You are on page 1of 19

‫اسالمی جمہوریہ پاکستان کا جغرافیہ‬

‫پاکستان کاجغرافیہ‬ ‫باب اول ‪:‬‬


‫محل وقوع‬
‫اسالمی جمہوریہ پاکستان دنیا کا واحد ملک‪،‬جو اسالمی نظام حیات نافذ کرنے کے لیے‬
‫حاصل کیا گیا ۔یعنی "پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ"۔ اس کا نام اسالمی جمہوریہ پاکستان‬
‫رکھا۔ اسالمی جمہوریہ پاکستان ‪14‬اگست‪1947‬ء‪ 27،‬رمضان المبارک کو معرض وجود‬
‫میں آیا۔ پاکستان کا کل رقبہ‪796،096‬مربع کلومیٹر ہے ۔پاکستان کی آبادی‪ 98 ٪‬مسلمان او‬
‫ر‪ 2٪‬عیسائی‪ ،‬ہندو‪،‬پارسی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہےلیکن یہاں‬
‫بہت سی دوسری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں اردو‪،‬‬
‫پنجابی‪ ،‬پشتو‪ ،‬بلوچی‪ ،‬کشمیری اور فارسی وغیرہ شامل ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان‬
‫کے مطابق پاکستان کی آبادی ‪ 22‬کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی زرخیز زمین‪،‬‬
‫میدان‪ ،‬بلند پہاڑ‪ ،‬قیمتی معدنیات‪،‬رواں د ریا‪ ،‬خوبصورت وادیاں‪ ،‬ذہین اور محنتی افراد پر‬
‫مشتمل ہے۔ پاکستان میں کچھ عالقے ایسے ہیں جہاں سارا سال سردی اور سارا سال گرمی‬
‫بھی رہتی ہے ۔یہاں کہ زرخیز عالقے پیداوار کے لحاظ سے بہترین ہیں‪ ،‬موسم سرما‪،‬موسم‬
‫بہار‪ ،‬موسم گرما‪ ،‬موسم خزاں اور یہاں کے موسم ہیں۔ پاکستان کے مشرق میں‬
‫بھارت ‪،‬شمال میں چین ‪،‬مغرب میں افغانستان اور ایران اور جنوب میں بحیرہ عرب واقع‬
‫ہیں۔ براعظم ایشیا کے جنوب میں عرض بلد ‪23.50‬درجے شمالی سے ‪37‬درجے شمالی‬
‫کے درمیان طول بلد ‪61‬درجے شرقی سے ‪ 77‬درجے مشرق کے درمیان پھیال ہوا ہے۔‬
‫غ ف ئ‬ ‫‪:‬پاکستان کے محل وقوع کی اہمیت‬
‫پاکستان کو براعظم ایشیا کے جنوبی عالقوں میںج را ی ا ی ‪ ،‬س ی اسی اور فوجی لحاظ سے بڑی‬
‫اہمیت حاصل ہے ۔یہ جنوبی ایشیا کے ایک ایسے جزیرہ نما کا اہم حصہ ہے‪ ،‬جسے اس‬
‫کی وسعت کی بنا پر برصغیر (چھوٹا براعظم) کہا جاتا ہے۔پاکستان فلک بوس‬
‫پہاڑوں ‪،‬گنگناتے دریاؤں‪ ،‬لہلہاتی فصلوں‪ ،‬مہکتی وادیوں‪ ،‬گھنے جنگلوں ‪،‬سرسبز میدانوں‬
‫اور قیمتی معدنیات کی سرزمین ہے۔ ہللا تعالی نے اس وطن کو بے شمار نعمتوں اور‬
‫قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے‪،‬جنھیں اگر پورے خلوص اور منصوبہ بندی کے ساتھ‬
‫استعمال میں الیا جائے‪،‬تو یہاں کے عوام دنیا کی ایک عظیم‪،‬ترقی یافتہ اور خوشحال قوم‬
‫بن سکتے ہیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ یہاں بے حد ذہین‪ ،‬محنتی اور جفاکش افرادی‬
‫قوت کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔‬
‫عالقائی بین االقوامی اہمیت‬
‫پاکستان کرہ ارض کے ایسے عالقے میں واقع ہے۔جس کی سیاسی‪ ،‬اقتصادی اور فوجی‬
‫اہمیت بین االقوامی طور پر مسلم ہے۔ اس کے شمال میں آسمان سے باتیں کرتے ہوئے‬
‫برف پوش پہاڑ وں کا سلسلہ ہے۔‬
‫چین‬
‫پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک چین کے‬
‫عالوہ روس بھی ہے‪،‬جس کی شکست و ریخت کے باوجود ابھی عالمی بساط سیاست پر‬
‫بڑی اہمیت ہے۔چین اتنا سنبھل چکا ہے کہ اس خطے میں بہت سے ممالک اس کی طرف‬
‫امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تو چین کی دوستی شاہراہ‬
‫قراقرم سے بھی زیادہ پائیدار اور مضبوط ہے ۔سی پیک کی وجہ سے دونوں ملکوں کی‬
‫دوستی اور زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔چین اور روس کی وجہ عالمی سیاست میں اس‬
‫عالقے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔‬
‫بھارت‬
‫پاکستان کے مشرق میں بھارت واقع ہے۔جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے نمبر پر‬
‫ہے۔یہ ایک صنعتی اور ایٹمی ملک ہے۔ قیام پاکستان سے ہی بھارت کے ساتھ ہمارے‬
‫تعلقات خراب چلے آئے ہیں۔ لیکن اب انہیں بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔سب سے‬
‫بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے ۔اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو سب مسئلے حل ہو سکتے‬
‫ہیں۔ معلوم ہوتا ہے‪ ،‬بھارت نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔اس‬
‫دشمنی کی وجہ سے ‪1948‬ء‪ 165 ،‬اور ‪1971‬ءمیں جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ بھارت اور‬
‫پاکستان اپنے دفاع کے لیے اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ جنگی ہتھیاروں پر صرف کر رہے‬
‫ہیں۔امن اور خوشحالی کے لئے کشمیر کا مسئلہ اہم ہے۔‬
‫کراچی کی بین االقوامی بندرگاہ کی اہمیت‬
‫کراچی پاکستان کا سابقہ دارالحکومت اور بہت بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز ہونے کے‬
‫ساتھ ساتھ بحیرہ عرب کے ساحل پر ایک اہم بین االقوامی بندرگاہ بھی ہے۔‬
‫بیشتر مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار کافی حد تک خلیجی ممالک کے تیل پر‬
‫ہے جو بحیرہ عرب اور بحر ہند سے گزر کر مختلف ممالک کو پہنچتا ہے۔ اس راہ میں‬
‫کراچی کی بندرگاہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی تیل کی نقل و‬
‫حمل پر براہ راست اثرانداز ہو سکتی ہے۔‬
‫اسالمی دنیا کی مرکزیت۔۔۔خلیج فارس سے ملحقہ مسلم ممالک‬
‫پاکستان کے مغرب میں وہ زندہ و پائندہ افغانستان ہے ۔اس کے ساتھ ہی ایران ہے‪ ،‬اور ان‬
‫سے آگے مسلم ممالک کا ایک طویل سلسلہ دور تک چال گیا ہے جو براعظم ایشیا ءسے‬
‫وسطی کے‬‫ٰ‬ ‫گزر کر بحر اوقیانوس کے مشرقی ساحل تک جا پہنچتا ہے ۔اس میں مشرق‬
‫ممالک‪ ،‬سعودی عرب ‪،‬خلیج فارس کی عرب ریاستیں‪ ،‬عراق‪ ،‬شام‪ ،‬ایران‪ ،‬اردن اور ترکی‬
‫نیز شمال افریقہ کے ممالک مصر‪ ،‬سوڈان‪ ،‬لیبیا‪ ،‬تیونس‪ ،‬الجزائر‪ ،‬مراکش اور نائیجیریا‬
‫وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫اسی طرح ہمارے مشرق میں اسالمی ممالک کا دوسرا سلسلہ جوبنگلہ دیش‪ ،‬مالئیشیا‪،‬‬
‫انڈونیشیا‪ ،‬برونائی دار السالم اور فلپائن کے ان جنوبی جزیروں پر جا کر ختم ہوتا ہے‪،‬‬
‫جہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔‬
‫افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک‬
‫ہمارے شمال مغرب میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک قازقستان‪ ،‬آذربائیجان‪،‬‬
‫ازبکستان‪ ،‬تاجکستان اور کرغیز ستانکی نوآزاد مسلم ریاستیں واقع ہیں۔ یہ ریاستیں‬
‫سمندروں سے بہت دور ہیں اس لیے ان کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنی پڑتی ہے۔‬
‫یوں پاکستان دنیائے اسالم کے تقریبا درمیان میں واقع ہے۔ گویا اسالمی دنیا میں پاکستان‬
‫کی حیثیت وہی ہے جو انسانی جسم میں دل کی ہوتی ہے۔گویا اپنے محل وقوع کے لحاظ‬
‫سے قدرتی طور پر پاکستان اسالمی دنیا کا وسطی ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو‬
‫اپنے برادر اسالمی ممالک کے ساتھ تجارتی‪ ،‬سیاسی اورثقافتی تعلقات پیدا کرنے اور‬
‫انہیں ترقی دینے کے لیے بے حد سہولتیں میسر ہیں۔‬
‫اتحاد عالم اسالم کی بنیاد‬
‫عالم اسالم کا وسطی ملک ہونے کے باعث پاکستان اسالمی ممالک کے اتحاد کے لئے اہم‬
‫کردار ادا کر رہا ہے‬
‫مسلم ممالک سے قریبی تعلقات‬
‫پاکستان کے محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ‪،‬حکومت پاکستان نے تقریبا ً سبھی مسلم‬
‫ممالک سے اپنے بہترین تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔الکھوں پاکستانی محنت کش ‪ ،‬تربیت‬
‫یافتہ اور غیر تربیت یافتہ ہنر مند‪،‬ڈاکٹر اور انجینئرز وغیرہ پاکستان کے سفیر بن کر‬
‫خلیجی اور عرب ممالک میں سرکاری‪ ،‬نیم سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرکے وہاں‬
‫کی تعمیر و ترقی میں اپنے مسلمان بھائیوں کو ہاتھ ہٹا رہے ہیں۔‬
‫اقتصادی تعاون کی تنظیم‬
‫پاکستان‪ ،‬ایران اورترکی نے اپنے قریبی محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تنظیم‬
‫عالقائی تعاون برائے ترقی کے نام سے‪1964‬ء میں قائم کی تھی۔ اس کا مقصد تینوں برادر‬
‫اسالمی ممالک میں مواصالت ‪،‬جہازرانی سیاحت ‪،‬تجارت اور مشترکہ منصوبوں کافروغ‬
‫اور ایک دوسرے کی فنی امداد کرنا تھا۔ تنظیم کے مقاصد اب بھی وہی ہیں لیکن ا سے‬
‫زیادہ فعال بنانے کے لیے ایران کے اسالمی انقالب کے بعد اس کا نام" اقتصادی تعاون کی‬
‫تنظیم"رکھ دیا گیا ہے۔ تینوں ممالک کے تعاون سے بہت سے منصوبے مکمل ہو کر برادر‬
‫ممالک کی معیشت میں اہم کردار اداکر رہے ہیں ۔سفراور تجارت کی غرض سے ترکی‬
‫اور ایران کے راستے یورپ سے ہمارا بری رابطہ بھی قائم ہو سکتا ہے۔‬
‫دفاعی اہمیت‬
‫آج کل بحر ہند بین االقوامی سیاست میں بڑی طاقتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا‬
‫ہے اور اسی بحر ہند کا ایک اہم حصہ بحیرہ عرب بھی ہے۔جس کے ساحل پر پاکستان کی‬
‫بین االقوامی بندرگاہ کراچی واقع ہے ۔اس کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کی‬
‫اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔‬
‫اسالم کا قلعہ‬
‫پاکستان ایک اسالمی اور نظریاتی مملکت ہے۔ اس میں اسالم کی جڑیں بہت گہری اور‬
‫مضبوط ہیں۔باوجود اس کے کہ تمام اسالمی ممالک میں اسالمی قدروں کو پامال کرنے کے‬
‫لیے تمام غیر مسلم قوتیں مشترکہ طور پر سرگرم عمل ہیں‪،‬پاکستان میں لوگوں کی اسالم‬
‫کے ساتھ وابستگی بہت زیادہ ہے۔ بچے کے پیدا ہوتے ہی کانوں کے ذریعے جو الفاظ سب‬
‫سے پہلے اس کے ذہن میں نقش ہوتے ہیں‪ ،‬وہ اذان و اقامت کے الفاظ ہیں اور پھر بچے‬
‫کی تربیت ہوتی ہے۔‬
‫پاکستانیوں کی اسالم کے ساتھ یہی جذباتی وابستگی دیکھ کر لیبیا کے کرنل معمر قذافی‬
‫نے الہور میں اسالمی سربراہی کانفرنس کے موقع پر اور پھر لیبیا ہی کے نئے صدر‬
‫عبدالسالم جالود نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان کو" اسالم کا قلعہ" قرار دیا‬
‫تھا۔‬
‫پاکستان پہلی اسالمی ایٹمی قوت‬
‫بھارت نے پاکستان کو ابتدا ہی میں سچے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا‪ ،‬چنانچہ جنوبی ایشیا‬
‫کے تمام ممالک پر چھا جانے کے ارادے سے بھارت نے جب ‪ 1974‬ءمیں پہال ایٹمی‬
‫دھماکہ کیا‪ ،‬تو اس نے غرور میں آکر پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں اور‬
‫پھر ‪11‬مئی ‪1998‬ء کو بھارت نے مسلسل چار ایٹمی دھماکے کر کے جب پاکستان کو‬
‫ایٹمی حملے کی باقاعدہ دھمکیاں بھی دینا شروع کر دیں‪ ،‬تو مجبوراً پاکستان کو بھی اپنی‬
‫دفاعی ایٹمی صالحیت کا مظاہرہ کرنا پڑا‪ ،‬چنانچہ پاکستان نے ‪ 28‬مئی ‪ 1998‬ءکو پانچ‬
‫ایٹمی دھماکے کرکے ساری دنیا کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ پاکستانی عوام بھی حیران‬
‫تھی۔‬
‫چاغی کی پہاڑیاں ایٹمی دھماکوں اورنعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اٹھیں اور ساتھ ہی‬
‫پاکستان کو پہلی اسالمی ایٹمی طاقت بنے دیکھ کر بھارت کالب و لہجہ بھی اچانک تبدیل‬
‫ہوگیا۔اگر پاکستان اپنی جوہری توانائی کا مظاہرہ نہ کرتا تو بھارت کبھی کا اسے ناکوں‬
‫چنے چبوا کر جنوبی ایشیا پر اپنی دھاک بٹھا چکا ہوتا۔ اب اس خطے میں پاکستان اور‬
‫بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اورپاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ بھارت کی آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر اس سے بات کر سکے ۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد‬
‫محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔‬
‫وسط ایشیا کے ممالک کا بحری راستہ‬
‫افغانستان ‪،‬قازقستان ‪،‬ازبکستان‪ ،‬تاجکستان‪ ،‬ترکمانستان‪،‬آذر بائیجان اور کرغیز ستان‬
‫وغیرہ سمندر سے بہت دور ہیں اور ان کا اپنا کوئی ساحل نہیں ہے۔ یہ ممالک تیل اور گیس‬
‫کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔بیرونی دنیا سے بحری رابطہ قائم‬
‫رکھنے کے لئے پاکستان نے ان کو کراچی کی بندرگاہ سے نقل و حمل کی سہولتیں فراہم‬
‫کر رکھی ہیں۔‬
‫ان سب ممالک کی مجموعی آبادی پاکستان سے بھی کم ہے‪ ،‬لیکن ان کا رقبہ ہم سے چھ گنا‬
‫زیادہ ہے۔ پاکستان اپنی مستقبل کی ضروریات کے تحت یہاں بہتر منصوبہ بندی کرکے‬
‫بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ ممالک اپنے پھلوں اور زرعی پیداوار کے لئے بھی مشہور‬
‫ہیں۔ پاکستان اپنی فنی مہارت اور زرعی تجربات سے فائدہ اٹھا کر ان برادرممالک میں‬
‫تعمیری انقالب ال سکتا ہے اور یوں اپنی بھی خوش حالی اور نیک نامی کا سبب بن سکتا‬
‫ہے۔‬
‫خدوخال‬
‫جس زمین پر ہم رہتے ہیں اس کی سطح ہر جگہ ایک جیسی نہیں‪ ،‬کہیں بلند و باال پہاڑ ہیں‬
‫اور کہیں اتھا ہ سمندر‪ ،‬کہیں سر سبز وادیاں ہیں‪ ،‬کہیں بنجر چٹیل میدان ‪ ،‬سطح زمین کی‬
‫ان مختلف حالتوں کو زمین کے خدو خال کہتے ہیں۔‬
‫خدوخال کے لحاظ سے تقسیم‬
‫پاکستان کی سطح کو اس کے طبعی خدوخال کے لحاظ سے مندرجہ ذیل چار حصوں میں‬
‫تقسیم کیا جا سکتا ہے‬
‫پہاڑ‬
‫شمالی پہاڑی سلسلے‪،‬ان میں شوالک کی پہاڑیاں‪،‬ہمالیہ صغیر کا پہاڑی سلسلہ‪،‬ہمالیہ کبیر‬
‫کا پہاڑی سلسلہ‪،‬کوہ قراقرم کا پہاڑی سلسلہ‪،‬کوہستان ہندو کش‪،‬سوات اور چترال کے پہاڑ‬
‫وسطی پہاڑی سلسلے‪،‬ان میں کوہستان نمک‪،‬کوہ سلمان‪،‬کوہ کیر تھر شامل ہیں۔‬
‫مغربی پہاڑی سلسلے ‪،‬ان میں کوہ سفید کا پہاڑی سلسلہ‪،‬وزیرستان کی پہاڑیاں‪،‬ٹوپا کاکڑ‬
‫پہاڑی سلسلہ‪،‬چاغی کی پہاڑیاںاورراس کو ہ کی پہاڑیاں‬
‫سطح مرتفع‬
‫اس میں‪،‬سطح مرتفع پوٹھو ہار اور سطح مرتفع بلوچستان شامل ہیں۔‬
‫میدان‬
‫ان میں دریائے سندھ کے باالئی میدان ‪،‬دریائے سندھ کے زیریں میدان ‪ ،‬ساحلی میدان اور‬
‫ریگستانی یا صھرائی میدان شامل ہیں‬
‫وادیاں‬
‫ان میں کاغان‪ ،‬سوات ‪،‬چترال‪،‬ہنزہ‪ ،‬وادی نیلم‪،‬مری‪ ،‬ایوبیہ‪ ،‬نتھیا گلی اور زیارت وغیرہ‬
‫شامل ہیں‬
‫پاکستان کے پہاڑی سلسلے کون کون سے ہیں اور وہ کہاں واقع ہیں‬
‫پاکستان کے پہاڑی سلسلے‬
‫سطح زمین کا وہ پتھریال‪ ،‬ناہمو وار اور ڈھلوان حصہ جو سطح سمندر سے ‪ 900‬میٹر‬
‫‪:‬سے زیادہ بلند ہو‪ ،‬پہاڑ کہالتا ہے ۔پاکستان میں مندرجہ ذیل پہاڑی سلسلے پائے جاتے ہیں‬
‫۔شمالی پہاڑی سلسلے‪1‬‬
‫برصغیر کے شمال میں مغرب سے مشرق تک پھیلے ہوئے کوہ ہمالیہ کے اس سلسلے کی‬
‫لمبائی تقریبا ‪2430‬کلومیٹر ہے عالمہ اقبال نے اس سلسلے کو برصغیر ہندوستان کی فصیل‬
‫‪:‬قرار دیا تھا۔ ہمالیہ کا یہ کو ہستان چار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے‪ ،‬جو درج ذیل ہیں‬
‫‪:‬ذیلی ہمالیہ یا شوالک کی پہاڑیاں‬
‫کوہ ہمالیہ کی یہ جنوبی شاخ دریائے سندھ کے مشرق میں شرکاًغربا ً پھیلی ہے اسے‬
‫شوالک کا پہاڑی سلسلہ بھی کہتے ہیں۔اس‪ Ž‬کی بلندی قریبا ً ‪ 900‬میٹر ہے۔اس سلسلے کی‬
‫مشہور پہاڑیاں پبی ہلز ہیں‪ ،‬جو ہزارہ اور مری کے جنوب میں واقع ہیں۔اس کا مشرقی‬
‫سلسلہ پاکستان میں اور زیادہ تر حصہ بھارت میں واقع ہے۔‬
‫‪:‬ہمالیہ صغیر کا پہاڑی سلسلہ‬
‫ہمالیہ صغیر کا یہ پہاڑی سلسلہ شوالک کی پہاڑیوں کے متوازی ان کے شمال میں مشرق‬
‫سے مغرب تک پھیال ہوا ہے۔اس سلسلے کی اوسط بلندی ‪ 1800‬میٹر سے ‪ 4600‬میٹر تک‬
‫ہے۔پاکستان میں اس سلسلہ کا مختصر شامل ہے ۔زیادہ تر حصہ جنوبی ایشیا کے شمال‬
‫میں ہے۔‬
‫اس عالقے کے سب سے بلند پہاڑی سلسلہ کا نام پیر پنجال ہے۔اس سلسلے میں پاکستان‬
‫کے صحت افزا مقامات مری ‪،‬ایوبیہ اور نتھیاگلی وغیرہ واقع ہیں۔‬
‫ہمالیہ کبیر کا پہاڑی سلسلہ‬
‫یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے اوریہ سارا سال برف سے ڈھکا‬
‫رہتا ہے۔اس کی اوسط بلندی ‪ 6500‬میٹر ہے۔‬
‫اس سلسلے کی مشہور پہاڑی چوٹی نانگا پربت ہے جو ‪ 8126‬میٹر بلند ہے۔پیر پنجال اور‬
‫ہمالیہ کبیر کے درمیان کشمیر کی جنت نظیر وادی ہے۔وادی میں کی کئی گلیشیر(برفانی‬
‫تودے) پائے جاتے ہیں جن کے پگھلنے سے دریامعرض وجود میں آتے ہیں۔‬
‫‪:‬کوہ قراقرم کا پہاڑی سلسلہ‬
‫کوہ قراقرم کا یہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کے شمال میں چین کی سرحد کے ساتھ ساتھ کشمیر اور‬
‫گلگت میں مغرب سے مشرق کی طرف پھیال ہوا ہے۔اس سلسلے کی اوسط بلندی ‪7000‬‬
‫میٹر ہے۔دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹیگوون آسٹن یا کے ۔ٹو اسی سلسلے میں واقع ہے‬
‫کے۔ ٹو کی بلندی ‪ 8611‬میٹر ہے۔پاک چین دوستی کا شاہکار شاہراہ ریشم اسی سلسلے میں‬
‫سے گزر کر درہ خنجراب کے راستے چین تک جاتی ہے۔‬
‫‪:‬کوہستان ہندو کش‬
‫کوہستان ہندوکش پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس سلسلہ کی بلند ترین چوٹی‬
‫ٹرچ میر ‪ 7690‬میٹر اونچی ہے ۔کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کا بیشتر حصہ افغانستان‬
‫میں ہے۔ان شمال مغربی پہاڑیوں کے جنوب میں بھی کچھ پہاڑی سلسلے ہیں۔ جو نماالً‬
‫جنوبا ً پھیلے ہوئے ہیں۔‬
‫‪:‬سوات اورچترال کے پہاڑ‬
‫کوہ ہندوکش کے جنوب میں پھیلے ہوئے ان چھوٹے پہاڑی سلسلوں کی بلندی ‪ 3000‬سے‬
‫‪ 5000‬میٹر تک ہے۔ ان پہاڑوں کے درمیان درہ لواری ‪،‬پشاور کو چترال سے مالتا ہے۔‬
‫جو موسم سرما میں برفباری کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے ۔چترال کو پشاور کے راستے‬
‫ملک کے دوسرے حصوں کے ساتھ مالنے کے لئے یہاں ایک لمبی سرنگ بنائی جا رہی‬
‫ہے۔ جو برف باری سے متاثر نہیں ہوگی اور جس کے ذریعے سے سارا سال آمد ور فت‬
‫جاری ر ہ سکے گی۔ ان پہاڑی سلسلوں کے درمیان دریائے سوات ‪،‬دریائے چترال اور‬
‫دریائے پنجگوربہتے ہیں۔‬
‫‪:‬شمالی پہاڑی سلسلوں کی اہمیت‬
‫یہ پاکستان کی شمالی سرحد کے لیے فصیل کا کام دیتے ہیں اوراسے تحفظ فراہم کرتے‬
‫ہیں۔بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے آنے والی بخارات سے لدی ہوئی ہوائیں ان پہاڑوں‬
‫سے ٹکرا کر بارش برساتی ہیں ۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف موسم گرما میں‬
‫پگھلتی ہے تو اس سے ہمارے دریا سارا سال رواں رہتے ہیں۔سیاح برفباری کے منظر‬
‫سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان پہاڑی عالقوں کا رخ کرتے ہیں‪،‬تو پاکستان کو زرمبادلہ‬
‫حاصل ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں کے جنگالت میں قیمتی لکڑی والے درخت ملتے ہیں۔ یہ لکڑی‬
‫تعمیری کاموں اور فرنیچر بنانے میں کام آتی ہے۔ان پہاڑوں کے جنگالت میں قیمتی لکڑی‬
‫والے درخت ملتے ہیں۔ یہ لکڑی تعمیری کاموں اور فرنیچر بنانے میں کام آتی ہے۔ دیا‬
‫سالئی اور گندا بیروزہ وغیرہ جیسی کئی صنعتوں کا دارومدار یہاں کے پہاڑی درختوں پر‬
‫ہے۔ان پہاڑوں کے جنگالت میں کئی نایا ب پرندے ملتے ہیں اور برفانی ریچھ اور لومڑی‬
‫وغیرہ کی کھالیں بڑے مہنگے داموں بکتی ہیں۔ پہاڑی نباتا ت میں کئی ایسے پودے بھی‬
‫ملتے ہیں‪ ،‬جن سے مختلف امراض کے عالج کے لیے دعائیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ پہاڑ‬
‫شمال کی طرف سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں کو روکتے ہیں۔‬
‫‪:‬پاکستان میں شمالی پہاڑی سلسلوں کے عالوہ ذیل کے پہاڑی سلسلے بھی موجود ہیں‬
‫وسطی پہاڑی سلسلے‬
‫۔کوہستان نمک‪1‬‬
‫کوہستان نمک سطح مرتفع پوٹھوہار کے جنوب میں دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے‬
‫درمیان واقع ہے۔اس پہاڑی سلسلے کی اوسط بلندی ‪ 700‬میٹر ہے۔اس سلسلے کا‬
‫خوبصورت مقام سکیسر ہے ۔یہاں نمک‪ ،‬جپسم اور کوئلے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔دنیا‬
‫کی سب سے بڑی نمک کی کان یہیں کھیوڑہ میں ہے۔‬
‫۔کوہ سلمان‪2‬‬
‫یہ پہاڑی سلسلہ دریائے سندھ کے مغرب میں وزیرستان کی پہاڑیوں اور دریائے گو مل‬
‫کے جنوب سے شروع ہوتا ہے اور شمال سے جنوب کی طرف بڑھتا ہوا پاکستان کے‬
‫وسط تک جا پہنچتا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بلند چوٹی" تخت سلیمان "‪ 3443‬میٹر‬
‫بلند ہے۔ اس عالقے کا اہم دریا بوالن ہے‪ ،‬جو درہ بوالن سے بہتا ہوا دریا ئے سندھ میں‬
‫جا گرتا ہے۔‬
‫‪:‬۔کوہ کیر تھر‪3‬‬
‫کو ہ کیر تھر ‪ ،‬دریائے سندھ کے زیریں میدان یعنی صوبہ سندھ کے مغرب میں کوہ‬
‫سلیمان کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ کم بلند اور خشک پہاڑی سلسلہ ہے۔ پاکستان کے‬
‫جنوب میں واقع پہاڑی سلسلےپب اور مکران کوہ کیر تھر کے مغرب میں واقع ہیں ۔‬
‫مغربی پہاڑی سلسلے‬
‫۔ کوہ سفید کا پہاڑی سلسلہ‪1‬‬

‫کوہ سفید کا سلسلہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے کابل کے جنوب میں شماالً جنوبا ً‬
‫دریائے کرم تک پھیال ہوا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ پاکستان میں شرقا ً غربا ً پھیال ہوا ہے‬
‫جبکہ اس کا کچھ ھصہ افغانستان میں بھی ہے۔ اس سلسلہ کوہ کی اوسط بلندی ‪ 3600‬میٹر‬
‫ہے۔ تاریخی درہ خیبر‪ ،‬جو پشاور کابل روڈ کے ذریعے پاکستان کو افغانستان سے مالتا ہے‬
‫اسی سلسلہ کوہ میں واقع ہے۔اس سلسلہ کوہ کی بلند ترین چوٹی سکارام ‪ 4761‬میٹر بلند‬
‫ہے۔‬
‫۔وزیرستان کی پہاڑیاں‪2‬‬
‫پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ یہ پہاڑیاں دریائے کرم کے جنوب میں واقع ہیں۔ درہ‬
‫ٹوچی اور درہ گومل انہی پہاڑوں میں واقع ہیں‪ ،‬جن میں قالت اور بنوں چھائونیاں بنائی‬
‫گئی ہیں۔‬
‫۔ٹوپا کاکڑ کا پہاڑی سلسلہ‪3‬‬
‫یہ سلسلہ کوہ بھی پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ وزیرستان کی پہاڑیوں کے جنوب میں‬
‫واقع ہے ۔پہاڑیوں کا یہ سلسلہ شمال سے جنوب کی طرف چلتا ہوا کوئٹہ کے شمال پر آکر‬
‫ختم ہو جاتا ہے۔‬
‫۔چاغی کی پہاڑیاں‪4‬‬
‫چاغی کی پہاڑیاں پاکستان کےمغرب میں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ چاغی کی‬
‫پہاڑیوں کی زندہ جاوید اہمیت یہ ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور اس کے ایٹمی‬
‫حملوں کی دھمکیوں کے جواب میں ‪ 28‬مئی ‪ 1998‬ءکو پاکستان نے یہاں ایٹمی دھماکے‬
‫کرکے اپنے ایٹمی قوت بننے کا عملی اعالن کیا تھا اور یہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر‬
‫خان اور ان کے ذہین ساتھیوں کی حب الوطنی اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‬
‫۔راس کوہ کی پہاڑیاں‪5‬‬
‫راس کوہ کی پہاڑیاں چاغی کی پہاڑیوں کے جنوب اور مغرب میں واقع ہے۔چاغی کے‬
‫مغرب میں "کوہ سلطان " واقع ہے۔‬
‫‪ :‬سطح مرتفع‬
‫سطح مرتفع سے مراد وہ پتھریال عالقہ ہے جو سطح سمندر سے کافی بلند ہو‪ ،‬لیکن یہ‬
‫بلندی پہاڑی سلسلوں کی نسبت کم ہو۔ پاکستان میں سطح مرتفع کے دو عالقے ہیں‬
‫‪ :‬۔ سطح مرتفع پوٹھوہار‪1‬‬
‫سطح مرتفع پوٹھوہار کا عالقہ کوہستان نمک کے شمال میں دریائے جہلم اور دریائے‬
‫سندھ کے درمیان واقع ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ بلندی ‪ 600‬میٹر تک ہے۔ پوٹھوہار کی‬
‫سطح مرتفع بہت کٹی پھٹی اور ناہموار ہے۔ زیادہ حصہ زراعت کے قابل نہیں۔ تاہم اسے‬
‫ہللا تعالی نے معدنی دولت سے ماالمال کر رکھا ہے۔ پاکستان اپنی مٹی کے تیل کی‬
‫ضروریات کا کچھ حصہ یہیں سے حاصل کرتا ہے ۔یہاں چونے اور کوئلے کی کانیں بھی‬
‫ہیں۔ اس عالقے کا مشہور دریا دریائے سواں ہے ۔‬
‫۔سطح مرتفع بلوچستان‪2‬‬
‫سطح مرتفع بلوچستان کوہ سلمان اور کوہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں کے مغرب میں واقع‬
‫ہے۔ اس کے شمال میں ٹوبا کاکڑ اور چاغی کے پہاڑی سلسلے ہیں۔ اس سطح مرتفع کی‬
‫زیادہ سے زیادہ بلندی ‪ 900‬میٹر تک ہے ۔یہ سارا عالقہ بنجر ہے ۔زراعت کے قابل نہیں‪،‬‬
‫صحرائے بلوچستان کے نام سے اس کے مغرب میں ریت کا ایک وسیع میدان ہے۔ بلو‬
‫چستان کے جنوبی حصے میں سوئی کے مقام سے قدرتی گیس بڑی وافرمقدارمیں نکلتی‬
‫ہے جو قدرت کا بے بہا عطیہ ہے یہاں کوئلہ‪ ،‬لوہا‪ ،‬تانبا اور کرو مائٹ کے ذخائر بھی‬
‫ہیں ۔یہاں کے مشہوردریا دریائے ژوب ہے ‪ ،‬جو کوہ سلیمان سے نکل کر دریائے گومل‬
‫میں جا گرتا ہے۔‬
‫پاکستان کے میدانی عالقے‬
‫ایک وسیع سطح زمین ‪،‬جو ہمو ار ہو اور نسبتا ً کم ڈھلوان رکھتی ہو‪ ،‬میدان کہالتی ہے۔‬
‫پاکستان میں برف پوش پہاڑوں اور سطح مرتفع کے عالوہ وسیع زرخیز میدان بھی پائے‬
‫جاتے ہیں۔ یہ میدان دریاؤں کی پہاڑ سے الئی ہوئی زرخیز مٹی سے بنے ہیں۔ یہ میدان‬
‫کوہ ہمالیہ کے دامن سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی زرعی اور‬
‫حیوانی ضروریات انہی میدانوں کی زرعی پیداوار سے پوری ہوتی ہے بلکہ پاکستان اپنی‬
‫فاضل پیداوار برآمد بھی کرتا ہے ۔‬
‫پاکستان کے میدانی عالقے‬
‫پاکستان کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ان میدانوں کو ہم چار بڑے حصوں میں تقسیم کر‬
‫‪:‬سکتے ہیں‬
‫۔دریائے سندھ کا باالئی میدان‪1‬‬
‫یہ میدان شوالک اور کوہستان نمک کے جنوب اور کوہ سلیمان کے مشرق میں واقع ہے‬
‫سندھ کے باالئی میدان کو دریائے سندھ اور معاون دریا ستلج ‪،‬بیاس ‪،‬راوی ‪،‬چناب اور جہلم‬
‫سیراب کرتے ہیں‪ ،‬ان پانچ دریائوں کی وجہ سے اس عالقے کو پنج آب یعنی پانچ پانیوں‬
‫یا پانچ دریاؤں کی سر زمین یا پنجاب کہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت پنجاب بھی دو‬
‫حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ یہ دریا بھارتی عالقے سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔‬
‫بھارت نے ‪1948‬ء میں ہمارے دریاؤں کا پانی بند کر دیا تا کہ پاکستان کی فصلیں تباہ اور‬
‫زمین بنجر ہو جائے ۔عالمی مداخلت کی بنا پر تین مشرقی دریا ستلج‪ ،‬بیاس اور راوی‬
‫مکمل طور پر بھارت کو مل گئے اور جہلم‪ ،‬چناب اور سندھ پورے کے پورے پاکستان‬
‫کے حصے میں آئے یہ الگ بات ہے کہ بھارت کونہ کسی بین االقوامی اصول کا لحاظ ہے‬
‫اور نہ اپنے وعدے کا۔ اس نے ہمارے حصے والے دریائے چناب پر ایک بگلیہار ڈیم بنا‬
‫لیا ہے اور ایک اور ڈیم بنانے واال ہے۔ اس سے پاکستان میں الزما ً پانی کی کمی واقع ہو‬
‫جائے گی۔‬
‫م ت‬
‫کے پانچوں خمعاون دریا مٹھن کوٹ کے مقام پر سندھ سے ل ج اے ہ ی ں اور‬ ‫دریائے سندھ ئ‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ی ہی ں پر س ن دھ کا ب ا ال ی م ی دان م اور زیری ں م ی دان روع ہ و ج ا ا ہ ے۔دریائے سندھ کے باالئی میدان‬
‫کے دریائوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی ڈھالن شمال سے جنوب کی طرف ہے ۔ ان‬
‫دریاؤں سے نہریں نکال کر میدانوں کو سیراب کیا گیا ہے چنانچہ یہ میدان دنیا کے زر خیز‬
‫ترین میدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جہاں چاول‪ ،‬گندم‪ ،‬کپاس‪ ،‬مکئی اور گنے وغیرہ‬
‫کی بکثرت کاشت ہوتی ہے۔‬
‫دو دریاؤں کی درمیانی جگہ کو دوآبہ یا دوآب کہتے ہیں۔مثالً‬
‫۔باری دوآب ‪ :‬دریائے بیاس اور راوی کے درمیان‪1‬‬
‫۔چج دوآب‪ :‬دریائے چناب اور جہلم کے درمیان‪2‬‬
‫۔سندھ ساگر دوآب‪:‬دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان‪3‬‬
‫دریا کے قریب ذرا اونچی اور زرخیز زمین کو بار کہتے ہیں جیسے نیلی بار‪ ،‬گنجی‬
‫بار‪ ،‬ساندل بار اور کرانا بار وغیرہ‬
‫دریائے سندھ کے مغرب کے کم بلند دا منی میدان ڈیرہ جات کہالتے ہیں ۔ان میں ڈیرہ‬
‫غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ پشاور کا میدان مغرب سے مشرق کی طرف‬
‫دریائے کابل کے ساتھ ہے ۔یہ دریا اٹک کے قریب دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔‬
‫وارسک ڈیم دریائے کابل ہی پر وارسک کے مقام پر بنایا گیا ہے۔ دریائے جہلم کے پار‬
‫مغرب میں تھل کا ریگستان ہے۔ جسے جناح بیراج سے نکلنے والی نہروں کے ذریعے‬
‫خاصا آباد کیا جا رہا ہے۔‬
‫دریائے سندھ کا زیریں میدان‬
‫مٹھن کوٹ سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحل تک کا سارا عالقہ سندھ کا زیریں میدان‬
‫کہالتا ہے۔ اس کے مغرب کی طرف سے کیرتھر کا سلسلہ کو ہ مشرق کی طرف تھر کا‬
‫وسیع ریگستان ہے۔ یوں صوبہ سندھ کا بیشتر حصہ سندھ کے زیریں میدان میں شامل‬
‫ہے ۔سندھ کے شمالی حصے میں سکھر بیراج ‪ ،‬غالم محمد بیراج‪ ،‬کوٹری بیراج اور‬
‫گدوبیراج سے نہریں نکال کر عالقے کو سرسبز و شاداب بنا دیا گیا ہے۔یہاں کپاس ‪،‬چاول‬
‫‪،‬گنے اور مکئی کی فصلیں بہت اچھی پیدا ہوتی ہیں۔لوگ خوشحال ہو رہے ہیں۔البتہ سندھ‬
‫کا مشرقی حصہ ابھی تک "تھر کا ریگستان" ہی ہے ۔‬
‫ٹھٹھہ کے قریب دریائے س ن دھ ڈی ل ٹ ا بناتا ہوا آگے چل کر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے ۔ دریا‬
‫میں سیالب آتا ہے تو ان دنوں بہت سا عالقہ زیر آب آ جاتا ہے اور خاصی تباہی پھیلتی‬
‫ہے۔‬
‫ساحلی میدان‬
‫پاکستان کے ساحلی میدان صوبہ سندھ میں بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ رن کچھ اور بھارتی‬
‫سرحد سے مغرب میں پاک ایران سرحد تک (قریبا ً ‪700‬کلو میٹر تک) پھیلے ہوئے ہیں ۔‬
‫یہاں سمندر کے مدو جزر کا پانی اترتا چڑھتا رہتا ہے ۔ یہ میدان مشرق کی طرف سے‬
‫چوڑے اور مغرب کی طرف پہاڑوں کی وجہ سے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ کراچی‪ ،‬پورٹ‬
‫قاسم اور گوادر کی بندرگا ہیں اسی ساحل پر واقع ہیں۔ بحر ہند میں بڑی طاقتوں کی رسہ‬
‫کشی اور عالقائی سمندر میں معدنی ذخائر کےدستیاب ہونے کے امکان کی وجہ سے‬
‫پاکستان کے ساحلی عالقوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔حکومت وسائل آمدورفت کو‬
‫ترقی دے کر کے سیاحت کے لیے بھی کشش پیدا کر رہی ہے تا کہ سیاحت کے ذریعے‬
‫سے زرمبادلہ کمایا جاسکے۔آج کل گوادر کی بندرگاہ کو بہت ترقی دی جا رہی ہے۔‬
‫‪:‬ریگستانی یا صحرائی میدان‬
‫یہ عالقے جہاں بارش کی ساالنہ اوسط ‪ 250‬ملی میٹر سے کم ہو‪ ،‬صحرائی یا ریگستانی‬
‫عالقے کہالتے ہیں۔ دریائے سندھ کے مغرب میں "تھل کا ریگستان "ہے ۔جسے نہریں‬
‫نکال کر سیراب کیا جا رہا ہے ۔بہاولنگر کے جنوب میں" چولستان کا ریگستان" ہے۔ جو‬
‫بھارت کے عالقے راجھستان کے صحرا سے اور سندھ کے "تھل کے ریگستان" سے جا‬
‫ملتا ہے۔ جنوبی پنجاب ‪،‬سندھ‪ ،‬جنوبی سرحد اور بلوچستان کے عالقے بھی صحرائی ہیں۔‬
‫جہاں سال بھر کی بارش ‪ 250‬ملی میٹر سے بھی کم ہے۔ جن صحرائی میدانوں کو نہروں‬
‫کے ذریعے پانی مہیا کیا گیا ہے۔ وہ خوب پیداوار دے رہے ہیں۔‬
‫‪:‬صحرائے بلوچستان‬
‫کوہستان مکران کے مغرب اور شمال مغرب میں بلو چستان کا صحرائی عالقہ واقع ہے ۔‬
‫یہاں صرف سردیوں میں بارش ہوتی ہے‪ ،‬جو دس انچ ساالنہ سے بھی کم ہے ۔یہاں آبادی‬
‫بہت کم ہے زمین بنجر ہے۔ سہولتیں نا پید اور معاشی سرگرمیاں بڑی محدود ہیں۔ لوگ‬
‫بار برداری کے لیے اونٹ پا لتے ہیں۔بلوچستان کے ان عالقوں میں کہیں کہیں کاریز کے‬
‫ذریعے آب پاشی کی جاتی ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر عالقے کی پانی کی‬
‫ضروریات کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔‬
‫پاکستان کی وادیاں‬
‫سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں اور بعض مقامات پر دریاؤں کے ساتھ ساتھ‬
‫خوبصورت اور دلکش وادیاں حسن فطرت کا بہترین شاہکار ہیں۔موسم گرما میں گرمیوں‬
‫کے ستائے ہوئے لوگ انہی وادیوں کی آغوش میں آکر سکون حاصل کرتے ہیں اور ہر‬
‫سال بیرون ملک سے الکھوں سیاح ان وادیوں کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے‬
‫کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ وادی کاغان‪ ،‬سوات ‪ ،‬لیپا‪ ،‬چترال ‪،‬ہنزہ ‪،‬وادی‬
‫نیلم ‪،‬ایوبیا‪ ،‬نتھیا گلی اور زیارت وغیرہ زیادہ مشہور وادیوں کے نام ہیں۔حکومت ان‬
‫عالقوں میں سیاحوں کے لیے مزید سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔اگر ذرائع‬
‫آمدورفت اور مواصالت کا نظام مزید بہتر بنا دیا جائے‪ ،‬تو پاکستان کافی زیادہ مبادلہ کما‬
‫سکتا ہے‪،‬نیز سیاحوں کی آمد سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی مہیا ہو‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫‪:‬موسم‬
‫کسی مقام کی مختصر وقت کے لئے گرمی‪ ،‬سردی ‪،‬آندھی اور بارش وغیرہ کی کیفیت کو‬
‫ً خش‬
‫ص ح و گوار‬
‫موسم کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی جگہ کا موسم دن میں کئی بار تبدیل ہو ۔مث ال ب‬
‫ئ‬ ‫ٹ‬ ‫ئ‬
‫ہ و‪ ،‬دوپ ہر کو ب ارش ہ و ج اے‪ ،‬سہ پ ہر کو حبس ہ و اور رات ھ ن ڈی ہ و ج اے۔‬
‫آب و ہوا‪ ،‬اور اس کے عناصر ترکیبی‬
‫آب و ہوا کا لفظ آب(پانی) اور ہوا سے مل کر بنا ہے۔ گویاآب و ہوا کا انحصار خاص طور‬
‫پر دو چیزوں پر ہے۔ آپ یعنی بارش پر اور ہوا یعنی ہوا کے درجہ حرارت اور دباؤ پر ۔‬
‫ایک لمبے عرصے کے لئے (مثالً سال بھی کے لیے ) کسی مقام کے بدلتے موسموں‬
‫(بارش‪ ،‬گرمی‪ ،‬سردی اور ہوا کے دبائووغیرہ ) کی مجموعی کیفیت کی اوسط ‪ ،‬آب و ہوا‬
‫کہالتی ہے۔‬
‫‪:‬آب و ہوا کا تعین‬
‫کسی مقام کی آب و ہوا کا تعین کرنے کے لئے گرمی‪ ،‬سردی کے موسموں کا درجہ‬
‫حرارت جمع کرکے ان کی اوسط نکالی جاتی ہے۔پھر اسی طرح اس مقام کے مختلف‬
‫موسموں کی بارش کی مقدار جمع کرکے اس کی اوسط معلوم کرتے ہیں اور پھر اوسط‬
‫بارش اور اوسط درجہ حرارت کو سامنے رکھ کر اس مقام کی آب و ہوا کا تعین کیا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫‪:‬پاکستان کی آب و ہوا‬
‫کسی ج گہ کی آب و ہوا کے تعین میں وہاں کے درجہ حرارت کو اور درجہ حرارت کے تعین‬
‫کے لیے کرہ ارض پر اس کے محل وقوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان‬
‫‪23.50‬درجے عرض بلد شمالی سے ‪ 37‬درجے عرض بلد سے شمالی کے درمیان واقع‬
‫ہے۔ اس کا جنوبی حصہ جس میں صوبہ سندھ اور جنوبی بلو چستان شامل ہیں۔ نیم منطقہ‬
‫حارہ میں ہے اور باقی پاک سرزمین گرم منطقہ معتدلہ میں ہے۔ لہذا ہمارے ملک میں‬
‫موسم گرم شدید گرم اور طویل ہوتا ہے جبکہ موسم سرما مختصر اور کم سرد‪ ،‬البتہ‬
‫پہاڑوں کی بلندی اور ان کی برف پوش چوٹیوں کے باعث ان کے گردو نواح میں درجہ‬
‫حرارت بہت کم رہتا ہے۔ہم اپنے ملک کی آب و ہوا کو گرمیوں میں شدید اور سردیوں میں‬
‫کم سرد کہہ سکتے ہیں۔‬
‫‪:‬پاکستان کے موسم‬
‫درجہ حرارت کے لحاظ سے پاکستان کو چار موسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪:‬۔موسم گرما‪1‬‬
‫پاکستان کے شمالی عالقوں میں موسم گرما مئی سے ستمبر تک اور جنوبی میدانوں میں‬
‫مارچ سے دسمبر تک رہتا ہے۔جیکب آباد ‪ ،‬سبی‪ ،‬ملتان‪ ،‬الہور‪ ،‬سرگودھا ‪،‬مظفر آباد‪ ،‬لیہ‬
‫اور بھکر وغیرہ میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ بعض مقامات پر درجہ حرارت ‪ 50‬درجے‬
‫سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چال جاتا ہے ۔میدانی عالقوں میں موسم گرم بہت شدید ہوتا ہے۔‬
‫لوگ سخت مجبوری کے بغیر دوپہر کو باہر نہیں نکلتے ‪ ،‬بچے اور بڑے لو لگنے سے‬
‫بیمار ہو جاتے ہیں۔طلبہ کا شدید دھوپ اور گرمی کےباعث سکو لوں اور کالجوں سے‬
‫چھٹیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ چھٹیاں گزارنے کے لئے پہاڑی مقامات پر چلے جاتے ہیں۔‬
‫جہاں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬۔موسم خزاں‪2‬‬
‫اکتوبر ‪،‬نومبر پاکستان میں موسم خزاں کے مہینے ہیں۔ ان میں گرمی کی شدت ختم ہونے‬
‫لگتی ہے۔ درختوں کے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ موسم میں ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے‬
‫تاہم ملک کے جنوبی میدانوں میں ان دنوں بھی درجہ حرارت عموما ً‪ 30‬درجے سینٹی‬
‫گریڈ سے زیادہ ہی رہتا ہے۔ البتہ شمالی میدانوں میں موسم کافی بہتر ہو جاتا ہے۔‬
‫‪:‬۔موسم سرما‪3‬‬
‫پاکستان بھر میں موسم سرما دسمبر سے فروری تک رہتا ہے ۔ان دنوں شمالی میدانوں میں‬
‫اوسط درجہ حرارت ‪ 10‬سینٹی گریڈ‪ ،‬جنوبی عالقوں میں اوسطً ‪ 18‬سینٹی گریڈ جبکہ‬
‫ساحلی عالقوں میں اوسطا ً‪ 30‬سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر برف باری بھی‬
‫ہوتی ہے۔جس سےلطف اندوز ہونے کے لیے شوقین حضرات پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ۔‬
‫لوگ گرم اور اونی لباس پہنتے ہیں۔دن کو دھوپ تاپتے ہیں اور رات کو رضائیوں میں بیٹھ‬
‫کر ڈرائی فروٹ کھا تے ہیں۔‬
‫‪ :‬۔موسم بہار‪4‬‬
‫فروری کے تیسرے ہفتے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ‬
‫معتدل موسم بہار اپریل تک رہتا ہے ۔اس دوران شمالی عالقوں میں دن کا درجہ حرارت‬
‫‪ 20‬سے ‪ 25‬درجے سینٹی گریڈ کے درمیان اور جنوبی میدانوں کا ‪ 30‬سے ‪ 35‬درجے‬
‫سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔فروری سے اپریل تک سال کا بہترین موسم ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬درجہ حرارت کی بنیاد پر پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‬
‫۔ پاکستان کے ساحلی عالقے‪1‬‬
‫پاکستان کے ساحل سمندر کے قریبی عالقوں میں نسیم بری اور نسیم بحری کے چلتے‬
‫رہنے کی وجہ سےآب و ہوا گرم مرطوب رہتی ہے۔ تاہم یہ گرمی معتدل اور موسم‬
‫خوشگوار ہوتا ہے ۔ساالنہ اوسط درجہ حرارت ‪32‬سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔زیادہ‬
‫گرمی نہیں ہوتی۔ البتہ کبھی کبھار کوئٹہ سے آنے والی ہوائیں بھی ساحلوں تک پہنچ‬
‫جاتی ہیں۔ان عالقوں میں بارش تو دس انچ ساالنہ سے بھی کم ہوتی ہے البتہ ہوا میں‬
‫رطوبت زیادہ رہتی ہے۔‬
‫‪:‬۔پاکستان کے میدانی عالقے‪2‬‬
‫شمالی میدانوں میں موسم گرما اپریل سے شروع ہو کر ستمبر تک رہتا ہے اور اس دوران‬
‫درجہ حرارت ‪ 35‬درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی رہتا ہے بلکہ جون ‪،‬جوالئی کا اوسط‬
‫درجہ حرارت ‪ 40‬سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے ۔تاہم جون‪ ،‬جوالئی اور اگست میں مون‬
‫سون ہوائوں کی بارشیں گرمی کی شدت کو کم کر دیتی ہیں۔‬
‫جنوبی میدانوں میں مارچ ہی میں موسم گرما کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہ اکتوبر تک چلتا ہے‬
‫۔ اس دوران اوسط درجہ حرارت ‪ 40‬سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے جو کبھی کبھار ‪50‬‬
‫سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے بلکہ جیکب آباد ‪ ،‬سبی‪ ،‬ملتان وغیرہ میں تو درجہ‬
‫حرارت ‪ 45‬سینٹی گریڈ سے لے کر ‪ 54‬سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔‬
‫شمالی عالقوں میں موسم سرما دسمبر سے فروری تک رہتا ہے البتہ سردی کی شدت‬
‫ناقابل برداشت نہیں ہوتی۔ درجہ حرارت ‪ 05‬درجے سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ‬
‫جنوبی میدانوں میں درجہ حرارت ‪ 15‬سینٹی گریڈ کے قریب رہتا ہے اورجنوری کا مہینہ‬
‫عام طور پر خوشگوار رہتا ہے۔‬
‫‪:‬۔مغربی پہاڑی سلسلے‪3‬‬
‫ان عالقوں میں اپریل سے ستمبر تک موسم گرماہوتا ہے لیکن گرمی نا قابل برداشت نہیں‬
‫ہوتی کیونکہ درجہ حرارت ‪30‬درجے سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں پاتا۔ البتہ موسم سرما‬
‫میں درجہ حرارت صفر سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور دسمبر اور جنوری‬
‫میں تو برف باری سردی کی شدت میں اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔‬
‫‪:‬۔شمالی پہاڑی عالقے‪4‬‬
‫یہاں اپریل سے ستمبر تک موسم گرما رہتا ہے جو بڑا خوشگوار ہوتا ہے کیونکہ اوسط‬
‫درجہ حرارت ‪ 20‬سینٹی گریڈ سے کم ہی رہتا ہے۔ان عالقوں میں موسم خوشگوار ہونے‬
‫کی وجہ سے تفریحی مقامات کافی ہیں۔ جہاں میدانی عالقوں کی گرمیوں کے ستائے ہوئے‬
‫لوگ آکر پناہ لیتے ہیں۔‬
‫البتہ ستمبر سے اپریل تک یہاں سخت سردی پڑتی ہے۔ شدید برف باری ہوتی ہے ۔دسمبر ‪،‬‬
‫جنوری میں درجہ حرارت منفی ‪ 5‬سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ شمالی پہاڑی عالقوں میں‬
‫گرمیوں میں بہت بارشیں ہوتی ہیں اور سردیوں میں مغربی ہوائیں سخت برف باری کا‬
‫سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ انہی عالقوں سے دریا بہہ کر جنوبی میدانوں کا رخ کرتے ہیں اور‬
‫ان کی زرخیزی اور سر سبزی و شادابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔‬
‫‪:‬پاکستان میں بارشیں پاکستان میں بارشیں عام طور پر دو موسموں میں ہوتی ہیں‬
‫۔موسم گرما کی مون سون ہواؤں کی بارشیں‪1‬‬
‫موسم گرما میں خلیج بنگال سے آنے والے بخارات سے لدی ہوئی ہو ائیں جوالئی سے‬
‫ستمبر تک جنوبی ہمالیہ‪ ،‬شوالک پر اور شمالی میدانوں میں بارشیں برساتی ہیں ۔ان کے‬
‫زیر اثر مری‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬راولپنڈی‪،‬جہلم اور سیالکوٹ وغیرہ کے عالقوں میں اوسطا ً ‪50‬‬
‫انچ کے قریب بارش ہو جاتی ہے۔ یہ ہوائیں جوں جوں جنوب کی طرف بڑھتی ہیں‪،‬ان سے‬
‫بارش کم ہو تی جاتی ہے چنانچہ سندھ اور بلوچستان میں بارش کی اوسط دس انچ ساالنہ‬
‫سے بھی کم ہے۔ اس لیے یہاں صھرا پائے جاتے ہیں۔ مغربی پہاڑی عالقوں ‪،‬سطح مرتفع‬
‫بلوچستان اور شمال مغربی پہاڑوں پر موسم گرما میں بارش تقریبا ً ہوتی ہی نہیں۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ یہ پہاڑی سلسلے بلکل خشک ہیں۔‬
‫۔موسم سرما کی مغربی ہواؤں کے زیر اثر بارشیں‪2‬‬
‫موسم سرما میں بخارات سے لدی ہوئی مغربی ہوائیں مغربی اور شمالی پہاڑی سلسلوں کی‬
‫برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر شمالی میدانوں میں بارش برساتی ہیں۔ جنوبی عالقوں تک‬
‫پہنچتے پہنچتے یہ ہوائیں بخارات سے خالی ہو جاتی ہیں لہذا ان عالقوں میں سردیوں‬
‫میں بارش بہت کم ہوتی ہے جو ہماری فصلوں کے لئے بالکل ناکافی ہے۔‬
‫مجموعی طور پر پاکستان میں ہونے والی بارشیں اتنی کم ہیں کہ وہ ہماری موجودہ اور‬
‫مستقبل کی زرعی اور دیگر ضروریات کو پورا نہیں کر سکتیں۔ پانی کی کمی کو پورا‬
‫کرنے کے لئے مختلف مقامات پر حسب موقع چھوٹے بڑے ڈیم بنانے اور ان سے نہریں‬
‫نکال کر ان سے زمینوں کو سیراب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔‬
‫‪ :‬آب و ہوا کے انسانی زندگی پر اثرات‬
‫کسی عالقے کی آب و ہوا کا انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ لوگوں کے رنگ‬
‫صحت کاروبار۔ خوراک لباس ‪ ،‬رسم و رواج اور نقل و حرکت بلکہ عادات و اطوار‬
‫وغیرہ سب آب و ہوا سے متاثر ہوتے ہیں۔اناج‪ ،‬سبزیاں اور پھل جن پر انسان کی زندگی کا‬
‫دارومدار ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں تک‪ ،‬ہر چیز آب وہوا کا اثر قبول کرتی ہیں۔‬
‫۔ رنگ‪1‬‬
‫گرم آب و ہوا میں دھوپ کی شدت کی وجہ سے لوگوں کے رنگ سانولے بلکہ سیاہ ہو‬
‫جاتے ہیں جبکہ سرد آب و ہوا میں رہنے والے لوگ سفید فام اور گورے چٹے ہوتے ہیں۔‬
‫۔لباس‪2‬‬
‫موسم گرما میں اور گرم آب و ہوا میں رہنے والے لوگ ہلکے پھلکے اور سوتی لباس‬
‫پہنتے ہیں۔دھوپ میں چھتری اور ٹوپی کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔ سردآب و ہوا میں گرم‬
‫اونی لباس استعمال ہوتا ہے۔دن کو دھوپ اور رات کو آگ تاپے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔‬
‫۔عادات‪3‬‬
‫سردآب و ہوا میں رہنے والے لوگ جفا کش ‪ ،‬سخت جان اور محنت مشقت کے عادی‬
‫ہوتے ہیں۔برد بار اور تحمل مزاج ہوتے ہیں جبکہ گرم آب و ہوا کے باشندے سست‪،‬آرام‬
‫طلب ‪ ،‬جلد جذبات میں آ جانے والے اور جھگڑالو ہوتے ہیں۔‬
‫۔پیشے‪4‬‬
‫جہاں آب و ہوا گرم مرطوب ہو گی ‪ ،‬بارشیں زیادہ ہوں گی وہاں زیادہ لوگ زراعت پیشہ‬
‫ہوں گے جبکہ خشک آب و ہوا میں رہنے والے لوگ زیادہ تر مالزمت پیشہ‪ ،‬مزدور یا‬
‫بھیڑ بکریاں پالنے والے ہوتے ہیں۔‬
‫۔تجارت‪5‬‬
‫معتدل آب و ہوا تجارت کو فروغ دینے میں مدد دیتی ہے۔ سخت سرد یا سخت گرم آب و‬
‫ہوا آمد و رفت اور نقل و حمل میں مشکالت پیدا کرکے تجارت کو ماند کر دیتی ہے۔ پہاڑی‬
‫راستے برف باری کے باعث بند بھی ہو جاتے ہیں۔‬
‫۔رہائش‪6‬‬
‫گرم آب و ہوا میں رہنے والے لوگ کھلے اور ہوا دار مکان بنا کر رہتے ہیں جبکہ سرد‬
‫آب و ہوا میں رہنے والے تنگ کمروں والے مکانوں میں رہتے ہیں‪ ،‬جنھیں گرم کرنا‬
‫آسان ہو۔‬
‫۔ذرائع آمدورفت‪7‬‬
‫شدید گرم آب و ہوا والے صحراؤں ‪ ،‬ریگستانوں اور کم آبادی والے عالقوں میں ذرائع آمد‬
‫و رفت اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوتے جبکہ معتدل آب و ہوا میں ‪ ،‬جہاں زندگی کی سرگرمیاں‬
‫عروج پر ہوتی ہیں‪ ،‬ذرائع آمدورفت بہتر اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔‬
‫۔خوراک‪8‬‬
‫سرد آب و ہوا والے عالقوں میں اور موسم سرما میں گوشت ‪،‬انڈا ‪ ،‬مچھلی‪ ،‬مقوی ‪،‬‬
‫مرغن اور گرم غذائوں ‪،‬چائے‪ ،‬مٹھائیاں اور خشک پھل کا استعمال بکثرت ہوتا ہے جبکہ‬
‫گرم آب وہوا اور موسم گرما میں سبزیاں ‪ ،‬رس دار پھل اور ٹھنڈے مشروب زیادہ چلتے‬
‫ہیں۔‬

You might also like