You are on page 1of 9

‫شعیب مدنی عطاری*‪ :‬غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان * ]‪[6/30, 11:51

PM‬‬
‫بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسالمی علمیت کے لیے بالکل‬
‫اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مكمل ہی نہیں ہوتا اور غیب وہ‬
‫لہذا اس‬ ‫ہے جو کسی وسیلے اور ذریعے کے بغیر قابل ادراک ہو ظاہر ہے انسان غیب کابرا ِہ راست ادراک کرنے سے قاصر ہے ٰ‬
‫پر ایمان النے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‬
‫مثال ً خدا کے وجود پر اس کی ہستی پر ایمان اسے بن دیکھے النا ہے اس کی ہستی کا ادراک ذہن انسانی کے لیے ممکن ہی‬
‫نہیں کہ وہ ال محدود ہے اور انسان محدود وہ خالق ہے یہ مخلوق ہے وہ عقل کلی ہے اور انسان کی عقل محض خالق کی‬
‫مخلوق جو محسوسات کے بغیر کار آمد ہی نہیں ہوسکتی۔اسی لیے اللہ اور دیگر امور میں ایمان بالغیب الزم ہے خود غامدی‬
‫صاحب لکھتے ہیں اللہ کی ذات کسی طرح انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی [میزان ‪۲۰۱۵‬ء‪ ،‬ص ‪ ]۹۲‬ادراک کے ذرائع‬
‫الہ کا احاطہ نہیں کرسکتے کسی شے سے روشنی منعکس نہ ہو تو آنکھ کی بصارت دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے اللہ‬ ‫ذات ٰ‬
‫تعالی سے متعلق انسان تشبیہہ‬
‫ٰ‬ ‫باری‬ ‫ذات‬ ‫]‬‫‪۹۲‬‬ ‫ص‬ ‫ء‪،‬‬‫‪۲۰۱۵‬‬ ‫میزان‬ ‫[‬ ‫ہوا‬ ‫نہ‬ ‫ممکن‬ ‫دیکھنا‬ ‫کو‬ ‫اللہ‬ ‫لیے‬ ‫کے‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫پیغمبر‬ ‫کے‬
‫لہ ذا تشبیہہ و تمثیل کے طریقے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہے۔[میزان ‪۲۰۱۵‬ء‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫کرسکتا‬ ‫نہیں‬ ‫اختیار‬ ‫بھی‬ ‫طریقہ‬ ‫کا‬ ‫تمثیل‬
‫لہ ذا خدا کی ذات پر ایمان بالغیب الئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہی صورت حال وحی اور نزول و حی کی کیفیات‬ ‫ص ‪ٰ ]۹۴‬‬
‫کے ساتھ درپیش ہے ان پر ایمان بالغیب ضر وری ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں نزول و حی کی کیفیات کو سمجھنا‬
‫انسان کے حدو د علمی سے باہر ہے [میزان ‪۲۰۱۵‬ء‪ ،‬ص ‪ ]۱۲۷‬۔‬
‫مظہر کے بارے میں تو مشاہدے تجربے محسوسات سے جان سکتا ہے لیکن ‪ Phenomenon‬بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان‬
‫معقول بالذات کماہیہ کے بارے میں نہیں جان سکتا۔کانٹ جیسے فلسفی نے اپنی کتاب تنقید عقل محض میں یہ ‪Noumenon‬‬
‫دعوی کیا ہے کہ انسانی علم کا دائرہ مظاہر تک محدود ہے اورمشاہدات‪ ،‬تجربات‪ ،‬محسوسات سے ماوراء کا علم انسانی عقل‬ ‫ٰ‬
‫کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔انسان کو وہ ذرائع میسر ہی نہیں ہیں جو مظاہر کی دنیا سے ماورا دوسری دنیا کی حقیقتوں کا‬
‫لہ ذا جو چیز ہمارے حیطہ ادراک میں دائرہ عقلیات اور تجربات میں نہیں آسکتی وہ اگر وجود بھی رکھتی ہے‬ ‫ادراک کرسکیں ٰ‬
‫تو اس کا وجود ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا کانٹ نے عقل کی محدودیت کا اعتراف کرنے کے باوجود عقل کے ذریعے‬
‫ہی ما بعد الطبیعیات کا انکار کردیا ۔ مگر غامدی صاحب کانٹ سے بڑے مفکر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ محسوسات و تجربات‬
‫سے ماوراء حقائق و مظاہر کاعلم عقل اور فطرت ‪،‬تدبر و تفکر سے ممکن ہے۔‬
‫معقول بالذات کے بارے میں فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تصور انسانی علم کی آخری ]‪ [Noumenon‬واضح رہے کہ‬
‫حد ہے مثبت معنوں میں وہ جو عقل بتائے کہ ’ہے‘ مگر یہ نہ بتاسکے کہ ’کیا ہے‘؟ عقل سے کسی برتر ہستی خالق کے‬
‫وجود کا ادراک ایک سطح پرتو ہوسکتاہے مگر اس کی ذات صفات تجلیات اس کی شریعت اس کی رضا اس کے رسولوں اس‬
‫کی کائنا ت کے مقاصد اس کو مطلوب زندگی اس کی پیدا کردہ آخرت کا تصور ممکن نہیں اسی لیے ایمان بالغیب ۔ ایمان‬
‫کی بنیادی شرط ہے۔ایمان بالغیب یہی ہے کہ وہ حقائق صداقتیں جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے محدودعقل کے پیمانے‬
‫کی بنیاد پر ]‪ [Pure Reason‬میں نہیں سما سکتے ان پر انسان نبیوں اور رسولوں کی اطالع پر ایمان لے آئے صرف عقل‬
‫لہذا یونانی عقلیت کانٹ کے عہد میں ما بعد الطبیعیات‬ ‫الیا ہوا ایمان کفایت نہیں کرتا اور تشکیک کا خاتمہ بھی نہیں کرتا ٰ‬
‫کے انکار کے ساتھ ہی مسترد ہوگئی اور ایک نئی عقلیت نے جنم لیا ایک نئی ما بعد الطبیعیات وجود میں آئی جسے ہائیڈیگر‬
‫کہتا ہے اس ما بعد الطبیعیات کی بنیاد پر جو ]‪ [Metaphysics of Presence‬حاضر و موجود کی ما بعد الطبیعیات‬
‫تہذیب تاریخ نظام زندگی وجود میں آیا اس میں خیر و شر کی بحث بے معنی ہے اصل چیز رچرڈ رارٹی کے الفاظ میں صرف‬
‫کون سی شے فائدہ مند ہے انسان اسی ایک اصول کے محور پر گردش کررہا ہے۔ ‪ What is usefull‬یہ ہے کہ‬
‫نامنا‪ ،‬فنامنا کی بحث میں ایک بنیادی بات جو نظر انداز کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا‬
‫ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو نظر نہیں آرہا جو معلوم نہیں ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا آپ اس کے وجود‬
‫لہذا کسی کی شہادت پر مان لیجیے ]‪[Existence‬‬ ‫سے ال علم ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے وجود کا مسئلہ نہیں ٰ‬
‫‪:‬مگر غامدی صاحب اسے تسلیم نہیں کرتے ۔مقامات میں لکھتے ہیں‬
‫ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے‪ ،‬اُنھیں انسان محض عقلی دالئل کی بنا پر‬
‫مان لے‪#‬ذات خدا وندی‪#‬نبی ﷺ کی طرف جبرل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا‪ ،‬لیکن اس کے باوجود ہم ان سب‬
‫صاحب‬
‫ِ‬ ‫باتوں کو مانتے ہیں‪#‬ان حقائق کو ماننے کے لیے‪ #‬قرآن اور کائنات میں ایسے قوی دالئل موجود ہیں جن کا انکار کوئی‬
‫عقل نہیں کرسکتا‪#‬چنانچہ ہم انھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتے‪#‬وہ چیز جو دیکھی نہیں جاسکتی‪ ،‬لیکن عقل کے ذریعے‬
‫سے سمجھی جاسکتی ہے اسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہے‪#‬قرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں ان پر‬
‫ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ بے شک حواس سے ماورا ہیں‪ ،‬لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے انھیں عقل کی‬
‫میزان میں توال ہے اور ان میں رتی بھر کمی نہیں پائی‪#‬چنانچہ ہم ان پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ‬
‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫ہم انھیں عقل و فطرت کے قطعی دالئل کی بنا پر مانتے ہیں[غامدی‪ ،‬مقامات‪۲۰۱۴،‬ء‪ ،‬ص ‪ ]۱۱۴‬یہاں غامدی صاحب‬
‫کرتے ہیں کہ انسان عقل و فطرت کے قطعی دالئل کی بنیاد پر غیب پر ایمان لے آتا ہے یعنی عقل و فطرت علم قطعی کے‬
‫ماخذ ہیں ان پر تدبر و تفکر سے یقینی علم اور ایمان حاصل ہوجاتا ہے لیکن یہی غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے‬
‫جو علم حاصل ہوتا ہے (وہ قطعی نہیں ہوتا) کیوں کہ وہ درجہ یقین کو نہیں پہنچتا اسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا‬
‫جاسکتا ہے [غامدی مقامات ‪۲۰۱۴‬ء‪،‬ص ‪ ]۱۶۴‬حیرت ہے کہ انسان اپنے تدبر و تفکر اور قرآن و کائنات میں غور و فکر سے‬
‫تو غیب پر ایمان قطعی اور علم یقینی خود حاصل کرسکتا ہے لیکن حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے قطعی علم یقینی علم‬
‫حاصل نہیں ہوسکتا کیا عقل اور فطرت حدیث نبوی سے زیادہ معتبر ہیں؟‪#‬غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ حدیث سے‬
‫قطعی علم اس لیے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ حدیثوں کو صرف گنتی کے لوگو ں نے بیان کیا یہ اجماع و تواتر سے منتقل‬
‫نہیں ہوتیں [غامدی مقامات ‪۲۰۱۴‬ء‪ ،‬ص ‪ ]۱۶۴‬حدیثو ں سے یقینی علم اس لیے بھی حاصل نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ نے‬
‫ان کی حفاظت و تبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ لوگوں پر چھوڑ دیا کہ چاہیں تو حدیثو ں کو آگے پہنچائیں اور چاہیں تو‬
‫نہ پہنچائیں[میزان ‪۲۰۱۵‬ء‪،‬ص‪ ]۱۵‬حدیثوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی و قطعی نہیں ہوتا مگر کالم جاہلیت سے لغت‬
‫و ادب کا حاصل ہونے واال علم یقینی ہوتا ہے اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ کالم جاہلیت اجماع و تواتر سے منتقل ہوتا ہے‬
‫باللفظ ہوتا ہے اور اس میں داخل منحول کالم کی شناخت آسان ہوتی ہے مگر حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہ غامدی‬
‫لہذا غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ‬ ‫صاحب کی تحقیقات کا عطر خالصہ اور جوہر ہے جو میزان کے پہلے باب میں موجود ہے۔ ٰ‬
‫قرآن کے بعد یہی کالم ہے (کالم عرب؍ کالم جاہلیت) جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی‬
‫بنیادپر سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے تم لوگ اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہو‪#‬کہ ان میں تمہاری کتاب کی‬
‫تفسیر بھی ہے اور تمہارے کالم (قرآن) کے معنی بھی ہیں[میزان ‪۲۰۱۵‬ء‪،‬ص ‪ ]۱۹‬یعنی قرآن کی تفسیر اور معانی کے لیے‬
‫کالم جاہلیت حجت سند قطعی اور یقینی ہے یعنی قرآن کالم جاہلیت کا محتاج ہے مگر کالم اللہ کالم رسول اللہ سے کوئی‬
‫عالقہ نہیں رکھتا۔ مگر قرآن کے معانی سمجھنے کے لیے حدیث قطعی اور یقینی نہیں ہے اس سے بڑی جہالت اور جاہلیت‬
‫کیا ہوسکتی ہے؟اسی کو جدید اصطالح میں جدیدیت (ماڈرن ازم) کہا جاتا ہے جدیدیت کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا‬
‫لہذاجدیدیت‬‫انکار کرتی ہے عقل کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتی اور عقلیت کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ تخلیق کرتی ہے ٰ‬
‫اٹھارہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو نہایت ناقدانہ طریقے سے دیکھتی ہے۔‬
‫بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عقل حواس کے بغیر کام کرسکتی ہے؟ اگر حواس معطل ہوں توکیا عقل متحرک رہ سکتی ہے؟‬
‫یعنی کسی تجربے کے بغیر صرف عقل ]‪ [a priori‬کسی زمانے میں فلسفے میں افضل علم وہ کہالتا تھا جو قبل تجربی‬
‫حاصل ہو اسی ]‪ [a postriori‬کے ذریعے حاصل کیا گیااورسب سے کم تر علم وہ سمجھا جاتاتھا جو تجربے کے ذریعے‬
‫لیے روایتی تہذیبوں میں ما بعد الطبیعیات کے عالم فلسفی کو عزت دی جاتی تھی سائنسی علوم کے ماہرین کو کوئی عزت‬
‫نہیں ملت ی تھی کیونکہ وہ علم کی تلچھ ٹ رکھت ے تھ ے کانٹ ک ے بعد سائنسی یعن ی تجربی علم کو سب س ے افضل علم سمجھ‬
‫‪ Creative‬لیا گیا۔ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ عقلیت و تجربیت اور پوسٹ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ تخلیقی تخیل‬
‫ےہ۔جدیدیت ن ے کانٹ ک ے فلسف ے ک ے ذریع ے عقلیت و تجربی ت کو علم کا ماخذ ‪Aesthetics‬اور جمالیات ‪imagination‬‬
‫لہذا افضل علم اب قبل تجربی نہیں بعد تجربی‬ ‫لہذا جدید سائنس نے زبردست ترقی کی ٰ‬ ‫یعنی ‪ a Posteriorie‬تسلیم کیا ٰ‬
‫سائنس ہی اصل العلوم ہے اسی لیے ہر علم کو عہد حاضر میں سائنس کے پیمانے یعنی عقلیت و تجربیت پر پرکھا جارہا ہے‬
‫۔ان معنوں میں غامدی صاحب ایک اسالمی نہیں جدیدیت پسند مفکر ہیں جو عقل کو مغرب کے اتباع میں ماخذ علم‬
‫سمجھتے ہیں۔جبکہ مغرب میں عقلیت کی آفاقیت کے دعوے پس جدیدیت کے مفکرین کی جانب سے عقلیت کی بنیاد پر رد‬
‫کردیے گئے ہیں ۔ غامدی صاحب نے دین کو فلسفے کا اصول بنادیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ خود عقل صرف حواس کے‬
‫صرف دین انسان کو عقل‪ ،‬جذبات‪ ،‬حواس ]‪ Reason is the slave of Passions‬ہی نہیں جذبات کے بھی تابع ہے‬
‫علم نہیں ہے وہ محض ایک آلہ‪ [Source] ،‬علم ےہ ماخذ ]‪[Mean‬سے ماوراء کرکے ایمان کی دعوت دیتا ہے عقل ذریعہ‬
‫ہے جس سے ایمان کے تابع کام لیا جاسکتا ہے ۔ خود غامدی صاحب اپنے مضمون عقل و وحی میں ]‪ [Tool‬وسیلہ‪ ،‬ہتھیار‬
‫لکھتے ہیں عقل خدا کی نعمت ہے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنی غیر معمولی اہلیت کے باوجود اس کے بعض حدودہیں اور‬
‫ان کے ساتھ بعض آفات بھی لگی ہوئی ہیں عقل کا ذریعہ معلومات اگر کچھ ہے تو ہمارے حواس اور ہمارا وجدان ہی ہے‬
‫عقل مجبور ہے کہ اپنے فیصلوں کے لیے انھی دو ذرائع حواس اور وجدان پر اعتماد کرے یہ دونوں ذرائع اپنا ایک محدود دائرہ‬
‫عمل رکھتے ہیں عقل جب تک انھی پر منحصر ہے وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی [غامدی‪ ،‬مقامات سہ لسانی‬
‫عربی اردو انگریزی ایڈیشن طبع دوم ‪،‬الہور‪ ،‬المورد ۔‪۲۰۰۶‬ء‪ ،‬ص ‪ ،۶۷‬عقل اور وحی ۔یہ ایڈیشن بازار سے غائب کرادیا گیا تھا‬
‫اب بازار میں مقامات کا صرف اردو ایڈیشن دستیاب ہے غامدی صاحب کی انگریزی شاعری اور عربی مضمون شواہد الفراہی اس‬
‫میں سے غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس عربی مضمون میں چھ سو سے زیادہ غلطیاں تھیں اور انگریزی شاعری بڑے انگریزی‬
‫شعراء کے مصرعوں کا سرقہ تھی ۔ ماہنامہ ساحل نے ‪۲۰۰۷‬ء کے اپریل ‪،‬مئی جون ‪،‬جوالئی‪ ،‬اگست کے شماروں میں اس کتاب‬
‫پر قیمتی تبصرے شائع کیے تھے] عقل وحی کی رہنمائی کے بغیر باؤلی ہو جاتی ہے‪:‬غامدی‬
‫عقل پر جذبات تعصبات غالب آجاتے ہیں اور حاالت اسے متاثر کرلیتے ہیں عقل کے یہی حدود اور آفات ہیں جن کی بناء پر‬
‫وہ مجبور ہے کہ اپنے لیے کوئی ایسا رہنما تالش کرے جو اسے ان حقائق تک پہنچائے جواس کی پہنچ سے باہر ہیں عقل‬
‫کے اندر اس تالش کے لیے ابتداء ہی سے بڑا قوی تقاضہ رہا ہے اللہ نے اپنی وحی اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ناز ل‬
‫کی ہے جس طرح انسان کی رہنما عقل ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی وحی الہی ہے انسان اگر عقل کی رہنمائی سے‬
‫محروم ہوجائے تو ہم اسے پاگل کہتے ہیں اگر وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو وہ بھی بالکل باؤلی ہو جاتی ہے۔‬
‫[غامدی‪ ،‬مقامات‪۲۰۰۶ ،‬ء ‪،‬ص ‪ ]۶۸‬غامدی صاحب نے ‪۲۰۰۸‬ء کے بعد دین کو صرف اور صرف عقلیت کے پیمانے تک محدود‬
‫لہ ذا اب وہ دین کی ہر بات عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی‬ ‫کردیا ہے ٰ‬
‫جب مباشرت یا احتالم کے بعد غسل کے لیے دریا یا سمندر میں غوطے لگالیتا ہے اس کے باوجود اسے پاک تسلیم نہیں کیا‬
‫جاتا اس کی کیا عقلی دلیل ہے؟ توغامدی صاحب اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ اور‬
‫اس کے رسول کا حکم ہے تم سات سمندر میں غسل کرکے آجاؤ عقال ً شاید پاک ہوجاؤ لیکن دین میں تمہیں ناپاک ہی تصور‬
‫کیا جائے گا۔جب تک پاکی حاصل کرنے کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو رسالت مآب نے بتایا ہزاروں گیلن پانی بہانے سے‬
‫پاکی حاصل نہیں ہوسکتی اصل پاکی شریعت کی تقلید میں ہے ۔نماز دین کا ستون ہے لیکن عورت کو ایام حیض کی نمازوں‬
‫کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر قضا روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی عقلی دلیل کیا ہے؟ ظاہر ہے دین کی ہر‬
‫بات عقل سے ثابت نہیں کی جاسکتی نہ ہر بات عقل کے معیار پر اترتی ہے کیوں کہ عقل مخلوق ہے کالم اللہ مخلوق‬
‫لہ ذا کمتر برتر کے کالم کے تمام اسرار معارف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اسی لیے‬‫نہیں خالق کا کالم ہے ٰ‬
‫رسالت مآبؐ کی اتباع فرض ہے ان کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں۔‬
‫ہمارے شاگرد رشید جناب ظفر اقبال نے اپنی کتاب اسالم اور جدیدیت کی کشمکش کے تیسرے باب جدید منہاج علم ماخذ و‬
‫منابع‪ :‬عقل محض عقل سلیم فرق اور امتیاز میں عقلیت کی نارسائی بے بسی بے کسی پرہمارے اشارات و تحقیقات کو نہایت‬
‫عمدہ طریقے سے جمع کیا ہے جدید ذہن کے لیے ظفر اقبال صاحب کی یہ سادہ مختصر اور نہایت مدلل و موثر تحریر ہے‬
‫علماء کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔‬
‫ہمارے عزیز شاگرد ظفر اقبال نے جب فلسفے اور سائنس کے مباحث ہماری نگرانی میں پڑھنے شروع کیے تو شروع میں ایک‬
‫سال تک عقل کی فوقیت کے بارے میں وہ بہت اونچی رائے رکھتے تھے مباحثہ مذاکرہ ہوتا تو وہ عقل کی حمایت میں بہت‬
‫سے دالئل اور جوابات پیش کرتے عموما ً ان کے دالئل معتزلہ یا جدید معتزلیوں سے مستعار ہوتے جیسے سرسید‪ ،‬عبدہ‪ ،‬افغانی‪،‬‬
‫شبلی ‪،‬خدا بخش‪ ،‬امیر علی‪ ،‬فیضی ‪،‬اصغر علی‪ ،‬انجینئر‪ ،‬وحید الدین خان‪ ،‬یوسف قرضاوی‪ ،‬مصر کی جماعت وسطانیہ‪ ،‬ملیشیا کی‬
‫سسٹر آف اسالم‪ ،‬ایران کے عبدالکریم سروش‪ ،‬علی شریعتی ‪ ،‬آیت اللہ مطہری‪،‬غامدی وغیرہ وغیرہ ایک دن راقم نے انھیں‬
‫ہدایت کی کہ المعجم المفہرس للفاظ القرآن میں قلب ‪،‬عقل ‪،‬فواد اور اس کے مترادفات‪ #‬سے متعلق تمام آیات پر وہ پورا دن‬
‫تدبر و تفکر فرمائیں پورا دن گزر گیا دن کے اختتام پر راقم نے عقل کی محدودیت کا فلسفہ اس فلسفے کے دالئل‪ ،‬عقلیت‬
‫پرستی پر تنقید کے دالئل اور عقلیت پرستی کے حوالے سے نصوص قرآنی اور اسالمی تاریخ سے چند واقعات ان کی خدمت‬
‫میں پیش کیے اور ان کے عقلی استدالالت کا تجزیہ پیش کیا‪ ،‬تب ظفر اقبال صاحب کو عقلیت کی حقیقت ماہیت اور حیثیت‬
‫کا بخوبی اندازہ ہوا ہمارا وہ خطبہ اور اس میں پیش کردہ واقعات اب ان کی کتاب میں ’’عقلی موشگافیوں اور دینی مزاج‬
‫‘‘کے عنوان سے جمع کردیے گئے ہیں وہ باب غامدی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا جارہا ہے امید ہے وہ توجہ‬
‫‪:‬فرمائیں گے‬
‫یہ خیال کہ روشنی اور اندھیرے میں فرق صرف عقل کی بنیاد پر ممکن ہے۔ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تضاد ممکن‬
‫نہیں۔ عقل اگر خالص ہو تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس نتیجے پرانسان نقل کے ذریعے پہنچتا ہے‪ ،‬پیغمبر‬
‫ظاہر[ انبیاومرسلین] جس منزل پر لے جاتے ہیں پیغمبر باطن[ عقل] بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے ــــ درست‬
‫نہیں۔ اگر عقل ہی خیر و شر کو جانچنے کا پیمانہ ہے ‪ ،‬تو کیا عقل کو بھی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ؟ یا عقل کو‬
‫جانچنے کا پیمانہ محض عقل ہے‪ ،‬اگر عقل کو جانچنے کا پیما نہ خود عقل ہی ہے تو پھر عقل کو جانچنے کی ضرورت ہی‬
‫کیا ہے ؟ با لفاظ د یگر اگر عقل کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اندر‪ ،‬یعنی عقل‪ ،‬سے ہی نکلتا ہے‪ ،‬اگر وہ خود ہی پیمانہ ہے‬
‫تو اسے پرکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیال کہ حسیات سے ورا عقل کچھ نہیں کرسکتی ‪،‬یعنی وہ عقل کا دائرہ نہیں تو‬
‫پھر حسیات سے متعلق امور میں اگر اختالف ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ عقل یا وہ مابعد الطبیعیات جو عقل سے ماورا ہے۔‬
‫شعیب مدنی عطاری*‪ :‬عقلیت کی تحریک ان خطوں سے اٹھی جہاں انبیا کی تعلیمات بالکل * ]‪[6/30, 11:51 PM‬‬
‫کرتے ہیں ۔ عقل مقاصد کا تعین ‪ category mistake‬معدوم ہوگئیں‪ ،‬عقل کے طالب عقل کی حدود کو نظر انداز کر کے‬
‫لہذا قرٓان و سنت کے طے شدہ مقاصد کے لیے عقل جب کام کرتی ہے تو یہ سرگرمی اجماع و اجتہاد کی‬ ‫نہیں کرسکتی ٰ‬
‫صورت میں ظہور کرتی ہے ۔عقل کے استعمال سے پیدا ہونے والے فطری اختالفات کا حل اجماع اور مسلک جمہور ہے۔ جس‬
‫طرح بائبل اور قرٓان میں تقابل بہ ظاہر عقل کے ذریعے ہوتا ہے‪ ،‬لیکن عمال ً یہ تقابل نقل کے منہاج میں ہوگا ‪ ،‬عقل یہاں‬
‫ایک ذریعہ وسیلہ ہوگی جس طرح زبان بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ قرٓان و بابئل کا تقابل کرنے کے لیے پہلے قرٓان پر ایمان‬
‫النا ہوگا پھر اس ایمان کی دلیل عقل کے ذریعے بیان ہوگی‪،‬یعنی پہلے ایمان ہے پھر عقل۔ عقل ایمان کے تابع ہے‪ ،‬ایمان‬
‫عقل سے ماوراہے اس کا تابع نہیں۔ جو چیز یا تصور انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ شے خالف عقل نہیں‬
‫ماورائے عقل ہوتی ہے۔ خالف عقل ہونا اور ماورائے عقل ہونا دو مختلف نقطٔہ ہائے نظر ہیں جن کے نتائج یک سر مختلف‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬کسی شے اور وجود کا عقل سے ماورا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ شے وجودہی نہیں رکھتی اسی لیے‬
‫اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ قرٓان ہمیں عقل کے ذریعے نہیں‪ ،‬مشاہدے اور تجربے کے ذریعے نہیں‪ ،‬بلکہ‬
‫نقل کے ذریعے مال ہے‪ ،‬رسالت مٓا ب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرٓان کتاب اللہ ہے تو ہم نے تسلیم کیا کہ یہ‬
‫تعالی نے ہمیں قرٓان کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں بتایا اس ایمان کو بال شبہہ عقلی دالئل سے‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ کی کتاب ہے‪ ،‬اللہ‬
‫ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن یہ نقل کا اثبات ہے بہ ذریعٔہ عقل۔ عقل ہمارے ایمان کی دلیل مہیا کرتی ہے صرف دلیل سے‬
‫ایمان مہیا نہیں ہوتا‪ ،‬دلیل عقل کی رہنمائی کر دیتی ہے لیکن قلب کی ہدایت یا قبولیت کے بغیر عقل کی رہنمائی کار ٓامد‬
‫نہیں رہتی۔ عقل مان لیتی ہے دل نہیں مانتا‪ ،‬دلیل قلبی کے بغیر دلیل عقلی بے معنی ہے اسی لیے ایمان تعقل قلبی کا نام‬
‫ہے۔ قرٓان نے عالم وعاقل اوراہل فکر اس کو قرار دیا جو الحق اور الکتاب کو قبول کرے‪ ،‬جو اس کو رد کر دے وہ کم عقل‪،‬‬
‫قبولیت ایمان ہے جو عقل ایمان قبول نہ کرے وہ عقل نہیں‬ ‫ِ‬ ‫لہذا عقل کو پرکھنے کا پیمانہ‬ ‫جاہل‪ ،‬ظالم اور شر الدواب ہے ٰ‬
‫جہل ہے۔ عقل کے استعمال کا الزمی نتیجہ ایمان ہے‪ ،‬عقل کا واحد نتیجہ عبدیت کا اقرار یعنی سجدہ ہے ‪،‬عقل کی اصل‬
‫نعمت سجدہ سے‬ ‫ِ‬ ‫شکل بندگی اور حالت سجدہ ہے۔ اسی لیے قیامت کے دن وہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے جو دنیا میں‬
‫‪:‬محروم ہے‬
‫ج ْو ِد َفال َ ی َ ْستَ ِطیْ ُع ْو َن]‪[pullquote‬‬ ‫ع ْو َن اِل َی ُّ‬
‫الس ُ‬ ‫اق ّ َویُ ْد َ‬
‫ع ْن َس ٍ‬ ‫اش َع ًۃ ا َبْ َص ُار ُہ ْم تَ ْر َہ ُق ُہ ْم ِذلَّۃٌ َوق َْد ک َان ُ ْوا ی ُ ْد َ‬
‫ع ْو َن اِل َی ‪ O‬ی َ ْو َم یُک َْش ُف َ‬ ‫َخ ِ‬
‫جو ِد َو ُہ ْم ٰسلِ ُم ْو َن [‪]۶۸:۴۲،۴۳‬‬ ‫الس‬
‫ُّ ُ‬ ‫]‪[/pullquote‬‬ ‫کلی‪،‬‬ ‫عقل‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫القلب‬ ‫فی‬ ‫تفکر‬ ‫اور‬ ‫تدبر‬ ‫ً‬ ‫ال‬‫اص‬ ‫اجتہاد‬ ‫اور‬ ‫قیاس‬ ‫میں‬ ‫دین‬
‫بصیرت تامہ کا نام ہے‪ ،‬محض خیال ٓارائی کا نام نہیں ۔یہ محض کوئی تخلیقی‪ ،‬علمی‪ ،‬تحقیقی اور عقلی سرگرمی نہیں بلکہ‬
‫دور زوال میں ارسطو کے ذریعے ابدیت‬ ‫روحانی عمل ہے جس کا مقصد ہر عہد میں روح کی حفاظت ہے۔ یونانی عقلیت اپنے ِ‬
‫لہذا یونان میں حقیقت کے علم کی سرگرمی نے ٓاخر کار صرف اس دنیا کے علم کو ہی اصل علم‬ ‫دنیا کے نتیجے پر پہنچی ٰ‬
‫قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ‪ ،‬ارسطو کے زیر اثر مغربی فلسفہ ٓاخر کار حقیقت کے سوال سے ہی دستبردار ہوگیا ۔ ایک‬
‫ہی عقل مختلف لوگ استعمال کرتے ہیں تو نتیجہ ایک نہیں نکلتا مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ ہیوم کے مطا بق عقل جذبات‬
‫با لفاظ دیگر عقل نفس امارہ کی غالم ہے۔ عقل اگر کبھی کسی‪: Reason is the slave of Passion‬کی غالم ہے‬
‫درست نتیجے پر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی اس درست نتیجے کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ اس درست نتیجے‬
‫کی تصدیق کا پیمانہ بھی عقل خود ہی ہے‪،‬یعنی عقل خود نتیجہ قائم کر کے اس نتیجے کو عقلی یا جذباتی بنیاد پر قبول‬
‫کرنے سے انکار کر دیتی ہے‪ ،‬جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے اہلکاروں کا مکالمہ قرٓان میں بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت‬
‫ابراہیمؑ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے کہ اگر یہ بت بول سکتے دیکھ نہیں سکتے تو تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ مگر اگلے‬
‫ہی لمحے وہ بولے کہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے اگر عقل خود ہی مقصد ہے‪ ،‬مقاصد کا تعین خود ہی‬
‫کرسکتی ہے تو پھر عقلی کوشش کے نتیجے میں جو بھی عمل سرزد ہوگا وہ عقلی ہی ہوگا۔مسل ّمہ اصول ہے کہ پیمانہ ہمیشہ‬
‫لہذا نفس ہی حقیقت‬ ‫باہر ہوتا ہے لیکن عقلیت کو پرکھنے کا پیمانہ عقلیت ہی ہے‪ ،‬یعنی انسان کے نفس میں پنہاں ہے ٰ‬
‫مطلق ہے۔ عقلیت کو دوام نہیں وہ ہر لحظہ بدلتی ہے جب کہ پیمانہ مستقل ہوتا ہے ۔ اگر کسی فیصلہ کی بنیاد صرف عقل‬
‫لہ ذا عقل کبھی بھی ایمان سے دستبردار ہوسکتی ‪،‬کہ عقل تو ارتقا کا نام ہے‪،‬‬ ‫ہے تو فرقان‪ ،‬منہاج‪ ،‬کسوٹی‪ ،‬عقل ہی ٹھہری ٰ‬
‫عقل اور دلیل پر ایمان الئو ‪ ،‬لیکن سوال یہ ہے کہ ]‪ [Believe in Reason‬یہ تغیر اور تنوع ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ‬
‫خودعقل پر ایمان النے کی کیا دلیل ہے؟ کانٹ کے مطا بق دلیل یہ ہے کہ یہ ٓافاقی سچ ہے‪ ،‬مگر اس کا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر‬
‫ہے ایمان کی دلیل نہیں ہوتی عقل پر ایمان الئو کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اپنے نفس اوراپنے ٓاپ پر ایمان الئو‪ ،‬کیونکہ علم کا‬
‫لہذا انسان خود اپنے ٓاپ کی پرستش کرے‪ ،‬اپنی ہی عبادت کرے کسی دوسرے کی‬ ‫ماخذ تو عقل ہے جو انسان کے پاس ہے ٰ‬
‫عبادت نہ کرے۔ کیوں کہ عبادت اس کی کی جاتی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے اور علم صرف انسان کے پاس ہے اسی‬
‫کا انکار کر دے۔ روایتی‪ ،‬الہامی اور دینی تہذیبوں میں اسی ]‪ [authority‬لیے کانٹ کہتا ہے کہ انسان اپنے سوا ہر مقتدرہ‬
‫ہے۔ ]‪ [Source of knowledge‬لیے ایمان عقل کے تابع نہیں عقل ایمان کے تابع ہے‪ ،‬مغرب میں عقل ماخذ علم‬
‫اسالم میں عقل محض ذریعٔہ علم‪ ،‬ہتھیار اوراوزار ہے۔ عقل مقصد کا تعین نہیں کرسکتی‪ ،‬کسی متعین مقصد کے لیے وسیلے اور‬
‫ٓالے‪ ،‬کا کام انجام دے سکتی ہے۔ عقل اپنے منہاج میں نتائج اخذ کرتی ہے اسی لیے اگر ٓاپ جدیدیت کے منہاج میں کھڑے‬
‫ہوں گے تو اس کے دعوے ٓاپ کو عقلی لگیں گے لیکن اگر ٓاپ مذہبی منہاج میں ٓاجائیں تو مذہب کے عقائد‪ ،‬اعمال عقلی‬
‫نہیں ہوسکتی وہ موضوعی ]‪ [Objective‬لگیں گے عقل محض زماں و مکاں سے ماورا نہیں ہوسکتی ‪ ،‬عقل محض معروضی‬
‫رہتی ہے۔ عقل زمان و مکان سے اٹھا سکتی ہے مگر اس ماورائیت پر دوام عطا نہیں کر سکتی ‪،‬صرف ]‪[Subjective‬‬
‫عقل سے علم‪ ،‬الحق اور الکتاب نہیں ملتے بلکہ اس میں جذبات‪ ،‬وجدان‪ ،‬طلب‪ ،‬ہدایت‪ ،‬حواس‪ ،‬کوشش سب مل کر کوئی‬
‫نتیجہ پیدا کرتے ہیں یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے ارسطو سے متاثر ہو کر انسان کو صرف عقلیت کے دائرے میں محصور‬
‫تعالی کے حکم کے بعد‬ ‫ٰ‬ ‫ومقید اور محدود کر دیا۔ اگر محض عقل اور فطرت ‪،‬ہدایت‪ ،‬فالح‪ ،‬کامیابی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ‬
‫کہ شجر ممنوعہ کے پاس مت جانا‪ ،‬حضرت ٓادمؑ کبھی تشریف نہ لے جاتے ان کی فطرت بالکل محفوظ اور عقل ہر داغ سے‬
‫خالی تھی وہ شر اور گناہ کے تصور سے ماورا‪،‬مص ّف ٰی و منزہ عقل و فطرت تھی‪ ،‬مگر جب ہدایت ربانی [نقل] کی موجودگی‬
‫میں فطرت و عقل کو ذریعٔہ علم تصور کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کی خطا سرزد ہوئی تو عقل دستگیری نہیں کرسکی صرف‬
‫‪:‬توبہ کام ٓائی اورحضرت ٓادمؑ نے اللہ رب العزت سے کلمات توبہ سیکھ کر عقل و نفس کی غلطی کی معافی طلب کی‬
‫ج َر َۃ َفتَک ُْونَا ِم َن ]‪[pullquote‬‬ ‫ث ِشْئتُ َما َو ال َ تَقْ َربَا ٰھ ِذ ِہ ّ َ‬
‫الش َ‬ ‫ک ال َْجن ّ ََۃ َو کُل َا ِمن ْ َھا َرغ ًَدا َحیْ ُ‬ ‫ت َو َز ْو ُج َ‬ ‫اسک ُْن اَن ْ َ‬ ‫َو ُقلْنَا یٰا ٰ َد ُم ْ‬
‫الظلِ ِمیْ َن‬
‫لی ‪ٰ ّ O‬‬‫ٰ‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ع‬
‫ٌ‬ ‫ا‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫و‬
‫َ‬ ‫ر‬
‫ٌ‬ ‫ق‬
‫َ‬
‫ُ ْ ّ ّ َ‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ض‬ ‫ِ‬ ‫َر‬ ‫ْ‬ ‫ا‬ ‫ْ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ْ ْ‬‫ِ‬
‫ف‬ ‫ُم‬ ‫ک‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫و‬‫َ‬ ‫و‬
‫ٌ‬ ‫د‬
‫ُ‬ ‫ع‬
‫َ‬ ‫ض‬‫ٍ‬ ‫ع‬
‫ْ‬ ‫ب‬
‫ْ َ‬ ‫ِ‬ ‫ل‬ ‫ُم‬ ‫ک‬ ‫ض‬ ‫ُ‬ ‫ع‬
‫ْ‬ ‫ب‬
‫ُ ْ َ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ِط‬ ‫ب‬ ‫اھ‬
‫ْ‬ ‫ا‬ ‫َ‬ ‫ن‬ ‫ْ‬ ‫ل‬ ‫ق‬
‫ُ‬ ‫و‬
‫َ‬ ‫ِ‬
‫ہ‬ ‫ْ‬ ‫ی‬ ‫ِ‬
‫ف‬ ‫ا‬‫َ‬ ‫ن‬ ‫َا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫م‬
‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ِ‬
‫م‬ ‫ا‬ ‫م‬
‫َ‬ ‫ھ‬
‫ُ‬ ‫ج‬
‫َ‬ ‫ر‬
‫َ‬ ‫َخ‬
‫ْ‬ ‫ا‬‫ف‬‫َ‬ ‫ا‬ ‫ھ‬
‫َ‬ ‫عن ْ‬ ‫َفا َ َزل ّ َ ُھ َما ّ َ‬
‫الشیْ ٰط ُن َ‬
‫الر ِحیْ ُم [‪ ۲:۳۵‬تا ‪ِ O ]۳۷‬حیْ ٍن‬ ‫اب َّ‬ ‫ُ‬ ‫َو‬
‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ت‬
‫ّ‬ ‫ال‬ ‫و‬
‫ـ‬
‫َ‬ ‫ھ‬‫ُ‬ ‫َہ‬ ‫ّ‬ ‫ن‬‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ِ‬ ‫َی‬
‫ْ‬ ‫ل‬‫ع‬‫َ‬ ‫اب‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ت‬‫ف‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫ٍ‬ ‫م‬
‫ٰ‬ ‫ِ‬
‫ل‬ ‫َ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬‫ٖ‬ ‫ب‬
‫ِّ‬ ‫ر‬
‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ن‬‫ْ‬ ‫م‬‫ِ‬ ‫م‬‫ُ‬ ‫د‬
‫َ‬ ‫ٰ‬ ‫ا‬ ‫َی‬
‫ٰ‬ ‫ق‬
‫ّ‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫َ‬ ‫ف‬
‫َ‬ ‫]‪[/pullquote‬‬ ‫پیش‬ ‫استدالل‬ ‫عقلی‬ ‫شیطان نے‬
‫کیا تھا الفانی زندگی اور الفانی سلطنت ایک فانی انسان کے لیے۔‬
‫قرآن میں جہاں جہاں ایسے بیانات ہیں جو ذہن انسانی کی دسترس سے باہر ہیں ان کا مقصد سائنسی تحقیق و ترقی نہیں‬
‫بلکہ اہل ایمان کے ایمان میںاور اہل کفرکے کفر میںاضافے کے لیے ہیں‪ ،‬ان بیانات کو سائنسی تحقیقات سے جوڑ کر خواہ‬
‫کسنا معذرت خواہانہ جدیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔‬ ‫مخواہ غلط سلط سائنسی نتائج کی میزان پر َ‬
‫جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دالئل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود‬
‫عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو‪ ،‬جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے‪ ،‬نت نئے سواالت‬
‫حصول معلومات‪ ،‬را ِہ ہدایت کی طلب‪ ،‬علم میں اضافے اور استفسار کے لیے نہیں ہوتے‬ ‫ِ‬ ‫تحصیل علم‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫سوجھتے ہیں یہ سواالت‬
‫بلکہ اعتراض‪ ،‬ہجو‪ ،‬تضحیک‪ ،‬تنقید محض اور وہ بھی بال علم‪ ،‬اس کا مقصد دینی تعلیمات و افکار پر کسی نہ کسی طرح کوئی‬
‫عقلی اعتراض وارد کرنا ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے جہال کے سواالت کا جواب دینے کا طریقہ وہ نہیں ہے جو عالم آن الئن ِکے‬
‫معروف فنکار اور ان کے منتخب کردہ نو آموز جدید علماء اختیار کرتے ہیں اور دین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے‬
‫جانے نہیں دیتے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سوال کا جواب دینا پاگل پن ہے جہال کے سواالت کے‬
‫جواب میں ہمہ وقت تیاررہنا اور جواب دینا خود جہالت ہے‪ ،‬وہ شخص عالم کہالنے کا مستحق ہی نہیں جو ال ادری کہنا نہیں‬
‫جانتا یا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے علم بحر بے کراں ہے جو شخص ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے بال‬
‫شک و شبہہ جید جاہل ہے اور تمام ٹی وی پروگرام ان جید جہالء کی جہالت سے منور ہیں اس’’ منور اندھیرے ‘‘سے‬
‫‪ :‬نکلنے کے کئی طریقے ہیں مثال ً‬
‫اگر عالم دین کو سوال کا جواب معلوم نہیں ہے تو واضح طور پر ال ادری کہہ دے یا کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اللہ ]‪[۱‬‬
‫تعالی جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ایسا کہنا نصف علم ہے ‪،‬ایک شخص نے حضرت مالکؒ‬ ‫ٰ‬
‫بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے ایک ایسی جگہ سے‬
‫بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے آپ نے کہا جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں‬
‫نہیںجانتا ‪،‬اس شخص نے شکوہ کیا کہ اگر آپ نہیں جانتے تو پھر اس مسئلے کو کون جانے گا فرمایا اسے وہ جانے گا؟فرمایا‬
‫تعالی نے اس کا علم دیا ہے‪ ،‬مالئکہ کہتے ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫لم ل َنا اِلَّا َما ]‪: [pullquote‬اسے وہ جانے گا جسے اللہ‬ ‫ال ِع َ‬
‫ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔علم کے کو ِہ گراں کی عاجزی کا اندازہ کیجیے۔ ]‪[/pullquote‬علَّمتَنا‬
‫امام مالکؒ سے اڑتالیس مسئلے پوچھے گئے جن میں سے تیس کے جواب میں آپ نے فرمایا ‪:‬ال ادری [میں نہیںجانتا]۔ خالد‬
‫بن خداش سے روایت ہے کہ انھوں نے بتایا میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان‬
‫سے پوچھا تو صرف پانچ کے جوابات آپ نے دیے۔ امام مالکؒ اس راز کو جانتے تھے کہ جب عالم ال ادری نہ کہنے کی‬
‫غلطی کرے تو وہ ہالکت کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ امام مالکؒ سے روایت ہے ان سے عبداللہ بن یزید بن ہر مزؒ نے روایت‬
‫کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو ال ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایک ایسی اصل اور ٹھکا نہ ہو جہاں وہ‬
‫پناہ لیں‪ ،‬اور ان سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے ‪ ،‬جسے وہ نہیںجانتے تو الادری کہہ دیں۔ حضرت ابو درداء ؓسے صحیح‬
‫روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا الادری [ میں نہیں جانتا] کہنا نصف علم ہے۔اسی لیے امام غزالیؒ نے مناظرے کی مذمت کی‬
‫ہے اوراس کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں کیونکہ مناظرے کا مر ّو جہ ماحول اور اسلوب‪ ،‬اال ماشا ء اللہ ‪ ،‬ال ادری کہنے کی‬
‫صالحیت سلب کرلیتا ہے یہ حق کے دروازے بند کرنے کا راستہ ہے۔‬
‫لیلی کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس مسجد [مسج ِد نبوی] میں ایک سو بیس صحابہ کو میں نے‬ ‫ٰ‬ ‫عبدالرحمن بن ابی‬
‫پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتوے کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی‬
‫اسے بتائے اور بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتے اور وہ کسی دوسرے کے پاس۔‬
‫اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے پاسں پہنچ جاتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا ۔ ‪؎۱ ؎ ۱‬‬
‫السادۃ المتقین ‪،‬جلد ‪ ۱‬صفحات‪ ۲۸۰-۲۷۹‬۔] [‪ ]۲‬اگر سائل صرف تنقید کے لیے بغیر علم کے سوال کررہا ہے یا‬ ‫ّ‬ ‫[اتحاف‬
‫غرہ ‪،‬تو ایسے سائل کا براہ راست جواب دینے‬ ‫ّ‬ ‫کا‬ ‫علم‬ ‫اپنے‬ ‫یا‬ ‫ہے‬ ‫توہین‬ ‫اور‬ ‫تضحیک‬ ‫تحقیر‪،‬‬ ‫کی‬ ‫روایت‬ ‫دینی‬ ‫یا‬ ‫دین‬ ‫مقصود‬
‫کے بجائے اس سے پوچھا جائے کہ آپ سائل ہیں یا ناقد ؟ آپ استفسار کرنے آئے ہیں یا اعتراض وارد کرنے؟ مقصود حصول‬
‫علم ہے یا مباحثہ؟ اگر سائل ہو تو سوال کے آداب سیکھ لو اور اس کے بعد سوال کرو‪ ،‬اگر معترض اور ناقد ہو تو تمھیں‬
‫علوم دینیہ پرعبور ہونا چاہیے تاکہ اصولوں کی بنیاد پر اعتراض وارد کرسکو اور ہمارے سواالت کے جواب دے سکو۔ مثال ً ایک‬
‫لہذا میں فقہا کی سزا کو نہیںمانتا کیونکہ اصل‬ ‫ناقد نے سوال کیا کہ قرآن میں شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا بیان نہیں ہوئی ٰ‬
‫ماخذ تو قرآن ہے؟ایسے ناقد سے پوچھا جائے کہ آپ قرآن کو عربی میں سمجھ سکتے ہیں؟ چند آیات پڑھ کر اس کا امتحان‬
‫لے لیا جائے کیا آپ نے تمام قرآن پڑھ لیا ہے؟ علم تفسیر حاصل کرلیا ہے؟ قرآن سے اخذ احکام کے اصول پڑھے ہیں؟ کن‬
‫کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اور عربی‪ ،‬انگریزی اور اردو میں کون سی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے پڑھے ہیں؟اس سے‬
‫عربی قواعد کے کچھ اصول ماضی اور مضارع کی گردان وغیرہ پوچھ لی جائے۔ پھر پوچھاجائے کہ ایمان آپ نے کس ذریعے‬
‫سے حاصل کیا کہ اصل ماخذ قرآن ہے سنت نہیں؟ اس ماخذ پر نقدو جرح کیجیے پھر اس سے اصول بحث طے کرلیجیے کہ‬
‫احکامات و قوانین کا ماخذ محض قرآن ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہیں تاکہ اسے ایک ہی موقف پر رکھ کر گفتگو‬
‫کی جائے‪ ،‬اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کو ماخذ کس کی سند پر مانا گیا ہے؟ کیا قرآن کے کالم اللہ ہونے کی شہادت خود‬
‫اللہ نے تمھیں دی ہے یا یہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچی ہے؟ تو پہلے تم رسول اللہ پر ایمان‬
‫تعالی نے یا‬
‫ٰ‬ ‫الئے تھے یا قرآن پر؟ تو رسول پر ایمان مقدم ہے یا قرآن پر؟ اس تقدیم و تاخیر کا حکم کس نے دیاہے اللہ‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تو اختالف میں حکم کون ہوگا رسول‬
‫اللہ یا کالم اللہ ؟یا دونوں؟ یا کالم اللہ بذریعہ رسول اللہ ؟اس کے بعد وہ تمام احکامات پوچھ لیے جائیں جو قرآن میں درج‬
‫نہیں ہیں لیکن پوری امت کا جن پر اجماع ہے مثال ً اذان‪ ،‬نماز جنازہ‪ ،‬عورت کے ایام حیض میں روزوں کی قضاء وغیرہ وغیرہ۔‬
‫ایک سائل نہایت بد تمیزی سے ایک عالم پر حملہ آور ہوا‪ ،‬عالم نے اس کے اعتراضات‪،‬ہجو‪ ،‬بد تمیزی کے جواب میں کمال‬
‫تحمل سے پوچھا آپ سائل ہیں یا واعظ یا ناقد؟ کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ انھوںنے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟یا‬
‫مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں یا سنانا چاہتے ہیں یا تنقید کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا پوچھنا چاہتا ہوں‪ ،‬فرمایا اگر سائل ہو‬
‫توپہلے سوال کرنے کا ادب سیکھو! اس نے کہا میں ناقد ہـوںـ کہا تو اعتراض کرنے کے لیے علم چاہیے ‪،‬ـ آپ کے اعتراض‬
‫لہ ذا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے دینی علوم سیکھے ہیں؟کیونکہ اعتراض کے لیے علم ضروری ہے اور تقلید کے لیے‬ ‫اسالم پر ہیں ٰ‬
‫جذبٔہ اطاعت اور اپنے جہل کاادراک اور اعتراف‪ #‬کہنے لگا میں دینی علوم سے واقف ہوں عالم نے چند سوال پوچھے جواب‬
‫نہ دے سکا‪ ،‬انھوں نے کہا اچھاآپ اردو تو یقینا ً جانتے ہوں گے‪ ،‬کہنے لگا ظاہر ہے میں اردو بول رہا ہوں‪ ،‬ویسے میں بہت‬
‫عمدہ اردو جانتا ہوں‪ ،‬کہا اگر تم اردو میں مہارت رکھتے ہو تو ہم تم سے بات کریں گے اور تمھارے اعتراضات ضرور سنیں گے‬
‫اسی نمبر آئے‬ ‫کیونکہ زبان کا علم اہم ہوتاہے اور زبان اظہار علم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے‪ ،‬کہنے لگا میرے ہمیشہ اردو میں ّ‬
‫ہیں‪ ،‬عالم نے کہا‪ #‬اردو الفاظ میں زیر زبر کا فرق بتاسکتے ہو؟ کہنے لگا ہاں! اسے شعر لکھ کر دیا کہ زیر زبر لگادو یا‬
‫‪:‬صحیح تلفظ سے شعر پڑھ دو‬
‫کئی گزرے َسن‪ ،‬تیرا کم تھا ِسن‪ ،‬کہ لیے تھے ُسن تیرے گھونگرو‬
‫چھن تیرے گھونگرو‬ ‫کبھی باجے َچھن‪ ،‬کبھی باجے ِچھن‪ ،‬کبھی باجے ُ‬
‫وہ زیر زبر کا فرق تل ّف ظ سے ادا نہ کرسکا‪ ،‬عالم نے کہا اچھا لفظ تلفظ کو صحیح مخارج سے ادا کرو‪ ،‬وہ اس پر بھی قادر نہ‬
‫تھا اس نے تل الگ کہا اور فظ الگ تشدید بھول گیا۔‬
‫عالم نے کہا بیٹے نہ علوم اسالمی جانتے ہو‪ ،‬نہ اردو جانتے ہو‪ ،‬نہ علم سے تعلق ہے اور تنقید ایسے کرتے ہو جیسے سب‬
‫علوم سے واقف ہو یعنی بحر العلوم ہو۔ تم سے کیا بات کی جائے‪ .‬سائل نے کہا آپ کچھ اور پوچھ لیں ان شاء اللہ صحیح‬
‫جواب دوں گا‪ ،‬انھوں نے کہا اچھا مختلف الفاظ کا فرق بتاؤ جو بہ ظاہر ایک جیسے لگتے ہیں آواز میں بھی تلفظ میں بھی‬
‫اور ایسے الفاظ جن کی آواز یکساں ہے یعنی سننے میں ایک جیسے لیکن تحریر میں الگ ہیں مثال ً بَر‪ ،‬بِر‪ ،‬بُرکا فرق بتاسکتے‬
‫ہو؟‪ #‬باز اور بعض‪ ،‬باد اور بعد‪ ،‬معاش اور ماش‪ ،‬خال اور خال‪ ،‬جال اور جعل‪ ،‬لعل اورل ال‪ ،‬ابر اور عبر‪ ،‬مہر اور ُمہر‪ ،‬بحر‬
‫سح ر‪ ،‬سطر اور ستر‪ ،‬خطرہ اور قطرہ‪ ،‬آج آنا اور آجانا‪ ،‬آم اور عام‪ ،‬بام اور بام‪ ،‬دام اور دام‪ ،‬نام اور نعم‪،‬‬ ‫ّ‬ ‫اور بہر‪ ،‬سحر اور‬
‫حمل اور حمل‪َ ،‬طور اور ُطور‪ ،‬بیر اور بَیر‪ ،‬پیِر َپیر اور پیر‪ِ ،‬سیر سیَر اور َسیر اور سیر‪ ،‬تیر اور تَیر‪ ،‬دراور ُدر‪ ،‬گ َرگ ُر اور ِگر‪َ ،‬چر‬
‫ُچر اور ِچر‪َ ،‬سر ِسر اور ُس ر‪ ،‬تہہ اور طے‪ ،‬ماہ اور ماہ‪ ،‬بار اور بار‪ ،‬نال اور نعل‪ ،‬زیر زبر پیش کے ساتھ بال بعل اور بال‪ ،‬رم‬
‫لعب‪ ،‬بَن بِن بُن اور بن‪ ،‬دھن اور‬ ‫اور َرم‪ ،‬مرثیہ اور ہرسیہ‪ ،‬حال اور ہال‪ ،‬ڈال اور ڈال‪ِ ،‬دل َدل‪ِ ،‬مل َمل‪ ،‬مت و مت‪ ،‬ل ُعاب اور َ‬
‫بھن اور بُھن‪ ،‬بِین‪ ،‬بَین‪ ،‬بیّن اور بین‪ ،‬خط اور قط‪ِ ،‬قسط اور ِخ ّست‪ ،‬منشور اور منثور‪ُ ،‬جوں اور جوں‪،‬‬ ‫گھن اور گھن‪ِ ،‬‬ ‫گھن‪ُ ،‬‬ ‫ُدھن‪ِ ،‬‬
‫محل‪ ،‬لو اور ل َو‪ ،‬ل ُو‪ ،‬کے اور‬ ‫محل اور ِ‬ ‫َ‬ ‫تار‬ ‫اور‬ ‫تار‬ ‫بم‪،‬‬ ‫بم‬ ‫م‪،‬‬ ‫د‬ ‫م‬
‫َ ُ‬‫د‬ ‫ُلی‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ُلی‪،‬‬ ‫ک‬ ‫کلی‪،‬‬ ‫ُل‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ل‪،‬‬ ‫ِ‬
‫ک‬ ‫َل‪،‬‬ ‫ک‬ ‫َل‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ُو‪،‬‬ ‫گ‬ ‫اور‬ ‫گو‬ ‫ون‪،‬‬ ‫ج‬‫جون اور ُ‬
‫بیعت۔ میت‪ ،‬معیت اور َمیّت ‪َ ،‬ست اور ُست‪ ،‬بَد اور بِد‪ ،‬بس بِس‪ ،‬تاخت اور‬ ‫َ‬ ‫اور‬ ‫بیت‬ ‫ِت‬‫ی‬ ‫ب‬ ‫زن‪،‬‬ ‫اور‬ ‫ظن‬ ‫عار‪،‬‬ ‫اور‬ ‫ک َے‪ٓ ،‬ار‬
‫تخت‪ ،‬غَل اور غُل ‪ ،‬رجس اور َرجز‪ِ ،‬گن اور گ ُن‪ ،‬تن اور تُند‪ ،‬تان اور طعن‪ِ ،‬کن اور ک ُن‪ ،‬لعان اور لعن ‪ ،‬جام اور جام‪ ،‬مطلع‬
‫مقطع اور ُمقطع‪ ،‬جہل اور ُجہل‪ ،‬عاصم اور آثم‪ ،‬ٹال اور ٹال‪ ،‬گ ُل ِگل اور گ َل‪ ،‬تَل ِتل‪ ،‬اور تُل ‪ ،‬بَل اور بل‪ ،‬بال‪،‬‬ ‫ّ‬ ‫اور ُمطل ّع ‪،‬‬
‫بِال‪ ،‬بالّ‪ ،‬بَالّ‪ ،‬گھوٹ اور گھونٹ‪ ،‬اوٹ اور اونٹ‪ ،‬ک َش اور ک ُش‪َ ،‬جل اور ُجل‪ ،‬دم اور ُدم‪ِ ،‬کل ک َُل اور‪َ ،‬دیر اور دیر‪ ،‬ٹ ٖھر اور ٹھر‪،‬‬
‫َمیل ِمیل اور میل ‪ ،‬ہول ہول‪ ،‬ا َب اور اب ‪،‬بیل بَیل ‪ ،‬بانٹ‪ ،‬باٹ‪ ،‬ڈاٹ اور ڈانٹ‪ ،‬ک َٹ اور ِکٹ اور ک ُٹ‪ِ ،‬شیر‪ ،‬اور شیر ‪،‬ذم اور‬
‫ضم ‪،‬چین اور َچین‪ ،‬انس اور اُنس ‪ ،‬چخ اور چق‪ ،‬شکر اور ُشکر‪ ،‬قسم اور خصم‪ ،‬صرف اور سرف ‪ ،‬بست اور بسط‪ ،‬ملت او‬
‫رملط‪ ،‬ملک ُملک اور َملک‪ ،‬تَلک اور تل ّک‪ِ ،‬کشت اور ک ُشت ‪َ ،‬حسین اور حسین ‪ ،‬خال اور خلع‪ ،‬عین اور عین‪ ،‬طالء‪ ،‬تال‪ ،‬تال‪،‬‬
‫تُال اور ِتالّ‪ِ ،‬مل اور َم ل‪ ،‬قاصر اور خاسر ‪ ،‬بسر اور بصر‪ ،‬نصر اور نثر ‪ ،‬نخل اور نقل ‪ ،‬قصر اور خسر ‪ ،‬بطر اور بتر ‪ ،‬عقل اور‬
‫اقل‪ ،‬بَط اور بت‪ ،‬شور اور شور‪َ ،‬صر اور َسر‪ ،‬عصر اور اثر‪ُ ،‬چہل اور َچہل‪ ،‬صم‪ُ ،‬سم‪ِ ،‬سم‪ ،‬کانچ اور کانچ‪ ،‬اُتر اور عطر‪ ،‬بھیڑ اور‬
‫بھڑ اور بھڑ‬‫‪ ،‬بھیڑ‪ِ ،‬‬
‫عالم نے اپنی گفتگو کا لب و لہجہ بالکل دھیما رکھتے ہوئے ناقد کی علمیت کی حقیقت چند سواالت میں واضح کردی اس‬
‫کی جہالت کو واضح کرنے کے بعد دالئل کی ضرورت ہی نہیں رہی‪ ،‬پھر اسے ہدایت کی چونکہ تمھیں ان امور کا علم نہیں‬
‫لہ ذا تم ناقد نہیں بن سکتے‪ ،‬البتہ مقلد بن سکتے ہو کیونکہ جو نہیں جانتے وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں اور پوچھ کر‬ ‫ٰ‬
‫اہل علم کی تقلید کریں‪ ،‬دنیا میں یہی طریقہ ہے‪ .‬اگر نقد کرنے کا شوق و ذوق ہے تو اس کے لیے دینی علوم کی تحصیل‬
‫کیجیے‪ ،‬پھر مباحثے کے لیے تشریف الئیے۔‬
‫شعیب مدنی عطاری*‪ :‬فتنٔہ غامدیت ؛انکار ِحدیث کا شاخسانہ* ]‪[6/30, 11:53 PM‬‬

‫موالنا عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ‬

‫قاسمی میڈیا آن الئن‬

‫یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہےکہ ٓاج اسالمی دنیا کا ایک بڑا طبقہ تجددپسندوں کے ان جدید فلسفوں سےبےحد متاثر ہےجو‬
‫دین اسالم کو مغربی نظریات سے ہم ٓاہنگ کرنے کے لیےنہ صرف اس میں قطع و برید اور کانٹ چھانٹ کے قائل ہیں؛بل کہ‬
‫دور حاضر کی ارتقاء پذیری کا نام لے کر خدا کے ٓاخری اور ابدی دین پر عمل کرنے کو روایت پرستی‪،‬‬ ‫بدلتی ہوئی زندگی اور ِ‬
‫رجعت پسندی اور دقیانوسیت کا مترادف قرار دیتےہیں‪،‬دین اسالم میں جزوی یا کلی تبدیلی‪ ،‬ترمیم اور اصالح کےان ہی‬
‫متجددین میں سےبعض نےمعجزات و کرامات کے اسالمی تصور کو عہد‬‫ّ‬ ‫متجددین کہاجاتاہے۔ ان‬
‫ّ‬ ‫تجدد پسند اور‬
‫ّ‬ ‫علمبرداروں کو‬
‫جدید ک ے مخالف سمجھا تو برمالاس کا انکار کیا‪ ،‬کسی ن ے متعارض احادیث کوتطبیق کی راہ میں رکاوٹ جانا تو اس پر ہاتھ‬
‫صاف کیا‪،‬کچھ نے اسالمی اصطالحات پر اپنی خودساختہ اصالحات کوترجیح دی اور ان کو سند جواز عطاکیا‪ ،‬کسی نے اسالم کے‬
‫سیاسی نظام میں عہد حاضر کے لبرل سیاسی نظاموں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت محسوس کی اور خالفت علی منہاج النبوۃ‬
‫پر رکیک اعتراضات کئے ‪،‬کسی نے اسالم کے فقہ المعامالت میں تغیر کا بیڑا اٹھایا اور سود جیسے قطعی و اجماعی حرمت‬
‫رکھنے والے حکم کی حلت کا نظریہ پیش کیا‪،‬ان کے عالوہ کوئی اسالم کے نظام عفت و عصمت‪،‬برقعہ و حجاب کا دشمن ہوا‪،‬‬
‫کسی نے اسالم کے عائلی نظام کو نشانہ بنایا‪ ،‬کسی نے فقہ الجہاد میں تغیر کی ضرورت محسوس کی‪ ،‬تو کسی نے اسالم کے‬
‫نظام تزکیہ و احسان کو اپنا ہدف بنایا۔‬

‫چونکہ ان ترمیمات و تغیرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسالف سے مضبوط رشتہ تھا‪ ،‬اس لیے اسالف‬
‫کے تذکرے اور علماء پر روایت پسندی کی پھبتی کسی گئی اور ہر ممکن طریقے سے راسخ العلم قدیم علماء کی اہانت‪،‬‬
‫مخالفت اور تمسخر و مذاق اڑانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا‪ ،‬ان متجددین نے موجودہ دور میں دنیاوی سطح پر مسلمانوں کے‬
‫زوال میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسالم کی اس تشریح وتعبیر کو سمجھا جو نسل در نسل‪ ،‬سینہ بہ سینہ اور‬
‫طبقہ بہ طبقہ صحابہ کرامؓ کے دور سے اب تک چلی ٓارہی ہے‪ ،‬ان متجددین کی مجالس‪ ،‬اقوال اور تصانیف میں مشترک طور پر‬
‫مغرب کی مدح سرائی‪ ،‬مغربی نظام کی اصلحیت‪ ،‬نافعیت‪ ،‬مسلم دنیا کے مستقبل کے بارے مایوسی‪ ،‬دین اسالم کے متفقہ و‬
‫اجماعی احکام پر اشکاالت‪ ،‬اعتراضات اور اسالمی تاریخ اور اسالف امت کی تحقیر نظر ٓائے گی۔ متجددین کی تحریروں و‬
‫تقریروں میں تجدید‪ ،‬جدت‪ ،‬احیاء‪ ،‬اصالحات‪ ،‬زمانے کے ساتھ ہم ٓاہنگی‪ ،‬اجتہاد اور اس جیسے الفاظ کی کثرت ہے۔ ان کی نظر‬
‫میں زوال کا سبب دین کی اصلی شکل و صورت پر اصرار ہے اور جس دن دین میں زمانے کے ساتھ تبدیلی و ترمیم کا راستہ‬
‫کھل گیا‪ ،‬اس دن سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر ترقی کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔ یاللعجب‬

‫متجددین کے مراکز کہا جائے‬


‫ّ‬ ‫متجد دین دنیائے اسالم کے ہر خطے اور ہر ملک میں پیدا ہوئے‪ ،‬لیکن برصغیر‪ ،‬ترکی اور مصر کو‬
‫ّ‬
‫تو بے جا نہ ہوگا؛مگرگزشتہ کچھ عرصے میں ’دین‘ کی نئی تعبیر پیش کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے روشن خیال دانش‬
‫ور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کوغیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی ‪ ،‬نئی نسل میں وہ کافی مقبول ہوئے‪ ،‬ان کی متعدد‬
‫کتابیں مطبوعہ شکل میں اور انٹرنیٹ پر بھی دست یاب ہیں۔ ان کا ایک مضبوط حلقہ ’المورد‘ کے نام سے موجود ہے اورماہ‬
‫نامہ ’اشراق ‘ الہور کے ذریعے بھی ان کے افکار کی ترسیل ــــان کے اور ان کے کارندوں کے ذریعہــــ برابر جاری ہے‪،‬‬
‫انداز پیش کش‬
‫ِ‬ ‫یوٹیوب پر بھی ان کے بہت سے لکچرس اپ لوڈ ہیں‪،‬اسلوب کی متانت ‪ ،‬لہجہ کی سنجیدگی اور عقلی‬
‫نوجوانوں کوسرتسلیم خم کردینےپرمجبور کرتا ہے ؛اسی وجہ سے ایک بڑا طبقہ ان کا گرویدہ ہوچکاہے ۔‬

‫کےتصور دین سے بڑی‬


‫ِ‬ ‫دوسری طرف یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ انہوں نے دین کا جو تصور پیش کیا ہے وہ جمہور امت‬
‫انکار حدیث سے جاملتے ہیں ۔ پاکستان میں اس موضو ع پرمتعدد علمی‬
‫ِ‬ ‫حدتک مختلف ہے اور اس کے ڈانڈے اعتزالی فکراور‬
‫رسائل میں مباحثے ہوتے رہے ہیں۔‬

‫ٓاج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہماراروشن خیال طبقہ دینی و اسالمی علوم کو بھی یورپی فکر کی عینک لگا کر پڑھنےکی‬
‫کوشش کرتاہے‪،‬انہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اسالمی علوم کا مطالعہ برا ِہ راست کتاب و سنت کے مٓاخذ سے کریں‪ ،‬علماء‬
‫ُ‬
‫اسالف امت کی تعبیر کو نمونٔہ عمل سمجھیں بلکہ مستشرقین ومتجددین ن ے اپنی ناقص تحقیقات کی بناء پر تاریخ‬
‫ِ‬ ‫کرام اور‬
‫حرف ٓاخر سمجھ لیا جاتا ےہ؛حاالنکہ ان فلسفوں میں کچھ‬
‫ِ‬ ‫اسالم اور کتاب و سنت ک ے متعلق جو کچھ لکھ دیا ےہ‪ ،‬اس کو‬
‫ظن و تخمین اور فرض و‬ ‫ّ‬ ‫چیزیں وہ تھیں جو تجربات و مشاہدات پر مبنی تھیں اور بہت سی چیزیں وہ تھیں جو محض‬
‫تخییل پر مبنی تھیں۔ گویا ان میں حق بھی تھا اور باطل بھی‪ ،‬علم بھی تھا اور جہل بھی‪ ،‬یہ فلسفے مغربی فاتحین کے جلو‬
‫میں ٓائے اور مشرقی عقل و طبیعت نے فاتحین کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی قبول کر لی‪ ،‬ان فلسفوں پر ایمان النا ہی‬
‫عقل و خرد کا معیار بن گیا اور اس کو روشن خیالی کا شعار سمجھا جانے لگا۔ مستشرقین کے زیر اثر یہ الحاد و ارتداد‬
‫اسالمی ماحول میں بغیر کسی شورش اور کش مکش کے پھیل گیا۔ نہ باپ اس انقالب پر چونکے‪ ،‬نہ اساتذہ اور مربیوں کو‬
‫خبر ہوئی اور نہ غیرت ایمانی رکھنے والوں کو جنبش ہوئی۔ اس لئے کہ یہ ایک خاموش انقالب تھا‬
‫شعیب مدنی عطاری*‪ :‬۔* ]‪[6/30, 11:54 PM‬‬

‫‪:‬مختصر تعارف‬

‫جناب جاوید احمد غامدی کون ہیں؟ ان کا علمی پس منظر کیا ہے؟ انہوں نے کہاں پڑھا؟ کیا پڑھا؟ ان کے پاس دینی و‬
‫عصری علوم کی کوئی سند یا ڈگری ہے یا نہیں؟ وہ کس کے تربیت یافتہ ہیں؟ وہ کن کے علوم و افکار سے متاثر ہیں؟ ان‬
‫کے اساتذہ مسلمان تھے یا کافر؟ وہ ایک دم کہاں سے نمودار ہوئے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کیسے شہرت کی بلندیوں پر‬
‫پہنچ گئے؟ ان کو ٹی وی پر کون الیا؟ وہ اسالمی نظریاتی کونسل میں کیسے داخل ہوئے؟ وہ پرویز مشرف کے قریب کیسے‬
‫ہوگئے؟ وہ حکومت کی ناک کا بال کیسے بنے؟ انہیں اپنی فکر و فلسفہ کے پروان چڑھانے میں کن لوگوں نے مالی تعاون کیا؟‬
‫ان کے لئے فنڈنگ کون کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔‬

‫ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اسالم اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات‪ ،‬قرٓان و سنت‪ ،‬اجماع امت اور دین و‬
‫اسالف امت کے خالف بغاوت کرنے اور ان کے خالف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے ہوں‪ ،‬وہ‬ ‫ِ‬ ‫مذہب کو بگاڑنے‪ ،‬اکابر و‬
‫دنیا بھر کی اسالم دشمن قوتوں اور مذہب بیزار البیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں‪ ،‬اور ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف‬
‫چھپ جاتے ہیں بلکہ اعدائے اسالم ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز‬
‫سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لئے اپنے اسباب‪ ،‬وسائل‪ ،‬مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں‪،‬‬
‫صرف یہی نہیں بلکہ نظری‪ ،‬بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کے ”قدوقامت“ اور نام نہاد‬
‫علمی شوکت و صولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔‬

‫اور یہ تو باطل فرقوں کی سرشت میں داخل ہے کہ ان سے وابستہ افراد میں جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی‬
‫ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا‪،‬انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا‪ ،‬جن لوگوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین‬
‫کے طرز عمل اور اسوہ کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ٓاڑ سمجھا‪ ،‬انہوں نے اجماع صحابہ اور اجماع امت سے منہ‬
‫پھیرلیا۔ جنہوں نے فقہائے کرام کی تحقیقات اور استنباطات کو اپنی نفس پرستی اور خواہش پرستی کے سامنے دیوار سمجھا‪،‬‬
‫انہوں نے فقہائے کرام کی تقلید کاسرے سے انکار کردیا۔‬

‫غامد ی صاحب کا اصل نام محمد شفیق ہے؛ لیکن وہ بعد میں جاوید احمد ہوگئے‪،‬موصوف پیر ِکریاں (پاکپتن ضلع ساہیوال)‬
‫میں پیدا ہوئے ۔مذکورہ گأوں اب قصبہ پاکپتن میں ضم ہو چکا ہے‪،‬پھر خاندان سمیت الہور میں سلطان پورہ محلے میں مقیم‬
‫ہوگئے۔ٓاج کل ڈیفنس الہور میں رہائش پذیر ہیں‪ ،‬لیکن چندہ ماہ سے بعض وجوہات کی بنا پر بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔‬
‫ان کا تعلق زئی خاندان سے ہے؛مگر انہوں نے اپنا نسب تبدیل کرلیا ہے اور ٓاج کل وہ یمن کے ایک قبیلے غامد کی نسبت‬
‫سے غامدی کہالتے ہیں۔‬

‫غامدی نے بی اے تک تعلیم پائی ہے وہ کسی دینی مدرسے کے سند یافتہ فارغ التحصیل نہیں ہیں‪،‬ستر (‪)70‬کی دہائی میں‬
‫چند برس جماعت اسالمی (الہور) کے رکن رہے ۔پہلےموالنا مودودی سے بہت متاثر تھے‪،‬پھر موالنا امین احسن اصالحی سے‬
‫ِ‬
‫دروس قرٓان میں ضرور شرکت کر چکے‬ ‫راہ و رسم پیدا کرلی‪،‬وہ موالنا اصالحی کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں‪،‬البتہ ان کے کچھ‬
‫ہیں‪،‬وہ موالنا اصالحی کا نام استعمال کرتے ہیں ورنہ ان سے گہرے اختالفات رکھتے ہیں۔‬

‫ٓاج پڑوسی ملک پاکستان کے تقریبا تمام ٹی وی چینلزپرمختلف ناموں سے موصوف کے پروگرام جاری ہیں‪ ،‬جیو ٹی وی کے‬
‫پروگرام ’’غامدی‘‘ٓاج ٹی وی کے پروگرام ’’اسالم‘‘ اور پی ٹی وی کے پروگرام ’’فہم دین‘‘کے عالوہ بھی دینی‬
‫موضوعات پر تقریبا تمام ٹوک شوز میں بحیثیت مذہبی اسکالر مدعو ہوکر دین کا غلط تصور عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔‬
‫موصوف جو پرویزی دور حکومت کی نوازشوں کے سبب ’’اسالمی نظریاتی کونسل ‘‘کے رکن بھی ہیں پی ٹی وی کے پروگرام‬
‫میں نامحرم نوجوان عورتوں کے بیچ و بیچ بیٹھ کرخودساختہ‪ ،‬تجدد زدہ اور معتدل اسالم کی بھٹرکیاں چھوڑتے ہوئے نظر ٓاتے‬
‫ہیں۔‬

‫انکارحدیث‬
‫ِ‬ ‫‪:‬تجدد پسندی کی ٓاڑ میں‬

‫ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں‪،‬یہ دین کا حصہ نہیں؛بل کہ دین سے الگ کوئی غیر‬ ‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫غامدی صاحب کابنیادی‬
‫عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت ہوتی اور یہ بھی‬ ‫اہم شئی ہے‪ ،‬دین کا کوئی‬
‫حفاظت اور تلیغ و اشاعت کے لئے خود رسو ل اللہ ﷺ نے ایسا کوئی اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟‬ ‫دین کا حصہ ہوتیں تو ان کی‬

‫‪ :‬چنانچہ جاوید غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں’’مبادئ تدبر حدیث ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں‬

‫اخبار ٓاحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطالح”‬ ‫ِ‬ ‫نبی ﷺکے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر‬
‫میں’’حدیث‘‘ کہا جاتاـہے‪ ،‬ان کے بارے میں یہ دوـ باتیں ایسی واـضح ہیں کہ کوئی صاحبِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا؛‬

‫ایک یہ کہ رسول ﷺ نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔‬

‫دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے‪ ،‬وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔‬

‫حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی‬
‫اضافہ نہیں ہوتا۔‬

‫ایک خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی‪،‬‬
‫لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔ اس کے عالوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی‬
‫چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔‬

‫ٹی وی پروگراموں سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی جو دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے‬
‫ہیں اور ان کی عقل رسا میں جو مسئلہ فٹ نہیں بیٹھتا تو اس کا انکار کرنا اپنا فرض منصبی اور ضروری حق گردانتے ہیں‪،‬‬
‫ِّ‬
‫حد رجم‬ ‫مجوز‪،‬‬
‫ِ‬ ‫مات امت کے باغی‪ ،‬ہم جنس پرستی کے‬ ‫موصوف کی کج راہیوں کی ایک طویل فہرست ہے‪ ،‬مختصر یہ کہ مسل َّ ِ‬
‫اجماع امت اور حدیث ِرسول سے ناالں اور خفا ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫منکر‪،‬‬ ‫اور سزائے ارتداد کے‬

‫اخیر میں ہم غامدی صاحب کے چندگمراہ عقائد اور باطل نظریات کاسرسری ذکر کرکےبات ختم کرتے ہیں؛ جن سے اس بات کا‬
‫اندازہ لگانا ٓاسان ہے کہ غامدیت کا فتنہ کس قدر سنگین اورخطرناک ہے ۔‬
‫‪:‬شعیب مدنی عطاری*‪ :‬گمراہ کن باطل نظریات* ]‪[6/30, 11:55 PM‬‬

‫عیسی علیہ السالم وفات پاچکے ہیں۔ [میزان‪ ،‬عالمات قیامت‪ ،‬ص‪،178:‬طبع ‪1…. ]2014‬‬
‫ٰ‬
‫قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ [میزان‪ ،‬عالمات قیامت‪ ،‬ص‪،177:‬طبع مئی‪2…. ]2014‬‬

‫غالم احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں‪ ،‬کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں )مرزا غالم احمد قادیانی(‪3….‬‬
‫ہے۔‬

‫]اشراق‪،‬اکتوبر‪،2008‬ص‪[67:‬‬

‫حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔[میزان‪ ،‬ص‪4…. ]15:‬‬

‫سنتوں کی کل تعداد صرف ‪ 27‬ہے۔ [میزان‪،‬ص‪5….]14:‬‬

‫ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں ۔ [مقامات‪ ،‬ص‪،138:‬طبع نومبر‪6….]2008‬‬

‫اجماع ‪ ،‬دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔ [اشراق‪ ،‬اکتوبر‪،2011‬ص‪7….]2:‬‬

‫مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔ [اشراق‪ ،‬اگست‪،2008‬ص‪8….]95:‬‬

‫رجم اور شراب نوشی کی شرعی سزا حد نہیں۔[برہان‪،‬ص‪ 35:‬تا ‪،146‬طبع فروری ‪9…. ]2009‬‬

‫اسالم میں ”فساد فی االرض“ اور ”قتل نفس“کے عالوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔ ‪10….‬‬

‫]برہان‪ ،‬ص‪،146:‬طبع فروری ‪[2009‬‬

‫قرآن پاک کی صرف ایک قرآت ہے‪ ،‬باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں۔[میزان‪،‬ص‪،32:‬طبع اپریل‪..2002‬بحوالہ تحفہ ‪11….‬‬
‫غامدی]‬

‫فقہاءکی آراءکو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھاجائےگا۔ [سوال وجواب‪ ،‬ہٹس ‪19 ،7277‬جون ‪12…. ]2009‬‬

‫ہرآدمی کو اجتہادکاحق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں‪ ،‬جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل ‪13….‬‬
‫ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ [سوال وجواب‪،‬ہٹس ‪،612‬تاریخ اشاعت‪ 10:‬مارچ ‪]2009‬‬

‫نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لیے ختم ہے۔‪14….‬‬

‫]اشراق‪ ،‬اپریل‪ ،2011‬ص‪[2:‬‬

‫تصوف عالم گیر ضاللت اور اسالم سے متوازن ایک الگ دین ہے۔ [برہان‪ ،‬ص‪ ،1811:‬طبع ‪15….]2009‬‬

‫‪16….‬‬ ‫حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعہءکربال سوفیصد افسانہ‬
‫ہے۔‬

‫]بحوالہ غامدیت کیا ہے؟ از موالناعبدالرحیم چاریاری[‬

‫مسلم وغیر مسلم اور مردوعورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔ [برہان‪ ،‬ص‪ 25:‬تا ‪،344‬طبع فروی ‪17….]2009‬‬

‫زکو ة کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ [اشراق‪ ،‬جون ‪ ،2008‬ص‪18…. ]70:‬‬
‫ٰ‬

‫ونصاری کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان النا ضروری نہیں‪ ،‬اِس کے بغیربھی اُن کی بخشش ہوجائے ‪19….‬‬
‫ٰ‬ ‫یہود‬
‫ایضا]‬
‫ً‬ ‫[‬‫گی۔‬

‫موسیقی فی نفسہ جائزہے۔ [اشراق‪ ،‬فروری‪،2008‬ص‪20….]69:‬‬

‫بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے عالوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔[اشراق‪،‬مارچ‪ ،2009 ،‬ص‪21….]69:‬‬

‫بیمہ جائز ہے۔ [اشراق‪ ،‬جون ‪ ،2010‬ص‪22…. ]2:‬‬

‫یتیم پوتا دادے کی وراثت کا حقدار ہے۔ مرنے والی کی وصیت ایک ثلث تک محدودنہیں۔ وارثوں کے حق میں بھی ‪23….‬‬
‫وصیت درست ہے۔ [اشراق‪،‬مارچ‪ ،2008‬ص‪.…63:‬مقامات‪،140:‬طبع نومبر‪]2008‬‬

‫سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال‪ ،‬ہڈیوں‪ ،‬کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔ ‪24….‬‬
‫]اشراق‪،‬اکتوبر‪،1998‬ص‪[89:‬‬

‫و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری ‪25….‬‬ ‫سنت صرف دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ‬
‫کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے‬ ‫ونصاری‬
‫ٰ‬ ‫فرمایا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراو یہود‬
‫کو ترجیح ہوگی ۔ [میزان‪،‬ص‪،14:‬طبع‪]2014‬‬ ‫یہودونصاری کے متواتر عمل‬
‫ٰ‬
‫عورت مردوں کی امامت کر اسکتی ہے۔[ماہنامہ اشراق‪ ،‬ص ‪ 35‬تا ‪،46‬مئی‪26….]2005‬‬

‫دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے دوپٹے کو اس لحاظ سے ‪27….‬‬
‫پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ا س کا کوئی جواز نہیں۔[ماہنامہ اشراق‪ ،‬ص ‪،47‬شمارہ مئی‪]2002‬‬

‫مسجد اقصی پر مسلمانوں کا نہیں اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ [ اشراق جوالئی‪20033 ،‬اور مئی‪ ،‬جون‪28….]2004‬‬

‫ِ‬
‫الفاظ طالق کہنے سے طالق واقع نہیں ہوتی۔ [اشراق‪،‬جون‪،2008‬ص‪29….1]65:‬‬ ‫بغیر نیت‪،‬‬

‫ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے‪ ،‬اس لئے جائز ہے۔]’المورد’ کا انگریزی مجلہ ‘رینی ساں’ کا شمارہ اگست ‪30….‬‬
‫[‪۲۰۰۵‬ء‬

‫معزز قارئین ! مندرجہ باالباطل خیاالت اور خود ساختہ افکارکے مطالعہ سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیاہوگا کہ غامدیت‪،‬مذہب‬
‫اسالم کےمتوازی ایک مستقل فکر ہے جو مسلمات دین‪ ،‬متفقہ اور اجماعی عقائد و ا َعمال سے مکمل مختلف اور جادہ حق و‬
‫صراط مستقیم سے بالکل الگ اور جداگانہ ہے۔‬

‫ایک طرف غامدی صاحب کے پیش کردہ دین کے بنیادی تصور میں ترمیم وتحریف کا یہ عالم ہے کہ ہر نئے دور کے ساتھ اس‬
‫تصور سنت انبیاء سے بھی تعبیر کرتےہیں)‬‫ِ‬ ‫تصور دین (جس کوموصوف‬
‫ِ‬ ‫میں تبدیلی َدر آتی رہتی ہے جس سے ان کا بنیادی‬
‫بھی محفوظ نہیں ‪ ،‬لیکن دوسری طرف ہر ترمیم پر ان کا دعواے قطعیت بھی قابل داد ہے کہ وہ کس استقامت کے ساتھ ہر‬
‫دعوی کرتے ہیں اور اپنی الگ راگ االپتےہیں ۔‬
‫ٰ‬ ‫بار باہم متضاد‬

‫ہیں کچھ‬ ‫ہیں کواکب کچھ نظر آت ے‬

‫دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھال‬

You might also like