Professional Documents
Culture Documents
Pak St. Assignment 2
Pak St. Assignment 2
ASSIGNMENT
پا
ک
س
تا
ن
کے اہم شہر
SUBMITTED TO:
Ma’am Aqna Malik
SUBMITTED BY:
Moazama Fayyaz
SUBJECT:
Pakistan Studies (PS-
403)
SEMESTER: 4th
SECTION: “B”
DEPARTMENT OF PHARMACY
2
ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13کروڑ 5الکھ 78ہزار ہے۔1981ء میں آبادی 8کروڑ 42الکھ ۱۹۹۸53
ہزار تھی۔آج کل پاکستان کی آبادی کا اندازہ 19کروڑ 17الکھ کے قریب ہے۔ صوبہء پنجاب کی آبادی کل آبادی کا 56
فیصد ہے۔ سندھ کی آبادی 22.96فیصد ،خیبر پختونخواہ کی 13.4فیصد ،اور بلوچستان کی آبادی کل آبادی کا 4.98
فیصد ہے۔پاکستان کی 67.5فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور 32.5فیصد شہروں میں۔ بلعموم لوگ دیہات سے ہجرت
کر کے شہروں میں آباد ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وہاں روزگار کے وسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ شہروں کی آبادی میں اضافے
سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جن میں ٹریفک کے مسائل،ماحولیاتی آلودگی اور صحت کے مسائل خاص طور پر قابل
زکر ہیں۔
۔کراچی۱
۔الہور۲
۔اسالم ٓاباد۳
۔پشاور۴
۔کوئٹہ۵
:کراچی کی تاریخ
میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اسالم۱۹۴۷
آباد کوپاکستان کے دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔ کراچی کی تاریخ یونان اور عرب کے دور سے شروع ہوئی۔ عربی
اس عالقہ کو بندر گاہ دیبل کے نام سے جانتے تھے جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔
کے مطابق کراچی کے چند عالقے اور جزیرہ منوڑہ ,دیبل میں شامل تھے۔ )( Elietبرطانوی تاریخ دان ایلیٹ
ء میں گاؤں کوالچی جوگوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندر گاہ منتخب کیا گیا۔ اسکی وجہ1772
سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔1775 ء تک کراچی خان قالت کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال
سندھ کے حکمرانوں اور خان قالت کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔
اس کے بعد شہر کی بندر گاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی
آبادی میں اضافہ ہوا .اس ترقی نے جہاں ایک طرف کئی طبقہ کے لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا بلکہ وہاں
انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف اٹھیں۔ پھر انگریزوں نے 3فروری 1839میں کراچی پر حملہ کیا اور اس
3
پر قبضہ کر لیا تین سال بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کر کے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ پھر 1876
میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی شکل اختیار
کر چکا تھا۔ جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے قریب
ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان کیساتھ جوڑا گیا۔
1899میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ 1947میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت
بنایا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار الکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا
اور شہر اپنے سارے خطے کا مرکز بن گیا۔ 1947سے 1953تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا پھر کراچی کی
تیزی سے بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دارالحکومت کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا 1958میں
اس وقت کے صدر ایوب خان نے راولپنڈی کے قریب ایک جگہ (اسالم آباد) پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا۔ آخرکار
1968میں دارالحکومت کو اسالم آباد منتقل کر دیا گیا۔
کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معروف صنعتی اور تجارتی مرکز ہے۔ کراچی 1980ء اور 1990ء
کی دہائیوں میں تشدد , سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا رہا ہے ۔ موجودہ دہائی میں کراچی
میں امن و امان کی صورت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی بعض دشمن اور شر پسند عناصر کراچی کی ترقی میں
روڑے اٹکائے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ابھی کراچی میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ
کراچی ایک عالمی مرکز کی شکل میں بھی سامنے آرہا ہے۔ حال ہی میں کراجی کی رونقوں کو ٹارگٹ کلنگ نے بہت
حد تک متاثر کر دیا ہے جسکی وجہ سے کراچی جو کہ ایک روشنیوں کا شہر مشہور تھا اب بد حالی ,بے روز گاری
اور لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو چکا ہے۔
4
الہورصوبہ پنجاب کا دارلحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی ،تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔
ا سے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ
ش ہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔
ا س شہر کی آبادی ایک کروڑکے قریب
ہ ے۔
ش اہی قلعہ ،شاالمارباغ ،بادشاہی مسجد ،
م قبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل
د ور کی یادگار ہیں۔ سکھ اور برطانوی
د ور کی بھی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
ل اہور کے قریبی شہر امرتسر صرف 31
م ٖیل دور واقع کیا جارہا سکھوں کے مقدس
ت رین جگہ ہے (50کلومیٹر ) کے ساتھ
درست کرنے کے لئے بھارت کے اگلے دائیں Šواقع ہے۔
چین کے باشندے سوزوزینگ نے لکھا جو ہندوتان جاتے ہوئے الہور سے630
الہور کے بارے میں سب سے پہلے ٖ
عیسوی میں گزرا ۔ اس شہر کے ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں
ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے ” Šتوہو“ نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو ”پرانوں“ میں الہور کا نام ” لوہ پور“ یعنی لوہ
کا شہر ملتا ہے ۔
راجپوت دستاویزات میں اسے ” لوہ کوٹ “ یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نوی صدی عیسوی کے
مشہورسیاح ” االدریسی “ نے اسے ”لہادر“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ
اوائل تاریخ سے ہی شہریت کی اہمیت کا حامل تھا۔ در حقیقت اس کا دریا کے کنارے پر ایک ایسے راستے پر جو
صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہ گزر رہا ہے ،واقع ہونا اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔ ”فتح البالدن“ میں درج
سنہ 664عیسوی کے واقعات میں الہور کا ذکر ملتا ہےجس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اسالم آباد پاکستان کا خوبصورت ترین شہر ہی نہیں بلکہ اسالم آباد کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین شہروں میں بھی
ہوتا ہے۔ کراچی بھی پاکستان کا قدیم شہر ہے اور یہ 1958تک پاکستان کا دارالحکومت رہا پھر اس شہر کی تیزی سے
بڑھتی آبادی اور معاشیات کی وجہ سے دارالحکومت کو کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کا ارادہ کیا گیا صدر ایوب نے
1958میں راولپنڈی کے قریب ایک جگہ کا انتخاب کیا اور شہر کی تعمیر کا حکم جاری کیا۔ اسی دوران عارضی طور
پر پہلے سے موجود پوٹھوہاری شہر راولپنڈی کو دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔ لہذا 1960ء میں باقاعدہ طور پر اسالم
5
:پشاور کی تاریخ
6
پشاور قدیم زمانے سے گندھارا سلطنت کا مرکز تھا اور اس کا مزید پرانا نام برش پور تھا۔ جبکہ بادشاہ اکبراعظم نے
اسے بعد میں پشاور کا نام دیا۔ برصغیر ہند میں تمام بیرونی ممالک کے حملہ آور اسی راستے سے حملہ آور ہوئے لیکن
انگریزوں نے اس راستہ یہنی پشاور کا رخ نہ کیا۔
ان حملہ آوروں میں افغانی،ایرانی،یونانی اور مغل بادشاہ قابل ذکر ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں سکھوں نے
پشاور پر قبضہ کر لیا۔ پھر 1848ء میں انگریز قابض ہو گئے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں شمالی مغربی سرحدی صوبے کو دارلحکومت بنا دیا گیا اور جب 1995ء میں مغربی
سرحدی پاکستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کو کمشنری کا صدر مقام بنا دیا گیا۔ پشاور کی تاریخ گندھارا کے بغیر نامکمل
تصور ہو گی کیونکہ گندھارا ایک قدیک ریاست تھی جو شمالی پاکستان میں صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے عالقے
پوٹھوہار کے کچھ عالقوں پر مشتمل تھی۔ جبکہ پشاور ،ٹیکسال ،تخت بائی اور چار سدہ اس کے اہم ترین مرکز تھے۔ یہ
دریائے کابل سے شمال کی جانب تھی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں آج
تک اس کے اثرات باقی ہیں۔
بعد میں تقریبا پانچویں صدی میں حملہ آوروں
کی وجہ سے قدرے بدھ مت کو زوال آیا اور
سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے بعدŠ
گندھارا تاریخ سے محور ہو گیا۔
پشاور سے چمد میل دور شمال مغربی جانب 33
میل ایک درہ تھا جو انچے انچے اور دشوار
گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ جس کو ابھی بھی
بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اور اسے درہ خیبر کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے اسی راستے سے آئے پھر انگریزوں
نے 1879ء میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ پشاور کے تاریخی مقامات میں باالحصار فورٹ خیبرویلی (وادی خیبر)
سرفہرست اہمیت کے حامل ہیں یہ مکامات قدیمی تاجران کے راہ گزر اور مرکزتجارت ہوا کرتے تھے پھر اسی رحجان
تجارت کے باعث اس شہر کو تجارت اور کاروبار میں اس قدر کامیابی حاصل ہوئی کہ دستکاری ،سوتی اور اونی کپڑوں
میں پشاور ترقی کرتا گیا۔ اور شہر کی رونقیں دوباال ہوتی گئیں۔
برطانوی راج کا اہم ترین بازار "قصہ خوانی بازار" اپنے روایتی انداز ،تہذیب و ثقافت اور رونق کی وجہ سے آج بھی
دلچسپی کا باعث ہے۔ قصہ خوانی بازار کا روایتی "خان قہوہ" تکہ ،چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی وسیع دکانیں
بہت مشہور ہیں۔ لیکن قدیم تاریخ میں پشاور کے کلچر،تہذیب،تاریخی مقامات اور شہری آبادی کو ہزاروں دشواریوں کا
سامنا تھا۔ جس کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ 2700ایکڑ رقبے کی قابل کاشت اراضی ناقابل کاشت کر دی گئی۔ جس
کے ذمہ دار کئی شر پسند سیاسی حکمران تھے۔ اور اب تک اس قومی ورثہ اور ثقافت کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
موجودہ پشاور کا کل رقبہ 1257مربع کلومیٹر ہے۔ اور 2040افراد فی مربع کلومیٹر کے حساب سے یہاں لوگ آباد ہیں۔
اس کی دیہی آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے پشاور کا کل رقبہ 78930ایکڑ ہے۔ یہاں کے عجائب گھر
7
میں اب بھی بدھ مت اور دوسرے راجاوں کے آثار ملتے ہیں۔ پشاور سے ایک بڑی ریلوے الئن لنڈی کوتل کو جاتی ہے
اور یہ فن تعمیر کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہیں۔ یہاں ایک بڑی یونیورسٹی اور متعددکالجز ہیں جن میں ایڈورڈ کالج پشاور
اور اسالمیہ کالج پشاور سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں۔
اب اس شہر کوصوبی خیبر پختونخواہ(سرحد) کے صدر مقام کی بھی حیثیت حاصل ہے
8
کوئٹہ کی تاری خ
کوئٹہ ایک قدیم ثقافت کا حامل شہر ہے ۔جس کے چاروں طرف پہاڑوں کی وادیاں موجود ہیں اسکی قدیم تاریخ میں اسے
قلعہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور “شال کوٹ” کے نام سے بھی مشہور ہے کیونکہ یہاں کی شال بہت مشہور ہے ۔
کوئٹہ کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے -اس وقت یہ ایران کی سلطنت ساسان کا حصہ تھا ۔ساتویں
صدی عیسوی میں جب مسلمانوں کے ہاتھوں ایران فتح ہوا یہ بھی اسی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہاں تک کہ گیارھویں
صدی میں بھی محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے ۔
اس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلمان سے آکر اسی شہر میں سکونت اختیار
کی۔ جب شاہ سوری نے ء ۱۵۴۳میں مغل شہنشاہ ہمایوں کی شکست دی ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا اور کچھ عرصہ
مناسب جگہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیام کیا۔ ء ۱۵۵۶تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا اور پھر ایرانی سلطنت کا
حصہ بنا ۔ ء ۱۵۹۵میں اکبر شہنشاہ دوبارہ کوئٹہ کا حکمران بنا ۔
ء۱۷۳۰کے بعد Šیہ شہر قالت کی ریاست میں شامل ہو گیا پھر ایک یورپی تاریخ دان کے مطابق ء۱۸۲۸میں کوئٹہ شہر
کے گرد مٹی کی ایک بہت بڑی دیوار تھی جس نے کوئٹہ کو ایک شاندار قلعہ کی شکل دےدی ۔اس وقت کے اس قلعہ
میں تقریبا ً تین سو گھر آباد تھے ۔ اس کے بعد ایک سیاح انگریز نے اس شہر کو باقاعدہ طور پر ایک قلعہ کی شکل
دےدی بعد میں ء ۱۸۳۹کی افغانی اور برطانوی جنگ میں انگریز کوئٹہ پر قابض ہو گئے اور پولیٹکل ایجنٹس کو
ذریعے اپنی سلطنت میں شامل کر دیا ۔ اس تبدیلی سے ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو گئے جس سے
کویٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہو گیا-جو ء ۱۹۳۵كے خوفناک زلزلہ تک جاری رہا -پھر اپنے دور حکومت میں
انگریزوں نے کویٹہ کو ایک فوجی اڈامیں تبدیل Šکر دیا -جو کہ زلزلہ سی آنا ً فانا ً تباہ ہو کر مٹی کا ڈھیر بن گئا -اس ہیبت
ناک زلزلے میں تقریبا ً 40,000افراد لقمہ اجل بن گئےاس زلزلے سے کوئٹہ کی کوئی بھی عمارت اپنی اصل حالت میں
نہ رہی بالکل مکمل طور پر منہدم ہو گیا تھاپھر افغانستان اور ایران کے تاجروں کی راہ گزر اور مرکز ہونے کی وجہ
سے کوئٹہ دوبارہ صفہ ہستی پر نمودار ہوا -جسےقیام پاکستان کے بعد بلوچ عالقے کا صدر مقام ہونے کا اعزاز حاصل
ہو گیا ۔اور صوبہ بلوچستان بننے پر اس کی حیثیت مستحکم ہو گئی۔اور تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں پھر سے عروج
پر پہنچ گئی ۔ کوئٹہ سطح سمندر سے قدرے بلند ہونے کی وجہ سے سیاحت کا بہترین مرک ز ہے۔
پھر افغان مسئلہ جو کہ ء۱۹۷۹میں رونما ہوا تھا یہ کوئٹہ کی دوبارہ تعمیر اور کثیر آبادی کا سبب بنا ۔ کیونکہ ہزاروں
تعداد میں افغان مہاجرین نی کوئٹہ کو اپنا مسکن بنا لیا اور اس کے اردگرد کئی نئی آبادیاں وقوع پزیر ہوئیں ۔
اب کوئٹہ کو پاکستان کا نواںبڑا شہر شمار کیا جاتا ہے جس کی کل آبادی تقریبا ً چھ الکھ کے قریب ہو چکی ہے کوئٹہ کو
پاکستان کے دوسرے شہروں تک رسائی کے لئے بہت بڑی ریلوے الئن بھی بچھائی گئی ہے۔ اس کی بڑی ریلوے الئن
ایران کے شہر زیدان سے جا ملتی ہے ۔ عالوہ ازیںکوئٹہ کی اہمیت گواہ اور بندرگاہ کیوجہ سے دو چند ہو گئی ہے۔