You are on page 1of 11

‫آداب محافل مع خرافات کی اِصالح‬

‫ِ‬ ‫باب اول ‪-‬‬

‫محافل میالد‬
‫ِ‬ ‫آداب‬
‫ِ‬ ‫فصل اول‪:‬‬
‫تعالی کے فضل و کرم سے اللہ عزوجل کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی والدت کا مہینہ ماہ ربیع االول کا‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫چاند نوید مسرت اور پیا ِم محبت بن کر چمکتا ہے ۔ اس کے طلوع ہوتے ہی اہل ایمان کے قلوب و اذہان فرحت و انبساط‬
‫جوش محبت سے بھر پور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ ما ِہ ذی شان ہے جس کی مبارک ساعتوں کو‬ ‫ِ‬ ‫سے معمور اور‬
‫مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے ورو ِد مسعود کےلیے‬ ‫ٰ‬ ‫محمد‬ ‫حضرت‬ ‫جہاں‬ ‫دو‬ ‫رب‬ ‫محبوب‬
‫ِ‬ ‫جان‬ ‫و‬ ‫دل‬ ‫‪،‬قرار‬ ‫جان ایمان‬‫ِ‬
‫‪:‬منتخب کیا گیا‬
‫جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‬
‫اس دل افروز ساعت پہ الکھوں سالم‬
‫اوقات کو واقعات سے بڑی نسبت ہوتی ہے ۔بعض لمحات گزر کر پردہ ¿ نسیان میں چھپ جاتے ہیں ۔لیکن کچھ ساعات کو‬
‫ایسے عظیم واقعات سے نسبت ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے وہ ساعتیں منبع برکات بن جاتی ہیں ۔انہیں بھال یا نہیں جاتا‬
‫بلکہ یاد رکھا جاتا ہے ۔ مختلف واقعات کی نسبت ہی سے بعض راتیں شب قدر یا شب برات بنتی ہیں ۔کچھ ساعتیں سعید‬
‫روز عید بن جاتا ہے ۔اسی نسبت سے سال کا ایک مہینہ ”شھر ا مبارکا“قرار پاتا ہے اور مہینوں کی بعض‬ ‫اور کوئی دن ِ‬
‫تاریخیں تہواروں میں بدلتی ہیں اور ہفتے کے بعض دن ”ایام اللہ“ کا امتیاز پاتے ہیں ۔اسالم میں اس نسبت کا بڑا لحاظ رکھا‬
‫گیا ہے ۔جمعہ کا دن ماضی کے حوالے سے چند ایسے غیر معمولی واقعات سے نسبت رکھتا ہے کہ اسے مسلمانوں کی ”ہفتہ‬
‫وار عید“ بنادیا گیا ۔ما ِہ رمضان کو نزول قرآن کی نسبت سے ”نیکیوں کی فصل بہار“ قرار دیا گیا اور اسی طرح ” میالد‬
‫اصل بہاراں اور پیر شریف کے روز جاں افروز کو عید‬ ‫ِ‬ ‫مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم“ کی نسبت نے ما ِہ ربیع االول کو‬ ‫ٰ‬
‫‪:‬عیداں بنا دیا‬
‫مصطفے ﷺ آئے بہار اندر بہار آئی‬‫ٰ‬ ‫محمد‬
‫زمیں کو چومنے جنت کی خوشبو بار بار آئی‬
‫ربیع االول آتے ہی جہاں میں تازگی آئی‬
‫بہار سرمدی آئی‬‫ِ‬ ‫گلستان تمنا میں‬
‫اصحاب نسبت چونکہ نسبتوں کا پاس رکھنے والے ہیں ۔ اس لیے ایام اللہ کی نسبت کا خیال رکھتے ہیں اور‬ ‫ِ‬ ‫اہل محبت اور‬
‫اظہار فرحت و تحدیث نعمت کا اہتمام کرتے ہیں ۔اسی جذبہ کے ِ‬
‫پیش‬ ‫ِ‬ ‫حصول نعمت کے ایام میں‬
‫ِ‬ ‫نزول رحمت کے اوقات اور‬
‫محافل نعت و میالد کا‬ ‫ِ‬ ‫نظر عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم ما ِہ ربیع االول کی مبارک ساعتوں اور پر نور راتوں میں‬
‫‪:‬انتظام کرتے ہیں‬
‫وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں‬
‫سرور عالم ﷺ کا میالد مناتے ہیں‬ ‫ِ‬ ‫جو‬
‫حضور اکرم صلی اللہ‬
‫ِ‬ ‫اہل ایمان ‪ ،‬فضل و رحمت کے نزول اور نعمتوں کے حصول پر اظہار فرحت و سرور پر مامور ہیں اور‬
‫علیہ و آلہ وسل ّم کی ذات تمام رحمتوں کا مصدر اور آپ کی والدت تمام نعمتوں کی اصل ہے ۔پھر جس طرح نزول قرآن کی‬
‫دور قرآن و ختم قرآن کےلئے ما ِہ رمضان مناسب تر ہے ۔ اسی طرح نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی‬ ‫نسبت سے ِ‬
‫ظہور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم پر اظہار فرحت و سرور‬ ‫ِ‬ ‫شان والدت‪ ،‬جمال صورت اور کمال سیرت کے ذکر و بیاں اور‬ ‫ِ‬
‫کےلیے ما ِہ ربیع االول اور پیر شریف کا روزجان افروز ہی مناسب ہیں ۔ لیکن جس طرح تالوت کےلیے کوئی قید نہیں ۔ اسی‬
‫مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کا نام ہے جو‬‫ٰ‬ ‫ذکر‬
‫ِ‬ ‫محفل میالد بھی کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ۔ کیونکہ یہ‬ ‫ِ‬ ‫طرح‬
‫زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہے۔‬

‫محافل میالد کا اہتمام کرتے ہیں ۔‬ ‫اہل اسالم کے خواص و عوام کا صدیوں سے معمول ہے کہ وہ‬‫ِ‬ ‫کے ایام میں‬ ‫ما ِہ ربیع االول‬
‫تعالی کی اس‬
‫ٰ‬ ‫کرتے ہیں تاکہ اللہ‬ ‫صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ہر جائز طریقے سے خوشی و مسرت کا اظہار‬ ‫کثرت سے‬
‫کریں جو اس نے حضور نبی اکرم‬ ‫فضل عظیم پر مسرت و خوشی کا اظہار‬
‫ِ‬ ‫کا پر چار کریں اور رحمت عمیم و‬ ‫عظمی‬
‫ٰ‬ ‫نعمت‬
‫شکل میں اہل ایمان کو دی ہے ۔‬ ‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی‬

‫مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان کے پیروکار ‪ ،‬بعض دنیا دار نیکی کے مواقع پر بھی بدی کے پہلو نکالتے ہیں ۔‬
‫عیدیں اور نکاح کے موقع پر روز افزوں ترقی پذیر بے حیائی ‪ ،‬فحاشی اور عریانی اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔ بد قسمتی‬
‫سے اطوار زمانہ کے ساتھ ساتھ محافل میالد بھی ایسی خرافات کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ایسے مشاغل و معموالت کو‬
‫فروغ مل رہا ہے جو جشن میالد کے تقدس کے منافی اور شریعت مطہرہ کی روح سے متصادم ہیں ۔ مثال ً بعض عالقوں میں‬
‫جلوس میالد میں غیر شرعی وغیر اخالقی حرکات ڈھول ‪ ،‬باجے ‪ ،‬دھمال ‪ ،‬لڈی ‪ ،‬بھنگڑے جیسے قبیح افعال رواج پکڑ رہے‬
‫ہیں جس سے ایک طرف تو ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے تو دوسری طرف بعض شدت پسند لوگ فی نفسہ جشن‬
‫میالد و محافل میالد کو بدعت و حرام کہتے نظر آ رہے ہیں ۔ شارح مسلم عالمہ غالم رسول سعیدی علیہ الرحمہ اس دل‬
‫خراش اور افسوس ناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ‪ :‬بعض غیر معتدل لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں ہوا‬
‫وہوس کے تقاضے سے برائی کے راستے نکال لیتے ہیں ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میالد کے جلوس‬
‫کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا ۔ جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان‬
‫لڑکیاں اور عورتیں شرکاءجلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں ۔ (شاید ایصال ثواب کی نیت سے العیاذ باللہ) اوباش نوجوان‬
‫فحش حرکتیں کرتے ہیں ۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی‬
‫دھن پرناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے ۔مساجد کے آگے سے گزرتا ہے لیکن نماز کا کوئی اہتمام نہیں‬
‫ہوتا ۔ اس قسم کے جلوس میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے تقدس پر بد نما داغ ہیں ۔ ان کی اگر اصالح نہ ہو‬
‫امر مستحسن کے نام پر ان حرکات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی‬ ‫ِ‬ ‫سکے تو ان کو فورا ً بند کر دینا چاہیے ۔ کیونکہ ایک‬
‫اصل نہیں ۔ البتہ ان غیر شرعی جلوسوں کو دیکھ کر مطلقا ً عید میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے جلوس کو غیر‬
‫شرعی کہنا صحیح نہیں ہے اور جن شہروں اور جگہوں میں عید میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے جلوس اپنی شرعی‬
‫حدود و قیود کیساتھ نکلتے ہیں ان جلوسوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔ (شرح صحیح مسلم جلد ‪ 3‬صفحہ نمبر ‪،171‬چشتی)‬

‫اس طرح دیگر علماۓ کرام ہمیشہ سے عوام کو محافل میالد کے آداب سے آگاہ کرتے رہے اور قبائح و منکرات اور غیر‬
‫شرعی حرکات سے تنبیہہ فرماتے رہے اور محافل میالد و جلوس میالد کو درپیش آنے والی خرافات سے روکتے رہے ہیں ۔‬
‫اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی تصریحات کی روشنی‬‫ٰ‬ ‫سطور ذیل میں مرجع العلماء‬
‫میں محافل میالد سے متعلقہ چند آداب اور توجہ طلب مسائل کو بیان کیاجاتا ہے ۔ محافل میالد کے منتظمین و حاضرین‬
‫ِ‬
‫شریعت اسالمیہ کی حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے ان محافل و مجالس کا اہتمام و انصرام کریں ۔‬ ‫کےلیے الزم ہے کہ‬
‫محفل میالد‬
‫ِ‬ ‫تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے ما ِہ والدت کی برکات و ثمرات سے کما حقہ مستفیض ہو سکیں ۔‬
‫میں علماۓ اسالم چند حدود و قیود کے ساتھ مندرجہ ذیل امور کو مستحسن قرار دیتے ہیں ۔‬

‫تالوت کالم پاک‬

‫اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں ‪ :‬الزم ہے محفل میالد مبارک میں تالوت قرآن عظیم‬
‫ٰ‬
‫ہمیشہ سے معمول علماءکرام و بال ِد اسالم ہے ۔‬

‫فتاوی میں فرماتے ہیں ‪ :‬میالد شریف کی اصل لوگوں کا جمع ہونا ‪ ،‬قرآن‬
‫ٰ‬ ‫امام جالل الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اپنے‬
‫مجید کی تالوت کیا جانا اور ان آیات و احادیث و روایات کو بیان کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی شان میں‬
‫للفتاوی جلد ‪ 1‬صفحہ ‪،189‬چشتی)‬
‫ٰ‬ ‫وارد ہوئی ہیں ۔ (الحاوی‬

‫عالمہ شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ‪ :‬میالد شریف منانا کہ جس کو ہم نے مستحسن قرار دیا ہے اس میں قرآن مجید‬
‫کی تالوت اور کھانا کھالنے کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔‬

‫فتاوی ہندیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام جب‬


‫ٰ‬ ‫اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ نے ہی‬
‫ٰ‬
‫کسی مجلس میں جمع ہوتے تو اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو فرمایا کرتے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی سورت تالوت‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 23‬صفحہ ‪)118‬‬
‫ٰ‬ ‫کرے ۔ (‬

‫تا ہم تالوت قرآن مجید کے دراون مندرجہ ذیل آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ‪ :‬قرآن مجید کو خو ش الحانی سے پڑھنا‬
‫جس میں لہجہ خوش نما ‪،‬دلکش پسندیدہ ‪ ،‬دل آویز ‪ ،‬غافل دلوں پر اثر ڈالنے واال ہو ‪ ،‬حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 23‬صفحہ نمبر‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مجید نہ پڑھے ‪،‬وہ ہم میں سے نہیں ۔ (‬‫ِ‬ ‫وسل ّم نے فرمایا ‪ :‬جو خوش الحانی سے‬
‫‪،300,366‬چشتی)‬

‫مدح خوانی‬

‫تعالی کے ساتھ ساتھ بوڑھے یا جوان مرد کا خوش الحانی سے نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین‬
‫ٰ‬ ‫محافل میالد میں حمد باری‬
‫ِ‬
‫کا نیت نیک سے سننا جائز ہے ۔بلکہ مستحب و مستحسن ہے ۔ بخاری شریف کی صحیح حدیث میں ہے ۔ حضور نبی اکرم‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کےلیے منبر بچھواتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس‬
‫سناتے تھے ۔ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم سنتے تھے ۔ ان کے عالوہ دیگر صحابہ نے بھی بارگا ِہ رسالت‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف حاصل کیا ہے ۔ تا ہم نعت خوانی کےلیے چند آداب کا‬
‫⬇ ‪ :‬خیال رکھنا ضروری ہے‬

‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 23‬صفحہ ‪1 )363‬‬


‫ٰ‬ ‫۔ نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو ‪،‬گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔ (‬

‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 24‬صفحہ ‪2‬‬


‫ٰ‬ ‫افعال لغو مثال ً مزا میر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے ۔ (‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫آالت لہو و لعب اور‬ ‫۔ نعت خوانی‬
‫‪)79‬‬

‫دف اور نعت خوانی‬

‫آالت لہو و لعب سا نہیں ۔ بلکہ خوشی کے لمحات میں اس کا استعمال جائز ہے ۔مگر اس کےلیے چند‬ ‫ِ‬ ‫دف کا حکم عام‬
‫شرائط ہیں ۔ امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں ‪ :‬اوقات مسرور میں دف جائز ہے ۔ بشرطیکہ اس میں جالجل‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 25‬صفحہ ‪)37‬‬
‫ٰ‬ ‫یعنی جھانج نہ ہو ۔ نہ وہ موسیقی کے تان سر پر بجایا جائے ‪ ،‬ورنہ وہ بھی ممنوع ۔ (‬

‫ذکر والی نعت خوانی سے پرہیز‬

‫علماۓ اسالم نے ذکر والی مروجہ نعت خوانی کو بھی ناجائز قرار دیا ہے ۔ اس لیے محافل میالد کو اس سے پاک کرنا‬
‫چاہیے ۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ کے عظیم علمی خانوادہ کے چشم و چراغ حضرت مفتی اختر رضا خان‬
‫بریلوی علیہ الرحمہ اس کے متعلق فرماتے ہیں ‪ :‬نعت میں ذکر کی آواز اس طرح سنائی دیتی ہے جیسے دف کے ساتھ ذکر‬
‫ہو رہا ہو اور ایسی آواز جو دف سے مشابہ ہو منہ سے نکالنا جائز نہیں کہ طریقہ فساق ہے اور ذکر و غیرہ میں شبہ‬
‫تعالی عزوجل کے نام مبارک کو بصورت مزامیر پیش کرنے میں نور اہانت بھی ہے ۔ اس لیے اس کا عدم‬‫ٰ‬ ‫ناجائز ‪،‬نیز اللہ‬
‫فتوی بریلی شریف)‬
‫ٰ‬ ‫جواز شدید ترین ہے ۔ اگر چہ نیت خیر ہو ۔ (‬
‫گستاخی و توہین اور مبالغہ آرائی پر مشتمل کالم سے احتراز‬

‫مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی ثنا کرنا‬


‫ٰ‬ ‫مجتبی ‪،‬محمد‬
‫ٰ‬ ‫نعت خوانی سے مقصود حضور نبی مکرم ‪ ،‬آقائے نامدار ‪ ،‬احمد‬
‫ہے لیکن بعض کم علم ‪ ،‬غیر محتاط شعراءنعت کے نام پر ایسے اشعار ترتیب دے دیتے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ‬
‫تعالی و انبیاء و مالئکہ وغیرہ کی توہین کا پہلو‬
‫ٰ‬ ‫علیہ و آلہ وسل ّم کی نعت کی بجائے آپ کی شان کی تنقیص اور خدائے‬
‫⬇ ‪ :‬نمایاں ہوتا ہے ۔ مثال ً میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کے حوالے سے یہ شعر کہ‬

‫جو عرش پہ مستوی تھا خدا ہو کر‬


‫زمین پر آگیا وہی مصطفی ہو کر‬

‫محافل میں اس طرح کے اشعار پڑھنا ” نیکی برباد گناہ الزم“ کے مترادف ہے ۔ بلکہ نعت کی نیت سے ایسے اشعار پڑھنا‬
‫ِ‬
‫زبان زد عام ہو گئے‬
‫ِ‬ ‫حرام اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے ۔ آج کل اس قسم کے اشعار عام ملتے ہیں جو جہالت کی وجہ سے‬
‫ہیں ۔‬

‫تماشاگاہوں میں حمد و نعت پڑھنا‬

‫آج کل کی اکثر محافل نعت تماشا گاہوں کا منظر پیش کرتی ہیں ۔جہاں یہ تالوت اور حمد و نعت کا احترام نہیں کیا جاتا ۔‬
‫الہی ‪ ،‬نعت خوانی ہو رہی ہے ‪ ،‬دوسری طرف لوگ‬ ‫آداب کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ ایک طرف قرآن مجید کی تالوت ‪ ،‬حمد ٰ‬
‫اپنے شغل میں مصروف ہیں ۔ کوئی گپ شب کر رہا ہے ‪ ،‬کوئی بلند آواز سے قہقے لگا رہا ہے ‪ ،‬کسی نے سگریٹ سلگا‬
‫رکھی ہے جبکہ ایک طرف خرید و فروخت کا بازار کھال ہوا ہے جبکہ اسٹیج پر نعت خوان کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے‬
‫جیسے کوئی فنکار فلمی ایکٹنگ کا مظاہرہ کر رہا ہے یا کوئی مداری اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے ۔ ایسی تماشا گاہوں‬
‫میں حاضرین کی اکثر تعداد بے وضو ہوتی ہے ۔ بہر حال اکثرمحافل میں بعض لوگ خلوص دل و جذبہ محبت سے نعت‬
‫ِ‬
‫صورت حال‬ ‫پڑھنے والے اور سننے والے بھی ہوتے ہیں ۔نعت خوانی کو ناجائز و ممنوع تو نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن یہ‬
‫محافل میالد کی صورت کے خالف ہے ۔‬

‫فتاوی رضویہ میں ہے ‪ :‬جہاں سبھی لوگ لہو و لعب میں مشغول ہوں اور تالوت و نعت کوئی نہ سنے ‪ ،‬وہاں تالوت حرام‬
‫ٰ‬
‫فتاوی رضویہ‬
‫ٰ‬ ‫اور نعت خوانی ممنوع ہے اور اگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو تو جہ سے سنیں گے تو ممانعت نہیں ۔ (‬
‫جلد ‪ 23‬صفحہ ‪،405‬چشتی)‬

‫محافل میالد کا انتظام اس اہتمام کے ساتھ ہونا چاہیے جہاں بے ادبی کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو ۔‬
‫ِ‬

‫وعظ (بیان و خطاب)‬

‫مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کی والدت باسعادت ‪ ،‬رضاعت ‪ ،‬بچپن ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫صحیح روایات کی روشنی میں حضرت محمد‬
‫جوانی ‪ ،‬بعثت و ہجرت وغیرہ کے حاالت ‪ ،‬حلیہ شریف ‪ ،‬معجزانہ کماالت اور فضائل و خصائل کا بیان مستحب ومستحسن ہے‬
‫۔ میالد خوان کا با وضو ‪ ،‬با ادب ‪ ،‬با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے ۔ مزید برآں میالد شریف صحیح روایت‬
‫کی روشنی میں پڑھا جائے ۔‬

‫امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ سے ایک سوال دریافت کیا گیا ۔ جو شخص شریعت مطہرہ کا مخالف ‪ ،‬مثال ً تارک‬
‫الصلو ة ‪ ،‬شارب خمر ‪ ،‬داڑھی منڈانے یا کترانے واال ‪ ،‬بے وضو موضوع روایات کے ساتھ میالد پڑھتا ہو ۔ بلکہ مسائل شریعت‬ ‫ٰ‬
‫اور داڑھی وغیرہ کا استہزا ا ُڑاتا ہو ۔ ایسے شخص کا چوکی (اسٹیج ) پر بیٹھ کر میالد پڑھنا یا بانی محفل و مجلس و‬
‫تعالی و‬
‫ٰ‬ ‫حاضرین و سامعین کا ایسے شخص کو خوش آواز ی کی وجہ سے چوکی پر بٹھانا کیسا ہے ؟ ایسے آدمی سے اللہ‬
‫تعالی ایسی مجالس پر رحمت نازل فرماتا ہے یا غضب‬ ‫ٰ‬ ‫رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم خوش ہوتے ہیں یا ناخوش اور خدائے‬
‫؟ بانیان و حاضرین محفل رحمت کے مستحق ہیں یا غضب کے ؟‬
‫اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ‪ :‬مذکورہ باال افعال‬ ‫ٰ‬ ‫اس سوال کے جواب میں‬
‫الہی کا سزا وار ہے ۔ خوش آواز ی یا کسی نفسیاتی خواہش کی وجہ‬ ‫ٰ‬ ‫غضب‬ ‫گناہگار‬ ‫و‬ ‫فاسق‬ ‫مرتکب‬ ‫سخت کبائر ہیں ۔ ان کا‬
‫حضور‬
‫ِ‬ ‫تعالی عزوجل اور‬
‫ٰ‬ ‫اللہ‬ ‫سے‬ ‫مجالس‬ ‫۔ایسی‬ ‫ہے‬ ‫حرام‬ ‫پڑھوانا‬ ‫مبارک‬ ‫مجلس‬ ‫کر‬ ‫بٹھا‬ ‫ً‬ ‫ا‬ ‫تعظیم‬ ‫پر‬ ‫مسند‬ ‫سے اسے منبر و‬
‫اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کمال ناراض ہیں ۔ (تمام حاضرین و سامعین) وبال شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں ۔ ان‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 23‬صفحہ‬ ‫ٰ‬ ‫حاضرین و میالد خوان سبھی کا گناہ بانی محفل پر ہے ۔ اس کا اپنا گناہ ان پر مزید ہے ۔ (‬
‫‪)733‬‬

‫فرض ہے کہ وہ ایسی محافل کےلیے خوش آواز ‪،‬‬ ‫بانیان محفل کا‬
‫ِ‬ ‫اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ کی ان تصریحات کے مطابق‬
‫ٰ‬
‫خوان اور اہل علم میں سے با عمل ‪ ،‬با کردار ‪،‬‬ ‫محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم نعت‬
‫ِ‬ ‫خوش اخالق قاری ‪،‬سچے‬
‫آوازی سے محظوظ ہونے کا شوق پورا کرنا اُخروی‬ ‫صحیح العقیدہ میالد خواں (مقرر و خطیب) کا چناﺅ کریں ۔ ورنہ خوش‬
‫سے چند چیزیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ تمام حاضرین‬ ‫خسارے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ وعظ کی اہمیت اور دیگر آداب میں‬
‫ادب و خاموشی کے ساتھ اسے سنتے رہیں ۔‬

‫دوران وعظ شور و غوغا کرنا ‪ ،‬مذہبی توہین اور عادت کفار ہے ۔ اس لیے مسند وعظ در حقیقت مسن ِد رسول صلی اللہ علیہ‬
‫دین اسالم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم کا ادب اور اُن کی توہین‬
‫ِ‬ ‫ادب‬
‫ِ‬ ‫لہذا وعظ کہنے والے کا‬
‫و آلہ وسل ّم ہے ۔ ٰ‬
‫حرکت کرنا اور بال ضرورت شرعی آہستہ بات کرنا بھی گستاخی و بے ادبی ہے‬ ‫ہے ۔ شور و غوغا تو درکنار وعظ میں بے جا‬
‫کار خیر کرنے کےلئے‬ ‫کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا لوگوں کو وعظ و غیرہ ِ‬ ‫۔ واعظ کو تعظیما ً منبر پر بٹھانا اور ہر طر ح‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪)24‬‬
‫ٰ‬ ‫(اور موجودہ دور میں اعالنات کرنا وغیرہ) جائز ہے ۔ (‬ ‫نقارہ یادف بجانا‬

‫محافل میالد سے متعلقہ چند اہم مسائل‬


‫ِ‬

‫جلوس میالد وغیرہ میں ڈھول باجے وغیرہ لے جانا جائز نہیں اور جن محافل میں ایسے آالت لہو و لعب کا‬ ‫ِ‬ ‫محافل میالد اور‬
‫ِ‬
‫محافل میالد (عرس ‪ ،‬گیارہویں وغیرہ) کا نام ہی کیوں نہ دیا جاتا ہو ۔‬
‫ِ‬ ‫انہیں‬ ‫۔خواہ‬ ‫نہیں‬ ‫جائز‬ ‫جانا‬ ‫میں‬ ‫استعمال ہو ‪ ،‬ان‬

‫جس شخص کی نسبت معروف و مشہور ہو کہ معاذ اللہ وہ حرام کار ہے ‪ ،‬اس سے میالد شریف پڑھوانا ‪ ،‬اسے اسٹیج پر‬
‫معنی تہمت نہ ہو کیونکہ آج کل اکثر ناخداترس محض‬
‫ٰ‬ ‫بٹھانا منع ہے ۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ شہرت صحیح ہو ‪ ،‬جھوٹی بے‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 23‬صفحہ ‪)737‬‬
‫ٰ‬ ‫(‬ ‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫دیتے‬ ‫لگا‬ ‫تہمت‬ ‫جھوٹے وہم کی وجہ سے مسلمان پر‬

‫محافل میالد‬
‫ِ‬ ‫خواتین کی‬

‫محافل میالد میں شرکت دوطر ح کی ہوتی ہے ۔ ایک یہ کہ ایک ہی محفل میالد میں خواتین کےلیے پردے کا‬‫ِ‬ ‫عورتوں کی‬
‫علیحدہ انتظام ہوتا ہے ۔ ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کےلیے ہوتی ہیں ۔ تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی‬
‫اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق‬‫ٰ‬ ‫شرکت کا موقع دیا جاتا ہے ۔‬
‫⬇ ‪ :‬دریافت کیا گیا توآپ نے جوابا ً ارشاد فرمایا‬

‫‪1‬‬ ‫۔ واعظ یا میالد خوان اگر عالم سنی صحیح العقیدہ ہو ۔ ‪ 2‬۔ اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو ۔ ‪ 3‬۔ جانے‬
‫میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو ۔ ‪ 4‬۔ کوئی احتمال فتنہ نہ ہو ۔ ‪ 5‬۔ مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج‬
‫فتاوی رضویہ جلد نمبر ‪ 22‬صفحہ نمبر ‪،239‬چشتی)‬
‫ٰ‬ ‫نہیں ۔ (‬

‫محافل میالد میں شرکت کےلیے مذکورہ باال شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں‬
‫ِ‬ ‫یعنی ایسی‬
‫ِ‬
‫اختالط مردوزن اور بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔ خواہ وہ محافل میالد ہو یا اس قسم کی دیگر‬ ‫جانے کی اجازت نہیں ۔ جہاں‬
‫محافل عرس و گیارہویں شریف ۔‬

‫اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر‬ ‫ٰ‬
‫گھر میں میالد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سنائی دیتی ہے ۔ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے‬
‫فتاوی رضویہ)‬
‫ٰ‬ ‫محل فتنہ ہے ۔ (‬
‫ِ‬ ‫کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے‬

‫ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا ‪ :‬عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نا‬
‫محرم سنیں ‪ ،‬باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔‬

‫محافل میالد میں شرکت کی جائے ؟‬


‫ِ‬ ‫کیسی‬

‫محافل میالد میں شرکت تب ہی جائز ہے‬


‫ِ‬ ‫محفل میالد اگر چہ عظیم ترین مستحبات میں سے ہے مگر دیگر مجالس کی طرح‬ ‫ِ‬
‫ِ‬
‫خالف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوا گر وہ شرعی منہیات اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہو تو اس میں‬ ‫جب اس میں‬
‫فتاوی رضویہ جلد‬
‫ٰ‬ ‫فتاوی رضویہ میں ہے کہ ‪ :‬کسی خالف شرع مجلس میں شرکت جائز نہیں ۔ (‬ ‫ٰ‬ ‫شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔‬
‫‪ 24‬صفحہ ‪،133‬چشتی)‬

‫ِ‬
‫مجلس‬ ‫۔فتاوی رضویہ میں ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ِ‬
‫منکرات شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے‬ ‫ِ‬
‫مجلس میالد‬ ‫اور جب‬
‫میالد مبارک اعظم مندوبات سے ہے جبکہ بروجہ صحیح ہو ۔ (جلد ‪ 23‬صفحہ ‪)560‬‬

‫اور ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روکنا در حقیقت نہی عن المعروف یعنی اچھے کاموں سے روکنے کے زمرے میں آتا‬
‫مجلس میالد جو منکرات شرعیہ سے خالی ہو ‪ ،‬اس سے روکنا ذکر خدا سے روکنا‬ ‫ِ‬ ‫فتاوی رضویہ میں ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہے ۔ چنانچہ‬
‫ہے ۔ ایسا شخص اگر کسی صحیح اور قابل قبول عذر سے روکے تو حرج نہیں ۔ مثال ً ماں یا باپ بیمار ہیں ‪ ،‬بیٹے کو ان‬
‫لہذا یہ بچے کو روک سکتا ہے ۔‬ ‫محفل میالد میں چال جائے تو یہ تکلیف میں رہیں گے ۔ ٰ‬ ‫ِ‬ ‫کی تیمارداری کرنا ہے ۔ اگر وہ‬
‫۔بضرورت شرعیہ (کسی شرعی ضرورت کی وجہ‬ ‫ِ‬ ‫یونہی آقا اپنے مالزم کو کام کی غرض سے روک سکتا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے‬
‫ِ‬
‫منکرات شرعیہ سے پاک‬ ‫محافل میالد‬
‫ِ‬ ‫سے) مستحب کام سے کسی اور اہم کام کےلیے روکے تو الزام نہیں ۔ المختصر اگر‬
‫ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان‬
‫میں امور مکروھہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسران اور ان میں شرکت باعث ہالکت ہو تی ہے ۔ مولوی عبد الحی نے کتاب‬
‫النصیحہ سے نقل کیا ہے کہ ایک نعت خوان حقہ پیتا تھا ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسل ّم فرماتے ہیں جب تم میالد شریف پڑھتے ہو تو ہم مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں مگر جب حقہ آتا ہے تو ہم فورا ً‬
‫مجلس سے چلے جاتے ہیں ۔ (جشن میالد اور اسالم صفحہ ‪)111‬‬

‫علمائے دین کا عوام الناس کو ایسی محافل میں غیر شرعی افعال کے ارتکاب سے نہ روکنا گویا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسل ّم کی ناراضگی پر راضی رہنا ہے ۔ (نعوذ باللہ)‬

‫متقدمین علماۓ اسالم اپنے اپنے زمانے میں یہی فریضہ سر انجام دیتے چلے آئے ہیں ۔ ہاں اگر علماء کے سمجھانے کے‬
‫باوجود وہ ایسی خرافات سے باز نہ آئیں تو لوگوں کو ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روک دیں ۔ (جشن میالد اور اسالم‬
‫صفحہ ‪)80-79‬‬

‫اور اس موقع (میالد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسل ّم) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا‬
‫گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ ‪ ،‬خرافات واہیہ سے پاک ہوں ۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس‬
‫کےلیے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے ۔‬

‫فتاوی رضویہ میں ہے کہ ‪ :‬اگر کوئی مجلس فی نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کیے‬
‫ٰ‬
‫سماع مجروہ (بغیر‬
‫ِ‬ ‫جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حاالت کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں ۔ مثال ً‬
‫مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلیے فتنہ کا باعث بنیں‬
‫جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات‬
‫اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں‬
‫بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے‬
‫فتاوی رضویہ جلد ‪ 24‬صفحہ ‪،148-147‬چشتی)‬ ‫ٰ‬ ‫تام (کامل اور مفید تر) ہو گی ۔ (‬

‫المختصر علماٸے اسالم پر الزم ہے کہ وہ لوگوں کو اس مجلس میں درپیش آنے والے تمام قبائح و منکرات سے آگاہ کریں اور‬
‫خالف شرع امور کا ارتکاب ہو وہاں جانے سے روکیں ۔ ما ِہ ربیع االول دنیا میں رونما ہونے والے سب سے بڑے انقالب‬ ‫ِ‬ ‫جہاں‬
‫کی یاد تازہ کرتا ہے اور ہمارے لیے پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ جب تمہارے ان ناپختہ افکار اور ناگفتہ بہ اطوار میں انقالب پیدا‬
‫نہیں ہوتا تو تم اپنی عظمت رفتہ کا سراغ نہیں پا سکتے ۔ ہماری یہ محافل میالد انقالب کی داعی ہوتی ہیں اور مردہ‬
‫ہمتوں میں انقالبی روح بیدار کرتی ہیں ۔ ان محافل کی برکات و ثمرات سے مستفیض ہونا وقت کا تقاضا ہے ۔ ان محافل‬
‫خوانان عظام ہوں ‪ ،‬علمائے کرام ہوں یا عوام اسالم ‪ ،‬ہر ایک‬ ‫ِ‬ ‫سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کو خواہ قراء کرام ہوں ۔ نعت‬
‫محافل میالد النبی صلی اللہ‬
‫ِ‬ ‫تعالی ہمیں ادب و احترام سے‬‫ٰ‬ ‫اللہ‬ ‫کو اس انقالبی عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔‬
‫علیہ و آلہ وسل ّم سجانے اور ان سے برکات حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین‬

‫محافل میالد کی خرافات کا جائزہ‬


‫ِ‬ ‫فصل دوم‪:‬‬
‫اس میں شک وشبہ کی ادنی گنجائش نہیں کہ حضور ا کے ساتھ عقیدت اور محبت عین ایمان ہے اور ٓاپ کی والدت سے لے‬
‫کر وفات تک زندگی کے ہر شعبہ کے صحیح حاالت و واقعات اور ٓاپ کے اقوال و افعال کو پیش کرنا باعث نزول رحمت‬
‫خدواندی ہے اور ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ ٓاپ کی زندگی کے حاالت معلوم کرے اور ان کو مشعل راہ بنائے لیکن اس‬
‫تذکرہ کو چند رسومات کے ساتھ ربیع االول کی بارہویں تاریخ میں مخصوص کرنا‪ ،‬اور میالد منانا محفل اور مجلس منعقد کرنا‬
‫ٓانحضرت ا‪ ،‬حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل خیرالقرون سے ثابت نہیں حضور ا نبوت کے بعد تیئس سال حیات رہے اور پھر تیس‬
‫سال خالفت راشدہ کے گذرے اور پھرایک سو دس ہجری تک حضرات صحابہ کرام ؓ کا دور رہا ہے کم و بیش دو سو بیس برس‬
‫تک تبع تابعین کا زمانہ تھا عشق ان میں کامل تھا محبت ان میں زیادہ تھی ۔ ٓانحضرت ا کا احترام اور تعظیم ان سے بڑھ‬
‫کر کون کر سکتا ہے مگر ان حضرات میں سے کسی سے بھی مروجہ طریقہ سے محفل میالد کا کوئی ثبوت نہیں نیز مروجہ‬
‫عید میالدالنبی کی تقریبات میں خالف شرع مفاسد پائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔‬

‫مولود خواں اکثر من گھڑت اور بے سروپا قصے بیان کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا حاالنکہ اس معاملہ)‪(۱‬‬
‫میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے حضور ا نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بوال وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا‬
‫لے۔‬

‫اس عمل کیلئے اتنا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ضروریات دین کے لیے بھی اتنا اہتمام نہیں ہوتا‪ ،‬اور اس میں ناجائز اسراف )‪(۲‬‬
‫اور فضول خرچی کرتے ہیں اور فضول خرچی کرنے والوں کو قرٓان پاک نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔‬

‫نیز والدت کا دن متعین کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں اس کے عالوہ اور کسی دن میں اس کو نہیں کرتے‪ ،‬اور اپنی )‪(۳‬‬
‫طرف سے اس تقیید اور تعیین کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز ان امور پر اصرار کرتے ہیں اور نہ کرنے والوں کو مالمت کا‬
‫نشانہ بناتے ہیں گویا اس کو فرض و واجب کا درجہ دیا گیا ہے جو کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں۔‬

‫سال میں ایک دن یہ تقریبات منعقد کر کے باقی پورا سال غافل رہنا رسمی تعلق کی نمائش ہے‪ ،‬ہونا تو یہ چاہیے کہ )‪(۴‬‬
‫ِ‬
‫ذات بابرکات کا ذکر مبارک ہو اور ٓاپ ا‬ ‫سال میںہر مہینہ اور مہینہ میں ہر ہفتہ اور ہفتہ میں ہر دن سرکار دو عالم ا کی‬
‫کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر مکمل اسالمی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔‬

‫عورتوں کا بلند ٓاواز سے الٔوڈ اسپیکر پر لہک لہک کر میالد پڑھنا اور نامحرم مردوںتک ان کی ٓاواز جانا جائز نہیں کیونکہ )‪(۵‬‬
‫شرعی ضرورت کے بغیر عورتوں کو اپنی ٓاواز غیر محرموں کو سنانا منع ہے۔‬

‫لہذا اس سے بچنا الزم ہے۔‬


‫غرض مروجہ محفل میالد متعدد مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے ٰ‬
‫قال ابن امیر حاج و من جملۃ ما احدثوہ من البدع مع اعتقادھم ان ذلک من اکبر العبادات و اظہار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر‬
‫احتوی علی بدع و محرمات جمۃ (المدخل ‪ ) ۲:۳‬فانا للّٰہ وانا الیہ راجعون علی عدم االستحیاء من‬ ‫ٰ‬ ‫ربیع االول من المولد وقد‬
‫عمل الذنوب یعملون اعمال الشیطان ویطلبون أالجرمن رب العالمین ویزعمون انھم فی تعبد وخیر (المدخل ‪ )۲:۷‬وقال‬
‫الفاکھانی ‪ :‬ال اعلم لہذ المولد ٔاصال فی کتاب وال سنۃ وال ینقل عملہ عن احد من علماء االمۃ الذین ھم القدوۃ فی الدین المتمسکون‬
‫ٰ‬
‫للفتاوی ‪)۱۱۰ ، ۱۱‬‬ ‫بٔاثارالمتقد مین بل ھو بدعۃ احدثھا البطالون وشھوۃ نفس اعتنی بھا االکالون (الحاوی‬

‫فصل سوم‪ :‬خرافات کی اِصالح کے لیے الئحہ عمل‬


‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم ترین پہلو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ ہے۔ آپ‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان جس سے محبت‬
‫کرتا ہے اسے کثرت سے یاد کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارا جزو ایمان ہے۔ کوئی شخص‬
‫اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز نہ ہو۔ حضرت‬
‫‪:‬انس رضی اللہ عنہ سے مروی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬

‫ب ِإ ل َیْ ِه ِم ْن َوالِ ِد ِه َو َول َ ِد ِه َوالن ّ َِاس َأ ْج َم ِعیْ َن‬


‫‪.‬ال َ یُْؤ ِم ُن َأ َح ُدک ُْم َحتَّی َأک ُْو َن َأ َح َّ‬

‫تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)‪ ،‬اس کی اوالد اور تمام لوگوں ’’‬
‫‘‘ سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‬

‫) صحیح البخاری‪،‬کتاب اإلیمان‪ ،14 :1 ،‬رقم‪(15 :‬‬

‫‪:‬جبکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ مروی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬

‫ب ِإ ل َیْ ِه ِم ْن َٔا ْهلِ ِه َو َمالِ ِه َوالن ّ َِاس َٔا ْج َم ِعیْ َن‬


‫عبْدٌ َحتَّی َٔاک ُْو َن َٔا َح ّ َ‬
‫‪.‬ل َا یُْؤ ِم ُن َ‬

‫کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں‪ ،‬اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب’’‬
‫‘‘ تر نہ ہو جاؤں۔‬

‫)صحیح مسلم‪،‬کتاب‪ :‬ا إلیمان‪ ،67 :1 ،‬رقم‪(44 :‬‬

‫خوشیاں منا کر ہم اپنے پیارے آقا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی الزوال تعلق حبی کا‬ ‫میالد النبی کی‬
‫جو تقاضائے ایمان ہے۔ ماہ میالد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل‪ ،‬خصائص و‬ ‫اظہارکرتے ہیں‬
‫شان علم و معرفت‪ ،‬شان ورفعنا لک ذکرک اور دیگر اوصاف و کماالت کا‬
‫ِ‬ ‫طہارت‪ ،‬نورانی والدت‪ ،‬بعثت و رسالت‪،‬‬ ‫خصائل‪ ،‬نسبی‬
‫تعلق حبی اورعشقی کو مزید مضبوط اورمستحکم کرتا‬
‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬یہ تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کے‬ ‫تذکرہ کیا جاتا‬
‫ہے۔‬

‫میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن خوشیاں منانے والے عشاق در حقیقت محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے‬
‫سرشار وہ امتی ہیں جن کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث میں ہوا ہے‪ :‬آپ صلی اللہ علیہ‬
‫‪:‬وآلہ وسلم نے فرمایا‬

‫اس یَک ُْون ُ ْو َن بَ ْع ِدي‪ ،‬یَ َو ُّد َأ َح ُد ُه ْم ل َْو َرآ ِني‪ِ ،‬بَأ ْهلِ ِه َو َمالِ ِه‬ ‫ُأ‬ ‫ِ َأ‬
‫‪.‬م ْن َش ِّد ّ َم ِتي لِي ُحبًّا‪ ،‬ن َ ٌ‬
‫میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی’’‬
‫‘‘ تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔‬

‫)صحیح مسلم‪،‬کتاب‪ :‬الجنة‪ ،4:2178 ،‬رقم‪(2832 :‬‬

‫یہ وہ خوش نصیب ہیں جن کو آقا علیہ السالم نے سات مرتبہ خوشخبری دی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‬
‫‪:‬کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬
‫ات لِ َم ْن ل َْم یَ َر ِني َو َ‬
‫آم َن بِي‬ ‫‪.‬ط ْوبَی ِل َم ْن َرآ ِني َو َ‬
‫آم َن بِي َو ُط ْوبَی َسبْ َع َم ّ َر ٍ‬ ‫ُ‬
‫خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان الیا اور سات بار خوشخبری اور مبارک ’’‬
‫‘‘ باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان الیا۔‬

‫)مسند احمد بن حنبل‪ ،257 :5 ،‬رقم‪(22268 :‬‬

‫ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی تعلق‬ ‫ِ‬ ‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے سے‬
‫پیدا ہوتا ہے اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی۔ ان دونوں صورتوں سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫وسلم کا داعیہ بیدار ہوتاہے۔ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یو ِم والدت منا کر ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں آپ‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔‬

‫قوت عشق سے ہر پست کو باال کر دے‬


‫دہر میں اسم محمد سے اجاال کر دے‬

‫۔ اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‪2‬‬


‫جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا اہم پہلو اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہے‬
‫کہ ہم میال ِد مصطفی کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل اور آپ صلی اللہ‬
‫تعالی نے قرآن مجید میں بندوں پر اپنی اور اپنے حبیب‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کریں۔ اللہ‬
‫‪:‬صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو واجب قرار دیا‪ :‬ارشاد فرمایا‬

‫‪.‬یٰٓـا َیُّ َها ال َّ ِذی ْ َن ا ٰ َمن ُ ْوٓا ا َِطیْ ُعوا اﷲَ َوا َِطیْ ُعوا َّ‬
‫الر ُس ْو َل‬

‫‘‘ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔’’‬

‫)النساء‪(59 :4 ،‬‬

‫تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ ‪:‬ارشاد فرمایا‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬دوسرے مقام پر اللہ‬

‫اع اﷲَ‬ ‫‪.‬م ْن ی ُّ ِط ِع َّ‬


‫الر ُس ْو َل َفقَ ْد ا ََط َ‬ ‫َ‬
‫‘‘ جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔’’‬

‫)النساء‪(80 :4 ،‬‬

‫الہی کے حصول کی شرط قرار دیا۔‬ ‫ِ‬


‫محبت ٰ‬ ‫تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو بھی‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح اللہ‬
‫‪:‬ارشاد فرمایا‬

‫‪.‬ق ُْل اِ ْن کُنْتُ ْم تُ ِحبُّ ْو َن اﷲَ فَاتَّب ُِع ْو ِن ْی ی ُ ْ‬


‫حبِبْک ُُم اﷲُ َویَ ْغ ِف ْرلَک ُْم ُذن ُ ْوبَک ُْم‬

‫آپ فرما دیں‪ :‬اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے )!اے حبیب(’’‬
‫‘‘ گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‬

‫)آل عمران‪(31 :3 ،‬‬

‫احادیث مبارکہ میں بھی اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ حضرت جابر بن‬
‫‪:‬عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے‬

‫ح ّ َم ٌد ف ََّر َق بَیْ َن الن ّ َِاس‬


‫ع َصی ﷲَ‪َ ،‬و ُم َ‬
‫ح ّ َم ًدا َفقَ ْد َ‬
‫ع َصی ُم َ‬ ‫ح ّ َم ًدا َفقَ ْد َٔا َط َ‬
‫اع ﷲَ‪َ ،‬و َم ْن َ‬ ‫‪.‬ف ََم ْن َٔا َط َ‬
‫اع ُم َ‬

‫تعالی کی اطاعت کی اور جس نے ’’‬ ‫ٰ‬ ‫جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی (درحقیقت) اس نے اللہ‬
‫تعالی کی نافرمانی کی‪ ،‬محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے‬
‫ٰ‬ ‫محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی‪ ،‬اس نے اللہ‬
‫‘‘ اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‬

‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب االعتصام بالکتاب والسنة‪ ،2655 :6 ،‬رقم‪(6852 :‬‬

‫صحابہ کرام نے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ مثالیں قائم کیں کہ تاریخ عالم میں جس کی نظیر نہیں‬
‫اتباع رسول‬
‫ِ‬ ‫ملتی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود کا بیان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبہ اطاعت و‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال درجہ عکاسی کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے الصحیح کی کتاب الشروط ( ‪ ،974 :2‬رقم‪:‬‬
‫‪ )581‬میں روایت کیا ہے۔‬

‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل اور اجتماعات سے اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا‬
‫درس ملتا ہے۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میالد خوب دھوم دھام سے منائیں مگر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ‬
‫دعوی کہالئے گا۔ اس دعوی میں حقیقت کا‬
‫ٰ‬ ‫دعوی محبت خالی‬
‫ٰ‬ ‫کی اطاعت و اتباع کے حکم سے پہلو تہی کریں تو ہمارا‬
‫رنگ بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل اور سنت کی اتباع کی جائے۔‬

‫۔ دعوت و تبلیغ دین کے بہترین مواقع‪3‬‬


‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیتی پہلووں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ داعیین اور واعظین کو‬
‫اسالمی تعلیمات کے ابالغ کے بہترین مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ محافل میالد اور جلسہ ہائے میالدیا جلسہ ہائے سیرت کا باقاعدہ‬
‫انعقاد کیا جاتا ہے جس میں علماء و خطباء کو دعوت سخن دی جاتی ہے۔ اس طرح انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‬
‫کے منظم انداز میں مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنا بنیادی فریضہ ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ بہرکیف یہ میالد‬
‫مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم تقاضا ہے کیونکہ بعثت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی مقصد ہی‬
‫تعالی ہے‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬نیکی کو پھیالنا اوربرائی کو جڑ سے ختم کرنا تھا۔ ارشاد باری‬

‫ک ُه ُم ال ُْم ْفلِ ُ‬
‫ح ْو َن‬ ‫ع ِن ال ُْمنْک َِر َواُو ٓل ِٰئ َ‬ ‫ع ْو َن اِل َی ال َْخیْ ِر َویَا ُْم ُر ْو َن بِال َْم ْع ُر ْو ِ‬
‫ف َویَن ْ َه ْو َن َ‬ ‫‪o‬ولْتَک ُْن ِّمنْک ُْم ا ُ ّ َم ٌة ی ّ َ ْد ُ‬
‫َ‬

‫اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بالئیں اور بھالئی کا حکم ’’‬
‫‘‘ دیں اور برائی سے روکیں‪ ،‬اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‬

‫)آل عمران‪(104 :3 ،‬‬

‫دور فتن میں دعوت حق کا فریضہ سر انجام دینے والوں کا درجہ بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‬
‫‪:‬نے فرمایا‬

‫ع ِن ال ُْمنْک َِر‪َ ،‬ویُقَا ِتل ُْو َن َأ ْه َل ال ْ ِفتَ ِن‬ ‫آخ ِر َه ِذ ِه الُْٔا ّ َم ِة ق َْو ٌم ل َُه ْم ِمث ُْل َأ ْج ِر َأ ّ َولِ ِه ْم‪ ،‬یَْأ ُم ُر ْو َن بِال َْم ْع ُر ْو ِ‬
‫ف َویَن ْ َه ْو َن َ‬ ‫‪ِ.‬إ ن ّ َُه َسیَک ُْو ُن ِفي ِ‬

‫بے شک اس امت کے آخر (دور) میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لئے اجر اس امت کے اولین (دور کے لوگوں) کے ’’‬
‫‘‘ برابر ہو گا‪ ،‬وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور فتنہ پرور لوگوں سے جہاد کریں گے۔‬

‫بوة للبیهقی‪(513 :6 ،‬‬


‫)دالئل الن ّ ّ‬
‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل اور دیگر تقریبات میں نیکی پھیالنے اور برائی کو روکنے کا نظریہ‬
‫شامل اہداف ہونا چاہیے۔ اس طرح ہم اصالح معاشرہ میں بہترین کردار اد کر سکتے ہیں۔‬

‫۔ بچوں کی تربیت کا پہلو‪4‬‬


‫بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج کا بچہ کل کا نوجوان ہے جس کے کندھے پر طرح طرح کی ذمہ‬
‫داریوں کا بوجھ ہو گا۔ ان کی ذہنی و فکری تربیت قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ اسالم میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر‬
‫بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جب بچہ پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دس سال‬
‫کی عمر میں اسے سختی سے نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا۔ دیگر عبادات و معامالت میں بھی اسے بلحاظ عمرشریک کیا گیا‬
‫‪:‬ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوںپر شفقت و مہربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬

‫من لم یرحم صغیرنا ویعرف حق کبیرنا فلیس منا‬

‫‘‘ جو چھوٹوں پر مہربانی نہیں کرتا اور بڑوں کا حق نہیں پہچانتا‪ ،‬وہ ہم میں سے نہیں۔’’‬

‫)سنن ابی داود‪ ،286 :4 ،‬رقم‪(4942 :‬‬

‫تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت زیادہ پیار فرماتے تھے۔ ان کو سالم میں پہل کرتے‪،‬ان کے سر پر‬
‫دست شفقت پھیرتے‪،‬ان پر لطف و احسان اور مہربانی فرماتے‪ ،‬انہیں کبھی ڈانٹ نہ پالتے‪،‬انہیں شریک دسترخوان کرتے اور کھانا‬
‫کھانے کے دوران ان کی کسی غلطی پر سرزنش فرمانے کے بجائے انتہائی نرمی اور پیار سے آداب طعام سکھا دیتے۔ شیرخوار‬
‫بچوں کو الیا جاتا تو ان کو اپنے دست اقدس سے گھٹی دیتے اور برکت کی دعا فرماتے۔ ان کی اچھی باتوں کو سراہتے تاکہ‬
‫ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔‬

‫اپنے نواسوں حسنین کریمین علیہما السالم سے کمال درجہ محبت فرماتے‪ ،‬انہیں چومتے‪ ،‬اپنے کندھوں پر سوار کرتے۔ حضرت‬
‫امام حسین علیہ السالم کی تسکین خاطر کے لیے انہیں اپنی زبان اقدس چوساتے۔ زینب بنت سلمہ کے ساتھ کھیلتے اور انہیں‬
‫یا زوینب یا زوینب (اے چھوٹی سی زینب‪ ،‬اے چھوٹی سی زینب) کہہ کر مخاطب فرماتے۔‬

‫حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایام طفلی ہی سے دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں‬
‫رہے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور لطف ومہربانی کا یہ عالم تھا کہ ان دس سالوں میں کبھی‬
‫انہیں ڈانٹ تک نہیں پالئی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا چھوٹا بھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتا تو‬
‫اس سے مزاح فرماتے یا اباعمیر ما فعل النغیر (اے ابو عمیر نغیر (پرندہ جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا ) کیسا ہے۔ آپ صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے تو ان کے بچوں کو سالم فرماتے اور ان کے سروں پر دست‬
‫شفقت پھیرتے۔‬

‫ِ‬
‫دعوت اسالم قبول کرنے والے اولین بچے تھے جو جوان ہو کر حیدرکرار اور خیبر شکن‬ ‫المرتضی رضی اللہ عنہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت علی‬
‫بنے۔ یہ آغوش نبوت کی تربیت کا اثر تھا جس نے انہیں ایک عظیم انسان بنا دیا۔‬

‫صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بچوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم اور محبت کا‬
‫درس دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و مہربانی سے ان بچوں کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫ساتھ تعلق حبی کو مزید تقویت ملتی تھی اور براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت نے ان میں نہایت اعلی‬
‫اخالق کو جنم دیا تھا۔‬

‫دور حاضر میں بچوں کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شناسا کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ حضور‬
‫‪:‬نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے‬

‫حب ٔاهل بیته و قراءة القرآن‬


‫ّ‬ ‫حب نبیکم و‬
‫‪.‬ادبوا اوالدکم علی ثالث خصال‪ّ :‬‬
‫ّ‬

‫اپنی اوالد کو تین چیزوں کی خصلتیں سکھأو‪،‬اپنے نبی کی محبت‪ ،‬نبی کے اہل بیت کی محبت اور کثرت کے ساتھ تالوت ’’‬
‫‘‘ قرآن۔‬

‫)الجامع الصغیر للسیوطی‪ ،25 :1،‬رقم‪(311 :‬‬

‫وآلہ وسلم ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے والدین اپنے بچوں کو محبت رسول صلی اللہ‬ ‫جشن میالد مصطفی صلی اللہ علیہ‬
‫ہیں۔ بچے والدین کے ساتھ شوق سے محافل میالد میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ والدین کی‬ ‫علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دے سکتے‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ورثہ کو جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے‬ ‫ذمہ داری ہے کہ وہ محبت رسول‬
‫بچوں کو میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کریں۔ انہیں‬ ‫اگلی نسلوں میں منتقل کریں۔ اپنے‬
‫وسلم کی شخصیت کے ان پہلووں کا ذکر کریں جو بچوں سے متعلق ہے۔ اس طرح ان کا‬ ‫حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق حبی مضبوط سے مضبوط تر ہو گا۔‬

‫‪:‬شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس پہلو کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں‬

‫فی زمانہ اوالد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سکھانے کا اس سے مٔوثر اور نتیجہ خیز طریقہ اور کوئی نہیں’’‬
‫کہ جب وہ شعور و آگہی کی عمر کو پہنچیں تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میالد منانے کی ترغیب دی جائے۔‬
‫زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کیا جائے جن میں تذکار سیرت و رسالت ہوں‪ ،‬نعتیں پڑھی جائیں اور ایک خاص اہتمام‬
‫کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی مجالس بپا کی جائیںتاکہ اوائل عمری ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫‘‘ وسلم کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پختہ تر ہوتی چلی جائے۔‬

‫)میالد النبی صلی الله علیه وآله وسلم‪ ،‬ص‪(685 :‬‬

‫اگر بچوں کی اس نہج پر تربیت کی جائے گی تو ان شاء اللہ وہ ایک بہترین انسان اور بااخالق و باکردار مسلمان کی حیثیت‬
‫سے معاشرے کا بہترین فرد بن کر سامنے آئیں گے۔‬

‫تعالی کی رضا و خوشنودی کا حصول‪5‬‬ ‫ٰ‬ ‫۔ اللہ‬


‫ہر مسلمان چاہتا ہے کہ میرا رب راضی ہو جائے۔ ہمارے ہر عمل میں رضائے ال ٰہی کا حصول ہماری نیتوں میں شامل ہوتا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫تعالی‬ ‫کوئی عمل اس وقت خالصیت کے درجہ پر نہیں پہنچتا< جب تک اس میں للہیت کا پہلو نہ ہو۔ وہ کام جس میں باری‬
‫کی خوشنودی حاصل کرنا شامل نہ ہو وہ ریا کے زمرے میں آتا ہے۔ جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا‬
‫تعالی کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ‬‫ٰ‬ ‫عمل ہے کہ جو بہر صورت رضائے ال ٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس دن اللہ‬
‫وسلم کی آمد پر خوشی منانا اس کی رضا کا سبب ہے۔ اس موقع کثرت سے درود وسالم پڑھا جاتا ہے اور درودو سالم ایک‬
‫ایسا عمل ہے جو بارگاہ خداوندی میں ہمہ وقت مقبول ہے۔‬

‫۔ غرباء و مساکین کی اعانت‪6‬‬


‫یوم میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریبوں کے آقاو موال کی والدت کا دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت‬
‫کریمہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غرباء و مساکین کا خیال رکھتے۔ ان کی ضرورتوں کو پورا فرماتے۔ آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم بھوکوں کو کھانا کھالنے کی ترغیب دیتے۔ احادیث مبارکہ میںکسی بھوکے شخص کو کھانا کھالنے بہت اجر و‬
‫ثواب بیان ہوا ہے۔ میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے کھالنے‬
‫کا وسیع انتظام و انصرام کرتے ہیں اور اطعام الطعام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اطعام الطعام ایک ایسا عمل ہے کہ‬
‫جو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے۔‬
‫صاحب ثروت حضرات کی طرف سے اپنے آقا و موال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خوشی میں غرباء و مساکین کو‬
‫ملبوسات اور دیگر اشیائے ضرورت کے تحائف دینا ایک مسنون‪ ،‬مندوب اور محبوب عمل ہے۔‬

‫۔ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقفیت‪7‬‬


‫محافل میالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کو سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشناس کرانے کا‬ ‫ِ‬
‫بہترین ذریعہ ہیں۔ محافل میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت‬
‫مبارکہ کے ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب و نسب‪ ،‬ایام والدت‪،‬ایام طفولیت‪ ،‬ایام شباب اور عہد نبوت کا‬
‫تذکرہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب اور شمائل و خصائص بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلؤوں پر سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ بعض اشاعتی ادارے کتب سیرت کی‬
‫نمائش‪،‬منعقد کرتے ہیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مقاالت پڑھے جاتے ہیں۔ مقابلہ سیرت نویسی‬
‫کروایا جاتا ہے اور بہترین سیرت نگاروں کو انعام و اکرام اور اسناد سے نوازا جاتا ہے۔ آئندہ نسلوں تک سیرت النبی صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچانے کا یہ بہترین موقع سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں مطالعہ سیرت کا ذوق پیدا ہوتا ہے‬
‫اور وہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقالب آفریں زندگی کو اپنی آئندہ زندگی کے لیے اسوہ اور نمونہ بنانے کا‬
‫عزم بالجزم کرتے ہیں۔‬

‫۔ قلبی و روحانی سکون واطمینان کا حصول‪8‬‬


‫دور حاضر میں ہر دوسرا انسان پریشانیوں کا شکار ہے۔ طرح طرح کے مسائل نے اس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ماہ ربیع االول‬
‫میںمیالد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروگرام میں شرکت سے انسان کے دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔ غمگسار عالم صلی‬
‫ِ‬
‫واقعات میالد کا تذکرہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر عنایات کا ذکر پریشان حال دلوں‬ ‫اللہ علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫کی طمانینت کا باعث بنتا ہے۔‬

‫جب یاد آگئے ہیں‬


‫سب غم بھال دیئے ہیں۔‬

‫۔ اسالمی ثقافت کی ترویج و اشاعت‪9‬‬


‫جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثقافتی ضرورت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ‬
‫وآلہ وسلم اسالمی ثقافت کے فروغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس موقع پر بعض حلقوں کی طرف سے میالد فیسٹیول منعقد کیے‬
‫جاتے ہیں جن میںکتب سیرت کے عالوہ اسالمی فنون لطیفہ کے اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔ اہل فن اپنے فن پارے اور اہل‬
‫ہنر اپنی مصنوعات متعارف کرواتے ہیں۔ بایں صورت یہ ثقافتی ورثہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔‬

‫اسی طرح عرب کے ماحول اور اسالمی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنے کے لیے اس دن پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختلف‬
‫قسم کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اور تالوت و نعت کی ریکارڈنگ چالئی جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان اس کام کو بڑی دلچسپی‬
‫اور ذوق و شوق کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ان امور میں کوئی غیر شرعی عمل شامل نہ کیا جائے تو یہ بچوں اور‬
‫نوجوانوں تک اسالمی ثقافت کو پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔‬

‫!لمحہ فکریہ‬

‫انتہائی دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے کچھ نوجوان جشن میالد کے دن کے تقدس کو انجانے میں پامال کرنے کی‬
‫جسارت کرتے ہیں اور اس دن ریکارڈنگ چال کر ناچنا کودنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک غیر شرعی اور قابل مذمت فعل ہے۔‬
‫اہل اسالم کا کوئی مسلک اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چونکہ نیکی اور بدی کی جنگ کا سلسلہ ازل سے جاری ہے‪ ،‬شیطان اور‬
‫لہذا اس موقع پر بھی شیطان اپنے حربے استعمال کرتا ہے اور‬
‫اس کے چیلے انسان کو نیکی سے روکنے کے درپے رہتے ہیں‪ٰ ،‬‬
‫بعض نوجوانوں کو ورغال کر رقص و سرود میں مبتال کر دیتا ہے۔ یہ نوجوان ابلیس لعین کا آلہ کار بن کر اس دن کے تقدس‬
‫اور احترام کا خیال نہ کرتے ہوئے لغویات میں مبتال ہو جاتے ہیں اور بجائے حصول ثواب کے عذاب کی لعنت مول لے لیتے‬
‫ہیں۔ یہ نوجوان اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو شیطان کے چنگل سے چھڑا کر‬
‫راہ راست پر گامزن کرنا داعیان اسالم کی ذمہ داری ہے۔ اہل علم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں ان چیزوں کی‬
‫مذمت کریں اور انتظامیہ کا بھی فرض ہے کہ نوجوانوں کو اس طرح کی غیر شرعی حرکات سے باز رکھیں اور قانون کی‬
‫عملداری کو یقینی بنائیں۔‬

‫بعض نادان حلقے ان فضول حرکتوں کو دیکھ کر جشن میالد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے‬
‫ہیں جو سراسر ناانصافی اور جہالت ہے۔ چند لوگوں کی خرابی کی وجہ سے کوئی عمل برا نہیں ہو سکتا۔ وہ عمل اپنی جگہ‬
‫‪:‬پر نیک ہے اور نیک ہی رہے گا۔ آخر پہ موالنا تھانوی کی ایک عبارت مالحظہ فرمائیں‬
‫میالد النبی صلی اللہ علیہ وسل ّم مستحب عمل ہے اس میں شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیے نہ کہ مستحب عمل کو"۔"‬
‫ِ‬
‫مجالس حکیم االمت‪ ،‬مطبوعہ داراالشاعت اردو بازار کراچی‪ ،‬صفحہ نمبر ‪(160‬‬ ‫)‬
‫اس عبارت سے معلوم ہوا کہ‪ :‬حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا پہلے یہ ذوق تھاکہ بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے محفل میالد‬
‫منعقد کرنے کی گنجائش ہے‪ ،‬لیکن بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اور محفل میالد منعقد کرنے کومطلقا ً ممنوع‬
‫قرار دیا‪ ،‬حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خطبات "خطبات حکیم االمت" (‪ 78 /1‬ط‪ :‬ادارہ تالیفات اشرفیہ) میں حضرت رحمہ‬
‫اللہ کا ایک خطبہ شامل ہے‪ ،‬جس میں انہوں نے مروجہ میالد کو قرآن‪ ،‬حدیث ‪ ،‬اجماع اور قیاس سے رد فرمایا ہے‪،‬آپ نے‬
‫اس طویل عبارت کےابتدائی حصہ کو اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے‪ ،‬مذکورہ عبارت کے شروع میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ‬
‫اپنے ابتدائی زمانے کا مسلک بیان فرمارہے ہیں‪ ،‬لہذا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ میالد کی محفل‬
‫منعقد کرنے کے قائل تھے۔‬

‫باقی رہی بات نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک کرنا ‪ ،‬چاہے وہ آپ ﷺکی والدت باسعادت کا تذکرہ ہو ‪ ،‬آپ ﷺ کے لباس و‬
‫پوشاک وغیرہ کو یاد کرناہو یا آپ ﷺ کی نشست و برخاست‪ ،‬چلنا پھرنا‪ ،‬کھانا پینا اور دیگر احوال بیان کرناہو موجب رحمت‬
‫اور باعث برکت ہے‪ ،‬اس میں کسی مسلمان کے لیے ذرا سا شبہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں‪ ،‬لیکن مروجہ میالد اس‬
‫مخصوص صورت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‪ ،‬تابعین اور تبع تابعین کے دور میں موجود نہیں تھا اور نہ ہی‬
‫کسی شرعی دلیل سے ثابت ہے‪،‬بلکہ یہ رسم کئی مفاسد پر مشتمل ہے‪ ،‬اس مجلس کے انعقاد اور اس میں شرکت کو الزم‬
‫سمجھا جاتا ہے‪ ،‬اگر کوئی شخص شریک نہ ہو تو اسے لعن طع کیا جاتا ہے‪ ،‬مخصوص تاریخ میں میالد کے انعقاد کا اہتمام‬
‫کیا جاتا ہے‪ ،‬اس محفل میں قیام کرنا ایک ضروری امر ہے جس میں یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہماری اس‬
‫مجلس میں شریک ہیں‪ ،‬ان مجالس میں عموماموضوع روایات بیان کی جاتی ہیں‪ ،‬رات دیر تک محفل رہتی ہے جس کی وجہ‬
‫سے فجر کی نماز متاثر ہوتی ہے اور اہل محلہ بھی پریشان ہوتے ہیں‪ ،‬ان مجلسوں کے منعقد کرنے میں بے حد اسراف اور‬
‫فضول خرچی کی جاتی ہے‪ ،‬ان خرابیوں کی بنا پر مروجہ طریقے سے میالد منانا شرعا درست نہیں ‪ ،‬اس سے بچنا ضروری‬
‫ہے۔‬

You might also like