You are on page 1of 298

‫ہند مسلم تہذیب و تاریخ کی نمائندگی‪ ،‬منتخب انگریزی فکشن‬

‫کے تناظر میں‬


‫)حقیقی و تنقیدی مطالعہ(‬
‫مقالہ برائے پی ایچ ڈی (اردو(‬

‫مقالہ نگار‬
‫ارشد محمود‬
‫اسسٹنٹ پروفیسر‪ ،‬گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج‪ ،‬چکوال‬
‫رجسٹریشن نمبر ‪-PCL-131996‬‬
‫نگران مقالہ‬
‫ڈاکٹر محمد سفیر اعوان‬
‫ڈین فیکلٹی آف انگلش اسٹڈیز‬
‫نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن اسٹڈیز‪،‬اسالم آباد‬

‫شعبہ اردو‬
‫عالمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‬
‫‪۲۰۱۶‬ء‬
‫فہرست‬
‫نوآبادیاتی عہد ‪ ،‬نظری مباحث‬ ‫باب ّاول‬
‫‪۸‬۔‪۳۶‬‬
‫تصور تہذیب اور ہند مسلم تہذیب کا سوال‬‫ِ‬ ‫الف‪:‬‬
‫ہند مسلم تہذیب‬ ‫ب‪:‬‬
‫ج‪ :‬نوآبادیاتی عہد اور تہذیبی بحران‬
‫مستشرقین اور برصغیر کا تہذیبی و تاریخی تناظر‬ ‫د‪:‬‬
‫باب دوم عہد نوآبادیات میں انگریزی فکشن‪ ،‬آغاز و ارتقاء‬
‫‪۳۷‬۔‪۸۸‬‬
‫الف‪ :‬برصغیر میں انگریزوں کی آمد‬
‫ب‪ :‬برصغیر میں اینگلو انڈین لٹریچر(انگریزی ادب)…… آغاز و ارتقاء‬
‫ج‪ :‬مقامی ادباء کی انگریزی نگارشات‪ ،‬تعارفی جائزہ‬
‫منتخب اینگلو انڈین ناولوں کا تعارفی مطالعہ‬ ‫د‪:‬‬
‫ہند مسلم تہذیب کا منتخب انگریزی فکشن میں اظہار‪ :‬تحقیقی مطالعہ‬ ‫باب سوم‬
‫‪۸۹‬۔‪۱۷۰‬‬
‫ای ایم فاسٹر ۔ اے پیسج ٹو انڈیا‬
‫ناول ِکم ‪ Kim‬و دیگر کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت‬
‫باب چہارم منتخب انگریزی فکشن میں ہندوستانی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ‬
‫‪۱۷۱‬۔‪۲۳۲‬‬
‫پال اسکاٹ "‪ "PAUL SCOTT‬راج کوارٹٹ)‪(Raj Quartet‬‬
‫بھوانی جنکشن‪ :‬تہذیبی و شناختی بحران‬
‫منتخب انگریزی فکشن کا کرداری مطالعہ‬ ‫باب پنجم‬
‫‪۲۳۳‬۔‪۲۷۵‬‬
‫الف‪ :‬مسلم کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ‬
‫ب‪ :‬ہندو ‪ ،‬انگریزاور دیگر کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ‬
‫ج‪ :‬نسوانی کرداروں کا تانیثی مطالعہ‬
‫حاص ِل مطالعہ‬
‫‪۲۷۶‬۔‪۲۹۹‬‬
‫‪۳۰۰‬۔‪۳۰۱‬‬ ‫سفارشات‬
‫کتابیات‬
‫‪۳۰۲‬۔‪۳۱۰‬‬
‫حرف آغاز‬
‫ِ‬
‫کسی بھی زبان کے ادب نے ہمیشہ اپنے عہد کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے‬
‫بالشبہ ادب زندگی کے صحرا میں دور تک پھیلے ہوئے درد کے فاصلوں کو مٹا سکتا‬
‫ہے۔ وہ فاصلے جو انسانوں کے درمیان رنگ‪ ،‬نسل اور روایت کی صورت میں حائل ہو‬
‫احساس تفاخر۔۔۔‬
‫ِ‬ ‫احساس پسماندگی ہو یا پھر یورپی اقوام کا‬
‫ِ‬ ‫گئے ہیں۔ وہ ایشیائی قوموں کا‬
‫ان سب کو بھال کر ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے میں انسانیت کی‬
‫قدر مشترک جلد یا بدیر قبول کرنا ہوگی اسی سے بہتری کے امکانات کے در وا ہوں گے۔‬ ‫ِ‬
‫اسی ادبی منظر نامے میں نثری صنف ناول زندگی کی رنگ بدلتی قوس قزح اور‬
‫حقیقت کی باریک ترین جزئیات کو ایک خاص قرینے سے پیش کرنے کا فن ہے لیکن یہ‬
‫زندگی کا ہو بہو چربہ نہیں۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے‬
‫رہنے والوں کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے اسی لیے ناول کا‬
‫فکر و فن انسانی تصور و تخیل نہیں بلکہ انسانی رشتے ہیں اس میں فرد کی انفرادی‬
‫حیات سے لے کر اجتماعی زندگی سبھی داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب و‬
‫معاشرت کا ارتقائی عمل اس میں پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ناول نہایت وسیع‬
‫اور ہمہ جہت صنف ا دب ہے جس کے بارے میں ورجینا وولف نے کہا کہ ناول ایک ایسا‬
‫شتر مرغ ہے جو ہر چیز ہضم کر سکتا ہے۔ الرنس نے اسے گلیلیو کی دوربین سے بڑی‬
‫ایجاد کہا‪ ،‬اس نے یہ بھی کہا کہ ’’ایک ناول انکشاف حیات کا ایک مکمل وسیلہ ہے۔‘‘‬
‫فاسٹر کے خیال میں ناول میں زندگی کا ہر موضوع برتا جا سکتا ہے۔ میالن کنڈیرا کے‬
‫مطابق ناول ہر لمحہ ایک چھوٹی سی کائنات کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ کسی مصنف کا‬
‫ایجاب و اعتراف نہیں بلکہ دنیا کے پھیالئے ہوئے دام میں گرفتار انسانی زندگی کی‬
‫تحقیق و تفتیش ہے۔ رال فاکس کے الفاظ میں ناول زندگی کا رزمیہ ہے۔‬
‫انیس ویں صدی میں ہندوستان پر برطانوی تسلط کے استحکام کے بعد یہ صنف ادب‬
‫ب جدید کے دوش بدوش برصغیر میں غیر محسوس طریقے سے در آئی۔‬ ‫فاتحین کی تہذی ِ‬
‫اہم بات یہ ہے کہ صرف ناول ہی میں پورا انسان اور اس کی کائنات کا جاندار عکس نظر‬
‫آتا ہے کسی اور صنف ادب میں اس قدر ممکن نہیں۔ یعنی انسان‪ ،‬سماج‪ ،‬تہذیب ثقافت‬
‫محیط بیکراں میں ہے۔‬
‫ِ‬ ‫وغیرہ سب کچھ ناول کے‬
‫ناول کے بارے میں اس طویل تمہیدی گفتگو کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ زیر‬
‫نظر مقالے کا موضوع بھی یہی اہم صنف ادب ہے مگر اہم وضاحتی امر یہ ہے کہ راقم‬
‫گلشن ادب کا وہ گوشہ ہے جسے وادی ٔ خشک سمجھ کر گریز کی راہ‬ ‫ِ‬ ‫کے پیش نظر‬
‫اختیار کی گئی ہے۔ یعنی کہ اینگلوانڈین ناول۔ یہ موضوع اس لحاظ سے بھی اہمیت کا‬
‫حامل ہے کہ ان غیر ملکی ناول نگاروں کے قلب میں کئی کہانیاں موجود ہیں اور ان ہی‬
‫ناولوں کے ذریعے نوآبادیوں کے لوگ اپنی شناخت اور تاریخ کی موجودگی کو جتایا‬
‫کرتے ہیں۔ چونکہ برصغیر آج تک نوآبادیاتی اثرات سے آزاد نہیں ہوا اور ہمارے فکر و‬
‫ادب پر غیر ملکیوں کی چھاپ کسی نہ کسی حوالے سے آج بھی موجود ہے ٰلہذا ہماری‬
‫اپنی تاریخ و تہذیب کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے انگریز مصنفین کی‬
‫آنکھوں سے بھی دیکھا جائے بقو ِل اقبال ؎‬
‫شاہد ثانی شعور دیگراں‬
‫بنور دیگراں‬
‫دیدن خود را ِ‬
‫ِ‬
‫دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ مابعد جدیدیت )‪ (Post-modernism‬کے اس دور میں‬
‫ثقافتی مطالعات )‪ (Cultural studies‬کی ایک شق میں نوآبادیات کامطالعہ بھی ہے جس‬
‫کو ماہرین نے مابعد نوآبادیاتی مطالعات)‪ (Post colonal studies‬کا نام دیا ہے۔ یہ‬
‫نوآبادیاتی مطالعے اس امر پر دال ہیں کہ نوآبادیات کے نظام میں علمی اور ثقافتی‬
‫استحصال کا پہلو بھی مخفی ہوتا ہے یعنی نوآبادیاتی حکمرانوں کی مقامی آبادی کی‬
‫علمی‪ ،‬ادبی‪ ،‬ثقافتی اور اخالقی ترقی کے پیچھے خود ان حکمرانوں کی اپنی غرض و‬
‫غایت بھی ہوتی ہے یعنی اپنی قوت کو مستحکم کرنے کے لیے وہ علمی میدان میں بھی‬
‫ایسی ہی صورت پیدا کرتے ہیں جو ان کی حکمرانی کو مزید استحکام بخشے۔ وہ عوام‬
‫کے قلوب و اذہان کو بھی کچھ یوں متاثر کرتے ہیں کہ محکوم قومیں الزما ً یہی تصور‬
‫کرتی ہیں کہ حکمرانوں کے یہ سارے اقدامات ان کی ترقی کے لیے ہی ہیں اور ان سے‬
‫دامن کشاں گ زرنے میں ذہنی اور علمی پسماندگی کا ازالہ ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ‬
‫یہ نوآبادیاتی حکمران اپنی حکمرانی کے خاتمے کے بعد کئی ایسے دیر پا اثرات چھوڑ‬
‫جاتے ہیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ یوں نسلی امتیازات کی لکیریں اتنی‬
‫واضح طور پر کھینچ دیں جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں اسی طرح موجود ہیں۔‬
‫ہندوستان کے تناظر میں انگیریزوں کی خدمات پر نگاہ ڈالی جائے تو باال ئی سطح‬
‫پر یہی کہا جائے گا کہ انگریز حاکموں نے ہندوستانیوں کی ترقی اور بہتری کے لیے‬
‫کئی اقدامات کیے۔ نئے علوم کے در وا کیے۔ نئی زندگی کے اسباق سکھائے‪ ،‬نئے ولولوں‬
‫سے ہمکنار کیا۔ ممکن ہے کہ یہ بات جزوی طور پر درست ہو مگر اس امر سے انکار‬
‫بھی ممکن نہیں ہے کہ آزادی کے حصول کے اتنے عرصے بعد بھی ذہنی غالمی کا‬
‫طوق ہم اپنی گردنوں سے نکال پھینک سکے نہ ہی ان اثرات سے آزاد ہو سکے۔‬
‫ذہنی کشادگی اور فکر کی وسعت کے لیے بھی ضروری ہے کہ مختلف قوموں‬
‫اور ملکوں کے ادب سے شناسائی حاصل کی جائے۔ اس لحاظ سے یہ ضروری سمجھا‬
‫گیا کہ سامراجی عہد کے کچھ اہم فن پاروں کو ماضی میں جا کر اور دیگر تواریخ و‬
‫روایات کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تناظر میں پڑھا جائے اور‬
‫اپنے ماضی ک ے حوالے سے درست حقائق کی بازیافت کی کوشش کی جائے۔ اینگلو انڈین‬
‫ناولوں یا ان کے تراجم کو پڑھ کر قاری بعض اوقات تباہ حالی اور دردناک آوازوں میں‬
‫کھو جاتا ہے جو باال دستوں کے جبر کا ماتم کرتی سنائی دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ‬
‫تہذیب کی کہانی بھی بین السطور ان اوراق میں سامنے آتی ہے۔‬
‫اینگلو انڈین ادب کا اپنا ایک الگ اسلوب ہے جسے برصغیر کی مقامی تہذیبوں کے‬
‫تاریخی‪ ،‬تہذیبی و ثقافتی اور دینی عناصر کے تال میل سے تشکیل دیا گیاتھا۔ ان ناولوں‬
‫کے موضوعات بھی خاصے وسیع ہیں جیسے تہذیب و ثقافت کی عکاسی‪ ،‬نسلی امتیاز‪،‬‬
‫جڑوں ک ی تالش‪ ،‬تہذیبی تصادم‪ ،‬جنریشن گیپ‪ ،‬انسان دوستی‪ ،‬تنہائی و بیگانگی‪ ،‬معاشرت‬
‫اور شناختی بحران وغیرہ۔ ان ناولوں کے کردار اور کہانیاں برصغیر کے عالوہ بیرون‬
‫برصغیر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں مقامیت کے عالوہ عالمی زاویہ بھی اجاگرہوتا‬
‫نظر آتا ہے۔‬
‫اینگلو انڈین ن اولوں کی یہی وہ ظاہری اور مخفی خصوصیات تھیں جنھیں ذہن میں‬
‫رکھ کر زیر نظر مقالے کا خاکہ تیار کیا گیا جو کہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب‬
‫میں نظری مباحث کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس میں تہذیب‪ ،‬ثقافت کے‬
‫بنیادی تصورات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہند مسلم تہذیب کے نقوش کو اجاگر کیا گیا‬
‫ہے۔ پھر اس کے بعد نوآبادیاتی عہد اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے تہذیبی بحران‬
‫احاطہ نور میں النے کے ساتھ ہی مستشرقین کی خدمات کا جائزہ‬ ‫ٔ‬ ‫کی مختلف جہات کو‬
‫برصغیر کے تہذیبی اور تاریخی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔‬
‫مقالے کے دوسرے باب میں انگریزی فکشن کے آغاز و ارتقاء کا جائزہ لیا گیا ہے‬
‫ساتھ ہی ہندوستان کے مقامی ادبا کی انگریزی اور اینگلو انڈین نگارشات کے تعارفی‬
‫حوالہ قرطاس کیا گیا ہے۔ اسی باب کے آخری حصے میں منتخب اینگلو‬ ‫ٔ‬ ‫جائزے کو بھی‬
‫انڈین ناولوں کا تعارفی مطالعہ شامل کیا گ یا ہے۔ زیر تحقیق ناولوں میں ای ایم فاسٹر کا‬
‫ناول ’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘‪ ،‬رڈیارڈ کپلنگ کا ’’ ِکم‘‘‪ ،‬پال اسکاٹ کا ’’راج کوارٹٹ‘‘‪ ،‬تھیکرے‬
‫کا ’’وینٹی فیئر‘‘ اور جان ماسٹرز کا ’’بھوانی جنکشن‘‘ شامل ہیں۔‬
‫مقالے کے تیسرے باب میں ای ایم فاسٹر اور رڈیارڈ کپلنگ کی تخلیقات میں ہند‬
‫مسلم تہذیب کی استحضاریت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اسی باب میں ہندوستانی فنون‬
‫لطیفہ‪ ،‬رسوم و رواج اور تہذیب کے مختلف مظاہر کو دائر ٔہ تحریر میں النے کی کوشش‬
‫کی گئی ہے۔ ان ہر دو مصنفین نے اپنی تخلیقات میں ہندوستانی تہذیب‪ ،‬ثقافت‪ ،‬سیاست‪،‬‬
‫ادب‪ ،‬فنون لطیفہ‪ ،‬مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا ہے جبکہ مقامی افراد کی‬
‫انفرادی نفسیات کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی‬
‫حوالہ قرطاس کیا ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫سماجی و معاشرتی حاالت کو بھی‬
‫مقالے کے چوتھے باب میں پال اسکاٹ کے راج کوارٹٹ کے باطن میں پوشیدہ‬
‫ہندوستانی تاریخ و معاشرت کی بازیافت کی گئی ہے۔ اس میں جا بجا ہندوستانی معاشرت‬
‫کے متنوع رنگ بھی بکھرے پڑے ہیں اس تاریخی ناول میں مصنف نے ہندوستان کی‬
‫عصری تاریخ کی تقلیب فکشن کے اندر ہی کر دی ہے۔ اسی باب میں بھوانی جنکشن میں‬
‫اینگلو انڈین کمیونٹی کے تہذیبی اور شناختی بحران کے المیے کو اجاگر کیا گیا ہے جب‬
‫برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوا تو اس شناختی بحران نے شدت اختیار کر لی۔‬
‫پانچویں باب میں ان تمام ناولوں کے مختلف کرداروں کا تہذیبی و سماجی پس‬
‫منظر میں سیر حاصل جائزہ لیا گیا ہے۔ اس معروضی تجزیے میں مسلم کردار‪ ،‬ہندو‬
‫کردار‪ ،‬نسوانی کردار اور انگریز کردار شامل ہیں۔‬
‫اس مقالے کی تکمیل میں کوشش کی گئی ہے کہ بنیادی مصادر سے استفادہ کیا‬
‫جائے ۔ بالخصوص انگریزی ناولوں کے متون اور ان کے ضمن میں تخلیقی کتب و‬
‫تحقیقی مقاالت کو اولیت دی گئی ہے۔ حسب ضرورت تنقید و تحقیق کی غرض سے ثانوی‬
‫مصادر کی جانب رجوع بھی کیا گیا ہے۔ جس عہد کی بات ہو اسی عہد کے ماخذ تک‬
‫رسائی کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ سلیس اور تلخیص سے اختصار و ایجاز سے کام‬
‫لینے کی ہر ممکن سعی کی گئی ہے تاہم ناولوں کے اقتباسات کو جگہ دینا ناگزیر تھا اور‬
‫مقصد بھی یہی تھا کہ بنیادی مصادر سے دوری نہ ہونے پائے۔ا س معاملے میں اہم مسئلہ‬
‫انگریزی سے اردو تراجم کا تھا۔ کیوں کہ بنیادی طور پر یہ مقالہ انگریزی ناولوں کے‬
‫تحقیقی مطالعہ پر مشتمل تھا۔ اس کے لیے کوشش کی گئی کہ ناول نگاروں کے ما فی‬
‫الضمیر کو ادا کرنے کا خاطر خواہ اہتمام کیا جائے۔ تاہم ترجمہ پھر بھی ترجمہ ہے۔ ایک‬
‫زبان کے کسی بھی ہمہ جہت لفظ کو دوسری زبان اور تہذیب کے سیاق و سباق میں بٹھانا‬
‫کار دشوار ہے۔ پھر ترجمہ بھی ایک مغربی زبان سے مشرقی زبان میں کرنا اس‬ ‫ایک ِ‬
‫لیے بھی مشکل ہے کہ دونوں زبانوں کی ساخت میں بعدالمشرقین ہے مگر جہاں تک‬
‫ممکن ہوا اصل کے قریب رہنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔‬
‫ابھی یہ عنوان منظوری کے مراحل تک نہیں پہنچا تھا کہ والدہ محترمہ کا اچانک‬
‫انتقال ہو گیا ۔ اس ذاتی صدمے سے ذہن پر جمود و تعطل اور قبض کی وہ کیفیت طاری‬
‫ہوئی کہ ایسا محسوس ہوا گویا خامہ و قرطاس سے کبھی آشنائی نہ تھی۔‬
‫شعبہ اردو‪ ،‬ڈاکٹر ارشد محمود‬
‫ٔ‬ ‫ساحر‪ ،‬چیئرمین‬
‫ؔ‬ ‫ایسے میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز‬
‫ناشاد‪ ،‬ڈاکٹر محسنہ نقوی اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر جیسے محترم و مکرم اساتذہ کرام‬ ‫ؔ‬
‫کی خصوصی توجہ اور شفقت نے منزل مقصود تک رسائی سہل بنا دی۔ ان سب محترم‬
‫ہستیوں کے لیے دعا گو ہوں۔‬
‫نگران مقالہ ڈاکٹر محمد سفیر اعوان شعبہ انگریزی انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی‬
‫اسالم آباد (حالیہ ڈین نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسالم آباد)نے قدم قدم پر‬
‫رہنمائی فرمائی اور خاص طور پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے امریکہ روانگی سے قبل‬
‫ق یمتی لمحات اس مقالے کی تکمیل کے لیے عنایت فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی‬
‫خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‬
‫مقالے کی تکمیل کے دوران بسا اوقات ایسے دشوار گزار مقام بھی آئے کہ ہمت‬
‫جواب دے جاتی اور قلم ساتھ چھوڑ بیٹھتا مگر میری یہ خوش نصیبی تھی کہ ڈاکٹر سید‬
‫کامران عباس کاظمی جیسے مشفق و مہربان دوست کی رفاقت میسر رہی انہوں نے ابتدا‬
‫سے انتہا تک میری رہنمائی کی اور گراں بہا علمی و ادبی مشوروں سے بھی نوازا۔ ان‬
‫کے لیے تشکر کے بے پایاں جذبات رسمی الفاظ میں سموئے نہیں جاسکتے۔‬
‫پروفیسر محمد اسلم کہوٹ (پرنسپل)‪ ،‬سید قمر عباس کاظمی‪ ،‬ڈاکٹر افتخار حیدر‬
‫ملک‪ ،‬ملک جمیل الرحمٰ ن‪ ،‬اسد قیوم‪ ،‬محمد اشر ف آصف‪ ،‬محمد ارسالن راٹھور‪ ،‬محبوب‬
‫عالم‪ ،‬شاہ فاروق رحمانی‪ ،‬غالم حسین (کریالہ)‪ ،‬محمد نذیر اور کئی دوسرے صاحبان‬
‫تحقیق و تصنیف جن سے میں نے براہ راست یا بالواسطہ استفادہ کیا ان سب کا بھی تہہ‬
‫دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‬
‫یہاں اس امر کا اظہار بھی بے محل نہ ہو گا کہ میری شریک حیات کے پیہم تعاون‬
‫نے میرا حوصلہ قائم رکھا۔ ہللا کریم ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔‬
‫آخر میں جناب شوکت جاوید کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے‬
‫بکھرے ہوئے الفاظ کو اپنی فنی مہارت اور خلوص کے ساتھ منظم تحریر کی شکل میں‬
‫ڈھال کر اس قابل بنایا کہ میں اسے پیش کر سکوں۔‬
‫طوبی ارشد‪ ،‬محمود الرحمٰ ن‬
‫ٰ‬ ‫یسری ارشد‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫معصوم اور پیارے بچوں روشنی طارق‪،‬‬
‫اور حسن محمود کا بھی شکریہ کہ وہ بھی اس تحقیقی سفر میں اپنے ننھے منے ہاتھوں‬
‫سے مجھے حتی المقدور آسانیاں فراہم کرنے میں پیش پیش رہے۔‬
‫اس مقالے میں جو خوبیاں موجود ہیں وہ میرے فاضل اساتذہ کرام ‪ ،‬نگران محترم‬
‫اور صاحب علم دوستوں کا ثمرہ ہیں‪ ،‬مقالے میں اگر کچھ کمزوریانراہ پا گئی ہوں تو ان‬
‫کا سزاوار راقم ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔‬
‫ہللا کریم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔‬

‫ارشد محمود‬
‫پوسٹ‬ ‫گورنمنٹ‬ ‫اسسٹنٹ پروفیسر‪،‬‬
‫گریجویٹ کالج‬
‫چکوال‬

‫باب اول‬
‫نوآبادیاتی عہد ‪ ،‬نظری مباحث‬
‫تصور تہذیب اور ہند مسلم تہذیب کا سوال‬
‫ِ‬ ‫الف‪:‬‬
‫ہند مسلم تہذیب کا ذکر ہوتے ہی ذہن میں برصغیر پاک و ہند کے نقوش ابھرتے‬
‫خطہ ارضی ہے جس کی تاریخ نہایت قدیم ہے جس کے آثار مختلف قسم کی‬ ‫ٔ‬ ‫ہیں۔ یہ ایسا‬
‫حجریات و حضریات سے معلوم ہوئے اور یہ تاریخی آثار و نقوش جریدۂ حیات میں کچھ‬
‫گردش آسمان اور تقویم ماہ و سال مٹا نہیں سکی۔‬
‫ِ‬ ‫اس طرح سے ثبت ہیں کہ انہیں‬
‫اس بر عظیم کے نقشے میں امت ِ مسلمہ نے اپنے صدیوں پر محیط قیام اور اقتدار‬
‫کے سائے میں ایک نئی تہذیب کے رنگ بھرے جو مختلف حوالوں سے انفرادیت کی‬
‫حامل تھی۔ تاریخ اسے ہند مسلم تہذیب کے نام سے جانتی ہے۔ ہمیں اسی تہذیب کے‬
‫خدوخال سے تعرض کرنا ہے اور چند انگریز مصنفین نے اس کی جو تصویر کشی کی‬
‫ہے اس کا جائزہ لینا ہے۔‬
‫تاہم ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب )‪ (Civilization‬اورثقافت )‪ (Culture‬کے‬
‫تصور پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اگرچہ یہ اصطالحات عمرانیات‪ ،‬تاریخ‪ ،‬فلسفے اور‬
‫ادب کے مباحث میں استعمال کی جاتی ہیں مگر ان کی وضاحت ان کی تعریفات‬
‫)‪ (Definitions‬کے حوالے سے مختلف بلکہ بعض اوقات متضاد انداز میں بھی پیش کی‬
‫جاتی ہے۔‬
‫بعض ماہرین کے مطابق عقیدے‪ ،‬اقدار اور اصو ِل حیات کی بنیادی قدریں‪ ،‬جو‬
‫کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو‬
‫معاشرے میں ایک الگ تشخص حاصل ہو وہ کلچر کہالتا ہے۔ جس کے نتیجے میں‬
‫مختلف علوم و فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع شکلیں‪ ،‬فن تعمیر کے نادر‬
‫نمونے معرض وجود میں آتے ہیں۔ معاشی‪ ،‬سیاسی ادارے تشکیل پاتے ہیں۔ اسی مجموعی‬
‫تشخص کو تہذیب)‪ (Civilization‬کا نام دیا جاتا ہے۔ عمرانی علوم کے ماہرین ان میں‬
‫سے ایک کو)‪ (Mentafacts‬ذہنی تشکیل اور دوسرے کو)‪ (Artefacts‬سماجی مظاہر‬
‫کا نام دیتے ہیں مگر یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں۔ اس طرح کلچر کسی بھی معاشرے‬
‫کا تہذیبی اظہار ہے اور تہذیب ایک ایسا ارتقائی عمل ہے جو کلچر کی مدد سے آزادانہ‬
‫پرورش پاتا ہے۔‬
‫ٰلہذا تہذیب کے صحیح تصور کو اجاگر کرنے کے لیے پہلے ثقافت‬
‫)‪ (Culture‬کے تصور کو واضح کرنے کے لیے مختلف ماہرین اور لغات سے رجوع کیا‬
‫جائے تو ہمارے سامنے کچھ اس طرح کی تصویر آ جاتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا کے مطابق‪:‬‬
‫کلچر کی اصطالح‪ ،‬دوسری اکثر مغربی اصطالحوں کی طرح مبہم اور مختلف المعنی‬
‫ہے۔ جس کے مختلف ادوار تاریخ اور مختلف زبانوں اور ملکوں اور مختلف علوم میں جدا‬
‫جدا ہیں۔ یہ لفظ ایک سے زیادہ شعبہ ہائے علم میں خصوصی معنوں میں استعمال ہوتا‬
‫ہے۔ (‪)1‬‬
‫)‪(Concise Oxford Dictionary‬میں لکھا ہے کہ دراصل یہ لفظ‬
‫(‪ Cultivation‬کاشت) کے معنوں سے ہوتا ہوا تربیت اور نشوونما اور ترقی کے منظم‬
‫عمل تک پہنچتا ہے اور یہ ترقی و تربیت صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ دیگر اشیا‬
‫مثالً نباتات اور حیوانات بھی اس میں شامل ہیں۔‬
‫‪Horticulture, Agriculture. "Any deliberate effort to develop the‬‬
‫)‪qualities of some objects." (2‬‬
‫پھر بہت جلد اس کا اطالق کسی ’’تعلیم یافتہ‘‘ آدمی کے عملی اکتساب و تحصیل پر‬
‫ہونے لگا۔‬
‫‪Actual attainments of an educated person‬‬
‫شائستہ اخالق‪ ،‬خوش ذوقی‪ ،‬فنی استعداد اور کسب علوم جو تعلیم کا نتیجہ ہوتے‬
‫ہیں کلچر کہالتے ہیں۔ اس طرح یہ بھی قابل غور ہے کہ پرانے زمانے میں یہ لفظ کبھی‬
‫)‪(Civilization‬کا ہم معنی ہوا اور کبھی اس سے الگ معنی میں آتا رہا۔‬
‫سب سے پہلے کلیمن )‪ (Klemin‬اور ٹائلر )‪ (Tylor‬نے اس کے وہ معنی متعین‬
‫کیے جو علم بشریات میں اب عام ہیں۔‪ Tylor‬نے اس میں وسعت پیدا کر کے کسی قوم( یا‬
‫اجتماع ) کی ساری مجلسی زندگی تک پھیال دیا۔ رسم و رواج‪ ،‬فنون لطیفہ و مفیدہ‪ ،‬حالت‬
‫امن و جنگ میں نجی اور مجلسی زندگی‪ ،‬مذہب‪ ،‬علوم اور آرٹ۔۔۔ سب اس میں شامل ہو‬
‫ئے۔ ٹائلر کے بعد کلچر کے بشریاتی معنی عام ہو گئے اور اس کی بے شمار تعریفیں‬
‫سامنے آئیں۔ ایک عام تعریف یہ ہے۔‬
‫کلچر عبارت ہے (انفرادی و مجلسی) رویے سے‪ ،‬جس میں افکار‪ ،‬علم‪ ،‬عقائد اور اصولی‬
‫اقدار وغیرہ حصہ ‪،‬لیتی ہیں۔ (‪(3‬‬
‫‪"Modes of behaviour, ..... and also ideas, knowledge, beliefs,‬‬
‫‪norms, values and other things.‬‬
‫ثقافت کی تعریف کے ذیل میں چند دیگر تعبیرات کو بھی ذیل میں پرکھنے کی‬
‫کوشش کی جائے گی جیسا کہ‪ Bagby Philip‬نے ثقافت کے چند معنی یوں پیش کیے‬
‫ہیں۔‬
‫‪1. Culture is value‬‬
‫‪2. It is norms‬‬
‫‪3. It is learned or symbolizing or habitual behaviour‬‬
‫‪4. It is a stream of ideas or a social organism‬‬
‫‪5. Ways of life‬‬
‫‪6. All aspects of social life‬‬
‫‪7. Major departments of human activity:‬‬
‫‪religion, politics, economics, art, science, technology,‬‬
‫‪language and customs.‬‬ ‫‪education,‬‬
‫‪8.‬‬ ‫‪Culture includes modes of thinking and feeling and‬‬
‫‪behaviour...... but not any invisible entity which determined these‬‬
‫‪modes.‬‬
‫‪9. Culture is regularities of those modes of behaviour, internal‬‬
‫‪and external, of the members of a society, which are not clearly‬‬
‫)‪hereditary in origin. (4‬‬
‫آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق‪:‬‬
‫‪Cultrue:‬فنون اور دیگر ذہنی کماالت‪ ،‬کرشمے‪ ،‬بحیثیت مجموعی تہذیب‬
‫وثقافت‪ ،‬خوش ذوقی‪ ،‬نفاست پسندی‪ ،‬ذہنی مشاغل کا فروغ‪ ،‬ایک مخصوص دور کے رسم‬
‫و رواج‪ ،‬تہذیب اور کارنامے‪ ،‬ذہنی یا جسمانی تربیت کے ذریعے ترقی‪ ،‬نشوونما‪ ،‬مگس‬
‫اور ریشم کے کیڑے پالنا وغیرہ۔ (‪(5‬‬
‫میریم ویبسٹر ڈکشنری)‪(Meriam Webster Dictionary‬‬
‫)ثقافت) کلچر‪:‬‬
‫‪-1‬شعوری اور اخالقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعے‬
‫‪-2‬شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت‬
‫‪-3‬فنون لطیفہ جو کہ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماورا ہوں‬
‫‪ -4‬انسانی معلومات کا مجموعہ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی‬
‫وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی منتقلی پر ہو۔‬
‫‪-5‬کسی گروپ کے رسوم و رواج‪ ،‬مادی اوصاف اور آپس میں سلوک و تعلق (‪(6‬‬
‫فیروزاللغات میں ثقافت کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے‬
‫عقلمند ہونا ‪ ،‬نیک ہونا‪ ،‬کسی طبقے کی تہذیب ‪ ،‬تمدن وغیرہ (‪(7‬‬
‫ابواالعجاز حفیظ صدیقی ’’کشاف تنقیدی اصطالحات‘‘ میں لفظ ثقافت کے ضمن میں‬
‫رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫کر ٔہ ارض پر بسنے والے انسانی گروہوں نے اپنی مادی اور روحانی ضروریات کو‬
‫تسکین دینے اور ایک منظم ا ور مربوط معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ نصب‬
‫العین وضع کیے‪ ،‬رہن سہن کے کچھ طریقے ایجاد کیے‪ ،‬کچھ ریتیں اور رسمینبنائیں‪،‬‬
‫کچھ قوانین وضع کیے‪ ،‬حالل اور حرام کے درمیان کچھ امتیازات قائم کیے‪ ،‬کچھ نظریات‬
‫و تصورات اور علوم و فنون سے دلچسپی لی۔ اس طرح سماجی تعلقات کے تعاون سے‬
‫(جو خود بھی اس طرح وجود میں آئے تھے) ان اکتسابات نے ذیلی اختالفات کی گنجائش‬
‫کے باوجود افراد معاشرہ میں تنظیم اور یکسانی کردار پیدا کی۔ ان کی افادیت مسلّم ٹھہری‬
‫چنانچہ اگلی نسل تک انہیں منتقل کرنا ضروری ہوا۔ نسالً بعد نسل منتقل ہونے والے‬
‫اکتسابات کے اس مجموعہ کو کلچر یا ثقافت کہتے ہیں۔ (‪(8‬‬
‫نیو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں کلچر)‪ (Culture‬کی تعریف یوں متعین کی گئی‬
‫ہے۔‬
‫ـ ‪"The integrated pattern of human knowledge belief and behaviour‬‬
‫‪culture thus defined consists of languge, ideas, beliefs, customs,‬‬
‫‪taboos, codes, institutions, tools, techniques, works of art, rituals,‬‬
‫‪ceremonies and other related components and development of‬‬
‫‪culture depends upon man's capacity to learn and transmit‬‬
‫)‪knowledge to succeeding generations." (9‬‬
‫اردو انسائیکلو پیڈیا میں ’’ثقافت‘‘ کی وضاحت کچھ اس طرح ہوئی‪:‬‬
‫عربی لفظ‪ ،‬جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ ثقافت اکتسابی یا ارادی یا‬
‫شعوری طرز عمل کا نام ہے اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات‪ ،‬افعال‪،‬‬
‫خیاالت‪ ،‬رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی‬
‫حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پر عمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کی خواہش رکھتے‬
‫ہیں ‪ ،‬تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک نہیں ہوسکی۔ (‪(10‬‬
‫ْ‪ ،A. L. Krober‬انسائیکلو پیڈیا آ ف سوشل سائنسز میں ثقافت کی تعریف بیان کرتے‬
‫ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ثقافت مرکب ہے معاشرتی وراثت)‪ (Social Heritage‬کے طور پر ملنے والے فنون‪،‬‬
‫اشیا ‪ ،‬تکنیکی‪ ،‬عملی عقائد‪ ،‬تصورات‪ ،‬عادات و اطوار کا (‪(11‬‬
‫مجلہ اوراق کے ایک مستقل سلسلہ ’’سوال یہ ہے‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کلچر کے‬
‫اصطالحی معنی یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫انسا ن کے وہ تخلیقی اقدامات جن کی مدد سے اس نے اپنی ذات کے گھنے جنگل میں‬
‫راستے بنائے اور پھر ایک مسلسل تراش خراش کے عمل سے ان راستوں کو قائم رکھا‪،‬‬
‫کلچر کے زمرے ہی میں شامل ہیں۔ (‪(12‬‬
‫’’ سوال یہ ہے؟‘‘میں ہی سید عبدہللا کلچر کی تعریف پر یوں روشنی ڈالتے ہیں‪:‬‬
‫کلچر وہ ہے جو اندر کی کسی غیر مرئی قوت کے زیر اثر خارج میں انسان کے اعمال و‬
‫افعال اور مادی ماحول میں ظہور پاتا ہے خواہ وہ ظہور افراد کی مادی زندگی میں ہو یا‬
‫اجتماع کے اعمال و افعال میں ہو۔ (‪(13‬‬
‫ڈاکٹر عطش درانی‪’’ ،‬اسالمی فکر و ثقافت‘‘ میں رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫ثقافت کا لفظ ثقف سے نکال ہے جس کے معنی ہنر یا سیکھنے کے ہیں۔ انگریزی میں اس‬
‫کا مترادف ’’کلچر‘‘ ہے جس کے معنی ہل چالنا یا کھیتی باڑی کے ہیں اور اصطالحا ً‬
‫’’انسانوں کے طریق زندگی‘‘ یا اس کل مجموعے یا طرز حیات کو کہا جاتا ہے جو انسان‬
‫غیر جبلی طور پر یعنی سیکھ کر انجام دیتا ہے۔ (‪(14‬‬
‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری ثقافت کے ضمن میں رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫متمدن زندگی میں جسے کسی قوم یا ملت کی ثقافت کہا جاتا ہے وہ اس قوم کی علمی‪،‬‬
‫فکری ‪،‬تخیّلی‪ ،‬تاریخی‪ ،‬اخالقی ‪،‬مذہبی اور ذہنی و روحانی ترقیات و فتوحات کا نچوڑ‬
‫حاصل ہوتا ہے۔ (‪(15‬‬
‫ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق‪:‬‬
‫کلچر اس کل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد‪ ،‬علوم اور اخالقیات‪ ،‬معامالت اور‬
‫صرف اوقات اور ساری‬ ‫ِ‬ ‫معاشرت فنون و ہنر‪ ،‬رسم و رواج‪ ،‬افعال ارادی اور قانون‪،‬‬
‫عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے‬
‫اور جن کے برتنے س ے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و‬
‫مماثلت‪ ،‬وحدت اور یکجہتی پیدا ہو جاتی ہے۔ (‪(16‬‬
‫خلیفہ عبدالحکیم ثقافت کی تعریف متعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫بلحاظ مادہ کسی لفظ کے معنی نہایت سادہ ہوتے ہیں لیکن جب وہ لفظ اصطالح کے طور‬
‫پر استعمال ہونے لگے تو اس کے مفہوم میں بڑی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ثقافت کا عربی‬
‫سہ حرفی مادہ ثقف ہے جس کے معنی ہیں درست کرنا‪ ،‬سنوارنا اور بل نکالنا‪ ،‬چنانچہ تیر‬
‫کو آگ میں تپا کر سیدھا کرنے کو تثقیف کہتے ہیں۔ (‪(17‬‬
‫پروفیسر کرار حسین کے مطابق‪:‬‬
‫کلچر کسی معروف معاشرے کے مخصوص طرز زندگی کا نام ہے۔ (‪(18‬‬
‫فیض احمد فیض کلچر کے ضمن میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫پورے طریقہ زندگی کو کلچر کہتے ہیں جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ کلچر کی اثر‬
‫اندازی ذہنی طور پر بھی ہوتی ہے‪ ،‬عقائد و اقدار کے ذریعے بھی‪ ،‬عملی طور سے بھی‬
‫زندگی کے آداب و رسوم سے اور زندگی کے روز مرہ کا محاورہ ہے اس کے ذریعے‬
‫بھی اس میں اجتماعی زندگی کی ظاہری اور باطنی تفاصیل دونوں شامل ہوتی ہیں۔ فنون‪،‬‬
‫ادب‪ ،‬موسیقی‪ ،‬مصوری‪ ،‬فلم وغیرہ اسی کلچر یا‪ way of life‬کے تراشے ہوئے اور‬
‫منجھے ہوئے اجزا ہوتے ہیں۔ (‪(19‬‬
‫منشی عبدالرحمٰ ن ثقافت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ثقافت پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ زندگی کی کلیت ‪ ،‬تہذیب‪ ،‬تمدن‪ ،‬معاشرت‪،‬‬
‫معامالت اور طرز زندگی کا نام ہے۔ اس میں رہن سہن سب شامل ہے۔ غیر مسلموں کے‬
‫نزدیک بھی ثقافت راگ و رنگ کا نام نہیں۔ ہندوستان کے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے‬
‫غیر مسلم سیکرٹری مسٹر سموئل میتھائی کے قول کے مطابق ’’ثقافت محض گانے اور‬
‫ناچنے کو ہی نہیں کہتے‪ ،‬ثقافت زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے۔ (‪(20‬‬
‫ٹی ایس ایلیٹ )‪ (T. S. Eliot‬نے فرد‪ ،‬گروہ یا جماعت اور معاشرے کے باہمی‬
‫تعامل پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں ثقافت کے تین مدارج قرار دیا ہے‪:‬‬
‫می را نظریہ یہ ہے کہ فرد کی ثقافت کا انحصار اس گروہ‪ ،‬قبیلے یا جماعت پر منحصر‬
‫ہے جس سے وہ نسبت رکھتا ہے اور گروہ یا جماعت کی ثقافت کا انحصار اسی معاشرے‬
‫پر ہے جس کا کہ وہ ایک حصہ ہے اس لیے معاشرے کی اجتماعی ثقافت کو ہی اولیت‬
‫حاصل ہے۔ (‪(21‬‬
‫ماہر بشریات مالنوسکی )‪ (Malinowsky‬ثقافت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ثقافت ایک مربوط اکائی ہے جس میں اوزار ہتھیار‪ ،‬صارفین کی کل اشیاء‪ ،‬انسانی افکار‪،‬‬
‫عقائد و رسوم و رواج سب شامل ہیں۔ (‪(22‬‬
‫ٰلہذا ثقافت گوناں گوں تخلیقی عمل ہے۔ تجریدی سطح پر یہ افکار کی تشکیل کرتا‬
‫ہے اور اظہار کی سطح پر ادب‪ ،‬سائنس‪ ،‬فلسفہ‪ ،‬آرٹ اور موسیقی کے ذریعے منصہ‬
‫شہود پر آتا ہے۔‬
‫یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافت سے مراد سماجی زندگی کے فکری عناصر ہیں‬
‫جن کی بنیاد پر افراد کے مابین باہمی رشتے اور تعلقات تشکیل پاتے ہیں اور قوم کی ایک‬
‫امتیازی شکل ابھرتی ہے۔‬
‫تہذیب کے موضوع کو سمجھنے کے لیے پہلے ثقافت کی متنوع تعریفات بیان کی‬
‫گئی ہیں۔ اب تہذیب کے معنی کی وضاحت کے لیے مختلف ماہرین کے خیاالت سے‬
‫استفادہ کیا جاتا ہے۔‬
‫بنیادی طور پر تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی کانٹ چھانٹ اور‬
‫شاخ تراشی کے ہیں ۔ مگر تہذیب محض ایک لفظ نہیں ایک وسیع تر اصطالح اور جامع‬
‫تصور ہے جس کی مختلف تشریحات پیش کی گئی ہیں۔ اس سے مراد صرف شجر و حجر‬
‫کی تراش خراش اور اس کی آراستگی ہی نہیں بلکہ انسانی کردار کی تراش خراش یعنی‬
‫اصالح و شائستگی متعین کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تہذیب ان افکار و نظریات اور‬
‫عقائد کا نام بھی ہے جس سے انسان کے اخالق و کردار میں شائستگی اور اصالح پیدا ہو‬
‫سکے۔‬
‫آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق‪:‬‬
‫اعلی منزل‪ ،‬مہذب اقوام‪ ،‬وہ لوگ یا اقوام جو‬ ‫ٰ‬ ‫‪Civilization:‬تہذیب‪ ،‬سماجی ترقی کی‬
‫سماجی ارتقا کا ایک حصہ یا کڑی تصور ہوں۔ (‪(23‬‬
‫کیمبرج ڈکشنری کے مطابق‪:‬‬
‫اعلی ترقی یافتہ ادارے رکھنے واالانسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا‬ ‫ٰ‬ ‫بہت‬
‫طریقہ۔ (‪(24‬‬
‫میریم ویبسٹر ڈکشنری میں تہذیب کی وضاحت یوں بیان ہو ئی ہے‪:‬‬
‫اعلی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریروں کو‬ ‫ٰ‬ ‫مقابلتا ً‬
‫محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو۔ خیاالت‪ ،‬عادات اور ذائقہ کی شستگی یا آراستگی۔‬
‫(‪(25‬‬
‫ڈاکٹر سید عبدہللا کلچر کو تہذیب کا ایک رخ قرار دیتے ہیں‪:‬‬
‫کلچر‪ ،‬تہذیب کا ایک رخ ہے۔ کلچر‪ ،‬تہذیب کے ذہنی و دماغی رخ سے عبارت ہے۔‬
‫(‪(26‬‬
‫ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کے مطابق‪:‬‬
‫تہذیب کسی قوم کے علوم و فنون‪ ،‬اخالق و اقدار سے تعلق رکھتی ہے۔ بہت سے رسم و‬
‫رواج جو تہذیبی زندگی کا جزو ہوتے ہیں‪ ،‬تمدنی یا خارجی ماحول میں اپنی شکل وضع‬
‫کرتے ہیں۔ (‪(27‬‬
‫ان تمام تعریفات کے بغور مطالعے سے معلوم ہوتا کہ تہذیب ایک ایسا ارتقائی عمل‬
‫ہے جو کلچر کی مدد سے آزادانہ پرورش پاتا ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا آپس میں چولی‬
‫دامن کا ساتھ ہے مگر تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی۔ بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی‬
‫ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے۔ تہذیب اور ثقافت کے باہمی فرق کو سمجھنے کے‬
‫لیے مختلف ماہرین کی آراء پیش کی جاتی ہیں‪:‬‬
‫ڈاکٹر سلیم اختر‪ ،‬اپنے ایک مضمون ’’کلچر کی لہریں‘‘ میں اس فرق کو یوں واضح‬
‫کرتے ہیں‪:‬‬
‫تہذیب ایک تسلسل کا نام ہے اور یہ دریا کے بہائو کی مانند ہے ایسا دریا جس کا منبع‬
‫کہیں دور ماضی بعید کی تاریکی میں نہاں ہے اور اسی دریا کے مختلف مقامات پر‬
‫ابھرتی اور ڈوبتی لہریں کلچر۔ (‪(28‬‬
‫ریاض انور تہذیب اور ثقافت کے باہمی ربط کے متعلق رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫تہذیب ہماری حیات کے ظاہری پہلو کا نام ہے۔ برخالف اس کے ہمارے اندرونی اور‬
‫داخلی افکار و احساسات ہماری ثقافت کو آشکار کرتے ہیں۔ (‪(29‬‬
‫ایک اور مفکر نے بیج کے مغز اور چھلکے کی خوبصورت مثال کے ذریعے بتایا‬
‫کہ کلچر اور تہذیب میں وہی فرق ہے جو بیج کے مغز اور چھلکے میں ہوتا ہے۔ کلچر‬
‫مغز ہونے کے باعث تخلیق کا منبع ہے جبکہ تہذیب کی حیثیت اس محافظ کی سی ہے جو‬
‫چھلکے کی صورت میں مغز کی حفاظت کرتا ہے۔ کلچر بنیادی طور پر کومل‪ ،‬گداز‪،‬‬
‫قوت کی نمو کا خزینہ اور ارتقا کا محرک ہے۔ جب کہ تہذیب اصولوں اور قدروں‪ ،‬قوانین‬
‫اور ضوابط‪ ،‬رسوم و رواج کے تابع اور اس لیے بیضوی لیٹی ہوئی اور بے لچک ہے۔‬
‫اشفاق احمد کے مطابق‪:‬‬
‫تہذیب ایک طرح سے وہ کینوس ہے جس پر تصویر و رنگ نمودار ہوتا ہے اسی طرح‬
‫کلچر کو اگر رنگ و تصویر سمجھ لیا جائے تو کینوس ان کے بغیر کچھ نہیں۔ کلچر‬
‫زندگی ہے‪ ،‬حیات ہے‪ ،‬تہذیب ضابطہ ہے‪ ،‬تہذیب عقیدہ ہے۔ کلچر کا سارا دارومدار اس‬
‫کی ساری بنیاد‪ ،‬اس کی ساری فائونڈیشن‪ ،‬اس کی ساری اساس‪ ،‬اس کے اعتقادات پر ہوتی‬
‫ہے۔ (‪(30‬‬
‫صاحبان علم و دانش کی جملہ تعریفات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب اور‬
‫ثقافت میں ایسا کوئی بڑا اختالف بھی نہیں کہ دونوں کی راہیں الگ ہو جائیں بلکہ دونوں‬
‫تصورات اور اصطالحیں باہم مربوط ہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیب کا تعلق‬
‫کسی فکر‪ ،‬نظریے اور عقیدے کے نتیجے میں فکری ارتقا سے ہے یعنی کہ تہذیب فکر و‬
‫شعور‪ ،‬فہم و ادراک اور نظریات و تصورات سے متعلق ہوتی ہے۔ جب کہ ثقافت اس‬
‫فکری ارتقا کے نتیجے میں عملی طور پر جو کچھ معرض وجود میں آتا ہے ان عملی‬
‫مظاہر ہی کا نام ہے جو کہ زندگی کے مختلف زاویوں جیسے کہ زبان‪ ،‬ادب‪ ،‬لباس‪ ،‬فنون‬
‫لطیفہ اور دیگر سماجی‪ ،‬معاشی‪،‬سیاسی رویوں کسی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔‬
‫تاہم ان تمام فکری مباحث اور متنوع تصورات سے صرف نظر کرتے ہوئے راقم نے زیر‬
‫طرز‬
‫ِ‬ ‫طرز فکر‪،‬‬
‫ِ‬ ‫نظام ُکلی کے مفہوم میں لیا جو‬
‫ِ‬ ‫نظر مقالے میں تہذیب کو زندگی کے‬
‫احساس اور طرز عمل سب کو محیط ہے گویا تہذیب ایک طرف افکار اور عقائد سے‬
‫ت اجتماعی کے اداروں اور فنون کے لباس میں‬ ‫بحث کرتی ہے اور دوسری طرف حیا ِ‬
‫جلوہ گر ہوتی ہے۔‬

‫ب‪ :‬ہند مسلم تہذیب‬


‫مجموعہ اقوام اور گہوار ٔہ ملل رہی۔ یہاں مختلف اقوام اور‬
‫ٔ‬ ‫ہندوستان کی سرزمین‬
‫مختلف مذاہب کے باشندے صدیوں سے آباد رہے ہیں مگر ایک سر زمین کے باشندے‬
‫ہوئے ہوئے بھی اپنے تہذیب اور تمدن میں نہ صرف مختلف بلکہ متضاد و متبائن بھی‬
‫ہیں۔ کیوں کہ اقوام ہند کی فطرت‪ ،‬جبلت‪ ،‬معاشرت‪ ،‬رسوم و رواج اور عادات و خصائل‪،‬‬
‫مذاہب جدا جدا تھے مگر اختالط و امتزاج نے ان کی انفرادیت کو متاثر کیا اور ان اقوام‬
‫کے درمیان لین دین کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کیوں کہ ان اقوام و ملل کے باہمی اختالط‬
‫کے نتیجے میں فکری اور تہذیبی اثرات بھی قبول و استرداد کی منزل سے گزرے مگر‬
‫گوشہ حیات پر قائم ہوا نہ ان کی انفرادیت مٹ سکی۔ یہ ضرور‬
‫ٔ‬ ‫اسی اشتراک کا تسلط ہر‬
‫کہا جا سکتا ہے کہ پارسی جب ایران سے یہاں آئے تو یہاں صدیاں گزارنے کے اثرات‬
‫قافلہ سبک سیرز میں گیر بھی جب عرب سے یہاں‬ ‫ٔ‬ ‫ان پر منتقل ہوئے اور مسلمانوں کا‬
‫پہنچا تو ہزار سالہ قیام ہندوستان سے ان میں بھی کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔‬
‫خطہ ٔ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی‪ ،‬سماجی‪ ،‬مذہبی اور لسانی حوالے سے تاریخ‬
‫میں ایک خاص اہمیت ہے۔ سرزمین عرب میں جب نوراسالم پھیال تو عرب اور ہند کے‬
‫تجارتی تعلقات بدستور استوار رہے۔ طلوع اسالم کے ساتھ مسلمان مالحوں اور تاجروں‬
‫کے ہاتھوں عرب و ہند کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ ہندوستان کی تاریخ کے‬
‫مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر جو مسلم اقوام وقتا ً فوقتا ً وارد ہوئیں اور‬
‫حکمران بنیں ان میں عرب‪ ،‬ترک‪ ،‬افغان‪ ،‬مغل سب ہی شامل ہیں جنہوں نے مختلف‬
‫اوقات‪ ،‬مختلف حاالت اور مختلف انداز میں یہاں کی مقامی تہذیب کو متاثر کیا۔ ان سب‬
‫اقوام کا فکری سرچشمہ ایک تھا۔‬
‫‪ ۷۱۲‬ء مینحجاج بن یوسف کے عہد میں محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ اور ملتان‬
‫کی فتح نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا اور برصغیر کی تاریخ کے دھارے کا رخ‬
‫موڑ دیا۔ اور اس تہذیب و ثقافت کے نقوش ابھرنے لگے جسے آگے چل کر تاریخ نگاروں‬
‫اور محققین نے ہند مسلم یا ہند اسالمی تہذیب کا نام دیا اور جس نے برصغیر میننئی لسانی‬
‫تشکیالت اور سماجی ڈھانچے کے ایک وسیع سلسلے کو جنم دیا۔‬
‫اہل ہند اور مسلمان عربوں کے درمیان پہال باضابطہ سیاسی تعلق حجاج بن یوسف کے‬
‫عہد میں محمد بن قاسم کے ذریعے قائم ہوا۔ جس نے راجہ داہر کے لشکر جرار کو‬
‫شکست دی اور اٹھارہ مہینے کی قلیل مدت میں سندھ کو اسالمی خالفت کا ایک حصہ‬
‫بنادیا۔ سندھ میں مسلم حکومت کے قیام سے نہ صرف اسالم کی تاریخ کا ایک نیا اور اہم‬
‫باب کھال بلکہ براعظم کی تاریخ میں بھی انقالب عظیم آگیا۔ (‪)31‬‬
‫یہ ایسی تہذیب ہے جس کے اپنے کچھ امتیازات اور تفردات ہیں مثالً اس تہذیب‬
‫کے بنیادی نظریات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بقول غالم دستگیر رشید‪:‬‬
‫تہذیب کا ایک نظریہ اخالقی ہے اس میں اخالقی کماالت اور قدروں کو مقدم اہمیت دی‬
‫جاتی ہے۔ تہذیب کا دوسرا نظریہ اجتماعی ہے جس میں تمدنی اور معاشرتی تعلقات پر‬
‫زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ مراسم اور باہمی تعلقات کی خوشگواری اس کا اصل مطلوب ہے۔‬
‫تیسرا نظریہ تہذیب جمالیاتی ہے اس کی رو سے آرٹ کی تکمیل اور تحسین میں تہذیب‬
‫کی اصل شان جلوہ گر ہوتی ہے اور ان سب کی اصل احترام آدمیت ہے۔ (‪(32‬‬
‫ہند مسلم تہذیب کے جامع اور متوازن تہذیب ہونے کی یہی وجہ ہے کہ اس میں‬
‫خصوصیت کے ساتھ ان تمام عناصر کا برمحل لحاظ رکھا گیا ہے اور ان سارے عناصر‬
‫کا امتزاج توازن کے ساتھ صرف اسی تہذیب میں پایا جاتا ہے ؎‬
‫ق جمال‬ ‫عناصر اس کے ہیں‪ ،‬روح القدس کا ذو ِ‬
‫عجم کا حسن طبیعت‪ ،‬عرب کا سوز دروں‬
‫)اقبال۔ ضرب کلیم(‬
‫اسالم کے برصغیر میں آنے کے بعد علمی اور ثقافتی تبادلے کی کئی صورتیں‬
‫وجود میں آئیں جنہوں نے برصغیر کی سیاسی‪ ،‬سماجی‪ ،‬علمی‪ ،‬ادبی اور دوسرے کئی‬
‫شعبہ ہائے حیات میں انقالبی کیفیت پیدا کردی اور یہ انقالبی اثرات بہت دور رس اور دیر‬
‫پا ثابت ہوئے۔ اسی عہد میں جزائر مالدیپ‪ ،‬لنکا‪ ،‬ساح ِل گجرات‪ ،‬ماالبار اور جزائر شرق‬
‫ت اسالم ہوئی اور برصغیر کی ہند مسلم تہذیب کا نقش اولین ابھر کر‬ ‫الہند میں اشاع ِ‬
‫سامنے آیا جس کا غالب رنگ عربیت یعنی عربی زبان و ادب سے عبارت تھا۔ جس میں‬
‫قدرتی طور پر مقامی رنگوں کی آمیزش بھی تھی۔ اس ترکیب عمل سے ایسی تہذیبی‬
‫صورت کا ظہور ہوا جس میں فکر و عقیدہ کی وحدت بھی تھی اور ثقافتی تنوع اور‬
‫بوقلمون بھی۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اس تہذیب کے دامن میں اسالم جیسے توحید پسند‬
‫مذہب کے موتی بھی تھے اور عملی و ثقافتی میراث بھی۔ جس کے بارے میں یہ کہا جا‬
‫سکتا ہے کہ یہی وہ تہذیب ہے جس نے مسلمانوں کی سرپرستی مینصدیوں تک برصغیر‬
‫پاک وہند میں اپنی برتری کا لوہا منوایا۔‬
‫ثقافت کے اس انجذابی عمل کے بارے میں ہملٹن گب کا نظریہ ہے کہ‬
‫پہال قانون یہ ہے کہ جب ایک ثقافت کسی دوسری ثقافت سے اثر قبول کرتی ہے تو مقدم‬
‫الذکر میں پہلے سے ہی اس نوعیت کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ‬
‫بیرونی اثرات اس وقت تک پروان نہیں چڑھتے جب تک خود اندرونی رحجانات ان کی‬
‫ترتیب نہ کریں اور ان کے لیے زمین ہموار نہ ہو تیسرا قانون یہ ہے کہ کوئی قوم ان‬
‫بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتی جو اس کی اپنی بنیادی اقدار اور ہیجانی میالنات اور‬
‫جمالیاتی پیمانوں سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ (‪(33‬‬
‫اسی تیسرے اصول کے تحت تاریخ کے پس منظر میں اسالمی ثقافت کی وہ قوت‬
‫جو دوسری ثقافتوں سے انجذاب کرتی ہے ‪ ،‬بڑی توانا نظر آتی ہے اور یہاں کی مقامی‬
‫ثقافت کے س اتھ اس کے ربط نے جس ثقافتی دائروں کی تشکیل کی ہے ان کا بے پناہ‬
‫تنوع‪ ،‬کثرت میں وحدت کا خوبصورت نقش تخلیق کرتا ہے اور مسلم ثقافت کے حقیقی‬
‫تشخص کو اجاگر کرتا ہے۔ رہن سہن اور معاشرت میں کچھ ایسی تبدیلیاں سامنے آنے‬
‫لگیں کہ جن سے ایک نئی ثقافت کے خدوخال ابھرنے لگے اسی کو آگے چل کر وقت‬
‫اور تاریخ نے ہند مسلم ثقافت کا نام دیا اور یہ سارا عمل بغیر کسی تضاد تصادم کے‬
‫بجائے تفاہم کی عملی مثال ہے۔‬
‫تہذیب ایک زندہ نظام ہوتی ہے جو آسمانی اقدار اور زمینی ماحول کے امتزاج سے‬
‫جنم لیتی ہے اس کی قوت نمو کا انحصار اس کے بنیادی تصور کائنات و انسان پر اور‬
‫ارتقا کا دارومدار اہل تہذیب کی تخلیقی صالحیتوں پر ہوتا ہے۔‬
‫ت انسانی کے اصولوں پر استوار ہے جن‬ ‫تعالی اور وحد ِ‬
‫ٰ‬ ‫اسالمی تہذیب توحید باری‬
‫کی عملی صورت گری وحی کی روشنی میں ہوتی ہے۔ یہی خاصیت اس تہذیب کو ہمہ‬
‫گیر بناتی ہے اور عالم گیر بھی۔ اس کی جامعیت اسے فکر و عمل کے دوسرے‬
‫خطہ زمین پر پہنچی اور جس بھی قوم‬‫ٔ‬ ‫سرچشموں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یہ جس بھی‬
‫کی زندگی میں داخل ہوئی اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی اور اس نے کوئی‬
‫ایسا عنصر قبول نہیں کیا جو اس کی ماہیت قلبی کردے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ نئے ماحول‬
‫میں اظہار کی نئی صورتیں اختیار کیں۔ مثال کے طور پر اپنے عقائد و تصورات کی‬
‫حفاظت پر اصرار کرتے ہوئے زبان و علم کے نئے پیکر قبول کرتی ہے۔ یہی صورت‬
‫حال اس کے جمالیاتی اور اخالقی عناصر کی ہے۔‬
‫برصغیر میں مسلم تہذیب ایک ایسے شجر سایہ دار کی صورت جلوہ گر ہوئی جس‬
‫نے اس مٹی سے قوت حیات حاصل کی اور جغرافیائی ماحول کے کینوس پر ایک منفرد‬
‫تصویر بنائی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی‪:‬‬
‫ہند مسلم تہذیب اس برصغیر میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ دور حکومت میں یہاں کی‬
‫فضا‪ ،‬مزاج ‪،‬آب و ہوا اور میل جول؛ کے زیر اثر پروان چڑھی ہے جس میں عربوں کا‬
‫مذہبی جوش اور آدرش بھی شامل ہے اور افغانیوں‪ ،‬ایرانیوں‪ ،‬ترکمانیوں اور مغلوں کا‬
‫مزاج اور روح بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی روح نے برصغیر پاک وہند کی روح کو‬
‫اپنے مزاج میں سمو کر ایک ایسا نمونہ پید اکیا تھا جو کم و بیش آ ج برصغیر کی زندہ‬
‫تہذیب کی بنیاد ہے۔ (‪(34‬‬
‫اسی تہذیب نے برصغیر کی اجتماعی حیات میں جو حرکت اور حسن پیدا کیا وہ‬
‫لوح زمان پر نقش ہے اس کی بڑی بڑی‬ ‫مختلف اداروں اور فنون کے مظاہر کی شکل میں ِ‬
‫صورتیں اردو زبان‪ ،‬اقدار و روایات‪ ،‬رسوم و رواج‪ ،‬فنون لطیفہ‪ ،‬فن تعمیر‪ ،‬عقائد و‬
‫نظریات وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں۔‬

‫ج‪ :‬نوآبادیاتی عہد اور تہذیبی بحران‬


‫نو آبادیاتی دور وہ ہوتا ہے جس میں برا ِہ راست مقامی آبادی اور باشندونکے‬
‫بجائے کوئی غیر ملکی طاقت اقتدار پر براجمان ہو جاتی ہے۔ یہ ایک غیر ملکی تسلط ہوتا‬
‫ہے جو کسی بھی خطے کے مظلوم عوام کو محکوم بنانے کے لیے ہوتا ہے جبکہ‬
‫نوآبادیات ایسی فتوحات ہوتی ہیں جو کوئی بھی طاقتور ملک اپنی سرحدوں سے باہر‬
‫وسعت کی خاطر کرتا ہے اور وہاں پر مفتوحہ اقوام کی مرضی کے خالف اپنا اقتدار قائم‬
‫کر کے ان پر محسوس یا غیر محسوس طریقے سے اپنی مرضی ٹھونستا ہے اس میں‬
‫فوجی طاقت کے استعمال کے عالوہ بعض اوقات طاقتور عوام اقتصادی اور ثقافتی‬
‫طریقے سے کمزور اقوام کو زیر نگیں لے آتی ہیں۔‬
‫اس دور میں سیاسی سماجی اور معاشرتی سطح پر کئی تبدیلیاں اور تغیرات رونما ہوتے‬
‫ہیں۔ اور انہی میں سے ایک تہذیبی آویزش یا آمیزش بھی شامل ہے۔‬
‫انگریزی اصطالح‪ Colonialism‬کا اردو ترجمہ ’’نو آبادیات‘‘ کیا جاتا ہے‬
‫کشاف اصطالحات تاریخ کے مطابق اس لفظ کا سب سے پہلے استعمال روم میں کیا گیا۔‬
‫‪Colonia‬کی وضاحت اس میں یوں کی گئی ہے‪:‬‬
‫‘‘‪ ’’Colonia‬پرانے رومی فوجیوں کی شہری بستی ۔ وہ رومی شہری جو قصبے میں‬
‫رہتے تھے ان کے پاس وسیع زرعی زمین ہوتی اور کافی حد تک مقامی امور میں ان کو‬
‫حکومت کی خود اختیاری حاصل ہوتی ۔ اس میں ارد گرد کا عالقہ بھی شامل ہوتا تھا ۔‬
(35(
‫" کے ذیل‬Colonialism"‫میں بطور اصطالح‬The Oxford English Dicitionary
:‫میں درج ہے‬
The alleged policy of exploitation of backward or weak peoples by
a foreign power. (36)
‫یعنی کمزور اور پسماندہ عوام کے استحصال کے لیے غیر ملکیوں کی جانب سے تشکیل‬
Webster's Third New International ‫دی جانے والی ممکنہ حکمت عملی جبکہ‬
:‫میں اس کے برعکس کہا گیا‬Dictionary (1971)
The aggregate of various economic, political and social policies
by which an imperial power maintains and extends its control over
other areas or people. (37)
‫ سیاسی اور سماجی پالیسیوں کا ایسا مجموعہ جس کے ذریعے‬، ‫’’ مختلف النوع معاشی‬
‫ایک سامراجی قوت کسی بھ ی دوسرے عالقے یا لوگوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے‬
‘‘ ‫ساتھ اسے وسعت دیتی ہے‬
‫کے‬Random House Dictionary of the English Lanaguage (1987)
:‫مطابق‬
The policy of so uniting the separate parts of an empire with
separate governments as to secure for certain purposes a single
state. (38)
‫’’ ایک سلطنت کے منقسم حصوں کو علیحدہ حکومت کے ساتھ مدغم اور متحد کرنے کی‬
‘‘‫پالیسی تاکہ وہ واحد ریاست مخصوص مقاصد کے لیے محفوظ بن سکے‬
‫(کی‬Post-Colonial)‫نو آبادیات کے ساتھ ضروری ہے کہ ما بعد نو آبادیات‬
Gareth Griffiths, Bill, ‫اصطالح پر بھی ایک نظر کی جائے ۔‬
‫’’ـمیں اس‬The Empire writes Back‫نے اپنی کتاب‬Helen Tiffin‫اور‬Ashcroft
:‫کی تعریف یوں بیان کی ہے‬
We use the term " Post colonial"...to cover all the culture affected
by the imperial process from the moment of colonization to
present day. This is because these is continuity of preoccupations
through the historical process initiated by European imperial
aggression. (39)
‫( کی‬Post Colonial Literature)‫جب کہ ما بعد نو آبادیاتی ادب کی‬
:‫نے حسب ذیل الفاظ میں پیش کی ہے‬Gallaghar‫تعریف‬
Writing that emerges from peoples who were once colonised by
European powers, now have some form of political independence,
‫‪but continue to live with the negative economic and cultural‬‬
‫)‪legacy of colonialism. (40‬‬
‫ـ ’’ایسے لوگوں کی تحریریں جو ایک دفعہ یورپی طاقتوں کی طرف سے محکوم‬
‫بنائے گئے ہوں اور اب انہیں سیاسی آزادی کسی بھی شکل میں میسر ہو ‪ ،‬مگر وہ اب‬
‫بھی منفی معاشی اور ثقافتی استعماری میراث کے ساتھ زندہ ہوں‘‘‬
‫غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نو آبادیات کی تعریفات میں یہ تاثر‬
‫دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مغربی باشندوں نے تجارتی و دیگر مقاصد کے لیے‬
‫بعض عالقوں میں رہائش اختیار کی ‪ ،‬انہیں اپنی مقبوضات نہیں بنایا اور اس طرح یہ تاثر‬
‫بھی دیا گیا کہ نئی جگہوں پر آئندہ نسلوں کے ساتھ ایک قومیت تشکیل دی ۔ گویا نئی‬
‫جگہوں پر پہلے سے انسانی آبادی موجود نہیں تھی ۔ مگر اصل میں نو آبادیات کسی‬
‫خاص عالقے یا قوم کو مفتوح بنانے اور ان کے ہر سطح پر استحصال سے عبارت ہے ۔‬
‫یہ استحصال ان کے سیاسی ‪ ،‬معاشی ‪،‬معاشرتی ‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬تہذیبی حقوق ضبط کر کے بھی‬
‫کیا جاتا ہے ۔ جبکہ کسی دوسری قوم یا مفتوح ریاست کے امور کو اپنے مخصوص‬
‫مفادات کے حصول کے لیے بروئے کار النا نو آبادیات کی بنیادی ترجیح ہوتا ہے ۔‬
‫یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ہر تاریخی تہذیبی نظام ایک نامیاتی ُکل‬
‫)‪ (Organic Whole‬ہوتا ہے جس کے حصے اور اکائیاں باہم تفاعل پذیر ہوتے ہیں اور‬
‫ان حصوں کی کارکردگی کا انحصار ایک دوسرے پر ہوتا ہے۔جب اس کی کسی اکائی یا‬
‫حصے کو دوسرے سے الگ کر دیا جاتا ہے تو پھر الگ کیا ہوا یا غیر فعال‬
‫)‪ (Disfunctional‬حصہ اس تبدیل شدہ یا مسخ شدہ مجموعی نظام کی کاکردگی کو متاثر‬
‫کرتا ہے جس سے یہ مجموعی نظام اس وقت سے مختلف انداز میں کام کرتا ہے جب کہ‬
‫اس نظام کے تمام حصے یکجا ہو کر کام کرتے ہیں۔‬
‫ایسے میں ایک تہذیبی تصادم کے نتیجے میں جب حملہ آوروں کی تہذیب حملہ‬
‫شدہ معاشرے کے دفاع میں کوئی چھوٹا سا رخنہ ڈال دیتی ہے تو پھر ایک چیز بڑے ہی‬
‫سنگدالنہ طریقے سے دوسرے کو اپنے ساتھ کھینچتی ہے۔ اسی بارے میں پروفیسر آرنلڈ‬
‫جے ٹائن بی کا موقف ہے‪:‬‬
‫ہماری تحقیق نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کسی غیر ملکی تہذیب کو اپنانے کا عمل بڑا‬
‫تکلیف دہ ہے۔ یہ مہم بڑی پُر خطر اور جان جوکھوں میں ڈالنے والی ہوتی ہے تاہم شکار‬
‫ہونے والے معاشرے کی ان جدید طریقوں سے روایتی اور طبعی ناموافقت ہوتی ہے یہ‬
‫جدید طریقے شکار ہونے والے معاشرے کے روایتی طرز زندگی کو تہہ و باال کر دیتے‬
‫ہیں۔۔۔ تاہم جب ایک چیز کا دوسری کو کھینچنا ایک ناگزیر عمل ہے تو پھر وہ معاشرہ‬
‫اس زبردستی گھس آنے والی تہذیب کے باقی ماندہ حصے کو بھی آہستہ آہستہ قبول کرنے‬
‫پر خود کو م جبور پاتا ہے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ شکار ہونے والے‬
‫معاشرے کا زبردستی گھس آنے والی اجنبی تہذیب کے بارے میں عام رویہ خود‬
‫شکستگی کا ہوتا ہے جو مخالفت و مخاصمت کی پیداوار ہوتا ہے۔ (‪(41‬‬
‫اشفاق سلیم مرزا‪ ،‬فلسفہء تاریخ ‪ ،‬نوآبادیات اور جمہوریت (چند نامکمل مباحث) میں‬
‫’’بر صغیر میں نوآبادیاتی نظام کی طرف سفر‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫عمومی طور پر نو آبادی کے لوگوں کو خود مختاری اور سیاسی آزادی حاصل نہ ہو اور‬
‫اس کے مطیع ہوں اور دونوں کا رشتہ استحصالی بنیادوں پر قائم ہو۔نوآبادی پر قبضے کا‬
‫بنیادی مق صد صرف یہ ہو کہ سامراجی طاقت کی دولت اور خوشحالی میں اضافہ ہو اور‬
‫باہر منڈی میں خام مال اور انسانی محنت کے جو دام دینے پڑ رہے ہیں اس سے کم داموں‬
‫پر سہولت میسر آ سکے اور اپنی تیار اشیاء کی کھپت مقبوضہ عالقوں میں آسانی اور منہ‬
‫مانگے داموں کے عوض ہو سکے۔ (‪(42‬‬
‫نوآبادیاتی قوتیں جب کسی ملک کو اپنی نو آبادی میں شامل کرتے ہیں۔ تو وہ اپنے‬
‫آپ کو ان محکوموں سے الزمی طور پر بر تر اور مہذب سمجھتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی‬
‫اعلی اور بر تر‬
‫ٰ‬ ‫سمجھتے ہیں کہ یہ فتح انھینخدا نے اس لیے دی ہے کہ وہ ان لوگوں سے‬
‫ہیں۔ ایسے میں وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان عالقوں میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کریں‬
‫ان کا مذہب تبدیل کریں۔ انہیں اپنے طور طریقے سکھائیں۔ انہیں اپنی تہذیبی روایات سکھا‬
‫کر ان کی اپنی شناخت ختم کر دی جائے۔ وہ اسے اس لیے بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ‬
‫اس طرح ان حاکموں کے خالف محکوموں کی مزاحمت کے امکانات بھی کم سے کم ہو‬
‫جاتے ہیں۔ اور مقامی آدمی اپنے حاکموں کو ذہنی طور پر حاکم تسلیم کرنے پر آمادہ ہو‬
‫جاتے ہیں اور ان کے مطیع ہو جاتے ہیں۔‬
‫جب یورپی اقوام نے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی اور مختلف ممالک میں اپنے‬
‫اقتدار کو مستحکم کیا تو انہیں اپنے سیاسی اقتدار اور سماجی برتری کے لیے اخالقی‬
‫جواز کی تالش ہوئی کہ جس کی بنیاد پر وہ نوآبادیات اور ان کے باشندوں کے استحصال‬
‫کو جائز قرار دے سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ’’سست اور کاہل مقامی باشندے‘‘ کا‬
‫نظریہ پیش کیا۔ اور مقامی باشندوں کا استحصال کرنے کا یوں جواز حاصل کیا۔ ڈاکٹر‬
‫مبارک علی کے مطابق‪:‬‬
‫نوآبادیاتی نظام کے قیام اور سیاسی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد یورپی اقوام کے اس‬
‫بات کی کوشش کی کہ اپنی محکوم اقوام کو مغربی تہذیب میں ضم کر دیاجائے کیونکہ‬
‫جب ان کی اپنی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور ان کی تہذیبی شناخت کو مٹا دیا جائے گا‬
‫تو وہ ان کے اقتدار کو تسلیم کر لیں گے اور ان کی حکومت ان کے لیے اجنبی اور غیر‬
‫ملکی لوگوں کی حکومت نہیں رہے گی۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے نوآبادیات کے‬
‫معاشروں کی تہذیبی جڑیں کاٹ کر وہاں کے لوگوں کو ذہنی طور پر تبدیل کرنے کا مشن‬
‫بنایا۔ نوآبادیات کے لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ بنانے اور فکری طور پر پسماندہ‬
‫رکھنے کی شعوری کوششیں کی جاتی تھیں۔ اس سلسلے میں یہ بار بار کہا جاتا تھا کہ ان‬
‫کی کوئی تاریخ نہیں۔ یہ بات نہ صرف نودریافت ملکوں کے لیے کہی گئی بلکہ ان ملکوں‬
‫کے لیے بھی جو کہ ماضی میں تہذیب کا گہوارہ رہ چکے تھے مثالً ہندوستان کے بارے‬
‫مورخ رانکے تک یہی بات کہتے رہے کہ اس‬ ‫میں مشہور فلسفی ہیگل سے لے کر نامور ٔ‬
‫ملک کی کوئی تاریخ نہیں۔ (‪(43‬‬
‫پروفیسر ٹائن بی نے بھی ایک مثال کے ذریعے اس تعامل پذیری کو واضح کرنے‬
‫کی کوشش کی ہے۔‬
‫جب کسی گرم تاب تہذیب کی ثقافتی شعاع کسی دوسرے تہذیبی ڈھانچے پر شعلہ زن ہوتی‬
‫ہے تو حملہ شدہ بیرونی ڈھانچے کی مزاحمت تہذیبی شعاع میں شامل عناصر کو بکھیر‬
‫دیتی ہے بالکل ایسے جیسے روشنی کی شعاع تکون شیشے کی مزاحمت سے سات‬
‫رنگوں مینمنتشر کر دی جاتی ہے۔۔۔ ایک تہذیبی شعاع میں صنعت‪ ،‬مذہب‪ ،‬سیاست اور‬
‫فنون لطیفہ کی کرنیں شامل ہوتی ہیں۔ جب ایک برسرپیکار تہذیبی شعاع کسی بیرونی‬
‫معاشرتی ڈھانچے کی مزاحمت کا سامنا کرتی ہے کہ جس پر یہ حملہ آور ہوتی ہے تو‬
‫اس میں شامل کرنیں بکھر جاتی ہیں۔ تہذیبی شعاع افشانی کے عمل میں ایک کرن کی‬
‫قوت اثر پذیری میں عموما ً اس کرن کی تہذیبی اہمیت کی نسبت معکوس ہوتی ہے۔ (‪(44‬‬
‫یہ بھی درست ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی انقالب آتا ہے تو وہ اپنے‬
‫استحکام کے لیے تہذیبی قوتوں کو بروئے کار التا ہے۔ اگر تو غالب تہذیب محکوم تہذیب‬
‫سے زیادہ جاندار ہے تو محکوم تہ ذیب دب جائے گی اور غالب تہذیب کو پھیلنے کا موقع‬
‫ملے گا۔ جب انگریز وں نے برصغیر پر حکومت کی تو برصغیر میں بھی ایک تہذیبی‬
‫کشمکش شروع ہوئی۔ کیوں کہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ جب اُن کی تہذیب نے ہندوستان‬
‫میں قدم جمانے شروع کیے تو ہندوستان کی تہذیبی اقدار پر اثرات پڑنے شروع ہوئے۔‬
‫انگریزی تہذیب کے ان اثرات نے برصغیر کی تہذیب کو متاثر ضرور کیا مگر اسکو‬
‫مکمل طور پر ختم نہ کر سکی بلکہ ایک طرح سے نئے تہذیبی بحران کو جنم دیا۔ کیوں‬
‫کہ استعمار کی آمد کے بعد ایک مختلف نوعیت کے پیٹرن )‪ (Pattern‬نے انفرادی اور‬
‫اجتماعی طور پر مقامی آبادی کو مغلوب کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل اٹھارویں صدی‬
‫کے اواخر میں شروع ہوا ۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے انتشار کا شکار‬
‫مشرقی تہذیب میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔ اور اس طرح ایک ثقافتی‬
‫جنگ کا آغاز ہوا۔شبنم سبحانی کے مطابق‪:‬‬
‫نئے آنے والے جس تہذیب کے پیکر بن کر آئے تھے وہ مادیت اور عقلیت کی آغوش میں‬
‫پروان چڑھی تھی۔ ہندوستان کا روحانی اور غایت درجہ مذہبی مزاج اسے ٹھنڈے دل سے‬
‫گوارا کرنے پر تیا رنہیں تھا۔ نئے سیالب میں انھیں اندیشہ نظر آیا کہ کہیں صدیوں کے‬
‫نقوش ذہن و دل سے مٹ کر نہ رہ جائیں اور حکومت کے ساتھ ہی دین و ایمان سے ہاتھ‬
‫نہ دھو نا پڑے چنانچہ ایک عوامی کشمکش اور بیداری کا آغاز ہوا۔ (‪(45‬‬
‫نوآبادیاتی نظام کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام ایسی سوچ اور‬
‫فکر کی پیداوار تھا جس کا بنیادی نقطہ ہی یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں نسلیں اور قومیں باہم‬
‫اعلی و برتر اور مہذب ہیں اور کچھ پس ماندہ اور غیر مہذب ‪ ،‬جاہل‬ ‫ٰ‬ ‫فرق فرق ہیں۔ کچھ‬
‫اعلی اور مہذب نسلوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان غیر مہذب اور پس ماندہ‬ ‫ٰ‬ ‫گنوار۔ اب‬
‫اقوام کو مہذب بنائیں اور اسی نقطے کو اپنی حکمرانی کا جواز بنایا۔ چنانچہ اہل ہندوستان‬
‫بھی غیر مہذب قرار پائے اور انگریز مہذب اور متمدن۔ اس طرح دونوں اقوام کے درمیان‬
‫ایک افتراق پیدا ہو گیا اور ذہنی کشمکش کا آغاز بھی ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی‬
‫نہایت اہم ہے کہ انگریز اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے مقامی آبادی کے ذہنوں‬
‫میں ان گریزوں کے خالف مزاحمتی جذبات کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر‬
‫مبارک علی کا موقف ہے‪:‬‬
‫ہندوستانیوں کے بارے میں تضحیک اور حقارت کے رویوں کے ذریعے انگریز یہاں پر‬
‫تمام مزاحمتی جذبات کو کچلنا چاہتے تھے۔ وہ ہندوستانیوں کو تہذیبی‪ ،‬ثقافتی طور پر گرا‬
‫کر اس مرحلہ تک النا چاہتے تھے کہ جہاں ان میں آزادی نفس‪ ،‬حریت‪ ،‬اعتماد اور اپنی‬
‫ذات کا احساس ختم ہو جائے اس لیے اس بات کی کوشش کی گئی کہ ثقافتی طور پر‬
‫انگریزوں کی برتری کا احساس ہو اور ہندوستانیوں کو اپنی تہذیب سے نفرت۔ (‪(46‬‬
‫دریں حاالت محکوم ہندوستانیوں میں دو طرح کے رجحانات نے جنم لیا۔ اُن میں‬
‫سے ایک تو یہ تھا کہ انگریزوں سے سماجی تعلقات قائم کرنے کے بجائے اُن سے دوری‬
‫اختیار کی جائے اور دوسرا رجحان یہ تھا کہ انگریزوں کی قربت کے حصول کے لیے‬
‫ان کے رسوم و رواج‪ ،‬معاشرت اور طور طریقے سیکھے جائیں۔ مگر اس طرح بھی وہ‬
‫ا نگریزوں سے اس طرح کا احترام اور توقیر حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ انگریزوں‬
‫نے اس رجحان کو بھی تحقیرسے دیکھا۔ اور انگریزوں کے اندر بطور حاکم نسلی تفاخر‬
‫اوربرتری کا احساس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ شدید تر ہوتا چال گیا۔‬
‫برصغیر کے باشندے ایک خاص تہذیبی ماحول کے پروردہ ہیں جن کی دانش اور‬
‫تمدن کے اپنے اصول اور سانچے ہیں اور ان کی اپنی قدیم تہذیبی اور ادبی روایات ہیں‬
‫لیکن پھر استعمار کی آمد کے بعد ایک ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا اور انہیں انفرادی اور‬
‫اجتماعی لحاظ سے مغلوب کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مغرب کے تہذیبی اور علمی‬
‫سانچے متبادل کے طور پر پیش کر کے ایک ایسا تہذیبی انقطاع عمل مینالنے کی دانستہ‬
‫کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل میں فکری انتشار بڑھنے لگا۔‬
‫ایسے میں برصغیر کی عوام میں پرانی شناختوں اور جاگیرداری عظمتونکے‬
‫سنگ میل وقت کے سیل بیکراں م یں بہہ کر ماضی کے تاریک اور گہرے سمندر میں گم‬ ‫ِ‬
‫تو ہونا شروع ہو گئے مگر انھیں اپنی بے بسی اور بے چارگی کا احساس کچوکے لگانے‬
‫لگتا ہے۔ یہاں کا نوجوان ذہنی تشکیک کا شکار ہو کر ماحول اور سماج سے نا آسودگی کا‬
‫شکار ہو گیا اور کئی قسم کی ذہنی اور جذباتی الجھنوں کا اسیر ہو گیا۔ اور فکری‬
‫ژولیدگی میں مبتال ہو گیا۔ انھیں اپنے ہم وطنوں کی غالمی‪ ،‬استحصال اور حکمرانوں کے‬
‫حقارت آمیز منافقانہ رویے سے مایوسی ہوئی۔یوں عہد نو آبادیات میں چھا جانے والے‬
‫تہذیبی بحران نے ہندوستانیوں کو داخلی کشمکش‪ ،‬اعصابی ہیجان‪ ،‬روحانی کرب اور‬
‫ا حساس محرومی میں مبتال کر کے اس نسل کو انفرادی انتشار کے ساتھ ساتھ اجتماعی‬
‫آشوب سے ہم کنار کیا۔ کیوں کہ حکمرانوں نے ان نو آبادیات پر اپنا تسلط مضبوط کرنے‬
‫کے لیے محکوم قوموں اور نسلوں میں یہ احساس جا گزیں کیاکہ وہ تہذیبی طور پر ان نو‬
‫آبادیاتی حکمرانوں سے کم تر ہیں۔ ایسے مینمقامی آبادی کو اپنی روایات اور اقدار سے‬
‫نفرت پیدا ہوئی۔ اور اس تہذیبی بحران کا نو آبادیاتی حکمرانوں نے بھر پور فائدہ اُٹھایا‬
‫اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے ساتھ مقامی لوگوں میں اس تصور کو پختہ کیا‬
‫کہ جب تک نو آبادیاتی معاشرے حکمرانوں کی تہذیب اختیار نہیں کریں گے ان کی ترقی‬
‫اور خوشحالی ناممکن ہے۔ یوں اپنی تہذیب سے متنفر ہونے کے باوجود نئی تہذیب نے‬
‫بھی انھیں اس طرح قبول نہیں کیا۔ جیسے کہ وہ خواہاں تھے۔ اس طرح نو آبادیاتی‬
‫حکمرانوں کی پالیسوں سے بر صغیرمیں ایک نئے تہذیبی بحران نے جنم لیا۔ جس نے‬
‫مقامی آبادی کی مشکالت میں تو اضافہ کیا مگر حکمرانوں کے لیے کئی آسانیاں پیدا ہو‬
‫گئیں اور مستقبل کی تاریخ پر بھی اس پالیسی کے اثرات مرتسم ہوئے۔‬

‫)د) مستشرقین اور برصغیر کا تہذیبی و تاریخی تناظر‬


‫‪Orientalists and Cultural, Historical Perspective of the Sub‬‬
‫‪Continent‬‬
‫یورپی سامراج کے دور میں جن علمی شعبوں کو خصوصی اہمیت ملی ان میں‬
‫استشراق نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ سامراج کی ایک ضرورت تھی کہ وہ محکوم اقوام کی‬
‫ثقافت‪ ،‬تہذیب ‪ ،‬تاریخ اور اذہان کو سمجھنے اور پھر ان مستشرقین کی حاصل کردہ یا اخذ‬
‫کردہ معلومات کی روشنی میں محکوم اقوام پر اپنے اقتدار و تسلط کو جاری رکھنے اور‬
‫دوام بخشنے کے لیے حکمت عملی تشکیل دے۔‬
‫ایڈورڈ سعید شرق شناسی کے بارے میں رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫‪The most readily accepted definition for Orientalism is an‬‬
‫‪academic one, and indeed the label still serves in a number of‬‬
‫‪academic institutions. Any one who teaches, writes about, or‬‬
‫‪researches the orient ... and this applies whether the person is an‬‬
‫‪anthropologist, sociologist, historian or philologist ... either in its‬‬
‫‪specific or its general aspects, is an orientalist, and what he or‬‬
‫)‪she does is orientalism. (47‬‬
‫شرق شناسی کی فوری طور پر ذہن میں آنے والی قابل قبول تعریف ایک علمی تعریف‬
‫ہے اور یہ اب بھی علمی اداروں کی ایک بڑی تعداد میں مروج ہے جو کوئی بھی مشرق‬
‫کے بارے میں پڑھتا‪ ،‬لکھتا یا اس پر تحقیق کرتا ہے تو یہ تحقیق اور تحقیقی معیار تمام‬
‫مورخین اور‬ ‫تر پڑھنے‪ ،‬لکھنے اور تحقیق کرنے والے ماہر بشریات‪ ،‬ماہر عمرانیات‪ٔ ،‬‬
‫ماہر لسانیات پر منطبق ہوتا ہے خواہ یہ لوگ اپنے اپنے دائرہ تخصص میں خاص‬
‫موضوع یا اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کر رہے ہوں‪ ،‬شرق شناس کہالتے ہیں اور‬
‫وہ جو کام بھی کر رہے ہوں گے شرق شناسی کہالئے گا۔ (‪(48‬‬
‫اسی کتاب کے تعارف میں وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪I shall be calling Orientalism, a way of coming to terms with the‬‬
‫‪orient that is based on the orient" special place in European‬‬
‫‪Western experience. The Orient is not only adjacent to Europe. It‬‬
‫‪is also the place of Europe greatest and richest and oldest‬‬
‫)‪colonies. (49‬‬
‫میں جسے شرق شناسی کہتا ہوں اس میں یہ امر شامل ہے کہ مغرب‪ ،‬مشرق سے کس‬
‫طرح نباہ کرے اور اس تصور سے کیسے پیش آئے جو اہل مغرب کے مشرق کے ساتھ‬
‫تجربہ سے تشکیل پاتا ہے۔ مشرق نہ صرف جغرافیائی طور پر مغرب سے قریب ہے‬
‫بلکہ یہ وہ خطہ ہے جس میں یورپ کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ دولت مند قدیم‬
‫ترین نوآبادیات تھیں۔ (‪(50‬‬
‫مستشرقین کا لفظی معنی تو مشرق شناسی یا مشرقی علوم و فنون اور ادبیات کے‬
‫ماہرین مراد لیے جاتے ہیں۔ وہ ماہرین جو مشرقی زبانوں‪ ،‬تہذیب ‪ ،‬ادب‪ ،‬مذہب اور فلسفے‬
‫کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔ جیسا کہ‬
‫ڈاکٹر محمد احمد یاب رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں‪ ،‬تہذیب‪ ،‬فلسفے ادب اور مذہب کے مطالعے میں‬
‫مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔ (‪(51‬‬
‫’المنجد‘ میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے‪:‬‬
‫مستشرق‪’’ :‬العالم باللغات واالدب والعلوم الشرقیۃ‘‘ (‪(52‬‬
‫یعنی مشرقی زبانوں‪ ،‬ادب اور علوم کے عالم کو کہتے ہیں۔ ایک اور تعریف کے‬
‫مطابق‪:‬‬
‫مغربی اہل کتاب‪ ،‬مسیحی مغرب کی اسالمی مشرق پر نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم‬
‫کی بنیاد پر مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اسالم کے‬
‫بارے میں گمراہی اور شک میں مبتال کرنے اور اسالم کو مسخ شدہ صورت میں پیش‬
‫کرنے کی غرض سے مسلمانوں کے عقیدہ‪ ،‬ثقافت‪ ،‬شریعت‪ ،‬تاریخ‪ ،‬نظام اور وسائل و‬
‫امکانات کا جو مطالعہ غیر جانبدارانہ تحقیق کے دعوے کے ساتھ کرتے ہیں اسے‬
‫استشراق کہا جاتا ہے۔ (‪(53‬‬
‫دوسرے لفظوں میں استشراق مغربی اسلوب فکر کا نام ہے جس کی بنیاد مشرق و‬
‫مغرب کی نسلی تقسیم کے نظریہ پر قائم ہے جس کی رو سے اہل مغرب کو اہل مشرق پر‬
‫نسلی اور ثقافتی برتری حاصل ہے۔‬
‫پیر محمد کرم شاہ االزہری مستشرقین کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں‪:‬‬
‫نصاری بالخصوص‪ ،‬جومشرقی اقوام خصوصا ً ملت اسالمیہ‬ ‫ٰ‬ ‫اہل مغرب بالعموم اور یہود و‬
‫کے مذاہب‪ ،‬زبانوں‪ ،‬تہذیب و تمدن ‪ ،‬تاریخ ادب‪ ،‬انسانی قدروں ملی خصوصیات‪ ،‬وسائل‬
‫حیات اور امکانات کا مطالعہ معروضی تحقیق کے لبادے میں اس غرض سے کرتے ہیں‬
‫کہ ان اقوام کو اپنا ذہنی غالم بنا کر ان پر اپنا مذہب اور اپنی تہذیب مسلط کر سکیں اور‬
‫ان پر سیاسی غلبہ حاصل کر کے ان کے وسائل حیات کا استعمال کر سکیں‪ ،‬ان کو‬
‫مستشرقین کہا جاتا ہے اور جس تحریک سے وہ لوگ منسلک ہیں انہیں تحریک استشراق‬
‫کہا جاتا ہے۔ (‪(54‬‬
‫ایڈورڈ سعید کے مطابق سادہ لفظوں میں شرق شناسی نوآبادیاتی نظام کی عقلی‬
‫تاویل ہے تو بھی اس حد سے غافل ہوں گے جس حد تک شرق شناسی نے قبل از وقت ہی‬
‫نوآبادیاتی نظام کو جائز ثابت کر دیا تھا‪ ،‬بجائے اس کے کہ پہلے اس نظام کو حقیقت بننے‬
‫کے لیے جواز مہیا کرے۔ ہمیشہ سے بنی نوع انسان نے دنیا کو حقیقی یا خیالی امتیاز کی‬
‫بنیاد پر خطوں یا عالقوں میں تقسیم کیا تھا۔ مگر یہ حتمی حد بندی سالوں میں نہیں‬
‫صدیوں میں بنتی ہے۔‬
‫وہ اٹھارویں صدی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس صدی کے وسط ہی سے دو‬
‫بنیادی عناصر کی اہمیت ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کا باعث بنے۔ اوالً‬
‫یورپ میں مشرق کے بارے میں بتدریج پھیلتا ہوا علم‪ ،‬جو نوآبادیات سے مسلسل روابط‬
‫اور بیرونی ممالک میں غیر معمولی دلچسپی کا نتیجہ تھا۔ جس نے نسلیات‪ ،‬تقابلی علم‬
‫االجسام‪ ،‬لسانیات اور تاریخ کے ترقی پذیر علوم کو تقویت پہنچائی۔ عالوہ ازیں ایک نظام‬
‫کے تحت مشرق کے بارے میں علم میں ایک بڑی بھاری ’’مقدار ‘‘اس ادب کی بھی شامل‬
‫ہو گئی جو ناول نگاروں ‪ ،‬شاعروں‪ ،‬مترجمین اور کئی ہوشیار مسافروں نے تخلیق کیا۔‬
‫مشرق و مغرب کے اس باہمی تعلق کے اظہار کے لیے کئی اصطالحات مستعمل‬
‫تھیں جیسے مشرق کا آدمی غیر منطقی‪ ،‬گرا پڑا‪ ،‬بچوں جیسا اور ’’مختلف‘‘ ہے جبکہ‬
‫یورپ کا انسان منطقی‪ ،‬نیک‪ ،‬بالغ نظر اور ’’متوازن ‘‘ہے۔ اس طرح مغرب میں شرق‬
‫شناسی ایک ایسا علم ہے جو مشرق سے متعلق اشیاء اور امور کو تنقیح و تحقیق‪،‬‬
‫مطالعات‪ ،‬فیصلوں‪ ،‬قواعد و ضوابط کی پابندی یا حکمرانی کے مقاصد کے لیے تدریسی‬
‫جماعت‪ ،‬عدالت اور درسی کتاب میں ڈال دیتا ہے۔‬
‫اگر شرق شناسی کی روح‪ ،‬مغرب کی ناقابل تنسیخ باالتری اور مشرق کی فروتری‬
‫ہے تو یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ شرق شناسی نے کیسے اپنے امتیاز اور ارتقا کے‬
‫مابعد کی تاریخ میں گہرائی اور گیرائی پیدا کر لی۔ جب برطانیہ میں یہ ایک دستور بن گیا‬
‫کہ ہندوستان اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے منتظمین کو پچپن سال کی عمر میں‬
‫سبکدوش کر دیا جائے تو اس سے شرق شناسی میں زیادہ آراستگی اور شائستگی آ گئی۔‬
‫انگریز بہادر نہیں چاہتا تھا کہ کسی مشرقی آدمی کو کوئی مغربی بڑھاپے اور جسمانی‬
‫خستہ حالی میں نظر آئے کیوں کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ محکوم قوموں کی نظر میں اپنا‬
‫تاثر خراب کرے کہ وہ بوڑھا اور خستہ حال اور کمزور ہے اور محکوم قوم کے لوگ‬
‫صرف ایک مضبوط ‪ ،‬طاقت ور‪ ،‬عقل مند و منطقی اور ہمیشہ چاک و چابند حاکم کو‬
‫دیکھیں۔‬
‫اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں شرق شناسی کا ابتدائی‬
‫دور ہے جس کا طر ٔہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں مشرق کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔‬
‫ایڈگر کوئنٹ )‪ (Edger Quint‬نے خاص طور پر اس کو موضوع بنایا ہے۔ مفکرین‪،‬‬
‫سیاست دانوں اور فن کاروں کو اچانک معلوم ہوا کہ مشرق کے بارے میں ایک نیا شعور‬
‫پیدا ہوگیا ہے۔ جو چین سے لے کر بحیر ٔہ روم تک پھیال ہوا ہے۔ یہ شعور جزوی طور پر‬
‫سنسکرت‪ ،‬ژند اور عربی زبانوں میں دریافت ہونے والی کتب‪ ،‬مخطوطوں اور ان کے‬
‫تراجم کا نتیجہ تھا اور پھر یہ شعور مغرب اور مشرق کے درمیان تعلقات اور نئے‬
‫تصورات سے بھی پیدا ہوا۔‬
‫کرومر سل طنت برطانیہ کا ایک باکمال ماہر فن تھا اور شرق شناسی سے مستفید‬
‫ہونے والوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے مقالے بعنوان ’’محکوم اقوام پر حکومت‘‘ میں بتایا‬
‫ہے کہ برطانیہ جو شخصی آزادی سے بہرہ مند افراد کی قوم ہے اپنی دور دور تک پھیلی‬
‫ہوئی سلطنت کا انتظام و انصرام متع دد مرکزی قوانین کے مطابق کیسے کر سکتی ہے۔‬
‫(‪(55‬‬
‫ایڈورڈ سعید کے مطابق شرق شناسی ایک ٹیڑھا میڑھا اور مشکل راستہ ہے‪ ،‬اس‬
‫کی وضاحت کے لیے وہ کپلنگ کی جناتی زنجیر پیش کر کے یہ بتاتا ہے کہ مطلق‬
‫حکمرانی کا اہتمام جو مغرب کے لیے مشرق سے ہو رہا ہے وہ ایک مضحکہ خیز جناتی‬
‫زنجیر کی طرح ہے‪:‬‬
‫خچر‪ ،‬گھوڑا‪ ،‬ہاتھی اور بیل اپنے ہانکنے والے کا حکم مانتے ہیں اور ہانکنے واال اپنے‬
‫سارجنٹ کا اور سارجنٹ اپنے لیفٹیننٹ کا اور لیفٹیننٹ اپنے کپتان کا اور کپتان اپنے میجر‬
‫کا اور میجر اپنے کرنل کا اور کرنل اپنے بریگیڈیئر کا جو تین رجمنٹوں کا کمانڈر ہے‬
‫اور بریگیڈیئر اپنے جنرل کا جو وائسرائے کا حکم مانتا ہے جو ملکہ کا نوکر ہے۔‬
‫(‪(56‬‬
‫سترہویں صدی کا مغلیہ ہندوستان سیاسی اعتبار سے مستحکم اور مادی وسائل سے‬
‫ماالمال تھا۔ یہ خطہ اپنے قدیم ترین فکر و فلسفہ‪ ،‬علم و ادب اور فنون لطیفہ کے باعث‬
‫عالمگیر شناخت کا حامل تھا۔ انگریز جب سترہویں صدی میں روزگار اور تجارت کی‬
‫غرض سے ہندوستان آئے تو یہاں کی خوش حالی‪ ،‬مال و دولت اور جواہرات دیکھ کر ان‬
‫کی نیت بدل گئی۔ ان حاالت مینمستشرقین کی سرگرمیوں کے بارے میں ڈاکٹر عطش‬
‫درانی رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫مقامی زبانوں کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں کے نتیجے میں دو طرح کے‬
‫یورپین سامنے آئے۔ ایک قسم کے لوگ وہ تھے جو ہندوستان کے فکر و فلسفے‪ ،‬طرز‬
‫زیست اور یہاں کے بھیدوں کو جاننے کی خواہش دل میں لیے اس سرزمین پر وارد‬
‫ہوئے جب کہ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت ایسی تھی جو ہندوستان کو سونے کی چڑیا‬
‫سمجھ کر اپنا مستقبل سنوارنے یہاں آئی تھی۔ ان کے عزائم بالکل ایسے ہی تھے جیسے‬
‫آج پاک وہند کے لوگوں کی اکثریت یورپ جانے کے لیے بے قرار نظر آتی ہے۔ (‪(57‬‬
‫ڈاکٹر جواز جعفری کے مطابق‪:‬‬
‫ہندوستان پر پوری حکمرانی کے اس پورے عہد میں سر ولیم جونز‪ ،‬جان گلکرسٹ‪،‬‬
‫گارسین دتاسی‪ ،‬جان جوشوا کٹیلر‪ ،‬بنجمن شلزے‪ ،‬آلویٹس شپرنگر‪ ،‬بامر پورگ شٹال‪،‬‬
‫ریونڈ مارتیوریپا‪ ،‬جان شیکسپئر‪ ،‬برائون‪ ،‬پروفیسر آرتھونی‪ ،‬الیگزینڈر بائوسانی اور بہت‬
‫سے نامور مستشرقین سامنے آئے۔ (‪(58‬‬
‫ڈاکٹر علمدار حسین بخاری کے مطابق‪:‬‬
‫برصغیر پاک وہ ہند میں فکر و دانش کی روایت (بعض دعووں اور تحقیقات کے باوجود)‬
‫یونان کی روایت فکر و دانش سے قدیم نہ سہی اس کی ہم عصر ضرور قرار پاتی ہے۔‬
‫اگر چہ بعض مستشرقین کو انیسویں صدی میں ہی اس بات کا علم ہو چکا تھا اور انہوں‬
‫نے ولیم جونز)‪ ، (Willian Jones‬پرنسپ)‪ ، (Princep‬سر ولیم میور ‪(Sir‬‬
‫)‪ ،W.Muir‬میکس ملر)‪ ، (Fredrik Max Miller‬جیمز مل)‪ ، (James Mill‬جان‬
‫سٹوارٹ مل)‪ ، (J.S.Mill‬رڈیارڈ کپلنگ)‪ (Rudyar Kipling‬وغیرہ علم اللسان‪،‬‬
‫عمرانیات‪ ،‬مطالعہ مذاہب وغیرہ کے ذریعے فکر و دانش کی ان دونوں روایات کے‬
‫اشتراک کی کوششیں کیں اور یوں بالواسطہ طور پر مغربی روایت فکر اور ثقافت کی اس‬
‫اعتبار سے برتری کو بھی ثابت کیا کہ اس میں نمو اور ارتقا کی قوت روز افزوں رہی‪،‬‬
‫جب کہ مشرقی فکر اور کلچر کی روایت مردہ اور ازکار رفتہ ہوتی چلی گئی۔ (‪(59‬‬
‫اس کے ساتھ ہی ایڈورڈ سعید یہ بھی کہتے ہیں کہ ان مستشرقین اور مغربی‬
‫وسطی اور مسلمانوں کی تہذیبونکا مطالعہ خالصتا ً سیاسی‬
‫ٰ‬ ‫مفکرین نے مشرق‪ ،‬مشرق‬
‫مقاصد کے پیش نظر کیا ہے۔ یہ مستشرق خود اہل مشرق پر اس اعتبار سے اپنی برتری‬
‫بھی ثابت کر رہے تھے کہ وہ اس گم شدہ دانش کے سرمائے کا کھوج لگا کر اس کی نئی‬
‫توجیہات و تشریحات مرتب ک رنے کے اہل ہیں۔ عالوہ ازیں مشرق کو مغرب کی تہذیب‬
‫کے مقابلے میں منفی حوالے سے پیش کیا اور اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھا اور انہی‬
‫نظریات کا پرچار بھی کیا۔‬
‫‪I doubt that it is controversial, for example, to say that an‬‬
‫‪Englishman in India or Egypt in the later 19th century took an‬‬
‫‪interest in those countries which was never far from their status in‬‬
‫‪his mind as British colonies. To say this may seem quite different‬‬
‫‪from saying that all academic knowledge about India and Egypt is‬‬
‫‪somehow tinged and impressed with, violated by the gross‬‬
‫)‪political fact." (60‬‬
‫ایسے مستشرقین کے بارے میں وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫انہوں نے اپنے اذہان میں اسالم کا جو خاکہ بنا لیا ہے اور میڈیا پر اس کو جس طریقے‬
‫سے بیان کرتے ہیں وہ ایسے ہے کہ انہوں نے اسالم کے خالف مقدمہ اپنی ہی لگائی‬
‫ہوئی عدالت میں جیت لیا ہے۔ خاص طور پر وہ ڈینیئل پائپس )‪ (Danial Pipes‬کا ذکر‬
‫کرتے ہیں کہ وہ ’’اسالم ‘‘ کو ایک ڈرائونی چیز کے طور پر پہچانتا ہے۔ جبکہ اس نے‬
‫برنارڈ لیوس )‪ (Bernard Lewis‬اور پیٹر رڈمان )‪ (Peter Rodman‬کو اسالم کے‬
‫خالف ثقافتی جنگ میں سرگرم شخصیات قرار دیا ہے۔ پیٹر رڈمان )‪(Peter Rodman‬‬
‫کہتے ہیں کہ ’’اسالمی دنیا زیادہ تر سماجی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور مغرب کے‬
‫مقابلے میں اس کی مادی کمتری نے اسے مایوسی میندھکیل دیا ہے ایسے میں مغربی‬
‫ثقافت کے بڑھتے ہوئے اثرات اسے برہم رکھتے ہیں۔ (اس برہمی کو برنارڈ لیوس‬
‫)‪(Lewis‬نے ’’غصے کی سیاست‘‘ کا نام دیا ہے۔ (‪(61‬‬
‫مگر اس سارے منظر نامے کے باوجود ہمیں تصویر کا دوسرا رخ مد نظر رکھنا‬
‫بھی ضروری ہے۔ جس کے مطابق ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ سب مستشرقین‬
‫کی نیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا‪ ،‬ان میں سے کئی مستشرقین زندگی کا بیشتر حصہ مشرق‬
‫کی تاریخ‪ ،‬کلچر‪ ،‬زبان اور علم و دانش کے ماخذ کو تالش کرنے میں صرف کیا اور اس‬
‫طرح اس قیمتی علمی سرمائے کو مدفون ہونے کے بجائے منظر عام پر عوام کے‬
‫استفادے کے لیے پیش کیا۔ ان میں جان گلکرسٹ‪ ،‬سر ولیم جان‪ ،‬جان شیکسپیئر‪ ،‬لیڈلے‪،‬‬
‫جان بیمز‪ ،‬ڈنکن فوربس‪ ،‬داکٹر فیلن‪ ،‬جان پیلٹس‪ ،‬گراہم بیلی وغیرہ کی طویل فہرست‬
‫ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان مستشرقین کا‬
‫نقطہ نظر کو‬
‫ٔ‬ ‫اپنا ایک خاص بیانیہ )‪ (Narrative‬ہے جس کے اندر رہتے ہوئے اپنے‬
‫منصہ شہود پر التے ہیں اور زبان و ادب کو خاص طور پر اپنے مقاصد‬ ‫ٔ‬ ‫اپنی تحریرونمیں‬
‫کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی اپنا نقطہ نظر اس‬
‫حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫نوآبادیاتی دور میں غیر ملکی حکمرانوں نے بھی زبان و ادب کو مفتوحہ اقوام اور‬
‫موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ (‪(62‬‬ ‫عالقوں میں اپنے اقتدار کے لیے ایک ٔ‬
‫یہ امر بھی قابل غور ہے کہ خود ہمارے لوگوں نے بھی علم و تحقیق کو پس پشت‬
‫ڈال دیا تو ان مستشرقین نے مشرقی علوم پر توجہ مرکوز کی جیسا کہ معروف صحافی‬
‫امتیاز عالم اپنے مقالہ ’’دو بیانیے‘‘ میں رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫یقینا نو آبادیاتی اور ما بعد نو آبادیاتی ادوار میں مشرق ‪ ،‬جہاں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں‬
‫مغرب کے زیر نگیں رہا ہے جو بربریت اور استحصال سے عبارت ہے لیکن یہ بنیادی‬
‫حقیقت اپنی جگہ ہے کہ مسلم دنیا نے کئی صدیوں سے علم و تحقیق ‪ ،‬فکری جستجو اور‬
‫تخلیق و ایجاد کو خیر باد کیے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ عقلیت کا دور جو مشرق سے‬
‫شروع ہو کر مغرب میں جا بسا‪ ،‬مسلم دنیا اس سے صدیوں دور ہے۔ (‪(63‬‬
‫موقف بھی اس بارے میں قابل غور ہے۔‬ ‫خود ایڈورڈ سعید کا ٔ‬
‫‪The modern orientalist was in his view, a hero rescuing the orient‬‬
‫‪from the obscurity, alienation and strangeness which he himself‬‬
‫‪had properly distinguished. His research reconsructed the orient's‬‬
‫)‪lost languages, more even mentalities. (64‬‬
‫خود جدید مستشرق بھی اپنے آپ کو ایک ایسے ہیرو کی حیثیت سے دیکھتا تھا کہ جس‬
‫نے مشرق )‪ (Orient‬کو خود اچھی طرح شناخت کر کے گمنامی‪ ،‬بیگانگی اور مغائرت‬
‫حتی کہ‬
‫سے بچایا تھا اور اس کی تحقیق نے مشرق کی گمشدہ زبانوں‪ ،‬رسوم و روایات ٰ‬
‫ذہنیتوں تک کی تشکیل نو کی تھی۔‬
‫اگراس سارے عمل کو برصغیر کے منظر نامے میں دیکھا جائے اور تحقیق‬
‫انگریزی ناولوں کے جائزے کے حوالے سے بات کی جائے تو ہمارے سامنے یہ حقیقت‬
‫واضح ہو تی ہے کہ اسی پس منظر میں ایڈورڈ سعید )‪ (Edward Said‬نے اپنی‬
‫کتاب’’ "‪"Culture and Imperialism‬ثقافت اور سامراج ‘‘میں انگریزی ناول نگاروں‬
‫مثالً جوزف کونرڈ)‪ (Joseph Conrad‬اور جین آسٹن)‪ (Jane Austen‬کا مطالعہ کیا‬
‫ہے کیوں کہ ان کے بقو ل ایک مخصوص ثقافت کو فروغ دینا اور دو مختلف ثقافتوں کو‬
‫پروان چڑھانا سامراجی ایجنڈا ہے۔ اس لیے وہ سامراج اور انگریزی ناول میں ربط تالش‬
‫کرتے ہیں۔ ناول نے ثقافت کو ایک خاص رخ سے پیش کیا ہے۔ ناول اور سامراج دونوں‬
‫نے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا اور نوآبادیت کے لیے راہیں ہموار کیں۔ ناول کے‬
‫بیانیے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ ڈھکے چھپے اور ملفوف انداز میں اپنی بات اور‬
‫مفادات کو بیان کر سکے۔‬
‫انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کی برطانوی اور فرانسیسی ثقافت میں تقریبا ً‬
‫ہر جگہ پر ایمپائر کے اشارے اور نقوش ملتے ہیں لیکن شاید کہیں بھی اتنے منظم انداز‬
‫نہیں ملتے جتنے کہ برطانوی ناول میں۔ ہر تحریر اپنا مخصوص جینئس رکھتی ہے اور‬
‫ہر ثقافتی تحریر ایک خاص موقعے کا ورژن ہوتی ہے اور اس ورژن کو اس کی بعد‬
‫مینپیدا کردہ مختلف صورتوں کے ساتھ رکھ کر دیکھا ضروری ہے۔ ناول ایک بھٹی‪ ،‬ایک‬
‫ن یم قاموسی ثقافتی صورت ہے جس میں نہایت منضبط پالٹ‪ ،‬میکنزم اور سماجی حوالے‬
‫کا ایک پورا نظام بھی ملفوف ہوتا ہے۔‬
‫‪ ۱۸۴۰‬ء کی دہائی میں انگلش ناول نے ایک اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔ اور ان‬
‫ناولوں کو غور سے پڑھنے پر ہمیں واشگاف ’’سامراجی‘‘ یا سامراجی ورژن کی نسبت‬
‫کہیں زیادہ امتیازی اور لطیف منظر ملتا ہے۔ ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫پہلی عالمی جنگ کے وقت برطانوی ایمپائر مطلق طور پر غالب آگئی تھی اور یہ‬
‫سولہویں صدی کے اواخر میں شروع ہونے والے عمل کا نتیجہ تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں‬
‫ہے کہ برطانیہ نے ناول کا رواج ڈاال اور اسے قائم رکھا۔ جس کا کوئی یورپی مقابل یا‬
‫مساوی نہیں تھا۔ کم از کم انیسویں صدی کے نصف اول مینفرانس کے پاس زیادہ ترقی‬
‫یافتہ عقلی ادارے تھے۔۔۔۔ اکیڈمیاں‪ ،‬یونیورسٹیاں‪ ،‬انسٹیٹیوٹس ‪ ،‬جرائد وغیرہ۔۔۔ جس پر‬
‫آرنلڈ‪ ،‬کارالئل‪ ،‬مل اور جارج ایلیٹ سمیت بہت سے برطانوی دانش وروں نے لکھا اور‬
‫گریہ کیا۔ لیکن اس کمی کا ازالہ برطانوی ناول کے غلبے نے کردیا۔‘‘ (‪(65‬‬
‫ہندوستان میں ‪ ۱۸۵۷‬ء نے ہماری سیاسی تاریخ کو ہی نہیں بدال بلکہ ہمارے شعور‬
‫اور رویوں کو بھی تبدیل کر دیا۔ اور ایک ایسی فضا قائم ہوئی جس کے نتیجے میں ایسے‬
‫ہندوستانی تعلی م یافتہ نوجوان پیدا ہوئے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی اور‬
‫کردار اور روح کے اعتبار سے برطانوی سامراج کا نو آبادیاتی نمونہ تھے۔ ایسے ماحول‬
‫میں ایک خاص نوآبادیاتی صورتحال وضع کی گئی جو محض عسکری قوت کے ذریعے‬
‫ممکن نہیں تھی۔‬
‫ابوالکالم قاسمی رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫برطانوی سامراج نے ہندوستانیوں کے ذہن کو ایسے مغربی رنگ مینرنگنے کا خواب‬
‫دیکھا تھا کہ ان کی اپنی روایت ان کے لیے بے وقعت اور ناقابل تقلید بن جائے۔ (‪(66‬‬
‫یقینانوآبادیاتی عہد میں لکھے جانے والے ناولوں کے صفحات پر تحریر کردہ ہر‬
‫عبارت غیر ارادی نہیں بلک ہ ارادی اور شعوری ہوتی ہے اور ’’منشائے مصنف‘‘ کے تابع‬
‫ہوتی ہے اور اس متن کو سمجھنے کے لیے اس کے مخصوص کوڈز کو سمجھنا بھی‬
‫ضروری ہوتا ہے۔‬
‫مثالً ہومی بھابھا )‪ (Homi Bhabha‬نے نوآبادیاتی سیاق میں استعمال ہونے والی‬
‫انگریزی زبان کی کئی خفیہ اور پوشیدہ خصوصیات و جہات کا مشاہدہ کرتے ہوئے‬
‫نوآبادیاتی عہد کے محضر نامے مینگوناں گوں تضادات کی نشاندہی کی ہے جیسا کہ اس‬
‫نے ادائیگی ٔ تلفظ )‪ (enunciation‬کے حوالے سے ‪The act of splitting the‬‬
‫‪colonial signifier in its enunciation‬کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں‪ enunciation‬کا لفظ‬
‫بھابھا نے الکان کی تھیوری کے حوالے سے اسے غیر شعوری کالم ‪(unconscious‬‬
‫)‪ speech‬کے مفہوم میناستعمال کیا ہے جس سے مراد وہ زبان نہینجو وہ بولتا ہے بلکہ‬
‫وہ زبان ہے جو اس سے بولتی ہے۔ (‪(67‬‬
‫اس کے ساتھ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ یہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے اس امر کے‬
‫بھی شاہد ہیں کہ بیرونی حکومتیں یا استعمار اپنے دور حکمرانی میں مقامی آبادی کے نہ‬
‫صرف قلوب و اذہان کو متاثر کرتی ہیں بلکہ نوآبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعد بھی اپنے‬
‫اثرات کچھ اس انداز میں چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے نقوش تادیر قائم رہتے ہیں۔ سامراجی‬
‫عہد کے ان اہم ف ن پاروں کو ماضی میں جا کر اور دیگر تواریخ و روایات کو پیش نظر‬
‫رکھنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تناظر میں پڑھنا اور سمجھنا نہایت ضروری‬
‫ہے۔‬
‫آئندہ صفحات میں منتخب انگریزی ناولوں کا جائزہ اسی سیاق و سباق کو پیش نظر‬
‫رکھتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔‬
‫حوالہ جات‬
‫عبدہللا سید‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر کا مسئلہ‪ ،‬شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور‪ ،‬اپریل‬ ‫)‪( ۱‬‬
‫‪۱۹۷۷‬ء‪ ،‬ص۔‪۵۰‬‬
‫‪Concise Oxford English Dictionary O.U.P Oxford 2011‬‬ ‫‪2.‬‬
‫عبدہللا سید‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر کا مسئلہ‪ ،‬شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور‪ ،‬اپریل‬ ‫(‪) ۳‬‬
‫‪۱۹۷۷‬ء‪ ،‬ص۔‪۵۱‬‬
‫)‪Bagby Philip, Culture & History, Berkeley, University of (4‬‬
‫‪California Press, 1958, p:82‬‬
‫‪Oxford English Urdu Dictionary, Edited by Shan Ul Haq‬‬ ‫)‪(5‬‬
‫‪Haqqi Oxford University Press 2011.‬‬
‫‪Merriam Webser's Inc. Spring feld MA01102‬‬ ‫)‪(6‬‬
‫فیروز اللغات‪ ،‬فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ ‪۲۰۰۵‬۔ ص ‪۴۶۸‬‬ ‫(‪) ۷‬‬
‫حفیظ صدیقی‪ ،‬ابواالعجاز‪ ،‬کشاف تنقیدی اصطالحات‪ ،‬ص ‪۵۵‬‬ ‫(‪) ۸‬‬
‫‪The New Encyclopedia of Britannica, Vol: 3, Edition 15,‬‬ ‫)‪(9‬‬
‫)‪p:784‬‬
‫اردو انسائیکلوپیڈیا (فیروزسنز)‪ ،‬فیروز سنز الہور‪ ،‬ایڈیشن چہارم‪،۲۰۰۵ ،‬‬ ‫(‪)۱۰‬‬
‫ص ‪۵۱۹‬‬
‫)‪A. L. Krober, Encycloperia of Social Sciences, Vol, III, IV (11‬‬
‫‪Macmillan, New York 1959, p: 121‬‬
‫وزیر آغا‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مذاکرہ‪ ،‬مشمولہ‪ :‬سوال یہ ہے؟ مرتبہ ‪ :‬نوشی انجم‪ ،‬بیکن‬ ‫(‪)۱۲‬‬
‫بکس ملتان ‪۲۰۰۴‬ء‪ ،‬ص ‪۴۸۱‬‬
‫(‪ )۱۳‬سید عبدہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مشمولہ‪ ،‬سوال یہ ہے‪ ،‬مرتبہ ‪ :‬نوشی انجم‪ ،‬بیکن بکس ملتان‬
‫‪۲۰۰۴‬ء‪ ،‬ص ‪۴۶۰‬‬
‫(‪ )۱۴‬عطش درانی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اسالمی فکر و ثقافت‪ ،‬مکتبہ عالیہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪۱۹۸۷ ،‬ء‪،‬‬
‫ص ‪۷۱‬‬
‫شعبہ تحقیق و مطبوعات‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫نظریہ ثقافت‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫(‪ )۱۵‬فرمان فتح پوری‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مضمون‪ ،‬اقبال کا‬
‫ادارہ ثقافت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬جون ‪۱۹۸۲‬ء‪ ،‬ص ‪۴۵‬‬
‫جمیل جالبی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستانی کلچر‪ ،‬نیو مجاز پریس کراچی ‪۱۹۹۷‬ء‪ ،‬ص‬ ‫(‪)۱۶‬‬
‫‪۴۲‬‬
‫(‪ )۱۷‬عبدالحکیم‪ ،‬خلیفہ‪ ،‬ثقافت‪ ،‬مشمولہ‪ :‬کلچر (منتخب تنقیدی مضامین)‪ ،‬مرتبہ اشتیاق‬
‫احمد‪ ،‬بیت الحکمت الہور ‪۲۰۰۷‬ء‪ ،‬ص ‪۳۶‬‬
‫(‪ )۱۸‬کرار حسین‪ ،‬پروفیسر‪ ،‬پاکستانی کلچر اور اس کے مسائل (مضمون )نیا دور‪،‬‬
‫شمارہ ‪۴۸‬؍‪ ،۴۷‬ص ‪۳۷‬‬
‫فیض احمد فیض‪ ،‬میزان‪ ،‬ناشرین الہور‪ ،‬سن‪ ،‬ن‪ ،‬ص ‪۹۰‬‬ ‫(‪)۱۹‬‬
‫دور جدید کے عالمگیر فتنے‪ ،‬جاوید اکیڈمی ملتان‪،‬‬‫عبدالرحمٰ ن خان‪ ،‬منشی‪ِ ،‬‬ ‫(‪)۲۰‬‬
‫‪۱۹۸۰‬ء‪ ،‬ص ‪۲۰۹‬‬
‫)‪T. S. Eliot, Notes Towards the Definition of Culture Faber (21‬‬
‫‪and Faber London, 1948, p:21‬‬
‫)‪Bronisla Malinowski, A Scientific Theory of Culture and (22‬‬
‫‪Other Essays, Oxford University Press. N. Y, 1960, p-6‬‬
‫)‪Oxford English Urdu Dictionary, Edited by Shan ul Haqqi, (23‬‬
‫‪Oxford University Press, 2011‬‬
‫)‪Cambridge, Advanced Learner's Dictionary by Elizabeth (24‬‬
‫‪Walter Cambridge University Press 2005‬‬
‫‪(25) Merrium Webster's Inc, Springfeld M.A‬‬
‫(‪ )۲۶‬عبدہللا سید ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر کا مسئلہ‪ ،‬سنگ میل الہور ‪۲۰۰۱‬ء‪ ،‬ص ‪۱۷‬‬
‫( ‪ )۲۷‬سجاد باقر رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تہذیب و تخلیق‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد ‪۱۹۸۷‬ء‪،‬‬
‫ص ‪۶۶‬‬
‫( ‪ )۲۸‬سلیم اختر ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر اور ادب‪ ،‬مکتبہ عالیہ الہور‪ ،‬س ن ۔ ص ‪۲۱۰‬‬
‫(‪ )۲۹‬ریاض انور ‪ ،‬اصول تمدن‪ ،‬مکتبہ نظامیہ کراچی۔ ‪۱۹۵۷‬ء‪ ،‬ص ‪۳۱‬‬
‫(‪ )۳۰‬اشفاق احمد‪ ،‬عرض مصنف‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور‪ ،۲۰۰۶ ،‬ص‪۱۰۲‬‬
‫(‪ )۳۱‬اشتیا ق احمد قریشی‪ ،‬برعظیم پاک و ہند کی ملت اسالمیہ‪ ،‬مترجم ہالل احمد‬
‫زبیری‪ ،‬کراچی یونیورسٹی کراچی ‪۱۹۶۷‬ء ص ‪۳۵‬‬
‫(‪ )۳۲‬غالم دستگیر رشید‪ ،‬مرتب‪ ،‬اسالمی تہذیب کیا ہے؟ مکتبہ رزاقی‪ ،‬نیپئر روڈ کراچی‬
‫نمبر ‪۱۹۴۹ ،۲‬ء‪،‬ط‪ :‬سوم‪ ،‬ص ‪۱۱‬‬
‫)‪Hamilton A. R. Gibb, Studies on the Civilization of Islam, (33‬‬
‫‪Islamic Book Service Lahore, 1987, p:329‬‬
‫(‪ )۳۴‬جمیل جالبی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستانی کلچر‪ ،‬نیشنل بک فائونڈیشن اسالم آباد‪،‬ط‪ :‬ششم‪،‬‬
‫‪۱۹۹۷‬ء‪،‬ص ‪۷۰‬‬
‫ت تاریخ‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم‬‫(‪ )۳۵‬محمد صدیق قریشی‪ ،‬مرتب‪ :‬کشاف اصطالحا ِ‬
‫آباد‪۱۹۸۸ ،‬ص‪۷۱ :‬‬
‫)‪The Oxford English Dicitionary (36‬‬
‫)‪Webster's Third New International Dictionary (1971) (37‬‬
‫)‪Random House Dictionary of the English Lanaguage (1987) (38‬‬

‫‪Bill Ashcraft, Gareth Griffiths, Helen Tiffin, The Empire‬‬ ‫)‪(39‬‬


‫‪writes back, Routledge 1989, P:2‬‬
‫)‪Susan Vanzanteri Gallaghar(ed), Post colonial literature and (40‬‬
‫‪the biblical call for justice, USA (University of Mississip, 1994, P:5‬‬
‫پروفیسر ٹائن بی‪ ،‬دی ورلڈ اینڈ دی ویسٹ‪’’ ،‬دنیا اور مغرب‘‘ مترجم ڈاکٹر‬ ‫(‪)۴۱‬‬
‫حسین احمد پراچہ‪ ،‬نشریات الہور ‪۲۰۰۶‬ء‪ ،‬ص ‪۸۲‬‬
‫(‪ )۴۲‬اشفاق سلیم مرزا‪ ،‬فلسفہ ء تاریخ‪ ،‬نوآبادیات اور جمہوریت‪ ،‬سانجھ پبلی کیشنر‬
‫الہور‪،۲۰۱۴ ،‬ص‪۱۱۹‬‬
‫(‪ )۴۳‬مبارک علی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تاریخ اور آج کی دنیا‪ ،‬نگارشات الہور‪۱۹۸۹ ،‬ء ‪ ،‬ص ‪۱۶۵‬‬
‫(‪ )۴۴‬پروفیسر ٹائن بی‪ ،‬دی ورلڈ اینڈ دی ویسٹ‪’’ ،‬دنیا اور مغرب‘‘ مترجم ڈاکٹر حسین‬
‫احمد پراچہ‪ ،‬نشریات الہور ‪۲۰۰۶‬ء‪ ،‬ص ‪۷۲‬۔‪۷۱‬‬
‫صہ‪ ،‬جامعہ اُردو علی گڑھ‪،‬‬
‫(‪ )۴۵‬شبنم سبحانی‪ ،‬ہندوستان کی تہذیبی ترقی میں اُردو کا ح ّ‬
‫‪۱۹۶۷‬ء‪ ،‬ص‪۸۷‬‬
‫( ‪ )۴۶‬مبارک علی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬برطانوی راج ایک تجزیہ)‪ ،‬تاریخ پبلی کیشنز الہور۔‬
‫‪۲۰۱۲‬ء‪،‬ص ‪۵۹‬‬
‫)‪Said Edward, Orientalism, Penguin Books London. 1978. (47‬‬
‫‪pp.19‬‬
‫(‪ )۴۸‬ایڈورڈ بلیو سعید‪ ،‬شرق شناسی‪ ،‬مترجم‪ :‬محمد عباس‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان پاکستان‬
‫‪۲۰۱۲‬ء ص ‪۲‬‬
‫)‪Said Edward, Orientalism, Penguin Books London. 1978. (49‬‬
‫‪pp.18‬‬
‫(‪ )۵۰‬ایڈورڈ سعید‪ ،‬شرق شناسی‪ ،‬مترجم‪ :‬محمد عباس‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان پاکستان‬
‫‪۲۰۱۲‬ء‪ ،‬ص ‪۱‬‬
‫(‪ )۵۱‬ڈاکٹر محمد احمد یاب‪ ،‬اضواء علی االستشراق و المستشرقین‪ ،‬قاہرہ ‪۱۹۸۹‬ء ص ‪۱۰‬‬
‫(‪ )۵۲‬المنجد‪ ،‬مادہ ’’ش ر ق‘‘‬
‫رویۃ اسالمیہ لالستشراق ‪ ،‬مطبوعہ ریاض‪۱۹۸۸ ،‬ء‪،‬‬ ‫(‪ )۵۳‬ڈاکٹر احمدعبدالحمید غراب‪ٔ ،‬‬
‫ص‪۹‬‬
‫النبی‪ ،۱۲۳/۶ :‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪ ،‬الہور‬
‫ؐ‬ ‫(‪ )۵۴‬پیر محمد کرم شاہ االزہری‪ ،‬ضیاء‬
‫؁‪۱۴۱۸‬ھ‬
‫(‪ )۵۵‬ایڈورڈ بلیو سعید‪ :‬شرق شناسی‪ ،‬مترجم محمد عباس‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد‬
‫‪۲۰۱۲‬ء‪ ،‬ص ‪۵۱‬‬
‫(‪ )۵۶‬ایڈورڈ بلیو سعید‪ :‬شرق شناسی‪ ،‬مترجم محمد عباس‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد‬
‫‪۲۰۱۲‬ء‪ ،‬ص ‪۵۳‬‬
‫(‪ )۵۷‬عطش درانی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اردو زبان اور یورپی اہل قلم‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور‬
‫‪ ،۱۹۸۷‬ص ‪۱۲‬‬
‫(‪ )۵۸‬جواز جعفری‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تصورات‪ ،‬فکشن ہائوس الہور ‪۲۰۱۰‬ء‪ ،‬ص ‪۵۷‬‬
‫(‪ )۵۹‬بخاری ‪ ،‬علمدار حسین‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬جدید ادب کا فکری تناظر‪ ،‬مشمولہ مجلہ ’’تخلیقی‬
‫ادب‘‘ شمارہ ‪ ،۰۷‬نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز‪ ،‬اسالم آباد جون ‪۱۲۱۰‬ء‪ ،‬ص‬
‫‪۲۷۱‬‬
‫)‪Said, Edward, Orientalism, London, Penguin Books, 2003. (60‬‬
‫(‪ )۶۱‬ایڈورڈ سعید‪ ،‬اسالم اور مغربی ذرائع ابالغ‪ ،‬مترجم‪ ،‬ظہیر جاوید‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان‬
‫پاکستان‪ ،۲۰۰۷ ،‬ص ‪۱۰،۱۱‬‬
‫شاہد صدیقی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬وائس چانسلر‪ ،AIOU ،‬لیکچر‪ ،‬موضوع اردو افسانے‬ ‫(‪)۶۲‬‬
‫کا منظر نامہ‪ ،‬مشمولہ جامعہ نامہ مارچ ‪۲۰۱۵‬ء ‪ ،‬عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسالم آباد‪،‬‬
‫ص‪۳‬‬
‫(‪ )۶۳‬امتیاز عالم‪’’ ،‬دو بیانیے‘‘‪ ،‬مقالہ برائے سیفما کانفرنس‪ ،‬مشمولہ روزنامہ ایکسپریس‬
‫‪ ۱۰‬جنوری ‪ ،۲۰۱۴‬ص ‪۸‬‬
‫)‪Edward W. Saeed, 'Orientalism', London, Penguin Books, (64‬‬
‫‪2003, P:121‬‬
‫)‪ (65‬ایڈورڈ سعید ‪’’ ،‬ثقافت اور سامراج‘‘‪ ،‬مترجم یاسر جواد‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان پاکستان‪،‬‬
‫‪ ،۲۰۰۹‬ص ‪۴۱‬‬
‫)‪ (66‬ابو الکالم‪ ،‬قاسمی‪ ،‬نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی در‬
‫’’مابعد جدیدیت۔۔اطالقی جہات‪ ،‬ناصر عباس نیئر (مرتب)‪ ،‬الہور‪ ،‬مغربی پاکستان اردو‬
‫اکیڈمی‪ ،۲۰۰۷ ،‬ص‬
‫)‪Bhabha, Homi, The Location of Culture, Routledge, London (67‬‬
‫‪2007, p:182‬‬

‫عہد نوآبادیات میں انگریزی فکشن‪ ،‬آغاز و ارتقاء‬ ‫باب دوم‬


‫الف‪ :‬برصغیر میں انگریزوں کی آمد‬
‫انگریزوں کا پہال تجارتی جہاز ‪ ۱۶۰۱‬ء میں ہندوستان کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ اس‬
‫وقت انگلستان میں ملکہ الزبتھ کی حکومت تھی۔ جب کہ ہندوستان میں شہنشاہ اکبر‬
‫براجمان تھے۔ انگلستان کے بادشاہ جیمز اول کی طرف سے باقاعدہ سفارت ‪۱۶۱۴‬ء میں‬
‫دربار جہانگیری میں پیش ہوئی۔ آگرہ میں انگریز سرتھامس دو تین سال تک مقیم رہا۔‬ ‫ِ‬
‫سترہویں صدی کے شروع میں ہی ولندیزیوں نے پرتگیزوں کے مقبوضہ عالقوں پر‬
‫قبضہ شروع کر دیا۔ بعد ازاں دوسری اقوام جیسے فرانس ‪ ،‬جرمن بشمول انگریز بھی اس‬
‫دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے اپنے اپنے تجارتی مفادات کے لئے کئی جنگیں لڑیں۔‬
‫مگر ان سب اقوام میں سے انگریز غالب آگئے۔ ‪۱۷۰۷‬ء میں اورنگزیب عالمگیر کی‬
‫وفات کے بعد مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تو انگریزوں نے بھی اپنے قدم‬
‫مضبوط کرنے شروع کر دیئے۔ پالسی کی جنگ ‪۱۷۵۷‬ء کے بعد جہاں برصغیر کے‬
‫شمال مشرقی عالقے اور بنگال و بہار انگریزوں کے قبضے میں چلے گئے۔ وہیں اس‬
‫جنگ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا سیاسی اقتدار قائم کر دیا۔ اگلے پچاس برسوں میں ایسٹ‬
‫انڈیا کمپنی پورے جنوبی ہندوستان پر قابض ہو چکی تھی اور کئی اعتبار سے اٹھارویں‬
‫صدی کا برصغیر ایسٹ انڈیا کمپنی کے متحرک فوجی عمل کا محورو مرکز بن گیا۔‬
‫پالسی کی ج نگ نے ایک تجارتی کمپنی کو حکمران اور با اختیار و با اقتدار ادارے میں‬
‫تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد بکسر کی لڑائی ‪ ۱۷۶۴‬ء نے جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک‬
‫فوجی قوت کے طور پر تسلیم کرایا وہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیوانی مراعات بھی حاصل‬
‫ہوئیں۔ جی ایم ٹریویلین )‪ (G.M Trevelyen‬کے مطابق‬
‫دیوانی کے حصول نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو جائز اور با اقتدار ادارہ بنا دیا اور اس طرح‬
‫برصغیر میں ‪ ۱۷۶۵‬ء کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی تجارتی ادارے کی بجائے ایک ایشیائی‬
‫’’ریاست‘‘ کے طور پر نمودار ہوئی۔ (‪(1‬‬
‫‪۱۷۸۴‬ء کے انڈیا ایکٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نظم و نسق میں کئی تبدیلیاں کیں جن‬
‫میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو براہ راست برطانوی کابینہ کے‬
‫ماتحت کر دیا گیا اور ایک بورڈ آف کنٹرول قائم کیا گیا۔ یہی بورڈ برصغیر میں ایسٹ انڈیا‬
‫کمپنی کے اقتدار اور سیاسی پالیسیوں کی نگرانی کرتا تھا اس بورڈ کا ڈائریکٹر برطانوی‬
‫کابینہ نامزد کر تی تھی جو مرتبے میں برطانوی وزیر کے برابر تھا۔‬
‫اٹھارہویں صدی کے خاتمے تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی اور انتظامی ذمہ داریوں‬
‫میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ کلکتے میں گورنر جنرل کے دفتر کا کام نمٹانے کے لئے‬
‫زیادہ سے زیاد ہ مالزمین بھرتی کرنا پڑے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مشرقی‬
‫طرز کے مدرسے قائم کئے گئے جو بعد ازاں اورینٹل کالج کے نام سے پکارے گئے اس‬
‫کے ساتھ انگلستان سے ہندوستان آنے والے نوواردان کو ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور‬
‫زبان سے روشناس کرانے کے لئے بھی ادارے قائم کئے گئے جن میں ابتدائی کوششوں‬
‫میں خاص طور پر مدراس کے فورٹ سینٹ جارج میں قائم کیا جانے واال کالج شامل ہے۔‬
‫جسے جوزف کلیٹ )‪ (Joseph Coluit‬نے قائم کیا۔ ان اورینٹل کالجوں کے ذمے ہندو‬
‫اور مسلم قوانین کو انگریزی میں ڈھالنے کا کام تھا۔ سب سے پہال کالج محمڈن اورینٹل‬
‫کالج ‪۱۷۸۰‬ء میں کلکتہ میں قائم کیا گیا۔ بعد ازاں ایسے ہی کالج بنارس‪ ،‬آگرہ اور دلی میں‬
‫قائم ہوئے۔‬
‫ایسٹ انڈیا کمپنی کی مقبوضات نے کمپنی کے کردار میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کردہ تھیں‬
‫اور کمپنی تجارتی ادارے سے حکمران اور با اقتدار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی‬
‫تھی اور اس کے استعماری عزائم بھی کھل کر سامنے آ چکے تھے۔ پروفیسر ابوالکالم‬
‫قاسمی اس صورتحال کا جائزہ یوں پیش کرتے ہیں۔‬
‫مغربی استعماریت کو حتمی اور کلی حیثیت یوں تو ‪۱۸۵۷‬ء میں حاصل ہوئی۔ مگر اس‬
‫سے پہلے کی لسانی خدمات اور تعلیمی پالیسی نے مغربی تہذیب کی برتری کا اعتبار قائم‬
‫کرنا شروع کر دیا تھا۔ فورٹ ولیم کالج ‪ ،‬رائل ایشیا ٹک سوسائٹی اورینٹل سمینری‬
‫)‪(Orientel Seminary‬دہلی کالج‪ ،‬کلکتہ مدرسہ‪ ،‬اور بنارس اور آگرہ کے کالجوں کی‬
‫ظاہری مشرقیت پسندی اور تعلیمی خدمات نے ایک ایسی فضا قائم کر دی تھی کہ ایک‬
‫بڑے عل می حلقے کو اس نوع کا کوئی برطانوی اقدام نہ صرف یہ کہ شک و شبہے سے‬
‫باال تر نظر آنے لگا تھا بلکہ اس نوع کے اقدامات میں ہی اسے ہندوستانی عوام کی تعلیمی‬
‫اور تہذیبی فالح و بہبود کا رستہ دکھائی دینے لگا تھا۔ (‪(2‬‬
‫ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق‪:‬‬
‫ابتدائی دور میں جب انگریز بحیثیت تاجر کے ہندوستان میں آئے ‪ ،‬تو وہ ہندوستانی تہذیب‬
‫و تمدن اور ثقافت سے متاثر ہوئے۔ وہ یہاں کے لوگوں میں گھل مل کر رہتے۔ انہوں نے‬
‫طرز معاشرت اور عادات و اطوار کو اختیار کیا اور اسی ثقافت میں‬ ‫ِ‬ ‫یہاں کا رہن سہن‪،‬‬
‫مدغم ہوگئے۔ ابتدائی دور کے انگریز نہ تو تہذیبی برتری کے تصور میں مبتال نظر آتا‬
‫ہے اور نہ ہی نسلی فوقیت کا شکار اور نہ ہی اس میں اہل ہندوستان کے لئے نفرت و‬
‫حقارت کے جذبات ملتے ہیں۔ سترہویں سے اٹھارہویں صدی تک‪ ،‬انگلستان اور ہندوستان‬
‫کی ثقافت میں برابری کا احساس تھا۔ (‪(3‬‬
‫جیسے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی مضبوط ہوتی گئی‪ ،‬انگریزی اقتدار مستحکم ہوتا رہا‪ ،‬اور‬
‫لوگوں کا ان سے واسطہ پڑنے لگا تو ان کے بارے میں لوگوں کی رائے بھی بدلنے لگی‬
‫‪ ،‬انہیں ’’صاحبان عالیشان‘‘ الٹ صاحب‪ ،‬وغیرہ کے خطابات اور القابات سے یاد کیا‬
‫جانے لگا۔ جب ان کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں کا تقابل ہوا تو لوگوں کو ان‬
‫دونوں میں فرق نظر آیا۔ خصوصا ً وہ ہندوستانی کہ جنہوں نے کمپنی کی مالزمت اختیار‬
‫کر لی تھی وہ انگریزوں کے طور طریق ‪ ،‬عادتوں اور ان کی انتظامی صالحیتوں سے‬
‫بڑے مرعوب ہوئے۔ خاص طور پر انگریزوں نے جنگ آزادی کے بعد برصغیر پاک و‬
‫ہند می ں اپنی حیثیت کو بہت مستحکم کر لیا‪ ،‬مسلمان اب تاج و تخت اور اقتدار سے محروم‬
‫ہو چکے تھے اور سیاسی میدان میں ان کی حیثیت صفر کے برابر رہ گئی تھی۔‬
‫پروفیسر جیالنی کامران اس صورتحال میں زبان کے کردار کے حوالے سے یوں تبصرہ‬
‫کرتے ہیں‪:‬‬
‫حقیقت یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپن ی کی مقبوضات جس برصغیر میں نمودار ہوئی تھیں وہ‬
‫اسالمی ہندوستان تھا جس کی تہذیب اور تہذیبی زبان پر مسلمانوں کے اثرات غالب تھے۔‬
‫عربی اور فارسی علم و حکمت کی زبانیں تھیں اور برصغیر کے طول و عرض میں‬
‫فارسی دفتر و دربار کی زبان تھی۔ (‪(4‬‬
‫یہی وجہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب نظم و نسق کے لئے مختلف محکمے قائم کئے‬
‫اور مال گزاری اور عدالتوں کے سلسلے میں حقائق کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بھی‬
‫فارسی زبان کو ہی استعمال کیا اور چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک وسیع تر تہذیبی براعظم‬
‫میں ان نئی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہی تھی اس لئے‬
‫کمپنی کی تعلیمی پالیسی میں بھی ان زبانوں کو نہ صرف شامل کیا گیا بلکہ ان کی ترویج‬
‫کے لئے اورینٹل کالجز قائم کئے گئے۔ مگر بعد میں اس تہذیبی زبان کو سرکاری زبان‬
‫کی حیثیت سے خارج کر دیا گیا اور انگریز نے بڑی ہوشیاری سے اس سرچشمے کو‬
‫خشک کردیا۔ جس سے وابستہ رہتے ہوئے اہل ہند کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنی‬
‫تہذیبی روایات سے دامن چھڑا سکیں۔‬
‫کیا ‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی محض سیاسی جنگ تھی ہر گز نہیں‪ ،‬یہ ایک جنگ تو تھی‬
‫مگر ’’مقامی اور غیر مقامی‘‘ دو تہذیبوں کے درمیان ایسی آخری کشمکش تھی جس میں‬
‫دساوری تہذیب فتح یا ب ہوئی۔ یہی وہ نکتہ آغاز تھا جس نے بعد ازاں تاجری سے‬
‫تاجوری کی شکل اختیار کی۔ یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی سے آگے بڑھتے ہوئے‬
‫ہندوستان کا رشتہ انگلستان کی پارلیمنٹ سے قائم ہوا۔ برصغیر کے عوام اب براہ راست‬
‫مغربی اثرات کی زد میں آگئے اب یہ محض تاجروں کی تہذیب نہیں تھی بلکہ تاجوروں‬
‫اور حکمرانوں کی تہذیب بن گئی۔ اس وجہ سے اس تہذیب کو اتنی تقویت حاصل ہوئی کہ‬
‫یہ مقامی لوگوں کے گھروں اور دلوں میں داخل ہوگئی۔ مگر اہم بات یہ ہوئی کہ یہ‬
‫مسلمانوں نے اس تہذیب کو عمومی طور پر قبول نہیں کیا اور یہاں تہذیبی مالپ کی‬
‫بجائے تہذیبی کشمکش کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر عابد حسین اس تہذیب کے اثرات کے حوالے‬
‫سے رائے دیتے ہیں‪:‬‬
‫اٹھارویں صدی کے ربع آخر سے مغربی تہذیب کے تھوڑے بہت اثرات ایک محدود‬
‫عالقے میں ہندوستان پر پڑنے شروع ہوگئے تھے لیکن وہ اتنے نہیں تھے کہ ہندوستانی‬
‫وسطی کی ذہنیت میں جس پر یہ تہذیب بنی تھی کوئی‬ ‫ٰ‬ ‫تہذیب کی عام شکل میں اور عہد‬
‫تبدیلی کرسکیں۔ (‪(5‬‬
‫مغربی تعلیم کے آنے سے مغربی فلسفیانہ خیاالت بھی تہذیبی زندگی پر اثر انداز ہونے‬
‫لگے جن کی بدولت لوگوں کی زندگیوں پر مختلف اثرات مرتب ہوئے اور ان اثرات کی‬
‫حتی کہ مذہبی خیاالت و رجحانات میں تبدیلی‬ ‫بدولت ‪ ،‬معیار زندگی اور طرز معاشرت ٰ‬
‫واقع ہوئی۔ڈاکٹر عابد حسین کے مطابق‪:‬‬
‫جنگ آزادی ‪۱۸۵۷‬ء کا بگل بجتے ہی وہ جو ایک جھجھک اور درپردہ حکومت کی‬
‫مصلحت تھی‪ ،‬ختم ہوگئی‪ ،‬نئی تہذیب کا وہ قافلہ جو آہستگی سے چل رہا تھا۔ اچانک برق‬
‫رفتاری سے رواں دواں ہوگیا۔ انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب پورے ملک‬
‫پر چھاگئی اور اس نے ہندوستانیوں کی ساری زندگی کو درہم برہم کر دیا۔ (‪(6‬‬
‫مغربی تعلیم کے سب سے زیادہ اثرات طرز معاشرت پر پڑے اور ہم نے ہر چیز میں‬
‫نقالی شروع کر دی اور معاشرت بدیسی تہذیب کا ایک چربہ بن گئی اور مضحکہ خیز‬
‫’’بابو‘‘ والی صورت حال پیدا ہوئی۔ اس بارے میں گستائولی بان یوں منظر کشی کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫خیاالت کی پراگندگی کے ساتھ ’بابو‘ پر جو ایک خوفناک اثر پوری تعلیم کے متعلق‬
‫الپرواہی آگئی… وہ اپنے باپ دادا کے اعتقادات کھو بیٹھا اور یورپی لوگوں کے اصول‬
‫چال چلن بھی اس نے اختیار نہیں کئے۔ (‪(7‬‬
‫اس قسم کے اثرات کا سب سے قوی محرک ذہنی غالمی ہے اور یہ ایسی صورتحال ہے‬
‫جس کا نقشہ البرٹ میمی )‪ (Albert Memie‬جو تیونس کا باشندہ ہے اس نے اپنی کتاب‬
‫‪The Colonizer and the Colonized‬مطبوعہ ‪(Orion Press New York,‬‬
‫)‪ 1965,P: 120,128‬میں پیش کیا ہے اور خاص طور پر ان نفسیاتی عوامل کا ذکر کیا‬
‫ہے جو ایک مغلوب قوم پر احساس کمتری کی وجہ سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس نے‬
‫مغلوب قوم کے باشندوں کے بارے میں لکھا ہے کہ چونکہ وہ غالب قوم سے ذہنی طور‬
‫پر مرعوب ہوتے ہیں اور اس پر رشک بھی کرتے ہیں اس لئے انہیں اپنے آقائوں کی نقل‬
‫کرنے میں ذہنی تسکین ملتی ہے کیونکہ انہیں اپنے آقائوں کے اندر قوت اور اقتدار نظر آ‬
‫رہا ہوتاہے۔‬
‫برصغیر کے لوگ چوں کہ اب محکوم تھے ٰلہذا ان کی تہذیب بھی محکوموں کی تہذیب‬
‫تھی اور انگریزوں کی تہذیب فاتح حکمرانوں کی تہذیب تھی۔ ٰلہذا برصغیر میں تصور‬
‫حقیقت سے عاری اور افالس کی ماری محکوم قوم مغربی تہذیب کی طرف بڑھی اور‬
‫عجیب صورتحال سے دوچار ہوئی ایسی ہی صورتحال کا تجزیہ ڈاکٹر اقبال نے کیا ہے‪:‬‬
‫تصور حقیقت ہوگا اس کے مطابق تہذیب‬ ‫ِ‬ ‫تہذیبیں تصور حقیقت کے مطابق ڈھلتی ہیں جیسا‬
‫ہوگی۔ جب دو تہذیبوں کا اتصال ہوتا ہے تو یقینی طور پر مغلوب قوم کا تصور حقیقت‬
‫مجروح ہوتا ہے اسی لئے کسی تہذبی سے کچھ اخذ کرتے ہوئے نہایت احتیاط اور ضبط‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے۔ (‪(8‬‬
‫مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی بڑا سیاسی انقالب رونما ہوتا ہے تو اپنے اقتدار کو‬
‫استحکام اور دوام بخشنے کیلئے تہذیبی قوتوں کو ضرور بروئے کار التا ہے اگر فاتحین‬
‫کی تہذیب کسی بھی اعتبار سے جاندار ہے تو محکوم تہذیب کو پھیلنے پھولنے کا موقع‬
‫ملنے کے بجائے دوسری تہذیب پھیلے گی۔ انگریزی سیاسی تبدیلی جب برصغیر میں‬
‫وقوع پذیر ہوئی تو انگریزوں نے نظم و نسق کو بہتر بنانے کی آڑ میں ایسی اصطالحات‬
‫کیں جن کا برصغیر کی معاشرت اور تمدن پر برا ِہ راست اثر ہوا اور یہاں ایک تبدیلی‬
‫رونما ہوئی۔ اس تغیر نے ان ممتاز اور خاص لوگوں کی اہمیت اور حیثیت کم کر دی جو‬
‫کہ قدیم روایت اور پرانی وضع کے حامی تھے۔ تہذیبی روایات کے امین نوابوں اور امراء‬
‫کی بجا ئے انگریزی داں مالزم ہوگئے اور وہ انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے ہر اس‬
‫چیز کی حوصلہ افزائی کرتے جس کا تعلق مغرب سے ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی‬
‫فلسفہ‪ ،‬ادب ‪ ،‬سیا ست ‪ ،‬جمہوریت اور معاشرت کے تصورات ہماری تہذیب میں نمایاں‬
‫جگہ پانے لگے۔ ‪۱۸۶۹‬ء میں نہر سویز کے کھلنے پر ہندوستان کا بیرونی دنیا سے رابطہ‬
‫ہوگیا۔ بیرونی دنیا میں اس وقت صنعتی انقالب نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا‬
‫حریف بنا دیا تھا۔ روحانیت کے خالف مادیت صف آراء تھی۔ مذہب سے کوئی فائدہ‬
‫حاصل نہ ہونے پر اس کو بے کار سمجھا گیا۔ جدید علوم کے ذریعے ایسے ہی تصورات‬
‫نے برصغیر کے عوام کی معاشرت کو بھی متاثر کیا اور مذہب و سائنس کی یہ آویزش‬
‫مذہبی مناظروں کے عالوہ ادب میں بھی ظاہر ہوئی۔‬
‫غرض یہ کہ انگریزوں کی آمد سے برصغیر کے معاشرے میں ہمہ گیر اثرات مرتب‬
‫ہوئے جس نے سارا منظر نامہ تبدیل کر دیا۔ سیاست‪ ،‬معیشت‪ ،‬معاشرت‪ ،‬عقائد ‪ ،‬نظریات‪،‬‬
‫سماجیات وغیرہ ہر چیز پر مغربی رنگ جھلکنے لگا۔ جب برطانوی تسلط نے عملی شکل‬
‫حاصل کر لی تو یہ اثرات پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو کر سامنے آنے لگے اور‬
‫دوسرے تمام شعبہ حیات کی طرح مقامی ادب نے بھی انگریزی ادب سے بالواسطہ یا براہ‬
‫راست اثرات قبول کرنے شروع کر دیے تو مقامی زبان میں بھی جدید موضوعات ادب کا‬
‫حصہ بنے اور اس کے ساتھ افکار و اسالیب میں بھی مغربی اثرات نظر آنے لگے۔ یہی‬
‫وہ تاریخی منظر نامہ تھا جس میں انگریزوں اور اینگلو انڈین ادبا نے ناول لکھے ۔ اردو‬
‫ناول بھی مغرب سے قریب تر ہوتا گیا اور انگریزی کے ساتھ فرانسیسی ناولوں کے‬
‫اثرات بھی فزوں تر ہوگئے۔ ذہنی رویوں کے بدلنے کے ساتھ ہی عوام کی زندگیوں میں‬
‫انقالب آیا اور ادب چونکہ سوسائٹی سے اثر پذیر ہوتا ہے اس لئے ادب میں بھی انقالب‬
‫آیا۔ اصناف ِ ادب میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں اور ہمارے مقامی ادیبوں کا ذہن‬
‫انگریزی فکر اور تخیل کی سطح پر تیرنے لگا۔ دوسرے لفظوں میں انگریزی حکومت‬
‫کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب پورے ملک پر چھا گئی۔‬

‫برصغیر میں اینگلو انڈین لٹریچر(انگریزی ادب)…… آغاز و ارتقاء‬ ‫ب‪:‬‬


‫انگریزوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلق پر‬
‫سینکڑوں کی تعداد میں فکشن )‪ (Fiction‬اور نان فکشن )‪ (Non Fiction‬ادب تخلیق‬
‫ہوا۔ انگریز ‪۱۶۰۰‬ء میں بحیثیت تاجر ہندوستان میں وارد ہوئے اور کشور ہندوستان کے‬
‫تاجور بنے۔ تقریبا ً دو صدیوں سے زائد عرصے پر محیط ان کا قیام ہندوستان میں نو‬
‫آبادیاتی عہد کہالتا ہے۔‬
‫اینگلو انڈین فکشن ہندوستان کے عالوہ ہندوستان میں انگریز مردو خواتین کی زندگی کا‬
‫عکاس بھی ہے۔ اینگلو انڈین فکشن کی اصطالح کثیر الجہات ہے جسے محدود یا وسیع تر‬
‫معانی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر اس سے مراد ایسا ناول ہے جو ہندوستان‬
‫سے متعلق ہو اور انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو اور خاص معنوں میں اس سے‬
‫مراد ایسا فکشن ہے جو ہندوستان میں رہنے والے انگریزوں کے روز و شب کی تصویر‬
‫کشی کرے۔‬
‫اور اس سے محدود معنونمیں بھوپال سنگھ )‪ (Bhupal Singh‬کے مطابق‪:‬‬
‫اس سے مراد ایسا ناول ہے جو یوروایشین کے متعلق ہو‪ ،‬جو آج کل اپنے آپ کو اینگلو‬
‫انڈین کہلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔(‪(9‬‬
‫ایم کے نائیک )‪ (M. K. Naik‬اینگلو انڈین فکشن کی تعریف بیان کرتے ہوئے رقم‬
‫طراز ہیں‪:‬‬
‫‪Anglo Indian fiction may broadly be defined as fiction by British‬‬
‫‪writers in whcih generally a British or occidental protagonist‬‬
‫‪operates mostly in an Indian setting (Though the scene may shift‬‬
‫‪to England occasionally) and interacts with Indian and other‬‬
‫)‪British or occidental characters. (10‬‬
‫’’ اینگلوانڈین فکشن سے وسیع طور پر برطانوی مصنفین کا تحریر کردہ ایسا فکشن مراد‬
‫لیا جا سکتا ہے جس میں عمومی طور پر ایک برطانوی یا مغربی خاص کردار ہندوستانی‬
‫ماحول میں رہ کر کام کرتا ہے (اگرچہ منظر نامہ کبھی کبھار انگلستان بھی منتقل ہو سکتا‬
‫ہے) اور دوسرے ہندوستانی‪ ،‬برطانوی یا مغربی کرداروں سے تعامل کرتا ہے۔‘‘‬
‫جینی شارپ )‪ (Jenny Sharp‬کے مطابق بھی اینگلو انڈین )‪ (Anglo- Indian‬کی‬
‫اصطالح ان انگریز مردو خواتین کے لئے استعمال ہوتی ہے جو کہ اٹھارویں اور انیسویں‬
‫صدی کے دوران انڈیا میں قیام پذیر رہے ہونوہ تجویز کرتے ہیں کہ‬
‫’’یہ بات اہم ہے کہ اینگلو انڈین کو محض سفید فام نو آباد کار نہیں بلکہ ایک جال وطن قوم‬
‫سمجھنا چاہئے‘‘۔‬
‫‪..... it is important to think of "Anglo- Indians" not so much as a‬‬
‫)‪white settler colony, but more as community in exile. (11‬‬
‫یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ انگریزوں کی برصغیر میں آمد کے بعد‬
‫انگریزوں کے تحریر کردہ ناولوں کے عالوہ یہاں کے مقامی باشندوں نے بھی انگریزی‬
‫زبان میں ناول تحریر کئے۔ اینگلو انڈین فکشن کا عرصہ تقریبا ً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔‬
‫انتھونی برجس )‪ (Anthony Burgess‬اپنی کتاب "‪ "The novel Now‬میں انگریزی‬
‫ادب غیر ملکی یا بیرونی ناولوں کی دو اقسام بیان کرتے ہیں۔’’ اوالً برطانوی مقامی‬
‫باشندوں کے تحریر کردہ ناول جن کے ذریعے وہ برطانوی نو آبادیات یا ان عالقوں میں‬
‫جو برطانوی حکومت کے زیر تسلط ہوں ان کی روح میں جھانکتا ہے‪ ،‬ثانیا ً یہ کہ ان میں‬
‫سے کسی ایک کا باشندہ جو کہ انگریزی فکشن کے ذریعے اس ’اصل‘ کو دیکھتا ہے اور‬
‫اس روایت کا اظہار کرتا ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے‘‘۔‬
‫‪The one written by a native of the united kingdom that probes into‬‬
‫‪the essence of a British colony or dominion or Protectorate .....‬‬
‫‪"the other by" a native of one of these that, in the stream of fiction‬‬
‫‪in English, books at that essence as it expresses it self in a‬‬
‫)‪tradition he takes for granted. (12‬‬
‫اینگلو انڈین لٹریچر کے اجمالی تذکرے سے قبل اس امر کی وضاحت ضروری‬
‫ہے کہ انگریزی ادب کی کتب تواریخ (اردو) میں انگریزی ناول نویسوں کی تاریخ کو تو‬
‫گلشن پُربہار سمجھ کر بخوبی مساحت کی گئی ہے مگر ان روایتی تاریخ کی کتابوں میں‬ ‫ِ‬
‫الگ سے اینگلو انڈین ناول نگاروں کے تعارف کو وادی ٔ خشک جان کر گام فرمائی سے‬
‫گریز کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اگرچہ ان کتب میں ہمیں ابتدائی انگلو سیکسن ادب سے‬
‫دور تجسس کے عالوہ دوسری‬ ‫لے کر نشاۃ الثانیہ کے عروج‪ ،‬نوکالسیکیت‪ ،‬رومانیت‪ِ ،‬‬
‫جنگ عظیم کے بعد کے ادب کا مفصل ذکر ملتا ہے۔ اور بعض دوسری کتب میں ہمیں‬
‫دور الزبتھ ‪ ،‬وکٹورین عہد کے عنوانات سے تفصیلی جائزے بھی ملتے ہیں مگر الگ سے‬ ‫ِ‬
‫بطور مجموعی‬‫ِ‬ ‫امتیاز خصوصی حاصل نہ ہوسکا۔ یعنی‬ ‫ِ‬ ‫اینگلو انڈین ناول کو اس طرح کا‬
‫ناول کی تاریخ بیان کرنے میں اطناب سے کام لیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس اینگلو‬
‫انڈین ادب کے بیانیے میں ایجاز و اختصار کو ترجیح دی گئی ہے۔‬
‫راقم کے پیش نظر چونکہ مخصوص اینگلوانڈین ناولوں کا مابعد نوآبادیاتی سیاق‬
‫میں تجزیاتی مطالعہ ہے اس لیے ضروری سمجھا کہ اہم اینگلوانڈین ناول نویسوں کے‬
‫اسمائے گرامی مع ان کی تخلیقات کو زمانی ترتیب کے حساب سے قلم بند کیا جائے۔‬
‫اینگلو انڈین ناولوں کے پہلے دور کا آغاز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز ‪(Warren‬‬
‫جنگ آزادی‬
‫ِ‬ ‫جنگ آزادی ‪۱۸۵۷‬ء تک ہے۔ دوسرا دورانیہ‬ ‫ِ‬ ‫)‪Hastings‬سے شروع ہو کر‬
‫سے ملکہ وکٹوریہ)‪ (Queen Victoria‬کی وفات تک ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ ‪(Rudyard‬‬
‫)‪Kipling‬کا ’’ ِکم )‪۱۹۰۱‘‘ (Kim‬ء اسی دور کی یادگار ہے۔ تیسرا دور ‪ ۱۹۰۵‬ء میں‬
‫تقسیم بنگال سے شروع ہوتا ہے اور تقسیم ہندوستان تک چلتا ہے۔ میڈوز ٹیلر‬
‫)‪(Meadous Taylor‬اور ڈبلیو ڈی آرنلڈ )‪ (W.D. Arnold‬پہلے دور کے نمائندہ ناول‬
‫نگار ہیں۔ سرہنری کننگھم )‪ (Sir Henry Cunninghem‬اور رڈیارڈ کپلنگ‬
‫)‪(Rudyard Kipling‬دوسرے دور کے ‪ ،‬جب کہ ایڈمنڈ کینڈلر ‪(Edmund‬‬
‫)‪ ،Candler‬ای ۔ ایم ‪ ،‬فاسٹر )‪ (E.M Forster‬اور ایڈورڈ تھامسن ‪(Edward‬‬
‫)‪ Thompson‬تیسرے دور کے نمائند ہ ہیں۔ پہلے دور کے ناول اینگلو انڈینز کی‬
‫سرکاری مصروفیات کی عکاسی کرتے ہیں جس میں خاص طور پر طنزیہ پہلو حاوی‬
‫ہے۔ تیسرے دور کے ناولوں کے موضوعات متنوع اور وسیع تر ہیں اور تغیر پذیر‬
‫ہندوستان کی بوقلموں حیات اور مسائل کے صحیح عکاس ہیں ان تمام ناولوں کے عمومی‬
‫موضوعات میں بے اطمینانی‪ ،‬کشمکش ‪ ،‬ناخوشی ‪ ،‬غلط فہمیاں اور ہندوستان میں شادی‬
‫شدہ زندگی کی پیچیدگیاں شامل ہیں۔‬
‫فنی طور پر اینگلو انڈین فکشن چند روزہ ‪ /‬عارضی زندگی کا ریکارڈ اور ترجمان ہے۔‬
‫بعض نقادوں کے مطابق کپلنگ کے عالوہ انگریزی ادب کی تاریخ میں جگہ پانے والے‬
‫ناولوں کی تعداد درجن بھر سے زائد نہیں ہے۔‬
‫ابتدائی اینگلو انڈین ادب‬
‫ازمنہ قدیم سے ہی یورپ ہندوستان سے مسحور رہا اور اسے سونے چاندی ‪،‬ہیرے‬
‫جواہرات کی سرزمین سمجھا گیا اور برطانوی دور حکومت میں برصغیر کی اہمیت‬
‫کااندازہ اس مقولے سے بھی ہوتا ہے جس میں اسے "‪ "Jewel in the Crown‬یعنی‬
‫برطانوی شہنشاہیت کے تاج )‪ (Crown‬میں ایک ہیرا )‪(Jewel‬قرار دیا گیا۔ واسکوڈے‬
‫گاما کے سفر کے بعد کئی قصے کہانیاں تخلیق کئے گئے۔ ملکہ الزبتھ ‪(Queen‬‬
‫)‪Elizabeth‬کے عہد سے مسافران ہند نے یہاں کے طلسماتی کیفیات و حاالت کو‬
‫قرطاس پر منتقل کیا۔ کرسٹوفر مارلو )‪ (Christopher Marlowe‬نے ‪"Tambur‬‬
‫"‪Laine‬میں مشرق کا ذکر کیا۔‬
‫‪Men from the Farthest equinatial lading their ships with gold and‬‬
‫)‪precious stones (Tamburlaine 1.1‬سترھویں صدی تک اگرچہ ہندوستان‬
‫طویل فاصلے کی دھند میں لپٹا ہوا تھا اور محض شاعرانہ خواب تصور کیا جاتا تھا۔ پھر‬
‫اس کے رومانس میں تخفیف شروع ہوئی۔ سرٹامس برائون )‪ (Thomas Browne‬نے‬
‫ایسٹ انڈیا کمپنی میں سرمایہ کاری کے نقصانات کا تذکرہ کیا ۔ ایولن )‪ (Evelyn‬نے‬
‫اگلی صدی کے نوابوں )‪ (Nabobs‬کی جھلک اس وقت کے ایسٹ انڈیا کے شان و‬
‫شوکت رکھنے والے تاجروں کی شکل میں دکھائی۔ اسی طرح کا کردار ڈرائیڈن‬
‫)‪(Dryden‬نے سرمارٹن )‪ (Sir Martin Marall‬کی شکل میں دکھایا۔ یہ معاملہ‬
‫اٹھارویں صدی سے قبل تک تھا۔ یہاں تک کہ کالئیو )‪ (Clive‬کی فتوحات کے بعد اہل‬
‫انگلستان نے حقیقی انڈیا کو دیکھنا شروع کیا اور اینگلو انڈین فکشن کی بنیاد پڑی۔‬
‫‪ ۱۷۷۲‬ء میں اینگلو انڈینز کی غیر دانشمندانہ اور عجیب و غریب حرکات و سکنات کی‬
‫طرف پہلی دفعہ انگلستان کی عوام اور مصنفین نے التفات کیا۔ جب ہیسٹنگز )‪(Hastings‬‬
‫کی گورنر جنرل شپ میں فوت )‪(Fote‬نے پہلی دفعہ "‪ "The Nabobi‬لکھی جس میں‬
‫انڈیا سے مراجعت کرنے والے سرمیتھیو مائٹ )‪(Sir Mathew Mite‬کی تصویر کشی‬
‫کی۔ ‪۱۷۷۳‬ء میں "‪ ، "The Nabob‬یا ’’ایشیائی ڈاکو )‪‘‘ (Asiatic Plunderers‬جیسی‬
‫نظمیں شائع ہوئیں۔ این ۔ ایف تھامسن )‪ (N-F-Thompson‬نے’’ نوابوں کی سازشیں ‘‘‬
‫)‪(Intrigues of Nabobs‬شائع کی۔‬
‫‪۱۷۸۵‬ء میں میکنزی )‪ (Mackenzie‬نے مسز مشروم )‪ (Mrs. Mushroom‬کی‬
‫شخصیت میں نوابوں )‪ (Nabobs‬پر گہرا طنز کیا۔ اسی سال چار جلدوں میں ’’اینا‘‘ یا‬
‫’’ویلش جانشینوں کی یادیں )‪‘‘ (Momoirs of a welsh Heiress‬شائع ہوئی جو کہ‬
‫نوابوں کے عجیب و غریب قصوں اور کہانیوں سے بوقلموں تھی۔‬
‫‪India in English Literature‬کے مطابق مسٹر آر ۔ این ۔ سینسکورٹ ‪(R.N.‬‬
‫)‪Sencourt‬کا ناول "‪ "The Disinterested Nabob‬اینگلو انڈین ناولوں میں سے‬
‫اولین مانا جاتا ہے۔‪ 1789‬ء میں "‪ "Hortly House‬شائع ہوا جس کو اگرچہ ناول ہی‬
‫بیان کیا جاتا ہے مگر درحقیقت وہ پہال جرنل ہے جو کہ کسی عورت نے انگلینڈ میں اپنی‬
‫دوست کے لئے لکھا۔ صوفیہ گولڈ بورن )‪ (Sophia Goldbourne‬ایک انگریز لڑکی‬
‫نے ارابیال )‪ (Arabella‬کو ہندوستان میں اپنی زندگی کو قابل رحم قرار دیتے ہوئے‬
‫اظہار افسوس کیا۔ اس میں کلکتہ کی خواتین کا روزانہ خریداری کے لئے چار یا پانچ‬
‫ہزار پائونڈ خرچ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کئی سالوں تک ہندوستان یا‬
‫منظر عام پر نہیں آیا۔‬
‫ِ‬ ‫ہندوستانی معاشرت کے بارے میں کوئی ناول‬
‫‪۱۸۱۱‬ء میں مس سڈنی اوینسن )‪ (Miss Sydney Owenson‬جو کہ بعد میں لیڈی‬
‫مورگن )‪ (Lady Morgan‬بن گئیں انہوں نے ــ’’دی مشنری )‪‘‘ (The Missionary‬تین‬
‫جلدوں میں تحریر کیا اور اس میں ہندوستان کی کہانی بیان کی گئی۔ اس کے بعد ‪۱۸۲۸‬ء‬
‫میں "‪ "English Homes in India‬تحریر کیا۔ جس میں اینگلو انڈین لوگوں کی زندگی‬
‫کی عکاسی کی گئی۔‬
‫مس اوینسن )‪ (Miss Owenson‬سے زیادہ اہم نام ڈبلیو بی ہاکلے )‪(W.B.Hockley‬کا‬
‫ہے جو کہ بمبئی سول سروس کا رکن تھا۔ جس نے ‪1828‬ء تک تین دلچسپ کتب تحریر‬
‫کیں جو کہ بالترتیب ‪ ۱۸۲۶ "Pandurang Hari",‬میں ‪"The Tales of ،‬‬
‫"‪۱۸۲۷Zanama‬ء میں اور "‪۱۸۲۸ "The English in Indian‬ء میں شائع ہوئی۔‬
‫ان میں سے "‪ "Pandurag Hari‬زیادہ مشہور ہوئی اگرچہ نقادوں کے مطابق یہ کتاب‬
‫دکن کے ایک ہندو کے ہاتھ سے تحریر کردہ ایک دستاویز کا آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہے‬
‫تاہم اس کی اہمیت اس وجہ سے ہی ہے کہ اس نے میڈوز ٹیلر )‪(Meadous Taylor‬کی‬
‫مشہور کتاب ایک ٹھگ کے اعترافات "‪ The confessions of a Thug‬کو بنیاد فراہم‬
‫کی۔‬
‫ہاکلے )‪(Hockley‬کے ہم عصروں میں سے سروالٹ اسکاٹ )‪ (Sir Waler Scott‬جو‬
‫کہ عظیم رومانوی فکشن رائٹر ہیں انہوں نے اپنا رومانس بعنوان ’’دی سرجن ڈاٹر ‘‘‬
‫)‪(The Surgeon Daughter‬شائع کی۔ جب اس کا موازنہ اسکاٹ کی دوسری‬
‫تحریروں کے ساتھ کیا جاتا ہے تو یہ ایک شکستہ پالٹ واال سستی جذباتی تمثیل واال میلو‬
‫ڈراما نظر آتا ہے۔ )‪(Mr. Croftangry Preface, xviii‬‬
‫انیسویں صدی میں ہندوستان اتنا اہم ہو چکا تھا کہ اسے آسانی سے نظر اندازکرنا ممکن‬
‫نہیں تھا۔ چارلس ڈکنز )‪ (Charless Dickens‬جو کہ ہندوستان کے بارے میں زیادہ‬
‫کشش محسوس نہیں کرتا تھا اس نے بھی ہندوستان کے متعلق لکھا اور تھیکرے‬
‫)‪(Thackeray‬کی طرح ہندوستان میں لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی جانے والی‬
‫فراڈ قسم کی مالیاتی کمپنیوں پر گہرا طنز کیا۔‬
‫ڈومبی اینڈسن )‪(Domboy and son‬میں بھی انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان طویل سفر‬
‫کا حوالہ ملتا ہے لٹل پال )‪ (Little paul‬اپنی بہن فلورینس )‪(Florence‬سے پوچھتا ہے‬
‫کہ جہاں دوست رہتے ہیں وہاں تک کتنا فاصلہ ہے کیا ہفتوں کا سفر ہے؟‬
‫‪"Floy , where" India , where that boy" friends live‬‬
‫‪Oh, its a long, long distance off‬‬
‫‪weeks off? asked Paul,‬‬
‫‪yes dear. many weeks journey, night and.‬‬
‫)‪(Ch: viii‬‬
‫"‪"Little Dorrit‬میں ڈکنز)‪ (Dickens‬انڈیا کو ایسی زمین قرار دیتا ہے جہاں مس‬
‫ویڈ )‪ (Miss Wade‬جیسی گورنس کو بھی اچھا زمانہ دیکھنے کو نصیب ہو سکتا ہے۔‬
‫ڈیوڈ کا پرفیلڈ "‪ "David Copperfield‬میں نوجوان ڈیوڈ )‪ (David‬جیک میڈن ‪(Jack‬‬
‫)‪Maiden‬جو کہ نکما اور ضرورت مند آدمی ہے اس کو جدید سند باد کی طرح کا‬
‫دیکھتا ہے ۔ جو کہ مشرق میں رہنے والے تمام راجائوں کا جگری دوست ہے اور شاہی‬
‫تخت پر جلوہ افروز ہوکر طویل فاصلے پر بیٹھ کر سنہری پائپ کے کش لیتے ہوئے‬
‫دکھایا گیا ہے۔‬
‫ولیم تھیکرے( )‪۱۸۶۳ (William Thackeray‬ء۔‪۱۸۱۱‬ء) ) ‪ ،‬چارلس ڈکنز‬
‫)‪(Charless Dickens‬کے ہم عصر تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے حریف بھی تھے۔‬
‫تھیکرے ‪ ۱۸۱۱‬ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ اور اپنی جنم بھومی کو اپنی تحریروں میں بھی‬
‫اجاگر کیا۔ ان کی دو جلدیں جو کہ اسکیچ بکس تھیں ۔’’ پیرس‘‘ ‪۱۸۴۰‬ء میں اور ’’آئرش‘‘‬
‫‪۱۸۴۳‬ء میں شائع ہوئیں۔ جب کہ کیتھیرین )‪ (Catherine‬کے ناول اور ‪(Barry‬‬
‫)‪Lyrdon‬اس کے بعد شائع ہوئے لیکن زیادہ اہم کتاب ‪(The Tremendous‬‬
‫)‪Adventure of major Golden‬میں میجر گولڈن کی مہمات کا ذکر ہے وہ خود کو‬
‫مافوق الفطرت خوبصورتی اور غیر معمولی بہادری کا حامل شخص سمجھتا ہے جس کی‬
‫شہرت نپولین کے کانوں تک پہنچتی ہے۔ (‪(13‬‬
‫انہوں نے بہت سی مضحکات )‪(Burlesques‬بھی تحریر کیں۔ جن میں سے زیادہ‬
‫مشہور ’’ریبیکا اینڈ روینہ )‪ ‘‘(Rebecca and Rowena‬ہے ان کے مشہور ناولوں‬
‫کے نام"‪ ، "The New comes", "Vanity Fair‬اور "‪ "Pendennes‬ہے۔‬
‫تھیکرے نے چند ایسے اینگلو انڈین کردار بھی تخلیق کئے جو بعد کے کئی دوسرے‬
‫مصنفین کے لئے نمونہ بن گئے۔ تھیکرے کے ناولوں میں سے صرف ایک ہندوستانی‬
‫کردار رمن الل )‪(Rummon Lall‬ہے جس نے شہرت حاصل کی۔ "‪ "Varity Fair‬اور‬
‫"‪ "The New Comes‬کے کچھ متفرق اور منتشر پیرا گراف پڑھ کر بھی اٹھارویں‬
‫صدی کے ہندوستان کی تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے آ سکتی ہے۔ میڈوز‬
‫ٹیلر )‪(Meadows Taylor‬بعض نقادوں کے نزدیک کپلنگ )‪(Kipling‬سے قبل دور کی‬
‫اینگلو انڈین فکشن کی تاریخ میں تھیکرے )‪(Thackeray‬سے زیادہ اہم لکھاری ہے‬
‫اسے فارسی ‪ ،‬مراہٹی اور ہندوستانی زبانوں سے گہری آشنائی تھی۔ ‪۱۸۳۸‬ء میں وہ‬
‫عازم سفر ہوا۔‬
‫ِ‬ ‫ہندوستان میں اپنی شدید بیماری سے صحت یابی کے بعد انگلستان کے لئے‬
‫وہاں پہنچ کر اس نے ‪۱۸۳۹‬ء میں پہلی مشہور کتاب "‪"Confessions of a Thug‬‬
‫شائع کی۔ جس کے بارے میں تفصیلی ذکر اپنی سوانح حیات "‪"The story of my life‬‬
‫میں کیا۔ یہ بڑی دلچسپ کتاب ہے جس میں مرکزی کردار امیر علی کا ہے۔ جس کے‬
‫بارے میں لکھا ہے‪ ،‬امیر علی )‪(Ameer Ali‬ایک ’’بھوال آدمی )‪‘‘(Bhula Admee‬ہے‬
‫جو کہ بڑا سچا‪ ،‬کھرا اور پرخلوص ہے ۔ پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اپنی جوانی کے ایام‬
‫سے ہی مگر اس کے ساتھ ہی وہ ایک قاتل بھی ہے۔ (‪(۱۴‬‬
‫اس کے بعد کے ناولوں میں وہ ہمیں ہندوستانی تاریخ کے رومانس کے وقائع نگار کے‬
‫روپ میں بھی سامنے آتا ہے۔’’ ٹیپو سلطان )‪۱۸۴۰‘‘ (Tippo Sultan‬ء میں شائع ہوا۔‬
‫اس کی وجہ سے وہ انڈین اسکاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ‪"The Surgeon's‬‬
‫"‪Daughter‬اس کے بعد منظر عام پر آیا اور اس کے بعد’’ ٹیپو سلطان ‪‘‘ (Tippu‬‬
‫)‪ Sultan‬اسی کا نہ صرف تاریخی طور پر بلکہ فنی طور پر اس کا تسلسل بھی ہے۔ اس‬
‫کے بعد تاریخی ناولوں میں سے ’’تارا )‪۱۸۶۳‘‘ (Tara‬ء میں شائع ہوا۔ تارا )‪(Tara‬‬
‫ایک ہندو بیوہ ہے جو کہ شاستری )‪ (Shastri‬کی بیٹی اور اس کی بیٹی آنندا‬
‫)‪(Anunda‬کالی ماتا کے ع قیدت مند ہیں۔ ایک حادثے کے نتیجے میں اس کی شادی‬
‫فاضل )‪ (Fazil‬سے ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی سیاسی تاریخ اور معاشرت‬
‫کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ رالف ڈارنل )‪(Ralph Darnell‬ہندوستان میں برطانوی‬
‫حکومت کے عروج اور کالئیو )‪ (Clive‬کی مشہور جنگ پالسی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس‬
‫ناول کے لکھنے میں نقادوں کے بقول میڈوز )‪ (Meadows‬پر تھیکرے )‪(Thackrey‬‬
‫کے اثرات نمایاں ہیں۔‬
‫’’سیتا )‪‘‘(Seeta‬اس تکون)‪ (Triology‬کا تیسرا ناول ہے۔ جس میں ایک خوبصورت ہند‬
‫و بیوہ ایک انگریز سرل برینڈن)‪ (Cyril Brandon‬جو کہ نور پور کا کلکٹر ہے ‪،‬سے‬
‫شادی ہوتی ہے اس سے ہمیں ‪۱۸۵۷‬ء کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بھوپال سنگھ اس کے‬
‫متعلق لکھتے ہیں‪:‬‬
‫سیتا )‪ (Seeta‬کی اشاعت پر اینگلو انڈین طبقہ نے کئی تحفظات کا اظہار کیا۔ میڈوز ٹیلر‬
‫)‪(Meadows Taylor‬کا تعلق ایام غدر(جنگ آزادی) سے قبل کے ہمددرد اور ملنسار‬
‫اینگلو انڈین کی نسل سے ہے ان کے خیال میں کسی انگریز کا ہندوستانی لڑکی سے‬
‫شادی کرنا کوئی معیوب فعل ہر گز نہیں تھا۔ پوری اٹھارویں صدی میں اور انیسویں صدی‬
‫کے آغاز تک کئی انگریزوں نے شادیاں کیں۔ اگرچہ یہ تمام شادیاں مکمل طور پر پسندیدہ‬
‫و مسعود نہیں تھیں مگر اتنی مذموم بھی نہیں تھیں۔ حیدر آباد کے ریزیڈنٹ کی شادی ایک‬
‫شہزادی کے ساتھ ہوئی جس کی بیٹی کو کارالئل )‪(Corlyle‬نے "‪"Sorten Resartus‬‬
‫میں ‪ Blumine‬کے کردار میں امر کر دیا۔ میڈوز ٹیلر )‪(Meadows Taylor‬کو اس‬
‫سے ضرور آگاہی تھی۔ (‪(۱۵‬‬
‫میڈوز ٹیلر )‪ (Meadows Taylor‬کے آخری تاریخی ناولوں میں ‪"A Noble‬‬
‫"‪Queen‬شامل ہے جس میں ملکہ چاند بی بی )‪ (Chand Bibi‬کی بہادری کا ذکر ملتا‬
‫سر جے ڈبلیو‬ ‫ہے جو مقامی حکمران تھی۔ اس عہد کی دوسری قاب ِل ذکر کتابوں میں ُ‬
‫کائے‪(Sir J.W. Kaye) ،‬کی"‪۱۸۴۶، "Long Engagements‬ء میں شائع ہوئی‬
‫جس میں مصنف نے یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ انگلینڈ اور انڈیا کے معاشروں میں‬
‫بہت تھوڑا فرق ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسی لیڈی کی تصویر پیش کی جاتی ہے جو کہ‬
‫کلکتہ میں عشوہ طرازیوں )‪ (Flirting‬میں مشغول ہے جب کہ اس کا خاوند اپنے ملک‬
‫مصروف جنگ ہے۔‬
‫ِ‬ ‫کے لئے افغانستان میں‬
‫ق ادب پر نمودار ہوئے۔ جان لینگ )‪(John Lang‬کا ‪"The‬‬ ‫‪۱۸۵۳‬ء میں دو ناول اف ِ‬
‫"‪Wetherbys‬اور ڈبلیو ڈی آرنلڈ کا"‪ "Fellowship in the East‬یا "‪"Ox Field‬‬
‫دونوں ناولوں میں اینگلو انڈین سوسائٹی کی کئی قباحتیں صفحہ قرطاس پر بکھری نظر‬
‫آتی ہیں۔ وہ اپنے ناول "‪ "Ox Field‬میں ہندوستان کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫‪Of course I did not like India, nobody does, people who ship their‬‬
‫‪some off to India every day, Little think to what a blighted life they‬‬
‫)‪are sending them. (16‬‬
‫’’ بال شبہ مجھے ہندوستان ناپسند ہے۔ کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو‬
‫ہندوستان روانہ کرتے ہیں۔ اس بات پر کم ہی غور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو‬
‫مصائب سے بھرپور تباہ کن زندگی میں دھکیل رہے ہیں۔‘‘‬
‫ڈبلیو ڈی آرنلڈ )‪ (W.D. Arnold‬کی یہ کتاب ہندوستان میں انیسویں صدی کی اینگلو‬
‫انڈین حیات و معاشرت پر ایک زبردس ت تنقید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان‬
‫میں اس کی دلچسپی یا مزاج سے مطابقت رکھنے والی کوئی چیز نہیں تھی۔ مگر بھوپال‬
‫سنگھ )‪ (Bhupal Singh‬کے مطابق‬
‫یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اینگلو انڈین سوسائٹی اس سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔‬
‫(‪(۱۷‬‬
‫اس کے بعد کا دور ما بعد غدر (جنگ آزادی) کے ناولوں پر مشتمل ہے۔ یہ عشرہ‬
‫(‪ )69-1859‬جو کہ جنگ آزادی ‪1857‬ء کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی‬
‫اس صورتحال کے متعلق خاموش ہے جس سے برطانوی حکمران گزرتے تھے۔‬
‫اس دور میں شائع ہونے والے ناولوں میں سے اگر میڈوز ٹیلر )‪(Meadows Taylor‬‬
‫کے ناولوں اور کولن )‪ (Wilkie Collin‬کے ناول "‪ "The Moonstone‬کو نکال دیں‬
‫تو باقی سرمایہ ادب کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مسٹر ایڈورڈ )‪ (Edward Money‬کا ناول‬
‫"‪"The Wife and the word‬یا "‪۱۸۵۹ "A Life,s Error‬ء میں شائع ہوا۔ اس میں‬
‫بھی ایک ناخوشگوار شادی کی داستان ہے۔ اس ناول کی دوبارہ اشاعت نئے عنوان کے‬
‫ساتھ ‪۱۸۸۱‬ء میں ہوئی۔ ‪۱۸۵۹‬ء کے سال میں دو کتابیں اور شائع ہوئیں جن میں سے‬
‫جنگ آزادی کے‬
‫ِ‬ ‫ایک جان لینگ )‪ (John Lang‬کی کتاب ہے۔ مگر یہ ناول نگار قبل از‬
‫دور سے متعلق ہے۔ اس طرح میڈوز ٹیلر )‪ (Meadows Taylor‬بھی جس کی کتب‬
‫’’تارا )‪۱۸۶۳‘‘ (Tara‬ء میں اور ’’رالف ڈارنل )‪۱۸۸۵‘‘(Ralph Darnell‬ء میں‬
‫اشاعت پذیر ہوئیں۔ میجر چارلس کربی )‪ (Major Charles Kirby‬کی کتاب ‪"The‬‬
‫"‪۱۸۶۷Adventures of an Arcot Rupee‬ء میں شائع ہوئی۔ کولن ‪(Wilkie‬‬
‫)‪Collins‬کا‪ "The Moonstone" 1868‬ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کو اینگلو انڈین‬
‫ناول نہیں مانا جاتا۔ اگرچہ یہ چند ہندو پادریوں اور پراسرار برہمنوں کو متعارف کراتا‬
‫ہے۔ فلورنس میریٹ )‪ (Florence Marryat‬جو کہ راس چرچ )‪ (Ross Church‬کی‬
‫اہلیہ ہیں ان کی کتاب "‪۱۸۶۸ "Gup‬ء میں شائع ہوئی۔ مگر اس کے بعد ان کا اینگلو انڈین‬
‫ناول "‪۱۸۶۹ "Veronique‬ء میں منظر عام پر آیا۔ جو قاری کو ہندوستان کے جنوبی‬
‫پہاڑی عالقوں کی سیر کراتا ہے۔‬
‫اعلی درجے کے اینگلو انڈین ناول‬ ‫ٰ‬ ‫ا س کے بعد ‪۱۸۷۰‬ء کا سال آتا ہے جس کے فورا ً بعد‬
‫لکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں ہی جن ناول نگاروں نے شہرت پائی‬
‫ان میں فل رابنسن )‪(Phil Rabinson‬بھی شامل ہیں جن کی پہلی کتاب ‪"Nugae‬‬
‫"‪۱۸۷۳Indicae‬ء میں پائینز پریس الہ آبادسے شائع ہوئی۔ نقادوں کے بقول فل رابنسن‬
‫اچھے فکشن نگار نہیں بلکہ اچھے مضمون نگار ہیں۔ ان کی کتب میں ہندوستانی طیور ‪،‬‬
‫مقامات ‪ ،‬نظاروں اور اشخاص کے بہترین خاکے موجود ہیں۔ ‪۱۸۷۱‬ء میں ‪"Inny‬‬
‫"‪Indian Gorden‬کے عنوان سے منصہ شہود پر آئی تھی جس کا دیباچہ سر ایڈون‬
‫آرنلڈ )‪ (Sir Edwin Arnold‬نے تحریر کیا تھا۔‬
‫کپلنگ )‪ (Kipling‬سے پہلے کے دور کی ایک اور اہم کتاب ‪"The chronicles of‬‬
‫)‪Budgepore"(1881‬ہے جس م یں شمالی ہندوستان کی زندگی کو موضوع کتاب بنایا‬
‫گیا ہے۔ یہ روزنامچے )‪ (Chronicles‬انیسویں صدی کے اینگلو انڈین لٹریچر میں ایک‬
‫اچھا اضافہ ہیں۔ اسی طرح سر ہنری اسٹووارٹ کننگھم ‪(Sir Henry Stuart‬‬
‫)‪Cunningham‬کے "‪ "Chronicles of Dusteypore‬ہلکے پھلکے طنزیہ انداز‬
‫میں تحریر کئے گئے ہیں‬
‫اس کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے تمام کردار اسی دور کے معاشرے سے لئے گئے ہیں‬
‫اور دستی پور )‪ (Dustypore‬کوکرن ناتھ ڈار )‪ (Kiron nath Dhar‬نے الہور اور‬
‫شملہ قرار دیا ہے۔ (‪(۱۸‬‬
‫کننگھم )‪ (Cunningham‬کا دوسرا ناول "‪۱۸۸۷ "The Coeruleans‬ء میں شائع ہوا‬
‫اعلی درجے کے ناولوں میں شمار ہوتا ہے اس ناول میں مختلف النوع اینگلو انڈین‬ ‫ٰ‬ ‫جو‬
‫کرداروں کی پوری گیلری موجود ہے خاص طور پر )‪ (Mr.Chichale‬جو کہ اس بات‬
‫کا قائل تھا کہ سرکاری دن کا اختتام ایک اچھے ڈنر کے ساتھ ہونا چاہئے اور اچھے ڈنر‬
‫سے زیادہ لطف اندوز اس وقت ہوا جاسکتا ہے جب آپ کو کسی خوش اطوار اور ذہین‬
‫حسینہ کی صحبت نصیب ہو۔‘‘ (کلکتہ ریویو۔ ص ‪)۵۷۶‬‬
‫الیگزینڈر ایلرڈائس )‪(Alexandar Allardyce‬نے ‪۱۸۷۷‬ء میں ایک ناول ‪"The city‬‬
‫"‪ of Sunshine‬لکھا جس میں ایک بنگالی دیہات دھوپ نگر کی تاریخ بیان کی ہے۔ بعد‬
‫ازاں ‪۱۸۹۳‬ء میں ایک ناول"‪"Balmoral‬لکھا جس میں مقامی تاریخ کے ساتھ ساتھ‬
‫کوہستانی عالقوں کے بارے میں حیران کن معلومات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا گیا‬
‫ہے‪ ،‬اور اس نے ہندوستانی زندگی کی عکاسی کچھ ایسے انداز میں کی کہ کوئی دوسرا‬
‫اینگلو انڈین ناول نگار اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اگرچہ ہندوستانی معاشرت کی عکاسی‬
‫میں کچھ بھول چوک یا کمی بیشی بھی سرزد ہوئی جیسے کہ چاکوی )‪ (Chakwi‬کی‬
‫درست تصویر کشی کی گئی سوائے اس کے کہ مصنف یہ بھول گیا کہ ہندوستانی لڑکیاں‬
‫اپنے شوہروں کو ان کے نام کے ساتھ کبھی نہیں پکارتیں۔ )‪ (Vol-iii, P:284‬کپلنگ کے‬
‫پیش رو خواہ وہ فل رابنسن )‪(Prichard) ، (Phil Robinson‬ہوں یا سر ہنری کننگھم‬
‫)‪ (Sir Henry Cunningham‬ہوں ان کے ناولوں نے اینگلو انڈین معاشرت کو نجی‬
‫اور سرکاری ‪ ،‬میدانی یا کوہستانی ہر دو عالقوں میں اتنی مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے‬
‫کہ یہ تاریخی یادگار بن گئے ہیں۔‬
‫اس کے بعد رڈیارڈ کپلنگ)‪ (Rudyard Kipling) (1865-1936‬کا دور ہے جو کہ‬
‫سفید نسل کا بوجھ )‪ ، (The White man's burden‬جیسی مشہور زمانہ اصطالح کا‬
‫خالق ہے۔‬
‫( رڈیارڈ کپلنگ چونکہ راقم کے تحقیقی مطالعہ میں شامل منتخب ناول نگاروں سے ایک‬
‫ہے۔ ٰلہذا تفصیلی تجزیہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائے گا)‬
‫رڈیارڈ کپلنگ ‪ ۱۸۶۵‬ء میں پیدا ہوا ۔ اس نے اپنے تمام احوال اپنی سوانح عمری بعنوان‬
‫)‪(Some thing of myself‬میں تفصیل کے ساتھ دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں یہ‬
‫کتاب اس کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ ‪۱۸۶۵‬ء میں انڈیا آج کے ہندوستان سے بالکل‬
‫مختلف تھا۔ نہ صرف یہ کہ موجودہ انڈیا پر مشتمل تھا بلکہ حالیہ پاکستان‪ ،‬بنگلہ دیش اور‬
‫برما کے کچھ حصے بھی اس میں شامل تھے۔ ملک کے بڑے حصے میں مقامی ریاستوں‬
‫پر شہزادوں کی حکومت تھی جن کے پاس کچھ مقامی اختیارات موجود تھے مگر‬
‫درحقیقت پورے برصغیر پر انگریزوں کی عملداری تھی اور اس وقت تک برٹش ایمپائر‬
‫)‪(British Empire‬تقریبا ً مکمل ہو چکی تھی۔ رڈیارڈ کپلنگ )‪ (Rudyard Kipling‬کا‬
‫ہندوستان میں ادبی منظر نامے پر ظہور ‪ ۱۸۸۰‬ء کے اواخر میں ہوا۔ مگر کپلنگ کی وہ‬
‫تحریریں جن کا موضوع ہندوستان یا ہندوستانی معاشرت ہے ان کا عہد ‪۱۸۸۸‬ء تا ‪۱۸۹۱‬ء‬
‫ہے۔‬
‫رڈیارڈ کپلنگ نے بنیادی طور پر بحیثیت صحافی کام شروع کیا۔ اس شعبے میں اسے‬
‫وسیع تر عالقوں کا سفر کرنا پڑا وہ ایک زبردست قوت مشاہدہ رکھنے واال آدمی تھا۔ا ور‬
‫تمام جگہوں‪ ،‬لوگوں‪ ،‬ان کے رسوم و رواج کو ذہن کی سکرین پر نقش کر لیتا۔ اور اپنی‬
‫کہانیوں میں ان کا اظہار سلیقے اور قرینے سے کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں‬
‫)‪(Short Stories‬کے موضوعات بہت وسیع ہیں۔ اس کی کہانیوں کی پہلی کتاب‬
‫"‪۱۸۸۸"Plain Tales from Hills‬ء میں منظر عام پر آئی۔ اس مجموعے میں کپلنگ‬
‫نے شملہ )‪ (Simla‬میں گورے سپاہیوں کی مہمات اور ہندوستانی سول سرونٹس کی حالت‬
‫زار کو موضوع بنایا ہے ۔ کچھ کہانیاں ہندوستانی معاشرے کے بھیانک اور پراسرار‬
‫ماورائی پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہیں۔‬
‫اس سے اگلے مجموعے )‪ "Soldiers Three" (1888‬کو بھی بڑی مقبولیت حاصل‬
‫ہوئی۔ اس میں شامل کہانیاں اس دور کے سپاہیوں کے حاالت زندگی کی گہری عکاس‬
‫ہیں۔ ‪ ۸۰‬ء کی دہائی اور اس سے ماقبل سپاہیوں کی زندگی کی یکسانیت ‪،‬بیماری‪ ،‬بے‬
‫آرامی اور گرمی کی شدت کا خوبصورت بیانیہ ہیں۔‬
‫‪۱۸۹۳‬ء میں شائع ہونے والی کتاب "‪ ، "Between Many Inventions‬کپلنگ کے‬
‫اس دور کی کتب ہیں جو بحری جہازوں‪ ،‬مشینری اور اس طرح کی دوسری ایجادات کا‬
‫گہرا اثر لئے ہوئے ہیں کیونکہ یہی وہ دور ہے جب ‪۱۸۹۰‬ء میں برطانوی بحری بیڑے‬
‫کی ترقی ہوئی ‪ ،‬موٹر کاریں ای جاد ہوئیں‪ ،‬بھاپ کے انجن اور النچینوغیرہ بنائی گئیں۔ ان‬
‫تمام چیزوں کے اثرات ادب میں بھی نمایاں ہوئے۔‬
‫‪۹۵‬۔‪۱۸۹۴‬ء میں "‪ "The Jungle Books‬شائع ہوئیں۔ یہ کتب بہت مقبول ہوئیں اس میں‬
‫ایک بھیڑیئے کی کہانی بیان ہوئی جس کا نام موگلی "‪ "Mowgli‬تھا۔ کپلنگ )‪(Kipling‬‬
‫کی کتاب "‪ "Stalky & Company‬اس کے سکول کے دنوں کی داستان ہے اس کتاب‬
‫کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کئی سال گزرنے کے باوجود بھی کپلنگ اپنے ساتھ زمانہ‬
‫طالب علمی میں ہونے والی نا انصافی اور ظلم کو نہیں بھوال۔ اور اس کتاب کے صفحات‬
‫پر ان ظالموں سے انتقام لینے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اس کے بعد کی قابل ذکر کتاب‬
‫"‪"Puck of the Pook's Hill‬ہے اس کی اشاعت ‪ ۱۹۰۶‬ء میں ہوئی۔ اس کتاب کے‬
‫کئی حصے ہیں جن میں انگلستان کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب کا تکملہ ‪"Reward‬‬
‫"‪and Fairies‬ہے ‪۱۹۱۷‬ء میں "‪۱۹۲۶ "A Diversity of Creatures‬ء میں‬
‫"‪۱۹۳۲"Debits and Credits‬ء میں "‪ "Limits and Renewals‬شائع ہوئی۔ یہ‬
‫کپلنگ کی کہانیوں )‪ (Short Stories‬کا آخری دور ہے جس میں جنگ کے خدشات کے‬
‫عالوہ ذاتی دکھوں اور خرابی صحت کی گونج واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔‬
‫بطور ناول نگار رڈیارڈ کپلنگ )‪(Rudyard Kipling‬کی شہرت ‪"The Light that‬‬
‫"‪"Naulakha" ،Failed‬اور "‪ "Kim‬کی وجہ سے ہے۔‬
‫"‪ ۱۸۹۱"The Light that Failed‬ء میں اس وقت شائع ہوئی۔ جب کپلنگ کی عمر‬
‫صرف ‪ ۲۱‬برس تھی۔ ناول کا ہیرو ڈک ہیلیڈر )‪ (Dick Helder‬ایک نابینا آدمی ہے جو‬
‫کہ کپلنگ کی اپنی بصارت کے متعلق خدشات کا اظہاریہ ہے۔ ناول کا ہیرو سوڈان میں‬
‫نامہ نگار کے طور پر کام کرتا ہے۔‬
‫کپلنگ کا اگال فکشن نولکھا‪ "Naulakha" 1891‬ء میں شائع ہوا۔ نو لکھا ایک امریکی‬
‫)‪(Wolcatt Balestier‬کی معاونت سے لکھا گیا۔ یہ ایک نوجوان امریکی نکولس ٹرون‬
‫)‪(Nicholos Tarvin‬کی کہانی ہے جو کہ ایک افسانوی نیکلس کی خواہش میں انڈیا آتا‬
‫ہے جو کہ ایک چھوٹی سی ریاست راٹھور )‪ (Rhatore‬کے مہاراجہ کی ملکیت ہے اس‬
‫کتاب کو زیادہ شہرت نہیں ملی حاالنکہ یہ ہندوستان کی سرزمین کے لئے اچھا خراج‬
‫تحسین ہے۔‬
‫کپلنگ کا مشہور ناول’’ ِکم )‪۱۹۰۱‘‘ (Kim‬ء میں شائع ہوا اور دوسرے ناولوں سے زیادہ‬
‫کامیاب ہوا۔ کم کے صفحات میں کپلنگ نے عجیب و غریب اور خوبصورت ہندوستان کی‬
‫تصویر کشی کچھ اس انداز میں کی ہے کہ اس کا سارا حسن و جمال قاری کی آنکھوں کو‬
‫خیرہ کر دیتا ہے اس میں کم کی سیاحت کا احوال بیان کیا گیا ہے جو کہ تبتی الما‬
‫)‪(Lama‬کی صحبت میں مقدس دریا کی تالش میں پورے ہندوستان کی سیر کرتا ہے۔ ِکم‬
‫کو انگریزی ادب میں رزمیہ )‪ (Epic‬بھی کہا گیاہے۔ وقیع نثری سرمائے کے عالوہ‬
‫کپلنگ نے شاعری میں بھی وسیع ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے۔‬
‫رڈیارڈ کپلنگ کے ادبی سرمائے کے بارے میں کئی نقادوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا جس‬
‫کا تفصیلی جائزہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائے گا۔ مگر یہاں صرف بھوپال سنگھ‬
‫‪Bhopal Singh‬کی رائے پیش کی جاتی ہے۔‬
‫‪Kipling,s merits as an artist are great. He occupies an immortal‬‬
‫‪place in the history of English Literature, both as a story teller, His‬‬
‫‪portraiture of English and Anglo-Indian life and Character has won‬‬
‫‪universal approbation. But our examination of his Indian stories‬‬
‫‪does not show that he has been more successful in coming‬‬
‫)‪nearer the soul of India than most of of his countrymen. (19‬‬
‫’’ کپلنگ کی خوبیاں بطور فن کار بہت زیادہ ہیں۔ انگریزی ادب میں بطور شاعر اور‬
‫کہانی کار اس کا مقام الفانی ہے۔ اس کی انگریزوں اور اینگلو انڈینز کی حیات و کردار‬
‫کی عکاسی کو عالمگیر طور پر سراہا گیا۔ لیکن ہمارا ہندوستانی کہانیوں کا جائزہ اس بات‬
‫کو ظاہر نہیں کرتا کہ وہ کئی مقامیوں سے زیادہ ہندوستان کی روح کے قریب تر آنے میں‬
‫کافی کامیاب ہوا ہے۔‘‘‬
‫یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کپلنگ سے بالواسطہ متاثر ہونے والے لکھاریوں کا اجماالً‬
‫تذکرہ کیا جائے کیوں کہ کپلنگ سے قبل اینگلو انڈین ادب غیر متشکل )‪(Amorphous‬‬
‫تھا اور اس کا انگریزی ادب کی تاریخ میں کوئی منفرد مقام بھی نہیں تھا۔ کپلنگ کی‬
‫بدولت اس کی پہچان بنی۔ کپلنگ نے پوری دنیا کو اپنے تخلیقی جوہر دکھانے کا وسیع‬
‫اور کشادہ میدان متعارف کرادیا۔ اس کی ذہانت ‪ ،‬فن اور مقبولیت نے اس کے کئی مداح‬
‫اور پیروکار (نقال) پیدا کئے۔ جن میں سے بیشتر خواتین ہیں۔ کپلنگ کی تحریروں سے‬
‫بالواسطہ یا بالواسطہ اثرات قبول کر کے لکھنے والوں میں سے پہال نام مسز فلورا اینی‬
‫سیٹل )‪ (Mrs. Flora Annie Steel‬کا ہے اس کے ناول طویل اور سادہ پالٹ پر‬
‫مشتمل ہیں۔ جن میں "‪ "Voices in the Night‬اور "‪۱۹۰۰ "Hosts of the Lord‬ء‬
‫میں شائع ہوئے اس کے ساتھ "‪"The Permanent Way and Other Stories‬‬
‫‪ ۱۸۹۷‬ء‪ ،‬اینگلو انڈین لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہے۔ ‪"In the Guardianship of‬‬
‫"‪ ۱۹۰۳God‬ء میں شائع ہوئی جو کہ ہندو کرداروں کے نہایت ہمدردانہ مطالعے پر‬
‫مشتمل ہے۔ مسز سٹیل )‪ (Mrs. Steel‬کی کتابوں کی سب سے اہم خصوصیت ‪ ،‬دکھ کے‬
‫ان احساسات کا اظہار ہے جو کہ جنگ آزادی کی یادوں کو پیش کرتے ہوئے محسوس کیا‬
‫گیا۔ اپنے ناول بعنوان )‪ "On the Face of Waters" (1896‬میں اس سانحے کا بغور‬
‫مطالعہ شامل ہے۔‬
‫اس کے بعد اگال نام )‪ (Mrs. Alice Perrin‬کا ہے اس نے اینگلو انڈین حیات و معاشرت‬
‫کے بارے میں کئی ناول لکھے اور شارٹ سٹوریز کی تین کتب تحریر کیں۔ کہانیوں کی‬
‫پہلی کتاب "‪ ۱۹۰۱ "East of Suez‬ء میں شائع ہوئی۔ اس دوران اینگلو انڈینز کے‬
‫مختلف ادوار کو اپنے ناولوں میں سمو دیا جس میں گہری ہمدردی کا عنصر غالب رہا۔‬
‫مسٹرروتھ فیلڈ )‪ (Otto Rothfeld‬کی کتاب "‪۱۹۰۹ "Indian Dust‬ء میں جب کہ‬
‫"‪ ۱۹۱۱"The way side‬ء میں شائع ہوئی۔ شارٹ اسٹوریز کی یہ دونوں کتب بھی‬
‫کپلنگ )‪ (Kipling‬کے تتبع میں تحریر کی گئیں۔ خاص بات یہ ہے کہ روتھ فیلڈ‬
‫)‪(Rothfeld‬ہمیں راجپوتانہ )‪ (Rajputana‬کی سیر کراتے ہیں اور یہ وہ ضلع ہے‬
‫جس کو کپلنگ )‪ (Kipling‬نے اپنی تحریروں میں جگہ نہیں دی۔ اینڈرل )‪ (Andrul‬کی‬
‫تحاریر میں ہمیں کپلنگ اور اس کی کہانیوں کی یاد دالتی ہیں۔ اس کی کہانیاں بھی ابتداء‬
‫میں "‪ "The Times of India‬اور "‪ "The Pioneer‬میں شائع ہوتی رہیں۔ اس کی‬
‫تمام کہانیاں ہندوستانی عوام کے ساتھ بھرپور محبت اور ہمدردی کا اظہار ہیں۔ اور یہ‬
‫کتاب بھی ہندوستانی عوام کے نام معنون ہے۔ اس کی پہلی کتاب ‪"The Toys of‬‬
‫"‪Ghulam Muhuyyuddin‬کپلنگ کی مشہور کہانی محمد دین کی بازگشت ہے۔‬
‫بھوپال سنگھ نے ان دونوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اینڈرل‬
‫)‪(Andrul‬کی کہانیاں ہندوستانی زندگی کی زیادہ صحیح اور قریب ترین عکاس ہیں۔‬
‫بھوپال سنگھ صرف اس بات پر اظہار افسوس کرتے ہیں کہ اس نے زیادہ نہیں لکھا۔‬
‫)‪Our only regret is that he did not write more. (20‬‬
‫اینڈرل )‪ (Andrul‬سے مزاج اور اسلوب میں عدم موافقت رکھنے والے ناول نگاروں میں‬
‫اہم نام ایڈمنڈ کینڈلر )‪ (Edmund Candler‬کا ہے اس کی نو کہانیوں پر مشتمل کتاب‬
‫"‪۱۹۱۱ ،"The General Plan‬ء میں منظر عام پر آئی۔ وہ ہندوستانیوں سے اظہار‬
‫نفرت اور ہندوستان میں مقیم انگریز افسروں کے کردار اور ہمت و جرات کی تعریف میں‬
‫رطب اللسان ہے۔ اور اپنے اسلوب بیان میں کپلنگ کا سچا پیروکار ہے۔ اس کے بعد کے‬
‫ناول نگاروں میں سر ایڈمنڈ کاکس )‪ (Edmund Cox‬ہیں جن کی تین کتب ‪"John‬‬
‫‪Carruthers" 1905‬ء میں "‪"The Achievement of John Carruthers‬‬
‫‪۱۹۱۱،‬ء میں اور"‪۱۹۱۲، "The Exploits of Kesho Naik, Dacoit‬ء میں شائع‬
‫ہوئی۔ مسٹر ہربرٹ شیرنگ )‪ (Herbert Sherring‬کی کتاب’’ گوپی )‪۱۹۱۱‘‘ (Gopi‬ء‬
‫میں شائع ہوئی۔ گوپی جدید انڈیا کے متعلق پہلی اور طویل ترین کہانی ہے۔ اس کے بعد‬
‫رچرڈ )‪ (Richard Delaa‬کی کتاب "‪ "Earth to Earth‬اپنے دامن میں ہندوستان اور‬
‫انگلستان کی ملی جلی کہانیاں لئے اشاعت پذیر ہوئی۔‬
‫مس ایتھل ایم ڈیل )‪(Miss Ethel. M. Dell‬نے ہندوستان کے متنوع رنگوں‪ ،‬مختلف‬
‫مناظر اور خاص طور پر ہندوستان میں فوجی زندگی کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا‬
‫ہے۔ اس کی مشہور کتاب کا نام "‪ "The Safety Curtain‬ہے۔ اس کے دوسرے ہم‬
‫عصروں میں )‪(A. T. Morris‬ہیں جن کی شارٹ سٹوریز پر مشتمل کتاب ‪"Through‬‬
‫"‪۱۹۱۹Eastern Widows‬ء میں شائع ہوئی۔ میجر جنرلٹی پی پلچر ‪(Major‬‬
‫)‪General T. P. Pilcher‬کی کتاب "‪۱۹۲۱ "East in East‬ء میں شائع ہوئی۔ اسی‬
‫سال لیونارڈ وولف )‪(Leonard woolf‬کی کتاب "‪ "Stories of the East‬شائع ہوئی۔‬
‫دونوں مصنفین نے ہندوستانی کرداروں کو متعصبانہ طور پر پیش کیا۔ مگر ان سے زیادہ‬
‫اہم ادیب جان ایٹن )‪ (John Eyton‬ہیں جن کی کتاب ‪"The Dancing‬‬
‫)‪Fakir"(1922‬زیادہ مشہور ہوئی۔ اپنی اسی کتاب میں وہ بیجا پور )‪ (Bijapur‬میں‬
‫منعقدہ رام لیال )‪ (Ramlila‬میلے کی سیر کراتے ہیں۔ خاص طور پر عدم تعاون کی‬
‫تحریک )‪ (Non-cooperation Movement‬اور انگریز حکمرانوں کے ردعمل کی‬
‫عکاسی بھی اس میں ملتی ہے۔‬
‫اسی عہد کے )‪ (C. A. Kincaid‬نے ہندو مذہب اور معاشرت کو کہانیوں کا موضوع بنا‬
‫کر شہرت پائی۔ ان کی کتب "‪"Tales of ، "Daworca and Other Stories‬‬
‫"‪۱۹۲۲Talsi‬ء میں شائع ہوئی۔‬
‫مسز ماڈ ڈائیور )‪ (Mrs. Maud Dever‬کی پہلی کتاب "‪۱۹۲۱ "Seige Peridows‬ء‬
‫میں اور "‪۱۹۳۱ "Ships of youth‬ء میں شائع ہوئی۔‬
‫ہلٹن برائون )‪(Hilton Brown‬کی کتاب "‪۱۹۲۷ "Potter,s Clay‬ء میں جنوبی انڈیا‬
‫کی کچھ کہانیاں اپنے دامن میں سمیٹے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ اپنے اسلوب میں‬
‫مسٹر برائون )‪ (Brown‬کپلنگ کی کتاب "‪ "Plain Tales‬سے مشابہ ہیں۔‬
‫مس کیتھرین مایو )‪ (Miss Katherine Mayo‬نے "‪ "Maggot to Man‬میں انتہائی‬
‫غیر جانبداری سے کام لینے کی کوشش کی لیکن اپنی کتاب "‪"Slaves of Gods‬‬
‫زاویہ نگاہ‬
‫ٔ‬ ‫مطبوعہ ‪۱۹۲۹‬ء میں ہندو بیوائوں اور خواتین کرداروں کو ایک مخصوص‬
‫سے دیکھنے کی وجہ سے مسخ کر دیا۔ اسی وجہ سے مسز ایل آدم بیک ‪(Mrs. L.‬‬
‫)‪Adoms Beck‬کی کہانیوں کی کتاب ‪"The Ninth Vibration and other‬‬
‫)‪Stories" (1928‬کو ان کہانیوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ہمسفرے جارڈن‬
‫)‪(Humsafray Jordon‬اپنی کتاب )‪ "White Masters" (1929‬کے ذریعے قاری‬
‫کو برما کے جنگلوں‪ ،‬گھاٹیوں‪ ،‬ولولوں اور بیابانیوں کی سیر کراتے ہیں۔ ْٓٓ ْٓ ْٓ ْٓ ْٓ‬
‫اس کے ساتھ ساتھ اور کئی دوسرے اینگلو انڈین لکھاریوں کو کپلنگ کے تخلیق کردہ‬
‫مشہور کردار )‪ (Kim‬نے مسحور کئے رکھا اور کمز کزن )‪ (Kim's Cousin‬کی‬
‫اصطالح ادبی افق پر ابھری۔ جان ایٹن )‪(John Eyton‬نے ڈانسنگ فقیر کا طوطا‬
‫)‪(Tota of Dancing Fakir‬جمی وین )‪ (Jimmy Vaine‬اور کلو )‪ (Kullu‬میں جب‬
‫کہ ڈریوبارٹل )‪ Drew Bartle‬نے چند ایسے لڑکوں کے کردار تخلیق کئے جو کہ ِکم‬
‫)‪(Kim‬کے خاندان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔‬
‫اس عہد کے بعد بھوپال سنگھ کے مطابق ‪:‬‬
‫جدید اینگلو انڈین لکھنے والوں کی کافی بڑی تعداد موجود ہے۔ مگر ان کے کام کا معیار‬
‫زیادہ بہتر نہیں ہے۔ (‪(۲۱‬‬
‫وہ اپنی تخلیقات میں کئی حوالوں سے کپلنگ )‪ (Kipling‬سے مشابہت رکھتے‬
‫ہیں۔ مگر کپلنگ جو کہ ہندوستان کے پہاڑی مقامات جیسے شملہ )‪(Shimla‬کی سرکاری‬
‫اور سماجی زندگی کی جزئیات پیش کرنے واال ہے مگر اس کے برعکس یہ ناول نگار‬
‫قاری کو پورے ہندوستان کے منظر نامے سے آگاہی دالتے ہیں۔ ان لکھنے والوں میں‬
‫زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ جیسے ‪ Mrs. G. H. Bell‬اور ‪Mrs. Maud Dever‬‬
‫نمایاں نام ہیں۔ اس کے عالوہ مسز ایم کرو کر )‪ ، (Mrs. M. Croker‬مسز ایلس پیرن‬
‫)‪(Slica Perrin‬ای ڈبلیو سوی )‪ ،(E.W.Savi‬اور ڈگلس )‪ (O, Dagles‬مس پیٹسن‬
‫)‪ ،(Miss Peterson‬میری جولین )‪ ، (Marry Julian‬مسز وکٹر ‪(Victor‬‬
‫)‪Rickard‬مسز باربرونگفیلوڈ )‪ ، (Mrs. Barbara Wingfeld Stratfeld‬لیڈی‬
‫مائیلز )‪ ، (Lady Miles‬مسٹر گورڈن )‪ (Mr. Gordon‬شیٹلینڈ بریڈلے ‪(Shetland‬‬
‫)‪ ،Bradlay‬ڈارلے ڈیل )‪ (Darlay dale‬اس عہد کے اہم لکھاریوں میں شامل ہیں۔‬

‫مقامی ادباء کی انگریزی نگارشات‪ ،‬تعارفی جائزہ‬ ‫ج‪:‬‬


‫اینگلو انڈین لٹریچر ) ‪ (Anglo Indian Litrature‬کے بر عکس مقامی ادباء کی‬
‫انگریزی زبان میں تخلیقات کے لیے انڈو اینگلین)‪ ، (Indo- Anglian‬انڈو انگلش‬
‫)‪(Indo- English‬اور )‪ (Indian Writings in English‬ـ’’انگریزی میں‬
‫ہندوستانیوں کی تحریریں‘‘ جیسی اصطالحات وضع ہوئیں۔‬
‫وی کے گوکک )‪ ( V.K. Gokak‬انڈو اینگلین اور انڈو انگلش کے مابین‬
‫امتیازیوں واضح کرتے ہیں۔‬
‫‪Indo Anglian is the work of Indian writers in English" and Indo‬‬
‫‪Enlgish as "Translations by Indians from Indian Literature into‬‬
‫)‪English (22‬‬
‫یعنی انڈو اینگلین سے مراد ہندوستانی لکھاریوں کی انگریزی زبان میں تحریریں‬
‫ہیں جب کہ انڈو انگلش سے مراد مقامی ادباء کی طرف سے ہندوستانی ادب کے انگریزی‬
‫میں تراجم ہیںـ ‘‘‬
‫جب کہ ایم کے نائیک )‪ (M.K.Naik‬کے مطابق‪:‬‬
‫‪Literature written originally in English by authors Indian by birth,‬‬
‫)‪ancestry or nationality. (23‬‬
‫’’ ایسا ادب جو بنیادی طور پر (اصال ً)انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو۔ ایسے مصنفین‬
‫کی طرف سے جو کہ پیدائشی‪ ،‬قومیتی یا موروثی لحاظ سے ہندوستانی ہوں‘‘‬
‫ایم کے نائیک کے مطابق ‪ :‬کوئی بھی اینگلو انڈین ادب جو کہ رڈ یارڈ کپلنگ‬
‫(‪ ،) Rudyard Kipling1936-1865‬ای ایم فاسڑ (‪) E. M. 1970-1879‬‬
‫‪Forster‬اورپال اسکاٹ (‪) Paul Scott 1978-1920‬جیسے ادیبوں کا لکھا نہ تو‬
‫لفظی تراجم اور نہ ہی قانونی طور پر ہندوستانی انگریزی ادب ‪(Indian english‬‬
‫)‪literature‬کا حصہ ہیں۔‬
‫رام سیوک سنگھ )‪ (Ram Sewak Singh‬کے مطابق انڈو اینگلین ادب کا‬
‫آغازبھی برطانوی اور یورپین اقوام کی ہندوستان کو سمجھنے کی کوششوں سے ہوا۔ اُن‬
‫کے مطابق‪:‬‬
‫‪.... is the result of the commercial, cultural and literary encounter‬‬
‫)‪between India and Britain. (24‬‬
‫( ’’ یہ ادب)۔۔۔۔انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان تجارتی‪ ،‬ثقافتی اور ادبی مڈبھیڑ کا‬
‫نتیجہ ہے۔‘‘‬
‫کے ۔ڈی ورما )‪ (K.D Verma‬کے مطابق انگریزی میں ہندوستانیوں کے ناولوں‬
‫کا موازنہ اگر دوسری ہندوستانی زبانوں کے ادب سے کیاجائے تو اس کی ابتدائی‬
‫رفتارمقابلتا ّ انتہائی سست ہے۔‬
‫‪The Indian Novel in English had a very slow start compared to‬‬
‫)‪other Indian literature. (25‬‬
‫یوں تو مغربی تصادم کے اثرات نے روئے زمین کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا‬
‫مگر انگریزی ادب نے مقامی ادبی شعبہ کو زرخیزی عطا کی۔ اور اس دوران انگریزی‬
‫ہندوستانی ادب کی تخلیق کا آغاز ہوا۔ پروفیسر ڈاکٹر سنتوش ‪(Dr. Santosh‬‬
‫)‪S.House‬نے مقامی ادباء کی انگریزی تخلیقات کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔‬
‫‪1) 1820-1870, The Begining - The age of the great Pioneer.‬‬
‫‪2) 1870-1900, The Renaissance in the spirit- The age of religious‬‬
‫‪and literary awarening.‬‬
‫‪3) 1900-1920, The era of plotical awakening - The age of "Bande‬‬
‫"‪Mataram" and " Home Rule‬‬
‫‪4) 1920-1947, The era of the Gandhian Revolution- The modern‬‬
‫"‪"Heroic age.‬‬
‫)‪5) 1947, The era of Independence (26‬‬
‫پروفیسرڈاکٹر سنتوش )‪ (Dr.Santosh S.Huse‬کے مطابق‪:‬‬
‫انگریزی میں ہندوستانیوں کی ابتدائی تحریر نثری شکل میں تھی اور رام موہن‬
‫رائے )‪ (Ram Mohan Roy‬پہلے عظیم لکھاری تھے۔ (‪)۲۷‬‬
‫‪1850‬سے ‪ 1900‬تک شاعری کا وسیع ذخیرہ بھی تخلیق ہو چکا تھا۔ اس عہد‬
‫تک ہندوستانی لکھاری احساسات اور اظہار کے نئے امکانات کی تالش کر رہے تھے۔‬
‫قلبی طور پر انکا جھکائو رومانوی اوروکٹورین)‪ (Victorians‬کی طرف تھا۔‬
‫اُنھوں نے جس طرح رام موہن رائے کو انگریزی نثر میں اولیت کا درجہ دیا ہے‬
‫اسی طرح ہندی ڈیروزیو )‪ (Henry Derozio‬جو کہ ہندوستانی اور پرتگیزی النسل‬
‫تھے۔ انھیں انگریزی شاعری میں مقدم مانا ہے ان کی مشہور بیانیہ نظم ‪"The Fair of‬‬
‫"‪Tungheera‬ہے اسکے بعد کاشی پرساد )‪ ( Kashi persad Ghose‬جو کہ ‪"The‬‬
‫)‪Shair and Other Poem" (1830‬کے مصنف تھے۔ بعدازاں مائیکل دت‬
‫)‪(Michael Madhusudan Dutt‬جو کہ ایک انڈین کرسچین تھے اور جن کا بنیادی‬
‫تعلق بنگالی ادب سے تھا۔ ان کی طویل بیانیہ نظم‪"The Captive Lady" 1849‬ء میں‬
‫منظر عام پر آئی۔ اُنیسویں صدی کے آخری دہائی میں سوامی ویوک آنند نے انگریزی‬
‫زبان کو ویدانتی فلسفے اور مشنری ناصحانہ اظہار کے لیے استعمال کیا۔ بر ہموسماج‬
‫تحریک نے بھی اسی طرح انگریزی زبان کا نہایت مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔‬
‫ٹورودت )‪ (Toru Dutt‬نے انگریزی زبان میں شاعری‬ ‫ّ‬ ‫ّ‬
‫رودت )‪ (Aru Dutt‬اور‬ ‫اُ‬
‫چندردت )‪ (Romesh Chander Dutt‬کا‬ ‫ّ‬ ‫کو عروج تک پہنچا یا۔ ان کے بعد رامیش‬
‫نام قابل ذکر ہے۔ ہندوستان میں اسی عہد کے دوسرے انگریزی لکھاریوں میں رام کرشنا‬
‫پالری )‪ (Ram Krishna Pillari‬کی کتاب "‪1895 ، "Tales of India‬ء میں شائع‬
‫ہوئی۔ اسکے عالوہ بہرام مالباری )‪ (Behram Malbari‬اور ناگیش وشواناتھ‬
‫)‪(Nagesh Wishwanath‬اہم ہیں۔ (‪ )1947-1900‬کے دوران لکھنے والوں میں‬
‫سے بیشتر قومیت پرست تھے۔ ایم کے نائیک )‪ (M. K. Naik‬نے بھی انگریزی میں‬
‫ہندوستانی فکشن کوتین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے دور کا آغاز ‪1850‬ء سے ہوتا ہے‬
‫جو کہ‪ 1930‬ء تک جاری رہتا ہے‪ ،‬اس عہد کی تحریریں رومانوی‪ ،‬تاریخی اور اکثر‬
‫حصو ِل آزادی کے جذبوں کے اظہار پر منتج ہوتی تھیں ان تحریروں میں ‪1830‬ء میں‬
‫انگلینڈ میں ہونے والی اصطالحات اور ‪1857‬ء کی جنگ ِ آزادی کی باز گشت سنائی‬
‫دیتی ہے اس عہد میں برطانوی شہریوں کے ہندو مذہب اور ثقافت کے بارے میں حقارت‬
‫اور تضحیک کے بڑھتے ہوئے جذبات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے‬
‫ہندوستانیوں کے رویّوں میں بھی تبدیلی سامنے آتی ہے۔ مایوسی اور کمتری کے احساس‬
‫میں سے ہندوستانیوں کے اندر ایک نئی خود آگہی اور اعتماد کی لہر بیدار ہوئی۔ رابندر‬
‫ناتھ ٹیگور )‪ (Rabindera Nath Tagore‬اور اروبندوغوث ‪(Aurobindo‬‬
‫)‪ Ghose‬انگریزی میں ہندوستانی تحریروں کے پہلے دور سے متعلق ہیں۔‬
‫ایم کے نائیک )‪ (M.K.Naik‬کے مطابق‪:‬‬
‫اس عہد کے زیادہ تر ناول‪ ،‬برطانوی ناول نگاروں جیسے ولیم ڈیفو (‪) 1731-1660‬‬
‫)‪(William Defoe‬ہنری فیلڈنگ )‪ ،(Henry Fielding) (1707-1754‬اور پال‬
‫اسکاٹ )‪ (Paul Scott) (1920-1978‬کے تتبع میں لکھے گئے۔ اس عہدکے اختتام‬
‫تک ہندوستانی بہت زیادہ قومیت پرست بن گئے اور فکشن ان کے ہاتھوں میں ناانصافی‬
‫کے جذبات کا مقابلہ کرنے کا ہتھیار بن گیا۔ (‪(۲۸‬‬
‫دوسرا عہد ‪1930‬ء تا ‪1970‬ء تک ہے اس کا آغاز ہندوستان میں مہاتما گاندھی‬
‫کی سول نافرمانی کی تحریک سے ہوا اور پورے ہندوستان میں قومی شعور کی بیداری‬
‫کی لہر اُٹھی۔ اس عہد کے موضوعات میں آزادی‪ ،‬جدو جہد‪ ،‬مشرق ‪ /‬مغرب کے تعلقات‪،‬‬
‫معاشی اور نسلی مسائل شامل ہیں۔ اس عہد کے لکھنے والوں میں ملک راج‬
‫آنند(پ‪) Mulk Raj Anand1905:‬اور آر۔ کے نارائن‪(R.K. Narayan) (1907-‬‬
‫)‪2001‬شامل ہیں۔ ملک راج آنند کے مشہور ناولوں میں "‪"Untouchable‬‬
‫)‪"Coolie" (1936))،(1935‬اور )‪ "Two Leaves and a Bud" (1937‬شامل ہیں‬
‫جب کہ آر کے نارائن )‪(R.K.Narayan‬کے ابتدائی ناولوں میں ‪"Swami and‬‬
‫)‪Friends" (1935‬اور )‪ "In Bachelor of Arts" (1937‬شامل ہیں اس کے عالوہ‬
‫ان کے اہم ناولوں میں)‪"Sampath" (1949) ،"The Dark Room) , (1938‬‬
‫اور )‪"The Man eater of Malgudi" (1962‬شامل ہیں۔‬
‫راجہ رائو )‪ (Raja Rao‬سماجی مسائل کو بھی اُجاگر کرتے ہیں ‪"In‬‬
‫)‪Kanthapura" (1938‬میں ایک دیہات میں اُٹھنے والی تحریک ِ آزادی کی لہر کو‬
‫بیان کیا ہے ۔ جب کہ "‪ "Serpent and the Rope‬میں اپنے کرداروں کے ذریعے‬
‫ہندوستان میں انگریزی عہد کے آخری ایام میں اپنی شناخت کے کھو دینے کے المیے کو‬
‫زیر ِ بحث التے ہیں۔‬
‫بعد کے ادوار میں سلمان رشدی )‪ ( Salman Rushdi, B:1947‬اور‬
‫)‪(Amitav Ghose B: 1956‬کے عالوہ کئی دوسرے انگریزی لکھنے والے‬
‫ہندوستانی شامل ہیں جن میں قابل ِ ذکر تعداد خواتین لکھاریوں کی بھی شامل ہے۔‬
‫منتخب اینگلو انڈین ناولوں کا تعارفی مطالعہ‬ ‫د‪:‬‬
‫ای ایم فاسٹر (‪۱۹۷۰‬ء۔‪۱۸۷۹‬ء)‬
‫یکم جنوری ‪۱۸۷۹‬ء بروز بدھ‬ ‫تاریخ پیدائش ‪:‬‬
‫‪۷‬جون ‪۱۹۷۰‬ء بروز اتوار‬ ‫وفات‪:‬‬
‫‪۹۱‬سال ‪۵‬ماہ ‪۶ ،‬دن‬ ‫عمر بوقت وفات ‪:‬‬
‫ایڈورڈ مورگن فاسٹر یکم جنوری ‪۱۸۷۹‬ء کو (میریلیون ) لندن میں پیدا ہوئے۔‬
‫انہوں نے )‪ (Tonbridge‬اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں کنگز کالج‬
‫کیمبرج میں داخلہ لیا۔ جہاں ڈکنسن )‪ (G. Lowes Dickinson‬کے ساتھ دوستانہ تعلقات‬
‫استوار ہوئے۔ بیس برس کی عمر میں اس نے ایک ناول لکھنے کا آغاز کیا جو کہ کبھی‬
‫مکمل نہیں ہوا۔ کہانیاں لکھنے کا آغاز گریجویشن کے بعد کیا۔ جو انڈیپنڈنٹ ریویو‬
‫)‪(Independent Review‬میں شائع ہوئیں۔ ‪۱۹۰۵‬ء میں اس نے پہال ناول شائع کیا‬
‫جس کا نام"‪ "Where Angels Fear to Tread‬رکھا۔ اس دوران وہ اٹلی میں قیام پذیر‬
‫تھے۔ ازاں بعد اس نے مختلف ناول اور شارٹ اسٹوریز تحریر کیں۔‬
‫تاریخی اعتبار سے وہ ورجینا وولف اور الرنس کا پیش رو ہے۔ مگر تکنیکی‬
‫حوالے سے وہ روایتی ناول نگاروں کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ فیلڈنگ اور میریڈتھ کی‬
‫طرح خیال اور نقطہ نظر کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسی نقطہ نظر کو‬
‫ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود وہ ’’کہانی کو کہانی ‘‘ رکھنے کو ناول نگاری کی دنیا‬
‫میں فن کی پہلی شرط قرار دیتا ہے جس کا اظہار"‪ "Aspects of Novel‬میں کیا گیا‬
‫ہے۔ اس کے ابتدائی ناولوں کا محرک مختلف تہذیبوں کا تصادم اور انسانی زندگی کا غیر‬
‫متوازن ہونا ہے۔‬
‫میرزا ادیب رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫انگریز ہندوستان میں ایک فاتح قوت بن کر وارد ہوئے تھے۔ اور فاتح قوت سطحیت پسند‬
‫ذہنوں کو غیر شعوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے چنانچہ یہ قوت احساس‬
‫برتری کے پرد ے میں خود کو بزرگ و باال حاکمیت کے جذبے میں مدغم ہو کر ایک‬
‫قسم کی عصبیت کو جنم دینے میں کوشاں رہتی ہے اور یہ عصبیت نمایاں ہوئے بغیر نہیں‬
‫رہتی۔ چنانچہ یہ عصبیت انگریزی مصنفین میں موجود ہے۔ "‪"A passage to India‬‬
‫کا مصنف بھی ایک انگریز ہے مگر اس کا ذہن ایک حقیقت پسند ذہن ہے وہ عصبیت یا‬
‫حکمرانی کے غرور سے ماورا ہو کر برصغیر کی معاشرتی گہرائیوں میں اترتا ہے اس‬
‫کی سوچ اپنی سوچ ہے۔ ہندوستانی معاشرت کے بارے میں عام انگریز لکھنے والوں کی‬
‫سوچ کا اس کی سوچ پر سایہ تک نہیں پڑا۔ اور یہ معمولی نہیں‪ ،‬بہت بڑی بات ہے۔ ‘‘‬
‫(‪(۲۹‬‬
‫ای۔ ایم ۔ فاسٹر کا نام بیسویں صدی کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے اُس کی اہم تصنیفات‬
‫کی مختصر فہرست حسب ذیل ہے‪:‬‬

‫اہم ناول‬
‫)‪(1905‬‬ ‫‪Where Angels fear to tread‬‬ ‫‪1.‬‬
‫)‪(1907‬‬ ‫‪The longest journey‬‬ ‫‪2.‬‬
‫)‪(1908‬‬ ‫‪A room with a view‬‬ ‫‪3.‬‬
‫)‪(1910‬‬ ‫‪Howards End‬‬ ‫‪4.‬‬
‫)‪(1924‬‬ ‫‪A passage to India 5.‬‬
(1971) Post Maurice 6.
humous
‫(بعد از وفات شائع ہوا)۔‬
‫نا مکمل‬ (1980) Arctic summer 7.
‫شارٹ اسٹوریز کے مجموعے‬/ ‫فکشن‬
(1911) The celestial ommibus (and olier stories) 1.
(1928) The eternal moment and other stories 2.
(1940) England's pleasant land 3.
(1947) The collected tales of E.M. Forster 4.
(1951) Billy bud 5.
The life to come (and other stories) 6.
‫( بعد ا زوفات شائع ہوا‬post humous)
‫تاریخ اور سفر نامے‬
(1922) Alexandria: A History and Guide 1.
Pharos and pharrillon 2.
(1923)
(1953) The Hill of Devi (A memoir / essays about India). 3.
‫مضامین‬
Abinger Harvest. A miscellany 1.
(1936)
Two cheers for democracy 2.
(1951)
)‫بایو گرافی (سوانحی‬
(1934) Goldworthy, Lowes Dickinson 1.
)‫(کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر کی سوانح‬
Marrianne Thorton: A domestic biography 2.
(1797,1887,1956)
‫تنقید‬
(1927) (The clark Aspects of the novel; 1.
lectures)
(1942) Virginia Woolf 2.
(1987) (Post humous) Common place book 3.
‫ہندوستان میں قیام پذیر رہنے والے انگریزوں کے نقطہ نظر کے بارے میں مختلف‬
‫نقادوں نے اپنی آراء کا اظہار کیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ ایشیائی ممالک اور خاص‬
‫طور پر برصغیر کے بارے میں اور بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان انگریز‬
‫مصنفین کا رویہ مبنی بر انصاف نہیں تھا بلکہ کسی حد تک تعصب پر مبنی تھا ۔‬
‫رڈیارڈ کپلنگ)‪ (Rudyard Kipling‬ہوں یا جان ماسٹرز )‪(John Masters‬‬
‫اُنھوں نے برصغی ر میں قیام کیا اور اس عرصہ قیام کا اظہار اپنی تحریروں میں کیا مگر‬
‫جس چیز کی کمی محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ یہاں بسنے والی قوموں کی‬
‫روح میں اُترنے سے قاصر رہے اور ان کی تحریروں پر نسلی تفاخر اور عصبیت کا‬
‫احساس جاری رہا مگر ای ۔ ایم ۔ فاسٹر)‪ (E.M. Forster‬کا شمارمستثنیات میں سے ہوتا‬
‫ہے اس نے بھی ہندوستان میں کافی عرصہ قیام کیا۔ یہاں وہ مسلمانوں کی تہذیبی اقدار اور‬
‫وسیع المشربی سے متاثر نظر آتا ہے۔ "‪ "A Passage to India‬کے مترجم ستار طاہر‬
‫’’آزادی سے پہلے ‘‘ کے پیش لفظ میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫ای ایم فاسٹر کے قاری جانتے ہیں کہ وہ اپنے ناولوں میں ایک مخصوص طرز حیات کا‬
‫پرچار کرتا ہے کہ انسانی تعلقات ‪ ،‬سماجی‪ ،‬تہذیبی اور سیاسی اختالفات کا حل بن سکتے‬
‫ہیں مگر جب وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی صورت حال سے دو چار ہوتا ہے تو‬
‫اپنے بے پناہ مشاہدے اور بصیرت سے اس حقیقت تک پہنچ جاتا ہے کہ مسلمانوں اور‬
‫انگریزوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے اور‬
‫برصغیر کا مسلمان اپنی تہذیبی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کے لیے آزادی چاہتا ہے اس‬
‫ناول میں جہاں عہد غالمی کی سچی‪ ،‬کھری اور واضح تصویریں نظر آتی ہیں وہاں‬
‫مسلمانوں کے دلوں میں جنم لینے والے جذبہ آزادی کی آنچ بھی محسوس ہوتی ہے اور‬
‫دو قومی نظریے کی جھلکیوں کا بھی سراغ ملتا ہے۔ (‪)۳۰‬‬
‫معروف ادیب مختار مسعود اس ناول کے حوالے سے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫فاسٹر کے بہترین ناول کا موضوع شروع صدی کا غالم برطانوی ہندوستان ہے اس ناول‬
‫میں مشاہدے اور محسوسات کا ایک انبار لگا ہوا ہے ان کی وسعت اور گہرائی پر ان‬
‫انگریزوں کو بھی حیرت ہوئی جن کی مالزمت کی ساری مدت ہندوستان میں بسر ہوئی‬
‫تھی ہر شخص کو نہ وہ نظر ملتی ہے جو ایک جھلک میں سب کچھ دیکھ لے اور نہ وہ‬
‫دل میسر آتا ہے جسے ہر دھڑکن کے ساتھ القا ہوتا ہے۔‬
‫فاسٹر کے حصے میں بہت کچھ آیا تھا‪،‬نظر کی باریکیاں بھی اور بیان کی خوبیاں بھی۔‬
‫اس کے یہاں ترتیب اور بیان کا وہ سلیقہ اور چابک دستی ہے کہ بڑی بڑی باتیں محض‬
‫ایک لفظ یا جملے میں ادا ہو جائیں یا کسی کردار کی ایک ذرا سی حرکت میں سما جائیں۔‬
‫یوں ناول کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹتا اور سماں ہے کہ بندھتا چال جاتا ہے۔ (‪)۳۱‬‬
‫وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫فاسٹر ‪۱۹۱۱‬ء میں پہلی بار ہندوستان آیا اور اس کی تحریری یاداشت رکھ لی۔ گیارہ برس‬
‫بعد دوبارہ آیا تاکہ ناول کے لیے کچھ اور مواد جمع کر لے۔ اس کے بعد وہ دو سال تک‬
‫ایک ناول لکھتا رہا جسے )‪ (A passage to India‬کے عنوان سے شائع کیا اور سر‬
‫راس مسعودکے نام معنون کیا۔ یہ انتساب بر عظیم سے فاسٹر کے پہلے تعلق کی یادگار‬
‫ہے۔ (‪)۳۲‬‬
‫اسی کتاب میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ‪۱۹۰۶‬ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ کے‬
‫پرنسپل سر ٹھیوڈور موریس ایک جوان کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے اور وہاں فاسٹر‬
‫کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔ شاگرد اور استاد کا رشتہ ایسی دوستی میں بدل گیا جو فاسٹر‬
‫نے سر راس مسعود کے انتقال کے بعد بھی نباہی۔ پھر وہ یونین ہال میں فاسٹر کی تقریر‬
‫کا ایک جملہ یوں دہراتے ہیں‪:‬‬
‫فاسٹر نے کہا تھا کہ بمبئی کے ساحل پر ایک آرائشی دروازہ ہے جسے باب ہند‬
‫)‪(Gateway of India‬کہتے ہیں میرے لیے اس ملک کا صدر دروازہ وہ خشت و‬
‫سنگ کی سرد اور بے جان عمارت نہیں بلکہ سر راس مسعود کی گرم جوش اور گرم‬
‫خون شخصیت تھی ۔ (‪)۳۳‬‬
‫پھر فاسٹر کے ایک مضمون کے حوالے سے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫جمہوریت کے لیے صرف دو بار تالی بجانا کافی ہے کیوں کہ اس کی بدولت تنوع اور‬
‫تنقید کی دولت میسر آتی ہے۔ تین بار تالی)‪ (Three cheers‬سوائے ِ‬
‫اقلیم محبت کے اور‬
‫کسی کو سزا وار نہیں۔ (‪)۳۴‬‬
‫اس ناول کے تحریر کرنے کے عوامل اور مقاصد کے بارے میں ای ایم فاسٹر‬
‫بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ جب یہ ناول لکھنے کے بارے میں خیال کیا تو‬
‫میں نے پہلے اسے مشرق و مغرب کے درمیان ایک ہمدردی کا پل تصور کیا لیکن بعد‬
‫میں اس خیال سے دست بردار ہونا پڑا۔ لیکن میری صحافیانہ دلچسپیوں نے اس طرح کے‬
‫کئی مزید سواالت پر سوچنے پر مجبور کیا۔‬
‫‪When I began the book I thought of it as a little bridge of‬‬
‫‪sympathy between East and West, but the conception has had to‬‬
‫‪go, my sense of truth forbids anything so comfortable. I think that‬‬
‫‪most Indians, like most English people are shits, and I am not‬‬
‫‪interested whether they sympathise with one another or not. Not‬‬
‫‪interested as an artist, of course the journalistic side of me still‬‬
‫)‪gets roused over these questions. (35‬‬
‫لیکن جب یہ ناول مکمل ہو گیا تو اسے ایک شاہکار ناول مانا گیا اسی ناول پر فاسٹر کو‬
‫کئی انعامات سے نوازا گیا جن میں کوئین ایلزبیتھ ‪ (Queen Elizabeth) II‬بھی شامل‬
‫تھا۔ جب پہلی بار اس کتاب کی اشاعت ہوئی تو اسے نہ صرف بہت زیادہ پذیرائی ملی‬
‫بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی بہت زیادہ فروخت ہوئی۔ ‪1924‬ء کے آخر تک اس کی‬
‫‪( 17000‬سترہ ہزار ) کاپیاں شائع ہوئیں اور صرف برطانیہ میں فروخت ہوئیں جب کہ‬
‫‪( 54000‬چون ہزار ) سے زائد امریکہ میں فروخت ہوئیں امریکہ میں اس ناول کی کثیر‬
‫اشاعت پر بعد میں ایک دفعہ فاسٹر نے یوں تبصرہ کیا۔‬
‫‪A few years ago I wrote a book which dealt in part with the‬‬
‫‪difficulties of the English in India. Feeling that they would have no‬‬
‫‪difficulties in India themselves, the Americans read the book‬‬
‫‪freely. The more they read it the better it made them feel and a‬‬
‫)‪cheque to the author was the result. (36‬‬
‫’’ چند سال بیشتر میں نے ایک کتاب لکھی جس میں جزوی طور پر ہندوستان میں‬
‫انگریزوں کی مشکالت کا ذکر کیا۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انہیں خود ہندوستان میں‬
‫کوئی مشکالت نہیں ہوں گی۔ امریکیوں نے اس کتاب کو بہت زیادہ پڑھا۔ وہ جتنا زیادہ اس‬
‫کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اتنا بہتر اسے سمجھتے ہیں اور اس کا نتیجہ مصنف کے لیے‬
‫چیک کی شکل میں تھا۔ ‘‘‬
‫اس ناول کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف نے اس ناول میں ہندوستانی معاشرت‬
‫کے بارے میں تمام انگریزوں کی عصبیت اور غرور سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی‬
‫ہے۔ دو انگریز خواتین مسز مور اور ایڈالکیوسٹڈ کی ہندستان میں آمد کے بعد فضا میں‬
‫تبدیلی آتی ہے۔ یہ دونوں خواتین اصل ہندوستان کو دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔‬
‫ڈاکٹرعزیز جو کہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ان دونوں خواتین کو لے کر مارابار‬
‫غاروں کی سیر کے لیے جاتا ہے۔ وہاں پر افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عزیز‬
‫پر اڈال عصمت دری کا الزام لگا تی ہے مگر بعد میں وہ عدالت مینیہ الزام واپس لے لیتی‬
‫ہے اور عزیز اس مقدمے سے باعزت بری ہو جاتا ہے۔ اس دوران ایک انگریز کردار‬
‫فیلڈنگ عزیز کی طرفداری کرتا ہے جب کہ مسز مور کا بیٹا رونی جو کہ مجسٹریٹ ہے‬
‫اس کو سزا دلوانے میں پیش پیش ہے۔ کیونکہ وہ ہندوستانیوں سے نفرت کرتا ہے اور‬
‫ایڈال کا منگیتر بھی ہے۔ مارا بار غاروں واال واقعہ انگریزوں اور مقامیوں کے تعلقات‬
‫میں دراڑ ڈالتا ہے۔‬
‫ای ایم فاسٹر کا بنیادی نظریہ تھا کہ انسانی تعلقات‪ ،‬سماجی‪ ،‬تہذیبی اور سیاسی‬
‫اختالفات کو نہ صرف کم کر سکتے ہیں بلکہ ان اختالفات کی گہری خلیج کو ختم کر‬
‫سکتے ہیں مگر جب وہ خود ہندوستان آ کر صورت حال کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس پر‬
‫حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ انگریزوں اور مقامی لوگوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ان‬
‫کے دوستانہ تعلقات قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔‬
‫اس ناول میں جہاں عہد غالمی کی تصویریں اور استعماری رویے کی جھلک نظر آتی‬
‫جذبہ آزادی کی آنچ بھی واضح طور پر‬
‫ٔ‬ ‫ہے وہاں مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے‬
‫محسوس ہوتی ہے۔ جب ڈاکٹر عزیز ناول کے اختتام میں انگریزوں سے مخاطب ہو کر‬
‫انہیں یہ کہتا ہے کہ اب یہاں سے چلے جائو اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ‬
‫اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔فیلڈنگ اور اس کے گھوڑے مخالف سمتوں میں‬
‫روانہ ہو جاتے ہیں اور یہ پیغام ملتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی تک دونوں قوموں‬
‫میندوستی کا رشتہ استوار کرنا مشکل ہے۔‬
‫برصغیر کے باشندے ایک خاص تہذیبی ماحول کے پروردہ ہیں جن کی دانش اور‬
‫تمدن کے اپنے انداز‪ ،‬اصول اور سانچے ہیں۔ لیکن پھر استعمار کی آمد کے بعد ایک اور‬
‫مختلف نوعیت کے پیٹرن)‪ (Pattern‬نے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ان کو مغلوب‬
‫کرنے کی کوشش کی۔ اور ایک ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ عمل اٹھارویں صدی کے‬
‫اواخر میں شروع ہوا ۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے‪ ،‬انتشار کا شکار مشرقی‬
‫تہذیب میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔‬
‫انیسوں صدی کے آخر میں ہند مسلم تہذیب کی نمائندگی غیر ملکی ادب میں کچھ اس طرح‬
‫کی گئی کہ یہ قد یم ادبی و تہذیبی روایات معدوم ہونا شروع ہو گئیں اور یوں ایک ایسا‬
‫تہذیبی انقطاع عمل میں النے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ ہماری نوجوان نسل میں فکری‬
‫انتشار بڑھنے لگا۔‬
‫ایسے ہی حاالت میں "‪ "A passage to India‬اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی‬
‫اشاعت کے بعد کئی نقادوں )‪ (Critics‬اور محققین)‪ (Researchers‬کی مختلف آراء‬
‫منصہ شہود پر آئیں۔ جس میں فاسٹر)‪ (Forster‬کو یا تو غیر جانبدار کردار کا حامل بتایا‬
‫گیا ہے یا مکمل طور پر متعصب اور جانبدار‪ ،‬ایسا ناول نگار جو کہ احساس تفاخر اور‬
‫برتری کے نو آبادیانی نظریہ کا حامی اور موید۔ یعنی ہر نقاد نے اس ناول کو اپنے زاویہ‬
‫نگاہ اور الگ الگ تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس‬
‫ناول میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت کا جائزہ لینے سے بیشتر کچھ انگریز نقادوں‬
‫اور محققین کی آراء کو بھی اجماالً پیش کیا جائے۔ جیسے کہ ‪"Branda R.‬‬
‫"‪Silver‬نے ناول کو ’’نسائی تناظر)‪ ‘‘ (Feminisit Perspective‬میں دیکھا۔ (‪)۳۷‬‬
‫بھو پال سنگھ )‪ (Bhopal Singh‬کے مطابق فاسٹر انتہائی غیر جانبدار‬
‫)‪(Serupulously Fair‬ہے اور اس کا کوئی اصالحی مقصد نہیں ہے اور اس نے‬
‫ہندوستان اور ہندوستانیوں کی مکمل غیر جانبداری سے عکاسی کی ہے۔ (‪)۳۸‬‬
‫سارہ سلہری)‪ (Sara Suleri‬نے اس ناول کو ’’جنسی تناظر ‘‘میں دیکھا ہے۔‬
‫(‪)۳۹‬‬
‫)‪(Penelope Pether‬نے ناول کا سوانحی پس منظر میں جائزہ لیا ہے۔‬
‫)‪(Benita Parry‬نے اس ناول میں ’’مقامی آبادی کی نمائندگی کو نو آبادیاتی سیاق ‘‘میں‬
‫دیکھا ہے (‪)۴۰‬‬
‫محمد ایوب ججہ کا موقف ہے کہ فاسٹر ایک نو آبادیاتی ذہن رکھنے واال‪ ،‬احساس برتری‬
‫اور تفاخر کا شکار ایسا برطانوی ناول نگار ہے جس کا رویہ ہندوستان اور ہندوستانیوں‬
‫کو بیان کرنے میں بہت تحقیر آمیز ہے‪ ،‬اس ناول میں محض ہندوستانیوں کی کمتری اور‬
‫انگریزوں کی برتری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے۔ (‪)۴۱‬‬
‫ڈاکٹر احسن فاروقی ‪ ،‬تاریخ ادب انگریزی میں رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫’’اے پیسج ٹو انڈیا "‪ "A Passage to India‬میں فاسٹر نے ہندوستان میں انگریزوں‬
‫کی عملداری کا بڑا سچا اور غیر جانبدارانہ نقشہ کھینچا ہے‘‘۔ (‪)۴۲‬‬
‫)‪(R.J Crane‬کے مطابق ناول میں فاسٹر نے سیاست سے دامن بچا کر رکھا ہے۔‬
‫(‪)۴۳‬‬
‫)‪(Karl & Magalaner‬کے مطابق ‪’’ :‬ناول محض افسانوی سفر نامہ نہیں بلکہ حقیقی‬
‫ہندوستان کا اظہار یہ ہے ‘‘۔‬
‫)‪More than a fictional travelogue, a kind of inside India. (44‬‬
‫)‪(Hubel Teresa‬ہبل ٹیریسا کے خیال میں فاسٹر جدید انڈیا کا سب سے بہتر برطانوی‬
‫ترجمان ہے وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪A social and historical document an exact depiction of the mood‬‬
‫‪which characterized the Anglo Indian/ Indian relationship in the‬‬
‫)‪early 1920s. (45‬‬
‫’’ایک سماجی اور تاریخی دستاویز۔۔۔ جو کہ ‪1920‬کے اوائل میں اینگلو انڈین تعلقات کی‬
‫درست عکاس ہے ۔‘‘‬
‫ای ایم فاسٹر )‪ (E. M. Forster‬کے ناول "‪ "A Passage to India‬کا‬
‫عنوان امریکی شاعر وہٹمین )‪ (Whitman‬کی نظم "‪ "Passage to India‬سے‬
‫ماخوذ ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہٹمین نے یہ نظم اس وقت لکھی جب وہ تہذیب کی‬
‫مزید فتوحات کے بارے میں رجائیت کا اظہار کر رہے تھے کہ سوئز کینال ‪(Suez‬‬
‫)‪ Canal‬کھولنے اور امریکہ تک بذریعہ ریل رسائی حاصل ہونے کے بعد وہ اس امر‬
‫کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی مادی کامیابیوں کو نئے راستوں کے‬
‫ذریعے یا روح کے سفر کے ذریعے غیر واضح عالقوں تک رسائی ہو جیسے کہ‬
‫ہندوستان ان ابتدائی سیاحوں کے لیے تھا جیسا کہ واسکوڈے گاما ‪(Vasco de‬‬
‫)‪Gama‬۔‬
‫!‪Passage O Sould to India‬‬
‫)‪Eclaircise the myths Asiatic, The primitive fables (46‬‬

‫‪RUDYARD KIPLING‬‬
‫)‪"KIM" (1901‬‬
‫رڈیارڈ کیپلنگ ( ِکم )‬
‫رڈیارڈ کیپلنگ (‪۱۹۳۵‬ء۔‪۱۸۶۵‬ء) جس نے مشہور زمانہ اصطالح ’’سفیدفام نسل کا‬
‫بوجھ‪‘‘ (The White Man's Burden) 1899‬ء تخلیق کی تھی جو کہ در حقیقت‬
‫سپین‪/‬امریکی جنگ کے بعد امریکہ کے فلپائن پر قبضے کے خالف رد عمل تھا۔ (‪)۴۷‬‬
‫‪ ۱۸۶۵‬ء میں الہور میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی ہندوستانی بولنے لگا۔ بچپن کے‬
‫حاالت و واقعات کا ذکر وہ اپنی سوانح عمری( "‪ "Something of Myself‬بعد از‬
‫وفات شائع ہوئی) میں بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔ جیسے ایک واقعے کا ذکر‬
‫کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اکیال تھا اور گہری گھاٹی عبور کر رہا تھا کہ‬
‫بڑے بڑے پر وں والی عجیب و غریب مخلوق نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں بہت خوفزدہ‬
‫ہوا اور وہاں سے بھاگ کھڑ اہوا‪ ،‬بہت زیادہ رویامیرے والد نے اس سانحے کی منظر‬
‫کشی یوں منظوم انداز میں کی‬
‫‪There was a small boy in Bombay‬‬
‫‪Who once from w hen ran away.‬‬
‫‪When they said: You're a baby,‬‬
‫‪He replied: Well, I may be:‬‬
‫)‪But I don't like these hens of Bombay (48‬‬
‫’’بمبئی میں ایک چھوٹا بچہ رہتا تھا۔‬
‫جو ایک مرغی سے ڈر بھاگا‬
‫جب انہوں نے کہا‪ ،‬تم ایک بچے ہو‬
‫اس نے کہا‪ ،‬اچھا‪ ،‬ایسا ہی ہے‬
‫لیکن مجھے بمبئی کی یہ مرغیاں پسند نہیں ہیں۔‘‘‬
‫اس سے مجھے بہت تسلی ہوئی اور میں نے اس کے بعد ان مرغیوں کے بارے‬
‫میں اچھا سوچا۔‬
‫چھ سال کی عمر میں وہ اور اس کی بہن سکول میں پڑھنے کے لیے انگلینڈ‬
‫بھجوائے گئے جہاں نوآبادیاتی حکام کے بچوں کے لیے کھولے گئے ایک کم تر درجے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کے پبلک سکول یونائیٹڈ سروسز کالج ویسٹ ورڈ ہو میں اسے داخلہ مال۔ کیوں کہ‬
‫حکام کے بچوں کے لیے ایک اچھا سکول ہیلے بری موجود تھا۔ ابتدائی عمر میں ہی‬
‫اسے اس طرح کے امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے اثرات اس کے ذہن پر پڑے۔ وہ‬
‫‪۱۸۸۲‬ء میں واپس ہندوستان آیا۔ اس کا خاندان ہندوستان میں ہی قیام پذیر تھا۔ اس نے بھی‬
‫سات سال تک یہیں قیام کیا۔ پہلے دی سول ملٹری گزٹ ‪"The Civil Military‬‬
‫"‪Guezzette‬میں اور اس کے بعد اس نے دی پائینیئر"‪ "The Pioneer‬میں بطور‬
‫ایڈیٹر کام کیا۔‬
‫کیپلنگ کی زندگی دلچسپ و عجیب واقعات کا مرقع ہے۔ اس کا بیٹا پہلی جنگ‬
‫عظیم (‪st World War) 1‬میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کیوں کہ اس کی نظر‬
‫کمزور تھی مگر سفارش کی بنا پر بھرتی ہو گیا تھا۔ اور کیپلنگ اس کی موت کا ذمہ‬
‫داربھی خود کو گردانتا تھا۔ اس نے"‪ "Epitaph of the War‬لکھی۔ جس میں وہ لکھتے‬
‫ہیں کہ‬
‫’’اگر کوئی سوال کرے کہ ہم کیوں مرے؟‬
‫تو انہیں بتائو کہ ہمارے بزرگوں نے جھوٹ بوال تھا‘‘‬
‫اپنی ایک اور نظم’’ مردہ سیاست دان‘‘ میں لکھا‪:‬‬
‫’’نہ محنت کا یارا تھا نہ ڈاکے کی جرأت‬
‫سو لوگوں کے خوش کرنے کو جھوٹ بوال‬
‫اب کہ سب جھوٹ کھل چکے‬
‫اور مجھے اپنے مقتولوں کا سامنا ہے‬
‫اب کون سی کہانی کہوں کہ فریب خوردہ بچوں کی تسلی ہو‘‘ (‪)۴۹‬‬
‫کیپلنگ کا تعلق برطانوی حکمران خاندان سے تھا۔ وہ برطانیہ کے وزیر اعظم‬
‫سٹینلے بالڈون )‪ (Stanley Baldwin‬کا رشتہ دار تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی‬
‫اموات کے بارے میں ملکہ وکٹوریہ کے آخری دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا‬
‫اظہار یوں کرتے ہیں۔‬
‫’’اوہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب‘‘‬
‫ان کے اجرتی بھانڈ چالئے‬
‫مگر میں نے غور سے دیکھا‬
‫اس خلیج پر بنے پل کو‬
‫اور مشرق پر گولے برساتی توپوں کو‬
‫اور انہیں مانجھنے والے سپاہیوں کو‬
‫اور مشرق سے مغرب کو آتی‬
‫خون میں لتھڑی چائے اورجنگ میں خونم خون سونا‘‘‬
‫کیپلنگ ‪ ۱۸۸۹‬ء میں ہندوستان کو خیر باد کہہ کر برطانیہ روانہ ہوا۔ بعد میں وہ‬
‫کچھ عرصہ امریکہ میں مقیم رہا مگر ‪۱۹۰۰‬ء کے بعد انگلینڈ میں مستقل اقامت پذیر ہوا۔‬
‫لیکن اس کی بقیہ تمام عمر ہندوستان کی یادوں کے ساتھ بسر ہوئی اور اس کا اثر اس کی‬
‫تمام تحریروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔"‪ "Kim‬بیٹ مین کے مقام پر تحریر کیا گیا جہاں وہ‬
‫گوشہ شعرا ء‬
‫ٔ‬ ‫‪۱۹۳۶‬ء تک مقیم رہا۔ ‪۱۹۳۶‬ء میں وفات ہوئی اور ویسٹ منسٹر ایبے کے‬
‫میں تدفین ہوئی۔ ‪۱۹۰۷‬ء میں نوبل انعام بھی وصول کیا۔ کیپلنگ کی اہم تحریروں کی‬
‫فہرست حسب ذیل ہے۔‬
‫چیدہ چیدہ ناولوں میں سے‪:‬‬
‫)‪The Light That Failed (1891‬‬ ‫*‬
‫)‪Captain Courageous (1896‬‬ ‫*‬
‫)‪Kim (1901‬‬ ‫*‬
‫اس کے عالوہ شارٹ اسٹوریز اور شاعری کی کتب میں سے اہم یہ ہیں‪:‬‬
‫)‪The City of Dreadful Night (1885‬‬ ‫*‬
‫)‪Departmental Ditties (1886‬‬ ‫*‬
‫)‪Plain Tales from the Hills (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪Soldiers Three (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪The Story of the Gadsbys (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪In Black and White (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪Under the Deodars (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪The Phantom Rickshaw and other Eeric Tales (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪Wee Willie Winkie and other Child Stories (1888‬‬ ‫*‬
‫)‪Life's Handicap (1891‬‬ ‫*‬
‫‪American Notes (1891), Non-fiction‬‬ ‫*‬
‫‪Barrak - Room Ballads (1892), Poetry‬‬ ‫*‬
‫)‪Many Inventions (1893‬‬ ‫*‬
‫)‪The Jungle Book (1894‬‬ ‫*‬
‫)‪Rikki-Tikki Tavi (1894‬‬ ‫*‬
The Second Jungle Book (1895) *
The Naulakha - A Story of West and East (1892) *
The Seven Seas (1896), Poetry *
The Day's Work (1898) *
A Fleet in Being (1898) *
Stalky & Co. (1899) *
From Sea to Sea - Letters of Travel (1899), Non-fiction *
The Five Nations (1903), Poetry *
Just so Stories for Little Children (1902) *
Puck of Pook's Hill (1906) *
The Brushwood Boy (1907) *
Actions and Reactions (1907) *
Rewards and Fairies (1910) *
A History of England (1911) *
Songs from Books (1912) *
As Easy as ABC (1912), Science fiction *
The Fringes of the Fleet (1915), Non-fiction *
Sea Warfare (1916), Non-fiction *
A Diversity of Creatures (1917) *
The Years between (1919), Poetry *
Lands and Seas Tales for Scouts and Guides (1923) *
Debits and Credits (1926) *
A Book of Words (1928), Non-fiction *
Thy Servant a Dog (1930) *
Tales of India: The Windermere Series (1935) *
‫بعد از وفات شائع ہوئی‬Something of Myself (1937), Autobiography *
‫سوانح‬
‫( ‘‘ء‬Kim) 1901 ‫( کا مشہور ناول ’’ ِکم‬Rudyard Kipling) ‫رڈیارڈ کیپلنگ‬
‫میں تحریر کیا گیا۔ یہ ناول کیپلنگ کے کیریئر کے مخصوص دور میں اس وقت تحریر‬
‫کیا گیا جب برطانوی حکمرانوں اور مقامی ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت‬
‫تبدیل ہو رہی تھی۔ کیپلنگ بنیادی طور پر اینگلو ہندوستانی صورت حال کی عکاسی میں‬
‫ایک مکمل غیر جانب دار کردار نہیں بلکہ ہمیں اس کی تحریروں میں اس جانب اشارے‬
‫بھی ملتے ہیں کہ صاحب ایک صاحب ہے اور دوستی یا کسی بھی قسم کا تعلق نسلی فرق‬
‫اور امتیاز کو کبھی نہیں مٹا سکتا نہ ہی اس خلیج کو ختم کر سکتا ہے جو انگریزوں اور‬
‫ہندوستانیوں کے درمیان حائل ہے۔‬
‫زیر تحقیق ناول’’ ِکم)‪‘‘ (Kim‬کے آغاز میں ہی الہور کے عجائب گھر کے سامنے‬
‫انارکلی بازار کے رخ پر سنگ مرمر کے چبوترے پر ایک بڑی سی زمزمہ توپ‬
‫)‪(Zam-Zammah Gun‬دکھائی جاتی ہے جسے آج کل انیسویں صدی کے اس‬
‫معروف برطانوی مصنف کے ناول ِکم کی وجہ سے ِکمز گن )‪ (Kim's Gun‬کے نام‬
‫سے بھی پکارا جاتا ہے۔‬
‫ناول کا مرکزی کردار کم بال اوہارا )‪ (Kimball O, Hara‬ہندوستانی فوج کے‬
‫سارجنٹ کا یتیم بیٹا ہے۔ اس کی ماں بھی انگریز ہے۔ کم کا بچپن الہور کے گلی گوچوں‬
‫میں بسر ہوا اور اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ بعد میں اس کی مالقات ایک تبتی‬
‫الما )‪ (Tibetan Lama‬سے ہوتی ہے جو کہ دریا کے کنارے اپنے گناہوں کو دھونے‬
‫کے لیے آیا ہوا ہے۔ کم اس کی شاگردی اختیار کر لیتا ہے اور اس کی ہمراہی میں پورے‬
‫ہندوستان کی سیر کرتا ہے۔ الہور کے عجائب گھر کا نگران ان کی مدد کرتا ہے۔ اسی‬
‫دوران کم برطانوی سیکرٹ ایجنسی کے لیے جاسوسی کے کام میں ملوث ہو جاتا ہے۔ بعد‬
‫میں کم کی مالقات گھوڑوں کے افغان تاجر محبوب علی سے ہوتی ہے جو کہ انگریزوں‬
‫کے لیے کام کرتا ہے۔ کم کرنل کریٹن )‪ (Creighton‬اور محبوب علی کے درمیان خفیہ‬
‫پیغام رسانی کا کام سرانجام دیتا ہے۔ کریٹن سے کم کی مالقات ہونے پر ہی یہ انکشاف‬
‫بھی ہوتا ہے کہ کم سفید فام نسل سے تعلق رکھنے واال لڑکا ہے نہ کہ مقامی ہے حاالنکہ‬
‫دیکھنے میں یعنی اپنی جسمانی شکل و شباہت میں مقامیوں جیسا ہی لگتا ہے۔‬
‫اس کے بعد کم کی مالقات دوسرے مرد کرداروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگرچہ‬
‫مرکزی کردار یہ دونوں ہیں یعنی کم ایک نوجوان اور الما ایک تبتی درویش۔ مگر یہ‬
‫دوسرے کردار ناول کی مرکزی حقیقت کو تشکیل دینے میں معاون ہوتے ہیں ان میں‬
‫محبو ب علی‪ ،‬لرگان صاحب‪ ،‬بابو ہوری‪ ،‬مسٹر بینٹ اور فادر وکٹر شامل ہیں۔ ناول میں‬
‫نسوانی کرداروں کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں وہ بھی حقیر قسم کے اور قابل نفرت‬
‫کرداروں کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔‬
‫کم کے بارے میں جب یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ مقامی نہیں بلکہ ایک سفید فام‬
‫لڑکا ہے تو اس کی تعلیم کے لیے اس کو سینٹ ژاویئر )‪ (St. Xavier‬سکول میں داخل‬
‫کرایا جاتا ہے جہاں وہ تعلیم حاصل کرتا ہے اور چھٹیوں کے دوران بوڑھا اس نوجوان‬
‫کو ساتھ لے کر دوبارہ عازم سفر ہوتا ہے۔ ان دونوں کی مالقات اس دوران روسی‬
‫جاسوسوں کے ساتھ ہوتی ہے اور لڑکا ان کی کچھ دستاویزات چرا لیتا ہے۔ لیکن اس سے‬
‫پہلے ہی وہ لوگ بوڑھے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ سازش بے نقاب ہو جاتی ہے۔ اسی‬
‫دکھ کی کیفیت سے وہ دونوں بیمار پڑ جاتے ہیں۔ مگر کم کی شفائی خوبیوں کے ذریعے‬
‫ان کی صحت یابی ہوتی ہے اور وہ دھرتی ماتا کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں۔ ناول کے‬
‫اختتام پر بوڑھے کی طلسماتی گاڑی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور دونوں بے یار و مددگار‬
‫حالت میں گھومنے پھرنے لگتے ہیں مگر کم کی شفائی صالحیتوں کی وجہ سے بحالی ٔ‬
‫صحت کے بعد بوڑھے کو احساس ہوتا ہے کہ اسے کم کے ذریعے دریا مل گیا ہے جبکہ‬
‫ناول کے اختت ام پر کم برطانوی خفیہ سروس کے ’’عظیم کھیل‘‘ میں ایک کھالڑی کے‬
‫طور پر دوبارہ شمولیت اختیار کر لیتا ہے اور پھر کل وقتی طور پر برطانوی نوآبادیاتی‬
‫مالزمت اختیار کر لیتا ہے۔‬
‫بحیثیت مجموعی کم جمالیاتی اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے جس کا مطالعہ کیپلنگ‬
‫کو زبردست صالحیتوں واال مصنف ثابت کرتا ہے۔ اس ناول کو آج کے تناظر میں بھی‬
‫ایک تاریخی موڑ کی عظیم دستاویز کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے۔‬
‫جان ماسٹرز)‪JOHN MASTERS (1914-1983‬‬
‫بھوانی جنکشن‬
‫جان ماسٹرز )‪ ۲۶ (John Masters‬اکتوبر ‪۱۹۱۴‬ء کو کلکتہ (انڈیا) میں پیدا‬
‫ہوئے۔وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جنہوں نے ہندوستان میں پانچ نسلوں تک‬
‫خدمات سرانجام دیں۔انہوں نے ولینگٹن)‪ (Wellington‬اور سینڈ ہرسٹ )‪(Sand Hurst‬‬
‫میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ‪۱۹۳۴‬ء میں ہندوستان واپس آئے اور بطور آفیسر گورکھا رائیفلز‬
‫)‪(Gorkha Rifles‬میں تعینات ہوئے۔ ‪۱۹۴۸‬ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ روانہ‬
‫ہوئے۔ وہاں سے وہ عازم امریکہ ہوئے اور وہیں ‪۱۹۸۳‬ء میں وفا ت پائی۔‬
‫جان ماسٹرز ایک مابعد نوآبادیاتی بسیار نویس اینگلوانڈین ناول نگار ہیں جن کی‬
‫بیشتر تحسین اس بنا پر ہوئی کہ انہوں نے برطانوی عہد کے ہندوستان کی خاص طور پر‬
‫نقطہ نظر سے کی‬ ‫ٔ‬ ‫عکاسی اپنی تخلیقات میں کی ہے اور ہندوستان کی پروجیکشن اپنے‬
‫ہے۔ انہوں نے ناول نگاری کی ابتداء‪۱۹۵۱‬ء میں "‪"Night Runners of Bengal‬سے‬
‫کی جس میں ایک ایسے خاندان کا تذکرہ ہے جو کہ اپنے ظلم اور بربریت کی وجہ سے‬
‫مشہور ہوا۔ اس کے بعد "‪۱۹۵۲ ، "The Deceivers‬ء میں تحریر کیا۔ اس کا موضوع‬
‫بھی ہندوستان ہے۔‬
‫"‪۱۹۵۳ ،"The Lotus and the Wind‬ء میں شائع ہوا۔ اور بھوانی جنکشن‬
‫"‪۱۹۵۴"Bhawani Junction‬ء میں منظر عام پر آیا۔ ان چاروں کو‪ BBC‬ریڈیو نے‬
‫کالسیکل سیریل کے تحت اکتوبر ‪۱۹۸۴‬ء سے جنوری ‪۱۹۸۵‬ء میں نشر کیا۔ اور ‪"The‬‬
‫"‪Deceivers‬پر ‪۱۹۸۸‬ء میں فلم بنائی گئی۔"‪۱۹۵۵ ، "Cormandel‬ء میں جب کہ‬
‫"‪۱۹۶۷ ،"Far, Far the Mountain Peak‬ء میں تحریر کیا گیا۔ ان کے عالوہ بھی‬
‫کئی دوسرے ناول ہیں جو انہوں نے اپنے قیام امریکہ کے دوران لکھے۔ جہاں وہ ‪۱۹۴۹‬ء‬
‫کے بعد مقیم رہے ۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی دو جلدوں میں تحریر کی۔ ‪"Bugles‬‬
‫"‪۱۹۵۶ ،and a Tiger‬ء میں اور"‪۱۹۶۱ ، "Road Past Mandalay‬ء میں شائع‬
‫ہوئی۔‬
‫ــ’’بھوانی جنکشن‘‘ (‪۱۹۵۴‬ء) انگریزوں کی ہندوستان سے دستبرداری اور انتقال‬
‫اقتدار کے عہد تالطم خیز کے دوران تحریر کیا گیا اور اس میں اینگلو انڈین کمیونٹی کی‬
‫تصویر کشی کی گئی۔ جو کہ جدا ہونے والے برطانوی حکمرانوں سے اپنی وفاداری اور‬
‫اکثریتی ہندوستانی آبادی سے ہمدردی کے درمیان ایک کشمکش میں مبتال نظر آتے ہیں۔‬
‫اس ناول کو جان ماسٹرز نے اسی کمیونٹی کی نذر کیا ہے اس ناول کے بیشتر کردار‬
‫انڈین ریلوے سسٹم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس ناول کو چار بڑے حصوں اور چالیس‬
‫چھوٹے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔‬
‫ناول کے پہلے حصے میں پیٹرک ٹیلر)‪۳۶ ، (Patric Taylor‬برس کے غیر شادہ‬
‫شدہ یوروایشین)‪ ، (Euroasian‬دہلی دکن ریلوے کے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کے نان گزیٹڈ‬
‫آفیسر کے کردار سے متعارف کرایا گیا ہے۔‬
‫دوسرے حصے میں وکٹوریہ جونز )‪ (Victoria Jones‬کے کردار سے آگاہی‬
‫ملتی ہے جو کہ اٹھائیس برس کی غیر شادی شدہ یوروایشین دوشیزہ ہے اور دہلی دکن‬
‫ریلوے کے ڈرائیور تھامس جونز )‪ (Thomas Jones‬کی بیٹی ہے۔‬
‫ناول کے تیسرے حصے میں رونی )‪ (Rodney‬کا کردار متعارف کرایا جاتا ہے‬
‫جو کہ ‪۳۴‬برس کا کنوارہ لیفٹیننٹ کرنل ہے اور انڈین آرمی کی کمانڈنگ فرسٹ بٹالین‬
‫‪۱۳‬گورکھا رائفلز )‪ (Gorkha Rifles‬میں تعینات رہا ہے۔‬
‫حصہ چہارم میں پیٹرک )‪ (Patrick‬کے کردار سے مالقات ہوتی ہے جو زیر‬
‫عتاب ہے اور اسے دہلی دکن ریلوے سروس سے برخاستگی کے لیے انضباطی‬
‫کارروائی کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔‬
‫’’ بھوانی جنکشن‘‘ میں جان ماسٹرز انڈین ریلوے سسٹم سے وابستہ اینگلو انڈین‬
‫کمیونٹی کی عکاسی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں جو کہ ان کے گہرے مشاہدے‬
‫کا ثمر ہے۔ در حقیقت یہ ا ینگلو انڈین کرداروں کی ذاتی شناخت کا ناول ہے۔ جس میں‬
‫برطانوی راج اور ہندوستانی معاشرے کی تصویر کشی بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ‬
‫تاریخ اور رومانس کا خوبصورت امتزاج بھی ملتا ہے۔ ناول کا اختتامی تاثر بھی‬
‫خوشگوار ہے۔‬
‫’’ بھوانی جنکشن‘‘ کی کہانی تاریخ اور رومان کے سنگم پر قاری کو اپنی گرفت‬
‫میں لے لیتی ہے۔ اس ناول میں بیشتر کردار انڈین ریلوے سسٹم سے منسلک ہیں۔ جان‬
‫ماسٹرز بڑی مہارت سے معاشرے میں رائج ذات پات کے نظام‪ ،‬سیاسی تحریکات اور پر‬
‫تشدد کارروائیوں کا منظر نامہ قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔‬
‫ناول کا آغاز اس خب ر سے ہوتا ہے کہ ایک سامان بردار (مال) گاڑی کو ایک‬
‫تخریب کاری کی کارروائی کے نتیجے میں پٹڑی سے اتار دیا گیا ہے۔ اس طرح بنیادی‬
‫طور پر یہ کہانی تین کرداروں پیٹرک ٹیلر)‪ ، (Patric Taylor‬وکٹوریا جونز ‪(Victoria‬‬
‫)‪Jones‬اور کرنل ساویج )‪ (Colonol Savage‬کے گرد گھومتی ہے۔ خاص طور پر‬
‫نقطہ نظر ہے جب کہ‬ ‫ٔ‬ ‫وکٹوریا کی اپنی شناخت کی تالش کا اضطراب ناول کا مرکزی‬
‫وکٹوریا کی یہ قابل رحم اور المناک صورتحال پوری اینگلو انڈین کمیونٹی کی ناگوار‬
‫صورت حال کی نمائندہ ہے۔ اس دور کے اینگلو انڈین طبقے کو جس قسم کی ذہنی‬
‫کشمکش‪ ،‬تنائو اور مع اشرتی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اظہار وکٹوریہ‬
‫جونز کے بطور نمائندہ کردار کے کیا گیاہے۔‬
‫وکٹوریہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب برطانوی حکمران ہندوستان سے‬
‫رخصت ہو جائیں گے تو ان کے بغیر اینگلو انڈینز کا وجود بھی بے معنی اور بے حقیقت‬
‫ہو کر رہ جائ ے گا کیوں کہ درحقیقت وہ اب تک نہ تو برطانیہ کا حصہ رہے ہیں اور نہ‬
‫ہی ہندوستان کا جزو الینفک ہی بن سکے ہیں۔ اب ان کے لیے انڈیا کو تسلیم کرنے اور‬
‫ہندوستانی ثقافت کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے وہ ہندوستانی کلچر‪،‬‬
‫اعتقادات و نظریات کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے مگر اسے اس وجہ سے‬
‫ناکامی ہوتی ہے کیوں کہ اس کا ذہن بچپن ہی سے برطانوی خیاالت و اعتقادات کو قبول‬
‫اور جذب کر چکا ہے۔ اس ناول سے ہمیں برطانوی افسروں کے اس رحجان طبع کا‬
‫اندازہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ وہ ان یوروایشین خواتین کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ‬
‫سمجھتے ہیں۔ اسی رویے کا اظہار گراہم میکالے)‪ (Graham Macaulay‬کے ذریعے‬
‫بھی ہوتا ہے جو کہ وکٹوریا کے ساتھ دو مرتبہ زیادتی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‬
‫اس ناول کے دوسرے کرداروں میں گووندا سوامی )‪ (Govinda Swami‬جو کہ‬
‫بھوانی جنکشن کے کلیکٹر ہیں جب کہ سورا بھائی )‪ (Sura Bhai‬کانگریس کے مقامی‬
‫یونٹ کے سربراہ ہیں اور سردارنی )‪ (Sirdarini‬رنجیت سنگھ کی والدہ ہیں جو کہ‬
‫ریلوے کا آفیسر ہے۔یہ تمام کردار مل کر ناول کے بیانیے کو بڑا پرزور اور ٔ‬
‫موثر بناتے‬
‫ہیں۔ یہ سردارنی کا ہی کردار ہے جو کہ وکٹوریہ کو معاشرے میں اپنی شناخت کی تالش‬
‫میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سردارنی کے مطابق تمام ہندوستانی عوام برطانوی حکمرانوں‬
‫کے لیے ایک محکوم زیر انداز مخلوق ہیں اس لیے وہ ان کی حاکمیت کے خالف آواز‬
‫بلند کرتی ہے اور ہندوستانیوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے اکساتی ہے اور اپنے‬
‫مقام کو پہچاننے پر زور دیتی ہے۔‬
‫اس ناول کا سب سے اہم اور مرکزی واقعہ تین کرداروں کرنل ساوج‪ ،‬وکٹوریہ‬
‫جونز اور پیٹرک ٹیلر کی محبت کی تکون ہے۔ اپنی اس ثقافتی شناخت کی تالش مسلسل‬
‫کے دوران وہ ان تینوں کرداروں جن میں )‪ (Savage‬ایک انگریز‪Taylor ،‬ایک اینگلو‬
‫انڈین اور رنجیت سنگھ ایک ہندو ستانی ہے سے محبت میں گرفتار ہوتی ہے۔ اور ناول کی‬
‫ہیروئین کا انہیدو انتہائوں اور دو متضاد ومخالف دنیائوں کے درمیان ذہنی کشمکش کا‬
‫سفر ہے جس کو جان ماسٹرز نے انتہائی مہارت اور مشاقی کے ساتھ زیر تحقیق ناول‬
‫میں اجاگر کیا ہے اس سارے قصے میں وکٹوریہ محسوس کرتی ہے کہ اگرچہ اس کی‬
‫اپنی محبت کی کیفیت تغیر و تبدل پذیر ہے مگر اس کو سچی محبت نہ تو انگریز سے‬
‫اور نہ ہی ہندوستانی سے ملی ہے بلکہ وہ اینگلو انڈین کردار ہی تھا جس نے اس کے‬
‫لمحہ اظہار ہے جس میں حقیقت کا انکشاف‬ ‫ٔ‬ ‫ساتھ صحیح نباہ کی کوشش کی۔ اور یہی وہ‬
‫نہ صرف وکٹوریا پر ہوتا ہے بلکہ قاری پر بھی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ اور اسی‬
‫ہیروئن کے کردار کے ذریعے جان ماسٹرز اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اینگلو انڈین‬
‫نسل کے افراد جو کہ دوغلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنا مقام کسی ملک کے جزو‬
‫کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں قائم کر سکتے ہیں۔‬
‫’’ بھوانی جنکشن‘‘ تاریخ اور فکشن کا خوبصورت امتزاج ہے جو کہ جان ماسٹرز‬
‫کے انڈین آرمی میں گزارے ہوئے سالوں کے ذاتی مشاہدات و تجربات کا نچوڑ بھی ہے۔‬
‫برطانوی راج کے دوران ہندوستان کی صحیح صورت حال کی عکاسی بھی اسی تجربے‬
‫کی مرہون منت ہے اینگلو انڈین طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے جان ماسٹرز انہیں یہ‬
‫مشورہ بھی دیتا ہے کہ وہ خود کو انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ اپنی قسمت اور‬
‫مقدر کے خود خالق بنیں۔ ناول کے اختتامی حصے میں بھی مصنف نے اینگلو انڈینز کی‬
‫گومگو ئی کیفیت اور ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ وکٹوریا کی دم توڑتی محبت اور‬
‫اپنی شناخت کی بازیافت کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔‬

‫‪Willian Makepeace Thackeray‬‬


‫ولیم میک پیس تھیکرے (‪۱۸۶۳‬ء ۔ ‪۱۸۱۱‬ء)‬
‫وینٹی فیئر‪Vanity Fair‬‬
‫ولیم میک پیس تھیکرے ‪۱۸‬جوالئی ‪ ۱۸۱۱‬ء کو کلکتہ (انڈیا)میں پیدا ہوئے اور‬
‫‪۲۴‬دسمبر ‪ ۱۸۶۳‬ء کو لندن میں انتقال کر گئے۔ وہ ایک مشہور انگریز ناول نگار تھے جن‬
‫کی شہرت کا زیادہ تر دارومدار ایک ناول بعنوان )‪ "Vanity Fair" (1847-48‬پر ہے‬
‫جو کہ انگلستان میں نپولین دور کا ناول ہے اور دوسرے ناول ‪"The History of‬‬
‫)‪Henry Esmond" (1852‬پر تھا جس کا آغاز اٹھارہویں صدی کے اوائل سے ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫ولیم میک پیس تھیکرے کے والد )‪ (Richmond Thackeray‬کے اکلوتے بیٹے‬
‫تھے جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے والد کا‬
‫‪۱۸۱۵‬ء میں انتقال ہو گیا اور ‪ ۱۸۱۶‬ء میں تھیکرے کو واپس انگلینڈ بھیج دیا گیا جہاں‬
‫‪۱۸۲۰‬ء میں اس کی والدہ بھی پہنچ گئی مگر ‪۱۸۱۷‬ء میں ایک انجینئر سے اس نے شادی‬
‫کر لی جس کو وہ اوائل عمری سے پسند کرتی تھی مگر اس کی پہلی شادی‬
‫)‪(Richmond Thackeray‬سے ہو گئی تھی۔‬
‫کئی گرامر سکولوں میں زیر تعلیم رہنے کے بعد آخر کار ‪۱۸۲۲‬ء میں لندن کے‬
‫ایک پبلک سکول چارٹر ہائوس میں داخل کرایا گیا جہاں اسے شدید تنہائی اور کسمپرسی‬
‫کا احساس دامن گیر رہا مگر وہ ٹرنٹی کالج‪ ،‬کیمبرج (‪۳۰‬۔‪۱۸۲۸‬ء) میں مقابلتا ً زیادہ خوش‬
‫رہا مگر ‪ ۱۸۳۰‬ء میں بغیر ڈگری حاصل کیے اس نے کیمبرج کو خیر باد کہہ دیا۔‬
‫‪۳۳‬۔‪ ۱۸۳۱‬ئکے دوران اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مڈل ٹیمپل لندن میں‬
‫داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد اس کا رحجان پینٹنگ کی طرف ہوا اور اس کی عملی‬
‫سرگرمیوں میں اس کا اظہار بھی ہوا۔‬
‫‪۱۸۳۲‬ء میں بالغ ہونے پر اسے والد کی طرف سے ‪۲۰‬ہزار پائونڈ ورثے میں ملے‬
‫مگر اس سے یہ تمام رقم ضائع ہو گئی۔ ‪۱۸۳۶‬ء میں جب کہ وہ پیرس میں طالب علم تھا‬
‫اس نے ایک غریب آئرش لڑکی سے شادی کر لی اور اس کے سوتیلے باپ نے ایک‬
‫اخبار خرید لیا تا کہ وہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے وہیں قیام پذیر رہے۔ ‪۱۸۳۷‬ء میں‬
‫اخبار کے بند ہونے پر وہ اپنی بیوی کے ہمراہ بلوم بری (لندن) لوٹ آیا اور ایک محنتی‬
‫جفاکش صحافی کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔‬
‫تھیکرے کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ان میں سے ایک بیٹی شیر خوارگی میں‪۱۸۳۹‬ء‬
‫میں انتقال کر گئی اور ‪۱۸۴۰‬ء میں مسز تھیکرے پاگل پن کا شکار ہو گئی۔ اس کے بعد‬
‫تاحیات وہ صحت یاب نہ ہو سکی۔ تھیکرے کی زندگی زیادہ تر کلب کی مرہون منت رہی‬
‫اور پھر اس نے زیادہ توجہ بیٹیوں پر مرکوز کی۔ جن کے لیے ‪۱۸۴۶‬ء میں لندن میں‬
‫ایک گھر بنایا۔ ‪۴۸‬۔‪۱۸۴۷‬ء میں جب ‪ Vanity Fair‬سلسلے وار اشاعت پذیر ہوا تو‬
‫تھیکرے کو پیسہ اور شہرت دونوں ہی میسر آئے۔‬
‫‪۵۰‬۔‪۱۸۴۹‬ء میں‪ Pendennis‬شائع ہوا جو کہ تھیکرے کے ناولوں میں سے سب‬
‫سے زیادہ سوانحی ہے۔ اس سے بھی تھیکرے کی شہرت کو مزید استحکام مال۔ ‪۱۸۵۱‬ء‬
‫میں اس نے اٹھارہویں صدی کے انگریز مزاح نگاروں پر لیکچر دینے شروع کیے جو‬
‫‪۱۸۵۲‬ء میں شائع ہوئے۔‬
‫اس وقت تھیکرے کی شہرت چار دانگ پھیلی ہوئی تھی۔ ‪۱۸۵۷‬ء میں وہ ممبر‬
‫پارلیمنٹ منتخب ہونے کے قریب تھے کہ چارلس ڈکنز سے جھگڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ‬
‫دوبارہ اپنی ادبی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور‪"The Virginians" (1857-‬‬
‫)‪59‬شائع کی۔ نقادوں کے مطابق اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان کا ادبی سفر زوال پذیر‬
‫ہونا شروع ہوگیا اور اس کے بعد شائع ہونے واال کوئی بھی ناول شہرت کی بلندیوں کو نہ‬
‫چھوسکا۔ ‪ ۱۸۶۰‬ء میں کارن ہل میگزین کی ادارت سنبھالی مگر خرابی ٔ صحت کی بنا پر‬
‫‪۱۸۶۲‬ء میں مستعفی ہو گئے۔ ‪۲۴‬دسمبر ‪۱۸۶۳‬ء کی صبح مردہ پائے گئے۔‬
‫ناول "‪ "Vanity Fair‬کی کہانی ربیکا )‪ (Rebeeca Sharp‬کے گرد گھومتی‬
‫ہے جو کہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔ وہ کسی امیر خاندان میں شادی کر کے اپنی‬
‫حتی کہ اسے اپنے قریبی ترین عزیزوں کی قربانی‬ ‫زندگی کو بہتر بنانے پر تلی ہوئی ہے ٰ‬
‫ہی کیوں نہ دینی پڑے‪ ،‬اس لحاظ سے وہ بہت بے رحمی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بعض‬
‫اوقات اس کے منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ناکامی سے۔ مگر‬
‫اسے اور اس کے خاوند کو زندگی میں ناکامیوں سے کچھ زیادہ ہی واسطہ پڑتا ہے۔ اس‬
‫کو اپنے ہی تیار کردہ ایک سیکنڈل سے خوفناک تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی‬
‫دوست امیلیا سیڈلی )‪ (Amelia Sedley‬جو کہ ایک معصوم اور محبت کرنے والی‬
‫لڑکی ہے وہ بھی اس کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوتی ہے مگر اس کا زوال حاالت‬
‫اور مقدر کی وجہ سے ہے نہ کہ اس کے بے جا فخر و مباہات اور تحریص کی وجہ‬
‫سے۔‬
‫ناول کا آغاز مسز پنکرٹن کی اکیڈمی سے ہوتا ہے جہاں قاری کی مالقات دو‬
‫نسوانی کرداروں امیلیا ‪ Amelia‬اور بیکی‪ Becky‬سے ہوتی ہے جوناول کے مرکزی‬
‫اور جاندار کردار ہیں۔ دو مختلف طبائع اور متضاد نظریات کی حامل ہونے کے باوجود‬
‫آپس میں دوست ہیں۔ ‪ Amelia‬ایک مہربان اور معصوم لڑکی ہے جو کہ ایک متمول‬
‫خاندان کی فرد ہے۔ دوسری طرف بیکی شارپ )‪ (Becky Sharp‬کینہ پرور اور‬
‫منصوبہ ساز ذہن کی عورت ہے جس کا تعلق ایک مفلس خاندان سے ہے۔ مس پنکرٹن‬
‫‪Becky‬کے رویہ سے ناراض ہو کر اسے کرالے اسٹیٹ )‪ (Crawley Estate‬میں‬
‫گورنس کی نوکری کے لیے بھیجتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے فرائض سنبھالے وہ‬
‫ایک ہفتہ ‪ Amelia‬کے گھر گزارتی ہے اور ان کے دلوں میں گھر کر نے کی کوشش‬
‫کرتی ہے اور امیلیا کے بھائی کے ساتھ جو کہ فربہ جسم واال شرمیال ٹیکس کلکٹر ہے‬
‫اس کے ساتھ شادی کی نیت سے معاشقہ کرتی ہے۔ وہ آج کل انڈیا سے چھٹی لے کر یہاں‬
‫آیا ہوا ہے۔‬
‫‪Becky‬کو شادی کے معامالت طے کرنے میں کامیابی حاصل ہونے کے قریب ہی‬
‫ہے کہ جارج مداخلت کرتا ہے اور جوزف کو قائل کرتا ہے کہ اسے بے وقوف بنایا گیا‬
‫ہے۔ اس پر وہ اپنی تذلیل محسوس کرتے ہوئے گھر چھوڑ کر چال جاتا ہے اور بیکی‪،‬‬
‫ج ارج سے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی نوکری پر روانہ ہو جاتی ہے۔‬
‫کرالے )‪ (Crawleys‬فیملی والے بھی اخالقی طور پر گراوٹ کا شکار لوگ ہیں‬
‫اور اپنی دولت کی فراوانی کی بنا پر دوسروں کو حقیر گردانتے ہیں وہ سب آنٹ میتھلڈا‬
‫)‪(Aunt Matilda‬کی وراثت کے حصول کے لیے منصوبہ سازی میں مصروف ہیں‬
‫کیونکہ وہ بیمار ہے بیکی ایک مرتبہ پھر اس فیملی کے دل میں گھر بنانے کی کوشش‬
‫کرتی ہے اور سرپٹ )‪ (Sir Pitt‬اور راوڈن )‪ (Rawdon‬کی حمایت حاصل کرنے میں‬
‫جزوی طور پر کامیاب ہو جاتی ہے جو کہ اس سے شادی کی درخواست بھی کرتے ہیں‬
‫وہ بادل نخواستہ سرپٹ )‪ (Sir Pitt‬کے سامنے رائوڈن )‪ (Rawdon‬سے خفیہ شادی‬
‫کرنے کا اعتراف یا انکشاف کرتی ہے مگر خاندان کا ہر فرد یہ خبر سن کر مشتعل ہو‬
‫جاتا ہے۔‬
‫اس دوران امیلیا )‪ ، (Amelia‬جارج )‪ (George‬کی سخت آرزومند ہو جاتی ہے۔‬
‫اس وقت جب کہ وہ فوج میں مالزم ہے اس کی محبت کو رد کر دیتا ہے۔ ڈوبن‬
‫)‪(Dobbin‬جو کہ جارج )‪ (George‬کا گہرا دوست ہے اور وہ بھی خفیہ طور پر امیلیا‬
‫)‪ (Amelia‬سے محبت کرتا ہے وہ اپنے دوست سے امیلیا کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی‬
‫درخواست کرتا ہے۔ جارج آخر کار )‪ (Amelia‬سے شادی پر رضامند ہو جاتا ہے۔ جب‬
‫کہ اس ک ے والد کی پیش گوئی اس وقت درست ثابت ہوتی ہے جب سیڈلے )‪(Sedley‬‬
‫اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں کی وجہ سے مالی تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جارج کا والد‬
‫اس سے التعلقی اختیار کر لیتا ہے مگر ڈوبن )‪ (Dobbin‬کی کاوشوں سے اس کی شادی‬
‫کو تسلیم کر لیتا ہے۔‬
‫ویلنگٹن کے ڈیوک نے جب اعالن جنگ کر دیا تو تمام مرد فوج میں بھرتی ہو‬
‫گئے۔ ہر کوئی بلجیم میں جنگی تربیت کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔ جب تمام خاوند جنگ‬
‫کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں تو جنرل کی بیگم پیچھے رہ جانے والی تمام خواتین کا خیال‬
‫رکھتی ہے۔ امیلیا جارج کے متعلق سوچ کر پریشان ہوتی ہے اور رائوڈن‪ ،‬بیکی‬
‫)‪ (Becky‬سے جدا ہونے پر ماتم کناں ہے لیکن بیکی مستقل قریب میں اپنے ہونے والے‬
‫خاوند کے متعلق کچھ التعلق سے دکھائی دیتی ہے اور اس کے بجائے جارج کے ساتھ‬
‫عشوہ طرازیوں میں مشغول ہو جاتی ہے۔ بد قسمتی سے جارج واٹرلو کی جنگ میں مارا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫سر پٹ )‪ (Sir Pitt‬اپنی دوسری بیوی کی وفات پر اپنے بٹلر کی بیٹی کے ساتھ‬
‫تعلق جوڑتا ہے جو کہ گھر میں سیکنڈل کا باعث بنتی ہے۔ نوجوان پٹ کرالے ‪(Pitt‬‬
‫)‪Crawley‬کو بھی اچھی بیوی مل جاتی ہے جو کہ آنٹی میٹلڈا )‪ (Aunt Matilda‬کی‬
‫رضامندی حاصل کر لیتی ہے۔ حاالں کہ وہ سرپٹ )‪ (Sir Pitt‬کے بیٹوں کے متعلق کبھی‬
‫بھی نہیں سوچتی تھی۔‬
‫امیلیا اور بیکی دونوں بیٹوں کو جنم دیتی ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے بیکی اور‬
‫رائوڈن پیرس میں تھوڑی رقم کے ساتھ بھی اچھی طرح بناہ کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ‬
‫وہاں ہوٹل والوں کو بھی دھوکا دیتے ہیں مگر جلد ہی لندن لوٹ آتے ہیں۔ بزرگ سرپٹ‬
‫کرالے وفات پا جاتے ہیں اور نوجوان سرپٹ‪ ،‬رائوڈن اور بیکا کو اپنے گھر بال لیتے ہیں‬
‫اور ربیکا )‪ (Rebecca‬نے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ چاہتی‬
‫ہے کہ رائوڈن کو بطور گورنر )‪ (Governor‬نوکری مل جائے اور اس کے لیے سرپٹ‬
‫اور ال رڈ اسٹیسن کی مدد حاصل ہو جائے۔ بوڑھے مسٹر اوسبورن بھی امیلیا کو پیشکش‬
‫کرتے ہیں کہ اگر وہ بیٹے کو اس کے ساتھ رہنے کی اجازت دے تو وہ اس کی مالی امداد‬
‫کریں گے۔ وہ بے دلی کے ساتھ رضا مند ہو جاتی ہے۔‬
‫‪PAUL SCOTT‬‬
‫)‪(The Raj Quartet‬‬
‫پال اسکاٹ‬
‫پال مارک اسکاٹ )‪ (Paul Mark Scott‬ہندوستان میں عہد نوآبادیات خصوصا‬
‫برطانوی راج کے آخری ایام کی تصویر کشی کرنے واال برطانوی ناول نگار ہے۔ وہ‬
‫‪۲۵‬مارچ ‪۱۹۲۰‬ء کو ‪ Palmers Green‬میں پیدا ہوا اور یکم مارچ ‪۱۹۷۸‬ء کو لندن میں‬
‫اکاونٹنٹ کام کرنے کی تربیت‬
‫وفات پائی۔ سولہ برس کی عمر میں سکول چھوڑ کر بطور ٔ‬
‫حاصل کی۔ ‪۱۹۴۰‬ء میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ ‪۱۹۴۳‬ء تا ‪۱۹۴۶‬ء انڈین‬
‫آرمی کے ساتھ کام کیا اور اسی دوران انہیں پورے انڈیا‪ ،‬برما اور مالیا میں گھومنے کا‬
‫موقع مال۔ لندن واپسی پر چار سال کے لیے انہوں نے ایک چھوٹے سے اشاعتی ادارے‬
‫کے ساتھ کام کیا اور پھر وہ لندن لٹریری ایجنسی کے ڈائریکٹر بن گئے۔ ‪۱۹۶۰‬ء میں‬
‫مستعفی ہو کر مکمل طور پر لکھاری بن گئے۔ ‪۱۹۶۴‬ء میں ہندوستان کا دورہ کیا جس‬
‫نے راج کوارٹٹ "‪ "Raj Quartet‬لکھنے میں مدد دی۔ یوں ‪"The Jewel in the‬‬
‫"‪۱۹۶۶ ،Crown‬ء میں ‪۱۹۶۸ ،""The Day of the Scropion ،‬ء میں‪"The ،‬‬
‫"‪۱۹۷۱ ،Tower of Silence‬ء میں ‪۱۹۷۵ ،"A Division of the Spoils" ،‬ء میں‬
‫بالترتیب شائع ہوئے ۔ ازاں بعد "‪ ۱۹۷۷ "Staying on‬ء میں اشاعت پذیر ہوا جس نے‬
‫بکر پرائز )‪ (Booker Prize‬حاصل کیا۔‬
‫پال اسکاٹ کے ابتدائی ناول جیسا کہ’’ جونی صاحب )‪،‘‘ (Johnie Sahib‬‬
‫‪۱۹۵۲‬ء‪’’ ،‬دی مارک آف واریئر )‪۱۹۵۸ ،‘‘ (The Mark of Warrior‬ء‪ ،‬اور ’’چائنیز‬
‫لوپویلین )‪۱۹۶۰،‘‘ (Chinese Love Pavillion‬ء ہیں‪ ،‬یہ تمام ناول مشرق میں تعینات‬
‫برطانوی افسروں کی اخالقی ذہنی کشمکش پیش کرتے ہیں۔‬
‫خود مصنف پال اسکاٹ کا کردار بھی اسی رحجان کا عکاس ہے جیسا کہ ہیلری‬
‫سپرلنگ )‪ (Hilary Spurling‬نے اپنی کتاب ‪"Paul Scott: A life of the Author‬‬
‫"‪ of the Raj Quartet‬جو کہ پال اسکاٹ کی سوانح ہے میں بیان کیا ہے کہ سکاٹ نے‬
‫خود اعتراف کیا ہے کہ ا سے اس کے ناولوں کے کرداروں میں تالش کیا جا سکتا ہے‬
‫اور ان سے یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ خود پال اسکاٹ ایک منقسم کردار کا آدمی تھا جس‬
‫نے یہ دریافت کیا کہ وہ بیک وقت ہری کمار )‪ (Hari Kumar‬بھی ہے اور رونالڈ میرک‬
‫)‪(Ronald Merrick‬بھی ہے۔‬
‫راج کوارٹٹ)‪(Raj Quartet‬‬
‫پال اسکاٹ کا مشہور زمانہ ناول چار جلدوں کا مجموعہ ہے ۔ ناول کے چاروں‬
‫حصے ایک تسلسل میں ہیناور ایک مکمل سیریز کی شکل میں ہیں۔ راج کوارٹٹ کی‬
‫کہانی کا آغاز ‪۱۹۴۲‬ء میں ہندوستان کے شہر مایا پور )‪ (Mayapore‬میں ہوتا ہے۔ اس‬
‫شہر میں بڑی فوجی چھائونی ہے جہاں گورے مقیم ہیں اور مقامی آبادی (کالوں) کو اس‬
‫عالقے سے دور رکھاجاتا ہے۔ ریلوے الئن کے پار مقامی آبادی کے لیے ‪(Black‬‬
‫)‪Town‬آباد کیے گئے ہیں جب کہ گوروں اور کالوں کے عالوہ شہر میں اینگلو انڈین‬
‫کی بھی کثیر تعداد رہائش پذیر ہے۔ جنگ عظیم دوم کا زمانہ ہے اور جنوب مشرقی ایشیا‬
‫میں اتحادی فوجوں کو سخت نقصان کا سامنا ہے۔ برما تباہ حال ہے اور ہندوستان پر‬
‫جاپانیوں کا حملہ واضح طور پر قریب دکھائی دیتا ہے۔ ‪۱۹۴۲‬ء کا سال اس لحاظ سے‬
‫بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انڈین نیشنلسٹ راہنما مہاتما گاندھی نے انگریز حکمرانوں کے‬
‫خالف ’’ہندوستا ن چھوڑ دو تحریک‘‘ کا اعالن کر رکھا ہے۔ ایسے ہنگامہ خیز پس منظر‬
‫میں یہ ناول تحریر کیا گیا۔ انگریز فوجی اور سویلین دونوں کے لیے جو کہ برطانوی‬
‫شہنشاہ کے ہندوستان میں نمائندے ہیں اور برطانوی استعماری حکومت کو قائم رکھنے‬
‫کے ذمہ دار بھی ہیں ان کے لیے یہ دور ابتال ہے۔‬
‫ناول کے اہم موضوعات میں سے ایک نسلی عصبیت یا نسلی برتری کا شدید‬
‫احساس ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور تفریق کی لہریں موجزن ہیں اس‬
‫کشمکش کی کیفیت میں ناول کے کئی بڑے کرداروں کو سخت مشکالت کا سامنا ہے ان‬
‫میں سے کچھ دقیانوسی اصولوں اور قوانین پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اپنی جان‬
‫سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ جیسے کہ احمد قاسم)‪ ، (Ahmed Kasim‬میرک‬
‫)‪ ،(Merrick‬ٹیڈی بنگھم )‪ (Teddy Bingham‬یا پھر اس کے برعکس ان ضابطوں کو‬
‫رد کرنے والے لوگ ہیں جو کہ اس معاشرے میں اجنبی یا غیر متعلق تصور کیے جاتے‬
‫ہیں جیسے کہ کمار)‪ ، (Kumar‬ڈیفنی مینرز)‪ ، (Daphne Manners‬سارہ لٹن‬
‫)‪ ،(Sara Lyton‬لیڈی چیٹر جی)‪ (Lady Chatterjee‬کے کردار ہیں۔‬
‫اس ناول کے مرکزی کردار جو کہ بعد کے ناولوں کے پالٹ میں کہانی کو آگے‬
‫بڑھاتے ہیں ان میں ڈیفنی مینرس )‪ (Dephne Manners‬ایک نوجوان انگریز خاتون‬
‫ہے جو کہ حال ہی مینانڈیا پہنچی ہے۔ اس کے ساتھ اس کا ہندوستانی محبوب ہری کمار‬
‫)‪(Hari Kumar‬ہے جو کہ برطانیہ سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہے۔ عالوہ ازیں رونالڈ‬
‫میرک )‪ (Ronald Merrick‬ایک برطانوی باشندہ ہے جو کہ انڈین پولیس سروس میں‬
‫آفیسر ہے۔‬
‫ڈیفنی مینرس اپنے خان دان کو انگلستان میں جنگ کے نتیجے میں کھونے کے بعد‬
‫ہندوستان میں زندہ بچ جانے والی اپنی قریبی رشتہ دار خاتون لیڈی مینرس کے پاس آتی‬
‫ہے جو کہ اسے اپنی ہندوستانی دوست لیڈی چیٹر جی کے پاس میاپور بھیج دیتی ہے۔‬
‫لیڈی چیٹر جی کو وہ آنٹی للی کے نام سے پکارتی ہے ان کے ہاں قیام کے دوران‬
‫ہی اس کی مالقات ہری کمار )‪ (Hari Kumar‬سے ہوتی ہے۔ اس نے بھی تعلیم انگلستان‬
‫کے اسی پبلک سکول میں حاصل کی جہاں پر ڈیفنی کا بھائی زیر تعلیم رہا۔ ہری صرف‬
‫انگریزی زبان بولتا ہے مگر بدقسمتی سے اس کے والد کی وفات اور مالی تباہی کی وجہ‬
‫سے اسے واپس ہندوستان آنا پڑا۔ دوران ِ‬
‫قیام ہندوستان ڈیفنی کو انگریزوں کے ہندوستانیوں‬
‫کے ساتھ نفرت انگیز رویے کا علم ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ ہری سے محبت میں‬
‫گرفتار ہو جاتی ہے اور اس تعلق کو آگے بڑھاتی ہے مگر اس دوران میرک )‪(Merrick‬‬
‫ڈیفنی اور ہری کے دو طرفہ تعلق میں داخل ہو کر محبت کی تکون میں بدل دیتا ہے۔ مگر‬
‫وہ ہندوستانیوں سے سخت نفرت کرتا ہے اور یوں ہری بھی اس کے غضب کا شکار ہو‬
‫جاتا ہے۔‬
‫زیر تبصرہ ناول کی کہانی اس وقت نیا رخ اختیار کر لیتی ہے جب ڈیفنی اور‬
‫ہری‪ ،‬بی بی گھر گارڈن میں اظہار محبت کر رہے ہوتے ہیں تو ان کو بلوائیوں کا ہجوم‬
‫دیکھ لیتا ہے اور حملہ آور ہو جاتا ہے ۔ ہری کو زبردست تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور‬
‫ڈیفنی اجتماعی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہری اس کی عصمت‬
‫دری والے واقعے کی لپیٹ میں آ جائے گا ڈیفنی اس سے قسم لیتی ہے کہ وہ اس واقعے‬
‫میں اپنی موجودگی سے متعلق خاموشی اختیار کرے گا لیکن ڈیفنی کو شاید رونالڈ میرک‬
‫کی فطرت سے آگاہی نہیں ہے کیوں کہ جونہی اسے اس واقعے کا علم ہوتا ہے وہ فی‬
‫الفور ہری کو حراست میں لے لیتا ہے اور دوران تفتیش اسے اخالق سوز سلوک کا نشانہ‬
‫بناتا ہے جس میں جن سی تذلیل بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی وہ ہری کے ساتھ میسور گزٹ میں‬
‫کام کرنے والے رفقاء کو بھی گرفتار کر لیتا ہے جو کہ تعلیم یافتہ ہندوستانی نوجوانوں کا‬
‫ایک گروپ ہے۔ ڈیفنی اس دوران ثابت قدمی کے ساتھ ہری اور دوسروں پر اپنی عصمت‬
‫دری کا مقدمہ چالنے سے انکاری رہتی ہے اور اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ اس پر‬
‫حملہ کرنے والے کسان وغیرہ تھے جن میں سے کم از کم ایک مسلمان تھا (اگرچہ اس‬
‫کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی مگر اس کے اس اندیشے کی وجہ یہ تھی کہ زیادتی‬
‫کرنے والوں میں ایک آدمی ختنہ شدہ تھا)۔ اس کے مطابق یہ حملہ آور پڑھے لکھے ہندو‬
‫نہیں تھے جن کو اس شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کو اس وقت سخت‬
‫مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ڈیفنی یہ حلفیہ بیان دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے کہ اس‬
‫کی معلومات کے مطابق یہ حملہ آور انگریز بھی ہو سکتے ہیں۔‬
‫ہری کے سلسلے میں اتھارٹیز کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‬
‫جب وہ کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیتا ہے۔ (یہ ڈیفنی کے ساتھ اس کا وعدہ ہے جس‬
‫پر وہ حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہے)۔ چونکہ وہ اس پر عصمت دری )‪ (Rape‬کا مقدمہ‬
‫بھرپور طریقے سے چالنے میں ناکام رہتے ہیں اس لیے وہ ہری کو ایک جنگی قانون‬
‫کے تحت بطور مشتبہ باغی انقالبی کے جیل میں بند کر دیتے ہیں۔ اس مقدمے میں انگریز‬
‫حکمرانوں کو ڈیفنی کی طرف سے تعاون نہ ملنے پر اسے برادری کی طرف سے نہ‬
‫صرف لعن طعن بلکہ معاشرتی مقاطعے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ پورے ہندوستان میں‬
‫یہ ایک سنسنی خیز مقدم ے کی نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ ڈیفنی حاملہ ہو جاتی ہے مگر‬
‫بچے کی ولدیت کا تعین مشکل ہے اگرچہ وہ اسے ہری سے ہی منسوب کرتی ہے۔ اپنی‬
‫آنٹی لیڈی مینرس کی طرف لوٹ کر آتی ہے تاکہ زچگی کے عمل سے گزر سکے۔ لیکن‬
‫قبل از وقت پیدائش کی وجہ سے کچھ طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے وہ‬
‫زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ لیڈی مینرس نوزائیدہ بچی جس کا پاروتی ہے کو لیکر‬
‫کشمیر چلی جاتی ہے۔ پاروتی کی ہری کے ساتھ جسمانی مشابہت لیڈی مینرس اور لیڈی‬
‫چیٹر جی کے لیے باعث اطمینان ہوتی ہے کہ ہری ہی اس کا والد ہے۔‬
‫ناول کی پہلی جلد )‪ "The Jewel in the Crown" (1966‬کا عنوان بھی بڑا‬
‫معنی خیز ہے۔ مس ایڈونا کرین جو کہ ایک مشنری ہے اور ہندوستان میں چرچ آف‬
‫انگلینڈ کے تحت مشنری سکول چالتی ہے۔ یہ عنوان اس تصویر سے اخذ کردہ ہے جو کہ‬
‫مس کرین اپنی کالس میں انگریزی پڑھانے کے دوران استعمال کرتی ہے اس تصویر میں‬
‫ملکہ وکٹوریہ کو تخت ہندوستان پر دکھایا گیا ہے جو کہ دربار میں انڈیا کی شہزادی کا‬
‫خراج تحسین وصول کررہی ہے۔ یہ ایک تمثیلی پینٹنگ ہے جس میں ملکہ وکٹوریا کو‬
‫ایک ہیرا پیش کیا جا رہا ہے جو کہ ہندوستان کی نمائندگی کرتاہے۔ مس کرین اس تمثیلی‬
‫تصویر کو گاندھی کے پورٹریٹ کی جگہ اپنی کالس میں آویزاں کرتی ہے۔ شروع میں وہ‬
‫مہاتما گاندھی کی بڑی مداح تھی مگر اب وہ اس کی طلسمی شخصیت کے سحر سے آزاد‬
‫ہو چکی ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد کے سیاسی فلسفے کی وجہ سے وہ اسے بعد کے‬
‫دورمیں جنگ عظیم دوم میں جاپانی جارحیت کے دوران انگریزوں اور ہندوستانیوں کے‬
‫اتحاد کے لیے اس کے کردار کو دغابازی کا حامل سمجھتی ہے۔‬
‫بطور مجموعی اس پہلے ناول مین پال اسکاٹ کا بیانیہ گنجلک ہے جو کہ بعد کے دو‬
‫ناولوں سے مختلف ہے۔ ابھی یہ کہانی بھی ناتمام ہے معصوم ہری کا زنداں میں قید ہونا‬
‫اور اس کے بعد کے واقعات نے انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات میں‬
‫شگاف کو مزید گہرا کردیا۔‬
‫پال اسکاٹ کے دوسرے ناول )‪ "The Day of Scorpion" (1968‬میں سارہ‬
‫لٹن )‪ (Sara Layton‬مرکزی کردار کی حامل ہے۔ ناول کا عنوان بھی اسی مرکزی‬
‫کردار کی بچپن کی یادوں کی بازگشت ہے جس میں اس کے ذہن پر آج بھی اس واقعے‬
‫کی یاد چھائی ہوئی ہے کہ ایک ہندوستانی مالزم ایک بچھو کو دیکھتا ہے اس کے ارگر‬
‫گرد مٹی کا تیل چھڑکتا ہے اور آگ جالتا ہے۔ اس کی حیرت زدہ بہن کراہت کے ساتھ‬
‫اس منظر کو دیکھتی ہے۔ بچھو نے اپنی پشت کو بلند کیا اور اس سے پہلے کہ آگ کا‬
‫شعلہ اسے اپنی لپیٹ میں لیتا اس نے مہلک ڈنک سے خود کو ڈس لیا۔ بچھو کی خود کشی‬
‫کا یہ منظر سارہ کے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہے اور انگریزوں کے لیے ہندوستان‬
‫مینآگ کے شعلوں میں گھر کو غیر محفوظ ہونے کا استعارہ بن گیا ہے۔ سارہ یہ بھی‬
‫جانتی ہے کہ اس کی ذہنی پسماندگی کا شکار بہن اپنے نوزائیدہ بچے کو اسی طرح آگ‬
‫کے شعلوں پر رکھ دیتی ہے جیسے وہ بچھو آگ کے شعلوں میں گھر گیا تھا اور جیسے‬
‫مس کرین )‪ (Miss Crane‬نے خود کو ستی کی رسم کا شکار بناتے ہوئے نذر آتش کیا۔‬
‫اس ناول کی مرکزی کردار سارہ ایک ذہین اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے وہ ڈیفنی کی‬
‫طرح اینگلو انڈین راج کے قیام کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے نہیں سوچتی۔ وہ بھی‬
‫ایک ہندوستانی مسلمان احمد قاسم )‪ (Ahmed Kasim‬کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم‬
‫اعلی کا بیٹا ہے۔‬‫ٰ‬ ‫کرتی ہے۔ احمد قاسم ہندوستانی حکومت کے ایک پابند سالسل وزیر‬
‫سارہ رونالڈ م یرک کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے جو کہ اس کی بہن سوسن )‪(Susan‬‬
‫کے منگیتر ٹیڈی بنگھم )‪ (Teddie Bingham‬کے کام آتا ہے۔‬
‫میرک )‪ (Merrick‬اور بنگھم اس وقت شدید خطرے سے دوچار ہوتے ہیں جب‬
‫بنگھم کی شادی والے دن اس کی کار کی کھڑکی سے ایک زور دار پتھر لڑھکتا ہوا آتا‬
‫ہے جس میں ٹیڈی نے سوار ہو کر چرچ پہنچنا ہے۔ ازاں بعد جب سوسن اور ٹیڈی ہنی‬
‫مون کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو لیٹن فیملی والے دیکھتے ہیں کہ ایک ہندوستانی خاتون‬
‫میرک کے سامنے سڑک پر سجدے میں گر جاتی ہے۔ میری وضاحت کرتا ہے کہ اس‬
‫طرح کے دھمکی آمیز اور خوفزدہ کر دینے والے واقعات ہری کمار کی گرفتاری اور‬
‫سزا کا نتیجہ ہیں۔ میرک واضح طور پر سارہ اور لٹن فیملی کو متاثر کرنے کی کوشش‬
‫میں ہے اور اس کے احسان مند بھی دکھائی دیتے ہیں جب کئی مہینوں کے بعد انہیں‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ سوسن کے خاوند کو بچانے کی کوشش میں وہ خود شدید زخمی ہوتا‬
‫ہے۔ ٹیڈی بھی مس کرین اور بچھو کی طرح آگ کے شعلوں میں گھر کر اس وقت جان‬
‫سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جب کہ وہ جاپانیوں کے ساتھ نبرد آزما ہندوستانی سپاہیوں کی‬
‫واپسی کے لیے کوشاں ہے۔ میرک بھی بری طرح زخمی ہوتا ہے اور ایک بازو کھو دیتا‬
‫ہے۔ میرک کی بہادری کے باو جود قاری کے ذہن میں ایک ظالم اور سیاہ کار کے طور‬
‫پر تصویر ابھرتی ہے۔ جب سارہ سوسن کی درخواست پر کلکتہ ہسپتال میں زخمی میرک‬
‫کی عیادت کے لیے جاتی ہے تو وہ اسے ٹیڈی کی موت کے حقائق اور مس کرین کی‬
‫خود کشی کی تفصیالت اور اس کی ’’تاج میں ہیرے‘‘ والی تمثیلی پینٹنگ سے مسحور‬
‫ہونے کے بارے میں بتاتا ہے۔ ٹیڈی کی موت کو اس کے ہندوستانیوں کے ساتھ مثالی‬
‫تعلقات کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ جنگ کے خاتمے پر رونالڈ میرک اپنے آپ کو ایک‬
‫اعلی برطانوی خاندان میں داخل کر لیتا ہے۔ اس ناول میں کئی مواقع پر ذاتی چالبازیوں‬ ‫ٰ‬
‫اور نسلی عص بیت کا بھی بغور مشاہدہکیا گیا ہے۔ مگر مصنف کا رویہ متنوع کرداروں‬
‫کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنے میں ہمیشہ بہت ہمدردانہ رویے پر مبنی رہا۔‬
‫اس چہارگانہ ناول کا تیسرا حصہ بعنوان "‪ "Tower of Silence‬بھی پہلے‬
‫دونوں ناولوں کا تسلسل ہے۔ اس کے عنوان سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ خاموشی‬
‫کے ستون ‪/‬مینار کے استعارے کا تصور پال اسکاٹ نے بمبئی میں پارسیوں کے ان بلند و‬
‫باال ٹاورز سے لیا ہے جہاں پر وہ اپنے مردوں کی الشیں اسی ستون پر ڈال کر واپس آ‬
‫جاتے ہیں جنہیں گدھ اور دوسرے پرندے نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ اس ناول کے اختتام پر‬
‫مس باربی بیچلر )‪ (Barbie Bachelor‬اپنی گرتی ہوئی صحت کے ساتھ جب کہ اس‬
‫کا بولنا مفقود ہو جاتا ہے اور وہ ٹاور کے اوپر محو پرواز پرندوں کے بارے میں تجسس‬
‫رکھتی ہے تو اس عالمت کو آخر میں جنت کے پرندوں کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔‬
‫مس بیچلر اپنی زندگی کی آخری سانس گن رہی ہے جب کہ برطانوی راج بھی آخری‬
‫سانسیں لے رہا ہے۔ مس بیچلر اپنی دماغی خرابی کے باعث سینی ٹوریم میں صاحب‬
‫فراش ہے۔ ناول کی تیسری جلد کا مرکزی کردار یہ مشنری عورت نہایت باتونی مگر‬
‫گہری ہے۔ اور اب زبان سے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔ اسے مقامی اینگلو انڈین‬
‫معاشرے میں مضحکہ خیز انداز میں اس وقت دکھایا جاتا ہے جب یہ معاشرہ مشکالت‬
‫کے طوفانوں میں گھرا انتہائی سخت اور بے لوچ ہو چکا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ اس‬
‫معاشرے کے مقامی افراد غائب ہو رہے ہیں جنگ عظیم دوم کی وجہ سے )۔ جاپانیوں‬
‫کے ہندوستان پر حملے کا خوف اور انگلستان کی بے اعتنائی کے عالوہ راج کے خاتمے‬
‫کی صورت میں ان کا انجام بھی ہمیشہ ان کے پیش نظر ہے۔ اس کتاب کے اختتامی‬
‫حصے میں باربی )‪ (Barbie‬اور رونالڈ میرک کی مالقات ہوتی ہے اور باربی کے پاگل‬
‫پن کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں اگست ‪۱۹۴۵‬ء میں باربی کا انتقال ہو جاتا ہے‬
‫اور ساتھ ہی ہیرو شیما پر ایٹم بم بھی گرا دیا جاتا ہے۔‬
‫پال اسکاٹ کے طویل ناول کا چوتھا حصہ "‪"A Division of the Spoils‬‬
‫)‪ (1975‬کافی طویل ہے کیونکہ اس میں نہ صرف برطانوی راج اختتام پذیر ہورہا ہے‬
‫بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام معامالت بھی اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہیں جو‬
‫کہ معرض التوا تھے۔ خواہ کہ وہ ذاتی تھے یا سیاسی۔ ناول کے سابق حصوں کے کئی‬
‫کردار بھی مائل بہ ’’تقسیم‘‘ نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک نیا کردار گائے پیرن ‪(Guy‬‬
‫مورخ ہے۔ جس کا ’’عرصہ‘‘ اور‬ ‫اعلی تعلیم یافتہ ٔ‬
‫ٰ‬ ‫)‪Perron‬متعارف ہوتا ہے جو کہ‬
‫’’مقام‘‘ وسط انیسویں صدی کا ہندوستان ہے۔ اس کے کردار کو ناول کے ہر قسم کے غیر‬
‫پیوستہ حصوں کو منضبط کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ہندوستان میں بطور‬
‫سارجنٹ اپنی آمد کے فورا ً بعد بدقسمتی سے حال ہی میں ترقی پانے والے لیفٹیننٹ کرنل‬
‫رونالڈ میرک نے اسے اپنے مصاحب )‪ (ADC‬کے طور پر منتخب کر لیا ہے۔ میرک‬
‫ابھی تک عصبیت یا حسد کی آگ میں جل رہا ہے اور اب ‪ Guy‬کی شکل میں اسے اپنا‬
‫انتقام لینے اور کسی کو ذلیل کرنے کا اچھا موقع میسر آ جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے‬
‫‪Guy‬اپنی آنٹی شارلٹ کی مدد سے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ میرک‬
‫اس دوران محسوس کرتا ہے کہ غیر ارادی طور پر اس کے ارد گرد وہ لوگ اکٹھے ہو‬
‫چکے ہیں جو کہ اس کو ناپسند کرنے والے ہیں جن میں)‪ ، (Guy Perron‬سارہ لٹن اور‬
‫اس سے قبل ڈیفنی مینرس اور ہری کمار تھے۔ روڈن اور پیرن اتفاق سے اسی سکول کے‬
‫سابق متعلم ہیں جہا ں ہری کمار نے انگلستان میں تعلیم حاصل کی تھی اور صرف وہ ہی‬
‫نہیں بلکہ ہندوستان میں آنے والے دوسرے انگریز بھی مستقالً اس امر کی نشاندہی کرتے‬
‫نظر آتے ہیں کہ کمار کا کردار ایک نہ حل ہونے والے مسئلے کی عکاسی کرتا ہے اور‬
‫وہ مسئلہ یہ ہے کہ کمار ہندوستانیوں کے لے انگریز ہے اور انگریزوں کے لیے‬
‫ہندوستانی۔ پیرن برطانوی راج کے آخری ایام کے لیے ایک شاندار گائیڈ ہے جو کہ‬
‫ظاہری طور پر جذبات سے عاری دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے جذبات سے معمور اور‬
‫ہیجان انگیز آدمی ہے۔ یہ ایسا شخص ہے جو ‪۱۹۴۵‬ء میں دوبارہ انڈیا آتا ہے اور‬
‫ہندوستان کی آزادی کے واقعات کا عینی شاہد ہے۔ پھر اچانک اس کا تفویض کار وسیع‬
‫منظر نامے سے ایک ذاتی تفتیش میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کہ میرٹھ میں لیفٹیننٹ کرنل‬
‫رونالڈ میرک کی پراسرار موت کے پیچھے چھپی ہوئی کہانی سے متعلق ہے۔ پھر‬
‫‪۱۹۴۷‬ء کازمانہ آتا ہے پورا ملک ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں ہے۔ انہی حاالت میں‬
‫ملک کی تقسیم ہوتی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں قتل عام کے مختلف واقعات جیسے‬
‫ٹرینوں پر حملے وغیرہ کا بیان ہے۔ چہارگانہ ناول کا یہ اختتامی حصہ بھی اپنے المناک‬
‫انجام کی جانب بڑھتا ہے۔‬

‫حوالہ جات‬
‫)‪G.M. Travelyan, History of England, O.M. 1952...P‬‬ ‫)‪(1‬‬
‫قاسمی ‪ ،‬ابوالکالم ‪ ،‬نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی‬ ‫(‪) ۲‬‬
‫‪ ،‬مشمولہ یادگارنامہ قاضی عبدالودود‪ ،‬مرتبین‪:‬پروفیسر نذیر احمد‪ ،‬پروفیسر مختارالدین‬
‫‪ ،‬پروفیسر شریف حسین قاسمی‪ ،‬غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ‪ ،‬س ن‪ ،‬ص ‪۲۱۸‬‬
‫(مبارک علی ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬آخری عہد کا مغلیہ ہندوستان‪ ،‬تاریخ پبلی کیشنز‪،‬‬ ‫(‪) ۳‬‬
‫مزنگ الہور ‪۲۰۱۲‬ء ص ‪)۱۳۱‬‬
‫جیالنی کامران‪ ،‬انگریزی زبان اور ادب کی تدریس میں قومی زبان کا‬ ‫(‪) ۴‬‬
‫کردار‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان‪ ،‬اسالم آباد ‪ ،۱۹۸۵‬ص ‪۱۸‬‬
‫عابد حسین ‪ ،‬ڈاکٹر قومی تہذیب کا مسئلہ‪ ،‬انجمن ترقی اردو ‪،‬علی گڑھ‪،‬‬ ‫(‪) ۵‬‬
‫‪۱۹۵۵‬ء ‪ ،‬ص ‪۱۵۹‬‬
‫عابد حسین ‪ ،‬ڈاکٹر ‪ ،‬قومی تہذیب کا مسئلہ‪ ،‬انجمن ترقی اردو‪ ،‬علی گڑھ ‪،‬‬ ‫(‪) ۶‬‬
‫‪۱۹۵۵‬ء ص ‪۱۶۱‬‬
‫گستائولی بان‪ ،‬تمدن ہند‪ ،‬مترجم ‪ ،‬سید علی بلگرامی ‪ ،‬مطبع شمس آگرہ‪،‬‬ ‫(‪) ۷‬‬
‫‪۱۹۱۳‬ء ص‪۵۱۶‬‬
‫ت بیضا پر ایک عمرانی نظر‪ ،‬مرغوب ایجنسی الہور‬ ‫اقبال ‪،‬ڈاکٹر‪ ،‬مل ِ‬ ‫(‪) ۸‬‬
‫‪۱۹۷۰‬ء ص ‪۳۹‬‬
Singh , Bhupal, A survey of Anglo- Indian fiction) , (9)
London:
M. K. Naik, Mirror on the Wall; Image of India and (10)
Englishmen in Anglo Indian Fiction, New Dehli, Sterling Publisher
Ltd, 1991, p:3)
Sharpe Jenny, Allegories of Empire, Minneapoles: university (11)
of Minnesota press, 1993, P: 165)
Burgess, Anthony , The Novel Now, Curzon Press ,1934, (12)
P:16
The Real Major Goldon, Calcuta Reviews, 1891,P:20) (13)
Confessions of a Thug, P:264) (14)
Singh Bhupal, A survey of Anglo-Indian Literature p:50 (15)
Arnold. W.D, Oxdfield, vol, 1, P:80) (16)
Singh Bhupal , A survey of Anglo- Indian Fiction, P:57) (17)
Dhar, Kiran Nath, Some Indian Novels, Calcutta Review (18)
1908, P:56
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo Indain Fiction, P: 82 (19)
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo-Indian Fiction, P: 90 (20)
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo-Indian Fiction, P: 109 (21)
V.K Gokak, English in India, its Present and Future, New (22)
York: Asia Publication House, 1964)
M.K.Naik, A History of Indian English Literature, New Delhi: (23)
Sahitya Akademi, 1982)
Ram Sewak Singh,and charu sheel singh,eds. spectrum of (24)
history of Indian literature in English, New Delhi: Atlantic
Publishers 1997.
K.D. Verma, the Indian imagination: critical essays on Indian (25)
writings in English, New York: st. Martin press, 2001)
Prof. Dr. Santosh.S. Huse, An Introduction to Anglo-Indian (26)
literature, International ref. research Journal, Feb2012, ISSN-
0974-2832, RNI-Rajbil 2009/29954, vol.III)
ibid (27)
Naik, M.K, A History of Indian English Literature, P:10- (28)
11,29,35,106
۷‫ ص‬،۱۹۹۵ ، ‫ مقبول اکیڈمی الہور‬،‫ آزادی سے پہلے‬،‫ مترجم‬،‫) ستار طاہر‬۲۹(
‫ء‬۱۹۹۵ ، ‫ مقبول اکیڈمی الہور‬،‫ مترجم ستار طاہر‬، ‫ حرف ِ اول‬،‫) آزادی سے پہلے‬۳۰(
،‫ شیخ عطا ہللا ٹرسٹ‬،‫ مکتبہ تعمیر انسانیت الہور‬،‫ آواز دوست‬،‫) مختار مسعود‬۳۱(
۹۱ ‫ ص‬، ‫ء‬۲۰۱۱ ، ‫بیسواں ایڈیشن‬
۹۲ ‫ص‬،ً‫) ایضا‬۳۲(
۹۲ ‫ ص‬،ً‫) ایضا‬۳۳(
۹۲‫ ص‬،ً‫) ایضا‬۳۴(
E.M. Forster, A passage to India, Editor's Introduction, (35)
Penguime Books Ltd. England, 1987, PP. 15)
My wood, reprinted in Abinger Harvest, 1926) (36)
Brenda R. Silver and Lyan A. Higins, Rape and (37)
Representation, Columbia University Press, 1991)
Singh. B.A Survey of Anglo Indian Fiction, Curzon Press Ltd. (38)
London, 1975)
(S. Suleri, The Rhetoric of English India, Penguine Books, (39)
Delhi 2005)
B. Parry, A Passage to India: Essays in Interpretation, (40)
London, 1985)
Jajja, M.Ayub, A Passage to India: The Colonial Discourse, (41)
Gomal University Journal of Research) eq (1) June 2013, p. 39
‫ اسالم آباد‬،‫مقتدرہ قومی زبان‬،‫ تاریخ ادب انگریزی‬،‫ ڈاکٹر‬،‫) محمد احسن فاروقی‬۴۲(
۵۷۶ ‫ ص‬،‫ء‬۱۹۷۶
Crane, R.J. Inventing India: A History of India) in English (43)
Language Fiction. Hounds Mill, Macmillan, 1992)
Karl, Frederick & Marvin Mangalner. A reader's guide to (44)
Great 20th Century Novels, Thames & Hudson London, 1959)
Hubel Teresa 1996, whose India? The Independence )45)
Struggle in the British India Fiction and History. Durham, NC:
Duke University Press, 1996, pp. 85(
H. J. Oliver, The Art of E. M. Forster, Melbourne University (46)
Press, p:57
Take up the white man's burden sent forth the best ye bread (47)
go, bind your sons to exile to serve your captive" need. To wait in
heavy harness, on fluttered and will your new caught sullen
perhaps. Half devil and hald child.
‫)‪Something of Myself. A very young Person, P 865-78) (48‬‬
‫‪Chapter, I‬‬
‫)‪Conversation with Tariq Ali, Speaking of Empire & (49‬‬
‫‪Resistance: Davis Brasmine. Translator Arshed Razi. P: 104‬‬

‫باب سوم‬
‫ہند مسلم تہذیب کا منتخب انگریزی فکشن میں اظہار‪ :‬تحقیقی مطالعہ‬
‫بحوالہ‪ :‬ای ایم فاسٹر ۔ اے پیسج ٹو انڈیا‬
‫برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی ‪ ،‬سماجی‪ ،‬مذہبی اور لسانی حوالے سے تاریخ میں‬
‫ایک خاص اہمیت ہے اس تہذیب کے دیر پا اثرات اس معاشرے کے رگ وپے میں‬
‫سرایت کرتے چلے گئے رسوم و رواج ‪ ،‬زبان و کالم اور ادب پر اس کے نقوش تاریخی‬
‫حوالے سے معتبر ٹھہرے۔ اس وقت اس تہذیب کے فروغ کے لیے اور اس کی نشونما‬
‫کے تین اہم ستون تھے۔ یعنی بادشاہ‪ ،‬علما اور صوفیاء کرام۔ بادشاہوں نے اپنی فیاضی‪،‬‬
‫رنگین مزاجی اور فنون لطفیہ کے بے پناہ ذوق سے مقامی معاشرت کو چمن زار بنا دیا۔‬
‫علما نے حکومت کو اسالمی شرع کے مطابق ڈھالنے میں مشیر کا کردار ادا کیا۔ جبکہ‬
‫صوفیائے کرام نے بادشاہوں کو حتی االمکان را ِہ راست پر رکھا۔ ان صوفیا کا مذہب‬
‫انسان دوستی تھا۔ یہ مذہبی معامالت میں متشدد نہیں تھے بلکہ رواداری کا درس دیتے‬
‫تھے۔‬
‫ای۔ ایم فاسٹر نے ہند مسلم تہذیب کی عکاسی اپنے ناول میں کس طرح کی اس کا‬
‫صحیح جائزہ لینے کے لیے تہذیب کے مختلف عناصر کا تجزیہ کیا جائے گا اور دیکھا‬
‫جائے گا کہ فاسٹر نے اپنے ناول میں کس طرح سے اظہار کیا ہے۔‬
‫کسی بھی تہذیب کی تمدنی ترقی کا اندازہ کرنے کے لیے ماہرین اس تہذیب کے فنون‬
‫لطیفہ کو بہترین معیار قرار دیتے ہیں۔ اور فن لطیفہ کا سب سے بڑا مظہر اکثر تہذیبوں‬
‫میں فن تعمیر کی صورت میں ہی سامنے آیا ہے اسالمی ذوق میں جس نے فن تعمیر کی‬
‫مختلف روایتوں سے ماخوذ عناصر کو اسالمی فن تعمیر کے مخصوص سانچے میں ڈھاال‬
‫اور اسالم کی جمالی حسیّت کا زیادہ بڑ ے پیمانے پر اظہار ہوا اور اسالمی فن تعمیر کی‬
‫نمایاں پہچان بن گیا۔ خاص طور پر مسجد ہند مسلم تہذیب کی روح کا ایک بڑا مظہر بن‬
‫گیا۔‬
‫ناول )‪ (A passage to India‬میں ہند مسلم تہذیب کے اظہار کا پہال موقع ہمیں اس‬
‫ب اسالمی کی‬ ‫کے سب سے عظیم مظہر مسجد کی عکاسی میں ملتا ہے ۔ مسجد تہذی ِ‬
‫بنیادی عالمت ہے۔ فاسٹر کے ناول کی ابتدائی سطور میں ہی ڈاکٹر عزیز کے مسجد کی‬
‫پسندیدگی کے جذبات کا اظہار کچھ یوں ملتا ہے۔‬
‫‪He had always liked this mosque. It was gracious and the‬‬
‫)‪arrangement pleased him. (1‬‬
‫’’اسے ہمیشہ سے یہ مسجد پسند تھی۔ یہ بڑی شاندار تھی اور اس کا طرز ِ تعمیر‪،‬‬
‫انتظامات اُسے فرحت بخشتے تھے۔ ‘‘‬
‫تعالی کے اسمائے‬‫ٰ‬ ‫اس کے بعد چاندانی رات کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے ہللا‬
‫ٰ‬
‫حسنی کا ذکر بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے۔‬
‫‪... The front in full moon light had the appearance of marble, and‬‬
‫‪the ninety nine n names of God on the frieze stored out black, as‬‬
‫‪the frieze stood out white against hte sky. The contrast between‬‬
‫‪this dualism and the contention of shadows within pleased Aziz.‬‬
‫)‪(2‬‬
‫تعالی کے ‪۹۹‬‬‫ٰ‬ ‫’’ چاندنی میں اس مسجد کے سامنے کا حصہ روشن تھا۔ سنگ مرمر پر ہللا‬
‫حسنی نظر آتے تھے۔ سیاہ حروف میں لکھے ہوئے یہ نام ایسے دکھائی دیتے‬ ‫ٰ‬ ‫اسمائے‬
‫تھے جیسے سفید آسمان پر سیاہ بادل تیر رہے ہوں۔ اس کا یہ سفید اور سیاہ رنگوں کا‬
‫تضاد عزیز کو ان پھیلے ہوئے سایوں کی شکل میں بہت خوش گوار محسوس ہوا۔‘‘‬
‫آگے بڑھتے ہیں تو عزیز کی زبانی مسجد اور مندر کے اثرات کا ذکر ملتا ہے کہ مسجد‬
‫کے اندر پہنچ کر عزیز کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفوظ پناہ گاہ میں‬
‫پہنچ گیا ہے اور اُسے ایسا دلی سکون اور طمانیت قلبی میسر آتی ہے جو کہیں اور نہیں‬
‫مل سکتی ۔ زیر نظر سطور میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے‬
‫مسجد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے‪:‬‬
‫‪The temple of another creed, Hindu, Christian or Greek, would‬‬
‫‪have bored him and failed to awaken his sense of beauty. Here‬‬
‫‪was Islam, his own country, more than a faith, more than a battle‬‬
‫‪cry, more, much more... Islam, an attitude towards life both‬‬
‫‪exquisite and durable, where his body and his thoughts found‬‬
‫)‪their home. (3‬‬
‫’’ کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ جیسے ہندوں کا مندر ہو یا عیسائیوں یا یونانیوں‬
‫کے گرجا گھر ‪ ،‬وہ اسے بور کرتے تھے۔ اور اس کے اندر احساس ِجمال بیدار کرنے‬
‫میں ناکام رہتے تھے۔ مگر یہ مسجد اس کے اپنے ملک اور مذہب اسالم کی مظہر تھی۔‬
‫اعالن حرب سے بڑھ کر تھی۔ بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ‬ ‫ِ‬ ‫اور یہ اس کی ایمانیات اور‬
‫اسالم اس کے لیے ایسا طرز حیات تھا۔ جو موزوں بھی تھا اور پائیدار بھی ۔ جہاں اس کا‬
‫جسم اور خیاالت و احساسات دونوں ہی پر سکون رہتے تھے۔‘‘‬
‫عزیز کی دلی خواہش کو فاسٹر نے کچھ یوں قلم بند کیا ہے۔‬
‫‪Some day he too would build a mosque, smaller than this but in‬‬
‫‪perfect taste, so that all who passed by should expeirence the‬‬
‫‪happiness he felt now. And near it, under a low dome, should be‬‬
‫‪his tomb, with a passion inscription. Alas, without me for‬‬
‫‪thousands of years. The rose will blossom and the spring will‬‬
‫‪bloom, But those who have secretly understand my heart, They‬‬
‫)‪will approach and visit the grave where I lie.(4‬‬
‫’’ کسی روز وہ خود بھی ایک مسجد تعمیر کرائے گا‪ ،‬جو اس مسجد سے چھوٹی ہو گی‬
‫مگر ہر لحاظ سے مکمل ۔ تاکہ اس کے قریب سے گزرنے واال ہر شخص ایسی ہی‬
‫روحانی مسرت حاصل کرنے کا تجربہ کرے جو کہ اس وقت خود اسے حاصل ہوا۔ اور‬
‫اس کے نزدیک‪ ،‬ایک چھوٹے سے گنبد کے نیچے‪ ،‬اس کی قبر ہو گی جس کے کتبے پر‬
‫فارسی اشعار کندہ ہوں گے۔‘‘‬
‫افسوس! ہزاروں برس تک میرے بغیر بھی‬
‫بہار آئے گی اور گالب کھلیں گے‬
‫مگر وہ جو میرے قلبی احساسات کو سمجھ لیں گے‬
‫وہ میری قبر پر زیارت کے لیے ضرور آئیں گے‬
‫نا ول کی ابتدائی سطور میں بیان کردہ مسجد کے منظر کے بارے میں جہاں مسز مور اور‬
‫عزیز پہلی مرتبہ ملے ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے‪ Reuben A. Brower‬رقم طراز‬
‫ہیں‪:‬‬
‫‪The mosque comes to symbolize. The possibility of a‬‬
‫‪communication between Britans and Indians, and more generally‬‬
‫‪the possibility of understanding relationships between any two‬‬
‫)‪persons. (5‬‬
‫’’ مسجد انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان باہمی مراسلت و مواصلت کے امکانات کی‬
‫عالمت کے طور پر سامنے آتی ہے اور خاص طور پر دو اشخاص کے درمیان تعلقات‬
‫کو سمجھنے کے ممکنات ہیں۔‘‘‬
‫یعنی فاسٹر نے ایک انگریز اور ایک مسلمان کردار کے ذریعے اس امکان کی‬
‫نشاندہی کی ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جو دو مختلف نسلوں اور قوموں کے لوگوں‬
‫میں باہمی یگانگت و موانست پید اکر سکتی ہے۔ اس سے مسجد کی عظمت و تقدس کا‬
‫اظہار ہوتا ہے۔‬
‫اس کے بعد عزیز جب ایک انگریز خاتون کومسجد میں دیکھتا ہے تو وہ جذباتی ہو‬
‫جاتا ہے کہ یہ انگریز عورت ضرور جوتوں سمیت مسجد میں گھس آئی ہو گی۔ ایسے میں‬
‫کسی بھی مسلمان کا جذباتی ہو جانا ایک فطری امر ہے ۔ کیوں کہ مسجد مسلمانوں کے‬
‫نزدیک ایسی متبرک اور مقدس جگہ ہے جہاں پاک صاف ہو کر اور جوتے باہر اُتار کر‬
‫اندر داخل ہونا الزمی ہے۔ ایسے میں عزیز کا رویہ کیا ہے اور فاسٹر نے اس کو کیسے‬
‫بیان کیا ہے۔ اس کا اندازہ ذیل کی سطور میں اس مکالمے میں لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫!‪Suddenly he was furiously angry and shouted: Madam! Madam‬‬
‫‪Madam! 'Oh! Oh! The women grasped.‬‬
‫‪Madam, This is a mosque, you have no right here at all. You‬‬
‫‪should have taken off your shoes; This is a holy place for‬‬
‫‪Muslems".‬‬
‫‪I have taken them off.‬‬
‫'?‪'You have‬‬
‫'‪I left them at the entrance.‬‬
‫)‪Then I ask your pardon'. (6‬‬
‫’’اچانک وہ طیش میں آگیا اور چیخا! محترمہ‪ ،‬محترمہ‪ ،‬محترمہ !‬
‫اوہ ! اوہ ! عورت گھبرا گئی۔‬
‫محترمہ یہ مسجد ہے ۔ آپ کو یہاں اس طرح داخل ہونے کا ہر گز کوئی حق حاصل نہیں‬
‫ہے۔ آپ کو جوتے باہر اُتارنے چاہئیں۔‬
‫یہ مسلمانوں کے لیے مقدس جگہ ہے۔‬
‫میں نے انھیں باہر ہی اُتار دیا ہے۔‬
‫کیا واقعی ؟‬
‫میں نے انھیں داخلی دروازے پر ہی اُتار دیا تھا۔‬
‫تب تو میں معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘‬
‫وہ انگریز عورت ہندوستان میں نوارد تھی مگر اسے ان آداب کا خیال تھا۔ ہمیں اس‬
‫مکالمے کے ذریعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فاسٹر نے عزیز کے کردارکے ذریعے اُس کے‬
‫جذب ات کی صحیح عکاسی کی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے لیے مسجد کا تقدس بہت اہمیت‬
‫کا حامل ہے۔ انگریز عورت گھبرا گئی۔ مگر صورت حال واضح ہونے پر عزیز نے‬
‫معافی مانگی۔ مگر انگریز عورت نے پھر بھی اجازت مانگی اور پوچھا کہ جوتے تو میں‬
‫نے پہلے ہی اُتار دئیے ہیں کیا اب مجھے مسجد دیکھنے کی اجازت ہے‪ ،‬ایسی صورت‬
‫حال میں عزیز شرمندگی محسوس کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ‬
‫عورتیں اکثر جوتوں سمیت مسجد میں گھس آتی ہیں اور خاص طور پر اُس وقت جب‬
‫انہیں پتا ہو کہ کوئی آدمی انہیں دیکھ نہیں رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ جملہ بھی ایمانیات کا حصہ‬
‫ہے ’’کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے خدا تو دیکھ رہا ہے ‘‘کیوں کہ مسجد اُس کا گھر ہے۔‬
‫)‪That makes no difference. God is here. (7‬‬
‫بحیثیت مسلمان عزیز انگریز عورت کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بہت خوش ہوا‬
‫اور اس نے مسز مورکو مدد اور خدمت کی پیش بھی کی وہ اس انگریز خاتون سے بہت‬
‫متاثر دکھائی دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میں اپنے دوستوں سے آپ کا تذکرہ کروں گا‬
‫اور اس بات کا بھی کہ خدا یہاں ہے۔‬
‫‪I shall tell our community my friends about you. That God is here -‬‬
‫)‪very good, very fine indeed. (8‬‬
‫اس کے بعد ڈاکٹر عزیز مسز مور کو اپنے بچوں کے اسالمی نام یعنی احمد‪ ،‬کریم اور‬
‫جمیلہ کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کے بعد فاسٹر نے پھر مسجد کے حسن کی منظر کشی‬
‫کی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ حریت کا ذکر بھی اسی کے ساتھ کیا ہے۔‬
‫‪As he strolled downhill beneath the lovely moon, and again saw‬‬
‫‪the lovely mosque, he seemed to own the land as much as‬‬
‫‪anyone owned it. what did it matter if a fewflobly Hindus had‬‬
‫)‪preceded him there, and a few chilly English succeeded? (9‬‬
‫’’ جونہی وہ چہل قدمی کرتے ہوئے جا رہا تھا۔ نیچے پہاڑیوں میں پیارا چاند چمک رہا‬
‫تھا۔ اور اس نے دوبارہ خوبصورت مسجد کو دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ اس زمین کا‬
‫مالک بننا چاہتا تھا جیسا کہ کوئی بھی دوسرا شخص کیا ہوا؟ اگر کچھ سست ہندوں نے‬
‫اس زمین پر قبضہ کر لیا تھا یا کچھ خشک اور روکھے انگریز یہاں آکر قابض ہو گئے‬
‫تھے۔‘‘‬
‫(مترجم ‪:‬مقالہ نگار)‬
‫مذکورہ باال سطور میں مسجد کے حسن کے ساتھ ساتھ انگریزوں اور ہندوئوں سے‬
‫آزادی کا جذبہ بھی عزیز کے دل میں نظر آتا ہے۔ اور وہ اس نوسٹلجیا کا ذکر بھی کرتا‬
‫ہے کہ ہمارے آبائو اجداد اس سرزمین پر حکمران تھے۔ کیا ہوا آج ہندو یا انگریز یہاں پر‬
‫قابض ہو گئے ہیں۔‬
‫اس کے بعد جب رونی)‪ (Ronny‬اور ایڈیال کیوسٹڈ)‪ (Adela Quested‬کے ساتھ مسز‬
‫مور کلب سے واپس جا رہی تھی‪ ،‬اور اس کے ذہن پر روحوں اور مقدس اشیاء کے سائے‬
‫لہرا رہے تھے تو ایسے میں اُسے مسجد نظر آئی۔ اس کا ذکر فاسٹر نے ناول میں کچھ‬
‫اس انداز میں کیا ہے۔‬
‫‪When the mosque, long and domeless, gleamed at the turn of the‬‬
‫‪road, She exclained, O yes - that's where I got to - that's where‬‬
‫)‪I've been. (10‬‬
‫’’ جب ‪ ،‬موڑ کاٹتے ہوئے سڑک پر بڑی اور بے گنبد مسجد کی جھلک دکھائی دی تو وہ‬
‫چالئی ! اوہ یہی تو وہ مسجد ہے جہاں میں آئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں میں آچکی‬
‫ہوں۔‘‘‬
‫یعنی مسجد کے بارے میں اس کی یادیں نہایت خوش گوار ہیں۔ مسجد میں حاضری‬
‫اور مالقات کا احساس اسے فرحت بخش احساسات سے روشناس کراتا ہے اور وہ اس‬
‫مقدس جذبے سے سرشار بھی ہو جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس اُس کے بیٹے پر‬
‫جب اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی ماں کسی ہندوستانی سے ملی ہے اور وہ‬
‫ہندوستانی ایک مسلمان (عزیز ) تھا اور یہ مالقات مسجد میں ہوئی۔ وہ اس بات پر انتہائی‬
‫ناراض ہوتا ہے۔‬
‫!‪There upon the truth struck him, and he cried: Oh good gracious‬‬
‫‪Not a Mohammedan? Why ever didn't you tell me you'd been‬‬
‫)‪talking to a native?(11‬‬
‫اس بات نے رونی کو مشتعل کر دیا اور اسے یہ بات بہت بُری لگی کہ اس کی‬
‫ماں ایک دیسی اورمسلمان سے ملی ہے اور اس کے ساتھ بے تکلفی سے گفتگو بھی کی‬
‫ہے۔ اُس وقت وہ ایک سخت قسم کے انگریز افسرکے روپ میں سامنے آتا ہے اور اسے‬
‫ڈاکٹر عزیز کا یہ اقدام اُسے مشکوک بنا دیتا ہے کہ وہ رات کے اس پہر مسجد میں کیا‬
‫کر رہا تھا جب کہ اُن کی نماز کا وقت بھی نہیں تھا۔ برتری کے شدید جذبے اور احساس‬
‫کے ساتھ اُس نے اپنی ماں کے ساتھ جو گفتگو کی اُس سے اُس کی کچھ ذہنیت کا اندازہ‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫‪He began to question here, He called to you in the mosque, did‬‬
‫‪he? How? impudently? What was he doing there himself at that‬‬
‫)‪time of night? No, it's not their prayer time. (12‬‬
‫’’اس نے پوچھنا شروع کر دیا۔ اُس نے مسجد میں آپ کو پکارا ۔ کیا ایسا ہی ہوا ؟ کتنا‬
‫گستاخ ہے ؟ اور وہ خود اس وقت مسجد میں کیا کر رہا تھا جب کہ اُن کی نماز کا وقت‬
‫بھی رات کے اس پہر نہیں ہوتا ‘‘۔‬
‫اور پھر وہ اپنی ماں کو سمجھاتا ہے کہ جب اُس نے آپ کو پکارا تو آپ کو جواب ہی‬
‫نہیں دینا چاہیے تھا۔ اور وہ اپنی ماں کو سا تھ ہی یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ تمہیں مسجد‬
‫میں جوتوں سمیت داخل ہونا چاہیے تھا۔‬
‫)‪I wish you had had them on. (13‬‬
‫اس گفتگو سے مسز مور کے کردار کے ذریعے فاسٹر مسجد کے بارے میں تکریم کے‬
‫رویے کا اظہار کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس رونی کے کردار کے ذریعے اظہار‬
‫نفرت ‪،‬اس کے خیال میں کوئی مسلمان بغیر نماز کے اوقات کے مسجد میں داخل نہیں ہو‬
‫سکتا اور کسی انگریز کو مسجد میں داخلے کے لیے جوتے اتارنے کی کوئی ضرورت‬
‫نہیں اور اگر اس کی ماں نے ایسا کیا ہے تو اس نے منافقت کی ہے۔ جبکہ ایڈال کیوسٹڈ‬
‫اُس کو منطقی اندا زمیں یہ مثال دے کر سمجھاتی ہے کہ ’’جب کوئی مسلمان گرجے میں‬
‫ٹوپی پہنے چال جائے اور تم اسے پکارو تو کیا وہ جواب ہی نہیں دے گا اور اس سے‬
‫بڑھ کر کیا وہ چرچ میں سر پر رکھی ہوئی ٹوپی اتارنے سے انکار کر دے گا ‘‘۔‬
‫مگر وہ جوابا ً اُس سے کہتا ہے کہ یہ دونوں مختلف باتیں ہیں۔ یعنی اس کے خیال میں‬
‫گرجا گھر تو مقدس ہے جہاں ہیٹ پہن کر داخل ہونا خالف تہذیب ہے۔ مگر مسجد میں‬
‫جوتے پہن کر داخل ہونے سے نہ مسجد کے تقدس پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کسی کی‬
‫دل آزاری‪ ،‬کیوں کہ یہ ہندوستانی مسلمان ہمارے محکوم ہیں۔‬
‫اس کے بعد ناول میں پھر مسجد کا ذکر آتا ہے جب ڈاکٹر عزیز مسز مور کو مسجد کی‬
‫اور مسجد کے تاالب کے پانی اور اس خوبصورت منظر کی یاد دالتا ہے ۔‬
‫‪You remember the water by our mosque? It comes down and fills‬‬
‫‪this tank - a skilful arrangement of the Emperrors. They stopped‬‬
‫‪here going down into Bengal. They loved water. Wherever they‬‬
‫)‪went they created fountains, gardens, hammams. (14‬‬
‫’’کیا آپ کو ہماری مسجد واال پانی یاد ہے ؟ یہ زیر زمین سے آتا ہے اور حوض کو بھر‬
‫دیتا ہے۔ بادشاہوں کی طرف سے یہ بڑا ماہرانہ انتظام تھا۔ انہوں نے اسے نیچے بنگال‬
‫میں داخل ہونے سے روکا۔ انہیں پانی سے بہت محبت تھی۔ جہاں کہیں بھی وہ گئے انھوں‬
‫نے فوارے بنوائے‪ ،‬باغات لگوائے اور حمام تعمیر کروائے۔‘‘‬
‫اس کے عالوہ فاسٹر نے اذان اور نماز کی جزئیات و تفصیالت بھی سپرد قلم کی‬
‫ہیں مغرب کی دوربین نگاہ نے ان تمام چیزوں کا کیمرے کے محدب عدسے کی طرح‬
‫ایسے معائنہ اور مشاہدہ کیا ہے کہ جیسے کوئی بغیر دیکھے بھی سب کچھ دیکھ لے ۔‬
‫کھلے میدانوں کے اندر ادا کی جانے والی پانچ وقت کی نمازوں کا مشاہدہ بھی خوب کیا‬
‫گیا۔‬
‫‪Now it was sunset. A few of his co-religionists had come to the‬‬
‫)‪Maidan, and were praying with their faces towards Mecca. (15‬‬
‫’’اب غروب آفتاب کا وقت ہو چکا تھا۔ عزیز کے ساتھ اس کے چند ہم مذہب میدان میں‬
‫آچکے تھے اور اپنے چہرے مکہ کی طرف کرکے نماز ادا کر رہے تھے۔‘‘‬
‫اسالمی تمدن کے ایک اور مظہر ’’پردے‘‘ کا جائزہ بھی اس ناول کے اقتباسات‬
‫کے ذریعے پیش کرنا ضروری ہے کیونکہ ہند مسلم تہذیب میں عورت کی عصمت و‬
‫پاکیزگی کی حفاظت کے لیے پردہ کے اصولوں کو عمل میں الیا گیا۔ اسالمی تعلیمات اور‬
‫معاشرت میں پردہ کو جتنا ضروری سمجھا گیا ہے اور اسی قدر دوسرے طبقے کے‬
‫لوگوں نے اس کے خالف پراپیگنڈہ بھی کیا ہے اور بعض لوگوں نے تو دماغی عدم‬
‫توازن کے سبب پردے کو جہالت کا دوسرا نام سمجھ لیاہے۔ حاالنکہ پردہ چھوڑنا کوئی‬
‫طلسم نہیں ہے جسے عمل میں النے سے عورت فورا ً عالمہ‪ ،‬فاضلہ بن جاتی ہے یا کہ‬
‫پردہ اس کی دوسری دنیاوی ترقی میں بالوجہ رکاوٹ ہے نہ ہی یہ پردہ عورت کومجلسی‬
‫زندگی سے محروم کرتا ہے۔‬
‫اس ناول کے ابتدائی صفحات میں ہی جب ہندوستانی خواتین کا ذکر ہوتا ہے تو اس‬
‫کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی مخلوق ہے جو پردے کے پیچھے چھپے رہنے‬
‫سے تمام دنیا سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے اور اس کے بارے میں کوئی بات کرنا یا‬
‫رائے دینا بے کار سی بات ہے۔‬
‫‪.... that few Mohammedans and no Hindus would eat at an‬‬
‫‪English mans's table, and that all Indian ladies were in‬‬
‫)‪impenetrable purda. (16‬‬
‫’’ کہ صرف چند مسلمان اور ہندو اس قابل تھے جو کہ انگریزی میز پر کھانا کھا‬
‫سکتے تھے اور یہ کہ تمام ہندوستانی خواتین تو ایک ناقابل سرایت قسم کے پردے کے‬
‫پیچھے رہتی ہیں‘‘۔‬
‫عزیز کے کردار کو پیش کرتے ہوئے فاسٹرا س کے اپنی بیوی کے بارے میں‬
‫خیاالت کو جب بیان کرتا ہے تو وہاں بھی پردے کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ پردے میں‬
‫ہی رہی اوراس کا خاوند ایک ڈاکٹر تھا جو کہ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر‬
‫وہ اس کے ساتھ ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو چکی تھی جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پردہ‬
‫ذہنی ہم آہنگی میں رکاوٹ نہیں بنتا‪:‬‬
‫‪Touched by western feeling, he disliked union with a woman‬‬
‫‪whom he had never seen; moreover, when he did see her, she‬‬
‫‪disappointed him, and he begat his first child in mere animality.‬‬
‫‪The change began after its birth. He was won by lover for him, by‬‬
‫‪a loyalty that implied something more than submission, and by‬‬
‫‪her efforts to educate herself against that lifting of the purdah that‬‬
‫‪would come in the next generation if not in theirs. She was‬‬
‫)‪intelligent, yet had old-fashioned grace. (17‬‬
‫’’ مغربی خیاالت سے متاثر ہونے کے باوجود‪ ،‬وہ کسی ایسی عورت سے بندھن کا قائل نہ‬
‫تھا جس کا اس نے پ ہلے کبھی دیدار نہ کیا ہو۔ عالوہ ازیں جب اس نے اسے دیکھا تواس‬
‫نے اسے مایوس ہی کیا۔ (پسند نہ آئی) پہلے بچے کی پیدائش تک ان کے تعلقات یونہی‬
‫سے رہے مگر اس کے بعد تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ یعنی اس نے اپنی محبت اور وفاداری‬
‫سے عزیز کا دل جیت لیا۔ اگرچہ وہ پردے میں رہی لیکن اس نے اپنی کعششوں سے تعلیم‬
‫حاصل کی۔ جو کہ شاید ان کی اگلی نسلوں کا مقدر بنے۔ وہ ذہین تھی مگر پرانی وضع‬
‫قطع رکھنے والی خاتون تھی۔‘‘‬
‫مگر اس کے ساتھ ساتھ عورت کی توہم پرستی کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے‪:‬‬
‫‪But I fear she will be uneducated, I fear she will be superstitious.‬‬
‫‪Indeed, how‬‬ ‫‪could she be otherwise? What opportunity of‬‬
‫‪education has such a lady had? Oh, superstition is terrible,‬‬
‫)‪terrible! oh, it is the great defect in our Indian character! (18‬‬
‫’’ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ وہ عورت غیر تعلیم یافتہ ہوگی اور مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ‬
‫وہ توہم پرست بھی ہو گی بال شبہ وہ اس کے عالوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس طرح کی‬
‫خاتون کو تعلیم کے کیا مواقع مل سکتے ہیں؟ اوہ‪ ،‬توہم پرستی بہت ہی خوفناک چیز ہے‬
‫اور یہ ہمارے ہندوستانی کردار میں سب سے بڑا نقص ہے‘‘۔‬
‫پھر عزیز جب فیلڈنگ )‪ (Fielding‬کو اپنی مرحومہ بیوی کی تصویر دکھاتا ہے‬
‫تو ان کی آپس میں گفتگو بھی ہوتی ہے۔ جب فیلڈنگ عزیز سے کہتا ہے کہ تمہاری بیوی‬
‫کی تصویر میں نے تمہاری اجازت کے ساتھ دیکھی ہے اور اگر تم اس کی اجازت نہ‬
‫دیتے تو میں ہر گز ایسے نہ کرتا۔ اس موقع پر عزیز پردے کے بارے میں اپنے خیاالت‬
‫کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے۔‬
‫"?‪You would have allowed me to see her‬‬
‫‪"Why not? I believe in the purdah, but I should have told her you‬‬
‫‪were my brother, and she would have seen you. Hamidullah saw‬‬
‫"‪her, and several others.‬‬
‫"?‪"Did she think they were your brothers‬‬
‫‪"Of course not, but the word exists and is convenient. All men are‬‬
‫‪my brothers, and as soon as one behaves as such he may see‬‬
‫"‪my wife.‬‬
‫‪"And when the whole world behaves as such, there will be no‬‬
‫)‪more purdah? (19‬‬
‫’’تم نے خود ہی مجھے اس کی تصویر دیکھنے کی اجازت دی تھی۔ ‘‘ کیوں نہیں؟‬
‫میں پردے پر یقین رکھتا ہوں مگر میں اسے یہ بتاتا کہ تم میرے بھائی ہو اور وہ تم سے‬
‫ضرور ملتی۔ حمیدہللا اور میرے کئی دوسرے دوست اس سے مل چکے تھے۔ کیا وہ بھی‬
‫ایسا سوچتی تھی کہ وہ تمھارے بھائی ہیں بال شبہ نہیں۔ مگر یہ لفظ موجود ہے اور بڑا ہی‬
‫موزوں ہے۔ تمام مرد میرے بھائی ہیں اور جب تک کسی شخص کا برتائو ایسا ہی ہے وہ‬
‫میری بیوی کو مل سکتا تھا۔ اور پھر جب تمام دنیا ایسے ہی برتائو کرے گی تو پھر‬
‫پردے کی کوئی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی‘‘۔‬
‫عزیز نے جب انگریز خواتین کو مارابار غار وں کی سیر کے لیے لے جانا چاہا‬
‫تو ان کے سفر سے پہلے ان کو بتایا کہ آپ پردے میں سفر کریں گی تو انہوں نے بھی ان‬
‫انتظامات پر اظہار ناپسندیدگی کیا۔‬
‫"?‪Did you know you are to travel purdah? Will you like that‬‬
‫)‪They replied that they should like it. (20‬‬
‫’’کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ باپردہ سفر کریں گی؟ کیا آپ اسے پسند کریں گی؟ انہوں‬
‫نے جواب دیا کہ انہیں یہ پسند ہے۔‘‘‬
‫ناول کے ایک اور اہم کردار حمید ہللا کے پردے کے بارے میں خیاالت سے بھی‬
‫ہم روشناس ہوتے ہیں جب وہ کہتا ہے کہ‪:‬‬
‫‪For fifteen years, my dear boy, have I argued with my begum, for‬‬
‫‪fifteen years, and never gained a point, yet the missionaries‬‬
‫)‪inform us our women are down-trodden. (21‬‬
‫’’ پچھلے پندرہ سالوں سے اپنی بیگم کو سمجھاتا رہا ہوں۔ اس کے باوجود مشنری‬
‫ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری عورتیں بہت ہی ستم رسیدہ ہیں۔‬
‫مگر پردے کے بارے میں عزیز کے تفصیلی خیاالت ناول کی آخری سطور میں‬
‫مترشح ہوتے ہیں جب وہ مشرقی عورت کا ذکر اپنی شاعری میں کرتا ہے۔‬
‫‪His poems were all on one topic--Oriental womanhood. "The‬‬
‫‪purdah must go," was their burden, "otherwise we shall never be‬‬
‫‪free." And he declared (fantastically) that India would not have‬‬
‫‪been conquered if women as well as men had fought at Plassy.‬‬
‫)‪"But we do not show our women to the foreigner. (22‬‬
‫’’اس کی تمام نظموں کا عنوان ایک ہی تھا۔ مشرقی نسوانیت! پردہ ختم ہونا چاہیے‪،‬‬
‫یہ ان کے لیے بوجھ تھا۔ ورنہ ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے اوراس نے عجیب انداز میں کہا‬
‫کہ ہندوستان کبھی بھی فتح نہ ہوتا اگر پالسی کے میدان میں مردوں کے ساتھ عورتیں‬
‫بھی لڑائی میں شریک ہوتیں‪ ،‬لیکن ہم اپنی عورتوں کو غیر ملکیوں کے سامنے نہیں‬
‫التے‘‘۔‬
‫جب ذکر پردے اور عورت کا ہو تو ناول میں ایک جگہ ایک اور اہم موضوع کا‬
‫بھی ذکر ہے اور وہ ہے کثیراالزدواجی)‪ (Polygamy‬۔ اسالم میں کثیر االزدواج‬
‫)‪(Polygamy‬کی اجازت ہے جب کہ )‪ (Polygandry‬چند شوئی یعنی ایک عورت‬
‫کے کئی مردوں سے جنسی تعلق کی ممانعت ہے۔ اسالم میں کثیراالزدواجی کی محض‬
‫اجازت ہے اس کا حکم نہیں ہے اور سب مسلمان کثیر االزدواجی کے حق میں واضح‬
‫فطرتی براہین سے واقف بھی ہیں مگر پھر بھی اگر کوئی آدمی ایک ہی بیوی کے ساتھ‬
‫اعلی ترین ازدواجی زندگی خیال کرتا ہے تو وہ بھی اچھا اور سچا مسلمان‬ ‫ٰ‬ ‫نباہ کرنے کو‬
‫ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ تمام مسلمان چار چار بیویاں رکھتے ہیں۔‬
‫کچھ اسی قسم کی کیفیت کاسامنا ڈاکٹر عزیز کو ایڈالکا شادی اور تع ّد ِد ازدواج کے‬
‫بارے میں سوال سن کر ہوتا ہے کہ ایک صدمے)‪ (shock‬کی سی کیفیت سے دوچار ہوتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪Wives--Mohammedans always insist on their full four, according‬‬
‫‪to Mrs. Turton. And having no one else to speak to on that eternal‬‬
‫‪rock, she gave rein to the subject of marriage and said in her‬‬
‫‪honest, decent, inquisitive way: "Have you one wife or more than‬‬
‫"?‪one‬‬
‫‪The question shocked the young man very much. It challenged a‬‬
‫‪new conviction of his community, and new convictions are more‬‬
‫‪sensitive than old. If she had said, "Do you worship one god or‬‬
‫‪several?" he would not have objected. But to ask an educated‬‬
‫!‪Indian Moslem how many wives he has--appalling, hideous‬‬
‫)‪(23‬‬
‫’’شاید اس آدمی (عزیز) کی کئی بیویاں ہوں۔ مسز ٹرٹن کے مطابق یہ محمڈن‬
‫(مسلمان) ہمیشہ چار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ امدراس (ایڈیال) نے دیانت دارانہ اور‬
‫خوش گوار لہجے میں پوچھا کیا تم بھی ایک بیوی رکھتے ہو یا ایک سے زائد؟ نوجوان‬
‫آدمی (عزیز) کو یہ سوال سن کر بہت صدمہ ہوا۔ اس سوال نے اس کی کمیونٹی کے ایمان‬
‫و ایقان کو چیلنج کیا۔ اور نئی رسمیات پرانی سے زیادہ نازک ہیں۔ اگر اس نے مجھ سے‬
‫یہ پوچھا ہوتا کہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہو یا زیادہ کی؟ تو اسے اس پر کوئی‬
‫اعتراض نہ ہوتا لیکن ایک تعلیم یافتہ انڈین مسلمان سے یہ سوال پوچھنا کہ اس کی کتنی‬
‫بیویاں ہیں تو یہ بہت زیادہ قابل نفرین ہے۔‘‘‬
‫ہند مسلم تہذیب ایسی شاندار اور جاندار تہذیب تھی جس کے دامن میں اسالم جیسے‬
‫توحید پسند مذہب کے موقی بھی تھے اور عملی و ثقافتی میراث بھی۔ جس نے معاشرے‬
‫کو اخالقی برائیوں سے پاک کیا‪ ،‬عدل و احسان‪ ،‬عجز و انکسار‪ ،‬صداقت‪ ،‬دیانت‪ ،‬متانت‪،‬‬
‫سخاوت جیسے زیورات سے جسم انسانیت کو آراستہ کیا۔ مسجدیں‪ ،‬مدرسے اور خانقاہیں‬
‫مسلمانوں کے کلچر کے مخصوص مراکز تھے۔ تہذیب اسالمی کا اہم ستون صوفیائے‬
‫کرام بھی تھے ج ن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مذہبی معامالت میں متشدد نہیں تھے ان‬
‫کا مذہب انسان دوستی تھا۔ ان کی خانقاہوں میں مساواتی اصول پر میل جول ہوتا تھا ان‬
‫خانقاہوں میں خدمت خلق‪ ،‬تواضع‪ ،‬انکسار‪ ،‬مہمان نوازی اور بے غرضی کی تعلیم دی‬
‫جاتی تھی اس سے عام افراد کو تصفیہ قلب و تذکیہ نفس کے مواقع ملتے تھے۔ وہ عظیم‬
‫ہندوستان میں غیر مسلم اکثریت کے ساتھ صلح و سالم کے ساتھ نباہ کرتے تھے۔ اس کے‬
‫ساتھ ساتھ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ ہند مسلم تہذیب کا اپنا ایک اخالقی مزاج تھا۔‬
‫ای ایم فاسٹر)‪ (E. M. Forster‬نے اسی اخالقی مزاج کا تذکرہ اپنے ناول میں کیا‬
‫ٰلہذا اس امر کا جائزہ کیا جائے گا کہ اس ناول میں مسلمانوں کی عالی ظرفی‪ ،‬فیاضی‪،‬‬
‫مہمان نوازی‪ ،‬بے تکلفی اور محبت کے ساتھ ساتھ رواداری اور احترام آدمیت کے حوالے‬
‫سے اس ناول کے کردار کیا کہتے ہیں۔‬
‫ناول میں ہمیں ایک اہم کردار نواب صاحب کی زبانی مہمان نوازی کی اہمیت یوں‬
‫اجاگر ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے انگریز مہمانوں کو سیر کرانے کے لیے اپنی گاڑی پر‬
‫سوار کر اکر باہر لے جاتے ہیں تو وہاں حادثہ پیش آ تا ہے تو اس موقع پر نواب صاحب‬
‫کی زبانی یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں‪:‬‬
‫‪If I had been killed, what matter? it must happen sometime; but‬‬
‫‪they who trusted me" The company shuddered and invoked the‬‬
‫)‪mercy of God. (24‬‬
‫’’ اگر میں مارا جاتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا؟ یہ کسی روز ضرور واقعہ رونما ہوتا‬
‫مگر وہ جو میری ذمہ داری میں تھے (یعنی مہمان تھے) اسی خیال سے وہاں بیٹھے‬
‫ہوئے لوگ کانپ گئے اور خدا سے رحم کے طلب گار ہوئے‘‘۔‬
‫ان سطور سے ہمیں نواب صاحب کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی جان‬
‫سے زیادہ مہمانوں کی حفاظت مقدم تھی۔ اور اگر خدا نخواستہ انہیں کچھ ہو جاتا تو وہ‬
‫کسی کہ منہ دکھ انے کے قابل نہ رہتے اور اس ذمہ داری کو نباہتے ہوئے اگر ان کی جان‬
‫چلی جاتی تو وہ سرخرو ٹھہرتے۔ پھر ایک جگہ عزیز کے منہ سے مشرق کی مہمان‬
‫نوازی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگرچہ وہ طنزیہ انداز میں یہ سب کہہ رہا ہے۔‬
‫)‪Here is the celebrated hospitality of the East (25‬‬
‫’’یہ دیکھیے مشرق کی مشہور و معروف مہمان نوازی‘‘‬
‫اس کے بعد عزیز جب دونوں خواتین کو سیر کے لیے لے جا رہا ہوتا ہے تو مسٹر‬
‫فیلڈنگ کو جب آنے میں تاخیر ہوئی اور ڈاکٹر عزیز نے پریشانی کا اظہار کیا ۔ اور مسز‬
‫مور نے اس کو تسلی دی۔ تو اس موقع پر اس کے جذبات سے بس ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫وہ ان کی مہمان نوازی کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتا ہے۔‬
‫‪All the love for her he had felt at the mosque welled up again, the‬‬
‫‪fresher for forgetfulness. There was nothing he would not do for‬‬
‫)‪her. He would die to make her happy. (26‬‬
‫’’ اس عورت کے لیے وہ محبت جو مسجد میں بوقت مالقات اس کے لیے محسوس‬
‫کی تھی وہ دوبارہ بیدار ہوئی۔ وہ اس کے لیے سب کچھ کر سکتا تھا۔ اس کی خوشی کے‬
‫لیے وہ اپنی جان بھی وار دیتا‘‘۔‬
‫ذیل کی سطور میں ہمیں ای ایم فاسٹر عزیز کے کردار سے آگے بڑھتے ہوئے ہر‬
‫ہندوستانی کے بارے میں یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ تمام ہندوستانی فطرتا ً مہمان نواز ہیں‬
‫اور وہ اپنے مہمان کی خوشی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پھر مشرق کی روایتی مہمان‬
‫نوازی کا ذکر بھی سامنے آتا ہے۔‬
‫‪Hospitality had been achieved, they were "his" guests; his honour‬‬
‫‪was involved in their happiness, and any discomfort they endured‬‬
‫‪would tear his own soul.‬‬
‫‪Like most Orientals, Aziz overrated hospitality, mistaking it for‬‬
‫‪intimacy, and not seeing that it is tainted with the sense of‬‬
‫)‪possession. (27‬‬
‫’’ مہمان نوازی کا موقع حاصل ہو چکا تھا۔ اب وہ اس کے مہمان تھے۔ ان کی‬
‫خوشی میں ہی اس کی عزت کا راز مضمر تھا۔ اور ان کے لیے کسی طرح کی بھی بے‬
‫آرامی اس کی روح کو زخمی کردیتی۔ دوسرے کئی مشرقی لوگوں کی طرح عزیز نے‬
‫مہمان نوازی کو بہت بڑھ کر جانا۔ اور اسے غلطی سے بے تکلف آشنائی سمجھا۔‘‘‬
‫یعنی اس طرح کی مہمان نوازی کی خواہش ہر ہندوستانی رکھتا ہے اور وہ فطرتا ً‬
‫مہمان نواز ہوتے ہیں مگر ہر کسی کو اس طرح انگریزوں کی میزبانی کا شرف حاصل‬
‫نہیں ہوتا جو کہ اب ڈاکٹر عزیز کو میسر آیا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے‬
‫کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا اور یہ اس کے لیے عزت بے عزتی کا مسئلہ تھا۔‬
‫وہ اپنے آپ کو شہنشاہ بابر خیال کررہا تھا۔ اور ان کے پوچھنے پر وہ انہیں بتاتا ہے کہ‬
‫اس کے آبائواجداد بھی شہنشاہ بابر کے ساتھ ہی افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان‬
‫آئے تھے اور وہ بڑا مہمان نواز آدمی تھا۔ اس کی مہمان نوازی کا ذکر وہ ان الفاظ میں‬
‫کرتا ہے۔‬
‫‪..... he never ceased showing hospitality. When he fought or‬‬
‫‪hunted or ran away, he would always stop for a time among hills,‬‬
‫‪just like us; he would never let go of hospitality and pleasure, and‬‬
‫‪if there was only a little food, he would have it arranged nicely,‬‬
‫‪and if only one musical instrument, he would compel it to play a‬‬
‫)‪beautiful tune. (28‬‬
‫’’ وہ کبھی بھی مہمان نوازی سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ جب کبھی وہ لڑائی کرتا‪،‬‬
‫شکار کرتا ی ا بھاگتا‪ ،‬وہ کچھ وقت کے لیے پہاڑوں میں ہی رک جاتا۔ بالکل ہماری طرح۔‬
‫وہ مہمانوں کی خوشی کا خیال رکھتا۔ اگر اس کے پاس تھوڑی سی خوراک بھی ہوتی تو‬
‫وہ اسے عمدگی سے پیش کرتا اور اگر اس کے پاس موسیقی کا صرف ایک آلہ (ساز)‬
‫ہوتا تو اسے سے خوبصورت دھن بجاتا‘‘۔‬
‫اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی فیاضی اور صدقہ و خیرات دینے کی عادت کا‬
‫بھی خصوصی طور پر اس موقعے پر ذکر کیا ہے جب مسز مور عزیز سے گفتگو‬
‫کررہی تھی۔ تو مسز مور نے دولت کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کیا اور کہا‪:‬‬
‫)‪Rupees donot last for ever, she said (29‬‬
‫’’اس نے کہا دولت ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتی۔‘‘‬
‫اس کے جواب میں عزیز اپنے خیاالت کا اظہار یوں کرتا ہے‪:‬‬
‫‪Mine would. God would give me more when he saw I gave.‬‬
‫‪Always be giving, like the Nawab Bahadur. My father was the‬‬
‫)‪same. (30‬‬
‫’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ خدا مجھے زیادہ عطا کرتا ہے جب میں کسی کو دیتا‬
‫ہوں۔ ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہیے ‪ ،‬نواب بہادر کی طرح‪ ،‬میرے والد بھی ایسے ہی‬
‫سخی تھے‘‘۔‬
‫ناول میں ایک مقام پر فیلڈنگ جب ڈاکٹر عزیز کو سمجھاتا کہ اور اس سے‬
‫درخواست کرتا ہے کہ وہ مس کیوسٹڈ )‪ (Adela Quested‬کو معاف کردے تو وہ اسے‬
‫عظیم مغل بادشاہوں کا حوالہ دے کر رحم دلی اور فیاضی کا سبق دیتا ہے۔‬
‫)‪Be merciful. Act like one of your six Mogul Emperors". (31‬‬
‫’’رحم دل بنو۔ اپنے چھ مغل شہنشاہوں کی طرح کا سلوک کروــ‘‘۔‬
‫ناول میں ہمیں ہندو مسلم رواداری کی تصویر بھی نظر آتی ہے کہ وہ ایک‬
‫دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونے کے لیے دور دراز کے سفر بھی طے کرتے‬
‫تھے جس طرح کہ ناول کے ایک کردار مسٹر سید محمد کے بارے میں ناول کی یہ‬
‫سطور کا مطالعہ کرنے سے آگاہی ہوتی ہے۔‬
‫‪Mr. Syed Mohammed had visited religious fairs, at Allahabad and‬‬
‫)‪at Ujjain (32‬‬
‫’’مسٹر سید محمد ٰالہ آباد اور اجین میں منعقد ہونے والے مذہبی تہواروں (میلوں)‬
‫میں شرکت کے لے گئے تھے‘‘۔‬
‫اس کے بعد ای ایم فاسٹر انہی کی زبانی ان میلوں اور تہواروں کی ناگفتہ بہ حالت کا‬
‫تذکرہ بھی حقارت آمیز انداز میں سناتے ہیں کہ وہاں کا ماحول کس قسم کا تھا اور کس‬
‫طرح کی بیماریاں اور وبائی امراض پھیل جاتی تھیں۔ ساتھ ہی سادھوئوں کی ہیئت کذائی‬
‫کا منظر نامہ بھی سامنے آتا ہے۔‬
‫‪At Allahabad there was flowing water, which carried impurities‬‬
‫‪away, but at Ujjain the little river Sipra was banked up, and‬‬
‫‪thousands of bathers deposited their germs in the pool. He spoke‬‬
‫‪with disgust of the hot sun, the cowdung and marigold flowers,‬‬
‫‪and the encampment of saddhus, some of whom strode stark‬‬
‫)‪naked through the streets. (33‬‬
‫’’الہ آباد میں تو پانی رواں دوا ں رہتا تھا جو کہ غالظتوں کو ساتھ بہا لے جاتا تھا۔‬
‫مگر اجین میں چھوٹے سے دریائے سپرا کے پانی کو روک کر تاالب بنایا گیا تھا۔ جس‬
‫میں ہزاروں غسل کرنے والوں کے جراثیم جمع ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے شدید‬
‫گرمی‪ ،‬سورج‪ ،‬گائے کے گوبر‪ ،‬گیندے کے پھولوں اور سادھوئوں کے پڑائو کرنے کے‬
‫بارے میں تحقیر آمیز انداز میں بتایا کہ ان میں سے کچھ سادھو بالکل ننگ دھڑنگ گلیوں‬
‫میں کھڑے ہو جاتے تھے۔‘‘‬
‫مگر اس رواداری کے ساتھ ہندو مسلم تضادات اور فسادات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ‬
‫محرم کے مہینے میں تعزیے اور شبیہیں نکالنے کے موقع پر ہندوئوں اور مسلمانوں کے‬
‫درمیان ایک چھوٹی سے بات پر تلخی ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے مذہبی فسادات کی‬
‫شکل اختیار کر لیتی ہے مگر انگریز اپنی عقل و دانش سے اسے سلجھا دیتے ہیں۔ ناول‬
‫میں اس واقعے کا تذکرہ کچھ اس طرح ملتا ہے۔‬
‫‪Mohurram was approaching, and as usual the Chandrapore‬‬
‫‪Mohammedans were building paper towers of a size too large to‬‬
‫‪pass under the branches of a certain pepul tree. One knew what‬‬
‫‪happened next; the tower stuck, a Mohammedan climbed up the‬‬
‫‪pepul and cut the branch off, the Hindus protested, there was a‬‬
‫)‪religious riot. (34‬‬
‫ب روایت چندراپور کے مسلمان اتنے بڑے سائز‬ ‫’’محرم قریب آ رہا تھا اور حس ِ‬
‫علَم تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے جو کہ ایک مخصوص پیپل کے درخت‬ ‫کے تعزئیے‪َ /‬‬
‫کے نیچے سے گزرتے ہوئے اس کی شاخوں سے ٹکرا کر الجھ جاتے تھے۔ کوئی بھی‬
‫جان سکتا تھا کہ اس واق عے کے بعد کیا ہوگا۔ تعزیہ پیپل کے درخت کی شاخوں میں الجھ‬
‫گیا ایک مسلمان فورا ً درخت پر چڑھ گیا اور اس کی شاخیں کاٹ دیں۔ ہندئوں نے احتجاج‬
‫شروع کر دیا اور پھر مذہبی فساد برپا ہو گیا۔‘‘‬
‫ا س کے بعد بھی بڑی دلچسپ صورت حال بیان کی گئی ہے کہ اس فسادات کو‬
‫روکنے کے دو طریقے تھے کہ یا تو تعزئیے چھوٹے بنائے جائیں یا ان کا راستہ تبدیل‬
‫کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو پہلی تجویز منظور ہوئی۔ مگر راستہ تبدیل‬
‫کرنے والی دوسری تجویز انہیں نا منظور تھی۔ جبکہ ضلع کلکٹر ہندوئوں کی حمایت میں‬
‫تھا کہ راستہ تبدیل کر دیا جائے۔ حاالنکہ اسے شک تھا کہ ہندوئوں نے شرارت کرنے‬
‫کے لیے مصنوعی طور پر ان شاخوں کو زمین کی جانب جھکا رکھا تھا۔ مگر اس سارے‬
‫قضیے کی اختتامی سطور خالص انگریزی استعمال اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی سوچ‬
‫کی عکاس ہیں جس میں فاسٹر یہ بتاتا ہے کہ ایسے جھگڑوں کے خاتمے کے لیے‬
‫انگریزوں کا مصالحتی کردار بہت ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ بات کہتا ہے‬
‫کہ انگریزوں کا قیام یہاں پر ہندوستانیوں کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے ورنہ یہ آپس میں‬
‫لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر دیں گے۔‬
‫‪It proved that the British were necessary to India; there would‬‬
‫‪certainly have been bloodshed without them.it proved that the‬‬
‫‪British were necessary to India; there would certainly have been‬‬
‫)‪bloodshed without them. (35‬‬
‫’’ اس واقعے نے ثابت کیا کہ انگریز ہندوستانیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ کیونکہ ان‬
‫کے بغیر یقینا قتل و غارت گری ہوتی۔‘‘‬
‫مسلمانوں کے عہد حکومت میں شاعری کا دریا بھی روانی سے بہہ رہا تھا اسی‬
‫وجہ سے معاشرے میں شاعری کا یہ رواج ہند مسلم تہذیب کی اہم خصوصیت بن گیا۔‬
‫کیوں کہ مغلوں کے آخری دور حکومت میں کچھ ایسی فضا طاری ہوئی کہ روحانی‬
‫سکون کے حصول ک ے لیے لوگوں کا رحجان تصوف کی جانب بڑھنے لگا۔ پیر و مرشد‬
‫اور خانقاہوں کا رواج عام ہوا۔ میلے ٹھیلے‪ ،‬عرس‪ ،‬قوالیاں لوگوں میں زیادہ مقبول ہوئیں‬
‫اور شاعری میں لوگوں کا مقبول عام مشغلہ بن گیا۔ بے شمار تفریحات اور ذوقیات جو‬
‫صدیوں سے چلے آتے تھے اب بھی رائج تھے۔ انہی میں سے ایک شاعری بھی تھا۔ زیر‬
‫تجزیہ ناول میں فاسٹر نے اسی وجہ سے ایک مسلم کردار عزیز کی زبانی شاعری پر‬
‫بھرپور تبصرہ کیا ہے۔‬
‫‪He recited a poem by Ghalib....... words accepted as immortal‬‬
‫‪filled the indifferent air. Not as a call to battle, but as a calm‬‬
‫‪assurance came the feeling that India was one; Moslem; always‬‬
‫‪had been; an assurance that lasted until they looked out of the‬‬
‫‪door. Whatever Ghalib had felt, he had anyhow lived in India, and‬‬
‫‪this consolidated it for them: he had gone with his own tulips and‬‬
‫‪roses, but tulips and roses do not go. And the sister kingdoms of‬‬
‫‪the north--Arabia, Persia, Ferghana, Turkestan-- stretched out‬‬
‫)‪their hands as he sang. (36‬‬
‫’’ اس (عزیز) نے غالب کی نظم پڑھی۔ غزل کے الفانی الفاظ نے ایک مختلف فضا‬
‫طاری کردی۔ جو کہ جنگ کی للکار کے بجائے ایک خاموش یقین دہانی تھی اور ان‬
‫احساسات کو سامنے الرہی تھی کہ ہندوستان ایک ہے اور مسلمان ہمیشہ سے اس کا‬
‫حصہ! غالب جو کچھ بھی محسوس کرتا تھا اسے ہندوستانیوں کے لیے نظم کیا کیوں کہ‬
‫وہ بہر حال ہندوستان کا ہی باسی تھا۔ اس نے اپنے گالبوں اور گل اللہ کو الفاظ کے روپ‬
‫میں پیش کیا۔ جواس کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی سدا بہا ر ہیں۔ یہ الفاظ جب‬
‫گونجے تو شمال کی جانب واقع ریاستیں عرب‪ ،‬ایران‪ ،‬فرغانہ‪ ،‬ترکستان اپنے ہاتھ اس‬
‫آواز کی جانب پھیال دیتیں۔‘‘‬
‫اسی محفل پر تبصرہ کرتے ہوئے فاسٹر بتاتا ہے کہ غزل سنانے کے بعد عزیز‬
‫عورت کے تصورات میں گم ہو گیا مگر اب اس کا انداز جدا تھا کہ ان اشعار نے اس پر‬
‫انوکھا اثر دکھایا۔ اس کے بعد وہ اپنی نئی نظموں کے لیے موضوعات پر غور کرتا ہے‬
‫تبادلہ خیال کرتا ہے۔ فیلڈنگ اسے مشورہ دیتا ہے کہ ہندوستانی‬
‫ٔ‬ ‫اور وہ فیلڈنگ کے ساتھ‬
‫عو رت کے بارے میں لکھو کہ وہ کیا ہے نہ کہ ایسے لکھو جیسے کہ ہم اسے اپنے‬
‫مفروضوں کے مطابق سوچتے ہیں۔‬
‫‪If you want a subject for a poem, take this: The Indian lady as she‬‬
‫)‪is and not as she is supposed to be. (37‬‬
‫’’اگر تم اپنی نظم کے لیے موضوعات چاہتے ہو تو اس طرح کا موضوع لو جیسے‬
‫کہ ہندوستانی عورت کیا ہے نہ کہ ایسے جیسے ہم اسے سوچتے ہیں۔‘‘‬
‫ناول میں اسی موضوع پر مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پردہ جو‬
‫شعائر اسالمی میں سے ہے اور ہند مسلم تہذیب کا اہم مظہر بھی۔ وہ عزیز کے لیے‬ ‫ِ‬ ‫کہ‬
‫اسالم کی درشتی‪ ،‬جبر اور بے لچک "‪ "rigitity‬ہونے کی عالمت ہے جسے وہ بعد میں‬
‫آزاد قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے کہ جیسے کہ حسب ذیل سطور میں‬
‫قاری کے سامنے اسی قسم کی صورت حال پیش ہوتی ہے۔‬
‫‪His poems were all on one topic--Oriental womanhood. "The‬‬
‫‪purdah must go," was their burden, "otherwise we shall never be‬‬
‫‪free." And he declared (fantastically) that India would not have‬‬
‫‪been conquered if women as well as men had fought at Plassy.‬‬
‫‪"But we do not show our women to the foreigner' ..........Bulbuls‬‬
‫‪and roses would still persist, the pathos of defeated Islam‬‬
‫‪remained in his blood and could not be expelled by modernities.‬‬
‫)‪Illogical poems-- like their writer. Yet they struck a true note.(38‬‬
‫’’ اس کی تمام نظمیں ایک ہی موضوع پر لکھی گئی تھیں اور وہ موضوع تھا‬
‫مشرقی عورت۔ پردہ جو ان کے لیے ایک بوجھ ہے اسے ختم ہونا چاہیے اور وہ‬
‫خوشگوار موڈ میں یہ بھی بیان کرتا کہ اگر مرد و خواتین پالسی کے میدان میں شانہ‬
‫بشانہ (انگریزوں کے خالف) لڑائی لڑتے تو ہندوستان کبھی بھی فتح نہ ہوتا لیکن ہم تو‬
‫غیر ملکیوں کے سامنے اپنی خواتین کو بے پردہ نہیں کرتے۔ بلبل اور گالب اب بھی اس‬
‫کی شاعری میں موجود تھے۔ اسالم کی شکست کا دکھ اب بھی اس کے خون میں شامل‬
‫تھا جسے کوئی جدت نکال نہیں سکتی تھی۔ یہ نظمیں اپنے تخلیق کار کی طرح ہی غیر‬
‫منطقی تھیں۔ حاالنکہ ان میں صداقت بھی موجود تھی۔‘‘‬
‫برصغیر کا معاشرہ تاریخ میں کئی نشیب و فراز سے گزرا۔ انگریزوں نے اپنی آمد‬
‫کے بعد یہاں اپنی سیاسی برتری اور اپنے اقتدار کا جواز تالش کرنے کے لیے یہاں کی‬
‫مقامی تہذیب و ثقافت پر حملے شروع کر دیئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ‬
‫ہندوستانی غیر مہذب اور صالحیتوں سے محروم لوگ ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں‬
‫کی تہذیبی اور ثقافتی روایات کو نشانہ بنایا۔ تاکہ اسالمیان ہند کو ثقافتی اور تہذیبی طور‬
‫پر اتنا احساس کمتری کا شکار کر دیا جائے کہ ان کی اذہان میں دوبارہ کبھی حکمرانی کا‬
‫سودا نہ سماسکے۔ چنانچہ انگریزوں کا تسلط صرف جغرافیائی اور سیاسی نہیں تھا بلکہ‬
‫روحانی تہذیبی اور ثقافتی بھی تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مسلم تہذیب کو مکمل‬
‫طور پر نیست و نابود کر کے اس کی جگہ مغربی تہذیب و تمدن کو الگو کیا جائے۔‬
‫کیونکہ سامراجی آقائوں کے مطابق مقامی آبادی ذہنی طور پر پسماندہ اور صالحیتوں‬
‫سے اس قدر عاری تھی کہ ان سے نہ صرف حکومت چھین لینا جائز تھا بلکہ ان کو‬
‫تہذیب سکھانا اور ان کی تربیت کرنا بھی ان کے نزدیک ضروری تھا۔‬
‫زیر تجزیہ ناول میں بھی تہذیب کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے جیسا کہ ذیل کی سطور‬
‫میں ایک مسلمان کردار حمید ہللا کو شاعری کا اچھا ذوق رکھنے واال بتایا گیا ہے۔ جب کہ‬
‫ادب و فن کو اس تہذیب کا الزمی جزو قرار دیا گیا ہے۔‬
‫‪Of the company, only Hamidullah had any comprehension of‬‬
‫‪poetry. The minds of the others were inferior and rough. Yet they‬‬
‫‪listened with pleasure, because literature had not been divorced‬‬
‫)‪from their civilization.(39‬‬
‫ــ ’’صرف حمید ہللا ہی اس محفل میں شاعری کا ذوق رکھتا تھا۔ باقی سامعین کے‬
‫اذہان کم تر درجے کے تھے۔ اس کے باوجود وہ شاعری خوشی سے سنتے تھے کیونکہ‬
‫شعرو ادب ابھی تک ان کی تہذیب سے جدا نہیں ہوئے تھے۔‘‘‬
‫اس کے بعد ایک اور جگہ پھر تہذیب کے حوالے سے استعماری سوچ اور ان کے‬
‫پالن کی نشاندہی ہوتی ہے‪:‬‬
‫‪The triumphant machine of civilization may suddenly hitch and be‬‬
‫‪immobilized into a car of stone, and at such moments the destiny‬‬
‫‪of the English seems to resemble their predecessors', who also‬‬
‫‪entered the country with intent to refashion it, but were in the end‬‬
‫)‪worked into its pattern and covered with its dust. (40‬‬
‫’’ تہذیب کی فتح مند مشین اچانک ایک جھٹکے ساتھ رک جاتی ہے اور ایک پتھر‬
‫کی کار کی طرح بے حرکت ہو جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر کسی بھی انگریز کا مقدر‬
‫اپنے ہر اس پیش رو سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے جو کہ ہندوستان میں یہ سوچ کر ااتا‬
‫ہے کہ وہ اسے نئی شکل دے گا۔ مگر آخر کار وہ بھی انہی خطوط پر کام شروع کر دیتا‬
‫ہے اور وہ اسی مٹی کو اوڑھ لیتا ہے۔‘‘‬
‫آگے بڑھتے ہیں تو مقامی تہذیب کے بارے میں ناول کی یہ سطور بھی چونکاتی‬
‫ہیں‪:‬‬
‫‪Civilization strays about like a ghost here, revisiting the ruins of‬‬
‫‪empire, and is to be found not in great works of art or mighty‬‬
‫‪deeds, but in the gestures well-bred Indians make when they sit‬‬
‫)‪or lie down. (41‬‬
‫’’تہذیب یہاں ایک بھوت کی طرح کھڑی‪ ،‬اجڑی ہوئی شہنشاہیت کی باقیات کو دیکھ‬
‫فنون لطیفہ کے بڑے بڑے کاموں میں دکھائی نہیں دیتی تھی بلکہ اچھی‬ ‫ِ‬ ‫رہی تھی۔ اب وہ‬
‫پرورش پانے والے ہندوستانیوں کے نشست و برخاست سے عیاں ہوتی تھی۔‘‘‬
‫اس کے فورا ً بعد یہ بھی بتایا گیا کہ نورالدین مشرقی دھن میں گانا گاتا ہے تو ایک‬
‫ایسی خوبصورت فضا جنم لیتی ہے جو اس تہذیب کا خاص حصہ ہے‪ ،‬مگر اس فضا کو‬
‫یا اس تہذیب کو مغرب والے سمجھنے سے قاصر ہیں‪:‬‬
‫‪...... reveals a civilization which the West can disturb but will never‬‬
‫)‪acquire. (42‬‬
‫’’۔۔۔۔ایسی تہذیب ظاہر ہ وتی ہے جسے مغرب والے دسٹرب تو کر سکتے ہیں مگر‬
‫اپنا نہیں سکتے۔‘‘‬
‫اس ناول میں مسلمانوں کو جذباتی قوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے کیوں کہ ناول‬
‫کا مرکزی مسلمان کردار جو کہ مسلمان قوم کا نمائندہ کردار بھی ہے اسے ایک ایسے‬
‫جذباتی آدمی کے طور پر دکھایا گیا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر عقل و حواس کھو‬
‫بیٹھتا ہے۔‬
‫‪Indeed, he was sensitive rather than responsive. In every remark‬‬
‫‪he found a meaning, but not always the true meaning, and his life‬‬
‫)‪though vivid was largely a dream. (43‬‬
‫’’بالشبہ وہ جلد رد عمل ظاہر کرنے والے سے زیادہ حساس اور جذباتی تھا۔ ہر‬
‫بات میں اسے معانی ملتے مگر وہ صحیح معنی سے محروم رہتا۔ اور یوں اس کی زندگی‬
‫واضح مگر خواب جیسی تھی۔‘‘‬
‫اسی قسم کی جذباتی کیفیت میں اسے انگریز دشمنی کا اظہار کچھ یوں کرتے‬
‫ہوئے دکھایا گیا ہے‪:‬‬
‫‪I have become anti-British, and ought to have done so sooner, it‬‬
‫)‪would have saved me numerous misfortunes. (44‬‬
‫’’ میں برطانیہ مخالف بن چکا ہوں۔ ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ تو اس سے‬
‫میں کئی آفتوں سے محفوظ رہتا۔‘‘‬
‫پھر وہ اسی جذباتی کیفیت میں فیصلہ کرتا ہے کہ اب برطانوی ہندوستان میں نہ‬
‫ٹھہرے گا اور نہ ہی اس سے کوئی تعلق برقرار رکھے گا بلکہ کسی ایسی جگہ ہجرت‬
‫کر جائے گا اور مالزمت کرے گا جہاں انگریزوں سے واسطہ نہ پڑے۔‬
‫‪I have decided to have nothing more to do with British India, as a‬‬
‫‪matter of fact. I shall seek service in some Moslem State, such as‬‬
‫‪Hyderabad, Bhopal, where Englishrnen cannot insult me any‬‬
‫)‪more. (45‬‬
‫’’میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ حقیقتا ً برطانوی ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں‬
‫رکھوں گا۔ میں کسی بھی مسلمان ریاست جیسے بھوپال یا حیدرآباد میں مالزمت کروں گا‬
‫جہاں انگریز میری بے عزتی نہ کر سکیں۔‘‘‬
‫جہاں ایک طرف مسلمانوں کے جذباتی پن کا بیان ہے تو وہاں دوسری طرف‬
‫ہندوستانیوں کی روایتی سستی اور کاہلی کا تذکرہ بھی ناول میں بڑے دلچسپ انداز میں‬
‫کیا گیا ہے۔‬
‫‪Plenty of Indians travel light too--saddhus and such. It's one of the‬‬
‫‪things I admire about your country. Any man can travel light until‬‬
‫‪he has a wife or children. That's part of my case against marriage.‬‬
‫)‪(46‬‬
‫’’ بیشتر ہندوستانی‪ ،‬خاص کر سادھو اور اسی قسم کے دوسرے لوگ سست روی کا‬
‫راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ تمہارے ملک کی جن چیزوں کا میں مداح ہوں ان میں سے ایک‬
‫یہ بھی ہے۔ ہر آدمی سست روی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جب تک کہ اس کے بیوی اور‬
‫بچے نہیں ہوتے۔ میرے شادی نہ کرنے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔‘‘ (کہ میں‬
‫بھی سست روی کو پسند کرتا ہوں)‬
‫ناول میں مختلف مقامات پر ہندوستان کی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے ناول کا حصہ‬
‫بنایا گیا ہے۔ جب کہ ناول کے باب‪ ، XII‬ص ‪ ۱۳۷‬پر ہندوستان کے مشہور اساطیری دریا‬
‫اور وشنو دیوتا کا ذکر ملتا ہے۔ ہندوستان کے دیگر مقدس چشموں‪ ،‬پہاڑوں‪ ،‬چٹانوں اور‬
‫دریائوں اور تاج محل کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور مہاتما بدھ کے گیان حاصل کرنے اور‬
‫کچھ سادھوئوں کے بارے میں حسب ذیل سطور ملتی ہیں‪:‬‬
‫‪Some saddhus did once settle in a cave, but they were smoked‬‬
‫‪out, and even Buddha, who must have passed this way down to‬‬
‫‪the Bo Tree of Gya, shunned a renunciation more complete than‬‬
‫)‪his own. (47‬‬
‫’’ کچھ سادھو ایک دفعہ ایک غار میں ٹھہرے‪ ،‬لیکن وہ بعد میں دھویں تحلیل ہو‬
‫حتی کہ مہاتما بدھ نے یہ سفر گیا میں بوہڑ کے درخت کے نیچے طے کیا۔ اور‬ ‫گئے۔ ٰ‬
‫خود کو تیاگ کر منز ِل عرفان حاصل کی۔‘‘‬
‫یوں تو ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں ناول میں مختلف مقامات پر اشارے‬
‫ملتے ہیں مگر دو جگہوں پر ہندوستان کے مشہور مغلیہ خاندان کے فرماں روائوں‬
‫عالمگیر‪ ،‬اکبر اور بابر کا ذکر خصوصی طور پر ملتا ہے۔ ایک جگہ پر مسلمانوں کی‬
‫ت رفتہ پر فخر کرنے کا تذکرہ ہے۔ جب عزیز ان دو انگریز‬ ‫ماضی پرستی اور عظم ِ‬
‫خواتیں کو مارابار غاروں کی سیر کراتے ہوئے خود کو شہنشاہ بابر سمجھتا ہے اور دلیل‬
‫یہ پیش کرتا ہے کہ وہ اس کے ہی آبائو اجداد کے ساتھ افغانستان سے ہندوستان وارد ہو‬
‫اتھا۔ اس سے بھی نوآبادیاتی سوچ کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ عام مسلمان کو بھی کیا‬
‫سمجھتے ہیں۔‬
‫‪I feel like the Emperor Babur." "Why like him?" she enquired,‬‬
‫‪rising."Because my ancestors came down with him from‬‬
‫)‪Afghanistan. (48‬‬
‫’’میں خود کو شہنشاہ بابر جیسا محسوس کرتا ہوں۔۔۔کیوں کہ میرے آبائو اجداد اس‬
‫کے ساتھ ہی افغانستان سے آئے تھے۔‘‘‬
‫اس سے آگے اورنگزیب عالمگیر‪ ،‬ظہیرالدین بابر اور ہمایوں کے بارے میں ناول‬
‫نگار نے طویل اقتباس میں ان کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر کو نیک اور‬
‫عبادت گزار قرار دیا ہے جبکہ بابر کی موت کا واقعہ بھی درج کیا ہے کہ کس طرح‬
‫بیٹے کی زندگی بچاتے ہوئے اپنی زندگی کی قربانی دے دی۔ اسی لیے بابر کو عالمگیر‬
‫پر فوقیت دی گئی ہے۔‬
‫‪Alamgir? Oh yes, he was of course the more pious. But Babur--‬‬
‫‪never in his whole life did he betray a friend, so I can only think of‬‬
‫‪him this morning. And you know how he died? He laid down his‬‬
‫‪life for his son. A death far more difficult than battle. They were‬‬
‫‪caught in the heat. They should have gone back to Kabul for the‬‬
‫‪bad weather, but could not for reasons of state, and at Agra‬‬
‫‪Humayun fell sick. Babur walked round the bed three times, and‬‬
‫‪said, 'I have borne it away,' and he did bear it away; the fever left‬‬
‫‪his son and came to him instead, and he died. That is why I prefer‬‬
‫)‪Babur to Alamgir. (49‬‬
‫’’ اوہ ہاں! بالشبہ عالمگیر بڑا پرہیزگار تھا لیکن بابر۔۔۔ اس نے اپنی پوری زندگی‬
‫میں کسی دوست کے ساتھ دغا نہیں کیا۔ اس لیے میں آج صبح سے اسی کے بارے میں‬
‫سوچتا رہا ہوں اور کیا آپ اس کی موت کے بارے میں جانتی ہیں؟ اس نے اپنے بیٹے‬
‫کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ ایک ایسی موت قبول کی جو میدان جنگ سے کہیں زیادہ‬
‫مشکل تھی۔ وہ گرمی کے موسم میں پھنس گئے۔ انہیں اس خراب موسم میں کابل واپس‬
‫چلے جانا چاہیے تھ ا مگر مختلف ریاستی وجوہات کی بنا پر واپس نہ لوٹ سکے اور پھر‬
‫آگرہ مینہمایوں بیمار پڑ گیا۔ بابر نے اس کے بستر کے گرد تین چکر کاٹے اور کہا کہ‬
‫میں نے اس کی بیماری کو اپنے اوپر لیا۔ اور واقعی اس کی تکلیف کو اپنے اوپر اس نے‬
‫لے لیا۔ اس کے بیٹے کے بجائے اسے بخار ہو گیا اور وہ مرگیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں‬
‫بابر کو عالمگیر پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘‬
‫باہمی گفتگو کے دوران مس کیوسٹڈ کچھ انگریز عورتوں کے بارے میں بتاتی ہے‬
‫کہ وہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے بارے میں اچھے خیاالت نہیں رکھتیں۔ اور ساتھ ہی‬
‫وہ اس خدشے کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ کہیں مجھ پر بھی ان کا رنگ نہ چڑھ جائے اور‬
‫میں بھی مقامیوں کو حقیر اور کمتر سمجھنے لگوں ۔ اور پھر وہ خود ہی اس سارے‬
‫مسئلے کا حل اکبر کے ’’دین ٰالہی‘‘ میں ڈھونڈتی ہے جسے وہ عالمگیر مذہب کا نام دیتی‬
‫ہے اور کہتی ہے کہ ہندوستان میں چونکہ کثیر مذاہب کے لوگ آباد ہیں تو ان میں کوئی‬
‫نہ کوئی ایسی قدر مشترک ضرور ہونی چاہے جس پر کسی حد تک سارے لوگ متفق ہو‬
‫سکیں اور ایک دوسرے کے وجود کو انسانی بنیادوں پر ہی سہی برداشت تو کریں۔‬
‫انگریز خواتین سے اس بارے میں گفتگو کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب وہ ڈاکٹر عزیز‬
‫سے اکبر کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں‪:‬‬
‫‪Tell us something about Akbar.‬‬
‫‪Ah, you have heard the name of Akbar. Good. Hamidullah--whom‬‬
‫‪you shall meet--will tell you that Akbar is the greatest of all. I say,‬‬
‫‪'Yes, Akbar is very wonderful, but half a Hindu; he was not a true‬‬
‫‪Moslem,' which makes Hamidullah cry, 'No more was Babur, he‬‬
‫‪drank wine.' But Babur always repented afterwards, which makes‬‬
‫‪the entire difference, and Akbar never repented of the new‬‬
‫"‪religion he invented instead of the Holy Koran.‬‬
‫‪"But wasn't Akbar's new religion very fine? It was to embrace the‬‬
‫"‪whole of India.‬‬
‫‪"Miss Quested, fine but foolish. You keep your religion, I mine.‬‬
‫‪That is the best. Nothing embraces the whole of India, nothing,‬‬
‫"‪nothing, and that was Akbar's mistake.‬‬
‫‪"Oh, do you feel that, Dr. Aziz?" she said thoughtfully. "I hope‬‬
‫‪you're not right. There will have to be something universal in this‬‬
‫‪country--I don't say religion, for I'm not religious, hut something, or‬‬
‫)‪how else are barriers to be broken down? (50‬‬
‫’’ہمیں اکبر کے بارے میں کچھ بتائیے!‬
‫اوہ! تو آپ اکبر کا نام بھی سن چکی ہیں۔اچھا تو حمید ہللا جس سے آپ کی مالقات‬
‫ہو گی وہ آپ کو بتائے گا کہ اکبر ان سب مغلوں میں سے عظیم تر ہے۔ میں تو کہتا ہوں‬
‫کہ اکبر بڑا حیرت انگیز تھا۔ مگر وہ آدھا ہندو تھا۔ وہ ایک سچا مسلمان نہیں تھا۔ وہ شراب‬
‫پی تا تھا۔ مگر بابر کو ہمیشہ اس کے بعد پچھتاوا ہوتا تھا۔ یہی بات دونوں میں تفاوت پیدا‬
‫کرتی ہے۔ اور اکبر کو تو کبھی پچھتاوا نہیں ہوا کہ اس نے قرآن پاک کی بجائے نیا دین‬
‫ایجاد کر لیا۔‬
‫مگر کیا اکبر کا نیا دین بہت عمدہ نہیں تھا۔ یہ تو پورے ہندوستان کو یکجا کرنے‬
‫کے لیے تھا۔‬
‫مس کیوسٹڈ۔ بہت اچھا مگر احمقانہ! تمھارا اپنا مذہب ہے میرا اپنا۔ یہی بہترین ہے۔‬
‫کچھ بھی پورے ہندوستان کو یکجا نہیں کر سکتا۔ کوئی چیز بھی نہیں اور یہ اکبر کی‬
‫غلطی تھی۔‬
‫او ہ ڈاکٹر عزیز کیا تم اس طرح سوچتے ہو؟ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ میرا‬
‫خیال ہے تم درست نہیں ہو۔ اس ملک میں کوئی تو آفاقی اور عالمگیر چیز ہونی چاہیے۔‬
‫میں ہر گز نہیں کہتی کہ یہ مذہب ہی ہو۔ کیوں کہ میں خود مذہبی نہیں ہوں۔ ضرور کوئی‬
‫چیز ہونی چاہیے ورنہ پھر اور کیسے (انسانوں کے درمیان) ان رکاوٹوں کو ختم کیا‬
‫جائے۔‘‘‬
‫ہندو دیو ماال میں کئی طرح کے قصے اور کہانیاں رائج ہیں جیسے کہ تمام اجرام‬
‫فلکی کو وہ دیوتا مانتے ہیں۔ اسی طرح ہندو مذہب میں گائے ایک منفرد اور الگ درجہ‬
‫اور مقام ہے جیسے کہ گائو ماتا کا تصور۔ اسی لیے ہندوئوں کے نزدیک چونکہ گائے‬
‫ایک مقدس جانور ہے اس سے بھی کئی روایات منسوب ہیں۔ ایسی ہی ایک روایت ناول‬
‫کے صفحات میں ملتی ہے جس سے ناول نگار ہندوستانیوں کی توہم پرستی کو اجاگر‬
‫کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک خنجر والے تاالب کی روایتی داستان ہے جس کی‬
‫تان فاسٹر کے مطابق ہر قصے کی طرح گائے پر جا کر ٹوٹتی ہے‪:‬‬
‫‪"That is good, then you saw the Tank of the Dagger." And he‬‬
‫‪related a legend which might have been acceptable if he had told‬‬
‫‪it at the tea-party a fortnight ago. It concerned a Hindu Rajah who‬‬
‫‪had slain his own sister's son, and the dagger with which he‬‬
‫‪performed the deed remained clamped to his hand until in the‬‬
‫‪course of years he came to the Marabar Hills, where he was‬‬
‫‪thirsty and wanted to drink but saw a thirsty cow and ordered the‬‬
‫‪water to be offered to her first, which, when done, "dagger fell‬‬
‫"‪from his hand, and to commemorate miracle he built Tank.‬‬
‫‪Professor Godbole's conversations frequently culminated in a‬‬
‫)‪cow. Fielding received this one in gloomy silence. (51‬‬
‫’’بہت خوب‪ ،‬آپ نے گویا خنجر واال تاالب دیکھا ہے۔ پھر وہ ایسی روایتی داستان‬
‫سنانے لگا‪ ،‬جو اس کے لیے قابل قبول ہوتی اگر وہ پندرہ روز قبل اسے چائے کی دعوت‬
‫کے موقع پر سناتا۔ اس روایت کا تعلق ایک ہندو راجہ سے تھا جس نے اپنے بھانجے کو‬
‫مار ڈاال تھا اور وہ خنجر جس کے ساتھ اس نے قتل کیا تھا اس کے ہاتھ سے چپک کر رہ‬
‫گیا یہاں تک کہ کئی سالوں بعد وہ (راجہ) مارابار کی غاروں کی طرف آیا۔ اسے پیاس‬
‫لگی ہوئی تھی اور وہ پانی پینا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے ایک پیاسی گائے کو دیکھا اور پھر‬
‫حکم دیا کہ اس گائے کو پہلے پانی پالیا جائے۔ اور جب گائے پانی پی چکی تو خنجر اس‬
‫کے ہاتھ سے الگ ہو کر گر پڑا۔ اس معجزے کی یاد میں اس نے یہ تاالب بنوایا۔ پروفیسر‬
‫گاڈبلے کی گفتگو اکثر گائے تک جا پہنچتی۔ فیلڈنگ نے اس قصے کو بھی بڑی خاموشی‬
‫سے سن لیا۔‘‘‬
‫اس کے عالوہ ہندوئوں کے بھجن کا بھی ناول میں ذکر کیا گیا ہے۔ جب پروفیسر‬
‫نرائن گاڈبلے اپنے بھگوان کی عبادت کر رہا تھا۔ ایسے بھگوان کی جس کی ابھی پیدائش‬
‫نہیں ہوئی تھی۔ ایسے وقت میں اس کی خاص ہیئت یہ بتائی گئی ہے کہ اس نے سفید لباس‬
‫زیب تن کر رکھا تھا اور پائوں ننگے تھے۔ پیلے رنگ کی پگڑی سر پر باندھی ہوئی تھی‬
‫اور یاسمین کے پھولوں کے ہار گلے مینڈال رکھے تھے۔ اس مخصوص وضع قطع کے‬
‫ساتھ وہ حسب ذیل بھجن اپنی پوری آواز میں االپتا ہے‪:‬‬
‫‪Tukaram, Tukaram,‬‬
‫‪Thou art my father and mother and everybody.‬‬
‫)‪Tukaram, Tukaram, ................. (52‬‬
‫’’ٹکا رام‪ ،‬ٹکا رام‬
‫تو میرا باپ‪ ،‬تو میری ماں‪ ،‬میرا سب کچھ تو ہی ہے‬
‫ٹکا رام‪ ،‬ٹکا رام۔۔۔۔۔۔‘‘‬
‫ہندوستان باطنیت کا گہوارہ رہا ہے چنانچہ جب اسالمی تصوف ہندوستان پہنچا تو‬
‫یہاں کے لوگوں کو اس میں اپنے روحانی عقائد کی جھلک پہچاننے میں دیر نہ لگی۔‬
‫بھگتی تحریک ہو یا صوفی ازم‪ ،‬دونوں ہی خانقاہی کلچر کے فروغ میں پیش پیش تھے۔‬
‫ایسی ہی روحانی تحریکوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کی بنیادی وحدت پر زور دیا اور‬
‫ان دونوں کے اشتراک سے تہذیبی اختالط کے ایک اور باب کا آغاز ہوا۔ اس کے اثرات‬
‫اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ‬
‫ہندوئوں کے تہواروں مینمسلمانوں نے بھی شرکت شروع کر دی اور ہندوئوں نے‬
‫مسلمانوں کے تہواروں کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کر دیا۔ ایسے میں عرس‪ ،‬خانقاہیں‬
‫اور قوالی وغیرہ کے اجتماعات میں ہندو اور مسلمان ذوق و شوق سے شریک ہونے‬
‫لگے۔ خاص طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ مشترک تہذیب کا سب سے بھرپور اظہار اس‬
‫کے جمالیاتی یعنی موسیقی‪ ،‬مصوری‪ ،‬فنون لطیفہ اور فن تعمیر میں بھرپور طریقے سے‬
‫سامنے آیا۔ ایسے ہی منظر نامے میں خانقاہیں اور مزارات کی موجودگی اور ان کے ساتھ‬
‫جڑی روایات اور کرشمات و معجزات کی داستانیں بھی اسی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ‬
‫ہیں۔ ایسے ہی ایک مجذوب فقیر اور اس کی خانقاہ کا ذکر اے پیسج ٹو انڈیا کے صفحات‬
‫مینکچھ یوں ملتا ہے‪:‬‬
‫‪Long before he discovered Mau, another young Mohammedan‬‬
‫‪had retired there--a saint. His mother said to him, "Free‬‬
‫‪prisoners." So he took a sword and went up to the fort. He‬‬
‫‪unlocked a door, and the prisoners streamed out and resumed‬‬
‫‪their previous occupations, but the police were too much annoyed‬‬
‫‪and cut off the young man's head. Ignoring its absence, lie made‬‬
‫‪his way over the rocks that separate the fort and the town, killing‬‬
‫‪policemen as he went, and he fell outside his mother's house,‬‬
‫‪having accomplished her orders. Consequently there are two‬‬
‫‪shrines to him to-day--that of the Head above, and that of the‬‬
‫‪Body below--and they are worshipped by the few Mohammedans‬‬
‫)‪who live near, and by Hindus also.(53‬‬
‫’’اس (عزیز) کے مہائو آنے سے طویل عرصہ قبل ایک مسلمان جو کہ ایک‬
‫صوفی بزرگ تھا وہاں آ چکا تھا۔ اس کی ماں نے اسے کہاتھا کہ قیدیوں کو آزادی دالئو۔‬
‫اس لیے اس نے تلوار لی اور قلعے کی طرف بڑھا۔ اس نے دروازہ کھوال اور قیدی باہر‬
‫نکل آئے۔ اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ لیکن پولیس کو بہت غصہ آیا اور اس نے‬
‫نوجو ان کا سر کاٹ دیا۔ مگر وہ اپنا سر موجود نہ ہونے کے باوجود‪ ،‬وہ چٹانوں سے‬
‫راستہ بناتا ہوا قصبے کی طرف بڑھا اور راستے میں وہ سپاہیوں کو بھی قتل کرتا گیا۔‬
‫اور آخر کار اپنی ماں کے گھر کے باہر گر پڑا۔ مگر ماں کے حکم کو پورا کر چکا تھا۔‬
‫نتیجتا ً آج اس کے دو مزار ہیں۔ سربلندی والے حصے میں جبکہ باقی جسم نشیب میں۔ اور‬
‫قریبی عالقے میں رہائش پذیر ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس کے مزار پر حاضری دیتے‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فاسٹر اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ مگر ایک بات‬
‫بڑی اہم ہے جب فاسٹر اس تبصرے میں اپنی یہ رائے بھی شامل کرتے ہیں کہ عزیز نے‬
‫اپنے بچوں کو بڑے محتاط انداز میں یہ ساری روایت سنائی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ‬
‫اس کے بچے کسی قسم کی توہم پرستی کاشکار ہوں۔‬
‫‪He didn't want them to grow up superstitious, so he rebuked‬‬
‫)‪them. (54‬‬
‫بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ناول کو فکری سطح پر دیکھا جائے تو‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول میں بیک وقت تہذیب‪ ،‬ثقافت‪ ،‬تاریخ‪ ،‬سیاست‪ ،‬ادب‪ ،‬موسیقی‪،‬‬
‫فنون لطیفہ‪ ،‬عمرانیات‪ ،‬مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ برصغیر‬
‫پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ‬
‫ساتھ مقامی افراد کی انفرادی نفسیات اور حاالت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس میں‬
‫سماجی‪ ،‬نسلی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬سیاسی اور مذہبی اونچ نیچ سے متعلق لوگوں کی سوچ اور جذبات‬
‫کو نہایت فنکارانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس ناول‬
‫میں ہندوستانی حیات اور معاشرت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی‬
‫بھرپور کوشش کی ہے۔ اگرچہ اس ناول کا متن گہری عالمتیں اپنے دامن میں سمیٹے‬
‫ہوئے ہے اور اس میں کسی حد تک تصوف کی آمیزش بھی کی گئی ہے مگر بنیادی طور‬
‫پر ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو دریافت‬
‫کرنے کا عمل بھی ہے۔ اسی لیے فاسٹر اسی عہد میں ہندوستان میں موجود دو مختلف‬
‫معاشروں اور ان کی اقدار و روایات کو بیان کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے ہیں‬
‫یعنی مقامی آبادی سے انگریز یعنی نوآبادکار کس طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی‬
‫اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی ناول میں زیر بحث التے ہیں کہ‬
‫برصغیر کی سرزمین پر ہر دور میں مختلف رنگ‪ ،‬نسل‪ ،‬ثقافت و مذہب کے لوگ آباد‬
‫رہے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے ہیں ان کے درمیان‬
‫تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو ان کے درمیان حائل ہیں۔‬
‫ہمارے سامنے ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی یہ رائے بھی آتی ہے جو انہوں نے اپنے غیر‬
‫مطبوعہ انگریزی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ‪"India and the near East in English‬‬
‫"‪Literature from the Earliest‬میں ای ایم فاسٹر کے اس ناول کے بارے میں دی‬
‫ہے۔ ان کے مطابق‪:‬‬
‫’’پہلی جنگ عظیم ‪1941‬ء بین االقوامیت )‪ (Internationalism‬کا پیغام الئی۔‬
‫اس دور کے انگریزی ناول ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے‬
‫بعد انگریزی ادب میں مشرق کے بارے میں ایک نیا رویہ نظر آتا ہے جو پہلے رابرٹ‬
‫برجز )‪ (Robert Bridges‬کی شاعری میں ظاہر ہوا۔ اور اس کے بعد ای ایم فاسٹر کے‬
‫ناول ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ ای ایم فاسٹر کا سیاسی ناول‬
‫ہے جس میں برطانیہ کی برصغیر پر یورش کے حقائق کو بالتفصیل بیان کیا گیا ہے۔‘‘‬
‫(‪)۵۵‬‬
‫اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فاسٹر نے اگرچہ مقامی تہذیب و معاشرت کو‬
‫ہمدردانہ رویے سے پیش کرنے کی سعی کی ہے مگر ساتھ ہی اس نے بھی سفید فام‬
‫نوآبادکاروں کی برتری کے نظریے کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی‬
‫تہذیب و ثقافت کو برتر جبکہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو بین السطور کم تر ثابت کرنے‬
‫خطہ ارضی کو بھی کم دلکش قرار‬ ‫ٔ‬ ‫کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں اس نے ہندوستان کے‬
‫دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر کی ہے۔‬
‫اس کے مقابلے مینانگریزوں کی اہمیت یہ کہہ کر اجاگر کی ہے کہ وہ بہترین منتظم‪،‬‬
‫سنجی دہ فکر اور ذمہ دار لوگ ہیں جبکہ اس کے علی الرغم ہندوستانی سرزمین بنجر اور‬
‫یہاں کے لوگ کم حوصلہ‪ ،‬نااہل‪ ،‬جذباتی‪ ،‬غیر معقول اور جلد اشتعال میں آنے والے ہیں۔‬
‫دوسرے لفظونمیں یہ وہی فلسفہ ہے جو ہندوستان میں انگریزی راج کو بجا ثابت کرنے‬
‫اور اسے دوام بخشنے کے لیے دوسرے مصنفین نے بھی اپنے تحریروں میں اجاگر کیا‬
‫ہے۔ یہی وہ سامراجیوں کی منافقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ فرانز فنین (‪1961‬ء۔‪1925‬ء)‬
‫نے بھی تفصیالً کیا ہے۔ اور اس کا اطالق ناول زیر مطالعہ پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیوں‬
‫کہ یہی وہ طریقہ کا ر ہے جس کے ذریعے مقامی آبادی کو رام کیا جاتاہے۔ اسی حوالے‬
‫سے ڈاکٹر علی شریعتی بھی واضح کرتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ مغربی استعمار کی خطرناک ترین‪ ،‬ناشناختہ ترین اور پوشیدہ ترین شکل اس کا‬
‫ثقافتی‪ ،‬فکری امپیریلزم ہے جو پہلے تو دیگر اقوام کی فکر‪ ،‬تعصب اور سوچ کو ختم‬
‫کرتا ہے‪ ،‬دوسرے معاشرے میں اپنا نفوذ کرنے اور اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی‬
‫بھرپور کوششوں کے بعد اقتصادی اور فوجی یلغار کرتا ہے۔ ثقافتی لبرلزم ہی استعمار کی‬
‫خاطر فوجی چڑھائی کرنے کے ذریعے مکمل قبضہ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔‘‘ (‪)۵۶‬‬
‫اسی ناول میں فاسٹرنے ہندوستانی اور یورپی اقوام کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی‬
‫بین السطور پیش کیا ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت کے مابین کشمکش اور تصادم کی کیفیت‬
‫کو ظاہر کیا ہے۔ جبکہ اسالم کا تعارف مسلمان کردار عزیز کے ذریعے کچھ یوں کرایا‬
‫ہے کہ اسالم صرف مسجد تک ہی محدود ہے۔ عزیز کو شاندار ماضی کی عظیم یادوں‬
‫میں کھویا ہوا دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اب عظمت رفتہ کے اسیر‬
‫ہو چکے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عزیز کو اسالم کی موجود شکل کے ساتھ تصادم کی‬
‫صورتحال پیش آتی ہے اور وہ احساس تحفظ جو اس کو اسالمی تشخص فراہم کرتا ہے‬
‫لمحہ موجود میں کہیں نظر نہیں آتا۔ بلکہ وہ تشخص بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے‬
‫ٔ‬ ‫اس کو‬
‫اور اس عظیم مذہب کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اب عزیز دو‬
‫دنیائوں کے مابین یوں تقسیم دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف تو اسالم کی شاندار روایات‬
‫کی یادیں ہیں جو اس کے قلب و ذہن پر نقش ہیں جبکہ دوسری طرف اس کے ذہن میں‬
‫اس عظیم ماضی کے خالف باغیانہ خیاالت بھی پنپ رہے ہیں۔ یوں ہمارے سامنے‬
‫مسلمانوں کی ایسی تصویر آتی ہے جس کے مطابق انہیں ماضی کا اسیر دکھایا گیا ہے۔‬
‫اور اسالم ایسا مذہب دکھائی دیتا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اپنے ماننے والوں‬
‫پر پردہ جیسی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اور انہیں ماضی کا اسیر بنا کر حال سے ہم آہنگ‬
‫ہونے کی تعلیم فراہم نہیں کرتا۔ اور یوں اسالم ایک بوسیدہ مذہب اور تعفن زدہ جوہڑ کی‬
‫شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج اس کی موجوں میں اضطراب ارو تحرک مفقود ہے۔ ٰلہذا‬
‫ایسے مذہب کو آج کی جدید اور مہذب دنیا کے منظرنامے سے ہٹا دینا چاہیے۔‬
‫جبکہ ہندوستان کی ارضی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے اسے بنجر اور ویران‬
‫دکھایا گیا ہے۔ موسموں تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جیسے کہ اپریل کو خوفناک‬
‫مہینہ قرار دیا ہے‪"April is month of horror" ،‬۔ اس کے درختوں کو گھٹیا کوالٹی‬
‫کی ج ھاڑیاں کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہاں تک کہا‬
‫گیا ہے کہ یہاں سورج بغیر کسی عظمت اور شان و شوکت کے طلوع ہوتا ہے ‪"The‬‬
‫"‪sun rises devoid of splendor‬۔‬
‫ارضی صورتحال کے عالوہ یہاں کے باشندوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‬
‫اور یہ بت ایا گیا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں مقامی لوگ اسے کنٹرول کرنے کی‬
‫بجائے خود ایک ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں مبتال ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس‬
‫اسی قسم کی صورت حال میں انگریز اپنے حواسوں پر نہ صرف قابو رکھتے ہیں بلکہ‬
‫بڑے ہی سنجیدہ اور صوبر ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستانی شوریدہ سری میں بہکی بہکی باتیں‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫برطانوی ہندوستان کو حسن ترتیب کی مثال قرار دیا گیا ہے جبکہ مقامی قدیمی‬
‫ہندوستان کو غیر منطقی اور توہم پرست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عالوہ ازیں‬
‫انگریز نوآبادیاتی اشرافیہ اور ہندوستان کی مقامی آبادی کے درمیان باہمی تعلقات کی‬
‫نوعیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نوآبادکار ہندوستانی محکوموں کی اس طرح‬
‫عزت روا نہیں رکھتے جس کی توقع ہندوستانی ان سے کرتے ہیں۔‬
‫ٰلہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہا س ناول میں ہندمسلم تہذیب کی استحضاریت ہو یا‬
‫مقامی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ۔ فاسٹر جب اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے یہ رائے‬
‫دیتے ہوئے نظر آتے ہیں "‪ "England holds India for her good‬کہ انگلستان کا‬
‫ہندوستان پر قبضہ اس کے سدھار اور بہتری کے لیے ہی ہے تو قاری کے ذہن میں‬
‫رڈیارڈ کپلنگ کے مشہور فلسفہ ’’سفید فام نسل کا بوجھ "‪‘‘ "White Man's burden‬‬
‫کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگرچہ طریقہ کار اور انداز بیاں مختلف ہی کیوں نہ ہو۔‬

‫رڈیارڈ کپلنگ‬
‫ناول ِکم ‪ Kim‬و دیگر کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت‬
‫بعض انگریز مصنفین ہندوستان کی ثقافت اور روحانی فضا سے کچھ اس طرح‬
‫متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحریروں میں ایک نیا رنگ دیا۔ ایسے‬
‫ہی نمایاں لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ اور ای ایم فاسٹر جیسے لوگ شامل ہیں جنہوں‬
‫نے اپنی تخلیقات میں ہندوستان کی بھر پور عکاسی کی۔ یونبرطانوی زیر تسلط ہندوستان‬
‫کے متعلق تحریریں ہی ان کی پہچان بن گئیں۔ جوزف رڈیارڈ کپلنگ ایک انتہائی اہم‬
‫مصنف اور تخلیق کار ہیں جو ‪۳۰‬دسمبر ‪۱۸۶۵‬ء بمبئی (حالیہ ممبئی) میں ایک برطانوی‬
‫جوڑے ایلس کنگ )‪ (Alice Kipling‬اور جان الک وڈ کپلنگ کے ہاں متولد ہوئے۔ اپنی‬
‫جائے پیدائش سے محبت بھرے تعلق اور جذبات کا اظہار انہوں نے بمبئی شہر کے متعلق‬
‫ایک نظم لکھ کر کیا جس کی چند سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہر سے ان کی‬
‫وابستگی کتنی محبت بھری تھی اور ساتھ ہی بمبئی کی بطور بندرگاہ اہمیت کا بھی پتہ‬
‫چلتا ہے۔‬
‫‪Mother of cities to me for I was born in her gate between the‬‬
‫‪Palms and the sea where the world steamers wait.‬‬
‫پانچ برس کی عمر میں اپنی ہمشیرہ کے ساتھ انہیں انگلینڈ روانہ کر دیا گیا۔ وہاں‬
‫زمانہ طالب علمی میں کچھ تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر سکول سے نکل کر یونائیٹڈ‬
‫ٔ‬
‫سروس کالج میں داخل ہو گیا۔ جس کے ماحول نے اسے ‪ Stalky & Co‬جیسے کہانیوں‬
‫کی کتاب کے لیے مواد فراہم کیا۔ بعد ازاں اس کی مالقات اس کی بہن‪ Trix‬کی دوست‬
‫)‪(Florence Garrard‬سے ہوئی اور کپلنگ کے پہلے ناول ‪The Light that‬‬
‫‪Failed‬کے کردار ‪ Maisic‬کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ جس سے ہمیں یہ بھی پتہ‬
‫چلتا ہے کہ اس کے بیشتر کردار اور واقعات اس کی حقیقی زندگی میں سے ہی لیے‬
‫گئے۔ اس کے بعد اس کے والد نے اُسے ہندوستان طلب کرلیا اور اسے الہور میں‬
‫مالزمت دال دی۔ جب کہ وہ خود بھی الہور میوزیم میں کیوریٹر کے فرائض سرانجام دے‬
‫رہے تھے۔ الہور میں قیام کے دوران کپلنگ نے سول ملٹری گزٹ میں بطور اسسٹنٹ‬
‫ایڈیٹر کام کیا اور اس اخبار کو اپنی پہلی محبوبہ قرار دیا جس سے اس کی محبت سچی‬
‫تھی۔ )‪ (Mistress and most true love‬اسی عرصہ قیام میں الہور میں اس کی پہلی‬
‫نثری کتاب ‪۱۸۸۶‬ء میں "‪ "The Departmental Ditties‬شائع ہوئی۔ اس کا خاندان ہر‬
‫سال شملہ کے پہاڑی مقام پر چھٹیوں میں ایک مہینے کے لیے اقامت پذیر ہوتا تھا۔ سو‬
‫اس کے انہی تجربات کو بھی اس کی کہانیوں میں جگہ ملی۔ اس کے بعد ‪۱۸۸۸‬ء میں اس‬
‫کی کتاب "‪ "Plain tales from the hills‬شائع ہوئی۔ اس کے بعد کپلنگ نے الہ آباد‬
‫میں ایک بڑے اخبار دی پائینر "‪ "The Pioneer‬کے لیے کام شروع کردیا۔ اسی‬
‫عرصے میں اس کا ادبی کیریئر عروج پر تھا کیوں کہ ‪۱۸۸۸‬ء میں اس کی شارٹ‬
‫اسٹوریز کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ‪۱۸۸۹‬ء کے اوائل میں وہ انگلستان روانہ ہو گیا‬
‫مگر اس وقت تک انگلستان کے ادبی حلقے اس سے ناواقف ہی تھے۔ لندن میں ہی اس‬
‫کے ناول ‪ The Light that Failed‬کے بعد اپنے برادر نسبتی ‪Wolcott Balestier‬‬
‫کی معاونت سے نولکھا "‪ "Naulakha‬تحریر کیا۔ اس کے بعد کپلنگ اپنی بیوی کے‬
‫ہمراہ امریکہ روانہ ہو گیا اور ‪ Bliss Cottage‬میں قیام کے دوران ‪The Jungle‬‬
‫‪Book‬تحریر کی۔ ‪۱۹۰۷‬ء میں کپلنگ کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔‬
‫زیر تحقیق ناول ِکم بنیادی طور پر "‪ "Mcclure‬میگزین میں دسمبر ‪۱۹۰۰‬ء سے‬
‫اکتوبر ‪۱۹۰۱‬ء تک سلسلہ وار شائع ہوتا رہا۔ جبکہ ‪ Cassell‬میگزین میں بھی ‪۱۹۰۱‬ء‬
‫میں اشاعت پذیر ہوا۔ اسی سال میکملن اینڈ کمپنی نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔‬
‫’’کم‘‘ رڈیارڈ کپلنگ کی حیات اور کیریئر میں اتنا ہی ممتاز اور نمایاں ہے جیسا کہ‬
‫انگریزی ادب میں خود اس کا اپنا مقام ہے اور اس کے طویل فکشن میں یہ ناول ہر پہلو‬
‫سے واحد کامیاب مثال ہے۔ ناول کے پالٹ کی تشکیل میں دوسرے عناصر کے عالوہ‬
‫روس اور برطانیہ کی سیاسی چپقلش بھی شامل ہے جسے ناول میں عظیم سیاسی کھیل‬
‫"‪ "Great game‬کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ تاریخی واقعات کو‬
‫بھی ناول کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ تاریخ کا ناول میں شامل کرنا‬
‫ماضی کو تاریخی رنگ میں پیش کرنااور سماج کی عکاسی کرنا‪ ،‬یہ سب عناصر مل کر‬
‫ناول کے بیانیے کو جاندار بناتے ہیں۔ ایسے ہی کپلنگ کا ِکم بھی ہے۔ ناول میں دو‬
‫مرکزی کردار ہیں ایک نوجوان کمبال او ہارا جو کہ ہندوستانی فوج کے سارجنٹ کا یتیم‬
‫بیٹا ہے جبکہ دوسرا بوڑھا تبتی درویش الما ہے۔ اسی الما کا چیال بن کر ِکم پورے‬
‫ہندوستان میں گھومتا پھرتا ہے کیوں کہ الما کو ایک ایسے دریا کی تالش ہے جس میں‬
‫نہا کر وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔‬
‫الہور عجائب گھر کے باہر رکھی زمزمہ توپ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کا یہ‬
‫سفر بوڑھے تبتی درویش کے ہمراہ جاری رہتا ہے اور پھر عظیم کھیل کا حصہ بن کر‬
‫اس کی مالقات کئی لوگوں سے ہوتی ہے جن میں گھوڑوں کا افغان تاجر محبوب علی‬
‫کرنل کریٹن‪ ،‬لرگان اور ہوری بابو شامل ہیں۔ اسی گریٹ گیم میں ِکم برطانوی خفیہ‬
‫ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے جن کا مقصد شمالی پنجاب میں روسی سازش کے‬
‫ذریعے پھیالئی جانے والی بغاوت کو ناکام بنانا ہے۔ اسی دوران ِکم کی اصلیت ظاہر‬
‫ہونے پر اسے ‪ St. Xavier‬سینٹ زاویئر سکول میں تعلیم کے حصول کے لیے داخل کر‬
‫ادیا جاتا ہے جبکہ چھٹیوں میں وہ اپنے گروہ کے ہمراہ سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ ِکم اور‬
‫بوڑھا روس ی جاسوسوں سے ملتے ہیں اور لڑکا ان کے کچھ کاغذات چرا لیتا ہے مگر وہ‬
‫دونوں پکڑے جاتے ہیں اور بہت دکھ محسوس کرتے ہیں اور اسی پریشانی میں بیماری‬
‫میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ مگر ِکم کی روحانی شفائی خوبیوں کی وجہ سے وہ دوبارہ صحت‬
‫مند ہو جاتے ہیں اور بوڑھے کو یہ ادراک بھی ہوتا ہے کہ اسے ِکم کے ذریعے مطلوبہ‬
‫دریا مل گیا ہے۔‬
‫کپلنگ کا تناظر اس ناول میں بہت وسیع ہے اور وہ اس ملک‪ ،‬اس کے باشندوں‪،‬‬
‫معاشرے‪ ،‬پہاڑوں میدانوں کو اپنے گہرے مشاہدے کی بنا پر دامن قرطاس میں یوں اجا‬
‫گر کیا ہے کہ پوری تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور یہ ایسی تصویر‬
‫ہے جس میں اس کے متنوع رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اپنی جائے پیدا‬
‫ئش کے متعلق اسی ناول میں کپلنگ اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪A fair land... a most beautiful land in this of Hind... and the land of‬‬
‫)‪the five rivers is fairer than all. (57‬‬
‫’’ یہ ایک خوبصورت سرزمین ہے اور ہندوستان کی سب سے پیاری سر زمین۔ یہ‬
‫پانچ دریائوں کی سرزمین سب سے اچھی۔‘‘‬
‫یہ ناول انگریزی ادب میں تاریخی لمحات کے حوالے سے اہم دستاویزبھی ہے اور‬
‫سنگ میل بھی۔ ایڈورڈ سعید نے بھی اسے بقول نور حسین ’’روایت کی ایجاد‘‘‬ ‫ِ‬ ‫جمالیاتی‬
‫کہا ہے۔‬
‫‪Kim as a major contribution to this orientalized India or‬‬
‫‪imagination, as it is also to what historians have come to call‬‬
‫)‪invention of tradition. (58‬‬
‫جب کہ یہ ناول محض ایک پروپیگنڈہ نہیں بلکہ کپلنگ کے عہد وکٹوریہ کے‬
‫ہندوستان کے حوالے سے گہرے مشاہدے کا عکاس ہے۔ اس ناول کے ذریعے بادی النظر‬
‫میں اس ملک اور اس کے باشندوں کے لیے مصنف کی محبت کے جذبات بھی عیاں‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫جیسا کہ "‪ "I an Makean Kipling‬نے تحریر کیا ہے کہ یہ ناول‪:‬‬
‫‪The Novel, embodies a panoromic celebration of Indian,‬‬
‫‪presenting as it is does, a magnificient picture of its landscspes,‬‬
‫‪both urban and rural, and a fascinating array of Native characters‬‬
‫)‪who for the most part, are warm, generous and tolerant. (59‬‬
‫’’یہ ناول ہندوستان کی خوبصورت اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے جیسا کہ‬
‫یہ ہے‪ ،‬اس کے میدانوں‪ ،‬دیہاتوں اورشہروں کے مناظر کی شاندار تصویر کشی کرتا ہے‬
‫اور مقامی کرداروں کی دلکش قطار جن میں سے اکثر پُرجوش‪ ،‬فیاض اور بردبار ہیں۔‘‘‬
‫کپلنگ کے زیر مطالعہ ناول ِکم اور دوسری منتخب کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب‬
‫اور اس کے مختلف عناصر کے جائزے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی‬
‫حوالے سے کپلنگ کے ’’خدا‘‘ اور ’’ہللا‘‘ کے بارے میں نظریات و خیاالت کاجائزہ اس‬
‫کی ایک مشہور نظم‪ The Two-Sided Man‬کے تناظر میں پیش کیا جائے۔ کپلنگ نے‬
‫مذکورہ نظم کے پہلے اور آخری بند کو ِکم کے آٹھویں باب کے آغاز میں شامل کیا ہے‪:‬‬
‫‪Much I reflect on teh good and the true. In the faiths beneath the‬‬
‫‪sun but most upon Allah who gave me two sides to my head, not‬‬
‫‪one.‬‬
‫‪Here is health, my brothers, to you. However your prayers are‬‬
‫‪said, and praised be Allah, who gave me two separate sides to‬‬
‫‪my head.‬‬
‫)‪(Stanza 3, 5) (60‬‬
‫اس نظم کے مذکورہ باال وسطی بندوں کے اندر کپلنگ کے وسیع المشرب مذہبی‬
‫عقائد و نظریات کی جھلک نظر آتی ہے جن کا دخل اس کی عملی زندگی میں بھی تھا اور‬
‫اس کا عکس اس کی ادبی تخلیقات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ حاالنکہ کئی نقادوں نے‬
‫کپلنگ کی تخلیقات کو مذہبی عنصر سے خالی دکھایا ہے جن میں بشمول ایڈورڈ سعید بھی‬
‫اسی رائے کا مویّد نظر آتا ہے کیونکہ ایک وقت آتا ہے کہ ِکم کو اپنے تشخص کی تالش‬
‫مضطرب کرتی ہے اور انفرادی سطح پر ایک قسم کا شناختی بحران درپیش آتا ہے اور‬
‫ہمیں وہ اپنے باطن میں ایک ثقافتی آشوب کا شکار نظر آتا ہے۔ یہاں ہمیں ایک برطانوی‬
‫سپاہی اور آئرش ماں کا یتیم بیٹا کبھی ہندو کبھی مسلم‪ ،‬کبھی بدھ کبھی سویلین یا فوجی‬
‫اور کبھی سکول کے طالب علم کا روپ دھارتے نظر آتا ہے اور بنیادی طور پر تین‬
‫کردار سرانجام دیتا ہے۔ چیال‪ ،‬طالب علم اور جاسوس۔ جبکہ کپلنگ کی وسیع المشربی‬
‫کے بالمقابل مسلمانوں کی سماجی سطح کی وسیع المشربی اور ان کے مذہب عقائد اور‬
‫تاریخ کے گہرے احساس کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دیکھیں تو خود بخود ایک ثقافتی‬
‫تشخص کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔ ناول کی یہ سطور ہمیں کپلنگ کی مختلف جہتوں‬
‫سے آگاہی دیتی ہیں۔‬
‫ـ ‪In the course of Novel Kim, (The Orphan Son of a British Soldier‬‬
‫‪and an Irish Mother)... dresses alternately as a Hindu, Muslim,‬‬
‫‪Buddhist and Eurasian, as well as British civilian, soldier and‬‬
‫)‪school boy and plays the main roles. (61‬‬
‫اگرچہ یہ بنیادی طور پر سفری اور مہماتی قسم کا ناول ہے مگر اس کے ساتھ‬
‫ساتھ معاشرے کے کثیر طبقات کا بھرپور عکاس بھی ہے ان متنوع طبقات اور مذاہب کے‬
‫نمائندہ کرداروں کی عکاسی سے بڑا واضح ثقافتی نقش ابھر کر سامنے آتا ہے اور ایک‬
‫نوک قلم سے‬‫ِ‬ ‫تمدن کی عکاسی ہی اس کا حقیقی جوہر ہے۔ کوچہ و بازار کے چلن کو بھی‬
‫مصور کیا اور یوں ایک مکمل معاشرت کا احاطہ کچھ قیود کے ساتھ کیا۔ اسی لیے کپلنگ‬
‫کا کمال اس کی معاشرتی عکاسی میں پنہاں ہے۔ ہر طرف زندہ اور جیتے جاگتے لوگ‬
‫ہیں۔ وقت گزرن ے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی شکست و ریخت ہوتی رہتی ہے۔ اس پر کسی‬
‫کا زور نہیں۔ مگر ان کرداروں کے ذریعے معاصر معاشرے کی تمام تر صورت حال‬
‫ہماری بصارت اور سماعت کے دائروں میں متشکل ہو تی ہے۔ اس سے ہمیں بھی آگاہی‬
‫ملتی ہے کہ ان سماجی رویوں کے مطالعے کے لیے انہیں ایک وسیع میدان میسر آیا اور‬
‫اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ کپلنگ کی اس صالحیت کی تعریف ہنری‬
‫جیمس نے ’’خطوط‘‘ کی جلد چہارم (‪۱۹۱۶‬ء ۔ ‪۱۸۹۵‬ء) مطبوعہ کیمبرج پریس ‪۱۹۸۴‬ء‬
‫میں "‪ "Richness of the Characters‬اور ‪"The liveliness of their journey‬‬
‫جیسے الفاظ کے ساتھ کی ہے‬
‫ہند مسلم تہذیب ایک وسیع تر بنیاد رکھنے والی تہذیب ہے اور یہ اسی وسعت کا‬
‫جواز ہے کہ ہمارا مذہب(اسالم ) صرف ایک عقیدہ نہیں اس کی ایک تہذیبی اور معاشرتی‬
‫جہت بھی ہے۔ جو ابتدا سے ہی رد و قبول کے نظام کے ساتھ تہذیبی اور تمدنی سانچوں‬
‫کے اندر اپنے رویوں کو منتقل کرتی نظر آتی ہے۔ برصغیر کا معاشرہ کثیر النسل اور‬
‫کثیر المذاہب معاشرہ ہے۔ جو کہ اس کی معاشرتی جمالیات کا ایک خوبصورت منظرنامہ‬
‫ہے اسی منظر نامے مینناول نگار کے کرداروں کے تنوع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک‬
‫طرف تبتی بدھ الما کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف محبوب علی ایک افغان‬
‫مسلم گھوڑوں کا تاجر موجود نظر آتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ ہی ایک بنگالی ہندو ہری چند‬
‫مکر جی اور پروٹسٹنٹ اور کیتھولک پادری مسٹر بینٹ )‪ (Bennet‬اور فادر وکٹر‬
‫)‪(Victor‬ساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور یہ متاثر کن منظر سامنے آتا ہے کہ وہ‬
‫اپنے کرداروں اور کلچر میں مسلم‪ ،‬بدھ‪ ،‬انگریز اور جین مذہب کے پیروکاروں کو ایک‬
‫ہی قطار میں صف بستہ کھڑے دکھائی دیتا ہے‪ ،‬اور بھول جاتا ہے کہ ’’وہ اسالمی انداز‬
‫میں اپنے گرو کے پائوں چھونے کے جھکا ہوا ہے اور وہ بھی مندر کے باہر۔‘‘‬
‫‪Even the Great Game as he stooped, Muhammadan fashion in‬‬
‫)‪the dust of the Jain Temple. (62‬‬
‫یہاں کپلنگ سے متعلق یہ ذکر برمحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود عیسائی مذہب کا‬
‫پیروکار تھا مگر دنیا کے تمام بڑے مذاہب سے نہ صرف آگاہی رکھتا تھا بلکہ وہ ان کی‬
‫بیرونی اور ظاہری رسومات کے بجائے ان کی باطنی اور حقیقی روح سے متاثر دکھائی‬
‫دیتا ہے ان تمام عالمگیر مذاہب میں سے وہ کرسچین مذہب کی روایت میں سے انجیل‬
‫مقدس کی تعلیمات جیسے قربانی کی قدرواہمیت اور درس محبت سے متاثر ہوتا ہے۔‬
‫جبکہ اسالم کا مثبت طرز فکر و عمل پر زور دینااور نظم و ضبط کا پابند بنانا اس کو‬
‫متاثر کرتا ہے۔ جبکہ ہندوازم کی مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ منفی تصورات پر‬
‫بھی اس کا ردعمل سامنے آیا ہے جیسے کہ ہندوئوں کا زندگی کے بارے میں فراریت اور‬
‫رہبانیت پر مبنی رویہ اسے پسند نہیں آیا۔ پھر اس کا ذات پات کی سخت حدود و قیود میں‬
‫جکڑا ہوا سماجی نظام بھی اسے متاثر نہیں کر سکا۔ مگر بد ھ ازم کو اس نے ہندوازم پر‬
‫فوقیت دی ہے اور اسے یہ نظام زیادہ بہتر لگا۔ دراصل فری میسن نظام‬
‫)‪ (Freemasonry‬سے وابستگی نے اس کے اندر مذاہب عالم سے فطری ہمدردی کا‬
‫جذبہ پیدا کیا اور وہ عالمگیر اخالقی اقدار اور انسانی بھائی چارے کا قائل ہو گیا۔ اسی‬
‫لیے وہ کہتا ہے کہ ’’عقائد و مسالک میرے نزدیک گھوڑے کے گوشت کی طرح ہیں۔‬
‫عقلمند آدمی جانتا ہے کہ گھوڑے اچھے ہوتے ہیں۔ اور سب ہی ان سے مستفید ہوتے ہیں‬
‫اور یہ سب کے لیے منافع بخش بھی۔۔۔ اس لیے میرے دل میں یہ مذاہب گھوڑوں کی‬
‫طرح ہیں۔۔۔ اپنے اپنے خطے میں ہر ایک کی اپنی خوبیاں اور خصوصیات ہیں۔‘‘‬
‫‪This matter of creeds is like horse-flesh. The wise man knows that‬‬
‫‪horses are good... that there is a profit to be made from all...‬‬
‫‪therefore I say in my heart the faiths are like horses. Each has‬‬
‫)‪merit in its own country. (63‬‬
‫اسی لیے اس ناول مینمذاہب کا تقابل اور ان مذاہب کے اخالقی تصورات اس‬
‫نوجوان کے ساتھ ساتھ عمر بھر رہتے ہیں۔ بلوغت کے بعد اسے اپنی ذات اور شناخت کی‬
‫کھوج پر مجبور کرتے ہیں۔‬
‫ناول کے ابتدائی صفحات پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں کچھ اس طرح کے منظر‬
‫نامے سے واسطہ پڑتا ہے کہ ایک ‪14‬سالہ یتیم آئرش بچہ ِکم الہور کے عجائب گھر کے‬
‫باہر رکھی ہوئی زمزمہ توپ کے اوپر دونوں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے ایسا کرتے ہوئے وہ‬
‫میونسپل کمیٹی کے احکامات بھی ہوا میں اڑا رہا ہے اور اس زمزمہ توپ کو آگ اگلنے‬
‫واال اژدھا قرار دیا ہے۔‬
‫‪He sat, in defiance of municipal orders, astride the gun Zam-‬‬
‫‪Zammah on her brick platform opposite the old Ajaib-Gher - the‬‬
‫‪Wonder House, as the natives call the Lahore Museum. who hold‬‬
‫)‪Zam-Zammah, that 'fire-breathing dragon'. (64‬‬
‫ان ابتدائی سطور میں وہ زمزمہ توپ جس پر ِکم کو سوار دکھایا گیا ہے۔ اس کی‬
‫ایک پوری تاریخ ہے۔ اس لفظ زم زمہ کے کئی معانی ہیں جن میں سے ایک مفہوم یہ ہے‬
‫خاص ترنم اور لحن کے ساتھ گانے کو زمزمہ کہتے ہیں۔ جبکہ آتش پرست لوگ اپنی‬
‫عبادت گاہوں میں پرستش کرتے ہوئے جو بھجن گاتے ہیں اسے بھی زمزمہ کہتے ہیں۔‬
‫فارسی زبان میں شیر کی دھاڑ کو بھی زمزمہ کہتے ہیں اور شاید انہی معنی کی مناسبت‬
‫سے اس کا یہ نام پڑ گیا کہ دوران جنگ جب اس سے گولہ باری کی جاتی تو اس توپ‬
‫کی آواز شیر کی گرج اور دھاڑ کی طرح نکلتی۔ احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان کے‬
‫وزیر اعظم شاہ ولی خان نے دو بڑے سائز کی توپینتیار کرائیں اور اسے سب سے پہلے‬
‫‪ ۱۷۶۱‬ء مینپانی پت کی لڑائی میں استعمال کیا گیا اور واپس جاتے ہوئے ایک توپ الہور‬
‫میناپنے گورنر خواجہ عبید کے سپرد کی۔ ‪۱۷۶۲‬ء میں ہری سنگھ بھنگی نے الہور پر‬
‫حملہ کیا تو اسلحہ خانہ سے یہ توپ بھی ملی‪۱۸۰۲،‬ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے‬
‫بھنگیونکو شکست دے کر اس پر قبضہ کیا۔ انگریز عہد میں جب پرنس آف ویلز نے‬
‫ہندوستان کا دورہ کیا تو زمزمہ توپ کو عجائب گھر کے باہر چبوترے پر نصب کرادیا۔‬
‫‪۱۹۷۷‬ء میں اس کو مال روڈ الہور پر نصب کیاگیا۔ کپلنگ کے اسی مشہور ناول ِکم کی‬
‫نسبت سے اسے ِکمز گن)‪ ، (Kim's gun‬زمزمہ یا بھنگیوں کی توپ کے ناموں سے یاد‬
‫کیا جاتا ہے جس طرح یہ اپنے قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو دعوت فکر دیتی‬
‫ہے اسی طرح ناول کی یہ ابتدائی سطور پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ اور فکر کے‬
‫کئی دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ عبدہللا (مسلمان) اور چھوٹا الل (ہندو) ِکم کے ساتھ‬
‫بحث کرتے ہیں کہ انہیں بھی توپ پر بیٹھنے کا موقع دیا جائے تو ِکم کا جواب کئی‬
‫پہلوئوں سے غور کرنے کا متقاضی ہے۔ کیوں کہ اس مکالمے میں کپلنگ نے انگریزوں‬
‫کی فتح کے ساتھ حاکم و محکوم‪ ،‬آباد کاری اور زیر دست کی پوری داستان بیان کر دی‬
‫ہے۔ پہلے عبدہللا (مسلمان) کو یوں جواب ملتا ہے۔‬
‫‪Off! Off! Let me up!' cried Abdullah, climbing up Zam-Zammah's‬‬
‫‪wheel.‬‬
‫‪'Thy father was a pastry-cook, Thy mother stole the ghi" sang‬‬
‫‪Kim. 'All Mussalmans fell off Zam-Zammah‬‬
‫)‪long ago! (65‬‬
‫اس کے بعد چھوٹا الل (ہندو) جب توپ پر بیٹھنے کے لیے کہتا ہے تو اس کو بھی‬
‫اس طرح کا جواب سننا پڑتا ہے۔‬
‫‪"The Hindus fell off Zam-Zammah too. The Mussalmans pushed‬‬
‫"‪them off‬‬
‫اس کے بعد ناول میں باطنی سفر شروع ہوتا ہے جو ایک طرف مذہبی اور مابعد‬
‫الطبیعاتی جستجو اور دوسری طرف ذاتی شناخت کی تالش کے لیے جاری رہتا ہے۔ سو‬
‫ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہینکہ انسان شروع سے ہی ان سواالت کے جوابات تالش‬
‫کرنے میں محو رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کی پہچان اور حقیقت کیا ہے؟ اس کی ابتدا‬
‫اور انتہا کیا ہے؟ وغیرہ ۔ اسالمی تعلیمات میں بھی انسان کو اپنے من میں جھانکنے اور‬
‫اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے کیوں کہ صوفیوں نے بھی خود شناسی کو‬
‫خدا شناسی کا مقدمہ قرار دیا ہے۔ ناول میں یوں تو کئی مقامات کی سیر اور سیاحت ملتی‬
‫ہے مگر سب سے اہم یہی باطنی سیر ہے۔ اس ناول میں یہ فکری پہلو جاری و ساری ہے‬
‫اگرچہ یہ اپنے اندر متنوع جہات سمیٹے ہوئے ہے مگر ناول کے ابتدائی صفحات سے ہی‬
‫عرفان ذات کی کاوشوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور ناول کے اختتام تک جاری رہتا ہے اور‬
‫عرفان ذات کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس پر‬ ‫ِ‬ ‫ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انسان جب‬
‫اندرونی فطرت کے اصل بھید آشکار ہونے لگتے ہیں۔‬
‫کپلنگ جب ِکم کو ’’کل عالم کا ننھا دوست "‪‘‘ "Little friend to all world‬‬
‫قرار دیتا ہے تو ساتھ ہی اس سوال کی سہ بار تکرار ہوتی ہے۔‬
‫)‪Who is Kim? (66‬‬
‫پھر آگے بڑھتے ہیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے۔‬
‫)‪What am I? Mussalman, Hindu, Jain or BUddhist? (67‬‬
‫اور ناول کے آخری صفحات میں جواب کے ساتھ سوال کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے‪:‬‬
‫)‪I am Kim, i am kim, and what is Kim? (68‬‬
‫اس طرح ناول کی پوری کہانی میں اسالم‪ ،‬بدھ ازم‪ ،‬جین مت اور دوسرے مذاہب‬
‫بشمول عیسائیت کے اعتقادات اور عبادات کے جواز اور اہمیت کے متعلق کئی سواالت‬
‫تصور‬
‫ِ‬ ‫بھی پیش ہوتے ہیں۔ کیوں کہ خاص طور پر ہندو اور مسلم دونوں تہذیبوں کے‬
‫حقیقت کی بنیاد مابعد الطبیعات پر ہے اور یہی مابعد الطبیعات بعض اوقات آفاقی حقیقتوں‬
‫کا عالقائی اظہار بھی ہے۔ کیونکہ مذکورہ باال سواال ت صرف اسالمی تعلیمات کا ہی‬
‫خاصہ نہیں بلکہ ویدی تہذیب میں ویدوں کے حصے‪ ،‬جو منتر‪ ،‬برہمن اور اپنشد ہیں اور‬
‫ویدی تہذیب کے درجہ بدرجہ ارتقا کے مظہر ہیں۔ ان میں اپنشدوں کا مرکزی مسئلہ بھی‬
‫حقیقت کی تالش ہے اور یہ دو حصوں میں منقسم ہے ایک نظری‪ ،‬دوسرا عملی یا‬
‫اخالقی۔ نظری سوال کے دو پہلو ہیں ایک موضوعی دوسرا معروضی۔ ایک یہ کہ نفس‬
‫انسانی (آتما) کی کیا حقیقت ہے دوسرے یہ کہ اس کے معروض کی یعنی اس وجود کی‬
‫جسے انسان خارج میں محسوس کرتا ہے‪ ،‬اس کی کیا حقیقت ہے؟ پھر یہ بھی کہ اس‬
‫منزل تک کیسے پہنچا جائے جو کہ موکش یا نجات کہالتی ہے۔‬
‫تبتی الما ہمیشہ گہرے استغراق‪ ،‬مراقبے اور گیانی کیفیت میں گم رہتا ہے گویا اس‬
‫کے حواس معطل ہوں اور اس کو اپنے ارد گرد کی کوئی خبر نہ ہو جبکہ اس کے‬
‫برعکس ِکم حیات کے خنداں‪ ،‬بحر بیکراں کا نظارہ بڑے جوش و خروش سے کرتا ہے‬
‫اور اپنے گرد و نوا ح کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن الما اپنی نگاہیں ان‬
‫چیزوں پر ہر گز نہیں کھولتا اور پھر یہاں کپلنگ الما کی زبانی زندگی کی جبریت کا‬
‫زمانہ قدیم سے ہی‬‫ٔ‬ ‫تذکرہ کرتا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری میں جبر و قدر کا سوال‬
‫مجبور محض‬ ‫ِ‬ ‫باعث نزاع رہا ہے جس کے مطابق جبر یہ مکتب فکر والے انسان کو‬
‫مانتے ہیں اور قدریہ کے حامی انسان کو بااختیار ہستی سمجھتے ہیں۔ فالسفر عالم میں‬
‫برگساں انسان کو مختار‪ ،‬محی الدین ابن عربی اور شوپن ہائر اسے مجبور اور بے بس‬
‫مانتے ہیں جبکہ عالمہ اقبال کے ہاں جبر وقدر کی دونوں صورتیں نظر آتی ہیں۔ اسی‬
‫طرح ناول کی مندرجہ سطور میں جبریت اور ہندوئوں کے عقیدہ تناسخ کی بھی بازگشت‬
‫سنائی دیتی ہے۔ تبتی الما دوران سفر مسلسل یکساں آواز و الحان کے ساتھ گاتا ہے۔‬
‫‪They are all bound upon the Wheel,' said the lama. 'Bound from‬‬
‫)‪life after life. To none of these has the Way been shown. (69‬‬
‫ان سطور کو پڑھ کر اردو کے نامور شاعر مجید امجد کی نظم ’’کنواں ‘‘ کی یہ‬
‫سطور یاد آتی ہیں۔‬
‫یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے‬
‫کنواں چل رہا ہے کنواں چل رہا ہے‬
‫مجبور محض ہے‬ ‫ِ‬ ‫کپلنگ ان سطور میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان‬
‫اور زندگی کی اسی جبریت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ‬
‫ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ انیسویں صدی کی انگریز ناول نگار جارج ایلیٹ ‪(George‬‬
‫)‪ Eliot‬کے یہاں بھی یہی فکر کارفرما ہے کہ انسان کی بنیاد میں ہی دکھ پنہاں ہے جس‬
‫کے آگے وہ مجبور محض ہے جبکہ قراۃ العین حیدر نے ’’کار جہاں درا زہے‘‘ کی ابتدا‬
‫میں ہی لکھا ہے کہ‬
‫۔۔۔فرشتے ہیں کہ لکھے چلے جا رہے ہیں۔ ناحق پکڑواتے ہیں پلٹ کر بند ٔہ خاکی سے‬
‫نہیں پوچھتے۔۔۔ دور ایک موونگ فنگر )‪ (Moving finger‬ہے جو لکھ کر آگے سرک‬
‫جاتی ہے۔ (‪)۷۰‬‬
‫جب الما اور ِکم سفر کے دوران سانپ کو دیکھتے ہیں تو ِکم کا ردعمل ایک‬
‫مغربی کا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ چھڑی اٹھائے اور اس سانپ کا سر کچل ڈالے جیسا کہ‬
‫ڈی ایچ الرنس کی نظم "‪ "Snake‬میں ہوتا ہے مگر الما اسے سمجھاتا ہے کہ زمیں پر‬
‫دوسری مخلوقات کی طرح سانپ بھی زندگی کے پہیے‪/‬چکر "‪ "Wheel of life‬کا پابند‬
‫ہے اور وہ کہتا ہے کہ اسے اپنی زندگی جینے دو۔"‪"Let him live out his life‬‬
‫وہ سانپ کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور اس کے لیے اس موجودہ زندگی‬
‫کی قید سے جلد رہائی اور آزادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے یہاں ِکم کا رد عمل بطور‬
‫ایک مغربی کا جبکہ الما کا ردعمل بدھ کے سچے پیروکار کا ہے جبکہ مسلم کردار‬
‫محبوب علی کا یہ فقرہ سامنے آتا ہے۔‬
‫)‪God's curse on all unbelievers. (71‬‬
‫ازاں بعد ناول میں شاملیغ )‪ (Shamlegh‬جیسی پستی زدہ عورت ملتی ہے جسے‬
‫کافی عرصہ پہلے( ‪ Kerslistian‬گورے صاحب) نے چھوڑدیا تھا اور اس سے نکاح‬
‫کرکے اپنایا نہیں تھا۔ اس سے کپلنگ کی کہانی "‪ "Lispeth‬کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔‬
‫یہ عورت خدا اور مذہب کے بارے میں جو رائے دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔‬
‫‪Thy Gods are lies; thy works are lies; thy words are lies. There‬‬
‫)‪are no Gods under all the Heavens. I know it. (72‬‬
‫جب ِکم کو الما کی اس کمزوری کی حالت مینیہاں النے کی اپنی سنگین غلطی کا‬
‫احساس ہوتا ہے تو یہی عورت یونزبان کھولتی ہے۔‬
‫‪Try mine. I am the Woman of Shamlegh......Now I give alms to‬‬
‫)‪priests who, are heathen, curse me. (73‬‬
‫پھر وہ طنزیہ انداز میں انہیں ک ہتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے توانائی بخشے‬
‫اور کوئی معجزہ رونما ہو۔ اس خدا کو پکارو۔‬
‫‪May be it will give him (the Lama) strength, make a charm! call on‬‬
‫)‪thy great God. Thou are a priest. (74‬‬
‫یوں کپلنگ ایک مذہبی اعتقاد رکھنے والی عورت کے ملحدانہ کردار کو یوں‬
‫سامنے التا ہے کہ بطور ملحد اور الادری وہ خود کپلنگ کے مذہبی تناظر کو بھی پیش‬
‫کرتی ہے اور اس کے اندھے مذہبی اعتقادات کے بارے میں رویے کی عکاسی بھی کرتا‬
‫ہے مگر ساتھ ساتھ وہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ تمام تر مشکالت کے باوجود خدا کتنا مشفق و‬
‫مہربان ہے۔ اس کے اپ نے اعتقادات و نظریات و معیارات ضرور ہیں مگر وہ دوسرے‬
‫مذاہب کی اچھائیوں کی تعریف کرتے ہوئے بھی نظر آتا ہے۔‬
‫اگر غور کیا جائے تو یہ تمام مباحث ہماری تہذیب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہاں‬
‫ان کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ ایسی صورت حال میں جذباتی اور‬
‫اخالقی کشمکش آڑے آ جاتی ہے اور اس جذباتی اور اخالقی کشمکش میں اگر اجتماعی‬
‫حس مضبوط نہ ہو تو پھر اپنی شناخت اور اس سے وابستہ وفاداریوں کا مسئلہ بھی‬
‫درپیش آتا ہے اور ایک قومی المیہ اور آفاقی کشمکش کا احساس ابھر کر سامنے آتا ہے‬
‫اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ناول ’’ ِکم‘‘ مینمصنف نے دیوماالئی رومانویت سے مذہبی‬
‫اور فلسفیانہ موشگافیوں تک انسانی جدوجہد کی عظیم اور مسلسل تاریخ کو سمیٹنے کی‬
‫کوشش کی گئی ہے۔‬
‫اسی طرح کپلنگ کی دوسری کہانیوں اور تخلیقات میں بھی خدا‪ ،‬ہللا‪ ،‬اسالم ‪،‬‬
‫محمد‪ ،‬قرآن‪ ،‬اسالمی اقدار وعقائد کے ساتھ ساتھ مسلم فکر و ادب‬‫ؐ‬ ‫پیغمبر اسالم حضرت‬
‫کے اشارات اور حوالہ جات جابجا ملتے ہیں جیسے کہ اپنے ایک خط میں جو کہ انہوں‬
‫نے ایڈیٹر رابنسن )‪ (Kay Rabinson‬کے نام لکھا۔ اس مینجہاں الہور شہر کے متعلق‬
‫لکھا‪ ،‬وہاں مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا حوالہ بھی دیا ہے۔‬
‫‪I am deeply interested in the queer ways and works of the people‬‬
‫‪of the land. I hunt and rummage among 'em; knowing Lahore‬‬
‫‪city.. that wonderful, dirty, mysterious ant-hill blindfold and‬‬
‫‪wandering through it like Haroun Al-Rashid in search of strange‬‬
‫)‪things. (75‬‬
‫سولہ سالہ کپلنگ جب دوبارہ الہور واپس آیا تو اس کی ذہنی وابستگی ـ’خدا‘ اور‬
‫’ہللا‘ کے مابین منقسم تھی۔ مگر دونوں ہی اس کے لیے یکساں قابل حمد و تکریم تھے۔ وہ‬
‫بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں بہت ہی سکون محسوس کرتا تھا۔ الہور بلکہ پورے پنجاب‬
‫میں جو کہ غا لب مسلم اکثریتی عالقہ تھا۔ وہاں اس کے شباب کے بہترین پانچ سال بسر‬
‫" میں‬Something of myself" ‫ہوئے۔ اسی کی طرف انہوں نے اپنی سوانح عمری‬
‫بھی اشارہ کیا ہے۔‬
My life had lain among muslims, and a man leans one way or
other according to his first service. (xxxvi-68) (76)
‫ ء میں جو مشرق کی سیر کی وہ بھی مانوس اسالمی دنیا کے‬۱۹۱۳ ‫پھر اس نے‬
‫ خوشبوئوں اور ان یادوں کی تجدید تھی۔ اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے‬،‫مناظر‬
‫کہ ہارون الرشید اس طوفان خیز قدیم بغداد میں اتنی طمانیت و فرحت محسوس نہیں کرتا‬
‫ہو گا جتنی خوشی میں محسوس کر رہا تھا۔‬
Praised be Allah for the diversity of His creatures and for the first
advantages of travel and for the glories of the cities of the earth,
Harun-al-Rashid, in roaring Bagdad of old, never delighted
himself to the limits of such a delight as was mine. (77)
"Egypt of ‫" کے بارے میں ساحروں کے مصر‬Egypt" ‫قدیم اسالمی ملک مصر‬
‫ میں گرجا گھر اور مسجد و منبر کا تقابل کرتے ہوئے اپنے تاثرات یوں‬Magicians"
:‫قلم بند کرتے ہیں‬
Christian churches may compromise with images and side-
chapels where the unworthy or abashed can traffic with
accessible saints. Islam has but one pulpit and one stark
affirmation- living or dying, one only - and where men have
repeated that in red-hot belief through centuries, the air still
shakes to it. (78)
‫اسی مصر کی سیاحت کے دوران قاہرہ میں واقع ہزار سالہ قدیم االزہر یونیورسٹی‬
‫میں پڑھائے جانے والے قرآنی فکر پر تشکیل دیئے گئے نصاب کے بارے میں لکھتے‬
:‫ہیں‬
The students sit on the ground, and their teachers instruct them,
mostly by word of mouth, in grammar, syntax, logic, al-hisab
which is arithmetic; al-Jabr wal Muqublah, which is algebra; at-
tafsir, commentaries on the Law of Islam, which leads back, like
every-thing, to the Koran once again. (For it is written, "Truly the
Quran is none other than a revelation") It is a very comprehensive
curriculum. (79)
‫’’ طلباء میدان میں بیٹھتے ہیں اور ان کے اساتذہ ان کو زیادہ تر زبانی تعلیم دیتے تھے‪،‬‬
‫گرامر‪ ،‬نحو‪ ،‬منطق کے بارے میں‪’ ،‬الحسابـ‘جو کہ ریاضی ہے‪’ ،‬الجبر والمقابلہ‘ جو کہ‬
‫الجبرا ہے۔ ’التفسیر‘ جو کہ قرآن کی تشریح ہے۔ اور آخر میں جو کہ بہت زیادہ دقت طلب‬
‫ہے‪’ ،‬الحدیث‘ روایات اور اسالمی فقہ‪/‬قانون کی تفسیر ہے جو کہ ہر چیز کی طرح‬
‫پیچھے تک اس کا رجوع قرآن تک ہوتا ہے (کیونکہ یہ تحریری ہے۔ یقینا قرآن وحی کے‬
‫عالوہ کچھ نہیں) یہ ایک نہایت ہی جامع نصاب ہے۔‘‘‬
‫اگر ہم اسالم‪ ،‬مسلم تہذیب اور مسلمانوں کے بارے میں کپلنگ کی عمومی رائے کا‬
‫جائزہ لیں تو ہمارے سامنے کچھ اس طرح کی رائے سامنے آتی ہے۔‬
‫‪Some men are Mohammedan by birth, some by training, and‬‬
‫‪some by fate, but I have never met an Englishman yet who hate‬‬
‫‪Islam and its people as I have met Englishmen who hated some‬‬
‫‪other faiths. Mussalmans awaderi as the saying goes- where‬‬
‫‪there are Mohammadens there is a comprehensible civilization.‬‬
‫)‪(80‬‬
‫نوشتہ تقدیر کے باعث‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫’’کچھ پیدائشی مسلمان (محمڈن) ہیں کچھ اپنے عمل سے اور کچھ‬
‫لیکن ابھی تک میں کسی ایسے انگ ریز سے نہیں مال جو کہ مذہب اسالم سے اور اس کے‬
‫پیروکاروں سے نفرت کرتا ہو جیسا کہ میں کچھ دوسرے مذاہب سے متنفر انگریزوں سے‬
‫مل چکا ہوں۔ مسلمانی آوادانی ۔ جیسا کہ مقولہ جہاں کہیں بھی محمڈن (مسلمان) ہیں وہاں‬
‫ایک جامع تہذیب ہے۔‘‘‬
‫اسی لیے نقادوں نے کپلنگ کو نہ تو کٹر مذہبی آدمی قرار دیا ہے نہ ہی اسے الحاد‬
‫پرست کہا ہے اس کی کہانیوں اور تخلیقات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی‬
‫ابتدائی کہانیوں اور نظموں میں جو کہ ‪۱۸۸۹‬ء۔‪۱۸۸۲‬ء کے دوران میں سول اینڈ ملٹری‬
‫گزٹ میں شائع ہوئیں ان میں اسالمی اقدار اور اسالم کا گہرا تاثر ملتا ہے۔ ‪۱۸۸۸‬ء میں‬
‫اس کی کتاب "‪ "The Plain Tales from Hills‬جو انہی کہانیوں پر مشتمل تھی شائع‬
‫ہوئی۔ ‪۱۸۹۹‬ء میں "‪ "The Outward Bound‬ایڈیشن شائع ہوا تو اس کی ابتدا بسم ہللا‬
‫سے ہوئی۔‬
‫‪In the name of God the compassionate- the merciful.‬‬
‫یہ تعارف ایک خط کی شکل میں ہے جو کہ ’’اس تجارتی مال کے مالک (یعنی‬
‫کپلنگ) کی طرف سے بحری جہاز کے ناخدا )‪ (Skipper‬کے لیے ہے جس پر قیمتی‬
‫سامان (کپلنگ کا ادبی سرمایہ) لدا ہوا ہے اور اسے مغرب کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتا‬
‫ہے مصنف اپنے اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ہللا کے حضور دعا گو ہے اور اپنے‬
‫سفر کے آغاز و اختتام دونوں پر ہی اپنی عقیدت اور شکر گزاری کے اظہار کا پابند ہے۔‬
‫‪On Bhao Malung we pray before the voyage; at the Takerie‬‬
‫)‪Masjid we give thanks when the voyage is over. (1 , X) (81‬‬
‫یعنی اس ابتدا میں لفظ خدا بعد میں استعمال ہونے والے لفظ ہللا کے متبادل ہے‬ ‫ْ‬
‫جیسے کہ اپنے آخری کام یعنی سوانح "‪ "Something of Myself‬کا آغاز بھی ہللا کے‬
‫بابرکت نام سے کیا۔‬
‫‪By ascribing all good fortune to Allah, the Dispenser of Events I‬‬
‫)‪begin... (82‬‬
‫ق کائنات ہے اور اتنی‬ ‫عیسائی اور مسلم دونوں ہی کا خدا ہو یا ہللا‪ ،‬وہ بہر حال خال ِ‬
‫عظیم ہستی ہے کہ مخلوق کے فہم و ادراک سے بھی عظیم تر ہے کپلنگ کی تحریروں‬
‫میں بھی خدا ایک ایسی ہی ہستی ہے جو واجب التعظیم اور الئق عبادت ہے اور ہر چیز‬
‫پر قادر ہے کپلنگ کی کتاب "‪ "Debits and Credits‬جو کہ چودہ شارٹ اسٹوریز اور‬
‫اکیس نظموں پر مشتمل ہے اس میں ایک کہانی "‪"The Enemies to Each Other‬‬
‫بھی شامل ہے جس میں ابو علی جعفر بن یعقوب االصفہانی حضرت آدم ؑ کی تخلیق کا‬
‫واقعہ بتاتے ہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اس کہانی میں حضرت آ ؑ‬
‫دم و حو ؑا کی‬
‫تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کے جنت سے اخراج کے بعد زمین پر بھیجے جانے واال واقعہ‬
‫کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے کہ اس میں اسالمی اسماء و عالمات کا بکثرت استعمال‬
‫دیکھنے میں آتا ہے اور پوری کہانی میں اسالمی ماحول اور فضا غالب ہے اس کہانی‬
‫طوبی‪ ،‬شجر ممنوعہ وغیرہ کے تصورات کی اساطیری‬ ‫ٰ‬ ‫میں باغ ارم سے وابستہ شجر‬
‫اہمیت متشکل ہوتی ہے اور اسی طرح اسالمی نام اور کردار بھی حصہ بنے ہیں۔ جیسے‬
‫دم کو "‪"The Greater Substitute‬‬ ‫خدا یا ہللا کو "‪ "The Benefactor‬حضرت آ ؑ‬
‫اور جد امجد "‪ "The Pure Forefather‬فرشتہ جبرائیل کو "‪ "Gabriel‬اور ہابیل و‬
‫قابیل کو بالترتیب ‪ Able‬اور ‪ Cain‬لکھا گیا ہے۔ اس سے قبل انگریزی ادب میں جان‬
‫ملٹن نے بھی پیراڈائز السٹ (فردوس گم گشتہ) تحریر کی جس میں خدا کے خالف بغاوت‬
‫اور آدم و حوا کے جنت سے اخراج کے واقعہ کو رزمیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس‬
‫کہانی میں‪ Eblis‬ابلیس ملعون "‪ "The Accursed‬شیطان کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس‬
‫پورے واقعے کا ذکر چونکہ قرآن مجید میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے اور اس کہانی‬
‫کی ابتدائی سطور پر غور کیا جائے تو ذہن میں اسالمی روایت کے اس اہم اور بنیادی‬
‫واقعے کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور اسالمی اقدار کے گہرے اور دور رس اثرات‬
‫نمایاں نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر مالئکہ کے حوالے سے جیسا کہ اسالمی تعلیمات میں‬
‫بھی ہے کہ خدا نے فرشتوں کو اپنے اپنے کام پر متعین کر رکھاہے جیسے کہ جبریل ؑ کو‬
‫صور پھونکنے کے‬ ‫وحی‪ ،‬میکائیل ؑ کو رزق‪ ،‬عزرائیل ؑ کو قبض ارواح اور اسرائیل ؑ کو ُ‬
‫فرائض تفویض کیے گئے۔‬
‫‪It is narrated by Abu Ali Jafir Bin Yakub-Ulisfahani that when in‬‬
‫‪his determinate will, the Benefactor had decided to create the‬‬
‫‪Greatest Substitute (Adam), He dispached, as is known, the‬‬
‫‪faithful and excellent Archangel Jibrail to gather from the Earth‬‬
‫‪clays, loams, and sands endowed with teh various colors and‬‬
‫‪attributes, necessary for the substance of our pure Forefather's‬‬
‫)‪body. (83‬‬
‫جب مقرب فرشتہ جبرائیل زمین کو قائل کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ وہ اسے‬
‫مطلوبہ مواد حاصل کرنے دے کیوں کہ وہ اس کی رحم طلب التجا سے متاثر ہو جاتا ہے۔‬
‫زمین ملتجیانہ انداز میں اپنا موقف یوں بیان کرتی ہے‪:‬‬
‫‪I adjure thee to abstain from thy purpose, lest eveil and‬‬
‫‪candemnation of that person who is created out of me should‬‬
‫‪later overtake him, and the abiding (sorrow) be loosed upon my‬‬
‫‪head. I have no power to resist the will of the Most High, but I take‬‬
‫)‪refuge with Allah from thee. (84‬‬
‫’’ میں تمہیں اپنے مقصد براری سے روکنے کی قسم دیتی ہوں کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ‬
‫میری مٹی سے تخلیق کردہ شخص کی برائی اسے آگھیرے اور پھر اس کے دکھ مجھ پر‬
‫حاوی ہو جائیں میرے پاس رب عظیم کی مرضی کے خالف جانے کی طاقت اور مجال‬
‫نہیں لیکن میں اس سے ہللا کی پناہ مانگتی ہوں۔‘‘‬
‫اس کے بعد میکائیل )‪ (Michaeel‬کو رب کی طرف سے زمین پر نزول اور‬
‫مطلوبہ مادہ النے کی ہدایت ہوتی ہے۔ مگر وہ بھی ناکام رہتا ہے لیکن عزرائیل جو کہ‬
‫اسالم میں موت کا فرشتہ "‪ "Angel of Death‬ہے وہ جاتا ہے اور مطلوبہ مٹی لے آتا‬
‫ہے اگرچہ زمین مزاحمت کرتی ہے مگر‬
‫‪He closed his hand upon her bossom and tore out the clays and‬‬
‫)‪sands necessary. (85‬‬
‫جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ باز کیوں نہیں آیا تو اس نے جواب دیا کہ فرض کی‬
‫ادائیگی رحم سے زیادہ مقدم تھی۔‬
‫"‪"Obedience (to thee) was more obligatory than pity (for it).‬‬
‫پھر اس مٹی کو خشک کرنے کے لیے ’’طائف اور مکہ )‪‘‘ (Taif and Mecca‬‬
‫کے درمیان پھیالیا جاتا ہے درمیان میں کتاب پیدائش "‪ "Book of Genesis‬کے مطابق‬
‫زوال آدم کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں اور مور "‪ "Peacock‬کی سزا کا بھی ذکر آیا‬
‫ہے اور عہد نامہ عتیق "‪ "Old Testament‬کی کہانی کے مطابق آدم ؑ و حو ؑا کو‬
‫نوح اور ان کی بیوی کے مثل قرار دیتے ہوئے قربان گاہ "‪ "Altar‬کی تعمیر‬ ‫حضرت ؑ‬
‫کرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں اور پھر خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے‬
‫‪Get ye down, the one of you an enemy unto other.‬‬
‫اسی طرح جب اس واقعہ کی تکمیل ہوتی ہے تو یہ الفاظ سامنے آتے ہیں‬
‫‪My compassion exceedeth my wrath.‬‬
‫ــ’’یعنی میرا رحم میرے غضب سے بڑھ کر ہے۔‘‘‬
‫ان الفاظ سے قرآن مجید کی سورہ االنعام کی آخری آیت (‪ )۱۶۵‬کی بازگشت سنائی‬
‫دیتی ہے کہ ’’تیرا رب جلد گناہوں کا بدلہ دینے واال ہے اور بے شک و ہ معاف کرنے‬
‫واال رحیم ہے۔‘‘ (‪)۸۶‬‬
‫کپلنگ کی ایک اور کہانی "‪۱۸۸۵ ، "The City of Dreadful Night‬ء میں‬
‫بھی اسالمی قدروں کے گہرے اثرات نمایاں ہوتے ہیں اس کہانی میں اس نے اگست کے‬
‫مہینے میں الہور کی ایک گرم اور حبس زدہ رات کی تصویر کشی یوں کی ہے کہ وہ‬
‫دور درازعالقے سے سفر کر کے شہر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی پسند اور مطلب کی‬
‫چیزوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہم اس کہانی کے ذریعے شہر کا طائرانہ جائزہ لیتے‬
‫ہیں ہمینمکانوں کی چھتیں نظر آتی ہیں جبکہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھوں پر بے چین‬
‫بے قرار مرد و خواتین اور بچے خوابیدہ و نیم خوابیدہ حالت میں چاند کی چاندنی میں‬
‫الشوں کی طرح نظر آتے ہیں پورا شہر ہی تاریک قوتوں کی گرفت میں جکڑا ہوا نظر آتا‬
‫ہے تو ایسے میں ہر قسم کے تاریک اور منفی اثرات اذان کی آواز کے ساتھ ہی چھٹتے‬
‫نظر آتے ہیں گویا نور کی ندیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ ذیل کی سطور میں کپلنگ نے اذان‬
‫صبح کے خوشگوار اثرات کو کس ماہرانہ اور فنکارانہ چابک دستی سے بیان کیا ہے ۔‬
‫اگرچہ یہ اقتباس کچھ طویل ہے مگر کپلنگ کی اسالمی اقدار سے گہری وابستگی کا بین‬
‫ثبوت ہے‪:‬‬
‫‪Allah ho Akbar, then a pause while another Muezzin somewhere‬‬
‫‪in the direction of the Golden Temple takes up the call- Allah ho‬‬
‫‪Akbar. Again and again: Four times in all; and from the bedsteads‬‬
‫‪a dozen men have risen up already. I bear witness that there is no‬‬
‫‪God but God. What a splendid cry it is, the proclamation of the‬‬
‫‪creed that brings men out of their beds by scores at midnight.‬‬
‫‪once again he thunders through the same phrase, shaking with‬‬
‫‪the vehemence of his own voice: and then far and near, the night‬‬
‫)‪air rings with Mohomed is the Prophet of God. (IV, 42-43)(87‬‬
‫موذن کی گولڈن ٹیمپل والی طرف سے‬ ‫’’ہللا اکبر! پھر ایک وقفے کے بعد کسی اور ٔ‬
‫صدائے اذان ہللا اکبر (تکبیر) کے الفاظ کے ساتھ بلند ہوتی ہے۔ بار بار ‪ ،‬چار مرتبہ‬
‫دہرائی گئی۔ درجنوں لوگ پہلے ہی اپنے بستر چھوڑ چکے تھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ‬
‫خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا ہی شاندا رپکار ہے یہ! ایمانیت کا ایسا اعالن جو کہ‬
‫سینکڑوں لوگوں کو نصف رات کو بستروں سے اٹھا دیتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر فضا اسی‬
‫موذن کی آواز شدت جوش سے لرزتی ہے اور پھر دور و‬ ‫جملے سے گونجتی ہے۔ ٔ‬
‫’’محمد ہللا کے‬
‫ؐ‬ ‫نزدیک‪ ،‬رات کی تاریک فضا ایک مرتبہ پھر ان الفاظ سے گونج اٹھتی ہے‬
‫رسول ہیں۔‘‘‬
‫اسالمی ادب و تاریخ کی جھلک کپلنگ کی کئی نظموں اور کہانیوں میں بڑی‬
‫واضح نظر آتی ہے جیسے کہ فارسی کے مشہور شاعر صوفی شیخ سعدی شیرازی کے‬
‫حوالے سے "‪ "One view of the Question, 1890‬میں لکھتے ہیں‬
‫‪And ye know that Saadi saith:-‬‬
‫‪"How many the merchant westward fare when he hears the tale of‬‬
‫)‪teh tumults there? (VI, 284) (88‬‬
‫’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سعدی نے کہا کہ کتنے ہی تاجر مغرب کی جانب سفر‬
‫کرتے ہیں جب وہ وہاں کی ہنگامہ خیز داستانیں سنتے ہیں۔ اس کے عالوہ دو اور بہت ہی‬
‫مشہور فارسی شعرا یعنی عمر خیام کی رباعیات اور حافظ شیرازی کے اشعار و اقوال‬
‫کے کئی حوالے بھی کپلنگ کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ رباعیات عمر خیام تک رسائی‬
‫فٹز جیرالڈ کے ا نگریزی تراجم کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس کے عالوہ الف لیلوی کہانیوں‬
‫"‪"The Arabian Nights‬کے بے شمار حوالہ جات بھی ملتے ہیں جیسے کہ‬
‫"‪"Stalky & Co. 1899‬کے دوابواب بعنوان "‪ "Slaves of the Lamp‬حصہ اول‪،‬‬
‫دوم بھی اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ داستان الف لیلہ ضرور اس کے زیر مطالعہ رہی۔‬
‫جبکہ ایک اور خاموش تمثیل بعنوان "‪ ، "The Aladin Company‬دی ہللا دین کمپنی‪،‬‬
‫بھی اسی کی بازگشت ہے ان ادبی مثالوں کے عالوہ اسالمی تاریخ کے کئی حوالہ جات‬
‫بھی اس کی تحریروں میں سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر مغل بادشاہوں کا ذکر کئی‬
‫کہانیوں میں ملتا ہے جیسے کہ"‪"The Amir's ، "Akbar's Bridge, 1930‬‬
‫"‪ Homily, 1891‬جو کہ افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے متعلق ہے اس کی بڑی‬
‫واضح مثالیں ہیں۔‬
‫کپلنگ کی کہانیوں کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی‬
‫کہانیوں میں جو بھی مسلم کردار شامل کیے گئے ہیں ان کے مطالعے سے ہی یہ بات‬
‫مترشح ہوتی ہے کہ اسالم کے بارے میں اس کی کیا رائے تھی؟ کیوں کہ تقریبا تمام ہی‬
‫مسلم کردار متحرک اور باعمل ہیں جیسے کہ "‪ "Gunga Din‬میں گنگا دین کا کردار‬
‫ہے جو کہ ہندوستانی فوج میں بحیثیت سقّہ فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان قربان‬
‫کر دیتا ہے۔‬
‫‪The Ballad of East and West‬میں ’کمال‘ جو کہ پٹھان رہزن ہے اپنی‬
‫بہادری اور شجاعت کی بنا پر کرنل کے بیٹے کی ستائش اور عزت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔‬
‫‪Fuzzy-Wuzzy‬مینمسلم سوڈانی قابل تکریم جنگجو ہیں۔ ‪"The Head of the‬‬
‫"‪District‬میں خداداد خان ایک دیانتدار‪ ،‬آہنی عزم واال بہادر کردار ہے ناول ِکم میں‬
‫گھوڑوں کے تاجر محبوب علی کا کردار الما کے کردار کے برعکس حرکت و عمل کا‬
‫نمائندہ کردار ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسالم کی نمائندگی بطور مثبت قوت اور‬
‫طرز عمل کی گئی ہے اور تہذیب اسالمی کے یہی عناصر ہیں جن میں اخوت‪ ،‬رواداری‪،‬‬
‫مساوات ‪،‬آزادی‪ ،‬احترام انسانی‪ ،‬شائستگی‪ ،‬روحانی بلندی‪ ،‬اخالقی پاکیزگی اور نظم و‬
‫ضبط وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کپلنگ کو بہت متاثر کیا ۔ اسی لیے اس کی سوانح‬
‫عمری "‪ "Something of Myself‬میں کئی مقامات پر قرآنی سورتوں کے حوالے‬
‫ملتے ہینجیسا کہ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کپلنگ نے قرآن مجید کی دوسری سورہ‬
‫البقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے "‪ "High above manking I raised you‬یعنی انہیں‬
‫تمام انسانیت میں افضل مقام دینے اور پھر سورہ المائدہ (آیت ‪)۶۴:‬کا حوالہ دیتے ہوئے‬
‫انہیں انتشار پھیالنے والی قوم قرار دیتے ہوئے اسی آیت کے مطابق یہ بھی کہا کہ انتشار‬
‫پھیالنا ہللا کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے۔‬

‫کپلنگ اور ہندوستان کی تہذیبی معاشرت‬


‫رڈیارڈ کپلنگ نے بالشبہ اپنے مشہور ناول ِکم اور دوسری کہانیوں میں ہندوستان‬
‫کو مرکزی اہمیت دی ہے اور اس کی تحریروں میں ہندوستانی حیات و معاشرت کا پورا‬
‫نگارخانہ سجا ہوا ہے۔ تمدن کے تغیرات‪ ،‬ثقافتی قوس قزح‪ ،‬موسموں کے بدلنے کی‬
‫کیفیات‪ ،‬وقت کی پے در پے گردشیں اور ہمہ قسم کی جزئیات کی عکاسی کچھ اس طرح‬
‫جہان اصغر میں جہان اکبر کے برمثل کی موجودگی کا‬‫ِ‬ ‫سے کی گئی ہے کہ ناول کے اس‬
‫احسا س ہوتا ہے الہور ہو یا شملہ‪ ،‬بمبئی ہو یا کلکتہ‪ ،‬ہمالیہ ہو یا راجستھان‪ ،‬ناول کے‬
‫صفحات میں ان کی چلتی پھرتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی سڑکیں ‪ ،‬بازار‪،‬‬
‫محلے‪ ،‬گھنے جنگالت‪ ،‬بہتے دریا‪ ،‬لہلہاتے ہوئے سرسبر کھیت‪ ،‬شادی بیاہ کی تقریبات‪،‬‬
‫میلے ٹھیلے‪ ،‬تہوار اور معاش رے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے متنوع کرداروں‬
‫الویز تصویریں ان اوراق میں جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ بے شک‬ ‫کی بے شمار د ٓ‬
‫گردش ایام نے ان تصویروں کے نقوش بڑی حد تک دھندال دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے‬
‫خدوخال آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی ضمن میں نرادسی چوہدری کی یہ رائے بھی‬
‫اہم ہے جس میں انہوں نے ناول ِکم کو انگریزی زبان ہندوستانی موضوع رکھنے واال‬
‫بہترین ناول قرار دیا ہے۔‬
‫‪Kim is the finest novel in the English language with an Indian‬‬
‫)‪theme. (89‬‬
‫کپلنگ کی کہانیوں میں ہمیں ہندوستان کی مٹی کی بو باس رچی ہوئی محسوس‬
‫ہوتی ہے کیوں کہ عصری انسانی زندگی کی ہمہ جہتی حقیقت کو پوری طرح گرفت میں‬
‫لینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس ناول میں ہندوستان کے شہری‪ ،‬دیہاتی‪ ،‬میدانی‪،‬‬
‫پہاڑی عالقوں کی دلکش اور مسحور کن تصویر کشی کی ہے جیسا کہ ایڈورڈ سعید نے‬
‫بھی تحریر کیا ہیـ‪:‬‬
‫‪The Novel embodies a panoramic celebration of India, presenting‬‬
‫‪as it does, a magnificient picture of its landscapes, both urban‬‬
‫‪and rural, and a fascinating array of native characters who, for the‬‬
‫)‪most part, are warm, generous and tolerant. (90‬‬
‫کپلنگ نے ہندوستان میں جس سیاسی اور سماجی ماحول میں زندگی گزاری اس کا‬
‫بنظر غائر مشاہدہ کیا اور اپنے مشاہدات کو فنکارانہ انداز میں اس طرح پیش کیا کہ اس‬
‫ِ‬
‫کی تخلیقات میں معاصر سماج کی جو تصویریں دکھائی دیتی ہیں وہ شاید تاریخ کے‬
‫اوراق میں دستیاب نہ ہوسکیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہے ہندوستان مصنف کے خون‬
‫میں شامل تھا اور اس نے ہندوستان کے بارے میں جو کچھ بھی تحریر کیا وہ اسی گہری‬
‫محبت اور بغور مشاہدے کا ہی ثمر ہے اور اسے آج کے نقادوں اور مصنفین نے بھی بجا‬
‫طور پر تسلیم کیا ہے جیسا کہ سلمان رشدی‪ Salman Rushdie‬کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪No other western writer has ever known India as kipling knew it,‬‬
‫‪and it is this knowledge of place and procedure and detail that‬‬
‫)‪gives his stories their undeniable authority. (91‬‬
‫اسی طرح کی ایک اور رائے ڈاکٹر دشیانت نیماوت ‪(Dr. Dushyant‬‬
‫)‪Nimavat‬کی ہے‪:‬‬
‫‪He knew the wonderful walled city of Lahore from the in glove‬‬
‫‪with men who led lives stranger than anything Haroon al Rashid‬‬
‫‪dreamed of, and he lived a life wild as that of the Arabian Night,‬‬
‫‪but missionaries and Secretaries of charitable societies could not‬‬
‫)‪see the beauty of it. (92‬‬
‫پھر ہمیں شہر کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سڑکوں پر چمڑے‬
‫سے بنی ہوئی مشک میں سقّہ لوگ پانی بھر کر التیتھے اور اس پانی سے سڑک پر‬
‫چھڑکائو کرتے تھے۔‬
‫‪.....the water-carrier, sluicing water, on the dry read from his‬‬
‫)‪goat.... skim bag. (93‬‬
‫جب کہ ایک اور موقعہ پر اسے اوئے بہشتی کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور‬
‫میوزیم کے پاس چھڑکائو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔‬
‫‪Ohe, bhisti! he called to the water-carrier, sluicing the crotons by‬‬
‫)‪the Museum. (94‬‬
‫پھر ہمیں ناول میں خاص چہل پہل والے الہور کے بازار کا ذکر ملتا ہے جس کا‬
‫نام موتی بازار ہے اور اس کے قریب ہی پنجاب یونیورسٹی کے ان طلباء کا ذکر ہوا ہے‬
‫جو انگریزوں کی نقل اتارتے ہیں۔‬
‫‪He stopped; for there shuffled round the corner, from the roaring‬‬
‫‪Motee Bazaar.... students of the Punjab University who copy‬‬
‫)‪English customs. (95‬‬
‫مقامی روایت میں یہ دستور بھی تھا کہ کسی بڑے یا بزرگ کو دیکھ کر ان کو‬
‫تعظیما ً خاص قسم کے لقب سے پکارا جاتا تھا جیسے کوئی ہندو بزرگ ہے تو اس کو اللہ‬
‫امر ناتھ۔ کوئی مسلمان بزرگ ہے تو اسے میاں غالم رسول وغیرہ۔ مگر الما کو دیکھ کر‬
‫وہ اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ اس کو میاں کہے یا اللہ‪ ،‬جس نے بڑی‬
‫فصیح اردو میں پوچھا کہ بچو یہ بڑا سا مکان کیا ہے؟‬
‫;‪O, children what is that big house? he said in a very fair Urdu‬‬
‫‪The Ajaib-Gher, The wonder house! Kim gave him no title- such‬‬
‫)‪as Lala or Mian, He could not divince the mane's creed. (96‬‬
‫یہاں ہمیں اس معاشرے کے کثیر المذاہب ہونے کا پتا بھی چلتا ہے اور کپلنگ‬
‫ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کا خاص طور پر ذکر کرتا ہے۔ اور ایک کو بت پرست‬
‫(ہندو) جبکہ دوسرے کو محمڈن (مسلمان) لکھتا ہے‪:‬‬
‫‪And he is a stranger and a but-parast (Idolator), said Abdullah,‬‬
‫)‪the Muhammadan. (97‬‬
‫جبکہ بعد میں بدھوں کی "‪ "Stupas and Viharas‬کا ذکر بھی ملتا ہے اور‬
‫الماکی زبانی یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ آج کل شاندار مذاہب کے پیروکار بھی آپس میں‬
‫دست و گریباں ہیں حاالنکہ یہ ’’سب مایا ہے‘‘ اور فریب نظر ہے!‬
‫)‪It is all illusion Ay, Maya, illusion. (98‬‬
‫پھر ہمیں ِکم ایک سبزی فروش (کنجڑی) کے ساتھ تکرار کرتے ہوئے ملتا ہے اور‬
‫کپلنگ کی فنکارانہ مہارت کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے کس طرح مقامی ریت رسموں‬
‫کا گہرا مشاہدہ کر رکھا ہے۔‬
‫‪He trotted off to the open shop of a kunjri, a low-caste vegetable-‬‬
‫‪seller ----- down the Motee Bazar. She knew Kim of old. 'Oho,‬‬
‫)‪hast thou turned yogi with thy begging-bowl? (99‬‬
‫اس سوال کے جواب میں ِکم نفی میں سر ہالتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ آدمی ’’یوگی ‘‘‬
‫( "‪"Yogi‬مقدس آدمی) سے زیادہ ’’یاگی( "‪‘‘ "Yagi‬بگڑا ہو بد مزاج) آدمی ہے۔‬
‫‪No, said Kim thy man is rather yagi. (bad tempered) than yogi (a‬‬
‫)‪holy man). (100‬‬
‫زمانہ قدیم سے ہی سنتوں‪،‬‬‫ٔ‬ ‫اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان‬
‫سپاہیوں‪ ،‬جوگیوں اور سادھوئوں کا گہوارہ رہا ہے جبکہ اسالمی تصوف کے کئی حلقوں‬
‫میں بھی ترک و تجدد کے جذبات موجود تھے۔ ٰلہذا بعض اوقات مسلمان صوفی اور فقیر‬
‫درویش بھی ہندو جوگیوں کی وضع قطع کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے تھے۔ یہ ایسا‬
‫میل جول ہے جو اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی دکھائی‬
‫دیتا ہے اور کئی مقامات پر کپلنگ نے اس کا ذکر بھی کیا ہے اور پیر و مرید ہو یا گرو‬
‫چیال یہ بھی اسی روایت کا حصہ ہیں‪:‬‬
‫‪It is my new chela (disciple) that is gone away from me, and I‬‬
‫)‪know not where he is? (101‬‬
‫گنگا ہندوئوں کا متبرک دریا ہے ان کے مطابق گنگا ہماچل کی بیٹی ہے اور یہ‬
‫شروع شروع میں سورگ (بہشت) میں بہتی تھی۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ گنگا کے پوتر‬
‫پانی میں نہانے سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور نجات حاصل ہوتی ہے۔ گنگا کے کنارے‬
‫غالب نے اپنی‬
‫ؔ‬ ‫آباد تیرتھوں میں کاشی (بنارس) اور ہری دوار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔‬
‫(کعبہ ناقوسیاں) اور بہشت خرم کہا ہے۔‬ ‫ٔ‬ ‫مثنوی چراغ َدیر میں کاشی کو ہندوئوں کا کعبہ‬
‫ہندوئوں میں مرے ہوئے کی راکھ اور ہڈیوں کو گنگا کے پانی میں بہانا ایک مذہبی رسم‬
‫ہے ناول ِکم میں الما کو بھی ایک ایسے شفائی دریا کی تالش ہے جو اس کے لیے نروان‬
‫کا باعث ہو۔ ای ک مقام پر وہ استفسار کرتا ہے کہ بنارس کے قریب کونسا دریا بہتا ہے؟‬
‫جواب میں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ گنگا ہے۔‬
‫)‪What river he ye by Benaras, we have Gunga..... (102‬‬
‫پورے گنگا کے بارے میں یہ فلسفہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ اس دریا میں غسل‬
‫کرنے سے بندہ پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس عمل کو قاب ِل فخر گردانا جاتا ہے۔‬
‫‪That is Gunga. Who bathes in her is made clean and goes to the‬‬
‫‪Gods. Thrice have I made pilgrimage to Gunga.' He looked round‬‬
‫)‪proudly. (103‬‬
‫اس سے آگے ناول میں دوبارہ گنگا کا ذکر کچھ اس طرح ہوتا ہے‪:‬‬
‫‪There is Gunga - and Gunga alone - who washes away sin.' ran‬‬
‫‪the murmur round the carriage.‬ـ (‪)104‬‬
‫ہندوئوں کے مقدس دریا گنگا کے ذکر کے ساتھ ہی ناول میں بدھ مت کی رسم‬
‫ستی‪ ،‬اپنشدوں کی پھیالئی ہوئی رہبانیت‪ ،‬برہمنوں کی نسل پرستی اور محبت کے عالوہ‬
‫حسن عمل اور تہذیب نفس کا درس دیا۔ مہاتما بدھ کو نوعِ انسانی کے درد و الم اور‬ ‫ِ‬
‫زندگی کی ناپائیداری کا بہت گہرا احساس تھا اور انہوں نے اس سے نجات حاصل کرنے‬
‫کے لیے تہذیب نفس کا طریقہ تالش کرنے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے‬
‫نفس کشی کی جگہ ضبط نفس کی اور ترک عمل کی جگہ ُحسن عمل کی تلقین کی جو‬
‫’’اشٹ مارک‘‘ یعنی آٹھ اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ مذہب چوتھی صدی قبل مسیح سے‬
‫تیسری صدی عیسوی تک ہندومذہب کی جگہ پر ہندوستان کا قومی مذہب رہا اور اشوک‬
‫جیسے بادشاہوں کی سرپرستی میں ہندوستان سے باہر دوسرے ایشیائی ممالک میں اسے‬
‫فروغ حاصل ہوا ۔ الما اردو زبان میں مہاتما بدھ کا تعارف کرانے کے ساتھ ہندوستان کے‬
‫بارے مینبڑی اہم بات بتاتا ہے کہ ہندوستان نیک لوگوں کی سرزمین ہے اور مختلف‬
‫زمانوں میں ان کی کئی کئی داستانیں بھی مشہور ہیں اور یہ ازل سے ہے اور ابد تک‬
‫رہے گا۔‬
‫‪Hear: for I speak of Him now! O people of Hind, listen; He began‬‬
‫‪in Urdu the tale of the Lord Buddha, but, borne by his own‬‬
‫‪thoughts, slid into Tibetan and long-droned texts from a Chinese‬‬
‫‪book of the Buddha's life. The gentle, tolerant folk looked on‬‬
‫‪reverently. All India is full of holy men stammering gospels in‬‬
‫‪strange tongues; shaken and consumed in the fires of their own‬‬
‫‪zeal; dreamers, babblers, and visionaries: as it has been from the‬‬
‫)‪beginning and will continue to the end. (105‬‬
‫یہاں ہندوستانی ذہن کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے ہندوستان کی وسعت‪ ،‬اس‬
‫کی بوقلمونی اور رنگا رنگی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک کثیرالمذاہب‬
‫اور متنوع ثقافتوں کی حامل ایسی سرزمین ہے جس میں چھوٹے بڑے مختلف مذاہب کے‬
‫ماننے والے لوگ آباد ہیں جن کے رسوم و رواج اور عقیدوں میں باہم گہرے اور وسیع‬
‫ت حق کی مشترک منزل کے حصول کے لیے‬ ‫اختالفات بھی پائے جاتے ہیں مگر وحد ِ‬
‫سبھی کوشانرہتے ہیں۔‬
‫ت حق‬ ‫اس معاشرے میں مسلمان صوفیا بھی تھے جن کے تصوف میں معرف ِ‬
‫کاراستہ روحانی تکمیل اور تہذیب نفس کا ہے۔ اس طرح کے پیروں کے صاحب حال اور‬
‫صاحب کشف و کرامات ہونے کے متعلق مختلف قصے بھی عوام الناس میں مشہور ہیں‬
‫اسی طرح کی ایک روایت اس ناول میں لدھیانے کا ایک سکھ سپاہی بیان کرتا ہے کہ ان‬
‫کی رجمنٹ کے ساتھ ہی پیر زوئی"‪ "Pirzai Kotel‬کے مقام پر ایک ’’محمڈن رجمنٹ‘‘‬
‫تھی وہاں ایک پیر بھی تھا جو غالبا ’نائیک‘ تھا اور جب اس پر خاص قسم کی کیفیت‬
‫طاری ہوتی تو وہ مختلف قسم کی پیش گوئیاں اور غیب کی خبریں بتاتا تھا‪ ،‬کپلنگ کا اسی‬
‫حوالے سے دلچسپ بیان مالحظہ ہو!‬
‫‪Um!' said the soldier of the Ludhiana Sikhs. 'There was a‬‬
‫‪Mohammedan regiment lay next to us at the Pirzai Kotal, and a‬‬
‫‪priest of theirs - he was, as I remember, a naik - when the fit waon‬‬
‫)‪him, spake prophecies. (106‬‬
‫یہاں پر الما کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں جن میں وہ مایا "‪ "Maya‬کا ذکر‬
‫کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آج ہم عظیم مذاہب کے پیروکار باہم دست و گریباں ہیں اور یہ‬
‫دنیا کیا ہے ایک فریب نظر ہے۔‬
‫)‪It is all illusion. Ay, maya, illusion. (107‬‬
‫ویدانی نقطہ نظر سے ’مایا‘ کا تصور بھی یہی ہے کہ کائنات فریب نظر ہے اگرچہ‬
‫ڈاکٹر رادھا کرشن نے بھی بڑے دلچسپ انداز میں کہا ہے کہ دنیا ئے حقیقت میں ’’مایا‘‘‬
‫کی اپنی بھی ایک ہستی ہے اور ہندو فکر کی رو سے ’’مایا‘‘ خدا کا نقاب نہیں بلکہ اس کا‬
‫لباس ہے۔‘‘ (‪)۱۰۸‬‬
‫پھر عظیم لوگوں میں سے سکندر اعظم کا ذکر آتا ہے جو(‪۳۵۰‬۔‪۳۲۳‬قبل مسیح)‬
‫تک مقدونیہ کا حکمران رہا اور ارسطو جیسے اُستاد کی صحبت پائی اور صرف بائیس‬
‫برس کی عمر میں دنیا فتح کرنے کے لیے نکال اس کی سلطنت کی سرحدیں یونان سے‬
‫لے کر ہندوستان تک پھیل گئیں۔ ذوالقرنین کا قصہ قرآن مجید میں سورہ الکہف میں آیا ہے‬
‫جبکہ بائیبل میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے یہاں کپلنگ ایک سکھ کی زبانی سکندراعظم‬
‫کی جالندھر میں پختہ سڑکوں اور امبالہ کے قریب بڑے تاالب کی تعمیر کا ذکر کرتا ہے‬
‫اور وہ بتاتا ہے کہ وہ پختہ راستہ بھی آج تک موجود ہے۔‬
‫‪The last of the Great Ones,' said the Sikh with authority, 'was‬‬
‫‪Sikander Julkarn [Alexander the Great]. He paved the streets of‬‬
‫‪Jullundur and built a great tank near Umballa. That pavement‬‬
‫)‪holds to this day; and the tank is there also. (109‬‬
‫اس گفتگو کے دوران میں ہمیں الما کی لکڑی کی تسبیح کی ٹک ٹک کی مسلسل‬
‫آواز سنائی دیتی ہے اور ساتھ ہی اس کے منتر اور ورد کی بھنبھناہٹ بھی سماعت سے‬
‫ٹکراتی ہے۔‬
‫)‪Om mane pudme hum! Om mane Padme hum! (110‬‬
‫پھر ناول میں ہمیں گرینڈ ٹرنک روڈ ‪( ،‬جی ٹی روڈ) جو کہ شیر شاہ سوری جس‬
‫نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی اور عوامی‬
‫فالح اور کئی اصالحاتی کارنامے سرانجام دیئے۔ اس نے سہسرام سے پشاور سے گرینڈ‬
‫ٹرنک روڈ یا عرف عام میں جرنیلی سڑک تعمیر کروائی اور اس کے دونوں اطراف میں‬
‫سایہ درخت بھی لگوائے۔ یہ سڑک ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک‬
‫جاتی ہے۔ اس ناول میں گرو الما اور اس کے چیلے ِکم کا سفر اسی سڑک پر جاری رہتا‬
‫ہے۔ اور کپلنگ اپنی مہارت سے اس سڑک کا زبردست نظارہ پیش کرتا ہے جس کے گرد‬
‫و پیش میں زندگی کا ہنگامہ خیز سفر بھی جاری ہے اور اس پر مختلف مذاہب اور ذاتوں‬
‫کے لوگ چلتے پھرتے ہیں گویا کہ ساری دنیا کی آمدورفت اس بڑی سڑک پر جاری تھی۔‬
‫اس سڑک کا تعارف کچھ یوں سامنے آتا ہے‪:‬‬
‫‪Three koss [six miles] to the westward runs the great road to‬‬
‫)‪Calcutta. (it was the Grand Trunk Road he meant). (111‬‬
‫یہاں کپلنگ بڑی خوبصورت رائے اس عظیم سڑک کے بارے میں دیتے ہیں اور‬
‫کہتے ہیں کہ یہ بڑا خوبصورت اور حیران کن منظر نامہ ہے۔ یہ پندرہ سو میل لمبی‬
‫سڑک ہے جس کے ارد گرد گنجان آباد ہندوستانی معاشرت اور ثقافت کے کئی رنگ‬
‫بکھرے ہوئے ہیں اور یہ ایسا زندگی کا بہتا دریا ہے کہ اس کی مثال پوری دنیا میں اور‬
‫کہیں نہیں ملتی۔‬
‫‪And truly the Grand Trunk Road is a wonderful spectacle. It runs‬‬
‫‪straight, bearing without crowding India's traffic for fifteen hundred‬‬
‫‪miles - such a river of life as no where else exists in the world.‬‬
‫)‪(112‬‬
‫اسی سڑک کو کپلنگ نے پورے ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے۔‬
‫‪See, Holy One - the Great Road which is the backbone of all‬‬
‫)‪Hind. (113‬‬
‫چونکہ ناول میں کئی جگہوں پر ہندوستان کے مختلف عالقوں کی خوبصورت‬
‫منظر کشی کی گئی ہے اور ناول کے صفحات میں ان عالقوں کی چلتی پھرتی تصاویر‬
‫آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ زیر نظر پیراگراف میں بھی کپلنگ نے خوبصورت‬
‫چمکیلی دھوپ‪ ،‬پرندوں کی چہچہاہٹ‪ ،‬لہلہاتے ہوئے سرسبز کھیت اور رہٹ کی روں‬
‫روں کی لوری جیسی آواز جیسے منظر نامے کو زینت قرطاس بنایا ہے‪:‬‬
‫‪There was a drowsy buzz of small life in hot sunshine, a cooing of‬‬
‫‪doves, and a sleepy drone of well-wheels across the fields. Slowly‬‬
‫‪and impressively the lama began. At the end of ten minutes the‬‬
‫‪old soldier slid from his pony, to hear better as he said, and sat‬‬
‫‪with the reins round his wrist. The lama's voice faltered, the‬‬
‫‪periods lengthened. Kim was busy watching a grey squirrel. When‬‬
‫‪the little scolding bunch of fur, close pressed to the branch,‬‬
‫‪disappeared, preacher and audience were fast asleep, the old‬‬
‫‪officer's strong-cut head pillowed on his arm, the lama's thrown‬‬
‫‪back against the tree-bole, where it showed like yellow ivory. A‬‬
‫‪naked child toddled up, stared, and, moved by some quick‬‬
‫‪impulse of reverence, made a solemn little obeisance before the‬‬
‫‪lama - only the child was so short and fat that it toppled over‬‬
‫‪sideways, and Kim laughed at the sprawling, chubby legs. The‬‬
‫)‪child, scared and indignant, yelled aloud. (114‬‬
‫’’گرم چمکیلی دھوپ میں ہلکی پھلکی حیات کی نیم خوابیدہ بھنبھناہٹ‪ ،‬قمریوں کی صدائیں‬
‫اور کھیتوں میں محو گردش رہٹ کی لوری جیسے رونروں کی مسحور کن آواز بھی‬
‫سنائی دیتی تھی۔ آہستگی سے پر اثر طریقے سے المانے آغاز کیا۔ دس منٹوں کے بعد‬
‫بوڑھا سپاہی بھی کھسک کر اپنے خچر سے نیچے آگیا تاکہ وہ اس کو بہتر طریقے سے‬
‫سن پائے۔ وہ اس کی لگامیں اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر بیٹھ گیا۔ الما کی آواز میں رکاوٹ‬
‫پیدا ہوئی۔ پھر وقفے نے طوالت اختیار کی۔ ِکم ایک سرمئی رنگ کی گلہری کو دیکھنے‬
‫میں مشغول ہو گیا۔ جب وہ فر کا چھوٹا سا گچھا جو اس شاخ کے قریب دبا ہوا تھا وہ‬
‫غائب ہو گیا پھر مبلغ اور سامع دونوں ہی گہری نیند سو چکے تھے۔ بوڑھے افسر کے‬
‫تازہ تازہ تراشیدہ بالوں والے سر نے اس کے بازو کو بطور تکیہ نیچے رکھا ہوا تھا الما‬
‫کی پشت درخت کے تنے سے ٹکی ہوئی تھی جہاں پر یہ زردی مائل ہاتھی دانت جیسی‬
‫تھی۔ ایک برہنہ بچہ رینگتے ہوئے ٓاگے بڑھا۔ اور الما کو غور سے دیکھ کر آداب و‬
‫تعظیم بجا التے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ یہ بچہ چھوٹے قد کا اور فربہ تھا۔ اس لیے اسے یوں‬
‫موٹی موٹی ٹانگوں پر رینگتے ہوئے دیکھ کر ہنسنے لگا۔ بچہ سہم کر اور قدرے برہم ہو‬
‫کر اونچی آواز میں چیخنے لگا۔‘‘‬
‫پھر پنجاب کے اس روایتی گیت کے بول سن کر تو ایسے لگتا ہے کہ گویا پنجاب‬
‫کی دیہاتی ثقافت کے سارے رنگ بکھرے پڑے ہوں‪:‬‬
‫‪This is a handful of cardamoms,‬‬
‫‪This is a lump of ghee,‬‬
‫‪This is millet and chillies and rice,‬‬
‫)‪A supper for thee and me! (115‬‬
‫’’یہ ہیں مٹھی بھر االئچیاں‪ ،‬یہ ہے مکھن کا پیڑا‬
‫یہ ہیں باجرہ‪ ،‬مرچیں اور چاول بھی‬
‫اور یہ میرے اور آپ کے لیے شام کا کھانا ہے‘‘‬
‫برصغیر میں ہر دور مینمختلف رنگ‪ ،‬نسل‪ ،‬ثقافت و مذہب کے لوگ آباد رہے ہیں۔‬
‫سماجی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬نسلی‪ ،‬سیاسی اور مذہبی جذبات اور اقدار کو کپلنگ نے نہایت فنکارانہ‬
‫طریقے سے پیش کیا ہے۔ مذہب انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک اہم پہلو‬
‫ہے۔ اس لیے ہر زمانے میں سماج میں اسے بے حد اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی لیے‬
‫معاصر ادب میں بھی اس کی عکاسی کی گئی ہے۔ کپلنگ نے بھی ان مختلف مذاہب کو‬
‫اپنے ناول ِکم میناجاگر کیا ہے مثالً ہندوئوں کے مذہبی عقیدے کے بارے میں لکھتے ہیں‬
‫’’کہ وہ مقدس گائے کی پوجا کرتے ہیں‘‘‬
‫)‪"Hindus pray to the Holy Cow." (116‬‬
‫اس کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں کی روایتی پگڑیوں کے رنگوں کے حوالے‬
‫سے محبوب علی کی زبانی یوں آگاہی ملتی ہے‪:‬‬
‫‪'Then in God's name take blue for red,' said Mahbub, alluding to‬‬
‫)‪the Hindu colour of Kim's disreputable turban. (117‬‬
‫مسلم کردار محبوب کے لئے حاجی"‪ "Hajji‬لفظ استعمال کیا ہے جو خالصتا ً‬
‫اسالمی ہے اور پھر محبوب کی اسالمی انداز میں تراشیدہ مونچھوں کا بھی خاص طور‬
‫پر ذکر کیا ہے۔‬
‫‪Mahbub's lips twitched under his well-pruned Mohammedan‬‬
‫)‪moustache.(118‬‬
‫اسی ناول میں کپلنگ نے مقامی زبانوں کے جوالفاظ استعمال کیے ہیں وہ بھی قابل‬
‫غور ہیں جو ناول کی انگریزی سطور میں پوری تابناکی اور رعنائی کے ساتھ جلوہ گر‬
‫ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ کپلنگ کے پاس ایسے الفاظ و تراکیب کا وسیع ذخیرہ ہے۔‬
‫انہوں نے یہ الفاظ اس بے ساختگی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ ان کی غرابت اور‬
‫نامانوسیت بالکل ختم ہو گئی ہے اور زبان و بیان کی لطافت اور شگفتگی بھی برقرار‬
‫رہتی ہے۔ بذات خود یہ تحقیق کے لیے ایک وسیع موضوع ہے جو کہ ہمارے مطالعے کا‬
‫موضوع نہیں ہے۔ مگر ذیل کی سطور میں کچھ ایسے الفاظ کی نشاندہی کی جاتی ہے جو‬
‫کہ کپلنگ نے بڑی مہارت کے ساتھ ناول میناستعمال کیے ہیں۔‬
‫ساتھ ہی ناول نگار نے‬ ‫اصل الفاظ جو ناول میں استعمال ہوئے‬
‫انگریزی میں اس کے جو متبادالت دیے‬
‫جادو گھر‬
‫‪Jadoo-ghar‬‬
‫‪Magic House‬‬
‫پہاڑی‬
‫‪Pihari‬‬
‫‪A hillman‬‬
‫بت پرست‬
‫‪But-parast‬‬
‫‪Idolater‬‬
‫مایا‬
‫‪Maya‬‬
‫‪An illusion‬‬
‫بلور‬
‫‪Bilaur‬‬
‫‪Crystal‬‬
‫کنجڑی‬
‫‪Kunjri‬‬
‫‪Vegetable-seller‬‬
‫یوگی‬
‫‪Yogi‬‬
‫‪A holy man‬‬
‫یاگی‬
‫‪Yagi‬‬
‫‪Bad tempered‬‬
‫بہشتی‬
‫‪Bhishti‬‬
‫‪Water-carrier‬‬
‫پردیسی‬
‫‪Pardesi‬‬
‫‪Foreigner‬‬
‫چیال‬
Chela
Disciple
‫حاجی‬
Hajji
Pilgrimage
‫جہنم‬
Jehannum
The Hell
‫توپ خانہ‬
Top-khana
The Artillery
‫فقیر‬
Fakirs
Beggars
‫گھی‬
Ghee
Butter
‫نٹ کٹ‬
Nut-cut
Rogue
‫پیاڑین‬
A Pahareen
A hill woman
‫مدرسہ‬
Madrissa
School
‫بالوشاہی‬
Balushahi
A sweet
‫س ّنی‬
ُ
Sunni
A Muslim sect
‫مہترانی‬
Mehtrani
‫‪Sweepress‬‬
‫بھنگی‬
‫‪Bhungi‬‬
‫‪Sweeper‬‬
‫رڈیارڈ کپلنگ کی کہانیوں کے جائزے سے بھی اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ اُس‬
‫کی تحریروں میں ہندوستان کو ایک نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے کیوں کہ اس کے دل‬
‫میں ہندوستان کے لیے خاص مقام تھا۔ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی گیا مگر ہندوستان اس‬
‫کے دل و دماغ پر ہمیشہ حاوی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیقات کا واحد اور گہرا‬
‫پس منظر ہندوستان ہی ہے۔ کچھ نقادوں کے مطابق کپلنگ کی ہندوستان کے متعلق‬
‫کہانیوں کے دو بڑے گروپ ہیں۔ ایک وہ جو اینگلو انڈین سوسائٹی اور شملہ سے متعلق‬
‫ہیں جبکہ دوسرے گروپ م یں ہندوستان کے مقامی باشندوں بشمول ان پڑھ اور تعلیم یافتہ‬
‫کے بارے میں تحریر کردہ کہانیاں ہیں جبکہ ہنری جیمس "‪ "Henry James‬نے‬
‫ہندوستان کے بارے میں کہانیوں کو تین بڑے گروپوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں اول‬
‫الذکر اور زیادہ اہم مقامی باشندوں کی رسوم و رواج‪ ،‬معامالت اور معاشرت کی عکاسی‬
‫کرنے والی کہانیاں ہیں جو کہ مصنف کے گہرے مشاہدے اور اس کی دلچسپی کا ثمر‬
‫ہیں۔‬
‫‪Kipling's Indian impressions divide themselves into three groups,‬‬
‫‪one of which, I think, very much outshines the other. First to be‬‬
‫‪mentioned are the tales of native life, curious glimples of custom‬‬
‫‪and superstitions, dusry matters not beholden of the many, for‬‬
‫)‪which the author has a remarkable flair. (119‬‬
‫اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کپلنگ کو انگریزی ادب میں بہترین کہانی کار تسلیم کیا‬
‫جاتا ہے۔ اس کی شارٹ سٹوریز کے بڑے مجموعے حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫)‪Plain Tales from the Hills (1888‬‬
‫)‪We Willie Winkie (1888‬‬
‫)‪Soldiers Three (1888‬‬
‫)‪Life's Handicap (1891‬‬
‫)‪Many Inventions (1893‬‬
‫)‪The Jungle Book (1895‬‬
‫)‪The Second Jungle Book (1895‬‬
‫)‪In Black and White (1897‬‬
‫)‪The Day's Work (1898‬‬
‫)‪Phantom Rickshaw (1898‬‬
‫)‪Stalky and Company (1899‬‬
‫)‪Just so Stories (1902‬‬
‫)‪Traffics and Discoveries (1904‬‬
‫)‪Puck of Pook's Hill (1906‬‬
‫)‪The Eyes of Asia (1919‬‬
‫مگر یہاں تصویر کا دوسرا ُرخ پیش کرنا بھی ضروری ہے اور اس کے لیے‬
‫موقف کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے خیال میں کپلنگ‬ ‫بھوپال سنگھ کے ٔ‬
‫نے حقیقی ہندوستان کی عکاسی کرنے کی بجائے کچھ ابنارمل اور پراسرار عناصر کو‬
‫اجاگر کرنے میں زیادہ زور قلم صرف کیا ہے‪:‬‬
‫‪It is the abnormal and mysterious element in our life that Kipling‬‬
‫)‪constantly emphasizes. (120‬‬
‫لیکن یہاں پر اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ کپلنگ نے اگرچہ‬
‫ہندوستان کے بارے میں سب کچھ اور اس کے تمام کرداروں کے بارے میں نہیں لکھا۔‬
‫مگر جو کچھ اس نے انتخاب کیا ہے وہ ہندوستان سے باہر کا نہیں ہے۔ یہ ضرور کہا جا‬
‫سکتا ہے کہ حقیقی ہندوستان صرف وہ نہینہے جیسا کہ کپلنگ نے اپنی کہانیوں میں‬
‫دکھایا ہے اور وہ کچھ نہیں دکھایا جو حقیقی ہندوستان ہے یعنی ہندوستان کا عام آدمی‪،‬‬
‫غریب کسان‪ ،‬مزدور‪ ،‬غربت اور بیماری کا شکار عام آدمی‪ ،‬اور پھر یہاں کے فقیر‬
‫درویش‪ ،‬مذہبی تصوف‪ ،‬یہاں کی توہمات اور مختلف قسم کے عقائد و مذاہب وغیرہ جو کہ‬
‫اصل ہندوستان ہیں۔‬
‫پچھلے صفحے پر بیان کردہ اس کی کہانیوں کے مجموعے کا جائزہ لیا جائے تو‬
‫ہمیں ان سے قابل ذکر تعداد ان کہانیوں کی ملتی ہے جو کہ ہندوستان کی مقامی آبادی اور‬
‫تہذیب و معاشرت کی ترجمان ہیں۔ اور ان کو پڑھ کر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کپلنگ‬
‫ان دوسرے اینگلو انڈین لکھاریوں سے منفرد ہے جنہوں نے خصوصا ً ہندوستان کی‬
‫سرزمین کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔‬
‫سب سے پہلے اگر کپلنگ کی کتاب "‪ "The Jungle Book‬کا جائزہ لیا جائے‬
‫جو کہ اس لحاظ سے دوسری کتابوں سے مختلف ہے کہ اس میں حیوانات کے کرداروں‬
‫کو کچھ اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ انہیں اظہار خیاالت کے لیے قوت گویائی عطا‬
‫کی ہے اس کے لیے انہوں نے تشبیہ و تمثیل کا طریقہ کار اپنایا ہے۔ اس میں موگلی‬
‫"‪ "Mowgli‬نامی ایک ہندوستانی لڑکا جنگل میں زندگی گزارتا ہے ۔جنگل کے مختلف‬
‫جانوروں پر ہندوستان کی مختلف اقوام اور فرقوں کا گمان ہوتا ہے۔جس میں کنگ کوبرا‬
‫‪King Cobra‬انگریزی شہنشاہیت کا نمائندہ بن کر آتا ہے اور سب جانور ڈر کر اس کی‬
‫اطاعت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‬
‫محققین بتاتے ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں بھی اساطیری قصے بہت مقبول رہے ہیں‬
‫اور جانوروں کی کہانیاں سب سے پہلے مصری تہذیب کے زیر اثر تخلیق ہوئیں۔ پھر یہ‬
‫کہانیاں مغربی ایشیا اور بابل میں آ گئیں۔ فرقہ بدھ کی تمام کتب جن کو ’’جاتکا‘‘ کہتے ہیں‬
‫اسی طرز کی ہیں۔ جبکہ ‪ ، Aesope Fables‬جنہیں شمس العلماء نذیر احمد دہلوی نے‬
‫حکایات لقمان کے عنوان سے ترجمہ کیا وہ بھی اسی قسم کی ہیں اس کے بعد بھی قدیم‬
‫ہندوستان میں جانوروں کی کہانیاں تحریر کی گئیں جو پنج تنتر اور ازاں بعد کلیلہ دمنہ‬
‫کے عنوان سے دنیا بھر میں مقبول ہوئیں۔ امریکی مصنف ایڈگر رائس بورس نے بھی‬
‫‪1912‬ء میں "‪’’ ، "Tarzen of the Apes‬بندروں کا ٹارزن‘‘ کا کردار متعارف کرایا۔‬
‫قدیم ہندوئوں اور یونانیوں نے بالشبہ اس جادو کو خوب سمجھا۔‬
‫کپلنگ نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے محسوس کیا کہ نصیحت کا‬
‫الویز نہیں ہو سکتا جتنا کہ جانوروں کو انسانی عادات و‬ ‫موثر اور د ٓ‬
‫کوئی طریقہ اتنا ٔ‬
‫خصائل کے جامے میں ملبوس کر کے انہی کی زبانی‪ ،‬ان کے باہمی مکالمات کے‬
‫ذریعے دلچسپ حکایات بیان کرتے ہوئے ایسے اخالقی نکتوں کا اظہار کیا جائے جن کو‬
‫سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا انسان کے لیے نہایت مفید ہو۔‬
‫موالنا ظفر علی خان جیسے ہمہ گیر انشا پرداز نے کپلنگ کی اسی کتاب ‪"The‬‬
‫"‪Jungle Book‬کا ترجمہ ’’ جنگل میں منگل ‘‘کے عنوان سے کر کے اسے عروس‬
‫اردو کی جبین ناز کا حسین زیور بنا دیا۔‬
‫کتاب کے آغاز میں جنگلی درندوں کے ’رات کے وقت کے گیت‘‪"Nigh Song ،‬‬
‫"‪in the Jungle‬کا موالنا ظفر علی خان نے کمال مہارت سے منظوم ترجمہ کیا جو‬
‫حسب ذیل ہے۔‬
‫‪Now Rann the Kite brings home the night‬‬
‫‪That Mang the Bat sets free--‬‬
‫‪The herds are shut in byre and hut,‬‬
‫‪For loosed till down are we,‬‬
‫‪This is the hour of pride and power‬‬
‫‪Talon and tush and claw‬‬
‫‪Oh, hear the call! Good hunting all,‬‬
‫!‪The keep the jungle law‬‬
‫‪Night song in the Jungle.‬‬
‫ب تیرہ و تار‬
‫صفحہ گیتی پہ ش ِ‬
‫ٔ‬ ‫چھا گئی‬
‫سو گئے زاغ و زغن اور ہوا شہپر ہشیار‬
‫گلے ڈھوروں کے سبھی بند ہوئے باڑوں میں‬
‫پو پھٹے تک عمل اپنا ہے کھلی اپنی مہار‬
‫زور و قوت کے دکھانے کی گھڑی آپہنچی‬
‫ہو گئے ناخن و چنگال سے ہم بھی تیار‬
‫اے لو! وہ شور ہوا دشت کے رہنے والو‬
‫آج کی رات میسر ہو تمہیں خوب شکار‬
‫( جنگلی درندوں کا رات کے وقت کا گیت) (‪)۱۲۱‬‬
‫کوہستان سیسانی "‪ "Seeonee hills‬کا منظر نامہ پیش ہوتا ہے اور گیدڑ‬ ‫ِ‬
‫’’طباقی‘‘ کا تعارف کروایا جاتا ہے‪:‬‬
It was the jackal—Tabaqui, the Dish-licker—and the wolves of
India despise Tabaqui because he runs about making mischief,
and telling tales, and eating rags and pieces of leather from the
village rubbish-heaps. But they are afraid of him too, because
Tabaqui, more than anyone else in the jungle, is apt to go mad,
and then he forgets that he was ever afraid of anyone, and runs
through the forest biting everything in his way. Even the tiger runs
and hides when little Tabaqui goes mad, for madness is the most
disgraceful thing that can overtake a wild creature. We call it
hydrophobia, but they call it dewanee—the madness— and run.
(122)
‫صاف کرنے واال) اور ہندوستان‬/‫’’ یہ ایک گیدڑ تھا۔ طباقی۔۔۔ یعنی (رکابی چاٹنے‬
‫کے تمام بھیڑئیے اس سے متنفر تھے کیونکہ وہ ہر وقت شرارتیں کرتا ہے باتیں بناتا‬
‫ اور دیہات میں گندگی کے ڈھیروں سے چمڑے کے ٹکڑے اور دوسری گندی چیزیں‬،‫ہے‬
‫کھاتا ہے لیکن وہ سب اس سے خوفزدہ رہتے کیونکہ طباقی دوسروں سے زیادہ پاگل پن‬
‫کے دورے کا شکار ہو جاتا اور اس کیفیت میں اتنا نڈر ہو جاتا کہ اس کے اندر کسی قسم‬
‫کا خوف بھی باقی نہیں رہتا تھا اور جنگل میں اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو کاٹنے‬
‫کو دوڑتا۔ جب چھوٹے سے طباقی پر دیوانگی طاری ہوتی تو پھر شیر بھی کنارہ کش ہو‬
‫کر چھپ جاتا۔ اس طرح کا پاگل پن جنگلی مخلوق میں ایک نہایت ذلت آمیز عمل ہے۔ ہم‬
‫(خوف آب) کہتے ہیں مگر وہ اس حالت کو دیوانگی اور پاگل پن‬ ِ ‫اس کو ہائیڈروفوبیا‬
‘‘‫کہتے ہیں اور اس سے دور بھاگتے ہیں۔‬
:‫جنگل کے قانون کا احوال بھی بھیڑیئے کی زبانی کپلنگ یوں بیان کرتا ہے‬
The Law of the Jungle lays down very clearly that any wolf may,
when he marries, withdraw from the Pack he belongs to. But as
soon as his cubs are old enough to stand on their feet he must
bring them to the Pack Council, which is generally held once a
month at full moon, in order that the other wolves may identify
them. After that inspection the cubs are free to run where they
please, and until they have killed their first buck no excuse is
accepted if a grown wolf of the Pack kills one of them. The
punishment is death where the murderer can be found; and if you
think for a minute you will see that this must be so. (123)
‫’’جنگل کے قانون میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی بھیڑیا جو شادی کرلیتا ہے‬
‫وہ اپنے غول سے الگ ہو جاتا ہے مگر جب اس کے بچے اپنے پائوں پر چلنے پھرنے‬
‫کے قابل ہو جائیں تو اس پر الزم آتا ہے کہ انہینغول کی کونسل (مجلس) میں ساتھ الئیں‬
‫جو کہ عموما ً مہینے میں ایک مرتبہ چودہویں رات کی چاندنی میں منعقد ہوتی ہے تاکہ ان‬
‫کی شناخت دوسرے بھیڑیوں کے ساتھ کرائی جا سکے۔ اس معائنہ کے بعد انہیں کھلے‬
‫عام جہاں کہیں وہ جانا چاہیں‪ ،‬گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے اور پھر ان کے پہلے‬
‫شکار کے پکڑنے تک اگر کوئی دوسرا بھیڑیا انہیں مار ڈالتا ہے تو کوئی معذرت قبول‬
‫نہیں کی جاتی بلکہ قاتل جہاں کہیں ملے اس کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ اگر آپ ایک‬
‫لمحے کے لیے غور کرو تو معلوم ہوجائے گا کہ اس قانون کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔‘‘‬
‫شوری سے خطاب کرتے ہوئے جنگل کے‬ ‫ٰ‬ ‫آگے بڑھتے ہیں تو ایک چیتا مجلس‬
‫قانون کے ایک ماہر قانون دان کی طرح تشریح کرتے ہوئے ملتا ہے اور خون بہا سے‬
‫متعلق بات کرتا ہے‪:‬‬
‫‪‘O Akela, and ye the Free People,’ he purred, ‘I have no right in‬‬
‫‪your assembly, but the Law of the Jungle says that if there is a‬‬
‫‪doubt which is not a killing matter in regard to a new cub, the life‬‬
‫‪of that cub may be bought at a price. And the Law does not say‬‬
‫‪who may or may not pay that price.‬‬
‫)‪Am I right? (124‬‬
‫’’اے اکیلے‪ ،‬اور دوسرے آزاد لوگو‪ ،‬مجھے آپ کی مجلس میں ایسی بات کہنے کا‬
‫حق تو نہیں ہے مگر جنگل کا قانون کہتا ہے کہ اگر کسی نئے بچے کی شناخت کے‬
‫م تعلق کوئی شک ہو تو اس کی جان کی قیمت (خون بہا) ادا کر کے خریدی جا سکتی ہے‬
‫مگر قانون یہ واضح نہیں کرتا کہ کون کون خون بہا ادا کرے اور کون نہ کرے۔ کیا میں‬
‫درست کہتا ہوں؟‘‘‬
‫پھر سفید دریائی بچھڑے اور دریاکی گائے کی لوری ہے اور ِر ّکی ٹکی جو کہ‬
‫ایک نیوال ہے اس کی کالے ناگ کے ساتھ سگولی کی چھائونی کے ایک بنگلہ کے غسل‬
‫خانے میں اس بڑی لڑائی کی کہانی ہے جو اس نے چھچھوندر کی مدد سے لڑی۔‬
‫اور آخر میں ایک مہاوت کے لڑکے تو ماہی)‪ (Toomai‬کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس‬
‫کہانی کے آغاز میں کالے ناگ ہاتھی کا ذکر ہے جس نے گورنمنٹ آف انڈیا کی سینتالیس‬
‫سال خدمت کی اور خاص طور پر اس وقت مدد کی جب ایک توپ کیچڑ میندھنس گئی تو‬
‫اس نے ایک ہی زوردار جھٹکے سے اسے باہر نکال دیا۔ اس واقعے کو جنگ افغانستان‬
‫جو ‪1842‬ء میں ہوئی اس سے پہلے کا بتایا گیا ہے۔‬
‫‪Kala Nag, which means Black Snake, had served the Indian‬‬
‫‪Government in every way that an elephant could serve it for forty-‬‬
‫‪seven years, and as he was fully twenty years old when he was‬‬
‫‪caught, that makes him nearly seventy—a ripe age for an‬‬
‫‪elephant. He remembered pushing, with a big leather pad on his‬‬
‫‪forehead, at a gun stuck in deep mud, and that was before the‬‬
‫)‪Afghan War of 1842. (125‬‬
‫اس کہانی کا اختتام بھی کچھ یوں ہوتا ہے کہ توماہی کو تمام ہاتھیوں نے ایک ساتھ‬
‫اپنی سونڈ ماتھے تک لے جا کر اس طرح سالمی دی اور چنگھاڑ ماری جو صرف‬
‫ہندوستان کے و ائسرائے کو دی جاتی تھی۔ یہاں بھی ہمینمحسوس ہوتا ہے کہ یہ‬
‫اینگلوانڈین پروٹوٹائپ کرداروں سے زیادہ فطری انداز میں مصور ہونے واال ایسا کردار‬
‫ت جگر ہے اور اپنی عمر سے کہیں زیادہ بہادر بھی کہ اس‬ ‫ہے جو کہ ایک مہاوت کا لخ ِ‬
‫کو اتنے بڑے اعزاز کا حقدار سمجھا گیا جو وائسرائے ہند کے عالوہ کسی کو بھی زیب‬
‫نہیں۔‬
‫‪And at that last wild yell the whole line flung up their trunks till the‬‬
‫—‪tips touched their foreheads, and broke out into the full salute‬‬
‫‪the crashing trumpet-peal that only the Viceroy of India hears, the‬‬
‫)‪Salaamut of the Keddah. (126‬‬
‫ان جانوروں کی حکایات سے ہٹ کر کپلنگ کی دوسری کہانیوں پر نظر کی جائے‬
‫تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تحاریر عہد وکٹوریہ کے پسے ہوئے عوام کے لیے‬
‫ایک چیلنج تھیں ان کے لیے موت اور دوسرے انسانی مصائب کا بیان ایک دلچسپی کا‬
‫موضوع تھا مگر وہ اس حقیقت سے آنکھیں چرا کر گزر جاتے تھے انہوں نے ان کی‬
‫کاہلی‪ ،‬سستی اور آرام طلبی کے ایسے مناظر پیش کیے جنہوں نے ان کے چھوٹے‬
‫خوابوں اور سرابوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ‬
‫وہ ان مصائب و الم کو خاموشی سے سہتے رہتے تھے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ‬
‫اس کی رسائی بالشبہ ان ہندوستانی کرداروں کے باطنی احساسات‪ ،‬جذبات تک ہے جن کو‬
‫اس نے اپنی کہانیوں میں اجاگر کیا ہے جیساکہ وہ خود اپنی کتاب "‪"Life's Handicap‬‬
‫کے دیباچے مینرقم طراز ہیں‪:‬‬
‫‪I write of life and earth, men and women, love and fate according‬‬
‫‪to the measure of my ability, telling the tale through the mouth of‬‬
‫)‪one, two or, more people. (127‬‬
‫اسی کتاب کے ٹائیٹل پر کپلنگ نے ایک جملہ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ میں دہلی‬
‫کی شاہراہ پر سینکڑوں لوگوں سے مال اور وہ سب میرے بھائی تھے۔‬
‫‪I met a hundred men on the road to Delhi and they were all my‬‬
‫‪brothers.‬‬
‫‪Hart‬کے مطابق‪:‬‬
‫‪He can put himself in their emotions, their motives, to a degree‬‬
‫‪possible only for one who had been brought up among them, who‬‬
‫‪had spoken, like Tods or we Willie Winkie, many of their dialects,‬‬
‫‪delighted in their society, and regarded them as brothers. It is‬‬
‫‪from this point of view then, the point of view of emotions and‬‬
‫)‪motives that Kipling's portrayal of natives is best discussed. (128‬‬
‫’’اس نے خود پر ان لوگوں کے احساسات و جذبات کو طاری کرکے دیکھا اور ممکنہ‬
‫طور پر ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو ان کے درمیان پال بڑھا ہو اور جس نے‬
‫‪Tods‬یا ‪ we Willie Winkie‬کی طرح مقامی لب و لہجے میں گفتگو کی ہو ان کے‬
‫معاشرے میں خوشی سے رہا ہو اور انہیں بھی اپنا بھائی سمجھتا ہو۔ یہ ایسا نقطہ نظر ہے‬
‫کہ جس سے کپلنگ کی ان لوگوں کے احساسات و جذبات کی مصوری کو اچھے طریقے‬
‫سے زیر بحث الیا جا سکتا ہے۔‘‘‬
‫ان کہانیوں کے جائزے سے یہ خیال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ کپلنگ کے لیے‬
‫ہندوستان سب سے پہلے ان نوابوں اور مہاراجوں پر مشتمل ہے جن کی ریاستیں اور وہاں‬
‫کے عوام ان ک ی شدید قسم کی بدانتظامیوں کا شکار ہیں جبکہ ان نوابوں اور مہاراجوں کو‬
‫ان کے سیاسی مشیران ہمیشہ ہوشمندی کی طرف آنے کو مجبور کرتے ہیں اور اس قسم‬
‫اعلی طبقے کی نمائندگی کرنے والے کردار ہیں۔ اس کے‬ ‫ٰ‬ ‫کے لوگ اس کی کہانیوں میں‬
‫برعکس دوسرا طبقہ جس کی عکاسی کی گئی ہے وہ عوامی طبقہ ہے یہ کسانوں اور‬
‫ادنی طبقے میں‬‫ادنی طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس ٰ‬‫غریب کاشتکاروں پر مشتمل ہے یہ ٰ‬
‫مزدوروں‪ ،‬دستکاروں کے تمام درجات اور پھر مالزمین میں گھریلو خانساموں سے لے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کر سپاہی تک شامل ہیں۔ مگر سب سے اہم وہ متوسط اور بورژوائی طبقہ ہے جو ان‬
‫ادنی طبقوں کے درمیان ہے جو نہ اوپر والے طبقے میں شامل ہو سکتا ہے اور نہ‬ ‫اور ٰ‬
‫نچلے طبقے کا فرد بننا قبول کر تا ہے اس طبقے کے لیے کپلنگ کے جذبات تضحیک‬
‫آمیز‪ ،‬تمسخرانہ اور نفرت انگیز ہیں۔ اس طبقے میں مغربی تعلیم حاصل کرنے والے‬
‫ہندوستانی‪ ،‬کلرک‪ ،‬وکال‪ ،‬ج جز کے عالوہ سول سروس کے ممبران بھی شامل ہیں۔ اس‬
‫کے لیے یہ لوگ ہندوستان میں انگریزوں کی طرف سے کیے جانے والے تعلیمی تجربات‬
‫کی مصنوعی پیداوار تھے جن کے چہرے مصنوعی لبادوں مینملفوف تھے اور اب وہ‬
‫انگریزوں سے زیادہ انگریز "‪ "English more than English‬بن چکے تھے۔ ساتھ‬
‫ہی انہوننے اپنی اصل ہندوستانی شناخت کو کہیں گم کر دیا۔ مگر اس کے عالوہ کپلنگ‬
‫کی شاید ان سے نفرت کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ہی ایسا طبقہ ہو سکتا تھا جو‬
‫کہ انگریزوں کے عہد حکومت مینہندوستان کی پرسکون فضا میں کوئی طوفان کھڑا کر‬
‫کے ان کے لیے کوئی چیل نج بن سکتا تھا۔ جیسا کہ سررچرڈ ٹیمپل نے بھی لکھا ہے کہ یہ‬
‫تعلیم یافتہ ہندستانی خود مختار حکومت‪ ،‬سیاسی طاقت یا نمائندگی کا مطالبہ کر سکتے‬
‫تھے جو کہ موجودہ نظام حکومت کے دائرہ کار سے ماورا ہو۔‬
‫‪The educated Indians are also moved by aspiratiosn for self‬‬
‫‪government, for political power, and even for representative‬‬
‫‪institutions, the concession of which does not at present fall with‬‬
‫)‪in the range of practical politics.(129‬‬
‫اس کے عالوہ بنگالی بھی اس متوسط تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور‬
‫ان کے ساتھ بھی کپلنگ کا رویہ مخاصمانہ ہے اور ان کو ’’دی جنگل بک‘‘ میں بندر لوگ‬
‫"‪"Bunder Log‬کہا گیا ہے۔ کپلنگ کی کتاب "‪ "In Black and White‬ہندوستانی‬
‫معاشرت کی ایک اہم جہت یعنی ہندوستان کی سرحدی زندگی کی عکاس ہے جس کا‬
‫فوکس پٹھانوں‪/‬پختونوں کا طرز حیات ہے۔ یوں یہ کہانیاں ان کی رسوم و رواج‪ ،‬قبائلی‬
‫عادات و خصائل کی دستاویز کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ اور چند کردار ہی اپنے ظاہر‬
‫و باطن کے گوشے اجاگر نہیں کرتے بلکہ پوری معاشرتی فضا کو بڑی مہارت سے‬
‫منکشف کیا گیا ہے۔ اس لیے "‪ "Dray, Ware you bee‬پٹھان کردار کا گہرا مشاہدہ‬
‫ہے۔‬
‫پٹھان کرداروں کی بہادری اور ان کا مارشل عالقوں اور جنگجو قبائل سے تعلق‬
‫کو کپلنگ نے بہت سراہا ہے۔ اس کے مطابق پٹھانوں میں بے پناہ جوش و جذبہ ہے مگر‬
‫سمجھ بوجھ اور عقل کی کمی ہے جس کی وجہ سے ان کے فیصلے اور ایکشن‪ ،‬اندھا‬
‫دھند یعنی بغیر سوچے سمجھے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان کی محبت ہو یا نفرت‪ ،‬دونوں ہی‬
‫جذبے انتہائوں کو چھوتے ہیں اس کی یہ کہانی خاندانی اور قبائلی دشمنی پر مبنی ہے جو‬
‫کہ اپنی بیوی کی بے وفائی سے مشتعل ہو جاتا ہے اور اس کی گردن پر ایک ہی کاری‬
‫ضرب لگاتا ہے اور اس کے پستان جسم سے الگ کر دیتا ہے۔ ‪"hacked off the‬‬
‫"‪ ، breast‬تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کے کرتوت کا علم ہو سکے۔ یہ اس لیے کرتا ہے‬
‫تاکہ اس کا عاشق بھی یہ دیکھ کر تڑپے اور اس سے انتقام بھی لے سکے۔ پھر پورے‬
‫ہندوستان میں اس کا پیچھا کرتا ہے اس طرح کے انتقامی آدمی کو حکومتی قانون کا بھی‬
‫کوئی خوف نہیں ہے اور وہ کچھ اس قسم کی باتیں کرتا ہے کہ تمہارے قانون کی میرے‬
‫نزدیک کیا حقیقت ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ معاملہ شروع ہو گیا ہے تو اب جب خدا چاہے گا‬
‫تو اس وقت ختم ہو جائے گا۔ اس ملک میں جہاں یہ وقوعہ ہوا ہے اگر یہاں یہ ختم نہ ہوا‬
‫تو میں جہنم تک بھی اس کا پیچھا کروں گا۔‬
‫‪Your Law! What is your Law to me? When the horses fight on the‬‬
‫‪runs do they regard the boundary pillars; or do the kites of Ali‬‬
‫‪Musjid forbear because the carrion lies under the shadow of Ghor‬‬
‫‪Kuttri? The matter began across the Border. It shall finish where‬‬
‫)‪God pleases. Here, in my own country, or in Hell. (130‬‬
‫اپنے حریف دائود خان کو قتل کرنا ایک قتل نہیں بلکہ عین انصاف کے تقاضوں‬
‫کو پورا کرنا ہے اور اس کو صرف سزا دینے کے بعد ہی اسے ذہنی قلبی سکون میسر آ‬
‫سکتا ہے ورنہ دنیا کی کوئی دولت نہ اس کے دکھ کا مداواکرسکتی ہے اور نہ ہی کوئی‬
‫چیز اس کی تشفی کر سکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالتا ہے کہ‬
‫دائود کا سر قلم کرنا ہی خدا کی منشا ہے۔‬
‫‪Surely my vengeance is safe! Surely God hath him in the hollow‬‬
‫‪of His hand against my claiming. There shall no harm befall‬‬
‫‪Daoud Shah till I come; for I would fain kill him quick and whole‬‬
‫‪with the life sticking firm in his body. A pomegranate is sweetest‬‬
‫‪when the cloves break away unwilling from the rind. Let it be in‬‬
‫‪the daytime, that I may see his face, and my delight may be‬‬
‫‪crowned. And when I have accomplished the matter and my‬‬
‫‪Honour is made clean, I shall return thanks unto God, the Holder‬‬
‫‪of the Scale of the Law, and I shall sleep. From the night, through‬‬
‫‪the day, and into the night again I shall sleep; and no dream shall‬‬
‫)‪trouble me. (131‬‬
‫اسی قسم کی دوسری کہانیوں میں کپلنگ کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ‬
‫ہندوستان میں مارشل نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کو دوسری ہندوستانی اقوام خصوصا ً‬
‫بنگالیوں سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس طرح کی نسلی عصبیت کے رویے کا اظہار‬
‫ایک کہانی "‪ "The Head of the District‬میں بھی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ہیڈ آف‬
‫ڈسٹرکٹ جو کہ ایک بنگالی ہے اس کا نام مسٹر گرش چندر ‪Mr. Girish Chunder‬‬
‫‪ De, M.A‬ہے اور کپلنگ کے بقول وہ بھی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار والی پالیسی کا‬
‫عملی اظہاریہ ہے کپلنگ اس کے تعارف میں اس کے لیے تعریفی کلمات بھی کہتا ہے‪:‬‬
‫‪....a beautiful man so far as routine and deskwork go, and‬‬
‫)‪pleasant to talk to. (132‬‬
‫اپنی گزشتہ سروس میں وہ ہمیشہ اپنے قریبی اضالع میں تعینات رہا اور لوگوں‬
‫میں مقبول بھی مگر اب اسے ایک دور دراز ایسے ضلع میں تعینات کیا گیا جو اس کے‬
‫لیے اجنبی ضلع ہے مگر یہ اس کی اپنی غلطی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کی ہے جو اس‬
‫کی تقرری کے اختیار کے حامل ہیں یعنی ہندوستان کے حاکم ہیں۔ یہاں اس کے لیے پٹھان‬
‫جس طرح کے سخت اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں انہیں سن کر شرمندگی‬
‫محسوس ہوتی ہے جیسے کہ وہ اسے ڈاگ "‪ ، "Dog‬سویپر "‪ "Sweeper‬یا کاال آدمی‬
‫"‪ "Kala admi‬کہہ کر اس کی توہین کرتے ہیں دوسری طرف یہ الفاظ ہمیں یہ سوچنے‬
‫پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا یہ ذخیرہ الفاظ مقامی لوگوں کے اذہان میں ہے یا کہ خود‬
‫کپلنگ کے اپنے ذہن کی اختراع اور اس کی اسی مخصوص سوچ کے آئینہ دار ہیں۔‬
‫پٹھان صرف ایک ہی زبان سمجھتا ہے اور وہ صرف طاقت کی زبان ہے ان کے‬
‫باہمی قبائلی اور سرحدی جھگڑوں اور خاص طور پر قبیلے کی سرداری کے تنازعات‬
‫کو بھی کپلنگ نے اپنی کہانیوں کا موضوع بنا کر اجاگر کیا ہے اس طرح کی رقابت ایک‬
‫نابینا ُم ّال "‪ "Blind Mullah‬اور خداداد خان کے مابین بھی ہے ان کی یہ چپقلش ایک‬
‫قبیلے کی سرداری کے حصول کے معاملے پر ہے دونوں ایک دوسرے کے خالف قبیلے‬
‫والوں کو اکساتے رہتے ہیں اور موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب دشمن ان کے زیر‬
‫دام آجائے۔ ُم ّال اپنے قبیلے والوں کو اُکساتا ہے کہ انگریزوں کے خالف بغاوت کی جائے‬
‫اور اس میں انہیں یقینا کامیابی حاصل ہو گی۔ دوسری طرف اس کا قریبی حریف‬
‫خداداخان انگریزوں سے مل کر ان کی مخبری کرتا ہے اور قبل از وقت انہیں ان کے‬
‫حملے کی اطالع فراہم کرتا ہے۔ ُم ّال کے لوگ جب انگریزوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو‬
‫پہلے سے تاک میں بیٹھے ہوئے ہوشیار دشمن ُم ّال کے آدمیوں کو نرغے میں لے لیتا ہے‬
‫پھر ُم ّال کے ساتھ جو ظلم اور بربریت سامنے آتی ہے وہ ناقابل بیان ہے کہ اس کو پکڑ‬
‫کر باندھا جاتا ہے اور اس کے جسم پر چاقو سے زخم لگائے جاتے ہیں ۔ وہ تڑپتا ہے‪،‬‬
‫کراہتا ہے‪ ،‬چیختا چالتا ہے تو اس کو اذیت دینے والے بتاتے ہیں کہ وہ اس کے لیے‬
‫خوبصورت مزار تعمیر کرائیں گے بچے نعرے لگاتے ہیں ’’’بھاگ ا و ُم ّال بھاگ‘‘ پھر‬
‫جب وہ اس دھینگا مشتی والے کھیل سے اکتا جاتے ہیں تو خدادادخان کا بھائی اس کی‬
‫پسلیوں میں چاقو گھسیڑ دیتا ہے اور ساتھ ہی خداداد خان بڑی سادگی کے ساتھ نعر ٔہ‬
‫مستانہ بلند کرتا ہے ’’آج سے میں خسرو خیل قبیلے کا سردار ہوں‘‘۔ کوئی بھی اس کے‬
‫اعالن کو رد نہیں کرتا اور یوں خاموشی سے سب پرسکون نیند سونے کے لیے روانہ ہو‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫‪They tickled him gently under the armpit with the knife-point. He‬‬
‫‪leaped aside screaming, only to feel a cold blade drawn lightly‬‬
‫‪over the back of his neck, or a rifle-muzzle rubbing his beard. He‬‬
‫‪called on his adherents to aid him, but most of these lay dead on‬‬
‫‪the plains, for Khoda Dad Khan had been at some pains to‬‬
‫‪arrange their decease. Men described to him the glories of the‬‬
‫‪shrine they would build, and the little children clapping their hands‬‬
‫‪cried, 'Run, Mullah, run! There's a man behind you!' In the end,‬‬
‫‪when the sport wearied, Khoda Dad Khan's brother sent a knife‬‬
‫‪home between his ribs. 'Wherefore,' said Khoda Dad Khan with‬‬
‫‪charming simplicity, 'I am now Chief of the Khusru Kheyl!' No man‬‬
‫)‪gainsaid him; and they all went to sleep very stiff and sore. (133‬‬
‫اس طرح کے مناظر نہایت دل دہالنے والے اور یقینا ناخوشگوار ہیں مگر کپلنگ‬
‫نے انہی جزئیات کو بیان کر کے پوری معاشرتی فضا کو بڑی مہارت اور حقیقت پسندی‬
‫حوالہ قرطاس کیا ہے جو اس وقت بھی ہندوستانی معاشرت کے ایک خاص‬ ‫ٔ‬ ‫کے ساتھ‬
‫طبقے کی تہذیب‪ ،‬رسوم و رواج‪ ،‬قبائلی عادات و خصائل کی بڑی اچھی دستاویز ہے۔ آج‬
‫بھی یہ مناظر ہمیں حقیقت سے بعید اس لیے نظر نہیں آتے کیونکہ آج کے مہذب دور میں‬
‫بھی اس معاشرے میں اسی طرح کی بربریت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کپلنگ کی ان قبائلی‬
‫عوام کے بارے میں یہ رائے بھی بڑی اہم ہے کہ ہندوستان کی دوسری اقوام کے برعکس‬
‫انگریز کی حاکمیت کو ان قبائلیوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ انگریزوں کی مدح‬
‫سرائی صرف اس وقت کرتے جب ان کے ذاتی مفادات انہیں اس کے لیے مجبور‬
‫کردیتے۔‬
‫اسی طرح کی ایک اور کہانی اسی کتاب "‪ "Black and White‬میں ‪"On the‬‬
‫"‪City Wall‬ہے جس کا مرکزی کردار ولی داد"‪ "Wali Dad‬ہے جو کہ مشن سکول کا‬
‫تعلیم یافتہ ہے اور کچھ زیادہ ہی عقلمند ہو گیا ہے اور اسی عقلیت پسندی سے آگے‬
‫بڑھتے ہوئے مذہب بیزاری کا شکار ہو گیا اور ایک طوائف کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔ وہ‬
‫اچھے شاعرانہ تخیل کا مالک ہے اور اپنی محبوبہ اللن "‪ "Lalun‬کے لیے شاعری کرتا‬
‫ہے جو کہ کپلنگ کو مشرقی مبالغہ آمیز شاعری اور گل و بلبل کی عشقیہ روایت کا‬
‫حصہ معلوم ہوتی ہے اورا س کے گیت سن کر ‪ Lalun‬بہت محظوظ ہوتی ہے اور گل‬
‫یاسمین کی پتیاں نچھاور کرتی ہے‪:‬‬
‫‪His eyes glow like hot coals, and Lalun leans back among the‬‬
‫)‪cushions and throws bunches of jasmine-buds at Wali Dad. (134‬‬
‫اب اس کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ سوائے اپنی محبت کے وہ ہر چیز سے شاکی‬
‫تھا۔ کبھی اپنے ملک کے بارے میں اظہار مایوسی کرتا‪ ،‬کبھی عقیدے اور مذہب کو‬
‫طرز حیات‬
‫ِ‬ ‫ملعون ٹھہراتا جس پر اس کا ایمان ڈگمگا چکا تھا اور کبھی وہ انگریزوں کے‬
‫سخن بناتا جس کو وہ کبھی نہ سمجھ سکاتھا۔‬ ‫کو موضوعِ ُ‬
‫مگر ایک قابل ذکر بات جس کا ذکر کپلنگ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی تمام‬
‫ترعقلیت پرستی کے باوجود وہ موروثی مذہبی جنونیت سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا‬
‫تھا۔ جب محرم کے مہینے مینفرقہ ورانہ فسادات شروع ہوتے ہیں تو وہ بھی اسی گلی میں‬
‫تھا اور دامن بچا کر نکل سکتا تھا مگر ان فسادات میں وہ بھی کود پڑا اور آخری مرتبہ‬
‫جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو وہ اپنی محبوبہ ‪ Lalen‬کی دہلیزپر کچھ اس طرح پڑا ہوا‬
‫ہے۔‬
‫‪Agnostic and Unbeliever, shoeless, turbanless, and frothing at the‬‬
‫‪mouth, the flesh on his chest bruised and bleeding from the‬‬
‫‪vehemence with which he had smitten himself. A broken torch-‬‬
‫‪handle lay by his side, and his quivering lips murmured, 'Ya‬‬
‫)‪Hasan! (135‬‬
‫’’ زور زور سے سسکیاں بھرتے ہوئے اس کے بازو ہنس کے پروں کی طرح پھڑپھڑا‬
‫رہے تھے۔ یہ ولی داد تھ ا پکا دہریہ اور الادری‪ ،‬ننگے پائوں اور ننگے سر‪ ،‬منہ سے کف‬
‫ت ضرب سے خون کے‬ ‫بہہ رہی تھی۔ اس کے سینے سے گوشت پھٹا ہوا تھا اور شد ِ‬
‫فوارے پھوٹ رہے تھے ایک ٹوٹی ہوئی مشعل کا دستہ اس کے پاس پڑاہوا تھا اور اس‬
‫کے کپکپاتے ہونٹوں سے ہلکی آواز ابھری‪ ،‬یا حسین ؑ‪ ،‬یا حسین ؑ‘‘!‬
‫ایک اور کہانی "‪ "Flood Time‬میں ایک مسلمان اور ایک ہندو بیوہ کے درمیان‬
‫تعلق کی داستان ہے جو ’عشق نہ پچھے ذات‘ والے فلسفے کی ترجمان ہے اس میں یہ‬
‫بتایا گیا کہ محبت میننہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی‪ ،‬نہ کوئی مواحد نہ بت پرست‪ ،‬بس محبت‬
‫کا شعلہ ایسا ہے جو ایندھن کے گٹھے کو بھی کلی طور پر آن واحد میں ہی بھسم کر دیتا‬
‫ہے۔‬
‫;‪There is neither Shiah nor Sunni, forbidden nor idolater, in Love‬‬
‫‪and the Nine Bars are but nine little fagots that the flame of Love‬‬
‫)‪utterly burns away. (136‬‬
‫اتفاق سے وہ بیوہ گائوں کے نمبردار کی ہمشیرہ تھی اور عاشق اس عشق کے‬
‫ممکنہ نتائج سے بھی باخبر ہے کپلنگ اس عاشق و معشوق کی دریا کی لہروں کو‬
‫پچھاڑتے ہوئے دوسرے کنارے پر ہونے والی شبینہ مالقاتوں کا احوال کچھ اس انداز‬
‫سے بیان کرتا ہے کہ سوہنی کے کچے گھڑے کی بازگشت سنائی دیتی ہے اگرچہ یہاں‬
‫محبوبہ نہیں بلکہ محبوب دریا عبور کر کے دوسرے کنارے پر مالقات کے لیے پہنچتا‬
‫ہے مگر شومئی قسمت کہ اسی دوران میں ایک سکھ ان کی محبت کے درمیان حائل ہو‬
‫جاتا ہے وہ سکھ اس خاتون کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر اس نے اپنی محبت کا رخ تبدیل کر‬
‫کے اس کی طرف نہ موڑا تو وہ اس مسلمان کے ساتھ اس کی مالقاتوں کا احوال اس کے‬
‫بھائی کے سامنے کھول دے گا۔ پھر وہ رات آ پہنچی جب عاشق نامراد مالقات کے لیے‬
‫بپھرے دریا سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ وہ اپنی اس کوشش میں ختم ہو جاتا مگر ایک الش‬
‫نے کنارے تک پہنچنے میں اس کی مدد کردی۔ اور حیرت انگیز طور پر یہ الش اس‬
‫سکھ کی نکلتی ہے جو اس عورت کی محبت کا طالب تھا۔‬
‫کہانی کی اختتامی سطور مینکپلنگ اس آدمی کی عظمت کو جس نے اسے خود یہ‬
‫کہانی سنائی کچھ یوں اجاگر کرتا ہے۔ ’’جب وہ اسے کہتا ہے کہ کچھ رقم چاہیے! تو وہ‬
‫جواب میں کہتا ہے۔ نہیں صاحب جی! میں اس طرح کا آدمی نہیں ہوں ہر گز نہیں۔ بچوں‬
‫کی مٹھائی کے لیے بھی نہیں۔ میرا گھر جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں بالکل خالی ہے اور‬
‫میں خود ایک بوڑھا آدمی ہوں۔‘‘‬
‫‪Money? Nay, Sahib. I am not of that kind. No, not even to give‬‬
‫‪sweetmeats to the baby-folk. My house, look you, is empty, and I‬‬
‫)‪am an old man. (137‬‬
‫اسی کتاب کی ایک اور کہانی میں کھیم سنگھ "‪ "Khem Singh‬مرکزی‬
‫کردارایک سپاہی قیدی کاہے جس کو برما سے گرفتار کر کے الہور کے قلعے میں نظر‬
‫بند کیا جاتا ہے کپلنگ انگریزوں کے اس باغی اور انقالبی کردار کی تحسین میں کوئی‬
‫کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ وہ ‪۴۶‬۔‪ ۱۸۴۵‬ء کی سکھ وار مینانگریزوں کے خالف لڑا اور انہیں‬
‫بھاری نقصان پہنچایا۔ اس کے ‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ میں کردار کے بارے میں ریکارڈ‬
‫دستیاب نہیں۔ تاہم ‪۱۸۷۱‬ء میں ‪ Kuku‬بغاوت میں وہ شامل تھا۔ پھر اسے گرفتار کر کے‬
‫الہور کے قلعے میں نظر بند کیا جاتا ہے اور اس کی نگرانی کی ذمہ داری فوج کے ایک‬
‫چھوٹے لیفٹیننٹ رینک کے افسر کے ذمے لگائی جاتی ہے جو کہ اس کی بڑی عزت‬
‫کرتا ہے اور اچھا برتائو کرتا ہے وہ کبھی اپنے اندر کی باتیں اس سے کر کے دل کا‬
‫بوجھ بھی ہلکا کر لیتا ہے اور یہاں تک کہہ جاتا ہے۔‬
‫‪But from the beginning of today I would cut the throats of all the‬‬
‫)‪sahibs in the land if I could. (138‬‬
‫مگر جب قلعے کا کمانڈنگ آفیسر تبدیل ہوتا ہے تو ہر طرف تبدیلی آتی ہے دو‬
‫ٹامی جو اس چھوٹے افسر نے نگرانی کے لیے مقرر کر رکھے تھے ان کی جگہ پر‬
‫ہندوستانی گارڈ آ جاتے ہیں پھر وہ نیا کپتان اس سے اس طرح کی گفتگو کرتا ہے جو اس‬
‫کے جذبات کو مجروح کرتی ہے کپلنگ کپتان کے رویے پر بڑے طنزیہ انداز میں کہتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪Fifteen years before, when he had been caught for the second‬‬
‫‪time, every one looked upon him as a sort of tiger. He liked being‬‬
‫‪regarded in this light. But he forgot that the world goes forward in‬‬
‫‪fifteen years, and many Subalterns are promoted to Captaincies.‬‬
‫)‪(139‬‬
‫پھر ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں اور وہ جیل سے بھاگ نکلتا ہے اور نہ جانتے ہوئے‬
‫کچھ سازشیوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہتا ہے لیکن بوڑھے آدمی کو یہ نئی آزادی ایک‬
‫دھوکہ لگتی ہے کیونکہ وہ ہندوستان جو اس کی جوانی میں تھا اب تبدیل ہو چکا ہے اور‬
‫اب ہندوستانی رہنمائوں نے انقالبی جنگ کو آئینی ‪ ،‬قانونی اور سیاسی جدوجہد میں تبدیل‬
‫کر دیا ہے اور یہ ایسی تبدیلی ہے جو بوڑھے کی سمجھ سے باال تر ہے اس لیے وہ‬
‫دوبارہ خود الہور قلعے میں جاتا ہے اور باعزت طور پر اپنے آپ کو کیپٹن کے حوالے‬
‫کر دیتا ہے۔‬
‫"‪ "Through the Fire‬بھی ہندوستان کی روایتی محبت کا ایک قصہ ہے جو‬
‫ایک شادی شدہ سکھ سپاہی "‪ "Suket Singh‬اور غریب کارکن کی بیوی کے درمیان‬
‫تعلقات کے بارے میں ہے۔ جب اس عورت کا خاوند اس کو مارتا پیٹتا ہے تو وہ سپاہی اس‬
‫کو ساتھ رجمنٹ میں لے جاتا ہے۔ پھر گائوں کے جادوگر ‪ Juseen Daze‬کا دلچسپ‬
‫کردار سامنے آتا ہے جو کہ ایک جادوگر ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ وہ جادو ٹونہ کر‬
‫کے اس عورت کو اس کے سابقہ شوہر کو مال دے۔ اور پھر بیوی کے فوت ہونے پر‬
‫مادو اس ایندھن کی لکڑی کا افسوس کرتا ہے جس کی قیمت پورے چار روپے بنتی ہے‬
‫بجائے اس کے کہ وہ بیوی کے مرنے کا رنج کرتا۔‬
‫اسی طرح کی ایک اور کہانی "‪ "At Twenty Two‬بھی ہے جو کہ جمپاری کی‬
‫کوئلے کی کانوں میں پیش آتی ہے کہ "‪ "Janki Meah‬ایک بوڑھا آدمی ہے جس نے‬
‫ایک کوئلہ کمپنی میں تیس سال نوکری کی۔ اس نے نابینا ہونے کے باوجود بہت محنت‬
‫کی اور ایک امیر آدمی بن گیا پھر اس نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ دوسری شادی‬
‫بھی کی۔ جب اس عالقے میں شدید سیالب آتا ہے تو نابینا ہونے کے باوجود کئی بچوں‪،‬‬
‫عورتوں اور مردوں کی زندگیاں بچاتا ہے اور انہی میں ایک نوجوان ُکندو بھی ہوتا ہے۔‬
‫مگر المیہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہفتے بعد ہی اس کی خوبصورت نوجوان بیوی اسی کندو‬
‫کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔‬
‫مذکورہ باال محبت کی تمام داستانیں ہندوستانی معاشرے کے نچلے طبقے کی‬
‫عکاس ہیں جو کہ اینگلو انڈین طبقے کی کہانیوں سے مختلف ہیں ان کہانیوں میں کپلنگ‬
‫کی ہمدردیاں اکثر عاشقوں اور محبت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ جس کی وجہ شاید یہ‬
‫ہے کہ کپلنگ کے خیال میں مشرق کی شادی‪ ،‬مغرب کی شادی سے مختلف تھی اس لیے‬
‫ہندوستان کی عورت کے لیے اس کے کچھ خاص تحفظات تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ‬
‫مغرب کی عورت کو جتنی آزادی اس معاملے میں حاصل ہے وہ مشرق کی عورت اور‬
‫بالخصوص نچلے طبقے کی ہندوستانی عورت کو بالکل بھی حاصل نہیں ہے۔‬
‫ہندوستانی معاشرے میں لوگوں کی روز مرہ زندگی میں ساہوکاروں اور سیٹھوں کا‬
‫کردار بھی بہت اہم ہے کپلنگ نے بھی ہندوستانی معاشرے کی اس دکھتی رگ پر ہاتھ‬
‫رکھا ہے اور ان ساہوکاروں اور سیٹھوں کے مکروہ دھندوں کو اجاگر کیا ہے اور اپنے‬
‫ذاتی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کئی اہم معلومات فراہم کی ہیں اور ان کی‬
‫دولت کی حرص اور ہوس کو خوب بیان کیا ہے مثالً ایک کہانی "‪ "Gemini‬میں‬
‫درگاداس "‪ "Durga Das‬اور رام داس "‪ "Ram Das‬دونوں بھائی ہیں۔ ان میں بہت‬
‫مشابہت ہے اب ایک بھائی دوسرے بھائی کی تباہی کی قیمت پر دولت حاصل کرتا ہے‬
‫اور اپنی قسمت بناتا ہے اور خوش ہوتا ہے اسی طرح "‪"The Fiances of Gods‬‬
‫میں ِشو "‪ "Shiv‬اور پربتی ایک نیک آدمی کو جو مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھتا ہے اس کو‬
‫نوازنے کی داستان ہے اور یہاں بھی ایک ساہوکار اس سے سودے بازی کے لیے پہنچ‬
‫جاتا ہے۔ "‪ "The Amir;s Homily‬بنیادی طور پر افغانستان کی کہانی ہے جس میں‬
‫امیر عبدالرحمان بیان کرتا ہے کہ ایک ساہوکار نے کس طرح اس کو قیمتی متاع سے‬
‫محروم کر دیا۔‬
‫دو کہانیوں "‪ "The Judgement of Dungara‬اور ‪"The Tomb of His‬‬
‫"‪ Ancesstors‬میں کپلنگ نے ہندوستان کے قدیم اور اصلی باشندوں کی عکاسی کی‬
‫ہے اس کے ساتھ ان سے مطابقت رکھنے والوں کو تعریف بھی ہر قسم کے تعصبات کو‬
‫باالئے طاق رکھتے ہوئے کی ہے خاص طور پر پورن بھگت "‪ "Puran Bhagat‬کے‬
‫اعلی تعلیم یافتہ ہے اور انگریزوں سے زیادہ انگریز بننے‬
‫ٰ‬ ‫کردار کی عکاسی۔ وہ بالشبہ‬
‫کی کوشش بھی کرتا ہے مگر وہ ایک بہترین منتظم اور ڈپلومیٹ بھی ہے۔ اپنی کامیاب‬
‫اور فعال زندگی گزارنے کے بعد وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ’بیراگی‘‪"Bairagi" ،‬‬
‫جیسی زندگی کو ترجیح دیتا ہے اس کے باوجود راستے میں جب اسے ایک پولیس واال‬
‫ملتا ہے تو وہ اس کو یعنی قانون کو احتراما ً سالم کرتا ہے کیوں کہ وہ اس کی قدر جانتا‬
‫ہے اور خود اپنے لیے قانون کی تالش میں ہے۔‬
‫‪He salaamed reverently to the law because he knew the value of‬‬
‫)‪it, and was seeking for a law of his own. (140‬‬
‫موثر تھا کہ دوسرے انگریزناول نگاروں خاص طور پر‬ ‫یہ کردار اتنا مقبول اور ٔ‬
‫ایڈورڈ تھامسن "‪ "Edward Thompson‬کی "‪ "An Indian Diary‬اور سمر سٹ ماہم‬
‫"‪"Somerset Maugham‬کی "‪ "In the Razor Edge‬میں بازگشت سنائی دیتی‬
‫ہے۔‬
‫انگریزی فوج کا ہندوستانی سپاہی جو کہ اس معاشرے کا ایک اہم ‪ ،‬متحرک اور‬
‫فعال کردار تھا اسے بھی کپلنگ نے اپنی تحریروں میں نمایاں جگہ دی ہے اور ان کے‬
‫ساتھ وابستہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کی عکاسی بھی کچھ اس طرح سے کی ہے کہ‬
‫معاشرے میں ان کا مقام اور حیثیت ہماری نظروں کے سامنے آتی ہے ان کی جرأت اور‬
‫بہادری کو بھی سراہا ہے پھر اس کے بیانیے میں ایک دلچسپ تبدیلی ‪"The Eye of‬‬
‫"‪Asia, 1919‬میں دیکھنے میں آئی جس میں اس نے مکتوب نگاری اور مراسلہ نگاری‬
‫کا طریقہ کار اپنایا۔ اس جلد میں چار کہانیاں ان خطوط پر مشتمل ہینجن کے مراسلہ نگار‬
‫پہلی جنگ عظیم میں ہندوستان سے دور لڑائی میں شریک تھے اور گھر والوں سے‬
‫رابطے اور اپنے جذبات کے اظہار کا واحد ذریعہ یہی خطوط تھے اس کاتفصیالً تجزیہ‬
‫لکھنو یونیورسٹی سے اپنے مقالے "‪ "The Tropic Sun‬میں کیا‬ ‫ٔ‬ ‫‪K.Jamiluddin‬نے‬
‫ہے۔ ایک کہانی میں صوبیدار میجر بشن سنگھ ایک ریٹائرڈ رسالدار میجر کو ایک‬
‫ہندوستانی ہسپتال سے خط لکھتا ہے جہاں پر وہ زیر عالج ہے اور اس کو گہرے گھائو‬
‫لگے ہوئے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ وہ تندرست ہونے کے بعد بھی اپنی ڈیوٹی کرنے کے‬
‫قابل نہیں ہو گا پ ھر بھی وہ مطمئن ہے وہ اپنے دوست کو خط لکھتا ہے جس میں اس عہد‬
‫اعلی ذاتوں کا ذکر ان کی مخصوص خصوصیات کے‬ ‫ٰ‬ ‫کی روایات و حکایات اور مختلف‬
‫ساتھ ملتا ہے۔‬
‫‪The Brahmin who steals,‬‬
‫‪The widow who wears ornaments,‬‬
‫‪The Rajput who avoids the battle,‬‬
‫)‪Are only fit for crow's meat. (141‬‬
‫’’ وہ برہمن جو چوری کرے یعنی ایماندار نہ ہو اور ایسی بیوہ جو زیورات پہنے‬
‫اور کوئی راجپوت جو میدان جنگ سے کترائے یہ سب لوگ کسی کام کے نہیں سوائے‬
‫کوئوں کو کھالنے کے لیے۔‘‘‬
‫اس طرح کا ایک اور خط "‪ "Trooper of Horse‬میں ہے جو ایک نوجوان‬
‫مسلمان ن ے پنجاب میں رہائش پذیر اپنی والدہ محترمہ کو میدان جنگ سے لکھا ہے اور‬
‫کتنی بہادری سے اپنی ماں کو دالسہ دیتا ہے۔‬
‫’’ ماں میری حفاظت کے لیے خدا پر یقین رکھیے! اگر میری قبر فرانس میں لکھی‬
‫ہے تو یہ پنجاب میں نہیں بن سکتی خواہ اس کے لیے ہزار سال تک بھی کوشش کریں۔‘‘‬
‫‪Mother put your trust in God to guard my head, If my grave lies in‬‬
‫‪France it can never be in the Punjab, though we try for a‬‬
‫)‪thousand years. (142‬‬
‫ہندوستان کی عورت کا ذکر بھی کپلنگ نے بڑی خوبی سے کیا ہے اس میں ان کی‬
‫اعلی تفکر اور سوجھ بوجھ کی بدولت ہی نہیں بلکہ اس‬
‫ٰ‬ ‫عظمت صرف ان کے مشاہدات‪،‬‬
‫میں ان کی تخلیقی صالحیتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے جن کے ذریعے انہوں نے عورت‬
‫کے حوالے سے اپنے تصورات کو فنکارانہ رچائو کے ساتھ اپنی کہانیوں میں جذب کیا‬
‫ہے۔ ایسی بیشتر کہانیوں میں سماجی زوال کی تلخیاں رچی ہوئی ہیں مگر مزاح کے‬
‫ہلکے ہلکے رنگوں سے وہ فضا کو بوجھل نہیں ہونے دیتے اور بعض اوقات ظرافت کے‬
‫ابرپاروں سے غم کی دھوپ کو قابل برداشت بناتے ہیں اور یوں یہ کیفیت انفرادی سے‬
‫بڑھ کر اجتماعی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اس کا دائرہ پھیل کر تمام تہذیبی اور سماجی‬
‫قدروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‬
‫نوآبادیاتی عہد کے ہندوستانی معاشرے میں عورت ایک عالمتی اہمیت رکھتی‬
‫تھی۔ جاگیردارانہ معاشرے میں نچلی ذات کی عورت گھر کے اندر اور باہر کے تمام‬
‫اعلی طبقے کی بیگمات کے پاس سجنے سنورنے کے‬ ‫ٰ‬ ‫امور کی انجام دہی کرتی تھی مگر‬
‫عالوہ کوئی قا بل ذکر کام نہیں تھا۔ اس لیے وہ انہی امور میں مصروف رہتیں۔‬
‫کپلنگ نے عورت کی جس کالس کی بھرپور عکاسی کی ہے اس کا جائزہ لیا‬
‫جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مشرقی بیگمات اور زیورات سے لدی پھندی‬
‫مہارانیوں کو اہمیت دینے کے بجائے معاشرے کے اس مخصوص طبقے کو اجاگر کیا‬
‫ہے جس کے بارے میں معاشرے کی کچھ عمومی رائے زیادہ اچھی نہیں ہے مگر اس‬
‫عہد کے سماج میں اس کی اہمیت ُمسلّم ہے اور وہ طوائف کا کردار ہے۔ جس کے ذریعے‬
‫بظاہر تو اس نے طوائف کی زندگی کو موضوع بنایا ہے مگر درحقیقت اس عہد کے‬
‫انسان کی زندگی کے متعدد پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ نوابوں ‪،‬راجوں اور مہاراجوں کی‬
‫خلوت و جلوت کو قریب سے دیکھا اور دکھایا ہے۔ ہندوستانی معاشرت مینطوائف صرف‬
‫ایک کردار نہیں بلکہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس لوگوں کے جمالیاتی ذوق کی‬
‫تکمیل و تسکین کے تمام اسباب موجود ہیں اور جس کے آئینہ خانے میں کپلنگ نے‬
‫ہندوستانی معاشرت کو اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ عکس پذیر کرنے کی کوشش کی ہے‬
‫اس میں کئی کہانیاں چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مگر ہندوستانی کلچر کی مکمل تصویر‬
‫ہیں ان کہانیوں میں تمدنی جلوئوں کے پردے اٹھتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کی‬
‫صراحیوں اور پان ک ی گلوریوں کو کیوڑے میں بسانا اور حقوں کو ہار سے لپیٹ کر‬
‫معطر کرنا یہاں کے روز مرہ میں داخل ہے۔ کپلنگ کے بقول‪:‬‬
‫‪Here is tobacco, here is talk, here are many friends and all the‬‬
‫)‪news of the city. (143‬‬
‫یعنی یہ ایک ایسی جگہ ہے جو امراء کی جائے مالقات اور بیٹھک ہے اور‬
‫بازاروں اورمحلوں کی مختلف خبریں یہاں زیر بحث الئی جاتی تھیں۔ اس کی کہانی‬
‫"‪"House on the Wall‬بھی ایک ایسی ہی مرکزی جگہ ہے‪:‬‬
‫‪It was the meeting place of many religions and creeds. Men of‬‬
‫‪talent and culture were often to be seen reclining on silken‬‬
‫)‪cushions and vying with one another..... (144‬‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس میں مختلف مذاہب و عقائد کے لوگ‪،‬‬
‫صالحیتوں اور تہذیبی اقدار رکھنے والے ایک ہی چھت کے نیچے گائو تکیوں سے ٹیک‬
‫سنی‪ ،‬شیعہ‪،‬‬ ‫لگائے باہم مقابل ہوتے ہیں۔ بحث و مباحث کے بازار گرم ہوتے ہیں وہاں ُ‬
‫صوفی‪ ،‬ہندو‪ ،‬سکھ‪ ،‬پنڈت سب ہی جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔ ایسے میں یہ جگہ ایک‬
‫تہذیبی ادارے سے کم نظر نہیں آتی اور لوگ اس جگہ کی طرف کیوں کھنچے چلے آتے‬
‫ہیں اس کے بارے میں ‪ Robert Blackham‬رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫‪The fact is that, until comparatively recent years, these so called‬‬
‫‪dancing girls werw the only women in India who could read,‬‬
‫‪dance and sing.... the result has been taht the society of the‬‬
‫‪educated, and always attractive, dancing girls has been eagerly‬‬
‫‪sought by men of all classes as a distraction to their somewhat‬‬
‫‪sordid home life, and for their intellectual nor their physical‬‬
‫)‪charms. (145‬‬
‫یعنی معاشرے کے پڑھے لکھے اور ہر طبقے کے افراداس اس طبقے کی طرف‬
‫نہ صرف متوجہ ہوتے بلکہ ان کی طرف کھنچے چلے آتے۔ بعض اوقات کچھ لوگ اپنی‬
‫گھریلو زندگی کی بوریت سے اکتا کر بھی ادھر کا رخ کرتے ۔ اور یہ محض ان کی‬
‫جسمانی دلکشی ہی نہیں تھی جو انہیں اپنی طرف متوجہ کرتی بلکہ ان کی ذہانت‪ ،‬فہم و‬
‫مرکز‬
‫ِ‬ ‫اعلی ادبی ذوق وغیرہ بھی کچھ اس قسم کی خصوصیات تھیں جو انہیں‬ ‫ٰ‬ ‫فراست‪،‬‬
‫نگاہ بنا دیتی تھیں۔ اور اسی طرح ان کہانیوں مینپرتعیش حماموں اور ان سے لطف اندوز‬
‫ہونے والوں کی جھلکیاں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔‬
‫الہور مینرہائش پذیر اللن ‪ Lalun‬کے ڈیرے کی عکاسی کپلنگ نے اس مہارت‬
‫سے کی ہے کہ زندگی کی ہمہ جہتی حقیقت کو پوری طرح گرفت میں لینے کی کوشش‬
‫کی ہے ۔ اس کی مالزمہ ‪ ،‬چاندی کی زنجیر والی پالتو بلی‪ ،‬بڑا جگمگاتا فانوس اور اس‬
‫کا فیروزوں سے مزین چاندی سے بنا قیمتی حقہ اور نفیس قالین آنکھوں کے سامنے آ‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫‪The little house on the City wall was just big enough to hold Lalun,‬‬
‫‪and her maid, and a pussy-cat with a silver collar. A big pink and‬‬
‫‪blue cut-glass chandelier hung from the ceiling of the reception‬‬
‫‪room. A petty Nawab had given Lalun the horror, and she kept it‬‬
‫‪for politeness' sake. The floor of the room was of polished‬‬
‫‪chunam, white as curds. A latticed window of carved wood was‬‬
‫‪set in one wall; there was a profusion of squabby pluffy cushions‬‬
‫‪and fat carpets everywhere, and Lalun's silver huqa, studded with‬‬
‫)‪turquoises, had a special little carpet all to its shining self. (146‬‬
‫‪Lalun‬کی خوبصورتی اجاگر کرنے کے لیے کپلنگ نے کئی تشبیہات و‬
‫استعارات استعمال کیے ہینوہ ایسی دوشیزہ تھی کہ اس جیسی صالحیتوں اور ہنرمندی‬
‫سے دوسری لڑکیاں محروم تھیں اور اس کے ہم پلہ ہر گز نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کی‬
‫معلومات کا ذخیرہ بہت وسیع تھا اور اس کو شہر بھر کی اطالعات فراہم ہوتی تھیں اس‬
‫کو یہ بھی علم ہوتا تھا ک ہ کس کی بیویاں وفادار ہیں اور کون سی بے وفائی کی مرتکب‬
‫اعلی عہدیدار اور افسران بھی اپنے راز اس کے سامنے‬ ‫ٰ‬ ‫حتی کہ حکومتی‬
‫ٰ‬ ‫ہو رہی ہیں‬
‫کھول دیتے تھے۔ اس کی دولت کے بارے میں کپلنگ نے لکھا کہ اس کے پاس بے شمار‬
‫دولت تھی صرف زیورات کی مالیت دس ہزار پائونڈ تھی۔‬
‫‪Of her wealth no estimate can be give, he jewellary alone was‬‬
‫)‪worth ten thousand Pounds. (147‬‬
‫پشاوری لڑکی کا ذکر کپلنگ نے "‪ "Dray wara yow dec‬میں کچھ اس طرح‬
‫سے کیا ہے کہ اس بہادر عورت کے لیے دل میں احترام کے جذبات ابھرتے ہیں کیوں کہ‬
‫جب وہ انتقامی پٹھان اس سے اپنے دشمن کے بارے میں دوست بن کر معلومات حاصل‬
‫کرتا ہے لڑکی اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کے دلی جذبات سے باخبر ہو کر‬
‫کہتی ہے کہ اس طرح کی آنکھوں کے ساتھ کوئی دوست کسی بھی دوست کا انتظار نہیں‬
‫کرتا۔ خدا اور رسول سے جھوٹ بول سکتے ہو مگر عورت سے نہیں۔ میری وجہ سے‬
‫دائود شاہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‬
‫‪Never friend waited friend with such eyes. Lie to God and the‬‬
‫‪Prophet, but to a woman ye cannot lie. Get hence! There shall be‬‬
‫)‪no harm befall Daoud Shah by cause of me. (148‬‬
‫عالوہ ازیں کپلنگ نے اپنی کہانیوں میں عموما ً دو طرح کی گھریلو خواتین کو بھی‬
‫نمائندگی دی ہے جن میں سے پہلی قسم کے کردار ان کی کتاب ‪Black and White‬‬
‫میں کثیر تعداد میں موجود ہیں اور وہ اس قسم کی خواتین ہیں جو کہ اپنے خاوندوں سے‬
‫بے وفائی کرتے ہوئے دوسرے مردوں کے ساتھ یا تو بھاگ جاتی ہیں یا پھر ان کے ساتھ‬
‫ناجائز مراسم استوار کرتی ہیں۔ یہ اس معاشرے کا ذکر ہو رہا ہے جہاں پر خاوند کی بے‬
‫حد تکریم ہے اور اس درجے پر ہے کہ خاوند دوسرے لفظوں میں مجازی خدا کے‬
‫سنگھاسن پر براجمان ہے جس کی پوجا کی جاتی اور یہی امر قابل غور ہے۔ ان خواتین‬
‫کے بارے میں ک پلنگ نے بڑے ہی ذومعنی الفاظ میں تحریر کیا کہ ’’اس طرح کی‬
‫عورتیں اس وقت بہت خوش ہوتی تھیں جب بارشوں کا موسم ہو‪ ،‬راتیں تاریک اور گلیاں‬
‫گزرنے کے قابل نہ ہوں اور پھر ان دنوں میں جب ان کے خاوند گھروں سے باہر ہوں۔‘‘‬
‫‪Great is the delight felt by an adelterous woman on rainy days‬‬
‫‪and dark nights, when the streets are rendered impassable and‬‬
‫)‪on days when her husband is abroad. (149‬‬
‫کپلنگ کے دوسری قسم کے کردار ان خواتین پر مشتمل تھے جو اینگلو انڈین‬
‫مردوں کے ساتھ بغیر شادی کے رہتی تھیں۔ انہی میں سے ایک اہم کردار امیراں‬
‫"‪ "Amira‬کا ہے جو کہ مشرقی حسن اور پراسراریت کا امتزاج ہے وہ ‪"Without‬‬
‫"‪Benefit of Clergy‬میں ہیروئن کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری‪ Bisea‬جو کہ‬
‫"‪"Beyon the Pole‬میں پندرہ سالہ نوجوان ہندو بیوہ ہے جو اس معاشرے کے اس‬
‫افسوسناک پہلو کی عکاسی کرتی ہے جو ہندوستانی معاشرے میں بیوہ خواہ کتنی ہی‬
‫نوعمر کیوں نہ ہو کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ‪ Lispeth‬کا کردار ہے۔ یہ‬
‫سب کردار کپلنگ کی کتاب "‪ "Plain Tales from the Hills‬میں سے لیے گئے ہیں۔‬
‫اور واضح رہے کہ مذکورہ کتاب شملہ کے پہاڑی مقامــ‘‘ کی حیات و معاشرت کا بیانیہ‬
‫ہے اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کرداروں کے ذریعے کپلنگ کو ہندوستانی‬
‫معاشرے کے تمام رنگوں کو صحیح طور پر اجاگر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل‬
‫نہینہوئی۔‬
‫خواتین کے بعد اگر کپلنگ کے بچوں کے کرداروں کو مختصرا ً دیکھا جائے تو‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ک ہانیوں میں بچوں کے کردار تعداد میناگرچہ کم ہیں مگر پراثر‬
‫ہیں۔ جیسے کہ اس کی ایک کہانی بعنوان "‪ "The Story of Mohammad Din‬ہے‬
‫جو کہ نہایت افسوسناک انجام پر منتج ہوتی ہے۔ کپلنگ کی اس چھوٹے سے بچے سے‬
‫شناسائی ایک چھوٹی سی گیند کے ذریعے ہوتی ہے جو کہ کپلنگ اس بچے کو دیتا ہے۔‬
‫پھر وہ ننھا بچہ اس سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ دفتر آتے جاتے ان کے درمیان یہ‬
‫مکالمہ ضرور ہوتا ہے۔ بچہ توتلی زبان میں کہتا ہے "‪ "Talaam Tahib‬سالم صاحب‪،‬‬
‫جبکہ کپلنگ سالم محمد دین "‪ "Salaam Mohammad Din‬کہہ کرگزرتا ہے ۔ کافی‬
‫دنوں تک جب وہ گول مٹول بچہ اسے کھیلتے نظر نہیں آتا تو اس کے دریافت کرنے پر‬
‫اس بچے کی بیماری کے متعلق اسے بتایا جاتا ہے تو وہ اسے دوائی بھجواتا ہے اور ایک‬
‫انگریز ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرتا ہے مگر پھر اس کہانی کا آخری پیراگراف قاری کو‬
‫دکھ سے لبریز کر دیتا ہے جب وہ بتاتا ہے کہ ایک ہفتے بعد سڑک پر میری مالقات امام‬
‫دیں کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان کے قریب ہوئی تو اس کے ساتھ اس کا ایک دوست‬
‫بھی تھا۔ جس نے اپنے ہاتھوں پر سفید کپڑے (کفن) میں ملبوس ننھے محمد دین کو اٹھایا‬
‫ہوا تھا۔‬
‫‪A week later... I met on the road to the Mussulman burying-‬‬
‫‪ground Imam Din, accompanied by one other friend, carrying in‬‬
‫‪his arm, wrapped in a white cloth, all that was left of little‬‬
‫)‪Mohammad Din. (150‬‬
‫جس طرح کپلنگ کے مشہور ناول ’’ ِکم‘‘ کے جائزے کے بعد ناول میں مقامی‬
‫زبانوں کے متداول الفاظ کی نشاندہی گزشتہ صفحات میں کی گئی جن کا استعمال کپلنگ‬
‫نے بڑی مہارت کے ساتھ کیا۔ اس طرح اس کی شارٹ سٹوریز کے مطالعے کے دوران‬
‫یہ بات سامنے آئی کہ اس نے ہندوستانی (اردو) کے الفاظ کی آمیزش سے ان کہانیوں میں‬
‫ایک لطیف قسم کا حسن تخلیق کردیا ہے اس کی کہانیوں میں کئی ایسے الفاظ پڑھنے میں‬
‫آتے ہیں جو برصغیر کی قدیم فضا کی بازیافت کرتے ہیں اور اس ماحول پر خوب سجنے‬
‫کے ساتھ اس مخصوص خطے کی تہذیب اور تمدن کو اجاگر کرنے میننمایاں کردار ادا‬
‫کرتے ہیں یوں کپلنگ کی کہانیوں کے اسلوبیاتی پہلو کو دیسی اور بدیسی زبانوں کے‬
‫امتزاج سے پرکشش بنا دیا ہے اور خالص ہندوستانی ذائقے سے مملو کر دیا ہے۔ عالوہ‬
‫ازیں کپلنگ انگریزی زبان کی خاصیت سے آگاہ ہے اور اسے فطری انداز سے استعمال‬
‫کیا ہے۔ یوں انگریزی میں اس نے بہت سے ہندوستانی الفاظ ‪ ،‬محاورات اور مختلف قسم‬
‫کی اصطالحات بھی شامل کر لیں۔ یہاں ہندوستانی سے مراد ہندی اور اردو کے الفاظ ہیں۔‬
‫ان الفاظ کی آمیزش سے اس کی زبان نئی معلوم ہوتی ہے مگر وہ اس کو اس طرح‬
‫استعمال کرتے ہیں کہ نامانوس الفاظ میں بھی نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے۔ کپلنگ نے اس‬
‫طرح کے مقامی زبانوں کے الفاظ کسی بھی دوسرے اینگلو انڈین لکھاری سے زیادہ‬
‫ا ستعمال کیے ہیں۔ یہ اینگلو انڈین مصنفین اس طرح کے الفاظ اپنے مقامی رفقائے کاروں‬
‫اور گھریلو مالزمین وغیرہ سے سیکھتے تھے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کپلنگ کی‬
‫ابتدائی کتابیں جو یوروپین کے لیے تحریر کی گئیں ان مینبھی یہ الفاظ شامل ہوئے ہیں‬
‫مگر کثیر تعداد میں نہی نہیں اس طرح کے مقامی الفاظ و محاورات جو کپلنگ نے استعمال‬
‫کیے ہیں ان کو تین مختلف درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔‬
‫سب سے پہلی قسم کے الفاظ جو کپلنگ نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیے ہیں وہ‬
‫عام بول چال اور روزمرہ سے ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے اس نے اپنی ہندوستان‬
‫کے بارے مینکہانیوں کو زیادہ پراثر اور جاندار بنایا ہے ان میں سے کچھ اس قسم کے‬
‫الفاظ شامل ہیں جیسے‪:‬‬
‫انگریزی لفظ‬
‫کپلنگ نے جو الفاظ استعمال کیے‬
‫اردو تلفظ‬
‫‪Second hand furniture shop‬‬
‫‪Kabbari‬‬
‫کباڑی‬
‫‪Water Carrier‬‬
‫‪Bhishti‬‬
‫بہشتی‬
‫‪Applause, welldone‬‬
‫‪Shabash‬‬
‫شاباش‬
‫‪Door shut‬‬
‫‪Darwaza Bund‬‬
‫دروازہ بند‬
‫‪Fraud‬‬
‫‪Fareb‬‬
‫فریب‬
‫‪Devil‬‬
‫‪Shaitan‬‬
‫شیطان‬
‫‪Covered with a veil‬‬
‫‪Purdah nasheen‬‬
‫پردہ نشین‬
‫‪Dish Licker‬‬
‫‪Tabaqui‬‬
‫طباقی‬
‫‪The lame one‬‬
‫‪Lungri‬‬
‫لنگڑی‬
‫‪The demon‬‬
‫‪Raksh‬‬
‫رکشا (راکشش)‬
‫‪Monkey people‬‬
‫‪Bandar log‬‬
‫بندر لوگ‬
‫دوسری قسم کے الفاظ کچھ ایسی اصطالحات ہیں جو خاص طور پر وضع کی گئیں‬
‫اور جو عام طور پر معیاری لغت کے حساب سے کچھ زیادہ معیاری نہیں تھیں مگر‬
‫پڑھے لکھے انگریز جو ہندوستان میں مقیم تھے وہ اپنی روز مرہ کی گفتگو جو وہ‬
‫گھروں‪ ،‬دفاتر‪ ،‬شکارگاہوں اور اس طرح کی دوسری عوامی جگہوں پر کرتے تھے۔ یہ‬
‫الفاظ استعمال کرتے تھے۔ کپلنگ نے ایسے الفاظ کا استعمال خصوصی طور پر اپنی‬
‫کتاب "‪ "Plain Tales from the Hills‬کی کہانیوں میں کیا ہے جو کہ شملہ کے‬
‫بطور نمونہ چند الفاظ‬
‫ِ‬ ‫پہاڑی مقام پر اینگلو انڈینز کے طرز معاشرت کی عکاس بھی ہیں‬
‫حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫انگریزی لفظ‬
‫کپلنگ نے جو الفاظ استعمال کیے‬
‫اردو تلفظ‬
‫‪Office‬‬
‫‪Dufter‬‬
‫دفتر‬
‫‪To talk‬‬
‫‪Bat‬‬
‫بات‬
‫‪Repair‬‬
‫‪Murramat‬‬
‫مرمت‬
‫‪Servant Waiter‬‬
‫‪Khidmatgar‬‬
‫خدمت گار‬
‫‪Hell‬‬
‫‪Zehannum-Jehanum‬‬
‫جہنم‬
‫‪Money Lender‬‬
‫‪Bunia‬‬
‫بنیا‬
‫اس کے ساتھ کچھ الفاظ ایسے بھی تھے جو انگریزوں نے مختلف مواقع پر اپنے‬
‫خاص استعمال کے لیے وضع کیے ہوئے تھے۔ کپلنگ نے بھی ان کا استعمال اپنی‬
‫کہانیوں میں اسی طرح سے کیا ہے کہ لغت میں ان الفاظ کے معانی خواہ کچھ اور ہی ہیں‬
‫مگر یہ اینگلو انڈینز ان الفاظ سے خاص مفہوم ہی لیتے تھے جیسے‬
‫( "‪"Kala Jugga‬کالی جگہ ) ایک لفظ ہے جس کا لغوی مفہوم تو واضح ہے مگر‬
‫انگریزوں کے لیے یہ رقص گاہوں)‪ (Ball Rooms‬وغیرہ کے ساتھ بالکل ملحقہ وہ جگہ‬
‫ہوتی تھی جہاں گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر خلوت میں کچھ لمحات گزار سکیں۔ کپلنگ نے‬
‫بھی اس لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اسی طرح صاحب "‪ "Sahib‬لفظ شروع‬
‫اعلی خوبیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آخر‬ ‫ٰ‬ ‫میں بہادر "‪ "Bahadur‬کے علی الرغم‬
‫کار یہ لفظ تمسخرانہ اصطالح کی شکل اختیا رکر گیا اور جب اس لفظ کے ساتھ پکا‬
‫"‪ "Pukka‬استعمال ہوتا تھا تو اس کا مفہوم بالکل ہی تبدیل ہو جاتا تھا۔‬
‫تیسری قسم کے وہ الفاظ تھے جو گورے فوجی مقامی سپاہیوں کے ساتھ بات چیت‬
‫کے لیے استعمال کرتے تھے اور اپنا مافی الضمیرایسے جملوں سے چالتے تھے جو‬
‫بدش الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے جیسے ‪،hokee-mut ، Our Orderly‬‬ ‫خستہ حال ِ‬
‫‪ You Baito‬وغیرہ۔ اس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی جنگی مہم میں‬
‫حصہ لینے والے گورے ٹامیوں کے سیکھنے کے لیے انگریزی کے کچھ مقامی متبادالت‬
‫کے طور پر کپلنگ نے کچھ ایسے جملے ترتیب دئیے تھے جو کہ ‪"A Compaigning‬‬
‫"‪Phrase Book for Tomy Atkins in India‬کے عنوان سے ‪The Pioneer,‬‬
‫‪Oct 23, 1888‬میں شائع ہوئے۔ اس میں سے چند مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں جو کہ‬
‫انگریزی اور ہندوستان لفظوں کے امتزاج سے کپلنگ نے وضع کیں اور بادی النظر میں‬
‫یہ کچھ مزاحیہ قسم کی معلوم ہوتی ہیں مگر عسکری زندگی کے تغیرات اور نشیب و‬
‫فراز کو بھی بخوبی عیاں کرتی ہیں‪:‬‬
‫!‪Who is this person's Kone, O, tum yonder‬‬
‫?‪Where is the enemy? Kidherabouts Paythan‬‬
‫!‪Indicate his position. Just you bloomin‬‬
‫!‪Well butlao‬‬
‫!‪Drop your gun at once. Bundook let go, slippy‬‬
‫‪I am not going to kill you.‬‬
‫‪Hum nay marrega.‬‬
‫‪I am hungry. Khanna hai? All right, Chupattill do.‬‬
‫!‪I want sheep, Baba mankta, Baba‬‬
‫‪Take your women away from this place‬‬
‫)‪Nickle-jao bibi-log. Pulton omega. (151‬‬
‫ان الفاظ کے جائزے اور کرداروں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کپلنگ کی‬
‫کہانیوں کا خمیر ہندوستانی تہذیب اور معاشرے سے اٹھایا گیا ہے ہمیں اس کی تحریروں‬
‫میں مختلف فرقوں کی مکمل تصویر بھی نظر آتی ہے اور نظریاتی اختالفات کے باوجود‬
‫مذہبی ہم آہنگی کا منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ مسائل زدہ طبقات کی خستہ حالی‬
‫جھلکتی ہے اور حاالت کو بدلنے پر مصر سیاسی و سماجی شعور انگڑائیاں لیتا بھی‬
‫محسوس ہوتا ہے ۔گویا برصغیر کا پورا معاشرہ قاری کے تخیل پر تمام رنگوں سمیت‬
‫جلوہ گر ہوتا ہے کپلنگ نے بعض اوقات حقیقی واقعات اور تاریخی کرداروں کی مدد سے‬
‫ان کہانیوں کو نیم دستاویزی انداز میں بیان کر کے کثیر الجہتی اور مقامی نقطہ نظر کے‬
‫حوالہ قرطاس کیا ہے۔ ان کی کہانیاں برصغیر‬
‫ٔ‬ ‫ساتھ ساتھ ذاتی رد عمل کے اظہار کو بھی‬
‫کے زمینی حقائق کی تصویر کشی پر مشتمل ہے جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ‬
‫بھرپور عصری شعور سے بھی بہرہ ور ہیں جو قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے‬
‫۔بطور مجموعی ان کہانیوں میں کالسیکی ادب کاسا وقار جھلکتا ہے۔‬
‫حوالہ جات‬
E. M. Forster, A passage to India, Penguine classics Ltd. (1)
Harmondworth. England 1979, p: 40
A Passage to India, p: 41 (2)
A Passage to India, p: 41 (3)
A Passage to India, p: 42 (4)
Reuben A. Brower, The twilinght of the double vision: (5)
symbol and irony in A pasage to India, Macmillan Press, London,
1970, p. 117
A Passage to India, p. 42 (6)
A Passage to India, p. 42 (7)
A Passage to India, p. 43 (8)
A Passage to India, p. 45 (9)
A Passage to India, p. 51 (10)
A Passage to India, p. 52 (11)
A Passage to India,p. 52 (12)
A Passage to India, p. 52 (13)
A Passage to India,p. 88 (14)
A Passage to India, p. 76 (15)
A Passage to India, p: 77 (16)
A Passage to India, p:73 (17)
A Passage to India, p:107 (18)
A Passage to India, p: 128 (19)
A Passage to India, p: 141 (20)
A Passage to India, p:145 (21)
A Passage to India, p: 290 (22)
A Passage to India, p: 163,164 (23)
A Passage to India, p: 113 (24)
A Passage to India, p: 127 (25)
A Passage to India, p: 144 (26)
A Passage to India, p: 154 (27)
A Passage to India, p: 155 (28)
A Passage to India, p: 87 (29)
A Passage to India, p:89 (30)
A Passage to India, p: 118 (31)
A Passage to India, p: 118 (32)
A Passage to India, p:118 (33)
A Passage to India, p:110 (34)
A Passage to India, p:110 (35)
A Passage to India, p:118-119 (36)
A Passage to India, p:268 (37)
A Passage to India, p:290 (38)
A Passage to India, p:119 (39)
A Passage to India, p:215 (40)
A Passage to India, p:250 (41)
A Passage to India, p:251 (42)
A Passage to India, p:84 (43)
A Passage to India, p:250 (44)
A Passage to India, p:251 (45)
A Passage to India, p:132 (46)
A Passage to India, p:138 (47)
A Passage to India, p:155 (48)
A Passage to India, p:155-156 (49)
A Passage to India, p:156 (50)
A Passage to India, p:186-187 (51)
A Passage to India, p:186-187 (52)
A Passage to India, p:292 (53)
A Passage to India, p:294 (54)
‫ اردو اکیڈمی‬،‫ شخصیت اور فن‬،‫ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‬،‫ ڈاکٹر‬،‫ریاض قدیر‬ )۵۵(
۱۸۷ ‫ ص‬،‫ء‬۲۰۰۵ ،‫ الہور‬،‫پاکستان‬
‫ مترجم خالد محمود‬،‫ فرانز فنین‬،‫ سامراج کی موت‬،‫ بحوالہ‬،‫ ڈاکٹر‬، ‫) عل ی شریعتی‬۵۶ (
۲۱ ‫ ص‬،‫ء‬۲۰۱۲ ‫ الہور‬،‫ فکشن ہائوس‬،‫ پیش لفظ‬، ‫ایڈووکیٹ‬
Kim, Puffin Classics, 1987, p:195 (57)
"Edward Said, Culture and Imperialism, p:196 (58)
I an Makean Kipling, Kim, Rudyard Kipling title page (59)
Rudyard Kipling, Complete verse: Definitive Edition New (60)
York: 1989, p:589
Rudyard Kipling, Kim with Introduction and notes by Jeffery, (61)
(Newyork, Bernes and Nobles Classics p: XVIII)
Kim, p:128 (62)
Kim, XIX, p:234 (63)
Kim, p:7 (64)
Kim, p:11 (65)
Kim, p:116 (66)
Kim, p:192 (67)
Kim, p:374 (68)
Kim, p:74-75 (69)
‫ جلد‬، ‫ء‬۲۰۱۰ ،‫ سنگ میل پبلی کیشنز الہور‬،‫ کارجہاں دارز ہے‬،‫قراۃ العین حیدر‬ )۷۰(
‫اول‬
Kim, p:178 (71)
Kim, p:256 (72)
Kim, p:331 (73)
Kim, p:255 (74)
Rudyard Kipling, Letters, edited by Thomas Pinney Lowacity (75)
University Press, 1999-Vol-I, p:127
Kipling, Someting of Myself, for my friends Known & (76)
Unknown. Gardencity, 1937, p:68
Kipling, Egypt of magicians, Scribner" Edition, Vol.XXVIII, (77)
p:274
Kipling, Egypt of Magicians, XXVIII, p:274 (78)
Egypt of Magician, Vol XXVII, p:275 (79)
Egypt of Magicians. XXVII, p:274 (80)
Plain Tales from the Hills, I, X (81)
Charles Allen, "Ruddy's search for God: The Young Kipling (82)
and Religion, "The Kipling Journal 32, June 2009, p:26
Rudyard Kipling, The Enemies to Each Other, Debits and (83)
Credits, NewYork: Double day, 1926
Ibid, p:I (84)
Ibid, p:2 (85)
۸ :‫ پ‬،۱۶۵ :‫ سورہ االنعام‬،‫) القرآن‬۸۶ (
The City of Dreadful Night, 1885, IV, p:42-43 (87)
One View of the Question, 1890, VI, p:284 (88)
Nirad C. Chaudhari, The finest story about India in English, (89)
in John Gross, The Age of Kipling, Newyork, 1972, p:29
Said, Edward, Introduction, in Kim, by Rudyard Kipling, (90)
Penguine Classics, 2000, p:
Salman Rushdie, Kipling, in his Imaginary Homeland, (91)
London, 1991, p:75
Kim, p:9 (92)
Kim, p:10 (93)
Kim, p:25 (94)
Kim. p:25 (95)
Kim, p:12 (96)
Kim, p:14 (97)
Kim, p:18 (98)
Kim, p:23 (99)
Kim, p:23 (100)
Kim, p:26 (101)
Kim, p:47 (102)
Kim. p:47 (103)
Kim, p:48 (104)
Kim, p:48 (105)
Kim, p:48 (106)
Kim, p:18 (107)
Fifty Eastern Thinkers, Key books, Newyork, 2002, (108)
p:170
Kim, p:49 (109)
Kim, p:48 (110)
Kim, p:64 (111)
Kim, p:79-80 (112)
Kim, p:79 (113)
Kim, p:77 (114)
Kim, p:78 (115)
Kim, p:114 (116)
Kim, p:176 (117)
Kim, p:177 (118)
Henry James, Introduction to mine own people, p:165 (119)
Bhupal Singh, A Survey of Anglo-Indian Fiction: Oxford (120)
University Press, London, 1934, p:72
،‫ جنگل میں منگل‬،‫ مترجم موالنا ظفر علی خان‬،‫ دی جنگل بک‬،‫) رڈیارڈ کپلنگ‬۱۲۱(
‫ ص ا‬،‫ سن ن‬،۸ ‫ الہور نمبر‬،‫میری الئبریری‬
The Jungle Book, p:3 (122)
The Jungle Book, p:9 (123)
The Jungle Book, p:11,12 (124)
The Jungle Book, p:139 (125)
The Jungle Book, p:163 (126)
Life's Handicap, Preface, p:ix (127)
Hart, M.W Kipling the Story Writer, Berklay University of (128)
California, 1918, p:17
Tample, Sir, Richard, India in 1880, Oxford University (129)
London, 1881, p:126
Black and White, p:71 (130)
Black and White, p:243 (131)
Life's Handicap, p:124 (132)
Life's Handicap, p:143 (133)
Black and White, p:323 (134)
Black and White, p:322 (135)
Kipling, Black and White, p:298 (136)
Kipling, Black and White, p:299 (137)
Black and White, p:301 (138)
Black and White, p:337 (139)
Kipling, Tales from India, p:97 (140)
K. Jameel ud Din, The Tropic Son, p:82 (141)
Ibid, p:86 (142)
Kipling, Black and White, p:327 (143)
House on the Wall, p:46 (144)
Robert, Blackham, Incomparable India, Marston & Co. (145)
London, 1900, p:192-193
Kipling, Black and White, p:326 (146)
Kipling, Black and White, p:329 (147)
Kipling, Black and White, p:206 (148)
Quoted by K. Jamil uddin, The Tropic Sun, p:99-100 (149)
Kipling, Plain Tales from the Hills, p:320 (150)
The Pioneer, Oct 23, 1888 (151)
‫باب چہارم‬
‫منتخب انگریزی فکشن میں ہندوستانی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ‬
‫پال اسکاٹ "‪ "PAUL SCOTT‬راج کوارٹٹ)‪(Raj Quartet‬‬ ‫بحوالہ‪:‬‬
‫ناول ایک ایسا نثری بیانیہ ہے جس میں انسانی تجربوں اور رویوں کی بھرپور‬
‫عکاسی ہوتی ہے اس میں کسی بھی عہد کی عکاسی اس دور کے تاریخی‪ ،‬سماجی‪ ،‬ثقافتی‬
‫سیاق و سباق کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ اس لیے زندگی کے گوناگوں مناظر اور‬
‫مظاہر‪ ،‬سماجی ماحول‪ ،‬معاشرتی حدود و قیود‪ ،‬تاریخی مناظر‪ ،‬سیاسی و ثقافتی اور تمدنی‬
‫صورت حال ناول کے موضوعات ہیں۔ مختلف ناولوں میں تاریخ یا تاریخی واقعات کو‬
‫سمونے کی روایت بہت قدیم ہے۔ تاریخ دراصل نسل انسانی کا ماضی ہے ایسا ماضی جو‬
‫اپن ے دامن میں کئی پراسرار واقعات کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ناول اور تاریخ کے باہمی‬
‫تعلق کو سمجھنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کی تعریف پر ایک نظر کی‬
‫جائے جو کہ ’’کشاف اصطالحات تاریخ ‘‘میں درج ہے۔‬
‫تاریخ انسانی زندگی کے گزشتہ واقعات‪ ،‬تحریکات اور ان کے اسباب اور نتائج کے‬
‫تحریری سرمائے کا نام ہے یہ انسان کے معاشرتی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬تمدنی‪ ،‬ثقافتی اور مذہبی‬
‫نقوش پارینہ کا خزینہ ہوتی ہے یہ ندی کے‬‫ِ‬ ‫ت کہن اور‬‫تصورات کی داستان ہے۔ یہ روایا ِ‬
‫اس صاف و شفاف پانی کی مانند ہے جس میں اقوام اپنا چہرہ صحیح طور پر دیکھ سکتی‬
‫ہیں۔ (‪)۱‬‬
‫اسی طرح ڈاکٹر مظفر حسن ’’تاریخ‘‘کی وضاحت یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫اس اصطالح سے بالعموم کسی قوم کے ایسے واقعات کا بلحاظ زمانہ بیان مقصود مراد‬
‫ہے جن کی بدولت متعلقہ قوم تہذیبی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬مالی اور سیاسی نشیب و فراز‬
‫سے گزری ہو کیوں کہ ایسے حادثات ہی اس کے عمل ارتقاء میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔‬
‫(‪) ۲‬‬
‫جب کہ ڈاکٹر وہاب اشرفی اپنی کتاب ’مابعد جدیدیت‘ میں تاریخیت کی بطور‬
‫تھیوری وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫تاریخییت ایک تھیوری )‪ (Theory‬کے طور پر انسانی اعتقادات‪ ،‬تصورات‪ ،‬اخالقیات‬
‫اور رہائش کے طریقے کا ایک واضح بیانیہ سمجھی جاتی رہی ہے اس کا ایک مقصد‬
‫ثقافتی رابطے کو بھی واضح کرنا ہے۔۔۔ تاریخ کا علم دراصل رشتوں اور رابطوں کا علم‬
‫ہے اور یہ رابطہ تاریخی تجزئیے میں نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ (‪)۳‬‬
‫جب کہ نو تاریخییت ادب کے فنی اور جمالیاتی پہلوئوں سے تعرض کیے بغیر اس‬
‫کا م طالعہ تاریخ کے ہمہ گیر تناظر میں کرتی ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی عہد کا ادب‬
‫اس دور کے سیاسی ‪ ،‬سماجی اور ثقافتی محرکات کے نتیجے میں تخلیق ہوتا ہے اور‬
‫اسی ماحول میں سانس لے کر جوان ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایک شعوری افتاد اور فکری‬
‫کردار کا حامل ہوتا ہے۔ نوتاریخییت کے مطابق انیسویں اور بیسویں صدی کا ادب بھی‬
‫سیاسی فکر سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان صدیوں میں انسانیت سیاسی نظریوں کی‬
‫آویزش اور سیاسی انقالبات سے برسر پیکار رہی۔ اس لیے ان صدیوں میں تخلیق ہونے‬
‫والے ادب کی روح سیاسی فکر سے آزاد نہیں ہے۔‬
‫بایں ہمہ صنف ناول کا د ائرہ کار بھی بہت وسیع و عریض ہوتا ہے اور یہ صحیح‬
‫احاطہ‬
‫ٔ‬ ‫مروجہ حاالت و کوائف کو‬
‫معنوں میں معاشرے اور ماحول کا عکاس ہے۔ عام اور ّ‬
‫نور میں لے آنا اس کا اہم فریضہ ہے۔ وقت کی دھڑکن‪ ،‬زمانے کی رفتار‪ ،‬سیاسی کیفیت‬
‫اور معاشی و معاشرتی روایت ناول کے سانچے میں ہمیشہ کے لیے ڈھل جاتی ہے اور‬
‫یوں ناول ایک ایسے اہم البم کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں مختلف ادوار کی متنوع‬
‫تصاویر لگی ہوئی ہیں جو زندگی کے پوشیدہ حاالت و کیفیات پر سے پردے اٹھاتی چلی‬
‫جاتی ہیں۔‬
‫اسی طرح اگر تاریخ اور ناول نگاری پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫مورخ تاریخی حقائق کو ماضی کے آئینے میں تالش کرتا ہے اورمحض تاریخ کے سیاسی‬ ‫ٔ‬
‫واقعات کو قلم بند کرتا ہے جبکہ ناول نگار جب تاریخ کو ناول مینڈھالے گا تو تخیل کی‬
‫آمیزش فطری امر ہوگا اور جب یہ ناول نگار ماضی میں جائے گا تو وہ اس پورے‬
‫ماحول کی عکاسی اور ایک عہد کی بازآفرینی کے عالوہ معاشرت بھی اجاگر کرے گا‬
‫جو اس کے موضوع ماضی کا حصہ تھی گویا ناول اورتاریخ میں بنیادی فرق ناول نگار‬
‫مورخ کے انداز فکر کا ہے‪ ،‬ان دونوں کے باہم تفاوت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے‬ ‫اور ٔ‬
‫رابن مور "‪ "Robin Moore‬کی پال اسکاٹ کے حوالے سے تحریر کردہ یہ رائے بھی‬
‫نہایت اہم ہے کہ تاریخ ہمیشہ از سر نو یا مکرر تحریر کی جاتی رہی ہے مگر جب یہ‬
‫فکشن کے ساتھ آمیخت ہو جاتی ہے تو نہایت مضبوط و مستحکم ہو کر ناقابل تبدیل ہو‬
‫جاتی ہے۔‬
‫‪History is always being re-written once done with a fiction is‬‬
‫)‪inviolable. (4‬‬
‫سکاٹ کی اس رائے سے یہ واضح ہو تا ہے کہ ایسے قاری جو صداقت کی تالش‬
‫میں ہوں ان کے لیے فکشن تاریخ سے زیادہ موزوں ہے۔ ناول میں موجود واقعیت حقیقت‬
‫کے قریب ہوتی ہے یعنی انسانی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے جبکہ تاریخ بجائے‬
‫خود انسانی زندگی کی ماضی کی داستان ہے۔ تاریخی ناول میں تاریخ کا ہونا الزمی امر‬
‫ہے مگر ناول کا فن بنیادی اہمیت رکھتا ہے یعنی تاریخی ناول‪ ،‬ناول پہلے ہے اور بعد‬
‫مورخ زندگی کے تاریخی حقائق ماضی میں دریافت کرتا ہے جبکہ ناول نگار‬ ‫میں تاریخ۔ ٔ‬
‫کسی خاص عہد کی معاشرت اور حیات کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے اس کے لیے مصنف‬
‫یا ناول نگار کو تاریخیت اور تخیل میں توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تاریخ‬
‫ناول کا موضوع بن کر اس میں خصوصی جگہ حاصل کر لیتی ہے۔ غور کرنے سے یہ‬
‫بھی معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اگر انسان کے معاشرتی اور تمدنی ارتقاء کو پیش کرتی ہے‬
‫تو ناول ب ھی معاشرتی‪ ،‬تمدنی‪ ،‬سیاسی اور تہذیبی زندگی کا عکاس ہے۔ اس طرح ناول‬
‫نگار ماضی کی تاریخ کے دھندلے نقوش واضح کر کے عہ ِد موجود کی پژمردگی کو نئی‬
‫زندگی دینے کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہیں اس کا تاریخی شعور روبہ عمل آتا ہے۔‬
‫اسی تاریخی شعور کی وضاحت سید کامران عباس کاظمی یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫تاریخی شعور سے مراد ہے کہ جب کوئی فن کار اپنی تاریخ کی بازگوئی میں اسے اپنے‬
‫شعور کا حصہ بنائے اور اپنے تخلیقی عمل میں اسے آمیخت کرنے کے بعد اس کااظہار‬
‫کرے یعنی تاریخ کے ساتھ فن کار اپنی سماجی و تہذیبی زندگی کے تعلق کے امکانات‬
‫پیدا کرے اور تاریخی عمل میں موجود زندگی کی بہتر صورت گری کرے۔ (‪)۵‬‬
‫پال اسکاٹ کے ناول کے کرداروں کے حوالے سے اس کے تاریخی شعور کی‬
‫طرف ڈونلڈ "‪ "Donald Hannah‬نے بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ راج کوارٹٹ‬
‫کے کردار اس ناول کے مصنف کے تاریخی شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔‬
‫‪Like their author, they too live and work and have their being‬‬
‫‪within the confines drawn by a historical content. All of his‬‬
‫‪characters are conscious to a greater or lesser degree that they‬‬
‫‪are living at a time when a whole epech of the ways in which this‬‬
‫‪directly affects their thinking, their behaviour and their actions as‬‬
‫)‪a consequence. (6‬‬
‫’’ اپنے مصنف کی طرح تمام کردار بھی تاریخی سیاق کی مقرر کردہ حدود کے‬
‫اندر سانس لیتے ہوئے رو بہ عمل ہوتے ہیں۔ تمام ہی کردار کم یا زیادہ حد تک آگہی‬
‫رکھتے ہیں کہ وہ ایسے عہد میں زندہ ہیں جب کہ استعماری تاریخ کا ایک مکمل عہد‬
‫اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہ ان اطوار سے بھی آگاہ ہیں جو کہ نتیجتا ً برا ِہ‬
‫راست ان کے خیاالت‪ ،‬افعال اور طرز عمل کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘‬
‫اسی طرح جب یہ تاریخی شعور روبہ عمل ہوتا ہے تو فن کار کو یہ راہ سجھاتا‬
‫ہے کہ عہد موجود کی انفعالیت کو فعالیت میں بدلنے کے لیے تاریخ کے کن ادوار کا‬
‫ب واقعات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور‬ ‫اعادہ ضروری ہے اور یوں اسی اعادے میں انتخا ِ‬
‫اعلی تخیل کو استعمال میں التے ہوئے‬ ‫ٰ‬ ‫پھر ان منتخب واقعات کو بہترین تشریحات اور‬
‫حوالہ قرطاس کرے گا۔ جیسا کہ ستیہ برات سنگھ"‪ "Satya Brat Singh‬لکھتے ہیں۔‬
‫‪He will give the best imterpretation, who having discovered and‬‬
‫‪weighed all the important evidence available, has the largest‬‬
‫‪grasp of intellect, the warmest human sympathy, the higher‬‬
‫)‪imagination powers. (7‬‬
‫اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پال اسکاٹ کے راج کوارٹٹ کا مطالعہ کیا‬
‫جائے تو یہ ایک تاریخی دستاویز کی شکل میں ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے جو کہ‬
‫ایک ایسا یادگار نثری رزمیہ ہے جس میں تاریخ کی ماہیت قلبی کی گئی ہے اور ہندوستان‬
‫میں برطانوی استعماری حکومت کے آخری سالوں کو اپنے دامن میں یوں سمیٹے ہوئے‬
‫ہے کہ اس میں کتنے ہی تاریخی لمحات‪ ،‬واقعات‪ ،‬نشیب و فراز اور عروج و زوال کی‬
‫پوری داستان رقم ہے۔‬
‫راج کوارٹٹ "‪ "Raj Quartet‬ایک طویل ناول ہے جو کہ چار ضخیم جلدوں پر‬
‫مشتمل ہے ان میں سب سے پہلے‪ ، The Jewel in the Crown, 1966‬پھر ‪The‬‬
‫‪Tower of Silence, 1971 ،Day of Scropion, 1968‬سب سے آخر میں ‪A‬‬
‫‪Division of the spoils, 1975‬شائع ہوا۔ اس چہارگانہ ناول کے عالوہ بھی تیرہ‬
‫مشہور ناول اس کے کریڈٹ پر ہیں۔ پال اسکاٹ نے ‪۱۹۴۰‬ء سے ‪۱۹۴۶‬ء تک انڈین آرمی‬
‫میں مالزمت کی۔ اس عرصے کے دوران اس نے ہندوستانی تہذیب و معاشرت کا گہرا‬
‫مشاہدہ کیا اور ان ہی مشاہدات کو اپنے ناول کا حصہ بخوبی بنایا۔ ناول کے جائزے سے‬
‫قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول کے حوالے سے کچھ انگریز ناقدین کی تنقیدی‬
‫آراء پر ایک نظر کر لی جائے۔ اس مقصد کے لیے‪ Peter Childs‬کی کتاب ‪Paul‬‬
‫‪Scott's Raj Quartet: History and Division‬کی طرف رجوع کیا جاتا ہے‬
‫کیوں کہ اس میں مختلف ناقدین کی آراء کے بصیرت افروز سروے سے ان کی راج‬
‫کوارٹٹ کے حوالے سے متنوع آراء پر روشنی پڑتی ہے۔‬
‫‪Critical views on Paul Scott's The Raj Quartet have varied‬‬
‫‪enormously. Edward Said uses the epithet "great" and M. M.‬‬
‫‪Mahood describes it as "an imaginative creation of tolstoyan‬‬
‫‪breadth and depth", while William Walsh decides it is "not an‬‬
‫‪authentic literacy experience of a particularly significant kind." The‬‬
‫‪British historian Antony Copley argues that the Quartet is "quite‬‬
‫‪possible the best novel we are likely to get on teh whole mixed‬‬
‫‪sad tale of decolonization", while Sri Lankan write, Tarzi Vittachi,‬‬
‫‪believes that Scott did for Indian what "Dostoevsky did for the‬‬
‫‪Russian of his time, and Gabriel Garcia Marquiez for the Andes of‬‬
‫‪his." The only consensus to be found reflects Margaret Scanlan's‬‬
‫‪sentiment that the Quartet is "impeccable researched historical‬‬
‫)‪fiction. (8‬‬
‫قوس قزح میں‬‫مذکورہ باال سطور میں راج کوارٹٹ کے بارے میں متنوع آراء کی ِ‬
‫کچھ اس طرح کے رنگوں کی جلوہ نمائی ہوتی ہے کہ مشہور مستشرق ایڈورڈ سعید اسے‬
‫"‪"Great‬جیسے توصیفی کلمے سے نوازتے ہیں۔ ‪ M. M. Mahood‬نے اسے ٹالسٹائی‬
‫جیسی وسعت اور گہرائی کی حامل تخیالتی تخلیق تسلیم کیا ہے۔ ولیم واش ‪Willian‬‬
‫مورخ ‪Antony‬‬ ‫‪Walsh‬نے اسے ایک غیر مستند ادبی تجربہ قرار دیا ہے۔ برطانوی ٔ‬
‫‪Copley‬نے اسے بطور مجموعی نوآبادیات کے خاتمے کی افسوسناک کہانی پر مشتمل‬
‫ممکنہ طور پر بہترین ناول مانا ہے۔ جبکہ سری لنکن مصنف ‪ Tarzia Vittachi‬کے‬
‫مطابق سکاٹ نے ہندوستان کے ل یے وہی کچھ کیا ہے جو کہ اپنے عہد میں دوستو وسکی‬
‫نے روس کے لیے کیا ہے اور گبریل گارشیا مارکیز نے "‪ "Andes‬کے لیے کیا ہے۔‬
‫‪ Margaret Scanlan‬نے اسے غلطیوں سے مبرا تحقیق شدہ تاریخی فکشن قرار دیا‬
‫ہے۔ اس کے عالوہ‪ Ania Loomba‬نے راج کوارٹٹ کے پہلے ناول کے حوالے سے‬
‫اپنی رائے کا ظہار کچھ اس طرح کیا‪:‬‬
‫‪The Jewel in the Crown works to suggest that Imperialism is a‬‬
‫‪violation only at the moment of an organized opposition to British‬‬
‫)‪rule. (9‬‬
‫پال اسکاٹ ہندوستان میں عہد نوآبادیات کے آخری سالوں کی منظر کشی کرنے‬
‫واال برطان وی ناول نگار ہے خاص طور پر جنگ عظیم دوم کا زمانہ ہے اور ‪۱۹۴۲‬ء کا‬
‫ہنگامہ خیز سال کہ مہاتما گاندھی (‪۱۹۴۸‬ء۔‪۱۸۶۹‬ء) نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا‬
‫اعالن کر رکھا ہے۔ راج کوارٹٹ میں اسی عبوری عہد کی سیاسی و تاریخی فضا کی‬
‫عکاسی کے عالوہ سیاسی قوانین کی قبولیت و گریز کی کشمکش اور قدامت و جدت کی‬
‫ہندووں اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انگریزوں‬
‫ٔ‬ ‫آویزش اور‬
‫کے ہندوستان کو آزادی دینے کے واقعہ کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر مرتسم ہوئے۔ پال‬
‫اسکاٹ ہندوستان کی معاصر تاریخ اور سیاست کو اپنے ناول کے پس منظر کے طور پر‬
‫بھی استعمال کرتے ہیں ٰلہذا ناول کے واقعات کاجائزہ لینے سے قبل ہندوستان کے اس‬
‫عہد کی فضا اور تاریخ کا سرسری جائزہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔‬
‫ستمبر ‪ ۱۹۳۹‬ء میں دوسری عالمگیر جنگ کے نقارے پر چوٹ پڑی‪ ،‬یورپ کی‬
‫ت اعمال کا ہٹلر کی صورت میں ظہور ہوا۔ روسیوں سے سمجھوتہ کر کے اس نے‬ ‫شام ِ‬
‫چند ہی دنوں میں پولینڈ کو تہہ و باال کر دیا۔ فوالدی گاڑیوں کے ساتھ جرمن لشکر مغرب‬
‫خط دفاع توڑ دیا۔ برطانیہ کی امدادی فوج ہتھیار‬
‫کی طرف ٹوٹ پڑے۔ فرانس کا مستحکم ِ‬
‫پھینک کر فرار ہو گئی۔ برصغیر پاک و ہند میں گاندھی جی نے انگریز کی پریشانی سے‬
‫فائدہ اٹھانا چاہا اور دھمکی دی کہ کانگریس کو پورے ملک کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم‬
‫جنگ یورپ میں کوئی تعاون نہیں کرے گی مگر اب مسلم لیگ کی‬ ‫ِ‬ ‫کیا جائے ورنہ وہ‬
‫سیاسی تنظیم بھی کافی مستحکم ہو چکی تھی۔‬
‫سنگا پور میں مقیم ایک الکھ سے زائد بہترین انگریزی سپاہ نے جاپان کی سی ِل بے‬
‫پناہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ مارچ ‪۱۹۴۲‬ء میں جاپانی اژدھے نے سرحدی آسام کی‬
‫پہاڑیوں سے منہ نکاال۔ پھنکار کلکتے تک پہنچی۔ جاپانی طیارے چند گولے مضافات پر‬
‫پھینک گئے۔ سارے شہر میں تہلکہ مچ گیا۔ سیاسیات ہند پر یورش جاپان کا براہ راست اثر‬
‫پڑا لیکن جاپان کے حملے سے بھی پہلے ہٹلر کی فتوحات نے انگریزوں کے ہوش اڑا‬
‫دیئے تھے۔ ایسے میں برطانیہ کی جنگی تیاریوں میں ہندوستان کو حصہ دار بنانا‬
‫استعفی دینے کے بعد دوبارہ وزارتیں‬
‫ٰ‬ ‫ضروری تھا۔ کانگریس نے جب وزارتوں سے‬
‫سلسلہ جنبانی کا آغاز کیا تو وائسرائے نے ‪۸‬اگست‬ ‫ٔ‬ ‫بنانے کے متعلق وائسرائے سے‬
‫‪ ۱۹۴۰‬ء کو صاف الفاظ میں اعالن کیا کہ برصغیر کی فالح اور سالمتی کا تقاضا یہ ہے‬
‫کہ کسی ایسی جماعت کو حکومت نہ سونپی جائے جسے ملکی آبادی کے اہم عناصر کی‬
‫نمائندگی حاصل نہ ہو۔ اس اعالن سے مسلم لیگ کی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا گیا۔ پھر‬
‫جب برطانیہ کی جنگ میں حالت کمزور ہوئی۔ جاپانی فوجیں رنگون پر قابض ہو کر‬
‫برصغیر کے دروازے پر آکھڑی ہوئیں تو اس صورت حال کے پیش نظر حکومت‬
‫برطانیہ نے ضروری سمجھا کہ پاک وہند کے باشندوں کی حمایت اور خیر سگالی حاصل‬
‫کر لی جائے۔ چنانچہ ‪۱۹۴۲‬ء میں سر سٹیفورڈ کرپس کو چند تجاویز کے ساتھ برصغیر‬
‫روانہ کیا گیا ان تجاویز کا ایک حصہ مستقبل کے بارے میں تھا جس میں حکومت نے‬
‫وعدہ کیا کہ جن کے خاتمے پر برصغیر کو آزادی دی جائے گی مگر گاندھی جی کے‬
‫نزدیک برطانیہ کے اس وعد ٔہ فردا کی اس لیے کوئی قدروقیمت نہ تھی کیونکہ اس جنگ‬
‫میں کامیابی کے کوئی امکانات نہ تھے۔ انہوننے ان تجاویز کے متعلق کہا کہ یہ ایک بعد‬
‫کی تاریخ کا چیک ہے اور ایک ایسے بینک کے نام ہے جو دیوالیہ ہو چکا ہے۔ کانگریس‬
‫اور مسلم لیگ دونوں نے ان تجاویز کو رد کر دیا۔ کرپس کے واپس جانے پر گاندھی جی‬
‫نے حکومت کے خالف ایک پرزور تحریک کا منصوبہ بنایا۔ وہ ساری عمر عدم تشدد کا‬
‫پرچار کرتے رہے مگر اب تشدد کا طریقہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ‪۷‬اگست ‪۱۹۴۷‬ء‬
‫کانگریس کے اجالس میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی قرارداد منظور ہوئی۔ گاندھی جی کو‬
‫اس تحریک کا قائد مقرر کیا گیا۔ گاندھی جی گرفتار ہوئے۔ ‪۱۹۴۴‬ء میں جیل سے رہا‬
‫ہوئے اور اسی سال ستمبر میں راج گوپال اچاریہ کی کوشش سے قائد اعظم اور گاندھی‬
‫میں مذاکرات ہوئے۔‬
‫‪۱۹۴۵‬ء کے آغاز میں جنگ کا خاتمہ اور اتحادیوں کی فتح بہت قریب معلوم ہورہی‬
‫تھی۔ وائسرائے الرڈ ویول ہندوستان کی سیاسی گتھی سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے‬
‫ایسے حاالت میں جون ‪۱۹۴۵‬ء میں اعالن کیا گیاکہ برطانیہ ہر صورت میں جون ‪۱۹۴۸‬ء‬
‫تک برصغیر سے نکل جائے گا۔ مارچ ‪۱۹۴۷‬ء میں الرڈ ویول کی جگہ الرڈ مائونٹ بیٹن‬
‫کو وائسرائے مقرر کردیا گیا اور ‪۳‬جون ‪۱۹۴۷‬ء کو نئے منصوبے کا اعالن کیا گیا۔‬
‫زادی ہند کا‬
‫ٔ‬ ‫‪۱۸‬جوالئی ‪۱۹۴۷‬ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے اس منصوبے کی بنیاد پر آ‬
‫قانون منظور کیا جو با ٓ‬
‫الخر ‪۱۵‬اگست ‪۱۹۴۷‬ء کو نافذ ہوا۔‬
‫مذکورہ باال تاریخی واقعات کی مہک ناول راج کوارٹٹ کے باطن سے اٹھتی ہوئی‬
‫محسوس ہوتی ہے۔ مگر دوران مطالعہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے کئی‬
‫واقعات کے تکرار کی وجہ سے ناول کے پالٹ نے غیر ضروری طوالت اختیار کر لی‬
‫ہے جیسے کہ ناول کے دوسرے حصے "‪ "The Day of Scorpion‬میں ہری کمار کا‬
‫انٹرویو ‪ ۸۴‬صفحات پر محیط ہے اور یہی چیز ناول کے چوتھے حصے ‪"A Division‬‬
‫"‪of Spoils‬میں دہراتے ہوئے ‪۴۲‬صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کئی اور‬
‫واقعات مثالً ٹیڈی بنگم "‪ "Teddie Bingham‬کی منگنی‪ ،‬شادی‪ ،‬وفات‪ ،‬بچے کی‬
‫پیدائش وغیرہ کا کئی مقامات پر تبصرے کی شکل میں اعادہ کیا گیا ہے۔ ناول کے بیانیے‬
‫کو زیادہ جاندار اور قوی تر بنانے کے لیے کئی خطوط‪ ،‬ڈائریوں‪ ،‬کارٹونوں اورمیگزینوں‬
‫کے ص فحات کو ناول کے پالٹ کا حصہ بھی بنایاگیا ہے۔ مگر ناول کے واقعات کو زمانی‬
‫تناظر میں ایک خاص تسلسل کے ساتھ پڑھاجا سکتا ہے اور ہمیں واضح طور پر محسوس‬
‫ہوتا ہے کہ ناول نگار نے مختلف واقعات کو زمانی اعتبار سے پیش کیا ہے۔ شاید یہ ناول‬
‫نگار کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ اس کے بغیر ناول کا مجموعی تاثر کمزور‬
‫ہو سکتا ہے۔ اسی قسم کی صورتحال کے بارے میں ای ایم فاسٹر نے بھی اپنی رائے پیش‬
‫کی ہے‪:‬‬
‫ناول نگار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ناول کے پالن کے درمیان زمان کے وجود سے‬
‫منکر ہو سکے۔ اسے کہانی کی رسی کو خواہ ڈھیلے پن کے ساتھ مگر ضرور پکڑے‬
‫رہنا چاہیے ورنہ اس کی تحریر گنجلک اور غیر دانشمندانہ ہو گی جو کہ ایک بہت بڑا‬
‫نقصان ہوگی۔ (‪)۱۰‬‬
‫جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ناول کی مفصل سمری بیان کی گئی ہے جس میں یہ‬
‫بتایا گیا ہے کہ ناول کے پہلے حصے ‪ The Jewel in the Crown‬کا پالٹ میاپور‬
‫‪Mayapore‬میں ‪ ۱۹۴۲‬ء میں رونما ہونے والے فسادات پر مشتمل ہے جو ایک مشنری‬
‫ٹیچر پر حملے اور ایک برطانوی لڑکی کی عصمت دری کے سانحے کے نتیجے میں‬
‫پیش آ تے ہیں کیوں کہ اس دوران ہونے والے تشدد کی افواہوں نے پورے ملک کو اپنی‬
‫لپیٹ میں لے لیا اور ہندوستانی عوام اور برطانوی راج کو ایک دوسرے کے سامنے ال‬
‫کھڑا کیا۔ یوں ان فسادات کی منظر کشی کرتے ہوئے پال اسکاٹ نے حقیقی تاریخی اور‬
‫سیاسی منظر نا مے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ایک افسانوی ڈرامائی صورتحال اس‬
‫وقت پیدا کردی۔ جب اس نے اس افسوسناک واقعے‪ ،‬گرفتاریوناور قیدیوں کے ساتھ ہونے‬
‫والے ناروا سلوک کی داستان کو ناول کے پالٹ کا حصہ بنایا ہے۔ سول نافرمانی کی‬
‫تحریک کے دوران رونما ہونے والے خوفناک واقعات کے بعد مس کرین ‪'Miss‬‬
‫'‪Crane‬جو کہ مشنری ٹیچر ہیں وہ اپنے کمرے کی دیوار پر آویزاں تصویر جسے‬
‫‪Jewel in the Crown‬کہا جاتا ہے اتار دیتی ہے۔ یہ ایک تاریخی اور تمثیلی تصویر‬
‫ہے جس میں ملکہ برطانیہ کو سنہری تخت پر بیٹھے دکھایا گیا ہے اور اس کے ارد گرد‬
‫درباری‪ ،‬سپاہی‪ ،‬سیاستدان‪ ،‬ہندوستانی شہزادوں‪ ،‬بڑے بڑے راجوں مہاراجوں‪،‬‬
‫جاگیرداروں‪ ،‬کسانوں‪ ،‬مالزمین سمیت تمام طبقوں کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ ایک‬
‫ہندوستانی شہزادہ تخت کے قریب آتا ہے جس کے اوپر مخملی تکیے پر رکھا ہوا بڑا‬
‫قیمتی‪ ،‬روشن اور چمکدار ہیرا جگمگا رہا ہے۔‬
‫بی بی گھر گارڈن میں ڈیفنی کے ساتھ ہونے والے سانحے کے نتیجے میں اس کا‬
‫دوست ہری کمار گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس سے میرک کو موقع مل جاتا ہے اور وہ جیل‬
‫میں ہری سے انسانیت سوز سلوک روا رکھ کر اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ مگر‬
‫یہ سارے واقعات انگریز حکمرانوں اور ہندوستانیوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھا دیتے‬
‫ہیں۔‬
‫ناول کے دوسرے حصے ‪ The Day of Scorpion‬کی کہانی سارہ لٹن کے گرد‬
‫گھومتی ہے۔ جس کے ذہن پر بچپن ہی سے بچھو کے آگ میں گھر کر خود کو ڈنگ مار‬
‫کر خود کشی کرنے کا واقعہ نقش ہے۔ بعد میں وہ اپنے چھوٹے سے بچے کو آگ کے‬
‫شعلوں میں رکھ دیتی ہے اور پھر مس کرین کی خود کشی کا واقعہ بھی پیش آتا ہے۔‬
‫تیسرے حصے ‪ Tower of Silence‬میں بھی اسی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔‬
‫اس حصے میں پارسیوں کے بلند ستونوں کا ذکر ملتا ہے۔ مس بیچلر اپنی زندگی کی‬
‫آخری سانسیں گن رہی ہے جبکہ برطانوی راج بھی آخری مراحل میں داخل ہو گیا ہے‬
‫اور اس پر چراغِ سحری کی کیفیت طاری ہے۔ جنگ عظیم دوم کے موقع پر مقامی لوگوں‬
‫اور انگریزوں کے احساسات و جذبات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اگست ‪۱۹۴۵‬ء میں مس‬
‫باربی انتقال کر جاتی ہے اور ہیروشیما پر بم کی صورت میں موت حملہ آور ہو جاتی‬
‫ہے۔‬
‫ناول کے چوتھے حصے ‪ A Division of Spoils‬میں برطانوی راج کے تمام‬
‫معامالت منطقی انجام کی طرف گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ ‪ Guy Perron‬جو کہ مورخ‬
‫ہے ہندوستان میں آتا ہے۔ ناول کے اس اختتامی حصے میں ہندوستان بھر میں فسادات‬
‫جاری ہیں اور اسی فضا میں ہندوستان کی تقسیم عمل میں الئی جاتی ہے اور برصغیر‬
‫سے انگریز رخصت ہو جاتے ہیں۔ پال اسکاٹ کے ناول کے اس اختتامی حصے میں بجا‬
‫طور پر حزنیہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔‬
‫اسی طرح ناول کے چاروں حصوں کے صرف عنوانات کو الگ الگ دیکھا جائے‬
‫تو ان میں بھی عالمتی رنگ محسوس ہوتا ہے جیسا کہ ‪The Jewel in the Crown‬‬
‫’’ تاج میں ہیرا‘‘ بالشبہ ہندوستان ہی کا حوالہ ہے یا قیمتی کوہ نور ہیرے کی طرف اشارہ۔‬
‫کیونکہ برطانوی شاہ ی تاج میں ہندوستان ایک روشن ترین ہیرا ہے۔ مگر پال اسکاٹ یہ‬
‫سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ہندوستان کیسا روشن ترین ہیرا ہے جہاں ایک انگریز عورت کی‬
‫عصمت دری ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ ‪ The Day of Scorpion‬بچھو کی فطرت اور‬
‫اسطور کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب وہ آگ میں گھر جاتا ہے تو خود کو ہی ڈنگ‬
‫مار کر ختم کر لیتا ہے۔ ناول کے دوسرے حصے میں سوسن ‪ Susan‬کو بچھو کہا گیا‬
‫ہے کیوں کہ وہ بچے کو جھولے سے اٹھا کر گیلے گھاس پر رکھ کر آگ جال دیتی ہے‬
‫اور اسے سرگوشی میں کہتی ہے ننھے اسیر‪ ،‬کیا میں تمہیں رہا نہ کر دوں؟ ‪Little‬‬
‫?‪Prisoner, shall I release you‬۔اس واقعے سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ اب‬
‫برطانوی راج اس کیڑے مکوڑے کا روپ دھار چکا ہے جو آگ میں گھرا ہوا ہے اور‬
‫تباہی کے دہانے پر ہے۔ اب اسے ختم ہونا چاہیے نہ کہ اس کا دفاع کیا جانا چاہیے۔ وہ‬
‫بچھو اتنا ذہین ہے کہ اسے جب یہ احساس ہوتا ہے کہ اب اس کا بچنا محال ہے تو وہ‬
‫بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ختم کر لیتا ہے۔ (یعنی اب ہندوستان کی آزادی کا‬
‫اعالن ناگزیر ہے)‬
‫تیسری جلد ‪ The Tower of Silence‬رنپور ‪ Ranpur‬میں پارسیوں کے‬
‫ٹاورز اور ان ِگدھوں کی طرف اشارہ ہے جو اونچے ستونوں پر ڈالی گئی الشوں کے‬
‫مردار گوشت سے پیٹ بھرتے ہیں۔‬
‫مس باربی کی پوری زندگی میبل لٹن ‪ Mabel Lyton‬کے لیے وقف ہے اگرچہ‬
‫بعد میں ایک مردہ جسم یا عضو معطل کی طرح ملڈرڈ ‪ Mildred‬اسے الگ کر دیتا ہے‬
‫اور پھر اس کی خاموشی میں اس کی مخدوش آواز کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ وہ آواز جو اس‬
‫کا غرور تھی اور اب چھن گئی ہے۔‬
‫‪A Division of Spoils‬کا عنوان بھی خود تشریحی ہے اورملک کی اس طرح‬
‫کی تقسیم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک زندہ جانور کو ٹکڑوں میں تقسیم کر نے کے‬
‫مترادف ہے اور ساتھ ہی برطانوی انتظامیہ کی ناکامی کے عالوہ اس دوران ہونے والی‬
‫قتل و غارت گری اور آتش زدگی کے واقعات کا بھی بیانیہ ہے یوں پہلی جلد ‪The‬‬
‫‪ ،Jewel in the Crown‬ڈیفنی اور کمار‪ ،‬مس کرین اور سسٹر لڈمیال اور میرک‬
‫‪Merrick‬کی کہانی ہے۔ ‪ The Tower of Silence‬مس باربی ‪ Barbie‬کی کہانی‬
‫ہے‪A Division of the Spoils ،‬پیرن‪ Peron‬اور روون ‪ Rowan‬کے ساتھ قاسم‬
‫اور سید‪ ،‬برنسکی ‪ Bornowsky‬اور احمد کی زندگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ بطور‬
‫مجموعی راج کوارٹٹ سارہ لٹن ‪ Sara Layton‬ہری‪Hari ،‬اور میرک ‪Merrick‬کی‬
‫زندگیوں کے مفصل تذکروں پر مشتمل ہے۔‬
‫بحیثیت مجموعی راج کوارٹٹ فکشن کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے‬
‫مگر جیسا کہ تاریخ کی سطور کے درمیان بہت کچھ غیر مرئی بھی لکھا ہوتا ہے جو‬
‫بظاہر نظر نہیں آتا مگر غور کرنے سے اس کا مفہوم اس کے باطن سے برآمد کیا جا‬
‫سکتا ہے۔ اسی طرح راج کوارٹٹ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول کو بھی‬
‫اس کے زمانی محیط سے الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ناول کے‬
‫نقطہ انجام کی جانب مائل بہ سفر انگریزی‬
‫ٔ‬ ‫پردے میں ہندوستان میں انہدام پذیر یا اپنے‬
‫راج کی ادبی جمالیاتی تقاضے نباہنے والی مکمل تصویر ہے۔ اسی تصویر کے چند‬
‫گوشوں کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس میں تاریخ اور‬
‫فکشن کا امتزاج ہے۔ مگر پال اسکاٹ نے یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ اس میں بیان کیے‬
‫جانے والے فسادات کے عالوہ تاریخی اور سیاسی مناظر بھی حقیقت پر مبنی ہیں جبکہ‬
‫مجرمانہ حملے کی ڈرامائی صورتحال‪ ،‬گرفتاریاں اور قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا‬
‫سلوک کی داستان مبنی بر تخیل ہے۔‬
‫‪Here is a blend of fact and fiction. The riots are real. The historical‬‬
‫‪and political scene are factual. The dramatic situation of the‬‬
‫‪criminal assault, the arrests, the treatment of the prisoners, is‬‬
‫)‪imaginary. (11‬‬
‫مگر ہمارے سامنے‪ Goonetillex‬کی یہ رائے بھی آتی ہے جس میں وہ یہ تجویز‬
‫کرتے ہیں کہ ’’اس ناول کو ہندوستان کے متعلق تحریر کردہ دوسرے ناولوں جیسے کم‬
‫‪Kim‬اور اے پیسج ٹو انڈیا ‪ A passage to India‬کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ‬
‫یہ ایک ایسا تاریخی ناول ہے جس میں مصنف نے فکشن کے اندر ہی عصری تاریخ کی‬
‫ماہیت قلبی کر دی ہے۔‬
‫‪The Raj Quartet should be considered not as a novel dealing with‬‬
‫‪India like Kim or A Passage to India, but as historical novel in‬‬
‫‪which the author has transmuted contemporary history into fiction.‬‬
‫)‪(12‬‬
‫ناول کا آغاز ہندوستان میں اس وقت جاری ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ کے‬
‫ہنگامہ خیز اور جذباتی مرحلے سے ہوتا ہے اور میرٹھ‪ Mirat‬کے قریب میا پور‬
‫‪Mayapor‬کے افسانوی قصبے میں مس ایڈونا کرین ‪ Edwina Crane‬کا تذکرہ ہوتا‬
‫ہے اور ناول کی یہ ابتدائی سطور ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہیں‪:‬‬
‫‪This is the story of a rape, of the events that led up to it and‬‬
‫‪followed it and of the place in which it happened. There are the‬‬
‫‪action, the people, and the place, all of which are interrelated but‬‬
‫‪in their totality incommunicable in isolation from the moral‬‬
‫)‪continuum of human affairs. (13‬‬
‫ان سطور سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کہانی ایک انگریز خاتون جو مشنری‬
‫ٹیچر ہیں ان کی عصمت دری کے واقعے سے شروع ہوئی۔ جو بعد میں کئی واقعات کو‬
‫جنم دیتی ہے اور اس سارے عمل میں شامل تمام لوگ (کردار)‪ ،‬مقامات اور تمام چھوٹے‬
‫چھوٹے واقعات آپس میں ایک دوسرے سے منضبط انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔ ناول میں‬
‫اس مشنری ٹیچر ایڈونا کرین‪ Edvina Crane‬کی کہانی ذہن میں ہندوستان کی تاریخ‬
‫میں درج امرتسر میں ایک اور مشنری استاد مس مارسیال شیروڈ کے ساتھ ہونے واال‬
‫واقعہ کچھ یوں ابھرتا ہے کہ ‪۱۹۱۹‬ء کے رولٹ ایکٹ اور سیاسی گرفتاریوں کے ردعمل‬
‫میں ہونے والے پُر تشدد مظاہروں اور احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ سال پنجاب‬
‫کے لیے بہت پرآشوب ثابت ہوا۔ کانگریسی لیڈر ڈاکٹر سیف الدن کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال‬
‫آنند کی گرفتاری کے بعد امرتسر میں نہ صرف پُرتشدد مظاہرے ہوئے بلکہ کچھ مشتعل‬
‫افراد کی طرف سے انگریزوں پر حملے کیے گئے۔ گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈائر نے‬
‫فوجی راج نافذ کر کے جالندھر کے ‪45‬بریگیڈ سے مدد مانگی۔ اس بریگیڈ کی کمان کرنل‬
‫ریجنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر کر رہے تھے جو کہ فوج میں عارضی بریگیڈیئر جنرل کے‬
‫عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے جنرل ڈائر کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہی جنرل‬
‫ڈائر ہے جس کی ذات نوآبادیاتی ذہن کی خود پسندی اور ظلم کی عکاس ہے اور‬
‫ہندوستانیوں کے لیے روایتی نوآبادیاتی حقارت کی آئینہ دار ہے۔ سرمائیکل اوڈائر نے‬
‫امرتسر میں تمام ہندوستانی شہریوں پر انگریز باشندوں اور افسران کو بال امتیاز سلیوٹ‬
‫کرنے اور مارسیال شروڈ پر حملے کی جگہ سے پیٹ کے بل رینگ کر گزرنے کی‬
‫پابندی عائد کردی۔ جس کی خالف ورزی پر کوڑوں کی سزا مقرر کر دی گئی۔ تمام‬
‫ہندوستانیوں میں نفرت کے جذبات ابھرے اور ہندوستان میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ رونما‬
‫نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس‬
‫ٔ‬ ‫ہوا۔ اور نہتے عوام کا یہی قتل عام برطانوی راج کے اختتام کا‬
‫سانحہ جلیانوالہ باغ کا موازنہ ناول کے ایک افسانوی شہر میاپور ‪ Mayapor‬میں ہونے‬
‫والے فسادات کے ساتھ کیا ہے‪:‬‬
‫)‪The Mayapore riots are compared to the Amristar massacre. (14‬‬
‫ہندو مسلم اتحاد کے میالنات جو کہ ‪۱۹۱۱‬ء سے شروع ہو چکے تھے‪ ،‬تحریک‬
‫نقطہ عروج پر پہنچ گئے۔ اس دوران کانگریس کو حکومت سے شدید‬ ‫ٔ‬ ‫خالفت کے دوران‬
‫مایوسی ہوئی اور ساتھ مسلمانوں کے جذبات بھی مجروح ہوئے۔ جنگ کے خاتمے پر‬
‫پاک و ہند کو آزادی دینے کی بجائے انگریزوں نے تحریک آزادی کے خالف انتقامی‬
‫کاروائی شروع کی۔ رولٹ ایکٹ پاس ہوا جس کی رو سے حکومت بغیر قانونی ثبوت کے‬
‫گرفتاریاں کر کے سزائیں دینے کی مجاز ہو گئی۔ جب اس کے خالف ملک بھر میں‬
‫احتجاج شروع ہوا تو جلیانوالہ باغ سانحہ رونما ہوا اور پورے پنجاب کو فوج کے حوالے‬
‫کر کے مارشل ال نافذ کر دیا گیا۔ یعنی جس طرح امرتسر کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔‬
‫اب مسٹر وائٹ ڈپٹی کمشنر جو کہ برطانوی استعمار کا نمائندہ ہے اس نے بھی فوج کی‬
‫امداد طلب کی تاکہ میاپور کو فوج کے حوالے کر کے امن بحال کیا جا سکے۔ یہ منظر‬
‫نامہ ناول کے صفحات میں یوں پیش ہوتا ہے۔‬
‫‪She had closed her mind to stories of the troubles, but she knew‬‬
‫‪that the military had been called out in aid of the civil power, that‬‬
‫‪for three or four days Mr White was said to have lost his head and‬‬
‫‪handed Mayapore over to the control of the local Brigade‬‬
‫‪Commander. She had heard Indians say, although she had tried‬‬
‫‪not to listen, that in those few days of Brigadier Reid, things had‬‬
‫‪been almost as bad as in the days of General Dyer in Amritsar in‬‬
‫‪1919. There had not been any indiscriminate shooting of unarmed‬‬
‫‪civilians, but there had been, apart from controlled shootings and‬‬
‫‪consequent deaths, the forcible feeding with beef – if the story‬‬
‫‪were to be believed – of six Hindu youths who were suspected or‬‬
‫)‪guilty of the rape in the Bibighar Gardens. (15‬‬
‫’’ اس نے (مس کرین) تمام دکھ بھری کہانیوں سے ذہن کو ہٹا لیا تھا۔ لیکن اسے یہ‬
‫بھی معلوم تھا کہ فوج کو سول اداروں کی امداد کے لیے طلب کیا جاچکا تھا۔ چونکہ‬
‫مسٹر وائٹ کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ان تین یا چار یوم میں حواس باختہ ہو گیا‬
‫تھا اور میا پور کو مقامی بریگیڈ کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو یہ کہتے ہوئے‬
‫سن چکی تھی۔ اگرچہ اس نے اس طرف کان لگانے کی دانستہ کوشش نہیں کی تھی کہ‬
‫بریگیڈ یئر ریڈ کے زیر انتظام چند دنوں میں ہی معامالت اتنے دگرگوں ہو چکے تھے‬
‫جتنے امرتسر میں ‪۱۹۱۹‬ء میں جنرل ڈائر کے وقت تھے۔ غیر مسلح سویلین آبادی کے‬
‫خالف بالامتیاز فائرنگ اگرچہ نہیں کی گئی تھی مگر اس کنٹرول فائرنگ کے نتیجے میں‬
‫بھی ہالکتیں ضرور ہوئی تھیں اور پھر زبردستی بڑا گوشت کھالنے جیسا عمل۔۔۔اگر اس‬
‫کہانی پر یقین کر لیا جاتا تو چھ ہندو نوجوان مشتبہ یا بی بی گھر گارڈنز میں ہونے والے‬
‫عصمت دری کے واقعے کے مجرم تھے۔‘‘‬
‫اسی قسم کے فسادات کا تذکرہ کرتے ہوئے پال اسکاٹ تحریر کرتے ہیں۔‬
‫ـ ‪In 1919 he told her something of the troubles in the Punjab, but‬‬
‫‪did not mention the massacre of unarmed Indian civilians by‬‬
‫)‪British-commanded Gurkha troops in Amritsar. (16‬‬
‫’’‪۱۹۱۹‬ء میں اس نے پنجاب میں پیش آنے والی کچھ تکالیف کا ذکر کیا مگر امرتسر میں‬
‫برطانوی زیر کمان گورکھا دستوں کی طرف سے غیر مسلح ہندوستانی عوام کے قتل عام‬
‫کا ذکر نہ کیا۔‘‘‬
‫جنگ عظیم دوم کے ابتدائی مراحل میں برطانیہ کی حالت کمزور ہوتی جا رہی‬
‫تھی۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے ہندوستان سے کچھ وعدے بھی‬
‫ت خود اختیاری کے بارے میں بھی سوچ پیدا ہوئی۔ سر سٹیفورڈ‬ ‫کیے اور ان میں حکوم ِ‬
‫کرپس بھی تجاویز لے کر آئے۔ گاندھی جی کے نزدیک برطانیہ کے اس وعدۂ فردا کی‬
‫کوئی اہمیت نہ تھی کیونکہ ج نگ میں کامیابی کے کوئی امکانات نہ تھے اسی لیے انہوں‬
‫نے اسے بعد کی تاریخ کا ایسا چیک قرار دیا جو دیوالیہ بینک کے نام ہے۔ حکومت‬
‫برطانیہ کے ایسے ہی وعدوں کے بارے میں ناول کے صفحات میں یوں تبصرہ سامنے‬
‫آتا ہے۔‬
‫‪These were promises that were never fulfilled. Instead even‬‬
‫‪sterner measures were taken to put down agitation and the whole‬‬
‫‪sorry business of Great War promises ended in 1919 with the‬‬
‫‪spectacle of the massacre in the Jallianwallah Bagh at Amritsar,‬‬
‫‪when that chap General Dyer fired on a crowd of unarmed‬‬
‫‪civilians who had no way of escaping and died in hundreds. The‬‬
‫‪appearance of Churchill as head of the British war cabinet‬‬
‫‪(greeted by the English here with such joy) has depressed the‬‬
‫)‪Indians. (17‬‬
‫’’ یہ ایسے وعدے تھے جو کبھی وفا نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے احتجاجی تحریک‬
‫کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے اور اس سارے معاملے کا افسوسناک انجام‬
‫امرتسر میں جلیانوالہ باغ سانحے کی صورت میں اس وقت رونما ہوا جب جنرل ڈائر نے‬
‫غیر مسلح سویلین کے ہجوم پر فائرنگ کھول دی جن کے پاس فرار کی کوئی راہ نہیں‬
‫بچی تھی یوں سینکڑوں ہالک ہوئے۔ برطانوی جنگی کابینہ کے سربراہ کے طور پر‬
‫چرچل (یہاں انگریزوں نے اظہار مسرت کیا) کا سامنے آنا ہندوستانی عوام کے لیے باع ِ‬
‫ث‬
‫افسوس تھا۔‘‘‬
‫‪۱۹۱۹‬ء اور ‪ ۱۹۴۲‬ء کے فسادات کا موازنہ بھی کیا گیا ہے اور دونوں سانحات کی‬
‫مماثلت بھی بیان ہوئی ہے‪:‬‬
‫‪In 1919, as in 1942, the country was seething with unrest, and all‬‬
‫‪the signs indicated open rebellion on a scale equal to that of the‬‬
‫‪Mutiny in 1857. Ordered to Amritsar, Dyer came to a conclusion‬‬
‫‪which the historians – fortified by the hindsight historians are‬‬
‫)‪fortunate enough to be able to bring to their aid. (18‬‬
‫’’‪۱۹۴۲‬ء مینبھی ‪۱۹۱۹‬ء کی طرح پورے ملک میں اضطراب اور بے چینی پھیلی‬
‫ہوئی تھی اور تمام عالمات اس عام بغاوت کی نشاندہی کر رہی تھیں جس کی سطح‬
‫‪ ۱۸۵۷‬ء کے غدر کے برابر تھی۔ امرتسر میں حکم دیا گیا۔ ڈائر اس نتیجے پر پہنچا جو‬
‫مورخوں سے مستحکم ہوا۔ جو اس لحاظ سے خوش‬ ‫مورخین کے مطابق ۔۔۔بعد کے ٔ‬ ‫کہ ٔ‬
‫قسمت ہیں کہ وہ حصول امداد کے قابل ہوئے۔‘‘‬
‫اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ناول میں میاپور کے فسادات کی‬
‫ناول میں عکاسی پر نگاہ کی جائے تو ‪۱۹۱۹‬ء کے فسادات کا منظر نامہ ہمارے سامنے‬
‫ابھرتا ہے‪:‬‬
‫‪Let us say, for instance (to choose one of the many incidents that‬‬
‫‪occurred in Mayapore in August 1942) that a threatening crowd‬‬
‫‪had gathered outside the main Hindu temple in the square upon‬‬
‫‪which, having crossed the river by the main Mandir Gate bridge,‬‬
‫)‪there debouched the road that led from the civil lines. (19‬‬
‫’’مثال کے طور پر ہمیں یہ کہنا چاہیے (میاپور میں اگست ‪۱۹۴۲‬ء میں وقوع پذیر‬
‫ہونے والے واقعات میں سے ایک کا انتخاب) کہ ایک دھمکی آمیز ہجوم‪ ،‬چوک میں‬
‫ہندوئوں کے بڑے مندر کے باہر جمع ہو چکا تھا۔ جو کہ مندر کے دروازے کے پاس پل‬
‫سے دریا عبور کرنے کے بعد آنے والی سڑک کو بگاڑ چکا تھا۔‘‘‬
‫بیسویں صدی کے آغاز ہی سے برصغیر میں سیاسی جدوجہد نے شدت اختیار‬
‫کرلی۔ اعتدال پسندی کا دور ختم ہو گیا اور سیاسی سرگرمیوں میں انتہاپسندی کا رنگ‬
‫غالب آنے لگا۔ ایسے دور میں مختلف سیاسی جماعتیں بھی تشکیل دی گئیں۔ انہی میں سے‬
‫ایک کانگریس بھی تھی جس کی بنیاد ‪۱۸۸۵‬ء میں مسٹر ایلن ہیوم نے ڈالی۔ ایک طرف‬
‫طویل عرصے تک کانگریس محض اعتدال پسندوں کی جماعت رہی جس میں مختلف‬
‫طبقات کے نمائندہ افراد شامل تھے۔ ناول کے آغاز میں ہی انڈین نیشنل کانگریس کا ذکر‬
‫مس کرین)‪ (Miss Crane‬کے حوالے سے یونملتا ہے‪:‬‬
‫‪And this was what interested Miss Crane – at the MacGregor‬‬
‫‪House, said to be equally welcome were Indians: barristers,‬‬
‫‪teachers, doctors, lawyers, municipal officers, higher civil‬‬
‫‪servants, among whom were men of the local Congress Party‬‬
‫‪sub-committee, and men not of that committee but known for the‬‬
‫)‪possibly even greater vehemence of their anti-British views.(20‬‬
‫’’ اور یہی چیز مس کرین کو بھا گئی۔ میک گریگور ہائوس میں ہندوستانیوں کو بھی‬
‫اسی طرح خوش آمدید کہا جاتا۔ بیرسٹرز‪ ،‬ٹیچرز‪ ،‬ڈاکٹرز‪ ،‬قانون دان‪ ،‬میونسپل آفیسرز‪،‬‬
‫اعلی سول عہدیدار جو لوکل کانگریس پارٹی کی سب کمیٹی کے ممبران تھے‪ ،‬اور وہ‬ ‫ٰ‬
‫لوگ بھی شامل تھے جو اس کمیٹی کے ممبر نہیں تھے بلکہ اپنے برطانیہ مخالف‬
‫نظریات کی شدت کی وجہ سے جانے مانے جاتے تھے‪ ،‬مدعوعین میں شامل تھے۔‘‘‬
‫کانگریس کے تحت سول نافرمانی کی قرارداد پیش ہونے پر حکومتی ردعمل کا‬
‫تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا گیا‪:‬‬
‫‪It was rumoured, for instance, that on instructions from‬‬
‫‪Government the DC had already prepared a list of Congress party‬‬
‫‪members in the Mayapore district who would have to be arrested‬‬
‫‪under the Defence of India Rules if Congress voted in favour of‬‬
‫‪Mr Gandhi’s civil disobedience resolution, a resolution under‬‬
‫)‪which the British would be called upon to leave India. (21‬‬
‫’’ یہ افواہ تھی مثال کے طور پر کہ گورنمنٹ کی ہدایات کے تحت ڈی سی نے‬
‫میاپور ڈسٹرکٹ کی کانگریسی پارٹی کے ممبران کی فہرست پہلے تیار کر رکھی تھی جن‬
‫کو ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت گرفتار کیا جانا تھا۔۔۔ اگر کانگریس نے مسٹر گاندھی کی‬
‫سول نافرمانی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ انگریز‬
‫ہندوستان کو چھوڑ دیں۔‘‘‬
‫کانگریس کی تنظیم اور اس کے آغاز کے بارے میں‪:‬‬
‫– ‪Perhaps to you Congress is synonymous with Hindu. To us‬‬
‫‪originally – it was always the All-India Congress – founded,‬‬
‫‪incidentally, by an Englishman. But since there have always been‬‬
‫‪more Hindus than Muslims in India, it has also always gone‬‬
‫‪without saying that its membership is and was predominantly‬‬
‫)‪Hindu. (22‬‬
‫’’شاید آپ کے لیے کانگریس ’’ہندو‘‘ کے مترادف ہے۔ ہمارے لیے یہ ہمیشہ سے آل‬
‫انڈیا کانگریس رہی ہے جس کی بنیاد اتفاقا ً ایک انگریز نے رکھی۔ لیکن چونکہ ہندوستان‬
‫میں ہندو ہمیشہ سے ہی مسلمانوں سے زیادہ رہے ہیں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت‬
‫نہیں کہ اس کی ممبرشپ بھی غالب طور پر ہندو رہی ہے اور ہندو ہے۔‘‘‬
‫کانگریس کے بارے میں ایک خط کے الفاظ کچھ یوں ہیں‪:‬‬
‫‪The Congress, I appreciate, inspires the allegiance not only of a‬‬
‫‪majority of Hindus but of quite a large number of Muslims. I‬‬
‫‪submit however that although Congress is fundamentally an‬‬
‫)‪Indian national party..... (23‬‬
‫’’ میں اس بات کو اچھا سمجھتا ہوں کہ کانگریس کے جاں نثاروں میں نہ صرف‬
‫ہندوئوں کی کثیر تعداد ہے بلکہ مسلمان بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ‬
‫کانگریس اگرچہ بنیادی طور پر ایک انڈین نیشنل پارٹی ہے۔۔۔ـ‘‘‬
‫کانگریس اگرچہ شروع ہی سے ایک ہندو تنظیم تھی اور مسلمان من حیث القوم اس‬
‫سے الگ رہے۔ ‪۱۹۱۱‬ء کے بعد ملکی حاالت ایسے بنے کہ ہندو اور مسلمان ایک‬
‫دوسرے کے قریب ہو گئے اور کانگریس میں مسلمانوں کی دلچسپی بڑھی مگر یہ اتحاد‬
‫عارضی ثابت ہوا۔‬
‫‪.....we had to face the fact that these children for a long time now‬‬
‫‪had equated Congress with Hinduism and the singing of‬‬
‫‪Congress songs and the salutation of the Congress flag as an act‬‬
‫‪of defiance not only of the British Raj but of Muslim national‬‬
‫)‪aspirations. (24‬‬
‫’’ ہمیں اس حقیقت کا سامنا تھا کہ ہمارے بچے اب تک کانگریس کو ہندوازم کے‬
‫مساوی سمجھتے رہے ہیں اور کانگریس کے ترانے اور کانگریسی جھنڈے کی سالمی نہ‬
‫صرف انگریز دشمنی پر مبنی تھی بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری بھی تھی۔‘‘‬
‫کانگریس کا حکومت کے بارے میں مجوزہ منصوبہ‪:‬‬
‫‪This is one of the things we old congressmen insisted on … that‬‬
‫‪India should be a secular democratic state, not a priest-ridden‬‬
‫)‪autocracy. (25‬‬
‫’’اس چیز پر ہم پرانے کانگریسیوں کا اصرار ہے ۔۔۔ کہ ہندوستان کو سیکولر جمہوری‬
‫ریاست ہونا چاہیے نہ کہ پادریوں‪/‬مولویوں کے اشاروں پر چلنے والی شخصی حکومت۔‘‘‬
‫کانگریس کے نمائندہ جماعت ہونے کے دعوے کے متعلق ناول میں کچھ اس طرح‬
‫کی رائے سامنے آتی ہے‪:‬‬
‫)‪"The Congress says it represents all India, but is does not." (26‬‬
‫’’ کانگریس کہتی ہے کہ یہ پورے ہندوستان کی نمائندہ ہے لیکن یہ ہے نہیں۔‘‘‬
‫الگ وطن کے حصول کے حوالے سے کانگریس کے مطالبے اور سابق‬
‫کانگریسی اور مسٹر جناح کے بارے میں‪:‬‬
‫‪Perhaps then, the good Indian is that ex-Congress fellow Subhas‬‬
‫‪Chandra Bose who makes freedom the first priority and is now in‬‬
‫‪Berlin, toadying to Hitler, and broadcasting to us telling us to‬‬
‫‪break our chains. Or is he Mr Jinnah who has at last simplified the‬‬
‫‪communal problem by demanding a separate state for Muslims if‬‬
‫‪the Hindu-dominated Congress succeeds in getting rid of the‬‬
‫)‪British? (27‬‬
‫’’شاید کہ ایکس فیلو کانگریسی سبھاش چندر بوس جو آزادی کو پہال درجہ دیتا ہے‬
‫اب برلن میں ہٹلر کا کاسہ لیس بنا ہوا ہے ہمیں بتاتا ہے کہ زنجیریں توڑ دو یا یہ مسٹر‬
‫الخر کمیونل پرابلم کو آسان کر دیا ہے کہ اگر کانگریس انگریزوں کو‬ ‫جناح۔ جس نے با ٓ‬
‫نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو مسلمانوں کے لیے بھی الگ وطن ہونا چاہیے۔‘‘‬
‫جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو کانگریس نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا‬
‫اور مطالبہ کیا کہ آزادی کا فوری اعالن کیا جائے اور کانگریس کو ملک کی واحد نمائندہ‬
‫جماعت تسلیم کیا جائے۔ مگر جب حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم نہ کیا تو تمام صوبوں‬
‫میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہو گئیں۔‬
‫‪At the outset of that war Congress members of the central‬‬
‫‪assembly had walked out to protest the sending abroad of Indian‬‬
‫‪troops to the Middle East and Singapore and the Congress‬‬
‫‪ministries in the provinces had resigned because the Viceroy had‬‬
‫)‪declared war without consulting them. (28‬‬
‫’’ جنگ عظیم دوم کی ابتدا میں مرکزی اسمبلی کے کانگریسی ممبران نے‬
‫ہندوستانی فوجی دستوں کے مڈل ایسٹ اور سنگاپور بھیجنے کی مخالفت میں واک آئوٹ‬
‫کیا اور کانگریسی وزرا نے صوبوں میں اس بات پر کہ وائسرائے نے ان سے مشورہ‬
‫استعفی دیا۔‘‘‬
‫ٰ‬ ‫کیے بغیر اعالن جنگ کیاہے‬
‫ناول میں ایک اور مقام پر کانگریس اورحکومتی وعدوں کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے۔‬
‫‪They remember (so my editor tells me) all the promises that were‬‬
‫‪made in the Great War – a war which Congress went all out to‬‬
‫‪help to prosecute believing that the Crown was worth standing by‬‬
‫‪because afterwards the Crown would reward them by recognising‬‬
‫‪their claims to a measure of selfgovernment. These were‬‬
‫)‪promises that were never fulfilled. (29‬‬
‫جنگ عظیم کے دوران کیے گئے وعدے انہیں اچھی طرح یاد ہیں‪ ،‬جس میں‬
‫کانگریس نے تاج برطانیہ کی بھرپور مدد کی۔ اسے (کانگریس) کو یہ یقین تھا کہ تاج‬
‫برطانیہ مدد کے ال ئق تھا۔ کیونکہ جنگ کے بعد ان کے مطالبات مانے جائیں گے لیکن‬
‫سیلف گورنمنٹ کے یہ مطالبات ایسے وعدے ہی رہے جو کبھی ایفا نہ ہوئے۔‘‘‬
‫حکومت نے طویل عرصہ کی بحث و تمحیص کے بعد قانون مجریہ ‪۱۹۳۵‬ء‬
‫منظور کیا جس کی رو سے مرکز میں دو عملی نظام قائم کرنے کی تجویز تھی اسی کے‬
‫تحت ‪ ۱۹۳۷‬ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ایکٹ ‪۱۹۳۵‬ء کے حوالے سے‬
‫ناول نگار کی رائے‪:‬‬
‫‪The act of 1935 which envisaged a federal government at the‬‬
‫)‪centre, representative of all walks of Indian life. (30‬‬
‫’’‪۱۹۳۵‬ء کا ایکٹ مرکز میں وفاقی حکومت کا قیام تجویز کرتا تھا جو کہ ہندوستان‬
‫کے تمام مکاتب فکر کی نمائندہ ہو۔‘‘‬
‫انتخابات کے بعد کانگریس نے گیارہ صوبوں میں سے آٹھ صوبوں میں وزارتیں‬
‫قائم کیں۔ کانگریس اقتدار کے نشے میں ُچور تھی اس نے ایسے اقدامات کیے جن سے‬
‫مسلمانوں کوسخت ٹھیس پہنچی۔ جب دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر کانگریسی وزارتیں‬
‫یوم سوگ منایا۔ اسی کی طرف اشارہ‬ ‫مستعفی ہوگئیں تو مسلم لیگ نے پورے ملک میں ِ‬
‫ذیل کی سطور میں کیا گیا ہے۔‬
‫‪One could not help feeling that the heartrending cries for freedom‬‬
‫‪sounded hollow in retrospect as one watched the scramble and‬‬
‫‪listened to the squabbles that broke out between Hindus,‬‬
‫‪Muslims, Sikhs, Princes and others. The Congress, for instance,‬‬
‫‪openly admitted that they took provincial office in 1937 to prove‬‬
‫‪that the federal scheme was unworkable at the centre and that‬‬
‫)‪they alone represented India. (31‬‬
‫’’کوئی بھی اس بات پر افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب آزادی کے لیے‬
‫دلدوز چیخیں ہندوئوں‪ ،‬مسلمانوں‪ ،‬سکھوں کی باہمی آویزشوں اور جھڑپوں میں دب کر‬
‫ماضی کی یاد بن کر رہ گئیں۔ جب کہ کانگریس نے اعالنیہ اعتراف کیا کہ اس نے‬
‫‪ ۱۹۳۷‬ء کے انتخابات میں صوبائی سیٹیں صرف اس لیے قبول کیں کہ اس چیز کو ثابت‬
‫کیا جا سکے کہ فیڈرل سکیم ناقابل عمل ہے اور صرف وہی انڈیا کے نمائندے ہیں۔‘‘‬
‫گاندھی جی کے عدم تشدد اور عدم تعاون کی تحریک کے حوالے سے بریگیڈیئر‬
‫اے وی ریڈ کی یاداشتیں ‪"Edited Extracts from....Unpublished Memoirs‬‬
‫"‪of Brig A.V Reid‬کے عنوان سے راج کوارٹٹ میں شامل ہیں‪:‬‬
‫‪White seemed to be convinced that when the Indian National‬‬
‫‪Congress talked about non-violent non-co-operation they really‬‬
‫)‪meant nonviolent. (32‬‬
‫’’وائٹ کا خیال تھا کہ جب انڈین نیشنل کانگریس عدم تشدد‪ ،‬عدم تعاون کی بات‬
‫کرتی ہے تو واقعی عدم تشدد ہوتا ہے۔‘‘‬
‫کرپس کی واپسی پر گاندھی جی نے حکومت کے خالف ایک پرزور تحریک کا‬
‫منصوبہ بنایا۔ وہ ساری عمر عدم تشدد کا پرچار کرتے رہے مگر اب تشدد استعمال کرنے‬
‫کا فیصلہ کیا۔ حکومت کے خالف بغاوت کا منصوبہ بنایا گیا۔ ‪۷‬اگست ‪۱۹۴۲‬ء کو‬
‫کانگریس کے اجالس میں ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘کی قرارداد منظور ہوئی۔ گاندھی جی کو‬
‫اس مہم کا قائد مقرر کیا گیا۔ کیبنٹ مشن اور کرپس مشن کے حوالے سے ان غیر مطبوعہ‬
‫یاداشتوں میں اے وی ریڈ رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫‪My first meeting with White took place before Mr Gandhi had‬‬
‫‪launched his Quit India campaign, but at a time when it was clear‬‬
‫‪that the Cabinet Mission headed by Cripps was failing to reach‬‬
‫‪agreement about the way in which Indian leaders could be‬‬
‫)‪identified more closely with the affairs of the nation. (33‬‬
‫’’ میری وائٹ کے ساتھ پہلی مالقات مسٹر گاندھی کی انڈیا چھوڑ دو تحریک سے‬
‫پہلے ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ صاف نظر آرہا تھا کہ کرپس کی زیر سربراہی کیبنٹ‬
‫مشن کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہو رہا تھا کہ کسی طرح ہندوستانی راہنمائوں کو‬
‫ان کے ملکی معامالت کے ساتھ پرکھا جا سکے۔‘‘‬
‫بنگال کا صوبہ نہایت وسیع اور گنجان آباد تھا۔ الرڈ کرزن نے ‪۱۹۰۵‬ء میں بنگال‬
‫کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس تقسیم کے خالف کانگریس نے سودیشی تحریک کا‬
‫آغاز کیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے تقسیم کا پرجوش مقدم کیا۔ حکومت نے آخر کار‬
‫ہندو تحریک کے سامنے گھنٹے ٹیک دیئے اور ‪۱۹۱۱‬ء میں دہلی دربار کے موقع پر‬
‫تقسیم کو منسوخ کرنے کا اعالن کیا گیا اور بنگال دوبارہ متحد ہو گیا۔ تقسیم بنگال تاریخ‬
‫برصغیر کا ایک ہنگامہ خیز واقعہ تھا۔ اس سے تحریک آزادی میں تشدد پسندی کا آغاز‬
‫ہوا۔ کانگریس پر انتہا پسند ہندو قابض ہو گئے۔ ناول میں تقسیم بنگال کے متعلق تبصرہ‬
‫اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے‪:‬‬
‫‪He referred to the young Indian anarchists and said he was also‬‬
‫‪an anarchist, but not one who believed in violence, although‬‬
‫‪without violence he admitted the anarchists wouldn’t have‬‬
‫)‪managed to get the decision to partition Bengal reversed. (34‬‬
‫’’ اس نے نوجوان ہندوستانی انارکسٹوں سے کہا کہ میں بھی ایک انارکسٹ ہوں‬
‫لیکن ایسانہیں جو تشدد پر ایمان رکھتا ہو۔ گو کہ تشدد کے بغیر‪ ،‬یہ اس کا ماننا تھا کہ‬
‫انارکسٹ تقسیم بنگال کے فیصلے کو نہ بدلوا سکتے۔‘‘‬
‫موراجی ڈیسائی (‪۱۹۹۵‬ء۔‪۱۸۹۶‬ء) جنہوں نے ‪۱۹۳۰‬ء میں موہن داس کرم چند‬
‫استعفی دیا اور‬
‫ٰ‬ ‫گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک میں شمولیت کے لیے نوکری سے‬
‫برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد میں تقریبا ً ‪۱۰‬سال پابن ِد سالسل رہے بعد میں‬
‫ہندوستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔ ناول میں مسٹر ڈیسائی کا تعارف کچھ اس طرح کرایا‬
‫گیا ہے‪:‬‬
‫‪The thin, studious-looking boy is also a case in point. His name is‬‬
‫‪Desai. His father was interned with me in 1942 because we were‬‬
‫‪both leading members of the local Congress party sub-‬‬
‫‪committee....... They were quarrelling about Mr Nehru whom this‬‬
‫‪mild-looking young man had called a megalomaniac who had‬‬
‫‪already outlived his usefulness by 1948 but gone on living‬‬
disastrously in the past and dragging India back to conditions
worse than in the days of the British because he knew nothing of
world economic structure and pressures. My old friend Desai was
secretary to the minister for education and social services in the
provincial Congress Ministry that took office in 1937, and resigned
in 1939. (35)
‫ء‬۱۹۴۲ ‫’’ دبال پتال ذہین لڑکا بھی ایک مثال ہے جس کا نام ڈیسائی ہے اس کا والد‬
‫میں میرے ساتھ نظر بند تھا کیونکہ ہم دونوں لوکل کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما‬
‫تھے۔۔۔وہ مسٹر نہرو کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اس میں اس دھان پان لڑکے نے‬
‫ء سے پہلے‬۱۹۴۸ )‫نہرو کو ’’خبط عظمت کا شکار جنونی شخص‘‘ قرار دیا تھا جو (نہرو‬
‫ہی اپنی افادیت کھو چکا تھا۔ لیکن ماضی میں بری طرح زندہ تھا۔ اور انڈیا کو بھی اپنے‬
‫حتی کہ انڈیا تاج برطانیہ کے دور سے‬ ٰ ‫ساتھ پیچھے کی طرف گھسیٹ کر لیے جاتا رہا‬
‫بھی بدتر ہو گیا۔ کیونکہ اسے (نہرو) عالمی معیشت کا کچھ علم نہ تھا۔ میرا دیرینہ دوست‬
‫کانگریس کی صوبائی وزارتوں میں ایجوکیشن اور سوشل سروسز کے وزیر کا سیکرٹری‬
‘‘‫ء تک قائم رہیں۔‬۱۹۳۹ ‫ء سے‬۱۹۳۷ ‫بھی رہا۔ یہ وزارتیں‬
‫مس کرین جو کہ ہندوستان میں بطور مشنری ٹیچر اپنی خدمات سرانجام دے رہی‬
‫تھی۔ اس کی زبانی ناول میں مقامی سیاسی رہنمائوں اور ملکی صورتحال کا نقشہ کچھ‬
:‫اس طرح سامنے آتا ہے‬
Miss Crane feared such an uprising. For her the only hope for the
country she loved lay in the coming together at last of its
population and its rulers as equal partners in a war to the death
against totalitarianism. If Congress had not resigned from the
provincial ministries in 1939 in a fit of pique because the Viceroy
without going through the motions of consulting them had
declared war in the name of the King-Emperor on India’s behalf,
and if Mr Gandhi had not had a brainstorm and seized the
moment of Britain’s greatest misfortune to press home his
demands for political freedom, if things had been left to Mr Nehru
who obviously found Gandhi an embarrassment and to Mr
Rajagopalachari (who had headed the provincial ministry in
Madras and had wanted to arm and train the entire nation to fight
the Japanese) then at this moment...... (36)
‫’’مس کرین ایسی بغاوت سے خوفزدہ تھی کیونکہ اس کے محبوب ملک کے لیے‬
‫آخری امید اس کی عوام اور اس کے حکمرانوں کا برابری کی بنیاد پر ٹوٹیلٹیرین ازم‬
‫دم آخر تک لڑی جانے والی جنگ میں اتحاد تھا۔ اگر‬ ِ ‫(مطلق العنانیت) کے خالف‬
‫کانگریس ‪۱۹۳۹‬ء میں طیش میں آ کر صوبائی وزارتوں سے مستعفی نہ ہوتی۔ کیوں کہ‬
‫وائسرا ئے نے ان سے مشاورت کے بغیر شاہ کی طرف سے ہندوستان کو لڑائی میں‬
‫جھونک دیا تھا۔ ایسے میں اگر مسٹر گاندھی اسے نوائے سروش سمجھ کر سیاسی آزادی‬
‫کے حصول کے مقصد کو سامنے رکھ کر انگریزوں کے بدترین بدقسمتی کے موقع سے‬
‫فائدہ نہ اٹھاتا اور حاالت نہرو پر چھوڑ دئیے جاتے جو (نہرو) ظاہر ہے گاندھی کو ایک‬
‫اعلی مدارس تھا اور‬‫ٰ‬ ‫مسئلہ گردانتا تھا اور مسٹر راج گوپال اچاریہ (جو صوبائی وزیر‬
‫چاہتا تھا کہ ہندوستان کے بچے بچے کو مسلح کر کے جاپان کے خالف لڑنے کے لیے‬
‫تیار کیا جائے) تو پھر اس موقع پر ۔۔۔‘‘‬
‫اسی طرح مس کرین کا یہ تجزیہ بھی ناول کا حصہ ہے‪:‬‬
‫‪Miss Crane believed, an Indian cabinet would have been in‬‬
‫‪control in Delhi, Lord Linlithgow would have been Governor-‬‬
‫)‪General. (37‬‬
‫’’ مس کرین کو یقین ہے کہ اگر دلی میں انڈین کابینہ برسراقتدار ہوتی تو الرڈ‬
‫لنلتھگو گورنر جنرل ہوتے۔‘‘‬
‫ہٹل ر جو کہ دنیا کے لیے ایک خطرہ بن چکا تھا اس کے حوالے سے ناول میں‬
‫دلچسپ تبصرہ ہے‪:‬‬
‫‪The English here say that Hitler now realises he’s bitten off more‬‬
‫‪than he can chew and will end up by being a sensible chap and‬‬
‫‪coming to some arrangement with France and Britain. Some‬‬
‫‪Indians say that their own leaders, Nehru especially, have been‬‬
‫‪warning the West for years about the threat Hitler has always‬‬
‫)‪represented. (38‬‬
‫’’ انگریزی سوچ کہ ہٹلر کو اب پتہ چال کہ اس نے جتنا لقمہ منہ میں لیا ہے اتنا وہ‬
‫چبا نہیں سکتا۔ اور اب وہ سمجھدار بچہ بن جائیگا۔ فرانس اور برطانیہ سے کچھ طے کر‬
‫لے گا۔ کچھ ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے لیڈر خصوصا ً نہرو مغرب کو متنبہ‬
‫کرتے رہے ہیں اس خطرے سے جو آج ہٹلر سے ہے۔‘‘‬
‫ناول کے اسی حصے میں کانگریس کو ایک زبردست سیاسی قوت تسلیم کیا گیا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪After the failure of the Cripps Mission and the subsequent‬‬
‫‪opening of Mr Gandhi’s Quit India campaign, I recollect that the‬‬
‫‪main question in the minds of most Englishmen was whether or‬‬
‫‪no Mr Gandhi would succeed in carrying the Indian National‬‬
‫‪Congress (certainly the strongest political force in India)......... I‬‬
‫‪have never been a close follower of the ups and downs of‬‬
‫’‪politicians, but I was aware that Mr Gandhi had been ‘in’ and ‘out‬‬
of Congress, sometimes pursuing a personal policy that the
Congress endorsed and sometimes one that they did not. Mr
Nehru, who was the actual leader of the Congress, had for some
time been considered by us as a more sensible middle-of-the-way
fellow who knew the international language of politicians and
could possibly be counted on to see sense. (39)
‫’’ کرپس مشن کی ناکامی کے بعد اور گاندھی کی ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک پر‬
‫مجھے یاد پڑتا ہے کہ اکثر انگریزوں کے ذہن میں بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا گاندھی انڈین‬
‫نیشنل کانگریس کو ساتھ لے جا سکے گا یا نہیں (یقینا انڈین نیشنل کانگریس ہندوستان کی‬
‫مضبوط ترین سیاسی قوت)۔۔۔‬
‫میں کبھی بھی سیاست دانوں کے عروج و زوال کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا‬
‫شائق نہیں رہا۔ لیکن مجھے علم تھا کہ گاندھی کی کانگریس میں ’’آمد و رفت‘‘ لگی رہتی‬
‫تھی۔ بعض اوقات ان کی ذاتی پالیسی کی توثیق کرتی اور بعض اوقات نہ کرتی۔ مسٹر‬
‫ن ہرو جو کانگریس کا حقیقی لیڈر ہے اور جسے ہم بعض اوقات زیادہ ہوشمند اور معتدل‬
‫سمجھتے تھے اور جو سیاستدانوں کو بین االقوامی زبان سمجھتا تھا اس پر اعتماد کیا جا‬
‘‘ ‫سکتا تھا کہ وہ ہوش کے ناخن لے گا۔‬
‫" کے دیباچے‬The Day of Scorpion" ‫ناول راج کوارٹٹ کی دوسری جلد‬
‫(میں ایک مسلم عورت کا ذکر ہے جس کے برقعے کے حوالے سے‬Prologue)
‫تضحیک آمیز بیان ملتا ہے۔‬
The writer encountered a Muslim woman once in a narrow street
of a predominantly Hindu town, in the quarter inhabited by money-
lenders. The feeling he had was that she was coming in search of
a loan. She wore the burkha, that unhygienic head-to-toe covering
that turns a woman into a walking symbol of inefficient civic
refuse. (40)
‫آگے بڑھیں تو ہمیں قرآن مجید کی سورہ الجمعۃ کا ذکر ملتا ہے جس میں جمعہ کی‬
‫فرضیت کا بیان ہے۔ اس سورہ مبارکہ کی آخری آیات کو بیان کرنا بھی بڑا معنی خیز‬
:‫ہے‬
And passed that day through the street of the moneylenders only
because it was a short cut to the mosque. It was a Friday, and it is
written in the Koran: ‘Believers, when the call is made for prayer
on Friday, hasten to the remembrance of Allah and leave off all
business. That would be best for you, if you but knew it. Then,
when the prayers are ended, disperse and go in quest of Allah’s
‫‪bounty.’ Perhaps, when the service was over, it was her intention‬‬
‫)‪to return by the way she had come. (41‬‬
‫’’ ان سود خوروں کی گلی میں اس نے پورا دن صرف اس لیے گزارا کیوں کہ یہ‬
‫مسجد تک پہنچنے کا سب سے مختصر راستہ تھا۔ جمعے کا دن تھا اور یہ قرآن مجید میں‬
‫تحریر کیا گیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اذان ہو نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو ہللا‬
‫کی یاد کو اور چھوڑو اپنی تجارت یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم اسے سمجھو۔ پھر‬
‫جب نماز مکمل پڑھ چکو تو زمین میں پھیل جائو اور ہللا کا فضل تالش کرو۔شاید اس کا‬
‫ارادہ تھا کہ عبادت ختم کرنے کے بعد وہ اسی راستے سے واپس چلی جائے جس راستے‬
‫سے وہ آئی تھی۔‘‘‬
‫ایک مسلمان کانگریس منسٹر کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے بارے میں گفتار‬
‫سے زیادہ کردار کے غازی ہونے کا ذکر ملتا ہے‪:‬‬
‫‪Mr Kasim was a model of restraint and good behaviour. But then‬‬
‫‪he was a Muslim, and the Muslims were men of action, not words.‬‬
‫‪You knew better where you stood with them and they knew when‬‬
‫)‪to bow with dignity to the inevitable. (42‬‬
‫’’ مسٹر قاسم اچھے رویے کے حامل انسان اور ضبط و تحمل کا نمونہ تھے۔ لیکن‬
‫اس کے ساتھ وہ مسلمان بھی تھے۔ اور مسلمان الفاظ سے زیادہ عملی لوگ تھے۔ تم بہتر‬
‫جانتے ہو کہ ان کے ساتھ تم کہاں کھڑے ہو اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ناگزیر حاالت‬
‫میں عظمت کے ساتھ کیسے جھکنا ہے۔‘‘‬
‫حسب ذیل سطور میں نقشہ کھینچا گیا کہ ملکی تقسیم کی ناگزیریت اور کانگریسی‬
‫وزارتوں کے انجام کار مسلمانوں میں یہ احساس اجاگر کرنا کہ اگر ملک ہندوئوں کے‬
‫حوالے ہو گیا تو مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا‪:‬‬
‫‪When you all resigned the power you’d got, in the belief that you‬‬
‫‪were striking another blow for India’s independence, you weren’t‬‬
‫‪striking a blow for that at all. You were striking a blow at your own‬‬
‫‪existing and potential political power. You were narrowing the‬‬
‫‪area you could hope to exercise it in. It isn’t so much what you all‬‬
‫‪did between 1937 and 1939 to make a lot of Muslims believe the‬‬
‫‪League had been right and that a Congress ruled India would‬‬
‫‪mean a Hindu India that has made eventual partition of this‬‬
‫)‪country almost certainly inevitable. (43‬‬
‫’’جب آپ سب اپنی وزارتوں سے مستعفی ہو گئے تو آپ کے خیال میں ہندوستان‬
‫کی آزادی کے لیے آپ ایک اور کاری ضرب لگا رہے تھے۔ آپ اپنے دائر ٔہ عمل کے‬
‫لیے عالقہ محدود کر رہے تھے۔ آپ نے ‪۱۹۳۷‬ء تا ‪۱۹۳۹‬ء کے درمیانی عرصے میں‬
‫جو کچھ کیا یہ کچھ زیادہ نہیں ہے جس سے کثیر مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے پر مجبور‬
‫کر دیا کہ لیگ (مسلم لیگ) درست اقدام کر رہی تھی اور کانگریس کی حکومت سے مراد‬
‫ہندو انڈیا ہے اور اسی بات نے آخر کار ملک کی تقسیم کو یقینا ناگزیر بنا دیا ہے۔‘‘‬
‫ناول کے اسی صفحے پر آگے بڑھیں تو گورنر‪ ،‬مسلم وزیر مسٹر قاسم سے‬
‫مخاطب ہو کر انگریزوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اور جناح کو نظر‬
‫انداز کرنے کا تذکرہ ملتا ہے‪:‬‬
‫‪Mr Kasim. You well knew its importance and the folly of giving it‬‬
‫‪up, just as you well know the latest folly your party has committed,‬‬
‫‪the folly of not admitting the consequences of the first idiocy, of‬‬
‫‪thinking you can put the clock back to 1939, ignore Jinnah and‬‬
‫‪pretend the real quarrel is still with Britain and that the British are‬‬
‫‪just playing that old game of dividing and ruling and hanging on‬‬
‫‪like grim death. You well know that when Cripps came out in April‬‬
‫)‪your party had its last chance to retrieve its position.(44‬‬
‫’’مسٹر قاسم تم ا س کی اہمیت بہتر جانتے ہو اور پہلے جنونی تصور کہ تم ساعتوں‬
‫کو واپس ‪ ۱۹۳۹‬ء میں واپس ال سکتے ہو کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی حماقت سے‬
‫بھی آگاہ ہو‪ ،‬جناح کو نظرانداز کرنے اور یہ بہانے کرنا کہ ہماری اصل لڑائی ابھی تک‬
‫انگریز سے ہے اور یہ کہ انگریز اپنا قدیمی کھیل ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کھیل‬
‫رہے ہیں اور ہیبت ناک موت کے لیے معلق ہیں۔ تم بہتر جانتے ہو کہ کرپس جب اپریل‬
‫میں آیا تو آپ کی جماعت کے لیے اپنی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا آخری موقع تھا۔‘‘‬
‫حسب ذیل سطور میں جناح اور پاکستان کا ذکر یوں ملتا ہے کہ پاکستان کا نام ابھی‬
‫تک لوگوں کی زبانوں پر کم ہی آیا ہے‪:‬‬
‫‪I think you understood too that the Cripps proposals were the best‬‬
‫‪you are going to get while the war is on and that this was the last‬‬
‫‪chance you had to contain Jinnah. But what happens? Your party‬‬
‫‪shies like a frightened horse from the mere idea that any province‬‬
‫‪or group of provinces should have the power to secede from a‬‬
‫‪post-war Indian constitution and set up a constitution of its own.‬‬
‫‪What does it mean, they ask? What but Pakistan? But who even‬‬
‫)‪a few years ago had ever heard of Pakistan. (45‬‬
‫’’میں سوچتا ہوں کہ تم بھی سمجھتے ہو کہ کرپس کی تجاویز آپ کے لیے بہترین‬
‫تھیں۔ ایسے موقع کے لیے کہ جنگ جاری ہے اور یہ کہ جناح کو محدود کرنے کا یہ‬
‫آخری موقع تھا۔ لیکن کیا وقوع پذیر ہوا؟ تمہاری جماعت خوفزدہ گھوڑے کی طرح‬
‫شرماتی رہی۔۔۔ لیکن پھر پاکستان؟ مگر چند سال پہلے تک کسی نے کبھی پاکستان کا نام‬
‫سنا تھا۔‘‘‬
‫جب جنرل ڈائر کوجو سانحہ جلیانوالہ باغ کا ذمہ دار تھا اس کے لیے کچھ خواتین‬
‫امدادی رقم اکٹھی کر رہی تھیں تو اس وقت بھی دو طرح کی آراء پائی جاتی تھیں۔ ایک‬
‫طرف وہ خواتین تھیں جو جنرل ڈائر کو حق بجانب سمجھتے ہوئے اس کے مشکل وقت‬
‫میں اس کی امداد کے لیے آگے بڑھیں تو دوسری طرف وہ خواتین بھی تھیں جن کے‬
‫خیال میں بے گناہ اور نہتے ہالک ہونے والے ہندوستانیوں کے پس ماندگان کی امداد کے‬
‫لیے فنڈ اکٹھا کیا جانا چاہیے‪:‬‬
‫‪When the total sum collected for General Dyer was heard to have‬‬
‫‪reached the substantial fee of £26,000 the ladies of Pankot and‬‬
‫‪Ranpur felt vindicated, justified. But Mabel Layton’s comment was‬‬
‫‪‘Twenty-six thousand? Well, now, how many unarmed Indians‬‬
‫?‪died in the Jallianwallah Bagh? Two hundred? Three hundred‬‬
‫‪There seems to be some uncertainty, but let’s say two hundred‬‬
‫‪and sixty. That’s one hundred pounds a piece. So we know the‬‬
‫‪current price for a dead brown,’ and sent a cheque for £100 to the‬‬
‫‪fund the Indians were raising for the families of Jallianwallah‬‬
‫)‪victims. (46‬‬
‫’’ جب جنرل ڈائر کے لیے جمع شدہ امدادی رقم کی حقیقی مقدار ‪۲۶۰۰۰‬پونڈ تک‬
‫پہنچنے کے متعلق سنا گیا تو رنپور اور پنکوٹ نے خود کو صحیح اور حق پر سمجھا‬
‫لیکن میبل لٹین نے رائے دی۔ ’’‪۲۶‬ہزار پونڈ؟‘‘ اچھا تو پھر کتنے غیر مسلح ہندوستانی‬
‫جلیانوالہ باغ میں ہالک ہوئے؟ دو سو؟ تین سو؟ غیر یقینی کیفیت دکھائی دیتی ہے لیکن‬
‫ہمیں دو صد ساتھ کہنے دیجئے کہ یہ ایک شخص کے لیے ایک سو پائونڈ بنتی ہے۔‬
‫کیونکہ ہمیں اب گندمی رنگت والے (مقامی) ہالک شدگان کی قیمت معلوم ہو گئی ہے اور‬
‫ایک سو پائونڈ کا چیک جلیانوالہ باغ سانحے کا شکار ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے‬
‫فنڈ جمع کرنے والے ہندوستانیوں کو بھجوانا ہے۔‘‘‬
‫اسی پیرائے میں سر احمد اکبر جو رنپور کے آسودہ مسلمان ہیں اور سابقہ صوبائی‬
‫ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی ہیں وہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر اسے سانحہ‬
‫جلیانوالہ باغ کے بارے میں سمجھا رہے ہیں مگر بین السطور مفہوم قابل غور ہے‪:‬‬
‫‪You think Jallianwallah proves that the British are lying, talking‬‬
‫‪freedom but acting tyrannically and dealing destruction? Again‬‬
‫‪you are wrong. Jallianwallah could never have happened if the‬‬
‫‪British who talk freedom were not sincere. It happened because‬‬
‫‪they are sincere. They have frightened their opponents with their‬‬
‫‪sincerity. I do not mean us. We are not their opponents. Their‬‬
‫‪opponents, the ones who matter but who will matter less and less,‬‬
‫‪are also British. They are men like General Dyer. Why do you call‬‬
‫‪that man a monster? He believed God had charged him with a‬‬
‫‪duty to save the empire. He believed this sincerely, just as he‬‬
‫‪believed sincerely that in Amritsar there was to be found an‬‬
‫‪invidious threat to that empire. Why do you repeat parrot-fashion‬‬
‫‪that the English are hypocrites? With this you can never charge‬‬
‫)‪them. (47‬‬
‫’’ تم سوچتے ہو کہ جلیانوالہ باغ کا واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انگریز جھوٹے ہیں‬
‫کہ آزادی کی باتیں کرتے ہیں اور عمالً ظلم وستم اور تباہی کے سوداگر ہیں؟ تم ایک دفعہ‬
‫پھر غلطی پر ہو۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ کبھی رونما نہ ہوتا اگر انگریز جو آزادی کی بات‬
‫کرتا ہے‪ ،‬مخلص نہ ہوتا۔ یہ اسی لیے ہوا کہ وہ مخلص ہے۔ انہوں نے خلوص سے اپنے‬
‫دشمنوں کو خوفزدہ کر دیا۔ مخالفین سے مراد ہم نہیں ہیں۔ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔۔۔ وہ‬
‫جنرل ڈائر کی طرح کے لوگ ہیں۔ تم ایسے انسان کو ظالم عفریت کیوں کہتے ہو؟اسے‬
‫یقین تھا کہ خدا نے اسی کے ذمے ایمپائر کی حفاظت کی ذمہ داری لگا رکھی ہے۔ وہ‬
‫خلوص سے اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ امرتسر میں ایمپائر کو ناگوار قسم کی دھمکی‬
‫کا سامنا تھا۔ تم یہ طوطے کے انداز میں کیوں دہراتے ہو کہ انگریز منافق ہیں اس کے‬
‫ساتھ تم ان کو مور ِد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘‘‬
‫’ ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘کے حوالے سے گاندھی جی کی توقعات اور خدشات‬
‫کا تذکرہ ذیل کی سطور میں ملتا ہے‬
‫‪"There seems to be a general belief, however, that Congress had‬‬
‫‪the wind taken out of its sails by the sudden arrest of so many of‬‬
‫‪its leaders. The point is made that Mr Gandhi probably expected‬‬
‫‪the Quit India resolution as it is now called to lead not to prison‬‬
‫)‪but to serious talks with the Viceroy. I am in agreement. (48‬‬
‫’’ تاہم اس حوالے سے عمومی اعتقاد یہ دکھائی دیتا ہے کہ کانگریس کے کئی‬
‫رہنمائوں کی اچانک گرفتاریوں سے اس کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی۔ اس میں‬
‫رمز یہ ہے کہ غالبا ً گاندھی کو یہ توقع تھی کہ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا راستہ جیل‬
‫کی طرف لے جانے کی بجائے وائسرائے کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی طرف لے جاتا‬
‫ہے۔ میں اس رائے سے متفق ہوں۔ــ‘‘‬
‫ناول میں مغلیہ تاریخ خاص طور پر اکبر کے ہندو مسلم اتحاد اور متحدہ ہندوستان‬
‫کی حاکمیت کے خواب کی طرف اشارے ملتے ہیں‪:‬‬
‫‪Mohammed Ali himself, a man in whom perhaps could be‬‬
‫‪detected yet another inheritance, Akbar’s old dream of a united‬‬
‫‪sub-continent. For this he had come to prison. For this he had‬‬
‫‪incurred the displeasure of Mr Jinnah whose name was also‬‬
‫‪Mohammed Ali, who now had visions of a separate Muslim state‬‬
‫‪but whose forbears were converts from Hinduism and had not‬‬
‫)‪come from Turkey. (49‬‬
‫’’محمد علی خود ایک ایسے آدمی تھے جن کے اندر شاید اکبر کی طرح متحدہ‬
‫ہندوستان کا قدیمی خواب موجود تھا۔ اس کے لیے وہ پابند سالسل ہوئے۔ اس کے لیے وہ‬
‫مسٹر جناح کی ناپسندیدگی کے سزاوار ٹھہرے جن کا اصل نام بھی محمد علی تھا۔ جن کا‬
‫اب علیحدہ مسلم ریاست قائم کرنے کا ویژن تھا۔ لیکن جن کے اسالف ہندو سے مسلمان‬
‫ہوئے تھے اور وہ ترکی سے نہیں آئے تھے۔‘‘‬
‫راج کوارٹٹ کے تیسرے حصے "‪ "The Tower of Silence‬میں بھی پال‬
‫سکاٹ نے برطانوی راج کے آخری ایام کو بڑے درد بھرے انداز میں بیان کیا ہے مگر‬
‫اس کے ساتھ ہلکے پھلکے مزاح کا تڑکا بھی لگایا ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب جنگ عظیم‬
‫دوم کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے اور انگریز خواتین آنے والے لمحات سے خوفزدہ‬
‫دکھائی دیتی ہیں ۔‬
‫‪Quite apart from the views of the moderates and‬‬
‫‪constitutionalists, the kind of Congressmen who had thought their‬‬
‫‪fellow Congressman Subhas Chandra Bose an extremely‬‬
‫‪dangerous man, there was the other Gandhian principle of non-‬‬
‫‪violence to consider. To find out the answer to this question then,‬‬
‫)‪it was decided to send a group of INA officers into Burma.(50‬‬
‫’’ اعتدال پسندوں اور حاملین ِ دستور کے نظریات سے قطع نظر وہ کانگریسی جو‬
‫یہ خیال کرتے تھے کہ ان کا ساتھی کانگریسی سبھاش چندر بوس ایک بہت ہی خطرناک‬
‫آدمی ہے اس کے عالوہ گاندھی کا عدم تشدد کا اصول بھی پیش نظر رکھنے کو موجود‬
‫تھا اس سوال کا جوا ب تالش کر نے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انڈین نیشنل آرمی کے‬
‫آفیسر کا ایک گروپ برما بھیجا جائے۔‘‘‬
‫کانگریسی پارٹی کی طرف سے قرارداد کی شکل میں انگریزوں کو ملک چھوڑنے‬
‫پر مجبور کرنے اور اس کے رد عمل کے بارے میں ناول نگار اس وقت کی صورت‬
‫حال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪And early in August the Congress Party officially adopted the‬‬
‫‪resolution calling for the British to leave or take the‬‬
‫‪consequences. For once the government in New Delhi seemed to‬‬
‫‪have been prepared. Within a few hours prominent Congressmen‬‬
‫‪all over the country were detained under the Defence of India‬‬
‫‪rules in an operation of arrest that gathered them in from Gandhi‬‬
‫‪all the way down through the scale to members of local sub-‬‬
‫‪committees in the towns and cities. Even the moderate ex-chief‬‬
‫)‪minister Mohammed Ali Kasim was reported arrested. (51‬‬
‫’’اگست کے آغاز ہی میں کانگریس پارٹی نے باضابطہ طور پر قرارداد تشکیل دی‬
‫جس میں انگریزوں کو ملک چھوڑنے یا نتائج بھگتنے کا کہا گیا ۔ کیوں کہ ایک دفعہ نئی‬
‫دہلی میں حکومت ایسا کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی تھی۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی‬
‫تحفظ ہندوستان قانون کے تحت ایک گرفتاری‬ ‫ِ‬ ‫پورے ملک میں معروف کانگریسیوں کو‬
‫علی محمد علی قاسم‬ ‫آپریشن کر کے نظر بند کر دیا گیا ۔ ح ٰتی کہ اعتدال پسند سابق وزیر ا ٰ‬
‫کی گرفتاری کی اطالعات بھی تھیں ۔ ‘‘‬
‫کانگریس اور مسلم لیگ کی پالیسی اور سیاسی مہارت کا فرق ذیل کی سطور میں‬
‫واضح کیا گیا ہے‪:‬‬
‫‪If the Congress-wallahs had had any political cunning as well as‬‬
‫‪political stubbornness they would have stayed in office in the‬‬
‫‪provinces as the few Muslim League ministries had done, co-‬‬
‫‪operated so far as was necessary in the war effort, expanded‬‬
‫‪their political experience and power and, simultaneously, their grip‬‬
‫‪on the administration, so that when the war was over their claim‬‬
‫‪to speak and act for the majority of Indians and their right to‬‬
‫‪advance steadily to self-government inside the commonwealth‬‬
‫)‪would have been difficult to refute. (52‬‬
‫’’اگر کانگریس والوں کے پاس کوئی بھی سیاسی مہارت یا کہ مزید برآں سیاسی‬
‫ثاب ت قدمی ہوتی تو وہ صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم رکھتے جیسا کہ چند مسلم لیگی‬
‫وزراء نے کیا تھا ۔ جنگی کاوشوں میں جہاں تک ضروری ہوتا تعاون فراہم کرتے تو‬
‫ساتھ ہی ساتھ اپنے سیاسی تجربے اور طاقت میں اضافہ کرتے ۔ انتظامیہ پر اپنی گرفت‬
‫مضبوط کرتے ۔ تاکہ جب جنگ اختتا م پذیر ہوتی تو ان کے پاس اکثریتی ہندوستانیوں کے‬
‫ت مشترکہ کے‬ ‫دعوی بنتا ۔ اور ان کے لیے دول ِ‬
‫ٰ‬ ‫لیے بات کرنے یا کوئی عمل کرنے کا‬
‫دعوی کو مسترد کرنا بہت مشکل ہو جاتا ۔ ‘‘‬‫ٰ‬ ‫ت خود اختیاری کے‬ ‫اندر رہتے ہوئے حکوم ِ‬
‫اس چہار گانہ ناول کا چوتھا اور آخری حصہ ''‪ ''A Division of The Spoils‬ہے‬
‫جس کی ابتدا ‪Book One "An evening at the maharanee's" ،1945‬سے‬
‫ہوتی ہے ۔ اسی سے ہمیں ناول کے پس منظر اور برصغیر کے عالوہ بین االقوامی‬
‫معاصر حاالت سے آگہی بھی حاصل ہوتی ہے ۔ یعنی ‪۱۹۴۵‬ء میں انگلستان میں لیبر‬
‫برسر اقتدار آئی ۔ اس نے اعالن کیا کہ حکومت نے تین اراکین پر مشتمل ایک‬ ‫ِ‬ ‫حکومت‬
‫وزارتی مشن پاک و ہند بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں الرڈ پیتھک الرنس (وزیر ہند)‬
‫سر سٹیفورڈ کرپس اور اے ۔ وی ۔ الیگزنڈر شامل تھے ۔ لیبر پارٹی شروع سے کانگریس‬
‫سے زیادہ قریب تھی‪ ،‬اس لیے نئی حکومت کانگریسی نقطہ نگاہ کی حامی اور برصغیر‬
‫کی تقسیم کے خالف تھی ۔ وزارتی مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے زعماء سے‬
‫بات چیت جاری رکھی لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا اس پر اس نے اپنی طرف سے‬
‫ایک منصوبہ پیش کیا جس کا اعالن مئی ‪ 1946‬ء کو کیا گیا ۔‬
‫نئے آئین کے نفاذ سے پہلے ایک عبوری حکومت کا قیام بھی منصوبے میں شامل‬
‫تھا ۔ وزارتی مشن نے صاف الفاظ میں وضاحت کی کہ منصوبے کو کلی طور پر قبول‬
‫کیا جائے یا مسترد کیا جائے ۔ جو جماعت اسے کلی طور پر منظور کر لے گی اس کو‬
‫عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی جائے گی خواہ دوسری جماعت اس سے الگ رہے‬
‫۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا کہ مسلم لیگ نے اسے کلی طور پر قبول کر لیا مگر‬
‫اسے حکومت بنانے کی دعوت نہ دی گئی اور منصوبے کی منظوری واپس لے لی ۔ اب‬
‫مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کے مطالبات منوانے اور حکومت کو راہ راست پر‬
‫ء کا دن مقرر کیا‬۱۹۴۶ ‫اگست‬۱۶ ‫النے کے لیے ’’ راست اقدام ‘‘ کیا جائے ۔ اس کے لیے‬
‫گیا ۔ ادھر وائسرائے نے وزارتی مشن کی واپسی کے بعد عبوری حکومت کے قیام کے‬
‫ء کو کانگرسی وزراء نے‬۱۹۴۶ ‫ستمبر‬۲ ‫لیے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیا اور‬
‫پنڈت نہرو کی قیادت میں عبوری حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ وائسرائے کی طرف‬
‫سے مسلمانوں کی حق تلفی کی یہ بڑی مثال تھی ۔ اس سے ملک میں فسادات بھڑک اٹھے‬
‫ایک طرف سے فرقہ وارانہ جنگ شروع ہو گئی ۔ اب وائسرائے کو اپنی غلطی کا‬
‫احساس ہوا تو اس نے دوبارہ مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل کرنے کی پیشکش‬
‫اکتوبر کو مسلم لیگ کے پانچ وزرا بھی حکومت میں شامل کر لیے‬۱۵ ‫کر دی ۔باالخر‬
‫گئے ۔‬
‫کچھ اسی قسم کے حاالت کا تذکرہ حسب ذیل اقتباس میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔‬
Hitler was dead, the peace in Europe almost a month old; only the
Japanese remained to be dealt with. In June the Viceroy left
London, flew back to Delhi, said nothing in public for nearly two
weeks and then announced a conference of Indian leaders at
Simla to discuss proposals which he hoped would ease the
political situation, hasten final victory and advance the country
towards her goal of full self-government. To enable all the leaders
to be there he had to issue several orders of release from
imprisonment. The conference opened on June 25 and did not
break down until July 14, an unexpectedly long time in the opinion
of many English officials for Congress and Muslim League views
on the composition of a new Indianised Executive Council or
interim government to prove irreconcilable. The Viceroy, Lord
Wavell, admitting failure, blamed himself and begged that there
should be no recriminations. Subsequently, in press conference,
the leader of the All-India Congress Party, a Muslim, blamed the
leader of the Muslim League for the unbending nature of his claim
for the League’s right to nominate all Muslim members of the
‫‪proposed Executive Council and blamed the British Government‬‬
‫‪for not having foreseen that the conference would break down if‬‬
‫)‪one party were given the right of veto on nominations. (53‬‬
‫’’ہٹلر مر چکا تھا ۔ یورپ میں تقریبا ً ایک ماہ سے سکون تھا ۔ اب صرف جاپانیوں‬
‫سے نمٹنا باقی تھا ۔۔۔ کانفرنس کا افتتاح ‪۲۵‬جون کو ہوا ۔ جو ‪۱۴‬جوالئی تک بغیر کسی‬
‫وقفہ کے جاری رہا ۔ ایک غیر متوقع طویل عرصہ ۔ کیونکہ عبوری انڈین گورنمنٹ کی‬
‫تشکیل پر کانگریس اور لیگ کے مخالفانہ نظریات پر اتفاق نہ ہونے پر منتج ہوئے ۔‬
‫وائسرائے الرڈ ویول نے ناکامی کی ذمہ داری اپنے سر لی اور کہا کہ مخالفانہ الزامات‬
‫کے تبادلے سے احتراز برتا جائے ۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں ایک مسلمان آل‬
‫انڈیا کانگریسی لیڈر نے مسلم لیگی لیڈر کو ان کے غیر لچکدار ار رویے کا الزام دیا اور‬
‫یہ کہ وہ اپنے اس دعوے پر کہ مجوزہ کونسل میں تمام مسلم ممبران لیگ کے ہی نامزد‬
‫ہوں ‪ ،‬پر ڈٹے رہے اور انہوں نے برطانوی گورنمنٹ پر الزام دھرا کہ اس نے دور‬
‫چناو میں ویٹو کا‬
‫ٔ‬ ‫اندیشی سے کام نہ لیا اور یہ جانا کہ اگر ایک پارٹی کو ممبران کے‬
‫اختیار دے دیا گیا تو کانفرنس ناکام ہو جائے گی ۔‘‘‬
‫اسی حوالے سے خاص طور پر مسلم لیگ نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی‬
‫رائے یوں ریکارڈ کروائی‪:‬‬
‫‪The leader of the Muslim League spoke disapprovingly of a‬‬
‫‪combination of Hindu interests supported by the ‘latest exponent‬‬
‫‪of geographical unity’ – the Viceroy – whose plan in his opinion‬‬
‫)‪was a snare for Muslim interests. (54‬‬
‫’’ مسلم لیگی راہنما نے چند ہندو مفادات کے مجموعے کو جغرافیائی وحدت کی‬
‫جدید شکل قرار دے کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ اس کی نظر میں وائسرائے پالن‬
‫مسلم مفادات کے لیے ایک پھندہ تھا ۔‘‘‬
‫پس منظر میں ناول کے صفحات میں مسٹر نہرو کی رائے بھی مالحظہ ہو‪:‬‬ ‫اسی ِ‬
‫‪Mr Nehru described the Muslim League as mediaeval in‬‬
‫‪conception, and warned that the real problem facing a free India‬‬
‫‪would not be communal and religious differences but economic‬‬
‫)‪backwardness. (55‬‬
‫’’مسٹر نہرو نے لیگی سوچ کو دقیانوسی قرار دیا ۔ اور اس نے خبردار کیا کہ‬
‫آزاد ہندوستان کا اصل مسئلہ مذہبی یا معاشرتی گروہ بندی کا نہیں بلکہ اقتصادی پس‬
‫ماندگی کا ہو گا۔ ‘‘‬
‫ناول کے اسی صفحے پر قائد اعظم محمد علی جناح بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ‬
‫مشاورت کرتے نظر آتے ہیں‪:‬‬
‫‪....but now crumbling portal inscribed ‘Congress’ towards a distant‬‬
‫‪horizon with a sun marked ‘Hopes of Office’ rising behind a‬‬
‫‪broken-down bungalow on whose rickety verandah the leader of‬‬
‫‪the Muslim League, Mr Jinnah, could be seen conferring with‬‬
‫)‪several of his associates. (56‬‬
‫’’ ریزہ ریزہ چوکھٹ جس پر کانگریس لکھا ہو ا ہے دور افق پر گم ہو رہی ہے ۔‬
‫سامنے ایک سورج ہے جس پر ’’ حکمرانی کا خواب ‘‘ تحریر ہے ۔ پس منظر میں ٹوٹا‬
‫پھوٹا بنگلہ اور انہدام پذیر برآمدہ ہے جس میں لیگی راہنما مسٹر جناح اپنے کئی ساتھیوں‬
‫کے ہمراہ مشاورت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ‘‘‬
‫پیرن )‪ ( Perron‬جو کہ ایک انگریز مورخ اور محقق ہے اور ہندوستان میں تحقیق‬
‫کی غرض سے آیا ہے ۔ اس کی زبانی بھی کچھ تاریخی واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے‬
‫جیسے یہاں پر نہر وکے کردار کو واضح کیا گیا ہے‪:‬‬
‫‪The place is still feudal, Perron. And so far as I can see the only‬‬
‫‪man of influence who’s worried about that is whatever the chap’s‬‬
‫‪name is, Nehru, but he’s a Brahmin aristocrat and can hardly‬‬
‫‪speak any language but English, and against him you have to set‬‬
‫)‪the Mahatma and his bloody spinning wheel. (57‬‬
‫’’ پیرن‪ ،‬یہ جگہ اب بھی جاگیر دارانہ ہے ۔ اور جہاں تک مجھے علم ہے واحد‬
‫بااثر آدمی جسے اس بات کا قلق ہے کہ کچھ بھی ہو لڑکے کا نام نہرو ہے لیکن وہ برہمن‬
‫ہے اور اشرافیہ کا رکن بھی ۔ اور سوائے انگریزی کے کوئی اور زبان مشکل سے ہی‬
‫بول سکتا ہے اور اس کے مد مقابل آپ کو مہاتما اور اسکے ’’ خون آلود چرخے ‘‘ کو‬
‫کھڑا کرنا ہے ۔ ‘‘‬
‫حسب ذیل پیر اگراف میں بھی گاندھی ‪ ،‬نہرو‪ ،‬جناح اور پاکستان کا ذکر کیا گیا ہے‬
‫اور خصوصا ً پاکستان کے حوالے سے معنی خیز جملہ تحریر کیا گیا ہے‪:‬‬
‫‪A new treaty will have to be made with the people who have taken‬‬
‫‪the pink parts over from the British. You will have to negotiate a‬‬
‫‪new treaty with Mr Gandhi and Mr Nehru. You can forget Mr‬‬
‫‪Jinnah because even if he gets Pakistan it will be so far away‬‬
‫‪from you that it will be meaningless. So you will have to bargain‬‬
‫‪for the continuing existence of the yellow speck which is Mirat‬‬
‫)‪with Mr Nehru and the Congress High Command.(58‬‬
‫’’ ان لوگوں کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا پڑے گا۔ جنہوں نے انگریزوں سے گالبی‬
‫خطہئ اکبر) حاصل کیاہے ۔ مسٹر گاندھی اور مسٹر نہرو کے ساتھ‬ ‫ِ‬ ‫رنگ واال حصہ (‬
‫نئے معائدے کے لیے بات کرنا ہو گی ۔ مسٹر جناح کو نظر انداز کر سکتے ہیں کیونکہ‬
‫اگر وہ پاکستان حاصل کر بھی لیتا ہے وہ آپ سے اتنا دور ہو گا کہ یہ بے مقصد ہی رہے‬
‫گا ۔ اس کے لیے آپ کو میرٹھ میں جاری قیام کے لیے سودے بازی کرنا ہو گی ۔ مسٹر‬
‫اعلی قیادت کے ساتھ۔ ‘‘‬
‫ٰ‬ ‫نہرو اور کانگریس کی‬
‫ملک کی تقسیم کے حوالے سے مزید پیش آمدہ مسائل کی جانب اشارہ ذیل کی سطور میں‬
:‫کیا گیا ہے‬
He does not say what cunning he sees. He knows that if he puts it
into words his illusion of it will collapse. So the words will not
come. But in his mind he tells himself that the pledge to Mr
Gandhi and to Mr Nehru cannot be fulfilled because of the pledge
to the princes, or that it can only be fulfilled if the princes agree
that it should be and that the princes will only agree if their
territories are first secured to them in perpetuity. (59)
‫’’ جو مکاری وہ دیکھتا ہے ۔ زبان پر نہیں التا ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے کہا تو‬
‫اس کا سراب دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ لیکن اندر ہی اندر وہ سوچتا ہے کہ مسٹر‬
‫گاندھی ا ور مسٹر نہرو سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں ہو سکتا ۔ اگر شہزادے مانیں کہ ایسا‬
‫ہو جائے تو ممکن ہے ۔ لیکن شہزادے اسی صورت میں مانیں گے کہ ان کے عالقے‬
‘‘‫ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو دے دیے جائیں۔‬
'Aunt ‫" میں آنٹی شارلٹ‬The Moghal Room" ‫ناول کے حصے بعنوان‬
‫کی زبانی مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے۔‬Charlatte'
Your viceroys are all Bunburyists,’ she declared. (From the ‫ـ‬
moment of my return home in 1945 all Indian personalities,
policies and problems, were referred to as mine: your Mr Gandhi,
your Mr Nehru, your Kashmir problem, your non-alignment policy,
your confrontation with the Chinese, your application for foreign
aid, your green revolution, your family planning.) ‘Your viceroys’ in
‘Your viceroys are all Bunburyists’ was just one of many examples
of this habit of placing everything Indian as it were in my gift.
Asked to justify this statement, though, she pointed out the
regularity with which at certain climactic moments in talks and
negotiations my viceroys withdrew, packed their bags and came
home for consultation. (60)
‫ء میں‬1945 ‫’’آپ کے تمام وائسرائے بمبورن کے پیروکار ہیں ۔‘‘ وہ کہتی ہے‬
‫ پالیسیاں اور مسائل میرے ساتھ‬، ‫میری گھر واپسی کے فوری بعد تمام انڈین شخصیات‬
‫ تمھارا مسئلہ‬،‫ تمھارے مسٹر نہرو‬، ‫منسوب کیے گئے جیسے کہ تمھارے مسٹر گاندھی‬
‫ تمھاری غیر ملکی امداد کے لیے درخواست‬، ‫ تمھاری چین کے ساتھ مقابلہ بازی‬،‫ک شمیر‬
‫ تمھاری فیملی پالننگ ۔۔۔ اس بیان کی تصدیق کے لیے کہا جاتا ہے‬، ‫ تمھارا سبز انقالب‬،
‫۔ اگرچہ اس نے اس باقاعدگی کا ذکر کیا جس باقاعدگی سے مذاکرات میں نازک مواقع پر‬
‫‪ ،‬میرے وائسرائے مذاک رات سے ایک طرف ہو جاتے ۔ بوریا بستر باندھتے اور مشورے‬
‫کے لیے لندن سدھار جاتے۔‘‘‬
‫ناول کے اسی حصے میں کچھ مطبوعہ اور کچھ غیر مطبوعہ کارٹونوں کے‬
‫حوالے سے دلچسپ معلومات ملتی ہیں ۔ مثالً ذیل کی سطور میں ویول رپورٹ کے بارے‬
‫رہنماوں کا ذکر ملتا ہے جو اس‬‫ٔ‬ ‫میں جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس میں ان تمام سیاسی‬
‫وقت سیاسی منظر نامے پر نمایاں اور متحرک تھے‪:‬‬
‫‪A successor to this unpublished cartoon (also unpublished) was‬‬
‫‪dated 20 September 1945, the day after Wavell’s report to the‬‬
‫‪nation on his return from London, where he had attempted‬‬
‫‪(unsuccessfully) to wrest from Attlee’s government the kind of‬‬
‫‪clear statement of policy that would have given the already-‬‬
‫‪announced cold-weather elections the special significance which‬‬
‫‪all political parties in India felt was lacking: a clear statement‬‬
‫‪about independence. This cartoon was captioned ‘Box-Wallah’,‬‬
‫‪and portrayed Wavell in the garb of an itinerant Indian merchant‬‬
‫‪and purveyor of ladies’ dress materials, squatting on his hunkers‬‬
‫‪on the verandah of a European bungalow, recommending his‬‬
‫‪wares to a gathering of memsahibs who bore remarkable‬‬
‫‪resemblances to Bapu, Nehru, Patel, Tara Singh, Maulana Azad‬‬
‫‪and Mohammed Ali Jinnah. Jinnah was sitting somewhat apart‬‬
‫‪from ‘her’ colleagues, consulting a glossy magazine marked ‘The‬‬
‫)‪Pakistan Ladies’ Home Journal.... (61‬‬
‫’’اس غیر مطبوعہ کارٹون کے بعد ایک اور کارٹون (غیر مطبوعہ ‪ /‬ایضاً)‬
‫مورخہ ‪۲۰‬ستمبر‪ ۱۹۴۵‬ء ویول رپورٹ کے ایک دن بعد اس کی لندن سے واپسی پر جہاں‬
‫اس نے اٹیلی حکومت سے صاف واضح پالیسی بیان کے حصول کی کوشش (ناکام ) کی‬
‫تھی ۔ یہ پہلے ہی سرد مہری کا شکار اعالن شدہ الیکشنز کو خاص اہمیت دال دیتی ۔ جس‬
‫کی کمی انڈیا کی تمام سیاسی جماعتیں محسوس کر رہی تھیں ۔ ’’ آزادی پر واضح بیان‘‘‬
‫والے اس کارٹون کی سرخی ’’بکس واال‘‘ تھی۔ جس میں ویول کو چلتا پھرتا بساطی دکھایا‬
‫گیا تھا۔ جو کہ نسوانی ضرورت کی اشیاء مہیا کرتا ہے وہ ایک یورپین بنگلے کے‬
‫برآمدے میں آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے ۔ اپنی اشیاء کی میموں کے ایک مجمع میں تعریف‬
‫کر رہا ہے ان میموں کی شکلیں باپو‪ ،‬نہرو‪ ،‬پاٹل‪ ،‬تارا سنگھ ‪ ،‬موالنا آزاد اور محمد علی‬
‫جناح سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ جناح کچھ الگ بیٹھے ہیں ۔ ایک خوبصورت چمکدار‬
‫رسالہ بعنوان '‪ 'Pak Ladies home journal‬پڑھ رہے ہیں ۔ ‘‘‬
‫حسب ذیل اقتباس میں قائد اعظم محمد علی جناح اور کشمیر ‪ ،‬پنجاب اور بنگال کی‬
‫تقسیم کے ساتھ ساتھ کٹے پھٹے پاکستان کا ذکر ہے ۔‬
Today’s Times of India and The Statesman (which obviously
reached the palace earlier than they reached the club), the Mirat
Courier and The Ranpur Gazette. This morning in the national
newspapers some play was being made with the latest difficulties
Jinnah was said to be raising: questions about the precise status
Mountbatten would have in Karachi when he made his last
appearance there as Viceroy on August 13. Two days later Jinnah
would become Governor-General of the new dominion of Pakistan
(moth-eaten Pakistan as he had called it, when he found he
wasn’t getting either the whole of the Punjab or the whole of
Bengal – least of all Kashmir or a corridor connecting the west
with the east) (62)
‫’’آج کے ٹائمز آف انڈیا اور دی اسٹیٹمین (جو کہ واضح طور پر کلب سے پہلے‬
‫ آج کے تمام قومی اخبارات میں ان‬،‫محل پہنچتے ہیں ) میرٹھ کورئیر اور رنپور گزٹ‬
‫ماونٹ بیٹن کے مقام و مرتبے کے حوالے سے اجاگر‬ ٔ ‫مشکالت کاذکر ہوا جو کہ جناح نے‬
‫اگست کو ان کی آخری آمد کے موقع پر کہا ہو گا‬۱۳ ‫کیے کہ بطور وائسرائے کراچی میں‬
‫۔ کہ آج کے بعد جناح نئی مملکت ـ’پاکستان‘ کے گورنر جنرل بنیں گے( جس کو کہ انہوں‬
‫کٹا پھٹا پاکستان کہا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ پورا پنجاب یا بنگال حاصل‬/‫نے کرم خوردہ‬
‫نہیں کر پائیں گے یا کم از کم کشمیر جو کہ مشرق کو مغرب کے ساتھ مالنے والی‬
‘‘‫راہداری ہے )۔‬
‫ماونٹ بیٹن کا ذکر بھی قبل از‬
ٔ ‫ناول کے اسی صفحے پر قائداعظم محمد علی جناح اور‬
‫تقسیم حاالت کے پس منظر میں ملتا ہے ۔‬
It seemed that Jinnah had been gently reminded that the Viceroy ‫ــ‬
would still be Viceroy on August 13 and he himself only Governor-
General designate, just as Mountbatten was also Governor-
General designate of the new Dominion of India. There was no
question of Jinnah taking precedence before the date of
independence, and Mountbatten couldn’t be in both Karachi and
Delhi on August Fifteen. (63)
‫ اگست کو‬۱۳ ‫’’ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ جناح کو یاد دہانی کرائی گئی کہ وائسرائے‬
‫ماونٹ بیٹن انڈیا‬
ٔ ‫بھی وائسرائے رہیں گے اور وہ خود گورنر جنرل نامزد کریں جیسا کہ‬
‫کی نئی مملکت کے بھی گورنر جنرل نامزد ہوئے ۔ آزادی کی مقررہ تاریخ سے قبل جناح‬
‫ اگست کو کراچی اور‬۱۵ ‫ماونٹ بیٹن‬ ٔ ‫کے سبقت لینے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور‬
‘‘ ‫دہلی دونوں جگہوں پر موجود نہیں ہو سکتے۔‬
‫نئی مملکت کے قیام اور ہجرت کے منظر نامے کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس نئی‬
‫مملکت کو جناح کی نئی اسالمی مملکت قرار دیا گیا ہے‪:‬‬
‫‪If he signs, his subjects will then know where they stand. Since‬‬
‫‪the majority is Hindu, one might say that the majority would‬‬
‫‪approve such a step. The Muslim minority who until recently have‬‬
‫‪lived in comparative harmony with the Hindus of Mirat would also‬‬
‫‪accept his decision, as that of their ruler and co-religionist, but‬‬
‫‪those of them who see a better future for themselves in Jinnah’s‬‬
‫‪new Islamic state could then peacefully wind up their businesses‬‬
‫)‪and affairs and leave – just as peacefully. (64‬‬
‫’’ اگر وہ دستخط کریں گے تو ان کی رعایا کو تب معلوم ہو گا کہ وہ کہاں کھڑے‬
‫ہندوں کی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کی‬ ‫ہیں ۔ چونکہ اکثریت ٔ‬
‫ہندوں‬
‫حتمی منظوری بھی اکثریت ہی دے گی۔ مسلم اقلیتی عوام جو کہ اب تک میرٹھ کے ٔ‬
‫کے ساتھ نسبتا ً ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ وہ بھی اس فیصلے کو تسلیم کریں گے‬
‫جیسا کہ ان کے حاکم اور ہم مذہب کریں گے لیکن وہ لوگ جو اپنا بہتر مستقبل جناح کی‬
‫نئی اسالمی مملکت میں دیکھتے ہیں وہ پر امن طریقے سے اپنے معامالت اور کاروبار‬
‫کو سمیٹ کر پر امن طریقے سے روانہ ہو جائیں گے ۔‘‘‬
‫اس وقت کے حاالت کے مطابق جناح کی مقبولیت کا اندازہ اس خاندان کے تاثرات سے‬
‫بخوبی لگایا جا سکتا ہے‪:‬‬
‫‪It was not easy for her eventually because her own family became‬‬
‫‪very Pakistan conscious and very Jinnah conscious, just as Nita‬‬
‫)‪and Guzzy have become. (65‬‬
‫’’یہ اس کے لیے اتنا سہل نہیں تھا کیوں کہ آخر کار اس کا اپنا خاندان ہی پاکستان اور‬
‫جناح کا بہت زیادہ دلدادہ بن چکا تھا جیسا کہ نیتا اورگزی پہلے ہی سے گرویدہ ہو چکے‬
‫تھے ۔‘‘‬
‫ہندوستانی معاشرت کے متنوع رنگ‬
‫پال سکاٹ نے تقریبا ً چھ سال کا عرصہ (‪۱۹۴۶‬ء۔‪۱۹۴۰‬ء) انڈین آرمی میں گزارا۔‬
‫یوں اسے ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کے گہرے مشاہدے کا سنہری موقع میسر آیا جس کا‬
‫اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ بالشبہ یہ انگریز سپاہی جو آگرہ میں مقیم رہا مگر تاج محل‬
‫کبھی نہ دیکھ پایا ۔ مگر جب طویل رخصت پر گھر جاتا ہے تو تاج محل پر تحریر کردہ‬
‫ڈھیروں کتابوں کے مطالعے میں گھنٹوں مصروف رہتا ہے ۔ تاکہ وہ سفید سنگ مرمر پر‬
‫کندہ خوابوں کے بارے میں سواالت کے جوابات ڈھونڈ سکے ۔ رنپورــ "‪"Ranpur‬کے‬
‫ریلوے اسٹیشن پر اسے چائے بیچنے واال غمناک آواز میں ’’چائے واال‘‘‪ ’’ ،‬گرم چائے ‘‘‬
‫کی آواز یں لگاتے ہوئے ملتا ہے ۔ پان کے تھوکنے کے نئے اور پرانے نشانات ‪ ،‬جنھیں‬
‫کوئی اجنبی ملک سے آنے واال نیا مسافر خون کے دھبے سمجھ کر پریشان ہوجاتا ۔ قلیوں‬
‫کے غول پچاس گز کے ریلوے اسٹیشن پر مخصوص لباس پہنے دوڑتے بھاگتے نظر‬
‫آتے ہیں۔ کوئلے کی جلنے کی بواور دھواں ‪ ،‬پکے ہوئے پھل اور کپاس کے بُنے ہوئے‬
‫کپڑے جن پر انسانی پسینہ بہہ بہہ کر خشک ہو جاتا اور پھر از سر نو یہی عمل شروع‬
‫پاوں تیزی سے چلتے ہوئے قلی ‪ ،‬سروں پر وزنی بوجھ اٹھائے ‪ ،‬ہٹو بچو‬ ‫ہو جاتا ۔ ننگے ٔ‬
‫کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہر سو نظر آتے ۔ زرد بتی کے جلتے ہی مسافروں کا دوڑنا‬
‫بھاگنا ۔ یا لوہے کے ستونوں سے بنائے گئے اسٹیشن پر ٹرینوں کا انتظار کرتے ہوئے‬
‫مسافر۔ پھر کالے ہا تھوں کا لہرانا اور تیسرے درجے کے کمپارٹمنٹس میں بیٹھے‬
‫مسافروں کو خدا حافظ کہنا ۔ ان سب مناظر کو ناول کا حصہ بنا کر مقامی روایات کو‬
‫بخوبی اجاگر کیا گیا ہے ۔ جب ہری کمار اور ڈیفنی مینرس میاپور مندر میں جاتے ہیں تو‬
‫جوتے باہر اتارتے نظر آتے ہیں اور دوسری رسومات کا منظر نامہ گہرے مشاہدے کا‬
‫عکاس ہے۔ جبکہ سسٹر لڈمیال کے معبد میں مح ِورقص شیوا اور مضف کی ہندوستانی‬
‫موسیقی کے بارے میں رائے بھی قابل غور ہے‪:‬‬
‫ـ ‪It’s the only music I know that sounds conscious of breaking‬‬
‫‪silence, of going back into it when it’s finished, as if to prove that‬‬
‫)‪every man-made sound is an illusion. (66‬‬
‫مقامی کرداروں کی عکاسی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اصل ہندوستان ہمارے‬
‫سامنے آتا ہے اور یہ حقیقی ہندوستان کی عکاسی ہی ہے کہ ناول کے مطالعے کے‬
‫دوران حسب ذیل گوالے اور ان کی فطرت کو سامنے النے جیسے واقعات سامنے آتے‬
‫ہیں ۔ جن کی صحت سے انکار آج بھی ممکن نہیں ہے‪:‬‬
‫‪Straight from a cow. Aunt Shalini boils it, thank God. The milkman‬‬
‫‪comes in the morning and milks his cow outside the house, near a‬‬
‫‪telegraph pole. To this pole he ties a dead, stuffed calf which the‬‬
‫‪cow nuzzles. This keeps her in milk. The calf was starved to‬‬
‫‪death because the cow’s milk was taken by the milkman to sell to‬‬
‫‪good Hindus. Since I knew that, I take only lemon or lime in my‬‬
‫)‪tea. (67‬‬
‫’’ہم اپنا دودھ سیدھے گائے سے حاصل کرتے ہیں ۔ آنٹ شالینی ابالتی ہے ۔ خدا کا شکر‬
‫ہے کہ گواال صبح سویرے آتا ہے اور گھر کے باہر ٹیلیفون کے کھمبے کا ساتھ بندھی‬
‫ہوئی گائے کا دودھ نکالتا ہے اسی کھمبے کے ساتھ وہ ایک مصنوعی بھس بھرا بچھڑا‬
‫باندھ دیتا ہے ۔ گائے اسے سونگھتی ہے اس سے اس کا دودھ جاری ہو جاتا ہے ‪،‬‬
‫بچھڑے کو تو پہلے ہی فاقوں سے مار دیا گیا تھا۔ کیونکہ گائے کا دودھ تو شیر فروش‬
‫ہندوں کو فروخت کرنے کے لیے لے جاتا تھا۔ جب سے مجھے اس بارے میں‬ ‫اچھے ٔ‬
‫معلوم ہوا میں اپنی چائے میں صرف لیموں پر ہی اکتفا کرتا ہوں ۔ ‘‘‬
‫اسی طرح کے کئی دوسرے واقعات جو مقامیت کا حقیقی رنگ لیے ہوئے ہیں ان‬
‫کو گہرے مشاہدے کے بعد سینہء قرطاس پر منتقل کرنے کی کئی عملی مثالیں ہمارے‬
‫سامنے آتی ہیں تو ہمیں نینسی ولسن کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتاہے کہ اس ناول‬
‫میں پال اسکاٹ نے وسیع کینوس پر اپنے کیمرے کے عدسوں کو اتنی مہارت سے ایڈ‬
‫جسٹ کیا ہے اور اتنے شاندار نتائج فراہم کیے ہیں کہ ہندوستانی تاریخ و معاشرت کی‬
‫جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے پیش ہوتی ہے ۔‬
‫بقول نینسی ِولسن‪:‬‬
‫‪For dramatic paradox and the clash of destinies on a personal‬‬
‫‪and world scale, this particular period can hardly be equaled in‬‬
‫‪contemporary history, because it encompassed world woar II, the‬‬
‫‪Japanese invasion of Burma and threat to India, the rise of‬‬
‫‪Gandhi and young Nehru... The web of events in modern India is,‬‬
‫‪in fact, not only so intricately interwoven but so extended in scope‬‬
‫‪that one can but marvel at teh controlled manner in which Mr.‬‬
‫)‪Scott handles the shifting focus of his wide-angled lens. (68‬‬
‫ٹکراو کے اس خاص دور‬ ‫ٔ‬ ‫’’ڈرامائی تضاد و ذاتی اور آفاقی سطح پر تقدیروں کے‬
‫کا معاصر تاریخ میں کوئی ثانی نہیں کیونکہ اس دور میں دوسری عالمی جنگ ‪ ،‬جاپان کا‬
‫برما پر حملہ اور ہندوستان پر حملے کی دھمکی ‪ ،‬گاندھی کی ارتقاء اور نوجوان نہرو‬
‫کی اٹھان کے عالوہ جدید ہندوستان میں واقعات و حاالت کے تانے بانے کچھ اس طرح‬
‫سے الجھے ہوئے تھے اور ان کا دائرہ عمل اتنا وسیع تھا کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ‬
‫کس چابکدستی سے مسٹر سکاٹ نے وسیع کینوس پر اپنے کیمرہ لینزز کو مرکوز کیا۔‘‘‬
‫اسی منظر نامے کی عکاسی کرتے ہوئے پال سکاٹ نے ہندوستان یا مقامی اصطال‬
‫حات کا وسیع ذخیرہ استعمال کرتے ہوئے مقامی زبانوں پر اپنی دسترس کا خوبصورت‬
‫نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے ناول کے صفحات میں کئی جگہوں پر درشن)‪، (Darshan‬‬
‫نمستے)‪ ، (Namaste‬اچھا )‪ ،(Achcha‬چھوٹا ہزاری )‪ ، (Chotahazari‬درزی‬
‫)‪ ،(Darzi‬نمبو پانی )‪ ، (Nimbo Pani‬سنیاسا )‪، (Sannyasa‬چپاتیاں‬
‫)‪،(Chappaties‬پوجا )‪ ،(Puja‬نائی )‪، (Nai‬راگا )‪ (Raga‬جیسی اصطالحات نہایت‬
‫مہارت سے متن کا حصہ بنائی ہیں ۔‬
‫اس کے عالوہ ناول کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس ناول میں پال اسکاٹ‬
‫برطانوی کرداروں کے ساتھ ہندوستانی نا موں کے استعمال کے ذریعے ایک تاریخی اور‬
‫افسانوی گونج بھی پیدا کی ہے جیسے کہ عزیز )‪ (Aziz‬نام تین مرتبہ سامنے آتا ہے سب‬
‫سے پہلے میبل ‪ Mabel‬کے پرانے وفادار مالزم کا نام۔ دوسرے انڈین نیشنل آرمی ایک‬
‫مفرور ملزم کا ۔ تیسرے اس نوجوان کا جسے میرک‪ Merric‬دھوکے سے گھیر لیتا ہے ۔‬
‫ناول کی تیسری جلد "‪ "Tower of Silence‬میں ایک اور نام فارقہ خان ‪Fariqua‬‬
‫‪ Khan‬اس نوجوان لڑکے کا ہے جو کہ جان اور سارہ لٹن کا مالزم ہے یہی نام دوبارہ‬
‫جلد چہارم "‪ "A Divisions of spoils‬میں اس وقت سامنے آتا ہے جب قاسم جو کہ‬
‫ایک مسلمان کانگریسی ہے وہ فارقہ حمید اہللا خان پکارتا ہے ۔ اے پیسج ٹو انڈیا میں بھی‬
‫اسی نام کا کردار عزیز (ہیرو) کا دوست ہے ۔‬
‫فارقہ کے ساتھ دوسرا نوجوان لڑکا اشوک ) ‪(Ashok‬ہے ناول کی آخری جلد میں‬
‫یہ دونوں لڑکے ہندو مسلم میل جول اور بھائی چارے کی مثال پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح‬
‫راج کوارٹٹ میں کئی اور مالزمین کے ناموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے جیسے لٹن‬
‫خاندان کے مالزم کا نام ناظم الدین ہے خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیر اعظم کا نام‬
‫ہے جنھیں لیاقت علی خان کے بعد ‪1951‬ء میں گورنر جنرل سے وزیر اعظم کے عہدے‬
‫پر فائز کیا گیا ۔ ممتاز ‪ ،‬سارہ کی بوڑھی آپا کا نام ہے)‪ (Vol-2‬۔ ممتاز کا نام بھی ہمیں‬
‫شاہ جہان کی ملکہ ممتاز محل کی یاد دالتاہے جس کی یاد میں تاج محل تعمیر کیا گیا ۔‬
‫محمود )‪ (Mahmood‬ایک اور لٹن فیملی کا مالزم ہے ۔ اسی نام کا کردار ای ایم فاسٹر‬
‫نے اے پیسج ٹو انڈیا میں دکھایا ہے ۔ جو کہ عزیز کا قوم پرست دوست ہے ۔ دوست محمد‬
‫)‪ (Dost Mohammad‬ایک مالی ہے جو سارہ اور سوسن کے لیے کام کرتا ہے ۔ اس‬
‫نام کے ساتھ ہی ایک افغان حکمران د وست محمد کا نام ذہن میں گونجتا ہے جس کو‬
‫انگریزوں نے ‪۱۸۴۰‬ء میں معزول کر دیا اور ‪۱۸۴۴‬ء میں بحال کر دیا۔‬
‫لیٹن ہی کا ایک اور مالزم ٹیپو )‪(Tippoo‬نام کا ہے ۔ اس نام کے پڑھتے ہی ذہن‬
‫میں میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کا نام ذہن میں آتا ہے ۔ اکبر حسین ایک اور مالزم کا‬
‫نام ہے جو جینی کے دفاع میں جان قربان کرتا ہے جبکہ ٹیڈی بنگھم اور رونالڈ میرک‬
‫کے عالوہ قاسم کے ذاتی مالزم کا نام بھی حسین )‪ (Hosain‬ہے اکبر کے نام سے فورا ً‬
‫عنان خیال عظیم مغل بادشاہ جالل الدین محمد اکبر (‪۱۶۰۵‬ء۔‪۱۵۴۲‬ء) کی طرف منتقل ہوتا‬
‫ہے ۔ پنکوٹ )‪ (Pankot‬بازار میں ایک دکاندار کا نام بھی جالل الدین )‪(Jalal-ud-din‬‬
‫دکھایا گیا ہے ۔‬
‫قاسم فیملی کے ناموں کی تفصیل بھی "‪ "The Day of Scorpion‬میں ملتی ہے‬
‫۔ خود قاسم کا نام برٹش انڈین ہسٹری میں بنگال کے نواب قاسم سے مطابقت رکھتا ہے ۔‬
‫جس کے ساتھ رابرٹ کالئیو کی کشمکش کے بعد انگریزوں کو بنگال کی گورنر شپ مل‬
‫گئی ۔ ناول میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ محمد علی قاسم کے خیاالت مغل بادشاہ اکبر کے‬
‫ان شاہانہ تصورات سے ملتے جلتے ہیں جن کے مطابق وہ متحدہ ہندوستان پر اپنی‬
‫حکمرانی کے خواب دیکھتا تھا تاہم وہیں اس بات کی تصریح بھی موجود ہے کہ یہ نام‬
‫محمد علی جناح سے بھی مطابقت رکھتا ہے جو کہ اکبر کے برعکس ‪"Who had‬‬
‫"‪vision of a separate Muslim state‬ایک آزاد مسلم ریاست کے حصول کا‬
‫خواہاں ہے ۔ قاسم کے بیٹوں سید اور احمد کے ناموں سے انیسویں صدی کے مشہور‬
‫قومی رہنما سر سید احمد خان بانی علی گڑھ یونیورسٹی کے نام کی باز گشت سنائی دیتی‬
‫ہے ۔ ناول میں مشمولہ ایک اور اہم نام چودھری ہے ۔ ڈی سی چوہدری ایک ہندوستانی‬
‫ٹیچر ہے جو ایڈونا کرین کے ساتھ باہر نکلتا ہے تو کار پر حملہ ہو جاتا ہے حملہ آوروں‬
‫کے لیے ناول میں "‪ "Unknown Indian‬کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ‪Tower‬‬
‫‪of Silence‬کے پہلے حصے میں متعدد بار یہ الفاظ دہرائے گئے ہیں اسی سے ذہن میں‬
‫نراد سی چوہدری ‪ Nirad C.Chaudhuri‬کی مشہور سوانح حیات ‪"The‬‬
‫"‪autobiography of an unknown Indian‬کی گونج سنائی دیتی ہے جبکہ‬
‫‪M.A.Chaudhuri‬پاکستانیـ سیاست کے افق پر ایک اہم نام ہے۔ ناول میں گالب سنگھ‬
‫نامی ایک دکاندار بھی سامنے آتا ہے اس سے بھی دو تاریخی گالب سنگھ نامی کردار‬
‫ذہن میں آتے ہیں ان میں سے ایک‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی کا وہ رہنما ہے جس نے خود‬
‫کو انگریزی انتظامیہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ دوسرا کردار راجہ گالب‬
‫سنگھ کا ہے جس نے کشمیر کا سودا کیا۔‬
‫اسی طرح ناول میں پال اسکاٹ نے کئی دوسرے اسماء جیسے شاہ نواز خان‪،‬‬
‫سبھاش چند‪ ،‬جان کرشنا‪ ،‬کماال‪ ،‬پاروتی‪ ،‬ہری وغیرہ استعمال کیے ہیں جن میں سے ہر‬
‫ایک کی اپنی معنویت ہے اور جن سے تاریخ کے پہیے کے چلنے کا احساس ہوتا ہے۔‬
‫بعینہ ذاتی‬
‫ٖ‬ ‫اگرچہ وہ پورے ناول میں اس اصول پر قائم رہا کہ کوئی بھی تاریخی کردار‬
‫حیثیت میں فکشن میں استعمال نہ کرے مگر پھر بھی وہ کئی معمولی کرداروں کو برٹش‬
‫انڈین ہسٹری کے تاریخی کرداروں کے نام دے کر ان کا حوالہ قاری کو فراہم کرتا ہے۔‬
‫طرز حیات کو طنز کا‬
‫ِ‬ ‫کچھ نقادوں کے بقول ایسا کر کے شاید دانستہ طور پر اینگلو انڈین‬
‫نشانہ بنایا گیا ہے یا پھر اسے مصنف کی ناواقفیت یا الپروائی پر معمول کیا جاسکتا ہے‬
‫مگر اس طرح ان تاریخی ناموں کی تکرار اور بازگشت سے ذہنوں میں کئی پراسرار‬
‫وجوہات کے بارے میں سواالت جنم لیتے ہیں۔‬
‫تاہم راج کوارٹٹ کے باالستیعاب مطالعے سے یہ ضرور اخذ کیا جاسکتا ہے کہ‬
‫پال اسکاٹ نے ناول میں کرداروں‪ ،‬اسماء و اماکن (ناموں اورجگہوں) کے انتخاب میں‬
‫بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور بجا طور پر قاری کے ذہن میں تاریخی الجھائو کے‬
‫احساس کو بھی اجاگر کرنے میں کام یاب رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے‬
‫کہ ان ناموں کی تعبیرات و تشریحات کے لیے خود کوئی نتیجہ اخذ کر کے قاری کو اس‬
‫کا پابند بنانے کے بجائے اس کے ذہن میں کسی بھی قسم کے خیاالت و تصورات کی نمو‬
‫پذیری کے لیے ایک وادی میں ال کر کھال چھوڑ دیا ہے۔‬
‫بحیثی ت مجموعی جب ناول کو تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے‬
‫کہ ناول کی ابتدا ایڈونا کرین )‪ (Edvina Crane‬کی کہانی سے ہوتی ہے جو کہ مشنری‬
‫ٹیچر ہے اور وہ اپنے ماتحت مسٹر چوہدری )‪ (Mr. Chaudhuri‬کے ہمراہ باہر نکلتی‬
‫ہے تو باہر ایک جلوس کی زد میں آ جاتی ہے جو کہ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد کے‬
‫اعالمیے کے بعد نکاال جا رہا ہوتا ہے اور عوام میں اشتعال پایا جاتا ہے وہ ان دونوں پر‬
‫حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یوں مسٹر چوہدری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بعد‬
‫ازاں ڈیفنی مینرس "‪ "Dephne Manners‬اور ہری کمار "‪ "Hari Kumar‬کے‬
‫معاشقے کے بعد ایک ایسا المیہ جنم لیتا ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے اور اس میں‬
‫بھی منفی کردار رونالڈ میرک "‪ "Ronald Merick‬کا سامنے آتا ہے جو کہ ڈسٹرکٹ‬
‫پولیس کا سپرنٹنڈنٹ ہے اور استعماری حکومت کا نمائندہ کردار ہے یوں ڈیفنی مینرس‬
‫کی عصمت دری کا واقعہ ایک بہت بڑے بحران میں اس طرح تبدیل ہو جاتا ہے کہ‬
‫انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کو ہی الجھا کر رکھ دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں‬
‫ہندوستان کی سیاسی فضا کچھ یوں مکدر ہوتی ہے کہ انگریزوں کے لیے اسے سنبھالنا‬
‫مشکل ہو گیا ہے۔‬
‫وزیراعلی‬
‫ٰ‬ ‫دوسری جلد ‪ The Day of Scorpion‬کا آغاز ایک سابق کانگریسی‬
‫محمد علی قاسم کی ‪۹‬اگست ‪۱۹۴۲‬ء کو گرفتاری کے واقعے سے ہوتا ہے اور یہ بھی‬
‫’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد پیش ہونے کے بعد کا دن ہے۔ گورنر اسے مستعفی ہونے‬
‫کی ترغیب دیتا ہے مگر محمد علی قاسم اس کی باتوں میں نہیں آتے ۔ اسی طرح لیٹن‬
‫فیملی )‪ (Layton‬کا تذکرہ ملتا ہے جس میں جان لیٹن )‪ (John Layton‬کی سوتیلی ماں‬
‫ہندوستانیوں سے اظہار ہمدردی کرتی ہے اور خاص طور پر سانحہ جلیانوالہ باغ کے‬
‫متاثرین کے لیے چندہ جمع کرتی ہے ۔ پھر ‪۱۹۴۴‬ء کا سال آتا ہے اور ہری کمار کا کیس‬
‫دوبارہ کھو ال جاتا ہے ۔'‪، 'Nigel Rowan‬کمار سے تفتیش کرتا ہے اور تفصیلی‬
‫انکوائری کے نتیجے میں میرک )‪ (Merrick‬کی نفرت سامنے آتی ہے اور اس کے ظلم‬
‫کی داستان بھی کھلتی ہے ساتھ ہی ہری کمار کی بے گناہی بھی آشکار ہوتی ہے ۔ یہاں‬
‫بھی تاریخی طور پر برطانوی استعماری جبر اور مقامیوں کے بے یارو مدد گار ہونے‬
‫کی کیفیت ناول کے صفحات پر ابھرتی ہے ۔‬
‫تیسرے حصے "‪ "The Tower of Silence‬کی کہانی بھی زیادہ تر باربی بیچلر‬
‫‪ Barbie Bachelor‬جو کہ پروٹسٹنٹ مشن سکول کی سپر نٹنڈنٹ ہے اس کے کردار‬
‫کے گرد گھومتی ہے مگر اس میں بھی ہمیں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان عبوری‬
‫حکومت کی تشکیل کے حوالے سے تفصیلی بحث ملتی ہے ۔ اس میں نہرو کے زیر‬
‫قیادت کانگریس حکومت میں شمولیت کی تجویز دیتی ہے جبکہ جناح مخالفت کرتے ہیں ۔‬
‫چوتھے حصے"‪ "A Divisions of the Spoils‬کا آغاز بھی دوسری جنگ‬
‫عظیم کے خاتمے جیسے تاریخ ساز واقعے کے ذکر سے ہوتا ہے ویول ‪Wavel‬‬
‫ہندوستان کے وائسرائے کے طور پر ہندوستان پہنچتے ہیں اور محمد علی قاسم کو بھی‬
‫قید سے رہائی ملتی ہے ۔ ہندوستان کی آزادی بالکل قریب دکھائی دیتی ہے ۔ پورے ملک‬
‫میں فسادات بھڑک اٹھے ہیں ۔ رونالڈ میرک "‪ "Ronald Merrick‬کا بڑی بے رحمی‬
‫سے قت ل کیا جاتا ہے ۔ تقسیم ہند کے فسادات عروج پر ہیں انگریز شورش زدہ عالقوں‬
‫سے بذریعہ ٹرین فرار کی کوشش کرتے ہیں احمد قاسم '‪ 'Ahmed Kasim‬کو ایک‬
‫ایسے غدار کے طور پر ہجوم سے پکڑ کر باہر نکاال جاتا ہے جو کہ انگریزوں کا‬
‫حمایتی ہے احمد قاسم دوسرے گوروں کی جان بچاتے ہوئے خود کو بپھرے ہوئے ہجوم‬
‫کے حوالے کر دیتا ہے اس طرح ناول کا اختتام قاسم کے ہولناک قتل سے ہوتا ہے ۔‬
‫پال اسکاٹ نے بالشبہ راج کوارٹٹ میں تاریخ اور فکشن کا ادغام کچھ اس طرح‬
‫سے کیا ہے کہ تاریخ نے اس ناول کے پالٹ میں روح پھونک دی ہے ساتھ ہی کچھ‬
‫تاریخی اغالط یا مغالطوں کے اصطالح کی کوشش بھی کی ہے ۔ مگر ناول کی سطور‬
‫کے گہرے مطالعے سے جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پورے ناول میں‬
‫ناسٹلجیا کی کیفیت کچھ اس طرح سے حاوی ہے کہ یاد ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے‬
‫مضف کے لب و لہجے میں گہری افسردگی در آئی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم اور‬
‫قاب ِل غور بات یہ ہے کہ یہ افسردگی اور ترحم کی کیفیت محکوم اور زیر دست‬
‫ہندوستانیوں سے زیادہ انگریزوں کے لیے محسوس ہوتی ہے جو حاکم اور باال دست ہیں ۔‬
‫اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پال اسکاٹ ہندوستان میں انگریزوں کے بڑے‬
‫دشوار اور کٹھن اوقات میں گزارے ہوئے لمحات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور کئی‬
‫پر تشدد واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ان سانحات کی ذمہ داری بھی حاکم انگریزوں کے‬
‫بجائے محکوم ہندوستانیوں پر عائد کرتے ہیں جبکہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے‬
‫درمیان اختالف ‪ ،‬رنجش اور باہمی مخاصمت کو وہ فریقین کی غلط فہمیوں کا نتیجہ قرار‬
‫دیتے ہیں کہ دونوں اقوام ایک دوسرے کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہیں اور‬
‫یوں ان کے درمیان گہری خلیج حائل ہو گئی اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چال گیا ۔ پال اسکاٹ اگرچہ دونوں اقوام میں سے کسی ایک‬
‫کو کلی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہراتے مگر بین السطور اس امر کا پرچار ضرور کرتے‬
‫نظر آتے ہیں کہ انگریز بنیادی طور پر بہت اچھے اور قابل منتظم ہیں جو کہ پس ماندہ‬
‫اور جاہل ہندوستانی قوم کی مدد کر نا اور ان کے حاالت کو سدھارنا چاہتے ہیں مگر ان‬
‫کی صرف ایک غلطی یہ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے احساسات و جذبات کو ان کی‬
‫مشرقی روایات اور ترجیحات کو سمجھنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں ان کی‬
‫ت بے جا تصور کرتے ہوئے انھیں‬ ‫مغربی ثقافت اور اقدار کی نشرواشاعت کو مداخل ِ‬
‫مقامی آبادی کی طرف سے سخت رد عمل جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔‬
‫ہندوستانی حیات و معاشرت کی عکاسی کے حوالے سے پال اسکاٹ کا نقطہ نظر‬
‫دوسرے مصنفین جیسے کپلنگ '‪ ، 'Rudyard Kipling‬فاسٹر '‪ ، 'E.M.Forster‬ڈائیو‬
‫ر '‪ 'Maud Diver‬وغیرہ سے مختلف ہے اسکاٹ پورے غور و فکر اور احتیاط کے ساتھ‬
‫مشرق اور مغرب میں پائی جانے والی بنیادی عدم موافقت اور تضاد کو بیان کرنے سے‬
‫کچھ گریز بھی کیا ہے اور موازنہ و مقابلہ سے ان میں پائی جانے والی مماثلت اور‬
‫یکسانیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے ناولوں میں ہندوستان کی کثیر‬
‫عوام کے بالمقابل ہندوستان کی گورننس کے مسئلے کو بھی سامنے النے کی کاوش کی‬
‫گئی ہے ۔ جس کے بارے میں کپلنگ نے کبھی کچھ تحریر نہیں کیا جبکہ فاسٹر نے‬
‫ٹیڑھے اور غیر عمودی طریقے سے بیان کرنے کی سعی کی ۔ کپلنگ کی طرف سے‬
‫ایمپائر کی خام قسم کی تائید اور حمایت نے اس کے کام کی ادبی اہمیت پر منفی اثرات‬
‫مرتب کیے ہیں اسی طرح فاسٹر نے جو راج کا تذکرہ کیاہے وہ بھی محدود نوعیت کا ہے‬
‫کیونکہ کپلنگ کی طرح اس کا ہندوستان بھی الزمی طور پر تاریخ سے حدِفاصل پر رہتا‬
‫ہے ۔ اسکاٹ کی رائے میں ہندوستان میں برطانوی مشن یا مشرق و مغرب کے درمیان‬
‫رشتہ منا کحت اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا کہ انگریز حکمرانوں کا رویہ مقامی‬
‫عوام کے ساتھ بے گانگی اور اجنبیت پر مبنی رہا۔ اس کی خوبصورت مثال پال اسکاٹ‬
‫نے "‪ "In the Tower of Silence‬میں باربی بیچلر '‪ 'Barbie Batchelor‬کے‬
‫ذریعے بیان کی ہے جب اس نے میبل '‪ 'Mabel‬کی طرف سے پیوند کاری کر کے‬
‫انگریزی (بدیسی) گالب کو ہندوستانی سر زمین پر کاشت کرنے کی کوشش کی ۔ مگر‬
‫پھر وہ خدا کی سر زمین پر اجنبی بن کر رہے اور اس کو اپنی غلطی بھی قرار دیا ۔‬
‫باربی کہتی ہے‪:‬‬
‫‪You are now native roses, she said to them of the country.The‬‬
‫‪garden is a native garden.We are only visitors.That has been our‬‬
‫)‪mistake that is why God has not followed us here. (69‬‬
‫تاہم اس طرح کی رائے پر مختلف ناقدین نے سخت تنقید کی جیسے کہ سلمان‬
‫رشدی نے اپنے آرٹیکل "‪ "Outside the Whale‬میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پال‬
‫نقش ثانی کے عالوہ کچھ نہیں ۔ مگر ت ِلک‬ ‫ِ‬ ‫اسکاٹ ای ایم فاسٹر کے مدہم‬
‫"‪"Goonetilleke‬کی یہ رائے صائب نظر آتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫‪The Raj Quartet should be considered not as a novel dealing with‬‬
‫‪India but as a historical novel in which the author has transmuted‬‬
‫)‪contemporary history into fiction. (70‬‬
‫یعنی اس ناول کو ہندوستان کے متعلق تحریر کردہ دوسرے ناولوں جیسے ِکم ‪kim‬‬
‫اور اے پیسج ٹو انڈیا '‪ 'A Passage to India‬کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ‬
‫ایسا تاریخی ناول ہے جس میں مصنف نے فکشن کے اندر ہی عصری تاریخ کی تقلیب کر‬
‫دی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مائیکل گورا "‪"Michael Gorra‬کی رائے بھی قابل غور‬
‫ہے ۔‬
‫‪[Scott] Studies the history of British India and attempted to pass‬‬
‫‪that history through the selecting Mechanism of [his] own‬‬
‫)‪experience and recollections. (71‬‬
‫’’ یعنی اسکاٹ نے برطانوی ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی تاریخ کو‬
‫اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں دوسروں تک منتقل کرنے کی کوشش کی‬
‫۔‘‘‬
‫بعض مصنفین نے اپنی رزمیہ اور نثری داستانوں اور تاریخی ناولوں کو دلچسپ‬
‫اور مقبول بنانے کے لیے وقت کے عام مذاق اور رجحان کے مطابق غیر حقیقی اور نیم‬
‫تاریخی کرداروں کے عال وہ غیر مصدقہ واقعات اور تفصیالت کا سہارا لیا مگر پال‬
‫اسکاٹ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک مورخ کے طور پر نقطہ‬
‫نظر پیش کرنے کے بجائے اپنی مہارت کا ثبوت دستاویزی اور تخیالتی صداقت کے باہم‬
‫اتصال سے برصغیر کے عوام اور محل و مقام کے ایسے بھرپور پورٹریٹ کی شکل میں‬
‫پیش کیا ہے جس کا ثانی رسمی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔‬

‫تہذیبی و شناختی بحران‬


‫اینگلو انڈین کمیونٹی کا المیہ‬
‫خصوصی مطالعہ‪ :‬ناول بھوانی جنکشن‬
‫پہچان ‪ ،‬شناخت‪ ،‬تشخص ہم معنی الفاظ ہیں جس سے مراد کسی چیز یا شخص کا‬
‫دوسروں سے منفرد یا ممتاز ہونا ہے۔ یعنی شناخت کی خصوصیت انفرادیت ہے اور‬
‫مماثلت اس کی عمومیت ہے۔ ایک ہی فرد کی مختلف شناختیں ہو سکتی ہیں جیسے‬
‫خاندانی‪ ،‬نسلی‪ ،‬صنفی‪ ،‬طبقاتی‪ ،‬نظریاتی‪ ،‬لسانی‪ ،‬مذہبی‪ ،‬قومی‪ ،‬تہذیبی وغیرہ۔ یہ تمام‬
‫شناختیں بیک وقت روبہ عمل ہوتی ہیں اور مختلف واقعات و حاالت میں ان میں سے‬
‫کوئی ایک پیش منظر میں آ کر باقیوں کو پس منظر میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ شناختیں‬
‫جہاں ایک طرف فردیت کی عالمت ہیں تو دوسری طرف گروہ سازی کا بھی ذریعہ ہیں۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ خارجی ماحول اور خارجیت کے اندر شخصی شناخت کی شدید خواہش‬
‫اور پھر دنیا ک ے سامنے اپنی کم مائیگی اور بے حیثیتی کا احساس فرد کی انا کو بھی‬
‫پاش پا ش کر دیتا ہے یوں وہ خود اعتمادی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس طرح پورا‬
‫گروہ یا طبقہ ایک قسم کے تہذیبی یا شناختی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی المیہ‬
‫برصغیر میں اینگلوانڈین کمیونٹی کو درپیش ہوا جس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے۔‬
‫لغت کے مطابق اینگلوانڈین صفت ذاتی ہے اور اس سے انگریز اور دیسی نسل کا‬
‫مخلوط ہندوستانی مراد ہے۔ یعنی اینگلوانڈینز مغربی اور ہندوستانی نسلوں کا امتزاج ہیں۔‬
‫ان کی مخصوص روایات اور مختلف رنگ و روپ ہیں اور یہ برطانوی دور حکومت کی‬
‫عالمت بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ جب ‪۱۹۱۱‬ء میں ہندوستان میں مردم شماری کا انعقاد‬
‫کیا گیا تو اس وقت کے وائسرائے ہندوستان الرڈ ہارڈنگ "‪ "Lord Harding‬نے‬
‫باضابطہ سرکاری طور پر ان لوگوں کے لیے اینگلو انڈین اصطالح کو قبول کر لیا جنہیں‬
‫خاص طور پر روز مرہ کی گفتگو میں یوروایشین "‪ "Euroasian‬کہہ کر پکارا جاتا تھا‬
‫بعد ازاں ایک معروف اینگلوانڈین سر ہنری "‪ "Sir Henry Gidney‬کی کاوشوں سے‬
‫گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ‪ ۱۹۳۵‬ء میں اس کمیونٹی کے لیے تحریر کیا گیا کہ یہ ایسے‬
‫یورپی النسل افراد ہیں جن کے والدین ہندوستان میں مستقالً رہائش پذیر ہوں۔‬
‫‪European descent in the male line, whose parent were habitually‬‬
‫)‪resident in India. (72‬‬
‫اس تعریف کی بنیاد پر بعد ازاں ہندوستان کے آئین میں جو کہ ‪۱۹۵۰‬ء میں نافذ‬
‫العمل ہوا اس میں اینگلو انڈین کی تعریف یوں کی گئی‪:‬‬
‫‪An Anglo-Indian means a person whose father or any of whose‬‬
‫‪male progenitors in the male line is or was of European descent‬‬
‫‪but who is domiciled with in the territory of India and who is or‬‬
‫‪was born with in such territory of parents habitually resident there‬‬
‫)‪in and not established there for temporary purposes only. (73‬‬
‫یعنی اینگلوانڈین سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا والد یا اس کے نسب نامے کے‬
‫اعلی یورپی نسل سے تعلق رکھتا ہو مگر وہ ہندوستان کے‬ ‫ٰ‬ ‫ث‬
‫لحاظ سے براہ راست مور ِ‬
‫کسی عالقے کا رہائشی ہو اور وہ ایسے کسی مستقالً آبائی رہائشی عالقے میں پیدا ہوا ہو‬
‫نہ کہ وہاں عارضی طور پر مقیم ہوا ہو۔‬
‫اس کے بعد اس بات پر بہت زیادہ بحث و تمحیص ہوئی کہ انگریزی اس طبقے کی‬
‫دعوی درست نہیں‪ ،‬اس اضافے‬ ‫ٰ‬ ‫مادری زبان ہونا ضروری ہے وگرنہ اینگلوانڈین ہونے کا‬
‫کے ساتھ ‪۱۹۵۷‬ء میں مندرجہ ذیل تعریف منظور کی گئی‪:‬‬
‫‪.....an Anglo-Indian means a person whose mother-tongue is‬‬
‫‪English and whose father or any of his progenistors in the male‬‬
‫‪line is or was of European descent but who is or was born within‬‬
‫‪such territory of India of parents habitually resident therein and‬‬
‫)‪not established there for temprary purpose only.... (74‬‬
‫تاریخی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اینگلوانڈینز کی افزائش نسل‬
‫پرتگیزوں‪ ،‬ڈچ اور انگریز تاجروں اور نوآبادکاروں کی اپنی وضع کردہ حکمت عملی کا‬
‫نتیجہ تھی۔ جیسا کہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز جس کی ابتداء ‪۱۶۲۹‬ء میں‬
‫ہوئی اس کے تحت ہر اس بچے کی پیدائش پر جس کی والدہ انڈین اور والد یورپین ہو‪،‬‬
‫اسے ایک سونے کا سکہ الزمی طور پر بطور فیملی االئونس ادا کیا جاتا تھا ‪(Younger‬‬
‫)‪ C:1984‬ایسے مخلوط بچوں کو ’’دیسی بچے "‪‘‘ "Country born‬کہا جاتا اور انہیں‬
‫اینگلوانڈین کمیونٹی میں ضم کر کے برطانوی راج کے لیے ایک قسم کی حفاظتی فصیل‬
‫یا بفر "‪ "Buffer‬بنانے کے ساتھ ان سے استعماری حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک‬
‫پل کا کام بھی لیا جاتا ۔ پھر ان اینگلوانڈین بچوں کو برطانیہ میں تعلیم کے حصول کے‬
‫لکھنو‬
‫ٔ‬ ‫لیے روانہ کیا جاتا اور ملکی سطح پر بھی ان کی تعلیم کے لیے مدراس‪ ،‬بنگلور‪،‬‬
‫اور دوسرے انگریز آبادی والے شہروں میں سکول کھولے گئے تاکہ انہیں پبلک سروس‬
‫کے لیے اہل اور موزوں بنایا جاسکے یوں یہ اینگلوانڈین سولہویں صدی میں ہونے والی‬
‫یورپی توسیع کے ہی پیداوار تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی توسیع کے ابتدائی سالوں میں‬
‫انگریزوں اور مقامی خواتین کے مابین شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی لیکن پھر یکسر‬
‫منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔ یہ اس وقت ہوا جب ہندوستان میں انگریزوں کے قدم مستحکم ہو‬
‫گئے تو اس پالیسی کو منسوخ کر دیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اب انگریزوں کو یہ‬
‫خدشات الحق ہو گئے کہ اس مخلوط طبقے سے برطانوی حکومت کو مستقبل میں‬
‫خطرات پیش آ سکتے ہیں ٰلہذا ان خدشات کی وجہ سے اینگلوانڈینز کو فراہم کردہ سابق‬
‫سہولیات و مراعات واپس لے لی گئیں۔ انہیں فوج کے تمام رینکوں سے برخاست کر دیا‬
‫گیا ان پر کمپنی کی سول‪،‬عسکری و بحری مالزمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔‬
‫اینگلوانڈین کمیونٹی کے لیے یہ قوانین امتیازی قسم کے تھے کیوں کہ اس سے قبل ان‬
‫سے انگریزوں کی طرح سلوک روا رکھا جاتا۔ جس کی بنا پر وہ بھی خود کو اپنے میالن‬
‫طبع اور ثقافتی م ماثلت کی بنیاد پر انگریز ہی سمجھتے مگر اب انہیں حکمران اشرافیہ‬
‫سے الگ کر دیا گیا۔ کچھ ایسی ہی قسم کی صورتحال کے بارے میں ‪ Gaikwad‬تحریر‬
‫کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪These measures reduced the Anglo-Indian to political impotence‬‬
‫)‪and social degradation. (75‬‬
‫یعنی اس طرح کے اقد امات سے اینگلوانڈینز سیاسی ضعف اور سماجی تنزل کا‬
‫شکار ہو گئے۔ ایسی فضا میں اینگلوانڈین خاندانوں کے لیے اپنی بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫انیسویں صدی تک انگریزوں نے خود کو اس طبقے سے بالکل الگ کر لیا۔ مگر‬
‫دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سفید رنگت یعنی گوری چمڑی والوں اور دولت مندوں کو‬
‫اینگلوانڈین کہا گیا جبکہ سیاہ فاموں اور غرباء کو یوروایشین "‪ "Euroasian‬کا نام دیا‬
‫جاتا ہے اینگلو انڈین انگریزوں کی نسل سے تھے اور برطانوی رعایا بھی‪ ،‬وہ خود کو‬
‫نسلی تعصب سے محفوظ رکھنے کے لیے انگریز کہالتے مگر انگریز انہیں اس قسم کی‬
‫شناخت دینے سے انکاری تھے۔ نہ ہی ان اینگلوانڈینز کو اپنے رشتہ دار تسلیم کرتے‬
‫تھے۔ بلکہ سماجی طور پر وہ انہیں ایسے ’’مخلوط النسل‘‘ ـ "‪"half castes‬تسلیم کرتے‬
‫جو کہ اخالقی طور پر اور فہم و فراست کے حساب سے اصل انگریزوں کے بچوں اور‬
‫بچیوں سے کم تر درجے کے لوگ تھے۔ اور انیسویں صدی کے اختتام تک کسی انگریز‬
‫کا انڈین یا اینگلوانڈین خاتون سے شادی کرنا ایک طرح سے ممنوع یا خارج از امکان‬
‫بات تھی۔‬
‫کچھ اسی قسم کے تعصبات اینگلوانڈینز کی طرف سے مقامی سیاہ رنگت والے‬
‫لوگوں کے ساتھ روا رکھے گئے تھے جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں نے بھی ردعمل‬
‫کے طور پر اس طبقے سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ انگریزوں کی طرف سے تو وہ‬
‫احساس برتری‬
‫ِ‬ ‫پہلے ہی مطعون قرار دیئے جاچکے تھے۔ یوں ایک طرف وہ انگریز کے‬
‫کا بری طرح شکار ہوئے اور دوسری طرف ان کی مغرب زدہ ثقافت اور مقامی لوگوں‬
‫سے دوری کی وجہ سے مقامیوں کی بدا عتمادی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ یوں سماجی اور‬
‫ثقافتی دونوں سطحوں پر کئی دوسرے ہندوستانیوں کے لیے وہ اجنبی اور غیر تھے۔‬
‫اگرچہ حیاتیاتی سطح پر وہ ان کے قریب بھی تھے۔ ‪ Gaikwad‬ہی کے الفاظ میں‪:‬‬
‫‪......mid-way between two cultural worlds, and under the peculiar‬‬
‫‪conditions of their origin and socia-cultural development, Anglo-‬‬
‫‪Indians could never get to know the West to which they aspired to‬‬
‫‪belong, nor did they have emotional ties with India where they‬‬
‫)‪really belonged..... (76‬‬
‫اس المیے کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس طبقے کو ایک اور بڑا دھچکا اس‬
‫وقت لگا جب برصغیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ انگریزوں کی ہندوستان سے‬
‫رخصتی سے ماقبل بھی اگرچہ اس کمیونٹی کو ایک تکلیف دہ اور ناگوار صورتحال کا‬
‫سامنا تھا مگر اب ہندوستان کی سرزمین سے انگریزوں کی اچانک اور غیر متوقع‬
‫روانگی ن ے اس طبقے کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا اور خاص طور پر شناختی بحران‬
‫کی صورت حال نے شدت اختیار کرلی۔ یہ وہی المیہ ہے جس کا ذکر ‪Eric Erikson‬‬
‫نے اپنی کتاب "‪ "Theory of Stages of Psycho-social Delvelopment‬میں‬
‫"‪"Quest for Identity‬یعنی ’’شناخت کی جستجو ‘‘کے طور پر پیش کیا ہے۔ (‪)۷۷‬‬
‫اس قسم کی صورت حال کی وجہ سے ان کے اندر ایک دو جذبی اور گومگوئی‬
‫صورت حال نے جنم لیا جس کی وجہ یہی تھی کہ یورپی لوگ انہیں کچھ یورپی خون کی‬
‫آمیزش والے ہندوستانی خیال کرتے تھے جبکہ ہندوستانی انہیں کچھ ہندوستانی خون والے‬
‫یورپی مانتے تھے ۔ اس لیے ان کے خالف حقیقی یا غیر حقیقی تعصبات ان کے اپنے ہی‬
‫وضع کردہ دوسرے ہندوستانیوں کے خالف تعصبات ان کی افرادی یا اجتماعی و گروہی‬
‫شناخت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے اب تقسیم ہند کے بعد ہندستان میں رہ جانے‬
‫والے تقریبا ً ڈیڑھ الکھ اینگلوانڈینز کو بطور اقلیت بھی کچھ خطرات الحق تھے۔ کلکتہ میں‬
‫ایک سکول کے پرنسپل کے بارے میں ‪ Gist‬بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪The fact that Anglo-Indians were Indian nationals by birth but‬‬
‫‪culturally- oriented to Britain often made their status confusing to‬‬
‫‪themselves and to others. One Anglo-Indian school principal in‬‬
‫‪Calcutta stated the dilemma of her own identity as follows, "my‬‬
‫‪heart is in England but my responsibilities are in India" since then‬‬
‫)‪she migrated to Great Britain. (78‬‬
‫یعنی اس پرنسپل نے کہا کہ میرا دل انگلستان میں ہے اور اپنے فرائض منصبی‬
‫عازم‬
‫ِ‬ ‫کی ادائیگی کے لیے قیام ہندوستان میں ہے۔ اسی کشمکش کا سامنا کرتے ہوئے وہ‬
‫انگلستان ہو گئی۔‬
‫اسی طرح کئی دوسرے اینگلوانڈینز بھی یہ خیال کرتے کہ اگر ایک طرف انگریز‬
‫انہیں اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں تو دوسری طرف ہندوستانی بھی انہیں ایسے مداخلت‬
‫کا ر اور بے جا دخیل گردانتے ہیں جو کہ ان مقامی ہندوستانیوں کے برابر محب وطن‬
‫نہیں ہیں جیسا کہ ایک بمبئی کے رہائش ہندوستانی نے شناخت کے معاملے پر تبصرہ‬
‫کرتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫‪Go to any Anglo-Indian home and what do you see? Almost‬‬
‫)‪invariably a picture of the British Royal Family. (79‬‬
‫آپ کسی بھی اینگلوانڈین کے گھر میں داخل ہوں تو وہاں آپ کیا دیکھتے ہیں؟‬
‫تقریبا ً یکساں طور پر یعنی ہر گھر میں برطانوی شاہی خاندان کی تصویر۔ اگرچہ یہ رائے‬
‫جزوی صداقت پر مبنی ہو سکتی ہے مگر اینگلوانڈینز کے بارے میں ہندوستانیوں کی‬
‫سوچ کی عکاس ضرور ہے۔‬
‫یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس طبقے کو ہندوستان میں مختلف اوقات میں‬
‫مختلف نام دیئے گئے جیسے کہ اینگلو انڈین‪ ، Anglo-Indian‬یورو ایشین ‪Euroasian‬‬
‫‪ ،Half-castes ،‬چی چی ‪Blacky whites ،Chee-chees ،‬اور آٹھ آنہ‪Eight-‬‬
‫‪annas‬وغیرہ۔ اس کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے آل انڈیا اینگلو انڈین ایسوسی‬
‫ایشن بھی قائم کی گئی۔ جس کے مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے ہوئے نام اس کے خط‬
‫حرکت اور تغیر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اپنا وجود قائم رکھنے والی‬
‫ایسوسی ایشن یوروایشین اور اینگلو انڈین ایشن (قائم شدہ دسمبر ‪۱۸۷۶‬ء) کے تتبع میں‬
‫بنائی گئی۔ جسے بقول فرینک انتھونی "‪"Frank Anthony‬‬
‫پہلے ‪ Anglo-Indian‬اور جنوری ‪۱۹۱۹‬ء میں ‪Domiciled European‬‬
‫‪Association‬کے نام سے موسوم کیاگیا۔ لیکن پھر اسی نے جوالئی ‪۱۹۴۶‬ء میں‬
‫‪Domiciled European‬کا نام ختم کرایا۔ یہ آل انڈیا اینگلوانڈین ایسو سی ایشن کو‬
‫پورے ملک میں بہت عرصہ بعد تک قائم رہی جس کی شاخیں پاکستان اور میانمار میں‬
‫بھی موجود تھیں۔ (‪)۸۰‬‬
‫اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر بھوانی جنکشن ‪Bhowani‬‬
‫‪Junction‬کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو کچھ ایسے ہی معامالت سامنے آتے ہیں اگرچہ‬
‫بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو برطانوی راج کے عہد کے فکشن کی کئی خصوصیات‬
‫ہیں جیسے کہ دو اقوام یا دو نسلوں کے درمیان عبور نہ ہونے والی گہری ثقافتی خلیج‪،‬‬
‫انگریزوں کی مقامیوں سے شادی کے لیے نارضامندی‪ ،‬ہندوئوں کے بجائے مسلمانوں کو‬
‫ترجیح‪ ،‬بنگالیوں اور مغرب س ے تعلیم حاصل کرکے پلٹنے والے ہندوستانیوں کے لیے‬
‫تمسخرانہ اور تضحیک آمیز رویہ وغیرہ۔ مگر ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ‬
‫اینگلوانڈینز یا یوروایشین کردار جو ان فکشنز کا حصہ بنے ہیں وہ محض اسٹیریو ٹائپ‬
‫ہیں اگرچہ انہیں جس قسم کی ناخوشگوار اور پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑ‬
‫رہا ہے اس کی پیچیدگی کو بھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ایسی ہی کاوش بھوانی‬
‫جنکشن میں جان ماسٹر نے کی ہے۔‬
‫بنیادی طور پر یہ ناول اینگلوانڈین کرداروں کی ذاتی شناخت کا ناول ہے۔ جس میں‬
‫تاریخ اور رومان کا خوبصورت امتزاج ہے بھوانی جنکشن ‪۱۹۵۴‬ء میں منظر عام پر آیا۔‬
‫یہ ناول جان ماسٹرز نے اس عہد تالطم خیز میں تحریر کیا جب انگریز ہندوستان کو‬
‫الوداع کہہ کر اقتدار ان کے حوالے کر کے واپس جا رہے تھے۔ ایسے میں اینگلو انڈین‬
‫کمیونٹی ایک خاص قسم کی کشمکش میں مبتال نظر آتی ہے کیوں کہ ایک طرف ان کی‬
‫وفاداریاں ب رطانوی حکمرانوں کے ساتھ ہیں جو کہ برصغیر سے رخصت ہو رہے ہیں‬
‫ساتھ ہی ان کی ہمدردیاں مقامی اکثریتی آبادی کے ساتھ بھی ہیں۔ اس ناول کو مصنف نے‬
‫اسی کمیونٹی کی نذر کیا ہے جس کے بیشتر کردار دہلی دکن انڈین ریلوے سسٹم کے ساتھ‬
‫وابستہ ہیں۔ یوں اس ناول کی کہانی تاریخ اور رومان کے سنگم پر قاری کو اپنی گرفت‬
‫میں لے لیتی ہے یہی نہیں کہ جان ماسٹرز نے اس ناول میں اینگلوانڈین کمیونٹی کے‬
‫ت روز و شب کو اپنے گہرے مشاہدے کی مدد سے قرطاس‬ ‫عادات و اطوار اور معموال ِ‬
‫پر منتقل کیا ہے بلکہ ہندوستانی معاشرے میں صدیوں سے رائج ذات پات کے نظام اور‬
‫دوسری تحریکوں اور عصری حاالت کو بھی ناول کے صفحات میں اجاگر کیا ہے۔ مگر‬
‫بنیادی طور پر یہ اس کمیونٹی کے لوگوں کی ثقافتی اور تاریخی روایات کے مابین‬
‫جھولنے کی کیفیت کی عکاسی ہے یوں ان کے اذہان میں پائی جانے والی گومگوئی اور‬
‫دو جذبی کیفیت کے ساتھ ان کی گہری نفسیاتی اور ذہنی کشمکش کو بھی بیان کیا ہے‬
‫کیوں کہ ایسے وقت میں وہ جس قسم کی اذیت ناک صورت حال سے گزر رہے ہیں اس‬
‫صورت حال کو ہمدردی کے ساتھ مصنف نے بیان کیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس‬
‫طبقے کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ‬
‫اپنی قسمت اور مقدر کو خود بنانے کی کوششیں کریں۔‬
‫آج ہندوستان میں برطانوی نوآبادی یعنی ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد از‬
‫تقسیم حاالت سے متعلق لکھے جانے والے ناولوں کی کمی ہر گز نہیں۔ ان میں مختلف‬
‫تناظرات کی عکاسی بھی ملتی ہے جیسے کہ استعمار کی مخالفت‪ ،‬محب وطنی کے‬
‫جذبات اور فرقت وطن کی پرانی یادوں کا تذکرہ وغیرہ۔ اگرچہ ان میں سے اکثر ناولوں‬
‫میں قبل از نوآبادیات و مابعد نوآبادیات ہندوستان میں مقیم اینگلوانڈینز کو خصوصی اہمیت‬
‫دی ہے اور انہیں مختلف حاالت میں جس قسم کی تکلیف دہ اور ناگوار صورت حال سے‬
‫دوچار رہنا پڑا اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے مگر جان ماسٹر ان چند اینگلوانڈین لکھاریوں‬
‫میں سے ایک ہیں جنہوں نے بڑے ہی ٹھوس اور مستند طریقے سے اس کمیونٹی کی‬
‫حالت زار کو اجاگر کیا ہے۔‬
‫پورا ناول ایک افسانوی قصبے ’’بھوانی‘‘ کی فضا میں رچابسا ہے۔ ناول کے‬
‫مرکزی کرداروں میں وکٹوریہ جونز "‪ "Victoria Jones‬اس کا ریلوے میں مالزم‬
‫خاندان‪ ،‬اور ایک سول سرونٹ "‪ "Patrick Taylor‬جو کہ اینگلوانڈین طبقے کی‬
‫نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر ناول کی ہیروئن وکٹوریہ کی اپنی شناخت کی تالش‬
‫کی جدوجہد اس امر کی غماز ہے کہ اس دور کا اینگلو انڈین طبقہ کس قسم کی ذہنی‬
‫کشمکش‪ ،‬تنہائی اور اذیت سے دوچار ہے۔ وکٹوریا اس بات کو سمجھتی ہے کہ جب‬
‫انگریز حاکم ہندوستان کو الوداع کہہ دیں گے تو خود ان کے وجود کو بھی کئی مسائل کا‬
‫سامنا ہو گا اور دوسرے لفظوں میں ان کے وجود کی معنویت خطرے میں پڑ جائے گی‬
‫کیون کہ ان کا وجود بنیادی طور پر ایک منقسم وجود ہے اب تک نہ تو وہ مکمل طور پر‬
‫انگریز بن چکے ہیں اور نہ ہی ہندوستانی بن سکے ہیں۔ مگر وہ ہندوستان میں رہتے‬
‫ہوئے ہندوستانی ثقافت‪ ،‬اعتقادات و رسومات کو اپنانے کی بہت کوشش کرتی ہے۔ مگر‬
‫اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بچپن ہی سے انگریزی تہذیب اور خیاالت و اعتقادات‬
‫بھی جاگزیں ہیں یوں وہ ان دو انتہائوں کے مابین معلق رہتی ہے اور دوسری طرف‬
‫انگریز بھی ان اینگلوانڈین خواتین کو محض جنسی تسکین کا سامان سمجھتے ہیں ایسے‬
‫میں رنجیت سنگھ جو کہ ریلوے کے افسر ہیں ان کی والدہ سردارنی "‪"Sardarni‬‬
‫وکٹوریہ کو اس معاشرے میں اپنی شناخت کی آگہی کے حصول کے بارے میں ابھارتی‬
‫ہے اور اسے یہ احساس دالتی ہے کہ تمام ہندوستانی عوام برطانوی حکمرانوں کے لیے‬
‫ایسے محکوم ہیں جن کے ساتھ وہ ہر قسم کا ناروا برتائو کر سکتے ہیں اسی لیے وہ‬
‫وکٹوریہ کے عالوہ دوسرے ہندوستانیوں کو اپنے مقام کی آگہی اور شناخت کے بارے‬
‫میں اکساتی ہے اور انگریزوں کی حاکمیت کے خالف آواز بلند کرتی ہے اور ہندوستانیوں‬
‫کو ان کے حقوق یاد دالتی ہے۔‬
‫ناول کی ابتدا اس خبر سے ہوتی ہے کہ ایک مال بردار گاڑی کو تخریب کاری کا‬
‫نشانہ بنایا گیا ہے مگر اس ناول کے پالٹ میں سب سے اہم اور مرکزی واقعہ انہی تین‬
‫کرداروں سے متعلق ہے جن میں کرنل ساوج‪ ،‬پیٹرک ٹیلر اور وکٹوریہ جونز شامل ہیں‬
‫ایسے میں وکٹوریہ جونز مسلسل اپنی شناخت کی تالش میں سرگرداں ہے اس تالش کے‬
‫دوران وہ ان تینوں کرداروں جن میں کرنل ساوج (انگریز) پیٹرک ٹیلر (اینگلو انڈین) اور‬
‫رنجیت سنگھ (ہندوستانی) ہے ان سے محبت میں گرفتار ہوتی ہے اور مختلف تجربات‬
‫سے گزرتی ہے۔ اسی دوران اسے جس ذہنی اذیت اور کشمکش سے گزرنا پڑتا ہے اسے‬
‫ناول نگار نے اپنے ناول میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اس سارے عمل کے دوران‬
‫وکٹوریہ کو معلوم ہوتا ہے کہ انگریز کردار سے محبت کر کے اسے کچھ نہیں مال‪،‬‬
‫کیونکہ اس نے اسے ایک کھلونا سمجھتے ہوئے دو بار اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے‬
‫کی کوشش کی۔ جبکہ ہندوستانی کردار سے محبت کر کے وہ ذہنی تسکین کے حصول‬
‫میں ناکام رہی تھی۔ اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف اینگلوانڈین کردار‬
‫ہی ہے جس کے ساتھ وہ نباہ کر سکتی ہے۔ وہ ہی اس کے اسٹیٹس اور برابری واال کردار‬
‫ہے وہ اس کے مسائل کو سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی اس کی کیفیات سے صحیح آگاہ ہو‬
‫سکتی ہے۔ ناول میں اس حقیقت کا انکشاف اسے اور قاری کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے‬
‫اسی طرح ناول نگار وکٹوریہ کی اپنی شناخت کی بازیافت کے اس لمحے اور حقیقت کو‬
‫بڑی مہارت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اینگلوانڈینز چونکہ‬
‫دوغلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ٰلہذا ان کی شخصیت بھی دو حصوں میں منقسم ہے ٰلہذا‬
‫ان کا مقام یا شناخت بھی کسی ملک کے جزو کے طور پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اپنی‬
‫ذاتی حیثیت میں بھی وہ اس کا دفاع بخوبی کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ مصنف انہیں‬
‫یہ بھی مشورہ دیتا ہے کہ وہ خود کو انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ اپنی قسمت‬
‫اور تقدیر کے خود خالق بنیں۔ ایسا شاید جان ماسٹر نے اس لیے کیا کہ اس دور میں یہ‬
‫ایک فیشن بن چکا تھا کہ مصنفین اس طبقے کو اپنے تخلیق کردہ ادب میں صرف اور‬
‫موقف یہ تھا کہ اس‬ ‫صرف منفی رنگ میں ہی پیش کرتے تھے اس بارے میں ان کا ٔ‬
‫طبقے نے انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کی منفی خصوصیات جیسے کہ انگریزوں کا‬
‫غرور اور ضد جبکہ مقامیوں سے چاالکی اور عیاری کو اپنے اندر جذب کر کے ایک‬
‫بہت ہی مہلک اور خطرناک آمیزش کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے ایمپائر کے‬
‫وجود کو بھی خطرات الحق ہو سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس بات میں بھی کوئی‬
‫شبہ نہیں کہ جان ماسٹر نے آزادی کے دہانے پر کھڑے ہندوستان میں موجود اینگلو انڈینز‬
‫کی پریشان کن صورت حال بلکہ حالت زار کو بیان کیا ہے اور خاص طور پر برطانوی‬
‫دور حکومت کے آخری ایام میں ان کی سماجی حالت اور ثقافتی شناخت کے حوالے سے‬
‫درپیش مسائل کو بڑی عمدگی سے قلمبند کیا ہے۔‬
‫ناول بھوانی جنکشن کے چار بڑے حصے ہیں اور اسے مزید چالیس چھوٹے‬
‫ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے پہلے حصے میں آٹھ چھوٹے ابواب‪ ،‬دوسرے‬
‫حصے میں اکیس چھوٹے ابواب‪ ،‬تیسرے حصے میں دس اور چوتھے حصے میں صرف‬
‫ایک اختتامی باب ہے۔ اس ناول کے مرد کرداروں میں سب سے اہم کردار پیٹرک ٹیلر‬
‫"‪"Patrick Taylor‬کاہے جو ‪۳۶‬برس کا کنوارہ آدمی ہے اور جسے دہلی دکن ریلوے‬
‫سیکشن کی مالزمت سے برخاستگی کا نوٹس موصول ہو چکا ہے۔‬
‫ناول کے ابتدائی صفحات میں وکٹوریہ کی زبانی اینگلوانڈینز کے حوالے سے یہ‬
‫سطور ہمارے سامنے آئی ہیں جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی بقا کی فکر‬
‫ہے اور وہ اپنے وجود کو درپیش خطرات کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق سے باخبر ہیں‪:‬‬
‫‪It was about us .... us Anglo-Indians. If we stand up for ourselves,‬‬
‫)‪no one else would. If we weren't, no one else was. (81‬‬
‫’’ یہ ہمارے یعنی اینگلو انڈینز سے متعلق ہی ہے اگر ہم اپنے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں تو‬
‫کوئی دوسرا ایسا نہیں کرے گا۔ اگر ہمیں خود میں دلچسپی نہیں ہے تو کسی اور کو بھی‬
‫نہیں۔‘‘‬
‫پیٹرک ٹیلر اینگلوانڈین طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ خود ظاہری طور پر ایک‬
‫پر اعتماد اور خود آگاہ شخص ہے مگر اس کے اندر حقیقتا ً ایک غیر محفوظ شخصیت‬
‫موجود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ نہ تو مکمل انگریز بن‬
‫سکتا ہے اور نہ ہی مکمل ہندوستانی ہو سکتا ہے اس لیے کہ وہ ایک منقسم شخصیت ہے‬
‫اگرچہ بنیادی طور پر وہ ایک سفید فام کا غرور اپنائے ہوئے ہے اور اس لیے وہ مقامی‬
‫لوگوں کو "‪ "Wogs‬کہہ کر مخاطب کرتا ہے یہ ایک حقارت آمیز سخت لفظ ہے جو ان‬
‫لوگوں کے لیے بوال جاتا ہے جو کہ سفید فام نہیں وہ کہتا ہے‪:‬‬
‫‪The crew were all Wogs. They like to be called Indians, especially‬‬
‫)‪nowadays, but I always call them Wogs in my mind still. (82‬‬
‫’’عملے کے تمام افراد "‪ "Wogs‬تھے۔ وہ خود کو انڈین کہلوانا زیادہ پسند کرتے‬
‫ہیں۔ خاص طور پر آج کل۔ لیکن میں انہیں ابھی تک ہمیشہ اسی نام سے پکارتا ہوں۔ــ‘‘‬
‫پھر وہ اس لفظ "‪ "Wogs‬کی مزید وضاحت کچھ اس انداز سے کرتا ہے اور ساتھ‬
‫ہی اینگلوانڈینز کے بارے میں یہ بتاتا ہے کہ ان کے اندر ہندوستانی خون ضرور موجود‬
‫ہے مگر قلیل مقدار میں ہے اور ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ ایک وقت تھا انہیں یورپی‬
‫النسل کہا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنا تعلق حاکموں سے جوڑتا ہے‪:‬‬
‫‪Perhaps I ought to say too that `Wogs' is a word for Indians, and‬‬
‫‪when I say `we' or `us' I mean the Anglo-Indians. Sometimes‬‬
‫‪we're called Domiciled Europeans. Most of us have a little Indian‬‬
‫)‪blood-not much, of course. (83‬‬
‫’’شاید مجھے کہنا چاہیے کہ ‪ Wogs‬کا لفظ ہندوستانیوں کے لیے اور ہے جب میں‬
‫’ہم‘ یا ’ہمارے‘ کہتا ہوں تو ا س سے میری مراد اینگلوانڈینز ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہمیں‬
‫یورپین سکونتی کہا جاتا تھا۔ ہم میں سے اکثر تھوڑا ہندوستانی خون اپنے اندر رکھتے ہیں‬
‫جو کہ بالشبہ زیادہ نہیں۔‘‘‬
‫پیٹرک ان وجوہات کی نشاندہی بھی کرتا ہے جن کی وجہ سے مقامی لوگ‬
‫اینگلوانڈینز سے نفرت کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪We Anglo-Indians didn't want to sink to the level of the Indians,‬‬
‫)‪and the Indians hated us for being superior to them. (84‬‬
‫’’ ہم اینگلوانڈینز مقامیوں کی سطح پر اترنا پسند نہیں کرتے۔ جبکہ ہندوستانی ہمیں‬
‫خود سے برتر ہونے کی بنا پر نفرت کرتے ہیں۔‘‘‬
‫پیٹرک ‪ Patrick‬چونکہ اس طبقے کا ایک نمائندہ کردار ہے جو کہ دو جذبی اور‬
‫گومگوئی کیفیت کا شکار ہونے کے ساتھ دو انتہائوں کے درمیان معلق ہے۔ اس حقیقت کا‬
‫اظہار کرتے ہوئے اس متاثرہ کمیونٹی کو معاشرے میں درپیش اصل المیے کو یوں اجاگر‬
‫کرتا ہے‪:‬‬
‫‪We couldn't go Home. We couldn't become English, because we‬‬
‫‪were half Indian. We couldn't become Indian, because we were‬‬
‫‪half English. We could only stay where we were and be what we‬‬
‫‪were. The English would go any time now and leave us to the‬‬
‫)‪Wogs. (85‬‬
‫’’ہم گھر نہیں جا سکتے۔ ہم انگریز اس لیے نہیں بن سکے کیونکہ ہم آدھے‬
‫ہندوستانی تھے۔ ہم ہندوستانی اس لیے نہیں بن سکے کہ ہم آدھے انگریز تھے۔ ہم صرف‬
‫وہیں قیام کر سکتے تھے جہاں ہم تھے ۔ اور وہی کچھ تھے جو کچھ ہم تھے۔ انگریز کسی‬
‫بھی وقت اب روانہ ہو جائیں گے اور ہمیں ان مقامیوں کے پاس چھوڑ جائیں گے۔‘‘‬
‫یہ ایسے خدشات تھے جن کا خطرہ اس کمیونٹی کو ایسے وقت میں شدت سے‬
‫محسوس ہوا جب ایمپائر روبہ زوال ہوئی اور واضح طور پر نظر آنے لگا کہ اب‬
‫سامراجی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور ہندوستان کے لیے آزادی کی منزل بہت‬
‫قریب آچکی ہے۔ اینگلوانڈینز نے فرنگی استعماری حکومت کے قیام اور اس کے استحکام‬
‫موثر کردار ادا کیا تھا۔ مگر اب صورتحال تبدیل ہو چکی تھی اور اب ان کی‬ ‫کے لیے ٔ‬
‫ہمدردیاں بھی تقسیم ہو چکی تھیں ان کے لیے یہ واقعی مشکل وقت تھا کیونکہ ان کے‬
‫اندر عدم تحفظ کا احساس ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا چال جا رہا تھا۔ پیٹرک بھی‬
‫ہمیں بتاتا ہے کہ ریلوے میں افسران اور مالزمین کی غالب اکثریت اینگلوانڈین طبقے‬
‫سے ہی تھی مگر ‪۱۹۴۶‬ء کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی۔ اس بارے میں وہ بتاتا ہے‪:‬‬
‫‪We (Anglo-Indian) used to have that run, a down goods train, but‬‬
‫‪when they (Indians) took it over it meant that they were pushing‬‬
‫‪us out of another job. The driver was wiping his hands on a piece‬‬
‫‪of dasooty. When he saw me looking at him he turned his head‬‬
‫)‪away. He didn't smile or wave, though I knew him quite well. (86‬‬
‫’’ہم (اینگلو انڈنینز) مال گاڑیوں کو بھی چالتے تھے۔ لیکن جب سے انہوں‬
‫(ہندوستانیوں) نے غلبہ حاصل کیا۔ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہمیں ایک اور مالزمت‬
‫کے ٹکڑے پر کھڑے ہو کر ہاتھ صاف کر‬ ‫سے باہر دھکیل رہے تھے۔ ایک ڈرائیور‬
‫رہا تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ وہ نہ ہی مسکرایا اور نہ ہی ہاتھ ہالیا۔‬
‫حاالنکہ وہ میرا چھا شناسا تھا۔ــ‘‘‬
‫اس قسم کے نا آشنائی والے رویے سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہندوستانی ان اینگلوانڈینز‬
‫کو کس قسم کی نظروں سے دیکھتے تھے اور ان کے دل میں ان کے لیے کتنا احترام‬
‫اور کتنی محبت موجود تھی اس رویے کی وجہ صاف ظاہر تھی۔ استعماری حکومت کے‬
‫عروج کے دنوں میں یہی اینگلوانڈینز اپنا شجرہ نسب انگریزوں کے ساتھ جوڑتے تھے‬
‫اور ان محکوموں کو اپنے سے کم تر سمجھتے تھے۔ آج مقامی لوگ اس رویے کا بدلہ‬
‫چکا رہے تھے۔ اس بات کی وضاحت بھی پیٹرک نے ناول کے اندر کر دی ہے کہ مقامی‬
‫لوگ ان سے کیوں نفرت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ان‬
‫مقامیوں سے برتر سمجھتے تھے اور وہ ان مقامیوں کی سطح تک اترنا بھی نہیں چاہتے‬
‫تھے۔‬
‫یہ احساس برتری ایک وقت مزید شدت اختیار لیتا ہے اور اس کا اظہار بھی پیٹرک‬
‫کی طرف سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ وکٹوریا کو بتاتا ہے کہ وہ ہندوستانیوں سے خود‬
‫کو کیسے ممتاز اور الگ تھلک رکھتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے‪:‬‬
‫‪If we didn't wear topis, people would think we were Wogs-not me,‬‬
‫‪I have pale blue eyes, almost green, and red hair, .........but most‬‬
‫‪of us............We looked like what we were-Anglo-Indians,‬‬
‫‪Eurasians, cheeses, half-castes, eightannas, blacky-whites. I‬‬
‫‪have heard all the names they call us, but I don't think about them‬‬
‫)‪unless I'm angry. (87‬‬
‫’’اگر ہم ٹوپی نہیں پہنتے تو لوگ ہمیں )‪ (Wogs‬سمجھیں گے۔ مجھے نہیں۔ میری‬
‫تو زرد نیلی آنکھیں ہیں تقریبا ً سبزی مائل۔ اور میرے بال بھی سرخ ہیں۔ لیکن ہم میں سے‬
‫اکثر (ایسے نہیں ہیں)۔۔۔۔ہم ایسے نظر نہیں آتے جیسے کہ ہم ہیں۔ اینگلوانڈینز‪،‬‬
‫یوروایشینز‪ ،‬چی چیز‪ ،‬ہاف کاسٹ‪ ،‬آٹھ آنہ‪ ،‬بلیکی وائٹ۔ میں نے یہ تمام نام سن رکھے‬
‫ہی نجن سے وہ ہمیں پکارتے ہیں‪ ،‬لیکن میں ان کے متعلق ایسا نہیں سوچتا جب تک کہ‬
‫غصے میں نہ ہوں۔‘‘‬
‫پیٹرک کے کردار کے حوالے سے اہم اور غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اس‬
‫بات سے باخبر ہے کہ وہ تفاخر جس کا وہ اظہار کرتا ہے وہ بھی اس اینگلوانڈینز‬
‫کمیونٹی کے بطور نمائندہ کے ہے جو اپنی حقیقت کو سمجھنے اور پھر اسے تسلیم کرنے‬
‫سے انکاری ہے۔ ایسی ہی کچھ صورت حال کو مابعد نوآبادیاتی اصطالح میں‬
‫)‪(mimicry‬نقالی کہا جاتا ہے جس کا ذکر اکثر ‪ V.S. Naipal‬وی ایس نائپال کے ساتھ‬
‫ساتھ مشہور مابعد نوآبادیاتی ثقافتی نقاد ہومی کے بھابھا ‪ Homi K Bhaba‬نے کیا جس‬
‫پر تفصیلی بحث ‪ Justin D. Edward‬نے اپنی مشہور کتاب ‪Post Colonial‬‬
‫)‪Literature, A Reader's Guide: Macmillan, New York (2008‬میں‬
‫صفحہ ‪146‬پرکی ہے۔ اور بتایا ہے کہ( ‪ mimicry‬نقالی) استحضار کے بجائے تکرار پر‬
‫زور دیتی ہے اور اس تکرار کے عمل میں اپنی اصلیت کھو کر مرکزیت سے المرکزیت‬
‫کی جانب گامزن ہو جاتی ہے اور جو کچھ باقی بچتا ہے وہ صرف اور صرف مصنوعی‬
‫پن اور مالوٹ زدہ چیز ہوتی ہے۔‘‘ (‪)۸۸‬‬
‫اسی طرح خود پیٹرک کا کردار بھی نوآبادکاروں یا حاکموں کی نقالی کرتے ہوئے‬
‫اور ان کا سوانگ بھرتے ہوئے و اضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی کچھ الفاظ یا‬
‫محاورات کی تکرار کر رہا ہے خاص طور پر اس کا ہندوستانیوں سے بار بار اس‬
‫تضحیک آمیز لفظ ‪ Wogs‬سے مخاطب ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ سفید فام‬
‫آقائوں جیسا مصنوعی روپ دھار کر ان کی ناکام نقالی کی کوشش کر رہا ہے کیوں کہ‬
‫اسے اس بات کا علم نہیں کہ اس کی طرح کی نقالی کا انجام محض ناکامی ہی ہے مگر‬
‫وہ سختی سے اس قسم کے جھوٹے تکرار کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور اس کا یہی عمل‬
‫اسے دوغلی نسل سے ہونا اجاگر کرتا ہے۔ پیٹرک چونکہ دو شناختوں کے درمیان پھنسا‬
‫ہوا ہے یعنی ایک طرف انگریز انہیں اپنا کہنے سے انکاری ہیں اور دوسری طرف‬
‫ہندوستانی ہونا خود انہیں نا پسند ہے کیوں کہ اس نے ہمیشہ خود کو ہندوستانی کہلوانے‬
‫سے اعراض برتا ہے اور نوآبادیاتی حاکموں کا گرویدہ رہا ہے مگر اب اسے یہ فکر‬
‫الحق ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ اسی‬
‫خدشے کا اظہار حسب ذیل سطور میں کیا گیا ہے۔‬
‫‪An Indian government will come to power soon. Is it likely that‬‬
‫‪they will continue to give special help to the education of Anglo-‬‬
‫)‪Indians? Of course not! (89‬‬
‫ــ’’جلد ایک ہندوستانی حکومت قائم ہو جائے گی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ بھی‬
‫اینگلوانڈینز کی تعلیم کے لیے خصوصی امداد جاری رکھے گی؟ ہر گز نہیں!ـ‘‘‬
‫اس بات کا بھی انہیں یقین ہے کہ انگریز حاکم اب رخصت ہو جائیں گے اور ہمیں‬
‫ان ہندوستانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔‬
‫‪The English would go any time now and leave us to the wogs.‬‬
‫)‪(90‬‬
‫انگریز اب کسی بھی وقت رخصت ہو جائیں گے اور ہمیں ان‪ wogs‬کے سپرد کر‬
‫جائیں گے۔ ایسے میں وہ اس طبقے کو اپنے حقوق کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا‬
‫مشورہ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر وہ خود اپنی فکر نہیں کریں گے تو دوسرا کوئی ان‬
‫کے بارے میں نہیں سوچے گا۔‬
‫‪If we didn't stand up for ourselves, none else would. If we weren't‬‬
‫)‪interested, none else was. (91‬‬
‫’’ اگر ہم اپنے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ اگر ہم خود دلچسپی‬
‫نہیں لیں گے تو کوئی دوسرا بھی نہیں لے گا۔‘‘‬
‫اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم اس ناول کے سب سے اہم اور‬
‫مرکزی کردار یعنی وکٹوریا جونز کو دیکھتے ہیں تو اینگلو انڈین کمیونٹی کو اس مشکل‬
‫گھڑی میں دستیاب ممکنہ آپشنز یا راہیں اسی کے کردار کے ذریعے ہمارے سامنے آتی‬
‫ہیں اور یہ ممکنات چار بیان کرنے والوں کے ذریعے سامنے آتے ہیں اور اس طرح اس‬
‫ناول کے پالٹ کی جزوی تقسیم بھی اسی پیٹرن پر ہوتی ہے۔ یوں ناول چار حصوں میں‬
‫اسی کرداری مناسبت سے منقسم ہے۔ ان کرداروں میں سے دو کردار اینگلو انڈینز‬
‫(وکٹوریہ جونز‪/‬پیٹرک ٹیلر) ہیں اور ان کے ساتھ ایک انگریز کردار رونی ساویج‬
‫)‪ (Rodney Savage‬ہے جبکہ ہندوستانی کرداروں میں سردارنی کا بیٹا رنجیت سنگھ‬
‫‪Ranjith Singh‬شامل ہے۔‬
‫جب وکٹوریا دہلی سے واپس آتی ہے تو وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے اپنے بوائے‬
‫فرینڈ پیٹرک سے نجات حاصل کرنی ہے کیونکہ اس کی شخصیت کی ناقص تعمیر میں‬
‫اینگلوا نڈین اسٹیریوٹائپ کرداروں کی غیر یقینی کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کی وجہ یہ ہے‬
‫کہ وہ انگریزوں جیسا بننے کی اور ان جیسا دکھائی دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے‬
‫احساس کمتری کے ساتھ ساتھ انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کے‬ ‫ِ‬ ‫مگر اس کے اندر‬
‫لیے ہی غصہ اور نفرت موجود ہے اور اس کی یہ کیفیت ناول کے اختتام تک ہمارے‬
‫سامنے ہے ایسی ہی صورت حال میں مقامی معاشرت کا انجذاب وکٹوریہ کے کردار میں‬
‫کچھ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سردارنی ‪ Sirdarni Amrita Kasal‬کے اثرات کو‬
‫قبول کرتی ہے اور اس سے بے حد متاثر دکھائی دیتی ہے اوروہ اسے اس بات کا یقین‬
‫دالتی ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنا ہی گھر سمجھے اور خود کو ہندوستانی سمجھے تو وہ‬
‫ان کا کسی بھی حد تک ساتھ دیں گے۔‬
‫)‪They would stand by her, once she found she was Indian. (92‬‬
‫اس کے ساتھ اس کے اندر یہ احساس بھی اجاگر کرتی ہے کہ انگریز ان سے‬
‫نفرت کرتے ہیں اور کسی بھی صورت ان جیسے لوگوں کو اپنے ساتھ نہیں مالئیں گے‬
‫جیسا کہ حسب ذیل سطور میں یہی رویہ ہمارے سامنے آتاہے۔‬
‫‪See that (she is) Indian and to act like one because the British‬‬
‫‪have always insulted the Anglo-Indians and would never‬‬
‫)‪ultimately approve of them in any case. (93‬‬
‫پھر وہ وکٹوریا کو خبردار بھی کرتی ہے کہ آزاد ہندوستان میں اس بات کو بھی‬
‫نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ اینگلوانڈینز کس قسم کے ہندوستانی تھے اور یہ جملے نہ‬
‫صرف وکٹوریا بلکہ تمام اینگلوانڈینز کمیونٹی کے لیے چشم کشا ہیں۔ سردارنی کہتی ہے‪:‬‬
‫‪We're going to make you realize that you are Indians-inferior‬‬
‫‪Indians, possibly disloyal Indians, because you've spent a‬‬
‫‪hundred years licking England's boots and kicking us with your‬‬
‫)‪own boots that you're so proud of wearing. (94‬‬
‫’’ہم آپ کو یہ احساس دالنے جا رہے ہیں کہ آپ بھی ہندوستانی ہو مگر کم درجے کے‬
‫ہندوستانی ہو‪ ،‬ممکنہ طور پر غیروفادار ہندوستانی‪ ،‬کیونکہ تم نے سو سال انگریزوں کے‬
‫جوتے چاٹنے اور ہندوستانیوں کو انہی جوتوں کے ساتھ مارنے میں گزارے ہیں تم یہ‬
‫کیوں نہیں سوچتے کہ تم ایک ہندوستانی ہو اور انہیں کی طرح سب کچھ کرتے ہو۔‘‘‬
‫اس کے بعد وکٹوریہ جب انگریز افسر میکالے )‪ (Macualay‬جو کہ اس کی‬
‫عزت لوٹنے کی کوشش کرتا ہے اسے مدافعت کرتے ہوئے قتل کر ڈالتی ہے تو پھر بھی‬
‫سردارنی اس کی ہمت بندھاتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ اب ہم اس قابل ہیں کہ آپ کا تحفظ‬
‫کر سکیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ہم خود بھی آپ‬
‫لوگوں کو ہندوستانی ہی سمجھتے ہیں‪:‬‬
‫‪You are Indian and because you have stuck a blow for us.... for‬‬
‫)‪yourself... we will see that you come to no harm. (95‬‬
‫محولہ باال سطور میں بھی اسے بالخصوص اور پوری اینگلوانڈین کمیونٹی کو‬
‫بالعموم یہ یقین دالیا جارہا ہے کہ ہم نہ صرف آپ کو ہندوستانی سمجھتے ہیں بلکہ آپ‬
‫لوگوں کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچنے دیں گے۔ اسی وجہ سے وکٹوریا کے اندر تحفظ‬
‫ذات کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے والد کو بتاتی ہے کہ اس‬
‫نئے ہندوستان ‪New India‬میں ہم ایسے ادھورے ہندوستانیوں کے لیے کوئی محفوظ‬
‫جگہ نہیں ہے۔‬
‫‪There is not going to be any place for half Indians.‬‬
‫اسی لیے اگرچہ وہ خود کوـ’مکمل ہندوستانی "‪‘ "a whole Indian‬نہیں بنا سکتی‬
‫مگر وہ ساتھ ہی یہ دکھانے کی کوشش بھی ضرور کرتی ہے کہ وہ ’’مکمل انگریز ‘‘‬
‫"‪ "Whole English‬بھی نہیں ہے اسی حوالے سے وہ پیٹرک کو بھی خبردار کرتی ہے‬
‫اور ساتھ ہی اسے بھی از سرنو اپنی شناخت پر غور کرنے کا کہتی ہے۔‬
‫شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے ہی پیش آمدہ خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنے مستقبل‬
‫کو م حفوظ بنانے کے لیے ہندوستانی کردار یعنی سردارنی امرتا کے بیٹے رنجیت سنگھ‬
‫کے ساتھ راہ ورسم کو فروغ دیتی ہے کہ مستقبل کے نئے ہندوستان میں اس کی ادھوری‬
‫شناخت اس رشتے کو مستحکم کرنے سے مکمل ہو جائے گی۔ اسی لیے وہ جب رنجیت‬
‫سنگھ کے ساتھ باہر جاتی ہے تو خود کو مکمل ہندوستانی دکھانے کے لیے ساڑھی پہنتی‬
‫ہے۔ رنجیت کی والدہ امرتا کے سامنے جب وہ ہندوستانی روایتی لباس ساڑھی پہن کر آتی‬
‫ہے تو اس کے سامنے آئینہ رکھ دیتی ہے اور یوں آئینے میں اپنی تصویر دیکھ کر اسے‬
‫ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ہندوستانی شناخت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ناول کی سطور‬
‫میں اس کا تذکرہ کچھ یوں ملتا ہے‪:‬‬
‫‪It was me, but this person in the mirror was more beautiful than‬‬
‫‪me. She was a beautiful Indian girl in her own clothes. I could‬‬
‫‪appraise her as honestly as if she had been any other woman I‬‬
‫‪might see in the street, because she was not `me', Victoria Jones,‬‬
‫)‪the Anglo-Indian. (96‬‬
‫’یہ میں ہی تھی مگر آئینے میں دکھائی دینے والی شخصیت مجھ سے زیادہ‬
‫خوبصورت تھی۔ وہ اس لباس میں کوئی ہندوستانی خوبصورت لڑکی تھی۔ میں ایمانداری‬
‫کے ساتھ اس کی اس طرح ستائش کر سکتی تھی جیسے کہ وہ لڑکی خود وکٹوریا جونز‬
‫اینگلوانڈین کے بجائے ہندوستان کی گلیوں میں گھومنے والی کوئی دوسری (مقامی) لڑکی‬
‫تھی۔‘‘‬
‫مذکورہ باال سطور میں وکٹوریا پہلے اقرار کرتی ہے کہ میں خود ہی آئینے میں‬
‫نظر آرہی تھی مگر اس دفعہ ہندوستانی بن کر زیادہ خوبصورت تھی لیکن اس کے بعد‬
‫واال جملہ بھی معنی کے اعتبار سے خاصا اہم ہے کہ جب وہ کہتی ہے کہ آئینے میں خود‬
‫وہ نہیں بلکہ کوئی اور ہندوستانی لڑکی تھی۔ یوں وہ اپنی اینگلو انڈین شناخت کا بھی انکار‬
‫کرتی ہے اس سے ایک اور بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اس سارے منظر نامے میں‬
‫موثر کردار کے طور پر ابھرتی ہے جو کہ وکٹوریا کی ہندوستانی شناخت‬ ‫سردارنی ایک ٔ‬
‫کے مفروضے کو بھرپور حمایت دیتی ہے۔‬
‫لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وکٹوریا کے خود کو ہندوستانی نظر آنے کے احساس‬
‫میں دراڑ پڑنا شروع ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس لباس میں خود کو آرام دہ محسوس نہیں‬
‫کرتی جیسا کہ اسے اس لباس میں تیز چلنے اور اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے میں رکاوٹ‬
‫محسوس ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ لباس اسے ایسے ماحول میں لے جاتا ہے؛‬
‫جو اس کے لیے اجبنی ہے اور اسے خوفزدہ کر دینے واال ہے۔‬
‫ـ)‪It carries her to a place that was foreign and frightening. (97‬‬
‫جب سردارنی کے بیٹے رنجیت کے ساتھ ساڑھی پہنے وہ باہر نکلتی ہے تو اسے‬
‫احساس فتح و کامرانی سے سرشار دکھائی دیتی‬ ‫ِ‬ ‫اپنی منزل قریب دکھائی دیتی ہے اور وہ‬
‫ہے مگر پھر اچانک وہ رنجیت کے ساتھ بیٹھے ہوئے خود کو مجرم محسوس کرتی ہے‬
‫اور اس کا یوں ہندو ستانی بن کر گھومنے کی کوشش کرنا محض ایک ناکام نقالی دکھائی‬
‫دیتاہے کیوں کہ اگرچہ رنجیت اور اس کی والدہ کچھ زیادہ مذہبی لوگ نہیں ہیں مگر پھر‬
‫بھی اس کی سکھ مذہب کے ساتھ وابستگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود‬
‫کہ وہ وکٹوریا سے جلد از جلد شادی کرنا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی اسے وکٹوریا نام پسند‬
‫نہیں اور وہ اس نام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے صرف اس لیے کہ ایک ہندوستانی کے لیے‬
‫وکٹوریا جیسا انگریزی نام اچھا نہیں ہے۔‬
‫)‪Victoria is not a good name for an Indian. (98‬‬
‫مرحلہ انقطاع پر آ‬
‫ٔ‬ ‫پھر وہ لمحہ آ پہنچتا ہے جب ان دونوں کے درمیان تعلقات‬
‫پہنچتے ہیں اور یہ وہ لمحہ ہے جب رنجیت اسے سکھ مذہب اپنانے کے لیے آمادہ کرتا‬
‫ہے اور تقریب کا انعقاد کرتا ہے تاکہ اس کے نام کی تبدیلی کی جاسکے۔ ایسے میں‬
‫وکٹوریا گھبرا کر وہاں سے بھاگ نکلتی ہے اور وہ اصرار کرتی ہے کہ اس کا نام تو‬
‫وک ٹوریا جونز ہی ہے اور اس کی معاشرتی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک چیچی انجن ڈرائیور‬
‫کی بیٹی ہے۔‬
‫‪(her name is) Victoria Jones, a cheechee engine driver's daugher.‬‬
‫)‪(99‬‬
‫اس واقعے سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تہذیبی بحران کے اس مرحلے میں‬
‫جس فریق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہ دوسرے پر حاوی ہو کر اسے اپنی گرفت میں لینے‬
‫کی پوری کوشش کرتا ہے خواہ وہ مقامی ہو یا غیر مقامی۔ اس ناول میں بادی النظر میں‬
‫کچھ ایسا ہی وقوع پذیر ہوتا ہے کہ ایک مقامی کردار ایک دوسرے غیر مقامی کردار کو‬
‫اپنے مکمل دبائو میں النے کی کوشش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے اہم اثرات میں سے‬
‫ایک اہم پہلو بھی یہی ہوتا ہے کہ نوآبادکار یا حاکم محکوموں کی انفرادیت ختم کرنے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں اور ان کی تہذیبی شناخت کو بھی مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اس‬
‫مقصد کے لیے وہ نوآبادیاتی معاشروں کی تہذیبی جڑیں کاٹ کر وہاں کے لوگوں کی ذہنی‬
‫تبدیلی کا عمل بروئے کار التے ہیں اور یہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے۔‬
‫اس ناول میں بھی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے مگر اس کے نتائج مختلف‬
‫سامنے آتے ہیں کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وکٹوریا ایک انگریز کردار سے بھی دور ہو‬
‫جاتی ہے اور مقامی کردار سے بھی اسے نباہ مشکل نظر آتا ہے۔ قاری کو بھی معلوم ہوتا‬
‫ہے کہ وہ نہ تو انگریز کے ساتھ خوش اور مطمئن رہ سکتی ہے اور نہ ہی کسی‬
‫ہندوستانی کے ساتھ۔ بلکہ اس کا موزوں ساتھی اس کی اپنی نسل کا اینگلوانڈین ہی ہو‬
‫لمحہ انکشاف ہے جب وکٹوریا اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس کی‬ ‫ٔ‬ ‫سکتا ہے۔ اور یہی وہ‬
‫شناخت نہ انگریز بننے سے تکمیل پذیر ہوتی ہے اور نہ بطور ہندوستانی۔ بلکہ اس کی‬
‫شناخت صرف اور صرف ایک حقیقی اینگلوانڈین ہونے میں ہی مضمر ہے اس طرح ناول‬
‫کے مصنف نے اینگلوانڈینز کرداروں کے اذہان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کے ساتھ‬
‫ساتھ مستحکم کرنے کی ک وشش بھی کی ہے کہ وہ بغیر کسی خوف‪ ،‬خدشے اور کمتری‬
‫کے احساس کے اپنی اصل شناخت کے ساتھ بخوبی زندگی بسر کر سکتے ہیں انہیں کسی‬
‫بھی دوسری مصنوعی شخصیت کا سہارا لینے یا اس کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہر‬
‫گز نہیں۔ اس طرح مصنف اینگلو انڈین کمیونٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کے عالوہ‬
‫ان میں اطمینان اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی سعی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔‬
‫(‪)۱۰۰‬‬
‫جبکہ راقم کے زیر مطالعہ ایک اور ناول’’ ‪ Vanity Fair‬وینٹی فیئر‘‘ کا مفصل‬
‫تعارف گزشتہ باب میں شامل کیا گیا ہے۔ مگر اس ناول میں چونکہ ہند مسلم تہذیب و‬
‫تاریخ یا ہندوستانی ثقافت و معاشرت یا تہذیبی بحران کا تذکرہ موجود نہیں بلکہ اس ناول‬
‫میں ایسے معاشرے اور کرداروں کو پیش کیا گیا ہے جنہیں سرمایہ دارانہ تمدن میں‬
‫مادیت پرستی کی دوڑ میں شامل کر کے کسی بھی قسم کی اخالقی اقدار سے محروم کر‬
‫کے محض پیسے کمانے کی مشین بنا دیا ہے۔ اسی قسم کی صورتحال کی عکاسی ناول‬
‫کی ہیروئن ربیکا شارپ )‪ (Rebecca Sharp‬کے کردار میں بھی ملتی ہے۔ وہ غریب‬
‫خاندان میں پیدا ہوئی مگر اب وہ کسی دولتمند خاندان میں شادی کرنا چاہتی ہے‪ ،‬اس‬
‫مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ یوں اس ناول‬
‫میں ہمیں معاشرے سے اقدار کے خاتمے اور نفسا نفسی کا منظر نامہ ملتا ہے۔ اسی لیے‬
‫اس ناول کا تفصیلی تجزیہ اس مقالے میں شامل نہیں کیا گیا۔‬

‫حوالہ جات‬
‫محمد صدیق قریشی‪ ،‬کشاف اصطالحات تاریخ‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان‪ ،‬اسالم‬ ‫(‪) ۱‬‬
‫آباد‪ ،‬طبع اول ‪۱۹۸۸‬ء‪ ،‬ص ‪۱۵۷‬‬
‫مظفر حسن ملک‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬ثقافتی بشریات‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد‪،‬‬ ‫(‪) ۲‬‬
‫‪ ،۲۰۰۴‬ص ‪۹۷‬‬
‫وہاب اشرفی‪ ،‬مابعد جدیدیت (مضمرات و ممکنات)‪ ،‬پورب اکادمی‪ ،‬اسالم‬ ‫(‪) ۳‬‬
‫آباد‪ ،‬ط‪ :‬اول ‪۲۰۰۷‬ء‪ ،‬ص ‪۱۱۸‬‬
‫‪Moore, Robin, J. Paul Scottls Raj. London, Heinamann‬‬ ‫)‪(4‬‬
‫‪1990, p:172‬‬
‫سید کامران کاظمی‪ ،‬مقالہ نگار‪ ،‬اردو ناول میں عصری آگہی‪ ،‬غیر مطبوعہ‬ ‫(‪) ۵‬‬
‫مقالہ برائے پی ایچ ڈی‪ ،‬وفاقی اردو یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،۲۰۱۳ ،‬ص ‪۱۲‬‬
Donald Hannah, Dirty Type Scripts, Paul Scott" working (6)
method in "The Raj Quartet, The Journal of Commonwealth
Literature. XXVII. 1(1192) p:157
Satya Brat Singh, Historians distanced from History, (7)
The Commonwealth Review, 1-2(199) p:146
Peter Childs, Paul Scott's Raj Quartet: History and (8)
Division, 1998, p:11
Loomba, Ania. Colonialism/Post Colonialism "The New (9)
Critical Idioms, New York; Routledge 2004, p:81
‫ ایجوکیشنل بک‬،‫ علی گڑھ‬،‫ مترجم ابوالکالم قاسمی‬،‫ ناول کافن‬،‫ای۔ایم فاسٹر‬ )۱۰(
۲۰ ‫ء ص‬۲۰۰۱ ،‫ہائوس‬
Scott, p:55,56) (Quoted by Alen a Michalkova, British and (11)
Indian Identities and clashes in Paul Scott's The Jewel in the
Crown" Bachelor Major Thesis, Masaryk University 2007, p:6,7
Goonetilleke DCRA, Images of Raj: South Asia in the (12)
Literature of Empire, Macmillan London, 1998, p:139
Scott, Paul, The Jewel in the Crown, University of Chicago (13)
Press, USA, 1998
The Jewel in the Corwn, p:59 (14)
The Jewel in the Crown, p:67 (15)
The Jewel in the Crown, p:225 (16)
The Jewel in the Crown, p:263 (17)
The Jewel in the Crown, p:286 (18)
The Jewel in the Crown, p:286 (19)
The Jewel in the Crown, p:43 (20)
The Jewel in the Crown, p:44 (21)
The Jewel in the Crown, p:192 (22)
The Jewel in the Crown, p:192 (23)
The Jewel in the Crown, p:193 (24)
The Jewel in the Crown, p:193) (25)
The Jewel in the Crown, p:257 (26)
The Jewel in the Crown, p:262 (27)
The Jewel in the Crown, p:275 (28)
The Jewel in the Crown, p:262,63 (29)
The Jewel in the Crown, p:275 (30)
The Jewel in the Crown, p:275 (31)
The Jewel in the Crown, p:275 (32)
The Jewel in the Crown, p:275 (33)
The Jewel in the Crown, p:190 (34)
The Jewel in the Crown, p:172 (35)
The Jewel in the Crown, p:172 (36)
The Jewel in the Crown, p:172 (37)
The Jewel in the Crown, p:259 (38)
The Jewel in the Crown, p:291 (39)
Scott, Paul, The Day of Scorpion, Prologue, Arrow Books, (40)
Random House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 1997, p:8
The Day of Scorpion, Prologue, p:8 (41)
The Day of Scorpion, p: 18 (42)
The Day of Scorpion, p: 22 (43)
The Day of Scorpion, p: 22 (44)
The Day of Scorpion, p: 22 (45)
The Day of Scorpion, p: 69 (46)
The Day of Scorpion, p: 71 (47)
The Day of Scorpion, p: 40 (48)
The Day of Scorpion, p: 38-39 (49)
Scott, Paul, The Tower of Silence, Arrow Books, Random (50)
House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005, p:127
The Tower of Silence, p:45 (51)
The Tower of Silence, p:45 (52)
Scott, Paul, A Division of the Spoils, Arrow Books, Random (53)
House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005, p:8
A Division of the Spoils, p:8 (54)
A Division of the Spoils, p:8 (55)
A Division of the Spoils, p:8 (56)
A Division of the Spoils, p:37 (57)
A Division of the Spoils, p:160 (58)
A Division of the Spoils, p:161 (59)
A Division of the Spoils, p:203 (60)
A Division of the Spoils, p:418 (61)
A Division of the Spoils, p:478 (62)
A Division of the Spoils, p:478 (63)
A Division of the Spoils, p:484 (64)
A Division of the Spoils, p:404 (65)
The Jewel in the Crown, p:411 (66)
The Jewel in the Crown, p:231-232 (67)
Nancy Wilson Ross, Saturday Review, p:4 (68)
The Tower of silence, P:255 (69)
Goonetilleke D.C.R.A, Images of the Raj: South Asia in the (70)
titerature of Empire: London, Mackmillan 1998, P:139
Michael Gorra, After Empire, Scott, Waipal, Rushdie, (71)
Chicago, The university of chicago, Press,1997, P:123
Government of India, Act, 1935 (72)
The Constitution of India, 1950, .....Art: 366, Sec:2, Govt of (73)
India, 1963,p:201
D'Souza, A. A. in younger, C. 1984 (74)
Gaikwad, V. R. in younger, C. 1984 (75)
Gaikwad, V. R. 1967 (76)
Eric, Erikson, Theory of Stages of Psycho-social (77)
Delvelopment, Norton, Newyork, 1950
Gist, N. P. 1973 (78)
Gist, N. P. 1972 (79)
Anthony, Frank,Britain's Betrayal in India: The story of (80)
Anglo-Indian Race, Allied Press Bombay, 1969, p:394-395
Bhowani Junction, Penguin Books, New Delhi, 2007, p:25 (81)
Bhowani Junction, p:9 (82)
Bhowani Junction, p:10 (83)
Bhowani Junction, p:12 (84)
Bhowani Junction, p:27-28 (85)
Bhowani Junction, p:10 (86)
Bhowani Junction, p:14 (87)
Justin D, Edward, Post Colonial Literature, A Reader's (88)
Guide; Macmillan, New York 2008, p:140
Bhowani Junction, p:28 (89)
Bhowani Junction, p:28 (90)
Bhowani Junction, p:25 (91)
‫)‪Bhowani Junction, p:144 (92‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:143 (93‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:143 (94‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:144 (95‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:144 (96‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:303 (97‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:204 (98‬‬
‫)‪Bhowani Junction, p:258 (99‬‬
‫‪Willian Thackery, Vanity Fair, Edited by John Souther‬‬ ‫)‪(100‬‬
‫‪Land, Oxford University Press, UK, 1982.‬‬

‫باب پنجم‬
‫منتخب انگریزی فکشن کا کرداری مطالعہ‬
‫الف‪ :‬مسلم کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ‬
‫کرداری مطالعہ‪ :‬اے پیسج ٹو انڈیا‬
‫ناول انسانی کردار کی مصوری کا نام ہے۔ کردار )‪ (Character‬ناول یا افسانے‬
‫کا ایک اہم اور مرکزی جزو ہے اور اساسی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ کردار نگاری‬
‫)‪ (Characterization‬سے مراد کردار کی پیش کش کا وہ انداز یا طریقہ ہے جس کے‬
‫ذریعے تخلیق کار یا مصنف کسی بھی کردار کو قاری کے سامنے التا ہے اور کردار کی‬
‫تشکیل بھی کرتا ہے۔ ناول کی صنف اپنی وسعت پذیری کی بنا پر کردار نگاری کے لیے‬
‫اپنے اندر وسیع امکانات رکھتی ہے اور افسانہ نگار کی بہ نسبت ناول نگار کو مختلف‬
‫زاویوں سے اپنے کردار کو اجاگر کرنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ کرداروں سے‬
‫کوئی سادہ ہ وتا ہے کوئی تہہ دار‪ ،‬کوئی جامد اور کوئی متحرک‪ ،‬سب کی اپنی اپنی‬
‫خصوصیات ہوتی ہیں۔‬
‫ای ایم فاسٹر نے اپنے ناول ’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ میں بڑی کامیابی کے ساتھ مختلف‬
‫کرداروں کو پیش کیا ہے۔ یہ کردار تصویروں کی ایک گیلری کا منظر نامہ اجاگر کرتے‬
‫بامسمی ہیں۔ کرداروں کے‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ تصویروں کی اس گیلری میں کچھ کردار تو واقعی اسم‬
‫اس تنوع میں ہماری مالقات انگریز اور ہندوستانی ہر دو قسم کے کرداروں سے ہوتی‬
‫ہے۔ ہندوستانیوں میں ہندومسلم‪ ،‬مرد خواتین سبھی شامل ہیں۔ عمومی طور پر کسی بھی‬
‫کردار کا تعارف اس کے افعال اور الفاظ یا مکالمات کے ذریعے ہوتا ہے یعنی مصنف یا‬
‫تخلیق کار انہی دو طریقوں سے اسے قاری کے سامنے کھولتا ہے مگر فاسٹر اس سے‬
‫بڑھ کر کسی بھی کردار کے اظہار کے لیے اس کے بارے میں اپنا ذاتی تبصرہ بھی‬
‫شامل کر دیتا ہے جس سے کردار کی کئی خفیہ جہات اور گوشے بھی قاری کے سامنے‬
‫عیاں ہو جاتے ہیں۔‬
‫جہاں تک دو مختلف النوع نسلوں یعنی انگریزوں اور مسلمانوں کی لفظی پیکر‬
‫تراشی کا تعلق ہے‪ ،‬فاسٹر بطور مجموعی انہیں ایک گروپ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔‬
‫جیسا کہ مسلم قوم کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں انگریز خود پسندی اور‬
‫تکبر کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو بظاہر انگریز مخالف اور کٹر قومیت‬
‫پرست دکھایا گیا ہے۔ ہندوئوں کے ساتھ ان کے رویے کو تنگ نظری واال اور فرقہ‬
‫واریت پر مبنی دکھایا گیا ہے۔‬
‫اس ناول میں کرداروں کے دو بڑے گروہ ہیں جن میں انگریز اور ہندوستانی شامل‬
‫ہیں۔ یہ کردار انفراد ی طور پر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہیں۔ انگریز مردوں میں‬
‫رونی )‪ (Ronny‬اور فیلڈنگ )‪ (Fielding‬کے کردار‪ ،‬انگریز خواتین میں دو کردار ایڈال‬
‫کیوسٹڈ )‪ (Adela Quested‬اور مسز مور )‪ (Mrs. Moore‬جبکہ ہندوستانیوں مینعزیز‬
‫)‪(Aziz‬اور گوڈ بولے )‪ (Godbole‬کے کردار اہم ہیں۔ یہ کردار اس لیے بھی بوقلموں‬
‫اور مختلف النوع ہیں کہ مثالً گوڈ بلے ایک برہمن ہے جبکہ عزیز ایک عام مسلمان ہے‬
‫فیلڈنگ ایک آزاد خیال انگریز ہے۔ جب کہ رونی جو کہ انگریز سٹی مجسٹریٹ ہے اس کا‬
‫کردار اس کے برعکس ہے۔‬
‫ڈاکٹر عزیز اس ناول کا اہم اور مرکزی کردار ہے۔ جو کہ چندراپور کا ذہین اور‬
‫متلون مزاج مسلمان ڈاکٹر ہے۔ اس کے تین بچے ہیں اور اس کی بیوی کا ناول کے آغاز‬
‫سے قبل ہی انتقال ہو چکا ہے۔ عزیز کو شاعری کا دلدادہ دکھایا گیا ہے۔ اسی دوران‬
‫ہندوستان میں دو انگریز خواتین مسز ُمور اور ایڈال کیوسٹڈ وارد ہوتی ہیں اور اس دوران‬
‫رونی ہیسلوپ سے مالقات کے لیے چندراپور تشریف التی ہیں۔ کیونکہ مجسٹریٹ رونی‬
‫مسز مور کا بیٹا اور ایڈال کیوسٹڈ کا منگیتر ہے۔ اسی دوران ان کی مالقات مقامی‬
‫ہندوستانیوں سے ہوتی ہے اور وہ دوسرے انگریزوں کے برعکس ہندوستان کے اصل‬
‫کلچر کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں۔ انہی حاالت میں ان کی مالقات ڈاکٹر عزیز سے‬
‫ہوتی ہے اور پھر ایڈال کے ساتھ مارابار غاروں کے اندر وہ ہولناک واقعہ رونما ہوتا ہے‬
‫جس کی وجہ سے ایڈال کو اس تشویشناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس میں‬
‫ڈاکٹر عزیز پر عصمت دری کا الزام عائد ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ اس الزام سے بری‬
‫الذمہ ہو جاتی ہے اور تصحیح کرتی ہے کہ اسے غلط فہمی ہوئی تھی۔‬
‫یہاں عزیز کے کردار کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ اس کے رویے میں تین‬
‫اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ناول کے آغاز میں اس کا رویہ انگریزوں کے ساتھ ناراضی‬
‫اور مخاصمت پر مبنی ہے بعد میں وہ ان کا معترف اور ان کے لیے رطب اللسان دکھائی‬
‫دیتا ہے۔ مگر ناول کے اختتام پر اس کا رویہ انگریزوں کے ساتھ نفرت پر منتج ہوتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر عزیز کے کردار کے مابعد نوآبادیاتی سیاق میں تجزیاتی مطالعے سے یہ‬
‫بات عیاں ہوتی ہے کہ ای ایم فاسٹر نے عزیز کے کردار کو وسیع تناظر میں مصور کیا‬
‫ہے مثالً ناول کے باب ہفتم میں فاسٹر نے لکھا‬
‫‪In every remark (Aziz) found a meaning but not always the true‬‬
‫)‪meaning, and his life though vivid was largely a dream. (1‬‬
‫یہ اقتباس فیلڈنگ کے گھر میں عزیز اور فیلڈنگ کی پہلی مالقات کے دوران‬
‫ہونے والی گفتگو سے لیا گیا ہے۔ جس میں فیلڈنگ نے فنون لطیفہ کے حوالے سے فن‬
‫مصوری کے بارے میں ایک تحریک جس کا نام‪ Impressionist Movement‬ہے‬
‫اس کا ذکر کیا ۔ عزیز نے ان ریمارکس سے یہ مطلب اخذ کیا کہ ان کلمات سے فیلڈنگ‬
‫یہ بتانا چاہتا ہے کہ مغربی ثقافت کے بارے میں میرا یہ معلومات حاصل کرنا ایک‬
‫احمقانہ فعل ہے۔ عزیز کی یہ بے اطمینانی زیادہ دیر تک نہیں چلتی مگر اس واقعہ سے‬
‫بعد میں جنم لینے والی غلط فہمیوں کا اندازہ ضرور ہوتا ہے جو آخر کار ان کی دوستی‬
‫میں دراڑ ڈالتے ہیں۔‬
‫عزیز کا وجدان اور تخیل ایک طرف اس کی مسز مور اور فیلڈنگ کے ساتھ‬
‫گہری اور سچی دوستی کی طرف درست رہنمائی کرتا ہے تو دوسری طرف فاسٹر ہمینیہ‬
‫بھی بتاتا ہے کہ اس کے وجدان کی حقیقت میں کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ یہ ایک بے بنیاد‬
‫واہمہ ہے اور کئی مرتبہ اس کو گمراہ بھی کیا ہے۔ مگر اس میں فاسٹر عزیز کے کردار‬
‫پر خود ہی یہ الزام دھرتے ضرور نظر آتا ہے کہ اس طرح کے خیاالت و نظریات نے‬
‫اس کو دوستیوں سے محروم کیا۔ مگر فاسٹر کو بین الثقافتی تعلقات کی نوعیت اور اس‬
‫میں حائل دشواریوں کا سمجھنا مشکل نظر آتا ہے۔‬
‫عزیز کے کردار کی اس کمزوری کو پورے ہندوستان کی کمزوری پر محمول‬
‫کرتے ہوئے فاسٹر عزیز کے کردار کو حقیقت سے دور قرار دیتا ہے۔ جس کی کوئی‬
‫منطقی وجوہ بھی بیان نہیں ہو سکتیں اور عزیز کے اس طرح کے فوری رد عمل تعلقات‬
‫کو بنانے سے زیادہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اسی قطع تعلق والی خامی‬
‫کو پورے ہندوستان ک ے مزاج کی خامی بتایا جاتا ہے اور مارا بار غاروں میں وقوع پذیر‬
‫ہونے والے واقعے کو بھی اس سے جوڑا جاتا ہے کردار کی اس طرح کی خامی کی‬
‫تشخیص فاسٹر کی تحریر کا جزو الینفک ہے کیوں کہ مصنف افعال اور مکالمات کو پیش‬
‫کرنے کے ساتھ ساتھ کرداروں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے کے لیے موازنہ و‬
‫مقابلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں مگریہ حتمی سچائی ہر گز نہیں ہو سکتی کیوں کہ اگر‬
‫ایک طرف عزیز کے تخیل اور خیال آرائی کو اس کی خامی اور کمزوری بتایا گیا ہے تو‬
‫ناول کے دوسرے حصے میں اس کو سراہا بھی گیا ہے۔‬
‫عزیز کے کردار میں پائی جانے والی لچک کا اظہار بھی فاسٹر نے کچھ اس طرح‬
‫سے کیا ہے کہ ثقافتوں اور مزاجوں کے فرق کے باوجود عزیز اور فیلڈنگ کئی قسم کی‬
‫سماجی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دوستی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ انہیں ایک‬
‫دوسرے کی ذات اور کردار کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس کے باوجود‬
‫فیلڈنگ کے گھر میں عزیز مسلمانوں کے شاندار ماضی اور مغلوں کی حکمرانی کے‬
‫بارے میں اپنی پسندیدہ رائے کا اظہار بھی بغیر کسی جھجک کے کرتا ہے۔ فیلڈنگ اس‬
‫کے اس بیان سے متحیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت کی تعریف کرتا ہے۔ جس‬
‫سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ انگریزوں میں بھی‬
‫ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ ہندوستانیوں کو محض لعن طعن کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ‬
‫کرنے کی بجائے ان سے مشفقانہ رویے سے پیش آتے ہیں فیلڈنگ کے گھر عزیز اس‬
‫یقین کامل کے ساتھ باہر قدم نکالتا ہے کہ ‪"No Englishman understands‬‬
‫"‪ except Mr. Fielding.‬پھر مارا بار واقعہ کے بعد جب عزیز کو گرفتار کیا جاتا ہے‬
‫اور اس پر مقدمہ چالیا جاتا ہے تو ان کے درمیان اعتماد کے رشتے میں دراڑ آ تی ہے‬
‫اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں مگر زندانی عقوبت نے ایک محبت کرنے والے پڑھے‬
‫لکھے ہندوستانی کو ایک سخت گیر منتقم مزاج شخص میں بدل دیا ہے جو کہ اپنے‬
‫کیریئر کو تباہ کرنے والی ایڈال سے انتقام لینے پر تال ہوا ہے ایسے موقع پر فیلڈنگ جب‬
‫اسے ایڈال کو معاف کرنے کا درس دیتا ہے تو عزیز انکار کردیتا ہے۔ ایسے میں عزیز‬
‫اسے معاف نہ کرنے واال‪ ،‬انتقامی شخص نظر آتا ہے دوسرے لفظوں میں سارے‬
‫ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خالف جب کوئی ایسا موقع میسر آتا ہے تو ان کا رویہ بھی‬
‫اسی مزاج کی عکاسی کرتا ہے حاالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یا ایسی نہیں ہے۔‬
‫ناول کے باب ‪ xxvii‬کا یہ اقتباس فیلڈنگ کے رویے کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس‬
‫مقدمے کے بعد خود منصف بن گیا ہے اور اپنی رائے کے اظہار میں کوئی تامل نہیں‬
‫کرتا۔‬
‫"‪Your emotions never seem in proportion to their objects, Aziz‬‬
‫‪Is emotion a sack of potatoes, so much the pound, to be‬‬
‫)‪measured out? Am I a machine? (2‬‬
‫مذکورہ باال اقتباس ہندوستان پر انگریزی استعمار کے ایک بڑے مسئلے کی‬
‫نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا پر برطانوی قبضے کا آغاز دراصل برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی‬
‫سرمایہ داری اور معاشی سرگرمیوں کی صورت میں ہوا اور انگریزوں نے ہندوستانیوں‬
‫کی نااہلی‪ ،‬ابتری اور اپنی چالبازیوں کے نتیجے میں اسے قابل منافع اور منظم سرمایہ‬
‫داری نظام میں تبدیل کر دیا۔ جب کہ عزیز اس قسم کی مادیت پسندی پر معترض ہے جو‬
‫کہ روحانیت اور محبت جیسے غیر محسوس اور غیر واضح معامالت کے اوپر منافع اور‬
‫کارگزاری کو ترجیح دیتی ہے۔‬
‫مابعد نوآبادیاتی سیاق میں اگر ڈاکٹر عزیز کے کردار کا مطالعہ انگریزوں کے‬
‫متعصبانہ اور نسلی عصبیت کے رویے کے حوالے سے کیا جائے تو پورے ناول میں‬
‫ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں نہ صرف ڈاکٹر عزیز بلکہ دوسرے کئی مقامی کردار‬
‫بھی اس تعصب کا شکار بنتے ہیں مثالً میجر کا لنڈر ایک ہندوستانی نوجوان کے مجروح‬
‫چہرے پر مرچیں چھڑکنے کے عمل کو اپنا کارنامہ بتاتا ہے۔ میکبرائیڈ اپنے تعصب کا‬
‫اظہار یوں کرتا ہے کہ جب وہ حقارت سے ہندوستانیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ‬
‫لوگ انگریز عورتوں کے بارے میں منفی جذبات رکھتے ہیں مس ڈیرک ‪(Miss‬‬
‫)‪ Dereck‬اپنے ہندوستانی مالزموں کے ساتھ انتہائی متکبرانہ رویے کے ساتھ پیش آتی‬
‫ہے۔‬
‫ایسا ہی رویہ ڈاکٹر عزیز کے ساتھ خاص طور پر مارا بار غاروں والے واقعے‬
‫کے بعد روا رکھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ گورے حکمران اپنے آپ کو‬
‫برتر جبکہ مقامی آبادی کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ استعماری حکمرانوں کی نفسیات ہے۔‬
‫ہندوستانیوں کے ساتھ اس طرح کا حقارت آمیز رویہ تاریخی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬ثقافتی اور روایتی‬
‫رویے پر مبنی ہے۔ مارا بار غاروں واال واقعہ کتنا اہم ہے اور عزیز کے کردار پر اثر‬
‫انداز ہونے کے ساتھ دوسرے مقامیوں پر اس کے کیا اثرات ہیں اس کی اہمیت کا اندازہ‬
‫‪Child Peter‬کی اس رائے سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں مقامی‬
‫آبادی اور آبادکاروں کے درمیان تعلقات میں صرف انتشار‪ ،‬ابتری‪ ،‬غلط فہمیوں کے سوا‬
‫کچھ نہیں ہے۔‬
‫‪The incident in the caves is the central moment in the novel. It is a‬‬
‫‪muddle or mystery that shows that Indian can only present‬‬
‫‪confusions of moral, misunderstandings and misreading between‬‬
‫)‪the colonialists and the locals.(3‬‬
‫اسی واقعے کے بعد مسٹر میکبرائیڈ عزیز کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار‬
‫اس رائے میں کرتے ہیں کہ عزیز اپنے آپ کو بظاہر ایک معزز ہندوستانی دکھانے کے‬
‫اعلی سرکاری مالزمت حاصل کرلی ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫لیے یوں دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے کہ اس نے‬
‫جب کہ حقیقت میں وہ دہری اور منافقت بھری زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا منفی کردار‬
‫اس کے مثبت کردار پر حاوی ہے کیونکہ میکبرائیڈ کے مطابق عزیز جس ظالمانہ اور‬
‫بے رحمانہ سلوک کا مرتکب انگریز عورتوں کے ساتھ ہوا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔‬
‫پولیس والے بھی مقامی باشندوں پر الزام دھرنے میں جس سرعت اور مستعدی کا مظاہرہ‬
‫کرتے ہیں وہ بھی استعماری رویے کا حقیقی عکس ہے۔ انگریز پولیس والے کی رائے‬
‫مالحظہ ہو‪:‬‬
‫‪Quite possible, I'm afraid, when an Indian goes bad, he goes not‬‬
‫)‪only very bad, but very queer. (4‬‬
‫پولیس کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ موسمی اور جغرافیائی خطوں کے متعلق اپنے‬
‫نظریے کی بنیاد پر کسی بھی ہندوستانی کے رویے سے اسے حیرانی نہیں ہوتی اور اس‬
‫کی مندرجہ ذیل رائے اس کے انہی خیاالت و جذبات کا عکس ہے۔‬
‫‪All unfortunate natives are criminals at heart, for the simple‬‬
‫‪reason that they live south of latitude 30. They are not to blame,‬‬
‫‪they have not a dog's chance... we should be like them if we‬‬
‫)‪settled here. (5‬‬
‫ڈاکٹر عزیز کے کرداری مطالعے کے دوران ایک اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے‬
‫کہ جب ہندوستانی انگلینڈ میں قیام پذیر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ انگریزوں کا رویہ بڑی‬
‫قربت واال اور عزت و احترام پر مبنی ہوتا ہے مگر یہی گورے جب ہندوستان میں آتے‬
‫ہیں تو پھر ان کا رویہ نہ صرف ہندوستانیوں کے ساتھ بدل جاتا ہے بلکہ اینگلوانڈین‬
‫کرداروں ک ے ساتھ دوستی کا رشتہ بناتے ہوئے بھی وہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‬
‫اس لیے ڈاکٹر عزیز ایک ہندوستانی وکیل حمید ہللا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انگریزوں‬
‫اور ہندوستانیوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر باہمی دوستی کو صرف انگلستان میں ہی‬
‫ممکن بتاتا ہے ہندوستان میں نہیں‪:‬‬
‫)‪Only contend that is possible in England. (6‬‬
‫عزیز اس قسم کی صورت حال پر نہ صرف رنجیدہ ہے بلکہ مشتعل ہے کہ اس‬
‫کے اندر کے غصے‪ ،‬سوچ اور محسوسات کا اندازہ ذیل کی سطور سے لگایا جا سکتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪Why talk about the English? Brrrr . . . ! Why be either friends with‬‬
‫‪the fellows or not friends? Let us shut them out and be jolly.‬‬
‫‪Queen Victoria and Mrs. Bannister were the only exceptions, and‬‬
‫)‪they're dead. (7‬‬
‫ناول کے اختتامی حصے میں عزیز اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتا ہے جب وہ‬
‫کہتا ہے کہ ہم ہر قیمت پر انگریزوں کو یہاں سے نکال کرر ہیں گے۔‬
‫‪Aziz in an awful rage danced this way and that, not knowing what‬‬
‫‪to do, and cried: "Down with the English anyhow. That's certain.‬‬
‫‪Clear out, you fellows, double quick, I say. We may hate one‬‬
‫‪another, but we hate you most. If I don't make you go, Ahmed will,‬‬
‫‪Karim will, if it's fifty-five hundred years we shall get rid of you,‬‬
‫)‪yes, we shall drive every blasted Englishman into the sea. (8‬‬
‫’’عزیز انتہائی غصے میں گھوڑے کو اِدھر سے اُدھر ‪ ،‬اُدھر سے اِدھر بھگا رہا‬
‫تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے۔ پھر وہ چیخا۔ ہم کسی بھی قیمت پر انگریزوں‬
‫کو نکالیں گے۔ یہ یقینی بات ہے۔ تم یہاں سے چلے جائو‪ ،‬میں کہتا ہوں یہاں سے جلدی‬
‫بھاگ جائو۔ ہم ایک دوسرے سے نفرت کر سکتے ہیں مگر ہم سب سے زیادہ نفرت تم‬
‫سے کرتے ہیں۔ اگر میں تمہیں یہاں س ے نہیں بھگا سکا تو احمد اور کریم تمہیں ضرور‬
‫نکالیں گے اس میں خواہ پچاس یا پانچ سو سال لگ جائیں مگر‪ ،‬ہم تم سے نجات حاصل‬
‫کر کے رہیں گے۔ ہم تمام انگریزوں کو سمندر بُرد کر دیں گے۔‘‘‬
‫اسی تسلسل میں فیلڈنگ اور عزیز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ آپس میں‬
‫ایک د وسرے سے دوبارہ دوستی کرنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہیں۔ مگر گھوڑے بدک کر‬
‫ایک دوسرے سے دور ہٹ جاتے ہیں اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جاتا ہے انہی آخری‬
‫سطور میں عزیز یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اور فیلڈنگ اس وقت تک دوست نہیں بن‬
‫سکتے جب تک ہندوستان آزاد نہیں ہو جاتا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کوئی انگریز یا‬
‫کوئی مقامی بھی ہندوستان کی آزادی تک باہم دوست نہیں بن سکتے۔ پھر ناول کے آخری‬
‫دو الفاظ بھی عزیز کے منہ سے نکلتے ہیں‬
‫"‪"Not yet‬‬
‫عزیز کے کردار میں پائے جانے والے تمام تضادات کے باوجود عزیز ایک حقیقی‬
‫محبت کرنے واال آدمی ہے اور اس کی یہ محبت اس کے داخلی اور باطنی وجدان پر‬
‫مبنی ہے جیسا کہ مسز مور کے ساتھ تعلقات ہوں یا فیلڈنگ سے دوستی۔ اگرچہ فاسٹر نے‬
‫عزیز کے کردار کی اس جہت کو ایک خوبی کے طور پر بیان کیا ہے مگر یہ چیز بعض‬
‫اوقات خود عزیز کو بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔ عزیز کے نزدیک فیلڈنگ کا یہ بہت بڑا‬
‫جرم ہے کہ وہ اس مقدمے مینفتح کے بعد معاف کرنے کا کہتا ہے اور یہ اسی وجہ سے‬
‫ہے کہ وہ حقائق کا درست ادراک اور تجزیہ کرنے کے بجائے دل کی آواز پر کان دھرے‬
‫ہوئے ہے جبکہ دوسرے تمام دروازے اس نے مقفل کر رکھے ہیں۔ یہ اپروچ بعض اوقات‬
‫انسان سے غ یر شعوری طور پر غلط فیصلے بھی صادر کراسکتی ہے۔ بحیثیت مجموعی‬
‫فاسٹر نے عزیز کے کردار کو جزوی طور پر ہمدردی کے ساتھ پیش کیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر عزیز کے بعد اسی ناول کے اہم مسلم کرداروں میں سے ایک محمود علی‬
‫)‪(Mahmood Ali‬کا کردار ہے جو کہ ڈاکٹر عزیز کا قریبی ساتھی اور نامور مسلمان‬
‫وکیل ہے۔ وہ اپنا بیشتر وقت عزیز اور حمید ہللا کے ساتھ گزارتا ہے۔ محمود اور حمید ہللا‬
‫کے درمیان یہ بحث بھی جاری رہتی ہے کہ کیا ہندوستانی اور گورے آپس میں دوست ہو‬
‫سکتے ہیں یا نہیں‪:‬‬
‫)‪Whether or not it is possible to be friends with an Englishman. (9‬‬
‫یعنی دوسرے لفظوں میں ناول نگار نے بین السطور اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ‬
‫کیا مقامیوں اور غیر ملکیوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ ناول‬
‫موقف‬ ‫کے دوسرے باب میں خاص طور پر اس کا ذکر ملتا ہے جس میں حمید ہللا کا یہ ٔ‬
‫سامنے آتا ہے کہ اس طرح کی دوستی ممکن ہے جبکہ محمود علی اس خیال کا حامی ہے‬
‫کہ دونوں کے مابین اچھا تعلق اور دوستی ممکن نہیں ہے۔ وہ عزیز کے مقدمے میں اس‬
‫کا دفاع کرتا ہے۔ انگریزوں کے بارے میں ہمیشہ مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔‬
‫ایک اور اہم مسلمان کردار نواب بہادر )‪ (Nawab Bahadur‬کا ہے جو کہ‬
‫چندرا پور ضلع میں ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ نواب ان کا لقب ہے۔ وہ بڑی عمر کے‬
‫آدمی ہیں۔ ناول نگار کے مطابق وہ بڑے جاگیردار‪ ،‬انسان دوست اور مخیر انسان ہیں‪:‬‬
‫‪.......a big proprietor and a philanthropist, a man of benevolence‬‬
‫)‪and decision. (10‬‬
‫شاید اتنی اچھی رائے دینے کے پیچھے یہ بڑی وجہ کارفرما نظر آتی ہے کہ نواب‬
‫صاحب ہندوستان میں انگریزی سرکار کے حمایتی ہیں اور ان کی خدمت میں پیش پیش‬
‫رہتے ہیں۔ ان کی کار بھی ان کی خدمت کے لیے وقف رہتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے‬
‫ساتھ وفاداری اور مہمان نوازی جیسی اچھی خصوصیات سے متصف ہیں۔ مارا بار‬
‫غاروں والے واقعے کے بعد نواب بہادر کی رائے مینکچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ‬
‫ڈاکٹر عزیز کی بے گناہی کا اعالن کرتے ہیں اور عدالت میں اس کے مقدمے کی‬
‫کارروائی سننے کے لیے خاص طور پر عدالت جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے‬
‫کے فیصلے ک ے بعد وہ اپنا نواب کا خطاب واپس کر دیتے ہیں یعنی کہ وہ بھی جذباتیت‬
‫کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں‪ ،‬اور صرف اپنے اصلی نام ’’ذوالفقار‘‘ سے ہی پکارے جاتے‬
‫جشن ضیافت کا اہتمام‬
‫ِ‬ ‫ہیں۔ عزیز کی مقدمے میں بریت اور فتح کے بعد ان کے گھر‬
‫پرجوش طریقے سے کیا جاتا ہے جس میں عزیز‪ ،‬فیلڈنگ اور حمید ہللا چھت پر سوتے‬
‫ہیں اور مقدمے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے حوالے سے دلچسپ واقعہ‬
‫جو ناول میں شامل ہے کچھ اس طرح ہے کہ انہوں نے جب پہلی کار خریدی تو انہوں‬
‫نے کار چالتے وقت ایک شرابی کو کار کے نیچے کچل دیا تھا۔ تب سے وہ آدمی آسیب‬
‫کی طرح ان کے ذہن میں سوار ہو چکا تھا۔ نواب بہادر خدا اور قانون کے سامنے معصوم‬
‫تھے۔ کیوں کہ انہوں نے دگنا خون بہا ادا کیا تھا۔ یہ ان کا ذاتی راز بھی تھا جس سے وہ‬
‫ہمیشہ خوفزدہ رہتے۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں تھے کہ مذہبی خیاالت ان کے ذہن‬
‫پر حاوی ہو چکے تھے۔ ٰلہذا اب وہ گناہ و ثواب کا حساب کتاب کرتے رہتے تھے۔‬
‫حمید ہللا بھی ہندوستانی مسلمان اور ڈاکٹر عزیز کا اچھا دوست ہے۔ وہ کیمبرج‬
‫یونیورسٹی انگلستان سے فارغ التحصیل ہے اور چندراپور میں ایک نمایاں وکیل ہے۔ ناول‬
‫کے دوسرے باب میں جب عزیز‪ ،‬حمید ہللا اور محمود علی اس موضوع پر بحث کرتے‬
‫ہیں کہ کیا ہندوستانی اور غیر ملکی آپس میں اچھے دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں تو حمید‬
‫ہللا ان کے سامنے اپنے انگلستان میں قیام کے دوران اپنے تجربات و مشاہدات کو بیان‬
‫کرتا ہے۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انگریز جوڑے نے وہاں اس کو خوش آمدید‬
‫کہا۔ وہ ان کا ذکر بڑی محبت کے ساتھ کرتا ہے۔ حمید ہللا ڈاکٹر عزیز کے مقدمے میں اس‬
‫کا دفاع کرتا ہے اور اس کو بھرپور مدد بھی فراہم کرتا ہے۔‬
‫حمید ہللا کے بارے میں ناول نگار نے خاص طور پر یہ بتایا ہے کہ وہ شعر و ادب‬
‫کا اچھا اور نفیس ذوق رکھنے والے تھے۔ ساتھ ہی اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ ادب‬
‫اور فن مسلمانوں کی تہذیب سے جدا نہ ہوئے تھے بلکہ ان کی تہذیب کا جاندار وتوانا‬
‫حصہ تھے۔‬
‫اعلی سوسائٹی کے کردار وں کے عالوہ ایک اہم کردار ایک غریب‬ ‫ٰ‬ ‫مذکورہ باال‬
‫مسلمان کا ہے جس کا نام محمد لطیف ہے۔ وہ ڈاکٹر عزیز کا خدمت گار ہے۔ اس کا ذکر‬
‫تو ناول میں کئی جگہوں پر ہے مگر اسے کم ہی بولتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔ وہ انگریز‬
‫خواتین کے ساتھ مارا بار غاروں میں جاتا ہے اور سیر کے تمام انتظامات اس کے ہاتھ‬
‫میں ہی ہیں مگر اس کا تعارف فاسٹر نے جس انداز میں کرایا ہے وہ قابل غور ہے کہ‬
‫ایک طرف تو وہ خوش باش ‪،‬شریف آدمی ہے مگر ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ ایسا بددیانت‬
‫بوڑھا ہے جس کا دل کام کرنے کو نہیں چاہتا۔‬
‫‪A gentle, happy and honest old man who had never done a stroke‬‬
‫)‪of work.(11‬‬
‫اس ناول کے بیشتر مسلمان کرداروں کی زبانی یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے‬
‫کہ مقامیوں اور غیر مقامیوں کے درمیان زیادہ قربت ان کے درمیان تعلقات کو بگاڑ کر‬
‫نقطہ نظر‬
‫ٔ‬ ‫رکھ دیتی ہے ٰلہذا اپنی اپنی حدود و قیود کی پابندی بہت ضروری ہے۔ یہ وہی‬
‫ہے جو ایک جگہ پر فاسٹر نے کلکٹر کی زبانی اس وقت بیان کیا ہے جب وہ اپنی دھیمی‬
‫آواز میں اس ملک ہندوستان میں اپنے پچیس سالہ تجربات کے نچوڑ کے طور پر بیان‬
‫کرتا ہے۔‬
‫‪....and during those twenty-five years I have never known‬‬
‫‪anything but disaster result when English people and Indians‬‬
‫‪attempt to be intimate socially. Intercourse, yes. Courtesy, by all‬‬
‫)‪means. Intimacy--never, never.(12‬‬
‫’’ ان پچیس سالوں کے دوران میں نے اس کے عالوہ کوئی بات مشاہدہ نہیں کی کہ‬
‫جب بھی انگریزوں اور ہندوستانیوں نے سماجی طور پر قریب ہونے کی کوشش کی تو‬
‫اس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ باہمی میل‪ ،‬اور شائستگی یقینا ضروری ہے‬
‫مگر بے تکلفی ہرگز‪ ،‬ہر گز نہیں۔‘‘‬
‫بحیثیت مجموعی اس ناول کے کرداروں کا جائزہ لیں تو ہمیں بھوپال سنگھ کی یہ‬
‫رائے بڑی صائب نظر آتی ہے کہ‬
‫‪A clever picture of Englishmen in India, a subltel portraiture of the‬‬
‫‪India (especially the mind) and a fascinating study of the‬‬
‫)‪problems arising out of the contact of India with the West. (13‬‬
‫تاہم اس کرداری مطالعہ کے دوران اس چیز کی طرف نگاہ کرنا بھی ضروری ہے‬
‫کہ جس کی طرف اشارہ نہال سنگھ نے حسب ذیل سطور میں کیا ہے۔‬
‫ـ ‪How the British India despise and ostracise Indians, while in their‬‬
‫)‪part the Indians mistrust and misjudge the British. (14‬‬
‫’’ کس طرح سے انگریز ہندوستان میں ہندوستانیوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انہیں‬
‫خود سے دور کرتے ہیں جبکہ دوسرے طرف ہندوستانی انگریزوں سے بد گمان ہوتے‬
‫ہیں اور ان سے متعلق غلط رائے قائم کرتے ہیں۔‘‘‬
‫جانسن )‪ (Johnson‬کی یہ رائے بھی قابل غور ہے کہ مختلف ثقافتوں کے حامل‬
‫افراد شاذ و نادر ہی ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ ہندوستان میں مختلف‬
‫تہذیبوں اور ثقافتوں کے پروردہ لوگ ہندوستان میں آباد تھے کچھ کے درمیان انجذاب و‬
‫ادغام کی صورت حال پیش آئی اور کچھ نے یہ اثرات بالکل قبول نہیں کیے۔ یاایک‬
‫دوسرے کی ثقافتوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‬
‫‪That people from different cultures rarely understand one another.‬‬
‫)‪(15‬‬
‫یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستانی کردار فاسٹر نے ہمدردی اور‬
‫شفقت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ اس تمام تر ہمدردی اور شفقت کے باوجود تمام کرداروں‬
‫میں اگر کچھ دلکشی موجود بھی ہے تو ان میں اصل عظمت کہیں نظر نہیں آتی‪ ،‬شاید یہی‬
‫وجہ یہ کہ وہ ہمارے دلوں کو چھونے کے باوجود ہمیں متاثر کرنے میں کامیاب نظر نہیں‬
‫آئے۔‬
‫ہند و ‪ ،‬انگریزاور دیگر کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ‬ ‫ب‪:‬‬
‫ہندوستانی معاشرے کی رنگا رنگی کی طرح ای ایم فاسٹر کے ناول اے پیسج ٹو‬
‫انڈیا میں بھی کرداروں کا تنوع بھی موجود ہے۔ کیوں کہ فاسٹر نے اپنے ناول میں مختلف‬
‫اقوام اور مختلف مذاہب کو فنی مہارت اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ فاسٹر نے جہاں‬
‫مسلمان کرداروں کو اپنے اس ناول میں اجاگر کیا وہاں ہندوکردار بھی اس کی توجہ سے‬
‫محروم نہیں رہے۔ فاسٹر نے ہندوکرداروں کو بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بڑے دلچسپ‬
‫انداز میں پیش کیا ہے۔‬
‫تین ہزار سال قبل آریائوں نے ہندوستان میں آ کر ذات پا ت کا نظام متعارف کرایا۔‬
‫وہ خود تو برہمن یا کھشتری بن بیٹھے مگر مقامی آبادی کو شودر‪ ،‬دلت‪ ،‬ہریجن وغیرہ‬
‫قرار دیا۔ انہوں نے ورن کے نظریے کے تحت اچھوتوں کو یا شودروں کو نہایت پست‬
‫درجہ عطا کیا۔ اچھوتوں یا دلتوں کے اولین دانشوار ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر ہندومت کو‬
‫ذات پات کا ایک ایسا نظام سمجھتے تھے جس نے اچھوتوں کی زندگیوں کو تباہ کر ڈاال۔‬
‫اے پیسج ٹو انڈیا میں بھی شامل ایک اہم ہندو کردار پروفیسر نارائن گوڈبلے‬
‫اعلی ذات برہمن سے ہے۔ وہ‬ ‫ٰ‬ ‫)‪(Narayan Godbole‬کا ہے جس کا تعلق ہندوئوں کی‬
‫فیلڈنگ کے کالج میں استاد ہے۔ وہ خاصا روحانی آدمی ہے اور انسانی معامالت میں خود‬
‫کو زیادہ ملوث کرنا اپنے مذہبی عقائد کے منافی گردانتا ہے۔ دراصل وہ ایک پراسرار قسم‬
‫کا کردار ہے۔ ناول میں اس کردار سے قاری کی مالقات یوں ہوتی ہے کہ فیلڈنگ جب‬
‫عزیز کے ساتھ محو گفتگو ہوتا ہے تو پروفیسر گوڈبلے کا ذکر یوں کرتا ہے۔‬
‫‪Besides the ladies I am expecting one of my assistants--Narayan‬‬
‫"‪Godbole.‬‬
‫"!‪"Oho, the Deccani Brahman‬‬
‫)‪"He wants the past back too, but not precisely Alamgir. (16‬‬
‫’’ان خواتین کے عالوہ‪ ،‬میرے ایک نائب نارائن گوڈبلے کی آمد بھی متوقع ہے‪ ،‬اچھا۔ وہ‬
‫دکھنی برہمن۔‬
‫وہ بھی ماضی میں واپس جانا چاہتا ہے مگر عہ ِد عالمگیر میں ہر گز نہیں‘‘‬
‫اورنگزیب عالمگیر کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ناول کے مصنف کے بقول‬
‫ہندو عالمگیر کے عہد کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں یا یہ محض مصنف کے اپنے‬
‫ذہن کی اختراع ہے کیونکہ ناول کے اس صفحے پر ہی یہ سطور بھی قابل غور ہیں کہ‬
‫انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو اس وقت ہندوستان کے حاکم ہندو ہی تھے۔‬
‫مسلمان یعنی کہ مغل نہیں تھے ۔ اس کے عالوہ ڈاکٹر عزیز کی زبانی ہندوئوں کے بارے‬
‫میں منفی کلمات ادا کروائے گئے ہیں جب کہ پروفیسر گاڈبلے کے حوالے سے یہ رائے‬
‫دی گئی ہے کہ وہ ان برہمنوں سے مختلف ایک مخلص انسان ہوگا۔ اس سے آگے بڑھیں‬
‫تو عزیز کی زبانی پھر ہندو کرداروں کے حوالے سے حسب ذیل رائے سامنے آتی ہے‬
‫جو کہ بال شبہ ایک سخت قسم کی رائے ہے۔‬
‫‪Slack Hindus--they have no idea of society; I know them very well‬‬
‫‪because of a doctor at the hospital. Such a slack, unpunctual‬‬
‫)‪fellow. (17‬‬
‫ـ’’کاہل ہندو۔ انہیں معاشرے کے آداب کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ میں انہیں ہسپتال میں‬
‫بحیثیت ڈاکٹر اچھی طرح جانتا ہوں۔ غیر ذمہ دار سست لوگ۔‘‘‬
‫پروفیسرگاڈبلے کا حلیہ بھ ی فاسٹر نے بڑی مہارت کے ساتھ یوں پیش کیا ہے کہ‬
‫ایک روایتی ہندو برہمن کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔‬
‫‪He was elderly and wizen with a grey moustache and grey-blue‬‬
‫‪eyes, and his complexion was as fair as a European's. He wore a‬‬
‫‪turban that looked like pale purple macaroni, coat, waistcoat,‬‬
‫‪dhoti, socks with clocks. The clocks matched the turban, and his‬‬
‫‪whole appearance suggested harmony--as if he had reconciled‬‬
‫)‪the products of East and West. (18‬‬
‫’’وہ گاڈبلے ایک بڑی عمر کا آدمی تھا۔ جس کی مونچھیں سفیدی مائل اور آنکھیں بھوری‬
‫نیلی تھیں۔ اور اس کی رنگت کسی یورپی کی طرح سفید تھی۔ اس نے سر پر پگڑی باندھ‬
‫رکھی تھی جو کہ پیلے اور ارغوانی رنگ کی کھچڑی کی مانند دکھائی دیتی تھی۔ پھر‬
‫کوٹ اور نیچے واسکٹ‪ ،‬دھوتی اور جرابیں تھیں۔ چغے کا رنگ پگڑی سے ملتا جلتا تھا‬
‫اور اس کی مکمل ظاہری شباہت ایک ہم آہنگی کی آئینہ دار تھی جیسے کہ اس نے مشرق‬
‫اور مغرب دونوں ہی تہذیبوں سے مفاہمت کی ہوئی تھی۔‘‘‬
‫ہندوانہ معاشرت میں جہاں ذات پا ت کا نظام سختی سے رائج ہے وہاں کسی‬
‫دوسری ذات کے لوگوں یا مذاہب والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا بھی معیوب تھا۔ فاسٹر‬
‫نے جہاں گاڈبلے کا حلیہ صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے وہیں اس روایت کو بھی خاص‬
‫طور پر اجاگر کیا ہے کہ وہ اپنے چائے کے برتن سمیٹ کر ان لوگوں سے اس لیے دور‬
‫جا بیٹھتا ہے کہ اس کی نظر میں ان سب کا مرتبہ کسی اچھوت یا شودر جیساتھا۔ اور ان‬
‫سب لوگوں سے ملنا جلنا‪ ،‬یا ان کے ساتھ کھانا پینا اس کے دھرم کو بھرشٹ کر سکتا تھا۔‬
‫فاسٹر نے حسب ذیل سطور میں اسی امر کی جانب اشارہ کر کے بتایا ہے کہ وہ اپنے‬
‫مذہبی معامالت پر کس طرح عمل پیرا ہے۔‬
‫ـ ‪He took his tea at a little distance from the outcasts, from a low‬‬
‫‪table placed slightly behind him, to which he stretched back, and‬‬
‫‪as it were encountered food by accident; all feigned indifference‬‬
‫)‪to Professor Godbole's tea. (19‬‬
‫اس کے عالوہ اس ہندو کردار کی عادات کے حوالے سے بڑی دلچسپ انداز میں‬
‫یہ بھی بتایاگیا ہے کہ وہ اپنے منتروں کو پڑھنے میں اتنا وقت گزار دیتا ہے کہ اہم کام رہ‬
‫جاتے ہیں جیسا کہ ان سطور میں بتایا گیا ہے کہ وہ لمبی دعا پڑھتا رہا اور گاڑی پلیٹ‬
‫فارم سے نکل گئی۔‬
‫‪Godbole's pujah did it," cried the Englishman.‬‬
‫‪The Brahman lowered his eyes, ashamed of religion. For it was‬‬
‫)‪so: he had miscalculated the length of a prayer. (20‬‬
‫’’انگریز چالیا‪ ،‬گوڈبلے کی پوجا نے یہ کیا (تاخیر)۔ برہمن نے اپنی آنکھیں جھکا‬
‫لیں۔ مذہب پر اسے ندامت محسوس ہوئی۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ اس نے عبادت میں غیر‬
‫ضروری طوالت اختیار کی۔‘‘‬
‫اس وج ہ سے فیلڈنگ پوری ہندوستانی عوام کے بارے میں یہ رائے دیتا ہے‬
‫جس میں گہرا طنز بھی پوشیدہ ہے۔‬
‫‪Plenty of Indians travel light too--saddhus and such. It's one of the‬‬
‫‪things I admire about your country. Any man can travel light until‬‬
‫)‪he has a wife or children. (21‬‬
‫’’ بیشتر ہندوستانی سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سادھو اور اس قسم کے دوسرے‬
‫لوگ۔ یہ تمہارے ملک کی ان باتوں میں سے ایک ہے جن کا میں معترف ہوں۔ ہر آدمی‬
‫جب تک اس کے بیوی بچے نہ ہوں زندگی میں سست رو ہو سکتا ہے۔‘‘‬
‫اس ناول میں دریا ئے گنگا کے حوالے سے وشنو دیوتا اور شیوا کا ذکر بھی ملتا‬
‫ہے۔ مہاتما بدھ کے گیان اور عرفان کی منازل کی آگہی بھی ملتی ہے۔ اور اس مخلوط‬
‫معاشرے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر گوڈبلے کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ‬
‫کوئی متعصب ہندو تو نہ تھا اس لیے وہ کسی کے بھی ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پی لیتا تھا۔‬
‫پھل ‪،‬انڈے اور مٹھائیاں بھی کھا لیتا تھا مگر سبزیاں اور چاول اگر کسی برہمن کے ہاتھ‬
‫کے پکے ہوئے نہ ہوں تو وہ نہیں کھاتا تھا۔ گوشت کھانے کی اس کے مذہب میں ممانعت‬
‫تھی۔ اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ اپنے سامنے کسی کو گائے کا گوشت کھاتے ہوئے‬
‫بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جب کہ عزیز اپنے سامنے کسی کو سور کھاتے ہوئے نہیں دیکھ‬
‫سکتا تھا۔ کیوں کہ سور کا گوشت کھانا اسالم میں ممنوع تھا۔ اور یہ سارے مسائل اس کے‬
‫سامنے اس وقت پیش ہوئے جب وہ ان تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اکٹھے پکنک پر لے‬
‫جانا چاہتا تھا۔ ایک ہی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی وہ آپس میں تقسیم تھے اور اس‬
‫سرزمین کو بھی مختلف خانوں میں تقسیم رکھنا چاہتے تھے۔‬
‫فاسٹر نے پروفیسر گوڈبلے کو ہندونوں کے خاص بھجن پڑھتے ہوئے بھی دکھایا‬
‫ہے۔ یوں گوڈبلے اس ناول میں ایک مرکزی عالقائی کردار کے طور رپ ابھرتا ہے جو‬
‫کہ ہندو فالسفی کو پیش کرتا ہے۔ اور کئی نقادوں کے بقول مسلمان کردار عزیز سے‬
‫زیادہ یہ ہندو کردار اصل ہندوستان کا آئینہ دار ہے۔‬
‫اسی ناول میں ایک اور ہندو کردار ڈاکٹر پ ّنہ الل )‪ (Dr. Panna Lal‬کا ہے جو‬
‫کہ عزیز کے ساتھ چندراپور کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ وہ ہندوئوں کی نچلی‬
‫ذات سے تعلق رکھتا ہے اور عزیز کا قریبی حریف بھی ہے۔ ڈاکٹر عزیز اسے میجر کا‬
‫لنڈرکا جاسوس‪(Major Callendar's Spy) ،‬کہتا ہے۔ عزیز اور اس کے احباب اس‬
‫کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ڈاکٹر الل عزیز کو قائل کرتا ہے کہ وہ ٹرٹن)‪ (Turton‬کی‬
‫دعوت میں شریک ہو لیکن عین آخری لمحے عزیز انکار کر دیتا ہے۔‬
‫ناول میں اس حوالے سے بڑی معنی خیز گفتگو کی گئی ہے کہ عزیز کس طرح‬
‫سے ڈاکٹر پنا الل کو غصے میں جواب دیتا ہے کہ وہ کم عقل ہندو اس بات کو سمجھنے‬
‫سے قاصر ہے اور ساتھ برہمنی بیل کا ذکر بھی قابل غور ہے۔‬
‫‪But Dr. Lal, being of low extraction, was not sure whether an‬‬
‫‪insult had not been intended, and he was further annoyed‬‬
‫‪because Aziz had buffeted‬‬
‫)‪the Brahminy Bull. (22‬‬
‫’’ لیکن ڈاکٹر الل ایک نچلی ذات سے تعلق رکھنے واال اس بات کو بھانپنے کی اہلیت نہیں‬
‫رکھتا تھا کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ اس کی بے عزتی کی گئی ہے۔ اور اسے مزید‬
‫اس بات کا غصہ تھا کہ اس نے عزیز کو ایک برہمنی بیل کو پیٹتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘‬
‫انہی ضمنی ہندو کرداروں میں ایک اور کردار مسٹر امریتا رائو کا ہے جو کہ‬
‫کلکتہ کا مشہور بیرسٹر ہے۔ اس کے ذمے ڈاکٹر عزیز کے مقدمے کا دفاع ہے۔ اسے‬
‫ہندوستان کا بہترین وکیل مانا جاتا ہے اور انگریزوں کا کٹر مخالف‪"Notoriosly anti-‬‬
‫"‪British‬ہے۔ اس کی اس تعیناتی سے کچھ تنازعات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس‬
‫سے سیاسی تبدیلی کے آثار بھی سامنے آتے ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران امریتا‬
‫رائو بڑی جرأت کے ساتھ اعتراض بھی کرتا ہے کہ انگریز فریق کے حامیوں کو تو جج‬
‫نے چبوترے پر بٹھا کر ہندوستانیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر‬
‫عزیز کے حامیوں کو چبوترے سے نیچے بٹھایا گیا ہے۔ ایسا رویہ عام طور پر دوسرے‬
‫ہندو کرداروں میں نظر نہیں آتا۔‬
‫اسی ناول کا ایک اور اہم ہندو کردار مسٹر داس )‪ (Mr. Das‬کا ہے۔ جو کہ‬
‫چندراپور میں اسسٹنٹ مجسٹریٹ ہیں اور انگریز مجسٹریٹ رونی ہیسلوپ ‪(Ronny‬‬
‫)‪ Heaslop‬کے نائب کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ رونی ہیسلوپ‪ ،‬ایڈال‬
‫کیوسٹڈ )‪ (Adele Quested‬سے اپنی قرابت کی وجہ سے ڈاکٹر عزیز کے مقدمے کی‬
‫سماعت سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں تو مسٹر داس کو اس مقدمے کی ذمہ داری‬
‫سونپی جاتی ہے۔ رونی اس کی قابلیت اور ذات پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں مگر‬
‫میجر کا لنڈر جو کہ سرکاری ہسپتال کے منتظم ہیں وہ مسٹر داس کی ذات پر عدم اعتماد‬
‫کا اعالن کرتے ہیں کہ و ہ ایک ہندوستانی ہے۔ اور وہ ہندوستانی کے حق میں ہی فیصلہ‬
‫سنائے گا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ مسٹر داس نے ڈاکٹر عزیز کی حمایت میں کسی‬
‫تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مقدمے کے خاتمے کے بعد مسٹرداس ڈاکٹر عزیز کے ہسپتال‬
‫پہنچتے ہیں تو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی فضا جنم لیتی‬
‫دکھائی دیتی ہے جس کا ذکر ناول کے صفحات میں فاسٹر یوں کرتے ہیں۔‬
‫‪Another local consequence of the trial was a Hindu-Moslem‬‬
‫‪entente. Loud protestations of amity were exchanged by‬‬
‫‪prominent citizens, and there went with them a genuine desire for‬‬
‫)‪a good understanding. (23‬‬
‫’’ اس (عزیز) کے مقدمے کے نتیجے میں ایک اور ردعمل ہندومسلم دوستانہ اتحاد کی‬
‫شکل میں ظاہر ہوا۔ معزز شہریوں نے صلح و آتشی کے بلند بانگ دعوے کیے اور آپس‬
‫میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات پیداکرنے کی حقیقی خواہش پیدا ہوئی۔‘‘‬
‫مگر اتحاد کی یہ خواہش دائمی اور پائیدار ثابت نہ ہوئی بلکہ یہ عارضی‪ ،‬وقتی‬
‫اور ہنگامی ثابت ہوئی۔ کیوں کہ مسٹر داس ڈاکٹر عزیز کے ہسپتال میں ہمدردی اور شفقت‬
‫کا پیکر بن کر تشریف التے ہیں اور اپنے گذشتہ رویے پر ندامت کا اظہار کرنے کے‬
‫ساتھ ساتھ اپنے بہنوئی مسٹر بھٹاچاریہ کے رسالے کے لیے نظم لکھنے کی درخواست‬
‫بھی کرتے ہیں مگر ڈاکٹر عزیز یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ یہ رسالہ تو ہندوئوں‬
‫کے لیے ہے اس لیے اس میں کسی مسلمان کی نظم شائع نہیں ہو سکتی۔‬
‫)‪I though your magazine was for Hindus. (24‬‬
‫اس کے جواب میں مسٹر داس کہتے ہیں کہ یہ ہندوئوں کے لیے بلکہ تمام‬
‫ہندوستانیوں کے لیے ہے‬
‫)‪It is not for Hindus, but Indians generally. (25‬‬
‫مگر عزیز جواب میں اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے خیال میں‬
‫یہاں ایسے کسی شخص کا وجود نہیں ہے جسے ہم ہندوستانی کہہ سکیں۔ یوں وہ اتحاد اور‬
‫یگانگت کی فضا برقرار نہیں رہتی۔ یعنی ہندو اپنے معامالت میں پختہ ہیں اور مسلمان‬
‫اپنے عقائد اور رسومات پر سختی سے قائم ہیں ٰلہذا ان دونوں بڑی قوموں کے درمیان‬
‫مخاصمت بعض اوقات گھٹتی ہے تو بعض اوقات بڑھ جاتی ہے۔‬
‫اسی ناول کے انگریز کرداروں میں سے دو کردار بہت نمایاں ہیں اور دونوں‬
‫کردار ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ دو کردار فیلڈنگ )‪ (Cyril Fielding‬اور رونی‬
‫ہیسلوپ )‪ (Ronny Heaslop‬کے ہیں۔ فیلڈنگ کا کردار کچھ نقادوں کے بقول فاسٹر‬
‫کے ذاتی کردار کا عکس نظر آتا ہے اور ہندوستان میں مقامی اور غیر مقامی ثقافتوں کے‬
‫افتراق کے باوجود وہ ایک مسلمان ڈاکٹر عزیز کا دوست بن جاتا ہے حاالنکہ عام طور پر‬
‫ایسا حقیقت میں کہیں ممکن نہیں ہوتا۔ وہ چندراپور کے سرکاری کالج کا سربراہ ہے اور‬
‫ایک آزاد خیال آدمی ہے۔ وہ ہندوستانیوں کو ہمدردانہ اور مساویانہ رویے کے ساتھ تعلیم‬
‫دینے کا خواہش مند ہے۔ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ قربت بھی رکھتے ہیں اور اس کی سب‬
‫سے بڑی اور چونکا دینے والی مثال اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب وہ عدالت میں آ‬
‫کر یہ بیان دے کر اپنی پوری کمیونٹی کو اپنے خالف کر لیتے ہیں‪:‬‬
‫)‪I believe Dr. Aziz to be innocent. (26‬‬
‫’’مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر عزیز بے گناہ ہے۔‘‘‬
‫اس کے ساتھ ہی وہ بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بھی اعالن کرتا ہے کہ وہ عدالت کے‬
‫فیصلے کا منتظر ہے اور اگر عزیز مجرم ثابت ہو گیا تو وہ مستعفی ہو کر ہندوستان سے‬
‫استعفی دے‬
‫ٰ‬ ‫واپس روانہ ہو جائے گا۔ اس سے بڑھ کر اس نے کلب کی رکنیت سے بھی‬
‫دیا۔ اس کے بعد وہ کلب کی بلیئرڈ اور ٹینس کو بھال کر مقامی دوستوں کے ساتھ مقامی‬
‫بازار میں وقت گزاری کے لیے نکلتا ہے اور مقامی معاشرت اور ثقافت کے رنگوں سے‬
‫لطف اندوز ہوتا ہے۔ جیسے کہ اسے محرم کی مناسبت سے ایک چھوٹا تعذیہ دیکھنے کی‬
‫دعوت دی جاتی ہے جو کہ مقامی آبادی کی طرف سے اس کے لیے اظہار محبت بھی‬
‫ہے۔‬
‫)‪He was invited to inspect a small Tazia. (27‬‬
‫پیغمبر اسالم کے‬
‫ؐ‬ ‫اسے ایک چھوٹا تعذیہ دیکھنے کی دعوت دی گئی اور ساتھ ہی‬
‫نواسے کی کربال میں شہادت کے بارے میں بتایا گیا۔‬
‫ناول میں اس کے ابتدائی تعارف سے ہی ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جب‬
‫ہندوستان میں وارد ہوتا ہے تو وہ ایک معمر اور پختہ عقل کا آدمی ہے اس لیے وہ‬
‫دوسرے انگریزوں کی طرح خود کو صحیح ’’صاحب‘‘ ثابت نہیں کرسکا۔ اس لیے‬
‫دوسرے انگریزوں کے ساتھ اس کے تعلقات مثالی نہیں تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی‬
‫ث ندامت نہیں ہے اسی لیے‬ ‫کہ اس کے نزدیک کسی کا ہندوستانی ہونا کسی بھی طرح باع ِ‬
‫اس نے کوشش کی کہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان خلیج کو کم کیا جائے مگر‬
‫بحر اوقیانوس کے وسیع اور گہرے نیلے پانیوں‬ ‫وہ ہندوستان کے مٹیالے اور میدانوں اور ِ‬
‫کے درمیان فاصلے کم نہ کرسکا۔ وہ دوسرے انگریزوں کی طرح خود کو حاکم نہیں‬
‫سمجھتا تھا اس لیے اگر اس سے کوئی غلطی سر زد ہو جاتی تو وہ اس کی تالفی کرنے‬
‫کی کوشش کرتا۔ یہی وجوہات تھیں کہ اس کے اپنے ہم وطن اس سے ذہنی مطابقت نہیں‬
‫رکھتے تھے مگر وہ بھی اپنا ذہن اب اس مرحلے پر آکر تبدیل کرنے سے قاصر تھا۔ اسی‬
‫لیے اس کے بارے میں یہ م شہور ہو گیا کہ وہ ’’پکا صاحب‘‘ نہیں ہے بلکہ ناکمل اور خام‬
‫ہے۔‬
‫کلب میں بیٹھ کر اس نے جب یہ رائے دی کہ سفید فام نسل کو اپنے اوپر بڑا‬
‫غرور ہے تو وہ بھی اس طرح بالکل خالص نہیں ہے بلکہ بھوری رنگ کی قوموں کے‬
‫خون کی اس میں آمیزش ہے تو وہاں ایک تہلکہ مچ گیا۔‬
‫ـ)‪The so-called white races are Pinko-gray. (28‬‬
‫اسی پس منظر میں اس کی حسب ذیل رائے نہایت وقیع اور قابل غور ہے جس‬
‫سے اس کی سوچ کا صحیح اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مذہب اور رنگ و نسل سے باال تر ہو‬
‫کر سوچنے واال اس ناول کے کرداروں میں سے شاید واحد انگریز کردار ہے۔‬
‫‪The world, he believed, is a globe of men who are trying to reach‬‬
‫‪one another and can best do so by the help of good will plus‬‬
‫)‪culture and intelligence. (29‬‬
‫’’ یہ دنیا ایک گلوب کی مانند ہے جس پر مختلف انسان ہیں جو ایک دوسرے کے قریب‬
‫آنے کی کوشش میں ہیں اور وہ ایسا اچھے اخالق‪ ،‬تہذیب اور ذہانت کی مدد سے بہتر‬
‫طریقے سے کر سکتے ہیں۔‘‘‬
‫اس معتدل انگریز کردار کے علی الرغم دوسرا کردار ایک ایسے نوجوان کا ہے‬
‫جو انتہائی متعصب ہے اور نوآبادیاتی حکمرانی کا آئینہ ہے۔ اگرچہ میجر کالنڈر (سول‬
‫سرجن) اور میکبرائیڈ (پولیس سپرنٹنڈنٹ) بھی ہندوستانیوں سے اپنے اپنے انداز میں‬
‫تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن رونی ہیسلوپ )‪ (Ronny Heaslop‬کا رویہ ان سب‬
‫سے زیادہ متعصبانہ ہے۔ وہ مسز ُمور ‪) (Moore‬کا بیٹا ہے اور چندراپور کا مجسٹریٹ‬
‫ہے۔ اس کے متعصبانہ رویے کا اظہار خاص طور پر اس کی ماں کے ساتھ ہونے والے‬
‫مکالمے میں بھی ہوتا ہے کیوں کہ جب اس پر اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی‬
‫ماں ایک)‪ (Mohammedan‬یعنی دیسی مسلمان سے ملی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے‬
‫اور مختلف قسم کے سخت سواالت اپنی ماں سے کرتا ہے۔ اس کی ماں اس بات سے بے‬
‫خبر ہوتی ہے کہ اس کے رویے میں اس طرح کی تبدیلی کیوں آئی ہے۔ وہ اپنی ماں سے‬
‫اپنے دل کا چور کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ وہ پوچھتا ہے کیا اس نے ہمارے متعلق کچھ‬
‫اس طرح کی باتیں تو نہیں کیں کہ انگریز ظالم فاتح اور مفرور افسر ہیں یا اسی سے ملتی‬
‫جلتی کچھ اور باتیں۔‬
‫‪Did he seem to tolerate us--the brutal conqueror, the sundried‬‬
‫‪bureaucrat,‬‬
‫)‪that sort of thing? (30‬‬
‫اس ساری گفتگو کے دوران جب اس کی ماں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے‬
‫کہ اپنے وطن (انگلستان) میں تو تم لوگوں کے بارے میں اس طرح فیصلے نہیں کیا‬
‫کرتے تھے تو وہ اپنی ماں سے بڑی سختی سے کہتا ہے کہ یہ ہمارا وطن تو نہیں ہے۔‬
‫پھر وہ ایسی اصطالحات اور جملے اپنی گفتگو میں استعمال کرتا ہے کہ اس کی ماں پر‬
‫رعب پڑے اور وہ خاموش ہو جائے۔‬
‫‪India isn't home," he retorted, rather rudely, but in order to silence‬‬
‫‪her he had been using phrases and arguments that he had picked‬‬
‫)‪up from older officials. (31‬‬
‫’’ ہندوستان ہمارا وطن نہیں ہے۔ اس نے قدرے سختی سے ماں کو جواب دیا۔ پھر اسے‬
‫خاموش کرانے کے لیے ایسے جملے استعمال کیے اور دالئل دیے جو اس نے پرانے‬
‫افسروں کو اپنی گفتگو میں استعمال کرتے سنا تھا۔‘‘‬
‫اعلی تعلیم یافتہ ہے مگر ہندوستان آنے کے بعد اس کا رویہ مقامیوں کے‬
‫ٰ‬ ‫وہ اگرچہ‬
‫ساتھ انتہائی متعصبانہ اور ناقابل برداشت ہے۔ وہ اپنی منگیتر کے ساتھ بھی اسی قسم کے‬
‫حاکمانہ رویے کا اظہار کرتا ہے جس طرح اس نے اپنی والدہ سے کیا ہے تووہ بھی‬
‫دلبرداشتہ ہو جاتی ہے۔‬
‫جس طرح کی رقابت اور دشمنی کااظہار اے پیسج ٹو انڈیا میں رونی ہیسلوپ ایک‬
‫مسلمان کردار ڈاکٹر عزیز کے خالف کرتا ہے اسی طرح پال اسکاٹ کے ناول راج‬
‫کوارٹٹ )‪ (Raj Quartet‬میں رونالڈ میرک )‪ (Ronald Merrick‬جو انڈین پولیس‬
‫سروس میں انگریز افسر ہے وہ ہندوستانی باشندے ہری کمار )‪ (Hari Kumar‬کے‬
‫خالف کرتا ہے کیوں کہ ڈیفنی مینرس )‪ (Daphne Manners‬جو کہ برطانیہ سے‬
‫ہندوستان میں آئی ہے تو اس کی مالقات ہری کمار سے ہوتی ہے۔ وہ اس کی محبت میں‬
‫گرفتار ہو جاتی ہے۔ میرک کو اس کا علم ہو تا ہے تو وہ برانگیختہ ہو جاتا ہے اور اس‬
‫کے خالف سخت ررین انتقامی کارروائی کرتا ہے۔ اسے جسمانی اذیت پہنچاتا ہے۔ اسی‬
‫قیام کے دوران ڈیفنی کو انگریز حاکموں کے مقامیوں کے ساتھ نفرت انگیز رویے کا علم‬
‫ہو تا ہے۔ وہ اپنے محبوب کے ساتھ بی بی گھر گارڈن میں ہوتی ہے تو ان پر حملہ ہو‬
‫جاتا ہے۔ وہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوتی ہے مگر اس واقعے کی لپیٹ میں ہری کمار آ‬
‫جاتا ہے اور رونالڈ میرک جو اپنی انتقامی کارروائیوں کا موقع مل جاتا ہے۔ یوں ہری‬
‫اعلی تعلیم یافتہ‬
‫ٰ‬ ‫کمار جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ بھی اگرچہ انگلستان پلٹ اور‬
‫ہے مگر نوآبادیاتی حاکم کی افسر شاہی کا شکار ہو جاتا ہے۔‬
‫ان تمام ناولوں میں یہ وہی افسر شاہی )‪ (Bureaucracy‬ہے جس کے بارے میں‬
‫رڈیارڈ کپلنگ یہ رائے دیتے نظر آتے ہیں کہ‬
‫یہ لوگ حاکم ہیں مگر غالموں کی طرح کام کرتے ہیں وہ کبھی اپنی طبعی موت کرتے‬
‫ہیں کبھی کام کی شدت سے مر جاتے ہیں اور کبھی انتظامی بوجھ تلے قریب المرگ‬
‫رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی صحت اس لیے بگڑ جاتی ہے کہ ان کی زیر نگرانی‬
‫عالقہ قحط‪ ،‬وبا اور بدامنی سے محفوظ رہ سکے۔۔۔اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب‬
‫رہتے ہیں تو اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے مقامی ساتھیوں اور اہلکاروں‬
‫کو بھی شاباش دیتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں سارا قصور اپنے سر لے لیتے ہیں۔‬
‫(‪)۳۲‬‬
‫یہ ایسے رائے ہے جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رڈیارڈ کپلنگ کو اس‬
‫نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کرنے والی افسر شاہی کی طرف سے کیے جانے واال‬
‫استحصال اور زیادتی نظر نہیں آتی۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال اس ہندو نوجوان‬
‫ہری کمار کے ساتھ پیش آتی ہے کہ اس کو جسمانی طور پر معذور کر دیا جاتا ہے اور‬
‫کیریئر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ بعد میں کی جانے والی تفصیلی انکوائری میں ایک‬
‫دوسرے افسر کے ہاتھوں اس کی بے گناہی ثابت ہو جاتی ہے۔‬
‫پال اسکاٹ کے ناول راج کوارٹٹ کے ان دو کرداروں (ہندو‪/‬انگریز) پر غور کیا‬
‫جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی ہری کمار اور انگریز پولیس سپرنٹنڈنٹ دونوں ہی‬
‫مختلف بلکہ متضاد ذہنی رحجانات کے حامل ایسے کردار ہیں جو کہ وقت گزرنے کے‬
‫ساتھ ایک دوسرے کے بد ترین دشمن کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ کمار اگرچہ اچھی‬
‫فطرت اور طبیعت کا آدمی ہے مگر متعصب برطانوی سوسائٹی میں جہاں وہ حاکم ہیں ان‬
‫کے سامنے ایک کالے آدمے کے طور پر اس کا سماجی مقام و مرتبہ نہایت پست ہے۔‬
‫جبکہ میرک )‪ (Merrick‬بطور گورے پولیس افسر کے طاقت اور رعونت کی عالمت‬
‫ہے یوں یہ دونوں کردار طاقتور انگریز حاکم اور محکوم ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات‬
‫سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اگرچہ جسمانی طور پر ہری کمار ایک ہندوستانی ہے مگر ذہنی‬
‫اور نفسیاتی طور پر میرک جیسے انگریز سے کہیں بہتر ہے کیوں کہ اس کی پرورش‬
‫انگلستان میں اچھے طریقے سے ہوئی اور اس نے اچھے ادارے میں وہیں تعلیم پائی‬
‫کیوں کہ اس کا والد دلیپ کمار اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ طاقت علم‪ ،‬اچھے کردار اور‬
‫نسل کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے۔‬
‫ہر لحاظ سے برتر ہونے کے باوجود رونالڈ میرک کو اس پر یہ فوقیت حاصل ہے‬
‫کہ وہ برطانوی پولیس افسر ہے اس کے پاس طاقت اور اختیار ہے جو ہری کمار کو‬
‫حاصل نہیں ہے مگر ان کے تعلقات میں حتمی اور فیصلہ کن موڑ اس وقت آتا ہے جب‬
‫ان کی زندگیوں میں ایک اور کردار ڈیفنی مینزر کا داخل ہوتا ہے۔ کشیدگی انتہا کو اس‬
‫وقت پہنچتی ہے جب ڈیفنی‪ ،‬رونالڈ کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ایک ہندوستانی‬
‫ہری کمار کی محبت میں گ رفتار ہو جاتی ہے تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسی دوران‬
‫بی بی گھر کا گارڈن کا سانحہ رونما ہوتا ہے جس میں ڈیفنی اجتماعی زیادتی کا شکار‬
‫ہوتی ہے تو رونالڈ کو موقع مل جاتا ہے اور ہری کمار اس کے عتاب کا نشانہ بن جاتا‬
‫ہے۔ اس کی بہن لڈمیال )‪ (Ludmila‬ہری اور رونالڈ کی پہلی مالقات کا احوال بیان کرتے‬
‫ہوئے تسلیم کرتی ہے کہ ’’میں خطرناک قسم کے ہندسی ٹکرائو کا خطرہ محسوس کررہی‬
‫تھی کہ ایک تکون کے دو نقطے تو میرک اور کمار تھے جبکہ تیسرے نقطے کی تکمیل‬
‫ڈیفنی مینزر کی آمد سے ہوئی تھی۔ کافی عرصہ قبل ڈیفنی پر مجرمانہ حملہ ہوا تو کمار‬
‫میرک کے عتاب کا شکار ہوا۔ ہری کی جلد کی سیاہ رنگت نے رونالڈ کی اپنی اندر کی‬
‫سیاہی کو اس طرف متوجہ کر دیا۔‬
‫‪I had had warning of that dangerous geometrical position, with‬‬
‫‪Merrick and Kumar as two points of a triangle, with the third point‬‬
‫‪made by Miss Manners...... Long ago the criminal assault‬‬
‫‪happened to Daphne, Merrick and chosen Kumar as a victim. The‬‬
‫‪darkness of Hari's skin attracted the darkness in Ronald himself.‬‬
‫‪On Kumar's part a darkness of the soul. On Merrick's a darlmess‬‬
‫)‪of the mind and heart and flesh. (33‬‬
‫ادنی فرد ہے‬
‫کمار ہندوستانی معاشرے میں ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا ٰ‬
‫اعلی برطانوی خاندانوں میں وہ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اسے کسی‬
‫ٰ‬ ‫جب کہ انگلستان میں وہ‬
‫طرح سے بھی کم تر یا گھٹیا نہیں سمجھا جا تا تھا لیکن اب یہاں ہندوستان میں اچانک‬
‫انہی انگریزوں نے اس کو خود سے الگ کر دیا اور فاصلے بڑھا دیے جبکہ اس سے بڑا‬
‫المیہ یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہندوستانی بھی اس کے لیے اجنبی بن گئے تھے اس کا ذہن‬
‫عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا اور اسی کشمکش میں ڈیفنی کے ساتھ تعلقات استوار کر‬
‫کے ایک طرح سے وہ انگلستان سے وابستہ اپنی یادوں کو از سر نو تازہ کرنے لگا۔ مگر‬
‫اس کو شدیدذہنی اذیت سے اس وقت گزرنا پڑا جب اس کے بہترین دوست کولن لنڈ سے‬
‫)‪(Colin Lindsay‬جسے انگلستان سے ہندوستان میں بطور آرمی آفیسر تعینات کیا جاتا‬
‫ہے تو فطری طور پر ہری کمار اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے مگر کولن‬
‫‪ Colin‬کے تو رنگ ڈھنگ ہی تبدیل ہو چکے ہیں اور جب میا پور )‪ (Mayapore‬میں‬
‫اس تعیناتی ہوتی ہے تو اس کی اتفاقا ً ہری سے مالقات ہو جاتی ہے تو وہ بہانہ بناتا ہے‬
‫کہ وہ ہری کو دیکھ نہیں سکا اور پہچان نہیں پایا یعنی انگلستان میں ہری کے ساتھ قربت‬
‫ہونے کے باوجود ہندوستان کے سماجی حاالت نے اسے ایسا تبدیل کیا کہ اس کے رویے‬
‫میں یکلخت اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ کمار اس صورت حال پر کچھ یوں تبصرہ کرتا ہے۔‬
‫‪I am invisible, Kumar said, not only to white people because they‬‬
‫‪are white and I am black but invisible to my white friend because‬‬
‫‪he can no longer distinguish me in a crowd. . . . . . . . . . yes, this is‬‬
‫‪what Lindsey thinks: ‘They all look alike.’He makes me disappear.‬‬
‫‪I am nothing.. . . . . . and would not be welcome if I were‬‬
‫)‪recognised. (34‬‬
‫’’میں نہ صرف گوروں کو دکھائی نہ دینے واال آدمی ہوں کیوں کہ میں کاال ہوں بلکہ‬
‫اپنے سفید فام دوستوں کو بھی نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ وہ مجھے ہجوم میں پہچان نہیں‬
‫سکتے۔ جی ہاں لنڈز ے درست کہتا ہے کہ وہ سب ہی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں وہ‬
‫مجھے غائب کر دیتا ہے مینکچھ نہیں ہوں اور اگر کبھی پہچان بھی لیا جائوں تو بھی‬
‫مجھے اچھا نہیں جانا جائے گا۔‘‘‬
‫مجموعی طور پر ہندوستان میں آنے والے انگریز کسی بھی رونما ہونے والے‬
‫واقعے سے فوری اثر قبول کرتے ہیں اس بات کو پیش نظر رکھے بغیر کہ وہ قوموں کی‬
‫کشمکش میں کس طرف کھڑے ہوتے ہیں جبکہ ہندوستانی لوگ اگرچہ فطری طور رپ‬
‫خاموش اور نرم طبیعت ہیں اور وہ مغربی تہذیب کے مصنوعی طور پر پیدا کردہ کم‬
‫ترین سماجی مرتبے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ آزردہ ہوتے ہیں اور ناراض‬
‫ہو کر ہنگاموں اور احتجاجی منصوبوں کی جانب مائل ہوتے ہیں اگرچہ یہ چیزیں ان کے‬
‫فطری مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس طرح کے تضادات کا حل موہن داس کرم چند‬
‫گاندھی(‪۱۹۴۸‬ء۔‪۱۸۶۹‬ء) کی طرف سے عدم تعاون اور عدم تشدد کی تحریکوں کے‬
‫ذریعے نکاال جاتا ہے۔ جن کے بارے میں ناول میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ سے‬
‫‪۱۹۱۴‬ء میں ہندوستان تشریف الئے تو اپنی تقریر انگریزی زبان میں کی۔ ناول کے‬
‫صفحات میں اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے۔‬
‫‪In his first public speech he said he was ashamed to have to‬‬
‫‪speak in English in order to be understood by a largely Indian‬‬
‫‪audience. He said there was a lot of work to be done before‬‬
‫)‪Indian could think of self-government. (35‬‬
‫’’ اپنی پہلی عوامی تقریر میں انھوں نے کہا کہ انھیں انگریزی میں تقریر کرنے پر نہایت‬
‫شرمندگی ہے جو کہ اس وجہ سے کی گئی کہ بیشتر ہندوستانی سامعین اس کو سمجھ‬
‫سکیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں حکومت کے حصول سے قبل کافی زیادہ‬
‫کام کی ضرورت ہے۔‘‘‬
‫مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانیوں کی روحوں کے اندر مساوات اور‬
‫آزادی کی تڑپ موجود ہے جبکہ انگریز حاکموں نے اپنی باالدستی قائم رکھنے کا عزم‬
‫بھی بڑے سلیقے سے الگو کیا ہوا ہے۔‬
‫دوسرے انگریز نمائندہ کردار کمشنر وائٹ )‪ (White‬اور بریگیڈیئر ِریڈ )‪(Reid‬‬
‫نقطہ نظر کے ترجمان ہیں وائٹ سول انتظامیہ جبکہ‬
‫ٔ‬ ‫کے ہیں جو کہ دو مختلف برطانوی‬
‫ریڈ فوجی اتھارٹی کے نمائندہ ہیں۔ ریڈ کا رویہ سادہ ہے اور وہ ہندوستان میں برطانوی‬
‫حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے تمام اقدامات کا زبردست حامی ہے اس کی‬
‫شخصیت میرک )‪ (Merrick‬سے مشابہت رکھتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہمدردی بھی‬
‫رکھتا ہے۔ دوسری طرف وائٹ بڑے پیچیدہ قسم کے نظریات و خیاالت رکھنے واال آدمی‬
‫ہے اور وہ ہندوستان کی پیچیدہ صورت حال کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس‬
‫سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایمپائر کے بارے میں انگریز خود بھی کسی ایک رائے پر‬
‫متفق نہیں تھے۔ بلکہ مختلف آراء رکھتے تھے۔‬
‫اس ناول کے انگریز کرداروں کے رویے سے ہندوستانی روایات اور ثقافت کو‬
‫کچلنے اور نابود کرنے کا اظہار بھی ہوتا ہے حاالنکہ اس ورثے سے مغرب نے استفادہ‬
‫کیا تھا۔ ایسے ہی رویے کو ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب اورینٹلزم )‪ (Orientalism‬میں‬
‫واضح کیا ہے کہ مشرق نے یورپ کو اپنے متنوع خیاالت و نظریات کو وضع کرنے میں‬
‫مدد فراہم کی مگر انگریزوں نے ہندوستانی مشرقی ثقافتی ورثے کی تعمیر اور تسلسل کو‬
‫قائم رکھنے کی نئی شکلوں اور ا مکانات کو تالش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بلکہ‬
‫انہوں نے ہندوستانیوں کو ایسی مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جیسے کہ وہ چڑیا گھر میں‬
‫کوئی بدیسی یا اجنبی جانور ہوں۔ ایسے رویے سے آخر کار بے اطمینانی اس حد تک‬
‫پھیلی کہ انگریزوں کا ہندوستان سے انخال یقینی ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں برطانوی‬
‫عملداری اور فرنگی راج جس کی بنیاد استحصال اور برتری و فضیلت کا شدید احساس‬
‫تھا انجام کار مسترد ہی ہونا تھا۔‬
‫ج‪ :‬نسوانی کرداروں کا تانیثی مطالعہ‬
‫تانیثیت ایک معاشرتی تنقیدی رویے اور سیاسی شعور کے طور پر انیسویں صدی‬
‫کے اواخر میں مجموعی معاشرتی فکر کا حصہ بنی۔ اس کا تعلق صنفی امتیاز‪ ،‬غیر‬
‫مساویانہ تعلقات اور دو مختلف جنسوں کے مابین اجتماعِ ضدین ؍ثنوی تضادات ‪(Binary‬‬
‫)‪ opposition‬کے مشاہدے سے ہے۔ یہ ایک کثیرالجہت حیثیتوں کا حامل تنقیدی رویہ‬
‫ہے جس میں عورت کے کردار کو مرد اساس سماج میں گیرائی اور گہرائی سے‬
‫سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی اس تنقیدی دبستان میں عورت کو مختلف حیثیات‬
‫اور جہات سے مطالعے کا موضوع بنایا جاتا ہے اور اس امر کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے‬
‫کہ پدرسری معاشرے کی روایتی ادبی تخلیقات میں کس حد تک مصنف اس رویے سے‬
‫متاثر ہوا ہے اور ان تخلیقات میں کیا خواتین کے کردار کو سرے سے غائب دکھایا گیا‬
‫ہے یا انہیں مردوں نے اپنے کسی جنسی امتیاز یا تعصب کی بنا پر ان کے حقیقی کردار‬
‫کو گمراہ کن انداز میں یا مسخ شدہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫سیمون دی بوا کی کتاب "‪ "The Second Sex, 1949‬کو تانیثی تنقید میں‬
‫نہایت اہم مقام حاصل ہے۔‬
‫مارگریٹ ایل اینڈرسن کے مطابق‪:‬‬
‫‪Feminism begins with the premise that women's and men's‬‬
‫‪Pakistan in society are the result of social, not natural or biological‬‬
‫‪factors....Feminism takes womens interests and perspectives‬‬
‫‪seriously, believing that women are not inferior to men.....‬‬
‫‪Although feminists do not believe that women's experiences,‬‬
‫‪concerns and ideas are as valuable as those of men and should‬‬
‫)‪be treated with equal seriousness and respect. (36‬‬
‫’’تانیثیت کا آغاز اس اصول سے ہوتا ہے کہ معاشرے میں عورتوں اور مردوں کا‬
‫مقام و حیثیت ان کی حیاتیاتی ساخت یا قدرتی وجوہات پر منحصر نہیں بلکہ ہماری سماجی‬
‫‪ /‬معاشرتی اقدار کے سبب ہے۔ تانیثیت نسائی دلچسپیوں اور ان کے مخصوص تناظر کو‬
‫سنجیدگی سے لیتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ عورتیں مردوں سے کم تر نہیں۔۔۔ اگرچہ یہ‬
‫لوگ اس بات پر ُمصر نہیں کہ خواتین کو مردوں جیسا ہونا چاہیے مگر وہ اس امر پر‬
‫یقین ضرور کرتے ہیں کہ عورتوں کے تجربات‪ ،‬خدشات اور تصورات و خیاالت اتنے ہی‬
‫قابل قدر ہیں جتنے کہ مردوں کے۔ اور انہیں بھی مساوی احترام اور سنجیدگی کے ساتھ‬
‫دیکھا جانا چاہیے۔‘‘‬
‫تانیثی فکر عورت کے کردار کو ایک خود مختار اور آزاد حیثیت سے پیش کرنے‬
‫کا مطالبہ کرتی ہے اور عورت کی ادب میں غیر متعصبانہ انسانی پیشکش کو ضروری‬
‫سمجھتی ہے جس میں اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کے بجائے اس کی انفرادیت کو‬
‫برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ اس فکر کے داعین کے مطابق ادبی روایت پر مردوں کی‬
‫اجارہ داری کی وجہ سے عورت کے کردار کے ساتھ‪ ،‬عورت کے متون کو بھی جائز‬
‫مقام سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس لیے خاص طور پر مردوں کے تخلیق کردہ ادب میں‬
‫عورت کی پیشکش کا تانیثی تنقیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ عورت کے‬
‫دامن قرطاس پر النے میں مرد تخلیق کار کس حد‬‫ِ‬ ‫جذبات و احساسات کو صحیح طور پر‬
‫تک کامیاب ہوئے ہیں یا پھر عورت کو مردانہ نقطہ نگاہ سے اپنی مخصوص حاکمانہ‬
‫سوچ یا احساس برتری کے مطابق پیش کیا ہے۔‬
‫اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ تانیثی ادب‬
‫سے مراد بھی صر ف ایسا ادب ہر گز نہیں ہے جو صرف عورتوں کا تخلیق کردہ ہو بلکہ‬
‫کوئی مرد ادیب بھی )‪ (Feminist‬ہو سکتا ہے اور کوئی عورت اس زمرے سے باہر ہو‬
‫سکتی ہے۔‪ Feminist Critique‬کے تحت مرد تخلیق کاروں کے ہاں نسائی کردار کا‬
‫مطالعہ کیا جاتا ہے جب کہ ‪ Gynocritics‬کے تحت خواتین لکھاریوں کے ہاں عورت‬
‫کی پیش کش یا استحضاریت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔‬
‫بقول ڈاکٹر ناصر عباس نیر‬
‫تانیثیت محض ادبی متون ہی نہیں ‪ ،‬پوری انسانی تاریخ اور جملہ ثقافتی مظاہر کے‬
‫مطالعے کا نیا تناظر فراہم کرتی ہے۔ تانیثیت ادبی متون کی جمالیاتی قدر سے کوئی‬
‫سروکار نہیں رکھتی۔ یہ متن کے موضوع کا اپنے مخصوص تناظر میں مطالعہ کرتی‬
‫ہے۔ (‪)۳۷‬‬
‫زیر نظر سطور میں اس امر کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ منتخب ناولوں کے‬
‫متون میں عورت کو کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ کیا اس کا کوئی مرکزی کردار ہے‪ ،‬یا‬
‫اسے بطور ضمنی اور معاون کردار یا سٹیریو ٹائپ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔‬
‫اینگلوانڈین سوسائٹی میں عورت کو اس عہد کے آشوب کا سامنا ہے ان ناولوں کے‬
‫مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں سماجی اور تمدنی امتناعات کی وجہ سے‬
‫گھٹن اور محرومی عورت کا مقدر تھی۔‬
‫انیسویں صدی میں تانیثیت کے حوالے سے وہاب اشرفی رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫پہلے پہل تو تانیثیت عورتوں کی سیاسی اور معاشی برابری کی متقضی تھی لیکن انیسویں‬
‫صدی میں اس کا ایک قوی رخ سامنے آیا اور وہ تھا جنس سے متعلق۔ یہ تھیوری‬
‫عورتوں اور مردوں کی جس حیثیت کے بارے میں ایک سوالیہ نشان لگاتی تھی۔‬
‫خصوصا ً اس تصور کا ابھار ا گیا کہ جنسی مطابقت کے نام پر عورتوں کے ساتھ بڑی‬
‫ناانصافیاں کی جاتی رہی ہیں۔(‪)۳۸‬‬
‫پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد عورتوں کے استحصال کے کئی اور رخ اور‬
‫جہتیں منظر عام پر الئی گئیں جو کسی نہ کسی شکل میں سماج میں موجود تھیں۔ گائتری‬
‫اسپاوک)‪ (Gayatri Spivak‬کے مطابق عورتوں کا استحصال نوآبادیاتی عہد میں کئی‬
‫سطحوں پر ہوتا رہا ہے کسی نوآبادی مرحلے میں پیداوار کی حصے داری میں‬
‫)‪ (subaltern‬کی کوئی تاریخ نہیں ہے نہ ہی انہیں کچھ اس بارے میں کہنے کی اجازت‬
‫ہی حاصل تھی۔ چنانچہ خواتین کی حیثیت محض ایک سایہ یا پرچھائیں سے زیادہ کچھ‬
‫نہیں تھی۔‬
‫اس حوالے سے مختلف تحریکیں اور نظریات بھی سامنے آئے جیسے مارکسی‬
‫تانیثیت کی تحریک نے اس بات پر زور دیناشروع کیا کہ عورتوں کے خالف استحصال‬
‫اور تشدد کی وجہ سماجی اور معاشی تشکیالت ہیں۔ ریڈیکل فیمنزم نے اسی بات کو عیاں‬
‫کیا کہ عورت کو مرد کے جنسی استحصال یا تشدد کا نشانہ بننا ہی پڑتا ہے۔ سماجی‬
‫فیمنزم کے مطابق پدرسری سماج میں عورتوں کا آزادانہ کردار )‪ (Role‬ممکن ہی نہیں‬
‫ہے۔ ان کے مطابق ایسے معاشرے میں عورت کا استحصال اس نظام کا حصہ ہے۔‬
‫نفسیاتی فیمنزم میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ عورتوں کی داخلیت مردانہ جنسی‬
‫کلچر میں نہایت کمزور )‪ (Fragile‬ہے۔‬
‫اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام امور جو ہمارے ثقافتی ڈھانچے کا‬
‫حصہ ہیں ادب میں بھی ان کا اظہار ہوتا ہے اگرچہ ان کی صورتیں مختلف زبانوں اور‬
‫معاشروں کے ادب میں مختلف ہوسکتی ہیں۔‬
‫تانیثی ڈسکورس کے حوالے سے منتخب نوآبادیاتی ادب کا مطالعہ کیا جائے تو‬
‫کئی اہم سوال سامنے آتے ہیں کہ نوآبادیاتی عہد مینبرصغیر کے معاشرے میں عورتوں‬
‫کے کردار بحیثیت بیوی‪ ،‬بیٹی‪ ،‬ماں پر کیا اثر پڑا۔ اگر ان کے کردار میں کچھ فرق پڑا تو‬
‫اس سے بحیثیت مجموعی مقامی کلچر پر بھی اثرات کا پتا چلتا ہے۔ اس سے ہمیں شادی‬
‫جیسے اہم معاملے کے بارے مینمعلوم ہوتا ہے کہ مقامی معاشرے کی نوجوان عورتوں‬
‫کے لیے شادی کا مسئلہ کتنا اہم ہے اور خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں خاندانی‬
‫طور پر ترتیب دی گئی شادیوں کا رواج ہو پھر اس کثیر قومی معاشرے میں اس کی‬
‫اہمیت کچھ اور ہو جاتی ہے۔ اس پہلو کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ مردوں کے قلم سے‬
‫تحریر کردہ ان ناولوں میں کیا عورتوں کو بطور ثانوی کردار پیش کیا گیا ہے یا کوئی‬
‫مرکزی کردار بھی ہے اور اس کے ساتھ یوروایشین )‪ (Euroasian‬کرداروں کے‬
‫معاملے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ یوروپین اور مقامیوں )‪(Natives‬‬
‫کی اوالد ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر مرد انگریزوں اور مقامی عورتوں کے بچے بچیاں‬
‫ہیں۔ ان کے کردار کو ان کی مائوں کے تجربات کے حوالے سے بھی جانچا جا سکتا ہے۔‬
‫بطور نمونہ عہد نوآبادیات کے مرد مصنفین کے ناولوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ ‪ E. M. Forster‬کے ناول اے پیسج ٹو انڈیا میں عہد نوآبادیات میں‬
‫ہندوستانیوں اور گوروں کے درمیان خوشگوار قربت والے تعلقات کے فروغ میں حائل‬
‫رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے جوں ہی یہ تعلقات اچھے ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اسی دوران‬
‫ناول کے پالٹ میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ پوری فضا یکلخت تبدیل ہو جاتی‬
‫ہے کہ ایک ہندوستانی مرد (عزیز) ایک انگریز خاتون )‪ (Adela‬پر جنسی حملے کا ملزم‬
‫قرار پاتا ہے یعنی ایک عورت دونوں قوموں کے تعلقات میں خرابی اور باعث نزاع بنتی‬
‫ہے ۔ اس واقعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انگریز ہندوستانیوں کے بارے میں‬
‫اور ہندوستانی انگریزوں کے بارے میں کس قسم کے احساسات و جذبات رکھتے ہیں۔‬
‫اسی ناول میں دوسرا اہم نسوانی کردار مسز مور )‪ (Mrs. Moore‬کا ہے جو ناول کی‬
‫کہانی کو آگے بڑھا نے میں اور پالٹ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫جان ماسٹرز کے بھوانی جنکشن )‪ (Bhoani Junction‬کا ذکر کیا جائے تو اس‬
‫میں مرکزی کردار پیٹرک ٹیلر )‪ (Patric Taylor‬ایک یوروایشین ریلوے افسر کا ہے‬
‫اور دوسرا مرکزی کردار وکٹوریہ جونز )‪ (Victoria Jones‬کا ہے جو ایک یوروایشین‬
‫دوشیزہ ہے۔ اور برطانوی ہندوستان میں اس کے شناختی بحران )‪ (Identity crisis‬کے‬
‫مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔‬
‫جان میک پیس تھیکرے کے وینٹی فیئر )‪ (Vanity Fair‬کی کہانی بھی ایک‬
‫خاتون ربیکا )‪ (Rebecca‬کے گرد گھومتی ہے جو اپنی زندگی اور اسٹیٹس کو تبدیل‬
‫کرنے کی خواہاں ہے اس ناول میں کئی دوسری خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جس طرح‬
‫کے کردار خاتون ناول نگار ‪ Jane Austin‬کے ناولوں جیسے ‪Pride and‬‬
‫‪Prejudice‬وغیرہ میں جوان مردوں اور لڑکیوں کے بیشتر کردار آپس میں راہ و رسم‬
‫بڑھاتے نظر آتے ہیں اور ان تعلقات میں لطیف الجھنیں پڑتی ہیں اور کرداروں مینارتقا‬
‫کی منازل التی ہیں اور آخر میں کچھ کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی اس ناول میں بھی‬
‫کئی دوسرے خواتین کردار بھی سامنے الئے جاتے ہیں۔ اس ناول میں بھی شادی اور‬
‫محبت کے معامالت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور عورتوں کی نفسیات کو اجاگر کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫اسی طرح جارج آرویل )‪ (George Orwell‬کا )‪ (Burmese Days‬ایک‬
‫انگریز کی برما میں برطانوی راج کے عہد زوال کے ایام کی داستان ہے جب وہ اس‬
‫خوبصورت سرزمین پر اپنی گہری تنہائی کے بارے میں غور کرتا ہے۔ اس کی ایک‬
‫پرانی داشتہ کو اس کے بظاہر بے ضرر دشمن کی طرف سے اس کی تباہی و بربادی‬
‫موثر آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫کے لیے ٔ‬
‫رڈیارڈ کپلنگ )‪ (Kipling‬کی متعدد شارٹ اسٹوریز جیسے"‪، "Lispeth‬‬
‫"‪ "Beyond the Pole‬اور دوسری کئی کہانیوں میں مقامی عورتوں کو نمایاں اور‬
‫مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔‬
‫کچھ نقادوں نے کپلنگ کی کہانیوں میں عورتوں کی تصویر کشی کے پس منظر‬
‫میں کچھ محرکات کی نشاندہی بھی کی ہے جس میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس کی زندگی پر‬
‫تین مختلف عورتوں کے اثرات کچھ اس انداز میں ثبت ہوئے کہ ان کی عکاسی اس کے‬
‫ادبی سرمائے میں بھی جھلکتی ہے۔ پہلی عورت کیپٹن ہالوے )‪(Captain Holloway‬‬
‫کی شریک حیات تھی اور اس بورڈنگ ہائوس کی انچارج تھی جہاں کپلنگ ‪۱۸۷۱‬ء سے‬
‫‪ ۱۸۷۷‬ء تک مقیم رہا۔ جس کے ساتھ کپلنگ کی بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں کیونکہ وہاں‬
‫ان پر اکثر تشدد کیا جاتا تھا اس وجہ سے کپلنگ نے اسے اجاڑ گھر ‪(House of‬‬
‫)‪Desolation‬کہا۔ پھر اس کی اپنی والدہ‪ ،‬بہن اور آنٹی جارجی )‪(Aunt Georgie‬‬
‫کے اثرات اور ازاں بعد اس کے امریکی پبلشر )‪ (Balestier‬کی ہمشیرہ )‪(Caroline‬‬
‫کے اثرات۔ مگر ان اثرات کے عالوہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ‬
‫کپلنگ کے خواتین کے کردار بہت متنوع ہیں اور بعض اوقات ان میں تضاد بھی پایا جاتا‬
‫ہے کیوں کہ ایک طرف اس کے خواتین کردار مردوں کی اکثریت اور حاکمیت والے‬
‫معاشرے میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اس کے‬
‫خواتین کردار ’’محدود نوعیت )‪‘‘ (Restricted & Limited‬کے ہیں اور ان میں بھی‬
‫مسز ہاکسبی )‪ (Mrs. Hawksbee‬اور مسز ریور )‪ (Mrs. Reiver‬جیسی خواتین کو‬
‫سطحی اور جنس زدہ )‪ (Shallow and Promiscuous‬قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ‬
‫اس نے ہندوستان میں بیشتر انگریز خواتین کو مکار‪ ،‬شرارتی‪ ،‬بے وفا اور متعصبانہ‬
‫کردار کی حامل کے طور پر پیش کیا مگر یہ بھی کوئی حتمی بات نہیں کیونکہ بعض‬
‫اوقات اس نے اس سے انحراف کرتے ہوئے انہیں اطاعت گزار‪ ،‬وفادار اور بعض اوقات‬
‫نافرمان اور سرکش عورت کے روپ میں پیش کیا ہے یعنی مختلف کرداروں کو متضاد‬
‫روپ میں پیش کیا ہے جیسے کہ اس کی کہانی ‪ The Other Man‬کی مرکزی کردار‬
‫ـ "‪"Miss Gaurey Plain Tales from the Hills‬میں "‪ "Lispeth‬کا کردار ۔‬
‫"‪"Three and ...A Extra‬میں"‪ "Mrs. Bremmil‬کا کردار‪"Cupidls Arrow" ،‬‬
‫میں "‪ "Kitty Beighton‬کا کردار‪"Miss Youghlal's Sais" ،‬میں ‪"Miss‬‬
‫"‪Youghal‬کا کردار‪ ،‬اسی طرح "‪ "Plain Tales from the Hills‬میں سے ہی‬
‫"‪"Mrs. Hawksbee‬کا کردار سب اپنی اپنی جگہ پر منفرد اور الگ تہذیب و معاشرت‬
‫اور امتزاج کے نمائندہ ہیں جن کو کپلنگ نے یکسانیت سے پیش نہ کر کے اپنی ادبی‬
‫مہارت کا ثبوت بھی دیا ہے اسی طرح کپلنگ کے مشہور ناول ِکم )‪ (Kim‬میں شاملیغ‬
‫)‪(Shamlegh‬جیسی پستی زدہ عورت کے کردار کو بھی نہایت فنکارانہ انداز میں پیش‬
‫کیا ہے۔‬
‫کپلنگ کے پیش کردہ ان خواتین کرداروں کے جائزے سے یہ بات مترشح ہوتی‬
‫ہے کہ کپلنگ نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے دوسرے‬
‫مشہور لکھاریوں سے مختلف انداز میں ان نسوانی کرداروں کو اجاگر کیا ہے۔ یوں وہ‬
‫تصویر جو ان کرداروں کے ذریعے قاری کی آنکھوں کے سامنے پیش ہوتی ہے وہ یقینا‬
‫بے مثال‪ ،‬مختلف مگر حقیقت سے قریب ترہے۔‬
‫پال مارک اسکارٹ کے ‪ Jewel in the Crown‬میں ڈیفنی مینرز ‪(Dephne‬‬
‫)‪Manners‬کا کردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے وہ ہندوستان میں اپنی خالہ کے ہاں قیام‬
‫کے لیے آتی ہے کیو ں کہ اس کا سارا خاندان انگلستان میں جنگ کی نذر ہو چکا ہے۔‬
‫یہاں اس کے ساتھ عصمت دری کا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے اور نتیجتا ً وہ حاملہ ہو‬
‫دوران زچگی انتقال کر جاتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫جاتی ہے اور‬
‫‪Day of Scorpion‬میں سارہ لٹن )‪ (Sara Layton‬کا کردار مرکزی ہے۔ وہ‬
‫ایک ذہین اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور ایک مسلمان کے ساتھ دوستی کرتی ہے۔ سوسن‬
‫)‪(Susan‬اس کی بہن ہے۔ یہ دونوں نسلی عصبیت کا شکار ہوتی ہیں۔‬
‫‪Tower of Silence‬میں مس باربی بیچلر )‪ (Barbi Bachelor‬کے گرد کہانی‬
‫گھومتی ہے جب کہ ‪ A Division of Spoils‬میں‪ Guy Peron‬کے حوالے سے آنٹی‬
‫شارلٹ کا کردار نمایاں ہے۔‬
‫پال اسکاٹ کے ناول راج کوارٹٹ کے بیشتر نسوانی کرداروں کے جائزے سے یہ‬
‫بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں مقامی خواتین کی اکثریت کم تر سماجی حیثیت میں‬
‫زندگی بسر کرتی ہے اور وہ اپنے والدین‪ ،‬خاوندوں اور بھائیوں کے زیر سایہ معاشرے‬
‫میں سب سے نچلے طبقے میں شمار کی جاتی ہیں اور جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو‬
‫جائے تو بیوہ عورت بھی اس کے ساتھ ستی ہو جاتی ہے یعنی ہندوستانی معاشرے میں‬
‫اعلی خاندانوں میں‬‫ٰ‬ ‫عورت کی زندگی کی زیادہ وقعت نہیں ہے مگر اس کے ساتھ کچھ‬
‫اعلی مقام و مرتبے کی حامل ہے۔ کم درجے کی حامل‬ ‫ٰ‬ ‫عورت ’’سیاہ‘‘ ہونے کے باوجود‬
‫خواتین کی نمائندگی اس ناول میں شالینی گپتا سین )‪ (Shalini Gupta Sen‬کرتی ہے‬
‫جو کہ ہری کمارکی آنٹی ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس اگرچہ زیادہ مال و دولت نہیں ہے‬
‫مگر دوسروں کے لیے ہمدردی ر کھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈیفنی مینرز کو ہری کمار‬
‫کی دوست سمجھ کر اپنے غریبانہ گھر میں دعوت دیتی ہے۔ اس طبقے کی خواتین میں‬
‫نسلی تعصب بھی موجود نہیں ہے ۔ یہ خاتون اپنے خاوند کی وفات پرستی بھی نہیں ہوتی‬
‫اور خاندان کی مخالفت مول لیتی ہے اور ہری کمار جب انگلستان سے واپس میا پور آجاتا‬
‫ہے تو اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔‬
‫للی چیٹرجی )‪ (Lilli Chatterjee‬ایک دوسرے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے‬
‫طبقہ اشرافیہ کی۔ وہ جنیوا اور پیرس میں حاصل کردہ تعلیم کو استعماری طاقتوں‬
‫ٔ‬ ‫یعنی کہ‬
‫اور محکوموں کے درمیان معتدل فضا قائم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور اپنی‬
‫رہائش گاہ میک گریگر ہائوس )‪ (Mac Gregor House‬میں دونوں طبقوں کے افراد‬
‫حتی کہ ڈیفنی مینرز‬‫کو مدعو کرتی ہے اور آپس میں مکالمے کا موقع فراہم کرتی ہے ٰ‬
‫جو کہ برطانوی دوشیزہ ہے وہ بھی اس کے گھر آ کر قیام کرتی ہے۔ للی کے ساتھ‬
‫ہندوست ان کی عصری سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتی ہے اور مہاتما گاندھی کی‬
‫سرگرمیوں کا جائزہ لیتی ہے۔ وہ مہاتما گاندھی کی ذہنی اور جسمانی خوبیوں کی معترف‬
‫ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ نہایت شاطر آدمی ہے۔ ہر فن موال ہے اور اسے معلوم ہے‬
‫کہ کس وقت کبوتروں کے درمیان بلی بٹھانی ہے۔‬
‫‪His shrewdness, his perfect timing in putting the cat among the‬‬
‫)‪pigions.(39‬‬
‫ان دونوں ہندوستانی خواتین کے درمیان امتیاز یہ بھی ہے کہ شالینی نچلے طبقے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫سے تعلق رکھتی ہے مگر مذہبی طور پر ایک کٹر ہندو ہے جبکہ آنٹی للی جو‬
‫طبقے کی فرد ہے و ہ کہتی ہے کہ میں تو ایسی کچھ نہیں ہوں میں تو صرف اور صرف‬
‫ہندوستانی ہوں اور مجھے تشدد سے نفرت ہے۔‬
‫)‪I don't like violence...... I hate negation. (40‬‬
‫تاہم دونوں طبقوں کی خواتین اپنی تاریخ اور ثقافتی روایات کو بڑی قدر اور احترام‬
‫کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور خاص طور پر شالنی جس ہندو روایت سے جڑی ہوئی ہے‬
‫اس کا تعلق کئی ہزار سال قبل تحریر کی جانے والی مقدس وید )‪ (Vedas‬سے مضبوطی‬
‫سے جڑا ہوا ہے۔‬
‫راج کوارٹٹ میں دو انگریز خواتین کے کردار بہت اہم اور قابل غور ہیں۔ ان میں‬
‫سے ایک ڈیفنی مینرز )‪ (Daphne Manners‬اور دوسری ایڈونا کرین ‪(Edwina‬‬
‫)‪ Crane‬ہے۔ ڈیفنی ایک نوجوان عورت ہے جبکہ ایڈونا کرین ایک معمر خاتون ہے جو‬
‫‪ ۳۵‬برس قبل ہندوستان میں وارد ہوئی۔ دونوں خواتین جسمانی طور پر کوئی زیادہ‬
‫خوبصورت نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے گرد مداحوں کا کوئی گھیرا ہے۔ مس کرین ایک‬
‫دعوی کرتی‬
‫ٰ‬ ‫لبرل قسم کی خاتون ہے اس کے مطابق للی چیٹر جی )‪(Lilli Chatterjee‬‬
‫ہے‬
‫)‪She loved India and all Indians, but no particular Indian. (41‬‬
‫’’ وہ ہندوستانیوں اور ہندوستان سے محبت ضرور کرتی ہے مگر کسی خاص ہندوستانی‬
‫سے نہیں۔‘‘‬
‫ان دونوں انگریز خواتین کے درمیان فرق یوں بھی واضح ہوتا ہے کہ مس کرین‬
‫دعوی کرتی ہے جبکہ مس مینرز باقی تمام ہندوستانیوں سے‬ ‫ٰ‬ ‫ہندوستانیوں سے محبت کا‬
‫نفرت کا اظہار کرتے ہوئے صرف ایک ہندوستانی ہری کمار )‪ (Hari Kumar‬سے‬
‫محبت کا اظہار کرتی ہے۔‬
‫دونوں انگریز خواتین ہندوستان میں خیراتی اور مشنری اداروں سے منسلک ہیں۔‬
‫ایڈونا کرین ایک مشن سکول میں ہندوستانی بچوں کو تعلیم دیتی ہے جبکہ ڈیفنی مینرز‬
‫ایک مشن ہسپتال میں مالزمت کرتی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ان کا تعلق مثالیت پرستی پر‬
‫مبنی ہے۔ وہ نوآبادیاتی ہندوستان میں جنم لینے والے مختلف مسائل تو ناپسند کرتی ہیں‬
‫مگر اس ملک کی اپنے اذہان میں تخلیق کردہ مثالی تصویر کو پسند کرتی ہیں۔‬
‫دونوں خواتین ہندوستان میں ایک جیسے سانحات کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کے‬
‫ساتھ دو ہندوستانی مرد بھی۔ ان دونوں حادثات کی ذمہ دار بھی وہ خود ہیں اور ان کا‬
‫نسلی غرور بھی جو ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں حقائق سمجھنے کی صالحیت‬
‫سے محروم کر دیتا ہے۔‬
‫اس کا ہندوستانی دوستی ہری کمار ان تعلقات کو ختم کرنے کا کہتا ہے مگر وہ‬
‫آپس میں دوسری اور محبت کے رشتے کو قائم رکھنے پر مصر ہے۔ وہ اسے سمجھاتا‬
‫ہے کہ ان حاالت میں ہماری دوستی کئی قسم کے خطرناک نتائج یا پیش خیمہ ہو سکتی‬
‫ہے مگر اس کا ذہنی غرور کسی بھی قسم کی نصیحت کو سننے سے باز رکھتا ہے۔ اس‬
‫کے لیے یہ ایک ایڈونچر ہے جو نہ صرف اسے بلکہ ہندوستانی کمار کو بھی تباہی کی‬
‫طرف لے جاتی ہے۔‬
‫‪I thought that every thing I did was an adventure of some sort. I‬‬
‫‪was breaking every rule there was. I made the horrible mess of‬‬
‫)‪every thing.(42‬‬
‫اسی طرح کا سانحہ ٹیچر ایڈونا کرین کے ساتھ پیش آتا ہے کہ ہندوستانی ٹیچر‬
‫مسٹر چوہدری اسے ’’ہندوستان چھوڑ دو "‪‘‘ "Quit India‬تحریک کے مظاہروں کے‬
‫درمیان باہر نکلنے سے منع کرتا ہے مگر وہ اپنے نسلی غرور کی وجہ سے اس کی‬
‫نصیحت پر کان نہیں دھرتی۔ مسٹر چوہدری جب ایڈونا کرین کے ہمراہ باہر نکلتا ہے تو‬
‫وہ مشتعل ہجوم کے غصے کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ مقامی لوگ جب اسے ایک‬
‫انگریز خاتون کے ساتھ کار میں سفر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اسے غدار سمجھتے‬
‫ہیں اور یوں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔‬
‫جبکہ ہری کمار جو ڈیفنی کے ساتھ بیٹھا ہے وہ بھی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو‬
‫کر میرک کے عتاب کا نشانہ بنتاہے۔‬
‫دونوں انگریز خواتین اپنے گناہوں اور غلطیوں کی تالفی اپنی موت کی صورت‬
‫میں کرتی ہیں۔ مس کرین بھی کسی ہندوستانی بیوہ کی طرح اپنے گھر کو آگ لگا کر خود‬
‫کو ستی )‪ (Suttee‬کر لیتی ہے۔ جبکہ ڈیفنی بھی بچی کی پیدائش کے دوران فوت ہو‬
‫جاتی ہے۔ دونوں ہی کی اموات ہندوستانی مردوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور دونوں‬
‫ہندوستانی مرد ان خواتین کے نسلی تفاخر اور غرور کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ برطانوی‬
‫بھی ان خواتین کی مختلف وجوہات کی بنا پر مذمت کرتے ہیں۔‬
‫ڈیفنی اور ایڈونا کی سماجی زندگی ہندوستانی معاشرے میں بڑی بھرپور ہے اور‬
‫وہ ہندوستانیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ٖڈیفنی کی آنٹی للی میک گریگر )‪(Mag Gregor‬‬
‫ہائوس میں ضیافتوں کا اہتمام کرتی ہیں جہاں پر گورے مقامی لوگوں سے ملتے مالتے‬
‫ہیں۔ ایڈونا بھی اپنے گھر میں دعوتیں سجاتی ہے جہاں ہندوستانی عورتوں اور انگریز‬
‫سپاہیوں کی فالح و بہبود کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی‬
‫باقاعدگی سے ہندوستانیوں سے ملتی ہیں مگر ان کے باطن میں انگریز ہونے اور سفید فام‬
‫نسل سے تعلق ہونے کا فخر و غرور اپنی جگہ پر قائم ہے اور یہی وہ برتری کا احساس‬
‫ہے جو انہیں آخر کار تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اچھی فطرت‬
‫رکھنے والی خواتین ہیں مگر برطانوی استعمار کے برتر قوم کے نظریے کا شکار ہو‬
‫جاتی ہیں وہ ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات سے بے خبر انہیں جاہل اور کم تر نسل‬
‫سے تعلق رکھنے واال سمجھتی ہیں۔ وہ انہیں تعلیم دینے اور ان کے زخموں پر مرہم‬
‫رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہیں مگر ان کے لیے ان کے دلوں میں حقیقی احترام کی وہ‬
‫کیفیت موجود نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی۔ ڈیفنی اگرچہ دونوں ہی اقوام کو قصور وار‬
‫سمجھتی ہے اور انگریزوں کی غلطی اس وجہ سے سمجھتی ہے کیوں کہ اس کے خیال‬
‫میں معامالت میں خرابی کی بڑی وجہ غیر ملکیوں سے نفرت یا اجنبیوں سے بیزاری‬
‫)‪(Xenophobia‬پر مبنی رویہ ہے۔‬
‫ڈیفنی ہندوستان کے قومی غرور کا موازنہ ان کے دیوتا وشنو )‪ (Vishnu‬سے‬
‫کرتی ہے جو ابھی تک خفتہ ہے مگر کسی بھی لمحے بیدار ہو کر دشمنوں پر بجلیاں گرا‬
‫سکتا ہے۔ اسی طرح شیوا )‪ (Shiva‬کائناتی آگ کے دائرے میں خاموشی سے محو رقص‬
‫دیکھا جا سکتا ہے اس کا دایاں پائوں چھوٹے سے آسیب کو دبائے ہوئے ہے جب کہ اس‬
‫کا بایاں پائوں اوپر کی طرف اٹھا ہوا ہے اور اس کے ہاتھوں نے آگ کے شعلے کو تھام‬
‫رکھا ہے۔ یہ سکوت یا خاموشی ہندوستانی قوم کی اطاعت کی عالمت ہے اور ان کی‬
‫چھپی ہوئی دانش اور طاقت کو جس کو انگریز سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح مس‬
‫مینرز اور ڈیفنی بھی حادثے کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ پولیس کے‬
‫سامنے بھی زبان کھولنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ وہ مزید تشدد‬
‫نہیں چاہتیں۔ ساتھ ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ‬
‫ہندوستانیوں نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر وہ اب اس کے جواب میں ان کے ساتھ‬
‫دھوکہ دہی کا ارتکاب نہیں کر سکتیں۔ ڈیفنی کی نوزائیدہ بیتی پاروتی )‪(Parvati‬‬
‫ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان نئے تعلقات‪ ،‬نئے ضابطوں اور نیو آرڈر کے لیے موقع‬
‫فراہم کرتی ہے۔ اس میں بھی تضاد کی کیفیت یوں واضح ہوتی ہے کہ ایک انگریز ماں‬
‫اور ہندوستان ی باپ کی بیٹی کی پرورش للی چیٹر جی کے ذمے لگتی ہے جو کہ قدیم‬
‫ثقافت اور روایات کی نمائندہ ہے۔ دونوں ہندوستانی خواتین للی اور شالنی گپتا سین ناول‬
‫میں قدیم مشرقی دانش کی بھرپور عکاس ہیں۔‬
‫بحیثیت مجموعی ہندوستان میں قیام پذیر سفید فام خواتین کو بھی دو بڑے گروپوں‬
‫میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک تو برطانوی انگریز خواتین ہیں جبکہ دوسری‬
‫خواتین وہ ہیں جن کا تعلق انگلستان سے نہیں ہے۔ دونوں کے رویے بھی مختلف ہیں۔ غیر‬
‫برطانوی گوری خواتین ہندوستانیوں سے معقول رویہ اپناتی ہیں۔ ان کا رویہ انفرادیت‬
‫پسندانہ ضرور ہے مگر وہ اپنی قومیت کی برتری کے احساس کو دوسروں پر مسلط نہیں‬
‫کرتیں۔ ہندوستان میں رہائش پذیر گوری خواتین اکثر خود کو خیراتی اداروں سے وابستہ‬
‫کر لیتی ہیں مگر برطانوی تصور کرم فرمائی بہت ہی پرفریب اور منافقانہ ہے کیوں کہ‬
‫وہ ہندوستانیوں سے اس طرح برتائو کرتی ہیں تویا کہ وہ بے یار و مدد گار ہوں۔ اپنا‬
‫بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوں‪ ،‬وحشی اور غیر مہذب ہوں اور وہ ان برطانوی گوروں کی‬
‫مدد کے بغیر زندہ رہنے کے قابل بھی ہر گز نہیں ہیں۔ یہ خواتین اگر کسی مسئلے کی‬
‫پیچیدگی اور سمجھ نہ بھی پائیں تو پھر بھی دونوں اقوام کے درمیان پائی جانے والی‬
‫کشمکش اور آویزش کو محدود یا کم کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے‬
‫کہ ان کی جدوجہد یا دوڑ دھوپ ہمیشہ الحاصل ہی رہتی ہے۔ اس کے برعکس انگریز‬
‫مرد خود کو سیاسی اور فوجی اقدامات میں ملوث کر کے اس طرح کے مواقع پر لوگوں‬
‫میں اشتعال پھیالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس ناول میں‬
‫شر اور فتنہ و فساد پھیالنے والے کرداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ‬
‫خاطی اور غلط کار ہیں جبکہ یہ خواتین ان کی غلطیوں کی سزاوار ہیں یا پھر یہ بھی‬
‫ممکن ہے کہ اس ناول کا مصنف حقوق نسواں کے رحجانات کا سرگرم حامی ہو اور اس‬
‫کے اس ذہنی میالن کا اظہار شاید ناول کے صفحات میں ان نسوانی کرداروں کی عکاسی‬
‫میں بھی ہوا ہو۔‬
‫اس اجمالی تذکرے سے اہم نقطہ یہ سامنے آتا ہے کہ عہد نوآبادیات کے مرد ادباء‬
‫کے ناولوں میں عورت غائب نہیں موجود ہے اور اس کی موجودگی کو محسوس کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫اسی تناظر میں ای ایم فارسٹر کے مشہو رناول اے پیسج ٹو انڈیا کے مرکزی‬
‫کردار ایڈال کیوسٹڈ )‪ (Adela Quested‬کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے کچھ اس‬
‫طرح کی تصویر ابھرتی ہے کہ اگرچہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانوی‬
‫خواتین کو ‪۱۹۱۸‬ء میں ‪ ۳۰‬سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد ووٹ کا حق حاصل ہو گیا۔‬
‫مگر ان کا یہ حق رائے دہی بالغ مردوں کے اس حق کے مساوی نہ تھا یہاں تک کہ‬
‫‪ ۱۹۲۸‬ء میں عوامی نمائندگی کا ایکٹ پاس کیا گیا۔ اسی پس منظر میں جب خواتین کے‬
‫حقوق کے حصول کی جنگ جاری تھی ‪۱۹۲۴‬ء میں یہ ناول شائع ہوا جس میں دلچسپ‬
‫بات یہ ہے کہ خواتین کے کردار ناول میں شامل ضرور ہیں مگر ان کو صرف بیویوں‪،‬‬
‫مائوں‪ ،‬منگیتروں یا داشتائوں کے روپ میں ناول کا حصہ بنایا گیا ہے یعنی کسی بھی‬
‫روپ میں وہ مرد کی محکوم اور زیر دست رہیں اور ان کی طاقت کے حصول کا واحد‬
‫ذریعہ مردوں کے ساتھ تعلق داری پر مبنی ہے۔‬
‫ایڈال کیوسٹڈ ‪ Adela Quested‬نامی نوجوان سنجیدہ اور متجسس انگریز خاتون‬
‫اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ وہ مسز مور )‪ (Mrs. Moore‬کے ساتھ ہندوستان میں‬
‫وارد ہوتی ہے۔ کیوں کہ مسزمور کا بیٹا رونی )‪ (Ronny Heaslop‬ہندوستان میں اپنی‬
‫خدمت برطانوی استعمار کے لیے سرانجام دے رہا ہے۔ وہ ایڈال کا منگیتر بھی ہے۔ ان دو‬
‫خواتین کی آمد کے بعد ناول کے پالٹ میناچانک ایک ایسا موڑ آتا ہے جو تمام منظر‬
‫نامے کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ان دونوں خواتین کی آمد کو بالئے ناگہانی کہتے ہوئے‬
‫"‪"Benita Pary‬نے تباہ کن قرار دیا ہے۔‬
‫‪The catastrophic entry of Mrs. Moore and Adela Quested into an‬‬
‫‪untranslatable sphere is inseparable from the cultural constraints‬‬
‫‪on their capacity to confront the otherness of meanings both‬‬
‫)‪immonent in and attached to India. (43‬‬
‫اس سے پہلے ناول میں جن دو خواتین کرداروں سے مالقات ہوتی ہے انہیں بھی‬
‫رسمی اور غیر مرئی انداز سے مردوں کے ہمزاد کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ یعنی ناول‬
‫میں بیانیے کی سطح پر ان نسوانی کرداروں کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے کہ قاری‬
‫سے ان کی مالقات بالواسطہ طور پر ان کے مردوں کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کا ذاتی‬
‫وجود یا شخصیت ناول کے محضر نامے میں غائب ہے۔ اس کی دو مثالیں یوں دی‬
‫جاسکتی ہیں کہ عزیز کی بیوی اور فیلڈنگ کی بیوی کے کردار اپنے ذاتی افعال اور‬
‫خیاالت کے ذریعے خود کو ظاہر کرنے کے بجائے ان کے شوہروں کے ذریعے متعارف‬
‫ہوتے ہیں اور ان کا ذاتی کوئی کردار سامنے نہیں آتا بلکہ ان کے شوہر جو کچھ ان کے‬
‫تعارف کلی ہے اور یہ صرف‬‫ِ‬ ‫بارے میناظہار خیال کرتے ہیں قاری کے لیے یہی ان کا‬
‫ہندوستانی ہی نہیں بلکہ برطانوی کرداروں پر بھی منطبق ہوتا ہے جیسا کہ ‪Sara‬‬
‫‪Rhoads Nilsen‬نے اپنے مقالے میں رائے دی ہے کہ‬
‫ــ ‪The British female characters are marginalized by their British‬‬
‫)‪male counterparts. (44‬‬
‫‪ Hubel, Teresa‬نے بھی اسی قسم کی رائے دی ہے کہ اس ناول مینعورتوں کے‬
‫کردار کو نہایت بے رحمی کے ساتھ مجروح کیا گیا ہے اور انہیں لڑاکا‪ ،‬خون آشام‬
‫طوفان‪ ،‬بدمزاج اور چڑچڑی خواتین کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے‪:‬‬
‫ـ ‪A Passage to India is bard on woman. It portrays them‬‬
‫‪unfavourably- as shresish harpies, silly gigglers, confused‬‬
‫)‪spinsters, and cranky old ladies.(45‬‬
‫عزیز کی بیوی کے ساتھ قاری کی مالقات عزیز کے تاثرات کے ذریعے ہوتی ہے‬
‫بطور کردار اس کی ذاتی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ‬
‫ناول کے پالٹ کا حصہ ہی عزیز کے کردار کو گہرائی اور معنویت دینے کے لیے بنائی‬
‫گئی ہے۔ ناول مینعزیز کی زبانی اس کی بیوی کا احوال کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ‬
‫وہ جب تک زندہ رہی اس کے ساتھ وفادار اوراس کی خدمت گزار رہی اور اسی میں چل‬
‫بسی۔‬
‫‪He was won by her love for him, by a loyalty that implied‬‬
‫‪something more than submission --- She became the mother of a‬‬
‫)‪son --- and in giving him a second son she died. (46‬‬
‫ایک اور جگہ پر ناول میں عزیز کی بیوی سے قاری کی مالقات اس کی وفات‬
‫کے بعد اس کی تصویر کے ذریعے دوبارہ اس کے شوہر کی وساطت سے ہی ہوتی ہے۔‬
‫‪And unlocking a drawer, he took out his wife's photograph. He‬‬
‫‪gazed at it, and tears spouted from his eyes. . . . . the more he‬‬
‫)‪looked at this photograph, the less he saw. (47‬‬
‫شروع میں ہندوستان میں ‪ Adela‬کو دوسری انگریز خواتین کرداروں کے‬
‫برعکس ایک اجنبی یا پردیسی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسے بطور‬
‫رونی کی منگیتر اس کا مقام یا مرتبہ اس کی بحیثیت بیوی ہونے یا فرد واحد ہونے کے‬
‫مخمصے میں ہمیشہ مبتال رکھتا ہے۔ دوسری طرف عزیز اور فیلڈنگ کے درمیان دوستی‬
‫کا رشتہ جوڑنے میں مدد دینے کے باوجود ایڈال ناول میں دوسرے کرداروں کے ساتھ ہم‬
‫آہنگی یا استواری پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔‬
‫بادی النظر میں ‪ Adela‬کے ہندوستان آمد کے دو مقاصد سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ‬
‫کہ وہ اپنے منگیتر رونی کو دیکھنا اور پرکھنا چاہتی ہے کہ کیا وہ اس ساتھ اپنا مستقبل‬
‫وابستہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ دوسرے وہ ہندوستان کی اصل اور حقیقی تصویر دیکھنا‬
‫چاہتی ہے۔ اگرچہ وہ اپنے کنوارپن میں آزاد ہے اور اپنے مقاصد کے حصول میں اسے‬
‫کوئی امر مانع نہیں ہے مگر اس میں جسمانی دلکشی کی کمی یا کمزوری اس کے لیے‬
‫سد راہ بن جاتی ہے اور ان دونوں انگریز خواتین کے کرداروں میں مردوں کے لیے‬
‫کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ مسز مور نہایت عمر رسیدہ خاتون ہے جبکہ‬
‫‪Adela‬نسوانی کشش سے محروم ایک سپاٹ عورت۔ فیلڈنگ کے گھر پر مسز مور اور‬
‫ایڈال کے ساتھ چائے کی دعوت پر ہونے والی مالقات میں عزیز کے تاثرات مالحظہ ہوں۔‬
‫‪Beauty would have troubled him, for it entails rules of its own, but‬‬
‫‪Mrs. Moore was so old and Miss Quested so plain that he was‬‬
‫)‪spared this anxiety. (48‬‬
‫اس کی جسمانی ساخت اور کیفیت بھی ناول نگار نے اسی چائے کی دعوت میں‬
‫عزیز کی زبانی کچھ اس طرح سے بیان کی ہے کہ وہ جسمانی طور پر نہایت کمزور‪،‬‬
‫بالکل ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند ہے اس کے چہرے پر جھریاں اور دانے اور آنکھیں‬
‫بھی بھینگی سی ہیں ایسے میں کوئی مرد کیسے اس کی طرف فورا ً متوجہ ہو سکتا ہے‬
‫جبکہ خدا نے اسے نسوانی حسن سے محروم رکھا ہے۔‬
‫‪Adela's angular body and the freckles on her face were terrible‬‬
‫‪defects in his eyes, and he wondered how God could have been‬‬
‫‪so unkind to any female form. His attitude towards her remained‬‬
‫)‪entirely straightforward in consequence. (49‬‬
‫ناول کے ابتدائی حصے میں ایڈال اور مسز مور کے کردار کو کچھ اس طرح پیش‬
‫کیا گیا ہے کہ وہ دونوں ہمیں کوشش کرتی نظر آتی ہیں کہ ہندوستان میں مختلف طبقات‬
‫کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پید ا کریں مگر وہ ناکام رہتی ہیں۔ اس ناکامی میں بھی کچھ‬
‫انگریز خواتین کا درشت رویہ ذمہ دار ہے جو کہ ان نووارد انگریز خواتین کو کچھ اہمیت‬
‫نہیں دیتیں بلکہ اس کے برعکس انہیں یہ بات بھی ازبر کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ‬
‫گوروں اور مقامیوں کے درمیان طبقاتی حوالے سے وسیع تفاوت اور گہری خلیج حائل‬
‫ہے اور یہ فاصلے ان کے درمیان حائل رہنے ضروری ہیں کیونکہ اسی سے ہندوستان‬
‫میں ان کی بقا وابستہ ہے ورنہ ان ہندوستانیوں کی زیادہ قربت انگریزوں اور استعماریوں‬
‫کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫مسز مور اور ایڈال کے اعزاز میں جب مسز ٹرٹن )‪ (Turton‬کے ہاں پارٹی منعقد‬
‫کی جاتی ہے تو مسز ٹرٹن کو ہندوستانیوں کے ساتھ یہ اختالط اور نرم رویہ ناگوار گزرتا‬
‫ہے۔ مسٹر ٹرٹن پارٹی کے دوران اسے یاددہانی کراتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان گفتگو‬
‫کچھ اس طرح سے ہوتی ہے‪:‬‬
‫‪To work, Mary, to work," cried the Collector, touching his wife on‬‬
‫‪the shoulder with a switch. Mrs. Turton got up awkwardly. "What‬‬
‫)‪do you want me to do? (50‬‬
‫اسی پارٹی کے حوالے سے ایڈال کا مشاہدہ اور اس کے تاثرات نہایت اہم ہیں جو‬
‫اس کی سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان تاثرات کا اظہار وہ فیلڈنگ )‪ (Fielding‬کے‬
‫ساتھ کرتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ اس پارٹی نے اسے خوشی دینے کے بجائے افسردہ‬
‫اور مشتعل کر دیا ہے۔ اور وہ انگریزوں کے مقامیوں کے ساتھ رویے پر ناخوشی کا‬
‫اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمیں تو امید تھی کہ مشرق اور مغرب کے درمیان حائل‬
‫دیواریں کمزور ہو کر گر پڑیں گی مگر یہ دیواریں اور مضبوط ہو گئی ہیں اور ہمارے‬
‫خواب بکھر گئے ہیں۔ اس ساری صورت حال کا اندازہ حسب ذیل طویل اقتباس سے ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫ـ ‪This party to-day makes me so angry and miserable. I think my‬‬
‫‪countrymen out here must be mad. Fancy inviting guests and not‬‬
‫‪treating them properly. . . . . It had been hoped to have some sets‬‬
‫)‪between East and West, but this was forgotten. (51‬‬
‫ایڈال کے کردار کے حوالے سے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ اس کی مخلصانہ‬
‫کاوشوں کے برعکس معاملہ یکدم مخالف؍متضاد سمت کی جانب بڑھتا ہے۔ جب مارابار‬
‫غاروں واال افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان‬
‫خلیج ختم ہونے کے بجائے اور گہری ہو جاتی ہے اور ان کے درمیان نفرتیں بڑھتی ہیں۔‬
‫تعصب کی آگ بھڑکتی ہے اور اس کی وجہ بھی یہ انگریز خاتون ہی بنتی ہے جو مشرق‬
‫و مغرب کے مالپ کی خواہشمند ہے اور اپنی ہی انگریز کمیونٹی کی طعن مالمت کا‬
‫شکار ہوجاتی ہے۔ یعنی ایڈال کو اس ساری خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ بین السطور‬
‫فاسٹر یہ بھی بتاتے ہیں کہ مختلف اقوام کے مابین نسلی تعصبات کو ختم کرنے یا کم‬
‫کرنے میں کچھ خواتین مردوں کی معاون ہو سکتی ہیں مگر ان ناول میں ایسا ہوتا ممکن‬
‫نہیں دکھائی دیتا کیونکہ ایڈال کی شکل میں رونی بڑی اقوام کے درمیان نفرت اور بے‬
‫اعتمادی کا ایک بڑا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ اور خود ایڈال کے لیے ہندوستان میں رہنا بھی‬
‫ناممکن ہوگیا۔ اور رونی کے نزدیک اس کی حیثیت کیا تھی وہ بھی واضح ہو جاتا ہے‬
‫کیوں کہ اس کے ساتھ شادی کرنے کو وہ اپنے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف‬
‫سمجھتا ہے۔ انگریزوں میں سے صرف فیلڈنگ وہ واحد کردار تھا جو کہ ایسے مشکل‬
‫وقت میں اس کی مدد کررہا تھا ورنہ سول الئنز میں رہائش پذیر کوئی بھی انگیز فیملی‬
‫اس سے ملنے یا اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے تیار نہ تھی۔‬
‫‪And Adela--she would have to depart too; he hoped she would‬‬
‫‪have made the suggestion herself ere now. He really could not‬‬
‫‪marry her--it would mean the end of his career. Poor lamentable‬‬
‫‪Adela. . . . She remained at Government College, by Fielding's‬‬
‫‪courtesy--unsuitable and humiliating, but no one would receive‬‬
‫)‪her at the civil station. (52‬‬
‫یہ ساری صورتحال ایسی ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگلستان سے‬
‫ہندوستان آنے والی نوجوان انگریز خاتون کے ساتھ اس کے ہم نسل اور تہذیب کے‬
‫دعویدار انگریزوں کا رویہ کیسا ہے اور خود اس کا منگیتر بھی اس کے ساتھ شادی‬
‫کرنے کو اپنے کیریئر کا اختتام سمجھتا ہے۔ اور اس خاتون کے وجود ‪ ،‬اس کی عزت‬
‫اور اس کی بقا سے زیادہ اپنے کیریئر کے بارے میں فکر مند ہے اور انتہائی افسوس‬
‫ناک صورتحال یہ ہے کہ دوس رے اس کے ہم وطنوں نے بھی اس کی حق گوئی کی وجہ‬
‫سے اس سے منہ موڑ لیا ہے اور ناطہ توڑ لیا ہے۔ ای ایم فاسٹر اس کے کردار کے‬
‫ذریعے اسی رویے کا اظہار کرتے ہیں کہ مغرب کے تعلیم یافتہ انگریز ہوں یا مشرق‬
‫کے جاہل گنوار ہندستانی‪ ،‬عورت کے حوالے سے ان کی فکر‪ ،‬سوچ اوررویہ یکساں‬
‫طور پرہی سامنے آتا ہے۔ دونوں ہی معاشروں میں عورت جب اپنی مرضی سے اپنے من‬
‫کی بات کا اظہار کرنا چاہتی ہے یا کر دیتی ہے تو اس کا وجود ناقابل برداشت ہو جاتا ہے‬
‫اور اسی عدم برداشت کا مظاہرہ ایڈال کا منگیتر رونی بھی کرتا ہے اور نتیجتا ً اس اجنبی‬
‫معاشرے م یں ایڈال تن تنہا اور اکیلی رہ جاتی ہے۔ اس موڑ پر ایڈال واقعی ایک قابل رحم‬
‫کردار کے طور پر سامنے آتی ہے اور ناول کے اس مرکزی نسوانی کردار کی بے‬
‫وقعتی بھی آشکارہوتی ہے۔‬
‫کچھ اس قسم کی صورت حال کا سامنا ناول کے دوسرے مرکزی نسوانی کردار‬
‫مسز مور )‪ (Mrs. Moore‬کو درپیش ہے۔ مسز مور ایک معمر خاتون ہیں اور ایڈال‬
‫کیوسٹڈ کے ہمراہ ہندوستان میں وار دہوئی ہے۔ مسز مور ہندوستان میں بطور مجسٹریٹ‬
‫تعینات رونی ہیسلوپ کی والدہ ہے اس انگریز خاتون سے قاری کی مالقات بھی عزیز‬
‫کے ذریعے ہوتی ہے یہ ان دونوں کی اولین مالقات ہے رات کا وقت ہے اور ڈاکٹر عزیز‬
‫ایک انگیز خاتون کو مسجد میں دیکھ کر جذباتی ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں‬
‫یہ انگریز خاتون ضرور اپنے جوتوں سمیت مسجد میں گھس گئی ہو گی مگر اس کو شدید‬
‫حیرانی اور خوشی ہوتی ہے جب یہ عمر رسیدہ انگریز خاتون اسے بتاتی ہے کہ میں‬
‫جوتے باہر اتار کر اندر داخل ہوئی ہوں‪ ،‬حسب ذیل مکالمے کے ذریعے عزیز کا رد عمل‬
‫اور سارا منظر نامہ ہمارے سامنے آتا ہے‪:‬‬
‫‪"Madam, this is a mosque, you have no right here at all; you‬‬
‫‪should have taken off your shoes; this is a holy place for‬‬
‫"‪Moslems.‬‬
‫"‪"I have taken them off.‬‬
‫"?‪"You have‬‬
‫"‪"I left them at the entrance.‬‬
‫)‪"Then I ask your pardon." (53‬‬
‫عزیز کو جب اصل صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ خود مشاہدہ کرتا ہے کہ‬
‫اس خاتون نے جوتے باہر اتار دئیے ہوئے ہیں تو وہ معافی کا خواستگار ہوتا ہے یہیں پر‬
‫قاری کے ساتھ اس انگریز خاتون کا تعارف ہوتا ہے اور عزیز اس خاتون کا موازنہ‬
‫حمیدہللا کی بیگم کے ساتھ یوں کرتا ہے‪:‬‬
‫‪She was older than Hamidullah Begum, with a red face and white‬‬
‫)‪hair. Her voice had deceived him. (54‬‬
‫’’ حمیدہللا کی زوجہ سے عمر مینبڑی تھیں‪ ،‬اس کا چہرہ سرخ اور بال سفید تھے۔‬
‫اور اس کی آواز سے اسے دھوکہ ہوا تھا۔‘‘ (یعنی وہ اپنی آواز کے برعکس معمر خاتون‬
‫تھی)‬
‫اسی گفتگو میں جب عزیز اس کو یہ بتاتا ہے کہ انگریز خواتین جب دیکھتی ہیں‬
‫کہ کوئی انہیں دیکھ بھی نہیں رہا تو وہ جوتوں سمیت ہی مسجد میں داخل ہو جاتی ہیں تو‬
‫مس ز مور کا یہ جواب سن کر اسے دلی خوشی اور طمانیت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس‬
‫کے کردار اور رویے سے متاثر ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس جملے سے مسز مور کی فطرت‬
‫کا اندازہ بھی ہوتا ہے کیوں کہ وہ یہ کہتی ہے کہ میں نے لوگوں کو دکھانے کے لیے‬
‫جوتے نہیں اتارے بلکہ مسجد کے تقدس کے پیش نظر اور اس کے احترام میں جوتے‬
‫باہر اتارے ہیں کیونکہ یہاں خدا موجود ہے یعنی یہ خدا کا گھر ہے۔‬
‫ـ)‪That make no difference, God is here. (55‬‬
‫اسی گفتگو کے بعد عزیز یہ اندازہ لگاتا ہے کہ یہ خاتون ہندوستان میں نووارد ہے۔‬
‫)‪I think you are newly arrived in India. (56‬‬
‫وہ خاتون پوچھتی ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ کس طرح ہوا‬
‫"‪"How did you know.‬‬
‫وہ جوابا ً کہتا ہے کہ آپ کے طرز تخاطب سے‬
‫"‪"By the way you addressed me.‬‬
‫مسز مور کا کردار ایڈال کے مقابلے میں زیادہ فعال اور متحرک نہیں ہے بلکہ وہ‬
‫ایک سنجیدہ اور مفکر قسم کی خاتون ہے اور قاری سے اس کی مالقات اور اس کی‬
‫شخصیت کا اظہار اس کے خیاالت و افکار کے ذریعے ہی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ‬
‫مرد کرداروں سے زیادہ دروں بین )‪ (Introspective‬ہے۔ ایسی خاتون کے ساتھ سب‬
‫سے زیادہ افسوسناک رویہ اس کے اپنے بیٹے رونی کا سامنے آتا ہے جس سے معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں ماں کی تکریم اور عزت و احترام کا کیسا رویہ تھا۔‬
‫مسجدمیں ہونے والی مالقات کے بعد وہ ڈاکٹر عزیز کی ہمراہی میں کلب تک آئی ہے اور‬
‫وہ اس کو کلب کے اندر النا چاہتی تھی مگر یہاں پر اس کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے نہ‬
‫صرف اس کی بے بسی بلکہ دوسرے مہذب انگریزوں کی بے بسی بھی عیاں ہوتی ہے۔‬
‫مسز مور خواہش کرتی ہے کہ وہ اس کو یہاں تک چھوڑنے کے لیے آیا ہے اب وہ اس‬
‫کے ساتھ کلب میں بھی آئے مگر ڈاکٹر عزیز جواب دیتا ہے۔‬
‫‪Indians are not allowed into the Chandrapore Club even as‬‬
‫)‪guests. (57‬‬
‫ازاں بعد ہمیں مسز مور کی کیفیت اور اس کے مجسٹریٹ بیٹے رونی کے رد عمل‬
‫کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ بحیثیت ماں مسز مور کا کتنا احترام ہے اور بیٹا جو کہ‬
‫استعماری حاکم ہے وہ کس قدر نخوت کے ساتھ ماں کے ساتھ درشتی سے گفتگو کرتا ہے‬
‫اور ذرہ برابر بھی لحاظ نہیں کرتا کہ وہ محکوم قوم کے کسی فرد سے مخاطب نہیں بلکہ‬
‫اپنی ماں سے محو گفتگو ہے جو اتنا طویل سفر طے کر کے اس سے ملنے ہندوستان آئی‬
‫ہے۔ یہ سارا معاملہ بہت دلچسپ ہے کہ مسز مور نے جب اسے بتایا کہ اسے اس کی‬
‫دعوت کے جواب میں اس نے بتایا کہ میں (ہندوستانی) کلب میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس‬
‫جملے سے ہی اس کے بیٹے کو اصل صورت حال کا اندازہ ہو گیا اور وہ مشتعل ہو جاتا‬
‫ہے۔ اس کا ردعمل کچھ یوں سامنے آتا ہے‪:‬‬
‫ـ ‪There upon the truth struck him, and he cried, "Oh, good‬‬
‫‪gracious! Not a Mohammedan? Why ever didn't you tell me you'd‬‬
‫‪been talking to a native? I was going all wrong.. . . . . What a mix-‬‬
‫‪up! Why hadn't she indicated by the tone of her voice that she‬‬
‫‪was talking about an Indian? Scratchy and dictatorial, he began to‬‬
‫)‪question her. (58‬‬
‫’’صداقت منکشف ہونے پر وہ چیخا‪ ،‬او میرے خدایا! وہ تو محمڈن (مسلمان) تھا تم‬
‫نے یہ بات پہلے مجھے کیوں نہیں بتائی کہ تم ایک مقامی آدمی سے محو گفتگو رہیں۔‬
‫میں بالکل غلط سمجھتا رہا۔ ۔ ۔ کیا مالقات تھی! اس کے لب ولہجے سے ہی مجھے اندازہ‬
‫کیوں نہ ہو سکا کہ وہ ویک دیسی (ہندوستانی) سے مل کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر اس نے‬
‫بڑے سخت اور آمرانہ لہجے میں سواالت پوچھنے شروع کر دئیے۔‘‘‬
‫پھر رونی ہیسلوپ مزید کئی استفسارات کرتا ہے اور اس کا رویہ ایک سخت گیر‬
‫حاکمانہ ذہنیت رکھنے والے انکوائری آفیسر کا ہے وہ اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ اس‬
‫کے زیر تفتیش ہستی کوئی اور نہیں اس کی اپنی ماں ہے مگر اسے اس بات کی کوئی‬
‫پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اس واقعے اور گفتگو کے بارے مینبہت متجسس ہے اور اپنی‬
‫ماں کے جوابات سے غیر مطمئن دکھائی دیتا ہے ماں اپنے بیٹے کے سواالت اور لب و‬
‫لہجہ کی نوعیت سے بے خبر اسے جواب دیتی رہی۔‬
‫?‪So you and he had a talk. Did you gather he was well disposed‬‬
‫)‪Igrnorant of the force of his question, she replied. (59‬‬
‫اس گفتگو میں وہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ یہ دیسی لوگ بڑے چاالک ہوتے ہیں‬
‫اور خاص طور پر پڑھے لکھے مقامی لوگ دوسروں کے بارے میں اپنی رائے دے کر‬
‫خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں اور دوسروں کو ظالم گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسروں کی‬
‫نظر میں اپنی عزت میں اضافہ بھی کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کی ماں جوابا ً کہتی ہے‬
‫کہ بیٹے اپنے ملک میں تو تمہارا رویہ ایسا نہیں تو وہ بڑی درشتی سے جواب دیتا ہے‪:‬‬
‫‪India isn't home," he retorted, rather rudely, but in order to silence‬‬
‫‪her he had been using phrases and arguments that he had picked‬‬
‫)‪up from older officials. (60‬‬
‫’’ وہ بہت سختی سے کہتا ہے کہ ہندوستان ہمارا وطن نہیں ہے اور اپنی ماں کو خاموش‬
‫کرانے کے لیے اپنے بڑے افسران کے استعمال کردہ جملوں؍ محاوے اور دالئل اپنی‬
‫گفتگو میں استعمال کرنے لگا۔‘‘‬
‫یہی وہ رویہ ہے جس سے ایک طرف مردانہ برتری اور حاکمیت کا اظہار ہوتا‬
‫ہے اور دوسری طرف عورت کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے مرد اپنی غلط بات کو بھی‬
‫عورت پر ٹھونسنا چاہتا ہے چاہے وہ اس کی بیوی ہو یا والدہ۔ وہ خود کو عقل کل سمجھتا‬
‫ہے۔ رونی جس طرح ایڈال سے نجات کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے ساتھ شادی‬
‫کرنے کو اپنے کیریئر اور مستقبل کی تباہی سمجھتا ہے اور اس پریشانی کا سب سے‬
‫بہتر حل اسے ہی نظر آتا ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے وہ ہندوستان چھوڑ کر‬
‫انگلستان روانہ ہو جائے۔ بالکل اسی طرح وہ اپنی ماں کو بھی بوجھ اور رکاوٹ سمجھتا‬
‫ہے جو کہ اس کی حکمرانی اور مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اس ناول کا‬
‫سب سے افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جب بیٹا اپنی بوڑھی ماں کی صحت اور موسم‬
‫کی شدت و حدت کا خیال کیے بغیر اسے بحری جہاز پر واپسی کے لیے عازم سفر‬
‫کردیتا ہے اور یوں دوران سفر ہی وہ راہی ٔملک عدم ہو جاتی ہے۔ ای ایم فاسٹر اس کیفیت‬
‫کا اظہار ناول میں یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪Dead she was--committed to the deep while still on the southward‬‬
‫‪track. . . . . . She left behind her sore discomfort, for a death gives‬‬
‫)‪a ship a bad name. Who was this Mrs. Moore? (61‬‬
‫’’ وہ تو اسی وقت مرچکی تھی جب اس کا جہاز جنوب کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے‬
‫مرنے کے بعد اپنے پیچھے سب کے لیے بے چینی چھوڑی۔ کیوں کہ جہاز میں مرنا ایک‬
‫قسم کی بدشگونی ہے (پھر مسافروں کے سواالت) یہ مسز مور کون تھی؟‘‘‬
‫یعنی اپنی زندگی میں یہ جتنی اچھی طبیعت اور فطرت والی خاتون تھی اس کی‬
‫اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں اس طرح کی بے حرمتی اور بعد از مرگ رسوائی ایک المیہ‬
‫ہے اور دراصل عالمتی طور پر مسز مور کی موت ناول میں امید کی موت ہے اور‬
‫حقائق کے طشت از بام ہونے کی امید بھی اس کی موت کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہے۔‬
‫اس کا وجود جب ایک کھٹکا بن جاتا ہے تو اس معمر اور بیمار خاتون کو اس کا اپنا بیٹا‬
‫اس کو موت کے جہاز پر سوار کراتا ہے اور سوئے عدم روانہ کر دیتا ہے مگر اس کا‬
‫ضمیر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے اور وہ اپنے آپ کو سمجھاتا ہے کہ اس کی والدہ اس‬
‫کے مجبور کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے روانہ ہوئی ہے‪:‬‬
‫‪Ronny reminded himself that his mother had left India at her own‬‬
‫‪wish, but his conscience was not clear. He had behaved badly to‬‬
‫)‪her, and he had either to repent. (62‬‬
‫مسز مور کی موت سے چندراپور میں عجیب و غریب کہانیوں اور افواہوں نے‬
‫جنم لیا۔‬
‫‪A legend sprang up that an Englishman had killed his mohter for‬‬
‫)‪trying to save an Indian's life.... (63‬‬
‫’’ان میں سے ایک کہانی یہ بھی منظر عام پر آئی کہ ایک انگریز مرد (رونی) نے اپنی‬
‫ماں کو اس لیے مار ڈاال کیوں کہ وہ ایک دیسی نوجوان کی زندگی بچانے کے لیے‬
‫کوشاں تھی۔‘‘‬
‫ایسے میں مسز مور کے لیے مقامی افراد کے دلوں میں خود بخود عزت و احترام‬
‫اور عقید ت ومحبت کے جذبات پیدا ہو گئے اور اس کے بیٹے کے لیے نفرت‪ ،‬کیوں کہ‬
‫وہ اسے اپنی ماں کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اس بات سے رونی کو مزید ذہنی اذیت پہنچتی ہے‬
‫اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی اس کے لیے پریشانیاں پیدا کر رہی ہے‬
‫مگر پھر ہمیں اس ناول کی سطور میں مرنے والے کے لیے کچھ اس قسم کے جذبات‬
‫بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪Pulling himself together, he dismissed the matter from his mind. In‬‬
‫‪due time he and his half-brother and sister would put up a tablet‬‬
‫‪to her in the Northamptonshire church where she had‬‬
‫‪worshipped, recording the dates of her birth and death and the‬‬
‫‪fact that she had been buried at sea. This would be sufficient.‬‬
‫)‪(64‬‬
‫’’ ایسے واقعے سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے اسے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش‬
‫کی۔ اسے معلوم تھا کہ مناسب وقت پر وہ اور اس کے سوتیلے بہن بھائی نارتھمپٹن شائر‬
‫کے گرجا گھر جہاں مسز مور عبادت کیا کرتی تھی اس میں ایک کتبہ نصب کرائیں گے‬
‫جس میں اس کی پیدائش اور وفات کی تاریخوں کا اندراج ہو گا اور یہ حقیقت ہے کہ اس‬
‫کی تدفین بیچ سمندر ہوئی تھی بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘‬
‫ان مرکزی کرداروں کے عالوہ کچھ ضمنی نسوانی کردار بھی ناول میں شامل ہیں‬
‫یغہ غائب کی صورت میں‬ ‫جن کی حیثیت بھی محض سائے جیسی ہے اور انہیں بھی ص ٔ‬
‫کچھ اس طرح متعارف کرایا گیا ہے کہ ان کا اپنا وجود معدوم ہو کر کسی نہ کسی مرد کا‬
‫محتاج ہو کر رہ گیا ہے یعنی ان کا تعارف بالواسطہ کے بجائے بالواسطہ قاری کے‬
‫سامنے پیش ہوتا ہے جیسے کہ ناول مینشامل مزید دو کرداروں کی مثالیں ہمارے سامنے‬
‫ہیں ان میں سے ایک کردار ڈاکٹر عزیز (مشرقی کردار) کی بیوہ کا ہے جبکہ دوسرا‬
‫کردار فیلڈنگ (مغربی کردار) کی بیوی کا ہے یہ دونوں کردار بھی غیر مرئی یا نظر نہ‬
‫آنے والے ہیں اگرچہ ناول کی کہانی کا حصہ ہیں۔‬
‫عزیز کی بیوی کا تعارف اس کے خاوند کے خیاالت و الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے‬
‫یعنی دوسرے لفظوں میں اس کی موجودگی اس کے شوہر کی مرہون منت ہے اور بطور‬
‫کردار وہ صرف اور صرف عزیز کے کردار کو گہرائی دینے کے لیے ناول کا حصہ‬
‫بنتے دکھائی دیتی ہے۔ اس کے عالوہ اس کی ناول میں کوئی ذاتی اہمیت ہے نہ ضرورت۔‬
‫عزیز کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مرحومہ بیوی کی وفاداری اور قربانی نے اس‬
‫کا دل آخر کار جیت لیا حاالنکہ یہ شادی اس کی مرضی کے مطابق نہ تھی مگر وہ ساری‬
‫عمر اس کی خدمت کرتی رہی اور آخر کار اپنے شوہر کو بیٹے جیسے نعمت سے‬
‫نوازتے ہوئے اس جہان سے گزر گئی۔‬
‫‪.....he begat his first child in mere animality. The change began‬‬
‫‪after its birth. He was won by her love for him.........She became‬‬
‫‪the mother of a son . . . and in giving him a second son she died.‬‬
‫)‪Then he realized what he had lost. (65‬‬
‫اس سے آگے بڑھیں تو دوسری مرتبہ عزیز کی بیوی سے مالقات اس کی تصویر‬
‫کے ذریعے ہوتی ہے۔ کیا تصویر اصل کی حقیقی نمائندہ ہو سکتی ہے؟ عزیز اپنی‬
‫مرحومہ بیوی کی تصویر کو درازسے باہر نکال کر دیکھتا ہے‪:‬‬
‫‪And unlocking a drawer, he took out his wife's photograph. He‬‬
‫‪gazed at it, and tears spouted from his eyes. . . . . the more he‬‬
‫)‪looked at this photograph, the less he saw. (66‬‬
‫’’ اور اس نے دراز کھول کر اپنی بیوی کی تصویر کو باہر نکاال۔ وہ تصویر کو دیکھنے‬
‫لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے سوچا میں کتنا بدنصیب ہوں۔‬
‫تصویر کو وہ جتنا غور سے دیکھنے لگا نقوش اتنے مدہم ہوتے گئے۔‘‘‬
‫اسی حوالے سے‪ Hubel‬کی یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی بیوی کا خود‬
‫مختار یا آزادانہ کردار کہیں نظر نہیں آتا۔‬
‫‪Beyond being a vague memory, which Aziz calls up when he is‬‬
‫)‪feeling poetic, his wife has no autonomous existence. (67‬‬
‫پھر ایک اور موقع پر وہ اپنی بیوی کی تصویر فیلڈنگ کو دکھا کر یہ بھی کہتا ہے‬
‫کہ تم پہلے انگریز ہو جو یہ تصویر دیکھ رہے ہو۔‬
‫یہی حال فیلڈنگ کی بیوی)‪ (Stella‬کا ہے جس کا بالکل مختصر دو سطری ذکر‬
‫ناول کے اختتامی حصے میں ملتا ہے اس کے عالوہ عزیز کی رشتے میں خالہ جو کہ‬
‫حمید ہللا کی بیوی ہے اس کا ذکر بھی ہمیں پردے کے پیچھے ہی ملتا ہے۔‬
‫ناول میں شامل کردہ ان تمام نسوانی کرداروں کے مطالعے کے بعد ‪ Hubel‬کی‬
‫سخت قسم کی رائے سے جزوی طور پر اتفاق کر نا پڑتا ہے کہ‬
‫‪Anglo-Indian women are the Novel's scapegoats, they bear the‬‬
‫‪brunt of Forster's anger about English conduct in India. The‬‬
‫‪Anglo-Indian men, on the other hand, are criticized but are usually‬‬
‫)‪accorded some sympathy.(68‬‬
‫ناول میں اینگلو انڈین خواتین قربانی کے جانوروں کی مانند ہیں وہ ہندوستان میں‬
‫انگریزوں ک ے کردار سے متعلق فاسٹر کے غصے بھرے شدید حملے کا شکار ہوتی ہیں۔‬
‫دوسری طرف اینگلو انڈین مرد بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر عمومی طور پر یہ تنقید‬
‫ہمدردی کے لبادے میں ملفوف نظر آتی ہے۔‘‘‬

‫حوالہ جات‬
‫‪A Passage to India, Ch: vii, p:84, Penguine Books‬‬ ‫)‪(1‬‬
‫‪London 1978‬‬
A Passage to India, Ch: XXVII (2)
Childs, Peter, ed. Post-Colonial theory and English (3)
Literature, a reader, Edinburgh UP, 1999, p:349
A passage to India, Penguin 1979, p:177 (4)
A passage to India, Penguin 1979, p:176 (5)
A passage to India, p:33 (6)
A passage to India, p:33 (7)
A passage to India, p:316 (8)
A passage to India, p:33 (9)
A passage to India, p:57 (10)
A passage to India, p:37 (11)
A Passage to India, p:174 )12(‫ـ‬
Bhupal Singh, A Survey of Anglo-Indian Fiction, London, (13)
Curzon Press Limited. 1974, p:221
Peter, Childs, Post-Colonial Theory and English Literature; A (14)
Reader, Edinburgh University Press, Edinburgh, 1999, p:347
Diane Johnson, Writers on Writing, New York Times, New (15)
York, Sept 11, 2000
A Passage to India, p:84 (16)
A Passage to India, p:86 (17)
A Passage to India, p:89 (18)
A Passage to India, p:89 (19)
A Passage to India, p:143 (20)
A Passage to India, p:143 (21)
A Passage to India, p:76 (22)
A Passage to India, p:261 (23)
The Passage to India, p:264 (24)
The Passage to India, p:264 (25)
A Passage to India, p:196 (26)
A Passage to India, p:198 (27)
A Passage to India, p:80 (28)
A Passage to India, p:80 (29)
A Passage to India, p:53 (30)
A Passage to India, p:54 (31)
David C. Potter, India's Political Administrator, O. U. Press, )32(‫ـ‬
New Delhi 1996, p:92
The Jewel in the Crown, p:144 (33)
The Jewel in the Crown, p:263 (34)
The Jewel in the Crown, p:320 (35)
Anderson Margret. L, Thinking about Women, Pearson/Allyn (36)
& Beacon 2006, 7th edition.
‫ مغربی پاکستان‬،‫ اطالقی جہات‬،‫ مابعد جدیدیت‬:‫ مرتب‬،‫ ڈاکٹر‬،‫) ناصر عباس نیر‬۳۷(
۳۲۰ :‫ ص‬،‫اردواکیڈمی۔ الہور‬
‫ مضمرات و‬،‫ مشمولہ مابعد جدیدیت‬،‫ مابعد جدیدیت اور تانیثیت‬،‫) وہاب اشرفی‬۳۸(
۱۳۲ :‫ ص‬، ‫ء؁‬۲۰۰۷ ،‫پورب اکادمی اسالم آباد‬،‫ممکنات‬
The Jewl in the Crown, p:66 (39)
The Jewl in the Crown, p:67 (40)
The Jewel in the Crown, p:16 (41)
The Jewel in the Crown, p:388 (42)
Benita, Parry, Postcolonial Studies: a materialist Critique, (43)
Routledge, Newyork, 2004, p:172
Sara Rhoads Nilsen, Power, Distance and Stereotyping in A (44)
Passage to India, M. A Thesis, The University of Oslo, 2011, p:53
Hubel, Teresa, Liberal Imperialism as A Passage to India, (45)
Post Colonial Theory and English Literature: A Reader. Ed.
Childs, Peter. Edinburgh University Press, 1999, p:351
A passage to India, p:50 (46)
A passage to India, p:51 (47)
A passage to India, p:62 (48)
A passage to India, p:62 (49)
A passage to India, p:37 (50)
A passage to India, p:42 (51)
A passage to India, p:342 (52)
A passage to India, p:42 (53)
A passage to India, p:43 (54)
A passage to India, p:42 (55)
A passage to India, p:43 (56)
A passage to India, p:45 (57)
A passage to India, p:45 (58)
A passage to India, p:53 (59)
A passage to India, p:54 (60)
A passage to India, p:254 (61)
A passage to India, p:255 (62)
A passage to India, p:255 (63)
A passage to India, p:256 (64)
A passage to India, p:73-74 (65)
A passage to India, p:74-75 (66)
Hubel, Teresa, from "Liberal Imperialism as A Passage to (67)
India, Postcolonial Theory and English Literatur. A Reader, Ed.
Childs Peter, Edinburgh University Press 1999, p:353
Hubel Teresa, Whose India? The Independence Struggle in (68)
British and India Fiction and Histroy. Durban, NC: Duke University
Press, 1996. p:99

‫حاص ِل مطالعہ‬
‫سماجی تغیر وتبدل کی پیداوار ہے ۔یہ‬، ‫ہند مسلم تہذیب خالصتا ً برصغیر کے سیاسی‬
‫ت‬
ِ ‫خطہ حسین و جمیل ہزار ہا برس سے بیرونی دنیا کے لیے باعث کشش رہا ہے۔ اس جن‬ ٔ
‫ارضی کے حصول کے لیے اقوام عالم ہمیشہ سے مشتاق و مضطرب رہی ہیں۔ مورخوں‬
‫ت دوام عطا کرتی رہی ہیں۔اس‬ ‫کے بیانات اور سیاحوں کی حکایات اس خطے کو شہر ِ‬
‫گلشن سر سبز کی نکہتیں دور دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ نکہت و نور کے اس سی ِل‬ ‫ِ‬
‫بالخیز نے بادشاہوں‪ ،‬حملہ آوروں اور کشور کشائوں کے ذوق و جستجو کو گرمایا اور‬
‫اس خطے کو اپنے زیر تسلط رکھنے کیلئے اکسایا۔ یوں چہار جانب سے مختلف اقوام جن‬
‫می ں یونانی‪ ،‬افغانی‪ ،‬ایرانی‪ ،‬فرنگی‪ ،‬ترک اور عرب شامل تھے اس سر زمین کی جانب‬
‫گامزن ہوئے۔ یہ بیرونی حملہ آور فتح و کامرانی کے بعد محض حملہ آور نہ رہے بلکہ‬
‫اس سرزمین کے پیوند ہو کر رہ گئے۔ انہیں میں سے ایک بیرونی قوم ایسی بھی آئی جو‬
‫تاجر سے تاجور بنی اور یہاں کی بہتی گنگا میں اس طرح ہاتھ دھوئے کہ اس کا صاف و‬
‫شفاف پانی خود اس کے وارثوں کے خون سے رنگین کر دیا۔ اسی برعظیم کے نقشے‬
‫میں امت مسلمہ نے اپنے صدیوں پر محیط قیام اور اقتدار کے سائے میں ایک نئی تہذیب‬
‫کے رنگ بھرے جو کئی حوالوں سے انفرادیت کی حامل تھی۔ تاریخ اسے ہند مسلم تہذیب‬
‫کے نام سے جانتی ہے۔‬
‫خطہ زمین میں کسی قوم کی اجتماعی سرگرمیوں‬ ‫ٔ‬ ‫تہذیب جو کہ کسی بھی عہد اور‬
‫تصور حیات و کائنات سے جنم لیتی ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫کے ظہور کا نام ہے جو اس کے مخصوص‬
‫تہذیب چونکہ ایک وسیع لفظ ہے جس میں انسان کی زندگی کے بنیادی تصورات‪ ،‬عقائد‪،‬‬
‫افکار‪ ،‬زندگی کا نصب العین ‪ ،‬جغرافیائی ماحول ‪ ،‬طبعی حاالت اور تمام افعا ِل ارادی جن‬
‫انداز گفتگو ‪ ،‬زبان اور اس کی معاشرت‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫میں انسان کے اخالق و آداب‪ ،‬کرداو اطوار‪،‬‬
‫سیاست و معیشت وغیرہ سب شامل ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و‬
‫احساس کا جوہر ہوتی ہے اورا س کے کئی مظاہر ہیں۔‬
‫زیر نظر مقالے میں تہذیب اور ثقافت کی وضاحت اور باہمی فرق کو اجاگر کرنے‬
‫کے لیے کئی ماہرین اور مفکرین کی آراء درج کی گئی ہیں مگر ان ماہرین اور مفکرین‬
‫صرف نظر کرتے ہوئے تہذیب کو زندگی‬ ‫ِ‬ ‫کے متنوع تصورات اور فکری مباحث سے‬
‫طرز عمل سب‬ ‫ِ‬ ‫طرز فکر اور‬
‫ِ‬ ‫طرز احساس‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫نظام ُکلّی کے مفہوم میں لیا ہے جو کہ‬
‫ِ‬ ‫کے‬
‫پر محیط ہے۔ یعنی ایک طرف تہذیب افکار و عقائد سے بحث کرتی ہے تو دوسری طرف‬
‫حیات اجتماعی کے اداروں اور فنون کے لباس میں جلوہ گر ہوتی ہے۔‬
‫خطہ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی‪ ،‬سماجی‪ ،‬مذہبی اور لسانی حوالے سے تاریخ‬ ‫ٔ‬
‫مجموعہ اقوام اور گہوار ٔہ‬
‫ٔ‬ ‫میں خاص اہمیت رہی ہے کیوں کہ یہ سرزمین شروع ہی سے‬
‫ملل رہی ہے۔ یہاں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے باشندے صدیوں تک آباد رہے مگر‬
‫ایک ہی سرزمین پر رہائش پذیر رہنے کے باوجود اپنے تہذیب و تمدن میں نہ صرف‬
‫مختلف بلکہ متضا د و متبائن بھی رہے۔ تاہم اختالط کے نتیجے میں فکری اور تہذیبی‬
‫اثرات کے حوالے سے قبول و استرداد کی منزلوں سے بھی گزرے۔ پارسی جب ایران‬
‫سے یہاں آئے تو یہاں صدیاں گزارنے کے دو طرفہ تہذیبی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر‬
‫قافلہ سبک سیرو زمیں گیر بھی جب عرب سے بر اہ راست‬ ‫ٔ‬ ‫نہ رہ سکے اور مسلمانوں کا‬
‫یا بالواسطہ یہاں پہنچا تو اس کے ہزار سالہ قیام ہندوستان کے تاریخی تہذیبی عمل میں‬
‫کئی طرح کی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنا ۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی‬
‫سامنے آتی ہے کہ یہاں پر جو مختلف جغرافیائی خطوں سے تعلق رکھنے والی مسلم اقوام‬
‫وقتا ً فوقتا ً وارد ہوئیں ان میں عرب‪ ،‬ترک‪ ،‬افغان‪ ،‬مغل‪ ،‬سب ہی شامل ہیں۔ جنہوں نے‬
‫مختلف حاالت‪ ،‬مختلف اوقات اور مختلف انداز میں یہاں کی مقامی تہذیب میں اپنے خاص‬
‫اور گہرے رنگ پیوست کیے۔ ان سب اقوام کا فکری سر چشمہ ایک ہی تھا۔ یعنی‬
‫سرزمین حجاز کے تاریخی انقالب سے متصل تھا۔‬
‫حجاج بن یوسف کے حکم پر ‪۷۱۲‬ء میں محمد بن قاسم کی سندھ اور ملتان کی فتح‬
‫نے پورے منظر نامے کو تبدیل کرتے ہوئے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور اس‬
‫مورخین نے ہند‬ ‫تہذیب و ثقافت کے نقوش ابھرنے لگے جسے آگے چل کر محققین اور ٔ‬
‫مسلم یا ہند اسالمی تہذیب سے موسوم کیا۔ یہ ایسی تہذیب تھی جس نے برصغیر میں نئی‬
‫لسانی تشکیالت اور سماجی ڈھانچے کے ایک وسیع سلسلے کو جنم دیا۔ یہ ایسی تہذیب‬
‫ہے جس کے اپنے کچھ امتیازات و تفردات ہیں۔ اس تہذیب کے بنیادی نظریات کو زیر‬
‫غور الیا جائے تو ایک نظریہ یہ بھی ابھرتا ہے کہ جس میں اخالقی اقدار اور کماالت کو‬
‫مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اجتماعی نظریے میں تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو اہمیت دی جاتی‬
‫ہے جس کا اصل مطلوب باہمی تعلقات اور مراسم کی خوشگواری ہوتی ہے جبکہ‬
‫جمالیاتی نظریے کی رو سے آرٹ کی تکمیل اور تحسین میں تہذیب کی اصل شان جلوہ‬
‫گر ہوتی ہے اور ان سب کی اصل احترام آدمیت بتائی جاتی ہے۔ ہند مسلم تہذیب کے‬
‫متوازن اور جامع ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں خصوصی طور پر ان‬
‫تمام عناصر کا امتزاج ایک خاص توازن کے ساتھ موجود ہے۔ بقول اقبال ؎‬
‫ق جمال‬
‫عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذو ِ‬
‫دروں‬
‫سن طبیعت‪ ،‬عرب کا سوز ُ‬ ‫عجم کا ُح ِ‬

‫ب کلیم)‬
‫(ضر ِ‬
‫برصغیر کی ہند مسلم تہذیب کے اولین نقوش جب ابھر کر سامنے آئے تو اس میں‬
‫ب عمل سے ایسی تہذیبی‬ ‫قدرتی طور پر مقامی رنگوں کی آمیزش بھی تھی۔ اس ترکی ِ‬
‫صورت کا ظہور ہوا جس میں فکر و عقیدہ کی وحدت بھی تھی اور ثقافتی بوقلمونی و‬
‫تنوع بھی موجود تھا۔‬
‫تہذیب ایک زندہ نظام ہوتی ہے جو آسمانی اقدار اور زمینی ماحول کے امتزاج سے‬
‫جنم لیتی ہے اور اس کی قوت نمو کا انحصار اس کے بنیادی تصور کائنات و حیات‬
‫اورانسان پر ہوتا ہے جبکہ ارتقاء کا دارومدار اہل تہذیب کی تخلیقی صالحیتوں پر‬
‫منحصر ہوتا ہے۔‬
‫ثقافت کے انجذابی عمل کے حوالے سے ہملٹن گب کے نظریے میں ایک اہم قانون‬
‫یہ بھی ہے کہ ’’کوئی قوم بھی ان بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتی جو اس کی اپنی‬
‫ہوں۔‘‘لہذا‬
‫ٰ‬ ‫بنیادی اقدار اور ہیجانی میالنات اور جمالیاتی پیمانوں سے مطابقت نہ رکھتے‬
‫اسی اصول کے تحت تاریخ کے پس منظر میں اسالمی ثقافت کی وہ قوت جو دوسری‬
‫قوتوں سے انجذاب کرتی ہے بڑی توانا نظر آتی ہے اور یہاں کی مقامی ثقافت کے ساتھ‬
‫اس کے ربط نے جن ثقافتی دائروں کی تشکیل کی۔ ان سے مسلم ثقافت کے حقیقی تشخص‬
‫کو اجاگر کرنے میں بڑی م دد ملی۔ سماجیات اور معاشرت میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے‬
‫سے ایک نئی ثقافت کے خدوخال مزید ابھر کر سامنے آنے لگے۔ آگے چل کر اسی کو‬
‫وقت اور تاریخ نے ہند مسلم ثقافت کا نام دیا اور یہ سارا عمل کسی تضاد یا تصادم کے‬
‫نتیجے میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ تفاہم کی عملی مثال ہے۔‬
‫یہی ہند مسلم تہذیب برصغیر میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں‬
‫پروان چڑھی۔ اس میں عربوں‪ ،‬افغانوں‪ ،‬ایرانیوں‪ ،‬ترکمانیوں اور مغلوں کا مزاج اور‬
‫آدرش بھی شامل ہے۔ اسی تہذیب نے برصغیر کی اجتماعی حیات میں جو حرکت اور‬
‫لوح زمان پر نقش ہے۔‬
‫حسن پیدا کیا وہ مختلف فنون کے مظاہر اور اداروں کی شکل میں ِ‬
‫انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے‬
‫نوآبادیاتی دور کہا جاتا ہے۔ نوآبادیات ایسی فتوحات ہوتی ہیں جن میں کوئی بھی طاقتور‬
‫ملک اپنی سرحدوں سے باہر وسعت کی خاطر مفتوحہ اقوام کی مرضی کے خالف اقتدار‬
‫قائم کر کے ان پر اپنی مرضی و منشاء ٹھونستا ہے۔ یہ ایسا غیر ملکی تسلط ہوتا ہے جس‬
‫میں براہ راست مقامی باشندوں کے بجائے کوئی غیر ملکی یا بدیسی طاقت اقتدار پر‬
‫براجمان ہو کر سیاسی‪ ،‬سماجی اور معاشرتی سطح پر کئی قسم کی تبدیلیاں لے کر آتی‬
‫ہے۔‬
‫برصغیر میں استعمار کی آمد کے بعد ایک مختلف نوعیت کے پیٹرن )‪(Pattern‬‬
‫نے انفرادی اور اجتماعی طور پر مقامی آبادی کو مغلوب کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل‬
‫اٹھارویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے‬
‫انتشار کا شکار مشرقی تہذیب کے متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے اور ایک‬
‫ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کی‬
‫ثقافتی فضا پر دو جذبیت‪/‬گومگوئی اس درجہ غالب ہوئی کہ اس زمانے کی علمیات میں‬
‫بھی سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی عالمت بھی تھی کہ برصغیر کی‬
‫سماجی‪ ،‬سیاسی اور ثقافتی دنیا پر نوآبادیات کس درجہ چھائی ہوئی تھی۔ یہ دو جذبیت یا‬
‫گومگوئی ایک نفسی صورت حال ہے جو کسی ایک معروض کے دو متضاد و متصادم‬
‫جذبات و خیاالت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ منتشر‪ ،‬مرتکز یا تذبذب کسی بھی حالت میں ہو‬
‫سکتی ہے۔ اس سے ایسا احساس م حرومی بھی جنم لیتا ہے جو معروضی اورموضوعی‬
‫دونوں سطحوں پر نقصان دہ ہے۔‬
‫جب یورپی اقوام نے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی اور مختلف ممالک میں اپنے‬
‫اقتدار کو مستحکم کیا تو انہیں اپنے سیاسی اقتدار اور سماجی و معاشرتی برتری کے لیے‬
‫اخالقی جواز کی تالش ہوئی کہ جس کی بنیاد پر وہ اپنے محکوموں کے استحصال کو‬
‫جائز قرار دے سکیں۔ یوں انہوں نے ’’سست اور کاہل مقامی باشندے‘‘ کا نظریہ پیش کر‬
‫کے مقامی باشندوں کے استحصال کا جواز حاصل کیا۔ نوآبادیاتی نظام کا مشاہدہ کیا جائے‬
‫نقطہ اساس ہی یہ ہے کہ دنیا میں نسلیں اور قومیں باہم‬‫ٔ‬ ‫تو پتا چلتا ہے کہ اس نظام کا‬
‫اعلی و برتر اور مہذب جب کہ کچھ پسماندہ اور غیر مہذب۔ اب‬ ‫ٰ‬ ‫تفریق کی حامل ہیں کچھ‬
‫اعلی اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باقی سب اقوام کو‬ ‫ٰ‬ ‫اس نظریے کی رو سے مہذب اور‬
‫مہذب بنائیں ۔اس نظریے کے تحت اہل ہندوستان بھی غیر مہذب قرار پائے اور انگریزوں‬
‫نے اس طرح کے حاالت پیدا کیے کہ مقامی آبادی کو انگریزونکی ثقافتی برتری کے‬
‫احساس کا یقین ہو جائے اور ان میں اپنی تہذیب سے نفرت اور بیزاری پیدا ہو جائے ۔‬
‫ایسے میں وہ لوگ بھی جنہوں نے انگریزی تہذیب کو اپنانے کی کوشش کی وہ بھی‬
‫انگریزوں کی طرف سے تحقیر کا شکار ہوئے۔‬
‫ان حاالت میں برصغیر کے عوام میں پرانی شناختوں اور عظمتوں کے سنگ میل‬
‫وقت کے سی ِل بیکراں میں بہہ کر ماضی کے تاریک اور گہرے سمندر میں گم تو ہونا‬
‫شروع ہو گئے تاہم ان کے ذہنوں میں حکمرانوں کے حقارت آمیز اور منافقانہ رویے سے‬
‫مایوسی پیداہوئی۔ یوں مقامی نوجوان ذہنی تشکیک کا شکار ہو گیا اور ان دونوں سماجی و‬
‫فکری رویوں کے نتیجے میں تہذیبی بحران نے جنم لیا۔ اس تہذیبی بحران نے ہندوستانیوں‬
‫کو داخلی کشمکش‪ ،‬روحانی کرب‪ ،‬اعصابی ہیجان اور احساس محرومی کے گہرے‬
‫احساس میں مبتال کر کے اس نسل کو انفرادی انتشار کے ساتھ ساتھ اجتماعی آشوب سے‬
‫بھی ہم کنار کیا۔ اس تہذیبی بحران کا نوآبادیاتی حکمرانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ‬
‫ایک تو انہوں نے مقامی آبادی کو اپنی تہذیب سے متنفر کیا دوسری طرف ان کے اذہان‬
‫میں یہ تصور بھی راسخ کیا کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ دساوری تہذیب کو‬
‫اپنانے میں ہی ہے۔ یوں اس پالیسی سے نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنا اقتدار تو مستحکم کیا‬
‫مگر مقامی آبادی کو دو جذبیت اور گو مگوئی کیفیت کا شکار کر کے ان کے لیے نئی‬
‫مشکالت کھڑی کردیں اور آنے والے دور میں اس پالیسی کے نہایت گہرے اثرات مرتب‬
‫ہوتے چلے گئے۔‬
‫نوآبادیاتی عہد میں جن علمی شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ان میں ایک‬
‫استشراق بھی ہے۔ استشراق یا اورینٹلزم (مشرق شناسی) ان مطالعات کا نام ہے جو اہل‬
‫مغرب مشرقی زمین کے ادیان‪ ،‬زبان‪ ،‬تاریخ اور ادبیات کے بارے میں انجام دیتے ہیں۔ یہ‬
‫سامراج کی ایک ضرورت تھی کہ وہ محکوم اقوام کی ثقافت‪ ،‬تہذیب‪ ،‬تاریخ اور اذہان کو‬
‫سمجھنے اور پھر ان مستشرقین کی حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں اپنے نوآبادیاتی‬
‫عالقوں کے محکوم عوام پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کے لیے الئحہ عمل ترتیب دے‬
‫سکے۔‬
‫مستشرقین کے لفظی معنی سے مشرق شناسی یا مشرقی علوم و فنون اور ادبیات‬
‫کے ماہرین مراد لیے جاتے ہیں اور یوں غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں‪ ،‬تہذیب‪،‬‬
‫فلسفے‪ ،‬ادب اور مذہب کے مطالعے میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔ کچھ ماہرین‬
‫کے مطابق استشراق مغربی اسلوب فکر کا نام ہے جس کی بنیاد مشرق و مغرب کی نسلی‬
‫تقسی م کے نظریے پر قائم ہے جس کی رو سے اہل مغرب کو اہل مشرق پر نسلی اور‬
‫ثقافتی برتری حاصل ہے۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق بھی سادہ لفظوں میں شرق شناسی‬
‫نوآبادیاتی نظام کی عقلی تاویل ہے۔ جبکہ اورینٹلزم مطالعات میں مشرق کا مفہوم ایک‬
‫‪Metageographical‬مفہوم ہے اور یہ مفہوم درحقیقت جغرافیائی اور تہذیبی عناصر کا‬
‫مرکب ہے۔ یہ اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے بھی ایک مبہم مفہوم ہے کیوں کہ معلوم‬
‫نہیں کہ یہ مطالعات خالصتا ً علمی تحقیق پر مبنی ہیں یا ان کے پس پردہ سیاسی اغراض و‬
‫مقاصد بھی چھپے ہوئے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط ہی سے دو بنیادی عنصر بہت اہم‬
‫ہیں جومشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کا باعث بنے۔ اوالً یورپ میں مشرق کے بارے‬
‫میں بتدریج پھیلتا ہوا علم‪ ،‬جونوآبادیات سے مسلسل روابط اور بیرونی ممالک میں غیر‬
‫معمولی دلچسپی کا نتیجہ تھا۔ جس نے نسلیات‪ ،‬تقابلی علم االجسام‪ ،‬لسانیات اور تاریخ کے‬
‫ترقی پذیر علوم کو تقویت پہنچائی۔ عالوہ ازیں ایک نظام کے تحت مشرق کے بارے میں‬
‫علم میں ایک بڑی بھاری مقدار اس ادب کی بھی شامل ہو گئی جو ناول نگاروں‪،‬‬
‫شاعروں‪ ،‬مترجمین اور کئی ہوشیار مسافروں نے تخلیق کیا۔ مشرق و مغرب کے اس‬
‫باہمی تعلق کے اظہار کے لیے کئی اصطالحات مستعمل تھیں جیسے کہ مشرق کا آدمی‬
‫غیر منطقی‪ ،‬گرا پڑا‪،‬بچگانہ مزاج کا حامل اور ’’مختلف‘‘ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں‬
‫یورپ کا انسان منطقی‪ ،‬سنجیدہ‪ ،‬نیک ‪ ،‬بالغ نظر اور ’’متوازن‘‘ ہے۔ ایڈورڈ سعید یہ بھی‬
‫بتاتا ہے کہ شرق شناسی ایک ٹیڑھا اور مشکل راستہ ہے جس میں وضاحت کے لیے وہ‬
‫کپلنگ کی پیش کردہ جناتی زنجیر پیش کر کے وہ یہ بتاتا ہے کہ مطلق حکمرانی کا اہتمام‬
‫جو مغرب کے لیے مشرق سے ہو رہا ہے وہ ایک مضحکہ خیز جناتی زنجیر کی طرح‬
‫ہے۔‬
‫موقف بھی قابل غور ہے جس میں وہ اس بات کی وضاحت کرتا‬ ‫ایڈورڈ سعید کا یہ ٔ‬
‫وسطی اور مسلمانوں کی‬‫ٰ‬ ‫ہے کہ ان مستشرقین اور مغربی مفکرین نے مشرق‪ ،‬مشرق‬
‫تہذیبوں کا مطالعہ خالصتا ً سیاسی مقاصد کے پیش نظر کیا ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کی‬
‫حکمرانی کے عہد میں جان گلکرسٹ‪ ،‬گارسیں دتاسی‪ ،‬سرولیم جونز‪ ،‬بنجمن شلزے‪،‬‬
‫جوشواکٹیلر‪ ،‬برائون‪ ،‬جان شیکسپیئر‪ ،‬پروفیسر آرتھونی‪ ،‬آلویٹس شپرنگر‪ ،‬بامریورگ‬
‫شٹال‪ ،‬الیگزینڈر بائوسانی وغیرہ کئی نامور مستشرقین ادبی افق پر نمایاں ہوئے۔‬
‫مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس کے مطابق ہمیں‬
‫اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ سب مستشرقین کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا‬
‫۔ سب نے اپنے سیاسی مفادات کو مقدم نہیں رکھا اور نہ ہی اپنے مخصوص نظریات کا‬
‫پرچار کیا۔ بلکہ ان میں سے کئی مستشرقین نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مشرق کی‬
‫تاریخ‪ ،‬کلچر‪ ،‬زبان اور علم و دانش کے ماخذ کو تالش کرنے میں صرف کیا اور قیمتی‬
‫علمی سرمائے اور گم شدہ دانش کے سرمائے کا کھوج لگا کر اسے مدفون ہونے کے‬
‫بجائے منظر عام پر ال کر عوام کے استفادے کے لیے پیش کیا۔ جان گلگرسٹ‪ ،‬گارساں‬
‫دتاسی‪ ،‬سرولیم جان‪ ،‬شیکسپیئر‪ ،‬ڈنگن فوربس‪ ،‬گراہم بیلی‪ ،‬جان پیلٹس وغیرہ کی طویل‬
‫فہرست ہے جنہوں نے اس ضمن میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔‬
‫اگر اس سارے منظر نامے کو برصغیر کے پس منظر میں دیکھا جائے اور‬
‫انگریزی ناولوں کے جائزے کے حوالے سے بات کی جائے تو ایڈورڈ سعید کی کتاب‬
‫’’کلچر اینڈ امپیریلزم‘‘ میں انگریزی ناول نگاروں جوزف کونرڈ اور جین آسٹن کے‬
‫حوالے سے یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ ایک مخصوص ثقافت کو فروغ دینا اور دو‬
‫مختلف ثقافتوں کو پروان چڑھانا سامراجی ایجنڈا ہے اس لیے وہ سامراج اور انگریزی‬
‫ناول میں ربط تالش کرتے ہیں۔ ناول نے ثقافت کو ایک خاص رخ سے پیش کیا ہے۔ ناول‬
‫اور سامراج دونوں نے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا اور نوآبادیات کے لیے راہیں‬
‫ہموار کیں۔‬
‫انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کی برطانوی اور فرانسیسی ثقافت میں تقریبا ً‬
‫ہر جگہ پر ایمپائر کے اشارے اور نقوش ملتے ہیں لیکن شاید کہیں بھی اتنے منظم انداز‬
‫میں نہیں ملتے جتنے کہ برطانوی ناول مینملتے ہیں۔ ناول ایک بھٹی‪ ،‬ایک نیم قاموسی‬
‫ثقافتی صورت ہے ج س میں نہایت منضبط پالٹ‪ ،‬میکنزم اور سماجی حوالے کا ایک پورا‬
‫نظام بھی ملفوف ہوتا ہے۔ ناول کے بیانیے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ ارادی افعال‬
‫کو ڈھکے چھپے اور ملفوف انداز میں اپنے مفادات کے مطابق بیان کر سکے۔‬
‫یقینا نوآبادیاتی عہد میں تحریر کیے جانے والے ناولوں کے صفحات پر ابھرنے‬
‫والی ہر عبارت غیر ارادی نہیں بلکہ ارادی اور شعوری ہونے کے ساتھ منشائے مصنف‬
‫کے تابع ہوتی ہے اور اس متن کو سمجھنے کے لیے اس کے مخصوص کوڈز کو بھی‬
‫سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے اس امر کے بھی شاہد‬
‫ہیں کہ استعمار یا نوآبادکار اپنے عہد حکمرانی میں مقامی آبادی کے قلوب و اذہان کو نہ‬
‫صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ نوآبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعد بھی اپنے اثرات کچھ اس‬
‫انداز میں چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے نقوش تادیر قائم رہتے ہیں۔‬
‫انگریزوں کی برصغیر میں آمد اور اسے اپنا مفتوحہ عالقہ قرار دینے کے بعد‬
‫‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس نے نہ صرف ہماری سیاسی تاریخ کا‬
‫رخ موڑا بلکہ ہمارے شعور اور رویوں کو بھی تبدیل کردیا۔ ایک ایسی فضا قائم ہوئی‬
‫جس کے نتیجے میں ایسے ہندوستانی تعلیم یافتہ نوجوان پیدا ہوئے جو رنگ و نسل کے‬
‫اعتبار سے ہندوستانی اور کردار و روح کے اعتبار سے برطانوی سامراج کا نوآبادیاتی‬
‫نمونہ تھے۔ ایسے ماحول میں ایک خاص نوآبادیاتی صورت حال وضع کی گئی جو محض‬
‫عسکری قوت کے ذریعے ممکن نہیں تھی۔‬
‫‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی محض عسکری اور سیاسی جنگ نہیں تھی بلکہ ’’مقامی‬
‫اور غیر مقامی‘‘ دو تہذیبوں کے درمیان ایسی آخری کشمکش تھی جس میں دساوری‬
‫نقطہ آغاز تھا جس نے بعد ازاں تاجری سے تاجوری کی‬ ‫ٔ‬ ‫تہذیب فتح یاب ہوئی۔ یہی وہ‬
‫شکل اختیار کرلی۔ برصغیر کے عوام اب براہ راست مغربی اثرات کی زد میں آگئے۔ نئی‬
‫تہذیب کا وہ قافلہ جو آہستگ ی سے چل رہا تھا اچانک برق رفتاری سے رواں دواں ہو گیا‬
‫اور انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب پورے ملک پر چھا گئی۔ مغربی تعلیم‬
‫طرز معاشرت پر پڑے۔زندگی کے ہر پہلو میں مغرب کی نقالی‬ ‫ِ‬ ‫کے سب سے زیادہ اثرات‬
‫شروع ہو گئی۔ معاشرت بدیسی تہذیب کا چربہ بن گئی اور مضحکہ خیز ’’بابو‘‘ والی‬
‫صورت حال پیدا ہوئی۔‬
‫اس قسم کے تاثرات کا سب سے قوی محرک ذہنی غالمی ہے اسی حوالے سے‬
‫البرٹ میمی )‪ (Albert Memie‬نے کچھ نفسیاتی عوامل کا ذکر کیا ہے جو ایک مغلوب‬
‫قوم پر احساس کمتری کی وجہ سے اثر انداز ہوتے ہیں مغلوب قوم کے باشندوں کے‬
‫با رے میں لکھا کہ چونکہ وہ ذہنی طور پر مرعوب ہوتے ہیں اور حاکموں کی تہذیب پر‬
‫رشک بھی کرتے ہیں‪ ،‬اس لیے انہیں اپنے آقائوں کی نقل کرنے میں ذہنی تسکین ملتی‬
‫ہے۔ ‪ ۱۸۵۷‬ء کا واقعہ بھی ایک بڑا سیاسی انقالب تھا اور جب بھی اس قسم کا بڑا سیاسی‬
‫انقالب رونما ہوتا ہے تو اپن ے اقتدار کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے تہذیبی قوتوں‬
‫کو بھی بروئے کار التا ہے۔ اگر فاتحین کی تہذیب کسی بھی اعتبار سے جاندار ہے تو‬
‫محکوم تہذیب کو پھیلنے پھولنے کا موقع ملنے کے بجائے حاکمین کی تہذیب پھیلے گی۔‬
‫انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر میں بھی کچھ اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی اور‬
‫یہاں بھی ایک تبدیلی رونما ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی فلسفہ‪ ،‬ادب‪ ،‬سیاست‪ ،‬جمہوریت‬
‫اور معاشرت کے تصورات مقامی تہذیب میں نمایاں جگہ پانے لگے۔ ‪۱۸۶۹‬ء میں نہر‬
‫سویز کے کھلنے پر ہندوستان کا رابطہ بیرونی دنیا سے آسان ہو گیا۔ بیرونی دنیا میں اس‬
‫وقت صنعتی انقالب نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا تھا۔ روحانیت‬
‫کے خالف مادیت صف آراء تھی۔ جدید علوم کے ذریعے ایسے ہی تصورات نے برصغیر‬
‫کے عوام کی معاشرت کو بھی متاثر کیا اور مذہب و سائنس کی یہ آویزش ادب میں بھی‬
‫نمایاں ہوئی۔‬
‫یہی وہ تاریخی منظر نامہ تھا جس میں انگریزوں اور اینگلوانڈین ادبا نے ناول‬
‫تحریر کیے۔ ذہنی رویوں کے بدلنے کے ساتھ عوام کی زندگیوں میں انقالب آیا اور ادب‬
‫چونکہ سوسائٹی سے اثرات قبول کرتا ہے اس لیے ادب میں بھی انقالب آیا۔ اور خاص‬
‫طور پر مقامی ادیبوں کا ذہن انگریزی فکر اور تخیل کی سطح پر تیرنے لگا۔‬
‫انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلق پر‬
‫سینکڑوں کی تعداد میں فکشن اور نان فکشن ادب تخلیق ہوا۔ اینگلوانڈین فکشن کا عرصہ‬
‫تقریبا ً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ اینگلوانڈین فکشن ہندوستان کے عالوہ ہندوستان میں‬
‫موجود انگریز مرد و خواتین کی زندگی کا عکاس بھی ہے۔ اینگلوانڈین فکشن کی‬
‫اصطالح کثیر الجہات ہے۔ عام طور پر اس سے مراد ایسا ناول لیا جاتا ہے جو ہندوستان‬
‫سے متعلق ہو اور انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو جبکہ خاص معنوں میں اس سے‬
‫مراد ایسا فکشن ہے جو ہندوستان میں رہنے والے انگریزوں کے روز و شب کی تصویر‬
‫کشی بھی کرے۔ اینگلوانڈین فکشن کی وضاحت بھوپال سنگھ )‪(Bhupal Singh‬نے اپنی‬
‫کتاب "‪ "A Survey of Anglo-Indian Fiction‬میں جینی شارپ )‪(Jenny Sharp‬‬
‫نے "‪ "Allegories of Empire‬میں جبکہ ایم کے نائیک )‪ (M. K. Naik‬نے ‪"Mirror‬‬
‫"‪on the Wall‬میں کی ہے۔ انتھونی برجس )‪ (Anthony Burgess‬نے اپنی کتاب‬
‫"‪ "The Novel Now‬میں غیر ملکی یا بیرونی انگریزی ادب کی دو اقسام بیان کی ہیں۔‬
‫اوالً برطانوی مقامی باشندوں کے تحریر کردہ ناول جن کے ذریعے وہ برطانوی نوآبادیات‬
‫یا برطانوی حکومت کے زیر تسلط عالقوں کی روح میں جھانکتا ہے ثانیا ً ان میں سے‬
‫کوئی ایک باشندہ جو کہ انگریزی فکشن کے ذریعے اس ’’اصل‘‘ کو دیکھتا ہے اور اس‬
‫روایت کا اظہار بھی کرتا ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے۔‬
‫اینگلو انڈین لٹریچر کے مطالعے کے دوران یہ حقیقت بھی منکشف ہو تی ہے کہ‬
‫ا نگریزی ادب کی اردو زبان میں تحریر کی گئی کتب تواریخ میں انگریزی ناول نویسوں‬
‫گلشن پُر بہار جان کر بخوبی مساحت کی گئی ہے مگر ان روایتی تاریخ کی‬ ‫ِ‬ ‫کی تاریخ تو‬
‫وادی خشک سمجھ‬ ‫ٔ‬ ‫کتابوں میں الگ سے اینگلوانڈین ناول نگاروں کے تعارفی مطالعے کو‬
‫کر گام فرسائی سے گریز کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ یعنی ابتدائی اینگلوسیکسن ادب‪،‬‬
‫دور الزبتھ‪ ،‬اور‬
‫نشاۃ الثانیہ کے عروج‪ ،‬نوکالسیکیت‪ ،‬رومانیت‪ ،‬دور تجسس کے عالوہ ِ‬
‫وکٹورین عہد کے عنوانات سے تفصیلی جائزے بھی ملتے ہیں مگر الگ سے اینگلوانڈین‬
‫ناولوں کو اس طرح کا امتیاز خصوصی میسر نہیں آیا یعنی بطور مجموعی ناول کی‬
‫تاریخ بیان کرنے میں اطناب سے کام لیا گیا اس کے علی الرغم اینگلوانڈین ادب کے بیان‬
‫میں ایجاز و اختصار برتا گیایا محض ناول کے تعارف تک مورخ محدود رہا۔‬
‫زمانی ترتیب کے حساب سے دیکھا جائے تو اینگلو انڈین ناولوں کے پہلے دور کا‬
‫آغاز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز )‪ (Warren Hastings‬کے عہد سے شروع ہو کر‬
‫جنگ آزادی ‪۱۸۵۷‬ء تک ہے۔ دوسرا دورانیہ جنگ آزادی سے ملکہ وکٹوریہ ‪(Queen‬‬
‫)‪Victoria‬کی وفات تک ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا ِکم‪ (Kim) 1901‬ء اسی دور کی یادگار‬
‫ہے۔ تیسرا دور ‪۱۹۰۵‬ء میں تقسیم بنگال سے شروع ہو کر تقسیم ہندوستان تک چلتا ہے۔‬
‫میڈوز ٹیلر )‪ (Medous Taylor‬اور ڈبلیو ڈی آرنلڈ )‪ (W. D. Arnold‬پہلے دور کے‬
‫نمائندہ ناول نگار ہیں۔ سر ہنری کننگھم)‪ (Sir Henry Cunnighem‬اور رڈیارڈ کپلنگ‬
‫)‪(Rudyard Kipling‬دوسرے دور کے‪ ،‬جبکہ ایڈمنٹر کینڈلر ‪(Edmund‬‬
‫)‪ ،Candler‬ای ایم فاسٹر )‪ (E. M. Faster‬اور ایڈورڈ تھامسن ‪(Edward‬‬
‫)‪ Thompson‬تیسرے دور کے نمائندہ ہیں۔ پہلے دور کے ناول اینگلو انڈینز کی‬
‫سرکاری مصروفیات کی عکاسی کرتے ہیں جن میں خاص طور پر طنزیہ رنگ حاوی‬
‫ہے۔ مگر تیسرے دور کے ناولوں کے موضوعات متنوع اور وسیع تر ہیں اور تغیر پذیر‬
‫ہندوستان کی بوقلموں حیات اور مسائل کے صحیح عکاس ہیں۔‬
‫ان تمام ناولوں کے عمومی موضوعات میں بے اطمینانی‪ ،‬کشمکش‪ ،‬ناخوشی‪ ،‬غلط‬
‫فہمیاں اور ہندوستان میں عائلی زندگی کی پیچیدگیاں اور مشکالت شامل ہیں۔ فنی طور پر‬
‫اینگلوا نڈین فکشن‪ ،‬اینگ لوانڈینز کی ہندوستان میں چند روزہ ‪/‬عارضی زندگی کا ریکارڈ‬
‫اور ترجمان ہے۔‬
‫مسٹر آر ۔ این سینکوٹ )‪ (R. N. Sencourt‬کا ناول ‪"The Distinterested‬‬
‫"‪ Nabob‬اینگلوانڈین ناولوں میں سے اولین مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد مس سڈنی اوینسن‬
‫)‪ ،(Miss Sidney Owenson‬ڈبلیو بی ہاکلے)‪ ، (W. B. Hockley‬سروالٹ سکاٹ‬
‫)‪ ،(Sir Walet Scott‬چارلس ڈکنز)‪ ، (Charles Dickens‬ولیم تھکرے ‪(Willian‬‬
‫)‪Thackeray‬اہم ہیں۔ جبکہ میڈوزٹیلر )‪ (Meadows Taylor‬بعض نقادوں کے‬
‫مطابق کپلنگ )‪ (Kipling‬سے قبل دور کی اینگلو اینڈین فکشن کی تاریخ میں تھیکرے‬
‫)‪(Thackery‬سے زیادہ اہم لکھاری ہے اسے فارسی‪ ،‬مراہٹی اوردیگر ہندوستانی زبانوں‬
‫سے گہری آشنائی تھی۔ اس کے بعد ڈبلیو ڈی آرنلڈ‪ ،‬جان لینگ )‪ (John Lang‬کے نام‬
‫قابل ذکر ہیں اس کے بعد کا دور مابعد غدر (جنگ آزادی) کے ناولوں پر مشتمل ہے۔ یہ‬
‫عشرہ (‪۶۹‬۔‪۱۸۵۹‬ء) پر مشتمل ہے جو کہ جنگ آزادی ‪۱۸۵۷‬ء کے بعد سے شروع ہوتا‬
‫ہے۔ اس دور کے لکھاریوں میں کولن)‪ ، (Wilkie Collin‬مسٹر ایڈورڈ ‪(Edward‬‬
‫)‪ ،Money‬میجر چارلس کربی )‪ ، (Major Charles Kirby‬فلورنس میریٹ‬
‫اعلی درجے کے اینگلو‬‫ٰ‬ ‫)‪(Florence Marryat‬شامل ہیں۔ سال ‪۱۸۷۰‬ء کے فورا ً بعد‬
‫انڈین ناول لکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی میں جن ناول نگاروں نے شہرت پائی‬
‫ان میں فل رابنسن )‪ (Phil Robinson‬اور سر ہنری کننگھم ‪(Sir Henry‬‬
‫)‪ Cunningham‬نے اپنے ناولوں میں اینگلو انڈین معاشرت کو نجی اور سرکاری‬
‫میدانی و کوہستانی ہر دو عالقوں میں اتنی مہارت کے ساتھ سمویا ہے کہ اس کی مثال‬
‫ملنا مشکل ہے۔‬
‫اس کے بعد رڈ یارڈ کپلنگ( )‪۱۹۳۶ (Rudyard Kipling‬ء۔‪۱۸۶۵‬ء) کا دور ہے‬
‫جو کہ سفید نام نسل کا بوجھ )‪ (The White Man's Burden‬جیسی مشہور زمانہ‬
‫اصطالح کا خالق ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا ہندوستان میں ادبی منظر نامے پر ظہور ‪۱۸۸۰‬ء‬
‫کے اواخر میں ہو ا۔ مگر کپلنگ کی وہ تحریریں جن کا موضوع ہندوستان یا ہندوستانی‬
‫معاشرت ہے ان کا عرصہ ‪۱۸۸۰‬ء تا ‪۱۸۹۷‬ء ہے۔ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب ‪"Plain‬‬
‫"‪۱۸۸۸Tales from Hills‬ء میں‪۱۸۸۸ ،Soldiers Three ،‬ء مینجبکہ‪،‬‬
‫‪۱۸۹۳ ،Between Many Inventions‬ء میں منظر عام پر آئی۔ ‪۹۵‬۔‪۱۸۹۴‬ء میں‬
‫"‪"The Jungle Books‬شائع ہوئیں۔ اس کے بعد کی قابل ذکر کتب میں & ‪"Stalky‬‬
‫"‪"A ،"Reward and Fairies" ،"Puck of the Pook's Hill" ،Company‬‬
‫"‪"Limits and ،"Debits and Credits" ،Diversity of Creatures‬‬
‫"‪Renewals‬شامل ہیں۔ بطور ناول نگار رڈیارڈ کپلنگ کی شہرت ‪"The Light that‬‬
‫"‪ ،Failed‬نولکھا )‪ (Naulakha‬اور ِکم )‪ (Kim‬کی وجہ سے ہے۔ بھوپال سنگھ کے‬
‫تجزیے کے مطابق کپلنگ بطور فن کار بہت زیادہ خوبیوں کا ملک ہے۔ اس کی انگریزوں‬
‫اور اینگلوانڈینز کی حیات و کردار کی عکاسی کو عالمگیر طور پر سراہا گیا مگر اس کا‬
‫ہندوستانی کہانیوں کا جائزہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ کئی مقامی تخلیق کاروں کی طرح‬
‫ہندوستان کی روح کے قریب تر آنے میں کافی کامیاب نہیں ہواہے۔‬
‫اس کے بعد کپلنگ سے بالواسطہ طور پر متاثر ہونے والے لکھاریوں کی ایک‬
‫فہرست ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کپلنگ سے قبل اینگلوانڈین ادب غیر متشکل‬
‫)‪ (Amorphous‬تھا یعنی اس کے موضوعات کی کوئی واضح جہت موجود نہیں تھی یا‬
‫پیدا نہیں ہو سکی تھی اور اس کا انگریزی ادب کی تاریخ میں کوئی منفرد مقام بھی نہیں‬
‫تھا۔ کپلنگ کی بدولت اس کی پہچان بنی۔ کپلنگ کی ذہانت‪ ،‬اس کے فن اور مقبولیت نے‬
‫اس کے کئی مداح اور پیروکار (نقال) پیدا کیے جن میں سے حیرت انگیز طور پر بیشتر‬
‫خواتین ہیں۔ ان متاثر ہونے والوں میں مسز فلورا اینی سٹیل ‪(Mrs. Flora Annie‬‬
‫)‪ ،Steel‬مسز ایلس پیرن)‪ ، (Mrs. Alice Perrin‬مسٹر روتھ فیلڈ)‪، (Otto Rothfeld‬‬
‫اینڈرل)‪ ، (Andrul‬ایڈمنڈ کاکس)‪ ، (Edmund Cox‬مسٹر ہربرٹ شیرنگ ‪(Herbert‬‬
‫)‪ ،Sherring‬رچرڈ )‪ ، (Richard Delaa‬مس ایتھل ایم ڈیل )‪(Miss Ethel M. Dell‬‬
‫‪ ،‬اے ٹو مورس )‪ ، (A. R. Morris‬میجر جنرل ٹی پی پلچر ‪(Major General T. P.‬‬
‫)‪ ،Pichler‬لیونارڈ وولف )‪ ، (Leonard Woolf‬جان ایٹن )‪ ، (John Eyton‬مسز ماڈ‬
‫ڈائیور )‪ ، (Mrs. Maud Dever‬ہلٹن برائون )‪ ، (Hilton Brown‬ہمسفرے جارڈن‬
‫)‪ ،(Humsafray Jordon‬وغیرہ اہم ہیں۔‬
‫اس عہد کے بعد بھوپال سنگھ کے مطابق جدید اینگلو انڈین لکھنے والوں کی کافی‬
‫بڑی تعداد موجود ہے۔ مگر ان کے کام کا معیار زیادہ بہتر نہیں ہے۔‬
‫اینگلو انڈین لٹریچر )‪ (Anglo Indian Literature‬کے برعکس مقامی ادبا کی‬
‫انگریزی زبان میں تخلیقات کے لیے انڈو اینگلین )‪ ، (Indo-Anglian‬انڈو انگلش‬
‫)‪(Indo-English‬اور ’’ہندوستانیوں کی انگریزی تخلیقات ‪‘‘ (Indian Writings in‬‬
‫)‪English‬جیسی اصطالحات وضع ہو کر منظر عام پر آئیں۔‬
‫وی کے گوکک )‪ (V. K. Gokak‬کے مطابق انڈو اینگلین سے مراد ہندوستانی‬
‫لکھاریوں کی انگریزی زبان میں تخلیقات ہیں جبکہ انڈو انگلش سے مراد مقامی ہندوستانی‬
‫ادبا کی طرف سے ہندوستانی ادب کے انگریزی تراجم ہیں۔ ایم کے نائیک ‪(M. K.‬‬
‫)‪ Naik‬یہ وہ ادب ہے جو بنیادی طور پر انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو اور ایسے‬
‫مصنفین کی طرف سے تحریر شدہ ہو جو کہ پیدائشی ‪،‬قومیتیاورموروثی طور پر‬
‫ہندوستانی ہوں۔ رام سیوک سنگھ )‪ (Ram Sewak Singh‬نے ایسے ادب کو انگریزوں‬
‫اور ہندوستانیوں کے درمیان تجارتی‪ ،‬ثقافتی اور ادبی مڈبھیڑ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر سنتوش )‪ (Dr. Santosh S. Huse‬نے مقامی ادبا کی انگریزی تخلیقات‬
‫کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔‬
‫ابتدائی دور ‪۱۸۲۰‬ء تا ‪۱۸۷۰‬ء تک ہے۔ جو کہ اس ادب کے عظیم بانیوں سے‬
‫منسوب ہے۔ دوسرا دور ‪۱۸۷۰‬ء سے ‪۱۹۰۰‬ء تک۔ جو کہ نشاۃ الثانیہ کا عہدہے۔ اس میں‬
‫ادبی اور مذہبی شعور کی لہر دکھائی دیتی ہے۔ تیسرا دور ‪۱۹۰۰‬ء تا ‪۱۹۲۰‬ء ہے۔ یہ‬
‫سیاسی بیداری کا عہد ہے۔ اسے ’بندے ماترم‘ اور ’ہوم رول‘ کے عہد سے موسوم بھی کیا‬
‫گیا ہے۔ چوتھا دور ‪۱۹۲۰‬ء تا ‪۱۹۴۷‬ء ہے۔ اس کو جدید دور اور انقالب گاندھی کا عہد‬
‫کہا گیا ہے۔ پانچواں دور ‪۱۹۴۷‬ء سے شروع ہوتا ہے اور تقسیم کے بعد تک چلتا ہے۔‬
‫پروفیسر ڈاکٹر سنتوش کے مطابق انگریزی میں ہندوستانیوں کی ابتدائی تحریر نثر‬
‫میں تھی اور رام موہن رائے )‪ (Ram Mohan Roy‬پہلے بڑے لکھاری تھے۔ ‪۱۸۵۰‬ء‬
‫سے ‪۱۹۰۰‬ء تک مجموعی سطح پر انگریزی شاعری کا بھی وسیع ذخیرہ تخلیق ہو چکا‬
‫تھا۔ ڈاکٹر سنتوش نے جس طرح رام موہن رائے کو انگریزی نثر میں اولیت کا درجہ دیا‬
‫ہے اسی طرح ہنری ڈیروزیو )‪ (Henry Derozio‬جو کہ ہندوستانی اور پرتگیزی النسل‬
‫تھے انہینمقامی انگریزی شاعری میں مقدم ماناہے۔ اس کے بعد کاشی پرشاد ‪(Kashi‬‬
‫)‪Persad‬اور پھر مائیکل دت )‪ (Michael M. Dutt‬جو کہ انڈین کرسچین تھے اور‬
‫جن کا بنیادی تعلق بنگالی ادب سے تھا وہ ادب کے افق پر طلوع ہوئے۔ انیسویں صدی کی‬
‫آخری دہائی میں سوامی دیوک آنند نے انگریزی زبان کو ویدانتی فلسفے اور مشنری‬
‫ناصحانہ اظہار ک ے لیے ذریعہ بنایا۔ برہمو سماج نے بھی انگریزی زبان کا مہارت سے‬
‫استعمال کیا۔ ارودت )‪ (Aru Dutt‬اور ٹورودت )‪ (Toru Dutt‬نے انگریزی زبان میں‬
‫شاعری کو عروج بخشا۔ ہندوستان میں اسی عہد کے دوسرے لکھاریوں میں رام کرشنا‬
‫پالری )‪ ، (Ram Krishna Pilari‬بہرام مالباری )‪ (Behram Malbari‬اور ناگیش‬
‫وشوا ناتھ )‪ (Nagesh Wishwanath‬اہم ہیں۔ ایم کے نائیک )‪ (M. K. Naik‬نے بھی‬
‫انگریزی ہندوستانی فکشن کو تین ادوار میں تقسیم کیا‪ ،‬پہلے عہد کا آغاز ‪۱۸۵۰‬ء سے‬
‫ہوتا ہے جو کہ ‪ ۱۹۳۰‬ء تک جاری رہتا ہے۔ اس عہد کی تحریریں رومانوی‪ ،‬تاریخی اور‬
‫اکثر حصول آزادی کے جذبوں کے اظہار پر منتج ہوتی تھیں ان تحریروں میں انگلستان‬
‫میں ہونے والی اصالحات اور ‪۱۸۵۷‬ء کی جنگ آزادی کی بازگشت سنائی دیتی ہے اس‬
‫عہد میں برطانوی شہریوں کے ہندو مذہب کے بارے میں اور مقامی ثقافت کے بارے میں‬
‫حقارت اور تضحیک کے بڑھتے ہوئے جذبات کی عکاسی بھی ملتی ہے‪ ،‬رابندر ناتھ‬
‫ٹیگور )‪ ، (Rabinder Nath Tagore‬اروبندوغوث)‪، (Aurobindo Ghose‬‬
‫انگریزی میں ہندوستانی تحریروں کے پہلے دور سے متعلق ہیں۔‬
‫دوسرا عہد ‪۱۹۳۰‬ء تا ‪۱۹۷۰‬ء تک ہے۔ اس کا آغاز ہندوستان میں مہاتما گاندھی‬
‫کی سول نافرمانی کی تحریک سے ہوا۔ اس عہد کے موضوعات میں آزادی‪ ،‬جدوجہد‪،‬‬
‫مشرق و مغرب کے تعلقات‪ ،‬معاشی اور نسلی مسائل شامل ہیں۔ اس عہد کے مشہور‬
‫لکھنے والوں میں ملک راج آنند اور آر۔ کے ۔نارائین شامل ہیں۔ راجہ رائو بھی سماجی‬
‫مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں سلمان رشدی ‪ Salman Rushdi‬اور‬
‫‪ Amitav Ghose‬کے عالوہ کئی دوسرے انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانی شامل‬
‫ہیں جن میں قابل ذکر تعداد خواتین لکھاریوں کی بھی شامل ہے۔‬
‫ایڈورڈ مورگن فاسٹر یکم جنوری؁‪ ۱۸۷۹‬ء کو (میریلیون ) لندن میں پیدا ہوئے۔‬
‫تاریخی اعتبار سے وہ ورجینا وولف اور الرنس کے پیش رو ہیں۔ مگر تکنیکی حوالے‬
‫سے وہ روایتی ناول نگاروں کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ فیلڈنگ اور میریڈتھ کی طرح‬
‫خیال اور نقطہ نظر کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اسی نقطہ نظر کو‬
‫ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود وہ ’’کہانی کو کہانی ‘‘ رکھنے کو ناول نگاری کی دنیا‬
‫میں فن کی پہلی شرط قرار دیتے ہیں جس کا اظہار)‪ (Aspects of Novel‬میں کیا گیا‬
‫ہے۔ اس کے ابتدائی ناولوں کا محرک مختلف تہذیبوں کا تصادم اور انسانی زندگی کا غیر‬
‫متوازن ہونا ہے۔ای۔ ایم ۔ فاسٹر کا نام بیسویں صدی کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔’’‬
‫اے پیسج ٹو انڈیا ‘‘کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف نے اس ناول میں ہندوستانی‬
‫معاشرت کے بارے میں بالعموم انگریزوں کی عصبیت اور تکبرسے ہٹ کر لکھنے کی‬
‫کوشش کی ہے۔ دو انگریز خواتین مسز مور اور ایڈالکیوسٹڈ کی ہندوستان میں آمد کے بعد‬
‫فضا میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ دونوں خواتین اصل ہندوستان کو دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔‬
‫ڈاکٹرعزیز جو کہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ان دونوں خواتین کو لے کر مارابار‬
‫غاروں کی سیر کے لیے جاتا ہے۔ وہاں پر وہ افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو ناول‬
‫کے ماجرے کو آگے بڑھاتا ہے اور جس کے نتیجے میں ناول ہندوستان کی تہذیبی و‬
‫ثقافتی فضا کو اپنے بیانئے میں سموتا چال جاتا ہے۔‬
‫ای ایم فاسٹر کا بنیادی نظریہ تھا کہ انسانی تعلقات نہ صرف سماجی‪ ،‬تہذیبی اور‬
‫سیاسی اختالفات کو کم کر سکتے ہیں بلکہ ان اختالفات کی گہری خلیج کو ختم کر سکتے‬
‫ہیں مگر جب وہ خود ہندوستان آ کر صورت حال کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس پر حقیقت‬
‫واشگاف ہوتی ہے کہ انگریزوں اور مقامی لوگوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ان کے‬
‫دوستانہ تعلقات قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان بقول ناول نگار کوئی قدر‬
‫مشترک نہیں۔ اس ناول میں جہاں عہد غالمی کی تصویریں اور استعماری رویے کی‬
‫جذبہ آزادی کی آنچ بھی‬
‫ٔ‬ ‫جھلک نظر آتی ہے وہاں مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے‬
‫واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔‬
‫برصغیر کے باشندے ایک خاص تہذیبی ماحول کے پروردہ ہیں جن کی دانش اور‬
‫تمدن کے اپنے انداز‪ ،‬اصول اور سانچے ہیں۔ لیکن پھر استعمار کی آمد کے بعد ایک اور‬
‫مختلف نوعیت کے پیٹرن)‪ (Pattern‬نے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ان کو مغلوب‬
‫کرنے کی کوشش کی۔ اور ایک ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ عمل اٹھارویں صدی کے‬
‫اواخر میں شروع ہوا ۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے‪ ،‬انتشار کا شکار مشرقی‬
‫تہذیب میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔‬
‫انیسوں صدی کے آخر میں ہند مسلم تہذیب کی نمائندگی غیر ملکی ادب میں کچھ اس طرح‬
‫کی گئی کہ محسوس ہوا کہ یہ مقامی قدیم ادبی و تہذیبی روایات معدوم ہو رہی ہیں۔یوں‬
‫ایک ایسا تہذیبی انقطاع عمل میں النے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ نوجوان نسل میں‬
‫فکری انتشار بڑھانے کی راہ ہموار کر دی۔‬
‫ایسے ہی حاالت میں ‪ A passage to India‬اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی اشاعت کے‬
‫بعد کئی ناقدین اورر محققین )‪(Critics‬اور محققین)‪ (Researchers‬کی مختلف آرا‬
‫منصہ شہود پر آئیں۔ جس میں فاسٹر)‪ (Forster‬کو یا تو غیر جانبدار کردار کا حامل بتایا‬
‫گیا ہے یا مکمل طور پر متعصب اور جانبدار‪ ،‬ایسا ناول نگار جو کہ احساس تفاخر اور‬
‫برتری کے نو آبادیاتی نظریہ کا حامی اور مویدہے ۔ یعنی ہر نقاد نے اس ناول کو اپنے‬
‫زاویہ نگاہ اور الگ الگ تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔‬
‫بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ناول کو فکری سطح پر دیکھا جائے تو‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول میں بیک وقت تہذیب‪ ،‬ثقافت‪ ،‬تاریخ‪ ،‬سیاست‪ ،‬ادب‪ ،‬موسیقی‪،‬‬
‫فنون لطیفہ‪ ،‬عمرانیات اور مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔‬
‫برصغیر پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی سماجی و معاشرتی حقائق کے‬
‫ساتھ ساتھ مقامی افراد کی انفرادی نفسیات اور حاالت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس میں‬
‫سماجی‪ ،‬نسلی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬سیاسی اور مذہبی اونچ نیچ سے متعلق لوگوں کی سوچ اور جذبات‬
‫کو نہایت فنکارانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس ناول‬
‫میں ہندوستانی حیات اور معاشرت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی‬
‫بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ اس ناول کا متن اپنی اصل میں عالمتی ہے اور اس‬
‫میں کسی حد تک تصوف کی آمیزش بھی کی گئی ہے مگر بنیادی طور پر ’اے پیسج ٹو‬
‫انڈیا‘ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو دریافت کرنے کا عمل‬
‫بھی ہے۔ اسی لیے فاسٹر اسی عہد میں ہندوستان میں موجود دو مختلف معاشروں اور ان‬
‫کی اقدار و روایات کو بیان کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے ہیں یعنی مقامی آبادی‬
‫سے انگریز یعنی نوآبادکار کس طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ سامنے‬
‫آتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی ناول میں زیر بحث التے ہیں کہ برصغیر کی سرزمین پر‬
‫ہر دور میں مختلف رنگ‪ ،‬نسل‪ ،‬ثقافت و مذہب کے لوگ آباد رہے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں‬
‫ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے رہے ہیں ان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا‬
‫رہی ہے اور وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو ان کے درمیان حائل رہی ہیں۔‬
‫اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فاسٹر نے اگرچہ مقامی تہذیب و معاشرت کو‬
‫ہمدردانہ رویے سے پیش کرنے کی سعی کی ہے مگر ساتھ ہی اس نے بھی سفید فام‬
‫نوآبادکاروں کی برتری کے نظریے کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی‬
‫ت ہذیب و ثقافت کو برتر جبکہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو بین السطور کم تر ثابت کرنے‬
‫خطہ ارضی کو بھی کم دلکش‬ ‫ٔ‬ ‫کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے ہندوستان کے‬
‫قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر کی‬
‫ہے۔ اس کے مقابلے مینانگریزوں کی اہمیت یہ کہہ کر اجاگر کی ہے کہ وہ بہترین منتظم‪،‬‬
‫سنجیدہ فکر اور ذمہ دار لوگ ہیں جبکہ اس کے علی الرغم ہندوستانی سرزمین بنجر اور‬
‫یہاں کے لوگ کم حوصلہ‪ ،‬نااہل‪ ،‬جذباتی‪ ،‬غیر معقول اور جلد اشتعال میں آنے والے ہیں۔‬
‫دوسرے لفظونمیں یہ وہی فلسفہ ہے جو ہندوستان میں انگریزی راج کو درست ثابت‬
‫کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے دوسرے مصنفین نے بھی اپنے تحریروں میں‬
‫اجاگر کیا ہے۔ یہی وہ سامراجیوں کی منافقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ فرانز فنین (‪۱۹۶۱‬ء۔‬
‫‪۱۹۲۵‬ء) نے بھی تفصیالً کیا ہے۔ اور اس کا اطالق ناول زیر مطالعہ پر بھی کیا جا سکتا‬
‫ہے۔ کیوں کہ یہی وہ طریقہ کا ر ہے جس کے ذریعے مقامی آبادی کو رام کیا جاتاہے۔‬
‫اسی ناول میں فاسٹرنے ہندوستانی اور یورپی اقوام کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی‬
‫بین السطور پیش کیا ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت کے مابین کشمکش اور تصادم کی کیفیت‬
‫کو ظاہر کیا ہے۔ جبکہ اسالم کا تعارف مسلمان کردار عزیز کے ذریعے کچھ یوں کرایا‬
‫ہے کہ اسالم صرف مسجد تک ہی محدود نظر آتا ہے۔ عزیز کو شاندار ماضی کی عظیم‬
‫یادوں میں کھویا ہوا دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اب عظمت رفتہ کے‬
‫اسیر ہو چکے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عزیز کو اسالم کی موجودہ شکل کے ساتھ تصادم‬
‫کی صورتحال پیش آتی ہے اور وہ احساس تحفظ جو اس کو اسالمی تشخص فراہم کرتا‬
‫لمحہ موجود میں کہیں نظر نہیں آتابلکہ وہ تشخص بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے‬
‫ٔ‬ ‫ہے اس کو‬
‫اور اس عظیم مذہب کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اب عزیز دو‬
‫د نیائوں کے مابین یوں تقسیم دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف تو اسالم کی شاندار روایات‬
‫کی یادیں ہیں جو اس کے قلب و ذہن پر نقش ہیں جبکہ دوسری طرف اس کے ذہن میں‬
‫اس عظیم ماضی کے خالف باغیانہ خیاالت بھی پنپ رہے ہیں۔ یوں ہمارے سامنے‬
‫مسلمانوں کی ایسی تصویر آتی ہے جس کے مطابق انہیں ماضی کا اسیر دکھایا گیا ہے۔‬
‫اور اسالم ایسا مذہب دکھائی دیتا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اپنے ماننے والوں‬
‫پر پردہ جیسی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اور انہیں ماضی کا اسیر بنا کر حال سے ہم آہنگ‬
‫ہونے کی تعلیم فراہم نہیں کرتا۔ اور یوں اسالم ایک بوسیدہ مذہب اوراپنے اندر ارتقاء کی‬
‫قوت نہ رکھنے والے جامد مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج کے دور میں اس کی‬
‫موجوں میں اضطراب اور تحرک مفقود ہے۔ ٰلہذا ایسے مذہب کو آج کی جدید اور مہذب‬
‫دنیا کے منظرنامے سے ہٹا دینا چاہیے۔‬
‫جبکہ ہندوستان کی ارضی صورت حال کو اس ناول میں بنجر اور ویران دکھایا گیا‬
‫ہے۔ اس کے موسموں تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جیسے کہ اپریل کو خوفناک مہینہ‬
‫قرار دیا ہے‪"April is month of horror" ،‬۔ اس کے درختوں کو گھٹیا کوالٹی کی‬
‫جھاڑیاں کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہاں تک کہا گیا‬
‫ہے کہ یہاں سورج بغیر کسی عظمت اور شان و شوکت کے طلوع ہوتا ہے ‪"The sun‬‬
‫"‪rises devoid of splendor‬۔‬
‫ارضی صورتحال کے عالوہ یہاں کے باشندوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‬
‫اور یہ بتایا گیا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں مقامی لوگ اس کا سامنا کرنے کی‬
‫بجائے خود ایک ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں مبتال ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس‬
‫اسی قسم کی صورت حال میں انگریز اپنے حواسوں پر نہ صرف قابو رکھتے ہیں بلکہ‬
‫بڑے ہی سنجیدہ اور متینہوتے ہیں۔ مگر ہندوستانی شوریدہ سری میں بہکی بہکی باتیں‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫برطانوی قبضے میں آنے کے بعد ہندوستان کو حسن ترتیب کی مثال قرار دیا گیا‬
‫ہے جبکہ مقامی قدیمی ہندوستان کو غیر منطقی اور توہم پرست ثابت کرنے کی کوشش‬
‫کی گئی ہے۔ عالوہ ازیں انگریز نوآبادیاتی اشرافیہ اور ہندوستان کی مقامی آبادی کے‬
‫درمیان باہمی تعلقات کی نوعیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نوآبادکار ہندوستانی‬
‫محکوموں کی اس طرح عزت روا نہیں رکھتے جس کی توقع ہندوستانی ان سے کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫ٰلہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ا س ناول میں ہندمسلم تہذیب کی استحضاریت ہو یا‬
‫مقامی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ۔ فاسٹر جب اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے یہ رائے‬
‫دیتے ہیں "‪ "England holds India for her good‬کہ انگلستان کا ہندوستان پر‬
‫قبضہ اس کے سدھار اور بہتری کے لیے ہی ہے تو قاری کے ذہن میں رڈیارڈ کپلنگ‬
‫کے مشہور فلسفہ ’’سفید فام نسل کا بوجھ "‪‘‘ "White Man's burden‬کی بازگشت‬
‫سنائی دیتی ہے۔ گوکہ طریقہ کار اور انداز بیاں میں قدرے اختالف موجود ہے۔‬
‫بعض انگریز مصنفین ہندوستان کی ثقافت اور روحانی فضا سے کچھ اس طرح‬
‫متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحریروں میں ایک نیا رنگ دیا۔ ایسے‬
‫ہی نمایاں لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ اور ای ایم فاسٹر جیسے لوگ شامل ہیں جنہوں‬
‫نے اپنی تخلیقات میں ہندوستان کی بھرپور عکاسی کی۔ یونبرطانوی زیر تسلط ہندوستان‬
‫کے متعلق تحریریں ہی ان کی پہچان بن گئیں۔ جوزف رڈیارڈ کپلنگ ایک انتہائی اہم‬
‫مصنف اور تخلیق کار ہیں جو ‪۳۰‬دسمبر ‪۱۸۶۵‬ء بمبئی (حالیہ ممبئی) میں ایک برطانوی‬
‫جوڑے ایلس کنگ )‪ (Alice Kipling‬اور جان الک وڈ کپلنگ کے ہاں متولد ہوئے۔‬
‫زیر تحقیق ناول ’’ ِکم ‘‘بنیادی طور پر "‪ "Mcclure‬میگزین میں دسمبر ‪۱۹۰۰‬ء‬
‫سے اکتوبر ‪۱۹۰۱‬ء تک سلسلہ وار شائع ہوتا رہا۔ جبکہ ‪ Cassell‬میگزین میں بھی‬
‫‪ ۱۹۰۱‬ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اسی سال میکملن اینڈ کمپنی نے اسے کتابی صورت میں‬
‫شائع کیا۔ ’’کم‘‘ رڈیارڈ کپلنگ کی حیات اور کیریئر میں اتنا ہی ممتاز اور نمایاں ہے جیسا‬
‫کہ انگریزی ادب میں خود اس کا اپنا مقام ہے اور اس کے طویل فکشن میں یہ ناول ہر‬
‫پہلو سے واحد کامیاب مثال ہے۔ ناول کے پالٹ کی تشکیل میں دوسرے عناصر کے‬
‫عالوہ روس ا ور برطانیہ کی سیاسی چپقلش بھی شامل ہے جسے ناول میں عظیم سیاسی‬
‫کھیل"‪ "Great game‬کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ تاریخی واقعات‬
‫کو بھی ناول کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ تاریخ کا ناول میں شامل‬
‫کرنا ماضی کو تاریخی رنگ میں پیش کرنااور سماج کی عکاسی کرنا‪ ،‬یہ سب عناصر مل‬
‫کر ناول کے بیانیے کو جاندار بناتے ہیں۔ ایسے ہی کپلنگ کا ِکم بھی ہے۔ ناول میں دو‬
‫مرکزی کردار ہیں ایک نوجوان کمبال او ہارا جو کہ ہندوستانی فوج کے سارجنٹ کا یتیم‬
‫بیٹا ہے جبکہ دوسرا بوڑھا تبتی درویش الما ہے۔ اسی الما کا چیال بن کر ِکم پورے‬
‫ہندوستان میں گھومتا پھرتا ہے کیوں کہ الما کو ایک ایسے دریا کی تالش ہے جس میں‬
‫نہا کر وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔‬
‫الہور عجائب گھر کے باہر رکھی زمزمہ توپ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کا یہ‬
‫سفر بوڑھے تبتی درویش کے ہمراہ جاری رہتا ہے اور پھر برطانیہ اور روس کے مابین‬
‫موجود سیاسی چپقلش کا حصہ بن کر اس کی مالقات کئی لوگوں سے ہوتی ہے جن میں‬
‫گھوڑوں کا افغان تاجر محبوب علی‪ ،‬کرنل کریٹن‪ ،‬لرگان اور ہوری بابو شامل ہیں۔ اسی‬
‫گریٹ گیم میں ِکم برطانوی خفیہ ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے جن کا مقصد شمالی‬
‫پنجاب میں روسی سازش کے ذریعے پھیالئی جانے والی بغاوت کو ناکام بنانا ہے۔ اسی‬
‫دوران ِکم کی اصلیت ظاہر ہونے پر اسے ‪ St. Xavier‬سینٹ زاویئر سکول میں تعلیم‬
‫کے حصول کے لیے داخل کر ادیا جاتا ہے جبکہ چھٹیوں میں وہ اپنے گروہ کے ہمراہ‬
‫سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ ِکم اور بوڑھا روسی جاسوسوں سے ملتے ہیں اورکم ان کے‬
‫کچھ کاغذات چرا لیتا ہے مگر وہ دونوں پکڑے جاتے ہیں اور بہت دکھ محسوس کرتے‬
‫ہیں اور اسی پریشانی میں بیماری میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ مگر ِکم کی روحانی شفائی‬
‫خوبیوں کی وجہ سے وہ دوبارہ صحت مند ہو جاتے ہیں اور بوڑھے کو یہ ادراک بھی‬
‫ہوتا ہے کہ اسے ِکم کے ذریعے مطلوبہ دریا مل گیا ہے۔‬
‫کپلنگ کا تناظر اس ناول میں بہت وسیع ہے اور وہ اس ملک‪ ،‬اس کے باشندوں‪،‬‬
‫معاشرے‪ ،‬پہاڑوں میدانوں کو اپنے گہرے مشاہدے کی بنا پر دامن قرطاس میں یوں اجا‬
‫گر کیا ہے کہ پوری تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور یہ ایسی تصویر‬
‫ہے جس میں اس کے متنوع رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔‬
‫اگرچہ یہ بنیادی طور پر سفری اور مہماتی قسم کا ناول ہے مگر اس کے ساتھ‬
‫ساتھ معاشرے کے کثیر طبقات کا بھرپور عکاس بھی ہے ‪،‬ان متنوع طبقات اور مذاہب‬
‫کے نمائندہ کرداروں کی عکاسی سے بڑا واضح ثقافتی نقش ابھر کر سامنے آتا ہے اور‬
‫نوک قلم‬
‫ِ‬ ‫ایک تمدن کی عکاسی ہی اس کا حقیقی جوہر ہے۔ کوچہ و بازار کے چلن کو بھی‬
‫سے مصور کیا اور یوں ایک مکمل معاشرت کا احاطہ کچھ فنی قیود کے ساتھ کیا۔ اسی‬
‫لیے کپلنگ کا کمال اس کی معاشرتی عکاسی میں پنہاں ہے۔ ہر طرف زندہ اور جیتے‬
‫جاگتے لوگ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی شکست و ریخت ہوتی رہتی‬
‫ہے۔ اس پر کسی کا زور نہیں۔ مگر ان کرداروں کے ذریعے معاصر معاشرے کی تمام تر‬
‫صورت حال قاری کیبصارت اور سماعت کے دائروں میں متشکل ہو تی ہے۔ اس سے‬
‫یہبھی آگا ہی ملتی ہے کہ ان سماجی رویوں کے مطالعے کے لیے انہیں ایک وسیع میدان‬
‫میسر آیا اور اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔‬
‫ہند مسلم تہذیب ایک وسیع تر بنیاد رکھنے والی تہذیب ہے اور یہ اسی وسعت کا‬
‫جواز ہے کہ مذہب(اسالم ) صرف ایک عقیدہ نہیں اس کی ایک تہذیبی اور معاشرتی‬
‫جہت بھی ہے۔ جو ابتدا سے ہی رد و قبول کے نظام کے ساتھ تہذیبی اور تمدنی سانچوں‬
‫کے اندر اپنے رویوں کو منتقل کرتی نظر آتی ہے۔ برصغیر کا معاشرہ کثیر النسل اور‬
‫کثیر المذاہب معاشرہ ہے۔ جو کہ اس کی معاشرتی جمالیات کا ایک خوبصورت منظرنامہ‬
‫ہے اسی منظر نا مے مینناول نگار کے کرداروں کے تنوع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک‬
‫طرف تبتی بدھ الما کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف محبوب علی ایک افغان‬
‫مسلم گھوڑوں کا تاجر موجود نظر آتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ ہی ایک بنگالی ہندو ہری چند‬
‫مکر جی اور پروٹسٹنٹ اور کیتھولک پادری مسٹر بینٹ )‪ (Bennet‬اور فادر وکٹر‬
‫)‪(Victor‬ساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور یہ متاثر کن منظر سامنے آتا ہے کہ مسلم‪،‬‬
‫بدھ‪ ،‬انگریز اور جین مذہب کے پیروکار ایک ہی قطار میں صف بستہ کھڑے دکھائی‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫کپلنگ کی کہانیوں کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی‬
‫کہانیوں میں جو بھی مسلم کردار شامل کیے گئے ہیں ان کے مطالعے سے ہی یہ بات‬
‫مترشح ہوتی ہے کہ اسالم کے بارے میں اس کی کیا رائے تھی؟ کیوں کہ تقریبا ً تمام ہی‬
‫مسلم کردار متحرک اور باعمل ہیں جیسے کہ "‪ "Gunga Din‬میں مسلمان گنگا دین کا‬
‫کردار ہے جو کہ ہندوستانی فوج میں بحیثیت سقّہ فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان‬
‫قربان کر دیتا ہے۔‬
‫‪The Ballad of East and West‬میں ’کمال‘ جو کہ پٹھان رہزن ہے اپنی‬
‫بہادری اور شجاعت کی بنا پر کرنل کے بیٹے کی ستائش اور عزت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔‬
‫‪Fuzzy-Wuzzy‬مینمسلم سوڈانی قابل تکریم جنگجو ہیں۔ ‪"The Head of the‬‬
‫"‪District‬میں خداداد خان ایک دیانتدار‪ ،‬آہنی عزم واال بہادر کردار ہے ناول ِکم میں‬
‫گھوڑوں کے تاجر محبوب علی کا کردار الما کے کردار کے برعکس حرکت و عمل کا‬
‫نمائندہ کردار ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسالم کی نمائندگی بطور مثبت قوت اور‬
‫طر ز عمل کی گئی ہے اور تہذیب اسالمی کے یہی عناصر ہیں جن میں اخوت‪ ،‬رواداری‪،‬‬
‫مساوات ‪،‬آزادی‪ ،‬احترام انسانی‪ ،‬شائستگی‪ ،‬روحانی بلندی‪ ،‬اخالقی پاکیزگی اور نظم و‬
‫ضبط وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کپلنگ کو بہت متاثر کیا ۔ اسی لیے اس کی سوانح‬
‫عمری "‪ "Something of Myself‬میں کئی مقامات پر قرآنی سورتوں کے حوالے‬
‫ملتے ہینجیسا کہ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کپلنگ نے قرآن مجید کی دوسری سورہ‬
‫البقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے "‪ "High above mankind I raised you‬یعنی انہیں‬
‫تمام انسانیت میں افضل مقام دینے اور پھر سورہ المائدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں انتشار‬
‫پھیالنے والی قوم قرار دیتے ہوئے اسی آیت کے مطابق یہ بھی کہا کہ انتشار پھیالنا ہللا‬
‫کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے۔‬
‫رڈیارڈ کپلنگ نے بالشبہ اپنے مشہور ناول ِکم اور دوسری کہانیوں میں ہندوستان‬
‫کو مرکزی اہمیت دی ہے اور اس کی تحریروں میں ہندوستانی حیات و معاشرت کا پورا‬
‫نگارخانہ سجا ہوا ہے۔ تمدن کے تغیرات‪ ،‬ثقافتی قوس قزح‪ ،‬موسموں کے بدلنے کی‬
‫کیفیات‪ ،‬وقت کی پے در پے گردشیں اور ہمہ قسم کی جزئیات کی عکاسی کچھ اس طرح‬
‫جہان اصغر میں جہان اکبر کے برمثل کی موجودگی کا‬ ‫ِ‬ ‫سے کی گئی ہے کہ ناول کے اس‬
‫احساس ہوتا ہے الہور ہو یا شملہ‪ ،‬بمبئی ہو یا کلکتہ‪ ،‬ہمالیہ ہو یا راجستھان‪ ،‬ناول کے‬
‫صفحات میں ان کی چلتی پھرتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی سڑکیں ‪ ،‬بازار‪،‬‬
‫محلے‪ ،‬گھنے جنگالت‪ ،‬بہتے دریا‪ ،‬لہلہاتے ہوئے سرسبز کھیت‪ ،‬شادی بیاہ کی تقریبات‪،‬‬
‫میلے ٹھیلے‪ ،‬تہوار اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے متنوع کرداروں‬
‫الویز تصویریں ان اوراق میں جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ بے شک‬ ‫کی بے شمار د ٓ‬
‫گردش ایام نے ان تصویروں کے نقوش بڑی حد تک دھندال دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے‬
‫خدوخال آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔‬
‫ان کہانیوں کے جائزے اور کرداروں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کپلنگ‬
‫کی کہانیوں کا خمیر ہندوستانی تہذیب اور معاشرے سے اٹھایا گیا ہے ہمیں اس کی‬
‫تحریروں میں مختلف فرقوں کی مکمل تصویر بھی نظر آتی ہے اور نظریاتی اختالفات‬
‫کے باوجود مذہبی ہم آہنگی کا منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ مسائل زدہ طبقات کی خستہ‬
‫حالی جھلکتی ہے اور حاالت کو بدلنے پر مصر سیاسی و سماجی شعور انگڑائیاں لیتا‬
‫بھی محسوس ہوتا ہے ۔گویا برصغیر کا پورا معاشرہ قاری کے تخیل پر تمام رنگوں سمیت‬
‫جلوہ گر ہوتا ہے کپلنگ نے بعض اوقات حقیقی واقعات اور تاریخی کرداروں کی مدد سے‬
‫ان کہانیوں کو ن یم دستاویزی انداز میں بیان کر کے کثیر الجہتی اور مقامی نقطہ نظر کے‬
‫حوالہ قرطاس کیا ہے۔ ان کی کہانیاں برصغیر‬ ‫ٔ‬ ‫ساتھ ساتھ ذاتی رد عمل کے اظہار کو بھی‬
‫کے زمینی حقائق کی تصویر کشی پر مشتمل ہے جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ‬
‫بھرپور عصری شعور سے بھی بہرہ ور ہیں جو قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے‬
‫۔بطور مجموعی ان کہانیوں میں کالسیکی ادب کاسا وقار جھلکتا ہے۔‬
‫پال اسکاٹ )‪ (Paul Scott‬کا راج کوارٹٹ "‪ "Raj Quartet‬ایک طویل ناول ہے‬
‫جو کہ چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ان میں سب سے پہلے ‪The Jewel in the‬‬
‫‪ ،Crown, 1966‬پھر‪Tower of Silence, ، The Day of Scropion, 1968‬‬
‫‪1971‬سب سے آخر میں ‪ A Division of the spoils, 1975‬شائع ہوا۔ اس چہارگانہ‬
‫ناول کے عالوہ بھی تیرہ مشہور ناول اس کے کریڈٹ پر ہیں۔ پال اسکاٹ نے ‪1940‬ء‬
‫سے ‪1946‬ء تک انڈین آرمی میں مالزمت کی۔ اس عرصے کے دوران اس نے‬
‫ہندوست انی تہذیب و معاشرت کا گہرا مشاہدہ کیا اور ان ہی مشاہدات کو اپنے ناول کا حصہ‬
‫بخوبی بنایا۔‬
‫بحیثیت مجموعی راج کوارٹٹ فکشن کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے‬
‫مگر جیسا کہ تاریخ کی سطور کے درمیان بہت کچھ غیر مرئی بھی لکھا ہوتا ہے جو‬
‫بظاہر نظر نہیں آتا مگر غور کرنے سے اس کا مفہوم اس کے باطن سے برآمد کیا جا‬
‫سکتا ہے۔ اسی طرح راج کوارٹٹ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول کو بھی‬
‫اس کے زمانی محیط سے الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ناول کے‬
‫نقطہ انجام کی جانب مائل بہ سفر انگریزی‬ ‫ٔ‬ ‫پردے میں ہندوستان میں انہدام پذیر یا اپنے‬
‫راج کی ادبی جمالیاتی تقاضے نباہنے والی مکمل تصویر ہے۔ اسی تصویر کے چند‬
‫گوشوں کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس میں تاریخ اور‬
‫فکشن کا امتزاج ہے۔ مگر پال اسکاٹ نے یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ اس میں بیان کیے‬
‫جانے والے ف سادات کے عالوہ تاریخی اور سیاسی مناظر بھی حقیقت پر مبنی ہیں جبکہ‬
‫مجرمانہ حملے کی ڈرامائی صورتحال‪ ،‬گرفتاریاں اور قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا‬
‫سلوک کی داستان مبنی بر تخیل ہے۔‬
‫پال سکاٹ نے تقریبا ً چھ سال کا عرصہ (‪۱۹۴۶‬ء۔‪۱۹۴۰‬ء) انڈین آرمی میں گزارا۔‬
‫یوں اسے ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کے گہرے مشاہدے کا سنہری موقع میسر آیا جس کا‬
‫اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ بالشبہ یہ انگریز سپاہی جو آگرہ میں مقیم رہا اورتاج محل‬
‫کبھی نہ دیکھ پایا مگر جب طویل رخصت پر گھر جاتا ہے تو تاج محل پر تحریر کردہ‬
‫ڈھیروں کتابوں کے مطالعے میں گھنٹوں مصروف رہتا ہے ۔ تاکہ وہ سفید سنگ مرمر پر‬
‫کندہ خوابوں کے بارے میں سواالت کے جوابات ڈھونڈ سکے ۔ رنپورــ "‪"Ranpur‬کے‬
‫ریلوے اسٹیشن پر اسے چائے بیچنے واال غمناک آواز میں ’’چائے واال‘‘‪ ’’ ،‬گرم چائے ‘‘‬
‫کی آواز یں لگاتے ہوئے ملتا ہے ۔ پان کے تھوکنے کے نئے اور پرانے نشانات ‪ ،‬جنھیں‬
‫کوئی اجنبی ملک سے آنے واال نیا مسافر خون کے دھبے سمجھ کر پریشان ہوجاتا ۔ قلیوں‬
‫کے غول پچاس گز کے ریلوے اسٹیشن پر مخصوص لباس پہنے دوڑتے بھاگتے نظر‬
‫آتے ہیں۔ کوئلے کی جلنے کی بواور دھواں ‪ ،‬پکے ہوئے پھل اور کپاس کے بُنے ہوئے‬
‫کپڑے جن پر انسانی پسینہ بہہ بہہ کر خشک ہو جاتا اور پھر از سر نو یہی عمل شروع‬
‫پاوں تیزی سے چلتے ہوئے قلی ‪ ،‬سروں پر وزنی بوجھ اٹھائے ‪ ،‬ہٹو بچو‬ ‫ہو جاتا ۔ ننگے ٔ‬
‫کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہر سو نظر آتے ۔ زرد بتی کے جلتے ہی مسافروں کا دوڑنا‬
‫بھاگنا ۔ یا لوہے کے ستونوں سے بنائے گئے اسٹیشن پر ٹرینوں کا انتظار کرتے ہوئے‬
‫مسافر۔ پھر کالے ہاتھوں کا لہرانا اور تیسرے درجے کے کمپارٹمنٹس میں بیٹھے‬
‫مسافروں کو خدا حافظ کہنا ۔ ان سب مناظر کو ناول کا حصہ بنا کر مقامی روایات کو‬
‫بخوبی اجاگر کیا گیا ہے ۔ جب ہری کمار اور ڈیفنی مینرس میاپور مندر میں جاتے ہیں تو‬
‫جوتے باہر اتارتے نظر آتے ہیں اوراسی طرح کی دوسری رسومات کا منظر نامہ گہرے‬
‫مشاہدے کا عکاس ہے۔‬
‫پال سکاٹ نے ہندوستان یا مقامی اصطال حات کا وسیع ذخیرہ استعمال کرتے ہوئے‬
‫مقامی زبانوں پر اپنی دسترس کا خوبصورت نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے ناول کے صفحات‬
‫میں کئی جگہوں پر درشن)‪ ، (Darshan‬نمستے)‪ ، (Namaste‬اچھا )‪،(Achcha‬‬
‫چھوٹا ہزاری )‪ ، (Chotahazari‬درزی )‪ ، (Darzi‬نمبو پانی )‪، (Nimbo Pani‬‬
‫سنیاسا )‪، (Sannyasa‬چپاتیاں )‪، (Chappaties‬پوجا )‪ ،(Puja‬نائی )‪، (Nai‬راگا‬
‫)‪(Raga‬جیسی دیگر کئی اصطالحات نہایت مہارت سے متن کا حصہ بنائی ہیں ۔‬
‫بحیثیت مجموعی جب ناول کو تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے‬
‫کہ ناول کی ابتدا ایڈونا کرین )‪ (Edvina Crane‬کی کہانی سے ہوتی ہے جو کہ مشنری‬
‫ٹیچر ہے اور وہ اپنے ماتحت مسٹر چوہدری )‪ (Mr. Chaudhuri‬کے ہمراہ باہر نکلتی‬
‫ہے تو باہر ایک جلوس کی زد میں آ جاتی ہے جو کہ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد کے‬
‫اعالمیے کے بعد نکاال جا رہا ہوتا ہے اور عوام میں اشتعال پایا جاتا ہے وہ ان دونوں پر‬
‫حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یوں مسٹر چوہدری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بعد‬
‫ازاں ڈیفنی مینرس "‪ "Dephne Manners‬اور ہری کمار "‪ "Hari Kumar‬کے‬
‫معاشقے کے بعد ایک ایسا المیہ جنم لیتا ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے اور اس میں‬
‫بھی منفی کردار رونالڈ میرک "‪ "Ronald Merick‬کا سامنے آتا ہے جو کہ ڈسٹرکٹ‬
‫پولیس کا سپرنٹنڈنٹ ہے(اس کردار کی حیرت انگیز مماثلت مشہور پنجابی رومانوی‬
‫داستان ہیر رانجھا کے کردار کیدو سے ہے) اور استعماری حکومت کا نمائندہ کردار ہے‬
‫یوں ڈیفنی مینرس کی عصمت دری کا واقعہ ایک بہت بڑے بحران میں اس طرح تبدیل ہو‬
‫جاتا ہے کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کو ہی الجھا کر رکھ دیتا ہے۔ دوسرے‬
‫لفظوں میں ہندوس تان کی سیاسی فضا کچھ یوں مکدر ہوتی ہے کہ انگریزوں کے لیے‬
‫اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔‬
‫وزیراعلی‬
‫ٰ‬ ‫دوسری جلد ‪ The Day of Scorpion‬کا آغاز ایک سابق کانگریسی‬
‫محمد علی قاسم کی ‪۹‬اگست ‪۱۹۴۲‬ء کو گرفتاری کے واقعے سے ہوتا ہے اور یہ بھی‬
‫’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد پیش ہونے کے بعد کا دن ہے۔ گورنر اسے مستعفی ہونے‬
‫کی ترغیب دیتا ہے مگر محمد علی قاسم اس کی باتوں میں نہیں آتے ۔ اسی طرح لیٹن‬
‫فیملی )‪ (Layton‬کا تذکرہ ملتا ہے جس میں جان لیٹن )‪ (John Layton‬کی سوتیلی ماں‬
‫ہندوستانیوں سے اظہار ہمدردی کرتی ہے اور خاص طور پر سانحہ جلیانوالہ باغ کے‬
‫متاثرین کے لیے چندہ جمع کرتی ہے ۔ پھر ‪۱۹۴۴‬ء کا سال آتا ہے اور ہری کمار کا کیس‬
‫دوبارہ کھو ال جاتا ہے ۔'‪، 'Nigel Rowan‬کمار سے تفتیش کرتا ہے اور تفصیلی‬
‫انکوائری کے نتیجے میں میرک )‪ (Merrick‬کی نفرت سامنے آتی ہے اور اس کے ظلم‬
‫کی داستان بھی کھلتی ہے ساتھ ہی ہری کمار کی بے گناہی بھی آشکار ہوتی ہے ۔ یہاں‬
‫بھی تاریخی طور پر برطانوی استعماری جبر اور مقامیوں کے بے یارو مدد گار ہونے‬
‫کی کیفیت ناول کے صفحات پر ابھرتی ہے ۔‬
‫تیسرے حصے "‪ "The Tower of Silence‬کی کہانی بھی زیادہ تر باربی بیچلر‬
‫‪ Barbie Bachelor‬جو کہ پروٹسٹنٹ مشن سکول کی سپر نٹنڈنٹ ہے اس کے کردار‬
‫کے گرد گھومتی ہے مگر اس میں بھی ہمیں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان عبوری‬
‫حکومت کی تشکیل کے حوالے سے تفصیلی بحث ملتی ہے ۔ اس میں نہرو کے زیر‬
‫قیادت کانگریس حکومت میں شمولیت کی تجویز دیتی ہے جبکہ جناح مخالفت کرتے ہیں ۔‬
‫چوتھے حصے"‪ "A Divisions of the Spoils‬کا آغاز بھی دوسری جنگ‬
‫عظیم کے خاتمے جیسے تاریخ ساز واقعے کے ذکر سے ہوتا ہے ویول ‪Wavel‬‬
‫ہندوستان کے وائسرائے کے طور پر ہندوستان پہنچتے ہیں اور محمد علی قاسم کو بھی‬
‫قید سے رہائی ملتی ہے ۔ ہندوستان کی آزادی بالکل قریب دکھائی دیتی ہے ۔ پورے ملک‬
‫میں فسادات بھڑک اٹھے ہیں ۔ رونالڈ میرک "‪ "Ronald Merrick‬کا بڑی بے رحمی‬
‫سے قتل کیا جاتا ہے ۔ تقسیم ہند کے فسادات عروج پر ہیں انگریز شورش زدہ عالقوں‬
‫سے بذریعہ ٹرین فرار کی کوشش کرتے ہیں احمد قاسم '‪ 'Ahmed Kasim‬کو ایک‬
‫ایسے غدار کے طور پر ہجوم سے پکڑ کر باہر نکاال جاتا ہے جو کہ انگریزوں کا‬
‫حمایتی ہے احمد قاسم دوسرے گوروں کی جان بچاتے ہوئے خود کو بپھرے ہوئے ہجوم‬
‫کے حوالے کر دیتا ہے اس طرح ناول کا اختتام قاسم کے ہولناک قتل سے ہوتا ہے ۔‬
‫پال اسکاٹ نے بالشبہ راج کوارٹٹ میں تاریخ اور فکشن کا ادغام کچھ اس طرح‬
‫سے کیا ہے کہ تاریخ نے اس ناول کے پالٹ میں روح پھونک دی ہے ساتھ ہی کچھ‬
‫تاریخی اغالط یا مغالطوں کے اصالح کی کوشش بھی کی ہے ۔ مگر ناول کی سطور کے‬
‫گہرے مطالعے سے جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پورے ناول میں ناسٹلجیا کی‬
‫کیفیت کچھ اس طرح سے حاوی ہے کہ یاد ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کے لب‬
‫و لہجے میں گہری افسردگی در آئی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم اور قاب ِل غور بات یہ‬
‫ہے کہ یہ افسردگی اور ترحم کی کیفیت محکوم اور زیر دست ہندوستانیوں سے زیادہ‬
‫انگریزوں کے لیے محسوس ہوتی ہے جو حاکم اور باال دست ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ‬
‫بھی ہو سکتی ہے کہ پال اسکاٹ ہندوستان میں انگریزوں کے بڑے دشوار اور کٹھن‬
‫اوقات میں گزارے ہوئے لمحات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور کئی پر تشدد واقعات‬
‫کا ذکر کرتے ہوئے ان سانحات کی ذمہ داری بھی حاکم انگریزوں کے بجائے محکوم‬
‫ہندوستانیوں پر عائد کرتے ہیں جبکہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان اختالف ‪،‬‬
‫رنجش اور باہمی مخاصمت کو وہ فریقین کی غلط فہمیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کہ‬
‫دونوں اقوام ایک دوسرے کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہیں اور یوں ان کے‬
‫درمیان گہری خلیج حائل ہو گئی اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی کے بجائے‬
‫اضافہ ہوتا چال گیا ۔ پال اسکاٹ اگرچہ دونوں اقوام میں سے کسی ایک کو کلی طور پر‬
‫ذمہ دار نہیں ٹھہراتے مگر بین السطور اس امر کا پرچار ضرور کرتے نظر آتے ہیں کہ‬
‫انگریز بنیادی طور پر بہت اچھے اور قابل منتظم ہیں جو کہ پس ماندہ اور جاہل ہندوستانی‬
‫قوم کی مدد کر نا اور ان کے حاالت کو سدھارنا چاہتے ہیں مگر ان کی صرف ایک‬
‫غلطی یہ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے احساسات و جذبات کو ان کی مشرقی روایات اور‬
‫ترجیحات کو سمجھنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں ان کی مغربی ثقافت اور اقدار‬
‫ت بے جا تصور کرتے ہوئے انھیں مقامی آبادی کی طرف سے‬ ‫کی نشرواشاعت کو مداخل ِ‬
‫سخت رد عمل جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔‬
‫ہندوستانی حیات و معاشرت کی عکاسی کے حوالے سے پال اسکاٹ کا نقطہ نظر‬
‫دوسرے مصنفین جیسے کپلنگ '‪ ، 'Rudyard Kipling‬فاسٹر '‪ ، 'E.M.Forster‬ڈائیو‬
‫ر '‪ 'Maud Diver‬وغیرہ سے مختلف ہے اسکاٹ پورے غور و فکر اور احتیاط کے ساتھ‬
‫مشرق اور مغرب میں پائی جانے والی بنیادی عدم موافقت اور تضاد کو بیان کرنے سے‬
‫کچھ گریز بھی کیا ہے اور موازنہ و مقابلہ سے ان میں پائی جانے والی مماثلت اور‬
‫یکسانیت کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ اس کے ناولوں میں ہندوستان کی کثیر‬
‫عوام کے بالمقابل ہندوستان کی گورننس کے مسئلے کو بھی سامنے النے کی کاوش کی‬
‫گئی ہے ۔ جس کے بارے میں کپلنگ نے کبھی کچھ تحریر نہیں کیا جبکہ فاسٹر نے‬
‫ٹیڑھے اور غیر عمودی طریقے سے بیان کرنے کی سعی کی ۔ کپلنگ کی طرف سے‬
‫ایمپائر کی خام قسم کی تائید اور حمایت نے اس کے کام کی ادبی اہمیت پر منفی اثرات‬
‫مرتب کیے ہیں اسی طرح فاسٹر نے جو راج کا تذکرہ کیاہے وہ بھی محدود نوعیت کا ہے‬
‫کیونکہ کپلنگ کی طرح اس کا ہندوستان بھی الزمی طور پر تاریخ سے حدِفاصل پر رہتا‬
‫ہے ۔ اسکاٹ کی رائے میں ہندوستان میں برطانوی مشن یا مشرق و مغرب کے درمیان‬
‫رشتہ منا کحت اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا کہ انگریز حکمرانوں کا رویہ مقامی‬
‫عوام کے ساتھ بے گانگی اور اجنبیت پر مبنی رہا۔ اس کی خوبصورت مثال پال اسکاٹ‬
‫نے "‪ "In the Tower of Silence‬میں باربی بیچلر '‪ 'Barbie Batchelor‬کے‬
‫ذریعے بیان کی ہے جب اس نے میبل '‪ 'Mabel‬کی طرف سے پیوند کاری کر کے‬
‫انگریزی (بدیسی) گالب کو ہندوستانی سر زمین پر کاشت کرنے کی کوشش کی ۔ مگر‬
‫پھر وہ خدا کی سر زمین پر اجنبی بن کر رہے اور اس کو اپنی غلطی بھی قرار دیا ۔‬
‫بعض مصنفین نے اپنی رزمیہ اور نثری داستانوں اور تاریخی ناولوں کو دلچسپ‬
‫اور مقبول بنانے کے لیے وقت کے عام مذاق اور رجحان کے مطابق غیر حقیقی اور نیم‬
‫تاریخی کرداروں کے عالوہ غیر مصدقہ واقعات اور تفصیالت کا سہارا لیا مگر پال‬
‫اسکاٹ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک مورخ کے طور پر نقطہ‬
‫نظر پیش کرنے کے بجائے اپنی مہارت کا ثبوت دستاویزی اور تخیالتی صداقت کے باہم‬
‫اتصال سے برصغیر کے عوام اور محل و مقام کے ایسے بھرپور پورٹریٹ کی شکل میں‬
‫پیش کیا ہے جس کا ثانی رسمی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔‬
‫بنیادی طور پر جان ماسٹرز کا ناول بھوانی جنکشن اینگلوانڈین کرداروں کی ذاتی‬
‫شناخت کا ناول ہے۔ جس میں تاریخ اور رومان کا خوبصورت امتزاج ہے بھوانی جنکشن‬
‫‪۱۹۵۴‬ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول جان ماسٹرز نے اس عہد تالطم خیز میں تحریر کیا‬
‫جب انگریز ہندوستان کو الوداع کہہ کر اقتدار مقامی افراد کے حوالے کر کے واپس جا‬
‫رہے تھے۔ ایسے میں اینگلو انڈین کمیونٹی ایک خاص قسم کی کشمکش میں مبتال نظر‬
‫آتی ہے کیوں کہ ایک طرف ان کی وفاداریاں برطانوی حکمرانوں کے ساتھ ہیں جو کہ‬
‫برصغیر سے رخصت ہو رہے ہیں ساتھ ہی ان کی ہمدردیاں مقامی اکثریتی آبادی کے‬
‫ساتھ بھی ہیں۔ اس ناول کو مصنف نے اسی کمیونٹی کی نذر کیا ہے جس کے بیشتر کردار‬
‫دہلی دکن انڈین ریلوے سسٹم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یوں اس ناول کی کہانی تاریخ اور‬
‫رومان کے سنگم پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے یہی نہیں کہ جان ماسٹرز نے‬
‫ت روز و شب کو اپنے‬ ‫اس ناول میں اینگلوانڈین کمیونٹی کے عادات و اطوار اور معموال ِ‬
‫گہرے مشاہدے کی مدد سے قرطاس پر منتقل کیا ہے بلکہ ہندوستانی معاشرے میں‬
‫صدیوں سے رائج ذات پات کے نظام اور دوسری تحریکوں اور عصری حاالت کو بھی‬
‫ناول کے صفحات میں اجاگر کیا ہے۔ مگر بنیادی طور پر یہ اس کمیونٹی کے لوگوں کی‬
‫ثقافتی اور تاریخی روایات کے مابین جھولنے کی کیفیت کی عکاسی ہے یوں ان کے اذہان‬
‫میں پائی جانے والی گومگوئی اور دو جذبی کیفیت کے ساتھ ان کی گہری نفسیاتی اور‬
‫ذہنی کشمکش کو بھی بیان کیا ہے کیوں کہ ایسے وقت میں وہ جس قسم کی اذیت ناک‬
‫صورت حال سے گزر رہے ہیں اس صورت حال کو ہمدردی کے ساتھ مصنف نے بیان‬
‫کیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس طبقے کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو‬
‫انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ اپنی قسمت اور مقدر کو خود بنانے کی کوششیں‬
‫کریں۔‬
‫آج ہندوستان میں برطانوی نوآبادی یعنی ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد از‬
‫تقسیم حاالت سے متعلق لکھے جانے والے ناولوں کی کمی ہر گز نہیں۔ ان میں مختلف‬
‫تناظرات کی عکاسی بھی ملتی ہے جیسے کہ استعمار کی مخالفت‪ ،‬محب وطنی کے‬
‫جذبات اور فرقت وطن کی پرانی یادوں کا تذکرہ وغیرہ۔ اگرچہ ان میں سے اکثر ناولوں‬
‫میں قبل از نوآبادیات و مابعد نوآبادیات ہندوستان میں مقیم اینگلوانڈینز کو خصوصی اہمیت‬
‫دی ہے اور انہیں مختلف حاالت میں جس قسم کی تکلیف دہ اور ناگوار صورت حال سے‬
‫دوچار رہنا پڑا اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے مگر جان ماسٹر ان چند اینگلوانڈین لکھاریوں‬
‫میں سے ایک ہیں جنہوں نے بڑے ہی ٹھوس اور مستند طریقے سے اس کمیونٹی کی‬
‫حالت زار کو اجاگر کیا ہے۔‬
‫پورا ناول ایک افسانوی قصبے ’’بھوانی‘‘ کی فضا میں رچابسا ہے۔ ناول کے‬
‫مرکزی کرداروں میں وکٹوریہ جونز "‪ "Victoria Jones‬اس کا ریلوے میں مالزم‬
‫خاندان‪ ،‬اور ایک سول سرونٹ "‪ "Patrick Taylor‬جو کہ اینگلوانڈین طبقے کی‬
‫نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر ناول کی ہیروئن وکٹوریہ کی اپنی شناخت کی تالش‬
‫کی جدوجہد اس امر کی غماز ہے کہ اس دور کا اینگلو انڈین طبقہ کس قسم کی ذہنی‬
‫کشمکش‪ ،‬تنہائی اور اذیت سے دوچار ہے۔ وکٹوریا اس بات کو سمجھتی ہے کہ جب‬
‫انگریز حاکم ہندوستان کو الوداع کہہ دیں گے تو خود ان کے وجود کو بھی کئی مسائل کا‬
‫سامنا ہو گا اور دوسرے لفظوں میں ان کے وجود کی معنویت خطرے میں پڑ جائے گی‬
‫کیونکہ ان کا وجود بنیادی طور پر ایک منقسم وجود ہے اب تک نہ تو وہ مکمل طور پر‬
‫انگریز بن سکے ہیں اور نہ ہی ہندوستانی بن سکے ہیں۔ مگر وہ ہندوستان میں رہتے‬
‫ہوئے ہندوستانی ثقافت‪ ،‬اعتقادات و رسومات کو اپنانے کی بہت کوشش کرتی ہے۔ مگر‬
‫اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بچپن ہی سے انگریزی تہذیب اور خیاالت و اعتقادات‬
‫بھی جاگزیں ہیں یوں وہ ان دو انتہائوں کے مابین معلق رہتی ہے اور دوسری طرف‬
‫انگریز بھی ان اینگلوانڈین خواتین کو محض جنسی تسکین کا سامان سمجھتے ہیں ایسے‬
‫میں رنجیت سنگھ جو کہ ریلوے کے افسر ہیں ان کی والدہ سردارنی "‪"Sardarni‬‬
‫وکٹوریہ کو اس معاشرے میں اپنی شناخت کی آگہی کے حصول کے بارے میں ابھارتی‬
‫ہے اور اسے یہ احساس دالتی ہے کہ تمام ہندوستانی عوام برطانوی حکمرانوں کے لیے‬
‫ایسے محکوم ہیں جن کے ساتھ وہ ہر قسم کا ناروا برتائو کر سکتے ہیں اسی لیے وہ‬
‫وکٹوریہ کے ساتھ ساتھ دوسرے ہندوستانیوں کو بھی اپنے مقام کی آگہی اور شناخت کے‬
‫بارے میں اکساتی ہے اور انگریزوں کی حاکمیت کے خالف آواز بلند کرتی ہے اور‬
‫ہندوستانیوں کو ان کے حقوق یاد دالتی ہے۔‬
‫بھوانی جنکشن کے باالستعیاب مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبی بحران‬
‫کے اس مرحلے میں جس فریق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہ دوسرے پر حاوی ہو کر اسے‬
‫اپنی گرفت میں لینے کی پوری کوشش کرتا ہے خواہ وہ مقامی ہو یا غیر مقامی۔ اس ناول‬
‫میں بادی النظر میں کچھ ایسا ہی وقوع پذیر ہوتا ہے کہ ایک مقامی کردار ایک دوسرے‬
‫غیر مقامی کردار کو اپنے مکمل دبائو میں النے کی کوشش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے‬
‫اہم اثرات میں سے ایک اہم پہلو بھی یہی ہوتا ہے کہ نوآبادکار یا حاکم محکوموں کی‬
‫انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی تہذیبی شناخت کو بھی مٹانے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ نوآبادیاتی معاشروں کی تہذیبی جڑیں کاٹ کر‬
‫وہاں کے لوگوں کی ذہنی تبدیلی کا عمل بروئے کار التے ہیں اور یہ عمل دو طرفہ ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫اس ناول میں بھی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے مگر اس کے نتائج مختلف‬
‫سامنے آتے ہیں ۔ وکٹوریا ایک انگریز کردار سے بھی دور ہو جاتی ہے اور مقامی کردار‬
‫سے بھی اسے نباہ مشکل نظر آتا ہے۔ قاری کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو انگریز‬
‫کے ساتھ خوش اور مطمئن رہ سکتی ہے اور نہ ہی کسی ہندوستانی کے ساتھ۔ بلکہ اس کا‬
‫لمحہ انکشاف‬
‫ٔ‬ ‫موزوں ساتھی اس کی اپنی نسل کا اینگلوانڈین ہی ہو سکتا ہے۔ اور یہی وہ‬
‫ہے جب وکٹوریا اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس کی شناخت نہ انگریز بننے سے تکمیل‬
‫پذیر ہوتی ہے اور نہ بطور ہندوستانی۔ بلکہ اس کی شناخت صرف اور صرف ایک حقیقی‬
‫اینگلوانڈین ہونے میں ہی مضمر ہے اس طرح ناول کے مصنف نے اینگلوانڈینز کرداروں‬
‫کے اذہان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی‬
‫ہے کہ وہ بغیر کسی خوف‪ ،‬خدشے اور کمتری کے احساس کے اپنی اصل شناخت کے‬
‫ساتھ بخوبی زندگی بسر کر سکتے ہیں انہیں کسی بھی دوسری مصنوعی شناخت کا‬
‫سہارا لینے یا اس کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہر گز نہیں۔ اس طرح مصنف اینگلو انڈین‬
‫کمیونٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کے عالوہ ان میں اطمینان اور ہم آہنگی کی فضا‬
‫پیدا کرنے کی سعی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔‬
‫ان تمام نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر تہذیبی نظام‬
‫دراصل‪ ،‬معینہ نظام اقدار کے حامل ایک مکمل علمی و فکری پیٹرن کا نمائندہ ہوتا ہے‬
‫جس سے کسی تہذیب کی علیحدہ شناخت متعین ہوتی ہے۔‬
‫یہی حال ادب کا بھی ہے۔ عصری تقاضا یہ ہے کہ ادب کو نسلی‪ ،‬مذہبی اور‬
‫نظریاتی تفریق‪ ،‬امتیاز اور تعصبات سے کلی طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ مگر انگریزوں‬
‫کے عہد میں تحریر کردہ جو ادب راقم کے پیش نظر رہا وہ بہت کم سیاسی اغراض سے‬
‫خالی ہے۔ اس ادب کے مقاصد میں ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنا‪،‬‬
‫مسلمانوں کے دلوں میں ان کے نامور اسالف اور شاندار ماضی کی وقعت کو کم کرنا اور‬
‫اپنی حکومت کی عظمت و برتری کا نقش جمانا شامل تھا۔ انصاف ودیانت کا تقاضا یہ ہے‬
‫کہ کسی بھی تہذیب کے کچھ منفی پہلوئوں کو بھی کسی حد کے اندر محدود رکھا جائے‬
‫اور اس تہذیب کے عیوب و محاسن دونوں کو احتیاط سے اجاگر کیا جائے۔‬
‫ہمیں سماج کو ایک ُکل کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسا ُکل جس کے بہت سے‬
‫جزو اور پہلو ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایک جزو پورے کل پر حاوی ہو جائے۔‬
‫ادیب کا تعلق خواہ کسی نسل‪ ،‬نظریے‪ ،‬عقیدے یا مذہب سے ہو مگر اس کا تخلیقی عمل ان‬
‫عوامل کے تا بع نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ ادب جو کسی عقیدے‪ ،‬نظریے یا کسی بھی قسم کے‬
‫تعصبات کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ادبی میزان میں اپنا وزن کم کر‬
‫دے گا۔‬
‫ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی تہذیب کا ابالغ اور فروغ ضرور پیش نظر ہو‬
‫مگر اس قیمت پر نہیں کہ کسی بھی دوسری تہذیب اور خاص طور پر محکوم قوموں کی‬
‫تہذیب و ثقافت کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے یا اسے کم تر ثابت کرنے کے لیے مختلف‬
‫ہتھکنڈے بروئے کار الئے جائیں۔ وہ ادب جو کسی بھی قسم کی باالدستی الگو کرتا ہے۔‬
‫عصر حاضر کے نئے حقائق‬ ‫ِ‬ ‫وہ اپنا ادبی وقار کھو بیٹھتا ہے۔ ماضی کے تجربات اور‬
‫کے ادراک کے ذریعے ہم مستقبل کے شاندار امکانات یقینا تالش کر سکتے ہیں۔ مگر اس‬
‫کے لیے ہمیں ہر قسم کی عصبیت کو چھوڑ کر ایسی راہ اختیار کرنا ہوگی جو شدت‬
‫پسندی اور روشن خیالی کی انتہائوں کے درمیان ہو اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی‬
‫رکھتی ہو۔‬
‫سفارشات‬
‫ادب کے طالب علموں کی ذہنی کشادگی اور فکر کی وسعت کے لیے ضرور ی‬
‫ہے کہ مختلف ملکوں اور قوموں کے ادبیات سے شناسائی حاصل کی جائے۔ اس لحاظ‬
‫سے ہر وہ قدم مستحسن ہے جو بین االقوامی ادبیات کی ایک جھلک دکھانے کی طرف‬
‫اٹھتا ہے کیوں کہ آج کے کثیر الثقافتی اور عالمگیریت کے عہد میں عالمی ادب کا مطالعہ‬
‫جہاں ادبی اور فکری شعور میں اضافہ کرتا ہے وہاں ان دباء کے نظریات اور افکار بھی‬
‫قابل توجہ ہیں جو خود انسان کی فکری اور نظریاتی تربیت کے لیے قیمتی آثار ہیں۔‬
‫انسانی اقدار کے مختلف گوشوں سے آشنائی کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے‬
‫کی تہذیب و معاشرت کو سمھنے میں معاون بھی ہیں۔ اسی لیے آج کے تہذیبی کشیدگی‬
‫کے دور میں اسی ادب کو مختلف تہذیبی پس منظر رکھنے والے افراد اور معاشروں کو‬
‫آپس میں قریب النے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خصوصا ً اینگلو انڈین ناولوں کا‬
‫مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان ناولوں کا خاص پس منظر اور الگ اسلوب ہے‬
‫جسے برصغیر کی مقامی تہذیبوں کے تاریخی‪ ،‬تہذیبی و ثقافتی اور دینی عناصر کے تال‬
‫میل سے تشکیل دیا گیا تھاا ور ان ناولوں کے کردار اور کہانیاں برصغیر کے عالوہ‬
‫بیرون برصغیر تک ہی پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں مقامیت کے ساتھ ساتھ عالمی زاویہ‬
‫بھی اجاگر ہوتا نظر آتا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ ان ناولوں کے موضوعات بھی‬
‫خاصے وسیع ہیں جیسے کہ تہذیب و ثقافت‪ ،‬نسلی امتیاز‪ ،‬تہذیبی تصادم‪ ،‬جنریشن گیب‪،‬‬
‫تنہائی و بیگانگی‪ ،‬انسانی دوستی‪ ،‬شناختی بحران وغیرہ۔ اسی لیے ان تمام وجوہات کو‬
‫پیش نظر رکھتے ہوئے حسب ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔‬
‫اینگلو انڈین ناول جو کہ ہماری تہذیب اور معاشرت سے جڑے ہوئے ہیں ان‬ ‫)‪(1‬‬
‫ناولوں کے اردو تراجم پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔‬
‫نوآبادیاتی عہد کے محضر نامے کو سمجھنے کے لیے اس عہد میں تحریر‬ ‫)‪(2‬‬
‫کردہ ناولوں کا خصوصی تحقیقی مطالعہ مابعدنوآبادیاتی تھیوری ‪(Post Colonial‬‬
‫)‪Theory‬کا اطالق کرتے ہوئے کیا جائے۔‬
‫ان ناولوں کے انفرادی مطالعات کو بھی ممکن بنایا جائے۔‬ ‫)‪(3‬‬
‫ان انگریزی ناولوں کے مطالعے دوران منشائے مصنف کو جانچنے اور ان‬ ‫)‪(4‬‬
‫کے متن کے مخصوص کوڈز کو سمجھنے اور خفیہ گوشوں کو منظر عام پر النے کے‬
‫لیے اردو زبان میں بھی ایسے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں جن سے محققین کو‬
‫تحقیق میں رہنمائی اور مدد فراہم ہو سکے۔‬
‫سامراجی عہد کے ان اہم فن پاروں کو ماضی میں جا کر دیگر تواریخ کو‬ ‫)‪(5‬‬
‫پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تناظر میں بھی پڑھا اور سمجھا جائے۔‬
‫برصغیر کی عصری تاریخ اور ناولوں میں پیش کردہ تاریخی حقائق کا‬ ‫)‪(6‬‬
‫تقابلی مطالعہ معاصر تہذیبی و تاریخی شعور کی روشنی میں کیا جائے۔‬
‫اینگلو انڈین ناول نگاروں اور مقامی ادباء کی انگریزی تحریروں کا تقابلی‬ ‫)‪(7‬‬
‫مطالعہ کیا جائے۔‬
‫اردو میں ان ناولوں کے خصوصی مطالعات کے لیے ماہرین سے علمی‬ ‫)‪(8‬‬
‫اصطالحات وضع کرائی جائیں تاکہ تحقیقی معیار برقرار کھا جا سکے۔‬
‫ان ناولوں میں بین السطور انگریزوں کے سیاسی اغراض کا مطالعہ اور‬ ‫)‪(9‬‬
‫محاکمہ بھی پیش کیا جائے۔‬
‫مقامی اردو تخلیق کاروں اور اینگلو انڈین ناول نگاروں کے درمیان مختلف‬ ‫)‪(10‬‬
‫پہلوئوں کے تقابلی مطالعے کے لیے فضا ہموار کی جائے۔‬
‫اینگلو انڈین ناول نگاروں کا آپس میں بھی تقابلی مطالعہ کرایا جائے۔‬ ‫)‪(11‬‬
‫ان ناولوں کے کرداروں کا نوآبادیاتی پس منظر میں کرداری جائرہ پیش کیا‬ ‫)‪(12‬‬
‫جائے۔‬

‫کتابیات‬
‫بنیادی مآخذ )‪(Basic Works‬‬
‫‪E. M. Forster, A passage to India, Penguine classics Ltd.‬‬
‫‪Harmondworth. England 1979‬‬
‫‪John Masters, Bhowani Junction, Penguin Books, New Delhi,‬‬
‫‪2007‬‬
‫‪Rudyard Kipling, Kim, Puffin Classics, London, 1987‬‬
‫‪Rudyard Kipling, The Second Jungle Book, Picolo Books,‬‬
‫‪Macmillan, London, 1980‬‬
‫‪Scott, Paul, A Division of the Spoils, Arrow Books, Random‬‬
‫‪House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005‬‬
‫‪Scott, Paul, The Day of Scorpion, Prologue, Arrow Books,‬‬
‫‪Random House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 1997‬‬
‫‪Scott, Paul, The Jewel in the Crown, University of Chicago Press,‬‬
‫‪USA, 1998‬‬
‫‪Scott, Paul, The Tower of Silence, Arrow Books, Random House,‬‬
‫‪20 Vauxhall Bridge Road London, 2005‬‬
‫‪Willian Thackery, Vanity Fair, Edited by John Souther Land,‬‬
‫‪Oxford University Press, UK, 1982.‬‬

‫ثانوی مآخذ(اردو‪) Secondary Sources‬‬


‫رویۃ اسالمیہ لالستشراق ‪ ،‬مطبوعہ ریاض‪۱۹۸۸ ،‬ء‬ ‫احمدعبدالحمید غراب‪،‬ڈاکٹر‪ٔ ،‬‬
‫اشتیا ق احمد قریشی‪ ،‬برعظیم پاک و ہند کی ملت اسالمیہ‪ ،‬مترجم ہالل احمد زبیری‪،‬‬
‫کراچی یونیورسٹی کراچی ‪۱۹۶۷‬ء‬
‫اشفاق احمد‪ ،‬عرض مصنف‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور‪۲۰۰۶ ،‬ء‬
‫اشفاق سلیم مرزا‪ ،‬فلسفہ ء تاریخ‪ ،‬نوآبادیات اور جمہوریت‪ ،‬سانجھ پبلی کیشنر الہور‪،‬‬
‫‪۲۰۱۴‬ء‬
‫ت بیضا پر ایک عمرانی نظر‪ ،‬مرغوب ایجنسی الہور ‪۱۹۷۰‬ء‬ ‫اقبال ‪،‬ڈاکٹر‪ ،‬مل ِ‬
‫القرآن‪ ،‬مترجم شاہ عبدالقادر دہلوی‪ ،‬سن الئف پبلشرز ‪ ،‬اردو بازار الہور‬
‫امتیاز عالم‪’’ ،‬دو بیانیے‘‘‪ ،‬مقالہ برائے سیفما کانفرنس‪ ،‬مشمولہ روزنامہ ایکسپریس ‪۱۰‬‬
‫جنوری ‪۲۰۱۴‬ء‬
‫ایڈورڈ بلیو سعید‪ ،‬شرق شناسی‪ ،‬مترجم‪ :‬محمد عباس‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان پاکستان ‪۲۰۱۲‬ء‬
‫ایڈورڈ سعید ‪’’ ،‬ثقافت اور سامراج‘‘‪ ،‬مترجم یاسر جواد‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان پاکستان‪،‬‬
‫‪،۲۰۰۹‬‬
‫ایڈورڈ سعید‪ ،‬اسالم اور مغربی ذرائع ابالغ‪ ،‬مترجم‪ ،‬ظہیر جاوید‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان‬
‫پاکستان‪،۲۰۰۷ ،‬‬
‫ای۔ایم فاسٹر‪ ،‬ناول کافن‪ ،‬مترجم ابوالکالم قاسمی‪ ،‬علی گڑھ‪ ،‬ایجوکیشنل بک ہائوس‪،‬‬
‫‪۲۰۰۱‬ء‬
‫پروفیسر ٹائن بی‪ ،‬دی ورلڈ اینڈ دی ویسٹ‪’’ ،‬دنیا اور مغرب‘‘ مترجم ڈاکٹر حسین احمد‬
‫پراچہ‪ ،‬نشریات الہور ‪۲۰۰۶‬ء‬
‫النبی‪ ،۱۲۳/۶ :‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪ ،‬الہور ‪۱۴۱۸‬ھ‬
‫ؐ‬ ‫پیر محمد کرم شاہ االزہری‪ ،‬ضیاء‬
‫جمیل جالبی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستانی کلچر‪ ،‬نیشنل بک فائونڈیشن اسالم آباد‪،‬ط‪ :‬ششم‪۱۹۹۷ ،‬ء‬
‫جمیل جالبی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستانی کلچر‪ ،‬نیو مجاز پریس کراچی ‪۱۹۹۷‬ء‬
‫جواز جعفری‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تصورات‪ ،‬فکشن ہائوس الہور ‪۲۰۱۰‬ء‪،‬‬
‫جیالنی کامران‪ ،‬انگریزی زبان اور ادب کی تدریس میں قومی زبان کا کردار‪ ،‬مقتدرہ‬
‫قومی زبان‪ ،‬اسالم آباد ‪۱۹۸۵‬‬
‫رڈیارڈ کپلنگ‪ ،‬دی جنگل بک‪ ،‬مترجم موالنا ظفر علی خان‪ ،‬جنگل میں منگل‪ ،‬میری‬
‫الئبریری‪ ،‬الہور نمبر ‪ ،۸‬سن ن‬
‫ریاض انور ‪ ،‬اصول تمدن‪ ،‬مکتبہ نظامیہ کراچی۔ ‪۱۹۵۷‬ء‬
‫ریاض قدیر‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‪ ،‬شخصیت اور فن‪ ،‬اردو اکیڈمی پاکستان‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫‪۲۰۰۵‬ء‬
‫ستار طاہر‪ ،‬مترجم‪ ،‬آزادی سے پہلے‪ ،‬مقبول اکیڈمی الہور ‪۱۹۹۵ ،‬‬
‫سجاد باقر رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تہذیب و تخلیق‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد ‪۱۹۸۷‬ء‬
‫سلیم اختر ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر اور ادب‪ ،‬مکتبہ عالیہ الہور‪ ،‬س ن ۔‬
‫سید عبدہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مشمولہ‪ ،‬سوال یہ ہے‪ ،‬مرتبہ ‪ :‬نوشی انجم‪ ،‬بیکن بکس ملتان ‪۲۰۰۴‬ء‬
‫صہ‪ ،‬جامعہ اُردو علی گڑھ‪،‬‬ ‫شبنم سبحانی‪ ،‬ہندوستان کی تہذیبی ترقی میں اُردو کا ح ّ‬
‫‪۱۹۶۷‬ء‬
‫عابد حسین ‪ ،‬ڈاکٹر قومی تہذیب کا مسئلہ‪ ،‬انجمن ترقی اردو ‪،‬علی گڑھ‪۱۹۵۵ ،‬ء‬
‫عبدالحکیم‪ ،‬خلیفہ‪ ،‬ثقافت‪ ،‬مشمولہ‪ :‬کلچر (منتخب تنقیدی مضامین)‪ ،‬مرتبہ اشتیاق احمد‪،‬‬
‫بیت الحکمت الہور ‪۲۰۰۷‬ء‬
‫دور جدید کے عالمگیر فتنے‪ ،‬جاوید اکیڈمی ملتان‪۱۹۸۰ ،‬ء‬ ‫عبدالرحمٰ ن خان‪ ،‬منشی‪ِ ،‬‬
‫عبدہللا سید‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬کلچر کا مسئلہ‪ ،‬شیخ غالم علی اینڈ سنز الہور‪ ،‬اپریل ‪۱۹۷۷‬ء‬
‫عطش درانی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اردو زبان اور یورپی اہل قلم‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور ‪۱۹۸۷‬‬
‫عطش درانی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اسالمی فکر و ثقافت‪ ،‬مکتبہ عالیہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪۱۹۸۷ ،‬ء‬
‫غالم دستگیر رشید‪ ،‬مرتب‪ ،‬اسالمی تہذیب کیا ہے؟ مکتبہ رزاقی‪ ،‬نیپئر روڈ کراچی نمبر‬
‫‪۱۹۴۹ ،۲‬ء‪،‬ط‪ :‬سوم‬
‫فرانز فنین‪ ،‬سامراج کی موت‪ ،‬مترجم خالد محمود ایڈووکیٹ ‪ ،‬پیش لفظ‪ ،‬فکشن ہائوس‪،‬‬
‫الہور ‪۲۰۱۲‬ء‬
‫شعبہ تحقیق و مطبوعات‪ ،‬ادارہ‬
‫ٔ‬ ‫نظریہ ثقافت‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫فرمان فتح پوری‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مضمون‪ ،‬اقبال کا‬
‫ثقافت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬جون ‪۱۹۸۲‬ء‬
‫فیض احمد فیض‪ ،‬میزان‪ ،‬ناشرین الہور‪ ،‬سن‪ ،‬ن‬
‫قاسمی ‪ ،‬ابوالکالم ‪ ،‬نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی ‪ ،‬مشمولہ‬
‫یادگارنامہ قاضی عبدالودود‪ ،‬مرتبین‪:‬پروفیسر نذیر احمد‪ ،‬پروفیسر مختارالدین ‪ ،‬پروفیسر‬
‫شریف حسین قاسمی‪ ،‬غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ‪ ،‬س ن‬
‫قراۃ العین حیدر‪ ،‬کارجہاں دارز ہے‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور‪۲۰۱۰ ،‬ء ‪ ،‬جلد اول‬
‫گستائولی بان‪ ،‬تمدن ہند‪ ،‬مترجم ‪ ،‬سید علی بلگرامی ‪ ،‬مطبع شمس آگرہ‪۱۹۱۳ ،‬ء‬
‫مبارک علی ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬آخری عہد کا مغلیہ ہندوستان‪ ،‬تاریخ پبلی کیشنز‪ ،‬مزنگ الہور‬
‫‪۲۰۱۲‬ء‬
‫مبارک علی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬برطانوی راج ایک تجزیہ)‪ ،‬تاریخ پبلی کیشنز الہور۔ ‪۲۰۱۲‬ء‬
‫مبارک علی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تاریخ اور آج کی دنیا‪ ،‬نگارشات الہور‪۱۹۸۹ ،‬ء‬
‫محمد احمد یاب‪،‬ڈاکٹر‪ ،‬اضواء علی االستشراق و المستشرقین‪ ،‬قاہرہ ‪۱۹۸۹‬ء‬
‫محمد احسن فاروقی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تاریخ ادب انگریزی‪،‬مقتدرہ قومی زبان‪ ،‬اسالم آباد ‪۱۹۷۶‬ء‬
‫ت تاریخ‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد‪،‬‬ ‫محمد صدیق قریشی‪ ،‬مرتب‪ :‬کشاف اصطالحا ِ‬
‫‪۱۹۸۸‬ء‬
‫مختار مسعود‪ ،‬آواز دوست‪ ،‬مکتبہ تعمیر انسانیت الہور‪ ،‬شیخ عطا ہللا ٹرسٹ‪ ،‬بیسواں‬
‫ایڈیشن ‪۲۰۱۱ ،‬ء‬
‫مظفر حسن ملک‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬ثقافتی بشریات‪ ،‬مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد‪۲۰۰۴ ،‬ء‬
‫ناصر عباس نیئر‪(،‬مرتب)‪ ،‬مابعد جدیدیت۔۔اطالقی جہات‪ ،‬الہور‪ ،‬مغربی پاکستان اردو‬
‫اکیڈمی‪۲۰۰۷ ،‬ء‬
‫وزیر آغا‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬مذاکرہ‪ ،‬مشمولہ‪ :‬سوال یہ ہے؟ مرتبہ ‪ :‬نوشی انجم‪ ،‬بیکن بکس ملتان‬
‫‪۲۰۰۴‬ء‬
‫وہاب اشرفی‪ ،‬مابعد جدیدیت (مضمرات و ممکنات)‪ ،‬پورب اکادمی‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ط‪ :‬اول‬
‫‪۲۰۰۷‬ء‬

‫)‪Secondary Sources (English‬‬


‫‪Anthony, Frank,Britain's Begrayal in India: The story of Anglo-‬‬
‫‪Indian Race, Allied Press Bombay, 1969‬‬
‫‪B. Parry, A Passage to India: Essays in Interpretation, London,‬‬
‫‪1985‬‬
‫‪Bagby Philip, Culture & History, Berkeley, University of California‬‬
‫‪Press, 1958‬‬
‫‪Bhabha, Homi, The Location of Culture, Routledge, London 2007‬‬
Bhupal Singh, A Survey of Anglo-Indian Fiction: Oxford University
Press, London, 1934
Bill Ashcraft, Gareth Griffiths, Helen Tiffin, The Empire writes
back, Routledge 1989
Brenda R. Silver and Lyan A. Higins, Rape and Representation
Bronisla Malinowski, A Scientific Theory of Culture and Other
Essays, Oxford University Press. N. Y, 1960
Burgess, Anthony , The Novel Now, Curzon Press ,1934
Charles Allen, "Ruddy's search for God: The Young Kipling and
Religion, "The Kipling Journal 32, June 2009
Crane, R.J. Inventing India: A History of India) in English
Language Fiction. Hounds Mill, Macmillan, 1992
D'Souza, A. A. in younger, C. 1984
Davis Brasmine, Conversation with Tariq Ali, Speaking of Empire
& Resistance: Translator Arshed Razi, www.mashalbooks.com
Dhar, Kiran Nath, Some Indian Novels, Calcutta Review 1908
Donald Hannah, Dirty Type Scripts, Paul Scott" working method
in "The Raj Quartet, The Journal of Commonwealth Literature.
XXVII. 1(1192)
E.M. Forster, A passage to India, Editor's Introduction, Penguine
Books Ltd. England, 1987
Eric, Erikson, Theory of Stages of Psycho-social Delvelopment,
Norton, Newyork, 1950
G.M. Travelyan, History of England, O.M. 1952
Gaikwad, V. R. in younger, C. 1984
Goonetilleke D.C.R.A, Images of the Raj: South Asia in the
titerature of Empire: London, Mackmillan 1998
Goonetilleke DCRA, Images of Raj: South Asia in the Literature of
Empire, Macmillan London, 1998
H. J. Oliver, The Art of E. M. Forster, Melbourne University Press
Hamilton A. R. Gibb, Studies on the Civilization of Islam, Islamic
Book Service Lahore, 1987
Hart, M.W Kipling the Story Writer, Berklay University of
California, 1918
Hubel Teresa 1996, whose India? The Independence Struggle in
the British India Fiction and History. Durham, NC: Duke University
Press, 1996
Justin D, Edward, Post Colonial Literature, A Reader's Guide;
Macmillan, New York 2008
K.D. Verma, the Indian imagination: critical essays on Indian
writings in English, New York: st. Martin press, 2001
Karl, Frederick & Marvin Mangalner. A reader's guide to Great
20th Century Novels, Thames & Hudson London, 1959
Kipling Rudyard, Something of Myself. A very young Person
Kipling, Egypt of magicians, Scribner" Edition, Vol.XXVIII
Kipling, Something of Myself, for my friends Known & Unknown.
Gardencity, 1937
Loomba, Ania. Colonialism/Post Colonialism "The New Critical
Idioms, New York; Routledge 2004
M. K. Naik, Mirror on the Wall; Image of India and Englishmen in
Anglo Indian Fiction, New Dehli, Sterling Publisher Ltd, 1991
M.K.Naik, A History of Indian English Literature, New Delhi:
Sahitya Akademi, 1982
Michael Gorra, After Empire, Scott, Naipal, Rushdie, Chicago,
The university of chicago, Press,1997
Moore, Robin, J. Paul Scottls Raj. London, Heinamann 1990
Nirad C. Chaudhari, The finest story about India in English, in
John Gross, The Age of Kipling, Newyork, 1972
Peter Childs, Paul Scott's Raj Quartet: History and Division, 1998
Radha Krishan, Dr. Fifty Eastern Thinkers, Key books, Newyork,
2002
Ram Sewak Singh,and charu sheel singh,eds. spectrum of history
of Indian literature in English, New Delhi: Atlantic Publishers
1997.
Reuben A. Brower, The twilinght of the double vision: symbol and
irony in A pasage to India, Macmillan Press, London, 1970
Rudyard Kipling, Complete verse: Definitive Edition New York:
1989
Rudyard Kipling, Kim with Introduction and notes by Jeffery,
Newyork, Bernes and Nobles Classics p: XVIII
Rudyard Kipling, Letters, edited by Thomas Pinney Lowacity
University Press, 1999-Vol-I
Rudyard Kipling, The Enemies to Each Other, Debits and Credits,
NewYork: Double day, 1926
S. Suleri, The Rhetoric of English India, Penguine Books, Delhi
2005
Said Edward, Orientalism, Penguin Books London. 1978
Said, Edward, Introduction, in Kim, by Rudyard Kipling, Penguine
Classics, 2000
Salman Rushdie, Kipling, in his Imaginary Homeland, London,
1991
Sharpe Jenny, Allegories of Empire, Minneapoles: university of
Minnesota press, 1993
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo Indian Fiction, Curzon Press
Ltd. London, 1975
Susan Vanzanteri Gallaghar(ed), Post colonial literature and the
biblical call for justice, USA (University of Mississip, 1994
T. S. Eliot, Notes Towards the Definition of Culture, Faber and
Faber London, 1948
Tample, Sir, Richard, India in 1880, Oxford University London,
1881
The Constitution of India, 1950, .....Art: 366, Sec:2, Govt of India,
1963
V.K Gokak, English in India, its Present and Future, New York:
Asia Publication House, 1964

(Dictonaries and Encyclopedias) ‫قاموس و لغات‬


۲۰۰۵ ،‫ ایڈیشن چہارم‬،‫ فیروز سنز الہور‬،)‫اردو انسائیکلوپیڈیا (فیروزسنز‬
‫ء‬۱۹۷۰ ‫ نومبر‬،‫ داراالشاعت کراچی‬،‫المنجد‬
،‫ اسالم آباد‬،‫ مقتدرہ قومی زبان‬،‫ کشاف تنقیدی اصطالحات‬،‫ ابواالعجاز‬،‫حفیظ صدیقی‬
‫ء‬۱۹۹۲
۲۰۰۵ ،‫ الہور‬،‫ فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ‬،‫فیروز اللغات‬
‫ طبع اول‬،‫ اسالم آباد‬،‫ مقتدرہ قومی زبان‬،‫ کشاف اصطالحات تاریخ‬،‫محمد صدیق قریشی‬
‫ء‬۱۹۸۸
A. L. Krober, Encyclopedia of Social Sciences, Vol, III, IV
Macmillan, New York 1959
Cambridge, Advanced Learner's Dictionary by Elizabeth Walter
Cambridge University Press 2005
Concise Oxford English Dictionary O.U.P Oxford 2011
Merriam Webser's Inc. Spring feld MA01102
Oxford English Urdu Dictionary, Edited by Shan ul Haqqi, Oxford
University Press, 2011
Random House Dictionary of the English Lanaguage, 1987
The New Encyclopedia of Britannica, Vol: 3, Edition 15
Webster's Third New International Dictionary, 1971

(Magazines and Journals)‫رسائل و جرائد‬


‫ء‬۲۰۱۰ ،۷ ‫ شمارہ‬،‫ اسالم آباد‬،‫ نمل‬،‫تخلیقی ادب‬
‫ عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسالم آباد‬، ‫ء‬۲۰۱۵ ‫جامعہ نامہ مارچ‬
‫ اسالم آباد جون‬،‫ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز‬،۰۷ ‫مجلہ ’’تخلیقی ادب‘‘ شمارہ‬
،‫ء‬۲۰۱۰
‫ء‬۲۰۱۲ ،۸ ‫ شمارہ‬،‫ اسالم آباد‬،‫ انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی‬، ‫معیار‬
۴۷‫؍‬۴۸ ‫ شمارہ‬،‫نیا دور‬
Calcuta Reviews, 1891
International ref. research Journal, Feb2012, ISSN-0974-2832,
RNI-Rajbil 2009/29954, vol.III
Journal of Research, Gomal University, D. I. Khan, June 2013
The Commonwealth Review, 1-2(199)
The Journal of Commonwealth Literature. XXVII. 1(1192)
The Pioneer, Oct 23, 1888

(Thesis) ‫مقاالت‬
‫ غیر مطبوعہ مقالہ برائے‬،‫ اردو ناول میں عصری آگہی‬،‫ مقالہ نگار‬،‫سید کامران کاظمی‬
۲۰۱۳ ،‫ وفاقی اردو یونیورسٹی اسالم آباد‬،‫پی ایچ ڈی‬
Alen a Michalkova, British and Indian Identities and clashes in
Paul Scott's The Jewel in the Crown" Bachelor Major Thesis,
Masaryk University 2007
Aruna, Shrivastava, The Pageant of Empire, Paul Scott's The Raj
Quartet, PhD Thesis, MC Master University, November 1988.
Geneviave, Gagne-Hawes, Shadows of the Raj, PhD Thesis, The
University of British Colombia, November 2012.
Safeer, Muhammad, Transcending the Raj? An Analysis of
Rudyard Kipling's Kim in Saidian Orientalists Perspective, PhD
Thesis, NUML, Islamabad, 2009
Sara Rhoads Nilsen, Power, Distance and Stereotyping Between
Colonizer and Colonized and Men and Women in A Passage to
India, M. A Thesis, The University of Oslo, 2011.

You might also like