Professional Documents
Culture Documents
شمار افکار ،نظریات تحریکات اور مذاہب کا سہارا لیا۔ ان میں سے کچھ تحریکیں باطنی
اور کچھ ظاہری ہے ۔یعنی کچھ تحریکیں اصالحی و فالحی نظریات کی پر چاک اور مبلغ
ہے اور کچھ تحریکات مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انسانوں کو اس کے مذہب سے دور لے
جاتی ہے۔ انہی تحریکوں میں سے ایک تحریک " فری میسن" ہے
بھی استعمال ہوتا تھا فری میسن کے اتحادیوں کے نزدیک اس سے مراد خدائی آنکھ ہے جو سب
پر نظر رکھے ہوئے ہے
صحت دینے واال دیوتا کی ہے۔لیکن اس پر Eye of Horusماننے سے انکار کیا ہے اسکا
تحقیق کرنے والے کئی محققین نے اسکو صرف
ایک مطلب صرف ایک راستہ کا ہے۔ یعنی سوائے اس ایک آنکھ کے اور کوئی خدا نہیں ہے
اور وہی سب پر نظر رکھی ہے اگر ہم ان دونوں باتوں کو بھی تسلیم کریں توبات ایک ہی ہو گی
وہ ہے غیر ہللا اور بت پرستی کی۔ دوسری بات اس ایک آنکھ کا سب سے اہم مطلب جومحققین
نے نکاال ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی دجال اور ہللا کے بیچ کے فرق کو ایک آنکھ کی
عالمت سے بتایا گیا ہے ؎٤
چوتھا منصوبہ:
یہ یہودیوں کا آخری منصوبہ ہےجس کاے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب تھے اور
جس کے لیے وہ نوے سال باقاعدہ ایک سکیم کے مطابق کام کرتے رہیں اس منصوبے
کے اہم ترین اجزا دو ہیں ایک یہ کہ مسجد االقصی اور قُبّۃ ال َ
صخرۃ کو ڈھا کر ہیک ِل
سلیمانی(حضرت داؤد علیہ اسالم نے تابوت سکینہ کے لیے ایک مضبوط عمارت تعمیر
کروائی ۔یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السالم کے عہد خالفت میں مکمل ہوئی ،جیسے
ہیکل سلمانی کہتے ہیں) پھر سے تعمیر کیا جائے‘ کیونکہ اس کی تعمیر ان دونوں
ت مقدسہ کو ڈھائے بغیر نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ اُس پورے عالقے پر قبضہ مقاما ِ
کیا جائے جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔
جہاں تک پہلے جز کا تعلق ہے‘ اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پر اسی وقت قادر
ہوچکا تھا جب بیت المقدس پر اس کا قبضہ ہوا تھا۔ لیکن دو وجوہ سے وہ اب تک اس کام
میں تامل کرتا رہا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سرپرست امریکا کو دنیائے
اسالم کے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خود یہودیوں کے اندر مذہبی بنیاد پر
تعمیر نو
ِ اس مسئلے میں اختالف برپا ہے۔ ان کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہیکل کی
اُن کا مسیح ہی آکر کرے گا۔ جب تک وہ نہ آجائے‘ ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ یہ ان کے
قدامت پسند گروہ کا خیال ہے۔ دوسرا گروہ جو جدّت پسند ہے‘ اور جس کے ہاتھ میں
دراصل اس وقت اسرئیل کے اقتدار کی باگیں ہیں ،کہتا ہے کہ قدیم بنت المقدس اور دیوار
گریہ پر قبضہ ہو جانے کے بعد ہم دورمسیحائی میں داخل ہوچکے ہیں ۔ یہی بات یہودی
فوج کے چیف ربی نے تورات ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ دی تھی جب بیت المقدس
کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے " :آج ہم ملت
یہود کے دور مسیحائی میں داخل ہو رہے ہیں " ۔انہی دو وجوہ سے مسجد اقصی کو یک
لخت ڈھا دینے کے نجائے تمہید کے طور پر اس کو آگ لگائی گئی ہے تا کہ ایک طرف
دنیائے اسالم کارد عمل دیکھ لیا جائے اور دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کاروائی
کے لیے بتدریج تیار کیا جائے۔ "؎۸
یہاں یہودیوں کے مسیح سے مراد دجال المسیح ہے۔ جس کا وہ لوگ انتظار کر رہے
ہےکیونکہ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ :
استعمال ہوتی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک ایسا جراثیمی ہتھیار بنانے کی ہے جو خاص
افراد پر اثر کرے۔ یعنی اگر وہ اپنی کسی مخالف قوم یا قبیلےیا نسل کو ختم کرنا چاہیں
جب کہ اس عالقے میں ان کے ایجنٹ بھی رہتے ہیں تو یہ ہتھیا ر صرف ان کے دشمنوں
ہی پر اثر کریں اور ان کے دوست بچ جائیں۔۱۰
اوریہودیوں کی کوشش ہے کہ ہر اس قوم کو دباؤ میں رکھا جائے جہاں سے دجال کی
مخالفت کا امکان ہو۔ اور عراق کی یہ صورت حال یہودیوں کی ہی وجہ سے ہے۔ اور
افغانستان کی تباہی کا سبب بھی یہودی ہی ہیں۔
عالمی برادری:
اس سے مراد یہودی برادری یا اسکی حلیف قومیں ہیں۔ یہود مخالف قومیں عالمی برادری نہیں
جب کہ انسانیت )(internation threatsبلکہ وہ انسانی برادری سے خارج ہیں۔ کہاجاتا ہے
کے لیے خطرہ ہیں جس کو دوسرے الفاظ میں بین االقوامی تحدیات یا
چناچہ جب عالمی میڈیا کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق کی صورتحال پر
عالمی برادری کو تشویش ہے ،تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان جگہوں پر یہودی مفادات کو
خطرہ ہے۔ لہذا یہودی برادری کو اس پر تشویش ہے۔
عالمی امن سےمراد ایک ایسی دنیا جہاں یہودیوں کے عالمی منصوبے وسیع تر اسرائیل
کے قیام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں کوئی قوت رکاوٹ نہ ہو۔ اسی امن کو حاصل
کرنے کے لئے افغانستان کو خون کے سمندر میں ڈبو دیا گیا اور اسی امن کی تالش میں
معصوم بچوں کی زندگیوں کو چھین لیا گیا۔ یہی امن مشن ہے جس کا رخ اب پاکستان
کی جانب ہوا ہے اور ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم خود کو بھارت کے سامنے جھک
کر اپنی غیرت اور مستقبل کا فیصلہ برہمن پر چھوڑ دیں۔ اب یہ بات سمجھ میں آ جانی
چاہیے کہ صرف مسلم ممالک کو ہی غیر مسلح کیوں کیا جارہا ہے جب کہ بھارت کو ہر
طرح سے مسلح کیا جا رہا ہے اس لیے کہ بھارت کا مسلح ہونا عالمی امن کے لیے
ضروری اور پاکستان کا مسلح رہنا عالمی امن کے لیے خطرہ ہے ۔اس کے عالوہ بہت
ساری اصطالحات ہے جو یہودی خاص معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ مثال انسانی
حقوق ،عالمی سالمتی ،دہشت گردی انصاف ،آزادی نسواں وغیرہ ان کو سمجھنے کے
لیے ہم یہودیوں کے منصوبوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ قیامت تک ہم امن و سالمتی اور اس
گے۔؎۱۱ رہیں روتے رونا کا اصطالحات جیسی
پینٹا گون:
دجال کا عبوری عسکری ہیڈکوارٹر جی ہاں دجال کی آمد کے لیے عسکری تیاریاں یہیں
سے ہو رہی ہیں۔ اس کے لفظی معنی اگرچہ پانچ کونے کے ہیں۔لیکن توریت میں کے
مطابق پنٹا گون حضرت سلیمان علیہ السالم کی مہر یا ڈھال کا نام ہے۔
یہودی دنیا میں اپنی اس طرح کی حکومت چاہتے ہیں جیسے جس طرح سلیمان علیہ
السالم کی تھی (اس لیے قوت کی عالمات وہ وہیں سے لیتے ہیں) پینٹاگون میں موجود
عسکری ماہرین کی اکثریت یہودیوں پر مشتمل ہے خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہو اور
دیگر بھی ان کے مکمل آلہ کار ہیں۔ یہ وہ عسکری ماہرین ہیں جو دجال کی آمد کے وقت
اس کے عسکری حلقے کے خاص لوگوں میں سے ہونگے ۔جن میں اصفہان یہودیوں کا
ایک خاص مقام ہے اس وقت خواہ وہ کہیں بھی اورکوئی بھی مذہب اختیار کئے ہوں۔