Professional Documents
Culture Documents
کوہ سفید کا سلسلہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے کابل کے جنوب میں شماالً جنوبا ً
دریائے کرم تک پھیال ہوا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ پاکستان میں شرقا ً غربا ً پھیال ہوا ہے
جبکہ اس کا کچھ ھصہ افغانستان میں بھی ہے۔ اس سلسلہ کوہ کی اوسط بلندی 3600میٹر
ہے۔ تاریخی درہ خیبر ،جو پشاور کابل روڈ کے ذریعے پاکستان کو افغانستان سے مالتا ہے
اسی سلسلہ کوہ میں واقع ہے۔اس سلسلہ کوہ کی بلند ترین چوٹی سکارام 4761میٹر بلند
ہے۔
۔وزیرستان کی پہاڑیاں2
پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ یہ پہاڑیاں دریائے کرم کے جنوب میں واقع ہیں۔ درہ
ٹوچی اور درہ گومل انہی پہاڑوں میں واقع ہیں ،جن میں قالت اور بنوں چھائونیاں بنائی
گئی ہیں۔
۔ٹوپا کاکڑ کا پہاڑی سلسلہ3
یہ سلسلہ کوہ بھی پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ وزیرستان کی پہاڑیوں کے جنوب میں
واقع ہے ۔پہاڑیوں کا یہ سلسلہ شمال سے جنوب کی طرف چلتا ہوا کوئٹہ کے شمال پر آکر
ختم ہو جاتا ہے۔
۔چاغی کی پہاڑیاں4
چاغی کی پہاڑیاں پاکستان کےمغرب میں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ چاغی کی
پہاڑیوں کی زندہ جاوید اہمیت یہ ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور اس کے ایٹمی
حملوں کی دھمکیوں کے جواب میں 28مئی 1998ءکو پاکستان نے یہاں ایٹمی دھماکے
کرکے اپنے ایٹمی قوت بننے کا عملی اعالن کیا تھا اور یہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر
خان اور ان کے ذہین ساتھیوں کی حب الوطنی اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۔راس کوہ کی پہاڑیاں5
راس کوہ کی پہاڑیاں چاغی کی پہاڑیوں کے جنوب اور مغرب میں واقع ہے۔چاغی کے
مغرب میں "کوہ سلطان " واقع ہے۔
:سطح مرتفع
سطح مرتفع سے مراد وہ پتھریال عالقہ ہے جو سطح سمندر سے کافی بلند ہو ،لیکن یہ
بلندی پہاڑی سلسلوں کی نسبت کم ہو۔ پاکستان میں سطح مرتفع کے دو عالقے ہیں
:۔ سطح مرتفع پوٹھوہار1
سطح مرتفع پوٹھوہار کا عالقہ کوہستان نمک کے شمال میں دریائے جہلم اور دریائے
سندھ کے درمیان واقع ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ بلندی 600میٹر تک ہے۔ پوٹھوہار کی
سطح مرتفع بہت کٹی پھٹی اور ناہموار ہے۔ زیادہ حصہ زراعت کے قابل نہیں۔ تاہم اسے
ہللا تعالی نے معدنی دولت سے ماالمال کر رکھا ہے۔ پاکستان اپنی مٹی کے تیل کی
ضروریات کا کچھ حصہ یہیں سے حاصل کرتا ہے ۔یہاں چونے اور کوئلے کی کانیں بھی
ہیں۔ اس عالقے کا مشہور دریا دریائے سواں ہے ۔
۔سطح مرتفع بلوچستان2
سطح مرتفع بلوچستان کوہ سلمان اور کوہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں کے مغرب میں واقع
ہے۔ اس کے شمال میں ٹوبا کاکڑ اور چاغی کے پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس سطح مرتفع کی
زیادہ سے زیادہ بلندی 900میٹر تک ہے ۔یہ سارا عالقہ بنجر ہے ۔زراعت کے قابل نہیں،
صحرائے بلوچستان کے نام سے اس کے مغرب میں ریت کا ایک وسیع میدان ہے۔ بلو
چستان کے جنوبی حصے میں سوئی کے مقام سے قدرتی گیس بڑی وافرمقدارمیں نکلتی
ہے جو قدرت کا بے بہا عطیہ ہے یہاں کوئلہ ،لوہا ،تانبا اور کرو مائٹ کے ذخائر بھی
ہیں ۔یہاں کے مشہوردریا دریائے ژوب ہے ،جو کوہ سلیمان سے نکل کر دریائے گومل
میں جا گرتا ہے۔
پاکستان کے میدانی عالقے
ایک وسیع سطح زمین ،جو ہمو ار ہو اور نسبتا ً کم ڈھلوان رکھتی ہو ،میدان کہالتی ہے۔
پاکستان میں برف پوش پہاڑوں اور سطح مرتفع کے عالوہ وسیع زرخیز میدان بھی پائے
جاتے ہیں۔ یہ میدان دریاؤں کی پہاڑ سے الئی ہوئی زرخیز مٹی سے بنے ہیں۔ یہ میدان
کوہ ہمالیہ کے دامن سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی زرعی اور
حیوانی ضروریات انہی میدانوں کی زرعی پیداوار سے پوری ہوتی ہے بلکہ پاکستان اپنی
فاضل پیداوار برآمد بھی کرتا ہے ۔
پاکستان کے میدانی عالقے
پاکستان کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ان میدانوں کو ہم چار بڑے حصوں میں تقسیم کر
:سکتے ہیں
۔دریائے سندھ کا باالئی میدان1
یہ میدان شوالک اور کوہستان نمک کے جنوب اور کوہ سلیمان کے مشرق میں واقع ہے
سندھ کے باالئی میدان کو دریائے سندھ اور معاون دریا ستلج ،بیاس ،راوی ،چناب اور جہلم
سیراب کرتے ہیں ،ان پانچ دریائوں کی وجہ سے اس عالقے کو پنج آب یعنی پانچ پانیوں
یا پانچ دریاؤں کی سر زمین یا پنجاب کہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت پنجاب بھی دو
حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ یہ دریا بھارتی عالقے سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔
بھارت نے 1948ء میں ہمارے دریاؤں کا پانی بند کر دیا تا کہ پاکستان کی فصلیں تباہ اور
زمین بنجر ہو جائے ۔عالمی مداخلت کی بنا پر تین مشرقی دریا ستلج ،بیاس اور راوی
مکمل طور پر بھارت کو مل گئے اور جہلم ،چناب اور سندھ پورے کے پورے پاکستان
کے حصے میں آئے یہ الگ بات ہے کہ بھارت کونہ کسی بین االقوامی اصول کا لحاظ ہے
اور نہ اپنے وعدے کا۔ اس نے ہمارے حصے والے دریائے چناب پر ایک بگلیہار ڈیم بنا
لیا ہے اور ایک اور ڈیم بنانے واال ہے۔ اس سے پاکستان میں الزما ً پانی کی کمی واقع ہو
جائے گی۔
م ت
کے پانچوں خمعاون دریا مٹھن کوٹ کے مقام پر سندھ سے ل ج اے ہ ی ں اور دریائے سندھ ئ
ت ش ت
ی ہی ں پر س ن دھ کا ب ا ال ی م ی دان م اور زیری ں م ی دان روع ہ و ج ا ا ہ ے۔دریائے سندھ کے باالئی میدان
کے دریائوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ڈھالن شمال سے جنوب کی طرف ہے ۔ ان
دریاؤں سے نہریں نکال کر میدانوں کو سیراب کیا گیا ہے چنانچہ یہ میدان دنیا کے زر خیز
ترین میدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جہاں چاول ،گندم ،کپاس ،مکئی اور گنے وغیرہ
کی بکثرت کاشت ہوتی ہے۔
دو دریاؤں کی درمیانی جگہ کو دوآبہ یا دوآب کہتے ہیں۔مثالً
۔باری دوآب :دریائے بیاس اور راوی کے درمیان1
۔چج دوآب :دریائے چناب اور جہلم کے درمیان2
۔سندھ ساگر دوآب:دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان3
دریا کے قریب ذرا اونچی اور زرخیز زمین کو بار کہتے ہیں جیسے نیلی بار ،گنجی
بار ،ساندل بار اور کرانا بار وغیرہ
دریائے سندھ کے مغرب کے کم بلند دا منی میدان ڈیرہ جات کہالتے ہیں ۔ان میں ڈیرہ
غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ پشاور کا میدان مغرب سے مشرق کی طرف
دریائے کابل کے ساتھ ہے ۔یہ دریا اٹک کے قریب دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
وارسک ڈیم دریائے کابل ہی پر وارسک کے مقام پر بنایا گیا ہے۔ دریائے جہلم کے پار
مغرب میں تھل کا ریگستان ہے۔ جسے جناح بیراج سے نکلنے والی نہروں کے ذریعے
خاصا آباد کیا جا رہا ہے۔
دریائے سندھ کا زیریں میدان
مٹھن کوٹ سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحل تک کا سارا عالقہ سندھ کا زیریں میدان
کہالتا ہے۔ اس کے مغرب کی طرف سے کیرتھر کا سلسلہ کو ہ مشرق کی طرف تھر کا
وسیع ریگستان ہے۔ یوں صوبہ سندھ کا بیشتر حصہ سندھ کے زیریں میدان میں شامل
ہے ۔سندھ کے شمالی حصے میں سکھر بیراج ،غالم محمد بیراج ،کوٹری بیراج اور
گدوبیراج سے نہریں نکال کر عالقے کو سرسبز و شاداب بنا دیا گیا ہے۔یہاں کپاس ،چاول
،گنے اور مکئی کی فصلیں بہت اچھی پیدا ہوتی ہیں۔لوگ خوشحال ہو رہے ہیں۔البتہ سندھ
کا مشرقی حصہ ابھی تک "تھر کا ریگستان" ہی ہے ۔
ٹھٹھہ کے قریب دریائے س ن دھ ڈی ل ٹ ا بناتا ہوا آگے چل کر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے ۔ دریا
میں سیالب آتا ہے تو ان دنوں بہت سا عالقہ زیر آب آ جاتا ہے اور خاصی تباہی پھیلتی
ہے۔
ساحلی میدان
پاکستان کے ساحلی میدان صوبہ سندھ میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ رن کچھ اور بھارتی
سرحد سے مغرب میں پاک ایران سرحد تک (قریبا ً 700کلو میٹر تک) پھیلے ہوئے ہیں ۔
یہاں سمندر کے مدو جزر کا پانی اترتا چڑھتا رہتا ہے ۔ یہ میدان مشرق کی طرف سے
چوڑے اور مغرب کی طرف پہاڑوں کی وجہ سے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ کراچی ،پورٹ
قاسم اور گوادر کی بندرگا ہیں اسی ساحل پر واقع ہیں۔ بحر ہند میں بڑی طاقتوں کی رسہ
کشی اور عالقائی سمندر میں معدنی ذخائر کےدستیاب ہونے کے امکان کی وجہ سے
پاکستان کے ساحلی عالقوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔حکومت وسائل آمدورفت کو
ترقی دے کر کے سیاحت کے لیے بھی کشش پیدا کر رہی ہے تا کہ سیاحت کے ذریعے
سے زرمبادلہ کمایا جاسکے۔آج کل گوادر کی بندرگاہ کو بہت ترقی دی جا رہی ہے۔
:ریگستانی یا صحرائی میدان
یہ عالقے جہاں بارش کی ساالنہ اوسط 250ملی میٹر سے کم ہو ،صحرائی یا ریگستانی
عالقے کہالتے ہیں۔ دریائے سندھ کے مغرب میں "تھل کا ریگستان "ہے ۔جسے نہریں
نکال کر سیراب کیا جا رہا ہے ۔بہاولنگر کے جنوب میں" چولستان کا ریگستان" ہے۔ جو
بھارت کے عالقے راجھستان کے صحرا سے اور سندھ کے "تھل کے ریگستان" سے جا
ملتا ہے۔ جنوبی پنجاب ،سندھ ،جنوبی سرحد اور بلوچستان کے عالقے بھی صحرائی ہیں۔
جہاں سال بھر کی بارش 250ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ جن صحرائی میدانوں کو نہروں
کے ذریعے پانی مہیا کیا گیا ہے۔ وہ خوب پیداوار دے رہے ہیں۔
:صحرائے بلوچستان
کوہستان مکران کے مغرب اور شمال مغرب میں بلو چستان کا صحرائی عالقہ واقع ہے ۔
یہاں صرف سردیوں میں بارش ہوتی ہے ،جو دس انچ ساالنہ سے بھی کم ہے ۔یہاں آبادی
بہت کم ہے زمین بنجر ہے۔ سہولتیں نا پید اور معاشی سرگرمیاں بڑی محدود ہیں۔ لوگ
بار برداری کے لیے اونٹ پا لتے ہیں۔بلوچستان کے ان عالقوں میں کہیں کہیں کاریز کے
ذریعے آب پاشی کی جاتی ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر عالقے کی پانی کی
ضروریات کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی وادیاں
سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں اور بعض مقامات پر دریاؤں کے ساتھ ساتھ
خوبصورت اور دلکش وادیاں حسن فطرت کا بہترین شاہکار ہیں۔موسم گرما میں گرمیوں
کے ستائے ہوئے لوگ انہی وادیوں کی آغوش میں آکر سکون حاصل کرتے ہیں اور ہر
سال بیرون ملک سے الکھوں سیاح ان وادیوں کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے
کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ وادی کاغان ،سوات ،لیپا ،چترال ،ہنزہ ،وادی
نیلم ،ایوبیا ،نتھیا گلی اور زیارت وغیرہ زیادہ مشہور وادیوں کے نام ہیں۔حکومت ان
عالقوں میں سیاحوں کے لیے مزید سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔اگر ذرائع
آمدورفت اور مواصالت کا نظام مزید بہتر بنا دیا جائے ،تو پاکستان کافی زیادہ مبادلہ کما
سکتا ہے،نیز سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی مہیا ہو
سکتے ہیں۔
:موسم
کسی مقام کی مختصر وقت کے لئے گرمی ،سردی ،آندھی اور بارش وغیرہ کی کیفیت کو
ً خش
ص ح و گوار
موسم کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی جگہ کا موسم دن میں کئی بار تبدیل ہو ۔مث ال ب
ئ ٹ ئ
ہ و ،دوپ ہر کو ب ارش ہ و ج اے ،سہ پ ہر کو حبس ہ و اور رات ھ ن ڈی ہ و ج اے۔
آب و ہوا ،اور اس کے عناصر ترکیبی
آب و ہوا کا لفظ آب(پانی) اور ہوا سے مل کر بنا ہے۔ گویاآب و ہوا کا انحصار خاص طور
پر دو چیزوں پر ہے۔ آپ یعنی بارش پر اور ہوا یعنی ہوا کے درجہ حرارت اور دباؤ پر ۔
ایک لمبے عرصے کے لئے (مثالً سال بھی کے لیے ) کسی مقام کے بدلتے موسموں
(بارش ،گرمی ،سردی اور ہوا کے دبائووغیرہ ) کی مجموعی کیفیت کی اوسط ،آب و ہوا
کہالتی ہے۔
:آب و ہوا کا تعین
کسی مقام کی آب و ہوا کا تعین کرنے کے لئے گرمی ،سردی کے موسموں کا درجہ
حرارت جمع کرکے ان کی اوسط نکالی جاتی ہے۔پھر اسی طرح اس مقام کے مختلف
موسموں کی بارش کی مقدار جمع کرکے اس کی اوسط معلوم کرتے ہیں اور پھر اوسط
بارش اور اوسط درجہ حرارت کو سامنے رکھ کر اس مقام کی آب و ہوا کا تعین کیا جاتا
ہے۔
:پاکستان کی آب و ہوا
کسی ج گہ کی آب و ہوا کے تعین میں وہاں کے درجہ حرارت کو اور درجہ حرارت کے تعین
کے لیے کرہ ارض پر اس کے محل وقوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان
23.50درجے عرض بلد شمالی سے 37درجے عرض بلد سے شمالی کے درمیان واقع
ہے۔ اس کا جنوبی حصہ جس میں صوبہ سندھ اور جنوبی بلو چستان شامل ہیں۔ نیم منطقہ
حارہ میں ہے اور باقی پاک سرزمین گرم منطقہ معتدلہ میں ہے۔ لہذا ہمارے ملک میں
موسم گرم شدید گرم اور طویل ہوتا ہے جبکہ موسم سرما مختصر اور کم سرد ،البتہ
پہاڑوں کی بلندی اور ان کی برف پوش چوٹیوں کے باعث ان کے گردو نواح میں درجہ
حرارت بہت کم رہتا ہے۔ہم اپنے ملک کی آب و ہوا کو گرمیوں میں شدید اور سردیوں میں
کم سرد کہہ سکتے ہیں۔
:پاکستان کے موسم
درجہ حرارت کے لحاظ سے پاکستان کو چار موسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
:۔موسم گرما1
پاکستان کے شمالی عالقوں میں موسم گرما مئی سے ستمبر تک اور جنوبی میدانوں میں
مارچ سے دسمبر تک رہتا ہے۔جیکب آباد ،سبی ،ملتان ،الہور ،سرگودھا ،مظفر آباد ،لیہ
اور بھکر وغیرہ میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ بعض مقامات پر درجہ حرارت 50درجے
سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چال جاتا ہے ۔میدانی عالقوں میں موسم گرم بہت شدید ہوتا ہے۔
لوگ سخت مجبوری کے بغیر دوپہر کو باہر نہیں نکلتے ،بچے اور بڑے لو لگنے سے
بیمار ہو جاتے ہیں۔طلبہ کا شدید دھوپ اور گرمی کےباعث سکو لوں اور کالجوں سے
چھٹیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ چھٹیاں گزارنے کے لئے پہاڑی مقامات پر چلے جاتے ہیں۔
جہاں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔
:۔موسم خزاں2
اکتوبر ،نومبر پاکستان میں موسم خزاں کے مہینے ہیں۔ ان میں گرمی کی شدت ختم ہونے
لگتی ہے۔ درختوں کے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ موسم میں ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے
تاہم ملک کے جنوبی میدانوں میں ان دنوں بھی درجہ حرارت عموما ً 30درجے سینٹی
گریڈ سے زیادہ ہی رہتا ہے۔ البتہ شمالی میدانوں میں موسم کافی بہتر ہو جاتا ہے۔
:۔موسم سرما3
پاکستان بھر میں موسم سرما دسمبر سے فروری تک رہتا ہے ۔ان دنوں شمالی میدانوں میں
اوسط درجہ حرارت 10سینٹی گریڈ ،جنوبی عالقوں میں اوسطً 18سینٹی گریڈ جبکہ
ساحلی عالقوں میں اوسطا ً 30سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر برف باری بھی
ہوتی ہے۔جس سےلطف اندوز ہونے کے لیے شوقین حضرات پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ۔
لوگ گرم اور اونی لباس پہنتے ہیں۔دن کو دھوپ تاپتے ہیں اور رات کو رضائیوں میں بیٹھ
کر ڈرائی فروٹ کھا تے ہیں۔
:۔موسم بہار4
فروری کے تیسرے ہفتے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ
معتدل موسم بہار اپریل تک رہتا ہے ۔اس دوران شمالی عالقوں میں دن کا درجہ حرارت
20سے 25درجے سینٹی گریڈ کے درمیان اور جنوبی میدانوں کا 30سے 35درجے
سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔فروری سے اپریل تک سال کا بہترین موسم ہوتا ہے۔
:درجہ حرارت کی بنیاد پر پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۔ پاکستان کے ساحلی عالقے1
پاکستان کے ساحل سمندر کے قریبی عالقوں میں نسیم بری اور نسیم بحری کے چلتے
رہنے کی وجہ سےآب و ہوا گرم مرطوب رہتی ہے۔ تاہم یہ گرمی معتدل اور موسم
خوشگوار ہوتا ہے ۔ساالنہ اوسط درجہ حرارت 32سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔زیادہ
گرمی نہیں ہوتی۔ البتہ کبھی کبھار کوئٹہ سے آنے والی ہوائیں بھی ساحلوں تک پہنچ
جاتی ہیں۔ان عالقوں میں بارش تو دس انچ ساالنہ سے بھی کم ہوتی ہے البتہ ہوا میں
رطوبت زیادہ رہتی ہے۔
:۔پاکستان کے میدانی عالقے2
شمالی میدانوں میں موسم گرما اپریل سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے اور اس دوران
درجہ حرارت 35درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی رہتا ہے بلکہ جون ،جوالئی کا اوسط
درجہ حرارت 40سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے ۔تاہم جون ،جوالئی اور اگست میں مون
سون ہوائوں کی بارشیں گرمی کی شدت کو کم کر دیتی ہیں۔
جنوبی میدانوں میں مارچ ہی میں موسم گرما کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہ اکتوبر تک چلتا ہے
۔ اس دوران اوسط درجہ حرارت 40سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے جو کبھی کبھار 50
سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے بلکہ جیکب آباد ،سبی ،ملتان وغیرہ میں تو درجہ
حرارت 45سینٹی گریڈ سے لے کر 54سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
شمالی عالقوں میں موسم سرما دسمبر سے فروری تک رہتا ہے البتہ سردی کی شدت
ناقابل برداشت نہیں ہوتی۔ درجہ حرارت 05درجے سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ
جنوبی میدانوں میں درجہ حرارت 15سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے اورجنوری کا مہینہ
عام طور پر خوشگوار رہتا ہے۔
:۔مغربی پہاڑی سلسلے3
ان عالقوں میں اپریل سے ستمبر تک موسم گرماہوتا ہے لیکن گرمی نا قابل برداشت نہیں
ہوتی کیونکہ درجہ حرارت 30درجے سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں پاتا۔ البتہ موسم سرما
میں درجہ حرارت صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور دسمبر اور جنوری
میں تو برف باری سردی کی شدت میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔
:۔شمالی پہاڑی عالقے4
یہاں اپریل سے ستمبر تک موسم گرما رہتا ہے جو بڑا خوشگوار ہوتا ہے کیونکہ اوسط
درجہ حرارت 20سینٹی گریڈ سے کم ہی رہتا ہے۔ان عالقوں میں موسم خوشگوار ہونے
کی وجہ سے تفریحی مقامات کافی ہیں۔ جہاں میدانی عالقوں کی گرمیوں کے ستائے ہوئے
لوگ آکر پناہ لیتے ہیں۔
البتہ ستمبر سے اپریل تک یہاں سخت سردی پڑتی ہے۔ شدید برف باری ہوتی ہے ۔دسمبر ،
جنوری میں درجہ حرارت منفی 5سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ شمالی پہاڑی عالقوں میں
گرمیوں میں بہت بارشیں ہوتی ہیں اور سردیوں میں مغربی ہوائیں سخت برف باری کا
سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ انہی عالقوں سے دریا بہہ کر جنوبی میدانوں کا رخ کرتے ہیں اور
ان کی زرخیزی اور سر سبزی و شادابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
:پاکستان میں بارشیں پاکستان میں بارشیں عام طور پر دو موسموں میں ہوتی ہیں
۔موسم گرما کی مون سون ہواؤں کی بارشیں1
موسم گرما میں خلیج بنگال سے آنے والے بخارات سے لدی ہوئی ہو ائیں جوالئی سے
ستمبر تک جنوبی ہمالیہ ،شوالک پر اور شمالی میدانوں میں بارشیں برساتی ہیں ۔ان کے
زیر اثر مری ،اسالم آباد ،راولپنڈی،جہلم اور سیالکوٹ وغیرہ کے عالقوں میں اوسطا ً 50
انچ کے قریب بارش ہو جاتی ہے۔ یہ ہوائیں جوں جوں جنوب کی طرف بڑھتی ہیں،ان سے
بارش کم ہو تی جاتی ہے چنانچہ سندھ اور بلوچستان میں بارش کی اوسط دس انچ ساالنہ
سے بھی کم ہے۔ اس لیے یہاں صھرا پائے جاتے ہیں۔ مغربی پہاڑی عالقوں ،سطح مرتفع
بلوچستان اور شمال مغربی پہاڑوں پر موسم گرما میں بارش تقریبا ً ہوتی ہی نہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ یہ پہاڑی سلسلے بلکل خشک ہیں۔
۔موسم سرما کی مغربی ہواؤں کے زیر اثر بارشیں2
موسم سرما میں بخارات سے لدی ہوئی مغربی ہوائیں مغربی اور شمالی پہاڑی سلسلوں کی
برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر شمالی میدانوں میں بارش برساتی ہیں۔ جنوبی عالقوں تک
پہنچتے پہنچتے یہ ہوائیں بخارات سے خالی ہو جاتی ہیں لہذا ان عالقوں میں سردیوں
میں بارش بہت کم ہوتی ہے جو ہماری فصلوں کے لئے بالکل ناکافی ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان میں ہونے والی بارشیں اتنی کم ہیں کہ وہ ہماری موجودہ اور
مستقبل کی زرعی اور دیگر ضروریات کو پورا نہیں کر سکتیں۔ پانی کی کمی کو پورا
کرنے کے لئے مختلف مقامات پر حسب موقع چھوٹے بڑے ڈیم بنانے اور ان سے نہریں
نکال کر ان سے زمینوں کو سیراب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
:آب و ہوا کے انسانی زندگی پر اثرات
کسی عالقے کی آب و ہوا کا انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ لوگوں کے رنگ
صحت کاروبار۔ خوراک لباس ،رسم و رواج اور نقل و حرکت بلکہ عادات و اطوار
وغیرہ سب آب و ہوا سے متاثر ہوتے ہیں۔اناج ،سبزیاں اور پھل جن پر انسان کی زندگی کا
دارومدار ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں تک ،ہر چیز آب وہوا کا اثر قبول کرتی ہیں۔
۔ رنگ1
گرم آب و ہوا میں دھوپ کی شدت کی وجہ سے لوگوں کے رنگ سانولے بلکہ سیاہ ہو
جاتے ہیں جبکہ سرد آب و ہوا میں رہنے والے لوگ سفید فام اور گورے چٹے ہوتے ہیں۔
۔لباس2
موسم گرما میں اور گرم آب و ہوا میں رہنے والے لوگ ہلکے پھلکے اور سوتی لباس
پہنتے ہیں۔دھوپ میں چھتری اور ٹوپی کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔ سردآب و ہوا میں گرم
اونی لباس استعمال ہوتا ہے۔دن کو دھوپ اور رات کو آگ تاپے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔
۔عادات3
سردآب و ہوا میں رہنے والے لوگ جفا کش ،سخت جان اور محنت مشقت کے عادی
ہوتے ہیں۔برد بار اور تحمل مزاج ہوتے ہیں جبکہ گرم آب و ہوا کے باشندے سست،آرام
طلب ،جلد جذبات میں آ جانے والے اور جھگڑالو ہوتے ہیں۔
۔پیشے4
جہاں آب و ہوا گرم مرطوب ہو گی ،بارشیں زیادہ ہوں گی وہاں زیادہ لوگ زراعت پیشہ
ہوں گے جبکہ خشک آب و ہوا میں رہنے والے لوگ زیادہ تر مالزمت پیشہ ،مزدور یا
بھیڑ بکریاں پالنے والے ہوتے ہیں۔
۔تجارت5
معتدل آب و ہوا تجارت کو فروغ دینے میں مدد دیتی ہے۔ سخت سرد یا سخت گرم آب و
ہوا آمد و رفت اور نقل و حمل میں مشکالت پیدا کرکے تجارت کو ماند کر دیتی ہے۔ پہاڑی
راستے برف باری کے باعث بند بھی ہو جاتے ہیں۔
۔رہائش6
گرم آب و ہوا میں رہنے والے لوگ کھلے اور ہوا دار مکان بنا کر رہتے ہیں جبکہ سرد
آب و ہوا میں رہنے والے تنگ کمروں والے مکانوں میں رہتے ہیں ،جنھیں گرم کرنا
آسان ہو۔
۔ذرائع آمدورفت7
شدید گرم آب و ہوا والے صحراؤں ،ریگستانوں اور کم آبادی والے عالقوں میں ذرائع آمد
و رفت اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوتے جبکہ معتدل آب و ہوا میں ،جہاں زندگی کی سرگرمیاں
عروج پر ہوتی ہیں ،ذرائع آمدورفت بہتر اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔
۔خوراک8
سرد آب و ہوا والے عالقوں میں اور موسم سرما میں گوشت ،انڈا ،مچھلی ،مقوی ،
مرغن اور گرم غذائوں ،چائے ،مٹھائیاں اور خشک پھل کا استعمال بکثرت ہوتا ہے جبکہ
گرم آب وہوا اور موسم گرما میں سبزیاں ،رس دار پھل اور ٹھنڈے مشروب زیادہ چلتے
ہیں۔