You are on page 1of 14

‫تحقیقی مشق برائے ایم فل علوم اسالمیہ‬

‫جت‬
‫ت‬ ‫جت‬ ‫ہاد‬ ‫ات‬ ‫ن ف‬
‫مع ٰی و م ہوم‪،‬پ اکست ان کے اج ماعی ا ہادی اداروں کا عارف‬

‫ش ن‬
‫زیر نگرانی‬ ‫م ق گار‬
‫ڈاکٹر نبیلہ فلک‬ ‫عابد عزیز‬
‫شعبہ علوم اسالمیہ‬ ‫رجسٹریشن نمبر‪-PIS07193004‬‬
‫اسالمیہ‬
‫متعلم ایم فل علوم ش‬
‫عب ہ علوم اسالمی ہ‬
‫یونیورسٹی آف الہور ‪ ،‬سرگودھا کیمپس ‪ ،‬سرگودھا‬

‫مقدمہ‬
‫اسالم ایک ابدی مذہب ہے‪،‬اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کاحل ہے‪،‬یہ دین خداکی‬
‫طرف سے آیا ہوا آخری دین ہے ارشاد خداوندی ہے‪ ”:‬اِ َّن ال ِّد ْینَ ِع ْن َد ہللاِ ااْل ِ ْساَل ُم”(آل عمران‪:‬‬
‫‪ )۱۹‬اس دین کا امتیاز جہاں ابدیت ودوام اور ہر عہد میں قیادت ورہبری کی صالحیت ہے‬
‫وہیں اسکا بڑا وصف جامعیت‪ ،‬مسائل زندگی میں تنوع کے باوجود رہنمائی اورتوازن‬
‫واعتدال کے ساتھ ان کا حل بھی ہے‪،‬خلوت ہویاجلوت‪ ،‬ایوان سلطنت ہو یا فقیر ومحتاج‬
‫کا‪،‬خانٔہ بے چراغ حاکم ہو یا محکوم‪،‬دیوان قضاء کی میزان عدل ہویاادب وسخن کی بزم‬
‫ہو‪،‬حق وباطل کا رزم ہویاخدا کی بندگی اوراس کے حضور آہ سحرگا ہی ہو‪،‬حیات انسانی‬
‫کا کونسا ایسا شعبہ ہے جس کو اس نے اپنے نورہدایت سے محروم رکھاہے‪،‬اورزندگی کا‬
‫کونسا عمل ہے جس کا سلیقہ اس دین نے نہیں سکھایا۔لیکن منطقی طور پر یہ سوال ذہن‬
‫میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنے والی چیز نہیں‬
‫ہے‪ ،‬اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے‪ ،‬انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل‬
‫سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا الزمی‬
‫حصہ ہیں‪ ،‬پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف‬
‫سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی‬
‫مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ‬
‫کیسے قائم رہے گا؟‬
‫مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب‬
‫بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھال خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور‬
‫وحی ٰالہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی‪ ،‬اب اس کے فیصلے خود اس‬
‫کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد‬
‫جو سمجھے‪ ،‬وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں‬
‫ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ‬
‫ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز‬
‫نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی‪ ،‬طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ‬
‫مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی ٰالہی سے ال تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر‬
‫مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی‬
‫تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔‬
‫قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے‬
‫ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت‬
‫تک پیش آنے والے حاالت ومسائل کی تفصیالت موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو‬
‫سکتی ہیں اس لیے اسالم نے بعد میں رونما ہونے والے حاالت وواقعات اور مشکالت‬
‫ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے‬
‫جزئیات وفروعات میں حاالت ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی‬
‫کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار‬
‫کو شریعت کی اصطالح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بدلے ہوئے حاالت‬
‫وادوار میں شریعت کے اصل منشاء ومقصد کوسامنے رکھ کر نوپید اورتغیر پذیر جزئیات‬
‫ومسائل اورذرائع ووسائل کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے‪،‬اجتہاد اس کا نام‬
‫نہیں ہے کہ شارع کے نصوص کو محدود کردیا جائے اور اپنی رائے وخواہش کے دائرہ‬
‫کو وسیع کیاجائے‪،‬بلکہ اجتہاد کے ذریعہ درحقیقت نصوص اورشارع کی ہدایات وتعلیمات‬
‫کے اطالق کو وسیع کیاجاتا ہے‪،‬اوران صورتوں کو بھی آیات وروایات کے ذیل میں الیا‬
‫جاتا ہے جن کا نصوص میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ آیا ہو‪،‬مثالً حدیث میں ہے کہ‪ :‬ایک‬
‫شخص نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو کفارہ اداکرنے کا حکم دیا‬
‫گیا۔ (بخاری‪ ،‬باب اذا جامع فی رمضان‪ ،‬حدیث نمبر‪ )۱۸۰۰:‬اس حدیث سے صراحتا ً روزہ‬
‫میں صرف جماع ہی کی وجہ سے کفارہ واجب ہونا معلوم ہوتا ہےلیکن فقہاء نے اپنے‬
‫اجتہاد کے ذریعہ اس حکم کے دائرہ کو ان لوگوں تک بھی وسیع کیا ہے جو‬
‫قصدًاخوردونوش کے ذریعہ روزہ توڑدیں‪ ،‬اجتہاد کی روح اور اس کی اصل اسپرٹ یہی‬
‫ہے کہ اس کے ذریعہ نصوص کی صریح واضح ہدایات کے دائرہ عمل کو ان مسائل تک‬
‫بڑھایا جائے جن کی بابت صریح احکام موجود نہیں ہیں۔‬

‫اجتھاد کا لغوی و اصطالحی مفہوم‪:‬‬


‫‪1‬‬
‫اجتہاد کے لغوی معنی کسی کام کی تکمیل میں اپنی تمام ترقوت صرف کرنے کے ہیں۔‬
‫فقہا اور اصولیین کے نزدیک اجتہاد نام ہے غیرمنصوص مسائل اور واقعات کے شرعی‬
‫احکام معلوم کرنے کے لیے اس درجہ انتہائی کوشش صرف کرنے کا کہ اس کے بعد مزید‬
‫‪2‬‬
‫تحقیق وجستجو کا امکان باقی نہ رہے۔ (االحکام اصول االحکام‪)۴/۱۶۹:‬فی‬
‫چنانچہ شرعا ً ’’اجتہاد‘‘ اس کوشش کو کہتے ہیں جو کوئی مجتہد سطح کا عالم دین کسی‬
‫ایسے دینی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کرتا ہے جس میں قرآن و سنت کا کوئی‬
‫اکرم بھی اجتہاد کیا کرتے تھے کہ اگر کسی‬
‫واضح حکم موجود نہ ہو۔ خود جناب نبی ؐ‬
‫مسئلہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا تو اپنی صوابدید پر‬
‫‪1‬‬
‫االحکام فی اصول االحکام‪۴/۱۶۹:‬‬
‫ای ض ا‬ ‫‪2‬‬
‫فیصلہ فرما دیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وحی جاری تھی اور بعض فیصلوں پر ہللا رب‬
‫العزت کی طرف سے گرفت بھی ہو جاتی تھی جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن کریم میں‬
‫ہللا کے کسی اجتہادی فیصلہ کے بعد اس کے خالف وحی نازل‬ ‫موجود ہے‪ ،‬اس لیے رسول ؐ‬
‫نہ ہونے کی صورت میں بارگاہ ایزدی سے اس کی توثیق و تصدیق ہو جاتی تھی۔ اور اس‬
‫حضور کے فیصلوں کو وحی کی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی اور‬ ‫ؐ‬ ‫خاموش توثیق کے ساتھ‬
‫اسی وجہ سے حدیث و سنت کو ’’وحی حکمی‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔‬
‫نبوی میں کوئی فیصلہ‬ ‫ؐ‬ ‫کرام کا معمول یہ تھا کہ قرآن کریم اور سنت‬
‫حضرات صحابہ ؓ‬
‫واضح نہ ہوتا تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کرتے تھے۔چنانچہ حضرت شاہ‬
‫صدیق کے بارے میں‬ ‫ؓ‬ ‫دہلوی نے ’’حجۃ ہللا البالغہ‘‘ میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر‬
‫ؒ‬ ‫ولی ہللا‬
‫لکھا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ کتاب ہللا میں اس کا حکم تالش‬
‫کرتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ اگر کتاب ہللا میں حکم نہ ملتا تو‬
‫ہللا کی سنت میں حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر انہیں خود کوئی‬ ‫رسول ؐ‬
‫کرام سے دریافت کرتے تھے کہ انہیں اس کے بارے میں‬ ‫ایسی سنت یاد نہ ہوتی تو صحابہ ؓ‬
‫ہللا کا کوئی ارشاد معلوم ہو تو بتائیں۔ اور اس طرح کوشش کے بعد بھی اگر رسول‬ ‫رسول ؐ‬
‫اکرم کا کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر سرکردہ اور صالح افراد کو جمع کر کے مشورہ کرتے‬ ‫ؐ‬
‫تھے اور اس کی روشنی میں فیصلہ فرما دیتے تھے۔‬
‫کرام چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرم‬ ‫صحابہ ؓ‬
‫ﷺ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے‬
‫حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی‪ ،‬اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ‬
‫کرام نے اس بارے میں اپنے طرز عمل کے‬ ‫ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ صحابہ ؓ‬
‫ساتھ ایسے اصول قائم کر دیے تھے جو بعد میں مجتہدین کے لیے راہ نما بن گئے۔ چنانچہ‬
‫عمر کا معمول‬ ‫الکبری‘‘˜ میں بیان کیا ہے کہ امیر المومنین حضرت ؓ‬‫ٰ‬ ‫بیہقی نے ’’السنن‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫یہ تھا کہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن و سنت سے کوئی حکم نہ ملتا تو‬
‫حضرت ابوبک ٌر کا کوئی فیصلہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور اگر ان کا بھی‬
‫بیہقی‬
‫ؒ‬ ‫متعلقہ مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر خود فیصلہ صادر کرتے تھے۔ اور امام‬
‫الخطاب کا یہ خط بھی نقل کیا‬ ‫ؓ‬ ‫اشعری کے نام حضرت عمر بن‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫نے ہی حضرت ابو‬
‫ہے جو انہوں نے امیر المومنین کی حیثیت سے تحریر فرمایا تھا کہ‪’’:‬جس معاملہ میں‬
‫قرآن و سنت کا کوئی فیصلہ نہ ملے اور دل میں خلجان ہو تو اچھی طرح سوچ سمجھ سے‬
‫تعالی کی رضا اور‬ ‫ٰ‬ ‫کام لو اور اس جیسے فیصلے تالش کر کے ان پر قیاس کرو‪ ،‬اور ہللا‬
‫بیہقی نے حضرت عبد ہللا بن‬ ‫ؒ‬ ‫صحیح بات تک پہنچنے کا عزم رکھو۔‘‘اسی طرح امام‬
‫مسعود کے ایک خطبہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو‬‫ؓ‬
‫نبوی کا کوئی فیصلہ نہ ملے تو یہ دیکھو کہ‬
‫ؐ‬ ‫معاملہ درپیش ہو اور اس میں قرآن اور سنت‬
‫اس سے پہلے نیک بندوں نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ اور فیصلہ نہ ملے تو‬
‫صحابہ کے ارشادات اور فیصلوں کی‬
‫ؓ‬ ‫پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔چنانچہ ان اکابر‬
‫روشنی میں اجتہاد کے راہنما اصول یہ ہیں‪:‬‬

‫اجتھاد کے راہنما اصول‪:‬‬


‫رسول کا حکم جس مسئلہ میں واضح ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش‬ ‫ؐ‬ ‫• قرآن کریم یا سنت‬
‫نہیں۔‬
‫• قرآن و سنت میں واضح حکم نہ ملے تو سابقہ مجتہدین اور صالحین کے فیصلوں کی‬
‫پیروی کی جائے۔‬
‫• سابقہ مجتہدین اور صالحین کا بھی کوئی فیصلہ نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کیا‬
‫جائے۔‬
‫• اپنی رائے سے اجتہاد کا مع ٰنی یہ نہیں کہ جیسے چاہے رائے قائم کر لی جائے۔ بلکہ‬
‫نبوی‪ ،‬اور ماضی کے مجتہدین کے فیصلوں میں زیر بحث مسئلہ سے‬ ‫ؐ‬ ‫قرآن کریم‪ ،‬سنت‬
‫ملتے جلتے مسائل و معامالت تالش کیے جائیں اور ان پر قیاس کر کے نئے مسائل میں‬
‫فیصلے کیے جائیں۔‬
‫کرام کے بعد تابعین کا دور آیا تو ’’اجتہاد‘‘ کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط وضع‬‫صحابہ ؓ‬
‫کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔ ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جوالن گاہ‬
‫بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے‬
‫جائیں‪ ،‬دائرہ کار کی وضاحت کی جائے‪ ،‬درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور‬
‫اہلیت وصالحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور‬
‫نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے‬
‫صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو اور‬
‫مذکورہ ’’راہنما اصولوں‘‘ کی روشنی میں بیسیوں مجتہدین نے قواعد و ضوابط مرتب کر‬
‫کرام نے‬
‫کے ان کے مطابق اجتہادی کاوشوں کا آغاز کیا۔ چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ ؒ‬
‫اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسالم کے‬
‫مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث‬
‫کے نتیجے میں کئی منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔ تابعین میں سے حضرت امام‬
‫شافعی اور‬
‫ؒ‬ ‫مالک اور ان کے بعد حضرت امام‬
‫ؒ‬ ‫ابوحنیفہ ‪ ،‬تبع تابعین میں سے حضرت امام‬
‫ؒ‬
‫حنبل کے وضع کردہ اصولوں کو امت میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی‬ ‫ؒ‬ ‫حضرت امام احمد بن‬
‫کرام کے حوالہ‬
‫اور ان کی بنیاد پر فقہی مکاتب فکر تشکیل پائے۔ ان مجتہدین نے صحابہ ؓ‬
‫سے مذکورہ باال راہنما اصولوں˜ کے ساتھ ایک اور اہم اصول کا اضافہ کیا جو اس عمل کا‬
‫فطری اور منطقی تقاضا تھا کہ اجتہاد کا حق ہر شخص کو حاصل نہیں ہے۔ بلکہ وہی‬
‫رسول پر‪ ،‬عربی زبان پر‪،‬‬
‫ؐ‬ ‫شخص یہ حق استعمال کر سکے گا جس کو قرآن کریم پر‪ ،‬سنت‬
‫اور ماضی کے اجتہادات پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر اجتہاد کے دائرے‬
‫کو ملحوظ رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔‬

‫شرائط اجتہاد‪:‬‬
‫اجتہاد کی تعریف اس کے نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے‪،‬‬
‫جس میں شرعی مآخذ کی روشنی میں غیرمنصوص مسائل کا استنباط کرنا پڑتا ہے‪ ،‬اس‬
‫ٰ‬
‫تقوی‪ ،‬خداترسی اور عدل وثقاہت کے ساتھ ساتھ‬ ‫لیے فطری بات ہے کہ اس کے لیے‬
‫غیرمعمولی علمی تبحراور انتہائی فہم وفراست درکار ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے اصولیین اور‬
‫کار اجتہاد انجام دینے والوں کے لیے چند شرطوں اور‬
‫اسالمی قانون کےماہرین نے ِ‬
‫صالحیتوں کوضروری قرار دیا ہے‪ ،‬جن کے بغیر انہیں اس راہ میں ایک قدم رکھنا بھی‬
‫‪:‬جائز نہیں‪ ،‬ذیل میں انہیں شرطوں کوایک خاص ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے‬
‫۔ تقوی اور خدا ترسی‪1‬‬
‫ان میں سب سے اہم اور بنیادی شرط ہے کہ اس کے بغیر مسائل کی صحیح تخریج تقریبا ً‪ ‬‬
‫خوف خدا اور عندہللا‬
‫ِ‬ ‫ناممکن ہے‪ ،‬اس جوہر کے بغیر جوبھی اس راہ میں قدم رکھے گا‬
‫جواب دہی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے کوشش کرے گا کہ احکام شرع کا بوجھ‬
‫سرسے اتارا جائے اور شریعت کواپنی ہوس اور خواہش کا تابع بنایا جائے؛ یہی وجہ ہے‬
‫کہ تمام ائمہ مجتہدین علمی تبحر اورفہم وفراست کے ساتھ عدل وخداترسی میں بھی مشہور‬
‫‪3‬زمانہ تھے۔‬
‫‪:‬۔ عربی زبان میں مہارت‪2‬‬
‫عربی زبان قرآن وحدیث کی زبان ہے‪ ،‬اسی میں مذہب کے اصلی الفاظ اور دینی‪ ‬‬
‫نظام حیات سے برا ِہ راست‬
‫ِ‬ ‫اصطالحات ہیں‪ ،‬اس سے مکمل واقفیت کے بغیر اسالمی‬
‫واقفیت اور اس کے عظیم الشان ذخیرہ سے نہ صحیح اور نہ زندہ تعلق استوار ہوسکتا ہے‬
‫اور نہ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے‪ ،‬ترجمے خواہ کتنی ہی مہارت سے کیوں نہ کئے‬
‫گئے ہوں کسی بھی اصل کتاب کی تمام کیفیات کے حامل نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ قرآن‬
‫وحدیث کہ جن کی مختصر سی عبارت بھی معانی وفکر سے لبریز ہوتی ہے اسی لیے‬
‫عربی زبان اور اس سے متعلق علوم‪ ،‬لغت‪ ،‬صرف‪ ،‬نحو اور اصو ِل بالغت پربھی دسترس‬

‫فق‬ ‫‪3‬‬
‫اصول ال ہ البی زھرۃ ‪ ،‬ص ‪365:‬‬
‫ت‬
‫ضروری ہے‪ ،‬ہاں یہ الزم نہیں کہ ان علوم میں بھی اجتہاد کا درجہ حاصل ہو بلکہ بوق ِ‬
‫‪4‬ضرورت ان علوم سے متعلق کتابوں کی مراجعت کرسکے‪ ،‬یہ بات بھی کافی ہے۔‬
‫‪:‬۔ قرآن وحدیث کا علم‪3‬‬
‫قرآن وحدیث کی تعلیمات اور مضامین کا اجمالی لیکن جامع اور محیط خاکہ مجتہد‪ ‬‬
‫کومستحضر رہنا چاہئے‪،‬خصوصیت کے ساتھ ان آیات واحادیث پرگہری نگاہ‪ ،‬کامل‬
‫دسترس اور مکمل بصیرت ہونی چاہئے‪ ،‬جن کا تعلق احکام ومسائل سے ہو‪ ،‬عام علماء کی‬
‫تشریح کے مطابق ایسی آیات ‪ /۵۰۰‬اور احادیث تقریبا ً ‪/۳۰۰۰‬ہیں لیکن اس سے مقصود‬
‫فقہی اور قانونی آیات واحادیث کوایک خاص عدد میں منحصر کرنا نہیں‪ ،‬یہ تعداد دراصل‬
‫اصول تشریع واحکام سے متعلق ہیں ورنہ محقق‬ ‫ِ‬ ‫ان آیات واحادیث کی ہے جوبہ صراحت‬
‫)‪ 5‬مفسرین ومحدثین نے اس سے کہیں زیادہ آیات واحادیث سے مسائل کی تخریج کی ہے۔‬
‫اس باب میں پسندیدہ اور معتدل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے احکام ومسائل سے متعلق‬
‫حصہ کا حافظ ہونا بہتر ہے‪ ،‬ناسخ ومنسوخ کی پہچان اور شناخت بھی ضروری ہے‪ ،‬ان‬
‫فتوی دینا یاکسی اصل شرع سے مسئلہ کی‬ ‫ٰ‬ ‫سے واقفیت کے بغیر کسی بھی مسئلہ میں‬
‫‪6‬تخریج کرنا فتنہ اور لغزش سے خالی نہیں۔‬
‫خبرواحد کی شناخت اور متعارض روایات کے درمیان‬ ‫علم حدیث میں متواتر مشہور اور ِ‬ ‫ِ‬
‫طریق کار سے واقفیت‪ ،‬نیزجرح وتعدیل یافن اسماء الرجال‬ ‫ِ‬ ‫تطبیق یاترجیح کے اصول اور‬
‫پرنگاہ ہونا بھی ضروری ہے‪ ،‬جس سے حدیث کی صحت وسقم اور ناقلی ِن حدیث کا قابل‬
‫تدوین فقہ کے ابتدائی دور میں چونکہ یہ تمام بحثیں‬
‫ِ‬ ‫اعتبار ہونا اور نہ ہونا معلوم ہوتا ہےـ‬
‫مرتب نہیں تھیں‪ ،‬اس بنا پر مجتہد کے لیے ان کومحفوظ اور مستحضررکھنا ضروری تھا‪،‬‬
‫ت حدیث پرنہایت محققانہ بحثیں کتابی شکل میں‬ ‫ہمارے دور میں جب کہ حدیث اور متعلقا ِ‬
‫ت ضرورت متعلقہ کتب سے‬ ‫محفوظ ومرتب ہوچکیں‪ ،‬اس باب میں اتنی صالحیت کہ بوق ِ‬
‫استفادہ کیا جاسکے کافی ہوگی۔‬
‫۔اجماعی احکام‪4‬‬
‫اختالفی مسائل کی شناخت بھی مجتہد کے لیے الزمی ہے تاکہ کسی مسئلہ میں ایسا فیصلہ‬
‫خارق اجماع ہو‪ ،‬فقہا اور اصولیین کے درمیان جن مسائل‬ ‫ِ‬ ‫فتوی نہ دے بیٹھے جو‬‫ٰ‬ ‫اور‬
‫پراتفاق رائے نہ ہوسکا ان کی واقفیت مجتہد کے اندر مختلف فیہ مسائل میں تقابل اور‬ ‫ِ‬
‫ترجیح کی صالحیت اور استدالل واستنباط کی قوت پیدا کرتی ہے تاہم ان تمام مسائل کا‬
‫ت‬
‫زبانی یاد رکھنا ضروری نہیں‪ ،‬اس باب میں بھی اتنی صالحیت کافی ہوگی کہ بوق ِ‬
‫‪7‬ضرورت متعلقہ کتب سے مراجعت کرکے ان کا استحضار کیا جاسکے۔‬
‫۔علم اُصول الفقہ‪5‬‬
‫فقہ اسالمی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت‬
‫ہے ‪،‬ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے‬
‫‪4‬‬
‫االبہاج فی شرح المنہاج‪ ،‬ج‪ ،3:‬ص‪255:‬‬
‫‪5‬‬
‫شرح ابن بلدان علی روضۃ الناظر‪ ،۲/۴۰۲:‬بحوالہ‪ :‬اسالمی عدالت‬
‫‪6‬‬
‫اصول الفقہ البی زہرۃ‪ ،‬ص‪358:‬‬
‫‪7‬‬
‫اصول الفقہ البی زہرۃ‪،‬ص‪32:‬‬
‫بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چال جاسکتا ۔اس میں بھی خاص کرقیاس اور اس کے ارکان‬
‫وشرائط کا علم نیزمختلف دالئل میں ترتیب وترجیح کے اصول وطریقہ کار سے واقفیت‬
‫)‪8‬بھی ضروری ہے۔‬
‫۔مقاصد شریعت‪6‬‬
‫اسالمی قانون کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ شریعت کے عطا کردہ ایسے وسیع اور‬
‫ہمہ گیر رہنمایانہ اصول ہیں جو ہرزمانہ اور تمام حاالت میں انسانی معاشرے کی عادالنہ‬
‫تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قاب ِل عمل ہیں‪ ،‬ایسی صورت میں مجتہد کے لیے ایک‬
‫ضروری شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد‪ ،‬اس کے مزاج ومذاق اور اس کی روح‬
‫پھراحوال ناس کے تغیر اور عرف وعادت کی تبدیلیوں سے پیدا شدہ نئے‬
‫ِ‬ ‫سے واقف ہو اور‬
‫مسائل ومشکالت کا اسالمی حل پیش کرے۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جوبھی‬
‫تغیروتبدیلی ہوگی‪ ،‬یانئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی حکم کی دریافت کی جائے گی وہ‬
‫صحابہ وتابعین کی بہت سی مثالیں‬
‫ؓ‬ ‫عین شریعت کے مطابق ہی ہوگی‪ ،‬اس کی مثال میں عہد‬
‫بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔‬
‫۔زمانہ آگہی‪7‬‬
‫اجتہاد کے لیے ایک نہایت اہم اورضروری˜ شرط جس کا عام طورپر صراحۃً ذکر نہیں‬
‫کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد اپنے زمانہ کے حاالت سے بخوبی واقف ہو‪،‬عرف وعادت‬
‫‪،‬معامالت کی مروجہ صورتوں˜ اورلوگوں کی اخالقی کیفیات سے آگاہ ہوکہ اس کے بغیر‬
‫اس کے لیے احکام شریعت کا انطباق ممکن نہیں‪،‬اس لیے محققین نے لکھا ہے کہ جو‬
‫شخص اپنے زمانہ اورعہد کے لوگوں سے یعنی ان کے رواجات معموالت اورطورطریق˜‬
‫‪9‬سے باخبر نہ ہو وہ جاہل کے درجہ میں ہے۔‬
‫مجتہد کے لیے زمانہ آگہی دووجوہ سے ضروری ہے‪ ،‬اول ان مسائل کی تحقیق کے لیے‬
‫جو پہلے نہیں تھے اب پیدا ہوئے ہیں کیونکہ کسی نوایجاد شئی یا نو مروج طریقہ پر‬
‫محض اس کی ظاہری صورت کو دیکھ کر کوئی حکم لگادینا صحیح نہیں ہوگا‪ ،‬جب تک‬
‫اس کی ایجاد اوررواج کا پس منظر معلوم نہ ہو‪ ،‬وہ مقاصد معلوم نہ ہوں جو اس کا اصل‬
‫محرک ہیں‪،‬معاشرہ پر اس کے اثرات ونتائج کا علم نہ ہو اوریہ معلوم نہ ہو کہ سماج کس‬
‫حد تک ان کا ضرورت مندہے؟ ان سب امور کے جانے بغیر کوئی بھی مجتہد اپنی رائے‬
‫میں صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔‬
‫دوسرے بعض ایسے مسائل میں بھی جوگواپنی نوعیت کے اعتبارسے نوپید نہیں ہیں لیکن‬
‫بدلے ہوئے نظام وحاالت میں ان کے نتائج میں فرق واقع ہوگیا ہے‪،‬دوبارہ غوروفکر کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے‪،‬یہ ایک نہایت اہم پہلو ہے جو فقہ اسالمی کو زمانہ اوراس کے تقاضوں‬
‫قیم نے‬
‫سے ہم آہنگ رکھتا ہے؛اکثر اہل علم نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے۔ حافظ ابن ؒ‬
‫‪10‬اپنی مایہ ناز تالیف اعالم الموقعین میں اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے ۔‬

‫‪ 8‬شرح االسنوی‪ ،۳/۳۱۰:‬بحوالہ‪ ،‬اسالمی عدالت‬


‫‪ 9‬رسم المفتی‪ ،۱۸۱:‬زکریا بکڈپو‬
‫‪ 10‬اعالم الموقعین‪۳/۷۸:‬‬
‫۔ایمان وعدل‪8‬‬
‫اجتہاد کےلیے ایک نہایت اہم شرط شریعت اسالمی پر پختہ ایمان وایقان اوراپنی عملی‬
‫زندگی میں فسق وفجور سے گریز واجتناب ہے۔موجودہ زمانہ میں تجددپسند اوربزعم خود‬
‫روشن خیالوں کو اجتہاد کا شوق جس طرح بے چین ومضطرب کئے ہوئےہے‪،‬عالوہ علم‬
‫میں ناپختگی کے ان کی سب سے بڑی کمزوری ذہنی مرعوبیت‪،‬فکری˜ استقامت سے‬
‫محرومی اورمغربی عقیدہ وثقافت کی کورانہ تقلید کا مرض ہے‪،‬ان کے یہاں اجتہاد کا‬
‫منشاء زندگی کی اسالمی بنیادوں پر تشکیل نہیں ہے؛بلکہ اسالم کو خواہشات اورمغرب کی‬
‫عرضیات کے سانچہ میں ڈھالنا ہے یہ اسالم پر حقیقی ایمان اور تصدیق سے محرومی کا‬
‫نتیجہ ہے‪،‬ظاہر ہے جو لوگ اس شریعت پر دل سے ایمان نہیں رکھتےہوں‪،‬جن کا ایمان ان‬
‫لوگوں کے فلسفہ وتہذیب پر ہوجو خدا کے باغی اور اس دین وشریعت کے معاندہوں ان‬
‫سے اس دین کے بارے میں اخالص اورصحیح رہبری کی توقع رکھنا راہزنوں سے جان‬
‫ومال کی حفاظت کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔‬
‫‪ :‬خالصہ‬
‫شرائط اجتہاد کے سلسلہ میں اب تک جتنی معروضات پیش کی گئیں ان کاخالصہ یہ ہے‬
‫کہ اجتہاد کے مقام پر فائز ہونے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عملی اعتبار سے‬
‫شریعت پر کامل یقین رکھتا ہو‪،‬اورکردار کے اعتبار سے فاسق و فاجر نہ ہو علمی اعتبار‬
‫سے ایک طرف اصول فقہ میں عبور ومہارت رکھتا ہو‪ ،‬اوردوسری طرف عربی زبان‬
‫ولغت اوراسلوب بیان سے پوری طرح آگاہ ہو‪،‬زمانہ شناسی عرف وعادت اورمروجہ‬
‫معامالت ونظام کی واقفیت میں بھی مجتہد کا پایہ بلندہو۔‬
‫آج کے ماحول میں جب کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارنے کارحجان بڑھا ہوا ہے‪،‬‬
‫دینی کیفیتیں اور اخالقی قدریں روبہ زوال ہیں‪ ،‬کسی کوبھی محض کمال تحقیق کی‬
‫بناپراجتہاد کا حق دینا فتنہ سے خالی نہیں‪ ،‬پھر ایسے یکتا اشخاص کا وجود جو ان‬
‫مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ‪ ،‬موجود دور میں بیحد مشکل ہے اس لیے مناسب ہے کہ‬
‫کتاب وسنت کے ساتھ فقہاء کے اجماعی اور مختلف فیہ مسائل پرنگاہ رکھنے والے‬
‫اصحاب بصیرت اور جدید علوم وفنون کے زمانہ شناس ماہرین ومتخصصین پرمشتمل ایک‬
‫مجلس کی تشکیل عمل میں الئی جائے‪ ،‬جہاں یہ حضرات جمع ہوکر اجتماعی تبادلٔہ خیال‪،‬‬
‫غوروفکر اور بحث وتحقیق کے ذریعہ مسائل حل کریں‪ ،‬اس طرح کے اجتماعی غوروفکر‬
‫عمر کے عہد میں فقہاء‬ ‫اور اجتہاد واستنباط کی مثالیں عہدسلف میں بھی ملتی ہیں‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫اعظم اور ان کے رفقا کی‬‫ؒ‬ ‫صحابہ کا اجتماع مدینہ کے فقہاء سبعہ کی مجلس فقہ‪ ،‬امام‬
‫ؓ‬
‫مجالس اجتہاد اس طرف بہ صراحت رہنمائی کرتی ہےـ امام ابو حنیفہ رحمہ ہللا نے فقیہہ‬
‫االمت ہونے کے باوجود ‪،‬انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا‬
‫د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا جیسا کے‬
‫الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ ہللا “میں ذکر کیا ہے ۔)حجۃہللا البالغہ باب الفریق بین‬
‫المصالح و الشرائع‪ ،‬عقد الجید ) ــ موجودہ دور میں فقہ اکیڈمیوں اور مجامع کے ذریعہ‬
‫اجتماعی غوروفکر اور تبادلٔہ خیال کی جوطرح پڑی ہے‪ ،‬وہ اسی صفت کی تجدید اور اس‬
‫میں توسیع ہے۔‬
‫اجتماعی اجتہاد کی ضرورت واہمیت‬
‫اجتہاد کے لیے مجتہد کے اندر جن صفات کا ہونا الزمی ہے‪ ،‬ان کے پس منظر میں بعض‬
‫علما کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں کسی ایک شخص کے اندر ان تمام شرائط وصفات‬
‫کی موجودگی محال ہے۔ دوسری طرف عصر حاضر میں مسائل اور مصالح عامہ کے بدل‬
‫جانے سے اجتہاد کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ انفرادی اجتہاد کے اندر‬
‫لغزش اور غلطی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس صورت میں صرف اجتماعی اجتہاد ہی‬
‫فقہ اسالمی کی حیات اور اس کے فروغ و ارتقاء کا ضامن بن سکتا ہے اور اس کے‬
‫ذریعے عصری مشکالت و مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے‪ ،‬جس میں شک و شبہ کا‬
‫امکان کم ہی رہتا ہے۔ مذکورہ فوائد کے سوا اس قسم کے اجتہاد سے دین کے بارے میں‬
‫بہت سے عوامی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے اور اسی اجتہاد کی بدولت دین فروشوں‬
‫اور اہل ہوس کو جھوٹے فتووں کے ذریعے اسالم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا‬
‫موقع نہیں مل سکتا۔ اجتماعی اجتہاد میں باہمی مشاورت کے ذریعے فیصلہ لیا جاتا ہے۔ اس‬
‫لیے اس میں علما کے اختالفات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ انفرادی اجتہاد کے مقابلے اس کا‬
‫فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے متعدد علما جیسے شیخ احمد محمد‬
‫شاکر‪ ،‬شیخ عبدالوہاب‪ ،‬شیخ محمودشلتوت‪ ،‬شیخ مصطفی الزرقاء‪ ،‬شیخ محمد طاہر بن‬
‫موسی وغیرہم نے اجتماعی اجتہاد کی حمایت کی ہے اور‬ ‫ٰ‬ ‫عاشور اور ڈاکٹر محمد یوسف‬
‫اس کام کے لیے کئی ادارے اور اکیڈمیاں قائم ہوچکی ہیں۔ جیسے ’اجملمع الفقہی الاسالمی مکہ مکرمہ‘‬
‫اس ادارے کا قیام عالم اسالم کی معروف تنظیم رابطہ عالم اسالمی کی طرف سے کیا گیا‬
‫ہے۔ دوسرا ادارہ ’مجمع الفقہ الاسالمی ادلویل‘ کے نام سے اسالمی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی‬
‫سی (آرگنائزیشن آف اسالمک کانفرنس) کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ تیسرا ادارہ یورپ‬
‫میں آباد مسلمانوں نے ’اجمللس الاورویب لالفتاء والبحوث‘ کے نام سے قائم کیا ہے۔ ان اداروں کے‬
‫عالوہ بعض ادارے مخصوص موضوعات سے متعلق جدید مسائل کو حل کرنے کے لیے‬
‫بھی قائم کیے گئے ہیں جیسے کویت میں ’املنظمۃ الاسالمیۃ لعلوم الطبیۃ‘ قائم ہے۔ جو میڈیکل سے‬
‫متعلق جدید مسائل پر غورو فکر کرتا ہے۔ ایک دوسرا ادارہ اسی ملک میں اوقاف کے‬
‫مسائل کے حل کے لیے ’ادلماۂ العامہ الوقاف‘ کے نام سے قائم ہے۔ ہندوستان میں ’اسالمک فقہ‬
‫اکیڈمی‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔پاکستان میں اسالمی نظریاتی کونسل اور وفاقی‬
‫شرعی عدالت کے نام سے دو ادارے قائم ہیں۔ ان کے عالوہ بھی بعض دوسرے ادارے قائم‬
‫ہیں جہاں جدید مسائل پر عصری تناظر میں اجتماعی طور پر غور وفکر کیا جاتا ہے اور‬
‫اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل تالش کیا جاتا ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل پاکستان کا تعارف‬
‫ٰ‬
‫شوری (پارلیمنٹ) کو قوانین کے‬ ‫اسالمی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو مجلس‬
‫بارے میں بتاتا ہے کہ آیا یہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل ‪1962‬ء کے آئین کی اسالمی دفعات کے نتیجے میں آرٹیکل ‪ 204‬کے تحت‬
‫بنایا گیا۔ اس وقت اس ادارے کا نام ’’اسالمی مشاورتی کونسل ‘‘ رکھا گیا۔‬
‫‪1973‬ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کر کے اسالمی نظریاتی کونسل رکھ‬
‫دیا گیا۔ ‪1973‬ء کے آئین کے آرٹیکل ‪ 228‬میں اسالمی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو‬
‫بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ‪ 228‬کے مطابق اسالمی نظریاتی کونسل‬
‫کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور ‪ 20‬سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر‬
‫صدر پاکستان کی صوابدید پر ہو گا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسالمی‬
‫قوانین اور فلسفے کو قرآن پاک اور سنت نبویﷺکے˜ تحت سمجھتے ہوں‬
‫اور انھیں پاکستان کے اقتصادی‪ ،‬معاشی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬سیاسی اور انتظامی معامالت کے‬
‫زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔‬
‫اسی طرح ‪1973‬ء کے آئین کے آرٹیکل ‪ 229‬اور آرٹیکل ‪ 230‬میں اسالمی نظریاتی‬
‫کونسل کے مقاصد اور اس کی عملداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کو صدر‪ ،‬صوبے کا گورنر یا وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے‬
‫ممبران کی ‪2/5‬اکثریت اگر کسی قانون کی شرعی و غیر شرعی حیثیت کے بارے میں‬
‫پوچھے تو اسے متعلقہ ادارے کو پندرہ یوم کے اندر جواب دینا ہو گا۔ اگر صدر ‪ ،‬گورنر یا‬
‫اسمبلی یہ سمجھے کہ یہ قانون انتہائی اہم نوعیت کا ہے تو اسالمی نظریاتی کونسل کی‬
‫طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر بھی اس آئین کو منظور کیا جاسکتا ہے اور اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب آنے کے بعد آئین پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔‬
‫پاکستان کے ‪1973‬ء کے آرٹیکل ‪ 230‬کے کالز ‪ 4‬میں یہ بات درج ہے کہ اپنے قیام کے‬
‫شوری کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا اور اس کے بعد ہر‬ ‫ٰ‬ ‫سات سال کے اندر یہ ادارہ مجلس‬
‫سال دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ اس آرٹیکل کے‬
‫مطابق دونوں ایوان اور تمام صوبائی اسمبلیاں رپورٹ موصول ہونے کے چھ ماہ کے اندر‬
‫اندر اس رپورٹ پر بحث کرنے کی مجاز ہیں۔ رپورٹ کی وصولی کے دو سال کے‬
‫شوری ان سفارشات کی روشنی میں آئین سازی کریں‬ ‫ٰ‬ ‫دورانیہ میں وفاقی و صوبائی مجالس‬
‫گی‪ ،‬جو رپورٹ میں پیش کی جائیں گی۔‬
‫‪ 26‬ستمبر ‪1977‬ء کو ضیاء الحق کے دور حکومت میں اس کونسل کی دوبارہ تشکیل‬
‫ہوئی۔ ضیاء الحق کی اس کونسل کی تاریخی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس کے ‪ 17‬ممبر‬
‫ضیاء الحق کے نامزد کردہ تھے۔ ‪ 11‬ممبران جو جید علما تھے‪ ،‬کا تعلق مختلف مسالک‬
‫سے تھا۔ دو ممبران جج تھے اور دو ممبران قانونی ماہر تھے۔ ‪ 26‬ستمبر ‪1977‬ء تک‬
‫کونسل کا دفتر الہور میں تھا۔ اس کے بعد یہ دفتر اسالم آباد میں منتقل ہو گیا اور ستمبر‬
‫‪1995‬ء میں کونسل کا دفتر اپنی ذاتی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔‬
‫ٰ‬
‫شوری کو دی ہیں‬ ‫مجلس‬
‫ِ‬ ‫‪1962‬ء سے لے کر اب تک کونسل نے ‪ 72‬سے زائد رپورٹیں‬
‫اور بہت سے قوانین کے لیے سفارشات کی ہیں۔ اس ادارے کی اب تک تقریبا ً ‪ 156‬میٹنگز‬
‫ہو چکی ہیں۔‬
‫‪ 29‬ستمبر ‪1977‬ء سے ‪ 20‬دسمبر ‪1978‬ء تک اس کونسل نے اقتصادی‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬معاشی‬
‫اور ذرائع ابالغ سے متعلق قوانین کے ڈرافٹ تیار کیے۔ ان خصوصی شعبہ جات کے‬
‫عالوہ کونسل نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ عمومی معامالت پر بھی اپنی سفارشات مجلس‬
‫ٰ‬
‫شوری کو بھجوائیں۔‬
‫ان قوانین کی ڈرافٹنگ کے سلسلے میں کونسل نے شام کے سابق وزیراعظم‪ ،‬ورلڈ مسلم‬
‫لیگ کے پریذیڈنٹ اور سعودی شاہ خالد بن عبدالولید کے ایڈوائزر ڈاکٹر ماروف ال دوالبی‬
‫(‪ )Dr.Ma'ruf Al Dawalibi‬سے مدد لی گئی۔ ان قوانین کی ڈرافٹنگ پہلے عربی زبان‬
‫میں کی گئی‪ ،‬اس کے بعد اردو اور انگریزی˜ میں تراجم ہوئے۔ بدقسمتی سے اب تک اس‬
‫شوری کی جانب سے بھیجی گئی کسی رپورٹ کو دونوں ایوان نمائندگان میں بحث میں‬ ‫ٰ‬
‫نہیں الیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو‬
‫سکا‪ ،‬جس کی اس سے امید کی جا رہی تھی۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ادارہ اسالمائزیشن کے‬
‫لیے بنایا گیا تھا مگر اس میں تمام مکاتب فکر کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ اس اعتراض کا‬
‫دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو نامزد کیا جاتا ہے ان مسالک کے افراد ان کو اپنا‬
‫نمائندہ نہیں سمجھتے اور ان کی نامزدگی پر اعتراضات کرتے ہیں۔‬
‫حال ہی میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی سفارش پر آٹھ اہم‬
‫شخصیات کو اسالمی نظریاتی کونسل کا رکن منتخب کیا۔ ان شخصیات میں عالمہ سید‬
‫افتخار حسین نقوی (پنجاب)‪ ،‬موالنا زبیر احمد ظہیر (پنجاب)‪ ،‬صاحبزادہ پیر خالد سلطان‬
‫القادر (بلوچستان)‪ ،‬مفتی محمد اقبال حسین شاہ فیضی (سندھ)‪ ،‬سید فیروز جمال شاہ (کے پی‬
‫کے)‪ ،‬جسٹس (ریٹائرڈ) مشتاق اے میمن (سندھ) اور قاری محمد حنیف جالندھری (پنجاب)‬
‫شامل ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کے ان نامزد ارکان کو دینی مدارس میں بہتری النا ہو گی‪ ،‬تاکہ‬
‫ایسے جید علماء پیدا کیے جاسکیں جو دینی و دنیاوی تعلیم میں ماہر ہوں اور قانون سازی‬
‫میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ‬
‫کونسل سے قانون سازی کے عمل میں مشاورت کرے اور اسالمی نظریاتی کونسل کی‬
‫جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹس پر پارلیمان کے سیشن میں بحث کرے اور کونسل‬
‫کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں آئین سازی کرے۔‬
‫وفاقی شرعی عدالت پاکستان کا تعارف‬
‫وفاقی شرعی عدالت پاکستان ‪( 8‬آٹھ) مسلمان منصفین پر مشتمل ہوتی ہے جس میں منصف‬
‫اعظم (‪ )Chief Justice‬بھی شامل ہیں۔ یہ تمام منصفین صدر پاکستان کی منظوری سے‬
‫تعینات کیے جاتے ہیں جو پاکستان کی عدالت عظمٰ ی یا کسی بھی صوبائی عدالت عالیہ کے‬
‫ریٹائرڈ یا حاضر سروس منصفین میں سے منتخب کیے جانے ضروری ہیں۔ وفاقی شرعی‬
‫عدالت کے موجودہ منصف اعظم جناب جسٹس محمد نور مسکان زئی ہیں۔‬
‫وفاقی شرعی عدالت کے ‪ 8‬منصفین میں سے ‪ 3‬کا علوم اسالمیہ و شریعت کا عالم ہونا‬
‫ضروری ہے جن کو اسالمی قوانین و شریعت میں انتہائی درجہ کی مہارت حاصل ہو۔ اس‬
‫عدالت کے تمام منصفین ‪ 3‬سال کے عرصہ کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی‬
‫منصف کا دور تعیناتی صدر پاکستان کی صوابدید پر بڑھایا جاسکتا ہے۔‬
‫وفاقی شرعی عدالت پاکستان اپنے طور پر‪ ،‬کسی بھی شہری یا حکومت پاکستان (وفاقی و‬
‫صوبائی) کی درخواست پر کسی بھی قانون کو جانچنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ دائرہ‬
‫اختیار اس نکتہ کی وضاحت کے لیے میسر ہے کہ کوئی بھی زیر غور یا الگو‬
‫قانون‪،‬شریعت اسالمی کے منافی تو نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خالف‬
‫درخواست پاکستان کی عدالت عظمٰ ی کے ا پلیٹ بینچ کے دفتر میں دائر کی جا سکتی ہے۔‬
‫یہ بینچ ‪ 3‬مسلمان منصفین پر مشتمل ہوتا ہے جو عدالت عظمٰ ی کے حاضر سروس منصفین‬
‫ہوتے ہیں اور ان ‪ 3‬منصفین میں سے ‪ 2‬کا اسالمی علوم و شریعت کا عالم ہونا الزمی ہے۔‬
‫ان مصنفین کی تعیناتی بھی صدر پاکستان کی منظوری سے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی‬
‫الگو یا زیر غور قانون شریعت اسالمی کے منافی قرار پایا جائے تو حکومت پاکستان پر‬
‫ٰ‬
‫شوری کے دونوں ایوانوں (باال اور زیریں)‬ ‫الزم ہے کہ اس قانون میں مناسب تبدیلی مجلس‬
‫سے اسالمی شریعت کے عین مطابق منظور کروائے اور انتظامیہ ترمیم شدہ اسالمی‬
‫شریعت کے عین مطابق قانون کو الگو کرنے کی پابند ہو گی۔‬
‫اس عدالت کے دائرہ اختیار میں فوجداری مقدمات کی سماعت بھی شامل ہے جو حدود کے‬
‫زمرے میں آتے ہوں۔ اس عدالت کا فیصلہ کسی بھی صوبائی عدالت عالیہ کے فیصلے پر‬
‫بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ حدود سے متعلق کسی بھی مقدمے کی سماعت و پیروی کے‬
‫لیے یہ عدالت اپنے مالزمین متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔‬
‫‪1980‬ء میں جب یہ عدالت قائم کی گئی تھی‪ ،‬تب سے یہ عدالت کئی بار تنقید کا نشانہ بنتی‬
‫رہی ہے اور کئی مواقع پر متنازع بھی رہی ہے۔ اس وقت کی فوجی حکومت میں اسالمی‬
‫ٰ‬
‫دعوی میں یہ عدالت آٹھویں ترمیم کے ذریعہ قائم کی گئی تھی۔‬ ‫معاشرے کی تشکیل کے‬
‫مخالفین کے مطابق یہ عدالت متوازی طور پر قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے جو مملکت‬
‫پاکستان کی ٰ‬
‫اعلی عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے‪،‬‬
‫یہاں تک کہ یہ عدالت پارلیمان کی خود مختاری پر بھی اثر انداز ہونے کی صالحیت رکھتا‬
‫ہے۔ اس کے عالوہ اس عدالت میں مصنفین کی تعیناتی کا طریقہ کار اور مصنفین کی مدت‬
‫مالزمت بھی اکثر مخالفانہ بحث کا مرکز رہی ہے۔ تنقید کاروں کے مطابق اس عدالت کی‬
‫بنیاد اور طریقہ تعیناتی کسی بھی صورت میں آزاد عدلیہ کی نشانی نہیں ہے اور اس‬
‫عدالت کے تحت ہونے والے فیصلوں پر وفاق کے کلیدی عہدیدار اثرانداز ہو سکتے ہیں۔‬
‫ماضی میں یہ عدالت وفاق کے ل˜˜یے ع˜˜دالت عظمٰ ی میں ناپس˜˜ندیدہ منص˜˜فین ک˜˜و بہالنے کے‬
‫لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کے عالوہ کئی فیصلے جو اس عدالت کے زی˜ر اہتم˜ام‬
‫کیے گئے‪ ،‬اسالمی مساوات‪ ،‬انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ س˜˜ے اہم تھے ابھی‬
‫تک تنقید ک˜˜ا نش˜انہ بن رہے ہیں۔ اس کے عالوہ خ˜˜واتین کے حق˜وق کی تنظیمیں بھی بنی˜ادی‬
‫حق˜˜وق کی خالف ورزی کے زم˜˜رے میں ک˜˜ئی مق˜˜دمات کے فیص˜˜لوں کے خالف آواز اٹھ˜˜ا‬
‫چکی ہیں۔ ف˜˜وجی حک˜˜ومت میں تش˜˜کیل دی ج˜˜انے والی یہ ع˜˜دالت بالش˜˜بہ ک˜˜ئی ط˜˜رح س˜˜ے‬
‫متنازع رخ اختیار کر چکی ہے۔‬
‫اس بات سے قطع نظر کہ اس عدالت پر ک˜˜ئی اعتراض˜˜ات ک˜˜یے گ˜˜ئے‪ ،‬اگ˜˜ر اس کے بنی˜˜ادی‬
‫ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں کی جائیں ت˜˜و بالش˜˜بہ یہ اس˜˜المی ق˜˜وانین کی پاس˜˜داری کے ل˜˜یے اہم‬
‫سنگ میل ث˜˜ابت ہ˜˜و س˜˜کتی ہیں۔ اس ط˜˜ور ک˜˜ئی زاوی˜˜وں س˜˜ے ع˜˜دالت کے دائ˜˜رہ اختی˜˜ار اور‬
‫تعیناتی کے عمل کو جانچے جانے کی گنجائش موجود ہے۔‬

You might also like