You are on page 1of 126

‫عرفان ستار کی ‪ 43‬غزلیں‬

‫عرفان ستار کی تازہ ترین ‪ 43‬غزلوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کیا جارہا‬
‫ہے۔جلد ہی ان کی غزلوں کا ایک اور انتخاب ان کے مجموعے'تکرارساعت'سے‬
‫بھی اس بالگ پرآجائے گا۔عرفان ستاراردو شاعری میں واقعی اپنی ایک الگ‬
‫پہچان رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کا رنگ ڈھنگ‪ ،‬لہجہ سب کچھ بالکل الگ‬
‫ہے۔ان کی غزلوں پر میں جلد ہی ایک طویل تنقیدی مضمون لکھنے کا بھی ارادہ‬
‫رکھتا ہوں‪ ،‬میں یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ان کے مجموعے کے بعد ان کی‬
‫غزلوں کا کل سرمایہ محض یہ ‪ 43‬غزلیں ہیں۔اس سے احساس ہوتا ہے کہ وہ‬
‫کتنا سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی شناخت ان کے‬
‫معاصرین میں سب سے الگ قائم ہوئی ہے۔یقینا یہ غزلیں آپ کے ذوق کی‬
‫سیرابی میں کسی طور بھی کنجوسی سے کام نہیں لیں گی‪ ،‬کیونکہ ان کا ہر ایک‬
‫شعر‪ ،‬ترکیب اور اپنے اندر زبردست تخلیقی چمک رکھتا ہے۔‬
‫‪-1-‬‬
‫اپنی خبر‪ ،‬نہ اُس کا پتہ ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫جو تھا‪ ،‬نہیں ہے‪ ،‬اور نہ تھا‪ ،‬ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫پہلے جو تھا‪ ،‬وہ صرف تمہاری تالش تھی‬
‫لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫تشکیک ہے‪ ،‬نہ جنگ ہے مابین ِ عقل و دل‬
‫بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫بے حد خوشی ہے‪ ،‬اور ہے بے انتہا سکون‬
‫اب درد ہے‪ ،‬نہ غم‪ ،‬نہ گلہ ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل ِ عشق کی؟‬
‫جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے‪ ،‬یہ ہے خرد‬
‫اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫زیر ِ قبا جو حسن ہے‪ ،‬وہ حسن ہے خدا‬
‫بند ِ قبا جو کھول رہا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض‬
‫اس کی دعا‪ ،‬نہ اس کی دوا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫شفّاف و صاف‪ ،‬اور لطافت میں بے مثال‬
‫سارا وجود آئینہ سا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫یعنی کہ کچھ بھی اُس کے ِسوا سوجھتا نہیں؟‬
‫ہاں تو جناب‪ ،‬مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے‬
‫جو عقل سے بدن کو ملی تھی‪ ،‬وہ تھی ہوس‬
‫جو روح کو جنوں سے مال ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا‬
‫اس کی جزا‪ ،‬نہ اس کی سزا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫سجدے میں ہے جو محو ِ دعا‪ ،‬وہ ہے بے دلی‬
‫یہ جو دھمال ڈال رہا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست‬
‫اِس کی رضا شکست ِ انا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫عرفان ماننے میں ت ٗامل تجھے ہی تھا‬
‫میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے‪ ،‬یہ عشق ہے‬
‫‪-2-‬‬
‫مجلس ِ غم‪ ،‬نہ کوئی بزم ِطرب‪ ،‬کیا کرتے‬
‫آوارہء شب‪ ،‬کیا کرتے‬
‫ِ‬ ‫گھر ہی جاسکتے تھے‬
‫یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رک ّھی‬
‫تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے‬
‫روشنی‪ ،‬رنگ‪ ،‬مہک‪ ،‬طائر ِ خوش لحن‪ ،‬صبا‬
‫تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے‬
‫دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ‬
‫کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے‬
‫بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی‬
‫اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے‬
‫کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا‬
‫ہم زیاں کار تھے‪ ،‬اعالن ِ نسب کیا کرتے‬
‫دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمار ِ جنوں‬
‫جاں بلب تھے‪ ،‬سو ہوئے آہ بلب‪ ،‬کیا کرتے‬
‫تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا‪ ،‬ٹھیک کیا‬
‫ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے‬
‫جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرز ِ سخن‬
‫ان کا اپنا نہ کوئی طور‪ ،‬نہ ڈھب‪ ،‬کیا کرتے‬
‫یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا‬
‫منکر ِ میر بھال تیرا ادب کیا کرتے‬
‫‪-3-‬‬
‫یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں‬
‫مجھے بدن سے نکالو‪ ،‬میں تنگ آگیا ہوں‬
‫کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں‬
‫خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چال گیا ہوں‬
‫مآل ِ عشق ِ اناگیر ہے یہ مختصرا‬
‫میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں‬
‫کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن‬
‫میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آگیا ہوں‬
‫مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں‬
‫بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں‬
‫وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے‬
‫نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتاگیا ہوں‬
‫مجھے بھال نہ سکے گی یہ رہگزار ِ جنوں‬
‫قدم جما نہ سکا‪ ،‬رنگ تو جما گیا ہوں‬
‫سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج‬
‫میں اپنے حال میں سرمست و مبتال گیا ہوں‬
‫مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں‬
‫سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں‬
‫اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا‬
‫جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں‬
‫غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان‬
‫ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں‬
‫‪-4-‬‬
‫کاش اک ایسی شب آئے جب تُو ہو پہلو میں‬
‫سانسیں سانسوں میں مل جائیں‪ ،‬آنسو آنسو میں‬
‫یاد کی لَو سے آئینے کا چہرہ ہو پُرنور‬
‫نہا رہی ہو رات کی رانی خواب کی خوشبو میں‬
‫نیند مری لے کر چلتی ہے شام ڈھلے‪ ،‬اور پھر‬
‫رات الجھ کر رہ جاتی ہے اُس کے گیسو میں‬
‫رہے ہمارے ہونٹوں پر اک نام کا دن بھر ورد‬
‫شب بھر دل کی رحل پہ رکھا اک چہرہ چومیں‬
‫ضو سے جگمگ کرنا ساری رات‬
‫آپ اپنی ہی َ‬
‫دھڑک رہا ہو جیسے میرا دل اِس جگنو میں‬
‫بولتے رہنا ہنستے رہنا بے مقصد بے بات‬
‫جیسے دل آہی جائے گا میرے قابو میں‬
‫ویسے تو اکثر ہوتا تھا ہلکا‪ ،‬میٹھا درد‬
‫اب تو جیسے آگ بھری ہو یاد کے چاقو میں‬
‫ایک دعا تھی جس نے بخشی حرف کو یہ تاثیر‬
‫یہ تاثیر کہاں ہوتی ہے جادو وادو میں‬
‫جب مجھ کو بھی آجائے گا چلنا وقت کے ساتھ‬
‫آجائے گی کچھ تبدیلی میری بھی ُخو میں‬
‫تم کیا سمجھو تم کیا جانو کون ہوں میں کیا ہوں‬
‫وہ اقلیم الگ ہے جس میں ہیں میری دھومیں‬
‫قحط ِ سماعت کے عالم میں یہی ہے اک تدبیر‬
‫خود ہی شعر کہیں اور خود ہی پڑھ پڑھ کر جھومیں‬
‫لوگ ہمیں سمجھیں تو سمجھیں بے حرف و بے صوت‬
‫ہم شامل تو ہو نہیں سکتے ہیں اِس ہا ہُو میں‬
‫جن کے گھر ہوتے ہیں وہ گھر جاتے ہیں عرفان‬
‫آپ بھی شب بھر مت ایسے ان سڑکوں پر گھومیں‬
‫‪-5-‬‬
‫دیکھ مستی وجود کی میری‬
‫تا ابد دھوم مچ گئی میری‬
‫تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے‬
‫کم نہ ہوگی سپردگی میری‬
‫دل مرا کب کا ہو چکا پتھر‬
‫موت تو کب کی ہو چکی میری‬
‫اب تو برباد کر چکے‪ ،‬یہ کہو‬
‫کیا اسی میں تھی بہتری میری؟‬
‫میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟‬
‫یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟‬
‫اب تری گفتگو سے مجھ پہ ک ُھال‬
‫کیوں طبیعت اداس تھی میری‬
‫دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں‬
‫یعنی تکمیل ہو گئی میری‬
‫زندگی کا مآل اتنا ہے‬
‫زندگی سے نہیں بنی میری‬
‫چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے‬
‫کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟‬
‫دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں‬
‫اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری‬
‫اک مہک روز آکے کہتی ہے‬
‫منتظر ہے کوئی گلی میری‬
‫جانے کب دل سے آنکھ تک آکر‬
‫بہہ گئی چیز قیمتی میری‬
‫اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں‬
‫ایسی عادت نہ تھی‪ ،‬کہ تھی میری؟‬
‫رات بھر دل میں ُ‬
‫غل مچاتی ہے‬
‫آرزو کوئی سرپھری میری‬
‫میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا‬
‫شام ِ فرقت اجاڑ دی میری‬
‫پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا‬
‫اب دھڑکتی ہے بے دلی میری‬
‫کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا‬
‫دیکھ‪ ،‬رکتی نہیں ہنسی میری‬
‫خود کو میرے سپرد کربیٹھا‬
‫بات تک بھی نہیں سنی میری‬
‫تیرے انکار نے کمال کیا‬
‫جان میں جان آگئی میری‬
‫خوب باتیں بنا رہا تھا مگر‬
‫بات اب تک نہیں بنی میری‬
‫میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان‬
‫عمر کس نے گزار دی میری؟‬
‫‪-6-‬‬
‫سب پہ ظاہر ہی کہاں حال ِ زبوں ہے میرا‬
‫کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا‬
‫میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو‬
‫ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا‬
‫ٹھہراو بظاہر ہے اذیّت ہے مری‬
‫ٗ‬ ‫یہ جو‬
‫جو تالطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا‬
‫صحراوں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری‬
‫ٗ‬ ‫یہ جو‬
‫دریاوں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا‬
‫ٗ‬ ‫اور‬
‫وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری‬
‫یہ جو سب کو نظر آتا ہے‪ ،‬فسوں ہے میرا‬
‫بیچ میں کچھ بھی نہ ہو‪ ،‬یعنی بدن تک بھی نہیں‬
‫تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا‬
‫راز ِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان‬
‫یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا‬
‫‪-7-‬‬
‫دنیا سے دور ہوگیا‪ ،‬دیں کا نہیں رہا‬
‫اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا‬
‫رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ‬
‫اب رنج صرف قلب ِ حزیں کا نہیں رہا‬
‫دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی‬
‫جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا‬
‫تُو وہ مہک‪ ،‬جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی‬
‫میں وہ شجر‪ ،‬جو اپنی زمیں کا نہیں رہا‬
‫سارا وجود محو ِ عبادت ہے سر بہ سر‬
‫سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا‬
‫کوچہء جنوں‬
‫ِ‬ ‫پاس ِ خرد میں چھوڑ دیا‬
‫یعنی جہاں کا تھا میں‪ ،‬وہیں کا نہیں رہا‬
‫وہ گردباد ِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے‬
‫خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا‬
‫اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا‬
‫گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا‬
‫میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں‬
‫وہ تو کبھی بھی عرش ِ بریں کا نہیں رہا‬
‫ذرہء زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم‬
‫ِ‬ ‫ہر‬
‫دل کو مرے مالل یہیں کا نہیں رہا‬
‫آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکان ِ دل‬
‫اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا‬
‫عرفان‪ ،‬اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے‬
‫گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا‬
‫‪-8-‬‬
‫کہے دیتا ہوں‪ ،‬گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی‬
‫تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی‬
‫بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے‬
‫کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی‬
‫رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر‬
‫اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی‬
‫بس اپنی اپنی ترجیحات‪ ،‬اپنی اپنی خواہش ہے‬
‫تجھے شہرت کمانے کی‪ ،‬مجھے اک شعر کہنے کی‬
‫جہاں کا ہوں‪ ،‬وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو‬
‫یہ دنیا بھی بھال کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟‬
‫جو کل عرفان پر گزری سنا کچھ اُس کے بارے میں؟‬
‫سنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟‬
‫خبر تم نے ُ‬
‫‪--9--‬‬
‫گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں‬
‫چلو اب مان بھی جاو‪ ،‬خدا نئیں‬
‫وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا‬
‫میں سب کچھ جانتا تھا‪ ،‬پر کہا نئیں‬
‫جدا ہونا ہی تھا‪ ،‬سو ہو رہے ہیں‬
‫ذرا سی بات ہے اس کو بڑھا نئیں‬
‫مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا‬
‫مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں‬
‫میں سب کچھ جانتا ہوں‪ ،‬دیکھتا ہوں‬
‫میں خوابیدہ سہی‪ ،‬سویا ہوا نئیں‬
‫نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بالتے‬
‫یہاں آہی گیا ہے اب‪ ،‬تو جا نئیں‬
‫محبت میں بدن شامل نہ ہوتا‬
‫یہ ہم بھی چاہتے تھے‪ ،‬پر ہوا نئیں‬
‫مجھے دیکھو‪ ،‬تو کیا میں واقعی ہوں‬
‫مجھے سمجھو‪ ،‬تو کیا میں جا بجا نئیں‬
‫ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں‬
‫میں جس کو ڈھونڈتا تھا‪ ،‬وہ مال نئیں‬
‫ہمیں مت ڈھونڈ‪ ،‬پر خواہش کیا کر‬
‫ہمیں مت یاد کر‪ ،‬لیکن بھال نئیں‬
‫ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش‬
‫رہین ِ بخشش ِ بند ِ قبا نئیں‬
‫میں ایسا ہوں‪ ،‬مگر ایسا نہیں ہوں‬
‫میں ویسا تھا‪ ،‬مگر ویسا میں تھا نئیں‬
‫عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں‬
‫مگر ہاں‪ ،‬جون سا شاعر ہوا نہیں‬
‫کہیں سبحان ہللا جون جس پر‬
‫وہی عرفان نے اب تک کہا نہیں‬
‫‪-10-‬‬
‫عجب ہے رنگ ِ چمن‪ ،‬جا بجا اُداسی ہے‬
‫مہک اُداسی ہے‪ ،‬باد ِ صبا اُداسی ہے‬
‫نہیں نہیں‪ ،‬یہ بھال کس نے کہہ دیا تم سے؟‬
‫میں ٹھیک ٹھاک ہوں‪ ،‬ہاں بس ذرا اُداسی ہے‬
‫میں مبتال کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں‬
‫میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتال اُداسی ہے‬
‫طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں‬
‫بہت جو پوچھا تو اتنا کہا‪ ،‬اُداسی ہے‬
‫گداز ِ قلب خوشی سے بھال کسی کو مال؟‬
‫عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے‬
‫شدید درد کی رو ہے رواں رگ ِ جاں میں‬
‫بال کا رنج ہے‪ ،‬بے انتہا اُداسی ہے‬
‫فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی‬
‫پس ِ وصال تو اُس سے ِسوا اداسی ہے‬
‫تمہیں ملے جو خزانے‪ ،‬تمہیں مبارک ہوں‬
‫مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے‬
‫چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں‬
‫جھلک رہی ہے جو زیر ِ قبا اُداسی ہے‬
‫مجھے مسائل ِ کون و مکاں سے کیا مطلب‬
‫مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے‬
‫فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیال ہُوا‬
‫زمیں نہیں ہے مرے زیر ِ پا‪ ،‬اُداسی ہے‬
‫غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرم ِ درد‬
‫سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا‪ ،‬اُداسی ہے‬
‫عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال‬
‫عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے‬
‫وہ کیف ِ ہجر میں اب غالبا شریک نہیں‬
‫کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے‬
‫وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان‬
‫ہر ایک شعر میں کیا غم ہے‪ ،‬کیا اُداسی ہے‬
‫‪-11-‬‬
‫راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے‬
‫ایک قصے کی بھال کتنی کہانی کرتے‬
‫حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری‬
‫ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے‬
‫شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ‬
‫خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے‬
‫پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر‬
‫اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے‬
‫ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں‬
‫چشم ِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے‬
‫سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب‬
‫آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے‬
‫درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل‬
‫گھر جو ہوتا تو بھال نقل مکانی کرتے؟‬
‫کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب‬
‫ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے‬
‫سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں‬
‫کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟‬
‫دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح‬
‫یار ِ جانی کو کہاں دشمن ِ جانی کرتے‬
‫شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان‬
‫حرف ِ خوش رنگ کو اندوہ ِ معانی کرتے‬
‫‪-12-‬‬
‫خواب میں کوئی مجھ کو آس دالنے بیٹھا تھا‬
‫جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا‬
‫یونہی رکا تھا دم لینے کو‪ ،‬تم نے کیا سمجھا؟‬
‫ہار نہیں مانی تھی بس سستانے بیٹھا تھا‬
‫خود بھی لہو لہان ہُوا دل‪ ،‬مجھے بھی زخم دیئے‬
‫میں بھی کیسے وحشی کو سمجھانے بیٹھا تھا‬
‫الکھ جتن کرنے پر بھی کم ہُوا نہ دل کا بوجھ‬
‫کیسا بھاری پتھر میں سرکانے بیٹھا تھا‬
‫تارے کرنوں کی رتھ پر الئے تھے اُس کی یاد‬
‫چاند بھی خوابوں کا چندن مہکانے بیٹھا تھا‬
‫نئے برس کی خوشیوں میں مشغول تھے سب‪ ،‬اور میں‬
‫گئے برس کی چوٹوں کو سہالنے بیٹھا تھا‬
‫وہ تو کل جھنکار سے پرکھ لیا اُس گیانی نے‬
‫میں تو پیتل کے سکے چمکانے بیٹھا تھا‬
‫دشمن جتنے آئے ان کے خطا ہوئے سب تیر‬
‫لیکن اپنوں کا ہر تیر نشانے بیٹھا تھا‬
‫قصوں کو سچ ماننے والے‪ ،‬دیکھ لیا انجام؟‬
‫پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا‬
‫مت پوچھو کتنی شدت سے یاد آئی تھی ماں‬
‫آج میں جب چٹنی سے روٹی کھانے بیٹھا تھا‬
‫اپنا قصور سمجھ نہیں آیا جتنا غور کیا‬
‫میں تو سچے دل سے ہی پچھتانے بیٹھا تھا‬
‫عین اُسی دم ختم ہوئی تھی مہلت جب عرفان‬
‫خود کو توڑ چکا تھا اور بنانے بیٹھا تھا‬
‫‪-13-‬‬
‫ایک تاریک خال‪ ،‬اُس میں چمکتا ہُوا میں‬
‫یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں‬
‫شعلہ ِ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ‬
‫ٗ‬
‫اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں‬
‫آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ خود سوز‬
‫اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں‬
‫منتظر ہوں کہ کوئی آکے مکمل کردے‬
‫چاک پر گھومتا‪ ،‬بل کھاتا‪ ،‬درکتا ہُوا میں‬
‫مجمع ِ اہل ِ حرم نقش بدیوار اُدھر‬
‫اور اِدھر شور مچاتا ہُوا‪ ،‬بکتا ہُوا میں‬
‫میرے ہی دم سے ملی ساعت ِ امکان اِسے‬
‫وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں‬
‫بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ‬
‫اور لوگوں کی تو ّجہ سے بدکتا ہُوا میں‬
‫رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر‬
‫اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں‬
‫ایسی یکجائی‪ ،‬کہ مٹ جائے تمیز ِ من و تُو‬
‫مجھ میں ک ِھلتا ہُوا تُو‪ ،‬تجھ میں مہکتا ہُوا میں‬
‫اک تو وہ حسن ِ جنوں خیز ہے عالم میں شہود‬
‫اور اک حسن ِ جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں‬
‫ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ ہجر؟‬
‫آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں‬
‫ہے کشید ِ سخن ِ خاص ودیعت مجھ کو‬
‫گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں‬
‫راز ِ حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے‬
‫خود تک آہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں‬
‫‪-14-‬‬
‫ہوکر وداع سب سے‪ ،‬سبک بار ہو کے رہ‬
‫جانا ہے کب خبر نہیں‪ ،‬تیّار ہو کے رہ‬
‫یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں‬
‫دنیا ہے تیری تاک میں‪ ،‬ہشیار ہو کے رہ‬
‫خطرہ شب ِ وجود کو مہر ِ عدم سے ہے‬
‫سب بے خبر ہیں‪ ،‬تُو ہی خبردار ہو کے رہ‬
‫شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی‬
‫چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ‬
‫کس انگ سے وہ لمس ُکھلے گا‪ ،‬کسے خبر‬
‫تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ‬
‫تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے‪ ،‬تو لے دعا‬
‫جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ‬
‫شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر‬
‫بنیاد ِ خواب ِ ناز میں مسمار ہو کے رہ‬
‫کچھ دیر ہے سراب کی ّ‬
‫نظارگی مزید‬
‫کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ‬
‫اب آسمان ِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ‬
‫اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ‬
‫بس اک نگاہ دُور ہے خواب ِ سپردگی‬
‫تُو الکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ‬
‫وہ زمزمے تھے بزم ِ گماں کے‪ ،‬سو اب کہاں‬
‫یہ مجلس ِ یقیں ہے‪ ،‬عزادار ہو کے رہ‬
‫اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں‬
‫احوال ِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ‬
‫کیسے بھال تُو بار ِ ّ‬
‫مروت اٹھائے گا‬
‫محفل ہے دوستوں کی‪ ،‬سو عیّار ہو کے رہ‬
‫بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل‬
‫بازار ِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ‬
‫فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں‬
‫شاہ ِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ‬
‫تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ‬
‫خود اپنی راہ ِ شوق میں دیوار ہوکے رہ‬
‫لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر‬
‫عرفان‪ ،‬میری مان لے‪ ،‬دشوار ہو کے رہ‬
‫‪-15-‬‬
‫پیارے جدا ہوئے ہیں‪ ،‬چھوٹا ہے گھر ہمارا‬
‫کیا حال کہہ سکے گی‪ ،‬یہ چشم ِ تر ہمارا‬
‫بس گاہ گاہ لے آ‪ ،‬خاک ِ وطن کی خوشبو‬
‫اے باد ِ صبح گاہی‪ ،‬یہ کام کر ہمارا‬
‫ہیں بزم ِ عاشقاں میں‪ ،‬بے وقعتی کے موجب‬
‫سینے میں دم ہمارے‪ ،‬شانوں پہ سر ہمارا‬
‫ہم اور ہی جہاں کے‪ ،‬یعنی کہ المکاں کے‬
‫ہے صرف اتفاقا ‪ ،‬آنا اِدھر ہمارا‬
‫اتمام ِ دل خراشی‪ ،‬اسلوب ِ سینہ چاکی‬
‫اظہار ِ کرب ناکی‪ ،‬بس یہ ہنر ہمارا‬
‫اک سعئ ِ بے مسافت‪ ،‬بے رنگ و بے لطافت‬
‫مت پوچھیئے کہ کیسے‪ ،‬گزرا سفر ہمارا‬
‫پہلے سے اور ابتر‪ ،‬گویا جنوں سراسر‬
‫بتاو پوچھے‪ ،‬کوئی اگر ہمارا‬
‫بس یہ ٗ‬
‫دم سادھنے سے پہلے‪ ،‬چپ سادھ لی گئی ہے‬
‫اظہار ہو چکا ہے‪ ،‬امکان بھر ہمارا‬
‫ایسے نہ آس توڑو‪ ،‬سب کچھ خدا پہ چھوڑو‬
‫اس مشورے سے پہلے‪ ،‬سمجھو تو ڈر ہمارا‬
‫‪-16-‬‬
‫یہ خبر ہے‪ ،‬مجھ میں کچھ میرے ِسوا موجود ہے‬
‫اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے‬
‫ایک میں ہوں‪ ،‬جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں‬
‫ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے‬
‫ہاں خدا ہے‪ ،‬اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں‬
‫اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے‬
‫حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر‬
‫میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے‬
‫تاب آنکھیں ال سکیں اُس حسن کی‪ ،‬ممکن نہیں‬
‫میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے‬
‫رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح‬
‫چاندنی موجود ہے باد ِ صبا موجود ہے‬
‫روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی‬
‫اور وہ حدت بھی جو زیر ِ قبا موجود ہے‬
‫ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم‬
‫ایک کو بہال دیا تو دوسرا موجود ہے‬
‫درد کی شدت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ‬
‫اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے‬
‫معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں‬
‫اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے‬
‫خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ‬
‫صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے‬
‫ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ‬
‫میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے‬
‫یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا‬
‫اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے‬
‫‪-17-‬‬
‫ایک مالل تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے‬
‫شہر ِ وجود سے باب ِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے‬
‫کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے‬
‫آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے‬
‫اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی‬
‫میری طرف اب باد ِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے‬
‫اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا‬
‫ایک جلوس چال جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے‬
‫تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی‬
‫میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے‬
‫حجرہء جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں‬
‫ِ‬ ‫ہاں ویسے تو‬
‫لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے‬
‫درد کی پردہ پوشی ہے سب‪ ،‬کھل جائے گر غور کرو‬
‫آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے‬
‫خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا‬
‫جب سے اُس کا قرب مال ہے ہر احساس مجسم ہے‬
‫اب اظہار میں کوتاہی کی‪ ،‬کوئی دلیل نہیں صائب‬
‫آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے‬
‫شہر ِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان‬
‫ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لہجہ بھی مدھم ہے‬
‫‪-18-‬‬
‫احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھال ہوں میں‬
‫مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں‬
‫خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں‬
‫مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں‬
‫اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں‬
‫اک شہر ِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں‬
‫تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟‬
‫جاوں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟‬
‫پہلے سمجھ تو ٗ‬
‫کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ وران ِ عصر؟‬
‫عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں‬
‫مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند‬
‫مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں‬
‫اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے‪ ،‬تو کیا کہوں‬
‫حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں‬
‫باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی‬
‫اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں‬
‫رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل‬
‫سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں‬
‫ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر‬
‫اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں‬
‫میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا‬
‫اے حسن ِ خود پرست‪ ،‬ترا ائینہ ہوں میں‬
‫جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا‪ ،‬ترا نہ تھا‬
‫اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں‬
‫پہلے میں بولتا تھا بہت‪ ،‬سوچتا تھا کم‬
‫اب سوچتا زیادہ ہوں‪ ،‬کم بولتا ہوں میں‬
‫عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں‬
‫ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟‬
‫‪-19-‬‬
‫سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی‬
‫کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی‬
‫جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم‬
‫جو کج کالہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی‬
‫کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتا‬
‫منافقت کی حمایت‪ ،‬نہیں‪ ،‬کبھی نہیں کی‬
‫دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود‬
‫سو ہم نے ذات کی تفہیم ِ آخری نہیں کی‬
‫اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں‬
‫جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی‬
‫بنام ِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے‬
‫کہ صرف رنج کیا ہم نے‪ ،‬زندگی نہیں کی‬
‫ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولت ِ ہجر‬
‫جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی‬
‫بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز‬
‫ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی‬
‫جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشم ِ غزال‬
‫وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی‪ ،‬نہیں کی‬
‫ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان‬
‫دعائے ردّ ِ انا ہم نے آج ہی نہیں کی‬
‫‪-20-‬‬
‫کس عجب ساعت ِ نایاب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫پھر وہی میں ہوں‪ ،‬وہی ہجر کا دریائے عمیق‬
‫کوئی دم عکس ِ سر ِ آب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہُوا میں‬
‫عشق کے شہر ِ ابدتاب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫میری ہر تان ہے از روز ِ ازل تا بہ ابد‬
‫سر کے لیے مضراب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫ایک ُ‬
‫کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کالم؟‬
‫سایہ ِ مہتاب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫ٗ‬ ‫بے سبب‬
‫ہر گزرتے ہوئے لمحے میں تپکتا ہُوا میں‬
‫درد ہوں‪ ،‬وقت کے اعصاب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫کیسی گہرائی سے نکال ہوں عدم کی عرفان‬
‫کیسے پایاب سے تاالب میں آیا ہُوا ہوں‬
‫‪-21-‬‬
‫ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے‬
‫ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو‪ ،‬وہی پرانے والے‬
‫ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟‬
‫یادیں خواب دکھانے والی‪ ،‬خواب سہانے والے‬
‫کہاں گئیں رنگین پتنگیں‪ ،‬لٹو‪ ،‬کانچ کے بنٹے؟‬
‫اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہالنے والے‬
‫وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر‬
‫وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھالنے والے‬
‫بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں‬
‫ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے‬
‫جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا‬
‫تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے‬
‫تم تک شاید دیر سے پہنچےمرا مہذب لہجہ‬
‫پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے‬
‫ہم جو کہیں سو کہنے دینا‪ ،‬سنجیدہ مت ہونا‬
‫ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے‬
‫اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟‬
‫میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے‬
‫ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟‬
‫مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے‬
‫سفاکی میں ایک سے ہیں سب‪ ،‬جن کے ساتھ بھی جاؤ‬
‫کعبے والے اِس جانب ہیں‪ ،‬وہ بت خانے والے‬
‫میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے‬
‫کفن بنانے والے یا مردے نہالنے والے‬
‫گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم‬
‫اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رالنے والے‬
‫‪-22-‬‬
‫چپ ہے آغاز میں‪ ،‬پھر شور ِ اجل پڑتا ہے‬
‫اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے‬
‫ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری‬
‫ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے‬
‫یاد کا پھول مہکتے ہی نواح ِ شب میں‬
‫کوئی خوشبو سے مالقات کو چل پڑتا ہے‬
‫حجر ِہ ٗٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل‬
‫دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے‬
‫روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ‬
‫دوسری سمت سے جائوں تو ازل پڑتا ہے‬
‫ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری ہر دم‬
‫میری دنیا میں کوئی آج‪ ،‬نہ کل پڑتا ہے‬

‫تاب ِ یک لحظہ کہاں حسن ِ جنوں خیز کے پیش‬


‫سانس لینے سے تو ّجہ میں خلل پڑتا ہے‬
‫مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی‬
‫روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے‬
‫جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی َلو ہے نہ َرو‬
‫دفعتا حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے‬
‫غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان‬
‫نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے‬
‫‪-23-‬‬
‫کوئی مال‪ ،‬تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے‬
‫سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے‬
‫جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی‬
‫نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے‬
‫ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟‬
‫ہوا گلی میں بہت دیر سے ُرکی ہوئی ہے‬
‫تم آگئے ہو‪ ،‬تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے‬
‫ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے‬
‫ہمارا علم تو مرہُون ِ لوح ِ دل ہے میاں‬
‫کتاب ِ عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے‬
‫بناؤ سائے‪ ،‬حرارت بدن میں جذب کرو‬
‫کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے‬
‫نہیں نہیں‪ ،‬میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر‬
‫یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے‬
‫وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی‬
‫تری نگاہ کو پہنچی‪ ،‬تو شاعری ہوئی ہے‬
‫‪-24-‬‬
‫غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں‬
‫سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں‬
‫جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں‬
‫نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں‬
‫نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو‬
‫سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں‬
‫تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں‬
‫تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں‬
‫زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں‬
‫سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں‬
‫سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے‬
‫یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں‬
‫تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے‬
‫سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں‬
‫ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے‬
‫ہمیں کس کے بھروسے پر اکیال کررہے ہیں‬
‫ہمیں روکے ہوئے ہے پاس ِ ناموس ِ محبت‬
‫یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں‬
‫بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن‬
‫ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں‬
‫ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب‬
‫بڑے عرصے سے ہم بھی ترک ِ دنیا کررہے ہیں‬
‫جو ہوگی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم‬
‫ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں‬
‫جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟‬
‫ارے توبہ کریں عرفان‪ ،‬یہ کیا کررہے ہیں؟‬
‫‪-25-‬‬
‫امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا‬
‫اعالن کردیا گیا میری شکست کا‬
‫سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب‬
‫اندازہ ہوگیا ہے ترے ذہن ِ پست کا‬
‫تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب‬
‫سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا‬
‫تُو ہے کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس‬
‫میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہد ِ الست کا‬
‫جس سے گروہ ِ بادہ فروشاں حسد کرے‬
‫شہ اُسی چشم ِ مست کا‬
‫طاری ہے مجھ پہ ن ّ‬
‫جا شہر ِ کم نگاہ میں شہرت سمیٹ لے‬
‫یہ کام ہے بھی تجھ سے ہی موقع پرست کا‬
‫شاہ ِ جنوں کا تخت بچھا ہے بہ اہتمام‬
‫پہلو میں انتظام ہے میری نشست کا‬
‫وسعت ملی ہے ضبط کو میرے بقدر ِ درد‬
‫بولو کوئی جواب ہے اس بندوبست کا؟‬
‫عرفان تیری الج بھی ہللا کے سپرد‬
‫ستّار ہے وہی تو ہر اک تنگ دست کا‬
‫‪-26-‬‬
‫تیرے لہجے میں ترا جہل ِ دروں بولتا ہے‬
‫بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟‬
‫پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح‬
‫جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے‬
‫سننے والوں پہ مرا حال عیاں ہو کیسے‬
‫عشق ہوتا ہے تو وحشت میں سکوں بولتا ہے‬
‫تیرا انداز ِ تخاطب‪ ،‬ترا لہجہ‪ ،‬ترے لفظ‬
‫وہ جسے خوف ِ خدا ہوتا ہے‪ ،‬یوں بولتا ہے؟‬
‫عقل اس باب میں خاموش ہی رہتی ہے جناب‬
‫جب ہو موضوع حقیقت تو جنوں بولتا ہے‬
‫گفتگو کیا ہو کہ جب گویا ہوں آنکھیں تیری‬
‫چپ سی لگ جاتی ہے جب ان کا فسوں بولتا ہے‬
‫کوئی عرفان کو سمجھائے‪ ،‬یہ آشفتہ مزاج‬
‫جاں کا خطرہ ہو تو پہلے سے فزوں بولتا ہے‬
‫‪-27-‬‬
‫اُداس بس عادتا ہوں‪ ،‬کچھ بھی ہُوا نہیں ہے‬
‫یقین مانو‪ ،‬کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے‬
‫ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں‬
‫نتیجتا ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے‬
‫ذرا یہ دل کی امید دیکھو‪ ،‬یقین دیکھو‬
‫میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟‬
‫میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں‬
‫یقینا اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے‬
‫تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟‬
‫جاو تم کوئی مسئلہ نہیں ہے‬
‫نہیں نہیں ٗ‬
‫وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو‬
‫وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک ک ُھال نہیں ہے‬
‫میں بغض‪ ،‬نفرت‪ ،‬حسد‪ ،‬محبت کے ساتھ رکھوں؟‬
‫نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے‬
‫چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا‬
‫یہ میری وحشت کا انخال ہے‪ ،‬خال نہیں ہے‬
‫اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں‬
‫وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے‬
‫لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا‬
‫ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے‬
‫یہ تازہ کاری ہے طرز ِ احساس کا کرشمہ‬
‫مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے‬
‫نیا ہنر سیکھ‪ ،‬فی زمانہ ہو جس کی وقعت‬
‫سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے‬
‫جسے ہو عرفان ِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟‬
‫او ناصحا‪ ،‬چھوڑدے‪ ،‬کوئی فائدہ نہیں ہے‬
‫‪-28-‬‬
‫تمہارا نام سر ِ لوح ِ جاں لکھا ہُوا ہے‬
‫لکھا ہُوا ہے مری جان‪ ،‬ہاں‪ ،‬لکھا ہوا ہے‬
‫لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاض ِ سخن‬
‫حساب ِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے‬
‫نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟‬
‫فصیل ِ شہر پہ شہر ِ اماں لکھا ہُوا ہے‬
‫ملی ہے اہل ِ جنوں کو جہاں بشارت ِ اجر‬
‫وہیں تو اہ ِل خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے‬
‫زمیں بھی تنگ ہوئی‪ ،‬رزق بھی‪ ،‬طبیعت بھی‬
‫مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟‬
‫یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟‬
‫پڑھو تو‪ ،‬لوح ِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے‬
‫تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟‬
‫دکھاو‪ ،‬کہاں لکھا ہوا ہے؟‬
‫ٗ‬ ‫ذرا ہمیں بھی‬
‫یہ کائنات سراسر ہے شرح ِ راز ِ ازل‬
‫کالم ِ حق تو سر ِ کہکشاں لکھا ہوا ہے‬
‫میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود‬
‫میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے‬
‫جو چاہتا تھا میں جس وقت‪ ،‬وہ کبھی نہ ہُوا‬
‫کتاب ِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے‬
‫لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنام ِ خواب ِ وجود‬
‫نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے‬
‫عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان‬
‫حساب ِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے‬
‫‪-29-‬‬
‫کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا‬
‫ہزار زخم سہے‪ ،‬اور دل بڑا رکھا‬
‫چراغ یوں تو سر ِ طاق ِ دل کئی تھے مگر‬
‫تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا‬
‫خرد سے پوچھا‪ ،‬جنوں کا معاملہ کیا ہے؟‬
‫جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا‬
‫ہزار شکر ترا‪ ،‬اے مرے خدائے جنوں‬
‫کہ مجھ کو راہ ِ خرد سے گریزپا رکھا‬
‫خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں‬
‫جو خاک تھا سو اُسے خاک میں مال رکھا‬
‫چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دل ِ تباہ کا حال‬
‫یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا‬
‫وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگ ِ جاں سے‬
‫وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتال رکھا‬
‫بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے‬
‫کسی نے سر پہ تو ّجہ سے ہاتھ کیا رکھا‬
‫سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے‬
‫کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا‬
‫سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے‬
‫تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا‬
‫میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے‪ ،‬وہ ہے ہی نہیں‬
‫سو خود کو خواہش ِ دنیا سے ماورا رکھا‬
‫مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم‬
‫الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا‬
‫خوشی سی کس نے ہمیشہ مالل میں رکھی؟‬
‫خوشی میں کس نے ہمیشہ مالل سا رکھا؟‬
‫یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا‪ ،‬وہ نذر کیا‬
‫مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟‬
‫کبھی نہ ہونے دیا طاق ِ غم کو بے رونق‬
‫چراغ ایک بجھا‪ ،‬اور دوسرا رکھا‬
‫نگاہ دار مرا تھا مرے ِسوا نہ کوئی‬
‫سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا‬
‫تُو پاس تھا‪ ،‬تو رہے محو دیکھنے میں تجھے‬
‫وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا‬
‫ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں‬
‫ہمارے بعد بتا آئنے میں کیا رکھا؟‬
‫ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال‬
‫دیا بجھایا نہیں اور در کھال رکھا‬
‫ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن‬
‫تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟‬
‫مال تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی‬
‫سو ہم نے عشق رکھا‪ ،‬آپ نے خدا رکھا‬
‫خزاں تھی‪ ،‬اور خزاں سی خزاں‪ ،‬خدا کی پناہ‬
‫ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا‬
‫جو ناگہاں کبھی اذن ِ سفر مال عرفان‬
‫تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا‬
‫‪-30-‬‬
‫پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟‬
‫درد ہے‪ ،‬درد بھی قیامت کا‬
‫یار‪ ،‬نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے‬
‫کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟‬
‫اک نظر کیا اٹھی‪ ،‬کہ اس دل پر‬
‫مروت کا‬
‫آج تک بوجھ ہے ّ‬
‫دل نے کیا سوچ کر کیا آخر‬
‫فیصلہ عقل کی حمایت کا‬
‫کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے‬
‫میں بھی کردار ہوں حکایت کا‬
‫آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟‬
‫قتل کردیجیئے روایت کا‬
‫رشتہ ِ باہم‬
‫ٗ‬ ‫نہیں ُکھلتا یہ‬
‫گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟‬
‫تیری ہر بات مان لیتا ہوں‬
‫یہ بھی انداز ہے شکایت کا‬
‫دیر مت کیجیئے جناب‪ ،‬کہ وقت‬
‫اب زیادہ نہیں عیادت کا‬
‫بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟‬
‫شکریہ ہجر کی سہولت کا‬
‫کسر ِ نفسی سے کام مت لیجے‬
‫بھائی یہ دور ہے رعونت کا‬
‫مسئلہ میری زندگی کا نہیں‬
‫مسئلہ ہے مری طبیعت کا‬
‫درد اشعار میں ڈھال ہی نہیں‬
‫فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟‬
‫آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے‬
‫میں کھالڑی نہیں سیاست کا‬
‫رات بھی دن کو سوچتے گزری‬
‫کیا بنا خواب کی رعایت کا؟‬
‫رشک جس پر سلیقہ مند کریں‬
‫دیکھ احوال میری وحشت کا‬
‫صبح سے شام تک دراز ہے اب‬
‫سلسلہ رنج ِ بے نہایت کا‬
‫وہ نہیں قابل ِ معافی‪ ،‬مگر‬
‫کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا‬
‫اہل ِ آسودگی کہاں جانیں‬
‫مرتبہ درد کی فضیلت کا‬
‫اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے‬
‫آنکھ پر بار ہے امانت کا‬
‫اک تماشا ہے دیکھنے واال‬
‫آئینے سے مری رقابت کا‬
‫دل میں ہر درد کی ہے گنجائش‬
‫میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا‬
‫ایک تو جبر اختیار کا ہے‬
‫اور اک جبر ہے مشیّت کا‬
‫پھیلتا جا رہا ہے ابر ِ سیاہ‬
‫خود نمائی کی اِس نحوست کا‬
‫جز تری یاد کوئی کام نہیں‬
‫کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا‬
‫سانحہ زندگی کا سب سے شدید‬
‫واقعہ تھا بس ایک ساعت کا‬
‫ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان‬
‫مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا‬
‫‪-31-‬‬
‫تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی‬
‫تُو جو موجود نہ ہوتا‪ ،‬تو کہاں تھے ہم بھی‬
‫حرمت ِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے‬
‫ورنہ وہ دن بھی تھے جب خواب ِ گراں تھے ہم بھی‬
‫ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر‬
‫مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی‬
‫قصہء پارینہ ہُوا‬
‫ِ‬ ‫اب کہیں کیا‪ ،‬کہ وہ سب‬
‫رونق ِ محفل ِ شیریں سخناں تھے ہم بھی‬
‫وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب‬
‫ورنہ تردید ِ صف ِ کجکلہاں تھے ہم بھی‬
‫رنج مت کر‪ ،‬کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا‬
‫کس قدر واقف ِ آداب ِ فغاں تھے ہم بھی‬
‫تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی‬
‫اپنے قصے میں حدیث ِ دگراں تھے ہم بھی‬
‫کیسی حیرت‪ ،‬جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا‬
‫تُو بھی تحریر نہ تھا‪ ،‬حرف ِ بیاں تھے ہم بھی‬
‫ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے ِسوا‬
‫اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی‬
‫رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں‬
‫ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی‬
‫تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا‬
‫نغمہء جاں تھے ہم بھی‬
‫ِ‬ ‫ہم کو سنتا تو سہی‪،‬‬
‫ہم نہیں ہیں‪ ،‬تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟‬
‫ہم یہاں تھے بھی تو ایسے‪ ،‬کہ یہاں تھے ہم بھی‬
‫‪-32-‬‬
‫بام پر جمع ہوا‪ ،‬ابر ‪ ،‬ستارے ہوئے ہیں‬
‫یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں‬
‫زندگی‪ ،‬ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا‬
‫مشاطہء وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں‬
‫ِ‬ ‫ہم جو‬
‫حوصلہ دینے جو آتے ہیں‪ ،‬بتائیں انھیں کیا؟‬
‫ہم تو ہمت ہی نہیں‪ ،‬خواب بھی ہارے ہوئے ہیں‬
‫شوق ِ واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ‬
‫سو تمہیں خلق کیا‪ ،‬اور تمہارے ہوئے ہیں‬
‫خود شناسی کے‪ ،‬محبت کے‪ ،‬کمال ِ فن کے‬
‫سارے امکان اُسی رنج پہ وارے ہوئے ہیں‬
‫روزن ِ چشم تک آپہنچا ہے اب شعلہ ِء دل‬
‫اشک پلکوں سے چھلکتے ہی شرارے ہوئے ہیں‬
‫کوتاہیء اظہار سے ُچپ‬
‫ِ‬ ‫ڈر کے رہ جاتے ہیں‬
‫ہم جو یک رنگی ِء احساس کے مارے ہوئے ہیں‬
‫ہم کہاں ہیں‪ ،‬سر ِ دیوار ِ عدم‪ ،‬نقش ِ وجود‬
‫اُن نگاہوں کی توجہ نے اُبھارے ہوئے ہیں‬
‫بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے ُروح ِ وصال‬
‫آج ہم پیرہن ِ خاک اُتارے ہوئے ہیں‬
‫‪-33-‬‬
‫ہر ایک شکل میں صورت نئی مالل کی ہے‬
‫ہمارے چاروں طرف روشنی مالل کی ہے‬
‫ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں‬
‫یہی خوشی کی ہے ساعت‪ ،‬یہی مالل کی ہے‬
‫خانہء دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ‬
‫ِ‬ ‫ہمارے‬
‫یہ اور بات کہ ہر شے اُسی مالل کی ہے‬
‫ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر‬
‫کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی‪ ،‬مالل کی ہے‬
‫کسی کا رنج ہو‪ ،‬اپنا سمجھنے لگتے ہیں‬
‫وبال ِ جاں یہ کشادہ دلی مالل کی ہے‬
‫آسودگیء وصل ہمیں‬
‫ِ‬ ‫نہیں ہے خواہش ِ‬
‫جواز ِ عشق تو بس تشنگی مالل کی ہے‬
‫گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا‬
‫کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری مالل کی ہے‬
‫رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیل ِ جنوں‬
‫اگرچہ لہجے میں شائستگی مالل کی ہے‬
‫عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی‬
‫ابھی خوشی کی خوشی تھی‪ ،‬ابھی مالل کی ہے‬
‫یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے باد ِ ُمراد؟‬
‫خبر نہیں ہے اِسے‪ ،‬یہ گھڑی مالل کی ہے‬
‫دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی‬
‫کہ گفتگو میں تو بے پردگی مالل کی ہے‬
‫تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفان‬
‫درون ِ رمز و کنایہ کمی مالل کی ہے‬
‫ُ‬
‫‪-34-‬‬
‫بزعم ِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا‬
‫اک آئنہ تھا‪ ،‬اُسی کو سیاہ میں نے کیا‬
‫یہ شہر ِ کم نظراں‪ ،‬یہ دیار ِ بے ہنراں‬
‫کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا‬
‫حریم ِ دل کو جالنے لگا تھا ایک خیال‬
‫سو ُگل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا‬
‫وہی یقین رہا ہے جواز ِ ہم سفری‬
‫جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا‬
‫بس ایک دل ہی تو ہے واقف ِ رموز ِ حیات‬
‫سو شہر ِ جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا‬
‫ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم‬
‫ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا‬
‫یہ راہ ِ عشق بہت سہل ہوگئ جب سے‬
‫حصار ِ ذات کو پیوند ِ راہ میں نے کیا‬
‫یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے‬
‫ترا ہُوا‪ ،‬نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا‬
‫خرد نے دل سے کہا‪ ،‬تُو جنوں صفت ہی سہی‬
‫نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا‬
‫‪-35-‬‬
‫زندگی کا سفر ایک دن‪ ،‬وقت کے شور سے‪ ،‬ایک پُرخواب ساعت کے بیدار‬
‫ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا‬
‫تم کہانی کے کس باب پر‪ ،‬اُس کے انجام سے کتنی د ُوری پہ ہو اِس سے قطع ِ‬
‫نظر‪ ،‬دفعتا یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا‬
‫بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب‪ ،‬واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن‬
‫مسئلے‪ ،‬ہاتھ باندھے ہوئے‪ ،‬صف بہ صف روبرو آئیں گے‬
‫سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے‪ ،‬سب وہم مر جائیں گے‪ ،‬بد‬
‫گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہوجائے گا‬
‫بے دماغوں کے اِس اہل ِ کذب و ریا سے بھرے شہر میں‪ ،‬ہم سوالوں سے پُر‪،‬‬
‫اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہوگئے‬
‫چند ہی روز باقی ہیں بس‪ ،‬جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی‬
‫جب‪ ،‬یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا‬
‫بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو‪ ،‬وقت‬
‫سا بے غرض کوئی تھا‪ ،‬اور نہ ہے‪ ،‬اور نہ ہوگا کبھی‬
‫تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا‪ ،‬یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ‬
‫اب ختم ہونا ہے‪ ،‬یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا‬
‫کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی‪ ،‬تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے‬
‫دی گئی ہے‪ ،‬کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے‬
‫تم یہ شاید نہیں جانتے‪ ،‬اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی‪،‬‬
‫یہ زمیں ہو نہ ہو‪ ،‬آسماں ختم ہو جائے گا‬
‫‪-36-‬‬
‫ترے جمال سے ہم ُرونما نہیں ہوئے ہیں‬
‫چمک رہے ہیں‪ ،‬مگر آئنہ نہیں ہوئے ہیں‬
‫بر کت‬
‫دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ َ‬
‫وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں‬
‫بتا نہ پائیں‪ ،‬تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم‬
‫بال جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں‬
‫ترا کمال‪ ،‬کہ آنکھوں میں کچھ‪ ،‬زبان پہ کچھ‬
‫ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں‬
‫یہ مت سمجھ‪ ،‬کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں‬
‫ابھی ہم اہل ِ ُجنوں لب ُکشا نہیں ہوئے ہیں‬
‫بنام ِ ذوق ِ سخن خود نمائی آپ کریں‬
‫ہم اِس مرض میں ابھی مبتال نہیں ہوئے ہیں‬
‫ہمی وہ‪ ،‬جن کا سفر ماورائے وقت و وجود‬
‫ہمی وہ‪ ،‬خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں‬
‫خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب‬
‫ُجنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں‬
‫کسی نے دل جو دکھایا کبھی‪ ،‬تو ہم عرفان‬
‫اُداس ہوگئے‪ ،‬لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں‬
‫‪-37-‬‬
‫سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا ُگم ہو گیا ہے‬
‫بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ ُگم ہو گیا ہے‬
‫تمہارے دن میں اک ُروداد تھی جو کھو گئی ہے‬
‫ہماری رات میں اک خواب تھا‪ُ ،‬گم ہو گیا ہے‬
‫وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی‬
‫کہانی میں کہیں وہ ماجرا ُگم ہو گیا ہے‬
‫سجھاؤ‬
‫ذرا اہل ِ ُجنوں آؤ‪ ،‬ہمیں رستہ ُ‬
‫یہاں ہم عقل والوں کا خدا ُگم ہو گیا ہے‬
‫نظر باقی ہے لیکن تاب ِ ّ‬
‫نظارہ نہیں اب‬
‫سخن باقی ہے لیکن مدّعا ُگم ہو گیا ہے‬
‫مجھے دکھ ہے‪ ،‬کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں‬
‫تمہارا اور میرا واقعہ ُگم ہو گیا ہے‬
‫یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی‬
‫یقینا اور کچھ اُس کے ِسوا ُگم ہو گیا ہے‬
‫وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں ک ُھلیں گی‬
‫ہماری زندگی کا وہ ِسرا ُگم ہو گیا ہے‬
‫وہ در وا ہو نہ ہو‪ ،‬آزاد و خود بیں ہم کہاں کے‬
‫پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ ُگم ہو گیا ہے‬
‫‪-38-‬‬
‫نہیں ہے جو‪ ،‬وہی موجود و بے کراں ہے یہاں‬
‫عجب یقین پس ِ پردہ ِء گماں ہے یہاں‬
‫نہ ہو اداس‪ ،‬زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی‬
‫خوشی سے جھوم‪ ،‬ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں‬
‫یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو‪ ،‬وہ کرے‬
‫جو بات سچ ہے وہ ناقابل ِ بیاں ہے یہاں‬
‫نہ رنج کر‪ ،‬کہ یہاں رفتنی ہیں سارے مالل‬
‫نہ کر مالل‪ ،‬کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں‬
‫زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟‬
‫نمو پذیر فقط عہد ِ رفتگاں ہے یہاں‬
‫یہ کارزار ِ نفس ہے‪ ،‬یہاں دوام کسے‬
‫یہ زندگی ہے مری جاں‪ ،‬کسے اماں ہے یہاں‬
‫ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟‬
‫مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں‬
‫چلے جو یوں ہی ابد تک‪ ،‬تو اِس میں حیرت کیا؟‬
‫ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں‬
‫جو ہے وجود میں‪ ،‬اُس کو گماں کی نذر نہ کر‬
‫یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں‬
‫کہا گیا ہے جو وہ مان لو‪ ،‬بال تحقیق‬
‫کہ اشتباہ کی قیمت تو نقد ِجاں ہے یہاں‬
‫‪-39-‬‬
‫شگفتگی سے گئے‪ ،‬دل گرفتگی سے گئے‬
‫ہم آج خلوت ِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے‬
‫گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامراد ِ جنوں‬
‫جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے‬
‫سنا ہے اہل ِ خرد کا ہے دور ِ آئندہ‬
‫یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے‬
‫خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام ِ وصال‬
‫جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے‬
‫ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے ِسوا‬
‫کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟‬
‫مقام کس کا کہاں ہے‪ ،‬بلند کس سے ہے کون؟‬
‫میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے‬
‫ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار‬
‫خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے‬
‫سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعر ِ کرخت نوا‬
‫سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟‬
‫گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں‬
‫مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے‬
‫برائے اہل ِ جہاں الکھ کجکالہ تھے ہم‬
‫گئے حریم ِ سخن میں تو عاجری سے گئے‬
‫یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے‬
‫تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے‬
‫فقیہ ِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ‬
‫اگر سوال اٹھایا‪ ،‬تو زندگی سے گئے‬
‫نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں‬
‫جو آگہی کے سبب عیش ِ بندگی سے گئے‬
‫اٹھاو رخت ِ سفر‪ٗ ،‬آو اب چلو عرفان‬
‫ٗ‬
‫حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے‬
‫‪-40-‬‬
‫بتاوں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں‬
‫کیا ٗ‬
‫ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں‬
‫اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے‬
‫صبح سے رقص کناں باد ِ صبا ہے مجھ میں‬
‫تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی‬
‫غالبا تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں‬
‫ایک ہی سمت ہر اک خواب چال جاتا ہے‬
‫یاد ہے‪ ،‬یا کوئی نقش ِ کف ِ پا ہے مجھ میں؟‬
‫میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے‬
‫میرے حق میں کوئی مصروف ِ دعا ہے مجھ میں‬
‫اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے‬
‫کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں‬
‫اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے‬
‫ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں‬
‫یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب‬
‫یا گرفتار کوئی میرے ِسوا ہے مجھ میں‬
‫آئنہ اِس کی گواہی نہیں دیتا‪ ،‬تو نہ دے‬
‫وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں‬
‫ہوگئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید‬
‫آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں‬
‫مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود‬
‫ہست سے برسر ِ پیکار فنا ہے مجھ میں‬
‫مجلس ِ شام ِ غریباں ہے بپا چار پہر‬
‫مستقل بس یہی ماحول ِعزا ہے مجھ میں‬
‫ہوگئی شق تو باآلخر یہ انا کی دیوار‬
‫اپنی جانب کوئی دروازہ کھال ہے مجھ میں‬
‫خوں بہاتا ہُوا‪ ،‬زنجیر زنی کرتا ہُوا‬
‫کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں‬
‫اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود‬
‫تیرے چھونے سے جو اک پھول ِکھال ہے مجھ میں‬
‫تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدال‪ ،‬مثال‬
‫تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں‬
‫کیسے مل جاتی ہے آواز ِ اذاں سے ہر صبح‬
‫رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں‬
‫کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے ُ‬
‫سود‬
‫ٗآو اب میری طرف ٗآو‪ ،‬خدا ہے مجھ میں‬
‫مجھ میں جنّت بھی ِمری‪ ،‬اور جہنّم بھی ِمرا‬
‫جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں‬
‫روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی‬
‫یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے‪ ،‬یہ کیا ہے مجھ میں؟‬
‫‪-41-‬‬
‫اک خواب نیند کا تھا سبب‪ ،‬جو نہیں رہا‬
‫اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا‬
‫وہ ہو رہا ہے جو میں نہیں چاہتا کہ ہو‬
‫اور جو میں چاہتا ہوں وہی ہو نہیں رہا‬
‫نم دیدہ ہوں‪ ،‬کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت‬
‫چل چھوڑ‪ ،‬تجھ سے کہہ جو دیا‪ ،‬رو نہیں رہا‬
‫یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں‬
‫یہ داغ‪ ،‬سیل ِ گریہ جسے دھو نہیں رہا‬
‫اب بھی ہے رنج‪ ،‬رنج بھی خاصا شدید ہے‬
‫وہ دل کو چیرتا ہوا غم گو نہیں رہا‬
‫آباد مجھ میں تیرے ِسوا اور کون ہے؟‬
‫تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا‬
‫کیا بے حسی کا دور ہے لوگو کہ اب خیال‬
‫اپنے ِسوا کسی کا کسی کو نہیں رہا‬
‫‪-42-‬‬
‫موجہ ِ طرب کیا ہے؟‬
‫ٗ‬ ‫رگوں میں رقص کناں‬
‫اگر خوشی ہے تو کس بات کی‪ ،‬سبب کیا ہے؟‬
‫ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر‬
‫مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟‬
‫مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں‬
‫میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں‪ ،‬کب کیا ہے؟‬
‫نجانے کیا ہے نظر کی تالش ِ ال موجود‬
‫نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟‬
‫یہ جستجو‪ ،‬یہ طلب‪ ،‬یہ جنون و دربدری‬
‫مآل ِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟‬
‫ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں‬
‫خیال کیا تھا‪ ،‬کہا کیا ہے‪ ،‬زیر ِ لب کیا ہے‬
‫میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں‬
‫تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے‬
‫پس ِ زیاں جو در ِ دل پہ میں نے دستک دی‬
‫‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا‪ ،‬کہ ’’اب کیا ہے؟‬
‫‪-43-‬‬
‫اب آ بھی جاؤ ‪ ،‬بہت دن ہوئے ِملے ہوئے بھی‬
‫ب ُھال ہی دیں گے اگر دل میں کچھ ِگلے ہوئے بھی‬
‫ہماری راہ الگ ہے‪ ،‬ہمارے خواب ُجدا‬
‫ہم اُن کے ساتھ نہ ہوں گے‪ ،‬جو قافلے ہوئے بھی‬
‫ہجوم ِ شہر ِ خرد میں بھی ہم سے اہل ِ جنوں‬
‫الگ دِکھیں گے‪ ،‬گریباں جو ہوں ِسلے ہوئے بھی‬
‫ہمیں نہ یاد دالؤ ہمارے خواب ِ سخن‬
‫عمر ہوئے ہونٹ تک ہِلے ہوئے بھی‬
‫کہ ایک ُ‬
‫نظر کی‪ ،‬اور مناظر کی بات اپنی جگہ‬
‫ہمارے دل کے کہاں اب‪ ،‬جو سلسلے ہوئے بھی‬
‫یہاں ہے چاک ِ قفس سے اُدھر اک اور قفس‬
‫سو ہم کو کیا‪ ،‬جو چمن میں ہوں ُگل ک ِھلے ہوئے بھی‬
‫ہمیں تو اپنے اُصولوں کی جنگ جیتنی ہے‬
‫صلے ہوئے بھی‬
‫کسے غرض‪ ،‬جو کوئی فتح کے ِ‬
‫‪-44-‬‬
‫جو بے رخی کا رنگ ب ُہت تیز مجھ میں ہے‬
‫یہ یادگار ِ یار ِ کم آمیز مجھ میں ہے‬
‫سیراب ' ُکنج ِ ذات کو رکھتی ہے مست ِقل‬
‫بہتی ہوئی جو رنج کی کاریز مجھ میں ہے‬
‫کاسہ ہے ایک فکر سے مجھ میں بھرا ہُوا‬
‫اور اک پیالہ درد سے لب ریز مجھ میں ہے‬
‫یہ کرب ِ رائگانیء اِمکاں بھی ہے' مگر‬
‫تیرا بھی اک خیال ِ دل آویز مجھ میں ہے‬
‫تازہ ِکھلے ہوئے ہیں یہ گل ہاے زخم رنگ‬
‫ہر آن ایک مو ِسم ِ خوں ریز مجھ میں ہے‬
‫رکھتی ہے میری طبع َرواں ' باب ِ حرف میں‬
‫یہ مست ِقل جو درد کی مہمیز مجھ میں ہے‬
‫اب تک ہرا بھرا ہے کسی یاد کا شجر‬
‫عرفان ! ایک ّ‬
‫خطہء زرخیز مجھ میں ہے‬
‫‪Tasneef Sayyed‬بذریعہ ‪5th January 2015‬شائع کردہ‬
‫‪: Ghazals Poetry‬لیبلز‬
‫‪0‬‬

‫تبصرہ شامل کریں‬

‫ادبی دنیا‬

‫‪‬‬ ‫‪ Home‬‬


‫‪‬‬ ‫‪Home‬‬
‫‪‬‬ ‫‪Home‬‬
‫‪Aug‬‬
‫‪21‬‬

‫جنگل کا قانون‪ /‬غنی پرواز‬

‫غنی پرواز ‪ 15‬اگست ‪ 1945‬کو پیدا ہوئے تھے۔اس وقت وہ پاکستان میں بلوچستان کے شہر تربت میں مقیم ہیں۔بچپن سے‬
‫ہی ادب کی جانب ان کا رجحان تھا‪ ،‬انہوں نے اپنی اب تک زندگی میں کہانیوں‪ ،‬شاعری‪ ،‬تنقیدی‪ ،‬تحقیق اور دوسرے کئی‬
‫موضوعات سے متعلق قریب سو کتابیں لکھی ہیں‪ ،‬جن میں سے ستائیس شائع ہوچکی ہیں‪،‬انہیں کئی اہم اعزازات سے‬
‫نوازا بھی گیا ہے۔مندرجہ ذیل کہانی اپنے سے زیادہ طاقتور لوگوں میں گھرے ایک ایسے شخص کی داستان ہے‪ ،‬جس‬
‫کی آنکھوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے‪ ،‬خاص طور پر ان آنکھوں کی جن کا عالج کیا جاچکا ہواور جن میں جھلمالہٹ کے‬
‫بجائے حقیقت کو دیکھنے یا دیکھ سکنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہو۔کہانی کا انتخاب 'پاکستانی ادب ‪'2002‬کے نثر‬
‫پرمخصوص شمارے سے کیا گیا ہے۔اکادمی ادبیات ‪ ،‬پاکستان کے ذریعے شائع ہونے والے اس رسالے کے مذکورہ‬
‫)شمارے کو منشا یاد اور محمد حمید شاہد نے ترتیب دیا ہے۔شکریہ!(تصنیف حیدر‬

‫٭٭٭‬

‫دفتر میں داخل ہوت‬

‫‪Aug‬‬
‫‪12‬‬

‫سعادت حسن منٹو کے دو مضامین‬


‫سعادت حسن منٹو کے دو مضامین'عصمت فروشی' اور 'لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں' دو بہت متنازعہ قسم‬
‫کے موضوعات پر لکھے گئے مضامین ہیں۔میں منٹو کی تحریروں کا عاشق ہوں‪ ،‬اسے پڑھتے وقت مجھے جو خوشی‬
‫محسوس ہوتی ہے‪ ،‬وہ بیان سے باہر ہے۔لیکن اس کی اصل وجہ منٹو کی صاف گوئی ہے‪ ،‬وہ بغیر جھجھک کے اپنی‬
‫بات کہتا ہے ۔حاالنکہ ان دونوں مضامین میں سے موخرالذکر کا موقف ‪ ،‬اس کی اپنی زندگی کے انجام کی جانب بھی‬
‫ہمارا دھیان لے جاتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ منٹو کی موت کن وجوہات کی بنا پر ہوئی‪ ،‬ہمیں یہ دیکھنا چا‬

‫‪Aug‬‬
‫‪11‬‬

‫آزادی کے بعد ہندستان میں اُردو زبان و تعلیم کے مطالعے کے چند زاویے‪ /‬رالف رسل‬

‫رالف رسل کا ایک نہایت قابل غور مضمون آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ یہ مضمون ہر اردو جاننے والے شخص‬
‫کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے ہمارے اندر ایک جانب اگر اپنی‬
‫تحسیب کا حوصلہ پیدا ہوگا تو دوسری جانب ہم اس بات کا اندازہ لگانے میں بھی کامیاب ہوں گے کہ جن مسائل کی جانب‬
‫مضمون نگار نے ‪ 1998‬یعنی کہ آج سے قریب اٹھارہ سال پہلے اشارہ کیا تھا ‪ ،‬ہم آج بھی ان سے کس قدر پیچھا چھڑا‬
‫سکے ہیں۔ یہ مضمون ہمارے بہت سے نامور مصنفین و ناقدین کے تعصب اور ان کے خیاالت کی ناپختگی‬

‫‪Aug‬‬
‫‪9‬‬

‫غالم محمد قاصر کی غزلیں‬

‫غالم محمد قاصر (‪)1941-1999‬کی قریب پچاس غزلوں کا انتخاب پیش خدمت ہے۔ غالم محمد قاصر کا شمار اردو کے‬
‫ایسے شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے اسلوب کو ہی اپنی شناخت بنایا۔ عام طور پر ان کی پہچان ان کے ایک شعر کے‬
‫ساتھ مربوط کردی گئی ہے جس کا پہال مصرع ہے ’کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام‘۔کبھی کبھی کسی شاعر کا‬
‫ایک شعر اس قدر مشہور ہوتا ہے کہ اس کا باقی کالم اس شہرت کے دھوئیں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔حاالنکہ ان کا‬
‫کلیات قریب دو ڈھائی سال پہلے ہی شائع ہوچکا ہے اور اس کا بہت غور سے مطالعہ کیے جانے پر معلوم‬

‫‪Aug‬‬
‫‪9‬‬

‫فراق گورکھپوری کی پچاس غزلیں‬

‫فراق گورکھپوری شاید روایتی انداز و اسلوب میں طویل ترین غزلیں کہنے والے ہمارے آخری شاعر تھے۔ ان کے بعد یا‬
‫تو کسی نے اس قدر طویل غزل لکھی نہیں یا لکھی تو اس کی غزل اس قدر جچی نہیں۔ خود نئی نسل کا حال یہ ہے کہ وہ‬
‫سات یا نو شعروں کو بھی طویل غزل سمجھتی ہے۔ یہ تو خیر ہمارے دور اور علم دونوں کی مجبوریاں ہیں کہ ہمیں‬
‫سکڑنا زیادہ پسند ہے‪ ،‬ہم قافیوں کے دوہرانے کی نہ تو سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتے ہیں۔ لیکن فراق‬
‫صاحب کی غزلیں اپنی طوالت اور روایت کی بھرپور شان کے ساتھ ایک بہترین اسلوب کی نمائندہ‬

‫‪Jul‬‬
‫‪29‬‬
‫تمہید و مقدمہ (کلیات غالم عباس)‪/‬ندیم احمد‬

‫تمہید‬

‫غالم عباس کے افسانوں کا پہال مجموعہ’’آنندی‘‘مکتبہ جدید ‪،‬الہور سے پہلی بار اپریل ‪۱۹۴۸‬ء میں شائع ہوا ۔اس کے‬
‫بعد اس مجموعے کی کسی اشاعت کا مجھے کوئی علم نہیں۔ان کا دوسرا مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘جوالئی‪۱۹۶۰‬ء‬
‫میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔اور اس کے متعدد ایڈیشن ‪۱۹۸۰‬ء تک شائع ہوتے رہے۔عباس صاحب کا تیسرا اور آخری‬
‫مجموعہ’’کن رس‘‘دسمبر ‪۱۹۶۹‬ء میں پہلی دفعہ الہور سے شائع ہوا اور اغلب ہے کہ یہ اس کا واحد ایڈیشن تھا۔پاکستان‬
‫میں وقفے وقفے سے ان کے افسانوں کے متعدد انتخابات بھی شائع ہوتے رہے لیکن ہندوستان میں‬

‫‪Jul‬‬
‫‪26‬‬

‫کتاب اور صاحب کتاب‪ /‬اردو ادب‬

‫الف) آخری سواریاں مصنّف‪ :‬سید محمد اشرف‪ ،‬مب ّ‬


‫صر‪ :‬خالد جاوید(‬

‫سید محمد اشرف ہمارے زمانے کے سب سے اچھے فکشن نگاروں میں سے ایک ہیں۔ زبان و بیان پر انھیں جو دسترس‬
‫حاصل ہے وہ انھیں اپنے بیشتر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اپنے ثقافتی‪ ،‬تہذیبی‪،‬‬
‫جغرافیائی اورذہنی ماحول کو جس طرح وہ محسوس کرتے ہیں اور پھر ان تمام محسوسات اور تجربات کو جس خوبی‬
‫کے ساتھ اظہار کے نت نئے سانچوں میں ڈھال دینے پر قادر نظر آتے ہیں‪ ،‬یہ اُن کی ایک غیر معمولی صفت ہے‪ ،‬اس‬
‫کی کوئی دوسری مثال فی زمانہ نظر نہ‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪20‬‬

‫پہال ورق‪/‬اطہر فاروقی‬

‫استا ِد محترم ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی ادارت میں ’اردو ادب‘ کے احیا کے بعد اس کے مندرجات کی زیادہ توجہ‬
‫تنقیدی اور تحقیقی مضامین کی اشاعت پر مرکوز رہی۔ اردو میں تنقید اور تحقیق کا امتیاز اب اس قدر دھندال ہو چال ہے‬
‫کہ اکثر تحریریں تنقید و تحقیق کا ملغوبہ معلوم ہوتی ہیں۔ نئی نسل کے نقادوں میں کم و بیش سب کے سب مشرقی تنقید‬
‫کی روایت سے اس لیے ناواقف ہیں کہ اب فارسی پڑھانے کا باضابطہ نظام یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں تقریبا‬
‫معدوم ہو گیا ہے اور الگ سے فارسی پڑھنا جو ے شیر النے سے کم نہیں۔ایک فیشن کے‬

‫‪Jul‬‬
‫‪15‬‬

‫بورخیس (ایک مضمون اور تین کہانیاں)‪/‬محمود احمد قاضی‬

‫بورخیس ۔ ایک ٹیڑھا لکھاری‬

‫یہ جو دنیا ہے اس میں ہم جیسے بندے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے ہیں اور َمر جاتے ہیں کیوں کہ یہ آتے ہی مرنے‬
‫کے لیے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو ایک شان سے آتے ہیں‪ ،‬زندہ رہنے کے لیے آتے ہیں‪ ،‬وہ زندہ رہتے ہیں اور جب‬
‫مرتے ہیں تو بھی نہیں مرتے کہ ان کا نام ان کا کام ہمیشہ کے لیے وقت کی پیشانی پر ثبت ہو جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو‬
‫وہ دیکھنے میں ہم جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دو کان‪ ،‬ناک‪ ،‬دو آنکھیں‪ ،‬دو پیر‪ ،‬شکم کا ایک دوزخ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے‬
‫لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ذہن کی دولت سے بھی ماال ما‬

‫‪Jun‬‬
‫‪22‬‬

‫وکرم سیٹھ کے ’’یکساں سنگیت‘‘ میں شناخت اورمقام کی سیاست‪/‬اطہر فاروقی‬

‫ہماری نسل کے لیے دنیا کا مطلب جالوطنی ہے‬

‫جو گھر میں آسودہ نہیں ہے‬

‫اورگھر سے دور بے گھر ہے‬

‫‘وکرم سیٹھ ‪’،‬دیوالی‬

‫میں لکھا ہے کہ کس طرح سیٹھ نے )‪ (Blurb‬کے پیپر بیک ایڈیشن کے بلرب ‪ An Equal Music‬وکرم چندر نے‬
‫’انگریزی میں لکھنے والے ہندستانی ادیبوں کے لیے ایک نیا عالقہ تخلیق کیا ہے‘۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ‬
‫میں ملتی ہے۔یہ ]‪ [An Equal Music‬راے اسی بے حیثیت تنقید کے باال دست فرقے کا حصہ ہے جو[سیٹھ کے] ناول‬
‫تنقید خود کتاب پر اس قدر مرکوز نہیں جس قدر اس طریقے پر ہے جس سے مصنف نے انگریزی مینایک دن‬

‫‪Jun‬‬
‫‪17‬‬

‫ریت آئینہ ہے‪/‬محمد انور خالد‬

‫محمد انور خالد کی نظمیں آج ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہورہی ہے۔ابھی کچھ وقت پہلے تک میں‬
‫خود اس قدر عمدہ شاعر سے واقف نہیں تھا۔انہیں زندگی مختصر ملی‪ ،‬مگر ان کی یہ شاندار نظمیں اردو ادب میں اب‬
‫یونہی دائم و قائم رہیں گی اور اپنے حسن اور اپنی ہنرمندیوں سے بہت سے پڑھنے والوں کو اپنا گرویدہ کرتی رہیں‬
‫گی۔ان کا یہ مجموعہ ' ریت آئینہ ہے' جو کہ ذیل میں اپلوڈ کیا جارہا ہے۔پہلی بار 'آج کی کتابیں'کے زیر اہتمام ‪-1993‬‬
‫‪94‬میں شائع ہوا تھا۔بعد میں اس کی دوسری اشاعت اسی اشاعت گھر سے ‪ 2015‬سے کچھ اضافت‬
‫‪1‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪16‬‬

‫حسین عابد کی نظمیں‬

‫گرم راتوں میں جے این یو کی ہوا کھاتے ہوئے ہر ہاسٹل پر جب ہم نے یہ اعالن چسپاں کیا کہ چار جون ‪2015‬کو حسین‬
‫عابد کی نئی کتاب ’بہکتے عکس کا بالوا‘پر ایک پروگرام ہونا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندی۔اردو شاعروں کی ایک محفل‬
‫سجائی جانی ہے تو ہمیں امید نہیں تھی کہ لوگ اس سخت ترین موسم میں ‪ ،‬کیمپس میں چلنے والی چھٹیوں کے باوجود‬
‫اتنی تعداد میں وہاں جمع ہونگے اور کتاب پر مکمل گفتگو سننے کے ساتھ تمام شاعروں کا کالم بھی سنیں گے۔ وجہ یہ‬
‫تھی کہ یہ کوئی نمائشی قسم کا پروگرام نہیں تھا۔ اس میں آنے والے تمام لوگ وہ تھے‪،‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪16‬‬

‫نئے ادبی نظام میں اجارہ داری‪/‬اقبال مجید‬

‫میرے عہد کا ابتدائی دور‬

‫میں نے نصف صدی پیشتر ادب کی دنیا میں باضابطہ قدم رکھا تھا۔ میرے ساتھیوں میں کچھ تو مرکھپ گئے‪ ،‬کچھ تھک‬
‫چکے اور بعض اب بھی تواتر سے نہ سہی‪ ،‬کبھی نہ کبھی لکھ رہے ہیں۔ اپنے دور کے آغاز میں ہم نے تخلیق کے لیے‬
‫ایک بے لوث اور مشفقانہ فضا پائی تھی۔ ادبی اختالفات اس وقت بھی تھے لیکن ان اختالفات کا احترام ہم سب پر اس لیے‬
‫واجب تھا کہ وہ ہماری ادبی تہذیب کا بنیادی جزو تھا۔ اُس وقت کی ذہن ساز شخصیتوں کے نام گنانے کی ضرورت نہیں‬
‫کہ نئے اور پرانے ادیب‪ ،‬سب انھیں جانتے ہیں۔ اُس وقت بھی پر‬

‫‪Jun‬‬
‫‪14‬‬

‫آہنی ارادوں واال مدراراکشس ‪/‬ہمانشو باجپئی‬

‫مدراراکشس کا نام ان لوگوں کے لیے شاید اجنبی نہ ہو جنہوں نے اجمل کمال کے رسالے آج میں ان کی کہانیاں پڑھ‬
‫رکھی ہوں۔ہم بہت جلد بلکہ کچھ ہی روز میں ان کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے آڈیو یا بالگ کی صورت میں پیش کریں‬
‫گے۔مگر ہمانشو باجپئی کا یہ مختصر سا مضمون جو 'کیچ نیوز'کے لیے لکھا گیا ہے‪ ،‬بہت کمال ہے اور اس اہم افسانہ‬
‫نگار کی زندگی‪ ،‬اندازو اطوار اور قابل مطالعہ کاموں کے بارے میں بہت اہم جانکاریاں دیتا ہے۔ہندی اور اردو کے‬
‫لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان فاصلہ کم ہونا چاہیے۔اس کے لیے ہمیں باقاعدہ کوئی پلیٹ‬

‫‪Jun‬‬
‫‪13‬‬

‫شکاری‪/‬انتون چیخوف‬

‫مرطوب‪ ،‬حبس آلود دوپہر۔ آسمان پر بادل کی کترن تک نہیں۔ ۔ ۔ دھوپ میں پکی ہوئی گھاس تھکی ماندی‪ ،‬مایوس دکھائی‬
‫دے رہی ہے‪ ،‬جیسے اگر بارش ہو بھی جائے تب بھی یہ کبھی سرسبز نہیں ہو سکے گی۔ جنگل خاموش‪ ،‬ساکت کھڑا‬
‫ہے‪ ،‬جیسے درختوں کے اوپر سے کسی کی راہ تک رہا ہے‪ ،‬یا اسے کسی بات کی امید ہے۔‬

‫میدان کے کنارے پر ایک لمبا تڑنگا‪ ،‬تنگ شانوں واال مرد‪ ،‬جس کی عمر ‪ 40‬کے قریب ہو گی‪ ،‬اس نے سرخ قمیص اور‬
‫پیوند لگی پتلون پہن رکھی تھی جو کسی زمانے میں کسی زمیندار کی رہی ہو گی۔ اس کے پاؤں میں لمبے بوٹ تھے اور‬
‫وہ سست روی سے قد‬

‫‪Jun‬‬
‫‪12‬‬
‫چیخوف کو کیسے پڑھیں‪/‬کیتھی پاپکن‬

‫کیتھی ایل پاپکن کولمبیا یونیورسٹی کے سالوی زبانوں کے شعبہ کی پروفیسر ہیں۔انہوں نے چیخوف کی کہانیوں کا ایک‬
‫انتخاب ان پر لکھے ہوئے مختلف اہم تنقیدی مضامین کے اقتباسات کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔جس کا تعارف یہاں آپ کے‬
‫مطالعے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔کیتھی نے اس میں بہت اہم باتیں کی ہیں۔ہم یوم چیخوف کی ابتدائی منزل پر یہ‬
‫ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر اس اہم مصنف کو پڑھنے کا طریقہ کیا ہو‪ ،‬یا کسی بھی اہم رائٹر کو پڑھنے کابہتر طریقہ‬
‫کیا ہوسکتا ہے‪،‬اور پھر اس پر غور کریں کہ ایسے مصنفین کو پڑھنے کا کوئی اصول یا کوئ‬

‫‪Jun‬‬
‫‪8‬‬

‫کچھ ابن خلدون کے بارے میں‪/‬محمد کاظم‬

‫ابن خلدون کے بارے میں ہمارے ہاں عام تعلیم یافتہ لوگ بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ مسلم دنیا کا ایک نام ور مؤرخ تھا۔ البتہ‬
‫کچھ زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ‪ ،‬جو تعداد میں یقینا کم ہے‪ ،‬اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ صرف مؤرخ ہی نہیں تھا بل کہ فلسفۂ‬
‫علوم عُمرانی‬
‫ِ‬ ‫کا ایک پیش َرو مفکر بھی تھا۔ آج مشرق و مغرب میں اس کی جو )‪ (Social Science‬تاریخ کا ُموجد اور‬
‫شہرت ہے اورعالمی فکر کی دُنیا میں اسے جو اونچا مقام حاصل ہے وہ اس کی اسی دوسری حیثیت کی وجہ سے ہے۔‬

‫ابن خلدون نے ایک طویل عمر پانے کے بعد ‪۱۴۰۶‬ء میں قاہرہ میں انتقال‬
‫‪1‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪2‬‬

‫کلیات غزلیات ولی‬

‫ولی دکنی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ اردو کے پہلے ایسے شاعر ہیں‪ ،‬جن کی زبان اور اسلوب نے اردو غزل کے‬
‫ابتدائی نقوش پر زبردست اثر ڈاال۔ولی کی غزلیں‪ ،‬جب ان کے دیوان کے ساتھ دہلی پہنچیں تو لوگ گلیوں میں اسے گاتے‬
‫پھرے‪ ،‬شاعروں نے اس کے طرز میں طبع آزمائی کی اور اس طرح تتبع کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا‪ ،‬جس کو اس‬
‫وقت کے مشہور شاعر اور پیشے سے داروغہ مطبخ شیخ ظہور الدین حاتم نے بھی اپنایا اور ایک پورا دیوان‪ ،‬اسی طرز‬
‫میں لکھا۔ دیوان ولی میں موجود ولی دکنی کی ان غزلیات کے بارے میں کہا جاتار ہا ہے کہ انہیں یہ‬
‫‪1‬‬

‫‪May‬‬
‫‪30‬‬

‫ابرار احمد کی نظمیں‬

‫ابرار احمد‪ ،‬جدید اردو نظم کی ایک بہت اہم آواز ہیں۔ ان کے یہاں نظم کی بنت کے بہت اچھے اور انوکھے طریقے ہمیں‬
‫دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات زندگی میں مختلف راستوں سے در آنے والے گہرے جذبوں اور رویوں پر مشتمل‬
‫ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی نظم پڑھتے وقت اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس متن کی تخلیق کے لیئے نظم کے خالص‬
‫رومانوی مزاج اور دنیا کے غیر جمالیاتی ‪ ،‬سفاک اور کثیف رویوں کو آپس میں گوندھ کر دیکھنے کا فن آنا چاہیئے۔ اسی‬
‫کے ساتھ ساتھ انسان کے گہرے دکھ اور عشق کے ال متناہی سکھ کو انہوں نے کئی مقامات پر مدغم کر‬
‫‪2‬‬

‫‪May‬‬
‫‪29‬‬

‫زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ‪/‬خالد جاوید‬

‫ہم ایک سانپ بنانا چاہتے تھے۔ یا وہ ایک نقطہ تھا جو سانپ ہوجانا چاہتا تھا مگر راستے میں اس نے اپنا ارادہ بدل دیا‬
‫اور اپنی سمت بدل دی۔‬

‫اب وہ کچھ اور ہوگیا ہے۔ اپنے ادھورے پن میں معلق ‪،‬ہوا میں اِدھر اُدھر ڈولتا ہوا‬

‫)کلیشمے(‬

‫پیٹ میں کسی طوفان کی طرح لگاتار بڑھتے ہوئے تیز درد سے حواس باختہ ہوتے ہوئے‪ ،‬اس نے پہلے تو سڑک کے‬
‫ایک طرف دوڑ لگائی‪ ،‬پھر خطرناک ٹریفک کی کوئی پرواہ کیے بغیر‪ ،‬سڑک کے اُس پار‪ ،‬دوسری طرف۔ اس پار بھی‬
‫بہت دور تک دوڑا۔ یہاں بھی وہی جگمگاتا ہوا بازار‪ ،‬صاف ستھری دوکانیں اور خوبصورت چم‬

‫‪May‬‬
‫‪28‬‬

‫شفق شجر‪/‬کلیات بانی۔‪3‬‬

‫کو ملتان میں پیدا ہونے والے راجیندر منچندا بانی کا یہ تیسرا شعری مجموعہ شفق شجر ادبی دنیا پر ‪1932‬نومبر ‪12‬‬
‫اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ اس مجموعے میں کچھ ایسی غزلیں بھی شامل تھیں‪ ،‬جو کہ پچھلے مجموعوں میں موجود رہ چکی‬
‫ہیں‪ ،‬چنانچہ ان کو نکال دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کو یہ پیشکش ضرورپسند آئے گی۔ بانی کی شاعری پر جلد ہی ہم کچھ‬
‫اہم ادیبوں سے گفتگو بھی کروائیں گے اور انہیں ادبی دنیا پر اپلوڈ کریں گے۔ غزل میں نئے انوکھے موڑ بدلنے اور پیدا‬
‫کرنے پر قادر اس شاعر کو تمام لوگوں تک یونی کوڈ میں پہنچادینے سے اب کم از‬

‫‪May‬‬
‫‪26‬‬

‫حساب رنگ‪/‬کلیات بانی۔‪2‬‬

‫منچندا بانی کو اپلوڈ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس کلیات کا یہ دوسرا حصہ یعنی کہ بانی کا دوسرا شعری مجموعہ 'حساب‬
‫رنگ' یہاں اپلوڈ کیا جارہا ہے۔بانی کی شاعری کے تعلق سے کل میں نے یہ بات کہی تھی کہ ان پر کوئی ڈھنگ کا‬
‫تنقیدی مقالہ میں نے نہیں دیکھا۔ کچھ دوستوں نے فاروقی اور نارنگ کا حوالہ دیا۔شمس الرحمٰ ن فاروقی کا مضمون میں‬
‫نے پڑھا ہے اور نارنگ کی تحریر بھی نظر سے گزری ہے۔ لیکن یہ دونوں مضامین مجھے پسند نہیں ہیں‪ ،‬یہ بانی کے‬
‫تعلق سے نہایت سرسری قسم کی تحریریں ہیں‪ ،‬میں چاہتا ہوں کہ ان تمام شاعروں پر جن کے ت‬

‫‪May‬‬
‫‪25‬‬
‫حرف معتبر‪/‬کلیات بانی۔‪1‬‬

‫اردو کے بے حد اہم شاعر منچندا بانی کا کالم صحیح معنوں میں اب تک بہت سے پڑھنے والوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔‬
‫اب ہم ان کی کلیات جس میں ان کے تین شعری مجموعے 'حرف معتبر'‪' ،‬حساب رنگ' اور'شفق شجر' ادبی دنیا پر اپلوڈ‬
‫کرنے جارہےہیں۔اس طور ایسے عظیم شاعر کو کم از کم اردو والے دوبارہ یاد کریں اور شاعری کے ایک بالکل الگ‬
‫اور انوکھے ڈھنگ کو پڑھ کر دیر تک اپنا سر دھنیں۔ بانی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اول تو انہیں بہت زیادہ پڑھا نہیں گیا‪،‬‬
‫دوسرے ان کے کالم پر کہیں کہیں سے تبصروں اور واہ واہی کے چھینٹے ضرور چھڑکے گئے ل‬

‫‪May‬‬
‫‪24‬‬

‫سر آسماں‘کی وزیر خانم کی اصل حقیقت اورگورکھ دھندے سے فکشن کی نجات‪/‬اطہر‬
‫کئی چاند تھے ِ‬
‫فاروقی‬

‫انیسویں صدی کی دلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے‪،‬بہت کچھ بھال دیا گیا ہے اوربہت کچھ مٹا بھی دیا گیا ہے۔‬
‫ماضی کو حال میں متشکل کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کی ذکاوت درکار ہے جو بہ یک وقت ’اندر کا نقاد‘ اور‬
‫سر آسماں جیسا بیانیہ لکھ سکتے تھے ‪ ،‬جو نہ صرف بے عیب ہے‬ ‫مورخ ہو ۔ شمس الرحمن فاروقی ہی کئی چاند تھے ِ‬
‫بلکہ نہایت تفصیل کے ساتھ اور لطافت سے گھڑاگیاہے۔ فاروقی نے مگر مچھوں کے اس تاالب میں گہر ااور پراعتماد‬
‫غوطہ لگا کر‪...‬جسے ہم میں سے اکثر انیسویں صدی کی دلی کے شب وروز سمجھتے ہیں‪...‬ہمیں ایک ایسی کہ‬
‫‪1‬‬

‫‪May‬‬
‫‪16‬‬

‫اسد محمد خاں کا تازہ ترین انٹرویو‪/‬رفاقت حیات‬

‫اسد محمد خاں صاحب نے جب مجھے فون پر اپنا پتہ بتایا تو میں ’’ واجد اسکوائر‘‘ کا نام سن کر چونکا۔ واجد اسکوائر۔‬
‫مجھے یاد آیا کئی برس پہلے اردو ادب کے نقاد اور افسانہ نگار شہزاد منظر اور مایہ ناز شاعر‪ ،‬نقاد اور ریڈیو‬
‫براڈکاسٹر حمید نسیم بھی تو اسی واجد اسکوائر میں رہا کرتے تھے اور تب میں ان سے ملنے وہاں جایاکرتا تھا۔اسی لئے‬
‫میں نے اسد محمد خان صاحب سے فورا کہہ دیا۔ یہ جگہ میری دیکھی بھالی ہے۔میں باآسانی پہنچ جاؤں گا۔‬

‫اسد محمد خاں صاحب سے انٹرویو کے لیے اتوار کا دن اور گیارہ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔‬
‫‪1‬‬

‫‪May‬‬
‫‪15‬‬

‫باقیات‪/‬کلیات ثروت حسین۔‪4‬‬

‫ثروت حسین کے کلیات کی یہ چوتھی اور آخری پوسٹ اپلوڈ کی جارہی ہے‪ ،‬اس میں ثروت حسین کا غیر مطبوعہ کالم‪،‬‬
‫گوشہ عقیدت اور کالج کے ایام میں ان کی گئی شاعری پر مشتمل ایک مختصر سا مجموعہ نئے دن کا سورج شامل ہیں۔‬
‫ثروت حسین کی شاعری اب انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں موجود ہے۔ ادبی دنیا نے کوشش کی ہے کہ ایسا معیاری ادب جو‬
‫کہ بے حد اہم ہو اور جسے لوگ پڑھنا‪ ،‬جاننا چاہتے ہوں اور کتاب کی صورت میں انہیں میسر نہ آپارہا ہو‪ ،‬اس طور مل‬
‫جائے۔ بہت سے افراد پی ڈی ایف کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ سارا کالم یونی کوڈ میں م‬
‫‪1‬‬

‫‪May‬‬
‫‪14‬‬

‫ایک کٹورا پانی کا‪/‬کلیات ثروت حسین۔‪3‬‬

‫)شمائلہ ثروت کے نام(‬

‫تعمیر کی بنیاد میں دل رکھا ہے میں نے‬

‫ہم لوگ اٹھائیں گے مکاں اور طرح کا‬

‫سمندر سے ایک کٹوراپانی‬

‫ایک عمر اوراپنی نسل کا سب سے بڑا شاعرثروت حسین۔سچا شاعراورانوکھا شاعر ۔ میں قلندرانہ نثرلکھنے کا احساس‬
‫رکھتا ہوں مگر ثروت ایسے لوگوں میں سے ہے جن کے لیے لکھتے ہوے میری تخلیقی بے‬
‫قراری‪،‬سرشاری‪،‬شکرگزاری اور انکساری میری اپنی مٹی میں مل جاتی ہے اورمیں اس کی شاعری پڑھنے لگتاہوں‬
‫۔ایسا میں کئی بارکرچکاہوں ۔ اس کی شاعری میری ہمت بندھاتی ہے۔ یہ مطالعہ ایک رفاقت جیسا ہے۔ اس کے ساتھ‬
‫میری ر‬

‫‪May‬‬
‫‪13‬‬

‫خاکدان‪/‬کلیات ثروت حسین۔‪2‬‬

‫ثروت حسین کا یہ دوسرا مجموعہ کالم‪ ،‬ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ خاکدان نامی اس مجموعے میں غزلیں اور‬
‫نظمیں دونوں موجود ہیں۔غزلوں کا اسلوب نہایت الگ اور دلچسپ ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غزلوں کو پڑھ کر شاعر‬
‫کے یہاں موجود کسی خاص قسم کے نظریے کو قائم کیا جائے‪ ،‬کیونکہ اکثر شاعر غزل کی دیرینہ اور پکی پکائی‬
‫شعریات سے کام چال کر خود کی ہی تردید اور تائید کرتا رہتا ہے اور مضمون آفرینی کے چکر میں کبھی ادھر کی ہانکتا‬
‫ہے‪ ،‬کھی ادھر کی لیکن ثروت کےیہاں ایسا نہیں ہے‪ ،‬ان کے یہاں دنیا کو سمجھنے‪ ،‬اسے جاننے او‬

‫‪May‬‬
‫‪11‬‬

‫آدھے سیارے پر‪ /‬کلیات ثروت حسین۔‪1‬‬

‫عصر تارا‬

‫میر کے ساتھ سرسوں کے پھول کو بھی اپنا ہم عصر مان لیا۔ زرد پھول‬
‫کاظمی نے ؔ‬
‫ؔ‬ ‫ہم عصروں کی بات ہوئی تو ناصر‬
‫ناصر کو مہذب اداسی کی کوئی ایسی کیفیت نظر آئی ہوگی جس کا رشتہ ان کی‬
‫ؔ‬ ‫میں‬ ‫کی دھوپ میں چمکتی ہوئی پتیوں‬
‫ہوگا۔ناصر کی پیروی میں جب میں اپنے ہم عصر تالش کرتا ہوں تو جی چاہتا ہے‬
‫ؔ‬ ‫شاعری کے نازک لہجے سے ملتا‬
‫کسی پرندے کو یا کسی شجر کو اپنا معاصر کہہ دوں مگر ان سے بھی پہلے ایک تارا میرا ہم عصر ہے۔ فلک کی دھندلی‬
‫نیالہٹ میں سلگتا ہوا تارا‪ ،‬کسی دوست کی تسلی کی طرح‪ ،‬کسی امکان کی طرح‪ ،‬شاعری کے کس‬

‫‪May‬‬
‫‪8‬‬

‫آپ کا کافی ہائوس‪/‬محمد خالد اختر‬

‫ہاوس‘‘ کے بند ہونے کے کوئی دو ہفتے بعد سونادر میں‬ ‫بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ’’انڈیا کافی ٔ‬
‫ہاوس کی زندگی چراغِ‬ ‫معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کافی ٔ‬
‫ِ‬ ‫ہاوس‬
‫عبدالغفورالنڈری ورکس کی بغل میں ایک نیا کافی ٔ‬
‫سحری کی طرح بہت مختصر تھی اور یہ ایک کمزور دیے کی مانند چند ہی روز ٹمٹما کر ہمیشہ کے لیے ُگل ہو گیا۔ میں‬
‫پس پردہ‪ ،‬اصل کہانی سننا چاہیں گے۔‬‫ہاوس کی ِ‬ ‫اس افسوسناک واقعے میں ایک اہم کردار تھا۔ شاید آپ اس کافی ٔ‬

‫جب میں ایک روز شام کو چچاعبدالباقی سے گپ شپ کی خاطر اس کے گھر پر گیا تو میں نےاسے ہمیشہ‬

‫‪May‬‬
‫‪3‬‬

‫یہودیت کا مذہبی ارتقا‪/‬برٹرینڈ رسل‬

‫کا ترجمہ فلسفہ مغرب کی تاریخ کے نام سے پروفیسر ‪ A History of Western Philosophy‬برٹرینڈرسل کی کتاب‬
‫محمد بشیر نے کیا ہے۔یہ ترجمہ کردہ کتاب پہلی بار ‪ 2005‬میں شائع ہوئی اور اس کا دوسرا ایڈیشن بھی ‪ 2010‬میں‬
‫پورب اکادمی ‪ ،‬اسالم آباد سے شائع ہوا ‪ ،‬جبکہ رسل کی یہ کتاب دوسری جنگ عظیم کے دوروان ‪ 1945‬میں منظر عام‬
‫پر آئی تھی۔برٹرینڈر رسل کی فکریات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ا س کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔حاالنکہ بشیر‬
‫صاحب کا ترجمہ تھوڑا بھاری بھرکم ہے‪ ،‬لیکن ذرا سی محنت سے آپ کو باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں۔میں ن‬

‫‪May‬‬
‫‪2‬‬

‫سنگ صبور‪/‬عتیق رحیمی‬

‫تعارف‬

‫کابل کے ایک سینئر پبلک سرونٹ کے گھر میں ‪ 1962‬میں جنمے عتیق رحیمی کی ابتدائی تعلیم ’لیسے استقالل‘ میں‬
‫ہوئی۔ افغا نستان میں سوویت روس کی مداخلت کے بعد انھیں ایک سال کے لیے پاکستان میں پناہ لینی پڑی‪ ،‬اور پھر‬
‫‪ 1985‬میں انھیں فرانس میں سیاسی پناہ مل گئی۔‬

‫سوربون میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد رحیمی نے فلم نگاری‪ ،‬فلم سازی‪ ،‬فوٹوگرافی اور ہدایت کاری کو اپنے کرئیر‬
‫کے طور پر چنا۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے لکھنا شروع کیا اور دری (فارسی) میں ان کی پہلی تخلیق خاکستر و خاک‬
‫سنہ ‪ 2000‬میں شائع ہوئی جو جلد ہی ی‬

‫‪Apr‬‬
‫‪28‬‬

‫ہند و پاکستان میں معاصر اردو زبان و ادب اور مسلم اساس پرستی‬

‫‪:‬ابتدائیہ‬

‫زبان اردو ہندو پاکستان کے درمیان کسی قسم کا‬


‫ِ‬ ‫اس مقالے کا موضوع اِس امر پر مبنی ہے کہ اپنی موجودہ شکل میں‬
‫کوئی مثبت رول ادا نہیں کرسکتی۔ آئندہ سطور میں اس سیاسی و سماجی صور ِ‬
‫ت حال کا تجزیہ کرکے نتائج کا استنباط کیا‬
‫ت حال ہر دو‬ ‫جائے گا جس کے سبب ہندستان میں اردو سے اس قسم کی توقع کرنا دانش مندی نہیں۔ یہ سیاسی صور ِ‬
‫زیراثر نہ صرف ماضی میں پروان چڑھی‪ ،‬بلکہ اس کا حال بھی مسلم شناخت کے ان‬ ‫ممالک میں مسلم اساس پرستی کے ِ‬
‫ٓ‬
‫برصغیر ہند و پاکستان کی مسلم ابادی کو اپنی‬ ‫سوالوں ہی کے گرد گھومتا ہے جو ِ‬

‫‪Apr‬‬
‫‪27‬‬

‫اردو فکشن کے ناگزیر طور پر قاب ِل مطالعہ ادیب اور ان کی کتابیں‪/‬رفاقت حیات‬

‫!ڈیئر تصنیف حیدر‬

‫آپ نے پوچھا ہے کہ طلبا اور اردو کے شائقین کو فکشن کی کون سی کتابیں اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور‬
‫پڑھنی چاہئیں؟میں اس کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔سب سے پہلے اردو فکشن کا ذکر کرنا چاہوں گااور‬
‫اس میں اولین رتن ناتھ سرشار کے فسان ِہ آزاد کا ذکر ہونا چاہیے‪ ،‬جو آزاد اور خوجی کے کارناموں سے آراستہ ایک‬
‫بہت ہی دل چسپ کتاب ہے ۔ یہ کتاب لکھنو کی تہذیبی اور ثقافتی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و بیان کے حوالے‬
‫سے بھی اہم ہے۔اس کے بعد امرائو جان ادا کا نام لوں گا‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫‪3‬‬

‫‪Apr‬‬
‫‪26‬‬

‫سو اہم اور غیر ادبی کتابوں کا انتخاب‪/‬عاصم بخشی‬

‫تصنیف آپ نے سوال کیا ہے کہ ایسی غیرادبی کتابوں کی ایک فہرست مہیا کی جائے جو اردو کے قارئین کو زندگی میں‬
‫ایک دفعہ ضرور پڑھ لینی چاہئیں۔ گمان ہے کہ غیرادبی سے آپ کی مراد شاید غیر افسانوی ہے جیسے شاعری‪ ،‬ناول ‪،‬‬
‫افسانہ وغیرہ۔ کتاب کے شائقین جانتے ہیں کہ اس قسم کی فہرست ہمیشہ ایک ناگزیر موضوعیت کا شکار ہوتی ہے کیوں‬
‫کہ یہ سراسرانتخاب کرنے والے کی دلچپسی پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ اس کی پسندیدہ موضوعات کون سے ہیں۔ مثال‬
‫کی صنف سے ‪ Self Help‬کے طور پر آج کل کی رائج مغربی زمرہ بندی کے مطابق میں ’اپنی مدد آپ‘ یا‬
‫‪1‬‬

‫‪Apr‬‬
‫‪25‬‬

‫محمد خالد اختر کی دو تحریریں‬


‫اگر میں یہ کہوں کہ میں نے سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر پر ان سے بہتر مضامین ابھی تک نہیں پڑھے تو شاید‬
‫غلط نہ ہوگا‪ ،‬آپ اسے میری کم علمی پر بھی محمول کرسکتے ہیں‪ ،‬لیکن محمد خالد اختر نے بڑے سے بڑے نقاد کے‬
‫برعکس جس سادگی اور سچائی کے ساتھ ان فنکاروں کی زندگی اور فن کا تجزیہ کیا ہے‪ ،‬اس سے ہمیں علم ہوسکتا ہے‬
‫کہ مجموعی طور پر کسی ادیب کے لکھے ہوئے ادب کو ہم کس طرح پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ محمد خالد اختر اردو‬
‫میں مجھے اس وقت سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ ان کی کہانیاں‪ ،‬مضامین‪ ،‬ناول اور پیروڈیز یہ سب میں نے ڈھونڈ‬

‫‪Apr‬‬
‫‪25‬‬

‫تنقیدی کتابوں کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں‪/‬ناصر عباس نیر‬

‫! ڈئیر تصنیف‬

‫آپ نے لکھا ہے کہ میں عالمی یوم کتاب کے موقع پرعالمی تنقید کی چندایسی کتابوں کا ذکر کروں ‪،‬جن کے بارے میں‬
‫میری یہ رائے ہے کہ انھیں زندگی میں کم ازکم ایک بار پڑھنا ضروری ہے۔ کتاب کے عالمی دن (‪۲۳‬؍اپریل)کو منانے‬
‫کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کی بہترین کتابوں کا ذکر کیا جائے۔ آپ نے مجھے صرف تنقید کی چند‬
‫کتابوں کے ذکر تک محدود رہنے کے لیے کہا ہے۔میں نے حساب نہیں لگایا کہ میں نے تنقید کی کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔‬
‫ان میں سے کسی ایک یا چند کتابوں کا انتخاب ‪،‬اس کڑے معیار کے تحت کرنا‬
‫‪3‬‬

‫‪Apr‬‬
‫‪22‬‬

‫محمد علوی کی نظمیں‬

‫گوپی چند نارنگ نے محمد علوی کی نظمیہ شاعری کے تعلق سے ان کی کلیات ’رات ادھر ادھر روشن‘ کی ابتدا میں‬
‫لکھا ہے‪(’’:‬محمد)علوی کی جس قدر پہچان ان کی غزل سے ہے اسی قدر پہچان نظم سے بھی ہے‪ ،‬اس لیے کہ مختصر‬
‫نظم پر علوی کی دسترس میں کبھی کمی نہیں آئی۔علوی کو نظم کی تعمیر کا ہنر آتا ہے۔بالعموم وہ نظم کو سیدھے سادے‬
‫بیان سے شروع کرتے ہیں‪ ،‬پھر ایک ہلکا سا موڑ دے کر توقعات کو پلٹ دیتے ہیں اور معنی یا فکر یا احساس کی ایک‬
‫انوکھی کیفیت سامنے آجاتی ہے۔گویا احساس کے دوسرے پن یا معمولہ معنی سے ہٹ کر معنی پیدا کرن‬

‫‪Apr‬‬
‫‪20‬‬

‫مالیاتی دہشت گردی (یعنی عوام کی روزمرہ زندگی اور معیشت پر بالتشدد طریقوں سے قبضہ کرنا)‪/‬نجمہ‬
‫صادق‬

‫علم کے تین شعبے ایسے ہیں جو انھیں جاننے کی کوشش کرنے والوں کے لیے بڑے حوصلہ شکن‪ ،‬بلکہ مایوس کن‬
‫ثابت ہو سکتے ہیں‪ :‬سیاست‪ ،‬قانون اور معاشیات۔ یہ ماننے کا جواز موجود ہے کہ مخصوص عالمانہ اصطالحات پر‬
‫مشتمل زبان کی ایجاد کا مقصد ہی یہ تھا کہ سیدھے سادے تصورات کے آسانی سے سمجھ میں آنے کا راستہ بند کیا‬
‫جائے اور اس طرح لوگوں کی بڑی تعداد کو ’ماہرین‘ کے متبرک زمرے میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔‬
‫وسطی سے تعلق رکھنے والی لفاظی کے باوجود‪ ،‬یہ‬
‫ٰ‬ ‫لیکن جہاں تک سیاست اور قانون کا تعلق ہے‪ ،‬موخرالذکر کی قرون‬
‫دونوں شع‬
‫‪1‬‬

‫‪Apr‬‬
‫‪13‬‬

‫قصہ ایک رات کا‪/‬ڈینیل ووڈریل‬

‫پیل ہام ایک رات پہنچا تو اپنے پلنگ کے برابر ایک ننگ دھڑنگ آدمی کوغراتے پایا۔ کمرے میں روشنی کم تھی لیکن‬
‫اس کی آنکھوں نے پھر بھی کاندھے سے کالئی تک اس آدمی کا ایک بازو‪ ،‬کسی جلتی شے کا گوندا ہوا نشان‪ ،‬ذرا سے‬
‫باہر کو ابھرے دانتوں کی سرسری جھلک اور تنے ہوئے ہونٹ دیکھ لئے۔غراہٹ ‪ ،‬دہشت ناک اور کھوئی کھوئی تھی‪،‬‬
‫فلک شگاف‪ ،‬گہری سفاکیت لئے‪ ،‬مسلسل بڑھتی ہوئی چالنے کی آواز‪ ،‬جس کے درمیان میں کبھی کبھار ایک کٹیلی‬
‫تھا۔جل کی آنکھ بھی کھل گئی ‪ ،‬اُس‬
‫ِ‬ ‫تھرتھراہٹ سی اٹھتی ‪ ،‬ایک صوتی کچومر کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہا‬

‫‪Apr‬‬
‫‪11‬‬

‫)اردو ادب شمارہ اکتوبر ‪ 2015‬تا مارچ ‪( 2016‬اختراالیمان نمبر‬

‫اختر االیمان کے تعلق سے بہرحال اتنی بات مسلم ہے کہ کوئی باضابطہ کام ابھی تک اردو ادب میں نہیں کیا گیا ہے۔‬
‫انہیں اپنی زندگی میں بھی اس کی شکایت رہی کہ انہیں لوگوں‪/‬نقادوں کی جانب سے ویسی سنجیدگی سے نہیں پڑھا گیا‪،‬‬
‫جس کے وہ حقدار تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود سنجیدہ حلقوں میں بھی اختراالیمان کوئی آیا گیا موضوع نہیں رہے‬
‫بلکہ ان پر متواتر گفتگو ہوتی رہی۔ خصوصی طور پر جدید نظم کے بنیادگزاروں کے طور پر ان کا نام ضرور لیا جاتا‬
‫رہا۔ جہاں تک بات پڑھ کر سمجھنے یا سمجھ کر پڑھنے کی ہے تو بیشتر ایسے شعرا ہیں‪ ،‬جن ک‬

‫‪Apr‬‬
‫‪6‬‬

‫اشتہار کے تعلق سے دو اہم مضامین‬

‫ذیل کے دونوں مضامین امریکہ میں اشتہار بازی کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کا بخوبی جائزہ لیتے‬
‫اعلی فن یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی پیدا کی ہوئی اجتمائی اخالقیات کا قائل بنادے۔مثال کے طور پر‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔اشتہار کا سب سے‬
‫اچھا ہونا اخالقیات میں شامل ہے‪ ،‬لیکن خوبصورت ہونا ‪ ،‬کچھ مخصوص مصنوعی چمک پیدا کرنے والے پروڈکٹس کی‬
‫پیدا کردہ اخالقیات ہیں۔آپ کریم لگائیے‪ ،‬پائوڈر ملیے‪ ،‬خوش لباس رہیے‪ ،‬فیشن کا ممکنہ حد تک پیچھا کیجیے تو دنیا کے‬
‫بازار میں آپ ایک عزت دار شخص کہالسکیں گے‪ ،‬یہ وہ غلط فہمیاں ہیں‪ ،‬جو دراصل انسانی‬

‫‪Apr‬‬
‫‪4‬‬

‫تنقید نگاری سے توبہ‪/‬محمد خالد اختر‬


‫محمد خالد اختر کی تحریریں مجھے بہت پسند ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے نام سے میں بہت بعد میں واقف ہوا۔‬
‫پاکستان سے اس زمانے میں شائع ہونے والی چیزیں بہت آسانی سے میسر نہیں آتی تھیں۔ ابھی بھی یہ مسئلہ اس حد تک‬
‫ہی حل ہوا ہے کہ جو ادیب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‪ ،‬ان کی تخلیقات تو پڑھنے کے لیے مل جاتی ہیں‪ ،‬اور جو نہیں ہیں ان‬
‫کے لیے صرف ایک دیدۂ حسرت نگاہ کے عالوہ ہم لوگ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔ محمد خالد اختر کی یہ تحریر ’تنقید‬
‫نگاری سے توبہ‘ اردو داں طبقے میں موجود تنقید کے مرض کی تشخیص ہی نہیں کرتی‬

‫‪Mar‬‬
‫‪30‬‬

‫وجود کی ناقاب ِل برداشت لطافت(حصہ دوم)‪/‬میالن کنڈیرا‬

‫) دوسرا حصہ ‪ :‬روح اور جسم(‬

‫)‪(۱‬‬

‫مصنف کا قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرنا مہمل ہو گا کہ اس کے کرداروں کا کبھی حقیقی وجود رہا ہے۔ یہ‬
‫ت حال کے دو ایک تحریک آور فقروں‬ ‫کسی ماں کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئے ہیں بل کہ ان کا وجود تو ایک بنیادی صور ِ‬
‫رہین منت ہے۔ توماش‬
‫ِ‬ ‫کا زائیدہ تھا اور تیریزا پیٹ کی گڑگڑاہٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ "‪ "Einmal ist keinmal‬کا‬

‫جب وہ پہلی بار توماش کے فلیٹ آئی‪ ،‬تو اس کے پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے‪ ،‬ناشتے‬
‫کے بعد سے ایک سینڈوچ کے عالوہ‪ ،‬جو گاڑی میں سوار ہونے سے‬

‫‪Mar‬‬
‫‪25‬‬

‫وجود کی ناقابل برداشت لطافت(حصہ اول)‪/‬میالن کنڈیرا‬

‫)پہالحصہ‪:‬لطافت اورکثافت(‬

‫)‪(۱‬‬

‫نے فلسفیوں کو اس کے ذریعے اکثرالجھا دیا ہے‪ (Nietzsche) :‬ابدی بازگشت کا تصور خاصہ پُراسرا رہے‪ ،‬اورنیچے‬
‫یہ سوچنا کہ ہر شے ٹھیک جس طرح ہم نے اس کا تجربہ کیا تھا اسی طرح دوبارہ واقع ہوتی ہے‪ ،‬اور یہی بازگردی خود‬
‫بھی المتناہی طریقے پراپنے کودہراتی ہے! یہ باولی اسطور کس بات پر داللت کرتی ہے؟‬

‫اسے منفی طور پر بیان کریں تو ابدی بازگشت کی اسطور کے مطابق ایک زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل‬
‫ہوچکی ہے‪ ،‬جو لوٹ کر نہیں آتی‪ ،‬ایک سائے کی طرح ہے‪ ،‬بے وزن‪ ،‬پہلے سے مردہ‪ ،‬اور اگر یہ ہو‬

‫‪Mar‬‬
‫‪24‬‬

‫کتاب شناسی کی پہلی شام (رپورتاژ)‪/‬تصنیف حیدر‬


‫آداب حاضرین!کتاب شناسی کی محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے۔'یہ جامعہ ملیہ اسالمیہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں '‬
‫گونجتی ہوئی آواز زمرد مغل کی تھی‪ ،‬جو ٹھیک شام سوا چار بجے کتاب شناسی کی محفل کاآغاز کرچکے تھے۔میں‬
‫سامنے کی سیٹ پر بیٹھا ہوا سفید شرٹ اور نیلی جینس میں ملبوس اپنے دوست کو ہاتھ میں مائک تھامے پرجوش لہجے‬
‫میں اس محفل کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے دیکھ رہا تھا‪ ،‬سفیدی اس کے شرٹ سے پھوٹتی ہوئی اس کے الفاظ میں‬
‫گھلی جارہی تھی‪ ،‬ایک روشنی تھی جس میں ہال میں بیٹھے ہوئے تمام سامعین کہیں ڈوبتے جارہے تھے‪ ،‬کتاب ش‬
‫‪1‬‬

‫‪Mar‬‬
‫‪18‬‬

‫)پابن ِد ادب انفراد یت(دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ)‪ /‬چودھری محمد نعیم (شکاگو‬

‫نیرمسعود کے نام‬
‫وضعدار دوست ّ‬

‫‪ Moral Conduct and Authority: The Place of Adab in South Asian Islam‬باربرا ڈیلی مٹکاف اپنی کتاب‬
‫‪:‬کے تعارف میں لکھتی ہیں‬

‫طرز عمل اور بجا ذوق سے متعلق تمام فیصلوں میں ’ادب’’‬
‫ِ‬ ‫ت ارادی کے استعمال ‘درست نظم و ضبط‪ ،‬صحیح‬ ‫انسانی قو ِ‬
‫طرز عمل کے درمیان ظاہر یا‬
‫ِ‬ ‫والے‬ ‫جانے‬ ‫سمجھے‬ ‫بدتہذیبی‬ ‫اور‬ ‫عمل‬ ‫طرز‬
‫ِ‬ ‫یافتہ‬ ‫تہذیب‬ ‫یہ‬ ‫ہے۔‬ ‫دیتا‬ ‫مقام‬ ‫اونچا‬ ‫بہت‬ ‫کو‬
‫مضمر انداز میں تمیز کرتا ہے‪ ،‬اور موخرالذکر کو اکثر زمانہ قبل از اسالم کے رواج کے طور پر بیان کرتا ہے‘‘۔؂‪۱‬‬

‫مسلمانوں کی اکثریت کا خیال کچھ‬

‫‪Mar‬‬
‫‪13‬‬

‫بورڈنگ ہائوس‪/‬جمیز جوئس‬

‫آئرش ناول نگار جیمس جوئس ڈبلن کے مضافات میں پیدا ہوا۔اس کا باپ مرنجا مرنج‪ ،‬خوش باش قسم کا انسان تھا اور‬
‫پانی شاہ خرچی کی وجہ سے سارے ڈبلن میں مشہورتھا۔اس کے سولہ سترہ بچے تھے۔اس کی والدہ بہت اچھاپیانو بجاتی‬
‫تھیں۔‬

‫بھیج دیا گیا جہاں اس نے تین سال گزارے۔یہ تین سال اس کی زندگی میں ناقابل ‪ Jesuit school‬چھ سال کی عمر میں وہ‬
‫فراموش اہمیت رکھتے ہیں۔نوسال کی عمر میں اس نے اپنے باپ کے پمفلٹ کے خالف ایک پمفلٹ لکھا۔‪1891‬میں مالی‬
‫مشکالت کی وجہ سے اسے اسکول سے اٹھالیا گیا اور دو سال بعد ایک پرائیوٹ ادارہ میں د‬

‫‪Feb‬‬
‫‪26‬‬

‫امبرٹو ایکو کی تخلیقی کائنات کا ایک تعارف‪/‬عاصم بخشی‬

‫اکیسویں صدی کے سترہویں برس کے ستم مسلسل جاری ہیں۔پرسوں صبح ہارپر لی کے مٹی ہونے کی خبر تو بس آئی‬
‫گئی ہو گئی کہ ان کا ناول پڑھنے سے بہت پہلے گریگوری پیک ہمارے ذہن میں اپنی الزوال فلم کے ذریعے اس کہانی‬
‫کو امر کر چکےتھے۔ اپنی کم نویسی کے باعث ہارپر لی نے ہمارے دل کا گوشہ تو ضرور اپنے نام کر لیا لیکن ان کا‬
‫تخلیقی منطقہ اپنی تمام تر عظمت کے باوجود حد درجے محدود تھا۔ غم کی درست میزان تومشکل ہے‪ ،‬لیکن دن ڈھلے‬
‫جب معلوم ہوا کہ امبرٹو ایکو بھی آخر حقیقت سے کچھ زائد ہو گئے ہیں تو دکھ اپنے انتظار حسین صاحب ک‬

‫‪Feb‬‬
‫‪21‬‬

‫ہمیں خود سے خطرہ ہے‪/‬تصنیف حیدر‬

‫میں نے نیوز چینل دیکھنا بند کردیا ہے۔ویسے بھی خبروں کی تجارت ہمارے یہاں بہت چل نکلی ہے۔یہ ایک اچھا سودا‬
‫ہے‪ ،‬اس کے بہت سے پہلو ہیں‪ ،‬بہت سے زاویے ہیں۔ابتدا میں مجھے ٹیلی ویزن پر ہونے والی بحث بہت ہی اچھی لگا‬
‫کرتی تھی‪ ،‬بہت غور سے سنا کرتا تھا۔ مگر میں اس تبدیلی کا گواہ ہوں‪ ،‬جس میں نیوز اینکر اس بحث کے تاروں کو‬
‫جوڑنے والے ذریعے سے بڑھ کر ایک سوال طلب کرنے واال بابو بنا اور پھر دھیرے دھیرے غنڈہ بن گیا۔آپ کوئی بھی‬
‫نیوز چینل لگائیے‪ ،‬نیوز چینلوں پر دندناتے‪ ،‬چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکرز آپ کو سہماتے ہوئے‪،‬‬
‫‪1‬‬

‫‪Feb‬‬
‫‪9‬‬

‫کلیات مجید امجد (حصہ چہارم)‪/‬فردا‬

‫ادبی دنیا پر اس پوسٹ کے ذریعے مجید امجد کا چوتھا مجموعہ کالم فردا اپلوڈ کیا جارہا ہے‪ ،‬اسی کے ساتھ مجید امجد‬
‫کے کلیات کی اشاعت کا یہ پراجیکٹ یہاں تمام ہوتا ہے‪ ،‬ادبی دنیا کے ذریعے اب تک فیض احمد فیض‪ ،‬مجید امجد‪،‬‬
‫سعادت حسن منٹو‪ ،‬قرۃ العین حیدر‪ ،‬عرفان صدیقی وغیرہ کے کلیات اپلوڈ کیے جاچکے ہیں۔ اور جلد ہی میراجی‪،‬‬
‫ن۔م۔راشد‪ ،‬عادل منصوری‪ ،‬محمد علوی‪ ،‬عصمت چغتائی اور دیگر بہت سے ادیبوں کی کلیات کے پراجیکٹ بھی اپلوڈ‬
‫کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہم اپنے معاونین کے بھی بے حد شکر گزار ہیں‪ ،‬جو ہمیں اکثر ٹائپ شدہ ک‬

‫‪Feb‬‬
‫‪8‬‬

‫کلیات مجید امجد (حصہ سوم)‪/‬امروز‬

‫شب رفتہ کے بعد اگرچہ مجید امجد کا کوئی مجموعہ ان کی زندگی میں نہیں چھپا لیکن انہوں نے ایک مالقات میں (جو‬
‫‪1972‬میں ہوئی)مجھے یہ بتایا تھا کہ شب رفتہ کے بعد انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے دو مختلف مزاج ہیں اس لیے‬
‫اس کے دو الگ الگ مجموعے شائع ہونے چاہییں۔ایک مجموعہ ‪ 1958‬سے ‪1968‬تک کے کالم پر مشتمل ہو اور‬
‫دوسرے میں ‪ 1968‬اور اس کے بعد کی تخلیقات شامل ہوں لیکن 'مجید امجداشاعتی کمیٹی—الہور' نے 'شب رفتہ کے‬
‫بعد'کے زیر عنوان جو مجموعہ ترتیب دیا اس میں شب رفتہ کے دور کے کچھ کالم کا انتخاب اور اس کی اشاعت کے ب‬

‫‪Jan‬‬
‫‪31‬‬

‫کلیات مجید امجد (حصہ دوم)‪/‬روز رفتہ‬


‫ب رفتہ‘‘ میں کسی بھی وجہ سے شریک نہیں کیا تھا اسے اس حصے میں شامل کیا گیا ہے۔‬ ‫مجید امجد نے جو کالم ’’ش ِ‬
‫ب رفتہ میں شمولیت‬‫ان میں وہ شاعری بھی ہے جو انھوں نے زمانہ طالب علمی میں کی تھی اور وہ کالم بھی ہے جو ش ِ‬
‫کا مستحق تو تھا مگر کئی وجود کی بنا پر شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بعض جگہ یہ فیصلہ کرنا سہل نہیں کہ دونوں میں حد‬
‫فاضل کس طرح قائم کی جائے اس لیے انھیں یکجا رکھا گیا ہے۔ گویا اس حصے میں ان کی ابتدائی اور زمانہ طالب‬
‫ب رفتہ کے دور کی عمدہ شاعری بھی موجود ہے مگر چونکہ‬ ‫علمی کی شاعری بھی شامل ہے اور ش ِ‬

‫‪Jan‬‬
‫‪30‬‬

‫کلیات مجید امجد (حصہ اول)‪/‬شب رفتہ‬

‫ب رفتہ‘‘ کے نام سے ‪ 1958‬میں نیا ادارہ الہور کی طرف سے‬ ‫مجید امجد کی زندگی میں ان کا ایک ہی مجموعہ ’’ش ِ‬
‫شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے امجد نے اپنا ابتدائی کالم یکسر خارج کر دیا تھا۔ ‪ 1932‬سے ‪ 1934‬کے‬
‫ب رفتہ میں شامل نہیں کی۔ میرے نزدیک‬ ‫درمیان ان کی اکا دکا نظمیں شائع ہونے لگی تھیں لیکن یہ شاعری انھوں نے ش ِ‬
‫حسن‘‘ ‪ 1935‬میں جوش ملیح آبادی کے رسالے ’’’’کلیم میں شائع ہوئی ’’ان کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ ان کی نظم‬
‫ب رفتہ کا آغاز انھوں نے اس نظم سے کرنا مناسب خیال کیا۔ ‪ 1935‬سے ‪ 1958‬تک‬ ‫تھی۔ ش ِ‬

‫‪Jan‬‬
‫‪27‬‬

‫نئے تماشوں کا شہر‪/‬تصنیف حیدر‬

‫فاطمہ خان کے نام‬

‫دیباچہ نما‬

‫سیانے شاعر کی گاتھا‬

‫تحریر کا رواج جب سے ہوا ہے‪/‬تب سے کاغذ نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے‪/‬اور لفظ کی فصلیں کاٹی جارہی ہیں‪/‬اناج‬
‫بھرپور ہے‪/‬یہ لفظ تانبے کے‪ ،‬پیتل کے‪ ،‬سونے کے یا پھر کسی اور دھات کے‪/‬کیسے اگائے جاتے ہیں‪/‬یا پھر کہاں بوئے‬
‫جاتے ہیں‬

‫میں بھی نہیں جانتا کہ لفظ کی تاریخ کتنی پرانی ہے‪ ،‬وہ تاریخ جو کن سے شروع ہوئی یا پھر اس سے بھی پہلے‪،‬یا پھر‬
‫تب جب خدا بولنا سیکھ رہا تھا۔میرے لیے ہمیشہ کن سے پہلے کا وقت ایک سوال ہے اور یہ سوال بجائے خود اتنا‬
‫چمکدار لفظ ہے کہ اس کی روش‬

‫‪Jan‬‬
‫‪26‬‬

‫نسرین انجم بھٹی کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو اور نظمیں‪/‬عارفہ شہزاد‬

‫زندگی بڑی عجیب و غریب طاقت ہے‪ ،‬ملتی ہے تو لوگ اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے‪ ،‬اسے نالیوں میں‬
‫بہاتے ہیں‪ ،‬دھول میں گزارتے ہیں۔لیکن فنکار دھول میں لپٹی اور نالیوں میں بہائی جانے والیوں زندگیوں کا بھی مشاہدہ‬
‫کرتا ہے اور آسمان میں اڑتی ہوئی ‪ ،‬پانیوں میں تیرتی ہوئی زندگی کو بھی اپنے فن کے آئنے میں اتارنے کی کوشش‬
‫کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کوشش میں اسے کامیابی تو نہیں ملتی مگر اس کی ناکامیابی کا سفر جاری رہتا ہے‪ ،‬وہ نہیں‬
‫رکتااور یہی اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔ایک دن فن کار رک جاتا ہے‪ ،‬تھم جاتا ہے‪ ،‬اپنے‬

‫‪Jan‬‬
‫‪24‬‬

‫منٹو اور فرانسیسی ادب‬

‫منٹو کی تخلیقی ہنرمندی کو سمجھنے کے لیے اس سے متعلق اہم گوشوں کو سمجھنا بھی بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے‪ ،‬اسی‬
‫خیال کے تحت اردو ادب‪ ،‬نئی دہلی کے اکتوبر تا دسمبر ‪ 2012‬کے شمارے میں جہاں منٹو پر بہت اچھے مضامین شامل‬
‫کیے گئے‪ ،‬وہیں الہور سے شائع ہونے والی محمد سعید کی مرتب کردہ کتاب'نوادرات منٹو'سے منٹو اور فرانسیسی ادب‬
‫کا یہ گوشہ بھی شامل کیا گیا۔ اس حصے میں ہمیں منٹو کو متاثر کرنے والے فرانسیسی ادیبوں کے بارے میں بنیادی‬
‫جانکاری حاصل ہوتی ہے‪،‬آپ اس کو صرف معلومات کی حد تک ہی اہمیت دیں تب بھی یہ بہت اہم ہے‪،‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪21‬‬

‫میکسم گورکی‪/‬سعادت حسن منٹو‬

‫ہم لوگ پڑھنے کے معاملے میں تھوڑے کاہل ہیں اور کچھ حد تک جب پچھلے ادیبوں کو جاننے اور دیکھنے کا موقع‬
‫ملتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی ہمیں پڑھنےسے بالکل دلچسپی نہیں‪ ،‬کجا کہ غور سے پڑھنے کی عادت ہو۔سعادت‬
‫حسن منٹو ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے ہے‪ ،‬جسے روسی ادب سے بڑی دلچسپی تھی‪،‬اس نے اس ادب کی کئی اہم‬
‫تخلیقات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔مندرجہ ذیل مضمون منٹو نے گورکی کے حاالت زندگی اور اس کے فن کا تنقیدی جائزہ‬
‫لیتے ہوئے لکھا ہے‪ ،‬اس مضمون کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ منٹو کس حد تک گورکی کی تخل‬

‫‪Jan‬‬
‫‪18‬‬

‫اردو کی شہوانی شاعری‪/‬ڈاکٹر سید امجد حسین‬

‫ایک وقت انگریزی ادب میں عریاں روئے سخن کو بے مقصد تک بندی تک محدود تصور کیا جاتا تھا۔یہ ’’بے مقصد‘‘‬
‫منظوم صنف ہے۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لٹریچر میں نوبل )‪ (erotic‬روئے سخن دراصل لطیفہ گوئی کی شہوانی‬
‫انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرتے تھے اور سنجیدہ شاعری کے ساتھ ساتھ اس قسم کی‬
‫شاعری کا اندارج بھی اپنی نوٹ بک میں کرتے رہتے تھے۔بعض اوقات وہ ان صفحات کو پھاڑ کر اپنے دوست اور‬
‫مشہور زمانہ شاعر ازرا پاؤنڈ کو بھجواتے تھے‪ ،‬جو ایلیٹ صاحب کی عریاں شاعری کے بے حد مداح تھے۔ان میں س‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪12‬‬

‫جدید ترین کا پہال شمارہ۔جنوری‪2016‬‬


‫عاصم بخشی اور شامل شمس کے نام‬

‫)مخفی معجزہ‪/‬بورخیس(ترجمہ زیف سید‬

‫اور خدا نے اسے ایک سو سال تک مارے رکھا‪ ،‬اور پھر زندہ کر کے پوچھا‪’ :‬تم کتنے عرصے سے یہاں رہے ہو؟‘ اس‬
‫‘ نے جواب دیا‪’ ،‬ایک دن‪ ،‬یا ایک دن کا کچھ حصہ۔‬

‫اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں)‬
‫کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار‬
‫ہی اس کو خوب جانتا ہے۔‬

‫پراگ کی سڑک سالٹیرنرگاسا کے ایک فلیٹ میں نامکمل المیے ’ع‬


‫‪7‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪4‬‬

‫گرداب(ناول کا ایک باب)‪/‬سردارجعفری‬

‫سردار جعفری کی افسانہ نگاری کے تعلق سے تو لوگ جانتے ہیں‪ ،‬مجھے بھی علم تھا کہ انہوں نے کچھ کہانیاں لکھی‬
‫ہیں۔ مگر جب میں نے نیا ادب کے شمارے میں ان کے ناول کا ایک باب دیکھا تو ذرا چونک گیا۔وجہ یہ ہے کہ ان کی‬
‫ناول نگاری کے تعلق سے کبھی کہیں سنا‪ ،‬دیکھا نہیں ہے۔میں نے اس تعلق سے اپنے کچھ اہم احباب سے بھی پوچھا‪ ،‬ان‬
‫کا بھی یہی کہنا تھا کہ سردار جعفری کا ناول سے کیا تعلق۔اب چونکہ نیا ادب میں صرف یہ ایک ہی باب شامل تھا‪ ،‬اور‬
‫دوسرے زیادہ شمارے میں دیکھ نہیں سکا‪ ،‬اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ سردار جعفری نے یہ پو‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪3‬‬

‫یہ کوٹھے والیاں‪/‬امرت الل ناگر‬

‫ہندی کے نامور ادیب امرت الل ناگر (‪17‬؍اگست ‪ 1916‬ـ ‪23‬؍ فروری ‪ )1990‬کی کتاب ’یہ کوٹھے والیاں‘ (اشاعت‬
‫ّاول‪:‬غالبا ‪ 1955‬ـ ‪ )1954‬طوائفوں کی زندگی سے متعلق مضامین‪ ،‬کہانیوں اور انٹرویو پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے جدید‬
‫ناشر ‪ :‬لوک بھارتی پرکاشن‪ٰ ،‬الہ آباد‪ ،‬سے یہاں ’پیش لفظ‘ کے ساتھ دو کہانیوں (’بچپن‪ ،‬محفلیں اور ویشیا )ایڈیشن (‪2011‬‬
‫بدر منیر‪ :‬ویشیا جیون کا انت‘) کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔‬
‫کا بیٹا‘ اور ’ ِ‬

‫کتاب میں موجود مضامین ’یہ کوٹھے والیاں‘‪،:‬بچپن‪ ،‬محفلیں اور ویشیا کا بیٹا‪،‬سینے میں جیسے کوئی دل کو َمال کرے‬
‫ہے‪،‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪2‬‬

‫منیر نیازی کی غزلیں‬


‫منیر نیازی کی غزلوں سے مجھے ایک شکایت یہ ہے کہ ان میں کچا پن بہت ہے‪ ،‬بعض اوقات بہت اچھا شعر بنتے بنتے‬
‫کسی ایک کمزور ی کی وجہ سے معاملہ بگڑ جاتا ہے‪ ،‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شعر کہنے والے کا دھیان باریک تر‬
‫معامالت پر کم اور شعر کہہ دینے پر زیادہ ہے‪ ،‬یہ برائی نہیں‪ ،‬ان کے مزاج کا حصہ ہے‪ ،‬یعنی کہ منیر کو پڑھ کر میں‬
‫سمجھ پایا ہوں کہ شعر کہتے وقت کن باتوں کو بہت حد تک دھیان میں رکھنا چاہیے۔ ان کی یہ قریب ستر پچھتر غزلیں‬
‫ہیں‪ ،‬جو یہاں پوسٹ کی جارہی ہیں‪،‬منیر نیازی بہرحال اردو کے ان شعرا میں ہیں‪،‬جن کو بیک و‬
‫‪1‬‬

‫‪Dec‬‬
‫‪29‬‬

‫اردوکے چند نادر الفاظ و تراکیب‪/‬رئوف پاریکھ‬

‫ادبی دنیا پر دوسری اہم تحریروں کے ساتھ ہم نے لغت کو بھی اہمیت دی ہے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ ہم نے بہت تیزی‬
‫کے ساتھ پرانے الفاظ کو ترک کرنا شروع کیا‪ ،‬اور نئے دور میں محاوروں اور کہاوتوں کی کھپت ہماری روزمرہ کی‬
‫زبان میں کم سے کم ہونے لگی‪ ،‬اب تو شاید وہ دس فی صد ہی رہ گئی ہوگی۔ اس کے باوجود ہم ادب تخلیق کررہے ہیں‪،‬‬
‫صحافت کے فرائض انجام دے رہے ہیں‪ ،‬یعنی کیا اس دور کے زبان داں کو اس محاوراتی زبان کی قوت کا ادراک نہیں‬
‫ہے‪ ،‬جو کسی مختصر جملے میں ایک بھرپور تہذیبی ‪ ،‬سماجی و ثقافتی تاریخ کی نمائندگی کا سلیقہ‬

‫‪Dec‬‬
‫‪28‬‬

‫سورہ یوسف‪/‬قرآنی حکایت‬

‫یہ بات واقعی افسوس کی ہے کہ جس قوم کے پاس دنیا کی ایک بے حد اہم اور بلیغ کتاب موجود ہے‪ ،‬وہ عقل سے کام نہ‬
‫لے کر جذبات اور جہالت کا شنکھ بجاتے پھرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں‪ ،‬جوایک اچھے نظریے کو صرف زندگی کے‬
‫معمولی مسئلے مسائل کا معاملہ بنا کر میال کردیتے ہیں‪ ،‬مال کو مذہب کا ٹھیکیدار اور بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کسی‬
‫بھی نئی چیز کو اپنانا‪ ،‬قبول کرنا بہت بڑا گناہ گردانتے ہیں۔آج ہم 'ادبی دنیا ' پر سمبل میں شائع شدہ محمد کاظم کے‬
‫ترجمہء سورہ یوسف کو اپلوڈ کررہے ہیں۔اس سورہ میں دو جملے قابل غور ہیں۔اول ' اور آسم‬

‫‪Dec‬‬
‫‪26‬‬

‫نئی ہندی شاعری(ایک انتخاب)سلسلہ نمبر ‪/1‬صادق‬

‫اردو اور ہندی کے قریب ترین لسانی رشتے کے باوجود اردو میں عصری ہندی شاعری کا کوئی مجموعہ ڈھونڈنے سے‬
‫نہیں ملتا‪ ،‬اسی طرح ہندی میں بھی عصری اردو شاعری پر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔اس کی وجوہات پر غور و خوض‬
‫کا کام ارباب حل و عقد پر چھوڑ کر میں اس اہم ضرورت کی تکمیل کی سعی کررہا ہوں۔یہ چھوٹی سی کتاب اسی سلسلے‬
‫کی پہلی کڑی ہے۔‬

‫یہ مختصر سی کتاب نئی ہندی شاعری کا تعارف نامہ ہے۔نظموں کا انتخاب مروجہ پامال تدریسی نقطہء نظر سے نہیں‬
‫کیا گیا ہےا ور نہ ہی شاعروں کے انتخاب میں کسی مخصوص مکتب فکر یا خیمے کو ملحوظ‬

‫‪Dec‬‬
‫‪25‬‬

‫ہندوستان کے بانکے‪/‬عبدالحلیم شرر‬

‫مطبوعہ ’اردو ادب‘ کتاب ( ‘‘اپنے مضمون ’’پابند ادب انفرادیت‪ :‬دہلی اور لکھنؤ میں وضع داری کی مختصر تاریخ‬
‫‪ )۳۵۲‬میں لکھنؤ کے بانکوں کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ بانکوں کے بارے میں کوئی مطبوعہ تحریر مجھے‬
‫شرر نے بانکوں کا‬
‫دستیاب نہیں اگرچہ بچپن میں کئی کتابچے اس موضوع پر دیکھے تھے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ؔ‬
‫شرر نہ تو وضع داری کے خاص مدح خواں‬ ‫ذکر محض ایک خاص انداز کے پاجامے کے بیان میں کیا ہے اور یہ کہ ؔ‬
‫تھے اور نہ بانکوں کے۔ ان کی مشہور کتاب جسے اب ’گذشتہ لکھنؤ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‪ ،‬بانکوں کے دل چس‬

‫‪Dec‬‬
‫‪24‬‬

‫ہٹلراعظم‪/‬پروفیسر چندر شیکھر شاستری‬

‫ان دنوں ایک دلچسپ کتاب میرے ہاتھ لگی ہے‪ ،‬جس کا میں بڑے شوق سے مطالعہ کررہا ہوں۔کتاب کا عنوان ہے’ہٹلر‬
‫اعظم‘ اور اس کا سن تصنیف ہے ‪،1938‬اس کتاب کے مصنف کا نام ہے پروفیسر چندر شیکھر شاستری۔ہٹلر کی‬
‫میں شائع ہوچکی تھی۔اس کتاب میں ہٹلر کے زیادہ تر حاالت اسی سے ماخوذ ‪1925-26‬خودنوشت سوانح مائن کمف‬
‫معلوم ہوتے ہیں۔مگردلچسپی کی بات یہ ہے کہ اول تو یہ کتاب ہٹلر کی زندگی میں ہی لکھی گئی ہے‪ ،‬دوسرے اس سے‬
‫کچھ ایسی باتوں پر روشنی پڑتی ہے‪ ،‬جو ہٹلر‪ ،‬ہندوستان اور فاشزم کی نئی صورتوں کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔کم‬
‫ا‬

‫‪Dec‬‬
‫‪23‬‬

‫عدم تشدد کا پیغمبر‪/‬اصغر علی انجینیر‬

‫میں شایع شدہ اصغر علی انجینئر کے اس مضمون کو اسالم کے خالف پھیالئے جانے والے ‪Islam and Modern Age‬‬
‫اس پروپیگنڈے کے جواب کے طور پر پڑھنا چاہیے جس کی رو سے اسالم تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے۔‬
‫انگریزی میں اس مضمون کی اشاعت کا مقصد وسیع پیمانے پر ان لوگوں تک اپنی بات پہنچانا ہے جو اس قسم کے‬
‫پروپیگنڈے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ مضمون بے حد سادہ زبان اور معروضی انداز میں لکھا گیا ہے‪ ،‬مثال پیغمبر کے‬
‫سوا کوئی دوسرا لفظ‪ ،‬یہاں تک کہ محم ؐد کا نام بھی استعمال نہیں کیا گیاتاکہ پیغمبر کی ذات سے عقیدت کے قطع نظر بح‬

‫‪Dec‬‬
‫‪22‬‬

‫اسالم اور پاکستان‪/‬موالنا ابوالکالم آزاد‬

‫موالنا آزاد پر جو کچھ اب تک لکھا گیا ہے اس میں اس مضمون کا ذکر میری نظر سے نہیں گزرا۔ ادھر انٹرنیٹ پر اس‬
‫صوں کا ترجمہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ شورش کاشمیری مجلس احرار اسالم سے تعلق رکھتے‬ ‫مضمون کے چند ِح ّ‬
‫چٹان‘ (الہور) کے مدیر تھے۔ موالنا آزاد سے کافی قریب تھے اور ان سے ملتے رہتے تھے۔ انھوں ’تھے اور ہفتہ وار‬
‫نے موالنا سے اپنی تین مالقاتوں کے دوران جو گفتگو ہوئی تھی‪ ،‬اُسے قلم بند کیا تھا۔ یہ گفتگو ان کی کتاب ’ابوالکالم‬
‫آزاد (سوانح و افکار)‘ کے باب ’اسالم اور پاکستان‘ میں شامل ہے۔ اس کتاب کا پہال اڈ‬
‫‪2‬‬

‫‪Dec‬‬
‫‪21‬‬

‫خوابوں کی انجیل‪/‬سلویا پالتھ‬

‫سلویا پالتھ کا نام پڑھنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے‪ ،‬وہ ایک زبردست تخلیق کار تھیں۔آٹھ سال کی عمر سے ان کا تخلیقی‬
‫سفر شروع ہوگیا تھا‪ ،‬ٹیڈ ہیوز سے انہوں نے محبت کی بنیاد پر شادی کی‪ ،‬مگر ٹیڈ کی شاعرانہ فطرت کے سبب ایک‬
‫اور لڑکی سے جب ان کا افیئر ہوا تو سلویا کو صدمہ پہنچا۔ اس وقت ٹیڈ اور سلویا کے دو بچے تھے‪ ،‬انہوں نے تنہائی‬
‫کے کرب اور اداسی کے انتہائی غلبے کے سبب خودکشی کی کوشش کی‪ ،‬جس میں ناکامی ہوئی۔باآلخر انہوں نے ٹیڈ‬
‫سے علیحدگی کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی لندن میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی۔ان کی خود کش‬

‫‪Dec‬‬
‫‪21‬‬

‫مطالعہ ایڈیٹ‪ :‬کیوں اور کیسے؟‪/‬این رسکا‬


‫ٔ‬
‫ایڈیٹ آج سے تقریبا ڈیڑھ سو برس لکھا گیا ایک ایسا ناول ہے‪ ،‬جس نے اسلوبیاتی اور فکری اعتبار سے دنیا بھر کے‬
‫کئی لکھنے والوں پر برابر اثر کیا ہے‪ ،‬اور اس کی تفہیم و تعبیر کی کوششوں کے ساتھ ساتھ بیشتر زبانوں میں اس کا‬
‫ترجمہ بھی کیا جاچکا ہے۔میں ‪ 2015‬کے آغاز میں یہ ناول خرید کر الیا تھا‪ ،‬انگریزی میں ہونے کی وجہ سے کئی باتوں‬
‫کو سمجھنے کے لیے مجھے بہت محنت کرنی پڑی‪ ،‬پھر بھی میں نے اسے آدھا ہی پڑھا تھا کہ مجھے کہیں سے‬
‫ظ۔انصاری کا کیا گیا اردو ترجمہ ہاتھ لگ گیا‪ ،‬ظ۔انصاری نے چونکہ اسے براہ راست روسی زبان سے‬

‫‪Dec‬‬
‫‪20‬‬

‫شام شہر یاراں‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪6‬‬

‫فیض احمد فیض کے کلیات کا یہ پراجیکٹ آج یہاں ختم کیا جارہا ہے۔دراصل فیض کے کلیات پر کام کرتے وقت مجھے‬
‫اس کا علم نہیں تھا کہ یہ کلیات یونی کوڈ میں پہلے سے انٹرنیٹ پر موجود ہے۔لیکن فرخ منظور صاحب نے بتایا کہ یہ‬
‫کام ہوچکاہے‪ ،‬چنانچہ پہلے مجموعے دست صبا کے بعد باقی کے تمام مجموعے میں نے وہاں سے کاپی کرکے یہاں آپ‬
‫لوگوں کے سامنے پیش کردیے کہ میں اس کا وعدہ کرچکا تھا کہ ادبی دنیا پر یہ کلیات اپلوڈ ہوگی۔اچھی بات یہ ہے کہ‬
‫ن۔م۔راشد کا کلیات مجھے فرخ منظور صاحب نے اور مجید امجد صاحب کا کلیات مجھے میرے ایک او‬

‫‪Dec‬‬
‫‪19‬‬

‫سر وادئ سینا‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪5‬‬


‫فیض‬

‫وی جی کیرنن‪/‬ترجمہ سحر انصاری‬

‫میں فیض سے کوئی بیس سال قبل اس وقت متعارف ہواتھا جب وہ ایم ۔اے۔او کالج ‪ ،‬امرتسر میں لیکچرار تھے۔ایک اور‬
‫پرانے دوست جو اس وقت فیض کے رفیق کار تھے‪ ،‬کل اچانک ایڈنبرا میں دکھائی دیے اور ان سے مل کر مجھے بیتے‬
‫ہوئے دن یاد آگئے‪ ،‬معلوم یہ ہوا کہ فیض کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس قدیم دوست کی ایڈنبرا میں آمد سے‬
‫مجھے مطلع کریں گے۔لیکن وہ بھول گئے‪ ،‬اس زمانے میں بھی وہ اپنی بھول جانے کی عادت اور غائب دماغی کی وجہ‬
‫سے خاصے مشہور تھے‪ ،‬لیکن ان کے طالب علم ان کی اس عادت‬

‫‪Dec‬‬
‫‪18‬‬

‫دست تہ سنگ‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪4‬‬

‫تقریر‬

‫فیض صاحب کی تقریر جو انہوں نے ماسکو میں بین االقوامی لینن امن انعام کی پر شکوہ تقریب کے موقع پر اردو زبان‬
‫‪:‬میں کی‬

‫مجلس صدارت ‪ ،‬خواتین اور حضرات‬


‫ِ‬ ‫اراکین‬
‫ِ‬ ‫!محترم‬

‫الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کالم‬
‫عجز بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آرہے‬
‫ِ‬ ‫جواب دے جاتی ہے_____آج‬
‫‪ ،‬جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی‪،‬سوویٹ یونین کے مختلف اداروں ‪،‬دوستوں اور سب خواتین‬
‫اورحضرات کا شکریہ خاطر خواہ‬

‫‪Dec‬‬
‫‪16‬‬

‫زنداں نامہ‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪3‬‬

‫سازش ‘ راول پنڈی کے دنوں میں فیض کے ساتھ میں بھی سنٹرل جیل (حیدرآبادٹ سندھ)میں تھا‪’ ،‬مقدمہ‬
‫دسمبر‪1952‬تک ہمارے مقدمے کی سماعت ختم ہوچکی تھی‪ ،‬ہمیں روز روز اسپیشل ٹریبونل کے اجالس میں جاکر‬
‫ملزموں کے کٹہرے میں‪ ،‬گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس دوران گواہوں کی شہادتوں‪ ،‬وکیلوں کی جرح اور بحث اور معزز‬
‫ججوں کی فاضالنہ قانونی موشگافیوں سے نجات مل گئی تھی‪ ،‬ابھی فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا اور ہم امید و بیم کے عالم‬
‫میں تھے۔’چھٹی‘ وافرتھی‪ ،‬انہیں دنوں ایک دن یہ اطالع ملی کہ ’دست صبا ’ شائع ہوگئی۔گوہم اس کی تمام چیزیں فی‬

‫‪Dec‬‬
‫‪15‬‬

‫دست صبا‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪2‬‬


‫ایک زمانہ ہوا جب غالب نے لکھا تھا کہ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے۔اگر‬
‫غالب ہمارے ہم عصر ہوتے تو غالبا کوئی نہ کوئی ناقد ضرور پکار اٹھتا کہ غالب نے بچوں کے کھیل کی تو ہین کی ہے‬
‫یا یہ کہ غالب ادب میں پروپگینڈا کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔ شاعر کی آنکھ قطرے میں دجلہ دیکھنے کی تلقین کرنا‬
‫صریح پروپگینڈا ہے۔اس کی آنکھ کو تو محض حسن سے غرض ہے اور حسن اگر قطرے میں دکھائی دے جائے تو وہ‬
‫قطرہ دجلہ کا ہو یا گلی کی بدرو کا‪ ،‬شاعر کو اس سے کیا سروکار یہ دجلہ دیکھنا دکھانا حکیم‬

‫‪Dec‬‬
‫‪15‬‬

‫نقش فریادی‪/‬کلیات فیض احمد فیض۔‪1‬‬

‫فیض احمد فیض کی شاعری کے تعلق سے کیا کہا جاسکتا ہے‪ ،‬وہ اردو کے بہت ہی اچھے شاعر ہیں‪ ،‬مجھے فیض کی‬
‫کلیات کو آن الئن کرنے کا خیال اس لیے آیا کیونکہ بڑی بڑی تنظمیں‪ ،‬روپیہ پیسہ خرچ کرکے فیض پر مقالےپڑھواتی‬
‫ہیں‪ ،‬ان کی شاعری کے اسرار و رموز کو بحر نقد سے ڈھونڈ کر النے کی کوشش کرتی ہیں‪ ،‬مگر جو بنیادی کام ہے‪،‬‬
‫یعنی فیض کی تحریر کا عام ہونا اس پر حیرت ہے کہ ان تنظیموں کا خیال کبھی نہیں گیا۔فیض پر ابھی چند روز پہلے‬
‫ایک سیمینار ہوا‪ ،‬جس پر بی بی سی میں ظفر سید کی ایک خبر کے مطابق زہرا نگاہ نے بڑی اچھی اچھی با‬

‫‪Dec‬‬
‫‪12‬‬

‫بابو رائو پٹیل‪/‬وشواناتھ طائوس‬

‫الریب بابو راؤ پٹیل فرقہ پرست تھا‪ ،‬اُس نے منافرت پھیالئی اور مذہبی تعصب کو ہوا دی‪ ،‬اُس نے مذہبی جنون پیدا کیا‪،‬‬
‫دل آزاری کا باعث بنا اور قومی یک جہتی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بہکی اور بھٹکی ہوئی اندھی طاقت‬
‫جوش جنون میں اِدھر اُدھر اپنا سر پھوڑتی رہی۔لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اُس نے اپنے‬
‫ِ‬ ‫تھا جو‬
‫ت الیموت مہیا کرنے کی غرض سے اردو ہفت روزہ ’کارواں‘ جاری کیا‪ ،‬بعد ازاں سعادت حسن‬ ‫دوست عابد گلریز کو قو ِ‬
‫ب صادق تھا۔ خواجہ احمد عباس اور ن‬ ‫منٹو کو اس کا اڈیٹر مقرر کیا۔ منٹو اس کا حبی ِ‬

‫‪Dec‬‬
‫‪11‬‬

‫قاسم یعقوب کے تین مضامین‬

‫قاسم یعقوب بیک وقت اچھے نقاد بھی ہیں اور اچھے شاعر بھی۔ریختہ کے لیے ایک زمانے میں جب میں نے ان کی‬
‫غزلیں منگوائیں اور پڑھیں تو حیران رہ گیا کہ وہ کتنی اچھی غزلیں کہتے ہیں۔مجھے تو بے حد پسند آئیں‪ ،‬منفرد بھی‬
‫لگیں۔ان کی ادارت کا لوہا تو لوگ 'نقاط' جیسے اہم رسالے کی وجہ سے مان ہی چکے ہیں۔وہ نظموں کی پس ساختیاتی‬
‫تنقید کے حوالے سے ایک الگ اور مزید پہچان رکھتے ہیں‪،‬مگر مجھے ان کی یہ پہچان کوئی خاص پسند نہیں‪،‬مجھے تو‬
‫ان کا خالقانہ اظہار شعر بہت اچھا لگتا ہے‪ ،‬لیکن اس سے ان کی تنقیدی بصیرت پر کوئی فرق نہیں پ‬
‫‪2‬‬

‫‪Dec‬‬
‫‪10‬‬
‫ظفر سید کی نظمیں‬

‫یہ تو سچ ہے کہ نظم پڑھنا ایک الگ تجربہ ہے‪ ،‬اس پر غور کرنا دوسرا اور اس کی تعبیر فراہم کرنا تیسرا اور شاید‬
‫ایک غیر ضروری سا تجربہ معلوم ہوتا ہے۔نظم وہ ہے جو کہی گئی ہے‪ ،‬وہ اپنے اندر آباد ہے‪ ،‬شاعر کو محض داد دینے‬
‫یا کوسنے کے لیے اس کی تعبیر و تنقید کا دفتر لگانامیری نظر میں بہت اچھی بات نہیں ہے۔میں نہایت اہم تخلیقات کی‬
‫معروضی اور غیر معروضی دونوں قسم کی تنقیدات کو ان کے حق میں خراب میں تصور کرتا ہوں‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے‬
‫کہ شاعری اپنے اندرون سے باہر آکر پھیل جاتی ہے‪ ،‬جس طرح سیال کا حسن ‪ ،‬اس کو سکھا ک‬
‫‪1‬‬

‫‪Dec‬‬
‫‪9‬‬

‫دو باتیں‪/‬خورشید اکرم‬

‫میں نے تقریباسال بھر پہلے جب بہت سارے ادیبوں‪ ،‬شاعروں سے دس سوالوں پر مشتمل گفتگو شروع کی‪ ،‬تو ان میں‬
‫خورشید اکرم صاحب سے بھی سواالت پوچھے۔انہوں نے دو سواالت کے جواب مجھے میل کے ذریعے دیے اور باقی‬
‫آٹھ کو لکھ کر بھیجا۔میں نے سوچا تھا کہ جلد ہی انہیں ٹائپ کرکے بالگ پر شیئر کروں گا۔ یقینی طور پر وہ سارے‬
‫جوابات اتنے دلچسپ اور کسے ہوئے تھے کہ اس سے ایک طرف خورشید اکرم کی ادب کے حوالے سے شفاف فکر کی‬
‫نمائندگی ہوتی تھی تو وہیں ان سے بہت سے معامالت میں اختالف کے باوجود ہم سب کو سوچنے کے لیے کچھ نئے‬
‫زاویے م‬

‫‪Dec‬‬
‫‪7‬‬

‫مختصر افسانہ‪/‬راجندر سنگھ بیدی‬

‫راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی طرح ان کے مضامین بھی بے حد دلچسپ ہیں۔ کہانی کے تعلق سے ہمارے یہاں بہت‬
‫سی باتیں ہوئی ہیں‪ ،‬لوگوں نے مختصر افسانے کو کبھی پچھڑے طبقے کی مخلوق جانا‪ ،‬کبھی لوگوں نے اس کی تعریف‬
‫میں زمین و آسمان کے قالبے مالدیے مگر مجھے بیدی کے اس مضمون میں جو خالصتا ایک تخلیقی مضمون‬
‫ہے‪،‬افسانے کے تعلق سے ایسی تنقید پڑھنے کو ملی ہے کہ یہ روگ کسی ثقہ و معتبر نقاد کے بس کا نہیں معلوم‬
‫ہوتا۔کہانی کیسے کہی جاتی رہی ہے‪ ،‬اس کی خاصیت کیا ہے‪،‬کون سے عناصر سے الگ ہوکر کہانی ‪ ،‬کہانی نہیں رہ‬
‫سکتی اور‬

‫‪Dec‬‬
‫‪5‬‬

‫موراتھان منگن کی دو کہانیاں‬

‫مورا تھان منگن ترکی ُزبان کے معروف کہانی کار ہیں ۔ان کے افسانوں میں ترکی کلچر کی بھر پور عکاسی نظر آتی‬
‫ہے۔ (ادارہ نقاط) موراتھان کی دو کہانیاں آج ادبی دنیا پر پیش کی جارہی ہیں‪ ،‬ان دونوں کہانیوں میں دو مختلف بچوں کے‬
‫احساسات و جذبات کو بیان کیا گیا ہے‪،‬دنیا کے بڑے مفکرین مانتے ہیں کہ بچے سے زیادہ حساس اور کوئی نہیں ہوتا‪،‬‬
‫دوستوئیوسکی او ر ٹالسٹائی نے بھی بچوں کو سماج میں بڑوں کے برابر عزت دینے اور زندگی کے معامالت میں انہیں‬
‫شریک کرنے پر زور دیا ہے۔زیر نظر دونوں کہانیوں میں بچوں کے خود کو نمایاں رکھن‬
‫‪Dec‬‬
‫‪4‬‬

‫کاغذی پھول‪/‬گابرئیل گارشیا مارکیز‬

‫صبح کاذب کے ملگجے اندھیرے میں مینا نے راستہ محسوس کرتے ہوئے اپنا وہ لباس پہنا جس کی آستینیں الگ ہو جاتی‬
‫تھیں۔ پھر ٹرنک میں اس لباس کی آستینیں تالش کرنے لگی۔ اُس نے کھونٹیوں پر اور دروازوں کے پیچھے تالش کیا‬
‫مگر بے سود۔ اُس کی کوشش تھی کہ سارے عمل کے دوران کمرے میں سوئی ہوئی اس کی نابینا دادی کی آنکھ نہ کھل‬
‫جائے۔ لیکن جب وہ اندھیرے سے مانوس ہوئی تو اُس نے محسوس کیا کہ اس کی دادی جاگ چکی تھی اور باورچی‬
‫خانے میں موجود تھی۔ وہ باورچی خانے میں دادی سے اپنی آستینوں کے بارے میں پوچھنے چل دی۔‬

‫وہ غسل خ’’‬

‫‪Dec‬‬
‫‪3‬‬

‫ہاتھ کی صفائی‪/‬نجیب محفوظ‬

‫نجیب محفوظبالشبہ آج کی عرب دنیا کے ممتاز ادیب ہیں ۔اُن کا بیانیہ اپنی وضاحت اور اشاریت کے حوالے سے بہت ’’‬
‫طاقت ور صورت اختیار کر جاتا ہے ۔قاہرہ جہاں وہ پیدا ہوئے ‪،‬اُن کا محلہ جمالیہ جہاں وہ‪11‬دسمبر ‪ 1911‬کو پیدا ہوئے‬
‫‪،‬دھڑکتا نظر آتا ہے ۔حتّٰی کہ ان کی ایک تحریر ’’ قاہرہ ثالثیہ ‘‘ میں عبد الجود کا گھر اُن کے آبائی گھر کا بہترین نقشہ‬
‫میں منتقل ہو گئے جہاں انہیں پہلی محبت ہوئی۔ ‘پیش کرتا ہے ۔بعدمیں وہ ’محلہ عباسیہ‬

‫وہ ایک قوم پرست شخص تھے جس کا تاثر اُن کی اکثر تحریروں میں صاف نظر آتا ہے ۔ان کے ناولو‬

‫‪Nov‬‬
‫‪30‬‬

‫بورخیس کی کہانیاں‬

‫بین االقوامی ادب کے شائقین جانتے ہیں کہ بورخیس کے موضوعات معانی کا ایک سمندر ہیں اور وہ تاریخ‪ ،‬اساطیر‪،‬‬
‫‪ (magical‬فلسفہ‪ ،‬مذہب اور ریاضی وغیرہ سے تصورات مستعار لیتے ہوئے عمومی طور پر طلسماتی حقیقت نگاری‬
‫کی ادبی روایت میں کہانی اور کردار تخلیق کرتے ہیں۔ادبی نقادوں کے نزدیک ان کی شاعری )‪realism‬‬
‫سے ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ وجودیاتی فلسفے میں بورخسی مع ّمہ)‪ (Vergil‬اور ورجل )‪(Spinoza‬اسپینوزا‬
‫ان سے منسوب ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ادیب کہانی تخلیق کرتا ہے یا پھر کہانی )‪(Borgesian Conundrum‬‬
‫اسے تخلیق کرتی‬

‫‪Nov‬‬
‫‪27‬‬

‫دشمنی اور دوستی‪/‬میالن کنڈیرا‬


‫میالن کنڈیرا کے مضامین کا مجموعہ 'انکائونٹر' ان کے سیاسی‪ ،‬ادبی اور اخالقی خیاالت کی آماجگاہ ہے‪ ،‬کنڈیرا نے‬
‫بہت سے مضامین میں زندگی کے مختلف تجربات‪ ،‬ادیبوں سے اپنے تعلقات‪ ،‬اتفاق و اختالف کی نوعیتیں ظاہر کی‬
‫ہیں۔مضامین کا انداز نہایت تخلیقی ہے۔کنڈیرا کی ایک زبردست صفت اس بات سے اجاگر ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی‬
‫زندگی میں کسی فوری تاثر کو جوں کا توں قبول نہیں کیا‪ ،‬بلکہ اس پر غور و خوض کیا اور باریکی سے جائزہ لینے‬
‫کے بعد وہ کسی مثبت فکری نتیجے پر پہنچے ہیں‪ ،‬اب خواہ اس میں کسی سے اتفاق کیا گیا ہو یا اختال‬

‫‪Nov‬‬
‫‪26‬‬

‫جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے‪/‬بلراج مین را‬

‫بلراج مین را کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے‪ ،‬وہ بے انتہا قابل‪ ،‬نہایت اہم فن کار اور ادیب ہیں۔ میں نے ان کی گفتگو اس‬
‫الہدی نے ان کے تعلق سے 'سرخ و سیاہ' اور‬
‫ٰ‬ ‫سے پہلے زمرد مغل کے کیے گئے ایک انٹرویو میں سنی تھی‪ ،‬سرور‬
‫'بلراج مین را۔۔۔ایک ناتمام سفر' نام کی دو کتابیں ترتیب دی ہیں۔یہ کتابیں اچھی ہیں‪ ،‬مگر مین را کا حق محض اتنا نہیں‬
‫ہے‪ ،‬ان پر بات ہونی چاہیے‪ ،‬ان پر کام ہونا چاہیے‪ ،‬وہ شعور‪ ،‬سرخ و سیاہ اور مین راجنرل جیسے پرچوں کے مرتب‬
‫رہے ہیں‪ ،‬وہ مین را کے اداریے‪ ،‬وہ انور سجاد کی کہانیاں‪ ،‬وہ ادیبوں پر بے حد ا‬
‫‪1‬‬

‫‪Nov‬‬
‫‪23‬‬

‫نزار قبانی کی نظمیں‬

‫مارچ ‪1923‬میں سیریا کی ‪21‬نزار توفیق قبانی ‪ ،‬جو کہ سیریا کے مشہور ترین شاعر اور سیاستداں تھے‪ ،‬کی پیدائش‬
‫راجدھانی دمشق میں ہوئی تھی۔ وہ پرانے دمشق کے پاس‪ ،‬ایک عالقے میں تب تک رہے جب تک ‪ 1930‬میں وہ دمشق‬
‫کے نیشنل سائنٹفک کالج اسکول میں پڑھنے نہیں آگئے۔ انہوں نے یہاں پر ‪ 1941‬تک تعلیم حاصل کی ۔ یہ اسکول ان کے‬
‫والد کے دوست احمد منیف العیدی کا تھا۔ اس کے بعد قبانی نے دمشق یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں پر ‪1958‬تک ال‬
‫پڑھا۔ ان کوبیچلرز ڈگری آف ال ‪ 1945‬میں حاصل ہوئی۔کالج کے دنوں میں قبانی نے اپنا پہال شعر‬
‫‪1‬‬

‫‪Nov‬‬
‫‪22‬‬

‫مٹی آدم کھاتی ہے(ناول)‪/‬محمد حمید شاہد‬

‫آدمی کے نام‬

‫جو زمین کی محبت میں دیوانہ ہو گیا ہے‬

‫۔۔۔توکہانی یوں چلتی ہے‬

‫دیباچہ‬
‫انسانی صورت حال کا مستقل عنصر ہے۔ یہ ہمہ جہت اور ہمہ وقوع ہے۔اولیا ء ہللا کرام کو ہر باب میں نفس ‘‘دکھ’’‬
‫مطمئنہ حاصل ہوتا ہے لیکن ’’دکھ‘‘ سے خالی وہ بھی نہ تھے۔ حضرت نظام الحق والدین نظام االولیا اکثر راتوں کو نہ‬
‫سوتے اور اشکبار رہتے۔ایک بار امیر خسرو نے ہمت کر کے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جب اس شہر میں‬
‫ہزاروں بندگان خدا پر رات اس طرح گذرتی ہے کہ ان کے پیٹ میں روٹی نہیں اور تن پر چادر نہیں تو میں کیونکے س‬

‫‪Nov‬‬
‫‪19‬‬

‫مضرابیات‪/‬میراجی‬

‫پرانی تحریریں کہیں کہیں ایسی تازہ ہیں کہ پرانی کم اور نئی زیادہ لگتی ہیں۔اس سال جون کے مہینے میں یہ تحریر‬
‫اکہتر برس پرانی ہوگئی ہے۔اتنے برس میں رومانیت اور طنز دونوں کا بیڑہ اردو شاعری میں غرق ہوگیا ہے۔میرا جی کا‬
‫یہ دیباچہ ادب میں طنز و مزاح نگاری‪ ،‬رومانیت‪ ،‬شعر شناسی‪،‬شاعر فہمی اور شخصیت کے مطالعے کی اہمیت پر زور‬
‫دیتا ہے۔میرا جی کی تحریر بہت بے الگ ہے‪،‬ایسی بے ساختہ کہ پڑھنے والے کے سینے میں سطروں کے ڈورے پٹ‬
‫سن کی سالخوں کی طرح گڑتے نہیں بلکہ ریشم کی طرح لپٹتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اسی تحریر میں میر‬

‫‪Nov‬‬
‫‪15‬‬

‫جوسپ نووا کووچ کی کہانی اور انٹرویو‬

‫ترک وطن کر کے امریکا آئے۔ پہلی عالمی‬


‫ِ‬ ‫جوسپ نوواکووچ کے آباو اجداد تین پشت پہلے آسٹرو ہنگیرین سلطنت سے‬
‫جنگ کے بعد جوسپ کے نانا نے نئی ریاست یوگوسالویہ کو اپنا وطن بنایا۔ جوسپ کی والدہ امریکی ریاست کلیولینڈ میں‬
‫پیدا ہوئیں لیکن انھوں نے یوگوسالویہ کو وطن بنایا جہاں ‪۱۹۵۶‬ء میں جوسپ نوواکووچ پیدا ہوئے۔ بیس سال کی عمر‬
‫میں وہ نیو یارک آئے اور اب کنیڈا میں مقیم ہیں لیکن کروشیا اور امریکا سے بھی ان کا تعلق قائم ہے۔ وہ کروشیا سے‬
‫براعظم‬
‫براعظم شمالی امریکا سے۔ اپنے اس رجحان کو وہ ’’ذو ّ‬ ‫تعلق توڑ پاتے ہیں نہ ّ‬

‫‪Nov‬‬
‫‪15‬‬

‫دانیال طریر کی غزلیں‬

‫دانیال طریر کی یہ بیس بائیس غزلیں ہیں‪ ،‬یہ ساری غزلیں اس کے شعری مجموعے خواب کمخواب سے ماخوذ ہیں‪،‬‬
‫دانیال طریر اب ہمارے درمیان نہیں ہے‪ ،‬چند ماہ پہلے اس اچھے شاعر اور بہترین ادیب کا انتقال ہوگیا‪ ،‬کم عمری میں‬
‫اس کی موت کا ان تمام لوگوں کو افسوس ہے‪ ،‬جو اس کے دماغ کی تخلیقی اور شعوری اڑان کو دیکھ رہے تھے۔مجھے‬
‫دانیال طریر نے اپنا شعری مجموعہ خود میری درخواست پر عنایت کیا تھا‪،‬ادبی دنیا کی جانب سے آج ہم اس شاعری‬
‫کے ذریعے دانیال کو یاد بھی کررہے ہیں‪ ،‬اور چاہتے ہیں کہ آپ اسی غیر جانبداری سے اس کی شاعری کا‬

‫‪Nov‬‬
‫‪13‬‬

‫امن کے بعد‪/‬شینووا اچیبے‬


‫کا اثر صاف طور پر )‪(1967-1970‬مندرجہ ذیل کہانی شینووا اچیبے کی ہے‪ ،‬ان کی کہانیوں پر نائجیرین سول وار‬
‫محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کہانیاں مختصر اور دلچسپ ہوا کرتی ہیں‪ ،‬ان کی کتاب گرلز ایٹ وار میں موجود تمام کہانیوں‬
‫میں کہیں نہ کہیں جنگ‪ ،‬قحط سالی‪ ،‬بھوک اور غریبی کے مسائل کے اثرات غالب رہتے ہیں۔ یہ افسانوی مجموعہ ‪1972‬‬
‫میں شائع ہوا تھا‪ ،‬خورشید اقبال نے ان کی ایک مشہور کہانی سول پیس کا ترجمہ امن کے بعد کے عنوان سے کیا ہے‪،‬‬
‫جو کہ ان کی کتاب اک شب آوارگی میں موجود ہے‪ ،‬یہ کتاب اردو دوست الئبریری پر موجود ہے‪ ،‬ا‬

‫‪Nov‬‬
‫‪12‬‬

‫باجی رائو‪-‬مستانی‪/‬پروفیسر اکبر رحمانی‬

‫اس پورے مضمون کا نام 'پیشوائی دور کا ایک دلچسپ واقعہ ‪ ،‬باجی رائو مستانی کا معاشقہ تاریخ کے آئینے میں'‬
‫ہے۔ہندوستان بہت بڑا ملک ہے‪ ،‬اس کی تاریخ بھی اتنی ہی گہری‪ ،‬گھنی اور اندھے کنوئیں کے مانند ہے‪ ،‬اس کنوئیں کے‬
‫بطن میں بہت سی کہانیاں دفن ہیں‪ ،‬تاریخ کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ظالم و مظلوم دراصل دونوں ایک کہانی‬
‫کا کردار ہیں‪ ،‬جنہیں صدیاں گزرنے کے بعد کچھ آنکھیں اپنی تخلیقی روشنی میں ڈھونڈ کر دوبارہ زندہ کرسکیں گی‪،‬‬
‫حاالنکہ باجی رائو۔مستانی کی کہانی بالکل نئی نہیں ہے‪ ،‬اس پر پہلے بھی کام ہوتا رہا‬

‫‪Nov‬‬
‫‪10‬‬

‫کہانیوں سے ایک انتخاب )‪ (Zen‬ہر گھڑی دھیان‪/‬زین‬

‫اپنی زندگی کے آخری ایام میں گوتم بدھ ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو تعلیم کی غرض سے ایک پرسکون تاالب کے پاس‬
‫ب معمول اپنے گرو کے اردگرد دائرے کی صورت میں بیٹھ گئے اور خطبہ شروع ہونے کا انتظار‬ ‫لے گیا۔ تمام معتقد حس ِ‬
‫کرنے لگے۔ بدھ کی خاموشی طول پکڑتی گئی۔حاضرین کی بے چینی بڑھتی گئی۔ باالخر بدھ نے کنول کا ایک پھول‬
‫توڑا اور خاموشی کے ساتھ ان کے سامنے اٹھایا۔شاگردوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بدھ نے وہ پھول یکے بعد دیگرے‬
‫سب شاگردوں کے سامنے کیا ہر ایک نے اپنی دانست کے مطابق اس رمز کا مطلب بیان کرنے کی کوشش کی۔‬
‫‪1‬‬

‫‪Nov‬‬
‫‪9‬‬

‫ایک مضحکہ خیز آدمی کا خواب‪/‬فیودردوستوئیفسکی‬

‫فلسفہ وجودیت کے تحت انسانی نفسیات کا مطالعہ ایک مستقل موضوع کے‬
‫ٔ‬ ‫یوں تو دوستووسکی کے تمام ادبی کام میں‬
‫زیر زمین رسائل‬
‫‪‘ (Notes from‬طور پر سامنے آتا ہے پھر بھی نقادوں کے نزدیک اس کے مختصر ناول ’ ِ‬
‫مادام ’کو فرانسیسی مصنف دیدرو کے ناول ’رامیو کا بھتیجا‘‪ ،‬ترگنیف کے ’نئی پود‘ اور فالبرٹ کے )‪Underground‬‬
‫بوواری ‘ وغیرہ کے ساتھ بین االقوامی ادب کے چند ایسے فن پاروں میں شمار کیا جاتا ہے جنہیں یورپ کی تنویری‬
‫نقطہ آغ‬
‫ٔ‬ ‫تحریک اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کے بعد ادب میں جدیدیت کی تحریک کا‬

‫‪Nov‬‬
‫‪8‬‬
‫جون ایلیا کی غزلیں‬

‫جون ایلیا کا آج یوم وفات ہے‪ ،‬وہ ‪14‬دسمبر ‪ 1931‬میں پیدا ہوئے اور ‪ 8‬نومبر‪ 2002‬میں ان کا انتقال ہوگیا‪ ،‬جون کی‬
‫انفرادیت ان کے منفرد لہجے سے ثابت ہے‪ ،‬میرا خیال ہے‪ ،‬جون کی جتنی شہرت ان کی غزلوں کی بنیاد پر ہوئی‪ ،‬اس‬
‫کی وجہ سے بہت حد تک ان کی نظموں کو نظر انداز کیا گیا‪ ،‬جبکہ ان کی نظمیں ان کے فلسفیانہ ذہن کی بہترین عکاسی‬
‫کرتی ہیں‪ ،‬ان کے علم اور تخلیق دونوں کا جوہر ان کی شاعری میں جس قدر نظم میں کھلتا ہے‪ ،‬غزل میں اس قدر نہیں‪،‬‬
‫یہ کمی غزل کی ہوسکتی ہے‪ ،‬جون کی نہیں‪ ،‬کیونکہ جون نے تو غزل میں بھی اچھی شاعری کی‬

‫‪Nov‬‬
‫‪7‬‬

‫فن‪ ،‬صداقت او رسیاست‪ /‬ہیرلڈ پنٹر‬

‫یہ تقریرہیرالڈ پنٹر کی ہے‪ ،‬جو اس نے نوبل انعام ملنے کے موقع پر کی تھی‪ ،‬اس میں اس نے امریکہ کی اقتدار پسند‬
‫پالیسیوں کو جیسے بے نقاب کیا تھا‪ ،‬وہ خاصے کی بات تھی‪ ،‬اس تقریر کا ترجمہ زکریا شاذ صاحب نے کیا تھا‪ ،‬جو کہ‬
‫سمبل کے دوسرے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ترجمے کی روانی زبردست ہے‪ ،‬کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم‬
‫ترجمہ پڑھ رہے ہیں‪ ،‬اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے‪ ،‬بہرحال ہیرالڈ پنٹر کی اس پوری تقریر میں مجھے اس کی دوسری‬
‫باتوں کے ساتھ یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ ''ایک ادیب کی زندگی انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے‬
‫‪1‬‬

‫‪Nov‬‬
‫‪6‬‬

‫عصمت چغتائی‪/‬سعادت حسن منٹو‬

‫ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‪ ،‬عصمت چغتائی کا یہ خاکہ سعادت حسن منٹو کا تحریر کردہ ہے‪ ،‬کسی بھی‬
‫شخصیت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہمیشہ اس کے معاصرین کی تحریر مددگار ثابت ہو یہ ضروری نہیں ہے‪ ،‬مگر‬
‫منٹو جیسے سفاک قلم کار نے جب عصمت جیسی سچی افسانہ نگار کے بارے میں کچھ لکھا ہو تو اس کی حقیقت پر‬
‫حرف نہیں الیا جاسکتا‪ ،‬اس خاکے میں منٹو نے بہت سی دلچسپ باتیں لکھی ہیں‪ ،‬عصمت کے بارے میں بھی اور اپنے‬
‫بارے میں بھی‪ ،‬اس سے ان دونوں شخصیات کی فکر‪ ،‬طرز زندگی اور تخلیقی ہنر مندی کا پتہ تو چلتا ہی ہے ساتھ ہی‬

‫‪Nov‬‬
‫‪5‬‬

‫دیوندر ستیارتھی کی تین کہانیاں‬

‫یہ تینوں کہانیاں‪ ،‬عبدالسمیع کی ترتیب دی ہوئی دیوندر ستیارتھی کی کہانیوں کی کلیات شہر شہرآوارگی سے لی گئی‬
‫ہیں‪ ،‬عبدالسمیع نے اس پوری کلیات کو ادبی دنیا پراپلوڈ کرنے کی اجازت دے دی ہے‪ ،‬مگر میرے خیال میں جستہ جستہ‬
‫ان کہانیوں کو آپ کو پڑھوایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا‪ ،‬اس طرح کہانیاں میں بھی پڑھ لوں گا‪ ،‬اور آپ بھی ان سے لطف‬
‫اندوز ہوتے رہیں گے‪ ،‬دیوندر ستیارتھی کی ذات سے کون واقف نہیں‪ ،‬ان کی ادبی خدمات کا بھی ایک زمانہ معترف‬
‫ہے۔ان کی زندگی سیر و سیاحت میں گزری اور اس سیاحت میں انہوں نے ہندوستان ‪ ،‬پاکس‬
‫‪2‬‬
‫‪Oct‬‬
‫‪31‬‬

‫تہذیبی نرگسیت‪/‬مبارک حیدر‬

‫تمہید کے طور پر‬

‫پچھلے چند برسوں کے دوران مسلم ا ّمہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑا نام کمایا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات‬
‫سے پہلے بھی ہمارے مسلم معاشرے عالمی برادری میں اپنی علیحدگی پسندی اور جارحانہ فخر کی وجہ سے ممتاز مقام‬
‫پر فائز رہے ہیں۔‬

‫دنیا بھر میں اسالم اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کی تالش جاری ہے اور بیشتر خوشحال یا ترقی یافتہ معاشروں کا‬
‫دعوی ہے کہ جسے دہشت گردی کہا جارہا ہے‪ ،‬وہ سرگرمی اسالم کے بنیادی کردار کا حصہ ہے۔ دوسری طرف سے‬ ‫ٰ‬
‫مسلم معاشروں کے نمائندہ سیاست دان اور دانش ور مسلسل وضاح‬

‫‪Oct‬‬
‫‪30‬‬

‫کلیسا‪/‬ریمینڈ کارور‬

‫ریمنڈ کارور کو امریکی چیخوف کہا جاتا ہے‪ ،‬کیوں کہ چیخوف ہی کی طرح وہ حقیقت نگار ہیں اور ان کی کہانیاں انسان‬
‫اور انسانیت کی تفہیم میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ چیخوف ہی کی طرح کارور کے بیش تر کرداروں کا تعلق نچلے طبقے‬
‫سے ہے ۔ کارور نے شہرت حاصل کرنے سے پہلے مختلف قسم کے کام کیے تھے‪ ،‬جن میں بہ طور پلمبر ‪ ،‬چوکی دار‪،‬‬
‫اور آرا مشین پر مزدوری جیسے کام بھی شامل ہیں‪ ،‬اس لیے ان کی کہانیوں میں نچلے طبقے کے بارے میں ان کا ذاتی‬
‫انداز تحریر کو اختصاریت‬
‫ِ‬ ‫کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اگرچہ)‪ (Minimalism‬تجربہ جھلکتا ہے۔کارور کے‬

‫‪Oct‬‬
‫‪29‬‬

‫سید کاشف رضا کی غزلیں‬

‫ہندوستان اور پاکستان کے عالوہ دنیا بھر کے اردو ادیبوں کا ہم نے ایک چھوٹا سا میلہ لگایا ہے۔ دل کی پلیا پر سے‬
‫گزرتے ہوئے اس تخلیقی رونق کو دیکھنے کے لیے چند مسافر رک جایا کرتے ہیں‪ ،‬خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی‬
‫آنکھیں علم کی مشعلوں سے چمکتی ہیں‪ ،‬ان کے دلوں میں نئے پن کی ہوک اٹھتی ہے‪ ،‬ان کے تبصرے تجربوں‪،‬‬
‫مشاہدوں اور فکر کی کانوں سے تپ کر نکلتے ہیں‪ ،‬سو اس پیاری سی پلیا پر یہ چھوٹا سا میلہ‪ ،‬ادبی دنیا ہے۔پچھلے کچھ‬
‫روز سے اس رہ گزر پر اندھیرا ہے‪ ،‬میری آنکھیں اس وقت بھی تھوڑی سوجی ہوئی ہیں‪ ،‬ہاتھ کی بورڈ پر‬
‫‪1‬‬

‫‪Oct‬‬
‫‪25‬‬

‫تصنیف حیدر کی نظمیں‬


‫کچھ روز سے تیز بخار ہے‪ ،‬یہ گرمئی حاالت کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔کچھ حاالت ملک کے بگڑے ہوئے ہیں‪ ،‬کچھ‬
‫میرے۔بہرحال حالت تو جلد یا بدیر ٹھیک ہوجائے گی‪ ،‬مگر حاالت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔لوگ یا تو بہت‬
‫معصوم ہیں یا تو بہت چاالک‪ ،‬جو نفرت کے نام پر جتنی جلدی جمع ہوجاتے ہیں‪ ،‬محبت کی چیخوں پر بھی جمع نہیں‬
‫ہوتے‪ ،‬چاہے اس کا گال ہی کیوں نہ چھل جائے۔انہی خیاالت نے کئی دنوں سے پریشان بھی کررکھا ہے‪ ،‬مجھے بھی اور‬
‫میرے جیسے دوسرے نوجوان دوستوں کو بھی۔خیاالت کی ایسی ہی بھیڑ بھاڑ کے نتیجے میں یہ چند نظمیں لکھ‬
‫‪2‬‬

‫‪Oct‬‬
‫‪23‬‬

‫مومن خاں مومن(حیات اور مطالعاتی ترجیحات)‪/‬معید رشیدی‬

‫مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا ۔ بیالیس تیتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ ‪ ،‬پندرہ پندرہ برس کی میری‬
‫اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اس میں ربط پیدا ہوا ۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و مالل درمیان‬
‫نہیں آیا ۔ حضرت چالیس چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا ‪ ،‬دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے ۔ یہ شخص بھی اپنی وضع‬
‫کا اچھا کہنے واال تھا ۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی ۔‬

‫مرزا غالب‬

‫مئی‪211852‬‬

‫پیش نامہ‬

‫مومن خاں مومن اردو کے منفرد شاعر ہیں ۔ غزل کے کڑے سے کڑے انتخاب میں بھی انھیں جگہ مل جائے گی‬

‫‪Oct‬‬
‫‪20‬‬

‫شرق مرے شمال میں(شعری مجموعہ)‪/‬ذوالفقار عادل‬

‫ذوالفقار عادل کی کتاب ‘اردو غزل کی ایک نئی کتاب’ ہے۔اس شاعری کے قاری بھی نئے ہیں۔اسے پڑھنے اور اس کا‬
‫استقبال کرنے کا مناسب وقت یہی ہے کہ یہ شاعری جدیدیت کا بالکل تازہ چہرہ ہے۔ہم تخلیقیت میں جس مشقت‪ ،‬جس‬
‫محنت اور جس انفرادیت کے قائل ہیں‪ ،‬نئے وسائل اور نئے مسائل سے بھری ہوئی اس شاعری کا اندازاپنے ہم عصروں‬
‫کو ان کی حیثیت کا اندازہ کروانے کے لیے کافی ہے۔یہ شاعری نئے پن کی کامیابی ہے‪ ،‬اور غزل جیسی صنف میں‪،‬‬
‫جہاں خیال کو سانچے میں ڈھالنے کی آزادی بہت کم ہے‪ ،‬ایسی تازہ کاری مشکل ہی سے دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ‬

‫‪Oct‬‬
‫‪19‬‬

‫یونہی (مجموعہ کالم)‪/‬ادریس بابر‬

‫ادریس بابر کی شاعرانہ اہمیت کا کون منکر ہوسکتا ہے۔ ان کا کالم پڑھنے والوں اور پسند کرنے والوں کی ایک بڑی‬
‫تعداد ہے۔ میں خود بھی ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ ان کے شعری مجموعے 'یونہی' کو کئی روز سے تالش کررہا تھا‪،‬‬
‫کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ مجھ تک اور ادبی دنیا کے ذریعے بیش تر قارئین تک پہنچ سکے۔ اس شعری مجموعے کی‬
‫پشت پر لکھا ہے کہ 'ادریس بابر جدید اردو غزل کے اہم شاعر ہیں‪ ،‬ان کی تخلیقات نوے کی دہائی سے پاک و ہند کے‬
‫معروف ادبی جریدوں کی زینت بنتی رہی ہیں۔۔۔۔زیر نظر کتاب ادریس بابر کی شاعری کے پہلے دس ب‬

‫‪Oct‬‬
‫‪18‬‬

‫رات بہت ہوا چلی‪ /‬رئیس فروغ‬

‫رئیس فروغ ‪ 1926‬میں پیدا ہوئے اور ‪ 1982‬میں ان کا انتقال ہوا۔ان کی شاعری اس قدر منفرد اورمعیاری ہے کہ ادب‬
‫کے قارئین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مگر افسوس کہ رئیس فروغ کو ہمارے مشہور و معروف شاعروں‬
‫کے گروپ میں کوئی خاص جگہ نہیں مل سکی۔جبکہ ان کا نیا پن بہت سے معروف شاعروں کو معنوی و لفظی طور پر‬
‫ان کے آگے بونا ثابت کرتی ہے۔رئیس فروغ کا یہ مجموعہ طارق رئیس فروغ صاحب کی وجہ سے آپ تک پہنچ سکا‬
‫ہے۔ مجھےان کا یہ مجموعہ ادبی دنیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے۔ان کی شاعری نے مجھے‬
‫بھی‬

‫‪Oct‬‬
‫‪16‬‬

‫میری ماں کہاں‪/‬کرشنا سوبتی‬

‫کرشنا سوبتی ‪ 18‬فروری ‪ 1925‬کو پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئیں‪ ،‬جو کہ اب پاکستان میں ہے۔پچاس کی دہائی‬
‫سے آپ نے کہانیاں لکھنی شروع کیں اور آپ کی پہلی کہانی المہ ‪ 1950‬میں شائع ہوئی۔آپ ہندی زبان کے فکشن‬
‫نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ 'ڈار سے بچھڑی‪ ،‬زندگی نامہ‪ ،‬اے لڑکی‪ ،‬مترو مرجانی وغیرہ آپ کی مشہور کہانیاں‬
‫ہیں۔ہندوستان میں آپ کو پچاسوں چھوٹے بڑے انعامات کے ساتھ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی مال تھا‪ ،‬جو کہ آپ نے حال ہی‬
‫میں ادیبوں پر ہونے والے حملوں اور دادری میں ایک شخص کے بے رحمانہ قتل پر اپنا احتجاج درج ک‬

‫‪Oct‬‬
‫‪16‬‬

‫عمر خیام اردو میں‪/‬ظفر سید‬

‫اگر غیاث الدین ابوفتح عمر بن ابراہیم نیشاپوری کا کوئی ہم عصر آج کے دور میں آ جائے تو اسے یہ جان کربڑا تعجب‬
‫ہو گا کہ عمر خیام دنیا بھر میں شاعر کی حیثیت مشہور ہے۔ حاالں کہ نہ صرف خیام کے اپنے دور میں بل کہ بعد میں‬
‫کئی صدیوں تک اسے ایک نابغۂ روزگار عالم اور سائنس دان کی حیثیت سے شہرت حاصل تھی۔ شبلی نعمانی اپنی کتاب‬
‫امام فن‬
‫’شعرالعجم‘ میں لکھتے ہیں کہ خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہم سر اور مذہبی علوم اور فن و ادب اور تاریخ میں ِ‬
‫وسطی کے عظیم ترین ری‬‫ٰ‬ ‫تھا۔ جب کہ سائنسی مورخ جی سارٹن نے خیام کو ازمنۂ‬
‫‪3‬‬

‫‪Oct‬‬
‫‪8‬‬
‫)ہاتھی کی گمشدگی‪/‬ہاروکی موراکامی (انگریزی سے ترجمہ‪ :‬سید سعید نقوی‬

‫ہاروکی موراکامی ‪ 12‬جنوری ‪ 1942‬کو پیدا ہوئے‪ ،‬وہ معاصر جاپانی فکشن نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ ان کی کہانیوں‬
‫کے تراجم قریب دنیا کی پچاس زبانوں میں ہوچکے ہیں۔اردو میں ان کی یہ کہانی پیش کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ‬
‫الڈبروکس کی ویب سائٹ پر جن ادیبوں کے نام بطور متوقع نوبل پرائز ونر کے دیے گئے تھے‪ ،‬ان کا ادب ادبی دنیا کے‬
‫نوبل اڈیشن‪ 2015‬کے ذریعے آپ تک پہنچایا جائے۔حاالنکہ اب یہ انعام بیالروس کی صحافی سوئتالنا الیگزائوچ کو مل‬
‫چکا ہے‪،‬جنہوں نے یوٹیوپیا‪ ،‬چرنیبول وغیرہ جیسی جگہوں پر جنگ اور ایٹمی پالنٹ کی ت‬

‫‪Oct‬‬
‫‪6‬‬

‫آج ستمبر (شمارہ ‪ 1‬خزاں ‪/)1989‬ترتیب‪:‬اجمل کمال‬

‫ابتدا‬

‫ایک باقاعدہ جریدے کی ‘‘منتخب نظم و نثر کے کتابی سلسلے کے طور پر سات مجموعے شائع کرنے کے بعد ’’آج‬
‫صورت میں اپنے سفر کی ابتدا کر رہا ہے۔ سرما‪ ،‬بہار‪ ،‬گرما اور خزاں کے شمارے بالترتیب دسمبر‪ ،‬مارچ‪ ،‬جون اور‬
‫ستمبر میں شائع ہوا کریں گے۔‬

‫آج کی کتابوں کی روایت کے مطابق ہر شمارے میں منتخب اردو تحریروں کے عالوہ مختلف زبانوں اور عالقوں کے‬
‫ادب کے ترجمے بھی شامل ہوں گے۔ اس شمارے کے مندرجات کی تفصیل آپ اگلے صفحات پر دیکھ سکتے ہیں۔‬

‫انتخاب‘‘ کے عنوان سے ایک گوشہ ہر بار کسی ایک مصنف یا موضوع کے تفصیلی’’‬

‫‪Oct‬‬
‫‪5‬‬

‫ہانس بورلی کی نظمیں‬

‫میں پیدا ہوا۔ اس کی زندگی دو )‪(Hedmark‬ہانس بورلی ‪۱۹۱۸‬ء میں ناروے کے جنوب مشرقی دیہاتی عالقے ہڈمارک‬
‫پیشوں میں بٹی رہی۔ سارا دن وہ نا رویجین جنگلوں میں بطور لکڑہارے کے لکڑیاں کاٹتاجب کہ رات کو بطور شاعر‬
‫زندہ ہو جاتا۔ہانس بورلی ناروے کے جدید نمائندہ شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے ‪ ۱۱۰۰‬سے زائد نظمیں‬
‫لکھینجن میں جنگل کی گہری تنہائی‪ ،‬مٹی کے مزاج‪ ،‬کثیر رنگ آسمان‪،‬طویل برفانی موسم‪ ،‬پرندوں کی پھڑپھڑاتی‬
‫آوازیں ‪،‬دو عالمی جنگوں میں پیدا ہونے والی انسانی بے قدری اور افق در افق پھیلی سورج کی ست رنگی روشن‬

‫‪Oct‬‬
‫‪4‬‬

‫نیومی شہاب نائے (نظمیں)‪/‬تنویر انجم‬

‫نیومی شہاب نائے ایک شاعرہ‪ ،‬گیت نگار اور ناول نگار ہیں۔ ان کے والد فلسطینی اور والدہ امریکی ہیں۔ اگرچہ وہ خود‬
‫کو ’’آوارہ گرد‘‘ شاعر کہتی ہیں‪ ،‬ان کا قیام زیادہ تر امریکہ کی جنوبی ریاست ٹیکساس کے شہر سین انٹونیو میں رہتا‬
‫ہے۔نیومی نے چھ سال کی عمر میں‪ ،‬جیسے ہی انھوں نے لکھنا سیکھا‪ ،‬شاعری شروع کی۔ مگر چودہ سال کی عمر میں‬
‫نقطہ نظر بالکل بدل دیا اور فلسطین سے متعلق موضوعات ان کی‬
‫فلسطین کے سفر اور اپنی دادی سے مالقات نے ان کا ٔ‬
‫شاعری میں مرکزی حیثیت کے حامل ہو گئے۔ان کی شاعری کے سات مجموعے تاحال شائع ہو‬

‫‪Oct‬‬
‫‪3‬‬

‫میر واہ کی راتیں‪ /‬رفاقت حیات‬

‫یّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ ّٗ رات اس کی بے کار زندگی کی گزشتہ تمام راتوں سے بے حد مختلف تھی‪ ،‬شاید اسی لیے‬
‫آج ک ّ‬
‫اس کی نینداس کی آنکھوں سے پھسل کررات کے گھپ اندھیرے میں کہیں گم ہو گئی تھی مگر وہ اسے تالش کرنے کی‬
‫بے سود کوشش کر رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ آج رات اس کے لیے پلک جھپکنادشوار تھا اور آنکھیں موندکر سونابالکل‬
‫ناممکن۔وہ محرابوں والے برآمدے میں چھت کی سیڑھیوں کے قریب چارپائی پر رضائی اوڑھے لیٹا ہوا رات گزارنے‬
‫کی تدبیر ڈھونڈ رہا تھا۔وہ اٹھ بیٹھااور اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنے تکیے کے نیچے سے ایک بوسیدہ اور مڑے تڑ‬

‫‪Oct‬‬
‫‪2‬‬

‫محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت‪/‬پابلو نیرودا‬

‫نیرودا کی عورتوں کے نام‬

‫محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت‬

‫تعارف‬

‫)‪(۱‬‬

‫ادب میں امریکی ماورایت‪ /‬موضوعیت اور فرانسیسی عالمت نگاری کے رجحانات بیسویں صدی کے بہت سے شعراء‬
‫کے ہاں موجود ہیں جن میں پابلو نیرودا نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ نیروداکی شہرۂ آفاق کتاب ’’محبت‬
‫میں اِن رجحانات کی واضح )‪‘‘ (Twenty Love Poems and a Song of Despair‬کی نظمیں اور بے بسی کا گیت‬
‫بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان میں جذبے کی شدت اور انفرادی تخیّل‪ ،‬کالسیکی رومانویت سے مختلف ہے۔نیرودا‪ ،‬جدیدیت‬
‫کی دہلیز پر عالمت نگاری اور آوا‬

‫‪Sep‬‬
‫‪30‬‬

‫سریندر پرکاش (خصوصی گوشہ)‪/‬نقاط۔‪9‬‬

‫سریندر پرکاش کے افسانے‪/‬شمس الرحمن فاروقی‬

‫اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا‬

‫اس مصرع کو دو طرح پڑھا جاسکتاہے۔ایک تو اس معنی میں کہ ’’بس اتنی سی بات تھی جسے بڑھا چڑھا کر افسانہ بنا‬
‫ڈاال‘‘ اور ایک انبساط واستعجاب کے لہجے میں کہ ’’صرف اتنی سی بات کو اس طرح کہا کہ افسانہ بن گئی‘‘ پہال رویہ‬
‫نئے افسانے کے بہت سے قاریوں کا ہے‪ ،‬اور دوسرا نئے افسانہ نگار کا۔اگرچہ آج کل نئے پرانے کی بحث شعر کے‬
‫میدان میں زیادہ ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نئے افسانے کا ناتیار قاری خود کو اس دنیا میں مبہوت اور چکراتا ہوا‬
‫دی‬

‫‪Sep‬‬
‫‪28‬‬

‫)فاروق مضطر (انتخاب‬

‫‪،‬شہریار‪،‬عادل‬
‫ؔ‬ ‫اشک‬
‫ؔ‬ ‫غوری‪،‬بانی‪،‬عرفان صدیقی‪،‬بمل کرشن‬
‫ؔ‬ ‫زیب‬
‫فاروق مضطرکا سن پیدائش‪1954‬ہے۔آپ اسع ؔد بدایونی‪ؔ ،‬‬
‫مضطر شمس‬ ‫ؔ‬ ‫ہیں۔‬ ‫عصر‬ ‫ہم‬ ‫کے‬ ‫شعرا‬ ‫گو‬ ‫غزل‬ ‫ہندوستانی‬ ‫ممتاز‬ ‫منصوری‪،‬محمد علوی‪،‬پرتپال سنگھ بیتاب وغیرہ جیسے‬
‫الرحمٰ ن فاروقی کی جدیدیت کی تحریک سے متاثر اور’’ شب خون‘‘ سے وابستہ رہے۔ستر کی دہائی میں ایک طرف‬
‫مضطر تواتر سے ’’‬
‫ؔ‬ ‫جہاں جدید غزل کے نامور شاعر ظفر اقبال کی غزل غیرمعمولی شہرت حاصل کر رہی تھی وہیں‬
‫شب خون‘‘ سمیت برصغیر کے اہم پرچوں میں چھپتے رہے۔انہوں نے اس وقت’’ دھنک‘‘ نام سے جموں کشمیر سے‬
‫ایک انتہا‬

‫‪Sep‬‬
‫‪27‬‬

‫لشکری زبان‪/‬ظفر سید‬

‫تیرہویں صدی عیسوی کے آغازمیں وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسا طوفان اٹھا جس نے معلوم دنیا کی بنیادوں‬
‫کو تہ و باال کر کے رکھ دیا۔ چنگیز خان کی سفاک دانش کی رتھ پر سوار منگول موت اور تباہی کا پیغام ثابت ہوئے اور‬
‫دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے بعد شہر‪،‬عالقے کے بعد عالقہ اور ملک کے بعد ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ محض‬
‫چند عشروں کے اندر اندر خون کی ہولی کھیلتے‪ ،‬کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے‪،‬سنگین قلعوں اور عا لی شان محلوں‬
‫کی راکھ اڑاتے منگول بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے مالک‬
‫‪1‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪26‬‬

‫)افضال احمد سید (شعری انتخاب‬

‫افضال احمد سیدکا شعری انتخاب حاضر ہے۔اس میں ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں شامل ہیں۔شاعری میں ان کا اسلوب‬
‫نہایت الگ ہے۔وہ جدید نظم کے حوالے سے بڑی اہم شناخت رکھتے ہیں۔ہر زبان کا ادب پڑھنے والوں کی طرح ہمیں‬
‫بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے دور میں موجود اہم شاعروں کی تخلیقات پر گفتگو کریں‪ ،‬اور ان کو سمجھنے کی‬
‫کوشش کریں۔نظم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے غزل کی طرح تعبیر کے بلیک ہول میں پھینکا نہیں جاسکتا‪ ،‬ہر‬
‫نظم کی تعبیرات محدود ہوتی ہیں‪،‬ان تک پہنچنے کے لیے نظم اور اس کے عہدکا مطالعہ ضروری ہے‪ ،‬کوئی بھی نظم ا‬

‫‪Sep‬‬
‫‪22‬‬
‫جمال احسانی کی غزلیں‬

‫یہ جمال احسانی کی غزلیں ہیں۔قریب چالیس ہونگی‪ ،‬جمال احسانی کا اسلوب کمال کا ہے‪ ،‬وہ شاعری میں دھیمے لہجے‬
‫کے ساتھ کچھ نئے الفاظ اور کچھ نئے خیاالت کی آمیزش کو بھی ضروری سمجھتے ہیں‪ ،‬جہاں اشعار روایتی رنگ کے‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬ان میں بھی کسی قسم کی ندرت پیدا کرنے کا ہنر انہیں خوب پتہ ہے۔جمال احسانی کی مزید غزلیں جلد ہی میں‬
‫ادبی دنیا پر شیئر کروں گا‪ ،‬ساتھ ہی ساتھ ثروت حسین‪ ،‬صغیر مالل‪ ،‬رئیس فروغ‪ ،‬عماد قاصر اور ایسے بہت سے اچھے‬
‫شاعروں کا کالم آپ کے مطالعے کے لیے پیش کروں گا۔اس کے عالوہ آپ جن اچھے شاعروں کی غزلیں‬

‫‪Sep‬‬
‫‪17‬‬

‫خلیل جبران کے دو مضامین‬

‫خلیل جبران کے دو مضامین پڑھنے کے لیے موجود ہیں‪ ،‬پڑھنے سے زیادہ سوچنے کے لیے‪ ،‬توقعات پر کھرا نہ اترنا‪،‬‬
‫ہمارے یہاں ایک ایسی اندھی مایوسی کا شکار لوگوں کو بنادیتا ہے کہ وہ گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر مخالفت کے نعرے‬
‫لگانے لگتے ہیں۔شاعری‪ ،‬سیاست‪ ،‬قانون‪ ،‬الغرض کوئی بھی شعبہ ہو‪ ،‬اس میں نئے پن‪ ،‬نئے معنی اور نئی گنجائشیں پیدا‬
‫کرنے کی کسی بھی کوشش کو کفر کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔تہذیبوں کی کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہم لوگ‪ ،‬چپ چاپ نہ‬
‫ڈوبنے کی سزا دن رات کاٹ رہے ہیں۔ایسے میں کوئی عام آدمی ہٹ کر سوچتا ہے تو خاموش کرادی‬
‫‪1‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪16‬‬

‫دھڑن تختہ(ناول)‪/‬اشعر نجمی‬

‫یہ اشعر نجمی کا ایک غیر مطبوعہ ناول ہے‪ ،‬میرے خیال میں اب تک اس کا کوئی بھی باب کہیں شائع نہیں ہوا ہے۔اشعر‬
‫نجمی کے نام اور کام سے تقریبا سبھی لوگ واقف ہیں‪ ،‬لیکن اس بات کی خبر شاید ہی کچھ لوگوں کو ہو کہ انہوں نے‬
‫ایک ناول بھی لکھ رکھا ہے۔یہ ناول انہوں نے مجھے میل کے ذریعے پڑھنے کے لیے چھبیس فروری دو ہزار چودہ کو‬
‫بھیجا تھا۔میں نے ناول پڑھا تھا اور اس پر ہماری فون پر گفتگو بھی ہوئی تھی۔ناول دلچسپ ہے‪ ،‬کشیپ صاحب کا‬
‫کردارزبردست ہے‪ ،‬ابواب کے نام بھی اچھی طرح تراشے گئے ہیں۔میں ابھی اس ناول پر زیادہ بات نہ‬

‫‪Sep‬‬
‫‪14‬‬

‫نیلی کے سو رنگ‪/‬سرمد صہبائی‬

‫ماوری کے نام‬

‫خلقت جب مکر وریا کے جبر میں دَر بند ہوئی تو صوفیوں نے معرفت کا دروازہ کھوال۔ اہل دربار کا لہجہ ترک کیا‪ ،‬اور‬
‫اس خطے میں بہنے والے دریاؤں کی مٹی میں گوندھے ہوئے کوذۂ سخن کے لب کلمۂ ہ ُو سے وا کیے۔‬

‫یہ کلمۂ ہ ُو دربار سے باہر بسنے والی مخلوق کے دلوں میں صدیوں سے دھڑک رہا ہے۔‬
‫سروں کا رس ُگھلتا ہے۔‬
‫اس دھمال میں ہمارے جال وطن استعاروں دیو ماالؤں اور ُ‬

‫یہی دھمال ہمارے تہذیبی الشعور کا ماخذ ہے۔‬

‫نیلی کے سو رنگ‘‘ اس حال میں اتر کر ایک بچھڑے ہوئے سخن سے ہم آغوش ہونے کی خواہش ہے۔’’‬

‫حاجی لوگ م‬

‫‪Sep‬‬
‫‪12‬‬

‫زمرد مغل سے دس سواالت‬

‫زمرد مغل حال ہی میں دہلی اردو اکیڈمی کے ممبر بنے ہیں‪ ،‬حاالنکہ اس سے پہلے بھی لوگ اس اکیڈمی کے ممبر بنتے‬
‫رہے ہیں‪ ،‬مگر ان سے ظاہر ہے کہ میرا تعلق بھی خاص نہیں تھا اور توقعات بھی۔زمرد کے ساتھ یہ دونوں چیزیں‬
‫وابستہ ہیں‪ ،‬اس لیے ان سے میں نے دہلی اردو اکیڈمی میں ان کی پوزیشن‪ ،‬ان کے ارادوں‪ ،‬اکیڈمی کے رویوں اور اس‬
‫کے منصوبوں کے تعلق سے کچھ باتیں کرنی چاہی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ کسی بھی معاملے میں سرکاری اداروں سے‬
‫توقع کرنا یا ان کا محاسبہ کرنے کی کوشش کرنا وقت کا زیاں ہے‪ ،‬مگر زمرد مغل چونکہ اس عہدے پر فائز‬

‫‪Sep‬‬
‫‪11‬‬

‫جج صاحب‪/‬ادے پرکاش‬

‫نو سال ہو گئے‪ ،‬اُتّری دہلی کے روہنی عالقے میں تیرہ سال تک رہنے کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر ویشالی کی اس جج‬
‫کالونی میں آئے ہوے۔ یہ ویشالی کا ‘پاش’ عالقہ مانا جاتا ہے۔ اترپردیش کی سرکار نے منصفوں کے لیے یہاں پالٹ‬
‫مخصوص کیے تھے۔ ایسے ہی ایک پالٹ پر بنے ایک گھر میں میں رہتا ہوں۔‬

‫جس سڑک پر یہ اپارٹمنٹ بنا ہے‪ ،‬اس کا نام ہے ’نیائے مارگ‘‪ ،‬حاالنکہ اس سڑک میں جگہ جگہ گڈھے ہیں‪ ،‬ہر تین قدم‬
‫ہو گئی ہے‪ ،‬کیونکہ بلڈروں نے سڑک کے اوپر ہی ریت‪‘ ،‬پر یہ سڑک اکھڑی پکھڑی ہے اور کئی جگہ سے ’ون وے‬
‫اینٹیں‪ ،‬روڑی گٹی‪ ،‬سیریا پ‬
‫‪1‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪8‬‬

‫آج‪ :‬دوسری کتاب ‪1986‬‬

‫آج دوسری کتاب‬

‫)چیک ادیب میالن کنڈیرا کی تحریروں کا انتخاب(‬

‫پہلی اشاعت‪ :‬کراچی‪1986 ،‬‬


‫ترتیب‪ :‬اجمل کمال‬

‫‪A man's struggle against power‬‬

‫‪is memory's struggle against forgetting.‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪8‬‬

‫ابھیشیک شکال سے دس سواالت‬

‫ابھیشیک شکال کی غزلوں سے میرا تعارف آج سے قریب پانچ ‪ ،‬چھ سال پہلے ہوا ہوگا‪ ،‬ان کی شاعری پڑھتے ہوئے نئے‬
‫پن کی ایک لہر نے مجھے اپنے اثر میں لے لیا‪ ،‬میں بہت خوش او ر حیران تھا‪ ،‬خوش اس بات پر کہ ابھیشیک شکال کی‬
‫غزلیں بہت متاثر کن تھیں‪ ،‬اور حیران اس بات پر کہ وہ بھی نئی نسل سے ہی تعلق رکھتے تھے‪ ،‬بہرحال‪ ،‬بعد میں ان‬
‫سے مالقاتیں بھی رہیں‪ ،‬فون پر گفتگو بھی ہوتی رہی اور یہ رشتہ دوستی کی خوبصورت سرحد میں داخل ہوگیا‪،‬‬
‫ابھیشیک سے نظریاتی طور پر میرے کچھ اختالفات ہیں‪ ،‬جیسے کہ اپنے دوسرے دوستوں سے ہیں‪ ،‬اور ان ک‬
‫‪4‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪5‬‬

‫آصف فرخی کی دو کہانیاں‬

‫سمندر کی چوری‬

‫ابھی وقت تھا۔ پانی اور آسمان کے بیچ میں روشنی کی وہ پہلی‪ ،‬کچی پکی‪ ،‬تھرتھراتی ہوئی کرن پھوٹنے بھی نہ پائی تھی‬
‫کہ شہر والوں نے دیکھا سمندر چوری ہوچکا ہے۔ دن نکال تھا نہ سمندر کے کنارے شہر نے جاگنا شروع کیا تھا۔ رات کا‬
‫اندھیرا پوری طرح سمٹا بھی نہیں تھا کہ اندازہ ہونے لگا‪ ،‬ایسا ہوچکا ہے۔ ملگجے سایوں میں لپٹی دواور تین منزلہ‬
‫فلیٹوں کی قطار اور اس کی حد بندی کرنے والی دو رویہ سڑک کے پار جہاں دوسری طرف سمندر ہوا کرتا تھا‪ ،‬دور‬
‫تک پھیال ہوا نیال سفید سمندر‪ ،‬وہاں سب خالی پڑا تھا۔ سمندر کی‬
‫‪1‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪4‬‬

‫نفرت‪ ،‬اردو اور ڈرے ہوئے لوگ‪/‬تصنیف حیدر‬

‫یہ تین موضوعات ہیں‪ ،‬بالکل الگ الگ اور ان پر بحثیں پر بھی الگ ہی ہونی چاہییں‪ ،‬مگر سو چ رہا ہوں کہ آج ان تینوں‬
‫کے تعلق سے جو کچھ دل میں ہے‪ ،‬اسی ایک مضمون میں لکھ ڈالوں۔‬

‫آپ نے بازار میں کھڑے ہوکر کبھی کسی کا انتظار کیا ہے‪ ،‬کسی ایسے شخص کا جس کی آپ نے صرف موبائل پر آواز‬
‫سنی ہو‪ ،‬اسے دیکھا نہ ہو اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ابھی وہ شخص تھوڑی دور پر ہے‪ ،‬آپ بار بار ہر نئے آنے‬
‫والے شخص کو اس امید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ شاید یہ وہی آدمی ہو‪ ،‬جس کے آپ منتظر ہیں۔ہم لوگ امن کا انتظار‬
‫اسی طرح کررہے ہیں‪ ،‬ہم ج‬
‫‪2‬‬

‫‪Sep‬‬
‫‪2‬‬

‫مراۃ العروس‪/‬ڈپٹی نذیر احمد‬

‫بسم ہللا الرحمن الرحیم‬

‫دیباچہ‬

‫خدا وند کریم کا شکر اپنی گویائی کی بساط بھر تو ادا ہوہی نہیں سکتا‪ ،‬اُس کی بندہ نوازیوں اور ہزاروں الکھوں نعمتوں‬
‫کی مکافات کا حوصلہ چھوٹا منھ بڑی بات۔‬

‫پیغمبر صاحب کی مدح اپنی ارادت ناقص کی قدر تو بن ہی نہیں پڑتی‪ ،‬ان کی شفقتوں اور دل سوزیوں کی تالفی کا دعوا‬
‫اتنی سی جان گز بھر کی زبان۔ حمد و نعت کے بعد واضح ہوکہ ہرچند اس ملک میں مستورات کو پڑھانے لکھانے کا‬
‫رواج نہیں مگر پھر بھی بڑے شہروں میں بعض شریف خاندانوں کی اکثر عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ‪ ،‬مذہبی مسائل اور‬
‫نصائح‬

‫‪Sep‬‬
‫‪1‬‬

‫پیارے استاد‪/‬ژولیاں‬

‫پیارے استاد‪ ،‬جب تین سال کی طویل مدت کے بعد مجھے ہاسٹل میں آپ کا پہال خط موصول ہوا تو لفافہ کھولتے وقت‬
‫ایک عجیبوسوسے نے مجھے جکڑ لیا۔ گویا اس لفافے کے اندر ایک خبطی جن بند تھا جو میری زندگی حرام کر سکتا‬
‫تھا۔ لفافہ کھل گیا اورآپ کی سلیس نثر میرے مالحظے کے لیے حاضر ہوئی‪' :‬پیارے دوست سالم! امید ہے کہ آپ‬
‫خیریت سے ہوں گے۔ کیا آپ کا تھیسزختم ہو گیا؟ میرا تحقیقی کام مکمل ہوا ہے جس کی بنیاد پر میں نے ایک کتاب لکھ‬
‫ڈالی۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ کتاب میریزندگی میں منظر عام پر نہیں آئے گی۔ کیونکہ میں کئ‬

‫‪Aug‬‬
‫‪31‬‬

‫میالن کنڈیرا‪/‬خالد جاوید‬

‫پیش لفظ‬

‫شہرۂ آفاق چیک ناول نگار میالن کنڈیرا کو سب سے پہلے میں نے اُس زمانے میں دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا‬
‫جب میں بریلی کالج میں شعبۂ فلسفہ سے منسلک تھا۔ یہ ‪ 1995‬کے آس پاس کی بات تھی جب میں نے یہ محسوس کیا کہ‬
‫ہم عصر فلسفے کے طالب علموں کو ایسے ادبی شہ پارے ضرور پڑھنا چاہئیں جن میں فلسفے کے مجرد خیاالت کے‬
‫بجائے‪ ،‬اُن خیاالت کے مختلف النوع تاثرات کا بیان ہو۔ سارتر وغیرہ سے یہ مقصد ا ّچھی طرح پورا نہ ہوتا تھا کیونکہ اُن‬
‫کے ناولوں اور فلسفے کی کتابوں کے درمیان بہت کم فرق ہوتا تھا مثال سارتر ک‬

‫‪Aug‬‬
‫‪30‬‬

‫منیرہ سورتی کی دو کہانیاں‬

‫پری‬

‫مہر کا فیصلہ سنتے ہی کمرے میں یکلخت سنا ٹا چھا گیا‪ ،‬سب لوگ ہکا بکا ‪ ،‬ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے‪ ،‬گو ہر نے‬
‫آنکھیں پھاڑ کر مہر کی طرف دیکھا اور سوچا کہ اسکا دماغی توازن بالکل بگڑ گیا ہے ‪ ،‬اس نے کچھ بولنے کی کوشش‬
‫کی مگر ناکام رہی ‪ ،‬چند لمحوں میں خاموشی اتنی گہری ہو گئی مانو اب پھٹ پڑیگی‪ ،‬پھر اچانک پھو پھی جان نے اپنے‬
‫‪..‬سینے پر زورسے ہتھڑ مارے اور بلبال کر رونے لگیں‬

‫‪Aug‬‬
‫‪29‬‬

‫حالی‪ ،‬مقدمہ اور ہم‪/‬وارث علوی‬

‫حرف چند‬

‫اردو میں جدیدیت کے آغاز کیساتھ ہی ہمارے نقادوں کو ماضی میں ایک ایسے بزرگ کی تالش ہوئی جو دقیانوسی ہو‬
‫حالی کی صورت میں‬‫ؔ‬ ‫اور نوجوانوں کی آزادی پر پابندیاں عائد کرتا ہو۔ یہ بزرگ انہیں پانی پت کے خواجہ الطاف حسین‬
‫مل گئے۔ جنہوں نے اپنے بے مثال پہلی اردو کی تنقیدی کتاب "مقدمہ شعرو شاعری" میں کچھ باتیں غزل اور غزل کی‬
‫عشقیہ شاعری کے خالف لکھی تھیں۔ انہیں نشانہ بناکر جدید نقادوں نے ان پر جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر میرا دل بہت‬
‫دکھی ہوا کیونکہ اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے عناصر خمسہ کا مطالعہ میں‬

‫‪Aug‬‬
‫‪28‬‬

‫اہم ادبی کتابیں ڈائونلوڈ کیجیے ‪٢‬‬

‫اردو کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کتابوں کو ڈھونڈ کر ایک جگہ جمع کرنے کی ضرورت‬
‫ہے‪ ،‬اس سے پہلے بھی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ویب سائٹ پر موجود کتابوں کی پی ڈی ایف فائلز‬
‫کے لنکس فراہم کراچکا ہوں۔ اس ویب سائٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ کتابوں کو ڈھونڈنے‪ ،‬ان کو سرچ کرنے اور ان کی‬
‫کیٹالگنگ کا کوئی اچھاطریقہ اب تک اپنایا نہیں گیا ہے۔ اس بار جو کتابیں فراہم کی جارہی ہیں‪ ،‬ان میں کلیات مصحفی‪،‬‬
‫کلیات آغا حشر کاشمیری‪ ،‬ابن نشاطی کی پھول بن‪ ،‬ذکر میر اور گوپی چند نارنگ کی دو اہم‬
‫‪10‬‬

‫‪Aug‬‬
‫‪26‬‬
‫آج‪ :‬پہلی کتاب ‪1981‬‬

‫میں باقاعدہ سہ ماہی کے طور پر شروع ہونے سے پہلے آج کے دو شمارے ’’آج‪ :‬پہلی کتاب‘‘ اور ’’آج‪ :‬دوسری ‪۱۹۸۹‬‬
‫کتاب‘‘ کے عنوان سے بالترتیب ‪ ۱۹۸۱‬اور ‪ ۱۹۸۷‬میں شائع ہوے تھے۔ آج کے متن کو یونی کوڈ فارمیٹ میں آن الئن‬
‫کرنے کا عمل انھی دو کتابوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد شمارہ ‪ ۱‬سے لے کر اب تک کے تمام شمارے ترتیب وار‬
‫پیش کیے جائیں گے۔ آج‪ :‬پہلی کتاب اب سے ٹھیک چونتیس برس پہلے‪ ،‬اگست ‪ ۱۹۸۱‬میں‪ ،‬حیدرآباد سندھ سے شائع ہوئی‬
‫تھی۔ اسے اردو میں اس وقت مروج کتابت اور آفسٹ طباعت کے طریقے کے برعکس‪ ،‬لیٹرپریس کے طری‬

‫‪Aug‬‬
‫‪25‬‬

‫زیب غوری کی غزلیں‬

‫میں پیدا ہوئے اور ‪1985‬میں ان کا انتقال ہوا‪ ،‬ستاون سال کی عمر میں انہیں کافی دیر بعد یہ احساس ‪1928‬زیب غوری‬
‫ہوا کہ غزل میں وہ ایک ایسی نئی طرز بھی ایجاد کرسکتے ہیں‪ ،‬جو ان کے ہم عصر یا پیش رو غزل کہنے والوں نے‬
‫نہیں کی‪ ،‬چنانچہ انہوں نے شاعری کی اور اس کم عرصے میں بھی بہت کامیاب رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زیب‬
‫غوری کااسلوب جدیدیت کا ایک منفرد اور نمایاں اسلوب ہے‪ ،‬یہ شاعری ہمیں ہر بار تازہ کرجاتی ہے اور گزرتے ہوئے‬
‫وقت کے ساتھ اور خوبصورت اور بپھری ہوئی معلوم ہوتی ہے‪،‬مجھے ادبی دنیا پر یہ غزلیں شےئر کرتے‬

‫‪Aug‬‬
‫‪24‬‬

‫ٰ‬
‫الرحمن فاروقی‬ ‫چوں خمیر آمد بدست نانبا‪/‬شمس‬

‫اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ انسانی رشتوں کے تعلق سے میر ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ انسانی رشتوں کا یہ‬
‫اظہار ان کی جنسیت میں بھی ہوا ہے۔ اور ان کی حس مزاح میں بھی ۔ حس مزاح کا عنصر غالب اور میر دونوں میں‬
‫مشترک ہے۔ لیکن غالب اپنے مزاح کا ہدف زیادہ تر خود اپنے کو ہی بناتے ہیں‪ ،‬جب کہ میر کی حس مزاح معشوق کو‬
‫بھی نہیں بخشتی۔ میر کو جب موقع ملتا ہے وہ معشوق سے پھکڑپن بھی کر گذرتے ہیں۔ وہ زور زور سے قہقہہ لگانے‬
‫سے گریز نہیں کرتے‪ ،‬جب کہ غالب کے یہاں عام طور پر تبسم زیر لب کی کیفیت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غالب‬

‫‪Aug‬‬
‫‪22‬‬

‫انسانی تعلقات کی شاعری‬

‫میر کی زبان کے اس مختصر تجزیے اور غالب کے ساتھ مواز نے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر اور غالب میں‬
‫اشتراک لسان ہے اور نہیں بھی۔استعمال زبان سے ہٹ کر دیکھئے تو بھی اشتراک کے بعض پہلو نظر آتے ہیں۔ اوپر میں‬
‫نے عرض کیا ہے کہ میر کے بعد غالب ہمارے سب سے بڑے انفردیت پرست ہیں‪ ،‬اور ان دونوں کی انفردیت پرستی ان‬
‫کے کالم سے نمایاں ہونے والے عاشق کے کردار میں صاف نظر آتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ فراق‬
‫صاحب کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا عاشق اور نیا معشوق دیا۔ عسکری صاحب‬

‫‪Aug‬‬
‫‪20‬‬
‫شمیل حسین کی پینٹنگز‬

‫شمیل حسین کا تعلق راولپنڈی پاکستان سے ہے‪ ،‬وہ شعر نہیں کہتے‪ ،‬کہانی نہیں لکھتے‪ ،‬یا کہتے لکھتے ہونگے تو‬
‫مجھے اس کا علم نہیں‪ ،‬علم ہے تو ان کی رنگیں بیانی کا‪ ،‬ان کے لفظ‪ ،‬ان کے نقوش ہیں۔ یہ سوال انہوں نے ایک دفعہ‬
‫مجھ سے ہی پوچھا تھا کہ لفظ پہلے تھا یا نقش‪ ،‬شمیل صاحب! ہم لفظ و نقش کو جنگ کا بہانہ نہیں بناتے‪ ،‬بلکہ تاریخ کی‬
‫دیوار پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے نقش کو آواز دے کر لفظ بنادیا اور کسی نے لفظ کے اندر‬
‫زندگی کا نقش پیدا کردیا‪ ،‬بلکہ ہر لفظ ایک نقش ہے‪ ،‬اور ہر نقش ایک لفظ۔ بہرحال شمیل‬

‫‪Aug‬‬
‫‪17‬‬

‫احمد مشتاق کی غزلیں‬

‫احمد مشتاق کی غزلیں جب بھی پڑھتا ہوں‪ ،‬کسی مقام پر جی ہی نہیں چاہتا کہ ٹھہر جاؤں‪،‬یہ میرا باربار کا تجربہ ہے‪،‬‬
‫جسے ہر دفعہ پھر اک بار کرنے کا جی چاہتا ہے۔ایسی شاعری اردو میں کرنے والے شاید ہی کچھ لوگ ہونگے‪ ،‬جن کو‬
‫خیال کے ساتھ اتنی سادہ اور خوبصورت زبان بھی ملی ہو‪ ،‬یہ وہ انتہائے فن ہے‪ ،‬جسے چھونا ہر شاعر کے بس کی بات‬
‫نہیں۔کہا جاتا ہے کہ شاعری کا فیصلہ آنے واال وقت کرتا ہے‪ ،‬احمد مشتاق کا وہ آنے واال وقت ہم ہیں‪ ،‬اور ہم ان غزلوں‬
‫کے عاشق ہیں‪ ،‬سو یہ غزلیں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی ہماری زندگی تک اور شاید‬
‫‪2‬‬

‫‪Aug‬‬
‫‪16‬‬

‫گلستاں کی کہانیاں‬

‫بادشاہ اور قیدی‬

‫کسی بادشاہ نے ایک قیدی کے قتل کا حکم دیا۔ قیدی بیچارہ جب زندگی سے ناامید ہو گیا تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھال کہا‬
‫‪:‬اور گالیاں دیں۔ کسی نے سچ کہا ہے‬

‫جو اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے وہ جو جی میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے۔ مجبوری کے وقت جب بھاگنے کا موقع نہیں ملتا‬
‫ہے تو انسان اپنی جان بچانے کے لیے تیز تلوار کی دھار کو ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اسی طرح جب آدمی اپنی زندگی سے‬
‫!ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آکر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے‬

‫بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا‬

‫‪Aug‬‬
‫‪15‬‬

‫اے مشفق من۔۔۔!‪/‬اسلم فرخی‬


‫واہ خواجہ صاحب واہ۔۔۔ مانا کہ آپ داد و ستد کے بڑے کھرے تھے مگر اس قدر عجلت بھی کس کام کی۔ کاش آپ آمنہ‬
‫بھابھی کی بے قراری دیکھ لیتے۔ اپنے محبّان باوفا‪ ،‬یوسفی صاحب کا اضمحالل‪ ،‬سعید محمود کے چہرے کی پژ ُمردگی‪،‬‬
‫نسیم کی آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں‪ ،‬صوفی کی گریہ و زاری اور ہم سب کے ذہنی اور روحانی کرب کا احساس‬
‫کرلیتے اور پھر جانے کا فیصلہ کرتے۔ نجانے کا ہے کی جلدی تھی۔ مگر یہ فیصلہ آپ کا نہیں تھا۔ خواجہ صاحب کتابیں‬
‫شکوہ سنج ہیں کہ اب ایسا قدردان کتاب شناس کہاں سے آئے گا۔ دوستوں کے دل اور محفلیں ویران‬

‫‪Aug‬‬
‫‪12‬‬

‫تنویر انجم کی نظمیں‬

‫تنویر انجم اردو نظم کا ایسا نام ہیں‪ ،‬جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ادبی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اچھے لکھنے‬
‫والوں کا تعاون حاصل ہے‪ ،‬اس کے ذریعے ہم ان اہم لوگوں کی تخلیقات آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہورہے ہیں‪ ،‬جن کو‬
‫عام طور پر نیٹ پر ڈھونڈ کر پڑھنا ممکن نہیں ہوتا جو اردو کے عصری معیاری ادب کی شناخت کا درجہ رکھتے ہیں۔‬
‫تنویر انجم کی یہ نظمیں ویب سائٹ پر پیش کرتے ہوئے مجھے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے‪ ،‬اس کے ساتھ میں کسی‬
‫بھی قسم کے تعارفی یا تنقیدی جملے نہیں لکھنا چاہتا‪ ،‬بس ان نظموں کی اہمیت آپ پر خود اپن‬

‫‪Aug‬‬
‫‪11‬‬

‫وہ جو لکھا نہیں جاسکا‪/‬تصنیف حیدر‬

‫)‪(1‬‬

‫یہ ان دنوں کی بات ہے‪ ،‬جب میں نے دہلی میں دوردرشن اردو کے کچھ معمولی سے کام کرکے یہ سمجھنا شروع کردیا‬
‫تھا کہ اب تو ہم بھی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں‪ ،‬ہماری بھی عزت چوک چوراہوں پر ہے‪ ،‬آٹو رکشہ والے کو آنکھیں‬
‫دکھائی جاسکتی ہیں‪ ،‬معمول کی ناانصافیوں کو غصے کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ان پر اپنے جرنسلٹ ہونے کی‬
‫دھونس جمائی جاسکتی ہے اور بہت سے ایسے کام کیے جاسکتے ہیں جو کم از کم خودتشفی کے زمرے میں آتے‬
‫ہوں۔شاید اب اس بات کو بھی سات آٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا اور میں نے درمیان میں بہت کچھ دیکھا‪ ،‬می‬

‫‪Aug‬‬
‫‪9‬‬

‫کوئی نہیں ہنسے گا‪/‬میالن کنڈیرا‬

‫‪۱‬‬

‫مجھے تھوڑی اور وائن دینا‪ ‘‘،‬کالرا نے کہا‪ ،‬اور میں بھی اس خیال سے غیرمتفق نہ تھا۔ ہم دونوں کے لیے ’’‬
‫سلیوو ِوتس وائن کی نئی بوتل کھولنا یوں بھی کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی‪ ،‬اور اِس بار تو اس کا معقول جواز بھی‬
‫موجود تھا۔اس روز مجھے اپنے ایک تحقیقی مقالے کے آخری حصے کی اشاعت پر معاوضے کی خاصی بڑی رقم‬
‫موصول ہوئی تھی جسے بصری فنون کا ایک پیشہ ورانہ رسالہ قسط وار شائع کر رہا تھا۔‬
‫اس مقالے کو شائع کرانا آسان کام ثابت نہیں ہوا تھا — میں نے جو کچھ لکھا تھا وہ خاصا مناظراتی اور متنازعہ تھا۔‬
‫میرے پچھلے مقا‬

‫‪Aug‬‬
‫‪8‬‬

‫اردو کی قدیم ترین لغت‪/‬آغا افتخار حسین‬

‫اعتراف اور اختالف دونوں ہی ادب کے اہم ستون ہیں۔زبان ادب کی جغرافیائی ساخت اور زمینی مزاج کو ظاہر کرنے کا‬
‫اختالف رائے جیسی‬
‫ِ‬ ‫ایک اہم ذریعہ ہے‪ ،‬عام طور پر لغت‪ ،‬امال‪ ،‬اعراب وغیرہ کو ادب کے حاشیے پر رکھا جاتا ہے اور‬
‫اہم جرأت کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگرہم جانتے ہیں کہ ادب میں یہ دونوں مباحث بیکار نہیں ہیں۔ہمیں یہ‬
‫نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو کے ایسے مشاہیر جن کی تنقید ہمارے سروں پر چڑھ کر بولتی ہے‪،‬انہوں نے بھی زبان اور‬
‫لغت کے معاملے میں کتنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔موالنا الطاف حسین حالی‪ ،‬شبلی نعمان‬

‫‪Aug‬‬
‫‪7‬‬

‫اسعد بدایونی کی غزلیں‬

‫اسعد بدایونی ‪ 1952‬میں پیدا ہوئے‪ ،‬اور ‪ 2003‬میں ان کا انتقال ہوا۔ایک خاص دور میں اردو کے لیے بہ طور خاص‬
‫علمی وادبی مرکز سمجھے جانے والے علی گڑھ سے ان کا گہرا تعلق رہا۔اسعد بدایونی کی غزلیں پیش خدمت ہیں۔ان‬
‫غزلوں میں سے کچھ مجھے بمجبوری جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہٹانی پڑی ہیں‪ ،‬اس لیے میں نے طے کیا ہے کہ اسعد‬
‫بدایونی کے اس انتخاب کو حصہ اول سے تعبیر کیا جائے‪ ،‬ان کا ایک اور انتخاب جلد ہی ادبی دنیا پر اپلوڈ کیا جائے گا‪،‬‬
‫جس میں ان کی وہ غزلیں شامل کی جائیں گی جو اس انتخاب میں شامل نہیں کی جاسکی ہیں۔اسعد بدا‬

‫‪Aug‬‬
‫‪6‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫ناقہ بےزمام را‬


‫سوے قطار می کشم ٔ‬

‫۔۔۔ ترجمہ بھی تعبیر کا ایک طریقہ اور تعبیری کارگذاری ہے اور یہ صرف غیر زبان سے اپنی زبان یا کسی ’’ )‪(1‬‬
‫زبان سے کسی اور زبان میں ترجمہ کرنے پر محدود نہیں۔ ہم خود اپنی زبان سے ہر وقت ترجمہ کرتے رہتے ہیں تاکہ‬
‫متن کو سمجھ سکیں۔‘‘‪1‬‬

‫واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے ترجمے و تبیر میں مسلمانوں نے جس قدر علم‪ ،‬ذہن‪ ،‬تفکر‪ ،‬تف ّحص‪ ،‬احتیاط‪ ،‬خشیت ہللا ’’ )‪(2‬‬
‫اور راسخ االیمان عقائد سے کام لیا ہے اس کی مثا ل دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن قرآن کی تفسیریں کثرت سے‬
‫موجود ہیں اور کثرت سے لکھ‬

‫‪Aug‬‬
‫‪4‬‬
‫معاصر غزل ‪ -‬مسئلہ کیا ہے؟‪ /‬ڈاکٹر صالح الدین درویش‬

‫غزل کی شاعری کو یار لوگوں نے لڑکوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ قافیہ پیمائی ضرور ارزاں ہے لیکن غزل کا شعر‬
‫کیا محض موزوں الفاظ کی نشست سے بن جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ غزل کا شعر بھلے اپنی بنت‬
‫میں کسی علمی یا فکری گرہ کو نہ کھولتا ہو لیکن اس کے لیے یہ ضرور الزم ہے کہ اس میں جذبہ اور خیال کے عین‬
‫درمیان ایک کڑی جسے دانش کہتے ہیں‪ ،‬وہ کڑی بھی موجود ہوتی ہے‪ ،‬یہ کڑی جذبہ اور خیال کی ہم آہنگی‪ ،‬افتراق یا‬
‫تضاد کی مختلف صورتوں میں معنویت کی ایک ایسی جمالیاتی سطح پیدا کر دیتی ہے کہ جسے ہم جہ‬
‫‪2‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪31‬‬

‫محمد یامین کی تازہ نظمیں‬

‫محمد یامین نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں۔ان کی نظموں میں بڑی گہرائی مجھے محسوس ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک‬
‫نہیں کہ ان کی یہ تازہ نظمیں بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔وہ کم کہتے ہیں اور شاعروں کی ہو ہلڑ سے بھی دور ہی‬
‫رہنا پسند کرتے ہیں‪ ،‬خود شناس ہیں لیکن بہت زیادہ خود پسند نہیں‪ ،‬اس لیے میں نے انہیں باقاعدہ کبھی خود کو‬
‫پروجیکٹ کرتے نہیں دیکھا۔ان کی نظموں کے تعلق سے میں کبھی تفصیل سے لکھوں گا‪ ،‬اور یہ ان کے لیےنہیں میرے‬
‫اپنے علمی اور ادبی تشخص کو مضبوط کرنے کی جانب ایک پیش رفت ہوگی۔ان نظموں میں سادگی ‪ ،‬تاریخ اور‬

‫‪Jul‬‬
‫‪30‬‬

‫غنڈہ گردی کو دیش بھکتی مت کہیے‪/‬رویش کمار‬

‫دنیا تبدیل ہوتی جارہی ہے‪ ،‬ایک طرف مغرب میں خال میں زندگی تالش کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جارہے‬
‫ہیں‪ ،‬تو دوسری طرف مشرقی ممالک میں زندگی جیسی حسین اور خوبصورت نعمت کو عقل کے ذریعے مزید‬
‫خوبصورت بنانے کے بجائے لوگ مذہبی جذبات کے ذریعے روز بروز بدصورت‪ ،‬کریہہ اور خطرناک بناتے جارہے‬
‫ہیں۔آپ نے انٹرنیٹ پر ایسی ہزاروں پوسٹ دیکھی ہونگی‪ ،‬جن پر کبھی ہللا رسول کا حوالہ دے کر الکھوں الئکس مانگی‬
‫جاتی ہیں‪ ،‬وہ الکھوں الئکس دراصل ملک میں موجود جنونی اور شدت پسند قسم کے مذہبی لوگوں کی نمائندگی کرتی‬
‫ہیں‪ ،‬کسی چیز‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪28‬‬

‫ٰ‬
‫الرحمن فاروقی‬ ‫افسانے کی حمایت میں۔‪/4‬شمس‬

‫نومبر کا مہینہ ‪ ،‬شام کا وقت‪،‬اور غضب کی دھند۔ یا دھند نہیں کہرا کہیئے۔ بہار میں کہاسا کہتے ہیں‪ ،‬مجھے خیال آیا۔‬
‫چلئے کہاسا ہی سہی‪ ،‬لیکن نومبر کی شام میں اتنا کہرا ‪/‬کہاسا کسی نے دیکھا نہ ایسی دھند دیکھی۔ نہیں‪ ،‬دھند تو ہوسکتی‬
‫ہے۔ ہلکی گالبی سردی‪ ،‬زمین سے لپٹ کر دھیرے بہتی ہوئی کچھ ٹھنڈی ہوا‪،‬چولھوں سے اٹھتا اور فضا میں الجھتا ہوا‬
‫دھواں‪ ،‬تیز یا سست آتی جاتی گاڑیوں کی اڑائی ہوئی گرد‪ ،‬اور کہیں کہیں‪ ،‬کبھی کبھی‪ ،‬واپس لوٹتے ہوئے ریوڑوں کے‬
‫قدموں کی دھول‪ ،‬یہ سب مل کر دھند پیدا کر ہی دیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪26‬‬

‫عبدہللا حسین کے بارے میں‪/‬واجد علی سید‬

‫خال میں جنم نہیں لیتا۔ لکھاری ‪ E.L.Doctorow‬معروف امریکی ناول نگار‬ ‫نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ لکھاری کسی ٗ‬
‫تو گواہ ہوتا ہے۔ہمیں لکھاری چاہیئں کیونکہ ہمیں گواہ چاہیئں جو اس صدی کو قلمبند کرسکیں۔‬

‫کو بیسیوں صدی کا اہم ترین ناول نگار سمجھا جاتا ہے‪ ،‬ویسے ہی عبدہللا حسین بھی اردو زبان اور ‪ Doctorow‬جیسے‬
‫پاک و ہند کے اہم ترین ناول نگار گردانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی لکھاری تھے جو ٗ‬
‫خال میں نہیں پیداہوئے بلکہ پہلی‬
‫جنگ عظیم‪ ،‬دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہولناکیوں کے گواہ ٹھہرے۔ گو ک‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪26‬‬

‫راغب اختر سے دس سواالت‬

‫راغب اختر شاعر بھی ہیں‪ ،‬ادیب بھی۔ وہ ادب کے لیے بازگشت ڈوٹ کوم کے ذریعے سب سے پہلے ایک آڈیو ویب‬
‫میگزین کے پروجیکٹ پر باقاعدہ کام کرنے والے شخص ہیں‪ ،‬کم از کم میرے علم کے مطابق۔شہرت سے دور رہنا پسند‬
‫کرتے ہیں‪،‬اور بس خاموشی سے اپنا کام کیے جارہے ہیں‪ ،‬نظریاتی طور پر راغب اختر سے میرے ہزار اختالفات‬
‫ہوسکتے ہیں مگر ادبی و علمی کاموں کے لحاظ سے ان کی خدمات کی بڑی قدر کرتا ہوں اور اس بات پر افسوس کا‬
‫اظہار کرتا ہوں کہ اردو کے سرکاری و غیر سرکاری ادارے ایسے کارآمد شخص سے کوئی کام لینے کے اہل نہیں رہ‬
‫گئے ہیں‬

‫‪Jul‬‬
‫‪25‬‬

‫سبط حسن اور راشد‬

‫نظریات کبھی مرتے نہیں۔بس وقت ان پر سوالوں کی ضربیں لگاتا رہتا ہے۔شاعری صرف لفظوں کے جوڑ توڑ کا نام‬
‫نہیں بلکہ اس کے ذریعے شاعر اپنی فکر اور فلسفے کو لوگوں کے سامنے النے کی کوشش کرتا ہے ۔کہیں یہ فکر‬
‫جمالیاتی ہوتی ہے ‪ ،‬کہیں حقیقت پسند۔راشد ان دونوں کیفیات سے بروقت واقف بھی تھے اور ان دونوں کی اہمیت تسلیم‬
‫بھی کرتے تھے۔وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان قائم اس پل پر کھڑے تھے جہاں سے اردو شاعری کا کوہکن‬
‫خیال کا ایک نیا راستہ‪ ،‬ایک نئی پگڈنڈی پیدا کرنے کی فکر میں تھا۔ ایک ایسی پگڈنڈی جو ترقی پسندی اور‬

‫‪Jul‬‬
‫‪22‬‬
‫سہ روزہ ہذیان‪/‬فیضی‬

‫غزل کے تجربات اور ان کی جدیدیت حالی کے زمانے سے زیر بحث ہے۔ عالمہ حالی نے بھی قدیم و جدید کی قید‬
‫لگانے کے معاملے میں سب سے پہلے مضامین و اسالیب کے تجربے کرنے چاہے تھے‪ ،‬مگر ان کا پراخالق عمل‬
‫اوندھے منہ زمین پر آگرا اور بقول رشید حسن خاں ان کی جدید غزلوں میں بھی وہی شعر زیادہ اچھے ثابت ہوئے جن‬
‫میں غزل والی تھوڑی بہت قدامت تھی‪ ،‬یعنی‬

‫گو جوانی میں تھی کجرائی بہت‬

‫پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت‬

‫تب سے لے کر اب تک جدید لب و لہجے کی غزل ایک سوال بن کر فنکاروں کے سامنے کھڑی ہے‪ ،‬جدید کیا ہے‪ ،‬ظاہر‬
‫ہے کہ اس مع‬

‫‪Jul‬‬
‫‪20‬‬

‫خاتون اسالم اور ورک کلچر‬

‫کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم‬
‫یافتہ ‪ ،‬باشعور اور مہذب ہوتی ہیں وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہالنے کی مستحق ہے۔ پس ماندہ قوم عورتوں‬
‫کو نفسیاتی طور پر کمزور سمجھ کربے جا نگرانی میں رکھتی ہے۔ انہیں پابند بناتی ہے ‪ ،‬خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ان‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫پر شک کرتی ہے ‪،‬اعتبار نہیں کرتی۔ فتووں کی زبان میں بات کرتی ہے ‪،‬دوستانہ مشورے نہیں دیتی۔ معیاری اور‬
‫تقوی اور احسان کا ا‬
‫ٰ‬ ‫تعلیم سے محروم رکھ کر ان کی تربیت کی کوشش کرتی ہے۔ ان سے‬

‫‪Jul‬‬
‫‪19‬‬

‫سوانگ‪/‬میالن کنڈیرا‬

‫‪1‬‬

‫کار کے پٹرول گیج کی سوئی نے اچانک ٹینک کے خالی ہونے کا اشارہ دیا اور اسپورٹس کار کے نوجوان ڈرائیور نے‬
‫اعالن کیا کہ یہ کار پاگل کر دینے کی حد تک زیادہ پٹرول کھاتی ہے۔ ’’دیکھنا کہیں پٹرول ختم نہ ہو جائے‪ ‘‘،‬لڑکی نے‪،‬‬
‫جو تقریبا بائیس برس کی تھی‪ ،‬احتجاج کیا اور نوجوان کو ان بہت سے موقعوں کی یاد دالئی جب ان کے ساتھ ایسا ہو‬
‫چکا تھا۔ نوجوان نے جواب دیا کہ اسے کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ جب وہ دونوں ساتھ ہوں تو ہر چیز ایک ایڈونچر کی‬
‫سی کشش رکھتی ہے۔ لڑکی نے اعتراض کیا کہ جب کبھی ہائی وے پر یہ واقعہ ہوا ہے‬

‫‪Jul‬‬
‫‪19‬‬

‫امیر امام کی غزلیں‬


‫امیر امام غزل کی اس خوبصورت روایت کے امین ہیں۔ جس میں ایک ایسے محبوب کا وجود ممکن ہے‪ ،‬جو آواز کو‬
‫فریاد اور ملہار دونوں میں تبدیل کرسکتا ہے۔البتہ ان کے یہاں شاعر کی خودی کو بھی بالکل فراموش نہیں کردیا گیا ہے‪،‬‬
‫وہ ہجر‪ ،‬وصل اور ان دونوں کے درمیان موجود منازل میں پیش آنے والی مختلف کیفیات کو اپنی غزل میں جگہ دیتے‬
‫ہیں‪ ،‬یہ غزل فلسفہ و منطق سے واقف نہیں‪ ،‬مگر یہ رومانی خوبصورتی سے بھری ہوئی ہے‪ ،‬اس خوبصورتی کا اظہار‬
‫بعض اوقات امیر کے کچھ ایسے گہرے شعروں سے ہوتا ہے کہ اس میں کیفیت کا وصف ہوتے ہوئے بھی ایک‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪17‬‬

‫رمضان عید اور مسلمان‪/‬ارشد محمود‬

‫جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں‪ ،‬رمضان کی برکتیں‪ ،‬رحمتیں اور ثواب ایک مہینے سے خوب برس رہے ہیں۔ مسلم بستیوں‬
‫کے تمام گھر ‪ ،‬گلیاں‪ ،‬بازار‪ ،‬مارکیٹیں اور مسجدیں رحمتوں اور برکتوں سے لوٹ پوٹ ہوچکیں۔ اماموں‪ ،‬مولویوں اور‬
‫علمائے دین کی گردنیں اور پیٹ پہلے سے زیادہ موٹے ہوچکےہونگے۔ تالوتیں‪ ،‬نمازیں‪ ،‬عبادات‪ ،‬کے ریکارڈ توڑ دیئے‬
‫گھنٹے تک بھوک پیاس سخت گرمی میں ‪15 ،16‬ہونگے۔مسافروں‪ ،‬مریضوں‪ ،‬بوڑھوں‪ ،‬اور بچوں نے بھی شوق سے‬
‫سہی ہوگی۔ فرشتے رحمتیں اور برکتیں آسمانوں سے انڈیل انڈیل کر تھک چکے ہونگے۔۔ایک مہینے کی اس سخت آ‬

‫‪Jul‬‬
‫‪17‬‬

‫دانشور اور سماجی تبدیلی (چند ابتدائی باتیں)‪/‬ناصر عباس نیر‬

‫دانش ور کون؟‬

‫تعمیر‪،‬تعمیر نو یا سماج میں کسی بھی قسم کی تبدیلی النے میں دانش ور کا کیا کردار ہے؟اس سوال کا جواب‬
‫ِ‬ ‫سماج کی‬
‫تالش کرنے سے پہلے ‪،‬دو سواالت پر توجہ ضروری ہے۔ پہال سوال یہ ہے کہ کب سے یہ سمجھا جانے لگا کہ سماج کی‬
‫اصالح و تعمیر میں دانش ور کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟کیا انسانی معاشرے کی ابتدائی تشکیل کے دنوں ہی میں یہ‬
‫خیال کیا جانے لگا تھا کہ سماجی تشکیل کے عمل میں اس خاص گروہ کا حصہ تھا ‪،‬جو ذہنی کام کرتا ہے ‪،‬یا تاریخ کے‬
‫کسی خاص عہد میں دانش ور کی اہمیت کا ادراک ہوا؟ ابتدائی معاشروں میں ط‬

‫‪Jul‬‬
‫‪15‬‬

‫منچندا بانی کی غزلیں‬

‫منچندا بانی جدید عہد کے ایک بہت ہی اہم اور منفرد شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا اسلوب اپنے عہد ‪ ،‬پیش رو اور بعد کے‬
‫تمام غزل کہنے والے افراد سے حد درجہ مختلف ہے۔بانی کی شاعری پڑھتے وقت‪،‬زندگی کے وہ تجربے ننگے تلووں‬
‫کے ساتھ دوڑتے ہوئے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں‪ ،‬جن میں ہجر کا عمل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے‪ ،‬یعنی بانی کے یہاں‬
‫بچھڑنے کے بعد کے رونے سے زیادہ بچھڑتے وقت کے لمحات میں پوشیدہ جمالیات کو نمایاں کیا گیا ہے‪ ،‬میں اس‬
‫حوالے سے بانی کا زبردست مداح ہوں کہ وہ صرف تصویر نہیں دکھاتا بلکہ بولتی ہوئی تصویر دکھاتا‬

‫‪Jul‬‬
‫‪14‬‬

‫ساقی فاروقی کی غزلیں‬

‫ساقی فاروقی کی غزلیں حاضر ہیں‪ ،‬ادبی دنیا پر غزلوں کا یہ نیا سلسلہ پیش کیا جارہا ہے‪ ،‬اس کے تحت سب سے پہلے‬
‫آشفتہ چنگیزی کی غزلیں پیش کی جاچکی ہیں۔ساقی صاحب کی یہ قریب پچاس غزلیں ہیں‪ ،‬ان غزلوں کو انٹرنیٹ کی دنیا‬
‫میں عام کرنے اور لوگوں تک انہیں یونی کوڈ ٹیکسٹ کی صورت میں پہنچانے کا اصل مقصد انہیں اردو غزل اور اردو‬
‫ادب کے سنجیدہ قارئین تک پہنچانا ہے۔ ساقی صاحب کی غزلوں میں بال کا بانکپن ہے‪ ،‬تیزی ہے‪ ،‬اس میں کہیں کہیں‬
‫جدت کی سخت دھار ہے ‪ ،‬تو کہیں روایتی اشعار بھی ہیں‪ ،‬مگر اک ذرا تعمیری رنگ لیے۔ جدید شع‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪13‬‬

‫علی محمد فرشی کی نظمیں‬

‫علی محمد فرشی کی نظموں کا یہ انتخاب پیش خدمت ہے۔ حاالنکہ یہ نظمیں تازہ نہیں ہیں‪ ،‬لیکن ان کی بہترین نظموں‬
‫میں سے منتخب کی گئی دس ایسی نظمیں ہیں‪ ،‬جنہیں پڑھ کر آپ ان کی نظم گوئی کے فن اور اس کے معامالت پر کچھ‬
‫اور'فراک' بہت پسندآئی ' کہہ سن سکتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر ان نظموں میں سے 'مٹی کی اشرفی'‪'،‬اشتہار سے باہر‬
‫ہیں۔امید ہے کہ ان نظموں پر گفتگو ہوگی‪ ،‬ان کے عالوہ بھی علی محمد فرشی کی بہت سی ایسی نظمیں ہیں‪ ،‬جو اس‬
‫انتخاب کا حصہ ہونی چاہیے تھیں‪ ،‬جیسے کہ غاشیہ‪ ،‬ٹوٹم ٹوٹ گیا وغیرہ۔ ان نظموں کو کسی اور وقت‬

‫‪Jul‬‬
‫‪11‬‬

‫آشفتہ چنگیزی کی غزلیں‬

‫میں پیدا ہوئے ‪1956‬آشفتہ چنگیزی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں۔وہ‬
‫‪1996‬میں اچانک کہیں الپتہ ہوگئے۔آشفتہ چنگیزی‪،‬ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد ذہین انسان اور ماہر‬
‫عروض بھی تھے۔آشفتہ کی غزلوں کا نہایت طاقتور اسلوب اسی کی دہائی میں کہی گئی ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ان‬
‫شائع ہوئے اور دونوں میں شائع ہونے والی غزلوں میں سے ‘کے دو مجموعۂ شاعری ’گرد باد‘ اور ’شکستوں کی فصل‬
‫بیشتر کو یہاں ادبی دنیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔حاالنکہ اس غزل میں روایت کا عنصر زیادہ ہے‪،‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪10‬‬

‫مسرت کا التباس‪/‬یاسر جواد‬

‫تاریخ میں بڑی جنگوں اور خشک سالیوں یا دیگر آفات نے جب انسانی وجود کو خطرے سے دوچار کیا تو اکثر انسانوں‬
‫اگرچہ اسے ایک قانون بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا)۔ یوں اس نے (نے مذہب یا دروں بینی کے فلسفہ میں پناہ لی‬
‫معروضی حاالت کی بدصورتی یا ناگواری سے تعلق توڑنے کی خاطر اپنی ذات میں فرار ہونا چاہا۔ پہلی اور بالخصوص‬
‫دوسری عالمی جنگ کے بعد زیادہ تر یورپ میں یہی صورت حال تھی۔ فرائیڈ اور سارتر کی انسانی وجود کی گہرائیوں‬
‫میں اترنے کی سعی اور انسانی الشعور کی زیارت اسی عمل کا حصہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ برصغیر ا‬

‫‪Jul‬‬
‫‪10‬‬

‫ہمارے لیے منٹو صاحب‪/‬محمد حمید شاہد‬

‫شمس الرحمٰ ن فاروقی نے اثبات کے مدیر اشعر نجمی کے چند سوالوں کے جواب سعادت حسن منٹو کی شخصیت اور فن‬
‫کے حوالے سے دیے تھے جو کہ تفصیلی جوابات تھے۔اور اسی وجہ سے بعد میں وہ سواالت و جوابات ہندوستان اور‬
‫پاکستان دونوں ہی جگہوں سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ یہ تمام سوال و جواب اثبات پبلی کیشنز کی ویب سائٹ‬
‫پر موجود ہیں۔ جنہیں ہمارے لیے منٹو صاحب پر کلک کرکے پڑھا جاسکتا ہے۔ان جوابات پر پاکستان کے شہر اسالم آباد‬
‫میں مقیم اردو کے اہم نقاد اور افسانہ نگار محمد حمید شاہد کو کچھ اعتراضات تھے‪ ،‬چنانچہ انہوں‬

‫‪Jul‬‬
‫‪9‬‬

‫میر تقی میر کی تمام رباعیات‬

‫میر کی ساری رباعیاں ادبی دنیا کے ذریعے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ ہمیں اپنے ادب کی پرانی اور نئی دونوں طرح‬
‫کی شاعری کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے‪ ،‬نئی شاعری ہمیں اگر اپنی ترقی یافتہ ادبی شکل سے روبرو کرواتی ہے تو‬
‫پرانی شاعری ہمیں روایت کے خوبصورت محالت کی سیر کرواتی ہے۔ میر کی یہ تمام رباعیاں ہیں۔ان کو پڑھ کر میر‬
‫کی سب سے بڑی طاقت یعنی رعایت لفظی کے فن پر میر کے اعتماد اور عبور کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ اب اس میں‬
‫اور کون کون سے فنی جواہر ڈھونڈ نکالتے ہیں ‪ ،‬یہ آپ کا ہنر ہے۔میر نے اپنی غزلوں اور دوسری اص‬

‫‪Jul‬‬
‫‪8‬‬

‫بے وقت افطار‪/‬جالل آل احمد‬

‫میں شائع ہوئی تھی۔جس میں ‪55‬آج کی کہانیاں'نامی سلسلے کی پہلی کہانی پیش خدمت ہے۔یہ کہانی آج کے شمارہ نمبر '‬
‫اس کےعالوہ جالل آل احمد کی سات اور کہانیاں شامل تھیں۔اس کہانی کا انتخاب اجمل کمال جیسے اہم مدیر نے موقع‬
‫کی مناسبت سے بہت خوب کیا ہے۔جالل آل احمدایک ایرانی افسانہ نگار ہیں۔وہ ‪2‬دسمبر ‪ 1923‬کو پیدا ہوئے اور ‪9‬ستمبر‬
‫‪ 1969‬کو ایران کے شہر اسالم میں ان کا انتقال ہوا۔وہ نہ صرف ایک ادیب تھے‪ ،‬بلکہ ایک سیاسی اور سماجی تجزیہ‬
‫نگار بھی تھے۔انہوں نے ‪ 1950‬میں مشہور ناول اور افسانہ نگار خاتون سیمیں دانشور سے‬

‫‪Jul‬‬
‫‪6‬‬

‫علی اکبر ناطق کی غزلیں‬


‫علی اکبر ناطق کی یہ غزلیں میرے خیال میں سب سے پہلے اتنی تعداد میں ادبی دنیا پر شائع ہورہی ہیں‪ ،‬اس سے پہلے‬
‫انہوں نے کہیں باقاعدہ غزلیں میری معلومات کے مطابق شائع نہیں کروائی ہیں۔ بہرحال‪ ،‬معاملہ جو بھی ہو‪ ،‬بہت سے‬
‫پڑھنے والوں کے لیے ناطق کی تخلیقی صالحیت کا یہ بالکل الگ رنگ روپ ہے۔ جلد ان کا شعری مجموعہ بھی آنے‬
‫واال ہے‪ ،‬میری رائے میں ناطق ایک نظم نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ کمال کے غزل گو بھی ہیں۔ کیونکہ ان‬
‫کے یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے جن لفظیات اور بحور کو شعر کہنے کے لیے اپنایا ہ‬
‫‪1‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪5‬‬

‫ادریس بابر کی تازہ غزلیں‬

‫ادریس بابر ایک انقالبی گھڑی کا نام ہے‪ ،‬خاص طور پر غزل میں۔پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ غزل میں محض‬
‫بے ساختگی‪ ،‬نفاست اور اس کی لکھنوی شرافت یا دہلوی مسکینیت ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔یہ اپنی پسند ہوسکتی ہے‪،‬‬
‫روایت پرستی یا روایت پروری ہوسکتی ہے‪ ،‬لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مضامین‪ ،‬زبان اور اسلوب کی سطح پر غزل‬
‫کو ہمیشہ ایک مظلوم عاشق اور ایک سفاک عورت کے درمیان کی عاجزانہ اور عیارانہ گفتگو سے ہی تعبیر کیا جائے‪،‬‬
‫بلکہ اب تو وہ خود کالمی کے بھی دور سے باہر آگئی ہے‪ ،‬کیونکہ خود کالمی تو سوشل ویب سائٹس‬
‫‪3‬‬

‫‪Jul‬‬
‫‪2‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫ساقی فاروقی کی خودنوشت ’’آپ بیتی‪/‬پاپ بیتی‘‘ کراچی کے رسالے ’’مکالمہ‘‘ اور بمبئی کے رسالے ’’نیاورق‘‘ میں‬
‫قسط وارچھپنے کے بعد پچھلے دنوں کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ (اس کتاب کے آخری صفحے پر اطالع دی گئی ہے کہ‬
‫یہ پہلی جلد ہے اور پڑھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری جلد کا بےچینی سے انتظار شروع کر دیں۔) اس‬
‫پاپ بیتی‘‘ (ذیلی عنوان‪’’ :‬ایک اور طرح کی آپ بیتی‘‘) ’’سے پہلے تقریبا اسی عنوان سے اشفاق نقوی کی خودنوشت‬
‫الہور سے شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ دونوں کتابوں کے مصنفوں نے یہ عنوان مشتاق احمد یوسفی کے ایک‬

‫‪Jun‬‬
‫‪29‬‬

‫اعجاز گل کی تازہ ترین غزلیں‬

‫اعجازگل کا نام اردو غزل میں اپنی شعری انفرادیت کے لیے بے حد اہم ہے‪ ،‬وہ عام طور پر شہرت کی خواہش سے بھی‬
‫کوسوں دور ہیں‪ ،‬مگر ان کا لہجہ‪ ،‬ان کا بیانیہ اور ان کی شعری حس کی تیزی اور باریکی ان کی شناخت ہے۔وہ اپنی‬
‫بات کہنے کے ڈھنگ کو مختلف انداز سے برت کر دیکھنا جانتے ہیں‪،‬اور یہی کوشش تخلیقی اعتبار سے ہمیشہ کارگر‬
‫ثابت ہوتی ہے‪ ،‬یہ غزل اس انسانی تجربے کی تفسیر بھی دکھائی دیتی ہے‪ ،‬جس نے دنیا کو لیمپ سے الئٹ کا سفر‬
‫کرتے ہوئے دیکھا ہے‪ ،‬محسوس کیا ہے‪ ،‬اور اس برق باری کے نتائج کو اپنے خیاالت کی کسوٹی پر گھسا ب‬

‫‪Jun‬‬
‫‪26‬‬
‫شعر چیزے دیگر است‪ :‬ضمیمہ‬

‫قاری سے بڑا جوہر شناس اور کون ہوسکتا ہے کہ شعر ادب تو معاملہ ہی تخلیق کار اور قاری کے درمیان ہے‪،‬یہ نقاد ’’‬
‫بیچ میں کہاں سے آئے گا۔ختم کالم اسی پر ہے کہ ادب میں نقاد کا کوئی کردار نہیں ہے جو رائے دینے کے ساتھ حکم‬
‫فتوی اور ڈگری بھی صادر کرتا ہے۔وہ قاری کواپنی آزادنہ رائے قائم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔بلکہ‬
‫ٰ‬ ‫بھی چالتا ہے اور‬
‫اصرار کرتا ہے کہ فن پارے کو میرے نظریے کے مطابق اور میری عینک سے دیکھو۔اور اسی گڑھے میں گرجاؤ جو‬
‫‘‘میں نے تمہارے لیے کھود رکھا ہے۔‬

‫)میر کے تاج محل کا ملبہ‪ :‬ظفر اقبال(‬

‫۔۔۔۔۔م’’‬
‫‪2‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪25‬‬

‫شہرام سرمدی کی نظمیں‬

‫شہرام سرمدی بہت عرصے بعد ہندوستان میں ہونے والی معیاری اردو نظم کا ایک اہم ترین نام ہے۔ان کا ایک شعری‬
‫مجموعہ 'ناموعود'کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے‪ ،‬اس میں شامل نظموں میں سے اپنی پسندیدہ چھ نظموں کو میں اس‬
‫وقت بالگ پر پیش کررہا ہوں‪ ،‬جو کہ یقین ہے کہ آپ کو بھی پسند آئیں گی۔آپ شہرام سرمدی کا شعری مجموعہ ناموعود‬
‫ادبی دنیا سےپی ڈی ایف صورت میں ڈائونلوڈ بھی کرسکتے ہیں‪ ،‬جس کا لنک اس پوسٹ کے آخر میں دیا جارہا ہے۔‬

‫شہرام سرمدی کی شاعری میں ایک عمیق صبر کا تجربہ مجھے نظر آتا ہے‪،‬یہ تجربہ اتنا گہرا ہے کہ مجھے‬

‫‪Jun‬‬
‫‪10‬‬

‫پندرہ غزلیں‪ :‬تصنیف حیدر‬

‫چاکلیٹی رنگ کی لڑکی سے مجھ کو پیار تھا‬

‫پیار کیا تھا‪ ،‬صرف ٹھنڈی رات کا اصرار تھا‬

‫تجربہ شیطاں کا میرے پاس تھا‪ ،‬لیکن مجھے‬

‫آگ ہو کر مٹیوں میں لوٹنا دشوار تھا‬

‫جھوٹ کی بنیاد پر میں نے سکھایا سچ اسے‬

‫یعنی میرا سچ ہی سارا جھوٹ تھا‪ ،‬بیکار تھا‬


‫‪۰۰۰‬‬

‫طلسم ہوشربا کے ورق چباتا ہوا‬

‫مجھے وہ سرسری کردار یاد آتا ہوا‬

‫پلٹ کے دیکھ رہا تھا خدا کو میں لیکن‬

‫وہ ایک اور تماشے کو تھا بناتا ہوا‬

‫نقاب نوچ کے اس نے زمین پر پھینکا‬

‫بدن بھی چیخ کے بھاگا نظر چراتا ہوا‬

‫ررک ررک کے مرا ساتھ دے رہا تھا وہ جسم‬

‫وصال کرتے ہو‬


‫‪1‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪9‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫‪۱‬‬

‫الہور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالے ’’احیائے علوم‘‘ میں پچھلے کچھ شماروں سے اجتہاد کے موضوع پر‬
‫شعبہ تصنیف و‬
‫ٔ‬ ‫مضامین اور پڑھنے والوں کے خطوط کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران کراچی یونیورسٹی کے‬
‫جریدہ‘‘ کے شمارہ ‪ ۳۳‬میں اقبال کے ان خطبات پر‪ ،‬جن کے مجموعے کا عنوان ’’تالیف و ترجمہ کے رسالے‬
‫نقطہ نظر سے کیے گئے طویل ‪Reconstruction of Religious Thought in Islam‬‬ ‫ہے‪ ،‬قدامت پرست مذہبی ٔ‬
‫تبصرے شائع کیے گئے اور یہ اطالع دی گئی کہ یہ عالمہ سید سلیمان ندوی کے خیاالت ہیں جنھیں ان کے ایک عقیدت‬
‫مند مرید ڈاکٹر غل‬

‫‪Jun‬‬
‫‪8‬‬

‫برسو رام دھڑاکے سے‪ :‬معین الدین جینابڑے‬

‫پچھلے دنوں ہندوستان میں میرے مختصر سے قیام کے دوران اچانک ٹھنڈی رام سے مالقات ہوئی۔برسوں بعد غیر متوقع‬
‫جب وہ مجھے مال تو میں اس سے لپٹ گیا۔اس نے بھی مجھے بھینچ لیا‪ ،‬بڑی دیر تک ہم ایک دوسرے سے گتھے رہے‪،‬‬
‫ویسے اگر آپ اس وقت ہم دونوں کو دیکھتے تو یہی کہتے کہ یہ بھرت مالپ چند لمحوں کا تھا اور آپ کی بات کچھ غلط‬
‫بھی نہ ہوتی کیونکہ گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے ہم چند سکینڈ ہی آپس میں لپٹے رہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم‬
‫دونوں اس وقت ایک دوسرے سے ملنے کی خوشی میں کچھ ایسے پاگل ہوگئے تھے کہ وقت کو ناپنے والے اس آ‬
‫‪2‬‬
‫‪Jun‬‬
‫‪6‬‬

‫سیاہ حاشیے‪ :‬سعادت حسن منٹو‬

‫ت شیریں‬
‫ساع ِ‬

‫اظہار مسرت کے لیے امرتسر‪ ،‬گوالیار اور بمبئی میں کئی جگہ‬
‫ِ‬ ‫اطالع موصول ہوئی کہ مہاتما گاندھی کی موت پر‬
‫)لوگوں میں شرینی بانٹی گئی(ا۔پ‬

‫***‬

‫مزدوری‬

‫لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اضافہ ہوگیا۔ جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔‬

‫ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب تم ہی گئے پردیس لگا کرٹھیس اوپیتم پیارا‪ ،‬دنیا‬
‫میں کون ہمارا۔‬

‫ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی‬
‫جھولی میں سے گر پڑی۔‬

‫‪Jun‬‬
‫‪6‬‬

‫چچا سام کے نام منٹو کے خطوط‬

‫پہال خط‬

‫لکشمی مینشنز ہال روڈ ‪،‬الہور ‪۳۱‬‬

‫مورخہ ‪ ۱۶‬دسمبر ‪۱۹۵۱‬ء‬

‫! چچا جان‪ ،‬اسالم علیکم‬

‫یہ خط آپ کے پاکستانی بھتیجے کی طرف سے ہے‪ ،‬جسے آپ نہیں جانتے۔ جسے آپ کی سات آزادیوں کی مملکت میں‬
‫شاید کوئی بھی نہیں جانتا۔‬

‫میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا‪ ،‬کیسے آزاد ہوا‪ ،‬یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خط‬
‫لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں‪ ،‬کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں اور‬
‫چچا جان یہ بات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چا ہیئیکہ جس پرندے کو پر‬

‫‪Jun‬‬
‫‪5‬‬

‫انعام ندیم کی غزلیں‬

‫انعام ندیم کی شاعری مجھے بہت اچھی لگتی ہے‪ ،‬ہر بات جو ہمیں بہت اچھی لگتی ہے‪ ،‬اس کی تاویل فراہم کرانا‬
‫ضروری نہیں‪ ،‬مگر انعام ندیم کو سادگی سے گہری باتیں کہنے کافن آتا ہے۔ ان کے یہاں خیال کے بہت سے نادر پہلو‬
‫'چپکے سے آئے بیٹھے'اسلوب کی چادر میں پوشیدہ سلوٹوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں۔ یہ بقول انعام ندیم‪ ،‬ان کی تازہ‬
‫غزلیں ہیں‪ ،‬جو بہت سے پڑھنے والوں تک پہنچ نہیں سکی ہیں‪ ،‬ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو ابھی کسی رسالے میں‬
‫بھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے 'ادبی دنیا' کو اس الئق سمجھا کہ اسے اپ‬

‫‪Jun‬‬
‫‪3‬‬

‫بال عنوان کے‪ :‬سعادت حسن منٹو‬

‫پنڈت جی۔ اسالم علیکم‬

‫یہ میرا پہال خط ہے‪،‬جو میں آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔ آپ ماشاء ہللا امریکنوں میں بڑے حسین متصور کیے‬
‫جاتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے خدوخال کچھ ایسے برے نہیں ہیں۔ اگر میں امریکہ جاؤں تو شاید مجھے بھی‬
‫حسن کا رتبہ عطا ہو جائے۔ لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور میں پاکستا ن کا عظیم افسانہ نگار۔ ان میں بہت‬
‫بڑا تفاوت ہے بہر حال ہم دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ آپ کشمیری ہیں اور میں بھی۔ آپ نہروہیں میں منٹو۔‬
‫کشمیری ہونے کا دوسرا مطلب خوبصورتی ہے اور خوبصورتی کا مطلب‬

‫‪Jun‬‬
‫‪2‬‬

‫کچھ اپنی نظموں کے حوالے سے‪ :‬صدیق عالم‬

‫صدیق عالم بطور افسانہ نگار بہت مشہور ہیں‪ ،‬اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے آخری چھاؤں‪ ،‬لیمپ جالنے والے‬
‫اور بین شائع ہوچکے ہیں‪ ،‬ساتھ ہی ساتھ ان کا ایک ناول چارنک کی کشتی بھی منظر عام پر آچکا ہے۔اس سال یعنی‬
‫‪2015‬میں ان کا پہال نثری نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ’پتھر میں کھدی ہوئی کشتی‘ کے عنوان سے شائع ہوا‬
‫زیبرا کراسنگ پر ٹنگے چہرے‘ اور ’تخلیق کا ’ہے۔اس مجموعے میں چالیس نثری نظموں کے ساتھ دو طویل نظمیں‬
‫نوحہ‘ شامل ہیں۔صدیق عالم ایک عمیق فن کار ہیں۔ان کے یہاں ابہام کی مختلف صورتیں موجود ہیں‪ ،‬زیر نظر تحری‬
‫‪2‬‬

‫‪Jun‬‬
‫‪1‬‬

‫سالم سلیم کی غزلیں‬

‫سالم سلیم کی شاعری میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث رہی ہے۔ یہ شخص کم شعر کہتا ہے‪ ،‬اور اس کے یہاں‬
‫لفظوں کے انتخاب اور خیال کی بندش کا طریقہ مخصوص کالسیکی لفظیات کے باوجود کچھ انوکھا ہے۔ غزل میں سالم‬
‫سلیم کا رویہ میر کی طرح مکمل سپردگی واال ہے‪ ،‬مگر کہیں کہیں یہ خود سپرد عاشق خدا سے بھی بھڑ جاتا ہے‪،‬‬
‫مذہب‪ ،‬فلسفے اور سماج پر کچھ بے باکانہ اظہار بھی اس زہر میں ڈوبی ہوئی عاشقانہ برچھی کے ساتھ سالم کی غزلوں‬
‫کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔اکیسویں صدی میں غزل اپنے چہرے تراش رہی ہے‪ ،‬اب اس میں وہ کتنی کامیاب‬

‫‪May‬‬
‫‪30‬‬

‫فکشن میرے عہد کا‪:‬محمد حمید شاہد‬

‫موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ اس خوفزدہ شخص کی کہانی ہے جس کے من میں اس خیال کا ناگ پھن پھیال کر بیٹھ گیا‬
‫تھا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔۔۔ یہ وہ کہانی ہے جو مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ موت سے خوفزدہ اس کردار کی بے‬
‫چارگی دکھ بن کر میرے اندر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔‬

‫گھوڑوں کے شہر میں اکیال آدمی‘‘‪ ’’،‬بارش کی باتوں میں بھیگتیلڑکی‘‘ ‪ ’’،‬گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ اور’’ ’’‬
‫خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر‘‘ مظہر االسالم کی ایسی ہی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ان کہانیوں میں موت‪ ،‬اِنتظار‪،‬‬
‫دکھ اور جدائی جیسے موض‬

‫‪May‬‬
‫‪22‬‬

‫)زندہ‪/‬مردہ(باد‬

‫مارک ٹوئن کا اصل نام سیموئل لینگون کلیمنزتھا‪ ،‬وہ ‪ 1835‬میں فلوریڈا‪ ،‬مسوری‪ ،‬امریکہ میں پیدا ہوئے اور ‪1910‬میں‬
‫کنیکٹیکٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ بارہ سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ذمہ داریوں کی وجہ سے منقطع کرنا پڑاچنانچہ‬
‫مارک ٹوئن نے اسکول چھوڑ دیا اور اسٹیم بوٹ پائلٹ‪ ،‬جرنی مین اور سپاہی کے فرائض مختلف اوقات میں اد ا کیے‬
‫مگر اپنی تحریروں سےخاص طور پر مارک نے اچھی خاصی رقم کمائی اور کچھ کاموں میں بغیر سوچے سمجھے رقم‬
‫لگانے کی وجہ سے انہیں بہت سے معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔‪ 1870‬میں اولیویالین‬

‫‪May‬‬
‫‪21‬‬

‫میر تقی میر کی ساری غزلیں‬

‫کلیات میر کی ان پیج فائلوں کی اہمیت‬

‫ان فائلوں میں میر تقی میر کی ساری غزلیں موجود ہیں۔جن کی تعداد ‪ 1916‬ہے۔میر تقی میر اردو ادب کے نہایت اور‬
‫مشہور شاعر ہیں ‪ ،‬ان کی پیدائش ‪1723‬میں آگرہ شہر میں ہوئی اور انتقال ‪ 1810‬میں لکھنئو شہر میں ہوا۔زندگی انتشار‬
‫اور سکون کے کچھ ملے جلے دور میں گزری مگر ذہن کے شاعرانہ انتشار نے میر کو کبھی خود سکون سے بیٹھنے‬
‫نہیں دیا۔ میر زندگی کے مشاہدے کا اردو غزل میں اب تک سب سے بڑا شاعر ہے۔ جس کی اہمیت کو اردو کے ہر بڑے‬
‫نقاد نے تسلیم کیا ہے۔میر کی زندگی کے حاالت اور خیاالت‬
‫‪4‬‬

‫‪May‬‬
‫‪20‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫حال ہی میں مجھے ’’احیائے علوم‘‘ کے چند گزشتہ شماروں کے مشموالت اور اجتہاد کے موضوع سے متعلق کچھ‬
‫شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کا‬
‫ٔ‬ ‫اورتحریریں کم و بیش ایک ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کراچی یونیورسٹی کے‬
‫’’جریدہ‘‘ بھی تھا جس کے شمارہ ‪ ۳۳‬میں عالمہ اقبال کے ان خطبات پر جنھیں بعد میں ’’اسالمی فکر کی تشکیل نو‘‘‬
‫کے عنوان سے شائع کیا گیا‪ ،‬عالمہ سید سلیمان ندوی کے تبصرے شامل ہیں۔ ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی کا کہنا ہے‬
‫کہ انھوں نے اس بات کی وجہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ عالمہ ندوی نے اپنے ان خیاالت کا اظہا‬

‫‪May‬‬
‫‪19‬‬

‫پی کے‪ ،‬اوہ مائی گوڈ اور مذہبی مسائل‬

‫ارسطو کا ایک جملہ بہت مشہور ہے‪ ،‬انسان سماجی جانور ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر انسان سماجی جانور ہے تو سماج کیا‬
‫ہے؟سماج آخر ہماری زندگی کے اصول کس طرح طے کرتا ہے‪ ،‬کیسے وہ مجھے سکھاتا ہے کہ مجھے کیا پہننا ہے‬
‫اور کیا نہیں پہننا‪ ،‬آخر ایسا کیوں ہے کہ جس چیز پر لوگ ہنستے ہیں‪ ،‬ہم اس کے وجود سے رفتہ رفتہ ڈرنے لگتے‬
‫ہیں۔پی‪ ،‬کے جو حال میں ہی ریلیز ہونے والی ایک کامیاب بالی ووڈ فلم ہے‪ ،‬اس کا بھی ایک منظر یہ ہے کہ کسی‬
‫سیارے سے آیا ہوا آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے پہناوے کی وجہ سے لوگ اس پر ہنس رہے ہیں تب اس کی سمج‬

‫‪May‬‬
‫‪18‬‬

‫یاہودا امیخائی کی نظمیں‬

‫یاہودا امیخائی (‪)1924-2000‬اسرائیل کا ایک عالمی شہرت یافتہ جدیدشاعر تھا۔اسے اپنی زندگی میں قریب چار بڑے‬
‫اعزازات سے نوازا گیا۔اس کی پیدائش جرمنی کے شہر ورزبرگ میں ایک سخت مذہبی یہودی گھرانے میں ہوئی‪ ،‬گھریلو‬
‫ماحول کی وجہ سے بہت جلد اسے جرمن اور ہیبرو زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا۔اس نے برطانوی فوج میں شامل ہوکر‬
‫دوسری جنگ عظیم میں حصہ بھی لیااور وہ اسرائیل کی جنگ آزادی کی تحریک سے بھی وابستہ رہا۔‪1946‬میں بڑٹش‬
‫آرمی سے الگ ہونے کے بعد اس نےیروشلم کے ڈیوڈ یلین ٹیچر ز کالج میں داخلہ لیااور کچھ عرصے بعد خود ب‬

‫‪May‬‬
‫‪17‬‬

‫جنگ کی حقیقت‬

‫دالئی الما بودھ مذہب کے روحانی پیشوا ہیں۔ دنیا بھر میں مشہور ہیں اور کسی خاص تعارف کے محتاج بھی نہیں۔ دالئی‬
‫الما کی ویب سائٹ پر موجود انفارمیشن کے مطابق وہ چودھویں دالئی الما ہیں‪ ،‬جن کی زندگی کے تین بنیادی مقاصد‬
‫ہیں۔ اول انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت پر زور دینا‪ ،‬مختلف مذاہب کے درمیان امن و آشتی کو پروان چڑھانا اور‬
‫تبتیوں کی بودھ تہذیب کی ممکنہ طور پر حفاظت کرنا۔ دالئی الما کے پرامن خیاالت اس وقت پوری دنیا کے لیے مشعل‬
‫راہ بنے ہوئے ہیں‪ ،‬وہ مذہبی طور پر اس بات کو مانتے ہیں کہ روح جاوداں ہے اور وہ‬
‫‪May‬‬
‫‪16‬‬

‫خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں‬

‫آیوان اکسیونوف ‪ ،‬والڈیمر نام کے ایک شہر کا سوداگر تھا۔ اس کے پاس دو دکانیں اور ایک گھر تھا۔ اکسیونوف بے حد‬
‫خوبصورت اور گانے کا شوق رکھنے واال تھا۔ اپنی جوانی کی شروعات سے ہی اس نے شراب پینا شروع کر دی تھی‬
‫اور آدھی جوانی ہوتے ہوتے اس میں برباد ہونا شروع ہو گیا تھا ‪ ،‬مگر شادی ہونے کے بعد اس نے اپنی شراب پینے کی‬
‫لت کو کم کیا‪،‬اورپھرصرف کبھی کبھی پیا کرتا تھا۔ ایک بارحسب معمول جب وہ گرمیوں میں اپنے گھر کو چھوڑ کے‬
‫نزھنی میلے میں کام کے سلسلے سے جا رہا تھا تو اس کی بیوی نے اس سے کہا۔‬

‫آیوان‪،‬آج مت جاو‪"،‬‬
‫‪2‬‬

‫‪May‬‬
‫‪15‬‬

‫زاہد امروز کی تازہ نظمیں‬

‫میراجی مر گیا‪ ،‬مگر اس کے دور کی جنسی مجبوریاں‪ ،‬جبلتیں اور حیرانیاں سب کی سب زندہ ہیں‪ ،‬میراجی کی آنکھ نے‬
‫جن مسائل کو دیکھا تھا‪ ،‬جن خونی‪ ،‬جنونی اور عبرت ناک حبس میں اپنی زندگی گزاری تھی‪ ،‬اس میں ذاتی کرب کا‬
‫اظہار شاید سب سے بڑا مسئلہ تھا‪ ،‬جو ایک رستے سے نہ ہوپایا تو اس نے اپنی ہزاروں چھوٹی بڑی تخلیقی صورتیں‬
‫ایجاد کرلیں۔ نئی دنیا کا آدمی‪ ،‬خاص طور پر برصغیر میں اپنی جنسی محرومیوں کو اب ایک نئے آئنے میں دیکھ رہا‬
‫ہے‪ ،‬سماج‪ ،‬مذہب‪ ،‬شرافت اور تہذیب کی سیاستیں اس کی جنسی خواہشوں کے رسائومیں تو آڑے آہی رہی ت‬

‫‪May‬‬
‫‪14‬‬

‫جنوبی ایشیا میں فاشزم کا عروج‬

‫کراچی کے ادبی میلے میں ہر مرتبہ جو پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں وہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے‬
‫سبب غیر ملکی دوستوں کے سامنے کچھ شرمندہ شرمندہ نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ ادبی میلے والے ہوٹل کے الن میں‬
‫ایک ہندوستانی شخصیت کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا جو بھارت میں بڑھتے ہوئے فاشزم پر پریشان نظر آتے تھے۔مجھے‬
‫ت ناصح جو انھیں عشق‬ ‫ان کی باتیں سن کر ویسی ہی مسرت ہوئی جسی کسی عاشق کو یہ سن کر ہوتی ہوگی کہ حضر ِ‬
‫سے پرہیز کی نصیحت کیا کرتے تھے‪ ،‬وہ آج کل خود بھی عشق سے منسلک پریشانیوں میں مبتال ہیں۔ میری‬

‫‪May‬‬
‫‪13‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬


‫مضامین سلیم احمد‬

‫مرتب‪ :‬جمال پانی پتی‬

‫ناشر‪ :‬اکادمی بازیافت‪ ،‬کراچی‬

‫اشاعت‪۲۰۰۹ :‬‬

‫اجمل کمال‬

‫اس مجموعے کو دیکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ سلیم احمد کی نثری تحریروں کی کلیات ہے ‪ ،‬لیکن ایسا نہیں‬
‫ہے۔ نہ صرف اس میں سلیم احمد کی وہ نثری تحریریں موجود نہیں جو الگ الگ کتابوں کی شکل میں شائع ہوئیں‪ ،‬مثال‬
‫‪ ،‬بلکہ ان کے وہ مضامین (کالم) بھی اس ‘‘غالب کون‘‘‪’’ ،‬اقبال ایک شاعر‘‘ اور ’’محمد حسن عسکری انسان یا آدمی’’‬
‫مجموعے سے خارج رکھے گئے ہیں جو جماعت اسالمی کے ترجمان اخبار ’’جسارت‘‘‪ ،‬کراچی‪ ،‬میں شائع ہوتے‬

‫‪Apr‬‬
‫‪13‬‬

‫!آپ دوردرشن اردو بند کردیجیے‬

‫ہندوستان میں اردو والوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔ان میں اتحاد نہیں‪ ،‬یہ ایک بکھری ہوئی‪ ،‬بے وقوف اور ناعاقبت اندیش‬
‫قسم کی آبادی ہے‪ ،‬جو ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہے۔کسی سے اردو کے بارے میں بات کیجیے تو وہ شعر‬
‫سنانے یا آداب کرنے لگتا ہے۔کوئی سوچتا نہیں کہ ’ارشاد فرمائیے‘ اور ’آداب عرض ہے‘ کی تہذیبی سرحدوں سے‬
‫زیادہ بھی کسی زبان کی کوئی شناخت ہوتی ہے۔اردو محض ایک ادبی و علمی وراثت یا تہذیبی یادگار بن کر رہ گئی ہے‪،‬‬
‫جس کی جگہ میوزیم میں ہے‪ ،‬نہ کہ عوامی زندگی میں۔یہ صورت حال بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ اب اردو‬
‫‪1‬‬

‫‪Mar‬‬
‫‪23‬‬

‫چیخ پر پابندی‬

‫آپ نے نیوز چینل کے کسی پروگرام کے وائز اوور میں شاید کبھی اس طرح کی بات سنی ہو‪ ،‬دہلی ایک خوبصورت شہر‬
‫ہے‪ ،‬یہاں کی آب و ہوا میں ہندوستانی تہذیب سانس لیتی ہے‪،‬الل قلعہ‪ ،‬قطب مینار‪ ،‬ہمایوں اور رحیم خان خاناں کے‬
‫مقبرے‪ ،‬باغ بیدل‪ ،‬غالب کی مزار اور حویلی یہاں کی تاریخی وراثت ہیں‪ ،‬یہاں کا فخر ہیں۔یہ بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ‬
‫ہے‪،‬یہ ہندوستان کا علمی و ثقافتی مرکز ہے‪،‬یہ فالنا ہے‪ ،‬یہ ڈھمکا ہے۔مگر دہلی دراصل ایک گندا شہر ہے۔یہاں جمنا کے‬
‫پانی پر تیرتے ہوئے جھاگ کی میلی کچیلی بو ہے‪ ،‬سڑکوں پر دن کے ساتھ راتوں کو بھی‬

‫‪Mar‬‬
‫‪6‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬


‫مارچ میں جب میں ہندوستان کے سفر کے دوران پونا میں تھا‪ ،‬بمبئی سے کچھ دوست مجھ سے ملنے )‪(۲۰۱۲‬اس سال‬
‫کے لیے آئے‪ ،‬کیونکہ ویزا کی پابندیوں کے باعث میرے لیے بمبئی جا کر ان سے ملنا ممکن نہ تھا۔ ان دوستوں میں اسلم‬
‫پرویز بھی شامل تھے جنھوں نے گفتگو کے دوران اپنے منصوبے کا ذکر کیا کہ وہ سعادت حسن منٹو پر ایک کتاب‬
‫مرتب کر رہے ہیں جس میں مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے تاثرات شامل ہوں گے جن کی زندگی‬
‫میں منٹو کو پڑھنا ایک اہم تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ میرے تاثرات بھی حاصل کرنا چا‬
‫‪1‬‬

‫‪Mar‬‬
‫‪5‬‬

‫فکشن میرے عہد کا‪:‬محمد حمید شاہد‬

‫الفریڈی جیلینک نے اپنی تخلیقات میں اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ ادب کی نئی دنیا میں مرد کاپلڑا بھاری ہے ‘اس کا‬
‫زورچلتا ہے جب کہ زندہ گوشت پوست والی مکمل اور بھر پور عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور یہ کہ لکھنے والوں‬
‫کے ہاں عورت کی پیش کش کا تصورپہلے سے ساختہ یعنی’’ اسٹریو ٹائپ‘‘ہے ۔ بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا۔ ‘ لگ بھگ‬
‫اسی عنوان سے شمس الرحمن فاروقی نے راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی چارج شیٹ جاری کی ہے ۔ بیدی پر الگ سے‬
‫اور جم کر شمس الرحمن فاروقی نے کچھ نہیں لکھا اور اس کا اسے اعتراف بھی ہے ‘ تاہم شہز‬

‫‪Feb‬‬
‫‪25‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫ممتاز مفتی کی ’’الکھ نگری‘‘ بالشبہ ایک نہایت غیرمعمولی کتاب ہے ۔۔ کم و بیش اتنی ہی غیرمعمولی جتنا اس کا‬
‫مصنف ہے یا اس کا موضوع۔ اسے ممتاز مفتی کی خودنوشت سوانح حیات کے دوسرے حصے کے طور پر شائع کیا گیا‬
‫ہے۔ اس سوانح حیات کی پہلی جلد‪ ،‬جسے ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا‪۱۹۶۰،‬ء کے عشرے میں شائع ہوئی‬
‫تھی۔ ’’ایلی‘‘ کو بڑی عجلت میں شائع کیا گیا تھا تاکہ یہ کتاب اس سال کے آدم جی ایوارڈ کی حقدار ہو سکے۔ سرورق‬
‫پر ’’آدم جی انعام یافتہ‘‘ کی سرخی کے ساتھ اسے ناول کا باریک نقاب اُڑھایا گیا تھا کیونکہ‬
‫‪4‬‬

‫‪Feb‬‬
‫‪20‬‬

‫فکشن میرے عہد کا‪ :‬محمد حمید شاہد‬

‫میں منشایاد کے افسانے کی عورت پر بات کرنا چاہتا ہوں اور راجند سنگھ بیدی کی عورت یاد آنے لگی ہے ۔ بیدی کی‬
‫عورت سے منشا کی عورت کا کیا سمبندھ؟ آپ حیران ہو کر حرف گیر ہورہے ہیں ‘ آپ کا متعجب ہونا یقینااس صورت‬
‫واقعہ سے پھوٹا ہے کہ بیدی اور منٹو کے افسانوں میں عورتوں کے کردار بنیادی حوالے کے طور پر آتے ہیں‘ اس‬
‫طرح کہ وہ ان دو فن کاروں کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ منٹو کو اگر چکلے والی اور گناہ میں پڑی ہوئی عورت کے‬
‫ذریعے تہذیب و تمدن کی چولی اتارنے والے کے طور پر پہچانا جاتا ہے تو بیدی کو اس گرہستن اور خان‬

‫‪Feb‬‬
‫‪16‬‬
‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫گیان چند جین کی کتاب ’’ایک بھاشا‪ ،‬دولکھاوٹ‪ ،‬دو ادب‘‘ پر شمس الرحمن فاروقی کے تبصرے سے جو بحث شروع‬
‫ہوئی تھی‪ ،‬اس سے اردو کی ادبی دنیا‪ ،‬اور اس سے وسیع تر اور اہم تر‪ ،‬برصغیر کے مسلمان معاشرے کے بارے میں‬
‫کئی دلچسپ اور اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ ان کی طرف مختصرا اشارہ کرنے سے پہلے میں گیان چند جین کے لیے اپنی‬
‫نقطہ نظر کے سوا کوئی اور‬
‫ٔ‬ ‫ممنونیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اردو کے ادبی ماحول میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ غالب‬
‫موقف پڑھنے والوں کے سامنے آئے۔ جین صاحب نے اپنی تمام عمر اردو میں تحقیق و تصنیف میں گزا‬
‫‪2‬‬

‫‪Feb‬‬
‫‪12‬‬

‫تصور جدیدیت پر ایک سوال‬

‫حاالنکہ میرا مطالعہ بہت نحیف اور میری نظر بہت کمزور ہے۔ مگر کچھ سواالت جو میرے ذہن میں آرہے ہیں‪ ،‬سوچتا‬
‫ہوں کہ سوچنے والوں کے حوالے کردوں! اس تحریر کا اصلی مقصد تو یہی ہے‪ ،‬باقی کوئی اپنی سی جو کہنا چاہے کہہ‬
‫سکتا ہے۔جدیدیت کے حوالے سے میں جب بھی اردو کے نقادوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو ایک خاص قسم کی کشمکش کو‬
‫دیکھتا ہوں‪ ،‬جدید شاعری یا جدید شعریات کا تصور ہمارے یہاں مختلف ناقدین کے یہاں مختلف ہے۔بالکل ویسا ہی‬
‫کنفیوزن جیسا کہ ترقی پسند نقادوں میں تھا‪ ،‬وزیر آغا‪ ،‬شمس الرحمٰ ن فاروقی‪ ،‬شمیم حنفی‪ ،‬عمیق حنفی‪،‬‬

‫‪Feb‬‬
‫‪8‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫کی بات ہے۔ قاہرہ کے عالقے باب اللوق میں واقع اشاعتی ادارے دارشرقیات میں ادارے کے سربراہ جوالئی ‪۲۰۰۲‬‬
‫ُحسنی سلیمان نے ہم سے ایک نووارد کا تعارف ڈاکٹر حسن حلمی کے نام سے کرایا۔ ان کی آمد کے وقت موضوعِ بحث‬
‫مصر کے شہری معاشرے میں اسالمی احیاپسندی کا رجحان تھا جو کہا جاتا ہے کہ روزبروزبڑھ رہا ہے۔ قاہرہ کے گلی‬
‫کوچوں میں گھومتے ہوے ہمیں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کسی نہ کسی قسم کے حجاب‬
‫میں نظر آئی تھی۔ یہ حجاب مغربی لباس پر پہنے ہوے اسکارف سے لے کر سر سے پیر تک کو ڈھانپنے والی چادر ی‬

‫‪Feb‬‬
‫‪5‬‬

‫فکشن میرے عہد کا‪:‬محمد حمید شاہد‬

‫ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی ‘‘کے ساتویں حصے (‪)۱‬میں اسد محمد خاں نے ‪ ،‬جو ٹکڑے جوڑے ہیں ان میں اپنے ’’‬
‫بھتیجے‪ /‬بھائی ناصر کمال کو بھیجی گئی ای میلز بھی ہیں ۔ ناصر کو بھیجی گئی ایک ای میل میں پس نوشت کا اضافہ‬
‫ملتا ہے جس میں ہمارے افسانہ نگار نے اپنے آنے والے ناول سے اقتباس دینے سے پہلے اپنا نام ‪ ،‬اسد محمد خاں‬
‫نہیں‪،‬اسد بھائی خانوں لکھا ہے۔ناول کا یہی اقتباس ’’خانوں ‘‘(‪)۲‬کے عنوان سے ’’تیسرے پہر کی کہانیاں‘‘ کا حصہ‬
‫بھی ہو گیا ہے ۔ اس خانوں کے اندر ایک ندی بہتی ہے ۔ ایسی ندی جو معدوم ہوکر بھی اس کے اندر بہت‬
‫‪Feb‬‬
‫‪2‬‬

‫ظفر اقبال سے دس سواالت‬

‫ظفر اقبال کے بارے میں عام طور پر جن خیاالت کا اظہار ہم اپنی گفتگوؤں‪ ،‬تحریروں اور مذاکروں میں کرتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫میں سے بہت سی ایسی باتیں ہیں جو خاصی نزاعی رہ چکی ہیں‪ ،‬نزاعی اس لیے ہیں کہ ظفر اقبال کی شخصیت ان کی‬
‫شاعری ہی کی طرح بہت بڑے کینوس پر پھیلی ہوئی ہے‪ ،‬اور بہت سی باتیں اس لمبے عہد میں تردید‪ ،‬تشکیک اور تضاد‬
‫کا شکارہوئی ہیں۔ایک دفعہ ہمارے ایک دوست پراگ اگروال نے یہ قصہ سنایا تھا کہ محمد علوی کی جب انہوں نے ظفر‬
‫اقبال سے فون پر بات کروائی توباتوں باتوں میں دونوں کی ضعیفی کا ذکر بھی آیا‪ ،‬ظفر اقبال ن‬
‫‪1‬‬

‫‪Feb‬‬
‫‪2‬‬

‫اجمل کمال کی تحریر‬

‫اردو کے ادبی ماحول میں یہ شکایت بہت دنوں سے عام ہے کہ نقاد اپنا کام نہیں کر رہے ہیں‪ ،‬یا ٹھیک طرح سے نہیں‬
‫کر رہے ہیں۔ اس شکایت کی گونج سید صاحب کے ان مضامین میں بھی بارہا سنائی دیتی ہے جنھیں ’’تنقید کی آزادی‘‘‬
‫نامی کتاب میں جمع کیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ خود بھی اردو کے نقادوں کی موجودہ کارکردگی سے کچھ زیادہ مطمئن معلوم‬
‫نہیں ہوتے لیکن ان کی بےاطمینانی غالبا لکھنے والوں (اور پڑھنے والوں) کی عام شکایت سے مختلف ہے‪ ،‬کیونکہ وہ‬
‫نقاد کے منصب اور اس کی ذمےداریوں کا ایک بلند( شاید ضرورت سے کچھ زیادہ بلند) تصور‬

‫‪Feb‬‬
‫‪1‬‬

‫اعجاز عبید سے دس سواالت‬

‫جس طرح انٹرنیٹ پر اردو کتابیں یا دوسری ادبی و غیرتحریریں اپلوڈ کرنے والے اداروں کے کچھ حقوق ہوا کرتے ہیں‪،‬‬
‫اسی طرح انٹرنیٹ کے قاری کا یہ حق ہے کہ جو مواد کاپی رائٹ کے زمرے سے باہر ہو‪ ،‬یا جسے مصنف نے بغیر‬
‫کسی معاشی فائدے کی غرض کے اپنی خوشی سے اپلوڈ کرنے کی اجازت دی ہو‪ ،‬اسے یونی کوڈ میں فراہم کرایا جائے‬
‫یا ڈائونلوڈ ایبل رکھا جائے۔کیونکہ یہی دو ذرائع کتاب یا تحریر کو پھیالنے‪ ،‬لوگوں میں عام کرنے اور آسانی سے پڑھنے‬
‫کے سلسلے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔اعجاز عبید نے یونی کوڈ میں اردو ادب اور شاعری کو عام‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪31‬‬

‫فکشن میرے عہد کا‪:‬محمد حمید شاہد‬


‫اردو افسانے کی تنقیدی کشاکش سے باہر پڑے ایک بڑے افسانہ نگار نیر مسعود پر ڈھنگ سے بات کرنا یوں آسان نہیں‬
‫ہے کہ اس صنف کا ناقد تو اَفسانے کے حوالے سے اٹھنے والے وقتی رجحانات اور فکری رویوں پر بات کرکے الگ ہو‬
‫جانا چاہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے فوری وسیلوں اور ہنگامی رویوں سے نیر مسعود کے اَفسانے کا کوئی‬
‫‪:‬رشتہ بنتا ہے نہ اس طرح اس کے اَفسانے کو سمجھنا ممکن ہے ۔ میں نے اس باب میں پہلے ہی گزارش کر رکھی ہے‬

‫اس کے ہاں اَفسانہ زندگی کے وسیع و عریض عالقے سے ایک قطعے کی صورت الگ ہوتا ہے ‘اپنے سا ’’‬

‫‪Jan‬‬
‫‪30‬‬

‫انعام ندیم سے دس سواالت‬

‫تخلیق کاروں سے بات کرنے میں ہمیشہ کوئی اہم بات سامنے آتی ہے۔ان کی بے پروائی‪ ،‬ان کی الابالی‪ ،‬ان کی سچائی‬
‫اور ان کی گفتگو بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کی جانب مائل کرتی ہے۔انعام ندیم کا نام ایسے ہی اہم تخلیق کاروں میں‬
‫شمار ہوتا ہے۔وہ ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں‪ ،‬اور اس انٹرویو میں انہوں نے بڑی اہم بات یہ کہی کہ مشہور ہونا اچھے‬
‫ہونے سے بہتر شاید کبھی نہیں ہوسکتا‪ ،‬بلکہ شہرت تو کبھی کبھی انسان کی تخلیقی صالحیت کو شک کے گھیرے میں‬
‫بھی لے آتی ہے۔یہ گفتگو امید ہے کہ آپ سبھی کو ضرور پسند آئے گی‪ ،‬کیونکہ اس میں انعام‬

‫‪Jan‬‬
‫‪29‬‬

‫تصنیف حیدر سے دس سواالت‬

‫تصنیف نے اپنے بالگ پر دس سواالت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ ادھر کئی روز سے ایک‬
‫کے بعد ایک بہت سی شخصیات نے ان دس سوالوں کا سامنا کیا ‪ ،‬کچھ لوگوں نے ان سواالت کےجوابات تفصیل سے‬
‫دیئے تو کچھ نے رواروی میں ‪،‬کچھ نے جلد از جلد جوابات ارسال کر دیئے تو کچھ نے سواالت پر اچٹتی سے نظر ڈال‬
‫کر انہیں کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ پھر بھی بہت سی ایسی اہم شخصیات ہیں جنہوں نے ان سوالوں کو پڑھا ان کی‬
‫اہمیت کو جانا اور ان سوالوں کےتشفی بخش جوابات بہت علمی و فکری انداز میں پیش کئے۔ابھی یہ سلسلہ چل‬
‫‪2‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪27‬‬

‫اہم ادبی کتابیں ڈائونلوڈ کیجیے‬

‫لیجے انٹرنیٹ پر موجود اہم ادبی کتابوں کی دوسری فہرست پیش خدمت ہے۔ان کتابوں میں آغا حشر کاشمیری کی کلیات‬
‫کی جلدیں ‪ ،‬مصحفی کی کلیات کی جلدیں‪ ،‬ذکر میر‪ ،‬کلیات رشید احمد صدیقی کی جلدیں اور دوسری بہت سی اہم کتابیں‬
‫شامل ہیں۔ امید ہے کہ ان کتابوں کو آپ بہ آسانی ڈائونلوڈ کرسکیں گے۔ پھر بھی کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے‬
‫رابطہ کیا جاسکتا ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بہت سی اہم کتابوں کو انٹرنیٹ پر فراہم کرایا ہے۔ اب جلد‬
‫ہی آپ کو ادبی دنیا بالگ کی پیشکش کے طور پر ایک پورا بالگ غالب اور میر کی غزلو‬
‫‪3‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪26‬‬

‫مونکا کمار کی نظمیں‬

‫یہ مونکا کمار کی نظمیں ہیں۔ان کی نظمیں میں نے اور بھی پڑھی ہیں۔قریب بیس بائیس تو پڑھی ہونگی‪ ،‬ان میں سے یہ‬
‫پانچ نظمیں یہاں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں۔ ان نظموں کو پڑھتے وقت ہرگز یہ بات فراموش مت کیجیے‬
‫گا کہ یہ نظمیں ہندی کی ایک نئی نسل کی شاعر کی ہیں۔ایسی شاعر‪ ،‬جس نے کچھ انوکھے خیاالت کو جنم دینے اور‬
‫بننے کی کوشش کی ہے۔ہندی کی نئی نسل میں اور بھی کچھ اہم نام ہیں‪ ،‬جیسے مہیش ورما‪ ،‬اویناش مشرا‪ ،‬سدھانشو‬
‫فردوس‪ ،‬عنبر رنجناپانڈےاور شبھم شری وغیرہ۔ میں رفتہ رفتہ کوشش کرکے ان سب کو آپ سے متعارف کرو‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪24‬‬

‫خالد جاوید سے دس سواالت‬

‫خالد جاویداس وقت ہندوستان کے گنے چنے فکشن نگاروں میں شاید سب سے اہم نام ہیں۔ان کے پڑوس میں رہتے ہوئے‬
‫مجھے تقریبا چار پانچ سال سے زائد ہوگئے ہوں گے‪ ،‬مگر اس دوران میں شاید میری مالقات ان سے پانچ چھ دفعہ ہی‬
‫ہوئی ہے۔مگر ان کی تحریروں سے میری مالقات ہمیشہ ہوتی رہی۔ابھی تک میں نے ان کا ناول نعمت خانہ نہیں پڑھا‬
‫ہے‪ ،‬ان کی کہانیاں عام زندگی کی جزئیات کو دیکھتی ہیں‪ ،‬کھنگالتی ہیں‪ ،‬کسی معمولی سے آدمی کے اعصاب پر مادی‬
‫اور سماجی قسم کے اصول کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں‪ ،‬اسے فلسفیانہ لہجے میں گوندھ کر انہوں نے ا‬

‫‪Jan‬‬
‫‪23‬‬

‫شمیم حنفی سے دس سواالت‬

‫قدریں بدل رہی ہیں‪ ،‬معاشرہ بدل رہا ہے۔کیونکہ اظہار کے وسائل بدل رہے ہیں۔انٹرنیٹ ایک ایسی جگہ ہے‪ ،‬جس پر اب‬
‫ادیب‪ ،‬شاعر‪ ،‬فلسفی‪ ،‬تاریخ داں‪ ،‬قانون داں سب جمع ہوگئے ہیں۔حاالنکہ یہاں بات کی عمر چھوٹی ہے‪ ،‬مگر اس کی ایک‬
‫بات اچھی یہ ہے کہ یہ لکھے ہوئے کو زندہ رکھتا ہے۔اس کی کوکھ میں چیزیں ذرا کسی کے ہاتھ لگانے سے چمکنے‬
‫لگتی ہیں‪ ،‬کسی کی پرانی پوسٹ کو دیکھیے تو وہ اور بھی بہت سے لوگوں کے نظر میں آجاتی ہے۔میرا مقصد اردو‬
‫والوں کو اس نئے وسیلۂ ترسیل پر وہ چیزیں فراہم کرانا ہے‪ ،‬جو معیار بلند کرسکیں‪ ،‬صرف تجارت نہ‬

‫‪Jan‬‬
‫‪22‬‬

‫دیپک گپتا سے دس سواالت‬

‫دیپک گپتا آرچ میڈیا پرائیوٹ لمیٹڈ نامی پروڈکشن کمپنی کے مالک ہیں۔انہوں نے بڑی تعداد میں شارٹ فلمز اور ٹی وی‬
‫سیریلز بنائے ہیں۔اسٹار پلس پر بہت سے اہم سیریلز 'بندنی'کے اسسٹنٹ ڈائرکٹررہے ہیں۔دیپک گپتا فلمی تجزیہ نگار بھی‬
‫ہیں۔وہ قریب چار پانچ سال پہلے تک دہلی میں تھے‪ ،‬بنیادی تعلق ہردوئی‪ ،‬اتر پردیش سے ہے۔میں نے خود بھی ان کی‬
‫کمپنی کے لیے صحافت کے لیے دو اہم دستاویزی فلموں کے لیے کام کیا اور غدر پر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی ایک فلم بھی‬
‫لکھی۔دیپک گپتا کے ساتھ میں نے دوردرشن اردواور بھارتی کے لیے کام کیا۔فی‬

‫‪Jan‬‬
‫‪21‬‬

‫شارق کیفی سے دس سواالت‬

‫شارق کیفی اردو ادب کے اہم شاعر ہیں۔ان کی غزل‪ ،‬ان کی نظم دونوں کو روٹین شاعری سے کوئی عالقہ نہیں۔ان‬
‫کالہجہ‪ ،‬ان کی فکر‪ ،‬ان کا بیانیہ‪ ،‬ان کی تکنیک یہ تمام باتیں ان کے ہر معاصر شاعر سے الگ ہیں۔اب تک ان کے تین‬
‫شعری مجموعے’عام سا ردعمل‘‪’ ،‬یہاں تک روشنی آتی کہاں تھی‘ اور ’نئے تماشے کا ٹکٹ‘ شائع ہوچکے ہیں۔جن میں‬
‫سے اول دو غزلوں کے ہیں اور تیسرا مجموعہ نظم کا ہے۔ان کی نظم کا کمال یہ ہے کہ وہ مختصر پیرائے میں سماج کو‬
‫دیکھتے وقت اپنی چوتھی آنکھ کا استعمال کرتی ہے۔اب اس چوتھی آنکھ کی تفصیل جاننی ہو تو ان کا‬

‫‪Jan‬‬
‫‪20‬‬

‫فہمیدہ ریاض سے دس سواالت‬

‫فہمیدہ ریاض کا نام ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں‪ ،‬ان کی خدمات‪ ،‬ان کی تحریروں‪ ،‬ان کی شاعری‬
‫سے وہ تمام لوگ واقف ہیں‪ ،‬جو ادب پڑھتے لکھتے ہیں۔فہمیدہ ریاض تک یہ سواالت میرے لیے سدرہ سحر عمران نے‬
‫پہنچائے اور ان کے جوابات بھی حاصل کیے‪ ،‬اس کے لیے میں سدرہ کا بے حد شکرگزار ہوں‪ ،‬حاالنکہ جوابات سے‬
‫مکمل تشفی نہیں ہوتی اور کہیں ایک آدھا سوال بھی کچھ اوٹ پٹانگ قسم کا ہے‪ ،‬لیکن اس مکالمے میں کچھ باتیں اہم بھی‬
‫ہیں۔مجھےیہ احساس اکثر پریشان کرتا تھا کہ قابیل کی ہونے والی بیوی'لیودا'‪ ،‬شاید یہی اس کا نام ہ‬

‫‪Jan‬‬
‫‪19‬‬

‫غزل مشکل ہے‬

‫وقت دھیرے دھیرے بدل رہا ہے۔اور بدلتے وقت کے ساتھ صرف زبانیں ہی دھندلی نہیں ہوجاتیں‪ ،‬ان میں لکھی گئی‬
‫اصناف ہر زمانے میں زندہ رہنے یا نہ رہنے کا جواز ڈھونڈ لیتی ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ شاعری کوئی جامد شے‬
‫نہیں۔اس کے بندھے ٹکے اصول نہیں‪ ،‬وہ بس وقت کے اعتبار سے اپنی ہیتیں بدل کر سامنے آتی ہے۔چونکہ پرانی اقدار‪،‬‬
‫تہذیب وغیرہ سے بندھے رہنا ہماری فطرت ہے‪ ،‬خود میری بھی۔اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم‬
‫عبادت کی حدتک ان چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں۔آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے‪ ،‬ہمارے یہاں کتنی ایسی باتی‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪18‬‬

‫ابرار احمد سے دس سواالت‬


‫ابرار احمد ایک سنجیدہ شاعر ہیں‪ ،‬وہ نظم بھی بہت اچھی لکھتے ہیں اور غزل بھی۔ان کی ایک نظم پر مجھے یاد ہے کہ‬
‫حاشیہ پر زور دار مکالمہ قائم ہوا تھا۔میں نے اس سے بھی بہت پہلے ان کی شاعری پڑھی تھی‪ ،‬اور ہمیشہ پسند کی۔ان‬
‫کے یہاں شاعری ایک بہترین رومانی لہجہ اوڑھے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ان کے دو شعری مجموعے آخری دن سے‬
‫پہلے اور غفلت کے برابر شائع ہوئے ہیں۔ان سے فون پر بھی گفتگو ہوئی ہےاور بارہا فیس بک پر بھی بات ہوئی ہے‪،‬‬
‫اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے ان بڑونمیں ہیں‪ ،‬جو چھوٹوں کو ہمیشہ قدر اور محبت کی نگاہ س‬
‫‪1‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪17‬‬

‫انجم سلیمی سے دس سواالت‬

‫انجم سلیمی اُردو نظم و غزل کے ایک توانا لہجے کے طور پر عرصے سے جانے جاتے ہیں۔ اُردو غزل میں ذات کی‬
‫کشفی حقیقت کا ادراک کوئی نیا نہیں مگر انجم سلیمی نے ’’ میں‘‘ کے کشف میں اُردو غزل کو ایک نئے ذائقے سے‬
‫ابن عربی ؒ کی‬
‫آشنا کروایا ہے۔ انجم سلیمی کے ہاں ’’میں‘‘ کا کرب سارتر واال نہیں بلکہ یہ تجربہ محی الدین ِ‬
‫’’وجودی‘‘ غوطہ زنی سے کسی قدر مشابہ ہے۔ کہیں کہیں وہ بالکل اپنی الگ راہ بھی نکال لیتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کی کشفی‬
‫واردات ہمیں حیران بھی کرتی ہے ۔نم ناک و پریشان بھی اور اطمینان کے نشے سے سرشار بھی۔انجم‬

‫‪Jan‬‬
‫‪16‬‬

‫مبارک حیدر سے دس سواالت‬

‫مبارک حیدر صاحب کا نام سب سے پہلے اجمل کمال صاحب سے سنا تھا۔بعد ازاں وہ جب میری درخواست پر ریختہ‬
‫کے دفتر تشریف الئےتوزمرد مغل نے وہاں بھی ان کا ایک انٹرویو لیا جو کہ یوٹیوب پر اب بھی موجود ہے۔انٹرویو کے‬
‫بعد بھی ان سے کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ان کی کتاب 'تہذیبی نرگسیت'مسلمانوں کی ذہنی پختگی کو ایک الگ‬
‫زاویے سے دیکھتی ہے۔ان کے خیاالت معتدل ہیں اور وہ سسٹم کے درمیان رہ کر اسے درست بنانے کے قائل ہیں۔میں ان‬
‫کا شکرگزار ہوں کہ اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود انہوں نے میرے لیے وقت نکاال اور ان سوالوں کے‬

‫‪Jan‬‬
‫‪15‬‬

‫ظفر سید سے دس سواالت‬

‫ظفر سیدایک متحرک اور فعال ادیب ہیں اور بی بی سی ورلڈ سروس سے وابستہ اہم صحافی بھی۔وہ شاعری بھی کرتے‬
‫ہیں اور انہوں نے ایک ناول'آدھی رات کا سورج'کے عنوان سے بھی لکھا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فیس بک کیا‪ ،‬انٹرنیٹ‬
‫پر بھی ظفر سید سے پہلے کسی شخص نے نئی نظم یا اردو شاعری کے حوالے سے اتنے کارآمد مباحث قائم نہیں‬
‫کروائے ہونگے‪ ،‬جیسے کہ انہوں نے اپنے ایک ادبی گروپ'حاشیہ 'میں کروائے۔حاشیہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا‬
‫جاسکتا ہے کہ اس کی بحث میں نہ صرف محمد حمید شاہد‪ ،‬ناصر عباس نیراور علی محمد فرشی جیسے اہم ناقد‬

‫‪Jan‬‬
‫‪13‬‬
‫احمد جاوید سے دس سواالت‬

‫احمد جاوید اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا کرافٹ مجھے بے حد پسند ہے۔ان کی کہانیوں کے مختلف‬
‫مجموعے شائع ہوئے ہیں‪ ،‬جن میں غیرعالمتی کہانی‪ ،‬چڑیا گھروغیرہ جیسے اہم مجموعے شامل ہیں۔میں نے ان کی‬
‫جتنی کہانیاں پڑھی ہیں‪ ،‬سب کی سب مجھے پسند آئی ہیں۔وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں‪ ،‬ان کی باتوں‪ ،‬ان کی کہانیوں‬
‫اور ان کے مزاج سے خالص ادبی سنجیدگی جھلکتی ہے۔اس انٹرویو کے ذریعے انہوں نے میرے سوالوں کے جواب دے‬
‫کر اپنے افسانے‪ ،‬اردو افسانے ‪ ،‬افسانے کا حکایتی اسلوب اور افسانے کی تنقید پر تو اہم روشنی ڈال‬
‫‪3‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪12‬‬

‫ونیت راجہ کی نظمیں‬

‫دہلی کی شعری نشست میں جو کہ مستو گورو شریواستو کے یہاں رکھی گئی تھی‪ ،‬مجھے ایک لڑکے کی نظموں نے‬
‫چونکایا‪ ،‬چونکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو چونکانے کو غیر ادبی تصور کرتے ہیں‪ ،‬چنانچہ بعد میں اس سے‬
‫دوستی کی اور اس کی اور نظمیں بھی سنیں۔میرے اس نئے دوست کا نام 'ونیت راجا'ہے۔ونیت کی نظمیں میں نے ایک‬
‫دفعہ اس سے بہت ضد کرکے اپنے میل پر منگوائی تھیں‪ ،‬وہ بے حد کم گو ہے۔اردو کا شاعر ہے اور اس کی نظموں کی‬
‫تکنیک یہ ہے کہ مختصر نظمیں لکھتا ہے‪ ،‬تقریبا چار‪ ،‬پانچ‪ ،‬سات سطروں کی‪ ،‬اور ان میں زندگی میں ہونے والے‬

‫‪Jan‬‬
‫‪11‬‬

‫انور سن رائے سے دس سواالت‬

‫انور سن رائے ایک اہم ادیب اور صحافی ہیں‪ ،‬اس انٹرویو سے مجھ پر کھال کہ وہ مصور بھی ہیں۔جنگ اور بی بی‬
‫جیسے بڑے صحافتی اداروں سے وابستہ ہیں۔وہ اپنے ایک ناول'چیخ' کی وجہ سے بھی مشہور ہیں‪ ،‬لیکن چونکہ میں نے‬
‫اب تک یہ ناول نہیں پڑھا ہے‪ ،‬اس لیے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا۔وہ بہترین نثری نظمیں بھی لکھتے‬
‫ہیں۔انہوں نے وقت نکال کر میرے بالگ کے لیے ان دس سوالوں کے جواب دیے‪ ،‬اس کے لیے میں ان کا بے حد‬
‫شکرگزار ہوں۔اس مکالمے میں انہوں نے تخلیق‪ ،‬اردو ادب‪ ،‬صحافت کے باریک معامالت اور بہت سے اہم معامالت پر‬
‫ر‬

‫‪Jan‬‬
‫‪10‬‬

‫یاسمین حمید سے دس سواالت‬

‫یاسمین حمید اردو کے ادبی حلقے کا ایک معتبر نام ہیں۔وہ اچھی شاعربھی ہیں اور مترجم بھی۔’شاعرہ‘ کے بجائے‬
‫’شاعر‘ کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ تخلیقی قوت کوتقسیم کرنے والی اس ہائے ہوز کا استعمال وہ بھی‬
‫ٹھیک نہیں سمجھتی ہیں۔ان کا شعری کلیات ’دوسری زندگی‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے ۔انہوں نے اردو شاعری‬
‫خصوصا نظموں کا ایک انتخاب اور اس کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جو آکسفورڈ پریس سے شائع ہوا ہے۔اس مکالمے میں‬
‫انہوں نے بہت سی اہم باتوں پر روشنی ڈالی ہے۔کئی اہم نکتوں کی جانب دھیان دلوایا ہے۔امید ہ‬
‫‪Jan‬‬
‫‪9‬‬

‫شامل شمس سے دس سواالت‬

‫شامل شمس ایک معروف صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ شاعربھی ہیں‪ ،‬اس طرح صحافت اور ادب دونوں سے براہ راست‬
‫ان کا تعلق ہے۔بے حد مصروف اور صاف گو شخص ہیں‪ ،‬میری گزارش پر وہ اس انٹرویو کے لیے تیار ہوئے اس کے‬
‫لیے میں ان کا اور پیرزادہ سلمان کا شکرگزار ہوں۔شامل شمس کا بنیادی تعلق کراچی سے ہے۔فی الحال جرمنی کے شہر‬
‫بون میں ڈوئچے ویلے(وائس آف جرمنی)کے انگریزی شعبے سے منسلک ہیں۔پاکستان میں 'دی نیوز'اخبارسے وابستہ‬
‫رہے اور اسالم آباد میں تحقیقی ادارے 'ایس ڈی پی آئی'کے لیے سن دوہزار چار سے دوہزار سات تک کام کیا۔پہلے کر‬

‫‪Jan‬‬
‫‪8‬‬

‫یاسر جواد سے دس سواالت‬

‫یاسرجواد بطور ترجمہ نگار ایک مشہور نام ہے۔ انہوں نے بہت اہم کتابوں کو اردو زبان میں قارئین تک پہنچایا ہے‪ ،‬جن‬
‫میں سائمن دی بووا کی 'سیکنڈ سیکس'کا مکمل ترجمہ‪ ،‬کافکاکا 'دی ٹرائل'‪ ،‬اوباما کی آپ بیتی اور بہت سی دیگر اہم‬
‫کتابیں شامل ہیں۔جن میں مذہبی‪ ،‬سماجی‪ ،‬سیاسی اور فلسفیانہ نوعیت کی کتابیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ترجمے کی‬
‫روایت پر اردو ووالوں کو اس وقت بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے‪ ،‬کیونکہ یہی ایک ایسا کام ہے‪ ،‬جس میں 'ادبی‬
‫خدمت'کا پہلو کم ہے‪ ،‬یہ ایک منافع بخش کام بھی ہوسکتا ہے‪ ،‬بس ضرورت ہے تو اس کو ب‬

‫‪Jan‬‬
‫‪7‬‬

‫محمد یامین سے دس سواالت‬

‫محمد یامین ایک باصالحیت اور اہم نظم نگار ہیں۔ان کی نظم میں نے پہلی بار حاشیہ پر پڑھی تھی‪ ،‬اس کے بعد ان کی‬
‫کتاب 'دھوپ کا لباس'پڑھنے کاموقع مال‪-‬مجھے ان کی نظمیں پسند ہیں‪ ،‬نظریاتی طور پر اتفاق و اختالف اپنی جگہ مگر‬
‫فنی اعتبار سے ان کی نظمیں بے حد پختہ ہیں۔نئی نظم کےحوالے سے محمد یامین کا نام اب ایک معتبر حوالہ ہے۔اس‬
‫مکالمے میں انہوں نے نثری نظم ‪ ،‬آزاد نظم‪ ،‬غزل‪ ،‬تشبیہ‪ ،‬عالمت ‪،‬استعارے اور دوسرے بہت سے اہم موضوعات پر‬
‫گفتگو کی ہے۔امید ہے کہ یہ دس سوال و جواب آپ کو ضرور پسند آئیں گے۔‬

‫بالگ کے حوالے سے‬

‫‪Jan‬‬
‫‪5‬‬

‫عرفان ستار کی ‪ 43‬غزلیں‬

‫عرفان ستار کی تازہ ترین ‪ 43‬غزلوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔جلد ہی ان کی غزلوں کا ایک اور انتخاب‬
‫ان کے مجموعے'تکرارساعت'سے بھی اس بالگ پرآجائے گا۔عرفان ستاراردو شاعری میں واقعی اپنی ایک الگ پہچان‬
‫رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کا رنگ ڈھنگ‪ ،‬لہجہ سب کچھ بالکل الگ ہے۔ان کی غزلوں پر میں جلد ہی ایک طویل تنقیدی‬
‫مضمون لکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں‪ ،‬میں یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ان کے مجموعے کے بعد ان کی غزلوں کا کل‬
‫سرمایہ محض یہ ‪ 43‬غزلیں ہیں۔اس سے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔مگر ا‬

‫‪Jan‬‬
‫‪4‬‬

‫عارفہ شہزاد سے دس سواالت‬

‫عارفہ شہزاد کی تحریروں سے میرا تعارف حاشیہ نام کے اسی ادبی فورم پر ہوا تھا‪ ،‬جس پر نئی نظم کی تفہیم کا سلسلہ‬
‫ظفر سید کی جانب سے شروع کیا گیا تھا۔وہ پاکستان کی نئی نسل کی ایک اہم ناقد اور شاعرہ ہیں۔ان کی ایک تنقیدی‬
‫جدید اردو شاعری میں کرداری نظمیں 'کے عنوان سے شائع ہوئی ہے ‪ ،‬گو ابھی شاعری کا کوئی مجموعہ شائع 'کتاب‬
‫نہیں ہوا ہے‪ ،‬مگر ان کی نظمیں رسائل اور انٹرنیٹ کے توسط سے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔وہ غزل بھی کہتی ہیں اور‬
‫نظم بھی۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی‪ ،‬الہور میں بطور لکچرر اپنے فرائض انجام دے رہی ہی‬

‫‪Jan‬‬
‫‪3‬‬

‫تاریخ‪ ،‬فلسفہ اور نفسیات کی کتابیں ڈائونلوڈ کیجیے‬

‫قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان پر موجود کچھ بہت ہی اہم کتابوں کی فہرست درج ذیل ہیں‪ ،‬ان میں ادبی موضوعات‬
‫پر کتابیں نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ اس بار تاریخ‪ ،‬فلسفہ اور نفسیات کے موضوعات پر لکھی ہوئی اہم کتابوں کو بہم کرانے کی‬
‫کوشش کی گئی ہے۔ ان کتابوں میں جامع تاریخ ہند‪ ،‬قدیم ہندوستان کی تاریخ‪ ،‬شہیدان آزادی کی دو جلدیں اور مشیر الحسن‬
‫کی تصنیف 'جان کمپنی سے جمہوریہ تک'شامل ہیں۔فلسفہ کے موضوع پر قدیم ہندی فلسفہ‪ ،‬سگمنڈ فرائڈ کی کتاب تحلیل‬
‫نفسی کا اجمالی خاکہ اور ایمانوئل کانٹ کی کتاب تنقید عقل محض موجود ہے۔یہ‬
‫‪4‬‬

‫‪Jan‬‬
‫‪2‬‬

‫ذکیہ مشہدی سے دس سواالت‬

‫ذکیہ مشہدی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔ان کی کہانیوں کو بہت سے اہم لکھنے پڑھنے والے پسند کرتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫سے میری بات سب سے پہلے ان کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے فون پر ہوئی تھی‪ ،‬بے حد مشفق اور صاف گو خاتون‬
‫ہیں۔انٹرنیٹ سے کوئی خاص وابستگی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے میرے بالگ کے لیے ان سوالوں کے جوابات دیے‬
‫‪،‬اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ان کی کہانیوں کے مجموعے’پرائے چہرے‘‪’ ،‬تاریک راہوں کے مسافر‘‪’،‬نقش‬
‫ناتمام‘ اور صدائے بازگشت‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔امید ہے کہ یہ مکالمہ آپ کو پسند آئے گا۔‬

‫تصنیف حید‬

‫‪Jan‬‬
‫‪1‬‬
‫نئی دنیا اور اردو کی ترقی کے نئے وسائل‬

‫اردو زبان کے بارے میں جو یہ تصور ہے کہ اس میں اب کوئی کیریر بنانا آسان نہیں‪ ،‬اس کو پڑھ کر اسے سیکھ کر‬
‫بچوں کا کوئی بہتر مستقبل نہیں بن سکتا ۔کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ اردو کی دنیا اتنی سمٹی سمٹائی ہوئی کیوں‬
‫ہے۔آخر بغیر کسی سرکاری مدد کے ہم ہی لوگ مل کر کسی ایسے ادارے کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے‪،‬جس میں چاہے‬
‫شروعات میں دس لوگ محنت سے کام کریں‪ ،‬مگر پھر اسے دھیرے دھیرے دس سے بیس‪ ،‬بیس سے چالیس اور چالیس‬
‫سے سو‪،‬دوسو‪،‬ہزار تک کے اسٹاف تک پہنچادیں۔جس میں کام کرنے والے ‪،‬جس کو آگے بڑھانے والے‪ ،‬جس کے لیے‬
‫فکر‬
‫‪1‬‬

‫‪Dec‬‬
‫‪31‬‬

‫اہم کتابیں ڈائونلوڈ کیجیے‬

‫انٹرنیٹ پر بہت ہی اچھی اور قیمتی کتابیں دستیاب ہیں‪ ،‬جنہیں بہ آسانی ڈائونلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔مگر بہت سے لوگ‬
‫اس اہم ذخیرے تک پہنچ نہیں پاتے۔ ان کی سہولت کے لیے 'قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان'کی ویب سائٹ پر‬
‫کتابوں کی فہرست یہاں دی جارہی ہے۔جسے ضرورت ہو‪ ،‬بہ آسانی نام پر کلک کرکے کتاب کو ڈائونلوڈ موجود اہم‬
‫کرسکتا ہے۔یہ پچاس کتابوں کی فہرست ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ مہینے میں دو یا تین بارآپ کو ایسی فہرستیں فراہم‬
‫کراسکوں۔ کتابیں تو ہیں‪ ،‬مگر نظام اتنا گڑبڑ ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی کتاب کہاں ہے‬

‫‪Dec‬‬
‫‪30‬‬

‫سید کاشف رضا سے دس سواالت‬

‫سید کاشف رضا ایک بے حد عمدہ شاعر ہیں‪ ،‬بہترین ترجمہ نگار ہیں اور ایک صحافی کی حیثیت سے بھی اپنی پیشہ‬
‫ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کی تخلیقی صالحیتوں کی جانب میرا دھیان زمرد مغل نے دلوایا تھا۔جب میں نے‬
‫انہیں پڑھاتو واقعی بے حد متاثر ہوا۔ان کے اب تک دو شعری مجموعے ’محبت کا محل وقوع‘ اور ’ممنوع موسموں کی‬
‫کتاب‘اب تک شائع ہوچکے ہیں۔نوم چومسکی‪ ،‬میالن کنڈیرااور بورخیس میں ان کی دلچسپی ان کے تراجم سے ثابت‬
‫‪’A case of exploding mangoe‬ہے۔اس کے عالوہ پاکستان کے ماےۂ ناز انگریزی ناول نگار محمد حنیف کے ناول‬

‫‪Dec‬‬
‫‪28‬‬

‫علی محمد فرشی سے دس سواالت‬

‫علی محمد فرشی ایک اہم ادیب‪ ،‬شاعر اور مدیرہیں۔ان کی شاعری بے حد توجہ چاہتی ہے۔ایک طویل نظم'علینہ'تخلیقی‬
‫حوالے سے ان کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی۔سمبل کا ایک شمارہ میں نے سب سے پہلے تب دیکھا تھا جب‬
‫معید رشیدی کا ایک مضمون'عروض‪ ،‬معروض اور نئی بوطیقا'اس میں شائع ہوا تھا۔اس کے بعد مجھے فرشی صاحب‬
‫سے کئی بار بات کرنے کی خواہش ہوئی‪ ،‬الغرض ظفر سید کے بنائے گئے معیاری ادبی گروپ حاشیہ کے ذریعے میری‬
‫ان سے بات ہوئی۔سمبل کو اردو ادب کے چنندہ معیاری اور اہم ترین رسائل میں سے ایک قرار دینا شاید غلط نہ ہو‬
‫‪Dec‬‬
‫‪27‬‬

‫'اجمل کمال کا مضمون'ہمارا قومی خواب‪ :‬ایک جائزہ‬

‫زبان کو مذہبی رنگ دراصل اس کے بولنے اور پڑھنے والے کم اور اس سے سیاسی فائدے حاصل کرنے والے زیادہ‬
‫دیتے ہیں‪ ،‬لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہی بولنے اور پڑھنے والے لوگ بے حد 'معصوم' بھی ہوتے ہیں‪ ،‬جنہیں اپنی‬
‫ہی شناخت کے حوالے دے کر وطن‪ ،‬رنگ‪ ،‬نسل اور مذہب کے نام پر بس مارا جاتا ہے‪ ،‬پیسا جاتا ہے اور برباد کیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اور یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی۔ ادب کے نام پر بھی جب لوگوں کو مستقل ٹھگا جانے لگے اور لکھنے والے‬
‫ہاتھ زمین پر فساد پھیالنے میں اہم کردار ادا کرنے لگیں تو کم از کم منہ میں زبان رکھنے وا‬

‫‪Dec‬‬
‫‪26‬‬

‫چرکین کی ساری غزلیں‪ :‬حصہ‪3-‬‬

‫‪101‬‬

‫گئے جب شہر سے ہگنے کی خاطر بیاباں کو‬

‫صدائے گوز سمجھے نالۂ شیر نیستاں کو‬

‫چمن میں جب قد موزوں کسی کا یاد آتا ہے‬

‫کھڑی لینڈی سے بدتر جانتا ہوں سرد بستاں کو‬

‫لگائے گا نہ منہ گر غیر جاکر گانڑ بھی رگڑے‬

‫محبت ہوگئی ہے ان دنوں یہ ہم سے جاناں کو‬

‫ہمارے ساتھ چلتے چلتے مجنوں کو جو دست آئے‬

‫تو اس نے گانڑ پوچھی پھاڑ کر صحرا کے داماں کو‬

‫ہگایا خون مدت تک خیال روئے رنگیں نے‬

‫مروڑا پیٹ میں اٹھا جو دیکھا زلف پیچاں کو‬

‫تبرا بھیج دنیا پر عدم کی راہ لے ناداں‬

‫نہ کر اس مزبلے میں بیٹھ کر آلودہ داماں ک‬

‫‪Dec‬‬
‫‪26‬‬
‫چرکین کی ساری غزلیں‪ :‬حصہ‪2-‬‬

‫‪51‬‬

‫خس و خاشاک دیا چرخ نے بستر کے عوض‬

‫مزبلے کی یہ زمیں ملک میں ہہے گھر کے عوض‬

‫او پری رو تیری مقعد کا وہ دیوانہ ہوں‬

‫خشت پاخانہ لگے قبر میں پتھر کے عوض‬

‫کون سے غیرت مہتاب کا پاخانہ ہے‬

‫پھٹکیاں گو کی نظر آتی ہیں اختر کے عوض‬

‫گوہا چھی چھی سے نہ مطلب نہ الجھنے سے غرض‬

‫خیز کے ان سے چلن چلتے ہیں ہم شر کے عوض‬

‫شیخ صاحب کو نہیں پاس حالل اور حرام‬

‫سدے پاخانے میں کھا جاتے ہیں کولر کے عوض‬

‫پائخانے کاجو فضلہ ہے اٹھانا منظور‬

‫شیخ صاحب کو بال لیجئے اب خر کے عوض‬

‫چرکیں جو مجھے حاصل ہو‬


‫ؔ‬ ‫گرمئ نزع میں‬

‫موت اس‬

‫لوڈ کیا جارہا ہے‬


‫‪Blogger.‬تقویت یافتہ بذریعہ ‪Tasneef Haidar.‬‬

You might also like