Professional Documents
Culture Documents
مقالہ نگار
ارشد محمود
اسسٹنٹ پروفیسر ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،چکوال
رجسٹریشن نمبر -PCL-131996
نگران مقالہ
ڈاکٹر محمد سفیر اعوان
ڈین فیکلٹی آف انگلش اسٹڈیز
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن اسٹڈیز،اسالم آباد
شعبہ اردو
عالمہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ،اسالم آباد
۲۰۱۶ء
فہرست
نوآبادیاتی عہد ،نظری مباحث باب ّاول
۸۔۳۶
تصور تہذیب اور ہند مسلم تہذیب کا سوالِ الف:
ہند مسلم تہذیب ب:
ج :نوآبادیاتی عہد اور تہذیبی بحران
مستشرقین اور برصغیر کا تہذیبی و تاریخی تناظر د:
باب دوم عہد نوآبادیات میں انگریزی فکشن ،آغاز و ارتقاء
۳۷۔۸۸
الف :برصغیر میں انگریزوں کی آمد
ب :برصغیر میں اینگلو انڈین لٹریچر(انگریزی ادب)…… آغاز و ارتقاء
ج :مقامی ادباء کی انگریزی نگارشات ،تعارفی جائزہ
منتخب اینگلو انڈین ناولوں کا تعارفی مطالعہ د:
ہند مسلم تہذیب کا منتخب انگریزی فکشن میں اظہار :تحقیقی مطالعہ باب سوم
۸۹۔۱۷۰
ای ایم فاسٹر ۔ اے پیسج ٹو انڈیا
ناول ِکم Kimو دیگر کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت
باب چہارم منتخب انگریزی فکشن میں ہندوستانی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ
۱۷۱۔۲۳۲
پال اسکاٹ " "PAUL SCOTTراج کوارٹٹ)(Raj Quartet
بھوانی جنکشن :تہذیبی و شناختی بحران
منتخب انگریزی فکشن کا کرداری مطالعہ باب پنجم
۲۳۳۔۲۷۵
الف :مسلم کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ
ب :ہندو ،انگریزاور دیگر کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ
ج :نسوانی کرداروں کا تانیثی مطالعہ
حاص ِل مطالعہ
۲۷۶۔۲۹۹
۳۰۰۔۳۰۱ سفارشات
کتابیات
۳۰۲۔۳۱۰
حرف آغاز
ِ
کسی بھی زبان کے ادب نے ہمیشہ اپنے عہد کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے
بالشبہ ادب زندگی کے صحرا میں دور تک پھیلے ہوئے درد کے فاصلوں کو مٹا سکتا
ہے۔ وہ فاصلے جو انسانوں کے درمیان رنگ ،نسل اور روایت کی صورت میں حائل ہو
احساس تفاخر۔۔۔
ِ احساس پسماندگی ہو یا پھر یورپی اقوام کا
ِ گئے ہیں۔ وہ ایشیائی قوموں کا
ان سب کو بھال کر ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے میں انسانیت کی
قدر مشترک جلد یا بدیر قبول کرنا ہوگی اسی سے بہتری کے امکانات کے در وا ہوں گے۔ ِ
اسی ادبی منظر نامے میں نثری صنف ناول زندگی کی رنگ بدلتی قوس قزح اور
حقیقت کی باریک ترین جزئیات کو ایک خاص قرینے سے پیش کرنے کا فن ہے لیکن یہ
زندگی کا ہو بہو چربہ نہیں۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے
رہنے والوں کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں جلوہ گر ہوتی ہے اسی لیے ناول کا
فکر و فن انسانی تصور و تخیل نہیں بلکہ انسانی رشتے ہیں اس میں فرد کی انفرادی
حیات سے لے کر اجتماعی زندگی سبھی داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تہذیب و
معاشرت کا ارتقائی عمل اس میں پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ناول نہایت وسیع
اور ہمہ جہت صنف ا دب ہے جس کے بارے میں ورجینا وولف نے کہا کہ ناول ایک ایسا
شتر مرغ ہے جو ہر چیز ہضم کر سکتا ہے۔ الرنس نے اسے گلیلیو کی دوربین سے بڑی
ایجاد کہا ،اس نے یہ بھی کہا کہ ’’ایک ناول انکشاف حیات کا ایک مکمل وسیلہ ہے۔‘‘
فاسٹر کے خیال میں ناول میں زندگی کا ہر موضوع برتا جا سکتا ہے۔ میالن کنڈیرا کے
مطابق ناول ہر لمحہ ایک چھوٹی سی کائنات کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ کسی مصنف کا
ایجاب و اعتراف نہیں بلکہ دنیا کے پھیالئے ہوئے دام میں گرفتار انسانی زندگی کی
تحقیق و تفتیش ہے۔ رال فاکس کے الفاظ میں ناول زندگی کا رزمیہ ہے۔
انیس ویں صدی میں ہندوستان پر برطانوی تسلط کے استحکام کے بعد یہ صنف ادب
ب جدید کے دوش بدوش برصغیر میں غیر محسوس طریقے سے در آئی۔ فاتحین کی تہذی ِ
اہم بات یہ ہے کہ صرف ناول ہی میں پورا انسان اور اس کی کائنات کا جاندار عکس نظر
آتا ہے کسی اور صنف ادب میں اس قدر ممکن نہیں۔ یعنی انسان ،سماج ،تہذیب ثقافت
محیط بیکراں میں ہے۔
ِ وغیرہ سب کچھ ناول کے
ناول کے بارے میں اس طویل تمہیدی گفتگو کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ زیر
نظر مقالے کا موضوع بھی یہی اہم صنف ادب ہے مگر اہم وضاحتی امر یہ ہے کہ راقم
گلشن ادب کا وہ گوشہ ہے جسے وادی ٔ خشک سمجھ کر گریز کی راہ ِ کے پیش نظر
اختیار کی گئی ہے۔ یعنی کہ اینگلوانڈین ناول۔ یہ موضوع اس لحاظ سے بھی اہمیت کا
حامل ہے کہ ان غیر ملکی ناول نگاروں کے قلب میں کئی کہانیاں موجود ہیں اور ان ہی
ناولوں کے ذریعے نوآبادیوں کے لوگ اپنی شناخت اور تاریخ کی موجودگی کو جتایا
کرتے ہیں۔ چونکہ برصغیر آج تک نوآبادیاتی اثرات سے آزاد نہیں ہوا اور ہمارے فکر و
ادب پر غیر ملکیوں کی چھاپ کسی نہ کسی حوالے سے آج بھی موجود ہے ٰلہذا ہماری
اپنی تاریخ و تہذیب کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے انگریز مصنفین کی
آنکھوں سے بھی دیکھا جائے بقو ِل اقبال ؎
شاہد ثانی شعور دیگراں
بنور دیگراں
دیدن خود را ِ
ِ
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ مابعد جدیدیت ) (Post-modernismکے اس دور میں
ثقافتی مطالعات ) (Cultural studiesکی ایک شق میں نوآبادیات کامطالعہ بھی ہے جس
کو ماہرین نے مابعد نوآبادیاتی مطالعات) (Post colonal studiesکا نام دیا ہے۔ یہ
نوآبادیاتی مطالعے اس امر پر دال ہیں کہ نوآبادیات کے نظام میں علمی اور ثقافتی
استحصال کا پہلو بھی مخفی ہوتا ہے یعنی نوآبادیاتی حکمرانوں کی مقامی آبادی کی
علمی ،ادبی ،ثقافتی اور اخالقی ترقی کے پیچھے خود ان حکمرانوں کی اپنی غرض و
غایت بھی ہوتی ہے یعنی اپنی قوت کو مستحکم کرنے کے لیے وہ علمی میدان میں بھی
ایسی ہی صورت پیدا کرتے ہیں جو ان کی حکمرانی کو مزید استحکام بخشے۔ وہ عوام
کے قلوب و اذہان کو بھی کچھ یوں متاثر کرتے ہیں کہ محکوم قومیں الزما ً یہی تصور
کرتی ہیں کہ حکمرانوں کے یہ سارے اقدامات ان کی ترقی کے لیے ہی ہیں اور ان سے
دامن کشاں گ زرنے میں ذہنی اور علمی پسماندگی کا ازالہ ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ
یہ نوآبادیاتی حکمران اپنی حکمرانی کے خاتمے کے بعد کئی ایسے دیر پا اثرات چھوڑ
جاتے ہیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔ یوں نسلی امتیازات کی لکیریں اتنی
واضح طور پر کھینچ دیں جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں اسی طرح موجود ہیں۔
ہندوستان کے تناظر میں انگیریزوں کی خدمات پر نگاہ ڈالی جائے تو باال ئی سطح
پر یہی کہا جائے گا کہ انگریز حاکموں نے ہندوستانیوں کی ترقی اور بہتری کے لیے
کئی اقدامات کیے۔ نئے علوم کے در وا کیے۔ نئی زندگی کے اسباق سکھائے ،نئے ولولوں
سے ہمکنار کیا۔ ممکن ہے کہ یہ بات جزوی طور پر درست ہو مگر اس امر سے انکار
بھی ممکن نہیں ہے کہ آزادی کے حصول کے اتنے عرصے بعد بھی ذہنی غالمی کا
طوق ہم اپنی گردنوں سے نکال پھینک سکے نہ ہی ان اثرات سے آزاد ہو سکے۔
ذہنی کشادگی اور فکر کی وسعت کے لیے بھی ضروری ہے کہ مختلف قوموں
اور ملکوں کے ادب سے شناسائی حاصل کی جائے۔ اس لحاظ سے یہ ضروری سمجھا
گیا کہ سامراجی عہد کے کچھ اہم فن پاروں کو ماضی میں جا کر اور دیگر تواریخ و
روایات کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تناظر میں پڑھا جائے اور
اپنے ماضی ک ے حوالے سے درست حقائق کی بازیافت کی کوشش کی جائے۔ اینگلو انڈین
ناولوں یا ان کے تراجم کو پڑھ کر قاری بعض اوقات تباہ حالی اور دردناک آوازوں میں
کھو جاتا ہے جو باال دستوں کے جبر کا ماتم کرتی سنائی دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ
تہذیب کی کہانی بھی بین السطور ان اوراق میں سامنے آتی ہے۔
اینگلو انڈین ادب کا اپنا ایک الگ اسلوب ہے جسے برصغیر کی مقامی تہذیبوں کے
تاریخی ،تہذیبی و ثقافتی اور دینی عناصر کے تال میل سے تشکیل دیا گیاتھا۔ ان ناولوں
کے موضوعات بھی خاصے وسیع ہیں جیسے تہذیب و ثقافت کی عکاسی ،نسلی امتیاز،
جڑوں ک ی تالش ،تہذیبی تصادم ،جنریشن گیپ ،انسان دوستی ،تنہائی و بیگانگی ،معاشرت
اور شناختی بحران وغیرہ۔ ان ناولوں کے کردار اور کہانیاں برصغیر کے عالوہ بیرون
برصغیر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں مقامیت کے عالوہ عالمی زاویہ بھی اجاگرہوتا
نظر آتا ہے۔
اینگلو انڈین ن اولوں کی یہی وہ ظاہری اور مخفی خصوصیات تھیں جنھیں ذہن میں
رکھ کر زیر نظر مقالے کا خاکہ تیار کیا گیا جو کہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب
میں نظری مباحث کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس میں تہذیب ،ثقافت کے
بنیادی تصورات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہند مسلم تہذیب کے نقوش کو اجاگر کیا گیا
ہے۔ پھر اس کے بعد نوآبادیاتی عہد اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے تہذیبی بحران
احاطہ نور میں النے کے ساتھ ہی مستشرقین کی خدمات کا جائزہ ٔ کی مختلف جہات کو
برصغیر کے تہذیبی اور تاریخی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
مقالے کے دوسرے باب میں انگریزی فکشن کے آغاز و ارتقاء کا جائزہ لیا گیا ہے
ساتھ ہی ہندوستان کے مقامی ادبا کی انگریزی اور اینگلو انڈین نگارشات کے تعارفی
حوالہ قرطاس کیا گیا ہے۔ اسی باب کے آخری حصے میں منتخب اینگلو ٔ جائزے کو بھی
انڈین ناولوں کا تعارفی مطالعہ شامل کیا گ یا ہے۔ زیر تحقیق ناولوں میں ای ایم فاسٹر کا
ناول ’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ ،رڈیارڈ کپلنگ کا ’’ ِکم‘‘ ،پال اسکاٹ کا ’’راج کوارٹٹ‘‘ ،تھیکرے
کا ’’وینٹی فیئر‘‘ اور جان ماسٹرز کا ’’بھوانی جنکشن‘‘ شامل ہیں۔
مقالے کے تیسرے باب میں ای ایم فاسٹر اور رڈیارڈ کپلنگ کی تخلیقات میں ہند
مسلم تہذیب کی استحضاریت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اسی باب میں ہندوستانی فنون
لطیفہ ،رسوم و رواج اور تہذیب کے مختلف مظاہر کو دائر ٔہ تحریر میں النے کی کوشش
کی گئی ہے۔ ان ہر دو مصنفین نے اپنی تخلیقات میں ہندوستانی تہذیب ،ثقافت ،سیاست،
ادب ،فنون لطیفہ ،مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا ہے جبکہ مقامی افراد کی
انفرادی نفسیات کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی
حوالہ قرطاس کیا ہے۔
ٔ سماجی و معاشرتی حاالت کو بھی
مقالے کے چوتھے باب میں پال اسکاٹ کے راج کوارٹٹ کے باطن میں پوشیدہ
ہندوستانی تاریخ و معاشرت کی بازیافت کی گئی ہے۔ اس میں جا بجا ہندوستانی معاشرت
کے متنوع رنگ بھی بکھرے پڑے ہیں اس تاریخی ناول میں مصنف نے ہندوستان کی
عصری تاریخ کی تقلیب فکشن کے اندر ہی کر دی ہے۔ اسی باب میں بھوانی جنکشن میں
اینگلو انڈین کمیونٹی کے تہذیبی اور شناختی بحران کے المیے کو اجاگر کیا گیا ہے جب
برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوا تو اس شناختی بحران نے شدت اختیار کر لی۔
پانچویں باب میں ان تمام ناولوں کے مختلف کرداروں کا تہذیبی و سماجی پس
منظر میں سیر حاصل جائزہ لیا گیا ہے۔ اس معروضی تجزیے میں مسلم کردار ،ہندو
کردار ،نسوانی کردار اور انگریز کردار شامل ہیں۔
اس مقالے کی تکمیل میں کوشش کی گئی ہے کہ بنیادی مصادر سے استفادہ کیا
جائے ۔ بالخصوص انگریزی ناولوں کے متون اور ان کے ضمن میں تخلیقی کتب و
تحقیقی مقاالت کو اولیت دی گئی ہے۔ حسب ضرورت تنقید و تحقیق کی غرض سے ثانوی
مصادر کی جانب رجوع بھی کیا گیا ہے۔ جس عہد کی بات ہو اسی عہد کے ماخذ تک
رسائی کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ سلیس اور تلخیص سے اختصار و ایجاز سے کام
لینے کی ہر ممکن سعی کی گئی ہے تاہم ناولوں کے اقتباسات کو جگہ دینا ناگزیر تھا اور
مقصد بھی یہی تھا کہ بنیادی مصادر سے دوری نہ ہونے پائے۔ا س معاملے میں اہم مسئلہ
انگریزی سے اردو تراجم کا تھا۔ کیوں کہ بنیادی طور پر یہ مقالہ انگریزی ناولوں کے
تحقیقی مطالعہ پر مشتمل تھا۔ اس کے لیے کوشش کی گئی کہ ناول نگاروں کے ما فی
الضمیر کو ادا کرنے کا خاطر خواہ اہتمام کیا جائے۔ تاہم ترجمہ پھر بھی ترجمہ ہے۔ ایک
زبان کے کسی بھی ہمہ جہت لفظ کو دوسری زبان اور تہذیب کے سیاق و سباق میں بٹھانا
کار دشوار ہے۔ پھر ترجمہ بھی ایک مغربی زبان سے مشرقی زبان میں کرنا اس ایک ِ
لیے بھی مشکل ہے کہ دونوں زبانوں کی ساخت میں بعدالمشرقین ہے مگر جہاں تک
ممکن ہوا اصل کے قریب رہنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
ابھی یہ عنوان منظوری کے مراحل تک نہیں پہنچا تھا کہ والدہ محترمہ کا اچانک
انتقال ہو گیا ۔ اس ذاتی صدمے سے ذہن پر جمود و تعطل اور قبض کی وہ کیفیت طاری
ہوئی کہ ایسا محسوس ہوا گویا خامہ و قرطاس سے کبھی آشنائی نہ تھی۔
شعبہ اردو ،ڈاکٹر ارشد محمود
ٔ ساحر ،چیئرمین
ؔ ایسے میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز
ناشاد ،ڈاکٹر محسنہ نقوی اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر جیسے محترم و مکرم اساتذہ کرام ؔ
کی خصوصی توجہ اور شفقت نے منزل مقصود تک رسائی سہل بنا دی۔ ان سب محترم
ہستیوں کے لیے دعا گو ہوں۔
نگران مقالہ ڈاکٹر محمد سفیر اعوان شعبہ انگریزی انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی
اسالم آباد (حالیہ ڈین نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسالم آباد)نے قدم قدم پر
رہنمائی فرمائی اور خاص طور پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے امریکہ روانگی سے قبل
ق یمتی لمحات اس مقالے کی تکمیل کے لیے عنایت فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی
خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مقالے کی تکمیل کے دوران بسا اوقات ایسے دشوار گزار مقام بھی آئے کہ ہمت
جواب دے جاتی اور قلم ساتھ چھوڑ بیٹھتا مگر میری یہ خوش نصیبی تھی کہ ڈاکٹر سید
کامران عباس کاظمی جیسے مشفق و مہربان دوست کی رفاقت میسر رہی انہوں نے ابتدا
سے انتہا تک میری رہنمائی کی اور گراں بہا علمی و ادبی مشوروں سے بھی نوازا۔ ان
کے لیے تشکر کے بے پایاں جذبات رسمی الفاظ میں سموئے نہیں جاسکتے۔
پروفیسر محمد اسلم کہوٹ (پرنسپل) ،سید قمر عباس کاظمی ،ڈاکٹر افتخار حیدر
ملک ،ملک جمیل الرحمٰ ن ،اسد قیوم ،محمد اشر ف آصف ،محمد ارسالن راٹھور ،محبوب
عالم ،شاہ فاروق رحمانی ،غالم حسین (کریالہ) ،محمد نذیر اور کئی دوسرے صاحبان
تحقیق و تصنیف جن سے میں نے براہ راست یا بالواسطہ استفادہ کیا ان سب کا بھی تہہ
دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہاں اس امر کا اظہار بھی بے محل نہ ہو گا کہ میری شریک حیات کے پیہم تعاون
نے میرا حوصلہ قائم رکھا۔ ہللا کریم ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
آخر میں جناب شوکت جاوید کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے
بکھرے ہوئے الفاظ کو اپنی فنی مہارت اور خلوص کے ساتھ منظم تحریر کی شکل میں
ڈھال کر اس قابل بنایا کہ میں اسے پیش کر سکوں۔
طوبی ارشد ،محمود الرحمٰ ن
ٰ یسری ارشد،
ٰ معصوم اور پیارے بچوں روشنی طارق،
اور حسن محمود کا بھی شکریہ کہ وہ بھی اس تحقیقی سفر میں اپنے ننھے منے ہاتھوں
سے مجھے حتی المقدور آسانیاں فراہم کرنے میں پیش پیش رہے۔
اس مقالے میں جو خوبیاں موجود ہیں وہ میرے فاضل اساتذہ کرام ،نگران محترم
اور صاحب علم دوستوں کا ثمرہ ہیں ،مقالے میں اگر کچھ کمزوریانراہ پا گئی ہوں تو ان
کا سزاوار راقم ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔
ہللا کریم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
ارشد محمود
پوسٹ گورنمنٹ اسسٹنٹ پروفیسر،
گریجویٹ کالج
چکوال
باب اول
نوآبادیاتی عہد ،نظری مباحث
تصور تہذیب اور ہند مسلم تہذیب کا سوال
ِ الف:
ہند مسلم تہذیب کا ذکر ہوتے ہی ذہن میں برصغیر پاک و ہند کے نقوش ابھرتے
خطہ ارضی ہے جس کی تاریخ نہایت قدیم ہے جس کے آثار مختلف قسم کی ٔ ہیں۔ یہ ایسا
حجریات و حضریات سے معلوم ہوئے اور یہ تاریخی آثار و نقوش جریدۂ حیات میں کچھ
گردش آسمان اور تقویم ماہ و سال مٹا نہیں سکی۔
ِ اس طرح سے ثبت ہیں کہ انہیں
اس بر عظیم کے نقشے میں امت ِ مسلمہ نے اپنے صدیوں پر محیط قیام اور اقتدار
کے سائے میں ایک نئی تہذیب کے رنگ بھرے جو مختلف حوالوں سے انفرادیت کی
حامل تھی۔ تاریخ اسے ہند مسلم تہذیب کے نام سے جانتی ہے۔ ہمیں اسی تہذیب کے
خدوخال سے تعرض کرنا ہے اور چند انگریز مصنفین نے اس کی جو تصویر کشی کی
ہے اس کا جائزہ لینا ہے۔
تاہم ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب ) (Civilizationاورثقافت ) (Cultureکے
تصور پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اگرچہ یہ اصطالحات عمرانیات ،تاریخ ،فلسفے اور
ادب کے مباحث میں استعمال کی جاتی ہیں مگر ان کی وضاحت ان کی تعریفات
) (Definitionsکے حوالے سے مختلف بلکہ بعض اوقات متضاد انداز میں بھی پیش کی
جاتی ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق عقیدے ،اقدار اور اصو ِل حیات کی بنیادی قدریں ،جو
کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو
معاشرے میں ایک الگ تشخص حاصل ہو وہ کلچر کہالتا ہے۔ جس کے نتیجے میں
مختلف علوم و فنون وجود پذیر ہوتے ہیں۔ آرٹ کی متنوع شکلیں ،فن تعمیر کے نادر
نمونے معرض وجود میں آتے ہیں۔ معاشی ،سیاسی ادارے تشکیل پاتے ہیں۔ اسی مجموعی
تشخص کو تہذیب) (Civilizationکا نام دیا جاتا ہے۔ عمرانی علوم کے ماہرین ان میں
سے ایک کو) (Mentafactsذہنی تشکیل اور دوسرے کو) (Artefactsسماجی مظاہر
کا نام دیتے ہیں مگر یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں۔ اس طرح کلچر کسی بھی معاشرے
کا تہذیبی اظہار ہے اور تہذیب ایک ایسا ارتقائی عمل ہے جو کلچر کی مدد سے آزادانہ
پرورش پاتا ہے۔
ٰلہذا تہذیب کے صحیح تصور کو اجاگر کرنے کے لیے پہلے ثقافت
) (Cultureکے تصور کو واضح کرنے کے لیے مختلف ماہرین اور لغات سے رجوع کیا
جائے تو ہمارے سامنے کچھ اس طرح کی تصویر آ جاتی ہے۔
ڈاکٹر سید عبدہللا کے مطابق:
کلچر کی اصطالح ،دوسری اکثر مغربی اصطالحوں کی طرح مبہم اور مختلف المعنی
ہے۔ جس کے مختلف ادوار تاریخ اور مختلف زبانوں اور ملکوں اور مختلف علوم میں جدا
جدا ہیں۔ یہ لفظ ایک سے زیادہ شعبہ ہائے علم میں خصوصی معنوں میں استعمال ہوتا
ہے۔ ()1
)(Concise Oxford Dictionaryمیں لکھا ہے کہ دراصل یہ لفظ
( Cultivationکاشت) کے معنوں سے ہوتا ہوا تربیت اور نشوونما اور ترقی کے منظم
عمل تک پہنچتا ہے اور یہ ترقی و تربیت صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ دیگر اشیا
مثالً نباتات اور حیوانات بھی اس میں شامل ہیں۔
Horticulture, Agriculture. "Any deliberate effort to develop the
)qualities of some objects." (2
پھر بہت جلد اس کا اطالق کسی ’’تعلیم یافتہ‘‘ آدمی کے عملی اکتساب و تحصیل پر
ہونے لگا۔
Actual attainments of an educated person
شائستہ اخالق ،خوش ذوقی ،فنی استعداد اور کسب علوم جو تعلیم کا نتیجہ ہوتے
ہیں کلچر کہالتے ہیں۔ اس طرح یہ بھی قابل غور ہے کہ پرانے زمانے میں یہ لفظ کبھی
)(Civilizationکا ہم معنی ہوا اور کبھی اس سے الگ معنی میں آتا رہا۔
سب سے پہلے کلیمن ) (Kleminاور ٹائلر ) (Tylorنے اس کے وہ معنی متعین
کیے جو علم بشریات میں اب عام ہیں۔ Tylorنے اس میں وسعت پیدا کر کے کسی قوم( یا
اجتماع ) کی ساری مجلسی زندگی تک پھیال دیا۔ رسم و رواج ،فنون لطیفہ و مفیدہ ،حالت
امن و جنگ میں نجی اور مجلسی زندگی ،مذہب ،علوم اور آرٹ۔۔۔ سب اس میں شامل ہو
ئے۔ ٹائلر کے بعد کلچر کے بشریاتی معنی عام ہو گئے اور اس کی بے شمار تعریفیں
سامنے آئیں۔ ایک عام تعریف یہ ہے۔
کلچر عبارت ہے (انفرادی و مجلسی) رویے سے ،جس میں افکار ،علم ،عقائد اور اصولی
اقدار وغیرہ حصہ ،لیتی ہیں۔ ((3
"Modes of behaviour, ..... and also ideas, knowledge, beliefs,
norms, values and other things.
ثقافت کی تعریف کے ذیل میں چند دیگر تعبیرات کو بھی ذیل میں پرکھنے کی
کوشش کی جائے گی جیسا کہ Bagby Philipنے ثقافت کے چند معنی یوں پیش کیے
ہیں۔
1. Culture is value
2. It is norms
3. It is learned or symbolizing or habitual behaviour
4. It is a stream of ideas or a social organism
5. Ways of life
6. All aspects of social life
7. Major departments of human activity:
religion, politics, economics, art, science, technology,
language and customs. education,
8. Culture includes modes of thinking and feeling and
behaviour...... but not any invisible entity which determined these
modes.
9. Culture is regularities of those modes of behaviour, internal
and external, of the members of a society, which are not clearly
)hereditary in origin. (4
آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق:
Cultrue:فنون اور دیگر ذہنی کماالت ،کرشمے ،بحیثیت مجموعی تہذیب
وثقافت ،خوش ذوقی ،نفاست پسندی ،ذہنی مشاغل کا فروغ ،ایک مخصوص دور کے رسم
و رواج ،تہذیب اور کارنامے ،ذہنی یا جسمانی تربیت کے ذریعے ترقی ،نشوونما ،مگس
اور ریشم کے کیڑے پالنا وغیرہ۔ ((5
میریم ویبسٹر ڈکشنری)(Meriam Webster Dictionary
)ثقافت) کلچر:
-1شعوری اور اخالقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعے
-2شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت
-3فنون لطیفہ جو کہ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماورا ہوں
-4انسانی معلومات کا مجموعہ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی
وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی منتقلی پر ہو۔
-5کسی گروپ کے رسوم و رواج ،مادی اوصاف اور آپس میں سلوک و تعلق ((6
فیروزاللغات میں ثقافت کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے
عقلمند ہونا ،نیک ہونا ،کسی طبقے کی تہذیب ،تمدن وغیرہ ((7
ابواالعجاز حفیظ صدیقی ’’کشاف تنقیدی اصطالحات‘‘ میں لفظ ثقافت کے ضمن میں
رقم طراز ہیں:
کر ٔہ ارض پر بسنے والے انسانی گروہوں نے اپنی مادی اور روحانی ضروریات کو
تسکین دینے اور ایک منظم ا ور مربوط معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ نصب
العین وضع کیے ،رہن سہن کے کچھ طریقے ایجاد کیے ،کچھ ریتیں اور رسمینبنائیں،
کچھ قوانین وضع کیے ،حالل اور حرام کے درمیان کچھ امتیازات قائم کیے ،کچھ نظریات
و تصورات اور علوم و فنون سے دلچسپی لی۔ اس طرح سماجی تعلقات کے تعاون سے
(جو خود بھی اس طرح وجود میں آئے تھے) ان اکتسابات نے ذیلی اختالفات کی گنجائش
کے باوجود افراد معاشرہ میں تنظیم اور یکسانی کردار پیدا کی۔ ان کی افادیت مسلّم ٹھہری
چنانچہ اگلی نسل تک انہیں منتقل کرنا ضروری ہوا۔ نسالً بعد نسل منتقل ہونے والے
اکتسابات کے اس مجموعہ کو کلچر یا ثقافت کہتے ہیں۔ ((8
نیو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں کلچر) (Cultureکی تعریف یوں متعین کی گئی
ہے۔
ـ "The integrated pattern of human knowledge belief and behaviour
culture thus defined consists of languge, ideas, beliefs, customs,
taboos, codes, institutions, tools, techniques, works of art, rituals,
ceremonies and other related components and development of
culture depends upon man's capacity to learn and transmit
)knowledge to succeeding generations." (9
اردو انسائیکلو پیڈیا میں ’’ثقافت‘‘ کی وضاحت کچھ اس طرح ہوئی:
عربی لفظ ،جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ ثقافت اکتسابی یا ارادی یا
شعوری طرز عمل کا نام ہے اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات ،افعال،
خیاالت ،رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی
حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پر عمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کی خواہش رکھتے
ہیں ،تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک نہیں ہوسکی۔ ((10
ْ ،A. L. Kroberانسائیکلو پیڈیا آ ف سوشل سائنسز میں ثقافت کی تعریف بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
ثقافت مرکب ہے معاشرتی وراثت) (Social Heritageکے طور پر ملنے والے فنون،
اشیا ،تکنیکی ،عملی عقائد ،تصورات ،عادات و اطوار کا ((11
مجلہ اوراق کے ایک مستقل سلسلہ ’’سوال یہ ہے‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کلچر کے
اصطالحی معنی یوں بیان کرتے ہیں:
انسا ن کے وہ تخلیقی اقدامات جن کی مدد سے اس نے اپنی ذات کے گھنے جنگل میں
راستے بنائے اور پھر ایک مسلسل تراش خراش کے عمل سے ان راستوں کو قائم رکھا،
کلچر کے زمرے ہی میں شامل ہیں۔ ((12
’’ سوال یہ ہے؟‘‘میں ہی سید عبدہللا کلچر کی تعریف پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
کلچر وہ ہے جو اندر کی کسی غیر مرئی قوت کے زیر اثر خارج میں انسان کے اعمال و
افعال اور مادی ماحول میں ظہور پاتا ہے خواہ وہ ظہور افراد کی مادی زندگی میں ہو یا
اجتماع کے اعمال و افعال میں ہو۔ ((13
ڈاکٹر عطش درانی’’ ،اسالمی فکر و ثقافت‘‘ میں رقم طراز ہیں:
ثقافت کا لفظ ثقف سے نکال ہے جس کے معنی ہنر یا سیکھنے کے ہیں۔ انگریزی میں اس
کا مترادف ’’کلچر‘‘ ہے جس کے معنی ہل چالنا یا کھیتی باڑی کے ہیں اور اصطالحا ً
’’انسانوں کے طریق زندگی‘‘ یا اس کل مجموعے یا طرز حیات کو کہا جاتا ہے جو انسان
غیر جبلی طور پر یعنی سیکھ کر انجام دیتا ہے۔ ((14
ڈاکٹر فرمان فتح پوری ثقافت کے ضمن میں رقم طراز ہیں:
متمدن زندگی میں جسے کسی قوم یا ملت کی ثقافت کہا جاتا ہے وہ اس قوم کی علمی،
فکری ،تخیّلی ،تاریخی ،اخالقی ،مذہبی اور ذہنی و روحانی ترقیات و فتوحات کا نچوڑ
حاصل ہوتا ہے۔ ((15
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
کلچر اس کل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد ،علوم اور اخالقیات ،معامالت اور
صرف اوقات اور ساری ِ معاشرت فنون و ہنر ،رسم و رواج ،افعال ارادی اور قانون،
عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے
اور جن کے برتنے س ے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و
مماثلت ،وحدت اور یکجہتی پیدا ہو جاتی ہے۔ ((16
خلیفہ عبدالحکیم ثقافت کی تعریف متعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
بلحاظ مادہ کسی لفظ کے معنی نہایت سادہ ہوتے ہیں لیکن جب وہ لفظ اصطالح کے طور
پر استعمال ہونے لگے تو اس کے مفہوم میں بڑی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ثقافت کا عربی
سہ حرفی مادہ ثقف ہے جس کے معنی ہیں درست کرنا ،سنوارنا اور بل نکالنا ،چنانچہ تیر
کو آگ میں تپا کر سیدھا کرنے کو تثقیف کہتے ہیں۔ ((17
پروفیسر کرار حسین کے مطابق:
کلچر کسی معروف معاشرے کے مخصوص طرز زندگی کا نام ہے۔ ((18
فیض احمد فیض کلچر کے ضمن میں لکھتے ہیں:
پورے طریقہ زندگی کو کلچر کہتے ہیں جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ کلچر کی اثر
اندازی ذہنی طور پر بھی ہوتی ہے ،عقائد و اقدار کے ذریعے بھی ،عملی طور سے بھی
زندگی کے آداب و رسوم سے اور زندگی کے روز مرہ کا محاورہ ہے اس کے ذریعے
بھی اس میں اجتماعی زندگی کی ظاہری اور باطنی تفاصیل دونوں شامل ہوتی ہیں۔ فنون،
ادب ،موسیقی ،مصوری ،فلم وغیرہ اسی کلچر یا way of lifeکے تراشے ہوئے اور
منجھے ہوئے اجزا ہوتے ہیں۔ ((19
منشی عبدالرحمٰ ن ثقافت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں:
ثقافت پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ زندگی کی کلیت ،تہذیب ،تمدن ،معاشرت،
معامالت اور طرز زندگی کا نام ہے۔ اس میں رہن سہن سب شامل ہے۔ غیر مسلموں کے
نزدیک بھی ثقافت راگ و رنگ کا نام نہیں۔ ہندوستان کے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے
غیر مسلم سیکرٹری مسٹر سموئل میتھائی کے قول کے مطابق ’’ثقافت محض گانے اور
ناچنے کو ہی نہیں کہتے ،ثقافت زندگی کے سارے کاروبار کا نام ہے۔ ((20
ٹی ایس ایلیٹ ) (T. S. Eliotنے فرد ،گروہ یا جماعت اور معاشرے کے باہمی
تعامل پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں ثقافت کے تین مدارج قرار دیا ہے:
می را نظریہ یہ ہے کہ فرد کی ثقافت کا انحصار اس گروہ ،قبیلے یا جماعت پر منحصر
ہے جس سے وہ نسبت رکھتا ہے اور گروہ یا جماعت کی ثقافت کا انحصار اسی معاشرے
پر ہے جس کا کہ وہ ایک حصہ ہے اس لیے معاشرے کی اجتماعی ثقافت کو ہی اولیت
حاصل ہے۔ ((21
ماہر بشریات مالنوسکی ) (Malinowskyثقافت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
ثقافت ایک مربوط اکائی ہے جس میں اوزار ہتھیار ،صارفین کی کل اشیاء ،انسانی افکار،
عقائد و رسوم و رواج سب شامل ہیں۔ ((22
ٰلہذا ثقافت گوناں گوں تخلیقی عمل ہے۔ تجریدی سطح پر یہ افکار کی تشکیل کرتا
ہے اور اظہار کی سطح پر ادب ،سائنس ،فلسفہ ،آرٹ اور موسیقی کے ذریعے منصہ
شہود پر آتا ہے۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافت سے مراد سماجی زندگی کے فکری عناصر ہیں
جن کی بنیاد پر افراد کے مابین باہمی رشتے اور تعلقات تشکیل پاتے ہیں اور قوم کی ایک
امتیازی شکل ابھرتی ہے۔
تہذیب کے موضوع کو سمجھنے کے لیے پہلے ثقافت کی متنوع تعریفات بیان کی
گئی ہیں۔ اب تہذیب کے معنی کی وضاحت کے لیے مختلف ماہرین کے خیاالت سے
استفادہ کیا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی کانٹ چھانٹ اور
شاخ تراشی کے ہیں ۔ مگر تہذیب محض ایک لفظ نہیں ایک وسیع تر اصطالح اور جامع
تصور ہے جس کی مختلف تشریحات پیش کی گئی ہیں۔ اس سے مراد صرف شجر و حجر
کی تراش خراش اور اس کی آراستگی ہی نہیں بلکہ انسانی کردار کی تراش خراش یعنی
اصالح و شائستگی متعین کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تہذیب ان افکار و نظریات اور
عقائد کا نام بھی ہے جس سے انسان کے اخالق و کردار میں شائستگی اور اصالح پیدا ہو
سکے۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
اعلی منزل ،مہذب اقوام ،وہ لوگ یا اقوام جو ٰ Civilization:تہذیب ،سماجی ترقی کی
سماجی ارتقا کا ایک حصہ یا کڑی تصور ہوں۔ ((23
کیمبرج ڈکشنری کے مطابق:
اعلی ترقی یافتہ ادارے رکھنے واالانسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا ٰ بہت
طریقہ۔ ((24
میریم ویبسٹر ڈکشنری میں تہذیب کی وضاحت یوں بیان ہو ئی ہے:
اعلی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریروں کو ٰ مقابلتا ً
محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو۔ خیاالت ،عادات اور ذائقہ کی شستگی یا آراستگی۔
((25
ڈاکٹر سید عبدہللا کلچر کو تہذیب کا ایک رخ قرار دیتے ہیں:
کلچر ،تہذیب کا ایک رخ ہے۔ کلچر ،تہذیب کے ذہنی و دماغی رخ سے عبارت ہے۔
((26
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کے مطابق:
تہذیب کسی قوم کے علوم و فنون ،اخالق و اقدار سے تعلق رکھتی ہے۔ بہت سے رسم و
رواج جو تہذیبی زندگی کا جزو ہوتے ہیں ،تمدنی یا خارجی ماحول میں اپنی شکل وضع
کرتے ہیں۔ ((27
ان تمام تعریفات کے بغور مطالعے سے معلوم ہوتا کہ تہذیب ایک ایسا ارتقائی عمل
ہے جو کلچر کی مدد سے آزادانہ پرورش پاتا ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا آپس میں چولی
دامن کا ساتھ ہے مگر تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی۔ بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی
ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے۔ تہذیب اور ثقافت کے باہمی فرق کو سمجھنے کے
لیے مختلف ماہرین کی آراء پیش کی جاتی ہیں:
ڈاکٹر سلیم اختر ،اپنے ایک مضمون ’’کلچر کی لہریں‘‘ میں اس فرق کو یوں واضح
کرتے ہیں:
تہذیب ایک تسلسل کا نام ہے اور یہ دریا کے بہائو کی مانند ہے ایسا دریا جس کا منبع
کہیں دور ماضی بعید کی تاریکی میں نہاں ہے اور اسی دریا کے مختلف مقامات پر
ابھرتی اور ڈوبتی لہریں کلچر۔ ((28
ریاض انور تہذیب اور ثقافت کے باہمی ربط کے متعلق رقم طراز ہیں:
تہذیب ہماری حیات کے ظاہری پہلو کا نام ہے۔ برخالف اس کے ہمارے اندرونی اور
داخلی افکار و احساسات ہماری ثقافت کو آشکار کرتے ہیں۔ ((29
ایک اور مفکر نے بیج کے مغز اور چھلکے کی خوبصورت مثال کے ذریعے بتایا
کہ کلچر اور تہذیب میں وہی فرق ہے جو بیج کے مغز اور چھلکے میں ہوتا ہے۔ کلچر
مغز ہونے کے باعث تخلیق کا منبع ہے جبکہ تہذیب کی حیثیت اس محافظ کی سی ہے جو
چھلکے کی صورت میں مغز کی حفاظت کرتا ہے۔ کلچر بنیادی طور پر کومل ،گداز،
قوت کی نمو کا خزینہ اور ارتقا کا محرک ہے۔ جب کہ تہذیب اصولوں اور قدروں ،قوانین
اور ضوابط ،رسوم و رواج کے تابع اور اس لیے بیضوی لیٹی ہوئی اور بے لچک ہے۔
اشفاق احمد کے مطابق:
تہذیب ایک طرح سے وہ کینوس ہے جس پر تصویر و رنگ نمودار ہوتا ہے اسی طرح
کلچر کو اگر رنگ و تصویر سمجھ لیا جائے تو کینوس ان کے بغیر کچھ نہیں۔ کلچر
زندگی ہے ،حیات ہے ،تہذیب ضابطہ ہے ،تہذیب عقیدہ ہے۔ کلچر کا سارا دارومدار اس
کی ساری بنیاد ،اس کی ساری فائونڈیشن ،اس کی ساری اساس ،اس کے اعتقادات پر ہوتی
ہے۔ ((30
صاحبان علم و دانش کی جملہ تعریفات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب اور
ثقافت میں ایسا کوئی بڑا اختالف بھی نہیں کہ دونوں کی راہیں الگ ہو جائیں بلکہ دونوں
تصورات اور اصطالحیں باہم مربوط ہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیب کا تعلق
کسی فکر ،نظریے اور عقیدے کے نتیجے میں فکری ارتقا سے ہے یعنی کہ تہذیب فکر و
شعور ،فہم و ادراک اور نظریات و تصورات سے متعلق ہوتی ہے۔ جب کہ ثقافت اس
فکری ارتقا کے نتیجے میں عملی طور پر جو کچھ معرض وجود میں آتا ہے ان عملی
مظاہر ہی کا نام ہے جو کہ زندگی کے مختلف زاویوں جیسے کہ زبان ،ادب ،لباس ،فنون
لطیفہ اور دیگر سماجی ،معاشی،سیاسی رویوں کسی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
تاہم ان تمام فکری مباحث اور متنوع تصورات سے صرف نظر کرتے ہوئے راقم نے زیر
طرز
ِ طرز فکر،
ِ نظام ُکلی کے مفہوم میں لیا جو
ِ نظر مقالے میں تہذیب کو زندگی کے
احساس اور طرز عمل سب کو محیط ہے گویا تہذیب ایک طرف افکار اور عقائد سے
ت اجتماعی کے اداروں اور فنون کے لباس میں بحث کرتی ہے اور دوسری طرف حیا ِ
جلوہ گر ہوتی ہے۔
اہم ناول
)(1905 Where Angels fear to tread 1.
)(1907 The longest journey 2.
)(1908 A room with a view 3.
)(1910 Howards End 4.
)(1924 A passage to India 5.
(1971) Post Maurice 6.
humous
(بعد از وفات شائع ہوا)۔
نا مکمل (1980) Arctic summer 7.
شارٹ اسٹوریز کے مجموعے/ فکشن
(1911) The celestial ommibus (and olier stories) 1.
(1928) The eternal moment and other stories 2.
(1940) England's pleasant land 3.
(1947) The collected tales of E.M. Forster 4.
(1951) Billy bud 5.
The life to come (and other stories) 6.
( بعد ا زوفات شائع ہواpost humous)
تاریخ اور سفر نامے
(1922) Alexandria: A History and Guide 1.
Pharos and pharrillon 2.
(1923)
(1953) The Hill of Devi (A memoir / essays about India). 3.
مضامین
Abinger Harvest. A miscellany 1.
(1936)
Two cheers for democracy 2.
(1951)
)بایو گرافی (سوانحی
(1934) Goldworthy, Lowes Dickinson 1.
)(کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر کی سوانح
Marrianne Thorton: A domestic biography 2.
(1797,1887,1956)
تنقید
(1927) (The clark Aspects of the novel; 1.
lectures)
(1942) Virginia Woolf 2.
(1987) (Post humous) Common place book 3.
ہندوستان میں قیام پذیر رہنے والے انگریزوں کے نقطہ نظر کے بارے میں مختلف
نقادوں نے اپنی آراء کا اظہار کیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ ایشیائی ممالک اور خاص
طور پر برصغیر کے بارے میں اور بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان انگریز
مصنفین کا رویہ مبنی بر انصاف نہیں تھا بلکہ کسی حد تک تعصب پر مبنی تھا ۔
رڈیارڈ کپلنگ) (Rudyard Kiplingہوں یا جان ماسٹرز )(John Masters
اُنھوں نے برصغی ر میں قیام کیا اور اس عرصہ قیام کا اظہار اپنی تحریروں میں کیا مگر
جس چیز کی کمی محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ یہاں بسنے والی قوموں کی
روح میں اُترنے سے قاصر رہے اور ان کی تحریروں پر نسلی تفاخر اور عصبیت کا
احساس جاری رہا مگر ای ۔ ایم ۔ فاسٹر) (E.M. Forsterکا شمارمستثنیات میں سے ہوتا
ہے اس نے بھی ہندوستان میں کافی عرصہ قیام کیا۔ یہاں وہ مسلمانوں کی تہذیبی اقدار اور
وسیع المشربی سے متاثر نظر آتا ہے۔ " "A Passage to Indiaکے مترجم ستار طاہر
’’آزادی سے پہلے ‘‘ کے پیش لفظ میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:
ای ایم فاسٹر کے قاری جانتے ہیں کہ وہ اپنے ناولوں میں ایک مخصوص طرز حیات کا
پرچار کرتا ہے کہ انسانی تعلقات ،سماجی ،تہذیبی اور سیاسی اختالفات کا حل بن سکتے
ہیں مگر جب وہ برصغیر کی سیاسی اور تہذیبی صورت حال سے دو چار ہوتا ہے تو
اپنے بے پناہ مشاہدے اور بصیرت سے اس حقیقت تک پہنچ جاتا ہے کہ مسلمانوں اور
انگریزوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے اور
برصغیر کا مسلمان اپنی تہذیبی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کے لیے آزادی چاہتا ہے اس
ناول میں جہاں عہد غالمی کی سچی ،کھری اور واضح تصویریں نظر آتی ہیں وہاں
مسلمانوں کے دلوں میں جنم لینے والے جذبہ آزادی کی آنچ بھی محسوس ہوتی ہے اور
دو قومی نظریے کی جھلکیوں کا بھی سراغ ملتا ہے۔ ()۳۰
معروف ادیب مختار مسعود اس ناول کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
فاسٹر کے بہترین ناول کا موضوع شروع صدی کا غالم برطانوی ہندوستان ہے اس ناول
میں مشاہدے اور محسوسات کا ایک انبار لگا ہوا ہے ان کی وسعت اور گہرائی پر ان
انگریزوں کو بھی حیرت ہوئی جن کی مالزمت کی ساری مدت ہندوستان میں بسر ہوئی
تھی ہر شخص کو نہ وہ نظر ملتی ہے جو ایک جھلک میں سب کچھ دیکھ لے اور نہ وہ
دل میسر آتا ہے جسے ہر دھڑکن کے ساتھ القا ہوتا ہے۔
فاسٹر کے حصے میں بہت کچھ آیا تھا،نظر کی باریکیاں بھی اور بیان کی خوبیاں بھی۔
اس کے یہاں ترتیب اور بیان کا وہ سلیقہ اور چابک دستی ہے کہ بڑی بڑی باتیں محض
ایک لفظ یا جملے میں ادا ہو جائیں یا کسی کردار کی ایک ذرا سی حرکت میں سما جائیں۔
یوں ناول کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹتا اور سماں ہے کہ بندھتا چال جاتا ہے۔ ()۳۱
وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
فاسٹر ۱۹۱۱ء میں پہلی بار ہندوستان آیا اور اس کی تحریری یاداشت رکھ لی۔ گیارہ برس
بعد دوبارہ آیا تاکہ ناول کے لیے کچھ اور مواد جمع کر لے۔ اس کے بعد وہ دو سال تک
ایک ناول لکھتا رہا جسے ) (A passage to Indiaکے عنوان سے شائع کیا اور سر
راس مسعودکے نام معنون کیا۔ یہ انتساب بر عظیم سے فاسٹر کے پہلے تعلق کی یادگار
ہے۔ ()۳۲
اسی کتاب میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ کے
پرنسپل سر ٹھیوڈور موریس ایک جوان کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے اور وہاں فاسٹر
کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔ شاگرد اور استاد کا رشتہ ایسی دوستی میں بدل گیا جو فاسٹر
نے سر راس مسعود کے انتقال کے بعد بھی نباہی۔ پھر وہ یونین ہال میں فاسٹر کی تقریر
کا ایک جملہ یوں دہراتے ہیں:
فاسٹر نے کہا تھا کہ بمبئی کے ساحل پر ایک آرائشی دروازہ ہے جسے باب ہند
)(Gateway of Indiaکہتے ہیں میرے لیے اس ملک کا صدر دروازہ وہ خشت و
سنگ کی سرد اور بے جان عمارت نہیں بلکہ سر راس مسعود کی گرم جوش اور گرم
خون شخصیت تھی ۔ ()۳۳
پھر فاسٹر کے ایک مضمون کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
جمہوریت کے لیے صرف دو بار تالی بجانا کافی ہے کیوں کہ اس کی بدولت تنوع اور
تنقید کی دولت میسر آتی ہے۔ تین بار تالی) (Three cheersسوائے ِ
اقلیم محبت کے اور
کسی کو سزا وار نہیں۔ ()۳۴
اس ناول کے تحریر کرنے کے عوامل اور مقاصد کے بارے میں ای ایم فاسٹر
بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ جب یہ ناول لکھنے کے بارے میں خیال کیا تو
میں نے پہلے اسے مشرق و مغرب کے درمیان ایک ہمدردی کا پل تصور کیا لیکن بعد
میں اس خیال سے دست بردار ہونا پڑا۔ لیکن میری صحافیانہ دلچسپیوں نے اس طرح کے
کئی مزید سواالت پر سوچنے پر مجبور کیا۔
When I began the book I thought of it as a little bridge of
sympathy between East and West, but the conception has had to
go, my sense of truth forbids anything so comfortable. I think that
most Indians, like most English people are shits, and I am not
interested whether they sympathise with one another or not. Not
interested as an artist, of course the journalistic side of me still
)gets roused over these questions. (35
لیکن جب یہ ناول مکمل ہو گیا تو اسے ایک شاہکار ناول مانا گیا اسی ناول پر فاسٹر کو
کئی انعامات سے نوازا گیا جن میں کوئین ایلزبیتھ (Queen Elizabeth) IIبھی شامل
تھا۔ جب پہلی بار اس کتاب کی اشاعت ہوئی تو اسے نہ صرف بہت زیادہ پذیرائی ملی
بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی بہت زیادہ فروخت ہوئی۔ 1924ء کے آخر تک اس کی
( 17000سترہ ہزار ) کاپیاں شائع ہوئیں اور صرف برطانیہ میں فروخت ہوئیں جب کہ
( 54000چون ہزار ) سے زائد امریکہ میں فروخت ہوئیں امریکہ میں اس ناول کی کثیر
اشاعت پر بعد میں ایک دفعہ فاسٹر نے یوں تبصرہ کیا۔
A few years ago I wrote a book which dealt in part with the
difficulties of the English in India. Feeling that they would have no
difficulties in India themselves, the Americans read the book
freely. The more they read it the better it made them feel and a
)cheque to the author was the result. (36
’’ چند سال بیشتر میں نے ایک کتاب لکھی جس میں جزوی طور پر ہندوستان میں
انگریزوں کی مشکالت کا ذکر کیا۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ انہیں خود ہندوستان میں
کوئی مشکالت نہیں ہوں گی۔ امریکیوں نے اس کتاب کو بہت زیادہ پڑھا۔ وہ جتنا زیادہ اس
کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اتنا بہتر اسے سمجھتے ہیں اور اس کا نتیجہ مصنف کے لیے
چیک کی شکل میں تھا۔ ‘‘
اس ناول کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف نے اس ناول میں ہندوستانی معاشرت
کے بارے میں تمام انگریزوں کی عصبیت اور غرور سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی
ہے۔ دو انگریز خواتین مسز مور اور ایڈالکیوسٹڈ کی ہندستان میں آمد کے بعد فضا میں
تبدیلی آتی ہے۔ یہ دونوں خواتین اصل ہندوستان کو دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔
ڈاکٹرعزیز جو کہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ان دونوں خواتین کو لے کر مارابار
غاروں کی سیر کے لیے جاتا ہے۔ وہاں پر افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عزیز
پر اڈال عصمت دری کا الزام لگا تی ہے مگر بعد میں وہ عدالت مینیہ الزام واپس لے لیتی
ہے اور عزیز اس مقدمے سے باعزت بری ہو جاتا ہے۔ اس دوران ایک انگریز کردار
فیلڈنگ عزیز کی طرفداری کرتا ہے جب کہ مسز مور کا بیٹا رونی جو کہ مجسٹریٹ ہے
اس کو سزا دلوانے میں پیش پیش ہے۔ کیونکہ وہ ہندوستانیوں سے نفرت کرتا ہے اور
ایڈال کا منگیتر بھی ہے۔ مارا بار غاروں واال واقعہ انگریزوں اور مقامیوں کے تعلقات
میں دراڑ ڈالتا ہے۔
ای ایم فاسٹر کا بنیادی نظریہ تھا کہ انسانی تعلقات ،سماجی ،تہذیبی اور سیاسی
اختالفات کو نہ صرف کم کر سکتے ہیں بلکہ ان اختالفات کی گہری خلیج کو ختم کر
سکتے ہیں مگر جب وہ خود ہندوستان آ کر صورت حال کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس پر
حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ انگریزوں اور مقامی لوگوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ان
کے دوستانہ تعلقات قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔
اس ناول میں جہاں عہد غالمی کی تصویریں اور استعماری رویے کی جھلک نظر آتی
جذبہ آزادی کی آنچ بھی واضح طور پر
ٔ ہے وہاں مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے
محسوس ہوتی ہے۔ جب ڈاکٹر عزیز ناول کے اختتام میں انگریزوں سے مخاطب ہو کر
انہیں یہ کہتا ہے کہ اب یہاں سے چلے جائو اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ
اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔فیلڈنگ اور اس کے گھوڑے مخالف سمتوں میں
روانہ ہو جاتے ہیں اور یہ پیغام ملتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی تک دونوں قوموں
میندوستی کا رشتہ استوار کرنا مشکل ہے۔
برصغیر کے باشندے ایک خاص تہذیبی ماحول کے پروردہ ہیں جن کی دانش اور
تمدن کے اپنے انداز ،اصول اور سانچے ہیں۔ لیکن پھر استعمار کی آمد کے بعد ایک اور
مختلف نوعیت کے پیٹرن) (Patternنے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ان کو مغلوب
کرنے کی کوشش کی۔ اور ایک ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ عمل اٹھارویں صدی کے
اواخر میں شروع ہوا ۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے ،انتشار کا شکار مشرقی
تہذیب میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔
انیسوں صدی کے آخر میں ہند مسلم تہذیب کی نمائندگی غیر ملکی ادب میں کچھ اس طرح
کی گئی کہ یہ قد یم ادبی و تہذیبی روایات معدوم ہونا شروع ہو گئیں اور یوں ایک ایسا
تہذیبی انقطاع عمل میں النے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ ہماری نوجوان نسل میں فکری
انتشار بڑھنے لگا۔
ایسے ہی حاالت میں " "A passage to Indiaاشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی
اشاعت کے بعد کئی نقادوں ) (Criticsاور محققین) (Researchersکی مختلف آراء
منصہ شہود پر آئیں۔ جس میں فاسٹر) (Forsterکو یا تو غیر جانبدار کردار کا حامل بتایا
گیا ہے یا مکمل طور پر متعصب اور جانبدار ،ایسا ناول نگار جو کہ احساس تفاخر اور
برتری کے نو آبادیانی نظریہ کا حامی اور موید۔ یعنی ہر نقاد نے اس ناول کو اپنے زاویہ
نگاہ اور الگ الگ تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس
ناول میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت کا جائزہ لینے سے بیشتر کچھ انگریز نقادوں
اور محققین کی آراء کو بھی اجماالً پیش کیا جائے۔ جیسے کہ "Branda R.
"Silverنے ناول کو ’’نسائی تناظر) ‘‘ (Feminisit Perspectiveمیں دیکھا۔ ()۳۷
بھو پال سنگھ ) (Bhopal Singhکے مطابق فاسٹر انتہائی غیر جانبدار
)(Serupulously Fairہے اور اس کا کوئی اصالحی مقصد نہیں ہے اور اس نے
ہندوستان اور ہندوستانیوں کی مکمل غیر جانبداری سے عکاسی کی ہے۔ ()۳۸
سارہ سلہری) (Sara Suleriنے اس ناول کو ’’جنسی تناظر ‘‘میں دیکھا ہے۔
()۳۹
)(Penelope Petherنے ناول کا سوانحی پس منظر میں جائزہ لیا ہے۔
)(Benita Parryنے اس ناول میں ’’مقامی آبادی کی نمائندگی کو نو آبادیاتی سیاق ‘‘میں
دیکھا ہے ()۴۰
محمد ایوب ججہ کا موقف ہے کہ فاسٹر ایک نو آبادیاتی ذہن رکھنے واال ،احساس برتری
اور تفاخر کا شکار ایسا برطانوی ناول نگار ہے جس کا رویہ ہندوستان اور ہندوستانیوں
کو بیان کرنے میں بہت تحقیر آمیز ہے ،اس ناول میں محض ہندوستانیوں کی کمتری اور
انگریزوں کی برتری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے۔ ()۴۱
ڈاکٹر احسن فاروقی ،تاریخ ادب انگریزی میں رقم طراز ہیں:
’’اے پیسج ٹو انڈیا " "A Passage to Indiaمیں فاسٹر نے ہندوستان میں انگریزوں
کی عملداری کا بڑا سچا اور غیر جانبدارانہ نقشہ کھینچا ہے‘‘۔ ()۴۲
)(R.J Craneکے مطابق ناول میں فاسٹر نے سیاست سے دامن بچا کر رکھا ہے۔
()۴۳
)(Karl & Magalanerکے مطابق ’’ :ناول محض افسانوی سفر نامہ نہیں بلکہ حقیقی
ہندوستان کا اظہار یہ ہے ‘‘۔
)More than a fictional travelogue, a kind of inside India. (44
)(Hubel Teresaہبل ٹیریسا کے خیال میں فاسٹر جدید انڈیا کا سب سے بہتر برطانوی
ترجمان ہے وہ لکھتے ہیں:
A social and historical document an exact depiction of the mood
which characterized the Anglo Indian/ Indian relationship in the
)early 1920s. (45
’’ایک سماجی اور تاریخی دستاویز۔۔۔ جو کہ 1920کے اوائل میں اینگلو انڈین تعلقات کی
درست عکاس ہے ۔‘‘
ای ایم فاسٹر ) (E. M. Forsterکے ناول " "A Passage to Indiaکا
عنوان امریکی شاعر وہٹمین ) (Whitmanکی نظم " "Passage to Indiaسے
ماخوذ ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہٹمین نے یہ نظم اس وقت لکھی جب وہ تہذیب کی
مزید فتوحات کے بارے میں رجائیت کا اظہار کر رہے تھے کہ سوئز کینال (Suez
) Canalکھولنے اور امریکہ تک بذریعہ ریل رسائی حاصل ہونے کے بعد وہ اس امر
کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی مادی کامیابیوں کو نئے راستوں کے
ذریعے یا روح کے سفر کے ذریعے غیر واضح عالقوں تک رسائی ہو جیسے کہ
ہندوستان ان ابتدائی سیاحوں کے لیے تھا جیسا کہ واسکوڈے گاما (Vasco de
)Gama۔
!Passage O Sould to India
)Eclaircise the myths Asiatic, The primitive fables (46
RUDYARD KIPLING
)"KIM" (1901
رڈیارڈ کیپلنگ ( ِکم )
رڈیارڈ کیپلنگ (۱۹۳۵ء۔۱۸۶۵ء) جس نے مشہور زمانہ اصطالح ’’سفیدفام نسل کا
بوجھ‘‘ (The White Man's Burden) 1899ء تخلیق کی تھی جو کہ در حقیقت
سپین/امریکی جنگ کے بعد امریکہ کے فلپائن پر قبضے کے خالف رد عمل تھا۔ ()۴۷
۱۸۶۵ء میں الہور میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی ہندوستانی بولنے لگا۔ بچپن کے
حاالت و واقعات کا ذکر وہ اپنی سوانح عمری( " "Something of Myselfبعد از
وفات شائع ہوئی) میں بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔ جیسے ایک واقعے کا ذکر
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اکیال تھا اور گہری گھاٹی عبور کر رہا تھا کہ
بڑے بڑے پر وں والی عجیب و غریب مخلوق نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں بہت خوفزدہ
ہوا اور وہاں سے بھاگ کھڑ اہوا ،بہت زیادہ رویامیرے والد نے اس سانحے کی منظر
کشی یوں منظوم انداز میں کی
There was a small boy in Bombay
Who once from w hen ran away.
When they said: You're a baby,
He replied: Well, I may be:
)But I don't like these hens of Bombay (48
’’بمبئی میں ایک چھوٹا بچہ رہتا تھا۔
جو ایک مرغی سے ڈر بھاگا
جب انہوں نے کہا ،تم ایک بچے ہو
اس نے کہا ،اچھا ،ایسا ہی ہے
لیکن مجھے بمبئی کی یہ مرغیاں پسند نہیں ہیں۔‘‘
اس سے مجھے بہت تسلی ہوئی اور میں نے اس کے بعد ان مرغیوں کے بارے
میں اچھا سوچا۔
چھ سال کی عمر میں وہ اور اس کی بہن سکول میں پڑھنے کے لیے انگلینڈ
بھجوائے گئے جہاں نوآبادیاتی حکام کے بچوں کے لیے کھولے گئے ایک کم تر درجے
اعلی
ٰ کے پبلک سکول یونائیٹڈ سروسز کالج ویسٹ ورڈ ہو میں اسے داخلہ مال۔ کیوں کہ
حکام کے بچوں کے لیے ایک اچھا سکول ہیلے بری موجود تھا۔ ابتدائی عمر میں ہی
اسے اس طرح کے امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے اثرات اس کے ذہن پر پڑے۔ وہ
۱۸۸۲ء میں واپس ہندوستان آیا۔ اس کا خاندان ہندوستان میں ہی قیام پذیر تھا۔ اس نے بھی
سات سال تک یہیں قیام کیا۔ پہلے دی سول ملٹری گزٹ "The Civil Military
"Guezzetteمیں اور اس کے بعد اس نے دی پائینیئر" "The Pioneerمیں بطور
ایڈیٹر کام کیا۔
کیپلنگ کی زندگی دلچسپ و عجیب واقعات کا مرقع ہے۔ اس کا بیٹا پہلی جنگ
عظیم (st World War) 1میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کیوں کہ اس کی نظر
کمزور تھی مگر سفارش کی بنا پر بھرتی ہو گیا تھا۔ اور کیپلنگ اس کی موت کا ذمہ
داربھی خود کو گردانتا تھا۔ اس نے" "Epitaph of the Warلکھی۔ جس میں وہ لکھتے
ہیں کہ
’’اگر کوئی سوال کرے کہ ہم کیوں مرے؟
تو انہیں بتائو کہ ہمارے بزرگوں نے جھوٹ بوال تھا‘‘
اپنی ایک اور نظم’’ مردہ سیاست دان‘‘ میں لکھا:
’’نہ محنت کا یارا تھا نہ ڈاکے کی جرأت
سو لوگوں کے خوش کرنے کو جھوٹ بوال
اب کہ سب جھوٹ کھل چکے
اور مجھے اپنے مقتولوں کا سامنا ہے
اب کون سی کہانی کہوں کہ فریب خوردہ بچوں کی تسلی ہو‘‘ ()۴۹
کیپلنگ کا تعلق برطانوی حکمران خاندان سے تھا۔ وہ برطانیہ کے وزیر اعظم
سٹینلے بالڈون ) (Stanley Baldwinکا رشتہ دار تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی
اموات کے بارے میں ملکہ وکٹوریہ کے آخری دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا
اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’اوہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب‘‘
ان کے اجرتی بھانڈ چالئے
مگر میں نے غور سے دیکھا
اس خلیج پر بنے پل کو
اور مشرق پر گولے برساتی توپوں کو
اور انہیں مانجھنے والے سپاہیوں کو
اور مشرق سے مغرب کو آتی
خون میں لتھڑی چائے اورجنگ میں خونم خون سونا‘‘
کیپلنگ ۱۸۸۹ء میں ہندوستان کو خیر باد کہہ کر برطانیہ روانہ ہوا۔ بعد میں وہ
کچھ عرصہ امریکہ میں مقیم رہا مگر ۱۹۰۰ء کے بعد انگلینڈ میں مستقل اقامت پذیر ہوا۔
لیکن اس کی بقیہ تمام عمر ہندوستان کی یادوں کے ساتھ بسر ہوئی اور اس کا اثر اس کی
تمام تحریروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔" "Kimبیٹ مین کے مقام پر تحریر کیا گیا جہاں وہ
گوشہ شعرا ء
ٔ ۱۹۳۶ء تک مقیم رہا۔ ۱۹۳۶ء میں وفات ہوئی اور ویسٹ منسٹر ایبے کے
میں تدفین ہوئی۔ ۱۹۰۷ء میں نوبل انعام بھی وصول کیا۔ کیپلنگ کی اہم تحریروں کی
فہرست حسب ذیل ہے۔
چیدہ چیدہ ناولوں میں سے:
)The Light That Failed (1891 *
)Captain Courageous (1896 *
)Kim (1901 *
اس کے عالوہ شارٹ اسٹوریز اور شاعری کی کتب میں سے اہم یہ ہیں:
)The City of Dreadful Night (1885 *
)Departmental Ditties (1886 *
)Plain Tales from the Hills (1888 *
)Soldiers Three (1888 *
)The Story of the Gadsbys (1888 *
)In Black and White (1888 *
)Under the Deodars (1888 *
)The Phantom Rickshaw and other Eeric Tales (1888 *
)Wee Willie Winkie and other Child Stories (1888 *
)Life's Handicap (1891 *
American Notes (1891), Non-fiction *
Barrak - Room Ballads (1892), Poetry *
)Many Inventions (1893 *
)The Jungle Book (1894 *
)Rikki-Tikki Tavi (1894 *
The Second Jungle Book (1895) *
The Naulakha - A Story of West and East (1892) *
The Seven Seas (1896), Poetry *
The Day's Work (1898) *
A Fleet in Being (1898) *
Stalky & Co. (1899) *
From Sea to Sea - Letters of Travel (1899), Non-fiction *
The Five Nations (1903), Poetry *
Just so Stories for Little Children (1902) *
Puck of Pook's Hill (1906) *
The Brushwood Boy (1907) *
Actions and Reactions (1907) *
Rewards and Fairies (1910) *
A History of England (1911) *
Songs from Books (1912) *
As Easy as ABC (1912), Science fiction *
The Fringes of the Fleet (1915), Non-fiction *
Sea Warfare (1916), Non-fiction *
A Diversity of Creatures (1917) *
The Years between (1919), Poetry *
Lands and Seas Tales for Scouts and Guides (1923) *
Debits and Credits (1926) *
A Book of Words (1928), Non-fiction *
Thy Servant a Dog (1930) *
Tales of India: The Windermere Series (1935) *
بعد از وفات شائع ہوئیSomething of Myself (1937), Autobiography *
سوانح
( ‘‘ءKim) 1901 ( کا مشہور ناول ’’ ِکمRudyard Kipling) رڈیارڈ کیپلنگ
میں تحریر کیا گیا۔ یہ ناول کیپلنگ کے کیریئر کے مخصوص دور میں اس وقت تحریر
کیا گیا جب برطانوی حکمرانوں اور مقامی ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت
تبدیل ہو رہی تھی۔ کیپلنگ بنیادی طور پر اینگلو ہندوستانی صورت حال کی عکاسی میں
ایک مکمل غیر جانب دار کردار نہیں بلکہ ہمیں اس کی تحریروں میں اس جانب اشارے
بھی ملتے ہیں کہ صاحب ایک صاحب ہے اور دوستی یا کسی بھی قسم کا تعلق نسلی فرق
اور امتیاز کو کبھی نہیں مٹا سکتا نہ ہی اس خلیج کو ختم کر سکتا ہے جو انگریزوں اور
ہندوستانیوں کے درمیان حائل ہے۔
زیر تحقیق ناول’’ ِکم)‘‘ (Kimکے آغاز میں ہی الہور کے عجائب گھر کے سامنے
انارکلی بازار کے رخ پر سنگ مرمر کے چبوترے پر ایک بڑی سی زمزمہ توپ
)(Zam-Zammah Gunدکھائی جاتی ہے جسے آج کل انیسویں صدی کے اس
معروف برطانوی مصنف کے ناول ِکم کی وجہ سے ِکمز گن ) (Kim's Gunکے نام
سے بھی پکارا جاتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار کم بال اوہارا ) (Kimball O, Haraہندوستانی فوج کے
سارجنٹ کا یتیم بیٹا ہے۔ اس کی ماں بھی انگریز ہے۔ کم کا بچپن الہور کے گلی گوچوں
میں بسر ہوا اور اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ بعد میں اس کی مالقات ایک تبتی
الما ) (Tibetan Lamaسے ہوتی ہے جو کہ دریا کے کنارے اپنے گناہوں کو دھونے
کے لیے آیا ہوا ہے۔ کم اس کی شاگردی اختیار کر لیتا ہے اور اس کی ہمراہی میں پورے
ہندوستان کی سیر کرتا ہے۔ الہور کے عجائب گھر کا نگران ان کی مدد کرتا ہے۔ اسی
دوران کم برطانوی سیکرٹ ایجنسی کے لیے جاسوسی کے کام میں ملوث ہو جاتا ہے۔ بعد
میں کم کی مالقات گھوڑوں کے افغان تاجر محبوب علی سے ہوتی ہے جو کہ انگریزوں
کے لیے کام کرتا ہے۔ کم کرنل کریٹن ) (Creightonاور محبوب علی کے درمیان خفیہ
پیغام رسانی کا کام سرانجام دیتا ہے۔ کریٹن سے کم کی مالقات ہونے پر ہی یہ انکشاف
بھی ہوتا ہے کہ کم سفید فام نسل سے تعلق رکھنے واال لڑکا ہے نہ کہ مقامی ہے حاالنکہ
دیکھنے میں یعنی اپنی جسمانی شکل و شباہت میں مقامیوں جیسا ہی لگتا ہے۔
اس کے بعد کم کی مالقات دوسرے مرد کرداروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگرچہ
مرکزی کردار یہ دونوں ہیں یعنی کم ایک نوجوان اور الما ایک تبتی درویش۔ مگر یہ
دوسرے کردار ناول کی مرکزی حقیقت کو تشکیل دینے میں معاون ہوتے ہیں ان میں
محبو ب علی ،لرگان صاحب ،بابو ہوری ،مسٹر بینٹ اور فادر وکٹر شامل ہیں۔ ناول میں
نسوانی کرداروں کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں وہ بھی حقیر قسم کے اور قابل نفرت
کرداروں کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔
کم کے بارے میں جب یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ مقامی نہیں بلکہ ایک سفید فام
لڑکا ہے تو اس کی تعلیم کے لیے اس کو سینٹ ژاویئر ) (St. Xavierسکول میں داخل
کرایا جاتا ہے جہاں وہ تعلیم حاصل کرتا ہے اور چھٹیوں کے دوران بوڑھا اس نوجوان
کو ساتھ لے کر دوبارہ عازم سفر ہوتا ہے۔ ان دونوں کی مالقات اس دوران روسی
جاسوسوں کے ساتھ ہوتی ہے اور لڑکا ان کی کچھ دستاویزات چرا لیتا ہے۔ لیکن اس سے
پہلے ہی وہ لوگ بوڑھے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ سازش بے نقاب ہو جاتی ہے۔ اسی
دکھ کی کیفیت سے وہ دونوں بیمار پڑ جاتے ہیں۔ مگر کم کی شفائی خوبیوں کے ذریعے
ان کی صحت یابی ہوتی ہے اور وہ دھرتی ماتا کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں۔ ناول کے
اختتام پر بوڑھے کی طلسماتی گاڑی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور دونوں بے یار و مددگار
حالت میں گھومنے پھرنے لگتے ہیں مگر کم کی شفائی صالحیتوں کی وجہ سے بحالی ٔ
صحت کے بعد بوڑھے کو احساس ہوتا ہے کہ اسے کم کے ذریعے دریا مل گیا ہے جبکہ
ناول کے اختت ام پر کم برطانوی خفیہ سروس کے ’’عظیم کھیل‘‘ میں ایک کھالڑی کے
طور پر دوبارہ شمولیت اختیار کر لیتا ہے اور پھر کل وقتی طور پر برطانوی نوآبادیاتی
مالزمت اختیار کر لیتا ہے۔
بحیثیت مجموعی کم جمالیاتی اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے جس کا مطالعہ کیپلنگ
کو زبردست صالحیتوں واال مصنف ثابت کرتا ہے۔ اس ناول کو آج کے تناظر میں بھی
ایک تاریخی موڑ کی عظیم دستاویز کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے۔
جان ماسٹرز)JOHN MASTERS (1914-1983
بھوانی جنکشن
جان ماسٹرز ) ۲۶ (John Mastersاکتوبر ۱۹۱۴ء کو کلکتہ (انڈیا) میں پیدا
ہوئے۔وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جنہوں نے ہندوستان میں پانچ نسلوں تک
خدمات سرانجام دیں۔انہوں نے ولینگٹن) (Wellingtonاور سینڈ ہرسٹ )(Sand Hurst
میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ۱۹۳۴ء میں ہندوستان واپس آئے اور بطور آفیسر گورکھا رائیفلز
)(Gorkha Riflesمیں تعینات ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ روانہ
ہوئے۔ وہاں سے وہ عازم امریکہ ہوئے اور وہیں ۱۹۸۳ء میں وفا ت پائی۔
جان ماسٹرز ایک مابعد نوآبادیاتی بسیار نویس اینگلوانڈین ناول نگار ہیں جن کی
بیشتر تحسین اس بنا پر ہوئی کہ انہوں نے برطانوی عہد کے ہندوستان کی خاص طور پر
نقطہ نظر سے کی ٔ عکاسی اپنی تخلیقات میں کی ہے اور ہندوستان کی پروجیکشن اپنے
ہے۔ انہوں نے ناول نگاری کی ابتداء۱۹۵۱ء میں ""Night Runners of Bengalسے
کی جس میں ایک ایسے خاندان کا تذکرہ ہے جو کہ اپنے ظلم اور بربریت کی وجہ سے
مشہور ہوا۔ اس کے بعد "۱۹۵۲ ، "The Deceiversء میں تحریر کیا۔ اس کا موضوع
بھی ہندوستان ہے۔
"۱۹۵۳ ،"The Lotus and the Windء میں شائع ہوا۔ اور بھوانی جنکشن
"۱۹۵۴"Bhawani Junctionء میں منظر عام پر آیا۔ ان چاروں کو BBCریڈیو نے
کالسیکل سیریل کے تحت اکتوبر ۱۹۸۴ء سے جنوری ۱۹۸۵ء میں نشر کیا۔ اور "The
"Deceiversپر ۱۹۸۸ء میں فلم بنائی گئی۔"۱۹۵۵ ، "Cormandelء میں جب کہ
"۱۹۶۷ ،"Far, Far the Mountain Peakء میں تحریر کیا گیا۔ ان کے عالوہ بھی
کئی دوسرے ناول ہیں جو انہوں نے اپنے قیام امریکہ کے دوران لکھے۔ جہاں وہ ۱۹۴۹ء
کے بعد مقیم رہے ۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات بھی دو جلدوں میں تحریر کی۔ "Bugles
"۱۹۵۶ ،and a Tigerء میں اور"۱۹۶۱ ، "Road Past Mandalayء میں شائع
ہوئی۔
ــ’’بھوانی جنکشن‘‘ (۱۹۵۴ء) انگریزوں کی ہندوستان سے دستبرداری اور انتقال
اقتدار کے عہد تالطم خیز کے دوران تحریر کیا گیا اور اس میں اینگلو انڈین کمیونٹی کی
تصویر کشی کی گئی۔ جو کہ جدا ہونے والے برطانوی حکمرانوں سے اپنی وفاداری اور
اکثریتی ہندوستانی آبادی سے ہمدردی کے درمیان ایک کشمکش میں مبتال نظر آتے ہیں۔
اس ناول کو جان ماسٹرز نے اسی کمیونٹی کی نذر کیا ہے اس ناول کے بیشتر کردار
انڈین ریلوے سسٹم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس ناول کو چار بڑے حصوں اور چالیس
چھوٹے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ناول کے پہلے حصے میں پیٹرک ٹیلر)۳۶ ، (Patric Taylorبرس کے غیر شادہ
شدہ یوروایشین) ، (Euroasianدہلی دکن ریلوے کے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کے نان گزیٹڈ
آفیسر کے کردار سے متعارف کرایا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں وکٹوریہ جونز ) (Victoria Jonesکے کردار سے آگاہی
ملتی ہے جو کہ اٹھائیس برس کی غیر شادی شدہ یوروایشین دوشیزہ ہے اور دہلی دکن
ریلوے کے ڈرائیور تھامس جونز ) (Thomas Jonesکی بیٹی ہے۔
ناول کے تیسرے حصے میں رونی ) (Rodneyکا کردار متعارف کرایا جاتا ہے
جو کہ ۳۴برس کا کنوارہ لیفٹیننٹ کرنل ہے اور انڈین آرمی کی کمانڈنگ فرسٹ بٹالین
۱۳گورکھا رائفلز ) (Gorkha Riflesمیں تعینات رہا ہے۔
حصہ چہارم میں پیٹرک ) (Patrickکے کردار سے مالقات ہوتی ہے جو زیر
عتاب ہے اور اسے دہلی دکن ریلوے سروس سے برخاستگی کے لیے انضباطی
کارروائی کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔
’’ بھوانی جنکشن‘‘ میں جان ماسٹرز انڈین ریلوے سسٹم سے وابستہ اینگلو انڈین
کمیونٹی کی عکاسی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں جو کہ ان کے گہرے مشاہدے
کا ثمر ہے۔ در حقیقت یہ ا ینگلو انڈین کرداروں کی ذاتی شناخت کا ناول ہے۔ جس میں
برطانوی راج اور ہندوستانی معاشرے کی تصویر کشی بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ
تاریخ اور رومانس کا خوبصورت امتزاج بھی ملتا ہے۔ ناول کا اختتامی تاثر بھی
خوشگوار ہے۔
’’ بھوانی جنکشن‘‘ کی کہانی تاریخ اور رومان کے سنگم پر قاری کو اپنی گرفت
میں لے لیتی ہے۔ اس ناول میں بیشتر کردار انڈین ریلوے سسٹم سے منسلک ہیں۔ جان
ماسٹرز بڑی مہارت سے معاشرے میں رائج ذات پات کے نظام ،سیاسی تحریکات اور پر
تشدد کارروائیوں کا منظر نامہ قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ناول کا آغاز اس خب ر سے ہوتا ہے کہ ایک سامان بردار (مال) گاڑی کو ایک
تخریب کاری کی کارروائی کے نتیجے میں پٹڑی سے اتار دیا گیا ہے۔ اس طرح بنیادی
طور پر یہ کہانی تین کرداروں پیٹرک ٹیلر) ، (Patric Taylorوکٹوریا جونز (Victoria
)Jonesاور کرنل ساویج ) (Colonol Savageکے گرد گھومتی ہے۔ خاص طور پر
نقطہ نظر ہے جب کہ ٔ وکٹوریا کی اپنی شناخت کی تالش کا اضطراب ناول کا مرکزی
وکٹوریا کی یہ قابل رحم اور المناک صورتحال پوری اینگلو انڈین کمیونٹی کی ناگوار
صورت حال کی نمائندہ ہے۔ اس دور کے اینگلو انڈین طبقے کو جس قسم کی ذہنی
کشمکش ،تنائو اور مع اشرتی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اظہار وکٹوریہ
جونز کے بطور نمائندہ کردار کے کیا گیاہے۔
وکٹوریہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب برطانوی حکمران ہندوستان سے
رخصت ہو جائیں گے تو ان کے بغیر اینگلو انڈینز کا وجود بھی بے معنی اور بے حقیقت
ہو کر رہ جائ ے گا کیوں کہ درحقیقت وہ اب تک نہ تو برطانیہ کا حصہ رہے ہیں اور نہ
ہی ہندوستان کا جزو الینفک ہی بن سکے ہیں۔ اب ان کے لیے انڈیا کو تسلیم کرنے اور
ہندوستانی ثقافت کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے وہ ہندوستانی کلچر،
اعتقادات و نظریات کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے مگر اسے اس وجہ سے
ناکامی ہوتی ہے کیوں کہ اس کا ذہن بچپن ہی سے برطانوی خیاالت و اعتقادات کو قبول
اور جذب کر چکا ہے۔ اس ناول سے ہمیں برطانوی افسروں کے اس رحجان طبع کا
اندازہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ وہ ان یوروایشین خواتین کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ
سمجھتے ہیں۔ اسی رویے کا اظہار گراہم میکالے) (Graham Macaulayکے ذریعے
بھی ہوتا ہے جو کہ وکٹوریا کے ساتھ دو مرتبہ زیادتی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس ناول کے دوسرے کرداروں میں گووندا سوامی ) (Govinda Swamiجو کہ
بھوانی جنکشن کے کلیکٹر ہیں جب کہ سورا بھائی ) (Sura Bhaiکانگریس کے مقامی
یونٹ کے سربراہ ہیں اور سردارنی ) (Sirdariniرنجیت سنگھ کی والدہ ہیں جو کہ
ریلوے کا آفیسر ہے۔یہ تمام کردار مل کر ناول کے بیانیے کو بڑا پرزور اور ٔ
موثر بناتے
ہیں۔ یہ سردارنی کا ہی کردار ہے جو کہ وکٹوریہ کو معاشرے میں اپنی شناخت کی تالش
میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سردارنی کے مطابق تمام ہندوستانی عوام برطانوی حکمرانوں
کے لیے ایک محکوم زیر انداز مخلوق ہیں اس لیے وہ ان کی حاکمیت کے خالف آواز
بلند کرتی ہے اور ہندوستانیوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے اکساتی ہے اور اپنے
مقام کو پہچاننے پر زور دیتی ہے۔
اس ناول کا سب سے اہم اور مرکزی واقعہ تین کرداروں کرنل ساوج ،وکٹوریہ
جونز اور پیٹرک ٹیلر کی محبت کی تکون ہے۔ اپنی اس ثقافتی شناخت کی تالش مسلسل
کے دوران وہ ان تینوں کرداروں جن میں ) (Savageایک انگریزTaylor ،ایک اینگلو
انڈین اور رنجیت سنگھ ایک ہندو ستانی ہے سے محبت میں گرفتار ہوتی ہے۔ اور ناول کی
ہیروئین کا انہیدو انتہائوں اور دو متضاد ومخالف دنیائوں کے درمیان ذہنی کشمکش کا
سفر ہے جس کو جان ماسٹرز نے انتہائی مہارت اور مشاقی کے ساتھ زیر تحقیق ناول
میں اجاگر کیا ہے اس سارے قصے میں وکٹوریہ محسوس کرتی ہے کہ اگرچہ اس کی
اپنی محبت کی کیفیت تغیر و تبدل پذیر ہے مگر اس کو سچی محبت نہ تو انگریز سے
اور نہ ہی ہندوستانی سے ملی ہے بلکہ وہ اینگلو انڈین کردار ہی تھا جس نے اس کے
لمحہ اظہار ہے جس میں حقیقت کا انکشاف ٔ ساتھ صحیح نباہ کی کوشش کی۔ اور یہی وہ
نہ صرف وکٹوریا پر ہوتا ہے بلکہ قاری پر بھی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ اور اسی
ہیروئن کے کردار کے ذریعے جان ماسٹرز اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اینگلو انڈین
نسل کے افراد جو کہ دوغلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنا مقام کسی ملک کے جزو
کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں قائم کر سکتے ہیں۔
’’ بھوانی جنکشن‘‘ تاریخ اور فکشن کا خوبصورت امتزاج ہے جو کہ جان ماسٹرز
کے انڈین آرمی میں گزارے ہوئے سالوں کے ذاتی مشاہدات و تجربات کا نچوڑ بھی ہے۔
برطانوی راج کے دوران ہندوستان کی صحیح صورت حال کی عکاسی بھی اسی تجربے
کی مرہون منت ہے اینگلو انڈین طبقے کی عکاسی کرتے ہوئے جان ماسٹرز انہیں یہ
مشورہ بھی دیتا ہے کہ وہ خود کو انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ اپنی قسمت اور
مقدر کے خود خالق بنیں۔ ناول کے اختتامی حصے میں بھی مصنف نے اینگلو انڈینز کی
گومگو ئی کیفیت اور ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ وکٹوریا کی دم توڑتی محبت اور
اپنی شناخت کی بازیافت کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
حوالہ جات
)G.M. Travelyan, History of England, O.M. 1952...P )(1
قاسمی ،ابوالکالم ،نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی () ۲
،مشمولہ یادگارنامہ قاضی عبدالودود ،مرتبین:پروفیسر نذیر احمد ،پروفیسر مختارالدین
،پروفیسر شریف حسین قاسمی ،غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ،س ن ،ص ۲۱۸
(مبارک علی ،ڈاکٹر ،آخری عہد کا مغلیہ ہندوستان ،تاریخ پبلی کیشنز، () ۳
مزنگ الہور ۲۰۱۲ء ص )۱۳۱
جیالنی کامران ،انگریزی زبان اور ادب کی تدریس میں قومی زبان کا () ۴
کردار ،مقتدرہ قومی زبان ،اسالم آباد ،۱۹۸۵ص ۱۸
عابد حسین ،ڈاکٹر قومی تہذیب کا مسئلہ ،انجمن ترقی اردو ،علی گڑھ، () ۵
۱۹۵۵ء ،ص ۱۵۹
عابد حسین ،ڈاکٹر ،قومی تہذیب کا مسئلہ ،انجمن ترقی اردو ،علی گڑھ ، () ۶
۱۹۵۵ء ص ۱۶۱
گستائولی بان ،تمدن ہند ،مترجم ،سید علی بلگرامی ،مطبع شمس آگرہ، () ۷
۱۹۱۳ء ص۵۱۶
ت بیضا پر ایک عمرانی نظر ،مرغوب ایجنسی الہور اقبال ،ڈاکٹر ،مل ِ () ۸
۱۹۷۰ء ص ۳۹
Singh , Bhupal, A survey of Anglo- Indian fiction) , (9)
London:
M. K. Naik, Mirror on the Wall; Image of India and (10)
Englishmen in Anglo Indian Fiction, New Dehli, Sterling Publisher
Ltd, 1991, p:3)
Sharpe Jenny, Allegories of Empire, Minneapoles: university (11)
of Minnesota press, 1993, P: 165)
Burgess, Anthony , The Novel Now, Curzon Press ,1934, (12)
P:16
The Real Major Goldon, Calcuta Reviews, 1891,P:20) (13)
Confessions of a Thug, P:264) (14)
Singh Bhupal, A survey of Anglo-Indian Literature p:50 (15)
Arnold. W.D, Oxdfield, vol, 1, P:80) (16)
Singh Bhupal , A survey of Anglo- Indian Fiction, P:57) (17)
Dhar, Kiran Nath, Some Indian Novels, Calcutta Review (18)
1908, P:56
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo Indain Fiction, P: 82 (19)
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo-Indian Fiction, P: 90 (20)
Singh, Bhupal, A Survey of Anglo-Indian Fiction, P: 109 (21)
V.K Gokak, English in India, its Present and Future, New (22)
York: Asia Publication House, 1964)
M.K.Naik, A History of Indian English Literature, New Delhi: (23)
Sahitya Akademi, 1982)
Ram Sewak Singh,and charu sheel singh,eds. spectrum of (24)
history of Indian literature in English, New Delhi: Atlantic
Publishers 1997.
K.D. Verma, the Indian imagination: critical essays on Indian (25)
writings in English, New York: st. Martin press, 2001)
Prof. Dr. Santosh.S. Huse, An Introduction to Anglo-Indian (26)
literature, International ref. research Journal, Feb2012, ISSN-
0974-2832, RNI-Rajbil 2009/29954, vol.III)
ibid (27)
Naik, M.K, A History of Indian English Literature, P:10- (28)
11,29,35,106
۷ ص،۱۹۹۵ ، مقبول اکیڈمی الہور، آزادی سے پہلے، مترجم،) ستار طاہر۲۹(
ء۱۹۹۵ ، مقبول اکیڈمی الہور، مترجم ستار طاہر، حرف ِ اول،) آزادی سے پہلے۳۰(
، شیخ عطا ہللا ٹرسٹ، مکتبہ تعمیر انسانیت الہور، آواز دوست،) مختار مسعود۳۱(
۹۱ ص، ء۲۰۱۱ ، بیسواں ایڈیشن
۹۲ ص،ً) ایضا۳۲(
۹۲ ص،ً) ایضا۳۳(
۹۲ ص،ً) ایضا۳۴(
E.M. Forster, A passage to India, Editor's Introduction, (35)
Penguime Books Ltd. England, 1987, PP. 15)
My wood, reprinted in Abinger Harvest, 1926) (36)
Brenda R. Silver and Lyan A. Higins, Rape and (37)
Representation, Columbia University Press, 1991)
Singh. B.A Survey of Anglo Indian Fiction, Curzon Press Ltd. (38)
London, 1975)
(S. Suleri, The Rhetoric of English India, Penguine Books, (39)
Delhi 2005)
B. Parry, A Passage to India: Essays in Interpretation, (40)
London, 1985)
Jajja, M.Ayub, A Passage to India: The Colonial Discourse, (41)
Gomal University Journal of Research) eq (1) June 2013, p. 39
اسالم آباد،مقتدرہ قومی زبان، تاریخ ادب انگریزی، ڈاکٹر،) محمد احسن فاروقی۴۲(
۵۷۶ ص،ء۱۹۷۶
Crane, R.J. Inventing India: A History of India) in English (43)
Language Fiction. Hounds Mill, Macmillan, 1992)
Karl, Frederick & Marvin Mangalner. A reader's guide to (44)
Great 20th Century Novels, Thames & Hudson London, 1959)
Hubel Teresa 1996, whose India? The Independence )45)
Struggle in the British India Fiction and History. Durham, NC:
Duke University Press, 1996, pp. 85(
H. J. Oliver, The Art of E. M. Forster, Melbourne University (46)
Press, p:57
Take up the white man's burden sent forth the best ye bread (47)
go, bind your sons to exile to serve your captive" need. To wait in
heavy harness, on fluttered and will your new caught sullen
perhaps. Half devil and hald child.
)Something of Myself. A very young Person, P 865-78) (48
Chapter, I
)Conversation with Tariq Ali, Speaking of Empire & (49
Resistance: Davis Brasmine. Translator Arshed Razi. P: 104
باب سوم
ہند مسلم تہذیب کا منتخب انگریزی فکشن میں اظہار :تحقیقی مطالعہ
بحوالہ :ای ایم فاسٹر ۔ اے پیسج ٹو انڈیا
برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی ،سماجی ،مذہبی اور لسانی حوالے سے تاریخ میں
ایک خاص اہمیت ہے اس تہذیب کے دیر پا اثرات اس معاشرے کے رگ وپے میں
سرایت کرتے چلے گئے رسوم و رواج ،زبان و کالم اور ادب پر اس کے نقوش تاریخی
حوالے سے معتبر ٹھہرے۔ اس وقت اس تہذیب کے فروغ کے لیے اور اس کی نشونما
کے تین اہم ستون تھے۔ یعنی بادشاہ ،علما اور صوفیاء کرام۔ بادشاہوں نے اپنی فیاضی،
رنگین مزاجی اور فنون لطفیہ کے بے پناہ ذوق سے مقامی معاشرت کو چمن زار بنا دیا۔
علما نے حکومت کو اسالمی شرع کے مطابق ڈھالنے میں مشیر کا کردار ادا کیا۔ جبکہ
صوفیائے کرام نے بادشاہوں کو حتی االمکان را ِہ راست پر رکھا۔ ان صوفیا کا مذہب
انسان دوستی تھا۔ یہ مذہبی معامالت میں متشدد نہیں تھے بلکہ رواداری کا درس دیتے
تھے۔
ای۔ ایم فاسٹر نے ہند مسلم تہذیب کی عکاسی اپنے ناول میں کس طرح کی اس کا
صحیح جائزہ لینے کے لیے تہذیب کے مختلف عناصر کا تجزیہ کیا جائے گا اور دیکھا
جائے گا کہ فاسٹر نے اپنے ناول میں کس طرح سے اظہار کیا ہے۔
کسی بھی تہذیب کی تمدنی ترقی کا اندازہ کرنے کے لیے ماہرین اس تہذیب کے فنون
لطیفہ کو بہترین معیار قرار دیتے ہیں۔ اور فن لطیفہ کا سب سے بڑا مظہر اکثر تہذیبوں
میں فن تعمیر کی صورت میں ہی سامنے آیا ہے اسالمی ذوق میں جس نے فن تعمیر کی
مختلف روایتوں سے ماخوذ عناصر کو اسالمی فن تعمیر کے مخصوص سانچے میں ڈھاال
اور اسالم کی جمالی حسیّت کا زیادہ بڑ ے پیمانے پر اظہار ہوا اور اسالمی فن تعمیر کی
نمایاں پہچان بن گیا۔ خاص طور پر مسجد ہند مسلم تہذیب کی روح کا ایک بڑا مظہر بن
گیا۔
ناول ) (A passage to Indiaمیں ہند مسلم تہذیب کے اظہار کا پہال موقع ہمیں اس
ب اسالمی کی کے سب سے عظیم مظہر مسجد کی عکاسی میں ملتا ہے ۔ مسجد تہذی ِ
بنیادی عالمت ہے۔ فاسٹر کے ناول کی ابتدائی سطور میں ہی ڈاکٹر عزیز کے مسجد کی
پسندیدگی کے جذبات کا اظہار کچھ یوں ملتا ہے۔
He had always liked this mosque. It was gracious and the
)arrangement pleased him. (1
’’اسے ہمیشہ سے یہ مسجد پسند تھی۔ یہ بڑی شاندار تھی اور اس کا طرز ِ تعمیر،
انتظامات اُسے فرحت بخشتے تھے۔ ‘‘
تعالی کے اسمائےٰ اس کے بعد چاندانی رات کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے ہللا
ٰ
حسنی کا ذکر بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے۔
... The front in full moon light had the appearance of marble, and
the ninety nine n names of God on the frieze stored out black, as
the frieze stood out white against hte sky. The contrast between
this dualism and the contention of shadows within pleased Aziz.
)(2
تعالی کے ۹۹ٰ ’’ چاندنی میں اس مسجد کے سامنے کا حصہ روشن تھا۔ سنگ مرمر پر ہللا
حسنی نظر آتے تھے۔ سیاہ حروف میں لکھے ہوئے یہ نام ایسے دکھائی دیتے ٰ اسمائے
تھے جیسے سفید آسمان پر سیاہ بادل تیر رہے ہوں۔ اس کا یہ سفید اور سیاہ رنگوں کا
تضاد عزیز کو ان پھیلے ہوئے سایوں کی شکل میں بہت خوش گوار محسوس ہوا۔‘‘
آگے بڑھتے ہیں تو عزیز کی زبانی مسجد اور مندر کے اثرات کا ذکر ملتا ہے کہ مسجد
کے اندر پہنچ کر عزیز کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفوظ پناہ گاہ میں
پہنچ گیا ہے اور اُسے ایسا دلی سکون اور طمانیت قلبی میسر آتی ہے جو کہیں اور نہیں
مل سکتی ۔ زیر نظر سطور میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
مسجد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے:
The temple of another creed, Hindu, Christian or Greek, would
have bored him and failed to awaken his sense of beauty. Here
was Islam, his own country, more than a faith, more than a battle
cry, more, much more... Islam, an attitude towards life both
exquisite and durable, where his body and his thoughts found
)their home. (3
’’ کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ جیسے ہندوں کا مندر ہو یا عیسائیوں یا یونانیوں
کے گرجا گھر ،وہ اسے بور کرتے تھے۔ اور اس کے اندر احساس ِجمال بیدار کرنے
میں ناکام رہتے تھے۔ مگر یہ مسجد اس کے اپنے ملک اور مذہب اسالم کی مظہر تھی۔
اعالن حرب سے بڑھ کر تھی۔ بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ ِ اور یہ اس کی ایمانیات اور
اسالم اس کے لیے ایسا طرز حیات تھا۔ جو موزوں بھی تھا اور پائیدار بھی ۔ جہاں اس کا
جسم اور خیاالت و احساسات دونوں ہی پر سکون رہتے تھے۔‘‘
عزیز کی دلی خواہش کو فاسٹر نے کچھ یوں قلم بند کیا ہے۔
Some day he too would build a mosque, smaller than this but in
perfect taste, so that all who passed by should expeirence the
happiness he felt now. And near it, under a low dome, should be
his tomb, with a passion inscription. Alas, without me for
thousands of years. The rose will blossom and the spring will
bloom, But those who have secretly understand my heart, They
)will approach and visit the grave where I lie.(4
’’ کسی روز وہ خود بھی ایک مسجد تعمیر کرائے گا ،جو اس مسجد سے چھوٹی ہو گی
مگر ہر لحاظ سے مکمل ۔ تاکہ اس کے قریب سے گزرنے واال ہر شخص ایسی ہی
روحانی مسرت حاصل کرنے کا تجربہ کرے جو کہ اس وقت خود اسے حاصل ہوا۔ اور
اس کے نزدیک ،ایک چھوٹے سے گنبد کے نیچے ،اس کی قبر ہو گی جس کے کتبے پر
فارسی اشعار کندہ ہوں گے۔‘‘
افسوس! ہزاروں برس تک میرے بغیر بھی
بہار آئے گی اور گالب کھلیں گے
مگر وہ جو میرے قلبی احساسات کو سمجھ لیں گے
وہ میری قبر پر زیارت کے لیے ضرور آئیں گے
نا ول کی ابتدائی سطور میں بیان کردہ مسجد کے منظر کے بارے میں جہاں مسز مور اور
عزیز پہلی مرتبہ ملے ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے Reuben A. Browerرقم طراز
ہیں:
The mosque comes to symbolize. The possibility of a
communication between Britans and Indians, and more generally
the possibility of understanding relationships between any two
)persons. (5
’’ مسجد انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان باہمی مراسلت و مواصلت کے امکانات کی
عالمت کے طور پر سامنے آتی ہے اور خاص طور پر دو اشخاص کے درمیان تعلقات
کو سمجھنے کے ممکنات ہیں۔‘‘
یعنی فاسٹر نے ایک انگریز اور ایک مسلمان کردار کے ذریعے اس امکان کی
نشاندہی کی ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جو دو مختلف نسلوں اور قوموں کے لوگوں
میں باہمی یگانگت و موانست پید اکر سکتی ہے۔ اس سے مسجد کی عظمت و تقدس کا
اظہار ہوتا ہے۔
اس کے بعد عزیز جب ایک انگریز خاتون کومسجد میں دیکھتا ہے تو وہ جذباتی ہو
جاتا ہے کہ یہ انگریز عورت ضرور جوتوں سمیت مسجد میں گھس آئی ہو گی۔ ایسے میں
کسی بھی مسلمان کا جذباتی ہو جانا ایک فطری امر ہے ۔ کیوں کہ مسجد مسلمانوں کے
نزدیک ایسی متبرک اور مقدس جگہ ہے جہاں پاک صاف ہو کر اور جوتے باہر اُتار کر
اندر داخل ہونا الزمی ہے۔ ایسے میں عزیز کا رویہ کیا ہے اور فاسٹر نے اس کو کیسے
بیان کیا ہے۔ اس کا اندازہ ذیل کی سطور میں اس مکالمے میں لگایا جا سکتا ہے۔
!Suddenly he was furiously angry and shouted: Madam! Madam
Madam! 'Oh! Oh! The women grasped.
Madam, This is a mosque, you have no right here at all. You
should have taken off your shoes; This is a holy place for
Muslems".
I have taken them off.
'?'You have
'I left them at the entrance.
)Then I ask your pardon'. (6
’’اچانک وہ طیش میں آگیا اور چیخا! محترمہ ،محترمہ ،محترمہ !
اوہ ! اوہ ! عورت گھبرا گئی۔
محترمہ یہ مسجد ہے ۔ آپ کو یہاں اس طرح داخل ہونے کا ہر گز کوئی حق حاصل نہیں
ہے۔ آپ کو جوتے باہر اُتارنے چاہئیں۔
یہ مسلمانوں کے لیے مقدس جگہ ہے۔
میں نے انھیں باہر ہی اُتار دیا ہے۔
کیا واقعی ؟
میں نے انھیں داخلی دروازے پر ہی اُتار دیا تھا۔
تب تو میں معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘
وہ انگریز عورت ہندوستان میں نوارد تھی مگر اسے ان آداب کا خیال تھا۔ ہمیں اس
مکالمے کے ذریعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فاسٹر نے عزیز کے کردارکے ذریعے اُس کے
جذب ات کی صحیح عکاسی کی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے لیے مسجد کا تقدس بہت اہمیت
کا حامل ہے۔ انگریز عورت گھبرا گئی۔ مگر صورت حال واضح ہونے پر عزیز نے
معافی مانگی۔ مگر انگریز عورت نے پھر بھی اجازت مانگی اور پوچھا کہ جوتے تو میں
نے پہلے ہی اُتار دئیے ہیں کیا اب مجھے مسجد دیکھنے کی اجازت ہے ،ایسی صورت
حال میں عزیز شرمندگی محسوس کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ
عورتیں اکثر جوتوں سمیت مسجد میں گھس آتی ہیں اور خاص طور پر اُس وقت جب
انہیں پتا ہو کہ کوئی آدمی انہیں دیکھ نہیں رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ جملہ بھی ایمانیات کا حصہ
ہے ’’کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے خدا تو دیکھ رہا ہے ‘‘کیوں کہ مسجد اُس کا گھر ہے۔
)That makes no difference. God is here. (7
بحیثیت مسلمان عزیز انگریز عورت کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بہت خوش ہوا
اور اس نے مسز مورکو مدد اور خدمت کی پیش بھی کی وہ اس انگریز خاتون سے بہت
متاثر دکھائی دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ میں اپنے دوستوں سے آپ کا تذکرہ کروں گا
اور اس بات کا بھی کہ خدا یہاں ہے۔
I shall tell our community my friends about you. That God is here -
)very good, very fine indeed. (8
اس کے بعد ڈاکٹر عزیز مسز مور کو اپنے بچوں کے اسالمی نام یعنی احمد ،کریم اور
جمیلہ کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کے بعد فاسٹر نے پھر مسجد کے حسن کی منظر کشی
کی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ حریت کا ذکر بھی اسی کے ساتھ کیا ہے۔
As he strolled downhill beneath the lovely moon, and again saw
the lovely mosque, he seemed to own the land as much as
anyone owned it. what did it matter if a fewflobly Hindus had
)preceded him there, and a few chilly English succeeded? (9
’’ جونہی وہ چہل قدمی کرتے ہوئے جا رہا تھا۔ نیچے پہاڑیوں میں پیارا چاند چمک رہا
تھا۔ اور اس نے دوبارہ خوبصورت مسجد کو دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ اس زمین کا
مالک بننا چاہتا تھا جیسا کہ کوئی بھی دوسرا شخص کیا ہوا؟ اگر کچھ سست ہندوں نے
اس زمین پر قبضہ کر لیا تھا یا کچھ خشک اور روکھے انگریز یہاں آکر قابض ہو گئے
تھے۔‘‘
(مترجم :مقالہ نگار)
مذکورہ باال سطور میں مسجد کے حسن کے ساتھ ساتھ انگریزوں اور ہندوئوں سے
آزادی کا جذبہ بھی عزیز کے دل میں نظر آتا ہے۔ اور وہ اس نوسٹلجیا کا ذکر بھی کرتا
ہے کہ ہمارے آبائو اجداد اس سرزمین پر حکمران تھے۔ کیا ہوا آج ہندو یا انگریز یہاں پر
قابض ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد جب رونی) (Ronnyاور ایڈیال کیوسٹڈ) (Adela Questedکے ساتھ مسز
مور کلب سے واپس جا رہی تھی ،اور اس کے ذہن پر روحوں اور مقدس اشیاء کے سائے
لہرا رہے تھے تو ایسے میں اُسے مسجد نظر آئی۔ اس کا ذکر فاسٹر نے ناول میں کچھ
اس انداز میں کیا ہے۔
When the mosque, long and domeless, gleamed at the turn of the
road, She exclained, O yes - that's where I got to - that's where
)I've been. (10
’’ جب ،موڑ کاٹتے ہوئے سڑک پر بڑی اور بے گنبد مسجد کی جھلک دکھائی دی تو وہ
چالئی ! اوہ یہی تو وہ مسجد ہے جہاں میں آئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں میں آچکی
ہوں۔‘‘
یعنی مسجد کے بارے میں اس کی یادیں نہایت خوش گوار ہیں۔ مسجد میں حاضری
اور مالقات کا احساس اسے فرحت بخش احساسات سے روشناس کراتا ہے اور وہ اس
مقدس جذبے سے سرشار بھی ہو جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس اُس کے بیٹے پر
جب اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی ماں کسی ہندوستانی سے ملی ہے اور وہ
ہندوستانی ایک مسلمان (عزیز ) تھا اور یہ مالقات مسجد میں ہوئی۔ وہ اس بات پر انتہائی
ناراض ہوتا ہے۔
!There upon the truth struck him, and he cried: Oh good gracious
Not a Mohammedan? Why ever didn't you tell me you'd been
)talking to a native?(11
اس بات نے رونی کو مشتعل کر دیا اور اسے یہ بات بہت بُری لگی کہ اس کی
ماں ایک دیسی اورمسلمان سے ملی ہے اور اس کے ساتھ بے تکلفی سے گفتگو بھی کی
ہے۔ اُس وقت وہ ایک سخت قسم کے انگریز افسرکے روپ میں سامنے آتا ہے اور اسے
ڈاکٹر عزیز کا یہ اقدام اُسے مشکوک بنا دیتا ہے کہ وہ رات کے اس پہر مسجد میں کیا
کر رہا تھا جب کہ اُن کی نماز کا وقت بھی نہیں تھا۔ برتری کے شدید جذبے اور احساس
کے ساتھ اُس نے اپنی ماں کے ساتھ جو گفتگو کی اُس سے اُس کی کچھ ذہنیت کا اندازہ
ہوتا ہے۔
He began to question here, He called to you in the mosque, did
he? How? impudently? What was he doing there himself at that
)time of night? No, it's not their prayer time. (12
’’اس نے پوچھنا شروع کر دیا۔ اُس نے مسجد میں آپ کو پکارا ۔ کیا ایسا ہی ہوا ؟ کتنا
گستاخ ہے ؟ اور وہ خود اس وقت مسجد میں کیا کر رہا تھا جب کہ اُن کی نماز کا وقت
بھی رات کے اس پہر نہیں ہوتا ‘‘۔
اور پھر وہ اپنی ماں کو سمجھاتا ہے کہ جب اُس نے آپ کو پکارا تو آپ کو جواب ہی
نہیں دینا چاہیے تھا۔ اور وہ اپنی ماں کو سا تھ ہی یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ تمہیں مسجد
میں جوتوں سمیت داخل ہونا چاہیے تھا۔
)I wish you had had them on. (13
اس گفتگو سے مسز مور کے کردار کے ذریعے فاسٹر مسجد کے بارے میں تکریم کے
رویے کا اظہار کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس رونی کے کردار کے ذریعے اظہار
نفرت ،اس کے خیال میں کوئی مسلمان بغیر نماز کے اوقات کے مسجد میں داخل نہیں ہو
سکتا اور کسی انگریز کو مسجد میں داخلے کے لیے جوتے اتارنے کی کوئی ضرورت
نہیں اور اگر اس کی ماں نے ایسا کیا ہے تو اس نے منافقت کی ہے۔ جبکہ ایڈال کیوسٹڈ
اُس کو منطقی اندا زمیں یہ مثال دے کر سمجھاتی ہے کہ ’’جب کوئی مسلمان گرجے میں
ٹوپی پہنے چال جائے اور تم اسے پکارو تو کیا وہ جواب ہی نہیں دے گا اور اس سے
بڑھ کر کیا وہ چرچ میں سر پر رکھی ہوئی ٹوپی اتارنے سے انکار کر دے گا ‘‘۔
مگر وہ جوابا ً اُس سے کہتا ہے کہ یہ دونوں مختلف باتیں ہیں۔ یعنی اس کے خیال میں
گرجا گھر تو مقدس ہے جہاں ہیٹ پہن کر داخل ہونا خالف تہذیب ہے۔ مگر مسجد میں
جوتے پہن کر داخل ہونے سے نہ مسجد کے تقدس پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کسی کی
دل آزاری ،کیوں کہ یہ ہندوستانی مسلمان ہمارے محکوم ہیں۔
اس کے بعد ناول میں پھر مسجد کا ذکر آتا ہے جب ڈاکٹر عزیز مسز مور کو مسجد کی
اور مسجد کے تاالب کے پانی اور اس خوبصورت منظر کی یاد دالتا ہے ۔
You remember the water by our mosque? It comes down and fills
this tank - a skilful arrangement of the Emperrors. They stopped
here going down into Bengal. They loved water. Wherever they
)went they created fountains, gardens, hammams. (14
’’کیا آپ کو ہماری مسجد واال پانی یاد ہے ؟ یہ زیر زمین سے آتا ہے اور حوض کو بھر
دیتا ہے۔ بادشاہوں کی طرف سے یہ بڑا ماہرانہ انتظام تھا۔ انہوں نے اسے نیچے بنگال
میں داخل ہونے سے روکا۔ انہیں پانی سے بہت محبت تھی۔ جہاں کہیں بھی وہ گئے انھوں
نے فوارے بنوائے ،باغات لگوائے اور حمام تعمیر کروائے۔‘‘
اس کے عالوہ فاسٹر نے اذان اور نماز کی جزئیات و تفصیالت بھی سپرد قلم کی
ہیں مغرب کی دوربین نگاہ نے ان تمام چیزوں کا کیمرے کے محدب عدسے کی طرح
ایسے معائنہ اور مشاہدہ کیا ہے کہ جیسے کوئی بغیر دیکھے بھی سب کچھ دیکھ لے ۔
کھلے میدانوں کے اندر ادا کی جانے والی پانچ وقت کی نمازوں کا مشاہدہ بھی خوب کیا
گیا۔
Now it was sunset. A few of his co-religionists had come to the
)Maidan, and were praying with their faces towards Mecca. (15
’’اب غروب آفتاب کا وقت ہو چکا تھا۔ عزیز کے ساتھ اس کے چند ہم مذہب میدان میں
آچکے تھے اور اپنے چہرے مکہ کی طرف کرکے نماز ادا کر رہے تھے۔‘‘
اسالمی تمدن کے ایک اور مظہر ’’پردے‘‘ کا جائزہ بھی اس ناول کے اقتباسات
کے ذریعے پیش کرنا ضروری ہے کیونکہ ہند مسلم تہذیب میں عورت کی عصمت و
پاکیزگی کی حفاظت کے لیے پردہ کے اصولوں کو عمل میں الیا گیا۔ اسالمی تعلیمات اور
معاشرت میں پردہ کو جتنا ضروری سمجھا گیا ہے اور اسی قدر دوسرے طبقے کے
لوگوں نے اس کے خالف پراپیگنڈہ بھی کیا ہے اور بعض لوگوں نے تو دماغی عدم
توازن کے سبب پردے کو جہالت کا دوسرا نام سمجھ لیاہے۔ حاالنکہ پردہ چھوڑنا کوئی
طلسم نہیں ہے جسے عمل میں النے سے عورت فورا ً عالمہ ،فاضلہ بن جاتی ہے یا کہ
پردہ اس کی دوسری دنیاوی ترقی میں بالوجہ رکاوٹ ہے نہ ہی یہ پردہ عورت کومجلسی
زندگی سے محروم کرتا ہے۔
اس ناول کے ابتدائی صفحات میں ہی جب ہندوستانی خواتین کا ذکر ہوتا ہے تو اس
کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی مخلوق ہے جو پردے کے پیچھے چھپے رہنے
سے تمام دنیا سے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے اور اس کے بارے میں کوئی بات کرنا یا
رائے دینا بے کار سی بات ہے۔
.... that few Mohammedans and no Hindus would eat at an
English mans's table, and that all Indian ladies were in
)impenetrable purda. (16
’’ کہ صرف چند مسلمان اور ہندو اس قابل تھے جو کہ انگریزی میز پر کھانا کھا
سکتے تھے اور یہ کہ تمام ہندوستانی خواتین تو ایک ناقابل سرایت قسم کے پردے کے
پیچھے رہتی ہیں‘‘۔
عزیز کے کردار کو پیش کرتے ہوئے فاسٹرا س کے اپنی بیوی کے بارے میں
خیاالت کو جب بیان کرتا ہے تو وہاں بھی پردے کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ پردے میں
ہی رہی اوراس کا خاوند ایک ڈاکٹر تھا جو کہ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر
وہ اس کے ساتھ ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو چکی تھی جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پردہ
ذہنی ہم آہنگی میں رکاوٹ نہیں بنتا:
Touched by western feeling, he disliked union with a woman
whom he had never seen; moreover, when he did see her, she
disappointed him, and he begat his first child in mere animality.
The change began after its birth. He was won by lover for him, by
a loyalty that implied something more than submission, and by
her efforts to educate herself against that lifting of the purdah that
would come in the next generation if not in theirs. She was
)intelligent, yet had old-fashioned grace. (17
’’ مغربی خیاالت سے متاثر ہونے کے باوجود ،وہ کسی ایسی عورت سے بندھن کا قائل نہ
تھا جس کا اس نے پ ہلے کبھی دیدار نہ کیا ہو۔ عالوہ ازیں جب اس نے اسے دیکھا تواس
نے اسے مایوس ہی کیا۔ (پسند نہ آئی) پہلے بچے کی پیدائش تک ان کے تعلقات یونہی
سے رہے مگر اس کے بعد تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ یعنی اس نے اپنی محبت اور وفاداری
سے عزیز کا دل جیت لیا۔ اگرچہ وہ پردے میں رہی لیکن اس نے اپنی کعششوں سے تعلیم
حاصل کی۔ جو کہ شاید ان کی اگلی نسلوں کا مقدر بنے۔ وہ ذہین تھی مگر پرانی وضع
قطع رکھنے والی خاتون تھی۔‘‘
مگر اس کے ساتھ ساتھ عورت کی توہم پرستی کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے:
But I fear she will be uneducated, I fear she will be superstitious.
Indeed, how could she be otherwise? What opportunity of
education has such a lady had? Oh, superstition is terrible,
)terrible! oh, it is the great defect in our Indian character! (18
’’ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ وہ عورت غیر تعلیم یافتہ ہوگی اور مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ
وہ توہم پرست بھی ہو گی بال شبہ وہ اس کے عالوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس طرح کی
خاتون کو تعلیم کے کیا مواقع مل سکتے ہیں؟ اوہ ،توہم پرستی بہت ہی خوفناک چیز ہے
اور یہ ہمارے ہندوستانی کردار میں سب سے بڑا نقص ہے‘‘۔
پھر عزیز جب فیلڈنگ ) (Fieldingکو اپنی مرحومہ بیوی کی تصویر دکھاتا ہے
تو ان کی آپس میں گفتگو بھی ہوتی ہے۔ جب فیلڈنگ عزیز سے کہتا ہے کہ تمہاری بیوی
کی تصویر میں نے تمہاری اجازت کے ساتھ دیکھی ہے اور اگر تم اس کی اجازت نہ
دیتے تو میں ہر گز ایسے نہ کرتا۔ اس موقع پر عزیز پردے کے بارے میں اپنے خیاالت
کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے۔
"?You would have allowed me to see her
"Why not? I believe in the purdah, but I should have told her you
were my brother, and she would have seen you. Hamidullah saw
"her, and several others.
"?"Did she think they were your brothers
"Of course not, but the word exists and is convenient. All men are
my brothers, and as soon as one behaves as such he may see
"my wife.
"And when the whole world behaves as such, there will be no
)more purdah? (19
’’تم نے خود ہی مجھے اس کی تصویر دیکھنے کی اجازت دی تھی۔ ‘‘ کیوں نہیں؟
میں پردے پر یقین رکھتا ہوں مگر میں اسے یہ بتاتا کہ تم میرے بھائی ہو اور وہ تم سے
ضرور ملتی۔ حمیدہللا اور میرے کئی دوسرے دوست اس سے مل چکے تھے۔ کیا وہ بھی
ایسا سوچتی تھی کہ وہ تمھارے بھائی ہیں بال شبہ نہیں۔ مگر یہ لفظ موجود ہے اور بڑا ہی
موزوں ہے۔ تمام مرد میرے بھائی ہیں اور جب تک کسی شخص کا برتائو ایسا ہی ہے وہ
میری بیوی کو مل سکتا تھا۔ اور پھر جب تمام دنیا ایسے ہی برتائو کرے گی تو پھر
پردے کی کوئی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی‘‘۔
عزیز نے جب انگریز خواتین کو مارابار غار وں کی سیر کے لیے لے جانا چاہا
تو ان کے سفر سے پہلے ان کو بتایا کہ آپ پردے میں سفر کریں گی تو انہوں نے بھی ان
انتظامات پر اظہار ناپسندیدگی کیا۔
"?Did you know you are to travel purdah? Will you like that
)They replied that they should like it. (20
’’کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ باپردہ سفر کریں گی؟ کیا آپ اسے پسند کریں گی؟ انہوں
نے جواب دیا کہ انہیں یہ پسند ہے۔‘‘
ناول کے ایک اور اہم کردار حمید ہللا کے پردے کے بارے میں خیاالت سے بھی
ہم روشناس ہوتے ہیں جب وہ کہتا ہے کہ:
For fifteen years, my dear boy, have I argued with my begum, for
fifteen years, and never gained a point, yet the missionaries
)inform us our women are down-trodden. (21
’’ پچھلے پندرہ سالوں سے اپنی بیگم کو سمجھاتا رہا ہوں۔ اس کے باوجود مشنری
ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری عورتیں بہت ہی ستم رسیدہ ہیں۔
مگر پردے کے بارے میں عزیز کے تفصیلی خیاالت ناول کی آخری سطور میں
مترشح ہوتے ہیں جب وہ مشرقی عورت کا ذکر اپنی شاعری میں کرتا ہے۔
His poems were all on one topic--Oriental womanhood. "The
purdah must go," was their burden, "otherwise we shall never be
free." And he declared (fantastically) that India would not have
been conquered if women as well as men had fought at Plassy.
)"But we do not show our women to the foreigner. (22
’’اس کی تمام نظموں کا عنوان ایک ہی تھا۔ مشرقی نسوانیت! پردہ ختم ہونا چاہیے،
یہ ان کے لیے بوجھ تھا۔ ورنہ ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے اوراس نے عجیب انداز میں کہا
کہ ہندوستان کبھی بھی فتح نہ ہوتا اگر پالسی کے میدان میں مردوں کے ساتھ عورتیں
بھی لڑائی میں شریک ہوتیں ،لیکن ہم اپنی عورتوں کو غیر ملکیوں کے سامنے نہیں
التے‘‘۔
جب ذکر پردے اور عورت کا ہو تو ناول میں ایک جگہ ایک اور اہم موضوع کا
بھی ذکر ہے اور وہ ہے کثیراالزدواجی) (Polygamy۔ اسالم میں کثیر االزدواج
)(Polygamyکی اجازت ہے جب کہ ) (Polygandryچند شوئی یعنی ایک عورت
کے کئی مردوں سے جنسی تعلق کی ممانعت ہے۔ اسالم میں کثیراالزدواجی کی محض
اجازت ہے اس کا حکم نہیں ہے اور سب مسلمان کثیر االزدواجی کے حق میں واضح
فطرتی براہین سے واقف بھی ہیں مگر پھر بھی اگر کوئی آدمی ایک ہی بیوی کے ساتھ
اعلی ترین ازدواجی زندگی خیال کرتا ہے تو وہ بھی اچھا اور سچا مسلمان ٰ نباہ کرنے کو
ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ تمام مسلمان چار چار بیویاں رکھتے ہیں۔
کچھ اسی قسم کی کیفیت کاسامنا ڈاکٹر عزیز کو ایڈالکا شادی اور تع ّد ِد ازدواج کے
بارے میں سوال سن کر ہوتا ہے کہ ایک صدمے) (shockکی سی کیفیت سے دوچار ہوتا
ہے:
Wives--Mohammedans always insist on their full four, according
to Mrs. Turton. And having no one else to speak to on that eternal
rock, she gave rein to the subject of marriage and said in her
honest, decent, inquisitive way: "Have you one wife or more than
"?one
The question shocked the young man very much. It challenged a
new conviction of his community, and new convictions are more
sensitive than old. If she had said, "Do you worship one god or
several?" he would not have objected. But to ask an educated
!Indian Moslem how many wives he has--appalling, hideous
)(23
’’شاید اس آدمی (عزیز) کی کئی بیویاں ہوں۔ مسز ٹرٹن کے مطابق یہ محمڈن
(مسلمان) ہمیشہ چار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ امدراس (ایڈیال) نے دیانت دارانہ اور
خوش گوار لہجے میں پوچھا کیا تم بھی ایک بیوی رکھتے ہو یا ایک سے زائد؟ نوجوان
آدمی (عزیز) کو یہ سوال سن کر بہت صدمہ ہوا۔ اس سوال نے اس کی کمیونٹی کے ایمان
و ایقان کو چیلنج کیا۔ اور نئی رسمیات پرانی سے زیادہ نازک ہیں۔ اگر اس نے مجھ سے
یہ پوچھا ہوتا کہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہو یا زیادہ کی؟ تو اسے اس پر کوئی
اعتراض نہ ہوتا لیکن ایک تعلیم یافتہ انڈین مسلمان سے یہ سوال پوچھنا کہ اس کی کتنی
بیویاں ہیں تو یہ بہت زیادہ قابل نفرین ہے۔‘‘
ہند مسلم تہذیب ایسی شاندار اور جاندار تہذیب تھی جس کے دامن میں اسالم جیسے
توحید پسند مذہب کے موقی بھی تھے اور عملی و ثقافتی میراث بھی۔ جس نے معاشرے
کو اخالقی برائیوں سے پاک کیا ،عدل و احسان ،عجز و انکسار ،صداقت ،دیانت ،متانت،
سخاوت جیسے زیورات سے جسم انسانیت کو آراستہ کیا۔ مسجدیں ،مدرسے اور خانقاہیں
مسلمانوں کے کلچر کے مخصوص مراکز تھے۔ تہذیب اسالمی کا اہم ستون صوفیائے
کرام بھی تھے ج ن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مذہبی معامالت میں متشدد نہیں تھے ان
کا مذہب انسان دوستی تھا۔ ان کی خانقاہوں میں مساواتی اصول پر میل جول ہوتا تھا ان
خانقاہوں میں خدمت خلق ،تواضع ،انکسار ،مہمان نوازی اور بے غرضی کی تعلیم دی
جاتی تھی اس سے عام افراد کو تصفیہ قلب و تذکیہ نفس کے مواقع ملتے تھے۔ وہ عظیم
ہندوستان میں غیر مسلم اکثریت کے ساتھ صلح و سالم کے ساتھ نباہ کرتے تھے۔ اس کے
ساتھ ساتھ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ ہند مسلم تہذیب کا اپنا ایک اخالقی مزاج تھا۔
ای ایم فاسٹر) (E. M. Forsterنے اسی اخالقی مزاج کا تذکرہ اپنے ناول میں کیا
ٰلہذا اس امر کا جائزہ کیا جائے گا کہ اس ناول میں مسلمانوں کی عالی ظرفی ،فیاضی،
مہمان نوازی ،بے تکلفی اور محبت کے ساتھ ساتھ رواداری اور احترام آدمیت کے حوالے
سے اس ناول کے کردار کیا کہتے ہیں۔
ناول میں ہمیں ایک اہم کردار نواب صاحب کی زبانی مہمان نوازی کی اہمیت یوں
اجاگر ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے انگریز مہمانوں کو سیر کرانے کے لیے اپنی گاڑی پر
سوار کر اکر باہر لے جاتے ہیں تو وہاں حادثہ پیش آ تا ہے تو اس موقع پر نواب صاحب
کی زبانی یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں:
If I had been killed, what matter? it must happen sometime; but
they who trusted me" The company shuddered and invoked the
)mercy of God. (24
’’ اگر میں مارا جاتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا؟ یہ کسی روز ضرور واقعہ رونما ہوتا
مگر وہ جو میری ذمہ داری میں تھے (یعنی مہمان تھے) اسی خیال سے وہاں بیٹھے
ہوئے لوگ کانپ گئے اور خدا سے رحم کے طلب گار ہوئے‘‘۔
ان سطور سے ہمیں نواب صاحب کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی جان
سے زیادہ مہمانوں کی حفاظت مقدم تھی۔ اور اگر خدا نخواستہ انہیں کچھ ہو جاتا تو وہ
کسی کہ منہ دکھ انے کے قابل نہ رہتے اور اس ذمہ داری کو نباہتے ہوئے اگر ان کی جان
چلی جاتی تو وہ سرخرو ٹھہرتے۔ پھر ایک جگہ عزیز کے منہ سے مشرق کی مہمان
نوازی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اگرچہ وہ طنزیہ انداز میں یہ سب کہہ رہا ہے۔
)Here is the celebrated hospitality of the East (25
’’یہ دیکھیے مشرق کی مشہور و معروف مہمان نوازی‘‘
اس کے بعد عزیز جب دونوں خواتین کو سیر کے لیے لے جا رہا ہوتا ہے تو مسٹر
فیلڈنگ کو جب آنے میں تاخیر ہوئی اور ڈاکٹر عزیز نے پریشانی کا اظہار کیا ۔ اور مسز
مور نے اس کو تسلی دی۔ تو اس موقع پر اس کے جذبات سے بس ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ
وہ ان کی مہمان نوازی کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتا ہے۔
All the love for her he had felt at the mosque welled up again, the
fresher for forgetfulness. There was nothing he would not do for
)her. He would die to make her happy. (26
’’ اس عورت کے لیے وہ محبت جو مسجد میں بوقت مالقات اس کے لیے محسوس
کی تھی وہ دوبارہ بیدار ہوئی۔ وہ اس کے لیے سب کچھ کر سکتا تھا۔ اس کی خوشی کے
لیے وہ اپنی جان بھی وار دیتا‘‘۔
ذیل کی سطور میں ہمیں ای ایم فاسٹر عزیز کے کردار سے آگے بڑھتے ہوئے ہر
ہندوستانی کے بارے میں یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ تمام ہندوستانی فطرتا ً مہمان نواز ہیں
اور وہ اپنے مہمان کی خوشی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پھر مشرق کی روایتی مہمان
نوازی کا ذکر بھی سامنے آتا ہے۔
Hospitality had been achieved, they were "his" guests; his honour
was involved in their happiness, and any discomfort they endured
would tear his own soul.
Like most Orientals, Aziz overrated hospitality, mistaking it for
intimacy, and not seeing that it is tainted with the sense of
)possession. (27
’’ مہمان نوازی کا موقع حاصل ہو چکا تھا۔ اب وہ اس کے مہمان تھے۔ ان کی
خوشی میں ہی اس کی عزت کا راز مضمر تھا۔ اور ان کے لیے کسی طرح کی بھی بے
آرامی اس کی روح کو زخمی کردیتی۔ دوسرے کئی مشرقی لوگوں کی طرح عزیز نے
مہمان نوازی کو بہت بڑھ کر جانا۔ اور اسے غلطی سے بے تکلف آشنائی سمجھا۔‘‘
یعنی اس طرح کی مہمان نوازی کی خواہش ہر ہندوستانی رکھتا ہے اور وہ فطرتا ً
مہمان نواز ہوتے ہیں مگر ہر کسی کو اس طرح انگریزوں کی میزبانی کا شرف حاصل
نہیں ہوتا جو کہ اب ڈاکٹر عزیز کو میسر آیا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے
کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا تھا اور یہ اس کے لیے عزت بے عزتی کا مسئلہ تھا۔
وہ اپنے آپ کو شہنشاہ بابر خیال کررہا تھا۔ اور ان کے پوچھنے پر وہ انہیں بتاتا ہے کہ
اس کے آبائواجداد بھی شہنشاہ بابر کے ساتھ ہی افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان
آئے تھے اور وہ بڑا مہمان نواز آدمی تھا۔ اس کی مہمان نوازی کا ذکر وہ ان الفاظ میں
کرتا ہے۔
..... he never ceased showing hospitality. When he fought or
hunted or ran away, he would always stop for a time among hills,
just like us; he would never let go of hospitality and pleasure, and
if there was only a little food, he would have it arranged nicely,
and if only one musical instrument, he would compel it to play a
)beautiful tune. (28
’’ وہ کبھی بھی مہمان نوازی سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ جب کبھی وہ لڑائی کرتا،
شکار کرتا ی ا بھاگتا ،وہ کچھ وقت کے لیے پہاڑوں میں ہی رک جاتا۔ بالکل ہماری طرح۔
وہ مہمانوں کی خوشی کا خیال رکھتا۔ اگر اس کے پاس تھوڑی سی خوراک بھی ہوتی تو
وہ اسے عمدگی سے پیش کرتا اور اگر اس کے پاس موسیقی کا صرف ایک آلہ (ساز)
ہوتا تو اسے سے خوبصورت دھن بجاتا‘‘۔
اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی فیاضی اور صدقہ و خیرات دینے کی عادت کا
بھی خصوصی طور پر اس موقعے پر ذکر کیا ہے جب مسز مور عزیز سے گفتگو
کررہی تھی۔ تو مسز مور نے دولت کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کیا اور کہا:
)Rupees donot last for ever, she said (29
’’اس نے کہا دولت ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتی۔‘‘
اس کے جواب میں عزیز اپنے خیاالت کا اظہار یوں کرتا ہے:
Mine would. God would give me more when he saw I gave.
Always be giving, like the Nawab Bahadur. My father was the
)same. (30
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ خدا مجھے زیادہ عطا کرتا ہے جب میں کسی کو دیتا
ہوں۔ ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہیے ،نواب بہادر کی طرح ،میرے والد بھی ایسے ہی
سخی تھے‘‘۔
ناول میں ایک مقام پر فیلڈنگ جب ڈاکٹر عزیز کو سمجھاتا کہ اور اس سے
درخواست کرتا ہے کہ وہ مس کیوسٹڈ ) (Adela Questedکو معاف کردے تو وہ اسے
عظیم مغل بادشاہوں کا حوالہ دے کر رحم دلی اور فیاضی کا سبق دیتا ہے۔
)Be merciful. Act like one of your six Mogul Emperors". (31
’’رحم دل بنو۔ اپنے چھ مغل شہنشاہوں کی طرح کا سلوک کروــ‘‘۔
ناول میں ہمیں ہندو مسلم رواداری کی تصویر بھی نظر آتی ہے کہ وہ ایک
دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونے کے لیے دور دراز کے سفر بھی طے کرتے
تھے جس طرح کہ ناول کے ایک کردار مسٹر سید محمد کے بارے میں ناول کی یہ
سطور کا مطالعہ کرنے سے آگاہی ہوتی ہے۔
Mr. Syed Mohammed had visited religious fairs, at Allahabad and
)at Ujjain (32
’’مسٹر سید محمد ٰالہ آباد اور اجین میں منعقد ہونے والے مذہبی تہواروں (میلوں)
میں شرکت کے لے گئے تھے‘‘۔
اس کے بعد ای ایم فاسٹر انہی کی زبانی ان میلوں اور تہواروں کی ناگفتہ بہ حالت کا
تذکرہ بھی حقارت آمیز انداز میں سناتے ہیں کہ وہاں کا ماحول کس قسم کا تھا اور کس
طرح کی بیماریاں اور وبائی امراض پھیل جاتی تھیں۔ ساتھ ہی سادھوئوں کی ہیئت کذائی
کا منظر نامہ بھی سامنے آتا ہے۔
At Allahabad there was flowing water, which carried impurities
away, but at Ujjain the little river Sipra was banked up, and
thousands of bathers deposited their germs in the pool. He spoke
with disgust of the hot sun, the cowdung and marigold flowers,
and the encampment of saddhus, some of whom strode stark
)naked through the streets. (33
’’الہ آباد میں تو پانی رواں دوا ں رہتا تھا جو کہ غالظتوں کو ساتھ بہا لے جاتا تھا۔
مگر اجین میں چھوٹے سے دریائے سپرا کے پانی کو روک کر تاالب بنایا گیا تھا۔ جس
میں ہزاروں غسل کرنے والوں کے جراثیم جمع ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے شدید
گرمی ،سورج ،گائے کے گوبر ،گیندے کے پھولوں اور سادھوئوں کے پڑائو کرنے کے
بارے میں تحقیر آمیز انداز میں بتایا کہ ان میں سے کچھ سادھو بالکل ننگ دھڑنگ گلیوں
میں کھڑے ہو جاتے تھے۔‘‘
مگر اس رواداری کے ساتھ ہندو مسلم تضادات اور فسادات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ
محرم کے مہینے میں تعزیے اور شبیہیں نکالنے کے موقع پر ہندوئوں اور مسلمانوں کے
درمیان ایک چھوٹی سے بات پر تلخی ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے مذہبی فسادات کی
شکل اختیار کر لیتی ہے مگر انگریز اپنی عقل و دانش سے اسے سلجھا دیتے ہیں۔ ناول
میں اس واقعے کا تذکرہ کچھ اس طرح ملتا ہے۔
Mohurram was approaching, and as usual the Chandrapore
Mohammedans were building paper towers of a size too large to
pass under the branches of a certain pepul tree. One knew what
happened next; the tower stuck, a Mohammedan climbed up the
pepul and cut the branch off, the Hindus protested, there was a
)religious riot. (34
ب روایت چندراپور کے مسلمان اتنے بڑے سائز ’’محرم قریب آ رہا تھا اور حس ِ
علَم تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے جو کہ ایک مخصوص پیپل کے درخت کے تعزئیےَ /
کے نیچے سے گزرتے ہوئے اس کی شاخوں سے ٹکرا کر الجھ جاتے تھے۔ کوئی بھی
جان سکتا تھا کہ اس واق عے کے بعد کیا ہوگا۔ تعزیہ پیپل کے درخت کی شاخوں میں الجھ
گیا ایک مسلمان فورا ً درخت پر چڑھ گیا اور اس کی شاخیں کاٹ دیں۔ ہندئوں نے احتجاج
شروع کر دیا اور پھر مذہبی فساد برپا ہو گیا۔‘‘
ا س کے بعد بھی بڑی دلچسپ صورت حال بیان کی گئی ہے کہ اس فسادات کو
روکنے کے دو طریقے تھے کہ یا تو تعزئیے چھوٹے بنائے جائیں یا ان کا راستہ تبدیل
کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو پہلی تجویز منظور ہوئی۔ مگر راستہ تبدیل
کرنے والی دوسری تجویز انہیں نا منظور تھی۔ جبکہ ضلع کلکٹر ہندوئوں کی حمایت میں
تھا کہ راستہ تبدیل کر دیا جائے۔ حاالنکہ اسے شک تھا کہ ہندوئوں نے شرارت کرنے
کے لیے مصنوعی طور پر ان شاخوں کو زمین کی جانب جھکا رکھا تھا۔ مگر اس سارے
قضیے کی اختتامی سطور خالص انگریزی استعمال اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی سوچ
کی عکاس ہیں جس میں فاسٹر یہ بتاتا ہے کہ ایسے جھگڑوں کے خاتمے کے لیے
انگریزوں کا مصالحتی کردار بہت ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ بات کہتا ہے
کہ انگریزوں کا قیام یہاں پر ہندوستانیوں کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے ورنہ یہ آپس میں
لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر دیں گے۔
It proved that the British were necessary to India; there would
certainly have been bloodshed without them.it proved that the
British were necessary to India; there would certainly have been
)bloodshed without them. (35
’’ اس واقعے نے ثابت کیا کہ انگریز ہندوستانیوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ کیونکہ ان
کے بغیر یقینا قتل و غارت گری ہوتی۔‘‘
مسلمانوں کے عہد حکومت میں شاعری کا دریا بھی روانی سے بہہ رہا تھا اسی
وجہ سے معاشرے میں شاعری کا یہ رواج ہند مسلم تہذیب کی اہم خصوصیت بن گیا۔
کیوں کہ مغلوں کے آخری دور حکومت میں کچھ ایسی فضا طاری ہوئی کہ روحانی
سکون کے حصول ک ے لیے لوگوں کا رحجان تصوف کی جانب بڑھنے لگا۔ پیر و مرشد
اور خانقاہوں کا رواج عام ہوا۔ میلے ٹھیلے ،عرس ،قوالیاں لوگوں میں زیادہ مقبول ہوئیں
اور شاعری میں لوگوں کا مقبول عام مشغلہ بن گیا۔ بے شمار تفریحات اور ذوقیات جو
صدیوں سے چلے آتے تھے اب بھی رائج تھے۔ انہی میں سے ایک شاعری بھی تھا۔ زیر
تجزیہ ناول میں فاسٹر نے اسی وجہ سے ایک مسلم کردار عزیز کی زبانی شاعری پر
بھرپور تبصرہ کیا ہے۔
He recited a poem by Ghalib....... words accepted as immortal
filled the indifferent air. Not as a call to battle, but as a calm
assurance came the feeling that India was one; Moslem; always
had been; an assurance that lasted until they looked out of the
door. Whatever Ghalib had felt, he had anyhow lived in India, and
this consolidated it for them: he had gone with his own tulips and
roses, but tulips and roses do not go. And the sister kingdoms of
the north--Arabia, Persia, Ferghana, Turkestan-- stretched out
)their hands as he sang. (36
’’ اس (عزیز) نے غالب کی نظم پڑھی۔ غزل کے الفانی الفاظ نے ایک مختلف فضا
طاری کردی۔ جو کہ جنگ کی للکار کے بجائے ایک خاموش یقین دہانی تھی اور ان
احساسات کو سامنے الرہی تھی کہ ہندوستان ایک ہے اور مسلمان ہمیشہ سے اس کا
حصہ! غالب جو کچھ بھی محسوس کرتا تھا اسے ہندوستانیوں کے لیے نظم کیا کیوں کہ
وہ بہر حال ہندوستان کا ہی باسی تھا۔ اس نے اپنے گالبوں اور گل اللہ کو الفاظ کے روپ
میں پیش کیا۔ جواس کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی سدا بہا ر ہیں۔ یہ الفاظ جب
گونجے تو شمال کی جانب واقع ریاستیں عرب ،ایران ،فرغانہ ،ترکستان اپنے ہاتھ اس
آواز کی جانب پھیال دیتیں۔‘‘
اسی محفل پر تبصرہ کرتے ہوئے فاسٹر بتاتا ہے کہ غزل سنانے کے بعد عزیز
عورت کے تصورات میں گم ہو گیا مگر اب اس کا انداز جدا تھا کہ ان اشعار نے اس پر
انوکھا اثر دکھایا۔ اس کے بعد وہ اپنی نئی نظموں کے لیے موضوعات پر غور کرتا ہے
تبادلہ خیال کرتا ہے۔ فیلڈنگ اسے مشورہ دیتا ہے کہ ہندوستانی
ٔ اور وہ فیلڈنگ کے ساتھ
عو رت کے بارے میں لکھو کہ وہ کیا ہے نہ کہ ایسے لکھو جیسے کہ ہم اسے اپنے
مفروضوں کے مطابق سوچتے ہیں۔
If you want a subject for a poem, take this: The Indian lady as she
)is and not as she is supposed to be. (37
’’اگر تم اپنی نظم کے لیے موضوعات چاہتے ہو تو اس طرح کا موضوع لو جیسے
کہ ہندوستانی عورت کیا ہے نہ کہ ایسے جیسے ہم اسے سوچتے ہیں۔‘‘
ناول میں اسی موضوع پر مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پردہ جو
شعائر اسالمی میں سے ہے اور ہند مسلم تہذیب کا اہم مظہر بھی۔ وہ عزیز کے لیے ِ کہ
اسالم کی درشتی ،جبر اور بے لچک " "rigitityہونے کی عالمت ہے جسے وہ بعد میں
آزاد قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے کہ جیسے کہ حسب ذیل سطور میں
قاری کے سامنے اسی قسم کی صورت حال پیش ہوتی ہے۔
His poems were all on one topic--Oriental womanhood. "The
purdah must go," was their burden, "otherwise we shall never be
free." And he declared (fantastically) that India would not have
been conquered if women as well as men had fought at Plassy.
"But we do not show our women to the foreigner' ..........Bulbuls
and roses would still persist, the pathos of defeated Islam
remained in his blood and could not be expelled by modernities.
)Illogical poems-- like their writer. Yet they struck a true note.(38
’’ اس کی تمام نظمیں ایک ہی موضوع پر لکھی گئی تھیں اور وہ موضوع تھا
مشرقی عورت۔ پردہ جو ان کے لیے ایک بوجھ ہے اسے ختم ہونا چاہیے اور وہ
خوشگوار موڈ میں یہ بھی بیان کرتا کہ اگر مرد و خواتین پالسی کے میدان میں شانہ
بشانہ (انگریزوں کے خالف) لڑائی لڑتے تو ہندوستان کبھی بھی فتح نہ ہوتا لیکن ہم تو
غیر ملکیوں کے سامنے اپنی خواتین کو بے پردہ نہیں کرتے۔ بلبل اور گالب اب بھی اس
کی شاعری میں موجود تھے۔ اسالم کی شکست کا دکھ اب بھی اس کے خون میں شامل
تھا جسے کوئی جدت نکال نہیں سکتی تھی۔ یہ نظمیں اپنے تخلیق کار کی طرح ہی غیر
منطقی تھیں۔ حاالنکہ ان میں صداقت بھی موجود تھی۔‘‘
برصغیر کا معاشرہ تاریخ میں کئی نشیب و فراز سے گزرا۔ انگریزوں نے اپنی آمد
کے بعد یہاں اپنی سیاسی برتری اور اپنے اقتدار کا جواز تالش کرنے کے لیے یہاں کی
مقامی تہذیب و ثقافت پر حملے شروع کر دیئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ
ہندوستانی غیر مہذب اور صالحیتوں سے محروم لوگ ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں
کی تہذیبی اور ثقافتی روایات کو نشانہ بنایا۔ تاکہ اسالمیان ہند کو ثقافتی اور تہذیبی طور
پر اتنا احساس کمتری کا شکار کر دیا جائے کہ ان کی اذہان میں دوبارہ کبھی حکمرانی کا
سودا نہ سماسکے۔ چنانچہ انگریزوں کا تسلط صرف جغرافیائی اور سیاسی نہیں تھا بلکہ
روحانی تہذیبی اور ثقافتی بھی تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مسلم تہذیب کو مکمل
طور پر نیست و نابود کر کے اس کی جگہ مغربی تہذیب و تمدن کو الگو کیا جائے۔
کیونکہ سامراجی آقائوں کے مطابق مقامی آبادی ذہنی طور پر پسماندہ اور صالحیتوں
سے اس قدر عاری تھی کہ ان سے نہ صرف حکومت چھین لینا جائز تھا بلکہ ان کو
تہذیب سکھانا اور ان کی تربیت کرنا بھی ان کے نزدیک ضروری تھا۔
زیر تجزیہ ناول میں بھی تہذیب کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے جیسا کہ ذیل کی سطور
میں ایک مسلمان کردار حمید ہللا کو شاعری کا اچھا ذوق رکھنے واال بتایا گیا ہے۔ جب کہ
ادب و فن کو اس تہذیب کا الزمی جزو قرار دیا گیا ہے۔
Of the company, only Hamidullah had any comprehension of
poetry. The minds of the others were inferior and rough. Yet they
listened with pleasure, because literature had not been divorced
)from their civilization.(39
ــ ’’صرف حمید ہللا ہی اس محفل میں شاعری کا ذوق رکھتا تھا۔ باقی سامعین کے
اذہان کم تر درجے کے تھے۔ اس کے باوجود وہ شاعری خوشی سے سنتے تھے کیونکہ
شعرو ادب ابھی تک ان کی تہذیب سے جدا نہیں ہوئے تھے۔‘‘
اس کے بعد ایک اور جگہ پھر تہذیب کے حوالے سے استعماری سوچ اور ان کے
پالن کی نشاندہی ہوتی ہے:
The triumphant machine of civilization may suddenly hitch and be
immobilized into a car of stone, and at such moments the destiny
of the English seems to resemble their predecessors', who also
entered the country with intent to refashion it, but were in the end
)worked into its pattern and covered with its dust. (40
’’ تہذیب کی فتح مند مشین اچانک ایک جھٹکے ساتھ رک جاتی ہے اور ایک پتھر
کی کار کی طرح بے حرکت ہو جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر کسی بھی انگریز کا مقدر
اپنے ہر اس پیش رو سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے جو کہ ہندوستان میں یہ سوچ کر ااتا
ہے کہ وہ اسے نئی شکل دے گا۔ مگر آخر کار وہ بھی انہی خطوط پر کام شروع کر دیتا
ہے اور وہ اسی مٹی کو اوڑھ لیتا ہے۔‘‘
آگے بڑھتے ہیں تو مقامی تہذیب کے بارے میں ناول کی یہ سطور بھی چونکاتی
ہیں:
Civilization strays about like a ghost here, revisiting the ruins of
empire, and is to be found not in great works of art or mighty
deeds, but in the gestures well-bred Indians make when they sit
)or lie down. (41
’’تہذیب یہاں ایک بھوت کی طرح کھڑی ،اجڑی ہوئی شہنشاہیت کی باقیات کو دیکھ
فنون لطیفہ کے بڑے بڑے کاموں میں دکھائی نہیں دیتی تھی بلکہ اچھی ِ رہی تھی۔ اب وہ
پرورش پانے والے ہندوستانیوں کے نشست و برخاست سے عیاں ہوتی تھی۔‘‘
اس کے فورا ً بعد یہ بھی بتایا گیا کہ نورالدین مشرقی دھن میں گانا گاتا ہے تو ایک
ایسی خوبصورت فضا جنم لیتی ہے جو اس تہذیب کا خاص حصہ ہے ،مگر اس فضا کو
یا اس تہذیب کو مغرب والے سمجھنے سے قاصر ہیں:
...... reveals a civilization which the West can disturb but will never
)acquire. (42
’’۔۔۔۔ایسی تہذیب ظاہر ہ وتی ہے جسے مغرب والے دسٹرب تو کر سکتے ہیں مگر
اپنا نہیں سکتے۔‘‘
اس ناول میں مسلمانوں کو جذباتی قوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے کیوں کہ ناول
کا مرکزی مسلمان کردار جو کہ مسلمان قوم کا نمائندہ کردار بھی ہے اسے ایک ایسے
جذباتی آدمی کے طور پر دکھایا گیا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر عقل و حواس کھو
بیٹھتا ہے۔
Indeed, he was sensitive rather than responsive. In every remark
he found a meaning, but not always the true meaning, and his life
)though vivid was largely a dream. (43
’’بالشبہ وہ جلد رد عمل ظاہر کرنے والے سے زیادہ حساس اور جذباتی تھا۔ ہر
بات میں اسے معانی ملتے مگر وہ صحیح معنی سے محروم رہتا۔ اور یوں اس کی زندگی
واضح مگر خواب جیسی تھی۔‘‘
اسی قسم کی جذباتی کیفیت میں اسے انگریز دشمنی کا اظہار کچھ یوں کرتے
ہوئے دکھایا گیا ہے:
I have become anti-British, and ought to have done so sooner, it
)would have saved me numerous misfortunes. (44
’’ میں برطانیہ مخالف بن چکا ہوں۔ ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ تو اس سے
میں کئی آفتوں سے محفوظ رہتا۔‘‘
پھر وہ اسی جذباتی کیفیت میں فیصلہ کرتا ہے کہ اب برطانوی ہندوستان میں نہ
ٹھہرے گا اور نہ ہی اس سے کوئی تعلق برقرار رکھے گا بلکہ کسی ایسی جگہ ہجرت
کر جائے گا اور مالزمت کرے گا جہاں انگریزوں سے واسطہ نہ پڑے۔
I have decided to have nothing more to do with British India, as a
matter of fact. I shall seek service in some Moslem State, such as
Hyderabad, Bhopal, where Englishrnen cannot insult me any
)more. (45
’’میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ حقیقتا ً برطانوی ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں
رکھوں گا۔ میں کسی بھی مسلمان ریاست جیسے بھوپال یا حیدرآباد میں مالزمت کروں گا
جہاں انگریز میری بے عزتی نہ کر سکیں۔‘‘
جہاں ایک طرف مسلمانوں کے جذباتی پن کا بیان ہے تو وہاں دوسری طرف
ہندوستانیوں کی روایتی سستی اور کاہلی کا تذکرہ بھی ناول میں بڑے دلچسپ انداز میں
کیا گیا ہے۔
Plenty of Indians travel light too--saddhus and such. It's one of the
things I admire about your country. Any man can travel light until
he has a wife or children. That's part of my case against marriage.
)(46
’’ بیشتر ہندوستانی ،خاص کر سادھو اور اسی قسم کے دوسرے لوگ سست روی کا
راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ تمہارے ملک کی جن چیزوں کا میں مداح ہوں ان میں سے ایک
یہ بھی ہے۔ ہر آدمی سست روی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جب تک کہ اس کے بیوی اور
بچے نہیں ہوتے۔ میرے شادی نہ کرنے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔‘‘ (کہ میں
بھی سست روی کو پسند کرتا ہوں)
ناول میں مختلف مقامات پر ہندوستان کی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے ناول کا حصہ
بنایا گیا ہے۔ جب کہ ناول کے باب ، XIIص ۱۳۷پر ہندوستان کے مشہور اساطیری دریا
اور وشنو دیوتا کا ذکر ملتا ہے۔ ہندوستان کے دیگر مقدس چشموں ،پہاڑوں ،چٹانوں اور
دریائوں اور تاج محل کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور مہاتما بدھ کے گیان حاصل کرنے اور
کچھ سادھوئوں کے بارے میں حسب ذیل سطور ملتی ہیں:
Some saddhus did once settle in a cave, but they were smoked
out, and even Buddha, who must have passed this way down to
the Bo Tree of Gya, shunned a renunciation more complete than
)his own. (47
’’ کچھ سادھو ایک دفعہ ایک غار میں ٹھہرے ،لیکن وہ بعد میں دھویں تحلیل ہو
حتی کہ مہاتما بدھ نے یہ سفر گیا میں بوہڑ کے درخت کے نیچے طے کیا۔ اور گئے۔ ٰ
خود کو تیاگ کر منز ِل عرفان حاصل کی۔‘‘
یوں تو ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں ناول میں مختلف مقامات پر اشارے
ملتے ہیں مگر دو جگہوں پر ہندوستان کے مشہور مغلیہ خاندان کے فرماں روائوں
عالمگیر ،اکبر اور بابر کا ذکر خصوصی طور پر ملتا ہے۔ ایک جگہ پر مسلمانوں کی
ت رفتہ پر فخر کرنے کا تذکرہ ہے۔ جب عزیز ان دو انگریز ماضی پرستی اور عظم ِ
خواتیں کو مارابار غاروں کی سیر کراتے ہوئے خود کو شہنشاہ بابر سمجھتا ہے اور دلیل
یہ پیش کرتا ہے کہ وہ اس کے ہی آبائو اجداد کے ساتھ افغانستان سے ہندوستان وارد ہو
اتھا۔ اس سے بھی نوآبادیاتی سوچ کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ عام مسلمان کو بھی کیا
سمجھتے ہیں۔
I feel like the Emperor Babur." "Why like him?" she enquired,
rising."Because my ancestors came down with him from
)Afghanistan. (48
’’میں خود کو شہنشاہ بابر جیسا محسوس کرتا ہوں۔۔۔کیوں کہ میرے آبائو اجداد اس
کے ساتھ ہی افغانستان سے آئے تھے۔‘‘
اس سے آگے اورنگزیب عالمگیر ،ظہیرالدین بابر اور ہمایوں کے بارے میں ناول
نگار نے طویل اقتباس میں ان کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر کو نیک اور
عبادت گزار قرار دیا ہے جبکہ بابر کی موت کا واقعہ بھی درج کیا ہے کہ کس طرح
بیٹے کی زندگی بچاتے ہوئے اپنی زندگی کی قربانی دے دی۔ اسی لیے بابر کو عالمگیر
پر فوقیت دی گئی ہے۔
Alamgir? Oh yes, he was of course the more pious. But Babur--
never in his whole life did he betray a friend, so I can only think of
him this morning. And you know how he died? He laid down his
life for his son. A death far more difficult than battle. They were
caught in the heat. They should have gone back to Kabul for the
bad weather, but could not for reasons of state, and at Agra
Humayun fell sick. Babur walked round the bed three times, and
said, 'I have borne it away,' and he did bear it away; the fever left
his son and came to him instead, and he died. That is why I prefer
)Babur to Alamgir. (49
’’ اوہ ہاں! بالشبہ عالمگیر بڑا پرہیزگار تھا لیکن بابر۔۔۔ اس نے اپنی پوری زندگی
میں کسی دوست کے ساتھ دغا نہیں کیا۔ اس لیے میں آج صبح سے اسی کے بارے میں
سوچتا رہا ہوں اور کیا آپ اس کی موت کے بارے میں جانتی ہیں؟ اس نے اپنے بیٹے
کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ ایک ایسی موت قبول کی جو میدان جنگ سے کہیں زیادہ
مشکل تھی۔ وہ گرمی کے موسم میں پھنس گئے۔ انہیں اس خراب موسم میں کابل واپس
چلے جانا چاہیے تھ ا مگر مختلف ریاستی وجوہات کی بنا پر واپس نہ لوٹ سکے اور پھر
آگرہ مینہمایوں بیمار پڑ گیا۔ بابر نے اس کے بستر کے گرد تین چکر کاٹے اور کہا کہ
میں نے اس کی بیماری کو اپنے اوپر لیا۔ اور واقعی اس کی تکلیف کو اپنے اوپر اس نے
لے لیا۔ اس کے بیٹے کے بجائے اسے بخار ہو گیا اور وہ مرگیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں
بابر کو عالمگیر پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
باہمی گفتگو کے دوران مس کیوسٹڈ کچھ انگریز عورتوں کے بارے میں بتاتی ہے
کہ وہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے بارے میں اچھے خیاالت نہیں رکھتیں۔ اور ساتھ ہی
وہ اس خدشے کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ کہیں مجھ پر بھی ان کا رنگ نہ چڑھ جائے اور
میں بھی مقامیوں کو حقیر اور کمتر سمجھنے لگوں ۔ اور پھر وہ خود ہی اس سارے
مسئلے کا حل اکبر کے ’’دین ٰالہی‘‘ میں ڈھونڈتی ہے جسے وہ عالمگیر مذہب کا نام دیتی
ہے اور کہتی ہے کہ ہندوستان میں چونکہ کثیر مذاہب کے لوگ آباد ہیں تو ان میں کوئی
نہ کوئی ایسی قدر مشترک ضرور ہونی چاہے جس پر کسی حد تک سارے لوگ متفق ہو
سکیں اور ایک دوسرے کے وجود کو انسانی بنیادوں پر ہی سہی برداشت تو کریں۔
انگریز خواتین سے اس بارے میں گفتگو کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب وہ ڈاکٹر عزیز
سے اکبر کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں:
Tell us something about Akbar.
Ah, you have heard the name of Akbar. Good. Hamidullah--whom
you shall meet--will tell you that Akbar is the greatest of all. I say,
'Yes, Akbar is very wonderful, but half a Hindu; he was not a true
Moslem,' which makes Hamidullah cry, 'No more was Babur, he
drank wine.' But Babur always repented afterwards, which makes
the entire difference, and Akbar never repented of the new
"religion he invented instead of the Holy Koran.
"But wasn't Akbar's new religion very fine? It was to embrace the
"whole of India.
"Miss Quested, fine but foolish. You keep your religion, I mine.
That is the best. Nothing embraces the whole of India, nothing,
"nothing, and that was Akbar's mistake.
"Oh, do you feel that, Dr. Aziz?" she said thoughtfully. "I hope
you're not right. There will have to be something universal in this
country--I don't say religion, for I'm not religious, hut something, or
)how else are barriers to be broken down? (50
’’ہمیں اکبر کے بارے میں کچھ بتائیے!
اوہ! تو آپ اکبر کا نام بھی سن چکی ہیں۔اچھا تو حمید ہللا جس سے آپ کی مالقات
ہو گی وہ آپ کو بتائے گا کہ اکبر ان سب مغلوں میں سے عظیم تر ہے۔ میں تو کہتا ہوں
کہ اکبر بڑا حیرت انگیز تھا۔ مگر وہ آدھا ہندو تھا۔ وہ ایک سچا مسلمان نہیں تھا۔ وہ شراب
پی تا تھا۔ مگر بابر کو ہمیشہ اس کے بعد پچھتاوا ہوتا تھا۔ یہی بات دونوں میں تفاوت پیدا
کرتی ہے۔ اور اکبر کو تو کبھی پچھتاوا نہیں ہوا کہ اس نے قرآن پاک کی بجائے نیا دین
ایجاد کر لیا۔
مگر کیا اکبر کا نیا دین بہت عمدہ نہیں تھا۔ یہ تو پورے ہندوستان کو یکجا کرنے
کے لیے تھا۔
مس کیوسٹڈ۔ بہت اچھا مگر احمقانہ! تمھارا اپنا مذہب ہے میرا اپنا۔ یہی بہترین ہے۔
کچھ بھی پورے ہندوستان کو یکجا نہیں کر سکتا۔ کوئی چیز بھی نہیں اور یہ اکبر کی
غلطی تھی۔
او ہ ڈاکٹر عزیز کیا تم اس طرح سوچتے ہو؟ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ میرا
خیال ہے تم درست نہیں ہو۔ اس ملک میں کوئی تو آفاقی اور عالمگیر چیز ہونی چاہیے۔
میں ہر گز نہیں کہتی کہ یہ مذہب ہی ہو۔ کیوں کہ میں خود مذہبی نہیں ہوں۔ ضرور کوئی
چیز ہونی چاہیے ورنہ پھر اور کیسے (انسانوں کے درمیان) ان رکاوٹوں کو ختم کیا
جائے۔‘‘
ہندو دیو ماال میں کئی طرح کے قصے اور کہانیاں رائج ہیں جیسے کہ تمام اجرام
فلکی کو وہ دیوتا مانتے ہیں۔ اسی طرح ہندو مذہب میں گائے ایک منفرد اور الگ درجہ
اور مقام ہے جیسے کہ گائو ماتا کا تصور۔ اسی لیے ہندوئوں کے نزدیک چونکہ گائے
ایک مقدس جانور ہے اس سے بھی کئی روایات منسوب ہیں۔ ایسی ہی ایک روایت ناول
کے صفحات میں ملتی ہے جس سے ناول نگار ہندوستانیوں کی توہم پرستی کو اجاگر
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک خنجر والے تاالب کی روایتی داستان ہے جس کی
تان فاسٹر کے مطابق ہر قصے کی طرح گائے پر جا کر ٹوٹتی ہے:
"That is good, then you saw the Tank of the Dagger." And he
related a legend which might have been acceptable if he had told
it at the tea-party a fortnight ago. It concerned a Hindu Rajah who
had slain his own sister's son, and the dagger with which he
performed the deed remained clamped to his hand until in the
course of years he came to the Marabar Hills, where he was
thirsty and wanted to drink but saw a thirsty cow and ordered the
water to be offered to her first, which, when done, "dagger fell
"from his hand, and to commemorate miracle he built Tank.
Professor Godbole's conversations frequently culminated in a
)cow. Fielding received this one in gloomy silence. (51
’’بہت خوب ،آپ نے گویا خنجر واال تاالب دیکھا ہے۔ پھر وہ ایسی روایتی داستان
سنانے لگا ،جو اس کے لیے قابل قبول ہوتی اگر وہ پندرہ روز قبل اسے چائے کی دعوت
کے موقع پر سناتا۔ اس روایت کا تعلق ایک ہندو راجہ سے تھا جس نے اپنے بھانجے کو
مار ڈاال تھا اور وہ خنجر جس کے ساتھ اس نے قتل کیا تھا اس کے ہاتھ سے چپک کر رہ
گیا یہاں تک کہ کئی سالوں بعد وہ (راجہ) مارابار کی غاروں کی طرف آیا۔ اسے پیاس
لگی ہوئی تھی اور وہ پانی پینا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے ایک پیاسی گائے کو دیکھا اور پھر
حکم دیا کہ اس گائے کو پہلے پانی پالیا جائے۔ اور جب گائے پانی پی چکی تو خنجر اس
کے ہاتھ سے الگ ہو کر گر پڑا۔ اس معجزے کی یاد میں اس نے یہ تاالب بنوایا۔ پروفیسر
گاڈبلے کی گفتگو اکثر گائے تک جا پہنچتی۔ فیلڈنگ نے اس قصے کو بھی بڑی خاموشی
سے سن لیا۔‘‘
اس کے عالوہ ہندوئوں کے بھجن کا بھی ناول میں ذکر کیا گیا ہے۔ جب پروفیسر
نرائن گاڈبلے اپنے بھگوان کی عبادت کر رہا تھا۔ ایسے بھگوان کی جس کی ابھی پیدائش
نہیں ہوئی تھی۔ ایسے وقت میں اس کی خاص ہیئت یہ بتائی گئی ہے کہ اس نے سفید لباس
زیب تن کر رکھا تھا اور پائوں ننگے تھے۔ پیلے رنگ کی پگڑی سر پر باندھی ہوئی تھی
اور یاسمین کے پھولوں کے ہار گلے مینڈال رکھے تھے۔ اس مخصوص وضع قطع کے
ساتھ وہ حسب ذیل بھجن اپنی پوری آواز میں االپتا ہے:
Tukaram, Tukaram,
Thou art my father and mother and everybody.
)Tukaram, Tukaram, ................. (52
’’ٹکا رام ،ٹکا رام
تو میرا باپ ،تو میری ماں ،میرا سب کچھ تو ہی ہے
ٹکا رام ،ٹکا رام۔۔۔۔۔۔‘‘
ہندوستان باطنیت کا گہوارہ رہا ہے چنانچہ جب اسالمی تصوف ہندوستان پہنچا تو
یہاں کے لوگوں کو اس میں اپنے روحانی عقائد کی جھلک پہچاننے میں دیر نہ لگی۔
بھگتی تحریک ہو یا صوفی ازم ،دونوں ہی خانقاہی کلچر کے فروغ میں پیش پیش تھے۔
ایسی ہی روحانی تحریکوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کی بنیادی وحدت پر زور دیا اور
ان دونوں کے اشتراک سے تہذیبی اختالط کے ایک اور باب کا آغاز ہوا۔ اس کے اثرات
اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ
ہندوئوں کے تہواروں مینمسلمانوں نے بھی شرکت شروع کر دی اور ہندوئوں نے
مسلمانوں کے تہواروں کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کر دیا۔ ایسے میں عرس ،خانقاہیں
اور قوالی وغیرہ کے اجتماعات میں ہندو اور مسلمان ذوق و شوق سے شریک ہونے
لگے۔ خاص طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ مشترک تہذیب کا سب سے بھرپور اظہار اس
کے جمالیاتی یعنی موسیقی ،مصوری ،فنون لطیفہ اور فن تعمیر میں بھرپور طریقے سے
سامنے آیا۔ ایسے ہی منظر نامے میں خانقاہیں اور مزارات کی موجودگی اور ان کے ساتھ
جڑی روایات اور کرشمات و معجزات کی داستانیں بھی اسی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ
ہیں۔ ایسے ہی ایک مجذوب فقیر اور اس کی خانقاہ کا ذکر اے پیسج ٹو انڈیا کے صفحات
مینکچھ یوں ملتا ہے:
Long before he discovered Mau, another young Mohammedan
had retired there--a saint. His mother said to him, "Free
prisoners." So he took a sword and went up to the fort. He
unlocked a door, and the prisoners streamed out and resumed
their previous occupations, but the police were too much annoyed
and cut off the young man's head. Ignoring its absence, lie made
his way over the rocks that separate the fort and the town, killing
policemen as he went, and he fell outside his mother's house,
having accomplished her orders. Consequently there are two
shrines to him to-day--that of the Head above, and that of the
Body below--and they are worshipped by the few Mohammedans
)who live near, and by Hindus also.(53
’’اس (عزیز) کے مہائو آنے سے طویل عرصہ قبل ایک مسلمان جو کہ ایک
صوفی بزرگ تھا وہاں آ چکا تھا۔ اس کی ماں نے اسے کہاتھا کہ قیدیوں کو آزادی دالئو۔
اس لیے اس نے تلوار لی اور قلعے کی طرف بڑھا۔ اس نے دروازہ کھوال اور قیدی باہر
نکل آئے۔ اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ لیکن پولیس کو بہت غصہ آیا اور اس نے
نوجو ان کا سر کاٹ دیا۔ مگر وہ اپنا سر موجود نہ ہونے کے باوجود ،وہ چٹانوں سے
راستہ بناتا ہوا قصبے کی طرف بڑھا اور راستے میں وہ سپاہیوں کو بھی قتل کرتا گیا۔
اور آخر کار اپنی ماں کے گھر کے باہر گر پڑا۔ مگر ماں کے حکم کو پورا کر چکا تھا۔
نتیجتا ً آج اس کے دو مزار ہیں۔ سربلندی والے حصے میں جبکہ باقی جسم نشیب میں۔ اور
قریبی عالقے میں رہائش پذیر ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس کے مزار پر حاضری دیتے
ہیں۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فاسٹر اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ مگر ایک بات
بڑی اہم ہے جب فاسٹر اس تبصرے میں اپنی یہ رائے بھی شامل کرتے ہیں کہ عزیز نے
اپنے بچوں کو بڑے محتاط انداز میں یہ ساری روایت سنائی کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ
اس کے بچے کسی قسم کی توہم پرستی کاشکار ہوں۔
He didn't want them to grow up superstitious, so he rebuked
)them. (54
بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ناول کو فکری سطح پر دیکھا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول میں بیک وقت تہذیب ،ثقافت ،تاریخ ،سیاست ،ادب ،موسیقی،
فنون لطیفہ ،عمرانیات ،مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ برصغیر
پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ
ساتھ مقامی افراد کی انفرادی نفسیات اور حاالت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس میں
سماجی ،نسلی ،ثقافتی ،سیاسی اور مذہبی اونچ نیچ سے متعلق لوگوں کی سوچ اور جذبات
کو نہایت فنکارانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس ناول
میں ہندوستانی حیات اور معاشرت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی
بھرپور کوشش کی ہے۔ اگرچہ اس ناول کا متن گہری عالمتیں اپنے دامن میں سمیٹے
ہوئے ہے اور اس میں کسی حد تک تصوف کی آمیزش بھی کی گئی ہے مگر بنیادی طور
پر ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو دریافت
کرنے کا عمل بھی ہے۔ اسی لیے فاسٹر اسی عہد میں ہندوستان میں موجود دو مختلف
معاشروں اور ان کی اقدار و روایات کو بیان کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے ہیں
یعنی مقامی آبادی سے انگریز یعنی نوآبادکار کس طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی
اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی ناول میں زیر بحث التے ہیں کہ
برصغیر کی سرزمین پر ہر دور میں مختلف رنگ ،نسل ،ثقافت و مذہب کے لوگ آباد
رہے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے ہیں ان کے درمیان
تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو ان کے درمیان حائل ہیں۔
ہمارے سامنے ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی یہ رائے بھی آتی ہے جو انہوں نے اپنے غیر
مطبوعہ انگریزی مقالہ برائے پی ایچ ڈی "India and the near East in English
"Literature from the Earliestمیں ای ایم فاسٹر کے اس ناول کے بارے میں دی
ہے۔ ان کے مطابق:
’’پہلی جنگ عظیم 1941ء بین االقوامیت ) (Internationalismکا پیغام الئی۔
اس دور کے انگریزی ناول ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے
بعد انگریزی ادب میں مشرق کے بارے میں ایک نیا رویہ نظر آتا ہے جو پہلے رابرٹ
برجز ) (Robert Bridgesکی شاعری میں ظاہر ہوا۔ اور اس کے بعد ای ایم فاسٹر کے
ناول ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ ای ایم فاسٹر کا سیاسی ناول
ہے جس میں برطانیہ کی برصغیر پر یورش کے حقائق کو بالتفصیل بیان کیا گیا ہے۔‘‘
()۵۵
اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فاسٹر نے اگرچہ مقامی تہذیب و معاشرت کو
ہمدردانہ رویے سے پیش کرنے کی سعی کی ہے مگر ساتھ ہی اس نے بھی سفید فام
نوآبادکاروں کی برتری کے نظریے کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی
تہذیب و ثقافت کو برتر جبکہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو بین السطور کم تر ثابت کرنے
خطہ ارضی کو بھی کم دلکش قرار ٔ کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں اس نے ہندوستان کے
دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر کی ہے۔
اس کے مقابلے مینانگریزوں کی اہمیت یہ کہہ کر اجاگر کی ہے کہ وہ بہترین منتظم،
سنجی دہ فکر اور ذمہ دار لوگ ہیں جبکہ اس کے علی الرغم ہندوستانی سرزمین بنجر اور
یہاں کے لوگ کم حوصلہ ،نااہل ،جذباتی ،غیر معقول اور جلد اشتعال میں آنے والے ہیں۔
دوسرے لفظونمیں یہ وہی فلسفہ ہے جو ہندوستان میں انگریزی راج کو بجا ثابت کرنے
اور اسے دوام بخشنے کے لیے دوسرے مصنفین نے بھی اپنے تحریروں میں اجاگر کیا
ہے۔ یہی وہ سامراجیوں کی منافقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ فرانز فنین (1961ء۔1925ء)
نے بھی تفصیالً کیا ہے۔ اور اس کا اطالق ناول زیر مطالعہ پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیوں
کہ یہی وہ طریقہ کا ر ہے جس کے ذریعے مقامی آبادی کو رام کیا جاتاہے۔ اسی حوالے
سے ڈاکٹر علی شریعتی بھی واضح کرتے ہیں کہ:
’’ مغربی استعمار کی خطرناک ترین ،ناشناختہ ترین اور پوشیدہ ترین شکل اس کا
ثقافتی ،فکری امپیریلزم ہے جو پہلے تو دیگر اقوام کی فکر ،تعصب اور سوچ کو ختم
کرتا ہے ،دوسرے معاشرے میں اپنا نفوذ کرنے اور اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی
بھرپور کوششوں کے بعد اقتصادی اور فوجی یلغار کرتا ہے۔ ثقافتی لبرلزم ہی استعمار کی
خاطر فوجی چڑھائی کرنے کے ذریعے مکمل قبضہ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔‘‘ ()۵۶
اسی ناول میں فاسٹرنے ہندوستانی اور یورپی اقوام کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی
بین السطور پیش کیا ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت کے مابین کشمکش اور تصادم کی کیفیت
کو ظاہر کیا ہے۔ جبکہ اسالم کا تعارف مسلمان کردار عزیز کے ذریعے کچھ یوں کرایا
ہے کہ اسالم صرف مسجد تک ہی محدود ہے۔ عزیز کو شاندار ماضی کی عظیم یادوں
میں کھویا ہوا دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اب عظمت رفتہ کے اسیر
ہو چکے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عزیز کو اسالم کی موجود شکل کے ساتھ تصادم کی
صورتحال پیش آتی ہے اور وہ احساس تحفظ جو اس کو اسالمی تشخص فراہم کرتا ہے
لمحہ موجود میں کہیں نظر نہیں آتا۔ بلکہ وہ تشخص بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے
ٔ اس کو
اور اس عظیم مذہب کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اب عزیز دو
دنیائوں کے مابین یوں تقسیم دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف تو اسالم کی شاندار روایات
کی یادیں ہیں جو اس کے قلب و ذہن پر نقش ہیں جبکہ دوسری طرف اس کے ذہن میں
اس عظیم ماضی کے خالف باغیانہ خیاالت بھی پنپ رہے ہیں۔ یوں ہمارے سامنے
مسلمانوں کی ایسی تصویر آتی ہے جس کے مطابق انہیں ماضی کا اسیر دکھایا گیا ہے۔
اور اسالم ایسا مذہب دکھائی دیتا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اپنے ماننے والوں
پر پردہ جیسی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اور انہیں ماضی کا اسیر بنا کر حال سے ہم آہنگ
ہونے کی تعلیم فراہم نہیں کرتا۔ اور یوں اسالم ایک بوسیدہ مذہب اور تعفن زدہ جوہڑ کی
شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج اس کی موجوں میں اضطراب ارو تحرک مفقود ہے۔ ٰلہذا
ایسے مذہب کو آج کی جدید اور مہذب دنیا کے منظرنامے سے ہٹا دینا چاہیے۔
جبکہ ہندوستان کی ارضی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے اسے بنجر اور ویران
دکھایا گیا ہے۔ موسموں تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جیسے کہ اپریل کو خوفناک
مہینہ قرار دیا ہے"April is month of horror" ،۔ اس کے درختوں کو گھٹیا کوالٹی
کی ج ھاڑیاں کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہاں تک کہا
گیا ہے کہ یہاں سورج بغیر کسی عظمت اور شان و شوکت کے طلوع ہوتا ہے "The
"sun rises devoid of splendor۔
ارضی صورتحال کے عالوہ یہاں کے باشندوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اور یہ بت ایا گیا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں مقامی لوگ اسے کنٹرول کرنے کی
بجائے خود ایک ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں مبتال ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس
اسی قسم کی صورت حال میں انگریز اپنے حواسوں پر نہ صرف قابو رکھتے ہیں بلکہ
بڑے ہی سنجیدہ اور صوبر ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستانی شوریدہ سری میں بہکی بہکی باتیں
کرتے ہیں۔
برطانوی ہندوستان کو حسن ترتیب کی مثال قرار دیا گیا ہے جبکہ مقامی قدیمی
ہندوستان کو غیر منطقی اور توہم پرست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عالوہ ازیں
انگریز نوآبادیاتی اشرافیہ اور ہندوستان کی مقامی آبادی کے درمیان باہمی تعلقات کی
نوعیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نوآبادکار ہندوستانی محکوموں کی اس طرح
عزت روا نہیں رکھتے جس کی توقع ہندوستانی ان سے کرتے ہیں۔
ٰلہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہا س ناول میں ہندمسلم تہذیب کی استحضاریت ہو یا
مقامی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ۔ فاسٹر جب اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے یہ رائے
دیتے ہوئے نظر آتے ہیں " "England holds India for her goodکہ انگلستان کا
ہندوستان پر قبضہ اس کے سدھار اور بہتری کے لیے ہی ہے تو قاری کے ذہن میں
رڈیارڈ کپلنگ کے مشہور فلسفہ ’’سفید فام نسل کا بوجھ "‘‘ "White Man's burden
کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگرچہ طریقہ کار اور انداز بیاں مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
رڈیارڈ کپلنگ
ناول ِکم Kimو دیگر کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب کی استحضاریت
بعض انگریز مصنفین ہندوستان کی ثقافت اور روحانی فضا سے کچھ اس طرح
متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحریروں میں ایک نیا رنگ دیا۔ ایسے
ہی نمایاں لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ اور ای ایم فاسٹر جیسے لوگ شامل ہیں جنہوں
نے اپنی تخلیقات میں ہندوستان کی بھر پور عکاسی کی۔ یونبرطانوی زیر تسلط ہندوستان
کے متعلق تحریریں ہی ان کی پہچان بن گئیں۔ جوزف رڈیارڈ کپلنگ ایک انتہائی اہم
مصنف اور تخلیق کار ہیں جو ۳۰دسمبر ۱۸۶۵ء بمبئی (حالیہ ممبئی) میں ایک برطانوی
جوڑے ایلس کنگ ) (Alice Kiplingاور جان الک وڈ کپلنگ کے ہاں متولد ہوئے۔ اپنی
جائے پیدائش سے محبت بھرے تعلق اور جذبات کا اظہار انہوں نے بمبئی شہر کے متعلق
ایک نظم لکھ کر کیا جس کی چند سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہر سے ان کی
وابستگی کتنی محبت بھری تھی اور ساتھ ہی بمبئی کی بطور بندرگاہ اہمیت کا بھی پتہ
چلتا ہے۔
Mother of cities to me for I was born in her gate between the
Palms and the sea where the world steamers wait.
پانچ برس کی عمر میں اپنی ہمشیرہ کے ساتھ انہیں انگلینڈ روانہ کر دیا گیا۔ وہاں
زمانہ طالب علمی میں کچھ تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر سکول سے نکل کر یونائیٹڈ
ٔ
سروس کالج میں داخل ہو گیا۔ جس کے ماحول نے اسے Stalky & Coجیسے کہانیوں
کی کتاب کے لیے مواد فراہم کیا۔ بعد ازاں اس کی مالقات اس کی بہن Trixکی دوست
)(Florence Garrardسے ہوئی اور کپلنگ کے پہلے ناول The Light that
Failedکے کردار Maisicکی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ جس سے ہمیں یہ بھی پتہ
چلتا ہے کہ اس کے بیشتر کردار اور واقعات اس کی حقیقی زندگی میں سے ہی لیے
گئے۔ اس کے بعد اس کے والد نے اُسے ہندوستان طلب کرلیا اور اسے الہور میں
مالزمت دال دی۔ جب کہ وہ خود بھی الہور میوزیم میں کیوریٹر کے فرائض سرانجام دے
رہے تھے۔ الہور میں قیام کے دوران کپلنگ نے سول ملٹری گزٹ میں بطور اسسٹنٹ
ایڈیٹر کام کیا اور اس اخبار کو اپنی پہلی محبوبہ قرار دیا جس سے اس کی محبت سچی
تھی۔ ) (Mistress and most true loveاسی عرصہ قیام میں الہور میں اس کی پہلی
نثری کتاب ۱۸۸۶ء میں " "The Departmental Dittiesشائع ہوئی۔ اس کا خاندان ہر
سال شملہ کے پہاڑی مقام پر چھٹیوں میں ایک مہینے کے لیے اقامت پذیر ہوتا تھا۔ سو
اس کے انہی تجربات کو بھی اس کی کہانیوں میں جگہ ملی۔ اس کے بعد ۱۸۸۸ء میں اس
کی کتاب " "Plain tales from the hillsشائع ہوئی۔ اس کے بعد کپلنگ نے الہ آباد
میں ایک بڑے اخبار دی پائینر " "The Pioneerکے لیے کام شروع کردیا۔ اسی
عرصے میں اس کا ادبی کیریئر عروج پر تھا کیوں کہ ۱۸۸۸ء میں اس کی شارٹ
اسٹوریز کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ۱۸۸۹ء کے اوائل میں وہ انگلستان روانہ ہو گیا
مگر اس وقت تک انگلستان کے ادبی حلقے اس سے ناواقف ہی تھے۔ لندن میں ہی اس
کے ناول The Light that Failedکے بعد اپنے برادر نسبتی Wolcott Balestier
کی معاونت سے نولکھا " "Naulakhaتحریر کیا۔ اس کے بعد کپلنگ اپنی بیوی کے
ہمراہ امریکہ روانہ ہو گیا اور Bliss Cottageمیں قیام کے دوران The Jungle
Bookتحریر کی۔ ۱۹۰۷ء میں کپلنگ کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
زیر تحقیق ناول ِکم بنیادی طور پر " "Mcclureمیگزین میں دسمبر ۱۹۰۰ء سے
اکتوبر ۱۹۰۱ء تک سلسلہ وار شائع ہوتا رہا۔ جبکہ Cassellمیگزین میں بھی ۱۹۰۱ء
میں اشاعت پذیر ہوا۔ اسی سال میکملن اینڈ کمپنی نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔
’’کم‘‘ رڈیارڈ کپلنگ کی حیات اور کیریئر میں اتنا ہی ممتاز اور نمایاں ہے جیسا کہ
انگریزی ادب میں خود اس کا اپنا مقام ہے اور اس کے طویل فکشن میں یہ ناول ہر پہلو
سے واحد کامیاب مثال ہے۔ ناول کے پالٹ کی تشکیل میں دوسرے عناصر کے عالوہ
روس اور برطانیہ کی سیاسی چپقلش بھی شامل ہے جسے ناول میں عظیم سیاسی کھیل
" "Great gameکے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ تاریخی واقعات کو
بھی ناول کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ تاریخ کا ناول میں شامل کرنا
ماضی کو تاریخی رنگ میں پیش کرنااور سماج کی عکاسی کرنا ،یہ سب عناصر مل کر
ناول کے بیانیے کو جاندار بناتے ہیں۔ ایسے ہی کپلنگ کا ِکم بھی ہے۔ ناول میں دو
مرکزی کردار ہیں ایک نوجوان کمبال او ہارا جو کہ ہندوستانی فوج کے سارجنٹ کا یتیم
بیٹا ہے جبکہ دوسرا بوڑھا تبتی درویش الما ہے۔ اسی الما کا چیال بن کر ِکم پورے
ہندوستان میں گھومتا پھرتا ہے کیوں کہ الما کو ایک ایسے دریا کی تالش ہے جس میں
نہا کر وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
الہور عجائب گھر کے باہر رکھی زمزمہ توپ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کا یہ
سفر بوڑھے تبتی درویش کے ہمراہ جاری رہتا ہے اور پھر عظیم کھیل کا حصہ بن کر
اس کی مالقات کئی لوگوں سے ہوتی ہے جن میں گھوڑوں کا افغان تاجر محبوب علی
کرنل کریٹن ،لرگان اور ہوری بابو شامل ہیں۔ اسی گریٹ گیم میں ِکم برطانوی خفیہ
ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے جن کا مقصد شمالی پنجاب میں روسی سازش کے
ذریعے پھیالئی جانے والی بغاوت کو ناکام بنانا ہے۔ اسی دوران ِکم کی اصلیت ظاہر
ہونے پر اسے St. Xavierسینٹ زاویئر سکول میں تعلیم کے حصول کے لیے داخل کر
ادیا جاتا ہے جبکہ چھٹیوں میں وہ اپنے گروہ کے ہمراہ سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ ِکم اور
بوڑھا روس ی جاسوسوں سے ملتے ہیں اور لڑکا ان کے کچھ کاغذات چرا لیتا ہے مگر وہ
دونوں پکڑے جاتے ہیں اور بہت دکھ محسوس کرتے ہیں اور اسی پریشانی میں بیماری
میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ مگر ِکم کی روحانی شفائی خوبیوں کی وجہ سے وہ دوبارہ صحت
مند ہو جاتے ہیں اور بوڑھے کو یہ ادراک بھی ہوتا ہے کہ اسے ِکم کے ذریعے مطلوبہ
دریا مل گیا ہے۔
کپلنگ کا تناظر اس ناول میں بہت وسیع ہے اور وہ اس ملک ،اس کے باشندوں،
معاشرے ،پہاڑوں میدانوں کو اپنے گہرے مشاہدے کی بنا پر دامن قرطاس میں یوں اجا
گر کیا ہے کہ پوری تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور یہ ایسی تصویر
ہے جس میں اس کے متنوع رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اپنی جائے پیدا
ئش کے متعلق اسی ناول میں کپلنگ اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں:
A fair land... a most beautiful land in this of Hind... and the land of
)the five rivers is fairer than all. (57
’’ یہ ایک خوبصورت سرزمین ہے اور ہندوستان کی سب سے پیاری سر زمین۔ یہ
پانچ دریائوں کی سرزمین سب سے اچھی۔‘‘
یہ ناول انگریزی ادب میں تاریخی لمحات کے حوالے سے اہم دستاویزبھی ہے اور
سنگ میل بھی۔ ایڈورڈ سعید نے بھی اسے بقول نور حسین ’’روایت کی ایجاد‘‘ ِ جمالیاتی
کہا ہے۔
Kim as a major contribution to this orientalized India or
imagination, as it is also to what historians have come to call
)invention of tradition. (58
جب کہ یہ ناول محض ایک پروپیگنڈہ نہیں بلکہ کپلنگ کے عہد وکٹوریہ کے
ہندوستان کے حوالے سے گہرے مشاہدے کا عکاس ہے۔ اس ناول کے ذریعے بادی النظر
میں اس ملک اور اس کے باشندوں کے لیے مصنف کی محبت کے جذبات بھی عیاں
ہوتے ہیں۔
جیسا کہ " "I an Makean Kiplingنے تحریر کیا ہے کہ یہ ناول:
The Novel, embodies a panoromic celebration of Indian,
presenting as it is does, a magnificient picture of its landscspes,
both urban and rural, and a fascinating array of Native characters
)who for the most part, are warm, generous and tolerant. (59
’’یہ ناول ہندوستان کی خوبصورت اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے جیسا کہ
یہ ہے ،اس کے میدانوں ،دیہاتوں اورشہروں کے مناظر کی شاندار تصویر کشی کرتا ہے
اور مقامی کرداروں کی دلکش قطار جن میں سے اکثر پُرجوش ،فیاض اور بردبار ہیں۔‘‘
کپلنگ کے زیر مطالعہ ناول ِکم اور دوسری منتخب کہانیوں میں ہند مسلم تہذیب
اور اس کے مختلف عناصر کے جائزے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی
حوالے سے کپلنگ کے ’’خدا‘‘ اور ’’ہللا‘‘ کے بارے میں نظریات و خیاالت کاجائزہ اس
کی ایک مشہور نظم The Two-Sided Manکے تناظر میں پیش کیا جائے۔ کپلنگ نے
مذکورہ نظم کے پہلے اور آخری بند کو ِکم کے آٹھویں باب کے آغاز میں شامل کیا ہے:
Much I reflect on teh good and the true. In the faiths beneath the
sun but most upon Allah who gave me two sides to my head, not
one.
Here is health, my brothers, to you. However your prayers are
said, and praised be Allah, who gave me two separate sides to
my head.
)(Stanza 3, 5) (60
اس نظم کے مذکورہ باال وسطی بندوں کے اندر کپلنگ کے وسیع المشرب مذہبی
عقائد و نظریات کی جھلک نظر آتی ہے جن کا دخل اس کی عملی زندگی میں بھی تھا اور
اس کا عکس اس کی ادبی تخلیقات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ حاالنکہ کئی نقادوں نے
کپلنگ کی تخلیقات کو مذہبی عنصر سے خالی دکھایا ہے جن میں بشمول ایڈورڈ سعید بھی
اسی رائے کا مویّد نظر آتا ہے کیونکہ ایک وقت آتا ہے کہ ِکم کو اپنے تشخص کی تالش
مضطرب کرتی ہے اور انفرادی سطح پر ایک قسم کا شناختی بحران درپیش آتا ہے اور
ہمیں وہ اپنے باطن میں ایک ثقافتی آشوب کا شکار نظر آتا ہے۔ یہاں ہمیں ایک برطانوی
سپاہی اور آئرش ماں کا یتیم بیٹا کبھی ہندو کبھی مسلم ،کبھی بدھ کبھی سویلین یا فوجی
اور کبھی سکول کے طالب علم کا روپ دھارتے نظر آتا ہے اور بنیادی طور پر تین
کردار سرانجام دیتا ہے۔ چیال ،طالب علم اور جاسوس۔ جبکہ کپلنگ کی وسیع المشربی
کے بالمقابل مسلمانوں کی سماجی سطح کی وسیع المشربی اور ان کے مذہب عقائد اور
تاریخ کے گہرے احساس کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دیکھیں تو خود بخود ایک ثقافتی
تشخص کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔ ناول کی یہ سطور ہمیں کپلنگ کی مختلف جہتوں
سے آگاہی دیتی ہیں۔
ـ In the course of Novel Kim, (The Orphan Son of a British Soldier
and an Irish Mother)... dresses alternately as a Hindu, Muslim,
Buddhist and Eurasian, as well as British civilian, soldier and
)school boy and plays the main roles. (61
اگرچہ یہ بنیادی طور پر سفری اور مہماتی قسم کا ناول ہے مگر اس کے ساتھ
ساتھ معاشرے کے کثیر طبقات کا بھرپور عکاس بھی ہے ان متنوع طبقات اور مذاہب کے
نمائندہ کرداروں کی عکاسی سے بڑا واضح ثقافتی نقش ابھر کر سامنے آتا ہے اور ایک
نوک قلم سےِ تمدن کی عکاسی ہی اس کا حقیقی جوہر ہے۔ کوچہ و بازار کے چلن کو بھی
مصور کیا اور یوں ایک مکمل معاشرت کا احاطہ کچھ قیود کے ساتھ کیا۔ اسی لیے کپلنگ
کا کمال اس کی معاشرتی عکاسی میں پنہاں ہے۔ ہر طرف زندہ اور جیتے جاگتے لوگ
ہیں۔ وقت گزرن ے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی شکست و ریخت ہوتی رہتی ہے۔ اس پر کسی
کا زور نہیں۔ مگر ان کرداروں کے ذریعے معاصر معاشرے کی تمام تر صورت حال
ہماری بصارت اور سماعت کے دائروں میں متشکل ہو تی ہے۔ اس سے ہمیں بھی آگاہی
ملتی ہے کہ ان سماجی رویوں کے مطالعے کے لیے انہیں ایک وسیع میدان میسر آیا اور
اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ کپلنگ کی اس صالحیت کی تعریف ہنری
جیمس نے ’’خطوط‘‘ کی جلد چہارم (۱۹۱۶ء ۔ ۱۸۹۵ء) مطبوعہ کیمبرج پریس ۱۹۸۴ء
میں " "Richness of the Charactersاور "The liveliness of their journey
جیسے الفاظ کے ساتھ کی ہے
ہند مسلم تہذیب ایک وسیع تر بنیاد رکھنے والی تہذیب ہے اور یہ اسی وسعت کا
جواز ہے کہ ہمارا مذہب(اسالم ) صرف ایک عقیدہ نہیں اس کی ایک تہذیبی اور معاشرتی
جہت بھی ہے۔ جو ابتدا سے ہی رد و قبول کے نظام کے ساتھ تہذیبی اور تمدنی سانچوں
کے اندر اپنے رویوں کو منتقل کرتی نظر آتی ہے۔ برصغیر کا معاشرہ کثیر النسل اور
کثیر المذاہب معاشرہ ہے۔ جو کہ اس کی معاشرتی جمالیات کا ایک خوبصورت منظرنامہ
ہے اسی منظر نامے مینناول نگار کے کرداروں کے تنوع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک
طرف تبتی بدھ الما کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف محبوب علی ایک افغان
مسلم گھوڑوں کا تاجر موجود نظر آتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ ہی ایک بنگالی ہندو ہری چند
مکر جی اور پروٹسٹنٹ اور کیتھولک پادری مسٹر بینٹ ) (Bennetاور فادر وکٹر
)(Victorساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور یہ متاثر کن منظر سامنے آتا ہے کہ وہ
اپنے کرداروں اور کلچر میں مسلم ،بدھ ،انگریز اور جین مذہب کے پیروکاروں کو ایک
ہی قطار میں صف بستہ کھڑے دکھائی دیتا ہے ،اور بھول جاتا ہے کہ ’’وہ اسالمی انداز
میں اپنے گرو کے پائوں چھونے کے جھکا ہوا ہے اور وہ بھی مندر کے باہر۔‘‘
Even the Great Game as he stooped, Muhammadan fashion in
)the dust of the Jain Temple. (62
یہاں کپلنگ سے متعلق یہ ذکر برمحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود عیسائی مذہب کا
پیروکار تھا مگر دنیا کے تمام بڑے مذاہب سے نہ صرف آگاہی رکھتا تھا بلکہ وہ ان کی
بیرونی اور ظاہری رسومات کے بجائے ان کی باطنی اور حقیقی روح سے متاثر دکھائی
دیتا ہے ان تمام عالمگیر مذاہب میں سے وہ کرسچین مذہب کی روایت میں سے انجیل
مقدس کی تعلیمات جیسے قربانی کی قدرواہمیت اور درس محبت سے متاثر ہوتا ہے۔
جبکہ اسالم کا مثبت طرز فکر و عمل پر زور دینااور نظم و ضبط کا پابند بنانا اس کو
متاثر کرتا ہے۔ جبکہ ہندوازم کی مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ منفی تصورات پر
بھی اس کا ردعمل سامنے آیا ہے جیسے کہ ہندوئوں کا زندگی کے بارے میں فراریت اور
رہبانیت پر مبنی رویہ اسے پسند نہیں آیا۔ پھر اس کا ذات پات کی سخت حدود و قیود میں
جکڑا ہوا سماجی نظام بھی اسے متاثر نہیں کر سکا۔ مگر بد ھ ازم کو اس نے ہندوازم پر
فوقیت دی ہے اور اسے یہ نظام زیادہ بہتر لگا۔ دراصل فری میسن نظام
) (Freemasonryسے وابستگی نے اس کے اندر مذاہب عالم سے فطری ہمدردی کا
جذبہ پیدا کیا اور وہ عالمگیر اخالقی اقدار اور انسانی بھائی چارے کا قائل ہو گیا۔ اسی
لیے وہ کہتا ہے کہ ’’عقائد و مسالک میرے نزدیک گھوڑے کے گوشت کی طرح ہیں۔
عقلمند آدمی جانتا ہے کہ گھوڑے اچھے ہوتے ہیں۔ اور سب ہی ان سے مستفید ہوتے ہیں
اور یہ سب کے لیے منافع بخش بھی۔۔۔ اس لیے میرے دل میں یہ مذاہب گھوڑوں کی
طرح ہیں۔۔۔ اپنے اپنے خطے میں ہر ایک کی اپنی خوبیاں اور خصوصیات ہیں۔‘‘
This matter of creeds is like horse-flesh. The wise man knows that
horses are good... that there is a profit to be made from all...
therefore I say in my heart the faiths are like horses. Each has
)merit in its own country. (63
اسی لیے اس ناول مینمذاہب کا تقابل اور ان مذاہب کے اخالقی تصورات اس
نوجوان کے ساتھ ساتھ عمر بھر رہتے ہیں۔ بلوغت کے بعد اسے اپنی ذات اور شناخت کی
کھوج پر مجبور کرتے ہیں۔
ناول کے ابتدائی صفحات پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں کچھ اس طرح کے منظر
نامے سے واسطہ پڑتا ہے کہ ایک 14سالہ یتیم آئرش بچہ ِکم الہور کے عجائب گھر کے
باہر رکھی ہوئی زمزمہ توپ کے اوپر دونوں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے ایسا کرتے ہوئے وہ
میونسپل کمیٹی کے احکامات بھی ہوا میں اڑا رہا ہے اور اس زمزمہ توپ کو آگ اگلنے
واال اژدھا قرار دیا ہے۔
He sat, in defiance of municipal orders, astride the gun Zam-
Zammah on her brick platform opposite the old Ajaib-Gher - the
Wonder House, as the natives call the Lahore Museum. who hold
)Zam-Zammah, that 'fire-breathing dragon'. (64
ان ابتدائی سطور میں وہ زمزمہ توپ جس پر ِکم کو سوار دکھایا گیا ہے۔ اس کی
ایک پوری تاریخ ہے۔ اس لفظ زم زمہ کے کئی معانی ہیں جن میں سے ایک مفہوم یہ ہے
خاص ترنم اور لحن کے ساتھ گانے کو زمزمہ کہتے ہیں۔ جبکہ آتش پرست لوگ اپنی
عبادت گاہوں میں پرستش کرتے ہوئے جو بھجن گاتے ہیں اسے بھی زمزمہ کہتے ہیں۔
فارسی زبان میں شیر کی دھاڑ کو بھی زمزمہ کہتے ہیں اور شاید انہی معنی کی مناسبت
سے اس کا یہ نام پڑ گیا کہ دوران جنگ جب اس سے گولہ باری کی جاتی تو اس توپ
کی آواز شیر کی گرج اور دھاڑ کی طرح نکلتی۔ احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان کے
وزیر اعظم شاہ ولی خان نے دو بڑے سائز کی توپینتیار کرائیں اور اسے سب سے پہلے
۱۷۶۱ء مینپانی پت کی لڑائی میں استعمال کیا گیا اور واپس جاتے ہوئے ایک توپ الہور
میناپنے گورنر خواجہ عبید کے سپرد کی۔ ۱۷۶۲ء میں ہری سنگھ بھنگی نے الہور پر
حملہ کیا تو اسلحہ خانہ سے یہ توپ بھی ملی۱۸۰۲،ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے
بھنگیونکو شکست دے کر اس پر قبضہ کیا۔ انگریز عہد میں جب پرنس آف ویلز نے
ہندوستان کا دورہ کیا تو زمزمہ توپ کو عجائب گھر کے باہر چبوترے پر نصب کرادیا۔
۱۹۷۷ء میں اس کو مال روڈ الہور پر نصب کیاگیا۔ کپلنگ کے اسی مشہور ناول ِکم کی
نسبت سے اسے ِکمز گن) ، (Kim's gunزمزمہ یا بھنگیوں کی توپ کے ناموں سے یاد
کیا جاتا ہے جس طرح یہ اپنے قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو دعوت فکر دیتی
ہے اسی طرح ناول کی یہ ابتدائی سطور پڑھنے کے بعد قاری کی سوچ اور فکر کے
کئی دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ عبدہللا (مسلمان) اور چھوٹا الل (ہندو) ِکم کے ساتھ
بحث کرتے ہیں کہ انہیں بھی توپ پر بیٹھنے کا موقع دیا جائے تو ِکم کا جواب کئی
پہلوئوں سے غور کرنے کا متقاضی ہے۔ کیوں کہ اس مکالمے میں کپلنگ نے انگریزوں
کی فتح کے ساتھ حاکم و محکوم ،آباد کاری اور زیر دست کی پوری داستان بیان کر دی
ہے۔ پہلے عبدہللا (مسلمان) کو یوں جواب ملتا ہے۔
Off! Off! Let me up!' cried Abdullah, climbing up Zam-Zammah's
wheel.
'Thy father was a pastry-cook, Thy mother stole the ghi" sang
Kim. 'All Mussalmans fell off Zam-Zammah
)long ago! (65
اس کے بعد چھوٹا الل (ہندو) جب توپ پر بیٹھنے کے لیے کہتا ہے تو اس کو بھی
اس طرح کا جواب سننا پڑتا ہے۔
"The Hindus fell off Zam-Zammah too. The Mussalmans pushed
"them off
اس کے بعد ناول میں باطنی سفر شروع ہوتا ہے جو ایک طرف مذہبی اور مابعد
الطبیعاتی جستجو اور دوسری طرف ذاتی شناخت کی تالش کے لیے جاری رہتا ہے۔ سو
ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہینکہ انسان شروع سے ہی ان سواالت کے جوابات تالش
کرنے میں محو رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کی پہچان اور حقیقت کیا ہے؟ اس کی ابتدا
اور انتہا کیا ہے؟ وغیرہ ۔ اسالمی تعلیمات میں بھی انسان کو اپنے من میں جھانکنے اور
اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے کیوں کہ صوفیوں نے بھی خود شناسی کو
خدا شناسی کا مقدمہ قرار دیا ہے۔ ناول میں یوں تو کئی مقامات کی سیر اور سیاحت ملتی
ہے مگر سب سے اہم یہی باطنی سیر ہے۔ اس ناول میں یہ فکری پہلو جاری و ساری ہے
اگرچہ یہ اپنے اندر متنوع جہات سمیٹے ہوئے ہے مگر ناول کے ابتدائی صفحات سے ہی
عرفان ذات کی کاوشوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور ناول کے اختتام تک جاری رہتا ہے اور
عرفان ذات کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس پر ِ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انسان جب
اندرونی فطرت کے اصل بھید آشکار ہونے لگتے ہیں۔
کپلنگ جب ِکم کو ’’کل عالم کا ننھا دوست "‘‘ "Little friend to all world
قرار دیتا ہے تو ساتھ ہی اس سوال کی سہ بار تکرار ہوتی ہے۔
)Who is Kim? (66
پھر آگے بڑھتے ہیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے۔
)What am I? Mussalman, Hindu, Jain or BUddhist? (67
اور ناول کے آخری صفحات میں جواب کے ساتھ سوال کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے:
)I am Kim, i am kim, and what is Kim? (68
اس طرح ناول کی پوری کہانی میں اسالم ،بدھ ازم ،جین مت اور دوسرے مذاہب
بشمول عیسائیت کے اعتقادات اور عبادات کے جواز اور اہمیت کے متعلق کئی سواالت
تصور
ِ بھی پیش ہوتے ہیں۔ کیوں کہ خاص طور پر ہندو اور مسلم دونوں تہذیبوں کے
حقیقت کی بنیاد مابعد الطبیعات پر ہے اور یہی مابعد الطبیعات بعض اوقات آفاقی حقیقتوں
کا عالقائی اظہار بھی ہے۔ کیونکہ مذکورہ باال سواال ت صرف اسالمی تعلیمات کا ہی
خاصہ نہیں بلکہ ویدی تہذیب میں ویدوں کے حصے ،جو منتر ،برہمن اور اپنشد ہیں اور
ویدی تہذیب کے درجہ بدرجہ ارتقا کے مظہر ہیں۔ ان میں اپنشدوں کا مرکزی مسئلہ بھی
حقیقت کی تالش ہے اور یہ دو حصوں میں منقسم ہے ایک نظری ،دوسرا عملی یا
اخالقی۔ نظری سوال کے دو پہلو ہیں ایک موضوعی دوسرا معروضی۔ ایک یہ کہ نفس
انسانی (آتما) کی کیا حقیقت ہے دوسرے یہ کہ اس کے معروض کی یعنی اس وجود کی
جسے انسان خارج میں محسوس کرتا ہے ،اس کی کیا حقیقت ہے؟ پھر یہ بھی کہ اس
منزل تک کیسے پہنچا جائے جو کہ موکش یا نجات کہالتی ہے۔
تبتی الما ہمیشہ گہرے استغراق ،مراقبے اور گیانی کیفیت میں گم رہتا ہے گویا اس
کے حواس معطل ہوں اور اس کو اپنے ارد گرد کی کوئی خبر نہ ہو جبکہ اس کے
برعکس ِکم حیات کے خنداں ،بحر بیکراں کا نظارہ بڑے جوش و خروش سے کرتا ہے
اور اپنے گرد و نوا ح کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن الما اپنی نگاہیں ان
چیزوں پر ہر گز نہیں کھولتا اور پھر یہاں کپلنگ الما کی زبانی زندگی کی جبریت کا
زمانہ قدیم سے ہیٔ تذکرہ کرتا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری میں جبر و قدر کا سوال
مجبور محض ِ باعث نزاع رہا ہے جس کے مطابق جبر یہ مکتب فکر والے انسان کو
مانتے ہیں اور قدریہ کے حامی انسان کو بااختیار ہستی سمجھتے ہیں۔ فالسفر عالم میں
برگساں انسان کو مختار ،محی الدین ابن عربی اور شوپن ہائر اسے مجبور اور بے بس
مانتے ہیں جبکہ عالمہ اقبال کے ہاں جبر وقدر کی دونوں صورتیں نظر آتی ہیں۔ اسی
طرح ناول کی مندرجہ سطور میں جبریت اور ہندوئوں کے عقیدہ تناسخ کی بھی بازگشت
سنائی دیتی ہے۔ تبتی الما دوران سفر مسلسل یکساں آواز و الحان کے ساتھ گاتا ہے۔
They are all bound upon the Wheel,' said the lama. 'Bound from
)life after life. To none of these has the Way been shown. (69
ان سطور کو پڑھ کر اردو کے نامور شاعر مجید امجد کی نظم ’’کنواں ‘‘ کی یہ
سطور یاد آتی ہیں۔
یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے
کنواں چل رہا ہے کنواں چل رہا ہے
مجبور محض ہے ِ کپلنگ ان سطور میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان
اور زندگی کی اسی جبریت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ
ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ انیسویں صدی کی انگریز ناول نگار جارج ایلیٹ (George
) Eliotکے یہاں بھی یہی فکر کارفرما ہے کہ انسان کی بنیاد میں ہی دکھ پنہاں ہے جس
کے آگے وہ مجبور محض ہے جبکہ قراۃ العین حیدر نے ’’کار جہاں درا زہے‘‘ کی ابتدا
میں ہی لکھا ہے کہ
۔۔۔فرشتے ہیں کہ لکھے چلے جا رہے ہیں۔ ناحق پکڑواتے ہیں پلٹ کر بند ٔہ خاکی سے
نہیں پوچھتے۔۔۔ دور ایک موونگ فنگر ) (Moving fingerہے جو لکھ کر آگے سرک
جاتی ہے۔ ()۷۰
جب الما اور ِکم سفر کے دوران سانپ کو دیکھتے ہیں تو ِکم کا ردعمل ایک
مغربی کا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ چھڑی اٹھائے اور اس سانپ کا سر کچل ڈالے جیسا کہ
ڈی ایچ الرنس کی نظم " "Snakeمیں ہوتا ہے مگر الما اسے سمجھاتا ہے کہ زمیں پر
دوسری مخلوقات کی طرح سانپ بھی زندگی کے پہیے/چکر " "Wheel of lifeکا پابند
ہے اور وہ کہتا ہے کہ اسے اپنی زندگی جینے دو۔""Let him live out his life
وہ سانپ کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور اس کے لیے اس موجودہ زندگی
کی قید سے جلد رہائی اور آزادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے یہاں ِکم کا رد عمل بطور
ایک مغربی کا جبکہ الما کا ردعمل بدھ کے سچے پیروکار کا ہے جبکہ مسلم کردار
محبوب علی کا یہ فقرہ سامنے آتا ہے۔
)God's curse on all unbelievers. (71
ازاں بعد ناول میں شاملیغ ) (Shamleghجیسی پستی زدہ عورت ملتی ہے جسے
کافی عرصہ پہلے( Kerslistianگورے صاحب) نے چھوڑدیا تھا اور اس سے نکاح
کرکے اپنایا نہیں تھا۔ اس سے کپلنگ کی کہانی " "Lispethکی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
یہ عورت خدا اور مذہب کے بارے میں جو رائے دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔
Thy Gods are lies; thy works are lies; thy words are lies. There
)are no Gods under all the Heavens. I know it. (72
جب ِکم کو الما کی اس کمزوری کی حالت مینیہاں النے کی اپنی سنگین غلطی کا
احساس ہوتا ہے تو یہی عورت یونزبان کھولتی ہے۔
Try mine. I am the Woman of Shamlegh......Now I give alms to
)priests who, are heathen, curse me. (73
پھر وہ طنزیہ انداز میں انہیں ک ہتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے توانائی بخشے
اور کوئی معجزہ رونما ہو۔ اس خدا کو پکارو۔
May be it will give him (the Lama) strength, make a charm! call on
)thy great God. Thou are a priest. (74
یوں کپلنگ ایک مذہبی اعتقاد رکھنے والی عورت کے ملحدانہ کردار کو یوں
سامنے التا ہے کہ بطور ملحد اور الادری وہ خود کپلنگ کے مذہبی تناظر کو بھی پیش
کرتی ہے اور اس کے اندھے مذہبی اعتقادات کے بارے میں رویے کی عکاسی بھی کرتا
ہے مگر ساتھ ساتھ وہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ تمام تر مشکالت کے باوجود خدا کتنا مشفق و
مہربان ہے۔ اس کے اپ نے اعتقادات و نظریات و معیارات ضرور ہیں مگر وہ دوسرے
مذاہب کی اچھائیوں کی تعریف کرتے ہوئے بھی نظر آتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ تمام مباحث ہماری تہذیب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہاں
ان کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ ایسی صورت حال میں جذباتی اور
اخالقی کشمکش آڑے آ جاتی ہے اور اس جذباتی اور اخالقی کشمکش میں اگر اجتماعی
حس مضبوط نہ ہو تو پھر اپنی شناخت اور اس سے وابستہ وفاداریوں کا مسئلہ بھی
درپیش آتا ہے اور ایک قومی المیہ اور آفاقی کشمکش کا احساس ابھر کر سامنے آتا ہے
اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ناول ’’ ِکم‘‘ مینمصنف نے دیوماالئی رومانویت سے مذہبی
اور فلسفیانہ موشگافیوں تک انسانی جدوجہد کی عظیم اور مسلسل تاریخ کو سمیٹنے کی
کوشش کی گئی ہے۔
اسی طرح کپلنگ کی دوسری کہانیوں اور تخلیقات میں بھی خدا ،ہللا ،اسالم ،
محمد ،قرآن ،اسالمی اقدار وعقائد کے ساتھ ساتھ مسلم فکر و ادبؐ پیغمبر اسالم حضرت
کے اشارات اور حوالہ جات جابجا ملتے ہیں جیسے کہ اپنے ایک خط میں جو کہ انہوں
نے ایڈیٹر رابنسن ) (Kay Rabinsonکے نام لکھا۔ اس مینجہاں الہور شہر کے متعلق
لکھا ،وہاں مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا حوالہ بھی دیا ہے۔
I am deeply interested in the queer ways and works of the people
of the land. I hunt and rummage among 'em; knowing Lahore
city.. that wonderful, dirty, mysterious ant-hill blindfold and
wandering through it like Haroun Al-Rashid in search of strange
)things. (75
سولہ سالہ کپلنگ جب دوبارہ الہور واپس آیا تو اس کی ذہنی وابستگی ـ’خدا‘ اور
’ہللا‘ کے مابین منقسم تھی۔ مگر دونوں ہی اس کے لیے یکساں قابل حمد و تکریم تھے۔ وہ
بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں بہت ہی سکون محسوس کرتا تھا۔ الہور بلکہ پورے پنجاب
میں جو کہ غا لب مسلم اکثریتی عالقہ تھا۔ وہاں اس کے شباب کے بہترین پانچ سال بسر
" میںSomething of myself" ہوئے۔ اسی کی طرف انہوں نے اپنی سوانح عمری
بھی اشارہ کیا ہے۔
My life had lain among muslims, and a man leans one way or
other according to his first service. (xxxvi-68) (76)
ء میں جو مشرق کی سیر کی وہ بھی مانوس اسالمی دنیا کے۱۹۱۳ پھر اس نے
خوشبوئوں اور ان یادوں کی تجدید تھی۔ اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے،مناظر
کہ ہارون الرشید اس طوفان خیز قدیم بغداد میں اتنی طمانیت و فرحت محسوس نہیں کرتا
ہو گا جتنی خوشی میں محسوس کر رہا تھا۔
Praised be Allah for the diversity of His creatures and for the first
advantages of travel and for the glories of the cities of the earth,
Harun-al-Rashid, in roaring Bagdad of old, never delighted
himself to the limits of such a delight as was mine. (77)
"Egypt of " کے بارے میں ساحروں کے مصرEgypt" قدیم اسالمی ملک مصر
میں گرجا گھر اور مسجد و منبر کا تقابل کرتے ہوئے اپنے تاثرات یوںMagicians"
:قلم بند کرتے ہیں
Christian churches may compromise with images and side-
chapels where the unworthy or abashed can traffic with
accessible saints. Islam has but one pulpit and one stark
affirmation- living or dying, one only - and where men have
repeated that in red-hot belief through centuries, the air still
shakes to it. (78)
اسی مصر کی سیاحت کے دوران قاہرہ میں واقع ہزار سالہ قدیم االزہر یونیورسٹی
میں پڑھائے جانے والے قرآنی فکر پر تشکیل دیئے گئے نصاب کے بارے میں لکھتے
:ہیں
The students sit on the ground, and their teachers instruct them,
mostly by word of mouth, in grammar, syntax, logic, al-hisab
which is arithmetic; al-Jabr wal Muqublah, which is algebra; at-
tafsir, commentaries on the Law of Islam, which leads back, like
every-thing, to the Koran once again. (For it is written, "Truly the
Quran is none other than a revelation") It is a very comprehensive
curriculum. (79)
’’ طلباء میدان میں بیٹھتے ہیں اور ان کے اساتذہ ان کو زیادہ تر زبانی تعلیم دیتے تھے،
گرامر ،نحو ،منطق کے بارے میں’ ،الحسابـ‘جو کہ ریاضی ہے’ ،الجبر والمقابلہ‘ جو کہ
الجبرا ہے۔ ’التفسیر‘ جو کہ قرآن کی تشریح ہے۔ اور آخر میں جو کہ بہت زیادہ دقت طلب
ہے’ ،الحدیث‘ روایات اور اسالمی فقہ/قانون کی تفسیر ہے جو کہ ہر چیز کی طرح
پیچھے تک اس کا رجوع قرآن تک ہوتا ہے (کیونکہ یہ تحریری ہے۔ یقینا قرآن وحی کے
عالوہ کچھ نہیں) یہ ایک نہایت ہی جامع نصاب ہے۔‘‘
اگر ہم اسالم ،مسلم تہذیب اور مسلمانوں کے بارے میں کپلنگ کی عمومی رائے کا
جائزہ لیں تو ہمارے سامنے کچھ اس طرح کی رائے سامنے آتی ہے۔
Some men are Mohammedan by birth, some by training, and
some by fate, but I have never met an Englishman yet who hate
Islam and its people as I have met Englishmen who hated some
other faiths. Mussalmans awaderi as the saying goes- where
there are Mohammadens there is a comprehensible civilization.
)(80
نوشتہ تقدیر کے باعث،
ٔ ’’کچھ پیدائشی مسلمان (محمڈن) ہیں کچھ اپنے عمل سے اور کچھ
لیکن ابھی تک میں کسی ایسے انگ ریز سے نہیں مال جو کہ مذہب اسالم سے اور اس کے
پیروکاروں سے نفرت کرتا ہو جیسا کہ میں کچھ دوسرے مذاہب سے متنفر انگریزوں سے
مل چکا ہوں۔ مسلمانی آوادانی ۔ جیسا کہ مقولہ جہاں کہیں بھی محمڈن (مسلمان) ہیں وہاں
ایک جامع تہذیب ہے۔‘‘
اسی لیے نقادوں نے کپلنگ کو نہ تو کٹر مذہبی آدمی قرار دیا ہے نہ ہی اسے الحاد
پرست کہا ہے اس کی کہانیوں اور تخلیقات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی
ابتدائی کہانیوں اور نظموں میں جو کہ ۱۸۸۹ء۔۱۸۸۲ء کے دوران میں سول اینڈ ملٹری
گزٹ میں شائع ہوئیں ان میں اسالمی اقدار اور اسالم کا گہرا تاثر ملتا ہے۔ ۱۸۸۸ء میں
اس کی کتاب " "The Plain Tales from Hillsجو انہی کہانیوں پر مشتمل تھی شائع
ہوئی۔ ۱۸۹۹ء میں " "The Outward Boundایڈیشن شائع ہوا تو اس کی ابتدا بسم ہللا
سے ہوئی۔
In the name of God the compassionate- the merciful.
یہ تعارف ایک خط کی شکل میں ہے جو کہ ’’اس تجارتی مال کے مالک (یعنی
کپلنگ) کی طرف سے بحری جہاز کے ناخدا ) (Skipperکے لیے ہے جس پر قیمتی
سامان (کپلنگ کا ادبی سرمایہ) لدا ہوا ہے اور اسے مغرب کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتا
ہے مصنف اپنے اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ہللا کے حضور دعا گو ہے اور اپنے
سفر کے آغاز و اختتام دونوں پر ہی اپنی عقیدت اور شکر گزاری کے اظہار کا پابند ہے۔
On Bhao Malung we pray before the voyage; at the Takerie
)Masjid we give thanks when the voyage is over. (1 , X) (81
یعنی اس ابتدا میں لفظ خدا بعد میں استعمال ہونے والے لفظ ہللا کے متبادل ہے ْ
جیسے کہ اپنے آخری کام یعنی سوانح " "Something of Myselfکا آغاز بھی ہللا کے
بابرکت نام سے کیا۔
By ascribing all good fortune to Allah, the Dispenser of Events I
)begin... (82
ق کائنات ہے اور اتنی عیسائی اور مسلم دونوں ہی کا خدا ہو یا ہللا ،وہ بہر حال خال ِ
عظیم ہستی ہے کہ مخلوق کے فہم و ادراک سے بھی عظیم تر ہے کپلنگ کی تحریروں
میں بھی خدا ایک ایسی ہی ہستی ہے جو واجب التعظیم اور الئق عبادت ہے اور ہر چیز
پر قادر ہے کپلنگ کی کتاب " "Debits and Creditsجو کہ چودہ شارٹ اسٹوریز اور
اکیس نظموں پر مشتمل ہے اس میں ایک کہانی ""The Enemies to Each Other
بھی شامل ہے جس میں ابو علی جعفر بن یعقوب االصفہانی حضرت آدم ؑ کی تخلیق کا
واقعہ بتاتے ہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے اس کہانی میں حضرت آ ؑ
دم و حو ؑا کی
تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کے جنت سے اخراج کے بعد زمین پر بھیجے جانے واال واقعہ
کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے کہ اس میں اسالمی اسماء و عالمات کا بکثرت استعمال
دیکھنے میں آتا ہے اور پوری کہانی میں اسالمی ماحول اور فضا غالب ہے اس کہانی
طوبی ،شجر ممنوعہ وغیرہ کے تصورات کی اساطیری ٰ میں باغ ارم سے وابستہ شجر
اہمیت متشکل ہوتی ہے اور اسی طرح اسالمی نام اور کردار بھی حصہ بنے ہیں۔ جیسے
دم کو ""The Greater Substitute خدا یا ہللا کو " "The Benefactorحضرت آ ؑ
اور جد امجد " "The Pure Forefatherفرشتہ جبرائیل کو " "Gabrielاور ہابیل و
قابیل کو بالترتیب Ableاور Cainلکھا گیا ہے۔ اس سے قبل انگریزی ادب میں جان
ملٹن نے بھی پیراڈائز السٹ (فردوس گم گشتہ) تحریر کی جس میں خدا کے خالف بغاوت
اور آدم و حوا کے جنت سے اخراج کے واقعہ کو رزمیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس
کہانی میں Eblisابلیس ملعون " "The Accursedشیطان کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس
پورے واقعے کا ذکر چونکہ قرآن مجید میں بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے اور اس کہانی
کی ابتدائی سطور پر غور کیا جائے تو ذہن میں اسالمی روایت کے اس اہم اور بنیادی
واقعے کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور اسالمی اقدار کے گہرے اور دور رس اثرات
نمایاں نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر مالئکہ کے حوالے سے جیسا کہ اسالمی تعلیمات میں
بھی ہے کہ خدا نے فرشتوں کو اپنے اپنے کام پر متعین کر رکھاہے جیسے کہ جبریل ؑ کو
صور پھونکنے کے وحی ،میکائیل ؑ کو رزق ،عزرائیل ؑ کو قبض ارواح اور اسرائیل ؑ کو ُ
فرائض تفویض کیے گئے۔
It is narrated by Abu Ali Jafir Bin Yakub-Ulisfahani that when in
his determinate will, the Benefactor had decided to create the
Greatest Substitute (Adam), He dispached, as is known, the
faithful and excellent Archangel Jibrail to gather from the Earth
clays, loams, and sands endowed with teh various colors and
attributes, necessary for the substance of our pure Forefather's
)body. (83
جب مقرب فرشتہ جبرائیل زمین کو قائل کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ وہ اسے
مطلوبہ مواد حاصل کرنے دے کیوں کہ وہ اس کی رحم طلب التجا سے متاثر ہو جاتا ہے۔
زمین ملتجیانہ انداز میں اپنا موقف یوں بیان کرتی ہے:
I adjure thee to abstain from thy purpose, lest eveil and
candemnation of that person who is created out of me should
later overtake him, and the abiding (sorrow) be loosed upon my
head. I have no power to resist the will of the Most High, but I take
)refuge with Allah from thee. (84
’’ میں تمہیں اپنے مقصد براری سے روکنے کی قسم دیتی ہوں کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ
میری مٹی سے تخلیق کردہ شخص کی برائی اسے آگھیرے اور پھر اس کے دکھ مجھ پر
حاوی ہو جائیں میرے پاس رب عظیم کی مرضی کے خالف جانے کی طاقت اور مجال
نہیں لیکن میں اس سے ہللا کی پناہ مانگتی ہوں۔‘‘
اس کے بعد میکائیل ) (Michaeelکو رب کی طرف سے زمین پر نزول اور
مطلوبہ مادہ النے کی ہدایت ہوتی ہے۔ مگر وہ بھی ناکام رہتا ہے لیکن عزرائیل جو کہ
اسالم میں موت کا فرشتہ " "Angel of Deathہے وہ جاتا ہے اور مطلوبہ مٹی لے آتا
ہے اگرچہ زمین مزاحمت کرتی ہے مگر
He closed his hand upon her bossom and tore out the clays and
)sands necessary. (85
جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ باز کیوں نہیں آیا تو اس نے جواب دیا کہ فرض کی
ادائیگی رحم سے زیادہ مقدم تھی۔
""Obedience (to thee) was more obligatory than pity (for it).
پھر اس مٹی کو خشک کرنے کے لیے ’’طائف اور مکہ )‘‘ (Taif and Mecca
کے درمیان پھیالیا جاتا ہے درمیان میں کتاب پیدائش " "Book of Genesisکے مطابق
زوال آدم کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں اور مور " "Peacockکی سزا کا بھی ذکر آیا
ہے اور عہد نامہ عتیق " "Old Testamentکی کہانی کے مطابق آدم ؑ و حو ؑا کو
نوح اور ان کی بیوی کے مثل قرار دیتے ہوئے قربان گاہ " "Altarکی تعمیر حضرت ؑ
کرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں اور پھر خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے
Get ye down, the one of you an enemy unto other.
اسی طرح جب اس واقعہ کی تکمیل ہوتی ہے تو یہ الفاظ سامنے آتے ہیں
My compassion exceedeth my wrath.
ــ’’یعنی میرا رحم میرے غضب سے بڑھ کر ہے۔‘‘
ان الفاظ سے قرآن مجید کی سورہ االنعام کی آخری آیت ( )۱۶۵کی بازگشت سنائی
دیتی ہے کہ ’’تیرا رب جلد گناہوں کا بدلہ دینے واال ہے اور بے شک و ہ معاف کرنے
واال رحیم ہے۔‘‘ ()۸۶
کپلنگ کی ایک اور کہانی "۱۸۸۵ ، "The City of Dreadful Nightء میں
بھی اسالمی قدروں کے گہرے اثرات نمایاں ہوتے ہیں اس کہانی میں اس نے اگست کے
مہینے میں الہور کی ایک گرم اور حبس زدہ رات کی تصویر کشی یوں کی ہے کہ وہ
دور درازعالقے سے سفر کر کے شہر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی پسند اور مطلب کی
چیزوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہم اس کہانی کے ذریعے شہر کا طائرانہ جائزہ لیتے
ہیں ہمینمکانوں کی چھتیں نظر آتی ہیں جبکہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھوں پر بے چین
بے قرار مرد و خواتین اور بچے خوابیدہ و نیم خوابیدہ حالت میں چاند کی چاندنی میں
الشوں کی طرح نظر آتے ہیں پورا شہر ہی تاریک قوتوں کی گرفت میں جکڑا ہوا نظر آتا
ہے تو ایسے میں ہر قسم کے تاریک اور منفی اثرات اذان کی آواز کے ساتھ ہی چھٹتے
نظر آتے ہیں گویا نور کی ندیاں رواں ہو جاتی ہیں۔ ذیل کی سطور میں کپلنگ نے اذان
صبح کے خوشگوار اثرات کو کس ماہرانہ اور فنکارانہ چابک دستی سے بیان کیا ہے ۔
اگرچہ یہ اقتباس کچھ طویل ہے مگر کپلنگ کی اسالمی اقدار سے گہری وابستگی کا بین
ثبوت ہے:
Allah ho Akbar, then a pause while another Muezzin somewhere
in the direction of the Golden Temple takes up the call- Allah ho
Akbar. Again and again: Four times in all; and from the bedsteads
a dozen men have risen up already. I bear witness that there is no
God but God. What a splendid cry it is, the proclamation of the
creed that brings men out of their beds by scores at midnight.
once again he thunders through the same phrase, shaking with
the vehemence of his own voice: and then far and near, the night
)air rings with Mohomed is the Prophet of God. (IV, 42-43)(87
موذن کی گولڈن ٹیمپل والی طرف سے ’’ہللا اکبر! پھر ایک وقفے کے بعد کسی اور ٔ
صدائے اذان ہللا اکبر (تکبیر) کے الفاظ کے ساتھ بلند ہوتی ہے۔ بار بار ،چار مرتبہ
دہرائی گئی۔ درجنوں لوگ پہلے ہی اپنے بستر چھوڑ چکے تھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ
خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا ہی شاندا رپکار ہے یہ! ایمانیت کا ایسا اعالن جو کہ
سینکڑوں لوگوں کو نصف رات کو بستروں سے اٹھا دیتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر فضا اسی
موذن کی آواز شدت جوش سے لرزتی ہے اور پھر دور و جملے سے گونجتی ہے۔ ٔ
’’محمد ہللا کے
ؐ نزدیک ،رات کی تاریک فضا ایک مرتبہ پھر ان الفاظ سے گونج اٹھتی ہے
رسول ہیں۔‘‘
اسالمی ادب و تاریخ کی جھلک کپلنگ کی کئی نظموں اور کہانیوں میں بڑی
واضح نظر آتی ہے جیسے کہ فارسی کے مشہور شاعر صوفی شیخ سعدی شیرازی کے
حوالے سے " "One view of the Question, 1890میں لکھتے ہیں
And ye know that Saadi saith:-
"How many the merchant westward fare when he hears the tale of
)teh tumults there? (VI, 284) (88
’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سعدی نے کہا کہ کتنے ہی تاجر مغرب کی جانب سفر
کرتے ہیں جب وہ وہاں کی ہنگامہ خیز داستانیں سنتے ہیں۔ اس کے عالوہ دو اور بہت ہی
مشہور فارسی شعرا یعنی عمر خیام کی رباعیات اور حافظ شیرازی کے اشعار و اقوال
کے کئی حوالے بھی کپلنگ کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ رباعیات عمر خیام تک رسائی
فٹز جیرالڈ کے ا نگریزی تراجم کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس کے عالوہ الف لیلوی کہانیوں
""The Arabian Nightsکے بے شمار حوالہ جات بھی ملتے ہیں جیسے کہ
""Stalky & Co. 1899کے دوابواب بعنوان " "Slaves of the Lampحصہ اول،
دوم بھی اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ داستان الف لیلہ ضرور اس کے زیر مطالعہ رہی۔
جبکہ ایک اور خاموش تمثیل بعنوان " ، "The Aladin Companyدی ہللا دین کمپنی،
بھی اسی کی بازگشت ہے ان ادبی مثالوں کے عالوہ اسالمی تاریخ کے کئی حوالہ جات
بھی اس کی تحریروں میں سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر مغل بادشاہوں کا ذکر کئی
کہانیوں میں ملتا ہے جیسے کہ""The Amir's ، "Akbar's Bridge, 1930
" Homily, 1891جو کہ افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے متعلق ہے اس کی بڑی
واضح مثالیں ہیں۔
کپلنگ کی کہانیوں کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی
کہانیوں میں جو بھی مسلم کردار شامل کیے گئے ہیں ان کے مطالعے سے ہی یہ بات
مترشح ہوتی ہے کہ اسالم کے بارے میں اس کی کیا رائے تھی؟ کیوں کہ تقریبا تمام ہی
مسلم کردار متحرک اور باعمل ہیں جیسے کہ " "Gunga Dinمیں گنگا دین کا کردار
ہے جو کہ ہندوستانی فوج میں بحیثیت سقّہ فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان قربان
کر دیتا ہے۔
The Ballad of East and Westمیں ’کمال‘ جو کہ پٹھان رہزن ہے اپنی
بہادری اور شجاعت کی بنا پر کرنل کے بیٹے کی ستائش اور عزت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
Fuzzy-Wuzzyمینمسلم سوڈانی قابل تکریم جنگجو ہیں۔ "The Head of the
"Districtمیں خداداد خان ایک دیانتدار ،آہنی عزم واال بہادر کردار ہے ناول ِکم میں
گھوڑوں کے تاجر محبوب علی کا کردار الما کے کردار کے برعکس حرکت و عمل کا
نمائندہ کردار ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسالم کی نمائندگی بطور مثبت قوت اور
طرز عمل کی گئی ہے اور تہذیب اسالمی کے یہی عناصر ہیں جن میں اخوت ،رواداری،
مساوات ،آزادی ،احترام انسانی ،شائستگی ،روحانی بلندی ،اخالقی پاکیزگی اور نظم و
ضبط وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کپلنگ کو بہت متاثر کیا ۔ اسی لیے اس کی سوانح
عمری " "Something of Myselfمیں کئی مقامات پر قرآنی سورتوں کے حوالے
ملتے ہینجیسا کہ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کپلنگ نے قرآن مجید کی دوسری سورہ
البقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے " "High above manking I raised youیعنی انہیں
تمام انسانیت میں افضل مقام دینے اور پھر سورہ المائدہ (آیت )۶۴:کا حوالہ دیتے ہوئے
انہیں انتشار پھیالنے والی قوم قرار دیتے ہوئے اسی آیت کے مطابق یہ بھی کہا کہ انتشار
پھیالنا ہللا کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے۔
حوالہ جات
محمد صدیق قریشی ،کشاف اصطالحات تاریخ ،مقتدرہ قومی زبان ،اسالم () ۱
آباد ،طبع اول ۱۹۸۸ء ،ص ۱۵۷
مظفر حسن ملک ،ڈاکٹر ،ثقافتی بشریات ،مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد، () ۲
،۲۰۰۴ص ۹۷
وہاب اشرفی ،مابعد جدیدیت (مضمرات و ممکنات) ،پورب اکادمی ،اسالم () ۳
آباد ،ط :اول ۲۰۰۷ء ،ص ۱۱۸
Moore, Robin, J. Paul Scottls Raj. London, Heinamann )(4
1990, p:172
سید کامران کاظمی ،مقالہ نگار ،اردو ناول میں عصری آگہی ،غیر مطبوعہ () ۵
مقالہ برائے پی ایچ ڈی ،وفاقی اردو یونیورسٹی اسالم آباد ،۲۰۱۳ ،ص ۱۲
Donald Hannah, Dirty Type Scripts, Paul Scott" working (6)
method in "The Raj Quartet, The Journal of Commonwealth
Literature. XXVII. 1(1192) p:157
Satya Brat Singh, Historians distanced from History, (7)
The Commonwealth Review, 1-2(199) p:146
Peter Childs, Paul Scott's Raj Quartet: History and (8)
Division, 1998, p:11
Loomba, Ania. Colonialism/Post Colonialism "The New (9)
Critical Idioms, New York; Routledge 2004, p:81
ایجوکیشنل بک، علی گڑھ، مترجم ابوالکالم قاسمی، ناول کافن،ای۔ایم فاسٹر )۱۰(
۲۰ ء ص۲۰۰۱ ،ہائوس
Scott, p:55,56) (Quoted by Alen a Michalkova, British and (11)
Indian Identities and clashes in Paul Scott's The Jewel in the
Crown" Bachelor Major Thesis, Masaryk University 2007, p:6,7
Goonetilleke DCRA, Images of Raj: South Asia in the (12)
Literature of Empire, Macmillan London, 1998, p:139
Scott, Paul, The Jewel in the Crown, University of Chicago (13)
Press, USA, 1998
The Jewel in the Corwn, p:59 (14)
The Jewel in the Crown, p:67 (15)
The Jewel in the Crown, p:225 (16)
The Jewel in the Crown, p:263 (17)
The Jewel in the Crown, p:286 (18)
The Jewel in the Crown, p:286 (19)
The Jewel in the Crown, p:43 (20)
The Jewel in the Crown, p:44 (21)
The Jewel in the Crown, p:192 (22)
The Jewel in the Crown, p:192 (23)
The Jewel in the Crown, p:193 (24)
The Jewel in the Crown, p:193) (25)
The Jewel in the Crown, p:257 (26)
The Jewel in the Crown, p:262 (27)
The Jewel in the Crown, p:275 (28)
The Jewel in the Crown, p:262,63 (29)
The Jewel in the Crown, p:275 (30)
The Jewel in the Crown, p:275 (31)
The Jewel in the Crown, p:275 (32)
The Jewel in the Crown, p:275 (33)
The Jewel in the Crown, p:190 (34)
The Jewel in the Crown, p:172 (35)
The Jewel in the Crown, p:172 (36)
The Jewel in the Crown, p:172 (37)
The Jewel in the Crown, p:259 (38)
The Jewel in the Crown, p:291 (39)
Scott, Paul, The Day of Scorpion, Prologue, Arrow Books, (40)
Random House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 1997, p:8
The Day of Scorpion, Prologue, p:8 (41)
The Day of Scorpion, p: 18 (42)
The Day of Scorpion, p: 22 (43)
The Day of Scorpion, p: 22 (44)
The Day of Scorpion, p: 22 (45)
The Day of Scorpion, p: 69 (46)
The Day of Scorpion, p: 71 (47)
The Day of Scorpion, p: 40 (48)
The Day of Scorpion, p: 38-39 (49)
Scott, Paul, The Tower of Silence, Arrow Books, Random (50)
House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005, p:127
The Tower of Silence, p:45 (51)
The Tower of Silence, p:45 (52)
Scott, Paul, A Division of the Spoils, Arrow Books, Random (53)
House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005, p:8
A Division of the Spoils, p:8 (54)
A Division of the Spoils, p:8 (55)
A Division of the Spoils, p:8 (56)
A Division of the Spoils, p:37 (57)
A Division of the Spoils, p:160 (58)
A Division of the Spoils, p:161 (59)
A Division of the Spoils, p:203 (60)
A Division of the Spoils, p:418 (61)
A Division of the Spoils, p:478 (62)
A Division of the Spoils, p:478 (63)
A Division of the Spoils, p:484 (64)
A Division of the Spoils, p:404 (65)
The Jewel in the Crown, p:411 (66)
The Jewel in the Crown, p:231-232 (67)
Nancy Wilson Ross, Saturday Review, p:4 (68)
The Tower of silence, P:255 (69)
Goonetilleke D.C.R.A, Images of the Raj: South Asia in the (70)
titerature of Empire: London, Mackmillan 1998, P:139
Michael Gorra, After Empire, Scott, Waipal, Rushdie, (71)
Chicago, The university of chicago, Press,1997, P:123
Government of India, Act, 1935 (72)
The Constitution of India, 1950, .....Art: 366, Sec:2, Govt of (73)
India, 1963,p:201
D'Souza, A. A. in younger, C. 1984 (74)
Gaikwad, V. R. in younger, C. 1984 (75)
Gaikwad, V. R. 1967 (76)
Eric, Erikson, Theory of Stages of Psycho-social (77)
Delvelopment, Norton, Newyork, 1950
Gist, N. P. 1973 (78)
Gist, N. P. 1972 (79)
Anthony, Frank,Britain's Betrayal in India: The story of (80)
Anglo-Indian Race, Allied Press Bombay, 1969, p:394-395
Bhowani Junction, Penguin Books, New Delhi, 2007, p:25 (81)
Bhowani Junction, p:9 (82)
Bhowani Junction, p:10 (83)
Bhowani Junction, p:12 (84)
Bhowani Junction, p:27-28 (85)
Bhowani Junction, p:10 (86)
Bhowani Junction, p:14 (87)
Justin D, Edward, Post Colonial Literature, A Reader's (88)
Guide; Macmillan, New York 2008, p:140
Bhowani Junction, p:28 (89)
Bhowani Junction, p:28 (90)
Bhowani Junction, p:25 (91)
)Bhowani Junction, p:144 (92
)Bhowani Junction, p:143 (93
)Bhowani Junction, p:143 (94
)Bhowani Junction, p:144 (95
)Bhowani Junction, p:144 (96
)Bhowani Junction, p:303 (97
)Bhowani Junction, p:204 (98
)Bhowani Junction, p:258 (99
Willian Thackery, Vanity Fair, Edited by John Souther )(100
Land, Oxford University Press, UK, 1982.
باب پنجم
منتخب انگریزی فکشن کا کرداری مطالعہ
الف :مسلم کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ
کرداری مطالعہ :اے پیسج ٹو انڈیا
ناول انسانی کردار کی مصوری کا نام ہے۔ کردار ) (Characterناول یا افسانے
کا ایک اہم اور مرکزی جزو ہے اور اساسی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ کردار نگاری
) (Characterizationسے مراد کردار کی پیش کش کا وہ انداز یا طریقہ ہے جس کے
ذریعے تخلیق کار یا مصنف کسی بھی کردار کو قاری کے سامنے التا ہے اور کردار کی
تشکیل بھی کرتا ہے۔ ناول کی صنف اپنی وسعت پذیری کی بنا پر کردار نگاری کے لیے
اپنے اندر وسیع امکانات رکھتی ہے اور افسانہ نگار کی بہ نسبت ناول نگار کو مختلف
زاویوں سے اپنے کردار کو اجاگر کرنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ کرداروں سے
کوئی سادہ ہ وتا ہے کوئی تہہ دار ،کوئی جامد اور کوئی متحرک ،سب کی اپنی اپنی
خصوصیات ہوتی ہیں۔
ای ایم فاسٹر نے اپنے ناول ’’اے پیسج ٹو انڈیا‘‘ میں بڑی کامیابی کے ساتھ مختلف
کرداروں کو پیش کیا ہے۔ یہ کردار تصویروں کی ایک گیلری کا منظر نامہ اجاگر کرتے
بامسمی ہیں۔ کرداروں کے
ٰ ہیں۔ تصویروں کی اس گیلری میں کچھ کردار تو واقعی اسم
اس تنوع میں ہماری مالقات انگریز اور ہندوستانی ہر دو قسم کے کرداروں سے ہوتی
ہے۔ ہندوستانیوں میں ہندومسلم ،مرد خواتین سبھی شامل ہیں۔ عمومی طور پر کسی بھی
کردار کا تعارف اس کے افعال اور الفاظ یا مکالمات کے ذریعے ہوتا ہے یعنی مصنف یا
تخلیق کار انہی دو طریقوں سے اسے قاری کے سامنے کھولتا ہے مگر فاسٹر اس سے
بڑھ کر کسی بھی کردار کے اظہار کے لیے اس کے بارے میں اپنا ذاتی تبصرہ بھی
شامل کر دیتا ہے جس سے کردار کی کئی خفیہ جہات اور گوشے بھی قاری کے سامنے
عیاں ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک دو مختلف النوع نسلوں یعنی انگریزوں اور مسلمانوں کی لفظی پیکر
تراشی کا تعلق ہے ،فاسٹر بطور مجموعی انہیں ایک گروپ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
جیسا کہ مسلم قوم کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں انگریز خود پسندی اور
تکبر کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو بظاہر انگریز مخالف اور کٹر قومیت
پرست دکھایا گیا ہے۔ ہندوئوں کے ساتھ ان کے رویے کو تنگ نظری واال اور فرقہ
واریت پر مبنی دکھایا گیا ہے۔
اس ناول میں کرداروں کے دو بڑے گروہ ہیں جن میں انگریز اور ہندوستانی شامل
ہیں۔ یہ کردار انفراد ی طور پر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہیں۔ انگریز مردوں میں
رونی ) (Ronnyاور فیلڈنگ ) (Fieldingکے کردار ،انگریز خواتین میں دو کردار ایڈال
کیوسٹڈ ) (Adela Questedاور مسز مور ) (Mrs. Mooreجبکہ ہندوستانیوں مینعزیز
)(Azizاور گوڈ بولے ) (Godboleکے کردار اہم ہیں۔ یہ کردار اس لیے بھی بوقلموں
اور مختلف النوع ہیں کہ مثالً گوڈ بلے ایک برہمن ہے جبکہ عزیز ایک عام مسلمان ہے
فیلڈنگ ایک آزاد خیال انگریز ہے۔ جب کہ رونی جو کہ انگریز سٹی مجسٹریٹ ہے اس کا
کردار اس کے برعکس ہے۔
ڈاکٹر عزیز اس ناول کا اہم اور مرکزی کردار ہے۔ جو کہ چندراپور کا ذہین اور
متلون مزاج مسلمان ڈاکٹر ہے۔ اس کے تین بچے ہیں اور اس کی بیوی کا ناول کے آغاز
سے قبل ہی انتقال ہو چکا ہے۔ عزیز کو شاعری کا دلدادہ دکھایا گیا ہے۔ اسی دوران
ہندوستان میں دو انگریز خواتین مسز ُمور اور ایڈال کیوسٹڈ وارد ہوتی ہیں اور اس دوران
رونی ہیسلوپ سے مالقات کے لیے چندراپور تشریف التی ہیں۔ کیونکہ مجسٹریٹ رونی
مسز مور کا بیٹا اور ایڈال کیوسٹڈ کا منگیتر ہے۔ اسی دوران ان کی مالقات مقامی
ہندوستانیوں سے ہوتی ہے اور وہ دوسرے انگریزوں کے برعکس ہندوستان کے اصل
کلچر کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں۔ انہی حاالت میں ان کی مالقات ڈاکٹر عزیز سے
ہوتی ہے اور پھر ایڈال کے ساتھ مارابار غاروں کے اندر وہ ہولناک واقعہ رونما ہوتا ہے
جس کی وجہ سے ایڈال کو اس تشویشناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس میں
ڈاکٹر عزیز پر عصمت دری کا الزام عائد ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ اس الزام سے بری
الذمہ ہو جاتی ہے اور تصحیح کرتی ہے کہ اسے غلط فہمی ہوئی تھی۔
یہاں عزیز کے کردار کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ اس کے رویے میں تین
اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ناول کے آغاز میں اس کا رویہ انگریزوں کے ساتھ ناراضی
اور مخاصمت پر مبنی ہے بعد میں وہ ان کا معترف اور ان کے لیے رطب اللسان دکھائی
دیتا ہے۔ مگر ناول کے اختتام پر اس کا رویہ انگریزوں کے ساتھ نفرت پر منتج ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عزیز کے کردار کے مابعد نوآبادیاتی سیاق میں تجزیاتی مطالعے سے یہ
بات عیاں ہوتی ہے کہ ای ایم فاسٹر نے عزیز کے کردار کو وسیع تناظر میں مصور کیا
ہے مثالً ناول کے باب ہفتم میں فاسٹر نے لکھا
In every remark (Aziz) found a meaning but not always the true
)meaning, and his life though vivid was largely a dream. (1
یہ اقتباس فیلڈنگ کے گھر میں عزیز اور فیلڈنگ کی پہلی مالقات کے دوران
ہونے والی گفتگو سے لیا گیا ہے۔ جس میں فیلڈنگ نے فنون لطیفہ کے حوالے سے فن
مصوری کے بارے میں ایک تحریک جس کا نام Impressionist Movementہے
اس کا ذکر کیا ۔ عزیز نے ان ریمارکس سے یہ مطلب اخذ کیا کہ ان کلمات سے فیلڈنگ
یہ بتانا چاہتا ہے کہ مغربی ثقافت کے بارے میں میرا یہ معلومات حاصل کرنا ایک
احمقانہ فعل ہے۔ عزیز کی یہ بے اطمینانی زیادہ دیر تک نہیں چلتی مگر اس واقعہ سے
بعد میں جنم لینے والی غلط فہمیوں کا اندازہ ضرور ہوتا ہے جو آخر کار ان کی دوستی
میں دراڑ ڈالتے ہیں۔
عزیز کا وجدان اور تخیل ایک طرف اس کی مسز مور اور فیلڈنگ کے ساتھ
گہری اور سچی دوستی کی طرف درست رہنمائی کرتا ہے تو دوسری طرف فاسٹر ہمینیہ
بھی بتاتا ہے کہ اس کے وجدان کی حقیقت میں کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ یہ ایک بے بنیاد
واہمہ ہے اور کئی مرتبہ اس کو گمراہ بھی کیا ہے۔ مگر اس میں فاسٹر عزیز کے کردار
پر خود ہی یہ الزام دھرتے ضرور نظر آتا ہے کہ اس طرح کے خیاالت و نظریات نے
اس کو دوستیوں سے محروم کیا۔ مگر فاسٹر کو بین الثقافتی تعلقات کی نوعیت اور اس
میں حائل دشواریوں کا سمجھنا مشکل نظر آتا ہے۔
عزیز کے کردار کی اس کمزوری کو پورے ہندوستان کی کمزوری پر محمول
کرتے ہوئے فاسٹر عزیز کے کردار کو حقیقت سے دور قرار دیتا ہے۔ جس کی کوئی
منطقی وجوہ بھی بیان نہیں ہو سکتیں اور عزیز کے اس طرح کے فوری رد عمل تعلقات
کو بنانے سے زیادہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اسی قطع تعلق والی خامی
کو پورے ہندوستان ک ے مزاج کی خامی بتایا جاتا ہے اور مارا بار غاروں میں وقوع پذیر
ہونے والے واقعے کو بھی اس سے جوڑا جاتا ہے کردار کی اس طرح کی خامی کی
تشخیص فاسٹر کی تحریر کا جزو الینفک ہے کیوں کہ مصنف افعال اور مکالمات کو پیش
کرنے کے ساتھ ساتھ کرداروں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے کے لیے موازنہ و
مقابلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں مگریہ حتمی سچائی ہر گز نہیں ہو سکتی کیوں کہ اگر
ایک طرف عزیز کے تخیل اور خیال آرائی کو اس کی خامی اور کمزوری بتایا گیا ہے تو
ناول کے دوسرے حصے میں اس کو سراہا بھی گیا ہے۔
عزیز کے کردار میں پائی جانے والی لچک کا اظہار بھی فاسٹر نے کچھ اس طرح
سے کیا ہے کہ ثقافتوں اور مزاجوں کے فرق کے باوجود عزیز اور فیلڈنگ کئی قسم کی
سماجی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دوستی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ انہیں ایک
دوسرے کی ذات اور کردار کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس کے باوجود
فیلڈنگ کے گھر میں عزیز مسلمانوں کے شاندار ماضی اور مغلوں کی حکمرانی کے
بارے میں اپنی پسندیدہ رائے کا اظہار بھی بغیر کسی جھجک کے کرتا ہے۔ فیلڈنگ اس
کے اس بیان سے متحیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت کی تعریف کرتا ہے۔ جس
سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ انگریزوں میں بھی
ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ ہندوستانیوں کو محض لعن طعن کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ
کرنے کی بجائے ان سے مشفقانہ رویے سے پیش آتے ہیں فیلڈنگ کے گھر عزیز اس
یقین کامل کے ساتھ باہر قدم نکالتا ہے کہ "No Englishman understands
" except Mr. Fielding.پھر مارا بار واقعہ کے بعد جب عزیز کو گرفتار کیا جاتا ہے
اور اس پر مقدمہ چالیا جاتا ہے تو ان کے درمیان اعتماد کے رشتے میں دراڑ آ تی ہے
اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں مگر زندانی عقوبت نے ایک محبت کرنے والے پڑھے
لکھے ہندوستانی کو ایک سخت گیر منتقم مزاج شخص میں بدل دیا ہے جو کہ اپنے
کیریئر کو تباہ کرنے والی ایڈال سے انتقام لینے پر تال ہوا ہے ایسے موقع پر فیلڈنگ جب
اسے ایڈال کو معاف کرنے کا درس دیتا ہے تو عزیز انکار کردیتا ہے۔ ایسے میں عزیز
اسے معاف نہ کرنے واال ،انتقامی شخص نظر آتا ہے دوسرے لفظوں میں سارے
ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خالف جب کوئی ایسا موقع میسر آتا ہے تو ان کا رویہ بھی
اسی مزاج کی عکاسی کرتا ہے حاالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یا ایسی نہیں ہے۔
ناول کے باب xxviiکا یہ اقتباس فیلڈنگ کے رویے کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس
مقدمے کے بعد خود منصف بن گیا ہے اور اپنی رائے کے اظہار میں کوئی تامل نہیں
کرتا۔
"Your emotions never seem in proportion to their objects, Aziz
Is emotion a sack of potatoes, so much the pound, to be
)measured out? Am I a machine? (2
مذکورہ باال اقتباس ہندوستان پر انگریزی استعمار کے ایک بڑے مسئلے کی
نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا پر برطانوی قبضے کا آغاز دراصل برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی
سرمایہ داری اور معاشی سرگرمیوں کی صورت میں ہوا اور انگریزوں نے ہندوستانیوں
کی نااہلی ،ابتری اور اپنی چالبازیوں کے نتیجے میں اسے قابل منافع اور منظم سرمایہ
داری نظام میں تبدیل کر دیا۔ جب کہ عزیز اس قسم کی مادیت پسندی پر معترض ہے جو
کہ روحانیت اور محبت جیسے غیر محسوس اور غیر واضح معامالت کے اوپر منافع اور
کارگزاری کو ترجیح دیتی ہے۔
مابعد نوآبادیاتی سیاق میں اگر ڈاکٹر عزیز کے کردار کا مطالعہ انگریزوں کے
متعصبانہ اور نسلی عصبیت کے رویے کے حوالے سے کیا جائے تو پورے ناول میں
ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں نہ صرف ڈاکٹر عزیز بلکہ دوسرے کئی مقامی کردار
بھی اس تعصب کا شکار بنتے ہیں مثالً میجر کا لنڈر ایک ہندوستانی نوجوان کے مجروح
چہرے پر مرچیں چھڑکنے کے عمل کو اپنا کارنامہ بتاتا ہے۔ میکبرائیڈ اپنے تعصب کا
اظہار یوں کرتا ہے کہ جب وہ حقارت سے ہندوستانیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ
لوگ انگریز عورتوں کے بارے میں منفی جذبات رکھتے ہیں مس ڈیرک (Miss
) Dereckاپنے ہندوستانی مالزموں کے ساتھ انتہائی متکبرانہ رویے کے ساتھ پیش آتی
ہے۔
ایسا ہی رویہ ڈاکٹر عزیز کے ساتھ خاص طور پر مارا بار غاروں والے واقعے
کے بعد روا رکھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ گورے حکمران اپنے آپ کو
برتر جبکہ مقامی آبادی کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ استعماری حکمرانوں کی نفسیات ہے۔
ہندوستانیوں کے ساتھ اس طرح کا حقارت آمیز رویہ تاریخی ،نفسیاتی ،ثقافتی اور روایتی
رویے پر مبنی ہے۔ مارا بار غاروں واال واقعہ کتنا اہم ہے اور عزیز کے کردار پر اثر
انداز ہونے کے ساتھ دوسرے مقامیوں پر اس کے کیا اثرات ہیں اس کی اہمیت کا اندازہ
Child Peterکی اس رائے سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں مقامی
آبادی اور آبادکاروں کے درمیان تعلقات میں صرف انتشار ،ابتری ،غلط فہمیوں کے سوا
کچھ نہیں ہے۔
The incident in the caves is the central moment in the novel. It is a
muddle or mystery that shows that Indian can only present
confusions of moral, misunderstandings and misreading between
)the colonialists and the locals.(3
اسی واقعے کے بعد مسٹر میکبرائیڈ عزیز کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار
اس رائے میں کرتے ہیں کہ عزیز اپنے آپ کو بظاہر ایک معزز ہندوستانی دکھانے کے
اعلی سرکاری مالزمت حاصل کرلی ہے۔ ٰ لیے یوں دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے کہ اس نے
جب کہ حقیقت میں وہ دہری اور منافقت بھری زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا منفی کردار
اس کے مثبت کردار پر حاوی ہے کیونکہ میکبرائیڈ کے مطابق عزیز جس ظالمانہ اور
بے رحمانہ سلوک کا مرتکب انگریز عورتوں کے ساتھ ہوا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔
پولیس والے بھی مقامی باشندوں پر الزام دھرنے میں جس سرعت اور مستعدی کا مظاہرہ
کرتے ہیں وہ بھی استعماری رویے کا حقیقی عکس ہے۔ انگریز پولیس والے کی رائے
مالحظہ ہو:
Quite possible, I'm afraid, when an Indian goes bad, he goes not
)only very bad, but very queer. (4
پولیس کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ موسمی اور جغرافیائی خطوں کے متعلق اپنے
نظریے کی بنیاد پر کسی بھی ہندوستانی کے رویے سے اسے حیرانی نہیں ہوتی اور اس
کی مندرجہ ذیل رائے اس کے انہی خیاالت و جذبات کا عکس ہے۔
All unfortunate natives are criminals at heart, for the simple
reason that they live south of latitude 30. They are not to blame,
they have not a dog's chance... we should be like them if we
)settled here. (5
ڈاکٹر عزیز کے کرداری مطالعے کے دوران ایک اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے
کہ جب ہندوستانی انگلینڈ میں قیام پذیر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ انگریزوں کا رویہ بڑی
قربت واال اور عزت و احترام پر مبنی ہوتا ہے مگر یہی گورے جب ہندوستان میں آتے
ہیں تو پھر ان کا رویہ نہ صرف ہندوستانیوں کے ساتھ بدل جاتا ہے بلکہ اینگلوانڈین
کرداروں ک ے ساتھ دوستی کا رشتہ بناتے ہوئے بھی وہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اس لیے ڈاکٹر عزیز ایک ہندوستانی وکیل حمید ہللا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انگریزوں
اور ہندوستانیوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر باہمی دوستی کو صرف انگلستان میں ہی
ممکن بتاتا ہے ہندوستان میں نہیں:
)Only contend that is possible in England. (6
عزیز اس قسم کی صورت حال پر نہ صرف رنجیدہ ہے بلکہ مشتعل ہے کہ اس
کے اندر کے غصے ،سوچ اور محسوسات کا اندازہ ذیل کی سطور سے لگایا جا سکتا
ہے:
Why talk about the English? Brrrr . . . ! Why be either friends with
the fellows or not friends? Let us shut them out and be jolly.
Queen Victoria and Mrs. Bannister were the only exceptions, and
)they're dead. (7
ناول کے اختتامی حصے میں عزیز اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتا ہے جب وہ
کہتا ہے کہ ہم ہر قیمت پر انگریزوں کو یہاں سے نکال کرر ہیں گے۔
Aziz in an awful rage danced this way and that, not knowing what
to do, and cried: "Down with the English anyhow. That's certain.
Clear out, you fellows, double quick, I say. We may hate one
another, but we hate you most. If I don't make you go, Ahmed will,
Karim will, if it's fifty-five hundred years we shall get rid of you,
)yes, we shall drive every blasted Englishman into the sea. (8
’’عزیز انتہائی غصے میں گھوڑے کو اِدھر سے اُدھر ،اُدھر سے اِدھر بھگا رہا
تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے۔ پھر وہ چیخا۔ ہم کسی بھی قیمت پر انگریزوں
کو نکالیں گے۔ یہ یقینی بات ہے۔ تم یہاں سے چلے جائو ،میں کہتا ہوں یہاں سے جلدی
بھاگ جائو۔ ہم ایک دوسرے سے نفرت کر سکتے ہیں مگر ہم سب سے زیادہ نفرت تم
سے کرتے ہیں۔ اگر میں تمہیں یہاں س ے نہیں بھگا سکا تو احمد اور کریم تمہیں ضرور
نکالیں گے اس میں خواہ پچاس یا پانچ سو سال لگ جائیں مگر ،ہم تم سے نجات حاصل
کر کے رہیں گے۔ ہم تمام انگریزوں کو سمندر بُرد کر دیں گے۔‘‘
اسی تسلسل میں فیلڈنگ اور عزیز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ آپس میں
ایک د وسرے سے دوبارہ دوستی کرنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہیں۔ مگر گھوڑے بدک کر
ایک دوسرے سے دور ہٹ جاتے ہیں اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جاتا ہے انہی آخری
سطور میں عزیز یہ واضح کرتا ہے کہ وہ اور فیلڈنگ اس وقت تک دوست نہیں بن
سکتے جب تک ہندوستان آزاد نہیں ہو جاتا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کوئی انگریز یا
کوئی مقامی بھی ہندوستان کی آزادی تک باہم دوست نہیں بن سکتے۔ پھر ناول کے آخری
دو الفاظ بھی عزیز کے منہ سے نکلتے ہیں
""Not yet
عزیز کے کردار میں پائے جانے والے تمام تضادات کے باوجود عزیز ایک حقیقی
محبت کرنے واال آدمی ہے اور اس کی یہ محبت اس کے داخلی اور باطنی وجدان پر
مبنی ہے جیسا کہ مسز مور کے ساتھ تعلقات ہوں یا فیلڈنگ سے دوستی۔ اگرچہ فاسٹر نے
عزیز کے کردار کی اس جہت کو ایک خوبی کے طور پر بیان کیا ہے مگر یہ چیز بعض
اوقات خود عزیز کو بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔ عزیز کے نزدیک فیلڈنگ کا یہ بہت بڑا
جرم ہے کہ وہ اس مقدمے مینفتح کے بعد معاف کرنے کا کہتا ہے اور یہ اسی وجہ سے
ہے کہ وہ حقائق کا درست ادراک اور تجزیہ کرنے کے بجائے دل کی آواز پر کان دھرے
ہوئے ہے جبکہ دوسرے تمام دروازے اس نے مقفل کر رکھے ہیں۔ یہ اپروچ بعض اوقات
انسان سے غ یر شعوری طور پر غلط فیصلے بھی صادر کراسکتی ہے۔ بحیثیت مجموعی
فاسٹر نے عزیز کے کردار کو جزوی طور پر ہمدردی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عزیز کے بعد اسی ناول کے اہم مسلم کرداروں میں سے ایک محمود علی
)(Mahmood Aliکا کردار ہے جو کہ ڈاکٹر عزیز کا قریبی ساتھی اور نامور مسلمان
وکیل ہے۔ وہ اپنا بیشتر وقت عزیز اور حمید ہللا کے ساتھ گزارتا ہے۔ محمود اور حمید ہللا
کے درمیان یہ بحث بھی جاری رہتی ہے کہ کیا ہندوستانی اور گورے آپس میں دوست ہو
سکتے ہیں یا نہیں:
)Whether or not it is possible to be friends with an Englishman. (9
یعنی دوسرے لفظوں میں ناول نگار نے بین السطور اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ
کیا مقامیوں اور غیر ملکیوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ ناول
موقف کے دوسرے باب میں خاص طور پر اس کا ذکر ملتا ہے جس میں حمید ہللا کا یہ ٔ
سامنے آتا ہے کہ اس طرح کی دوستی ممکن ہے جبکہ محمود علی اس خیال کا حامی ہے
کہ دونوں کے مابین اچھا تعلق اور دوستی ممکن نہیں ہے۔ وہ عزیز کے مقدمے میں اس
کا دفاع کرتا ہے۔ انگریزوں کے بارے میں ہمیشہ مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔
ایک اور اہم مسلمان کردار نواب بہادر ) (Nawab Bahadurکا ہے جو کہ
چندرا پور ضلع میں ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ نواب ان کا لقب ہے۔ وہ بڑی عمر کے
آدمی ہیں۔ ناول نگار کے مطابق وہ بڑے جاگیردار ،انسان دوست اور مخیر انسان ہیں:
.......a big proprietor and a philanthropist, a man of benevolence
)and decision. (10
شاید اتنی اچھی رائے دینے کے پیچھے یہ بڑی وجہ کارفرما نظر آتی ہے کہ نواب
صاحب ہندوستان میں انگریزی سرکار کے حمایتی ہیں اور ان کی خدمت میں پیش پیش
رہتے ہیں۔ ان کی کار بھی ان کی خدمت کے لیے وقف رہتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے
ساتھ وفاداری اور مہمان نوازی جیسی اچھی خصوصیات سے متصف ہیں۔ مارا بار
غاروں والے واقعے کے بعد نواب بہادر کی رائے مینکچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ
ڈاکٹر عزیز کی بے گناہی کا اعالن کرتے ہیں اور عدالت میں اس کے مقدمے کی
کارروائی سننے کے لیے خاص طور پر عدالت جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے
کے فیصلے ک ے بعد وہ اپنا نواب کا خطاب واپس کر دیتے ہیں یعنی کہ وہ بھی جذباتیت
کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں ،اور صرف اپنے اصلی نام ’’ذوالفقار‘‘ سے ہی پکارے جاتے
جشن ضیافت کا اہتمام
ِ ہیں۔ عزیز کی مقدمے میں بریت اور فتح کے بعد ان کے گھر
پرجوش طریقے سے کیا جاتا ہے جس میں عزیز ،فیلڈنگ اور حمید ہللا چھت پر سوتے
ہیں اور مقدمے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کے حوالے سے دلچسپ واقعہ
جو ناول میں شامل ہے کچھ اس طرح ہے کہ انہوں نے جب پہلی کار خریدی تو انہوں
نے کار چالتے وقت ایک شرابی کو کار کے نیچے کچل دیا تھا۔ تب سے وہ آدمی آسیب
کی طرح ان کے ذہن میں سوار ہو چکا تھا۔ نواب بہادر خدا اور قانون کے سامنے معصوم
تھے۔ کیوں کہ انہوں نے دگنا خون بہا ادا کیا تھا۔ یہ ان کا ذاتی راز بھی تھا جس سے وہ
ہمیشہ خوفزدہ رہتے۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں تھے کہ مذہبی خیاالت ان کے ذہن
پر حاوی ہو چکے تھے۔ ٰلہذا اب وہ گناہ و ثواب کا حساب کتاب کرتے رہتے تھے۔
حمید ہللا بھی ہندوستانی مسلمان اور ڈاکٹر عزیز کا اچھا دوست ہے۔ وہ کیمبرج
یونیورسٹی انگلستان سے فارغ التحصیل ہے اور چندراپور میں ایک نمایاں وکیل ہے۔ ناول
کے دوسرے باب میں جب عزیز ،حمید ہللا اور محمود علی اس موضوع پر بحث کرتے
ہیں کہ کیا ہندوستانی اور غیر ملکی آپس میں اچھے دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں تو حمید
ہللا ان کے سامنے اپنے انگلستان میں قیام کے دوران اپنے تجربات و مشاہدات کو بیان
کرتا ہے۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انگریز جوڑے نے وہاں اس کو خوش آمدید
کہا۔ وہ ان کا ذکر بڑی محبت کے ساتھ کرتا ہے۔ حمید ہللا ڈاکٹر عزیز کے مقدمے میں اس
کا دفاع کرتا ہے اور اس کو بھرپور مدد بھی فراہم کرتا ہے۔
حمید ہللا کے بارے میں ناول نگار نے خاص طور پر یہ بتایا ہے کہ وہ شعر و ادب
کا اچھا اور نفیس ذوق رکھنے والے تھے۔ ساتھ ہی اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ ادب
اور فن مسلمانوں کی تہذیب سے جدا نہ ہوئے تھے بلکہ ان کی تہذیب کا جاندار وتوانا
حصہ تھے۔
اعلی سوسائٹی کے کردار وں کے عالوہ ایک اہم کردار ایک غریب ٰ مذکورہ باال
مسلمان کا ہے جس کا نام محمد لطیف ہے۔ وہ ڈاکٹر عزیز کا خدمت گار ہے۔ اس کا ذکر
تو ناول میں کئی جگہوں پر ہے مگر اسے کم ہی بولتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔ وہ انگریز
خواتین کے ساتھ مارا بار غاروں میں جاتا ہے اور سیر کے تمام انتظامات اس کے ہاتھ
میں ہی ہیں مگر اس کا تعارف فاسٹر نے جس انداز میں کرایا ہے وہ قابل غور ہے کہ
ایک طرف تو وہ خوش باش ،شریف آدمی ہے مگر ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ ایسا بددیانت
بوڑھا ہے جس کا دل کام کرنے کو نہیں چاہتا۔
A gentle, happy and honest old man who had never done a stroke
)of work.(11
اس ناول کے بیشتر مسلمان کرداروں کی زبانی یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے
کہ مقامیوں اور غیر مقامیوں کے درمیان زیادہ قربت ان کے درمیان تعلقات کو بگاڑ کر
نقطہ نظر
ٔ رکھ دیتی ہے ٰلہذا اپنی اپنی حدود و قیود کی پابندی بہت ضروری ہے۔ یہ وہی
ہے جو ایک جگہ پر فاسٹر نے کلکٹر کی زبانی اس وقت بیان کیا ہے جب وہ اپنی دھیمی
آواز میں اس ملک ہندوستان میں اپنے پچیس سالہ تجربات کے نچوڑ کے طور پر بیان
کرتا ہے۔
....and during those twenty-five years I have never known
anything but disaster result when English people and Indians
attempt to be intimate socially. Intercourse, yes. Courtesy, by all
)means. Intimacy--never, never.(12
’’ ان پچیس سالوں کے دوران میں نے اس کے عالوہ کوئی بات مشاہدہ نہیں کی کہ
جب بھی انگریزوں اور ہندوستانیوں نے سماجی طور پر قریب ہونے کی کوشش کی تو
اس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ باہمی میل ،اور شائستگی یقینا ضروری ہے
مگر بے تکلفی ہرگز ،ہر گز نہیں۔‘‘
بحیثیت مجموعی اس ناول کے کرداروں کا جائزہ لیں تو ہمیں بھوپال سنگھ کی یہ
رائے بڑی صائب نظر آتی ہے کہ
A clever picture of Englishmen in India, a subltel portraiture of the
India (especially the mind) and a fascinating study of the
)problems arising out of the contact of India with the West. (13
تاہم اس کرداری مطالعہ کے دوران اس چیز کی طرف نگاہ کرنا بھی ضروری ہے
کہ جس کی طرف اشارہ نہال سنگھ نے حسب ذیل سطور میں کیا ہے۔
ـ How the British India despise and ostracise Indians, while in their
)part the Indians mistrust and misjudge the British. (14
’’ کس طرح سے انگریز ہندوستان میں ہندوستانیوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انہیں
خود سے دور کرتے ہیں جبکہ دوسرے طرف ہندوستانی انگریزوں سے بد گمان ہوتے
ہیں اور ان سے متعلق غلط رائے قائم کرتے ہیں۔‘‘
جانسن ) (Johnsonکی یہ رائے بھی قابل غور ہے کہ مختلف ثقافتوں کے حامل
افراد شاذ و نادر ہی ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ ہندوستان میں مختلف
تہذیبوں اور ثقافتوں کے پروردہ لوگ ہندوستان میں آباد تھے کچھ کے درمیان انجذاب و
ادغام کی صورت حال پیش آئی اور کچھ نے یہ اثرات بالکل قبول نہیں کیے۔ یاایک
دوسرے کی ثقافتوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
That people from different cultures rarely understand one another.
)(15
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستانی کردار فاسٹر نے ہمدردی اور
شفقت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ اس تمام تر ہمدردی اور شفقت کے باوجود تمام کرداروں
میں اگر کچھ دلکشی موجود بھی ہے تو ان میں اصل عظمت کہیں نظر نہیں آتی ،شاید یہی
وجہ یہ کہ وہ ہمارے دلوں کو چھونے کے باوجود ہمیں متاثر کرنے میں کامیاب نظر نہیں
آئے۔
ہند و ،انگریزاور دیگر کرداروں کا تہذیبی و سماجی مطالعہ ب:
ہندوستانی معاشرے کی رنگا رنگی کی طرح ای ایم فاسٹر کے ناول اے پیسج ٹو
انڈیا میں بھی کرداروں کا تنوع بھی موجود ہے۔ کیوں کہ فاسٹر نے اپنے ناول میں مختلف
اقوام اور مختلف مذاہب کو فنی مہارت اور چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ فاسٹر نے جہاں
مسلمان کرداروں کو اپنے اس ناول میں اجاگر کیا وہاں ہندوکردار بھی اس کی توجہ سے
محروم نہیں رہے۔ فاسٹر نے ہندوکرداروں کو بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ بڑے دلچسپ
انداز میں پیش کیا ہے۔
تین ہزار سال قبل آریائوں نے ہندوستان میں آ کر ذات پا ت کا نظام متعارف کرایا۔
وہ خود تو برہمن یا کھشتری بن بیٹھے مگر مقامی آبادی کو شودر ،دلت ،ہریجن وغیرہ
قرار دیا۔ انہوں نے ورن کے نظریے کے تحت اچھوتوں کو یا شودروں کو نہایت پست
درجہ عطا کیا۔ اچھوتوں یا دلتوں کے اولین دانشوار ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر ہندومت کو
ذات پات کا ایک ایسا نظام سمجھتے تھے جس نے اچھوتوں کی زندگیوں کو تباہ کر ڈاال۔
اے پیسج ٹو انڈیا میں بھی شامل ایک اہم ہندو کردار پروفیسر نارائن گوڈبلے
اعلی ذات برہمن سے ہے۔ وہ ٰ )(Narayan Godboleکا ہے جس کا تعلق ہندوئوں کی
فیلڈنگ کے کالج میں استاد ہے۔ وہ خاصا روحانی آدمی ہے اور انسانی معامالت میں خود
کو زیادہ ملوث کرنا اپنے مذہبی عقائد کے منافی گردانتا ہے۔ دراصل وہ ایک پراسرار قسم
کا کردار ہے۔ ناول میں اس کردار سے قاری کی مالقات یوں ہوتی ہے کہ فیلڈنگ جب
عزیز کے ساتھ محو گفتگو ہوتا ہے تو پروفیسر گوڈبلے کا ذکر یوں کرتا ہے۔
Besides the ladies I am expecting one of my assistants--Narayan
"Godbole.
"!"Oho, the Deccani Brahman
)"He wants the past back too, but not precisely Alamgir. (16
’’ان خواتین کے عالوہ ،میرے ایک نائب نارائن گوڈبلے کی آمد بھی متوقع ہے ،اچھا۔ وہ
دکھنی برہمن۔
وہ بھی ماضی میں واپس جانا چاہتا ہے مگر عہ ِد عالمگیر میں ہر گز نہیں‘‘
اورنگزیب عالمگیر کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ناول کے مصنف کے بقول
ہندو عالمگیر کے عہد کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں یا یہ محض مصنف کے اپنے
ذہن کی اختراع ہے کیونکہ ناول کے اس صفحے پر ہی یہ سطور بھی قابل غور ہیں کہ
انگریز جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو اس وقت ہندوستان کے حاکم ہندو ہی تھے۔
مسلمان یعنی کہ مغل نہیں تھے ۔ اس کے عالوہ ڈاکٹر عزیز کی زبانی ہندوئوں کے بارے
میں منفی کلمات ادا کروائے گئے ہیں جب کہ پروفیسر گاڈبلے کے حوالے سے یہ رائے
دی گئی ہے کہ وہ ان برہمنوں سے مختلف ایک مخلص انسان ہوگا۔ اس سے آگے بڑھیں
تو عزیز کی زبانی پھر ہندو کرداروں کے حوالے سے حسب ذیل رائے سامنے آتی ہے
جو کہ بال شبہ ایک سخت قسم کی رائے ہے۔
Slack Hindus--they have no idea of society; I know them very well
because of a doctor at the hospital. Such a slack, unpunctual
)fellow. (17
ـ’’کاہل ہندو۔ انہیں معاشرے کے آداب کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ میں انہیں ہسپتال میں
بحیثیت ڈاکٹر اچھی طرح جانتا ہوں۔ غیر ذمہ دار سست لوگ۔‘‘
پروفیسرگاڈبلے کا حلیہ بھ ی فاسٹر نے بڑی مہارت کے ساتھ یوں پیش کیا ہے کہ
ایک روایتی ہندو برہمن کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
He was elderly and wizen with a grey moustache and grey-blue
eyes, and his complexion was as fair as a European's. He wore a
turban that looked like pale purple macaroni, coat, waistcoat,
dhoti, socks with clocks. The clocks matched the turban, and his
whole appearance suggested harmony--as if he had reconciled
)the products of East and West. (18
’’وہ گاڈبلے ایک بڑی عمر کا آدمی تھا۔ جس کی مونچھیں سفیدی مائل اور آنکھیں بھوری
نیلی تھیں۔ اور اس کی رنگت کسی یورپی کی طرح سفید تھی۔ اس نے سر پر پگڑی باندھ
رکھی تھی جو کہ پیلے اور ارغوانی رنگ کی کھچڑی کی مانند دکھائی دیتی تھی۔ پھر
کوٹ اور نیچے واسکٹ ،دھوتی اور جرابیں تھیں۔ چغے کا رنگ پگڑی سے ملتا جلتا تھا
اور اس کی مکمل ظاہری شباہت ایک ہم آہنگی کی آئینہ دار تھی جیسے کہ اس نے مشرق
اور مغرب دونوں ہی تہذیبوں سے مفاہمت کی ہوئی تھی۔‘‘
ہندوانہ معاشرت میں جہاں ذات پا ت کا نظام سختی سے رائج ہے وہاں کسی
دوسری ذات کے لوگوں یا مذاہب والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا بھی معیوب تھا۔ فاسٹر
نے جہاں گاڈبلے کا حلیہ صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے وہیں اس روایت کو بھی خاص
طور پر اجاگر کیا ہے کہ وہ اپنے چائے کے برتن سمیٹ کر ان لوگوں سے اس لیے دور
جا بیٹھتا ہے کہ اس کی نظر میں ان سب کا مرتبہ کسی اچھوت یا شودر جیساتھا۔ اور ان
سب لوگوں سے ملنا جلنا ،یا ان کے ساتھ کھانا پینا اس کے دھرم کو بھرشٹ کر سکتا تھا۔
فاسٹر نے حسب ذیل سطور میں اسی امر کی جانب اشارہ کر کے بتایا ہے کہ وہ اپنے
مذہبی معامالت پر کس طرح عمل پیرا ہے۔
ـ He took his tea at a little distance from the outcasts, from a low
table placed slightly behind him, to which he stretched back, and
as it were encountered food by accident; all feigned indifference
)to Professor Godbole's tea. (19
اس کے عالوہ اس ہندو کردار کی عادات کے حوالے سے بڑی دلچسپ انداز میں
یہ بھی بتایاگیا ہے کہ وہ اپنے منتروں کو پڑھنے میں اتنا وقت گزار دیتا ہے کہ اہم کام رہ
جاتے ہیں جیسا کہ ان سطور میں بتایا گیا ہے کہ وہ لمبی دعا پڑھتا رہا اور گاڑی پلیٹ
فارم سے نکل گئی۔
Godbole's pujah did it," cried the Englishman.
The Brahman lowered his eyes, ashamed of religion. For it was
)so: he had miscalculated the length of a prayer. (20
’’انگریز چالیا ،گوڈبلے کی پوجا نے یہ کیا (تاخیر)۔ برہمن نے اپنی آنکھیں جھکا
لیں۔ مذہب پر اسے ندامت محسوس ہوئی۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ اس نے عبادت میں غیر
ضروری طوالت اختیار کی۔‘‘
اس وج ہ سے فیلڈنگ پوری ہندوستانی عوام کے بارے میں یہ رائے دیتا ہے
جس میں گہرا طنز بھی پوشیدہ ہے۔
Plenty of Indians travel light too--saddhus and such. It's one of the
things I admire about your country. Any man can travel light until
)he has a wife or children. (21
’’ بیشتر ہندوستانی سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سادھو اور اس قسم کے دوسرے
لوگ۔ یہ تمہارے ملک کی ان باتوں میں سے ایک ہے جن کا میں معترف ہوں۔ ہر آدمی
جب تک اس کے بیوی بچے نہ ہوں زندگی میں سست رو ہو سکتا ہے۔‘‘
اس ناول میں دریا ئے گنگا کے حوالے سے وشنو دیوتا اور شیوا کا ذکر بھی ملتا
ہے۔ مہاتما بدھ کے گیان اور عرفان کی منازل کی آگہی بھی ملتی ہے۔ اور اس مخلوط
معاشرے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر گوڈبلے کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ
کوئی متعصب ہندو تو نہ تھا اس لیے وہ کسی کے بھی ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پی لیتا تھا۔
پھل ،انڈے اور مٹھائیاں بھی کھا لیتا تھا مگر سبزیاں اور چاول اگر کسی برہمن کے ہاتھ
کے پکے ہوئے نہ ہوں تو وہ نہیں کھاتا تھا۔ گوشت کھانے کی اس کے مذہب میں ممانعت
تھی۔ اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ اپنے سامنے کسی کو گائے کا گوشت کھاتے ہوئے
بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جب کہ عزیز اپنے سامنے کسی کو سور کھاتے ہوئے نہیں دیکھ
سکتا تھا۔ کیوں کہ سور کا گوشت کھانا اسالم میں ممنوع تھا۔ اور یہ سارے مسائل اس کے
سامنے اس وقت پیش ہوئے جب وہ ان تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اکٹھے پکنک پر لے
جانا چاہتا تھا۔ ایک ہی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی وہ آپس میں تقسیم تھے اور اس
سرزمین کو بھی مختلف خانوں میں تقسیم رکھنا چاہتے تھے۔
فاسٹر نے پروفیسر گوڈبلے کو ہندونوں کے خاص بھجن پڑھتے ہوئے بھی دکھایا
ہے۔ یوں گوڈبلے اس ناول میں ایک مرکزی عالقائی کردار کے طور رپ ابھرتا ہے جو
کہ ہندو فالسفی کو پیش کرتا ہے۔ اور کئی نقادوں کے بقول مسلمان کردار عزیز سے
زیادہ یہ ہندو کردار اصل ہندوستان کا آئینہ دار ہے۔
اسی ناول میں ایک اور ہندو کردار ڈاکٹر پ ّنہ الل ) (Dr. Panna Lalکا ہے جو
کہ عزیز کے ساتھ چندراپور کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ وہ ہندوئوں کی نچلی
ذات سے تعلق رکھتا ہے اور عزیز کا قریبی حریف بھی ہے۔ ڈاکٹر عزیز اسے میجر کا
لنڈرکا جاسوس(Major Callendar's Spy) ،کہتا ہے۔ عزیز اور اس کے احباب اس
کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ڈاکٹر الل عزیز کو قائل کرتا ہے کہ وہ ٹرٹن) (Turtonکی
دعوت میں شریک ہو لیکن عین آخری لمحے عزیز انکار کر دیتا ہے۔
ناول میں اس حوالے سے بڑی معنی خیز گفتگو کی گئی ہے کہ عزیز کس طرح
سے ڈاکٹر پنا الل کو غصے میں جواب دیتا ہے کہ وہ کم عقل ہندو اس بات کو سمجھنے
سے قاصر ہے اور ساتھ برہمنی بیل کا ذکر بھی قابل غور ہے۔
But Dr. Lal, being of low extraction, was not sure whether an
insult had not been intended, and he was further annoyed
because Aziz had buffeted
)the Brahminy Bull. (22
’’ لیکن ڈاکٹر الل ایک نچلی ذات سے تعلق رکھنے واال اس بات کو بھانپنے کی اہلیت نہیں
رکھتا تھا کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ اس کی بے عزتی کی گئی ہے۔ اور اسے مزید
اس بات کا غصہ تھا کہ اس نے عزیز کو ایک برہمنی بیل کو پیٹتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
انہی ضمنی ہندو کرداروں میں ایک اور کردار مسٹر امریتا رائو کا ہے جو کہ
کلکتہ کا مشہور بیرسٹر ہے۔ اس کے ذمے ڈاکٹر عزیز کے مقدمے کا دفاع ہے۔ اسے
ہندوستان کا بہترین وکیل مانا جاتا ہے اور انگریزوں کا کٹر مخالف"Notoriosly anti-
"Britishہے۔ اس کی اس تعیناتی سے کچھ تنازعات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس
سے سیاسی تبدیلی کے آثار بھی سامنے آتے ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران امریتا
رائو بڑی جرأت کے ساتھ اعتراض بھی کرتا ہے کہ انگریز فریق کے حامیوں کو تو جج
نے چبوترے پر بٹھا کر ہندوستانیوں سے امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر
عزیز کے حامیوں کو چبوترے سے نیچے بٹھایا گیا ہے۔ ایسا رویہ عام طور پر دوسرے
ہندو کرداروں میں نظر نہیں آتا۔
اسی ناول کا ایک اور اہم ہندو کردار مسٹر داس ) (Mr. Dasکا ہے۔ جو کہ
چندراپور میں اسسٹنٹ مجسٹریٹ ہیں اور انگریز مجسٹریٹ رونی ہیسلوپ (Ronny
) Heaslopکے نائب کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ رونی ہیسلوپ ،ایڈال
کیوسٹڈ ) (Adele Questedسے اپنی قرابت کی وجہ سے ڈاکٹر عزیز کے مقدمے کی
سماعت سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں تو مسٹر داس کو اس مقدمے کی ذمہ داری
سونپی جاتی ہے۔ رونی اس کی قابلیت اور ذات پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں مگر
میجر کا لنڈر جو کہ سرکاری ہسپتال کے منتظم ہیں وہ مسٹر داس کی ذات پر عدم اعتماد
کا اعالن کرتے ہیں کہ و ہ ایک ہندوستانی ہے۔ اور وہ ہندوستانی کے حق میں ہی فیصلہ
سنائے گا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ مسٹر داس نے ڈاکٹر عزیز کی حمایت میں کسی
تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مقدمے کے خاتمے کے بعد مسٹرداس ڈاکٹر عزیز کے ہسپتال
پہنچتے ہیں تو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کی فضا جنم لیتی
دکھائی دیتی ہے جس کا ذکر ناول کے صفحات میں فاسٹر یوں کرتے ہیں۔
Another local consequence of the trial was a Hindu-Moslem
entente. Loud protestations of amity were exchanged by
prominent citizens, and there went with them a genuine desire for
)a good understanding. (23
’’ اس (عزیز) کے مقدمے کے نتیجے میں ایک اور ردعمل ہندومسلم دوستانہ اتحاد کی
شکل میں ظاہر ہوا۔ معزز شہریوں نے صلح و آتشی کے بلند بانگ دعوے کیے اور آپس
میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات پیداکرنے کی حقیقی خواہش پیدا ہوئی۔‘‘
مگر اتحاد کی یہ خواہش دائمی اور پائیدار ثابت نہ ہوئی بلکہ یہ عارضی ،وقتی
اور ہنگامی ثابت ہوئی۔ کیوں کہ مسٹر داس ڈاکٹر عزیز کے ہسپتال میں ہمدردی اور شفقت
کا پیکر بن کر تشریف التے ہیں اور اپنے گذشتہ رویے پر ندامت کا اظہار کرنے کے
ساتھ ساتھ اپنے بہنوئی مسٹر بھٹاچاریہ کے رسالے کے لیے نظم لکھنے کی درخواست
بھی کرتے ہیں مگر ڈاکٹر عزیز یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ یہ رسالہ تو ہندوئوں
کے لیے ہے اس لیے اس میں کسی مسلمان کی نظم شائع نہیں ہو سکتی۔
)I though your magazine was for Hindus. (24
اس کے جواب میں مسٹر داس کہتے ہیں کہ یہ ہندوئوں کے لیے بلکہ تمام
ہندوستانیوں کے لیے ہے
)It is not for Hindus, but Indians generally. (25
مگر عزیز جواب میں اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے خیال میں
یہاں ایسے کسی شخص کا وجود نہیں ہے جسے ہم ہندوستانی کہہ سکیں۔ یوں وہ اتحاد اور
یگانگت کی فضا برقرار نہیں رہتی۔ یعنی ہندو اپنے معامالت میں پختہ ہیں اور مسلمان
اپنے عقائد اور رسومات پر سختی سے قائم ہیں ٰلہذا ان دونوں بڑی قوموں کے درمیان
مخاصمت بعض اوقات گھٹتی ہے تو بعض اوقات بڑھ جاتی ہے۔
اسی ناول کے انگریز کرداروں میں سے دو کردار بہت نمایاں ہیں اور دونوں
کردار ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ دو کردار فیلڈنگ ) (Cyril Fieldingاور رونی
ہیسلوپ ) (Ronny Heaslopکے ہیں۔ فیلڈنگ کا کردار کچھ نقادوں کے بقول فاسٹر
کے ذاتی کردار کا عکس نظر آتا ہے اور ہندوستان میں مقامی اور غیر مقامی ثقافتوں کے
افتراق کے باوجود وہ ایک مسلمان ڈاکٹر عزیز کا دوست بن جاتا ہے حاالنکہ عام طور پر
ایسا حقیقت میں کہیں ممکن نہیں ہوتا۔ وہ چندراپور کے سرکاری کالج کا سربراہ ہے اور
ایک آزاد خیال آدمی ہے۔ وہ ہندوستانیوں کو ہمدردانہ اور مساویانہ رویے کے ساتھ تعلیم
دینے کا خواہش مند ہے۔ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ قربت بھی رکھتے ہیں اور اس کی سب
سے بڑی اور چونکا دینے والی مثال اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب وہ عدالت میں آ
کر یہ بیان دے کر اپنی پوری کمیونٹی کو اپنے خالف کر لیتے ہیں:
)I believe Dr. Aziz to be innocent. (26
’’مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر عزیز بے گناہ ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی وہ بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بھی اعالن کرتا ہے کہ وہ عدالت کے
فیصلے کا منتظر ہے اور اگر عزیز مجرم ثابت ہو گیا تو وہ مستعفی ہو کر ہندوستان سے
استعفی دے
ٰ واپس روانہ ہو جائے گا۔ اس سے بڑھ کر اس نے کلب کی رکنیت سے بھی
دیا۔ اس کے بعد وہ کلب کی بلیئرڈ اور ٹینس کو بھال کر مقامی دوستوں کے ساتھ مقامی
بازار میں وقت گزاری کے لیے نکلتا ہے اور مقامی معاشرت اور ثقافت کے رنگوں سے
لطف اندوز ہوتا ہے۔ جیسے کہ اسے محرم کی مناسبت سے ایک چھوٹا تعذیہ دیکھنے کی
دعوت دی جاتی ہے جو کہ مقامی آبادی کی طرف سے اس کے لیے اظہار محبت بھی
ہے۔
)He was invited to inspect a small Tazia. (27
پیغمبر اسالم کے
ؐ اسے ایک چھوٹا تعذیہ دیکھنے کی دعوت دی گئی اور ساتھ ہی
نواسے کی کربال میں شہادت کے بارے میں بتایا گیا۔
ناول میں اس کے ابتدائی تعارف سے ہی ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جب
ہندوستان میں وارد ہوتا ہے تو وہ ایک معمر اور پختہ عقل کا آدمی ہے اس لیے وہ
دوسرے انگریزوں کی طرح خود کو صحیح ’’صاحب‘‘ ثابت نہیں کرسکا۔ اس لیے
دوسرے انگریزوں کے ساتھ اس کے تعلقات مثالی نہیں تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی
ث ندامت نہیں ہے اسی لیے کہ اس کے نزدیک کسی کا ہندوستانی ہونا کسی بھی طرح باع ِ
اس نے کوشش کی کہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان خلیج کو کم کیا جائے مگر
بحر اوقیانوس کے وسیع اور گہرے نیلے پانیوں وہ ہندوستان کے مٹیالے اور میدانوں اور ِ
کے درمیان فاصلے کم نہ کرسکا۔ وہ دوسرے انگریزوں کی طرح خود کو حاکم نہیں
سمجھتا تھا اس لیے اگر اس سے کوئی غلطی سر زد ہو جاتی تو وہ اس کی تالفی کرنے
کی کوشش کرتا۔ یہی وجوہات تھیں کہ اس کے اپنے ہم وطن اس سے ذہنی مطابقت نہیں
رکھتے تھے مگر وہ بھی اپنا ذہن اب اس مرحلے پر آکر تبدیل کرنے سے قاصر تھا۔ اسی
لیے اس کے بارے میں یہ م شہور ہو گیا کہ وہ ’’پکا صاحب‘‘ نہیں ہے بلکہ ناکمل اور خام
ہے۔
کلب میں بیٹھ کر اس نے جب یہ رائے دی کہ سفید فام نسل کو اپنے اوپر بڑا
غرور ہے تو وہ بھی اس طرح بالکل خالص نہیں ہے بلکہ بھوری رنگ کی قوموں کے
خون کی اس میں آمیزش ہے تو وہاں ایک تہلکہ مچ گیا۔
ـ)The so-called white races are Pinko-gray. (28
اسی پس منظر میں اس کی حسب ذیل رائے نہایت وقیع اور قابل غور ہے جس
سے اس کی سوچ کا صحیح اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مذہب اور رنگ و نسل سے باال تر ہو
کر سوچنے واال اس ناول کے کرداروں میں سے شاید واحد انگریز کردار ہے۔
The world, he believed, is a globe of men who are trying to reach
one another and can best do so by the help of good will plus
)culture and intelligence. (29
’’ یہ دنیا ایک گلوب کی مانند ہے جس پر مختلف انسان ہیں جو ایک دوسرے کے قریب
آنے کی کوشش میں ہیں اور وہ ایسا اچھے اخالق ،تہذیب اور ذہانت کی مدد سے بہتر
طریقے سے کر سکتے ہیں۔‘‘
اس معتدل انگریز کردار کے علی الرغم دوسرا کردار ایک ایسے نوجوان کا ہے
جو انتہائی متعصب ہے اور نوآبادیاتی حکمرانی کا آئینہ ہے۔ اگرچہ میجر کالنڈر (سول
سرجن) اور میکبرائیڈ (پولیس سپرنٹنڈنٹ) بھی ہندوستانیوں سے اپنے اپنے انداز میں
تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن رونی ہیسلوپ ) (Ronny Heaslopکا رویہ ان سب
سے زیادہ متعصبانہ ہے۔ وہ مسز ُمور ) (Mooreکا بیٹا ہے اور چندراپور کا مجسٹریٹ
ہے۔ اس کے متعصبانہ رویے کا اظہار خاص طور پر اس کی ماں کے ساتھ ہونے والے
مکالمے میں بھی ہوتا ہے کیوں کہ جب اس پر اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی
ماں ایک) (Mohammedanیعنی دیسی مسلمان سے ملی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے
اور مختلف قسم کے سخت سواالت اپنی ماں سے کرتا ہے۔ اس کی ماں اس بات سے بے
خبر ہوتی ہے کہ اس کے رویے میں اس طرح کی تبدیلی کیوں آئی ہے۔ وہ اپنی ماں سے
اپنے دل کا چور کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ وہ پوچھتا ہے کیا اس نے ہمارے متعلق کچھ
اس طرح کی باتیں تو نہیں کیں کہ انگریز ظالم فاتح اور مفرور افسر ہیں یا اسی سے ملتی
جلتی کچھ اور باتیں۔
Did he seem to tolerate us--the brutal conqueror, the sundried
bureaucrat,
)that sort of thing? (30
اس ساری گفتگو کے دوران جب اس کی ماں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے
کہ اپنے وطن (انگلستان) میں تو تم لوگوں کے بارے میں اس طرح فیصلے نہیں کیا
کرتے تھے تو وہ اپنی ماں سے بڑی سختی سے کہتا ہے کہ یہ ہمارا وطن تو نہیں ہے۔
پھر وہ ایسی اصطالحات اور جملے اپنی گفتگو میں استعمال کرتا ہے کہ اس کی ماں پر
رعب پڑے اور وہ خاموش ہو جائے۔
India isn't home," he retorted, rather rudely, but in order to silence
her he had been using phrases and arguments that he had picked
)up from older officials. (31
’’ ہندوستان ہمارا وطن نہیں ہے۔ اس نے قدرے سختی سے ماں کو جواب دیا۔ پھر اسے
خاموش کرانے کے لیے ایسے جملے استعمال کیے اور دالئل دیے جو اس نے پرانے
افسروں کو اپنی گفتگو میں استعمال کرتے سنا تھا۔‘‘
اعلی تعلیم یافتہ ہے مگر ہندوستان آنے کے بعد اس کا رویہ مقامیوں کے
ٰ وہ اگرچہ
ساتھ انتہائی متعصبانہ اور ناقابل برداشت ہے۔ وہ اپنی منگیتر کے ساتھ بھی اسی قسم کے
حاکمانہ رویے کا اظہار کرتا ہے جس طرح اس نے اپنی والدہ سے کیا ہے تووہ بھی
دلبرداشتہ ہو جاتی ہے۔
جس طرح کی رقابت اور دشمنی کااظہار اے پیسج ٹو انڈیا میں رونی ہیسلوپ ایک
مسلمان کردار ڈاکٹر عزیز کے خالف کرتا ہے اسی طرح پال اسکاٹ کے ناول راج
کوارٹٹ ) (Raj Quartetمیں رونالڈ میرک ) (Ronald Merrickجو انڈین پولیس
سروس میں انگریز افسر ہے وہ ہندوستانی باشندے ہری کمار ) (Hari Kumarکے
خالف کرتا ہے کیوں کہ ڈیفنی مینرس ) (Daphne Mannersجو کہ برطانیہ سے
ہندوستان میں آئی ہے تو اس کی مالقات ہری کمار سے ہوتی ہے۔ وہ اس کی محبت میں
گرفتار ہو جاتی ہے۔ میرک کو اس کا علم ہو تا ہے تو وہ برانگیختہ ہو جاتا ہے اور اس
کے خالف سخت ررین انتقامی کارروائی کرتا ہے۔ اسے جسمانی اذیت پہنچاتا ہے۔ اسی
قیام کے دوران ڈیفنی کو انگریز حاکموں کے مقامیوں کے ساتھ نفرت انگیز رویے کا علم
ہو تا ہے۔ وہ اپنے محبوب کے ساتھ بی بی گھر گارڈن میں ہوتی ہے تو ان پر حملہ ہو
جاتا ہے۔ وہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوتی ہے مگر اس واقعے کی لپیٹ میں ہری کمار آ
جاتا ہے اور رونالڈ میرک جو اپنی انتقامی کارروائیوں کا موقع مل جاتا ہے۔ یوں ہری
اعلی تعلیم یافتہ
ٰ کمار جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ بھی اگرچہ انگلستان پلٹ اور
ہے مگر نوآبادیاتی حاکم کی افسر شاہی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان تمام ناولوں میں یہ وہی افسر شاہی ) (Bureaucracyہے جس کے بارے میں
رڈیارڈ کپلنگ یہ رائے دیتے نظر آتے ہیں کہ
یہ لوگ حاکم ہیں مگر غالموں کی طرح کام کرتے ہیں وہ کبھی اپنی طبعی موت کرتے
ہیں کبھی کام کی شدت سے مر جاتے ہیں اور کبھی انتظامی بوجھ تلے قریب المرگ
رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی صحت اس لیے بگڑ جاتی ہے کہ ان کی زیر نگرانی
عالقہ قحط ،وبا اور بدامنی سے محفوظ رہ سکے۔۔۔اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب
رہتے ہیں تو اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے مقامی ساتھیوں اور اہلکاروں
کو بھی شاباش دیتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں سارا قصور اپنے سر لے لیتے ہیں۔
()۳۲
یہ ایسے رائے ہے جس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رڈیارڈ کپلنگ کو اس
نوآبادیاتی نظام کے تحت کام کرنے والی افسر شاہی کی طرف سے کیے جانے واال
استحصال اور زیادتی نظر نہیں آتی۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال اس ہندو نوجوان
ہری کمار کے ساتھ پیش آتی ہے کہ اس کو جسمانی طور پر معذور کر دیا جاتا ہے اور
کیریئر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ بعد میں کی جانے والی تفصیلی انکوائری میں ایک
دوسرے افسر کے ہاتھوں اس کی بے گناہی ثابت ہو جاتی ہے۔
پال اسکاٹ کے ناول راج کوارٹٹ کے ان دو کرداروں (ہندو/انگریز) پر غور کیا
جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی ہری کمار اور انگریز پولیس سپرنٹنڈنٹ دونوں ہی
مختلف بلکہ متضاد ذہنی رحجانات کے حامل ایسے کردار ہیں جو کہ وقت گزرنے کے
ساتھ ایک دوسرے کے بد ترین دشمن کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ کمار اگرچہ اچھی
فطرت اور طبیعت کا آدمی ہے مگر متعصب برطانوی سوسائٹی میں جہاں وہ حاکم ہیں ان
کے سامنے ایک کالے آدمے کے طور پر اس کا سماجی مقام و مرتبہ نہایت پست ہے۔
جبکہ میرک ) (Merrickبطور گورے پولیس افسر کے طاقت اور رعونت کی عالمت
ہے یوں یہ دونوں کردار طاقتور انگریز حاکم اور محکوم ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات
سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اگرچہ جسمانی طور پر ہری کمار ایک ہندوستانی ہے مگر ذہنی
اور نفسیاتی طور پر میرک جیسے انگریز سے کہیں بہتر ہے کیوں کہ اس کی پرورش
انگلستان میں اچھے طریقے سے ہوئی اور اس نے اچھے ادارے میں وہیں تعلیم پائی
کیوں کہ اس کا والد دلیپ کمار اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ طاقت علم ،اچھے کردار اور
نسل کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے۔
ہر لحاظ سے برتر ہونے کے باوجود رونالڈ میرک کو اس پر یہ فوقیت حاصل ہے
کہ وہ برطانوی پولیس افسر ہے اس کے پاس طاقت اور اختیار ہے جو ہری کمار کو
حاصل نہیں ہے مگر ان کے تعلقات میں حتمی اور فیصلہ کن موڑ اس وقت آتا ہے جب
ان کی زندگیوں میں ایک اور کردار ڈیفنی مینزر کا داخل ہوتا ہے۔ کشیدگی انتہا کو اس
وقت پہنچتی ہے جب ڈیفنی ،رونالڈ کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ایک ہندوستانی
ہری کمار کی محبت میں گ رفتار ہو جاتی ہے تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسی دوران
بی بی گھر کا گارڈن کا سانحہ رونما ہوتا ہے جس میں ڈیفنی اجتماعی زیادتی کا شکار
ہوتی ہے تو رونالڈ کو موقع مل جاتا ہے اور ہری کمار اس کے عتاب کا نشانہ بن جاتا
ہے۔ اس کی بہن لڈمیال ) (Ludmilaہری اور رونالڈ کی پہلی مالقات کا احوال بیان کرتے
ہوئے تسلیم کرتی ہے کہ ’’میں خطرناک قسم کے ہندسی ٹکرائو کا خطرہ محسوس کررہی
تھی کہ ایک تکون کے دو نقطے تو میرک اور کمار تھے جبکہ تیسرے نقطے کی تکمیل
ڈیفنی مینزر کی آمد سے ہوئی تھی۔ کافی عرصہ قبل ڈیفنی پر مجرمانہ حملہ ہوا تو کمار
میرک کے عتاب کا شکار ہوا۔ ہری کی جلد کی سیاہ رنگت نے رونالڈ کی اپنی اندر کی
سیاہی کو اس طرف متوجہ کر دیا۔
I had had warning of that dangerous geometrical position, with
Merrick and Kumar as two points of a triangle, with the third point
made by Miss Manners...... Long ago the criminal assault
happened to Daphne, Merrick and chosen Kumar as a victim. The
darkness of Hari's skin attracted the darkness in Ronald himself.
On Kumar's part a darkness of the soul. On Merrick's a darlmess
)of the mind and heart and flesh. (33
ادنی فرد ہے
کمار ہندوستانی معاشرے میں ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا ٰ
اعلی برطانوی خاندانوں میں وہ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اسے کسی
ٰ جب کہ انگلستان میں وہ
طرح سے بھی کم تر یا گھٹیا نہیں سمجھا جا تا تھا لیکن اب یہاں ہندوستان میں اچانک
انہی انگریزوں نے اس کو خود سے الگ کر دیا اور فاصلے بڑھا دیے جبکہ اس سے بڑا
المیہ یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہندوستانی بھی اس کے لیے اجنبی بن گئے تھے اس کا ذہن
عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا اور اسی کشمکش میں ڈیفنی کے ساتھ تعلقات استوار کر
کے ایک طرح سے وہ انگلستان سے وابستہ اپنی یادوں کو از سر نو تازہ کرنے لگا۔ مگر
اس کو شدیدذہنی اذیت سے اس وقت گزرنا پڑا جب اس کے بہترین دوست کولن لنڈ سے
)(Colin Lindsayجسے انگلستان سے ہندوستان میں بطور آرمی آفیسر تعینات کیا جاتا
ہے تو فطری طور پر ہری کمار اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے مگر کولن
Colinکے تو رنگ ڈھنگ ہی تبدیل ہو چکے ہیں اور جب میا پور ) (Mayaporeمیں
اس تعیناتی ہوتی ہے تو اس کی اتفاقا ً ہری سے مالقات ہو جاتی ہے تو وہ بہانہ بناتا ہے
کہ وہ ہری کو دیکھ نہیں سکا اور پہچان نہیں پایا یعنی انگلستان میں ہری کے ساتھ قربت
ہونے کے باوجود ہندوستان کے سماجی حاالت نے اسے ایسا تبدیل کیا کہ اس کے رویے
میں یکلخت اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ کمار اس صورت حال پر کچھ یوں تبصرہ کرتا ہے۔
I am invisible, Kumar said, not only to white people because they
are white and I am black but invisible to my white friend because
he can no longer distinguish me in a crowd. . . . . . . . . . yes, this is
what Lindsey thinks: ‘They all look alike.’He makes me disappear.
I am nothing.. . . . . . and would not be welcome if I were
)recognised. (34
’’میں نہ صرف گوروں کو دکھائی نہ دینے واال آدمی ہوں کیوں کہ میں کاال ہوں بلکہ
اپنے سفید فام دوستوں کو بھی نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ وہ مجھے ہجوم میں پہچان نہیں
سکتے۔ جی ہاں لنڈز ے درست کہتا ہے کہ وہ سب ہی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں وہ
مجھے غائب کر دیتا ہے مینکچھ نہیں ہوں اور اگر کبھی پہچان بھی لیا جائوں تو بھی
مجھے اچھا نہیں جانا جائے گا۔‘‘
مجموعی طور پر ہندوستان میں آنے والے انگریز کسی بھی رونما ہونے والے
واقعے سے فوری اثر قبول کرتے ہیں اس بات کو پیش نظر رکھے بغیر کہ وہ قوموں کی
کشمکش میں کس طرف کھڑے ہوتے ہیں جبکہ ہندوستانی لوگ اگرچہ فطری طور رپ
خاموش اور نرم طبیعت ہیں اور وہ مغربی تہذیب کے مصنوعی طور پر پیدا کردہ کم
ترین سماجی مرتبے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ آزردہ ہوتے ہیں اور ناراض
ہو کر ہنگاموں اور احتجاجی منصوبوں کی جانب مائل ہوتے ہیں اگرچہ یہ چیزیں ان کے
فطری مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس طرح کے تضادات کا حل موہن داس کرم چند
گاندھی(۱۹۴۸ء۔۱۸۶۹ء) کی طرف سے عدم تعاون اور عدم تشدد کی تحریکوں کے
ذریعے نکاال جاتا ہے۔ جن کے بارے میں ناول میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ سے
۱۹۱۴ء میں ہندوستان تشریف الئے تو اپنی تقریر انگریزی زبان میں کی۔ ناول کے
صفحات میں اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے۔
In his first public speech he said he was ashamed to have to
speak in English in order to be understood by a largely Indian
audience. He said there was a lot of work to be done before
)Indian could think of self-government. (35
’’ اپنی پہلی عوامی تقریر میں انھوں نے کہا کہ انھیں انگریزی میں تقریر کرنے پر نہایت
شرمندگی ہے جو کہ اس وجہ سے کی گئی کہ بیشتر ہندوستانی سامعین اس کو سمجھ
سکیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں حکومت کے حصول سے قبل کافی زیادہ
کام کی ضرورت ہے۔‘‘
مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانیوں کی روحوں کے اندر مساوات اور
آزادی کی تڑپ موجود ہے جبکہ انگریز حاکموں نے اپنی باالدستی قائم رکھنے کا عزم
بھی بڑے سلیقے سے الگو کیا ہوا ہے۔
دوسرے انگریز نمائندہ کردار کمشنر وائٹ ) (Whiteاور بریگیڈیئر ِریڈ )(Reid
نقطہ نظر کے ترجمان ہیں وائٹ سول انتظامیہ جبکہ
ٔ کے ہیں جو کہ دو مختلف برطانوی
ریڈ فوجی اتھارٹی کے نمائندہ ہیں۔ ریڈ کا رویہ سادہ ہے اور وہ ہندوستان میں برطانوی
حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے تمام اقدامات کا زبردست حامی ہے اس کی
شخصیت میرک ) (Merrickسے مشابہت رکھتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہمدردی بھی
رکھتا ہے۔ دوسری طرف وائٹ بڑے پیچیدہ قسم کے نظریات و خیاالت رکھنے واال آدمی
ہے اور وہ ہندوستان کی پیچیدہ صورت حال کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس
سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایمپائر کے بارے میں انگریز خود بھی کسی ایک رائے پر
متفق نہیں تھے۔ بلکہ مختلف آراء رکھتے تھے۔
اس ناول کے انگریز کرداروں کے رویے سے ہندوستانی روایات اور ثقافت کو
کچلنے اور نابود کرنے کا اظہار بھی ہوتا ہے حاالنکہ اس ورثے سے مغرب نے استفادہ
کیا تھا۔ ایسے ہی رویے کو ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب اورینٹلزم ) (Orientalismمیں
واضح کیا ہے کہ مشرق نے یورپ کو اپنے متنوع خیاالت و نظریات کو وضع کرنے میں
مدد فراہم کی مگر انگریزوں نے ہندوستانی مشرقی ثقافتی ورثے کی تعمیر اور تسلسل کو
قائم رکھنے کی نئی شکلوں اور ا مکانات کو تالش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بلکہ
انہوں نے ہندوستانیوں کو ایسی مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جیسے کہ وہ چڑیا گھر میں
کوئی بدیسی یا اجنبی جانور ہوں۔ ایسے رویے سے آخر کار بے اطمینانی اس حد تک
پھیلی کہ انگریزوں کا ہندوستان سے انخال یقینی ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں برطانوی
عملداری اور فرنگی راج جس کی بنیاد استحصال اور برتری و فضیلت کا شدید احساس
تھا انجام کار مسترد ہی ہونا تھا۔
ج :نسوانی کرداروں کا تانیثی مطالعہ
تانیثیت ایک معاشرتی تنقیدی رویے اور سیاسی شعور کے طور پر انیسویں صدی
کے اواخر میں مجموعی معاشرتی فکر کا حصہ بنی۔ اس کا تعلق صنفی امتیاز ،غیر
مساویانہ تعلقات اور دو مختلف جنسوں کے مابین اجتماعِ ضدین ؍ثنوی تضادات (Binary
) oppositionکے مشاہدے سے ہے۔ یہ ایک کثیرالجہت حیثیتوں کا حامل تنقیدی رویہ
ہے جس میں عورت کے کردار کو مرد اساس سماج میں گیرائی اور گہرائی سے
سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی اس تنقیدی دبستان میں عورت کو مختلف حیثیات
اور جہات سے مطالعے کا موضوع بنایا جاتا ہے اور اس امر کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے
کہ پدرسری معاشرے کی روایتی ادبی تخلیقات میں کس حد تک مصنف اس رویے سے
متاثر ہوا ہے اور ان تخلیقات میں کیا خواتین کے کردار کو سرے سے غائب دکھایا گیا
ہے یا انہیں مردوں نے اپنے کسی جنسی امتیاز یا تعصب کی بنا پر ان کے حقیقی کردار
کو گمراہ کن انداز میں یا مسخ شدہ پیش کیا گیا ہے۔
سیمون دی بوا کی کتاب " "The Second Sex, 1949کو تانیثی تنقید میں
نہایت اہم مقام حاصل ہے۔
مارگریٹ ایل اینڈرسن کے مطابق:
Feminism begins with the premise that women's and men's
Pakistan in society are the result of social, not natural or biological
factors....Feminism takes womens interests and perspectives
seriously, believing that women are not inferior to men.....
Although feminists do not believe that women's experiences,
concerns and ideas are as valuable as those of men and should
)be treated with equal seriousness and respect. (36
’’تانیثیت کا آغاز اس اصول سے ہوتا ہے کہ معاشرے میں عورتوں اور مردوں کا
مقام و حیثیت ان کی حیاتیاتی ساخت یا قدرتی وجوہات پر منحصر نہیں بلکہ ہماری سماجی
/معاشرتی اقدار کے سبب ہے۔ تانیثیت نسائی دلچسپیوں اور ان کے مخصوص تناظر کو
سنجیدگی سے لیتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ عورتیں مردوں سے کم تر نہیں۔۔۔ اگرچہ یہ
لوگ اس بات پر ُمصر نہیں کہ خواتین کو مردوں جیسا ہونا چاہیے مگر وہ اس امر پر
یقین ضرور کرتے ہیں کہ عورتوں کے تجربات ،خدشات اور تصورات و خیاالت اتنے ہی
قابل قدر ہیں جتنے کہ مردوں کے۔ اور انہیں بھی مساوی احترام اور سنجیدگی کے ساتھ
دیکھا جانا چاہیے۔‘‘
تانیثی فکر عورت کے کردار کو ایک خود مختار اور آزاد حیثیت سے پیش کرنے
کا مطالبہ کرتی ہے اور عورت کی ادب میں غیر متعصبانہ انسانی پیشکش کو ضروری
سمجھتی ہے جس میں اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کے بجائے اس کی انفرادیت کو
برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ اس فکر کے داعین کے مطابق ادبی روایت پر مردوں کی
اجارہ داری کی وجہ سے عورت کے کردار کے ساتھ ،عورت کے متون کو بھی جائز
مقام سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس لیے خاص طور پر مردوں کے تخلیق کردہ ادب میں
عورت کی پیشکش کا تانیثی تنقیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ عورت کے
دامن قرطاس پر النے میں مرد تخلیق کار کس حدِ جذبات و احساسات کو صحیح طور پر
تک کامیاب ہوئے ہیں یا پھر عورت کو مردانہ نقطہ نگاہ سے اپنی مخصوص حاکمانہ
سوچ یا احساس برتری کے مطابق پیش کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ تانیثی ادب
سے مراد بھی صر ف ایسا ادب ہر گز نہیں ہے جو صرف عورتوں کا تخلیق کردہ ہو بلکہ
کوئی مرد ادیب بھی ) (Feministہو سکتا ہے اور کوئی عورت اس زمرے سے باہر ہو
سکتی ہے۔ Feminist Critiqueکے تحت مرد تخلیق کاروں کے ہاں نسائی کردار کا
مطالعہ کیا جاتا ہے جب کہ Gynocriticsکے تحت خواتین لکھاریوں کے ہاں عورت
کی پیش کش یا استحضاریت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر ناصر عباس نیر
تانیثیت محض ادبی متون ہی نہیں ،پوری انسانی تاریخ اور جملہ ثقافتی مظاہر کے
مطالعے کا نیا تناظر فراہم کرتی ہے۔ تانیثیت ادبی متون کی جمالیاتی قدر سے کوئی
سروکار نہیں رکھتی۔ یہ متن کے موضوع کا اپنے مخصوص تناظر میں مطالعہ کرتی
ہے۔ ()۳۷
زیر نظر سطور میں اس امر کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ منتخب ناولوں کے
متون میں عورت کو کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ کیا اس کا کوئی مرکزی کردار ہے ،یا
اسے بطور ضمنی اور معاون کردار یا سٹیریو ٹائپ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اینگلوانڈین سوسائٹی میں عورت کو اس عہد کے آشوب کا سامنا ہے ان ناولوں کے
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں سماجی اور تمدنی امتناعات کی وجہ سے
گھٹن اور محرومی عورت کا مقدر تھی۔
انیسویں صدی میں تانیثیت کے حوالے سے وہاب اشرفی رقم طراز ہیں:
پہلے پہل تو تانیثیت عورتوں کی سیاسی اور معاشی برابری کی متقضی تھی لیکن انیسویں
صدی میں اس کا ایک قوی رخ سامنے آیا اور وہ تھا جنس سے متعلق۔ یہ تھیوری
عورتوں اور مردوں کی جس حیثیت کے بارے میں ایک سوالیہ نشان لگاتی تھی۔
خصوصا ً اس تصور کا ابھار ا گیا کہ جنسی مطابقت کے نام پر عورتوں کے ساتھ بڑی
ناانصافیاں کی جاتی رہی ہیں۔()۳۸
پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد عورتوں کے استحصال کے کئی اور رخ اور
جہتیں منظر عام پر الئی گئیں جو کسی نہ کسی شکل میں سماج میں موجود تھیں۔ گائتری
اسپاوک) (Gayatri Spivakکے مطابق عورتوں کا استحصال نوآبادیاتی عہد میں کئی
سطحوں پر ہوتا رہا ہے کسی نوآبادی مرحلے میں پیداوار کی حصے داری میں
) (subalternکی کوئی تاریخ نہیں ہے نہ ہی انہیں کچھ اس بارے میں کہنے کی اجازت
ہی حاصل تھی۔ چنانچہ خواتین کی حیثیت محض ایک سایہ یا پرچھائیں سے زیادہ کچھ
نہیں تھی۔
اس حوالے سے مختلف تحریکیں اور نظریات بھی سامنے آئے جیسے مارکسی
تانیثیت کی تحریک نے اس بات پر زور دیناشروع کیا کہ عورتوں کے خالف استحصال
اور تشدد کی وجہ سماجی اور معاشی تشکیالت ہیں۔ ریڈیکل فیمنزم نے اسی بات کو عیاں
کیا کہ عورت کو مرد کے جنسی استحصال یا تشدد کا نشانہ بننا ہی پڑتا ہے۔ سماجی
فیمنزم کے مطابق پدرسری سماج میں عورتوں کا آزادانہ کردار ) (Roleممکن ہی نہیں
ہے۔ ان کے مطابق ایسے معاشرے میں عورت کا استحصال اس نظام کا حصہ ہے۔
نفسیاتی فیمنزم میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ عورتوں کی داخلیت مردانہ جنسی
کلچر میں نہایت کمزور ) (Fragileہے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام امور جو ہمارے ثقافتی ڈھانچے کا
حصہ ہیں ادب میں بھی ان کا اظہار ہوتا ہے اگرچہ ان کی صورتیں مختلف زبانوں اور
معاشروں کے ادب میں مختلف ہوسکتی ہیں۔
تانیثی ڈسکورس کے حوالے سے منتخب نوآبادیاتی ادب کا مطالعہ کیا جائے تو
کئی اہم سوال سامنے آتے ہیں کہ نوآبادیاتی عہد مینبرصغیر کے معاشرے میں عورتوں
کے کردار بحیثیت بیوی ،بیٹی ،ماں پر کیا اثر پڑا۔ اگر ان کے کردار میں کچھ فرق پڑا تو
اس سے بحیثیت مجموعی مقامی کلچر پر بھی اثرات کا پتا چلتا ہے۔ اس سے ہمیں شادی
جیسے اہم معاملے کے بارے مینمعلوم ہوتا ہے کہ مقامی معاشرے کی نوجوان عورتوں
کے لیے شادی کا مسئلہ کتنا اہم ہے اور خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں خاندانی
طور پر ترتیب دی گئی شادیوں کا رواج ہو پھر اس کثیر قومی معاشرے میں اس کی
اہمیت کچھ اور ہو جاتی ہے۔ اس پہلو کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ مردوں کے قلم سے
تحریر کردہ ان ناولوں میں کیا عورتوں کو بطور ثانوی کردار پیش کیا گیا ہے یا کوئی
مرکزی کردار بھی ہے اور اس کے ساتھ یوروایشین ) (Euroasianکرداروں کے
معاملے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ یوروپین اور مقامیوں )(Natives
کی اوالد ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر مرد انگریزوں اور مقامی عورتوں کے بچے بچیاں
ہیں۔ ان کے کردار کو ان کی مائوں کے تجربات کے حوالے سے بھی جانچا جا سکتا ہے۔
بطور نمونہ عہد نوآبادیات کے مرد مصنفین کے ناولوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم
ہوتا ہے کہ E. M. Forsterکے ناول اے پیسج ٹو انڈیا میں عہد نوآبادیات میں
ہندوستانیوں اور گوروں کے درمیان خوشگوار قربت والے تعلقات کے فروغ میں حائل
رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے جوں ہی یہ تعلقات اچھے ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اسی دوران
ناول کے پالٹ میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ پوری فضا یکلخت تبدیل ہو جاتی
ہے کہ ایک ہندوستانی مرد (عزیز) ایک انگریز خاتون ) (Adelaپر جنسی حملے کا ملزم
قرار پاتا ہے یعنی ایک عورت دونوں قوموں کے تعلقات میں خرابی اور باعث نزاع بنتی
ہے ۔ اس واقعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انگریز ہندوستانیوں کے بارے میں
اور ہندوستانی انگریزوں کے بارے میں کس قسم کے احساسات و جذبات رکھتے ہیں۔
اسی ناول میں دوسرا اہم نسوانی کردار مسز مور ) (Mrs. Mooreکا ہے جو ناول کی
کہانی کو آگے بڑھا نے میں اور پالٹ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جان ماسٹرز کے بھوانی جنکشن ) (Bhoani Junctionکا ذکر کیا جائے تو اس
میں مرکزی کردار پیٹرک ٹیلر ) (Patric Taylorایک یوروایشین ریلوے افسر کا ہے
اور دوسرا مرکزی کردار وکٹوریہ جونز ) (Victoria Jonesکا ہے جو ایک یوروایشین
دوشیزہ ہے۔ اور برطانوی ہندوستان میں اس کے شناختی بحران ) (Identity crisisکے
مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔
جان میک پیس تھیکرے کے وینٹی فیئر ) (Vanity Fairکی کہانی بھی ایک
خاتون ربیکا ) (Rebeccaکے گرد گھومتی ہے جو اپنی زندگی اور اسٹیٹس کو تبدیل
کرنے کی خواہاں ہے اس ناول میں کئی دوسری خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جس طرح
کے کردار خاتون ناول نگار Jane Austinکے ناولوں جیسے Pride and
Prejudiceوغیرہ میں جوان مردوں اور لڑکیوں کے بیشتر کردار آپس میں راہ و رسم
بڑھاتے نظر آتے ہیں اور ان تعلقات میں لطیف الجھنیں پڑتی ہیں اور کرداروں مینارتقا
کی منازل التی ہیں اور آخر میں کچھ کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی اس ناول میں بھی
کئی دوسرے خواتین کردار بھی سامنے الئے جاتے ہیں۔ اس ناول میں بھی شادی اور
محبت کے معامالت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور عورتوں کی نفسیات کو اجاگر کیا گیا
ہے۔
اسی طرح جارج آرویل ) (George Orwellکا ) (Burmese Daysایک
انگریز کی برما میں برطانوی راج کے عہد زوال کے ایام کی داستان ہے جب وہ اس
خوبصورت سرزمین پر اپنی گہری تنہائی کے بارے میں غور کرتا ہے۔ اس کی ایک
پرانی داشتہ کو اس کے بظاہر بے ضرر دشمن کی طرف سے اس کی تباہی و بربادی
موثر آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
کے لیے ٔ
رڈیارڈ کپلنگ ) (Kiplingکی متعدد شارٹ اسٹوریز جیسے"، "Lispeth
" "Beyond the Poleاور دوسری کئی کہانیوں میں مقامی عورتوں کو نمایاں اور
مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔
کچھ نقادوں نے کپلنگ کی کہانیوں میں عورتوں کی تصویر کشی کے پس منظر
میں کچھ محرکات کی نشاندہی بھی کی ہے جس میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس کی زندگی پر
تین مختلف عورتوں کے اثرات کچھ اس انداز میں ثبت ہوئے کہ ان کی عکاسی اس کے
ادبی سرمائے میں بھی جھلکتی ہے۔ پہلی عورت کیپٹن ہالوے )(Captain Holloway
کی شریک حیات تھی اور اس بورڈنگ ہائوس کی انچارج تھی جہاں کپلنگ ۱۸۷۱ء سے
۱۸۷۷ء تک مقیم رہا۔ جس کے ساتھ کپلنگ کی بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں کیونکہ وہاں
ان پر اکثر تشدد کیا جاتا تھا اس وجہ سے کپلنگ نے اسے اجاڑ گھر (House of
)Desolationکہا۔ پھر اس کی اپنی والدہ ،بہن اور آنٹی جارجی )(Aunt Georgie
کے اثرات اور ازاں بعد اس کے امریکی پبلشر ) (Balestierکی ہمشیرہ )(Caroline
کے اثرات۔ مگر ان اثرات کے عالوہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ
کپلنگ کے خواتین کے کردار بہت متنوع ہیں اور بعض اوقات ان میں تضاد بھی پایا جاتا
ہے کیوں کہ ایک طرف اس کے خواتین کردار مردوں کی اکثریت اور حاکمیت والے
معاشرے میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اس کے
خواتین کردار ’’محدود نوعیت )‘‘ (Restricted & Limitedکے ہیں اور ان میں بھی
مسز ہاکسبی ) (Mrs. Hawksbeeاور مسز ریور ) (Mrs. Reiverجیسی خواتین کو
سطحی اور جنس زدہ ) (Shallow and Promiscuousقرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ
اس نے ہندوستان میں بیشتر انگریز خواتین کو مکار ،شرارتی ،بے وفا اور متعصبانہ
کردار کی حامل کے طور پر پیش کیا مگر یہ بھی کوئی حتمی بات نہیں کیونکہ بعض
اوقات اس نے اس سے انحراف کرتے ہوئے انہیں اطاعت گزار ،وفادار اور بعض اوقات
نافرمان اور سرکش عورت کے روپ میں پیش کیا ہے یعنی مختلف کرداروں کو متضاد
روپ میں پیش کیا ہے جیسے کہ اس کی کہانی The Other Manکی مرکزی کردار
ـ ""Miss Gaurey Plain Tales from the Hillsمیں " "Lispethکا کردار ۔
""Three and ...A Extraمیں" "Mrs. Bremmilکا کردار"Cupidls Arrow" ،
میں " "Kitty Beightonکا کردار"Miss Youghlal's Sais" ،میں "Miss
"Youghalکا کردار ،اسی طرح " "Plain Tales from the Hillsمیں سے ہی
""Mrs. Hawksbeeکا کردار سب اپنی اپنی جگہ پر منفرد اور الگ تہذیب و معاشرت
اور امتزاج کے نمائندہ ہیں جن کو کپلنگ نے یکسانیت سے پیش نہ کر کے اپنی ادبی
مہارت کا ثبوت بھی دیا ہے اسی طرح کپلنگ کے مشہور ناول ِکم ) (Kimمیں شاملیغ
)(Shamleghجیسی پستی زدہ عورت کے کردار کو بھی نہایت فنکارانہ انداز میں پیش
کیا ہے۔
کپلنگ کے پیش کردہ ان خواتین کرداروں کے جائزے سے یہ بات مترشح ہوتی
ہے کہ کپلنگ نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے دوسرے
مشہور لکھاریوں سے مختلف انداز میں ان نسوانی کرداروں کو اجاگر کیا ہے۔ یوں وہ
تصویر جو ان کرداروں کے ذریعے قاری کی آنکھوں کے سامنے پیش ہوتی ہے وہ یقینا
بے مثال ،مختلف مگر حقیقت سے قریب ترہے۔
پال مارک اسکارٹ کے Jewel in the Crownمیں ڈیفنی مینرز (Dephne
)Mannersکا کردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے وہ ہندوستان میں اپنی خالہ کے ہاں قیام
کے لیے آتی ہے کیو ں کہ اس کا سارا خاندان انگلستان میں جنگ کی نذر ہو چکا ہے۔
یہاں اس کے ساتھ عصمت دری کا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے اور نتیجتا ً وہ حاملہ ہو
دوران زچگی انتقال کر جاتی ہے۔
ِ جاتی ہے اور
Day of Scorpionمیں سارہ لٹن ) (Sara Laytonکا کردار مرکزی ہے۔ وہ
ایک ذہین اور تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور ایک مسلمان کے ساتھ دوستی کرتی ہے۔ سوسن
)(Susanاس کی بہن ہے۔ یہ دونوں نسلی عصبیت کا شکار ہوتی ہیں۔
Tower of Silenceمیں مس باربی بیچلر ) (Barbi Bachelorکے گرد کہانی
گھومتی ہے جب کہ A Division of Spoilsمیں Guy Peronکے حوالے سے آنٹی
شارلٹ کا کردار نمایاں ہے۔
پال اسکاٹ کے ناول راج کوارٹٹ کے بیشتر نسوانی کرداروں کے جائزے سے یہ
بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں مقامی خواتین کی اکثریت کم تر سماجی حیثیت میں
زندگی بسر کرتی ہے اور وہ اپنے والدین ،خاوندوں اور بھائیوں کے زیر سایہ معاشرے
میں سب سے نچلے طبقے میں شمار کی جاتی ہیں اور جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو
جائے تو بیوہ عورت بھی اس کے ساتھ ستی ہو جاتی ہے یعنی ہندوستانی معاشرے میں
اعلی خاندانوں میںٰ عورت کی زندگی کی زیادہ وقعت نہیں ہے مگر اس کے ساتھ کچھ
اعلی مقام و مرتبے کی حامل ہے۔ کم درجے کی حامل ٰ عورت ’’سیاہ‘‘ ہونے کے باوجود
خواتین کی نمائندگی اس ناول میں شالینی گپتا سین ) (Shalini Gupta Senکرتی ہے
جو کہ ہری کمارکی آنٹی ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس اگرچہ زیادہ مال و دولت نہیں ہے
مگر دوسروں کے لیے ہمدردی ر کھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈیفنی مینرز کو ہری کمار
کی دوست سمجھ کر اپنے غریبانہ گھر میں دعوت دیتی ہے۔ اس طبقے کی خواتین میں
نسلی تعصب بھی موجود نہیں ہے ۔ یہ خاتون اپنے خاوند کی وفات پرستی بھی نہیں ہوتی
اور خاندان کی مخالفت مول لیتی ہے اور ہری کمار جب انگلستان سے واپس میا پور آجاتا
ہے تو اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
للی چیٹرجی ) (Lilli Chatterjeeایک دوسرے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے
طبقہ اشرافیہ کی۔ وہ جنیوا اور پیرس میں حاصل کردہ تعلیم کو استعماری طاقتوں
ٔ یعنی کہ
اور محکوموں کے درمیان معتدل فضا قائم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور اپنی
رہائش گاہ میک گریگر ہائوس ) (Mac Gregor Houseمیں دونوں طبقوں کے افراد
حتی کہ ڈیفنی مینرزکو مدعو کرتی ہے اور آپس میں مکالمے کا موقع فراہم کرتی ہے ٰ
جو کہ برطانوی دوشیزہ ہے وہ بھی اس کے گھر آ کر قیام کرتی ہے۔ للی کے ساتھ
ہندوست ان کی عصری سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتی ہے اور مہاتما گاندھی کی
سرگرمیوں کا جائزہ لیتی ہے۔ وہ مہاتما گاندھی کی ذہنی اور جسمانی خوبیوں کی معترف
ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ نہایت شاطر آدمی ہے۔ ہر فن موال ہے اور اسے معلوم ہے
کہ کس وقت کبوتروں کے درمیان بلی بٹھانی ہے۔
His shrewdness, his perfect timing in putting the cat among the
)pigions.(39
ان دونوں ہندوستانی خواتین کے درمیان امتیاز یہ بھی ہے کہ شالینی نچلے طبقے
اعلی
ٰ سے تعلق رکھتی ہے مگر مذہبی طور پر ایک کٹر ہندو ہے جبکہ آنٹی للی جو
طبقے کی فرد ہے و ہ کہتی ہے کہ میں تو ایسی کچھ نہیں ہوں میں تو صرف اور صرف
ہندوستانی ہوں اور مجھے تشدد سے نفرت ہے۔
)I don't like violence...... I hate negation. (40
تاہم دونوں طبقوں کی خواتین اپنی تاریخ اور ثقافتی روایات کو بڑی قدر اور احترام
کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور خاص طور پر شالنی جس ہندو روایت سے جڑی ہوئی ہے
اس کا تعلق کئی ہزار سال قبل تحریر کی جانے والی مقدس وید ) (Vedasسے مضبوطی
سے جڑا ہوا ہے۔
راج کوارٹٹ میں دو انگریز خواتین کے کردار بہت اہم اور قابل غور ہیں۔ ان میں
سے ایک ڈیفنی مینرز ) (Daphne Mannersاور دوسری ایڈونا کرین (Edwina
) Craneہے۔ ڈیفنی ایک نوجوان عورت ہے جبکہ ایڈونا کرین ایک معمر خاتون ہے جو
۳۵برس قبل ہندوستان میں وارد ہوئی۔ دونوں خواتین جسمانی طور پر کوئی زیادہ
خوبصورت نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے گرد مداحوں کا کوئی گھیرا ہے۔ مس کرین ایک
دعوی کرتی
ٰ لبرل قسم کی خاتون ہے اس کے مطابق للی چیٹر جی )(Lilli Chatterjee
ہے
)She loved India and all Indians, but no particular Indian. (41
’’ وہ ہندوستانیوں اور ہندوستان سے محبت ضرور کرتی ہے مگر کسی خاص ہندوستانی
سے نہیں۔‘‘
ان دونوں انگریز خواتین کے درمیان فرق یوں بھی واضح ہوتا ہے کہ مس کرین
دعوی کرتی ہے جبکہ مس مینرز باقی تمام ہندوستانیوں سے ٰ ہندوستانیوں سے محبت کا
نفرت کا اظہار کرتے ہوئے صرف ایک ہندوستانی ہری کمار ) (Hari Kumarسے
محبت کا اظہار کرتی ہے۔
دونوں انگریز خواتین ہندوستان میں خیراتی اور مشنری اداروں سے منسلک ہیں۔
ایڈونا کرین ایک مشن سکول میں ہندوستانی بچوں کو تعلیم دیتی ہے جبکہ ڈیفنی مینرز
ایک مشن ہسپتال میں مالزمت کرتی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ان کا تعلق مثالیت پرستی پر
مبنی ہے۔ وہ نوآبادیاتی ہندوستان میں جنم لینے والے مختلف مسائل تو ناپسند کرتی ہیں
مگر اس ملک کی اپنے اذہان میں تخلیق کردہ مثالی تصویر کو پسند کرتی ہیں۔
دونوں خواتین ہندوستان میں ایک جیسے سانحات کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کے
ساتھ دو ہندوستانی مرد بھی۔ ان دونوں حادثات کی ذمہ دار بھی وہ خود ہیں اور ان کا
نسلی غرور بھی جو ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں حقائق سمجھنے کی صالحیت
سے محروم کر دیتا ہے۔
اس کا ہندوستانی دوستی ہری کمار ان تعلقات کو ختم کرنے کا کہتا ہے مگر وہ
آپس میں دوسری اور محبت کے رشتے کو قائم رکھنے پر مصر ہے۔ وہ اسے سمجھاتا
ہے کہ ان حاالت میں ہماری دوستی کئی قسم کے خطرناک نتائج یا پیش خیمہ ہو سکتی
ہے مگر اس کا ذہنی غرور کسی بھی قسم کی نصیحت کو سننے سے باز رکھتا ہے۔ اس
کے لیے یہ ایک ایڈونچر ہے جو نہ صرف اسے بلکہ ہندوستانی کمار کو بھی تباہی کی
طرف لے جاتی ہے۔
I thought that every thing I did was an adventure of some sort. I
was breaking every rule there was. I made the horrible mess of
)every thing.(42
اسی طرح کا سانحہ ٹیچر ایڈونا کرین کے ساتھ پیش آتا ہے کہ ہندوستانی ٹیچر
مسٹر چوہدری اسے ’’ہندوستان چھوڑ دو "‘‘ "Quit Indiaتحریک کے مظاہروں کے
درمیان باہر نکلنے سے منع کرتا ہے مگر وہ اپنے نسلی غرور کی وجہ سے اس کی
نصیحت پر کان نہیں دھرتی۔ مسٹر چوہدری جب ایڈونا کرین کے ہمراہ باہر نکلتا ہے تو
وہ مشتعل ہجوم کے غصے کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ مقامی لوگ جب اسے ایک
انگریز خاتون کے ساتھ کار میں سفر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اسے غدار سمجھتے
ہیں اور یوں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
جبکہ ہری کمار جو ڈیفنی کے ساتھ بیٹھا ہے وہ بھی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو
کر میرک کے عتاب کا نشانہ بنتاہے۔
دونوں انگریز خواتین اپنے گناہوں اور غلطیوں کی تالفی اپنی موت کی صورت
میں کرتی ہیں۔ مس کرین بھی کسی ہندوستانی بیوہ کی طرح اپنے گھر کو آگ لگا کر خود
کو ستی ) (Sutteeکر لیتی ہے۔ جبکہ ڈیفنی بھی بچی کی پیدائش کے دوران فوت ہو
جاتی ہے۔ دونوں ہی کی اموات ہندوستانی مردوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور دونوں
ہندوستانی مرد ان خواتین کے نسلی تفاخر اور غرور کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ برطانوی
بھی ان خواتین کی مختلف وجوہات کی بنا پر مذمت کرتے ہیں۔
ڈیفنی اور ایڈونا کی سماجی زندگی ہندوستانی معاشرے میں بڑی بھرپور ہے اور
وہ ہندوستانیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ٖڈیفنی کی آنٹی للی میک گریگر )(Mag Gregor
ہائوس میں ضیافتوں کا اہتمام کرتی ہیں جہاں پر گورے مقامی لوگوں سے ملتے مالتے
ہیں۔ ایڈونا بھی اپنے گھر میں دعوتیں سجاتی ہے جہاں ہندوستانی عورتوں اور انگریز
سپاہیوں کی فالح و بہبود کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی
باقاعدگی سے ہندوستانیوں سے ملتی ہیں مگر ان کے باطن میں انگریز ہونے اور سفید فام
نسل سے تعلق ہونے کا فخر و غرور اپنی جگہ پر قائم ہے اور یہی وہ برتری کا احساس
ہے جو انہیں آخر کار تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اچھی فطرت
رکھنے والی خواتین ہیں مگر برطانوی استعمار کے برتر قوم کے نظریے کا شکار ہو
جاتی ہیں وہ ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات سے بے خبر انہیں جاہل اور کم تر نسل
سے تعلق رکھنے واال سمجھتی ہیں۔ وہ انہیں تعلیم دینے اور ان کے زخموں پر مرہم
رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہیں مگر ان کے لیے ان کے دلوں میں حقیقی احترام کی وہ
کیفیت موجود نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی۔ ڈیفنی اگرچہ دونوں ہی اقوام کو قصور وار
سمجھتی ہے اور انگریزوں کی غلطی اس وجہ سے سمجھتی ہے کیوں کہ اس کے خیال
میں معامالت میں خرابی کی بڑی وجہ غیر ملکیوں سے نفرت یا اجنبیوں سے بیزاری
)(Xenophobiaپر مبنی رویہ ہے۔
ڈیفنی ہندوستان کے قومی غرور کا موازنہ ان کے دیوتا وشنو ) (Vishnuسے
کرتی ہے جو ابھی تک خفتہ ہے مگر کسی بھی لمحے بیدار ہو کر دشمنوں پر بجلیاں گرا
سکتا ہے۔ اسی طرح شیوا ) (Shivaکائناتی آگ کے دائرے میں خاموشی سے محو رقص
دیکھا جا سکتا ہے اس کا دایاں پائوں چھوٹے سے آسیب کو دبائے ہوئے ہے جب کہ اس
کا بایاں پائوں اوپر کی طرف اٹھا ہوا ہے اور اس کے ہاتھوں نے آگ کے شعلے کو تھام
رکھا ہے۔ یہ سکوت یا خاموشی ہندوستانی قوم کی اطاعت کی عالمت ہے اور ان کی
چھپی ہوئی دانش اور طاقت کو جس کو انگریز سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح مس
مینرز اور ڈیفنی بھی حادثے کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ پولیس کے
سامنے بھی زبان کھولنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ وہ مزید تشدد
نہیں چاہتیں۔ ساتھ ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ
ہندوستانیوں نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر وہ اب اس کے جواب میں ان کے ساتھ
دھوکہ دہی کا ارتکاب نہیں کر سکتیں۔ ڈیفنی کی نوزائیدہ بیتی پاروتی )(Parvati
ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان نئے تعلقات ،نئے ضابطوں اور نیو آرڈر کے لیے موقع
فراہم کرتی ہے۔ اس میں بھی تضاد کی کیفیت یوں واضح ہوتی ہے کہ ایک انگریز ماں
اور ہندوستان ی باپ کی بیٹی کی پرورش للی چیٹر جی کے ذمے لگتی ہے جو کہ قدیم
ثقافت اور روایات کی نمائندہ ہے۔ دونوں ہندوستانی خواتین للی اور شالنی گپتا سین ناول
میں قدیم مشرقی دانش کی بھرپور عکاس ہیں۔
بحیثیت مجموعی ہندوستان میں قیام پذیر سفید فام خواتین کو بھی دو بڑے گروپوں
میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک تو برطانوی انگریز خواتین ہیں جبکہ دوسری
خواتین وہ ہیں جن کا تعلق انگلستان سے نہیں ہے۔ دونوں کے رویے بھی مختلف ہیں۔ غیر
برطانوی گوری خواتین ہندوستانیوں سے معقول رویہ اپناتی ہیں۔ ان کا رویہ انفرادیت
پسندانہ ضرور ہے مگر وہ اپنی قومیت کی برتری کے احساس کو دوسروں پر مسلط نہیں
کرتیں۔ ہندوستان میں رہائش پذیر گوری خواتین اکثر خود کو خیراتی اداروں سے وابستہ
کر لیتی ہیں مگر برطانوی تصور کرم فرمائی بہت ہی پرفریب اور منافقانہ ہے کیوں کہ
وہ ہندوستانیوں سے اس طرح برتائو کرتی ہیں تویا کہ وہ بے یار و مدد گار ہوں۔ اپنا
بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوں ،وحشی اور غیر مہذب ہوں اور وہ ان برطانوی گوروں کی
مدد کے بغیر زندہ رہنے کے قابل بھی ہر گز نہیں ہیں۔ یہ خواتین اگر کسی مسئلے کی
پیچیدگی اور سمجھ نہ بھی پائیں تو پھر بھی دونوں اقوام کے درمیان پائی جانے والی
کشمکش اور آویزش کو محدود یا کم کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے
کہ ان کی جدوجہد یا دوڑ دھوپ ہمیشہ الحاصل ہی رہتی ہے۔ اس کے برعکس انگریز
مرد خود کو سیاسی اور فوجی اقدامات میں ملوث کر کے اس طرح کے مواقع پر لوگوں
میں اشتعال پھیالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس ناول میں
شر اور فتنہ و فساد پھیالنے والے کرداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ
خاطی اور غلط کار ہیں جبکہ یہ خواتین ان کی غلطیوں کی سزاوار ہیں یا پھر یہ بھی
ممکن ہے کہ اس ناول کا مصنف حقوق نسواں کے رحجانات کا سرگرم حامی ہو اور اس
کے اس ذہنی میالن کا اظہار شاید ناول کے صفحات میں ان نسوانی کرداروں کی عکاسی
میں بھی ہوا ہو۔
اس اجمالی تذکرے سے اہم نقطہ یہ سامنے آتا ہے کہ عہد نوآبادیات کے مرد ادباء
کے ناولوں میں عورت غائب نہیں موجود ہے اور اس کی موجودگی کو محسوس کیا جا
سکتا ہے۔
اسی تناظر میں ای ایم فارسٹر کے مشہو رناول اے پیسج ٹو انڈیا کے مرکزی
کردار ایڈال کیوسٹڈ ) (Adela Questedکا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے کچھ اس
طرح کی تصویر ابھرتی ہے کہ اگرچہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانوی
خواتین کو ۱۹۱۸ء میں ۳۰سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد ووٹ کا حق حاصل ہو گیا۔
مگر ان کا یہ حق رائے دہی بالغ مردوں کے اس حق کے مساوی نہ تھا یہاں تک کہ
۱۹۲۸ء میں عوامی نمائندگی کا ایکٹ پاس کیا گیا۔ اسی پس منظر میں جب خواتین کے
حقوق کے حصول کی جنگ جاری تھی ۱۹۲۴ء میں یہ ناول شائع ہوا جس میں دلچسپ
بات یہ ہے کہ خواتین کے کردار ناول میں شامل ضرور ہیں مگر ان کو صرف بیویوں،
مائوں ،منگیتروں یا داشتائوں کے روپ میں ناول کا حصہ بنایا گیا ہے یعنی کسی بھی
روپ میں وہ مرد کی محکوم اور زیر دست رہیں اور ان کی طاقت کے حصول کا واحد
ذریعہ مردوں کے ساتھ تعلق داری پر مبنی ہے۔
ایڈال کیوسٹڈ Adela Questedنامی نوجوان سنجیدہ اور متجسس انگریز خاتون
اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ وہ مسز مور ) (Mrs. Mooreکے ساتھ ہندوستان میں
وارد ہوتی ہے۔ کیوں کہ مسزمور کا بیٹا رونی ) (Ronny Heaslopہندوستان میں اپنی
خدمت برطانوی استعمار کے لیے سرانجام دے رہا ہے۔ وہ ایڈال کا منگیتر بھی ہے۔ ان دو
خواتین کی آمد کے بعد ناول کے پالٹ میناچانک ایک ایسا موڑ آتا ہے جو تمام منظر
نامے کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ان دونوں خواتین کی آمد کو بالئے ناگہانی کہتے ہوئے
""Benita Paryنے تباہ کن قرار دیا ہے۔
The catastrophic entry of Mrs. Moore and Adela Quested into an
untranslatable sphere is inseparable from the cultural constraints
on their capacity to confront the otherness of meanings both
)immonent in and attached to India. (43
اس سے پہلے ناول میں جن دو خواتین کرداروں سے مالقات ہوتی ہے انہیں بھی
رسمی اور غیر مرئی انداز سے مردوں کے ہمزاد کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ یعنی ناول
میں بیانیے کی سطح پر ان نسوانی کرداروں کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے کہ قاری
سے ان کی مالقات بالواسطہ طور پر ان کے مردوں کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کا ذاتی
وجود یا شخصیت ناول کے محضر نامے میں غائب ہے۔ اس کی دو مثالیں یوں دی
جاسکتی ہیں کہ عزیز کی بیوی اور فیلڈنگ کی بیوی کے کردار اپنے ذاتی افعال اور
خیاالت کے ذریعے خود کو ظاہر کرنے کے بجائے ان کے شوہروں کے ذریعے متعارف
ہوتے ہیں اور ان کا ذاتی کوئی کردار سامنے نہیں آتا بلکہ ان کے شوہر جو کچھ ان کے
تعارف کلی ہے اور یہ صرفِ بارے میناظہار خیال کرتے ہیں قاری کے لیے یہی ان کا
ہندوستانی ہی نہیں بلکہ برطانوی کرداروں پر بھی منطبق ہوتا ہے جیسا کہ Sara
Rhoads Nilsenنے اپنے مقالے میں رائے دی ہے کہ
ــ The British female characters are marginalized by their British
)male counterparts. (44
Hubel, Teresaنے بھی اسی قسم کی رائے دی ہے کہ اس ناول مینعورتوں کے
کردار کو نہایت بے رحمی کے ساتھ مجروح کیا گیا ہے اور انہیں لڑاکا ،خون آشام
طوفان ،بدمزاج اور چڑچڑی خواتین کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے:
ـ A Passage to India is bard on woman. It portrays them
unfavourably- as shresish harpies, silly gigglers, confused
)spinsters, and cranky old ladies.(45
عزیز کی بیوی کے ساتھ قاری کی مالقات عزیز کے تاثرات کے ذریعے ہوتی ہے
بطور کردار اس کی ذاتی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ وہ
ناول کے پالٹ کا حصہ ہی عزیز کے کردار کو گہرائی اور معنویت دینے کے لیے بنائی
گئی ہے۔ ناول مینعزیز کی زبانی اس کی بیوی کا احوال کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ
وہ جب تک زندہ رہی اس کے ساتھ وفادار اوراس کی خدمت گزار رہی اور اسی میں چل
بسی۔
He was won by her love for him, by a loyalty that implied
something more than submission --- She became the mother of a
)son --- and in giving him a second son she died. (46
ایک اور جگہ پر ناول میں عزیز کی بیوی سے قاری کی مالقات اس کی وفات
کے بعد اس کی تصویر کے ذریعے دوبارہ اس کے شوہر کی وساطت سے ہی ہوتی ہے۔
And unlocking a drawer, he took out his wife's photograph. He
gazed at it, and tears spouted from his eyes. . . . . the more he
)looked at this photograph, the less he saw. (47
شروع میں ہندوستان میں Adelaکو دوسری انگریز خواتین کرداروں کے
برعکس ایک اجنبی یا پردیسی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسے بطور
رونی کی منگیتر اس کا مقام یا مرتبہ اس کی بحیثیت بیوی ہونے یا فرد واحد ہونے کے
مخمصے میں ہمیشہ مبتال رکھتا ہے۔ دوسری طرف عزیز اور فیلڈنگ کے درمیان دوستی
کا رشتہ جوڑنے میں مدد دینے کے باوجود ایڈال ناول میں دوسرے کرداروں کے ساتھ ہم
آہنگی یا استواری پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
بادی النظر میں Adelaکے ہندوستان آمد کے دو مقاصد سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ
کہ وہ اپنے منگیتر رونی کو دیکھنا اور پرکھنا چاہتی ہے کہ کیا وہ اس ساتھ اپنا مستقبل
وابستہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ دوسرے وہ ہندوستان کی اصل اور حقیقی تصویر دیکھنا
چاہتی ہے۔ اگرچہ وہ اپنے کنوارپن میں آزاد ہے اور اپنے مقاصد کے حصول میں اسے
کوئی امر مانع نہیں ہے مگر اس میں جسمانی دلکشی کی کمی یا کمزوری اس کے لیے
سد راہ بن جاتی ہے اور ان دونوں انگریز خواتین کے کرداروں میں مردوں کے لیے
کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ مسز مور نہایت عمر رسیدہ خاتون ہے جبکہ
Adelaنسوانی کشش سے محروم ایک سپاٹ عورت۔ فیلڈنگ کے گھر پر مسز مور اور
ایڈال کے ساتھ چائے کی دعوت پر ہونے والی مالقات میں عزیز کے تاثرات مالحظہ ہوں۔
Beauty would have troubled him, for it entails rules of its own, but
Mrs. Moore was so old and Miss Quested so plain that he was
)spared this anxiety. (48
اس کی جسمانی ساخت اور کیفیت بھی ناول نگار نے اسی چائے کی دعوت میں
عزیز کی زبانی کچھ اس طرح سے بیان کی ہے کہ وہ جسمانی طور پر نہایت کمزور،
بالکل ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند ہے اس کے چہرے پر جھریاں اور دانے اور آنکھیں
بھی بھینگی سی ہیں ایسے میں کوئی مرد کیسے اس کی طرف فورا ً متوجہ ہو سکتا ہے
جبکہ خدا نے اسے نسوانی حسن سے محروم رکھا ہے۔
Adela's angular body and the freckles on her face were terrible
defects in his eyes, and he wondered how God could have been
so unkind to any female form. His attitude towards her remained
)entirely straightforward in consequence. (49
ناول کے ابتدائی حصے میں ایڈال اور مسز مور کے کردار کو کچھ اس طرح پیش
کیا گیا ہے کہ وہ دونوں ہمیں کوشش کرتی نظر آتی ہیں کہ ہندوستان میں مختلف طبقات
کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پید ا کریں مگر وہ ناکام رہتی ہیں۔ اس ناکامی میں بھی کچھ
انگریز خواتین کا درشت رویہ ذمہ دار ہے جو کہ ان نووارد انگریز خواتین کو کچھ اہمیت
نہیں دیتیں بلکہ اس کے برعکس انہیں یہ بات بھی ازبر کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ
گوروں اور مقامیوں کے درمیان طبقاتی حوالے سے وسیع تفاوت اور گہری خلیج حائل
ہے اور یہ فاصلے ان کے درمیان حائل رہنے ضروری ہیں کیونکہ اسی سے ہندوستان
میں ان کی بقا وابستہ ہے ورنہ ان ہندوستانیوں کی زیادہ قربت انگریزوں اور استعماریوں
کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
مسز مور اور ایڈال کے اعزاز میں جب مسز ٹرٹن ) (Turtonکے ہاں پارٹی منعقد
کی جاتی ہے تو مسز ٹرٹن کو ہندوستانیوں کے ساتھ یہ اختالط اور نرم رویہ ناگوار گزرتا
ہے۔ مسٹر ٹرٹن پارٹی کے دوران اسے یاددہانی کراتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان گفتگو
کچھ اس طرح سے ہوتی ہے:
To work, Mary, to work," cried the Collector, touching his wife on
the shoulder with a switch. Mrs. Turton got up awkwardly. "What
)do you want me to do? (50
اسی پارٹی کے حوالے سے ایڈال کا مشاہدہ اور اس کے تاثرات نہایت اہم ہیں جو
اس کی سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان تاثرات کا اظہار وہ فیلڈنگ ) (Fieldingکے
ساتھ کرتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ اس پارٹی نے اسے خوشی دینے کے بجائے افسردہ
اور مشتعل کر دیا ہے۔ اور وہ انگریزوں کے مقامیوں کے ساتھ رویے پر ناخوشی کا
اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمیں تو امید تھی کہ مشرق اور مغرب کے درمیان حائل
دیواریں کمزور ہو کر گر پڑیں گی مگر یہ دیواریں اور مضبوط ہو گئی ہیں اور ہمارے
خواب بکھر گئے ہیں۔ اس ساری صورت حال کا اندازہ حسب ذیل طویل اقتباس سے ہوتا
ہے۔
ـ This party to-day makes me so angry and miserable. I think my
countrymen out here must be mad. Fancy inviting guests and not
treating them properly. . . . . It had been hoped to have some sets
)between East and West, but this was forgotten. (51
ایڈال کے کردار کے حوالے سے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ اس کی مخلصانہ
کاوشوں کے برعکس معاملہ یکدم مخالف؍متضاد سمت کی جانب بڑھتا ہے۔ جب مارابار
غاروں واال افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان
خلیج ختم ہونے کے بجائے اور گہری ہو جاتی ہے اور ان کے درمیان نفرتیں بڑھتی ہیں۔
تعصب کی آگ بھڑکتی ہے اور اس کی وجہ بھی یہ انگریز خاتون ہی بنتی ہے جو مشرق
و مغرب کے مالپ کی خواہشمند ہے اور اپنی ہی انگریز کمیونٹی کی طعن مالمت کا
شکار ہوجاتی ہے۔ یعنی ایڈال کو اس ساری خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ بین السطور
فاسٹر یہ بھی بتاتے ہیں کہ مختلف اقوام کے مابین نسلی تعصبات کو ختم کرنے یا کم
کرنے میں کچھ خواتین مردوں کی معاون ہو سکتی ہیں مگر ان ناول میں ایسا ہوتا ممکن
نہیں دکھائی دیتا کیونکہ ایڈال کی شکل میں رونی بڑی اقوام کے درمیان نفرت اور بے
اعتمادی کا ایک بڑا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ اور خود ایڈال کے لیے ہندوستان میں رہنا بھی
ناممکن ہوگیا۔ اور رونی کے نزدیک اس کی حیثیت کیا تھی وہ بھی واضح ہو جاتا ہے
کیوں کہ اس کے ساتھ شادی کرنے کو وہ اپنے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف
سمجھتا ہے۔ انگریزوں میں سے صرف فیلڈنگ وہ واحد کردار تھا جو کہ ایسے مشکل
وقت میں اس کی مدد کررہا تھا ورنہ سول الئنز میں رہائش پذیر کوئی بھی انگیز فیملی
اس سے ملنے یا اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے تیار نہ تھی۔
And Adela--she would have to depart too; he hoped she would
have made the suggestion herself ere now. He really could not
marry her--it would mean the end of his career. Poor lamentable
Adela. . . . She remained at Government College, by Fielding's
courtesy--unsuitable and humiliating, but no one would receive
)her at the civil station. (52
یہ ساری صورتحال ایسی ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگلستان سے
ہندوستان آنے والی نوجوان انگریز خاتون کے ساتھ اس کے ہم نسل اور تہذیب کے
دعویدار انگریزوں کا رویہ کیسا ہے اور خود اس کا منگیتر بھی اس کے ساتھ شادی
کرنے کو اپنے کیریئر کا اختتام سمجھتا ہے۔ اور اس خاتون کے وجود ،اس کی عزت
اور اس کی بقا سے زیادہ اپنے کیریئر کے بارے میں فکر مند ہے اور انتہائی افسوس
ناک صورتحال یہ ہے کہ دوس رے اس کے ہم وطنوں نے بھی اس کی حق گوئی کی وجہ
سے اس سے منہ موڑ لیا ہے اور ناطہ توڑ لیا ہے۔ ای ایم فاسٹر اس کے کردار کے
ذریعے اسی رویے کا اظہار کرتے ہیں کہ مغرب کے تعلیم یافتہ انگریز ہوں یا مشرق
کے جاہل گنوار ہندستانی ،عورت کے حوالے سے ان کی فکر ،سوچ اوررویہ یکساں
طور پرہی سامنے آتا ہے۔ دونوں ہی معاشروں میں عورت جب اپنی مرضی سے اپنے من
کی بات کا اظہار کرنا چاہتی ہے یا کر دیتی ہے تو اس کا وجود ناقابل برداشت ہو جاتا ہے
اور اسی عدم برداشت کا مظاہرہ ایڈال کا منگیتر رونی بھی کرتا ہے اور نتیجتا ً اس اجنبی
معاشرے م یں ایڈال تن تنہا اور اکیلی رہ جاتی ہے۔ اس موڑ پر ایڈال واقعی ایک قابل رحم
کردار کے طور پر سامنے آتی ہے اور ناول کے اس مرکزی نسوانی کردار کی بے
وقعتی بھی آشکارہوتی ہے۔
کچھ اس قسم کی صورت حال کا سامنا ناول کے دوسرے مرکزی نسوانی کردار
مسز مور ) (Mrs. Mooreکو درپیش ہے۔ مسز مور ایک معمر خاتون ہیں اور ایڈال
کیوسٹڈ کے ہمراہ ہندوستان میں وار دہوئی ہے۔ مسز مور ہندوستان میں بطور مجسٹریٹ
تعینات رونی ہیسلوپ کی والدہ ہے اس انگریز خاتون سے قاری کی مالقات بھی عزیز
کے ذریعے ہوتی ہے یہ ان دونوں کی اولین مالقات ہے رات کا وقت ہے اور ڈاکٹر عزیز
ایک انگیز خاتون کو مسجد میں دیکھ کر جذباتی ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں
یہ انگریز خاتون ضرور اپنے جوتوں سمیت مسجد میں گھس گئی ہو گی مگر اس کو شدید
حیرانی اور خوشی ہوتی ہے جب یہ عمر رسیدہ انگریز خاتون اسے بتاتی ہے کہ میں
جوتے باہر اتار کر اندر داخل ہوئی ہوں ،حسب ذیل مکالمے کے ذریعے عزیز کا رد عمل
اور سارا منظر نامہ ہمارے سامنے آتا ہے:
"Madam, this is a mosque, you have no right here at all; you
should have taken off your shoes; this is a holy place for
"Moslems.
""I have taken them off.
"?"You have
""I left them at the entrance.
)"Then I ask your pardon." (53
عزیز کو جب اصل صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ خود مشاہدہ کرتا ہے کہ
اس خاتون نے جوتے باہر اتار دئیے ہوئے ہیں تو وہ معافی کا خواستگار ہوتا ہے یہیں پر
قاری کے ساتھ اس انگریز خاتون کا تعارف ہوتا ہے اور عزیز اس خاتون کا موازنہ
حمیدہللا کی بیگم کے ساتھ یوں کرتا ہے:
She was older than Hamidullah Begum, with a red face and white
)hair. Her voice had deceived him. (54
’’ حمیدہللا کی زوجہ سے عمر مینبڑی تھیں ،اس کا چہرہ سرخ اور بال سفید تھے۔
اور اس کی آواز سے اسے دھوکہ ہوا تھا۔‘‘ (یعنی وہ اپنی آواز کے برعکس معمر خاتون
تھی)
اسی گفتگو میں جب عزیز اس کو یہ بتاتا ہے کہ انگریز خواتین جب دیکھتی ہیں
کہ کوئی انہیں دیکھ بھی نہیں رہا تو وہ جوتوں سمیت ہی مسجد میں داخل ہو جاتی ہیں تو
مس ز مور کا یہ جواب سن کر اسے دلی خوشی اور طمانیت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس
کے کردار اور رویے سے متاثر ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس جملے سے مسز مور کی فطرت
کا اندازہ بھی ہوتا ہے کیوں کہ وہ یہ کہتی ہے کہ میں نے لوگوں کو دکھانے کے لیے
جوتے نہیں اتارے بلکہ مسجد کے تقدس کے پیش نظر اور اس کے احترام میں جوتے
باہر اتارے ہیں کیونکہ یہاں خدا موجود ہے یعنی یہ خدا کا گھر ہے۔
ـ)That make no difference, God is here. (55
اسی گفتگو کے بعد عزیز یہ اندازہ لگاتا ہے کہ یہ خاتون ہندوستان میں نووارد ہے۔
)I think you are newly arrived in India. (56
وہ خاتون پوچھتی ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ کس طرح ہوا
""How did you know.
وہ جوابا ً کہتا ہے کہ آپ کے طرز تخاطب سے
""By the way you addressed me.
مسز مور کا کردار ایڈال کے مقابلے میں زیادہ فعال اور متحرک نہیں ہے بلکہ وہ
ایک سنجیدہ اور مفکر قسم کی خاتون ہے اور قاری سے اس کی مالقات اور اس کی
شخصیت کا اظہار اس کے خیاالت و افکار کے ذریعے ہی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ
مرد کرداروں سے زیادہ دروں بین ) (Introspectiveہے۔ ایسی خاتون کے ساتھ سب
سے زیادہ افسوسناک رویہ اس کے اپنے بیٹے رونی کا سامنے آتا ہے جس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں ماں کی تکریم اور عزت و احترام کا کیسا رویہ تھا۔
مسجدمیں ہونے والی مالقات کے بعد وہ ڈاکٹر عزیز کی ہمراہی میں کلب تک آئی ہے اور
وہ اس کو کلب کے اندر النا چاہتی تھی مگر یہاں پر اس کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے نہ
صرف اس کی بے بسی بلکہ دوسرے مہذب انگریزوں کی بے بسی بھی عیاں ہوتی ہے۔
مسز مور خواہش کرتی ہے کہ وہ اس کو یہاں تک چھوڑنے کے لیے آیا ہے اب وہ اس
کے ساتھ کلب میں بھی آئے مگر ڈاکٹر عزیز جواب دیتا ہے۔
Indians are not allowed into the Chandrapore Club even as
)guests. (57
ازاں بعد ہمیں مسز مور کی کیفیت اور اس کے مجسٹریٹ بیٹے رونی کے رد عمل
کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ بحیثیت ماں مسز مور کا کتنا احترام ہے اور بیٹا جو کہ
استعماری حاکم ہے وہ کس قدر نخوت کے ساتھ ماں کے ساتھ درشتی سے گفتگو کرتا ہے
اور ذرہ برابر بھی لحاظ نہیں کرتا کہ وہ محکوم قوم کے کسی فرد سے مخاطب نہیں بلکہ
اپنی ماں سے محو گفتگو ہے جو اتنا طویل سفر طے کر کے اس سے ملنے ہندوستان آئی
ہے۔ یہ سارا معاملہ بہت دلچسپ ہے کہ مسز مور نے جب اسے بتایا کہ اسے اس کی
دعوت کے جواب میں اس نے بتایا کہ میں (ہندوستانی) کلب میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس
جملے سے ہی اس کے بیٹے کو اصل صورت حال کا اندازہ ہو گیا اور وہ مشتعل ہو جاتا
ہے۔ اس کا ردعمل کچھ یوں سامنے آتا ہے:
ـ There upon the truth struck him, and he cried, "Oh, good
gracious! Not a Mohammedan? Why ever didn't you tell me you'd
been talking to a native? I was going all wrong.. . . . . What a mix-
up! Why hadn't she indicated by the tone of her voice that she
was talking about an Indian? Scratchy and dictatorial, he began to
)question her. (58
’’صداقت منکشف ہونے پر وہ چیخا ،او میرے خدایا! وہ تو محمڈن (مسلمان) تھا تم
نے یہ بات پہلے مجھے کیوں نہیں بتائی کہ تم ایک مقامی آدمی سے محو گفتگو رہیں۔
میں بالکل غلط سمجھتا رہا۔ ۔ ۔ کیا مالقات تھی! اس کے لب ولہجے سے ہی مجھے اندازہ
کیوں نہ ہو سکا کہ وہ ویک دیسی (ہندوستانی) سے مل کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر اس نے
بڑے سخت اور آمرانہ لہجے میں سواالت پوچھنے شروع کر دئیے۔‘‘
پھر رونی ہیسلوپ مزید کئی استفسارات کرتا ہے اور اس کا رویہ ایک سخت گیر
حاکمانہ ذہنیت رکھنے والے انکوائری آفیسر کا ہے وہ اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ اس
کے زیر تفتیش ہستی کوئی اور نہیں اس کی اپنی ماں ہے مگر اسے اس بات کی کوئی
پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ تو اس واقعے اور گفتگو کے بارے مینبہت متجسس ہے اور اپنی
ماں کے جوابات سے غیر مطمئن دکھائی دیتا ہے ماں اپنے بیٹے کے سواالت اور لب و
لہجہ کی نوعیت سے بے خبر اسے جواب دیتی رہی۔
?So you and he had a talk. Did you gather he was well disposed
)Igrnorant of the force of his question, she replied. (59
اس گفتگو میں وہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ یہ دیسی لوگ بڑے چاالک ہوتے ہیں
اور خاص طور پر پڑھے لکھے مقامی لوگ دوسروں کے بارے میں اپنی رائے دے کر
خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں اور دوسروں کو ظالم گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسروں کی
نظر میں اپنی عزت میں اضافہ بھی کرنا چاہتے ہیں اور جب اس کی ماں جوابا ً کہتی ہے
کہ بیٹے اپنے ملک میں تو تمہارا رویہ ایسا نہیں تو وہ بڑی درشتی سے جواب دیتا ہے:
India isn't home," he retorted, rather rudely, but in order to silence
her he had been using phrases and arguments that he had picked
)up from older officials. (60
’’ وہ بہت سختی سے کہتا ہے کہ ہندوستان ہمارا وطن نہیں ہے اور اپنی ماں کو خاموش
کرانے کے لیے اپنے بڑے افسران کے استعمال کردہ جملوں؍ محاوے اور دالئل اپنی
گفتگو میں استعمال کرنے لگا۔‘‘
یہی وہ رویہ ہے جس سے ایک طرف مردانہ برتری اور حاکمیت کا اظہار ہوتا
ہے اور دوسری طرف عورت کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے مرد اپنی غلط بات کو بھی
عورت پر ٹھونسنا چاہتا ہے چاہے وہ اس کی بیوی ہو یا والدہ۔ وہ خود کو عقل کل سمجھتا
ہے۔ رونی جس طرح ایڈال سے نجات کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے ساتھ شادی
کرنے کو اپنے کیریئر اور مستقبل کی تباہی سمجھتا ہے اور اس پریشانی کا سب سے
بہتر حل اسے ہی نظر آتا ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے وہ ہندوستان چھوڑ کر
انگلستان روانہ ہو جائے۔ بالکل اسی طرح وہ اپنی ماں کو بھی بوجھ اور رکاوٹ سمجھتا
ہے جو کہ اس کی حکمرانی اور مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اس ناول کا
سب سے افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جب بیٹا اپنی بوڑھی ماں کی صحت اور موسم
کی شدت و حدت کا خیال کیے بغیر اسے بحری جہاز پر واپسی کے لیے عازم سفر
کردیتا ہے اور یوں دوران سفر ہی وہ راہی ٔملک عدم ہو جاتی ہے۔ ای ایم فاسٹر اس کیفیت
کا اظہار ناول میں یوں کرتے ہیں:
Dead she was--committed to the deep while still on the southward
track. . . . . . She left behind her sore discomfort, for a death gives
)a ship a bad name. Who was this Mrs. Moore? (61
’’ وہ تو اسی وقت مرچکی تھی جب اس کا جہاز جنوب کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے
مرنے کے بعد اپنے پیچھے سب کے لیے بے چینی چھوڑی۔ کیوں کہ جہاز میں مرنا ایک
قسم کی بدشگونی ہے (پھر مسافروں کے سواالت) یہ مسز مور کون تھی؟‘‘
یعنی اپنی زندگی میں یہ جتنی اچھی طبیعت اور فطرت والی خاتون تھی اس کی
اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں اس طرح کی بے حرمتی اور بعد از مرگ رسوائی ایک المیہ
ہے اور دراصل عالمتی طور پر مسز مور کی موت ناول میں امید کی موت ہے اور
حقائق کے طشت از بام ہونے کی امید بھی اس کی موت کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہے۔
اس کا وجود جب ایک کھٹکا بن جاتا ہے تو اس معمر اور بیمار خاتون کو اس کا اپنا بیٹا
اس کو موت کے جہاز پر سوار کراتا ہے اور سوئے عدم روانہ کر دیتا ہے مگر اس کا
ضمیر اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے اور وہ اپنے آپ کو سمجھاتا ہے کہ اس کی والدہ اس
کے مجبور کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے روانہ ہوئی ہے:
Ronny reminded himself that his mother had left India at her own
wish, but his conscience was not clear. He had behaved badly to
)her, and he had either to repent. (62
مسز مور کی موت سے چندراپور میں عجیب و غریب کہانیوں اور افواہوں نے
جنم لیا۔
A legend sprang up that an Englishman had killed his mohter for
)trying to save an Indian's life.... (63
’’ان میں سے ایک کہانی یہ بھی منظر عام پر آئی کہ ایک انگریز مرد (رونی) نے اپنی
ماں کو اس لیے مار ڈاال کیوں کہ وہ ایک دیسی نوجوان کی زندگی بچانے کے لیے
کوشاں تھی۔‘‘
ایسے میں مسز مور کے لیے مقامی افراد کے دلوں میں خود بخود عزت و احترام
اور عقید ت ومحبت کے جذبات پیدا ہو گئے اور اس کے بیٹے کے لیے نفرت ،کیوں کہ
وہ اسے اپنی ماں کا قاتل سمجھتے ہیں۔ اس بات سے رونی کو مزید ذہنی اذیت پہنچتی ہے
اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی اس کے لیے پریشانیاں پیدا کر رہی ہے
مگر پھر ہمیں اس ناول کی سطور میں مرنے والے کے لیے کچھ اس قسم کے جذبات
بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں:
Pulling himself together, he dismissed the matter from his mind. In
due time he and his half-brother and sister would put up a tablet
to her in the Northamptonshire church where she had
worshipped, recording the dates of her birth and death and the
fact that she had been buried at sea. This would be sufficient.
)(64
’’ ایسے واقعے سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے اسے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش
کی۔ اسے معلوم تھا کہ مناسب وقت پر وہ اور اس کے سوتیلے بہن بھائی نارتھمپٹن شائر
کے گرجا گھر جہاں مسز مور عبادت کیا کرتی تھی اس میں ایک کتبہ نصب کرائیں گے
جس میں اس کی پیدائش اور وفات کی تاریخوں کا اندراج ہو گا اور یہ حقیقت ہے کہ اس
کی تدفین بیچ سمندر ہوئی تھی بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘
ان مرکزی کرداروں کے عالوہ کچھ ضمنی نسوانی کردار بھی ناول میں شامل ہیں
یغہ غائب کی صورت میں جن کی حیثیت بھی محض سائے جیسی ہے اور انہیں بھی ص ٔ
کچھ اس طرح متعارف کرایا گیا ہے کہ ان کا اپنا وجود معدوم ہو کر کسی نہ کسی مرد کا
محتاج ہو کر رہ گیا ہے یعنی ان کا تعارف بالواسطہ کے بجائے بالواسطہ قاری کے
سامنے پیش ہوتا ہے جیسے کہ ناول مینشامل مزید دو کرداروں کی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں ان میں سے ایک کردار ڈاکٹر عزیز (مشرقی کردار) کی بیوہ کا ہے جبکہ دوسرا
کردار فیلڈنگ (مغربی کردار) کی بیوی کا ہے یہ دونوں کردار بھی غیر مرئی یا نظر نہ
آنے والے ہیں اگرچہ ناول کی کہانی کا حصہ ہیں۔
عزیز کی بیوی کا تعارف اس کے خاوند کے خیاالت و الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے
یعنی دوسرے لفظوں میں اس کی موجودگی اس کے شوہر کی مرہون منت ہے اور بطور
کردار وہ صرف اور صرف عزیز کے کردار کو گہرائی دینے کے لیے ناول کا حصہ
بنتے دکھائی دیتی ہے۔ اس کے عالوہ اس کی ناول میں کوئی ذاتی اہمیت ہے نہ ضرورت۔
عزیز کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مرحومہ بیوی کی وفاداری اور قربانی نے اس
کا دل آخر کار جیت لیا حاالنکہ یہ شادی اس کی مرضی کے مطابق نہ تھی مگر وہ ساری
عمر اس کی خدمت کرتی رہی اور آخر کار اپنے شوہر کو بیٹے جیسے نعمت سے
نوازتے ہوئے اس جہان سے گزر گئی۔
.....he begat his first child in mere animality. The change began
after its birth. He was won by her love for him.........She became
the mother of a son . . . and in giving him a second son she died.
)Then he realized what he had lost. (65
اس سے آگے بڑھیں تو دوسری مرتبہ عزیز کی بیوی سے مالقات اس کی تصویر
کے ذریعے ہوتی ہے۔ کیا تصویر اصل کی حقیقی نمائندہ ہو سکتی ہے؟ عزیز اپنی
مرحومہ بیوی کی تصویر کو درازسے باہر نکال کر دیکھتا ہے:
And unlocking a drawer, he took out his wife's photograph. He
gazed at it, and tears spouted from his eyes. . . . . the more he
)looked at this photograph, the less he saw. (66
’’ اور اس نے دراز کھول کر اپنی بیوی کی تصویر کو باہر نکاال۔ وہ تصویر کو دیکھنے
لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے سوچا میں کتنا بدنصیب ہوں۔
تصویر کو وہ جتنا غور سے دیکھنے لگا نقوش اتنے مدہم ہوتے گئے۔‘‘
اسی حوالے سے Hubelکی یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی بیوی کا خود
مختار یا آزادانہ کردار کہیں نظر نہیں آتا۔
Beyond being a vague memory, which Aziz calls up when he is
)feeling poetic, his wife has no autonomous existence. (67
پھر ایک اور موقع پر وہ اپنی بیوی کی تصویر فیلڈنگ کو دکھا کر یہ بھی کہتا ہے
کہ تم پہلے انگریز ہو جو یہ تصویر دیکھ رہے ہو۔
یہی حال فیلڈنگ کی بیوی) (Stellaکا ہے جس کا بالکل مختصر دو سطری ذکر
ناول کے اختتامی حصے میں ملتا ہے اس کے عالوہ عزیز کی رشتے میں خالہ جو کہ
حمید ہللا کی بیوی ہے اس کا ذکر بھی ہمیں پردے کے پیچھے ہی ملتا ہے۔
ناول میں شامل کردہ ان تمام نسوانی کرداروں کے مطالعے کے بعد Hubelکی
سخت قسم کی رائے سے جزوی طور پر اتفاق کر نا پڑتا ہے کہ
Anglo-Indian women are the Novel's scapegoats, they bear the
brunt of Forster's anger about English conduct in India. The
Anglo-Indian men, on the other hand, are criticized but are usually
)accorded some sympathy.(68
ناول میں اینگلو انڈین خواتین قربانی کے جانوروں کی مانند ہیں وہ ہندوستان میں
انگریزوں ک ے کردار سے متعلق فاسٹر کے غصے بھرے شدید حملے کا شکار ہوتی ہیں۔
دوسری طرف اینگلو انڈین مرد بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر عمومی طور پر یہ تنقید
ہمدردی کے لبادے میں ملفوف نظر آتی ہے۔‘‘
حوالہ جات
A Passage to India, Ch: vii, p:84, Penguine Books )(1
London 1978
A Passage to India, Ch: XXVII (2)
Childs, Peter, ed. Post-Colonial theory and English (3)
Literature, a reader, Edinburgh UP, 1999, p:349
A passage to India, Penguin 1979, p:177 (4)
A passage to India, Penguin 1979, p:176 (5)
A passage to India, p:33 (6)
A passage to India, p:33 (7)
A passage to India, p:316 (8)
A passage to India, p:33 (9)
A passage to India, p:57 (10)
A passage to India, p:37 (11)
A Passage to India, p:174 )12(ـ
Bhupal Singh, A Survey of Anglo-Indian Fiction, London, (13)
Curzon Press Limited. 1974, p:221
Peter, Childs, Post-Colonial Theory and English Literature; A (14)
Reader, Edinburgh University Press, Edinburgh, 1999, p:347
Diane Johnson, Writers on Writing, New York Times, New (15)
York, Sept 11, 2000
A Passage to India, p:84 (16)
A Passage to India, p:86 (17)
A Passage to India, p:89 (18)
A Passage to India, p:89 (19)
A Passage to India, p:143 (20)
A Passage to India, p:143 (21)
A Passage to India, p:76 (22)
A Passage to India, p:261 (23)
The Passage to India, p:264 (24)
The Passage to India, p:264 (25)
A Passage to India, p:196 (26)
A Passage to India, p:198 (27)
A Passage to India, p:80 (28)
A Passage to India, p:80 (29)
A Passage to India, p:53 (30)
A Passage to India, p:54 (31)
David C. Potter, India's Political Administrator, O. U. Press, )32(ـ
New Delhi 1996, p:92
The Jewel in the Crown, p:144 (33)
The Jewel in the Crown, p:263 (34)
The Jewel in the Crown, p:320 (35)
Anderson Margret. L, Thinking about Women, Pearson/Allyn (36)
& Beacon 2006, 7th edition.
مغربی پاکستان، اطالقی جہات، مابعد جدیدیت: مرتب، ڈاکٹر،) ناصر عباس نیر۳۷(
۳۲۰ : ص،اردواکیڈمی۔ الہور
مضمرات و، مشمولہ مابعد جدیدیت، مابعد جدیدیت اور تانیثیت،) وہاب اشرفی۳۸(
۱۳۲ : ص، ء۲۰۰۷ ،پورب اکادمی اسالم آباد،ممکنات
The Jewl in the Crown, p:66 (39)
The Jewl in the Crown, p:67 (40)
The Jewel in the Crown, p:16 (41)
The Jewel in the Crown, p:388 (42)
Benita, Parry, Postcolonial Studies: a materialist Critique, (43)
Routledge, Newyork, 2004, p:172
Sara Rhoads Nilsen, Power, Distance and Stereotyping in A (44)
Passage to India, M. A Thesis, The University of Oslo, 2011, p:53
Hubel, Teresa, Liberal Imperialism as A Passage to India, (45)
Post Colonial Theory and English Literature: A Reader. Ed.
Childs, Peter. Edinburgh University Press, 1999, p:351
A passage to India, p:50 (46)
A passage to India, p:51 (47)
A passage to India, p:62 (48)
A passage to India, p:62 (49)
A passage to India, p:37 (50)
A passage to India, p:42 (51)
A passage to India, p:342 (52)
A passage to India, p:42 (53)
A passage to India, p:43 (54)
A passage to India, p:42 (55)
A passage to India, p:43 (56)
A passage to India, p:45 (57)
A passage to India, p:45 (58)
A passage to India, p:53 (59)
A passage to India, p:54 (60)
A passage to India, p:254 (61)
A passage to India, p:255 (62)
A passage to India, p:255 (63)
A passage to India, p:256 (64)
A passage to India, p:73-74 (65)
A passage to India, p:74-75 (66)
Hubel, Teresa, from "Liberal Imperialism as A Passage to (67)
India, Postcolonial Theory and English Literatur. A Reader, Ed.
Childs Peter, Edinburgh University Press 1999, p:353
Hubel Teresa, Whose India? The Independence Struggle in (68)
British and India Fiction and Histroy. Durban, NC: Duke University
Press, 1996. p:99
حاص ِل مطالعہ
سماجی تغیر وتبدل کی پیداوار ہے ۔یہ، ہند مسلم تہذیب خالصتا ً برصغیر کے سیاسی
ت
ِ خطہ حسین و جمیل ہزار ہا برس سے بیرونی دنیا کے لیے باعث کشش رہا ہے۔ اس جن ٔ
ارضی کے حصول کے لیے اقوام عالم ہمیشہ سے مشتاق و مضطرب رہی ہیں۔ مورخوں
ت دوام عطا کرتی رہی ہیں۔اس کے بیانات اور سیاحوں کی حکایات اس خطے کو شہر ِ
گلشن سر سبز کی نکہتیں دور دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ نکہت و نور کے اس سی ِل ِ
بالخیز نے بادشاہوں ،حملہ آوروں اور کشور کشائوں کے ذوق و جستجو کو گرمایا اور
اس خطے کو اپنے زیر تسلط رکھنے کیلئے اکسایا۔ یوں چہار جانب سے مختلف اقوام جن
می ں یونانی ،افغانی ،ایرانی ،فرنگی ،ترک اور عرب شامل تھے اس سر زمین کی جانب
گامزن ہوئے۔ یہ بیرونی حملہ آور فتح و کامرانی کے بعد محض حملہ آور نہ رہے بلکہ
اس سرزمین کے پیوند ہو کر رہ گئے۔ انہیں میں سے ایک بیرونی قوم ایسی بھی آئی جو
تاجر سے تاجور بنی اور یہاں کی بہتی گنگا میں اس طرح ہاتھ دھوئے کہ اس کا صاف و
شفاف پانی خود اس کے وارثوں کے خون سے رنگین کر دیا۔ اسی برعظیم کے نقشے
میں امت مسلمہ نے اپنے صدیوں پر محیط قیام اور اقتدار کے سائے میں ایک نئی تہذیب
کے رنگ بھرے جو کئی حوالوں سے انفرادیت کی حامل تھی۔ تاریخ اسے ہند مسلم تہذیب
کے نام سے جانتی ہے۔
خطہ زمین میں کسی قوم کی اجتماعی سرگرمیوں ٔ تہذیب جو کہ کسی بھی عہد اور
تصور حیات و کائنات سے جنم لیتی ہے۔ ِ کے ظہور کا نام ہے جو اس کے مخصوص
تہذیب چونکہ ایک وسیع لفظ ہے جس میں انسان کی زندگی کے بنیادی تصورات ،عقائد،
افکار ،زندگی کا نصب العین ،جغرافیائی ماحول ،طبعی حاالت اور تمام افعا ِل ارادی جن
انداز گفتگو ،زبان اور اس کی معاشرت، ِ میں انسان کے اخالق و آداب ،کرداو اطوار،
سیاست و معیشت وغیرہ سب شامل ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و
احساس کا جوہر ہوتی ہے اورا س کے کئی مظاہر ہیں۔
زیر نظر مقالے میں تہذیب اور ثقافت کی وضاحت اور باہمی فرق کو اجاگر کرنے
کے لیے کئی ماہرین اور مفکرین کی آراء درج کی گئی ہیں مگر ان ماہرین اور مفکرین
صرف نظر کرتے ہوئے تہذیب کو زندگی ِ کے متنوع تصورات اور فکری مباحث سے
طرز عمل سب ِ طرز فکر اور
ِ طرز احساس، ِ نظام ُکلّی کے مفہوم میں لیا ہے جو کہ
ِ کے
پر محیط ہے۔ یعنی ایک طرف تہذیب افکار و عقائد سے بحث کرتی ہے تو دوسری طرف
حیات اجتماعی کے اداروں اور فنون کے لباس میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
خطہ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی ،سماجی ،مذہبی اور لسانی حوالے سے تاریخ ٔ
مجموعہ اقوام اور گہوار ٔہ
ٔ میں خاص اہمیت رہی ہے کیوں کہ یہ سرزمین شروع ہی سے
ملل رہی ہے۔ یہاں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے باشندے صدیوں تک آباد رہے مگر
ایک ہی سرزمین پر رہائش پذیر رہنے کے باوجود اپنے تہذیب و تمدن میں نہ صرف
مختلف بلکہ متضا د و متبائن بھی رہے۔ تاہم اختالط کے نتیجے میں فکری اور تہذیبی
اثرات کے حوالے سے قبول و استرداد کی منزلوں سے بھی گزرے۔ پارسی جب ایران
سے یہاں آئے تو یہاں صدیاں گزارنے کے دو طرفہ تہذیبی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر
قافلہ سبک سیرو زمیں گیر بھی جب عرب سے بر اہ راست ٔ نہ رہ سکے اور مسلمانوں کا
یا بالواسطہ یہاں پہنچا تو اس کے ہزار سالہ قیام ہندوستان کے تاریخی تہذیبی عمل میں
کئی طرح کی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنا ۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی
سامنے آتی ہے کہ یہاں پر جو مختلف جغرافیائی خطوں سے تعلق رکھنے والی مسلم اقوام
وقتا ً فوقتا ً وارد ہوئیں ان میں عرب ،ترک ،افغان ،مغل ،سب ہی شامل ہیں۔ جنہوں نے
مختلف حاالت ،مختلف اوقات اور مختلف انداز میں یہاں کی مقامی تہذیب میں اپنے خاص
اور گہرے رنگ پیوست کیے۔ ان سب اقوام کا فکری سر چشمہ ایک ہی تھا۔ یعنی
سرزمین حجاز کے تاریخی انقالب سے متصل تھا۔
حجاج بن یوسف کے حکم پر ۷۱۲ء میں محمد بن قاسم کی سندھ اور ملتان کی فتح
نے پورے منظر نامے کو تبدیل کرتے ہوئے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور اس
مورخین نے ہند تہذیب و ثقافت کے نقوش ابھرنے لگے جسے آگے چل کر محققین اور ٔ
مسلم یا ہند اسالمی تہذیب سے موسوم کیا۔ یہ ایسی تہذیب تھی جس نے برصغیر میں نئی
لسانی تشکیالت اور سماجی ڈھانچے کے ایک وسیع سلسلے کو جنم دیا۔ یہ ایسی تہذیب
ہے جس کے اپنے کچھ امتیازات و تفردات ہیں۔ اس تہذیب کے بنیادی نظریات کو زیر
غور الیا جائے تو ایک نظریہ یہ بھی ابھرتا ہے کہ جس میں اخالقی اقدار اور کماالت کو
مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اجتماعی نظریے میں تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو اہمیت دی جاتی
ہے جس کا اصل مطلوب باہمی تعلقات اور مراسم کی خوشگواری ہوتی ہے جبکہ
جمالیاتی نظریے کی رو سے آرٹ کی تکمیل اور تحسین میں تہذیب کی اصل شان جلوہ
گر ہوتی ہے اور ان سب کی اصل احترام آدمیت بتائی جاتی ہے۔ ہند مسلم تہذیب کے
متوازن اور جامع ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں خصوصی طور پر ان
تمام عناصر کا امتزاج ایک خاص توازن کے ساتھ موجود ہے۔ بقول اقبال ؎
ق جمال
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذو ِ
دروں
سن طبیعت ،عرب کا سوز ُ عجم کا ُح ِ
ب کلیم)
(ضر ِ
برصغیر کی ہند مسلم تہذیب کے اولین نقوش جب ابھر کر سامنے آئے تو اس میں
ب عمل سے ایسی تہذیبی قدرتی طور پر مقامی رنگوں کی آمیزش بھی تھی۔ اس ترکی ِ
صورت کا ظہور ہوا جس میں فکر و عقیدہ کی وحدت بھی تھی اور ثقافتی بوقلمونی و
تنوع بھی موجود تھا۔
تہذیب ایک زندہ نظام ہوتی ہے جو آسمانی اقدار اور زمینی ماحول کے امتزاج سے
جنم لیتی ہے اور اس کی قوت نمو کا انحصار اس کے بنیادی تصور کائنات و حیات
اورانسان پر ہوتا ہے جبکہ ارتقاء کا دارومدار اہل تہذیب کی تخلیقی صالحیتوں پر
منحصر ہوتا ہے۔
ثقافت کے انجذابی عمل کے حوالے سے ہملٹن گب کے نظریے میں ایک اہم قانون
یہ بھی ہے کہ ’’کوئی قوم بھی ان بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتی جو اس کی اپنی
ہوں۔‘‘لہذا
ٰ بنیادی اقدار اور ہیجانی میالنات اور جمالیاتی پیمانوں سے مطابقت نہ رکھتے
اسی اصول کے تحت تاریخ کے پس منظر میں اسالمی ثقافت کی وہ قوت جو دوسری
قوتوں سے انجذاب کرتی ہے بڑی توانا نظر آتی ہے اور یہاں کی مقامی ثقافت کے ساتھ
اس کے ربط نے جن ثقافتی دائروں کی تشکیل کی۔ ان سے مسلم ثقافت کے حقیقی تشخص
کو اجاگر کرنے میں بڑی م دد ملی۔ سماجیات اور معاشرت میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے
سے ایک نئی ثقافت کے خدوخال مزید ابھر کر سامنے آنے لگے۔ آگے چل کر اسی کو
وقت اور تاریخ نے ہند مسلم ثقافت کا نام دیا اور یہ سارا عمل کسی تضاد یا تصادم کے
نتیجے میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ تفاہم کی عملی مثال ہے۔
یہی ہند مسلم تہذیب برصغیر میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں
پروان چڑھی۔ اس میں عربوں ،افغانوں ،ایرانیوں ،ترکمانیوں اور مغلوں کا مزاج اور
آدرش بھی شامل ہے۔ اسی تہذیب نے برصغیر کی اجتماعی حیات میں جو حرکت اور
لوح زمان پر نقش ہے۔
حسن پیدا کیا وہ مختلف فنون کے مظاہر اور اداروں کی شکل میں ِ
انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے
نوآبادیاتی دور کہا جاتا ہے۔ نوآبادیات ایسی فتوحات ہوتی ہیں جن میں کوئی بھی طاقتور
ملک اپنی سرحدوں سے باہر وسعت کی خاطر مفتوحہ اقوام کی مرضی کے خالف اقتدار
قائم کر کے ان پر اپنی مرضی و منشاء ٹھونستا ہے۔ یہ ایسا غیر ملکی تسلط ہوتا ہے جس
میں براہ راست مقامی باشندوں کے بجائے کوئی غیر ملکی یا بدیسی طاقت اقتدار پر
براجمان ہو کر سیاسی ،سماجی اور معاشرتی سطح پر کئی قسم کی تبدیلیاں لے کر آتی
ہے۔
برصغیر میں استعمار کی آمد کے بعد ایک مختلف نوعیت کے پیٹرن )(Pattern
نے انفرادی اور اجتماعی طور پر مقامی آبادی کو مغلوب کرنے کی کوشش کی۔ یہ عمل
اٹھارویں صدی کے اواخر میں شروع ہوا۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے
انتشار کا شکار مشرقی تہذیب کے متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے اور ایک
ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کی
ثقافتی فضا پر دو جذبیت/گومگوئی اس درجہ غالب ہوئی کہ اس زمانے کی علمیات میں
بھی سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی عالمت بھی تھی کہ برصغیر کی
سماجی ،سیاسی اور ثقافتی دنیا پر نوآبادیات کس درجہ چھائی ہوئی تھی۔ یہ دو جذبیت یا
گومگوئی ایک نفسی صورت حال ہے جو کسی ایک معروض کے دو متضاد و متصادم
جذبات و خیاالت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ منتشر ،مرتکز یا تذبذب کسی بھی حالت میں ہو
سکتی ہے۔ اس سے ایسا احساس م حرومی بھی جنم لیتا ہے جو معروضی اورموضوعی
دونوں سطحوں پر نقصان دہ ہے۔
جب یورپی اقوام نے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی اور مختلف ممالک میں اپنے
اقتدار کو مستحکم کیا تو انہیں اپنے سیاسی اقتدار اور سماجی و معاشرتی برتری کے لیے
اخالقی جواز کی تالش ہوئی کہ جس کی بنیاد پر وہ اپنے محکوموں کے استحصال کو
جائز قرار دے سکیں۔ یوں انہوں نے ’’سست اور کاہل مقامی باشندے‘‘ کا نظریہ پیش کر
کے مقامی باشندوں کے استحصال کا جواز حاصل کیا۔ نوآبادیاتی نظام کا مشاہدہ کیا جائے
نقطہ اساس ہی یہ ہے کہ دنیا میں نسلیں اور قومیں باہمٔ تو پتا چلتا ہے کہ اس نظام کا
اعلی و برتر اور مہذب جب کہ کچھ پسماندہ اور غیر مہذب۔ اب ٰ تفریق کی حامل ہیں کچھ
اعلی اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باقی سب اقوام کو ٰ اس نظریے کی رو سے مہذب اور
مہذب بنائیں ۔اس نظریے کے تحت اہل ہندوستان بھی غیر مہذب قرار پائے اور انگریزوں
نے اس طرح کے حاالت پیدا کیے کہ مقامی آبادی کو انگریزونکی ثقافتی برتری کے
احساس کا یقین ہو جائے اور ان میں اپنی تہذیب سے نفرت اور بیزاری پیدا ہو جائے ۔
ایسے میں وہ لوگ بھی جنہوں نے انگریزی تہذیب کو اپنانے کی کوشش کی وہ بھی
انگریزوں کی طرف سے تحقیر کا شکار ہوئے۔
ان حاالت میں برصغیر کے عوام میں پرانی شناختوں اور عظمتوں کے سنگ میل
وقت کے سی ِل بیکراں میں بہہ کر ماضی کے تاریک اور گہرے سمندر میں گم تو ہونا
شروع ہو گئے تاہم ان کے ذہنوں میں حکمرانوں کے حقارت آمیز اور منافقانہ رویے سے
مایوسی پیداہوئی۔ یوں مقامی نوجوان ذہنی تشکیک کا شکار ہو گیا اور ان دونوں سماجی و
فکری رویوں کے نتیجے میں تہذیبی بحران نے جنم لیا۔ اس تہذیبی بحران نے ہندوستانیوں
کو داخلی کشمکش ،روحانی کرب ،اعصابی ہیجان اور احساس محرومی کے گہرے
احساس میں مبتال کر کے اس نسل کو انفرادی انتشار کے ساتھ ساتھ اجتماعی آشوب سے
بھی ہم کنار کیا۔ اس تہذیبی بحران کا نوآبادیاتی حکمرانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ
ایک تو انہوں نے مقامی آبادی کو اپنی تہذیب سے متنفر کیا دوسری طرف ان کے اذہان
میں یہ تصور بھی راسخ کیا کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ دساوری تہذیب کو
اپنانے میں ہی ہے۔ یوں اس پالیسی سے نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنا اقتدار تو مستحکم کیا
مگر مقامی آبادی کو دو جذبیت اور گو مگوئی کیفیت کا شکار کر کے ان کے لیے نئی
مشکالت کھڑی کردیں اور آنے والے دور میں اس پالیسی کے نہایت گہرے اثرات مرتب
ہوتے چلے گئے۔
نوآبادیاتی عہد میں جن علمی شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ان میں ایک
استشراق بھی ہے۔ استشراق یا اورینٹلزم (مشرق شناسی) ان مطالعات کا نام ہے جو اہل
مغرب مشرقی زمین کے ادیان ،زبان ،تاریخ اور ادبیات کے بارے میں انجام دیتے ہیں۔ یہ
سامراج کی ایک ضرورت تھی کہ وہ محکوم اقوام کی ثقافت ،تہذیب ،تاریخ اور اذہان کو
سمجھنے اور پھر ان مستشرقین کی حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں اپنے نوآبادیاتی
عالقوں کے محکوم عوام پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کے لیے الئحہ عمل ترتیب دے
سکے۔
مستشرقین کے لفظی معنی سے مشرق شناسی یا مشرقی علوم و فنون اور ادبیات
کے ماہرین مراد لیے جاتے ہیں اور یوں غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں ،تہذیب،
فلسفے ،ادب اور مذہب کے مطالعے میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔ کچھ ماہرین
کے مطابق استشراق مغربی اسلوب فکر کا نام ہے جس کی بنیاد مشرق و مغرب کی نسلی
تقسی م کے نظریے پر قائم ہے جس کی رو سے اہل مغرب کو اہل مشرق پر نسلی اور
ثقافتی برتری حاصل ہے۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق بھی سادہ لفظوں میں شرق شناسی
نوآبادیاتی نظام کی عقلی تاویل ہے۔ جبکہ اورینٹلزم مطالعات میں مشرق کا مفہوم ایک
Metageographicalمفہوم ہے اور یہ مفہوم درحقیقت جغرافیائی اور تہذیبی عناصر کا
مرکب ہے۔ یہ اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے بھی ایک مبہم مفہوم ہے کیوں کہ معلوم
نہیں کہ یہ مطالعات خالصتا ً علمی تحقیق پر مبنی ہیں یا ان کے پس پردہ سیاسی اغراض و
مقاصد بھی چھپے ہوئے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے وسط ہی سے دو بنیادی عنصر بہت اہم
ہیں جومشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کا باعث بنے۔ اوالً یورپ میں مشرق کے بارے
میں بتدریج پھیلتا ہوا علم ،جونوآبادیات سے مسلسل روابط اور بیرونی ممالک میں غیر
معمولی دلچسپی کا نتیجہ تھا۔ جس نے نسلیات ،تقابلی علم االجسام ،لسانیات اور تاریخ کے
ترقی پذیر علوم کو تقویت پہنچائی۔ عالوہ ازیں ایک نظام کے تحت مشرق کے بارے میں
علم میں ایک بڑی بھاری مقدار اس ادب کی بھی شامل ہو گئی جو ناول نگاروں،
شاعروں ،مترجمین اور کئی ہوشیار مسافروں نے تخلیق کیا۔ مشرق و مغرب کے اس
باہمی تعلق کے اظہار کے لیے کئی اصطالحات مستعمل تھیں جیسے کہ مشرق کا آدمی
غیر منطقی ،گرا پڑا،بچگانہ مزاج کا حامل اور ’’مختلف‘‘ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں
یورپ کا انسان منطقی ،سنجیدہ ،نیک ،بالغ نظر اور ’’متوازن‘‘ ہے۔ ایڈورڈ سعید یہ بھی
بتاتا ہے کہ شرق شناسی ایک ٹیڑھا اور مشکل راستہ ہے جس میں وضاحت کے لیے وہ
کپلنگ کی پیش کردہ جناتی زنجیر پیش کر کے وہ یہ بتاتا ہے کہ مطلق حکمرانی کا اہتمام
جو مغرب کے لیے مشرق سے ہو رہا ہے وہ ایک مضحکہ خیز جناتی زنجیر کی طرح
ہے۔
موقف بھی قابل غور ہے جس میں وہ اس بات کی وضاحت کرتا ایڈورڈ سعید کا یہ ٔ
وسطی اور مسلمانوں کیٰ ہے کہ ان مستشرقین اور مغربی مفکرین نے مشرق ،مشرق
تہذیبوں کا مطالعہ خالصتا ً سیاسی مقاصد کے پیش نظر کیا ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کی
حکمرانی کے عہد میں جان گلکرسٹ ،گارسیں دتاسی ،سرولیم جونز ،بنجمن شلزے،
جوشواکٹیلر ،برائون ،جان شیکسپیئر ،پروفیسر آرتھونی ،آلویٹس شپرنگر ،بامریورگ
شٹال ،الیگزینڈر بائوسانی وغیرہ کئی نامور مستشرقین ادبی افق پر نمایاں ہوئے۔
مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے جس کے مطابق ہمیں
اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ سب مستشرقین کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا
۔ سب نے اپنے سیاسی مفادات کو مقدم نہیں رکھا اور نہ ہی اپنے مخصوص نظریات کا
پرچار کیا۔ بلکہ ان میں سے کئی مستشرقین نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مشرق کی
تاریخ ،کلچر ،زبان اور علم و دانش کے ماخذ کو تالش کرنے میں صرف کیا اور قیمتی
علمی سرمائے اور گم شدہ دانش کے سرمائے کا کھوج لگا کر اسے مدفون ہونے کے
بجائے منظر عام پر ال کر عوام کے استفادے کے لیے پیش کیا۔ جان گلگرسٹ ،گارساں
دتاسی ،سرولیم جان ،شیکسپیئر ،ڈنگن فوربس ،گراہم بیلی ،جان پیلٹس وغیرہ کی طویل
فہرست ہے جنہوں نے اس ضمن میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔
اگر اس سارے منظر نامے کو برصغیر کے پس منظر میں دیکھا جائے اور
انگریزی ناولوں کے جائزے کے حوالے سے بات کی جائے تو ایڈورڈ سعید کی کتاب
’’کلچر اینڈ امپیریلزم‘‘ میں انگریزی ناول نگاروں جوزف کونرڈ اور جین آسٹن کے
حوالے سے یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ ایک مخصوص ثقافت کو فروغ دینا اور دو
مختلف ثقافتوں کو پروان چڑھانا سامراجی ایجنڈا ہے اس لیے وہ سامراج اور انگریزی
ناول میں ربط تالش کرتے ہیں۔ ناول نے ثقافت کو ایک خاص رخ سے پیش کیا ہے۔ ناول
اور سامراج دونوں نے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا اور نوآبادیات کے لیے راہیں
ہموار کیں۔
انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کی برطانوی اور فرانسیسی ثقافت میں تقریبا ً
ہر جگہ پر ایمپائر کے اشارے اور نقوش ملتے ہیں لیکن شاید کہیں بھی اتنے منظم انداز
میں نہیں ملتے جتنے کہ برطانوی ناول مینملتے ہیں۔ ناول ایک بھٹی ،ایک نیم قاموسی
ثقافتی صورت ہے ج س میں نہایت منضبط پالٹ ،میکنزم اور سماجی حوالے کا ایک پورا
نظام بھی ملفوف ہوتا ہے۔ ناول کے بیانیے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ ارادی افعال
کو ڈھکے چھپے اور ملفوف انداز میں اپنے مفادات کے مطابق بیان کر سکے۔
یقینا نوآبادیاتی عہد میں تحریر کیے جانے والے ناولوں کے صفحات پر ابھرنے
والی ہر عبارت غیر ارادی نہیں بلکہ ارادی اور شعوری ہونے کے ساتھ منشائے مصنف
کے تابع ہوتی ہے اور اس متن کو سمجھنے کے لیے اس کے مخصوص کوڈز کو بھی
سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے اس امر کے بھی شاہد
ہیں کہ استعمار یا نوآبادکار اپنے عہد حکمرانی میں مقامی آبادی کے قلوب و اذہان کو نہ
صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ نوآبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعد بھی اپنے اثرات کچھ اس
انداز میں چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے نقوش تادیر قائم رہتے ہیں۔
انگریزوں کی برصغیر میں آمد اور اسے اپنا مفتوحہ عالقہ قرار دینے کے بعد
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس نے نہ صرف ہماری سیاسی تاریخ کا
رخ موڑا بلکہ ہمارے شعور اور رویوں کو بھی تبدیل کردیا۔ ایک ایسی فضا قائم ہوئی
جس کے نتیجے میں ایسے ہندوستانی تعلیم یافتہ نوجوان پیدا ہوئے جو رنگ و نسل کے
اعتبار سے ہندوستانی اور کردار و روح کے اعتبار سے برطانوی سامراج کا نوآبادیاتی
نمونہ تھے۔ ایسے ماحول میں ایک خاص نوآبادیاتی صورت حال وضع کی گئی جو محض
عسکری قوت کے ذریعے ممکن نہیں تھی۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی محض عسکری اور سیاسی جنگ نہیں تھی بلکہ ’’مقامی
اور غیر مقامی‘‘ دو تہذیبوں کے درمیان ایسی آخری کشمکش تھی جس میں دساوری
نقطہ آغاز تھا جس نے بعد ازاں تاجری سے تاجوری کی ٔ تہذیب فتح یاب ہوئی۔ یہی وہ
شکل اختیار کرلی۔ برصغیر کے عوام اب براہ راست مغربی اثرات کی زد میں آگئے۔ نئی
تہذیب کا وہ قافلہ جو آہستگ ی سے چل رہا تھا اچانک برق رفتاری سے رواں دواں ہو گیا
اور انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب پورے ملک پر چھا گئی۔ مغربی تعلیم
طرز معاشرت پر پڑے۔زندگی کے ہر پہلو میں مغرب کی نقالی ِ کے سب سے زیادہ اثرات
شروع ہو گئی۔ معاشرت بدیسی تہذیب کا چربہ بن گئی اور مضحکہ خیز ’’بابو‘‘ والی
صورت حال پیدا ہوئی۔
اس قسم کے تاثرات کا سب سے قوی محرک ذہنی غالمی ہے اسی حوالے سے
البرٹ میمی ) (Albert Memieنے کچھ نفسیاتی عوامل کا ذکر کیا ہے جو ایک مغلوب
قوم پر احساس کمتری کی وجہ سے اثر انداز ہوتے ہیں مغلوب قوم کے باشندوں کے
با رے میں لکھا کہ چونکہ وہ ذہنی طور پر مرعوب ہوتے ہیں اور حاکموں کی تہذیب پر
رشک بھی کرتے ہیں ،اس لیے انہیں اپنے آقائوں کی نقل کرنے میں ذہنی تسکین ملتی
ہے۔ ۱۸۵۷ء کا واقعہ بھی ایک بڑا سیاسی انقالب تھا اور جب بھی اس قسم کا بڑا سیاسی
انقالب رونما ہوتا ہے تو اپن ے اقتدار کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے تہذیبی قوتوں
کو بھی بروئے کار التا ہے۔ اگر فاتحین کی تہذیب کسی بھی اعتبار سے جاندار ہے تو
محکوم تہذیب کو پھیلنے پھولنے کا موقع ملنے کے بجائے حاکمین کی تہذیب پھیلے گی۔
انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر میں بھی کچھ اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی اور
یہاں بھی ایک تبدیلی رونما ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی فلسفہ ،ادب ،سیاست ،جمہوریت
اور معاشرت کے تصورات مقامی تہذیب میں نمایاں جگہ پانے لگے۔ ۱۸۶۹ء میں نہر
سویز کے کھلنے پر ہندوستان کا رابطہ بیرونی دنیا سے آسان ہو گیا۔ بیرونی دنیا میں اس
وقت صنعتی انقالب نے مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا تھا۔ روحانیت
کے خالف مادیت صف آراء تھی۔ جدید علوم کے ذریعے ایسے ہی تصورات نے برصغیر
کے عوام کی معاشرت کو بھی متاثر کیا اور مذہب و سائنس کی یہ آویزش ادب میں بھی
نمایاں ہوئی۔
یہی وہ تاریخی منظر نامہ تھا جس میں انگریزوں اور اینگلوانڈین ادبا نے ناول
تحریر کیے۔ ذہنی رویوں کے بدلنے کے ساتھ عوام کی زندگیوں میں انقالب آیا اور ادب
چونکہ سوسائٹی سے اثرات قبول کرتا ہے اس لیے ادب میں بھی انقالب آیا۔ اور خاص
طور پر مقامی ادیبوں کا ذہن انگریزی فکر اور تخیل کی سطح پر تیرنے لگا۔
انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلق پر
سینکڑوں کی تعداد میں فکشن اور نان فکشن ادب تخلیق ہوا۔ اینگلوانڈین فکشن کا عرصہ
تقریبا ً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ اینگلوانڈین فکشن ہندوستان کے عالوہ ہندوستان میں
موجود انگریز مرد و خواتین کی زندگی کا عکاس بھی ہے۔ اینگلوانڈین فکشن کی
اصطالح کثیر الجہات ہے۔ عام طور پر اس سے مراد ایسا ناول لیا جاتا ہے جو ہندوستان
سے متعلق ہو اور انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو جبکہ خاص معنوں میں اس سے
مراد ایسا فکشن ہے جو ہندوستان میں رہنے والے انگریزوں کے روز و شب کی تصویر
کشی بھی کرے۔ اینگلوانڈین فکشن کی وضاحت بھوپال سنگھ )(Bhupal Singhنے اپنی
کتاب " "A Survey of Anglo-Indian Fictionمیں جینی شارپ )(Jenny Sharp
نے " "Allegories of Empireمیں جبکہ ایم کے نائیک ) (M. K. Naikنے "Mirror
"on the Wallمیں کی ہے۔ انتھونی برجس ) (Anthony Burgessنے اپنی کتاب
" "The Novel Nowمیں غیر ملکی یا بیرونی انگریزی ادب کی دو اقسام بیان کی ہیں۔
اوالً برطانوی مقامی باشندوں کے تحریر کردہ ناول جن کے ذریعے وہ برطانوی نوآبادیات
یا برطانوی حکومت کے زیر تسلط عالقوں کی روح میں جھانکتا ہے ثانیا ً ان میں سے
کوئی ایک باشندہ جو کہ انگریزی فکشن کے ذریعے اس ’’اصل‘‘ کو دیکھتا ہے اور اس
روایت کا اظہار بھی کرتا ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے۔
اینگلو انڈین لٹریچر کے مطالعے کے دوران یہ حقیقت بھی منکشف ہو تی ہے کہ
ا نگریزی ادب کی اردو زبان میں تحریر کی گئی کتب تواریخ میں انگریزی ناول نویسوں
گلشن پُر بہار جان کر بخوبی مساحت کی گئی ہے مگر ان روایتی تاریخ کی ِ کی تاریخ تو
وادی خشک سمجھ ٔ کتابوں میں الگ سے اینگلوانڈین ناول نگاروں کے تعارفی مطالعے کو
کر گام فرسائی سے گریز کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ یعنی ابتدائی اینگلوسیکسن ادب،
دور الزبتھ ،اور
نشاۃ الثانیہ کے عروج ،نوکالسیکیت ،رومانیت ،دور تجسس کے عالوہ ِ
وکٹورین عہد کے عنوانات سے تفصیلی جائزے بھی ملتے ہیں مگر الگ سے اینگلوانڈین
ناولوں کو اس طرح کا امتیاز خصوصی میسر نہیں آیا یعنی بطور مجموعی ناول کی
تاریخ بیان کرنے میں اطناب سے کام لیا گیا اس کے علی الرغم اینگلوانڈین ادب کے بیان
میں ایجاز و اختصار برتا گیایا محض ناول کے تعارف تک مورخ محدود رہا۔
زمانی ترتیب کے حساب سے دیکھا جائے تو اینگلو انڈین ناولوں کے پہلے دور کا
آغاز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز ) (Warren Hastingsکے عہد سے شروع ہو کر
جنگ آزادی ۱۸۵۷ء تک ہے۔ دوسرا دورانیہ جنگ آزادی سے ملکہ وکٹوریہ (Queen
)Victoriaکی وفات تک ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا ِکم (Kim) 1901ء اسی دور کی یادگار
ہے۔ تیسرا دور ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال سے شروع ہو کر تقسیم ہندوستان تک چلتا ہے۔
میڈوز ٹیلر ) (Medous Taylorاور ڈبلیو ڈی آرنلڈ ) (W. D. Arnoldپہلے دور کے
نمائندہ ناول نگار ہیں۔ سر ہنری کننگھم) (Sir Henry Cunnighemاور رڈیارڈ کپلنگ
)(Rudyard Kiplingدوسرے دور کے ،جبکہ ایڈمنٹر کینڈلر (Edmund
) ،Candlerای ایم فاسٹر ) (E. M. Fasterاور ایڈورڈ تھامسن (Edward
) Thompsonتیسرے دور کے نمائندہ ہیں۔ پہلے دور کے ناول اینگلو انڈینز کی
سرکاری مصروفیات کی عکاسی کرتے ہیں جن میں خاص طور پر طنزیہ رنگ حاوی
ہے۔ مگر تیسرے دور کے ناولوں کے موضوعات متنوع اور وسیع تر ہیں اور تغیر پذیر
ہندوستان کی بوقلموں حیات اور مسائل کے صحیح عکاس ہیں۔
ان تمام ناولوں کے عمومی موضوعات میں بے اطمینانی ،کشمکش ،ناخوشی ،غلط
فہمیاں اور ہندوستان میں عائلی زندگی کی پیچیدگیاں اور مشکالت شامل ہیں۔ فنی طور پر
اینگلوا نڈین فکشن ،اینگ لوانڈینز کی ہندوستان میں چند روزہ /عارضی زندگی کا ریکارڈ
اور ترجمان ہے۔
مسٹر آر ۔ این سینکوٹ ) (R. N. Sencourtکا ناول "The Distinterested
" Nabobاینگلوانڈین ناولوں میں سے اولین مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد مس سڈنی اوینسن
) ،(Miss Sidney Owensonڈبلیو بی ہاکلے) ، (W. B. Hockleyسروالٹ سکاٹ
) ،(Sir Walet Scottچارلس ڈکنز) ، (Charles Dickensولیم تھکرے (Willian
)Thackerayاہم ہیں۔ جبکہ میڈوزٹیلر ) (Meadows Taylorبعض نقادوں کے
مطابق کپلنگ ) (Kiplingسے قبل دور کی اینگلو اینڈین فکشن کی تاریخ میں تھیکرے
)(Thackeryسے زیادہ اہم لکھاری ہے اسے فارسی ،مراہٹی اوردیگر ہندوستانی زبانوں
سے گہری آشنائی تھی۔ اس کے بعد ڈبلیو ڈی آرنلڈ ،جان لینگ ) (John Langکے نام
قابل ذکر ہیں اس کے بعد کا دور مابعد غدر (جنگ آزادی) کے ناولوں پر مشتمل ہے۔ یہ
عشرہ (۶۹۔۱۸۵۹ء) پر مشتمل ہے جو کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد سے شروع ہوتا
ہے۔ اس دور کے لکھاریوں میں کولن) ، (Wilkie Collinمسٹر ایڈورڈ (Edward
) ،Moneyمیجر چارلس کربی ) ، (Major Charles Kirbyفلورنس میریٹ
اعلی درجے کے اینگلوٰ )(Florence Marryatشامل ہیں۔ سال ۱۸۷۰ء کے فورا ً بعد
انڈین ناول لکھنے کا آغاز ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی میں جن ناول نگاروں نے شہرت پائی
ان میں فل رابنسن ) (Phil Robinsonاور سر ہنری کننگھم (Sir Henry
) Cunninghamنے اپنے ناولوں میں اینگلو انڈین معاشرت کو نجی اور سرکاری
میدانی و کوہستانی ہر دو عالقوں میں اتنی مہارت کے ساتھ سمویا ہے کہ اس کی مثال
ملنا مشکل ہے۔
اس کے بعد رڈ یارڈ کپلنگ( )۱۹۳۶ (Rudyard Kiplingء۔۱۸۶۵ء) کا دور ہے
جو کہ سفید نام نسل کا بوجھ ) (The White Man's Burdenجیسی مشہور زمانہ
اصطالح کا خالق ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کا ہندوستان میں ادبی منظر نامے پر ظہور ۱۸۸۰ء
کے اواخر میں ہو ا۔ مگر کپلنگ کی وہ تحریریں جن کا موضوع ہندوستان یا ہندوستانی
معاشرت ہے ان کا عرصہ ۱۸۸۰ء تا ۱۸۹۷ء ہے۔ ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب "Plain
"۱۸۸۸Tales from Hillsء میں۱۸۸۸ ،Soldiers Three ،ء مینجبکہ،
۱۸۹۳ ،Between Many Inventionsء میں منظر عام پر آئی۔ ۹۵۔۱۸۹۴ء میں
""The Jungle Booksشائع ہوئیں۔ اس کے بعد کی قابل ذکر کتب میں & "Stalky
""A ،"Reward and Fairies" ،"Puck of the Pook's Hill" ،Company
""Limits and ،"Debits and Credits" ،Diversity of Creatures
"Renewalsشامل ہیں۔ بطور ناول نگار رڈیارڈ کپلنگ کی شہرت "The Light that
" ،Failedنولکھا ) (Naulakhaاور ِکم ) (Kimکی وجہ سے ہے۔ بھوپال سنگھ کے
تجزیے کے مطابق کپلنگ بطور فن کار بہت زیادہ خوبیوں کا ملک ہے۔ اس کی انگریزوں
اور اینگلوانڈینز کی حیات و کردار کی عکاسی کو عالمگیر طور پر سراہا گیا مگر اس کا
ہندوستانی کہانیوں کا جائزہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ کئی مقامی تخلیق کاروں کی طرح
ہندوستان کی روح کے قریب تر آنے میں کافی کامیاب نہیں ہواہے۔
اس کے بعد کپلنگ سے بالواسطہ طور پر متاثر ہونے والے لکھاریوں کی ایک
فہرست ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کپلنگ سے قبل اینگلوانڈین ادب غیر متشکل
) (Amorphousتھا یعنی اس کے موضوعات کی کوئی واضح جہت موجود نہیں تھی یا
پیدا نہیں ہو سکی تھی اور اس کا انگریزی ادب کی تاریخ میں کوئی منفرد مقام بھی نہیں
تھا۔ کپلنگ کی بدولت اس کی پہچان بنی۔ کپلنگ کی ذہانت ،اس کے فن اور مقبولیت نے
اس کے کئی مداح اور پیروکار (نقال) پیدا کیے جن میں سے حیرت انگیز طور پر بیشتر
خواتین ہیں۔ ان متاثر ہونے والوں میں مسز فلورا اینی سٹیل (Mrs. Flora Annie
) ،Steelمسز ایلس پیرن) ، (Mrs. Alice Perrinمسٹر روتھ فیلڈ)، (Otto Rothfeld
اینڈرل) ، (Andrulایڈمنڈ کاکس) ، (Edmund Coxمسٹر ہربرٹ شیرنگ (Herbert
) ،Sherringرچرڈ ) ، (Richard Delaaمس ایتھل ایم ڈیل )(Miss Ethel M. Dell
،اے ٹو مورس ) ، (A. R. Morrisمیجر جنرل ٹی پی پلچر (Major General T. P.
) ،Pichlerلیونارڈ وولف ) ، (Leonard Woolfجان ایٹن ) ، (John Eytonمسز ماڈ
ڈائیور ) ، (Mrs. Maud Deverہلٹن برائون ) ، (Hilton Brownہمسفرے جارڈن
) ،(Humsafray Jordonوغیرہ اہم ہیں۔
اس عہد کے بعد بھوپال سنگھ کے مطابق جدید اینگلو انڈین لکھنے والوں کی کافی
بڑی تعداد موجود ہے۔ مگر ان کے کام کا معیار زیادہ بہتر نہیں ہے۔
اینگلو انڈین لٹریچر ) (Anglo Indian Literatureکے برعکس مقامی ادبا کی
انگریزی زبان میں تخلیقات کے لیے انڈو اینگلین ) ، (Indo-Anglianانڈو انگلش
)(Indo-Englishاور ’’ہندوستانیوں کی انگریزی تخلیقات ‘‘ (Indian Writings in
)Englishجیسی اصطالحات وضع ہو کر منظر عام پر آئیں۔
وی کے گوکک ) (V. K. Gokakکے مطابق انڈو اینگلین سے مراد ہندوستانی
لکھاریوں کی انگریزی زبان میں تخلیقات ہیں جبکہ انڈو انگلش سے مراد مقامی ہندوستانی
ادبا کی طرف سے ہندوستانی ادب کے انگریزی تراجم ہیں۔ ایم کے نائیک (M. K.
) Naikیہ وہ ادب ہے جو بنیادی طور پر انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہو اور ایسے
مصنفین کی طرف سے تحریر شدہ ہو جو کہ پیدائشی ،قومیتیاورموروثی طور پر
ہندوستانی ہوں۔ رام سیوک سنگھ ) (Ram Sewak Singhنے ایسے ادب کو انگریزوں
اور ہندوستانیوں کے درمیان تجارتی ،ثقافتی اور ادبی مڈبھیڑ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر سنتوش ) (Dr. Santosh S. Huseنے مقامی ادبا کی انگریزی تخلیقات
کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
ابتدائی دور ۱۸۲۰ء تا ۱۸۷۰ء تک ہے۔ جو کہ اس ادب کے عظیم بانیوں سے
منسوب ہے۔ دوسرا دور ۱۸۷۰ء سے ۱۹۰۰ء تک۔ جو کہ نشاۃ الثانیہ کا عہدہے۔ اس میں
ادبی اور مذہبی شعور کی لہر دکھائی دیتی ہے۔ تیسرا دور ۱۹۰۰ء تا ۱۹۲۰ء ہے۔ یہ
سیاسی بیداری کا عہد ہے۔ اسے ’بندے ماترم‘ اور ’ہوم رول‘ کے عہد سے موسوم بھی کیا
گیا ہے۔ چوتھا دور ۱۹۲۰ء تا ۱۹۴۷ء ہے۔ اس کو جدید دور اور انقالب گاندھی کا عہد
کہا گیا ہے۔ پانچواں دور ۱۹۴۷ء سے شروع ہوتا ہے اور تقسیم کے بعد تک چلتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سنتوش کے مطابق انگریزی میں ہندوستانیوں کی ابتدائی تحریر نثر
میں تھی اور رام موہن رائے ) (Ram Mohan Royپہلے بڑے لکھاری تھے۔ ۱۸۵۰ء
سے ۱۹۰۰ء تک مجموعی سطح پر انگریزی شاعری کا بھی وسیع ذخیرہ تخلیق ہو چکا
تھا۔ ڈاکٹر سنتوش نے جس طرح رام موہن رائے کو انگریزی نثر میں اولیت کا درجہ دیا
ہے اسی طرح ہنری ڈیروزیو ) (Henry Derozioجو کہ ہندوستانی اور پرتگیزی النسل
تھے انہینمقامی انگریزی شاعری میں مقدم ماناہے۔ اس کے بعد کاشی پرشاد (Kashi
)Persadاور پھر مائیکل دت ) (Michael M. Duttجو کہ انڈین کرسچین تھے اور
جن کا بنیادی تعلق بنگالی ادب سے تھا وہ ادب کے افق پر طلوع ہوئے۔ انیسویں صدی کی
آخری دہائی میں سوامی دیوک آنند نے انگریزی زبان کو ویدانتی فلسفے اور مشنری
ناصحانہ اظہار ک ے لیے ذریعہ بنایا۔ برہمو سماج نے بھی انگریزی زبان کا مہارت سے
استعمال کیا۔ ارودت ) (Aru Duttاور ٹورودت ) (Toru Duttنے انگریزی زبان میں
شاعری کو عروج بخشا۔ ہندوستان میں اسی عہد کے دوسرے لکھاریوں میں رام کرشنا
پالری ) ، (Ram Krishna Pilariبہرام مالباری ) (Behram Malbariاور ناگیش
وشوا ناتھ ) (Nagesh Wishwanathاہم ہیں۔ ایم کے نائیک ) (M. K. Naikنے بھی
انگریزی ہندوستانی فکشن کو تین ادوار میں تقسیم کیا ،پہلے عہد کا آغاز ۱۸۵۰ء سے
ہوتا ہے جو کہ ۱۹۳۰ء تک جاری رہتا ہے۔ اس عہد کی تحریریں رومانوی ،تاریخی اور
اکثر حصول آزادی کے جذبوں کے اظہار پر منتج ہوتی تھیں ان تحریروں میں انگلستان
میں ہونے والی اصالحات اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی بازگشت سنائی دیتی ہے اس
عہد میں برطانوی شہریوں کے ہندو مذہب کے بارے میں اور مقامی ثقافت کے بارے میں
حقارت اور تضحیک کے بڑھتے ہوئے جذبات کی عکاسی بھی ملتی ہے ،رابندر ناتھ
ٹیگور ) ، (Rabinder Nath Tagoreاروبندوغوث)، (Aurobindo Ghose
انگریزی میں ہندوستانی تحریروں کے پہلے دور سے متعلق ہیں۔
دوسرا عہد ۱۹۳۰ء تا ۱۹۷۰ء تک ہے۔ اس کا آغاز ہندوستان میں مہاتما گاندھی
کی سول نافرمانی کی تحریک سے ہوا۔ اس عہد کے موضوعات میں آزادی ،جدوجہد،
مشرق و مغرب کے تعلقات ،معاشی اور نسلی مسائل شامل ہیں۔ اس عہد کے مشہور
لکھنے والوں میں ملک راج آنند اور آر۔ کے ۔نارائین شامل ہیں۔ راجہ رائو بھی سماجی
مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں سلمان رشدی Salman Rushdiاور
Amitav Ghoseکے عالوہ کئی دوسرے انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانی شامل
ہیں جن میں قابل ذکر تعداد خواتین لکھاریوں کی بھی شامل ہے۔
ایڈورڈ مورگن فاسٹر یکم جنوری ۱۸۷۹ء کو (میریلیون ) لندن میں پیدا ہوئے۔
تاریخی اعتبار سے وہ ورجینا وولف اور الرنس کے پیش رو ہیں۔ مگر تکنیکی حوالے
سے وہ روایتی ناول نگاروں کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ فیلڈنگ اور میریڈتھ کی طرح
خیال اور نقطہ نظر کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اسی نقطہ نظر کو
ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود وہ ’’کہانی کو کہانی ‘‘ رکھنے کو ناول نگاری کی دنیا
میں فن کی پہلی شرط قرار دیتے ہیں جس کا اظہار) (Aspects of Novelمیں کیا گیا
ہے۔ اس کے ابتدائی ناولوں کا محرک مختلف تہذیبوں کا تصادم اور انسانی زندگی کا غیر
متوازن ہونا ہے۔ای۔ ایم ۔ فاسٹر کا نام بیسویں صدی کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔’’
اے پیسج ٹو انڈیا ‘‘کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مصنف نے اس ناول میں ہندوستانی
معاشرت کے بارے میں بالعموم انگریزوں کی عصبیت اور تکبرسے ہٹ کر لکھنے کی
کوشش کی ہے۔ دو انگریز خواتین مسز مور اور ایڈالکیوسٹڈ کی ہندوستان میں آمد کے بعد
فضا میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ دونوں خواتین اصل ہندوستان کو دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔
ڈاکٹرعزیز جو کہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ ان دونوں خواتین کو لے کر مارابار
غاروں کی سیر کے لیے جاتا ہے۔ وہاں پر وہ افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو ناول
کے ماجرے کو آگے بڑھاتا ہے اور جس کے نتیجے میں ناول ہندوستان کی تہذیبی و
ثقافتی فضا کو اپنے بیانئے میں سموتا چال جاتا ہے۔
ای ایم فاسٹر کا بنیادی نظریہ تھا کہ انسانی تعلقات نہ صرف سماجی ،تہذیبی اور
سیاسی اختالفات کو کم کر سکتے ہیں بلکہ ان اختالفات کی گہری خلیج کو ختم کر سکتے
ہیں مگر جب وہ خود ہندوستان آ کر صورت حال کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس پر حقیقت
واشگاف ہوتی ہے کہ انگریزوں اور مقامی لوگوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ان کے
دوستانہ تعلقات قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان بقول ناول نگار کوئی قدر
مشترک نہیں۔ اس ناول میں جہاں عہد غالمی کی تصویریں اور استعماری رویے کی
جذبہ آزادی کی آنچ بھی
ٔ جھلک نظر آتی ہے وہاں مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے
واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔
برصغیر کے باشندے ایک خاص تہذیبی ماحول کے پروردہ ہیں جن کی دانش اور
تمدن کے اپنے انداز ،اصول اور سانچے ہیں۔ لیکن پھر استعمار کی آمد کے بعد ایک اور
مختلف نوعیت کے پیٹرن) (Patternنے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ان کو مغلوب
کرنے کی کوشش کی۔ اور ایک ثقافتی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ عمل اٹھارویں صدی کے
اواخر میں شروع ہوا ۔ جب مغرب کے تہذیبی اور علمی سانچے ،انتشار کا شکار مشرقی
تہذیب میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔
انیسوں صدی کے آخر میں ہند مسلم تہذیب کی نمائندگی غیر ملکی ادب میں کچھ اس طرح
کی گئی کہ محسوس ہوا کہ یہ مقامی قدیم ادبی و تہذیبی روایات معدوم ہو رہی ہیں۔یوں
ایک ایسا تہذیبی انقطاع عمل میں النے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ نوجوان نسل میں
فکری انتشار بڑھانے کی راہ ہموار کر دی۔
ایسے ہی حاالت میں A passage to Indiaاشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی اشاعت کے
بعد کئی ناقدین اورر محققین )(Criticsاور محققین) (Researchersکی مختلف آرا
منصہ شہود پر آئیں۔ جس میں فاسٹر) (Forsterکو یا تو غیر جانبدار کردار کا حامل بتایا
گیا ہے یا مکمل طور پر متعصب اور جانبدار ،ایسا ناول نگار جو کہ احساس تفاخر اور
برتری کے نو آبادیاتی نظریہ کا حامی اور مویدہے ۔ یعنی ہر نقاد نے اس ناول کو اپنے
زاویہ نگاہ اور الگ الگ تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ناول کو فکری سطح پر دیکھا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول میں بیک وقت تہذیب ،ثقافت ،تاریخ ،سیاست ،ادب ،موسیقی،
فنون لطیفہ ،عمرانیات اور مذہب جیسے ان گنت موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی جدید اور قدیم تہذیبوں کے مجموعی سماجی و معاشرتی حقائق کے
ساتھ ساتھ مقامی افراد کی انفرادی نفسیات اور حاالت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس میں
سماجی ،نسلی ،ثقافتی ،سیاسی اور مذہبی اونچ نیچ سے متعلق لوگوں کی سوچ اور جذبات
کو نہایت فنکارانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن یہ بات نہایت اہم ہے کہ اس ناول
میں ہندوستانی حیات اور معاشرت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی
بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ اس ناول کا متن اپنی اصل میں عالمتی ہے اور اس
میں کسی حد تک تصوف کی آمیزش بھی کی گئی ہے مگر بنیادی طور پر ’اے پیسج ٹو
انڈیا‘ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو دریافت کرنے کا عمل
بھی ہے۔ اسی لیے فاسٹر اسی عہد میں ہندوستان میں موجود دو مختلف معاشروں اور ان
کی اقدار و روایات کو بیان کرنے میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے ہیں یعنی مقامی آبادی
سے انگریز یعنی نوآبادکار کس طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ سامنے
آتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی ناول میں زیر بحث التے ہیں کہ برصغیر کی سرزمین پر
ہر دور میں مختلف رنگ ،نسل ،ثقافت و مذہب کے لوگ آباد رہے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں
ایک دوسرے سے کس طرح پیش آتے رہے ہیں ان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا
رہی ہے اور وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو ان کے درمیان حائل رہی ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فاسٹر نے اگرچہ مقامی تہذیب و معاشرت کو
ہمدردانہ رویے سے پیش کرنے کی سعی کی ہے مگر ساتھ ہی اس نے بھی سفید فام
نوآبادکاروں کی برتری کے نظریے کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی
ت ہذیب و ثقافت کو برتر جبکہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو بین السطور کم تر ثابت کرنے
خطہ ارضی کو بھی کم دلکش ٔ کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے ہندوستان کے
قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر کی
ہے۔ اس کے مقابلے مینانگریزوں کی اہمیت یہ کہہ کر اجاگر کی ہے کہ وہ بہترین منتظم،
سنجیدہ فکر اور ذمہ دار لوگ ہیں جبکہ اس کے علی الرغم ہندوستانی سرزمین بنجر اور
یہاں کے لوگ کم حوصلہ ،نااہل ،جذباتی ،غیر معقول اور جلد اشتعال میں آنے والے ہیں۔
دوسرے لفظونمیں یہ وہی فلسفہ ہے جو ہندوستان میں انگریزی راج کو درست ثابت
کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے دوسرے مصنفین نے بھی اپنے تحریروں میں
اجاگر کیا ہے۔ یہی وہ سامراجیوں کی منافقت ہوتی ہے جس کا تجزیہ فرانز فنین (۱۹۶۱ء۔
۱۹۲۵ء) نے بھی تفصیالً کیا ہے۔ اور اس کا اطالق ناول زیر مطالعہ پر بھی کیا جا سکتا
ہے۔ کیوں کہ یہی وہ طریقہ کا ر ہے جس کے ذریعے مقامی آبادی کو رام کیا جاتاہے۔
اسی ناول میں فاسٹرنے ہندوستانی اور یورپی اقوام کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی
بین السطور پیش کیا ہے۔ ہندوازم اور عیسائیت کے مابین کشمکش اور تصادم کی کیفیت
کو ظاہر کیا ہے۔ جبکہ اسالم کا تعارف مسلمان کردار عزیز کے ذریعے کچھ یوں کرایا
ہے کہ اسالم صرف مسجد تک ہی محدود نظر آتا ہے۔ عزیز کو شاندار ماضی کی عظیم
یادوں میں کھویا ہوا دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اب عظمت رفتہ کے
اسیر ہو چکے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عزیز کو اسالم کی موجودہ شکل کے ساتھ تصادم
کی صورتحال پیش آتی ہے اور وہ احساس تحفظ جو اس کو اسالمی تشخص فراہم کرتا
لمحہ موجود میں کہیں نظر نہیں آتابلکہ وہ تشخص بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے
ٔ ہے اس کو
اور اس عظیم مذہب کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اب عزیز دو
د نیائوں کے مابین یوں تقسیم دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف تو اسالم کی شاندار روایات
کی یادیں ہیں جو اس کے قلب و ذہن پر نقش ہیں جبکہ دوسری طرف اس کے ذہن میں
اس عظیم ماضی کے خالف باغیانہ خیاالت بھی پنپ رہے ہیں۔ یوں ہمارے سامنے
مسلمانوں کی ایسی تصویر آتی ہے جس کے مطابق انہیں ماضی کا اسیر دکھایا گیا ہے۔
اور اسالم ایسا مذہب دکھائی دیتا ہے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اپنے ماننے والوں
پر پردہ جیسی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اور انہیں ماضی کا اسیر بنا کر حال سے ہم آہنگ
ہونے کی تعلیم فراہم نہیں کرتا۔ اور یوں اسالم ایک بوسیدہ مذہب اوراپنے اندر ارتقاء کی
قوت نہ رکھنے والے جامد مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج کے دور میں اس کی
موجوں میں اضطراب اور تحرک مفقود ہے۔ ٰلہذا ایسے مذہب کو آج کی جدید اور مہذب
دنیا کے منظرنامے سے ہٹا دینا چاہیے۔
جبکہ ہندوستان کی ارضی صورت حال کو اس ناول میں بنجر اور ویران دکھایا گیا
ہے۔ اس کے موسموں تک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جیسے کہ اپریل کو خوفناک مہینہ
قرار دیا ہے"April is month of horror" ،۔ اس کے درختوں کو گھٹیا کوالٹی کی
جھاڑیاں کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہاں تک کہا گیا
ہے کہ یہاں سورج بغیر کسی عظمت اور شان و شوکت کے طلوع ہوتا ہے "The sun
"rises devoid of splendor۔
ارضی صورتحال کے عالوہ یہاں کے باشندوں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اور یہ بتایا گیا ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت میں مقامی لوگ اس کا سامنا کرنے کی
بجائے خود ایک ہیجانی اور ہذیانی کیفیت میں مبتال ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس
اسی قسم کی صورت حال میں انگریز اپنے حواسوں پر نہ صرف قابو رکھتے ہیں بلکہ
بڑے ہی سنجیدہ اور متینہوتے ہیں۔ مگر ہندوستانی شوریدہ سری میں بہکی بہکی باتیں
کرتے ہیں۔
برطانوی قبضے میں آنے کے بعد ہندوستان کو حسن ترتیب کی مثال قرار دیا گیا
ہے جبکہ مقامی قدیمی ہندوستان کو غیر منطقی اور توہم پرست ثابت کرنے کی کوشش
کی گئی ہے۔ عالوہ ازیں انگریز نوآبادیاتی اشرافیہ اور ہندوستان کی مقامی آبادی کے
درمیان باہمی تعلقات کی نوعیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نوآبادکار ہندوستانی
محکوموں کی اس طرح عزت روا نہیں رکھتے جس کی توقع ہندوستانی ان سے کرتے
ہیں۔
ٰلہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ا س ناول میں ہندمسلم تہذیب کی استحضاریت ہو یا
مقامی تاریخ و معاشرت کا بیانیہ۔ فاسٹر جب اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے یہ رائے
دیتے ہیں " "England holds India for her goodکہ انگلستان کا ہندوستان پر
قبضہ اس کے سدھار اور بہتری کے لیے ہی ہے تو قاری کے ذہن میں رڈیارڈ کپلنگ
کے مشہور فلسفہ ’’سفید فام نسل کا بوجھ "‘‘ "White Man's burdenکی بازگشت
سنائی دیتی ہے۔ گوکہ طریقہ کار اور انداز بیاں میں قدرے اختالف موجود ہے۔
بعض انگریز مصنفین ہندوستان کی ثقافت اور روحانی فضا سے کچھ اس طرح
متاثر ہوئے کہ انہوں نے ان موضوعات کو اپنی تحریروں میں ایک نیا رنگ دیا۔ ایسے
ہی نمایاں لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ اور ای ایم فاسٹر جیسے لوگ شامل ہیں جنہوں
نے اپنی تخلیقات میں ہندوستان کی بھرپور عکاسی کی۔ یونبرطانوی زیر تسلط ہندوستان
کے متعلق تحریریں ہی ان کی پہچان بن گئیں۔ جوزف رڈیارڈ کپلنگ ایک انتہائی اہم
مصنف اور تخلیق کار ہیں جو ۳۰دسمبر ۱۸۶۵ء بمبئی (حالیہ ممبئی) میں ایک برطانوی
جوڑے ایلس کنگ ) (Alice Kiplingاور جان الک وڈ کپلنگ کے ہاں متولد ہوئے۔
زیر تحقیق ناول ’’ ِکم ‘‘بنیادی طور پر " "Mcclureمیگزین میں دسمبر ۱۹۰۰ء
سے اکتوبر ۱۹۰۱ء تک سلسلہ وار شائع ہوتا رہا۔ جبکہ Cassellمیگزین میں بھی
۱۹۰۱ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اسی سال میکملن اینڈ کمپنی نے اسے کتابی صورت میں
شائع کیا۔ ’’کم‘‘ رڈیارڈ کپلنگ کی حیات اور کیریئر میں اتنا ہی ممتاز اور نمایاں ہے جیسا
کہ انگریزی ادب میں خود اس کا اپنا مقام ہے اور اس کے طویل فکشن میں یہ ناول ہر
پہلو سے واحد کامیاب مثال ہے۔ ناول کے پالٹ کی تشکیل میں دوسرے عناصر کے
عالوہ روس ا ور برطانیہ کی سیاسی چپقلش بھی شامل ہے جسے ناول میں عظیم سیاسی
کھیل" "Great gameکے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ تاریخی واقعات
کو بھی ناول کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کیوں کہ تاریخ کا ناول میں شامل
کرنا ماضی کو تاریخی رنگ میں پیش کرنااور سماج کی عکاسی کرنا ،یہ سب عناصر مل
کر ناول کے بیانیے کو جاندار بناتے ہیں۔ ایسے ہی کپلنگ کا ِکم بھی ہے۔ ناول میں دو
مرکزی کردار ہیں ایک نوجوان کمبال او ہارا جو کہ ہندوستانی فوج کے سارجنٹ کا یتیم
بیٹا ہے جبکہ دوسرا بوڑھا تبتی درویش الما ہے۔ اسی الما کا چیال بن کر ِکم پورے
ہندوستان میں گھومتا پھرتا ہے کیوں کہ الما کو ایک ایسے دریا کی تالش ہے جس میں
نہا کر وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
الہور عجائب گھر کے باہر رکھی زمزمہ توپ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کا یہ
سفر بوڑھے تبتی درویش کے ہمراہ جاری رہتا ہے اور پھر برطانیہ اور روس کے مابین
موجود سیاسی چپقلش کا حصہ بن کر اس کی مالقات کئی لوگوں سے ہوتی ہے جن میں
گھوڑوں کا افغان تاجر محبوب علی ،کرنل کریٹن ،لرگان اور ہوری بابو شامل ہیں۔ اسی
گریٹ گیم میں ِکم برطانوی خفیہ ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے جن کا مقصد شمالی
پنجاب میں روسی سازش کے ذریعے پھیالئی جانے والی بغاوت کو ناکام بنانا ہے۔ اسی
دوران ِکم کی اصلیت ظاہر ہونے پر اسے St. Xavierسینٹ زاویئر سکول میں تعلیم
کے حصول کے لیے داخل کر ادیا جاتا ہے جبکہ چھٹیوں میں وہ اپنے گروہ کے ہمراہ
سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ ِکم اور بوڑھا روسی جاسوسوں سے ملتے ہیں اورکم ان کے
کچھ کاغذات چرا لیتا ہے مگر وہ دونوں پکڑے جاتے ہیں اور بہت دکھ محسوس کرتے
ہیں اور اسی پریشانی میں بیماری میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ مگر ِکم کی روحانی شفائی
خوبیوں کی وجہ سے وہ دوبارہ صحت مند ہو جاتے ہیں اور بوڑھے کو یہ ادراک بھی
ہوتا ہے کہ اسے ِکم کے ذریعے مطلوبہ دریا مل گیا ہے۔
کپلنگ کا تناظر اس ناول میں بہت وسیع ہے اور وہ اس ملک ،اس کے باشندوں،
معاشرے ،پہاڑوں میدانوں کو اپنے گہرے مشاہدے کی بنا پر دامن قرطاس میں یوں اجا
گر کیا ہے کہ پوری تصویر قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور یہ ایسی تصویر
ہے جس میں اس کے متنوع رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
اگرچہ یہ بنیادی طور پر سفری اور مہماتی قسم کا ناول ہے مگر اس کے ساتھ
ساتھ معاشرے کے کثیر طبقات کا بھرپور عکاس بھی ہے ،ان متنوع طبقات اور مذاہب
کے نمائندہ کرداروں کی عکاسی سے بڑا واضح ثقافتی نقش ابھر کر سامنے آتا ہے اور
نوک قلم
ِ ایک تمدن کی عکاسی ہی اس کا حقیقی جوہر ہے۔ کوچہ و بازار کے چلن کو بھی
سے مصور کیا اور یوں ایک مکمل معاشرت کا احاطہ کچھ فنی قیود کے ساتھ کیا۔ اسی
لیے کپلنگ کا کمال اس کی معاشرتی عکاسی میں پنہاں ہے۔ ہر طرف زندہ اور جیتے
جاگتے لوگ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی شکست و ریخت ہوتی رہتی
ہے۔ اس پر کسی کا زور نہیں۔ مگر ان کرداروں کے ذریعے معاصر معاشرے کی تمام تر
صورت حال قاری کیبصارت اور سماعت کے دائروں میں متشکل ہو تی ہے۔ اس سے
یہبھی آگا ہی ملتی ہے کہ ان سماجی رویوں کے مطالعے کے لیے انہیں ایک وسیع میدان
میسر آیا اور اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔
ہند مسلم تہذیب ایک وسیع تر بنیاد رکھنے والی تہذیب ہے اور یہ اسی وسعت کا
جواز ہے کہ مذہب(اسالم ) صرف ایک عقیدہ نہیں اس کی ایک تہذیبی اور معاشرتی
جہت بھی ہے۔ جو ابتدا سے ہی رد و قبول کے نظام کے ساتھ تہذیبی اور تمدنی سانچوں
کے اندر اپنے رویوں کو منتقل کرتی نظر آتی ہے۔ برصغیر کا معاشرہ کثیر النسل اور
کثیر المذاہب معاشرہ ہے۔ جو کہ اس کی معاشرتی جمالیات کا ایک خوبصورت منظرنامہ
ہے اسی منظر نا مے مینناول نگار کے کرداروں کے تنوع پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک
طرف تبتی بدھ الما کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف محبوب علی ایک افغان
مسلم گھوڑوں کا تاجر موجود نظر آتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ ہی ایک بنگالی ہندو ہری چند
مکر جی اور پروٹسٹنٹ اور کیتھولک پادری مسٹر بینٹ ) (Bennetاور فادر وکٹر
)(Victorساتھ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور یہ متاثر کن منظر سامنے آتا ہے کہ مسلم،
بدھ ،انگریز اور جین مذہب کے پیروکار ایک ہی قطار میں صف بستہ کھڑے دکھائی
دیتے ہیں۔
کپلنگ کی کہانیوں کے جائزے سے اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی
کہانیوں میں جو بھی مسلم کردار شامل کیے گئے ہیں ان کے مطالعے سے ہی یہ بات
مترشح ہوتی ہے کہ اسالم کے بارے میں اس کی کیا رائے تھی؟ کیوں کہ تقریبا ً تمام ہی
مسلم کردار متحرک اور باعمل ہیں جیسے کہ " "Gunga Dinمیں مسلمان گنگا دین کا
کردار ہے جو کہ ہندوستانی فوج میں بحیثیت سقّہ فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان
قربان کر دیتا ہے۔
The Ballad of East and Westمیں ’کمال‘ جو کہ پٹھان رہزن ہے اپنی
بہادری اور شجاعت کی بنا پر کرنل کے بیٹے کی ستائش اور عزت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
Fuzzy-Wuzzyمینمسلم سوڈانی قابل تکریم جنگجو ہیں۔ "The Head of the
"Districtمیں خداداد خان ایک دیانتدار ،آہنی عزم واال بہادر کردار ہے ناول ِکم میں
گھوڑوں کے تاجر محبوب علی کا کردار الما کے کردار کے برعکس حرکت و عمل کا
نمائندہ کردار ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسالم کی نمائندگی بطور مثبت قوت اور
طر ز عمل کی گئی ہے اور تہذیب اسالمی کے یہی عناصر ہیں جن میں اخوت ،رواداری،
مساوات ،آزادی ،احترام انسانی ،شائستگی ،روحانی بلندی ،اخالقی پاکیزگی اور نظم و
ضبط وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کپلنگ کو بہت متاثر کیا ۔ اسی لیے اس کی سوانح
عمری " "Something of Myselfمیں کئی مقامات پر قرآنی سورتوں کے حوالے
ملتے ہینجیسا کہ بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کپلنگ نے قرآن مجید کی دوسری سورہ
البقرہ کا حوالہ دیتے ہوئے " "High above mankind I raised youیعنی انہیں
تمام انسانیت میں افضل مقام دینے اور پھر سورہ المائدہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں انتشار
پھیالنے والی قوم قرار دیتے ہوئے اسی آیت کے مطابق یہ بھی کہا کہ انتشار پھیالنا ہللا
کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے۔
رڈیارڈ کپلنگ نے بالشبہ اپنے مشہور ناول ِکم اور دوسری کہانیوں میں ہندوستان
کو مرکزی اہمیت دی ہے اور اس کی تحریروں میں ہندوستانی حیات و معاشرت کا پورا
نگارخانہ سجا ہوا ہے۔ تمدن کے تغیرات ،ثقافتی قوس قزح ،موسموں کے بدلنے کی
کیفیات ،وقت کی پے در پے گردشیں اور ہمہ قسم کی جزئیات کی عکاسی کچھ اس طرح
جہان اصغر میں جہان اکبر کے برمثل کی موجودگی کا ِ سے کی گئی ہے کہ ناول کے اس
احساس ہوتا ہے الہور ہو یا شملہ ،بمبئی ہو یا کلکتہ ،ہمالیہ ہو یا راجستھان ،ناول کے
صفحات میں ان کی چلتی پھرتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی سڑکیں ،بازار،
محلے ،گھنے جنگالت ،بہتے دریا ،لہلہاتے ہوئے سرسبز کھیت ،شادی بیاہ کی تقریبات،
میلے ٹھیلے ،تہوار اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے متنوع کرداروں
الویز تصویریں ان اوراق میں جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ بے شک کی بے شمار د ٓ
گردش ایام نے ان تصویروں کے نقوش بڑی حد تک دھندال دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے
خدوخال آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ان کہانیوں کے جائزے اور کرداروں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کپلنگ
کی کہانیوں کا خمیر ہندوستانی تہذیب اور معاشرے سے اٹھایا گیا ہے ہمیں اس کی
تحریروں میں مختلف فرقوں کی مکمل تصویر بھی نظر آتی ہے اور نظریاتی اختالفات
کے باوجود مذہبی ہم آہنگی کا منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ مسائل زدہ طبقات کی خستہ
حالی جھلکتی ہے اور حاالت کو بدلنے پر مصر سیاسی و سماجی شعور انگڑائیاں لیتا
بھی محسوس ہوتا ہے ۔گویا برصغیر کا پورا معاشرہ قاری کے تخیل پر تمام رنگوں سمیت
جلوہ گر ہوتا ہے کپلنگ نے بعض اوقات حقیقی واقعات اور تاریخی کرداروں کی مدد سے
ان کہانیوں کو ن یم دستاویزی انداز میں بیان کر کے کثیر الجہتی اور مقامی نقطہ نظر کے
حوالہ قرطاس کیا ہے۔ ان کی کہانیاں برصغیر ٔ ساتھ ساتھ ذاتی رد عمل کے اظہار کو بھی
کے زمینی حقائق کی تصویر کشی پر مشتمل ہے جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ
بھرپور عصری شعور سے بھی بہرہ ور ہیں جو قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے
۔بطور مجموعی ان کہانیوں میں کالسیکی ادب کاسا وقار جھلکتا ہے۔
پال اسکاٹ ) (Paul Scottکا راج کوارٹٹ " "Raj Quartetایک طویل ناول ہے
جو کہ چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ان میں سب سے پہلے The Jewel in the
،Crown, 1966پھرTower of Silence, ، The Day of Scropion, 1968
1971سب سے آخر میں A Division of the spoils, 1975شائع ہوا۔ اس چہارگانہ
ناول کے عالوہ بھی تیرہ مشہور ناول اس کے کریڈٹ پر ہیں۔ پال اسکاٹ نے 1940ء
سے 1946ء تک انڈین آرمی میں مالزمت کی۔ اس عرصے کے دوران اس نے
ہندوست انی تہذیب و معاشرت کا گہرا مشاہدہ کیا اور ان ہی مشاہدات کو اپنے ناول کا حصہ
بخوبی بنایا۔
بحیثیت مجموعی راج کوارٹٹ فکشن کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے
مگر جیسا کہ تاریخ کی سطور کے درمیان بہت کچھ غیر مرئی بھی لکھا ہوتا ہے جو
بظاہر نظر نہیں آتا مگر غور کرنے سے اس کا مفہوم اس کے باطن سے برآمد کیا جا
سکتا ہے۔ اسی طرح راج کوارٹٹ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول کو بھی
اس کے زمانی محیط سے الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ناول کے
نقطہ انجام کی جانب مائل بہ سفر انگریزی ٔ پردے میں ہندوستان میں انہدام پذیر یا اپنے
راج کی ادبی جمالیاتی تقاضے نباہنے والی مکمل تصویر ہے۔ اسی تصویر کے چند
گوشوں کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس میں تاریخ اور
فکشن کا امتزاج ہے۔ مگر پال اسکاٹ نے یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ اس میں بیان کیے
جانے والے ف سادات کے عالوہ تاریخی اور سیاسی مناظر بھی حقیقت پر مبنی ہیں جبکہ
مجرمانہ حملے کی ڈرامائی صورتحال ،گرفتاریاں اور قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا
سلوک کی داستان مبنی بر تخیل ہے۔
پال سکاٹ نے تقریبا ً چھ سال کا عرصہ (۱۹۴۶ء۔۱۹۴۰ء) انڈین آرمی میں گزارا۔
یوں اسے ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کے گہرے مشاہدے کا سنہری موقع میسر آیا جس کا
اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ بالشبہ یہ انگریز سپاہی جو آگرہ میں مقیم رہا اورتاج محل
کبھی نہ دیکھ پایا مگر جب طویل رخصت پر گھر جاتا ہے تو تاج محل پر تحریر کردہ
ڈھیروں کتابوں کے مطالعے میں گھنٹوں مصروف رہتا ہے ۔ تاکہ وہ سفید سنگ مرمر پر
کندہ خوابوں کے بارے میں سواالت کے جوابات ڈھونڈ سکے ۔ رنپورــ ""Ranpurکے
ریلوے اسٹیشن پر اسے چائے بیچنے واال غمناک آواز میں ’’چائے واال‘‘ ’’ ،گرم چائے ‘‘
کی آواز یں لگاتے ہوئے ملتا ہے ۔ پان کے تھوکنے کے نئے اور پرانے نشانات ،جنھیں
کوئی اجنبی ملک سے آنے واال نیا مسافر خون کے دھبے سمجھ کر پریشان ہوجاتا ۔ قلیوں
کے غول پچاس گز کے ریلوے اسٹیشن پر مخصوص لباس پہنے دوڑتے بھاگتے نظر
آتے ہیں۔ کوئلے کی جلنے کی بواور دھواں ،پکے ہوئے پھل اور کپاس کے بُنے ہوئے
کپڑے جن پر انسانی پسینہ بہہ بہہ کر خشک ہو جاتا اور پھر از سر نو یہی عمل شروع
پاوں تیزی سے چلتے ہوئے قلی ،سروں پر وزنی بوجھ اٹھائے ،ہٹو بچو ہو جاتا ۔ ننگے ٔ
کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہر سو نظر آتے ۔ زرد بتی کے جلتے ہی مسافروں کا دوڑنا
بھاگنا ۔ یا لوہے کے ستونوں سے بنائے گئے اسٹیشن پر ٹرینوں کا انتظار کرتے ہوئے
مسافر۔ پھر کالے ہاتھوں کا لہرانا اور تیسرے درجے کے کمپارٹمنٹس میں بیٹھے
مسافروں کو خدا حافظ کہنا ۔ ان سب مناظر کو ناول کا حصہ بنا کر مقامی روایات کو
بخوبی اجاگر کیا گیا ہے ۔ جب ہری کمار اور ڈیفنی مینرس میاپور مندر میں جاتے ہیں تو
جوتے باہر اتارتے نظر آتے ہیں اوراسی طرح کی دوسری رسومات کا منظر نامہ گہرے
مشاہدے کا عکاس ہے۔
پال سکاٹ نے ہندوستان یا مقامی اصطال حات کا وسیع ذخیرہ استعمال کرتے ہوئے
مقامی زبانوں پر اپنی دسترس کا خوبصورت نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے ناول کے صفحات
میں کئی جگہوں پر درشن) ، (Darshanنمستے) ، (Namasteاچھا )،(Achcha
چھوٹا ہزاری ) ، (Chotahazariدرزی ) ، (Darziنمبو پانی )، (Nimbo Pani
سنیاسا )، (Sannyasaچپاتیاں )، (Chappatiesپوجا ) ،(Pujaنائی )، (Naiراگا
)(Ragaجیسی دیگر کئی اصطالحات نہایت مہارت سے متن کا حصہ بنائی ہیں ۔
بحیثیت مجموعی جب ناول کو تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے
کہ ناول کی ابتدا ایڈونا کرین ) (Edvina Craneکی کہانی سے ہوتی ہے جو کہ مشنری
ٹیچر ہے اور وہ اپنے ماتحت مسٹر چوہدری ) (Mr. Chaudhuriکے ہمراہ باہر نکلتی
ہے تو باہر ایک جلوس کی زد میں آ جاتی ہے جو کہ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد کے
اعالمیے کے بعد نکاال جا رہا ہوتا ہے اور عوام میں اشتعال پایا جاتا ہے وہ ان دونوں پر
حملہ آور ہوجاتے ہیں اور یوں مسٹر چوہدری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بعد
ازاں ڈیفنی مینرس " "Dephne Mannersاور ہری کمار " "Hari Kumarکے
معاشقے کے بعد ایک ایسا المیہ جنم لیتا ہے جو کہ بہت ہی افسوسناک ہے اور اس میں
بھی منفی کردار رونالڈ میرک " "Ronald Merickکا سامنے آتا ہے جو کہ ڈسٹرکٹ
پولیس کا سپرنٹنڈنٹ ہے(اس کردار کی حیرت انگیز مماثلت مشہور پنجابی رومانوی
داستان ہیر رانجھا کے کردار کیدو سے ہے) اور استعماری حکومت کا نمائندہ کردار ہے
یوں ڈیفنی مینرس کی عصمت دری کا واقعہ ایک بہت بڑے بحران میں اس طرح تبدیل ہو
جاتا ہے کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کو ہی الجھا کر رکھ دیتا ہے۔ دوسرے
لفظوں میں ہندوس تان کی سیاسی فضا کچھ یوں مکدر ہوتی ہے کہ انگریزوں کے لیے
اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔
وزیراعلی
ٰ دوسری جلد The Day of Scorpionکا آغاز ایک سابق کانگریسی
محمد علی قاسم کی ۹اگست ۱۹۴۲ء کو گرفتاری کے واقعے سے ہوتا ہے اور یہ بھی
’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ قرارداد پیش ہونے کے بعد کا دن ہے۔ گورنر اسے مستعفی ہونے
کی ترغیب دیتا ہے مگر محمد علی قاسم اس کی باتوں میں نہیں آتے ۔ اسی طرح لیٹن
فیملی ) (Laytonکا تذکرہ ملتا ہے جس میں جان لیٹن ) (John Laytonکی سوتیلی ماں
ہندوستانیوں سے اظہار ہمدردی کرتی ہے اور خاص طور پر سانحہ جلیانوالہ باغ کے
متاثرین کے لیے چندہ جمع کرتی ہے ۔ پھر ۱۹۴۴ء کا سال آتا ہے اور ہری کمار کا کیس
دوبارہ کھو ال جاتا ہے ۔'، 'Nigel Rowanکمار سے تفتیش کرتا ہے اور تفصیلی
انکوائری کے نتیجے میں میرک ) (Merrickکی نفرت سامنے آتی ہے اور اس کے ظلم
کی داستان بھی کھلتی ہے ساتھ ہی ہری کمار کی بے گناہی بھی آشکار ہوتی ہے ۔ یہاں
بھی تاریخی طور پر برطانوی استعماری جبر اور مقامیوں کے بے یارو مدد گار ہونے
کی کیفیت ناول کے صفحات پر ابھرتی ہے ۔
تیسرے حصے " "The Tower of Silenceکی کہانی بھی زیادہ تر باربی بیچلر
Barbie Bachelorجو کہ پروٹسٹنٹ مشن سکول کی سپر نٹنڈنٹ ہے اس کے کردار
کے گرد گھومتی ہے مگر اس میں بھی ہمیں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان عبوری
حکومت کی تشکیل کے حوالے سے تفصیلی بحث ملتی ہے ۔ اس میں نہرو کے زیر
قیادت کانگریس حکومت میں شمولیت کی تجویز دیتی ہے جبکہ جناح مخالفت کرتے ہیں ۔
چوتھے حصے" "A Divisions of the Spoilsکا آغاز بھی دوسری جنگ
عظیم کے خاتمے جیسے تاریخ ساز واقعے کے ذکر سے ہوتا ہے ویول Wavel
ہندوستان کے وائسرائے کے طور پر ہندوستان پہنچتے ہیں اور محمد علی قاسم کو بھی
قید سے رہائی ملتی ہے ۔ ہندوستان کی آزادی بالکل قریب دکھائی دیتی ہے ۔ پورے ملک
میں فسادات بھڑک اٹھے ہیں ۔ رونالڈ میرک " "Ronald Merrickکا بڑی بے رحمی
سے قتل کیا جاتا ہے ۔ تقسیم ہند کے فسادات عروج پر ہیں انگریز شورش زدہ عالقوں
سے بذریعہ ٹرین فرار کی کوشش کرتے ہیں احمد قاسم ' 'Ahmed Kasimکو ایک
ایسے غدار کے طور پر ہجوم سے پکڑ کر باہر نکاال جاتا ہے جو کہ انگریزوں کا
حمایتی ہے احمد قاسم دوسرے گوروں کی جان بچاتے ہوئے خود کو بپھرے ہوئے ہجوم
کے حوالے کر دیتا ہے اس طرح ناول کا اختتام قاسم کے ہولناک قتل سے ہوتا ہے ۔
پال اسکاٹ نے بالشبہ راج کوارٹٹ میں تاریخ اور فکشن کا ادغام کچھ اس طرح
سے کیا ہے کہ تاریخ نے اس ناول کے پالٹ میں روح پھونک دی ہے ساتھ ہی کچھ
تاریخی اغالط یا مغالطوں کے اصالح کی کوشش بھی کی ہے ۔ مگر ناول کی سطور کے
گہرے مطالعے سے جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پورے ناول میں ناسٹلجیا کی
کیفیت کچھ اس طرح سے حاوی ہے کہ یاد ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کے لب
و لہجے میں گہری افسردگی در آئی ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم اور قاب ِل غور بات یہ
ہے کہ یہ افسردگی اور ترحم کی کیفیت محکوم اور زیر دست ہندوستانیوں سے زیادہ
انگریزوں کے لیے محسوس ہوتی ہے جو حاکم اور باال دست ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ
بھی ہو سکتی ہے کہ پال اسکاٹ ہندوستان میں انگریزوں کے بڑے دشوار اور کٹھن
اوقات میں گزارے ہوئے لمحات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور کئی پر تشدد واقعات
کا ذکر کرتے ہوئے ان سانحات کی ذمہ داری بھی حاکم انگریزوں کے بجائے محکوم
ہندوستانیوں پر عائد کرتے ہیں جبکہ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان اختالف ،
رنجش اور باہمی مخاصمت کو وہ فریقین کی غلط فہمیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کہ
دونوں اقوام ایک دوسرے کو صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام رہیں اور یوں ان کے
درمیان گہری خلیج حائل ہو گئی اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی کے بجائے
اضافہ ہوتا چال گیا ۔ پال اسکاٹ اگرچہ دونوں اقوام میں سے کسی ایک کو کلی طور پر
ذمہ دار نہیں ٹھہراتے مگر بین السطور اس امر کا پرچار ضرور کرتے نظر آتے ہیں کہ
انگریز بنیادی طور پر بہت اچھے اور قابل منتظم ہیں جو کہ پس ماندہ اور جاہل ہندوستانی
قوم کی مدد کر نا اور ان کے حاالت کو سدھارنا چاہتے ہیں مگر ان کی صرف ایک
غلطی یہ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے احساسات و جذبات کو ان کی مشرقی روایات اور
ترجیحات کو سمجھنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں ان کی مغربی ثقافت اور اقدار
ت بے جا تصور کرتے ہوئے انھیں مقامی آبادی کی طرف سے کی نشرواشاعت کو مداخل ِ
سخت رد عمل جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔
ہندوستانی حیات و معاشرت کی عکاسی کے حوالے سے پال اسکاٹ کا نقطہ نظر
دوسرے مصنفین جیسے کپلنگ ' ، 'Rudyard Kiplingفاسٹر ' ، 'E.M.Forsterڈائیو
ر ' 'Maud Diverوغیرہ سے مختلف ہے اسکاٹ پورے غور و فکر اور احتیاط کے ساتھ
مشرق اور مغرب میں پائی جانے والی بنیادی عدم موافقت اور تضاد کو بیان کرنے سے
کچھ گریز بھی کیا ہے اور موازنہ و مقابلہ سے ان میں پائی جانے والی مماثلت اور
یکسانیت کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ اس کے ناولوں میں ہندوستان کی کثیر
عوام کے بالمقابل ہندوستان کی گورننس کے مسئلے کو بھی سامنے النے کی کاوش کی
گئی ہے ۔ جس کے بارے میں کپلنگ نے کبھی کچھ تحریر نہیں کیا جبکہ فاسٹر نے
ٹیڑھے اور غیر عمودی طریقے سے بیان کرنے کی سعی کی ۔ کپلنگ کی طرف سے
ایمپائر کی خام قسم کی تائید اور حمایت نے اس کے کام کی ادبی اہمیت پر منفی اثرات
مرتب کیے ہیں اسی طرح فاسٹر نے جو راج کا تذکرہ کیاہے وہ بھی محدود نوعیت کا ہے
کیونکہ کپلنگ کی طرح اس کا ہندوستان بھی الزمی طور پر تاریخ سے حدِفاصل پر رہتا
ہے ۔ اسکاٹ کی رائے میں ہندوستان میں برطانوی مشن یا مشرق و مغرب کے درمیان
رشتہ منا کحت اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا کہ انگریز حکمرانوں کا رویہ مقامی
عوام کے ساتھ بے گانگی اور اجنبیت پر مبنی رہا۔ اس کی خوبصورت مثال پال اسکاٹ
نے " "In the Tower of Silenceمیں باربی بیچلر ' 'Barbie Batchelorکے
ذریعے بیان کی ہے جب اس نے میبل ' 'Mabelکی طرف سے پیوند کاری کر کے
انگریزی (بدیسی) گالب کو ہندوستانی سر زمین پر کاشت کرنے کی کوشش کی ۔ مگر
پھر وہ خدا کی سر زمین پر اجنبی بن کر رہے اور اس کو اپنی غلطی بھی قرار دیا ۔
بعض مصنفین نے اپنی رزمیہ اور نثری داستانوں اور تاریخی ناولوں کو دلچسپ
اور مقبول بنانے کے لیے وقت کے عام مذاق اور رجحان کے مطابق غیر حقیقی اور نیم
تاریخی کرداروں کے عالوہ غیر مصدقہ واقعات اور تفصیالت کا سہارا لیا مگر پال
اسکاٹ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے صرف ایک مورخ کے طور پر نقطہ
نظر پیش کرنے کے بجائے اپنی مہارت کا ثبوت دستاویزی اور تخیالتی صداقت کے باہم
اتصال سے برصغیر کے عوام اور محل و مقام کے ایسے بھرپور پورٹریٹ کی شکل میں
پیش کیا ہے جس کا ثانی رسمی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
بنیادی طور پر جان ماسٹرز کا ناول بھوانی جنکشن اینگلوانڈین کرداروں کی ذاتی
شناخت کا ناول ہے۔ جس میں تاریخ اور رومان کا خوبصورت امتزاج ہے بھوانی جنکشن
۱۹۵۴ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول جان ماسٹرز نے اس عہد تالطم خیز میں تحریر کیا
جب انگریز ہندوستان کو الوداع کہہ کر اقتدار مقامی افراد کے حوالے کر کے واپس جا
رہے تھے۔ ایسے میں اینگلو انڈین کمیونٹی ایک خاص قسم کی کشمکش میں مبتال نظر
آتی ہے کیوں کہ ایک طرف ان کی وفاداریاں برطانوی حکمرانوں کے ساتھ ہیں جو کہ
برصغیر سے رخصت ہو رہے ہیں ساتھ ہی ان کی ہمدردیاں مقامی اکثریتی آبادی کے
ساتھ بھی ہیں۔ اس ناول کو مصنف نے اسی کمیونٹی کی نذر کیا ہے جس کے بیشتر کردار
دہلی دکن انڈین ریلوے سسٹم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یوں اس ناول کی کہانی تاریخ اور
رومان کے سنگم پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے یہی نہیں کہ جان ماسٹرز نے
ت روز و شب کو اپنے اس ناول میں اینگلوانڈین کمیونٹی کے عادات و اطوار اور معموال ِ
گہرے مشاہدے کی مدد سے قرطاس پر منتقل کیا ہے بلکہ ہندوستانی معاشرے میں
صدیوں سے رائج ذات پات کے نظام اور دوسری تحریکوں اور عصری حاالت کو بھی
ناول کے صفحات میں اجاگر کیا ہے۔ مگر بنیادی طور پر یہ اس کمیونٹی کے لوگوں کی
ثقافتی اور تاریخی روایات کے مابین جھولنے کی کیفیت کی عکاسی ہے یوں ان کے اذہان
میں پائی جانے والی گومگوئی اور دو جذبی کیفیت کے ساتھ ان کی گہری نفسیاتی اور
ذہنی کشمکش کو بھی بیان کیا ہے کیوں کہ ایسے وقت میں وہ جس قسم کی اذیت ناک
صورت حال سے گزر رہے ہیں اس صورت حال کو ہمدردی کے ساتھ مصنف نے بیان
کیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس طبقے کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو
انگریزوں سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ اپنی قسمت اور مقدر کو خود بنانے کی کوششیں
کریں۔
آج ہندوستان میں برطانوی نوآبادی یعنی ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد از
تقسیم حاالت سے متعلق لکھے جانے والے ناولوں کی کمی ہر گز نہیں۔ ان میں مختلف
تناظرات کی عکاسی بھی ملتی ہے جیسے کہ استعمار کی مخالفت ،محب وطنی کے
جذبات اور فرقت وطن کی پرانی یادوں کا تذکرہ وغیرہ۔ اگرچہ ان میں سے اکثر ناولوں
میں قبل از نوآبادیات و مابعد نوآبادیات ہندوستان میں مقیم اینگلوانڈینز کو خصوصی اہمیت
دی ہے اور انہیں مختلف حاالت میں جس قسم کی تکلیف دہ اور ناگوار صورت حال سے
دوچار رہنا پڑا اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے مگر جان ماسٹر ان چند اینگلوانڈین لکھاریوں
میں سے ایک ہیں جنہوں نے بڑے ہی ٹھوس اور مستند طریقے سے اس کمیونٹی کی
حالت زار کو اجاگر کیا ہے۔
پورا ناول ایک افسانوی قصبے ’’بھوانی‘‘ کی فضا میں رچابسا ہے۔ ناول کے
مرکزی کرداروں میں وکٹوریہ جونز " "Victoria Jonesاس کا ریلوے میں مالزم
خاندان ،اور ایک سول سرونٹ " "Patrick Taylorجو کہ اینگلوانڈین طبقے کی
نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر ناول کی ہیروئن وکٹوریہ کی اپنی شناخت کی تالش
کی جدوجہد اس امر کی غماز ہے کہ اس دور کا اینگلو انڈین طبقہ کس قسم کی ذہنی
کشمکش ،تنہائی اور اذیت سے دوچار ہے۔ وکٹوریا اس بات کو سمجھتی ہے کہ جب
انگریز حاکم ہندوستان کو الوداع کہہ دیں گے تو خود ان کے وجود کو بھی کئی مسائل کا
سامنا ہو گا اور دوسرے لفظوں میں ان کے وجود کی معنویت خطرے میں پڑ جائے گی
کیونکہ ان کا وجود بنیادی طور پر ایک منقسم وجود ہے اب تک نہ تو وہ مکمل طور پر
انگریز بن سکے ہیں اور نہ ہی ہندوستانی بن سکے ہیں۔ مگر وہ ہندوستان میں رہتے
ہوئے ہندوستانی ثقافت ،اعتقادات و رسومات کو اپنانے کی بہت کوشش کرتی ہے۔ مگر
اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بچپن ہی سے انگریزی تہذیب اور خیاالت و اعتقادات
بھی جاگزیں ہیں یوں وہ ان دو انتہائوں کے مابین معلق رہتی ہے اور دوسری طرف
انگریز بھی ان اینگلوانڈین خواتین کو محض جنسی تسکین کا سامان سمجھتے ہیں ایسے
میں رنجیت سنگھ جو کہ ریلوے کے افسر ہیں ان کی والدہ سردارنی ""Sardarni
وکٹوریہ کو اس معاشرے میں اپنی شناخت کی آگہی کے حصول کے بارے میں ابھارتی
ہے اور اسے یہ احساس دالتی ہے کہ تمام ہندوستانی عوام برطانوی حکمرانوں کے لیے
ایسے محکوم ہیں جن کے ساتھ وہ ہر قسم کا ناروا برتائو کر سکتے ہیں اسی لیے وہ
وکٹوریہ کے ساتھ ساتھ دوسرے ہندوستانیوں کو بھی اپنے مقام کی آگہی اور شناخت کے
بارے میں اکساتی ہے اور انگریزوں کی حاکمیت کے خالف آواز بلند کرتی ہے اور
ہندوستانیوں کو ان کے حقوق یاد دالتی ہے۔
بھوانی جنکشن کے باالستعیاب مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبی بحران
کے اس مرحلے میں جس فریق کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہ دوسرے پر حاوی ہو کر اسے
اپنی گرفت میں لینے کی پوری کوشش کرتا ہے خواہ وہ مقامی ہو یا غیر مقامی۔ اس ناول
میں بادی النظر میں کچھ ایسا ہی وقوع پذیر ہوتا ہے کہ ایک مقامی کردار ایک دوسرے
غیر مقامی کردار کو اپنے مکمل دبائو میں النے کی کوشش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے
اہم اثرات میں سے ایک اہم پہلو بھی یہی ہوتا ہے کہ نوآبادکار یا حاکم محکوموں کی
انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی تہذیبی شناخت کو بھی مٹانے کی
کوشش کرتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ نوآبادیاتی معاشروں کی تہذیبی جڑیں کاٹ کر
وہاں کے لوگوں کی ذہنی تبدیلی کا عمل بروئے کار التے ہیں اور یہ عمل دو طرفہ ہوتا
ہے۔
اس ناول میں بھی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے مگر اس کے نتائج مختلف
سامنے آتے ہیں ۔ وکٹوریا ایک انگریز کردار سے بھی دور ہو جاتی ہے اور مقامی کردار
سے بھی اسے نباہ مشکل نظر آتا ہے۔ قاری کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو انگریز
کے ساتھ خوش اور مطمئن رہ سکتی ہے اور نہ ہی کسی ہندوستانی کے ساتھ۔ بلکہ اس کا
لمحہ انکشاف
ٔ موزوں ساتھی اس کی اپنی نسل کا اینگلوانڈین ہی ہو سکتا ہے۔ اور یہی وہ
ہے جب وکٹوریا اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس کی شناخت نہ انگریز بننے سے تکمیل
پذیر ہوتی ہے اور نہ بطور ہندوستانی۔ بلکہ اس کی شناخت صرف اور صرف ایک حقیقی
اینگلوانڈین ہونے میں ہی مضمر ہے اس طرح ناول کے مصنف نے اینگلوانڈینز کرداروں
کے اذہان میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی
ہے کہ وہ بغیر کسی خوف ،خدشے اور کمتری کے احساس کے اپنی اصل شناخت کے
ساتھ بخوبی زندگی بسر کر سکتے ہیں انہیں کسی بھی دوسری مصنوعی شناخت کا
سہارا لینے یا اس کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہر گز نہیں۔ اس طرح مصنف اینگلو انڈین
کمیونٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کے عالوہ ان میں اطمینان اور ہم آہنگی کی فضا
پیدا کرنے کی سعی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
ان تمام نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر تہذیبی نظام
دراصل ،معینہ نظام اقدار کے حامل ایک مکمل علمی و فکری پیٹرن کا نمائندہ ہوتا ہے
جس سے کسی تہذیب کی علیحدہ شناخت متعین ہوتی ہے۔
یہی حال ادب کا بھی ہے۔ عصری تقاضا یہ ہے کہ ادب کو نسلی ،مذہبی اور
نظریاتی تفریق ،امتیاز اور تعصبات سے کلی طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ مگر انگریزوں
کے عہد میں تحریر کردہ جو ادب راقم کے پیش نظر رہا وہ بہت کم سیاسی اغراض سے
خالی ہے۔ اس ادب کے مقاصد میں ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنا،
مسلمانوں کے دلوں میں ان کے نامور اسالف اور شاندار ماضی کی وقعت کو کم کرنا اور
اپنی حکومت کی عظمت و برتری کا نقش جمانا شامل تھا۔ انصاف ودیانت کا تقاضا یہ ہے
کہ کسی بھی تہذیب کے کچھ منفی پہلوئوں کو بھی کسی حد کے اندر محدود رکھا جائے
اور اس تہذیب کے عیوب و محاسن دونوں کو احتیاط سے اجاگر کیا جائے۔
ہمیں سماج کو ایک ُکل کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسا ُکل جس کے بہت سے
جزو اور پہلو ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایک جزو پورے کل پر حاوی ہو جائے۔
ادیب کا تعلق خواہ کسی نسل ،نظریے ،عقیدے یا مذہب سے ہو مگر اس کا تخلیقی عمل ان
عوامل کے تا بع نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ ادب جو کسی عقیدے ،نظریے یا کسی بھی قسم کے
تعصبات کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ادبی میزان میں اپنا وزن کم کر
دے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی تہذیب کا ابالغ اور فروغ ضرور پیش نظر ہو
مگر اس قیمت پر نہیں کہ کسی بھی دوسری تہذیب اور خاص طور پر محکوم قوموں کی
تہذیب و ثقافت کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے یا اسے کم تر ثابت کرنے کے لیے مختلف
ہتھکنڈے بروئے کار الئے جائیں۔ وہ ادب جو کسی بھی قسم کی باالدستی الگو کرتا ہے۔
عصر حاضر کے نئے حقائق ِ وہ اپنا ادبی وقار کھو بیٹھتا ہے۔ ماضی کے تجربات اور
کے ادراک کے ذریعے ہم مستقبل کے شاندار امکانات یقینا تالش کر سکتے ہیں۔ مگر اس
کے لیے ہمیں ہر قسم کی عصبیت کو چھوڑ کر ایسی راہ اختیار کرنا ہوگی جو شدت
پسندی اور روشن خیالی کی انتہائوں کے درمیان ہو اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی
رکھتی ہو۔
سفارشات
ادب کے طالب علموں کی ذہنی کشادگی اور فکر کی وسعت کے لیے ضرور ی
ہے کہ مختلف ملکوں اور قوموں کے ادبیات سے شناسائی حاصل کی جائے۔ اس لحاظ
سے ہر وہ قدم مستحسن ہے جو بین االقوامی ادبیات کی ایک جھلک دکھانے کی طرف
اٹھتا ہے کیوں کہ آج کے کثیر الثقافتی اور عالمگیریت کے عہد میں عالمی ادب کا مطالعہ
جہاں ادبی اور فکری شعور میں اضافہ کرتا ہے وہاں ان دباء کے نظریات اور افکار بھی
قابل توجہ ہیں جو خود انسان کی فکری اور نظریاتی تربیت کے لیے قیمتی آثار ہیں۔
انسانی اقدار کے مختلف گوشوں سے آشنائی کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے
کی تہذیب و معاشرت کو سمھنے میں معاون بھی ہیں۔ اسی لیے آج کے تہذیبی کشیدگی
کے دور میں اسی ادب کو مختلف تہذیبی پس منظر رکھنے والے افراد اور معاشروں کو
آپس میں قریب النے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خصوصا ً اینگلو انڈین ناولوں کا
مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان ناولوں کا خاص پس منظر اور الگ اسلوب ہے
جسے برصغیر کی مقامی تہذیبوں کے تاریخی ،تہذیبی و ثقافتی اور دینی عناصر کے تال
میل سے تشکیل دیا گیا تھاا ور ان ناولوں کے کردار اور کہانیاں برصغیر کے عالوہ
بیرون برصغیر تک ہی پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں مقامیت کے ساتھ ساتھ عالمی زاویہ
بھی اجاگر ہوتا نظر آتا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ ان ناولوں کے موضوعات بھی
خاصے وسیع ہیں جیسے کہ تہذیب و ثقافت ،نسلی امتیاز ،تہذیبی تصادم ،جنریشن گیب،
تنہائی و بیگانگی ،انسانی دوستی ،شناختی بحران وغیرہ۔ اسی لیے ان تمام وجوہات کو
پیش نظر رکھتے ہوئے حسب ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔
اینگلو انڈین ناول جو کہ ہماری تہذیب اور معاشرت سے جڑے ہوئے ہیں ان )(1
ناولوں کے اردو تراجم پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔
نوآبادیاتی عہد کے محضر نامے کو سمجھنے کے لیے اس عہد میں تحریر )(2
کردہ ناولوں کا خصوصی تحقیقی مطالعہ مابعدنوآبادیاتی تھیوری (Post Colonial
)Theoryکا اطالق کرتے ہوئے کیا جائے۔
ان ناولوں کے انفرادی مطالعات کو بھی ممکن بنایا جائے۔ )(3
ان انگریزی ناولوں کے مطالعے دوران منشائے مصنف کو جانچنے اور ان )(4
کے متن کے مخصوص کوڈز کو سمجھنے اور خفیہ گوشوں کو منظر عام پر النے کے
لیے اردو زبان میں بھی ایسے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں جن سے محققین کو
تحقیق میں رہنمائی اور مدد فراہم ہو سکے۔
سامراجی عہد کے ان اہم فن پاروں کو ماضی میں جا کر دیگر تواریخ کو )(5
پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تناظر میں بھی پڑھا اور سمجھا جائے۔
برصغیر کی عصری تاریخ اور ناولوں میں پیش کردہ تاریخی حقائق کا )(6
تقابلی مطالعہ معاصر تہذیبی و تاریخی شعور کی روشنی میں کیا جائے۔
اینگلو انڈین ناول نگاروں اور مقامی ادباء کی انگریزی تحریروں کا تقابلی )(7
مطالعہ کیا جائے۔
اردو میں ان ناولوں کے خصوصی مطالعات کے لیے ماہرین سے علمی )(8
اصطالحات وضع کرائی جائیں تاکہ تحقیقی معیار برقرار کھا جا سکے۔
ان ناولوں میں بین السطور انگریزوں کے سیاسی اغراض کا مطالعہ اور )(9
محاکمہ بھی پیش کیا جائے۔
مقامی اردو تخلیق کاروں اور اینگلو انڈین ناول نگاروں کے درمیان مختلف )(10
پہلوئوں کے تقابلی مطالعے کے لیے فضا ہموار کی جائے۔
اینگلو انڈین ناول نگاروں کا آپس میں بھی تقابلی مطالعہ کرایا جائے۔ )(11
ان ناولوں کے کرداروں کا نوآبادیاتی پس منظر میں کرداری جائرہ پیش کیا )(12
جائے۔
کتابیات
بنیادی مآخذ )(Basic Works
E. M. Forster, A passage to India, Penguine classics Ltd.
Harmondworth. England 1979
John Masters, Bhowani Junction, Penguin Books, New Delhi,
2007
Rudyard Kipling, Kim, Puffin Classics, London, 1987
Rudyard Kipling, The Second Jungle Book, Picolo Books,
Macmillan, London, 1980
Scott, Paul, A Division of the Spoils, Arrow Books, Random
House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 2005
Scott, Paul, The Day of Scorpion, Prologue, Arrow Books,
Random House, 20 Vauxhall Bridge Road London, 1997
Scott, Paul, The Jewel in the Crown, University of Chicago Press,
USA, 1998
Scott, Paul, The Tower of Silence, Arrow Books, Random House,
20 Vauxhall Bridge Road London, 2005
Willian Thackery, Vanity Fair, Edited by John Souther Land,
Oxford University Press, UK, 1982.
(Thesis) مقاالت
غیر مطبوعہ مقالہ برائے، اردو ناول میں عصری آگہی، مقالہ نگار،سید کامران کاظمی
۲۰۱۳ ، وفاقی اردو یونیورسٹی اسالم آباد،پی ایچ ڈی
Alen a Michalkova, British and Indian Identities and clashes in
Paul Scott's The Jewel in the Crown" Bachelor Major Thesis,
Masaryk University 2007
Aruna, Shrivastava, The Pageant of Empire, Paul Scott's The Raj
Quartet, PhD Thesis, MC Master University, November 1988.
Geneviave, Gagne-Hawes, Shadows of the Raj, PhD Thesis, The
University of British Colombia, November 2012.
Safeer, Muhammad, Transcending the Raj? An Analysis of
Rudyard Kipling's Kim in Saidian Orientalists Perspective, PhD
Thesis, NUML, Islamabad, 2009
Sara Rhoads Nilsen, Power, Distance and Stereotyping Between
Colonizer and Colonized and Men and Women in A Passage to
India, M. A Thesis, The University of Oslo, 2011.