You are on page 1of 8

‫بے شرم دیور‬

‫بے شرم دیور‬


‫مکمل کہانی‬
‫😊😊😊😊😊‬
‫میرا نام زینت بیگم ہے میں زندگی کی ستائیس بہاریں دیکھ چکی ہوں میری شادی عتیق‬
‫کے ساتھ ‪ ٥‬سال پہلے ہوئی تھی ‪ .‬ہم دونوں میں پہلی رات ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی‬
‫عتیق میرا بہت خیال رکھتے ‪ .‬میری ہر فرمائش اور خواہیش وہ پوری کرتے ‪ .‬وہ کسی فارن کمپنی‬
‫میں جاب کرتے تھے ‪ .‬ا سال پہلے کمپنی نے انہیں ‪ ٢‬سال کے لئےڈیپوٹیشن پر بیرون ملک‬
‫بھیج دیا ‪ .‬شروع میں تو بہت پریشان ہوئی کیونکہ انکی عادت تھی مجھے ‪ .‬دن تو گزر جاتا‬
‫مگر رات کی تنہائیاں ڈسنے کو آتیں اور نہ جانے کتنی ہی راتیں میں نے رو کر گزاریں ‪ .‬پھر آہستہ‬
‫آہستہ جدائی برداشت کرنے کا سلیقہ آتا گیا ‪ .‬اور کبھی میکے اور زیادہ تر سسرال میں میرا‬
‫ٹائم گزرنے لگا ‪ .‬سسرال میں میری ساس اور سسر تھے ‪ .‬ایک نند ( عمیر کی چھوٹی بہن )‬
‫جس کا نام فرزانہ ہے وہ بیاہی ہوئی ہے اور ہر دوسرے تیسرے ماہ اپنے میکے والدین سے ملنے‬
‫آتی اور دو چار ہفتے رہ کر واپس اپنے سسرال چلی جاتی ہے ‪ .‬میری سسرال ان چند ہی‬
‫افراد پر مشتمل ہے میری اپنی نند فرزانہ سے بہت بنتی ہے وہ بہت اچھی طبیعت رکھنے‬
‫والی صاف دل خاتون میری نند سے زیادہ سہیلی ہے ‪ .‬ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم دونو کے‬
‫‪ .‬فگر بھی تقریبا ایک جیسے ہیں‬
‫پچھلے دنوں فرزانہ کو اسکا دیور ہمارے ہاں چھوڑ گیا اور ‪ ٢‬ہفتے بعد لے جانے کا کہہ کر‬
‫واپس چال گیا ‪ .‬فرزانہ کا خاوند بسلسلہ روزگار دور رہتا اور اور دو تین ہفتے بعد دو تین دنوں‬
‫کے لئے گھر اتا ہے ‪ .‬فرزانہ کے ساتھ وقت گزرتے پتا ہی نہ چال اور ایک شام اسکا دیور سمیر‬
‫اسے لینے کے لئے آ گیا ‪ .‬تو میری ساس نے اسے کہا کہ کل نہیں پرسوں چلے جانا تو سمیر‬
‫نے کہا ٹھیک ہے ‪ .‬پرسوں چلے جایئنگے ‪ .‬سمیر ‪ ٢٠‬سال کا جوان کالج کا سٹوڈنٹ ہے‬
‫‪ .‬اور بہت اچھے اخالق و آداب کی بدولت سب میں رشتہ داروں میں ایک اچھی شہرت رکھتا ہے‬
‫‪ .‬دوسرے دن فرزانہ اپنی امی کے ساتھ دوسرے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے ان کے ہاں گئی‬
‫‪ .‬مجھے بھی ان کے ساتھ جانا تھا مگر میں نے ‪ ٢‬دن پہلے ہی سے کپڑے دھونے کا پروگرام بنا رکھا تھا‬
‫‪ ١١‬بجے کا وقت تھا میں کپڑے دھو رہی تھی‪ .‬اور کپڑے دھوتے ہوئے میں خود بھی اور‬
‫میری قمیض اور شلوار بھی گیلی ہو چکی تھی ‪ .‬مگر میں بے پرواہ ہو کر کپڑے دھوتی رہی‬
‫میں چاہتی تھی کہ جلد سے جلد کپڑے دھو کر دوپہر کا کھانا پکا لوں تاکہ فرزانہ اور‬
‫میری ساس جب آئیں تو ان کو انتظار نہ کرنا پڑے ‪ .‬چونکہ میں نے برا بریزیر پینٹی وغیرہ‬
‫دھونے کے لئے اتار رکھے تھے ‪ .‬اس لئے قمیض کے بھیگنے سے مموں کی گوالیاں‬
‫اور نپلز نظر آ رہے تھے ‪ .‬اور میری رانوں پر گیلی شلوار چپک گئی تھی جس سے رانوں کی گوالیاں‬
‫بھی عیاں تھیں کیونکہ گھر میں اکیلی تھی اس لئے مجھے کسی کے دیکھ لینے کا کوئی خطرہ نہ تھا‬
‫کہ اچانک سمیر سامنے آگیا ‪ .‬وہ اوپر والے گیسٹ روم میں سویا ہوا تھا ‪.‬میں بھول ہی گئی تھی کہ‬
‫سمیر بھی آیا ہوا ہے ‪ .‬میں نے پوچھا" اٹھ گئے سمیر " اور اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر‬
‫اسے دیکھا تو اسکی نظروں کو اپنے جسم پر مرکوز پا کر میں دہل سی گئی ‪ .‬اسکی نظروں میں‬
‫‪ .‬ہوس صاف نظر آ رہی تھی وہ کبھی میرے مموں کو تاڑتا تو کبھی میری بل کھاتی کمر کو دیکھتا‬
‫میں کپڑا نچوڑتے ہوئے نیچے جھکی تو سمیر نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیا‬
‫مجھے ایسی حرکت کا اندازہ نہ تھا کہ سمیر ایسا بھی کر سکتا ہے ‪ .‬میں نے غصہ اور حیرت‬
‫سے اسے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو تم سمیر اور اس کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی‬
‫مگرسمیر مجھے اچھی طرح قابو کر چکا تھا ‪ .‬میں اپنے آپ کو بےبس سمجھ کر اسے ڈرانے دبکانے‬
‫‪ .‬لگی اور پھر اونچی آواز سے شور مچانے لگی تو اس نے ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا‬
‫میں نے بڑی کوشش کی کہ میری آواز نکل سکے تاکہ اسے بتا سکوں کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے‬
‫‪ .‬اسے اسکا خمیازہ بھگتنا ہوگا ‪ .‬مگر اس نے میرے منہ پر بڑی مضبوطی سے اپنا ہاتھ جما رکھا تھا‬
‫میری کوشش تھی کہ کسی طرح میں اس کی گرفت سے نکل سکوں مگر وہ ‪ ٢٠‬سال کا جوان اور‬
‫‪ .‬توانا کسرتی جسم کا مرد اور میں ‪ ٢٧‬سال کی ایک کمزور عورت اسکا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی‬
‫پھر میں اس کے بازوں میں مچل رہی تھی تاکہ کسی طرح اسکے نیچے سے نکل کر اسے وہ‬
‫‪ .‬پھینٹی لگاؤں کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے اور کسی اور کی عزت پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے‬
‫‪ .‬مگر سمیر نے میری ایک نہ چلنے دی ‪ .‬میں گھوڑی بنی اس کے نیچے تھی اور وہ مجھ پر چھایا ہوا تھا‬
‫اسکا ایک ہاتھ میری کمر پر اور دوسرا میرے منہ پر تھا کچھ دیر اسی طرح رہنے کے بعد اسکا‬
‫ہاتھ میری کمر سے آگے کو سرکنے لگا اور جلد ہی اس نے میرا ایک مما جکڑ لیا میں زور سے تڑپی‬
‫میرے منہ سے گندی گندی گالیاں نکلنے لگیں جنہیں وہ سننے سے قاصر تھا کیونکہ میرے منہ پر اسکا‬
‫ہاتھ جما ہوا تھا ‪ .‬مجھے اپنی بے عزتی بری طرح محسوس ہونے لگی اور دعا ئیں مانگنے لگی‬
‫کہ کوئی آ جائے تاکہ اس عفریت سے میں بچ جاؤں ‪ .‬اسکا ہاتھ کبھی میرا ایک مما مسلتا کبھی دوسرا دباتا‬
‫میری قمیض تو پہلے ہی گیلی تھی اور میں بنا کسی برا اور بالوز کے تھی اور اس کے لئے میرے‬
‫ننگے مموں کو مسلنا ٹٹولنا اور دبانا برا سان ہو گیا تھا ‪ .‬اتنے میں میں نے اسکا راڈ اپنے چوتڑوں‬
‫پر محسوس کیا تو مجھے اپنی ذلت کا احساس اور شدت سے ہونے لگا ‪ .‬اسکے دونوں ہاتھ چونکہ‬
‫مجھے جکڑے ہوئےتھے اس لئے وہ اپنے راڈ کو اندازے سے میرے چوتڑوں کے درمیاں‬
‫رگڑنے کی کوشش کرنے لگا اسکا منہ زور شیطانی راڈ میری گیلی شلوار کے اوپر سے ٹانگوں کے‬
‫درمیاں مچل رہا تھا ‪.‬وہ میرے منہ پر رکھے ہاتھ کی کہنی سے میری گردن پر دباؤ دے کر‬
‫اپنے دوسرے ہاتھ سے میرا ازار بند کھولنے لگا مگر کافی کوشش کے بعد بھی آزار بند نہ کھل سکا‬
‫کیونکہ اسکی گانٹھ میں نے اپنی عادت کے مطابق الٹی لگائی ہوئی تھی اور وہ گیلی ہو کر سخت ہو‬
‫چکی تھی ‪ .‬وہ اسے کھولنے میں ناکام ہو کر میری شلوار کو میرے چوتڑوں سے نیچے کھینچنے لگا‬
‫مگر میری کمر پتلی اور کولہے قدرے بھاری تھے جس کی وجہ سے شلوار نیچے نہ ہو سکی تو وہ‬
‫مشتعل ہو کر میری ٹانگوں میں دھکے لگانے لگا ‪ .‬میں نے اشارے سے کہا کہ میرے منہ سے ہاتھ‬
‫ہٹا لے تاکہ میں اسے بتا سکوں کہ میری ساس اور فرزانہ کسی وقت بھی آ سکتی ہیں ‪.‬مگر اس نے مجھے‬
‫بولنے کی اجازت نہ دی اور میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرنے لگا ‪ .‬اچانک اس کو انگلی جتنا سوراخ‬
‫شلوار میں محسوس ہوا تو اس نے اس میں انگلی ڈال دی اور اسے ادھر ادھر گھمایا اور پھر اسنے‬
‫انگوٹھا ڈال کر انگلی کی مدد سے اس سوراخ کو بڑا کر لیا اور جلدی سے اپنا راڈ جیسا سخت‬
‫لن گھسا دیا ‪ .‬اور اس کو میری ٹانگوں کے سنگم پر اپنے ٹارگٹ کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر‬
‫‪ .‬مسلنے لگا ‪ .‬مگر میں اپنے چوتڑوں کو ادھر ادھر ہال کر اسکی کوشش کو ناکام بنانے لگی‬
‫اس نے میرے کولہے کو اپنے بازو میں جکڑ لیا اور اسکے لن نے اپنے ٹارگٹ میری چوت کے‬
‫منہ پر تلکنا شروع کر دیا ‪ .‬میں نے نادائستہ اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھولیں تو اسے ایک زبردست‬
‫‪ .‬چوٹ لگانے کا موقع مال تو اسکا تکڑا سا لوڑہ چوت کو چیرتا اسکی اتھاہ گہرائی میں جا لگا‬
‫میں درد سے ٹرپ کر نیچے لیٹ گئی اور اسے اشارے سے ہٹنے کو کہا ‪.‬مگر اس نے ہٹنے کے لئے‬
‫تو اندر نہیں کیا تھا ‪ .‬پھر میں نے اسے منہ سے ہاتھ ہٹانے کے لئے کہا ‪ .‬مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی‬
‫ایک تو میرے پیٹھ کی طرف تھا اور اب تک میں اسے دیکھ نہ پائی تھی نہ ہی اس سے نظریں چار‬
‫ہوئیں تھیں کہ کچھ سمجھا سکتی ‪ .‬میں اب نیچے پیٹ کے بل لیٹی ہوئی اور اسکا لن دور میرے اندر‬
‫تھا کچھ در بعد حرامی نے اسے ہالنا شروع کیا ‪ .‬اسکی رگڑ مجھے تکلیف دے رہی تھی ‪ .‬مگر اسے‬
‫اسکا کچھ احساس نہ تھا ‪ .‬پھر جب اس نے زور زور سے دھکے لگانے شروع کئے تو میں‬
‫تکلیف سے بچنے کے لئے اسکے دھکے کے جواب میں اپنے کولہے اوپر کرتی تو مجھے تکلیف‬
‫‪.‬کا احساس نہ ہوتا تھوڑی در بعد میں رونے لگی اور میرے آنسو بہ کر میری گالوں کو بھگونے لگے‬
‫‪ .‬مجھے رونا اپنی بے بسی پر آیا جس کے لئے میں خود سے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے رونے لگی‬
‫اس کا سٹیمنا کافی تھا کافی دیر( مجھے وہ وقفہ گھنٹوں پر محیط لگا ) بعد اسکے دھکوں کی ‪.‬‬
‫تیز رفتاری سے میں نے محسوس کیا کہ وہ آنے واال ہے اور پھر چند ایک مزید زوردار جھٹکوں‬
‫کے ساتھ فوارے مارتا میرے اوپر ہی گر گیا ‪ .‬اس نے سارا مواد میرے اندر ہی ڈاال اور پھر‬
‫‪ .‬اچانک اٹھا اور بھاگ کر سیڑھیاں پھالنگتا اوپر گیسٹ روم میں چال گیا‬
‫میں یوں ہی کچھ دیر لیٹی رہی ‪ .‬میں ہکا بکا حیرت سے یہی سوچتی رہی کہ میرے ساتھ ہوا‬
‫کیا اور اب مجھے کیا کرنا چاہئیے ‪ .‬کیا اپنی ساس کو بتاؤں یا اپنی نند فرزانہ سے شکایت‬
‫کروں سمیر جس کا دیور ہے یعنی اسکے خاوند کا چھوٹا بھائی ہے ‪ .‬میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی‬
‫کہ کیا کروں کیا نہ کروں ‪.‬گر ذکر یا شکایت کرتی ہوں تو بھی بات تو نکلنی ہے ‪ .‬بدنامی تو میرے‬
‫ہی حصہ میں آئے گی ‪ .‬اس حرامی سمیر کو زیادہ سے زیادہ یہاں آنے سے روک دیا جایئگا ‪ .‬میرے‬
‫خاوند تک بات پہنچے گی تو انکا رد عمل کیا ہوگا ‪ .‬میری پوری زندگی نشانے پر آ گئی تھی‬
‫ایسی حالت میں کسی فیصلے پر پہنچنا ویسے بھی مشکل تھا ‪ .‬میں سر جھکے یونہی بیٹھی تھی کہ‬
‫اتنے میں میری ساس اور نند بھی آ گئیں ‪ .‬انہوں نے میری حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا تو‬
‫میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کہ کر ٹال گئی ‪ .‬میری ساس کہنے لگی تم اپنے کمرے میں جاؤ‬
‫باقی کپڑے فرزانہ دھو دے گی اور میں کھانا بنا لیتی ہوں ‪ .‬یوں میں اٹھ کر اپنے کمرے میں‬
‫ا گئی اور باتھ روم میں جا کر میں نے قمیض اور شلوار اتاری اور خود کو دیکھنے لگی ظالم‬
‫نے مجھے بیدردی سے رگیدا تھا ‪ .‬نیچے ٹانگوں کے بیچ ہاتھ لگایا تو اوئی سی نکل گئی کافی‬
‫سوجی ہوئی تھی ‪ .‬ہاتھ سے جو اسے رگڑا تو لیسدار مادہ پورے ہاتھ پر لگ گیا ‪ .‬کتے نے‬
‫کتنا کچھ لٹایا تھا کافی دیر تو اسکے فوارے میری چوت کی گہرائی سے ٹکراتے رہے تھے‬
‫اور دیواروں سے چپک گیے تھے جب اس نے لن باھر کھینچا تھا تو یوں لگا جیسے پورا‬
‫ایک لوٹا رس کا باہر نکال ہو ‪ .‬میں نے نادانستہ اپنے ہاتھ کو سونگھا تو عجیب سی بو تھی‬
‫مگر نا خوشگوار نہ تھی ‪ .‬میں نے اپنی زبان کی نوک اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی تو ٹینگی‬
‫سا ذائقہ لگا ‪ .‬میں نے غسل کیا اور کپڑے تبدیل کرکے لیٹ گئی ‪ .‬کافی دیر بعد فرزانہ‬
‫نے آ کر بتایا کہ کھانا تیار ہے تو میں نے اسے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لئے‬
‫نہ کھا سکونگی تو وہ بولی ‪ .‬ٹھیک ہے تم آرام کرو جب من چاہے کھا لینا تو میں نے‬
‫کہا ٹھیک ہے ‪ .‬اور سونے کی کوشش کرنے لگی ‪ ,‬ایسی حالت میں نیند کا آنا نہ ممکن ہوتا‬
‫ہے مگر مجھے تھوڑی ہی دیر بعد نیند ا گئی اور اسوقت میری آنکھ کھلی جب شام کے‬
‫کھانے کے لئے فرزانہ کہنے ائی ‪ .‬میں نے اسے کہا مجھے کھانا یہیں دے جائے ‪ .‬اور‬
‫پنڈے میں دردوں کی ٹیبلٹس بھی لے آئے ‪ .‬میں نہیں چاہتی تھی کہ میں ان کے ساتھ کھانا کھاؤں‬
‫کیونکہ وہاں اس شیطان نے بھی ہونا تھا اور اسکا سامنا کرنا میرے لئےبہت مشکل تھا‬
‫میری ریکویسٹ پر فرزانہ میرے لئے اور اپنے لئے کھانا وہیں لے آئی اور ہم نے مل کر ‪.‬‬
‫ڈنر کیا ‪ .‬تھوڑی دیر بعد میری ساس بھی میرا حال پوچھنے آئی اور کچھ دیر بعد مجھے آرام‬
‫‪ .‬کرنے کا کہہ کر دونوں ماں بیٹی اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں چلی گئیں جہاں وہ سوتی ہیں‬
‫ان کے جانے کے بعد میں تنہا رہ گئی ‪ .‬اور دن کا واقعہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر مجھے‬
‫»‪ .‬ڈرانے لگا‬
‫میںمیں ایک کتاب لے کر پڑھنے لگی‬
‫دراصل میں نے مختلف خیاالت کی یلغار سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے کتاب‬
‫کا سہارا لیا ‪ .‬مگر جو کچھ ہوا تھا اتنی آسانی سے تو میں اس کے متعلق سوچنے سے باز‬
‫نہ رہ سکتی تھی ‪ .‬میں کتاب پڑھ رہی تھی مگر اس کی ایک الئن بھی میں سمجھنے سے قاصر‬
‫‪.‬تھی ‪ .‬میرے ذہن میں کچھ عجیب سی گڈ مڈ سی ہونے لگی ‪.‬پڑھتی کچھ اور سمجھتی کچھ اور‬
‫آخر میں نے کتاب بند کی اور الئٹ آف کرنے کے بعد بیڈ پر دراز ہو گئی ‪ .‬مگر اندھیرے میں‬
‫بھی خیاالت نے مجھے پریشان کرنا نہ چھوڑا ‪ .‬مجھے حیرت سمیر کی حرکت پر تھی کہ‬
‫ایک نہیات ہی سلجھا ہوا اچھے ادب و آداب رکھنے واال ایک شریف النفس خیال کے جانے والے‬
‫سے ایسی حرکت کیوں سرذد ہوئی ‪ ......‬اور اسکو اس کی ہمت ہی کیسے ہوئی ‪ .‬وہ مجھے باجی زینت‬
‫کہہ کر پکارتا اور مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں اسے کبھی اپنی جانب غلط نگاہوں سے دیکھتے‬
‫ہوئے پایا ہو ‪ .‬ہوتا ہے جوان آدمی کسی عورت کو دیکھ کر چوری چوری ہی سہی مگر شہوت‬
‫‪ .‬کی نظر سے دیکھ لیتے ہیں ‪ .‬نہیں سمیر کو کبھی ایسی حرکت کرتے میں نے نہیں دیکھا تھا‬
‫مگر اچانک اسے کیا ہوا کہ وہ پاگلوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑا ‪ .‬کیا میرے بدن پر چپکے ہوئے‬
‫گیلے کپڑے جن میں میرا سب کچھ نظر آ رہا تھا حتی کہ میرے نیپلز اور مموں کے ابھار بھی‬
‫‪ .‬عیاں تھے ممکن ہے میری رانوں کی گوالیئوں نے اسکے جنسی جذبات کو برانگیختہ کیاہو‬
‫کیا نادانستگی میں ‪ ,‬میں خود ہی اسکے لئے دعوت گناہ کا پیغام بن گئی تھی ‪. .‬جب اسنے‬
‫مجھے اپنے شکنجے میں جکڑا تھا تو خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے دل میں اس کے لئے‬
‫نفرت کی لہر دوڑ گئی تھی ‪ .‬اور مجھے اپنی بےعزتی کا شدید احساس ہوا تھا‬
‫مجھ پر غصہ کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ گر میرا اس وقت بس چلتا تو میں اسکا قتل بھی کر‬
‫سکتی تھی ‪ .‬مگر اسکی مضبوط گرفت سے نکلنا میرے بس کی بات نہ تھی ورنہ میں نے‬
‫اپنی پوری کوشش کی تھی کہ کسی طرح اس سے دور ہو سکوں ‪ .‬میری بیچارگی کی انتہاء تھی‬
‫جب اس نے میری شلوار میں اس جگه سوراخ ڈھونڈھ نکاال جہاں میرا اپنا سوراخ سامنے تھا‬
‫اور اس کے لئے اپنا ہتھیارمیرے سوراخ میں ڈالنا آسان ہوگیا ‪ .‬میں اپنے گھٹنوں اور دونوں ہاتھوں‬
‫کو زمین پر ٹیکے اس کی گرفت میں گھوڑی بنی ہوئی تھی کہ اس نے ایک زوردار دھکے سے‬
‫اپنا لن میری پھدی میں گھسا دیا مجھے ایسا دھکا لگا کہ میں آگے ہو کےگر گئی اور سینہ زمین پر جا لگا‬
‫سمیر نے اپنے وحشیانہ دھکے مارنے جاری رکھے تو اس کی رگڑ سے مجھے درد ہوتا‬
‫میں درد سے بچنے کے لئے اپنے کولہے تھوڑا اوپراٹھانے لگی جس سے درد میں کمی‬
‫‪ .‬محسوس ہونے لگی ‪ .‬پھر جیسے ہی وہ دھکا لگانے لگتا میں نیچے سے کولہے اوپر اٹھا دیتی‬
‫‪ .‬کچھ دیر بعد مجھے اس کے دھکے اچھے بھی لگنے لگے تھے ‪ .‬مگر میں اس کو اپنا وہم ہی سمجھتی ہوں‬
‫اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے ہسبنڈ کو بیرون ملک گئے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا‬
‫مگر ایسا بھی خوار نہ تھی‬ ‫‪ .‬اور میں اسکی کمی بری طرح محسوس کرتی ہوں ‪.‬‬
‫یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ اسکے دھکے مثالی تھے ‪.‬اور کسی بھی عورت کا ان کے سامنے‬
‫سپر نہ ڈالنا ناممکنات میں سے تھا ‪ .‬مگر میں جو کچھ اسکے دھکے سے محسوس کر رہی تھی‬
‫‪ .‬اور خاموشی سے کولہے اوپر کرتی رہی اسے لذت تسلیم کرنے میں سبکی محسوس کر رہی ہوں‬
‫اس لئے اسے وہم کہنے میں کیا حرج ہے ‪ .‬یہ سوچتے ہوئے مجھے پیاس محسوس ہوئی تو میں نے‬
‫‪.‬ساتھ پڑی ہوئی تپائی پر ہاتھ بڑھا کر پانی کا گالس اٹھایا تو مجھے ہاتھ شلوار سے نکالنا پڑا‬
‫جس پر پر لیسدار چکناہٹ تھی ‪ .‬تو کیا میرا ہاتھ میری ٹانگوں میں کھجاتا رہا اور مجھے احساس‬
‫‪ .‬تک نہ ہوا ‪ .‬میں نے ہاتھ کو سونگھا تو مجھے دوپہر کو جو سمل آئی تھی اس سے ملتی جلتی سمل آئی‬
‫‪ .‬میں نے پانی پیا اور پھر لیٹ گئی ‪ .‬مگر اس بار میں نے دانستہ ہاتھ سے کھجانا شروع کر دیا‬
‫میرا دوسرا ہاتھ خود باخود میرے مموں پر پر جا کے ان سے کھیلنے لگا ‪ .‬مجھے یاد آ گیا جب سمیر‬
‫نے ان کو زور سے دبایا تھا تو میرے منہ سے آہ نکلی تھی میرا منہ اسکے ہاتھ کی زد میں تھا‬
‫تو آواز دب کر رہ گئی تھی ‪ .‬میں شاید اپنی آہ خود بھی نہ سن پائی ہوں ‪ُ .‬م نی کے لبوں پر ہاتھ لگا‬
‫‪ .‬تو میرے منہ سے سی نکل گئی اسکے ظالمانہ جھٹکوں نے ُم نی کے لبوں کو مسل کر رکھ دیا تھا‬
‫اور اب ہاتھ سے ُچ ھونے سے میٹھا میٹھا درد ہوتا تو میرا سمیرکے مونسٹر کی جانب خیال جاتا‬
‫سات انچ سے زیادہ نہیں تو کم نہیں ہوگا اس حرامی کا ٹوپا چوت کے لبوں کو رگڑ کے اندر جاتا‬
‫تو اندر ایک کھلبلی مچ جاتی ‪ .‬حرام کے پلے کا سٹروکنگ انداز بڑا ہی جارحانہ تھا ‪ .‬لگتا تھا کہ‬
‫پیشہ ور رپیسٹ ہو ‪ .‬اسکے سٹروک جو یاد آئے تو مجھے کچھ کچھ ہونے لگا ‪.‬وہ منجھا ہوا کھالڑی‬
‫کاش زبردستی کرنے کے مجھے ویسے کسی طرح ورغالتا اور یہی کروائی صلح جوئی سے ہوتی‬
‫تو کتنا مزہ آتا‪ .‬میں اسے وہ لذت دیتی جو پانچ ماہ سے میں بچا کے رکھی ہوئی ہے ‪.‬مگر اس نے‬
‫اچانک باز کی طرح جھپٹ کر میرا اعتماد مجروح کیا ‪ .‬جس کا مجھے افسوس بھی ہے اور اس پر غصہ‬
‫بھی ‪ .‬مگر اس کے خالف کوئی کاروائی کرنے کے قابل تو میں نہ تھی اور نہ ہی اپنی نند کی دشمنی مول‬
‫لے سکتی تھی ‪ .‬انہی سوچوں میں میری انگلی دانے کو چھیڑتی اور چوت کے لبوں کو چھوتی مجھے خوار‬
‫کرنے لگی ‪ .‬اسکے لن کے خیال اور اسکے سٹروکس کھیلنے کے انداز نے شہوت کی لہر میرے بدن دوڑا دی‬
‫مجھے لن کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی مگر میرے خاوند تو دور ہیں تو کیا کیا جاتا سکتا ہے‬
‫کہ ایک خیال کی لہر سی میرے دماغ میں داخل ہوئی ‪ .‬میں بنا کچھ سوچے اچانک اٹھی اور اپنے آپ کو‬
‫بے لباس کرنے لگی ‪ .‬میں برہنہ کچھ دیر اپنے سراپا کو دیکھتی اور سراہتی رہی اور پھر اپنے ننگے بدن‬
‫‪ .‬کو ایک چادر میں لپیٹ کر کمرے کے دروازے سے باھر جھانکا ‪ .‬باہر ایک ہو کا عالم تھا‬
‫‪ .‬پہلی راتوں کا چاند کب کا ڈوب گیا تھا ‪ .‬ساتھ والے کمرے کی الئٹ آف تھی اور دروازہ بھی بند تھا‬
‫میں کیا کرنے اور کہاں جا رہی تھی میرا یہ خود کو بھی بتانے کا کوئی ارادہ نہ تھا ‪ .‬میں خود سے‬
‫کسی سوال جواب کے لئے تیار نہ تھی ‪ .‬میں کمرے سے باہر نکلی اور دبے پاؤں سیڑھیوں سے‬
‫اوپر دوسرے فلور پر گیسٹ روم کے سامنے جا کھڑی ہوئی ‪ .‬جہاں مجھے ریپ کرنے والے‬
‫‪ .‬سمیر کے خراٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی ‪ .‬میں نے دروازے کو دھکیال تو وہ کھلتا چال گیا‬
‫‪ .‬میں جلدی سے اندر داخل ہوئی اور آہستگی سے دروازے کی چٹخنی لگا دی اور آس پاس کا جایئزہ لیا‬
‫‪ .‬الئٹ آف ہونے کی بدولت کمرے میں اندھیرے کی حکمرانی تھی ہر چیز دھندھلی دھندلی نظرآ رہی تھی‬
‫سمیر سیدھا لیٹے سویا ہوا تھا اور اسکے خراٹوں سے کمرہ گونج رہا تھا ‪ .‬کھڑکیوں کی درزوں سے تھوڑی‬
‫بہت روشنی آتے دیکھ کر میں نے دروازے اور کھڑکیوں کے پردے اچھی طرح کھینچے‬
‫تو کمرہ گھپ اندھیرے کی لپیٹ میں آ گیا ‪ .‬اب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا ‪ .‬میں نے ہولے ہولے‬
‫سمیر کے خراٹوں کی جانب بڑھتے ہوئے اسکے بیڈ کے قریب جا کر اوپر لی ہوئی چادرکو نیچے‬
‫گرایا اور بیڈ پر اسکےپہلو میں لیٹ گئی ‪ .‬تھوڑی دیر بعد جب میرے سانس بحال ہوئے تو میں‬
‫نے اپنے ہاتھ سے اسکی چھاتی کے بالوں کو کھجانا شروع کر دیا ‪ .‬اسنے بنیان یا قمیض نہیں پہنی‬
‫‪ .‬ہوئی تھی ‪ .‬میرے ہاتھوں کی لمس سے اسکی آنکھ کھل گئی اور اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا‬
‫اس نے مجھے فرزانہ سمجھتے ہوئے لپٹا لیا"‬ ‫‪ .‬بھابھی فرزانہ تم یہاں اس وقت کسی کو معلوم ہوا تو ؟"‬
‫یہ سنتے ہی میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تو فرزانہ اپنے دیور سمیر کے ساتھ‬
‫اس سے آگے میں کچھ نہ سوچ سکی ‪.‬میں ننگی تھی تو سمیر کے سینہ سے لگ کر مجھے‬
‫بہت اچھا لگ رہا تھا ‪ .‬میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا اگر سمیر مجھے اپنی بھابھی سمجھ رہا ہے‬
‫‪ .‬تو اسے سمجھنے دو ‪ .‬مجھے تو اسکا مونسٹر چاہیے تھا جو کہ میری رانوں سے ٹکرا رہا تھا‬
‫وہ پھر بوال " بھابھی آج تو تیار ہو کر آئی ہو وہاں تو مجھے تم ترسا ترسا کراور منتیں کروا کے دیتی‬
‫تھیں ‪ .‬کیوں جانو ان دو ہفتوں میں مجھے مس کیا یا نہیں ‪ .‬مس نہ کیا ہوتا یوں رات کے وقت ننگے‬
‫بدن میرے ساتھ تھوڑا لیٹی ہوتی ‪ ".‬سمیر نے بڑے پیار سے کہا تو میں نے اسکے ہونٹوں پر انگلی‬
‫‪ .‬رکھ دی اور اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ‪ .‬میں نے خاموش رہنے کا ارادہ کر لیا تھا‬
‫اس نے پھر بولنا شروع کر دیا ‪ " .‬بھابھی میں نے بھی بہت مس کیا تمھیں دیکھو تو سہی کتنا بیچین‬
‫ہو رہا ہے میرا لن اوہ نہیں تمہارا لن تم اسے اپنا کہتی ہو ناں جانو اسے ٹچ کرو نہ یہ کہتے ہوئے‬
‫اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا ‪ .‬اس نے نیکر پہن رکھی تھی ‪ .‬میں نے تھوڑا اسے دبایا‬
‫وہ پہلے سے ہی تیار تھا ‪ .‬میں نے ہاتھ نیکر کے اندر کر کے اسے پکڑا تو مجھے یاد آ گیا‬
‫آج دن کے وقت یہ میرے اندر زبردستی گھسا تھا یہ سوچتے ہی میرے ہاتھ کا دباؤ بہت بڑھا تو‬
‫"‪.‬سمیر نے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو ہٹا لیا ‪ .‬اور بوال " بھابھی لگتا ہے آج تو اس کو کچا ہی کھا جاؤگی‬
‫میں نے ہش کر کے اسے خاموش رہنے کا کہا اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ‪ .‬اف‬
‫اسکے گرم لبوں کے نرم لمس نے میرے پورے بدن میں شہوت کی لہر دوڑا دی ‪ .‬وہ میرے‬
‫ہونٹوں کو بیدردی سے چوسنے لگا ‪ .‬ہاتھوں سے مموں سے کھیلنے لگا ‪ .‬شکر ہے میری اور فرزانہ‬
‫کی فگر تقریبًا ایک جیسی ہے ‪ .‬اس لئے اسے محسوس نہ ہوسکا ‪ .‬اسکا ہاتھ سرکتے ہوئے نیچے‬
‫‪ .‬گیا اور چوت کو چھوتے ہی بوال " اف بھابھی تم تو پہلے سے گیلی ہو آج تو بہت ہی مزہ آئیگا‬
‫اتنا گرم تو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ‪ " .‬میں نے اس کے ہونٹوں پر پھر انگلی رکھی تو وہ‬
‫‪ .‬جھٹ سے اپنے ہونٹوں میں لے کر اسے چوسنے لگا ‪ .‬مجھے بہت مزہ آنے لگا تھا‬
‫بھابھی آج میں بہت خوش ہوں آج کی رات یادگار رات ہے کہ تم نے خود پہل کی ہے ورنہ مجھ سے "‬
‫ہی منت کرواتی ہو ‪ .‬اتنے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں تمہاری لینے کے لئے ‪ .‬خود ہی تو بوال تھا کہ یہاں‬
‫کچھ نہیں کرنا ‪ .‬میرے آتے ہی بتا دیتی کہ تمہارا چدوانے کا من ہے تو میں آج کوئی اور حرکت نہ کرتا‬
‫وہ مجھے اپنی بھابھی فرزانہ سمجھ کر باتیں کر رہا تھا )‪ .‬وہ شاید میرے ساتھ کرنے کا ذکر کر رہا تھا (‬
‫‪ .‬اور میں فرزانہ بن کر اسکو جواب نہ دے سکتی تھی اس لئے میں اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دیتی‬
‫میں اس کے لن کو مٹھا رہی تھی تو سمیر بوال "بھابھی جس طرح تم اسے مٹھا رہی ہو ایسا نہ ہو‬
‫یہ اپنا مال مواد گرا ہی نہ بیٹھے" ‪ .‬یہ سنتے ہی میں نے اسکا لن ہاتھ سے چھوڑ دیا میں نہیں چاہتی تھی‬
‫چوت میں لئے بنا ہی اسے فارغ کر بیٹھوں ‪ " .‬ارے بھابھی تم تو جانتی ہی ہو اتنا جلدی تھوڑا ہی‬
‫جھڑتا ہے یہ ‪ .‬میں نے تو ویسے ہی کہا کہ جس شوق اور جسس انداز سے تم اسے آج مٹھا رہی ہو‬
‫کہیں رہ ہی نہ جاے ‪ .‬آج تو تم بدلی بدلی سی لگ رہی ہو ‪ ".‬میں نے پھر انگلی اسکے ہونٹوں پر‬
‫رکھ کر اسے خاموش رہنے کو کہا ‪ .‬اور اسکی ناف پر بوسہ دیتے ہوئے میں نے اس کے اکڑ کر کھڑے‬
‫لن کے ٹوپے پر پیار دیا اور اسے چومنے لگی ‪ .‬سمیر بہکتے ہوئے کہنے لگا " اف بھابھی اتنی‬
‫مہربان تم پہلے تو نہ تھی جب تک تو مجھ سے چٹوا نہ لیتی لن کو منہ میں ہی نہ لیتی تھی‬
‫یہ سنتے ہی میں نے اپنی ٹانگیں اسکے سر کی جانب سرکا دیں اور اس نے اپنے لب میری چوت‬
‫پر رکھ دیئے اور اپنی زبان سے اسے چاٹنے لگا ‪ .‬وہ چوت چاٹنا جانتا تھا اور جس طرح سے‬
‫وہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دانے تک چاٹتا اور پھر دانے پر زبان کی نوک سے کھجاتا‬
‫‪ .‬دانے کو ہونٹوں کے درمیان لے کر دباتا تو میری جان نکلنے لگتی اور میں ُد ہری ُد ہری ہو جاتی‬
‫اور میری کمر کو قابو میں رکھنے کے لئے اسے کوشش کرنی پڑتی ‪ .‬وہ پھر بولنے لگا تو میں‬
‫پلٹ کر اسکے سر کی طرف گئی اور اسکے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر اپنی چوت کا لگا رس‬
‫چوسنے الگی ‪ .‬اندھیرے کی بدولت کچھ دیکھنے کے قابل نہ تھی ورنہ میں اسکے تاثرات دیکھ‬
‫پاتی ‪ .‬میں اس پر ہی بیٹھ گئی اور اسکے گیلے لن کو ہاتھ میں کر مسلنے لگی ‪ .‬میری چوت اب‬
‫پھدک پھدک کر لن مانگنے لگی تھی ‪ .‬میں نے اسکے لن پر چوت ٹکا کر دباؤ ڈاال تو وہ چیرتا‬
‫ہوا اخیر تک پہنچ گیا ‪ .‬میں تھوڑی دیر وہیں بیٹھی رہی ‪ .‬اور پھر اسکی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر‬
‫اس پر اوپر نیچے ہونے لگی ‪ .‬میں اپنی مرضی سے آگے پیچھے ہلتی اور اوپر نیچے ہوتی ہوئی‬
‫نئی لذتوں سے لطف اندوز ہوتی اپنے آپ کو جھرنے سے نہ روک پائی ‪ .‬سمیر نے سرگوشی کی‬
‫بھابھی تمہاری چوت اتنی تو ٹائٹ تھی نہ مزیدار سچ بولنا یہاں کسی سے ایسی چودائی سیکھ "‬
‫تو نہیں بیٹھی ہو تو میں نے غصہ سے ایک د و ہتھڑ اسکے سینہ پر مارا اور نیچے ہو کے اسکے‬
‫پہلو میں لیٹ گئی ‪ .‬سچی بات تو یہ کہ میرا کام ہو گیا تھا مگر ابھی سمیر رہتا تھا میں نے اسے اپنے‬
‫اوپر کھینچا ‪ .‬وہ شاید یہی سوچ رہا فورا ہی میری ٹانگوں میں بیٹھ کر اس نے اپنا ٹوپا میری چوت پر‬
‫مسلہ تو میں نے تڑپ کے اپنی ٹانگیں اسکی کمر کے گرد جکڑ لیں اور اس نے پیچھے ہٹ کر‬
‫اک زبردست دھکا لگایا اور اسکے موٹے سر واال لن چوت کے لبوں کو مسلتا اور چوت کی دیواروں‬
‫کو رگڑتا اپنی منزل جا لگا ‪ .‬آج دن کے وقت اسکی انٹری کا انداز یہی تھا مگر صورت حال بدل‬
‫جانے کی بدولت اس وقت وہ مجھے خوشی سے نہال کر گیا ‪ .‬اسنے اپنے سٹروکس کو جاری رکھتے‬
‫ہوئے میرے ہونٹ اور گردن کو چومنا شروع کر دیا ‪.‬جس سے میں مست ہوتی گئی ‪ .‬میں اسکے‬
‫طاقتور سٹروکس کا جواب دیتی رہی ‪ .‬سمیر نے سرگوشی کی " بھابھی اتنے شوق سے‬
‫تو تم نے کبھی نہیں چودوایا ‪ .‬کہیں آج مچھلی تو نہیں کھا لی تو نے "‪ .‬میں نے اسکے ہونٹوں‬
‫کو چوم لیا وہ نادانستگی میں میری تعریف کر رہا تھا ‪ .‬اسکے سٹروکس میں تیزی آتی گئی ادھر‬
‫میرا مزا پھر اٹھنے گا اور چوت کے اندر رس رسنے لگا تو سلیپری سی بن گئی جس سے اسکی‬
‫سپیڈ میں اور اضافہ ہوا میں لذت سے مغلوب ہو کر سر پٹخنے لگی میرے ہاتھ اسکی کمر کھرچنے‬
‫لگے ‪ .‬سمیر کی سانسوں کی آواز سارے کمرے میں سنائی دینے لگی اسکے پسینہ کی بو نے مجھے مدہوش‬
‫کر دیا ‪.‬سمیر آخری سٹروکس کھیلتے هوئے ڈکراتا ہوا مجھ پر ہی گر گیا اور میں بے خودی میں اسے‬
‫‪ .‬چومنے لگی ‪ .‬اس نے مجھے بھر دیا تھا گرم گرم الوے نے مجھے سکوں کی وادی میں پہنچا دیا‬
‫میں کچھ دیر کے لئے غنودگی میں چلی گئی اتنے میں سمیر میرے پہلو میں آ لیٹا ‪ .‬اور مجھے سینہ‬
‫‪ .‬کے ساتھ بھینچ لیا ‪ .‬میری کمر کے پیچھے ہاتھ پھیرتے ہوئے سرگوشی کرتے ہوئے بوال‬
‫بھابھی ان پندرہ دنوں میں ایسی چدائی تم نے کہاں سے سیکھی ‪ ,‬اتنا مزہ تو کبھی نہیں آیا "‬
‫اب روز لیا کرونگا تمہاری گھر میں جا کر " سمیر نے کہا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا‬
‫اور اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے بیڈ سے نیچے اتری اور ٹٹول کر اپنی چادر ڈھونڈھ کر‬
‫اپنے اوپر لے کر دروازے کی چٹخنی کھولنے لگی تو سمیر نے الئٹ آن کر دی مجھے حیرانگی‬
‫میں چٹخنی اتار چکی تھی‬ ‫سے دیکھتے ہوئے اس کے منہ سے " زینت باجی آپ " نکال‬
‫وہ میرے نزدیک تھا ‪ .‬میں نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا اور زناٹے دار تھپڑ اسکے‬
‫‪ .‬گال پر جڑ دیا ‪ .‬اور تھپڑ کی گونج میں اسے ہکا بکا چھوڑ کر دروازہ کھول کے باھر آ گئی‬
‫‪ .‬اور ہولے ہولے بڑے آرام سے چلتے اپنے کمرے میں آئی‬
‫دروازہ بند کر کے میں نے چادر اتار پھینکی‬
‫‪ .‬اور برہنہ ہی بیڈ پر گر گئی‬
‫‪ .‬سمیر کے چہرے پر رسید کئے ہوئے اپنے ہی تھپڑ کی آواز ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی‬
‫‪ .‬میں مسکرا دی اور نیند کی آسودہ آغوش میں ڈوبتی چلی گئی‬
‫ختم شد‬

‫‪© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved‬‬

You might also like