You are on page 1of 9

‫الرحیم‬

‫الرحمان ّ‬
‫بسم ہللا ّ‬

‫دین اسالم کا سیاسی نظام‬


‫اس سے پہلے کہ ہم دین اسالم کے سیاسی نظام کی وضاحت کریں‪ ،‬بہتر ہوگا کہ ہم چند اہم قرآنی‬
‫"اصطالحات") ‪ ( Quranic Terminologies‬کی وضاحت کرد یں تا کہ ہم جب دین اسالم کے سیاسی‬
‫نظام کی وضاحت کرنے جائیں تو ہمیں مشکالت نہ پیش آئیں۔ تو آئیے بسم ہللا کرتے ہیں۔‬
‫"دین " کا مادہ "د ي ن " ہے اور "د" کے زبر کے ساتھ اسکا مطلب لین دین ہو گا‪ ،‬اسی‬
‫"دَیْن" کے "د" کوجب ہم زیر لگاتے ہیں تو یہ"ديْن" بن جاتا ہے اور "ديْن" کا مطلب "لین‬
‫دین کا باضابطہ قاعدہ ‪/‬طریقہ کار"۔ فلہذا اس کا آسان فہم زبان میں مطلب ہو گا "نظام حیات"‬
‫دین‪:‬‬
‫یا حرف عام میں ہم جسے انگریزی میں "ازم" )‪ (Ism‬کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے دین کا ایک‬
‫ہی مطلب لیا جاتا ہے اور وہ ہے‪" ،‬مذہب"‪ ،‬اس میں کوئی شک نہیں کہ لغات میں اسکا مطلب "مذہب "‬
‫بھی ہے‪ ،‬لیکن بغور جائزہ لینے سے معلوم ہو گاکہ اگر اسالم محض ایک مذہب ہے تو اس میں "سیاست‬
‫اور معیشت " ختم ہو کر رہ جاتی ہے‪ ،‬اور دیگر مذاہب کی مانند ہمیں بھی اپنے سیاسی و معاشی‬
‫معامالت "دنیاوی" قوانین کے مطابق حل کرنے چاہیے‪ ،‬لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اسالم‬
‫ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‪ ،‬جو اپنے سیاسی و معاشی نظامہائے زندگانی کی مکمل تصریحات کرتا‬
‫ہے۔اور اسکی وضاحت خود قرآن کریم کی آیات سے بھی ہو جاتی ہے۔مثالً قرآن کریم میں ارشاد‬
‫خداوندی ہے "ان الدين عند هللا السالم"ترجمہ‪" :‬بے شک ہللا کے نزدیک دین تو اسالم ہی ہے"غور‬
‫کیجیے کہ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں لفظ دین کی کتنی آسان تشریح ہوگئی ہے‪ ،‬یعنی "ادیان"تو اور‬
‫بھی ہیں‪ ،‬لیکن ہللا کے نزدیک "دین" صرف اسالم ہے۔ہمارے ہاں ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ اسالم کا‬
‫تقابلی جائزہ "ادیان" کی بجائے مذاہب کے ساتھ کیا جاتاہے۔دین سے ہماری مراد "نظام حیات" ہے‪ ،‬نہ‬
‫کہ "مذہب"اور اس وقت دنیا میں دو بڑے نظام ہائے زندگی چل رہے ہیں‪ ،‬یعنی "سرمایہ داری"‬
‫)‪(Capitalism‬اور "اشتراکیت")‪، (Socialism‬اور عموماَان دونوں نظامہائے زندگانی کو محض‬
‫معاشی نظام زندگی ہی سمجھا جاتا ہے‪ ،‬حاالنکہ ہر معاشی نظام اپنی بنیاد ایک مضبوط سیاسی نظام پر‬
‫استوار کرتا ہے‪ ،‬اور جب تک وہ سیاسی نظام موجود نہ ہو ‪ ،‬وہ معاشی نظام پنپ ہی نہیں سکتا۔لہذا‬
‫سرمایہ دارانہ معیشت "جمہوریت" کی سیاسی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے‪ ،‬اب چاہے اسکے لیے کوئی‬
‫بھ ی ذیلی نظام نافذ کر دیا جائے۔اور اشتراکیت کی بنیاد "آمریت" پر استوار ہوتی ہے۔اس کی مزید‬
‫وضاحت اور تقابلی جائزہ اپنے مقام پر کیا جائے گا۔‬
‫اسالم کا مادہ"س ل م" ہے۔اور سلم کا مطلب "سالمتی"‪ ،‬ہے۔ اسکی ذیادہ وضاحت کی‬
‫سالم علیکم "کے معنی سے آگا ہ ہے‪ ،‬یعنی "تم‬ ‫ضرورت نہیں ‪ ،‬ایک چھوٹا بچہ بھی "ال ّ‬
‫(سب)پر سالمتی ہو"فلہذا اسالم کا مطلب ہوا "سالمتی"اور دین اسالم کا مطلب ہوا‪" ،‬ایک‬
‫اسالم‪:‬‬
‫ایسا نظام حیات جو سالمتی پر استوار ہو"۔‬
‫اسالم کے سیاسی نظام سے اس لفظ کا بہت گہرا تعلق ہے‪ ،‬لہذا اس کی وضاحت بہت ضروری‬
‫ہے۔"ولی" کامادہ "و ل ي" ہے اور اسکے مروجہ معنی "قریبی ساتھی" یا "دوست" ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫لغت میں ا س لفظ کے دیگر انتہائی اہم معنی بھی ہیں جو ہمارے مفسرین کرام نے نظرانداز کر‬
‫ول‬
‫دیے ہیں‪ ،‬مثالً ولی کے معنی‪" ،‬سر پرست"‪" ،Administrator or Trustee‬محافظ"‪" ،Guardian‬ولی‬
‫عہد‪" ،"Crown‬عہدے دار‪" Administrator‬یا حرف عام میں"اعلی افسران”‪"Higher Command‬‬
‫بھی ہیں ‪ ،‬اور اسکی جمع "اولیاء" ہے ۔لہذا قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہو ا ہے اس کا‬
‫ی‪:‬‬
‫یہی مطلب قرین قیاس ہے۔ کیونکہ دوستی یا رفاقت کے عربی میں دیگر الفاظ بھی ہیں اور ان کا قرآن‬
‫کریم میں ان کا استعمال بھی ہو ا ہے ‪ ،‬مثالً رفیق‪ ،‬مزمل‪،‬حبیب وغیرہ۔لہذا قرآن کریم میں جہاں جہاں‬
‫ولی آیا ہے اس سے مراد "فیصلہ کن اتھارٹی" یا"اعلی افسران "ہی ہیں۔اسکی وضاحت ہم اپنے مقام‬
‫پرکی جائے گی۔‬
‫اطاعت رسول کا ہمارے ہاں عموما ً بہت ہی جامد مفہوم رائج ہے‪،‬اور‬
‫ہم اطاعت رسول سے مراد حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫بطور ذات اطاعت سمجھتے ہیں‪ ،‬جو کہ قرآن کریم کی آیات کی‬
‫اطاعت رسول‪:‬‬
‫روشنی میں درست نہیں ۔قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں‬
‫اطاعت رسول سے مراد ہللا کی اطاعت بذریعہ رسول ہے۔کیونکہ قرآن کریم میں اطیعوهللا و‬
‫اطیعوالرسول کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی ہللا کی اطاعت رسول کی اطاعت کرکے کرو۔اطاعت کا مطلب‬ ‫ّ‬
‫ہوتا ہے "کامل فرمانبرداری" یعنی دل کی کامل رضامندی سے "حکم کی تعمیل "۔ جیسا کہ فوج میں‬
‫ہوتا ہے کہ ہر سپاہی کو اپنے افسر کے حکم کو بال سوچے سمجھے قبول کرنا ہے۔اس ضمن میں اتباع‬
‫‪ ،‬عبادت اور اطاعت کا فرق ملحوظ خاطر رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے‪ ،‬جتنا کہ خود اطاعت کا‪،‬‬
‫کیونکہ قرآن کریم میں ہللا اور رسول دونو ں کے لیے اتباع اور اطاعت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں لیکن‬
‫عبادت کا حکم صرف ہللا کے لیے‪ ،‬تاہم شیاطین کے پیروکاروں کو کہا گیا کہ وہ شیاطین کی عبادت‬
‫کرتے ہیں (سورۃ یاسین)۔اتباع کہتے ہیں دل و دماغ کی ہم آہنگی سے کسی حکم کو سوچنے سمجھنے‬
‫کے بعد قبول کرنے کے عمل کو یا پیروی کرنے کو‪،‬یعنی اطاعت میں تو یہ ممکن ہے کہ آپ کو پتہ نہ‬
‫ہو کہ آپ اطاعت کیوں کر رہے ہیں‪ ،‬لیکن آپ اطاعت کرتے ہیں‪،‬لیکن اتباع میں آ پ حکم ماننے کے‬
‫فوائد اور نہ ماننے کے نقصانات سے بھی آگا ہ ہوتے ہیں‪ ،‬اس لیے آپ دل و دماغ کی یکسوئی سے‬
‫احکامات مانتے ہیں۔اطاعت میں یہ کیفیت نہیں ہوتی‪،‬اس میں آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اطاعت کرنے‬
‫میں فائد ہ ہے ‪ ،‬لیکن اس کی سمجھ ضروری نہیں۔مختصر الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اطاعت کروائی‬
‫جاتی ہے اور اتباع کی جاتی ہے‪،‬یعنی اطاعت کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہے جو نافذ کیا جائے‬
‫اور پھر اس نظام کے قواعد و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اس نظام کی اطاعت کی جائے۔ اگر اطاعت‬
‫کریں گے تو آپ کا فائدہ ہے اور اگر اطاعت نہیں کریں گے تو آپ کو سزا مل سکتی ہے۔ مثالَ اگر آپ‬
‫ٹریفک قوانین کی اطاعت کرتے ہیں تو آپ کا فائدہ ہے‪ ،‬ٹریفک رواں دواں رہتی ہے‪ ،‬آپ حادثات اور‬
‫وقت کے ضیاع سے بچ جاتے ہیں‪ ،‬جبکہ ٹریفک قوانین کی اطاعت نہ کرنے سے آپ کے ساتھ حادثہ‬
‫پیش آ سکتا ہے اور آپ کو بطور سزا "جرمانہ" بھی بھرنا پڑ سکتا ہے۔اسکے برعکس اتباع یہ ہے کہ‬
‫آپ کو پتہ ہے روزہ رکھنا ہللا کا حکم ہے‪ ،‬اور آپ دل کی کامل رضا مندی سے اس حکم کو مانتے‬
‫ہوئے روزہ رکھتے ہیں ۔ اگر آپ روزہ نہیں رکھیں گے تو آپ کو کوئی اور سزا نہیں دے گا‪ ،‬اسکی‬
‫پوچھ گچھ آپ سے صرف ہللا کرے گا۔یعنی اتباع میں جبر کا پہلو نہیں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ اطاعت نہ‬
‫کرنے کی سزا اسالمی حکومت متعین کر سکتی ہے‪ ،‬جبکہ اتباع نہ کرنے کی سزا اسالمی حکومت‬
‫متعین نہیں کرسکتی ‪ ،‬بلکہ اسکی سزا ہللا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔‬
‫صلوۃ کا مادہ "ص ل و " ہے‪ ،‬اور یہ اس مادہ کے ساتھ قرآن کریم میں متعدد معنوں میں‬ ‫ٰ‬ ‫صلو‬
‫ٰ‬‫‪:‬‬
‫صال ‪ ،‬پشت کے درمیانی حصہ کو کہتے ہیں۔یعنی کولہے کا ڈھلوان یا وہ حصہ‬ ‫استعمال ہوا ہے‪ ،‬ال َّ‬
‫جہاں جانور کی دم ہوتی ہے۔ دم کے دونوں جانب کے حصے صلوان کہالتے ہیں‪ ،‬اور اسکی جمع‬
‫صال کی نسبت سے صلّی الفرس تصْلیة اس وقت کہتے ہیں جب گھوڑ‬
‫ۃ‬
‫صلوات یا اصالءآتی ہے۔ اسی ال َّ‬
‫دوڑ میں دوسرے نمبر کا گھوڑا ‪ ،‬پہلے نمبر کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے اس طرح دوڑ رہا ہو کہ‬
‫پچھلے کی کنوتیاں پہلے کی سرین سے مل رہی ہوں۔اس طرح پہلے نمبر پر موجود گھوڑا عربی میں‬
‫لي" کہالتا ہے۔اس سے صلی کے معنی واضح ہو‬ ‫ص ْ‬
‫"سابق" جبکہ دوسرے نمبر پر موجود گھوڑا "الم ّ‬
‫گئے کہ اگلے کے ساتھ ملے ہوئے پیچھے پیچھے آنا۔ اس سے اس مادہ کے بنیادی معنی واضح ہو گئے‬
‫‪ ،‬یعنی کسی کی مسلسل پیروی کرتے چلے جانا‪ ،‬اس طرح کہ آپ اسکے بالکل پیچھے پیچھے رہیں اور‬
‫اسے فاصلہ بڑھانے کا موقع نہ دیں۔چنانچہ حضرت علی کی ایک روایت میں اس کے معنی اس طرح‬
‫واضح کیے گئے ہیں۔‬
‫َّ‬ ‫َّ‬
‫سبق رسول هللا و صلى ابُوبكر و ثلث عُم ْر و خبطتْنا فتْنة یعنی رسول ہللا محمدﷺ پہلے تشریف لے گئے‬
‫اور اسکے پیچھے ابوبکر اور انکے پیچھے عمر بھی چلے گئے اور ہمیں فتنوں نے بدحواس کر‬
‫دیا۔اس روایت نے صلی کے معنی مزید واضح کردیے۔مشہور عربی لغت "تاج" میں ہے کہ صلی و‬
‫اصْطلی کے معنی لزوم یعنی وابستگی کے ہیں۔ یعنی کسی کے ساتھ لگے رہنا اور چمٹے رہنا۔اسی بنا‬
‫صلیْن‪ 74:43‬تو اسکا مطلب ہے "ہم‬ ‫پر راغب نے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو ہےکہ "ل ْم نكُ من ا ْل ُم َّ‬
‫انبیاء کے پیچھے چلنے والوں میں سے نہ تھے"۔عموما ً عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر غیر عرب‬
‫صلوۃ کے دو یا تین معنی ہی جانتے ہیں‪ ،‬اور وہ ہیں‪" ،‬نماز"‪" ،‬درود"یا "دعا"۔ لیکن عربی زبان‬ ‫ٰ‬ ‫لفظ‬
‫میں ‪ ،‬جیسا کہ لغات کی رو سے ہم نے مطالعہ بھی کیا‪ ،‬اسکا ایک مطلب‪ ،‬کسی کی مسلسل پیروی کرنا‬
‫صلوۃ کے مندرجہ ذیل مفاہیم ہو سکتے ہیں‬ ‫بھی ہے‪،‬فلہذا عربی زبان کے قواعد کی رو سے ٰ‬
‫صلوۃ (دائمہ)بمعنی قوانین خداوندی ‪Divinely Commandments‬‬ ‫ٰ‬ ‫‪‬‬
‫صلوۃ بمعنی حوصلہ افزائی ‪(Appreciation‬یہ وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں عموما ً درود کے‬ ‫ٰ‬ ‫‪‬‬
‫لیے استعمال ہوتے ہیں)‬
‫صلوۃ (مؤقتہ) بمعنی مقررہ وقت پر مقررہ جگہ جا کر احکامات خداوندی سیکھنا ‪Weekly‬‬ ‫ٰ‬ ‫‪‬‬
‫‪Congregation‬‬
‫صلوۃ بمعنی نماز‪/‬دعا ‪Prayers‬‬ ‫ٰ‬ ‫‪‬‬
‫صلوۃ نہیں ہے‪ ،‬ورنہ اس پر مزید روشنی ڈالی جا سکتی تھی‪ ،‬لیکن چونکہ‬ ‫ٰ‬ ‫چونکہ موضوع زیر بحث‬
‫صلوۃ ‪ ،‬قوانین خداوندی کے معنوں میں استعمال ہوا‬ ‫ٰ‬ ‫اس موضوع میں ایسی آیات آئیں ہیں جن میں لفظ‬
‫ہے‪ ،‬اس لیے اسکی وضاحت ضروری تھی۔‬
‫اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔اور وہ ہے اسالم کا سیاسی‬
‫نظام۔اسالم کا سیاسی نظام اطاعت کے بنیادی اصول پر قائم ہے‪ ،‬اور یہ اطاعت ایک زنجیر (چین ‪Chain‬‬
‫)کی طرح باہم مربوط ہے۔یعنی عوام اپنے "اولی االمر" کی اطاعت کریں گے‪ ،‬اور "اولی االمر‬
‫"مرکزی حکومت یعنی "خلیفتہ الرسول"کی اطاعت کریں گے‪ ،‬جو کہ براہ راست ہللا کی اطاعت ہوگی۔‬
‫اس طرح عوام اپنے " اولی االمر" کی اطاعت کرکے براہ راست ہللا کی اطاعت کریں گے۔لیکن اب ہم‬
‫ساتھ ساتھ قرآن کریم کی آیات کا حوالہ بھی دیتے جائیں گے تا کہ ساتھ ہی ساتھ اس چیز کی بھی‬
‫وضاحت ہوجائے کہ یہ ہمارے ذاتی خیاالت نہیں بلکہ احکامات خداوندی ہیں۔‬
‫سول وأُولي ْاْل ْمر من ُك ْم ۖ فإن تناز ْعت ُ ْم في ش ْيء ف ُردُّوهُ إلى َّ‬
‫ّللا‬ ‫الر ُ‬ ‫يا أيُّها الَّذين آمنُوا أطیعُوا َّ‬
‫ّللا وأطیعُوا َّ‬
‫ْ‬ ‫ٰ‬ ‫ْ‬
‫اّلل والی ْوم ْاْلخر ۖ ذلك خیْر وأحْ سنُ تأويال ‪4:59‬‬
‫سول إن كُنت ُ ْم ت ُ ْؤمنُون ب َّ‬
‫الر ُ‬
‫و َّ‬
‫ترجمہ ‪ :‬اے اہل ایمان ہللا ‪،‬اسکے رسول اور اپنے درمیان موجود اولی االمر کی اطاعت ‪/‬فرمانبرداری‬
‫کرو۔تاہم اگر کسی امور پر تمہارا اختالف ہوتو ہللا اور رسول کی طرف لوٹ کر آؤاگر تم ہللا اور یوم‬
‫اآلخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ بہترین تاویل ہے۔‬
‫تشریح‪ :‬اس آیت مبارکہ میں ہللا نے حکومتی عہدوں کی وضاحت کی ہے اور اسالمی مملکت میں‬
‫حکومتی تشکیل کچھ اس طرح ہے کہ اقتدار اعلی صرف اور صرف ہللا کے لیے مختص ہےاور ہللا کی‬
‫اطاعت کے لیے ہمیں اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہوگی‪،‬اور رسول کی اطاعت اس کے مقرر کردہ‬
‫افسران کی اطاعت کرنے سے ہوگی۔تاہم عوام کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں تمہیں اپنے عالقے‬
‫کے کسی افسر کے فیصلے سے اختالف ہو تو تم اس فیصلے کے خالف مرکزی حکومت (وفاق‪/‬ہللا اور‬
‫رسول) سے رجوع (اپیل )کرسکتے ہو۔ آیت کے آخری حصہ میں ہمیں اپنے احکامات کی طرف رغبت‬
‫دالنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم ہللا اوریوم اآلخرت پر یقین رکھتے ہو تو یہ تمہارے لیے‬
‫تمہارے لیے حکومتی تشکیل کی بہترین تشریح ہے۔‬
‫اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول تو اب موجود نہیں تو رسول کی اطاعت کس طرح کی جائے؟‪ ،‬لیکن‬
‫قرآن کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے‪ ،‬دیکھیے‪ ،‬سورۃ آل عمران‬
‫س ُل أفإن َّمات أ ْو قُتل انقل ْبت ُ ْم عل ٰى أعْقاب ُك ْم ومن ينقل ْب عل ٰى عقبیْه‬ ‫سول ق ْد خلتْ من قبْله ُّ‬
‫الر ُ‬ ‫وما ُمح َّمد إ َّال ر ُ‬
‫ّللاُ الشَّاكرين ‪3:144‬‬ ‫ّللا شیْئا ۗ وسیجْ زي َّ‬ ‫فلن يض َُّر َّ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور محمدﷺ کی (ذاتی )حیثیت کیا ہے بجز اسکے وہ ایک رسول ہیں‪ ،‬اور ان سے قبل کئی‬
‫رسول گزرے ہیں‪ ،‬تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔یاد‬
‫رکھوجو کوئی بھی روگردانی کرے گا تو وہ ہللا کا کوئی نقصان نہیں کرےگا(بلکہ اپنا ہی نقصان کرے‬
‫گا)اور ہللا شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔‪3:144‬‬
‫اس آیت میں رسول کی اطاعت کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے کہ محمدﷺ کی رحلت سے یہ نظام‬
‫ختم نہیں ہوجائے گا‪ ،‬بلکہ یہ نظام چلتا رہےگا۔اور ہللا کے رسول کے قائم مقام ان کی جگہ لیتے رہیں‬
‫گے۔ کیونکہ کاروبار مملکت چالنے کے لیے ایک زندہ اتھارٹی چاہیے ہوتی ہے۔اور اس اتھارٹی کی‬
‫اطاعت کرکے دراصل ہم ہللا کے احکامات کی اطاعت کریں گے۔اور اگر ہم نے اس اتھارٹی کو ختم کر‬
‫دیا تو سمجھ لیں کہ ہم نے ہللا کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا۔اور کفر کے مرتکب ہوگئے۔دیکھیے‬
‫اس ضمن میں سورۃ آل عمران میں ہی ہللا کا کیا ارشاد ہے۔‬
‫ستقیم‬ ‫سولُهُ ۗ ومن ي ْعتصم ب َّ‬
‫اّلل فق ْد ُهدي إل ٰى صراط ُّم ْ‬ ‫وكیْف ت ْكفُ ُرون وأنت ُ ْم تُتْل ٰى عل ْی ُك ْم آياتُ َّ‬
‫ّللا وفی ُك ْم ر ُ‬
‫‪3:101‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬ا ور تم کیونکر کفر کرو گے جبکہ تم کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں‬
‫اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے‬
‫لگ گیا۔‬
‫اس آیت پر غور کیجیے کہ ہم کفر کب کریں گے؟جب ہمارے بیچ ہللا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنانے واال‬
‫موجود نہیں ہوگا۔جی ہاں اس آیت میں کفر نہ کرنے کی شرط یہ ہے کہ تم میں ہللا کے رسول موجود ہیں‬
‫جو تمہیں ہللا کی آیتیں پڑھ پڑھ کا سناتے ہیں(یعنی ہللا کے احکامات کا نفاذ کرتے ہیں)۔اور اب جبکہ ہللا‬
‫کے رسول موجود نہیں تو ان کے نائب ‪/‬جانشین یعنی خلیفہ یہ فریضہ سرانجام دیں گے۔لیکن ہمارے بیچ‬
‫ہر وقت ہللا کا نمائندہ موجود ہونا ضروری تھا‪ ،‬اور ہے۔ اس وقت ہم مسلمان فرقہ فرقہ اسی لیے بنے‬
‫ہوئے ہیں کہ ہمارے بیچ ہللا کا نمائندہ موجود نہیں‪ ،‬جب تک وہ نمائندہ موجود رہا ہم نے دنیا پر حکومت‬
‫کی اور مملکت کا نظام بہترین طریقے سے چالیا‪ ،‬لیکن جیسے ہی ہم نے "خالفت " کو "ملوکیت "میں‬
‫بدال ‪ ،‬ہم احکامات خداوندی سے دور جا کھڑے ہوئے اور ہللا کی رسی(یعنی احکامات خداوندی ‪/‬قرآن‬
‫کریم) ہم سے ایسی چھوٹی کہ اب تک ہم اندھیروں میں بھٹک ر ہے ہیں‪ ،‬اور اس وقت تک بھٹکتے‬
‫رہیں گے جب تک کہ دوبارہ ہم ہللا کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھا م لیں اور اسکے نمائندہ کا انتخاب‬
‫کرکے اپنے لیے راہ نجات تال ش نہ کر لیں۔‬
‫اب تک کی بحث سے ہمارا یہ مدعا تو درست ثابت ہوگیا کہ اسالمی مملکت میں حکم ہللا کا ہوگا اور نفاذ‬
‫رسول ہللا کا‪ ،‬یا خلیفہ وقت کا(محمدﷺ کی رحلت کے بعد)۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسالم میں خلیفہ اور‬
‫اسکے ماتحت افسران کا انتخاب کس طرح ہو گا اور انکے کام کرنے کا انداز کیا ہوگا۔‬
‫اس ضمن میں سب سے ّاولین شرط جو اسالمی مملکت کے خلیفہ‪/‬افسران کے لیے وہ ایما ن کی شرط‬
‫ہے۔ اسالمی مملکت کے دفاتر سنبھالنے کے اہل صرف اور صرف مومنین ہوں گے ‪،‬اور مومن بھی‬
‫ایسے کہ دین اسالم کی سربلندی و سرفرازی کے لیے اپنی جانوں تک سے کھیل جانے والے‪ ،‬اور کفار‬
‫کو اسالمی مملکت کے دفاتر میں آنے سے یا انکا انتخاب کر نے سے ہللا نے بڑے واضح الفاظ میں‬
‫اور سختی سے منع کیا ہے‪ ،‬آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں احکامات خداوندی کیا ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫َيءٍ ‪3:28‬‬ ‫ْس ِمنَ ا‬
‫َّللاِ فِي ش ْ‬ ‫ُون ْال ُمؤْ ِمنِینَ ۖ َو َمن یَ ْفعَ ْل ذَلِكَ فَلَی َ‬ ‫اال یَت ا ِخ ِذ ْال ُمؤْ ِمنُونَ ْال َكافِ ِرینَ أ َ ْو ِلیَا َء ِمن د ِ‬
‫ترجمہ‪:‬مومنین اہل ایمان کو نظر انداز کر کے کافروں کو سرپرست‪/‬ٹرسٹی نہ بنائیں اور جو ایسا کرے‬
‫گا اس کا خدا سے کچھ تعلق نہیں۔‬
‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫ُون ال ُمؤْ ِمنِینَ ۚ أیَ ْبتَغُونَ ِعندَ ُھ ُم ال ِع ازۃ َ فَإ ِ ان ال ِع ازۃ َ ِ الِلِ َج ِمیعًا ‪4:139‬‬ ‫ْ‬ ‫الاذِینَ یَت ا ِخذُونَ ْال َكافِ ِرینَ أ َ ْو ِلیَا َء ِمن د ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬جومنافقین مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو (ریاست کےلیے ) اپنا سرپرست بناتے(چاہتے ) ہیں۔‬
‫کیا یہ ان کے ہاں اپنے وقعت و قدر بڑھانا چاہتے ہیں ‪ ،‬جان لو کہ عزت تو سب کی سب ہللا ہی کے‬
‫پاس ہے‬
‫سلطانًا ُّمبِینًا‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫عل ْی ُك ْم ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ُون ال ُمؤْ ِمنِینَ ۚ أت ُ ِریدُونَ أن تَجْ عَلوا ِ الِلِ َ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫یَا أَیُّ َھا الاذِینَ آ َمنُوا َال تَت ا ِخذوا ال َكافِ ِرینَ أ ْو ِلیَا َء ِمن د ِ‬
‫َ‬ ‫ُ‬
‫‪4:144‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اے اہل ایمان ‪ ،‬مومنین کو نظر انداز کر کے کافروں کا انتخاب (ریاست کے) اہم عہدوں‬
‫کےلیے نہ کر لینا۔ کیا تم اپنے اوپر (خدا کے عالوہ) کسی اور کا غلبہ و طاقت تسلیم کر لو گے؟‬
‫ض َو َمن یَت ََولا ُھم ِ ّمن ُك ْم فَإِناهُ ِم ْن ُھ ْم ۗ إِ ان‬ ‫ض ُھ ْم أ َ ْو ِلیَا ُء بَ ْع ٍ‬
‫ار ٰى أ َ ْو ِلیَا َء ۘ بَ ْع ُ‬
‫ص َ‬ ‫یَا أَیُّ َھا الاذِینَ آ َمنُوا َال تَت ا ِخذُوا ْالیَ ُھودَ َوالنا َ‬
‫الظا ِل ِمینَ ‪5:51‬‬ ‫َّللاَ َال یَ ْھدِي ْالقَ ْو َم ا‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬اے اہل ایمان یہود و نصار ٰى میں سے کسی کو بھی (اپنی مملکت کے )اہم عہدوں کے لیے‬
‫منتخب نہ کرنا۔کیونکہ ممکن ہے کہ یہ پہلے سے ہی کسی اور کے لیے کام کررہیں ہوں(مثالًدشمن کے‬
‫لیے جاسوسی کرنا‪،‬یاد رکھو ان واضح احکامات کے باوجود بھی اگر تم نہیں سمجھے ) اور تم میں سے‬
‫کسی نے انکا انتخاب کسی عہدے کے لیے کر لیا تو تمہارا شمار بھی انہیں میں سے ہوگا‪ ،‬اور ایسی قوم‬
‫کو تو ہللا بھی ہدایت نہیں دے سکتا جو کسی چیز کو اسکے مقام سے ہٹا دے ۔(یعنی احکامات سے‬
‫روگردانی کرنا ظلم ہو گا)‬
‫الز َكاۃ َ َو ُھ ْم َرا ِكعُونَ ‪5:55‬‬ ‫ص َالۃ َ َویُؤْ تُونَ ا‬ ‫سولُهُ َوالاذِینَ آ َمنُوا الاذِینَ یُ ِقی ُمونَ ال ا‬ ‫ِإنا َما َو ِلیُّ ُك ُم ا‬
‫َّللاُ َو َر ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬اے اہل ایمان یاد رکھو کہ تمہارے لیے اقتدار اعلی صرف ہللا اور اسکا رسول (اسالمی مملکت)‬
‫ہے ‪ ،‬اور اسالمی مملکت کے نامزد کردہ وہی مومنین تمہارے رہنمااور افسران ہو سکتے ہیں جو خود‬
‫قوانین کی پیروی کرنے والے اور معاشرے کو نشو و ارتقاء دینے والے ہوں اور مشکالت سے نہ‬
‫گھبراتے ہوں۔‬
‫ار أ َ ْو ِل َیا َء‬‫َاب ِمن قَ ْب ِل ُك ْم َو ْال ُكفا َ‬ ‫ُ‬
‫َیا أَیُّ َھا الاذِینَ آ َمنُوا َال تَت ا ِخذُوا الاذِینَ ات ا َخذُوا دِینَ ُك ْم ُھ ُز ًوا َولَ ِعبًا ِ ّمنَ الاذِینَ أوتُوا ْال ِكت َ‬
‫َّللاَ ِإن ُكنتُم ُّمؤْ ِمنِینَ ‪5:57‬‬ ‫َواتاقُوا ا‬
‫ترجمہ‪ :‬اے اہل ایمان اہل کتاب اور کفار میں سے کسی کو بھی اپنی مملکت کے عہدوں کے لیے‬
‫منتخب نہیں کرنا کیونکہ یہ ہللا کے عطاکردہ ضابطہ حیات کو ہنسی مذاق سمجھتے ہیں۔ اگر تم مومنین‬
‫میں سے ہو گے تو تمہیں ہللا کے ہی قوانین کے حضور سر بسجود رہنا چاہیے۔‬
‫ٰ‬
‫ان َو َمن یَت ََولا ُھم ِ ّمن ُك ْم فَأُولَئِكَ‬ ‫َیا أَیُّ َھا الاذِینَ آ َمنُوا َال تَت ا ِخذُوا آ َبا َء ُك ْم َو ِإ ْخ َوانَ ُك ْم أ َ ْو ِلیَا َء ِإ ِن ا ْست َ َحبُّوا ْال ُك ْف َر َ‬
‫علَى ْ ِ‬
‫الی َم ِ‬
‫الظا ِل ُمونَ ‪9:23‬‬ ‫ُھ ُم ا‬

‫ترجمہ‪:‬اے اہل ایمان کفار تو رہے ایک طرف اگر تمہارے اپنے عزیز و اقرباء مثالً اپنے آباو اجداد ‪،‬‬
‫اور بھائی وغیرہ بھی اگر اسالم کو چھوڑ کر کسی اور کے قوانین کی پیروی کریں تو ان کو بھی‬
‫حکومتی امور میں کسی عہدہ کے لیے منتخب نہ کرنااور جو کوئی بھی ایسا کرے گا اس کا شمار بھی‬
‫ظالمین میں سے ہو گا۔‬
‫ارۃ ٌ ت َْخش َْونَ َك َ‬
‫سادَھَا‬ ‫َ‬
‫ِیرت ُ ُك ْم َوأ ْم َوا ٌل ا ْقت ََر ْفت ُ ُموھَا َوتِ َج َ‬
‫عش َ‬‫قُ ْل ِإن َكانَ آبَاؤُ ُك ْم َوأ َ ْبنَاؤُ ُك ْم َو ِإ ْخ َوانُ ُك ْم َوأ ْز َوا ُج ُك ْم َو َ‬
‫َ‬
‫َّللاُ ِبأ َ ْم ِر ِہ ۗ َو ا‬ ‫ْ‬ ‫ض ْونَ َھا أ َ َحبا ِإلَ ْی ُكم ِ ّمنَ ا‬
‫َّللاُ َال یَ ْھدِي‬ ‫ي ا‬ ‫صوا َحت ا ٰى یَأتِ َ‬ ‫س ِبی ِل ِه فَت ََربا ُ‬
‫سو ِل ِه َو ِج َھا ٍد فِي َ‬
‫َّللاِ َو َر ُ‬ ‫سا ِك ُن ت َْر َ‬
‫َو َم َ‬
‫ْالقَ ْو َم الفَا ِسقِینَ ‪9:24‬‬
‫ْ‬
‫ترجمہ‪ :‬اے رسول ان سے کہہ دو کہ اگر تمہیں اپنے آباو اجداد‪ ،‬بیٹے‪ ،‬بھائی ‪ ،‬ازواج ‪،‬عزیز و اقارب‬
‫‪،‬تمہاری محنت سے کمائی ہوئی دولت ‪،‬تمہارے کاروبارجنکی کساد بازاری کا تمہیں خطرہ رہتا ہے اور‬
‫تمہارے عالیشان گھر تمہیں اسالمی ریاست(ہللا اور اسکے رسول )اور اسکے استحکام سے ذیادہ عزیز‬
‫ہیں تو اس وقت کا انتظار کرو جب ہللا کا قانون مشیئت حرکت میں آئے گا اور تم اپنی پیدا کردہ خرابیوں‬
‫کا شکار بن جاؤ گے۔ یاد رکھو کہ ہللا سرکش قوم کو کبھی بھی ہدایت سے نہیں نوازتا۔‬
‫غور فرمایا آپ نے‪ ،‬یہ تھا طریقہ کار اسالم میں حکومتی نمائندے مقر ر کرنے کا۔ لیکن جیسے ہی ہم‬
‫نے اقرباپروری کرنی شروع کی‪ ،‬تو ہم احکامات خداوندی سے دور جا بھٹکے اور اتنے دور ہوگئے کہ‬
‫اب ہمیں سیدھی راہ سجھائی بھی نہیں دے رہی اور اپنی ہی پیدا کردہ خرابیوں کا شکار ہوگئے۔‬
‫شوری مقر ر کرنے کی ایک جامع آیت پیش کرتے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫اب ہم اسالمی‬
‫ص ُروا أُو ٰلَئِكَ بَ ْع ُ‬
‫ض ُھ ْم أ َ ْو ِلیَا ُء‬ ‫َّللاِ َوالاذِینَ َآووا اونَ َ‬
‫سبِی ِل ا‬‫إِ ان الاذِینَ آ َمنُوا َوھَا َج ُروا َو َجا َھدُوا بِأ َ ْم َوا ِل ِھ ْم َوأَنفُ ِس ِھ ْم فِي َ‬
‫ص ُرو ُك ْم فِي الد ِ‬
‫ِّین‬ ‫َيءٍ َحت ا ٰى یُ َھ ِ‬
‫اج ُروا َوإِ ِن ا ْست َن َ‬ ‫اج ُروا َما لَ ُكم ِ ّمن َو َالیَتِ ِھم ِ ّمن ش ْ‬ ‫ض َوالاذِینَ آ َمنُوا َولَ ْم یُ َھ ِ‬ ‫بَ ْع ٍ‬
‫یر ‪8:72‬‬ ‫ص ٌ‬ ‫ُ‬
‫َّللاُ بِ َما ت َ ْع َملونَ بَ ِ‬ ‫علَ ٰى قَ ْو ٍم بَ ْینَ ُك ْم َوبَ ْینَ ُھم ِ ّمیث َ ٌ‬
‫اق ۗ َو ا‬ ‫ا‬ ‫فَعَلَ ْی ُك ُم النا ْ‬
‫ص ُر ِإال َ‬
‫ترجمہ‪ :‬یاد رکھو کہ تمہاری مملکت کے لیے اولیاء(ٹرسٹی‪/‬افسران) صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو‬
‫ایمان الئے ‪,‬ہجرت کی اور ہللا کی راہ میں جان و مال کا نظرانہ پیش کیا اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی‬
‫مد د کی اور انہیں چھت فراہم کی ۔م ومنین میں سے وہ جو بعد میں ایمان الئے لیکن انہوں نے وہ‬
‫مصیبتیں نہیں جھیلیں جو ہجرت کرنےوالوں اور ان کی مدد کرنے والوں نے برداشت کی‪ ،‬انہیں بھی تم‬
‫ایسے اہم مناصب کے لیے نہ منتخب کرو‪ ،‬تا وقتیکہ کہ وہ بھی ہللا کی راہ میں اپنا جان و مال نہ قربان‬
‫کردیں۔تاہم اگر وہ تم سے مدد کی درخواست کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے‪ ،‬ماسوائے اسکے‬
‫کہ تم کسی معاہدہ کے پابند ہو اور انکی مدد نہیں کر سکتے۔جان رکھو ہللا تمہارے ہر عمل پر نظر‬
‫رکھے ہوئے ہے۔‬
‫اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اسالمی مملکت کے آفیسرز مومنین میں سے صرف وہی لوگ ہو‬
‫سکتے ہیں جو ہللا کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے ہوں۔عام مشاہدہ کی بات‬
‫ہے کہ ہم فورا ً ہی کوئی اہم عہدہ ‪ ،‬کسی غیر تجربہ کار شخص کے حوالے نہیں کرسکتے‪ ،‬اگرچہ‬
‫اعلی کیوں نہ ہو‪ ،‬کیونکہ اسکے پاس علم تو ہے‪ ،‬لیکن تجربہ نہیں‪ ،‬بس تجربہ کی‬
‫ٰ‬ ‫اسکی تعلیم کتنی ہی‬
‫یہی وہ اہم شرط ہے جو اس آیت میں لگائی گئی ہے۔ایک اور اہم بات جو مندرجہ باال آیات کے مطالعہ‬
‫سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اسالمی مملکت کے افسران کا انتخاب براہ راست حکومت کرے گی ‪،‬‬
‫جمہوری طرز حکومت کی طرح عوام نہیں۔لہذا اسالمی حکومت میں آفیسرز کے انتخاب کے لیے جو‬
‫شرائط ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں‬
‫‪ ‬ہللا اوریوم اآلخرت پر ایمان رکھتے ہوں‪ ،‬یعنی متقی اور مومن ہوں‬
‫‪ ‬قوانین کی پابندی کرتے ہوں‬
‫‪ ‬مشکالت سے نہ گھبراتے ہوں‬
‫‪ ‬صاحب علم و بصیرت ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار بھی ہوں‬
‫اب ہم آتے ہیں کہ اسالمی مملکت کا م کس طرح کرتی ہے۔اسالمی مملکت کی کابینہ کے اہم فیصلے‬
‫باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں‪ ،‬اور اس ضمن میں ہللا کا حکم کچھ اس طرح سے ہے۔‬
‫ستجابُوا لربّه ْم وأقا ُموا الصَّالۃ وأ ْم ُر ُه ْم شُور ٰى بیْن ُه ْم وم َّما رز ْقنا ُه ْم يُ ْنفقُون ‪42:38‬‬
‫والَّذين ا ْ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اورقوانین خداوندی کا نفاذ کرتے ہیں۔‬
‫شوری میں طے کرتے ہیں۔ اور جس مال کا ہم نے ان کو نگران بنایا ہے اسے‬‫ٰ‬ ‫اور(ذیلی)احکامات‬
‫(مناسب جگہ )پر خر چ کرتے ہیں۔‬
‫شوری کا سربراہ خود رسول‪/‬خلیفہ رسول ہو گا اور وہ بھی اگرچہ‬
‫ٰ‬ ‫یہاں اس بات کا خیال رہے کہ اس‬
‫شوری کی مشاورت سے نافذ کرے گا ‪ ،‬لیکن پھر بھی ان احکامات کی اطاعت جب ہی ہو گی‬ ‫ٰ‬ ‫احکامات‬
‫جب وہ ذیلی ‪/‬فروعی ہونگے‪،‬یعنی انکا اصول ہللا کے دین سے ہی لیا گیا ہو گا‪ ،‬اور ان احکامات کی‬
‫پشت پر اذن ہللا کی مہر لگی ہو گی۔ارشاد خدا وندی ہے‬

‫سول إ َّال لیُطاع بإ ْذن َّ‬


‫ّللا ‪4:64‬‬ ‫وما أ ْرس ْلنا من َّر ُ‬
‫ترجمہ ‪ :‬اور ہم نے کوئی بھی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جسکی اطاعت نہ ہوتی ہللا کے فرمان(اذن) کے‬
‫مطابق‬
‫چونکہ رسول ‪/‬خلیفہ رسول مرکزی اتھارٹی )‪ (Central Authority‬ہوتا ہے اور مرکزی اتھارٹی کے بغیر نظام مملکت‬
‫چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‪ ،‬لیکن اس کے باوجود رسول ‪/‬خلیفہ رسول کی اطاعت اسکی ذاتی اطاعت نہیں ہو‬
‫گی‪،‬بلکہ اس عہدہ(رسول‪/‬خلیفہ )کی اطاعت ہو گی(جیسا کہ ہر عہدہ دار کی اطاعت اسکے عہدہ کی وجہ سے ہوتی ہے)۔‬
‫شوری بٹھائے گااور باہمی مشاورت کی روشنی میں فیصلہ کرے گا اور‬ ‫ٰ‬ ‫لہذا رسول ‪/‬خلیفہ بھی ذیلی احکاما ت میں‬
‫احکامات جاری کرے گااور پھر وہ احکامات بھی وہی ہونگے جنکی اصل ہللا کے فرمان (اذن ہللا ) سے ثابت ہو۔یعنی‬
‫اسکی اصل اگر کتاب ہللا میں ہے تو اسکی شریعت )‪ (By Laws‬بنائی جا سکتی ہے‪ ،‬ورنہ نہیں‪ ،‬اس لیے کہ ہللا کے دین‬
‫)‪(Ism‬میں کسی شخص کے حکم کی گنجائش نہیں‪ ،‬چاہے وہ مرکزی اتھارٹی( رسول‪/‬خلیفہ) ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫قرآن کریم کی روشنی میں یہ رہا اسالم کا سیاسی نظام ‪ ،‬اب ہم اسالم کے سیاسی نظام کی چند اہم خوبیاں‬
‫پیش کرتے ہیں جو دیگر نظامہائے سیاست میں نہیں ہیں ‪ ،‬یا ان کا فقدان پایا جا تا ہے۔‬
‫بنیادی قانون‪/‬شریعت‪/‬آئین‪:‬اسالم میں بنیادی قانون (شریعت کا مآخذ)‪ ،‬صرف اور صرف ہللا کی کتاب‬
‫ہے‪ ،‬ہللا کی کتاب ہی سے تمام ذیلی قوانین )‪ (By Laws‬مرتب کیے جاتے ہیں‪ ،‬جنہیں مسلمان عرف عام‬
‫میں "سنت" کہتے ہیں۔ اسالم میں آئین کی ایک بنیادی خوبی یہ ہے کہ یہ ہللا اپنی طرف منسوب کرتا‬
‫ہے‪،‬یعنی ہمیں کسی انسان کے قوانین کی پیروی نہیں کرنی بلکہ "آسمانی" آئین کی پیروی کرنی ہے‪،‬‬
‫دنیا میں مختلف سیاسی نظام دیکھ لیں‪ ،‬آئے دن ان میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں‪ ،‬کیونکہ انسان میں یہ‬
‫خوبی بالکل نہیں کہ وہ "غلطی سے مبرا" ہو‪ ،‬انسان چونکہ عقل کا خوگر ہوتا ہے‪ ،‬اس لیے وہ انسانیت‬
‫کے لیے "تمام تر ذاتی مفادات "سے باالتر ہو کر سوچ ہی نہیں سکتا‪ ،‬کیونکہ انسان کی عقل اسے "اپنے‬
‫یا ذیادہ سے ذیادہ اپنی قوم " کا ہی فائدہ اجاگر کرکے بتاتی ہے۔لہذا انسانی دنیا میں سب سے اہم مسئلہ‬
‫یہی ہے کسی انسان کے قوانین ‪/‬یا کسی انسان کی پیروی نہ کی جائے‪ ،‬کیونکہ انسانوں میں عقل و فہم‬
‫کا اگرچہ بہت ہی بڑا فرق ہوتا ہے‪ ،‬لیکن انسان کی فطرت میں کسی دوسرے کے حکم کی پیروی کرنا‬
‫بہت ہی مشکل ہوتا ہے‪ ،‬اسی لیے ہللا نے ہمارا یہ مسئلہ یہ کہہ کر حل کر دیا کہ میرے نمائندے کی‬
‫پیروی کرکے تم دراصل میری ہی پیروی کرو گے۔اس ضمن میں حوالہ جات اگرچہ پہلے بھی دیے جا‬
‫چکے ہیں‪ ،‬لیکن مزید حوالہ دیکھیے‪،‬‬
‫ّللا ‪،4:80‬‬
‫الرسُول فقد أطاع َّ‬
‫َّمن يُطِ ِع َّ‬
‫ترجمہ‪ :‬جس نے رسول کی پیروی کی ‪ ،‬پس اس نے ہللا کی اطاعت کی۔‬
‫اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رسول‪/‬خلیفہ کی اطاعت ‪/‬پیروی ‪/‬فرمانبرداری دراصل بالواسطہ ہللا کی‬
‫ہی اطاعت ہے۔لہذا قرآن نے یہ کہہ کر انسانیت کی ایک بہت بڑی نفسیاتی الجھن حل کر دی‪ ،‬اور وہ‬
‫الجھن ہے "کسی انسان کی فرمانبرداری کرنا"۔دوسری اہم بات کہ ہللا نے اپنے آئین میں اہم معامالت‬
‫شوری‬
‫ٰ‬ ‫شوری کو نگران بنایا گیا ہے۔اور مجلس‬
‫ٰ‬ ‫کے اصول متعین کردیے ہیں‪ ،‬فقط ذیلی قوانین کے لیے‬
‫اہم معامالت میں باہمی مشاورت سے اہم مسائل کا حل نکالے گی۔ نیز ایک انتہائی اہم اصول کی یہ کہہ‬
‫کر تشریح کردی کہ "اسالمی مملکت کے عہدہ داران صرف متقی مومنین " ہی ہوسکتے ہیں۔لہذا‬
‫جمہوریت کی آڑ میں کوئی بھی منافق‪/‬کافر اسالمی کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتا۔‬
‫ذیل میں تین بڑے نظامہائے سیاست کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے‬
‫آمریت‬ ‫جمہوریت‬ ‫اسالم‬ ‫تقابلی نکتہ‬
‫مختلف ممالک میں ہر آمر اپنی ذاتی‬ ‫قرآن وسنت‬ ‫آئین‬
‫باہمی خواہشات کے تحت آئین‬ ‫کی‬ ‫کابینہ‬
‫مشاورت سے ترتیب دیا ترتیب دیتا ہے‬
‫جاتا ہے‪،‬‬
‫سنت میں تبدیلی ممکن حکومت وقت اپنی آمر تبدیل آئین تبدیل‬ ‫ترامیم‬
‫ہے‪ ،‬بنیادی آئین ناقابل سہولت کے لحاظ سے‬
‫آئین میں ترامیم کرتی‬ ‫تغیر ہے‬
‫ہے۔‬
‫معیشت کا ڈھانچہ ہر‬ ‫آزاد معیشت‬ ‫کنٹرولڈ معیشت‬ ‫مجوزہ معاشی نظام‬
‫آمر اپنی ذاتی پسند و نا‬
‫پسند کے تحت ترتیب‬
‫دیتا ہے‬
‫ان الحكم اال هلل ‪ ،‬یعنی عوام کی حکومت‪ ،‬عوام پہلے پہل انقالب‪،‬‬ ‫بنیادی نعرہ‪/‬تعریف‬
‫اقتدار ہللا کے عالوہ کے ہاتھوں‪ ،‬عوام کے اسکے بعد مسلسل عذاب‬
‫کسی کا بھی قبول نہیں لیے‬
‫بادشاہ‪/‬صدر‪/‬آرمی‬ ‫صدر‪/‬وزیراعظم‬ ‫رسول‪/‬خلیفہ رسول‬ ‫سربراہ مملکت‬
‫جرنل‬
‫الیکشن‪ ،‬جس میں برسر اقتدار حکومت کو‬ ‫ایمان‪/‬علم و قابلیت‬ ‫طریقہ انتخاب‬
‫‪/‬عوام کی برطرف کرے ذبردستی‬ ‫تقوی‪/‬تجربہ ‪/‬دل میں لوگوں‬ ‫‪ٰ /‬‬
‫مختلف اقتدار پر قبضہ کیا جاتا‬ ‫قوم کی تعمیر و ترقی کا اکثریت‬
‫جماعتوں کے منشور کو ہے‪ ،‬اور جب تک یہ‬ ‫جذبہ‬
‫مدنظر رکھ کر ووٹ قبضہ برقرار رہتا ہے‪،‬‬ ‫بقول اقبال‬
‫نگاہ بلند‪ ،‬سخن دلنواز‪ ،‬دیتی ہے‪ ،‬اور اکثریت اقرباء پروری کے‬
‫حاصل کرنے والی اصول پر اقتدار منتقل‬ ‫جاں پرسوز‬
‫یہی ہے رخت سفر میر پارٹی ‪/‬اتحاد حکومت بنا ہوتا رہتا ہے‬
‫تا ہے۔اس میں امیدوار‬ ‫کارواں کے لیے‬
‫کے لیے کسی خوبی کا‬
‫ہونا ضروری نہیں‬
‫اسالم میں خلیفہ وقت جمہوریت وہ تماشا ہے‪ ،‬آمریت کا امتیازی‬ ‫امتیازی وصف‬
‫بادشاہ وقت‬ ‫فرات کے کنارے کتا جہاں بندوں کا گنا وصف‬
‫بھی اگر بھوک سے مر کرتے ہیں ‪ ،‬توال نہیں ‪/‬سربراہ مملکت کی‬
‫خواہشات‬ ‫جائے تو قابل مواخذہ کرتے‪ ،‬فلہذا اگر ‪ ٪51‬ذاتی‬
‫لوگ کسی بات پر متفق ہیں۔اسکے حواری اور‬ ‫ہوتا ہے۔‬
‫اقتدار صرف ہللا کا ہوتا ہو جائیں تو وہ قانون بن وہ ہر وقت اپنے اقدامات‬
‫ہے‪ ،‬خلیفہ وقت کی جاتا ہے‪ ،‬اس سے کوئی کو جائز قرار دینے کے‬
‫حیثیت محض ہللا کے غرض نہیں کہ وہ قانون لیے حیلے بہانے‬
‫تراشتے رہتے ہیں۔‬ ‫انسانیت کی فوز و فالح‬ ‫نمائندہ کی سی ہوتی‬
‫اسالم کی طرح آمریت‬ ‫کے لیے مناسب ہے کہ‬ ‫ہے۔‬
‫میں بھی حکومتی‬ ‫نہیں۔اور طرفہ تماشا یہ‬ ‫اسالم میں "خلیفہ "خود‬
‫معامالت کومکمل صیغہ‬ ‫کہ برسر اقتدار لوگ‬ ‫کو انتخاب کے لیے پیش‬
‫راز میں رکھا جاتا ہے۔‬ ‫اسے "عوام کا فیصلہ"‬ ‫نہیں کرسکتا‪ ،‬بلکہ اس‬
‫گردانتے ہیں۔‬ ‫باہمی‬ ‫انتخاب‬ ‫کا‬
‫عوام الناس کی اکثریت‬ ‫مشاورت سے "مجلس‬
‫ایک "دجل" میں مبتال‬ ‫شوری "کرے گی۔‬
‫ٰ‬
‫ہوتی ہے‪،‬لوگ آزادی‬ ‫اسالم کا ایک بنیادی‬
‫اظہار رائے کے نام پر‬ ‫وصف ‪ ،‬حکومتی‬
‫پر‬ ‫دوسرے‬ ‫ایک‬ ‫معامالت کا مکمل‬
‫الزامات پہ الزامات لگا‬ ‫صیغہ راز میں ہونا ہوتا‬
‫رہے ہوتے ہیں اور‬ ‫ہے‪،‬اس لیے "خبرنامہ‬
‫عوام کو فضول کے‬ ‫یا آزادی اظہار رائے "‬
‫بحث و مباحث میں‬ ‫کے نام پر عوام میں‬
‫مصروف کرکے کر‬ ‫سراسیمگی نہیں پھیالئی‬
‫حکومت اپنے پس پردہ‬ ‫‪،‬‬ ‫بلکہ‬ ‫جاتی‪،‬‬
‫سیاسی مقاصد پر عمل‬ ‫سراسیمگی پھیالنے پر‬
‫پیرا رہتی ہے۔‬ ‫مکمل پابندی ہوتی ہے‪،‬‬
‫اور اہم معامالت پر ہی‬
‫عوام کو آگا ہ کیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اس سے معاشرہ‬
‫پر امن رہتا ہے اور‬
‫افواہیں گردش نہیں‬
‫کرتیں۔‬

You might also like