Professional Documents
Culture Documents
ٰن الرحیم
بسم ہللا الرحم
صلوۃ و سالم
ٰ سماع
از افادات :متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفظہ ہللا
عقیدہ اہل السنت و الجماعت:
اہل السنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم اوردیگر انبیاء
ق روح زندہ ہیں ،ان کے اجسا ِد مقدسہ کرام علیہم السالم وفات ظاہری کے بعد اپنی قبروں میں بتعل ِ
بعینہ محفوظ ہیں،صرف یہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلّف نہیں ہیں لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں
اور روضہ اقدس پر جو درود پڑھاجائے اسے بالواسطہ سنتے ہیں اور اگر دور سے پڑھا جائے تو
فرشتے ان کی خدمت میں پہنچا دیتے ہیں۔
اہل بدعت کا نظریہ:
منکرین سماع النبی صلی ہللا علیہ و سلم کا موقف یہ ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم
اپنی قبر مبارک میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں [معاذہللا] ،صلوۃ وسالم کا سماع نہیں فرماتے،یہ عقیدہ
شرکیہ عقیدہ ہے،اس کے دالئل من گھڑت ہیں ،یہ عقیدہ شیعہ کا ہے ،اس عقیدہ کے قائلین شرک کے
کھیت کے دہقان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ قارئین کی خدمت میں ان کی بعض عبارات مالحظہ ہوں۔
:1فرقہ مماتیت اپن ے بعض عقائد منظر عام پر الئے اور جماعتی لیٹر پیڈ پر یہ عقائد لکھ کر شائع
کیے۔ سید ضیاء ہللا بخاری صاحب نے ان عقائد کی تصدیق بھی کی۔ ان عقائد میں یہ درج ہے کہ:
عقیدہ() 2آپ صلی ہللا علیہ وسلم عندالقبر صلوۃ وسالم کا سماع نہیں فرماتے جو سماع کا قائل ہے وہ
بےایم ان کافر اور مشرک ہے(عند القبر صلوۃ وسالم کے سماع کی جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب کی
سب جعلی اور موضوع ہیں)
تمام عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں۔ [دستخط] ضیاء ہللا
(نوٹ:اس کی ایک کاپی ہمارے پاس محفوظ ہے:از ناقل)
:2محمد عطاء ہللا بندیالوی صاحب (مماتی) عقیدہ حیاۃ وسماع النبی صلی ہللا علیہ و سلم کے قائلین
کے بارے میں لکھتے ہیں:
موتی اور بزرگوں کے وسیلے جیسے موضوعات پر ٰ ٭ ”حیات النبی صلی ہللا علیہ و سلم ،سماع
دالئل دے کر الٹا شرک کے کھیت کے دہقان بنے ہوئے ہیں۔“ (شرک کیا ہے :ص)4
عیسی علیہ السالم میری قبر پر
ٰ ٭ امام االنبیاء علیہم السالم کے ذمہ یہ جھوٹ لگایا گیا ہے کہ حضرت
سالم کہیں گے تو میں اس کا جواب دوں گا۔
(کیا مردے سنتے ہیں :ص)37
٭ امام االنبیاء علیہم السالم قبر منور پر آنے والوں کے سالم کو نہیں سنتے۔(کیا مردے سنتے ہیں:
ص)39
:3مولوی ہللا بخش صاحب (مماتی)لکھتے ہیں:
صہ من گھڑت
آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کا درود وسالم عند القبر سننا وجواب دینا یہ ق ّ
ہے۔
(دعوۃ الرشاد :ص 8مؤلف مولوی ہللا بخش ،مؤید عنایت ہللا شاہ گجراتی)
فتاوی اصحاب الحدیث میں ہے:
ٰ :4
رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم ہمارے درود و سالم کو سنتے نہیں ہیں۔ (ج 2ص)62
ایک دوسرے مقام پر ہے:بہرحال رسول ہللا صلی ہللا ہمارے درود و سالم کو براہ راست ہم سے نہیں
سنتے ہیں۔ (ج 2ص)63
دالئل اہل السنۃ والجماعۃ از قرآن مجید
پہلی آیت:
ََلك
ِن ء و َاٌ َحیبل أ ٌ ََات َمو ِ اه
َّللِ أ ِي سَب
ِیل ُ ف َل
يقت َن ُ لمُوُلوا ِ تق ََ
َل َ و
ن( .البقرۃ )154: ُوَ ُرتشع َ
َل َ
تعالی کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ،لیکن
ٰ ترجمہ :اور جو لوگ ہللا
تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا۔
2
تفسیر:
مفتی بغدادعالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ ہللا علیہ (1270ھ) ایک مقام پر حیات [:]۱
الشہداء کا ذکر کرتے ہوئے حیاۃ االنبیاء کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
وهي فوق حیاة الشهداء بكثیر وحیاة نبینا صلى ہللا علیه
وسلم أكمل وأتم من حیاة سائرهم علیهم السالم ••• إن تلك
الحیاة في القبر وإن كانت يترتب علیها بعض ما يترتب على
الحیاة في الدنیا المعروفة لنا من الصالة واألذان واإلقامة
ورد السالم المسموع ونحو ذلك إَل أنها َل يترتب علیها كل ما
يمكن أن يترتب على تلك الحیاة المعروفة•
تعالی :ما کان محمد ابا احد من رجالکم)
ٰ (روح المعانی :ج22ص 38تحت قولہ
اعلی ہے اورٰ ترجمہ :یہ حیات (جو انبیاء علیہم السالم کو حاصل ہے) شہداء کی حیات سے بہت
آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی حیات تو تمام انبیاء علیہم السالم سے اکمل واتم ہے ...اس قبر کی
زندگی پر اگر چہ بعض وہ امور مترتب ہوتے ہیں جو ہماری دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے
ہیں مثالً نماز ،اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سالم کا جواب لوٹانا اور اسی طرح کےدیگر امور ،مگر
اس پر وہ سب امور مترتب نہیں ہوتے جو دنیا کی معروف زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔
شیخ عبدہللا بن محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں: [:]۲
والذی نعتقد ان رتبۃ نبیناصلی ہللا علیہ وسلم اعلی
مراتب المخلوقین علی اَلطالق وانہ صلی ہللا علیہ وسلم حی فی
ٰوة الشهدا ء المنصوص علیها ٰوة مستقرة ابلغ من حی قبرہ حی
فی التنزيل اذ هو افضل منهم بال ريب وانہ صلی ہللا علیہ وسلم
يسمع من يسلم علیہ• (اتحاف النبال ء :ص)415 :
ترجمہ :ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ و سلم کا مرتبہ تمام مخلوقات سے علی االطالق
اعلی ہے ،آپ صلی ہللا علیہ و سلم اپنی قبر شریف میں دائمی طور پر زندہ ہیں اور آپ صلی ہللا علیہ
ٰ
و سلم کی یہ حیات شہداء کی حیات سے جو قرآن میں منصوص ہے،بہت باالتر ہے کیونکہ آپ صلی
ہللا علیہ و سلم اُن سے بال ریب افضل ہیں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم اپنے روضہ اطہر میں سالم
عرض کرنے والوں کا سالم خود سنتے ہیں۔
دوسری آیت :
ِيِ هب
َوتِ النَ ص َوقُم ف َاَ
تك َصوُوا أ َعترف ُوا َ
َل َ َ آَ
من ِين ها ه
الذ يَ َُّ
يا أ َ
ُم َ ُ
الك َ
َ أعم َطتحب َ
ض أن َ َعٍ ُم ِ
لب ِكبعض ِ َ َهرَجِ ك َ
ِالقول ه ب ُوا َلُ هرتجََل َََو
ِ اه
َّللِ َسُول
د ر ِنَُم عتهَاَ َ
ن أصو ُّوَ
ُضيغ َ َ ِين ن ه
الذ ِهن إ ُوَُر تشع َل َ ُم َ َ
َأنت و
َأجر
ٌ َ ٌ
َة و ِر
مغفهم َ َ
َى لُ ه
ِلتقو هم ل بُ ُُ
َّللُ قلوََن اهَ َ
ِين امتح َ ه
ِك الذ َ َ
أولئُ
ٌ (سورۃ الحجرات)۳ ،۲: ِیمَظع
ترجمہ :اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ،اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح
زور سے بوال کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو ،ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو
جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ بے شک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ
تقوی کےلیے منتخب کر لیا ہے ،ان کو مغفرت بھی ٰ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو ہللا نے خوب جانچ کر
حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔
تفسیر:
موالنا محمد مالک کاندھلوی (م1409ھ)فرماتے ہیں : [:]۱
تعالی عنہ نے مسجد میں دو شخصوں ٰ احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر فاروق رضی ہللا
کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے ہو؟ معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف
ہیں۔ تو فرمایا :اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (افسوس کی بات ہے ) تم
علماء امت نے
ِ اپنی آوازیں بلند کر رہے ہو مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں۔ اس حدیث سے
یہ حکم اخذ فرمایا ہے کہ جیسے آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کا احترام آپ کی حیات مبارکہ میں
تھا ،اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی الزم ہے۔ کیونکہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنی قبر
3
ی (زندہ) ہیں۔ (معارف القرآن تکملہ ج 7:ص)487
مبارک میں ح ّ
عالمہ ر حمت ہللا بن عبد ہللا السندھی الحنفی رحمہ ہللا (م978ھ او993ھ) فرماتے ہیں [:]۲
:
ثم توجہ مع رعايۃ غايۃ اَلدب فقام تجاہ الوجہ الشريف
ً مع الذلۃ و اَلنکسار و الخشیۃ و الوقار ً خاشعامتواضعا
والهیبۃ و اَلفتقار غاض الطرف مکفوف الجوارح فارغ القلب
ً
ً يمینہ علی شمالہ مستقبالً للوجہ الکريم مستدبرا واضعا
ً
للقبلۃ……… محترزا عن اشغال النظر بما ہناک من الزنیۃ،
ًبانہ علیہ الصلوة متمثالً صورتہ الکريمۃ فی خیالک ،مستشعرا
ً بحضورک و قیامک و سالمک مستحضرا عظمتہ و السالم عالما
ً
وجاللتہ و شرفہ و قدرہ صلی ہللا علیہ و سلم ثم قال مسلما
ُّوَ
ن ُض َ َ
يغ ِين ن ه
الذ ِه
ٰ ﴿ :إً من غیر رفع صوت لقولہ تعالی مقتصدا
ِ اه
َّللِ ﴾ وَل اخفاء بحضور و حیاء• َسُول
د رِنَ تُ
هم ع َصو
َاَ أ
(لباب المناسک للسندی :ص 508باب زیارۃ سید المرسلین)
ترجمہ:پھر انتہائی ادب کے ساتھ چہرہ اقدس کی طرف متوجہ ہو ،تواضع ،رسوائی ،انکساری ،خوف
اور سکون کے ساتھ اور ہیبت ،محتاجی ،نگاہوں کو پست کئے ہوئے جوارحات کو حرکات سے بند
رکھتے ہوئے ،دل کو ہر بات سے ا ُ س مقصود کے لئے فارغ کئے ہوئے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ
پر رکھے ہوئے ،چہرہ مکرم کی طرف منہ کئے ہوئے ،اور قبلہ مبارکہ کی طرف پشت کئے ہوئے
اور وہاں کی آرائش وتزئین سے نگاہوں کو بچاتے ہوئے ،اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی صورت
مبارکہ کا تصور لیے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم تیری موجودگی ،تیرے
قیام اور تیرے سالم سے باخبر ہیں،اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی عظمت وجاللت بلندی قدر کو
ملحوظ رکھتے ہوئے پھر سالم پیش کرے ،میانہ روی سے اور آواز کو پست رکھتے ہوئے ،کیونکہ
تعالی کا فرمان ہے کہ اپنی آواز کو آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی آواز سے پست رکھو،اور بے ٰ ہللا
ش ک جو لوگ بارگاہ نبوت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں(یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو
تقوی کےلیے منتخب کر لیا ہے ،ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبر دست ٰ ہللا نے خوب جانچ کر
اجر بھی) ،اور نہ زیادہ اخفاء کے ساتھ اور حضور قلب اور حیاء کے ساتھ سالم عرض کرے۔
قطب االقطاب موالنا رشید احمد گنگوہی رحمۃ ہللا علیہ(م1322ھ) فرماتے ہیں: [:]۳
” اور بہت پکار کر نہ بولے ،بلکہ آہستہ خضوع اور ادب سے بہ نرمی عرض کرے اور جس
کا سالم کہنا ہو عرض کرے” :السالم علیک يا رسول ہللا من فالن بن فالن
يستشفع بک الی ربک“ (اے ہللا کے رسول ! آپ کو فالں بن فالں کی طرف سے سالم قبول
ہو ،وہ شخص آپ سے درخواست کر رہاتھا کہ آپ اس کےلیے رب سے سفارش کریں ) (تالیفات
رشیدیہ :ص 650زبدۃ المناسک)
[ :]۴شارح ابو داؤد حضرت موالنا خلیل احمد سہانپوری (م1346ھ) فرماتے ہیں:
”آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم حیات ہیں اور ایسی آواز سے سالم کرنا بے ادبی اور آپ کی
ایذاء کا سبب ہے۔ لہذا پست آواز سے سالم عرض کرنا چاہیے۔ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی پست
آواز سے سالم عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔“
(تذکرۃ الخلیل :ص)370
شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی رحمۃا ہلل علیہ”(م1369ھ) فرماتے ہیں: [:]۵
”اور جو قبر شریف کے پاس حاضر ہو ،وہاں بھی اِن آداب کو ملحوظ رکھے۔“ (تفسیر عثمانی:
ج2ص)640
احادیث مبارکہ سے ثبوت
اس عنوان کے تحت ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن سے سماع النبی صلی ہللا
علیہ و سلم ثابت ہوتا ہے۔
حدیث نمبر:1
ِن
ما م َال
َ َ َ اه
َّللِ صلى ہللا علیه وسلم ق َسُول َه
ن ر ََ
ة أ َير
هر َب
ِى ُ َن أ
ع
4
ِ السهالَم
َ ََ
لیه ُه
د ع َ
هى أر
َتُوحِى ح ََ
لىه ر َّللُ ع
د اه َِله ر
َه ََ
لىه إ ُ ع
ِميسَل
د ُ
ٍََح
أ
(سنن ابی داؤد :ج1ص 286کتاب المناسک باب زیارۃ القبور ،مسند احمد :ج9ص 575رقم الحدیث ، 1075مسند
الکبری للبیہقی :ج5ص 245باب زیارۃ قبر النبی صلی ہللا علیہ و
ٰ اسحاق بن راھویہ:ص 204رقم الحدیث ، 520السنن
سلم ،شعب االیمان للبیہقی :ج2ص 217باب فی تعظیم النبی صلی ہللا علیہ وسلم رقم الحدیث)1581
ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا:
تعالی میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے (یعنی ٰ جب بھی کوئی آدمی مجھ پر سالم بھیجتا ہے تو ہللا
متوجہ کر دیتا ہے)یہاں تک کہ میں اس کے سالم کا جواب دیتا ہوں۔
تصحیح و استدالل بالحدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح
فرمائی ہے۔
( )1عالمہ ابن تیمیہ حنبلی رحمۃ ہللا علیہ(م728ھ) فرماتےہیں:
الفتاوی :ج27ص 55کتاب الزیارۃ)
ٰ د ( .مجموع ٌ ج
َیٌِ ِيث َ ح
َد هوَُو
ترجمہ :یہ حدیث جید (کھری) ہے۔
( )2امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃ ہللا علیہ(م756ھ) فرماتے ہیں:
وهذا ا سناد صحیح( .شفاء السقام :ص 161الباب الثانی فیما ورد من االخبار الخ)
ترجمہ :اور اس کی اسناد صحیح ہے۔
( )3حافظ ابن کثیر شافعی رحمۃ ہللا علیہ(م774ھ) فرماتے ہیں:
وصححہ النووی فی اَلذکار( .تفسیر ابن کثیر :ج3ص 674تحت اآلیۃ :ان ہللا و ملئکتہ
یصلون )
ترجمہ :امام نووی نے اس روایت کو اپنی کتاب ”اَلذکار“ میں صحیح قرار دیا ہے۔
( )4حافظ ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا علیہ(م852ھ) اس روایت کو نقل کر کےفرماتے ہیں:
ورواتہ ثقات( .فتح الباری ج6:ص 596 :کتاب احادیث االنبیاء ،باب قول ہللا واذکر فی الکتاب
مریم)
ترجمہ :اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔
( )5عالمہ سمہودی رحمۃ ہللا علیہ (م911ھ)فرماتے ہیں:
ٰ ابو داود بسند صحیح…… عن أبي هريرة رضي ہللا عنه وروی
مرفوعا( .وفاء الوفاء ج4ص 1349الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)
ترجمہ :امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے مرفوعاًروایت کی
ہے ۔
( )6عالمہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ ہللا علیہ (م1122ھ)فرماتے ہیں:
باسناد صحیح ( .شرح المواہب للزرقانی :ج8ص)308
ترجمہ :یہ روایت سند صحیح کے ساتھ مروی ہے۔
( )7خاتم المحدثین موالنا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ ہللا علیہ (م1352ھ) حافظ ابن حجر رحمۃ ہللا
علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
رواتہ ثقات( .عقیدۃاالسالم :ص)120
ترجمہ :اس کے راوی ثقہ ہیں۔
( )8شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی رحمۃہللا علیہ(م1369ھ) نے اس حدیث کو صحیح فرمایا
ہے۔ (فتح الملہم:ج 1ص330باب االسراء برسول ہللا و فرض الصالۃ الخ)
تصحیح حدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔
( )1حافظ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ(م 852ھ) فرماتے ہیں:
واخرج ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسند جید( .فتح الباری ج6:ص:
595کتاب احادیث االنبیاء ،باب قول ہللا واذکر فی الکتاب مریم)
ترجمہ :محدث ابوالشیخ اصبہانی رحمۃا ہلل علیہ نے عمدہ سند کے ساتھ اس روایت کی تخریج کی
ہے۔
( )2امام سخاوی رحمۃا ہلل علیہ (م 902ھ)نے اس کی سند کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (القول البدیع
للسخاوی :ص 160الباب الرابع)
( )3حضرت مالعلی قاری رحمۃ ہللا علیہ(م 1014ھ) فرماتے ہیں:
ورواہ ابوالشیخ وابن حبان فی کتاب ثواب اَلعمال بسند
الصلوۃ علی البنی صلی ہللا علیہ و سلم و فضلہا)
ٰ جید( .المرقاۃ :ج4ص 22باب
ترجمہ :ابوالشیخ اصبہانی اور ابن حبان نے اس حدیث کو سند جید سے نقل فرمایا ہے۔
( )4شیخ االسالم عالمہ شبیر احمد عثمانی (م 1369ھ)نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے:
سندہ جید ( .فتح الملہم:ج 1ص330باب االسراء برسول ہللا و فرض الصالۃ الخ)
ترجمہ :اس حدیث کی سند کھری ہے ۔
( )5امام اہل السنت موالنا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ ہللا علیہ(م 1430ھ) فرماتے ہیں:
ان اکابر محدثین کے(جن میں حافظ ابن حجررحمۃا ہلل علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ،جن
کی تقریب اور تہذیب پر آج رواۃ کی توثیق وتضعیف کا مدار ہے)بیان سے واضح ہو گیا کہ یہ روایت
7
جید اور صحیح ہے۔ (تسکین الصدور :ص)328
( )6موالنا غالم ہللا خان فرماتے ہیں:
”اس حدیث کی جو سند سدّی صغیر پر مشتمل ہے اس کو بوجہ راوی مذکور کے کمزور کہا
جائے گا اور جس سند میں یہ راوی نہیں ہے وہ کمزور نہیں ہے اور حدیث ہذا کی دوسری سند بھی
ہے جس کے صحیح ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔ چنانچہ مال علی قاری الحنفی رحمۃ ہللا علیہ شرح
مشکوۃ میں فرماتے ہیں :قال میرک نقالً عن الشیخ ورواہ ابوالشیخ ٰ
وابن حبان فی کتاب ثواب اَلعمال بسند جید“ .
(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی ص 48اکتوبر 1967ء)
( )7نواب صدیق حسن خان غیر مقلد اس روایت کو اپنی کتاب ”دلیل الطالب“ میں الئے ہیں اور اس
کی تحسین فرمائی ہے۔ (ص)844
حدیث نمبر:3
عن عطاء مولى أم حبیبة قال :سمعت أبا هريرة يقول :
قال رسول ہللا صلى ہللا علیه و سلم :لیهبطن عیسى ابن مريم
حكما عدَل و إماما مقسطا و لیسلكن فجا حاجا أو معتمرا أو
بنیتهما و لیأتین قبري حتى يسلم عليه و ألردن علیه يقول
أبوهريرة :أي بني أخي إن رأيتموہ فقولوا أبو هريرة يقرئك
السالم
(المستدرک للحاکم:ج3ص 490 ،489ذکر نبی ہللا و روحہ عیسی بن مریم ،مسند ابی یعلی :ص 1149رقم
الکبری :ج2ص 490باب حیاتہ ٰ الحدیث ،6577مجمع الزوائد :ج8ص 387باب ذکر االنبیاء علیہم السالم ،الخصائص
صلی ہللا علیہ و سلم فی قبرہ الخ)
ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد
عیسی بن مریم علیہ السالم ضرور عادل ،فیصلہ کرنے والے ،منصف حکمران بن کر ٰ فرمایا :حضرت
اتریں گے اور وہ اس گلی میں سے حج کرتے یا عمرہ کرتے یا ان دونوں کی نیت سے گزریں گے
ا ور وہ میری قبر پر آئیں گے اور مجھے سالم کریں گے ،میں ان کے سالم کا جوا ب دوں گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں :اے میرے بھتیجو! اگر تمہاری ان سے مالقات ہو تو ان
سے کہیے گا :ابوھریرہ آپ کو سالم کہہ رہے تھے۔
فائدہ:
اس صحیح روایت سے آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کا قبر اقدس میں زندہ ہونا،
صلوۃوسالم کا سماع فرمانا اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کا جواب دینا بھی ثابت ہے ،اس کا انکار کرنا
حدیث کا ا نکار کرنے کے مترادف ہے۔
تصحیح حدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہےاور اس کی تصحیح فرمائی ہے۔
( )1امام ابو عبد ہللا الحاکم رحمۃ ہللا علیہ (م 405ھ)اسے نقل کر کے فرماتے ہیں:
هذا حديث صحیح اإلسناد( .المستدرک للحاکم:ج3ص 490 ،489ذکر نبی ہللا و روحہ
عیسی بن مریم)
ترجمہ :اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
(المستدرک ( )2عالمہ شمس الدین ذہبی رحمۃ ہللا علیہ(م 748ھ) بھی اسے صحیح کہتے ہیں۔
للحاکم:ج3ص 490 ،489ذکر نبی ہللا و روحہ عیسی بن مریم)
( )3عالمہ ہیثمی رحمۃ ہللا علیہ (م 807ھ)فرماتے ہیں:
رواہ أبو يعلى ورجاله رجال الصحیح ( .مجمع الزوائد:
ج8ص 387باب ذکر اَلنبیاء علیہم السالم)
ترجمہ :اس روایت کوامام ابویعلی نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔
( )4عالمہ جالل الدین السیوطی رحمۃ ہللا علیہ (م 911ھ)نے اس کو صحیح فرمایا ہے۔ (الجامع الصغیر
:ج2ص 260رقم الحدیث)7742
سماع النبی صلی ہللا علیہ وسلم کا ثبوت
8
سلف صالحین اور علمائے ا ُ ّمت سے
:1حضرت عمرفاروق رضی ہللا عنہ (م 24ھ)کے بارے میں ایک واقعہ مروی ہے:
ِيَن
َبَص َ
ِ فح َسجِد ِي الم ًا فِمَائ ُ قُنت
َ ك َال د ق ِيَ
يزِبِ بنِ َ َن السهائ ع
َ
هذينِ َِ ِي ب ِن َ
هب فأت َ َ َ ه َ
ُ بن الخطابِ فقال اذَ ُ َر
ُمإذا عَ َ
ُ فِ َ َ َ
ٌ فنظرت ُلَج
ر
َ
ِن أهل اَل م َ
َا ق َ َ
َ أنت
ُم َ
ِن أين َ
َا أو م ُم َ
من أنت َ َ َ
َا قال ِه
ِم ه ب َُُجِئت
ف
ِ
َع َا َ ُمُك َِ َ ََ َ ُمُنتَ َلو ك َال هائ
َانِ ترف َعتألوج لد ِ الب ِن أهل َا م ِفِ ق الط
َ( .صحیح البخاری: ه
َسَلمِ و َ
َلیه َلى اه
َّللُ ع ه ِ اه
َّللِ ص َسُول
ِ ر ِي َ
مسجِد َا ف ُ َ
َاتكم َصوأ
ج1ص 67باب رفع الصوت فی المساجد)
ترجمہ :حضرت سائب بن یزید رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی شخص
نے مجھے کنکری ماری ،میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ تھے ،آپ رضی ہللا عنہ
نے فرمایا :جاؤ اور ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں انہیں آپ رضی ہللا عنہ کے پاس
لے آیا۔ آپ رضی ہللا عنہ نے اُن سے پوچھا :تم کن لوگوں میں سے ہو؟ (یعنی کس قبیلے سے تمہارا
تعلق ہے؟) انہوں نے کہا :ہم اہل طائف میں سے ہیں۔اس پرحضرت عمررضی ہللا عنہ نے فرمایا :اگر
تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزادیتا اس لئے کہ تم مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
میں اپنی آوازیں بلند کررہے ہو۔
آواز بلند کرنے پر مسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی نسبت سے نکیر کرنا اس لئے تھا
کہ وہاں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا روضہ مبارکہ ہے۔ جس طرح آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی اس
دنیوی زندگی میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آواز بلند کرنا جرم تھا اسی طرح آپ صلی ہللا علیہ
وسلم کے روضہ منورہ کے پاس آواز بلند کرنا بھی جائز نہیں ،اس لئے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم
تشریف فرما ہیں اور جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہیں ،حدو ِد مسجد کی آواز کو بال کسی توسط سے
خود سماعت فرماتے ہیں۔ چنانچہ سلف وخلف میں سے کسی نے انکار نہیں فرمایا۔
اگر حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے اعتقاد میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنی
قبر مبارک میں زندہ نہ ہوتے اور قریب کی آوازوں کو خود سماعت نہ فرمارہے ہو تے تو حضرت
فاروق اعظم رضی ہللا عنہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس دبی آواز سے بات کرنے کے
حکم قرآنی کو اس انداز میں کبھی بیان نہ فرماتے۔
حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے بارے میں ایک دوسرا واقعہ منقول ہے ،شیخ عبد
الحق محدث دہلوی رحمۃا ہلل علیہ حنفی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ جب کسی
مہم سے فارغ ہو کر واپس مدینہ منورہ تشریف التے تو سب سے پہال کام جو آپ رضی ہللا عنہ
کرتے وہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے حضور میں سالم عرض کرناہوتا تھا اور اسی کی آپ
دوسروں کو تلقین بھی فرماتے تھے۔ محدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
کار کہ عمر رضی ہللا عنہ ابتداء مے کرد سالم بہ پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم بود( .جذب اول ِ
القلوب :ص)200
ترجمہ :پہال کام جس سے حضرت عمر رضی ہللا عنہ ابتداء فرماتے وہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی
خدمت میں سالم عرض کرنا ہوتا۔
عالمہ السمہودی رحمہ ہللا (م911ھ) اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
ولماقدم عمر المدينۃ کان اول ما بدء بالمسجد و سلم
علی رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم.
(وفاء الوفاء ج4ص 1358الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ)
ترجمہ :جب حضرت عمر رضی ہللا عنہ مدینہ تشریف التے تو پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے
جاتے اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم پر سالم عرض کرتے۔
:2حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا(م 57ھ) فرماتی ہیں:
حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کے متعلق روایت ہے :
انها کانت تسمع صوت الوتد يوتد ،والمسمار يضرب فی
بعض الدور المطیفۃ بمسجد رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم ،فترسل
الیہمَ(( :ل توؤذوا رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم))
9
قالوا و ما عمل علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ مصرعی
دارہ؛ اَل بالمناصع؛ توقیا لذلک( .شفاء السقام للسبکی :ص)432
ترجمہ:آپ جب کبھی اُن گھروں میں جو مسجد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سےمتصل تھے ،کسی میخ
لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتی تھیں کہ (خبردار!) حضور اکرم صلی ہللا
علیہ وسلم کو (ا س آواز سے) اذیت نہ دو اور حضرت علی رضی ہللا عنہ نے اسی سے بچنے کے
لئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جاکر بنوائے تھے( تاکہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم صلی ہللا
علیہ وسلم کو اذیت نہ دے)
:3حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ (م 101ھ)کے بارے میں مروی ہے:
ِل البريد من الشام الی يرسُ بن عبد العزيز ُ کان عمر
َ لہ علی النبی صلی ہللا علیہ و سلم. ِمُسلالمدينۃ لی
(شفاء السقام للسبکی :ص)166
ترجمہ :حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ ہللا علیہ ایک قاصد مدینہ منورہ بھیجا کرتے تھے تاکہ وہ
نبی صلی ہللا علیہ و سلم کو ان کی طرف سے سالم پہنچائے۔
:4امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ ہللا علیہ(م150ھ)
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ نے حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت کی ہے:
سنت یہ ہے کہ تم حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر شریف پر قبلہ کی جہت سے جاؤ،
قبلہ کی طرف پیٹھ کرو اور قبر شریف کی طرف چہرہ کرو ،پھر کہو :السالم علیک ايها
النبی ورحمۃ ہللا وبرکاتہ۔(مسند االمام االعظم :ص 126کتاب الحج)
:5عالمہ ابن تیمیہ الحنبلی (م 728ھ)فرماتے ہیں:
ء } َاِِی َ َ َ
ض أن تأكل أجسَاد األنب َ ُ َ َ َ
لى األرِ ََ
َ ع هم َّللَ حَر
ن اه َ إه َالق
ِكَ َ
ه ذل ُُ ُ
يبلغ ه َ ه
َأنَُ ِيبِ و َ
ِن القر َ م َ
َالسهالم ة و َ
هالَ
ُ الص َع ه َ
يسم ه َ
َ أنُ َرَخبَأ ف
الفتاوی :ج26ص 70کتاب الحج ،فصل ؛واذا دخل المدینۃ)
ٰ ِ( .مجموع ِید َع
ِن الب م
تعالی نے زمین پر حرام کردیا ٰ ترجمہ :ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم کاا رشاد ہے” :بے شک ہللا
ہے کہ وہ انبیاء علیہم السالم کے جسموں کو کھائے۔“ آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے یہ بھی خبر دی
صلو ۃ وسالم خود سنتے ہیں اور دور سے آپ صلی ہللا ٰ ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم قریب سے
علیہ و سلم کو پہنچایا جاتا ہے۔
ب زیارت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: :6محقق علی االطالق حافظ ابن الہمام الحنفی(م 861ھ) آدا ِ
ثم يسأل النبي صلى ہللا علیه وسلم الشفاعة فیقول يا
رسول ہللا أسألك الشفاعة يا رسول ہللا أسألك الشفاعة وأتوسل بك
إلى ہللا في أن أموت مسلما علی ملتك وسنتك۔۔۔۔ ثم ينصرف
متباكیا متحسرا على فراق الحضرة الشريفة النبوية والقرب
منها( .فتح القدیر :ج 3ص 169و ص 184کتاب الحج ،ا لمقصد الثالث فی زیارۃ قبر النبی )
ترجمہ :پھر نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور یہ کہے :یا رسول ہللا! میں
آپ صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں ،یا رسول ہللا! میں آپ صلی ہللا علیہ و سلم
تعالی کے ہاں بطور وسیلہ پیش ٰ سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو ہللا
کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے
رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے
ہوئے واپس ہو۔
:18عالمہ شہاب الدین احمد بن محمد الخفاجی (م 1069ھ)فرماتے ہیں:
َلنہ صلی ہللا علیہ و سلم حی فی قبرہ ،يسمع دعاء زائرہ.
القاصی عیاض :ج3ص)398
ٰ (نسیم الریاض فی شرح شفاء
ترجمہ :اس لیے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اپنے زیارت کرنےوالے
صلوۃ وسالم) سنتے ہیں۔
کی دعا ( یعنی ٰ
:19عالمہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی الحنفی(م 1232ھ) رقمطراز ہیں:
ينبغی لمن قصد زيارة النبی صلی ہللا علیہ و سلم ان
يکثر الصالة علیہ فانہ يسمعہا و تبلغ الیہ
10
(حاشیۃ الطحطاوی :ص 746فصل فی زیارۃ النبی صلی ہللا علیہ و سلم)
ترجمہ :جو شخص نبی صلی ہللا علیہ و سلم کی زیارت کاا رادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ علیہ
السالم پر کثرت سے درود پڑھے کیونکہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم (اس وقت) خود سنتے ہیں اور (اگر
دور سے پڑھا جائے تو فرشتوں کے ذریعے) آپ کی طرف پہنچایا جاتا ہے۔
:25سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمہ ہللا کے حکم سے تقریبا ً پانچ سو علماء کرام کی مستند
فتاوی عالمگیری میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر مبارک پر
ٰ جماعت کے مرتب کردہ
حاضری کے آداب کے بیان میں یہ بات درج ہے:
ويبلغه سالم من أوصاہ فیقول السالم علیك يا رسول ہللا من
فالن بن فالن يستشفع بك إلى ربك فاشفع له ولجمیع المسلمین.
(عالمگیری ج1ص 292کتاب المناسک ،باب النذر بالحج)
ترجمہ :اگر کسی نے اس (زائر) کوآنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کی خدمت میں سالم کہنے کی
درخواست کی ہو تو یہ(زائر) آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو اس کا سالم بھی عرض کرے اور یوں
لی
کہے ”:یارسول ہللا! فالں بن فالں کی طرف سے آپ کی خدمت میں سالم ہوں اور وہ آپ کو ہللا تعا ٰ
کے ہاں سفارشی بناتا ہے ،لہذاآپ اس کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں۔“