You are on page 1of 12

‫ویکی شیعہ‬

‫شہادت ثالثہ‬
‫‪  ‬میں شائع کریں‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪  ‬‬

‫(‪1439‬ھ)۔[‪]1‬‬ ‫شہادت ثالثہ کی خوشختی‪ ،‬از قلم محمد المشرفاوی‬


‫شہادت ثالثہ یا تیسری گواہی شہادتین کے بعد حضرت‬
‫علؑی کی والیت کی گواہی دینے کو کہتے ہیں جسے عام‬
‫ولی اهلل یا أشَه ُد َأ ّن َع لیًا ُح َّج ُة اللہ جیسے الفاظ کے‬
‫طور پر أشَه ُد َأ ّن َع لیًا ُّ‌‬

‫ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ شیعہ فقہی منابع میں مسلمان‬
‫ہونے کیلئے شہادت ثالثہ کو الزمی نہیں کہا گیا۔ فقہی‬
‫مقامات جیسے اذان اور اقامت کے ذیل میں اس کے‬
‫متعلق بحث کی گئی ہے لیکن اسے اذان و اقامت کے‬
‫اجزا میں سے شمار نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے اکثر‬
‫فقہا کے نزدیک شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزو‬
‫نہیں ہے لیکن اسے اذان و اقامت کا جز مانے بغیر قصد‬
‫قربت کے ساتھ کہنا مستحب یا جائز ہے۔‬

‫مفہوم‬
‫شہادت ثالثہ یعنی شہادتین‪ :‬توحید و نبوت کی گواہی‬
‫ی طالب کی والیت کی گواہی‬
‫ی بن اب ‌‬
‫دینے کے بعد عل ‌‬
‫أشَه ُد َأ ّن َع لیًا ُح َّج ُة‬ ‫ولی اهلل یا‬
‫دینا ہے۔ عام طور پر یہ گواہی أشَه ُد َأ ّن َع لیًا ُّ‌‬

‫[‪]2‬‬ ‫اللہ جیسے الفاظ کے ساتھ دی جاتی ہے۔‬

‫بعض روایات میں آیا ہے کہ جب بھی توحید اور‬


‫ی طالب‬
‫ی بن اب ‌‬
‫رسالت کی گوہی دی جائے تو والیت عل ‌‬
‫کی گواہی بھی دی جائے۔[‪ ]3‬اذان و اقامت شہادت ثالثہ‬
‫کی بحث کا اصلی مقام ہے۔ نیز تشہد نماز میں بھی‬
‫[‪]4‬‬ ‫اس سے بحث کی جاتی ہے۔‬

‫اذان و اقامت‬
‫اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ سے متعلق بحث زیادہ‬
‫تر تاریخی اور فقہی حوالے سے ہوئی ہے۔‬

‫تاریخچہ‬
‫مشہور ہے کہ شہادت ثالثہ صفویہ دور میں باقاعدہ‬
‫طور پر شروع ہوئی۔
لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ‬
‫اس سے پہلے بھی بعض عالقوں میں پراکندہ طور کہی‬
‫جاتی تھی۔ جیسا کہ ابن بطوطہ نے ‪8‬ویں صدی ہجری‬
‫میں سعودی عرب کے شہر قطیف میں شیعہ اذان میں‬
‫اشهد ان علیًا ول ‌ی اهلل کا تذکرہ کیا ہے۔ [‪ ]5‬اسی طرح شیخ صدوق‬
‫کا شہادت ثالثہ کے جواز سے متعلق روایات [‪ ]6‬کے‬
‫بارے میں مخالفانہ مؤقف اس بات کی عکاسی کرتا ہے‬
‫کہ اس زمانے میں ایسے گروہ موجود تھے جو اذان‬
‫میں شہادت ثالثہ کہتے تھے۔‬

‫عبد المحسن سراوی کے مطابق شہادت ثالثہ امویوں‬


‫کے دور سے چلی آرہی ہے اور اسے حاکمان وقت کی‬
‫جانب سے منبروں اور گلدستۂ اذانوں سے حضرت علی‬
‫پر سب و لعن کرنے کی باقاعدہ رسم کا عکس العمل‬
‫[‪]7‬‬ ‫قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫السالفة‬ ‫کہا گیا ہے کہ عبد اهلل مراغی مصری نے اپنی کتاب‬
‫فی أمر الخالفة میں روایت نقل کی ہے جس کے مطابق سلمان‬
‫و ابو ذر رسول اللہ کے زمانے میں اذان میں شہادت‬
‫ثالثہ کہتے تھے ۔[‪ ]8‬البتہ بعض مصنفین اس کتاب میں‬
‫[‪]9‬‬ ‫تردید رکھتے ہیں۔‬

‫فقہی اختالف‬

‫شیعہ فقہ کے مطابق اشهد ان علیًا ول ‌ی اهلل تشریعی اعتبار سے‬


‫اذان کا حصہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے شیعہ فقہا نے‬
‫ہے۔[‪]10‬‬ ‫اسے اذان و اقامت کے اجزا میں ذکر نہیں کیا‬
‫لیکن اذان و اقامت میں اس کے کہے جانے میں اختالف‬
‫نظر پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مختلف اقوال درج‬
‫ذیل ہیں‪:‬‬

‫اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کہنا جائز نہیں ہے۔‬


‫شیخ صدوق شہادت ثالثہ کے جواز کی روایات کو‬
‫غالیوں کی جعل کردہ سمجھتے ہیں۔[‪ ]11‬جبکہ شیخ‬
‫طوسی کے مطابق یہ روایات شاذ ہیں اور جو کوئی‬
‫ہے۔[‪]12‬‬ ‫اذان و اقامت میں کہتا ہے وہ گناہ کار‬
‫اذان و اقامت میں جز کی نیت کے بغیر شہادت‬
‫ثالثہ کہنا مستحب یا جائز ہے؛[‪ ]13‬عبدالحلیم غّز ی‬
‫نے کتاب "الشہادة الثالثہ المقدسہ" میں سو سے‬
‫زیادہ فقہا کے فتاوا جمع کئے ہیں جن میں سے اکثر‬
‫اذان و اقامت میں کی نیت کے بغیر کہنے کو‬
‫مستحب سمجھتے ہیں۔[‪ ]14‬اس گروہ کی دلیل وہ‬
‫روایات ہیں جو کسی شرط کے بغیر توحید و نبوت‬
‫کے بعد والیت علی کی گواہی دینے کو بیان کرتی‬
‫ہیں۔ [‪ ]15‬نیز وہ فقہا شیخ صدوق اور شیخ طوسی‬
‫کے مؤقف کو جز سمجھنے والوں کے بارے میں‬
‫سمجھتے ہیں۔‬
‫شہادت ثالثہ کو اگر شیعہ مذہب کا شعار سمجھا‬
‫جائے تو مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ آیت اللہ‬
‫حکیم‪ ،‬شہادت ثالثہ کو اذان و اقامت میں جز کی‬
‫نیت کے بغیر کہنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ ان کے‬
‫مطابق موجودہ زمانے میں شہادت ثالثہ مذہب‬
‫شیعہ کا شعار (پہچان) بن چکا ہے اس لحاظ سے‬
‫ہو۔[‪]16‬‬ ‫مستحب بلکہ ممکن ہے واجب‬
‫اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کا جز ہونا‪ :‬بعض‬
‫ی ہیں کہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا‬
‫فقہا مدع ‌‬
‫جزء ہے۔[‪ ]17‬علماء کا یہ گروہ ان روایات سے استناد‬
‫کرتے ہیں جنہیں شیخ صدوق و شیخ طوسی مردود‬
‫سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض ان روایات سے‬
‫استناد کرتے ہیں جنہیں مراغی مصری نے سلمان و‬
‫ابوذر کے اذان و اقامت میں نقل کیا ہے۔[‪ ]18‬جبکہ‬
‫بعض محققین کتاب کے مصنف کے مجہول الحال‪،‬‬
‫کتابخانوں میں اس کتاب کی عدم موجودگی‪ ،‬ایسی‬
‫احادیث کا شیعہ کتب میں موجود نہ ہونا جیسے‬
‫دالئل سے استدالل کرتے ہوئے خود اس کتاب کے‬
‫[‪[]20[]19‬نوٹ ‪]1‬‬ ‫وجود میں شک و تردید کرتے ہیں۔‬

‫بعض شیعہ فقہا شہادت ثالثہ کو اذان و اقامت میں‬


‫جزئیت کے قصد کے بغیر مستحب سمجھنے کے ساتھ‬
‫ساتھ اس کی حزئیت کو بھی بعید نہیں سمجھتے ہیں۔‬
‫[‪ ،]21‬صاحب جواہر نے کہا‪:‬‬

‫اگر اصحاب و فقہا کا شہادت ثالثہ کے جز‬


‫نہ ہونے پر اتفاق اور تسالم نہ پایا جاتا تو‬
‫ہمارے پاس شہادت ثالثہ کے اذان و اقامت‬
‫تھی۔[‪]22‬‬ ‫کے جز ہونے کی گنجائش موجود‬

‫نماز کے تشہد اور مسلمان ہونے میں اس‬


‫کی شرطیت‬
‫یوں تو فقہی استداللی کی کتابوں اور مراجع عظام‬
‫کی توضیحوں میں نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ‬
‫بیان نہیں ہوئی ہے لیکن بعض شیعہ مراجع تقلید کے‬
‫استفتائات میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اکثر موجود‬
‫مراجع تقلید نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کہنے کو‬
‫جائز نہیں کہتے ہیں۔ [‪[ ]23‬نوٹ ‪]2‬لیکن بعض مصنفین‬
‫مطلق روایات جیسے‪ :‬جب توحید و رسالت کو گواہی‬
‫دو تو والیت علی گواہی بھی دو‪ ]24[ ،‬کی بنا ہر نماز کے‬
‫ہیں۔[‪]25‬‬ ‫تشہد میں شہادت ثالثہ کو جائز سمجھتے‬
‫اسی طرح بعض شیعہ فقہا بعض فقہا کی طرف نسبت‬
‫تھے۔[‪]26‬‬ ‫دیتے ہیں کہ وہ اس شہادت کو جائز سمجھتے‬

‫مسلمانوں کے نزدیک مسلمان ہونے کیلئے شہادتین کہنا‬


‫کافی ہے نیز شیعہ فقہا بھی مسلمان ہونے کیلئے‬
‫ہیں۔[‪]27‬‬ ‫شہادت ثالثہ کہنے کو الزم نہیں سمجھتے‬
‫متعلقہ مضامین‬
‫والیت‬ ‫شہادتین‬ ‫اقامہ‬ ‫اذان‬

‫حوالہ جات‬
‫‪« .1‬اشہد ان علیا ولی اللہ »‪ ،‬صفحہ الخطاط محمد المشرفاوی در‬
‫پینترس۔‬
‫‪ .2‬حکیم الہی‪« ،‬شہادت ثالثہ از بدعت تا وجوب»‪ ،‬ص‪.۱۴۵‬‬
‫‪ .3‬طبرسی‪ ،‬االحتجاج‪۱۳۸۵ ،‬ق‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪۱۵۸‬؛ عالمہ مجلسی‪ ،‬بحار‬
‫االنوار‪ ،‬دار إحياء التراث العربي‪ ،‬ج‪ ،۲۷‬ص‪۱‬؛ نجفی‪ ،‬جواہر الکالم‪،‬‬

‫‪ .1‬پہلی مرتبہ عبدالنبی اراکی (‪۱۳۸۵-۱۳۰۷‬ق) نے کتاب‬


‫«رسالۃ الہدایہ» میں کتاب «السالفۃ فی امر الخالفه»‬
‫سے استناد کیا ہے۔ اس کے بعد سید محمد شیرازی‬
‫(‪۱۳۸۰-۱۳۰۷‬ش) دوسری شخصیت ہے جس نے اس کتاب‬
‫سے استناد کیا ہے۔ سید اسماعیل مرعشی‬
‫(‪۱۴۲۵-۱۳۴۰‬ق)(حسینی مرعشی‪ ،‬اجماعیات فقہ الشیعہ‪،‬‬
‫‪۱۴۱۵‬ق‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪ ،۲۴۲‬بحوالہ‪ :‬مہریزی‪« ،‬پدیده ارجاع به‬
‫کتاب‌ ہای خیالی و ساختگی»‪ ،).‬سید علی شہرستانی‬
‫دیگر ان افراد میں سے ہیں جنوں نے اس کتاب سے‬
‫استناد کیا ہے۔ (شہرستانی‪ ،‬جایگاه «أشہد أن علیًا ولی‬
‫اللہ» در اذان‪۱۳۸۸ ،‬ش‪ ،‬ص‪ ).۲۵۶‬بعض محققین مدعی‬
‫ہیں کہ ان مذکورہ افراد میں سے کسی ایک نے بھی‬
‫اصل کتاب یعنی السالفة فی أمر الخالفة نہیں دیکھی ہے۔ (ر‪ .‬ک‪:‬‬
‫مہریزی‪« ،‬پدیده ارجاع به کتاب‌ ہای خیالی و‬
‫ساختگی»‪).‬‬
‫‪ .2‬بعض مراجع کے نزدیک نماز کے تشہد میں صلوات‬
‫الّلهّم صّل على محّم د و آل محّم د سّي ما على اميرالمؤمنين‬ ‫کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں‪:‬‬
‫خليفة رسول هّٰللا بال فصل و على اوالده اوصيائه الّط اهرين البتہ اس سے یہ نماز کا‬
‫جزو ہونا نہ سمجھا جائے۔(بہجت‪ ،‬استفتاءات‪۱۴۲۸ ،‬ق‪،‬‬
‫ج‪ ،۲‬ص‪).۱۷۹‬‬

‫مآخذ‬
‫‪۱۴۱۲‬ق‪.‬‬
‫عالمہ مجلسی‪ ،‬محمدباقر‪ ،‬بحار االنوار الجامعۃ لدرر‬
‫اخبار االئمۃ االطہار‪ ،‬بیروت‪ ،‬دار إحياء التراث العربی‪.‬‬
‫ِغ ّز ی‪ ،‬عبدالحلیم‪ ،‬الشہادة الثالثہ المقدسہ‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫دارالقاری‪۱۴۲۳ ،‬ق‪.‬‬
‫کدیور‪ ،‬محسن‪« ،‬نقد مستندات شہادت ثالثہ در اذان‪،‬‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikishia.net/index.php‬‬


‫‪&oldid=187679‬شہادت_ثالثہ=‪»title‬‬

‫آخری ترمیم ‪ 2‬مہینے قبل از ‪Waziri‬‬

You might also like