You are on page 1of 22

‫‪1‬‬

‫ٰن الرحیم‬
‫بسم ہللا الرحم‬
‫صلوۃ و سالم‬
‫ٰ‬ ‫سماع‬
‫از افادات‪ :‬متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفظہ ہللا‬
‫عقیدہ اہل السنت و الجماعت‪:‬‬
‫اہل السنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم اوردیگر انبیاء‬
‫ق روح زندہ ہیں‪ ،‬ان کے اجسا ِد مقدسہ‬ ‫کرام علیہم السالم وفات ظاہری کے بعد اپنی قبروں میں بتعل ِ‬
‫بعینہ محفوظ ہیں‪،‬صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلّف نہیں ہیں لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں‬
‫اور روضہ اقدس پر جو درود پڑھاجائے اسے بالواسطہ سنتے ہیں اور اگر دور سے پڑھا جائے تو‬
‫فرشتے ان کی خدمت میں پہنچا دیتے ہیں۔‬
‫اہل بدعت کا نظریہ‪:‬‬
‫منکرین سماع النبی صلی ہللا علیہ و سلم کا موقف یہ ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫اپنی قبر مبارک میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں [معاذہللا]‪ ،‬صلوۃ وسالم کا سماع نہیں فرماتے‪،‬یہ عقیدہ‬
‫شرکیہ عقیدہ ہے‪،‬اس کے دالئل من گھڑت ہیں‪ ،‬یہ عقیدہ شیعہ کا ہے‪ ،‬اس عقیدہ کے قائلین شرک کے‬
‫کھیت کے دہقان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ قارئین کی خدمت میں ان کی بعض عبارات مالحظہ ہوں۔‬
‫‪ :1‬فرقہ مماتیت اپن ے بعض عقائد منظر عام پر الئے اور جماعتی لیٹر پیڈ پر یہ عقائد لکھ کر شائع‬
‫کیے۔ سید ضیاء ہللا بخاری صاحب نے ان عقائد کی تصدیق بھی کی۔ ان عقائد میں یہ درج ہے کہ‪:‬‬
‫عقیدہ(‪) 2‬آپ صلی ہللا علیہ وسلم عندالقبر صلوۃ وسالم کا سماع نہیں فرماتے جو سماع کا قائل ہے وہ‬
‫بےایم ان کافر اور مشرک ہے(عند القبر صلوۃ وسالم کے سماع کی جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب کی‬
‫سب جعلی اور موضوع ہیں)‬
‫تمام عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں۔ [دستخط] ضیاء ہللا‬
‫(نوٹ‪:‬اس کی ایک کاپی ہمارے پاس محفوظ ہے‪:‬از ناقل)‬
‫‪ :2‬محمد عطاء ہللا بندیالوی صاحب (مماتی) عقیدہ حیاۃ وسماع النبی صلی ہللا علیہ و سلم کے قائلین‬
‫کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫موتی اور بزرگوں کے وسیلے جیسے موضوعات پر‬ ‫ٰ‬ ‫٭ ”حیات النبی صلی ہللا علیہ و سلم‪ ،‬سماع‬
‫دالئل دے کر الٹا شرک کے کھیت کے دہقان بنے ہوئے ہیں۔“ (شرک کیا ہے‪ :‬ص‪)4‬‬
‫عیسی علیہ السالم میری قبر پر‬
‫ٰ‬ ‫٭ امام االنبیاء علیہم السالم کے ذمہ یہ جھوٹ لگایا گیا ہے کہ حضرت‬
‫سالم کہیں گے تو میں اس کا جواب دوں گا۔‬
‫(کیا مردے سنتے ہیں‪ :‬ص‪)37‬‬
‫٭ امام االنبیاء علیہم السالم قبر منور پر آنے والوں کے سالم کو نہیں سنتے۔(کیا مردے سنتے ہیں‪:‬‬
‫ص‪)39‬‬
‫‪ :3‬مولوی ہللا بخش صاحب (مماتی)لکھتے ہیں‪:‬‬
‫صہ من گھڑت‬
‫آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کا درود وسالم عند القبر سننا وجواب دینا یہ ق ّ‬
‫ہے۔‬
‫(دعوۃ الرشاد‪ :‬ص‪ 8‬مؤلف مولوی ہللا بخش ‪ ،‬مؤید عنایت ہللا شاہ گجراتی)‬
‫فتاوی اصحاب الحدیث میں ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫‪:4‬‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم ہمارے درود و سالم کو سنتے نہیں ہیں۔ (ج‪ 2‬ص‪)62‬‬
‫ایک دوسرے مقام پر ہے‪:‬بہرحال رسول ہللا صلی ہللا ہمارے درود و سالم کو براہ راست ہم سے نہیں‬
‫سنتے ہیں۔ (ج‪ 2‬ص‪)63‬‬
‫دالئل اہل السنۃ والجماعۃ از قرآن مجید‬
‫پہلی آیت‪:‬‬
‫ََلك‬
‫ِن‬ ‫ء و‬ ‫َاٌ‬ ‫َحی‬‫بل أ‬ ‫ٌ َ‬‫َات‬ ‫َمو‬ ‫ِ اه‬
‫َّللِ أ‬ ‫ِي سَب‬
‫ِیل‬ ‫ُ ف‬ ‫َل‬
‫يقت‬ ‫َن ُ‬ ‫لم‬‫ُوُلوا ِ‬ ‫تق‬ ‫ََ‬
‫َل َ‬ ‫و‬
‫ن‪( .‬البقرۃ ‪)154:‬‬ ‫ُوَ‬ ‫ُر‬‫تشع‬ ‫َ‬
‫َل َ‬
‫تعالی کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور جو لوگ ہللا‬
‫تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔‬
‫‪2‬‬
‫تفسیر‪:‬‬
‫مفتی بغدادعالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ ہللا علیہ (‪1270‬ھ) ایک مقام پر حیات‬ ‫[‪:]۱‬‬
‫الشہداء کا ذکر کرتے ہوئے حیاۃ االنبیاء کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وهي فوق حیاة الشهداء بكثیر وحیاة نبینا صلى ہللا علیه‬
‫وسلم أكمل وأتم من حیاة سائرهم علیهم السالم ••• إن تلك‬
‫الحیاة في القبر وإن كانت يترتب علیها بعض ما يترتب على‬
‫الحیاة في الدنیا المعروفة لنا من الصالة واألذان واإلقامة‬
‫ورد السالم المسموع ونحو ذلك إَل أنها َل يترتب علیها كل ما‬
‫يمكن أن يترتب على تلك الحیاة المعروفة•‬
‫تعالی‪ :‬ما کان محمد ابا احد من رجالکم)‬
‫ٰ‬ ‫(روح المعانی ‪:‬ج‪22‬ص‪ 38‬تحت قولہ‬
‫اعلی ہے اور‬‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬یہ حیات (جو انبیاء علیہم السالم کو حاصل ہے) شہداء کی حیات سے بہت‬
‫آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی حیات تو تمام انبیاء علیہم السالم سے اکمل واتم ہے ‪...‬اس قبر کی‬
‫زندگی پر اگر چہ بعض وہ امور مترتب ہوتے ہیں جو ہماری دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے‬
‫ہیں مثالً نماز‪ ،‬اذان‪ ،‬اقامت اور سنے ہوئے سالم کا جواب لوٹانا اور اسی طرح کےدیگر امور ‪،‬مگر‬
‫اس پر وہ سب امور مترتب نہیں ہوتے جو دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔‬
‫شیخ عبدہللا بن محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫[‪:]۲‬‬
‫والذی نعتقد ان رتبۃ نبیناصلی ہللا علیہ وسلم اعلی‬
‫مراتب المخلوقین علی اَلطالق وانہ صلی ہللا علیہ وسلم حی فی‬
‫ٰوة الشهدا ء المنصوص علیها‬ ‫ٰوة مستقرة ابلغ من حی‬ ‫قبرہ حی‬
‫فی التنزيل اذ هو افضل منهم بال ريب وانہ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫يسمع من يسلم علیہ• (اتحاف النبال ء ‪ :‬ص‪)415 :‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ و سلم کا مرتبہ تمام مخلوقات سے علی االطالق‬
‫اعلی ہے‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ و سلم اپنی قبر شریف میں دائمی طور پر زندہ ہیں اور آپ صلی ہللا علیہ‬
‫ٰ‬
‫و سلم کی یہ حیات شہداء کی حیات سے جو قرآن میں منصوص ہے‪،‬بہت باالتر ہے کیونکہ آپ صلی‬
‫ہللا علیہ و سلم اُن سے بال ریب افضل ہیں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم اپنے روضہ اطہر میں سالم‬
‫عرض کرنے والوں کا سالم خود سنتے ہیں۔‬
‫دوسری آیت ‪:‬‬
‫ِيِ‬ ‫هب‬
‫َوتِ الن‬‫َ ص‬ ‫َوق‬‫ُم ف‬ ‫َاَ‬
‫تك‬ ‫َصو‬‫ُوا أ‬ ‫َع‬‫ترف‬ ‫ُوا َ‬
‫َل َ‬ ‫َ آَ‬
‫من‬ ‫ِين‬ ‫ها ه‬
‫الذ‬ ‫يَ‬ ‫َُّ‬
‫يا أ‬ ‫َ‬
‫ُم‬ ‫َ ُ‬
‫الك‬ ‫َ‬
‫َ أعم‬ ‫َط‬‫تحب‬ ‫َ‬
‫ض أن َ‬ ‫َعٍ‬ ‫ُم ِ‬
‫لب‬ ‫ِك‬‫بعض‬ ‫ِ َ‬ ‫َهر‬‫َج‬‫ِ ك‬ ‫َ‬
‫ِالقول‬ ‫ه ب‬ ‫ُوا َلُ‬ ‫هر‬‫تجَ‬‫َل َ‬‫ََ‬‫و‬
‫ِ اه‬
‫َّللِ‬ ‫َسُول‬
‫د ر‬ ‫ِنَ‬‫ُم ع‬‫ته‬‫َاَ‬ ‫َ‬
‫ن أصو‬ ‫ُّوَ‬
‫ُض‬‫يغ‬ ‫َ َ‬ ‫ِين‬ ‫ن ه‬
‫الذ‬ ‫ِه‬‫ن ؁ إ‬ ‫ُوَ‬‫ُر‬ ‫تشع‬ ‫َل َ‬ ‫ُم َ‬ ‫َ‬
‫َأنت‬ ‫و‬
‫َأجر‬
‫ٌ‬ ‫َ‬ ‫ٌ‬
‫َة و‬ ‫ِر‬
‫مغف‬‫هم َ‬ ‫َ‬
‫َى لُ‬ ‫ه‬
‫ِلتقو‬ ‫هم ل‬ ‫بُ‬ ‫ُ‬‫ُ‬
‫َّللُ قلوَ‬‫َن اه‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ِين امتح‬ ‫َ‬ ‫ه‬
‫ِك الذ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫أولئ‬‫ُ‬
‫ٌ؁ (سورۃ الحجرات‪)۳ ،۲:‬‬ ‫ِیم‬‫َظ‬‫ع‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو‪ ،‬اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح‬
‫زور سے بوال کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو‪ ،‬ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو‬
‫جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ بے شک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ‬
‫تقوی کےلیے منتخب کر لیا ہے ‪ ،‬ان کو مغفرت بھی‬ ‫ٰ‬ ‫وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو ہللا نے خوب جانچ کر‬
‫حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔‬
‫تفسیر‪:‬‬
‫موالنا محمد مالک کاندھلوی (م‪1409‬ھ)فرماتے ہیں ‪:‬‬ ‫[‪:]۱‬‬
‫تعالی عنہ نے مسجد میں دو شخصوں‬ ‫ٰ‬ ‫احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی ہللا‬
‫کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے ہو؟ معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف‬
‫ہیں۔ تو فرمایا‪ :‬اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (افسوس کی بات ہے ) تم‬
‫علماء امت نے‬
‫ِ‬ ‫اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں۔ اس حدیث سے‬
‫یہ حکم اخذ فرمایا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کا احترام آپ کی حیات مبارکہ میں‬
‫تھا‪ ،‬اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی الزم ہے۔ کیونکہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنی قبر‬
‫‪3‬‬
‫ی (زندہ) ہیں۔ (معارف القرآن تکملہ ج‪ 7:‬ص‪)487‬‬
‫مبارک میں ح ّ‬
‫عالمہ ر حمت ہللا بن عبد ہللا السندھی الحنفی رحمہ ہللا (م‪978‬ھ او‪993‬ھ) فرماتے ہیں‬ ‫[‪:]۲‬‬
‫‪:‬‬
‫ثم توجہ مع رعايۃ غايۃ اَلدب فقام تجاہ الوجہ الشريف‬
‫ً مع الذلۃ و اَلنکسار و الخشیۃ و الوقار‬ ‫ً خاشعا‬‫متواضعا‬
‫والهیبۃ و اَلفتقار غاض الطرف مکفوف الجوارح فارغ القلب‬
‫ً‬
‫ً يمینہ علی شمالہ مستقبالً للوجہ الکريم مستدبرا‬ ‫واضعا‬
‫ً‬
‫للقبلۃ……… محترزا عن اشغال النظر بما ہناک من الزنیۃ‪،‬‬
‫ًبانہ علیہ الصلوة‬ ‫متمثالً صورتہ الکريمۃ فی خیالک‪ ،‬مستشعرا‬
‫ً بحضورک و قیامک و سالمک مستحضرا عظمتہ‬ ‫و السالم عالما‬
‫ً‬
‫وجاللتہ و شرفہ و قدرہ صلی ہللا علیہ و سلم ثم قال مسلما‬
‫ُّوَ‬
‫ن‬ ‫ُض‬ ‫َ َ‬
‫يغ‬ ‫ِين‬ ‫ن ه‬
‫الذ‬ ‫ِه‬
‫ٰ‪ ﴿ :‬إ‬‫ً من غیر رفع صوت لقولہ تعالی‬ ‫مقتصدا‬
‫ِ اه‬
‫َّللِ ﴾ وَل اخفاء بحضور و حیاء•‬ ‫َسُول‬
‫د ر‬‫ِنَ‬ ‫تُ‬
‫هم ع‬ ‫َصو‬
‫َاَ‬ ‫أ‬
‫(لباب المناسک للسندی‪ :‬ص‪ 508‬باب زیارۃ سید المرسلین)‬
‫ترجمہ‪:‬پھر انتہائی ادب کے ساتھ چہرہ اقدس کی طرف متوجہ ہو‪ ،‬تواضع‪ ،‬رسوائی‪ ،‬انکساری‪ ،‬خوف‬
‫اور سکون کے ساتھ اور ہیبت‪ ،‬محتاجی‪ ،‬نگاہوں کو پست کئے ہوئے جوارحات کو حرکات سے بند‬
‫رکھتے ہوئے‪ ،‬دل کو ہر بات سے ا ُ س مقصود کے لئے فارغ کئے ہوئے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ‬
‫پر رکھے ہوئے‪ ،‬چہرہ مکرم کی طرف منہ کئے ہوئے‪ ،‬اور قبلہ مبارکہ کی طرف پشت کئے ہوئے‬
‫اور وہاں کی آرائش وتزئین سے نگاہوں کو بچاتے ہوئے‪ ،‬اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی صورت‬
‫مبارکہ کا تصور لیے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم تیری موجودگی ‪،‬تیرے‬
‫قیام اور تیرے سالم سے باخبر ہیں‪،‬اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی عظمت وجاللت بلندی قدر کو‬
‫ملحوظ رکھتے ہوئے پھر سالم پیش کرے‪ ،‬میانہ روی سے اور آواز کو پست رکھتے ہوئے‪ ،‬کیونکہ‬
‫تعالی کا فرمان ہے کہ اپنی آواز کو آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی آواز سے پست رکھو‪،‬اور بے‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ش ک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں(یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو‬
‫تقوی کےلیے منتخب کر لیا ہے ‪ ،‬ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبر دست‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا نے خوب جانچ کر‬
‫اجر بھی)‪ ،‬اور نہ زیادہ اخفاء کے ساتھ اور حضور قلب اور حیاء کے ساتھ سالم عرض کرے۔‬
‫قطب االقطاب موالنا رشید احمد گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ(م‪1322‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫[‪:]۳‬‬
‫” اور بہت پکار کر نہ بولے‪ ،‬بلکہ آہستہ خضوع اور ادب سے بہ نرمی عرض کرے اور جس‬
‫کا سالم کہنا ہو عرض کرے‪” :‬السالم علیک يا رسول ہللا من فالن بن فالن‬
‫يستشفع بک الی ربک“ (اے ہللا کے رسول ! آپ کو فالں بن فالں کی طرف سے سالم قبول‬
‫ہو‪ ،‬وہ شخص آپ سے درخواست کر رہاتھا کہ آپ اس کےلیے رب سے سفارش کریں ) (تالیفات‬
‫رشیدیہ‪ :‬ص‪ 650‬زبدۃ المناسک)‬
‫[‪ :]۴‬شارح ابو داؤد حضرت موالنا خلیل احمد سہانپوری (م‪1346‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫”آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سالم کرنا بے ادبی اور آپ کی‬
‫ایذاء کا سبب ہے۔ لہذا پست آواز سے سالم عرض کرنا چاہیے۔ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست‬
‫آواز سے سالم عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔“‬
‫(تذکرۃ الخلیل‪ :‬ص‪)370‬‬
‫شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی رحمۃا ہلل علیہ”(م‪1369‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫[‪:]۵‬‬
‫”اور جو قبر شریف کے پاس حاضر ہو‪ ،‬وہاں بھی اِن آداب کو ملحوظ رکھے۔“ (تفسیر عثمانی‪:‬‬
‫ج‪2‬ص‪)640‬‬
‫احادیث مبارکہ سے ثبوت‬
‫اس عنوان کے تحت ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن سے سماع النبی صلی ہللا‬
‫علیہ و سلم ثابت ہوتا ہے۔‬
‫حدیث نمبر‪:1‬‬
‫ِن‬
‫ما م‬ ‫َال‬
‫َ َ‬ ‫َ اه‬
‫َّللِ صلى ہللا علیه وسلم ق‬ ‫َسُول‬ ‫َه‬
‫ن ر‬ ‫ََ‬
‫ة أ‬ ‫َير‬
‫هر‬ ‫َب‬
‫ِى ُ‬ ‫َن أ‬
‫ع‬
‫‪4‬‬
‫ِ السهالَم‬
‫َ‬ ‫ََ‬
‫لیه‬ ‫ُه‬
‫د ع‬ ‫َ‬
‫هى أر‬
‫َت‬‫ُوحِى ح‬ ‫ََ‬
‫لىه ر‬ ‫َّللُ ع‬
‫د اه‬ ‫َِله ر‬
‫َه‬ ‫ََ‬
‫لىه إ‬ ‫ُ ع‬
‫ِم‬‫يسَل‬
‫د ُ‬
‫ٍَ‬‫َح‬
‫أ‬
‫(سنن ابی داؤد‪ :‬ج‪1‬ص‪ 286‬کتاب المناسک باب زیارۃ القبور‪ ،‬مسند احمد‪ :‬ج‪9‬ص‪ 575‬رقم الحدیث‪ ، 1075‬مسند‬
‫الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪5‬ص‪ 245‬باب زیارۃ قبر النبی صلی ہللا علیہ و‬
‫ٰ‬ ‫اسحاق بن راھویہ‪:‬ص‪ 204‬رقم الحدیث ‪ ، 520‬السنن‬
‫سلم‪ ،‬شعب االیمان للبیہقی‪ :‬ج‪2‬ص‪ 217‬باب فی تعظیم النبی صلی ہللا علیہ وسلم رقم الحدیث‪)1581‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫تعالی میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے (یعنی‬ ‫ٰ‬ ‫جب بھی کوئی آدمی مجھ پر سالم بھیجتا ہے تو ہللا‬
‫متوجہ کر دیتا ہے)یہاں تک کہ میں اس کے سالم کا جواب دیتا ہوں۔‬
‫تصحیح و استدالل بالحدیث‪:‬‬
‫اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح‬
‫فرمائی ہے۔‬
‫(‪ )1‬عالمہ ابن تیمیہ حنبلی رحمۃ ہللا علیہ(م‪728‬ھ) فرماتےہیں‪:‬‬
‫الفتاوی‪ :‬ج‪27‬ص‪ 55‬کتاب الزیارۃ)‬
‫ٰ‬ ‫د ‪( .‬مجموع‬ ‫ٌ ج‬
‫َیٌِ‬ ‫ِيث‬ ‫َ ح‬
‫َد‬ ‫هو‬‫َُ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬یہ حدیث جید (کھری) ہے۔‬
‫(‪ )2‬امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃ ہللا علیہ(م‪756‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وهذا ا سناد صحیح‪( .‬شفاء السقام‪ :‬ص‪ 161‬الباب الثانی فیما ورد من االخبار الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬اور اس کی اسناد صحیح ہے۔‬
‫(‪ )3‬حافظ ابن کثیر شافعی رحمۃ ہللا علیہ(م‪774‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وصححہ النووی فی اَلذکار‪( .‬تفسیر ابن کثیر‪ :‬ج‪3‬ص‪ 674‬تحت اآلیۃ‪ :‬ان ہللا و ملئکتہ‬
‫یصلون )‬
‫ترجمہ‪ :‬امام نووی نے اس روایت کو اپنی کتاب ”اَلذکار“ میں صحیح قرار دیا ہے۔‬
‫(‪ )4‬حافظ ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا علیہ(م‪852‬ھ) اس روایت کو نقل کر کےفرماتے ہیں‪:‬‬
‫ورواتہ ثقات‪( .‬فتح الباری ج‪6:‬ص‪ 596 :‬کتاب احادیث االنبیاء‪ ،‬باب قول ہللا واذکر فی الکتاب‬
‫مریم)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔‬
‫(‪ )5‬عالمہ سمہودی رحمۃ ہللا علیہ (م‪911‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ٰ ابو داود بسند صحیح…… عن أبي هريرة رضي ہللا عنه‬ ‫وروی‬
‫مرفوعا‪( .‬وفاء الوفاء ج‪4‬ص‪ 1349‬الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)‬
‫ترجمہ‪ :‬امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے مرفوعاًروایت کی‬
‫ہے ۔‬
‫(‪ )6‬عالمہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ ہللا علیہ (م‪1122‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫باسناد صحیح ‪( .‬شرح المواہب للزرقانی‪ :‬ج‪8‬ص‪)308‬‬
‫ترجمہ‪ :‬یہ روایت سند صحیح کے ساتھ مروی ہے۔‬
‫(‪ )7‬خاتم المحدثین موالنا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ ہللا علیہ (م‪1352‬ھ) حافظ ابن حجر رحمۃ ہللا‬
‫علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫رواتہ ثقات‪( .‬عقیدۃاالسالم‪ :‬ص‪)120‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اس کے راوی ثقہ ہیں۔‬
‫(‪ )8‬شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی رحمۃہللا علیہ(م‪1369‬ھ) نے اس حدیث کو صحیح فرمایا‬
‫ہے۔ (فتح الملہم‪:‬ج‪ 1‬ص‪330‬باب االسراء برسول ہللا و فرض الصالۃ الخ)‬

‫رد روح کا مطلب‪:‬‬


‫تعالی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی روح‬
‫ٰ‬ ‫اس حدیث میں ”رد روح“ سے مراد یہ ہے کہ ہللا‬
‫مبارک کو آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی طرف متوجہ فرماتے ہیں اور قوت گویائی عطا فرماتے ہیں۔‬
‫اکابرین امت کی چند تصریحات مالحظہ ہوں۔‬
‫عالمہ علی بن احمدعزیزی رحمۃ ہللا علیہ(م‪1070‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:1‬‬
‫(اَل رد ہللا علی روحی) ای رد علی نطقی َلنہ صلی ہللا علیہ و‬
‫ً و روحہ َل تفارقہ َلن اَلنبیاء احیاء فی‬ ‫سلم حی دائما‬
‫قبورہم‪( .‬السراج المنیر ‪:‬ج‪3‬ص‪)278‬‬
‫‪5‬‬
‫ت گویائی کا عطا ہونا‬‫ُوحِى“ میں ”ر ِد روح“ سے مراد قو ِ‬ ‫لىه ر‬ ‫ََ‬
‫َّللُ ع‬
‫د اه‬ ‫َِله ر‬
‫َه‬ ‫ترجمہ‪ :‬حدیث ”إ‬
‫ہے‪ ،‬کیو نکہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم دوامی طور پر زندہ ہیں اور آپ علیہ السالم کی روح آپ علیہ‬
‫السالم سے الگ نہیں ہوتی‪ ،‬اس لیے کہ انبیاء علیہم السالم اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔‬
‫قاسم العلوم و الخیرات حضرت موالنا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ ہللا علیہ (م‪1297‬ھ) فرماتے‬ ‫‪:2‬‬
‫ہیں‪:‬‬
‫اس صورت میں حاصل معنی حدیث شریف کےیہ ہوں گے کہ جب کوئی رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم پر سالم بھیجتا ہے تو خداوند کریم آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی روح پُر فتوح کو اس حالت‬
‫تعالی وتجلیات ہللا سے جو بوجہ محبوبیت و محبیت تامہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫ٰ‬ ‫استغراق فی ذات ہللا‬
‫کو حاصل رہتی ہے‪ ،‬اپنے ہوش عطا ء فرما دیتاہے۔ یعنی مبدء انکشاف نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کو‬
‫جو انبساط الی ہللا حاصل تھا مبدل بانقباض ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے ارتداد علی النفس حاصل ہو‬
‫تا ہے اور اپنی ذات وصفات اور کیفیات اور واقعات متعلقہ ذات وصفات سے اطالع حاصل ہو جاتی‬
‫ہے‪ ،‬سو چونکہ سالم امتیان بھی منجملہ وقائع متعلقہ ذات خود ہیں‪ ،‬اس لئے اس سے مطلع ہو کر‬
‫ت حیات اور دفع مظنہ‬ ‫ق ذاتی جواب سے مشرف فرماتے ہیں۔ اس صورت میں اثبا ِ‬ ‫حسن اخال ِ‬
‫ِ‬ ‫بوجہ‬
‫ممات بمعنی انقطاعِ تعلق حیات کے لیے جواب میں اور تکلفات کی حاجت نہ رہے گی۔‬
‫(آب حیات‪:‬ص‪)206‬‬
‫حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ (م‪1362‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:3‬‬
‫اس سے حیات میں شبہ نہ کیاجاوے کیونکہ مراد یہ ہے کہ میری روح جو ملکوت وجبروت‬
‫میں مستغرق تھی جس طرح کہ دنیا میں نزول وحی کے وقت کیفیت ہوتی تھی‪ ،‬اس سے افاقہ ہوکر‬
‫سالم کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں‪ ،‬اس کو ”رد روح“ سے تعبیر فرمادیا۔‬
‫(نشرالطیب‪ :‬ص‪ 200‬اٹھائیسویں فصل)‬
‫شیخ االسالم حضرت موالنا سید حسین احمد مدنی رحمۃ ہللا علیہ (م‪1377‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:4‬‬
‫ُوحِى“ فرمایاگیاہے‪ ،‬حدیث کے الفاظ یہ ہیں‪” :‬‬ ‫ََ‬
‫لىه ر‬ ‫َّللُ ع‬
‫د اه‬ ‫َه‬‫الف‪ :‬ابوداؤدکی روایت میں ”ر‬
‫ِ‬ ‫َ‬
‫َ عَلیہ‬ ‫ِم‬ ‫ُ‬
‫َتى اسَل‬ ‫ه‬ ‫ُوحِى ح‬ ‫َلىه ر‬‫َ‬ ‫َّللُ ع‬
‫د اه‬ ‫َه‬ ‫ه‬
‫َِل ر‬‫َلىه إ‬‫َ‬ ‫ُ ع‬ ‫يسَل‬
‫ِم‬ ‫ٍ ُ‬‫ِم‬
‫مسل‬ ‫ِن ُ‬ ‫ما م‬ ‫َ‬
‫ِلی“‬‫ُوحِی“ فرمایا گیا ہوتا تو آپ کا شبہ وارد ہو سکتا تھا‪” ،‬اٰ‬ ‫اوکما قال“ اگرلفظ ”اَ‬
‫ِلیه ر‬
‫ِلی“‬‫لی“ استعالء کے لئے ہے اور ”اٰ‬ ‫َٰ‬
‫لی“ کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا‪ ” ،‬ع‬ ‫َٰ‬‫اور ” ع‬
‫صلوۃ وسالم سے پہلے روح کا استعالء نہ‬ ‫ٰ‬ ‫ت طرف کے لئے ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ‬ ‫نہای ِ‬
‫تھا‪ ،‬نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہوگئی تھی اور اب اس کو جسم اطہر کی طرف لوٹا گیا‬
‫ہے‪ ،‬چونکہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم مدارج قرب ومعرفت میں ہر وقت ترقی پزیر ہیں اس لئے‬
‫توجہ الی ہللا کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کر دیتا ہے‪ ،‬چونکہ اہل‬
‫استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہدہ ہوتی ہیں مگر جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو رحمۃللعلمین‬
‫بنایا گیا ہے اس لئے بارگا ِہ الوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لئے متعدد‬
‫مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطاء فرمائی گئی ہے کہ خود سرور کائنات علیہ السالم کو اس استغراق‬
‫سے منقطع کرکے درود بھیجنے والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫اس کے لیے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں۔‬
‫ِلی“ میں کوئی‬ ‫لی“ اور ”اٰ‬ ‫َٰ‬
‫ب‪ :‬اگر بالفرض وہی معنی لیے جائیں جو آپ سمجھے ہیں اور ” ع‬
‫دوام حیات پر داللت کرتی ہے‪ ،‬اس لئے کہ دن رات میں کوئی‬ ‫فرق نہ کیا جائے تب بھی یہ روایت ِ‬
‫گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر‬
‫دوام حیات الزم آئے گا۔‬
‫بیرون نماز درود نہ بھیجا جاتا ہو‪ ،‬اس لئے ِ‬
‫ِ‬ ‫اندورون ِ نماز اور‬
‫(مکتوبات شیخ االسالم ‪ :‬حصہ اول ص‪)248‬‬
‫حضرت موالنا محمد منظور نعمانی رحمۃ ہللا علیہ(م‪1417‬ھ) اس حدیث کی شرح کرتے‬ ‫‪:5‬‬
‫ہوئےرقمطراز ہیں‪:‬‬
‫ُوحِى“ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ‬ ‫لىه ر‬‫ََ‬
‫َّللُ ع‬
‫د اه‬ ‫َِله ر‬
‫َه‬ ‫حدیث کے ظاہری الفاظ ”إ‬
‫تعالی آپ کے‬
‫ٰ‬ ‫کی روح مبارک جس ِد اطہر سے الگ رہتی ہے‪ ،‬جب کوئی سالم عرض کرتا ہے تو ہللا‬
‫جس ِد اطہر میں روح مبارک کو لوٹا دیتا ہے تاکہ آپ سالم کا جواب دے سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات‬
‫کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی‪ ،‬اگراس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں‬
‫‪6‬‬
‫الکھوں کر وڑوں دفعہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی روح مبارک جسم اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی‬
‫ہے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے الکھوں کروڑوں امتی آپ صلی ہللا علیہ و سلم پر‬
‫صلوۃ و سالم نہ بھیجتے ہوں‪ ،‬روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سالم عرض کرنے والوں کا بھی ہر‬ ‫ٰ‬
‫وقت تانتا بندھا رہتا ہے اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں۔عالوہ ازیں انبیاء‬
‫علیہم السالم کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے‪ ،‬اگر چہ اس حیات کی نوعیت کے بارے‬
‫میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلّم اور دالئل شرعیہ سے ثابت‬
‫ہے کہ انبیاء علیہم السالم اور خاص کر سید االنبیاء صلی ہللا علیہ وسلم کو اپنی قبور میں حیات‬
‫حاصل ہے۔ اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا جس ِد‬
‫تعالی جواب دلوانے کے‬ ‫ٰ‬ ‫اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سالم عرض کرتا ہے تو ہللا‬
‫لئے اس میں روح ڈال دیتاہے‪ ،‬اس بناء پر اکثر شارحین نے ”ر ِد روح“ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ‬
‫قبر مبارک میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی روح پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور‬
‫تعالی کی جمالی وجاللی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ہے) پھر جب کوئی امتی سالم عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا برا ِہ راست آپ صلی ہللا‬
‫تعالی کے اذن سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی روح اس طرف متوجہ‬ ‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم تک پہنچتا ہے تو ہللا‬
‫بھی ہوتی ہے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم سالم کا جواب دیتے ہیں۔ پس اس روحانی توجہ والتفات کو‬
‫”ر ِد روح“ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (معارف الحدیث‪ :‬ج‪5‬ص‪ 238‬ص‪)239‬‬
‫حدیث نمبر‪:2‬‬
‫َ‪" :‬‬
‫لم‬‫َسَه‬ ‫َیه‬
‫ِ و‬ ‫َل‬
‫َّللُ ع‬
‫لى اه‬ ‫َه‬‫ُ ہللاِ ص‬ ‫َ ر‬
‫َسُول‬ ‫َال‬ ‫َال‬
‫َ‪ :‬ق‬ ‫ََ‬
‫ة‪ ،‬ق‬ ‫َير‬
‫هر‬‫ِي ُ‬‫َب‬
‫َن أ‬
‫ع‬
‫ُ‬
‫ِغتُ‬
‫ه "‬ ‫ُ‬
‫ًا أبل‬
‫ِی‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َليه نائ‬‫َلى ع‬ ‫ه‬ ‫من ص‬‫ََ‬
‫ه‪ ،‬و‬‫ُ‬ ‫ِي سَم‬
‫ِعتُ‬ ‫َ‬
‫د قبر‬‫ِنَ‬ ‫َ‬
‫َليه ع‬ ‫َه‬
‫لى ع‬ ‫َ‬
‫من ص‬
‫الصلوۃ علی النبی صلی ہللا علیہ وسلم وفضلہا الفصل الثالث‪ ،‬شعب االیمان للبیہقی‪:‬‬‫ٰ‬ ‫(مشکوۃالمصابیح‪ :‬ص‪ 87‬باب‬
‫ٰ‬
‫ج‪2‬ص‪ 218‬باب فی تعظیم النبی صلی ہللا علیہ و سلم و اجاللہ و توقیرہ‪ ،‬جالء االفہام البن القیم‪ :‬ص‪ ،22‬القول البدیع‬
‫للسخاوی‪ :‬ص‪ 160‬الباب الرابع‪ ،‬حیات االنبیاء للبیہقی‪ :‬ص‪ ،104‬کتاب ثواب االعمال البی الشیخ االصبہانی بحوالہ فتح‬
‫الباری‪ :‬ج‪ 13‬ص‪)279‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬
‫جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو شخص دور‬
‫سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔‬

‫تصحیح حدیث‪:‬‬
‫اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔‬
‫(‪ )1‬حافظ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ(م ‪852‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫واخرج ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسند جید‪( .‬فتح الباری ج‪6:‬ص‪:‬‬
‫‪ 595‬کتاب احادیث االنبیاء‪ ،‬باب قول ہللا واذکر فی الکتاب مریم)‬
‫ترجمہ‪ :‬محدث ابوالشیخ اصبہانی رحمۃا ہلل علیہ نے عمدہ سند کے ساتھ اس روایت کی تخریج کی‬
‫ہے۔‬
‫(‪ )2‬امام سخاوی رحمۃا ہلل علیہ (م ‪902‬ھ)نے اس کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (القول البدیع‬
‫للسخاوی‪ :‬ص‪ 160‬الباب الرابع)‬
‫(‪ )3‬حضرت مالعلی قاری رحمۃ ہللا علیہ(م ‪1014‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ورواہ ابوالشیخ وابن حبان فی کتاب ثواب اَلعمال بسند‬
‫الصلوۃ علی البنی صلی ہللا علیہ و سلم و فضلہا)‬
‫ٰ‬ ‫جید‪( .‬المرقاۃ‪ :‬ج‪4‬ص‪ 22‬باب‬
‫ترجمہ‪ :‬ابوالشیخ اصبہانی اور ابن حبان نے اس حدیث کو سند جید سے نقل فرمایا ہے۔‬
‫(‪ )4‬شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی (م ‪1369‬ھ)نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے‪:‬‬
‫سندہ جید ‪( .‬فتح الملہم‪:‬ج‪ 1‬ص‪330‬باب االسراء برسول ہللا و فرض الصالۃ الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حدیث کی سند کھری ہے ۔‬
‫(‪ )5‬امام اہل السنت موالنا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ ہللا علیہ(م ‪1430‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ان اکابر محدثین کے(جن میں حافظ ابن حجررحمۃا ہلل علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں‪ ،‬جن‬
‫کی تقریب اور تہذیب پر آج رواۃ کی توثیق وتضعیف کا مدار ہے)بیان سے واضح ہو گیا کہ یہ روایت‬
‫‪7‬‬
‫جید اور صحیح ہے۔ (تسکین الصدور‪ :‬ص‪)328‬‬
‫(‪ )6‬موالنا غالم ہللا خان فرماتے ہیں‪:‬‬
‫”اس حدیث کی جو سند سدّی صغیر پر مشتمل ہے اس کو بوجہ راوی مذکور کے کمزور کہا‬
‫جائے گا اور جس سند میں یہ راوی نہیں ہے وہ کمزور نہیں ہے اور حدیث ہذا کی دوسری سند بھی‬
‫ہے جس کے صحیح ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔ چنانچہ مال علی قاری الحنفی رحمۃ ہللا علیہ شرح‬
‫مشکوۃ میں فرماتے ہیں‪ :‬قال میرک نقالً عن الشیخ ورواہ ابوالشیخ‬ ‫ٰ‬
‫وابن حبان فی کتاب ثواب اَلعمال بسند جید‪“ .‬‬
‫(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی ص‪ 48‬اکتوبر ‪1967‬ء)‬
‫(‪ )7‬نواب صدیق حسن خان غیر مقلد اس روایت کو اپنی کتاب ”دلیل الطالب“ میں الئے ہیں اور اس‬
‫کی تحسین فرمائی ہے۔ (ص‪)844‬‬
‫حدیث نمبر‪:3‬‬
‫عن عطاء مولى أم حبیبة قال ‪ :‬سمعت أبا هريرة يقول ‪:‬‬
‫قال رسول ہللا صلى ہللا علیه و سلم ‪ :‬لیهبطن عیسى ابن مريم‬
‫حكما عدَل و إماما مقسطا و لیسلكن فجا حاجا أو معتمرا أو‬
‫بنیتهما و لیأتین قبري حتى يسلم عليه و ألردن علیه يقول‬
‫أبوهريرة‪ :‬أي بني أخي إن رأيتموہ فقولوا أبو هريرة يقرئك‬
‫السالم‬
‫(المستدرک للحاکم‪:‬ج‪3‬ص‪ 490 ،489‬ذکر نبی ہللا و روحہ عیسی بن مریم‪ ،‬مسند ابی یعلی‪ :‬ص‪ 1149‬رقم‬
‫الکبری‪ :‬ج‪2‬ص‪ 490‬باب حیاتہ‬ ‫ٰ‬ ‫الحدیث‪ ،6577‬مجمع الزوائد‪ :‬ج‪8‬ص‪ 387‬باب ذکر االنبیاء علیہم السالم‪ ،‬الخصائص‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم فی قبرہ الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد‬
‫عیسی بن مریم علیہ السالم ضرور عادل‪ ،‬فیصلہ کرنے والے‪ ،‬منصف حکمران بن کر‬ ‫ٰ‬ ‫فرمایا‪ :‬حضرت‬
‫اتریں گے اور وہ اس گلی میں سے حج کرتے یا عمرہ کرتے یا ان دونوں کی نیت سے گزریں گے‬
‫ا ور وہ میری قبر پر آئیں گے اور مجھے سالم کریں گے‪ ،‬میں ان کے سالم کا جوا ب دوں گا۔‬
‫حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ :‬اے میرے بھتیجو! اگر تمہاری ان سے مالقات ہو تو ان‬
‫سے کہیے گا‪ :‬ابوھریرہ آپ کو سالم کہہ رہے تھے۔‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫اس صحیح روایت سے آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کا قبر اقدس میں زندہ ہونا‪،‬‬
‫صلوۃوسالم کا سماع فرمانا اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کا جواب دینا بھی ثابت ہے‪ ،‬اس کا انکار کرنا‬
‫حدیث کا ا نکار کرنے کے مترادف ہے۔‬
‫تصحیح حدیث‪:‬‬
‫اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔‬
‫(‪ )1‬امام ابو عبد ہللا الحاکم رحمۃ ہللا علیہ (م ‪405‬ھ)اسے نقل کر کے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫هذا حديث صحیح اإلسناد‪( .‬المستدرک للحاکم‪:‬ج‪3‬ص‪ 490 ،489‬ذکر نبی ہللا و روحہ‬
‫عیسی بن مریم)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حدیث کی سند صحیح ہے۔‬
‫(المستدرک‬ ‫(‪ )2‬عالمہ شمس الدین ذہبی رحمۃ ہللا علیہ(م ‪748‬ھ) بھی اسے صحیح کہتے ہیں۔‬
‫للحاکم‪:‬ج‪3‬ص‪ 490 ،489‬ذکر نبی ہللا و روحہ عیسی بن مریم)‬
‫(‪ )3‬عالمہ ہیثمی رحمۃ ہللا علیہ (م ‪807‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫رواہ أبو يعلى ورجاله رجال الصحیح ‪( .‬مجمع الزوائد‪:‬‬
‫ج‪8‬ص‪ 387‬باب ذکر اَلنبیاء علیہم السالم)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس روایت کوامام ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔‬
‫(‪ )4‬عالمہ جالل الدین السیوطی رحمۃ ہللا علیہ (م ‪911‬ھ)نے اس کو صحیح فرمایا ہے۔ (الجامع الصغیر‬
‫‪:‬ج‪2‬ص‪ 260‬رقم الحدیث‪)7742‬‬
‫سماع النبی صلی ہللا علیہ وسلم کا ثبوت‬
‫‪8‬‬
‫سلف صالحین اور علمائے ا ُ ّمت سے‬
‫‪ :1‬حضرت عمرفاروق رضی ہللا عنہ (م‪ 24‬ھ)کے بارے میں ایک واقعہ مروی ہے‪:‬‬
‫ِي‬‫َن‬
‫َب‬‫َص‬ ‫َ‬
‫ِ فح‬ ‫َسجِد‬ ‫ِي الم‬ ‫ًا ف‬‫ِم‬‫َائ‬ ‫ُ ق‬‫ُنت‬
‫َ ك‬ ‫َال‬ ‫د ق‬ ‫ِيَ‬
‫يز‬‫ِبِ بنِ َ‬ ‫َن السهائ‬ ‫ع‬
‫َ‬
‫هذينِ‬ ‫َِ‬ ‫ِي ب‬ ‫ِن‬ ‫َ‬
‫هب فأت‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ه‬ ‫َ‬
‫ُ بن الخطابِ فقال اذَ‬ ‫ُ‬ ‫َر‬
‫ُم‬‫إذا ع‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ُ فِ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ٌ فنظرت‬ ‫ُل‬‫َج‬
‫ر‬
‫َ‬
‫ِن أهل‬ ‫اَل م‬ ‫َ‬
‫َا ق َ‬ ‫َ‬
‫َ أنت‬
‫ُم‬ ‫َ‬
‫ِن أين‬ ‫َ‬
‫َا أو م‬ ‫ُم‬ ‫َ‬
‫من أنت‬ ‫َ َ‬ ‫َ‬
‫َا قال‬ ‫ِه‬
‫ِم‬ ‫ه ب‬ ‫ُُ‬‫َجِئت‬
‫ف‬
‫ِ‬
‫َع‬ ‫َا َ‬ ‫ُم‬‫ُك‬ ‫َ‬‫ِ َ‬ ‫ََ‬ ‫َ‬ ‫ُم‬‫ُنت‬‫َ َلو ك‬ ‫َال‬ ‫هائ‬
‫َانِ‬ ‫ترف‬ ‫َعت‬‫ألوج‬ ‫لد‬ ‫ِ الب‬ ‫ِن أهل‬ ‫َا م‬ ‫ِفِ ق‬ ‫الط‬
‫َ‪( .‬صحیح البخاری‪:‬‬ ‫ه‬
‫َسَلم‬‫ِ و‬ ‫َ‬
‫َلیه‬ ‫َلى اه‬
‫َّللُ ع‬ ‫ه‬ ‫ِ اه‬
‫َّللِ ص‬ ‫َسُول‬
‫ِ ر‬ ‫ِي َ‬
‫مسجِد‬ ‫َا ف‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َاتكم‬ ‫َصو‬‫أ‬
‫ج‪1‬ص‪ 67‬باب رفع الصوت فی المساجد)‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت سائب بن یزید رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی شخص‬
‫نے مجھے کنکری ماری‪ ،‬میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ تھے‪ ،‬آپ رضی ہللا عنہ‬
‫نے فرمایا‪ :‬جاؤ اور ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں انہیں آپ رضی ہللا عنہ کے پاس‬
‫لے آیا۔ آپ رضی ہللا عنہ نے اُن سے پوچھا‪ :‬تم کن لوگوں میں سے ہو؟ (یعنی کس قبیلے سے تمہارا‬
‫تعلق ہے؟) انہوں نے کہا‪ :‬ہم اہل طائف میں سے ہیں۔اس پرحضرت عمررضی ہللا عنہ نے فرمایا ‪:‬اگر‬
‫تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزادیتا اس لئے کہ تم مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫میں اپنی آوازیں بلند کررہے ہو۔‬
‫آواز بلند کرنے پر مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی نسبت سے نکیر کرنا اس لئے تھا‬
‫کہ وہاں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا روضہ مبارکہ ہے۔ جس طرح آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی اس‬
‫دنیوی زندگی میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آواز بلند کرنا جرم تھا اسی طرح آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے روضہ منورہ کے پاس آواز بلند کرنا بھی جائز نہیں‪ ،‬اس لئے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫تشریف فرما ہیں اور جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں‪ ،‬حدو ِد مسجد کی آواز کو بال کسی توسط سے‬
‫خود سماعت فرماتے ہیں۔ چنانچہ سلف وخلف میں سے کسی نے انکار نہیں فرمایا۔‬
‫اگر حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے اعتقاد میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنی‬
‫قبر مبارک میں زندہ نہ ہوتے اور قریب کی آوازوں کو خود سماعت نہ فرمارہے ہو تے تو حضرت‬
‫فاروق اعظم رضی ہللا عنہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس دبی آواز سے بات کرنے کے‬
‫حکم قرآنی کو اس انداز میں کبھی بیان نہ فرماتے۔‬
‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے بارے میں ایک دوسرا واقعہ منقول ہے‪ ،‬شیخ عبد‬
‫الحق محدث دہلوی رحمۃا ہلل علیہ حنفی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ جب کسی‬
‫مہم سے فارغ ہو کر واپس مدینہ منورہ تشریف التے تو سب سے پہال کام جو آپ رضی ہللا عنہ‬
‫کرتے وہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے حضور میں سالم عرض کرناہوتا تھا اور اسی کی آپ‬
‫دوسروں کو تلقین بھی فرماتے تھے۔ محدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں‪:‬‬
‫کار کہ عمر رضی ہللا عنہ ابتداء مے کرد سالم بہ پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم بود‪( .‬جذب‬ ‫اول ِ‬
‫القلوب‪ :‬ص‪)200‬‬
‫ترجمہ‪ :‬پہال کام جس سے حضرت عمر رضی ہللا عنہ ابتداء فرماتے وہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی‬
‫خدمت میں سالم عرض کرنا ہوتا۔‬
‫عالمہ السمہودی رحمہ ہللا (م‪911‬ھ) اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ولماقدم عمر المدينۃ کان اول ما بدء بالمسجد و سلم‬
‫علی رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم‪.‬‬
‫(وفاء الوفاء ج‪4‬ص‪ 1358‬الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)‬
‫ترجمہ‪ :‬جب حضرت عمر رضی ہللا عنہ مدینہ تشریف التے تو پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے‬
‫جاتے اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم پر سالم عرض کرتے۔‬
‫‪ :2‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا(م‪ 57‬ھ) فرماتی ہیں‪:‬‬
‫حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کے متعلق روایت ہے ‪:‬‬
‫انها کانت تسمع صوت الوتد يوتد‪ ،‬والمسمار يضرب فی‬
‫بعض الدور المطیفۃ بمسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم‪ ،‬فترسل‬
‫الیہم‪َ(( :‬ل توؤذوا رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم))‬
‫‪9‬‬
‫قالوا و ما عمل علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ مصرعی‬
‫دارہ؛ اَل بالمناصع؛ توقیا لذلک‪( .‬شفاء السقام للسبکی‪ :‬ص‪)432‬‬
‫ترجمہ‪:‬آپ جب کبھی اُن گھروں میں جو مسجد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سےمتصل تھے‪ ،‬کسی میخ‬
‫لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتی تھیں کہ (خبردار!) حضور اکرم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو (ا س آواز سے) اذیت نہ دو اور حضرت علی رضی ہللا عنہ نے اسی سے بچنے کے‬
‫لئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جاکر بنوائے تھے( تاکہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو اذیت نہ دے)‬
‫‪ :3‬حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ (م ‪101‬ھ)کے بارے میں مروی ہے‪:‬‬
‫ِل البريد من الشام الی‬ ‫يرس‬‫ُ بن عبد العزيز ُ‬ ‫کان عمر‬
‫َ لہ علی النبی صلی ہللا علیہ و سلم‪.‬‬ ‫ِم‬‫ُسل‬‫المدينۃ لی‬
‫(شفاء السقام للسبکی‪ :‬ص‪)166‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ ایک قاصد مدینہ منورہ بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ‬
‫نبی صلی ہللا علیہ و سلم کو ان کی طرف سے سالم پہنچائے۔‬
‫‪ :4‬امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ ہللا علیہ(م‪150‬ھ)‬
‫امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ نے حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت کی ہے‪:‬‬
‫سنت یہ ہے کہ تم حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر شریف پر قبلہ کی جہت سے جاؤ‪،‬‬
‫قبلہ کی طرف پیٹھ کرو اور قبر شریف کی طرف چہرہ کرو‪ ،‬پھر کہو‪ :‬السالم علیک ايها‬
‫النبی ورحمۃ ہللا وبرکاتہ۔(مسند االمام االعظم‪ :‬ص‪ 126‬کتاب الحج)‬
‫‪ :5‬عالمہ ابن تیمیہ الحنبلی (م ‪728‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ء }‬ ‫َاِ‬‫ِی‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ض أن تأكل أجسَاد األنب‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫لى األرِ‬ ‫ََ‬
‫َ ع‬ ‫هم‬ ‫َّللَ حَر‬
‫ن اه‬ ‫َ إه‬ ‫َال‬‫ق‬
‫ِكَ‬ ‫َ‬
‫ه ذل‬ ‫ُُ‬ ‫ُ‬
‫يبلغ‬ ‫ه َ‬ ‫ه‬
‫َأنُ‬‫َ‬ ‫ِيبِ و‬ ‫َ‬
‫ِن القر‬ ‫َ م‬ ‫َ‬
‫َالسهالم‬ ‫ة و‬ ‫َ‬
‫هالَ‬
‫ُ الص‬ ‫َع‬ ‫ه َ‬
‫يسم‬ ‫ه‬ ‫َ‬
‫َ أنُ‬ ‫َر‬‫َخب‬‫َأ‬ ‫ف‬
‫الفتاوی‪ :‬ج‪26‬ص‪ 70‬کتاب الحج‪ ،‬فصل ؛واذا دخل المدینۃ)‬
‫ٰ‬ ‫ِ‪( .‬مجموع‬ ‫ِید‬ ‫َع‬
‫ِن الب‬ ‫م‬
‫تعالی نے زمین پر حرام کردیا‬ ‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم کاا رشاد ہے‪” :‬بے شک ہللا‬
‫ہے کہ وہ انبیاء علیہم السالم کے جسموں کو کھائے۔“ آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے یہ بھی خبر دی‬
‫صلو ۃ وسالم خود سنتے ہیں اور دور سے آپ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم قریب سے‬
‫علیہ و سلم کو پہنچایا جاتا ہے۔‬
‫ب زیارت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫‪ :6‬محقق علی االطالق حافظ ابن الہمام الحنفی(م ‪861‬ھ) آدا ِ‬
‫ثم يسأل النبي صلى ہللا علیه وسلم الشفاعة فیقول يا‬
‫رسول ہللا أسألك الشفاعة يا رسول ہللا أسألك الشفاعة وأتوسل بك‬
‫إلى ہللا في أن أموت مسلما علی ملتك وسنتك۔۔۔۔ ثم ينصرف‬
‫متباكیا متحسرا على فراق الحضرة الشريفة النبوية والقرب‬
‫منها‪( .‬فتح القدیر‪ :‬ج‪ 3‬ص‪ 169‬و ص‪ 184‬کتاب الحج‪ ،‬ا لمقصد الثالث فی زیارۃ قبر النبی )‬
‫ترجمہ‪ :‬پھر نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور یہ کہے‪ :‬یا رسول ہللا! میں‬
‫آپ صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں‪ ،‬یا رسول ہللا! میں آپ صلی ہللا علیہ و سلم‬
‫تعالی کے ہاں بطور وسیلہ پیش‬ ‫ٰ‬ ‫سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو ہللا‬
‫کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے‬
‫رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے‬
‫ہوئے واپس ہو۔‬
‫‪ :18‬عالمہ شہاب الدین احمد بن محمد الخفاجی (م ‪1069‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫َلنہ صلی ہللا علیہ و سلم حی فی قبرہ‪ ،‬يسمع دعاء زائرہ‪.‬‬
‫القاصی عیاض‪ :‬ج‪3‬ص‪)398‬‬
‫ٰ‬ ‫(نسیم الریاض فی شرح شفاء‬
‫ترجمہ‪ :‬اس لیے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اپنے زیارت کرنےوالے‬
‫صلوۃ وسالم) سنتے ہیں۔‬
‫کی دعا ( یعنی ٰ‬
‫‪ :19‬عالمہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی الحنفی(م ‪1232‬ھ) رقمطراز ہیں‪:‬‬
‫ينبغی لمن قصد زيارة النبی صلی ہللا علیہ و سلم ان‬
‫يکثر الصالة علیہ فانہ يسمعہا و تبلغ الیہ‬
‫‪10‬‬
‫(حاشیۃ الطحطاوی‪ :‬ص‪ 746‬فصل فی زیارۃ النبی صلی ہللا علیہ و سلم)‬
‫ترجمہ‪ :‬جو شخص نبی صلی ہللا علیہ و سلم کی زیارت کاا رادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ علیہ‬
‫السالم پر کثرت سے درود پڑھے کیونکہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم (اس وقت) خود سنتے ہیں اور (اگر‬
‫دور سے پڑھا جائے تو فرشتوں کے ذریعے) آپ کی طرف پہنچایا جاتا ہے۔‬
‫‪ :25‬سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمہ ہللا کے حکم سے تقریبا ً پانچ سو علماء کرام کی مستند‬
‫فتاوی عالمگیری میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر مبارک پر‬
‫ٰ‬ ‫جماعت کے مرتب کردہ‬
‫حاضری کے آداب کے بیان میں یہ بات درج ہے‪:‬‬
‫ويبلغه سالم من أوصاہ فیقول السالم علیك يا رسول ہللا من‬
‫فالن بن فالن يستشفع بك إلى ربك فاشفع له ولجمیع المسلمین‪.‬‬
‫(عالمگیری ج‪1‬ص‪ 292‬کتاب المناسک‪ ،‬باب النذر بالحج)‬
‫ترجمہ‪ :‬اگر کسی نے اس (زائر) کوآنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کی خدمت میں سالم کہنے کی‬
‫درخواست کی ہو تو یہ(زائر) آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو اس کا سالم بھی عرض کرے اور یوں‬
‫لی‬
‫کہے‪ ”:‬یارسول ہللا! فالں بن فالں کی طرف سے آپ کی خدمت میں سالم ہوں اور وہ آپ کو ہللا تعا ٰ‬
‫کے ہاں سفارشی بناتا ہے‪ ،‬لہذاآپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔“‬

‫سماع النبی صلی ہللا علیہ وسلم کا ثبوت‬


‫اہل السنت و الجماعت علماء دیوبند سے‬
‫حضرت موالنا محمد قاسم نانوتوی(م ‪1297‬ھ)‬
‫”جمال قاسمی“ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ارواح انبیاء علیہم السالم کوبدن کے ساتھ عالقہ بدستوررہتاہے اور ان کاسماع بعدوفات بھی‬
‫بدستورباقی ہے۔‬
‫(جمال قاسمی ص‪13‬ط ‪:‬کتب خانہ اعزازیہ دیوبند)‬
‫قطب االرشاد حضرت موالنا رشید احمد گنگوہی (م ‪1322‬ھ)‬
‫فرماتے ہیں‪:‬‬
‫(فتاوی رشیدیہ‪ :‬ص‪)134‬‬
‫ٰ‬ ‫مگر انبیاء علیہم السالم کے سماع میں کسی کو خالف نہیں۔‬
‫شیخ الہند موالنا محمود حسن دیوبندی (م ‪1339‬ھ)‬
‫سنن ابی داؤد کے حاشیہ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫تقديرالکالم( مامن احديسلم علی اَلاردعلیہ السالم) َلنی‬
‫حی اقدرعلی ردالسالم‪.‬‬
‫داود‪ :‬ج‪1‬ص‪‘286‬باب زیارۃ القبور)‬
‫(حاشیہ سنن ابی ٔ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے فرمان کہ ”جوبھی مجھے سالم کرتاہے تومیں خوداس کے‬
‫سالم کا جواب دیتاہوں“ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ میں زندہ ہوں تو سالم کاجواب دینے پر قادرہوں‬
‫(اس لیے جواب دیتا ہوں)‬
‫موالنا خلیل احمد سہارنپوری(م ‪1346‬ھ)‬
‫”تذکرۃ الخلیل“ میں آپ کے متعلق موالناعاشق ٰالہی میرٹھی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫آستانہ محمدیہ صلی ہللا علیہ و سلم پر حاضری کے وقت حضرت کی عجیب کیفیت ہوتی تھی‪،‬‬
‫آواز نکالنا تو کیا مواجہ شریف کے قریب یا مقابل بھی کھڑے نہیں ہوتے تھے‪ ،‬خوفزدہ‪ ،‬مؤدبانہ‪،‬‬
‫صلوۃ وسالم عرض‬ ‫ٰ‬ ‫دبے پاؤ ں آتے اور مجرم وقیدی کی طرح دور کھڑے ہوتے‪ ،‬بکمال خشوع‬
‫صلوۃ و سالم پڑھتے اس سے آپ کو‬ ‫کرتے اور چلے آتے تھے۔ زائرین جو بیباکانہ اونچی آواز سے ٰ‬
‫بہت تکلیف ہوتی اور فرمایا کرتے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے‬
‫سالم عرض کرنا بے ادبی اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی ایذاء کا سبب ہے‪ٰ ،‬لہذاپست آواز سے سالم‬
‫عرض کرنا چاہئے اور یہ بھی فرمایا کہ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سالم عرض‬
‫کیا جائے اس کو آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم خود سنتے ہیں۔‬
‫‪11‬‬
‫(تذکرۃ الخلیل‪ :‬ص‪)370‬‬
‫عالمہ محمد انور شاہ کشمیری (م ‪1352‬ھ)‬
‫آپ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ٔدفی رد روحہ صلی ہللا‬ ‫ومن ههناانحل حديث اخررواہ ابوداو‬
‫َّلل علیہ وسلم لیس معناہ‬ ‫علیہ و سلم حین يسلم علیہ صلی اہ‬
‫انہ يردروحہ ای انہ يحیی فی قبرہ بل توجہہ من ذلک الجانب‬
‫الی هذاالجانب فہوصلی ہللا علیہ و سلم حی فی کلتاالحالتین‬
‫ٔعلیہ التعطل قط۔(فیض الباری علی صحیح البخاری‪ :‬ج‪ 2‬ص‪65‬‬
‫لمعنی انہ لم يطرا‬
‫باب رفع الصوت فی المساجد)‬
‫ابوداودوالی حدیث بھی حل ہوگئی کہ ”جب آپ صلی ہللا علیہ و سلم پرسالم‬
‫ٔ‬ ‫ترجمہ‪:‬اوریہیں سے‬
‫کیاجاتاہے تو آپ کی روح مبارک لوٹائی جاتی ہے“ اس روح لوٹانےکا یہ مطلب نہیں کہ قبرمیں زندہ‬
‫کیاجاتاہے بلکہ( اس کا معنی یہ ہے کہ) آپ علیہ السالم کی ایک جانب سےدوسری جانب توجہ کردی‬
‫جاتی ہے‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ و سلم ان دونوں حالتوں میں زندہ ہوتے ہیں‪ ،‬آپ علیہ السالم پرتعطل‬
‫بالکل طاری نہیں ہوتا۔‬
‫حضرت موالنا نصیر الدین غور غشتوی‪:‬‬
‫ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫(حدیث پاک) جس شخص نے مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں خود یعنی حقیقی‬
‫طور پر فرشتوں کے واسطے کے بغیر میں خود سنتا ہوں اور جس نے دور سے مجھ پر درود پڑھا‬
‫تو اس کی مجھے کسی فرشتہ کے ذریعے خبر دی جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ غور سے سنو! یہی‬
‫ہمارا اور ہمارے سب اساتذہ کرام‪ ،‬مشائخ عظام اور تمام اکابرین کا مسلک اور عقیدہ ہے۔ (مجالس غور‬
‫غشتوی‪ :‬ص‪)70 ،69‬‬
‫حضرت موالنا مفتی محمود (م‪ 1400‬ھ)‬
‫حضرت موالنا مفتی محمود رحمہ ہللا موالنا عبد العزیز شجاع آبادی کی کتاب ”دعوت‬
‫االنصاف فی حیات جامع االوصاف“ کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”حضرت موالنا عبد العزیز صاحب شجاع آبادی کی تصنیف ”دعوت االنصاف فی حیات جامع‬
‫االوصاف“ کو مختلف مقامات سے دیکھا‪ ،‬ماشاء ہللا مسئلہ حیات النبی صلی ہللا علیہ و سلم اور سماع‬
‫صلو ۃ وسالم عند القبر الشریف پر اسالم وجمہور اہل السنۃ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق تحریر‬ ‫ٰ‬
‫فرمای ا‪ ،‬حوالہ جات پیش کئے اور صحیح مسلک کو حوالہ جات سے ایسا ثابت کیا جو اخالف‬
‫ومعاصرین کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ ہللا تعالی ٰ قبول فرماوے اور حضرت موالنا کو ایسی‬
‫تصانیف کرنے کی توفیق مزید بخشے۔ وہللا الموفق‬
‫االحقر االفقر محمود عفا ہللا عنہ‬
‫خادم مدرسہ قاسم العلوم ملتان‬
‫االول ‪1400‬ھ“‬
‫‪ 17‬ربیع ّ‬
‫(دعوت االنصاف فی حیات جامع االوصاف‪ :‬ص‪)9‬‬
‫شیخ الحدیث موالنا محمد زکریا کاندھلوی (م ‪1402‬ھ)‬
‫حضرت شیخ الحدیث موالنا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ ہللا لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اس روایت میں حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے خود سننے میں کوئی اشکال نہیں‪ ،‬اس لئے‬
‫کہ انبیاء علیہم السالم اپنی قبور میں زندہ ہیں۔عالمہ سخاوی رحمۃ ہللا علیہ نے قول بدیع میں لکھا ہے‬
‫کہ ہم اس پر ایمان التے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ و سلم زندہ ہیں‬
‫اپنی قبر شریف میں او رآپ صلی ہللا علیہ و سلم کے بدن اطہر کو زمین نہیں کھا سکتی اور اس پر‬
‫اجماع ہے۔ امام بیہقی رحمۃ ہللا علیہ نے انبیاء علیہم السالم کی حیات میں ایک مستقل رسالہ تصنیف‬
‫فرمایا ہے اور حضرت انس رضی ہللا عنہ کی حدیث (اَلنبیاء احیاء فی قبورهم‬
‫يصلون) کہ انبیاء علیہم السالم اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔عالمہ سخاوی‬
‫رحمہ ہللا نے اس کی مختلف سے طرق سے تخریج کی ہے ۔‬
‫(فضائل درود شریف‪ :‬ص‪)34‬‬
‫‪12‬‬
‫حضرت موالناقاری محمدطیب قاسمی (م‪1403‬ھ)‬
‫آپ رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪:‬‬
‫برزخ میں انبیاء علیہم السالم کی حیات کامسئلہ معروف ومشہوراورجمہورعلماء کااجماعی‬
‫مسئلہ ہے۔علماء دیوبندحسب عقیدہ اہلسنت والجماعت برزخ میں انبیاء کرام علیہم السالم کی حیات‬
‫کے اس تفصیل سے قائل ہیں۔ کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم اورتمام انبیاء کرام علیہم السالم وفات‬
‫کے بعداپنی اپنی پاک قبروں میں زندہ ہیں اوران کے اجسام کے ساتھ ان کی ارواح مبارکہ کاویساہی‬
‫تعلق قائم ہے جیساکہ دینوی زندگی میں قائم تھا۔ وہ عبادت میں مشغول ہیں‪ ،‬نمازیں پڑھتے ہیں انہیں‬
‫صلوۃ وسالم سنتے ہیں۔ علماء دیوبندنے یہ‬ ‫رزق دیاجاتاہے اوروہ قبورمبارکہ پرحاضرہونے والوں کا ٰ‬
‫عقیدہ قرآن وسنت سے پایاہے اوراس بارے میں ان کے سوچنے کاطرز بھی متوارث رہاہے۔‬
‫(خطبات حکیم االسالم‪ :‬ج‪7‬ص‪)181‬‬
‫امام اہل السنت موالنا محمد سرفراز خان صفدر (م ‪1430‬ھ)‬
‫ہمارے استاذ محترم امام اہل السنت شیخ التفسیر والحدیث موالنا محمد سرفراز خان صفدر نور ہللا‬
‫مرقدہ ایک عنوان‪” :‬عدم تعلق کا کوئی بھی قائل نہیں رہا“ کے تحت لکھتے ہیں‪:‬‬
‫خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تقریبا ‪1374‬ھ تک اہل السنت والجماعت کا کوئی‬‫ِ‬ ‫”بال‬
‫فرد‪ ،‬کسی بھی فقہی مسلک سے وابستہ‪ ،‬دنیا کے کسی خطہ میں اس کا قائل نہیں رہا کہ آنحضرت‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم (اور اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسالم) کی روح مبارک کا جسم‬
‫اطہر سے قبر شریف میں کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور آپ عند القبر صلوۃ وسالم کا سماع نہیں‬
‫شرح حدیث اور فقہ‬
‫ِ‬ ‫فرماتے‪ ،‬کسی اسالمی کتاب میں عام اس سےکہ وہ کتاب حدیث وتفسیر کی ہو یا‬
‫کی‪ ،‬علم کالم کی ہو یا علم تصوف وسلوک کی‪ ،‬سیرت کی ہو یا تاریخ کی‪ ،‬کہیں صراحت کے ساتھ‬
‫اس کا ذکر نہیں کہ آپ کی روح مبارک کا جسم اطہر سے کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور یہ کہ آپ‬
‫عند القبر صلوۃ وسالم کا سماع نہیں فرماتے۔ من ادعی خالفہ فعلیہ البیان وَل‬
‫ٰ يوم البعث والجزاء والمیزان۔“‬ ‫ٰ الی‬ ‫يمکنہ ان شاء ہللا تعالی‬
‫روز جزاء آنے اورمیزان عمل‬
‫ِ‬ ‫[جو ہمارے اس دعوے کا مخالف ہو تو وہ دلیل الئے‪ ،‬ان شاء ہللا قیامت قائم ہونے‪،‬‬
‫لگنے تک اس کے خالف دلیل النا نا ممکن ہے]‬
‫)تسکین الصدور‪ :‬ص‪( 290‬‬
‫اکابر علماء دیوبند کا مسلک‪:‬‬
‫امام االولیاء شیخ التفسیر حضرت موالنا احمد علی الہوری رحمۃ ہللا علیہ کے زمانے میں‬
‫ماہنامہ ”پیام مشرق“ میں ایک اشتہار شائع ہوا جس میں مسئلہ حیات النبی صلی ہللا علیہ و سلم کے‬
‫متعلق اکابر علماء دیوبند کے مسلک اور ان کے متفقہ فیصلہ کا اعالن کیا گیا تھا۔ اس اشتہار میں‬
‫اکابرین میں سے دس حضرات کے دستخط موجود تھے اور یہ اشتہار حضرت الہوری رحمۃ ہللا علیہ‬
‫نے اپنے ہفت روزہ رسالہ ”خدام الدین“ میں بھی شائع کیا تھا۔ حضرت موالنا محمد سرفراز خان‬
‫صفدر رحمۃ ہللا علیہ نے ”تسکین الصدور“ (ص‪ )37‬میں اور ڈاکٹر عالمہ خالد محمود زید مجدہ نے‬
‫”مقام حیات“ (ص‪ )707‬میں بھی نقل فرمایا ہے۔ افادہ عام کے لیے اس اشتہار کی تحریر اور اس کا‬
‫سکین پیش خدمت ہے۔‬
‫اشتہار کی تحریر ‪:‬‬
‫مسئلہ حیات النبی صلی ہللا علیہ و سلم کے متعلق‬
‫اکابر دیوبند کا مسلک‬
‫علمائے دیوبند کا متفقہ اعالن‬
‫حضرت اقدس نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم اورسب انبیاء کرام علیہم السالم کے بارے میں‬
‫اکابر دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کے ابدان ِ مقدسہ بعینہ‬
‫محفوظ ہیں اور جس ِد عنصری کے ساتھ عالم برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے اور حیات دنیوی کے‬
‫مماثل ہے۔‬
‫صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلّف نہیں ہیں‪ ،‬لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور‬
‫روضہ اقدس میں جو درود پڑھاجائے بالواسطہ سنتے ہیں اور یہی جمہور محدثین اور متکلمین اہل‬
‫سنت کا مسلک ہے۔اکابر دیوبند کے مختلف رسائل میں یہ تصریحات موجود ہیں۔حضرت موالنا محمد‬
‫‪13‬‬
‫ب حیات“ کے نام سے‬ ‫قاسم نانوتوی رحمۃ ہللا علیہ کی مستقل تصنیف حیات انبیاء علیہم السالم پر ”آ ِ‬
‫موجود ہے۔ حضرت موالنا خلیل احمد صاحب رحمۃ ہللا علیہ جو حضرت رشید احمد گنگوہی رحمۃ‬
‫ہللا علیہ کے ارشد خلفاء میں سے ہیں‪ ،‬ان کا رسالہ ”المہند علی المفند“ بھی اہل انصاف اور اہل‬
‫دعوی کرے اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا‬‫ٰ‬ ‫بصیرت کے لئے کافی ہے۔اب جو اس مسلک کے خالف‬
‫اکابر دیوبند کے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہللا يقول الحق وهو يهدی السبیل‬
‫‪:1‬موالنا محمد یوسف بنوری عفا ہللا عنہ مد رسہ عربیہ اسالمیہ کراچی نمبر ‪5‬‬
‫‪:2‬موالنا عبد الحق عفی عنہ مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک‬
‫‪:3‬موالنا محمد صادق عفا ہللا عنہ سابق ناظم محکمہ امور مذہبیہ بہاولپور‬
‫‪:4‬موالنا ظفر احمد عثمانی عفا ہللا عنہ شیخ الحدیث دارالعلوم االسالمیہ ٹنڈوالہ یار سندھ‬
‫‪:5‬موالنا شمس الحق افغانی عفاہللا عنہ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان‬
‫‪:6‬موالنا محمد ادریس کان ہللا لہ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ الہور‬
‫‪:7‬موالنامفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ الہور‬
‫‪:8‬موالنا محمد رسول خاں عفاہللا عنہ جامعہ اشرفیہ نیال گنبد الہور‬
‫‪:9‬موالنا مفتی محمد شفیع عفا ہللا عنہ مہتمم دارالعلوم کراچی نمبر‪1‬‬
‫‪:10‬موالنا احمد علی عفی عنہ امیر نظام العلماء وامیر خدام الدین الہور‬
‫منجانب ‪:‬حیات االنبیاء سوسائٹی گجرات‬
‫(پیام مشرق‪ :‬ستمبر ‪1960‬ء)‬
‫‪14‬‬
‫عقیدہ ثواب وعذاب قبر‬
‫از افادات‪ :‬متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفظہ ہللا‬
‫مذہب اہل السنت والجماعت‪:‬‬
‫قرآن کریم ‪،‬احادیث مبارکہ‪،‬اجماع امت اور اسالف امت کے فرامین کی روشنی میں اہل السنت‬
‫والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد قیامت سے پہلے قبر میں (جہاں میت یا اس کے اجزاء‬
‫ہوں)جسد عنصری کو بتعلق روح ثواب وعذاب ہوتا ہے۔‬
‫اہ ِل بدعت کا موقف‪:‬‬
‫اشاعت التوحید والے حضرات کا موقف یہ ہے کہ مرنے کے بعد علیین یا سجین میں‬ ‫[‪:]۱‬‬
‫روح اور جسم مثالی کو عذاب وثواب ہوتا ہے ‪ ،‬اس دنیا والی قبر میں جسد عنصری سے نہ تو روح‬
‫کا تعلق ہوتا ہے نہ ہی اس جسم کو عذاب وثواب ہوتا ہے۔ان حضرات کی چند تصریحات مالحظہ‬
‫فرمائیں‪:‬‬
‫‪ ‬مرنے کے بعد انسان زندہ ہی رہتاہے مگر لباس ومکان بدل لیتا ہے‪...‬جسد عنصری کا لباس اتارکر‬
‫جسد مثالی کالباس پہن لینے اور دار دنیا سے منتقل ہوکر دار برزخ میں پہنچ جانے سے بھی انسان‬
‫نہیں مرتا ۔ (ندائے حق ج‪1‬ص‪)17‬‬
‫‪ ‬دنیا میں جو شخص مرتا ہے اس کی روح کا رشتہ اس مادی جسم سے ٹوٹ جاتا ہے یہ جسم فنا‬
‫ہوجاتا ہے مگر مثالی اصلی جسم باقی رہتا ہے اس سے روح کا تعلق نہیں ٹوٹتا‪...‬راحت ورنج مسرت‬
‫اور غم ہروجدانی کیفیت اس کو محسوس کرتی ہے مگر اس کے باوجود یہ ظاہری مادی جسم نہیں‬
‫رکھتا یہ جسم تو فنا ہوچکا ہوتا ہے‪...‬اس کا تو ہراحساس وادراک جسم مثالی کے ساتھ ہوتا ہے‪...‬روح‬
‫جسم مثالی کے ساتھ ہی منکر نکیر کے سوال کا جواب دیتی ہے ۔‬
‫(ندائے حق ج‪1‬ص‪)100،101‬‬
‫‪ ‬اس جسد عنصری میں بعداز دفن دوبارہ روح کا آنا اور میت کا قبر میں زندہ ہوجانا یہ کوئی مسئلہ‬
‫نہیں ۔ (ندائے حق ج‪1‬ص‪)225‬‬
‫‪ ‬قبر وہ ہے جہاں روح کو عذاب وثواب ہوتا ہے وہی شرعی قبر ہے اوروہی روح کا ٹھکانہ ہے ۔‬
‫(عقیدۃ االمت ص‪31‬مصنف شہاب الدین خالدی)‬
‫تعالی اس عالم برزخ میں روح کو وہاں کے مناسب حال ایک جسم عطا فرماتے ہیں‪...‬اسی جسم‬
‫ٰ‬ ‫‪ ‬ہللا‬
‫مثالی میں روح قیامت تک رہے گی۔‬
‫(عقیدۃ االمت ص‪)34‬‬
‫‪ ‬شرعی قبر جس میں ثواب وعذاب ہوتا ہے وہ ہے جو جنت کے قریب ہے ۔ (عقیدۃ االمت ص‪)36‬‬
‫‪ ‬یعنی زمین وقبر بھی مثالی زور جسم بھی مثالی اور ثواب وعذاب بھی وہیں ہوگا ۔ (عقیدۃ االمت‬
‫ص‪)39‬‬
‫‪ ‬اس جسم عنصری کو عذاب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس قبر میں عذاب ہوتا ہے‪...‬عذاب وثواب روح‬
‫کوہوتا ہے جو اس جسم میں نہیں ہوتی۔‬
‫(عقیدۃ االمت ص‪)525‬‬
‫‪ ‬جمعی ت اشاعت التوحیدوالسنۃ کا قرآن کریم اور احادیث صریحہ کی رو سے یہ موقف ہے کہ اس‬
‫مٹی والے جسم سے روح نکلنے کے بعد نہ تو وہ روح اس قبرمیں مدفون جسم میں واپس آتی ہے اور‬
‫نہ ہی اس مدفون جسم سے روح کا کوئی تعلق قائم ہوتا ہے ۔‬
‫(عقائد علمائے اسالم ص‪ 91‬مصنف شہاب الدین خالدی)‬
‫کیپٹن عثمانی صاحب ثواب وعذاب قبر کی اس صحیح صورت کے منکر ہیں۔ چنانچہ‬ ‫[‪:]۲‬‬
‫موصوف نے اپنے ایک رسالہ "عذاب برزخ" میں کئی ایک مقامات پراس عقیدہ کا انکار کیا ہے‬
‫چند تصریحات مالحظہ فرمائیں ‪:‬‬
‫یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا‬ ‫٭‬
‫جائے گااور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گذرے گا۔ (عذاب برزخ‪ :‬ص‪)2‬‬
‫روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور روح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا‬ ‫٭‬
‫دور گزرتا ہے…… اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حاالت قیامت‬
‫‪15‬‬
‫تک گزریں گے۔(عذاب برزخ‪ :‬ص‪)6‬‬
‫سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پاجاتا ہے اس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم‬ ‫٭‬
‫ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و‬
‫جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حاالت گذرتے ہیں اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے۔ (عذاب‬
‫برزخ‪ :‬ص‪)9‬‬
‫ہللا کا فیصلہ ہے کہ قیامت سے پہلے مردہ جسم میں روح واپس نہیں آسکتی اور ظاہر ہے کہ‬ ‫٭‬
‫بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں۔‬
‫عذاب برزخ‪ :‬ص‪17‬‬
‫اب اگر کوئی بضد ہو کہ اس مردے کے ساتھ جو مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہوجاتا ہے ہڈیوں‬ ‫٭‬
‫کا ڈھانچہ بھی نہیں رہتا‪ ،‬عذاب و راحت کا معاملہ اس زمینی گڑھے میں ہوتا ہے تو یہ محض‬
‫جہالت‪ ،‬ضد اور ہٹ دھرمی اور قرآن و حدیث کا صریح انکار ہے جو یقینا ہللا تعالی کے عذاب اور‬
‫آخرت س ے ال پرواہی کا ہی نتیجہ ہے قرآن کی نظر میں ایسے عقیدے کا حامل شخص سب کچھ‬
‫ہوسکتا ہے لیکن مومن نہیں ہوسکتا ۔‬
‫قبر پرستی کا شرک اور اس کی بنیاد‪ :‬ص‪17‬‬
‫کیپٹن عثمانی صاحب کی ان عبارات سے چندباتیں سامنے آتی ہیں ‪:‬‬
‫‪:1‬قبر اس دنیا والے گڑھے کا نام نہیں بلکہ علیین یا سجین کا نام ہے ۔‬
‫‪:2‬برزخ روحوں کے مقر کو کہتے ہیں ۔‬
‫‪: 3‬موت ودفن کے بعداس دنیا والے جسم میں نہ تو روح کا اعادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تعلق‬
‫ہوتا ہے ۔‬
‫‪: 4‬قبر میں سوال وجواب کے لئے روح کو دوسرا جسم دیا جاتا ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں اور‬
‫ثواب وعذاب بھی اسی جسم مثالی کو ہوتا ہے ۔‬
‫‪: 5‬دنیاوالے گڑھے کو قبر ماننا ‪،‬روح کا اس جسم سے تعلق کا قائل ہونا اور اس جسم کی سزاوجزا کا‬
‫عقیدہ رکھنا شرک کی بنیاد اور قرآن کریم کی مخالفت وانکار ہے ۔‬
‫اگر بالترتیب یہ چیزیں سمجھ لی جائیں‪:‬‬
‫‪ :3‬عذاب وثواب جسم مع الروح‬ ‫‪:1‬تعیین قبر ‪:2‬اعادہ و تعلق روح (یعنی حیات فی القبر)‬
‫تو مسئلہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ ان امور کی مختصر سی تفصیل پیش خدمت ہے ‪:‬‬
‫[‪:]۱‬تعیین قبر‬
‫آیات قرآنیہ‪:‬‬
‫هم‬‫نُ‬‫ِه‬
‫ِ إ‬ ‫َبر‬
‫ِہ‬ ‫لى ق‬ ‫ََ‬‫ُم ع‬ ‫تق‬ ‫ََ‬
‫َل َ‬ ‫دا و‬ ‫بً‬‫ََ‬
‫َ أ‬ ‫مات‬ ‫هم َ‬ ‫ِنُ‬ ‫ٍ م‬ ‫َح‬
‫َد‬ ‫لى أ‬ ‫ََ‬
‫ِ ع‬ ‫َل‬ ‫تص‬ ‫ََ‬
‫َل ُ‬ ‫‪:1‬و‬
‫)‬ ‫ن (التوبۃ‪84 :‬‬ ‫ُ‬
‫ِقوَ‬ ‫َاس‬‫هم ف‬ ‫َُ‬‫توا و‬ ‫ماُ‬ ‫ََ‬‫ِ و‬‫له‬‫َسُوِ‬
‫َر‬ ‫ِاه‬
‫َّللِ و‬ ‫ُوا ب‬ ‫َف‬
‫َر‬ ‫ك‬
‫ترجمہ‪ :‬اے پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم ان منافقین میں اگر کوئی مرجائے تو آپ اس پر کبھی نماز‬
‫جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔‬
‫[عبس‪]21‬‬ ‫َُ‬
‫ہ‬ ‫َقب‬
‫َر‬ ‫َأ‬‫ه ف‬ ‫ماَ‬
‫تُ‬ ‫ََ‬
‫ه أ‬ ‫‪ُ:2‬‬
‫ثم‬
‫ترجمہ‪ :‬پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچادیا‬
‫َ [التكاثر‪] 2‬‬
‫ِر‬‫َاب‬‫َق‬
‫ُ الم‬ ‫تم‬‫ُرُ‬ ‫هى ز‬‫َت‬‫‪:3‬ح‬
‫ترجمہ‪( :‬ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کی عیش حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غفلت میں‬
‫ڈال رکھا ہے) یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو ۔‬
‫احادیث مبارکہ‬
‫حدیث نمبر‪:1‬‬
‫عن عمرو بن حزم قال رآني رسول ہللا صلى ہللا علیه و سلم‬
‫على قبر فقال ‪ :‬انزل عن القبر َل تؤذ صاحب القبر فال يؤذيك‬
‫[ شرح معانى االثارص‪328،329‬باب الجلوس على القبور]‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عمرو بن حزم رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫ایک قبر پ ر دیکھا تو فرمایا قبر سے نیچے اتر جاو قبر والے کو تکلیف نہ دو اور نہ وہ تمہیں تکلیف‬
‫دے (یعنی اس کی وجہ سے تمہیں تکلیف نہ پہنچے)‬
‫‪16‬‬
‫حدیث نمبر‪:2‬‬
‫َ‬
‫لم‬‫َسَه‬‫ِ و‬‫لیه‬‫ََ‬
‫َّللُ ع‬
‫لى اه‬‫َه‬
‫ِيِ ص‬‫هب‬
‫َن الن‬ ‫ها ع‬ ‫َنَ‬
‫َّللُ ع‬
‫ِيَ اه‬ ‫َض‬
‫ة ر‬‫ِشََ‬
‫َائ‬‫َن ع‬‫ع‬
‫ُ‬‫َ‬ ‫ه‬
‫َى اتخذوا‬ ‫َار‬ ‫ه‬
‫َالنص‬ ‫هوَ‬
‫د و‬ ‫َُ‬ ‫َن اه‬
‫َّللُ الی‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِ لع‬‫ِیه‬‫َ ف‬ ‫ِي َ‬
‫مات‬ ‫ه‬
‫ِ الذ‬ ‫َض‬
‫ِه‬ ‫ِي َ‬
‫مر‬ ‫َال‬
‫َ ف‬ ‫ق‬
‫ِي‬ ‫َ‬
‫َ أن‬ ‫َ‬
‫ہ غیر‬ ‫َُ‬ ‫َ‬
‫ُوا قبر‬‫َز‬ ‫َ‬‫ِكَ َ‬
‫ألبر‬ ‫َ‬
‫َل ذل‬ ‫َ‬
‫َلوَ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫دا قالت و‬ ‫مسجًِ‬‫ِم َ‬ ‫َائ‬
‫ِه‬ ‫َ‬
‫َ أنب‬
‫ِی‬ ‫ُور‬
‫قب‬‫ُ‬
‫دا‬‫مسجًِ‬
‫ذ َ‬‫هخََ‬
‫يت‬‫َخشَى أن ُ‬
‫َ‬ ‫أ‬
‫اج ِد َع َلى ْالقُب ِ‬
‫ُور]‬ ‫س ِ‬‫اب َما یُ ْك َرہُ ِم ْن ا ِت ّخَا ِذ ْال َم َ‬
‫]بخارى ج ‪ 1‬ص ‪ 177‬بَ ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے مرض الوفات‬
‫میں فرمایا یہود و نصاری پر ہللا تعالی کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مساجد‬
‫بنالیں تھیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں‪ :‬اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ علیہ السالم کی قبر کھلی جگہ بنائی‬
‫جاتی۔‬
‫حدیث نمبر‪:3‬‬
‫عن عائشة قالت لما مات النجاشى كنا نتحدث أنه َل يزال‬
‫يرى على قبرہ نور‬
‫‪[.‬سنن ابى داودج ‪ 1‬ص ‪ 364‬باب فى النور یرى عند قبر الشھید]‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں جب حضرت نجاشی کا انتقال ہوا تو ہمارے اندر یہ‬
‫بات بیان کی جاتی تھی کہ ان کی قبر پر نور دیکھا جاتا تھا‬
‫[‪ :]۲‬اعادہ وتعلق روح (یعنی حیات فی القبر)‬
‫ت قرآنیہ‪:‬‬
‫آیا ِ‬
‫آیت نمبر‪:1‬‬
‫َا‬ ‫ُّ‬
‫الدنی‬ ‫َاة‬
‫ِ‬ ‫َی‬‫ِي الح‬ ‫هاب‬
‫ِتِ ف‬ ‫َول‬
‫ِ الث‬ ‫ُوا ب‬
‫ِالق‬ ‫من‬‫َ آَ‬
‫ِين‬ ‫َّللُ ه‬
‫الذ‬ ‫ُ اه‬ ‫ِت‬‫َب‬
‫يث‬‫ُ‬
‫يشَاُ‬
‫ء‬ ‫ما َ‬ ‫ُ اه‬
‫َّللُ َ‬ ‫َل‬
‫يفع‬ ‫َ و‬
‫ََ‬ ‫ِین‬ ‫هاِ‬
‫لم‬ ‫ُّ اه‬
‫َّللُ الظ‬ ‫ِل‬
‫يض‬‫َُ‬
‫ِ و‬ ‫َة‬ ‫َف‬
‫ِي اْلخِر‬ ‫و‬
‫[ابراھیم ‪]27‬‬
‫ترجمہ‪ :‬جو لوگ ایمان الئے ہیں ہللا ان کو اس مضبوط بات پر دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدمی‬
‫عطا فرماتے ہیں اور قبر میں بھی اور ظالم لوگوں کو ہللا بھٹکا دیتا ہے اور ہللا (اپنی حکمت کے‬
‫مطابق) جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‬
‫تفسیر‪:‬‬
‫‪:1‬وأخرج البزار عن عائشة قالت ‪ :‬قلت يارسول ہللا تبتلى‬
‫هذہ األمة في قبورها فكیف بي وأنا امرأة ضعیفة قال يثبت ہللا‬
‫الذين آمنوا بالقول الثابت في الحیاة الدنیا وفي اْلخرة‬
‫[الدر المنثورج‪8‬ص‪]525‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کی یارسول ہللا اس امت کو قبروں‬
‫میں آزمایا جائے گا میری کیا حالت ہوگی میں تو کمزور سی عورت ہوں تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫ٰة‬‫نے فرمایا‪ ﴿ :‬يثبت ہللا الذين آمنوا بالقول الثابت فی الحیو‬
‫الدنیا وفی اْلخرة ﴾‬
‫آپ علیہ السالم کے اس تسلی والے فرمان سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں لفظ آخرت سے‬
‫مراد قبر کی زندگی ہے جہاں کے عذاب سے ہللا کلمہ کے مطابق زندگی گزارنے والوں کو محفوظ‬
‫فرماتے ہیں۔‬
‫فائدہ‪ :‬اکثر مفسرین نے اس آیت کو ثواب وعذاب قبر کے متعلق قرار دیا ہے اور اس آیت کے تحت‬
‫مرفوع اور موقوف احادیث نقل کرکے اعادہ وتعلق روح کو ذکر کیا ہے جس سے قبر کی زندگی ثابت‬
‫‪( :‬تفسیر طبرى ج‪8‬ص‪،253‬تفسیربغوى ج‪3‬ص‪،35‬تفسیركشاف‬ ‫ہوتی ہے دیکھئے‬
‫ج‪2‬ص‪،520‬المحررالوجیزالبى محمدعبدالحق االندلسى ج‪3‬ص‪،337‬تفسیربیضاوى ج‪1‬ص‪،518‬تفسیرمدارك‬
‫لسیوطى‬ ‫ج‪2‬ص‪،691‬الدرالمنثور‬ ‫كثیر‬ ‫ج‪3‬ص‪،84‬تفسیرابن‬ ‫ج‪1‬ص‪،452‬تفسیرخازن‬
‫ج‪4‬ص‪،148‬تفسیرابوالسعودج‪5‬ص‪،52‬البحرالمدید ج‪3‬ص‪)370‬‬
‫آیت نمبر ‪:2‬‬
‫‪17‬‬
‫ِ ََل‬
‫مة‬‫َاَ‬
‫ِی‬‫ِ الق‬ ‫َِلى َ‬
‫يوم‬ ‫ُم إ‬
‫ُك‬‫َع‬
‫يجم‬ ‫ه َ‬
‫ثم‬‫ُم ُ‬
‫ُك‬‫ِیت‬ ‫ه ُ‬
‫يم‬ ‫ثم‬‫ُم ُ‬‫يحیِیك‬‫َّللُ ُ‬
‫ِ اه‬ ‫ُل‬
‫ق‬
‫َ‬
‫ُون‬ ‫َ‬
‫يعلم‬ ‫َ‬ ‫ه‬
‫َ الناسِ َل َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِن أكثر‬‫ه‬ ‫َ‬
‫َلك‬‫ِ و‬ ‫َ ف‬
‫ِیه‬ ‫َيب‬
‫ر‬
‫الجاثیہ ‪26‬‬
‫ترجمہ‪ : :‬اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجیے ہللا ہی تمہیں زندگی دیتا ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا‪،‬‬
‫پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ‬
‫سمجھتے نہیں ہیں۔‬
‫تفسیر‪:‬‬
‫ُم } في‬
‫يحیِیك‬‫ِ } يا محمد ألبي جهل وأصحابه { ہللا ُ‬ ‫ُل‬‫ق‬
‫ُم إلى َ‬
‫يوم‬
‫ِ‬ ‫َع‬
‫ُك‬ ‫يجم‬ ‫ه َ‬ ‫ُ‬
‫ُم } في القبر { ثم‬ ‫ُك‬
‫ِیت‬ ‫ه ُ‬
‫يم‬ ‫ثم‬‫القبر { ُ‬
‫القیامة } ويقال قل ہللا يمیتكم مقدم ومؤخر ثم يجمعكم إلى‬
‫َ الناس }‬ ‫َكث‬
‫َر‬ ‫ِ } َل شك فیه { ولكن أ‬ ‫َ ف‬
‫ِیه‬ ‫َيب‬‫يوم القیامة { َلَ ر‬
‫ن } ذلك وَل يصدقون‬‫ُوَ‬
‫لم‬‫يعَ‬‫أهل مكة { َلَ َ‬
‫[ تفسیرابن عباس ‪2‬ص‪]22‬‬
‫ترجمہ‪:‬سیدنا عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنھما ا س آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "اے پیغمبر صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم ابو جہل اور دوسرے کفار سے کہدیں ہللا تمہیں قبر میں زندہ کرے گا {سوال وجواب‬
‫کے بعد }تمہیں قبر میں موت دے گا پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرےگا بعض حضرات کے‬
‫ُم }پہلے ہے اور {‬ ‫ُك‬
‫ِیت‬‫يم‬‫ه ُ‬‫ثم‬‫نزدیک اس آیت میں تھوڑی سی تقدیم وتاخیر ہے { ُ‬
‫کامعنی ہوگا ہللا تمہیں دنیا میں موت دیں گے پھر قبر میں زندہ‬
‫ٰ‬ ‫ُم }بعد میں ہے اب آیت‬ ‫يحیِیك‬‫ُ‬
‫کریں گے ‪ ،‬پھر تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے‬
‫لیکن اکثر اہل مکہ اس بات کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔‬
‫احادیث مبارکہ ‪:‬‬
‫حدیث نمبر‪:1‬‬
‫حضرت براء بن عازب رضی ہللا عنہ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جسے کئی محدثین نے نقل کیا‬
‫ہے جس میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے موت کے وقت پیش آنے والے حاالت وواقعات ‪،‬موت کے‬
‫وقت مومن و کافر کی کیفیت موت کے بعد قبر میں پیش آنے والے حاالت کو تفصیالً بیان فرمایا ہے‬
‫اس طویل حدیث میں قبر کے زندگی کو بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السالم نے فرمایا "فتعاد‬
‫روحہ فی جسدہ"‬
‫سوال و جواب کے وقت میت کی روح پھر اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔‬
‫(مسنداحمدرقم الحدیث‪،18534‬شعب االیمان ج‪1‬ص‪ 356،357‬رقم الحدیث‪ 395‬فصل فى عذاب القبر)‬
‫مصححین ومستدلین حدیث‪:‬‬
‫حضرات ائمہ کی بہت بڑی تعداد نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا اور اس سے قبر کی زندگی کے‬
‫اثبات پر استدالل کیا ہے۔ مثالً‪:‬‬
‫ِ‪،‬‬‫َاد‬
‫ِسن‬ ‫َحِیح‬
‫ُ اإل‬ ‫ٌ ص‬‫ِيث‬‫َد‬
‫ذا ح‬‫هَ‬‫ه ہللاُ‪َ :‬‬
‫َُ‬‫َحِم‬
‫ِيُّ ر‬ ‫هق‬‫َیَ‬‫َ الب‬ ‫َال‬‫ق‬ ‫٭‬
‫شعب االیمان ج‪1‬ص‪357‬‬
‫َاِ‬
‫ء‬ ‫َر‬‫ُ الب‬ ‫ِيث‬ ‫َد‬‫ما ح‬ ‫َه‬
‫َأ‬‫ٍ األصبهاني ‪ :‬و‬ ‫َیم‬‫نع‬‫بو ُ‬‫َُ‬‫ُ أ‬ ‫َاف‬
‫ِظ‬ ‫َ الح‬ ‫َال‬‫َق‬
‫و‬ ‫٭‬
‫ٌ‬
‫هور‬ ‫َ‬
‫ِيث مشُ‬‫ٌ‬ ‫َد‬ ‫َ‬
‫ء فح‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ٍو عن زاذان عن البراِ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ِنهال بن عمر‬ ‫َ‬ ‫ہ الم‬ ‫َ‬
‫رواُ‬ ‫َ‬
‫ُ‬
‫ِيُّ بن‬‫َد‬
‫ء ‪ :‬ع‬ ‫َاِ‬‫َر‬‫َن الب‬ ‫ہ ع‬‫َاُ‬ ‫َو‬ ‫َر‬
‫ُ و‬‫ِیر‬ ‫َ‬
‫ُّ الغف‬‫َم‬
‫ِ الج‬ ‫ِنَ‬
‫هال‬ ‫َن الم‬ ‫ہ ع‬‫َاُ‬‫َو‬‫ر‬
‫ُ‬
‫ء بن‬ ‫َ‬
‫َطاُ‬‫َن زاذان ع‬ ‫ہ ع‬‫َاُ‬
‫َو‬ ‫َر‬‫َا و‬ ‫ُُ‬
‫هم‬ ‫َ‬
‫َغیر‬ ‫َ‬
‫َة و‬ ‫ُقب‬‫ُ ع‬‫د بن‬ ‫هُ‬
‫َم‬‫مح‬‫َُ‬
‫ِتٍ و‬‫ثاب‬ ‫َ‬
‫ِ‬
‫ِه‬ ‫لى شُهر‬
‫َت‬ ‫ََ‬‫ِ ع‬ ‫ثر‬‫ة األََ‬ ‫َاُ‬
‫ُو‬‫َ ر‬ ‫َجم‬
‫َع‬ ‫ٌ أ‬‫ِيث‬‫َد‬‫َ ح‬‫هو‬ ‫َ ‪ :‬و‬
‫َُ‬ ‫َال‬‫ِبِ ‪ .‬ق‬ ‫السهائ‬
‫ُ‬
‫ِيث‬‫َد‬‫ذا الح‬ ‫هَ‬
‫ُ مندہ ‪َ :‬‬ ‫ِ اه‬
‫َّللِ بن‬ ‫َبد‬‫بو ع‬ ‫َ‬
‫ُ أُ‬ ‫َاف‬
‫ِظ‬ ‫َ الح‬ ‫َال‬‫َق‬‫ِ و‬‫ِه‬‫َت‬‫َاض‬
‫ِف‬‫َاست‬ ‫و‬
‫َاِ‬
‫ء‬ ‫َر‬‫َن الب‬ ‫ٌ‬
‫َة ع‬‫َاع‬‫َم‬
‫ہ ج‬‫َاُ‬‫َو‬
‫ٌ ر‬ ‫مشُ‬
‫هور‬ ‫ٌ‬
‫ِل َ‬ ‫ه‬
‫متص‬‫ہ ُ‬‫دُ‬ ‫َ‬
‫إسناُ‬
‫مجموع الفتاوى ج‪5‬ص‪216‬‬
‫هذا حديث ثابت مشهور مستفیض صححه جماعة من الحفاظ وَل‬ ‫٭‬
‫نعلم أحدا من أئمة الحديث طعن فیه بل رووہ في كتبهم‬
‫وتلقوہ بالقبول وجعلوہ أصال من أصول الدين في عذاب القبر‬
‫‪18‬‬
‫ونعیمه ومساءلة منكر ونكیر وقبض األرواح وصعودها إلى بین‬
‫يدي ہللا ثم رجوعها إلى القبر‬
‫كتاب الروح ص‪48‬‬
‫نوٹ‪ :‬اس روایت کے راوی ابومعاویہ پربعض حضرات نےاضطراب کی جرح کی ھے لیکن وہ‬
‫جرح یہاں نہیں چل سکتی کیونکہ بتصریح ائمہ ابومعاویہ کی ان روایات میں اضطراب ہے‬
‫جواعمش کے عالوہ سے مروی ہوں‬
‫أبو معاوية الضرير صدوق وهو في األعمش ثقة وفي غیر األعمش‬
‫فیه اضطراب‪( .‬تاریخ بغداد ج‪2‬ص‪)115‬‬
‫اوریہ روایت امام اعمش سے ہی مروی ہے۔ صحیح مسلم میں سبزپرندوں والی روایت بھی ابو‬
‫معاویہ عن اعمش کے طریق سے مروی ہے۔‬
‫حدیث نمبر‪:2‬‬
‫هم‬
‫َ‬ ‫َسَل‬‫ِ و‬ ‫ََ‬
‫لیه‬ ‫َّللُ ع‬
‫لى اه‬ ‫َه‬‫ِيِ ص‬‫هب‬‫َن الن‬‫ه ع‬ ‫َنُ‬‫َّللُ ع‬
‫ِيَ اه‬ ‫َض‬ ‫ََ‬
‫ة ر‬ ‫َير‬ ‫ِي ُ‬
‫هر‬ ‫َب‬‫َن أ‬‫ع‬
‫ِ‬
‫ِیه‬ ‫َن‬ ‫َ ِ‬
‫لب‬ ‫َ‬
‫ُ قال‬ ‫َوت‬ ‫ہ الم‬ ‫َُ‬‫َر‬‫َض‬‫ها ح‬ ‫َ‬‫َ‬
‫ِ فلم‬ ‫َ‬
‫َلى نفس‬
‫ِه‬ ‫َ‬‫ُ ع‬‫ِف‬
‫يسر‬ ‫ٌ ُ‬‫ُل‬‫َج‬ ‫َ‬
‫َ كان ر‬‫َ‬ ‫َال‬ ‫ق‬
‫َاه‬
‫َّللِ‬ ‫َو‬‫ِيحِ ف‬
‫ِي الر‬ ‫ِي ف‬‫ُّون‬ ‫َ‬
‫ه ذر‬ ‫ُ‬ ‫ُون‬
‫ِي ثم‬ ‫ه اطحَن‬ ‫ُ‬
‫ِي ثم‬ ‫ُون‬
‫ِق‬ ‫َ‬
‫َأحر‬ ‫ُّ ف‬
‫مت‬‫نا ُ‬ ‫َ‬
‫ِذا أَ‬‫َ‬ ‫إ‬
‫َ‬
‫مات‬ ‫ها َ‬ ‫ََ‬
‫لم‬ ‫دا ف‬ ‫ًَ‬ ‫َ‬
‫ُ أح‬‫به‬ ‫َه‬
‫ذَ‬ ‫ما ع‬ ‫با َ‬
‫ذاً‬ ‫ِي عََ‬ ‫بن‬ ‫َِ‬
‫َذ‬ ‫ِي َلی‬
‫ُع‬ ‫َب‬‫ليه ر‬ ‫ََ‬
‫َ ع‬ ‫در‬‫ََ‬
‫ِن ق‬ ‫َلئ‬
‫لت‬ ‫ََ‬
‫َع‬‫َف‬
‫ه ف‬‫ِنُ‬‫ِیكِ م‬ ‫ما ف‬ ‫ِي َ‬ ‫َع‬‫َ اجم‬‫َال‬‫َق‬‫َّللُ األَرضَ ف‬‫َ اه‬‫مر‬ ‫َ‬
‫َأَ‬‫ِكَ ف‬‫َل‬‫ِ ذ‬ ‫َ ب‬
‫ِه‬ ‫ِل‬‫ُع‬‫ف‬
‫ُكَ‬ ‫َت‬‫َشی‬‫َبِ خ‬
‫يا ر‬ ‫َ َ‬ ‫َ‬
‫َ قال‬‫َعت‬ ‫َن‬‫ما ص‬ ‫َ‬
‫َلى َ‬‫َلكَ ع‬‫َ‬‫َم‬ ‫ما ح‬ ‫َ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ٌ فقال‬ ‫ِم‬ ‫َ‬
‫َ قائ‬ ‫هو‬ ‫َ‬
‫إذا ُ‬ ‫َ‬
‫فِ‬
‫َ َلُ‬
‫ه‬ ‫َف‬
‫َر‬ ‫َغ‬‫ف‬
‫ِیث ْالغ ِ‬
‫َار‬ ‫صحیح بخارى ج ص َباب َحد ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬
‫ایک آدمی تھا جو جو بہت گناہگار تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی‬
‫کہ جب میں مرجاوں تو مجھے جالدینا پھر میری ہڈیوں کو پیس لینا اور مجھے ہوا میں اڑا دینا قسم‬
‫بخدا اگر میں اپنے رب کی پکڑ میں آگیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو کسی کو بھی نہیں دیا ہوگا‬
‫چنانچہ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا‪ ،‬ہللا رب العزت نے زمین کو حکم دیا کہ اس‬
‫بندے کے ذرات جہاں کہیں بھی ہیں ان کو جمع کردے زمین نے اس کے ذرات جمع کردیے تو وہ‬
‫زندہ کھڑا ہوگیا ہللا تعالی نے فرمایا تونے یہ کام کیوں کیا ؟ایسی وصیت کیوں کی؟ تو وہ کہنے لگا‬
‫اے میرے رب میں نے تیرے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا تھا چنانچہ ہللا تعالی نے اس بخش دیا۔‬
‫مالحظہ فرمائیں اگر موت کے بعد سوال وجواب اور اس کے بعد ثواب وعذاب کا تعلق اس‬
‫تعالی نے اس بندے کے اسی دنیوی جسم کو دوبارہ کیوں زندہ‬ ‫ٰ‬ ‫دنیا والے جسم سے نہیں ہوتا توہللا‬
‫فرمایا ؟اس کی روح تو محفوظ تھی اسی سے سوال وجواب کرلیتے ۔‬
‫حدیث نمبر‪:3‬‬
‫َا‬‫ِذ‬ ‫هب‬
‫ِىُّ صلى ہللا علیه وسلم إ‬ ‫َاَ‬
‫ن الن‬ ‫َ ك‬‫َال‬ ‫هاَ‬
‫ن ق‬ ‫َف‬
‫ن بنِ ع‬‫َاَ‬‫ُثم‬‫َن ع‬
‫ع‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُم و‬
‫َسَلوا لُ‬
‫ه‬ ‫َ‬
‫ُوا ألخِیك‬ ‫َغف‬
‫ِر‬ ‫َ است‬ ‫َ‬
‫َقال‬ ‫َ‬
‫َلیه‬
‫ِ ف‬ ‫َ ع‬ ‫َ‬
‫َقف‬‫َیِتِ و‬
‫دفنِ الم‬ ‫َ م‬
‫ِن َ‬ ‫َغ‬‫َر‬
‫ف‬
‫َ‬ ‫ه اْلَ‬ ‫إه‬
‫ُ‬
‫يسأل‬‫ن ُ‬ ‫نُ‬ ‫َِ‬‫َ ف‬ ‫هثب‬
‫ِیت‬ ‫الت‬
‫اف‪.‬‬ ‫اال ْن ِ‬
‫ص َر ِ‬ ‫ت ِ‬ ‫َار ِع ْندَ ْال َقب ِْر ِل ْل َمیِّ ِ‬
‫ت فِى َو ْق ِ‬ ‫اال ْس ِت ْغف ِ‬
‫سنن ابى داودج ص باب ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم جب میت‬
‫کو دفن کرنے سے فارغ ہوجا تے تو تھوڑی دیر وہی ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے‬
‫استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اس سے ابھی سوال کیے جائیں گے۔‬
‫اور سوال زندہ سے کیا جاتا ہے ۔‬
‫[‪ :]۳‬عذاب وثواب جسم مع الروح‬
‫قرآن مع التفسیر‪:‬‬
‫آیت نمبر‪:1‬‬
‫ََلم‬ ‫ُوحِيَ إ‬
‫َِليه و‬ ‫َ أ‬ ‫َو ق‬
‫َال‬ ‫ًِ‬
‫با أ‬ ‫َذ‬ ‫لى اه‬
‫َّللِ ك‬ ‫ََ‬
‫َى ع‬‫َر‬
‫هنِ افت‬‫ِم‬‫ُ م‬
‫لم‬‫َظَ‬ ‫ََ‬
‫من أ‬ ‫و‬
‫ِ‬
‫ِذ‬‫َى إ‬ ‫َ‬
‫َلو تر‬ ‫َ‬‫َّللُ و‬ ‫َ‬‫َ‬
‫ما أنزل اه‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ِثل َ‬ ‫ِل م‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫من قال سَأنز‬ ‫ََ‬‫ء و‬ ‫َ‬
‫ِ شيٌ‬ ‫َ‬
‫ِلیه‬
‫َ إ‬ ‫ُ‬
‫يوح‬
‫‪19‬‬
‫ُوا‬ ‫ِج‬ ‫َ‬
‫ِم أخر‬‫ِيه‬ ‫َ‬
‫ُو أيد‬ ‫ِط‬ ‫باس‬ ‫َُ‬
‫ة َ‬‫ِك‬ ‫ََ‬
‫الئ‬ ‫َالم‬
‫َوتِ و‬‫َاتِ الم‬ ‫َم‬
‫َر‬ ‫ِي غ‬‫ن ف‬‫ُوَ‬ ‫هاِ‬
‫لم‬ ‫الظ‬
‫َلى اه‬
‫َّللِ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َا كنتم تقولون ع‬ ‫ُ‬ ‫ِم‬‫هونِ ب‬‫َ الُ‬ ‫َ‬
‫َذاب‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َ تجزون ع‬ ‫َوم‬
‫ُ الی‬ ‫َنفسَكم‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫أ‬
‫[االنعام ‪]93‬‬ ‫َ‬
‫ُون‬‫ِر‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِ تستكب‬ ‫ِه‬
‫يات‬‫َن آَ‬‫ُم ع‬ ‫ُ‬
‫َكنت‬ ‫َق‬
‫ِ و‬ ‫َ الح‬ ‫َ‬
‫غیر‬
‫مستدلین ‪:‬‬
‫المتوفی ‪256‬ھ نے اس آیت کریمہ سے عذا ب قبر‬
‫ٰ‬ ‫امام ابو عبد ہللا محمد بن اسماعیل بخاری‬ ‫‪:1‬‬
‫پر استدالل کیا ہے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ٰ إذ‬ ‫باب ما جاء في عذاب القبر وقول ہللا تعالى ولو تری‬
‫الظالمون في غمرات الموت والمالئكة باسطو أيديهم أخرجوا‬
‫أنفسكم الیوم تجزون عذاب الهون‬
‫صحیح بخاری ج‪1‬ص‪183‬‬
‫المتوفی ‪751‬ھ ایک سوال ” قرآن کریم میں عذاب‬
‫ٰ‬ ‫امام شمس الدین ابو عبد ہللا بن قیم الجوزیہ‬ ‫‪:2‬‬
‫وثواب قبر کا ذکر کیوں نہیں ؟“کے جواب میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وأما الجواب المفصل فهو أن نعیم البرزخ وعذابه مذكور‬
‫في القرآن في غیر موضع فمنها قوله تعالى ولو ترى إذ‬
‫الظالمون في غمرات الموت والمالئكة باسطو أيديهم أخرجوا‬
‫أنفسكم الیوم تجزون عذاب الهون بما كنتم تقولون على ہللا‬
‫غیر الحق وكنتم عن اياته تستكبرون وهذا خطاب لهم عند‬
‫الموت وقد أخبرت المالئكة وهم الصادقون أنهم حینئذ يجزون‬
‫عذاب الهون ولو تأخر عنهم ذلك إلى انقضاء الدنیا لما صح‬
‫أن يقال لهم الیوم تجزون"‬
‫کتاب الروح البن قیم ص‪87‬‬
‫المتوفی ‪1396‬ھ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے‬
‫ٰ‬ ‫مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب‬ ‫‪:3‬‬
‫ہیں‪:‬‬
‫آج مرنے کے ساتھ ہی تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی یعنی جس میں تکلیف جسمانی بھی ہو‬
‫اور ذلت روحانی بھی ‪.‬‬
‫معارف القرآن ج‪3‬ص‪393‬‬
‫آیت نمبر‪:2‬‬
‫دوا‬ ‫َُ‬‫مر‬‫ِ َ‬‫َة‬‫ِين‬‫َد‬
‫ِ الم‬ ‫َهل‬‫ِن أ‬ ‫َم‬‫ن و‬‫ُوَ‬
‫ِق‬‫َاف‬‫من‬ ‫َ األَعر‬
‫َابِ ُ‬ ‫ِن‬‫ُم م‬ ‫َوَلك‬ ‫هن ح‬‫ِم‬‫َم‬‫و‬
‫دوَ‬
‫ن‬ ‫َُّ‬
‫ير‬‫ه ُ‬ ‫ُ‬
‫تینِ ثم‬ ‫هَ‬‫مر‬‫هم َ‬ ‫بُ‬
‫ُِ‬ ‫ُع‬
‫َذ‬ ‫هم سَن‬
‫ُُ‬ ‫َ‬
‫نعلم‬ ‫ُ َ‬‫نحن‬‫هم َ‬ ‫ُُ‬ ‫َ‬
‫تعلم‬ ‫ِ َ‬
‫َل َ‬ ‫َاق‬‫ِف‬
‫لى الن‬ ‫ََ‬‫ع‬
‫ٍ (التوبہ‪)101 :‬‬ ‫ِیم‬ ‫َظ‬‫ذابٍ ع‬ ‫ََ‬
‫َِلى ع‬
‫إ‬
‫تعالی نے منافقین کے لئے قیامت سے پہلے دو عذابوں کوذکر کیا ہے۔بقو ِل‬
‫ٰ‬ ‫اس آیت میں ہللا‬
‫مفسرین ان میں ایک عذاب قبر کا ہے۔‬
‫مستدلین ‪:‬‬
‫عن ابن عباس في هذہ اْلية قال قام رسول ہللا صلى ہللا علیه‬ ‫‪:1‬‬
‫وسلم خطیبا يوم الجمعة فقال"اخرج يا فالن‪ ،‬فإنك منافق‪،‬‬
‫واخرج يا فالن فإنك منافق فأخرج من المسجد ناسا منهم‬
‫فضحهم فجاء عمر وهم يخرجون من المسجد فاختبأ منهم حیاء‬
‫أنه لم يشهد الجمعة وظن أن الناس قد انصرفوا‪ ،‬واختبئوا‬
‫هم من عمرظنوا أنه قد علم بأمرهم فجاء عمر فدخل المسجد‬
‫فإذا الناس لم يصلوا‪،‬فقال له رجل من المسلمین‪ :‬أبشر يا‬
‫فضح ہللا المنافقین الیوم‪ .‬قال ابن عباس‪ :‬فهذا‬ ‫عمر‪ ،‬قد‬
‫العذاب األول حین أخرجهم من المسجد‪ ،‬والعذاب الثاني عذاب‬
‫القبر"‪( .‬تفسیر ابن کثیر ج‪3‬ص‪)435‬‬
‫وقال الحسن البصري‪ :‬عذاب في الدنیا‪ ،‬وعذاب في القبر‪.‬‬ ‫‪:2‬‬
‫(تفسیر ابن کثیر ج‪3‬ص‪)435‬‬
‫‪20‬‬
‫آیت نمبر‪:3‬‬
‫َاة‬
‫ِ‬ ‫َی‬‫ِي الح‬‫ِتِ ف‬ ‫هاب‬
‫ِ الث‬‫َول‬
‫ِالق‬‫ُوا ب‬ ‫من‬‫َ آَ‬ ‫ِين‬ ‫َّللُ ه‬
‫الذ‬ ‫ُ اه‬
‫ِت‬‫َب‬
‫يث‬‫ُ‬
‫َ‬
‫يشاء‪.‬‬‫ما َ‬ ‫ُ اه‬
‫َّللُ َ‬ ‫َل‬
‫يفع‬‫ََ‬ ‫َ‬
‫ِین و‬
‫لم‬ ‫ه‬
‫َّللُ الظاِ‬
‫ِل اه‬ ‫ُّ‬ ‫َُ‬
‫يض‬ ‫َة‬
‫ِ و‬ ‫َف‬
‫ِي اْلخِر‬ ‫َا و‬ ‫ُّ‬
‫الدنی‬
‫(ابراهیم ‪)27‬‬
‫تفسیر نبوی ‪:‬‬
‫‪ :1‬عن البراء بن عازب رضي ہللا عنهما عن النبي صلى ہللا علیه‬
‫وسلم قال إذا أقعد المؤمن في قبرہ أتي ثم شهد أن َل إله‬
‫إَل ہللا وأن محمدا رسول ہللا فذلك قوله {يثبت ہللا الذين آمنوا‬
‫بالقول الثابت} حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا‬
‫شعبة بهذا وزاد {يثبت ہللا الذين آمنوا} نزلت في عذاب‬
‫القبر‪( .‬صحیح بخاری ج‪1‬ص‪)183‬‬
‫‪ :2‬عن البراء بن عازب عن النبي صلى ہللا علیه و سلم قال ‪:‬‬
‫{ يثبت ہللا الذين آمنوا بالقول الثابت في الحیاة الدنیا‬
‫وفي اْلخرة } قال نزلت في عذاب القبر يقال له من ربك‬
‫فیقول ربي ہللا وديني دين محمد صلى ہللا علیه و سلم فذلك قوله‬
‫{ يثبت ہللا الذين آمنوا بالقول الثابت في الحیاة الدنیا‬
‫وفي اْلخرة ‪( .‬سنن نسائی ج‪1‬ص‪290‬باب عذاب القبر)‬
‫تفسیرصحابی‪:‬‬
‫عن خیثمة عن البراء قال ‪ { :‬يثبت ہللا الذين آمنوا‬
‫بالقول الثابت في الحیاة الدنیا وفي اْلخرة } قال نزلت في‬
‫عذاب القبر‪( .‬سنن نسائی ج‪1‬ص‪289‬باب عذاب القبر)‬
‫فائدہ ‪ :‬اکثر سنی مفسرین نے اس آیت کریمہ کو ثواب وعذاب قبر کے متعلق قرار دیا ہے اور اس‬
‫آیت کے تحت اعادہ روح ‪،‬سوال وجواب فی القبر کو ذکر کیا ہے طو الت کے خوف سے ان تمام کو‬
‫یہاں نقل نہیں کیا جاتا صرف ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی‬
‫رحمہ ہللا اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫”قبر کا عذاب وثواب قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔حدیث یہ ہے؛ کہ رسول کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا کہ جب قبر میں مومن سے سوال کیا جائے گا توایسے ہولناک مقام اور سخت حال‬
‫میں بھی وہ بتائید ربانی اس کلمہ پر قائم رہے گا ‪،‬اور "َلالہ اَل ہللا محمد رسول ہللا "کی‬
‫شہادت دے گا اور پھر فرمایا کہ ارشاد قرآنی " يثبت ہللا الذين آمنوا بالقول‬
‫الثابت في الحیاة الدنیا وفي اْلخرة "کا یہی مطلب ہے‪ ...‬اسی طرح‬
‫تقریباًچالیس صحابہ کرام رضی ہللا عنھم سے معتبر اسانید کے ساتھ اسی مضمون کی حدیثیں منقول‬
‫ہیں جن کو امام ابن کثیر نے اس جگہ اپنی تفسیر میں جمع کیا ہے اور شیخ جالل الدین سیوطی نے‬
‫اپنے منظوم رسالہ "التثبیت عند التبییت"میں اور "شرح الصدور"میں ستر احادیث کا حوالہ نقل کرکے‬
‫ان روایات کو متواتر فرما یا ہے ‪،‬ان سب حضرات صحابہ کرام نے آیت مذکورہ میں آخرت سے مراد‬
‫قبر اور اس آیت کو قبر کے عذاب وثواب سے متعلق قرار دیا ہے ۔“(معارف القرآن ج‪5‬ص‪)248‬‬
‫احادیث مبارکہ‪:‬‬
‫حدیث نمبر‪:1‬‬
‫لى‬‫َه‬ ‫ل اه‬
‫َّللِ ص‬ ‫َسُوَ‬‫ن ر‬ ‫َه‬
‫هم أ‬ ‫ثُ‬‫دَ‬
‫َه‬‫ه ح‬‫نُ‬ ‫َه‬
‫ه أ‬‫َنُ‬‫َّللُ ع‬
‫ِيَ اه‬ ‫َض‬
‫ِكٍ ر‬‫مال‬ ‫نسِ بنِ َ‬‫ََ‬‫َن أ‬‫ع‬
‫َنُ‬
‫ه‬ ‫َهلى ع‬ ‫تو‬‫ََ‬
‫ِ و‬ ‫ِہ‬ ‫َبر‬‫ِي ق‬ ‫َ ف‬ ‫ُض‬
‫ِع‬ ‫َا و‬ ‫ِذ‬‫د إ‬ ‫َبَ‬ ‫ن الع‬ ‫ِه‬‫َ إ‬ ‫َال‬‫َ ق‬ ‫َسَه‬
‫لم‬ ‫ِ و‬ ‫لیه‬‫ََ‬‫َّللُ ع‬
‫اه‬
‫ِ‬
‫ِه‬ ‫َ‬
‫ِدان‬ ‫ُقع‬ ‫َ‬
‫ملكانِ فی‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ہ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِم أتاُ‬ ‫له‬‫َاِ‬ ‫َ ن‬
‫ِع‬ ‫َ‬
‫ُ قرع‬ ‫َع‬‫َسم‬ ‫َ‬
‫ه لی‬ ‫ه‬
‫ِنُ‬‫َإ‬
‫ه و‬ ‫بُ‬
‫َاُ‬‫َصح‬ ‫أ‬
‫َ‬ ‫ه‬
‫َسَلم‬‫ِ و‬ ‫َ‬
‫َلیه‬ ‫َلى اه‬
‫َّللُ ع‬ ‫ه‬‫ٍ ص‬ ‫هد‬
‫َم‬‫ُح‬
‫لم‬ ‫ِ ِ‬ ‫ُل‬‫هج‬
‫هذا الر‬ ‫َ‬ ‫ِي َ‬‫ُ ف‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َ تقول‬ ‫ُ‬
‫ما كنت‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َقوَلنِ َ‬‫فی‬ ‫َ‬
‫ُر‬‫ه انظ‬ ‫َ‬
‫ُ لُ‬ ‫َ‬
‫ُقال‬ ‫َی‬‫ه ف‬ ‫َسُ ُ‬
‫ولُ‬ ‫َر‬ ‫د اه‬
‫َّللِ و‬ ‫َبُ‬‫ه ع‬‫نُ‬ ‫َ‬
‫د أه‬ ‫هُ‬ ‫َ‬
‫ُ أشَ‬ ‫َقول‬‫ُ‬ ‫َی‬
‫ُ ف‬‫ِن‬‫ُؤم‬‫ما الم‬ ‫َ‬
‫َأه‬ ‫ف‬
‫هة‬
‫ِ‬ ‫َن‬‫ِن الج‬ ‫دا م‬ ‫ًَ‬‫مقع‬‫ِ َ‬ ‫ِه‬ ‫دَلكَ اه‬
‫َّللُ ب‬ ‫َ‬
‫َد أبَ‬ ‫ِ ق‬‫هار‬ ‫ِن الن‬ ‫َ م‬ ‫ِك‬‫َد‬
‫مقع‬‫َِلى َ‬ ‫إ‬
‫ِ‬
‫ِہ‬ ‫َ‬
‫ِي قبر‬ ‫ه ف‬ ‫َ‬
‫ُ لُ‬ ‫يفسَح‬‫ه ُ‬ ‫ه‬‫َ‬
‫َ لنا أنُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َذك‬
‫ِر‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ًا قال قتادة و‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ِیع‬‫َم‬‫َا ج‬ ‫َاُ‬
‫هم‬ ‫َر‬‫فی‬ ‫َ‬
‫‪21‬‬
‫ُ َلُ‬
‫ه‬ ‫َال‬
‫ُق‬‫َی‬
‫ُ ف‬ ‫ِر‬‫َاف‬ ‫َالك‬‫ُ و‬ ‫َاف‬
‫ِق‬ ‫ُن‬‫ما الم‬ ‫َ‬
‫َأه‬‫َ و‬‫َال‬ ‫ََ‬
‫نسٍ ق‬ ‫َد‬
‫ِيثِ أ‬ ‫َِلى ح‬
‫َ إ‬ ‫َج‬
‫َع‬ ‫ه ر‬ ‫ُ‬
‫ثم‬
‫ُول‬
‫ُ‬ ‫ما َ‬
‫يق‬ ‫ُول‬
‫ُ َ‬ ‫َ‬
‫ُ أق‬ ‫ُنت‬‫ِي ك‬ ‫َ‬
‫َل أدر‬ ‫ُول‬
‫ُ َ‬ ‫َق‬‫َی‬
‫ِ ف‬‫ُل‬‫هج‬
‫ذا الر‬ ‫هَ‬‫ِي َ‬ ‫ُول‬
‫ُ ف‬ ‫َ َ‬
‫تق‬ ‫ُنت‬‫ما ك‬‫َ‬
‫ً‬
‫بة‬‫َرَ‬ ‫ٍ ض‬ ‫َد‬
‫ِيد‬ ‫ِن ح‬ ‫َ م‬‫ِق‬ ‫َ‬
‫َطار‬‫ِم‬‫ُ ب‬‫َب‬ ‫َُ‬
‫يضر‬ ‫َ و‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ََل تلیت‬‫َ‬‫َ و‬‫َيت‬‫در‬ ‫َ‬
‫ُ َل َ‬ ‫َ‬
‫ُقال‬ ‫َ‬ ‫ه‬
‫الناسُ فی‬
‫ِ‪( .‬صحیح البخاری‪ :‬ص‪َ 220‬ب ُ‬
‫اب‬ ‫َ‬‫َ‬ ‫ه‬
‫َ الثقلین‬ ‫َ‬
‫ِ غیر‬ ‫ِیه‬ ‫من َ‬
‫يل‬ ‫ها َ‬‫َُ‬‫َع‬
‫يسم‬ ‫ً‬
‫َة َ‬‫َیح‬‫ُ ص‬‫ِیح‬‫َص‬‫َی‬
‫ف‬
‫ب ْال َقب ِْررقم ‪)1374‬‬
‫َما َجا َء فِي َعذَا ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دفن کرنے والے ساتھی واپس لوٹتے ہیں یقینا‬
‫وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں اس کو‬
‫بٹھادیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے مومن‬
‫کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں وہ ہللا کے بندے اور رسول ہیں پس اسے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا آگ کا‬
‫ٹھکانہ دیکھ لے ہللا تعالی نے تجھے اس کے بدلے جنت عطا فرمائی ہے پس وہ دونوں مقاموں کو‬
‫دیکھتا ہے باقی منافق اور کافر جب اس سےپوچھا جاتا ہے تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا‬
‫ہےوہ کہتا ہے میں نہیں جانتا جس طرح لوگ کہتے تھے میں بھی اسی طرح کہتا تھاتو فرشتے اسے‬
‫کہتے ہیں نہ تو خود جانتا تھا اور نہ ہی جاننے والوں پر اعتماد کرتا تھا اس کے بعد لوہے کے‬
‫ہتھوڑے سے اسے ایسا مارا جاتا ہے کہ وہ چیختا ہے اور اس کی چیخ و پکار جن اور انس کے‬
‫عالوہ ارد گرد کے جانور سنتے ہیں۔‬
‫حدیث نمبر‪:2‬‬
‫َ‬
‫دخَل‬ ‫َّللِ صلى ہللا علیه وسلم َ‬ ‫ِىه اه‬ ‫نب‬‫ن َ‬ ‫ِه‬‫َ إ‬ ‫َال‬‫ِكٍ ق‬ ‫مال‬ ‫نسِ بنِ َ‬ ‫ََ‬ ‫َن أ‬ ‫ع‬
‫ِ‬
‫ِہ‬ ‫هذ‬ ‫ُ َ‬ ‫َاب‬ ‫َ‬
‫من أصح‬ ‫ل َ‬ ‫َ‬
‫َقاَ‬ ‫َ ف‬ ‫ِع‬ ‫َف‬
‫َز‬ ‫تا ف‬ ‫َوً‬ ‫َ ص‬ ‫ِع‬‫َسَم‬‫ِ ف‬ ‫هار‬‫هج‬‫ِى الن‬ ‫َن‬‫لب‬‫نخالً ِ‬‫َ‬
‫َاَ‬
‫ل‬ ‫َق‬‫ِ ف‬ ‫هة‬‫ِی‬ ‫َاه‬
‫ِل‬ ‫ِى الج‬ ‫توا ف‬ ‫ماُ‬ ‫ناسٌ َ‬ ‫َّللِ َ‬
‫َ اه‬ ‫َسُول‬ ‫يا ر‬ ‫الوا ‪َ :‬‬ ‫َ ُ‬ ‫ِ ق‬ ‫ُور‬ ‫ُب‬
‫الق‬
‫َاك‬
‫َ‬ ‫ه ذ‬ ‫ِم‬‫َم‬‫الوا و‬ ‫َ ُ‬‫ِ ق‬ ‫هال‬ ‫ِ اله‬
‫دج‬ ‫َة‬
‫ِتن‬ ‫ِن ف‬ ‫َم‬‫ِ و‬ ‫هار‬‫ذابِ الن‬ ‫ََ‬
‫ِن ع‬ ‫ِاه‬
‫َّللِ م‬ ‫ُوا ب‬ ‫َو‬
‫هذ‬ ‫َ‬
‫تع‬
‫لكٌ‬ ‫مَ‬‫ہ َ‬ ‫تاُ‬ ‫َ‬
‫ِ أَ‬ ‫ِہ‬‫َبر‬‫ِى ق‬ ‫َ ف‬ ‫ِع‬‫ُض‬‫َا و‬ ‫ِذ‬‫َ إ‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫ن الم‬ ‫ِه‬‫إ‬ ‫َال‬
‫َ‬ ‫َ اه‬
‫َّللِ ق‬ ‫َسُول‬‫يا ر‬ ‫َ‬
‫َّللَ‪.‬‬
‫د اه‬ ‫ُُ‬ ‫َ‬
‫ُ أعب‬ ‫ُنت‬‫َ ك‬ ‫َ‬
‫ہ قال‬ ‫داُ‬ ‫هَ‬
‫َّللُ َ‬
‫إنِ اه‬ ‫َ‬ ‫ُُ‬ ‫َ َ‬ ‫ُنت‬ ‫ه َ‬ ‫َ‬
‫ُ لُ‬ ‫ُ‬
‫َقول‬ ‫َ‬
‫د فِ‬ ‫تعب‬ ‫ما ك‬ ‫فی‬
‫د اه‬
‫َّللِ‬ ‫َبُ‬‫َ ع‬ ‫هو‬‫ُول ُ‬ ‫َق‬ ‫َی‬
‫ِ ف‬ ‫ُل‬‫هج‬‫ذا الر‬ ‫هَ‬
‫ِى َ‬ ‫ُ ف‬ ‫ُول‬ ‫تق‬‫َ َ‬ ‫ُنت‬‫ما ك‬ ‫ه َ‬ ‫ُ َلُ‬ ‫َال‬‫ُق‬‫َی‬
‫ف‬
‫ن َله‬
‫ُ‬ ‫َاَ‬ ‫بیتٍ ك‬ ‫َِلى َ‬ ‫ِ إ‬ ‫ِه‬‫ُ ب‬ ‫لق‬‫ََ‬‫ُنط‬‫َی‬‫ها ف‬ ‫ََ‬‫َیر‬ ‫ء غ‬ ‫َن شَىٍ‬ ‫ُ ع‬ ‫َ‬
‫يسأل‬ ‫َا ُ‬ ‫َم‬‫ه ف‬ ‫َسُ ُ‬
‫ولُ‬ ‫َر‬
‫و‬
‫َّللَ‬
‫ِن اه‬ ‫ه‬ ‫َلك‬‫َ‬‫ِ و‬ ‫ه‬
‫ِى النار‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫بیتك كان لك ف‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫هذا َ‬ ‫َ‬ ‫ه َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ُقال لُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِ فی‬ ‫ه‬
‫ِى النار‬ ‫ف‬
‫هى‬ ‫ِى حَت‬ ‫ُون‬ ‫دع‬‫ُ َ‬ ‫ُ‬
‫َقول‬ ‫َ‬
‫ِ فی‬ ‫هة‬‫َن‬‫ِى الج‬ ‫ًا ف‬ ‫بیت‬ ‫ِ َ‬ ‫ِه‬‫دلكَ ب‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َكَ فأبَ‬ ‫َحِم‬ ‫َر‬‫َكَ و‬ ‫َم‬‫َص‬
‫ع‬
‫ِى‬ ‫َ ف‬ ‫ِع‬‫ُض‬‫ِذا و‬ ‫َ‬ ‫َ إ‬ ‫َاف‬
‫ِر‬ ‫ن الك‬ ‫ِه‬ ‫ُن‪ .‬و‬
‫َإ‬ ‫ه اسك‬ ‫ُ َلُ‬‫َال‬ ‫ُق‬‫َی‬‫ِى ف‬ ‫َ‬
‫َ أهل‬ ‫ِر‬ ‫بش‬ ‫ُ‬
‫َأَ‬ ‫َ ف‬ ‫أذَ‬
‫هب‬ ‫َ‬
‫ُ َلَ‬ ‫ُول‬ ‫َق‬‫َی‬‫د ف‬ ‫ُُ‬‫تعب‬ ‫َ َ‬‫ُنت‬ ‫ما ك‬ ‫َ‬ ‫ُ َلُ‬
‫ه‬ ‫ُول‬ ‫َق‬ ‫َی‬‫ہ ف‬ ‫ُُ‬‫ِر‬‫َه‬‫َنت‬‫َی‬‫لكٌ ف‬‫مَ‬ ‫ہ َ‬ ‫تاُ‬ ‫َ‬
‫ِ أَ‬ ‫َبر‬
‫ِہ‬ ‫ق‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َا كنت تقول‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ُ فم‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ُقال له‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ََل تلیت فی‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َيت و‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ه َل در‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ُقال لُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِى‪ .‬فی‬ ‫أدر‬‫َ‬
‫ُ‬
‫به‬ ‫ُِ‬‫َضر‬ ‫َ‬
‫هاسُ فی‬ ‫ل الن‬ ‫يقوُ‬‫ُ‬ ‫ما َ‬ ‫ُ َ‬ ‫ُ‬
‫ُ أقول‬ ‫َ‬ ‫ُنت‬‫ُ ك‬ ‫َقول‬‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِ فی‬ ‫ُل‬‫هج‬‫هذا الر‬ ‫َ‬ ‫ِى َ‬ ‫ف‬
‫َیر‬
‫َ‬ ‫ُ غ‬ ‫ها الخَلق‬ ‫َُ‬‫َع‬‫يسم‬ ‫ً‬
‫َة َ‬ ‫َیح‬ ‫ُ ص‬ ‫ِیح‬‫َص‬ ‫َی‬
‫ِ ف‬ ‫نیه‬ ‫ُ‬‫ُ‬
‫َ أذَ‬ ‫بین‬ ‫ٍ َ‬‫ِيد‬ ‫َد‬‫ِن ح‬ ‫ٍ م‬ ‫َاق‬ ‫ِطر‬‫ِم‬
‫ب‬
‫ذابِ‬ ‫ََ‬‫َع‬
‫ِ و‬ ‫َبر‬‫ِى الق‬ ‫ِ ف‬ ‫َ‬
‫َسأَلة‬‫ِى الم‬ ‫ِ‪( .‬سنن ابى داود ج ‪ 2‬ص ‪305‬باب ف‬ ‫لین‬ ‫ََ‬‫هق‬
‫الث‬
‫َبر‬
‫ِ)‬ ‫الق‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی ہللا علیہ وسلم قبیلہ‬
‫بنی نجار کے باغ میں تشریف لے گئے آپ نے وہاں پر ایک آواز سنی تو آپ گھبراگئے اور دریافت‬
‫فرمایا یہ کن لوگوں کی قبریں ہیں؟ لوگوں نے بتایا یارسول ہللا کچھ لوگوں کی قبریں ہیں جو دور‬
‫تعالی سےآگ کے عذاب اور فتنہ دجال سے‬ ‫ٰ‬ ‫جاہلیت میں انتقال کرگئے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا ہللا‬
‫پناہ مانگو لوگوں نے عرض کیا یارسول ہللا کس وجہ سے؟ آپ نے ارشاد فرمایا مومن جب قبر میں‬
‫رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے تو (دنیا میں) کس کی عبادت کرتا تھا؟‬
‫تعالی جس کی راہنمائی فرماتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں ہللا تعالی کی عبادت کرتا تھا‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫پھر اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو (یعنی آنحضرت صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کے بارے میں) وہ شخص جواب دیتا ہے کہ وہ ہللا کے بندے اور اس کے رسول ہیں‬
‫اس کے بعد اس کو ایک گھر کی طرف لے جاتے ہیں جو اس کے لیے دوزخ میں تھا اور اس سے‬
‫کہتے ہیں تمہارا دوزخ می ں یہ گھر تھا لیکن ہللا تعالی نے تمہاری حفاظت فرمائی اور تم پر رحم‬
‫فرمایا اور اس کے عوض جنت میں گھر عطافرمادیا‪ ،‬وہ شخص یہ سن کر کہتا ہے کہ مجھے دنیا‬
‫‪22‬‬
‫میں واپس جانے دو میں اپنے اہل خانہ کو اس کی خوشخبری سناؤں لیکن اس شخص کو دنیا میں‬
‫واپس آنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور جب کافر کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتہ‬
‫آتا ہے اور ڈانٹ کر اس سے پوچھتا ہے کہ تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے مجھے معلوم نہیں‬
‫پھر اس سے کہتے ہیں کہ تو نے نہ تو خود علم حاصل کیا اور نہ کسی کی اتباع کی پھر اس سے کہا‬
‫جاتا ہے کہ تو اس شخص (نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ تو وہ کہتا ہے‬
‫کہ میں وہی بات کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے پھر وہ فرشتہ اس شخص کو اس کے دونوں کانوں کے‬
‫درمیان لوہے کے گرز سے مارتا ہے وہ شخص ایسی چیخ مارتا ہے کہ ہللا کی تمام مخلوق اس کو‬
‫سنتی ہے سوائے جنوں اور انسانوں کے۔‬
‫حدیث نمبر‪:3‬‬
‫َ‬
‫لم‬‫َسَه‬
‫ِ و‬‫لیه‬ ‫ََ‬
‫َّللُ ع‬
‫لى اه‬ ‫َه‬ ‫هب‬
‫ِيُّ ص‬ ‫ه الن‬ ‫َا َ‬
‫مر‬ ‫َنُ‬
‫هم‬ ‫َّللُ ع‬
‫ِيَ اه‬‫َض‬ ‫َب‬
‫هاسٍ ر‬ ‫َن ابنِ ع‬ ‫ع‬
‫َاَ‬
‫ل‬ ‫ه ق‬‫ثم‬‫ٍ ُ‬‫ِیر‬‫َب‬‫ِن ك‬ ‫بانِ م‬ ‫َه‬
‫ذَ‬ ‫ما ُ‬
‫يع‬ ‫ََ‬
‫بانِ و‬ ‫َه‬
‫ذَ‬ ‫َا َلی‬
‫ُع‬ ‫نُ‬
‫هم‬ ‫ِه‬
‫َ إ‬‫َال‬‫َق‬‫َينِ ف‬‫َبر‬
‫لى ق‬ ‫ََ‬
‫ع‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫هما فكان َل‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َدُ‬ ‫َ‬
‫ما أح‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِ وأه‬ ‫َ‬
‫ِیمة‬ ‫ه‬
‫ِالنم‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫هما فكان يسعى ب‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َدُ‬ ‫َ‬
‫ما أح‬ ‫َ‬
‫بلى أه‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ه‬
‫ثم‬‫َینِ ُ‬ ‫َت‬‫ِاثن‬‫ہ ب‬ ‫َُ‬‫َسَر‬‫َك‬
‫ًا ف‬ ‫َطب‬
‫دا ر‬‫ُوً‬‫َ ع‬‫َذ‬ ‫َ‬
‫ه أخ‬ ‫ثم‬‫َ ُ‬
‫َال‬‫ِ ق‬‫له‬‫بوِ‬ ‫ِن َ‬‫ُ م‬‫ِر‬‫َت‬
‫يست‬ ‫َ‬
‫َ‬
‫ما لم‬ ‫َا َ‬ ‫َنُ‬
‫هم‬ ‫ُ ع‬ ‫هف‬‫يخَف‬ ‫ه‬
‫َلُ‬
‫ه ُ‬ ‫َ‬
‫َ لع‬ ‫َ‬
‫ه قال‬ ‫ُ‬
‫ٍ ثم‬ ‫َ‬
‫َلى قبر‬ ‫َ‬‫َا ع‬‫هم‬‫ِنُ‬
‫ٍ م‬ ‫ه و‬
‫َاحِد‬ ‫َ ك‬
‫ُل‬ ‫َز‬ ‫َ‬
‫غر‬
‫َسَا‬
‫يیب‬ ‫َ‬
‫ب ْالقَب ِْر ِم ْن ْال ِغیبَ ِة َو ْالبَ ْو ِلرقم‪، 1378‬مسنداحمدج‪3‬ص‪441‬رقم‪،1980‬‬
‫صحیح بخاري ص‪221‬بَاب َعذَا ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا دو‬
‫الصلوۃ والسالم نے فرمایا ان دو قبر والوں کو عذاب دیا جارہاہے اور‬
‫ٰ‬ ‫قبروں سے گذر ہوا تو آپ علیہ‬
‫عذاب بھی کسی بڑے جرم کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے پھر آپ نے فرمایا ان میں سے ایک چغل‬
‫خوری کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا پھر آپ علیہ السالم نے ایک تر‬
‫ٹہنی منگوائی اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ہر ایک قبر پر گاڑدی پھر فرمایا‬
‫کہ امید ہے ان کے خشک ہونے تک ان سے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی۔‬
‫اجماع اہل السنت والجماعت‪:‬‬
‫‪ :1‬بیان استنباط اَلحكام اَلول فیه أن عذاب القبر حق يجب‬
‫اإليمان به والتسلیم له وعلى ذلك أهل السنة والجماعة‪-----‬‬
‫‪-----‬ثم المعذب عند أهل السنة الجسد بعینه أو بعضه بعد‬
‫إعادة الروح إلى جسدہ أو إلى جزئه وخالف في ذلك محمد بن‬
‫جرير وطائفة فقالوا َل يشترط إعادة الروح وهذا أيضا فاسد‬
‫عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج‪2‬ص‪597،598‬‬
‫‪ :2‬ثم المعذب عند أهل السنة الجسد بعینه أو بعضه بعد‬
‫اعادة الروح إلیه أو إلى جزء منه وخالف فیه محمد بن جرير‬
‫وعبد ہللا بن كرام وطائفة فقالوا َليشترط إعادة الروح قال‬
‫أصحابنا هذا فاسد ألن األلم واَلحساس إنما يكون فى الحى‬
‫شرح مسلم ج‪2‬ص‪386‬‬
‫ِ‬‫َاق‬‫ِف‬ ‫ًا ب‬
‫ِات‬ ‫ِیع‬‫َم‬‫دنِ ج‬‫ََ‬
‫َالب‬‫هفسِ و‬ ‫لى الن‬ ‫ََ‬
‫ُ ع‬ ‫ِیم‬‫هع‬
‫َالن‬‫ُ و‬ ‫ذاب‬‫ََ‬‫بل الع‬ ‫‪َ :3‬‬
‫دنِ‬‫ََ‬
‫َن الب‬ ‫ة ع‬‫دً‬
‫َِ‬‫َر‬‫منف‬‫ُ ُ‬ ‫َه‬
‫ذب‬ ‫َُ‬
‫تع‬ ‫هفسُ و‬‫ُ الن‬ ‫َم‬‫تنع‬‫ِ َ‬‫َة‬‫َاع‬
‫َم‬‫َالج‬‫ِ و‬ ‫هة‬
‫ِ السُّن‬‫َهل‬‫أ‬
‫ُ‬
‫ِیم‬ ‫ه‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِها فیكون النع‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫ِل ب‬‫ٌ‬ ‫ه‬
‫متص‬ ‫ُ‬ ‫َ‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ِالبدنِ والبدن ُ‬ ‫َ‬‫َ‬ ‫ً‬
‫ِلة ب‬ ‫َ‬ ‫ه‬
‫متص‬ ‫ُ ُ‬ ‫ه‬‫َ‬
‫وتعذب‬‫ُ‬‫َ‬
‫ِ‬‫ُّوح‬
‫ِلر‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫يكون ل‬ ‫َا َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِین كم‬‫َع‬ ‫َ‬
‫مجتم‬ ‫ِ ُ‬‫َال‬‫ِ الح‬ ‫ِہ‬
‫هذ‬‫ِي َ‬ ‫َا ف‬‫ِم‬‫َلیه‬‫َ‬‫ُ ع‬ ‫ََ‬
‫ذاب‬ ‫َالع‬‫و‬
‫ََ‬
‫دنِ‪.‬‬ ‫َن الب‬ ‫ة ع‬‫دً‬
‫َِ‬‫َر‬
‫منف‬‫ُ‬
‫(فتاوي ابن تیمیہ‪ :‬ج‪2‬ص‪)140‬‬

You might also like