Professional Documents
Culture Documents
معاشرہ
معاشرہ سے مراد افراد کا ایسا اجتماع ہے جو ایک ہی طرح کے اوصاف کے حامل ،یکساں نظریات و عقائد رکھنے والے افراد
مخصوص ثقافتی و معاشرتی عادات واطوار کے مطابق زندگی بسر کریں۔ معاشرے کے افراد میں کچھ مشترک اقدار ضروری ہیں،
وجہ اشتراک کے بغیر محض افراد کا مجموعہ معاشرہ نہیں کہالتا۔ معاشرہ کے لغوی و اصطالحی مفاہیم درج ذیل ہیں۔
لغوی مفہوم
اش ُر ُمعاشرة“ جس کا معنی ہے باہم مل جل کر رہنا معاشرہ عربی زبان کا لفظ "مفاعلة" کے وزن پر مصدر ہے۔ ”عاشر يُ َع ِ
:اور زندگی بسر کرنا۔ اس کا مادہ (م ع ش) ہے ،اور عربی زبان میں اس مادے سے ثالثی مجرد کے دو ابواب آتے ہیں
ع ْشرا ً (ض) )(1 ع َشر ي َ ْع ِش ُر َ َ
ع ُشورا ً (ن) )(۲ ع ْشراًُ ، ع َش َر يَ ْع ُش ُر َ
َ
:ابن فارس کے بقول مذکورہ باال ابواب کے بنیادی معنی یہ ہیں
۔ باہمی اختالط۲
)مقابیس اللغة ،احمد بن الفارس ،تحقیق :عبد السالم محمد ہارون ،دار الفکر ،بیروت1979 ،ء ،جلد دوم ،صفحہ (324
گویا اس باب اور اس مادے میں دس ( )۱۰سے کم کا مفہوم ہی نہیں ،اور اقلیت کی بجائے اکثریت پر داللت موجود ہے۔
مثال ً نو پر ایک زائد ،دس میں سے ایک لینا ،قوم میں دسواں ہونا کمال میں سے دسواں حصہ لینا وغیرہ۔
:ابن منظور افریقی لکھتے ہیں
اش َر ًة اش ْرتُه ُم َع َ ع َ خال ََط ُةَ ، ال ِْع ْش َر ُة :ال ُْم َ
)لسان العرب ،محمد بن مکرم بن منظور االفریقی ،دار صادر ،بیروت۱۴۱۴ ،ھ ،طبع اول ،جلد دوم ،صفحہ (574
“ترجمہ” :عشرۃ سے مراد میل جول ہے ،میں اس کے ساتھ مل جل کر رہا۔
الر ُج ِل (قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں) فرمان الہی ہے ير ّ َ :ع ِش ُ
َ
ع ِشيْ َرتَ َك الَْأق َْرب َ
ِين َوَأن ْ ِذ ْر َ
)القرآن ،سورۃ الشعرا ،آیت (214
“ترجمہ” :اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔
:عشیر خاوند کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ بیوی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ فرمان نبوی صلی ﷺ ہے
َال :تُك ْ ِث ْر َن الل َّ ْع َنَ ،وتَكْفُ ْر َن ال َْع ِشي ْ َر ِ
الله؟ ق َ َفِإ ِن ّي ُأ ِريْتُك َُّن َأكْث ََر َأ ْه ِل الن ّ َِار َفقُل َْنَ :وب َِم يَا َر ُس ْو َل
)صحیح بخاری ،کتاب الحیض ،باب ترک الحائض الصوم ،رقم الحدیث (304
میں تم میں سے اکثر کو آگ میں دیکھتا ہوں ،انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! کس سبب؟ فرمایا تم لعنت بہت کرتی
“ہو اور شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو۔
اسی طرح معشر کا لفظ جماعت کے لیے بوال جاتا ہے ،معشر وہ جماعت ہے جن کے مابین اتفاق رائے ہو جیسےَ :م ْع َش ُر
ال ُْم ْسلِ ِمي ْ َن يا َم ْع َش ُر ال ُْم ْش ِر ِكيْ َن
:ارشاد الہی ہے
يَا َم ْع َش َر ال ْجِ ِّن َوالِْإن ْ ِس
رحمن ،آیت (33 ٰ )القرآن ،سورۃ
“!ترجمہ” :اے جن و انس کی جماعت
مختصر یہ کہ عشرة ،عشر ،معشر ،معاشرہ سب کا مادہ "ع ش ر" ہے ،اور یہ باہمی میل جول اور اختالط کے لیے بوال جاتا
ہے ،چنانچہ معاشرہ سے مراد وہ طبقہ یہ افراد ہیں جو آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔
:مزید وضاحت کے لیے چند مشتقات حسب ذیل ہیں
١۔ ال َْع ِشيْ ُر َوال ُْع ْش ُر :دسواں حصہ؛ اس کی جمع اعشراء ہے۔
الر ُج ِل :آدمی کے باپ کی قریبی اوالد یا قبیلہ ،آدمی کے اقرباء پر مشتمل جماعت ،باپ کے بھائیوں کی جانب ع ِشيْ َر ُة َّ
٢۔ َ
ع ِشيْ َرات آتی ہے۔ ع َشاِئر اور َ سے قریبی لوگ۔ اس کی جمع َ
ير ُة :قبیلہ ،انسان کے باپ کی طرف سے قریبی رشتہ دار پر مشتمل جماعت ،کیونکہ ان سے انسان کثرت عدد حاصل ٣۔ ال َْع ِش َ
:کرتا ہے۔ گویا کہ وہ اس کے لیے بمنزلہ عدد کامل کے ہیں۔ کیونکہ عشرہ کا عدد ہی کامل ہوتا ہے ارشاد الہی ہے
ع ِشيْ َرتُك ُْم اجك ُْم َو َ َوَأ ْز َو ُ
)القرآن ،سورۃ التوبہ ،آیت (24
“ترجمہ” :اور تمہاری عورتیں اور تمہارے خاندان کے آدمی
لہذا عشیرہ انسان کے رشتہ داروں کی اس جماعت کا نام ہے ،جن سے انسان کثرت (قوت) حاصل کرتا ہے۔ ”عاشرتہ“ کے
:معنی ہیں کہ میں رشتہ داری میں اس کے لیے بمنزلہ عشرہ کے ہو گیا ،قرآن مجید میں ہے
ف وه َّن بِال َْم ْع ُر ْو ِاش ُر ُع ِ َو َ
)سورة النساء ،آیت (19
“ترجمہ” :اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔
اش ُر آتی ہے۔ “٤۔ ال َْم ْع َش ُر” :جماعت ،گروہ ،آدمی کے اہل و عیال ،جن ،انسان ،اس کی جمع َم َع ِ
) المفردات فی غریب القرآن ،حسین بن محمد ،اصفہانی ،تحقیق :صفوان عدنان الداودی ،دار القلم ،دمشق۱۴۱۲ ،ھ ،ص (567
:اصطالحی مفہوم
:معاشرہ کی متعدد اصطالحی تعریفات کی گئی ہیں ،جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں
:ابن خلدون لکھتے ہیں
اع ال َّ ِذي ُه َو ال َْم ِدين َ ُة "ِالطبْ ِع َأ ْي :ل َا بُ ّ َد ل َُه ِم َن الِْإ ْج ِت َم ِ
ان َم َد ِن ّ َي ب َّ
ع ْن َهذَا ِبقَ ْولِ ِه ْم الِْإن ْ َس ُ
اء َ
ي َوي ُ َعبّ ُِر ال ُْحك ََم ُ نسا ِن ّ َي َض ُر ِ
ور ّ ٌ ْاج ِت َم َ
اع الِْإ َ ِإ ّ َن ال ْ
اص ِطل ِ
َاح ِه ْم َو ُه َو َم ْعنَى ال ِْع ْم َران ْ ي فِ
) مقدمہ ابن خلدون ،عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون ،تحقیق :خلیل شہادة ،دار الفکر ،بیروت1988 ،ء ،جلد اول ،صفحہ (54
ترجمہ” :انسانی اجتماع ایک ضروری چیز ہے ،حکماء اس ضرورت کی تعبیر اس جملے سے کیا کرتے ہیں کہ انسان میں طبعی
اعتبار سے مدنیت پائی جاتی ہے ،یعنی انسان کے لیے اجتماع الزمی ہے۔ اسی کو حکما مدینہ (شہر) کہتے ہیں۔ ان کی
“اصطالح میں عمران (آبادی و معاشرہ) کا بھی یہی معنی ہے۔
:مولوی فیروز الدین لکھتے ہیں
معاشرہ وہ حیات اجتماعی ہے جس میں ہر انسان کو رہنے ،کامیابی اور فالح و بہبود کی خاطر دوسروں انسانوں سے تعلق ”
“رہتا ہے۔
)فیروز اللغات ،مولوی فیروز الدین ،فیروز سنز ،الہور ،س ن ،صفحہ (1260
:منیر لکھنوی نے لفظ معاشرت کو یوں واضح کیا ہے
“معاشرت :آپس میں مل جل کر گزران کرنا ،رہنا سہنا۔”
)سعید اللغات ،منیر لکھنوی ،ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی ،سن ندارد ،صفحہ (1161
:محمد احسن تهانوی معاشرے کے بارے میں لکھتے ہیں
معاشر دیا سماج ایک آبادی ہے ،جو ایک عالقے میں اکٹھے رہتے ہیں ،اور ان کے اندر ثقافتی ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔”
)معاشروں کی تقسیم ،محمد احسن تهانوی ،مشمولہ ماہنامہ تذکیر ،دار التذکیر الہور2005 ،ء ،شماره ،40جلد ،18صفحہ (15
اصطالح میں معاشرے سے مراد کثیر التعداد بنی نوع انسان کی وہ اجتماعی زندگی ہے ،جس کے اندر ہر کسی کے زندگی بسر
کرنے ،حصول مقصد اور فالح و بقا کی خاطر لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے ،اور جس ماحول سے کسی فرد و بشر کو مفر ممکن
نہیں ،معاشرہ کہالتا ہے۔ اس میں ہر فرد اپنی اپنی جگہ اسی گروہ ،جماعت یا معاشرہ کا ایک جزو اور حصہ ہوتا ہے۔
)اردو انسائیکلو پیڈیا ،فیروز سنز الہور1984 ،ء ،صفحہ (934
گویا معاشرہ یا سوسائٹی اس جماعت کو کہا جاتا ہے جس کے افراد اکھٹے رہ کر مخصوص تہذیب و ثقافت ،سماجی نظام کے
تحت مشترک مفادات اور مقاصد حیات کے حصول کے لیے جد و جہد کرتے ہیں۔
الغرض معاشرہ افراد کے اس مجموعے کو کہتے ہیں ،جو کسی نہ کسی تعلق اور رشتے کی بنا پر اس طرح مرتب و منظم ہو
کہ اس میں نہ صرف افراد کا چال چلن ،طور طریقہ ،رہن سہن اور دوسری سرگرمیاں کسی نہ کسی ضابطے ،رسم و قانون کی
پابند ہوں ،بلکہ ان کا مجموعی طور پر مخصوص طرز زندگی ،تہذیب و تمدن اور رسم و رواج بھی ہو ،اور پھر وہ اپنے آپ کو
بدلتے ہوئے حاالت کے مطابق ڈھال بھی سکتے ہوں۔
ماہرین عمرانیات نے معاشرے کی جو تعریفات کی ہیں ،ان سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
١۔ معاشرہ افراد کا ایک بہت بڑا گروہ ہوتا ہے۔
٢۔ معاشرہ افراد کا ایسا مجموعہ ہے ،جو مشترک مفادات کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے۔
٣۔ معاشرہ تغیر پذیر ہوتا ہے۔
٤۔ معاشرہ کو معرض وجود میں آنے کے لیے کافی عرصے کی ضرورت ہوتی ہے۔
٥۔ ضروریات زندگی کی تکمیل معاشرے کا اولین فرض ہے۔
٦۔ معاشرہ باہمی تعاون اور تعلق کی مستقل بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔
٧۔ ایک معاشرے کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت مشترک ہوتی ہے۔
٨۔ معاشرے کے سب ارکان اپنے آپ کو ایک وحدت سمجھتے ہیں۔
)اسالم کا عمرانی نظام ،غالم رسول چودھری ،علم و عرفان پبلشرز ،الہور2004 ،ء ،صفحہ (23
الغرض معاشرے سے مراد لوگوں کا وہ گروہ ہے جو کسی مشترکہ نصب العین کی خاطر وجود میں آئے۔ کسی معاشرے کے افراد
وحدت عمل اور ذہنی یک جہتی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ اس قسم کے معاشرے میں جغرافیائی حد ِ میں مشترکہ فکری سوچ،
بندیوں کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مثال ً مسلمان دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی آباد ہیں ،ایک ہی معاشرے کے رکن ہیں۔ اس
کے عالوہ کسی معاشرے کے افراد میں عقائد اور رسوم و رواج میں بڑی حد تک یکسانیت کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح
ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے معاشرے کے رکن ہیں۔
پس درست اور صحیح نظریہ یہ ہے کہ دین اور سیاست کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے نتیجتا جو شخص بھی یا سیاستدان
بھی دین اور سیاست میں جدائی کا قائل ہے وہ سیکولر کہالتا ہے اور دین کا سیکولرزم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو
سیاسی پارٹی دین اور سیاست میں جدائی کے نظریہ کو تسلیم کرتی ہے وہ سیکولر پارٹی ہے اسکی سیاست میں نقص ہے اور
ایسی پارٹی عوام اور معاشرے کی جامع اور کامل خدمت نہیں کرسکتی ہے ،لہذا ہماری سیاست اسالم کے بتائے ہوئے اصولوں
اور قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔
سیاست کی اقسام
سیاست جیسا کہ بیان کیا کہ معاشرہ اور انسانی پہلوؤں کی تدبیر ،ادارہ ،مدیریت اور رہبری اور معاشرہ و انسانی پہلوؤں کے
تمام مصالح کو مد نظر رکھنا ،انسان و معاشرے کی تزکیہ ،تربیت اور پرورش کرنا ہے اور یہ بھی ذکر ہوا کہ جھوٹ ،ریاکاری،
فراٹ و دھوکہ ،مکر و مکاری کا سیاست سے دور دورکا تعلق بھی نہیں ہے اور یہ سیاست کی تحریف شدہ شکل وصورت
یعنی سیاست کو اس کے حقیقی معنی و مفھوم سے دور کرنا اور یہ سیاست کی غلط تشریح ہے۔
سیاست کی تین صورتیں ہیں
١۔ سیاست شیطانی
سیاست کی ایک قسم اور صورت سیاست شیطانی ہے جس میں سیاستدان جھوٹ بولتا ہے ،فریب دیتا ہے ،مکاری کرتا ہے
،ریا کرتا ہے ،کرپش و چوری کرتا ہے ،لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے ،ظلم کرتاہے ،نا انصافی کرتاہے ۔۔وغیرہ ۔ اس قسم کی
سیاست کا دین و سیاست اسالمی سے کوئی تعلق اور ربط نہیں ہے بلکہ یہ شیطانی اور شیطانی صفت لوگوں کی سیاست
ہے ۔ اس سیاست کے نتیجے میں معاشرے میں بگاڑ و عدم توازن پیدا ہوتا ہے ،نا انصافی ایسے معاشرے اور ملکوں میں
ڈھیرے ڈالتی ہے ،انسان کی جان و مال کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ہے ،غربت ایسے ملکوں اور معاشرے میں پنجے
گاڑتی ہے ،بے روزگاری معاشرے کو مفلوج و پریشان کردیتی ہے۔ المختصر وہ ملک ومعاشرہ مسائلستان بن جاتا ہے جہاں انسانی
زندگی مشکالت کا شکار ہوجاتی ہے۔
٢۔ حیوانی سیاست
یہ سیاست کی ایک ایسی صورت ہے جس میں ملکوں اور معاشروں کے فقط مادی اور مصالح عادی کو مدنظر رکھا جاتا ہے
یعنی اس قسم کی سیاست میں انسان کے فقط اورفقط مادی و حیوانی پہلو کی مدیریت کی جاتی ہے ۔ سیاست کی یہ صورت
پہلی صورت کی نسبت قدرے بہتر ہے لیکن یہ بھی سیاست کی کامل و درست صورت و تشریح نہیں ۔ اس سیاست کے
نتیجے میں معاشرے مادی جھت سے ترقی تو کرسکتے ہیں لیکن معنوی اور روحانی لحاظ سے انحطاط کا شکار ہوتے ہیں ،
معاشرے میں اخالقی مسائل جنم لیتے ہیں ،اس قسم کی سیاست سے امیر ،امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوجاتا ہے ،ایسی
سیاست انسان کو فخر اور غرور میں مبتال کرتی ہے ،معاشرے میں برائیاں جنم لیتی ہیں کیونکہ اس قسم کی سیاست کا
انسان اور معاشرے کا معنوی پہلو جو حقیقت انسان ہے کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ عدم توازن کا
شکار ہوجاتا ہے۔
٣۔ سیاست الھی و خدائی
سیاست الھی و خدائی وہ سیاست ہے جس میں معاشرے کی مدیریت ،پرورش ،اور انسانوں کی تھذیب و تربیت کی جاتی ہے
۔ اس سیاست کے ذریعے انسان خود کو اور معاشرے کے دیگر افراد اور مجموعی طور پر انسانی معاشرے کو کمال اور
سعادت کے راستے کی طرف گامزن کرتا ہے۔ یہ سیاست کی حقیقی صورت ہے جسکو انبیاء علیہم السالم و اولیاء اور امت کے
بیدار علماء مثل امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے کیا۔ اسی سیاست کے ذریعے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے مدینہ منورہ میں اسالمی فالحی ریاست قائم کی اور حضرت امام علی علیہ السالم نے عدل کی حکومت قائم کی
اور ہمارے گیارہ آئمہ علیہم السالم نے سیاست الھی کے ذریعے حکومت الھی قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور شیطانی
طاقتوں کا مقابلہ کیا۔
حکومت الہی میں انسان کے دونوں پہلوؤں یعنی انسان کی مادی اور معنوی دونوں جانب کو مدنظر رکھا جاتا ہے جسکے نتیجے ِ
میں معاشرہ مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ترقی کرتا ہے۔ اس سیاست کے نتیجے میں معاشرے میں عدل و انصاف اور
توازن برقرار ہوتاہے ۔جہاں انسان اور اسکی مال کی قدر و قیمت ہوتی ہے ،جہاں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت
نہیں ہوتی یہ وہ سیاست ہے جس میں جھوٹ ،دھوکہ ،فریب ،فراٹ اور کرپشن کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ جس میں خداوند
متعال اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیاست کی جاتی ہے۔
اجتماعی حاالت
عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حاالت ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقہ
ا َشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصہ ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی
تھی اور اس کا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا۔ اس کی راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خون ریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی
جب اپنے کرم وشجاعت پر...جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ...اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموما ً عورت ہی کو
مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خون
ریزی کے شعلے بھڑکا دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود بال نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات
فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے ّاولیاء
کے زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی والیت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔
ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد وعورت کے اختالط کی بھی کئی صورتیں
تھیں۔ جنھیں بد کاری وبے حیائی اور فحش کاری وزنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے
کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں :ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے
آدمی کو اس کی زیر والیت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسری
صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فالں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے
اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کرأو) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ
واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا
تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس
نکاح اِ ْس تبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس ِ نکاح کو
آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی ،سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت
حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بالبھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی
کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے
بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فالں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی ،اور وہ اس
کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ،وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ
کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا
چاہے بے دھڑک چال جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی ،اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے ،اور
قیافہ شناس کو بالتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی
تعالی نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا ٰ سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہالتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا -جب اللہ
تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسالمی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔
)صحیح بخاری ،کتاب النکاح ،باب من قال ال نکاح إال ھو لی ،رقم الحدیث (769
عرب میں مرد وعورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی
تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والے واال قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر
لیتا تھا لیکن ایسی عورتیں سے پیدا ہونے والی ّاوالد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔
زمانٔہ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح
میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طالق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے
بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طالق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسالم نے ان کی
حد بندی کی۔
)ابو دأود ،نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثالث ،نیز کتب تفسیر متعلقہ الطالق مرتان(
مستثنی نہ تھی ،البتہ کچھ مرد اور
ٰ زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے
عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد
اہل جاہلیت کی غالب ِ عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتا ً اچھا تھا ،اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ
اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی دأود وغیرہ میں
مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ!فالں میرا بیٹا ہے ،میں نے جاہلیت میں اس کی ماں
:سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا
اسالم میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں ،جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا
کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن َز ْمعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے...عبد الرحمن
بن زمعہ...کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔
)صحیح بخاری ،رقم الحدیث (1065
:جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا ،کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے
انما ٔاوالدنا بیننا
ٔاکبادنا تمشی علی أالرض
“ترجمہ” :ہماری اوالد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو
فقر و فاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے
دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ ّاوالد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔
جہاں تک سگے بھائیوں ،چچیرے بھائیوں ،اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور
مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی
تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی
عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل
:پیرا تھے کہ
مظلوما
ً ظالما ٔاو
ً انصر ٔاخاک
“اترجمہ” :پنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم
اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصالح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسالم کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ
اسے ظلم سے باز رکھا جائے ،البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی
عبْس و ذُبَیْان اور شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ،جیسا کہ ا َوس وخزرج َ ،
بکر و تَ ْغلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری
قوت ایک دوسرے کے خالف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات
کی بدولت بسا اوقات جنگ کی ِح ّد ت و ِش ّدت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حاالت میں ُمواالۃ ،حلف اور تابعداری کے
حصول معاش کے لیے سراپا رحمت ِ اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ عالوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور
ومدد تھے۔ کیونکہ عرب ان کی حرمت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ابو رجاء عطاری کہتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آجاتا توہم
کہتے کہ یہ نیزے کی انیاں اتارنے واال ہے۔ چنانچہ ہم کوئی نیزہ نہ چھوڑتے جس میں دھار دار برچھی ہوتی مگر ہم وہ
برچھی نکال لیتے اور کوئی تیر نہ چھوڑتے جس میں دھار دار پھل ہوتا مگر اسے بھی نکال لیتے اور رجب بھر اسے کہیں
ڈال کر پڑا چھوڑ دیتے۔
)صحیح بخاری حدیث نمبر (4376
اسی طرح حرام کے بقیہ مہینوں میں بھی۔
)فتح الباری جلد ہشتم ،صفحہ (91
خالصہ یہ کہ اجتماعی حالت ُض عف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات
کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی
اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ،اپنی
رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔
اقتصادی حالت
اقتصادی حالت ،اجتماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سیہوسکتا ہے کہ تجارت ہی
ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد ورفت امن وسالمتی کی
فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن وسالمتی کا کہیں وجود نہ
المجاز اور َمجِ نہ وغیرہ لگتے تھے۔
َ عکاظ ،ذی
تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار ُ
جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی ِدباغت
وغیرہ کی شکل میںجو چند صنعتیں پائی بھی جاتی تھیں وہ زیادہ تریمن ،حیرہ اور شام کے متصل عالقوں میں تھیں۔البتہ
اندرون عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔ ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہِ
سارا مال ومتاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی
بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔
اخالق
عقل سلیم کے خالف باتیں
ِ یہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی کہ اہل جاہلیت میں َخسیس و َرذیل عادتیں اور وجدان وشعور اور
:پائی جاتی تھیں۔ لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخالقِ فاضلہ بھی تھے جنھیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے۔ مثال ً
کرم وسخاوت
یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح
فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے
تو کسی نے کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس
کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی
ایسی سنگین حالت کے باوجود؛ اس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر
دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور
خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔
بذات خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ ِ اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے ،اس لیے نہیں کہ یہ
اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کر دیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔
اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے َد َوا ِوین پر نظر
:ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے
ولقد شربت من المدامۃ بعد مارکد
الھواجربالمشوف المعلم
بزجاجۃ صفراء ذات ٔاسـرۃ
قرنت بٔازھر بالشمال مفدم
فإذا شربت فإنني مستھلک
مالي ،وعرضي وافر لم یکلم
وإذا صحوت فما ٔاقصر عن ندی
وکما علمت شمائلي وتکرمی
ترجمہ :میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی
تابناک اور منہ بند ُخم کے ساتھ تھا ،نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا
ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ،اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت
میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخالق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو
نفع حاصل ہوتا ،یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے
:قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ
َوِإ ث ُْم ُه َما َأك ْبَ ُر ِمن نَّفْ ِع ِه َما
)القرآن ،سورۃ البقرہ ،آیت (219
ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔
:وفائے عہد
ور جاہلیت کے اخالقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر یہ بھی َد ِ
حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی ّاوالد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ اسے سمجھنے
ہانی بن مسعود شیبانی ،سمؤال بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں۔ ہانی بن مسعود کا واقعہ حیرہ
ٔ کے لیے
کی بادشاہی کے تحت گزر چکا ہے۔ سمؤال کا واقعہ یہ ہے کہ امرٔو القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی
تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ،اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند
ہوگیا۔ سمؤال کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی
دھمکی دی مگر سمؤال انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔
کسری سے اس کی عملداری کے حدود میں اپنی ٰ حاجب کا واقعہ یہ ہے کہ اس کے عالقے میں قحط سالی پیش آئی۔ اس نے
لہذا ضمانت کے بغیر منظور نہ کیا۔ حاجب نے اپنی کسری کو ان کے فساد کا اندیشہ ہواٰ ،
ٰ قوم کو ٹھہرانے کی اجازت چاہی۔
کمان رہن رکھ دی اور وعدے کے مطابق قحط ختم ہونے پر اپنی قوم کو واپس لے گیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عطارد بن
کسری نے ان کی وفاداری کے پیش نظر
ٰ کسری کے پاس جاکر باپ کی امانت واپس طلب کی۔ جسے ٰ حاجب رضی اللہ عنہ نے
واپس کردیا۔
ِ
وعزت نفس خودداری
اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخالق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی
شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی ،وہ فورا ً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی
،شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعا ً پروا نہ رہتی۔
عزائم کی تنفیذ
اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل
جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیںروک نہیںسکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔
بدوی سادگی
یعنی تمدن کی آالئشوں اور دأوپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔
وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔
جزیرۃ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے عالوہ یہی وہ قیمتی اخالق ُ ہم سمجھتے ہیں کہ
رسالت عامہ کابوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔
ِ تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور
کیونکہ یہ اخالق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے
لیکن یہ فی نفس ٖہ بڑے قیمتی اخالق تھے۔ جو تھوڑی سی اصالح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے
اور یہی کام اسالم نے انجام دیا۔
عزت نفس اور پختگی ٔ عزم سب سے گراں قیمت اور نفع بخش جوہر تھا۔ ِ اور غالبا ً ان اخالق میں بھی ایفائے عہد کے بعد
ِ
قوت قاہرہ اور عز ِم ُم َص ّمم کے بغیر شر وفساد کا خاتمہ اور نظا ِم عدل کا قیام ممکن نہیں۔ کیونکہ اس
اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخالقِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔
قبائل کی حالت
جزیرۃ العرب کے وہ تینوں سرحدی عالقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب و
انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ انسان ،مالک اور غالم یا حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔
سارے فوائد سربراہوں اور خصوصا غیر ملکی سربراہوں کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غالموں کے سر تھا۔
رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں انہیں لذتوں ،شہوتوں،
عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی۔ مگر ان کے لیے
ضروری تھا کہ وہ ہر ذلت و رسوآئی اور ظلم و جبر کو برداشت کریں اور زبان بند رکھیں۔
یمن کی بادشاہت
عرب عاربہ میں جو قدیم ترین یمانی قوم معلوم ہو سکی وہ قوم سبا تھی۔ اس کا ذکر ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں ملتا
ہے۔ لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ سو سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں اس سلطنت
کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہوں نے عرب کے اندر اور باہر جگہ جگہ نوآبادیاں قائم کر لی تھیں۔ اسی دور میں مارب
کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ 300قبل مسیح سے آغاز اسالم تک
کے دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب اور انتشار برپا رہا۔ انقالبات آئے۔ خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت
کے مواقع ہاتھ آئے حتی کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہو گئی۔ 378ء تک یمن کی آزادی تو بحال ہو
گئی مگر مارب کے بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ 451ء میں یہ بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیالب ایا جس
کا ذکر قرآن مجید میں سیل عرم کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئیں اور بہت
قبائل بکھر گئے۔ اس کے 523ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا۔ یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں
پر ایک ہیبت ناک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا۔ جب وہ اس پر امادہ نہ ہوئے تو ذونواس
ب نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی اگ کے االؤ میں جونک دیا۔ قرآن مجید نے سورۃ بروج کی آیات قتل ُق ِت َل اص ٰ
ۡح ُ
الۡاخ ُۡدوۡ ِد میں اسی لروہ خیز واقع کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حیرہ کی بادشاہی
ارد شیر کے عہد میں حیرہ بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعہ اور مضری قبائل پر جذیمت الوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ ارد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے
باز رکھنا ممکن نہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنا دیا جائے جسے
اپنے کنبے قبیلے کی حمآیت و تآئید حاصل ہو۔
سنہ 268ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلہ لخم کا پہال
حکمران تھا اور شاپور اور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذین فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی
رہی۔
کسری نے حیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا لیکن سنہ 632ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر
ٰ ایاس کے بعد
بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ ڈور سنبھال لی ،مگر اس کو برسراقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہی ہوئے کہ
خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ اسالم کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہوگئے۔
یثرب كے حاالت
پہلے پہل یہاں عمالقہ رہتے تھے ،پھر بعض یہودی قبائل ان پر غالب آگئے اور وہاں رہنے لگے۔ یہ پہلی اورد وسری صدی
عیسوی کی بات ہے ،جب رومیوں نے شام کے عالقے میں یہودیوں کے خالف جنگ کرکے انھیں ادھر ادھر منتشر کردیا تو
یہودیوں کے چند قبائل جن میں بنونضیر اور بنوقریظہ ممتاز تھے ،یثرب آکر رہنے لگے۔ مارب کا بند (ڈیم) ٹوٹنے کے بعد اوس
خزرج کے قبائل بھی یمن چھوڑ کر یہیں آبسے۔
)إمتاع األسماع للمقريزي ،جلد اول ،صفحہ (105
کچھ عرصے تک یہودی اور اوس و خزرج نہ صرف اتفاق سے رہتے رہے بلکہ باہم معاہدے کرکے ایک دوسرے کے حلیف بھی
بن گئے تاکہ ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ رہے لیکن جب اوس خزرج کی شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا تو یہودی
سارے معاہدے پس پشت ڈال کر ان پر چڑھ دوڑے۔ اوس و خزرج نے اپنے چچا زاد غسانیوں سے مدد طلب کی تو انھوں
نے یہودیوں کے خالف ان کی مدد کی۔ اس طرح یہودی پسپا ہوگئے۔
األعشى للقلقشندی ،جلد چہارم ،صفحہ (294 ٰ )صبح
اوس و خزرج بھی شروع شروع میں اتفاق سے رہتے رہے لیکن بعد میں ان کے درمیان بھی طویل جنگوں کا سلسلہ شروع
ہوگیا جن میں عموما ً خزرج ہی غالب آتے رہے۔ بنو اوس نے بنو خزرج کے خالف قریشیوں سے حلیفانہ معاہدہ کرنے کی
کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے؛ کرلیا۔ بنو خزرج کویہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے یہودیوں سے وضاحت طلب کی۔
یہودیوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تمھاری باہمی جنگوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بنو خزرج نے ان سے چالیس جوان مانگ لیے
تاکہ وہ بطور ضمانت ان کے پاس رہیں۔ یہودیوں نے یہ مطالبہ مان لیا۔ جب ان کے جوان خزرج کے قابو میں آگئے تو انھوں
نے یہودیوں کو ا َلٹی میٹم دے دیا کہ یثرب خالی کردو ورنہ ہم تمھارے جوان قتل کردیں گے۔ یہودی یثرب سے نکل جانے پر
تیار ہوگئے لین کعب بن اسد قرظی نے انھیں قائل کرلیا کہ وہ یثرب نہ چھوڑیں ،چاہے جوان قتل کر دیے جائیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بنو
خزرج نے ان کے چالیس جوانوں کو تہ تیغ کر ڈاال۔ یہودی طیش میں آگئے۔ وہ عالنیہ اوس کے حلیف بن گئے اور جنگ بعاث
میں ڈٹ کر اوس کا ساتھ دیا۔ اس جنگ میں اوس غالب رہے۔ انھوں نے بنوخزرج کی بڑی تعداد قتل کر کے اگلے پچھلے
سارے بدلے لے لیے۔ باآلخر دونوں فریق صلح پر آمادہ ہوگئے اور دونوں نے طے کرلیا کہ عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی کی
سرکردگی میں حکومت قائم کی جائے جو یثرب کے معامالت کنٹرول کرے۔
)وفاء الوفا بأخبار دار المصطفٰى للسمهودي ،جلد اول ،صفحہ 215تا (219
ابھی وہ اس کی تیاریوں ہی میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ (یثرب) تشریف لے آئے اور یثرب کے تمام
باشندے اسالم کے جھنڈے تلے آگئے۔ عبد اللہ بن ابی کے لیے یہ صورتحال بڑی روح فرسا تھی لیکن جنگ بدر کے بعد اس
کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہے کہ ظاہری طور پر وہ بھی دائرۂ اسالم میں داخل ہوجائے۔ بعد کے واقعات سے
صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ پکا منافق تھا۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
عبد اللہ بن ابی کے نفاق پر تمام محدثین ،مفسرین اور مؤرخین متفق ہیں ،البتہ اوس کا سردار ابو عامر بن صیفی بن نعمان،
جوغسیل مالئکہ ابو حنظلہ کا والد تھا ،بدستور کفر پر قائم رہا۔ وہ مدینہ سے نکل بھاگا اور مکہ چال گیا۔ وہاں سے طائف کی ِ
دور جاہلیت ِ راہ لی اور پھر رومیوں کے پاس شام جا پہنچا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتا رہا کہ اسالم کو ختم کردے۔ اس نے
:میں رہبانیت اختیار کرلی تھی ،چنانچہ لوگ اسے راہب کہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
الراهبَ ،ول ٰ ِک ْن ق ُْول ُو ال َف ِ
اس َق ل َا َت ُق ْول ُوا َّ
“اسے راہب نہ کہو بلکہ فاسق کہو۔"
)السيرة النبوية البن هشام ،جلد سوم ،صفحہ (97 ،98
ابن اسحاق نے اس واقعے کو مرسل سند سے روایت کیا ہے۔ دیگر مؤرخین اسے بغیر کسی سند کے بیان کرتے ہیں۔
طائف کےحاالت
طائف " َو ّج" کے نام سے معروف تھا۔ وج بن عبد الحی وہاں رہنے والے عمالقہ میں سے ایک شخص کا نام تھا۔ اس کے نام
قسی بن منبہ بن بکر
قری سے قبیلہ ہوازن اٹھ کر یہاں آگیا اور ان کے سردار ّ
ٰ ِ
وادی پر طائف کو بھی "وج" کہتے تھے ،پھر
قسی ثقیف کے نام سے مشہور ہوا۔ّ یہی میں بعد کرلی۔ شادی سے بیٹی کی عدوانی بن ہوازن نے وج قبیلہ کے سردار عامر
جب ان لوگوں کی آبادی بڑھ گئی تو انھوں نے دیوار بنا کر "وج" کو قلعے کی شکل دے دی۔ چونکہ یہ دیوار چاروں طرف
سے شہر کو گھیرے ہوئے تھی ،اس لیے وہ اسے طائف کہنے لگے اور "وج" کے بجائے اس شہر کا نام طائف معروف ہوگیا۔
)معجم ما استعجم ،جلد اول صفحہ (76 ،77
جب اسالم کا ظہور ہوا تو بنو ثقیف دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک کو بنو مالک اورد وسرے کو ا َحالف کہتے تھے۔ ان
کی آپس میں دشمنی تھی۔ اس بنا پر ان میں جنگ چھڑ گئی ۔ اس جنگ میں احالف غالب آگئے اور انھوں نے بنو مالک
کو طائف کے پیچھے ایک وادی حنین میں دھکیل دیا۔ بنومالک نے اپنی جنگی قوت مضبوط کرنے کے لیے بعض قریبی قبائل
سے حلیفانہ معاہدے کرنے کی سوچی اور احالف کے خالف دوس اور خثعم کے حلیف بن گئے۔ لیکن اس کے بعد ان کے
مابین کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔
)الكامل في التاريخ :جلد اول ،صفحہ (253 ،254