Professional Documents
Culture Documents
امام مہدی علیہ السلام - wikishia
امام مہدی علیہ السلام - wikishia
محمد بن حسن (عج) (والدت 255ھ) ،امام مہدی ،امام زمانہ اور حجت بن الحسن جیسے القاب سے مشہور شیعوں کے
آخری اور بارہویں امام ہیں۔ 260ھ کو امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد آؑپ کی امامت شروع ہوئی۔ اس وقت آپ
غیبت میں ہیں اور ایک طوالنی غیبت کے بعد ظہور کریں گے۔
امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف
ائمہ معصومیؑن
امام علؑی • امام حسؑن • امام حسیؑن • امام سجاؑد • امام محمد باقؑر • امام صادؑق • امام موسی کاظؑم • امام رضؑا • امام محمد تقؑی •
امام علی نقؑی • امام حسن عسکرؑی • امام مہدؑی
امام حسن عسکرؑی کے دور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے آؑپ کے فرزند اور جانشین کی تالش میں تھے اس لئے
امام مہدؑی کی والدت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آؑپ کا
دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امام مہدؑی کی خفیہ والدت سبب بنی کہ بہت سے شیعہ آؑپ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید
کے شکار ہوگئے اور شیعہ معاشرے میں مختلف قسم کے فرقے وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے آؑپ
کے چچا جعفر کذاب کی پیروی شروع کردی۔ لیکن اس دوران امام زمانؑہ کی توقیعات جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے
نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں ،مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔
مذہب امامیہ کے مطابق امام مہدؑی اب بھی غیب کے پردے میں زندہ ہیں اور حضرت عیسؑی کے ساتھ ظہور کریں گے۔ شیعہ
علماء نے امام زماؑن کی طویل عمر کے اسباب اور تفصیالت کے بارے میں مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں۔ آپ کی غیبت کو
غیبت صغری اور غیبت کبری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ غیبت صغری جو امام حسن عسکرؑی کی شہادت سے سنہ 329ھ تک
جاری رہی ،کے دوران نواب اربعہ کے ذریعے آؑپ کا رابطہ اپنے ماننے والوں کے ساتھ قائم رہا۔ لیکن جب سنہ 329ھ میں
غیبت کبری کا آغاز ہوا تو آپ سے براه راست رابطہ نواب اربعہ کے ذریعے بھی منقطع ہوگیا۔
شیعہ عقیدے کے مطابق ان کا بارہواں اماؑم آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور اپنے اصحاب و یاران کے ساتھ ایک عالمی
حکومت قائم کر کے ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ اسالمی روایات میں مسلمانوں کو انتظار
فرج کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ شیعہ امامیہ ان روایات کی رو سے امام زماؑن کے ظہور کا انتظار کررہے ہیں۔
شیعہ مفسرین ،معصومین سے منقول احادیث کی بنیاد پر بعض قرآنی آیات کو امام زمانؑہ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ائمؑہ
سے متعدد احادیث امام زمانؑہ ،آپ کی غیبت ،ظہور اور حکومت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض حدیثی کتابیں انہی
احادیث کو نقل کرنے اور ان کی جمع آوری کی غرض سے لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی کتب کے عالوہ بہت سی دوسری کتب
بھی امام زمانؑہ سے متعلق موضوعات کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔
اہل سنت اپنے روائی منابع کی رو سے نسل پیامبر خدا میں سے مہدی نام کے ایک شخص کو آخر الزمان کا نجات دہندہ
مانتے ہیں۔ اہل سنت کی کتابوں میں ایسا عقیدہ موجود ہونے کے باوجود ان کی اکثریت اب بھی یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ
مہدی نام کا نجات دہندہ آخر الزمان میں پیدا ہوگا البتہ اہل سنت ہی کے بعض علما ،جیسے سبط بن جوزی اور ابنطلحہ
شافعی وغیرہ شیعوں کی مانند یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مہدی موعوؑد امام حسن عسکرؑی کی اوالد میں سے ہیں۔
امام زمانہ(عج) کی غیبت کے دوران آپ سے رابطہ قائم کرنے کے سلسلے میں شیعہ مذہب کی کتابوں میں بہت سی دعائیں
اور اذکار بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے دعائے عہد ،دعائے ندبہ ،زیارت آل یاسیناور نماز امام زمانؑہ ۔ بعض احادیث کے مطابق
غیبت امام زمانؑہ کے باوجود آؑپ سے مالقات بھی ممکن ہے۔ بعض شیعہ علماء نے اپنی کتابوں میں بعض لوگوں کے ان سے
مالقات کے قصے بیان کیے ہیں۔
مختلف عالقوں میں بہت سے مقامات آپ سے منسوب ہیں ،جیسے سامرا میں سرداب غیبت ،کوفہ کی مسجد سہلہ میں
مقام امام مہدؑی اور قم کے مضافات میں مسجد جمکران وغیرہ۔
شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد ،احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں ،لیکن آؑپ شیعیان اہل بیت کے
درمیان مہدؑی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آؑپ کے القاب میں سے ایک ہے۔[ ]1متعدد احادیث کے مطابق آؑپ ،اپنے جد
امجد رسول اللؐہ کے ہم نام ہیں۔[ ]2بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی و شیخ
صدوق کی کتاب کمال الدین ،میں آؑپ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د" لکھا ہوا ملتا ہے۔[ ]3اس ابہام نویسی
ہے۔[]4 کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آؑپ کا نام لینے سے منع کیا گیا
حرمِت تسمیہ
شیعہ منابع حدیث میں بکثرت ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں بارہویں اماؑم کا نام لینے سے منع کرتے ہوئے اسے حرام
قرار دیا گیا ہے۔[ ]5اس حوالے سے شیعہ علماء کے یہاں دو قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں:
.1پہال نظریہ سید مرتضی ،فاضل مقداد ،محقق حلی ،عالمہ حلی اور کئی
دیگر علماء کا ہے جن کی رائے کے مطابق یہ حرمت صرف تقیہ کے زمانے
تک محدود ہے؛
.2دوسرا نظریہ میر داماد اور محدث نوری وغیرہ کا ہے جن کے خیال میں
گا۔[]6 حرمت کا یہ حکم اماؑم کے ظہور تک جاری اور برقرار رہے
کنیت اور القاب
مختلف حدیثی ،تاریخی ،کالمی منابع اور دعا و زیارات میں شیعیاِن آل رسول
کے بارہویں امام بہت سارے القاب اور کنیت سے متعارف کرائے گئے ہیں؛
محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثاقب میں تقریبًا 182نام اور القاب ذکر کیے
ہیں اسی طرح (نام نامہ حضرت مہدؑی نامی کتاب) میں امام ؑ کے 310اسماء
اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ محدث نوری نے یہ اسماء اور القاب ذکر
کیے ہیں :مهدؑی ،قائم ،بقیۃ اهلل ،منتقم ،موعود ،صاحب الزمان ،خاتم
االوصیاء ،منَت َظ ر ،حجۃ اهلل ،منتقم ،احمد ،ابوالقاسم ،ابوصالح ،خاتم
قرآن کریم
االئمہ ،خلیفۃ اهلل ،صالح ،صاحباالمر۔ [ ]7محدث نوری ،النجم الثاقب
َو َلَق ْد َكَت ْب َن ا ِف ي الَّز ُب وِر ِم ن َبْع ِد الِّذ ْكِر َأ َّن میں لکھتے ہیں کہ تمام معتبر اسامی اور القاب کو جمع کیا ہے اور
اَأْلْرَض َي ِرُث َه ا ِع َب اِد َي الَّص اِل ُح وَن ﴿﴾١٠٥ شخصی نظریات اور غیر معتبر تحقیقات سے اجتناب کیا ہے ورنہ
اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ مختلف کتابوں سے کئی گنا اسامی اور القاب نکالے جا سکتے تھے۔ اسی
دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک طرح نام نامہ حضرت مہدؑی نامی کتاب میں 310اسماء اور القاب کی
بندے ہی ہوں گے۔ طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں اماؑم کے اسماء اور القاب اہل سنت
مآخذ میں بھی نقل ہوئے ہیں؛ گوکہ ان مآخذ میں زیادہ تر مہدی کے
انبیاء
عنوان سے استفادہ کیا گیا ہے اور دوسرے القاب اور خصوصیات کو کم
ہی ذکر کیا گیا ہے۔ آؑپ کا لقب قائم اہل سنت کے مآخذ میں کم ہی ملتا
ہے۔ ان القاب میں سے بعض کچھ یوں ہیں:
.3مہدی الخیر
.5اإلمام
.6آخر األئّم ہ
.7خلیفۃ اهّلل
.10ولی اهّلل
.11األمیر
.12أمیر الطائفہ
.13امیر الّناس
.16خیر الّناس
.18ذخیرة األنبیاء
.19یعسوب االّم ہ
.20الّر جل الصالح
.21صالح من مضی
.23المنصور
.24الہاشمی
.25العائذ بالبیت
السفاح[]8 .26
خاندان
شیعہ عقیدے کے مطابق امام زمانؑہ کے والد ماجد گیارہویں امام ،حضرت امام حسن عسکرؑی ہیں ،اہل سنت نے بعض احادیث
[]9
کے حوالے سے امام زمانؑہ کے والد کا نام عبداللہ ذکر کیا ہے لیکن شیعہ علماء نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
امام زمانؑہ کی والدہ ماجدہ کے متعدد نام ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے:نرجس ،سوسن ،صقیل یا صیقل ،حدیثہ ،حکیمہ،
ملیکہ ،ریحانہ و خمط[
]10امام زمانؑہ کی والدہ کے حاالت زندگی کے بارے میں منقولہ روایات کو مجموعی طور پر چار
قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
ہے؛[]11 .1شیخ صدوق نے کمال الدین و تمام النعمۃ میں روایت نقل کرتے ہوئے انہیں رومی شہزادی قرار دیا
.2بعض دیگر روایات میں ان کے حاالت زندگی کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ کی والدہ حکیمہ بنت
کے گھر میں پرورش پا چکی ہیں؛[]12
امام جواؑد
.3تیسری قسم کی روایات کے مطابق ،جنہیں مسعودی نے اثبات الوصیہ میں نقل کیا ہے ]13[،بارہویں اماؑم کی والدہ
گیارہویں امام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کے گھر میں پروان چڑھی ہیں اور اسی گھر میں پیدا بھی ہوئی ہیں۔
.4چوتھی قسم اور دیگر تین قسموں کے درمیان بنیادی اختالف پایا جاتا ہے۔ ان روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ
کی والدہ سیاہ فام ُا ِّم َو َلد تھیں۔[ ]14تین قسموں کی روایات بہرصورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں لیکن
چوتھی قسم کی روایات کو ان روایات کے ساتھ یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ بایں حال ،بعض علماء نے چاروں قسموں
کی روایات کو ہم آہنگ کرنے کے لئے کہا ہے کہ مؤخر الذکر روایت کی بالواسطہ یا امام زمانؑہ کی والدہ کی ُم َر ِّب یہ کے
طور پر ،توجیہ کی جا سکتی ہے۔[]15
جناب حکیمہ خاتون امام جواؑد کی بیٹی اور امام حسن عسکرؑی کی پھوپھی ،چار ائمہ کے ہم عصر اور شیعہ مآخذ کے
مطابق امام زمانؑہ کی والدت با سعادت کی راوی ہیں۔ امام زمانؑہ کی والدہ ان کے گھر میں تعلیم و تربیت کے زیور سے
ہیں۔[]16 آراستہ ہوئی ہیں اور امام زمانؑہ کی والدت با سعادت کی بہت سی روایات ان ہی سے نقل ہوئی
امام زمانؑہ کی دادی اور امام حسن عسکرؑی کی والدہ ہیں جنہیں روایات میں اسی نام سے پکارا گیا ہے :امام زمانؑہ کی دادی۔
مآخذ کے مطابق امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد ،شیعیان اہل بیت کے امور ان ہی کے سپرد تھے اور انھوں نے تشّی ع
ہے۔[]17 کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا
جعفر کذاب
جعفر بن محمد امام زمانؑہ کے چچا تھے جنہوں نے امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد ،امامت کا دعوی کیا اور اسی بنا
پر جعفر کذاب کہالئے۔ حدیث کی کتابوں میں انہیں فسق و فجور میں مبتال اور گناہان کبیرہ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ انہوں
نے نہ صرف امامت کا دعوی کیا اور امام حسن عسکرؑی کے جانشین کو جھٹالیا ،بلکہ وقت کے حکمرانوں کو بارہویں امام
کے خالف اکسایا۔[ ]18بعض روایات کے مطابق وہ اپنی عمر کے آخری ایام تک اپنے دعوے پر اصرار کرتے ہوئے اپنے آپ کو
امام سمجھتا رہے؛ تا ہم بعض دوسری روایات کے مطابق ،انہوں نے اپنے دعوے کو ترک کرکے توبہ کی اور شیعہ اس کو جعفر
کذاب کے بجائے جعفر تائب [یا جعفر تواب] کہہ کر پکارتے تھے۔ جعفر کذاب نے 45سال کی عمر میں سامرا کے مقام پر
[]19
وفات پائی۔
بہن بھائی ،زوجہ اور اوالد
ان آخری سالوں کے دوران امام زمانہ کی غیبت کبرا کے دوران ان کی کی بیوی اور اوالد کے متعلق شیعہ کتب میں بحث
چھیڑ گئی جبکہ یہ بحث پہلی کتب میں موجود نہیں تھی۔ اس سلسلے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں:
پہال :عالمہ مجلسی اور سید محمد صدر چند روایات اور ادعیہ سے استناد کرتے ہوئے امام زمانہ کی بیوی اور اوالد ہونے
کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دوسرا :شادی اور اوالد کے نظریے کے مخالف کہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو امام کا ہم سے پوشیدہ رہنا ممکن نہیں ہے جبکہ آپ
کی غیبت میں امام ہم سے پوشیدہ رہنا ہی غیبت ہے۔ نیز وہ اس استدالل کیلئے ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں غیبت
کے زمانے میں امام کی بیوی اور اوالد کا نہ ہونا مذکور ہے۔
[]20
تیسرا :سید جعفر مرتضی عاملی اس قضیے کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سکوت کو ترجیح دیتے ہیں۔
وقت والدت
امام زمانؑہ کی والدت کے سال کے بارے میں اختالف ہے۔ بعض متقدم مآخذ نے آؑپ کی تاریخ والدت کی طرف اشارہ نہیں کیا
ہے اور اس کو خفیہ قرار دیا ہے۔[ ]21لیکن بہت سی شیعہ اور بعض سنی روایات میں ہے کہ امام دوازدہؑم سنہ255ھ [ ]22یا
256ھ ق[ ]23میں متوّلد ہوئے ہیں۔
امام زمانؑہ کی والدت کے مہینے کے بارے میں بھی اختالف پایا جاتا ہے لیکن قول مشہور شعبان المعظم پر تاکید کرتا ہے اور
بہت سے قدیم شیعہ مآخذ میں بھی ماہ شعبان ہی کو آؑپ کی والدت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔[ ]24اس کے باوجود بعض
شیعہ[ ]25اور سنی[ ]26مآخذ کے مطابق آؑپ کی والدت ماہ رمضان میں ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کے بعض مآخذ[ ]27نے ربیع
االول اور ربیعالثانی کو آؑپ کی والدت کا مہینہ قرار دیا ہے۔
تاریخی مآخذ میں بارہویں امام کی تاریخی والدت کے بارے میں گیارہ مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں پندرہ شعبان
والی تاریخ زیاده مشہور ہے۔[ ]28شیعہ علماء کے درمیان کلینی ،مسعودی ،شیخ صدوق ،شیخ مفید ،شیخ طوسی ،فتال
نیشابوری ،امین االسالم طبرسی ،سید ابن طاؤس ،ابن طقطقی ،عالمہ حلی ،شہید اول ،کفعمی ،شیخ بہائی وغیرہ ،اور اہل
سنت کے علماء میں سے ابن خلکان ،ابن صباغ مالکی ،شعرانی حنفی ،ابن طولون ،اور دوسروں نے اسی قول کو نقل کیا ہے۔
نو ربیع االول 19 ]29[،ربیع االول 9 ]30[،ربیع الثانی ]31[،یکم رجب 23 ]32[،رمضان 3 ]33[،شعبان اور 8شعبان[ ]34کو سنی
مآخذ نے نقل کیا ہے اور شب جمعہ یکم رمضان یا رمضان کی ایک شب جمعہ کو شیخ صدوق نے کمال الدین میں نقل کیا
ہے۔[]35
تفصیلی واقعہ
امام زمانؑہ کی والدت کے سلسلے میں مشہور روایت وہی ہے جو امام عسکرؑی کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون نے نقل
کی ہے۔ شیخ صدوق حکیمہ خاتون کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"امام حسن عسکرؑی نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا :پھوپھی جان! آج ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ
نیمہ شعبان کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر
فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا :ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا :نرجس خاتون۔ میں نے عرض کیا :میں آپ پر قربان
ہوجاؤں ،ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا :بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔
کہتی ہیں:
میں آئی ،سالم کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میرے جوتے اٹھا لئے اور مجھ سے کہا :اے میری سیدہ اور
میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا :تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے
اس کالم سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں :پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا :میری بیٹی! خداوند متعال
تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے
نماز ادا کی ،روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز (تہجد) کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛
جبکہ نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ
اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز (تہجد) بجا ال کر سوگئیں۔
جناب حکیمہ خاتون مزید کہتی ہیں:
میں باہر آئی اور فجر کی تالش میں آسمان کی طرف دیکھا؛ دیکھا کہ فجر اول طلوع کرچکی ہے اور وہ ابھی سو
رہی ہیں۔ شک میرے دل پر عارض ہوا۔اچانک ابو محمد نے اپنے کمرے سے صدا دی :پھوپھی جان! عجلت سے کام
مت لیں ،کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔
کہتی ہیں:
میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تالوت میں مصروف ہوئی۔ اسی اثناء میں نرجس ہراساں سی
ہوکر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا :آپ پر اللہ کی رحمت ہو ،کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟
کہنے لگیں :پھوپھی جان! ہاں محسوس کررہی ہوں۔ میں نے کہا :اپنے پر قابو کرو اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ
وہی ہونے جارہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں :مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا
اور اپنے سید و سردار (امام عسکرؑی ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور
اچانک میں نے اپنے سید و سرور (نرجس کے فرزند) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آؑپ کے سجدہ کے
ساتوں اعضاء [پیشانی ،ہتھیلیاں ،گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھے) زمین پر تھے]۔ میں نے آؑپ کو آغوش میں لیا اور
دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔
ابو محمد نے فرمایا:
پھوپھی جان! میرا فرزند میرے پاس الئیں ،میں آؑپ کو اماؑم کے پاس لے گیی؛ اماؑم نے اپنے پاؤں کو پھیالیا اور
فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آؑپ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں
رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آؑپ کی آنکھوں ،کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا ؛
اور فرمایا:
اے میرے فرزند! بولو۔ چنانچہ آؑپ نے کہا:
َأ ْش َه ُد َأ ْن اَل ِإ َلَه ِإ اَّل اُهَّلل َو ْح َد ُه َال َش ِر يَك َلُه َ ،و َأ ْش َه ُد َأ َّن ُم َح َّم دًا َر ُس وُل اللِہ بعدازاں امیرالمؤمنیؑن اور دوسرے
[]36
ائمہ معصومیؑن کو درود و سالم کا ہدیہ بھیجا ،حتی کہ آؑپ کے والد کی باری آئی تو زبان روک لی۔
والدت امام زمانؑہ کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔ روایات میں[ ]39بھی اس موضوع اور اس کے دالئل کی طرف اشارہ ہوا
ہے۔ امام سجاؑد فرماتے ہیں" :ہمارے قائم کی ذات میں انبیا کی سنتیں ہیں۔۔۔۔ والدت کا مخفی ہونا اور ان کا لوگوں سے دور
رہنا ابراہیؑم کی سنت ہے۔[ ]40نیز امام صادؑق فرماتے ہیں" :صاحب االمر کی والدت خالئق سے پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ظہور
[]41
کریں والدت مخفی بھی اس لئے ہی تاکہ آؑپ پر کسی کی بیعت نہ ہو"۔
شیخ مفید کی رائے ہے کہ "اس دور کے مشکالت و مسائل اور اللہ کی آخری حجت کی والدت کی خبر پانے کے لئے سلطان
[]42
وقت کی وسیع تالش اور بےتحاشا کوششوں کے پیش نظر ،آؑپ کی والدت کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔۔۔۔
تاریخ میں والدت کا خفیہ رکھا جانا بے مثال نہیں ہے بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابراہیؑم کی والدت کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا
کیونکہ بادشاہ وقت کی طرف سے ان کے قتل کئے جانے کا خدشہ تھا۔[ ]43یا پھر قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7
سے 13تک میں موسی بن عمراؑن کی والدت کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کی والدت کو خفیہ رکھے جانے کی طرف اشارہ
ہوا ہے۔
جناب حکیمہ خاتون کے عالوہ ،امام حسن عسکرؑی کی دو کنیزیں نسیم اور ماریہ بھی آؑپ کی والدت کے عینی شاہدین میں
شمار ہوتی ہیں۔ شیخ صدوق اور شیخ طوسی نقل کرتے ہیں :نسیم اور ماریہ کہتی ہیں کہ "صاحب الزماؑن ماں کے بطن سے
دنیا میں آئے تو آؑپ نے دونوں گھٹنے زمین پر رکھے اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں آسمان کی طرف بلند کیں اور
پھر آپ نے چھینک ماری اور فرمایا:اْلَح ْم ُد ِهَّلِل َر ِّب اْلعاَلمیَن وَا لُح ُم ُد ِهّلِل َرَّب العاَلمیَن َو َص َّلی اُهلل َع لی ُم َح َّم ٍد َص َّلی اُهلل
َو آِلِه ۔ ستمگر سمجھ بیٹھے ہیں کہ گویا اللہ کی حجت فنا ہوچکی ہے۔ اگر ہمیں کالم کرنے کا اذن ہوتا تو شک زائل
[]44
ہوجاتا"۔
اہل سنت کے علماء کے درمیان ،بعض نے امام زمانؑہ کی والدت کا واقعہ نقل کیا ہے لیکن آؑپ کے موعود ہونے کے بارے میں
خاموشی اختیار کی ہے :ابن اثیر (متوفٰی 630ھ) اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں ]45[،ابن خلکان (متوفٰی 681ھ)
وفیات االعیان میں ]46[،اور ذہبی (متوفٰی 748ھ) العبر میں۔
بعض دیگر نے والدت کے واقعے کو بھی بھی نقل کیا ہے اور آؑپ کے موعود ہونے پر بھی تصریح کی ہے :ابن طلحہ شافعی
[]48
(متوفٰی 652ھ) مطالب السؤول میں[ ]47اور ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855ھ) الفصول المہمہ میں۔
طفولیت
محمد بن عثمان عمری 40افراد کی معیت میں امام حسن عسکرؑی کی خدمت میں حاضر تھے۔ اماؑم نے انہیں اپنے فرزند کا
دیدار کرایا اور فرمایا:
َه َذ ا ِإَم اُم ُکْم ِم ْن َبْع ِد ی َو َخ ِل یَف ِت ی َع َلْی ُکْم َأ ِط یُع وُه َو اَل َت َت َف َّر ُق وا ِم ْن َبْع ِد ی ِف ی َأ ْد َی اِن ُکْم َف َت ْه ِل ُکوا َأ َم ا ِإ َّنُکْم اَل
َت َر ْو َن ُه َبْع َد َی ْو ِم ُکْم َه َذ ا
یہ میرے بعد تمہارے امام ہیں اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں ،ان کی اطاعت کرو اور اپنے دین میں
[]50
اختالف نہ کرو کیونکہ اس صورت میں ہالک ہوجاؤگے اور آج کے بعد تم انہیں ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔
اسی روایت سے مشابہ ایک روایت شیخ طوسی نے نقل کی ہے اور علی بن بالل ،احمد بن ہالل ،محمد بن معاویۃ بن حکیم
اور حسن بن ایوب بن نوح جیسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آؑپ کا دیدار کیا ہے۔[ ]51نیز کلینی نے بھی ضوء بن
علی ِع ْج لی سے روایت کی ہے کہ ایک فارسی مرد نے کہا:
میں امام حسن عسکرؑی کے گھر میں خدمت کے لئے سامرا چال گیا اور اماؑم نے مجھے گھر کے لئے ضروری اشیاء کی
خریداری کی ذمہ دار سونپ دی۔ ایک دن اماؑم نے مجھے اپنے (دو سالہ) فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا:هذا
صاحبكمضوء بن علی مزید کہتے ہیں:اس فارسی مرد نے کہا:اس کے بعد امام حسن عسکرؑی کی شہادت تک میں
[]52
نے پھر اس طفل کو کبھی نہیں دیکھا"۔
حدیث نبوی
شیخ مفید نے بھی ابو عمر عثمان بن سعید سمان اور ان کے بیٹے ابو
جعفر محمد بن عثمان کو ان لوگوں کے زمرے میں شمار کیا ہے جنہوں
َي ْب َق ِم َن الَّد ْه ِر ِإ َّال َيوم َلَب َع َث اُهلل َلْو َلْم
نے امام حسن عسکرؑی کی حیات میں امام عصؑر کا دیدار کیا ہے۔ نیز
ِم ْن أْه ِل َب ْي ِت يَ ،ي ْم ُأَلَه ا َع ْد ًال َكَم ا َر ُج ًال نصیبین کے خاندانوں "بنو الرحبا" اور "بنو سعید" ،اہواز کے خاندان "بنو
َج ْو رًا
ُم ِل َئ ْت مہزیار" ،کوفہ کے خاندان "بنو الرکولی" اور بغداد کے خاندان "بنو
اللہ تعالی میری اہل بیت میں سے ایک فرد نوبخت" کے کئی اشخاص کے عالوہ قزوین ،قم اور "منطقۂ جبال" کے
کو مبعوث کرے گا جو اس دنیا کو ایسے بعض باشندوں نے امام عسکرؑی کے دوران حیات میں بارہویں اماؑم کا
ہی عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم دیدار کیا ہے۔[]53
امام حسن عسکرؑی نے اپنی وصیت میں اپنے تمام اموال کو اپنی والدہ ماجدہ "ُح َد یث خاتون" کے نام کیا گوکہ بنی عباس
[]56
نے تمام اموال آؑپ کی والدہ کو ملنے نہیں دیئے اور نصف اموال پر عباسیوں کی مدد سے جعفر نے قبضہ کیا۔
امام حسن عسکرؑی کی وفات کے بعد ،عباسی خلیفہ نے ایک گروہ کو آؑپ کے گھر بھیجا جنہوں نے آؑپ کے گھر اور اموال کو
مقفل کردیا؛ آپ کے فرزند کو تالش کرنے کی کوشش کی اور کنیزوں کا بھی دائیوں سے معائنہ کروایا کہ کہیں ان میں سے
کوئی حاملہ نہ ہو[ ]57اور ثقیل نامی کنیز کو حاملگی کے شبہ کی بنا پر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور دو سال تک نظر بند رکھا
[]58
اور بعدازاں رہا کردیا۔
امام زمانؑہ سنہ 255ھ میں پیدا ہوئے جس کے بعد آج تک بارہ صدیاں گذر رہی ہیں۔ عمر کی یہ طوالت انسانوں کی معمولی
عمر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ شیعہ متکلمین نے امام زمانؑہ کی عمر کی طوالت کی عام انسانوں کے عمر سے عدم مطابقت
کے سلسلے میں اٹھنے والے سواالت کے مختلف جوابات دیئے ہیں:
تجرباتی جوابات
بعض متکلمین نے سائنسدانوں کی تجرباتی حصول یابیوں سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ طویل عمر ممکن ہے۔ مثال
لطف اللہ صافی گلپایگانی نے مغربی سائنسدانوں کے متعدد اقوال نقل کئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انسان 800سے 1000
[]59
سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
عقلی جوابات
وقوع کا امکان:
اعجاز :امام زماؑن کی عمر کی طوالت اعجاز کی بنا پر ہے اور خوارق عادات میں سے ہے۔
اللہ کا ارادہ انسان کی عمر کی طوالت اور دوام پر ٹھہر سکتا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
انسان کا نفس جسم کا انتظام کرتا ہے اور اس پر تسلط رکھتا ہے۔ اگر انسان کا نفس اس قدر طاقتور ہو جو انتظام کے
ساتھ جسم پر والیت بھی رکھتا ہو۔ تو وہ انسان کے جسم کو طویل عرصے تک زندہ رکھ سکتا ہے۔
بقائے انسان میں ذاتی طور پر ممکن ہے اور عدم بقا عارض ہونے والے امور کا نتیجہ سمجھی جاتی ہے۔ عارضی امور بھی
ممکن العدم ہیں [اور ان کا نہ ہونا اور معدوم ہو جانا ،ممکن ہے] تو اگر عارضی امور و اسباب نہ ہوں تو بقاء حاصل ہے۔
نبی عزیؑر کا طعام و شراب ،سو سال گذرنے کے باوجود باقی اور تر و تازہ تھا حاالنکہ اس میں روح بھی نہیں تھی ،انسان
صاحب روح ہے چنانچہ اس کو بطریق اولی و اقوی ،معمول کی عمر سے زیادہ طویل عمر کا حامل ہونا چاہئے۔
تاریخی روایات اور ان کے واقع ہونے کے پیش نظر ،ایک شئی کے امکان کی اعلی ترین دلیل اس کا واقع ہونا ہے۔
[مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ادریس ،حضرت الیاس ،حضرت خضر اور حضرت عیسی علیہم السالم زندہ ہیں جبکہ
ان کی عمریں امام زمانؑہ کی عمر سے کئی گنا زیادہ طویل ہے]۔
تاریخی نمونے
"ابو حاتم سجستانی" نے اپنی کتاب المعمرون والوصایا میں ان افراد کا تذکرہ کیا جن کی عمر غیر معمولی اور بہت طویل
تھیں۔ شیعہ متکلمین میں شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں ،کراجکی نے البرہان علی صحۃ طول عمر االمام الزمان میں
طول عمر سے متعلق سواالت کا جواب دینے کے لئے "باب المعمرین" میں دسیوں معمر افراد کا تذکرہ کیا ہے۔
آسمانی کتب
تورات[ ،]60انجیل اور قرآن میں ایسے انسانوں کا تذکرہ آیا ہے جن کی عمریں بہت طوالنی اور غیر معمولی تھیں۔ قرآن نے
[]62
حضرت نوؑح کی دعوت کا عرصہ 950سال بتایا ہے۔[ ]61اور سابقہ امتوں میں طویل زندگیوں کی خبر دی ہے۔
روایات
بعض روایات و احادیث میں بھی امام زمانؑہ کی طویل عمر کی طرف اشارے ہوئے ہیں؛ منجملہ :امام سجاؑد نے فرمایا ہے کہ
[]63
"ہمارے قائم کے پاس پیغمبروں کی بعض سنتیں ہیں ۔۔۔ آدم اور نوح سے آؑپ کو ملنے والی سنت طویل العمری ہے۔۔۔
امام صادؑق بھی امام زمانؑہ کو ابراہیؑم سے تشبیہ دیتے ہیں جو 120سال کی عمر میں 30سالہ نوجوانوں کی طرح تھے۔
[]64
امام حسن مجتبؑی سے مروی ہے کہ خداوند متعال میرے بھائی امام حسیؑن کے نویں فرزند کو طویل عمر عطا فرمائے گا اور
پھر آ کو اپنی قدرت سے 40سال سے کم عمر کے نوجوان کی صورت میں ظاہر فرمائے گا۔[]65
ؑپ
امام زمانؑہ کے مسکن اور مقام رہائش سے متعلق بحث کو غیبت صغری سے قبل ،غیبت صغری ،غیبت کبری ،عصر ظہور اور
قیام اور حکومت کے مراحل کے تناظر میں دیکھا جائے گا؛ چنانچہ ان تمام ادوار میں آؑپ کا مقام رہائش مختلف ہے۔ یہاں
غیبت صغری سے پہلے اور اس کے دوران آؑپ ،آؑپ کی رہائش کو تاریخی قرائن و شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور
دوسرے مراحل کے بارے میں روایات اور امکانی مالقاتوں اور شرف یابیوں سے استناد کیا جائے گا:
امام مہدؑی تاریخ والدت سے لے کر غیبت صغری تک اپنے مولد "سامرا" میں ہی سکونت پذیر تھے۔ اس دوران سرداب میں
عبادت ،اور زندگی بسر ،کر رہے تھے۔ بعض روایات کے مطابق آؑپ اپنے والد ماجد کی حیات میں کئی بار سرداب میں دیکھے
گئے ہیں۔[ ]66بعض محققین کا کہنا ہے کہ آؑپ نے والد ماجد کے زمانے میں آؑپ کے ہمراہ حج کے مناسک میں شرکت کی اور
[]68
پھر مدینہ میں روپوش ہوئے۔[ ]67یہ روایت شیعہ تاریخی مآخذ کے ساتھ کچھ زیادہ ہمآہنگ نہیں ہے۔
بعض روایات اشارہ کرتی ہیں کہ غیبت کے دوران آؑپ کا مسکن نامعلوم ہے۔ اس کے باوجود بعض دیگر روایات کے مطابق آؑپ
ذی طوی[ ،]69کوہ رضوی[ ]70اور طیبہ (مدینہ)[ ]71میں سکونت رکھتے ہیں۔ چونکہ غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ آؑپ
کے ساتھ رابطے میں تھے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غیبت کا ایک عرصہ آؑپ نے عراق میں گذارا ہے۔ بعض مآخذ نے ایک
داستان کی رو سے ،لکھا ہے کہ آؑپ غیبت کبری کے زمانے میں جزیرہ خضراء میں سکونت پذیر ہیں۔[ ]72جس کو بعض شیعہ
[]73
علماء نے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے نقد میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
ابن قیم جوزی اور ابن خلدون نے الزام لگایا ہے کہ "شیعہ" معتقد ہیں کہ امام زمانؑہ غیبت کے دوران سرداب میں رہتے ہیں
اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے۔[ ]74لیکن شیعہ اعتقادی کتب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ نہیں ملتا اور ان کے نزدیک اس
مقام کے تقدس کا سبب یہ ہے کہ یہ امام عسکرؑی کے زمانے میں بارہویں اماؑم کا مسکن اور مقام عبادت تھا۔
ظہور اور قیام نیز مقام حکومت اور (مسکن بعد از ظہور)
امام زمانؑہ کہاں ظہور کریں گے؟ اس بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آؑپ ذی طوی میں
ظہور کریں گے؛ پھر اپنے 313صحابیوں کے ساتھ مکہ پہنچیں گے اور حجر االسود سے ٹیک لگائیں گے اور اپنا پرچم
لہرائیں گے۔[ ]75اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کے مطابق ]76[،امام زمانؑہ کے قیام (تحریک) کا آغاز مسجد
الحرام سے ہوگا اور اصحاب رکن اور مقام کے درمیان آؑپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔[ ]77بعض روایات میں تہامہ کو امام
[]79
زمانؑہ کی تحریک کا نقطۂ آغاز جانا گیا ہے۔[ ]78مکہ اور مکہ شمالی تہامہ کا جزء اور مرکز ہے۔
بعض روایات میں ،کرعہ[ ]80کو اماؑم کے مقام خروج کے عنوان سے متعارف کرایا گیا جو بظاہر یمانی کے قیام کے ساتھ
اشتباہ کا نتیجہ ہے جو یمن سے اٹھیں گے۔[ ]81اہل سنت کے مؤلف محمد بن احمد القرطبی ،کا کہنا ہے کہ آؑپ مغرب
االقصی[ ]82سے اٹھیں گے اور قاضی نعمان مغربی ،مراکش[ ]83کو نقطۂ خروج و ظہور قرار دیتے ہیں لیکن یہ ساری روایات
بارہویں امام کے آغاز انقالب سے متعلق شیعہ روایات سے سازگار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں مقام ظہور کو سفیانی
ہو۔[]84 کے مقام خروج سے مشتبہ ہو گیا
بعض روایات ،شہر کوفہ کو دارالحکومت[ ،]85مسجد کوفہ کو فیصلوں کا مقام[ ،]86مسجد سہلہ کو اماؑم کا مسکن[ ]87اور
آؑپ کے ہاتھوں بیت المال کی تقسیم کا مقام[ ]88قرار دیتی ہیں۔
بعض مقامات امام مہدؑی سے منسوب ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ شیعہ غیبت کبری کے زمانے میں آؑپ سے راز و نیاز کرنے کے
لئے ان مقامات پر حاضر ہوتے ہیں:
سرداب غیبت :یہ مقام (سامرا میں ہے جو) امام ہادی ،امام عسکری اور امام زمانؑہ کی عبادت گاہ رہی ہے۔
مسجد سہلہ :کوفہ میں واقع یہ مسجد امام زمانؑہ سے منسوب ہے اور اس کے درمیانی حصے میں مقاِم حضرت یونؑس
اور مقاِم حضرت سجاؑد واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق ،امام زمانؑہ ظہور کے بعد اسی مسجد میں سکونت پذیر ہوں
[]89
گے۔
ذی ُط ٰو ی :مکہ کے ایک عالقے کا نام ہے جو حرم کی حدود میں واقع ہے اور بعض روایات کے مطابق حضرت مہدؑی اس
عالقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں[ ]90اور بض روایات کے مطابق ،آؑپ کا مقام ظہور اور آؑپ کے اصحاب و انصار کے
اکٹھے ہونے کا مرکز بھی یہی عالقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اماؑم کے کعبہ سے قیام و تحریک شروع کرنے سے قبل ،اس
[]91
عالقے میں اپنے 313اصحاب کے منتظر ہوں گے۔
کوہ رضوا :بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ غیبت کے زمانے میں کوہ رضٰو ی سکونت پذیر ہیں۔[ ]92مکہ و
[]93
مدینہ کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔
وادی السالم :جو نجف میں واقع قبرستان کا نام ہے؛ اور اس قبرستان میں ایک مقام "مقام امام زمانؑہ " کے عنوان سے
موجود ہے۔ اس مقام پر گنبد و بارگاہ بھی ہے جس کو سندھ کے بادشاہ وقت "سید محمد خان" نے سنہ 1310ھ ق میں
تعمیر کرایا ہے۔ اس سے قبل والی عمارت تعمیر نو سید بحرالعلوم (متوفٰی سنہ 1212ھ ق) نے کرائی تھی۔ مقام حضرت
مہدؑی کے محراب میں ایک پتھر پایا جاتا ہے جس پر ایک زیارت نامہ کندہ کیا گیا ہے۔ اس پتھر پر کندہ کاری کا کام 9
شعبان سنہ 1200ھ ق کو مکمل ہوا ہے۔
جزیرہ خضرا :یہ ایک مقام کا نام ہے جو بعض روایات کے مطابق ،امام زمانؑہ کے فرزندوں کا مقام رہائش ہے۔ اس جزیرے
کی داستان بعض مآخذ میں مندرج ہے اور اس کے بارے میں دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں؛ بعض نے اس داستان کو
قبول کیا ہے اور بعض نے افسانہ جانا ہے اور کتب لکھ کر اس پر تنقید کی ہے۔
طیبہ :یہ بھی بعض روایات کی رو سے عصر غیبت میں امام زمانؑہ کے مقام سکونت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ کہا
گیا ہے کہ طیبہ سے مراد مدینہ ہی ہے۔[]94
مسجد جمکران :یہ مسجد قم کے نواح میں جمکران نامی گاؤں میں واقع ہے اور ایک قول کے مطابق امام زمانؑہ کے حکم
پر حسن بن مثلہ جمکرانی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی ہے۔
شیعہ اور سنی کتب احادیث نے امام مہدؑی کی دینی و اخالقی خصوصیات اور ظاہری اوصاف کے بارے میں متعدد روایات
نقل کی ہیں۔
ظاہری اوصاف
[]95
رسول اللؐہ نے مختلف فرامین و ارشادات میں واضح کیا ہے کہ امام مہدؑی آؐپ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔
[]96
ی فرماتے ہیں کہ امام مہدؑی چہرے اور اخالق کے لحاظ سے رسول اللؐہ کے مشابہ ترین ہیں۔ امام علؑی امام حسن عسکر ؑ
[]97
فرماتے ہیں :امام مہدی َع َّج َل اُهلل َف َر َج ُه الَّش ریف اٹھیں گے تو آؑپ کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی ۔
امام حسن مجتبؑى فرماتے ہیں کہ ظہور کے وقت امام مہدؑی چالیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بےانتہا جسمانی قوت
کے مالک ہونگے۔[ ]98امام صادؑق کے قول کے مطابق آپ ایک کامل اور معتدل نوجوان ہونگے۔[ ]99عالمہ مجلسی اس روایت
کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں" :معتدل سے مراد یہ ہے کہ آؑپ وقت ظہور درمیانی عمر یا نوجوانی کے آخری حصے میں
ہونگے"۔[ ]100امام رضؑا ظہور کے وقت امام زمانؑہ کی عالمتوں اور خصوصیات کے بارے میں ابوصلت ہروی کے ایک سوال کا
جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :آؑپ کی نشانی یہ ہے کہ معّم ر ہیں مگر آؑپ کا چہرہ اور منظر نوجوان ہے ،یہاں تک کہ
[]101
دیکھنا واال سمجھتا ہے کہ آؑپ 40یا اس سے کم عمر کے ہیں۔
موسوی اصفہانی کتاب مکیال المکارم میں حسن اور جمال کو امام مہدؑی کی خصوصیات میں بیان کرتے ہیں اور آؑپ کو
[]102
احادیث کے حوالے دے کر شہاب ثاقب اور کوکب دری سے تشبیہ دیتے ہیں۔
مختلف روایات میں امام زمانؑہ کے چہرہ مبارک کی تفصیالت بیان ہوئی ہیں۔ رسول اللؐہ فرماتے ہیں :مہدؑی مجھ سے ہیں،
آؑپ کی جبین کشادہ اور ناک کھڑی ہے۔[ ]103ایک حدیث میں رسول اللؐہ نے فرمایا ہے کہ مہدؑی کے چہرہ مبارک کی
رنگت عربی اور جسمانی ساخت اسرائیلی ہے[ ،]104ان کے دائیں گال پر ایک تل ہے جو ستاروں کی مانند دمکتا
[]105
ہے۔
امام باقؑر نے اپنے والد اور جّد امجد سے روایت کی ہے کہ ایک دن امام علؑی منبر کے اوپر تھے اور فرمایا :آخر الزمان میں
میرے فرزندوں میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جس کی رنگت سفید مائل بہ سفیدی ہوگی اور سینہ فراخ ہوگا ۔۔۔ اور
اس کے کاندھے قوی ہونگے اور پشت پر دو خال ہونگے جن میں سے ایک اس کی جلد کی رنگت کا اور دوسرا رسول اللؐہ
[]106
کے خال کے مشابہ ہوگا۔
امام مہدؑی کے اخالقی اور دینی اوصاف کو دو صورتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے:
.1ان احادیث کی بنیاد پر جن میں آؑپ کو رسول خدؐا کے مشابہ ترین قرار دیا جاتا ہے؛ چنانچہ آیات و احادیث میں جو
خصوصیات رسول اللؐہ کے لئے بیان ہوئی ہیں ،ان کو امام مہدؑی کی اخالقی اور دینی خصوصیات قرار دیا جا سکتا
ہے۔
.2دوسری روش یہ ہے کہ امام مہدؑی کی اخالقی خصوصیات کے سلسلے میں وارد ہونے والی مستقل روایات کا جائزہ
لیا جائے۔
جو کچھ بھی اخالق اور کردار کے لحاظ سے امام مہدؑی کی خصوصیات ـ خواہ شیعہ روایات میں ،خواہ سنی روایات میں ـ
کے مجموعے سے سمجھا جا سکتا ہے ،یہ ہے کہ آؑپ خدا کے آگے ابر خاشع ترین اور خائف ترین[ ]107اور دانشور ترین اور
[]108
حکیم ترین ہیں۔
امام حسيؑن آؑپ کے بارے میں فرماتے ہیں :امام مہدؑی کو تم ـ آؑپ کے سکون و وقار اور حالل و حرام کے سلسلے میں آؑپ
[]109
کے علم اور لوگوں کو ان کی ضرورت اور لوگوں سے آؑپ ان کی بے نیازی ـ کے ذریعے پہچانو گے۔
امام صادؑق آؑپ کو زاہد ترین فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جن کا لباس سخت اور کھردرا اور کھانا جو کی روٹی
ہے۔[ ]110وہ اپنی حکومت کے کار گزاروں کے لئے بھی سخت گیر ہیں اور لوگوں کے لئے بخشندہ اور محتاجوں پر بہت
ہیں۔[]111 مہربان
امام باقؑر آؑپ کو ایسے فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو کتاب خدا پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی منَکر کو نہیں
کرے۔[]112 دیکھتا جس کی مخالفت نہ
امام رضؑا امام مہدؑی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :آؑپ لوگوں پر ان سے زیادہ صاحب حق اور ان کے ماں
باپ سے بھی ان کے لئے زیادہ ہمدرد ہیں۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کے سامنے خاکسار تر ،اور جن اعمال کا حکم
دیتے ہیں ان پر سب سے زیادہ عامل اور جن چیزوں سے منع کرتے ہیں ان سے سب سے زیادہ باز رہنے والے ہیں۔[ ]113نیز
امام رضؑا آؑپ کو دانا ترین ،صاحب حکمت ترین ،برد بار ترین ،ہرہیزگار ترین ،سخی ترین اور عابدترین شخصیت کے عنوان
[]114
سے متعارف کراتے ہیں جو فرشتوں کے ساتھ ہم کالم ہوتے ہیں۔
امام عسکری کی شہادت کے بعد شیعوں کی حالت
امام حسن عسکری کے فرزند کے حوالے سے ابہام
ی کے زمانے میں مشہور تھا کہ شیعہ آؑپ کے فرزند "قائم" کے منتظر ہیں[ ]115اسی بنا پر عباسی حکمران
امام حسن عسکر ؑ
اس فرزند کی تالش میں تھے اور ان کی بہر قیمت یہی کوشش تھی کہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو ،گرفتار کریں۔
اسی بنا پر امام عسکرؑی نے کبھی بھی اعالنیہ طور پر کسی کو اپنے فرزند کا دیدار نہیں کرایا اور حتی کہ آؑپ کا تعارف ـ
چند ہی خاص اصحاب کے سوا ـ اپنے بہت سے قریبی پیروکاروں سے نہیں کرایا۔[ ]116چنانچہ اماؑم کی شہادت کے وقت
[]117
سوائے ان ہی چند خاص اصحاب کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آؑپ کا کوئی فرزند بھی ہے۔
دوسری طرف سے امام حسن عسکرؑی نے سیاسی حاالت کے پیش نظر ،اپنے وصیت نامے میں صرف اپنی والدہ کا نام دیا تھا
اور گیارہویں اماؑم کی شہادت کے بعد کے دو برسوں کے عرصہ میں بعض شیعہ سمجھتے تھے کہ منصب امامت امام حسن
[]118
عسکری کی والدہ کو سونپ دیا گیا ہے۔
امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے فورا بعد ،اصحاب خاص "عثمان بن سعید عمری"(متوفٰی بین 260تا 267ھ )،کی
سربراہی میں اصحاب خاص نے شیعیان اہل بیت کے درمیان اعالن کیا کہ امام عسکرؑی اپنے بعد ایک فرزند چھوڑ گئے ہیں
جو اس وقت آؑپ کے جانشین اور منصب امامت کے حامل ہیں۔ [ ]119عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں :میں نے عثمان بن
سعید عمری سے امام حسن عسکرؑی کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا :تمہیں آؑپ کا نام
پوچھنے سے باز رکھا گیا ہے ،کیونکہ سلطان (خلیفۂ وقت) سمجھتا ہے کہ امام حسن عسکرؑی نے اپنے بعد
کوئی بیٹا نہیں چھوڑا ہے اور آؑپ کا ترکہ بھی (آؑپ کی والدہ ،بھائی اور بہن) کے درمیان تقسیم ہو چکا
ہے۔ اگر آؑپ کا نام لیا جائے تو وہ آؑپ کو تالش کرنا شروع کرے گا۔ لہذا آؑپ کے نام کے بارے میں مت
کرو۔[]120 پوچھا
امام حسن عسکرؑی کے اصحاب خاص کی تصریحات اور توضیحات کے باوجود ،شیعہ معاشرہ عملی طور پر افراتفری کی
سی کیفیت سے گذر رہا تھا اور عراق اور بین النہرین کے بہت سے شیعہ نئے واقعات کی وجہ سے حیرت زدگی اور پریشانی
کا شکار ہو چکے تھے۔[ ]121بطور مثال ،شیعیان اہل بیت نے ایک ایلچی مدینہ روانہ کیا تا کہ اماؑم کے فرزند کے بارے میں
تحقیق کرے کیونکہ انھوں نے سنا تھا کہ اماؑم نے اپنا بیٹا مدینہ بھجوایا ہے۔[ ]122نیز مروی ہے کہ غیبت صغری کے ہم عصر
عالم ابو زید احمد بن سہل بلخی ،خراسان سے اپنے امام کی تالش میں عراق چلے گئے اور کئی برسوں تک تالش میں
[]123
مصروف رہے۔
خاندان امامت میں بھی اختالف پڑ گیا تھا۔ ُح دیث اور امام حسن عسکرؑی کی پھوپھی حکیمہ خاتون امام عسکرؑی کے
فرزند کی موجودگی تصریح اور آؑپ کی امامت کی حمایت کرتی تھیں لیکن امام عسکرؑی کی اکلوتی بہن ـ جو جعفر کے
تھیں۔[]124 عالوہ امام ہادؑی کی واحد پسماندہ اور شاید جعفر کی حقیقی بہن تھیں ـ جعفر کے موقف کی حمایت کر رہی
سرکاری اداروں اور اعلی حکومتی عہدوں پر فائز منصب دار بھی اس سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ بطور مثال
خاندان نوبخت امام حسن عسکرؑی کے فرزند کی موجودگی اور امامت کا حامی تھا اور عثمان بن سعید عمری اور ان کے
[]125
بیٹے کی نیابِت امام زمانؑہ کو تسلیم کرتا تھا۔
بحراِن امامت اس زمانے میں اس قدر سنگین تھا کہ حتی بعض لوگوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا اور دیگر شیعہ اور غیر
شیعہ مکاتب اور فرقوں سے جا ملے۔ []126۔[ ،]127کچھ لوگوں نے امام حسن عسکرؑی کی وفات کا انکار کیا اور آؑپ ہی کو
ی کی امامت کو قبول
مہدی سمجھنے لگے ،ایک جماعت نے سید محمد کی امامت کو قبول نہیں کیا ،گروه نے امام هاد ؑ
کیا۔[]128 کیااور امام عسکری کی امامت کا انکار
ان حاالت میں ایک بڑی جماعت جعفر کو امام سمجھ رہی تھی۔[ ]129جعفر نے منصب امامت کے حصول کے لئے بہت زیادہ
کوشش کی۔ اس نے امام عسکرؑی کی والدہ کے بقید حیات ہونے کے باوجود آؑپ کے ترکہ میں حصے کا دعوی کیا۔[ ]130عالوہ
ازیں اس نے حکام وقت کو کہا کہ وہ اماؑم کی گرفتاری کے لئے آؑپ کے گھر کی تالشی لیں اور جعفر ہی کے تعاون سے امام
عسکرؑی کی ایک کنیز کو گرفتا کیا گیا اور اس کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا گیا۔[ ]131ادھر جعفر ایک عباسی کارگزار کو
[]132
ساالنہ 20ہزار دینار بطور رشوت دیتا رہا تاکہ وہ اس کی امامت کی تصدیق کیا کرے۔
ان اختالفات کے باوجود ،آخرکار ،شیعہ اکثریت امام حسن عسکرؑی کے فرزند کی امامت کے قائل ہوئے اور ان ہی جماعتوں
نے بعد میں شیعہ امامیہ کی قیادت سنبھالی اور چوتھی صدی ہجری میں اہل بیت کے تمام پیروکاروں کا واحد عنوان
"شیعہ اثنا عشریہ" ہی ٹہرا۔[ ]133شیخ مفید کتاب فرق الشیعہ کے مؤلف "حسن بن موسی نوبختی" سے ایک روایت نقل
کرنے کے بعد ،امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والے چودہ فرقوں کے بارے میں کہتے ہیں:
جن فرقوں کا ہم نے تذکرہ کیا ان میں سے ہمارے زمانے ـ یعنی سنہ 373ھ ق ـ میں سوائے مکتب امامیہ اثنا عشریہ
کے ،کوئی بھی فرقہ باقی نہیں رہا ہے؛ (شیعہ اثنا عشریہ) یعنی وہ لوگ جو امام حسن عسکرؑی کے فرزند ـ جو کہ
رسول اللؐہ کے ہم نام ہیں ـ کی امامت کو تسلیم کر چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ آؑپ زندہ اور باقی رہیں گے ،اس دن
[]134
تک ،جب وہ تلوار لے کر اٹھیں گے۔
تشیع کے استحکام میں توقیعات کا کردار
اس زمانے میں بعض توقیعات امام زمانؑہ کی طرف سے صادر ہوئیں جن میں سے بعض کا تعلق آؑپ کی اپنی امامت کے اثبات
سے تھا۔[ ]135جو دلیل امام زمانؑہ نے اپنی امامت کے اثبات کے لئے پیش کی ہے وہ حضرت آدؑم سے امام زمانؑہ کے زمانے تک
ہدایت الہیہ کے راستے کے جاری رہنے اور زمین کے حجت الہیہ سے خالی نہ ہونے پر تاکید ،سے عبارت ہے۔ نیز آؑپ نے امام کو
امامت کے دعویداروں سے تمیز و تشخیص دینے کے لئے تین معیارات پیش کئے ہیں :عصمت ،علم اور اللہ کی تائید۔
توقیعات کے دو نمونے:
ابن ابی غانم قزوینی اور اہل تشیع کی ایک جماعت نے امام حسن عسکرؑی کے جانشین کے بارے میں اختالف کیا۔ ابن ابی
غانم نے کہا :ابو محمد چل بسے ہیں اور آؑپ کا کوئی جانشین نہیں ہے۔ لوگوں نے خط لکھا اور امام زمانؑہ کی طرف روانہ
کیا اور وجود میں آنے والے مالی اختالف سے آؑپ کو آگاہ کیا۔ امام زمانؑہ نے بقلم خود جواب میں جو مکتوب بھیجا وہ
کچھ یوں ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں نے دین میں اختالف کیا ہے اور اپنے اولیائ
امور (یعنی ائمہ) کے بارے میں شک اور حیرت کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوند متعال نے آدؑم
سے لے کر مجھ سے قبل کے امام تک تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں تا کہ تم ان کے سائے میں پناہ لو اور پرچم لہرائے
تا کہ ان کے واسطے سے ہدایت پاؤ؛ جب بھی ایک پرچم غائب ہوا ،دوسرا پرچم ظاہر ہوا اور جب بھی ایک ستارہ
غروب ہوا دوسرا ستارہ طلوع ہوا۔ جب خداوند متعال اس [اماِم سابق] کو اپنے پاس بال لیا ،تم نے گمان کیا کہ گویا
خداوند متعال نے اپنے دین کو باطل کر دیا ہے اور اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان رابطہ منقطع کر دیا ہے! ،کبھی
بھی ایسا نہ تھا اور جب تک قیامت بپا نہ ہو جائے ،اور اللہ کا امر ظاہر نہ ہو جائے ،ایسا نہیں ہوگا۔امام سابؑق چل بسے
۔۔۔ اور ان کی وصیت و جانشینی اور علم و دانش ہمارے پاس ہے اور ظالم و گنہگار کے سوا کوئی بھی ان خصوصیات
[]136
میں ہمارے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا۔
محمد بن ابراہیم بن مہزیار ـ جن کے والد (ابراہیم بن مہزیار) امام عسکری ؑ کے وکیل تھے اور خود بھی والد کی وفات کے
بعد وکالت کے منصب پر فائز تھے ]137[ ،بھی ابتداء میں امام زمانؑہ کے وجود تک کے سلسلے میں مردد تھے لیکن جب
عراق میں داخل ہوئے ،تو امام زمانؑہ کی طرف سے ایک توقیع ان لئے صادر ہوئی ،جس میں اماؑم نے فرمایا تھا:
مہزیار سے کہئے کہ جو کچھ تم نے اپنے عالقے میں ہمارے پیروکاروں کے بارے میں کہا ،ہم نے اس کو سمجھ لیا۔
چنانچہ ان سے کہو کہ تم نے نہیں سنا کہ خداوند متعال نے فرمایا ہےَ :يا َأ ُّي َه ا اَّلِذ يَن آَم ُن وْا َأ ِط يُع وْا اَهّلل َو َأ ِط يُع وْا
الَّر ُس وَل َو ُأ ْو ِل ي اَألْم ِر ِم نُكْم "۔سورہ نساء ،آیت :59اے ایمان النے والو! اطاعت کرو اللہ کی ،اور اطاعت کرو رسول
اللؐہ کی اور تم میں سے ان لوگوں کی جو فرمان روائی کے حقدار ہیں۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کا بھی اللہ نے
حکم دیا ہے وہ قیامت تک کے لئے ہے؟ کیا ایسا ہے کہ خداوند متعال نے آدؑم سے لے کر اماِم سابق (امام حسن عسکرؑی )
صلوات اللہ علیہ تک ،تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں جن کے سائے میں تم پناہ لے سکو اور پرچم لہرائے جن کے ذریعے
تم ہدایت پا سکو؟ اور جب ایک پرچم غائب ہوا دوسرا پرچم ظاہر ہوا ،اور جب بھی ایک ستارہ غروب ہوا دوسرا
ستارہ طلوع ہوا؟ جب خداوند متعال نے امام سابؑق کو اپنے پاس بالیا ،تم نے گمان کیا کہ گویا خداوند متعال نے اپنے
اور اپنی مخلوقات کے درمیان کا رابطہ منقطع کرلیا ہے ،جبکہ ہرگز ایسا نہ تھا اور قیامت تک کبھی بھی ایسا نہ ہوگا؛
اے محمد بن ابراہیم ،جس مسئلے کے لئے آئے ہو ،اس کے سلسلے میں شک میں نہ پڑو ،کیونکہ خداوند متعال زمین کو
[]138
کبھی بھی حجت سے خالی نہیں چھوڑتا۔۔
غیبت صغرا
اس مسئلے کے بارے میں اختالفات پائے جاتے ہیں کہ غیبت صغری کا آغاز کب سے ہوا ہے؟ ایک رائے ہے کہ غیبت صغری سنہ
255ہجری میں امام زمانؑہ کی والدت کے دن سے ہی شروع ہوئی ہے ،اور اس لحاظ سے اس کی مدت 74برس ہوگی ،اور
دوسری رائے یہ ہے کہ غیبت صغری کا آغاز سنہ 260ہجری میں امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے دن سے ہوا ہے اور اس
لحاظ سے اس دور کی مدت 69برس ہوگی۔
شیخ مفید (متوفٰی 413ھ) اپنی کتاب االرشاد ]139[،اور طبرسی (متوفٰی 548ھ) اپنی کتاب اعالم الوری میں[ ]140اور
بعض دیگر شیعہ اکابِر فقہاء و محّد ثین اور بہت سے مؤرخین اپنی کتب میں پہلے قول کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے بقول
غیبت صغری کی مدت 74برس ہے۔
غیبت صغری کے زمانے میں امام مہدؑی نائبیِن خاص کے ذریعے شیعیان اہل بیت کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے مسائل
حل فرمایا کرتے تھے۔ یہ مسائل اعتقادی ،فقہی اور مالی وغیر مسائل پر مشتمل ہوتے تھے۔
اے علی بن محمد سمری!۔۔۔ تم 6دن بعد وفات پاؤگے۔ اسی لئے اپنے کام مکمل کرنا اور کسی سے بھی جانشین کے
طور پر وصیت نہ کرنا؛ کیونکہ دوسری غیبت کا آغاز ہوچکا ہے اور کوئی ظہور نہ ہوگا سوا اس وقت کے جب خداوند
[]141
متعال خود اجازت فرمائے۔۔
علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد ،نائبین خاص کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوا؛ اور غیبت نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔
یہ مرحلہ متاخرہ ماخذ میں" ،غیبت کبری" کہالیا۔
اکثر شیعہ مآخذ کے مطابق ابوالحسن علی بن محمد سمری کا انتقال سنہ سال 329ھ ،کو ہوا لیکن شیخ صدوق[ ]142اور
فضل بن حسن طبرسی[ ]143کہتے ہیں کہ ابو الحسن علی بن محمد طبرسی 15شعبان المعظم سنہ 228ھ ق کو خالق
حقیقی سے جاملے ہیں۔
غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانؑہ کے ساتھ لوگوں کے تعلق کے بارے میں دو اقوال ہیں:
.1اکابرین شیعہ میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ غیبت کبری کے زمانے میں ،امام زمانؑہ کے ساتھ رابطہ کرنے کا
امکان موجود نہیں ہے اور آؑپ کے اپنے ارشاد کے مطابق ،دیدار کے دعویداروں کو جھٹالنا چاہئے۔ جن بزرگوں نے اس
رائے کو قبول کیا ہے ان میں یہ افراد شامل ہیں :محمد بن ابراہیم نعمانی ،کتاب کتاب الغیبہ میں؛ شیخ مفید المسائل
العشرہ ،شیخ مفید غیبت کبری میں امام زمانؑہ کی مالقات کا امکان آؑپ کے خادمین اور معتبر مالزموں کے لئے
مختص سمجھتے ہیں۔ []144؛ فیض کاشانی ،کتاب الوافی میں؛ جعفر کاشف الغطاء ،کتاب رسالۃ الحق المبین میں۔
اکابرین کی اس جماعت کی دلیل ،متعدد روایات نیز علی بن محمد سمری کے نام امام زمانؑہ کی آخری توقیع ،سے
عبارت ہے۔
.2شیعہ علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ غیبت کبری میں بھی امام زمانؑہ کے ساتھ ارتباط ممکن ہے۔ یہ قول متاخرین
کے نزدیک مشہور ہے اور محمد بن علی کراجکی ،شیخ طوسی اور دیگر علماء نے اس نظریئے کے قائل ہوئے ہیں اور
کہتے ہیں :کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ اماؑم کو کوئی بھی نہیں پہچانتا اور کوئی بھی آؑپ کی خدمت میں حاضر نہیں
رہے۔[]145 ہوتا ،بلکہ جائز ہے کہ آؑپ کے کچھ دوست اور اولیاء آؑپ سے مالقات کریں اور ان کا یہ دیدار مخفی
ظہور امام زمانؑہ کے بارے میں بکثرت نقل ہونے والی روایات کے عالوہ ،شیعہ مفسرین ،اہل بیت کے اقوال و احادیث سے
اس کی طرف استناد کرتے ہیں ،قرآن کریم نے بھی ظہور کی نشانیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ شیعہ روایات کے مطابق ،ظہور
کی آمد پر دنیا کی تین اہم خصوصیات ہیں:
[]146
.1ظلم و ستم پھیل جائے گا اور فتنہ ،جو ہر گھر پر وارد ہوگا؛
.2سفیانی اور نواصب کا خروج ،اور عراق سمیت ديگر سرزمینوں میں تشّی ع کے خالف سرگرم عمل دشمنوں کی
[]147
سرگرمیاں جو شام پر قابض ہوکر وہاں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔
.3امام زمانؑہ کے وہ اولیاء اور اصحاب جو اسالمی سرزمینوں میں آؑپ کی یاد اور آؑپ کے نام کو زندہ رکھتے ہیں اور
[]148
دنیا بھر میں پھیال دیتے ہیں۔
اگرچہ لفظ "توقیع" ائمہ اور بالخصوص امام زمانؑہ کے مکتوبات کے معنی میں استعمال ہوا ہے ،لیکن یہ لفظ امام زمانؑہ کے
غیر مکتوب کالم کے لئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور جن مآخذ میں بارہویں اماؑم کی توقیعات کو اکٹھا کیا گیا ہے (منجملہ:
شیخ صدوق کی کمال الدین اور شیخ علی الکورانی کے زیر نگرانی تالیف شدہ معجم احادیث االمام المهدی) ،ان میں آؑپ کے
غیر مکتوب کلمات ،حتی کہ نائبین خاص کے کالم کو بھی توقیعات کے زمرے میں ذکر کیا گیا ہے۔[ ]149امام زمانؑہ کی زیادہ
تر توقیعات ـ جن کی تعداد 80کے قریب ہے ـ غیبت صغری کے دور میں ،اعتقادی ،فقہی اور مالی موضوعات کے سلسلے میں
[]150
صادر ہوئی ہیں۔
قرآن
قرآن کریم
امام زمانؑہ اور آخر الزمان کے نجات دہندہ کا مسئلہ قرآن کریم میں
صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن شیعہ مفسرین احادیث سے
َو ُن ِريُد َأ ن َّن ُم َّن َع َلى اَّلِذ يَن اْس ُت ْض ِع ُف وا استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ قرآن کی بہت سی آیات
ِف ي اَأْلْرِض َو َن ْج َع َلُه ْم َأ ِئ َّم ًة َو َن ْج َع َلُه ُم امام زمانؑہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ 250
اْلَو اِرِث يَن ﴿َ ﴾٥و ُن َم ِّكَن َلُه ْم ِف ي اَأْلْرِض [یا ]260آیات قرآنی کا تعلق امام مہدؑی سے ہے۔[ ]151مفسرین قرآنی
َو ُن ِرَي ِف ْرَع ْو َن َو َه اَم اَن َو ُج ُن وَد ُه َم ا ِم ْنُه م ی کے وجود مبارک اور مسئلۂ ظہور
آیات کی دو قسموں سے امام مہد ؑ
َّم ا َكاُن وا َي ْح َذ ُروَن ﴿
﴾٦ کے لئے استفادہ کرتے ہیں1
:۔ وہ آیات کریمہ جو امام کے وجود پر
اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو تاکید کرتی ہیں
زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان قرآن کریم کی آیات کے مطابق ،خداوند متعال نے ہر امت کے لئے ایک
فرد منتخب کیا ہے جو اس کی ہدایت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہےَ" :و ِل ُكِّل
کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور
زمین کا وارث قرار دیدیں* اور انہی کو َق ْو ٍم َه اٍد ترجمہ :اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے"۔ اس آیت
روئے زمین کا اقتدار دیں اور فرعون کی تفسیر میں امام صادؑق نے فرمایا :ہر زمانے میں ہمارے خاندان
وہامان اور ان کے لشکروں کو ان ہی میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف
کمزوروں کے ہاتھوں سے وہ منظر دکھالئیں []152
ہدایت دیتا ہے جو رسول خدؐا اللہ کی طرف سے الئے ہیں۔
جس سے یہ ڈر رہے ہیں۔ ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں ،یہ ہے
کہ قرآن کے لئے ُم َب ِّی ن اور ُم َف ِّس ر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا
قصص
کوئی بھی قرآن کریم کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں
ہے۔ پس عقل کے تقاضوں کے مطابق ،رسول اللؐہ کے بعد امام کا ہونا الزم اور ضروری ہے۔ [ ]153شیعہ عقیدے کے مطابق،
امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور
برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا لمحہ بھر امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے
گی۔[]154 باسیوں کو نگل لے
2۔ "روئے زمین پر حکومِت صالحین و مؤمنین کی بشارت دینے والی آیات"
شیعہ مفسرین قرآن کریم کی دسیوں آیات کے حوالے سے ،ظہور امام زمانؑہ کو قابل استناد سمجھتے ہیں؛ وہ آیات کریمہ جو
صالح اور مستضعف بندوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور حق و عدل پر استوار ،واحد عالمی حکومت کی تشکیل اور تمام
ادیان و مکاتب پر اسالم کے غلبے پر مرکوز ہیں۔ قرآن کے بیان میں ،یہ بشارت بعض دیگر آسمانی کتب میں بھی نازل ہوئی
ہےَ :و َلَق ْد َكَت ْب َنا ِف ي الَّز ُبوِر ِم ن َبْع ِد الِّذ ْكِر َأ َّن اَأْلْر َض َي ِر ُث َه ا ِع َب اِد َي الَّص اِلُح وَن
ترجمہ :اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں
بھی یہ لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے؛ اور اس بشارت کو قرآن میں اللہ کے دیئے ہوئے وعدے سے
َو َن ْج َع َلُه ْم َأ ِئَّم ًة َو َن ْج َع َلُه ُم اْلَو اِر ِث يَن قصص ترجمہ: مستند کیا گیا ہےَ
:و ُن ِر يُد َأ ن َّن ُم َّن َع َلى اَّلِذ يَن اْس ُت ْض ِع ُف وا ِف ي اَأْلْر ِض
اور ہم نے چاہا کہ احسان کریں ان پر جنہیں روئے زمین پر ،دبایا [یا پیسا یا ضعیف کیا] گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار
دیں ،ان ہی کو وارث قرار دیں۔ ان آیات کریمہ میں ،بہت سی احادیث کی بنیاد پر ،مسئلۂ ظہور سے نسبت دی گئی ہے۔
ایک آیت میں خداوند متعال اپنے مؤمن بندوں کے لئے ،مؤمنین اور صالحین کی حکومت کے قیام کو اللہ کے وعدے کے طور
پر بیان کیا گیا ہے اور انہیں امن و سکون کی بشارت دی گئی ہےَ :و َع َد اُهَّلل اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِم نُكْم َو َع ِم ُلوا الَّص اِلَح اِت
َلَي ْس َت ْخ ِل َف َّنُه م ِف ي اَأْلْر ِض َكَم ا اْس َت ْخ َلَف اَّلِذ يَن ِم ن َق ْب ِل ِه ْم َو َلُي َم ِّكَن َّن َلُه ْم ِد يَن ُه ُم اَّلِذ ي اْر َتَض ى َلُه ْم َو َلُي َب ِّد َلَّنُه م ِّم ن َبْع ِد
َخ ْو ِف ِه ْم َأ ْم نًا َي ْع ُب ُد وَن ِن ي اَل ُي ْش ِر ُكوَن ِب ي َش ْي ئًا نور "55ترجمہ :اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو صاحب ایمان ہیں
اور نیک اعمال بجا التے رہے ہیں کہ وہ ضرور انہیں روئے زمین پر [اپنا] جانشین قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا
جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار [اور تسلط] عطا کرے گا ان کے پسندیدہ دین کو ،اور ضرور بدل دے گا ان کے لئے ان
کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ ائمۂ
اطہاؑر سے منقولہ احادیث نے اس آیت کریمہ کو امام زمانؑہ اور آؑپ کے اصحاب پر منطبق کیا ہے۔
احادیث
امام زمانؑہ کا موضوع اسالم اور بالخصوص مکتب امامت کے قدیم ترین اور بنیادی مباحث میں شامل ہے۔ چونکہ امام زمانؑہ
کے ظہور کا وعدہ رسول اللؐہ نے دیا ہے ،چنانچہ ابتداء ہی سے یہ مسلمانوں کے ہاں زبانزد تھا اور آؑپ کی والدت سے قبل ہی
شیعہ علماء نے دسیوں کتابیں آؑپ کے بارے میں تحریر کی ہیں اور آؑپ کی والدت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور
بارہویں امام سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں؛ جن میں سے بعض معتبر ترین کتابیں حسب ذیل
ہیں:
الغيبہ
منتخب االثر
شیعہ احادیث میں امام زمانؑہ کی شان و منزلت اور اہمیت پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔[ ]155ان احادیث میں ذیل کے
موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے:
َق اَل َر ُس وُل اِهَّلل ؐ :الَم هدُی َرُج ٌل ِم ن ُو لِد ی َو جُه ُه َکالَکوَکِب الُّد ِّر ِّی
ترجمہ :مہدی میری اوالد میں سے ایک فرد ہیں ،جن کا
چہرہ تابندہ ستارے کی مانند ہے۔[]156
قال االمام الکاظؑم َ :لو کاَن ِف یُکم ِع َّد ُة أهِل َبدٍر َلقاَم قاِئُم نا
ترجمہ :امام کاظؑم نے فرمایا :اگر اہل بدر کی تعداد کے برابر
[مؤمنین کامل] کی جماعت تمہارے درمیان ہوتی ،ہمارے قائم قیام کرتے۔[]157
قال امام ّص ادق َؑ :م ْن َم اَت ُم ْنَت ِظ رًا ِل َه َذ ا اَأْلْم ِر َکاَن َکَم ْن َکاَن َم َع اْلَق اِئ ِم ِف ی ُف ْس َط اِط ِه اَل َب ْل َکاَن ِب َم ْن ِز َلِة الَّض اِرِب َب ْی َن
َی َد ْی َر ُس وِل اِهَّلل ص ِب الَّس ْی ِف
ترجمہ :امام صادؑق نے فرمایا :جو شخص اس امر (یعنی ظہور قائم) کا انتظار کرتا ہوا دنیا
سے رخصت ہو جائے ،وہ اس شخص کی مانند ہے جو قائم کے ساتھ ایک خیمے میں ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ،اس
[]158
شخص کی مانند ہے جو رسول اللؐہ کی خدمت میں شمشیر اٹھا کر جہاد کر چکا ہے"۔
ظہور کی نشانیاں
عن محمد بن مسلم قال :سمعت أبا عبد اهّلل عليہ السالم يقول :إّن قّد ام القائم عالمات تكون من اهّلل تعالى للمؤمنين؛
قلت :فما هي جعلني اهّلل فداك؟ قال :ذاك قول اهّلل عّز و جلَ
:و َلَن ْب ُلَو َّنُكْم ؛يعني المؤمنين قبل خروج القائ
م ِب َش ْي ٍء
ِّم َن اْلَخ وِف َو اْلُج وِع َو َنْق ٍص ِّم َن اَألَم َو اِل َو األنُف ِس َو الَّث َم َر اِت َو َب ِّش ِر الَّص اِب ِر يَن بقرہ155؛ ترجمہ :محمد بن مسلم کہتے
ہیں :میں نے امام صادؑق کو فرماتے ہوئے سنا کہ قائم کے ظہور سے قبل کچھ عالمات ظاہر ہونگی؛ میں نے عرض کیا :اللہ
مجھے آپ پر فدا کرے ،وہ عالمات کیا ہیں؟ فرمایا :اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ "اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے" یعنی
قیاِم قائم سے قبل تم مؤمنین کو؛ خوف ،دہشت ،بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی جیسی کسی چیز کے ساتھ ،اور
[]159
خوشخبری دیجیئے ان کو جو صبر کرنے والے ہیں۔
قال رسوُل اِهّلل َؐ :ی خُر ُج فی آخِر ُا ّم تی الَم هدُّی َ ،ی ْس قیِه اهّلل ُ الَغ ْی َث ،وُت خِر ُج األرُض َن باَت ها ،وُی عَط ی الماُل ِص حاحا،
وَت ْکُث ُر الماِش َی ُة ،وَت ْع ُظ ُم اُالّم ُة
میری امت کے آخر میں مہدی ظہور کرے گا؛ خداوند اس کو بارش عطا کرے گا ،زمین اپنے
نباتات کو پروان چڑھائے گی ،مال کمی اور زيادتی کے بغیر اور مساوات کے ساتھ عطا ہوگا ،مال مویشیوں کی تعداد میں
[]161
اضافہ ہوگا اور امت سربلند ہوگی اور عظمت پائے گی۔
شیعہ زمانۂ عصِر غیبت میں ،رسول اللؐہ اور دیگر معصومین ـ بالخصوص امام زمانؑہ سے توسل کرتے ہیں اور آؑپ کی
خصوصی دعاؤں اور توجہات کی التجا کرتے ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایاَ" :و ُق ِل اْع َم ُلوْا َف َس َي َر ى اُهّلل َع َم َلُكْم
َو َر ُس وُلُه َو اْلُم ْؤ ِم ُن وَن َو َس ُت َر ُّد وَن ِإ َلى َع اِلِم اْلَغ ْي ِب َو الَّش َه اَد ِة َف ُي َن ِّب ُئُكم ِب َم ا ُكنُت ْم َت ْع َم ُلوَن (ترجمہ :اور کہیئے کہ تم عمل کرتے رہو،
اللہ بہت جلد دیکھے گا تمہارے عمل کو اور اس کا پیغمبر اور ایمان والے [دیکھیں گے] اور بہت جلد تم پلٹائے جاؤ گے غائب
و حاضر ہر بات کے جاننے والے کی طرف تو وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا اعمال کرتے تھے)"۔ چونکہ آیت کریمہ میں لفظ
"َف َس یری" میں حرف "َس " خدا ،رسول خدؐا اور مؤمنین کے لئے یکسان طور پر استعمال ہوا ہے اور خداوند متعال اب اسی
وقت تمام موجودات کے حال سے آگاہ ہے ،رسول خدا اور مؤمنین کا علم بھی مذکورہ آیت میں اسی طرح کا اور فعلی ہے؛
اور چونکہ تمام مؤمنین اس طرح کے علم کے حامل نہیں ہیں ،چنانچہ آیت میں مؤمنین سے مراد معدودے چند مؤمنین ہیں
جن کے بہترین مصادیق ـ احادیث کی رو سے ـ اہل بیت بیان کئے گئے ہیں۔ اور متعدد روایات ـ جن میں سے کچھ اصول
کافی (َباٌب ِف ی َأ ّن اَأْلِئ ّم َة ُش َه َد اُء اِهّلل َع ّز َو َج ّل َع َلی َخ ْلِق ِه = باب بعنوان" :ائمہ اللہ کی مخلوقات پر اس کے
گواہ ہیں ") میں اکٹھی کی گئی ہیں ـ ظاہر کرتی ہیں کہ ائمہ اللہ کے اذن و اجازت سے انسانوں کے حاالت و کیفیات سے
باخبر ہیں اور افراد کے مادی اور معنوی حاالت میں مؤثر ہو سکتے ہیں اور جس قدر ان کی اطاعت و پیروی اور توسل اور
تعلق زیادہ ہو ،ان آثار میں اضافہ بھی ہوگا۔ دعائے عہد ،دعائے توسل ،نماز امام زمانہ اور مسجد جمکران [نیز مسجد سہلہ
وغیرہ] میں حاضری ،زیارت آل یاسین کی قرائت ،امام زمانؑہ کی سالمتی کے لئے صدقہ ،نصف شعبان کے لئے محافل جشن
کا انعقاد ،اس سلسلے میں کہے ہوئے بے شمار اشعار ،امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کی جھلکیاں ہیں۔
موسوی اصفہانی اپنی کتاب مکیال المکارم میں امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے بعض آداب کا تذکرہ کیا ہے جن
میں کچھ آداب حسب ذيل ہیں:
امام زمانؑہ کی بہتر معرفت؛
امام زمانؑہ کو یاد رکھنا ،اور آؑپ اور دیگر معصومیؑن کی تکریم و تعظیم کی مجالس منعقد کرنا یا منعقدہ مجالس میں
شرکت کرنا؛
غیبت اور ظہور کے زمانے میں امام زمانؑہ کی نصرت کا قلبی ارادہ؛
خاص اور معینہ مقامات پر امام زمانؑہ سے توسل اور آؑپ کی طرف توجہ دینے کا اہتمام کرتے رہنا؛
امام زمانؑہ کے لئے مخصوص دعاؤں اور زیارات کی قرائت کا اہتمام کرنا۔
شیعہ کتب تاریخ و حدیث منجملہ :الکافی ،االرشاد ،اعالم الوری ،کمال الدین ،الغیبہ طوسی و الغیبہ نعمانی میں بعض افراد
کے نام مذکور ہیں جنہوں نے امام حسن عسکرؑی کے ایام حیات میں آؑپ کے فرزند ارجمند حضرت مہدؑی کا دیدار کیا ہے؛ ان
لوگوں کے دیدار کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے؛ ان ہی میں سے ایک امام عسکرؑی کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون[ ]162ہیں
جو امام زمانؑہ کی والدت کی عینی گواہ ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر امام حسن عسکرؑی کے اصحاب خاص اور خدام شامل
ہیں :امام عسکرؑی کے خادم ابو نصر ظریف ]163[،احمد بن اسحاق اشعری قمی ]164[،ابو علی بن مطہر ]165[،سعد بن عبداللہ
[]170
اشعری قمی ]166[،یعقوب بن منقوش ]167[ ،خادم ابو غانم ]168[،کامل بن ابراہیم ]169[،وغیرہ۔
عالوہ ازیں مروی ہے کہ غیبت صغری کے 69برسوں کے عرصے میں اماؑم کے چار نائبین خاص سمیت متعدد دوسرے افراد
نے امام زمانؑہ کے ساتھ مالقات کا شرف حاصل کیا ہے؛ جیسے :ابراہیم بن ادریس ]171[،ابراہیم بن عبدہ نیشابوری اور ان کے
خادم ]172[،امام حسن عسکرؑی کے خادم ابو االدیان ]173[،ابو سعید غانم ہندی ]174[،ابو عبداللہ بن صالح ]175[،ابو محمد
حسن بن وجناء نصیبی ]176[،ابو علی محمد بن احمد بن حماد مروزی محمودی ]177[،اسمعیل بن علی نوبختی ]178[،علی بن
ابراہیم بن مہزیار ]179[،محمد بن اسمعیل بن موسی الکاظم|محمد بن اسماعیل بن امام کاظؑم ]180[،محمد بن شاذان
افراد۔[]182 نیشابوری ]181[،اور دسیوں دوسرے
غیبت صغری کے زمانے میں نیابت کے دعویداروں کی بھی کمی نہ تھی۔ محمد بن نصیر نمیری ،احمد بن ہالل کرخی ،اور
[]183
محمد بن علی َش لَم غانی نیابت کے دعویدار تھے اور ان کے لعن اور دور بھگانے پر متعدد توقیعات وارد ہوئیں۔
غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانؑہ کے دیدار کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ مالقات کا سرے سے انکار
کرتا ہے اور دوسرا نظریہ مالقات کے امکان اور وقوع کے اثبات کے لئے دالئل اور شواہد پیش کرتا ہے۔ مالقات کا انکار کرنے
والے کبھی اپنے نظریے کے اثبات کے لئے بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں جن کی رو سے غیبت کبری کے زمانے میں
مشاہدہ کرنے والے کو جھوٹا کہا گیا ہے۔[ ]184اور کبھی راوی کی صداقت میں شک و شبہہ اس نظریے کی بنیاد ٹہرا ہے؛ اور
پھر بعض علماء موقع پرستوں کی منفعت پسندی کا سد باب کرنے کے لئے ہر قسم کے دیدار کا انکار کرتے ہیں۔[ ]185ادھر
بعض احادیث اور دعاؤں امام زمانؑہ کے دیدار کے لئے بعض اعمال کی تلقین کی گئی ہے]186[،۔[ ]187اور کم از کم دو معتبر
حدیثوں میں اماؑم کے خاص پیروکاروں کے لئے اماؑم تک رسائی اور آؑپ سے مالقات کو امِر ممکن جانا گیا ہے۔[ ]188شیخ
صدوق ،شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے اکابرین نے اپنی کتابوں میں اماؑم کا دیدار کرنے والوں کے لئے الگ ابواب متعین
کئے ہیں اور غیبت کبری میں مالقات کو ممکن قرار دیا ہے۔[ ]189بہت سی روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن سے نمایاں ہوتا ہے
کہ بڑے علماء سے لے کر معمولی افراد تک امام زمانؑہ کو دیکھا ہے۔ شیخ حر عاملی ،سید عبداللہ شبر اور آیت اللہ لطف اللہ
صافی گلپایگانی کا کہنا ہے کہ دیدار امام زمانؑہ سے متعلق روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہیں۔[ ]190اس نظریے کے قائل
بعض افراد کے نام حسب ذیل ہیں:
شعرانی]195[، میرزا محمد حسین نائینی ]191[،سید ابن طاؤس ]192[،ابراہیم کفعمی ]193[،محمد تقی مجلسی ]194[،ابوالحسن
شیخ حر عاملی ]196[،مقدس اردبیلی ]197[،میرزا محمد استر آبادی ]198[،شہید ثانی ]199[،سید بحر العلوم ]200[،سید نعمت
[]202
اللہ جزائری ]201[،شیخ مرتضی انصاری۔
زیارات جامعہ کے عالوہ ـ جن سے تمام ائمہ کی زیارت کی جاسکتی ہے ،امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے لئے
مختلف قسم کی دعائیں اور زیارات نقل ہوئی ہیں جن میں سے اہم ترین دعاؤں اور زیارات کے عنوان حسب ذیل ہیں:
دعائے ندبہ
دعائے َف َر ج
زیارت آل ٰی س
دعائے غریق
دعائے عہد
ناحیہ مقدسہ سے بھی مختلف دعائیں اور زیارات صادر ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے َف َر ج (َا لّلُه َّم َع ُظ َم الَب الء) ،دعائے "یا َم ن
أظَه َر الَج میَل " ،دعائے "َا لّلهّم َر َّب الّن وِر الَع ظیم" ،دعائے "َا للُه ّم ارُز قنا َت وفیَق الطاَع ِة " ،دعائے سہم اللیل ،رجب کے
ہر روز کی دعا۔ دعائے "َا للهّم إّن ی َا سأُلَك ِب الَم ولوَد یِن فی َر َج ب" ،دعائے "َا للهّم إّن ی َا سأُلَك ِب َم عانی َج میِع ما َیدعوَك
" ،زیارت ناحیہ مقدسہ اور زیارت الشہداء۔[]203
ِب ِه ُو الُة أمِر َك
انتظار
مفصل مضمون:انتظاِر َف َر ج
اسالمی تعلیمات میں انتظاِر َف َر ج بمعنی نامساعد حاالت میں کشادگی اور فراخی کی امید ،آیات اور روایات میں مسلسل
دہرائے جانے والے مفاہیم میں سے ہے۔خطا در حوالہ Closing </ref> missing for <ref> tag :شیعہ
تعلیمات میں اس انتظار کا اہم ترین مصداق ،ظہور امام زمانؑہ کے ساتھ سختیوں کے خاتمے اور کشادگی نیز روشن مستقبل
کی امید ہے۔ اس طرح کے انتظار اور منتظر کے لئے بعض خاص اصطالحات روایات میں وارد ہوئی ہیں؛ جیسےَ :اْلُم نتَظ ُر
أِل ْم ِر نا ُ
،م نتِظ ٌر ِل هذا اَالمرِ
،ا ْن ِت ظاُر قاِئِم ناَ
،ت َو ُّق ُع اْلَف َر جَ
،ا لُم نتِظ ریَن ِل ُظ هوِرِه ُ
،م ْنتِظ روَن ِل َد ْو َلِة اْلَح ق
اور
َا لُم نتِظ ُر ِل ّلثانی
َع َش ر ۔[ ]204ان روایات میں منتظرین کے لئے بہت زیادہ ثواب کا وعدہ دیا گیا اور انہیں اولیاء اللہ اور لوگوں کے درمیان
بہترین افراد ،شمار کیا گیا ہے جو جنگ بدر میں رسول اللؐہ کے صحابہ کی مانند ہیں یا جہاد کے موقع پر امام زمانؑہ کے
[]205
خیمے مین مقیم ہیں اور آؑپ کے ہمراہ جنگ لڑ رہے ہیں۔
انتظاِر َف َر ج اور کشادگی اور امن و سکون کی امید فردی بھی ہوسکتی ہے اور عمومی بھی[ ]206اور صرف اس شرط پر،
تعمیری ہوگی کہ کوشش اور جدوجہد نیز مکمل تیار کے ساتھ ہو اور اگر تاخیر ہوئی تو مؤمنین مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
گی۔[]207 اس طرح کے انتظار و امید اور کوشش اور جدوجہد فرد اور معاشرے کے کمال و ارتقاء کے اسباب فراہم کرے
نیمہ شعبان
15شعبان کا جشن
جیسا کہ والدت کے حصے میں مذکور ہوا ،قول مشہور یہ ہے کہ امام زمانؑہ کی والدت پندرہ شعبان کے دن [بوقت فجر]
ہوئی ہے۔ شیعہ اس روز کو اہم ترین عیدوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور اس کی رات وسیع چراغاں اور نیز رات اور
دن کو جشن ،شعر خوانی ،نذر و نیاز اور قربانی اور غرباء کو کھانا کھالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ مراسمات ایران میں
دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ وسیع سطح پر منعقد کئے جاتے ہیں۔ جشن و سرور کے ان مراسمات کا بڑا حصہ ملک بھر کے
شہروں کے مذہبی مقامات ،گلی محلوں اور بازاروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ [قم کے نواح میں واقع] مسجد جمکران مہدویت
کے جشن کی سب سے بڑی ميزبانی کا انتظام کرتی ہے۔ اس روز ایران میں عام تعطیل قرار پائی ہے اور اس دن کو
"مستضعفین کا عالمی" دن کہا جاتا ہے۔ عراق میں بھی شیعیان اہل بیت جشِن نیمہ شعبان کے انعقاد کے ساتھ ساتھ امام
حسیؑن کی زیارت کے لئے چلے جاتے ہیں۔ بحرین ،یمن ،مصر ،لبنان ،شام اور ہندوستان نیز پاکستان میں بھی وسیع سطح پر
جشن نیمہ شعبان کا اہتمام کیا جاتا ہے[ ]208اور پاکستان اور ہندوستان میں نیمہ شعبان کی رات کو شب برات بھی کہا جاتا
[]209
ہے اور خاص قسم کے مراسمات کا انعقاد ہوتا ہے۔
زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے شیعہ فرقے مہدویت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے ،امام زمانؑہ کے موعود ہونے اور موعود کے
مصداق کے تعین میں امامیہ کے ساتھ اختالف رائے رکھتے ہیں۔ زیدیہ کی بعض شاخوں سمیت کچھ شیعہ فرقے ،ماضی
میں امام مہدؑی کی والدت اور آؑپ کی غیبت کو نہیں مانتے اور ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام زمانؑہ موعود ہیں اور آخر
الزمان میں ظہور کریں گے چنانچہ وہ بارہویں امام یعنی محمد بن حسن عسکرؑی پر ـ امامیہ کی مانند ـ امام موعود اور
امام منتَظ ر کے مصداق کی تطبیق کو یا تو سرے سے مسترد کرتے ہیں یا کم از کم اس کی تائید و تصدیق نہیں کرتے۔ ان کا
صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام منتَظ ر آخر الزمان میں پیدا ہونگے اور اٹھ کر قیام فرمائیں گے۔
بحیثیت مجموعی ،زیدیہ میں مہدویت کا عقیدہ ،مہدویِت نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ امامت کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم
کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بالئے
اس کی پیروی کرنا الزمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو![ ]210اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا
ہوگا۔[]211 موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر ،امام منتظر کوئی دوسرا سید
تاریخ اسالم کی ابتداء سے زیدیہ کی بعض جماعتیں ،مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض ائمہ کی مہدویت کا
دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ زید بن
ق)]214[، علی ]212[،نفس زکیہ ]213[،محمد بن قاسم بن علی بن ُع مر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفٰی 219ھ
یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوف 250ھ ق)]215[،
اور حسین بن قاسم عیانی (متوفٰی ٰی
[]216
404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں۔
اہل سنت
اہل سنت کے مصادر حدیثی میں امام مہدؑی اور منجی آخری الزمان کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ابری
شافعی[ ،]217عبد الحق دھلوی[ ،]218سقارینی[ ]219اور شوکانی[ ]220جیسے اہل سنت کے بعض بزرگ محدثین ان روایات کے
متواتر ہونے کے سلسلہ میں تصریح کی ہے۔ اہل سنت ان روایات کی وجہ سے مہدی کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس
موضوع کے سلسلہ میں شیعہ سنی عقیدہ کے مطابق مہم ترین مشترک خصوصیات یہ ہیں :وہ پیغمبر اکرم ؐ کی اوالد میں
سے اور ان کے ہم نام ہوں گے اور ان کا لقب مہدی ہوگا۔ آخری زمانہ میں حتمی طور پر وہ قیام کریں گے اور تمام ظالمین پر
کامیاب ہوں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ جس طرح سے وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی اور وہ
[]221 ی کے ہمراہ زمین پر لوٹ کر آئیں گے۔
حضرت عیس ؑ
پیغمبر اکرم ؐ کے ہمنام ہونے کے عالوہ ان کے والد کا نام بھی آپ کے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا ،جبکہ شیعوں کا
ہیں۔[]222 عقیدہ یہ ہے کہ وہ امام حسن عسکرؑی کے بیٹے
ہے۔[]223 اہل سنت کا ایک گروہ ان کے امام حسؑن کی نسل سے ہونے کا عقیدہ رکھتا
اہل سنت کے مشہور نظریے کے مطابق مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے اور وہ امام حسن عسکری کے فرزند نہیں ہیں۔
[]224
اہل سنت کی ایک قلیل تعداد نے عقیدہ مہدویت اور اس سلسلہ کی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں ابن خلدون کی
تاریخ[ ]225میں اور رشید رضا کی تفسیر[ ]226المنار شامل ہیں۔
مستشرقین
بعض مستشرقین کی تحقیق کا موضوع ہی مسئلۂ مہدویت رہا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے مختلف نظریات قائم کئے
ہیں :ہنری کوربن ( )Henry Corbinمظہریاتی ( )Phenomenologicalنقطۂ نظر سے ،مہدویت کو شیعہ عرفان و فلسفے
کے نہایت بنیادی اعتقادی عناصر کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی نظر سے "مہدویت دین کے باطن اور ظہور امام کی
تفسیر کے معانی میں ،انسانی حیات کی تجدید ہے۔ [ ]227کوربن کا کہنا ہے کہ ظہور کے ساتھ ،وحِی الہی کے تمام خفیہ
اصول یا معنوی معانی ،آشکار ہوجائیں گے۔[]228
فرانسیسی مصنف "جیمز ڈارمسٹٹر" ( ،)James Darmesteterتاریخی نقطۂ نظر سے ،سمجھتے ہیں کہ مہدویت کا تذکرہ
قرآن میں نہیں آیا ہے اور پیغمبر اسالم کے اقوال میں بھی اس کے کوئی واضح عالئم موجود نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ
[]229 مہدویت کا عقیدہ شیعہ افکار کا پیدا کردہ اور ایرانی اساطیر اور افسانوں سے متاثر ہے۔
ولندیزی مستشرق فان فلوٹن ( )Gerlof van Vlotenکا دعوی ہے کہ مہدویت کا تفکر کوفی شیعوں نے رائج کیا ہے تا کہ
شام میں مقیم اموی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے ،اس کی ممکنہ قوتوں اور صالحیتوں سے ،فائدہ اٹھا سکیں۔
[]230
ہنگری کے یہودی مستشرق ایگناز گولڈزیہر ( )Ignaz Goldziherتاریخی نقطۂ نظر سے ،سمجھتا ہے کہ عقیدہ مہدویت کی
جڑیں یہودی اور عیسائی فکری عناصر میں پیوست ہیں اور اس میں زرتشتیوں کے یہاں زیر بحث سوشیانس کی بعض
[]231
خصوصیات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
برطانوی پروفیسر ڈیوڈ ساموئل مارگولیتھ ( )David Samuel Margoliouthکا کہنا ہے کہ عقیدہ مہدویت محمد بن
حنفیہ کے زمانے میں مختار اور فرقۂ کیسانیہ میں مذکورہ محمد بن حنفیہ کے حامیوں کے ذریعے معرض وجود میں آیا ہے،
[]232 جنہوں نے ان کے مارے جانے کے بعد انہیں مہدی کا لقب دیا۔
متعلقہ مضامین
غیبت امام زمانؑہ
نواب اربعہ
رجعت
آخر الزمان
انتظار فرج
دجال
سفیانی کا خروج
جنگ قرقیسیا
حوالہ جات
ص283۔ .1محمدی رے شہری ،دانش نامہ امام مہدؑی 1393 ،ھ ش ،ج،2
.26ابن طلحہ شافعی ،مطالب السؤول ،باب ،12بحوالہ از :اربلی ،کشف .2محمدی رے شہری ،دانش نامہ1393 ،ھ ش ،ج ،2ص283۔
الغمہ1381 ،ق ،ج ،2ص437۔
.3محمدی رے شہری ،دانش نامہ1393 ،ھ ش ،ج ،2ص291-289۔
.27ابن خلکان ،وفیات االعیان[ ،بیتا] ،ج ،4ص176۔
.4محمدی رے شہری ،دانش نامہ1393 ،ھ ش ،ج ،2ص305-297
.28مقدسی ،بازپژوہی تاریخ والدت و شہادت معصوماؑن ،ص597۔
.5طبسی ،تا ظهور1388 ،ھ ش ،ج ،1ص44۔
.29ابن خلکان ،وفیات االعیان[ ،بیتا] ،ج ،4ص176۔
.6محمدی رے شہری ،دانش نامہ1393 ،ھ ش ،ج ،2ص311۔
[[ .30قاضی نوراللہ شوشتری نے احقاق الحق ،ج ،13ص ،90-89میں
.7نوری ،النجم الثاقب ،ج ،1ص165-265۔
اس قول کو ابن خلکان کی کتاب وفیات االعیان سے نقل کیا ہے؛
حاالنکہ وفیات میں ہے کہ آؑپ 9ربیع االول کو پیدا ہوئے ہیں۔ .8طبسی ،تا ظہور ،ج ،2ص492۔
مآخذ
قرآن کریم۔
إبن حنبل ،أحمد بن محمد الشیبانی المروزی البغدادی ،مسند اإلمام أحمد بن حنبل ،دار صادر بيروت۔
ابن خشاب ،عبداللہ بن احمد ،تاریخ الموالید االئمہ و وفیاتہم ،مجموعہ نفیسہ ،تحقیق آیت اللہ مرعشی نجفی ،قم ،کتابخانہ
آیت اللہ مرعشی1406 ،ھ،
ابن خلکان ،وفیات االعیان ،بہ تحقیق احسان عباس 1969ع (افست قم ،منشورات رضی)۔
ابن شہر آشوب ،محمد بن على ،مناقب آل ابی طالب علیہم السالم ،اول ،قم ،عالمہ1379 ،ھ،
سید ابن طاؤس ،رضی الدین علی بن موسی ،المالحم والفتن ،مطبعۃ نشاط ،مؤسسۃ صاحب األمر عجل اللہ تعالی َف َر َج ُہ
الشریف ،الطبعۃ األولی ،اصفہان 1416ھ ق
ابن طاؤس ،رضي الدين علي بن موسى الحلي ،مذاہب الطرائف في معرفۃ الطوائف ،مطبعۃ الخيام -قم 1399ھ۔
ابن طولون ،االئمہ االثنی عشر ،بہ تحقیق صالح الدین منجد ،قم ،منشورات الرضی۔
ت حس ن سل م اسد دار الثقافۃ العرب ۃ دمشق الط عۃ الثان ۃ مسند اب يعل احمد بن عل التم م ابویعل الموصل
چودہ معصومین علیہم السالم
حضرت فاطمہ زہرا سالم اللہ علیہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ
↓ بارہ امام ↓
Shamsoddin دن قبل بدست10 آخری ترمیم
wikishia