You are on page 1of 31

‫‪wikishia‬‬

‫امام مہدی علیہ السالم‬

‫محمد بن حسن (عج) (والدت ‪ 255‬ھ)‪ ،‬امام مہدی‪ ،‬امام زمانہ اور حجت بن الحسن جیسے القاب سے مشہور شیعوں کے‬
‫آخری اور بارہویں امام ہیں۔ ‪260‬ھ کو امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد آؑپ کی امامت شروع ہوئی۔ اس وقت آپ‬
‫غیبت میں ہیں اور ایک طوالنی غیبت کے بعد ظہور کریں گے۔‬
‫امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف‬

‫مسجد جمکران قم‬

‫شیعوں کے بارہویں امام‬ ‫منصب‬

‫محمد بن حسن‬ ‫نام‬

‫ابو القاسم‪ ،‬ابا صالح‬ ‫کنیت‬

‫مہدی‪ ،‬بقیۃ اللہ‪ ،‬قائم آل محمد‪ ،‬صاحب الزمان‬ ‫القاب‬

‫‪ 15‬شعبان‪ ،‬سنہ ‪ 255‬ہجری‬ ‫تاریخ والدت‬

‫سامراء‬ ‫جائے والدت‬

‫ابھی جاری ہے‬ ‫مدت امامت‬

‫امام حسن عسکری ؑ‬ ‫والد ماجد‬

‫نرجس خاتون‬ ‫والدہ ماجدہ‬

‫بقید حیات‬ ‫عمر‬

‫ائمہ معصومیؑن‬
‫امام علؑی ‪ • ‬امام حسؑن ‪ • ‬امام حسیؑن ‪ • ‬امام سجاؑد ‪ • ‬امام محمد باقؑر ‪ • ‬امام صادؑق ‪ • ‬امام موسی کاظؑم ‪ • ‬امام رضؑا ‪ • ‬امام محمد تقؑی ‪• ‬‬
‫امام علی نقؑی ‪ • ‬امام حسن عسکرؑی ‪ • ‬امام مہدؑی‬

‫امام حسن عسکرؑی کے دور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے آؑپ کے فرزند اور جانشین کی تالش میں تھے اس لئے‬
‫امام مہدؑی کی والدت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آؑپ کا‬
‫دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امام مہدؑی کی خفیہ والدت سبب بنی کہ بہت سے شیعہ آؑپ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید‬
‫کے شکار ہوگئے اور شیعہ معاشرے میں مختلف قسم کے فرقے وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے آؑپ‬
‫کے چچا جعفر کذاب کی پیروی شروع کردی۔ لیکن اس دوران امام زمانؑہ کی توقیعات جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے‬
‫نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں‪ ،‬مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔‬

‫مذہب امامیہ کے مطابق امام مہدؑی اب بھی غیب کے پردے میں زندہ ہیں اور حضرت عیسؑی کے ساتھ ظہور کریں گے۔ شیعہ‬
‫علماء نے امام زماؑن کی طویل عمر کے اسباب اور تفصیالت کے بارے میں مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں۔ آپ کی غیبت کو‬
‫غیبت صغری اور غیبت کبری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ غیبت صغری جو امام حسن عسکرؑی کی شہادت سے سنہ ‪329‬ھ تک‬
‫جاری رہی‪ ،‬کے دوران نواب اربعہ کے ذریعے آؑپ کا رابطہ اپنے ماننے والوں کے ساتھ قائم رہا۔ لیکن جب سنہ ‪ 329‬ھ میں‬
‫غیبت کبری کا آغاز ہوا تو آپ سے براه راست رابطہ نواب اربعہ کے ذریعے بھی منقطع ہوگیا۔‬

‫شیعہ عقیدے کے مطابق ان کا بارہواں اماؑم آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور اپنے اصحاب و یاران کے ساتھ ایک عالمی‬
‫حکومت قائم کر کے ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ اسالمی روایات میں مسلمانوں کو انتظار‬
‫فرج کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ شیعہ امامیہ ان روایات کی رو سے امام زماؑن کے ظہور کا انتظار کررہے ہیں۔‬

‫شیعہ مفسرین‪ ،‬معصومین سے منقول احادیث کی بنیاد پر بعض قرآنی آیات کو امام زمانؑہ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ائمؑہ‬
‫سے متعدد احادیث امام زمانؑہ ‪ ،‬آپ کی غیبت‪ ،‬ظہور اور حکومت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض حدیثی کتابیں انہی‬
‫احادیث کو نقل کرنے اور ان کی جمع آوری کی غرض سے لکھی گئی ہیں۔ حدیث کی کتب کے عالوہ بہت سی دوسری کتب‬
‫بھی امام زمانؑہ سے متعلق موضوعات کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔‬

‫اہل سنت اپنے روائی منابع کی رو سے نسل پیامبر خدا میں سے مہدی نام کے ایک شخص کو آخر الزمان کا نجات دہندہ‬
‫مانتے ہیں۔ اہل سنت کی کتابوں میں ایسا عقیدہ موجود ہونے کے باوجود ان کی اکثریت اب بھی یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ‬
‫مہدی نام کا نجات دہندہ آخر الزمان میں پیدا ہوگا البتہ اہل سنت ہی کے بعض علما‪ ،‬جیسے سبط بن جوزی اور ابن‌طلحہ‬
‫شافعی وغیرہ شیعوں کی مانند یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مہدی موعوؑد امام حسن عسکرؑی کی اوالد میں سے ہیں۔‬

‫امام زمانہ(عج) کی غیبت کے دوران آپ سے رابطہ قائم کرنے کے سلسلے میں شیعہ مذہب کی کتابوں میں بہت سی دعائیں‬
‫اور اذکار بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے دعائے عہد‪ ،‬دعائے ندبہ‪ ،‬زیارت آل یاسیناور نماز امام زمانؑہ ۔ بعض احادیث کے مطابق‬
‫غیبت امام زمانؑہ کے باوجود آؑپ سے مالقات بھی ممکن ہے۔ بعض شیعہ علماء نے اپنی کتابوں میں بعض لوگوں کے ان سے‬
‫مالقات کے قصے بیان کیے ہیں۔‬

‫مختلف عالقوں میں بہت سے مقامات آپ سے منسوب ہیں‪ ،‬جیسے سامرا میں سرداب غیبت‪ ،‬کوفہ کی مسجد سہلہ میں‬
‫مقام امام مہدؑی اور قم کے مضافات میں مسجد جمکران وغیرہ۔‬

‫نام‪ ،‬کنیت اور لقب‬

‫شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد‪ ،‬احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں‪ ،‬لیکن آؑپ شیعیان اہل بیت کے‬
‫درمیان مہدؑی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آؑپ کے القاب میں سے ایک ہے۔[‪ ]1‬متعدد احادیث کے مطابق آؑپ ‪ ،‬اپنے جد‬
‫امجد رسول اللؐہ کے ہم نام ہیں۔[‪ ]2‬بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی و شیخ‬
‫صدوق کی کتاب کمال الدین‪ ،‬میں آؑپ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د" لکھا ہوا ملتا ہے۔[‪ ]3‬اس ابہام نویسی‬
‫ہے۔[‪]4‬‬ ‫کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آؑپ کا نام لینے سے منع کیا گیا‬

‫حرمِت تسمیہ‬

‫شیعہ منابع حدیث میں بکثرت ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں بارہویں اماؑم کا نام لینے سے منع کرتے ہوئے اسے حرام‬
‫قرار دیا گیا ہے۔[‪ ]5‬اس حوالے سے شیعہ علماء کے یہاں دو قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬پہال نظریہ سید مرتضی‪ ،‬فاضل مقداد‪ ،‬محقق حلی‪ ،‬عالمہ حلی اور کئی‬
‫دیگر علماء کا ہے جن کی رائے کے مطابق یہ حرمت صرف تقیہ کے زمانے‬
‫تک محدود ہے؛‬

‫‪ .2‬دوسرا نظریہ میر داماد اور محدث نوری وغیرہ کا ہے جن کے خیال میں‬
‫گا۔[‪]6‬‬ ‫حرمت کا یہ حکم اماؑم کے ظہور تک جاری اور برقرار رہے‬
‫کنیت اور القاب‬

‫مختلف حدیثی‪ ،‬تاریخی‪ ،‬کالمی منابع اور دعا و زیارات میں شیعیاِن آل رسول‬
‫کے بارہویں امام بہت سارے القاب اور کنیت سے متعارف کرائے گئے ہیں؛‬
‫محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثاقب میں تقریبًا ‪ 182‬نام اور القاب ذکر کیے‬
‫ہیں اسی طرح (نام نامہ حضرت مہدؑی نامی کتاب) میں امام ؑ کے ‪ 310‬اسماء‬
‫اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ محدث نوری نے یہ اسماء اور القاب ذکر‬
‫کیے ہیں‪ :‬مهدؑی ‪ ،‬قائم‪ ،‬بقیۃ اهلل‪ ،‬منتقم‪ ،‬موعود‪ ،‬صاحب الزمان‪ ،‬خاتم‬
‫االوصیاء‪ ،‬منَت َظ ر‪ ،‬حجۃ اهلل‪ ،‬منتقم‪ ،‬احمد‪ ،‬ابوالقاسم‪ ،‬ابوصالح‪ ،‬خاتم‬
‫قرآن کریم‬
‫االئمہ‪ ،‬خلیفۃ اهلل‪ ،‬صالح‪ ،‬صاحب‌االمر۔ [‪ ]7‬محدث نوری‪ ،‬النجم الثاقب‬
‫َو َلَق ْد َكَت ْب َن ا ِف ي الَّز ُب وِر‌ ِم ن َبْع ِد الِّذ ْكِر‌ َأ َّن‬ ‫میں لکھتے ہیں کہ تمام معتبر اسامی اور القاب کو جمع کیا ہے اور‬
‫اَأْلْر‌َض َي ِر‌ُث َه ا ِع َب اِد َي الَّص اِل ُح وَن ﴿‪﴾١٠٥‬‬ ‫شخصی نظریات اور غیر معتبر تحقیقات سے اجتناب کیا ہے ورنہ‬
‫اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ‬ ‫مختلف کتابوں سے کئی گنا اسامی اور القاب نکالے جا سکتے تھے۔ اسی‬
‫دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک‬ ‫طرح نام نامہ حضرت مہدؑی نامی کتاب میں ‪ 310‬اسماء اور القاب کی‬
‫بندے ہی ہوں گے۔‬ ‫طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں اماؑم کے اسماء اور القاب اہل سنت‬
‫مآخذ میں بھی نقل ہوئے ہیں؛ گوکہ ان مآخذ میں زیادہ تر مہدی کے‬
‫انبیاء‬
‫عنوان سے استفادہ کیا گیا ہے اور دوسرے القاب اور خصوصیات کو کم‬
‫ہی ذکر کیا گیا ہے۔ آؑپ کا لقب قائم اہل سنت کے مآخذ میں کم ہی ملتا‬
‫ہے۔ ان القاب میں سے بعض کچھ یوں ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬مہّد ی ھذه االّم ہ‬

‫‪ .2‬المہدی فی األرض والمہدی فی الّس ماء‬

‫‪ .3‬مہدی الخیر‬

‫‪ .4‬مہدی عبد اهّلل‬

‫‪ .5‬اإلمام‬

‫‪ .6‬آخر األئّم ہ‬

‫‪ .7‬خلیفۃ اهّلل‬

‫‪ .8‬خلیفۃ بنی هاشم‬


‫‪ .9‬خلیفۃ‬

‫‪ .10‬ولی اهّلل‬

‫‪ .11‬األمیر‬

‫‪ .12‬أمیر الطائفہ‬

‫‪ .13‬امیر الّناس‬

‫‪ .14‬خیرة اهّلل فی خلقہ‬

‫‪ .15‬خیر اّم ۃ محّم د‬

‫‪ .16‬خیر الّناس‬

‫‪ .17‬خیر أہل األرض‬

‫‪ .18‬ذخیرة األنبیاء‬

‫‪ .19‬یعسوب االّم ہ‬

‫‪ .20‬الّر جل الصالح‬

‫‪ .21‬صالح من مضی‬

‫‪ .22‬العدل المبارک الزکی‬

‫‪ .23‬المنصور‬

‫‪ .24‬الہاشمی‬

‫‪ .25‬العائذ بالبیت‬
‫السفاح[‪]8‬‬ ‫‪.26‬‬

‫خاندان‬

‫امام زمانؑہ کے والد ماجد‬

‫شیعہ عقیدے کے مطابق امام زمانؑہ کے والد ماجد گیارہویں امام‪ ،‬حضرت امام حسن عسکرؑی ہیں‪ ،‬اہل سنت نے بعض احادیث‬
‫[‪]9‬‬
‫کے حوالے سے امام زمانؑہ کے والد کا نام عبداللہ ذکر کیا ہے لیکن شیعہ علماء نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔‬

‫امام زمانؑہ کی والدہ ماجدہ‬

‫امام زمانؑہ کی والدہ ماجدہ کے متعدد نام ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے‪:‬نرجس‪ ،‬سوسن‪ ،‬صقیل یا صیقل‪ ،‬حدیثہ‪ ،‬حکیمہ‪،‬‬
‫ملیکہ‪ ،‬ریحانہ و خمط[‪
]10‬امام زمانؑہ کی والدہ کے حاالت زندگی کے بارے میں منقولہ روایات کو مجموعی طور پر چار‬
‫قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے‪:‬‬

‫ہے؛[‪]11‬‬ ‫‪ .1‬شیخ صدوق نے کمال الدین و تمام النعمۃ میں روایت نقل کرتے ہوئے انہیں رومی شہزادی قرار دیا‬

‫‪ .2‬بعض دیگر روایات میں ان کے حاالت زندگی کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ کی والدہ حکیمہ بنت‬
‫کے گھر میں پرورش پا چکی ہیں؛[‪]12‬‬
‫امام جواؑد‬

‫‪ .3‬تیسری قسم کی روایات کے مطابق‪ ،‬جنہیں مسعودی نے اثبات الوصیہ میں نقل کیا ہے‪ ]13[،‬بارہویں اماؑم کی والدہ‬
‫گیارہویں امام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کے گھر میں پروان چڑھی ہیں اور اسی گھر میں پیدا بھی ہوئی ہیں۔‬

‫‪ .4‬چوتھی قسم اور دیگر تین قسموں کے درمیان بنیادی اختالف پایا جاتا ہے۔ ان روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ‬
‫کی والدہ سیاہ فام ُا ِّم َو َلد تھیں۔[‪ ]14‬تین قسموں کی روایات بہرصورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں لیکن‬
‫چوتھی قسم کی روایات کو ان روایات کے ساتھ یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ بایں حال‪ ،‬بعض علماء نے چاروں قسموں‬
‫کی روایات کو ہم آہنگ کرنے کے لئے کہا ہے کہ مؤخر الذکر روایت کی بالواسطہ یا امام زمانؑہ کی والدہ کی ُم َر ِّب یہ کے‬
‫طور پر‪ ،‬توجیہ کی جا سکتی ہے۔[‪]15‬‬

‫امام زمانؑہ کے والد کی پھوپھی‬

‫جناب حکیمہ خاتون امام جواؑد کی بیٹی اور امام حسن عسکرؑی کی پھوپھی‪ ،‬چار ائمہ کے ہم عصر اور شیعہ مآخذ کے‬
‫مطابق امام زمانؑہ کی والدت با سعادت کی راوی ہیں۔ امام زمانؑہ کی والدہ ان کے گھر میں تعلیم و تربیت کے زیور سے‬
‫ہیں۔[‪]16‬‬ ‫آراستہ ہوئی ہیں اور امام زمانؑہ کی والدت با سعادت کی بہت سی روایات ان ہی سے نقل ہوئی‬

‫امام زمانؑہ کی دادی‬

‫مفصل مضمون‪ :‬امام زمانؑہ کی دادی‬

‫امام زمانؑہ کی دادی اور امام حسن عسکرؑی کی والدہ ہیں جنہیں روایات میں اسی نام سے پکارا گیا ہے‪ :‬امام زمانؑہ کی دادی۔‬
‫مآخذ کے مطابق امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد‪ ،‬شیعیان اہل بیت کے امور ان ہی کے سپرد تھے اور انھوں نے تشّی ع‬
‫ہے۔[‪]17‬‬ ‫کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا‬

‫جعفر کذاب‬

‫مفصل مضمون‪ :‬جعفر بن علی الہادی‬

‫جعفر بن محمد امام زمانؑہ کے چچا تھے جنہوں نے امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد‪ ،‬امامت کا دعوی کیا اور اسی بنا‬
‫پر جعفر کذاب کہالئے۔ حدیث کی کتابوں میں انہیں فسق و فجور میں مبتال اور گناہان کبیرہ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ انہوں‬
‫نے نہ صرف امامت کا دعوی کیا اور امام حسن عسکرؑی کے جانشین کو جھٹالیا‪ ،‬بلکہ وقت کے حکمرانوں کو بارہویں امام‬
‫کے خالف اکسایا۔[‪ ]18‬بعض روایات کے مطابق وہ اپنی عمر کے آخری ایام تک اپنے دعوے پر اصرار کرتے ہوئے اپنے آپ کو‬
‫امام سمجھتا رہے؛ تا ہم بعض دوسری روایات کے مطابق‪ ،‬انہوں نے اپنے دعوے کو ترک کرکے توبہ کی اور شیعہ اس کو جعفر‬
‫کذاب کے بجائے جعفر تائب [یا جعفر تواب] کہہ کر پکارتے تھے۔ جعفر کذاب نے ‪ 45‬سال کی عمر میں سامرا کے مقام پر‬
‫[‪]19‬‬
‫وفات پائی۔‬
‫بہن بھائی‪ ،‬زوجہ اور اوالد‬

‫ان آخری سالوں کے دوران امام زمانہ کی غیبت کبرا کے دوران ان کی کی بیوی اور اوالد کے متعلق شیعہ کتب میں بحث‬
‫چھیڑ گئی جبکہ یہ بحث پہلی کتب میں موجود نہیں تھی۔ اس سلسلے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں‪:‬‬

‫پہال‪ :‬عالمہ مجلسی اور سید محمد صدر چند روایات اور ادعیہ سے استناد کرتے ہوئے امام زمانہ کی بیوی اور اوالد ہونے‬
‫کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‬

‫دوسرا‪ :‬شادی اور اوالد کے نظریے کے مخالف کہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو امام کا ہم سے پوشیدہ رہنا ممکن نہیں ہے جبکہ آپ‬
‫کی غیبت میں امام ہم سے پوشیدہ رہنا ہی غیبت ہے۔ نیز وہ اس استدالل کیلئے ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں غیبت‬
‫کے زمانے میں امام کی بیوی اور اوالد کا نہ ہونا مذکور ہے۔‬

‫[‪]20‬‬
‫تیسرا‪ :‬سید جعفر مرتضی عاملی اس قضیے کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سکوت کو ترجیح دیتے ہیں۔‬

‫والدت امام زمان‬

‫وقت والدت‬

‫امام زمانؑہ کی والدت کے سال کے بارے میں اختالف ہے۔ بعض متقدم مآخذ نے آؑپ کی تاریخ والدت کی طرف اشارہ نہیں کیا‬
‫ہے اور اس کو خفیہ قرار دیا ہے۔[‪ ]21‬لیکن بہت سی شیعہ اور بعض سنی روایات میں ہے کہ امام دوازدہؑم سنہ‪255‬ھ [‪ ]22‬یا‬
‫‪256‬ھ ق[‪ ]23‬میں متوّلد ہوئے ہیں۔‬

‫امام زمانؑہ کی والدت کے مہینے کے بارے میں بھی اختالف پایا جاتا ہے لیکن قول مشہور شعبان المعظم پر تاکید کرتا ہے اور‬
‫بہت سے قدیم شیعہ مآخذ میں بھی ماہ شعبان ہی کو آؑپ کی والدت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔[‪ ]24‬اس کے باوجود بعض‬
‫شیعہ[‪ ]25‬اور سنی[‪ ]26‬مآخذ کے مطابق آؑپ کی والدت ماہ رمضان میں ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کے بعض مآخذ[‪ ]27‬نے ربیع‬
‫االول اور ربیع‌الثانی کو آؑپ کی والدت کا مہینہ قرار دیا ہے۔‬

‫تاریخی مآخذ میں بارہویں امام کی تاریخی والدت کے بارے میں گیارہ مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں پندرہ شعبان‬
‫والی تاریخ زیاده مشہور ہے۔[‪ ]28‬شیعہ علماء کے درمیان کلینی‪ ،‬مسعودی‪ ،‬شیخ صدوق‪ ،‬شیخ مفید‪ ،‬شیخ طوسی‪ ،‬فتال‬
‫نیشابوری‪ ،‬امین االسالم طبرسی‪ ،‬سید ابن طاؤس‪ ،‬ابن طقطقی‪ ،‬عالمہ حلی‪ ،‬شہید اول‪ ،‬کفعمی‪ ،‬شیخ بہائی وغیرہ‪ ،‬اور اہل‬
‫سنت کے علماء میں سے ابن خلکان‪ ،‬ابن صباغ مالکی‪ ،‬شعرانی حنفی‪ ،‬ابن طولون‪ ،‬اور دوسروں نے اسی قول کو نقل کیا ہے۔‬
‫نو ربیع االول‪ 19 ]29[،‬ربیع االول‪ 9 ]30[،‬ربیع الثانی‪ ]31[،‬یکم رجب‪ 23 ]32[،‬رمضان‪ 3 ]33[،‬شعبان اور ‪ 8‬شعبان[‪ ]34‬کو سنی‬
‫مآخذ نے نقل کیا ہے اور شب جمعہ یکم رمضان یا رمضان کی ایک شب جمعہ کو شیخ صدوق نے کمال الدین میں نقل کیا‬
‫ہے۔[‪]35‬‬

‫تفصیلی واقعہ‬
‫امام زمانؑہ کی والدت کے سلسلے میں مشہور روایت وہی ہے جو امام عسکرؑی کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون نے نقل‬
‫کی ہے۔ شیخ صدوق حکیمہ خاتون کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"امام حسن عسکرؑی نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا‪ :‬پھوپھی جان! آج ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ‬
‫نیمہ شعبان کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر‬
‫فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا‪ :‬ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا‪ :‬نرجس خاتون۔ میں نے عرض کیا‪ :‬میں آپ پر قربان‬
‫ہوجاؤں‪ ،‬ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا‪ :‬بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔‬
‫کہتی ہیں‪:‬‬
‫میں آئی ‪ ،‬سالم کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میرے جوتے اٹھا لئے اور مجھ سے کہا‪ :‬اے میری سیدہ اور‬
‫میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا‪ :‬تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے‬
‫اس کالم سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں‪ :‬پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا‪ :‬میری بیٹی! خداوند متعال‬
‫تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے‬
‫نماز ادا کی‪ ،‬روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز (تہجد) کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛‬
‫جبکہ نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ‬
‫اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز (تہجد) بجا ال کر سوگئیں۔‬
‫جناب حکیمہ خاتون مزید کہتی ہیں‪:‬‬
‫میں باہر آئی اور فجر کی تالش میں آسمان کی طرف دیکھا؛ دیکھا کہ فجر اول طلوع کرچکی ہے اور وہ ابھی سو‬
‫رہی ہیں۔ شک میرے دل پر عارض ہوا۔اچانک ابو محمد نے اپنے کمرے سے صدا دی‪ :‬پھوپھی جان! عجلت سے کام‬
‫مت لیں‪ ،‬کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔‬
‫کہتی ہیں‪:‬‬
‫میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تالوت میں مصروف ہوئی۔ اسی اثناء میں نرجس ہراساں سی‬
‫ہوکر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا‪ :‬آپ پر اللہ کی رحمت ہو‪ ،‬کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟‬
‫کہنے لگیں‪ :‬پھوپھی جان! ہاں محسوس کررہی ہوں۔ میں نے کہا‪ :‬اپنے پر قابو کرو اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ‬
‫وہی ہونے جارہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں‪ :‬مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا‬
‫اور اپنے سید و سردار (امام عسکرؑی ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور‬
‫اچانک میں نے اپنے سید و سرور (نرجس کے فرزند) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آؑپ کے سجدہ کے‬
‫ساتوں اعضاء [پیشانی‪ ،‬ہتھیلیاں‪ ،‬گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھے) زمین پر تھے]۔ میں نے آؑپ کو آغوش میں لیا اور‬
‫دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔‬
‫ابو محمد نے فرمایا‪:‬‬
‫پھوپھی جان! میرا فرزند میرے پاس الئیں‪ ،‬میں آؑپ کو اماؑم کے پاس لے گیی؛ اماؑم نے اپنے پاؤں کو پھیالیا اور‬
‫فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آؑپ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں‬
‫رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آؑپ کی آنکھوں‪ ،‬کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا ؛‬
‫اور فرمایا‪:‬‬
‫اے میرے فرزند! بولو۔ چنانچہ آؑپ نے کہا‪:‬‬
‫َأ ْش َه ُد َأ ْن اَل ِإ َلَه ِإ اَّل اُهَّلل َو ْح َد ُه َال َش ِر يَك َلُه ‪َ ،‬و َأ ْش َه ُد َأ َّن ُم َح َّم دًا َر ُس وُل اللِہ بعدازاں امیرالمؤمنیؑن اور دوسرے‬
‫[‪]36‬‬
‫ائمہ معصومیؑن کو درود و سالم کا ہدیہ بھیجا‪ ،‬حتی کہ آؑپ کے والد کی باری آئی تو زبان روک لی۔‬

‫والدت کا مخفی ہونا‬


‫خلفائے بنی عباس‪ ،‬پیغمبؐر اور ائمؑہ کی روایات و احادیث کی رو سے بخوبی جانتے تھے کہ بارہویں امام "مہدی" ہی ہیں؛‬
‫چنانچہ انھوں نے امام حسن عسکرؑی اور آؑپ کے گھر پر پہرےدار متعین کئے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ معتمد عباسی نے دائیوں‬
‫کو حکم دیا تھا کہ کبھی کبھی ناگہانی طور پر اور بن بالئے سادات کے گھروں ـ خاص طور پر امام حسن عسکرؑی کے گھر ـ‬
‫میں داخل ہوجایا کریں اور گھروں کی تالشی لیا کریں اور آؑپ کی زوجہ مکرمہ کے حاالت سے آگاہ ہوکر دربار کو خبر دیا‬
‫کریں۔[‪ ]37‬ایک کنیز بنام "ثقیل" نے ـ گویا امام زمانؑہ کی جان کی حفاظت کی خاطر حاملگی کا دعوی کیا تھا جس کو دو‬
‫[‪]38‬‬
‫سال تک نظر بند رکھا گیا او رجب حکومت وقت اس کی عدم حاملگی سے مطمئن ہوئی‪ ،‬تو اس کو رہا کردیا۔‬

‫والدت امام زمانؑہ کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔ روایات میں[‪ ]39‬بھی اس موضوع اور اس کے دالئل کی طرف اشارہ ہوا‬
‫ہے۔ امام سجاؑد فرماتے ہیں‪" :‬ہمارے قائم کی ذات میں انبیا کی سنتیں ہیں۔۔۔۔ والدت کا مخفی ہونا اور ان کا لوگوں سے دور‬
‫رہنا ابراہیؑم کی سنت ہے۔[‪ ]40‬نیز امام صادؑق فرماتے ہیں‪" :‬صاحب االمر کی والدت خالئق سے پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ظہور‬
‫[‪]41‬‬
‫کریں والدت مخفی بھی اس لئے ہی تاکہ آؑپ پر کسی کی بیعت نہ ہو"۔‬

‫شیخ مفید کی رائے ہے کہ "اس دور کے مشکالت و مسائل اور اللہ کی آخری حجت کی والدت کی خبر پانے کے لئے سلطان‬
‫[‪]42‬‬
‫وقت کی وسیع تالش اور بےتحاشا کوششوں کے پیش نظر‪ ،‬آؑپ کی والدت کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔۔۔۔‬

‫تاریخ میں والدت کا خفیہ رکھا جانا بے مثال نہیں ہے بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابراہیؑم کی والدت کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا‬
‫کیونکہ بادشاہ وقت کی طرف سے ان کے قتل کئے جانے کا خدشہ تھا۔[‪ ]43‬یا پھر قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات ‪7‬‬
‫سے ‪ 13‬تک میں موسی بن عمراؑن کی والدت کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کی والدت کو خفیہ رکھے جانے کی طرف اشارہ‬
‫ہوا ہے۔‬

‫والدت کے چشم دید گواہ‬

‫جناب حکیمہ خاتون کے عالوہ‪ ،‬امام حسن عسکرؑی کی دو کنیزیں نسیم اور ماریہ بھی آؑپ کی والدت کے عینی شاہدین میں‬
‫شمار ہوتی ہیں۔ شیخ صدوق اور شیخ طوسی نقل کرتے ہیں‪ :‬نسیم اور ماریہ کہتی ہیں کہ "صاحب الزماؑن ماں کے بطن سے‬
‫دنیا میں آئے تو آؑپ نے دونوں گھٹنے زمین پر رکھے اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں آسمان کی طرف بلند کیں اور‬
‫پھر آپ نے چھینک ماری اور فرمایا‪:‬اْلَح ْم ُد ِهَّلِل َر ِّب اْلعاَلمیَن وَا لُح ُم ُد ِهّلِل َرَّب العاَلمیَن َو َص َّلی اُهلل َع لی ُم َح َّم ٍد َص َّلی اُهلل‬
‫َو آِلِه ۔ ستمگر سمجھ بیٹھے ہیں کہ گویا اللہ کی حجت فنا ہوچکی ہے۔ اگر ہمیں کالم کرنے کا اذن ہوتا تو شک زائل‬
‫[‪]44‬‬
‫ہوجاتا"۔‬

‫اہل سنت کی روایت‬

‫اہل سنت کے علماء کے درمیان‪ ،‬بعض نے امام زمانؑہ کی والدت کا واقعہ نقل کیا ہے لیکن آؑپ کے موعود ہونے کے بارے میں‬
‫خاموشی اختیار کی ہے‪ :‬ابن اثیر (متوفٰی ‪ 630‬ھ) اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں‪ ]45[،‬ابن خلکان (متوفٰی ‪ 681‬ھ)‬
‫وفیات االعیان میں‪ ]46[،‬اور ذہبی (متوفٰی ‪ 748‬ھ) العبر میں۔‬

‫بعض دیگر نے والدت کے واقعے کو بھی بھی نقل کیا ہے اور آؑپ کے موعود ہونے پر بھی تصریح کی ہے‪ :‬ابن طلحہ شافعی‬
‫[‪]48‬‬
‫(متوفٰی ‪ 652‬ھ) مطالب السؤول میں[‪ ]47‬اور ابن صباغ مالکی (متوفٰی ‪ 855‬ھ) الفصول المہمہ میں۔‬
‫طفولیت‬

‫ی کے معتمدین میں شامل تھے ـ نے آؑپ کا‬


‫امام زمانؑہ کی والدت کے بعد بعض خاص شیعہ اکابرین ـ جو امام حسن عسکر ؑ‬
‫دیدار کیا ہے؛ جن میں محمد بن اسمعیل بن موسی بن جعفر‪ ،‬حکیمہ خاتون‪ ،‬ابو علی بن مطہر‪ ،‬عمرو اہوازی اور گیارہویں‬
‫[‪]49‬‬
‫اماؑم کے خاندانی خادم ابو نصر طریف‪ ،‬شامل ہیں جو بارہویں اماؑم کے دیدار کا شرف پا سکے ہیں۔‬

‫محمد بن عثمان عمری ‪ 40‬افراد کی معیت میں امام حسن عسکرؑی کی خدمت میں حاضر تھے۔ اماؑم نے انہیں اپنے فرزند کا‬
‫دیدار کرایا اور فرمایا‪:‬‬

‫َه َذ ا ِإَم اُم ُکْم ِم ْن َبْع ِد ی َو َخ ِل یَف ِت ی َع َلْی ُکْم َأ ِط یُع وُه َو اَل َت َت َف َّر ُق وا ِم ْن َبْع ِد ی ِف ی َأ ْد َی اِن ُکْم َف َت ْه ِل ُکوا َأ َم ا ِإ َّنُکْم اَل‬
‫َت َر ْو َن ُه َبْع َد َی ْو ِم ُکْم َه َذ ا‬
‫یہ میرے بعد تمہارے امام ہیں اور تمہارے درمیان میرے جانشین ہیں‪ ،‬ان کی اطاعت کرو اور اپنے دین میں‬
‫[‪]50‬‬
‫اختالف نہ کرو کیونکہ اس صورت میں ہالک ہوجاؤگے اور آج کے بعد تم انہیں ہرگز نہیں دیکھ سکو گے۔‬

‫اسی روایت سے مشابہ ایک روایت شیخ طوسی نے نقل کی ہے اور علی بن بالل‪ ،‬احمد بن ہالل‪ ،‬محمد بن معاویۃ بن حکیم‬
‫اور حسن بن ایوب بن نوح جیسے اشخاص کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آؑپ کا دیدار کیا ہے۔[‪ ]51‬نیز کلینی نے بھی ضوء بن‬
‫علی ِع ْج لی سے روایت کی ہے کہ ایک فارسی مرد نے کہا‪:‬‬

‫میں امام حسن عسکرؑی کے گھر میں خدمت کے لئے سامرا چال گیا اور اماؑم نے مجھے گھر کے لئے ضروری اشیاء کی‬
‫خریداری کی ذمہ دار سونپ دی۔ ایک دن اماؑم نے مجھے اپنے (دو سالہ) فرزند کا دیدار کرایا اور فرمایا‪:‬هذا‬
‫صاحبكمضو‏‏ء بن علی مزید کہتے ہیں‪:‬اس فارسی مرد نے کہا‪:‬اس کے بعد امام حسن عسکرؑی کی شہادت تک میں‬
‫[‪]52‬‬
‫نے پھر اس طفل کو کبھی نہیں دیکھا"۔‬

‫حدیث نبوی‬
‫شیخ مفید نے بھی ابو عمر عثمان بن سعید سمان اور ان کے بیٹے ابو‬
‫جعفر محمد بن عثمان کو ان لوگوں کے زمرے میں شمار کیا ہے جنہوں‬
‫َي ْب َق ِم َن الَّد ْه ِر ِإ َّال َيوم َلَب َع َث اُهلل‬ ‫َلْو َلْم‬
‫نے امام حسن عسکرؑی کی حیات میں امام عصؑر کا دیدار کیا ہے۔ نیز‬
‫ِم ْن أْه ِل َب ْي ِت ي‪َ ،‬ي ْم ُأَلَه ا َع ْد ًال َكَم ا‬ ‫َر ُج ًال‬ ‫نصیبین کے خاندانوں "بنو الرحبا" اور "بنو سعید"‪ ،‬اہواز کے خاندان "بنو‬
‫َج ْو رًا
‬ ‫ُم ِل َئ ْت‬ ‫مہزیار"‪ ،‬کوفہ کے خاندان "بنو الرکولی" اور بغداد کے خاندان "بنو‬
‫اللہ تعالی میری اہل بیت میں سے ایک فرد‬ ‫نوبخت" کے کئی اشخاص کے عالوہ قزوین‪ ،‬قم اور "منطقۂ جبال" کے‬
‫کو مبعوث کرے گا جو اس دنیا کو ایسے‬ ‫بعض باشندوں نے امام عسکرؑی کے دوران حیات میں بارہویں اماؑم کا‬
‫ہی عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم‬ ‫دیدار کیا ہے۔[‪]53‬‬

‫و جور سے بھر چکی ہو گی چاہے دنیا کی‬


‫ی کے ایام حیات میں آؑپ کے فرزند کا نام لینا ممنوع‬
‫امام حسن عسکر ؑ‬
‫عمر میں سے صرف ایک دن ہی باقی رہتا‬
‫ہو۔‬ ‫تھا اور اماؑم تاکید فرمایا کرتے تھے کہ آؑپ کو َاْلُح َّج ُة ِم ْن آِل ُم َح َّم ٍد کے‬
‫[‪]54‬‬
‫عنوان سے پکارا جائے۔‬
‫سنن ابی داود‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪ ،310‬ح‪4283‬۔‬

‫بنی عباس کا رد عمل‬


‫خلیفہ وقت معتمد عباسی کو امام حسن عسکرؑی کی بیماری کی خبر ملی تو اس نے اپنے ‪ 5‬قابل اعتماد افسروں کو اماؑم کے‬
‫گھر کی نگرانی پر متعین کیا اور اپنے قاضی القضاۃ کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے ‪ 10‬قابل اعتماد افراد کو اماؑم کی نگرانی‬
‫[‪]55‬‬
‫کے لئے تعینات کرے۔‬

‫امام حسن عسکرؑی نے اپنی وصیت میں اپنے تمام اموال کو اپنی والدہ ماجدہ "ُح َد یث خاتون" کے نام کیا گوکہ بنی عباس‬
‫[‪]56‬‬
‫نے تمام اموال آؑپ کی والدہ کو ملنے نہیں دیئے اور نصف اموال پر عباسیوں کی مدد سے جعفر نے قبضہ کیا۔‬

‫امام حسن عسکرؑی کی وفات کے بعد‪ ،‬عباسی خلیفہ نے ایک گروہ کو آؑپ کے گھر بھیجا جنہوں نے آؑپ کے گھر اور اموال کو‬
‫مقفل کردیا؛ آپ کے فرزند کو تالش کرنے کی کوشش کی اور کنیزوں کا بھی دائیوں سے معائنہ کروایا کہ کہیں ان میں سے‬
‫کوئی حاملہ نہ ہو[‪ ]57‬اور ثقیل نامی کنیز کو حاملگی کے شبہ کی بنا پر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور دو سال تک نظر بند رکھا‬
‫[‪]58‬‬
‫اور بعدازاں رہا کردیا۔‬

‫امام زمانؑہ کی عمر‬

‫امام زمانؑہ سنہ ‪255‬ھ میں پیدا ہوئے جس کے بعد آج تک بارہ صدیاں گذر رہی ہیں۔ عمر کی یہ طوالت انسانوں کی معمولی‬
‫عمر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ شیعہ متکلمین نے امام زمانؑہ کی عمر کی طوالت کی عام انسانوں کے عمر سے عدم مطابقت‬
‫کے سلسلے میں اٹھنے والے سواالت کے مختلف جوابات دیئے ہیں‪:‬‬

‫تجرباتی جوابات‬
‫بعض متکلمین نے سائنسدانوں کی تجرباتی حصول یابیوں سے استناد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ طویل عمر ممکن ہے۔ مثال‬
‫لطف اللہ صافی گلپایگانی نے مغربی سائنسدانوں کے متعدد اقوال نقل کئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انسان ‪ 800‬سے ‪1000‬‬
‫[‪]59‬‬
‫سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔‬

‫عقلی جوابات

‫وقوع کا امکان‪:‬‬
‫اعجاز‪ :‬امام زماؑن کی عمر کی طوالت اعجاز کی بنا پر ہے اور خوارق عادات میں سے ہے۔‬

‫اللہ کا ارادہ انسان کی عمر کی طوالت اور دوام پر ٹھہر سکتا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‬

‫انسان کا نفس جسم کا انتظام کرتا ہے اور اس پر تسلط رکھتا ہے۔ اگر انسان کا نفس اس قدر طاقتور ہو جو انتظام کے‬
‫ساتھ جسم پر والیت بھی رکھتا ہو۔ تو وہ انسان کے جسم کو طویل عرصے تک زندہ رکھ سکتا ہے۔‬

‫بقائے انسان میں ذاتی طور پر ممکن ہے اور عدم بقا عارض ہونے والے امور کا نتیجہ سمجھی جاتی ہے۔ عارضی امور بھی‬
‫ممکن العدم ہیں [اور ان کا نہ ہونا اور معدوم ہو جانا‪ ،‬ممکن ہے] تو اگر عارضی امور و اسباب نہ ہوں تو بقاء حاصل ہے۔‬

‫نبی عزیؑر کا طعام و شراب‪ ،‬سو سال گذرنے کے باوجود باقی اور تر و تازہ تھا حاالنکہ اس میں روح بھی نہیں تھی‪ ،‬انسان‬
‫صاحب روح ہے چنانچہ اس کو بطریق اولی و اقوی‪ ،‬معمول کی عمر سے زیادہ طویل عمر کا حامل ہونا چاہئے۔‬

‫تاریخی روایات اور ان کے واقع ہونے کے پیش نظر‪ ،‬ایک شئی کے امکان کی اعلی ترین دلیل اس کا واقع ہونا ہے۔‬
‫[مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ادریس‪ ،‬حضرت الیاس‪ ،‬حضرت خضر اور حضرت عیسی علیہم السالم زندہ ہیں جبکہ‬
‫ان کی عمریں امام زمانؑہ کی عمر سے کئی گنا زیادہ طویل ہے]۔‬

‫تاریخی نمونے

‫"ابو حاتم سجستانی" نے اپنی کتاب المعمرون والوصایا میں ان افراد کا تذکرہ کیا جن کی عمر غیر معمولی اور بہت طویل‬
‫تھیں۔ شیعہ متکلمین میں شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں‪ ،‬کراجکی نے البرہان علی صحۃ طول عمر االمام الزمان میں‬
‫طول عمر سے متعلق سواالت کا جواب دینے کے لئے "باب المعمرین" میں دسیوں معمر افراد کا تذکرہ کیا ہے۔‬

‫آسمانی کتب

‫تورات[‪ ،]60‬انجیل اور قرآن میں ایسے انسانوں کا تذکرہ آیا ہے جن کی عمریں بہت طوالنی اور غیر معمولی تھیں۔ قرآن نے‬
‫[‪]62‬‬
‫حضرت نوؑح کی دعوت کا عرصہ ‪ 950‬سال بتایا ہے۔[‪ ]61‬اور سابقہ امتوں میں طویل زندگیوں کی خبر دی ہے۔‬

‫روایات

‫بعض روایات و احادیث میں بھی امام زمانؑہ کی طویل عمر کی طرف اشارے ہوئے ہیں؛ منجملہ‪ :‬امام سجاؑد نے فرمایا ہے کہ‬
‫[‪]63‬‬
‫"ہمارے قائم کے پاس پیغمبروں کی بعض سنتیں ہیں ۔۔۔ آدم اور نوح سے آؑپ کو ملنے والی سنت طویل العمری ہے۔۔۔‬

‫امام صادؑق بھی امام زمانؑہ کو ابراہیؑم سے تشبیہ دیتے ہیں جو ‪ 120‬سال کی عمر میں ‪ 30‬سالہ نوجوانوں کی طرح تھے۔‬
‫[‪]64‬‬

‫امام حسن مجتبؑی سے مروی ہے کہ خداوند متعال میرے بھائی امام حسیؑن کے نویں فرزند کو طویل عمر عطا فرمائے گا اور‬
‫پھر آ کو اپنی قدرت سے ‪ 40‬سال سے کم عمر کے نوجوان کی صورت میں ظاہر فرمائے گا۔[‪]65‬‬
‫ؑپ‬

‫امام زمانؑہ کا مسکن‬

‫امام زمانؑہ کے مسکن اور مقام رہائش سے متعلق بحث کو غیبت صغری سے قبل ‪ ،‬غیبت صغری‪ ،‬غیبت کبری‪ ،‬عصر ظہور اور‬
‫قیام اور حکومت کے مراحل کے تناظر میں دیکھا جائے گا؛ چنانچہ ان تمام ادوار میں آؑپ کا مقام رہائش مختلف ہے۔ یہاں‬
‫غیبت صغری سے پہلے اور اس کے دوران آؑپ ‪ ،‬آؑپ کی رہائش کو تاریخی قرائن و شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور‬
‫دوسرے مراحل کے بارے میں روایات اور امکانی مالقاتوں اور شرف یابیوں سے استناد کیا جائے گا‪:‬‬

‫مقام والدت اور غیبت سے قبل کا دور‬

‫امام مہدؑی تاریخ والدت سے لے کر غیبت صغری تک اپنے مولد "سامرا" میں ہی سکونت پذیر تھے۔ اس دوران سرداب میں‬
‫عبادت‪ ،‬اور زندگی بسر‪ ،‬کر رہے تھے۔ بعض روایات کے مطابق آؑپ اپنے والد ماجد کی حیات میں کئی بار سرداب میں دیکھے‬
‫گئے ہیں۔[‪ ]66‬بعض محققین کا کہنا ہے کہ آؑپ نے والد ماجد کے زمانے میں آؑپ کے ہمراہ حج کے مناسک میں شرکت کی اور‬
‫[‪]68‬‬
‫پھر مدینہ میں روپوش ہوئے۔[‪ ]67‬یہ روایت شیعہ تاریخی مآخذ کے ساتھ کچھ زیادہ ہمآہنگ نہیں ہے۔‬

‫سکونت‪ ،‬غیبت کے دوران‬

‫بعض روایات اشارہ کرتی ہیں کہ غیبت کے دوران آؑپ کا مسکن نامعلوم ہے۔ اس کے باوجود بعض دیگر روایات کے مطابق آؑپ‬
‫ذی طوی[‪ ،]69‬کوہ رضوی[‪ ]70‬اور طیبہ (مدینہ)[‪ ]71‬میں سکونت رکھتے ہیں۔ چونکہ غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ آؑپ‬
‫کے ساتھ رابطے میں تھے چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ غیبت کا ایک عرصہ آؑپ نے عراق میں گذارا ہے۔ بعض مآخذ نے ایک‬
‫داستان کی رو سے‪ ،‬لکھا ہے کہ آؑپ غیبت کبری کے زمانے میں جزیرہ خضراء میں سکونت پذیر ہیں۔[‪ ]72‬جس کو بعض شیعہ‬
‫[‪]73‬‬
‫علماء نے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کے نقد میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔‬

‫ابن قیم جوزی اور ابن خلدون نے الزام لگایا ہے کہ "شیعہ" معتقد ہیں کہ امام زمانؑہ غیبت کے دوران سرداب میں رہتے ہیں‬
‫اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے۔[‪ ]74‬لیکن شیعہ اعتقادی کتب میں اس طرح کا کوئی عقیدہ نہیں ملتا اور ان کے نزدیک اس‬
‫مقام کے تقدس کا سبب یہ ہے کہ یہ امام عسکرؑی کے زمانے میں بارہویں اماؑم کا مسکن اور مقام عبادت تھا۔‬

‫ظہور اور قیام نیز مقام حکومت اور (مسکن بعد از ظہور)‬

‫امام زمانؑہ کہاں ظہور کریں گے؟ اس بارے میں دقیق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آؑپ ذی طوی میں‬
‫ظہور کریں گے؛ پھر اپنے ‪ 313‬صحابیوں کے ساتھ مکہ پہنچیں گے اور حجر االسود سے ٹیک لگائیں گے اور اپنا پرچم‬
‫لہرائیں گے۔[‪ ]75‬اس روایت اور اس جیسی دوسری روایات کے مطابق‪ ]76[،‬امام زمانؑہ کے قیام (تحریک) کا آغاز مسجد‬
‫الحرام سے ہوگا اور اصحاب رکن اور مقام کے درمیان آؑپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔[‪ ]77‬بعض روایات میں تہامہ کو امام‬
‫[‪]79‬‬
‫زمانؑہ کی تحریک کا نقطۂ آغاز جانا گیا ہے۔[‪ ]78‬مکہ اور مکہ شمالی تہامہ کا جزء اور مرکز ہے۔‬

‫بعض روایات میں‪ ،‬کرعہ[‪ ]80‬کو اماؑم کے مقام خروج کے عنوان سے متعارف کرایا گیا جو بظاہر یمانی کے قیام کے ساتھ‬
‫اشتباہ کا نتیجہ ہے جو یمن سے اٹھیں گے۔[‪ ]81‬اہل سنت کے مؤلف محمد بن احمد القرطبی‪ ،‬کا کہنا ہے کہ آؑپ مغرب‬
‫االقصی[‪ ]82‬سے اٹھیں گے اور قاضی نعمان مغربی‪ ،‬مراکش[‪ ]83‬کو نقطۂ خروج و ظہور قرار دیتے ہیں لیکن یہ ساری روایات‬
‫بارہویں امام کے آغاز انقالب سے متعلق شیعہ روایات سے سازگار نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں مقام ظہور کو سفیانی‬
‫ہو۔[‪]84‬‬ ‫کے مقام خروج سے مشتبہ ہو گیا‬

‫بعض روایات‪ ،‬شہر کوفہ کو دارالحکومت[‪ ،]85‬مسجد کوفہ کو فیصلوں کا مقام[‪ ،]86‬مسجد سہلہ کو اماؑم کا مسکن[‪ ]87‬اور‬
‫آؑپ کے ہاتھوں بیت المال کی تقسیم کا مقام[‪ ]88‬قرار دیتی ہیں۔‬

‫امام زمان سے منسوب مقامات‬

‫بعض مقامات امام مہدؑی سے منسوب ہوئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ شیعہ غیبت کبری کے زمانے میں آؑپ سے راز و نیاز کرنے کے‬
‫لئے ان مقامات پر حاضر ہوتے ہیں‪:‬‬

‫سرداب غیبت‪ :‬یہ مقام (سامرا میں ہے جو) امام ہادی‪ ،‬امام عسکری اور امام زمانؑہ کی عبادت گاہ رہی ہے۔‬

‫مسجد سہلہ‪ :‬کوفہ میں واقع یہ مسجد امام زمانؑہ سے منسوب ہے اور اس کے درمیانی حصے میں مقاِم حضرت یونؑس‬
‫اور مقاِم حضرت سجاؑد واقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق‪ ،‬امام زمانؑہ ظہور کے بعد اسی مسجد میں سکونت پذیر ہوں‬
‫[‪]89‬‬
‫گے۔‬

‫ذی ُط ٰو ی‪ :‬مکہ کے ایک عالقے کا نام ہے جو حرم کی حدود میں واقع ہے اور بعض روایات کے مطابق حضرت مہدؑی اس‬
‫عالقے میں زندگی بسر کر رہے ہیں[‪ ]90‬اور ب‏ض روایات کے مطابق‪ ،‬آؑپ کا مقام ظہور اور آؑپ کے اصحاب و انصار کے‬
‫اکٹھے ہونے کا مرکز بھی یہی عالقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اماؑم کے کعبہ سے قیام و تحریک شروع کرنے سے قبل‪ ،‬اس‬
‫[‪]91‬‬
‫عالقے میں اپنے ‪ 313‬اصحاب کے منتظر ہوں گے۔‬
‫کوہ رضوا‪ :‬بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام زمانؑہ غیبت کے زمانے میں کوہ رضٰو ی سکونت پذیر ہیں۔[‪ ]92‬مکہ و‬
‫[‪]93‬‬
‫مدینہ کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔‬

‫وادی السالم‪ :‬جو نجف میں واقع قبرستان کا نام ہے؛ اور اس قبرستان میں ایک مقام "مقام امام زمانؑہ " کے عنوان سے‬
‫موجود ہے۔ اس مقام پر گنبد و بارگاہ بھی ہے جس کو سندھ کے بادشاہ وقت "سید محمد خان" نے سنہ ‪1310‬ھ ق میں‬
‫تعمیر کرایا ہے۔ اس سے قبل والی عمارت تعمیر نو سید بحرالعلوم (متوفٰی سنہ ‪1212‬ھ ق) نے کرائی تھی۔ مقام حضرت‬
‫مہدؑی کے محراب میں ایک پتھر پایا جاتا ہے جس پر ایک زیارت نامہ کندہ کیا گیا ہے۔ اس پتھر پر کندہ کاری کا کام ‪9‬‬
‫شعبان سنہ ‪1200‬ھ ق کو مکمل ہوا ہے۔‬

‫جزیرہ خضرا‪ :‬یہ ایک مقام کا نام ہے جو بعض روایات کے مطابق‪ ،‬امام زمانؑہ کے فرزندوں کا مقام رہائش ہے۔ اس جزیرے‬
‫کی داستان بعض مآخذ میں مندرج ہے اور اس کے بارے میں دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں؛ بعض نے اس داستان کو‬
‫قبول کیا ہے اور بعض نے افسانہ جانا ہے اور کتب لکھ کر اس پر تنقید کی ہے۔‬

‫طیبہ‪ :‬یہ بھی بعض روایات کی رو سے عصر غیبت میں امام زمانؑہ کے مقام سکونت کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ کہا‬
‫گیا ہے کہ طیبہ سے مراد مدینہ ہی ہے۔[‪]94‬‬

‫مسجد جمکران‪ :‬یہ مسجد قم کے نواح میں جمکران نامی گاؤں میں واقع ہے اور ایک قول کے مطابق امام زمانؑہ کے حکم‬
‫پر حسن بن مثلہ جمکرانی کے ہاتھوں تعمیر ہوئی ہے۔‬

‫ظاہری اور اخالقی خصوصیات‬

‫شیعہ اور سنی کتب احادیث نے امام مہدؑی کی دینی و اخالقی خصوصیات اور ظاہری اوصاف کے بارے میں متعدد روایات‬
‫نقل کی ہیں۔‬

‫ظاہری اوصاف‬
‫[‪]95‬‬
‫رسول اللؐہ نے مختلف فرامین و ارشادات میں واضح کیا ہے کہ امام مہدؑی آؐپ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔‬
‫[‪]96‬‬
‫ی فرماتے ہیں کہ امام مہدؑی چہرے اور اخالق کے لحاظ سے رسول اللؐہ کے مشابہ ترین ہیں۔ امام علؑی‬ ‫امام حسن عسکر ؑ‬
‫[‪]97‬‬
‫فرماتے ہیں‪ :‬امام مہدی َع َّج َل اُهلل َف َر َج ُه الَّش ریف اٹھیں گے تو آؑپ کی عمر تیس سے چالیس کے درمیان ہوگی ۔‬

‫امام حسن مجتبؑى فرماتے ہیں کہ ظہور کے وقت امام مہدؑی چالیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بےانتہا جسمانی قوت‬
‫کے مالک ہونگے۔[‪ ]98‬امام صادؑق کے قول کے مطابق آپ ایک کامل اور معتدل نوجوان ہونگے۔[‪ ]99‬عالمہ مجلسی اس روایت‬
‫کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪" :‬معتدل سے مراد یہ ہے کہ آؑپ وقت ظہور درمیانی عمر یا نوجوانی کے آخری حصے میں‬
‫ہونگے"۔[‪ ]100‬امام رضؑا ظہور کے وقت امام زمانؑہ کی عالمتوں اور خصوصیات کے بارے میں ابوصلت ہروی کے ایک سوال کا‬
‫جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں‪ :‬آؑپ کی نشانی یہ ہے کہ معّم ر ہیں مگر آؑپ کا چہرہ اور منظر نوجوان ہے‪ ،‬یہاں تک کہ‬
‫[‪]101‬‬
‫دیکھنا واال سمجھتا ہے کہ آؑپ ‪ 40‬یا اس سے کم عمر کے ہیں۔‬

‫موسوی اصفہانی کتاب مکیال المکارم میں حسن اور جمال کو امام مہدؑی کی خصوصیات میں بیان کرتے ہیں اور آؑپ کو‬
‫[‪]102‬‬
‫احادیث کے حوالے دے کر شہاب ثاقب اور کوکب دری سے تشبیہ دیتے ہیں۔‬
‫مختلف روایات میں امام زمانؑہ کے چہرہ مبارک کی تفصیالت بیان ہوئی ہیں۔ رسول اللؐہ فرماتے ہیں‪ :‬مہدؑی مجھ سے ہیں‪،‬‬
‫آؑپ کی جبین کشادہ اور ناک کھڑی ہے۔[‪ ]103‬ایک حدیث میں رسول اللؐہ نے فرمایا ہے کہ مہدؑی کے چہرہ مبارک کی‬
‫رنگت عربی اور جسمانی ساخت اسرائیلی ہے[‪ ،]104‬ان کے دائیں گال پر ایک تل ہے جو ستاروں کی مانند دمکتا‬
‫[‪]105‬‬
‫ہے۔‬

‫امام باقؑر نے اپنے والد اور جّد امجد سے روایت کی ہے کہ ایک دن امام علؑی منبر کے اوپر تھے اور فرمایا‪ :‬آخر الزمان میں‬
‫میرے فرزندوں میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جس کی رنگت سفید مائل بہ سفیدی ہوگی اور سینہ فراخ ہوگا ۔۔۔ اور‬
‫اس کے کاندھے قوی ہونگے اور پشت پر دو خال ہونگے جن میں سے ایک اس کی جلد کی رنگت کا اور دوسرا رسول اللؐہ‬
‫[‪]106‬‬
‫کے خال کے مشابہ ہوگا۔‬

‫اخالقی اور دینی اوصاف‬

‫امام مہدؑی کے اخالقی اور دینی اوصاف کو دو صورتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے‪:‬‬

‫‪ .1‬ان احادیث کی بنیاد پر جن میں آؑپ کو رسول خدؐا کے مشابہ ترین قرار دیا جاتا ہے؛ چنانچہ آیات و احادیث میں جو‬
‫خصوصیات رسول اللؐہ کے لئے بیان ہوئی ہیں‪ ،‬ان کو امام مہدؑی کی اخالقی اور دینی خصوصیات قرار دیا جا سکتا‬
‫ہے۔‬

‫‪ .2‬دوسری روش یہ ہے کہ امام مہدؑی کی اخالقی خصوصیات کے سلسلے میں وارد ہونے والی مستقل روایات کا جائزہ‬
‫لیا جائے۔‬

‫جو کچھ بھی اخالق اور کردار کے لحاظ سے امام مہدؑی کی خصوصیات ـ خواہ شیعہ روایات میں‪ ،‬خواہ سنی روایات میں ـ‬
‫کے مجموعے سے سمجھا جا سکتا ہے‪ ،‬یہ ہے کہ آؑپ خدا کے آگے ابر خاشع ترین اور خائف ترین[‪ ]107‬اور دانشور ترین اور‬
‫[‪]108‬‬
‫حکیم ترین ہیں۔‬

‫امام حسيؑن آؑپ کے بارے میں فرماتے ہیں‪ :‬امام مہدؑی کو تم ـ آؑپ کے سکون و وقار اور حالل و حرام کے سلسلے میں آؑپ‬
‫[‪]109‬‬
‫کے علم اور لوگوں کو ان کی ضرورت اور لوگوں سے آؑپ ان کی بے نیازی ـ کے ذریعے پہچانو گے۔‬

‫امام صادؑق آؑپ کو زاہد ترین فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جن کا لباس سخت اور کھردرا اور کھانا جو کی روٹی‬
‫ہے۔[‪ ]110‬وہ اپنی حکومت کے کار گزاروں کے لئے بھی سخت گیر ہیں اور لوگوں کے لئے بخشندہ اور محتاجوں پر بہت‬
‫ہیں۔[‪]111‬‬ ‫مہربان‬

‫امام باقؑر آؑپ کو ایسے فرد کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو کتاب خدا پر عمل کرتے ہیں اور کسی بھی منَکر کو نہیں‬
‫کرے۔[‪]112‬‬ ‫دیکھتا جس کی مخالفت نہ‬

‫امام رضؑا امام مہدؑی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪ :‬آؑپ لوگوں پر ان سے زیادہ صاحب حق اور ان کے ماں‬
‫باپ سے بھی ان کے لئے زیادہ ہمدرد ہیں۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کے سامنے خاکسار تر‪ ،‬اور جن اعمال کا حکم‬
‫دیتے ہیں ان پر سب سے زیادہ عامل اور جن چیزوں سے منع کرتے ہیں ان سے سب سے زیادہ باز رہنے والے ہیں۔[‪ ]113‬نیز‬
‫امام رضؑا آؑپ کو دانا ترین‪ ،‬صاحب حکمت ترین‪ ،‬برد بار ترین‪ ،‬ہرہیزگار ترین‪ ،‬سخی ترین اور عابدترین شخصیت کے عنوان‬
‫[‪]114‬‬
‫سے متعارف کراتے ہیں جو فرشتوں کے ساتھ ہم کالم ہوتے ہیں۔‬
‫امام عسکری کی شہادت کے بعد شیعوں کی حالت‬
‫امام حسن عسکری کے فرزند کے حوالے سے ابہام‬

‫ی کے زمانے میں مشہور تھا کہ شیعہ آؑپ کے فرزند "قائم" کے منتظر ہیں[‪ ]115‬اسی بنا پر عباسی حکمران‬
‫امام حسن عسکر ؑ‬
‫اس فرزند کی تالش میں تھے اور ان کی بہر قیمت یہی کوشش تھی کہ انہیں جس طرح بھی ممکن ہو‪ ،‬گرفتار کریں۔‬

‫اسی بنا پر امام عسکرؑی نے کبھی بھی اعالنیہ طور پر کسی کو اپنے فرزند کا دیدار نہیں کرایا اور حتی کہ آؑپ کا تعارف ـ‬
‫چند ہی خاص اصحاب کے سوا ـ اپنے بہت سے قریبی پیروکاروں سے نہیں کرایا۔[‪ ]116‬چنانچہ اماؑم کی شہادت کے وقت‬
‫[‪]117‬‬
‫سوائے ان ہی چند خاص اصحاب کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ آؑپ کا کوئی فرزند بھی ہے۔‬

‫دوسری طرف سے امام حسن عسکرؑی نے سیاسی حاالت کے پیش نظر‪ ،‬اپنے وصیت نامے میں صرف اپنی والدہ کا نام دیا تھا‬
‫اور گیارہویں اماؑم کی شہادت کے بعد کے دو برسوں کے عرصہ میں بعض شیعہ سمجھتے تھے کہ منصب امامت امام حسن‬
‫[‪]118‬‬
‫عسکری کی والدہ کو سونپ دیا گیا ہے۔‬

‫امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے فورا بعد‪ ،‬اصحاب خاص "عثمان بن سعید عمری"(متوفٰی بین ‪ 260‬تا ‪267‬ھ‪ )،‬کی‬
‫سربراہی میں اصحاب خاص نے شیعیان اہل بیت کے درمیان اعالن کیا کہ امام عسکرؑی اپنے بعد ایک فرزند چھوڑ گئے ہیں‬
‫جو اس وقت آؑپ کے جانشین اور منصب امامت کے حامل ہیں۔ [‪ ]119‬عبداللہ بن جعفر حمیری کہتے ہیں‪ :‬میں نے عثمان بن‬
‫سعید عمری سے امام حسن عسکرؑی کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا‪ :‬تمہیں آؑپ کا نام‬
‫پوچھنے سے باز رکھا گیا ہے‪ ،‬کیونکہ سلطان (خلیفۂ وقت) سمجھتا ہے کہ امام حسن عسکرؑی نے اپنے بعد‬
‫کوئی بیٹا نہیں چھوڑا ہے اور آؑپ کا ترکہ بھی (آؑپ کی والدہ‪ ،‬بھائی اور بہن) کے درمیان تقسیم ہو چکا‬
‫ہے۔ اگر آؑپ کا نام لیا جائے تو وہ آؑپ کو تالش کرنا شروع کرے گا۔ لہذا آؑپ کے نام کے بارے میں مت‬
‫کرو۔[‪]120‬‬ ‫پوچھا‬

‫امام کی پہچان میں حیرت زدگی‬

‫امام حسن عسکرؑی کے اصحاب خاص کی تصریحات اور توضیحات کے باوجود‪ ،‬شیعہ معاشرہ عملی طور پر افراتفری کی‬
‫سی کیفیت سے گذر رہا تھا اور عراق اور بین النہرین کے بہت سے شیعہ نئے واقعات کی وجہ سے حیرت زدگی اور پریشانی‬
‫کا شکار ہو چکے تھے۔[‪ ]121‬بطور مثال‪ ،‬شیعیان اہل بیت نے ایک ایلچی مدینہ روانہ کیا تا کہ اماؑم کے فرزند کے بارے میں‬
‫تحقیق کرے کیونکہ انھوں نے سنا تھا کہ اماؑم نے اپنا بیٹا مدینہ بھجوایا ہے۔[‪ ]122‬نیز مروی ہے کہ غیبت صغری کے ہم عصر‬
‫عالم ابو زید احمد بن سہل بلخی‪ ،‬خراسان سے اپنے امام کی تالش میں عراق چلے گئے اور کئی برسوں تک تالش میں‬
‫[‪]123‬‬
‫مصروف رہے۔‬

‫خاندان امامت میں بھی اختالف پڑ گیا تھا۔ ُح دیث اور امام حسن عسکرؑی کی پھوپھی حکیمہ خاتون امام عسکرؑی کے‬
‫فرزند کی موجودگی تصریح اور آؑپ کی امامت کی حمایت کرتی تھیں لیکن امام عسکرؑی کی اکلوتی بہن ـ جو جعفر کے‬
‫تھیں۔[‪]124‬‬ ‫عالوہ امام ہادؑی کی واحد پسماندہ اور شاید جعفر کی حقیقی بہن تھیں ـ جعفر کے موقف کی حمایت کر رہی‬

‫سرکاری اداروں اور اعلی حکومتی عہدوں پر فائز منصب دار بھی اس سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ بطور مثال‬
‫خاندان نوبخت امام حسن عسکرؑی کے فرزند کی موجودگی اور امامت کا حامی تھا اور عثمان بن سعید عمری اور ان کے‬
‫[‪]125‬‬
‫بیٹے کی نیابِت امام زمانؑہ کو تسلیم کرتا تھا۔‬

‫شیعہ معاشروں میں گروہ بندیاں‬

‫بحراِن امامت اس زمانے میں اس قدر سنگین تھا کہ حتی بعض لوگوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا اور دیگر شیعہ اور غیر‬
‫شیعہ مکاتب اور فرقوں سے جا ملے۔ [‪]126‬۔[‪ ،]127‬کچھ لوگوں نے امام حسن عسکرؑی کی وفات کا انکار کیا اور آؑپ ہی کو‬
‫ی کی امامت کو قبول‬
‫مہدی سمجھنے لگے‪ ،‬ایک جماعت نے سید محمد کی امامت کو قبول نہیں کیا‪ ،‬گروه نے امام هاد ؑ‬
‫کیا۔[‪]128‬‬ ‫کیااور امام عسکری کی امامت کا انکار‬

‫ان حاالت میں ایک بڑی جماعت جعفر کو امام سمجھ رہی تھی۔[‪ ]129‬جعفر نے منصب امامت کے حصول کے لئے بہت زیادہ‬
‫کوشش کی۔ اس نے امام عسکرؑی کی والدہ کے بقید حیات ہونے کے باوجود آؑپ کے ترکہ میں حصے کا دعوی کیا۔[‪ ]130‬عالوہ‬
‫ازیں اس نے حکام وقت کو کہا کہ وہ اماؑم کی گرفتاری کے لئے آؑپ کے گھر کی تالشی لیں اور جعفر ہی کے تعاون سے امام‬
‫عسکرؑی کی ایک کنیز کو گرفتا کیا گیا اور اس کی کڑی نگرانی کا اہتمام کیا گیا۔[‪ ]131‬ادھر جعفر ایک عباسی کارگزار کو‬
‫[‪]132‬‬
‫ساالنہ ‪ 20‬ہزار دینار بطور رشوت دیتا رہا تاکہ وہ اس کی امامت کی تصدیق کیا کرے۔‬

‫ان اختالفات کے باوجود‪ ،‬آخرکار‪ ،‬شیعہ اکثریت امام حسن عسکرؑی کے فرزند کی امامت کے قائل ہوئے اور ان ہی جماعتوں‬
‫نے بعد میں شیعہ امامیہ کی قیادت سنبھالی اور چوتھی صدی ہجری میں اہل بیت کے تمام پیروکاروں کا واحد عنوان‬
‫"شیعہ اثنا عشریہ" ہی ٹہرا۔[‪ ]133‬شیخ مفید کتاب فرق الشیعہ کے مؤلف "حسن بن موسی نوبختی" سے ایک روایت نقل‬
‫کرنے کے بعد‪ ،‬امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والے چودہ فرقوں کے بارے میں کہتے ہیں‪:‬‬

‫جن فرقوں کا ہم نے تذکرہ کیا ان میں سے ہمارے زمانے ـ یعنی سنہ ‪373‬ھ ق ـ میں سوائے مکتب امامیہ اثنا عشریہ‬
‫کے‪ ،‬کوئی بھی فرقہ باقی نہیں رہا ہے؛ (شیعہ اثنا عشریہ) یعنی وہ لوگ جو امام حسن عسکرؑی کے فرزند ـ جو کہ‬
‫رسول اللؐہ کے ہم نام ہیں ـ کی امامت کو تسلیم کر چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ آؑپ زندہ اور باقی رہیں گے‪ ،‬اس دن‬
‫[‪]134‬‬
‫تک‪ ،‬جب وہ تلوار لے کر اٹھیں گے۔‬
‫تشیع کے استحکام میں توقیعات کا کردار‬

‫اس زمانے میں بعض توقیعات امام زمانؑہ کی طرف سے صادر ہوئیں جن میں سے بعض کا تعلق آؑپ کی اپنی امامت کے اثبات‬
‫سے تھا۔[‪ ]135‬جو دلیل امام زمانؑہ نے اپنی امامت کے اثبات کے لئے پیش کی ہے وہ حضرت آدؑم سے امام زمانؑہ کے زمانے تک‬
‫ہدایت الہیہ کے راستے کے جاری رہنے اور زمین کے حجت الہیہ سے خالی نہ ہونے پر تاکید‪ ،‬سے عبارت ہے۔ نیز آؑپ نے امام کو‬
‫امامت کے دعویداروں سے تمیز و تشخیص دینے کے لئے تین معیارات پیش کئے ہیں‪ :‬عصمت‪ ،‬علم اور اللہ کی تائید۔‬

‫توقیعات کے دو نمونے‪:‬‬

‫ابن ابی غانم قزوینی اور اہل تشیع کی ایک جماعت نے امام حسن عسکرؑی کے جانشین کے بارے میں اختالف کیا۔ ابن ابی‬
‫غانم نے کہا‪ :‬ابو محمد چل بسے ہیں اور آؑپ کا کوئی جانشین نہیں ہے۔ لوگوں نے خط لکھا اور امام زمانؑہ کی طرف روانہ‬
‫کیا اور وجود میں آنے والے مالی اختالف سے آؑپ کو آگاہ کیا۔ امام زمانؑہ نے بقلم خود جواب میں جو مکتوب بھیجا وہ‬
‫کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں نے دین میں اختالف کیا ہے اور اپنے اولیائ‬
‫امور (یعنی ائمہ) کے بارے میں شک اور حیرت کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خداوند متعال نے آدؑم‬
‫سے لے کر مجھ سے قبل کے امام تک تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں تا کہ تم ان کے سائے میں پناہ لو اور پرچم لہرائے‬
‫تا کہ ان کے واسطے سے ہدایت پاؤ؛ جب بھی ایک پرچم غائب ہوا‪ ،‬دوسرا پرچم ظاہر ہوا اور جب بھی ایک ستارہ‬
‫غروب ہوا دوسرا ستارہ طلوع ہوا۔ جب خداوند متعال اس [اماِم سابق] کو اپنے پاس بال لیا‪ ،‬تم نے گمان کیا کہ گویا‬
‫خداوند متعال نے اپنے دین کو باطل کر دیا ہے اور اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان رابطہ منقطع کر دیا ہے!‪ ،‬کبھی‬
‫بھی ایسا نہ تھا اور جب تک قیامت بپا نہ ہو جائے‪ ،‬اور اللہ کا امر ظاہر نہ ہو جائے‪ ،‬ایسا نہیں ہوگا۔امام سابؑق چل بسے‬
‫۔۔۔ اور ان کی وصیت و جانشینی اور علم و دانش ہمارے پاس ہے اور ظالم و گنہگار کے سوا کوئی بھی ان خصوصیات‬
‫[‪]136‬‬
‫میں ہمارے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا۔‬
‫محمد بن ابراہیم بن مہزیار ـ جن کے والد (ابراہیم بن مہزیار) امام عسکری ؑ کے وکیل تھے اور خود بھی والد کی وفات کے‬
‫بعد وکالت کے منصب پر فائز تھے‪ ]137[ ،‬بھی ابتداء میں امام زمانؑہ کے وجود تک کے سلسلے میں مردد تھے لیکن جب‬
‫عراق میں داخل ہوئے‪ ،‬تو امام زمانؑہ کی طرف سے ایک توقیع ان لئے صادر ہوئی‪ ،‬جس میں اماؑم نے فرمایا تھا‪:‬‬
‫مہزیار سے کہئے کہ جو کچھ تم نے اپنے عالقے میں ہمارے پیروکاروں کے بارے میں کہا‪ ،‬ہم نے اس کو سمجھ لیا۔‬
‫چنانچہ ان سے کہو کہ تم نے نہیں سنا کہ خداوند متعال نے فرمایا ہے‪َ :‬يا َأ ُّي َه ا اَّلِذ يَن آَم ُن وْا َأ ِط يُع وْا اَهّلل َو َأ ِط يُع وْا‬
‫الَّر ُس وَل َو ُأ ْو ِل ي اَألْم ِر ِم نُكْم "۔سورہ نساء‪ ،‬آیت ‪ :59‬اے ایمان النے والو! اطاعت کرو اللہ کی‪ ،‬اور اطاعت کرو رسول‬
‫اللؐہ کی اور تم میں سے ان لوگوں کی جو فرمان روائی کے حقدار ہیں۔کیا ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کا بھی اللہ نے‬
‫حکم دیا ہے وہ قیامت تک کے لئے ہے؟ کیا ایسا ہے کہ خداوند متعال نے آدؑم سے لے کر اماِم سابق (امام حسن عسکرؑی )‬
‫صلوات اللہ علیہ تک‪ ،‬تمہارے لئے پناہ گاہیں قرار دیں جن کے سائے میں تم پناہ لے سکو اور پرچم لہرائے جن کے ذریعے‬
‫تم ہدایت پا سکو؟ اور جب ایک پرچم غائب ہوا دوسرا پرچم ظاہر ہوا‪ ،‬اور جب بھی ایک ستارہ غروب ہوا دوسرا‬
‫ستارہ طلوع ہوا؟ جب خداوند متعال نے امام سابؑق کو اپنے پاس بالیا‪ ،‬تم نے گمان کیا کہ گویا خداوند متعال نے اپنے‬
‫اور اپنی مخلوقات کے درمیان کا رابطہ منقطع کرلیا ہے‪ ،‬جبکہ ہرگز ایسا نہ تھا اور قیامت تک کبھی بھی ایسا نہ ہوگا؛‬
‫اے محمد بن ابراہیم‪ ،‬جس مسئلے کے لئے آئے ہو‪ ،‬اس کے سلسلے میں شک میں نہ پڑو‪ ،‬کیونکہ خداوند متعال زمین کو‬
‫[‪]138‬‬
‫کبھی بھی حجت سے خالی نہیں چھوڑتا۔۔‬

‫غیبت صغرا‬

‫اس مسئلے کے بارے میں اختالفات پائے جاتے ہیں کہ غیبت صغری کا آغاز کب سے ہوا ہے؟ ایک رائے ہے کہ غیبت صغری سنہ‬
‫‪ 255‬ہجری میں امام زمانؑہ کی والدت کے دن سے ہی شروع ہوئی ہے‪ ،‬اور اس لحاظ سے اس کی مدت ‪ 74‬برس ہوگی‪ ،‬اور‬
‫دوسری رائے یہ ہے کہ غیبت صغری کا آغاز سنہ ‪ 260‬ہجری میں امام حسن عسکرؑی کی شہادت کے دن سے ہوا ہے اور اس‬
‫لحاظ سے اس دور کی مدت ‪ 69‬برس ہوگی۔‬

‫شیخ مفید (متوفٰی ‪413‬ھ) اپنی کتاب االرشاد‪ ]139[،‬اور طبرسی (متوفٰی ‪ 548‬ھ) اپنی کتاب اعالم الوری میں[‪ ]140‬اور‬
‫بعض دیگر شیعہ اکابِر فقہاء و محّد ثین اور بہت سے مؤرخین اپنی کتب میں پہلے قول کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے بقول‬
‫غیبت صغری کی مدت ‪ 74‬برس ہے۔‬

‫غیبت صغری کے زمانے میں امام مہدؑی نائبیِن خاص کے ذریعے شیعیان اہل بیت کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے مسائل‬
‫حل فرمایا کرتے تھے۔ یہ مسائل اعتقادی‪ ،‬فقہی اور مالی وغیر مسائل پر مشتمل ہوتے تھے۔‬

‫انقطاع نیابت اور غیبت کبرا‬


‫ی نے سنہ ‪ 260‬ھ ق میں اپنی امامت کے آغاز سے ہی شیعیان اہل بیت کے ساتھ اپنا رابطہ ـ نائبین خاص کے ذریعے‬
‫امام مہد ؑ‬
‫رابطے تک ـ محدود کرلیا تھا؛ اور آپ کے آخری نائب خاص علی بن محمد سمری تھے جنہوں نے پندرہ شعبان سنہ ‪329‬‬
‫ہجری قمری ‪ 15/‬مئی سنہ ‪‍ 941‬عیسوی کو وفات پائی۔
ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل امام زمانؑہ کی جانب سے ایک توقیع‬
‫صادر ہوئی جس میں آؑپ نے تحریر فرمایا تھا‪:‬‬

‫اے علی بن محمد سمری!۔۔۔ تم ‪ 6‬دن بعد وفات پاؤگے۔ اسی لئے اپنے کام مکمل کرنا اور کسی سے بھی جانشین کے‬
‫طور پر وصیت نہ کرنا؛ کیونکہ دوسری غیبت کا آغاز ہوچکا ہے اور کوئی ظہور نہ ہوگا سوا اس وقت کے جب خداوند‬
‫[‪]141‬‬
‫متعال خود اجازت فرمائے۔۔‬

‫علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد‪ ،‬نائبین خاص کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوا؛ اور غیبت نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔‬
‫یہ مرحلہ متاخرہ ماخذ میں‪" ،‬غیبت کبری" کہالیا۔‬

‫اکثر شیعہ مآخذ کے مطابق ابوالحسن علی بن محمد سمری کا انتقال سنہ سال ‪ 329‬ھ‪ ،‬کو ہوا لیکن شیخ صدوق[‪ ]142‬اور‬
‫فضل بن حسن طبرسی[‪ ]143‬کہتے ہیں کہ ابو الحسن علی بن محمد طبرسی ‪ 15‬شعبان المعظم سنہ ‪ 228‬ھ ق کو خالق‬
‫حقیقی سے جاملے ہیں۔‬

‫غیبت کبری میں لوگوں کے ساتھ امام کا تعلق‬

‫غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانؑہ کے ساتھ لوگوں کے تعلق کے بارے میں دو اقوال ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬اکابرین شیعہ میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ غیبت کبری کے زمانے میں‪ ،‬امام زمانؑہ کے ساتھ رابطہ کرنے کا‬
‫امکان موجود نہیں ہے اور آؑپ کے اپنے ارشاد کے مطابق‪ ،‬دیدار کے دعویداروں کو جھٹالنا چاہئے۔ جن بزرگوں نے اس‬
‫رائے کو قبول کیا ہے ان میں یہ افراد شامل ہیں‪ :‬محمد بن ابراہیم نعمانی‪ ،‬کتاب کتاب الغیبہ میں؛ شیخ مفید المسائل‬
‫العشرہ‪ ،‬شیخ مفید غیبت کبری میں امام زمانؑہ کی مالقات کا امکان آؑپ کے خادمین اور معتبر مالزموں کے لئے‬
‫مختص سمجھتے ہیں۔ [‪]144‬؛ فیض کاشانی‪ ،‬کتاب الوافی میں؛ جعفر کاشف الغطاء‪ ،‬کتاب رسالۃ الحق المبین میں۔‬
‫اکابرین کی اس جماعت کی دلیل‪ ،‬متعدد روایات نیز علی بن محمد سمری کے نام امام زمانؑہ کی آخری توقیع‪ ،‬سے‬
‫عبارت ہے۔‬

‫‪ .2‬شیعہ علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ غیبت کبری میں بھی امام زمانؑہ کے ساتھ ارتباط ممکن ہے۔ یہ قول متاخرین‬
‫کے نزدیک مشہور ہے اور محمد بن علی کراجکی‪ ،‬شیخ طوسی اور دیگر علماء نے اس نظریئے کے قائل ہوئے ہیں اور‬
‫کہتے ہیں‪ :‬کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ اماؑم کو کوئی بھی نہیں پہچانتا اور کوئی بھی آؑپ کی خدمت میں حاضر نہیں‬
‫رہے۔[‪]145‬‬ ‫ہوتا‪ ،‬بلکہ جائز ہے کہ آؑپ کے کچھ دوست اور اولیاء آؑپ سے مالقات کریں اور ان کا یہ دیدار مخفی‬

‫ظہور امام زمانہ‬

‫ظہور امام زمانؑہ کے بارے میں بکثرت نقل ہونے والی روایات کے عالوہ‪ ،‬شیعہ مفسرین‪ ،‬اہل بیت کے اقوال و احادیث سے‬
‫اس کی طرف استناد کرتے ہیں‪ ،‬قرآن کریم نے بھی ظہور کی نشانیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ شیعہ روایات کے مطابق‪ ،‬ظہور‬
‫کی آمد پر دنیا کی تین اہم خصوصیات ہیں‪:‬‬

‫[‪]146‬‬
‫‪ .1‬ظلم و ستم پھیل جائے گا اور فتنہ‪ ،‬جو ہر گھر پر وارد ہوگا؛‬
‫‪ .2‬سفیانی اور نواصب کا خروج‪ ،‬اور عراق سمیت ديگر سرزمینوں میں تشّی ع کے خالف سرگرم عمل دشمنوں کی‬
‫[‪]147‬‬
‫سرگرمیاں جو شام پر قابض ہوکر وہاں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔‬

‫‪ .3‬امام زمانؑہ کے وہ اولیاء اور اصحاب جو اسالمی سرزمینوں میں آؑپ کی یاد اور آؑپ کے نام کو زندہ رکھتے ہیں اور‬
‫[‪]148‬‬
‫دنیا بھر میں پھیال دیتے ہیں۔‬

‫اقوال‪ ،‬کلمات اور مکتوبات‬

‫اگرچہ لفظ "توقیع" ائمہ اور بالخصوص امام زمانؑہ کے مکتوبات کے معنی میں استعمال ہوا ہے‪ ،‬لیکن یہ لفظ امام زمانؑہ کے‬
‫غیر مکتوب کالم کے لئے بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور جن مآخذ میں بارہویں اماؑم کی توقیعات کو اکٹھا کیا گیا ہے (منجملہ‪:‬‬
‫شیخ صدوق کی کمال الدین اور شیخ علی الکورانی کے زیر نگرانی تالیف شدہ معجم احادیث االمام المهدی)‪ ،‬ان میں آؑپ کے‬
‫غیر مکتوب کلمات‪ ،‬حتی کہ نائبین خاص کے کالم کو بھی توقیعات کے زمرے میں ذکر کیا گیا ہے۔[‪ ]149‬امام زمانؑہ کی زیادہ‬
‫تر توقیعات ـ جن کی تعداد ‪ 80‬کے قریب ہے ـ غیبت صغری کے دور میں‪ ،‬اعتقادی‪ ،‬فقہی اور مالی موضوعات کے سلسلے میں‬
‫[‪]150‬‬
‫صادر ہوئی ہیں۔‬

‫قرآن و حدیث کی روشنی میں مقام و منزلت‬

‫قرآن‬

‫قرآن کریم‬
‫امام زمانؑہ اور آخر الزمان کے نجات دہندہ کا مسئلہ قرآن کریم میں‬
‫صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے لیکن شیعہ مفسرین احادیث سے‬
‫َو ُن ِر‌يُد َأ ن َّن ُم َّن َع َلى اَّلِذ يَن اْس ُت ْض ِع ُف وا‬ ‫استناد کرتے ہوئے اس حقیقت کے قائل ہیں کہ قرآن کی بہت سی آیات‬
‫ِف ي اَأْلْر‌ِض َو َن ْج َع َلُه ْم َأ ِئ َّم ًة َو َن ْج َع َلُه ُم‬ ‫امام زمانؑہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ‪250‬‬
‫اْلَو اِر‌ِث يَن ﴿‪َ ﴾٥‬و ُن َم ِّكَن َلُه ْم ِف ي اَأْلْر‌ِض‬ ‫[یا ‪ ]260‬آیات قرآنی کا تعلق امام مہدؑی سے ہے۔[‪ ]151‬مفسرین قرآنی‬
‫َو ُن ِر‌َي ِف ْر‌َع ْو َن َو َه اَم اَن َو ُج ُن وَد ُه َم ا ِم ْنُه م‬ ‫ی کے وجود مبارک اور مسئلۂ ظہور‬
‫آیات کی دو قسموں سے امام مہد ؑ‬
‫َّم ا َكاُن وا َي ْح َذ ُر‌وَن ﴿‪
﴾٦‬‬ ‫کے لئے استفادہ کرتے ہیں‪1
:‬۔ وہ آیات کریمہ جو امام کے وجود پر‬
‫اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو‬ ‫تاکید کرتی ہیں‬
‫زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان‬ ‫قرآن کریم کی آیات کے مطابق‪ ،‬خداوند متعال نے ہر امت کے لئے ایک‬
‫فرد منتخب کیا ہے جو اس کی ہدایت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے‪َ" :‬و ِل ُكِّل‬
‫کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور‬
‫زمین کا وارث قرار دیدیں* اور انہی کو‬ ‫َق ْو ٍم َه اٍد ترجمہ‪ :‬اور ہر قوم کا ایک [برگزیدہ] راہنما ہوتا ہے"۔ اس آیت‬
‫روئے زمین کا اقتدار دیں اور فرعون‬ ‫کی تفسیر میں امام صادؑق نے فرمایا‪ :‬ہر زمانے میں ہمارے خاندان‬
‫وہامان اور ان کے لشکروں کو ان ہی‬ ‫میں سے ایک امام موجود ہوتا ہے جو لوگوں کو ان حقائق کی طرف‬
‫کمزوروں کے ہاتھوں سے وہ منظر دکھالئیں‬ ‫[‪]152‬‬
‫ہدایت دیتا ہے جو رسول خدؐا اللہ کی طرف سے الئے ہیں۔‬
‫جس سے یہ ڈر رہے ہیں۔‬ ‫ایک دلیل جو مفسرین امام کی ضرورت کے لئے پیش کرتے ہیں‪ ،‬یہ ہے‬
‫کہ قرآن کے لئے ُم َب ِّی ن اور ُم َف ِّس ر کی ضرورت ہے اور امام کے سوا‬
‫قصص‬
‫کوئی بھی قرآن کریم کے تمام معانی اور خصوصیات سے آگاہ نہیں‬
‫ہے۔ پس عقل کے تقاضوں کے مطابق‪ ،‬رسول اللؐہ کے بعد امام کا ہونا الزم اور ضروری ہے۔ [‪ ]153‬شیعہ عقیدے کے مطابق‪،‬‬
‫امامت عالم وجود کے امن و سکون کا سرمایہ اور فیض خداوندی کے حصول کا واسطہ ہے اور اللہ کی نعمات اور‬
‫برکات ان کے واسطے سے انسان کو ملتی ہیں اور اگر دنیا لمحہ بھر امام کے وجود سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے‬
‫گی۔[‪]154‬‬ ‫باسیوں کو نگل لے‬

‫‪2‬۔ "روئے زمین پر حکومِت صالحین و مؤمنین کی بشارت دینے والی آیات"

‫شیعہ مفسرین قرآن کریم کی دسیوں آیات کے حوالے سے‪ ،‬ظہور امام زمانؑہ کو قابل استناد سمجھتے ہیں؛ وہ آیات کریمہ جو‬
‫صالح اور مستضعف بندوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور حق و عدل پر استوار‪ ،‬واحد عالمی حکومت کی تشکیل اور تمام‬
‫ادیان و مکاتب پر اسالم کے غلبے پر مرکوز ہیں۔ قرآن کے بیان میں‪ ،‬یہ بشارت بعض دیگر آسمانی کتب میں بھی نازل ہوئی‬
‫ہے‪َ :‬و َلَق ْد َكَت ْب َنا ِف ي الَّز ُبوِر ِم ن َبْع ِد الِّذ ْكِر َأ َّن اَأْلْر َض َي ِر ُث َه ا ِع َب اِد َي الَّص اِلُح وَن
ترجمہ‪ :‬اور بے شک ہم نے توریت کے بعد زبور میں‬
‫بھی یہ لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے؛ اور اس بشارت کو قرآن میں اللہ کے دیئے ہوئے وعدے سے‬
‫َو َن ْج َع َلُه ْم َأ ِئَّم ًة َو َن ْج َع َلُه ُم اْلَو اِر ِث يَن قصص ترجمہ‪:‬‬ ‫مستند کیا گیا ہے‪َ
:‬و ُن ِر يُد َأ ن َّن ُم َّن َع َلى اَّلِذ يَن اْس ُت ْض ِع ُف وا ِف ي اَأْلْر ِض‬
‫اور ہم نے چاہا کہ احسان کریں ان پر جنہیں روئے زمین پر‪ ،‬دبایا [یا پیسا یا ضعیف کیا] گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار‬
‫دیں‪ ،‬ان ہی کو وارث قرار دیں۔ ان آیات کریمہ میں‪ ،‬بہت سی احادیث کی بنیاد پر‪ ،‬مسئلۂ ظہور سے نسبت دی گئی ہے۔

‫ایک آیت میں خداوند متعال اپنے مؤمن بندوں کے لئے‪ ،‬مؤمنین اور صالحین کی حکومت کے قیام کو اللہ کے وعدے کے طور‬
‫پر بیان کیا گیا ہے اور انہیں امن و سکون کی بشارت دی گئی ہے‪َ :‬و َع َد اُهَّلل اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِم نُكْم َو َع ِم ُلوا الَّص اِلَح اِت‬
‫َلَي ْس َت ْخ ِل َف َّنُه م ِف ي اَأْلْر ِض َكَم ا اْس َت ْخ َلَف اَّلِذ يَن ِم ن َق ْب ِل ِه ْم َو َلُي َم ِّكَن َّن َلُه ْم ِد يَن ُه ُم اَّلِذ ي اْر َتَض ى َلُه ْم َو َلُي َب ِّد َلَّنُه م ِّم ن َبْع ِد‬
‫َخ ْو ِف ِه ْم َأ ْم نًا َي ْع ُب ُد وَن ِن ي اَل ُي ْش ِر ُكوَن ِب ي َش ْي ئًا نور‪ "55‬ترجمہ‪ :‬اللہ کا وعدہ ہے تم میں ان افراد سے جو صاحب ایمان ہیں‬
‫اور نیک اعمال بجا التے رہے ہیں کہ وہ ضرور انہیں روئے زمین پر [اپنا] جانشین قرار دے گا جس طرح انہیں خلیفہ بنایا تھا‬
‫جو ان کے پہلے تھے اور ضرور اقتدار [اور تسلط] عطا کرے گا ان کے پسندیدہ دین کو‪ ،‬اور ضرور بدل دے گا ان کے لئے ان‬
‫کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ ائمۂ‬
‫اطہاؑر سے منقولہ احادیث نے اس آیت کریمہ کو امام زمانؑہ اور آؑپ کے اصحاب پر منطبق کیا ہے۔‬

‫احادیث‬

‫امام زمانؑہ کا موضوع اسالم اور بالخصوص مکتب امامت کے قدیم ترین اور بنیادی مباحث میں شامل ہے۔ چونکہ امام زمانؑہ‬
‫کے ظہور کا وعدہ رسول اللؐہ نے دیا ہے‪ ،‬چنانچہ ابتداء ہی سے یہ مسلمانوں کے ہاں زبانزد تھا اور آؑپ کی والدت سے قبل ہی‬
‫شیعہ علماء نے دسیوں کتابیں آؑپ کے بارے میں تحریر کی ہیں اور آؑپ کی والدت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور‬
‫بارہویں امام سے متعلق مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں؛ جن میں سے بعض معتبر ترین کتابیں حسب ذیل‬
‫ہیں‪:‬‬

‫کماُل الِّد ين و اتماُم الِّن عمہ‬

‫الغيبہ‬

‫الُف ُص وُل العشرہ فی الغيبہ‬


‫المسائل العشرہ فی الغيبہ‬

‫أربع رساالت فی الغيبہ‬

‫الغيبہ للُح َّج ہ‬

‫ُم عجُم األحاديث االمام المهدی‬

‫بحاراالنوار (مجلدات ‪)53 ،52 ،51‬‬

‫منتخب االثر‬

‫شیعہ احادیث میں امام زمانؑہ کی شان و منزلت اور اہمیت پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔[‪ ]155‬ان احادیث میں ذیل کے‬
‫موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے‪:‬‬

‫امام زمانؑہ کی شخصیت‬

‫َق اَل َر ُس وُل اِهَّلل ؐ‪ :‬الَم هدُی َرُج ٌل ِم ن ُو لِد ی َو جُه ُه َکالَکوَکِب الُّد ِّر ِّی
ترجمہ‪ :‬مہدی میری اوالد میں سے ایک فرد ہیں‪ ،‬جن کا‬
‫چہرہ تابندہ ستارے کی مانند ہے۔[‪]156‬‬

‫امام زمانؑہ کے منتظرین کی شخصیت‬

‫قال االمام الکاظؑم ‪َ :‬لو کاَن ِف یُکم ِع َّد ُة أهِل َبدٍر َلقاَم قاِئُم نا
ترجمہ‪ :‬امام کاظؑم نے فرمایا‪ :‬اگر اہل بدر کی تعداد کے برابر‬
‫[مؤمنین کامل] کی جماعت تمہارے درمیان ہوتی‪ ،‬ہمارے قائم قیام کرتے۔[‪]157‬‬

‫انتظار َف َر ج کی منزلت اور فضیلت‬

‫قال امام ّص ادق ؑ‪َ :‬م ْن َم اَت ُم ْنَت ِظ رًا ِل َه َذ ا اَأْلْم ِر َکاَن َکَم ْن َکاَن َم َع اْلَق اِئ ِم ِف ی ُف ْس َط اِط ِه اَل َب ْل َکاَن ِب َم ْن ِز َلِة الَّض اِرِب َب ْی َن‬
‫َی َد ْی َر ُس وِل اِهَّلل ص ِب الَّس ْی ِف
ترجمہ‪ :‬امام صادؑق نے فرمایا‪ :‬جو شخص اس امر (یعنی ظہور قائم) کا انتظار کرتا ہوا دنیا‬
‫سے رخصت ہو جائے‪ ،‬وہ اس شخص کی مانند ہے جو قائم کے ساتھ ایک خیمے میں ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‪ ،‬اس‬
‫[‪]158‬‬
‫شخص کی مانند ہے جو رسول اللؐہ کی خدمت میں شمشیر اٹھا کر جہاد کر چکا ہے"۔‬

‫ظہور کی نشانیاں‬

‫عن محمد بن مسلم قال‪ :‬سمعت أبا عبد اهّلل عليہ السالم يقول‪ :‬إّن قّد ام القائم عالمات تكون من اهّلل تعالى للمؤمنين؛‬
‫قلت‪ :‬فما هي جعلني اهّلل فداك؟ قال‪ :‬ذاك قول اهّلل عّز و جل‪َ
:‬و َلَن ْب ُلَو َّنُكْم ؛يعني المؤمنين قبل خروج القائ ‏‬
‫م ِب َش ْي ٍء‬
‫ِّم َن اْلَخ وِف َو اْلُج وِع َو َنْق ٍص ِّم َن اَألَم َو اِل َو األنُف ِس َو الَّث َم َر اِت َو َب ِّش ِر الَّص اِب ِر يَن بقرہ‪155‬؛ ترجمہ‪ :‬محمد بن مسلم کہتے‬
‫ہیں‪ :‬میں نے امام صادؑق کو فرماتے ہوئے سنا کہ قائم کے ظہور سے قبل کچھ عالمات ظاہر ہونگی؛ میں نے عرض کیا‪ :‬اللہ‬
‫مجھے آپ پر فدا کرے‪ ،‬وہ عالمات کیا ہیں؟ فرمایا‪ :‬اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ "اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیں گے" یعنی‬
‫قیاِم قائم سے قبل تم مؤمنین کو؛ خوف‪ ،‬دہشت‪ ،‬بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی جیسی کسی چیز کے ساتھ‪ ،‬اور‬
‫[‪]159‬‬
‫خوشخبری دیجیئے ان کو جو صبر کرنے والے ہیں۔‬

‫زمانۂ ظہور کے واقعات‬


‫قال امام باقر ؑ‪ :‬إذا َو َق َع أمُر نا وجاَء َم هِد ُّی نا کاَن الَّر ُج ُل ِم ن شیَع ِت نا أجرَأ ِم ن َلیٍث وأمضی ِم ن ِس ناٍن َی َط ُأ َع ُد َّو نا‬
‫ِب ِر جَلیِه َو یضِر ُب ُه ِب َکَّف یِه وذِل َک ِع نَد ُن زوِل َر حَم ِة اهّلل ِ وَف َر ِج ِه َع َلی الِع باِد
امام باقؑر نے فرمایا‪ :‬جب لوگوں کے امور کی‬
‫زمام ہمارے ہاتھ آئے گی اور ہمارے مہدی آئیں گے‪ ،‬ہمارے شیعوں میں سے ہر ایک شیر سے زیادہ جری اور شمشیر و سنان‬
‫سے زیادہ ُبّر اں ہو جائے گا؛ وہ ہمارے دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے روند لیں گے اور اپنے ہاتھوں سے ان کو ضربیں رسید کریں‬
‫[‪]160‬‬
‫گے؛ اور یہی وہ زمانہ ہے جب اللہ کی رحمت اور کشادگی و فراخی اس کے بندوں پر اتر کر آئے گی۔‬

‫ظہور کے بعد کی دنیا‬

‫قال رسوُل اِهّلل ؐ‪َ :‬ی خُر ُج فی آخِر ُا ّم تی الَم هدُّی ‪َ ،‬ی ْس قیِه اهّلل ُ الَغ ْی َث ‪ ،‬وُت خِر ُج األرُض َن باَت ها‪ ،‬وُی عَط ی الماُل ِص حاحا‪،‬‬
‫وَت ْکُث ُر الماِش َی ُة ‪ ،‬وَت ْع ُظ ُم اُالّم ُة
میری امت کے آخر میں مہدی ظہور کرے گا؛ خداوند اس کو بارش عطا کرے گا‪ ،‬زمین اپنے‬
‫نباتات کو پروان چڑھائے گی‪ ،‬مال کمی اور زيادتی کے بغیر اور مساوات کے ساتھ عطا ہوگا‪ ،‬مال مویشیوں کی تعداد میں‬
‫[‪]161‬‬
‫اضافہ ہوگا اور امت سربلند ہوگی اور عظمت پائے گی۔‬

‫راز و نیاز اور رابطہ‬


‫نیز دیکھیں‪ :‬عریضہ‪ ،‬نماز امام زمانہ‪ ،‬غیبی امداد‪ ،‬مسجد جمکران‪ ،‬عریضہ کا کنواں‪ ،‬مہدویت کے دعویدار‪ ،‬نیابت کے‬
‫دعویدار‬

‫شیعہ زمانۂ عصِر غیبت میں‪ ،‬رسول اللؐہ اور دیگر معصومین ـ بالخصوص امام زمانؑہ سے توسل کرتے ہیں اور آؑپ کی‬
‫خصوصی دعاؤں اور توجہات کی التجا کرتے ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا‪َ" :‬و ُق ِل اْع َم ُلوْا َف َس َي َر ى اُهّلل َع َم َلُكْم‬
‫َو َر ُس وُلُه َو اْلُم ْؤ ِم ُن وَن َو َس ُت َر ُّد وَن ِإ َلى َع اِلِم اْلَغ ْي ِب َو الَّش َه اَد ِة َف ُي َن ِّب ُئُكم ِب َم ا ُكنُت ْم َت ْع َم ُلوَن (ترجمہ‪ :‬اور کہیئے کہ تم عمل کرتے رہو‪،‬‬
‫اللہ بہت جلد دیکھے گا تمہارے عمل کو اور اس کا پیغمبر اور ایمان والے [دیکھیں گے] اور بہت جلد تم پلٹائے جاؤ گے غائب‬
‫و حاضر ہر بات کے جاننے والے کی طرف تو وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا اعمال کرتے تھے)"۔ چونکہ آیت کریمہ میں لفظ‬
‫"َف َس یری" میں حرف "َس " خدا‪ ،‬رسول خدؐا اور مؤمنین کے لئے یکسان طور پر استعمال ہوا ہے اور خداوند متعال اب اسی‬
‫وقت تمام موجودات کے حال سے آگاہ ہے‪ ،‬رسول خدا اور مؤمنین کا علم بھی مذکورہ آیت میں اسی طرح کا اور فعلی ہے؛‬
‫اور چونکہ تمام مؤمنین اس طرح کے علم کے حامل نہیں ہیں‪ ،‬چنانچہ آیت میں مؤمنین سے مراد معدودے چند مؤمنین ہیں‬
‫جن کے بہترین مصادیق ـ احادیث کی رو سے ـ اہل بیت بیان کئے گئے ہیں۔ اور متعدد روایات ـ جن میں سے کچھ اصول‬
‫کافی (َباٌب ِف ی َأ ّن اَأْلِئ ّم َة ُش َه َد اُء اِهّلل َع ّز َو َج ّل َع َلی َخ ْلِق ِه = باب بعنوان‪" :‬ائمہ اللہ کی مخلوقات پر اس کے‬
‫گواہ ہیں ") میں اکٹھی کی گئی ہیں ـ ظاہر کرتی ہیں کہ ائمہ اللہ کے اذن و اجازت سے انسانوں کے حاالت و کیفیات سے‬
‫باخبر ہیں اور افراد کے مادی اور معنوی حاالت میں مؤثر ہو سکتے ہیں اور جس قدر ان کی اطاعت و پیروی اور توسل اور‬
‫تعلق زیادہ ہو‪ ،‬ان آثار میں اضافہ بھی ہوگا۔ دعائے عہد‪ ،‬دعائے توسل‪ ،‬نماز امام زمانہ اور مسجد جمکران [نیز مسجد سہلہ‬
‫وغیرہ] میں حاضری‪ ،‬زیارت آل یاسین کی قرائت‪ ،‬امام زمانؑہ کی سالمتی کے لئے صدقہ‪ ،‬نصف شعبان کے لئے محافل جشن‬
‫کا انعقاد‪ ،‬اس سلسلے میں کہے ہوئے بے شمار اشعار‪ ،‬امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کی جھلکیاں ہیں۔‬

‫امام زمانہ کے ساتھ راز و نیاز کے بعض آداب‬

‫موسوی اصفہانی اپنی کتاب مکیال المکارم میں امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے بعض آداب کا تذکرہ کیا ہے جن‬
‫میں کچھ آداب حسب ذيل ہیں‪:‬‬
‫امام زمانؑہ کی بہتر معرفت؛‬

‫امام زمانؑہ کے اخالق و کردار کی پیروی؛‬

‫امام زمانؑہ کو یاد رکھنا‪ ،‬اور آؑپ اور دیگر معصومیؑن کی تکریم و تعظیم کی مجالس منعقد کرنا یا منعقدہ مجالس میں‬
‫شرکت کرنا؛‬

‫امام زمانؑہ کو یاد کرتے ہوئے ادب کو ملحوظ رکھنا؛‬

‫امام زمانؑہ کی زیارت کا مشتاق ہونا؛‬

‫امام زمانؑہ کے ظہور کا انتظار؛‬

‫غیبت اور ظہور کے زمانے میں امام زمانؑہ کی نصرت کا قلبی ارادہ؛‬

‫دوسرے شیعیان اہل بیت کی مدد و نصرت کا اہتمام کرتے رہنا؛‬

‫ظالموں اور باطل کے علمبرداروں کا مقابلہ کرنا؛‬

‫امام زمانؑہ کے لئے دعا کرنا؛‬

‫غیبت کے دوران کے ناقابل برداشت میں صبر کرتے رہنا؛‬

‫وقِت ظہور کا تعین کرنے سے پرہیز کرتے رہنا؛‬

‫امام زمانؑہ کی نیابت میں زیارت بجا النا؛‬

‫امام زمانؑہ کی سالمتی کے لئے صدقہ دینا؛‬

‫خاص اور معینہ مقامات پر امام زمانؑہ سے توسل اور آؑپ کی طرف توجہ دینے کا اہتمام کرتے رہنا؛‬

‫امام زمانؑہ کے لئے مخصوص دعاؤں اور زیارات کی قرائت کا اہتمام کرنا۔‬

‫امام زمانؑہ کا دیدار‬

‫مفصل مضمون‪ :‬امام زمانؑہ کا دیدار‬

‫غیبت کبری سے پہلے دیدار‬

‫شیعہ کتب تاریخ و حدیث منجملہ‪ :‬الکافی‪ ،‬االرشاد‪ ،‬اعالم الوری‪ ،‬کمال الدین‪ ،‬الغیبہ طوسی و الغیبہ نعمانی میں بعض افراد‬
‫کے نام مذکور ہیں جنہوں نے امام حسن عسکرؑی کے ایام حیات میں آؑپ کے فرزند ارجمند حضرت مہدؑی کا دیدار کیا ہے؛ ان‬
‫لوگوں کے دیدار کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے؛ ان ہی میں سے ایک امام عسکرؑی کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون[‪ ]162‬ہیں‬
‫جو امام زمانؑہ کی والدت کی عینی گواہ ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر امام حسن عسکرؑی کے اصحاب خاص اور خدام شامل‬
‫ہیں‪ :‬امام عسکرؑی کے خادم ابو نصر ظریف‪ ]163[،‬احمد بن اسحاق اشعری قمی‪ ]164[،‬ابو علی بن مطہر‪ ]165[،‬سعد بن عبداللہ‬
‫[‪]170‬‬
‫اشعری قمی‪ ]166[،‬یعقوب بن منقوش‪ ]167[ ،‬خادم ابو غانم‪ ]168[،‬کامل بن ابراہیم‪ ]169[،‬وغیرہ۔‬

‫عالوہ ازیں مروی ہے کہ غیبت صغری کے ‪ 69‬برسوں کے عرصے میں اماؑم کے چار نائبین خاص سمیت متعدد دوسرے افراد‬
‫نے امام زمانؑہ کے ساتھ مالقات کا شرف حاصل کیا ہے؛ جیسے‪ :‬ابراہیم بن ادریس‪ ]171[،‬ابراہیم بن عبدہ نیشابوری اور ان کے‬
‫خادم‪ ]172[،‬امام حسن عسکرؑی کے خادم ابو االدیان‪ ]173[،‬ابو سعید غانم ہندی‪ ]174[،‬ابو عبداللہ بن صالح‪ ]175[،‬ابو محمد‬
‫حسن بن وجناء نصیبی‪ ]176[،‬ابو علی محمد بن احمد بن حماد مروزی محمودی‪ ]177[،‬اسمعیل بن علی نوبختی‪ ]178[،‬علی بن‬
‫ابراہیم بن مہزیار‪ ]179[،‬محمد بن اسمعیل بن موسی الکاظم|محمد بن اسماعیل بن امام کاظؑم ‪ ]180[،‬محمد بن شاذان‬
‫افراد۔[‪]182‬‬ ‫نیشابوری‪ ]181[،‬اور دسیوں دوسرے‬

‫مفصل مضمون‪ :‬نیابت کے دعویدار‬

‫غیبت صغری کے زمانے میں نیابت کے دعویداروں کی بھی کمی نہ تھی۔ محمد بن نصیر نمیری‪ ،‬احمد بن ہالل کرخی‪ ،‬اور‬
‫[‪]183‬‬
‫محمد بن علی َش لَم غانی نیابت کے دعویدار تھے اور ان کے لعن اور دور بھگانے پر متعدد توقیعات وارد ہوئیں۔‬

‫غیبت کبری میں مالقات‬

‫غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانؑہ کے دیدار کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ مالقات کا سرے سے انکار‬
‫کرتا ہے اور دوسرا نظریہ مالقات کے امکان اور وقوع کے اثبات کے لئے دالئل اور شواہد پیش کرتا ہے۔ مالقات کا انکار کرنے‬
‫والے کبھی اپنے نظریے کے اثبات کے لئے بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں جن کی رو سے غیبت کبری کے زمانے میں‬
‫مشاہدہ کرنے والے کو جھوٹا کہا گیا ہے۔[‪ ]184‬اور کبھی راوی کی صداقت میں شک و شبہہ اس نظریے کی بنیاد ٹہرا ہے؛ اور‬
‫پھر بعض علماء موقع پرستوں کی منفعت پسندی کا سد باب کرنے کے لئے ہر قسم کے دیدار کا انکار کرتے ہیں۔[‪ ]185‬ادھر‬
‫بعض احادیث اور دعاؤں امام زمانؑہ کے دیدار کے لئے بعض اعمال کی تلقین کی گئی ہے‪]186[،‬۔[‪ ]187‬اور کم از کم دو معتبر‬
‫حدیثوں میں اماؑم کے خاص پیروکاروں کے لئے اماؑم تک رسائی اور آؑپ سے مالقات کو امِر ممکن جانا گیا ہے۔[‪ ]188‬شیخ‬
‫صدوق‪ ،‬شیخ مفید اور شیخ طوسی جیسے اکابرین نے اپنی کتابوں میں اماؑم کا دیدار کرنے والوں کے لئے الگ ابواب متعین‬
‫کئے ہیں اور غیبت کبری میں مالقات کو ممکن قرار دیا ہے۔[‪ ]189‬بہت سی روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن سے نمایاں ہوتا ہے‬
‫کہ بڑے علماء سے لے کر معمولی افراد تک امام زمانؑہ کو دیکھا ہے۔ شیخ حر عاملی‪ ،‬سید عبداللہ شبر اور آیت اللہ لطف اللہ‬
‫صافی گلپایگانی کا کہنا ہے کہ دیدار امام زمانؑہ سے متعلق روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہیں۔[‪ ]190‬اس نظریے کے قائل‬
‫بعض افراد کے نام حسب ذیل ہیں‪:‬‬

‫شعرانی‪]195[،‬‬ ‫میرزا محمد حسین نائینی‪ ]191[،‬سید ابن طاؤس‪ ]192[،‬ابراہیم کفعمی‪ ]193[،‬محمد تقی مجلسی‪ ]194[،‬ابوالحسن‬
‫شیخ حر عاملی‪ ]196[،‬مقدس اردبیلی‪ ]197[،‬میرزا محمد استر آبادی‪ ]198[،‬شہید ثانی‪ ]199[،‬سید بحر العلوم‪ ]200[،‬سید نعمت‬
‫[‪]202‬‬
‫اللہ جزائری‪ ]201[،‬شیخ مرتضی انصاری۔‬

‫دعائیں اور زیارتیں‬

‫زیارات جامعہ کے عالوہ ـ جن سے تمام ائمہ کی زیارت کی جاسکتی ہے‪ ،‬امام زمانؑہ کے ساتھ رابطے اور راز و نیاز کے لئے‬
‫مختلف قسم کی دعائیں اور زیارات نقل ہوئی ہیں جن میں سے اہم ترین دعاؤں اور زیارات کے عنوان حسب ذیل ہیں‪:‬‬

‫دعائے ندبہ‬

‫دعائے َف َر ج‬

‫استغاثہ امام زمن‪َ" :‬س الُم اِهلل الکاِم ُل الّت ام"‬

‫زیارت آل ٰی س‬
‫دعائے غریق‬

‫دعائے عہد‬

‫صلوات مخصوص امام زمانہ‬

‫زیارت روِز جمعہ‬

‫ناحیہ مقدسہ سے بھی مختلف دعائیں اور زیارات صادر ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے َف َر ج (َا لّلُه َّم َع ُظ َم الَب الء)‪ ،‬دعائے "یا َم ن‬
‫أظَه َر الَج میَل "‪ ،‬دعائے "َا لّلهّم َر َّب الّن وِر الَع ظیم"‪ ،‬دعائے "َا للُه ّم ارُز قنا َت وفیَق الطاَع ِة "‪ ،‬دعائے سہم اللیل‪ ،‬رجب کے‬
‫ہر روز کی دعا۔ دعائے "َا للهّم إّن ی َا سأُلَك ِب الَم ولوَد یِن فی َر َج ب"‪ ،‬دعائے "َا للهّم إّن ی َا سأُلَك ِب َم عانی َج میِع ما َیدعوَك‬
‫"‪ ،‬زیارت ناحیہ مقدسہ اور زیارت الشہداء۔[‪]203‬‬
‫ِب ِه ُو الُة أمِر َك‬

‫انتظار‬

‫مفصل مضمون‪:‬انتظاِر َف َر ج‬

‫اسالمی تعلیمات میں انتظاِر َف َر ج بمعنی نامساعد حاالت میں کشادگی اور فراخی کی امید‪ ،‬آیات اور روایات میں مسلسل‬
‫دہرائے جانے والے مفاہیم میں سے ہے۔خطا در حوالہ‪ Closing </ref> missing for <ref> tag :‬شیعہ‬
‫تعلیمات میں اس انتظار کا اہم ترین مصداق‪ ،‬ظہور امام زمانؑہ کے ساتھ سختیوں کے خاتمے اور کشادگی نیز روشن مستقبل‬
‫کی امید ہے۔ اس طرح کے انتظار اور منتظر کے لئے بعض خاص اصطالحات روایات میں وارد ہوئی ہیں؛ جیسے‪َ :‬اْلُم نتَظ ُر‬
‫أِل ْم ِر نا ‪ُ
،‬م نتِظ ٌر ِل هذا اَالمر‪ِ
،‬ا ْن ِت ظاُر قاِئِم نا‪َ
،‬ت َو ُّق ُع اْلَف َر ج‪َ
،‬ا لُم نتِظ ریَن ِل ُظ هوِرِه ‪ُ
،‬م ْنتِظ روَن ِل َد ْو َلِة اْلَح ق
اور
َا لُم نتِظ ُر ِل ّلثانی‬
‫َع َش ر ۔[‪ ]204‬ان روایات میں منتظرین کے لئے بہت زیادہ ثواب کا وعدہ دیا گیا اور انہیں اولیاء اللہ اور لوگوں کے درمیان‬
‫بہترین افراد‪ ،‬شمار کیا گیا ہے جو جنگ بدر میں رسول اللؐہ کے صحابہ کی مانند ہیں یا جہاد کے موقع پر امام زمانؑہ کے‬
‫[‪]205‬‬
‫خیمے مین مقیم ہیں اور آؑپ کے ہمراہ جنگ لڑ رہے ہیں۔‬

‫انتظاِر َف َر ج اور کشادگی اور امن و سکون کی امید فردی بھی ہوسکتی ہے اور عمومی بھی[‪ ]206‬اور صرف اس شرط پر‪،‬‬
‫تعمیری ہوگی کہ کوشش اور جدوجہد نیز مکمل تیار کے ساتھ ہو اور اگر تاخیر ہوئی تو مؤمنین مایوسی کا شکار نہ ہوں۔‬
‫گی۔[‪]207‬‬ ‫اس طرح کے انتظار و امید اور کوشش اور جدوجہد فرد اور معاشرے کے کمال و ارتقاء کے اسباب فراہم کرے‬

‫نیمہ شعبان‬
‫‪ 15‬شعبان کا جشن‬

‫مفصل مضمون‪ :‬نیمہ شعبان‬

‫جیسا کہ والدت کے حصے میں مذکور ہوا‪ ،‬قول مشہور یہ ہے کہ امام زمانؑہ کی والدت پندرہ شعبان کے دن [بوقت فجر]‬
‫ہوئی ہے۔ شیعہ اس روز کو اہم ترین عیدوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور اس کی رات وسیع چراغاں اور نیز رات اور‬
‫دن کو جشن‪ ،‬شعر خوانی‪ ،‬نذر و نیاز اور قربانی اور غرباء کو کھانا کھالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ مراسمات ایران میں‬
‫دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ وسیع سطح پر منعقد کئے جاتے ہیں۔ جشن و سرور کے ان مراسمات کا بڑا حصہ ملک بھر کے‬
‫شہروں کے مذہبی مقامات‪ ،‬گلی محلوں اور بازاروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ [قم کے نواح میں واقع] مسجد جمکران مہدویت‬
‫کے جشن کی سب سے بڑی ميزبانی کا انتظام کرتی ہے۔ اس روز ایران میں عام تعطیل قرار پائی ہے اور اس دن کو‬
‫"مستضعفین کا عالمی" دن کہا جاتا ہے۔ عراق میں بھی شیعیان اہل بیت جشِن نیمہ شعبان کے انعقاد کے ساتھ ساتھ امام‬
‫حسیؑن کی زیارت کے لئے چلے جاتے ہیں۔ بحرین‪ ،‬یمن‪ ،‬مصر‪ ،‬لبنان‪ ،‬شام اور ہندوستان نیز پاکستان میں بھی وسیع سطح پر‬
‫جشن نیمہ شعبان کا اہتمام کیا جاتا ہے[‪ ]208‬اور پاکستان اور ہندوستان میں نیمہ شعبان کی رات کو شب برات بھی کہا جاتا‬
‫[‪]209‬‬
‫ہے اور خاص قسم کے مراسمات کا انعقاد ہوتا ہے۔‬

‫امام زمانؑہ اور دیگر مذاہب‬


‫شیعہ فرقے‬

‫زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے شیعہ فرقے مہدویت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے‪ ،‬امام زمانؑہ کے موعود ہونے اور موعود کے‬
‫مصداق کے تعین میں امامیہ کے ساتھ اختالف رائے رکھتے ہیں۔ زیدیہ کی بعض شاخوں سمیت کچھ شیعہ فرقے‪ ،‬ماضی‬
‫میں امام مہدؑی کی والدت اور آؑپ کی غیبت کو نہیں مانتے اور ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام زمانؑہ موعود ہیں اور آخر‬
‫الزمان میں ظہور کریں گے چنانچہ وہ بارہویں امام یعنی محمد بن حسن عسکرؑی پر ـ امامیہ کی مانند ـ امام موعود اور‬
‫امام منتَظ ر کے مصداق کی تطبیق کو یا تو سرے سے مسترد کرتے ہیں یا کم از کم اس کی تائید و تصدیق نہیں کرتے۔ ان کا‬
‫صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام منتَظ ر آخر الزمان میں پیدا ہونگے اور اٹھ کر قیام فرمائیں گے۔‬
‫بحیثیت مجموعی‪ ،‬زیدیہ میں مہدویت کا عقیدہ‪ ،‬مہدویِت نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ امامت کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم‬
‫کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بالئے‬
‫اس کی پیروی کرنا الزمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو![‪ ]210‬اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا‬
‫ہوگا۔[‪]211‬‬ ‫موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر‪ ،‬امام منتظر کوئی دوسرا سید‬

‫تاریخ اسالم کی ابتداء سے زیدیہ کی بعض جماعتیں‪ ،‬مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض ا‏ئمہ کی مہدویت کا‬
‫دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ زید بن‬
‫ق)‪]214[،‬‬ ‫علی‪ ]212[،‬نفس زکیہ‪ ]213[،‬محمد بن قاسم بن علی بن ُع مر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفٰی ‪219‬ھ‬
‫یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوف ‪250‬ھ ق)‪]215[،‬‬
‫اور حسین بن قاسم عیانی (متوفٰی‬ ‫ٰی‬
‫[‪]216‬‬
‫‪404‬ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں۔‬

‫اہل سنت‬

‫اہل سنت کے مصادر حدیثی میں امام مہدؑی اور منجی آخری الزمان کے سلسلہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ابری‬
‫شافعی[‪ ،]217‬عبد الحق دھلوی[‪ ،]218‬سقارینی[‪ ]219‬اور شوکانی[‪ ]220‬جیسے اہل سنت کے بعض بزرگ محدثین ان روایات کے‬
‫متواتر ہونے کے سلسلہ میں تصریح کی ہے۔ اہل سنت ان روایات کی وجہ سے مہدی کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس‬
‫موضوع کے سلسلہ میں شیعہ سنی عقیدہ کے مطابق مہم ترین مشترک خصوصیات یہ ہیں‪ :‬وہ پیغمبر اکرم ؐ کی اوالد میں‬
‫سے اور ان کے ہم نام ہوں گے اور ان کا لقب مہدی ہوگا۔ آخری زمانہ میں حتمی طور پر وہ قیام کریں گے اور تمام ظالمین پر‬
‫کامیاب ہوں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ جس طرح سے وہ ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی اور وہ‬
‫[‪]221‬‬ ‫ی کے ہمراہ زمین پر لوٹ کر آئیں گے۔‬
‫حضرت عیس ؑ‬

‫ان روایات کے وہ اختالفی پہلو جو شیعوں کے عقیدہ کے خالف ہیں‪:‬‬

‫پیغمبر اکرم ؐ کے ہمنام ہونے کے عالوہ ان کے والد کا نام بھی آپ کے والد کے نام کی طرح عبد اللہ ہوگا‪ ،‬جبکہ شیعوں کا‬
‫ہیں۔[‪]222‬‬ ‫عقیدہ یہ ہے کہ وہ امام حسن عسکرؑی کے بیٹے‬

‫ہے۔[‪]223‬‬ ‫اہل سنت کا ایک گروہ ان کے امام حسؑن کی نسل سے ہونے کا عقیدہ رکھتا‬

‫اہل سنت کے مشہور نظریے کے مطابق مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے اور وہ امام حسن عسکری کے فرزند نہیں ہیں۔‬
‫[‪]224‬‬

‫اہل سنت کی ایک قلیل تعداد نے عقیدہ مہدویت اور اس سلسلہ کی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں ابن خلدون کی‬
‫تاریخ[‪ ]225‬میں اور رشید رضا کی تفسیر[‪ ]226‬المنار شامل ہیں۔‬

‫مستشرقین‬

‫بعض مستشرقین کی تحقیق کا موضوع ہی مسئلۂ مہدویت رہا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے مختلف نظریات قائم کئے‬
‫ہیں‪ :‬ہنری کوربن (‪ )Henry Corbin‬مظہریاتی (‪ )Phenomenological‬نقطۂ نظر سے‪ ،‬مہدویت کو شیعہ عرفان و فلسفے‬
‫کے نہایت بنیادی اعتقادی عناصر کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی نظر سے "مہدویت دین کے باطن اور ظہور امام کی‬
‫تفسیر کے معانی میں‪ ،‬انسانی حیات کی تجدید ہے۔ [‪ ]227‬کوربن کا کہنا ہے کہ ظہور کے ساتھ‪ ،‬وحِی الہی کے تمام خفیہ‬
‫اصول یا معنوی معانی‪ ،‬آشکار ہوجائیں گے۔[‪]228‬‬

‫فرانسیسی مصنف "جیمز ڈارمسٹٹر" (‪ ،)James Darmesteter‬تاریخی نقطۂ نظر سے‪ ،‬سمجھتے ہیں کہ مہدویت کا تذکرہ‬
‫قرآن میں نہیں آیا ہے اور پیغمبر اسالم کے اقوال میں بھی اس کے کوئی واضح عالئم موجود نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ‬
‫[‪]229‬‬ ‫مہدویت کا عقیدہ شیعہ افکار کا پیدا کردہ اور ایرانی اساطیر اور افسانوں سے متاثر ہے۔‬

‫ولندیزی مستشرق فان فلوٹن (‪ )Gerlof van Vloten‬کا دعوی ہے کہ مہدویت کا تفکر کوفی شیعوں نے رائج کیا ہے تا کہ‬
‫شام میں مقیم اموی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے‪ ،‬اس کی ممکنہ قوتوں اور صالحیتوں سے‪ ،‬فائدہ اٹھا سکیں۔‬
‫[‪]230‬‬

‫ہنگری کے یہودی مستشرق ایگناز گولڈزیہر (‪ )Ignaz Goldziher‬تاریخی نقطۂ نظر سے‪ ،‬سمجھتا ہے کہ عقیدہ مہدویت کی‬
‫جڑیں یہودی اور عیسائی فکری عناصر میں پیوست ہیں اور اس میں زرتشتیوں کے یہاں زیر بحث سوشیانس کی بعض‬
‫[‪]231‬‬
‫خصوصیات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔‬

‫برطانوی پروفیسر ڈیوڈ ساموئل مارگولیتھ (‪ )David Samuel Margoliouth‬کا کہنا ہے کہ عقیدہ مہدویت محمد بن‬
‫حنفیہ کے زمانے میں مختار اور فرقۂ کیسانیہ میں مذکورہ محمد بن حنفیہ کے حامیوں کے ذریعے معرض وجود میں آیا ہے‪،‬‬
‫[‪]232‬‬ ‫جنہوں نے ان کے مارے جانے کے بعد انہیں مہدی کا لقب دیا۔‬

‫متعلقہ مضامین‬
‫غیبت امام زمانؑہ‬

‫نواب اربعہ‬

‫رجعت‬

‫آخر الزمان‬

‫انتظار فرج‬

‫ظہور امام زمانؑہ‬

‫دجال‬

‫سفیانی کا خروج‬

‫مہدویت کے جھوٹے دعویدار‬

‫جنگ قرقیسیا‬

‫حوالہ جات‬
‫ص‪283‬۔‬ ‫‪ .1‬محمدی رے شہری‪ ،‬دانش نامہ امام مہدؑی ‪1393 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪،2‬‬
‫‪ .26‬ابن طلحہ شافعی‪ ،‬مطالب السؤول‪ ،‬باب ‪ ،12‬بحوالہ از‪ :‬اربلی‪ ،‬کشف‬ ‫‪ .2‬محمدی رے شہری‪ ،‬دانش نامہ‪1393 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪283‬۔‬
‫الغمہ‪1381 ،‬ق‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪437‬۔‬
‫‪ .3‬محمدی رے شہری‪ ،‬دانش نامہ‪1393 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪291-289‬۔‬
‫‪ .27‬ابن خلکان‪ ،‬وفیات االعیان‪[ ،‬بی‌تا]‪ ،‬ج‪ ،4‬ص‪176‬۔‬
‫‪ .4‬محمدی رے شہری‪ ،‬دانش نامہ‪1393 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪305-297‬‬
‫‪ .28‬مقدسی‪ ،‬بازپژوہی تاریخ والدت و شہادت معصوماؑن ‪ ،‬ص‪597‬۔‬
‫‪ .5‬طبسی‪ ،‬تا ظهور‪1388 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪ ،1‬ص‪44‬۔‬
‫‪ .29‬ابن خلکان‪ ،‬وفیات االعیان‪[ ،‬بی‌تا]‪ ،‬ج‪ ،4‬ص‪176‬۔‬
‫‪ .6‬محمدی رے شہری‪ ،‬دانش نامہ‪1393 ،‬ھ ش‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪311‬۔‬
‫‪[[ .30‬قاضی نوراللہ شوشتری نے احقاق الحق‪ ،‬ج‪ ،13‬ص‪ ،90-89‬میں‬
‫‪ .7‬نوری‪ ،‬النجم الثاقب‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص‪165-265‬۔‬
‫اس قول کو ابن خلکان کی کتاب وفیات االعیان سے نقل کیا ہے؛‬
‫حاالنکہ وفیات میں ہے کہ آؑپ ‪ 9‬ربیع االول کو پیدا ہوئے ہیں۔‬ ‫‪ .8‬طبسی‪ ،‬تا ظہور‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‪492‬۔‬

‫مآخذ‬
‫قرآن کریم۔‬

‫إبن حنبل‪ ،‬أحمد بن محمد الشیبانی المروزی البغدادی‪ ،‬مسند اإلمام أحمد بن حنبل‪ ،‬دار صادر بيروت۔‬

‫ابن خشاب‪ ،‬عبداللہ بن احمد‪ ،‬تاریخ الموالید االئمہ و وفیاتہم‪ ،‬مجموعہ نفیسہ‪ ،‬تحقیق آیت اللہ مرعشی نجفی‪ ،‬قم‪ ،‬کتابخانہ‬
‫آیت اللہ مرعشی‪1406 ،‬ھ‪،‬‬

‫ابن خلکان‪ ،‬وفیات االعیان‪ ،‬بہ تحقیق احسان عباس ‪‍1969‬ع (افست قم‪ ،‬منشورات رضی)۔‬

‫ابن شہر آشوب‪ ،‬محمد بن على‪ ،‬مناقب آل ابی طالب علیہم السالم‪ ،‬اول‪ ،‬قم‪ ،‬عالمہ‪1379 ،‬ھ‪،‬‬

‫سید ابن طاؤس‪ ،‬رضی الدین علی بن موسی‪ ،‬المالحم والفتن‪ ،‬مطبعۃ نشاط‪ ،‬مؤسسۃ صاحب األمر عجل اللہ تعالی َف َر َج ُہ‬
‫الشریف‪ ،‬الطبعۃ األولی‪ ،‬اصفہان ‪1416‬ھ ق‬

‫ابن طاؤس‪ ،‬رضي الدين علي بن موسى الحلي‪ ،‬مذاہب الطرائف في معرفۃ الطوائف‪ ،‬مطبعۃ الخيام ‪ -‬قم ‪1399‬ھ۔‬

‫ابن طولون‪ ،‬االئمہ االثنی عشر‪ ،‬بہ تحقیق صالح الدین منجد‪ ،‬قم‪ ،‬منشورات الرضی۔‬

‫ت حس ن سل م اسد دار الثقافۃ العرب ۃ دمشق الط عۃ الثان ۃ‬ ‫مسند اب يعل‬ ‫احمد بن عل التم م‬ ‫ابویعل الموصل‬
‫چودہ معصومین علیہم السالم‬

‫حضرت فاطمہ زہرا سالم اللہ علیہا‬ ‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ‬

‫↓ بارہ امام ↓‬

‫امام موسی کاظم علیہ‬


‫امام علی نقی علیہ السالم‬ ‫امام سّج اد علیہ‌السالم‬ ‫امام علی علیہ السالم‬
‫السالم‬

‫امام حسن عسکری علیہ‬ ‫امام حسن مجتبی علیہ‬


‫امام محمد باقر علیہ السالم امام علی رضا علیہ السالم‬
‫السالم‬ ‫السالم‬

‫امام جعفر صادق علیہ‬


‫امام محمد تقی علیہ السالم امام مہدی علیہ السالم‬ ‫امام حسین علیہ السالم‬
‫السالم‬
https://ur.wikishia.net/index.php?« ‫اخذ کردہ از‬
»title=‫&امام_مہدی_علیہ_السالم‬oldid=189783


Shamsoddin ‫ دن قبل بدست‬10 ‫آخری ترمیم‬

wikishia

You might also like