You are on page 1of 21

‫اموی معاشرہ‬

‫اموی کا معاشرہ‬

‫علم و ادب‬

‫اسالم نے حصول علم کی جس طرح حوصلہ‬


‫افزائی کی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اموی قوم کے‬
‫افراد نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ قرآن و حدیث کو اپنے‬
‫سینوں میں محفوظ کیا۔ ان کی تعلیمات کو‬
‫سمجھا اور دنیا بھر کے معلم قرار پائے۔ انھوں نے‬
‫دوسری قوموں کے عوام سے بھی فائدہ اٹھایا اور‬
‫حقائق کو قصے کہانیوں سے الگ چھانٹ کر ان کو‬
‫نئے اسلوب سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ایک‬
‫تدریجی عمل ہے۔ جس کا آغاز نبوت اور خالفت‬
‫راشدہ میں ہوا اور جس کے بھرپور مظاہر خالفت‬
‫عباسیہ میں سامنے آئے۔ عہد بو امیہ میں یہ ارتقا‬
‫غیر محسوس طریقے سے جاری رہا‬

‫قرآن‬

‫اموی دور کی فتوھات نے ان عالقوں کی تعداد‬


‫میں بہت اضافہ کر دیا جہاں اسالم کی تبلیغ ہو‬
‫سکتی تھی۔ چنانچہ مفتوحہ قوموں کے بے شمار‬
‫افراد نے قرآن پاک لکھنا شروع کیا لیکن ان کے لیے‬
‫اعراب کے بغیر کتاب کو پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس‬
‫لیے عبد الملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں‬
‫قرآن پاک پر اعراب لگوائے اور ایک جیسے حرف کو‬
‫ایک دوسرے سے ممیز کرنے کے لیے نقطے لگائے‬
‫گئے۔ عبد الملک خود قرآن پاک سے گہرا شغف‬
‫رکھتا تھا اور عمر بن عبد العزیز کی دینی ذوق کے‬
‫بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان دونوں‬
‫خلفاء کے زمانوں میں قرآن پاک کے حفظ کے بارے‬
‫میں تفسیر لکھنے کی طرف بھی خصوصی توجہ‬
‫دی گئی۔ اموی دور کے مشہور مفسرین قرآن میں‬
‫عکرمہ‪ ،‬قتادہ بن دعامہ سروسی‪ ،‬مجاہد بن جبیر‪،‬‬
‫سعید بن جبیر اور حسن بصری معروف ہیں اور‬
‫بعد کے مفسرین انہی کی آراء کے حوالے دیتے ہیں۔‬
‫حضرت علی کے ایک رفیق اور حمزہ اور امام باقر‬
‫نے بھی تفاسیر لکھی تھیں۔‬

‫حدیث‬

‫حدیث کی تدوین کے نقطہ نظر سے بھی اموی دور‬


‫بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دور میں‬
‫بعض صحابہ تابعین کی کثیر تعداد اور تبع تابعین‬
‫موجود تھے۔ اس لیے فطری طور پر یہ روایات جمع‬
‫کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا دور تھا۔ حضرت عمر‬
‫بن عبد العزیز نے اس شعبہ کی طرف توجہ فرمائی‬
‫اور احادیث کے مجموعے مرتب کروائے اور ان کی‬
‫نقول دور دراز کے علمی مراکز کو بھجوائیں۔ خالد‬
‫بن معدان‪ ،‬عطا بن ابی رباح اور عبد الرحمن ( جو‬
‫حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پوتے تھے) کے‬
‫صحیفے اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر‬
‫ہیں۔ ثمرہ بن جندب اور وہب بن منبہ کی بیاضیں‬
‫ان کے عالوہ تھیں۔ ہشام بن عبد الملک نے امام‬
‫زہری سے چار سو احادیث کا مجموعہ مرتب‬
‫کروایا۔‬

‫فقہ‬

‫قفہ کی ترقی کے اعتبار سے بھی یہ دور انتہائی‬


‫اہم ہے۔ احکام دین کی تشریح کے لیے اس زمانے‬
‫میں صحابہ زادے موجود تھے جو بیک وقت‬
‫محدث بھی تھے اور فقیہ بھی۔ انھیں صرف ایک‬
‫واسطے سے بارگاہ رسالت سے فیض ہونے کا موقع‬
‫مال تھا۔ اس لیے ان کی آراء بہت دقیع ہیں۔ ان فقہا‬
‫میں عبید اللہ بن عبد اللہ بن مسعود‪ ،‬عروہ بن‬
‫عوام‪ ،‬قاسم بن محمد بن ابی بکر‪ ،‬سعید بن مسیب‪،‬‬
‫سلیمان بن یسار‪ ،‬ابوبکر بن عبد الرحمن اور خارج‬
‫بن زید کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے عالوہ ابراہیم‬
‫نخعی‪ ،‬امام شعبی‪ ،‬امام جعفر صادق‪ ،‬عبد الرحمن‬
‫بن ابی سلمی اور قاضی شریح بھی اس دور کے‬
‫نامور فقہا ہیں۔‬

‫تاریخ‬

‫تاریخ نویسی کی بھی باقاعدہ ابتدا ہوئی۔ غزوات‬


‫کے حاالت اور سیرت کی کتب تیار کی گئیں۔ اس‬
‫سلسلے کی اہم کتب عروہ بن زبیر یا محمد بن‬
‫اسحق نے لکھیں۔ ابن اسحق کی مرتب کردہ سیرت‬
‫نبوی کی بنیاد ہی پر بعد میں سیرت ابن ہشام‬
‫مرتب کی گئی جو آج تک سیرت کی اہم ترین کتاب‬
‫ہے۔ قدیم عرب اور ایران کے ساسانی حکمرانوں کے‬
‫حاالت بھی اس دور میں قلمبند کیے گئے۔ امور‬
‫خلفاء کو ان سے خاصی دلچسپی تھی۔ جس کا‬
‫ثبوت یہ ہے کہ امیر معاویہ نے عبید سے ’’کتاب‬
‫الملوک و اخبار الماضین ‘‘ مرتب کروائی تھی۔‬
‫عواتہ بن حکم کلبی نے کتاب التواریخ اور سیرت‬
‫معاویہ بھی لکھیں۔‬
‫فلسفہ اور طب‬

‫فلسفہ اور طب کی جو ترقی عباسی دور میں‬


‫سامنے آئی اس کی خشت اول دور بنو امیہ میں‬
‫رکھی گئی تھی۔ یونانی فلسفہ و منطق کے اثرات‬
‫اسی دور ہی میں نظر آنے لگے تھے۔ معتزلہ فرقہ کے‬
‫بانی واصل بن عطاء اسی زمانے میں پیدا ہوا‪ ،‬جو‬
‫حسن بصری کی مجلس سے علیحدگی اختیار کرنے‬
‫ہی کی بدولت ’’معتزلی‘‘ کہالیا۔ یونانی طب نے‬
‫بھی اس زمانے میں فروغ پایا۔ حکیم عرب حارث‬
‫بن کالوہ اور اس کا بیٹا طائف کے معروف طبیب‬
‫تھے۔ ابن اثال جیسے مسیحی طبیب کی شہرت اور‬
‫سرپرستی امور حکمرانوں کی علم پروری اور غیر‬
‫متعصبانہ روش کی آئینہ دار ہے۔‬

‫شعر و شاعری‬

‫اموی حکمران شعر و شاعری کے سرپرست تھے۔‬


‫امیر معاویہ‪ ،‬یزید اول‪ ،‬عبد الملک سب کے سب‬
‫شاعروں کی قدر دانی اور سرپرستی کرتے۔ دربار‬
‫میں درباری شعرا موجود رہتے۔ عمر بن ابی ربیعہ‪،‬‬
‫جمیل نصیب اور لیلہ خیلیہ غزل گو شعرا میں‬
‫ممتاز تھیں۔ عمر بن ابی ربیعہ تو عربی غزل گوئی‬
‫کا بانی ہے قصیدہ گو شعرا میں فرزوق‪ ،‬جریر اور‬
‫اخطل مشہور و معروف شخصیتیں تھیں۔ اخلط‬
‫جو یزید اول کا مصاحب تھا خمریات کا بہت بڑا‬
‫شاعر تھا۔ ان قصیدہ گو شعرا میں سخت رقابت‬
‫رہتی۔ چنانچہ انھوں نے ایک دوسرے کے خالف‬
‫ہجویہ اشعار بھی لکھے۔ حماد الرادیہ نے قدیم‬
‫عرب شاعری کے نمونے جمع کیے۔ معلقات (سات‬
‫قصائد) اس کے مجموعہ میں کافی مشہور ہیں۔‬

‫خطاطی‬

‫عہد بنو امیہ میں کتابت اور انشاء کے فن نے بہت‬


‫عروج حاصل کیا۔ حکومت اور امرا کاتب مالزم‬
‫رکھتے تھے۔ فن انشاء کو سرکاری طور پر بہت‬
‫اہمیت حاصل تھی اور کئی کتابیں لکھیں گئیں۔‬
‫عبد الملک کا کاتب عبد الحمید اس فن کا امام تھا۔‬
‫چنانچہ کہا جاتا ہے کہ کہ کتابت عبد الحمید سے‬
‫شروع ہوئی اور ابن العمید (عباسی عہد ) پر اس‬
‫کا خاتمہ ہوا۔‬

‫فن تعمیر اور عمارات‬

‫اموی دور سے پہلے اسالمی فن تعمیر کا کوئی‬


‫وجود نہ تھا۔ سادہ سی عمارات بنائی جاتی تھیں۔‬
‫اموی دور میں ایرانی و رومی تہذیبوں کے ساتھ‬
‫رابطہ قائم ہوا تو پر شکوہ عمارات تعمیر کرنے کی‬
‫طرف توجہ دی گئی۔ فطری طور پر اس شان و‬
‫شوکت کا پہال مظاہرہ عظیم مساجد کی تعمیر کی‬
‫صورت میں ہوا۔ امیر معاویہ کے دور میں کوفہ کی‬
‫چھاؤنی تعمیر ہوئی تو اس کے وسط میں ایک‬
‫عظیم الشان مسجد بنائی گئی۔ بعد ازاں بصرہ کی‬
‫مساجد کی تعمیر نو ہوئی تو ساسانی معماروں کی‬
‫خدمات حاصل کی گئیں۔ ان دونوں عمارات میں‬
‫ساسانی طرز کے ستون بنائے گئے نیز بصرہ کی‬
‫مسجد میں پہلی بار ایک مینار تعمیر ہوا جو بعد‬
‫ازاں اسالمی فن تعمیر کا امتیازی نشان قرار پایا۔‬
‫امیر معاویہ کے زمانے میں خضرا محل کی تعمیر‬
‫سے رہائشی محالت کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع‬
‫ہوا۔‬

‫عبد الملک کے زمانہ میں اسالمی فن تعمیر میں‬


‫مزید ترقی ہوئی۔ قبتہ الضحراء فن تعمیر اور حسن‬
‫کے لحاظ سے اس دور کی اہم ترین عمارات میں‬
‫سے ہے۔ ضحراء پہاڑ کی وہ چھوٹی ہے جہاں شب‬
‫معراج کو آنحضور آسمان کی طرف روانہ ہوئے۔‬
‫مسلمانوں کے عالوہ یہ جگہ اہل کتاب کے لیے‬
‫مقدس تھی۔ عبد الملک نے اس مقام پر گنبد تعمیر‬
‫کرایا۔ فنی کمال اور حسن‪ ،‬گل بوٹوں‪ ،‬نگینہ کاری‪،‬‬
‫خوبصورتی‪ ،‬دلکشی اور پائداری کے لحاظ سے یہ‬
‫اسالمی طرز تعمیر کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے‬
‫اس تعمیر میں کچھ خام مال اور قیمتی پتھر‬
‫پرانے کھنڈر سے بھی لیے گئے۔ اس کے عالوہ عبد‬
‫الملک نے مسجد اقصٰی کی بھی تعمیر کی۔‬
‫خلفائے بنو امیہ میں ولید بن عبد الملک کا زمانہ‬
‫تعمیرات کے لیے بے حد مشہور ہے۔ اس کے زمانہ‬
‫کی مشہور عمارات جامع دمشق‪ ،‬جامع مسجد‬
‫دمشق‪ ،‬مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی اسالمی‬
‫تہذیب و تمدن اور فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ جامع‬
‫مسجد دمشق پر بے دریغ روپی خرچ کیا گیا روم‪،‬‬
‫ایران‪ ،‬مصر اور ہندوستان سے گاریگر منگوائے۔ تمام‬
‫دیواریں سنگ مرمر اور نگینوں کی پچی کاری سے‬
‫آراستہ کی گئیں۔ یہ مسجد اپنی تزئین و آرائش‬
‫پچی کاری اور خوب صورتی کی بنا پر دنای کا‬
‫چوتھا عجوبہ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں پہلے‬
‫مسیحیوں میں بیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے‬
‫تھے۔ چھتوں پر سونا اور فرش پر چاندی کا‬
‫استعمال کیا گیا تھا ساری عمارت سنگ مرمر اور‬
‫سنگ رفام سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس‬
‫پرمجموعی الگت کا کم سے کم اندازہ پچپن الکھ‬
‫اشرفی اور زیادہ سے زیادہ گیارہ کروڑ دینار الگت‬
‫آئی۔‬
‫مذہبی عمارات کے عالوہ تعمیرات کے میدان میں‬
‫مسلمانوں کی دیگر یادگاریں بھی ہیں مثًال‬
‫صحرائی محالت جن میں شاہی خاندان کے افراد‬
‫قیام کرتے تھے ان محالت میں قصر خضرا اور‬
‫قصر عمرو وغیرہ مشہور ہیں اس قسم کے‬
‫صحرائی محالت کے کھنڈر آج بھی موجود ہیں۔‬

‫مصوری‬

‫اسالم شبیہ سازی یا مجسمہ گری کی اجازت نہیں‬


‫دیتا۔ اس بنا پر مسجدوں میں کہیں بھی تصاویر‬
‫یا انسانی اور حیوانی شبیہ نہیں بنائی گئیں لیکن‬
‫چونکہ حسن اور اس کا استحسان فطرت انسانی‬
‫کا تقاضوں میں سے ایک ہے اس لیے ہندسی اشکال‬
‫یا پھل پھول کا سہارا لیا‪ ،‬یہ بیل بوٹے اور پھول‬
‫پتیاں اسالمی مصوری کی بنیاد قرار پائیں۔ خالص‬
‫توحید کے پرستاروں کا آغوش فطرت میں پناہ لینا‬
‫ایک قدرتی اور حقیقی فعل تھا بعض خلفاء نے‬
‫اپنے حماموں یا محالت کی دیواروں پر رجزیہ اور‬
‫فحش تصاویر کی نقاشی کو اختیار کیا لیکن بہ‬
‫حیثیت مجموعی اسالمی فن مصوری ان قباحتوں‬
‫سے پاک رہا‬

‫موسیقی‬

‫اسالمی کلچر اور تہذیب و تمدن میں نغمہ و‬


‫سرور‪ ،‬موسیقی اور راگ رنگ کو بطور فن اور‬
‫مشغلہ کے کبھی بھی پسندیدہ شمار نہیں کیا گیا‪،‬‬
‫بلکہ اسے لہو لعب قرار دے کر اس سے اجتناب ہی‬
‫کی تلقین کی گئی۔ ظہور اسالم سے قبل گیت‪ ،‬راگ‬
‫اور راگنیاں اور موسیقی کے ساز وغیرہ اہل عرب‬
‫میں رائج تھے لیکن خلفائے راشدین کے زمانہ میں‬
‫ایسی تمام سرگرمیاں فسق و فجور کے ذیل میں‬
‫شمار کی گئیں۔ اس لیے ان کو قبول عوام نہ ہو‬
‫سکا اور ایسے تمام فنون اور سرگرمیوں کی‬
‫حوصلہ شکنی کی گئی۔ بنو امیہ چونکہ شاہی‬
‫روایات اور اطوار کو اپنا چکے تھے اس لیے ایک بار‬
‫پھر راگ رنگ اور موسیقی کو خوب رواج ہوا‬
‫کیونکہ ان فنون کو اب مناہی کی بجائے شاہی‬
‫سرپرستی حاصل ہو گئی۔ مکہ اور مدینہ جو دینی‬
‫علوم کے مرکز تھے اب شعر و شاعری اور موسیقی‬
‫کے بھی سب سے بڑے خالق اور پرستار تھے۔‬

‫معاشرتی حالت‬
‫اموی حکومت بنیادی طور پر خالص عرب حکومت‬
‫تھی۔ اس لیے اس دور میں لوگوں کی معاشرتی‬
‫زندگی میں عرب عنصر غالب تھا۔ غیر عرب عوام‬
‫عربی تہذیب و ثقافت کو اپنا رہے تھے اور عجمی‬
‫عوام میں اس عربیت کے خالف رد عمل بھی‬
‫موجود تھا۔ معاشرے میں بظاہر کوئی طبقاتی‬
‫تقسیم نہ تھی۔ اس کے باوجود کئی قسم کے لوگ‬
‫پیدا ہو گئے تھے جو حاالت کے تقاضوں کے تحت‬
‫ایک دوسرے سے الگ نظر آتے تھے۔ جن واضع‬
‫طبقات کو پہچانا جا سکتا تھا وہ حسب ذیل تھے۔‬
‫حکمران خاندان کے افراد‬

‫اموی خلفاء شہزادے ان کے اعزہ و اقارب جو‬


‫وسیع زمینوں کے مالک بن چکے تھے۔ جس کی‬
‫آمدن سے عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے تھے۔‬
‫ان کو سیاسی اثر و رسوخ بھی حاصل تھا اور‬
‫اعلٰی مناصب پر بھی فائز کیے جاتے تھے۔‬

‫عام عرب‬

‫اگرچہ عام عرب حکمران طبقہ کے برابر تو نہ تھے‬


‫لیکن دوسرے مسلمانوں سے بلند نہ سمجھے جاتے‬
‫تھے اموی حکومت میں عربوں کو ہر معاملے میں‬
‫عجمیوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اس لیے ان کو‬
‫اونچے طبقے میں شمار کیا جاتا تھا‬
‫موالی‬

‫مفتوحہ عالقوں کے غیر عرب مسلمان کسی نہ‬


‫کسی عرب قبیلے کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرتے۔‬
‫بالخصوص آزاد کردہ غالم عرب قبائل کے ساتھ‬
‫منسلک ہو کر ’’موالی‘‘ کہالتے۔ موالی شروع میں تو‬
‫رشتہ محبت میں منسلک ہوئے لیکن عبد الملک بن‬
‫مروان کی عرب نواز پالیسی نے انھیں یہ احساس‬
‫دالیا کہ مسلمان ہونے کے باوجود عربوں کے مساوی‬
‫درجہ کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ بات اسالمی‬
‫مساوات کے تصور سے متصادم تھی۔ اس لیے ان‬
‫کے اندر رد عمل پیدا ہوا جو بنو امیہ کے خالف‬
‫باغیانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا موجب‬
‫بنا۔ نو مسلموں سے جزیہ کی وصول کا ضابطہ فی‬
‫الحقیقت بنو امیہ کے لیے تباہی کا پیغام لے کر آیا۔‬
‫ذمی‬

‫وہ لوگ تھے جنھوں نے اسالم قبول نہ کیا لیکن‬


‫جزیہ دینا منظور کیا اور مسلمان حکومت نے ان‬
‫کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی۔ اموی دور‬
‫میں ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک برقرار رکھا گیا۔‬
‫نو مسلم اموی حکومت کے خالف تھے لیکن ذمیوں‬
‫کو اس حکومت سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ اپنی‬
‫زمینوں پر کاشت کرتے‪ ،‬البتہ خراج کی رقم ادا کرنا‬
‫ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ اپنے مذہب پر عمل کرتے۔‬
‫ان کی عبادت گاہیں نہ صرف محفوظ تھیں بلکہ‬
‫حکومت کے حفاظت میں تھیں۔ ‪ 679‬میں ایک‬
‫زلزلہ کے سبب اوڈیسیا کا گرجا ٹوٹ گیا تو امیر‬
‫معاویہ نے سرکاری خرچ سے اس کی تعمیر نو‬
‫کروائی۔ ذمی اپنے ذاتی قانون کے تحت اپنے‬
‫مقدمات کا فیصلہ کروا سکتے تھے بلکہ اپنی‬
‫پنچایتوں میں خود مقدمات کا فیصلہ کر سکتے‬
‫تھے‬
‫غالم‬

‫اسالم نے غالمی کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ کئی‬


‫گناہوں کے کفارے کے طور پر غالم آزاد کیا جاتا‬
‫تھا۔ زکواۃ کی مد سے گردنیں آزاد کرانے پر کافی‬
‫رقم خرچ ہوتی۔ اس کے باوجود اس دور میں‬
‫غالموں کی ایک تعداد موجود تھی جو امرا کے‬
‫گھروں میں کام کاج کرتی۔ تاہم غالموں سے حسن‬
‫سلوک کے احکام پر عمل کیا جاتا۔ کوئی عرب غالم‬
‫نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ قبول اسالم کے بعد اکثر‬
‫غالموں کو کسی نہ کسی طریقے سے رہائی مل‬
‫جاتی لیکن مسلسل جنگوں میں جنگی قیدیوں کی‬
‫صورت میں نئے غالم اس معاشرے میں آتے رہتے ۔‬

‫عورتوں کا مقام‬

‫اموی معاشرہ میں عورت کو نہایت اعلٰی اور اونچا‬


‫مقام حاصل تھا۔ دنیا کی دیگر متمدن قوموں کے‬
‫مقابلہ میں انھیں بہت زیادہ آزادی حاصل تھی۔ وہ‬
‫معاشرہ میں قدرو منزلت اور عزت کی نگاہ سے‬
‫دیکھی جاتی تھیں۔ تعملی سرگرمیوں میں وہ‬
‫سرگرم حصہ لیتی تھیں۔ شعر و سخن کی محفلوں‬
‫میں بھی ان کا خاصا مقام تھا‬

‫ولید اول کی بیوی ام البیان اس دور کی اہم اور‬


‫نمایاں شخصیتوں میں سے تھی۔ معرفت و عرفان‬
‫کی دنیا میں حضرت رابعہ کا مقام بہت بلند تھا۔‬
‫انھوں نے اس دور کے تہذیب اور کلچر کو سنوارنے‬
‫اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ام البیان کا اثر‬
‫خلیفہ ولید پر بہت زیادہ تھا۔ ایک بار اس نے‬
‫حجاج بن یوسف کو اس کے ظالمانہ افعال پر‬
‫سخت تنبیہ کی۔ خلفائے بنو امیہ کے آخری دور‬
‫میں جب غالم کنیزوں کا حرام سرا میں دخل ہوا‬
‫تو حکمران طبقہ اخالقی تنزل کا شکار ہوا چنانچہ‬
‫جب عورت اور عیاشی ان متاخر خلفاء کے کردار‬
‫پر چھا گئیں تو ان کا نام و نشان تک مٹ گیا‬
‫معاشی حاالت‬
‫اموی دور حکومت بحیثیت مجموعی معاشی‬
‫خوشحالی کا دور ہے۔ اس دور میں فتوحات نے‬
‫مسلم معاشرے کو بے پناہ معاشی وسائل مہیا کیے۔‬
‫ایک وسیع و عریض اور مضبوط و مستحکم‬
‫حکومت کے قیام نے تجارت و صنعت کے لیے‬
‫سازگار ماحول پیدا کر دیے۔ قدیم زمانے سے ہی‬
‫مشرق ممالک کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات‬
‫قائم تھے۔ سیاسی و فوجی قوت کے اضافے سے ان‬
‫کی بحری تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ فتح‬
‫اندلس سے عرب تاجروں کے لیے یورپ کی منڈیوں‬
‫تک بھی رسائی حاصل ہو گئی تھی۔ ایران ترکستان‬
‫کی فتح اور سندھ کی تسخیر سے مشرق و مغرب‬
‫کے درمیان خشکی کے راسے سے تجارت میں کئی‬
‫گناہ اضافہ ہو گیا اور ایک عالقہ کی پیداوار کو‬
‫دوسرے عالقوں منتقل کرکے اس دور کے تاجروں‬
‫نے بہت دولت کمائی‬
‫اموی دور میں زراعت نے بھی خوب ترقی کی۔‬
‫حکومت نے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے خصوصی‬
‫اقدامات کیے۔ آبپاشی کے کئی منصوبے بنائے گئے۔‬
‫افتادہ زمینوں کو آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کی‬
‫گئی۔ پرانے زمانے کے روایتی جاگیردار جو زمین‬
‫کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے ختم‬
‫ہو گئے۔ مزارعین کو اگرچہ حکومت کو خراج ادا‬
‫کرنا پڑتا تھا لیکن ان کی حالت پہلے سے بہت بہتر‬
‫تھی۔ تجارتی ترقی نے ان کی زرعی پیداوار کے لیے‬
‫مناسب قمیت کا بندوبست کیا۔ فتح اندلس نے‬
‫مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کو مزید فروغ‬
‫دیا تو مشرقی عالقوں کے زراعت پیشہ لوگ مزید‬
‫خوشحال ہو گئے۔ تاہم اس حقیقت کو نظر انداز‬
‫نہیں کیا جاسکتا کہ اموی حکومت میں عربوں اور‬
‫غیر عربوں میں امتیاز روا رکھا گیا۔ اس کے نتیجے‬
‫کے طور پر اس خوشحالی کا زیادہ حصہ عرب‬
‫جاگیرداروں نے سمیٹا۔ عام کاشتکار رہنے سے بہت‬
‫بہتر معاشی پوزیشن کے باجود احساس محرومی‬
‫کا شکار ہو گیا۔ بنو امیہ کے خالف چلنے والی‬
‫تحریکوں میں اس کی شمولیت کا ایک بڑا سبب‬
‫اس کا یہ احساس محرومی تھا۔‬

‫اخذ کردہ از‬


‫«?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬
‫‪&oldid=5691266‬اموی_معاشرہ=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 7‬جنوری ‪2024‬ء کو‬


‫‪ 19:46‬بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس‬
‫کی مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like