You are on page 1of 14

‫انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی معاشرے میں توازن پیدا کرنے کے لیے انسان نے بے‬

‫شمار افکار‪ ،‬نظریات تحریکات اور مذاہب کا سہارا لیا۔ ان میں سے کچھ تحریکیں باطنی‬
‫اور کچھ ظاہری ہے ۔یعنی کچھ تحریکیں اصالحی و فالحی نظریات کی پر چاک اور مبلغ‬
‫ہے اور کچھ تحریکات مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انسانوں کو اس کے مذہب سے دور لے‬
‫جاتی ہے۔ انہی تحریکوں میں سے ایک تحریک " فری میسن" ہے‬

‫"فری میسن خفیہ تحریک‪":‬‬


‫اس تحریک کا مقصد انسان کو اس کے مذہب سے دور کرنا اور ان میں جنسی برایئؤں کا‬
‫پیدا کرنا ہے اس تحریک کے ممبر یہودی النسل سے تعلق رکھتے ہیں کہا جاتا ہے اس‬
‫موسی علیہ اسالم کے دور سےشروع ہو گیا تھا شروع میں اس‬ ‫ٰؑ‬ ‫تحریک کا آغازحضرت‬
‫تحریک کو " مخفی قوت" کا نام دیا گیا۔‬

‫بالل شوکت آزاد اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ‪:‬‬


‫" دنیا کی قدیم اور خفیہ ترین تحریک “فری میسن” کے ماورائی نام سے جانی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬جس کے اثرات دنیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی پر دیکھے گئے ہیں۔ اس کے طریق‬
‫کار اور عقائد و نظریات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ایک ایسی خطرناک و خوفناک اور‬
‫بھیانک جماعت کا علم ہوتا ہے جس کے متعلق معلومات نہ ہوں تو ان پڑھ کیا بلکہ بڑے‬
‫بڑے جغادری بھی اس کے خطرناک جال میں پھنسنے سے خود کو بچا نہیں سکتے۔جو‬
‫بھی اس کے چنگل میں گیا‪ ،‬دین سے خود کو الگ کرلے گا اورایک وقت ایسا آئے گا کہ‬
‫دین و امت کا دشمن بن کر ابھرے گا۔ اس تحریک کے اولین اور بنیادی مقاصد اس کے‬
‫سوا کچھ نہیں کہ لوگ دین سے برگشتہ ہوں‪ ،‬بے دینی و بے راہ روی اختیار کریں اور‬
‫جنسی انارکی کا شکار ہو کر اس مذموم عالمی سازش کو پروان چڑھائیں۔‬
‫فری میسن تاریخ عالم کی ایک نظریہ و دین کش تنظیم اور خوبصورت تعمیری نظریے‬
‫کی آڑ میں ایک ہوش ربا خطرناک اور تخریبی کارروائیوں میں مصروف عمل تحریک‬
‫ہے اور اس کا مقصد دجال کے پیروؤں کو بھرتی کرنا اور اس کے خروج کو پر اثر بنانا‬
‫ہے۔ بالفاظ دیگر اسے دجال کی غیر اعالنیہ اور مخفی فوج بھی کہا جا سکتا ہے۔‬
‫اس تنظیم کے اراکین دنیا بھر کی دولت اور میڈیا‪ ،‬غرض ہر قابل ذکر جگہ پر براجمان‬
‫اور قابض ہیں۔ مسلمان اس تنظیم کی اصلیت سے اتنے واقف نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے۔‬
‫اس کی معمولی سطح پر رکنیت بھی کسی مسلمان کو مسلمان نہیں رہنے دیتی اور اس کا‬
‫شکار شخص جان بھی نہیں پاتا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے اور کس لیے کر‬
‫رہا ہے؟ وہ بس ایک روبوٹ کے انداز میں یہودی و صیہونی ایجنڈے کو پھیالنے میں‬
‫مددگار بنا رہتا ہے۔ آج دنیا کے ‪ 90‬فیصد ممالک میں حزب اقتدار و فوجی اسٹیبلشمنٹ‬
‫میں اسی کے کارکن براجمان ہیں "(‪)۱‬‬

‫خفیہ فوج کا خدا‪:‬‬


‫فری میسن جس خدا کی عبادت کا دعوی کرتے ہیں اس کے بارے میں خود فری میسن‬
‫برادری بتاتی ہے کہ" ہمارا خدا کائنات کا عظیم معمار ہے" اس خدا کو برادری ہر طرف‬
‫دیکھنے والی ایک آنکھ سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک آنکھ سے دجال کی طرف اشارہ‬
‫کرتی ہے۔ یہ ایک آنکھ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے جسے قدیم مصر کے لوگ اپنا خدا‬
‫مانتے تھے جس کا نام دیوتا" پا گون" تھا۔ اس تنظیم کے ‪ 33‬ڈگری پر فائز ایک ممبر‬
‫پائک نے کچھ خداوں کے نام ظاہر کئے تھے۔ اس کے مطابق یہ نام درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪-۱‬لوسیفر (بائبل میں ابلیس کو لیوسیفر کہتے ہیں اور قدیم مصر کا دیوتا)۔‬
‫‪ -٢‬جابولون (حضرت سلیمان علیہ اسالم کے زمانہ کا مشہور جادوگر)‬
‫‪-٣‬بافومت (قدیم مصری قو م کا دیوتا) ‪؎٢‬‬

‫فری میسن کے تین اصول‪:‬‬


‫یہودیوں نے لوگو ں کو ان کے مذہب سے دور کرنے کے لیے الحاد اور سیکولرزم کو‬
‫فروغ دیا۔ یہودیوں کی تحریک "فری میسن " نے اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ‬
‫اصول وضع کیے ۔ان اصولوں کا مقصد لوگوں کو یہودیت کی طرف راغب کرنا ہے۔‬
‫‪-۱‬سب سے پہلےصاحب اقتدار اور اثر و رسوخ رکھنے والے معاشرے کے طاقتور ترین‬
‫افراد کو اپنے مقصد کی تکمیل اور فری میسن کا حصہ بننے کے لیے رشوت ستانی کا‬
‫بےدریغ استعمال کیا جائے۔‬
‫‪-٢‬دوسرے مرحلے میں فری میسنری ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریسی‬
‫فرائض سر انجام دینے والے اساتذہ کو نشانہ بناتی ہے۔ ایسے اساتذہ پر تنظیمی ذمہ داری‬
‫عائد ہوتی ہے کہ وہ ذہنی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬مذہب بیزار اور علمی اعتبار سے فوقیت رکھنے والے‬
‫نمایاں طلباء کو نا صرف نظر میں رکھیں بلکہ ان پر خاص توجہ دے کر انہیں اپنے قرب‬
‫کا عادی بنائیں۔ ان کے کورے دماغوں پر فری میسنری قلم دوات استعمال کی جائے اور‬
‫ان اذہان میں اپنے نظریات بھرے جائیں۔ جب وہ پوری طرح ہمارے نظریات کو قبول و‬
‫معروف کرلیں تو ان کو سکالرشپس اور مالی امداد یا تحائف کی مد میں اپنے مخصوص‬
‫مدارس اور جامعات میں تربیت دی جائے۔‬
‫‪ -٣‬اور تیسرا اہم کام اس تنظیم کا یہ ہے کہ وسائل نشرواشاعت (میڈیا) مثالَ ََ ریڈیو‪ ،‬ٹی‬
‫وی‪ ،‬انٹرنیٹ و سوشل میڈیا اور اخبارات و جرائد پر تسلط و قبضہ حاصل کیا جائے تا کہ‬
‫انہیں اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسکے‪-‬‬
‫آج دنیا کا ‪ 99.99‬فیصد میڈیا اس تنظیم کی ملکیت و رعیت میں کام کررہا ہے۔ ہر قابل‬
‫ذکر اخبار ہو یا ریڈیو‪ ،‬جریدہ ہو یا ٹی وی چینل‪ ،‬پروڈکشن ہاؤس ہو یا سوشل میڈیا کی‬
‫جنجال دنیا غرض ہر واسطہ ان کے کنٹرول میں ہے۔‬
‫اسی لیے آج کشمیر اور فلسطین و شام کی گھمبیر صورتحال ہمیں اول تو کسی میڈیا پر‪،‬‬
‫سوائے سوشل میڈیا کے‪ ،‬نظر نہیں آئے گی اور اگر کوئی واسطہ ایسی کوئی خبر نشر‬
‫کررہا ہے تو وہ بھی ادھوری یا غلط خبر دے رہا ہے۔‪؎٣‬‬

‫فری میسن کی عالمت‪:‬‬


‫‪ ”Ëvil‬بھی کہتے ہےایک آنکھ کا نشان طاقت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ نشان فرعونی دور‬
‫"فری میسن" تحریک کی مخصوص عالمت ہے۔”‪Eye‬‬

‫بھی استعمال ہوتا تھا فری میسن کے اتحادیوں کے نزدیک اس سے مراد خدائی آنکھ ہے جو سب‬
‫پر نظر رکھے ہوئے ہے‬

‫ایک آنکھ والی عالمت‪:‬‬

‫عالمت کو خفیہ برادری نے سب سے عام کیا اس عالمت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس عالمت‬


‫”‪”Ëvil Eye‬کا استعمال‬
‫فرعون کے دور میں بہت ہی زیادہ ‪ Eye of Horus‬کے نام سے بھی جانتے ہیں جوکہ اچھی‬
‫ہو اہے۔ اسے ایک آنکھ والے نشان کو لوگ‬

‫صحت دینے واال دیوتا کی ہے۔لیکن اس پر ‪ Eye of Horus‬ماننے سے انکار کیا ہے اسکا‬
‫تحقیق کرنے والے کئی محققین نے اسکو صرف‬

‫ایک مطلب صرف ایک راستہ کا ہے۔ یعنی سوائے اس ایک آنکھ کے اور کوئی خدا نہیں ہے‬
‫اور وہی سب پر نظر رکھی ہے اگر ہم ان دونوں باتوں کو بھی تسلیم کریں توبات ایک ہی ہو گی‬
‫وہ ہے غیر ہللا اور بت پرستی کی۔ دوسری بات اس ایک آنکھ کا سب سے اہم مطلب جومحققین‬
‫نے نکاال ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی دجال اور ہللا کے بیچ کے فرق کو ایک آنکھ کی‬
‫عالمت سے بتایا گیا ہے ‪؎٤‬‬

‫جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔‬


‫ع ِن‬‫ع ْنهُ‪َ ،‬‬‫َّللاُ َ‬
‫سا َر ِض َي َّ‬ ‫س ِم ْعتُ أَنَ ً‬ ‫ش ْعبَةُ‪ ،‬أ َ ْخبَ َر َنا قَتَا َدةُ‪َ ،‬قا َل‪َ :‬‬ ‫ع َم َر‪َ ،‬ح َّدث َ َنا ُ‬‫ص ْبنُ ُ‬ ‫" َح َّدث َ َنا َح ْف ُ‬
‫َّللاُ ِم ْن نَ ِبي ٍّ إِ ََّّل أ َ ْنذَ َر قَ ْو َمهُ األَع َْو َر ال َكذَّ َ‬
‫اب‪ ،‬إِنَّهُ‬ ‫ث َّ‬ ‫سلَّ َم‪ ،‬قَا َل‪َ « :‬ما بَعَ َ‬
‫علَ ْي ِه َو َ‬
‫صلَّى هللاُ َ‬ ‫النَّ ِبي ِ َ‬
‫ع ْينَ ْي ِه كَافِ ٌر»"‪؎٥‬‬ ‫س بِأَع َْو َر‪َ ،‬م ْكت ُ ٌ‬
‫وب بَ ْينَ َ‬ ‫أَع َْو ُر َوإِنَّ َربَّ ُك ْم لَ ْي َ‬
‫"ہم سے حفص نے بيان کيا‪ ،‬کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا‪ ،‬کہا ہم کو قتادہ نے خبر دی۔‬
‫کہا ہم نے انس رضی هللا عنہ سے سنا اور ان سے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا کہ ہللا نے جتنے بھی نبی بھیجے ان سب نے جھوٹے کانے دجال سے اپنی قوم کو‬
‫ڈرایا اور دجال کانا ہوگا۔ اور تمہارا رب کا نا نہیں ہے۔ اس دجال کی دونوں آنکھوں کے‬
‫درمیان لکھا ہوا ہو گا کافر۔"‬
‫یعنی اس کی ایک آنکھ ہو گی جیسا کہ اس عالمت میں بھی ایک آنکھ ہوتی ہے۔اس کا‬
‫مطلب یہ کہ اس تنظیم کر کارکن اپنے خدا دجال کے نکلنے کا انتظار کر رہےہیں۔‬
‫فری میسن تحریک نے تحریک صیہونیت کو بہت سپورٹ کیا یہ تحریک یہودیوں کی‬
‫تحریک ہے‬

‫تحریک صیہونیت ‪:‬‬


‫انیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں اس تحریک کو چالنے والے سب سے‬
‫بڑےیہودی جس کا نام تھیوڈ رہرٹہل تھا‪،‬نمودار ہوا۔ بنیادی طور پر آسٹریا کا ایک نامہ‬
‫نگار تھا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ مشرق و مغرب میں یہودیوں کی الگ مملکت کے‬
‫حصول کا بہت زیادہ جذبہ موجود ہے اور سامی اقوام یہودیوں کے مخالف ہیں اور سخت‬
‫نفرت کرتے ہیں تو اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام" یہودی ملکیت "رکھا اس کتاب‬
‫میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد میں ہیں‬
‫جسے اکٹھا کر کے ایک مملکت میں آباد کر دیا جائے۔‪؎۶‬‬
‫تحریک صیہونیت کو پیش کرنے والوں نے اس کے مقاصد بھی بیان کیے چونکہ اس‬
‫تحریک کا بنیادی مقصد یہودیت کی ترویج تھا ساتھ ہی اس کے ا ورمقاصد بھی تھے جو‬
‫درجہ ذیل ہیں۔‬
‫تحریک صیہونیت کے مقاصد‪:‬‬
‫‪-۱‬اسرائیل کا قیام‬
‫‪-٢‬یہودیوں کی امامت‬
‫‪-٣‬الدینیت کا فروغ‬
‫‪۱٩‬صدی میں تحریک صہیونیت کے بانی تھیوڈرہر ٹہل نے مشرق اور مغرب کے‬
‫یہودیوں کو اکٹھا کیا ۔اور ان میں یہ جزبہ پیدا کیا کہ یہودیوں کی الگ مملکت ہونی‬
‫چاہیے اس نے اس مقصد کے لیے اپنی ایک کتاب بھی تحریر کی جس کا نام"یہودی‬
‫مملکت " رکھا۔‬
‫فلسطین کوحاصل کرنے کے لیے اس نے تر کی کے سلطان عبدالحمید ثانی سے رابطہ‬
‫کیا او ر اسے خط لکھا یہودیوں نے اے مقاصد کو پانے کے لیے چا ر منصوبے بنائے‬
‫۔‬

‫سلطان عبدالحمید کے نام خط‪:‬‬


‫"تھیوڈر ہر ٹہل نے اپنے مقصد یعنی فلسطین حاصل کرنے کے لیے ترکی کے سلطان‬
‫عبدالحمیدثانی سے رابطہ کیا اور پیش کش یہ کی کہ یہودی قوم کی دولت ‪،‬مالی وسائل‬
‫اور ترکی کی مالی امداد فلسطین کے عوض قبول کرلی جائے"‬
‫سلطان کو ان کی چالوں کی پور اپورا علم تھا انھوں نے جواب دیا‪:‬‬
‫"یہودی اپنا مال ودولت اپنے پاس رکھیں ‪،‬انہیں فلسطین اس وقت بال معاوضہ مل جائے گا‬
‫جب میری سلطنت کے ٹکڑے ہوئے یا میری میت کے ٹکڑے ہوئے ۔ میں اپنی زندگی میں‬
‫یہ فیصلہ پسند نہیں کرتا"‪؎۷‬‬

‫پہال منصونہ ‪:‬ترک اور عرب قوم پرستی کا تصادم‪:‬‬


‫جنگ عظیم اول برپا ہوئی تو ترکی اور عرب ایک دوسرے کے رفیق ہونے کی بجائے‬
‫دشمن اور خون کے پیاسے بن کر آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اور مسلمانوں میں قومیت‬
‫پرستی کی ہوا دی گئی۔ عربوں میں اس عرب قوم پرستی کا فتنہ اٹھا نے والے عیسائی‬
‫عرب تھے۔ اس کا فائد ہ یہودیوں نے بہت اٹھایا۔جن کے نتیجے کے طور پر ترک اور‬
‫عرب قوم پرستی میں تصادم پیدا ہوا اور پہلی جنگ عظیم رونما ہوئی۔‬

‫جنگِ عظیم ّاول اور اعالن بَالفور‪:‬‬


‫آرتھر جیمز بالفور‪:‬‬
‫برطانوی سیاست دان جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ‪ ۱٩۱۶‬میں وزیر خاردجہ‬
‫مقرر ہوا۔‪ ۱٩۱۷‬میں اس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا اعالن کیا ۔ اور‬
‫فلسطین میں یہودیوں کی ایک آزاد اور قومی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا ۔ اس نے‬
‫جو اعالن کیا وہ یہ تھا۔‬
‫الرڈ بالفور کے الفاظ ‪:‬‬
‫"ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ‬
‫پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صہیونیت ہمارے لیے ان سات الکھ عربوں کی خواہشات‬
‫اورتعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اس وقت آباد‬
‫ہیں"۔‬

‫مجلس اقوام کی کارگزاری‪:‬‬


‫ِ‬ ‫دوسرا منصوبہ ‪:‬‬
‫فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور الرڈ بالفور کے اعالن سے یہودیوں کے‬
‫طویل المیعاد منصوبے کا پہال مرحلہ مکمل ہوگیا۔ ‪۱۸۸۰‬ء سے شروع ہوکر‬
‫‪۱٩۱۷‬ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں ‪ ٣۷‬سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس‬
‫منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں "مجلس اقوام " اور اس کی اصل کار‬
‫فرما دو بڑی طاقتوں برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد‬
‫سلطنتیں نہیں ہیں بلکہ محض صیہونی تحریک کی ایجنٹ ہیں ‪ ۱٩٢٢-‬مین مجلس‬
‫اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب میں دے دیا جائے‬
‫یہودیوں کی فلسطین میں آمد‪:‬‬
‫یہ اِنتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں الکر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ‬
‫شروع کردیا گیا۔ فلسطین کا پہال برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیموئیل خود ایک‬
‫یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عمالا حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس‬
‫کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کیے گئے‘ بلکہ بیرونی ممالک سے‬
‫لوگوں کے داخلے‘ سفر اور قومیت کے معامالت بھی اس کے حوالے کردیے گئے۔‬
‫ایسے قوانین بنائے گئے جن کے ذریعہ باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں‬
‫حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔‬

‫جنگ عظیم دوم‪:‬‬


‫جنگ عظیم اول کی وجہ سے یورپ میں مہنگائی بہت بھر گئی ۔ جرمنی کی معشیت پر‬
‫بہت برا ثر پڑا کیونکہ جنگ میں کثیر ر دولت کا ضیاع ہوا۔ اس جنگ میں ترکی جرمنی‬
‫کا اتحادی تھا۔ امریکہ نے عرب کوترکی کے خالف اکسایا جس سے مسلمانوں میں‬
‫قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ کی وجہ سے مسلمانوں کی عظیم خالفت‬
‫کا خاتمہ ہو گیا۔‬
‫جنگ عظیم دوئم کی وجہ جرمنی کا حملہ بنا جو اس نے پولینڈ پر کیا۔ تو برطانیہ نے‬
‫جرمنی کے خالف جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس جنگ کی ایک وجہ ہٹلر کی حکومت کو‬
‫مضبوط کرنا بھی تھا۔ مگر پھر ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کر دیا جس سے انگریزوں نے‬
‫پولینڈ کی حمایت کی اور جرمنی کے خالف جنگ لڑی ۔‬
‫"ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے‬
‫تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور الکھوں کی‬
‫تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف‬
‫ماردھاڑ کرکے عربوں کوبھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد‬
‫کردی۔ انگریزی اِنتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے‬
‫تھے۔ اور نقل مکانی کرنے والے عربوں کی برطانیہ نے دل کھول کو مدد کی اور اس‬
‫کے ساتھ ہی یہودیوں کا دوسرا منصوبہ پورا ہو گیا ‪ 30‬سال کے عرصے میں۔‬

‫یہودیوں کا تیسرا منصوبہ‪:‬‬


‫یہودیوں عربوں کو فلسطین سے نکالنا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے‬
‫منصوبے بنائے۔ اور پورے فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ کرنا تھا ۔اور اس کے لئے‬
‫انگریزوں نے ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ اور جو عرب لوگ وہاں گئےان کو غالم بنا لیا‬
‫گیا۔امریکہ روس اور برطانیہ کی پیش پناہی کی وجہ سے وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب‬
‫ہوتے رہے۔ اور مسلمانوں کو کسی بھی دوسرے ممالک سے اسلحہ نہ ملنے کی وجہ‬
‫سے ان کو انہی ممالک کے ساتھ تعاون کرنا پڑا ۔اس تعاون کی وجہ سے مسلمان‬
‫ممالک آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے۔اور اس مخالف کی وجہ یہودیوں کا‬
‫تیسرا منصوبہ بھی کامیاب ہو گیا۔‬

‫چوتھا منصوبہ‪:‬‬
‫یہ یہودیوں کا آخری منصوبہ ہےجس کاے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب تھے اور‬
‫جس کے لیے وہ نوے سال باقاعدہ ایک سکیم کے مطابق کام کرتے رہیں اس منصوبے‬
‫کے اہم ترین اجزا دو ہیں ایک یہ کہ مسجد االقصی اور قُبّۃ ال َ‬
‫صخرۃ کو ڈھا کر ہیک ِل‬
‫سلیمانی(حضرت داؤد علیہ اسالم نے تابوت سکینہ کے لیے ایک مضبوط عمارت تعمیر‬
‫کروائی ۔یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السالم کے عہد خالفت میں مکمل ہوئی ‪،‬جیسے‬
‫ہیکل سلمانی کہتے ہیں) پھر سے تعمیر کیا جائے‘ کیونکہ اس کی تعمیر ان دونوں‬
‫ت مقدسہ کو ڈھائے بغیر نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ اُس پورے عالقے پر قبضہ‬ ‫مقاما ِ‬
‫کیا جائے جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔‬
‫جہاں تک پہلے جز کا تعلق ہے‘ اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پر اسی وقت قادر‬
‫ہوچکا تھا جب بیت المقدس پر اس کا قبضہ ہوا تھا۔ لیکن دو وجوہ سے وہ اب تک اس کام‬
‫میں تامل کرتا رہا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سرپرست امریکا کو دنیائے‬
‫اسالم کے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خود یہودیوں کے اندر مذہبی بنیاد پر‬
‫تعمیر نو‬
‫ِ‬ ‫اس مسئلے میں اختالف برپا ہے۔ ان کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہیکل کی‬
‫اُن کا مسیح ہی آکر کرے گا۔ جب تک وہ نہ آجائے‘ ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ان کے‬
‫قدامت پسند گروہ کا خیال ہے۔ دوسرا گروہ جو جدّت پسند ہے‘ اور جس کے ہاتھ میں‬
‫دراصل اس وقت اسرئیل کے اقتدار کی باگیں ہیں ‪،‬کہتا ہے کہ قدیم بنت المقدس اور دیوار‬
‫گریہ پر قبضہ ہو جانے کے بعد ہم دورمسیحائی میں داخل ہوچکے ہیں ۔ یہی بات یہودی‬
‫فوج کے چیف ربی نے تورات ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ دی تھی جب بیت المقدس‬
‫کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے‪ " :‬آج ہم ملت‬
‫یہود کے دور مسیحائی میں داخل ہو رہے ہیں " ۔انہی دو وجوہ سے مسجد اقصی کو یک‬
‫لخت ڈھا دینے کے نجائے تمہید کے طور پر اس کو آگ لگائی گئی ہے تا کہ ایک طرف‬
‫دنیائے اسالم کارد عمل دیکھ لیا جائے اور دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کاروائی‬
‫کے لیے بتدریج تیار کیا جائے۔ "‪؎۸‬‬
‫یہاں یہودیوں کے مسیح سے مراد دجال المسیح ہے۔ جس کا وہ لوگ انتظار کر رہے‬
‫ہےکیونکہ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ ‪:‬‬

‫سلَّ َم‪َ « :‬ي ْخ ُر ُ‬


‫ج ال َّد َّجا ُل ِم ْن َي ُهو ِديَّ ِة‬ ‫علَ ْي ِه َو َ‬
‫صلَّى هللاُ َ‬
‫َّللاِ َ‬
‫سو ُل َّ‬‫((ع َْن أَنَ ِس ْب ِن َمالِكٍّ قَا َل‪ :‬قَا َل َر ُ‬
‫علَ ْي ِه ُم السِي َجانُ »))‪؎٩‬‬ ‫س ْبعُونَ أَ ْلفًا ِمنَ ا ْليَ ُهو ِد َ‬ ‫أَ ْ‬
‫صبَ َهانَ ‪َ ،‬معَهُ َ‬
‫"سیدنا انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا دجال اصفہان کے یہودیوں کی بستی سے ظاہر ہو گا اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی‬
‫ہوں گے انہوں نے سبز رنگ کی شان کندھوں پر ڈالی رکھی ہوگی۔‪":‬‬
‫یعنی یہودی اب بس اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔ پہلے یہودی یہ دعا کرتے تھے کہ ہمیں‬
‫یروشلم واپس مل جائے اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا آ جاے یعنی "دجال المسیح"‬
‫دجال اور عسکری طاقت‪:‬‬
‫دنیا کے خطرناک سے خطرناک ہتھیار اس وقت یہودیوں کے پاس موجود ہے اور اس‬
‫جن کی تیاری میں "بڈس )‪ (BIDS‬نامی مشین میدان میں مزید تجربات جاری ہیں‬
‫ان میں سب سے زیادہ خطرناک جراثیمی ہتھیار ‪(Biological Weapons):‬‬

‫استعمال ہوتی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک ایسا جراثیمی ہتھیار بنانے کی ہے جو خاص‬
‫افراد پر اثر کرے۔ یعنی اگر وہ اپنی کسی مخالف قوم یا قبیلےیا نسل کو ختم کرنا چاہیں‬
‫جب کہ اس عالقے میں ان کے ایجنٹ بھی رہتے ہیں تو یہ ہتھیا ر صرف ان کے دشمنوں‬
‫ہی پر اثر کریں اور ان کے دوست بچ جائیں۔‪۱۰‬‬

‫اوریہودیوں کی کوشش ہے کہ ہر اس قوم کو دباؤ میں رکھا جائے جہاں سے دجال کی‬
‫مخالفت کا امکان ہو۔ اور عراق کی یہ صورت حال یہودیوں کی ہی وجہ سے ہے۔ اور‬
‫افغانستان کی تباہی کا سبب بھی یہودی ہی ہیں۔‬

‫پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور سائنسدان‪:‬‬


‫ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہودیوں کے نزدیک وہ شخص ہیں جنھوں نے پاکستان جیسے ملک‬
‫کے لئے ایٹم بم بنا کر براہ راست یہودیت کے منصوبوں کے راستے میں ایک بہت بڑی‬
‫دیوار کھڑی کر دی تھی۔ یہ ایسی دیوار تھی کہ اس کو ڈھائے بغیر یہودی کبھی بھی اپنے‬
‫عالمی منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے‪ ،‬لہذا یہ نا ممکن تھا کہ وہ ڈاکٹر‬
‫خان کے اس ناقابل معافی" جرم" کو نظر انداز کر دیتے ‪ ،‬سو ڈاکٹر قدیر کو اس جرم کی‬
‫سزا دینے کے منصوبہ پر ‪ 1990‬ہی سے عمل شروع کر دیا گیا۔ اور اس کے لیے وہ‬
‫جس کو استعمال کر سکتے تھے اس کو استعمال کیا۔‬
‫‪ 2000‬میں سی آئی اے کے ڈپٹی چیف نے دورہ بھارت کے دوران بھارتی ایٹمی سا‬
‫ئنسدان اور موجودہ صدر ڈاکٹر عبدالکالم سے کہا تھا کہ آپکا نام تاریخ میں سنہرے‬
‫حرفوں سے لکھا جائیگا لیکن پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو گلی‬
‫کوچوں میں رسوا ہونا پڑیگا۔‬
‫یہودی کسی بھی مسلم ملک کا عسکری قوت بنانا وہ عالمی امن کے لیے خطرناک‬
‫سمجھتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو غیر مسلح کرکے ان کو عالمی برادری میں شامل‬
‫کرنا چاہتے ہیں یعنی کسی کے چار حرف قوت پر غیر مسلح ہو جانا گویا اس کا عالمی‬
‫برادری میں شامل ہو جانا ہے۔‬

‫عالمی برادری‪:‬‬
‫اس سے مراد یہودی برادری یا اسکی حلیف قومیں ہیں۔ یہود مخالف قومیں عالمی برادری نہیں‬
‫جب کہ انسانیت )‪(internation threats‬بلکہ وہ انسانی برادری سے خارج ہیں۔ کہاجاتا ہے‬
‫کے لیے خطرہ ہیں جس کو دوسرے الفاظ میں بین االقوامی تحدیات یا‬

‫چناچہ جب عالمی میڈیا کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق کی صورتحال پر‬
‫عالمی برادری کو تشویش ہے‪ ،‬تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان جگہوں پر یہودی مفادات کو‬
‫خطرہ ہے۔ لہذا یہودی برادری کو اس پر تشویش ہے۔‬

‫‪:‬‬ ‫امن‬ ‫عالمی‬

‫عالمی امن سےمراد ایک ایسی دنیا جہاں یہودیوں کے عالمی منصوبے وسیع تر اسرائیل‬
‫کے قیام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں کوئی قوت رکاوٹ نہ ہو۔ اسی امن کو حاصل‬
‫کرنے کے لئے افغانستان کو خون کے سمندر میں ڈبو دیا گیا اور اسی امن کی تالش میں‬
‫معصوم بچوں کی زندگیوں کو چھین لیا گیا۔ یہی امن مشن ہے جس کا رخ اب پاکستان‬
‫کی جانب ہوا ہے اور ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم خود کو بھارت کے سامنے جھک‬
‫کر اپنی غیرت اور مستقبل کا فیصلہ برہمن پر چھوڑ دیں۔ اب یہ بات سمجھ میں آ جانی‬
‫چاہیے کہ صرف مسلم ممالک کو ہی غیر مسلح کیوں کیا جارہا ہے جب کہ بھارت کو ہر‬
‫طرح سے مسلح کیا جا رہا ہے اس لیے کہ بھارت کا مسلح ہونا عالمی امن کے لیے‬
‫ضروری اور پاکستان کا مسلح رہنا عالمی امن کے لیے خطرہ ہے ۔اس کے عالوہ بہت‬
‫ساری اصطالحات ہے جو یہودی خاص معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ مثال انسانی‬
‫حقوق‪ ،‬عالمی سالمتی‪ ،‬دہشت گردی انصاف‪ ،‬آزادی نسواں وغیرہ ان کو سمجھنے کے‬
‫لیے ہم یہودیوں کے منصوبوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ قیامت تک ہم امن و سالمتی اور اس‬
‫گے۔‪؎۱۱‬‬ ‫رہیں‬ ‫روتے‬ ‫رونا‬ ‫کا‬ ‫اصطالحات‬ ‫جیسی‬

‫پینٹا گرام ‪:‬‬


‫"کباال"جادوکی ایک ایسی قسم ہے جس میں جادو گر براہ راست شیطان سے ہم کالم‬
‫ہوتا ہے ۔شیطان اسے اتنی طاقت دیتا ہے کہ جادو گر دنیا کو اپنے کنٹرول میں کر سکتا‬
‫ہے۔اس کےپاس اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ انسان کو قا بو میں کر سکتاہے۔‬
‫"پینٹا گرام "کباال " جادوئی سسٹم کا ایک اہم نقش ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی قوت کو‬
‫کنٹرول کرنے کا سائنٹفیک کام بھی کرتا ہے۔ اور سب سے اہم بات اسی پینٹا گرام کی‬
‫شکل میں بافومت شیطان بھی ہوتا ہے اس کے پانچ کونے ہوتے ہیں جس میں بافومت کی‬
‫شکل بنی نکلتی ہے۔ اور یہی پینٹا گرام کے پانچ کونے ملکر امریکی ڈلر پر شیطان کی‬
‫مہر لگاتے ہیں۔"‪؎۱٢‬‬

‫پینٹا گون‪:‬‬
‫دجال کا عبوری عسکری ہیڈکوارٹر جی ہاں دجال کی آمد کے لیے عسکری تیاریاں یہیں‬
‫سے ہو رہی ہیں۔ اس کے لفظی معنی اگرچہ پانچ کونے کے ہیں۔لیکن توریت میں کے‬
‫مطابق پنٹا گون حضرت سلیمان علیہ السالم کی مہر یا ڈھال کا نام ہے۔‬
‫یہودی دنیا میں اپنی اس طرح کی حکومت چاہتے ہیں جیسے جس طرح سلیمان علیہ‬
‫السالم کی تھی (اس لیے قوت کی عالمات وہ وہیں سے لیتے ہیں) پینٹاگون میں موجود‬
‫عسکری ماہرین کی اکثریت یہودیوں پر مشتمل ہے خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہو اور‬
‫دیگر بھی ان کے مکمل آلہ کار ہیں۔ یہ وہ عسکری ماہرین ہیں جو دجال کی آمد کے وقت‬
‫اس کے عسکری حلقے کے خاص لوگوں میں سے ہونگے ۔جن میں اصفہان یہودیوں کا‬
‫ایک خاص مقام ہے اس وقت خواہ وہ کہیں بھی اورکوئی بھی مذہب اختیار کئے ہوں۔‬

‫وائٹ ہاؤس ‪:‬‬


‫یہ بھی ایک اصطالحی لفظ ہے جس کے معنی اس عمارت کے ہیں جہاں دجال کی آمد‬
‫سے پہلے یہودی مذہبی پیشوا(ربی) رہتے ہوں۔ یہ مذہبی پیشوا دجال کے آنے کے بعد اس‬
‫کے مشیر خاص ہو نگے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں‬
‫موجود یہودی مختلف مذاہب اختیار کئے ہوئے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے‬
‫اپنا یہودی ہونا چھپاتے ہیں۔‪؎۱٣‬‬
‫پینٹا گون ایک عسکری قوت ہے جس کے آلہ کار دجالی گروہ کے لوگ ہیں ‪،‬پینٹاگون‬
‫سے مراد پابچ کونے ہیں ۔پینٹاگون حضرت سلیمان علیہ السالم کی مہر بڑے بڑے جادو‬
‫گر ہوتے تھے اور پینٹاگرام (کباال) ایک جادوئی سسٹم ہے ۔جس کا تعلق پینٹا گون سے‬
‫ہے۔ پینٹاگون امریکہ کی عسکری طاقت ہے ۔اور وائٹ ہاؤس امریکہ کا صدر مقام اور‬
‫صدر کی سرکاری رہائش گا ہ ہے ۔وائٹ ہاؤس ایک ایسی عمارت کو کہتے ہے جہاں‬
‫یہودیوں کی مذہبی پیشوا رہے گے چاہے کہ یہودیوں کا وہ گروہوں کسی بھی اور مذہب‬
‫کو اختیار کیے ہوے ہوں گے ۔‬

‫دجال کی مختلف شخصیات سے مالقات‪:‬‬


‫جن لوگوں نے اعالنیاں یہ صریح الفاظ میں دجال کو اپنا خدائی کہا ہے ان میں اکثریت‬
‫یہودیوں کی ہیں ۔ آئنسٹائن کا تعلق یہودی گھرانے سے تھا۔ ڈک چینی کے بارے میں‬
‫اسراد عالم کا دعوی ہے کہ اس نے دجال سے مالقات کی ہےاور صدر بش نے بھی‬
‫اپنے خدا کے بارمیں کہا تھا کہ وہ آنے واال ہے۔‬

‫البرٹ آئنسٹان ‪:‬‬


‫کہا جا تا ہے کہ سائنس کی تاریخ میں سے اگرالبرٹ آئنسٹائن کا نام نکال دیا جائے تو‬
‫سائنس ترقی کی رفتار بہت پیچھے چلی جاے گی۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس‬
‫کی مالقات دجال کے ساتھ ہوئی ہے۔ڈک چینی کے بارے میں کہا جاتا ہے اس نے دجال‬
‫کو دیکھا ہے اور بش اس سے رابطے میں ہیں۔‬
‫یہ کٹر یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک‬
‫موٹے دماغ کا لڑکا ہےمالی پریشانیوں کے سبب یہ لوگ اٹلی سے سوئزر لینڈ‬
‫آگئے۔سوئزرلینڈ میں تعلیم تک اس کے بارے میں تمام لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں‬
‫کہ وہ ایک کوئی اچھا طالب علم نہیں تھا۔آئن سٹائن میں تبدیلی ‪ 1900‬کے بعد آنا شروع‬
‫ہوئیں ‪ 1905‬آئن سٹائن کی کامیابیوں کاسال سمجھا جاتا ہے اسے سال اس نے کئی مقالے‬
‫پیش کیے۔ چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت پر تھا اس سے وقت اور فضا کو الگ الگ‬
‫تصور کرنے کے بجائے" وقت وفضا" یازمان و مکاں" کا نظریہ سامنے آیا۔‪ 1911‬میں‬
‫اس نے عمومی نظریہ اضافت تا پر اپنا مقالہ شائع کیا۔‬
‫"سوئزرلینڈ میں یہ دجال کے ساتھ اس کا رابطہ ہوا اور اسی نے اس کو نظریہ اضافیت کا‬
‫علم دیا"‬
‫اعتراض ہے کہ آئنسٹائن میں ایسی کون سی خاص بات تھی جس سے دجال خوش ہوا اور‬
‫آئنسٹائن کو ہیرو بنو ادیا۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں آئنسٹائن کی زندگی‬
‫اور اس کے نظریات کامطالعہ کرنا ہوگا۔آئنسٹائن اگرچہ خود کٹر یہودی تھا لیکن‬
‫دوسروں کو وہ الدینیت اور الحاد کی طرف دعوت دیتا تھا۔ ذاتی اعتبار سے اس میں وہ‬
‫تمام برائیاں موجود تھیں جو ابلیس یا دجال کو خوش کرنے کے لئے کافی تھیں عورتوں‬
‫کے ساتھ ناجائز تعلقات ۔ حتی کہ ‪ 1092‬میں پہلی بیٹی اس کی ناجائز بیوی سے ہوئی۔اس‬
‫بیٹی کو انہوں نے پاال نہیں ۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا کیا ہوا۔ ا بات سے اس‬
‫کی چرافت اور انسانی ہمدردی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫اگر آئنسٹا ئن کا خدا مذہبی نقطہ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہرکیا گیا ہے اگر‬
‫آئنسٹائن کا خدا مذہبی خدا نہیں تھا تو پھر کون تھا؟ یہی چیز غور کرنے والی ہے کی وہ‬
‫اکثر کس خدا کا ذکر کرتا تھا۔ اگرچہ اب بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ آئنسٹائن کی‬
‫خدا سے مراد قدرت ہے لیکن یہ درست نہیں ہے ۔‬
‫آئنسٹائن دجال کو اپنا خدا مانتا ہے۔ ا س بات پر آئنسٹائن کے مقاالت میں بھی ایک اشارہ‬
‫ملتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے نظریات کے بارے میں " میرا نظریہ" کے بجائے " ہمارا‬
‫نظریہ" کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ وہ کائنات کی متحدہ قوت کا رازپتہ لگانے کی بھی‬
‫کوشش کررہا تھا۔ ‪؎۱٤‬‬
‫قرآن وحدیث میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ شیطان اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے‬
‫یعنی وہ اپنے دوست (انسان) کا شیطانی مشورے دیتا ہے۔ اور ان کی مدد کرتا ہے اس‬
‫طرح شیطان کا سب سے بڑا مہرا دجال ہے جس کی مدد سے وہ لوگوں کو توحید سے‬
‫دور کرے گا۔شیطان اپنے دوست دجال کی مدد سے دنیا پر کچھ عرصہ ہللا کے حکم سے‬
‫حکومت کرے گا۔‬

‫بش اور دجال‪:‬‬


‫امریکی صدر بش نے عراق پر حملے سے پہلے کہا تھا کہ اسے جنگ کے بعد ان کا‬
‫مسیح موعود( یعنی دجال) آنے واال ہے اس کے بعد وہ اس نے اسرائیل کا دورہ‬
‫کیا۔ماسکو ٹائمز کے مطابق اس نے دورے کے دوران ایک مجلس میں جس میں سابق‬
‫فلسطینی وزیراعظم محمود عباس اور حماس کے لیڈر بھی شریک تھے بقول محمد‬
‫عباس‪ ،‬بش نے دعوے کئے کہ‪:‬‬
‫‪-1‬میں نے (اپنے حالیہ اقدامات کے لئے) براہ راست خدا سے قوت حاصل کی ہے۔‬
‫‪ -2‬خدا نے مجھے حکم دیا کہ القاعدہ پر ضرب لگاؤ اس لیے میں نے اس پر ضرب‬
‫لگائی اور مجھے ہدایت کی کہ میں صدام پر ضرب لگاؤں جو میں نے لگائی ہے اور اب‬
‫میرا پختہ ارادہ ہے کہ میں مشرق وسطی کے مسئلہ کو حل کرو اگر تم لوگ یہودی میری‬
‫مدد کرو گے تو میں اقدام کروں گا ورنہ میں آنے والے الیکشن پر توجہ دوں گا۔بش اپنی‬
‫نبوت کا دعوی اکثر کرتا رہتا ہے اور کہتا ہےکہ‪:‬‬
‫‪ "i am‬میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ بش کا خدا ابلیس یہ دجال ہے جو اس کو براہ راست‬
‫”‪messenger of God‬‬
‫حکم دیتا ہوگا۔‪؎۱٤‬‬
‫ڈک چینی اور دجال‪:‬‬
‫ڈک چینی کے بارے میں اسراد عالم کا دعوی ہے کہ اس نے دجال سے مالقات کی ہے‬
‫اور دجال اس کو خود ہدایات دیتا ہے۔‬
‫ڈک چینی تو وہ ہے جو دجال کی جانب سے منظر عام پر آیا ورنہ امریکہ ہی کیا‬
‫"برطانیہ" سویڈن" ناروے‪ :‬اصفہان‪ ،‬کا بل اور دنیا کے مختلف خطوں میں راک‬
‫فیلر‪،‬روتھ شیلڈ ‪ ،‬مورگن خاندان کے کتنے ہی بیٹھے ہوئے ہیں جن کے لبوں کی حرکت‬
‫دنیا کے جمہوری اور شہنشاہی حکومتوں کا قانون بن جاتی ہے امریکہ سمیت تمام دنیا‬
‫کے حکمران آئی ایم ایف کے صدر دفتر کی بجائے نیویارک میں ان کے گھروں کی‬
‫چوکھٹ پر ناک رگڑتے ہیں۔چناچہ یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ اگر دجال متحرک ہے‬
‫تو ان یہودی خاندان سے وہ ضرور رابطے میں رہتا ہوں گا افغانستان میں طالبان کی‬
‫سپالئی کے بعد سب سے پہلے آنے واال یہودی راک فیلر فیملی کا ایک بائیس سالہ لڑکا‬
‫تھا۔جس نے اس آپریشن کی نگرانی کی تھی یہ خاندان آئی ایم ایف ‪،‬ورلڈ بینک‪ ،‬عالمی‬
‫ادارہ صحت‪ ،‬اقوام متحدہ ‪،‬جنگی جہاز بنانے والی کمپنیوں‪ ،‬جدید اسلحہ‪،‬مزائل‪ ،‬خالئی‬
‫تحقیقاتی ادارے "ناسا" فلمساز ادارہ ہالی وڈ جیسے اداروں کا مالک ہے۔‬
‫یہودی خاندان صرف بینک کار ہی نہیں بلکہ" کبالہ" کا علم بھی رکھتے ہیں اس لئے‬
‫بعض انگریز مصنفین نے ان کو "پانچ کبالہ" کا نام سے بھی یاد کیا ہے۔ یہ سب‬
‫کٹرصیہونی مذہبی لوگ ہیں دجال اپنی خدائی کے اعالن سے پہلے انہیں کا استعمال‬
‫کرتے ہوئے اپنے لیے راہ ہموار کرتا رہے گا قرآن و حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ‬
‫شیا طین اپنے انسانوں میں موجود دوستوں کی مدد کرتے ہیں۔(‪)10‬‬

You might also like