Professional Documents
Culture Documents
محافل میالد
ِ آداب
ِ فصل اول:
تعالی کے فضل و کرم سے اللہ عزوجل کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی والدت کا مہینہ ماہ ربیع االول کا ٰ اللہ
چاند نوید مسرت اور پیا ِم محبت بن کر چمکتا ہے ۔ اس کے طلوع ہوتے ہی اہل ایمان کے قلوب و اذہان فرحت و انبساط
جوش محبت سے بھر پور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ ما ِہ ذی شان ہے جس کی مبارک ساعتوں کو ِ سے معمور اور
مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے ورو ِد مسعود کےلیے ٰ محمد حضرت جہاں دو رب محبوب
ِ جان و دل ،قرار جان ایمانِ
:منتخب کیا گیا
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ الکھوں سالم
اوقات کو واقعات سے بڑی نسبت ہوتی ہے ۔بعض لمحات گزر کر پردہ ¿ نسیان میں چھپ جاتے ہیں ۔لیکن کچھ ساعات کو
ایسے عظیم واقعات سے نسبت ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے وہ ساعتیں منبع برکات بن جاتی ہیں ۔انہیں بھال یا نہیں جاتا
بلکہ یاد رکھا جاتا ہے ۔ مختلف واقعات کی نسبت ہی سے بعض راتیں شب قدر یا شب برات بنتی ہیں ۔کچھ ساعتیں سعید
روز عید بن جاتا ہے ۔اسی نسبت سے سال کا ایک مہینہ ”شھر ا مبارکا“قرار پاتا ہے اور مہینوں کی بعض اور کوئی دن ِ
تاریخیں تہواروں میں بدلتی ہیں اور ہفتے کے بعض دن ”ایام اللہ“ کا امتیاز پاتے ہیں ۔اسالم میں اس نسبت کا بڑا لحاظ رکھا
گیا ہے ۔جمعہ کا دن ماضی کے حوالے سے چند ایسے غیر معمولی واقعات سے نسبت رکھتا ہے کہ اسے مسلمانوں کی ”ہفتہ
وار عید“ بنادیا گیا ۔ما ِہ رمضان کو نزول قرآن کی نسبت سے ”نیکیوں کی فصل بہار“ قرار دیا گیا اور اسی طرح ” میالد
اصل بہاراں اور پیر شریف کے روز جاں افروز کو عید ِ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم“ کی نسبت نے ما ِہ ربیع االول کو ٰ
:عیداں بنا دیا
مصطفے ﷺ آئے بہار اندر بہار آئیٰ محمد
زمیں کو چومنے جنت کی خوشبو بار بار آئی
ربیع االول آتے ہی جہاں میں تازگی آئی
بہار سرمدی آئیِ گلستان تمنا میں
اصحاب نسبت چونکہ نسبتوں کا پاس رکھنے والے ہیں ۔ اس لیے ایام اللہ کی نسبت کا خیال رکھتے ہیں اور ِ اہل محبت اور
اظہار فرحت و تحدیث نعمت کا اہتمام کرتے ہیں ۔اسی جذبہ کے ِ
پیش ِ حصول نعمت کے ایام میں
ِ نزول رحمت کے اوقات اور
محافل نعت و میالد کا ِ نظر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم ما ِہ ربیع االول کی مبارک ساعتوں اور پر نور راتوں میں
:انتظام کرتے ہیں
وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
سرور عالم ﷺ کا میالد مناتے ہیں ِ جو
حضور اکرم صلی اللہ
ِ اہل ایمان ،فضل و رحمت کے نزول اور نعمتوں کے حصول پر اظہار فرحت و سرور پر مامور ہیں اور
علیہ و آلہ وسل ّم کی ذات تمام رحمتوں کا مصدر اور آپ کی والدت تمام نعمتوں کی اصل ہے ۔پھر جس طرح نزول قرآن کی
دور قرآن و ختم قرآن کےلئے ما ِہ رمضان مناسب تر ہے ۔ اسی طرح نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی نسبت سے ِ
ظہور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم پر اظہار فرحت و سرور ِ شان والدت ،جمال صورت اور کمال سیرت کے ذکر و بیاں اور ِ
کےلیے ما ِہ ربیع االول اور پیر شریف کا روزجان افروز ہی مناسب ہیں ۔ لیکن جس طرح تالوت کےلیے کوئی قید نہیں ۔ اسی
مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کا نام ہے جوٰ ذکر
ِ محفل میالد بھی کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ۔ کیونکہ یہ ِ طرح
زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہے۔
محافل میالد کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اہل اسالم کے خواص و عوام کا صدیوں سے معمول ہے کہ وہِ کے ایام میں ما ِہ ربیع االول
تعالی کی اس
ٰ کرتے ہیں تاکہ اللہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ہر جائز طریقے سے خوشی و مسرت کا اظہار کثرت سے
کریں جو اس نے حضور نبی اکرم فضل عظیم پر مسرت و خوشی کا اظہار
ِ کا پر چار کریں اور رحمت عمیم و عظمی
ٰ نعمت
شکل میں اہل ایمان کو دی ہے ۔ صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان کے پیروکار ،بعض دنیا دار نیکی کے مواقع پر بھی بدی کے پہلو نکالتے ہیں ۔
عیدیں اور نکاح کے موقع پر روز افزوں ترقی پذیر بے حیائی ،فحاشی اور عریانی اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔ بد قسمتی
سے اطوار زمانہ کے ساتھ ساتھ محافل میالد بھی ایسی خرافات کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ایسے مشاغل و معموالت کو
فروغ مل رہا ہے جو جشن میالد کے تقدس کے منافی اور شریعت مطہرہ کی روح سے متصادم ہیں ۔ مثال ً بعض عالقوں میں
جلوس میالد میں غیر شرعی وغیر اخالقی حرکات ڈھول ،باجے ،دھمال ،لڈی ،بھنگڑے جیسے قبیح افعال رواج پکڑ رہے
ہیں جس سے ایک طرف تو ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے تو دوسری طرف بعض شدت پسند لوگ فی نفسہ جشن
میالد و محافل میالد کو بدعت و حرام کہتے نظر آ رہے ہیں ۔ شارح مسلم عالمہ غالم رسول سعیدی علیہ الرحمہ اس دل
خراش اور افسوس ناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :بعض غیر معتدل لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں ہوا
وہوس کے تقاضے سے برائی کے راستے نکال لیتے ہیں ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میالد کے جلوس
کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا ۔ جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان
لڑکیاں اور عورتیں شرکاءجلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں ۔ (شاید ایصال ثواب کی نیت سے العیاذ باللہ) اوباش نوجوان
فحش حرکتیں کرتے ہیں ۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی
دھن پرناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے ۔مساجد کے آگے سے گزرتا ہے لیکن نماز کا کوئی اہتمام نہیں
ہوتا ۔ اس قسم کے جلوس میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے تقدس پر بد نما داغ ہیں ۔ ان کی اگر اصالح نہ ہو
امر مستحسن کے نام پر ان حرکات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی ِ سکے تو ان کو فورا ً بند کر دینا چاہیے ۔ کیونکہ ایک
اصل نہیں ۔ البتہ ان غیر شرعی جلوسوں کو دیکھ کر مطلقا ً عید میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے جلوس کو غیر
شرعی کہنا صحیح نہیں ہے اور جن شہروں اور جگہوں میں عید میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے جلوس اپنی شرعی
حدود و قیود کیساتھ نکلتے ہیں ان جلوسوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔ (شرح صحیح مسلم جلد 3صفحہ نمبر ،171چشتی)
اس طرح دیگر علماۓ کرام ہمیشہ سے عوام کو محافل میالد کے آداب سے آگاہ کرتے رہے اور قبائح و منکرات اور غیر
شرعی حرکات سے تنبیہہ فرماتے رہے اور محافل میالد و جلوس میالد کو درپیش آنے والی خرافات سے روکتے رہے ہیں ۔
اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی تصریحات کی روشنیٰ سطور ذیل میں مرجع العلماء
میں محافل میالد سے متعلقہ چند آداب اور توجہ طلب مسائل کو بیان کیاجاتا ہے ۔ محافل میالد کے منتظمین و حاضرین
ِ
شریعت اسالمیہ کی حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے ان محافل و مجالس کا اہتمام و انصرام کریں ۔ کےلیے الزم ہے کہ
محفل میالد
ِ تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے ما ِہ والدت کی برکات و ثمرات سے کما حقہ مستفیض ہو سکیں ۔
میں علماۓ اسالم چند حدود و قیود کے ساتھ مندرجہ ذیل امور کو مستحسن قرار دیتے ہیں ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :الزم ہے محفل میالد مبارک میں تالوت قرآن عظیم
ٰ
ہمیشہ سے معمول علماءکرام و بال ِد اسالم ہے ۔
فتاوی میں فرماتے ہیں :میالد شریف کی اصل لوگوں کا جمع ہونا ،قرآن
ٰ امام جالل الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اپنے
مجید کی تالوت کیا جانا اور ان آیات و احادیث و روایات کو بیان کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی شان میں
للفتاوی جلد 1صفحہ ،189چشتی)
ٰ وارد ہوئی ہیں ۔ (الحاوی
عالمہ شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :میالد شریف منانا کہ جس کو ہم نے مستحسن قرار دیا ہے اس میں قرآن مجید
کی تالوت اور کھانا کھالنے کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
تا ہم تالوت قرآن مجید کے دراون مندرجہ ذیل آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے :قرآن مجید کو خو ش الحانی سے پڑھنا
جس میں لہجہ خوش نما ،دلکش پسندیدہ ،دل آویز ،غافل دلوں پر اثر ڈالنے واال ہو ،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ
فتاوی رضویہ جلد 23صفحہ نمبر
ٰ قرآن مجید نہ پڑھے ،وہ ہم میں سے نہیں ۔ (ِ وسل ّم نے فرمایا :جو خوش الحانی سے
،300,366چشتی)
مدح خوانی
تعالی کے ساتھ ساتھ بوڑھے یا جوان مرد کا خوش الحانی سے نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین
ٰ محافل میالد میں حمد باری
ِ
کا نیت نیک سے سننا جائز ہے ۔بلکہ مستحب و مستحسن ہے ۔ بخاری شریف کی صحیح حدیث میں ہے ۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کےلیے منبر بچھواتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس
سناتے تھے ۔ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم سنتے تھے ۔ ان کے عالوہ دیگر صحابہ نے بھی بارگا ِہ رسالت
صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف حاصل کیا ہے ۔ تا ہم نعت خوانی کےلیے چند آداب کا
⬇ :خیال رکھنا ضروری ہے
آالت لہو و لعب سا نہیں ۔ بلکہ خوشی کے لمحات میں اس کا استعمال جائز ہے ۔مگر اس کےلیے چند ِ دف کا حکم عام
شرائط ہیں ۔ امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :اوقات مسرور میں دف جائز ہے ۔ بشرطیکہ اس میں جالجل
فتاوی رضویہ جلد 25صفحہ )37
ٰ یعنی جھانج نہ ہو ۔ نہ وہ موسیقی کے تان سر پر بجایا جائے ،ورنہ وہ بھی ممنوع ۔ (
علماۓ اسالم نے ذکر والی مروجہ نعت خوانی کو بھی ناجائز قرار دیا ہے ۔ اس لیے محافل میالد کو اس سے پاک کرنا
چاہیے ۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ کے عظیم علمی خانوادہ کے چشم و چراغ حضرت مفتی اختر رضا خان
بریلوی علیہ الرحمہ اس کے متعلق فرماتے ہیں :نعت میں ذکر کی آواز اس طرح سنائی دیتی ہے جیسے دف کے ساتھ ذکر
ہو رہا ہو اور ایسی آواز جو دف سے مشابہ ہو منہ سے نکالنا جائز نہیں کہ طریقہ فساق ہے اور ذکر و غیرہ میں شبہ
تعالی عزوجل کے نام مبارک کو بصورت مزامیر پیش کرنے میں نور اہانت بھی ہے ۔ اس لیے اس کا عدمٰ ناجائز ،نیز اللہ
فتوی بریلی شریف)
ٰ جواز شدید ترین ہے ۔ اگر چہ نیت خیر ہو ۔ (
گستاخی و توہین اور مبالغہ آرائی پر مشتمل کالم سے احتراز
محافل میں اس طرح کے اشعار پڑھنا ” نیکی برباد گناہ الزم“ کے مترادف ہے ۔ بلکہ نعت کی نیت سے ایسے اشعار پڑھنا
ِ
زبان زد عام ہو گئے
ِ حرام اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔ آج کل اس قسم کے اشعار عام ملتے ہیں جو جہالت کی وجہ سے
ہیں ۔
آج کل کی اکثر محافل نعت تماشا گاہوں کا منظر پیش کرتی ہیں ۔جہاں یہ تالوت اور حمد و نعت کا احترام نہیں کیا جاتا ۔
الہی ،نعت خوانی ہو رہی ہے ،دوسری طرف لوگ آداب کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ ایک طرف قرآن مجید کی تالوت ،حمد ٰ
اپنے شغل میں مصروف ہیں ۔ کوئی گپ شب کر رہا ہے ،کوئی بلند آواز سے قہقے لگا رہا ہے ،کسی نے سگریٹ سلگا
رکھی ہے جبکہ ایک طرف خرید و فروخت کا بازار کھال ہوا ہے جبکہ اسٹیج پر نعت خوان کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے
جیسے کوئی فنکار فلمی ایکٹنگ کا مظاہرہ کر رہا ہے یا کوئی مداری اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے ۔ ایسی تماشا گاہوں
میں حاضرین کی اکثر تعداد بے وضو ہوتی ہے ۔ بہر حال اکثرمحافل میں بعض لوگ خلوص دل و جذبہ محبت سے نعت
ِ
صورت حال پڑھنے والے اور سننے والے بھی ہوتے ہیں ۔نعت خوانی کو ناجائز و ممنوع تو نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن یہ
محافل میالد کی صورت کے خالف ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے :جہاں سبھی لوگ لہو و لعب میں مشغول ہوں اور تالوت و نعت کوئی نہ سنے ،وہاں تالوت حرام
ٰ
فتاوی رضویہ
ٰ اور نعت خوانی ممنوع ہے اور اگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو تو جہ سے سنیں گے تو ممانعت نہیں ۔ (
جلد 23صفحہ ،405چشتی)
محافل میالد کا انتظام اس اہتمام کے ساتھ ہونا چاہیے جہاں بے ادبی کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو ۔
ِ
مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی والدت باسعادت ،رضاعت ،بچپن ،
ٰ صحیح روایات کی روشنی میں حضرت محمد
جوانی ،بعثت و ہجرت وغیرہ کے حاالت ،حلیہ شریف ،معجزانہ کماالت اور فضائل و خصائل کا بیان مستحب ومستحسن ہے
۔ میالد خوان کا با وضو ،با ادب ،با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے ۔ مزید برآں میالد شریف صحیح روایت
کی روشنی میں پڑھا جائے ۔
امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ سے ایک سوال دریافت کیا گیا ۔ جو شخص شریعت مطہرہ کا مخالف ،مثال ً تارک
الصلو ة ،شارب خمر ،داڑھی منڈانے یا کترانے واال ،بے وضو موضوع روایات کے ساتھ میالد پڑھتا ہو ۔ بلکہ مسائل شریعت ٰ
اور داڑھی وغیرہ کا استہزا ا ُڑاتا ہو ۔ ایسے شخص کا چوکی (اسٹیج ) پر بیٹھ کر میالد پڑھنا یا بانی محفل و مجلس و
تعالی و
ٰ حاضرین و سامعین کا ایسے شخص کو خوش آواز ی کی وجہ سے چوکی پر بٹھانا کیسا ہے ؟ ایسے آدمی سے اللہ
تعالی ایسی مجالس پر رحمت نازل فرماتا ہے یا غضب ٰ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم خوش ہوتے ہیں یا ناخوش اور خدائے
؟ بانیان و حاضرین محفل رحمت کے مستحق ہیں یا غضب کے ؟
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا :مذکورہ باال افعال ٰ اس سوال کے جواب میں
الہی کا سزا وار ہے ۔ خوش آواز ی یا کسی نفسیاتی خواہش کی وجہ ٰ غضب گناہگار و فاسق مرتکب سخت کبائر ہیں ۔ ان کا
حضور
ِ تعالی عزوجل اور
ٰ اللہ سے مجالس ۔ایسی ہے حرام پڑھوانا مبارک مجلس کر بٹھا ً ا تعظیم پر مسند سے اسے منبر و
اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کمال ناراض ہیں ۔ (تمام حاضرین و سامعین) وبال شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں ۔ ان
فتاوی رضویہ جلد 23صفحہ ٰ حاضرین و میالد خوان سبھی کا گناہ بانی محفل پر ہے ۔ اس کا اپنا گناہ ان پر مزید ہے ۔ (
)733
فرض ہے کہ وہ ایسی محافل کےلیے خوش آواز ، بانیان محفل کا
ِ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ کی ان تصریحات کے مطابق
ٰ
خوان اور اہل علم میں سے با عمل ،با کردار ، محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم نعت
ِ خوش اخالق قاری ،سچے
آوازی سے محظوظ ہونے کا شوق پورا کرنا اُخروی صحیح العقیدہ میالد خواں (مقرر و خطیب) کا چناﺅ کریں ۔ ورنہ خوش
سے چند چیزیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ تمام حاضرین خسارے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ وعظ کی اہمیت اور دیگر آداب میں
ادب و خاموشی کے ساتھ اسے سنتے رہیں ۔
دوران وعظ شور و غوغا کرنا ،مذہبی توہین اور عادت کفار ہے ۔ اس لیے مسند وعظ در حقیقت مسن ِد رسول صلی اللہ علیہ
دین اسالم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کا ادب اور اُن کی توہین
ِ ادب
ِ لہذا وعظ کہنے والے کا
و آلہ وسل ّم ہے ۔ ٰ
حرکت کرنا اور بال ضرورت شرعی آہستہ بات کرنا بھی گستاخی و بے ادبی ہے ہے ۔ شور و غوغا تو درکنار وعظ میں بے جا
کار خیر کرنے کےلئے کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا لوگوں کو وعظ و غیرہ ِ ۔ واعظ کو تعظیما ً منبر پر بٹھانا اور ہر طر ح
فتاوی رضویہ جلد )24
ٰ (اور موجودہ دور میں اعالنات کرنا وغیرہ) جائز ہے ۔ ( نقارہ یادف بجانا
جلوس میالد وغیرہ میں ڈھول باجے وغیرہ لے جانا جائز نہیں اور جن محافل میں ایسے آالت لہو و لعب کا ِ محافل میالد اور
ِ
محافل میالد (عرس ،گیارہویں وغیرہ) کا نام ہی کیوں نہ دیا جاتا ہو ۔
ِ انہیں ۔خواہ نہیں جائز جانا میں استعمال ہو ،ان
جس شخص کی نسبت معروف و مشہور ہو کہ معاذ اللہ وہ حرام کار ہے ،اس سے میالد شریف پڑھوانا ،اسے اسٹیج پر
معنی تہمت نہ ہو کیونکہ آج کل اکثر ناخداترس محض
ٰ بٹھانا منع ہے ۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ شہرت صحیح ہو ،جھوٹی بے
فتاوی رضویہ جلد 23صفحہ )737
ٰ ( ۔ ہیں دیتے لگا تہمت جھوٹے وہم کی وجہ سے مسلمان پر
محافل میالد
ِ خواتین کی
محافل میالد میں شرکت دوطر ح کی ہوتی ہے ۔ ایک یہ کہ ایک ہی محفل میالد میں خواتین کےلیے پردے کاِ عورتوں کی
علیحدہ انتظام ہوتا ہے ۔ ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کےلیے ہوتی ہیں ۔ تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلقٰ شرکت کا موقع دیا جاتا ہے ۔
⬇ :دریافت کیا گیا توآپ نے جوابا ً ارشاد فرمایا
1 ۔ واعظ یا میالد خوان اگر عالم سنی صحیح العقیدہ ہو ۔ 2۔ اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو ۔ 3۔ جانے
میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو ۔ 4۔ کوئی احتمال فتنہ نہ ہو ۔ 5۔ مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج
فتاوی رضویہ جلد نمبر 22صفحہ نمبر ،239چشتی)
ٰ نہیں ۔ (
محافل میالد میں شرکت کےلیے مذکورہ باال شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں
ِ یعنی ایسی
ِ
اختالط مردوزن اور بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔ خواہ وہ محافل میالد ہو یا اس قسم کی دیگر جانے کی اجازت نہیں ۔ جہاں
محافل عرس و گیارہویں شریف ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر ٰ
گھر میں میالد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سنائی دیتی ہے ۔ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے
فتاوی رضویہ)
ٰ محل فتنہ ہے ۔ (
ِ کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے
ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا :عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نا
محرم سنیں ،باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔
ِ
مجلس ۔فتاوی رضویہ میں ہے :
ٰ ِ
منکرات شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے ِ
مجلس میالد اور جب
میالد مبارک اعظم مندوبات سے ہے جبکہ بروجہ صحیح ہو ۔ (جلد 23صفحہ )560
اور ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روکنا در حقیقت نہی عن المعروف یعنی اچھے کاموں سے روکنے کے زمرے میں آتا
مجلس میالد جو منکرات شرعیہ سے خالی ہو ،اس سے روکنا ذکر خدا سے روکنا ِ فتاوی رضویہ میں ہے :
ٰ ہے ۔ چنانچہ
ہے ۔ ایسا شخص اگر کسی صحیح اور قابل قبول عذر سے روکے تو حرج نہیں ۔ مثال ً ماں یا باپ بیمار ہیں ،بیٹے کو ان
لہذا یہ بچے کو روک سکتا ہے ۔ محفل میالد میں چال جائے تو یہ تکلیف میں رہیں گے ۔ ٰ ِ کی تیمارداری کرنا ہے ۔ اگر وہ
۔بضرورت شرعیہ (کسی شرعی ضرورت کی وجہ ِ یونہی آقا اپنے مالزم کو کام کی غرض سے روک سکتا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے
ِ
منکرات شرعیہ سے پاک محافل میالد
ِ سے) مستحب کام سے کسی اور اہم کام کےلیے روکے تو الزام نہیں ۔ المختصر اگر
ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان
میں امور مکروھہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسران اور ان میں شرکت باعث ہالکت ہو تی ہے ۔ مولوی عبد الحی نے کتاب
النصیحہ سے نقل کیا ہے کہ ایک نعت خوان حقہ پیتا تھا ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسل ّم فرماتے ہیں جب تم میالد شریف پڑھتے ہو تو ہم مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں مگر جب حقہ آتا ہے تو ہم فورا ً
مجلس سے چلے جاتے ہیں ۔ (جشن میالد اور اسالم صفحہ )111
علمائے دین کا عوام الناس کو ایسی محافل میں غیر شرعی افعال کے ارتکاب سے نہ روکنا گویا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسل ّم کی ناراضگی پر راضی رہنا ہے ۔ (نعوذ باللہ)
متقدمین علماۓ اسالم اپنے اپنے زمانے میں یہی فریضہ سر انجام دیتے چلے آئے ہیں ۔ ہاں اگر علماء کے سمجھانے کے
باوجود وہ ایسی خرافات سے باز نہ آئیں تو لوگوں کو ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روک دیں ۔ (جشن میالد اور اسالم
صفحہ )80-79
اور اس موقع (میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا
گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ ،خرافات واہیہ سے پاک ہوں ۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس
کےلیے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے کہ :اگر کوئی مجلس فی نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کیے
ٰ
سماع مجروہ (بغیر
ِ جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حاالت کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں ۔ مثال ً
مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلیے فتنہ کا باعث بنیں
جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات
اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں
بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے
فتاوی رضویہ جلد 24صفحہ ،148-147چشتی) ٰ تام (کامل اور مفید تر) ہو گی ۔ (
المختصر علماٸے اسالم پر الزم ہے کہ وہ لوگوں کو اس مجلس میں درپیش آنے والے تمام قبائح و منکرات سے آگاہ کریں اور
خالف شرع امور کا ارتکاب ہو وہاں جانے سے روکیں ۔ ما ِہ ربیع االول دنیا میں رونما ہونے والے سب سے بڑے انقالب ِ جہاں
کی یاد تازہ کرتا ہے اور ہمارے لیے پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ جب تمہارے ان ناپختہ افکار اور ناگفتہ بہ اطوار میں انقالب پیدا
نہیں ہوتا تو تم اپنی عظمت رفتہ کا سراغ نہیں پا سکتے ۔ ہماری یہ محافل میالد انقالب کی داعی ہوتی ہیں اور مردہ
ہمتوں میں انقالبی روح بیدار کرتی ہیں ۔ ان محافل کی برکات و ثمرات سے مستفیض ہونا وقت کا تقاضا ہے ۔ ان محافل
خوانان عظام ہوں ،علمائے کرام ہوں یا عوام اسالم ،ہر ایک ِ سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کو خواہ قراء کرام ہوں ۔ نعت
محافل میالد النبی صلی اللہ
ِ تعالی ہمیں ادب و احترام سےٰ اللہ کو اس انقالبی عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
علیہ و آلہ وسل ّم سجانے اور ان سے برکات حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین
مولود خواں اکثر من گھڑت اور بے سروپا قصے بیان کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا حاالنکہ اس معاملہ)(۱
میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے حضور ا نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بوال وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا
لے۔
اس عمل کیلئے اتنا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ضروریات دین کے لیے بھی اتنا اہتمام نہیں ہوتا ،اور اس میں ناجائز اسراف )(۲
اور فضول خرچی کرتے ہیں اور فضول خرچی کرنے والوں کو قرٓان پاک نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔
نیز والدت کا دن متعین کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں اس کے عالوہ اور کسی دن میں اس کو نہیں کرتے ،اور اپنی )(۳
طرف سے اس تقیید اور تعیین کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز ان امور پر اصرار کرتے ہیں اور نہ کرنے والوں کو مالمت کا
نشانہ بناتے ہیں گویا اس کو فرض و واجب کا درجہ دیا گیا ہے جو کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں۔
سال میں ایک دن یہ تقریبات منعقد کر کے باقی پورا سال غافل رہنا رسمی تعلق کی نمائش ہے ،ہونا تو یہ چاہیے کہ )(۴
ِ
ذات بابرکات کا ذکر مبارک ہو اور ٓاپ ا سال میںہر مہینہ اور مہینہ میں ہر ہفتہ اور ہفتہ میں ہر دن سرکار دو عالم ا کی
کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر مکمل اسالمی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔
عورتوں کا بلند ٓاواز سے الٔوڈ اسپیکر پر لہک لہک کر میالد پڑھنا اور نامحرم مردوںتک ان کی ٓاواز جانا جائز نہیں کیونکہ )(۵
شرعی ضرورت کے بغیر عورتوں کو اپنی ٓاواز غیر محرموں کو سنانا منع ہے۔
تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین) ،اس کی اوالد اور تمام لوگوں ’’
‘‘ سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔
:جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ مروی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں ،اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب’’
‘‘ تر نہ ہو جاؤں۔
خوشیاں منا کر ہم اپنے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی الزوال تعلق حبی کا میالد النبی کی
جو تقاضائے ایمان ہے۔ ماہ میالد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل ،خصائص و اظہارکرتے ہیں
شان علم و معرفت ،شان ورفعنا لک ذکرک اور دیگر اوصاف و کماالت کا
ِ طہارت ،نورانی والدت ،بعثت و رسالت، خصائل ،نسبی
تعلق حبی اورعشقی کو مزید مضبوط اورمستحکم کرتا
ِ ہے ،یہ تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کے تذکرہ کیا جاتا
ہے۔
میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن خوشیاں منانے والے عشاق در حقیقت محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
سرشار وہ امتی ہیں جن کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث میں ہوا ہے :آپ صلی اللہ علیہ
:وآلہ وسلم نے فرمایا
اس یَک ُْون ُ ْو َن بَ ْع ِدي ،یَ َو ُّد َأ َح ُد ُه ْم ل َْو َرآ ِنيِ ،بَأ ْهلِ ِه َو َمالِ ِه ُأ ِ َأ
.م ْن َش ِّد ّ َم ِتي لِي ُحبًّا ،ن َ ٌ
میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی’’
‘‘ تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔
یہ وہ خوش نصیب ہیں جن کو آقا علیہ السالم نے سات مرتبہ خوشخبری دی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ات لِ َم ْن ل َْم یَ َر ِني َو َ
آم َن بِي .ط ْوبَی ِل َم ْن َرآ ِني َو َ
آم َن بِي َو ُط ْوبَی َسبْ َع َم ّ َر ٍ ُ
خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان الیا اور سات بار خوشخبری اور مبارک ’’
‘‘ باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان الیا۔
ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی تعلق ِ جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے سے
پیدا ہوتا ہے اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی۔ ان دونوں صورتوں سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا داعیہ بیدار ہوتاہے۔ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یو ِم والدت منا کر ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔
.یٰٓـا َیُّ َها ال َّ ِذی ْ َن ا ٰ َمن ُ ْوٓا ا َِطیْ ُعوا اﷲَ َوا َِطیْ ُعوا َّ
الر ُس ْو َل
‘‘ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔’’
)النساء(59 :4 ،
تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ :ارشاد فرمایا
ٰ :دوسرے مقام پر اللہ
)النساء(80 :4 ،
آپ فرما دیں :اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے )!اے حبیب(’’
‘‘ گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔
احادیث مبارکہ میں بھی اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ حضرت جابر بن
:عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے
تعالی کی اطاعت کی اور جس نے ’’ ٰ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی (درحقیقت) اس نے اللہ
تعالی کی نافرمانی کی ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے
ٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی ،اس نے اللہ
‘‘ اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔
صحابہ کرام نے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مثالیں قائم کیں کہ تاریخ عالم میں جس کی نظیر نہیں
اتباع رسول
ِ ملتی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود کا بیان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبہ اطاعت و
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ عکاسی کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے الصحیح کی کتاب الشروط ( ،974 :2رقم:
)581میں روایت کیا ہے۔
جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل اور اجتماعات سے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
درس ملتا ہے۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میالد خوب دھوم دھام سے منائیں مگر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ
دعوی کہالئے گا۔ اس دعوی میں حقیقت کا
ٰ دعوی محبت خالی
ٰ کی اطاعت و اتباع کے حکم سے پہلو تہی کریں تو ہمارا
رنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل اور سنت کی اتباع کی جائے۔
ک ُه ُم ال ُْم ْفلِ ُ
ح ْو َن ع ِن ال ُْمنْک َِر َواُو ٓل ِٰئ َ ع ْو َن اِل َی ال َْخیْ ِر َویَا ُْم ُر ْو َن بِال َْم ْع ُر ْو ِ
ف َویَن ْ َه ْو َن َ oولْتَک ُْن ِّمنْک ُْم ا ُ ّ َم ٌة ی ّ َ ْد ُ
َ
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بالئیں اور بھالئی کا حکم ’’
‘‘ دیں اور برائی سے روکیں ،اور وہی لوگ بامراد ہیں۔
دور فتن میں دعوت حق کا فریضہ سر انجام دینے والوں کا درجہ بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
:نے فرمایا
ع ِن ال ُْمنْک َِرَ ،ویُقَا ِتل ُْو َن َأ ْه َل ال ْ ِفتَ ِن آخ ِر َه ِذ ِه الُْٔا ّ َم ِة ق َْو ٌم ل َُه ْم ِمث ُْل َأ ْج ِر َأ ّ َولِ ِه ْم ،یَْأ ُم ُر ْو َن بِال َْم ْع ُر ْو ِ
ف َویَن ْ َه ْو َن َ ِ.إ ن ّ َُه َسیَک ُْو ُن ِفي ِ
بے شک اس امت کے آخر (دور) میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لئے اجر اس امت کے اولین (دور کے لوگوں) کے ’’
‘‘ برابر ہو گا ،وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوں سے جہاد کریں گے۔
‘‘ جو چھوٹوں پر مہربانی نہیں کرتا اور بڑوں کا حق نہیں پہچانتا ،وہ ہم میں سے نہیں۔’’
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت زیادہ پیار فرماتے تھے۔ ان کو سالم میں پہل کرتے،ان کے سر پر
دست شفقت پھیرتے،ان پر لطف و احسان اور مہربانی فرماتے ،انہیں کبھی ڈانٹ نہ پالتے،انہیں شریک دسترخوان کرتے اور کھانا
کھانے کے دوران ان کی کسی غلطی پر سرزنش فرمانے کے بجائے انتہائی نرمی اور پیار سے آداب طعام سکھا دیتے۔ شیرخوار
بچوں کو الیا جاتا تو ان کو اپنے دست اقدس سے گھٹی دیتے اور برکت کی دعا فرماتے۔ ان کی اچھی باتوں کو سراہتے تاکہ
ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔
اپنے نواسوں حسنین کریمین علیہما السالم سے کمال درجہ محبت فرماتے ،انہیں چومتے ،اپنے کندھوں پر سوار کرتے۔ حضرت
امام حسین علیہ السالم کی تسکین خاطر کے لیے انہیں اپنی زبان اقدس چوساتے۔ زینب بنت سلمہ کے ساتھ کھیلتے اور انہیں
یا زوینب یا زوینب (اے چھوٹی سی زینب ،اے چھوٹی سی زینب) کہہ کر مخاطب فرماتے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایام طفلی ہی سے دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں
رہے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور لطف ومہربانی کا یہ عالم تھا کہ ان دس سالوں میں کبھی
انہیں ڈانٹ تک نہیں پالئی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا چھوٹا بھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتا تو
اس سے مزاح فرماتے یا اباعمیر ما فعل النغیر (اے ابو عمیر نغیر (پرندہ جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا ) کیسا ہے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے تو ان کے بچوں کو سالم فرماتے اور ان کے سروں پر دست
شفقت پھیرتے۔
ِ
دعوت اسالم قبول کرنے والے اولین بچے تھے جو جوان ہو کر حیدرکرار اور خیبر شکن المرتضی رضی اللہ عنہ
ٰ حضرت علی
بنے۔ یہ آغوش نبوت کی تربیت کا اثر تھا جس نے انہیں ایک عظیم انسان بنا دیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بچوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم اور محبت کا
درس دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و مہربانی سے ان بچوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ تعلق حبی کو مزید تقویت ملتی تھی اور براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت نے ان میں نہایت اعلی
اخالق کو جنم دیا تھا۔
دور حاضر میں بچوں کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شناسا کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ حضور
:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
اپنی اوالد کو تین چیزوں کی خصلتیں سکھأو،اپنے نبی کی محبت ،نبی کے اہل بیت کی محبت اور کثرت کے ساتھ تالوت ’’
‘‘ قرآن۔
وآلہ وسلم ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے والدین اپنے بچوں کو محبت رسول صلی اللہ جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ
ہیں۔ بچے والدین کے ساتھ شوق سے محافل میالد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ والدین کی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دے سکتے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ورثہ کو جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے ذمہ داری ہے کہ وہ محبت رسول
بچوں کو میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کریں۔ انہیں اگلی نسلوں میں منتقل کریں۔ اپنے
وسلم کی شخصیت کے ان پہلووں کا ذکر کریں جو بچوں سے متعلق ہے۔ اس طرح ان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق حبی مضبوط سے مضبوط تر ہو گا۔
:شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس پہلو کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں
فی زمانہ اوالد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سکھانے کا اس سے مٔوثر اور نتیجہ خیز طریقہ اور کوئی نہیں’’
کہ جب وہ شعور و آگہی کی عمر کو پہنچیں تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میالد منانے کی ترغیب دی جائے۔
زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کیا جائے جن میں تذکار سیرت و رسالت ہوں ،نعتیں پڑھی جائیں اور ایک خاص اہتمام
کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی مجالس بپا کی جائیںتاکہ اوائل عمری ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
‘‘ وسلم کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پختہ تر ہوتی چلی جائے۔
اگر بچوں کی اس نہج پر تربیت کی جائے گی تو ان شاء اللہ وہ ایک بہترین انسان اور بااخالق و باکردار مسلمان کی حیثیت
سے معاشرے کا بہترین فرد بن کر سامنے آئیں گے۔
اسی طرح عرب کے ماحول اور اسالمی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنے کے لیے اس دن پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختلف
قسم کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اور تالوت و نعت کی ریکارڈنگ چالئی جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان اس کام کو بڑی دلچسپی
اور ذوق و شوق کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ان امور میں کوئی غیر شرعی عمل شامل نہ کیا جائے تو یہ بچوں اور
نوجوانوں تک اسالمی ثقافت کو پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
!لمحہ فکریہ
انتہائی دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے کچھ نوجوان جشن میالد کے دن کے تقدس کو انجانے میں پامال کرنے کی
جسارت کرتے ہیں اور اس دن ریکارڈنگ چال کر ناچنا کودنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک غیر شرعی اور قابل مذمت فعل ہے۔
اہل اسالم کا کوئی مسلک اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چونکہ نیکی اور بدی کی جنگ کا سلسلہ ازل سے جاری ہے ،شیطان اور
لہذا اس موقع پر بھی شیطان اپنے حربے استعمال کرتا ہے اور
اس کے چیلے انسان کو نیکی سے روکنے کے درپے رہتے ہیںٰ ،
بعض نوجوانوں کو ورغال کر رقص و سرود میں مبتال کر دیتا ہے۔ یہ نوجوان ابلیس لعین کا آلہ کار بن کر اس دن کے تقدس
اور احترام کا خیال نہ کرتے ہوئے لغویات میں مبتال ہو جاتے ہیں اور بجائے حصول ثواب کے عذاب کی لعنت مول لے لیتے
ہیں۔ یہ نوجوان اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو شیطان کے چنگل سے چھڑا کر
راہ راست پر گامزن کرنا داعیان اسالم کی ذمہ داری ہے۔ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں ان چیزوں کی
مذمت کریں اور انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ نوجوانوں کو اس طرح کی غیر شرعی حرکات سے باز رکھیں اور قانون کی
عملداری کو یقینی بنائیں۔
بعض نادان حلقے ان فضول حرکتوں کو دیکھ کر جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے
ہیں جو سراسر ناانصافی اور جہالت ہے۔ چند لوگوں کی خرابی کی وجہ سے کوئی عمل برا نہیں ہو سکتا۔ وہ عمل اپنی جگہ
:پر نیک ہے اور نیک ہی رہے گا۔ آخر پہ موالنا تھانوی کی ایک عبارت مالحظہ فرمائیں
میالد النبی صلی اللہ علیہ وسل ّم مستحب عمل ہے اس میں شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیے نہ کہ مستحب عمل کو"۔"
ِ
مجالس حکیم االمت ،مطبوعہ داراالشاعت اردو بازار کراچی ،صفحہ نمبر (160 )
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ :حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا پہلے یہ ذوق تھاکہ بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے محفل میالد
منعقد کرنے کی گنجائش ہے ،لیکن بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اور محفل میالد منعقد کرنے کومطلقا ً ممنوع
قرار دیا ،حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خطبات "خطبات حکیم االمت" ( 78 /1ط :ادارہ تالیفات اشرفیہ) میں حضرت رحمہ
اللہ کا ایک خطبہ شامل ہے ،جس میں انہوں نے مروجہ میالد کو قرآن ،حدیث ،اجماع اور قیاس سے رد فرمایا ہے،آپ نے
اس طویل عبارت کےابتدائی حصہ کو اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے ،مذکورہ عبارت کے شروع میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ
اپنے ابتدائی زمانے کا مسلک بیان فرمارہے ہیں ،لہذا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ میالد کی محفل
منعقد کرنے کے قائل تھے۔
باقی رہی بات نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک کرنا ،چاہے وہ آپ ﷺکی والدت باسعادت کا تذکرہ ہو ،آپ ﷺ کے لباس و
پوشاک وغیرہ کو یاد کرناہو یا آپ ﷺ کی نشست و برخاست ،چلنا پھرنا ،کھانا پینا اور دیگر احوال بیان کرناہو موجب رحمت
اور باعث برکت ہے ،اس میں کسی مسلمان کے لیے ذرا سا شبہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں ،لیکن مروجہ میالد اس
مخصوص صورت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین اور تبع تابعین کے دور میں موجود نہیں تھا اور نہ ہی
کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے،بلکہ یہ رسم کئی مفاسد پر مشتمل ہے ،اس مجلس کے انعقاد اور اس میں شرکت کو الزم
سمجھا جاتا ہے ،اگر کوئی شخص شریک نہ ہو تو اسے لعن طع کیا جاتا ہے ،مخصوص تاریخ میں میالد کے انعقاد کا اہتمام
کیا جاتا ہے ،اس محفل میں قیام کرنا ایک ضروری امر ہے جس میں یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہماری اس
مجلس میں شریک ہیں ،ان مجالس میں عموماموضوع روایات بیان کی جاتی ہیں ،رات دیر تک محفل رہتی ہے جس کی وجہ
سے فجر کی نماز متاثر ہوتی ہے اور اہل محلہ بھی پریشان ہوتے ہیں ،ان مجلسوں کے منعقد کرنے میں بے حد اسراف اور
فضول خرچی کی جاتی ہے ،ان خرابیوں کی بنا پر مروجہ طریقے سے میالد منانا شرعا درست نہیں ،اس سے بچنا ضروری
ہے۔