You are on page 1of 10

1

ASSIGNMENT

‫پا‬
‫ک‬
‫س‬
‫تا‬
‫ن‬
‫کے اہم شہر‬

SUBMITTED TO:
Ma’am Aqna Malik
SUBMITTED BY:
Moazama Fayyaz
SUBJECT:
Pakistan Studies (PS-
403)
SEMESTER: 4th

SECTION: “B”

SAP ID: 70059120

DATE OF SUBMISSION: 8.May.2020

DEPARTMENT OF PHARMACY
‫‪2‬‬

‫‪ٓ:‬ابادی کی تقسیم۔ دیہی و شہری عالقے‬

‫ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ‪ 13‬کروڑ ‪5‬الکھ ‪78‬ہزار ہے۔‪1981‬ء میں آبادی ‪ 8‬کروڑ ‪ 42‬الکھ ‪۱۹۹۸53‬‬
‫ہزار تھی۔آج کل پاکستان کی آبادی کا اندازہ ‪ 19‬کروڑ ‪ 17‬الکھ کے قریب ہے۔ صوبہء پنجاب کی آبادی کل آبادی کا ‪56‬‬
‫فیصد ہے۔ سندھ کی آبادی ‪ 22.96‬فیصد‪ ،‬خیبر پختونخواہ کی ‪ 13.4‬فیصد‪ ،‬اور بلوچستان کی آبادی کل آبادی کا ‪4.98‬‬
‫فیصد ہے۔پاکستان کی ‪ 67.5‬فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ‪ 32.5‬فیصد شہروں میں۔ بلعموم لوگ دیہات سے ہجرت‬
‫کر کے شہروں میں آباد ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وہاں روزگار کے وسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ شہروں کی آبادی میں اضافے‬
‫سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جن میں ٹریفک کے مسائل‪،‬ماحولیاتی آلودگی اور صحت کے مسائل خاص طور پر قابل‬
‫زکر ہیں۔‬

‫‪:‬پاکستان کے اہم شہر‬


‫پاکستان کے اہم شہروں کے نام درج ذیل ہیں۔‬

‫۔کراچی‪۱‬‬

‫۔الہور‪۲‬‬

‫۔اسالم ٓاباد‪۳‬‬

‫۔پشاور‪۴‬‬

‫۔کوئٹہ‪۵‬‬

‫‪:‬کراچی کی تاریخ‬

‫میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اسالم‪۱۹۴۷‬‬
‫آباد کوپاکستان کے دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔ کراچی کی تاریخ یونان اور عرب کے دور سے شروع ہوئی۔ عربی‬
‫اس عالقہ کو بندر گاہ دیبل کے نام سے جانتے تھے جہاں سے محمد بن قاسم نے ‪712‬ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔‬
‫کے مطابق کراچی کے چند عالقے اور جزیرہ منوڑہ ‪ ,‬دیبل میں شامل تھے۔ )‪( Eliet‬برطانوی تاریخ دان ایلیٹ‬
‫ء میں گاؤں کوالچی جوگوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندر گاہ منتخب کیا گیا۔‪  ‬اسکی وجہ‪1772‬‬
‫سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔‪1775  ‬ء تک کراچی خان قالت کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال‬
‫سندھ کے حکمرانوں اور خان قالت کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا‪  ‬قبضہ ہو گیا۔‬
‫اس کے بعد شہر کی بندر گاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی‪ ‬‬
‫آبادی میں اضافہ ہوا ‪ .‬اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی طبقہ کے لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا بلکہ وہاں‬
‫انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف اٹھیں۔ پھر انگریزوں نے ‪ 3‬فروری ‪  1839‬میں کراچی پر حملہ کیا اور اس‬
‫‪3‬‬

‫پر قبضہ کر لیا تین سال بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کر کے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ پھر ‪1876‬‬
‫میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی شکل اختیار‬
‫کر چکا تھا۔ جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے قریب‬
‫ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ ‪ 1880‬کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان کیساتھ جوڑا گیا۔‬
‫‪ 1899‬میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ ‪ 1947‬میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت‬
‫بنایا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار الکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا‬
‫اور شہر اپنے سارے خطے کا مرکز بن گیا۔ ‪ 1947‬سے ‪ 1953‬تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا پھر کراچی کی‬
‫تیزی سے بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دارالحکومت کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا ‪ 1958‬میں‬
‫اس وقت کے صدر ایوب خان نے راولپنڈی کے قریب ایک جگہ (اسالم آباد) پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا۔ آخرکار‬
‫‪ 1968‬میں دارالحکومت کو اسالم آباد منتقل کر دیا گیا۔‬
‫کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معروف صنعتی‪  ‬اور تجارتی مرکز ہے۔ کراچی ‪1980‬ء اور ‪1990‬ء‬
‫کی دہائیوں میں تشدد‪ ,  ‬سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا ہے ۔ موجودہ دہائی میں کراچی‬
‫میں امن و امان کی صورت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی بعض دشمن اور شر پسند عناصر کراچی کی ترقی میں‪ ‬‬
‫روڑے اٹکائے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں بھی سامنے آرہا ہے۔ حال ہی میں کراجی کی رونقوں کو ٹارگٹ کلنگ نے بہت‬
‫حد تک متاثر کر دیا ہے جسکی وجہ سے کراچی جو کہ ایک روشنیوں کا شہر مشہور تھا اب بد حالی ‪ ,‬بے روز گاری‬
‫اور لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو چکا ہے۔‬
‫‪4‬‬

‫کی تاریخ‬ ‫‪:‬الہور‬

‫الہورصوبہ پنجاب کا دارلحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی ‪ ،‬تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔‬
‫ا‬ ‫سے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ‬
‫ش‬ ‫ہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔‬
‫ا‬ ‫س شہر کی آبادی ایک کروڑکے قریب‬
‫ہ‬ ‫ے۔‬
‫ش‬ ‫اہی قلعہ ‪ ،‬شاالمارباغ ‪ ،‬بادشاہی مسجد ‪،‬‬
‫م‬ ‫قبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل‬
‫د‬ ‫ور کی یادگار ہیں۔‪  ‬سکھ اور برطانوی‬
‫د‬ ‫ور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔‬
‫ل‬ ‫اہور کے قریبی شہر امرتسر صرف ‪31‬‬
‫م‬ ‫ٖیل دور واقع کیا جارہا سکھوں کے مقدس‬
‫ت‬ ‫رین جگہ ہے (‪50‬کلومیٹر ) کے ساتھ‬
‫درست کرنے کے لئے بھارت کے اگلے دائیں‪ Š‬واقع ہے۔‬
‫چین کے باشندے سوزوزینگ نے لکھا جو ہندوتان جاتے ہوئے الہور‪  ‬سے‪630‬‬
‫الہور کے بارے میں سب سے پہلے ٖ‬
‫عیسوی میں گزرا ۔ اس شہر کے ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں‬
‫ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے‪ ” Š‬توہو“ نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو ”پرانوں“ میں الہور کا نام ” لوہ پور“ یعنی لوہ‬
‫کا شہر ملتا ہے ۔‬
‫راجپوت دستاویزات میں اسے ” لوہ کوٹ “ یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نوی صدی عیسوی کے‬
‫مشہورسیاح ” االدریسی “ نے اسے ”لہادر“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ‬
‫اوائل تاریخ سے ہی شہریت کی اہمیت کا حامل تھا۔ در حقیقت اس کا دریا کے کنارے پر ایک ایسے راستے پر جو‬
‫صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہ گزر رہا ہے‪ ،‬واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔ ”فتح البالدن“ میں درج‬
‫سنہ ‪ 664‬عیسوی کے واقعات میں الہور کا ذکر ملتا ہےجس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔‬

‫ٓاباد کی تاریخ‬ ‫‪:‬اسالم‬

‫اسالم آباد پاکستان کا خوبصورت ترین شہر ہی نہیں بلکہ اسالم آباد کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین شہروں میں بھی‬
‫ہوتا ہے۔ کراچی بھی پاکستان کا قدیم شہر ہے اور یہ‪ 1958‬تک پاکستان کا دارالحکومت رہا پھر اس شہر کی تیزی سے‬
‫بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دارالحکومت کو کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا ارادہ کیا گیا صدر ایوب نے‬
‫‪ 1958‬میں راولپنڈی کے قریب ایک جگہ کا انتخاب کیا اور شہر کی تعمیر کا حکم جاری کیا۔ اسی دوران‪  ‬عارضی طور‬
‫پر پہلے سے موجود پوٹھوہاری شہر راولپنڈی کو دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ لہذا ‪1960‬ء میں باقاعدہ طور پر اسالم‬
‫‪5‬‬

‫آباد میں ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دی گئی۔‬


‫میں اسالم آباد کو پاکستان کے دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ اس شہر کی طرز تعمیر زیادہ تر طریقہ یونانی پر ‪1964‬‬
‫م‬ ‫بنی ہے۔ اس کی تعمیر میں یونان کے‬
‫م‬ ‫عروف منصوبہ دان اے ڈوکسی‬
‫آ‬ ‫نے اہم کردار ادا) ‪(A doxiadis‬ڈز‬
‫ک‬ ‫یا۔ اسکی تاریخی اور قابل دید‪ Š‬مقامات‬
‫م‬ ‫یں فیصل مسجد‪ ,‬شکرپڑیاں‪ ,‬دامن‬
‫ک‬ ‫وہ‪ ،‬چھتر باغ شامل ہیں۔ اس عالوہ‬
‫ا‬ ‫ورنگزیب کے دور حکومت کی‬
‫ح‬ ‫سین یاد حضرت امام بری کا مزار‬
‫ہ‬ ‫ے جو اس نے مغلیہ‪  ‬فن تعمیر کے‬
‫شاہکار کے طور پر پیش کیا۔‬
‫حضرت مہر علی شاہ کا حضرت مہر علی شاہ کا مزار جوکہ گولڑہ شریف میں واقع ہے اسالم آباد کی تاریخی میں اہم‬
‫مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ اسالم آباد کی تہذیب‪ Š‬و ثقافت وادیء انڈس کی ثقافت‪  ‬اور پوٹھوہاری سماج کا حسین امتزاج ہے۔‬
‫یہ آریا خاندان کا وسط ایشیاء میں پہال مسکن تصور کیا جاتا ہے۔ پھر ان کی یہ ثقافت و تہذیب اٹھارویں صدی میں مزید‬
‫ترقیاتی کرتی چلی گئی۔ بہت سارے عظیم جنگی خاندان جن میں اسکندر اعظم‪ ،‬چنگیزخان‪ ،‬تیمور خان‪ ،‬احمد شاہ درانی‬
‫اور دیگر‪  ‬لشکر کشوں نے اسالم آباد کو کوریڈور‪  ‬یعنی گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا یہ تم یہاں سے انڈین برصغیر‬
‫میں جاتے اور لشکر کشی کرتے تھے۔ جدید اسالم آباد قدیم سید پور‪  ‬کی ہی بنیاد ثابت ہوا ہے۔ یہاں انگریزوں ‪ 1849‬میں‬
‫سکھوں کو شکست دے کر قبضہ کیا تھا اور اس طرح یہاں برصغیر کے تقریبا تمام عالقوں کی تہذیب کی جھلک نظر‬
‫آتی ے۔‬
‫جیسے اب پاکستان کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے ایک قومی اور علمی مارکیٹ کے ساتھ ہر طرح کے لوگوں کی‬
‫توجہ کا مرکز ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسالم آباد کی طرز تعمیر میں جدت آتی گئی اور اس خوبصورت شہر کو کئی‬
‫تاریخی اور سیاسی عمارتوں سے نوازا گیا ہے اور اس شہر کے مشرقی جانب مری کی دلکش پہاڑیاں دنیا بھر کے‬
‫سیاحوں کے لیے تفریح کا سماں پیش کرتی ہیں۔ اس وجہ سے بھی اسالم آباد کو بہت مقبولیت حاصل ہوچکی ہے۔ یہاں پر‬
‫سرکاری عمارتوں میں پاکستان ہاؤس‪ ،‬پریزڈنٹ ہاؤس‪ ،‬نیشنل پارلیمنٹ‪ ،‬نیشنل یونیورسٹی‪ ،‬اور دیگر کئی عمارتیں شامل‬
‫ہیں۔ اس شہر کے نزدیک معروف قدیمی تاریخی شہر ٹیکسال بھی واقع ہے۔ جو کہ جدید ٹیکنولوجی اور انڈسٹریل سٹی‪ ‬‬
‫شمار کیا جاتا ہے۔‬
‫اسالم آباد کی کل آبادی ‪ 2009 ، 1740,000‬میں شمار کی گئی تھی۔‪  ‬جبکہ اسالم آباد شہر کا رقبہ ‪   120،00‬مربع‬
‫کلومیٹر اور دیہاتی رقبہ ‪ 466‬کلومیٹر ہے۔ اسالم آباد کے چیف کمشنر فضیل اصغر ہیں۔‬

‫‪:‬پشاور کی تاریخ‬
‫‪6‬‬

‫پشاور قدیم زمانے سے گندھارا سلطنت کا مرکز تھا اور اس کا مزید پرانا نام برش پور تھا۔ جبکہ بادشاہ اکبراعظم نے‬
‫اسے بعد میں پشاور کا نام دیا۔ برصغیر ہند میں تمام بیرونی ممالک کے حملہ آور اسی راستے سے حملہ آور ہوئے لیکن‬
‫انگریزوں نے اس راستہ یہنی پشاور کا رخ نہ کیا۔‬
‫ان حملہ آوروں میں افغانی‪،‬ایرانی‪،‬یونانی اور مغل بادشاہ قابل ذکر ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں سکھوں نے‬
‫پشاور پر قبضہ کر لیا۔ پھر ‪1848‬ء میں انگریز قابض ہو گئے۔‬
‫بیسویں صدی کے آغاز میں شمالی مغربی سرحدی صوبے کو دارلحکومت بنا دیا گیا اور جب ‪1995‬ء میں مغربی‬
‫سرحدی پاکستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کو کمشنری کا صدر مقام بنا دیا گیا۔ پشاور کی تاریخ گندھارا کے بغیر نامکمل‬
‫تصور ہو گی کیونکہ گندھارا ایک قدیک ریاست تھی جو شمالی پاکستان میں صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے عالقے‬
‫پوٹھوہار کے کچھ عالقوں پر مشتمل تھی۔ جبکہ پشاور‪ ،‬ٹیکسال‪ ،‬تخت بائی اور چار سدہ اس کے اہم ترین مرکز تھے۔ یہ‬
‫دریائے کابل سے شمال کی جانب تھی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں آج‬
‫تک اس کے اثرات باقی ہیں۔‬
‫بعد میں تقریبا پانچویں صدی میں حملہ آوروں‬
‫کی وجہ سے قدرے بدھ مت کو زوال آیا اور‬
‫سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے بعد‪Š‬‬
‫گندھارا تاریخ سے محور ہو گیا۔‬
‫پشاور سے چمد میل دور شمال مغربی جانب ‪33‬‬
‫میل ایک درہ تھا جو انچے انچے اور دشوار‬
‫گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ جس کو ابھی بھی‬
‫بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اور اسے درہ خیبر کے‬
‫نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے اسی راستے سے آئے پھر انگریزوں‬
‫نے ‪1879‬ء میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ پشاور کے تاریخی مقامات میں باالحصار فورٹ خیبرویلی (وادی خیبر)‬
‫سرفہرست اہمیت کے حامل ہیں یہ مکامات قدیمی تاجران کے راہ گزر اور مرکزتجارت ہوا کرتے تھے پھر اسی رحجان‬
‫تجارت کے باعث اس شہر کو تجارت اور کاروبار میں اس قدر کامیابی حاصل ہوئی کہ دستکاری‪ ،‬سوتی اور اونی کپڑوں‬
‫میں پشاور ترقی کرتا گیا۔ اور شہر کی رونقیں دوباال ہوتی گئیں۔‬
‫برطانوی راج کا اہم ترین بازار "قصہ خوانی بازار" اپنے روایتی انداز‪ ،‬تہذیب و ثقافت اور رونق کی وجہ سے آج بھی‬
‫دلچسپی کا باعث ہے۔ قصہ خوانی بازار کا روایتی "خان قہوہ" تکہ‪ ،‬چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی وسیع دکانیں‬
‫بہت مشہور ہیں۔ لیکن قدیم تاریخ میں پشاور کے کلچر‪،‬تہذیب‪،‬تاریخی مقامات اور شہری آبادی کو ہزاروں دشواریوں کا‬
‫سامنا تھا۔ جس کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ ‪ 2700‬ایکڑ رقبے کی قابل کاشت اراضی ناقابل کاشت کر دی گئی۔ جس‬
‫کے ذمہ دار کئی شر پسند سیاسی حکمران تھے۔ اور اب تک اس قومی ورثہ اور ثقافت کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔‬
‫موجودہ پشاور کا کل رقبہ ‪ 1257‬مربع کلومیٹر ہے۔ اور ‪ 2040‬افراد فی مربع کلومیٹر کے حساب سے یہاں لوگ آباد ہیں۔‬
‫اس کی دیہی آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے پشاور کا کل رقبہ ‪ 78930‬ایکڑ ہے۔ یہاں کے عجائب گھر‬
‫‪7‬‬

‫میں اب بھی بدھ مت اور دوسرے راجاوں کے آثار ملتے ہیں۔ پشاور سے ایک بڑی ریلوے الئن لنڈی کوتل کو جاتی ہے‬
‫اور یہ فن تعمیر کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہیں۔ یہاں ایک بڑی یونیورسٹی اور متعددکالجز ہیں جن میں ایڈورڈ کالج پشاور‬
‫اور اسالمیہ کالج پشاور سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں۔‬
‫اب اس شہر کوصوبی خیبر پختونخواہ(سرحد) کے صدر مقام کی بھی حیثیت حاصل ہے‬
‫‪8‬‬

‫کوئٹہ کی تاری خ‬
‫کوئٹہ ایک قدیم ثقافت کا حامل شہر ہے ۔جس کے چاروں طرف پہاڑوں کی وادیاں موجود ہیں اسکی قدیم تاریخ میں اسے‬
‫قلعہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور “شال کوٹ” کے نام سے بھی مشہور ہے کیونکہ یہاں کی شال بہت مشہور ہے ۔‬
‫کوئٹہ کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے‪ -‬اس وقت یہ ایران کی سلطنت ساسان کا‪  ‬حصہ تھا ۔ساتویں‬
‫صدی عیسوی میں جب مسلمانوں کے ہاتھوں ایران فتح ہوا یہ بھی اسی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہاں تک کہ‪  ‬گیارھویں‬
‫صدی میں بھی محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے ۔‬
‫اس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلمان سے آکر اسی شہر میں سکونت اختیار‬
‫کی۔ جب شاہ سوری نے ء‪ ۱۵۴۳‬میں مغل شہنشاہ ہمایوں کی شکست دی ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا اور کچھ عرصہ‬
‫مناسب جگہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیام کیا۔ ء‪ ۱۵۵۶‬تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا اور پھر ایرانی سلطنت کا‬
‫حصہ بنا ۔ ء‪ ۱۵۹۵‬میں اکبر شہنشاہ دوبارہ کوئٹہ کا حکمران بنا ۔‬
‫ء‪۱۷۳۰‬کے بعد‪ Š‬یہ شہر قالت کی ریاست میں شامل ہو گیا پھر ایک یورپی تاریخ دان کے مطابق ء‪۱۸۲۸‬میں کوئٹہ شہر‬
‫کے گرد مٹی کی ایک بہت بڑی دیوار تھی جس نے کوئٹہ کو ایک شاندار قلعہ کی شکل دےدی ۔اس وقت کے اس قلعہ‬
‫میں تقریبا ً تین سو گھر آباد تھے ۔ اس کے بعد ایک سیاح انگریز نے اس شہر کو باقاعدہ طور پر ایک قلعہ کی شکل‬
‫دےدی بعد میں ء‪ ۱۸۳۹‬کی افغانی اور برطانوی جنگ میں انگریز کوئٹہ پر قابض ہو گئے اور پولیٹکل ایجنٹس کو‬
‫ذریعے اپنی سلطنت میں شامل کر دیا ۔ اس تبدیلی سے ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو گئے جس سے‬
‫کویٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہو گیا‪-‬جو ء‪ ۱۹۳۵‬كے خوفناک زلزلہ تک جاری رہا ‪-‬پھر اپنے دور حکومت میں‬
‫انگریزوں نے کویٹہ کو ایک فوجی اڈامیں تبدیل‪ Š‬کر دیا ‪-‬جو کہ زلزلہ سی آنا ً فانا ً تباہ ہو کر مٹی کا ڈھیر بن گئا ‪-‬اس ہیبت‬
‫ناک زلزلے میں تقریبا ً ‪ 40,000‬افراد لقمہ اجل بن گئےاس زلزلے سے کوئٹہ کی کوئی بھی عمارت اپنی اصل حالت میں‬
‫نہ رہی بالکل مکمل طور پر منہدم ہو گیا تھاپھر افغانستان اور ایران کے تاجروں کی راہ گزر اور مرکز ہونے کی وجہ‬
‫سے کوئٹہ دوبارہ صفہ ہستی پر نمودار ہوا ‪-‬جسےقیام پاکستان کے بعد بلوچ عالقے کا صدر مقام ہونے کا اعزاز حاصل‬
‫ہو گیا ۔اور صوبہ بلوچستان بننے پر اس کی حیثیت مستحکم ہو گئی۔اور تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں پھر سے عروج‬
‫پر پہنچ گئی ۔ کوئٹہ سطح سمندر سے قدرے بلند ہونے کی وجہ سے سیاحت کا بہترین مرک ز ہے۔‬
‫پھر افغان مسئلہ جو کہ ء‪۱۹۷۹‬میں رونما ہوا تھا یہ کوئٹہ کی دوبارہ تعمیر اور کثیر آبادی کا سبب بنا ۔ کیونکہ ہزاروں‬
‫تعداد میں افغان مہاجرین نی کوئٹہ کو اپنا مسکن بنا لیا اور اس کے اردگرد کئی نئی آبادیاں وقوع پزیر ہوئیں ۔‬
‫اب کوئٹہ کو پاکستان کا نواںبڑا شہر شمار کیا جاتا ہے جس کی کل آبادی تقریبا ً چھ الکھ کے قریب ہو چکی ہے کوئٹہ کو‬
‫پاکستان کے دوسرے شہروں تک رسائی کے لئے بہت بڑی ریلوے الئن بھی بچھائی گئی ہے۔ اس کی بڑی ریلوے الئن‬
‫ایران کے شہر زیدان سے جا ملتی ہے ۔ عالوہ ازیںکوئٹہ کی اہمیت گواہ اور بندرگاہ کیوجہ سے دو چند ہو گئی ہے۔‬

You might also like