You are on page 1of 7

‫تصوف کی شرعی حیثیت قرآن حدیث کی روشنی میں‬

‫اگر ہم مذھب اسالم کی تعلیمات کو سیرت نبوی کی روشنی میں دیکھیں تو سہولت کے لیے ہم اس کو تین حصوں میں‬
‫تقسیم کر سکتے ہیں شریعت طریقت اور احکام ہیں‬

‫ویسے تو ان دونوں میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے خوامخواہ لوگ ان میں تقابل پیدا کر کے مناظرہ کی صورت‬
‫اختیار کر لیتے ہیں۔‬

‫تعالی کے احکامات جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں ان کو شریعت کہتےہیں‪ A‬اس میں علم الکالم کے‬
‫ٰ‬ ‫سادہ لفظوں میں ہللا‬
‫مسائل جو ایمانیات سے تعلقق رکھتے ہیں جس کا سادہ نام علم العقائد بھی ہے جیسے توحید رسالت آخرت حشر نشر جنت‬
‫دوزخ پلصراط فرشتے جنات وغیرہ پر ایمان النا ضروری ہے۔‬

‫دوسرا علم االحکام یے جس میں روز مرہ کے فرائض واجبات سنت زندگی عبادات معامالت لین دین وغیرہ داخل ہیں ان‬
‫میں فرائض واجبات پر عمل کرنا حرام مکروہ تحریمی سے بچنا اور سنت رستہ کی پیروی کرنا وغیرہ ہے اس شعبہ کے‬
‫مسائل کو علم الفقہ اور علم االحکام کہتےہیں۔‬

‫تیسرا شعبہ طریقت ہے۔ اسکا مطلب ومقصد بھی بالکل واضح ہے یعنی شریعت کے احکامات کی ادائیگی کاملیت کے‬
‫وصف کے ساتھ کرنا ہے۔‬

‫اسی طرح اس شاخ کا ایک بنیادی مقصد ظاہری شریعت احکامات کے ساتھ ساتھ باطنی امور احساسات جزبات نیت وغیرہ‬
‫کی اصالح کرنا ہے کیونکہ صرف اور صرف ظاہری احکام کی بےجا آوری اور روحانیت وباطنیت سے خالی اعمال‬
‫میزان کے ترازو میں بالکل بےوزن ہونگے مثال کے طور پر نیت کی درستگی کا مسئلہ لیتے ہیں اگر کوئی عمل‬
‫ریاکاری کے ساتھ سرانجام دیا جائے تو وہ عمل ہللا کی نظر میں نا صرف اجر وثواب کا مستحق ہونے سے محروم ہوگا‬
‫تعالی کے ہاں وہ عمل پکڑ کا باعث بن جائے گا جسکی وجہ سے وہ عمل بھی غارت ہوجائے گا اور قابل سزا‬
‫ٰ‬ ‫بلکہ ہللا‬
‫ہوجاتا ہے اسی لیے ظاہری اعمال کی پابندی کے ساتھ اس میں روحانیت واخالص کا عنصر بھی پایا جانا ضروری ہے‬
‫اسی باطنیت کی اصالح کا نام تصوف اور طریقت ہے۔‬

‫ان تینوں عناصر کا ذکر صحیح مسلم کی حدیث حدیث جبریل میں موجود ہے جس میں جبریل امین علیہ السالم انسانی‬
‫شکل میں نبی کریم ص کے پاس آتے ہیں اور دین کے بنیادی ڈھانچہ کے بارے سواالت کرتے ہیں اور نبی کریم ص نے‬
‫اس کے ٹو دی پوائنٹ جوابات ارشاد فرمائے اس میں بنیادی طور پر تین سواالت ہیں جنکا باترتیب ذکر کیا جاتا ہے۔‬

‫پہال سوال ما االیمان‪ ،‬یا رسول ہللا ایمان کیا چیز یے؟‬
‫قال ان تؤمن ابہلل ومالئکتہ وکتبہ ورسلہ‬

‫دوسرا سوال تھا ما االسالم؟ اسالم کیا چیز یے؟ ؟‬

‫فرمایا‬
‫ان تشہد ان ال الہ ہللا وان محمد الرسول ہللا‬

‫تیسرا سوال ما االحسان یہ احسان کیا چیز ہے؟‬


‫فرماای ان تعبد ہللا اکنک تراہ‪ ،‬فان مل تراہ فانہ یراک۔(‪)1‬‬
‫اسطرح اخالص اور توجہ سے عبادت کرو کے جیسے تم ہللا کو دیکھ رہے یو‪ ،‬ورنہ کم از کم یہ درجہ پیدا کرو کہ وہ‬
‫تمہیں دیکھ رہا ہے۔‬

‫گویاکہ نبی کریم ص نے مکمل شریعت کو ان تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔‬

‫لغوی معنی‬
‫تصوف کا لغوی معنی‪ .‬تصوف کا لفظ صوف سے یا صفاء سے یا صفہ سے نکال ہے‪ .‬جس کا معنی یہ ہے‪ .‬صوف کا‬
‫معنی اون چونکہ صوفیا عاجزی کی وجہ سے اون کا لباس پہنتے تھے‪ .‬صفاء کا معنی ہے صفائی قلب چونکہ صوفیا‬
‫اپنے قلب کی باطنی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں‪ .‬صفہ کا معنی چبوترہ جوکہ اصحاب صفہ کی طرف منسوب ہے۔(‬
‫‪)2‬‬

‫اصطالحی تعریف‬
‫ابو الحسن نوری رح فرماتے ہیں۔‬
‫التصوف ترک لک حظ من النفس‬

‫یعنی تصوف غیر شرعی حظوظ کا ترک کرنا ہے۔(‪)3‬‬

‫تصوف کی دوسری تعریف یہ ہے۔‬


‫التصوف ھو الاخالق الرضیہ‬

‫یعنی تصوف عمدہ اور پسندیدہ اخالق کا نام ہے۔‬

‫ان تعریفات سے پتا چلتا ہے کہ تصوف خالص تزکیہ نفس اور اخالق کے سنوارنے کا نام ہے۔‬

‫بعثت انبیاء کرام اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کیا جائے اور یہ انتہائی‬
‫ضروری ہے۔‬

‫امام غزالی رح خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب میں ظاہری علوم کی تکمیل سے فارغ ہوا تصوف کی طرف‬
‫متوجہ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا طریقہ خالص علم وعمل کی تکمیل ہے اور انکے علم اور جد جہد کا حاصل یہ‬
‫ہے کہ نفس کے خالف گھاٹیوں کو عبور کیا جائے اور اپنے نفس کو اخالق ذمیمہ سے پاک کیا جائے تاکہ اپنے قلب کو‬
‫ہللا کی محبت کے لیے خالی کیا جائے اور اسکے مبارک ذکر سے اپنے دل کو مزین کیا جائے۔ (‪)4‬‬

‫تصوف قرآن کی روشنی میں‬


‫ویزکیھم ویعلمھم الکتاب واحلمکۃ‬

‫نبی اکرم ﷺ کے مناصب نبوت میں چار چیزوں کو بیان کیا ہے۔‬

‫تالوت کالم پاک‪ ،‬تعلیم کتاب‪ ،‬تعلیم حکمت‪ ،‬اور تزکیہ نفس یعنی آپ صلعم کو دنیا میں مبعوث کرنے کا مقصد ہی یہی ہے‬
‫کہ آپ صلعم لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کریں اور انکے اندر سے برے اخالق نکال کر اچھے اور عمدہ اخالق پیدا کریں‬
‫اور ہللا کے زکر سے انکو قلوب کو مزین کریں۔‬
‫قد افلح من زکہا‪ ،‬وقد خاب من دسہا‬
‫یعنی کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا وہ شخص جس نے اس کو برے اخالق میں‬
‫ملوث کرلیا۔‬

‫تعالی نے کامیابی کی کنجی تزکیہ نفس کو قرار دیا ہے گویاکہ تعلیمات نبوی صفف اسکے‬
‫ٰ‬ ‫اس آیت مبارکہ میں تو ہللا‬
‫علوم کو پڑھنے کا نام نہی ہے بلکہ اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کی اصالح کرنا مقصود ہے۔‬
‫وزروا ظاہر الامث وابطنہ‬

‫چھوڑ دو ظاہری گناہ اور باطنی گناہ بیشک جو لوگ گناہ کمارہے ہیں ظاہری ہوں یا باطنی انکو انکے گناہوں کی سزا‬
‫عنقریب ملے گی۔(‪)5‬‬

‫اس آیت مبارکہ میں ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے ظاہری گناہوں سے مراد وہ گناہ جو ظاہری‬
‫اعضاء سے سر انجام دیے جاتے ہیں چوری بدکرداری وغیرہ اور باطنی گناہوں سے مراد یہ وہ گناہ جو بظاہر نظر نہیں‬
‫آتے جیسے تکبر حسد کینہ بغض نفاق وغیرہ تصوف کی اصطالح میں انہی کو اخالق رزیلہ بھی کہا جاتا ہے اسی طرح‬
‫قلب اور دماغ سے کچھ نیک اعمال بھی کیے جاتے ہیں جیسے اخالص نیت‪ ،‬خشیت الہی‪ ،‬ہللا رسول سے محبت کرنا‬
‫وغیرہ انکو اخالق حمیدہ کہا جاتا ہے اس طرح تقوی اختیار کرنا بھی باطنی عمل ہے جاکے بارے میں قرآن پاک میں‬
‫جابجا حکم دیا گیا ہے۔‬

‫قرآن مجید میں بار بار توکل اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو توکل کا تعلق بھی دل سے ہے۔‬

‫ان ہللا حیب املتولکنی وعیل ہللا فلیتولک املؤمنون فتولکوان کنمت مؤمننی ومن یتولک عیل ہللا فھو حسبہ‬

‫بے شمار آیات میں توکل اور تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے گویاکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہللا نے ہمیں ان آیات مبارکہ‬
‫میں تصوف اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو لوگ تصوف کا انکار کرتے ہیں انکو چاہیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ‬
‫تصوف کی تعریف کو سامنے رکھ کر کریں۔ (‪)6‬‬

‫یہ تو اخالق حمیدہ یا فضائل اخالق کی صرف دو مثالیں پیش کی گئی ہیں اگر یم مزید اخالق حمیدہ کو دیکھیں جیسے‬
‫صبر کرنا‪ ،‬شکر کرنا رضا برضاء اختیار کرنا وغیرہ تو قرآن میں ہر ایک سے متعلق بےشمار آیات قرآنی پیش کی‬
‫جاسکتی ہیں۔‬

‫اب چند مثالیں رزائل اخالق کی پیش کی جاتی ہیں۔ جنکا ارتکاب کرنا قرآن مجید کی رو سے حرام ہے اور ان سے بچنا‬
‫فرض ہے جیسے تکبر سے بچنا فرض ہے اور تکبر کرنا حرام قرار دیا گیا ہے قرآن مجید میں جتنی مذمت تکبر اور‬
‫متکبرین کی بیان ہوئی ہے شاید کسی اور اخالق رزیلہ کی بیان نا ہوئی ہو۔‬

‫مثال کے طور پر‬


‫الیس یف جہمن مثوی للمتکربین‬

‫تعالی نے تمام مالئکہ کو حکم دیا‬


‫ٰ‬ ‫شیطان کے مردود ہونے کا سبب بھی قرآن مجید میں تکبر کو بیان کیا گیا ہے جب ہللا‬
‫کہ حضرت آدم علیہ السالم کو سجدہ کریں تو شیطان نے انکار کیا اور وجہ اسکے انکار کی تکبر کو بتایا گیا ہے ابی‬
‫واستکبر وکان من الکافرین۔ (‪)7‬‬

‫اسی طرح حدیث شریف میں یے کہ کل قیامت کے دن ہللا رب العزت ارشاد فرمائے گا این المتکبرون کہاں ہیں تکبر‬
‫کرنے والے؟(‪)8‬‬
‫ایک حدیث میں ہے ۔‬
‫ال یدخل اجلنۃ من اکن یف قلبہ مثقال زرۂ من کرب‬

‫وہ جنت میں نہی جائے گا جس کے دل میں زرہ برابر بھی تکبر ہوگا۔گویاکہ ہللا کے غضب کے مستحق ہیں وہ لوگ جو‬
‫تکبر کرنے والے ہیں‬

‫اسی طرح اخالق رزیلہ میں سے ایک ریاکاری بھی ہے جسکی انتہایی مذمت قرآن اور حدیث میں بار بار بیان کی گئی‬
‫ہیں بلکہ ایک جگہ تو ریاکاری کو والے عمل کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔‬

‫چنانچہ سورہ کہف کی آخری آیت میں فرمایا ہے۔‬


‫وال یرشک بعبادۃ ربہ احدا‬

‫اور نا شریک کرو اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک۔ (‪)9‬‬

‫اسی طرح اور بھی جتنے رزائل ہیں جیسے حسد کینہ بغض غیبت شہوت شہرت وغیرہ ان سب کی سخت قباحت قرآن اور‬
‫حدیث کی نصوص میں واضح بیان کی گئی ہیں انہی اخالق کی اصالح کو تو تصوف کہا جاتا ہے جس میں اچھے اخالق‬
‫کو پیدا کیا جاتا یے اور برے اخالق سے دل کو پاک کیا جاتا ہے اور یہ تمام نصوص اخالق حمیدہ کے فضائل میں اور‬
‫اخالق رزیلہ کی مذمت میں بیان ہوئی ہیں اب ان نصوص کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ جی تصوف قرآن اور‬
‫حدیث کے خالف ہے یا قرآن وحدیث سے الگ کوئی چیز ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے اس کو چاہیے کہ اخالق کی ان‬
‫تعریفات کو سامنے رکھ کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کرے یہ کسی نیک متقی عالم باعمل صوفی بزرگ کی مجلس کو‬
‫‪.‬اپنانے اور اپنی اصالح کی فکر کرے۔‬

‫تصوف حدیث کی روشنی میں‬


‫ہمارا موضوع دالئل کے ساتھ مکمل طور پر مبرھن ہوچکا ہے لیکن تکمیل کی غرض سے ہم ذیل میں چند احادیث کا‬
‫جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اس میں بھی تزکیہ نفس کرنے‪ ،‬اخالق حمیدہ کے حصول اور برے اخالق سے‬
‫اجتناب کرنے کی کتنی اہمیت صراحتا وارد ہوئی ہے کہ اخالق ذمیمہ کی کتنی شدید برائی اور مذمت بیان کی گئی ہے‬
‫بلکہ بعض جگہ تو اخروی نقصان کےساتھ اعمال کا مکمل ثواب ضائع ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جیسا کہ‬
‫ریاکاری سے کیا گیا کوئی بھی عمل ضائع ہو جاتا ہے جیسا کہ مشہور حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے ایک قاری قرآن‬
‫کو‪ ،‬ایک سخی اور فیاض انسان کو‪ ،‬اور ایک ہللا کی راہ میں لڑکر شہید ہونے والے افراد کے اوندھے میں جہنم میں‬
‫گرائے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ (‪)10‬‬

‫ایک حدیث قدسی میں ہے ہللا قیامت کے دن اعالن فرمائے گا‬


‫اان اغین الرشاکء عن الرشک‬

‫میں تمام شرکاء کی شرکت سے بری اور بیزار ہوں‪ .‬جو عمل دوسروں کو دکھانے کے لیے کیا گیا ہو وہ اسکے ثواب‬
‫سے بری کردے گا اور تمام اعمال کو ردکر دے گا جو نمود ونمائش کے لیے کیے گیے ہوں۔ (‪)11‬‬

‫‪.‬جن کو دکھانے کے لیے عمل کیا یے انہی سے جا کر اس کا اجر لے لو۔‬

‫اسی طرح اگر ہم حسد کی بات کریں تو اس کے بارے میں صاف الفاظ میں حدیث میں اسکی وجہ سے نیکیوں کے ضائع‬
‫ہونے کا اعالن کیا گیا ہے۔‬
‫ارشاد نبوی ہے۔‬

‫ان احلسد ایلک احلسنات کام اتلک النار احلطب‬

‫حسد ایسے نیکیوں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔‬

‫اب ان چند آیات اور احادیث کو مطالعہ کرنے کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ اخالق اور تصوف کی تعریفات کو اپنے ذھن‬
‫میں الئیں اور قپنے دل و دماغ سےفیصلہ کریں کے کیا تصوف قرآن وحدیث سے الگ کوئی چیز ہے یا عین قرآن‬
‫وحدیث کی تعلیمات کی عملی مشق کا نام ہے‪ .‬اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ تصوف کی کونسی ایسی چیز ہے جو‬
‫قرآن وحدیث کی نصوص کے خالف ہے تصوف کی جو تعریف امام غزالی رح نے کی ہے جس کا جامع مانع خالصہ‬
‫عالمہ شامی رح نے نکاال ہے وہ یہ ہے۔‬
‫ھو عمل یعرف بہ انواع الفضائل وکیفیۃ اکتسابہا‪ ،‬وانواع الرزائل وکیفیۃ اجتنابہا‬

‫یعنی تصوف وہ علم ہے جس سے اخالق حمیدہ کی قسمیں اور انکو حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہو‪ ،‬اور اخالق رزیلہ‬
‫اور ان سے بچنے کے طریقے معلوم کیے جائیں وہ علم االخالق اور علم التصوف کہا جاتا ہے اب اس تعریف کو سامنے‬
‫رکھ کر نصوص قرآن وحدیث کو ذھن میں الئیں تو دل گواہی دے گا کہ تصوف تو عین قرآن وحدیث سے ثابت شدہ‬
‫اخالق حمیدہ کو اپنانے اور اخالق رزیلہ سے دل کو پاک کرنے کا نام ہے یہ کوئی دین سے الگ چیز تو نہی ہے۔‬

‫ہاں اگر کچھ لوگ اس کا غلط استعمال کریں یا کرامات اور کشف کو مقصود اصلی سمجھنے لگیں اور بیعت وخالفت کا‬
‫مقصد کرامات کا دیکھنا دکھانا مقصود بن جائے یا اصالح نفس کے عالوہ کچھ اور مقصد بن جائے تو یقینا یہ تصوف کا‬
‫مقصد نہیں ہے‪ .‬اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے کہ فرائض واجبات نماز روزہ پاکی ناپاکی‬
‫کا استہظار ہوجایے تو یہ ضروری ہے بالکل اسی طرح اپنے نفس کی اصالح کرنا یا کسی مرشد سے اصالح کروانا بھی‬
‫فرض ہے۔‬

‫ایک وہ حدیث بھی اس مدعی کو ثابت کرنے والی ہے جو ہم نے تمہید‪ A‬میں تفصیلی بیان کی ہے جس کا نام حدیث جبریل‬
‫علیہ السالم ہے گویاکہ ہر وقت اس بات کا استظہار رہے کہ ہللا رب العزت میرے اعمال کو دیکھ ریا ہے اور میری تمام‬
‫حرکات وسکنات کو نوٹ کیا جارہا ہے‪ .‬یہی سب کچھ تو تصوف میں سیکھا اور سکھایا جاتا ہے اور ہر آن ہللا رب‬
‫‪.‬العزت کی ذات کا دھیان نصیب ہوجائے گویاکہ تصوف کی تعلیمات کا خالصہ یہ ہے۔‬

‫تعالی کی محبت‪1-‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی محبت اور کامل اتباع کرنا‪2-‬‬

‫تزکیہ نفس کرنا‪3-‬‬

‫برداشت اور حوصلہ پیدا کرنا‪4-‬‬

‫خدمت خلق‪5-‬‬

‫عاجزی وانکساری‪6-‬‬

‫رضا برقضا‪7-‬‬

‫اخالص نیت کا اہتمام کرنا‪8-‬‬


‫ش‬
‫انہی اعمال کی م ق کرنے کا نام تصوف ہے‪ .‬ہللا ہمیں اسکا وافر حصہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین‬

‫حوالہ جات‬
‫امام مسلم‪،‬مسلم بن حجاج القشیری‪،‬صحیح مسلم‪ ،‬قدیمی کتب خانہ کراچی‪1-‬‬

‫داتا صاحب‪ ،‬علی بن عثمان الہجویری‪ ،‬کشف الحجوب‪ ،‬ناشر ضیاء القران پبلیکیشنز الہور‪ ،‬اشاعت ‪2010‬باب سوم فی‪2-‬‬
‫التصوف‬

‫ڈاکٹر میر ولی الدین‪ ،‬تصوف اور قرآن‪ ،‬صفحہ نمبر ‪ 12‬اشاعت ‪ 1979‬دھلی۔‪3-‬‬

‫عالمہ نواب قطب الدین‪ A،‬مظاہر حق جدید‪ A،‬مکتبۃ العلم الہور‪ ،‬جلد‪4-5‬‬

‫سورۃ بقرہ‪ ،‬سورہ نمبر ‪ ،2‬آیت نمبر‪ ،129‬پ نمبر ‪5-1‬‬

‫سورہ شمس‪ ،‬سورہ نمبر‪ ،91‬آیت نمبر‪ ،10 ،9‬پ نمبر‪6-30‬‬

‫سورہ انعام‪ ،‬سورہ ‪،5‬آیت نمبر‪ 120،‬پ نمبر ‪7-8‬‬

‫عالمہ نواب قطب الدین‪ A،‬مظاہر حق جدید‪ A،‬مکتبہ العلم جلد ‪8-5‬‬
‫سورہ کہف‪ ،‬سورہ نمبر‪ ،18‬آیت نمبر‪ ،110‬پ نمبر ‪9-16‬‬

‫‪،‬شیخ الحدیث‪،‬موالنا محمد زکریا‪ ،‬فضائل اعمال قدیمی کتب خانہ کراچی‪10-2009 ،‬‬

‫‪-‬ابن عابدین‪ A،‬شامی‪ ،‬ردالمحتار مع در المختار ص‪ ،4‬جلد‪ 1‬مکتبہ بیروت‪11.‬‬

You might also like