میں زورلگانے لگا۔ہم‬
‫ایکدوسرے کے سہارے کھڑے تھے‬
‫۔اور چمٹے ہوئےتھے۔میرے ہاتھوں نے‬
‫اسے پہلوؤوں سے پکڑا ہوا تھا‪،‬چودائی‬
‫کے وقت یہاں سے پکڑنا پورے جسم‬
‫کوکٹرول کرتاہے۔ثمینہ چودائی کی‬
‫لہرونمیں بہہ چکی تھی اور اب یہ‬
‫لہریں اسے ڈبونے والی تھی۔ جب تک‬
‫ڈوبا نہ جائےتب تک گہرائی کا انداز ہ‬
‫نہیں ہوتا۔اور میں اندر باہر کر ے اس‬
‫کی چوت کی گہرائی کا ا ندازہ کررہا‬
‫تھا تو وہ عضو کے ساتھ ڈوب رہی‬
‫تھی۔ جیسے ہر جھٹکا اسے گہرائی میں‬
‫لے جا رہا ہو۔اُوووہ صحیح پاگل ہے‬
‫جوسلین تمھارے لیے۔ثمینہ بےاختیار‬
‫بولی۔پتہ نہیں کیا چیز ہو تم۔ابھی بتاتاہوں‬
‫کیا چیز ہوں میں‪،‬میں نے جوش میں‬
‫اور تیز ہوتے ہوئے کہا۔ویسے یار یہ‬
‫انسان میں کوئی گئیر وغیرہ نہیں‬
‫لگےہوتے کہ وہ بار بار گئر بدل کرتیز‬
‫ہوجاتا ہے اور چوتھے یا پانچویں گئیر‬
‫میں رکھ کے پھر چل سوچل۔یہ تو‬
‫جوش میں ہوتا ہے اور جوش یا‬
‫دیوانگی جسم کو تیزی پر مجبورکرتی‬
‫ہے‪،‬ایسی تیزی عام طور پر دیکھنے کو‬
‫نہیں ملتی۔پھر ایسا بھی ہوتا کہ جس‬
‫جسم کو چودائی کے درمیان پھولوں کی‬
‫طرح اٹھایا ہوتا ہے وہ بعد میں‬
‫ایکطرف پڑاہوتا ہے۔جوش کا تعلق‬
‫لڑکی پر ہے‪،‬اور ثمینہ خود پاگل ہورہی‬
‫تھی اور مجھے پاگل کر رہی تھی۔اس‬
‫اسٹائل میں مزہ آرہا تھا۔لیکن اس سے‬
‫زیادہ رفتار ممکن نہیں تھی‪،‬اور ہمارا‬
‫پاگل پن کچھ اور چاہتا تھا۔میں نے ثمینہ‬
‫کو دیوار سے لگایا اور اسکے ہاتھ‬
‫دیوار پر ٹکائے ‪،‬اور پیچھے سے‬
‫اسکی چوت میں ڈال دیا۔اب ہم بہتر‬
‫حالت میں تھے ۔میں اسے اچھی طرح‬
‫دل لگا کر چودنے لگا۔ویسے تو دل لگا‬
‫کر بہت سے کام کرنے چاہیے ۔لیکن کیا‬
‫کریں ۔دل انہیں کاموں میں لگتا ہے جو‬
‫دل چسپ ہوتے ہیں‪،‬یعنی دل کوچپک‬
‫جاتے ہیں‪،‬جیسے ثمینہ سے میرا عضو‬
‫اظہار محبت‬
‫ِ‬ ‫چپکا ہوا تھا۔اور اس سے‬
‫کیلیے بار بار کوچہ جاناں میں جا کر‬
‫حاضری دے رہا تھا۔پرنس اسطرح‬
‫چودو گےتو پھر میں تمھاری جان نہیں‬
‫چھوڑوں گی۔۔تو تم سے جان چھرانا ہی‬
‫کون چاہتا ہے‪،‬اب تمھیں چودتا رہوں گا۔‬
‫میں نے اسٹروک جاری رکھے۔میں‬
‫تیاری سے ثمینہ کے پاس گیا تھا‪،‬اس‬
‫بات کا اندازہ ثمینہ کو تب ہوا جب اس‬
‫چو دائی کے نتیجے میں اس کا پانی‬
‫نکل گیا‪،‬اور میں اسی طرح چودائی کے‬
‫موڈ میں ناراض عضو لیا کھڑا تھا۔اچھا‬
‫تو یہ بات ہے جناب‪،‬ثمینہ نے چمکتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬اور عضو کو پکر لیا‪،‬او میال‬
‫پاال پاال سونو۔ناالج ہو مجھ سے۔کوئی‬
‫بات نہیں‪،‬اپنے سونو کو میں منا لوں‬
‫گی۔ثمینہ سمجھ گئی تھی کہ میں ٹائمنگ‬
‫گولی کھا چکا تھا۔اور بھرپور مزے کے‬
‫موڈمیں تھا۔‬

‫سچی بات ہے جان میرا بھی کم از کم‬


‫تین بار چودائی کا موڈ ضرور تھا۔کچھ‬
‫ہی لمحوں میں ثمینہ پھر گرما گرم‬
‫ہوچکی تھی۔وہ بیڈ پر ڈوگی اسٹائل میں‬
‫ہو گئی‪،‬اور میں نے قالین پر کھڑے ہو‬
‫کر اس کی چوت میں ڈاال اور کمر سے‬
‫پکڑ کرچو دائی شروع کردی۔اب کی‬
‫بار ثمینہ کاجسم بری طرح ہل رہا‬
‫تھا۔میرا جوش سے برا حال تھا‪،‬اور‬
‫ثمینہ بھی سمجھ رہی تھی کہ چودائی کا‬
‫یہ راؤنڈ خوب مزہ دے گا۔میں نے اس‬
‫جگہ سے پھر اسٹائل نہ بدلہ اور ثمینہ‬
‫کی چوت کا بینڈ بجاتا رہا۔آرام سے جان‬
‫‪،‬میں کہیں نہیں جارہی‪،‬یہیں اپنے پرنس‬
‫کے پاس ہوں‪،،‬لیکن مجھ پر جیسے اس‬
‫کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا‪،‬اور میں‬
‫وحشیانہ انداز میں چودتا رہا۔ثمینہ‬
‫چیخنے لگی تو مجھے ہوش آیا اور میں‬
‫نے خود کو کنٹرول کیا۔اور آہستہ آہستہ‬
‫چودائی کرنے لگا‪،،‬کیا بات ہے پرنس‬
‫میری جان۔جتنا مرضہ چودو ‪،‬مگر اتنا‬
‫نہ چودنا کہ چوت ہی پھٹ جائے اور‬
‫پھر کسی کام کی نہ رہے ۔ثمینہ نے‬
‫کراہتے ہوئے کہا۔ثمینہ تمھارے لیے دل‬
‫میں جوش ہی اتناہے کہ کیاکروں۔کیا‬
‫ایسا نہیں ہو سکتا تمھار ی چوت پھر‬
‫نئی لگوا لی جائے‪،‬نہیں جی‪،‬ایسا نہیں‬
‫ہو سکتا ‪،‬ثمینہ میری شرارت سمجھتے‬
‫ہوئے شوخی سے بولی۔کمرے میں‬
‫جھپاک جھپاک کی آوازیں بلند ہورہی‬
‫تھیں۔میری رفتار پھر تیز ہونے‬
‫لگی‪،‬اور میں ہوش کھونے لگا۔کچھ ہی‬
‫دیر میں ثمینہ پھر چیخی ۔لیکن اب میں‬
‫نہ رکا۔دھکے کی طاقت ہی ایسی تھی‬
‫ثمینہ نے چیخنا ہی تھا۔ پرنس‬
‫۔پرنس۔۔کیا ہوگیا ہے تمھیں آرام سے‬
‫کرو یار۔لیکن میں نہ رکا۔اب ثمینہ‬
‫باقاعدہ چیخنے لگی۔لیکن مجھے کوئی‬
‫پرواہ نہیں تھی‪،‬میں ایسی چودائی کم ہی‬
‫کرتا ہوں‪،‬لیکن ثمینہ نے میری بھوک‬
‫جگا دی تھی۔ویسے بھی مجھے اس پر‬
‫بڑی شہوت آئی ہوئی تھی۔ثمینہ کی‬
‫چیخیں مدہم ہو کر رک گئی‪،،‬کیونکہ‬
‫اسکا پانی نکل آیا تھااور ا س پانی نے‬
‫اس کی چوت میں میرے عضو کا آنا‬
‫جانا آسان کردیا تھا۔جس کی وجہ سے‬
‫اس کی مشکل آسان ہوگئی تھی۔‪،‬اور‬
‫اسے مزہ بھی آرہا تھا۔پرنس مجھے‬
‫بھی مزہ دینے دو۔ثمینہ نے کہا تو میں‬
‫نے اس کی بات سمجھتے ہوئے بیڈ پر‬
‫لیٹ گیا۔اور ثمینہ میرے اوپر آئی اور‬
‫عضو لیکر اوپر نیچے ہونے لگی۔ جب‬
‫میں ثمینہ کو ٹیوشن پرھتے وقت چھیڑتا‬
‫رہتا تھا یہ تو میں اسوقت ہی سمجھ گیا‬
‫تھا کہ ثمینہ چودائی کرواچکی ہے‪،‬اب‬
‫اسکی مہارت دیکھ کر مجھے سمجھ‬
‫آگئی کہ ثمینہ کی پُلی کے نیچے سے‬
‫بھی بڑا پانی گزر چکاہے۔ یہ اسٹائل‬
‫مجھے بہت پسند ہے‪،‬اور بڑا مزہ آتا‬
‫ہے‪،‬دل کرتا ہے لڑکی بس اوپر نیچے‬
‫ہوتی رہی۔عضو کو چوت ایسی گرفت‬
‫میں لیتی ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ اوپر جانا‬
‫اچھا ہے یا نیچے جانا اچھا ہے۔ثمینہ کا‬
‫دو بار پانی نکل چکا تھا ‪،‬پہلی بار تو وہ‬
‫کچھ رکی تھی ۔لیکن دوسری بارپانی‬
‫نکلنے کے باوجود وہ رکی نہیں‬
‫تھی‪،‬بلکہ خود سواری کرنے لگی‬
‫تھی۔اس سے میں ثمینہ کی گرمی سمجھ‬
‫سکتا تھا۔ثمینہ کاجوش سے ہلتا جسم‬
‫‪،‬بڑا اچھا نظارا دے رہا تھا۔اور اس کے‬
‫دلکش ممے مجھے سمجھا رہے تھے‬
‫کہ میں نے ابھی ان کا رس نہیں پیا‬
‫ہے‪،‬میں کچھ اٹھ کہ بیٹھا اور ثمینہ کے‬
‫ممے ہاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔۔آہ کیا‬
‫کر رہے ہو۔پرنس۔تمھارے ممے نے‬
‫بالیا ہے‪،‬کیا کروں‪،،‬بالیا ہے تو انکی‬
‫بات سن لو‪،‬ثمینہ نےمیری اوپر جھکتے‬
‫ممے میرے پاس کردیے‪،‬میں نے انہیں‬
‫منہ میں لے لیا اور ان کا رس پینے‬
‫لگا۔۔ثمینہ بھی سرور میں آگئی اور جتنا‬
‫کرسکتی تھی اتنا اپنے اندر باہرکرنے‬
‫گی۔اچھی طرح رس پینے کےبعد میں‬
‫کچھ بیٹھ اور کچھ لیٹا ہو گیا‪،‬گاؤ تکیے‬
‫لگا کہ۔اور ثمینہ کے ممے ہاتھوں میں‬
‫لیکر اسے چودائی کرنے کااشارہ‬
‫کیا۔آہستہ آہستہ تو وہ پہلے ہی لے رہی‬
‫تھی‪،‬اب کچھ آزادی ہوئی تو تیز تیز‬
‫کرنے لگی۔چند منٹ اور پھر ثمینہ کا‬
‫پانی نکل گیا‪،‬اب وہ نڈھال ہو کر میرے‬
‫اوپر ہی گر پڑی‪،،‬کچھ دیر اسی حالت‬
‫میں پڑے رہے۔میرا تو ابھی موڈ تھا۔تین‬
‫بار اس کا پانی نکل چکا تھا۔پینتیس منٹ‬
‫تو ہمیں ہوچکے تھے۔میں پھر ثمینہ کے‬
‫ممے چوسنے لگا۔کچھ ہی دیر میں ثمینہ‬
‫لیٹ گئی ۔ آجاؤ‪،‬ثمینہ نے میرے ساتھ‬
‫لیٹتے ہوئے کہا۔اور میں اس کی ٹانگوں‬
‫کو کھول کر بٹھا اوربےصبری سے‬
‫اندر ڈال دیا۔آہہ ثمینہ تمھارے جسم کی‬
‫طلب نے مجھے دیوانہ کردیا ہے۔میں‬
‫نے ثمینہ کی چودائی کرتے ہوئے‬
‫کہا۔طلب کوجگائےرکھنا تا کہ مجھے‬
‫مزہ دیتے رہو۔صاف لگ رہا تھا ثمینہ‬
‫ہمارے تعلقات کوجاری رکھنا چاہتی‬
‫تھی۔میں رکا تو ثمینہ اوپر آگئی ۔اور‬
‫اندر لے کر اوپر نیچے ہونے لگی۔اس‬
‫کی گرمی نے اسے جوشیال‬
‫کردیاتھا‪،‬میں مزے سے لیٹا چودائی‬
‫سے سکون لے رہا تھا۔ثمینہ نے جوش‬
‫میں اچھی رفتار بنائی ہوئی تھی۔لیکن وہ‬
‫تھکی تھکی بھی تھی۔جتنی دیر وہ مزہ‬
‫دے سکتی تھی۔اس نے مزہ دیا پھر‬
‫اسے لٹا کر میں نے ٹھکائی شروع کرد‬
‫ی۔اس بار ثمینہ کی سسکیاں بلند‬
‫تھیں‪،‬اوروہ آخری چودائی کا مزہ یادگار‬
‫بنا رہی تھی۔جان بوجھ کر آوازیں نکالنا‬
‫چودائی کا مزہ دوباال کردیتی ہیں۔‬

‫۔ویسے میں تقریبا پونا گھنٹا پورے‬


‫جوش میں چودائی کرچکا تھا‪،‬اب آہستہ‬
‫اور تیز مل مال کر میں چودای کرتا‬
‫رہا‪،‬تقریبا ‪ 20‬منٹ بعد ہم دونوں ہی‬
‫کنارے لگنے والے ہوگئے‪،‬جیسے ہی‬
‫اضطراری دھکوں کی باری آئی‬
‫ہم سمجھ گئےاور لپٹ کر آخری دھکے‬
‫لگائے۔اور ایکدوسرے سے چمٹ‬
‫گئے۔اس بار جسمانی وائبریشن بھی‬
‫اچھی تھی ۔پانی نکال اور مزہ آگیا۔ہم‬
‫لپٹے رہے اسی حالت میں۔پھر کچھ دیر‬
‫بعد علیحدہ ہوگئے۔ساتھ ساتھ لیٹ‬
‫گئے۔پرنس تم اتنے عرسے بعد آئے‬
‫لیکن ساری حسرتیں نکال دی۔میں اکثر‬
‫دل میں سوچتی تھی کہ ایک ہی مرد پر‬
‫دل آیا تھا اور اسی سے چودائی نہ‬
‫کرسکے۔لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم‬
‫بھی مجھے نہیں بھولے ہو گے ۔پرنس‬
‫جب میں نے تمھیں ٹیوشن پڑھانا چھوڑ‬
‫تو جوسلین سے بھی قطع تعلق کر‬
‫لیا‪،‬بلکہ ہمارے تعلقات میں سردمہری تو‬
‫اس سے بھی ایک سال پہلے آگئی‬
‫تھی۔میں اس کی رازدار تھی اس کی‬
‫شاگرد تھی‪،‬ہم نے مل کر کئی شکار‬
‫کیے تھے۔لیکن تمھاری باری وہ مجھے‬
‫ٹھینگا دکھا گئی الٹا مجھے ذلیل بھی‬
‫کیا‪،‬تو میں اس سے متنفر ہوگئی ‪،‬لیکن‬
‫تمھاری چاہت میں ٹیوشن پڑھانے آتی‬
‫رہی۔جوسلین بھی مجھے اسی لیے‬
‫برداشت کرتی رہی کہ مجھ سے بہتر‬
‫ٹیوشن پڑھانے والی اس کی نظر میں‬
‫نہیں تھی۔میں ثمینہ کی طرف ہی دیکھ‬
‫رہا تھا۔ میرے لیے یہ انکشاف تھا کہ‬
‫ثمینہ اور جوسلین ایکدوسرے کی‬
‫ساتھی تھی مجھے ثمینہ سے سب کچھ‬
‫معلوم کرنا تھا‪،‬اور وہ شروع ہوگئی۔اس‬
‫نے وہی سب کچھ کہا جو غزل نے بتایا‬
‫تھا ‪،‬بلکہ اس سے زیادہ بتایا۔اور یہ بھی‬
‫کہا کہ اس کے حلقے میں مشہور ہے‬
‫کہ جوسلین نے ایک انمول بچہ رکھاہوا‬
‫ہے جسے اس نے سونے میں تول دیا‬
‫ہے۔جوسلین کسی کواس بچے کی ہوا‬
‫بھی نہیں لگنے دیتی۔ثمینہ چلی گئی اور‬
‫مجھے وہ کچھ کہہ گئی جو میں نہیں‬
‫جاننا چاہتا تھا ۔میں سوچنے لگا کہ کیا‬
‫میں اس سے ملنے ایسے ہی چال گیا تھا‬
‫یا ایک پروگرامنگ تھی یعنی طے شدہ‬
‫تھا‪،‬اس وقت میں دھواں دھواں ہو رہا‬
‫تھا‪،‬میں پیدل ہی فلیٹ سے نکل پڑا ۔پتہ‬
‫نہیں کہاں کہاں گھومتا رہا‪،‬دن سے شام‬
‫ہوگئی اور شام سے رات ہوگئی ‪،‬موبائل‬
‫کی بیل بجتی رہی ‪،‬لیکن میں نے نہ‬
‫اٹھایا‪،‬آخر میرے پاس ایک گاڑی آ کر‬
‫رکی‪ ،‬اس میں جوسلین تھی‪،‬اس نے‬
‫مجھے بازو سے پکڑا اور گاڑی میں‬
‫بٹھایا‪،‬میں گاڑی میں بیٹھ گیا‪،‬وہ مجھے‬
‫گھر لے گئی‪،،‬مجھے نہیں پتہ اس نے‬
‫مجھے کیسے ڈھونڈا ‪،‬لیکن‬
‫ڈھونڈلیا‪،،‬اس نے مجھ سے کچھ نہ‬
‫پوچھا شاید اس کے دل میں چور تھا ‪،‬‬
‫مجھے بھی اب کسی سے کوئی مطلب‬
‫نہیں تھا۔اب دنیا بے اعتباری ہوچکی‬
‫تھی‪،‬ایک آدمی صحرا میں سفر کرتا‬
‫ہے اورپیاس سے نڈھال ہو‪،‬اور دور‬
‫کہیں اسے نخلستان نظر آئے وہ ہر قدم‬
‫مرتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو وہاں جا کر‬
‫پتہ چلتا ہے کہ یہ تو سراب تھا‪،‬ریت‬
‫اور دھوپ کا عکس مل کر اسے چشمہ‬
‫دکھا رہے تھے تو اس آدمی کا کیا حال‬
‫ہومیں ٹھیک ٹھاک تھا مگر ٹھیک نہیں‬
‫تھا‪،‬دو دن وہ بلواسطہ مجھے سمجھاتی‬
‫رہی مجھے ٹٹولتی رہی لیکن کچھ نہ‬
‫سن سکی‪ ،‬تیسرے دن وہ یونیورسٹی‬
‫گئی لیکن جلدی ہی واپس آگئی ‪،‬اور‬
‫مجھےڈاکومنٹ پکڑائے ‪،‬آج شام کی‬
‫تمھاری فالئیٹ ہے‪،،‬میں چاہتی ہوں تم‬
‫اس ورکشاپ میں حصہ لو‪،‬وہ اپنے‬
‫طریقے سے مجھے بہال رہی‬
‫تھی۔مجھے مصروف کر رہی تھی۔لیکن‬
‫یہ سب تب چلتا ہے جب اندر ترنگ ہو‬
‫اب اندر تنگ تھا۔میں نہیں جانا چاہتا تھا‬
‫‪،‬بلکہ مجھے کسی سہارے کی‬
‫ضرورت تھی‪،‬لیکن اچانک کوان لی کی‬
‫آواز آئی‪ ،‬۔چلے جاؤ میرے بچے ‪،‬اور‬
‫میں نے سر ہال دیا‪،‬دیوتا جیسے استاد کا‬
‫حکم سر آنکھوں پر‪،‬جوسلین خود‬
‫مجھے ایئر پورٹ چھوڑ کر آئی‪،‬پرنس‬
‫تمھیں میری ایک دوست وہاں ریسیو‬
‫کرنے آئے گی ‪،‬تمھاری رہائش وغیرہ‬
‫کا سار انتظام اسی کے پاس ہے‪،‬کسی‬
‫بات کی فکر نہ کرنا‪،‬جوسلین نے‬
‫پانچویں بار اپنی بات دہرائی‪،‬میں جہاز‬
‫میں بیٹھا اور جب جہاز اتر ا اور میں‬
‫ایئر پورٹ سے باہر نکال تو‬
‫سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔ زونگینگ کوان لی کھڑے‬
‫تھے‪،‬دیوتاؤں کی مسکراہٹ جیسے‪،‬میں‬
‫ان کے گلے لگ گیا‪،‬مجھے سہارا‬
‫چاہیے تھا سہارا مل گیا‪،‬میرے بچے‬
‫بہت بوجھ ہے تمھارے دل پر اس بوجھ‬
‫کو اتار دو۔۔کیونکہ تقدیر کی اپنی‬
‫پروگرامنگ ہے ۔اس نے مجھے میرا‬
‫وارث دینا تھا۔باقی سب بہانے تھے‬
‫۔۔اور میرے دل سے سارا بوجھ اتر‬
‫گیا‪،‬کوان لی نے یہی کہا تھا کہ آجاؤ‬
‫میرے بچے‪،،‬اور میں اس فالئیٹ میں‬
‫نہیں گیا تھا بلکہ دو دن بعد الہور سے‬
‫چائنہ کیلیے فالئیٹ لے لی تھی‪ ،‬مارشل‬
‫آرٹ کے استادوں کا ملک چائنہ‪،‬کوان‬
‫لی مجھے اپنے گھر لے گیا‪،‬شہری‬
‫ہنگاموں سے دور اس کا گھر ایک‬
‫خوبصورت وادی میں تھا‬

‫۔جس کے ایک طرف سرسبز پہاڑ تھے‬


‫اور اس کا گھر بھی پہاڑ کے دامن میں‬
‫ایک مسطح پہاڑ پر تھا ‪،‬ایکطرف سارا‬
‫قصبہ تھا‪ ،‬جب ہم اس سے گزرےتو ہر‬
‫شخص کوان لی کو سر جھکا کر سالم‬
‫طرز تعمیر کا‬
‫ِ‬ ‫کرتا نظر آیا ‪،‬چائنیز‬
‫خوبصورت گھر کافی وسیع تھا‪،‬اب میں‬
‫نے یہیں رہنا تھا ‪،‬میں سب کچھ وہیں‬
‫چھوڑ آیا تھا‪،‬کوان لی کی بیوی اسی کی‬
‫طرح درویش صفت تھی‪،‬اس رات‬
‫مجھے بڑی اچھی نیند آئی۔اگلے دن‬
‫ناشتے کے بعد ہم بیٹھ گئے‪،‬یہ کوان لی‬
‫کا ڈوجو یعنی پریکٹس ہال تھا‪،‬میرے‬
‫بچے‪،‬جوسلین سے جب میں مال تھا‬
‫تبھی میں اس سے متنفر ہو گیا تھا‪،‬وہ‬
‫ان لوگوں میں سے تھی جو دو منہ‬
‫والے ہوتے ہیں‪،‬ان کا ایک چہرہ بڑا‬
‫خوشنما ہوتا ے اور دوسرا بڑا زہریال‬
‫‪،‬ایسا زہریال جس کا کوئی عالج‬
‫نہیں‪،‬اس نے تمھیں ایسےخوشنما جال‬
‫میں پھنسایا تھا کہ تم ساری عمر اس‬
‫کے اثر سے نکل نہیں سکتے تھے‪،‬اس‬
‫نے تمھیں کہا کہ اپنی مرضی سے آؤ‬
‫جبکہ یہ پھندا تھا ‪،‬پھر اس نے جو‬
‫تمھیں بنانے کا پروگرام بنایا تھا وہ سب‬
‫تمھیں اپنے زی ِر اثر رکھنے کیلیے تھاتم‬
‫کچھ بننے کے چکر میں اس کے‬
‫اشاروں پر چلتے رہتے اور کبھی اس‬
‫کے اثر سے نہیں نکل‬
‫سکتےتھے‪،‬کیونکہ اس کا یہ پروگرام‬
‫کبھی ختم نہیں ہونے تھے ‪،‬اس کے‬
‫پاس چالیں بہت تھیں۔خود کو تمھارا‬
‫عاشق ظاہر کرنے کیلیے وہ تمھاری‬
‫بیوی کی طرح خدمت کرتی‬
‫رہی‪،،‬اسنے تمھارے خیاالت سوچوں‬
‫اور دل و دماغ پر قبضہ کرلیا تھا‪،‬تمھیں‬
‫بس جوسلین ہی نظر آتی ھی اور‬
‫بس‪،،‬قسمت نے یہاں سے پلٹا کھایا جب‬
‫میں تم سے ملتاہوں‪،‬اس کے پروگرام‬
‫میں مارشل آرٹ کا گرینڈ ماسٹر تھا‬
‫لیکن تمھیں متاثر کرنے کیلیے اس نے‬
‫سب سے بہترین ڈھونڈا۔یہ فن اس کیلیے‬
‫لڑنے بھڑنے کیلیے تھا اور بس۔۔اگر‬
‫میری جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو اس کا‬
‫پروگرام چلتے رہنا تھا ‪،‬بلکہ اسنے‬
‫تمھیں مارشل آرٹ کی ٹریننگ سے‬
‫نکلنے ہی نہیں دینا تھا‪،‬وہ دیکھ چکی‬
‫تھی کہ مارشل آرٹ سے محبت تمھاری‬
‫گھٹی میں پڑی ہے‪،‬لیکن کیسے یہ اسے‬
‫بھی نہیں پتہ تھا‪،‬یہ قدرت کی‬
‫پروگرامنگ تھی‪،،‬اس نے تم پر دولت‬
‫کی بارش کر دی‪،‬یہ بھی اس کی ایک‬
‫گہری چال تھی‪،‬حتی کہ اس نے مجھے‬
‫بھی سونے میں تول دیا‪،‬تمھارے ملک‬
‫میں آنٹیاں بچے پالتی ہیں اور خرچے‬
‫لگا دیتی ہیں‪،‬بس یہی کچھ اس کیلیے تم‬
‫تھے ۔ اور یہ بچے کا جیب خرچ‬
‫تھا۔بس بچہ ذرا انمول تھا ‪ ،‬اس کاکوئی‬
‫تم پر احسانات نہیں تھے بلکہ وہ ان‬
‫احسانات کو غیر محسوس طریقے سے‬
‫گنوا کر تمھیں اپنے کنٹرول میں رکھتی‬
‫تھی ۔بڑی اونچے درجے کی فنکار‬
‫تھی‪،،‬وہ ایک خوبصورت ناگن تھی۔ جو‬
‫اپنے شکارکو اپنے بس میں کرلیتی ہے۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫نگینہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں‬
‫‪،‬لیکن گھاؤ تو اس کا بھی بہت گہرا‬
‫ہے‪،،‬آج سے تم مجھ سے وعدہ کرو‬
‫گے کہ تم اپنی خرافات میں میری دی‬
‫ہوئی کوئی طاقت استعمال نہیں کرو‬
‫گے‪،‬ایک وقت آئے گا ان خرافات سے‬
‫تمھارا دل بھر جائے گا‪،‬نگینہ کو بھی‬
‫خود ڈھونڈو گے ‪،‬جب اسے سزا ملنی‬
‫ہوگی وہ تمھیں مل جائے گی‪،‬اب جو تم‬
‫سیکھو گے وہ کنگفو کا چھپا ہوا خزانہ‬
‫ہے ۔اور خزانے ظرف والوں کے‬
‫حوالے کرتے ہیں‪،‬تا کہ وہ اس کی‬
‫صحیح حفاظت کریں‪،‬اور صحیح جگہ‬
‫استعمال کریں‪،،‬تم لکھنا چاہتے ہو‪،‬لکھو‬
‫ہم اس پر بھی بات کریں گے‪،‬قدرت نے‬
‫یہ صالحیت بھی تم میں رکھی ہے‪،‬اور‬
‫کمال کی رکھی ہے‪،‬کوان لی نے آنکھیں‬
‫بند کر لیں‪،‬میں نے بھی آنکھیں بند کر‬
‫لیں‪،‬ہم اسی جگہ ایکدوسرے کے آمنے‬
‫سامنے کھڑے تھے‪،‬میرے بچے ہم‬
‫اسوقت خواب میں ہیں ‪،‬اور ہمارے ان‬
‫جسموں کو جدیدپیراسائیکالوجی میں‬
‫آسٹرل باڈی کہتے ہیں‪،‬یہاں کی رفتار‬
‫بہت تیز اور اختیارو طاقت کمال کا‬
‫ہے‪،‬جیسے ہم خواب میں دنیا کے ایک‬
‫کونے سے دوسرے کونے میں ہو آتے‬
‫ہیں‪ ،‬یا مشکل سے مشکل کام کر لیتے‬
‫ہیں‪،،‬اسی طرح اس جسم سے ہم دنیا‬
‫میں بھی کام لے سکتے ہیں‪،‬جیسے‬
‫جیسے تمھاری مشق بڑھتی جائے گی‬
‫اس جسم سے آہستہ آہستہ تم بھی کام لینا‬
‫سیکھ جاؤ گے اور یہ جسم طاقتور ہوتا‬
‫جائے گااور پھر اسی جسم کو دنیا میں‬
‫بھی استعمال کر سکو گےبالکل میری‬
‫طرح ۔کوان لی نے اپنے مکان کے ساتھ‬
‫والے پہاڑ پر کک ماری اور وہ ریزہ‬
‫ریزہ ہو گیا ‪،،‬ایک گھنٹے بعد ہم نے‬
‫آنکھیں کھولی تو میرا نیا سفر شروع‬
‫ہوچکا تھا۔ مراقبے کے عالوہ میں صبح‬
‫سے شام تک جسمانی پریکٹس بھی‬
‫کرتا‪،‬اور رات کو آرام کرتا‪،‬میں نے جو‬
‫کچھ پہلے سیکھا تھا وہ ہی بہت کچھ‬
‫سمجھتا تھا ‪،‬لیکن اب جو سیکھ رہا تھا‬
‫تو سمجھا کہ اصل کنگفو تو یہ ہے‬
‫کوان لی سے میری وابستگی‪،‬ایک استاد‬
‫سے شاگرد کی تھی‪،‬پھر یہ روحانی‬
‫رشتے میں تبدیل ہوگئی‪،‬اور پھر میں‬
‫جیسے جیسے اس دیوتا کے قریب ہوتا‬
‫گیا میں ان کا گرویدہ ہوتا گیا‪،‬انہوں نے‬
‫کمال شفقت اور مہربانی سے مجھے‬
‫سمیٹ لیا‪،‬اور اپنے بیٹے جیسا پیار دیا‪،‬‬
‫کوان لی کی کوئی اوالد نہیں تھی‪،‬وہ‬
‫اپنے بڑے سے مکان میں پر سکون‬
‫زندگی گزار رہا تھا۔کوان لی‪،‬جڑی‬
‫بوٹیوں اور آکو پنکچر سے عالج کرتا‬
‫تھا یہی اس کی مصروفیت تھی‪،‬جڑی‬
‫بوٹیوں سے عالج کنگفو کا ایک حصہ‬
‫ہی ہے۔ کوان لی نے میری زندگی بدل‬
‫دی‪،‬اگر وہ مجھے نہ ملتے تو میں آج‬
‫بھی کسی آنٹی کا بچہ ہوتا ۔لیکن کوان‬
‫لی نے مجھے فرش سے اٹھا کہ عرش‬
‫پر بٹھا دیا‪،‬دآلویز کی دادی کے بعد‬
‫کوان لی مجھے مخلص ترین رشتہ‬
‫مال‪،‬اتنا مخلص کہ میں اس کے اشارے‬
‫پر جان بھی دے سکتا ہوں کوان لی کی‬
‫بیوی لی ُجو‪،‬آن۔(یعنی خوبصورت اور‬
‫نرم دل) نے مجھے ماں کاپیار دیااور‬
‫میرے اندر جو خال تھا وہ اس نے پر‬
‫کر دیا‪،‬وہ جانتی تھی کہ کوان لی نے‬
‫مجھے اپنی وراثت کیلیے چن لیے‬
‫ہے۔میاں بیوی میں بہت پیار تھا اور‬
‫کوان لی اور اور اس کی بیوی نے‬
‫محبت کی شادی کی تھی‪،‬ان کی نوک‬
‫جھونک سے میں بہت لطف اندوز ہوتا‬
‫تھا‪،‬اکثر مجھے انکی نوک جھونک میں‬
‫کودنا پڑتا لیکن پھر میں ہی نشانہ بن‬
‫جاتا‪،‬اسی طرح ہم بڑی خوش و خرم‬
‫زندگی گزار رہے تھےاور مجھے یہاں‬
‫آئے ہوئے چھ مہینے ہو گئے تھے‪،‬اس‬
‫دوران مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آئی‬
‫‪،‬اب میں نے حیران ہونا چھوڑدیا تھا کہ‬
‫مافوق الفطرت بننا اصل میں انسان کی‬
‫ہی قسمت میں ہے‪،‬ان دنوں میں نےپہال‬
‫آرٹیکل لکھا اور کوان لی نے اس کا‬
‫چائنیز میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا‬
‫‪،‬جب وہ چھپا تو مجھے خوشی ہوئی کہ‬
‫میں لکھ سکتا ہوں۔نہیں بلکہ اس پہلے‬
‫میں ایک نفسیات پر مقالہ لکھ چکا تھا‬
‫وہ میں نے جوسلین کو دے دیا تھا‪،‬وہ‬
‫شاید نہ چھپا ہو‪،‬اس طرح میں مقالہ‬
‫جات کی طرف رجحان سازی رکھتا تھا‬
‫‪،https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫‪،‬سماجی ‪،‬معاشرتی‪،‬رسم رواج ‪،‬انسانی‬


‫نفسیات‪،‬سیکس ‪،‬مذاہب‪،‬تواریخ ‪،‬میرے‬
‫پاس لکھنے کو موضوع بہت تھے‪،‬خیر‬
‫اس خشک موضوع سے آپ کو بچاتے‬
‫ہوئے اس کو قصہ مختصر کردیتے‬
‫ہیں‪،‬مزید چھ مہینے گزر گئے‪،‬مجھے‬
‫ایک سال ہوگیا‪،‬اس دوران میں انٹرنیٹ‬
‫پر مطالعہ اور پریکٹس اور کوان لی‬
‫اور اس کی بیوی کی محبت بس یہ تین‬
‫کام تھے مجھے‪،‬اور ان تین کاموں میں‬
‫چھ مہینے اور گزر گئے مجھے کوان‬
‫لی کے پاس ڈیڑھ سال ہوگیا تھا۔میں نے‬
‫پچھلی زندگی کو بھال دیا تھا‪،‬کچھ‬
‫آرٹیکل اور لکھ دیے‪ ،‬کوان لی کھانا‬
‫کھاتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا‬
‫‪،‬میں نے لی ُجوآن کی طرف دیکھا اور‬
‫اشارے سے پوچھا کیا بات ہے‪،،‬ان میں‬
‫کوئی نوک جھونک تو نہیں ہو‬
‫گئی‪،‬انہوں نے ہاتھ کہ اشارے سے‬
‫فرضی مکھی اڑائی اور مجھے کہا فکر‬
‫نہ کرو‪،‬میں یہ اشارے بازیاں دیکھ رہا‬
‫ہوں ‪،‬کوان لی نے لی ُجوآن سے‬
‫کہا‪،‬انہوں نے کندھے اچکائے اور منہ‬
‫بنا لیا‪ ،،‬میں نے چوپ اسٹک سے چاول‬
‫کھاتے ہوئے کوان لی سے سے پوچھا‬
‫کیا بات ہے ماسٹر ؟میرے بچے جو‬
‫کچھ ہم سیکھتے ہیں کسی نہ کی جگہ‬
‫اس کا ہمیں امتحان بھی دینا پڑتا ہے‬
‫چاہے وہ زندگی کی کوئی مشکل ہو یا‬
‫دنیا کا کوئی میدان‪،‬لی ُجوآن نے اسے‬
‫دیکھ اور پھر سمجھ گئی ہو کہ کیا بات‬
‫ہے‪،‬ایک ہفتے بعد ہم اس قصبے سے‬
‫نکلے اور کسی شہر میں پہنچ‬
‫گئے‪،‬وہاں ایک عمارت میں ہمارا قیام‬
‫ہوا‪،‬مجھے وہاں صرف مارشل آرٹسٹ‬
‫نظر آئے تو سمجھ آئی کہ یہاں کوئی‬
‫مقابلے وغیرہ ہو رہے ہیں‪،‬لیکن شام کو‬
‫جب ماحول دیکھا تو پتہ چال کہ یہاں‬
‫صرف ماسٹرز آتے ہیں‪،‬اور یہ سال میں‬
‫ایک بار ہوتا ہے ‪،‬مارشل آرٹ پر کئی‬
‫مقابلے چائنہ میں ہوتے رہتے ہیں‪،‬لیکن‬
‫یہ سب سے خاص اورہٹ کر تھا۔یہ عوا‬
‫م الناس کےنہیں خواص الخواص کے‬
‫مقابلے تھے ہم نے اکھٹے شام کو دو‬
‫مقابلے دیکھے‪،‬دونوں ہی ٹاپ کالس‬
‫تھی مجھے مزہ آیا‪،‬مقابلے فل کونٹیکٹ‬
‫باڈی کے تھے ‪،‬یعنی جسم کے ہر‬
‫حصے کو ہٹ کیا جا سکتا تھا۔ویسے تو‬
‫موئے تھائی‪،‬کیوکشن ‪،‬کراٹے‪،‬تائیکوانڈو‬
‫۔جیت کون ڈو وغیرہ فل کونٹیٹ فنون‬
‫تھے ‪،‬لیکن جس مقابلے میں چاہیں فل‬
‫کونٹیکٹ رکھ سکتے ہیں‪،‬آنے والے‬
‫ماسٹرز کوان لی کو جانتے تھے اور‬
‫اسے دیکھ کر حیران تھے کیونکہ وہ‬
‫ایسے مقابلے پسند نہیں کرتا‪،‬لیکن میں‬
‫سمجھ گیا وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ اپنے‬
‫شاہکار کو دکھانے آیا تھا‪،‬شاید ان سب‬
‫میں ایسی باتیں چلتی تھیں‪،‬یہ بھی تھا کہ‬
‫ماسٹرز کے اس مقابلے میں وہ مجھے‬
‫ال کر بتا رہا ہو کہ اس نے مجھے اپنی‬
‫وراثت دے دی ہے‪،‬کیونکہ ا سپر کئی‬
‫لوگ طنز بھی کرتے تھے کہ یہ تو قبر‬
‫میں جائے گا لیکن کسی کو کچھ‬
‫سکھائے گا نہیں۔ ویسے یہاں ہر بندہ‬
‫کوان لی کے سامنے ایکبار جھک کے‬
‫تعظیم ضرور دیتا تھا‪، ،‬دوسرے دن‬
‫کوان لی کا مزاج بڑا خاص تھا‪،‬سامنے‬
‫ایک ریڈبیلٹ ماسٹر ماسٹر بیٹھا ہوا تھا‬
‫‪،‬میں نے اسے آج ہی دیکھا تھا‬
‫۔خطرناک لگتا ہے ‪،‬میں نے جان بوجھ‬
‫کر کہا‪ ،‬ناالئق شاگردوں کوا یسا ہی کہنا‬
‫چاہیے ۔‪،‬دیکھو اسے ‪،‬اس نے ریڈبیلٹ‬
‫کیلیے ایک عمر صرف کر دی ہےاور‬
‫صرف ‪ 21‬کے‬ ‫خود کو دیکھو تم ابھی ِ‬
‫ہو‪ ،‬ابھی تمھارا اس سے مقابلہ ہو گا‪،‬کیا‬
‫‪،‬میں نے مصنوعی حیرانگی سے کہا‬
‫۔کسی ناالئق شاگرد کی طرح میرا نام‬
‫مت ڈبو دینا‪،‬کوان لی نے ناراضگی‬
‫سے کہا ‪ ،‬نوک جھونک کی عادت انہیں‬
‫میرے ساتھ بھی پڑ گئی تھی‪،‬مجھے‬
‫اندازہ ہوگیا تھا کہ کوان لی میرا فن‬
‫دکھانا چاہتا ہے‪،‬آخر انہوں نے بھی تو‬
‫کبھی خود کو منوایا تھا۔‬
‫‪• Part⁴⁸‬‬
‫کچھ ہی دیر میں اور ریڈبیلٹ واال آمنے‬
‫سامنے کھڑے تھے‪،‬ہم نے جھک کر‬
‫ایکدوسرے کو تعظیم دی‪،‬ریڈبیلٹ واال‬
‫پرسکون نظر آ رہا تھا ‪،‬اس نے سٹانس‬
‫بنایا اور اٹیک کرنا چاہا‪،‬میں اسی بات‬
‫کا انتظار کر رہا تھا‪،‬میرا مکا اس کی‬
‫تھوڑی کی طرف گیا‪،‬اس نے پھرتی‬
‫سے اٹیکنگ پوزیشن سے خوبصورت‬
‫بالکنگ کی‪،‬لیکن وہ میرا مقصدنہیں‬
‫سمجھا تھا ‪،،‬میرا مکا اس کی بالکنگ‬
‫سمیت اس کی تھوڑی کولگا‪،‬میں نے تو‬
‫ضرب لگائی ہی نہیں تھی میں نے تو‬
‫پش کیا تھا‪،‬ریڈبیلٹ اوپر کو اچھال‪،‬میں‬
‫اس کے پیچھے اچھال ‪،‬میرا گھٹنا اس‬
‫کی کمر پر تباہی لے آیا ‪،‬وہ اور اوپر‬
‫ہوا‪،‬اور پھر نیچے کی طرف گرا اور‬
‫میر ی کہنی اس کے سینے پر پڑی‬
‫‪،‬جب اس کا جسم نیچے گرا تو وہ بے‬
‫ہوش ہوچکا تھا اور میں اس کے پاس‬
‫ایسے اترا جیسے کوئی اڑتا ہوا نیچے‬
‫آتا ہے‪،‬چار سیکنڈ پورے نہیں ہوئے‬
‫اور ریڈبیلٹ ناک آؤٹ ہوچکا تھا۔جیسے‬
‫انہونی ہوگئی تھی‪،‬کسی کو ایک لمحے‬
‫کیلیے کچھ سمجھ نہ آئی ‪،‬میں ایسے‬
‫وہاں کھڑا تھا جیسے کوئی ہےتو‬
‫آجائے‪،‬اور سب سے بڑی کرسی پر‬
‫بیٹھے ماسٹر نے وہیں سے چھالنگ‬
‫لگائی اور میرے سامنے آکھڑا ہوا۔اسی‬
‫کی سرپرستی میں تو یہ ساری فائیٹ ہو‬
‫رہی تھیں‪،‬اوروہ استادوں کا ستاد تھا‬
‫اور اس کا کلب ایسی جگہ تھی جہاں‬
‫ماسٹرز بنتے تھے اور بنے ہوئے ختم‬
‫ہو جاتے تھے۔کیونکہ اس کلب کو‬
‫چالنے واال پورے چائنہ کا گرینڈماسٹر‬
‫تھا‪،‬تمام چائنہ میں بیلٹوں اور کلبوں کی‬
‫سطح کا سب سے بڑا استاد‪،‬پورے چائنہ‬
‫میں اس کے ہزاروں شاگرد تھے ۔جس‬
‫کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا اس کا نام‬
‫گونجنے لگتا تھااور جس کو وہ رد‬
‫کردیتاوہ کہیں کا نہیں رہتا تھا‪ ،‬استادوں‬
‫کا ا ستاد میرے سامنے آکھڑا ہوا‬
‫تھا‪،‬اسے نہیں پتہ تھا کہ ریڈبیلٹ واال تو‬
‫چارا تھا اصل نشانہ تو وہ خود تھا‪،‬اسی‬
‫لیے کوان لی نے اس کے بیٹے ریڈبیلٹ‬
‫والے سے میرا مقابال کروایا تھا‪،‬اورمیں‬
‫نے اسے کسی بچے کی طرح ہرایا تھا‬
‫تا کہ وہ اپنے بیٹے کا بدلہ لینے جذبات‬
‫میں خود ہی سامنے آجائے‪ ،،‬ہال میں‬
‫مکمل خاموشی تھی‪،‬انگلش میں اسے پن‬
‫ڈراپ خاموشی کہتے ہیں‪ ،‬اب نہ میں‬
‫نے اس کو کوئی حملہ کرنے دینا تھا تا‬
‫کہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ کوان لی کہ‬
‫شاگرد پر اس نے حملہ کی ااور ا سنے‬
‫بالک کرلیا اور نہ اس پر ایسا حملہ‬
‫کرنا تھا کہ وہ اسے بالک‬
‫کرسکے‪،‬مجھے کوان لی کے نام کی‬
‫عزت رکھنی تھی‪،‬مقابلہ شروع ہوا‪،‬‬
‫استادوں کے استاد کے تیور سے ہی‬
‫میں سمجھ گیا کہ اس نے قاتالنہ حملہ‬
‫کرنا ہے‪،‬کچھ حملے ضرب لگانے‬
‫کیلیے اور کچھ توڑنے کیلیے اور کچھ‬
‫ختم کرنے کیلیے ہوتے ہیں‪ ،‬استادوں‬
‫کے استاد کو سمجھنا چاہیےتھاکہ میں‬
‫عظیم کوان لی کا شاگرد ہوں‪،‬جیسے ہی‬
‫مقابلہ شروع ہوا۔میں نے اس پر حملہ‬
‫کر دیا۔میرا مکا اس کے چہرے کی‬
‫طرف بڑھا ‪،‬یہ ایک آسان حملہ تھا ‪،‬اس‬
‫نے اپنی کھڑی ہتھیلی سے میرا مکا‬
‫ایک سائیڈ میں نکالنا چاہا ۔لیکن یہ تو‬
‫تھا ہی ا سکی ہتھیلی کیلیے ‪،‬اس کے‬
‫ہاتھ پر جیسے قیامت آگئی۔نیچے سے‬
‫دوسرا مکا اس کی طرف گیا۔اس نے‬
‫بالک تو کرنا ہی تھا۔لیکن میں بھی چاہتا‬
‫تھا کہ وہ بالک کرے‪،‬میری تیکنیک ہی‬
‫کچھ ایسی تھی۔کہ وہ بالک کرے اور‬
‫میں اسے نشانہ بناؤں کیونکہ میں اسے‬
‫زیادہ موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔میرے‬
‫دوسرے مکے نے اس کے دوسرے ہاتھ‬
‫کا ستیاناس کردیا تھا۔اس کے ہاتھ کڑی‬
‫پریکٹس سے پتھر بن چکے تھے۔لیکن‬
‫وہ اگر پتھر تھا تو میرے لیے فوالد بھی‬
‫موم تھا۔اب کی بار اس نے کک سے‬
‫حملہ کیا‪،‬بڑی اچھی بات تھی اس نے‬
‫یہی کرنا تھامگر میں تو وہاں نہیں تھا۔‬
‫میں اسکی سایڈ میں آچکا تھا۔اور میر ی‬
‫کک اس کی طرف بڑھی اورپاؤں اس‬
‫کی گردن پر پڑا۔ وہ پہلے ہی ایک‬
‫غلطی کرچکا تھا‪،‬اور اب دوسری‬
‫کرنے لگا تھا۔اب میرا پاؤں اس کی‬
‫گردن پر پڑا تو زمیں کی طرف آیا‪،‬میں‬
‫نے اس کی گردن کوزور سے جھٹکا‬
‫لگایا تھا ‪،‬استادوں کا استاد منہ کے بل‬
‫زمیں کی طرف آیا‪،‬لیکن اس نے گھٹنے‬
‫زمیں پر ٹیک کر اپنے ہاتھ بھی ٹکا‬
‫دیے اس طرح وہ زمیں چاٹنے سے بچ‬
‫گیا۔لیکن یہ تو چال تھی‪،،‬اس کے گھٹنے‬
‫زور سے لگےتھے اور ہاتھ پہلے ہی‬
‫کمزور ہوچکے تھے۔میں نے چشم ِ‬
‫زدن میں پاؤں گردن سے ہٹایا اور‬
‫استادوں کے استا د کے کنپٹی پر مکا‬
‫مارا۔اسکے ہاتھ اور گھٹنے زمیں پر‬
‫تھے اور ذلت کو برادشت کر رہے‬
‫تھےاسے بالکنگ کا موقع ہی نہ‬
‫مال‪،‬میرے مکے سے وہ لڑکھتا ہو دور‬
‫جا گرا اور بے ہوش ہو گیا‪ ،‬یہی تو‬
‫کوان لی چاہتا تھا ۔ہال کو جیسے سانپ‬
‫سونگھ گیا‪،‬پھر اضطرارای حالت میں‬
‫دو ماسٹر میری طرف بڑھے‪،‬لیکن‬
‫کوان لی ان کے سامنے آیا ان کو ایک‬
‫ایک مکا مارا ‪،‬وہ دور جا گرے‬
‫۔یہ کوان لی کی دانشمندی تھی‪،‬نہیں تو‬
‫ان ماسٹرز کے پیچھے اور لوگ بھی‬
‫مجھ پر ٹوٹ پڑنے تھے ‪،‬ظاہر ہے پھر‬
‫ان کا ساتھ اچھا نہیں ہونا تھا ‪،‬اور جو‬
‫کوان لی چاہتا تھا وہ نہیں ہونا تھا ۔کوان‬
‫لی کو سامنے دیکھ کر لوگوں کو ہوش‬
‫آیا‪،‬سب کوان لی کے سامنے جھک‬
‫گئے‪،‬ظاہر ہے وہ اسکے فن کا اعتراف‬
‫کررہے تھے کوان لی کا شاگرد ‪،‬میں‬
‫بھی اس کے سامنے جھک گیا‪،‬ہم وہاں‬
‫دو گھنٹے رکے ‪،‬اتنے میں ریڈبیلٹ اور‬
‫اس کا باپ ہوش میں آچکے تھے ‪،‬اور‬
‫ہم سے مل کرہمیں جھک کرتعظیم‬
‫دی‪،‬کوان لی نے مختصرراستے سے‬
‫مجھے استادوں کے استاد سے اوپر کا‬
‫درجہ دے دیا تھا‪،‬اب یہ بات کلبوں میں‬
‫پھیلنے والی تھی‪،‬اس کے بعد کوان لی‬
‫مجھے کئی کلبوں اور بدھسٹ ٹیمپلز‬
‫میں لے گیا‪ ،‬کئی جگہ میں نے اپنے فن‬
‫کا مظاہر ہ بھی کیا‪،‬ہر جگہ ہمیں تعظیم‬
‫ملی‪،‬یقینا یہ کوان لی کی عظمت تھی‬
‫اور اب وہ مجھے اپنی جگہ دے رہا‬
‫تھا‪،‬یہ یا ترادنیا سے میرا تعارف تھا‬
‫۔اور لوگ مجھے مان رہے تھے‪،‬مجھے‬
‫عزت دے رہےتھے۔کیوں نہ دیتے‬
‫عظیم کوان لی نے مجھے اپنا جانشین‬
‫کہا تھا ۔ایک مہینے بعد ہم اسی‬
‫قصبےمیں گھر واپس آگئے۔کوان لی اب‬
‫بڑے اطمینان میں رہتا تھا‪،‬مجھے اس‬
‫کے پاس ایک سال اور ‪ 8‬مہینے ہوگئے‬
‫تھے‪،‬بیٹا میرے پاس جوکچھ تھا وہ میں‬
‫نے تمھیں دے دیا ہے۔میری ساری‬
‫زندگی کی محنت اور میری ساری‬
‫دولت یہی کچھ تھا جو میں تمھارے‬
‫حوالے کر چکاہوں‪،‬میں خوش ہوں اور‬
‫تم بھی کسی ظرف والے شاگرد کی‬
‫تالش میں رہنا ‪ ،،‬اسی طرح چراغ سے‬
‫چراغ جلتے ہیں‪،،‬تمھیں واپس پاکستا ن‬
‫جانا پڑے گا کوئی لینے آئے تو انکار‬
‫مت کرنا‪،‬خدا نے تمھارے لیے ایک اور‬
‫نعمت لکھی ہوئی ہے‪،‬ایک چیز تمھارے‬
‫لیے رکھی ہے ‪،‬وہ لے لینا‪،‬یہ باتیں تو‬
‫ان کی ہوتی ہیں جو جانے والے‬
‫ہوں‪،‬اور چند دن بعد کوان لی چال گیا‬
‫بڑی خاموشی سے ۔وہ جیسے اسی‬
‫انتظار میں تھا کہ میری تکمیل ہو اور‬
‫وہ جائے‪ ،‬اس کی یاد میں رونے والے‬
‫بہت تھے‪،‬لیکن ایک ایسی ہستی بھی‬
‫تھی جو با لکل خاموش ہوگئی تھی‪،‬او ر‬
‫وہ تھی لی ُجوآن ۔ایک مہینے بعد وہ‬
‫بھی چل بسی‪،‬شاید وہ اتنا ہی جدائی‬
‫برداشت کر سکی تھی۔‪،‬لیکن جاتے‬
‫ہوئے وہ سارا پیسہ جو کوان لی نے‬
‫جوسلین سے لیا تھا ‪،‬وہ مجھے دے‬
‫دیا۔چائنہ میں جتنے مذاہب ہیں وہ سب‬
‫روح پرست ہیں‪،‬یعنی وہ روح کو اپنے‬
‫آپ قائم و دائم مانتے ہیں‪ ،‬اور کوان لی‬
‫کے چاہنے والوں کی نظر میں کوان لی‬
‫آج بھی زندہ ہے‪،‬اور ان کی دعائیں سنتا‬
‫ہے‪،‬میرا عقیدہ روح کے بارے میں ان‬
‫جیسا تو نہیں ہے‪،‬لیکن اتنا تو میں بھی‬
‫مانتا ہوں کے روح کو فنا نہیں ہے‪،‬اور‬
‫جو کوان لی خوابوں میں مجھے سکھاتا‬
‫تھا اور پہاڑوں کو ایک ٹھوکر سے گرا‬
‫دیتاتھا وہ آج بھی زندہ ہے اور میرے‬
‫ساتھ ہے۔مجھے کوان لی کے جانے کا‬
‫دکھ تو بہت ہی ہوا‪ ،‬لیکن میں سنبھل‬
‫گیا‪،‬اب میں تھا مراقبے تھے‪،‬لکھنا‬
‫لکھانا تھا‪،‬لیکن میں لکھنے سے مطمن‬
‫نہیں تھا‪،‬میں عالمی طور پر کچھ لکھنا‬
‫چاہتا تھا‪،‬اور لکھا بھی۔ چار ماہ بعد‬
‫ایک عورت مجھے ملنے آئی ‪،‬میں‬
‫حیران رہ گیا‪،‬وہ جوسلین کی ایک رشتہ‬
‫دار تھی‪ ،‬جوان لڑکی تھی‪،‬کبھی کبھار‬
‫وہ جوسلین سے ملنے آجاتی تھی‪،‬اور‬
‫جوسلین بھی اس سے مل لیتی تھے‬
‫‪،‬ویسے وہ ہر رشتے دار سے دور‬
‫بھاگتی تھی۔تم یہاں ‪،‬؟ میں اسے دیکھ‬
‫کر حیران ہوا‪،‬ہاں میں یہاں تمھیں لینے‬
‫آئی ہوں‪،‬۔کو ان لی نے کہا تھا کوئی‬
‫تمھیں لینے آئےتو چلے جانا‪،‬کس لیے‬
‫آئی ہیں‪،‬میں پوچھے بنا نہ رہ سکا‪،‬اس‬
‫نے خاموشی سے مجھے اپنا موبائل‬
‫پکڑا دیا‪،‬اس میں جوسلین کی ویڈیو تھی‬
‫اور وہ اس ویڈیو میں ایک غزل کے‬
‫چند اشعار پڑھ رہی تھی‪،‬‬
‫دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں‬
‫تمہیں‬
‫ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں‬
‫سلگائیں تمہیں‬
‫ترک تمنا کر چکنے کے‬
‫ِ‬ ‫ترک محبت‪،‬‬
‫ِ‬
‫بعد‬
‫ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے‬
‫بھالئیں تمہیں‬
‫دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں‬
‫میں بھر آئے‬
‫روح کے زخموں کی گہرائی کیسے‬
‫دکھائیں تمہیں‬
‫سناٹا جب تنہائی کے زہر میں بجھتا ہے‬
‫وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں‪ ،‬کیسے‬
‫بتائیں تمہیں‬
‫جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدال‬
‫ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں‬
‫تمہیں‬
‫)ظہور نظر(‬
‫جوسلین نے مجھے بالیا تھا‪،‬مجھے جانا‬
‫ہی تھا۔تیسرے دن ہم الہور پہنچ گئے ۔‬
‫تقریبا رات کے نو بجے تھے جب میں‬
‫فلیٹ پہنچا۔ میں سیدھا بیڈروم میں‬
‫گیا۔جوسلین کو دیکھاوہ ہڈیوں کا ڈھانچا‬
‫بن چکی تھی‪،‬مجھے یقین نہیں آیا یہ‬
‫وہی پھولوں جیسی جوسلین ہے۔میں اس‬
‫کے پاس بیٹھ گیا‪،‬میں نے اس کے ہاتھ‬
‫اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔مجھے دیکھ‬
‫کر جوسلین کی آنکھوں میں آنسو‬
‫آگئے۔کہاں چلے گئے تھے تم۔۔۔ کتنا‬
‫ڈھونڈا میں نےتمھیں ۔اچھا ہوا تم آ گئے‬
‫۔میرے پاس وقت کم ہے اور تم سے‬
‫بہت سی با تیں کرنی ہیں۔وہ رات میں‬
‫اسی کے پاس بیٹھا رہا ۔جوسلین کی‬
‫طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔وہ ٹمٹاتا ہوا‬
‫چراغ تھی۔ ساری رات میں اسے جینے‬
‫کی امید دیتا رہا لیکن وہ میری کسی‬
‫بات میں نہ آئی ‪،‬مختصرا اس رات کا‬
‫احوال بیان کرتا ہوں‪،‬جوسلین نے وہی‬
‫لہنگا پہنا ہوا تھا جو اس نے ہماری پہلی‬
‫رات پہنا تھا‪،‬اور اس کے گلے میں وہی‬
‫چین تھی جو میں نے اسے گفٹ دی‬
‫تھی۔ ۔۔۔۔۔پرنس آج تم پہلے سے زیادہ‬
‫بھرپور نظرآرہے ہو۔یقینا کوان لی نے‬
‫تمھیں سب کچھ سونپ دیا ہے۔مجھے‬
‫خوشی ہے کہ جاتے جاتے تمھاری‬
‫تکمیل دیکھ لی‪،‬آج تم میرے خیالوں اور‬
‫ارادوں سے کہیں زیادہ آگےچلے گئے‬
‫ہو۔ پرنس میری جان صرف اسلیے‬
‫اٹکی ہوئی ہے کہ میں تم سے معافی‬
‫مانگ سکوں‪،‬مجھے انداز ہو گیا تھا کہ‬
‫تمھیں میری مکاریوں کا پتہ چل گیا ہے‬
‫۔ میں تبھی سمجھ گئی تھی جب کوان لی‬
‫نے تمھیں میرے سحر سے آزاد کردیا‬
‫تھا۔تمھارے جانے کے بعد مجھے‬
‫احساس ہوا کہ میں توخود کو بھی دھوکا‬
‫دے رہی تھی‪،‬مجھے تو جانے کب تم‬
‫سے محبت ہوگئی تھی۔وہی محبت جس‬
‫سے میں ناآشنا تھی۔وہی محبت جو‬
‫میرے لیے کوئی معنی نہیں‬
‫رکھتی‪،‬میرے لیے انسان بس کھیلنے‬
‫کیلیے ہوتے ہیں۔اسی محبت نے مجھے‬
‫ایسا پکڑا کہ ریزہ ریزہ کردیا ۔میں‬
‫سمجھی مجھے سزا مل رہی ہے ۔لیکن‬
‫جب میں نے اقرار کرلیا تو مجھے‬
‫سکون ہوگیا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ‬
‫محبت سزا نہیں ہے یہ تو جزا ہے‬
‫میری کسی بھولی بسری نیکی‬
‫کی۔محبت کے اقرار کے بعد مجھے‬
‫پچھتاووں نے گھیر لیا۔مجھے محسوس‬
‫ہوا کہ اپنے آپ سے لڑتے لڑ تے‬
‫محبت کا اقرار کرنے میں بہت دیر کر‬
‫دی ہے ۔دیکھو پچھتاووں اور تمھاری‬
‫یاد نے میر ا کیا حال کر دیا ہے۔وہ‬
‫آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔بس تمھاری‬
‫آخر دید کی منتظر تھی‪،‬پلیز مجھے‬
‫معاف کر دو۔جوسلین نے ہاتھ جوڑ دیے‬
‫‪،‬آنسوؤں کی وجہ سے میرا گال ُرندھا‬
‫ہوا تھا مجھ سے بوال نہ گیا ‪،‬میں نے‬
‫سرہال دیا۔مجھے آخر ی بار اپنی گود‬
‫میں لے لو‪،‬میں تمھاری بانہوں میں مرنا‬
‫چا ہتی ہوں‪،‬جوسلین نے انتہائی جذباتی‬
‫لہجے میں کہا۔میں نے اس کے پاس‬
‫بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ‬
‫لیا۔جوسلین نے پاس رکھی ایک فائل‬
‫اٹھائی اور مجھے پکڑا دی‪،‬تم نے‬
‫مجھے معاف کر دیا نہ‪،‬اس نے پھر‬
‫پوچھا‪،‬ہاں جوسلین میری جان ‪،‬میرے‬
‫دل سے سب کچھ ُدھل گیا ہے اور‬
‫صرف تمھاری محبت ہے ۔رات گئی‬
‫اور صبح ہو چکی تھی ۔جوسلین مجھے‬
‫محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔‬
‫وہ دیکھتی رہی‪،‬دیکھتی رہی‪،‬آخر اس‬
‫کی رشتہ دار نے آگے بڑھ کر اس کی‬
‫آنکھیں بندکر دیں۔ جوسلین جا چکی‬
‫تھی۔اس نے سچ کہا تھا وہ بس میرا‬
‫انتظار کر رہی تھی۔‬
‫اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا‬
‫جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا۔‬
‫اس کے جنازے میں ا سکی برادری‬
‫اور سب اس کے چاہنے والے شامل‬
‫تھے۔اسےعیسائیوں کے قبرستان میں‬
‫دفنایا گیا۔اسکی وہ رشتہ دار جو مجھے‬
‫لینے گئی تھی۔وہ ان دنوں میرے ساتھ‬
‫تھی۔اس کا نام ماریہ تھا اس نے مجھے‬
‫بتایا ۔ جوسلین تمھیں دو سال سے ڈھونڈ‬
‫رہی تھی ۔ ایک سال سے وہ بیمار‬
‫رہنے لگی۔تب سے میں ان کے ساتھ‬
‫رہتی ہوں۔کوان لی سے وہ پہلے بھی‬
‫رابطہ کر چکی تھی اس کا خیا ل تھا تم‬
‫دنیا میں کوان لی کے عالوہ اور کسی‬
‫کہ پاس نہیں جاسکتے ۔ بیمار ہونے کے‬
‫بعدبھی جوسلین نے کئی بار رابطہ کیا۔‬
‫چھ مہینے پہلے کوان لی نے کہا کہ تم‬
‫اسی کے پاس ہو ۔حیرانگی کی بات ہے‬
‫ہے انہی دنوں جوسلین نے خود سے‬
‫تمھاری محبت کا اعتراف کیا تھا‬

‫اس سے پہلے وہ تم سے ناراض تھیں‪،‬‬


‫تمھاری غیرموجودگی میں شکوہ کناں‬
‫تھیں ۔پھر وہ اپنے احسانا ت یاد کرتی‬
‫تھیں جو تم پر کیے‪،‬انہیں پتہ چل گیاتھا‬
‫کہ تم امریکہ جانے والے ائیرپلین میں‬
‫سوار ہی نہیں ہوئے تھے۔یہ شروع‬
‫شروع کا وقت تھا آہتہ آہستہ انکو‬
‫تمھاری غیرموجودگی ستانے لگی‪،‬وہ‬
‫خود کو یہی ظاہر کرتی رہیں کہ انہیں‬
‫تمھاری ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے‬
‫خود کو مصروف کرنے کی بہت‬
‫کوشش کی۔انکی دوستیاں بھی کافی‬
‫تھیں۔لیکن کہیں ان ک سکوں نہ آیا۔ایک‬
‫سال اسی طرح گزر گیا۔بڑی مضبوط‬
‫ارادے کی تھیں‪،‬لیکن اپنے آپ سے‬
‫لڑتے لڑتے بیمار رہنے لگی‪،‬بستر پر‬
‫رہنے لگی‪ ،‬ان دنوں انہوں نے مجھے‬
‫اپنے پاس بال لیا‪ ،‬سارادن مجھ سے‬
‫تمھاری باتیں کرتیں۔بس جیسے ہی‬
‫انہوں نے اپنے آپ سے تمھاری محبت‬
‫کا اعتراف کیا۔کوان لی جوسلین سے‬
‫رابطہ کرتے ہیں کہ تم ان کے پاس‬
‫ہو۔کوان لی نے کہا کہ جوسلین خود‬
‫تمھیں لینے وہیں آجائے ۔جب جوسلین‬
‫کو یہ پتہ چال کہ تم یہیں ہو تو وہ‬
‫سوچوں میں پڑ گئی کہ پتہ نہیں تم کیا‬
‫کچھ کہو ۔وہ کہتی تھیں مجھے پرنس‬
‫کے سامنے جانے کی ہمت نہیں ہے۔ان‬
‫سوچوں نے اسے اور بیمار کر دیا‪،‬میں‬
‫انہیں سمجھاتی رہی‪،‬کہ آپ ایکبار پرنس‬
‫سے ضرور ملیں۔انہیں سوچوں اور‬
‫پچھتاووں نے ان کی حالت مزید خراب‬
‫کر دی‪ 22،‬مہینوں میں پھولوں جیسی‬
‫جوسلین کمال کر ہڈیوں کا ڈھانچا بن‬
‫گئی‪،‬جوسلین موت کی متظر تھی اور ہر‬
‫پل تمھیں یاد کرتی تھی۔لیکن اسے موت‬
‫بھی نہیں آرہی تھی۔ تب اسے خیال آیا‬
‫کہ وہ تم سے معافی مانگے گی‪،‬حیرت‬
‫کی بات ہے پھر کوان لی نے خود‬
‫رابطہ کیا ۔کہا کہ انہوں نے تمھیں‬
‫سمجھایا ہے کوئی بھی آ کہ لے جائے‬
‫جوسلین کی تو حالت خراب تھی اس‬
‫نے مجھے بھیج دیا۔کیا؟ کوان لی نے تم‬
‫لوگوں سے کب رابطہ کیا تھا؟تقریبا دو‬
‫ماہ پہلے کیا تھا(میں نے اسے نہیں بتایا‬
‫کہ وہ تو ‪ 4‬ماہ پہلے وفات پا چکے‬
‫ہیں‪،‬اس بات کا تو جوسلین کو بھی پتہ‬
‫نہیں چال)جوسلین نے مجھے جو فائل‬
‫پکڑائی تھی ‪،‬اس نے اپنی ساری جائیداد‬
‫میرے نام کردی تھی۔یہ فلیٹ بینک‬
‫بیلنس‪،‬گاڑیاں۔جاگیر کی ہرچیز۔ایک سال‬
‫سے یہ سب انتظام ماریہ سنبھال رہی‬
‫تھی۔اس نے میرا ساتھ دیا۔اور تمام‬
‫جائیداد کا انتظام سنبھالنے میں مجھے‬
‫کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ویسے بھی‬
‫جوسلین کا لےپالک ہوتےہوئے ہر کوئی‬
‫یہی توقع کرتا تھا کہ اس کی وراثت‬
‫مجھے ملے گی۔کوان لی نےکہا تھا اگر‬
‫کوئی تمھیں لینے آئےتو چلے جانا‪،‬وہاں‬
‫بھی ایک نعمت تمھاری منتظر ہے‪،‬اور‬
‫وہ نعمت یہی اربوں کی جائیداد تھی۔اس‬
‫فائل میں ایک پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی‬
‫تھی جو میرے اصل نام پر تھی‪،‬اس کے‬
‫پیچھے ایک نوٹ لکھا ہوا تھا۔شاگرد‬
‫استاد سے آگے ہی جاتے ہیں۔یہ لکھائی‬
‫جوسلین کی تھی‪،‬میں نے ماریہ سے‬
‫پوچھا کہ یہ کیا ہے‪،‬اس نے بتایا کہ میں‬
‫نے کبھی نفسیات پر مقالہ لکھا تھا وہ‬
‫جوسلین نے چھپوا دیا تھا۔اسی پر‬
‫مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری‬
‫ملی تھی۔‬
‫جوسلین ایک ایسی ناگن تھی جس کے‬
‫سحر سے بچنا نا ممکن تھا۔لیکن وہ‬
‫ناگن محبت کے ہاتھوں خود ٹوٹ کر‬
‫ریزہ ریزہ ہوگئی۔اور مجھے بھی توڑ‬
‫گئی‪،،‬مجھے سنبھلنے کیلیے کچھ وقت‬
‫چاہیے تھا۔‬

‫ماریہ میرے ساتھ ہی فلیٹ میں‬


‫تھی‪،‬اچھی جوان‪،‬خوبصورت لڑکی تھی۔‬
‫اسمارٹ تھی‪ 27 ،‬سال اس کی عمر‬
‫تھی۔لگتا تھا اس کے گھر سے اس کا‬
‫رابطہ ختم ہوگیا ہے اسی لیے ابھی تک‬
‫یہیں ٹِکی ہوئی تھی۔محبت میں دھوکے‬
‫والی بات تھی ۔ میں نے اسے زیادہ نہیں‬
‫ٹٹوال‪،‬وہ کھانا پینا‪،‬فلیٹ کے کام‪،‬میرا‬
‫خیال رکھتی تھی۔جوسلین کی وفات کے‬
‫دسویں دن بعد جب میں سارا دن کی‬
‫غزلیں سنتارہتا تھا۔ماریہ کمرے میں‬
‫داخل ہوئی۔اس نے ایک گاؤن پہناہوا‬
‫تھا‪،‬دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے‬
‫گاؤن اتار دیا‪،‬نیچے اس نے کچھ نہیں‬
‫پہنا تھا۔وہ نشیلی چال چلتی ہوئی میرے‬
‫پاس آئی۔اس کے جسم کے نشیب و فراز‬
‫مجھے بہالنے لگے۔ماریہ نے میرے‬
‫پاس آکر مجھے بھی ننگا کیا۔اور میرا‬
‫عضو چوسنے لگی۔اس نے سٹارٹ اچھا‬
‫کیا تھا‪،‬یہیں سے شروع کرنا‬
‫چاہیےتھا۔مجھے جوش آنے لگا‬
‫۔اورجسم میں لہریں اٹھنے لگیں‪،‬لہریں‬
‫طوفان بننے لگی۔میں نے ویسے بھی‬
‫سنبھل جانا تھا‪،‬لیکن اس نے دوائی دی‬
‫تو جلدی آرام آگیا۔چوستے چوستے اس‬
‫نے میری طرف دیکھا اور میری‬
‫آنکھوں میں دلچسپی دیکھ اور جوشیلے‬
‫انداز میں چوسنے لگی۔ماریہ نے پتہ‬
‫نہیں کیا سوچ کے یہ قدم بڑھایا تھا‪،‬یا تو‬
‫وہ میرا غم بٹا رہی تھی ۔یا میری کشش‬
‫سے اس کی بھوک جاگ گئی تھی۔یا وہ‬
‫میرے ساتھ اپنا مستقبل محفوظ کر رہی‬
‫تھی۔لیکن اس وقت مجھے کسی بات‬
‫سے کوئی غرض نہیں تھی۔مجھے‬
‫دلچسپی تھی تو اس کام سے جو وہ‬
‫اسوقت کر رہی تھی۔ماریہ اتنی ماہر‬
‫نہیں لگتی تھی‪ ،‬لیکن مجھے اچھا لگ‬
‫رہا تھا۔ماریہ نے مجھے اچھا مزہ دیا‬
‫اور پھر میرے اوپر آکہ چوت کو عضو‬
‫کے اوپر اچھی طرح ٹھیک کیا موری‬
‫میں ٹوپی ڈالی اورآہستہ آہستہ اس پر اپنا‬
‫وزن ڈال کراندر لینے لگی۔ماریہ کی‬
‫چوت تنگ تھی‪،‬اور وہ اناڑی بھی لگ‬
‫رہی تھی۔مجھے اس کی مدد کرنی پڑی‬
‫جب اس کے اندر پورا چال گیا تو اس‬
‫نے سانس لیا‪،‬مجھے محسوس ہوا ماریہ‬
‫کو درد ہوا ہے‪،‬میں پیچھے ٹیک لگا‬
‫کے بیٹھا اور اس کی کمر سے پکڑ کر‬
‫اسے سہارا دیا اور اس سے چودائی‬
‫کروانے لگا۔کچھ دیر اسے درد محسوس‬
‫ہوا جو اس کے چہرے پر دیکھا جا‬
‫سکتا تھا ‪،‬پھر مزہ اسے بہانے لگا اور‬
‫درد بھولنے لگا۔اس میں کوئی شک نہیں‬
‫تھا کہ ماریہ کا جسم دلکش اور سیکسی‬
‫تھا‪،‬اس کے نقش خوبصورت تھے۔سچی‬
‫بات ہے یارو بعض اوقت تو لڑکی جوان‬
‫ہو تو اتناہی کافی ہے۔خوبصورتی کا‬
‫دوسرا نام ہی لڑکی ہے۔ماریہ اوپر‬
‫نیچے ہو رہی تھی اور مجھ میں چودائی‬
‫کا شوق جاگ رہا تھا۔کوان لی کے پاس‬
‫رہتے ہوئے مجھے اس چودائی کے‬
‫شوق نے بڑا ستایا تھا۔لیکن ایک تو‬
‫مجھے کوان لی کا احترام بہت تھا اور‬
‫ان میان بیوی کی محبت نے میرے قدم‬
‫روکے رکھے۔ دوسرا اس سے چھپ کر‬
‫کرنا مشکل تھا۔آخری چار مہینے جو‬
‫میں چائنہ میں اکیال رہا تھا تب میں نے‬
‫قصبے میں سے ایک لڑکی کوپھنسا لیا‬
‫تھا‪،‬لڑکی اچھی تھی ‪،‬خوبصورت‬
‫تھی۔اور بھی اس میں کافی باتیں‬
‫تھیں‪،‬اس نے مجھے کافی مزہ دیا۔ماریہ‬
‫اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھی میں اس‬
‫کی کمر سے پکڑ کراسے چودائی‬
‫کرواتا رہا‪،‬پھر وہ تقریبا میرے اوپر ہی‬
‫لیٹ گئی اور کچھ آگے پیچھے حرکت‬
‫کرنے لگی‪،‬چوت کے اندر باہر ہونا‬
‫چاہیے تھا اور وہ ہو رہا تھابلکہ جوش‬
‫اور لذت سے ہو رہا تھا۔پرنس مزہ‬
‫آرہاہے نہ تمھیں‪،‬ماریہ نے پوچھا‪ ،‬ہاں‬
‫یار اچھا لگ رہا ہے‪،،‬میں کوشش کرو‬
‫گی تمھیں مزہ دوں اور تمھاری تنہائی‬
‫ختم ہوجائے‪،‬ماریہ نئے تعلقات کی‬
‫شروعات کررہی تھی۔ تنہائی ختم کر‬
‫دی میری جان‪،‬اب تم روز مجھے مزہ‬
‫دو گی‪،‬یہ بھی کوئی کہنے کی بات‬
‫ہے‪،،‬ویسے بھی تمھیں دیکھ کر کون‬
‫کافر خود پر قابو رکھ سکتا ہے۔ماریہ‬
‫کی باتیں بتاتی تھیں کہ جوسلین نے اس‬
‫سے کوئی راز نہیں رکھا‪،‬اب ماریہ پھر‬
‫سیدھی بیٹھ گئی تھی اور گھوڑے پر‬
‫سواری اچھی کر رہی تھی ۔۔اس کی‬
‫تنگ چوت عضو کو بتا رہی تھی کہ‬
‫ابھی مجھے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا‬
‫ہے‪،،،‬عضو اسے کہہ رہا تھا تم فکر نہ‬
‫کرو میں تمھیں اچھی طرح استعمال‬
‫کروں گا۔تمھیں نئے جہانوں کی سیر‬
‫کراؤں گا‪،‬چوت نے کہا میرے محبوب‬
‫نے مجھے دھوکا دیا اور سیل توڑ کے‬
‫بھاگ گیا ‪،‬عضو نے کہا فکر نہ کرو‬
‫میں دھوکہ نہیں دوں گا۔چوت اور عضو‬
‫ملتے رہے اور رگڑ سے چنگاری‬
‫نکلتی رہی۔چنگاری سے آگ بھڑکی‬
‫جب خوب بھڑکی تو اس پر پانی ڈالنے‬
‫کا وقت آگیا‪،‬تو ماریہ میرے اوپر گر‬
‫پڑی ‪،‬پانی آگ پر پڑا ‪،‬اور خوب پڑا‪،‬‬
‫ماریہ کے بعد کئی لڑکیوں آئی اور گئی‬
‫‪،‬پھر میں نے ان کی تعداد بھی یاد‬
‫رکھنی چھوڑ دی۔ کوان لی کے بقول یہ‬
‫خرافات بھی ایک دن ختم ہوجائیں گی‬
‫۔دولت بھی بڑھتی گئی۔اور لکھنے کا‬
‫مشغلہ بھی جاری رہا۔ اپنی طرز میں‬
‫دنیا یاتر ا بھی کی۔کنگفو بھی جاری‬
‫تھا‪،‬لیکن ابھی تک کوئی شااگرد نہیں‬
‫مال جسے اپنی وراثت دے کر‬
‫جاسکوں۔مجھے دآلویز نہ بھولی۔پھر‬
‫مجھے راجو مالمیں نے دآلویز کو‬
‫ڈھونڈنےکیلیے راجو کو لگا دیااسے‬
‫ڈھونڈتے ڈھونڈتے ‪ 2012‬آگیا۔پھر وہ‬
‫ملی اور ہم میں دوستی تو ہوگئیمیں ابھی‬
‫تک اس کے سامنے نہیں آیا تھا‪،‬وہ‬
‫مجھے ساحل کے نام سے جانتی تھی۔‬
‫۔ ایک رات میں نے جان بوجھ کر اس‬
‫سے اپنے بارے میں اس کے خیاالت‬
‫جاننے کیلیے اسے اکسایا تو اس نے‬
‫بتایا کہ اسے شہزادے سے نفرت ہے‬
‫۔وہ تو سوگئی کیونکہ اسے صبح کالج‬
‫جاناتھا لیکن مجھے بکھری یادوں میں‬
‫تنہا چھوڑ گئی اسی یادوں میں رات‬
‫گزر گئی آنکھوں میں نیند کیا آنی وہ‬
‫پلک جھپکنا بھی بھول گئیں۔ اگلی صبح‬
‫جب میں ماضی کو اچھی طرح بھگت‬
‫چکا تو نیند آ ہی گئی۔‬
‫یا ِد ماضی۔۔ عذاب ہے ۔۔یارب‬
‫چھین لے۔۔ مجھ سے ۔۔حافظہ میرا‬
‫دآلویز تقریبا تیار تھی اس نے مجھ سے‬
‫ملنے کی خود خواہش کر دی تھی لیکن‬
‫رستے میں نفرت کی دیوار کھڑی ہوئی‬
‫تھی ۔اور اس نفرت کا مجھے کوئی حل‬
‫نظر نہیں آ رہا تھا ۔ چودنا تو دور کی‬
‫بات میں تو اس کے سامنے بھی نہیں‬
‫آسکتا تھا ۔ دن رات میں اس سے نفرت‬
‫نکالنے کا سوچتا دآلویز سے جو‬
‫ازسر نو‬
‫ِ‬ ‫معلومات اکٹھی کی تھیں ‪،‬ان کا‬
‫جائزہ لیتا ۔ہر بات کا تجزیہ کرتا ۔ لیکن‬
‫کوئی حل نہیں مل رہا تھا ۔ اب دآلویز‬
‫ملنے کا اصرار کرنے لگی تھی۔ اس‬
‫نے مجھے اپنی تصویر ایم ایم ایس کر‬
‫دی اور میری تصویر مانگتی تھی‬
‫۔دآلویز کا جو برین واش اس کا ماں نے‬
‫سالوں میں کیا تھا میں نے وہ مٹا دیا تھا‬
‫اور دآلویزکی نئی شخصیت بنا دی تھی‬
‫‪،‬میرا برین واش اس کے جذبات اور‬
‫احساسات سے ملتا تھا میرا برن واش‬
‫اس کے مزاج اور حساسیت کے مطابق‬
‫تھا ۔ میری باتیں وہ تھیں جو اس کی‬
‫عمر کی امنگوں کے مطابق تھیں ‪ ،‬اب‬
‫نگینہ چاہتی بھی تو کچھ نہیں کر سکتی‬
‫تھی ‪،‬اب نگینہ کو گھر میں مکمل باغی‬
‫لڑکی کا سامنا تھا ‪،‬اور دآلویز اپنی‬
‫مرضی کی زندگی گزار رہی تھی ۔‬
‫کہتی تھی تم اصل میں میرے لیئے‬
‫ساحل ثابت ہوئے ہو‪ ،‬نگینہ یہی سمجھ‬
‫رہی ہوگی کہ ‪،‬دآلویز کو اس کے‬
‫رویئے نے باغی بنا دیا ہے۔ نگینہ کو‬
‫پتہ نہیں تھا کہ شہزادہ واپس آچکا تھا ۔‬
‫میں اکثر دآلویز کی تصویر موبائل میں‬
‫دیکھتا رہتا ۔ دآلویز اپنی ماں نگینہ کی‬
‫جوانی تھی ۔ سرخ و سپید رنگت ۔گول‬
‫مٹول چہرہ ۔بڑی بڑی نیلی آنکھیں ۔اور‬
‫ان نیلی آنکھوں میں ایک جہان آباد تھا‬
‫۔بالشبہ دآلویز اپنی نام کی طرح دآلویز‬
‫ہی تھی اپنی ماں کی کاپی ہونے کے‬
‫باوجود دآلویز نگینہ سے کئی گنا زیادہ‬
‫خوبصورت تھی ۔ جانے کتنی دیر‬
‫دآلویز کی تصویر دیکھتا رہتا اور‬
‫سوچتا رہتا ۔ اسی دوران وہ تصویریں‬
‫بھی دیکھ لیتا جو راجو نے کھینچ کے‬
‫دی تھیں ‪ ،‬کیونکہ یہ ایک ہی فولڈر تھا‬
‫جس میں صرف دآلویز کی تصویریں‬
‫ہی پڑی تھیں اس میں ایک تصویر اس‬
‫لڑکے کی تھی جو مجھ سے پانچ چھ‬
‫سال بڑا تھا ۔اور نگینہ اور دآلویز کے‬
‫ساتھ بازار گیا تھا وہ مجھے جانا پہچانا‬
‫لگا تھا ‪،‬لیکن میں نے اس پر کبھی غور‬
‫نہیں کیا کیو نکہ میں ان کے برادری‬
‫کے کئی چہروں سے شناسا تھا ۔آج بھی‬
‫عادتا دآلویز کی تصویریں (دآلویز‬
‫روزانہ اپنی تصویر بھیجنے لگی تھی)‬
‫دیکھتے ہوئے اس لڑکے کی بھی‬
‫تصویر بھی سامنے آگئی۔ بےخیالی میں‬
‫اس کی تصویر دیکھی اور آگے کرنے‬
‫لگا تو ذہن میں ایک جھماکا ہوا ۔یہی تو‬
‫تھا اس رات نگینہ کو چودنے واال ۔ بے‬
‫شک اس کی عمرکی وجہ سے اس میں‬
‫تبدیلی آئی تھی ‪،‬مگر یہی تو تھا جس‬
‫کی وجہ سے میری زندگی تبدیل ہوگئی‬
‫ہوتھی ۔ میں اس چہرے کو کیسے بھول‬
‫سکتا تھا ‪ ،،،،‬نگینہ کے ساتھ یہ بھی‬
‫برابر کا مجرم تھا ۔ میں بے اختیار اٹھ‬
‫بیٹھا ۔ میرے یادوں میں نگینہ ہی چھائی‬
‫رہی اور یہ پس منظر میں چال گیا تھا ۔‬
‫مجھے یقین نہیں آیا کہ اس کا نگینہ‬
‫سے ابھی تک تعلق ہے ۔ اس کا مطلب‬
‫تھا نگینہ کا اس سے بڑا گہرا یارانہ تھا‬
‫۔ مجھے راجو کی یاد آئی اس کا نمبر‬
‫مالنے لگا تھا کہ پھر ایک خیال آیا تو‬
‫رک گیا یہ بات تو اب دالویز بھی بتا‬
‫سکتی تھی اور بہتر بتا سکتی تھی ۔رات‬
‫کو جب دآلویز سے بات ہوئی تو میں‬
‫نے کہا ۔ کئی دنوں سے میں تمھیں‬
‫چھپ چھپ کے دیکھ رہا ہوں ‪،‬کئی بار‬
‫تمھارے گھر آچکا ہوں ۔ اچھا تو مجھے‬
‫کیوں نہیں بتایا میں بھی تمھیں ایک نظر‬
‫دیکھ لیتی‪،‬دآلویز نے بڑے الڈ سے‬
‫کہا۔تم میرے سامنے کیوں نہیں آتے‬
‫ساحل پلیز اپنی ایک تصویر ہی بھیج دو‬
‫۔دآلویز نے پھر وہی بات چھیڑ دی ۔یار‬
‫دآلویز ‪،‬میں نے دو تین بار تمھارے‬
‫گھر ایک لڑکے کو آتے جاتے دیکھا‬
‫ہے کون ہے وہ میں نے رقیبانہ لہجے‬
‫میں کہا ۔۔ وہ میرا منگیتر ہو گا ‪،‬تمھیں‬
‫بتایا تھا اپنے منگیتر کا میں نے ‪،‬‬
‫مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا ‪،‬دالویز‬
‫نے مجھے جتانا مناسب سمجھا ۔‬
‫‪،‬دآلویز کی بات میرے اندر دھماکے‬
‫کرنے لگی ‪،‬لیکن کسی نتیجے پر‬
‫پہنچنے سے پہلے میں تصدیق کر لینا‬
‫چاہتا تھا ۔میں تمھیں اس کی تصویر‬
‫بھیج رہا ہوں ۔دیکھ کربتاؤ کون ہے یہ‬
‫‪،‬میں نے اپنے لہجے میں حسد سموتے‬
‫ہوئے پوچھا ‪،‬تا کہ دآلویز کچھ اور نہ‬
‫سوچے‪،‬فورا تصویر ایم ایم ایس کر‬
‫دی۔تصویر دیکھتے ہی دآلویز کی‬
‫آوازسنائی دی ‪ ،،،،،،‬ہاں یہی میرا‬
‫منگیتر ہےدآلویز کی بات نے مجھے‬
‫کسی گہری گھائی میں پھینک دیا ۔ میں‬
‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نگینہ کا‬
‫شہروز اور دآلویز کا شہروز ایک ہی‬
‫تھا ‪،‬‬

‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫نگینہ کہ خیاالت تو بڑے سخت تھے‬
‫اس بارے میں ۔بڑی غیرت مند بنتی تھی‬
‫۔ نگینہ کی بات آج بھی میری یادوں میں‬
‫نقش تھی‬
‫شہزادے میں بے غیرت نہیں ہوں ‪،‬کہ‬
‫جس لوڑے پہ ماں چڑھتی ہے اسی‬
‫لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا دوں ۔ ۔۔‬
‫دالویز کی آواز خیالوں سے واپس‬
‫مجھے دنیا میں لے آئی۔کیا بات ہے‬
‫ساحل تم چپ کیوں ہوگئے ؟ رقیب کی‬
‫تصویر کو دیکھ کے چپ ہی لگنی تھی‬
‫۔میں نے پہلی بار دالویز سے واضح‬
‫اظہار کیا۔ اب ایکشن کا وقت آگیا تھا ۔‬
‫تم نے تو بتایا تھا کہ یہ تمھارے ماموں‬
‫کا بیٹا ہے ۔ اپنی یاداشت کے مطابق‬
‫میں نے دآلویز سے پھر تصدیق کی ۔‬
‫ہاں یار ماموں کا ہی بیٹا ہے ۔میرے‬
‫بچپن کا منگیتر ہے ۔میں تو مہروز کو‬
‫تمھارا منگیتر سمجھ رہا تھا تم نے بتایا‬
‫تھا یہ تمھارے ماموں کا بیٹا ہے (یہ‬
‫وہی لڑکاتھا جو دآلویز کو یونیورسٹی‬
‫چھوڑنے گیا تھا اور میں نے ان کا‬
‫پیچھا کیا تھا )۔مہروز تو شہروز کا‬
‫چھوٹا بھائی ہے ‪،‬اور شہروز میرا‬
‫منگیتر ہے شاید میں اس کی وضاحت‬
‫نہیں کی ہوگی اسلیے تمھیں غلط فہمی‬
‫ہوگئی ۔ویسے تمھیں آج کیا ہو گیا ہے ‪،‬‬
‫عجیب طرح سے باتیں کر رہے ہو‬
‫‪،‬نہیں کچھ نہیں جان ‪،‬بس ایسے ہی‬
‫رقیب پھر رقیب ہوتا ہے ۔میں نے چاہت‬
‫کے اظہار میں ایک قدم اور بڑھا دیا‬
‫۔واہ آج تو بڑے رومانٹک ہو رہے ہو‬
‫‪،‬مگر ملنے سے ڈرتے ہو ۔ملوں گا اب‬
‫ہم ضرور ملیں گے۔ سچ میں ؟ دالویز‬
‫خوشی سی چالئی ۔ بتاؤ نہ کب ملیں‬
‫گے ؟کیسے ملیں گے کہاں ملیں گے؟‬
‫پلیز جلدی کرو نہ ۔میں تمھیں سارا‬
‫پروگرام بنا کے بتاتا ہوں تا کہ تمھاری‬
‫کڑی نگرانی کرنے والی کو بھی کوئی‬
‫شک نہ پڑے اور ہماری مالقات بھی ہو‬
‫جائے ۔ہماری اور باتیں ہونے لگی ۔ اور‬
‫میں نے آج کال جلدی بند کر دی ۔‬
‫میرے اندر جیسے آگ لگی ہوئی تھی‬
‫‪،‬نگینہ کے سامنے آنے کا وقت آگیا تھا‬
‫۔کتنی پارسا بنتی تھی ‪،‬واہ نگینہ تمھیں‬
‫مال بھی تو بھائی کا بیٹا ۔ ساری دنیا‬
‫کے مرد کیا مر گئے تھے ۔ اس کا‬
‫مطلب تھا کہ نگینہ کو مجھ سے ضد‬
‫کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس‬
‫نے دآلویز اپنے اصل شہزادے کو‬
‫سونپ دی تھی ۔ خیاالت آتے گئے ۔ میں‬
‫نے فورا راجو کا نمبر مالیا ۔یس باس‬
‫راجو نیند سے اٹھا تھا ۔رات کافی گہری‬
‫ہوگئی تھی ۔ راجو تمھیں یاد ہو گا تقریبا‬
‫دو مہینے پہلے تم نے دآلویز اور اس‬
‫کی ماں کی تصویر بھیجی تھی ۔یس‬
‫باس یا ہے راجو کی آواز سے فورا نیند‬
‫غائب ہوگئی ‪،‬اس کے ساتھ ایک لڑکے‬
‫کی بھی تصویر تھی وہ تمھارے پاس‬
‫ہے کہ ڈیلیٹ کر دی ؟سوری باس وہ تو‬
‫میں نے آپ کو دینے کے بعد ڈیلیٹ کر‬
‫دی تھی راجو نے مایوسی سے کہا ‪،‬آپ‬
‫حکم کریں باس میں آپ کو دوبارہ ال‬
‫دوں گا ۔ نہیں اس کی تصور تمھیں بھیج‬
‫دیتا ہوں ‪،‬غور سے اسے دیکھ لو‬
‫‪،‬مجھے شک ہے دآلویز اور اس کی‬
‫ماں آپس میں چودائی کرتے ہیں ۔‬
‫مجھے ان کے سیکس کی ویڈیو چاہیے‬
‫۔ جو مرضی کرو جتنا مرضی خرچہ‬
‫کرو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے‬
‫۔مجھے ان کی ویڈیو چاہیئے ۔ مل جائے‬
‫گی باس بس ان کی ٹائمنگ اور ٹھکانے‬
‫کا پتہ لگنے دیں کہ یہ کہاں ملتے ہیں‬
‫‪،‬اور پھر ویڈیو آپ کے پاس ہو‬
‫گی۔ٹائمنگ اور ٹھکانہ میں بُھوال نہیں‬
‫تھا۔راجو ان کا ٹھکانا ان کا گھر ہی ہے‬
‫اور ٹائمنگ وہ ہے جب دالویز‬
‫یونیورسٹی چلی جاتی ہے اور سرور‬
‫خان جنرل سٹور پر چال جاتا ہے ۔‬
‫روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے روز‬
‫ضرور ملتےہوں گے اور ایک بات یہ‬
‫بھی ہے اس دوران ان دونوں کے سوا‬
‫گھر میں کوئی نہیں ہوتا ہو گا‪،‬وہ دونوں‬
‫تو اپنے کام میں مگن ہوں گے ‪،‬جب‬
‫بھی شہروز آئے تم بھی گھر میں گھس‬
‫جانا کیونکہ الک کھولنا تمھارے لیے‬
‫کوئی مسلہ نہیں ہے پھر ویڈیو بنا لینا ‪،‬‬
‫میں نے راجو کو تفصیل سے سمجھایا‬
‫۔سمجھ گیا باس ‪،‬اب آپ بے فکر‬
‫ہوجائیں ۔ٹھیک ہے راجو مجھے جلدی‬
‫رپورٹ چاہیئے ۔ اور ڈرنا نہیں ‪،‬کچھ‬
‫ہوا تو میں سنبھال لوں گا ۔ میں نے کال‬
‫بند کر دی ۔عموما میں اس وقت سو جاتا‬
‫تھا مگر آج نیند نہیں آئی ‪،‬بے چینی سی‬
‫کوئی بے چینی تھی ۔جاگتے جاگتے‬
‫صبح ہوگئی ۔ مجھے راجو کا انتظار تھا‬
‫‪،‬راجو کو کم از کم تین چار دن تو لگیں‬
‫گے ہی ۔ اب کچھ طبعت ڈھیلی ہوئی‬
‫اور میں سو گیا ۔ پھر شام کو ہی اٹھا ۔‬
‫انتظار کروا ‪،‬کر واکے آخر چوتھے دن‬
‫راجو نے ویڈیو ال دی دیکھنے کے بعد‬
‫ویڈیو میں نے اپنے موبائل میں محفوظ‬
‫کر لی ۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫راجو تم نے ایک بار پھر زبردست کام‬


‫کیا ہے ‪،‬مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے‬
‫میری باتوں پر عمل کیا ہے تم میں کافی‬
‫تبدیلیاں نظر آرہی ہیں ‪،‬دیکھ لو لباس‬
‫اور انداز بدلنے سے سڑک چھاپ اتر‬
‫گئی ہے اور تم کسی اچھے گھرانے‬
‫کے نوجوان لگ رہے ہو‪،‬آنٹیوں کو‬
‫چھوڑ دیا ہے تم نے کہ نہیں ؟ میں نے‬
‫اس سے یہ بات پوچھنی ہی تھی‬
‫۔چھوڑدیا ہے باس ۔راجو کی آنکھیں کہ‬
‫رہی تھیں کہ وہ سچ بول رہا ہے ۔دوبئی‬
‫چوک تو نہیں جاتے۔وہاں بڑی بڑی‬
‫کاریں آکر رکتی ہیں اور بیگمات اپنی‬
‫پسند کے بچے کو ساتھ لے جاتی‬
‫ہیں‪،‬جو وہاں اسی مقصد کیلیے آتے‬
‫ہیں‪،‬بیگمات یا تو پیسے دیکر اسی صبح‬
‫واپس بھیج دیتی ہیں اور اگر پسند آ‬
‫جائے تو اس کا ماہانہ لگا دیتی ہیں میں‬
‫نےراجو کو پرکھنے کیلیے اس جگہ کا‬
‫تفصیلی بتایا ‪،‬لیکن راجو کی آنکھوں‬
‫میں کوئی دلچسپی نظر نہ آئی‪،،‬شاید اس‬
‫کے دل میں میری باتیں اثر کر گئی‬
‫تھیں۔پھر بھی میں آسانی سےاعتبار نہیں‬
‫کرسکتا تھا ‪،‬اسے میری آنکھیں اسے‬
‫دیکھ رہی تھیں ‪،‬ٹھیک ہے راجو ‪ ،‬اب‬
‫اپنی گلی اور رشہ دار چھوڑ کہ کوئی‬
‫لڑکی دیکھو‪ ،‬کوئی ایسی لڑکی جو‬
‫تمھاری سمجھ کے مطابق سیکس کرنا‬
‫چاہتی ہو‪ ،‬ایک بات کبھی نہیں بھولنا‬
‫ہمیشہ یاد رکھنا ‪ ،‬ہر لڑکی پر الئین نہیں‬
‫مارتے ۔صرف اس پر ٹرائی کرتے ہیں‬
‫جو سیکس کر چکی ہو یا سیکس کرنا‬
‫چاہتی ہو۔لڑکی کے منہ پر لکھا ہوتا ہے‬
‫کہ یہ کیا چاہتی ہے ۔ لڑکی کی چال‬
‫ڈھال ‪،‬مزاج ‪،‬انداز ‪،‬آنکھیں ‪،‬آنکھوں میں‬
‫سب کچھ لکھا ہوتا ہے ۔ہر چہرے پر‬
‫ایک چھاپ ہوتی ہے ۔ہر پرسنالٹی کا‬
‫ایک تاثر ہوتا ہے ۔ جیسے فرسٹ‬
‫امپریشن اِز السٹ امپریشن کہتے ہیں نہ‬
‫یہی ہر پرسنالٹی کا تاثر ہوتا ہے ؟ بس‬
‫چہروں کو پڑھنا سیکھ لو اور پھر مزے‬
‫‪،‬جس پر ہاتھ ڈالو گے تمھاری گود میں‬
‫آگرے گی ۔ ٹھیک ہے ‪،‬فی الحال اتنا ہی‬
‫۔تم پھر کبھی آنا تمھیں فیس ریڈنگ کے‬
‫بنیادی پوائنٹ سمجھاؤں گا ۔ساتھ میں‬
‫اس ویڈیو کے النے کی کہانی بھی‬
‫سنوں گا۔اوکے باس میں چلتا ہوں ۔ بائے‬
‫۔راجو کے جانے کے بعد میں نے‬
‫جوش میں فورا دآلویز کو فون کیا ۔یہ‬
‫میرا ‪،‬اسے دن کو پہال فون تھا۔دآلویز‬
‫نے کال ڈراپ کر دی ۔ فورا اس کا‬
‫میسج آیا ‪ ،‬ابھی بات نہیں ہو سکتی‬
‫میسج کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کل گھر‬
‫سے تو یونیورسٹی جانا لیکن‬
‫یونیورسٹی کی بجائے میرے فلیٹ پر‬
‫آجانا ۔ میں نے اسے میسج کیا ۔ میں‬
‫تمھیں لینے آؤں گا تو تمھارے لیئے‬
‫ٹھیک نہیں ہو گا ۔ ‪،‬تم ٹیکسی میں آجانا‬
‫میں نے اسے اپنا ایڈریس بتایا ۔میں اور‬
‫بھی میسج کرتا مگر دآلویز کا میسج‬
‫آگیا ۔رات کو بات کریں گے ‪،‬مجھے‬
‫افسوس ہوا کہ جوش میں یہ بات کیوں‬
‫بھول گیا تھا ۔ اوکے کا میسج ارسال کر‬
‫کے میں رات کا انتطار کرنے لگا‬
‫۔نگینہ اور شہروز کے راز سے آگاہی‬
‫کے بعد چار دن سے مجھے ایک پل‬
‫بھی چین نہیں تھا ‪،‬انتظار تو میں اس‬
‫وقت سے کر رہا تھا جب سے دآلویز‬
‫ملی تھی ۔اور انتظار تو میں اس وقت‬
‫سے کر رہا تھا جب مجھے نگینہ کے‬
‫گھر سے جان بچا کے بھاگنا پڑا تھا‬
‫اور انتظار تو اس وقت سے تھا جب‬
‫نگینہ نے مجھے شہزادہ بنایا تھا ۔ہر پل‬
‫میں نے انتظار ہی تو کیا تھا ۔اب نگینہ‬
‫کی باری ختم ہونے والی تھی اب میری‬
‫باری تھی ۔رات کو دآلویز سے پورا‬
‫پروگرام طے ہوا ‪،‬اسے اچھی طرح اپنا‬
‫ایڈریس سمجھایا ‪ ،‬اس رات نہ میں سویا‬
‫نہ دآلویز سوئی نہ ہماری کال بند ہوئی ۔‬
‫کچھ وقت کے تعطل کے بعد صبح‬
‫دآلویز کے گھر سے نکلتے ہی ہماری‬
‫کال پھر شروع ہو گئی ۔ دآلویز ٹیکسی‬
‫میں بیٹھ گئی ۔ اس دوران خامشی رہی‬
‫۔میری کال اس کیلیے حوصلہ تھی ۔‬
‫مقررہ جگہ پر اترنے کے بعد ہمای بات‬
‫شروع ہو گئی ۔میں اسے گائیڈ کرتا رہا‬
‫۔اور میں نے فلیٹ کا دروازہ کھول دیا ۔‬
‫سامنے دل آویز چادر میں لپٹی کھڑی‬
‫تھی ۔‬
‫‪• Part⁴⁹‬‬
‫•‬
‫دآلویز اندر آگئی اور میں نے •‬
‫دروازہ بند کر دیا ۔ہم ایکدوسرے کے‬
‫سامنے بیٹھ گئے ۔دآلویز مجھے اشتیاق‬
‫سے دیکھنے لگی ‪،‬ہم خاموش تھے ۔‬
‫کچھ دیر میں ہی دآلویز مجھے غور‬
‫سے دیکھنے لگی ۔ پھر جیسے دالویز‬
‫چونک پڑی ‪،‬تم ‪(،‬ارتھ کوئیک شاکنگ‬
‫)تم شہزادے ہو ‪ ،‬مجھے یقین نہیں آرہا‬
‫۔اس کا مطلب ہے مما کا خوف صحیح‬
‫تھا ‪،‬تم اب تک ہمارے پیچھے ہو ‪،‬تم کیا‬
‫سمجھتے ہو تم مجھے دھوکہ دینے میں‬
‫کامیاب ہو جاؤ گے ۔ جن سے نفرت کی‬
‫جاتی ہے نہ ‪،‬ان کو آسانی سے نہیں‬
‫بھالیا جاتا ‪،‬اور تم تو وہ ہو جس سے‬
‫میں نے دن رات نفرت کی ہے ۔ دآلواز‬
‫کے الفاظ اس کے منہ میں تھے کی‬
‫اچانک اس نے مجھ پر جھپٹا مارا ۔مگر‬
‫میں اس کے لیئے پہلے سے تیار تھا ۔‬
‫میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے نہیں تو‬
‫اس کے لمبے ناخن میرا چہرہ بگاڑ‬
‫دیتے ۔ نفرت کی وجہ سے دآلویز میں‬
‫جنونی طاقت آگئی تھی ‪ ،‬لیکن وہ‬
‫مجھے نہیں جانتی تھی ‪،‬میں وہ کمزور‬
‫شہزادہ نہیں تھا اب میں کوان لی کا‬
‫وارث ہوں‪،‬جو کسی کے بس کی بات‬
‫نہیں ہے ۔میں نے دآلویز کو صوفے پر‬
‫پھینکا اور اس کہ پیٹ پر گھٹنا رکھ کہ‬
‫اس کے ہاتھ پکڑ لیے ۔اس کو دبانے لگا‬
‫۔دآلویز کے چہرے سے تکلیف کا‬
‫اظہار ہونے لگا۔ میں تقریبا دآلویز پر‬
‫چڑھا ہوا تھا ۔اس دوران دالویز انگلش‬
‫میں مجھے گالیاں دیتی رہی ۔ میں نے‬
‫بھی اپنی طاقت کے اظہار میں کمی نہ‬
‫کی ‪ ،‬کچھ ہی دیر میں دآلویز کو سمجھ‬
‫آگئی کہ وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں‬
‫ہے۔دالویز بتاؤ اس وقت میں تمھاری‬
‫عزت لوٹ سکتا ہوں کہ نہیں ؟ بتاؤ کیا‬
‫تم میرے بس میں ہو کہ نہیں ؟ میں جو‬
‫چاہوں تمھارے ساتھ کر سکتا ہوں ۔اور‬
‫کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‬
‫۔بولو‪،‬اس وقت میں تمھاری عزت لوٹ‬
‫سکتا ہوں کہ نہیں ؟ تم اس وقت میرے‬
‫بس میں ہو‪،‬اور کسی کو کچھ پتہ نہیں‬
‫کہ تم کہاں ہو ‪،‬میں تمھاری عزت لوٹ‬
‫کر تمھیں مار کر بھی پھینک دوں تب‬
‫بھی میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس‬
‫کا جسم ڈھیال ہوا ۔ اور جنونیت ختم‬
‫ہونے لگی ۔ آرام سے بیٹھ کے میری‬
‫بات سنو ‪ ،‬میں نے اسے چھوڑتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬دالویز کو سنبھلنے میں کچھ‬
‫دیرلگنی تھی اتنی دیر پہلے سے رکھے‬
‫لیپ ٹاپ پر اس کی مما اور شہروز کی‬
‫فلم لگا کر لیپ ٹاپ ٹیبل پر گھما کےاس‬
‫کی طرف کر دیا ۔ دالویز چونک کر‬
‫اسے دیکھااور پھر حیران ہوئی پھر اس‬
‫کے چہرے پر تکلیف اور دکھ آگیا ‪،‬اس‬
‫کے چہرے پر شاک کی کیفیت تھی ‪،‬یہ‬
‫تمھارا منگیتر اور تمھاری پیاری مما‬
‫ہے جو آپس میں چودائی کر رہے‬
‫ہیں‪،‬جس دن دادی کا چالیسواں تھا اور‬
‫تم اس رات اپنی نانی کے ساتھ چلی گئی‬
‫تھی سرور خان تمھیں چھوڑنے چال گیا‬
‫تھا ۔ اس رات بھی شہروز اور تمھاری‬
‫مما آپس میں یہی کام کر رہے تھے‬
‫‪،‬میں نے انہیں دیکھ لیا اور اگلی صبح‬
‫تمھارے باپ کو بتانا تھا لیکن تمھاری‬
‫پیاری مما اور شہروز نے بھی مجھے‬
‫دیکھ لیا تھا اور مجھے قتل کی دھمکیاں‬
‫دینے لگے ایک مہینہ مسلسل مجھے‬
‫دھمکاتے رہے ‪،‬دوسری طرف تمھاری‬
‫ماں میرے اوپر بیٹا بنا کے مہربانیاں‬
‫کرتی رہی ‪ ،‬ادھر ان کا کھیل بھی‬
‫جاری تھا ‪،‬جب تم سکول اور تمھارا‬
‫باپ کام پر چال جاتا تھا ۔تو ان کا کھیل‬
‫شروع ہو جاتا تھا ۔ میرا ضمیر مجھے‬
‫سونے نہ دیتا ‪،‬میں نے نگینہ کو بتا دیا‬
‫کہ مجھ سے اب یہ بات چھپائی نہیں جا‬
‫سکتی تھی لیکن اس سے پہلے میں‬
‫تمھارے باپ کو کچھ بتاتا نگینہ نے‬
‫مجھ پر جھوٹا الزام لگا کر مجھے‬
‫تمھارے باپ کے ہاتھوں مروانا چاہا ۔‬
‫اب تم مجھے بتاؤ ایک پندرہ سال کا‬
‫لڑکا ایک چالیس سال کی صحت مند‬
‫عورت پر حملہ کیسے کر سکتا ہے‬
‫؟کیا میں اتنا نادان تھا کے سرورخان‬
‫گھر میں تھا اور میں نے تمھاری ماں‬
‫کی عزت لوٹنی چاہی ۔ اب تم مجھے‬
‫بتاؤ دآلویز کہ تمھاری مما کو کونسا ڈر‬
‫تھا جو میرے بعد بھی اسے چین نہیں‬
‫لینے دیتا تھا ۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫اس نے تمھارے دل میں میرے لیئے •‬
‫نفرت بھری ‪ ،‬اس نے مکان بدلے اس‬
‫نے تمھارے باپ کا کام بھی چھڑوایا ۔‬
‫تمھاری ماں نے تمھاری زندگی جہنم بنا‬
‫دی ‪،‬یہی ڈر تھا اسے کہ کہیں میں‬
‫تمھیں یا تمھارے باپ کو سچ نہ بتا دوں‬
‫۔لیکن میں اپنی زندگی بچا نے کیلیے‬
‫تمھاری برادری سے دور رہ رہا تھا‬
‫ادھر اس نے تم پر پہرے بٹھا دیئے پھر‬
‫سرور خان اور تمھارے دل میں میرے‬
‫لیئے زہر ہی زہر بھر دیا ۔ اب بھی اگر‬
‫تم مجھے غلط سمجھتی ہو تو یہاں سے‬
‫جاسکتی ہو‪ ،‬لیکن دآلویز ٹس سے مس‬
‫نہیں ہوئی ‪،‬دآلویز رو رہی تھی ‪،‬اس کی‬
‫نظریں لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھی‬
‫جس پر ویڈیو کب کی ختم ہوچکی تھی‬
‫۔دآلویز اگر میں نے تمھاری مما کی‬
‫عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی تو‬
‫تمھاری اس وقت بھی لوٹ سکتا ہوں‬
‫‪،‬لیکن تم آزاد ہو جاؤ چلی جاؤ‪ ،‬دآلویز‬
‫کے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں تھا‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫اسے بہت بڑا دھچکا لگا تھا ۔وہ •‬


‫جیسے سکتے میں تھی ۔ آخر میں اٹھا‬
‫اور دآلویز کے پاس بیٹھ کر اسے اپنے‬
‫بازوؤں میں لے لیا ۔ دآلویز اونچی‬
‫اونچی آواز میں رونے لگی ۔ میں اس‬
‫کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دالسا دیتا رہا‬
‫‪،‬اور اسے رونے بھی دیا ۔ رو ‪،‬رو کے‬
‫دآلویز کی آنسو خشک ہوگئے ‪،‬اس کی‬
‫ہچکیاں تھم گئی ‪ ،‬رونے دیئے جائے تو‬
‫دل ہلکا ہوجاتا ہے ‪ ،‬تو تم نے اس رات‬
‫موبائل پر خود کشی کا ڈرامہ کیا تھا‬
‫‪،‬دالویز کی پہلی بات ہی دھماکا تھی‬
‫‪،‬ہاں وہ ایک ڈرامہ تھا تمھارے قریب‬
‫آنے کیلیے تمھیں سچ بتانے کیلیے ۔‬
‫میں نے اقرار کیا ۔تو تم نے پہلے دن‬
‫ہی مجھے یہ ویڈیو کیوں نہ دکھائی ؟‬
‫اتنے ڈرامےکیاضرورت تھی ۔ پہلی بات‬
‫تو یہ کہ یہ ویڈیو میں صرف دو دن‬
‫پہلے ہی حاصل کر سکا ہوں ‪،‬اور‬
‫دوسری بات یہ کہ میں تمھیں اس کے‬
‫بغیر جو بھی بتاتا تم نے مجھے جھوٹا‬
‫ہی سمجھنا تھا ۔ میں موبائل پر اپنی‬
‫آواز کے ذریعے جو کر سکتا تھا وہ‬
‫کیا‪ ،‬اور تمھاری مما نے جو تمھارا‬
‫برین واش کیا تھا اس کا خاتمہ کر کے‬
‫تمھیں زندگی کا احساس دالیا اور‬
‫تمھاری شخصیت کو صحیح روپ دیا تا‬
‫کہ تمہیں اچھے برے کا خود احساس ہو‬
‫۔۔ تم کب سے میرے پیچھے ہو ؟ دآلویز‬
‫نے پھر سوال کر دیا ۔ کچھ عرصہ‬
‫پہلے تم اپنے کزن کے ساتھ یونیورسٹی‬
‫گئی اور ایک امیر زادے نے تمھیں بڑا‬
‫تنگ کیا تھا ‪،‬وہ امیر زادہ میں ہی تھا ۔‬
‫میں ایک کام سے یونیورسٹی جارہا تھا‬
‫پہلے تو تمھارے کزن کی خراب‬
‫ڈرائیونگ کی وجہ سے میں نے اسے‬
‫تنگ کیا پھر جب تمھاری نیلی آنکھیں‬
‫دیکھی تو تمھارے پیچھے لگ گیا‪،‬جب‬
‫مجھے یونیورسٹی سے پتہ چال کہ تم‬
‫دآلویز ہی ہو ‪،‬تو میں نے تمھارا پیچھا‬
‫کر کے تمھارا گھر بھی دیکھ لیا اور‬
‫پھر تم سے رابطہ کیا ‪،‬میں نے تمھیں‬
‫سچ بتانا چاہا لیکن میرے پاس کوئی‬
‫ثبوت نہ تھا۔میں تو کب سے تم لوگوں‬
‫کو ڈھونڈ رہا تھا مگر تم پتہ نہیں کہاں‬
‫جا چھپے تھے کہ میں تم لوگوں کو‬
‫ڈھونڈ نہ سکا۔میری بات مکمل ہوئی تو‬
‫دآلویز بھی خاموش ہوگئی۔ اب میں کیا‬
‫کروں ؟ دالویز نے خالی ذہن سے سوال‬
‫کیا مطلب یہ ویڈیو ابا کو دکھا دوں ؟‬
‫دالویز نے وضاحت سے پوچھا‪،‬اگر تم‬
‫یا میں یہ ویڈیو تمھارے ابا کو دکھاتے‬
‫ہیں ۔تو وہ تمھاری ماں کو مار دے گا‬
‫اور خود جیل چال جائے گا ۔ یقینا تم یہ‬
‫نہیں چاہو گی ۔ لیکن اب میں شہروز‬
‫سے شادی نہیں کر سکتی ‪،‬مجھے تو وہ‬
‫پہلے ہی ناپسند تھا اب تو مجھے اس‬
‫سے اور مما سے نفرت ہوگئی ہے ۔‬
‫میں اسے یہ ویڈیو دکھا کر منگنی‬
‫توڑنے پر مجبور کر دوں گا۔ لیکن مما‬
‫اور شہروز بدستور ملتے رہیں گے‪،‬اس‬
‫کا کیا حل ہے ‪،‬دالویز نے ایک اور‬
‫نکتہ اٹھا دیا ۔اس کیلیے تم یا میں یہ‬
‫ویڈیو تمھاری مما کو دکھائیں گے اور‬
‫اسے یہ کھیل ختم کرنے پر مجبور‬
‫کریں گے ‪،‬نہیں تو یہ ویڈیو تمھارے‬
‫باپ کی بجائے تمھارے ماموؤں کو دے‬
‫دیں گے ۔ میرے پاس ہر سوال کا جواب‬
‫تھا ۔ دالویز نارمل ہوئی تو اسے خیال‬
‫آیا کے ہم لپٹے ہوئے ہیں وہ شرما کہ‬
‫مجھ سے علیحدہ ہوگئی ۔ بہتر یہی ہے‬
‫اب تم چھٹی کے وقت ہی گھر جاؤ ‪،‬میں‬
‫ناشتہ بنانے لگا ہوں تم نے کرنا ہے تو‬
‫بتا دو ‪ ،‬نہیں تم ٹہرو میں ناشتہ بناتی‬
‫ہوں ‪،‬دآلویز خود کو دلی صدمے سے‬
‫بہال رہی تھی اور دوسری طرف میرے‬
‫ساتھ اس کا سلوک ایک محبوبہ جیسا تھا‬
‫۔ تم اتنے امیر کیسے بن گئے ‪،‬دآلویز‬
‫نے ناشتہ بناتے ہوئے پوچھا ۔ جب میں‬
‫تمھارے گھر سے بھاگا تو مجھے ایک‬
‫مہربان مل گئی ‪،‬اس نے مجھے اپنے‬
‫پاس رکھ لیا‪،‬وہ میری محسن تھی میری‬
‫استاد تھی ‪ ،‬اس نے مجھے جینا سکھایا‬
‫۔ دنیا کو جیتنا سکھایا ‪،‬اس نے مجھے‬
‫بہت کچھ دیا اور جاتے جاتے اپنی‬
‫جائیداد بھی میرے نام کر گئی ۔جوسلین‬
‫کو یاد کرت ہوئے آج بھی افسردگی‬
‫آجاتی ہے ۔اس کے انجام نے رال دیا تھا‬
‫۔ کتنی جائیداد ہے تمھارے پاس دآلویز‬
‫نے بے اختیار پوچھا ۔ جب میں نے‬
‫اسے اپنی جائیداد کی تفصیل بتائی تو وہ‬
‫کافی حیران اور متاثر ہوئی ۔ ناشتہ کر‬
‫کے ہم باتیں کرنے لگے ‪،‬دالویز ویڈیو‬
‫کو ہضم کر رہی تھی پھر ہم کچھ‬
‫دیرشطرنج کھیلتے رہے اسے اس کا‬
‫بالکل پتہ نہیں تھا کچھ دیر اسے یہ‬
‫سکھاتا رہا ۔ پھر دآلویز میرے لیے‬
‫دوپہر کا کھانا بنانے لگی ۔ اس وقت اس‬
‫کے وجود سے گھر جگمگ کر رہا تھا‬
‫‪،‬دآلویز جاگتی آنکھوں خواب دیکھ رہی‬
‫تھی ‪،‬میرا فلیٹ چل پھر کے دیکھ رہی‬
‫تھی ۔کمروں میں کچھ ادھر ادھر سیٹنگ‬
‫کر رہی تھی ۔ساتھ ساتھ اس کی باتیں‬
‫بھی شروع تھی ۔اس وقت اس کی‬
‫آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر‬
‫قوس قزح کے رنگ تھے وہ اس محبت‬
‫سے سرشار تھی جس کا میں اظہار کر‬
‫چکا تھا ‪،‬اب اسے ہماری شادی کا یقین‬
‫ہوگیا تھا ۔ کھانا تیار کر کے ہم کھانا‬
‫کھانے لگے ‪،‬اس کا روپ ایک مکمل‬
‫محبوبہ تھا ۔دآلویز نے جب میرے منہ‬
‫میں الڈ سے نوالے ڈالے تو میرا دل‬
‫پگھل گیا ۔۔ ۔‬
‫آؤعالم مدہوشی میں اک سجدہ کریں •‬
‫ِ‬
‫۔۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں پرنس کو خدا یاد‬
‫نہیں ہے‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫اگر نگینہ مجھے اس رات شہزادہ نہ •‬


‫بناتی اور دادی کے باندھے ہوئے بند‬
‫کو نہ توڑتی تو ہو سکتا ہے آج میری‬
‫اوردآلویز کی شادی ہوجاتی اور میں‬
‫ایک خوشگوار زندگی گزار رہا ہوتا ۔‬
‫دآلویز میری شکار تھی لیکن میں اسے‬
‫دھوکہ نہیں دے سکتا تھا ۔ اس کے ساتھ‬
‫زبردستی نہیں کر سکتا تھا ۔دآلویز چلی‬
‫گئی اور مجھے تنہا کر گئی ‪،‬نئی‬
‫پریشانیوں میں ڈال گئی ۔رات کو پھر‬
‫جب فون پر بات ہوئی تو میں بہت‬
‫سنجیدہ تھا ۔ ہماری باتیں ہونے لگی‬
‫۔دآلویز پرجوش تھی ‪،‬دآلویز اگر میں‬
‫تمھارے باپ کے سامنے آتا ہوں تو وہ‬
‫آج بھی مجھے قتل کرنا چاہے گا اور‬
‫اگر اسے تمھاری مما کی وڈیو دکھا کے‬
‫سچ بتا تا ہوں تو تمھاری مما ماری‬
‫جائے گی اور باپ سولی پر چڑجھ‬
‫جائے گا ۔ سوچ لو تم کیا چاہتی ہو‪،‬میں‬
‫نے سوچوں میں الجھا دیا ۔دالویز سمجھ‬
‫گئی کہ ہماری شادی کا مطلب اس کے‬
‫ماں باپ کی موت ہے ۔دآلویز ہم میں‬
‫دوستی تو ہوسکتی ہے لیکن شادی نہیں‬
‫ہوسکتی ۔دآلویز بھی یہ حقیقت سمجھتی‬
‫تھی۔لیکن وہ یہ نہ سوچ سکی کہ اگر‬
‫اس کے باپ کو سچ ہی نہیں بتانا تھا تو‬
‫میں انکو دھونڈ کیوں رہا تھا ؟ اب اسے‬
‫سیکس کی طرف النے لگا ۔لطیفے‪،‬‬
‫مزاق ۔ لڑکے لڑکیوں کے قصے‬
‫کہانیاں ۔ شادی سے دوری اور سیکس‬
‫سے نزدیکی میری باتوں کا محور تھا‬
‫۔دالویز شرماتی لجاتی میری باتیں سنتی‬
‫رہتی ۔ وہ میرا مدعا سمجھ گئی اور اس‬
‫طرف سے کنی کترانے لگی۔ پتہ نہیں‬
‫اس طرف سے نگینہ نے اس کے زہن‬
‫میں کیا گانٹھا ہوا تھا۔ایک رات بات کھل‬
‫گئی ۔ مما نے بتایا کے ایک لڑکی کی‬
‫پہلے رات اس کے شوہر نے اسے چودا‬
‫کہ اسے اسی رات ہسپتال جانا پڑا ۔ اس‬
‫کی بلیڈنگ ہی نہیں رک رہی تھی ‪،‬‬
‫اسی طرح ایک لڑکی کو پہلی رات اتنا‬
‫چودا کے اس کا رحم کا ستیا ناس ہوگیا‬
‫۔ اگلے دن وہ گھر گئی تو کبھی واپس‬
‫نہ آئی‪ ،‬دآلویز کے سارے واقعات میں‬
‫یہی تھا کہ سیکس کرنے سے بہت درد‬
‫ہوتا پھر بلیڈنگ نہیں رکتی ‪ ،‬اور شادی‬
‫کے بغیر سیکس سے بچہ ہوجاتا ہے تو‬
‫دنیا جینے قابل نہیں چھوڑتی ۔ میں سر‬
‫پکڑ کے رہ گیا ‪،‬نگینہ پھر میرے‬
‫سامنے آکہ کھڑی ہو گئی تھی ظاہر ہے‬
‫نگینہ اسے یہ معاشرے کے غلط‬
‫حفظ ماتقدم کے طور پر دکھا‬
‫ِ‬ ‫چہرے‬
‫چکی تھی ۔ہمارے معاشرے میں شادی‬
‫کے دوسرے تیسرے دن ہونے والی‬
‫طالقیں اس بات کی نشانی تھی کہ کہیں‬
‫کوئی زبردست ِمس ٹیک ہوئی ہے‬
‫اس کا مطلب تھا کے دآلویز کے دل •‬
‫میں سیکس کے حوالے سے زبردست‬
‫ڈر پایا جاتا ہے اس نے شرماتے لجاتے‬
‫جو بتایا تھا اس سے کہیں زیادہ اس کے‬
‫دل میں تھا ۔دآلویز میں تمھیں جی بھر‬
‫کے پیار کرنا چاہتا ہوں ‪ ،‬میرا روں‪،‬‬
‫رواں تمھیں پکارتا ہے تمھارے لیئے‬
‫دن رات تڑپتا ہوں ۔ میری آنکھیں‬
‫تمھاری دید کی منتظر ہیں ۔ یہ صرف‬
‫شادی کے بعد ہوتا ہے دآلویز ایک ہی‬
‫جواب دیتی ‪،‬شادی تو ہونی نہیں تو کیا‬
‫ہم ساری عمر ایکدوسرے کیلیے‬
‫ترستے رہیں گے ۔ اپنی ماں کو دیکھو‬
‫اس نے زندگی کا مزہ لینے کیلیے کیا‬
‫کچھ نہیں کیا اور ہم بس ترستے رہیں‬
‫گے ۔ میں نے ناراض ہو کہ کال بند کر‬
‫دی ۔شاید وہ کل میرے پاس دوڑی چلی‬
‫آئے ۔ دالویز کی کالیں اور میسجز آتے‬
‫رہے مگر میں کوئی جواب نہیں دیا ۔‬
‫اگلی صبح یونیورسٹی ٹائمنگ کے •‬
‫وقت دآلویز میرے دروازے پر تھی‬
‫‪،‬میں نے دروازہ کھول کے اسے اندر‬
‫آنے دیا مگر اس سے بدستور ناراض‬
‫رہا ۔دآلویز مجھے مناتی رہی مجھے‬
‫لبھاتی رہی مگر میں ناراض ہی رہا مان‬
‫جاؤ نہ میرے ساحل ۔ دآلویز نے اپنی‬
‫بانہیں میری گلے میں ڈال دی ۔ اچھا تو‬
‫میں دیکھتی ہوں تم کیسے نہیں مانتے ‪،‬‬
‫دآلویز میرے اوپر چڑھ گئی‪،‬مجھے‬
‫گدگدی کرنے لگ گئی۔ ہم زور آزمائی‬
‫کرنے لگے۔ دالویز کی زلفیں کھل کے‬
‫گھٹا بن گئی تھیں ۔ اس کے چہرے سے‬
‫ایسا لگ رہا تھا کہ یہ گھٹا ابھی بارش‬
‫بن کے برس پڑے گی ۔ جسم کے ساتھ‬
‫جسم لگا ہوا تھا اور یہ جسم دآلویز کا‬
‫ستا رہا تھا۔اسے بتا رہا تھا کہ تم کسی‬
‫خوشی سے محروم ہو میرا عضو اسے‬
‫کچھ سمجھا رہا تھا ۔ اس کا سینہ میرے‬
‫سینے میں ُکھبا ہوا تھا ۔ دآلویز کے‬
‫چہرے پر شفق کے رنگ بکھرے ہوئے‬
‫تھے اس کی آنکھوں میں الل ڈورےتیر‬
‫رہے تھے ‪،‬دآلویز بھی یہ تبدیلی سمجھ‬
‫رہی تھی ‪،‬آخر وہ اٹھ کے بیٹھ گئی تو‬
‫میں نے بھی صوفے پر لیٹے ہوئے اس‬
‫کی گود میں سر رکھ دیا۔ ہم ایکدوسرے‬
‫کو دیکھنے لگے‪ ،‬کتنی دیر گزر گئی‬
‫میری آنکھیں اس سے کچھ کہ رہی‬
‫تھیں ۔ دآلویز کی زلفوں نے میرے‬
‫چہرے پر پھر گھٹا کر دی تھی ۔ماحول‬
‫اس پر اثر انداز ہونے لگا‪،‬جس چیز‬
‫سے وہ بھاگتی تھی۔آج وہ جذبات اس‬
‫کے سامنے آگئے تھے ۔ساحل تم میرے‬
‫لیئے ساحل ہی بن کے آئے ہو ‪،‬‬
‫تمھارے ساتھ ان خوبصورت لمحوں‬
‫کے کیلیے ساری زندگی قربان کر‬
‫سکتی ہوں اور پھر دالویز نے اپنے‬
‫پھولوں جیسے ہونٹ میرے ہونٹوں پر‬
‫رکھ دیئے ۔ ہم بڑی نرمی سے‬
‫ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنے لگے ۔‬
‫زبان اور ہونٹوں کے سنگم سے رنگین‬
‫لمحات جنم لینے لگے ۔ دآلویز کا ُحسن‬
‫اس وقت اتنا سحر پھونک رہا تھا کہ‬
‫بیان سے باہر تھا ۔ جب میں نے اس کی‬
‫آنکھیں چومی تو شرم سے اس کے‬
‫چہرے پر قوس قزح جیسی رنگینی تھی‬
‫اس کے گال چومے تو دالویز سمٹ‬
‫کے مجھ سے لپٹ گئی کتنی دیر تو‬
‫ایسے ہی ہم ایکدوسرے سے پیار بھرے‬
‫لمحات گزارتے رہے ۔ گالوں کو چومتا‬
‫چوستا تو ہونٹ اپنے پاس بال لیتے‬
‫‪،‬ہونٹوں کا رس پینے لگتا تو آنکھیں بال‬
‫لیتی ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کس‬
‫کے پاس رکوں کسے کے پاس نہ رکوں‬
‫۔ میں ادھر سے ادھر بھٹکتا رہا ۔‬
‫مجھے احساس ہوا جیسے دآلویز سر‬
‫جھکا کر بیٹھی ہے اس سے اس کا جسم‬
‫تھکنے لگا تھا ۔میں اٹھ کے بیٹھ گیا ۔ ہم‬
‫صوفے پر بیٹھے تھے ۔میں نے اسے‬
‫اپنی گود میں بٹھا لیا دآلویز نے بانہیں‬
‫میری گردن میں ڈال دی اور پھر‬
‫کسنگ شروع ہو گئی ‪،‬اس کے نازک‬
‫ہونٹ چومنے لگا ۔چوسنے لگا ۔ اس کی‬
‫آنکھیں اس کے گال اس کی گردن ‪،‬‬
‫گردن سے اس کے کندھے جتنے‬
‫قمیض میں نظر آتے تھے ‪،‬میں دآلویز‬
‫کو پیار کرنے لگا ۔میرا پیار اور میری‬
‫قربت میرے ہاتھ اسے نئے جہاں کی‬
‫سیر کرا رہے تھے ۔ اس کے جذبات‬
‫میں اتھل پتھل ہونے لگی ‪،‬جسم میں تناؤ‬
‫آنے لگا تو میں نے اس کی قمیض میں‬
‫ہاتھ ڈال دیا ‪ ،‬دآلویز ہچکچائ اس‬
‫ہچکچاہٹ میں ڈر تھا ۔ جان صرف‬
‫تمھیں پیار کروں گا ‪،‬جی بھر کے پیار‬
‫کروں گا ‪،‬میں صوفے پر تھا تو وہ‬
‫میری طرف منہ کر کے میری ٹانگوں‬
‫پر بیٹھی تھی ‪ ،‬میں نے اس کی قمیض‬
‫اتار دی اور اس کے جسم کو چوسنے‬
‫لگا ‪،‬بے تحاشا چومنے لگا۔ میرے ہاتھ‬
‫آوارہ ہوگئے ‪ ،‬اس کے بدن سے مزہ‬
‫لیتا رہا‪ ،‬پھر میں مموں کی طرف مڑ‬
‫گیا ۔ دآلویز نے پھر ہچکچا کر مجھے‬
‫روکنا چاہا ۔بس پیار ہی تو کر رہا ہوں‬
‫تمھاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو‬
‫گا ۔میں نےاس کی برا اتار دی ‪ ،‬مجھے‬
‫اس کے ممے بڑے دل کش لگے ۔ اور‬
‫بے اخیتار اس کے ممے چوسنے لگا۔‬
‫میرے ہاتھ انہیں نرمی سے مسلنے‬
‫لگے ۔ نیچے سے دآلویز کو میرا عضو‬
‫ستانے لگا‪،‬مموں پر پہنچ جانے سے‬
‫آگے سفر آسان ہو جاتا ہے ۔‬
‫میرا سفر بھی آسان ہونے لگا‪،‬دآلویز •‬
‫اس مزے ‪،‬میں بہکنے لگی ۔ دالویز نے‬
‫اپنی مرضی سے کھیل شروع کیا تھا‬
‫لیکن اگلے مرحلوں میں اس کی شرم‬
‫اور اس کا ڈر آڑے آ رہا تھا ۔ جیسے‬
‫جیسے جسم کی گرمی بڑھ رہی تھی‬
‫ویسے ویسے شرم بھی جا رہی تھی ۔‬
‫مگر ڈر ابھی تھا ۔یہ تو چودائی کے بعد‬
‫ہی جانا تھا ۔ جب اتنی گرمی ہوگئی کہ‬
‫اسکی شلوار اتر سکتی تھی تو میں‬
‫اسے گود میں اٹھا کہ بیڈروم میں لے‬
‫گیا۔ دالویز کو بیڈ پر لٹا کر میں نے‬
‫اپنی ٹی شرٹ اتار دی ۔پھر کچھ لمھے‬
‫اس کے ممے چوستا ہوا نیچے آتا گیا‬
‫اور تھوڑی سی شلوار نیچے کرتے‬
‫ہوئے ٹانگیں چومتے ہوئے اس کی‬
‫شلوار بھی اتار دی ۔دالویز نے آنکھیں‬
‫بند کر لی ‪،‬میں دیکھ رہا تھا ایک سایہ‬
‫سا اس کے چہرے پر لہرایا تھا ‪ ،‬اس‬
‫کی آنکھیں بند تھی میں نے فورا اپنا‬
‫پاجامہ اتارا اور اسے کے ساتھ لیٹ کر‬
‫دآلویز کو ساتھ لپٹا لیا ۔ دالویز کو‬
‫محسوس ہو گیا کہ میں بھی ننگا ہوں‬
‫۔وہ کچھ اور ہی مجھ میں سمٹ گئی ۔‬
‫میں نے محسوس کیا چودائی کے‬
‫لمحات قریب پا کہ اس کے جسم میں‬
‫کپکپی تھی ۔ نگینہ نے یہ سائیڈ بھی‬
‫زہن میں رکھی ہوئ تھی اور دآلویز‬
‫کے دل میں اس کا ڈر بٹھا دیا تھا ‪،‬لیکن‬
‫میرے زہن میں یہ بات نہیں تھی ۔اس‬
‫لیئے نہ ہی اس کے حل کا مجھے موقع‬
‫مال تھا اب ‪ ،‬اس کا ایک ہی حل تھا اور‬
‫وہ تھی چودائی ۔ ساحل پتہ نہیں تم میں‬
‫کیا بات ہے ‪،‬میں بڑی بے بس ہوگئی‬
‫ہوں ۔مجھے لگ رہا ہے جیسے تم ایک‬
‫طاقتور مقناطیس ہو اور میں لوہے کا‬
‫بے جان ٹکڑا ہوں ۔میں دالویز کی ذہنی‬
‫کیفیت سمجھ رہا تھا ۔نگینہ کی برسوں‬
‫کی برین واش سیکس کے لمحات میں‬
‫اسے کچھ اور کہ رہے تھے اور میری‬
‫قربت اور اس کا جسم کچھ اور کہہ‬
‫رہے تھے ۔ میں اپنے تمامتر تجربے‬
‫سے اس کے جسم میں سیکس کی‬
‫بھوک جگانے لگا۔ ہونٹوں سے مموں‬
‫کو چوستا ہوا ‪،‬ہاتھ سے اس کی چوت‬
‫کے لبوں کے اندر پہلے انتہائی حساس‬
‫مقام کو چھیڑنے لگا ۔ کچھ ہی دیر میں‬
‫دالویز کا جسم تپنے لگا۔ سیکس کی‬
‫بھوک جب جسم ہر حاوی ہو گئے تو‬
‫میں نے اس کی ٹانگوں کھول کہ جگہ‬
‫بنائی اور گھٹنے ٹکا کے عضو اس کی‬
‫چوت پر رکھا ۔زیتوں کا تیل کی شیشی‬
‫دراز سے پہلے ہی نکال چکا تھا کچھ‬
‫اپنے عجو پر لگایا کچھ اس کی چوت‬
‫صنف‬
‫ِ‬ ‫میں لگایا۔ میں تو ویسے بھی‬
‫نازک کو درد دینے کا قائل نہیں تھا‬
‫‪،‬پھر دآلویز تو نفسیاتی طور پر بگڑا‬
‫ہوا کیس تھا ۔اچھی طرح تسلی کے بعد‬
‫میں اس کی چوت میں عضو ڈال دیا‬
‫جتنی نرمی سے ڈال سکتا تھا ‪ ،‬عضو‬
‫چوت میں گھستا گیا ۔ دالویز کی آنکھیں‬
‫بند تھیں اور ہونٹ بھنچے ہوئے تھے‬
‫۔میں نے سوچا اتنی تکلیف ہونی تو نہیں‬
‫چاہیئے۔ادھر اپنا عضو اس کے پردہ‬
‫بکارت پر جا کے روک دیا ۔ مجھے‬
‫احساس ہوا دالویز کا پردہ بکارت تھوڑا‬
‫سخت ہے ۔اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے‬
‫تھا ۔میں نے دل کڑا کے عضو پیچھے‬
‫کر کے اس کے پردہ بکارت کے‬
‫مطابق دھکا لگا دیا ۔عضو پردہ توڑتا‬
‫ہوا چوت میں گھستا گیا اور ٹھک جا‬
‫کے گہرائی میں رکا ۔دآلویز کی زور‬
‫دار چیخ ابھری ۔ اس کا رنگ ہلدی کی‬
‫طرح زرد ہو گیا ۔۔ میں پریشان ہوگیا‬
‫‪،‬اتنے سخت ری ایکشن کی مجھےتوقع‬
‫نہیں تھی ۔ میں تو معمولی سی تکلیف‬
‫ہونے دیتا ہوں‬

‫‪• Part⁵⁰last‬‬
‫بعض اوقات معمولی بھی نہیں ہوتی •‬
‫۔دآلویز کانپتے ہوئے جسم سے تھوڑا‬
‫اٹھ کے چوت کو دیکھا تو اب اس کی‬
‫چیخییں شروع ہو گئی ۔ چوت میں تیزی‬
‫سے خون نکل رہا تھا ۔زوردار چیخ کی‬
‫وجہ سے میں عضو پہلے ہی باہر نکال‬
‫چکا تھا ۔ اور دآلویز ہسٹریائی کیفیت‬
‫میں چیختی چلی گئی ۔ نگینہ کی مکاری‬
‫مجھے مات دینے پھر آگئی تھی یہ‬
‫ساری نفسیاتی الجھن اسی کی پیدا کی‬
‫ہوئی تھی ‪ ،‬میں نے ایک زناٹے دار‬
‫تھپڑ دآلویز کو دے مارا اور پھر دوسرا‬
‫دے مارا ‪،‬ایک بار تو دآلویز کو بھی‬
‫پتہ چال ہو گا کہ کوئی تھپڑ پڑا ہے ‪،‬‬
‫اس سے اتنا ضرور ہوا کہ وہ ہسٹریائی‬
‫کیفیت سے نکل آئی ۔‬
‫دالویز رونے لگی ‪ ،‬چوت سے خون •‬
‫ابھی تک نکل رہا تھا ۔شاید یہ اس کی‬
‫ذہنی اُپچ تھی یا پردہ سخت تھا ۔بہرحال‬
‫میں نے بیڈ کی سائیڈ سے دراز کے‬
‫نیچے واال باکس کھوال اس میں میڈیسن‬
‫پڑی ہوئی تھیں ‪،‬سب سیکس کے متعلق‬
‫تھیں ‪،‬اس میں سے دو ٹیکے نکالے‬
‫۔ٹرانسامین کا ٹیکہ اس کی نس میں‬
‫خون روکنے کے لیئے لگایا اور‬
‫ڈکلوران اس کے چوکنے میں درد کے‬
‫لیئے لگایا ۔ اس کاروائی کو دیکھ کے‬
‫دآلویز نفسیاتی طور پر بھی بہتر ہوگئی۔‬
‫ساری چادر خراب ہو گئی ۔احتیاط کے‬
‫طور پر میں نیچے موٹا کپڑا رکھا ہوا‬
‫تھا امید تھی میٹرس بچ جائے گا‪،‬میرا‬
‫موڈ سخت خراب ہوگیا ‪،‬میں ننگا ہی‬
‫باہر آ کے صوفے پر بیٹھ گیا اور فریج‬
‫سے بیئر نکال کے پینے لگا ۔ چودہ‬
‫پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ دآلویز‬
‫باہر آگئی ‪ ،‬اس کے چہرے پر شرمندگی‬
‫تھی ۔ اور چوت واال حصہ دھال ہوا تھا‬
‫۔ میری نظر اس کے جسم پر تھی ‪،‬‬
‫کیا خوب ‪ ،‬قیامت کا ہے گویا کوئی •‬
‫دن اور۔۔‬
‫گویا قیامت میرے سامنے کھڑی تھی •‬
‫۔ میں اسے بےخود دیکھتا رہا ۔ دالویز‬
‫نے بھی میری محویت محسوس کر لی‬
‫۔دلکش سی مسکراہٹ اس کے چہرے‬
‫پر آگئی ۔ دآلویز میرے پاس آکہ گھٹنوں‬
‫کے بل قالین پر بیٹھ گئی ۔ نیلی آنکھیں‬
‫میں ساری مستی شراب کی سی تھی ۔‬
‫لگتا تھا کہ دآلویز کا ڈراتر گیا تھا ۔‬
‫دالویز نے میرا عضو پکڑ لیا ۔ ہاتھوں‬
‫سے اس کی منت کرنے لگی کہ کھڑا‬
‫ہو جا‪،‬عضو تو اسے دیکھتے ہی کھڑا‬
‫ہونے کیلیے تیار تھا ‪ ،‬ٹن کر کے اس‬
‫نے دآلویز کو سیلوٹ کیا۔ دالویز اس‬
‫وقت مکمل سیکسی موڈ میں تھی ‪،‬اس‬
‫نے میرا عضو منہ میں لے لیا۔ آہ ۔ میں‬
‫نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایسا‬
‫کرے گی‪ ،‬لگتا تھا یہ کچھ دیر پہلے کی‬
‫بدحواسی کا ازالہ تھا ۔ دآلویز کو اس کا‬
‫پتہ تو نہیں تھا لیکن اس کی کوشش‬
‫کامیاب تھی ‪ ،‬تھوڑا سا میں نے اسے‬
‫سمجھایا اور پھر مزا لینے لگا ۔ کچھ‬
‫دیر مزے لینے کے بعد میں نے اسے‬
‫نیچے قالیں پر ہی لٹا دیا ‪،‬کشن اس کے‬
‫سر کے نیچے رکھا اور اس کی ٹانگیں‬
‫کھول کر پھر چودائی کی پوزیشن بنا لی‬
‫۔ آرام سے اس کے اندر ڈاال اور آہستہ‬
‫آہستہ اس کی چودائی کرنے لگا ۔‬
‫دآلویز کے چہرے پر سکون تھا جیسے‬
‫کوئی برسوں کا پیاسا کنویں پر پہنچ گیا‬
‫ہو ۔ میری چودائی میں روانی تھی ۔ میں‬
‫اسے چودنے کا بھر پور مزہ لے رہا‬
‫تھا۔ میری زندگی میں یہ واحد لڑکی‬
‫تھی جس کیلیے مجھے دس سال انتظار‬
‫کرنا پڑا ۔ یہی وہ لڑکی تھی جس کیلیئے‬
‫مجھے پر سکوں گھر سے نکاال گیا ۔‬
‫یہی وہ لڑکی تھی جسے پانا میری ضد‬
‫تھی ‪،‬مگر پایا میں نے اسے اس کی‬
‫مرضی سے تھا ۔ اب بڑے مزے سے‬
‫اس چودائی کو انجوئے کر رہا‬
‫تھا‪،‬کہتے ہیں شراب اور دشمنی جتنی‬
‫پرانی ہو اتنا ہی مزہ دیتی تھی ۔ آج‬
‫دآلویز مجھے بھرپور مزہ دے رہی تھی‬
‫سن دآلویز کاجادو سر چڑھ کے بول‬ ‫۔ ُح ِ‬
‫رہا تھا ۔ میں نے اسکی کمر میں ہاتھ‬
‫ڈال کے اس کے ممے منہ میں لیے اور‬
‫چوستے ہوئے دآلویز کی چودائی کرنے‬
‫لگا ۔ اس اسٹائل میں تھوڑی سی مشکل‬
‫ہوتی ہے پر لڑکی کو بہت مزہ آتا ہے ۔‬
‫دآلویز بھی اگلی وادی میں قدم رکھ‬
‫چکی تھی اب میں نے رفتار تیز کر دی‬
‫۔ تھوڑ ا بیٹھ کے تھوڑا جھک کہ اس‬
‫کے ممے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ‬
‫کے چودائی کرنے لگا ۔ دوہرا مزہ‬
‫اسے دینے کا مقصد چودائی کی حقیقت‬
‫سے واقف کرانا تھا ۔ تا کہ پھراپنے‬
‫مزے کیلیئے مجھے مزہ دیتی رہے ۔‬
‫پھر میں نے تھوڑا مشکل صحیح مگر‬
‫اس کے ممے منہ میں لے کر چودائی‬
‫کرنے لگا ‪،‬اوہہ ‪،،،‬ساحل ‪ ،،،‬کیا کر دیا‬
‫ہے تم نے مجھے ‪،،‬دل کر رہا ہے تم‬
‫ایسے کرتے رہو ‪،،‬بہت مزہ آرہا ہے‬
‫میری جان‪ ،،‬دآلویز اب سیکس میں بہہ‬
‫چکی تھی ‪،،‬اب اس کا دل دھکوں کو‬
‫کرتا ہو گا‪،،، ،،‬یہی سوچ کر میں بیٹھ‬
‫کر اسے زوردار دھکے مارنے لگا‬
‫‪ ،،،،،‬میرے دھکے رفتار اور طاقت‬
‫میں اتنے ہی تھے جتنے پہلی بار اس‬
‫کی چوت برداشت کر سکتی تھی ‪،،،،،‬‬
‫ساحل تھوڑا تیز کرو نہ‪،‬دآلویز اور‬
‫مانگ رہی تھی‪ ،، ،‬میں نے رفتار بڑھا‬
‫دی ‪ ،،،،،‬دآلویز پہلے سسکنے لگی‬
‫‪،‬پھر آہیں بھرنے لگی‪،‬میں سمجھ گیا کہ‬
‫اسے درد ہو رہا ہے مگر مزہ بھی آرہا‬
‫ہے ‪ ،، ،، ،‬اب میرے جھٹکوں سے اس‬
‫کا جسم ہل رہا تھا ‪،‬پھر اس کا چہرہ‬
‫دیکھتے ہوئے میں نے دھکوں کی شدت‬
‫کم کر دی ‪،،،،‬پہلی بار کی چودائی اور‬
‫ہوتی ہے اور ایک ہفتے بعد چودائی‬
‫اور ہو جاتی ہے‪ ،،،‬مزے کیلیے میں‬
‫اس کے اوپر لیٹ گیا‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬

‫مزے کیلیے میں اس کے اوپر لیٹ •‬


‫گیا اور اس کے چہرے کے سامنے‬
‫چہرہ کر کے اسے چودنے لگا ‪،،،‬‬
‫میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دآلویز‬
‫کے چہرے پر شرم آنے لگی‪ ،،،،‬ایسے‬
‫لمحوں میں چودائی کا بڑا مزہ آتا ہے‬
‫‪،،،،،،،‬بھال بازاری عورتوں میں ایسی‬
‫دلکشی کب مل سکتی ہے‪ ،،،،،،،‬یہ‬
‫جذبات ہی تو ہوتے ہیں جو انسانی‬
‫حرکات میں رنگ بھرتے ہیں ‪ ،،،،‬اب‬
‫ایسے ساتھی کا کیا فائدہ جس میں اپنی‬
‫بھوک سے کوئی دلکشی ہی نہ رہے ‪،،،‬‬
‫چوادئی ہوتی ہے تو پھر پانی بھی نکلتا‬
‫ہے اور یہ چودائی کا حاصل ہوتا ہے‬
‫‪،،،‬اسوقت ہم بھی منزل پر پہنچنے‬
‫والے تھے‪ ،،،،‬ہمارے جسم مقناطیسی‬
‫انداز میں لپٹے ہوئے تھے ‪ ،،،‬اور پھر‬
‫دآلویز پہلی بار اپنی منزل پر پہنچی‬
‫‪ ،،،،‬اس کا پانی نکلنے لگا ‪ ،،،،‬میں‬
‫بھی ارادے سے اس کے ساتھ تھا ‪، ،،‬‬
‫میرا بھی پانی نکلنے لگا ‪ ،،،‬ہم نے‬
‫ایکدوسرے کو جکڑا ہوا تھا ‪،،‬اسوقت‬
‫حالت ہی ایسی ہو جاتی ہے کہ بانہوں‬
‫میں جکڑ نے کو دل کرتا ہے ۔۔۔فارغ ہو‬
‫کر ہم ساتھ ساتھ لیٹ گئے ‪ ،،،،‬دآلویز‬
‫کے چہرے پر پرسکون مسکان تھی ‪،‬ہم‬
‫لیٹے رہے ۔‬
‫پھر ہم صوفے پر بیٹھ گئے ‪ ،،،‬اب •‬
‫پھر میرا دل کر رہا تھا اور میں اسے‬
‫گھوڑے پر چڑھانا چاہتا تھا ۔ میں اس‬
‫کی چوت کے لبوں کے اندر پہلے‬
‫حساس ترین مقام کو چھیڑنے لگا ‪ ،‬اور‬
‫اس کے مموں کو منہ میں لے کر‬
‫چوسنے لگا‪،‬کچھ ہی دیر میں دآلویز بے‬
‫حال ہونے لگی ‪،‬اب تم چودائی کرو‪ ،‬کیا‬
‫میں مجھے نہیں آتی چودائی کرنا ‪،‬پلیز‬
‫اتنا مزہ آرہا تھا ‪،‬بڑا اچھا لگ رہا تھا تم‬
‫ویسے ہی کرو۔ میں تمھیں سکھاتا ہوں‬
‫کہ کیسے کرنا ہے ‪،‬ایسے کرو میرے‬
‫اوپر ‪،‬عضو پر آکہ بیٹھو ‪ ،‬میں صوفے‬
‫پر ٹیک لگا کہ تھوڑا لیٹا بیٹھ گیا ‪ ،،‬اے‬
‫‪،،،‬ہاں یوں اوپر بیٹھو ۔تھوڑا سا پیچھے‬
‫ہو جاؤ ‪،‬آں ہاں ۔ٹھیک ‪ ،‬اب ہاتھ سے‬
‫میرا عضو پکڑو ‪،‬ہاں ٹھیک ہے ‪،‬اسے‬
‫اپنی چوت کی موری پر رکھو ‪،‬اب اپنا‬
‫وزن آہستہ آہستہ اس پر ڈالو اور عضو‬
‫کو اندر لو‪،‬ہاں ایسے ۔پورا لے لو ‪،‬آہ‪،،‬‬
‫ہاں مزہ آگیا ‪،‬میں نے اس کی کمر سے‬
‫پکڑ لیا ‪،‬اور اسے سہارا دے کے اوپر‬
‫نیچے کرنے لگا ۔ ہاں تھوڑا اوپر نیچے‬
‫ہوا کرو ۔اسطرح ‪،‬با لکل صحیح ۔ مزہ آ‬
‫رہا ہے کہ نہیں ۔ دآلویزہ‪ ،‬او‪ ،‬دآلویزہ‬
‫؟۔ہاں کچھ کہا مجھے میرے ساحل ‪،‬‬
‫میں یہ پوچھ رہا تھا کہ مزہ آیا ہے کہ‬
‫نہیں۔؟ بہت مزہ آرہا ہے ساحل ‪ ،‬صحیح‬
‫کہا تم نے کون کمبخت شادی کا انتظار‬
‫کرے ۔ پیار کے ان لمحات پر زندگی‬
‫واری جاسکتی ہے ۔آہ ساحل جسم کو کیا‬
‫ہوگیا ہے ‪،‬رفتار اپنے آپ تیز ہو رہی‬
‫ہے ۔ دل کرتا ہے تیز اور تیز کروں ‪،،،‬‬
‫دآلویز کو مزہ آگیا ‪،‬وہ بہت اچھی‬
‫سواری کر رہی تھی ‪،،،‬مزہ تو مجھے‬
‫سرور مجھے آ رہا تھا‬‫بھی آگیا‪،‬بلکہ جو ُ‬
‫‪،‬وہ دآلویز نہیں سمجھ سکتی تھی‪،،،‬‬
‫میرے رگ و پے میں ایسی طمانیت‬
‫بھرتی جا رہی تھی ‪ ،،،‬جس کا دآلویز‬
‫تصور بھی نہیں کر سکتی تھی‪،،،‬دس‬
‫سال میرے دل و دماغ میں وہ رات‬
‫ابھرتی رہی‪،،،‬اور میں عہد کرتا رہا‬
‫کے یہ رات نگینہ کو واپس کر کے‬
‫رہوں گا‪ ،،،،،‬برسوں کا انتظار اور یہ‬
‫وصال ۔۔۔۔ کوئی اس کے سکوں کو‬
‫محسوس نہیں کر سکتا ‪ ،،‬دآلویز کبھی‬
‫مدہم کبھی تیز کبھی بیٹھ کہ کبھی لیٹ‬
‫کہ چدائی کر رہی تھی‪ ،،،‬چوت اور‬
‫ممے چھیڑ کے میں نے اس کی چابی‬
‫بھر دی تھی اور اب اس چابی کی گرم‬
‫سے دآلویز چدائی کرتی رہی ۔۔درمیاں‬
‫میں کبھی میں اسے روک کے اسی‬
‫اسٹائل میں رہتے ہوئے نیچے سے‬
‫چودنے لگتا تھا ‪،‬مقصد اسے آرام دینا‬
‫تھا ‪ ،‬تا کہ دآلویز اس جگہ اسی اسٹائل‬
‫میں چدائی کرتی رہی‪،،،‬اسے نہیں پتہ‬
‫تھا چار آنکھیں ہماری ہر حرکت نہایت‬
‫باریک بینی سے دیکھ رہی ہیں‪،،،‬‬
‫دآلویز چدائی کرتی رہی ‪ ،،،‬آہ ساحل‬
‫مجھے کیا ہو رہا ہے ‪ ،،،،‬جسم میں‬
‫جیسے سارا خون ایک ہی طرف جا رہا‬
‫ہے ۔اوہ ۔۔۔ ساحل میری جان نکل رہی‬
‫ہے ۔پلیز مجھے سنبھالو ‪ ،‬مجھے بانہوں‬
‫میں لے لو ۔ دالویز میرے اوپر گر کے‬
‫مجھے بازوؤں سے جکڑ لیا ‪،‬اس کا‬
‫وقت پورا ہو گیا تھا ‪،‬پانی نے اپنے‬
‫نکلنے کی جگہ بنا لی تھی ‪،،،،‬لیکن‬
‫میں نیچے سے اسے چودتا رہا‪،‬میرا‬
‫وقت بھی آنے واال تھا‪،‬مجھے نیچے‬
‫سے زور لگانا پڑا مگر دالویز کے‬
‫مزے کو رکنے نہیں دیا ۔ میں نے اپنی‬
‫عادت کے خالف صفائی کیئے بغیر‬
‫کیچڑ میں ہی چودتا رہا ‪،‬میں بس آنے‬
‫واال تھا ‪،‬اور پھر وہی کیفیت جب میں‬
‫دآلویز سے لپٹ گیا ۔ بڑا پانی نکال‬
‫‪،‬چودائی کے ساتھ ساتھ پانی کا تعلق‬
‫جذبات سے بھی تھا ۔ اس کے بعد بس‬
‫پھر میں تھا اور دآلویز تھی ۔نہ ہم رکے‬
‫نہ ہم تھکے ‪ ،‬میں اسے سواری کراتا‬
‫رہا وہ مجھے چوادئی کیلیے‬
‫مجبورکرتی رہی ‪،‬آخر یونیورسٹی سے‬
‫چھٹی کا ٹائم آگیا اور دآلویز مجھے‬
‫الوداع کہ کر چلی گئی‬
‫•‬

‫•‬

‫•‬
‫دآلویز مجھے الوداع کہ کر چلی •‬
‫گئی ۔ جب وہ چلی گئے دوسرے کمرے‬
‫میں اپنا لیپ ٹاپ چیک کیا ‪،‬مائکرو‬
‫کیمرے کے ذریعہ چوادئی کا کھیل اس‬
‫میں ریکارڈ ہو گیا تھا۔ پورے گھر میں‬
‫کیمرے تو پہلے ہی لگے ہوئےتھے‬
‫کبھی کبھار اس کھیل میں ان کی‬
‫ضرورت پڑ جاتی ہے ‪ ،‬آخر نگینہ کو‬
‫بھی تو کچھ دکھانا تھا کہ نیئں ‪ ،‬کچھ‬
‫سین ایڈیٹ کر کے میں نے ان کو‬
‫کمبائین کر دیا ۔ خاص کر وہ سین اس‬
‫میں ضرور ڈاال جس میں دآلویز‬
‫گھوڑے پر سواری کر رہی تھی ۔ اس‬
‫سین کیلیے ہی تو اسے سواری کروائی‬
‫تھی ‪،‬کیونکہ اس سین سے پتہ چلتا تھا‬
‫کہ سواری کرنے واال اپنی مرضی سے‬
‫چودائی کر رہا ہے ‪،‬اب نگینہ سے‬
‫ملنے کا وقت آگیا تھا کیونکہ ایک کام‬
‫میں پہلے پورا کر چکا تھا ا ور دوسرا‬
‫دآلویز واال اب ہوگیا تھا ۔‬
‫اگال دن میری زندگی کا اہم دن تھا •‬
‫‪،‬جب میں نگینہ سے مال تھا ۔ اس دن‬
‫کے لیئے میں نے بہت انتظار کیا تھا ۔‬
‫جب دالویز یونیورسٹی اور بعد میں‬
‫سرور خان جنرل سٹور پر چال گیا تو‬
‫میں کچھ فاصلے میں اپنی کار میں بیٹھا‬
‫ان کو جاتے دیکھ رہا تھا جونہی وہ‬
‫گئے میں کار الک کر کے نگینہ کے‬
‫گھر کی طرف چل پڑا اس کے گھر‬
‫والی بیل بجائی ۔ کون ہے ؟ اندر سے‬
‫نگینہ کی آواز آئی ‪،‬دروازہ کھولیں جی‬
‫۔مجھے شہروز نے بھیجا ہے ۔ شہروز‬
‫نے کیوں بھیجا ہے بڑبڑانے کی آواز‬
‫آئی جیسے ہی تھوڑا سا دروازہ کھال ‪،‬‬
‫میں دھکا دے کے اندار داخل ہو گیا‬
‫نگینہ دروازے کی ٹکر سے گر پڑی‬
‫تھی ۔ میں نے ریوالور نکال کے اس پر‬
‫تان لیا اور دوسرے ہاتھ سے دروازہ بند‬
‫کر دیا ۔ نگینہ نے مجھے پہچاننے میں‬
‫دیر نہیں لگائی ۔ شہزادے تم ۔اس کی‬
‫آواز میں حیرانگی اور خوف تھا اس‬
‫کی نظریں میرے ریوالور پر تھیں ‪،‬‬
‫اندر چلو میں نے ریوالور ہالتے ہوئے‬
‫کہا ۔ نگینہ نے تھوڑا پس و پیش کیا تو‬
‫میں نے اسے بالوں سے پکڑا ‪،‬نگینہ‬
‫نے چیخنے کی کوشش کی تو ریوالور‬
‫اس کہ منہ میں گھسیڑ دیا اوراسے‬
‫کھینچتا ہوا کمرے میں لے آیا ۔ اس‬
‫دوران میرے چہرے پہ ایسے تاثرات‬
‫تھے جیسے ابھی نگینہ نے کوئی‬
‫مکاری کی نہیں اور ادھر میں نے اس‬
‫کو شوٹ کر دینا ہے ۔ اسی لیئے نگینہ‬
‫بھی چپ چاپ اندر چلی آئی ۔ اندر آکے‬
‫میں نے اسے بیڈروم پر دھکا دے دیا‬
‫‪،‬اور خود اس کے سامنے صوفے پر‬
‫بیٹھ گیا۔ جی نگینہ جی کیا حال ہے آپ‬
‫کا ؟ مجھے آج دیکھ کہ حیران تو بڑی‬
‫ہوئی ہو گی ۔ سچی بات ہے کہ تمھیں یہ‬
‫سرپرائیز دے کر مجھے بہت مزہ آیا ‪،‬‬
‫اب تمھیں میرے آنے کی کوئی امید‬
‫نہیں رہی تھی اور اب میں آگیا۔ کیا‬
‫دھانسو انٹری ہے میری یار ۔ میرا دل‬
‫خوش ہوا ۔ قسم سے مزہ آ گیا ۔ نگینہ‬
‫میری آمد کے جھٹکے سے سنبھلنے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی ۔اور سیدھا‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ گھور‬
‫رہی تھی اسے ریوالور کی کوئی پرواہ‬
‫نہیں رہی تھی ۔(ریوالور صرف نگینہ‬
‫کو دکھانے کیلیے تھا ورنہ مجھے اس‬
‫کی کئی ضرورت تھی ) زیادہ ڈرامے‬
‫بازی نہ کرو ۔ گولی مارنے آئے ہو وہی‬
‫کرو ۔ نگینہ دھاڑی ۔اوہو ‪ ،‬تو تم بہادر‬
‫بننے کی کوشش کر رہی ہو ‪ ،‬لیکن ذرا‬
‫یہ بھی تو سوچو تمھارے بعد دآلویز کا‬
‫کیا ہو گا ؟ یاد ہے تم نے مجھے کیا کہا‬
‫تھا‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬
‫شہزادے دآلویز تمھاری کسی طرح •‬
‫نہیں ہو سکتی ۔‬
‫یکدم نگینہ پژمردہ نظر آنے لگی ۔ •‬
‫شہزادے میں مانتی ہوں میں تمھاری‬
‫مجرم ہوں مجھے جو مرضی سزا دے‬
‫لو ‪ ،‬مگر خدا کہ واسطے دآلویز کو‬
‫معاف کر دو ۔ خدا کا واسطہ تو میں نے‬
‫بھی دیا تھا نگینے ۔ میں نے اسے یاد‬
‫دالیا ۔ نگینہ ایک لمحے کیلیے مایوس‬
‫ہوئی پھر اس نے گرگٹ کی طرح رنگ‬
‫بدال ۔ اور بیڈ سے اتر کر بڑی ادا سے‬
‫چلتی ہوئی میرے ساتھ آ کہ بیٹھ گئی ‪،‬‬
‫بال کھلے ہوئے تھے اور دوپٹہ اس کا‬
‫پہلے ہی گر گیا تھا ۔شہزادے اب اتنے‬
‫کٹھور بھی نہ بنو ۔ ہم نے کچھ وقت‬
‫اچھا بھی گزارا ہے ۔ اس کے ہاتھ‬
‫میرے گھٹنوں پر تھے اور اس کے‬
‫ممے کپڑوں سے باہر آنے کیلیئے‬
‫اُتاولے ہو رہے تھے۔ نگینہ کی دعو ِ‬
‫ت‬
‫گناہ دیتی آنکھوں میں امید کی کرن تھی‬
‫‪،‬پتہ نہیں تمھارا جسم اب کیسا ہے ‪،‬میں‬
‫نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ‪،‬نگینہ‬
‫کی آنکھوں میں چمک آگئی اس نے‬
‫پھرتی سے اپنی قمیض اتار دی ‪ ،‬میں‬
‫نے ریوالور سے برا کی طرف اشارہ‬
‫کیا تو اس نے برا اور پھر کھڑے ہو کر‬
‫شلوار بھی اتار دی ۔ میں نے کھڑا ہو‬
‫کر اس کے گرد گھوم کر اسے دیکھا ‪،‬‬
‫اور گانڈ پر ایک تھپڑ دے مارا‪،‬آؤچ‬
‫‪،،،،،‬نگینہ مڑ کہ شاکی نظروں سے‬
‫مجھے گھورنے لگی ‪ ،‬دل تو کرتا تھا‬
‫اسے اذیت ناک انداز میں چودوں ‪،‬مگر‬
‫اب وہ چلتی پھرتی موت تھی ‪،‬اور اس‬
‫بات کا ابھی اسے بھی نہیں پتہ تھا‬
‫‪،‬نگینہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت‬
‫نے تم پر کوئی خاص اثر نہیں ڈاال ہے‬
‫۔ اور تم آج بھی کئی جوان لڑکیوں سے‬
‫بہتر ہو‪،‬لیکن تم ایک ناگن ہو اور‬
‫تمھاری ظاہری خوبصورتی کا فریب‬
‫میرے لیئے بیکار ہے ‪،‬میں نے اپنی‬
‫بات کہتے ہوئے اسے دھکا دیا نگینہ بیڈ‬
‫سے جا ٹکڑائی اور گر پڑی ۔‬
‫اسےٹھکرا کے اس کی تذلیل کر کے‬
‫میرے سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ‪ ،‬تمھاری‬
‫یہ جرات نگینہ خان کی بے عزتی‬
‫کرو‪،‬نگینہ پھرتی سے اٹھی اور‬
‫خونخوار انداز میں مجھے پر جھپٹی‬
‫۔میں نے بیٹھےبیٹھے الت لمبی کر دی‬
‫اپنے ہی زور میں بڑھتے ہوئے نگینہ‬
‫کے پیٹ پر الت پڑی اور پیچھے جا‬
‫گری ۔میں نے اٹھ کے اس کے تیں چار‬
‫ٹھڈے مار دیئے ۔ نگینے میں وہ کمزور‬
‫شہزادہ نہیں ہوں ۔ آج میں پرنس ہوں‬
‫پرنس اور تم جیسی خون آشام آنٹیاں‬
‫میرے پاؤں چاٹتی پھرتی ہیں ۔میں نے‬
‫غصے میں اسے دو تین ٹھڈے اور دے‬
‫مارے ۔ ایک ہاتھ سے اپنے بالوں کو‬
‫ٹھیک کرتا ہوا میں صوفے پر بیٹھ گیا‬
‫‪،‬میرے ریوالور واال ہاتھ پھر اس کی‬
‫طرف تھا ‪،‬نگینہ کچھ دیر بعد اٹھی اور‬
‫بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر وہیں بیٹھ گئی‬
‫‪،‬اس کے چہرئے پر مسکینی چھائی‬
‫ہوئی تھی ۔ بیٹا ۔ ۔۔۔۔۔ جو بھی ہو میں‬
‫تمھاری ماں ہوں میں نے تمھیں پاال ہے‬
‫۔۔۔ میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔‬
‫دآلویز کو چھوڑ دو ۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا‬
‫ہا ہا ۔ اس کے ننگے جسم کو دیکھتے‬
‫ہوئے مجھے بے اختیار ہنسی آگئی ۔‬
‫میں تمھارا بیٹا نہیں ہوں ۔کیونکہ نہ •‬
‫تم نے مجھے پیدا کیا ہے اور نہ میں‬
‫نے تمھارا دودھ پیا ہے ‪،‬میں نے ایک‬
‫ایک لفظ کو چباتے ہوئے کہا ۔‬
‫نگینہ کا غصے سے چہرہ سیاہ •‬
‫ت غضب سے اس کا‬ ‫پڑنے لگا ۔ اور شد ِ‬
‫جسم کانپنے لگا۔ نگینہ پھر مجھ پر‬
‫جھپٹی ‪،‬میں بھی تیار تھا ۔ میں نے‬
‫فوراکھڑے ہو کہ اسے دھکا دیا‪ ،‬وہ‬
‫گری اور میں اسے کے پیٹ پر بیٹھ‬
‫گیا۔اور زناٹے دار چارپانچ تھپڑ جڑ‬
‫دیئے ‪،‬نگینہ کا دماغ تو گھوم گیا ۔ میں‬
‫نے پھر لگا تار پانچ چھ تھپڑ اور ٹھوک‬
‫دیئے ۔ نگینہ کا دماغ ٹھکانے پر آگیا ‪،‬تم‬
‫جان گئی ہو گی کہ تم سیر تھی تو اب‬
‫میں سوا من ہوں ۔ نگینہ اپنے ننگے‬
‫جسم کیساتھ بے بسی سے مجھے‬
‫گھورتی رہی ۔اسے نہیں پتہ تھا کہ اس‬
‫کے سامنے کون ہے ‪،‬میں نے اپنا‬
‫موبائل نکال کر دآلویز کی ویڈیو لگائی‬
‫اور اسکرین نگینہ کی طرف کر دی ۔یہ‬
‫دیکھو جس دآلویز کو مجھ سے بچانے‬
‫کیلیے تم نے مجھے قتل کرنا چاہا آج‬
‫تمھاری دآلویز ‪ ،‬اب میری ہے ۔ تم نے‬
‫آنے والے وقتوں کیلیے اس کا برین‬
‫واش کر دیا تھا ۔اور میں نے ا سکے‬
‫برین واش کو اتار کے اپنے لوڑے پر‬
‫چڑھا دیا ۔ اور تمھاری طرح زبردستی‬
‫سے نہیں ‪،‬دآلویز کی اپنی مرضی سے‬
‫اسے چودا ہے ‪،‬تمھیں اس ویڈیو میں‬
‫نظر آئے گا کہ کتنے شوق سے دآلویز‬
‫گھوڑے پر سواری کر رہی ہے ۔ویسے‬
‫ایک بات ہے نگینے تمھاری بیٹی تم‬
‫سے زیادہ پٹاخہ ہے میں نے ایک آنکھ‬
‫دبا کہ نگینہ کے ہی اسٹائل میں کہا‬
‫‪،‬نگینہ گم سم چپ چاپ اسکرین دیکھے‬
‫جارہی تھی ۔ جو تم نے مجھے دیا تھا‬
‫وہ میں نے تمھیں آج واپس لوٹا دیا‬
‫نگینے ‪،‬تمھاری بیٹی شہزادی بن گئی‬
‫اور اس کی چوت کارستہ کھل گیا ہے‬
‫‪،‬اب یہ رستہ کھال رہے گا اور لوگ‬
‫یہاں سے گزرتے رہیں گے۔ تم سے‬
‫بہتر کون جانتا ہو گا کہ چوت کا رستہ‬
‫ایک بار کھلنے کے بعد کبھی بند نہیں‬
‫ہوا۔‬
‫‪https://www.facebook.com/pr‬‬
‫‪ofile.php?id=100052414096339‬‬

‫نگینہ کو پھر جوش آیا اس نے •‬


‫پیچھے سے مجھےدونوں گھٹنے مارے‬
‫لیکن میں انہی کا تو انتظار کر رہا تھا ۔‬
‫جیسے ہی مجھے اس کے جسم میں‬
‫حرکت محسوس ہوئی میں نے دونوں‬
‫کہنیاں پیچھے کی طرف اس کی رانوں‬
‫پر دے ماری ‪ ،‬کہنیوں کی نوک اور‬
‫رانوں کے گوشت کے ٹکراؤ سے نگینہ‬
‫کی بھرپور تسلی ہوگئی ‪،‬کسی وقت یہی‬
‫گھٹنے میری ہار کا سبب بنے تھے اور‬
‫اب میرے لیے یہ بچکانہ حرکت تھی‬
‫اوپر سے میں نے اس کے تین چار‬
‫تھپڑ دے مارے ۔ہاں تو میں کیا کہہ رہا‬
‫تھا کہ تم ہار گئی ہو ۔اور تمھیں ہرانے‬
‫کیلے میں نے بہت کچھ سیکھا ہےاتنا‬
‫کچھ کے تم میرے سامنے ایک بونی ہو‬
‫اور بس۔تمھارا سارا خاندان مل کر بھ‬
‫اب مجھ اکیلے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔‬
‫تم نے بہت بڑی غلطی کی تمھیں مجھ‬
‫کو بھولنا نہیں چاہیئے تھا ‪،‬یہ لو ایک‬
‫ویڈیو اور دیکھو میں نے وہیں نگینہ‬
‫کے ننگے پیٹ پر بیٹھے نگینہ اور‬
‫شہروز کی ویڈیو لگا دی‪،‬ویڈیو دیکھتے‬
‫ہوئے نگینہ کی بس ہوگئی اب لگ رہا‬
‫تھا اس نے ہار مان لی ہے ۔اچھا تو تم‬
‫نے اس ویڈیو کے ذریعے دآلویز کو اپنا‬
‫بنایا ہو گا‪،‬نگینہ فورا بات کی تہہ تک‬
‫پہنچ گئی ۔ میں اٹھا اور صوفے پر بیٹھ‬
‫گیا ‪،‬اس شہروز کے متعلق ایک بات یاد‬
‫آرہی ہے ‪،‬۔ ٍٍٍ ٍٍشہروز کے متعلق کیا‬
‫تھی وہ بات ؟ میں نے سوچنے کی‬
‫ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔ کس بات کا‬
‫کہہ رہے ہو‪ ،‬نگینہ بے اختیار پوچھ‬
‫بیٹھی ۔‬
‫شہزادے میں بے غیرت نہیں ہوں •‬
‫‪،‬کہ جس لوڑے پہ ماں چڑھتی ہے اسی‬
‫لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا دوں ۔ یاد‬
‫آیا کچھ؟‬
‫میں نے نگینہ کی آنکھوں میں •‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔ نگینہ نے کیا کہنا‬
‫تھا چپ چاپ وہیں لیٹی رہی ۔ٹھیک ہے‬
‫میں چلتا ہوں ۔میں اٹھ کے انگڑائی لیتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔ دآلویز کو تم اسکی ویڈیو یا‬
‫اس کے سیکس کرنے کے متعلق تم‬
‫کوئی بات نہیں کرو گی ورنہ تمھاری‬
‫ویڈیو سرور خان اور تمھارے بھائیوں‬
‫تک پہنچ جائے گی۔ تب تمھاری برادری‬
‫تمھیں موت تو دے گی مگر بڑی ذلت‬
‫کے ساتھ اور تم مر تو سکتی ہومگر‬
‫ذلت پسند نہیں کرو گی ۔ٹھیک ہے‬
‫میری جان ‪ ،‬اوکے نگینہ ۔ میں چلتا‬
‫ہوں‪ ،‬بائےبائے‪ ،‬میں نے واپس چلنے‬
‫کیلیے قدم بڑھائے ۔ مجھے گولی‬
‫مارتے جاؤ شہزادے ۔گولی مار دو‬
‫مجھے اب یہ زندگی نہیں جی سکتی ‪،،‬‬
‫نگینہ چالئی ۔ اوہ ایک بات تو رہ ہی‬
‫گئی ۔ میں دروازے کے پاس رک کہ‬
‫اس کی طرف مڑا ۔ ویسے شہروز اور‬
‫دآلویز کو یہ نہیں پتہ کہ تم ادھر ادھر‬
‫بھی منہ مار لیتی ہو ‪ ،‬تمھیں یاد ہو گا‬
‫کہ تم کچھ مہنیے پہلے ایک لڑکے سے‬
‫ملی تھی زاہد اس کا نام تھا جوان تھا‬
‫‪،‬پپو تھا۔ زاہد نے جلد ہی تمھیں پھنسا لیا‬
‫تھا ۔ وقت اور جگہ تمھارے پاس شروع‬
‫سے ہے ‪،‬تم دونوں نے خوب چودائی‬
‫کی تھی ‪،‬یاد آیا کچھ ‪ ،‬ہاں یاد تو آیا ہو‬
‫گا‪،‬اصل میں وہ لڑکا بازاری عورتوں کا‬
‫بڑا رسیا تھا ‪،‬وہاں سے اسے جنسی‬
‫بیماریاں لگ گئی تھیں جن میں ایڈز‬
‫نمایاں ہے ‪،‬اب سمجھ تو گئی ہو گی کہ‬
‫تم ‪،‬شہروز اور سرور سب ہی مختلف‬
‫بیماریوں کا نشانہ بن گئی ہو ‪ ،‬۔ تمھیں‬
‫کچھ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہو گا ۔‬
‫دآلویز شہروز کو دینا تمھاری ضد تھی‬
‫لیکن اب یہ ضد بیٹی کی زندگی کی‬
‫مانگتی ہے ۔ یقینا اب تم یہ شادی بھی‬
‫نہیں کر سکو گی ۔ جب مجھے تمھارا‬
‫پتہ چال تھا اسی وقت میں نے اس لڑکے‬
‫کو کسی کے ذریعے تمھاری ٹپ‬
‫پہنچائی تھی ۔ اسے یہی بتایا گیا تھا کہ‬
‫تم بڑی دھانسو قسم کی بچے باز ہو اور‬
‫ساتھ ہی الجواب پیس بھی ہو ‪،‬باقی کام‬
‫خود بخود ہوگیا ۔۔ اب تم روز موت کا‬
‫انتظار کرو گی اور دھیرے دھیرے‬
‫سسک سسک کہ مرو گی ۔ نگینہ کی‬
‫رنگت ہلدی کی طرح زرد ترین ہوگئی ۔‬
‫اس کی آنکھوں کی چمک ختم ہوگئی‬
‫اور ویرانی ڈیرے جمانے لگی ۔ (چیک‬
‫میٹ)چوت کا کھیل سب سے پرانا کھیل‬
‫ہے شہزادےاور شہزادیاں اس کھیل کا‬
‫حصہ بنتے رہتے ہیں ‪،‬اس کھیل میں‬
‫ہمیشہ ایک شکار اور ایک شکاری ہوتا‬
‫ہے کبھی میں شکار تھا آج میں شکاری‬
‫ہوں۔(آئی ایم پرنس)۔میں ہوں پرنس۔‬
‫دائم آباد رہے گی دنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نہ ہوں •‬
‫گے کوئی ہم سا ہو گا ۔‬
‫•‬

‫•‬

‫‪• The End‬‬


‫🅛🅐🅗🅖🅤🅜🌹🅙🅡‬

You might also like