You are on page 1of 15

‫‪Islamiyat-2015‬‬

‫)حص ِہ دوم(‬

‫‪-1‬اسﻼمی عبادات کی روحانی اور مالی اثرات پر مختصر تعارف لکهيں ؟‬


‫دين ميں عبادات کا مقام‪ :‬دين ميں عبادات کو ريڑه کی ہڈی کی حيثيت حاصل ہيں‪ ،‬عبادات کے‬
‫بغير دين کو صحيح صورت پہ باقی رکهنا ممکن نہيں‪ ،‬اگرچہ دين کے تمام احکام کی تعميل‬
‫زکوة اور حج کے اندر جو‬ ‫لوجہ ﷲ عبادت ہے مگر عام طور پر مشہور عبادتيں‪ :‬نماز‪ ،‬روزه‪ٰ ،‬‬
‫اعلی سے ربط اور مناسبت پيدا کرنے کی تاثير اور انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو‬
‫ٰ‬ ‫مﻸ‬
‫کی ترقی اور تکميل کی خاصيت ہے وه کسی دوسرے عمل ميں نہيں‪ ،‬ان کو عبادات ميں وہی‬
‫مقام حاصل ہے جو اعضاء جسم ميں قلب و دماغ کو ہے اسی بنا پر ان کو خاص اہميت دی‬
‫گئی ہے اور ان پر اسﻼم کی بنياد رکهی گئی ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫اسﻼم کی بنياد پانچ چيزوں پر ہے‪ ،‬اس بات کی شہادت دينا کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہيں‬
‫زکوة اداکرنا‪ ،‬حج کرنا اور‬
‫اور محمد صلی ﷲ عليہ وسلم ﷲ کے رسول ہيں‪ ،‬نماز قائم کرنا‪ٰ ،‬‬
‫رمضان کے روزے رکهنا۔ يہ بنيادی عبادات ہيں؛ ليکن ان کا دائره محدود نہيں ہے؛ بلکہ بے‬
‫حد وسيع ہے‪ ،‬انسان کے ليے ضروری ہے کہ اہم عبادات کے ذريعے اپنی ساری زندگی کو‬
‫کامياب بنائے اور پهر اصل مقصود جو رضاء ٰالہی ہے وه حاصل کرے‪ ،‬بقول آزاد قرآن کہتا‬
‫ہے‪” :‬اصل دين خدا پرستی اور نيک عمل ہے۔“‬
‫‪ -2‬اسﻼم ميں حلت و حرمت کے احکام ميں خصوصی حکمتيں کيا ہيں ؟‬
‫حﻼل کا ماده )ح ل ل( َح ﱠل کے اصل اور لغوی معنی ہيں گره کهول دينا۔ يہی وجہ ہے کہ جب کسی جمی ہوئی چيز کو‬
‫پگهﻼ ديا جائے تو اسے بهی َح ﱞل کہتے ہيں يعنی اس کی گره کهل گئی يا کهول دی گئی۔الحﻼل حرام کی ضد ہے چونکہ‬
‫حرام کے معنی شدت کے ساته روک دينے کے ہيں اس ليے حﻼل کے معنی اس روک کو دور کر دينے کے ہوئے۔‬
‫حليلہ بيوی کو کہتے ہيں اور ا َ ْل َح َﻼ ِئ ُل ا َ ْبن ِ‬
‫َائ ُک ْم کا مطلب ہے تمہارے حقيقی بيٹوں کی بيوياں يعنی جو تمہارے بيٹوں کے‬
‫ليے حﻼل کر دی گئی ہيں۔ حرام کا ماده )ح ر م( ہے جس کے لغوی معنی شدت کے ساته روک دينے کے ہيں قرآنی‬
‫قرآن کريم ميں پائے جاتے ہيں ان‬
‫ِ‬ ‫اشارات کی مختصر وضاحت حلت و حرمت کے وه تشريعی اصول جن کے اشارات‬
‫ميں سے نہايت ضروری اصولوں کو اس طرح بيان کيا جا سکتا ہے۔ مثﻼً‪١ :‬۔ زمين کی تمام اشياء اصﻼً مباح ہيں۔ ‪٢‬۔‬
‫تحليل و تحريم صرف اور صرف رب کريم کا حق ہے۔ ‪٣‬۔ حﻼل کو حرام اور حرام کو حﻼل قرار دينا شرک کے قريب‬
‫قريب ہے۔ ‪۴‬۔ حرام چيزيں انسان کے ليے مضرت کا باعث ہوتی ہيں۔ ‪۵‬۔ حﻼل ‪ ،‬حرام سے بے نياز کر ديتا ہے۔ ‪۶‬۔ حرام‬
‫کے حيلے تﻼش کرنابهی حرام ہے۔ ‪٧‬۔ نيک نيتی حرام کو حﻼل نہيں کر سکتی۔ ‪٨‬۔ حرام سب کے ليے حرام ہے۔ ‪٩‬۔‬
‫حرام ميں مبتﻼ ہونے کے انديشہ سے مشتبہات سے اجتناب۔ ‪١٠‬۔ ضرورتيں محظورات کو مباح کر ديتی ہيں‬

‫‪ -3‬قران و سنت کی روشنی ميں چند گنا ِه کبيره لکهيں جن سے بچنے کا حکم ديا گيا ہے‬

‫’ گناه کبيره کی تعريف ميں بہت اقوال ہيں جامع تر قول وه ہے جس کوروح المعانی ميں شيخ اﻻسﻼم بارزی‬
‫سے نقل کيا گياہے کہ جس گناه پر کوئی وعيد ہو ياحد ہو يا اس پر لعنت آئی ہو يا اس ميں مفسده کسی ايسے‬
‫گناه کے برابر يا زياده ہو جس پروعيد ياحد يالعنت آئی ہو ياوه براه تہاون فی الدين صادر ہو وه کبيره ہے اور‬
‫اس کا مقابل صغيره ہے اور حديثوں ميں جو عددوارد ہے اس سے مقصود حصر نہيں‪ ،‬بلکہ مقتضائے وقت‬
‫ان ہی کا ذکر ہوگا۔‘‘ بخاری و مسلم کی ايک حديث ميں ہے کہ‪ :‬رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا‬
‫کہ کبيره گناہوں ميں بهی جو سب سے بڑے ہيں تمہيں ان سے باخبر کرتا ہوں‪ ،‬وه تين ہيں‪ ،‬ﷲ تعالی کے‬
‫ساته کسی مخلوق کو شريک ساجهی ٹهہرانا‪ ،‬ماں باپ کی نافرمانی اور جهوٹی گواہی دينا يا جهوٹ بولنا۔‬
‫اور صحيح بخاری کی ايک روايت ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم نے شرک اور قتل ناحق اور يتيم کا‬
‫مال ناجائز طريق پر کهانے اور سود کی آمدنی کهانے اور ميدان جہاد سے بهاگنے اور پاک دامن عورتوں‬
‫پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بيت ﷲ کی بے حرمتی کرنے کو کبيره گناہوں ميں‬
‫شمار فرمايا ہے۔ اسی طرح ايک حديث ميں ارشاد فرمايا کہ‪ :‬سب سے بڑا کبيره گناه يہ ہے کہ انسان اپنے‬
‫مسلمان بهائی پر ايسے عيب لگائے جس سے اس کی آبرو ريزی ہوتی ہو۔‬

‫‪ -4‬زکوة ايک مالی عبادت ہے اس کے مالی فوائد پر مختصر نوٹ لکهيئے‬


‫زکوة کے معنی پاک ہونے اور بڑهنے کے ہيں اور شريعت ميں خالص اﷲ کی خوش‬ ‫عربی ميں ٰ‬
‫زکوة‬
‫نودی اور شرح کے حکم کے مطابق ايک مقرره اور متعين مال کسی مستحق کو دينے کا نام ٰ‬
‫زکوة پانے والے سے کسی قسم کا فائده نہ‬‫زکوة دينے واﻻ ٰ‬‫ہے۔ اس کے ساته يہ بهی شرط ہے کہ ٰ‬
‫زکوة ادا نہيں ہوگی۔ شريعت ميں‬‫اٹهائے گا اور اس کے عوض ميں اگر اس کی اميد رکهے گا تو ٰ‬
‫زکوة اس ليے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا باقی مال پاک ہوجاتا ہے۔ لغت‬ ‫اس مالی عبادت کو ٰ‬
‫زکوة کے معنی پاکيزگی اور برکت کے ہيں۔ مال اور دولت سے انسان ميں بخل‪ ،‬تکبر اور‬ ‫ميں ٰ‬
‫زکوة کی‬
‫زکوة فرض کی ہے‪ ،‬تاکہ ٰ‬ ‫تعالی نے ٰ‬
‫ٰ‬ ‫حرص پيدا ہوتی ہے‪ ،‬مالی عبادت کے طور پر اﷲ‬
‫تقوی پيدا ہو۔‬
‫ٰ‬ ‫ادائيگی سے ان اخﻼقی امراض کا خاتمہ ہو اور انسان ميں قناعت‪ ،‬انکساری اور‬
‫زکوة وصول کرکے ان کے )قلب و ذہن( کا تزکيہ‬ ‫تعالی ہے‪’’:‬ان کے اموال سے ٰ‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫زکوة ادا کرکے دولت مند‪ ،‬غريب‪ ،‬مفلس و نادار پر‬‫کيجيے۔‘‘ )سورۀ توبہ( قرآن کريم کی رو سے ٰ‬
‫کسی بهی قسم کا کوئی احسان نہيں کرتا‪ ،‬بلکہ وه حق دار کو اس کا حق لوٹاتا ہے جو مال و دولت‬
‫عطا کرنے والے رب کريم نے اس کے مال ميں شامل کر رکها ہے۔‬
‫‪ -5‬حج کے مناسک کا تعارف لکهيئے‬
‫اگر کے مناسک پر غور کيا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر مرحلہ اپنے اندر اخﻼقی و روحانی تربيت کا سامان رکهتا‬
‫ہے۔ جب ايک شخص اپنے عزيز واقارب کو چهوڑ کر اور دنيوی دلچسپيوں سے منہ موڑ کر دوآن کی‬
‫چادريں اوڑه کر لبيك اللهم لبيک کی صدائيں بلند کرتے ہوئے بيت ﷲ شريف ميں حاضر ہوتا ہے تو اس کا يہ‬
‫سفر ايک طرح سے سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اس دينی ماحول اور پاکيز و فضا ميں جب وه مناسک‬
‫حج ادا کرتا ہے تو اس کی حالت ہی عجيب ہوتی ہے۔ ميدان عرفات کے قيام ميں اسے وه بشارت ياد آتی ہے‬
‫جس ميں ﷲ تعالی نے دين اسﻼم کی صورت ميں مسلمانوں پر اپنی نعمت کی تکميل کا ذکر فرمايا ہے۔ اسے‬
‫حضور اکرم کی تين نئے مبارک خطے کی بے مثال ہدايات ياد آتی ہيں۔ اسے يکم ياد آتا ہے کہ ميرے بعد‬
‫گمراہی سے بچنے کے ليے قرآن اورحديث کو مضبوطی سے تهانے رہتا۔ قربانی کرتے وقت حضرت ابراہيم‬
‫عليہ السﻼم کی بے نظيرقربانياں ياد آتی ہيں ۔ وه سوچتا ہے جمل قربانيوں کے مقابلے ميں اس کی چهوٹی‬
‫موٹی خواہشات کی قربانی کی حقيقت ہی کيا ہے؟ ميرا تو مرنا جينا بهی خدا ہی کے ليے ہونا چاہيے۔ ايسے‬
‫ميں اس کے لبوں پر سيکلمات جاری ہوتے ہيں۔ ‪ .‬ترجمہ‪:‬۔ کہ ميری نماز اور ميری قربانی اور مير امين اور‬
‫مرنا ﷲ ہی کے ليے ہے جو پالنے واﻻ سارے جہان کا ہے۔ کوئی نہيں اس کا شريک اور ہيں مجهے علم ہوا‬
‫اور ميں سب سے پيسے فرمانبردار ہوں ۔ مقام مسنی ميں وه اس عزم کے ساته اپنے ازلی دشمن شيطان کو‬
‫نگر بايں مارتا ہے کہ اب اگر يہ ميرے اور ميرے ﷲ کے درميان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے‬
‫پہچانے ميں غلطی نہيں کروں گا۔ جب وه بيت ﷲ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خيال سے وجود‬
‫ميں آجاتی ہے کہ جس گهر کی زيارت کی تمنا تهی وه آج نظر کے سامنے ہے۔ خدا سے لو لگائے رکهنے‬
‫کی يہ کيفيت جامی کے کام آتی ہے ۔ طواف کے بعد وه صفا اور مروه کے درميان سعی کرتا ہے ۔ تو گويا‬
‫زبان حال سے کہتا ہے کہ اے ﷲ! تيرے قرب سے حاصل ہونے والی اس قوت ايمان کو ميں تيرے دين کی‬
‫سربلندی کے ليے وقف کر دوں گا اور عمر بهر حضرت گند کاری کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کروں‬
‫گا۔ دل کی يہی تمنا دعا بن کر اس طرح لبوں تک آتی ہے۔ ‪ -‬ﷲ استعملى بشئة تبيک وتوفي على مله و ايمنی‬
‫من مضﻼت الفس‪ .‬ترجمہ‪:‬۔ اے ميرے ﷲ! مجهے اپنے نبی کے طريقے پر کار بند رکه اور اس پرعمل کرتے‬
‫ہوئے مجهے اپنے پاس بﻼلے۔ اور نفسانی الغزشوں سے مجهے محفوظ فرمادے۔‬
‫نماز قصر پر مختصر نوٹ لکهيئے‬
‫‪ِ -6‬‬
‫ايک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے والے کو مسافر کہتے ہيں۔ مسافر کو سفر ميں پوری نماز ادا کرنے کی‬
‫بجا ٔے قصر پڑهنا افضل ہے۔ قصر يعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑهنا‪ ،‬مسافر کے حق ميں دو ہی‬
‫رکعتيں پوری نماز ہے اگر قصدا ً چار رکعت پڑهے گا تو گنہگار اور مستحق عذاب ہے کہ واجب ترک کيا‬
‫ٰلہذا توبہ کرے۔ سنتوں ميں قصر نہيں بلکہ پوری پڑهی جائيں گی۔ البتہ خوف اور رواداری کی حالت ميں‬
‫معاف ہيں اور امن کی حالت ميں پڑهی جائيں‪.‬‬
‫‪ -7‬عقائ ِد اسﻼم کا تعارف لکهيئے‬
‫نيادی عقائد عقيد و عقد سے بنا ہے جس کے معنی ہيں باندها اور گره لگانا تو عقيده کے معنی ہوئے باندهی‬
‫ہوئی يا گره لگائی ہوئی چيز ۔ انسان کے پيتے اور ان نظريات کو عقائد کہا جاتا ہے۔ اس کا ہر کام کی‬
‫نظريات کا کس ہوتا ہے۔ يہ عقائد اس کے دل و دماغ پر حکمرانی کرتے ہيں ۔ سہی اس کے اعمال کے‬
‫محرک ہوتے ہيں۔ عقيدے کی مثال ايک جيسی ہے اور مل اس نيت سے اگنے واﻻ پودا۔ يہ ظاہر ہے کہ‬
‫پودے ميں وہی خصوصيات ہوں گی جو ميں پوشيده ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ ﷲ تعالی کے تمام پيامبر وان‬
‫نے اپنی بات کا آغاز عقائد کی اصﻼح سے کيا ۔ سيد دو عالم حضرت محمد رسول ﷲ ا نے بهی جب‬
‫مکہ مکرمہ ميں پيغام رسالت پہنچانا شروع کيا تو سب سے پہلے عقائد کی اصﻼح پر زور ديا ۔ اسﻼم‬
‫کے بنيادی عقائد يہ ہيں۔‬
‫توحيد رسالت مﻼئکه آسمانی کتابوں اور آخرت پر ايمان ﻻتا۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے۔ ولكن البر من آمن با‬
‫واليوم اﻷخير والمملكة والكتب والبينج )سورة البقره‪ :‬ے ۔ا( ترجم‪ :‬ليکن بڑی نيکی تو يہ ہے جو کوئی‬
‫ايمان ﻻئے ﷲ پر اور قيامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور سب )الہامی کتابوں اور پيغمبروں پر۔‬
‫)حص ِہ سوم(‬
‫منشور انسانيت ہے‪ ,‬نوٹ لکهيئے‪.‬‬ ‫ِ‬ ‫‪-1‬خطبہ حجتہ الوداع ايک‬
‫خطبہ حجۃ الوداع بﻼشبہ انسانی حقوق کا ّاولين اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اسے تاريخی حقائق کی روشنی‬
‫ميں انسانيت کا سب سے پہﻼمنشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔]‪ [1‬محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم‬
‫نے جو آخری حج کيا اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہيں۔ ايک اس حوالہ سے کہ محمد صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ وسلم نے آخری حج وہی کيا اور اس حوالے سے بهی کہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم‬
‫نے خود اس خطبہ ميں ارشاد فرمايا ‪َ :‬و ﱠ ِ ﻻَ أَ ْد ِري لَ َع ِلّي ﻻَ أَ ْلقَا ُك ْم بَ ْع َد يَ ْو ِمي َه َذا۔]‪ [2‬يہ ميری تم سے آخری‬
‫اجتماعی مﻼقات ہے‪ ،‬شايد اس مقام پر اس کے بعد تم مجه سے نہ مل سکوں۔ خطبہ حجۃ الوداع کو‬
‫اسﻼم ميں بڑی اہميت حاصل ہے۔ اس منشورميں کسی گروه کی حمايت کوئی نسلی‪ ،‬قومی مفادکسی قسم‬
‫کی ذاتی غرض وغيره کا کوئی شائبہ تک نظرنہيں آتا۔ ذی قعده ‪ 10‬ہجری ميں محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ‬
‫وسلم نے حج کااراده کيايہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کا پہﻼ اورآخری حج تها۔ اسی حوالے سے‬
‫اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ يہ ابﻼغ اسﻼم کی بنا پر’’حج اﻻسﻼم‘‘اور’’حج البﻼغ‘‘کے نام سے بهی‬
‫موسوم ہے۔ اس حج کے موقع پر محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نے جو خطبہ ارشادفرمايا اسے خطبہ‬
‫حجۃ الوداع کہتے ہيں۔ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم کے گرد ايک ﻻکه چوبيس ہزار يا ايک ﻻکه‬
‫چواليس ہزار انسانوں کا سمندر ٹهاٹهيں مار رہا تها۔]‪ 9 [3‬ذوالحجہ ‪ 10‬ه کو آپ صلی ﷲ عليہ و آلہ‬
‫وسلم نے عرفات کے ميدا ن ميں تمام مسلمانوں سے خطاب فرمايا۔ يہ خطبہ اسﻼمی تعليمات کا نچوڑ‬
‫ہے۔ اور اسﻼم کے سماجی‪ ،‬سياسی اور تمدنی اصولوں کا جامع مرقع ہے‪ ،‬اس کے اہم نکات اور ان کے‬
‫مذہبی اخﻼقی اہميت حسب ذيل ہے‬
‫خطبہ ‪” :‬سب تعريف ﷲ ہی کے ليے ہم اسی کی حمد کرتے ہيں۔ اسی سے مدد چاہتے ہيں۔ اس سے معافی مانگتے ہيں۔‬
‫اسی کے پاس توبہ کرتے ہيں اور ہم ﷲ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائيوں اور اپنے اعمال کی خرابيوں سے پناه‬
‫مانگتے ہيں۔ جسے ﷲ ہدايت دے تو پهر کوئی اسے بهٹکا نہيں سکتا اور جسے ﷲ گمراه کر دے اس کو کوئی راه‬
‫ہدايت نہيں دکها سکتا۔ ميں شہادت ديتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہيں وه ايک ہے۔ اس کا کوئی شريک نہيں‬
‫اور ميں شہادت ديتا ہوں کہ محمد اس کا بنده اور رسول ہے۔‬
‫ﷲ کے بندو! ميں تمہيں ﷲ سے ڈرنے کی تاکيد اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آماده کرتا ہوں اور ميں اسی‬
‫سے ابتدا کرتا ہوں جو بهﻼئی ہے۔‬
‫لوگو! ميری باتيں سن لو مجهے کچه خبر نہيں کہ ميں تم سے اس قيام گاه ميں اس سال کے بعد پهر کبهی مﻼقات کر‬
‫سکوں۔‬
‫ہاں جاہليت کے تمام دستور آج ميرے پاؤں کے نيچے ہيں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر‪ ،‬سرخ کو سياه‬
‫تقوی کے سبب سے ۔‬
‫ٰ‬ ‫پر اور سياه کو سرخ پر کوئی فضيلت نہيں مگر‬
‫خدا سے ڈرنے واﻻ انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اوﻻد ميں سے ہو اور آدم مٹی‬
‫سے بنے تهے۔‬
‫لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتيں ايک دوسرے پر ايسی حرام ہيں جيسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر‬
‫کی اور اس مہينہ کی حرمت کرتے ہو۔ ديکهو عنقريب تمہيں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وه تم سے تمہارے‬
‫اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار ميرے بعد گمراه نہ بن جانا کہ ايک دوسرے کی گردنيں کاٹتے رہو۔‬
‫جاہليت کے قتلوں کے تمام جهگڑے ميں ملياميٹ کرتا ہوں۔ پہﻼ خون جو باطل کيا جاتا ہے وه ربيعہ بن حارث‬
‫عبدالمطلب کے بيٹے کا ہے۔ )ربيعہ بن حارث آپ کا چچيرا بهائی تها جس کے بيٹے عامر کو بنو ہذيل نے قتل کر‬
‫ديا تها(‬
‫اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وه اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وه موقوف کر ديا گيا ہے۔ ہاں‬
‫تمہارا سرمايہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کيا جائے۔ ﷲ نے فيصلہ فرما ديا ہے کہ سود ختم کر ديا‬
‫گيا اور سب سے پہلے ميں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔۔‬
‫لوگو! تمہاری اس سرزمين ميں شيطان اپنے پوجے جانے سے مايوس ہو گيا ہے ليکن ديگر چهوٹے گناہوں ميں اپنی‬
‫اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اس ليے اپنا دين اس سے محفوظ رکهو۔‬
‫ﷲ کی کتاب ميں مہينوں کی تعداد اسی دن سے باره ہے جب ﷲ نے زمين و آسمان پيدا کئے تهے ان ميں سے چار‬
‫حرمت والے ہيں۔ تين )ذيقعد ذوالحجہ اور محرم( لگا تار ہيں اور رجب تنہا ہے۔‬
‫لوگو! اپنی بيويوں کے متعلق ﷲ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بيوی بنايا اور خدا کے‬
‫کﻼم سے تم نے ان کا جسم اپنے ليے حﻼل بنايا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وه تمہارے بستر پر کسی‬
‫غير کو نہ آنے ديں ليکن اگر وه ايسا کريں تو ان کو ايسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر يہ‬
‫ہے کہ تم ان کو اچهی طرح کهﻼؤ ‪ ،‬اچهی طرح پہناؤ۔‬
‫تمہارے غﻼم تمہارے ہيں جو خود کهاؤ ان کو کهﻼؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔‬
‫خدا نے وراثت ميں ہر حقدار کو اس کا حق ديا ہے۔ اب کسی وارث کے ليے وصيت جائز نہيں۔ لڑکا اس کا وارث جس‬
‫کے بستر پر پيدا ہو‪ ،‬زناکار کے ليے پتهر اوران کے حساب خدا کے ذمہ ہے۔‬
‫عورت کو اپنے شوہر کے مال ميں سے اس کی اجازت کے بغير لينا جائز نہيں۔ قرض ادا کيا جائے۔ عاريت واپس کی‬
‫جائے۔ عطيہ لوٹا ديا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‬
‫مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بيٹا ذمہ دار نہيں اور بيٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہيں۔‬
‫۔ لوگو! نہ تو ميرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جديد امت پيدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی‬
‫عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بهر ميں ايک مہينہ رمضان کے روزے رکهو۔ خانہ خدا کا حج بجا ﻻؤ۔ ميں‬
‫تم ميں ايک چيز چهوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ ليا تو گمراه نہ ہوگے وه کيا چيز ہے؟ کتاب ﷲ اور‬
‫سنت رسول ﷲ۔‬
‫“ اس جامع خطبہ کے بعد آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ وسلم نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا‪ :‬لوگو! قيامت‬
‫کے دن خدا ميری نسبت پوچهے گا تو کيا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہيں گے کہ آپ نے خدا کا‬
‫پيغام پہنچا ديا اور اپنا فرض ادا کر ديا‘‘۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹهائی اور فرمايا۔’’اے خدا تو گواه رہنا‘‘۔‬
‫’’اے خدا تو گواه رہنا‘‘ اے خدا تو گواه رہنا اور اس کے بعد آپ نے ہدايت فرمائی کہ جو حاضر ہيں وه ان لوگوں‬
‫کو يہ باتيں پہنچا ديں جو حاضر نہيں ہيں۔‬
‫ت زار اور اسﻼم ميں ان کے حقوق کا تعارف لکهيئے‬
‫‪ -2‬اسﻼم سے قبل خواتين کی حال ِ‬
‫اسﻼم نے عورت کو ذلت اور غﻼمی کی زندگی سے آزاد کرايا اور ظلم و استحصال سے نجات دﻻئی۔ اسﻼم نے ان تمام‬
‫قبيح رسوم کا قلع قمع کر ديا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تهيں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن‬
‫ميں سے چند درج ذيل ہيں‬
‫تعالی نے تخليق کے درجے ميں عورت اور مرد کو برابر رکها ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ‬ ‫ٰ‬ ‫‪1 :‬۔ ﷲ‬
‫ہے جو مرد کو حاصل ہے‪ ،‬ارشاد ربانی ہے ‪’’ :‬اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‪ ،‬جس نے تمہاری پيدائش )کی ابتداء(‬
‫ايک جان سے کی پهر اسی سے اس کا جوڑ پيدا فرمايا پهر ان دونوں ميں بکثرت مردوں اور عورتوں )کی تخليق(‬
‫کو پهيﻼ ديا۔‘‘ النساء‪1 : 4 ،‬‬
‫تعالی کے اجر کے استحقاق ميں دونوں برابر قرار پائے۔ مرد اور عورت دونوں ميں سے جو کوئی عمل کرے‬ ‫ٰ‬ ‫‪ 2‬۔ اﷲ‬
‫گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشا ِد ربانی ہے ‪’’ :‬پهر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی )اور‬
‫فرمايا( يقينا ً ميں تم ميں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہيں کرتا خواه مرد ہو يا عورت‪ ،‬تم سب ايک‬
‫دوسرے ميں سے )ہی( ہو‘‘ آل عمران‪195 : 3 ،‬‬
‫‪3‬۔ نوزائيده بچی کو زنده زمين ميں گڑه جانے سے نجات ملی۔ يہ رسم نہ تهی بلکہ انسانيت کا قتل تها۔‬
‫‪4‬۔ اسﻼم عورت کے لئے تربيت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان‪ ،‬تعليم اور عﻼج کی سہولت‬
‫’’ولی اﻻمر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔‬
‫‪5‬۔ عورت کی تذليل کرنے والے زمانہ جاہليت کے قديم نکاح جو درحقيقت زنا تهے‪ ،‬اسﻼم نے ان سب کو باطل‬
‫کرکے عورت کو عزت بخشی۔‬
‫ق ملکيت عطا کيا ہے۔ وه نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت‬ ‫‪6‬۔ اسﻼم نے مردوں کی طرح عورتوں کو بهی ح ِ‬
‫تعالی ہے ‪’:‬مردوں کے لئے اس )مال(‬ ‫ٰ‬ ‫کے تحت حاصل ہونے والی امﻼک کی مالک بهی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری‬
‫ميں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قريبی رشتہ داروں نے چهوڑا ہو اور عورتوں کے لئے )بهی( ماں باپ اور‬
‫‘‘‪o‬قريبی رشتہ داروں کے ترکہ ميں سے حصہ ہے۔ وه ترکہ تهوڑا ہو يا زياده )ﷲ کا( مقرر کرده حصہ ہے‬
‫النساء‪7 : 4 ،‬‬
‫حسن سلوک کا مستحق قرار ديا۔‬ ‫ِ‬ ‫‪7‬۔ حضور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحيثيت ماں سب سے زياده‬
‫حضرت ابوہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت ہے کہ ‪ :‬ايک آدمی حضور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی بارگاه‬
‫حسن سلوک کا سب سے زياده‬ ‫ِ‬ ‫ميں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا يا رسول اﷲ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم ! ميرے‬
‫مستحق کون ہے؟ آپ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا تمہاری والده‪ ،‬عرض کيا پهر کون ہے؟ آپ صلی ﷲ عليہ‬
‫وآلہ وسلم نے فرمايا ‪ :‬تمہاری والده‪ ،‬عرض کی پهر کون ہے؟ آپ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے پهر فرمايا تمہاری‬
‫والده‪ ،‬عرض کی پهر کون ہے؟ فرمايا تمہارا والد۔‬
‫‪8‬۔ وه معاشره جہاں بيٹی کی پيدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار ديا جاتا تها۔ اسﻼم نے بيٹی کو نہ صرف‬
‫احترام و عزت کا مقام عطا کيا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بهی ٹهہرايا۔ ارشاد ربانی ہے ‪’’ :‬ﷲ تمہيں تمہاری اوﻻد‬
‫)کی وراثت( کے بارے ميں حکم ديتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکيوں کے برابر حصہ ہے‪ ،‬پهر اگر صرف‬
‫لڑکياں ہی ہوں )دو يا( دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے‪ ،‬اور اگر وه اکيلی ہو تو اس کے‬
‫لئے آدها ہے۔‘‘ النساء‪11 : 4 ،‬‬
‫‪9‬۔ قرآن حکيم ميں جہاں عورت کے ديگر معاشرتی اور سماجی درجات کے حقوق کا تعين کيا گيا ہے وہاں بطور بہن‬
‫قرآن حکيم ميں ارشاد‬
‫ِ‬ ‫بهی اس کے حقوق بيان کئے گئے ہيں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بيان کرتے ہوئے‬
‫فرمايا گيا ‪’’ :‬اور اگر کسی ايسے مرد يا عورت کی وراثت تقسيم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی‬
‫اوﻻد اور اس کا )ماں کی طرف سے( ايک بهائی يا ايک بہن ہو )يعنی اخيافی بهائی يا بہن( تو ان دونوں ميں سے‬
‫ہر ايک کے لئے چهٹا حصہ ہے‪ ،‬پهر اگر وه بهائی بہن ايک سے زياده ہوں تو سب ايک تہائی ميں شريک ہوں گے‬
‫)يہ تقسيم بهی( اس وصيت کے بعد )ہو گی( جو )وارثوں کو( نقصان پہنچائے بغير کی گئی ہو يا قرض )کی‬
‫ادائيگی( کے بعد۔‘‘ النساء‪12 : 4 ،‬‬
‫حسن سلوک‬ ‫ِ‬ ‫قرآن حکيم ہی کی عملی تعليمات کا اثر تها کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے بيوی سے‬ ‫ِ‬ ‫‪10‬۔‬
‫کی تلقين فرمائی۔ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے روايت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کی‬
‫بارگاه ميں ايک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا ‪ :‬يا رسول اﷲ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم ! ميرا نام فﻼں فﻼں‬
‫غزوه ميں لکه ليا گيا ہے اور ميری بيوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا ‪ :‬تم‬
‫واپس چلے جاؤ واپس چلے جاؤ اور اپنی بيوی کے ساته حج پر چلے جاؤ۔‘‘ اور اسی تعليم پر صحابہ کرام رضی‬
‫ﷲ عنهم عمل پيرا رہے۔‬
‫‪11‬۔ حضور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم نے خواتين کے لئے بهی اچهی تعليم و تربيت کو اتنا ہی اہم اور ضروری‬
‫قرار ديا ہے جتنا کہ مردوں کے ليے۔ يہ کسی طرح مناسب نہيں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجهتے‬
‫ہوئے اس کی تعليم و تربيت نظر انداز کر دی جائے۔ آپ صلی ﷲ عليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ‪’’ :‬اگر کسی شخص‬
‫کے پاس ايک لونڈی ہو پهر وه اسے خوب اچهی تعليم دے اور اس کو خوب اچهے آداب مجلس سکهائے‪ ،‬پهر آزاد‬
‫کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘‬
‫نظام عدل ايک مضبوط نظام ہے‪ ,‬نوٹ لکهيئے‬
‫ِ‬ ‫‪ -3‬اسﻼمی‬
‫بے شک رسول ﷲ ﷺ کا اُسو ٔه حسنہ ہمارے ليے زندگی گزارنے کا بہترين نمونہ ہے۔ آ ؐپ کی حيات مبارکہ ميں سفر ہو‬
‫يا حضر‪ ،‬داخلی معامﻼت ہوں يا خارجی‪ ،‬خلوت ہو يا جلوت‪ ،‬امن ہو يا جنگ ال غرض ہر شعبے اور معاملے ميں‬
‫سيرت النبی ﷺ پر عمل کرنے کے بہترين اصول نماياں ہيں۔‬
‫تعالی نے رسول ﷲ ﷺ کو معلم بناکر دنيا ميں بهيجا‪ ،‬ليکن اگر آ ؐپ کی سيرت کا بہ غور مطالعہ کيا جائے‬ ‫ٰ‬ ‫بے شک ﷲ‬
‫ت مبارکہ کہيں معلم کی‬‫تعالی نے آ ؐپ کو صرف معلم بناکر نہيں بهيجا بل کہ آ ؐپ کی ذا ِ‬
‫ٰ‬ ‫تو معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ‬
‫حيثيت سے نماياں ہوتی ہے‪ ،‬کہيں ايک بہترين قانون ساز کی حيثيت سے ابهر کر سامنے آتی ہے اور کہيں بہترين‬
‫مربی اور تربيت کار کی حيثيت سے واضح ہوتی ہے۔‬
‫اسی طرح آقا کريم ﷺ کی زندگی کا ايک شعبہ اور منصب قاضی کا بهی ہے۔ آپ ﷺ نے بہ حيثيت قاضی کئی فيصلے‬
‫نافذ فرمائے۔ انصاف کا شعبہ نہايت اہم شعبہ ہے۔ اس کی اہميت کا اندازه اس بات سے لگايا جاسکتا ہے کہ ﷲ رب‬
‫العزت نے قرآن مجيد ميں کئی مقامات پر عدل و انصاف کے ساته فيصلہ کرنے کا حکم فرمايا۔ ﷲ رب العزت نے‬
‫تقوی کے قريب قرار ديا ہے۔ قرآن مجيد کی متعدد آيات ميں عدل کرنے کا حکم ديا گيا ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن کريم ميں عدل کو‬
‫تعالی کا مفہوم ہے‪ ’’ :‬اور فرما ديجيے ميں اس کتاب پر ايمان رکهتا ہوں جو ﷲ نے نازل فرمائی ہے‬ ‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬
‫الشوری(‬
‫ٰ‬ ‫اور مجهے حکم ہوا ہے کہ ميں تمہارے درميان عدل قائم کروں۔‘‘ )سورة‬
‫’’ اور کہہ ديجيے کہ ميرے رب نے مجهے انصاف کا حکم ديا ہے۔‘‘ )سورة اﻻعراف(‬
‫’’ اور جب آپ ان کے درميان فيصلہ کريں تو انصاف کے ساته فيصلہ کريں۔‘‘ ) المائده(‬
‫آ ؐپ کی عدالت سے انصاف کا حصول نہايت آسان تها۔ کسی بهی قبيلے سے تعلق رکهنے واﻻ شخص آ ؐپ کی عدالت سے‬
‫جلد اور بہ آسانی انصاف حاصل کرليتا۔ اسی طرح آ ؐپ کی عدالت سے کوئی بهی مجرم بغير سزا پائے نہيں بچتا تها‪،‬‬
‫اعلی قبيلے سے ہوتا۔ آ ؐپ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو کسی کی سفارش قبول کيے بغير‬ ‫ٰ‬ ‫اگرچہ اس کا تعلق کسی‬
‫کريم نے لوگوں کو بهی حدود ﷲ ميں سفارش کرنے سے بهی‬ ‫ؐ‬ ‫سزا سنا ديتے اور اس پر عمل درآمد کرديا جاتا۔ آقا‬
‫منع فرمايا۔ چناں چہ ارشاد فرمايا‪ ،‬مفہوم ‪ ’’ :‬ﷲ کی حدود دور و نزديک سب پر قائم کرو اور کہيں تمہيں لوگوں کی‬
‫مﻼمت اس عمل سے روک نہ دے۔‘‘ )ابن ماجہ(‬
‫’’ حدو ِد ٰالہی ميں سے کسی حد ميں جس شخص کی سفارش حائل ہوگئی تو وه ﷲ کے حکم ميں ﷲ کی مخالفت کرنے‬
‫ابوداود (‬
‫ٔ‬ ‫واﻻ ہے۔‘‘ )‬
‫ت خود اس پر عمل کرکے قيامت تک آنے والوں کے ليے ايک عظيم مثال قائم کی ہے۔ حدود ﷲ ميں‬ ‫آپ ﷺ نے بہ ذا ِ‬
‫عائشہ سے مروی ہے کہ چوری کرنے والی‬ ‫ؓ‬ ‫سفارش قبول نہ کرنے کے متعلق ايک مشہور حديث شريف حضرت‬
‫ايک بااثر مخزومی عورت کے معاملے نے قريش کو پريشان کرديا۔ لوگوں نے مشوره کيا کہ رسول ﷲ ﷺ سے اس‬
‫اسامہ کے سوا کوئی اس کی جرأت نہيں کرے گا‪ ،‬کيوں کہ‬ ‫ؓ‬ ‫کی سفارش کے ليے کون بات کرے گا؟ انہوں نے کہا‪:‬‬
‫اسامہ نے رسول ﷲ ﷺ سے اس کی سفارش کی تو آپ ﷺ نے فرمايا‪ ’’ :‬تم‬ ‫ؓ‬ ‫وه رسول ﷲ ﷺ کے چہيتے ہيں۔ حضرت‬
‫ﷲ کی حدود ميں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پهر آپ ﷺ خطبے کے ليے کهڑے ہوئے اور فرمايا‪ ’’ :‬اے لوگو! تم سے پہلے‬
‫کے لوگ اسی وجہ سے ہﻼک ہوئے کہ ان ميں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وه اسے چهوڑ ديتے‪ ،‬جب‬
‫فاطمہ بهی چوری‬
‫ؓ‬ ‫ادنی شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ ﷲ کی قسم ! اگر محمد ) ﷺ ( کی بيٹی‬ ‫کوئی ٰ‬
‫کرتی تو ميں اس کا ہاته بهی کاٹ ديتا۔‘‘ )بخاری (‬
‫اقبال جرم کرنے پر سزا‬
‫ِ‬ ‫آپ ﷺ کی عدالت ميں چوری کے متعدد مقدمات آئے جن ميں آپ ﷺ نے بعض اوقات چور کو‬
‫سنائی اور بعض اوقات آ ؐپ چوری کے معاملے ميں تفتيش و تحقيق کے بعد مجرم کو سزا کا حق دار ٹهہرا تے‬
‫صفوان سے روايت ہے کہ انہوں‬ ‫ؓ‬ ‫تهے‪ ،‬محض کسی کے کہنے يا الزام لگانے پر فيصلہ نہيں سناتے تهے۔ حضرت‬
‫نے بيت ﷲ کا طواف کيا اور نماز پڑهی‪ ،‬پهر اپنی چادر کو لپيٹا اور اسے سر کے نيچے رکه کر سوگئے۔ ايک‬
‫چور آيا‪ ،‬اس نے چادر کو ان کے سر کے نيچے سے نکال ليا۔ انہوں نے اس چور کو پکڑليا اور کہا ‪ :‬اس آدمی نے‬
‫ميری چادر چوری کی ہے۔ آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچها ‪ :‬کيا تم نے اس کی چادر چوری کی ہے ؟ تو اس نے‬
‫ؓ‬
‫صفوان کہنے لگے‪ :‬ميں‬ ‫اثبات ميں جواب ديا۔ آپ ﷺ نے حکم ديا کہ اس چور کو لے ٔ‬
‫جاو اور اس کا ہاته کاٹ دو۔‬
‫يہ نہيں چاہتا کہ ميری چادر کے بدلے ميں اس کا ہاته کاٹا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمايا‪ :‬يہ کام تم نے پہلے کيوں نہيں‬
‫کيا؟ )سنن نسائی(‬
‫ابوہريره‬
‫ؓ‬ ‫امور خانہ داری سے متعلق بهی کيسز درج ہوا کرتے تهے۔ حضرت‬ ‫ِ‬ ‫آپ ﷺ کی عدالت ميں ذاتی معامﻼت اور‬
‫بيان کرتے ہيں کہ ايک مرتبہ رسول ﷲ ﷺ کی خدمت ميں ايک عورت نے آکر کہا‪ :‬اے ﷲ کے رسول ﷺ ! ميرا‬
‫خاوند مجه سے ميرا بيٹا چهيننا چاہتا ہے‪ ،‬جب کہ ميرے اس بيٹے نے ابوعتبہ کے کنويں سے مجهے پانی پﻼيا ہے‬
‫اور ميری ہر طرح خدمت کی ہے تو رسول ﷲ ﷺ نے فرمايا‪ :‬قرعہ اندازی کرلو‪ ،‬تو خاوند نے کہا‪ :‬ميرے بيٹے کو‬
‫مجه سے کو ن روک سکتا ہے؟ تو نبی کريم ﷺ نے بچے سے مخاطب ہوکر فرمايا‪ :‬يہ تمہارا باپ ہے اور يہ‬
‫تمہاری ماں‪ ،‬ان دونوں ميں سے جس کا ہاته چاہو پکڑلو۔ اس نے ماں کا ہاته پکڑليا تو وه اسے لے کر چلی گئی۔ )‬
‫ترمذی (‬
‫عصر حاضر ميں اگر واقعات اور فيصلوں کو پرکها جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عدالتيں عدل و انصاف‬
‫سے کوتاہی کی مرتکب ہيں۔ مظلوم اور ملزم کئی دہائيوں تک اپنی قسمت کے فيصلے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ آقا‬
‫کريم ﷺ کی عدالت ميں ملزم پر لگائے گئے الزام کی فوری تحقيق کی جاتی تهی‪ ،‬اگر واقعی وه کسی جرم کا‬
‫مرتکب پايا جاتا تو اسے فورا ً سزا سنا دی جاتی اور اس پر عمل درآمد کرديا جاتا۔ اس کے برعکس ہماری عدالتوں‬
‫اعلی خاندان‬
‫ٰ‬ ‫ميں کئی کئی سال تک فيصلوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ايک الميہ يہ بهی ہے کہ اگر کوئی‬
‫اعلی حکام سے قريبی تعلق رکهنے واﻻ کوئی جرم کرتا ہے تو وه بغير کوئی سزا پائے بہ آسانی‬
‫ٰ‬ ‫کا شخص يا‬
‫مقدمے سے بری ہوکر رہائی حاصل کرليتا ہے جب کہ غريب اور مظلوم انصاف طلب کرتے کرتے اپنی زندگی‬
‫سے ہاته دهو بيٹهتے ہيں‪ ،‬ليکن انصاف حاصل نہيں کرپاتے۔‬
‫سن کر ان کے معامﻼت ميں تفتيش‬ ‫رسول ﷲ ﷺ کے احکامات اور فيصلوں کی پيروی منصفوں پر ﻻزم ہے۔ فريقين کو ُ‬
‫کے بعد فيصلہ سنانے کا حکم ديا گيا ہے۔ ذاتی تعلقات کو باﻻئے طاق رکهتے ہوئے بﻼ کسی امتياز کے فيصلہ سنانا‬
‫چاہيے۔ قاضی کو کسی بهی موڑ پر عدل و انصاف کا دامن نہيں چهوڑنا چاہيے۔ اسﻼم کی سربلندی اور عظمت ميں‬
‫عدل و انصاف کا بہت بڑا کردار ہے۔ اسﻼم کا نظام قضا بهی ايک شعبہ ہے جس نے اسﻼم کو تمام اديان و مذاہب‬
‫پر برتری دی ہے۔ اس شعبے کے تحت ہر شخص کو انصاف کی سہولت ميسر ہوتی ہے۔ عدل و انصاف کے بغير‬
‫کوئی بهی رياست يا مملکت عروج کو نہيں پہنچ سکتی۔ يہی ايک شعبہ سے جس سے رياست ميں امن و امان کا قيام‬
‫ممکن ہوتا ہے۔ اسﻼم کا نظام انصاف بہترين اور بے مثال نظام ہے جس کی پيروی کرنا چاہيے۔‬
‫‪ -4‬روزه رکهنے کے معاشرتی فوائد لکهيئے‬
‫‪ .1‬روزے کا ايک معاشرتی فائده يہ ہے کہ اس سے اجتماعی اراده مضبوط اور ہمت بلند ہوتی ہے جو افراد کو اپنی‬
‫نفسانی خواہشات اور ہوس پرستی پر کنٹرول حاصل کرنے ميں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ايسا شخص جو‬
‫روزے کی خاطر ‪ 14‬گهنٹے يا کم يا زياده شديد گرمی ميں کهانا پينا ترک کر سکتا ہے اور اس راستے ميں مشقت‪،‬‬
‫سختی اور بهوک پياس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بهی پرہيز کر سکتا ہے تو وه بڑی اجتماعی‬
‫مصلحتوں کی خاطر اور اپنی اور معاشرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کيلئے بهی بعض سختياں اور مشکﻼت‬
‫برداشت کرتے ہوئے عظيم اجتماعی مقاصد کے حصول ميں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫‪ .2‬روزه کا ايک اور معاشرتی فائده فقراء‪ ،‬مساکين اور محروم افراد کی حالت زار کو سمجهنا اور اس کی ياددہانی‬
‫کروانا ہے۔ اس کے عﻼوه صبر پيشہ فقير افراد کے شريف النفس اور اعلی مزاج ہونے کی جانب بهی توجہ دﻻتا‬
‫ہے۔ اگر ايک امير اور پيسے واﻻ شخص صرف ماه مبارک رمضان ميں صبر و تحمل کا مظاہره کرتے ہوئے لذيذ‬
‫کهانوں اور جنسی لذتوں سے پرہيز کرتا ہے تو ايک فقير‪ ،‬صابر اور باايمان شخص ماه مبارک رمضان کے عﻼوه‬
‫پورا سال اپنی محروميتوں پر صبر و تحمل سے کام ليتے ہوئے شرعی حدود سے تجاوز نہيں کرتا اور خداوند کريم‬
‫سے شکايت ميں اپنی زبان نہيں کهولتا اور کسی دوسرے کے مال کی جانب ﻻلچ سے نہيں ديکهتا اور امير اور‬
‫غنی افراد سے حسد کا شکار نہيں ہوتا‬
‫‪ .3‬روزے کا ايک اور فائده يہ ہے کہ روزه دار شخص آزادی اور حريت کی حقيقت کو درک کرتا ہے اور روزه اسے‬
‫روزمره عادات‪ ،‬نفسانی خواہشات اور نفس کی پيروی سے آزاد کرتے ہوئے اس کی روح کو ترقی ديتا ہے اور اس‬
‫کی سوچ کو نورانی کر ديتا ہے۔ روزه اسی طرح ايک معاشرے ميں آزادی کی روح پيدا ہونے کا باعث بنتا ہے اور‬
‫اس معاشرے کے افراد کو خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ وه خدا جس کے‬
‫سوا کوئی پرستش کے ﻻئق نہيں اور کوئی بهی مخلوق اس کی بندگی سے باہر نہيں۔ روزه انسان کو دوسرے‬
‫انسانوں کی اطاعت اور ظالم و جابر قوتوں کے سامنے جهکنے سے روکتا ہے۔‬
‫‪ .4‬روزه درحقيقت خلوص نيت‪ ،‬نيت کی پاکيزگی‪ ،‬ريا سے بچنے اور شہرت طلبی اور مخلوق خداوند کی جانب سے‬
‫اپنی تعريف و تمجيد سے اجتناب کرنے کی بہترين تمرين ہے۔ يہ عيوب اور آفتيں دوسرے نيک افعال ميں بهی پائی‬
‫جاتی ہيں ليکن روزه دار شخص رياکاری کرنے کيلئے بهوکا پياسا رہنے پر مجبور نہيں بلکہ اس کيلئے عين ممکن‬
‫ہے کہ وه چوری چهپے کهاتا پيتا رہے ليکن سب کے سامنے خود کو روزه دار ظاہر کرے‪-‬‬
‫‪ .5‬روزه داری کا ايک اور اجتماعی فائده انسان ميں حسن خلق اور عفو و درگذشت کا جذبہ پيدا ہونا ہے جس کے نتيجے‬
‫ميں کينہ توزی‪ ،‬بدرفتاری‪ ،‬بدزبانی‪ ،‬دشمنی‪ ،‬غيبت اور گالی گلوچ جيسے رذائل اخﻼقی انسان سے دور ہو جاتے‬
‫ہيں۔ کيونکہ روزه دار شخص کو ہميشہ يہ تعليم دی جاتی ہے کہ روزے کی حالت ميں اپنی آنکهوں‪ ،‬زبان اور کانوں‬
‫کا بهی خيال رکهنا اور کوئی دوسرا شخص تم سے بے ادبی سے پيش آئے اور تمہيں دشنام دے تو تم جواب ميں‬
‫اس کو ايسا نہ کہنا‪-‬‬

You might also like