Professional Documents
Culture Documents
PM
بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسالمی علمیت کے لیے بالکل
اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مكمل ہی نہیں ہوتا اور غیب وہ
لہذا اس ہے جو کسی وسیلے اور ذریعے کے بغیر قابل ادراک ہو ظاہر ہے انسان غیب کابرا ِہ راست ادراک کرنے سے قاصر ہے ٰ
پر ایمان النے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
مثال ً خدا کے وجود پر اس کی ہستی پر ایمان اسے بن دیکھے النا ہے اس کی ہستی کا ادراک ذہن انسانی کے لیے ممکن ہی
نہیں کہ وہ ال محدود ہے اور انسان محدود وہ خالق ہے یہ مخلوق ہے وہ عقل کلی ہے اور انسان کی عقل محض خالق کی
مخلوق جو محسوسات کے بغیر کار آمد ہی نہیں ہوسکتی۔اسی لیے اللہ اور دیگر امور میں ایمان بالغیب الزم ہے خود غامدی
صاحب لکھتے ہیں اللہ کی ذات کسی طرح انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی [میزان ۲۰۱۵ء ،ص ]۹۲ادراک کے ذرائع
الہ کا احاطہ نہیں کرسکتے کسی شے سے روشنی منعکس نہ ہو تو آنکھ کی بصارت دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے اللہ ذات ٰ
تعالی سے متعلق انسان تشبیہہ
ٰ باری ذات ]۹۲ ص ء،۲۰۱۵ میزان [ ہوا نہ ممکن دیکھنا کو اللہ لیے کے موسی
ٰ پیغمبر کے
لہ ذا تشبیہہ و تمثیل کے طریقے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہے۔[میزان ۲۰۱۵ء، ٰ کرسکتا نہیں اختیار بھی طریقہ کا تمثیل
لہ ذا خدا کی ذات پر ایمان بالغیب الئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہی صورت حال وحی اور نزول و حی کی کیفیات ص ٰ ]۹۴
کے ساتھ درپیش ہے ان پر ایمان بالغیب ضر وری ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں نزول و حی کی کیفیات کو سمجھنا
انسان کے حدو د علمی سے باہر ہے [میزان ۲۰۱۵ء ،ص ]۱۲۷۔
مظہر کے بارے میں تو مشاہدے تجربے محسوسات سے جان سکتا ہے لیکن Phenomenonبنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان
معقول بالذات کماہیہ کے بارے میں نہیں جان سکتا۔کانٹ جیسے فلسفی نے اپنی کتاب تنقید عقل محض میں یہ Noumenon
دعوی کیا ہے کہ انسانی علم کا دائرہ مظاہر تک محدود ہے اورمشاہدات ،تجربات ،محسوسات سے ماوراء کا علم انسانی عقل ٰ
کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔انسان کو وہ ذرائع میسر ہی نہیں ہیں جو مظاہر کی دنیا سے ماورا دوسری دنیا کی حقیقتوں کا
لہ ذا جو چیز ہمارے حیطہ ادراک میں دائرہ عقلیات اور تجربات میں نہیں آسکتی وہ اگر وجود بھی رکھتی ہے ادراک کرسکیں ٰ
تو اس کا وجود ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا کانٹ نے عقل کی محدودیت کا اعتراف کرنے کے باوجود عقل کے ذریعے
ہی ما بعد الطبیعیات کا انکار کردیا ۔ مگر غامدی صاحب کانٹ سے بڑے مفکر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ محسوسات و تجربات
سے ماوراء حقائق و مظاہر کاعلم عقل اور فطرت ،تدبر و تفکر سے ممکن ہے۔
معقول بالذات کے بارے میں فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تصور انسانی علم کی آخری ] [Noumenonواضح رہے کہ
حد ہے مثبت معنوں میں وہ جو عقل بتائے کہ ’ہے‘ مگر یہ نہ بتاسکے کہ ’کیا ہے‘؟ عقل سے کسی برتر ہستی خالق کے
وجود کا ادراک ایک سطح پرتو ہوسکتاہے مگر اس کی ذات صفات تجلیات اس کی شریعت اس کی رضا اس کے رسولوں اس
کی کائنا ت کے مقاصد اس کو مطلوب زندگی اس کی پیدا کردہ آخرت کا تصور ممکن نہیں اسی لیے ایمان بالغیب ۔ ایمان
کی بنیادی شرط ہے۔ایمان بالغیب یہی ہے کہ وہ حقائق صداقتیں جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے محدودعقل کے پیمانے
کی بنیاد پر ] [Pure Reasonمیں نہیں سما سکتے ان پر انسان نبیوں اور رسولوں کی اطالع پر ایمان لے آئے صرف عقل
لہذا یونانی عقلیت کانٹ کے عہد میں ما بعد الطبیعیات الیا ہوا ایمان کفایت نہیں کرتا اور تشکیک کا خاتمہ بھی نہیں کرتا ٰ
کے انکار کے ساتھ ہی مسترد ہوگئی اور ایک نئی عقلیت نے جنم لیا ایک نئی ما بعد الطبیعیات وجود میں آئی جسے ہائیڈیگر
کہتا ہے اس ما بعد الطبیعیات کی بنیاد پر جو ] [Metaphysics of Presenceحاضر و موجود کی ما بعد الطبیعیات
تہذیب تاریخ نظام زندگی وجود میں آیا اس میں خیر و شر کی بحث بے معنی ہے اصل چیز رچرڈ رارٹی کے الفاظ میں صرف
کون سی شے فائدہ مند ہے انسان اسی ایک اصول کے محور پر گردش کررہا ہے۔ What is usefullیہ ہے کہ
نامنا ،فنامنا کی بحث میں ایک بنیادی بات جو نظر انداز کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا
ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو نظر نہیں آرہا جو معلوم نہیں ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا آپ اس کے وجود
لہذا کسی کی شہادت پر مان لیجیے ][Existence سے ال علم ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے وجود کا مسئلہ نہیں ٰ
:مگر غامدی صاحب اسے تسلیم نہیں کرتے ۔مقامات میں لکھتے ہیں
ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے ،اُنھیں انسان محض عقلی دالئل کی بنا پر
مان لے#ذات خدا وندی#نبی ﷺ کی طرف جبرل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا ،لیکن اس کے باوجود ہم ان سب
صاحب
ِ باتوں کو مانتے ہیں#ان حقائق کو ماننے کے لیے #قرآن اور کائنات میں ایسے قوی دالئل موجود ہیں جن کا انکار کوئی
عقل نہیں کرسکتا#چنانچہ ہم انھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتے#وہ چیز جو دیکھی نہیں جاسکتی ،لیکن عقل کے ذریعے
سے سمجھی جاسکتی ہے اسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہے#قرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں ان پر
ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ بے شک حواس سے ماورا ہیں ،لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے انھیں عقل کی
میزان میں توال ہے اور ان میں رتی بھر کمی نہیں پائی#چنانچہ ہم ان پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
دعوی
ٰ ہم انھیں عقل و فطرت کے قطعی دالئل کی بنا پر مانتے ہیں[غامدی ،مقامات۲۰۱۴،ء ،ص ]۱۱۴یہاں غامدی صاحب
کرتے ہیں کہ انسان عقل و فطرت کے قطعی دالئل کی بنیاد پر غیب پر ایمان لے آتا ہے یعنی عقل و فطرت علم قطعی کے
ماخذ ہیں ان پر تدبر و تفکر سے یقینی علم اور ایمان حاصل ہوجاتا ہے لیکن یہی غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے
جو علم حاصل ہوتا ہے (وہ قطعی نہیں ہوتا) کیوں کہ وہ درجہ یقین کو نہیں پہنچتا اسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا
جاسکتا ہے [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء،ص ]۱۶۴حیرت ہے کہ انسان اپنے تدبر و تفکر اور قرآن و کائنات میں غور و فکر سے
تو غیب پر ایمان قطعی اور علم یقینی خود حاصل کرسکتا ہے لیکن حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے قطعی علم یقینی علم
حاصل نہیں ہوسکتا کیا عقل اور فطرت حدیث نبوی سے زیادہ معتبر ہیں؟#غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ حدیث سے
قطعی علم اس لیے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ حدیثوں کو صرف گنتی کے لوگو ں نے بیان کیا یہ اجماع و تواتر سے منتقل
نہیں ہوتیں [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء ،ص ]۱۶۴حدیثو ں سے یقینی علم اس لیے بھی حاصل نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ نے
ان کی حفاظت و تبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ لوگوں پر چھوڑ دیا کہ چاہیں تو حدیثو ں کو آگے پہنچائیں اور چاہیں تو
نہ پہنچائیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص ]۱۵حدیثوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی و قطعی نہیں ہوتا مگر کالم جاہلیت سے لغت
و ادب کا حاصل ہونے واال علم یقینی ہوتا ہے اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ کالم جاہلیت اجماع و تواتر سے منتقل ہوتا ہے
باللفظ ہوتا ہے اور اس میں داخل منحول کالم کی شناخت آسان ہوتی ہے مگر حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہ غامدی
لہذا غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ صاحب کی تحقیقات کا عطر خالصہ اور جوہر ہے جو میزان کے پہلے باب میں موجود ہے۔ ٰ
قرآن کے بعد یہی کالم ہے (کالم عرب؍ کالم جاہلیت) جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی
بنیادپر سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے تم لوگ اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہو#کہ ان میں تمہاری کتاب کی
تفسیر بھی ہے اور تمہارے کالم (قرآن) کے معنی بھی ہیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص ]۱۹یعنی قرآن کی تفسیر اور معانی کے لیے
کالم جاہلیت حجت سند قطعی اور یقینی ہے یعنی قرآن کالم جاہلیت کا محتاج ہے مگر کالم اللہ کالم رسول اللہ سے کوئی
عالقہ نہیں رکھتا۔ مگر قرآن کے معانی سمجھنے کے لیے حدیث قطعی اور یقینی نہیں ہے اس سے بڑی جہالت اور جاہلیت
کیا ہوسکتی ہے؟اسی کو جدید اصطالح میں جدیدیت (ماڈرن ازم) کہا جاتا ہے جدیدیت کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا
لہذاجدیدیتانکار کرتی ہے عقل کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتی اور عقلیت کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ تخلیق کرتی ہے ٰ
اٹھارہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو نہایت ناقدانہ طریقے سے دیکھتی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عقل حواس کے بغیر کام کرسکتی ہے؟ اگر حواس معطل ہوں توکیا عقل متحرک رہ سکتی ہے؟
یعنی کسی تجربے کے بغیر صرف عقل ] [a prioriکسی زمانے میں فلسفے میں افضل علم وہ کہالتا تھا جو قبل تجربی
حاصل ہو اسی ] [a postrioriکے ذریعے حاصل کیا گیااورسب سے کم تر علم وہ سمجھا جاتاتھا جو تجربے کے ذریعے
لیے روایتی تہذیبوں میں ما بعد الطبیعیات کے عالم فلسفی کو عزت دی جاتی تھی سائنسی علوم کے ماہرین کو کوئی عزت
نہیں ملت ی تھی کیونکہ وہ علم کی تلچھ ٹ رکھت ے تھ ے کانٹ ک ے بعد سائنسی یعن ی تجربی علم کو سب س ے افضل علم سمجھ
Creativeلیا گیا۔ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ عقلیت و تجربیت اور پوسٹ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ تخلیقی تخیل
ےہ۔جدیدیت ن ے کانٹ ک ے فلسف ے ک ے ذریع ے عقلیت و تجربی ت کو علم کا ماخذ Aestheticsاور جمالیات imagination
لہذا افضل علم اب قبل تجربی نہیں بعد تجربی لہذا جدید سائنس نے زبردست ترقی کی ٰ یعنی a Posteriorieتسلیم کیا ٰ
سائنس ہی اصل العلوم ہے اسی لیے ہر علم کو عہد حاضر میں سائنس کے پیمانے یعنی عقلیت و تجربیت پر پرکھا جارہا ہے
۔ان معنوں میں غامدی صاحب ایک اسالمی نہیں جدیدیت پسند مفکر ہیں جو عقل کو مغرب کے اتباع میں ماخذ علم
سمجھتے ہیں۔جبکہ مغرب میں عقلیت کی آفاقیت کے دعوے پس جدیدیت کے مفکرین کی جانب سے عقلیت کی بنیاد پر رد
کردیے گئے ہیں ۔ غامدی صاحب نے دین کو فلسفے کا اصول بنادیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ خود عقل صرف حواس کے
صرف دین انسان کو عقل ،جذبات ،حواس ] Reason is the slave of Passionsہی نہیں جذبات کے بھی تابع ہے
علم نہیں ہے وہ محض ایک آلہ [Source] ،علم ےہ ماخذ ][Meanسے ماوراء کرکے ایمان کی دعوت دیتا ہے عقل ذریعہ
ہے جس سے ایمان کے تابع کام لیا جاسکتا ہے ۔ خود غامدی صاحب اپنے مضمون عقل و وحی میں ] [Toolوسیلہ ،ہتھیار
لکھتے ہیں عقل خدا کی نعمت ہے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنی غیر معمولی اہلیت کے باوجود اس کے بعض حدودہیں اور
ان کے ساتھ بعض آفات بھی لگی ہوئی ہیں عقل کا ذریعہ معلومات اگر کچھ ہے تو ہمارے حواس اور ہمارا وجدان ہی ہے
عقل مجبور ہے کہ اپنے فیصلوں کے لیے انھی دو ذرائع حواس اور وجدان پر اعتماد کرے یہ دونوں ذرائع اپنا ایک محدود دائرہ
عمل رکھتے ہیں عقل جب تک انھی پر منحصر ہے وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی [غامدی ،مقامات سہ لسانی
عربی اردو انگریزی ایڈیشن طبع دوم ،الہور ،المورد ۔۲۰۰۶ء ،ص ،۶۷عقل اور وحی ۔یہ ایڈیشن بازار سے غائب کرادیا گیا تھا
اب بازار میں مقامات کا صرف اردو ایڈیشن دستیاب ہے غامدی صاحب کی انگریزی شاعری اور عربی مضمون شواہد الفراہی اس
میں سے غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس عربی مضمون میں چھ سو سے زیادہ غلطیاں تھیں اور انگریزی شاعری بڑے انگریزی
شعراء کے مصرعوں کا سرقہ تھی ۔ ماہنامہ ساحل نے ۲۰۰۷ء کے اپریل ،مئی جون ،جوالئی ،اگست کے شماروں میں اس کتاب
پر قیمتی تبصرے شائع کیے تھے] عقل وحی کی رہنمائی کے بغیر باؤلی ہو جاتی ہے:غامدی
عقل پر جذبات تعصبات غالب آجاتے ہیں اور حاالت اسے متاثر کرلیتے ہیں عقل کے یہی حدود اور آفات ہیں جن کی بناء پر
وہ مجبور ہے کہ اپنے لیے کوئی ایسا رہنما تالش کرے جو اسے ان حقائق تک پہنچائے جواس کی پہنچ سے باہر ہیں عقل
کے اندر اس تالش کے لیے ابتداء ہی سے بڑا قوی تقاضہ رہا ہے اللہ نے اپنی وحی اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ناز ل
کی ہے جس طرح انسان کی رہنما عقل ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی وحی الہی ہے انسان اگر عقل کی رہنمائی سے
محروم ہوجائے تو ہم اسے پاگل کہتے ہیں اگر وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو وہ بھی بالکل باؤلی ہو جاتی ہے۔
[غامدی ،مقامات۲۰۰۶ ،ء ،ص ]۶۸غامدی صاحب نے ۲۰۰۸ء کے بعد دین کو صرف اور صرف عقلیت کے پیمانے تک محدود
لہ ذا اب وہ دین کی ہر بات عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی کردیا ہے ٰ
جب مباشرت یا احتالم کے بعد غسل کے لیے دریا یا سمندر میں غوطے لگالیتا ہے اس کے باوجود اسے پاک تسلیم نہیں کیا
جاتا اس کی کیا عقلی دلیل ہے؟ توغامدی صاحب اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ اور
اس کے رسول کا حکم ہے تم سات سمندر میں غسل کرکے آجاؤ عقال ً شاید پاک ہوجاؤ لیکن دین میں تمہیں ناپاک ہی تصور
کیا جائے گا۔جب تک پاکی حاصل کرنے کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو رسالت مآب نے بتایا ہزاروں گیلن پانی بہانے سے
پاکی حاصل نہیں ہوسکتی اصل پاکی شریعت کی تقلید میں ہے ۔نماز دین کا ستون ہے لیکن عورت کو ایام حیض کی نمازوں
کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر قضا روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی عقلی دلیل کیا ہے؟ ظاہر ہے دین کی ہر
بات عقل سے ثابت نہیں کی جاسکتی نہ ہر بات عقل کے معیار پر اترتی ہے کیوں کہ عقل مخلوق ہے کالم اللہ مخلوق
لہ ذا کمتر برتر کے کالم کے تمام اسرار معارف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اسی لیےنہیں خالق کا کالم ہے ٰ
رسالت مآبؐ کی اتباع فرض ہے ان کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں۔
ہمارے شاگرد رشید جناب ظفر اقبال نے اپنی کتاب اسالم اور جدیدیت کی کشمکش کے تیسرے باب جدید منہاج علم ماخذ و
منابع :عقل محض عقل سلیم فرق اور امتیاز میں عقلیت کی نارسائی بے بسی بے کسی پرہمارے اشارات و تحقیقات کو نہایت
عمدہ طریقے سے جمع کیا ہے جدید ذہن کے لیے ظفر اقبال صاحب کی یہ سادہ مختصر اور نہایت مدلل و موثر تحریر ہے
علماء کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ہمارے عزیز شاگرد ظفر اقبال نے جب فلسفے اور سائنس کے مباحث ہماری نگرانی میں پڑھنے شروع کیے تو شروع میں ایک
سال تک عقل کی فوقیت کے بارے میں وہ بہت اونچی رائے رکھتے تھے مباحثہ مذاکرہ ہوتا تو وہ عقل کی حمایت میں بہت
سے دالئل اور جوابات پیش کرتے عموما ً ان کے دالئل معتزلہ یا جدید معتزلیوں سے مستعار ہوتے جیسے سرسید ،عبدہ ،افغانی،
شبلی ،خدا بخش ،امیر علی ،فیضی ،اصغر علی ،انجینئر ،وحید الدین خان ،یوسف قرضاوی ،مصر کی جماعت وسطانیہ ،ملیشیا کی
سسٹر آف اسالم ،ایران کے عبدالکریم سروش ،علی شریعتی ،آیت اللہ مطہری،غامدی وغیرہ وغیرہ ایک دن راقم نے انھیں
ہدایت کی کہ المعجم المفہرس للفاظ القرآن میں قلب ،عقل ،فواد اور اس کے مترادفات #سے متعلق تمام آیات پر وہ پورا دن
تدبر و تفکر فرمائیں پورا دن گزر گیا دن کے اختتام پر راقم نے عقل کی محدودیت کا فلسفہ اس فلسفے کے دالئل ،عقلیت
پرستی پر تنقید کے دالئل اور عقلیت پرستی کے حوالے سے نصوص قرآنی اور اسالمی تاریخ سے چند واقعات ان کی خدمت
میں پیش کیے اور ان کے عقلی استدالالت کا تجزیہ پیش کیا ،تب ظفر اقبال صاحب کو عقلیت کی حقیقت ماہیت اور حیثیت
کا بخوبی اندازہ ہوا ہمارا وہ خطبہ اور اس میں پیش کردہ واقعات اب ان کی کتاب میں ’’عقلی موشگافیوں اور دینی مزاج
‘‘کے عنوان سے جمع کردیے گئے ہیں وہ باب غامدی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا جارہا ہے امید ہے وہ توجہ
:فرمائیں گے
یہ خیال کہ روشنی اور اندھیرے میں فرق صرف عقل کی بنیاد پر ممکن ہے۔ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تضاد ممکن
نہیں۔ عقل اگر خالص ہو تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس نتیجے پرانسان نقل کے ذریعے پہنچتا ہے ،پیغمبر
ظاہر[ انبیاومرسلین] جس منزل پر لے جاتے ہیں پیغمبر باطن[ عقل] بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے ــــ درست
نہیں۔ اگر عقل ہی خیر و شر کو جانچنے کا پیمانہ ہے ،تو کیا عقل کو بھی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ؟ یا عقل کو
جانچنے کا پیمانہ محض عقل ہے ،اگر عقل کو جانچنے کا پیما نہ خود عقل ہی ہے تو پھر عقل کو جانچنے کی ضرورت ہی
کیا ہے ؟ با لفاظ د یگر اگر عقل کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اندر ،یعنی عقل ،سے ہی نکلتا ہے ،اگر وہ خود ہی پیمانہ ہے
تو اسے پرکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیال کہ حسیات سے ورا عقل کچھ نہیں کرسکتی ،یعنی وہ عقل کا دائرہ نہیں تو
پھر حسیات سے متعلق امور میں اگر اختالف ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ عقل یا وہ مابعد الطبیعیات جو عقل سے ماورا ہے۔
شعیب مدنی عطاری* :عقلیت کی تحریک ان خطوں سے اٹھی جہاں انبیا کی تعلیمات بالکل * ][6/30, 11:51 PM
کرتے ہیں ۔ عقل مقاصد کا تعین category mistakeمعدوم ہوگئیں ،عقل کے طالب عقل کی حدود کو نظر انداز کر کے
لہذا قرٓان و سنت کے طے شدہ مقاصد کے لیے عقل جب کام کرتی ہے تو یہ سرگرمی اجماع و اجتہاد کی نہیں کرسکتی ٰ
صورت میں ظہور کرتی ہے ۔عقل کے استعمال سے پیدا ہونے والے فطری اختالفات کا حل اجماع اور مسلک جمہور ہے۔ جس
طرح بائبل اور قرٓان میں تقابل بہ ظاہر عقل کے ذریعے ہوتا ہے ،لیکن عمال ً یہ تقابل نقل کے منہاج میں ہوگا ،عقل یہاں
ایک ذریعہ وسیلہ ہوگی جس طرح زبان بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ قرٓان و بابئل کا تقابل کرنے کے لیے پہلے قرٓان پر ایمان
النا ہوگا پھر اس ایمان کی دلیل عقل کے ذریعے بیان ہوگی،یعنی پہلے ایمان ہے پھر عقل۔ عقل ایمان کے تابع ہے ،ایمان
عقل سے ماوراہے اس کا تابع نہیں۔ جو چیز یا تصور انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ شے خالف عقل نہیں
ماورائے عقل ہوتی ہے۔ خالف عقل ہونا اور ماورائے عقل ہونا دو مختلف نقطٔہ ہائے نظر ہیں جن کے نتائج یک سر مختلف
ہوتے ہیں ،کسی شے اور وجود کا عقل سے ماورا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ شے وجودہی نہیں رکھتی اسی لیے
اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ قرٓان ہمیں عقل کے ذریعے نہیں ،مشاہدے اور تجربے کے ذریعے نہیں ،بلکہ
نقل کے ذریعے مال ہے ،رسالت مٓا ب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرٓان کتاب اللہ ہے تو ہم نے تسلیم کیا کہ یہ
تعالی نے ہمیں قرٓان کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں بتایا اس ایمان کو بال شبہہ عقلی دالئل سے ٰ اللہ کی کتاب ہے ،اللہ
ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن یہ نقل کا اثبات ہے بہ ذریعٔہ عقل۔ عقل ہمارے ایمان کی دلیل مہیا کرتی ہے صرف دلیل سے
ایمان مہیا نہیں ہوتا ،دلیل عقل کی رہنمائی کر دیتی ہے لیکن قلب کی ہدایت یا قبولیت کے بغیر عقل کی رہنمائی کار ٓامد
نہیں رہتی۔ عقل مان لیتی ہے دل نہیں مانتا ،دلیل قلبی کے بغیر دلیل عقلی بے معنی ہے اسی لیے ایمان تعقل قلبی کا نام
ہے۔ قرٓان نے عالم وعاقل اوراہل فکر اس کو قرار دیا جو الحق اور الکتاب کو قبول کرے ،جو اس کو رد کر دے وہ کم عقل،
قبولیت ایمان ہے جو عقل ایمان قبول نہ کرے وہ عقل نہیں ِ لہذا عقل کو پرکھنے کا پیمانہ جاہل ،ظالم اور شر الدواب ہے ٰ
جہل ہے۔ عقل کے استعمال کا الزمی نتیجہ ایمان ہے ،عقل کا واحد نتیجہ عبدیت کا اقرار یعنی سجدہ ہے ،عقل کی اصل
نعمت سجدہ سے ِ شکل بندگی اور حالت سجدہ ہے۔ اسی لیے قیامت کے دن وہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے جو دنیا میں
:محروم ہے
ج ْو ِد َفال َ ی َ ْستَ ِطیْ ُع ْو َن][pullquote ع ْو َن اِل َی ُّ
الس ُ اق ّ َویُ ْد َ
ع ْن َس ٍ اش َع ًۃ ا َبْ َص ُار ُہ ْم تَ ْر َہ ُق ُہ ْم ِذلَّۃٌ َوق َْد ک َان ُ ْوا ی ُ ْد َ
ع ْو َن اِل َی Oی َ ْو َم یُک َْش ُف َ َخ ِ
جو ِد َو ُہ ْم ٰسلِ ُم ْو َن []۶۸:۴۲،۴۳ الس
ُّ ُ ][/pullquote کلی، عقل ہے، القلب فی تفکر اور تدبر ً الاص اجتہاد اور قیاس میں دین
بصیرت تامہ کا نام ہے ،محض خیال ٓارائی کا نام نہیں ۔یہ محض کوئی تخلیقی ،علمی ،تحقیقی اور عقلی سرگرمی نہیں بلکہ
دور زوال میں ارسطو کے ذریعے ابدیت روحانی عمل ہے جس کا مقصد ہر عہد میں روح کی حفاظت ہے۔ یونانی عقلیت اپنے ِ
لہذا یونان میں حقیقت کے علم کی سرگرمی نے ٓاخر کار صرف اس دنیا کے علم کو ہی اصل علم دنیا کے نتیجے پر پہنچی ٰ
قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ،ارسطو کے زیر اثر مغربی فلسفہ ٓاخر کار حقیقت کے سوال سے ہی دستبردار ہوگیا ۔ ایک
ہی عقل مختلف لوگ استعمال کرتے ہیں تو نتیجہ ایک نہیں نکلتا مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ ہیوم کے مطا بق عقل جذبات
با لفاظ دیگر عقل نفس امارہ کی غالم ہے۔ عقل اگر کبھی کسی: Reason is the slave of Passionکی غالم ہے
درست نتیجے پر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی اس درست نتیجے کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ اس درست نتیجے
کی تصدیق کا پیمانہ بھی عقل خود ہی ہے،یعنی عقل خود نتیجہ قائم کر کے اس نتیجے کو عقلی یا جذباتی بنیاد پر قبول
کرنے سے انکار کر دیتی ہے ،جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے اہلکاروں کا مکالمہ قرٓان میں بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت
ابراہیمؑ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے کہ اگر یہ بت بول سکتے دیکھ نہیں سکتے تو تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ مگر اگلے
ہی لمحے وہ بولے کہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے اگر عقل خود ہی مقصد ہے ،مقاصد کا تعین خود ہی
کرسکتی ہے تو پھر عقلی کوشش کے نتیجے میں جو بھی عمل سرزد ہوگا وہ عقلی ہی ہوگا۔مسل ّمہ اصول ہے کہ پیمانہ ہمیشہ
لہذا نفس ہی حقیقت باہر ہوتا ہے لیکن عقلیت کو پرکھنے کا پیمانہ عقلیت ہی ہے ،یعنی انسان کے نفس میں پنہاں ہے ٰ
مطلق ہے۔ عقلیت کو دوام نہیں وہ ہر لحظہ بدلتی ہے جب کہ پیمانہ مستقل ہوتا ہے ۔ اگر کسی فیصلہ کی بنیاد صرف عقل
لہ ذا عقل کبھی بھی ایمان سے دستبردار ہوسکتی ،کہ عقل تو ارتقا کا نام ہے، ہے تو فرقان ،منہاج ،کسوٹی ،عقل ہی ٹھہری ٰ
عقل اور دلیل پر ایمان الئو ،لیکن سوال یہ ہے کہ ] [Believe in Reasonیہ تغیر اور تنوع ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ
خودعقل پر ایمان النے کی کیا دلیل ہے؟ کانٹ کے مطا بق دلیل یہ ہے کہ یہ ٓافاقی سچ ہے ،مگر اس کا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر
ہے ایمان کی دلیل نہیں ہوتی عقل پر ایمان الئو کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اپنے نفس اوراپنے ٓاپ پر ایمان الئو ،کیونکہ علم کا
لہذا انسان خود اپنے ٓاپ کی پرستش کرے ،اپنی ہی عبادت کرے کسی دوسرے کی ماخذ تو عقل ہے جو انسان کے پاس ہے ٰ
عبادت نہ کرے۔ کیوں کہ عبادت اس کی کی جاتی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے اور علم صرف انسان کے پاس ہے اسی
کا انکار کر دے۔ روایتی ،الہامی اور دینی تہذیبوں میں اسی ] [authorityلیے کانٹ کہتا ہے کہ انسان اپنے سوا ہر مقتدرہ
ہے۔ ] [Source of knowledgeلیے ایمان عقل کے تابع نہیں عقل ایمان کے تابع ہے ،مغرب میں عقل ماخذ علم
اسالم میں عقل محض ذریعٔہ علم ،ہتھیار اوراوزار ہے۔ عقل مقصد کا تعین نہیں کرسکتی ،کسی متعین مقصد کے لیے وسیلے اور
ٓالے ،کا کام انجام دے سکتی ہے۔ عقل اپنے منہاج میں نتائج اخذ کرتی ہے اسی لیے اگر ٓاپ جدیدیت کے منہاج میں کھڑے
ہوں گے تو اس کے دعوے ٓاپ کو عقلی لگیں گے لیکن اگر ٓاپ مذہبی منہاج میں ٓاجائیں تو مذہب کے عقائد ،اعمال عقلی
نہیں ہوسکتی وہ موضوعی ] [Objectiveلگیں گے عقل محض زماں و مکاں سے ماورا نہیں ہوسکتی ،عقل محض معروضی
رہتی ہے۔ عقل زمان و مکان سے اٹھا سکتی ہے مگر اس ماورائیت پر دوام عطا نہیں کر سکتی ،صرف ][Subjective
عقل سے علم ،الحق اور الکتاب نہیں ملتے بلکہ اس میں جذبات ،وجدان ،طلب ،ہدایت ،حواس ،کوشش سب مل کر کوئی
نتیجہ پیدا کرتے ہیں یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے ارسطو سے متاثر ہو کر انسان کو صرف عقلیت کے دائرے میں محصور
تعالی کے حکم کے بعد ٰ ومقید اور محدود کر دیا۔ اگر محض عقل اور فطرت ،ہدایت ،فالح ،کامیابی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ
کہ شجر ممنوعہ کے پاس مت جانا ،حضرت ٓادمؑ کبھی تشریف نہ لے جاتے ان کی فطرت بالکل محفوظ اور عقل ہر داغ سے
خالی تھی وہ شر اور گناہ کے تصور سے ماورا،مص ّف ٰی و منزہ عقل و فطرت تھی ،مگر جب ہدایت ربانی [نقل] کی موجودگی
میں فطرت و عقل کو ذریعٔہ علم تصور کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کی خطا سرزد ہوئی تو عقل دستگیری نہیں کرسکی صرف
:توبہ کام ٓائی اورحضرت ٓادمؑ نے اللہ رب العزت سے کلمات توبہ سیکھ کر عقل و نفس کی غلطی کی معافی طلب کی
ج َر َۃ َفتَک ُْونَا ِم َن ][pullquote ث ِشْئتُ َما َو ال َ تَقْ َربَا ٰھ ِذ ِہ ّ َ
الش َ ک ال َْجن ّ ََۃ َو کُل َا ِمن ْ َھا َرغ ًَدا َحیْ ُ ت َو َز ْو ُج َ اسک ُْن اَن ْ َ َو ُقلْنَا یٰا ٰ َد ُم ْ
الظلِ ِمیْ َن
لی ٰ ّ Oٰ ِ ا ع
ٌ اَ ت م و
َ ر
ٌ ق
َ
ُ ْ ّ ّ ََ ت س م ض ِ َر ْ ا ْ ل ا ی ْ ِْ
ف ُم ک َ ل وَ و
ٌ د
ُ ع
َ ضٍ ع
ْ ب
ْ َ ِ ل ُم ک ض ُ ع
ْ ب
ُ ْ َ ا و ِط ب اھ
ْ ا َ ن ْ ل ق
ُ و
َ ِ
ہ ْ ی ِ
ف اَ ن َا ک ا م
َ ّ ِ
م ا م
َ ھ
ُ ج
َ ر
َ َخ
ْ افَ ا ھ
َ عن ْ َفا َ َزل ّ َ ُھ َما ّ َ
الشیْ ٰط ُن َ
الر ِحیْ ُم [ ۲:۳۵تا ِ O ]۳۷حیْ ٍن اب َّ ُ َو
َ ّ ت
ّ ال و
ـ
َ ھُ َہ ّ نِ ا ہ ِ َی
ْ لعَ اب َ َ تفَ ت ٍ م
ٰ ِ
ل َ ک ہٖ ب
ِّ ر
َ ّ نْ مِ مُ د
َ ٰ ا َی
ٰ ق
ّ َ ل ت
َ ف
َ ][/pullquote پیش استدالل عقلی شیطان نے
کیا تھا الفانی زندگی اور الفانی سلطنت ایک فانی انسان کے لیے۔
قرآن میں جہاں جہاں ایسے بیانات ہیں جو ذہن انسانی کی دسترس سے باہر ہیں ان کا مقصد سائنسی تحقیق و ترقی نہیں
بلکہ اہل ایمان کے ایمان میںاور اہل کفرکے کفر میںاضافے کے لیے ہیں ،ان بیانات کو سائنسی تحقیقات سے جوڑ کر خواہ
کسنا معذرت خواہانہ جدیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مخواہ غلط سلط سائنسی نتائج کی میزان پر َ
جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دالئل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود
عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو ،جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے ،نت نئے سواالت
حصول معلومات ،را ِہ ہدایت کی طلب ،علم میں اضافے اور استفسار کے لیے نہیں ہوتے ِ تحصیل علم، ِ سوجھتے ہیں یہ سواالت
بلکہ اعتراض ،ہجو ،تضحیک ،تنقید محض اور وہ بھی بال علم ،اس کا مقصد دینی تعلیمات و افکار پر کسی نہ کسی طرح کوئی
عقلی اعتراض وارد کرنا ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے جہال کے سواالت کا جواب دینے کا طریقہ وہ نہیں ہے جو عالم آن الئن ِکے
معروف فنکار اور ان کے منتخب کردہ نو آموز جدید علماء اختیار کرتے ہیں اور دین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سوال کا جواب دینا پاگل پن ہے جہال کے سواالت کے
جواب میں ہمہ وقت تیاررہنا اور جواب دینا خود جہالت ہے ،وہ شخص عالم کہالنے کا مستحق ہی نہیں جو ال ادری کہنا نہیں
جانتا یا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے علم بحر بے کراں ہے جو شخص ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے بال
شک و شبہہ جید جاہل ہے اور تمام ٹی وی پروگرام ان جید جہالء کی جہالت سے منور ہیں اس’’ منور اندھیرے ‘‘سے
:نکلنے کے کئی طریقے ہیں مثال ً
اگر عالم دین کو سوال کا جواب معلوم نہیں ہے تو واضح طور پر ال ادری کہہ دے یا کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اللہ ][۱
تعالی جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ایسا کہنا نصف علم ہے ،ایک شخص نے حضرت مالکؒ ٰ
بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے ایک ایسی جگہ سے
بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے آپ نے کہا جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں
نہیںجانتا ،اس شخص نے شکوہ کیا کہ اگر آپ نہیں جانتے تو پھر اس مسئلے کو کون جانے گا فرمایا اسے وہ جانے گا؟فرمایا
تعالی نے اس کا علم دیا ہے ،مالئکہ کہتے ہیں ٰ لم ل َنا اِلَّا َما ]: [pullquoteاسے وہ جانے گا جسے اللہ ال ِع َ
ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔علم کے کو ِہ گراں کی عاجزی کا اندازہ کیجیے۔ ][/pullquoteعلَّمتَنا
امام مالکؒ سے اڑتالیس مسئلے پوچھے گئے جن میں سے تیس کے جواب میں آپ نے فرمایا :ال ادری [میں نہیںجانتا]۔ خالد
بن خداش سے روایت ہے کہ انھوں نے بتایا میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان
سے پوچھا تو صرف پانچ کے جوابات آپ نے دیے۔ امام مالکؒ اس راز کو جانتے تھے کہ جب عالم ال ادری نہ کہنے کی
غلطی کرے تو وہ ہالکت کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ امام مالکؒ سے روایت ہے ان سے عبداللہ بن یزید بن ہر مزؒ نے روایت
کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو ال ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایک ایسی اصل اور ٹھکا نہ ہو جہاں وہ
پناہ لیں ،اور ان سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے ،جسے وہ نہیںجانتے تو الادری کہہ دیں۔ حضرت ابو درداء ؓسے صحیح
روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا الادری [ میں نہیں جانتا] کہنا نصف علم ہے۔اسی لیے امام غزالیؒ نے مناظرے کی مذمت کی
ہے اوراس کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں کیونکہ مناظرے کا مر ّو جہ ماحول اور اسلوب ،اال ماشا ء اللہ ،ال ادری کہنے کی
صالحیت سلب کرلیتا ہے یہ حق کے دروازے بند کرنے کا راستہ ہے۔
لیلی کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس مسجد [مسج ِد نبوی] میں ایک سو بیس صحابہ کو میں نے ٰ عبدالرحمن بن ابی
پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتوے کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی
اسے بتائے اور بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتے اور وہ کسی دوسرے کے پاس۔
اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے پاسں پہنچ جاتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا ۔ ؎۱ ؎ ۱
السادۃ المتقین ،جلد ۱صفحات ۲۸۰-۲۷۹۔] [ ]۲اگر سائل صرف تنقید کے لیے بغیر علم کے سوال کررہا ہے یا ّ [اتحاف
غرہ ،تو ایسے سائل کا براہ راست جواب دینے ّ کا علم اپنے یا ہے توہین اور تضحیک تحقیر، کی روایت دینی یا دین مقصود
کے بجائے اس سے پوچھا جائے کہ آپ سائل ہیں یا ناقد ؟ آپ استفسار کرنے آئے ہیں یا اعتراض وارد کرنے؟ مقصود حصول
علم ہے یا مباحثہ؟ اگر سائل ہو تو سوال کے آداب سیکھ لو اور اس کے بعد سوال کرو ،اگر معترض اور ناقد ہو تو تمھیں
علوم دینیہ پرعبور ہونا چاہیے تاکہ اصولوں کی بنیاد پر اعتراض وارد کرسکو اور ہمارے سواالت کے جواب دے سکو۔ مثال ً ایک
لہذا میں فقہا کی سزا کو نہیںمانتا کیونکہ اصل ناقد نے سوال کیا کہ قرآن میں شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا بیان نہیں ہوئی ٰ
ماخذ تو قرآن ہے؟ایسے ناقد سے پوچھا جائے کہ آپ قرآن کو عربی میں سمجھ سکتے ہیں؟ چند آیات پڑھ کر اس کا امتحان
لے لیا جائے کیا آپ نے تمام قرآن پڑھ لیا ہے؟ علم تفسیر حاصل کرلیا ہے؟ قرآن سے اخذ احکام کے اصول پڑھے ہیں؟ کن
کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اور عربی ،انگریزی اور اردو میں کون سی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے پڑھے ہیں؟اس سے
عربی قواعد کے کچھ اصول ماضی اور مضارع کی گردان وغیرہ پوچھ لی جائے۔ پھر پوچھاجائے کہ ایمان آپ نے کس ذریعے
سے حاصل کیا کہ اصل ماخذ قرآن ہے سنت نہیں؟ اس ماخذ پر نقدو جرح کیجیے پھر اس سے اصول بحث طے کرلیجیے کہ
احکامات و قوانین کا ماخذ محض قرآن ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہیں تاکہ اسے ایک ہی موقف پر رکھ کر گفتگو
کی جائے ،اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کو ماخذ کس کی سند پر مانا گیا ہے؟ کیا قرآن کے کالم اللہ ہونے کی شہادت خود
اللہ نے تمھیں دی ہے یا یہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچی ہے؟ تو پہلے تم رسول اللہ پر ایمان
تعالی نے یا
ٰ الئے تھے یا قرآن پر؟ تو رسول پر ایمان مقدم ہے یا قرآن پر؟ اس تقدیم و تاخیر کا حکم کس نے دیاہے اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تو اختالف میں حکم کون ہوگا رسول
اللہ یا کالم اللہ ؟یا دونوں؟ یا کالم اللہ بذریعہ رسول اللہ ؟اس کے بعد وہ تمام احکامات پوچھ لیے جائیں جو قرآن میں درج
نہیں ہیں لیکن پوری امت کا جن پر اجماع ہے مثال ً اذان ،نماز جنازہ ،عورت کے ایام حیض میں روزوں کی قضاء وغیرہ وغیرہ۔
ایک سائل نہایت بد تمیزی سے ایک عالم پر حملہ آور ہوا ،عالم نے اس کے اعتراضات،ہجو ،بد تمیزی کے جواب میں کمال
تحمل سے پوچھا آپ سائل ہیں یا واعظ یا ناقد؟ کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ انھوںنے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟یا
مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں یا سنانا چاہتے ہیں یا تنقید کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا پوچھنا چاہتا ہوں ،فرمایا اگر سائل ہو
توپہلے سوال کرنے کا ادب سیکھو! اس نے کہا میں ناقد ہـوںـ کہا تو اعتراض کرنے کے لیے علم چاہیے ،ـ آپ کے اعتراض
لہ ذا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے دینی علوم سیکھے ہیں؟کیونکہ اعتراض کے لیے علم ضروری ہے اور تقلید کے لیے اسالم پر ہیں ٰ
جذبٔہ اطاعت اور اپنے جہل کاادراک اور اعتراف #کہنے لگا میں دینی علوم سے واقف ہوں عالم نے چند سوال پوچھے جواب
نہ دے سکا ،انھوں نے کہا اچھاآپ اردو تو یقینا ً جانتے ہوں گے ،کہنے لگا ظاہر ہے میں اردو بول رہا ہوں ،ویسے میں بہت
عمدہ اردو جانتا ہوں ،کہا اگر تم اردو میں مہارت رکھتے ہو تو ہم تم سے بات کریں گے اور تمھارے اعتراضات ضرور سنیں گے
اسی نمبر آئے کیونکہ زبان کا علم اہم ہوتاہے اور زبان اظہار علم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے ،کہنے لگا میرے ہمیشہ اردو میں ّ
ہیں ،عالم نے کہا #اردو الفاظ میں زیر زبر کا فرق بتاسکتے ہو؟ کہنے لگا ہاں! اسے شعر لکھ کر دیا کہ زیر زبر لگادو یا
:صحیح تلفظ سے شعر پڑھ دو
کئی گزرے َسن ،تیرا کم تھا ِسن ،کہ لیے تھے ُسن تیرے گھونگرو
چھن تیرے گھونگرو کبھی باجے َچھن ،کبھی باجے ِچھن ،کبھی باجے ُ
وہ زیر زبر کا فرق تل ّف ظ سے ادا نہ کرسکا ،عالم نے کہا اچھا لفظ تلفظ کو صحیح مخارج سے ادا کرو ،وہ اس پر بھی قادر نہ
تھا اس نے تل الگ کہا اور فظ الگ تشدید بھول گیا۔
عالم نے کہا بیٹے نہ علوم اسالمی جانتے ہو ،نہ اردو جانتے ہو ،نہ علم سے تعلق ہے اور تنقید ایسے کرتے ہو جیسے سب
علوم سے واقف ہو یعنی بحر العلوم ہو۔ تم سے کیا بات کی جائے .سائل نے کہا آپ کچھ اور پوچھ لیں ان شاء اللہ صحیح
جواب دوں گا ،انھوں نے کہا اچھا مختلف الفاظ کا فرق بتاؤ جو بہ ظاہر ایک جیسے لگتے ہیں آواز میں بھی تلفظ میں بھی
اور ایسے الفاظ جن کی آواز یکساں ہے یعنی سننے میں ایک جیسے لیکن تحریر میں الگ ہیں مثال ً بَر ،بِر ،بُرکا فرق بتاسکتے
ہو؟ #باز اور بعض ،باد اور بعد ،معاش اور ماش ،خال اور خال ،جال اور جعل ،لعل اورل ال ،ابر اور عبر ،مہر اور ُمہر ،بحر
سح ر ،سطر اور ستر ،خطرہ اور قطرہ ،آج آنا اور آجانا ،آم اور عام ،بام اور بام ،دام اور دام ،نام اور نعم، ّ اور بہر ،سحر اور
حمل اور حملَ ،طور اور ُطور ،بیر اور بَیر ،پیِر َپیر اور پیرِ ،سیر سیَر اور َسیر اور سیر ،تیر اور تَیر ،دراور ُدر ،گ َرگ ُر اور ِگرَ ،چر
ُچر اور ِچرَ ،سر ِسر اور ُس ر ،تہہ اور طے ،ماہ اور ماہ ،بار اور بار ،نال اور نعل ،زیر زبر پیش کے ساتھ بال بعل اور بال ،رم
لعب ،بَن بِن بُن اور بن ،دھن اور اور َرم ،مرثیہ اور ہرسیہ ،حال اور ہال ،ڈال اور ڈالِ ،دل َدلِ ،مل َمل ،مت و مت ،ل ُعاب اور َ
بھن اور بُھن ،بِین ،بَین ،بیّن اور بین ،خط اور قطِ ،قسط اور ِخ ّست ،منشور اور منثورُ ،جوں اور جوں، گھن اور گھنِ ، گھنُ ، ُدھنِ ،
محل ،لو اور ل َو ،ل ُو ،کے اور محل اور ِ َ تار اور تار بم، بم م، د م
َ ُد ُلی، ک ُلی، ک کلی، ُل، ک ل، ِ
ک َل، ک َل، ک ُو، گ اور گو ون، ججون اور ُ
بیعت۔ میت ،معیت اور َمیّت َ ،ست اور ُست ،بَد اور بِد ،بس بِس ،تاخت اور َ اور بیت ِتی ب زن، اور ظن عار، اور ک َےٓ ،ار
تخت ،غَل اور غُل ،رجس اور َرجزِ ،گن اور گ ُن ،تن اور تُند ،تان اور طعنِ ،کن اور ک ُن ،لعان اور لعن ،جام اور جام ،مطلع
مقطع اور ُمقطع ،جہل اور ُجہل ،عاصم اور آثم ،ٹال اور ٹال ،گ ُل ِگل اور گ َل ،تَل ِتل ،اور تُل ،بَل اور بل ،بال، ّ اور ُمطل ّع ،
بِال ،بالّ ،بَالّ ،گھوٹ اور گھونٹ ،اوٹ اور اونٹ ،ک َش اور ک ُشَ ،جل اور ُجل ،دم اور ُدمِ ،کل ک َُل اورَ ،دیر اور دیر ،ٹ ٖھر اور ٹھر،
َمیل ِمیل اور میل ،ہول ہول ،ا َب اور اب ،بیل بَیل ،بانٹ ،باٹ ،ڈاٹ اور ڈانٹ ،ک َٹ اور ِکٹ اور ک ُٹِ ،شیر ،اور شیر ،ذم اور
ضم ،چین اور َچین ،انس اور اُنس ،چخ اور چق ،شکر اور ُشکر ،قسم اور خصم ،صرف اور سرف ،بست اور بسط ،ملت او
رملط ،ملک ُملک اور َملک ،تَلک اور تل ّکِ ،کشت اور ک ُشت َ ،حسین اور حسین ،خال اور خلع ،عین اور عین ،طالء ،تال ،تال،
تُال اور ِتالِّ ،مل اور َم ل ،قاصر اور خاسر ،بسر اور بصر ،نصر اور نثر ،نخل اور نقل ،قصر اور خسر ،بطر اور بتر ،عقل اور
اقل ،بَط اور بت ،شور اور شورَ ،صر اور َسر ،عصر اور اثرُ ،چہل اور َچہل ،صمُ ،سمِ ،سم ،کانچ اور کانچ ،اُتر اور عطر ،بھیڑ اور
بھڑ اور بھڑ ،بھیڑِ ،
عالم نے اپنی گفتگو کا لب و لہجہ بالکل دھیما رکھتے ہوئے ناقد کی علمیت کی حقیقت چند سواالت میں واضح کردی اس
کی جہالت کو واضح کرنے کے بعد دالئل کی ضرورت ہی نہیں رہی ،پھر اسے ہدایت کی چونکہ تمھیں ان امور کا علم نہیں
لہ ذا تم ناقد نہیں بن سکتے ،البتہ مقلد بن سکتے ہو کیونکہ جو نہیں جانتے وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں اور پوچھ کر ٰ
اہل علم کی تقلید کریں ،دنیا میں یہی طریقہ ہے .اگر نقد کرنے کا شوق و ذوق ہے تو اس کے لیے دینی علوم کی تحصیل
کیجیے ،پھر مباحثے کے لیے تشریف الئیے۔
شعیب مدنی عطاری* :فتنٔہ غامدیت ؛انکار ِحدیث کا شاخسانہ* ][6/30, 11:53 PM
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہےکہ ٓاج اسالمی دنیا کا ایک بڑا طبقہ تجددپسندوں کے ان جدید فلسفوں سےبےحد متاثر ہےجو
دین اسالم کو مغربی نظریات سے ہم ٓاہنگ کرنے کے لیےنہ صرف اس میں قطع و برید اور کانٹ چھانٹ کے قائل ہیں؛بل کہ
دور حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے ٓاخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی، بدلتی ہوئی زندگی اور ِ
رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیتےہیں،دین اسالم میں جزوی یا کلی تبدیلی ،ترمیم اور اصالح کےان ہی
متجددین میں سےبعض نےمعجزات و کرامات کے اسالمی تصور کو عہدّ متجددین کہاجاتاہے۔ ان
ّ تجدد پسند اور
ّ علمبرداروں کو
جدید ک ے مخالف سمجھا تو برمالاس کا انکار کیا ،کسی ن ے متعارض احادیث کوتطبیق کی راہ میں رکاوٹ جانا تو اس پر ہاتھ
صاف کیا،کچھ نے اسالمی اصطالحات پر اپنی خودساختہ اصالحات کوترجیح دی اور ان کو سند جواز عطاکیا ،کسی نے اسالم کے
سیاسی نظام میں عہد حاضر کے لبرل سیاسی نظاموں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت محسوس کی اور خالفت علی منہاج النبوۃ
پر رکیک اعتراضات کئے ،کسی نے اسالم کے فقہ المعامالت میں تغیر کا بیڑا اٹھایا اور سود جیسے قطعی و اجماعی حرمت
رکھنے والے حکم کی حلت کا نظریہ پیش کیا،ان کے عالوہ کوئی اسالم کے نظام عفت و عصمت،برقعہ و حجاب کا دشمن ہوا،
کسی نے اسالم کے عائلی نظام کو نشانہ بنایا ،کسی نے فقہ الجہاد میں تغیر کی ضرورت محسوس کی ،تو کسی نے اسالم کے
نظام تزکیہ و احسان کو اپنا ہدف بنایا۔
چونکہ ان ترمیمات و تغیرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسالف سے مضبوط رشتہ تھا ،اس لیے اسالف
کے تذکرے اور علماء پر روایت پسندی کی پھبتی کسی گئی اور ہر ممکن طریقے سے راسخ العلم قدیم علماء کی اہانت،
مخالفت اور تمسخر و مذاق اڑانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا ،ان متجددین نے موجودہ دور میں دنیاوی سطح پر مسلمانوں کے
زوال میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسالم کی اس تشریح وتعبیر کو سمجھا جو نسل در نسل ،سینہ بہ سینہ اور
طبقہ بہ طبقہ صحابہ کرامؓ کے دور سے اب تک چلی ٓارہی ہے ،ان متجددین کی مجالس ،اقوال اور تصانیف میں مشترک طور پر
مغرب کی مدح سرائی ،مغربی نظام کی اصلحیت ،نافعیت ،مسلم دنیا کے مستقبل کے بارے مایوسی ،دین اسالم کے متفقہ و
اجماعی احکام پر اشکاالت ،اعتراضات اور اسالمی تاریخ اور اسالف امت کی تحقیر نظر ٓائے گی۔ متجددین کی تحریروں و
تقریروں میں تجدید ،جدت ،احیاء ،اصالحات ،زمانے کے ساتھ ہم ٓاہنگی ،اجتہاد اور اس جیسے الفاظ کی کثرت ہے۔ ان کی نظر
میں زوال کا سبب دین کی اصلی شکل و صورت پر اصرار ہے اور جس دن دین میں زمانے کے ساتھ تبدیلی و ترمیم کا راستہ
کھل گیا ،اس دن سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر ترقی کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔ یاللعجب
ٓاج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہماراروشن خیال طبقہ دینی و اسالمی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھنےکی
کوشش کرتاہے،انہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسالمی علوم کا مطالعہ برا ِہ راست کتاب و سنت کے مٓاخذ سے کریں ،علماء
ُ
اسالف امت کی تعبیر کو نمونٔہ عمل سمجھیں بلکہ مستشرقین ومتجددین ن ے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ
ِ کرام اور
حرف ٓاخر سمجھ لیا جاتا ےہ؛حاالنکہ ان فلسفوں میں کچھ
ِ اسالم اور کتاب و سنت ک ے متعلق جو کچھ لکھ دیا ےہ ،اس کو
ظن و تخمین اور فرض و ّ چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض
تخییل پر مبنی تھیں۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی ،علم بھی تھا اور جہل بھی ،یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو
میں ٓائے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی ،ان فلسفوں پر ایمان النا ہی
عقل و خرد کا معیار بن گیا اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد
اسالمی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقالب پر چونکے ،نہ اساتذہ اور مربیوں کو
خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقالب تھا
شعیب مدنی عطاری* :۔* ][6/30, 11:54 PM
:مختصر تعارف
جناب جاوید احمد غامدی کون ہیں؟ ان کا علمی پس منظر کیا ہے؟ انہوں نے کہاں پڑھا؟ کیا پڑھا؟ ان کے پاس دینی و
عصری علوم کی کوئی سند یا ڈگری ہے یا نہیں؟ وہ کس کے تربیت یافتہ ہیں؟ وہ کن کے علوم و افکار سے متاثر ہیں؟ ان
کے اساتذہ مسلمان تھے یا کافر؟ وہ ایک دم کہاں سے نمودار ہوئے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کیسے شہرت کی بلندیوں پر
پہنچ گئے؟ ان کو ٹی وی پر کون الیا؟ وہ اسالمی نظریاتی کونسل میں کیسے داخل ہوئے؟ وہ پرویز مشرف کے قریب کیسے
ہوگئے؟ وہ حکومت کی ناک کا بال کیسے بنے؟ انہیں اپنی فکر و فلسفہ کے پروان چڑھانے میں کن لوگوں نے مالی تعاون کیا؟
ان کے لئے فنڈنگ کون کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اسالم اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات ،قرٓان و سنت ،اجماع امت اور دین و
اسالف امت کے خالف بغاوت کرنے اور ان کے خالف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے ہوں ،وہ ِ مذہب کو بگاڑنے ،اکابر و
دنیا بھر کی اسالم دشمن قوتوں اور مذہب بیزار البیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں ،اور ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف
چھپ جاتے ہیں بلکہ اعدائے اسالم ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز
سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لئے اپنے اسباب ،وسائل ،مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں،
صرف یہی نہیں بلکہ نظری ،بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کے ”قدوقامت“ اور نام نہاد
علمی شوکت و صولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔
اور یہ تو باطل فرقوں کی سرشت میں داخل ہے کہ ان سے وابستہ افراد میں جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی
ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا،انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا ،جن لوگوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کے طرز عمل اور اسوہ کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ٓاڑ سمجھا ،انہوں نے اجماع صحابہ اور اجماع امت سے منہ
پھیرلیا۔ جنہوں نے فقہائے کرام کی تحقیقات اور استنباطات کو اپنی نفس پرستی اور خواہش پرستی کے سامنے دیوار سمجھا،
انہوں نے فقہائے کرام کی تقلید کاسرے سے انکار کردیا۔
غامد ی صاحب کا اصل نام محمد شفیق ہے؛ لیکن وہ بعد میں جاوید احمد ہوگئے،موصوف پیر ِکریاں (پاکپتن ضلع ساہیوال)
میں پیدا ہوئے ۔مذکورہ گأوں اب قصبہ پاکپتن میں ضم ہو چکا ہے،پھر خاندان سمیت الہور میں سلطان پورہ محلے میں مقیم
ہوگئے۔ٓاج کل ڈیفنس الہور میں رہائش پذیر ہیں ،لیکن چندہ ماہ سے بعض وجوہات کی بنا پر بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔
ان کا تعلق زئی خاندان سے ہے؛مگر انہوں نے اپنا نسب تبدیل کرلیا ہے اور ٓاج کل وہ یمن کے ایک قبیلے غامد کی نسبت
سے غامدی کہالتے ہیں۔
غامدی نے بی اے تک تعلیم پائی ہے وہ کسی دینی مدرسے کے سند یافتہ فارغ التحصیل نہیں ہیں،ستر ()70کی دہائی میں
چند برس جماعت اسالمی (الہور) کے رکن رہے ۔پہلےموالنا مودودی سے بہت متاثر تھے،پھر موالنا امین احسن اصالحی سے
ِ
دروس قرٓان میں ضرور شرکت کر چکے راہ و رسم پیدا کرلی،وہ موالنا اصالحی کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں،البتہ ان کے کچھ
ہیں،وہ موالنا اصالحی کا نام استعمال کرتے ہیں ورنہ ان سے گہرے اختالفات رکھتے ہیں۔
ٓاج پڑوسی ملک پاکستان کے تقریبا تمام ٹی وی چینلزپرمختلف ناموں سے موصوف کے پروگرام جاری ہیں ،جیو ٹی وی کے
پروگرام ’’غامدی‘‘ٓاج ٹی وی کے پروگرام ’’اسالم‘‘ اور پی ٹی وی کے پروگرام ’’فہم دین‘‘کے عالوہ بھی دینی
موضوعات پر تقریبا تمام ٹوک شوز میں بحیثیت مذہبی اسکالر مدعو ہوکر دین کا غلط تصور عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
موصوف جو پرویزی دور حکومت کی نوازشوں کے سبب ’’اسالمی نظریاتی کونسل ‘‘کے رکن بھی ہیں پی ٹی وی کے پروگرام
میں نامحرم نوجوان عورتوں کے بیچ و بیچ بیٹھ کرخودساختہ ،تجدد زدہ اور معتدل اسالم کی بھٹرکیاں چھوڑتے ہوئے نظر ٓاتے
ہیں۔
انکارحدیث
ِ :تجدد پسندی کی ٓاڑ میں
ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں،یہ دین کا حصہ نہیں؛بل کہ دین سے الگ کوئی غیر دعوی
ٰ غامدی صاحب کابنیادی
عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت ہوتی اور یہ بھی اہم شئی ہے ،دین کا کوئی
حفاظت اور تلیغ و اشاعت کے لئے خود رسو ل اللہ ﷺ نے ایسا کوئی اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟ دین کا حصہ ہوتیں تو ان کی
:چنانچہ جاوید غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں’’مبادئ تدبر حدیث ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں
اخبار ٓاحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطالح” ِ نبی ﷺکے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر
میں’’حدیث‘‘ کہا جاتاـہے ،ان کے بارے میں یہ دوـ باتیں ایسی واـضح ہیں کہ کوئی صاحبِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا؛
ایک یہ کہ رسول ﷺ نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے ،وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی
اضافہ نہیں ہوتا۔
ایک خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی،
لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔ اس کے عالوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی
چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔
ٹی وی پروگراموں سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی جو دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے
ہیں اور ان کی عقل رسا میں جو مسئلہ فٹ نہیں بیٹھتا تو اس کا انکار کرنا اپنا فرض منصبی اور ضروری حق گردانتے ہیں،
ِّ
حد رجم مجوز،
ِ مات امت کے باغی ،ہم جنس پرستی کے موصوف کی کج راہیوں کی ایک طویل فہرست ہے ،مختصر یہ کہ مسل َّ ِ
اجماع امت اور حدیث ِرسول سے ناالں اور خفا ہیں۔
ِ منکر، اور سزائے ارتداد کے
اخیر میں ہم غامدی صاحب کے چندگمراہ عقائد اور باطل نظریات کاسرسری ذکر کرکےبات ختم کرتے ہیں؛ جن سے اس بات کا
اندازہ لگانا ٓاسان ہے کہ غامدیت کا فتنہ کس قدر سنگین اورخطرناک ہے ۔
:شعیب مدنی عطاری* :گمراہ کن باطل نظریات* ][6/30, 11:55 PM
عیسی علیہ السالم وفات پاچکے ہیں۔ [میزان ،عالمات قیامت ،ص،178:طبع 1…. ]2014
ٰ
قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ [میزان ،عالمات قیامت ،ص،177:طبع مئی2…. ]2014
غالم احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں ،کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں )مرزا غالم احمد قادیانی(3….
ہے۔
]اشراق،اکتوبر،2008ص[67:
حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔[میزان ،ص4…. ]15:
مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔ [اشراق ،اگست،2008ص8….]95:
رجم اور شراب نوشی کی شرعی سزا حد نہیں۔[برہان،ص 35:تا ،146طبع فروری 9…. ]2009
اسالم میں ”فساد فی االرض“ اور ”قتل نفس“کے عالوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔ 10….
قرآن پاک کی صرف ایک قرآت ہے ،باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں۔[میزان،ص،32:طبع اپریل..2002بحوالہ تحفہ 11….
غامدی]
فقہاءکی آراءکو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھاجائےگا۔ [سوال وجواب ،ہٹس 19 ،7277جون 12…. ]2009
ہرآدمی کو اجتہادکاحق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں ،جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل 13….
ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ [سوال وجواب،ہٹس ،612تاریخ اشاعت 10:مارچ ]2009
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لیے ختم ہے۔14….
تصوف عالم گیر ضاللت اور اسالم سے متوازن ایک الگ دین ہے۔ [برہان ،ص ،1811:طبع 15….]2009
16…. حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعہءکربال سوفیصد افسانہ
ہے۔
مسلم وغیر مسلم اور مردوعورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔ [برہان ،ص 25:تا ،344طبع فروی 17….]2009
زکو ة کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ [اشراق ،جون ،2008ص18…. ]70:
ٰ
ونصاری کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان النا ضروری نہیں ،اِس کے بغیربھی اُن کی بخشش ہوجائے 19….
ٰ یہود
ایضا]
ً [گی۔
بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے عالوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔[اشراق،مارچ ،2009 ،ص21….]69:
یتیم پوتا دادے کی وراثت کا حقدار ہے۔ مرنے والی کی وصیت ایک ثلث تک محدودنہیں۔ وارثوں کے حق میں بھی 23….
وصیت درست ہے۔ [اشراق،مارچ ،2008ص.…63:مقامات،140:طبع نومبر]2008
سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال ،ہڈیوں ،کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔ 24….
]اشراق،اکتوبر،1998ص[89:
و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری 25…. سنت صرف دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ
کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے ونصاری
ٰ فرمایا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراو یہود
کو ترجیح ہوگی ۔ [میزان،ص،14:طبع]2014 یہودونصاری کے متواتر عمل
ٰ
عورت مردوں کی امامت کر اسکتی ہے۔[ماہنامہ اشراق ،ص 35تا ،46مئی26….]2005
دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے دوپٹے کو اس لحاظ سے 27….
پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ا س کا کوئی جواز نہیں۔[ماہنامہ اشراق ،ص ،47شمارہ مئی]2002
مسجد اقصی پر مسلمانوں کا نہیں اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ [ اشراق جوالئی20033 ،اور مئی ،جون28….]2004
ِ
الفاظ طالق کہنے سے طالق واقع نہیں ہوتی۔ [اشراق،جون،2008ص29….1]65: بغیر نیت،
ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے ،اس لئے جائز ہے۔]’المورد’ کا انگریزی مجلہ ‘رینی ساں’ کا شمارہ اگست 30….
[۲۰۰۵ء
معزز قارئین ! مندرجہ باالباطل خیاالت اور خود ساختہ افکارکے مطالعہ سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیاہوگا کہ غامدیت،مذہب
اسالم کےمتوازی ایک مستقل فکر ہے جو مسلمات دین ،متفقہ اور اجماعی عقائد و ا َعمال سے مکمل مختلف اور جادہ حق و
صراط مستقیم سے بالکل الگ اور جداگانہ ہے۔
ایک طرف غامدی صاحب کے پیش کردہ دین کے بنیادی تصور میں ترمیم وتحریف کا یہ عالم ہے کہ ہر نئے دور کے ساتھ اس
تصور سنت انبیاء سے بھی تعبیر کرتےہیں)ِ تصور دین (جس کوموصوف
ِ میں تبدیلی َدر آتی رہتی ہے جس سے ان کا بنیادی
بھی محفوظ نہیں ،لیکن دوسری طرف ہر ترمیم پر ان کا دعواے قطعیت بھی قابل داد ہے کہ وہ کس استقامت کے ساتھ ہر
دعوی کرتے ہیں اور اپنی الگ راگ االپتےہیں ۔
ٰ بار باہم متضاد