Professional Documents
Culture Documents
ــــــم ِن َّ
ٰ ِالر ْح
*ب ِْســــــــــــــــــ ِم ﷲ َّ
*============================*
جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ روایت *موضوع* ہے مگر کچھ لوگ اس کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں
جیسے کہ یہ عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہے یا فضیلت خلفائے راشدین میں واحد ایک یہی روایت ہے بس واللہ اعلم
*⇊* *تـــو جـــو اس کـــو ضـعیـف کــہتــے ہیــں ان ســے ہــمارا مطـالبــہ اور پھــر اس کــے موضــوع ہونـــے پــر دالئــل*
ہمارا جائز مطالبہ اس کو ضعیف کہنے والوں سے یہ ہے کہ اس روایت کی *سند* پیش کی جائے کیونکہ سندہی دین ہے ◈
️ :مشہور تابعی امام ہشام بن عروۃ رحمہ اللہ (م 146ھ) فرماتے ہیں ❶
قال هشام بن عروۃ :إذا حدثك رجل بحديث فقل عمن هذا؟
ترجمہ :جب آپ کو کوئی شخص حدیث بیان کرے تو آپ اس سے پوچھیں کہ یہ کس کی بیان کردہ ہے ؟
ہـــے اس کـی مثاـلـ ایسـی ہـــےجیـسےـ راـت میںـ لکڑـیاں اکـٹھیـ کرـنـے وـاال،
،ـ جوـ شـخصـ حـجتـ دلیـل اوـر سندـ کـے بغیرـ علمـ طلـب کرـتاـ
جو لکڑیاں اٹھا کر لے جا رہا ہے جن میں زہریال سانپ ہے ،جو اسے ڈس لے گا اور اسے پتا بھی نہیں ہو گا
اسناد دین میں سے ہیں اور اگر سندیں نہ ہوتیں تو جو شخص جو کچھ چاہتا کہتا
:حافظ ابو نصر عبید اللہ بن سعید بن حاتم الوائلی السجزی [حنفی] رحمہ اللہ (متوفی 444ھ) نے فرمایا ❹
‘‘فكل مدع للسنة يجب أن يطالب بالنقل الصحيح بما يقوله فإن أتى بذلك علم صدقه وقبل قوله ۔۔۔’’
پس ہر شخص جو سنت ماننے کا مدعی ہے ،یہ ضروری ہے کہ وہ جو کہتا ہے اُس کے بارے میں اُس سے صحیح سند کا
مطالبہ کیا جائے پھر وہ اگر یہ صحیح سند پیش کر دے تو اس کی سچائی معلوم ہو جاتی ہے اور اس کی بات قبول کی
جاتی ہے۔۔۔
ہر روایت اور ہر حوالے کے لئے صحیح و مقبول سند پیش کرنی چاہئے ➀
بے سند روایت اور بے سند حوالہ مردود ہوتا ہے ➁
لہذا ہر وہ بے سند روایت جو کسی معتبر مآخذ میں موجود نہیں یا اس کو نقل کرنے واال کوئی ناقد امام نہیں ساقط ➂
االعتبار ہے
*============================*
* :اب سب سے پہلے تو جو ضعیف ثابت کرنے کے لئے دالئل پیش کیے ہیں ان کا رد باترتیب*
سب سے پہلی دلیل امام ابن حجر الہیتمیؒ کی دی گئی ہے کہ انہوں نے فتاوی حدیثیہ میں اس کو ضعیف کہا ہے تو ❶
امام ابن حجر ہیتمیؒ کے مقلدین سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ انہوں نے کس دلیل کی بنا پر اس کو ضعیف کہا ہے؟؟ اور اگر
ان کا ضعیف کہہ دینا ہی پتھر کی لکیر ہے تو ایسی 60موضوع روایات مستدرک للحاکم میں موجود ہے جن کو موضوع امام
ذہبی نے کہا اور ان کو صحیح االسناد بلکہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے امام حاکم نے کہا تو ان کو صحیح مانو گے
؟؟؟؟
ان کی اس حدیث پر یہ جرح مبہم ہے جب کہ اس کو موضوع کہنے کی وجہ بالکل صاف اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں*
*جو کہ آگے آئے گی
اور اگر پھر بھی امام ابن حجر ہیتمیؒ کا حکم ماننا ہے تو فن رجال کے امام االئمہ امام یحیی بن معینؒ امام ابن حجر سے
بڑے محدث اور ائمہ اور متقدم ہیں تو انہوں نے تو حدیث ( أنا مدينة العلم وعلى بابها ) کو واضح طور پر *جھوٹ* کہا ہے
تو آپ ان کا حکم اس حدیث پر کیوں نہیں مانتے؟ فتاوی حدیثیہ کے اسی صفحے کو پڑھ لیجئے آپ ان کا حکم اس لئے
لہذا یہ ان کی واضح خطا ہے اور
نہیں مانتے کیونکہ یہ جرح مبہم ہے لہذا امام ابن حجر کا بھی اس کو ضعیف کہنا مبہم ہے ٰ
یہ بھی عین ممکن ہے کہ امام ابن حجر المکی تک اس کے موضوع ہونے کی وجہ نہ پہنچی ہو لیکن جب آپ کے سامنے
آیاں ہے تو آپ ضد نہ کریں
دوسری اور تیسری دلیل کا جواب یہی دے دیتا ہوں کہ بقول ضعیف کہنے والوں کے حافظ نجم الدینؒ اور شمس الدین ❷
سخاویؒ نے اس حدیث کو شدید ضعیف کہا
نہیں لگایا بلکہ مطلقا ً تمام پر لگایا ہے اور جن اسناد کو انہوں نے تو عرض یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث پر خاص حکم
کی وجہ سے ضعیف ہیں بعض منکر ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں اور یہ نقل کرکے حکم لگایا ےہ ان میں بعض معلق ہونے
اقسام میں آتی ہیں اس لیے انہوں نے مطلقا ً حکم لگایا مطلق حکم موضوع بھی شامل ہے لہذا چونکہ یہ تمام ضعیف ہی کی
یہ کہ بقول آپ کے انہوں نے شدید ضعیف کہا تو پھر آپ اس کو اس کو موضوعیت سے خارج نہیں کرتا اور *دوسری بات
*صرف ضعیف کیوں کہتے ہیں ؟؟ آپ بھی شدید ضعیف کہیں
جیسے کوئی محدث اور اکثر ابن الجوزی کہتے ہیں کہ *یہ حدیث صحیح نہیں* تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ حسن یا ➊
حسن لغیرہ یا ضعیف یا موضوع کچھ بھی ہو سکتی ہے اسی طرح تمام اسناد پر مطلقا ً ضعیف کا حکم اس کو موضوعیت سے
خارج نہیں کرتا
اسی طرح امام حاکم نے مستدرک میں احادیث پر بخاری مسلم کی صحت کا حکم لگایا یعنی یہ حدیث بخاری مسلم کی ➋
شرط پر صحیح ہے جب کہ حافظ ذہبی نے تعقب کرتے ہوئے اس کو موضوع کہا تو امام حاکم کا حکم لگانے سے وہ موضوع
ہونے سے خارج تو نہیں ہوئی
اور اگر بالفرض غلط آپ کی بات مان بھی لیں کہ انہوں نے اس کو ضعیف کہا ےہ تو ان کا اس کو ضعیف کہنا جبکہ *
*موضوع ہونے کی دلیل واضح طور پر موجود ہے مردود ہے
جہاں تک امام عجلونیؒ کی بات رہی تو وہ مقلد ہیں انہوں نے پچھلوں کی تقلید کی جیسا کہ ان کی عبارت سے واضح ❸
ہے اور پہلے والوں کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں
جہاں تک مال علی قاریؒ کے سقوط کی بات رہی تو ان کا سقوط اس کو موضوعیت سے خارج نہیں کرتا ❹
اب آتی ےہ بات ابن عساکر رحمہ اللہ کی ابن عساکر کے حوالے سے خود اس کو ضعیف کہنےـ والے یہ کہتےـ ہیں کہ ❺
:انہوں نے جس راوی سے اس کو بیان کیا اس پر سخت ترین جروحات موجود ہیں اب وہ راوی کون ہے مالحظہ کریں
:امام االئمہ و المسلمین الشیخ االکبر الحافظ امام ابن حجر عسقالنیؓ فرماتے ہیں ◈
واعظ کذاب کے ترجمہ میں کہا ہے :وہ جس وقت دمشق میں لوگوں کو ابن حجرؒ نے اسماعیل بن علی بن مثنی استرآبادی
ي بَابُ َها ) کے متعلق سوال کیا اس موعظہ کررہا تھا ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے حدیث ( َأنَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو َ
ع ِل ّ ٌ
َأ َأ َأ
ان َسقْفُ َها
عث َْم ُ
يطان ُ َها َو ُ ِ
ع َم ُر ح َ نے کہا یہ مختصر حدیث ہے اور اس کی اصل اس طرح ہے ( نَا َم ِدين َ ُة ال ِْعل ْ ِم َو بُو بَك ٍْر َس ُ
اس َها َو ُ
ي بَابُ َه ا ) لوگوں نے اس سے کہا اپنی سند کو اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کرے اس نے کہا بعد میں بتاؤں گا علِ ّ ٌ
َو َ
*⇊ اب اس کذاب اور واضع الحدیث کے بارے میں ائمہ کیا فرماتے ہیں*
ؒ
السمعانی نے اپنی كتاب األنساب میں إسماعيل بن علي بن المثنى األسترابادي کے ترجمے میں کہا کہ یہ *①* عبدالکریم
کذاب ابن کذاب ہے اور یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے
عبدالعزیز النخشبیؒ نے کہا اسماعیل جھوٹے قصے بیان کرتا ہے اور اس کا چہرہ متقی اور پرہیزگار واال نہیں *②*
ابی نصر عبیداللہ بن سعیدؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کذاب ابن کذاب ہے اور ہم اس *③*
کی حدیثیں نہیں لکھتے اور اس میں کوئی کرامت نہیں پائی جاتی
مدینہ کے معنی شہر کے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ شہر کی بنیاد اور دیواریں ہوتی ہیں لیکن کبھی بھی شہر پر چھت*
*نہیں ہوتی لہذا اس روایت کا متن اس کے جعلی ہونے پر داللت کرتا ہے
اب جس ایک شخص نے اس کو بغیر سند کے بیان کیا وہ بھی کذاب حدیثیں گھڑنے واال ضعیف کہنے والوں پر الزم ےہ کہ وہ
ثابت کریں کہ اس شخص کے عالوہ بھی کسی نے اس روایت کو بیان کیا ےہ اور اس کی توثیق بھی پیش کریں ورنہ منہج
:متقدمین و متاخرین کے پرخچے نہ کریں
*⇊ اور اگر اس کو ضعیف بھی مان لیں تب بھی اس کو فضائل میں بیان نہیں کرسکتے*
:-ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی وگرنہ اسے رد کر دیا جائے گا وہ شرائط مالحظہ ہوں
عل َي ْ ِه غل َُط ُه ،ن َ َق َل ال َْعل َاِئ ُّي الِا ِتّ َف َ
اق َ َح َش َ ين بِالْك َِذ ِ
بَ ،و َم ْن ف ُ خ ُر ُج َم ِن ان ْ َف َر َد ِم َن الْك َ ّ َذاب َ
ِين َوال ُْمتّ ََه ِم َ الض ْع ُف غَي ْ َر َش ِديدٍ ،فَي َ ْ
َّ َأ ْن يَك َ
ُون
ترجمہ :اس کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں امام صالح
الدین عالئی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے
*جس شرط پر اجماع ہے وہی شرط اس حدیث میں پوری نہیں ہو رہی اس حدیث کو بیان کرنے واال کذاب ہے*
اب حاصل یہ ہوا کہ اوال ً تو یہ ہے ہی موضوع اور اگر کوئی ضد میں اس کو موضوع نہیں بھی مانتا تب بھی یہ فضائل میں
بیان کرنے کے قابل نہیں اصول محدثین پر
اور یہ کسی کتاب میں اصول نہیں لکھا کہ محدث کا حکم سند میں موجود علت کو رفع کر دیتا ہے بلکہ اس کے برعکس *
بات مقدمہ ابن الصالح میں موجود ےہ کہ محدثین کا کسی روایت کو "اسناد صحیح" کہنے سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ یہ
*حدیث ہی صحیح ہے اس میں علت قادحہ یا شذوذ باقی رہتا ہے
تو جب محدث کا صحیح کہنے سے بھی اس حدیث کا صحیح ہونا الزم نہیں تو ضعیف کہنے سے پتھر کی لکیر کیسے بن
گئی ؟؟
لہذا اس کو بیان کرنے واال کذاب راوی یہ ایک ایسی علت ہے جو کسی محدث کا ضعیف کا حکم لگانے سے رفع نہیں ہو
سکتی
*جب کہ اس کا موضوع ہونا سندا ً اور متنا ً واضح ہے*
ترجمہ :علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” :مجھ پر جھوٹ نہ
باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے واال جہنم میں داخل ہو گا“۔
*============================*