You are on page 1of 12

‫باب اول ‪ -‬سیاست و معاشرت؛ مفاہیم و مناہج‬

‫فصل اول‪ :‬معاشرت اور سیاست کے مفاہیم‬

‫معاشرہ‬
‫معاشرہ سے مراد افراد کا ایسا اجتماع ہے جو ایک ہی طرح کے اوصاف کے حامل‪ ،‬یکساں نظریات و عقائد رکھنے والے افراد‬
‫مخصوص ثقافتی و معاشرتی عادات واطوار کے مطابق زندگی بسر کریں۔ معاشرے کے افراد میں کچھ مشترک اقدار ضروری ہیں‪،‬‬
‫وجہ اشتراک کے بغیر محض افراد کا مجموعہ معاشرہ نہیں کہالتا۔ معاشرہ کے لغوی و اصطالحی مفاہیم درج ذیل ہیں۔‬

‫لغوی مفہوم‬
‫اش ُر ُمعاشرة“ جس کا معنی ہے باہم مل جل کر رہنا‬ ‫معاشرہ عربی زبان کا لفظ "مفاعلة" کے وزن پر مصدر ہے۔ ”عاشر يُ َع ِ‬
‫‪:‬اور زندگی بسر کرنا۔ اس کا مادہ (م ع ش) ہے‪ ،‬اور عربی زبان میں اس مادے سے ثالثی مجرد کے دو ابواب آتے ہیں‬
‫ع ْشرا ً (ض) )‪(1‬‬ ‫ع َشر ي َ ْع ِش ُر َ‬ ‫َ‬
‫ع ُشورا ً (ن) )‪(۲‬‬ ‫ع ْشراً‪ُ ،‬‬ ‫ع َش َر يَ ْع ُش ُر َ‬
‫َ‬
‫‪:‬ابن فارس کے بقول مذکورہ باال ابواب کے بنیادی معنی یہ ہیں‬
‫۔ باہمی اختالط‪۲‬‬
‫)مقابیس اللغة‪ ،‬احمد بن الفارس‪ ،‬تحقیق‪ :‬عبد السالم محمد ہارون‪ ،‬دار الفکر‪ ،‬بیروت‪1979 ،‬ء‪ ،‬جلد دوم‪ ،‬صفحہ ‪(324‬‬
‫گویا اس باب اور اس مادے میں دس (‪ )۱۰‬سے کم کا مفہوم ہی نہیں‪ ،‬اور اقلیت کی بجائے اکثریت پر داللت موجود ہے۔‬
‫مثال ً نو پر ایک زائد‪ ،‬دس میں سے ایک لینا‪ ،‬قوم میں دسواں ہونا کمال میں سے دسواں حصہ لینا وغیرہ۔‬
‫‪:‬ابن منظور افریقی لکھتے ہیں‬
‫اش َر ًة‬ ‫اش ْرتُه ُم َع َ‬ ‫ع َ‬ ‫خال ََط ُة‪َ ،‬‬ ‫ال ِْع ْش َر ُة‪ :‬ال ُْم َ‬
‫)لسان العرب‪ ،‬محمد بن مکرم بن منظور االفریقی‪ ،‬دار صادر‪ ،‬بیروت‪۱۴۱۴ ،‬ھ‪ ،‬طبع اول‪ ،‬جلد دوم‪ ،‬صفحہ ‪(574‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬عشرۃ سے مراد میل جول ہے‪ ،‬میں اس کے ساتھ مل جل کر رہا۔‬
‫الر ُج ِل (قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں) فرمان الہی ہے‬ ‫ير ّ َ‬ ‫‪:‬ع ِش ُ‬
‫َ‬
‫ع ِشيْ َرتَ َك الَْأق َْرب َ‬
‫ِين‬ ‫َوَأن ْ ِذ ْر َ‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ الشعرا‪ ،‬آیت ‪(214‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔‬
‫‪:‬عشیر خاوند کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ بیوی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ فرمان نبوی صلی ﷺ ہے‬
‫َال ‪ :‬تُك ْ ِث ْر َن الل َّ ْع َن‪َ ،‬وتَكْفُ ْر َن ال َْع ِشي ْ َر‬ ‫ِ‬
‫الله؟ ق َ‬ ‫َفِإ ِن ّي ُأ ِريْتُك َُّن َأكْث ََر َأ ْه ِل الن ّ َِار َفقُل َْن‪َ :‬وب َِم يَا َر ُس ْو َل‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب الحیض‪ ،‬باب ترک الحائض الصوم‪ ،‬رقم الحدیث ‪(304‬‬
‫میں تم میں سے اکثر کو آگ میں دیکھتا ہوں‪ ،‬انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! کس سبب؟ فرمایا تم لعنت بہت کرتی‬
‫“ہو اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو۔‬
‫اسی طرح معشر کا لفظ جماعت کے لیے بوال جاتا ہے‪ ،‬معشر وہ جماعت ہے جن کے مابین اتفاق رائے ہو جیسے‪َ :‬م ْع َش ُر‬
‫ال ُْم ْسلِ ِمي ْ َن يا َم ْع َش ُر ال ُْم ْش ِر ِكيْ َن‬
‫‪:‬ارشاد الہی ہے‬
‫يَا َم ْع َش َر ال ْجِ ِّن َوالِْإن ْ ِس‬
‫رحمن‪ ،‬آیت ‪(33‬‬ ‫ٰ‬ ‫)القرآن‪ ،‬سورۃ‬
‫“!ترجمہ‪” :‬اے جن و انس کی جماعت‬
‫مختصر یہ کہ عشرة‪ ،‬عشر‪ ،‬معشر‪ ،‬معاشرہ سب کا مادہ "ع ش ر" ہے‪ ،‬اور یہ باہمی میل جول اور اختالط کے لیے بوال جاتا‬
‫ہے‪ ،‬چنانچہ معاشرہ سے مراد وہ طبقہ یہ افراد ہیں جو آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔‬
‫‪:‬مزید وضاحت کے لیے چند مشتقات حسب ذیل ہیں‬
‫‪١‬۔ ال َْع ِشيْ ُر َوال ُْع ْش ُر‪ :‬دسواں حصہ؛ اس کی جمع اعشراء ہے۔‬
‫الر ُج ِل‪ :‬آدمی کے باپ کی قریبی اوالد یا قبیلہ‪ ،‬آدمی کے اقرباء پر مشتمل جماعت‪ ،‬باپ کے بھائیوں کی جانب‬ ‫ع ِشيْ َر ُة َّ‬
‫‪٢‬۔ َ‬
‫ع ِشيْ َرات آتی ہے۔‬ ‫ع َشاِئر اور َ‬ ‫سے قریبی لوگ۔ اس کی جمع َ‬
‫ير ُة‪ :‬قبیلہ‪ ،‬انسان کے باپ کی طرف سے قریبی رشتہ دار پر مشتمل جماعت‪ ،‬کیونکہ ان سے انسان کثرت عدد حاصل‬ ‫‪٣‬۔ ال َْع ِش َ‬
‫‪:‬کرتا ہے۔ گویا کہ وہ اس کے لیے بمنزلہ عدد کامل کے ہیں۔ کیونکہ عشرہ کا عدد ہی کامل ہوتا ہے ارشاد الہی ہے‬
‫ع ِشيْ َرتُك ُْم‬ ‫اجك ُْم َو َ‬ ‫َوَأ ْز َو ُ‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ التوبہ‪ ،‬آیت ‪(24‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬اور تمہاری عورتیں اور تمہارے خاندان کے آدمی‬
‫لہذا عشیرہ انسان کے رشتہ داروں کی اس جماعت کا نام ہے ‪ ،‬جن سے انسان کثرت (قوت) حاصل کرتا ہے۔ ”عاشرتہ“ کے‬
‫‪:‬معنی ہیں کہ میں رشتہ داری میں اس کے لیے بمنزلہ عشرہ کے ہو گیا‪ ،‬قرآن مجید میں ہے‬
‫ف‬ ‫وه َّن بِال َْم ْع ُر ْو ِ‬‫اش ُر ُ‬‫ع ِ‬ ‫َو َ‬
‫)سورة النساء‪ ،‬آیت ‪(19‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔‬
‫اش ُر آتی ہے۔‬ ‫“‪٤‬۔ ال َْم ْع َش ُر‪” :‬جماعت‪ ،‬گروہ‪ ،‬آدمی کے اہل و عیال‪ ،‬جن‪ ،‬انسان ‪ ،‬اس کی جمع َم َع ِ‬
‫) المفردات فی غریب القرآن‪ ،‬حسین بن محمد ‪ ،‬اصفہانی‪ ،‬تحقیق‪ :‬صفوان عدنان الداودی‪ ،‬دار القلم‪ ،‬دمشق‪۱۴۱۲ ،‬ھ‪ ،‬ص ‪(567‬‬

‫‪:‬اصطالحی مفہوم‬
‫‪:‬معاشرہ کی متعدد اصطالحی تعریفات کی گئی ہیں‪ ،‬جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں‬
‫‪:‬ابن خلدون لکھتے ہیں‬
‫اع ال َّ ِذي ُه َو ال َْم ِدين َ ُة "‬‫ِالطبْ ِع َأ ْي‪ :‬ل َا بُ ّ َد ل َُه ِم َن الِْإ ْج ِت َم ِ‬
‫ان َم َد ِن ّ َي ب َّ‬
‫ع ْن َهذَا ِبقَ ْولِ ِه ْم الِْإن ْ َس ُ‬
‫اء َ‬
‫ي َوي ُ َعبّ ُِر ال ُْحك ََم ُ‬ ‫نسا ِن ّ َي َض ُر ِ‬
‫ور ّ ٌ‬ ‫ْاج ِت َم َ‬
‫اع الِْإ َ‬ ‫ِإ ّ َن ال ْ‬
‫اص ِطل ِ‬
‫َاح ِه ْم َو ُه َو َم ْعنَى ال ِْع ْم َران‬ ‫ْ‬ ‫ي‬ ‫ف‬‫ِ‬
‫) مقدمہ ابن خلدون‪ ،‬عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون‪ ،‬تحقیق‪ :‬خلیل شہادة‪ ،‬دار الفکر‪ ،‬بیروت‪1988 ،‬ء‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪(54‬‬
‫ترجمہ‪” :‬انسانی اجتماع ایک ضروری چیز ہے‪ ،‬حکماء اس ضرورت کی تعبیر اس جملے سے کیا کرتے ہیں کہ انسان میں طبعی‬
‫اعتبار سے مدنیت پائی جاتی ہے‪ ،‬یعنی انسان کے لیے اجتماع الزمی ہے۔ اسی کو حکما مدینہ (شہر) کہتے ہیں۔ ان کی‬
‫“اصطالح میں عمران (آبادی و معاشرہ) کا بھی یہی معنی ہے۔‬
‫‪:‬مولوی فیروز الدین لکھتے ہیں‬
‫معاشرہ وہ حیات اجتماعی ہے جس میں ہر انسان کو رہنے ‪ ،‬کامیابی اور فالح و بہبود کی خاطر دوسروں انسانوں سے تعلق ”‬
‫“رہتا ہے۔‬
‫)فیروز اللغات‪ ،‬مولوی فیروز الدین‪ ،‬فیروز سنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‪ ،‬صفحہ ‪(1260‬‬
‫‪:‬منیر لکھنوی نے لفظ معاشرت کو یوں واضح کیا ہے‬
‫“معاشرت‪ :‬آپس میں مل جل کر گزران کرنا‪ ،‬رہنا سہنا۔”‬
‫)سعید اللغات‪ ،‬منیر لکھنوی‪ ،‬ایچ ایم سعید کمپنی‪ ،‬کراچی‪ ،‬سن ندارد‪ ،‬صفحہ ‪(1161‬‬
‫‪:‬محمد احسن تهانوی معاشرے کے بارے میں لکھتے ہیں‬
‫معاشر دیا سماج ایک آبادی ہے‪ ،‬جو ایک عالقے میں اکٹھے رہتے ہیں‪ ،‬اور ان کے اندر ثقافتی ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔”‬
‫)معاشروں کی تقسیم‪ ،‬محمد احسن تهانوی‪ ،‬مشمولہ ماہنامہ تذکیر‪ ،‬دار التذکیر الہور‪2005 ،‬ء‪ ،‬شماره ‪ ،40‬جلد ‪ ،18‬صفحہ ‪(15‬‬
‫اصطالح میں معاشرے سے مراد کثیر التعداد بنی نوع انسان کی وہ اجتماعی زندگی ہے‪ ،‬جس کے اندر ہر کسی کے زندگی بسر‬
‫کرنے ‪ ،‬حصول مقصد اور فالح و بقا کی خاطر لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے‪ ،‬اور جس ماحول سے کسی فرد و بشر کو مفر ممکن‬
‫نہیں‪ ،‬معاشرہ کہالتا ہے۔ اس میں ہر فرد اپنی اپنی جگہ اسی گروہ‪ ،‬جماعت یا معاشرہ کا ایک جزو اور حصہ ہوتا ہے۔‬
‫)اردو انسائیکلو پیڈیا‪ ،‬فیروز سنز الہور‪1984 ،‬ء‪ ،‬صفحہ ‪(934‬‬
‫گویا معاشرہ یا سوسائٹی اس جماعت کو کہا جاتا ہے جس کے افراد اکھٹے رہ کر مخصوص تہذیب و ثقافت ‪ ،‬سماجی نظام کے‬
‫تحت مشترک مفادات اور مقاصد حیات کے حصول کے لیے جد و جہد کرتے ہیں۔‬
‫الغرض معاشرہ افراد کے اس مجموعے کو کہتے ہیں‪ ،‬جو کسی نہ کسی تعلق اور رشتے کی بنا پر اس طرح مرتب و منظم ہو‬
‫کہ اس میں نہ صرف افراد کا چال چلن‪ ،‬طور طریقہ‪ ،‬رہن سہن اور دوسری سرگرمیاں کسی نہ کسی ضابطے‪ ،‬رسم و قانون کی‬
‫پابند ہوں‪ ،‬بلکہ ان کا مجموعی طور پر مخصوص طرز زندگی‪ ،‬تہذیب و تمدن اور رسم و رواج بھی ہو‪ ،‬اور پھر وہ اپنے آپ کو‬
‫بدلتے ہوئے حاالت کے مطابق ڈھال بھی سکتے ہوں۔‬
‫ماہرین عمرانیات نے معاشرے کی جو تعریفات کی ہیں‪ ،‬ان سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔‬
‫‪١‬۔ معاشرہ افراد کا ایک بہت بڑا گروہ ہوتا ہے۔‬
‫‪ ٢‬۔ معاشرہ افراد کا ایسا مجموعہ ہے‪ ،‬جو مشترک مفادات کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے۔‬
‫‪٣‬۔ معاشرہ تغیر پذیر ہوتا ہے۔‬
‫‪٤‬۔ معاشرہ کو معرض وجود میں آنے کے لیے کافی عرصے کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫‪٥‬۔ ضروریات زندگی کی تکمیل معاشرے کا اولین فرض ہے۔‬
‫‪٦‬۔ معاشرہ باہمی تعاون اور تعلق کی مستقل بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔‬
‫‪٧‬۔ ایک معاشرے کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت مشترک ہوتی ہے۔‬
‫‪٨‬۔ معاشرے کے سب ارکان اپنے آپ کو ایک وحدت سمجھتے ہیں۔‬
‫)اسالم کا عمرانی نظام‪ ،‬غالم رسول چودھری‪ ،‬علم و عرفان پبلشرز‪ ،‬الہور‪2004 ،‬ء‪ ،‬صفحہ ‪(23‬‬
‫الغرض معاشرے سے مراد لوگوں کا وہ گروہ ہے جو کسی مشترکہ نصب العین کی خاطر وجود میں آئے۔ کسی معاشرے کے افراد‬
‫وحدت عمل اور ذہنی یک جہتی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ اس قسم کے معاشرے میں جغرافیائی حد‬ ‫ِ‬ ‫میں مشترکہ فکری سوچ‪،‬‬
‫بندیوں کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مثال ً مسلمان دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی آباد ہیں‪ ،‬ایک ہی معاشرے کے رکن ہیں۔ اس‬
‫کے عالوہ کسی معاشرے کے افراد میں عقائد اور رسوم و رواج میں بڑی حد تک یکسانیت کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح‬
‫ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے معاشرے کے رکن ہیں۔‬

‫سیاست کا معنی و مفہوم‬


‫لفظ سیاست ان الفاظ میں سےایک لفظ ہے جو بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور ہر کسی کی زبان پر جاری ہوتا ہے حتی بعض‬
‫اوقات اس کو بولنے واال اس کے مفہوم ومعنی کی بو تک کو نہیں جانتا۔ یہ لفظ ان مقدس الفاظ میں سے ایک لفظ ہے جس‬
‫کو لوگوں نے غلط جھت دی ہے ‪ ،‬غلط تفسیر کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس لفظ کی حقیقت‬
‫سے آشنا نہیں ہے خاص کر ہمارے معاشرے میں اس لفظ کو اپنے اصل معنی سے تبدیل کر کے کسی دوسرے معنی‬
‫(دھوکہ ‪،‬فراڈ اور مکاری جیسے معنوں) میں استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر کوئی اچھا انسان سیاسی میدان میں‬
‫آجائے اور انسانیت کی خدمت کرنا چاہے جو کہ بہترین عبادات میں سے ہے تو کچھ خشک مقدس اور جاہل لوگ کہتے ہیں‬
‫کہ آپ کا سیاست سے کیا تعلق ۔۔۔؟ آپکو دوسرے اچھے کام کرنے چاہیں‪ ،‬سیاست آپ کا کام نہیں بلکہ یہ سیاستدانوں کا‬
‫کام ہے اور اس سے ملتی جلتی تمام وہ باتیں جو ہمارے معاشرے میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ تصور لفظ سیاست کے معنی‬
‫اور مفہوم کو نہ جاننے کا نتیجہ ہے یا سیاست کی غلط تفسیر اور غلط طریقے سے پیش کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یہی وجہ ہے‬
‫آج ہمارے معاشروں میں لفظ سیاست ایک قبیح اور متنفر لفظ کے طور پر جانا جاتا ہے اور جو شخص سیاست کو اپنا شعبہ‬
‫قرار دیتا ہے اسکو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا خاص کر کوئی عالم دین اس میدان میں قدم رکھے تو بس واویال ہوتا‬
‫ہے کہ عالم کا سیاست سے کیا تعلق؟ عالم کا کام مسجد اور امام بارگاہ ہے سیاست عالم کا کام ہی نہیں۔‬
‫ہمارے ہاں بہت بڑا سیاستدان ہی وہی ہوتا ہے جو دھوکہ ‪،‬فراٹ اور مکاری جیسی صفات کا مالک ہو اور ان صفات میں سب‬
‫سے آگے ہو یعنی وہ آسانی سے جھوٹ بول سکتا ہے‪ ،‬عوامی مال پر ڈھاکہ ڈال سکتا ہے کرپشن کرسکتا ہے‪ ،‬غنڈہ گردی‬
‫کرسکتا ہے اورہر قسم کے غلط طریقے کو یوز کرسکتا ہے جسکی ذریعے اسکی سیاسی شخصیت بن جائے جبکہ یہ سیاست کا‬
‫صحیح اور درست معنی نہیں ہے۔‬
‫لہاذا ہم یہاں کوشش کرینگے کہ سیاست کا اصل مفہوم اور معنی کو بیان کریں‪ ،‬سیاست کی تعریف‪ ،‬سیاستدانوں کی کیا‬
‫خصوصیات ہیں‪ ،‬ایک عوامی نمائندے میں کونسی خصوصیات ہونی چاہیں انکو بیان کریں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ایک عوامی‬
‫نمائندے کو کیسا ہونا چاہیے۔‬
‫البتہ یہ بات ذہن نشین ہو کہ میرا مقصدکسی خاص شخص کی توہین اوربےاحترامی قطعا نہیں بلکہ یہ ایک مسئلہ ہے جس‬
‫میں ہمارا معاشرہ مبتال ہے اسکو درست اور صحیح بیان کرنا مقصود ہے۔‬
‫سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ملکی تدبیر و انتظام۔ یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں جنہیں‬
‫کے عنوان سے ‪ Politike‬کہا جاتا تھا۔ ارسطو نے ‪ Politike‬کے معامالت کو ‪ Polis‬کہا جاتا تھا اور ‪Polis‬‬
‫کے معامالت چالنے والے ‪ Polis‬کہا گیا اور یوں ‪ Politics‬سیاست پر ایک کتاب لکھی جسے انگریزی میں‬
‫کہالئے۔ اردو میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے ۔نبی پاکﷺ کی سیاسی زندگی ہمارے لئے ایک ‪Politicion‬‬
‫اسوہ اور مثال ہے ۔نبی پاکﷺ کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی ۔مشہور‬
‫مورخ عالمہ ابن خلدون نے تو انہیں مزاج کے اعتبار سے بھی ایک نہایت غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے ۔ اہل عرب اسالم‬
‫سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت و مرکزیت سے آشنا نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ قبائل اور گرہووں میں بٹے رہے۔ پوری‬
‫قوم جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی۔ اتحاد‪ ،‬تنظیم‪ ،‬شعور‪ ،‬قومیت اور حکم و اطاعت جیسی چیزیں جن پر‬
‫اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ لیکن نبی پاکﷺ نے ‪ 23‬سال کی قلیل‬
‫مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم یک جان ہو گئی۔ یہ قوم صرف اپنے ظاہر‬
‫ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ ہو گئی اور پوری انسانیت کو بھی‬
‫اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا۔‬

‫سیاست کا صحیح تصور‬


‫سیاست کی بہت ساری تعاریف ذکر ہوئی ہیں ہم یہاں بہترین تعریف کو اپنے قارئین کے لئے پیش کرینگے تاکہ سیاست کا‬
‫حقیقی مفہوم و معنی روشن ہوجائے۔‬
‫‪:‬سیاست کی لغوی تعریف‬
‫اہل لغت اور ماہرین علم لغت لفظ سیاست کے معنی یوں بیان کررتے ہیں کہ سیاست لغت میں خلق کے امور کی اصالح ‪،‬‬
‫ملک کے کاموں کو تدبیر و ادارہ کرنا ‪ ،‬رعیت کے امور کی دیکھ بال ‪ ،‬ملک کے داخلی اور خارجی امور کی دیکھ بال‪ ،‬لوگوں‬
‫کے امور کی مراقبت وغیرہ سیاست کے لغوی معانی ہیں۔‬
‫ِ‬
‫لغات فیروزی‪ ،‬مہذب اللغات‪ ،‬نور اللغات اور اردو لغت؛ تاریخی اصول پر“ سے ماخوذ ہیں۔(‬ ‫ِ‬
‫فرہنگ آصفیہ‪،‬‬‫)یہ معانی ”‬

‫‪:‬سیاست کی اصطالحی تعریف‬


‫صاحبان نظر کہتے ہیں‪ :‬سیاست کے ‪ 200‬کے قریب اصطالحی تعاریف بیان ہوئیں ہیں۔ بعض سیاست کو علم و قدرت کے‬
‫معنی میں لیتے ہیں جبکہ بعض مغربی مفکرین سیاست کو علم و دولت کے معنی میں لیتے ہیں جو سیاست کی کامل اور‬
‫‪:‬جامع تعریف نہیں ہے۔ لیکن اسالم کی نظر میں سیاست کی درست اور صحیح تعریف یہ ہے‬
‫سیاست یہ کہ اس کے ذریعے سے معاشرے کی ہدایت کریں ‪ ،‬معاشرے کو ایک ایسے راستے پر گامزن کریں جس میں *‬
‫معاشرے کے تمام مصالح اور معاشرے و انسان کے تمام پہلوؤں کا لحاظ رکھا جائے اور معاشرے و انسان کے تمام ابعاد کو‬
‫انکی صالح و فالح و بہبود کی طرف لے جائیں۔‬
‫‪:‬سیاست عربی زبان کالفظ ہے۔ اس کا معنی و مفہوم لغت کی کتابوں سے یوں معلوم ہوتا ہے‬
‫پاس داشتن ملک وحکم راندن بر رعیت۔‬
‫)شمس اللغات‪ ،‬صفحہ ‪(366‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬یعنی ملک کی حفاظت کرنا اور عوام پر حکمرانی کرنا۔‬
‫السياسة القیام علی الشیء بما یصلحه والسياسة فعل السائس یقال ھو یسوس الدواب إذا قام عليها وراضها والوالی یسوس رعیته‬
‫)لسان العرب‪ ،‬دار الکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬جلد ششم‪ ،‬صفحہ ‪(429‬‬
‫ترجمہ‪” :‬یعنی کسی شیء کی ایسے طریقے پر نگہداشت اور دیکھ بھال کرنا جو اس کے مناسب ہو۔ جانور سدھانے کا عمل‬
‫سیاست ہے۔ چنانچہ ”ہویسوس الدواب“ اس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی جانوروں کو سدھا کر ان کی دیکھ بھال کرے۔ اسی‬
‫“طرح حکمران بھی اپنے عوام کی نگہداشت اور دیکھ بھال کرتا ہے۔‬
‫مذکورہ تعریفات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے ملک اور قوم کی بہتری کے بارے میں سوچا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫پس سیاست کی لغوی و اصطالحی معنی سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ سیاست ایک مقدس اور شریف کام ہے جس کے‬
‫ذریعے انسانوں کی خدمت کی جاتی ہے اور سیاست ایک ایسا کام ہے جس میں معاشرہ اور انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں‬
‫کو مد نظر رکھا جاتا ہے یعنی سیاست میں انسان کے مادی اور معنوی دونوں پہلوؤں کو لحاظ کیا گیا ہے۔‬
‫پس معلوم ہوا کہ سیاست کا مکاری‪ ،‬فراڈ‪ ،‬جھوٹ وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ جو شخص سیاست کے نام پر مکاری کرتا ہے‬
‫وہ مکار ہے‪ ،‬جو کرپشن کرتا ہے وہ چور ہے‪ ،‬جو جھوٹ بولتا ہے وہ جھوٹا ہے وہ سیایسدان نہیں۔ سیاستدان تو وہ ہوتا ہے‬
‫جو معاشرہ اور انسان کی خدمت کرے خداوند متعال کی رضا اور خوشنودی کے خاطر اور کوئی غرض نہ رکھتا ہو۔ در اصل‬
‫سیاستدان ملک و قوم اور ملت کا خادم ہوتا ہے۔‬
‫ایک اہم نکتہ جس کو یہاں ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان سیاست اور دین کو ایک دوسرے سے جدا‬
‫سمجھتے ہیں یعنی ہمارے اکثر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ دین کا سیاست سے اور سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں‬
‫ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط فکر اور سوچ ہے جسکا مغربی اور ال دین سیاستدان اور مفکرین قائل ہیں۔ لیکن صحیح اور درست‬
‫تصور یہ ہے کہ دین اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق اور ربط ہے۔ وہ دین ہی کیسا ہے جس میں سیاسی نظام نہ ہو‬
‫لہ ذا شاعر مشرق حضرت عالمہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے بھی مسلمان سیاستدانوں کا حال دیکھ کر کہا‬ ‫سیاسی فکر نہ ہو ٰ‬
‫‪:‬تھا‬
‫جالل پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو‬
‫ِ‬
‫ُجدا ہو ِدیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‬

‫پس درست اور صحیح نظریہ یہ ہے کہ دین اور سیاست کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے نتیجتا جو شخص بھی یا سیاستدان‬
‫بھی دین اور سیاست میں جدائی کا قائل ہے وہ سیکولر کہالتا ہے اور دین کا سیکولرزم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو‬
‫سیاسی پارٹی دین اور سیاست میں جدائی کے نظریہ کو تسلیم کرتی ہے وہ سیکولر پارٹی ہے اسکی سیاست میں نقص ہے اور‬
‫ایسی پارٹی عوام اور معاشرے کی جامع اور کامل خدمت نہیں کرسکتی ہے‪ ،‬لہذا ہماری سیاست اسالم کے بتائے ہوئے اصولوں‬
‫اور قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔‬

‫سیاست کی اقسام‬
‫سیاست جیسا کہ بیان کیا کہ معاشرہ اور انسانی پہلوؤں کی تدبیر‪ ،‬ادارہ‪ ،‬مدیریت اور رہبری اور معاشرہ و انسانی پہلوؤں کے‬
‫تمام مصالح کو مد نظر رکھنا ‪ ،‬انسان و معاشرے کی تزکیہ‪ ،‬تربیت اور پرورش کرنا ہے اور یہ بھی ذکر ہوا کہ جھوٹ‪ ،‬ریاکاری‪،‬‬
‫فراٹ و دھوکہ‪ ،‬مکر و مکاری کا سیاست سے دور دورکا تعلق بھی نہیں ہے اور یہ سیاست کی تحریف شدہ شکل وصورت‬
‫یعنی سیاست کو اس کے حقیقی معنی و مفھوم سے دور کرنا اور یہ سیاست کی غلط تشریح ہے۔‬
‫سیاست کی تین صورتیں ہیں‬
‫‪١‬۔ سیاست شیطانی‬
‫سیاست کی ایک قسم اور صورت سیاست شیطانی ہے جس میں سیاستدان جھوٹ بولتا ہے ‪ ،‬فریب دیتا ہے ‪ ،‬مکاری کرتا ہے‬
‫‪ ،‬ریا کرتا ہے ‪،‬کرپش و چوری کرتا ہے‪ ،‬لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے‪ ،‬ظلم کرتاہے ‪ ،‬نا انصافی کرتاہے ۔۔وغیرہ ۔ اس قسم کی‬
‫سیاست کا دین و سیاست اسالمی سے کوئی تعلق اور ربط نہیں ہے بلکہ یہ شیطانی اور شیطانی صفت لوگوں کی سیاست‬
‫ہے ۔ اس سیاست کے نتیجے میں معاشرے میں بگاڑ و عدم توازن پیدا ہوتا ہے ‪ ،‬نا انصافی ایسے معاشرے اور ملکوں میں‬
‫ڈھیرے ڈالتی ہے ‪ ،‬انسان کی جان و مال کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ہے‪ ،‬غربت ایسے ملکوں اور معاشرے میں پنجے‬
‫گاڑتی ہے‪ ،‬بے روزگاری معاشرے کو مفلوج و پریشان کردیتی ہے۔ المختصر وہ ملک ومعاشرہ مسائلستان بن جاتا ہے جہاں انسانی‬
‫زندگی مشکالت کا شکار ہوجاتی ہے۔‬
‫‪٢‬۔ حیوانی سیاست‬
‫یہ سیاست کی ایک ایسی صورت ہے جس میں ملکوں اور معاشروں کے فقط مادی اور مصالح عادی کو مدنظر رکھا جاتا ہے‬
‫یعنی اس قسم کی سیاست میں انسان کے فقط اورفقط مادی و حیوانی پہلو کی مدیریت کی جاتی ہے ۔ سیاست کی یہ صورت‬
‫پہلی صورت کی نسبت قدرے بہتر ہے لیکن یہ بھی سیاست کی کامل و درست صورت و تشریح نہیں ۔ اس سیاست کے‬
‫نتیجے میں معاشرے مادی جھت سے ترقی تو کرسکتے ہیں لیکن معنوی اور روحانی لحاظ سے انحطاط کا شکار ہوتے ہیں ‪،‬‬
‫معاشرے میں اخالقی مسائل جنم لیتے ہیں‪ ،‬اس قسم کی سیاست سے امیر ‪ ،‬امیر تر اور غریب‪ ،‬غریب تر ہوجاتا ہے‪ ،‬ایسی‬
‫سیاست انسان کو فخر اور غرور میں مبتال کرتی ہے ‪ ،‬معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں کیونکہ اس قسم کی سیاست کا‬
‫انسان اور معاشرے کا معنوی پہلو جو حقیقت انسان ہے کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ عدم توازن کا‬
‫شکار ہوجاتا ہے۔‬
‫‪٣‬۔ سیاست الھی و خدائی‬
‫سیاست الھی و خدائی وہ سیاست ہے جس میں معاشرے کی مدیریت ‪ ،‬پرورش‪ ،‬اور انسانوں کی تھذیب و تربیت کی جاتی ہے‬
‫۔ اس سیاست کے ذریعے انسان خود کو اور معاشرے کے دیگر افراد اور مجموعی طور پر انسانی معاشرے کو کمال اور‬
‫سعادت کے راستے کی طرف گامزن کرتا ہے۔ یہ سیاست کی حقیقی صورت ہے جسکو انبیاء علیہم السالم و اولیاء اور امت کے‬
‫بیدار علماء مثل امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے کیا۔ اسی سیاست کے ذریعے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫وسلم نے مدینہ منورہ میں اسالمی فالحی ریاست قائم کی اور حضرت امام علی علیہ السالم نے عدل کی حکومت قائم کی‬
‫اور ہمارے گیارہ آئمہ علیہم السالم نے سیاست الھی کے ذریعے حکومت الھی قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور شیطانی‬
‫طاقتوں کا مقابلہ کیا۔‬
‫حکومت الہی میں انسان کے دونوں پہلوؤں یعنی انسان کی مادی اور معنوی دونوں جانب کو مدنظر رکھا جاتا ہے جسکے نتیجے‬ ‫ِ‬
‫میں معاشرہ مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ترقی کرتا ہے۔ اس سیاست کے نتیجے میں معاشرے میں عدل و انصاف اور‬
‫توازن برقرار ہوتاہے ۔جہاں انسان اور اسکی مال کی قدر و قیمت ہوتی ہے‪ ،‬جہاں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت‬
‫نہیں ہوتی یہ وہ سیاست ہے جس میں جھوٹ‪ ،‬دھوکہ ‪،‬فریب ‪،‬فراٹ اور کرپشن کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ جس میں خداوند‬
‫متعال اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیاست کی جاتی ہے۔‬

‫‪:‬سیاست کا معنی و مفہوم‬


‫سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ملکی تدبیر و انتظام۔ یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں جنہیں‬
‫کے عنوان سے ‪ Politike‬کہا جاتا تھا۔ ارسطو نے ‪ Politike‬کے معامالت کو ‪ Polis‬کہا جاتا تھا اور ‪Polis‬‬
‫کے معامالت چالنے والے ‪ Polis‬کہا گیا اور یوں ‪ Politics‬سیاست پر ایک کتاب لکھی جسے انگریزی میں‬
‫کہالئے۔ اردو میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے ۔نبی پاکﷺ کی سیاسی زندگی ہمارے لئے ایک ‪Politicion‬‬
‫اسوہ اور مثال ہے۔نبی پاکﷺ کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مورخ‬
‫عالمہ ابن خلدون نے تو انہیں مزاج کے اعتبار سے بھی ایک نہایت غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے ۔ اہل عرب اسالم سے‬
‫پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت و مرکزیت سے آشنا نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ قبائل اور گرہووں میں بٹے رہے۔ پوری قوم‬
‫جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی۔ اتحاد‪ ،‬تنظیم‪ ،‬شعور‪ ،‬قومیت اور حکم و اطاعت جیسی چیزیں جن پر‬
‫اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں ان کے اندر یکسر مفقود تھیں ۔لیکن نبی پاکﷺ نے ‪ 23‬سال کی قلیل‬
‫مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم یک جان ہو گئی۔ یہ قوم صرف اپنے ظاہر‬
‫ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ ہو گئی اور پوری انسانیت کو بھی‬
‫اتحاد و تنظیم کاپ پیغام دیا۔‬
‫ساس" سے مشتق ہے جو يونانی زبان کا لفظ ہے‪ ،‬اس کے معانی ”شہر“ و ”شہر نشین“ کے ہیں۔" )‪ (Politics‬سیاست‬

‫سیاست اہل اسالم کی اصطالح میں‬


‫اسالم میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصالح سے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل‬
‫مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔‬

‫قرآن میں سیاست کا ذکر‬


‫قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫اظہار ہمدردی‬ ‫ِ‬ ‫حصہ سیاست پر مشتمل ہے‪ ،‬مثال ً عدل و انصاف‪ ،‬ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ‪،‬مظلوموں سے‬ ‫ّ‬ ‫قرآن کا بیشتر‬
‫انداز سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا‬ ‫ِ‬ ‫وحمایت ‪،‬ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے عالوہ انبیا ٴاور اولیأ کرام کا‬
‫‪:‬ہے‬
‫ۡت َس َع ًة ِ ّم َن‬ ‫علَيۡنَا َونَح ُۡن ا ََح ُّق بِال ُۡمل ِۡك ِمن ُۡه َولَمۡ يُؤ َ‬ ‫ۡت َملِك ًا ‌ؕ قَالُوۡٓا اَن ّ ٰى يَكُو ُۡن ل َُه ال ُۡمل ُۡك َ‬‫ث ل َـکُمۡ َطالُو َ‬ ‫َال ل َُهمۡ نَبِي ُّ ُهمۡ اِ َّن الل ّ ٰ َه َقدۡ بَ َع َ‬
‫َوق َ‬
‫ِ‬
‫عليۡمٌ۔‬ ‫اس ٌع َ‬ ‫ٰ‬
‫ٓاء ‌ؕ َوالل ّ ُه َو ِ‬ ‫ِ‬ ‫ٰ‬
‫اد ٗه بَس َۡط ًة ِفى ال ِۡعلۡ ِم َو الۡجِ سۡ ِم‌ؕ َوالل ّ ُه يُؤۡتىۡ ُملۡک َٗه َمنۡ ي َّ َش ُ‬ ‫علَيۡکُمۡ َو َز َ‬
‫ٮه َ‬ ‫ٰ‬
‫َال اِ ّ َن الل ّ َه اص َۡطفٰ ُ‬
‫ال‌ؕ ق َ‬ ‫ال َۡم ِ‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ البقرہ‪ ،‬آیت ‪(247‬‬
‫ترجمہ‪” :‬ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح‬
‫حکومت کریں گے۔ ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے۔ ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں۔ نبی نے جواب دیا‬
‫کہ انہیں اللہ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک‬
‫“دے دیتا ہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور صاحب علم بھی۔‬
‫اس آیت سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست مدار کے لیے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار‬
‫دیتے ہیں ‪،‬سیاستمدار کے لیے ذاتی طور پر ”غنی“ ہونا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عالم وشجاع ہونا چاہیے۔‬
‫معنی حکومت چالنا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصالح‬ ‫ٰ‬ ‫اس تمام مبحث کا خالصہ یہ ہوا کہ لغت میں سیاست کے‬
‫فن حکومت اور لوگوں کو اصالح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔‬ ‫کرنا ہے‪ ،‬جبکہ اصطالح میں ّ‬
‫معنی حاکم کا لوگوں کے درمیان میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا‪ ،‬معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن میں سیاست کے‬
‫معنی عدل و انصاف‬ ‫ٰ‬ ‫کے‬ ‫سیاست‬ ‫میں‬ ‫حدیث‬ ‫ہے۔‬ ‫دینا‬ ‫قرار‬ ‫ممنوع‬ ‫کو‬ ‫وغیرہ‬ ‫رشوت‬ ‫اور‬ ‫کرنا‬ ‫المنکر‬ ‫عن‬ ‫امر بالمعروف و نہی‬
‫اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔ علمأ کی نظر میں رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و روش‪،‬‬
‫فن حکومت‪،‬‬ ‫استعمار سے جنگ‪ ،‬مفاصد سے روکنا‪ ،‬نصیحت کرنا سیاست ہے۔ جبکہ فالسفہ کی نظر میں فالسفہ کے نزدیک ّ‬
‫اجتماعی زندگی کا سلیقہ‪ ،‬صحیح اخالق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔‬
‫لہذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو‬ ‫چوں کہ انسان خود بخود مندرجہ باال امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا‪ٰ ،‬‬
‫بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے‪ ،‬جس کو دین کہتے ہیں۔ اور یہ تاریخی صداقت ہے کہ اسالم سے بڑھ کر کوئی دین بھی‬
‫مکمل انسانی مقتضیات پر پورا نہیں اترتا۔‬

‫فصل دوم‪ :‬جاہلیت میں معاشرتی نظام کی بنیاد‬


‫جزیرۃ العرب کے اجتماعی‪ ،‬اقتصادی اور اخالقی حاالت کا خاکہ مختصرا ً پیش کیا جا رہا ہے۔ کیوں ایک معاشرہ اس ملک کے‬
‫اقتصادی اور اخالقی اقدار سے مل کر بنتا یے۔‬

‫اجتماعی حاالت‬
‫عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حاالت ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقہ‬
‫ا َشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصہ ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی‬
‫تھی اور اس کا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا۔ اس کی راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خون ریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی‬
‫جب اپنے کرم وشجاعت پر‪...‬جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ‪...‬اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموما ً عورت ہی کو‬
‫مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خون‬
‫ریزی کے شعلے بھڑکا دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود بال نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات‬
‫فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے ّاولیاء‬
‫کے زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی والیت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔‬
‫ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد وعورت کے اختالط کی بھی کئی صورتیں‬
‫تھیں۔ جنھیں بد کاری وبے حیائی اور فحش کاری وزنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے‬
‫کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں‪ :‬ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے‬
‫آدمی کو اس کی زیر والیت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسری‬
‫صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فالں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے‬
‫اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کرأو) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ‬
‫واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا‬
‫تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس‬
‫نکاح اِ ْس تبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس‬ ‫ِ‬ ‫نکاح کو‬
‫آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی‪ ،‬سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت‬
‫حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بالبھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی‬
‫کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے‬
‫بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فالں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی‪ ،‬اور وہ اس‬
‫کا لڑکا مان لیا جاتا۔‬
‫چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے‪ ،‬وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ‬
‫کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا‬
‫چاہے بے دھڑک چال جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی‪ ،‬اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے‪ ،‬اور‬
‫قیافہ شناس کو بالتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی‬
‫تعالی نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا‬ ‫ٰ‬ ‫سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہالتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا ‪ -‬جب اللہ‬
‫تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسالمی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب من قال ال نکاح إال ھو لی‪ ،‬رقم الحدیث ‪(769‬‬
‫عرب میں مرد وعورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی‬
‫تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والے واال قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر‬
‫لیتا تھا لیکن ایسی عورتیں سے پیدا ہونے والی ّاوالد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔‬
‫زمانٔہ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح‬
‫میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طالق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے‬
‫بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طالق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسالم نے ان کی‬
‫حد بندی کی۔‬
‫)ابو دأود‪ ،‬نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثالث‪ ،‬نیز کتب تفسیر متعلقہ الطالق مرتان(‬
‫مستثنی نہ تھی‪ ،‬البتہ کچھ مرد اور‬
‫ٰ‬ ‫زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے‬
‫عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد‬
‫اہل جاہلیت کی غالب‬ ‫ِ‬ ‫عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتا ً اچھا تھا‪ ،‬اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ‬
‫اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی دأود وغیرہ میں‬
‫مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ!فالں میرا بیٹا ہے‪ ،‬میں نے جاہلیت میں اس کی ماں‬
‫‪:‬سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا‬
‫اسالم میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں‪ ،‬جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا‬
‫کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن َز ْمعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے‪...‬عبد الرحمن‬
‫بن زمعہ‪...‬کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬رقم الحدیث ‪(1065‬‬
‫‪:‬جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا‪ ،‬کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے‬
‫انما ٔاوالدنا بیننا‬
‫ٔاکبادنا تمشی علی أالرض‬
‫“ترجمہ‪” :‬ہماری اوالد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔‬
‫لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو‬
‫فقر و فاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے‬
‫دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ّاوالد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔‬
‫جہاں تک سگے بھائیوں‪ ،‬چچیرے بھائیوں‪ ،‬اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور‬
‫مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی‬
‫تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی‬
‫عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل‬
‫‪:‬پیرا تھے کہ‬
‫مظلوما‬
‫ً‬ ‫ظالما ٔاو‬
‫ً‬ ‫انصر ٔاخاک‬
‫“اترجمہ‪” :‬پنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم‬
‫اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصالح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسالم کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ‬
‫اسے ظلم سے باز رکھا جائے ‪ ،‬البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی‬
‫عبْس و ذُبَیْان اور‬ ‫شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ‪ ،‬جیسا کہ ا َوس وخزرج ‪َ ،‬‬
‫بکر و تَ ْغلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔‬
‫جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری‬
‫قوت ایک دوسرے کے خالف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات‬
‫کی بدولت بسا اوقات جنگ کی ِح ّد ت و ِش ّدت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حاالت میں ُمواالۃ‪ ،‬حلف اور تابعداری کے‬
‫حصول معاش کے لیے سراپا رحمت‬ ‫ِ‬ ‫اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ عالوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور‬
‫ومدد تھے۔ کیونکہ عرب ان کی حرمت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ابو رجاء عطاری کہتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آجاتا توہم‬
‫کہتے کہ یہ نیزے کی انیاں اتارنے واال ہے۔ چنانچہ ہم کوئی نیزہ نہ چھوڑتے جس میں دھار دار برچھی ہوتی مگر ہم وہ‬
‫برچھی نکال لیتے اور کوئی تیر نہ چھوڑتے جس میں دھار دار پھل ہوتا مگر اسے بھی نکال لیتے اور رجب بھر اسے کہیں‬
‫ڈال کر پڑا چھوڑ دیتے۔‬
‫)صحیح بخاری حدیث نمبر ‪(4376‬‬
‫اسی طرح حرام کے بقیہ مہینوں میں بھی۔‬
‫)فتح الباری جلد ہشتم‪ ،‬صفحہ ‪(91‬‬
‫خالصہ یہ کہ اجتماعی حالت ُض عف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات‬
‫کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی‬
‫اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ‪ ،‬اپنی‬
‫رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔‬

‫اقتصادی حالت‬
‫اقتصادی حالت‪ ،‬اجتماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سیہوسکتا ہے کہ تجارت ہی‬
‫ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد ورفت امن وسالمتی کی‬
‫فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن وسالمتی کا کہیں وجود نہ‬
‫المجاز اور َمجِ نہ وغیرہ لگتے تھے۔‬
‫َ‬ ‫عکاظ‪ ،‬ذی‬
‫تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار ُ‬
‫جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی ِدباغت‬
‫وغیرہ کی شکل میںجو چند صنعتیں پائی بھی جاتی تھیں وہ زیادہ تریمن‪ ،‬حیرہ اور شام کے متصل عالقوں میں تھیں۔البتہ‬
‫اندرون عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔ ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ‬‫ِ‬
‫سارا مال ومتاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی‬
‫بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔‬

‫اخالق‬
‫عقل سلیم کے خالف باتیں‬
‫ِ‬ ‫یہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی کہ اہل جاہلیت میں َخسیس و َرذیل عادتیں اور وجدان وشعور اور‬
‫‪:‬پائی جاتی تھیں۔ لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخالقِ فاضلہ بھی تھے جنھیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے۔ مثال ً‬

‫کرم وسخاوت‬
‫یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح‬
‫فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے‬
‫تو کسی نے کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس‬
‫کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی‬
‫ایسی سنگین حالت کے باوجود؛ اس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر‬
‫دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور‬
‫خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔‬
‫بذات خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ‬ ‫ِ‬ ‫اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے‪ ،‬اس لیے نہیں کہ یہ‬
‫اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کر دیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔‬
‫اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے َد َوا ِوین پر نظر‬
‫‪:‬ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے‬
‫ولقد شربت من المدامۃ بعد مارکد‬
‫الھواجربالمشوف المعلم‬
‫بزجاجۃ صفراء ذات ٔاسـرۃ‬
‫قرنت بٔازھر بالشمال مفدم‬
‫فإذا شربت فإنني مستھلک‬
‫مالي ‪،‬وعرضي وافر لم یکلم‬
‫وإذا صحوت فما ٔاقصر عن ندی‬
‫وکما علمت شمائلي وتکرمی‬
‫ترجمہ‪ :‬میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی‬
‫تابناک اور منہ بند ُخم کے ساتھ تھا ‪ ،‬نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا‬
‫ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ‪ ،‬اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت‬
‫میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخالق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔‬
‫ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو‬
‫نفع حاصل ہوتا‪ ،‬یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے‬
‫‪:‬قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ‬
‫َوِإ ث ُْم ُه َما َأك ْبَ ُر‌ ِمن نَّفْ ِع ِه َما‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ البقرہ‪ ،‬آیت ‪(219‬‬
‫ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔‬

‫‪:‬وفائے عہد‬
‫ور جاہلیت کے اخالقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر‬ ‫یہ بھی َد ِ‬
‫حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی ّاوالد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ اسے سمجھنے‬
‫ہانی بن مسعود شیبانی‪ ،‬سمؤال بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں۔ ہانی بن مسعود کا واقعہ حیرہ‬
‫ٔ‬ ‫کے لیے‬
‫کی بادشاہی کے تحت گزر چکا ہے۔ سمؤال کا واقعہ یہ ہے کہ امرٔو القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی‬
‫تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ‪ ،‬اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند‬
‫ہوگیا۔ سمؤال کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی‬
‫دھمکی دی مگر سمؤال انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔‬
‫کسری سے اس کی عملداری کے حدود میں اپنی‬ ‫ٰ‬ ‫حاجب کا واقعہ یہ ہے کہ اس کے عالقے میں قحط سالی پیش آئی۔ اس نے‬
‫لہذا ضمانت کے بغیر منظور نہ کیا۔ حاجب نے اپنی‬ ‫کسری کو ان کے فساد کا اندیشہ ہوا‪ٰ ،‬‬
‫ٰ‬ ‫قوم کو ٹھہرانے کی اجازت چاہی۔‬
‫کمان رہن رکھ دی اور وعدے کے مطابق قحط ختم ہونے پر اپنی قوم کو واپس لے گیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عطارد بن‬
‫کسری نے ان کی وفاداری کے پیش نظر‬
‫ٰ‬ ‫کسری کے پاس جاکر باپ کی امانت واپس طلب کی۔ جسے‬ ‫ٰ‬ ‫حاجب رضی اللہ عنہ نے‬
‫واپس کردیا۔‬

‫ِ‬
‫وعزت نفس‬ ‫خودداری‬
‫اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخالق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی‬
‫شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی‪ ،‬وہ فورا ً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی‬
‫‪ ،‬شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعا ً پروا نہ رہتی۔‬

‫عزائم کی تنفیذ‬
‫اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل‬
‫جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیںروک نہیںسکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔‬

‫حلم وبردباری اور سنجیدگی‬


‫یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ‪ ،‬مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ‬
‫وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔‬

‫بدوی سادگی‬
‫یعنی تمدن کی آالئشوں اور دأوپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔‬
‫وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔‬
‫جزیرۃ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے عالوہ یہی وہ قیمتی اخالق‬ ‫ُ‬ ‫ہم سمجھتے ہیں کہ‬
‫رسالت عامہ کابوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔‬
‫ِ‬ ‫تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور‬
‫کیونکہ یہ اخالق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے‬
‫لیکن یہ فی نفس ٖہ بڑے قیمتی اخالق تھے۔ جو تھوڑی سی اصالح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے‬
‫اور یہی کام اسالم نے انجام دیا۔‬
‫عزت نفس اور پختگی ٔ عزم سب سے گراں قیمت اور نفع بخش جوہر تھا۔‬ ‫ِ‬ ‫اور غالبا ً ان اخالق میں بھی ایفائے عہد کے بعد‬
‫ِ‬
‫قوت قاہرہ اور عز ِم ُم َص ّمم کے بغیر شر وفساد کا خاتمہ اور نظا ِم عدل کا قیام ممکن نہیں۔‬ ‫کیونکہ اس‬
‫اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخالقِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔‬

‫فصل سوم‪ :‬زمانۂ جاہلیت میں سیاسی نظام‬


‫قبل از اسالم عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ لوگ مختلف قبائل میں‬
‫تقسیم تھے۔ عرب پر بھی کوئی قوم حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ اس جگہ کا زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر‬
‫مشتمل تھا۔ نہ کوئی روزگار نہ کوئی پیداوار باقاعدہ آبادیاں کیونکر پروان چڑھ سکتی تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں‬
‫تھی۔ اسی لئے کسی فاتح نے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے‬
‫ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتا آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا‬
‫پسند نہیں کرتے تھے۔‬

‫حکومت نہ ہونے کی وجہ‬


‫جس ملک کا بیشتر حصہ لق دق ریگستانوں پر مشتمل ہو۔ نہ زندگی کا سامان ضرورت میسر ہو اس حصے کو حاصل کرنا کس‬
‫سلطنت کی ترجیح ہو گی؟ جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ہے کہ جنوبی منطقے کے عالوہ‬
‫اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھا کہ ایران یا روم جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے۔‬
‫چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ہی توجہ دی‪ ،‬کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان‬
‫کے لیے کسی طور سے فائدہ مند نہ تھے۔ اس کے عالوہ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عہد جاہلیت کے‬
‫عربوں کو قابو میں النا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتہائی سخت اور دشوار کام تھا۔‬

‫قبائلی حکومت کی نوعیت‬


‫عرب میں کبھی بھی ایک ملک گیر اور مرکزی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آيا۔ البتہ خاص وسیع سلطنتیں وجود میں ضرور‬
‫آئیں۔ عرب میں بعض مقامات پر ایران اور روم کے حکمران اور بعض جگہوں پر خود مختار اور آزاد چھوٹی چھوٹی شہری‬
‫مملکتیں قائم تھیں۔ چنانچہ مکہ‪ ،‬مدینہ‪ ،‬طائف‪ ،‬ینبوع‪ ،‬جرش‪ ،‬صنعا‪ ،‬عدن صحار‪ ،‬دبا‪ ،‬یمامہ‪ ،‬فید و نجد‪ ،‬خیبر‪ ،‬فدک‪ ،‬ایلہ اور‬
‫مشرقی ساحل پر اچھی خاصی بستیاں تھیں جو کم و بیش شہری مملکتیں کہی جا سکتی تھیں۔‬

‫قبائلی نظام کی بنیاد‬


‫عرب انفرادی اور طبعی طور پر استبداد پسند اور خود پسند تھے۔ جب انہیں بیابانوں میں زندگی کی مشکالت کا سامنا ہوا تو‬
‫ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ تنہا رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے‬
‫ساتھ ان کا خونی رشتہ ہے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ہیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کی جائے۔ جن کا نام‬
‫”قبیلہ“ رکھا گیا۔ قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل‬
‫پذیر ہوتی تھی۔ چنانچہ ہر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔‬
‫عرب اس نظام میں کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں‬
‫سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔‬

‫قبائل کی حالت‬
‫جزیرۃ العرب کے وہ تینوں سرحدی عالقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب و‬
‫انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ انسان‪ ،‬مالک اور غالم یا حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔‬
‫سارے فوائد سربراہوں اور خصوصا غیر ملکی سربراہوں کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غالموں کے سر تھا۔‬
‫رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں انہیں لذتوں‪ ،‬شہوتوں‪،‬‬
‫عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی۔ مگر ان کے لیے‬
‫ضروری تھا کہ وہ ہر ذلت و رسوآئی اور ظلم و جبر کو برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔‬

‫اندرون عرب کے قبائل کی حالت‬


‫جو قبائل اندرون عرب آباد تھے وہ بھی بہت اعلی روآیات کے مالک نہ تھے ہر طرف قبائلی جھگڑوں‪ ،‬نسلی فسادات اور‬
‫مذہبی اختالفات کی گم بازاری تھی۔ اس میں ہر قبیلے کے افراد بہر صورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے خواہ وہ حق‬
‫پر ہو یا باطل پر۔ اندرون عرب کوئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی اواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع تھا جس کی طرف‬
‫مشکالت میں رجوع کیا جاتا اور وقت پڑنے پر اس پر اعتماد کیا جاتا۔‬
‫ہاں حجاز کی حکومت کو قدر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسے مرکز دین کا قائد و پاسبان تصور کیا جاتا۔ اسے اہل‬
‫عرب پر اپنی دینی پیشوائی کی وجہ سے باالدستی حاصل تھی۔ یہی زائرین بیت ﷲ کی ضروریات کا انتظام اور شریعت‬
‫ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کرتی تھی۔ اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیالت بھی تھیں۔ لیکن یہ ایک کمزور‬
‫حکومت تھی کہ اندرون عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی۔‬

‫عرب حکومتیں اور سرداریاں‬


‫جس وقت جزیرۃ العرب پر خورشید اسالم کی پر نور شعاعیں ضوافگن ہوئیں تو وہاں دو قسم کے حکمران تھے۔ ایک تاج پوش‬
‫باشاہ جو در حقیقت مکمل طور پر ازناد اور خود مختار نہ تھے اور دوسرے قبائلی سردار جنہیں اختیارات اور امتیازات کے‬
‫اعتبار سے وہی حیثیت حانصل تھی جو تاج پوش باشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک امتیاز یہ حاصل تھا کہ وہ‬
‫خود مختار تھے۔ تاج پوش حکمرانوں میں یمن‪،‬آلغسان (شام) اور حیرہ (عراق) شامل تھے۔ باقی عرب تاج پوش نہ تھے۔‬

‫یمن کی بادشاہت‬
‫عرب عاربہ میں جو قدیم ترین یمانی قوم معلوم ہو سکی وہ قوم سبا تھی۔ اس کا ذکر ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں ملتا‬
‫ہے۔ لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں اس سلطنت‬
‫کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہوں نے عرب کے اندر اور باہر جگہ جگہ نوآبادیاں قائم کر لی تھیں۔ اسی دور میں مارب‬
‫کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ‪ 300‬قبل مسیح سے آغاز اسالم تک‬
‫کے دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب اور انتشار برپا رہا۔ انقالبات آئے۔ خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت‬
‫کے مواقع ہاتھ آئے حتی کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہو گئی۔ ‪378‬ء تک یمن کی آزادی تو بحال ہو‬
‫گئی مگر مارب کے بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ ‪451‬ء میں یہ بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیالب ایا جس‬
‫کا ذکر قرآن مجید میں سیل عرم کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئیں اور بہت‬
‫قبائل بکھر گئے۔ اس کے ‪523‬ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا۔ یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں‬
‫پر ایک ہیبت ناک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا۔ جب وہ اس پر امادہ نہ ہوئے تو ذونواس‬
‫ب‬ ‫نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی اگ کے االؤ میں جونک دیا۔ قرآن مجید نے سورۃ بروج کی آیات قتل ُق ِت َل اص ٰ‬
‫ۡح ُ‬
‫الۡاخ ُۡدوۡ ِد میں اسی لروہ خیز واقع کی طرف اشارہ کیا ہے۔‬

‫حیرہ کی بادشاہی‬
‫ارد شیر کے عہد میں حیرہ بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعہ اور مضری قبائل پر جذیمت الوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ ارد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے‬
‫باز رکھنا ممکن نہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنا دیا جائے جسے‬
‫اپنے کنبے قبیلے کی حمآیت و تآئید حاصل ہو۔‬
‫سنہ ‪ 268‬ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلہ لخم کا پہال‬
‫حکمران تھا اور شاپور اور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذین فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی‬
‫رہی۔‬
‫کسری نے حیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا لیکن سنہ ‪632‬ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر‬
‫ٰ‬ ‫ایاس کے بعد‬
‫بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ ڈور سنبھال لی‪ ،‬مگر اس کو برسراقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے کہ‬
‫خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ اسالم کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہوگئے۔‬

‫آل غسان کی بادشاہی‬ ‫ِ‬


‫عرب قبائل کی ہجرت کے زمانے میں قبیلہ قضاعہ کی چند شاخیں حدود شام میں آکر آباد ہوئیں۔ قضاعہ کی اس شاخ کو‬
‫رومیوں نے عرب صحراؤں کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خالف استعمال کرنے کے لیے اپنا ہمنوا بنایا اور‬
‫اسی کے ایک فرد کے سر پر تاج حکمرانی سجا دیا۔ اس کے بعد مدتوں ان کی حکمرانی رہی۔ آل غسان کا پایہ تخت‬
‫دومۃالجندل تھا۔ رومیوں کےآلہ کار کی حیثیت سے دیار شام پر ان کی حکمرانی مسلسل قائم رہی تا آنکہ خالفت فاروقی میں‬
‫سنہ ‪ 13‬ہجری میں یرموک کی جنگ پیش آئی اور آل غسان کے اخری حکمران جبلہ ایہم نے اسالم قبول کر لیا لیکن اس‬
‫کا غرور اسالمی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور مرتد ہو گیا۔‬

‫مکہ مکرمہ كے حاالت‬


‫مکہ مکرمہ حجاز کا ایک شہر ہے۔ حجاز میں کبھی کوئی ایسا مضبوط سیاسی ڈھانچہ قائم نہیں ہوا جسے حکومت کا نام دیا‬
‫جاسکے۔ یہاں مختلف شہر تھے جن میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا سیاسی نظام تھا جو بادشاہی کے بجائے سرداری نظام کے‬
‫زیادہ قریب تھا۔ حجاز کے مشہور شہر مکہ‪ ،‬یثرب او طائف تھے۔‬
‫گزشتہ صفحات میں ہم نے مکہ کی ابتدائی آبادی کی کچھ تاریخ بیان کی ہے۔ وہاں کے اصلی رہائشی بنو جرہم تھے۔ بعض‬
‫اندرون مکہ کے بجائے ارد گرد کے عالقوں میں مقیم‬ ‫ِ‬ ‫مؤرخین کا خیال ہے کہ ان سے قبل یہاں عمالیق رہتے تھے لیکن وہ‬
‫تھے۔‬
‫)أخبار مكة‪ :‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪(54‬‬
‫الس الم کے بعد بنو جرہم حرم کا تقدس بر قرار نہ رکھ سکے۔ ان کے دور میں ظلم و فساد کا دور دورہ‬ ‫حضرت اسماعیل علیہ ّ‬
‫رہا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے کعبہ کا وہ مال بھی لوٹ لیا جو ازراہ عقیدت لوگ کعبہ کو بھیجتے تھے۔ کہا جاتا ہے‬
‫کہ انھی کے دور میں زمزم کا پانی خشک ہوگیا تھا بلکہ بئر زمزم کے نشانات تک مٹ گئے تھے‪ ،‬پھر سیل عرم کے بعد‬
‫جب یمن کے عربی قبائل ادھر ادھر منتشر ہوئے تو ثعلبہ بن عمرو بن طاہری اپنی قوم کو لے کر مکہ مکرمہ آگیا لیکن بنو‬
‫جرہم نے انھیں یہاں رہنے کی اجازت نہ دی‪ ،‬نتیجتا ً جنگ ہوئی۔ بنو جرہم شکست کھاگئے۔ یوں ان کی تولیت ختم ہوگئی۔‬
‫ثعلبہ بیمار ہوا تو شام چال گیا اور مکہ کی سرداری اور کعبے کی تولیت اپنے بھتیجے ربیعہ بن حارثہ بن عمرو کے سپرد‬
‫کرگیا۔ اس کا لقب ل َُحی تھا اور اس کی قوم بنو ُخزاعہ کے نام سے مشہور تھی۔ بنوجرہم اور ثعلبہ کی جنگ کے دوران میں‬
‫بنو اسماعیل بن ابراہیم بنوخزاعہ کے پاس چلے گئے تھے اور اس جنگ سے التعلق رہے۔‬
‫)أخبار مكة‪،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪ 95‬تا ‪ ،96‬نیز السیرۃ النبویة البن ھشام‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪ 161‬تا ‪(160‬‬
‫بنو خزاعہ نے تقریبا ً تین سو سال تک کعبہ کی تولیت سنبھالے رکھی۔ بعض مؤرخین نے یہ مدت پانچ سو سال بتائی ہے۔‬
‫اس دور میں قریش‪ ،‬بنو کنانہ میں جہاں بھی ان کے سینگ سمائے‪ ،‬رہتے رہے حتی کہ قُصی نے قریش کی قیادت سنبھالی‬
‫منظم کیا اور بیت اللہ کی تولیت حاصل کرنے کے لیے خزاعہ سے جنگ شروع کردی۔ اس جنگ میں بنو‬ ‫ّ‬ ‫اور پورے قبیلے کو‬
‫خزاعہ نے قصی کی مدد کی ۔ عرب کے دوسرے قبائل بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ آخر کار اس شرط پر جنگ رکی کہ‬
‫غیر جانبدار حک َم تولیت کا فیصلہ کریں گے۔ فیصلے کی روسے قصی تولیت کعبہ کے زیادہ حقدار قرار پائے۔ اس وقت سے‬
‫عربوں میں قریش کا مرتبہ بڑھ گیا اور وہ عربوں کی عقیدت کا مرکز بن گئے۔‬
‫)خبار مكة‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪ 103‬تا ‪(107‬‬
‫قصی نے مکہ مکرمہ کی زمین قریش کے مختلف خاندانوں میں بانٹ دی اور انھیں ان کی مقررہ جگہوں پر ٹھہرایا۔ تولیت کی‬
‫تمام ذمہ داریاں ‪ ،‬مثال ً‪ :‬حجابہ (دربانی)‪ ،‬سقایہ (پانی پالنا)‪ّ ،‬سدانہ (خدمت) اور ِل َواء (جھنڈا) قصی کے ہاتھ میں تھیں۔‬
‫تعدی روکنے کے لیے "دارالندوہ" قائم کیا۔ دارلندوہ کی پنچایت کے سربراہ قصی‬ ‫ّ‬ ‫انھوں نے باہمی تنازعات کے فیصلے اور ظلم و‬
‫ہی تھے۔ وہی دارالندوہ کے دیگر معامالت کے ذمہ دار بھی تھے۔ انھوں نے قریش کے ہر خاندان پر ساالنہ ٹیکس لگایا جس‬
‫سے وہ نادار حاجیوں کو کھانا اور دیگر ضروریات فراہم کرتے تھے۔ جب قصی بوڑےھے ہوگئے تو انھوں نے مندرجہ باالتمام ذمہ‬
‫داریاں اور مناصب اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کے سپرد کردیں۔ عبدالدار کی زندگی تک تو کام چلتا رہا۔ جب عبدالدار اور ان‬
‫عبدالع ّزٰی فوت ہوگئے تو ان کی اوالد میں ان عہدوں کی تقسیم پر اختالف ہوگیا۔ ان‬‫ّ‬ ‫کے بھائی عبد مناف‪ ،‬عبد شمس اور‬
‫کے دو گروہ بن گئے‪ ،‬ایک گروہ بنو عبدالدار کا اور دوسرا بنو عبد مناف کا۔‬
‫بنو عبدمناف نے حلف اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ خوشبو سے بھرے پیالے میں ڈالے اور کعبہ کی دیواروں پر لگائے۔ عربی زبان‬
‫میں خوشبو کو ِطیْب کہتے ہیں۔ یوں خوشبو میں ہاتھ ڈال کر حلف اٹھانے والوں کو ُم َط ِیّبِینکے لقب سے یاد کیا گیا۔‬
‫بنو عبدالدار اور ان کے حلیفوں نے اپنے ہاتھ خون سے بھرے پیالے میں ڈبوئے اور کعبہ کی دیواروں پر لگائے۔ ان کو‬
‫"ا َحالف" کا لقب حاصل ہوا۔ (جنگ کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا) مگر آخر کار اس معاہدے پر صلح ہوگئی کہ حجاج کہ خدمت‬
‫گزاری اور پانی پالنے کی ذمہ داری بنو عبد مناف اور ان کے حلیفوں کو ملے گی اور حجابہ (دربانی) کا منصب‪ ،‬لواء‬
‫( جھنڈا) اور دارالندوہ بنو عبدالدار کے پاس رہیں گے۔ بنو عبد مناف کو ملنے والے اعزازات اور عہدے ہاشم اور ان کے بھائی‬
‫عبد شمس میں یوں تقسیم ہوئے کہ سقایہ اور حجاج کی میزبانی ہاشم کوملی اور جنگ میں قیادت کا منصب عبدشمس کو‬
‫مال۔‬
‫)السيرة النبوية البن هشام‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪ 172‬تا ‪(181‬‬
‫ابن ہشام نے یہ روایت ابن اسحاق کے حوالے سے بغیر سند کے نقل کی ہے۔ ابن ہشام کے عالوہ کسی مؤرخ نے بھی اس‬
‫روایت کو بسند صحیح بیان نہیں کیا۔‬
‫جب لوگوں کی نظر میں ہاشم کا مرتبہ بہت بلند ہوگیا تو ان کا بھتیجا امیہ بن عبدشمس ان سے حسد کرنے لگا اور اس نے‬
‫ان سے رفادہ کا عہدہ چھیننے کی کوشش کی مگر منہ کی کھائی۔ اس کی قوم کے بعض افراد نے اس کی شدید مذمت‬
‫کی۔ اس پر وہ اور زیادہ مشتعل ہوا اور پہلے سے بڑھ کر حسد کرنے لگا۔‬
‫ہاشم کی وفات کے بعد ان کے بھائی ُم ّطلب نے سقایہ اور رفادہ کے عہدے سنبھالے۔ مطلب کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے‬
‫جناب عبدالمطلب جانشین قرار پائے۔ جب وہ انتقال کرگئے تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ان عہدوں پر‬
‫فائز ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد دونوں عہدوں پر انھی کو فائز رکھا۔‬
‫بنو عبد الدار نسل در نسل حجابہ‪ ،‬لواء اور دالندوہ کی سربراہی کے وارث بنتے رہے ۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے‬
‫حجابہ کے عہدے پر انھی کو مامور رکھا اور کعبہ مشرفہ کی چابی حضرت عثمان بن طلحہ کے سپرد فرمادی جو آج تک انھی‬
‫کی نسل کے ہاتھ میں ہے۔ بعض مفسرین (حوالہ‪ :‬مثال ً تفسير الطبري‪ :‬جلد ہشتم‪ 491 ،‬تا ‪ )493‬کا قول ہے کہ یہ آیت‬
‫‪:‬اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھی‬
‫اِ َّن الل ّ ٰ َه يَا ُْم ُرك ُْم ا َْن تَُؤ ُّدوا الْا َٰمن ٰ ِ‬
‫ت اِلٰٓى ا َھلها‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ النساء‪ ،‬آیت ‪(88‬‬
‫“بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کو واپس دو۔"‬
‫یہ ابن جریج کا قول ہے اور اس کی سند میں قدرے ضعیف پایا گیا ہے۔‬
‫جلیل القدر مفسر امام طبری کی نظر میں یہ قول ایسا بعید از صواب بھی نہیں ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں دیگر اقوال‬
‫"بھی نقل کیے ہیں۔‬
‫)تفسير الطبري (تحقيق أحمد شاكر)‪ ،‬جلد ہشتم‪ ،‬صفحہ ‪(493‬‬
‫روایت کی سند کے متعلق مزید تفصیل فتح مکہ کے ضمن میں آرہی ہے۔‬

‫یثرب كے حاالت‬
‫پہلے پہل یہاں عمالقہ رہتے تھے‪ ،‬پھر بعض یہودی قبائل ان پر غالب آگئے اور وہاں رہنے لگے۔ یہ پہلی اورد وسری صدی‬
‫عیسوی کی بات ہے‪ ،‬جب رومیوں نے شام کے عالقے میں یہودیوں کے خالف جنگ کرکے انھیں ادھر ادھر منتشر کردیا تو‬
‫یہودیوں کے چند قبائل جن میں بنونضیر اور بنوقریظہ ممتاز تھے‪ ،‬یثرب آکر رہنے لگے۔ مارب کا بند (ڈیم) ٹوٹنے کے بعد اوس‬
‫خزرج کے قبائل بھی یمن چھوڑ کر یہیں آبسے۔‬
‫)إمتاع األسماع للمقريزي‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪(105‬‬
‫کچھ عرصے تک یہودی اور اوس و خزرج نہ صرف اتفاق سے رہتے رہے بلکہ باہم معاہدے کرکے ایک دوسرے کے حلیف بھی‬
‫بن گئے تاکہ ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ رہے لیکن جب اوس خزرج کی شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا تو یہودی‬
‫سارے معاہدے پس پشت ڈال کر ان پر چڑھ دوڑے۔ اوس و خزرج نے اپنے چچا زاد غسانیوں سے مدد طلب کی تو انھوں‬
‫نے یہودیوں کے خالف ان کی مدد کی۔ اس طرح یہودی پسپا ہوگئے۔‬
‫األعشى للقلقشندی‪ ،‬جلد چہارم‪ ،‬صفحہ ‪(294‬‬ ‫ٰ‬ ‫)صبح‬
‫اوس و خزرج بھی شروع شروع میں اتفاق سے رہتے رہے لیکن بعد میں ان کے درمیان بھی طویل جنگوں کا سلسلہ شروع‬
‫ہوگیا جن میں عموما ً خزرج ہی غالب آتے رہے۔ بنو اوس نے بنو خزرج کے خالف قریشیوں سے حلیفانہ معاہدہ کرنے کی‬
‫کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے؛ کرلیا۔ بنو خزرج کویہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے یہودیوں سے وضاحت طلب کی۔‬
‫یہودیوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تمھاری باہمی جنگوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بنو خزرج نے ان سے چالیس جوان مانگ لیے‬
‫تاکہ وہ بطور ضمانت ان کے پاس رہیں۔ یہودیوں نے یہ مطالبہ مان لیا۔ جب ان کے جوان خزرج کے قابو میں آگئے تو انھوں‬
‫نے یہودیوں کو ا َلٹی میٹم دے دیا کہ یثرب خالی کردو ورنہ ہم تمھارے جوان قتل کردیں گے۔ یہودی یثرب سے نکل جانے پر‬
‫تیار ہوگئے لین کعب بن اسد قرظی نے انھیں قائل کرلیا کہ وہ یثرب نہ چھوڑیں‪ ،‬چاہے جوان قتل کر دیے جائیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بنو‬
‫خزرج نے ان کے چالیس جوانوں کو تہ تیغ کر ڈاال۔ یہودی طیش میں آگئے۔ وہ عالنیہ اوس کے حلیف بن گئے اور جنگ بعاث‬
‫میں ڈٹ کر اوس کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں اوس غالب رہے۔ انھوں نے بنوخزرج کی بڑی تعداد قتل کر کے اگلے پچھلے‬
‫سارے بدلے لے لیے۔ باآلخر دونوں فریق صلح پر آمادہ ہوگئے اور دونوں نے طے کرلیا کہ عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی کی‬
‫سرکردگی میں حکومت قائم کی جائے جو یثرب کے معامالت کنٹرول کرے۔‬
‫)وفاء الوفا بأخبار دار المصطفٰى للسمهودي‪ ،‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪ 215‬تا ‪(219‬‬
‫ابھی وہ اس کی تیاریوں ہی میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ (یثرب) تشریف لے آئے اور یثرب کے تمام‬
‫باشندے اسالم کے جھنڈے تلے آگئے۔ عبد اللہ بن ابی کے لیے یہ صورتحال بڑی روح فرسا تھی لیکن جنگ بدر کے بعد اس‬
‫کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہے کہ ظاہری طور پر وہ بھی دائرۂ اسالم میں داخل ہوجائے۔ بعد کے واقعات سے‬
‫صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ پکا منافق تھا۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔‬
‫عبد اللہ بن ابی کے نفاق پر تمام محدثین‪ ،‬مفسرین اور مؤرخین متفق ہیں‪ ،‬البتہ اوس کا سردار ابو عامر بن صیفی بن نعمان‪،‬‬
‫جوغسیل مالئکہ ابو حنظلہ کا والد تھا‪ ،‬بدستور کفر پر قائم رہا۔ وہ مدینہ سے نکل بھاگا اور مکہ چال گیا۔ وہاں سے طائف کی‬ ‫ِ‬
‫دور جاہلیت‬ ‫ِ‬ ‫راہ لی اور پھر رومیوں کے پاس شام جا پہنچا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتا رہا کہ اسالم کو ختم کردے۔ اس نے‬
‫‪:‬میں رہبانیت اختیار کرلی تھی‪ ،‬چنانچہ لوگ اسے راہب کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‬
‫الراهب‪َ ،‬ول ٰ ِک ْن ق ُْول ُو ال َف ِ‬
‫اس َق‬ ‫ل َا َت ُق ْول ُوا َّ‬
‫“اسے راہب نہ کہو بلکہ فاسق کہو۔"‬
‫)السيرة النبوية البن هشام‪ ،‬جلد سوم‪ ،‬صفحہ ‪(97 ،98‬‬
‫ابن اسحاق نے اس واقعے کو مرسل سند سے روایت کیا ہے۔ دیگر مؤرخین اسے بغیر کسی سند کے بیان کرتے ہیں۔‬

‫طائف کےحاالت‬
‫طائف " َو ّج" کے نام سے معروف تھا۔ وج بن عبد الحی وہاں رہنے والے عمالقہ میں سے ایک شخص کا نام تھا۔ اس کے نام‬
‫قسی بن منبہ بن بکر‬
‫قری سے قبیلہ ہوازن اٹھ کر یہاں آگیا اور ان کے سردار ّ‬
‫ٰ‬ ‫ِ‬
‫وادی‬ ‫پر طائف کو بھی "وج" کہتے تھے‪ ،‬پھر‬
‫قسی ثقیف کے نام سے مشہور ہوا۔‬‫ّ‬ ‫یہی‬ ‫میں‬ ‫بعد‬ ‫کرلی۔‬ ‫شادی‬ ‫سے‬ ‫بیٹی‬ ‫کی‬ ‫عدوانی‬ ‫بن ہوازن نے وج قبیلہ کے سردار عامر‬
‫جب ان لوگوں کی آبادی بڑھ گئی تو انھوں نے دیوار بنا کر "وج" کو قلعے کی شکل دے دی۔ چونکہ یہ دیوار چاروں طرف‬
‫سے شہر کو گھیرے ہوئے تھی‪ ،‬اس لیے وہ اسے طائف کہنے لگے اور "وج" کے بجائے اس شہر کا نام طائف معروف ہوگیا۔‬
‫)معجم ما استعجم‪ ،‬جلد اول صفحہ ‪(76 ،77‬‬
‫جب اسالم کا ظہور ہوا تو بنو ثقیف دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک کو بنو مالک اورد وسرے کو ا َحالف کہتے تھے۔ ان‬
‫کی آپس میں دشمنی تھی۔ اس بنا پر ان میں جنگ چھڑ گئی ۔ اس جنگ میں احالف غالب آگئے اور انھوں نے بنو مالک‬
‫کو طائف کے پیچھے ایک وادی حنین میں دھکیل دیا۔ بنومالک نے اپنی جنگی قوت مضبوط کرنے کے لیے بعض قریبی قبائل‬
‫سے حلیفانہ معاہدے کرنے کی سوچی اور احالف کے خالف دوس اور خثعم کے حلیف بن گئے۔ لیکن اس کے بعد ان کے‬
‫مابین کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔‬
‫)الكامل في التاريخ‪ :‬جلد اول‪ ،‬صفحہ ‪(253 ،254‬‬

You might also like