You are on page 1of 4

‫الرحــــــِیـــــْم*‬

‫ــــــم ِن َّ‬
‫ٰ‬ ‫ِالر ْح‬
‫*ب ِْســــــــــــــــــ ِم ﷲ َّ‬

‫ّٰ‬ ‫ص َحاب َک َی َ‬ ‫َ َّ ٰ ُ َ َّ اَل ُ َ َ ْ َ َ َ ُ ْ َ ّ‬


‫اللہ َو َع ٰلی َال َک َو َا ْ‬
‫اح ِب ْی َب اللہﷺ *‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫*الص ــلوة والس ـ م علی ــك یارس ــول‬

‫*============================*‬

‫علِ ّ ٌ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬


‫ي بَابُ َها کو ضعیف کہنے‬ ‫ان َسقْفُ َها َو َ‬
‫عث َْم ُ‬ ‫ع َم ُر ِح َ‬
‫يطان ُ َها َو ُ‬ ‫اس تحریر کو لکھنے کا مقصد حدیث نَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو بُو بَك ٍْر َس ُ‬
‫اس َها َو ُ‬
‫والوں کو منہج محدثین کی طرف توجہ دالنا ہے کسی کی تذلیل و تنقیص مقصد نہیں‬

‫علِ ّ ٌ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬


‫ي بَابُ َها« *‪ くコ‬روایت*‬ ‫ان َسقْفُ َها َو َ‬
‫عث َْم ُ‬ ‫ع َم ُر ِح َ‬
‫يطان ُ َها َو ُ‬ ‫» نَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو بُو بَك ٍْر َس ُ‬
‫اس َها َو ُ‬

‫جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ روایت *موضوع* ہے مگر کچھ لوگ اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں‬
‫جیسے کہ یہ عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہے یا فضیلت خلفائے راشدین میں واحد ایک یہی روایت ہے بس واللہ اعلم‬

‫*⇊* *تـــو جـــو اس کـــو ضـعیـف کــہتــے ہیــں ان ســے ہــمارا مطـالبــہ اور پھــر اس کــے موضــوع ہونـــے پــر دالئــل*‬

‫ہمارا جائز مطالبہ اس کو ضعیف کہنے والوں سے یہ ہے کہ اس روایت کی *سند* پیش کی جائے کیونکہ سندہی دین ہے ◈‬

‫️‬‫‪ :‬مشہور تابعی امام ہشام بن عروۃ رحمہ اللہ (م ‪ 146‬ھ) فرماتے ہیں ❶‬

‫قال هشام بن عروۃ‪ :‬إذا حدثك رجل بحديث فقل عمن هذا؟‬

‫ترجمہ ‪ :‬جب آپ کو کوئی شخص حدیث بیان کرے تو آپ اس سے پوچھیں کہ یہ کس کی بیان کردہ ہے ؟‬

‫] الجرح والتعديل البن أبى حاتم ‪ ،34/2:‬وسندۂ صحيح[‬

‫‪ :‬امام شافعیؒ نے فرمایا ❷‬

‫ہـــے اس کـی مثاـلـ ایسـی ہـــےجیـسےـ راـت میںـ لکڑـیاں اکـٹھیـ کرـنـے وـاال‪،‬‬
‫‪،‬ـ‬ ‫جوـ شـخصـ حـجتـ دلیـل اوـر سندـ کـے بغیرـ علمـ طلـب کرـتاـ‬
‫جو لکڑیاں اٹھا کر لے جا رہا ہے جن میں زہریال سانپ ہے‪ ،‬جو اسے ڈس لے گا اور اسے پتا بھی نہیں ہو گا‬

‫الی کتاب االکلیل للحاکم ص ‪ 28‬وسندہ صحیح [‬


‫] المدخل ٰ‬
‫‪ :‬امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (م ‪ 181‬ھ) نے فرمایا ❸‬

‫‘‘اإلسناد من الدین‪ ،‬ولو ال اإلسناد لقال من شاء ما شاء’’‬

‫اسناد دین میں سے ہیں اور اگر سندیں نہ ہوتیں تو جو شخص جو کچھ چاہتا کہتا‬

‫] مقدمہ صحیح مسلم‪ ،‬ترقیم دارالسالم‪ 32 :‬وسندہ صحیح [‬

‫‪ :‬حافظ ابو نصر عبید اللہ بن سعید بن حاتم الوائلی السجزی [حنفی] رحمہ اللہ (متوفی ‪444‬ھ) نے فرمایا ❹‬

‫‘‘فكل مدع للسنة يجب أن يطالب بالنقل الصحيح بما يقوله فإن أتى بذلك علم صدقه وقبل قوله ۔۔۔’’‬

‫پس ہر شخص جو سنت ماننے کا مدعی ہے‪ ،‬یہ ضروری ہے کہ وہ جو کہتا ہے اُس کے بارے میں اُس سے صحیح سند کا‬
‫مطالبہ کیا جائے پھر وہ اگر یہ صحیح سند پیش کر دے تو اس کی سچائی معلوم ہو جاتی ہے اور اس کی بات قبول کی‬
‫جاتی ہے۔۔۔‬

‫علی من انکر الحرف والصوت ص‪[ 146‬‬


‫ٰ‬ ‫الی اھل زبید فی الرد‬
‫] رسالة السجزی ٰ‬
‫*============================*‬

‫*‪ :-:‬اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں*‬

‫ہر روایت اور ہر حوالے کے لئے صحیح و مقبول سند پیش کرنی چاہئے ➀‬
‫بے سند روایت اور بے سند حوالہ مردود ہوتا ہے ➁‬

‫لہذا ہر وہ بے سند روایت جو کسی معتبر مآخذ میں موجود نہیں یا اس کو نقل کرنے واال کوئی ناقد امام نہیں ساقط ➂‬
‫االعتبار ہے‬

‫*============================*‬

‫*‪ :‬اب سب سے پہلے تو جو ضعیف ثابت کرنے کے لئے دالئل پیش کیے ہیں ان کا رد باترتیب*‬

‫سب سے پہلی دلیل امام ابن حجر الہیتمیؒ کی دی گئی ہے کہ انہوں نے فتاوی حدیثیہ میں اس کو ضعیف کہا ہے تو ❶‬
‫امام ابن حجر ہیتمیؒ کے مقلدین سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ انہوں نے کس دلیل کی بنا پر اس کو ضعیف کہا ہے؟؟ اور اگر‬
‫ان کا ضعیف کہہ دینا ہی پتھر کی لکیر ہے تو ایسی ‪ 60‬موضوع روایات مستدرک للحاکم میں موجود ہے جن کو موضوع امام‬
‫ذہبی نے کہا اور ان کو صحیح االسناد بلکہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے امام حاکم نے کہا تو ان کو صحیح مانو گے‬
‫؟؟؟؟‬

‫ان کی اس حدیث پر یہ جرح مبہم ہے جب کہ اس کو موضوع کہنے کی وجہ بالکل صاف اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں*‬
‫*جو کہ آگے آئے گی‬

‫اور اگر پھر بھی امام ابن حجر ہیتمیؒ کا حکم ماننا ہے تو فن رجال کے امام االئمہ امام یحیی بن معینؒ امام ابن حجر سے‬
‫بڑے محدث اور ائمہ اور متقدم ہیں تو انہوں نے تو حدیث ( أنا مدينة العلم وعلى بابها ) کو واضح طور پر *جھوٹ* کہا ہے‬
‫تو آپ ان کا حکم اس حدیث پر کیوں نہیں مانتے؟ فتاوی حدیثیہ کے اسی صفحے کو پڑھ لیجئے آپ ان کا حکم اس لئے‬
‫لہذا یہ ان کی واضح خطا ہے اور‬
‫نہیں مانتے کیونکہ یہ جرح مبہم ہے لہذا امام ابن حجر کا بھی اس کو ضعیف کہنا مبہم ہے ٰ‬
‫یہ بھی عین ممکن ہے کہ امام ابن حجر المکی تک اس کے موضوع ہونے کی وجہ نہ پہنچی ہو لیکن جب آپ کے سامنے‬
‫آیاں ہے تو آپ ضد نہ کریں‬

‫دوسری اور تیسری دلیل کا جواب یہی دے دیتا ہوں کہ بقول ضعیف کہنے والوں کے حافظ نجم الدینؒ اور شمس الدین ❷‬
‫سخاویؒ نے اس حدیث کو شدید ضعیف کہا‬

‫نہیں لگایا بلکہ مطلقا ً تمام پر لگایا ہے اور جن اسناد کو انہوں نے‬ ‫تو عرض یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث پر خاص حکم‬
‫کی وجہ سے ضعیف ہیں بعض منکر ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں اور یہ‬ ‫نقل کرکے حکم لگایا ےہ ان میں بعض معلق ہونے‬
‫اقسام میں آتی ہیں اس لیے انہوں نے مطلقا ً حکم لگایا مطلق حکم‬ ‫موضوع بھی شامل ہے لہذا چونکہ یہ تمام ضعیف ہی کی‬
‫یہ کہ بقول آپ کے انہوں نے شدید ضعیف کہا تو پھر آپ اس کو‬ ‫اس کو موضوعیت سے خارج نہیں کرتا اور *دوسری بات‬
‫*صرف ضعیف کیوں کہتے ہیں ؟؟ آپ بھی شدید ضعیف کہیں‬

‫جیسے کوئی محدث اور اکثر ابن الجوزی کہتے ہیں کہ *یہ حدیث صحیح نہیں* تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ حسن یا ➊‬
‫حسن لغیرہ یا ضعیف یا موضوع کچھ بھی ہو سکتی ہے اسی طرح تمام اسناد پر مطلقا ً ضعیف کا حکم اس کو موضوعیت سے‬
‫خارج نہیں کرتا‬

‫اسی طرح امام حاکم نے مستدرک میں احادیث پر بخاری مسلم کی صحت کا حکم لگایا یعنی یہ حدیث بخاری مسلم کی ➋‬
‫شرط پر صحیح ہے جب کہ حافظ ذہبی نے تعقب کرتے ہوئے اس کو موضوع کہا تو امام حاکم کا حکم لگانے سے وہ موضوع‬
‫ہونے سے خارج تو نہیں ہوئی‬

‫اور اگر بالفرض غلط آپ کی بات مان بھی لیں کہ انہوں نے اس کو ضعیف کہا ےہ تو ان کا اس کو ضعیف کہنا جبکہ *‬
‫*موضوع ہونے کی دلیل واضح طور پر موجود ہے مردود ہے‬

‫جہاں تک امام عجلونیؒ کی بات رہی تو وہ مقلد ہیں انہوں نے پچھلوں کی تقلید کی جیسا کہ ان کی عبارت سے واضح ❸‬
‫ہے اور پہلے والوں کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں‬

‫جہاں تک مال علی قاریؒ کے سقوط کی بات رہی تو ان کا سقوط اس کو موضوعیت سے خارج نہیں کرتا ❹‬

‫اب آتی ےہ بات ابن عساکر رحمہ اللہ کی ابن عساکر کے حوالے سے خود اس کو ضعیف کہنےـ والے یہ کہتےـ ہیں کہ ❺‬
‫‪ :‬انہوں نے جس راوی سے اس کو بیان کیا اس پر سخت ترین جروحات موجود ہیں اب وہ راوی کون ہے مالحظہ کریں‬

‫‪ :‬امام االئمہ و المسلمین الشیخ االکبر الحافظ امام ابن حجر عسقالنیؓ فرماتے ہیں ◈‬

‫واعظ کذاب کے ترجمہ میں کہا ہے‪ :‬وہ جس وقت دمشق میں لوگوں کو‬ ‫ابن حجرؒ نے اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی‬
‫ي بَابُ َها ) کے متعلق سوال کیا اس‬ ‫موعظہ کررہا تھا ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے حدیث ( َأنَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو َ‬
‫ع ِل ّ ٌ‬
‫َأ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬
‫ان َسقْفُ َها‬
‫عث َْم ُ‬
‫يطان ُ َها َو ُ‬ ‫ِ‬
‫ع َم ُر ح َ‬ ‫نے کہا یہ مختصر حدیث ہے اور اس کی اصل اس طرح ہے ( نَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو بُو بَك ٍْر َس ُ‬
‫اس َها َو ُ‬
‫ي بَابُ َه ا ) لوگوں نے اس سے کہا اپنی سند کو اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کرے اس نے کہا بعد میں بتاؤں گا‬ ‫علِ ّ ٌ‬
‫َو َ‬

‫] کتاب لسان المیزان ‪[ 1/423‬‬

‫*⇊ اب اس کذاب اور واضع الحدیث کے بارے میں ائمہ کیا فرماتے ہیں*‬
‫ؒ‬
‫السمعانی نے اپنی كتاب األنساب میں إسماعيل بن علي بن المثنى األسترابادي کے ترجمے میں کہا کہ یہ *①*‬ ‫عبدالکریم‬
‫کذاب ابن کذاب ہے اور یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے‬

‫] كتاب لسان الميزان ‪[ 1/423‬‬


‫] كتاب األنساب للسمعاني ‪[ 3/82‬‬

‫عبدالعزیز النخشبیؒ نے کہا اسماعیل جھوٹے قصے بیان کرتا ہے اور اس کا چہرہ متقی اور پرہیزگار واال نہیں *②*‬

‫] كتاب لسان الميزان ‪[ 1/423‬‬

‫ابی نصر عبیداللہ بن سعیدؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کذاب ابن کذاب ہے اور ہم اس *③*‬
‫کی حدیثیں نہیں لکھتے اور اس میں کوئی کرامت نہیں پائی جاتی‬

‫] کتاب لسان المیزان ‪[ 1/423‬‬

‫مدینہ کے معنی شہر کے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ شہر کی بنیاد اور دیواریں ہوتی ہیں لیکن کبھی بھی شہر پر چھت*‬
‫*نہیں ہوتی لہذا اس روایت کا متن اس کے جعلی ہونے پر داللت کرتا ہے‬

‫اب جس ایک شخص نے اس کو بغیر سند کے بیان کیا وہ بھی کذاب حدیثیں گھڑنے واال ضعیف کہنے والوں پر الزم ےہ کہ وہ‬
‫ثابت کریں کہ اس شخص کے عالوہ بھی کسی نے اس روایت کو بیان کیا ےہ اور اس کی توثیق بھی پیش کریں ورنہ منہج‬
‫‪ :‬متقدمین و متاخرین کے پرخچے نہ کریں‬

‫*⇊ اور اگر اس کو ضعیف بھی مان لیں تب بھی اس کو فضائل میں بیان نہیں کرسکتے*‬

‫‪ :-‬ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی وگرنہ اسے رد کر دیا جائے گا وہ شرائط مالحظہ ہوں‬

‫عل َي ْ ِه‬ ‫غل َُط ُه‪ ،‬ن َ َق َل ال َْعل َاِئ ُّي الِا ِتّ َف َ‬
‫اق َ‬ ‫َح َش َ‬ ‫ين بِالْك َِذ ِ‬
‫ب‪َ ،‬و َم ْن ف ُ‬ ‫خ ُر ُج َم ِن ان ْ َف َر َد ِم َن الْك َ ّ َذاب َ‬
‫ِين َوال ُْمتّ ََه ِم َ‬ ‫الض ْع ُف غَي ْ َر َش ِديدٍ‪ ،‬فَي َ ْ‬
‫َّ‬ ‫َأ ْن يَك َ‬
‫ُون‬

‫ترجمہ‪ :‬اس کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں امام صالح‬
‫الدین عالئی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے‬

‫*جس شرط پر اجماع ہے وہی شرط اس حدیث میں پوری نہیں ہو رہی اس حدیث کو بیان کرنے واال کذاب ہے*‬

‫] كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ‪[ 1/351‬‬


‫] كتاب القول البديع في الصالة على الحبيب الشفيع ص‪[ 255‬‬

‫اب حاصل یہ ہوا کہ اوال ً تو یہ ہے ہی موضوع اور اگر کوئی ضد میں اس کو موضوع نہیں بھی مانتا تب بھی یہ فضائل میں‬
‫بیان کرنے کے قابل نہیں اصول محدثین پر‬

‫اور یہ کسی کتاب میں اصول نہیں لکھا کہ محدث کا حکم سند میں موجود علت کو رفع کر دیتا ہے بلکہ اس کے برعکس *‬
‫بات مقدمہ ابن الصالح میں موجود ےہ کہ محدثین کا کسی روایت کو "اسناد صحیح" کہنے سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ یہ‬
‫*حدیث ہی صحیح ہے اس میں علت قادحہ یا شذوذ باقی رہتا ہے‬

‫تو جب محدث کا صحیح کہنے سے بھی اس حدیث کا صحیح ہونا الزم نہیں تو ضعیف کہنے سے پتھر کی لکیر کیسے بن‬
‫گئی ؟؟‬

‫] مقدمہ ابن الصالح ص ‪[ 38‬‬

‫لہذا اس کو بیان کرنے واال کذاب راوی یہ ایک ایسی علت ہے جو کسی محدث کا ضعیف کا حکم لگانے سے رفع نہیں ہو‬
‫سکتی‬
‫*جب کہ اس کا موضوع ہونا سندا ً اور متنا ً واضح ہے*‬

‫عل ََّي يَلِ ُج ِفي الن ّ َِار‬


‫َب َ‬ ‫عل َي ْ ِه َو َسل َّ َم‪« :‬ل َا تَك ِْذبُوا َ‬
‫عل ََّي َفِإن ّ َُه َم ْن كَذ َ‬ ‫ول الل ّ َ ِه َصلَّى الل ّ َ ُه َ‬
‫َال َر ُس ُ‬ ‫علِ ِ ّي بْ ِن َأبِي َطالِ ٍب‪ ،‬ق َ‬
‫َال ‪ :‬ق َ‬ ‫»ع ْن َ‬
‫َ‬

‫ترجمہ‪ :‬علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪” :‬مجھ پر جھوٹ نہ‬
‫باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے واال جہنم میں داخل ہو گا“۔‬

‫*] صحیح ‪ -:‬متواتر باالتفاق [*‬

‫*============================*‬

‫خـادم الحــدیث نـبـوی ﷺ‪.‬ابو الشمس صاحبزادہ شمس الحسن*_‬

You might also like