You are on page 1of 21

‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪1‬‬

‫بسم ہللا الر حمن الرحیم‬


‫مسئلہ طالق ثالثہ‬
‫از افادات‪ :‬متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفطہ ہللا‬
‫مذہب اہل السنت و الجماعت‪:‬‬
‫ایک مجلس میں دی گئی تین طالقیں یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طالقیں تین شمار ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬بیو ی خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور بغیر حاللہ شرعی کے شوہر اول کے لیے حالل نہیں‬
‫ہوتی۔ (الہدایہ ج ‪2‬ص ‪ 355‬باب طالق السنۃ‪ ،‬فتاوی عالمگیریہ ج‪ 1‬ص ‪349‬کتاب الطالق الباب االول)‬
‫مذہب غیر مقلدین‪:‬‬
‫ایک مجلس میں دی گئی تین طالق یا ایک کلمہ سے دی گئی تین طالق ایک شمار ہوتی ہے۔‬
‫‪ :1‬غیر مقلد عا لم نواب صدیق حسن خان تین طالقوں کے متعلق چا ر اقوال نقل کر تے ہوئے آخری‬
‫قول یوں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫الرا بع انہ یقع واحدۃ رجعیۃ من غیر فرق بین المدخو‬
‫ل بھا وغیرھا…وھذا اصح االقوال‪( .‬الروضۃ الندیہ‪:‬ج‪2‬ص‪)50‬‬
‫تر جمہ ‪:‬چوتھا قول یہ ہے کہ( تین طالق دینے سے )ایک طالق رجعی واقع ہو تی ہے مدخو ل بھا‬
‫اور غیر مد خول بھا کے فر ق کئے بغیر اور یہی قول تمام اقوال سے صحیح ہے ۔‬
‫‪:2‬غیر مقلدین کے ’’ شیخ االسالم ‘‘ ابو الوفاء ثنا ء ہللا امر تسری اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’ ایک مجلس میں دی ہو ئی تین طال ق ایک طالق رجعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘( فتاوی‬
‫ثنائیہ‪:‬ج‪2‬ص‪)215‬‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫شیعوں اور مرزائیوں کا مذہب بھی یہی ہے کہ تین طالق ایک شمار ہوتی ہیں۔ حوالہ جات‬
‫پیش خدمت ہیں‪:‬‬
‫مذہب شیعہ ‪:‬‬
‫‪ :1‬مشہور شیعی عا لم ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطو سی لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫ً ال‬‫والطالق الثالث بلفظ وا حد او فی طہر واحد متفرقا‬
‫یقع عندنااال وا حدۃ‪( .‬المبسوط فی فقہ االمامیہ‪:‬ج‪5‬ص‪)4‬‬
‫تر جمہ‪ :‬تین طال قیں ایک لفظ سے دی گئی ہو ں یا ایک طہر میں علیحدہ علیحدہ دی گئی ہو ں ہما‬
‫رے نزدیک صرف ایک طال ق وا قع ہو تی ہے ۔‬
‫‪:2‬۔محمد بن علی بن ابرا ہیم المعروف ابن ابی جمہور لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫وروی جمیل بن دراج فی صحیحہ عن احدہما علیہما السالم‬
‫ٔلتہ عن الذی یطلق فی حا ل طہر فی مجلس واحد‬ ‫قال‪ :‬سا‬
‫ً؟قال‪ :‬ھی واحد ۃ ‪(.‬عوالی الآللی العزیزیہ‪:‬ج‪3‬ص‪)378‬‬ ‫ثالثا‬
‫تر جمہ‪:‬جمیل بن درا ج نے اپنی کتا ب ”صحیح“ میں امام باقر یا امام صا دق سے روا یت نقل کی‬
‫ہے کہ میں نے ان سے اس شخص کے با رے میں پوچھا جو اپنی بیوی کو حا لت طہر میں ایک‬
‫مجلس میں تین طالقیں دیتا ہے تو انہو ں نے جوا ب دیا کہ ایک طالق واقع ہو گی ۔‬
‫مذ ہب مرزائیت‪:‬‬
‫(‪ )1‬مرزائیوں نے اپنی نام نہاد فقہ’’ فقہ احمدیہ ‘‘کے نا م سے شائع کی ہے جسے نو(‪ )9‬اراکین‬
‫پر مشتمل ایک کمیٹی نے مرتب کیا ہے اس میں دفعہ ‪ 35‬کی تشریح میں لکھا ہے‪:‬‬
‫’’ لہذا فقہ احمدیہ کے نزدیک اگرتین طالقیں ایک دفعہ ہی دے دی جائیں تو ایک رجعی‬
‫طالق متصور ہوگی۔“(فقہ احمد یہ ‪:‬ص‪)80‬‬
‫(‪ )2‬مرزائیوں کے الہور گروپ کے سربراہ محمد علی نے اپنی تفسیر بیا ن القر آ ن میں یو ں‬
‫لکھا ہے‪:‬‬
‫’’طالق ایک ہی ہے خواہ سو دفعہ کہے یا تین دفعہ اور خواہ اسے ہر روز کہتا جا ئے یا ہر‬
‫ما ہ میں ایک دفعہ کہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا ۔‘‘‬
‫(بیان القر آن از محمد علی‪:‬ج‪1‬ص‪)136‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪2‬‬
‫دالئل اہل السنت و الجماعت‬
‫﴿قر آ ن مجید﴾‬
‫دلیل نمبر ‪:1‬‬
‫ٍ﴾ (سورۃ البقرہ‬
‫ْسان‬
‫إح‬ ‫ٌ ب‬
‫ِِ‬ ‫ْ تسْر‬
‫ِیح‬ ‫ُوفٍ أو‬
‫ْر‬ ‫ٌ ب‬
‫ِمع‬ ‫إْ‬
‫مساك‬ ‫َّالق‬
‫ُ مر‬
‫َّتانِ فِ‬ ‫﴿ألط‬
‫‪)229:‬‬
‫استدالل‪:‬‬
‫[‪ :]1‬امام محمد بن اسما عیل البخا ری (م‪256‬ھ) تین طال ق کے وقوع پر مذکورہ آیت سے استدالل‬
‫کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں‪:‬‬
‫”با ب من اجاز طالق الثالث‘‘[وفی نسخۃ ‪:‬باب من جوز طالق‬
‫ْ‬
‫ُوفٍ أو‬ ‫ْر‬‫ِمع‬‫ٌ ب‬ ‫مساك‬ ‫إْ‬‫َّتانِ فِ‬ ‫ُ مر‬ ‫َّالق‬
‫الثالث ] لقولہ تعالی ‪ :‬ألط‬
‫ٍ ‪( “.‬صحیح البخاری‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)791‬‬ ‫ْسان‬ ‫إح‬‫ِِ‬‫ٌ ب‬
‫ِیح‬‫تسْر‬
‫[‪ :]2‬امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م‪307‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ٌ‬
‫ِیح‬‫ْ تسْر‬ ‫ُوفٍ أو‬ ‫ْر‬
‫ِمع‬ ‫ٌ ب‬‫مساك‬ ‫إْ‬ ‫َّتانِ فِ‬‫ُ مر‬ ‫َّالق‬
‫قولہ تعا لی ‪﴿ :‬ألط‬
‫ً‬
‫ْسانٍ﴾ یدل علی وقوع الثالث معا مع کونہ منہیا عنہا•‬ ‫إح‬‫ِِ‬‫ب‬
‫(احکام القر آ ن للجصا ص ‪:‬ج‪ 1‬ص‪527‬ذکر الحجاج الیقاع الثالث معا ً )‬
‫[‪ :]3‬امام ابو عبد ہللا محمد بن احمد االنصا ری القرطبی (م‪671‬ھ) اس آ یت کی تفسیر کر تے ہو‬
‫ئے فر ماتے ہیں‪:‬‬
‫قال علماؤنا واتفق ائمۃ الفتوی علی لزوم ایقاع الطالق‬
‫الثالث فی کلمۃ واحدۃ• (الجا مع الحکا م القر آن‪:‬ج‪1‬ص‪)492‬‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫آیت میں لفظ’’مرتن‘‘بمعنی ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ ہے‪ ،‬اس کا معنی اب یوں بنے گا کہ‬
‫ایک طالق دی پھر کچھ عرصہ بعد دوسری طالق بھی دے دی۔ تو یہ آیت متفرق مجالس میں دی گئی‬
‫طالق کے متعلق ہے۔ اس سے ایک مجلس کی تین طالقوں کے وقوع پر استدالل کرنا درست نہیں۔‬
‫جواب‪:‬‬
‫یہاں ’’مرتن‘‘ بمعنی ’’اثنتان‘‘ ہے یعنی طالق دوبار دینی ہے۔ عالمہ سید محمود آلوسی‬
‫بغدادی (م‪ 1270‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وھذا یدل على أن معنى مرتان إثنتان(روح المعانی ج‪ 2‬ص‪) 135‬‬
‫نیز قرآن و حدیث میں کئی ایسی مثالیں ہیں مثالً‪....‬‬
‫َّأ‬
‫لم توض‬ ‫ِ وسَّ‬ ‫ْه‬‫اَّللُ علی‬
‫لى َّ‬ ‫ِيَّ صَّ‬‫َّب‬‫ن الن‬ ‫ٍ أَّ‬ ‫ید‬‫بنِ زْ‬ ‫اَّللِ ْ‬
‫ِ َّ‬‫ْد‬‫ْ عب‬ ‫عن‬ ‫‪:1‬‬
‫َّتی‬
‫ْنِ)‬ ‫ْنِ مر‬ ‫َّتی‬
‫ء مر‬ ‫ُوِ‬‫ُض‬ ‫ْ‬
‫ِ‪( .‬صحیح البخاری ج‪ 1‬ص‪ 27‬باب الو‬ ‫َّتی‬
‫ْن‬ ‫ْنِ مر‬ ‫َّتی‬
‫مر‬
‫کیا اس کا یہ معنی کیا جائے گا کہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے ایک عضو ایک مجلس میں دھویا‬
‫اور دوسرا عضو دوسری مجلس میں؟! نہیں‪ ،‬بلکہ ایک ہی مجلس میں دھونا مراد ہے۔‬
‫ْه‬
‫ِ‬ ‫اَّللُ علی‬
‫لى َّ‬ ‫اَّللِ صَّ‬
‫ن رسُول َّ‬ ‫ھما أَّ‬ ‫ُْ‬‫اَّللُ عن‬
‫ِي َّ‬ ‫ُمر رض‬ ‫بنِ ع‬‫ْ اْ‬ ‫‪ :2‬عن‬
‫ِ كان لُ‬
‫ه‬ ‫ِه‬ ‫ِبادۃ رب‬ ‫ْسن ع‬ ‫ه وأح‬ ‫ِذا نصح سیِدُ‬ ‫د إ‬ ‫ُْ‬ ‫ْ‬
‫لم قال العب‬ ‫وسَّ‬
‫ِ‬
‫ِه‬‫ِبادۃ رب‬ ‫ْسن ع‬ ‫ِذا أح‬ ‫ِ إ‬ ‫ْد‬
‫العب‬‫ِ ‪( .‬صحیح البخاری ج‪ 1‬ص‪ 346‬باب ْ‬ ‫َّتی‬
‫ْن‬ ‫ه مر‬ ‫ُُ‬
‫ْر‬‫أج‬
‫ونصح سیِدُ‬
‫ه)‬
‫نیز یہ اصول بھی قابل غور ہے کہ اگر ”مرتان“ سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد‬
‫زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہوگا۔کیونکہ دو کالموں کا ایک وقت میں اجتماع ممکن‬
‫ْنِ‘‘تو اس کا الزمی طور پر معنی یہ ہوگا کہ‬ ‫َّتی‬‫ُ مر‬ ‫نہیں ہے۔مثالً جب کوئی یہ کہے کہ’’اکْ‬
‫لت‬
‫میں نے دوبار کھایا۔اس لئے کہ دو اکل یعنی کھانے کے دو عمل ایک وقت میں نہیں ہو سکتے اور‬
‫جب ’’مرتان‘‘سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تو اس وقت یہ’’عددین‘‘دو چند اور ڈبل کے‬
‫معنی میں ہوگا۔کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔‬
‫دلیل نمبر ‪:2‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪3‬‬
‫ہللا تعالی کا فرمان ہے‪:‬‬
‫‪.‬‬ ‫ْره‪Ĩ‬‬ ‫ْج‬
‫ًا غی‬ ‫ِح زو‬‫ْ‬ ‫ُْ‬
‫د حتى تنك‬ ‫ْ‬
‫ِن بع‬ ‫ُّ‬
‫لقھا فال تحِل لُ‬
‫ه م‬ ‫ن طَّ‬ ‫إْ‬‫‪Ī‬فِ‬
‫(سورۃ البقرۃ‪)230:‬‬
‫استدالل‪:‬‬
‫[‪ :]1‬مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہما اس آیت سے‬
‫استدالل کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ْرُ‬
‫ه۔ (السنن‬ ‫ًاغی‬ ‫ْج‬‫ِح زو‬ ‫ْ‬
‫ُ حتی تنک‬ ‫ُّ‬
‫ثا فال تحِل لہ‬ ‫لقھا ثالً‬ ‫ن طَّ‬‫ِْ‬‫ا‬
‫الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪7‬ص‪ 376‬باب نکاح المطلقۃ ثالثا)‬
‫[‪ :]2‬مشہور فقیہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ۃ َّلُ‬
‫ہ دخل‬ ‫ْجً‬
‫لق زو‬‫ْ طَّ‬‫ن من‬ ‫ُ _علی اَّ‬ ‫ُّ_واَّللُ اع‬
‫ْلم‬ ‫دل‬‫ن یُ‬ ‫اُ‬‫ْٓ‬‫ُر‬ ‫’’و ْ‬
‫الق‬
‫ْرُ‬
‫ه‘‘‬ ‫ً غی‬
‫ْجا‬
‫ِح زو‬ ‫ْک‬
‫ہ حتی تن‬ ‫َّ لُ‬ ‫ْ تحِل‬‫ثالم‬ ‫ِھاثالً‬ ‫ْ ب‬‫ُل‬‫دخ‬‫ْ یْ‬ ‫ْلم‬‫ِھا او‬ ‫ب‬
‫(کتاب االم لالمام محمد بن ادریس الشافعی‪ :‬ج‪2‬ص‪)1939‬‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہما اور امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ ہللا نے الفاظ‬
‫ً‘‘ بیان فرمائےہیں کہ اگر خاوند نے تین طالقیں دی ہوں تو تینوں واقع ہوں گی‪ ،‬یاد رہے‬ ‫’’ثالثا‬
‫یہ لفظ”ثالثا“ ہے نہ کہ ”ثالثۃ“‬
‫[‪ :]3‬عالمہ ابن حزم اس آیت سے استدالل کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ِح‬ ‫ْ‬
‫د حتى تنك‬ ‫ُْ‬ ‫ْ‬
‫ِن بع‬ ‫ه م‬‫ُّ لُ‬‫لقھا فال تحِل‬ ‫ن طَّ‬ ‫إْ‬
‫قول ہللا تعالی‪﴿ :‬فِ‬
‫ُ‬
‫ُوز‬ ‫َّقة‪ ،‬وال یج‬ ‫ً‬ ‫مفر‬ ‫ً‬
‫ُوعة وُ‬ ‫ْم‬ ‫َّ‬
‫ُ على الثالثِ مج‬ ‫ْره﴾ فھذا یقع‬ ‫ًا غی‬ ‫ْج‬
‫زو‬
‫ص‪( ..‬المحلی البن حزم‪ :‬ج‪9‬‬‫ِ نٍ‬‫ْر‬‫ِغی‬ ‫ض ب‬‫ٍْ‬
‫دون بع‬ ‫لك ُ‬ ‫ْضُ ذِ‬ ‫ِ بع‬
‫ِ اآلیة‬ ‫ِه‬‫ِھذ‬‫یخصَّ ب‬
‫ن ُ‬‫أْ‬
‫ص‪ 394‬كتاب الطالق مسألۃ‪)1945‬‬
‫ْك‬
‫ِح‬ ‫د حتى تن‬ ‫ُْ‬‫ْ بع‬ ‫ِن‬‫ه م‬ ‫ُّ لُ‬‫لقھا فال تحِل‬ ‫ن طَّ‬‫إْ‬
‫کہ ہللا تعالی کا ارشاد ﴿فِ‬
‫ْره﴾ ان تین طالقوں پربھی صادق آتا ہے جو اکٹھی ہوں اور ان پر بھی سچا آتا ہے جو‬‫ًا غی‬ ‫ْج‬
‫زو‬
‫متفرق طور پر ہوں‪ ،‬اور بغیر کسی نص کے اس آیت کو تین اکٹھی طالقوں کو چھوڑ کر صرف‬
‫متفرق کے ساتھ مخصوص کر دینا صحیح نہیں ہے۔‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫’’فان طلقھا‘‘کے عموم سے اکٹھی تین طالقیں خارج ہیں کیونکہ شریعت میں اس‬
‫طرح مجموعی طالق دینا منع ہے۔تو جو طالق ممنوع ہے وہ واقع کیسے ہوگی؟اس سے شریعت کی‬
‫ممانعت کا کوئی معنی نہ رہے گا۔‬
‫‪ :2‬نفاذ‬ ‫‪ :1‬جواز‬ ‫یزیں ہیں۔‬
‫یہاں دو چ ِ‬ ‫جواب‪:‬‬
‫تین طالقیں اکٹھی دینا جائز تو نہیں لیکن نافذ ہو جاتی ہیں‪ ،‬جواز اور ہے اور نفاذ اور۔ مثالً‬
‫حیض کی حالت میں طالق دینا ممنوع اور ناجائز ہے لیکن اگر کسی نے دے دی تو نافذ ہوجاتی ہے۔‬
‫(دیکھیےصحیح البخاری‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)790‬‬

‫دلیل نمبر ‪:3‬‬


‫َّ‬
‫ِن‬ ‫ِھ‬
‫ِدت‬ ‫َّ ِ‬
‫لعَّ‬ ‫ھن‬‫ُوُ‬‫ِق‬
‫ِساء فطل‬ ‫ُ الن‬ ‫ُم‬‫ْت‬
‫لق‬‫ِذا طَّ‬ ‫ِيُّ إ‬‫َّب‬
‫یھا الن‬ ‫یا أُّ‬
‫َّ وال‬ ‫ِھ‬
‫ِن‬ ‫ُوت‬
‫بی‬‫ْ ُ‬ ‫َّ م‬
‫ِن‬ ‫ُن‬
‫ُوھ‬ ‫تخْر‬
‫ِج‬ ‫ْ ال ُ‬ ‫ُم‬
‫بك‬ ‫ُوا َّ‬
‫اَّلل رَّ‬ ‫ِدۃ و َّ‬
‫اتق‬ ‫ُوا ْ‬
‫العَّ‬ ‫ْص‬
‫وأح‬
‫َّ‬ ‫ْ‬
‫اَّللِ ومن یتعد‬ ‫ُ‬
‫ُدود َّ‬‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ِلك ح‬ ‫ٍ وت‬ ‫ٍ ُ‬
‫مبیِنة‬ ‫ِفاحِشة‬ ‫ِین ب‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ِال أن یأت‬‫َّ‬‫ْن إ‬ ‫یخْر‬
‫ُج‬
‫ًا‪.‬‬‫مر‬‫ِك أْ‬‫ْد ذل‬‫ُ بع‬ ‫ْد‬
‫ِث‬ ‫َّ َّ‬
‫اَّلل ُ‬
‫یح‬ ‫ِي لعل‬ ‫ه ال تْ‬
‫در‬ ‫ْسُ‬ ‫د ظلم نف‬ ‫اَّللِ فقْ‬
‫دود َّ‬‫ُُ‬
‫ح‬
‫(سورۃ الطالق‪)1:‬‬
‫استدالل‪:‬‬
‫[‪ :]1‬حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہما اس آیت سے تین طالقوں کے وقوع پر استدالل‬
‫کرتے ہیں‪:‬‬
‫ُ‬ ‫َّ‬
‫ِنه‬ ‫ٌ فقال إ‬ ‫َّاسٍ فجاء رج‬
‫ُل‬ ‫بنِ عب‬‫ْد اْ‬ ‫ِن‬ ‫ُ ع‬ ‫ْت‬ ‫ُ‬
‫ٍ قال كن‬ ‫ِد‬ ‫مجاھ‬ ‫ْ‬
‫عن ُ‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪4‬‬
‫ِ‪.‬‬‫ْه‬ ‫ِلی‬ ‫ادھا إ‬ ‫ه ر ُّ‬ ‫نُ‬‫ُ أَّ‬ ‫َّى ظنن‬
‫ْت‬ ‫ثا‪ .‬قال فسكت حت‬ ‫ه ثالً‬‫مرأتُ‬ ‫لق اْ‬ ‫طَّ‬
‫بن‬‫ُ یا اْ‬ ‫ُول‬ ‫َّ یق‬ ‫ثم‬ ‫ُوقة ُ‬ ‫الحم‬‫ُ ْ‬ ‫ْكب‬ ‫ْ فیر‬ ‫ُم‬ ‫ُ أحُ‬
‫دك‬ ‫ْطل‬
‫ِق‬ ‫َّ قال ین‬ ‫ُ‬
‫ثم‬
‫ًا)‬ ‫ه مخْرج‬ ‫ْ لُ‬ ‫ْعل‬ ‫ِ َّ‬
‫اَّلل یج‬ ‫ْ یت‬
‫َّق‬ ‫اَّلل قال (ومن‬ ‫ن َّ‬ ‫َِّ‬
‫َّاسٍ وإ‬‫بن عب‬ ‫َّاسٍ یا اْ‬ ‫عب‬
‫ْك‬‫ِن‬‫ْ م‬ ‫بك وبانت‬ ‫ْت رَّ‬ ‫ًا عصی‬ ‫د لك مخْرج‬ ‫ْ أجِْ‬ ‫ِ َّ‬
‫اَّلل فلم‬ ‫َّق‬
‫ْ تت‬ ‫نك لم‬ ‫َِّ‬
‫وإ‬
‫ِساء‬ ‫ُ الن‬ ‫ُم‬ ‫ْت‬‫لق‬‫ِذا طَّ‬ ‫ِىُّ إ‬ ‫َّب‬
‫یھا الن‬ ‫اَّلل قال (یا أُّ‬ ‫ن َّ‬ ‫َِّ‬
‫تك وإ‬ ‫مرأُ‬ ‫اْ‬
‫َّ‪( .‬سنن ابی داؤد‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 315‬باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثالث‪،‬‬ ‫ِھ‬
‫ِن‬ ‫ِ عَّ‬
‫ِدت‬ ‫ُل‬‫ُب‬‫ِى ق‬‫َّ) ف‬
‫ھن‬ ‫ُوُ‬‫ِق‬
‫فطل‬
‫ِالَّ واحِدً‬
‫ۃ)‬ ‫ِق إ‬
‫یطل‬ ‫ِ أْ‬
‫ن ال ُ‬ ‫ْج‬‫َّو‬
‫ِلز‬‫ُ ل‬ ‫ْت‬
‫ِیار‬ ‫السنن الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪7‬ص‪ 331‬باب اال‬
‫ِخ‬
‫قال الحافظ ابن حجر‪ :‬اسناده صحیح‪( .‬تعلیق المغنی ‪ :‬ص‪ 430‬بحوالہ عمدۃ االثاث‪:‬‬
‫‪)72‬‬
‫قال االلبانی‪ :‬صحیح‪( .‬سنن ابی داؤد باحکام االلبانی‪ :‬تحت ح‪)2199‬‬
‫[‪ :]2‬امام نووی (م‪676‬ھ) اس آیت سے جمہور کے استدالل کو یوں نقل کرتے ہیں‪:‬‬
‫اَّللِ فقْ‬
‫د ظلم‬ ‫دود َّ‬ ‫ُُ‬
‫د ح‬ ‫ْ یتعَّ‬ ‫واحتج الجمھور بقوله تعالى‪İ‬ومن‬
‫ًا‪ Ĭ‬قالوا معناه أن‬ ‫ِك أْ‬
‫مر‬ ‫ْد ذل‬ ‫ُ بع‬ ‫ِث‬‫ْد‬
‫یح‬ ‫َّ َّ‬
‫اَّلل ُ‬ ‫ِي لعل‬‫در‬‫ه ال تْ‬ ‫ْسُ‬‫نف‬
‫المطلق قد یحدث له ندم فال یمكنه تداركه لوقوع البینونة‬
‫فلو كانت الثالث ال تقع لم یقع طالقه ھذا اال رجعیا فال یندم‪.‬‬
‫(شرح النووی علی صحیح مسلم‪ :‬ج‪ 1‬ص‪)478‬‬
‫احا دیث مبا رکہ‬
‫احا دیث مرفوعہ‪:‬‬
‫دلیل نمبر ‪:1‬‬
‫ْ‬ ‫ً فتزو‬
‫َّجت‬ ‫ہ ثلثا‬ ‫ٔتُ‬‫مرا‬ ‫ُالً طَّ‬
‫لق اْ‬ ‫ْہا اَّ‬
‫ن رج‬ ‫ہللاُ عن‬ ‫ِی‬ ‫ِشۃ رض‬‫ْ عائ‬‫عن‬
‫َّل‬
‫ِ؟ قال‪:‬الحتی‬ ‫ُّ لْ‬
‫ِالو‬ ‫لم اتحِل‬‫ِ و سَّ‬‫ْہ‬ ‫صَّ‬
‫لی ہللاُ علی‬ ‫َّب‬
‫ِیُّ‬ ‫فطَّ‬
‫لق فسُئ‬
‫ِل الن‬
‫ُ•‬‫َّل‬ ‫ذاق ْ‬
‫االو‬ ‫ْلتھا کما‬ ‫ُسی‬‫ْق ع‬
‫ذو‬‫یُ‬
‫(صحیح البخاری ج‪2‬ص‪791‬باب من اجاز طالق الثالث‪ ،‬صحیح مسلم ج‪ 1‬ص‪ 463‬باب ال تحل المطلقۃ ثالثا لمطلقھا‬
‫‪،‬السنن الکبری للبیہقی ج‪ 7‬ص‪ 334‬باب ما جاء فی امضاء الطالق الثالث و ان کن مجموعات)‬
‫استدالل‪:‬‬
‫‪:1‬امام بخاری ‪،‬امام مسلم (کی ”الصحیح“ پر امام نووی) اور امام بیہقی رحمہم ہللا کا باب باندھنا‬
‫‪ :2‬حا فظ ابن حجر عسقال نی (م‪852‬ھ) اور عالمہ بدر الدین عینی (م‪855‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ً فا نہ ظا ہر فی کو‬ ‫فا لتمسک بظا ہر قولہ طلقہا ثالثا‬
‫نہا مجموعۃ‪( .‬فتح الباری ال بن حجر ‪:‬ج‪9‬ص‪ ،455‬عمدۃ القاری‪ :‬ج‪14‬ص‪)241‬‬
‫کہ امام بخاری کا استدالل(کہ تین طالقیں تین شمار ہوتی ہیں) اس روا یت کے الفا ظ‬
‫ً“ سے ہے کیو ں کہ یہ الفاظ اس بارے میں بالکل ظاہر ہیں کہ اس شخص نے‬ ‫”طلقہا ثالثا‬
‫تین طال قیں اکٹھی دی تھیں۔‬
‫دلیل نمبر ‪:2‬‬
‫ه……قال‬ ‫ْبرُ‬ ‫ِیَّ اخ‬‫ِد‬‫ٍ الساع‬ ‫ْد‬‫بن سع‬ ‫ھل ْ‬ ‫ن سْ‬‫ِہابٍ اَّ‬ ‫بنِ ش‬ ‫عنِ اْ‬
‫ُھا‬ ‫ْت‬
‫مسک‬‫ن اْ‬ ‫ِْ‬
‫ْل اَّللِ ! ا‬ ‫ْھا یارسُو‬ ‫ُ علی‬ ‫ہ کذْ‬
‫بت‬ ‫ُْ‬‫ِی ہللاُ عن‬‫ُرض‬‫یمر‬ ‫ُوْ‬ ‫ع‬
‫َّ‬
‫ِ و سلم‬ ‫ْہ‬ ‫َّ‬
‫ْل اَّللِ صلی ہللاُ علی‬ ‫ُ‬ ‫ه رسُو‬ ‫مرُ‬
‫یاُ‬ ‫ْ‬
‫ْل ان َّ‬ ‫ً‬
‫فطلقھا ثال ثا قب‬ ‫َّ‬
‫ِ اَّللِ‬‫ْل‬‫ِند رسُو‬ ‫ْ‬ ‫ْقاتٍ ع‬‫ِی‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬
‫ِیْ داؤد)قال‪:‬فطلقھاثالث تطل‬ ‫ُ‬ ‫ِ اب‬‫ِوایۃ‬ ‫ِیْ ر‬ ‫(وف‬
‫َّ‬
‫ِ و سلم‪.‬‬ ‫ْہ‬ ‫َّ‬
‫ُ اَّللِ صلی ہللاُ علی‬
‫ْل‬‫ه رسُو‬
‫نفذُ‬ ‫َّ‬
‫ِ و سلم فاْ‬ ‫ْہ‬‫لی ہللاُ علی‬‫صَّ‬
‫داود ج ‪1‬ص‪ 324‬باب فی اللعان‪،‬صحیح مسلم ج‪1‬‬ ‫(صحیح البخاری ج‪2‬ص‪ 791‬باب من اجاز طالق الثالث‪ ،‬سنن ابی ٗ‬
‫ص‪ :488،489‬کتا ب اللعا ن ‪ ،‬سنن النسائی ‪:‬ج‪2‬ص‪ 107‬کتا ب الطالق باب بدء اللعا ن جا مع الترمذی‬
‫‪:‬ج‪1‬ص‪226،227‬ابواب الطالق واللعا ن‪،‬باب ماجا ء فی اللعا ن)‬
‫فائدہ‪ :‬سنن ابی داؤد والی روایت کو غیر مقلد عالم ناصر الدین البانی صاحب نے ”صحیح“ کہا ہے۔‬
‫(تحت حدیث‪)2250‬‬
‫استدالل‪:‬‬
‫امام بخاری رحمہ ہللا کا باب باندھنا‬ ‫‪:1‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪5‬‬
‫ُ اَّللِ صلی ہللا علیہ و‬
‫ْل‬‫ه رسُو‬ ‫امام ابوداؤد رحمہ ہللا کی یہ روایت ”فاْ‬
‫نفذ ُ‬ ‫‪:2‬‬
‫سلم‪“.‬‬
‫دلیل نمبر‪:3‬‬
‫ِ وسَّ‬
‫لم‬ ‫ْه‬
‫اَّللُ علی‬
‫لى َّ‬ ‫اَّللِ صَّ‬
‫ُ َّ‬ ‫ِر رسُول‬ ‫ُخ‬
‫ْب‬ ‫ْد‬
‫ٍ قال أ‬ ‫ِی‬
‫بنِ لب‬ ‫ُود ْ‬
‫ْم‬‫ْ مح‬ ‫عن‬
‫ُ‬ ‫ً‬
‫ْبانا ثم‬
‫َّ قال‬ ‫ًا فقام غض‬ ‫ْع‬
‫ِی‬‫ِیقاتٍ جم‬ ‫ْل‬
‫ه ثالث تط‬‫مرأتُ‬ ‫َّ‬
‫ٍ طلق اْ‬ ‫ْ رج‬
‫ُل‬ ‫عن‬
‫ٌ وقال یا‬ ‫َّى قام رج‬
‫ُل‬ ‫ْ حت‬‫ُم‬
‫ِك‬ ‫ُْ‬
‫ھر‬ ‫ْن أظ‬ ‫ِتابِ َّ‬
‫اَّللِ وأنا بی‬ ‫ِك‬‫ُ ب‬ ‫یْ‬
‫لعب‬ ‫أُ‬
‫لُ‬
‫ه‪.‬‬ ‫ُُ‬‫ْت‬ ‫رسُول َّ‬
‫اَّللِ أال أق‬
‫(سنن النسائی‪ :‬ج‪ 2‬ص‪ 99‬باب الثالث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)‬
‫تحقیق السند ‪:‬‬
‫‪:1‬قال ابن القیم‪ :‬اسناده علی شرط مسلم۔(زاد المعاد ج‪5‬ص‪ 24‬فصل فی حکمہ‬
‫ﷺ فیمن طلق ثالثا)‬
‫‪:2‬قال العالمۃ الماردینی‪ :‬وقد ورد في ھذا الباب حدیث صحیح‬
‫صریح فاخرج النسائي في باب الثالث المجموعة وما فیه من‬
‫التغلیظ بسند صحیح عن محمود بن لبید‪( .‬الجوہر النقی علی البیہقی ج‪ 7‬ص‪333‬‬
‫باب االختیار للزوج ان ال یطلق اال واحدۃ)‬
‫‪:3‬قال ابن حجر‪:‬رواتہ مؤثقون۔(بلوغ المرام ص‪) 442‬‬
‫‪:4‬قال ابن کثیر‪ :‬اسناده جید‪ ( .‬بحوالہ نیل االوطار ج ‪6‬ص‪ ،240‬باب ما جاء في‬
‫طالق البتة وجمع الثالث واختیار تفریقھا)‬
‫استدالل‪:‬‬
‫آپ صلی ہللا علیہ و سلم کا اکٹھی تین طالق دینے کی خبر سن کرسخت غصہ کا اظہار‬ ‫‪:1‬‬
‫فرمانا تین طالق کے واقع ہونےکی مستقل دلیل ہے کیونکہ اگر تین طالقیں ایک ہوتیں اور خاوند کو‬
‫رجوع کا حق باقی رہتا تو شدید غصہ کی کوئی وجہ نہیں تھی بلکہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم یہ فرما‬
‫دیتے کہ ایک طالق ہوئی ہے‪ ،‬تم رجوع کر لو۔‬
‫اگر تین طالق واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی ہللا علیہ و سلم ضرور ان کو رد فرما دیتے اور‬ ‫‪:2‬‬
‫صراحت فرما دیتے کہ تین طالقیں واقع نہیں ہوئی ہیں لیکن آپ صلی ہللا علیہ و سلم کا رد فرمانا‬
‫کہیں منقول نہیں جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے تین طالقوں کو نافذ کر‬
‫دیا تھا۔ چنانچہ عالمہ ابن العربی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫إن فیه التصریح بأن الرجل طلق ثالثا مجموعة ولم یرده‬
‫النبي صلى ہللا علیه و سلم بل امضاه•‬
‫(فتح الباری‪ :‬ج‪ 9‬ص‪ 451‬باب من جوز طالق الثالث)‬
‫امام نسائی رحمہ ہللا کا ’’الثالث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ‘‘ کے‬ ‫‪:3‬‬
‫عنوان سے باب باندھنا ۔‬
‫دلیل نمبر ‪:4‬‬
‫لق‬ ‫ه طَّ‬ ‫نُ‬ ‫ھما أَّ‬ ‫ُْ‬
‫ِی اَّللُ عن‬ ‫ُمررض‬ ‫ُ ع‬ ‫بن‬ ‫ُْ‬
‫داَّللِ ْ‬ ‫الحسنِ قال ناعب‬ ‫عنِ ْ‬
‫ْنِ‬ ‫ِیقتی‬ ‫ْل‬‫ِتط‬ ‫ِعھا ب‬ ‫ْب‬
‫یت‬‫ن ُ‬ ‫َّ أراد أْ‬ ‫ثم‬‫ِضٌ ُ‬ ‫ِى حائ‬ ‫ة وھ‬ ‫ِیقً‬ ‫ْل‬
‫ه تط‬ ‫مرأتُ‬‫اْ‬
‫َّ‬
‫اَّللِ صلی ہللاُ‬‫ِك رسُول َّ‬ ‫ْنِ فبلغ ذل‬ ‫ِیی‬ ‫ْ‬
‫ْنِ الباق‬ ‫ْئی‬ ‫ْ‬
‫ْد القر‬ ‫ِن‬‫ینِ ع‬ ‫ْراوْ‬‫ُخ‬‫أ‬
‫نك قْ‬
‫د‬ ‫َِّ‬ ‫ُمر ما ھكذا أمر َّ‬
‫اَّللُ إ‬ ‫بن ع‬ ‫ِ و سلم فقال ‪ :‬یا اْ‬ ‫َّ‬ ‫ْہ‬‫علی‬
‫ء‪ .‬قال‬ ‫ٍْ‬
‫ِ قر‬ ‫ُل‬
‫لك‬‫ِق ِ‬‫ُطل‬ ‫ھر فت‬ ‫ُّْ‬‫ِل الط‬ ‫ْب‬‫ن تسْتق‬ ‫ة أْ‬ ‫َُّ‬
‫َّة والسُّن‬ ‫ْ‬
‫ْطأت السُّن‬ ‫أخ‬
‫َّ قال‪«:‬‬ ‫ُ‬
‫ْتھا ثم‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫ِ و سلم فراجع‬ ‫ْہ‬ ‫َّ‬ ‫ُ‬
‫ِى رسُول َّ‬
‫اَّللِ صلی ہللاُ علی‬ ‫‪ :‬فأمرن‬
‫یت‬ ‫ٔ‬
‫ْل اَّللِ ! راْ‬ ‫ُ یارسُو‬ ‫ْ‬‫ُ‬
‫ِكْ فقلت‬ ‫مس‬‫ْ أْ‬ ‫ِك أو‬ ‫ْد ذل‬ ‫ْ ع‬
‫ِن‬ ‫ْ فطل‬
‫ِق‬ ‫ِى طھرت‬ ‫ِذا ھ‬ ‫إ‬
‫ُ‬
‫ْن‬ ‫ِی‬‫ْ تب‬ ‫ُراجِعھا؟قال الکانت‬ ‫ن ا‬‫ْٔ‬‫ِیْ ا‬ ‫ُّ ل‬‫ً کان یحِل‬ ‫ُھاثالثا‬‫ْت‬‫لق‬‫ِیْ طَّ‬
‫ْان‬‫لو‬
‫ۃ• (سنن الدارقطنی‪ :‬ص‪ 652‬حدیث نمبر‪)3929‬‬ ‫ِیً‬‫ْص‬
‫ْن مع‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ِنک وتکو‬ ‫ْ‬ ‫م‬
‫تحقیق السند‪:‬‬
‫عالمہ شمس الدین ذہبی رحمۃ ہللا علیہ اس حدیث کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:1‬‬
‫وھذا إسناد قوي ‪( .‬تنقیح كتاب التحقیق فی احادیث التعلیق للذہبی‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)205‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪6‬‬
‫یہ حدیث امام طبرانی رحمۃ ہللا علیہ نے بھی روایت کی ہے‪ ،‬جس کے متعلق عالمہ نور‬ ‫‪:2‬‬
‫الدین الہیثمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫رواه الطبراني وفیه علي بن سعید الرازي قال الدارقطني ‪:‬‬
‫لیس بذاك وعظمه غیره وبقیة رجاله ثقات‪.‬‬
‫(مجمع الزوائدج‪ 4‬ص‪ 618‬باب طالق السنۃ وكیف الطالق)‬
‫عالمہ ہیثمی نے اس روایت کے راویوں کو ثقہ کہا ہے البتہ ”علی بن سعید الرازی“ کے‬
‫متعلق امام دار قطنی کا جو قول نقل کیا ہے اس کی فنی حیثیت جاننے کے لیے عالمہ شمس الدین‬
‫ذہبی کی تحقیق مالحظہ فرمائیں‪ ،‬عالمہ ذہبی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جوال ‪ .‬قال الدارقطني‪ :‬لیس بذاك‪ .‬تفرد‬ ‫حافظ رحال‬
‫بأشیاء‪ .‬قلت‪ :‬سمع جبارۃ بن المغلس‪ ،‬وعبد االعلى بن حماد‪.‬‬
‫روى عنه الطبراني‪ ،‬والحسن بن رشیق‪ ،‬والناس‪ .‬قال ابن‬
‫یونس‪ :‬كان یفھم ویحفظ‪( .‬میزان االعتدال‪ :‬ج‪ 3‬ص‪143‬رقم الترجمۃ ‪)5553‬‬
‫حافظ ابن حجر عسقالنی اسی راوی کے حاالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وقال مسلمة بن قاسم‪ ..‬وكان ثقة عالما بالحدیث‪ ( .‬لسان‬
‫المیزان ج ‪ 4‬ص‪ 231‬رقم الترجمہ ‪)615‬‬
‫اس سے معلوم ہوا کہ امام دار قطنی کے عالوہ کسی اور نے ان علی بن سعید الرازی کے‬
‫بارے میں کالم نہیں کیا اور دارقطنی کا یہ کالم بھی نرم الفاظ میں ہے بڑے درجہ کا کالم نہیں ہے‬
‫جسے عالمہ ذہبی نے تفرد اور انفرادی رائے قرار دیا ہے اور اس راوی کو ”حافظ“ فرما کر اس کی‬
‫توثیق کی۔ مزید یہ کہ اسرائیل بن یونس نے بھی ان کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے اور مسلمہ بن قاسم نے‬
‫بھی ان کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اس روایت کی یہ سند بھی صحیح ہے۔ اس‬
‫روایت کی صحت کی مزید تائید حضرت عبد ہللا بن عمر رضی ہللا عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی‬
‫ہے جسے امام مسلم رحمۃ ہللا علیہ نے روایت کیا ہے کہ‪:‬‬
‫فكان ابن عمر إذا سئل عن الرجل یطلق امرأته وھى حائض‬
‫یقول ……أما أنت طلقتھا ثالثا فقد عصیت ربك فیما أمرك به‬
‫من طالق امرأتك وبانت منك‪( .‬صحیح مسلم ج‪1‬ص‪ 476‬باب تحریم طالق الحائض)‬
‫اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ بات حضرت عبد ہللا بن عمر رضی ہللا عنہما نے آپ‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم ہی سے سنی تھی کیونکہ یہ ویسے الفاظ ہیں جیسے دارقطنی اور طبرانی کی‬
‫مرفوع روایت میں ہیں۔‬
‫دلیل نمبر‪:5‬‬
‫الحسنِ‬‫ْد ْ‬ ‫ِن‬
‫ۃ ع‬‫َُّ‬
‫ِی‬‫ْعم‬‫الخث‬‫ۃ ْ‬ ‫ِشُ‬‫ْ عائ‬ ‫ْلۃ قال کانت‬ ‫بنِ غف‬ ‫ِ ْ‬ ‫ید‬‫ْ سُوْ‬‫عن‬
‫ْی‬
‫ِع‬ ‫بو‬‫ِىٌّ وُ‬
‫ْب عل‬ ‫ِی‬ ‫ُ‬
‫َّا أص‬‫ه فلم‬ ‫ْ‬
‫اَّللُ عنُ‬
‫ِى َّ‬ ‫ِبٍ رض‬ ‫ِیْ طال‬ ‫َٔب‬
‫بنِ ا‬ ‫ِیِ ْ‬‫بنِ عل‬ ‫ْ‬
‫ْن‬
‫ِی‬‫ِن‬‫ْم‬
‫ُؤ‬ ‫ْ‬
‫ْر الم‬ ‫ِی‬ ‫ُ‬
‫ِئك الخِالفة یا أم‬‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ھن‬‫ِتْ‬‫ْ ‪ :‬ل‬ ‫ِ قالت‬ ‫ْ‬
‫ِالخِالفة‬ ‫ُ ب‬‫الحسن‬‫ْ‬
‫ً‬
‫ٌ ثالثا‬ ‫نتِ طاِ‬
‫لق‬ ‫ِى فأْ‬ ‫ْ‬
‫ِین الشَّماتة اذھب‬ ‫ْھ‬
‫ِر‬ ‫تظ‬‫ِىٌّ و ُ‬‫ُ عل‬ ‫ْتل‬‫یق‬‫فقال ‪ُ :‬‬
‫ْھا‬‫ِلی‬‫ِدتھا وبعث إ‬ ‫ْ عَّ‬‫انقضت‬‫َّى ْ‬ ‫ْ حت‬ ‫ِساجھا وقعدت‬ ‫ْ ن‬ ‫َّعت‬
‫قال‪ :‬فتلف‬
‫ٌ‬‫ْ ‪ :‬متاع‬ ‫ِھا فقالت‬ ‫ِن صداق‬‫ْ‬ ‫ِي لھا م‬ ‫ٍ بق‬ ‫َّة‬
‫ِی‬ ‫ً‬
‫متعة و بق‬ ‫ْ‬ ‫ِ آالفٍ ُ‬‫ِعشْرۃ‬ ‫ب‬
‫ِیْ‬ ‫ْالا‬
‫َٔن‬ ‫ْلھا بكى وقال لو‬ ‫ُ‬‫ه قو‬ ‫َّا بلغُ‬ ‫ٍ فلم‬ ‫ِق‬‫مفار‬‫ِیبٍ ُ‬ ‫ْ حب‬ ‫ِن‬‫ٌ م‬‫ِیل‬‫قل‬
‫ٍ طَّ‬
‫لق‬ ‫ُل‬‫یما رج‬ ‫ُ ا‬
‫َُّٔ‬ ‫ْل‬‫ُو‬‫ِیْ یق‬‫ِع جد‬ ‫ہ سم‬ ‫ََّٔ‬
‫نُ‬ ‫ِیْ ا‬ ‫َٔب‬‫ِیْ ا‬
‫دثن‬ ‫ْحَّ‬‫ٔو‬‫ِیْ ا‬‫ُ جد‬ ‫ْت‬‫ِع‬
‫سم‬
‫ْک‬
‫ِح‬ ‫ہ حتی تن‬ ‫َّ لُ‬‫ْ تحِل‬‫ْرائِ لم‬ ‫ِق‬‫ْد ْ‬
‫اال‬ ‫ِن‬‫ً ع‬‫ْثالثا‬ ‫َٔو‬ ‫ْھمً‬
‫ۃ ا‬ ‫مب‬ ‫ً ُ‬‫ہ ثالثا‬ ‫َٔتُ‬
‫مرا‬‫ِْ‬‫ا‬
‫ُ‬
‫ْتھا‪.‬‬ ‫ه لراجع‬ ‫ْرُ‬ ‫ً‬
‫ْجا غی‬ ‫زو‬
‫(سنن الدارقطنی ج‪ 651‬حدیث نمبر‪ 3927‬کتاب الطالق و الخلع و الطالق)‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫بعض الناس نے اس روایت کے تین راویوں پر جرح کرتے ہوئے اس روایت کو ضعیف‬
‫ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ ان تین راویوں کے بارے میں تحقیقی بات عرض ہے کہ ان پر بعض‬
‫محدثین کی صرف جرح نہیں ہے بلکہ کئی جید ائمہ محدثین نے ان کی تعدیل و توثیق بھی فرمائی‬
‫ہے۔ ذیل میں ہم ان کے بارے میں ائمہ کی تعدیل و توثیق پیش کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )1‬محمد بن حميد الرازی‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪7‬‬
‫آپ ابوداؤد ‪،‬ترمذی اور ابن ماجہ کے را وی ہیں ۔ ( تہذیب التہذیب‪ :‬ج‪5‬ص‪)547‬‬
‫اگرچہ بعض محدثین سے جر ح منقول ہے لیکن بہت سے جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل‬
‫و تو ثیق اور مدح بھی فر ما ئی ہے مثالً‪:‬‬
‫دلہ‪( .‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)74‬‬ ‫‪ :1‬امام فضل بن دکین (م‪218‬ھ)‪ :‬عَّ‬
‫‪ :2‬امام یحیی بن معین (م‪233‬ھ)‪ :‬ثقۃ ‪،‬لیس بہ باس‪ ،‬رازی کیس‪ (.‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪2‬‬
‫ص‪ ،74‬تہذیب الکمال للمزی‪ :‬ج‪8‬ص‪)652‬‬
‫‪ :3‬امام احمدبن حنبل (م‪241‬ھ)‪:‬وثقہ (طبقات الحفاظ للسیوطی ج‪1‬ص‪)40‬‬
‫ً‬
‫با لری علم مادام محمد بن حمید حیا‪.‬‬ ‫ً‪ :‬الیزال‬ ‫وقال ایضا‬
‫(تہذیب الکمال للمزی ‪ :‬ج‪8‬ص‪)652‬‬
‫دلہ‪( .‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)73‬‬ ‫‪ :4‬امام محمد بن یحیی الذہلی (م‪258‬ھ)‪ :‬عَّ‬
‫دلہ‪( .‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)73‬‬ ‫‪ :5‬امام ابو زرعہ الرازی (م‪263‬ھ)‪ :‬عَّ‬
‫‪ :6‬امام محمد بن اسحاق الصاغانی (م‪271‬ھ)‪ :‬عَّ‬
‫دلہ‪( .‬سیر اعالم النبالء‪ :‬ج‪ 8‬ص‪)293‬‬
‫‪ :7‬امام جعفر بن ابی عثمان الطیالسی (م‪282‬ھ)‪ :‬ثقۃ‪ ( .‬تہذیب الکمال ‪ :‬ج‪8‬ص‪)653‬‬
‫ِ‬
‫ٍ من حفاظ‬ ‫‪ :8‬امام ابو نعیم عبد الملک بن محمدبن عدی الجرجانی(م‪323‬ھ)‪ :‬الن ابن حمید‬
‫ِ الحدیثِ‪( .‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)73‬‬
‫اہل‬
‫‪ :9‬امام الدار قطنی (م‪385‬ھ)‪ :‬اسناده حسن‪[ .‬و فیہ محمد بن حمید الرازی]‪( .‬سنن الدار قطنی‪:‬‬
‫ص‪ 27‬رقم الحدیث‪)27‬‬
‫ً بھذا‬ ‫ً عالما‬ ‫‪ :10‬امام خلیل بن عبد ہللا بن احمد الخلیلی (م‪446‬ھ)‪ :‬کان حافظا‬
‫الشان‪ ،‬رضیہ احمد و یحیی‪( .‬تہذیب التہذیب‪ :‬ج‪ 5‬ص‪)550‬‬
‫ِیر‪( .‬سیر اعالم النبالء‪ :‬ج‪8‬‬
‫ِظ الکب‬‫‪ :11‬عالمہ شمس الدین ذہبی (م‪748‬ھ)‪ :‬العالمۃ‪ ،‬الحاف‬
‫ص‪)292‬‬
‫وقال ایضاً‪ :‬الحافظ و کان من اوعیۃ العلم‪( .‬العبر فی خبر من غبر‪ :‬ج‪ 1‬ص‪)223‬‬
‫‪ :12‬عالمہ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی (‪ ” :)807‬وفی اسناد بزار محمد بن‬
‫حمید الرازی وھو ثقۃ‪(.‬مجمع الزوائد‪ :‬ج‪9‬ص‪)475‬‬
‫‪ :13‬حافظ ابن حجر (م‪852‬ھ)‪ :‬حافظ ضعیف و کان ابن معین حسن الرای‬
‫فیہ‪ ( .‬تقریب التہذیب ‪ :‬ص‪)505‬‬
‫‪ :14‬عالمہ جالل الدین سیوطی (م‪911‬ھ)‪ :‬وثقہ احمد و یحیی و غیر واحد‪.‬‬
‫(طبقات الحفاظ للسیوطی‪ :‬ص‪ 216‬رقم ‪)479‬‬
‫‪ :15‬امام احمد بن عبد ہللا الخزرجی (م‪923‬ھ)‪ :‬الحافظ‪ ،‬و کان ابن معین حسن‬
‫الرای فیہ‪( .‬خالصۃ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی‪ :‬ص‪)333‬‬

‫(‪ )2‬سلمہ بن الفضل‬


‫‪ :1‬امام یحیی بن معین‪:‬ثقہ‬
‫ً‪ :‬ال باس بہ (”ال باس بہ“ کلمہ توثیق ہے)‬ ‫وقال ایضا‬
‫‪ :2‬عالمہ ابن سعد ‪ :‬ثقۃ‪ ،‬صدوق‬
‫‪ :3‬امام ابن عدی‪ :‬عنده غرائب وافراد ولم أجد في حدیثه حدیثا قد‬
‫جاوز الحد في االنكار وأحادیثه متقاربة محتملة [ان کی حدیث میں‬
‫غرائب اور افراد تو ہیں لیکن میں نے ان کی کوئی حدیث ایسی نہیں دیکھی جو انکار کی حد تک‬
‫پہنچی ہو‪ ،‬ان کی حدیثیں متقارب اور قابل برداشت (یعنی قابل قبول)ہیں۔]‬
‫‪ :4‬امام ابن حبان‪ :‬ذکره فی الثقات‬
‫‪ :5‬امام ابو داؤد‪ :‬ثقۃ‬
‫‪ :6‬امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں‪ :‬ال أعلم إال خیرا‪( .‬یہ تمام اقوال تہذیب التہذیب‬
‫ج‪2‬ص‪ 752‬رقم ‪ 2938‬سے لیے گئے ہیں)‬
‫(‪ )3‬عمرو بن ابی قيس‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪8‬‬
‫‪ :5-1‬امام بخاری نے تعلیق میں ان سے روایت کیا ہے اور امام ابو داؤد‪ ،‬امام ترمذی‪ ،‬امام نسائی اور‬
‫امام ابن ماجہ نے ان سے روایت لی ہے۔‬
‫(تہذیب التہذیب‪ :‬ج‪5‬ص‪ 83‬رقم ‪)6007‬‬
‫‪ :6‬امام ابن حبان ‪ :‬ذکره فی الثقات (کتاب الثقات‪ :‬رقم الترجمۃ‪)9766‬‬
‫‪ :7‬امام عبدا لصمد بن عبد العزیز المقری‪( :‬قال) دخل الرازیون على الثوري‬
‫فسألوه الحدیث فقال‪ :‬ألیس عندكم االزرق ؟ یعني عمرو بن‬
‫أبي قیس‪( .‬الجرح و التعدیل البن ابی حاتم الرازی‪ :‬ج‪ 6‬ص‪ 333‬رقم ‪)1409‬‬
‫‪ :8‬امام ابو داؤد‪ :‬في حدیثه خطأ (وقال فی موضع آخر) ال بأس به‪( .‬تہذیب التہذیب‪ :‬ج‪5‬‬
‫ص‪ 84‬رقم ‪)6007‬‬
‫‪ :9‬امام عثمان بن ابی شیبہ ‪ :‬ال بأس به (تہذیب التہذیب‪ :‬ایضا ً)‬
‫‪ :10‬امام ابو بکر البزار‪ :‬مستقیم الحدیث (تہذیب التہذیب‪ :‬ایضا ً)‬
‫اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی کی ثقاہت و ضعف میں اختالف ہو تو اس کی روایت حسن‬
‫درجہ کی ہوتی ہے‪ ،‬قواعد فی علوم الحدیث میں ہے‪:‬‬
‫اذا کان روات اسناد الحدیث ثقات وفیہم من اختلف فیہ‪:‬‬
‫اسناده حسن‪ ،‬او مستقیم او ال باس بہ‪.‬‬
‫(قواعد فی علوم الحدیث‪ :‬ص‪ 75‬نقالً عن مقدمۃ الترغیب و الترہیب و نصب الرایۃ و التعقبات للسیوطی و تہذیب التہذیب‬
‫تحت ترحمہ عبد ہللا بن صالح)‬
‫لہذا اصولی طور پر یہ روایت حسن درجہ کی ہے۔ عالمہ ہیثمی نے اس روایت کو نقل کر‬
‫کے فرمایا‪:‬‬
‫و فی رجالہ ضعف و قد وثقوا• ( مجمع الزوائد ج‪4‬ص‪ 625‬باب متعۃ الطالق)‬
‫گویا عالمہ ہیثمی بھی اسی اصول کے تحت اس روایت کو حسن درجہ کا فرما رہے ہیں۔‬
‫ایک ضروری وضاحت‪:‬‬
‫ائمہ محدثین کی آراء اور اصولیین کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ یہ روایت حسن درجہ سے‬
‫کم نہیں۔ بالفرض اس روایت میں کچھ ضعف بھی ہو تو جمہور ائمہ کے تعامل اور اجماع سے یہ‬
‫حدیث صحیح ثابت ہو جاتی ہے۔ عالمہ ابن حزم فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِیه ضعیف فوجدنا‬ ‫وإذا ورد حدیث مرسل أو في أحد ناقل‬
‫ذلك الحدیث مجمعا على أخذه والقول به علمنا یقینا أنه‬
‫حدیث صحیح ال شك فیه‪( .‬توجیہ النظر الى اصول االثر‪:‬ج‪ 1‬ص‪)141‬‬
‫کہ جب کوئی مرسل روایت ہو یا کوئی ایسی روایت ہو جس کے راویوں میں سے کسی میں کوئی‬
‫ضعف ہو لیکن اس حدیث کو لینے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اجماع واقع ہو چکا ہو تو ہم‬
‫یقینا یہ جان لیں گے کہ یہ حدیث ”صحیح“ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔‬
‫چونکہ تین طالقوں کے تین ہونے پر اجماع ہے (جیسا کہ اس پر عنقریب حوالہ جات پیش‬
‫کیے جائیں گے) اس لیے اگر اس حدیث کے کسی راوی میں ضعف بھی ہو تب بھی کوئی مضائقہ‬
‫نہیں‪ ،‬ایسی حدیث صحیح شمار ہو گی۔ اسی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمہ زاہد بن الحسن‬
‫الکوثری نے حافظ ابن رجب الحنبلی سے اس روایت کے متعلق تصحیح نقل کی ہے کہ حافظ ابن‬
‫رجب فرماتے ہیں‪:‬‬
‫اسناده صحیح• (االشفاق للکوثری ص‪)38‬‬
‫لہذا البانی صاحب وغیرہ کا اس تصحیح کو نہ ماننا اور عالمہ کوثری پر بال وجہ طعن کرنا یقینا غلط‬
‫اور محدثین کے مذکورہ اصولوں سے نا واقفیت کی دلیل ہے۔‬
‫احادیث موقوفہ‬
‫دلیل نمبر‪:1‬‬
‫د طَّ‬
‫لق‬ ‫ٍ قْ‬
‫ُل‬‫ِرج‬ ‫ُت‬
‫ِی ب‬ ‫ِذاا‬
‫ه ا‬‫ُْ‬
‫اَّللُ عن‬
‫ِى َّ‬ ‫ُ رض‬
‫ُمر‬‫َٔنسٍ قال کان ع‬ ‫ْ ا‬
‫عن‬
‫ْنُ‬
‫ھما‪.‬‬ ‫ً وفر‬
‫َّق بی‬ ‫ْبا‬ ‫ْجعُ‬
‫ہ ضر‬ ‫َٔو‬ ‫ْل‬
‫ِسٍ ا‬ ‫ً ف‬
‫ِیْ مج‬ ‫ٔتُ‬
‫ہ ثالثا‬ ‫ِْ‬
‫مرا‬ ‫ا‬
‫(مصنف ابن ابی شیبہ‪ :‬ج‪9‬ص‪ 519‬باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثالثا۔ رقم الحدیث‪)18089‬‬
‫اسناده صحیح ورواتہ ثقات‪.‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪9‬‬
‫دلیل نمبر‪:2‬‬
‫مرأتُ‬
‫ه‬ ‫اْ‬ ‫لق‬‫ِ فطَّ‬ ‫ِینة‬ ‫َّاالً كان ب ْ‬
‫ِالمد‬ ‫ن بط‬‫ھبٍ ‪ :‬أَّ‬ ‫بنِ وْ‬ ‫ِ ْ‬ ‫ْ زْ‬
‫ید‬ ‫عن‬
‫َّ‬
‫ِنما‬‫‪ :‬إ‬ ‫ه فقال‬ ‫ْ‬
‫اَّللُ عنُ‬
‫ِى َّ‬ ‫َّ‬
‫بنِ الخطابِ رض‬‫ْ‬ ‫ُمر ْ‬ ‫ِلى ع‬ ‫ِك إ‬ ‫ِع ذل‬ ‫ًا فر‬
‫ُف‬ ‫أْلف‬
‫ن كان‬ ‫ِْ‬
‫إ‬ ‫ِ وقال ‪:‬‬ ‫َّۃ‬
‫ِر‬‫ِالد‬ ‫ه ب‬ ‫ُْ‬‫اَّللُ عن‬
‫ِى َّ‬ ‫ُ رض‬ ‫ُمر‬‫ه ع‬ ‫ُ فعالُ‬ ‫ُ أْلعب‬ ‫ْت‬‫ُن‬
‫ك‬
‫ٌ‪( .‬السنن الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪ 7‬ص‪ 334‬باب ما جاء فی امضاء ا لطالق الثالث)‬
‫ِیك ثالث‬ ‫ْف‬
‫لیك‬
‫اسناده صحیح ورواتہ ثقات‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:3‬‬
‫ْمان فقال‬ ‫ُث‬‫ٌ إلى ع‬ ‫ُل‬‫ْیى قال ‪ :‬جاء رج‬ ‫ِح‬‫ِي ت‬ ‫بنِ أب‬‫ِیة ْ‬ ‫ْ ُ‬
‫معاو‬ ‫عن‬
‫ٌ‬
‫ْعة‬ ‫ْك ‪ ،‬وسب‬ ‫منھا علی‬ ‫ِْ‬‫یحر‬ ‫ٌ ُ‬ ‫ۃ ‪ ،‬قال ‪ :‬ثالث‬ ‫ِاً‬ ‫ِي م‬ ‫مرأت‬‫ْت اْ‬ ‫َّ‬
‫ِي طلق‬‫‪ :‬إن‬
‫دواٌ‬
‫ن‪( .‬مصنف ابن ابی شیبہ ‪:‬ج‪9‬ص‪522‬باب ما جا ء یطلق امرأتہ مائۃ او الف فی قول وا حد‪.‬‬ ‫ُْ‬
‫ُون ع‬ ‫ِسْع‬
‫وت‬
‫رقم ‪)18104‬‬
‫اسناده صحیح و رجالہ ثقات‪.‬‬
‫تنبيہ‪ :‬بعض نسخوں میں معاویہ بن ابی تحیی کے والد کا نام ”ابی تحیی“ کے‬
‫بجائے ”ابی یحیی“ (یا کے ساتھ) لکھا گیا ہے لیکن امیر الحافظ نے ”ابی تحیی“ (تا کے ساتھ) ضبط‬
‫کیا ہے۔ (االکمال البن ماکوال‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ )507‬اور شیخ عوامہ کے طرز بیان سے بھی اسی کو ترجیح‬
‫معلوم ہوتی ہے۔ (حاشیۃ مصنف ابن ابی شیبۃ‪ :‬ج‪ 9‬ص‪)522‬‬
‫دلیل نمبر‪:4‬‬
‫طلقت‬ ‫عن علقمة قال جاء رجل إلى بن مسعود فقال إني‬
‫فقال‬ ‫امرأتي تسعة وتسعین وإني سألت فقیل لي قد بانت مني‬
‫تقول‬ ‫بن مسعود لقد أحبوا أن یفرقوا بینك وبینھا قال فما‬
‫منك‬ ‫رحمك ہللا ‪ -‬فظن أنه سیرخص له ‪ -‬فقال ثالث تبینھا‬
‫وسائرھا عدوان‪.‬‬
‫(مصنف عبدالرزاق‪ :‬ج‪ 6‬ص‪ 307‬رقم ‪ 11387‬باب المطلق ثالثا ‪،‬سنن سعید بن منصور‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 261‬کتاب‬
‫الطالق باب التعدی فی الطالق رقم ‪)1963‬‬
‫البخاری و مسلم‬ ‫اسناده صحیح علی شرط‬
‫دلیل نمبر‪:5‬‬
‫عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثالثا طلقت وعصى‬
‫ربه‪.‬‬
‫(مصنف عبدالرزاق‪ :‬ج ‪ 6‬ص‪ 307‬رقم ‪ 11388‬باب المطلق ثالثاً)‬
‫اسناده صحیح علی شرط الشیخین‪.‬‬
‫َّ‬
‫ْ طلق‬
‫ُمر ‪ :‬من‬‫ُ ع‬
‫بن‬‫ٍ قال ‪ :‬قال اْ‬ ‫ِع‬‫ْ ناف‬
‫(فی روایۃ) عن‬
‫تُ‬
‫ه‪.‬‬ ‫مرأُ‬
‫ه اْ‬‫ُْ‬
‫ِن‬‫ْ م‬
‫ه ‪ ،‬وبانت‬‫بُ‬ ‫ه ثالً‬
‫ثا ‪ ،‬فقْ‬
‫د عصى رَّ‬ ‫مرأتُ‬
‫اْ‬
‫(مصنف ابن ابی شیبہ‪ :‬ج‪ 9‬ص‪ 520‬باب من کرہ ان یطلق الر جل امراتہ ثالثاًفی مقعد واحد‪ .‬رقم ‪)18091‬‬
‫دلیل نمبر‪:6‬‬
‫ً قبل ان یدخل‬ ‫عن انس بن مالک فیمن طلق امراتہ ثالثا‬
‫بھا قال ال تحل لہ حتی تنکح غیرہو فی روایۃ ھی ثالث‪.‬‬
‫(سنن سعید بن منصور ‪:‬ج ‪1‬ص ‪ 264‬رقم الحدیث ‪، 1973 ،1974‬مصنف عبدالرزاق‪ :‬ج ‪ 6‬ص‪ 269، 261‬باب طالق البکر)‬
‫صحیح علی شر ط البخاری و مسلم‪.‬‬ ‫اسناده‬
‫دلیل نمبر‪:7‬‬
‫ُل‬
‫ٍ‬ ‫ْ رج‬
‫ْنٍ عن‬ ‫ُ ح‬
‫ُصی‬ ‫بن‬ ‫ْراُ‬
‫ن ْ‬ ‫ِم‬ ‫ْبان قال ‪ :‬سُئ‬
‫ِل ع‬ ‫ِ ْ‬
‫بنِ سح‬ ‫ْ واق‬
‫ِع‬ ‫عن‬
‫ْه‬
‫ِ‬ ‫ْ علی‬
‫ِمت‬
‫ُر‬‫ِ ‪ ،‬وح‬
‫ِه‬‫ِرب‬
‫ِم ب‬
‫ِسٍ ؟ قال ‪ :‬أث‬‫ْل‬
‫ِي مج‬ ‫ً‬ ‫مرأتُ‬
‫ه ثالثا ف‬ ‫لق اْ‬‫طَّ‬
‫تُ‬
‫ه‪.‬‬ ‫مرأُ‬
‫اْ‬
‫(مصنف ابن ابی شیبہ ‪ :‬ج‪ 9‬ص‪519‬من كرہ ان یطلق الرجل امراتہ ثالثا فی مقعد واحد واجاز ذلك علیہ‪ .‬رقم ‪)18087‬‬
‫اسناده صحیح و رواتہ ثقات‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:8‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪10‬‬
‫عن نعمان بن أبي عیاش قال سأل رجل عطاء بن یسار عن‬
‫الرجل یطلق البكر ثالثا فقال إنما طالق البكر واحدۃ فقال‬
‫له عبد ہللا بن عمرو بن العاص أنت قاص الواحدۃ تبینھا‬
‫والثالث تحرمھا حتى تنكح زوجا غیره‬
‫‪،‬موطا امام مالک‪ :‬ص‪ 521‬باب الطالق‬
‫(مصنف عبدالرزاق‪ :‬ج ‪ 6‬ص ‪262‬رقم الحدیث‪ 11118‬باب الطالق البکر ٔ‬
‫البکر ‪ ،‬سنن سعید بن منصور‪ :‬ج‪ 1‬ص ‪ 264‬رقم الحدیث ‪ 1975‬باب التعدی فی الطالق)‬
‫البخاری و مسلم ۔‬ ‫اسناده صحیح علی شرط‬
‫دلیل نمبر‪:9‬‬
‫مالک عن یحیی بن سعید عن بکیر بن عبد ہللا بن االشجع انہ‬
‫اخبره عن معاویۃ بن ابی عیاش االنصاری انہ کان جالسا مع‬
‫عبد ہللا بن الزبیر و عاصم بن عمرقال فجاءھما محمد بن ایاس‬
‫بن البکیر فقال ان رجال من اھل البادیۃ طلق امراتہ ثالثا‬
‫قبل ان یدخل بھا فما ذا تریان فقال عبد ہللا بن الزبیر ان‬
‫ھذا االمر ما بلغ لنا فیہ قول فاذہب الی ابن عباس و ابی‬
‫ہریرۃفانی ترکتہما عند عائشۃفسلمہما ثم ائتنا فذہب‬
‫فسئلھما فقال ابن عباس ال بی ھریرۃ افتہ یا ابا ھریرۃ فقد‬
‫فقال ابو ھریرۃ الواحده تبینھا والثالث‬ ‫ا ء تک معضلۃ‬‫جٓ‬
‫ًغیره وقال ابن عباس مثل ذلک‬ ‫تحرمھا حتی تنکح زوجا‬
‫البکر‪،‬وموطا امام محمد‪ :‬ص‪ 263‬باب الرجل یطلق امرأتہ ثالثا ً قبل ان یدخل‬
‫ٔ‬ ‫موطا امام مالک‪ :‬ص‪ 521‬باب طالق‬
‫( ٔ‬
‫بھا ‪،‬مصنف عبد الرزاق‪ :‬ج ‪ 6‬ص ‪ 262‬رقم الحدیث ‪ 11115‬باب طالق البکر )‬
‫اسناده صحیح علی شرط البخاری و مسلم‪.‬‬

‫دلیل نمبر‪:10‬‬
‫عن الحكم أن علیا وبن مسعود وزید بن ثابت قالوا إذا‬
‫طلق البكر ثالثا فجمعھا لم تحل له حتى تنكح زوجا غیره فإن‬
‫فرقھا بانت باألولى ولم تكن األخریین شیئا‪.‬‬
‫(مصنف عبد الرزاق ‪:‬ج ‪ 6‬ص ‪ 264‬رقم الحدیث ‪ 11127‬باب طالق البکر ‪ ،‬سنن سعید بن منصور‪ :‬ج ‪ 1‬ص ‪ 266‬باب‬
‫التعدی فی الطالق رقم الحدیث ‪ ،1080‬المحلی با ٓ‬
‫الثار البن حزم‪ :‬ج ‪ 9‬ص‪ 497، 498‬کتاب الطالق )‬
‫اسناده صحیح علی شرط البخاری و مسلم‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:11‬‬
‫ْ‬
‫ُمر ‪ ،‬عن‬ ‫ُ ع‬ ‫ُْ‬
‫د ہللاِ ْ‬
‫بن‬ ‫ُبی‬‫حدثنا ع‬‫ُسامة ‪ ،‬قال ‪َّ :‬‬ ‫بو أ‬‫دثنا أُ‬ ‫حَّ‬
‫ْ‬
‫ْر ‪ ،‬عن‬‫بكی‬‫بنِ ُ‬‫بنِ إیاسِ ْ‬ ‫َّد‬
‫ِ ْ‬ ‫ْ ُ‬
‫محم‬ ‫ْر ‪(.‬ح) وعن‬ ‫ُم‬ ‫ٍ ‪ ،‬عنِ اْ‬
‫بنِ ع‬ ‫ِع‬
‫ناف‬
‫ُ‬
‫مرأته‬‫ُ اْ‬‫ِق‬
‫یطل‬‫ِ ُ‬‫ُل‬‫َّج‬
‫ِي الر‬ ‫ِشة ؛ ف‬ ‫َّاسٍ ‪ ،‬وعائ‬
‫بنِ عب‬ ‫یرۃ ‪ ،‬واْ‬‫ھرْ‬ ‫ِي ُ‬ ‫أب‬
‫ْجًا‬ ‫ْك‬
‫ِح زو‬ ‫َّى تن‬
‫ُ حت‬ ‫ُّ له‬‫الوا ‪ :‬ال تحِل‬‫ِھا ‪ ،‬ق ُ‬ ‫ُل ب‬ ‫ن یْ‬
‫دخ‬ ‫ْل أْ‬ ‫ً‬
‫ثالثا قب‬
‫ه‪.‬‬‫ْرُ‬‫غی‬
‫(مصنف ابن ابی شیبہ ‪:‬ج‪ 9‬ص‪536‬باب فی الرجل یتزوج المرأۃ ثم یطلقھا ثالثا قبل ان یدخل بھا‪ .‬رقم ‪)18159‬‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم‪.‬‬
‫احادیث مقطوعہ‬
‫دلیل نمبر‪:1‬‬
‫ٔتہ انت طالق ثالث قبل‬ ‫عن ابرا ہیم فی الرجل یقول المرا‬
‫ً لم تحل لہ فاذا اخرجہن‬ ‫ان یدخل بھا قال ان اخرجھن جمیعا‬
‫(سنن سعید بن منصور‬ ‫تتری بانت باولی والثنتان لیستا بشئی ‘‘۔‬
‫‪:‬ج‪1‬ص‪،266‬رقم ‪ 1980‬باب التعدی فی الطالق‪ ،‬مصنف عبد الرزاق ‪:‬ج‪6‬ص‪)261‬‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم ‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:2‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪11‬‬
‫ً فال تحل لہ‬ ‫عن ابن المسیب اذا طلق الرجل البکر ثالثا‬
‫ً غیره‪.‬‬
‫حتی تنکح زوجا‬
‫( مصنف عبد الرزاق‪:‬ج‪:6‬ص‪261‬رقم الحدیث‪11110‬باب طالق البکر )‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:3‬‬
‫ًا ‪ ،‬قال ‪:‬‬
‫ِیع‬ ‫ه ثالً‬
‫ثا جم‬ ‫مرأتُ‬
‫ِق اْ‬ ‫یطل‬‫ٍ ُ‬
‫ُل‬‫ِي رج‬
‫ِيِ ؛ ف‬ ‫ُّْ‬
‫ھر‬ ‫عنِ الز‬
‫ه‪.‬‬ ‫مرأُ‬
‫تُ‬ ‫ُْ‬
‫ه اْ‬ ‫ْ م‬
‫ِن‬ ‫ه ‪ ،‬وبانت‬‫بُ‬‫د عصى رَّ‬ ‫َّ‬
‫إن فعل فقْ‬
‫(مصنف ابن ابی شیبہ‪:‬ج‪9‬ص‪ 520‬باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثالث‪ .‬رقم ‪)18092‬‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم‪.‬‬
‫دلیل نمبر‪:4‬‬
‫ً قبل ان ید‬
‫ٔتہ ثال ثا‬
‫عن الحسن انہ قال فی من طلق امرا‬
‫ً غیره‬‫خل بھا قال رغم انفہ بلغ حده حتی تنکح زوجا‬
‫(سنن سعید بن منصور ‪:‬ج‪1‬ص‪ 267‬رقم الحدیث ‪1088‬باب التعدی فی الطالق )‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم‪.‬‬

‫دلیل نمبر‪:5‬‬
‫ً‬
‫جمیعا‬ ‫ً‬
‫عن الشعبی قال فی الرجل یطلق البکر ثال ثا‬
‫ً غیره فا ن‬
‫فلم ید خل بھا قال ال تحل لہ حتی تنکح زوجا‬
‫(قال) انت طا لق ‪ ،‬انت طالق‪ ،‬فقد بانت باالولی لیخطبھا‪.‬‬
‫(مصنف عبد الرزاق ‪:‬ج‪6‬ص‪ 264‬باب طالق البکر)‬
‫اسناده صحیح علی شر ط البخا ری ومسلم‪.‬‬
‫اجماع امت‬
‫امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م‪307‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۱‬‬
‫فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثالث معا‪.‬‬
‫(احکام القر آ ن للجصا ص ‪:‬ج‪ 1‬ص‪527‬ذکر الحجاج الیقاع الثالث معا ً )‬
‫امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر (م‪319‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۲‬‬
‫ُّ‬ ‫ََّٔ‬
‫نھاالتحِل‬ ‫ثا ا‬ ‫ہ ثال ً‬ ‫ٔتُ‬ ‫ِْ‬
‫مرا‬ ‫لق ا‬‫ِذا طَّ‬ ‫ُل ا‬ ‫َّج‬
‫ن الر‬ ‫ََّٔ‬
‫ْا علی ا‬ ‫ُو‬‫ْمع‬‫ٔج‬
‫وا‬
‫َّ‬
‫ِ و سلم•‬ ‫ْہ‬ ‫َّ‬
‫ِی صلی ہللاُ علی‬ ‫َّ‬
‫یث النب‬ ‫ُ‬ ‫ِْ‬
‫ِہ حد‬ ‫ٍ علی ماجائ ب‬ ‫ْج‬
‫ْد زو‬ ‫ہ اَّ‬
‫ِالبع‬ ‫لُ‬
‫(کتاب االجماع البن المنذر ص‪)92‬‬
‫امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی (م‪321‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۳‬‬
‫ْ‬‫ِن‬ ‫ہ م‬ ‫ِمُ‬ ‫ِ لز‬ ‫ْتِ الط‬
‫َّالق‬ ‫ِیْ وق‬‫ُالًّف‬
‫ْقع ک‬ ‫ً فاو‬ ‫ہ ثالثا‬ ‫ٔتُ‬‫مرا‬ ‫ِْ‬
‫لق ا‬‫ْ طَّ‬‫من‬
‫ِ اَّللِ‬ ‫ْل‬ ‫ُ رسُو‬ ‫ْحاب‬ ‫َٔص‬‫ْ ا‬
‫ِم‬‫ْھ‬
‫ِی‬‫ًا وف‬ ‫ْع‬‫ِی‬‫َّاس جم‬ ‫ِک الن‬ ‫ِذل‬ ‫ُب‬‫ُمر‬‫ِک‪ ....‬فخاطب ع‬ ‫ذل‬
‫ْ‬
‫ِن‬ ‫دم م‬ ‫ْاماتقَّ‬ ‫ُو‬‫ِم‬ ‫ین قْ‬
‫دعل‬ ‫ِْ‬ ‫َّ‬
‫ُ الذ‬ ‫ْ‬
‫ِی اَّللُ عنُ‬
‫ھم‬ ‫َّ‬
‫ِ و سلم ورض‬ ‫ْہ‬
‫لی ہللاُ علی‬‫صَّ‬
‫ِ‬ ‫ْہ‬ ‫ه علی‬ ‫ُْ‬‫ِر‬‫ْک‬
‫ین‬‫ْ ُ‬ ‫لم فلم‬ ‫ِ و سَّ‬ ‫ْہ‬‫لی ہللاُ علی‬‫ِ اَّللِ صَّ‬‫ْل‬ ‫ِیْ زمنِ رسُو‬ ‫ِک ف‬ ‫ذل‬
‫ٌ• (سنن الطحاوی ج‪2‬ص‪34‬باب الرجل یطلق امرأتہ ثالثا ً‬ ‫ِع‬
‫ہ داف‬ ‫ُْ‬ ‫دفع‬‫ْ یْ‬ ‫ٌولم‬
‫ِر‬‫ْک‬ ‫ْ ُ‬
‫من‬ ‫ُْ‬
‫ھم‬ ‫ِن‬‫م‬
‫معا‪،‬ونحوہ فی مسلم ج‪ 1‬ص‪) 477‬‬
‫امام ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک المعروف بابن بطال (م‪449‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۴‬‬
‫اتفق أئمة الفتوى على لزوم إیقاع طالق الثالث في كلمة‬
‫واحدۃ‪ ...‬والخالف في ذلك شذوذ وإنما تعلق به أھل البدع‬
‫ُ إلیه لشذوذه عن الجماعة‪( .‬شرح ابن بطال على صحیح‬ ‫یلتفت‬ ‫ومن ال ُ‬
‫البخاری‪:‬ج‪ 9‬ص ‪ 390‬باب من اجاز طالق الثالث)‬
‫حافظ احمد بن علی بن حجر العسقالنی (م‪852‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۵‬‬
‫فالراجح في الموضعین تحریم المتعة وایقاع الثالث‬
‫لالجماع الذي انعقد في عھد عمر على ذلك وال یحفظ أن أحدا‬
‫في عھد عمر خالفه في واحدۃ منھما‪ ...‬فالمخالف بعد ھذا‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪12‬‬
‫اإلجماع منابذ له والجمھور على عدم اعتبار من أحدث االختالف‬
‫بعد االتفاق‪( .‬فتح الباری‪ :‬ج‪ 9‬ص‪ 453‬باب من جوز طالق الثالث)‬
‫قاضی ثناء ہللا پانی پتی (م‪1225‬ھ)‪:‬‬ ‫[‪:]۶‬‬
‫ٌ‬
‫ُ ثالث‬ ‫ً‬
‫ٌ ثالثا یقع‬ ‫ْ‬
‫َٔنتِ طاِ‬
‫لق‬ ‫ِ ا‬ ‫ِہ‬ ‫ٔ‬
‫مرات‬ ‫ِْ‬ ‫ْ‬
‫ہ من قال ِال‬ ‫َّ‬
‫ْاعلی انُ‬ ‫ُو‬ ‫ْمع‬
‫اج‬
‫ِ‪( .‬التفسیر المظہری ج‪1‬ص‪)300‬‬ ‫ْماع‬ ‫ْال‬
‫ِج‬ ‫با‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫محمد رئیس ندوی لکھتے ہیں‪ ،‬جس کا خالصہ یہ ہے کہ اگر تمام مجتہدین کسی مسئلہ پر متفق‬
‫ہوں لیکن ایک مجتہد کی رائے کچھ اور ہو تو اجماع منعقد ہی نہیں ہوتا اور نہ یہ حجت شرعیہ‬
‫عباس‪،‬طاؤس اور ابن تیمیہ‪،‬ابن‬
‫ؓ‬ ‫ہے‪،‬یہ جمہور کا مذہب ہےاور مسئلہ طالق میں تو حضرت ابن‬
‫قیم‪،‬داؤد ظاہری وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ تین طالق ایک واقع ہوتی ہے۔تو پھر یہ اجماع کیسے‬
‫ہوا اور کیونکر حجت ہوا؟‬
‫(تنویر اآلفاق ص‪297‬تا‪ 215‬ملخصاً)‬
‫جواب‪:‬‬
‫اوالً ‪....‬تین طالق کے تین ہونے پر اجماع حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں ہوا‪،‬اس وقت‬
‫حضرات صحابہ رضی ہللا عنہم میں سے ایک شخص بھی اس کا مخالف نہیں تھا۔لہذا یہ حجت ہوا۔‬
‫ثانیا ً‪:.......‬اجماع کی تعریف یہ ہے ‪:‬‬
‫(‪ )1‬اتفاق المجتھدین من امۃ محمدیۃ علیہ السالم فی عصر‬
‫علی حکم شرعی۔(توضیح تلویح‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)522‬‬
‫(‪ )2‬اتفاق المجتھدین من امۃ محمد صلی ہللا علیہ و سلم فی‬
‫عصر علی امر دینی۔(مجموعۃ قواعد الفقہ ص‪ 160‬لمحمد عمیم االحسان)‬
‫تقریبا ً یہی تعریف ہر کتاب میں ملتی ہے۔ اجماع کی اس تعریف میں حضرات صحابہ کرام کے‬
‫اجماع سے لے کر ساتویں صدی تک کے اہل السنۃ والجماعۃ کا اجماع شامل ہے ۔عالمہ ابن‬
‫تیمیہ‪،‬ابن القیم جیسے افراد کی رائے شاذ ہے‪،‬اجماع میں مخل نہیں۔‬
‫ثالثا ً‪:........‬جن شخصیات کا نام اعتراض میں درج ہے ان میں حضرت عباس رضی ہللا عنہما کا اپنا‬
‫فتوی ہے کہ تین طالقیں تین ہیں۔‬
‫(مصنف عبدالرزاق‪:‬ج‪ 6‬ص‪308‬رقم‪)11392‬‬
‫اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے‪:‬‬
‫عمل الراوی بخالف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خالف‬
‫بیقین یسقط العمل بہ عندنا‪( .‬المنار مع شرحہ ص‪)190‬‬
‫کہ راوی کا اپنی روایت کے خالف عمل کرنا اس روایت سے عمل کو ساقط کر دیتا ہے۔ لہذا‬
‫یہ روایت منسوخ ہے۔‬
‫حضرت طاؤس کا قول حسین ابن علی الکرابیسی نے ’’ادب القضاۃ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ وہ‬
‫بھی تین طالق کے تین ہونے کے قائل ہیں۔رہے ابن تیمیہ ‪،‬ابن قیم ‪،‬داؤد ظاہری تو اوالً وہ مجتہد نہیں‬
‫تھے‪،‬پھر یہ ان کا تفرد تھا جس کا اس وقت کے علماء نے رد کردیا ہے۔لہذا ان کے اختالف سے‬
‫اجماع پر زد نہیں پڑتی۔‬
‫رابعا ً‪:..........‬امت کے اکثر مجتہدین کسی بات پر متفق ہوجائیں تو اس پر بھی اجماع کا اطالق‬
‫کیاجاتاہے۔‬
‫قال العالمہ بدر الدین العینی‪ :‬فمن ھذا قال صاحب (‬
‫الھدایة ) من أصحابنا وعلى ترك القراءۃ خلف اإلمام إجماع‬
‫الصحابة فسماه إجماعا باعتبار اتفاق األكثر ومثل ھذا یسمى‬
‫إجماعا عندنا‪( .‬عمدۃ القاری ج ‪4‬ص‪ 449‬باب وجوب القراءۃ )‬

‫حضرات فقہا ء کرا م رحمہم ہللا‬


‫امت مسلمہ کے جید فقہا ء کرا م خصوصا ً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم ہللا تعا لی کے نزدیک‬
‫بھی تین طال قیں تین ہی شما ر ہو تی ہیں ‪:‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪13‬‬
‫امام اعظم ابوحنيفہ نعمان بن ثابت (م‪150‬ھ)‬
‫قال محمد بن الحسن الشیبانی‪ :‬بھذا ناخذ وھو قول ابی‬
‫ً فوقعن‬ ‫ً جمیعا‬ ‫حنیفۃ والعامۃ من فقہائنا النہ طلقہا ثالثا‬
‫(موطا امام محمد‪:‬ص‪ ،263‬سنن الطحاوی‪:‬ج‪2‬ص‪ ،35 ،34‬شرح مسلم‪:‬ج‪1‬‬
‫ٔ‬ ‫ً‪.‬‬
‫ً معا‬ ‫علیہا جمیعا‬
‫ص‪)478‬‬
‫امام مالک بن انس المدنی (م ‪189‬ھ)‬
‫قال مالک بن انس‪ :‬فان طلقہا فی کل طہر تطلیقۃ او‬
‫فقد لزمہ‪.‬‬ ‫ً مجتمعات فی طہر لم یمس فیہ‬ ‫طلقہا ثالثا‬
‫(التمہید البن عبد البر ‪:‬ج‪6‬ص‪،58‬المدونۃ الکبری‪:‬ج‪2‬ص‪ ،3‬شرح مسلم للنووی‪:‬ج‪1‬ص‪)478‬‬
‫امام محمد بن ادریس الشا فعی (م ‪204‬ھ)‬
‫َّ‬
‫ْ طلق‬ ‫ُ _علی اَّ‬
‫ن من‬ ‫ْلم‬‫ُّ_واَّللُ اع‬
‫دل‬ ‫ن یُ‬‫اُ‬‫ْٓ‬‫ُر‬ ‫قال الشافعی‪ :‬و ْ‬
‫الق‬
‫ْک‬
‫ِح‬ ‫ہ حتی تن‬ ‫َّ لُ‬
‫ْ تحِل‬‫ثالم‬‫ِھاثالً‬ ‫ْ ب‬ ‫ُل‬ ‫ْ یْ‬
‫دخ‬ ‫ْلم‬‫ِھا او‬ ‫ہ دخل ب‬ ‫ۃ َّلُ‬
‫ْجً‬‫زو‬
‫ْرُ‬
‫ه‪( .‬کتاب االم لالمام محمد بن ادریس الشافعی‪ :‬ج‪2‬ص‪)1939‬‬ ‫ً‬
‫ْجا غی‬ ‫زو‬
‫امام احمد بن حنبل (م‪241‬ھ)‬
‫قال احمد بن حنبل‪ :‬ومن طلق ثالثا فی لفظ واحد فقد جہل‬
‫و حرمت علیہ زوجتہ وال تحل لہ ابدا حتی تنکح زوجا غیره‪.‬‬
‫(کتا ب الصلوۃ‪ :‬ص‪ 47‬طبع قاہرہ بحوالہ عمدۃ االثاث‪ :‬ص‪)30‬‬
‫جمہور علماء تابعين و غيرہ‬
‫قال العالمۃ بدر الدین العینی‪ :‬ومذھب جماھیر العلماء‬
‫من التابعین ومن بعدھم منھم األوزاعي والنخعي والثوري‬
‫وأبو حنیفة وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه‬
‫وأحمد وأصحابه وإسحاق وأبو ثور وأبو عبید وآخرون كثیرون‬
‫علی أن من طلق امرأته ثالثا وقعن• (عمدۃ القاری‪ :‬ج‪ 14‬ص‪ 236‬باب من اجاز‬
‫طالق الثالث)‬
‫غیر مقلدین کے دالئل کا جواب‬
‫دلیل نمبر‪:1‬‬
‫عن ا بن طاوس عن أبیه عن ابن عباس قال كان الطالق‬
‫على عھد رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وأبي بكر وسنتین من خالفة‬
‫عمر طالق الثالث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد‬
‫استعجلوا في أمر قد كانت لھم فیه أناۃ فلو أمضیناه علیھم‬
‫فأمضاه علیھم‪( .‬صحیح مسلم ج‪ 1‬ص‪،477‬ص‪ ،478‬مصنف عبد الرزاق ج‪6‬ص‪)305‬‬
‫اخر ففیہ ابن جریج‪.‬‬ ‫و من طریق ٓ‬
‫جواب نمبر‪:1‬‬
‫امام نووی نے فرمایا ہے‪:‬‬
‫فاألصح أن معناه أنه كان في أول األمر اذا قال لھا أنت‬
‫طالق أنت طالق أنت طالق ولم ینو تأكیدا وال استئنافا یحكم‬
‫بوقوع طلقة لقلة ارادتھم االستئناف بذلك فحمل على الغالب‬
‫الذي ھو ارادۃ التأكید فلما كان في زمن عمر رضي ہللا عنه‬
‫وكثر استعمال الناس بھذه الصیغة وغلب منھم ارادۃ‬
‫االستئناف بھا حملت عند االطالق على الثالث عمال بالغالب‬
‫السابق إلى الفھم منھا في ذلك العصر‪ ( .‬شرح مسلم للنووی‪ :‬ج‪1‬ص‪)478‬‬
‫کہ حدیث حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب‬
‫کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق‪ ،‬انت طالق‪ ،‬انت طالق“ کہہ کر طالق دیتا اور دوسری اور‬
‫تیسری طالق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ استیناف کی‪ ،‬تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم‬
‫کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪14‬‬
‫رضی ہللا عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموما ً ان کی‬
‫نیت طالق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی‪ ،‬اس لئے اس جملہ کا جب‬
‫کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طالقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔‬
‫تنبیہہ‪ :‬یہ اس صورت میں ہے کہ جب ”انت طالق“کو تین بار کہے ۔اگر ”انت طالق‬
‫ً“کہے تو پھر تین ہی واقع ہو جائیں گی۔‬
‫ثالثا‬
‫جواب نمبر‪:2‬‬
‫اس حدیث میں طالق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوۃ و السالم‬
‫سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تین طالقیں دینے کے بجائے ایک طالق دیا کرتے‬
‫تھے‪ ،‬خالفت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی کہ ایک طالق دینے‬
‫کے بجائے تین طالقیں اکٹھی دینے لگےتو وہ تینوں طالقیں نافذ کردی گئیں۔ حضرت عمر رضی ہللا‬
‫عنہ کے الفاظ اس پر واضح قرینہ ہیں‪ ،‬آپ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لھم فیه أناۃ‬
‫کہ لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے۔‬
‫اگر ابتداء سے تین طالق کا رواج ہوتاتو پھر استعجال اور اناۃ کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ لہذا اس‬
‫حدیث میں ”۔۔۔طالق الثالث واحدۃ“ کا مطلب ”تین طالقوں کے بجائے ایک طالق دینا“‬
‫ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا بلکہ‬
‫مط لب یہ ہے کہ طالق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی۔ اگر یہ مراد لیا جائے‬
‫کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے پہلے فیصلے کو منسوخ فرما کر تین طالقوں کو تین شمار کیا‬
‫ہے تو یہ مطلب انتہائی غلط ہے‪ ،‬کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو صحابہ رضی ہللا عنہم اس پر اجماع‬
‫نہ فرماتے بلکہ اس فیصلہ کا انکار کرتے حاالنکہ کسی سے بھی انکار منقول نہیں۔ یہی مطلب‬
‫محدثین نے بیان کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ُ‬
‫المراد أن المعتاد في الزمن األول كان طلقة واحدۃ‬
‫وصار الناس في زمن عمر یوقعون الثالث دفعة فنفذه عمر فعلى‬
‫ھذا یكون اخبارا عن اختالف عادۃ الناس ال عن تغیر حكم في‬
‫مسألة واحدۃ قال المازري وقد زعم من ال خبرۃ له بالحقائق‬
‫أن ذلك كان ثم نسخ قال وھذا غلط فاحش ألن عمر رضي ہللا عنه ال‬
‫ینسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره‬
‫( شرح مسلم للنووی‪ :‬ج‪2‬ص‪)478‬‬
‫ترجمہ‪ :‬مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طالق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے زمانے‬
‫میں لوگ تینوں طالقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے انھیں نافذ فرما دیا۔‬
‫اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی‬
‫اطالع ہے۔ امام مازری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪ :‬حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ‬
‫”تین طالقیں پہلے ایک تھیں‪ ،‬پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے‪ ،‬اس لیے کہ حضرت‬
‫عمر رضی ہللا عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا‪- ،‬حاشا‪-‬اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ‬
‫رضی ہللا عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔‬
‫عالمہ محمد انور شاہ کشمیری اس حدیث کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں‪:‬‬
‫و یکتفون‬ ‫ای کان الناس یطلقون واحدۃ بدل الثالث‬
‫ً خالف السنۃ‪ ،‬وہم‬ ‫بواحدۃ للتطلیق‪ ،‬وکانوا ال یطلقون ثالثا‬
‫کانوا علی ذلک الی خالفۃ عمر حتی صاروا فی عہده یطلقون‬
‫ً دفعۃ خالف السنۃ‪ ،‬فامضاه عمر علیہم و ہذا احد معنی‬ ‫ثالثا‬
‫الحدیث ذکره النووی فی شرح مسلم‪( .‬معارف السنن‪ :‬ج‪ 5‬ص‪)471‬‬
‫کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طالقیں دینے کے بجائے ایک طالق دینے پر اکتفاء کرتے‬
‫تھے‪ ،‬تین طالقیں جو کہ خالف سنت ہیں نہیں دیتے تھے۔ یہ معاملہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کی‬
‫خالف سنت تین طالقیں اکٹھی دینے لگے تو حضرت عمر‬ ‫ِ‬ ‫خالفت تک چلتا رہا یہاں تک کہ لوگ‬
‫رضی ہللا عنہ نے ان تین طالقوں کو نافذ فرما دیا۔ حدیث کا ایک یہی مطلب امام نووی رحمۃ ہللا علیہ‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪15‬‬
‫نے بیان کیا ہے۔‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫حضرت عالمہ کشمیری رحمۃ ہللا علیہ نے اس حدیث کا یہ مطلب لینے پر(کہ لوگ تین‬
‫طالقوں کی بجائے ایک طالق دیتے تھے) قرآن و حدیث سے دو نظیریں بھی پیش کی ہیں‪:‬‬
‫دا﴾ (سورۃ ص‪) 5:‬‬ ‫ھا واحًِ‬‫ِلً‬‫ِھة إ‬ ‫نظير نمبر‪ :1‬ہللا تعالی کا فرمان ہے‪﴿ :‬أجعل ْ‬
‫اآلل‬
‫ترجمہ‪( :‬کافر یہ کہتے ہیں‪ ):‬کیا اس (پیغمبر) نے سارے معبودوں کو ایک معبود میں تبدیل کر دیا‬
‫ہے؟‬

‫عالمہ کشمیری فرماتے ہیں‪:‬‬


‫فہم لم یریدوا بقولہم ہذا انہ صلی ہللا علیہ و سلم آمن‬
‫ً واحدا‬ ‫بآلہۃ ثم جعلہم واحدا‪ ،‬و انما یریدون انہ جعل الہا‬
‫بدل آلہۃ‪( .‬معارف السنن‪ :‬ج‪ 5‬ص‪)472‬‬
‫ترجمہ‪ :‬کفار کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ و سلم پہلے تمام آلہہ پر ایمان‬
‫الئے پھر ان کو ایک کر دیا‪ ،‬بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے تمام آلہہ کو چھوڑ کر ایک کو اپنا لیا‬
‫ہے۔‬
‫نظير نمبر‪ :2‬آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے‪:‬‬
‫من جعل الھموم ھما واحدا ھم آخرته كفاه ہللا ھم دنیاه‬
‫الخ (سنن ابن ماجۃ‪ :‬باب االنتفاع بالعلم والعمل بہ‪ -‬عن عبد ہللا بن مسعود)‬
‫ترجمہ‪ :‬جو شخص اپنی تمام فکروں کو ایک فکر یعنی آخرت کی فکر بنا لے ہللا تعالی دنیوی‬
‫پریشانیوں اور فکروں سے اس کی کفایت فرماتے ہیں الخ‬
‫عالمہ کشمیری فرماتے ہیں‪:‬‬
‫فلیس المراد اختیار الہموم ثم جعلہا واحدۃ‪ ،‬و انما‬
‫ً بدل ہموم کثیرۃ‪.‬‬ ‫ً واحدا‬ ‫المراد انہ اختار ہما‬
‫(معارف السنن‪ :‬ج‪ 5‬ص‪)472‬‬
‫کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان پہلے تمام غموں کا روگ لگا لے پھر ان سب کو ایک غم میں‬
‫تبدیل کر دے‪ ،‬بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غموں کے انبار کو چھوڑ کر ایک آخرت کی فکر کو اپنا‬
‫لے۔‬
‫جواب نمبر‪:3‬‬
‫امام احمد بن حنبل نے فر مایا‪ :‬الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ‬
‫والحدیث یفسر بعضہا بعضا‪.‬‬
‫(الجا مع الخالق الرا وی للخطیب‪ :‬ص‪ 370‬رقم‪)1651‬‬
‫چنانچہ حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ کی ایک حدیث سنن ابی داود میں ہے‪ ،‬جس میں‬
‫راوی سے سوال کرنے واال شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصہباء‪ ،‬اور دونوں روایتوں کے الفاظ‬
‫بھی تقریبا ً ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے‪:‬‬
‫ْل‬ ‫ً‬
‫ه ثالثا قب‬ ‫مرأتُ‬ ‫َّ‬
‫ِذا طلق اْ‬ ‫ُ إ‬ ‫َّج‬
‫ُل‬ ‫َّاسٍ بلى كان الر‬ ‫ُ عب‬ ‫بن‬‫قال اْ‬
‫ِ َّ‬
‫اَّللِ ‪-‬صلى ہللا علیه‬ ‫ِ رسُول‬ ‫ۃ على عْ‬
‫ھد‬ ‫لوھا واحِدً‬ ‫ِھا جعُ‬ ‫ُل ب‬‫دخ‬ ‫ن یْ‬ ‫أْ‬
‫ُمر‪( .‬سنن ابی داؤد‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 317‬باب نسخ‬‫ِ ع‬ ‫ِمارۃ‬ ‫ْ إ‬ ‫ًا م‬
‫ِن‬ ‫در‬ ‫ٍ وصْ‬ ‫ْر‬‫ِى بك‬ ‫وسلم‪ -‬وأب‬
‫المراجعۃ بعد التطلیقات الثالث)‬
‫اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔ (زاد المعاد البن القیم‪ :‬ج‪ 4‬ص‪-1019‬فصل‪ :‬فى حكمہ صلى ہللا علیہ‬
‫وسلم فیمن طلق ثالثا بكلمۃ واحدۃ‪ ،‬عمدۃ االثاث‪ :‬ص‪)94‬‬
‫اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤوس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا‬
‫کی قید موجود ہے۔ عالمہ عالء الدین الماردینی (م‪745‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ذكر ابن أبى شیبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء‬
‫انھم قالوا إذا طلقھا ثالثا قبل ان یدخل‬ ‫وجابر بن زید‬
‫بھا فھى واحدۃ‪( .‬الجوہر النقی‪ :‬ج ‪7‬ص‪)331‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪16‬‬
‫ِھا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے ۔‬ ‫ُل ب‬ ‫ن یْ‬
‫دخ‬ ‫ْل أْ‬ ‫ان دونوں روایات میں ”قب‬
‫معلوم ہوا کہ حدیث صحیح مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ مقید ہے۔ ایسی‬
‫عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طالق دے‬
‫تو پہلی طالق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طالق لغو ہوجائے گی‪ ،‬اس لیے کہ‬
‫وہ طالق کا محل ہی نہیں رہی۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کے دور‪ ،‬حضرت ابو بکر صدیق‬
‫رضی ہللا عنہ کے دور اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے ابتدائی دور میں غیر مدخول بہا کو‬
‫طالق دینے کا یہی طریقہ رائج تھا اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان‬
‫تین طالقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طالقیں دینے‬
‫لگے(یعنی انت طالق ثالثا) تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار‬
‫ہوں گی‪ ،‬کیونکہ غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طالقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔‬
‫جواب نمبر‪:4‬‬
‫اگر وہی مطلب لیا جائے جو غیر مقلدین لیتے ہیں کہ تین طالق ایک ہوتی ہے تو یہ مطلب‬
‫لینا اس روایت ہی کو شاذ بنا دیتا ہے‪ ،‬اس لیے کہ یہ روایت حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے‬
‫مروی ہے اورحضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما کے جملہ شاگرد آپ سے تین طالق کا تین ہونا ہی‬
‫روایت کرتے ہیں‪ ،‬صرف طاؤس ایسے ہیں جو مذکورہ روایت نقل کرتے ہیں۔ تصریحات محققین‬
‫مالحظہ ہوں‪:‬‬
‫(‪ :)1‬قال االمام احمد بن حنبل‪ :‬كل أصحاب ابن عباس رووا‬
‫عنه خالف ما قال طاوس‪.‬‬
‫(نیل االوطار للشوکانی ج‪6‬ص‪ 245‬باب ما جاء فی طالق البتۃ)‬
‫(‪ :)2‬قال االمام محمد ابن رشد المالکی‪ :‬بأن حدیث ابن عباس‬
‫الواقع في الصحیحین إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ‪ ،‬وأن‬
‫جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثالث منھم سعید بن جبیر‬
‫ومجاھد وعطاء وعمرو بن دینار وجماعة غیرھم‪.‬‬
‫(بدایۃ المجتہد ج‪2‬ص‪ 61‬کتاب الطالق‪ ،‬الباب االول)‬
‫تنبیہہ‪ :‬حدیث ابن عباس صحیحین میں نہیں ‪،‬صرف صحیح مسلم میں ہے۔‬
‫ِى‬ ‫ْ‬ ‫ِ‬
‫ٍ وعطاء بنِ أب‬ ‫ْ‬
‫ُبیر‬‫بنِ ج‬‫ِ ْ‬ ‫ِید‬‫ة سع‬‫ِوایُ‬ ‫ِ ر‬‫ِه‬‫(‪ :)3‬قال البیہقی‪ :‬فھذ‬
‫ِثِ‬ ‫ْ‬
‫بنِ الحار‬ ‫ِكِ ْ‬ ‫ٍ ومال‬ ‫ِینار‬ ‫بنِ د‬‫ِو ْ‬ ‫ْر‬‫ِمة وعم‬ ‫ْر‬
‫ِك‬‫ٍ وع‬ ‫ِد‬
‫مجاھ‬ ‫ٍ وُ‬ ‫رباح‬
‫َّاشٍ‬
‫ِى عی‬ ‫ِیة ْ‬
‫بنِ أب‬ ‫معاو‬ ‫ْ ُ‬‫ه عن‬ ‫ِیناُ‬‫ُو‬‫ِ ور‬ ‫ْر‬
‫ُكی‬ ‫ْ‬
‫بنِ الب‬‫ِیاسِ ْ‬‫بنِ إ‬‫ِ ْ‬‫َّد‬
‫محم‬ ‫وُ‬
‫َّ‬
‫ھن‬ ‫مضاُ‬ ‫َّ‬
‫َّالق الثالث وأْ‬‫ه أجاز الط‬ ‫َّاسٍ أَّ‬
‫نُ‬ ‫بنِ عب‬‫ْ عنِ اْ‬‫ھم‬ ‫ُّ‬
‫ُلُ‬‫ِىِ ك‬
‫نصار‬ ‫األْ‬
‫احدَۃً)‬ ‫(السنن الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪ 7‬ص‪ 338‬باب َم ْن َج َع َل الثالَ َ‬
‫ث َو ِ‬
‫چونکہ طاوس کی یہ روایت حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما کے تمام شاگردوں کی روایت‬
‫کے خالف ہے اس لیے امام بخاری رحمہ ہللا اس روایت کو اپنی صحیح میں نہیں الئے۔ امام بیہقی‬
‫رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِ سائ‬
‫ِر‬ ‫ُخالفت‬
‫ِه‬ ‫لم‬‫ه ِ‬ ‫نما تركُ‬ ‫َِّ‬
‫ه إ‬ ‫ُن‬
‫ُُّ‬ ‫ِىُّ وأظ‬ ‫ُخار‬‫الب‬‫ْ‬ ‫وتركُ‬
‫ه‬
‫َّاسٍ‪.‬‬
‫بنِ عب‬ ‫ِوایاتِ عنِ اْ‬ ‫الر‬
‫احدَۃً)‬ ‫( السنن الکبری للبیہقی ج‪ 7‬ص‪ 338‬باب َم ْن َجعَ َل الثالَ َ‬
‫ث َو ِ‬
‫الحاصل یہ روایت طاوس نے حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما کے تمام شاگردوں کے‬
‫خالف روایت کی ہے اور تمام شاگرد تین کا تین ہونا ہی نقل کرتے ہیں‪ ،‬اس لیے طاوس کی یہ روایت‬
‫ان سب کے مقابلے میں شاذ‪ ،‬وہم‪ ،‬غلط اور ناقاب ِل حجت ہے۔‬
‫جواب نمبر‪:5‬‬
‫خود حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ کا اپنا فتوی اس روایت کے خالف ہے۔ کیونکہ ابن‬
‫عباس رضی ہللا عنہ تین طالق کو تین ہی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِیْ ثال‬ ‫ٔ‬
‫ِمرات‬ ‫ُ ا‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬
‫ٌ فقال طلقت‬ ‫ُل‬‫ه رج‬‫َٔتاُ‬ ‫ہ ا‬ ‫نُ‬‫ََّٔ‬
‫ہ ا‬ ‫ُْ‬‫ِی ہللاُ عن‬‫َّاسٍ رض‬
‫بنِ عب‬ ‫عنِ اْ‬
‫ْرک‪.‬‬‫ًغی‬ ‫ْجا‬ ‫ْک‬
‫ِح زو‬ ‫ْک حتی تن‬ ‫ْ علی‬ ‫ُمت‬‫بک وحر‬ ‫ْت رَّ‬‫ثا فقال عصی‬ ‫ً‬
‫(جامع المسانید ج ‪2‬ص‪ ،148‬السنن الکبری للبیہقی‪ :‬ج‪ 7‬ص‪ 337‬واسنادہ صحیح)‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪17‬‬
‫اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے‪:‬‬
‫عمل الراوی بخالف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خالف‬
‫بیقین یسقط العمل بہ عندنا۔‬
‫(المنار مع شرحہ ص‪ ،194‬قواعد فی علوم الحدیث للعثمانی ص ‪)202‬‬
‫کہ راوی کا روایت کرنے کے بعد اس کے خالف عمل کرنا اس روایت پر عمل کو ساقط کر‬
‫دیتا ہے۔‬
‫لہذا اس اصول کی رو سے بھی مذکورہ روایت قاب ِل عمل نہیں ہے۔‬
‫جواب نمبر‪:6‬‬
‫اس روایت کی ایک سند میں ایک راوی’’طاؤس یمانی‘‘ ہے۔ امام سفیان ثوری ‪ ،‬امام ابن قتیبہ‪،‬اور‬
‫امام ذہبی نے اسے شیعہ قرار دیا ہے۔‬
‫(سیر اعالم النبالء ج‪ 5‬ص‪ ،26،27‬المعارف البن قتیبہ ص‪)267،268‬‬
‫دوسرا راوی ’’ابن جریج‘‘ ہے۔ یہ شیعہ ہے اور اس پر متعہ باز ہونے کی جرح بھی ہے۔‬
‫(تذکرۃ الحفاظ ج‪1‬ص‪ ،128‬سیر اعالم النبالءج‪5‬ص‪،497‬میزان االعتدال للذہبی ج‪2‬ص‪)509‬‬
‫مذکورہ دونوں راویوں کو کتب شیعہ میں بھی شیعہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ’’ طاؤس ‘‘ کو رجال کشی‬
‫البی جعفر طوسی ص‪ ،55‬ص‪ ،101‬رجال طوسی البی جعفر طوسی ص‪ 94‬میں اور ’’ابن جریج‘‘کو‬
‫رجال کشی ص‪ ،280‬رجال طوسی ص‪ 233‬اور اصحاب صادق رقم ‪ 162‬میں شیعہ کہا گیا ہے۔‬
‫اصول حدیث کا قاعدہ ہے جسے حافظ ابن حجر عسقالنی یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫اال ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار‪.‬‬
‫(شرح نخبۃ الفکر مع شرح مال علی القاری ص‪ ،159‬مقدمہ فی اصول الحدیث لعبد الحق الدہلوی ص‪)67‬‬
‫کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔‬
‫جواب نمبر‪:7‬‬
‫خود غیر مقلدین کے فتاوی میں ہے ‪ ’’:‬یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن‬
‫کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ رضی‬
‫ہللا عنہم وغیرہ ائمہ محدثین کے خالف ہے لہذا حجت نہیں‘‘ (فتاوی ثنائیہ ج‪ 2‬ص‪)219‬‬
‫جواب نمبر‪:8‬‬
‫صحیح مسلم میں روایت موجود ہے ‪:‬‬
‫قال عطاء قدم جابر بن عبد ہللا معتمرا فجئناه في منزله‬
‫فسأله القوم عن أشیاء ثم ذكروا المتعة فقال نعم استمتعنا‬
‫على عھد رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وأبي بكر وعمر‪ .‬و فی‬
‫روایۃ اخری‪ :‬حتى نھى عنه عمر ۔‬
‫(صحیح مسلم ج ‪1‬ص‪ 451‬باب نكاح المتعة وبیان أنه أبیح ثم نسخ ثم أبیح ثم نسخ‬
‫واستقر تحریمه إلى یوم القیامة )‬
‫پس جو جواب اس جابر رضی ہللا عنہ کی متعۃ النساء کے جواز و عدم کا جواب ہے وہی‬
‫حدیث ابن عباس رضی ہللا عنہ کا ہے۔ اگر اس کو بھی جائز مانتے ہو تو کیا متعۃ النساء کو بھی جائز‬
‫مانو گے؟!‬
‫جواب نمبر‪:9‬‬
‫غیر مقلدین کا موقف ایک مجلس کی تین طالق کو ایک کہنے کا ہے لیکن صحیح مسلم کی‬
‫اس روایت میں کہیں بھی ”ایک مجلس“ کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ غیر مقلدین کی دلیل بن ہی نہیں‬
‫سکتی ۔‬
‫دلیل نمبر ‪:2‬‬
‫ْلى‬‫ٍ مو‬‫ِع‬
‫ِى راف‬ ‫ِى أب‬ ‫ْضُ بن‬‫ِى بع‬ ‫ْبرن‬ ‫ُرْ‬
‫یجٍ أخ‬ ‫ُ ج‬ ‫ْبرنا اْ‬
‫بن‬ ‫أخ‬
‫َّاسٍ عنِ اْ‬
‫بنِ‬ ‫بنِ عب‬‫ْلى اْ‬ ‫ِمة مو‬ ‫ْر‬
‫ِك‬‫ْ ع‬ ‫ِىِ ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪ -‬عن‬ ‫َّب‬
‫الن‬
‫ُكانة‬‫َّ ر‬ ‫ُ‬
‫ِ ‪ -‬أم‬ ‫ِه‬‫ْوت‬ ‫ُكانة وإ‬
‫ِخ‬ ‫بو ر‬ ‫ِید ‪ -‬أُ‬ ‫د یز‬ ‫ُْ‬ ‫َّ‬
‫َّاسٍ قال طلق عب‬ ‫عب‬
‫ِىَّ ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪-‬‬ ‫َّب‬
‫ینة فجاءتِ الن‬ ‫ْ ُ‬
‫مزْ‬ ‫ِن‬‫ۃ م‬ ‫مرأً‬‫ونكح اْ‬
‫تھا‬‫ٍ أخذْ‬‫ْرۃ‬‫ِشع‬
‫ۃ‪ .‬ل‬ ‫ِ الشَّع‬
‫ْرُ‬ ‫ِه‬‫ِى ھذ‬ ‫ْن‬‫تغ‬‫ِالَّ كما ُ‬
‫ِى إ‬‫ِى عن‬‫ْن‬‫یغ‬‫ْ ما ُ‬ ‫فقالت‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪18‬‬
‫ِىَّ ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪-‬‬ ‫َّب‬
‫ه فأخذتِ الن‬ ‫ْنُ‬ ‫ِى وبی‬ ‫ْ بی‬
‫ْن‬ ‫ِق‬
‫ِھا ففر‬ ‫ْس‬
‫ْ رأ‬ ‫ِن‬‫م‬
‫ً‬ ‫ُ‬
‫ْن فالنا‬ ‫ِ « أترو‬ ‫ِه‬
‫ُلسائ‬ ‫َّ قال ِ‬
‫لج‬ ‫ُ‬
‫ِ ثم‬ ‫ِه‬‫ِخوت‬‫ْ‬ ‫ُكانة وإ‬ ‫َّة فدعا ب‬
‫ِر‬ ‫ٌ‬ ‫ِی‬
‫حم‬
‫ه ‪ -‬كذا‬ ‫ُْ‬
‫ِن‬‫ه م‬ ‫ُِ‬ ‫ْ‬
‫یشب‬ ‫ً‬ ‫ُ‬
‫ِید وفالنا ُ‬ ‫د یز‬ ‫ِْ‬‫ِن عب‬ ‫ْ‬ ‫ه كذا وكذا م‬ ‫ُْ‬
‫ِن‬‫ه م‬ ‫ُِ‬ ‫ْ‬
‫یشب‬‫ُ‬
‫ْد‬
‫ِ‬ ‫ِعب‬
‫ِىُّ ‪-‬صلى ہللا علیه وسلم‪ -‬ل‬ ‫َّب‬
‫ْ‪ .‬قال الن‬ ‫الوا نعم‬ ‫وكذا »‪ .‬ق ُ‬
‫ُكانة‬ ‫َّ ر‬ ‫ُ‬
‫مرأتك أم‬ ‫ِ اْ‬‫َّ قال « راجِع‬ ‫ْھا »‪ .‬ففعل ُ‬
‫ثم‬ ‫ِق‬‫ِید « طل‬ ‫یز‬
‫ْ‬
‫اَّللِ‪ .‬قال « قد‬ ‫ً‬
‫ِى طلقتھا ثالثا یا رسُول َّ‬‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬ ‫ِ »‪ .‬فقال إ‬
‫ِن‬ ‫ِه‬ ‫ْ‬
‫ِخوت‬ ‫وإ‬
‫ِساء‬‫ُ الن‬ ‫ُم‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬
‫ِذا طلقت‬ ‫ِىُّ إ‬ ‫َّ‬
‫یھا النب‬ ‫ْھا »‪ .‬وتال (یا أُّ‬ ‫ُ راجِع‬ ‫ْت‬‫ِم‬
‫عل‬
‫َّ )‪.‬‬
‫ِن‬ ‫ِھ‬ ‫لعَّ‬
‫ِدت‬ ‫َّ ِ‬
‫ھن‬ ‫ُ‬
‫ِقوُ‬ ‫فطل‬
‫َّالثِ)‬ ‫ْل‬
‫ِیقاتِ الث‬ ‫َّط‬
‫ْد الت‬ ‫ُراجعة‬
‫ِ بع‬ ‫(سنن ابی داؤد ج‪ 1‬ص‪ 317 ،316‬باب نسْخِ ْ‬
‫الم‬
‫جواب‪:‬‬
‫ٍ“ ہے جو کہ مجہول ہے‪ ،‬لہذا یہ‬
‫ِع‬‫ِى راف‬ ‫ْضُ بن‬
‫ِى أب‬ ‫اس کی سند میں ”بع‬ ‫اولا……‬
‫روایت ضعیف ہے۔‬
‫(‪ )1‬قال النووی‪ :‬وأما الروایة التي رواھا المخالفون أن‬
‫ركانه طلق ثالثا فجعلھا واحدۃ فروایة ضعیفة عن قوم‬
‫مجھولین‪.‬‬
‫(شرح صحیح مسلم‪ :‬ج ‪1‬ص ‪)478‬‬
‫(‪ )2‬قال ابن حزم‪ :‬ما نعلم لہم شیئا احتجوا بہ غیر ہذا و‬
‫ہذا ال یصح النہ عن غیر مسمی من بنی ابی رافع و ال حجۃ فی‬
‫مجھول‪.‬‬
‫(المحلی البن حزم ج‪9‬ص‪)391‬‬
‫حضرت رکانہ رضی ہللا عنہ کی صحیح حدیث میں بجائے ”تین طالق“ کے ”طالق‬ ‫ثانيا ا……‬
‫بتہ“ (تعلق ختم کرنے والی) کا لفظ ہے‪ ،‬یعنی انہوں نے طالق بتہ دی تھی۔ چنانچہ امام ابو داؤد رحمہ‬
‫ہللا حضرت رکانہ کی اس روایت کوجس میں ”بتہ“ کا لفظ ہے‪ ،‬نقل کر کے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ُ‬ ‫ْ‬
‫لق امرأته‬ ‫ُكانة طَّ‬ ‫ن ر‬ ‫یجٍ أَّ‬ ‫ُرْ‬
‫بنِ ج‬‫ِیثِ اْ‬ ‫ْ حد‬ ‫ِن‬‫ُّ م‬‫وھذا أصح‬
‫ِه‬
‫ِ‪.‬‬ ‫ُ ب‬‫ْلم‬‫ْ أع‬ ‫ھم‬ ‫ِ وُ‬ ‫ْت‬
‫ِه‬ ‫ُ بی‬ ‫ھل‬‫ْ أْ‬‫ھم‬‫نُ‬‫ثا ألَّ‬‫ثالً‬
‫( سنن ابی داؤد ج‪ 1‬ص‪)317‬‬
‫کہ حضرت رکانہ رضی ہللا عنہ کی یہ روایت (جس میں ”بتہ“ کا لفظ ہے) ابن جریج کی‬
‫روایت سے زیادہ صحیح ہےجس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طالقیں دی تھیں‪ ،‬کیونکہ ”بتہ“ والی‬
‫حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں۔‬
‫قاضی شوکانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫أثبت ما روي في قصة ركانة أنه طلقھا البتة ال ثالثا•‬
‫(نیل االوطار‪ :‬ج‪ 6‬ص‪ 245‬باب ما جاء فی طالق البتۃ وجمع الثالث واختیار تفریقہا)‬
‫اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت رکانہ رضی ہللا عنہ نے اپنی بیوی کو ”طالق بتہ“ دی‬
‫تھی نہ کہ ”تین طالق“ اور طالق بتہ سے بھی صرف ایک طالق کی نیت کی تھی۔ چونکہ طالق بتہ‬
‫میں ایک طالق کی نیت کرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم نے‬
‫بھی ان کی اس نیت کی تصدیق فرمائی اور انہیں دوبارہ اس خاتون سے رجوع کی اجازت دے دی۔‬
‫الغرض فریق مخالف کی پیش کردہ روایت سخت ضعیف اور حد درجہ کمزور ہے۔ مزید یہ‬
‫کہ اس سے تو تین طالقوں کا ثبوت بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ تین کو ایک قرار دے کر پھر خاوند کو‬
‫رجوع کا حق دیا جائے۔ لہذا صحیح‪ ،‬صریح روایات اور اجماعِ امت کے مقابلہ میں ایسی روایت پیش‬
‫کرنا غلط‪ ،‬باطل اور انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔‬
‫دلیل نمبر ‪:3‬‬
‫ِبِ‬‫َّل‬
‫ُط‬ ‫ُو ْ‬
‫الم‬ ‫ِید أخ‬ ‫ِ یز‬ ‫ُ عب‬
‫ْد‬ ‫بن‬‫ُ ْ‬
‫ُكانة‬
‫لق ر‬ ‫َّاسٍ قال طَّ‬ ‫عنِ اْ‬
‫بنِ عب‬
‫دا قال‬ ‫ِیً‬ ‫ً‬
‫ُزنا شد‬ ‫ْ‬ ‫ْھا ح‬ ‫ِن علی‬‫ٍ فحز‬‫ِسٍ واحِد‬ ‫ْل‬‫ِي مج‬ ‫ً‬
‫ه ثالثا ف‬ ‫مرأتُ‬ ‫اْ‬
‫ُھا‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬
‫ْف طلقتھا قال طلقت‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬
‫ِ وسلم كی‬ ‫ْه‬‫اَّللُ علی‬ ‫َّ‬ ‫ُ َّ‬
‫اَّللِ صلى َّ‬ ‫ه رسُول‬‫فسألُ‬
‫ِلك واحِدٌ‬
‫ۃ‬ ‫نما تْ‬‫إَّ‬
‫ْ قال فِ‬ ‫ٍ قال نعم‬‫ِسٍ واحِد‬ ‫ْل‬‫ِي مج‬ ‫ثا قال فقال ف‬ ‫ثالً‬
‫َّالق‬
‫ُ‬ ‫نما الط‬ ‫َّاسٍ یرى أَّ‬ ‫ُ عب‬ ‫ْت قال فرجعھا فكان اْ‬
‫بن‬ ‫ِئ‬ ‫ِْ‬
‫ن ش‬ ‫ْھا إ‬‫ْجِع‬
‫فار‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪19‬‬
‫ٍ‪( .‬مسند احمد ج‪1‬ص‪ 347‬رقم‪)2391‬‬
‫ھر‬‫ُْ‬ ‫ُل‬
‫ِ ط‬ ‫ْد ك‬
‫ِن‬‫ع‬
‫جواب‪:‬‬
‫یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں۔‬
‫اس کی سند میں ایک راوی ”محمد بن اسحاق“ ہے جس پر ائمہ محدثین و وغیرہ نے‬ ‫اولا……‬
‫سخت جرح کر رکھی ہے۔‬
‫(‪ )1‬امام نسائی‪ :‬لیس بالقوي‪(.‬الضعفاء و المتروکین للنسائی‪ :‬ص‪ 201‬رقم الترجمۃ‪)513‬‬
‫(‪ )2‬امام دارقطنی‪:‬ال یحتج به‪.‬‬
‫(‪ )3‬امام سلیمان التیمى‪ :‬كذاب‪.‬‬
‫(‪ )4‬امام ہشام بن عروۃ‪:‬كذاب‪.‬‬
‫(‪ )5‬امام یحیى القطان‪ :‬أشھد أن محمد بن إسحاق كذاب‪.‬‬
‫(‪ )6‬امام مالك‪ :‬دجال من الدجاجلة‪( .‬میزان االعتدال‪ :‬ج‪ 4‬ص‪) 48 ،47‬‬
‫ً‪ :‬محمد بن إسحاق كذاب‪( .‬تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 1‬ص‪)174‬‬ ‫وقال ایضا‬
‫(‪ )7‬خطیب ابو بکر بغدادی‪ :‬أما كالم مالك في بن إسحاق فمشھور غیر‬
‫خاف على أحد من أھل العلم بالحدیث‪.‬‬
‫(تاریخ بغداد‪ :‬ج‪ 1‬ص‪)174‬‬
‫(‪ )8‬عالمہ شمس الدین ذہبی‪ :‬أنه لیس بحجة في الحالل والحرام‪( .‬تذکرۃ الحفاظ‪:‬‬
‫ج‪ 1‬ص‪)130‬‬
‫من‬ ‫به‬ ‫ینفرد‬ ‫(‪ )9‬حافظ ابن حجر عسقالنی‪ :‬وابن إسحاق ال یحتج بما‬
‫األحكام فضال عما إذا خالفه من ھو أثبت منه‪.‬‬
‫(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ البن حجر العسقالنی‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 265‬باب االحرام)‬
‫٭ نواب صدیق حسن خان غیر مقلد ایک سند کے بارے میں کہ جس میں محمد بن اسحاق واقع ہے‪،‬‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫در سندش ہمان محمد بن اسحاق است‪ ،‬و محمد بن اسحاق حجت نیست۔ (دلیل الطالب‪ :‬ص‪)239‬‬
‫محمد بن اسحاق کا ضعیف‪ ،‬متکلم فیہ اور کذاب ہونا تو اپنی جگہ‪ ،‬مزید براں کہ اسے خطیب‬
‫بغدادی‪ ،‬امام ذہبی اور امام ابن حجر رحمہم ہللا نے شیعہ بھی قرار دیا ہے۔ (تاریخ بغداد ج ‪1‬ص‪ ،174‬سیر‬
‫اعالم النبالء‪ :‬ج ‪7‬ص‪ ، 23‬تقریب ‪ :‬ص‪ 498‬رقم ‪)5725‬‬
‫کتب شیعہ میں بھی اس کو شیعہ کہا گیا ہے۔( رجال کشی ‪ :‬ص‪ ،280‬رجال طوسی ص‪)281‬‬
‫اوراصول حدیث کا قاعدہ ہے ‪ :‬ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی‬
‫المختار‪( .‬شرح نخبۃ الفکر مع شرح مال علی القاری ص‪)159‬‬
‫کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔‬
‫چونکہ شیعہ حضرات کے نزدیک ایک مجلس کی تین طالق ایک شمار ہوتی ہے (جیسا کہ‬
‫باحوالہ گزرا) اور یہ روایت ان کے اس عمل کی تائید کرتی ہے۔ لہذا اصول مذکور کے تحت یہ‬
‫روایت ناقا ِل قبول ہو گی۔‬
‫اس کی سند میں ایک دوسرا راوی ”داؤد بن حصین“ ہے۔ یہ بھی سخت مجروح اور‬ ‫ثانيا ا……‬
‫متکلم فیہ راوی ہے۔‬
‫(‪ )1‬امام ابو زرعہ‪ :‬لین‪.‬‬
‫كنا نتقى حدیثه‪.‬‬ ‫(‪ )2‬امام سفیان ابن عیینہ‪:‬‬
‫كان داود بن الحصین عندي ضعیفا‪( .‬میزان‬ ‫(‪ )3‬محدث عباس الدوري‪:‬‬
‫االعتدال‪ :‬ج‪ 2‬ص‪) 7‬‬
‫لیس بالقوي‪.‬‬ ‫(‪ )4‬امام ابو حاتم ا لرازی‪:‬‬
‫منكر الحدیث‪.‬‬ ‫(‪ )5‬امام ساجی‪:‬‬
‫(تہذیب التہذیب‪ :‬ج‪2‬‬ ‫ال یحمد الناس حدیثه‪.‬‬ ‫(‪ )6‬امام جوزجانی‪:‬‬
‫ص‪) 350 ،349‬‬
‫(میزان‬ ‫(‪ )8 ،7‬امام ابو داؤد و امام علی بن المدینی‪ :‬أحادیثه عن عكرمة مناكیر‪.‬‬
‫االعتدال‪ :‬ج‪ 2‬ص ‪)7‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪20‬‬
‫اور زیر بحث روایت بھی عکرمہ ہی سے مروی ہے۔‬
‫اس روایت میں تنہا محمد بن اسحاق ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقاب ِل احتجاج ہونے کے لیے‬
‫کافی تھا لیکن داؤد بن حصین نے اس کے ضعف کو مزید بڑھا کر اسے ناقاب ِل حجت بنا دیا ہے۔‬
‫اصل بات یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو ”طالق بتہ“ دی تھی نہ کہ تین‬ ‫ثالثا ً……‬
‫طالق اور نیت بھی صرف ایک طالق کی تھی‪ ،‬اس لیے حضور صلی ہللا علیہ و سلم نے رجوع کی‬
‫اجازت عطا فرمائی تھی۔ عالمہ ابن رشد فرماتے ہیں‪:‬‬
‫وأن حدیث ابن إسحاق وھم وإنما روى الثقات أنه طلق‬
‫ركانة زوجه البتة ال ثالثا‪( .‬بدایۃ المجتہد‪ :‬ج‪ 2‬ص‪)61‬‬
‫حافظ ابن حجر رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫أن أبا داود رجح أن ركانة إنما طلق امرأته البتة كما‬
‫أخرجه ھو من طریق آل بیت ركانة وھو تعلیل قوي‬
‫(فتح الباری‪:‬ج‪ 9‬ص‪ 450‬باب من جوز الطالق الثالث)‬
‫الحاصل فریق مخالف کی یہ روایت ضعیف و کذاب راویوں سے مروی ہے جو کہ صحیح‪ ،‬صریح‬
‫روایات اور اجماعِ امت کے مقابلہ میں حجت نہیں ہے۔‬
‫غیر مقلدین کے ایک شبہہ کا جائزہ‬
‫شبہہ‪:‬‬
‫بعض غیر مقلد یہ کہا کرتے ہیں (مالحظہ وہ فتاوی ثنائیہ ج‪ 2‬ص‪ 54‬وغیرہ) کہ حضرت عمر‬
‫رضی ہللا عنہ اپنے اس فیصلے پر نادم تھےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ حکم شرعی بھی نہ‬
‫تھا اور صحیح بھی نہ تھا ورنہ ندامت کا کیا مطلب؟! یہ حضرات ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫قال الحافظ أبو بكر االسماعیلي في مسند عمر ‪ :‬أخبرنا‬
‫أبو یعلى ‪ :‬حدثنا صالح بن مالك ‪ :‬حدثنا خالد بن یزید بن‬
‫أبي مالك عن أبیه قال ‪ :‬قال عمر بن الخطاب رضي ہللا عنه ‪:‬‬
‫ما ندمت على شيء ندامتي على ثالث ‪ :‬أن ال أكون حرمت الطالق‬
‫(اغاثۃ اللہفان)‬
‫کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪ :‬مجھے کسی چیز پر ایسی ندامت نہیں ہوئی جتنی‬
‫تین چیزوں پر ہوئی ہے (ان میں سے ایک یہ ہے کہ) میں طالق کو حرام قرار نہ دیتا الخ‬
‫جواب‪:‬‬
‫اس روایت میں دو راوی سخت مجروح ہیں‪:‬‬ ‫اولا……‬
‫‪ :1‬خالد بن یزید بن ابی مالک‬
‫جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح راوی ہے۔‬
‫لیس بشئ‪[ .‬محض ہیچ ہے]‬ ‫(‪ )2 ،1‬امام احمد بن حنبل و امام یحیی‪:‬‬
‫لیس بثقة‪[ .‬وہ ثقہ نہیں ہے]‬ ‫(‪ )3‬امام نسائی‪:‬‬
‫ضعیف‪[ .‬وہ ضعیف ہے]‬ ‫(‪ )4‬امام دارقطنی‪:‬‬
‫(‪ )5‬امام ابن حبان‪ :‬كان یخطئ كثیرا وفي حدیثه مناكیر ال یعجبني‬
‫االحتجاج به إذا انفرد عن أبیه‪[ .‬کثرت سے خطا کر جاتا تھا اور اس کی حدیث‬
‫میں ثقہ راویوں کی مخالفت ہوتی تھی۔ مجھے پسند نہیں کہ جب وہ اکیال اپنے باپ سے روایت کرے‬
‫تو میں اس کی روایت کو دلیل بناؤں]‬

‫(‪ )6‬امام جرح و تعدیل امام یحیی بن معین فرماتے ہیں‪:‬‬


‫لم یرض أن یكذب على أبیه حتى كذب على أصحاب رسول ہللا‬
‫صلى ہللا علیه وسلم‪[ .‬یہ صرف اسی بات پر راضی نہ ہوا کہ اپنے باپ ہی پر جھوٹ‬
‫بولے حتی کہ اس نے آنحضرت صلی ہللا علیہ و سلم کے صحابہ رضی ہللا عنہم پر بھی کذب بیانی‬
‫شروع کر دی]‬
‫ضعیف‪ ،‬متروک الحدیث [یہ ضعیف اور متروک الحدیث تھا]‬ ‫(‪ )7‬امام ابو داؤد‪:‬‬
‫مسئلہ طالق ثالثہ‬ ‫‪21‬‬
‫(‪ )10 -8‬امام ابن الجارود ‪ ،‬امام ساجی ‪ ،‬امام عقیلی‪ :‬ان تینوں نے ضعیف قرار دیا ہے۔‬
‫(تہذیب التہذیب البن حجر ج‪ 2‬ص‪ ،302 ،301‬میزان االعتدال للذہبی‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ ،594‬الضعفاء و المتروکین البن‬
‫الجوزی ج‪ 1‬ص‪ 251‬رقم ‪)1096‬‬
‫‪ :2‬یزید بن ابی مالک‪:‬‬
‫یہ لین الحدیث اور مدلس تھا‪ ،‬وہم کا شکار بھی تھا اور ان لوگوں سے روایت کرتاتھا جن‬
‫سے مالقات بھی ثابت نہیں۔‬
‫(کتاب المعرفۃ للفسوی ج‪ 1‬ص‪ ،354‬میزان االعتدال للذہبی ج‪ 4‬ص ‪ ،401‬المغنی فی الضعفاء ج‪ 2‬ص ‪ ،543‬التقریب‬
‫البن حجر‪ :‬ص‪ 639‬رقم ‪)7748‬‬
‫زیر نطر روایت میں یہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ سے روایت کر رہا ہے۔ اس کی پیدائش‬
‫‪60‬ھ ہےاور حضرت عمر رضی ہللا عنہ ‪24‬ھ میں شہید ہوئے۔ گویا اس کی حضرت عمر رضی ہللا‬
‫عنہ سے مالقات ہی ثابت نہیں۔‬
‫زیر نظر منقطع روایت لین الحدیث‪ ،‬مجروح‪ ،‬ضعیف اور متروک الحدیث راویوں‬ ‫ِ‬ ‫ثانيا ا……‬
‫سے مروی ہونے کے ساتھ ساتھ مجمل بھی ہے‪ ،‬طالق کی کسی قسم (ایک یا تین) کی تفصیل نہیں۔‬
‫لہذا اس سے استدالل باطل ہے۔‬

You might also like