You are on page 1of 6

‫مد َرج کی تعریف‬

‫لغوی تعریف‬

‫ت ال َّشیْیَئ فِی ال َّشی ِْیء‘‘ سے ِ‬


‫اسم مفعول کا صیغہ ہے اور یہ اس‬ ‫لفظ ’’ ُم ْد َرج ‘‘ ’’اَ ْد َرجْ ُ‬
‫وقت بوال جاتا ہے جب ایک شی کو دوسری میں داخل کیا جائے اور اس کے ساتھ مالدیا‬
‫جائے۔ (یعنی ُم ْدرج وہ ہے جس میں کچھ مالدیا گیا ہو‪ .‬النخبۃ وشرحھا ص‪۴۸‬۔‪۴۹‬‬
‫اصطالحی تعریف‬
‫(محدثین کی اصطالح میں ) یہ وہ حدیث ہے جس کی اسناد کے سیاق (یعنی تسلسل اور‬
‫ربط‪ ،‬یا دوسرے لفظوں میں ترتیب) کو بدل دیا گیا ہو یا بغیر فصل کے (ظاہر کیے) اس‬
‫کے متن میں وہ عبارت داخل کردی جائے جو اس کا ِح ّ‬
‫صہ نہ ہو۔ النخبۃ وشرحھا ص‪۴۸‬۔‬
‫‪ ۴۹‬مگر بظاہر وہ اضافہ متن کا حصّہ ہی معلوم ہو‪.‬‬
‫درج کی اقسام‬
‫ُم َ‬
‫اضافہ کی ممکنہ دو صورتوں کے اعتبار سے) حدیث مدرج کی دو قسمیں ہیں (کیوں کہ‬
‫اضافہ یا تو اسناد میں ہوگا تو اسے) ’’مدرج االسناد‘‘ (کہیں گے) اور (یا اضافہ متن میں‬
‫ہوگا تو وہ حدیث) ’’مدرج المتن‘‘ (کہالئے گی) (ذیل میں ان دونوں قسموں کی تعریف‪،‬‬
‫صورتیں ‪ ،‬اقسام اور مثالوں کو پیش کیا جاتا ہے‪ ،‬جب کہ مدرج کی جملہ اقسام کا حکم سب‬
‫سے آخر میں درج کیا جائے گا)۔‬
‫ُم ْد َر ُج ااْل ِ ْسنَا ِد‬
‫مدرج االسناد کی تعریف‬
‫یہ وہ حدیث ہے جس کی اسناد کے سیاق کو بدل دیا گیا ہو۔‪۲‬۔‬
‫ادراج فی االسناد کی صورت‪ :‬اس کی ایک صورت یہ ہے کہ راوی ایک اسناد ذکر کر رہا‬
‫ہو کہ اتنے میں اسے کوئی امر پیش آجائے (یا کوئی ضرورت‪ m‬و حاجت پیش آجائے) اور‬
‫ب حال) وہ اپنی کوئی بات کرے (جو بظاہر اس‬ ‫(اس امر اور ضرورت و حاجت کے حس ِ‬
‫کے اسناد سنانے کے بعد ہوئی تھی) مگر کوئی سننے واال یہ گمان کر بیٹھے کہ یہ بات‬
‫جوابھی راوی نے اپنی کسی ضرورت‪ m‬کے تحت کی ہے) اس اسناد کا متن ہے۔ چناں چہ وہ‬
‫سننے واال اس بات کو اس اسناد کے ساتھ اسی طرح راوی سے آگے روایت کرے جس‬
‫سے اسناد کا سیاق بدل جائے۔‬
‫درج فی االسناد کی مثال‪:‬‬
‫ُم َ‬
‫صہ ہے جس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ‪َ ’’ ،‬م ْن‬
‫موسی زاھد کا ق ّ‬ ‫ٰ‬ ‫اس کی مثال ثابت بن‬
‫ار‘‘ ’’جو رات کو زیادہ نمازیں پڑھے گا اور اس کا‬ ‫صاَل تُ ٗہ بِاللَّی ِْل َحسُنَ َوجْ ہُ ٗہ بِالنَّھَ ِ‬ ‫َکثُ َر ْ‬
‫ت َ‬
‫چہرہ دن میں خوب صورت( اور روشن) ہوگا۔ [اخرجہ ابن ماجہ باب قیام اللیل ج‪/۱‬ص‬
‫‪ ۴۲۲‬حدیث رقم ‪۱۳۳۳‬‬
‫موسی قاضی شریک بن عبدہللا کو ملنے گئے۔‬ ‫ٰ‬ ‫صہ کی حقیقت یہ کہ ایک دن ثابت بن‬ ‫]اِس قِ ّ‬
‫جب وہ ان کی مجلس میں داخل ہوئے تو اس وقت قاضی صاحب حدیث امالء کرواتے ہوئے‬
‫یہ سند بیان کر رہے تھے‪’’:‬حدثنا االعمش ‪ ،‬عن ابی سفیان عن جابر قال‪ :‬قال رسول ہّٰللا‬
‫صلی ہّٰللا علیہ وسلم۔۔۔۔‘‘قاضی شریک اس قدر امالء کروا کر (ذرا دیر کو) خامو ش ہو گئے‬
‫درس حدیث میں محدث‬ ‫ِ‬ ‫تاکہ‪ُ  ‬م ْستَ ْملِی[اس شخص کو کہتے ہیں جو طلباء کی کثرت کے وقت‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫کی آواز کو آخر تک پہنچائے۔]اس قدر اسناد لکھ لے۔ اتنے میں ان کی نظر ثابت بن‬
‫پر پڑ گئی تو (ان کے روشن اور نورانی چہرے کو دیکھ کر بے ساختہ) کہہ اٹھے‪َ ’’ ،‬م ْن‬
‫موسی‘‘‬‫ٰ‬ ‫ار‘‘ اور اس جملہ سے ان کی مراد ’’ثابت بن‬‫صاَل تُ ٗہ بِاللَّی ِْل َحسُنَ َوجْ ھ ُٗہ بِالنَّھَ ِ‬
‫ت َ‬ ‫َکثُ َر ْ‬
‫تھے۔ جن کے زہد و ورع کو دیکھ کر انہوں نے بے ساختہ یہ کہہ دیا تھا مگر ثابت بن‬
‫موسی اس کو ’’اس اسناد‘‘ کا متن گمان کر بیٹھے۔ چناں چہ (بعد میں ) وہ اس جملہ کو‬ ‫ٰ‬
‫اسی اسناد کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے‪،‬‬
‫ُمد َْر ُج ا ْل َمت َِن‬
‫درج المتن کی تعریف‪:‬‬
‫ُم َ‬
‫یہ وہ حدیث ہے جس کے متن میں تفصیل بیان کیے بغیر کوئی عبارت مال دی جائے جو‬
‫متن حدیث میں غیر متن کو‬
‫صہ نہ ہو۔ (دوسرے لفظوں میں ِ‬ ‫اس حدیث کی عبارت کا ح ّ‬
‫داخل کرنے کا نام ’’ادراج فی المتن‘‘ ہے۔ علوم الحدیث ‪ ،‬ص‪…۱۷۴ ،۱۷۳ :‬‬
‫’ادراج فی المتن‘‘ کی قسمیں (اور صورتیں )‬
‫‪(:‬اصولی طور پر ’’ادراج فی المتن‘‘ کی) تین (ہی) صورتیں (ہوسکتی ہیں )‪،‬جو یہ ہیں‬
‫متن حدیث کے‬
‫ادراج حدیث ابتداء میں ہوگا۔ اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے مگر ِ‬
‫ِ‬ ‫‪ :‬الف‪… :‬یا تو‬
‫بیچ میں ادراج کرنے کی بہ نسبت ابتداء میں ادراج کا وقوع زیادہ ہے۔‬
‫ب‪… :‬یا پھر ادراج حدیث کے بیچ میں ہوگا۔ بہ نسبت پہلی قسم کے اس کا وقوع کم ہے۔‬
‫ج‪… :‬اور یا ادراج حدیث کے آخر میں ہوگا۔ اور زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔’’تدریب الراوی‬
‫‪۱/۲۷۰‬‬
‫’ادراج فی المتن‘‘ کی (تینوں صورتوں‪ m‬کی) مثالیں‬
‫آغاز حدیث میں ادراج واقع ہونے کی مثال‪:‬‬
‫ِ‬ ‫(پہلی صورت یعنی)‬
‫آغاز حدیث میں ادراج کا (عمومی) سبب یہ ہوتا ہے کہ راوی ایک کالم کو ذکر کرتا ہے‪،‬‬
‫پھر کسی حدیث کے ذریعے اس کی دلیل النے کا ارادہ کرتا ہے مگر وہ اس حدیث کو‬
‫(اپنے گزشتہ مذکورہ کالم کے ساتھ) بالفصل لے آتا ہے (اور حدیث ذکر کرتے وقت مثالً‬
‫یہ نہیں کہتا کہ میری اس بات کی دلیل یہ ارشاد نبوی ہے وغیرہ وغیرہ) جس سے سننے‬
‫والے کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ یہ پورا کالم ہی حدیث ہے۔اس کی مثال وہ حدیث ہے جو‬
‫خطیب نے ابو قطن اور شبابہ سے الگ الگ شعبہ کے واسطے سے نقل کی ہے کہ شعبہ‬
‫ت ابوہریرۃ رضی ہللا عنہ سے بیان کرتے ہیں ۔ حضرت‬ ‫محمد بن زیاد سے اور وہ حضر ِ‬
‫ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں ‪’:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫ار‬ ‫صلَّی ُ َعلَ ْی ِہ َو َسلَّ َم ‪’’ :‬اَ ْسبِ ُغوا ْال ُوضُوْ َئ ‪َ ،‬و ْی ٌل لِّاْل َ ْعقَا ِ‬
‫ب ِمنَ النَّ ِ‬ ‫’ق َ َ‬
‫ال َرسُوْ ُل ِ َ‬
‫‘‘ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے‪’’ :‬وضو خوب پورا کیا کرو‪( ،‬ان) ایڑیوں کے‬
‫لیے دوزخ کی آگ کی ہالکت ہے(جنہیں وضو میں دھویا نہ جائے)۔‬
‫ت ابوہریرہ رضی ہللا‬ ‫اس حدیث میں ’’اسبغوا الوضوء‘‘ کا جملہ (حدیث نہیں بلکہ) حضر ِ‬
‫عنہ کا قول ہے جس کو حدیث کے متن میں (اور اس کے بھی آغاز میں ) مالدیا گیا ہے۔‬
‫جیسا کہ خطیب امام بخاری رحمہ ہللا کی روایت میں یہ بات واضح اور عیاں کرتے ہیں‬
‫جسے امام بخاری رحمہ ہللا نے آدم سے‪ ،‬انہوں نے شعبہ سے‪ ،‬انہوں نے محمد بن زیاد‬
‫ت ابوہریرہ‪ m‬رضی ہللا عنہ سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ‬ ‫سے اور انہوں نے حضر ِ‬
‫هّٰللا‬
‫رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں ‪’’:‬اَ ْسبِ ُغوا ْال ُوضُوْ َئ فَا ِ َّن اَبَا ْالقَا ِس ِم صلي عليه وسلم قال ‪َ ’ :‬و ْی ٌل‬
‫ب رسالت مآب ابو القاسم صلی‬ ‫ار‘‘’’وضو پورا پورا کیا کرو کیوں کہ جنا ِ‬ ‫لِّـاْل َ ِعقَا ِ‬
‫ب ِمنَ النَّ ِ‬
‫ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے‪( ،‬ان) ایڑیوں کے لیے دوزخ کی آگ سے ہالکت ہے (جنہیں‬
‫وضو میں اچھی طرح دھویا نہ جائے)۔‘‘خطیب (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) کہتے ہیں ‪:‬‬
‫ت‬
‫’’ابو قطن اور شبابہ کو شعبہ سے روایت کرنے میں وہم ہوا ہے۔ (کہ انہوں نے حضر ِ‬
‫ابوہریرہ رضی ہللا عنہ کے کالم کو بھی حدیث سمجھ کر اسے متن کے ساتھ مال کر ذکر‬
‫کردیا) جیسا کہ ہم نے اس کو بیان کیا ہے کیوں کہ (ان کے عالوہ بھی) رواۃ کی ایک بڑی‬
‫تعداد نے اسی حدیث کو شعبہ سے روایت کیا ہے۔ جیسےآدم کی شعبہ سے روایت‬
‫وسط حدیث میں ادراج واقع ہونے کی مثال‪( :‬اس کی مثال) سیدہ‬
‫ِ‬ ‫(دوسری صورت یعنی)‬
‫عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا کی وہ حدیث ہے جو ابتدائے وحی کے بارے میں (زبا ِن زد‬
‫خالئق) ہے کہ‬
‫ت ْال َع َد ِد‘‘[‪2‬‬ ‫َار ِح َراَئ ۔ َوھُ َو التَّ َعبُّ ُد ۔ الَّلیَ َ‬
‫الی َذ َوا ِ‬ ‫صلَّی ہّٰللا ُ َعلَ ْی ِہ َو َسلَّ َم یَت ََحنَّ ُ‬
‫ث فِ ْی غ ِ‬ ‫‪َ ’’:‬کانَ النَّبِ ُّی َ‬
‫غار حراء میں کئی کئی‬ ‫ب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ِ‬
‫]’’(وحی کی ابتداء سے پہلے) جنا ِ‬
‫راتوں تک تحنّث ‪ ،‬یعنی عبادت فرمایا کرتے تھے۔‘‘اس روایت میں ’’وھو التَّ َعبُّ ُد‘‘ کے‬
‫الفاظ زہری کا کالم ہے جو حدیث (کے وسط) میں درج ہو گیا ہے (جو بظاہر حدیث کا ایک‬
‫ٹکڑا لگتے ہیں مگر امام زہری اس سے ’’تحنّث‘‘ کی تشریح کر رہے ہیں )۔‬
‫ت ابوہریرہ‪m‬‬ ‫(تیسری صورت یعنی) حدیث کے آخر میں ادراج واقع ہونے کی مثال‪ :‬حضر ِ‬
‫ک اَجْ َرا ِن ‪َ ،‬والَّ ِذیْ نَ ْف ِس ْی بِیَ ِد ٖہ لَوْ اَل‬ ‫رضی ہللا عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے‪’’:‬لِ ْل َع ْب ِد ْال َم ْملُوْ ِ‬
‫ْت اَ ْن اَ ُموْ تَ َواَنَا َم ْملُوْ ک‬‫ْال ِجھَا َد فِ ْی َسبِی ِْل ہّٰللا ِ ‪َ ،‬و ْال َحجُّ ‪َ ،‬و بِرُّ اُ ِّم ْی‪ ،‬اَل َحْ بَب ُ‬

‫’’مملوک غالم کو دو اجر ملتے ہیں ‪ ،‬اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!‬
‫اگر جہاد فی سبیل ہللا‪ ،‬حج بیت ہللا اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرنا نہ ہوتا تو میں غالم بن‬
‫کر مرنا پسند کرتا۔‘‘اس حدیث میں ’’والذی نفسی بیدہ‘‘ سے لے کر آخر تک کا ٹکڑا‬
‫ت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ کا کالم ہے۔ کیوں کہ لسا ِن نبوت سے ایسے کالم کا صدور‬ ‫حضر ِ‬
‫ب رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم کا غالم بننے کی تمنا کرنا‬ ‫ناممکن ہے کیوں کہ جنا ِ‬
‫دار فانی سے رحلت‬ ‫محال ہے۔ دوسرے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی اس ِ‬
‫فرما چکی تھیں کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے۔[‪ ]1‬تدریب‬
‫الراوی ۔ [‪ ]2‬البخاری باب بدء الوحی ‪ ۱/۲۲‬حدیث رقم ‪( ۳‬طحّان) [‪ ]3‬البخاری کتاب العتق‬
‫‪۵/۱۷۵‬حدیث رقم ‪ ۲۵۴۸‬بلفظہ (طحّان‬
‫(حدیث میں ) اِدراج کے (وقوع کے) اسباب و محرکات‪(:‬‬
‫حدیث میں ) اِدراج کے متعدد اسباب و محرکات ہیں جن میں سے چند مشہور یہ ہیں‬
‫حکم شرعی کا بیان (جیسا کہ ادراج کی پہلی صورت کی مثال میں گزرا‬
‫ِ‬ ‫الف‪… :‬کسی‬
‫حکم شرعی کا استنباط کرنا‬
‫ِ‬ ‫الفاظ حدیث سے کسی‬
‫ِ‬ ‫)ب‪… :‬حدیث کے اختتام سے پہلے‬
‫(دوسرے لفظوں میں الفاظ حدیث سے کسی مفید مضمون کو اخذ کرنا جیسا کہ تیسری‬
‫صورت کی مثال میں گزرا‬
‫) ج‪… :‬حدیث کے کسی نامانوس لفظ کی تشریح کرنا (جیسا کہ ادراج کی دوسری صورت‬
‫کی مثال میں گزرا)۔‬
‫درج ذیل امور میں سے‬
‫ِ‬ ‫ہے؟مضمون حدیث میں ادراج کو‬
‫ِ‬ ‫ادراج کا ادراک کیوں کر ہوتا‬
‫کسی ایک کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے‬
‫‪۱:‬۔ کسی دوسرے طریق سے مذکورہ حدیث کا مفصَّل وارد ہونا( جس سے مدرج کالم کا‬
‫عیاں ہو جائے جیسا کہ ابو قطن اور شبابہ کی روایت کا اِدراج امام بخاری کی روایت سے‬
‫عیاں ہوا‬
‫ماہر فن محقق امام کا ادراج کی تصریح کرنا‬
‫ِ‬ ‫)‪۲‬۔ کسی‬
‫کالم حدیث میں ادراج کا ارتکاب کیا ہے‬
‫‪۳‬۔ خود راوی کا اقرار کرنا کہ اس نے ِ‬
‫۔‪۴‬۔ (منصب نبوت کے بلند و برتر مرتبہ و منصب کے شایا ِن شان نہ ہونے کی بنا پر)‬
‫لسان نبوت سے صدور کا ناممکن اور محال ہونا۔ (جیسا کہ ادراج کی‬‫ِ‬ ‫ایسے کالم کے‬
‫تیسری صورت کی مثال میں گزرا)‬
‫۔‪۵‬۔ ادراج (کی سب صورتوں ) کا حکم‪:‬حضرات علماء‪ ،‬محدثین اور فقہاء وغیرہ سب کا‬
‫اس بات پر اجماع ہے کہ ’’ادراج فی الحدیث‘‘ حرام ہے البتہ (حضرات صحابٔہ کرام‬
‫مستثنی ہے۔ اسی طرح) اس حکم سے وہ‬‫ٰ‬ ‫رضی ہللا عنہم کا طبقہ اس حکم سے باالجماع‬
‫مستثنی ہے جس میں حدیث کے کسی لفظ کی تشریح اور تفسیر بیان کی‬
‫ٰ‬ ‫صورت (بھی)‬
‫جائے کہ یہ غیر ممنوع ہے۔ اسی لیے امام زہری جیسے حضرات ائمہ حدیث نے بھی ایسا‬
‫کیا۔‬
‫ج فِی النَّ ْق ِل‘‘‬ ‫’’ادراج‘‘ پر لکھی جانے والی مشہور کتب‪:‬الف‪’’… :‬اَ ْلفَصْ ُل لِ ْل َوصْ ِل ْال ُم ْد َر ِ‬
‫اس کے مصنف خطیب بغدادی رحمہ ہللا متوفی ‪۴۶۳‬ھ ہیں ۔ب‪’’… :‬تَ ْق ِریبُ ال َم ْنھَ ِ‬
‫ج بِتَرْ تِ ْی ِ‬
‫ب‬
‫ج‘‘ یہ حافظ ابن حجر رحمہ ہللا کی تصنیف لطیف ہے جو دراصل خطیب رحمہ ہللا‬ ‫ْال ُم ْد َر ِ‬
‫بغدادی کی کتاب کی تلخیص بھی ہے اور اس پر (مفید) اضافہ بھی۔‬
‫خ‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫ص‬
‫ے ج ب کہ ان ال الح مدرج کی درجت‬ ‫اں ہ‬ ‫ہ‬
‫کے ق‬ ‫مذکورہ ب اال نمدرج نکی اتسام امام اب ن حج ر اور عض مت ا ری ن ف‬
‫ق‬
‫ب‬ ‫ن‬
‫کی زی اد ی‬
‫ے ۔ یک و کہ مدرج ھی راوی ت‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫رق‬ ‫ت‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫م‬‫در‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫د‬ ‫ی‬‫مز‬ ‫اور‬ ‫ں۔مدرج‬
‫ت‬ ‫لی‬‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ام‬‫س‬
‫ت‬ ‫ب اال ا‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫ی اور المزی د ھی راوی کی طرف سے زیت اد یت ی‬ ‫ہ‬
‫صہ ہی ں و‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫ے نس د می ں کن وہ زی اد ی تاس کا‬ ‫ہ تی و ی‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ہ‬
‫اگر عاریف د ھی ج اےت و المزی د می ں راسی کی طرف سے زی اد ی م صل‬ ‫ے ت۔دو وں اص طالحات کی ن ق‬ ‫ہ نو ی ہ‬
‫ن‬
‫ے۔‬‫ے ج ب کہ ادراج می ں ا طاع والی س د می ں زی اد ی ہ‬ ‫س د می ں ہ و ی ہ‬

You might also like