Professional Documents
Culture Documents
جت
ت جت ہاد ات ن ف
مع ٰی و م ہوم،پ اکست ان کے اج ماعی ا ہادی اداروں کا عارف
ش ن
زیر نگرانی م ق گار
ڈاکٹر نبیلہ فلک عابد عزیز
شعبہ علوم اسالمیہ رجسٹریشن نمبر-PIS07193004
اسالمیہ
متعلم ایم فل علوم ش
عب ہ علوم اسالمی ہ
یونیورسٹی آف الہور ،سرگودھا کیمپس ،سرگودھا
مقدمہ
اسالم ایک ابدی مذہب ہے،اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کاحل ہے،یہ دین خداکی
طرف سے آیا ہوا آخری دین ہے ارشاد خداوندی ہے ”:اِ َّن ال ِّد ْینَ ِع ْن َد ہللاِ ااْل ِ ْساَل ُم”(آل عمران:
)۱۹اس دین کا امتیاز جہاں ابدیت ودوام اور ہر عہد میں قیادت ورہبری کی صالحیت ہے
وہیں اسکا بڑا وصف جامعیت ،مسائل زندگی میں تنوع کے باوجود رہنمائی اورتوازن
واعتدال کے ساتھ ان کا حل بھی ہے،خلوت ہویاجلوت ،ایوان سلطنت ہو یا فقیر ومحتاج
کا،خانٔہ بے چراغ حاکم ہو یا محکوم،دیوان قضاء کی میزان عدل ہویاادب وسخن کی بزم
ہو،حق وباطل کا رزم ہویاخدا کی بندگی اوراس کے حضور آہ سحرگا ہی ہو،حیات انسانی
کا کونسا ایسا شعبہ ہے جس کو اس نے اپنے نورہدایت سے محروم رکھاہے،اورزندگی کا
کونسا عمل ہے جس کا سلیقہ اس دین نے نہیں سکھایا۔لیکن منطقی طور پر یہ سوال ذہن
میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنے والی چیز نہیں
ہے ،اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے ،انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل
سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا الزمی
حصہ ہیں ،پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف
سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی
مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ
کیسے قائم رہے گا؟
مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب
بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھال خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور
وحی ٰالہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی ،اب اس کے فیصلے خود اس
کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد
جو سمجھے ،وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں
ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ
ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز
نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی ،طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ
مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی ٰالہی سے ال تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر
مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی
تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے
ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت
تک پیش آنے والے حاالت ومسائل کی تفصیالت موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو
سکتی ہیں اس لیے اسالم نے بعد میں رونما ہونے والے حاالت وواقعات اور مشکالت
ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے
جزئیات وفروعات میں حاالت ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی
کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار
کو شریعت کی اصطالح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بدلے ہوئے حاالت
وادوار میں شریعت کے اصل منشاء ومقصد کوسامنے رکھ کر نوپید اورتغیر پذیر جزئیات
ومسائل اورذرائع ووسائل کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے،اجتہاد اس کا نام
نہیں ہے کہ شارع کے نصوص کو محدود کردیا جائے اور اپنی رائے وخواہش کے دائرہ
کو وسیع کیاجائے،بلکہ اجتہاد کے ذریعہ درحقیقت نصوص اورشارع کی ہدایات وتعلیمات
کے اطالق کو وسیع کیاجاتا ہے،اوران صورتوں کو بھی آیات وروایات کے ذیل میں الیا
جاتا ہے جن کا نصوص میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ آیا ہو،مثالً حدیث میں ہے کہ :ایک
شخص نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو کفارہ اداکرنے کا حکم دیا
گیا۔ (بخاری ،باب اذا جامع فی رمضان ،حدیث نمبر )۱۸۰۰:اس حدیث سے صراحتا ً روزہ
میں صرف جماع ہی کی وجہ سے کفارہ واجب ہونا معلوم ہوتا ہےلیکن فقہاء نے اپنے
اجتہاد کے ذریعہ اس حکم کے دائرہ کو ان لوگوں تک بھی وسیع کیا ہے جو
قصدًاخوردونوش کے ذریعہ روزہ توڑدیں ،اجتہاد کی روح اور اس کی اصل اسپرٹ یہی
ہے کہ اس کے ذریعہ نصوص کی صریح واضح ہدایات کے دائرہ عمل کو ان مسائل تک
بڑھایا جائے جن کی بابت صریح احکام موجود نہیں ہیں۔
شرائط اجتہاد:
اجتہاد کی تعریف اس کے نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے،
جس میں شرعی مآخذ کی روشنی میں غیرمنصوص مسائل کا استنباط کرنا پڑتا ہے ،اس
ٰ
تقوی ،خداترسی اور عدل وثقاہت کے ساتھ ساتھ لیے فطری بات ہے کہ اس کے لیے
غیرمعمولی علمی تبحراور انتہائی فہم وفراست درکار ہوتی ہے ،اس لیے اصولیین اور
کار اجتہاد انجام دینے والوں کے لیے چند شرطوں اور
اسالمی قانون کےماہرین نے ِ
صالحیتوں کوضروری قرار دیا ہے ،جن کے بغیر انہیں اس راہ میں ایک قدم رکھنا بھی
:جائز نہیں ،ذیل میں انہیں شرطوں کوایک خاص ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے
۔ تقوی اور خدا ترسی1
ان میں سب سے اہم اور بنیادی شرط ہے کہ اس کے بغیر مسائل کی صحیح تخریج تقریبا ً
خوف خدا اور عندہللا
ِ ناممکن ہے ،اس جوہر کے بغیر جوبھی اس راہ میں قدم رکھے گا
جواب دہی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے کوشش کرے گا کہ احکام شرع کا بوجھ
سرسے اتارا جائے اور شریعت کواپنی ہوس اور خواہش کا تابع بنایا جائے؛ یہی وجہ ہے
کہ تمام ائمہ مجتہدین علمی تبحر اورفہم وفراست کے ساتھ عدل وخداترسی میں بھی مشہور
3زمانہ تھے۔
:۔ عربی زبان میں مہارت2
عربی زبان قرآن وحدیث کی زبان ہے ،اسی میں مذہب کے اصلی الفاظ اور دینی
نظام حیات سے برا ِہ راست
ِ اصطالحات ہیں ،اس سے مکمل واقفیت کے بغیر اسالمی
واقفیت اور اس کے عظیم الشان ذخیرہ سے نہ صحیح اور نہ زندہ تعلق استوار ہوسکتا ہے
اور نہ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ،ترجمے خواہ کتنی ہی مہارت سے کیوں نہ کئے
گئے ہوں کسی بھی اصل کتاب کی تمام کیفیات کے حامل نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ قرآن
وحدیث کہ جن کی مختصر سی عبارت بھی معانی وفکر سے لبریز ہوتی ہے اسی لیے
عربی زبان اور اس سے متعلق علوم ،لغت ،صرف ،نحو اور اصو ِل بالغت پربھی دسترس
فق 3
اصول ال ہ البی زھرۃ ،ص 365:
ت
ضروری ہے ،ہاں یہ الزم نہیں کہ ان علوم میں بھی اجتہاد کا درجہ حاصل ہو بلکہ بوق ِ
4ضرورت ان علوم سے متعلق کتابوں کی مراجعت کرسکے ،یہ بات بھی کافی ہے۔
:۔ قرآن وحدیث کا علم3
قرآن وحدیث کی تعلیمات اور مضامین کا اجمالی لیکن جامع اور محیط خاکہ مجتہد
کومستحضر رہنا چاہئے،خصوصیت کے ساتھ ان آیات واحادیث پرگہری نگاہ ،کامل
دسترس اور مکمل بصیرت ہونی چاہئے ،جن کا تعلق احکام ومسائل سے ہو ،عام علماء کی
تشریح کے مطابق ایسی آیات /۵۰۰اور احادیث تقریبا ً /۳۰۰۰ہیں لیکن اس سے مقصود
فقہی اور قانونی آیات واحادیث کوایک خاص عدد میں منحصر کرنا نہیں ،یہ تعداد دراصل
اصول تشریع واحکام سے متعلق ہیں ورنہ محقق ِ ان آیات واحادیث کی ہے جوبہ صراحت
) 5مفسرین ومحدثین نے اس سے کہیں زیادہ آیات واحادیث سے مسائل کی تخریج کی ہے۔
اس باب میں پسندیدہ اور معتدل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے احکام ومسائل سے متعلق
حصہ کا حافظ ہونا بہتر ہے ،ناسخ ومنسوخ کی پہچان اور شناخت بھی ضروری ہے ،ان
فتوی دینا یاکسی اصل شرع سے مسئلہ کی ٰ سے واقفیت کے بغیر کسی بھی مسئلہ میں
6تخریج کرنا فتنہ اور لغزش سے خالی نہیں۔
خبرواحد کی شناخت اور متعارض روایات کے درمیان علم حدیث میں متواتر مشہور اور ِ ِ
طریق کار سے واقفیت ،نیزجرح وتعدیل یافن اسماء الرجال ِ تطبیق یاترجیح کے اصول اور
پرنگاہ ہونا بھی ضروری ہے ،جس سے حدیث کی صحت وسقم اور ناقلی ِن حدیث کا قابل
تدوین فقہ کے ابتدائی دور میں چونکہ یہ تمام بحثیں
ِ اعتبار ہونا اور نہ ہونا معلوم ہوتا ہےـ
مرتب نہیں تھیں ،اس بنا پر مجتہد کے لیے ان کومحفوظ اور مستحضررکھنا ضروری تھا،
ت حدیث پرنہایت محققانہ بحثیں کتابی شکل میں ہمارے دور میں جب کہ حدیث اور متعلقا ِ
ت ضرورت متعلقہ کتب سے محفوظ ومرتب ہوچکیں ،اس باب میں اتنی صالحیت کہ بوق ِ
استفادہ کیا جاسکے کافی ہوگی۔
۔اجماعی احکام4
اختالفی مسائل کی شناخت بھی مجتہد کے لیے الزمی ہے تاکہ کسی مسئلہ میں ایسا فیصلہ
خارق اجماع ہو ،فقہا اور اصولیین کے درمیان جن مسائل ِ فتوی نہ دے بیٹھے جوٰ اور
پراتفاق رائے نہ ہوسکا ان کی واقفیت مجتہد کے اندر مختلف فیہ مسائل میں تقابل اور ِ
ترجیح کی صالحیت اور استدالل واستنباط کی قوت پیدا کرتی ہے تاہم ان تمام مسائل کا
ت
زبانی یاد رکھنا ضروری نہیں ،اس باب میں بھی اتنی صالحیت کافی ہوگی کہ بوق ِ
7ضرورت متعلقہ کتب سے مراجعت کرکے ان کا استحضار کیا جاسکے۔
۔علم اُصول الفقہ5
فقہ اسالمی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت
ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے
4
االبہاج فی شرح المنہاج ،ج ،3:ص255:
5
شرح ابن بلدان علی روضۃ الناظر ،۲/۴۰۲:بحوالہ :اسالمی عدالت
6
اصول الفقہ البی زہرۃ ،ص358:
7
اصول الفقہ البی زہرۃ،ص32:
بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چال جاسکتا ۔اس میں بھی خاص کرقیاس اور اس کے ارکان
وشرائط کا علم نیزمختلف دالئل میں ترتیب وترجیح کے اصول وطریقہ کار سے واقفیت
)8بھی ضروری ہے۔
۔مقاصد شریعت6
اسالمی قانون کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ شریعت کے عطا کردہ ایسے وسیع اور
ہمہ گیر رہنمایانہ اصول ہیں جو ہرزمانہ اور تمام حاالت میں انسانی معاشرے کی عادالنہ
تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قاب ِل عمل ہیں ،ایسی صورت میں مجتہد کے لیے ایک
ضروری شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد ،اس کے مزاج ومذاق اور اس کی روح
پھراحوال ناس کے تغیر اور عرف وعادت کی تبدیلیوں سے پیدا شدہ نئے
ِ سے واقف ہو اور
مسائل ومشکالت کا اسالمی حل پیش کرے۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جوبھی
تغیروتبدیلی ہوگی ،یانئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی حکم کی دریافت کی جائے گی وہ
صحابہ وتابعین کی بہت سی مثالیں
ؓ عین شریعت کے مطابق ہی ہوگی ،اس کی مثال میں عہد
بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
۔زمانہ آگہی7
اجتہاد کے لیے ایک نہایت اہم اورضروری˜ شرط جس کا عام طورپر صراحۃً ذکر نہیں
کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد اپنے زمانہ کے حاالت سے بخوبی واقف ہو،عرف وعادت
،معامالت کی مروجہ صورتوں˜ اورلوگوں کی اخالقی کیفیات سے آگاہ ہوکہ اس کے بغیر
اس کے لیے احکام شریعت کا انطباق ممکن نہیں،اس لیے محققین نے لکھا ہے کہ جو
شخص اپنے زمانہ اورعہد کے لوگوں سے یعنی ان کے رواجات معموالت اورطورطریق˜
9سے باخبر نہ ہو وہ جاہل کے درجہ میں ہے۔
مجتہد کے لیے زمانہ آگہی دووجوہ سے ضروری ہے ،اول ان مسائل کی تحقیق کے لیے
جو پہلے نہیں تھے اب پیدا ہوئے ہیں کیونکہ کسی نوایجاد شئی یا نو مروج طریقہ پر
محض اس کی ظاہری صورت کو دیکھ کر کوئی حکم لگادینا صحیح نہیں ہوگا ،جب تک
اس کی ایجاد اوررواج کا پس منظر معلوم نہ ہو ،وہ مقاصد معلوم نہ ہوں جو اس کا اصل
محرک ہیں،معاشرہ پر اس کے اثرات ونتائج کا علم نہ ہو اوریہ معلوم نہ ہو کہ سماج کس
حد تک ان کا ضرورت مندہے؟ ان سب امور کے جانے بغیر کوئی بھی مجتہد اپنی رائے
میں صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
دوسرے بعض ایسے مسائل میں بھی جوگواپنی نوعیت کے اعتبارسے نوپید نہیں ہیں لیکن
بدلے ہوئے نظام وحاالت میں ان کے نتائج میں فرق واقع ہوگیا ہے،دوبارہ غوروفکر کی
ضرورت ہوتی ہے،یہ ایک نہایت اہم پہلو ہے جو فقہ اسالمی کو زمانہ اوراس کے تقاضوں
قیم نے
سے ہم آہنگ رکھتا ہے؛اکثر اہل علم نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے۔ حافظ ابن ؒ
10اپنی مایہ ناز تالیف اعالم الموقعین میں اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے ۔