ممتاز دانشور ،احمد جاوید صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں،ایک سال قبل اسالم آباد میں وہ نشست جو مجھے یاد پڑتا ہے،کم و بیش تین ساعتوں پر مشتمل رہی تھی۔جو اس نابغہء روزگارء جاوید کی" داستان حیات" سننے کے لئے کافی بھی کیسے ہوسکتا تھا۔ تشنگی اتنی زیادہ تھی کہ حاضرین کی شدت عطش ایسی ہی ایک اور نشست کی طالب تھی۔اس سلسلے کی اس دوسری خصوصی پر حکمت نشست کا مطلوب اور یقینی اہتمام کیا گیا ،چونکہ اس بار اس نشست کا اہتمام "دانشں پی کے " کے فورم سے کیا گیا تھا ۔تو یہ یقینا نا انصافی ہو گی دانش کے قارئین کے ساتھ اگر اس نشت کو دانش کے قارئیں کے لیئے قلمی شکل میں پیش نہ کیا جائے۔مالحظہ کیجئے جاوید احمد صاحب کی زبانی انکے فکری سفر کی دانش و حکمت سے پر کہانی۔ بسم ہللا الرحمن الرحیم۔ جناب جس طرح مفلس کو جیب جھاڑنے سے شرم آتی ہےاسی طرح مجھے زندگی کواپنے حوالے سے دیکھنے سے جھجھک محسوس ہوتی ہے۔ میری نظرمیں یہ سب سے مشکل اورناگواربات ہے کہ میں اپنے بارے میں گفتگو کروں۔اور پھر یہ کوئی روحانی مرتبہ وغیرہ نہیں ہے۔یہ نفس کے اندر اپنی ایک شدید اورمسلسل بےاطمینانی ہےجو اپنی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی۔تو یوں سمجھیں کہ اس خادم نے زندگی اس آنکھ کی طرح گزاری ہے جس نے بہت کچھ دیکھا مگر کبھی خود کو نہیں دیکھا۔بڑے لوگ کہتےہیں کہ انا کی توثیق غیاب کے اصول پر ہے حضورپر نہیں۔جتنا من اوجھل رہے گا اتنا وسعت پکڑتا جائیگا۔ تو! "میں " کی دومنزلیں ہیں یا تو" تُو"میں ضم ہوجائے تو ایک متوسل توسیع حاصل ہوتی ہے۔ اور اگر تُو میں خود کو فنا کرلے تو ایک آئیڈیل وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ تو زندگی اسی طرح گزری ہے کہ "بےبضارتی" کے باوجودمن کو کم از کم تُو میں ڈھال لیں۔تا کہ اُن کے سانچےمیں ڈھلنے کی کچھ قابلیت اور مزاج پیدا ہوجائے۔ میری زندگی اصل میں میرے محسنوں کا تذکرہ ہےجس میں کہیں کہیں صرف ان کے احسان کی شدت کو بیان کرنےاور سمجھنے کے لیے میرا حوالہ آسکتا ہے،لیکن میں نے زندگی کبھی اپنے اندر نہیں داستان حیات کا کوئی معروف پہلو نہیں ہے اس کےلیےِ گزاری۔اپنے استادوں میں گزاری ہے اس میں میں معذور ہوں۔لیکن ایک ایسی فضا میں بڑائی کو ایک مانوس شئے کی طرح متعارف کروانےکا میں ایک ٹوٹا پھوٹا زریعہ بن سکتا ہوں۔ جہاں رینگنا"،فضیلت کی بات بن چکا ہے۔ہم نے زندگی کو بائیولیول پر گزارنے کی جتنی جدوجہد کی ہے اسکی ہم اسکے عالہ شائد ہی کوئ اور تعریف کرنے کے مجاز رہ گئے ہیں ،کہ اب جتنا ہم انسانیت سے تنزل کرتے جائیں گےاتنا ہی خود کو گویا ترقی کے عالم میں دیکھنے کی ایک "خوش فہمی" پاتےجائیں گے۔ مطلب یہ وقت بھی آنا تھا کہ گرنے کو اٹھنا کہا جائے اٹھنے کو حماقت گنا جائےتو اب ترقی کا جو سارا فلسفہ ہے تنزل کی مداحی اور طلب پر ہے۔ایسے ماحول میں اگر کچھ لوگ اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے ،اونچائیوں پر سکونت رکھتے تھےاور گرے ہووں کو بھی بلندی کے تجربے کے احوال میں رکھتے تھے،اگر ان سے ہم قدرے مانوس بھی ہوجائیں، توامید ہے کہ ہمارے اندر ایسا عنصر داخل ہوجائے جس کی بنیاد پر ہمیں اپنے آدمی ہونے کا ایک تجربہ میسر آسکے یا آدمی بننے کی تمنا ہمارے سروں میں سراٹھا سکے۔ پچھلی مرتبہ میں نےجن سولہ برسوں کا زکر کیا تھا اس میں ہم سلیم احمد تک پہنچے تھے اور سلیم احمد تو یوں لگتا ہے جیسےجب ان سے نہیں ملے تھےتو ان سے ملنے کے سفر میں تھےاور جب ان سے مل گئے تو زندگی ایسا دائرہ بن گئی جس کا وہ مرکز تھے۔ میری زندگی میں جتنے تعلقات ہیں اور جتنے علمی و فکری (ویسے تو ہمارے بےفکری کے تجربات ہیں)تجربات ہیں زندگی کے جتنے زائقےہیں اور میرا اپنے بارے میں جو تصور ہے اس کی تشکیل میں سب سے بنیادی کردار سلیم احمد ہیں۔میں اپنے زہن میں سلیم بھائی کے بغیر نہیں ا سکتا۔ اور میرے تمام تعلقات کی ایک شرط تھی کہ وج ِہ تعلق سلیم احمد ہونا چاہیے۔تو ان کا محبوب ہمارا محبوب تھا ان کا ناپسندیدہ ہمارا ناپسندیدہ تھا۔ اور یہ عالم تھا کہ جتنا وہ ہمیں ناپسند کرتےتھے اتنا ہی ہم اپنے لیے بھی ناپسندیدہ ہوجاتے تھے۔ پہلے قدم پر میں یہ عرض کروں گا کہ سولہ برس کی عمر تک بننے والے کچھ مسلمات ہوتےہیں جس میں تیقن کا پہلو مبالغے کی حد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔کیوں کہ ورجن پرسیپشن ہوتی ہے وہ کسی Dialectical processسے زہن میں خیال نہیں جمتا بلکہ وہ ایک ان گھڑ اور غیر تربیت یافتہ ہوتی ہےاور زہن کو گویا احساس کے نظام پر چالتی ہے۔ اُس عمر میں شدت بربنائے لذت ہوتی ہے۔ ایسے میں ہم بھی اسی درے پر تھےہمارا بھی ایک زوق بن جاتا تھا اور پسند نا پسند پیدا ہوجاتی تھی اور عام طور پر وہ مدلل نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ پسند نا پسند کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوتی تھی بلکہ دلیل کی بنیاد بن جاتی تھی۔ میں اسے بہت ہی ہیومن عمل سمجھتا ہوں کہ انسان کے کچھ بنیادی تصورات و تخیالت ہر زہن میں ایسے ہونے چاہییں جو دلیل کی پروڈکٹ نہ ہوں بلکہ دلیل کا Originہوں۔ اس طرح کے تصورات کے حاضر ہوئے بغیرزہن اپنی نشونما کے مراحل طے نہیں کرسکتا۔تو اس عمر میں ایک Romantically idealisticزہن ہوتا ہے۔ وہ ہمارا بھی تھا اور شدت زرا زیادہ تھی۔۔ تو شدت حس تعلق قوی ہو ،اس کے حس تعلق قوی تھی۔ اور جس کے اندر یہ ِ کے اسباب زیادہ تھے۔ میرے اندر ِ زہن میں جو تصورات چلتے ہیں وہ جیسے ایک دوام سا پاجاتےہیں۔ ان میں عارضی پن نہیں ہوتا۔ تومیرا زہن اس طرح کا تھا کہ چیزیں محبوب بن کر زہن پر قابض ہوتی تھیں۔ میرے محبت کے عمل میں متوازی پن نہیں تھا کہ زہن اس عمل سے غیر حاضر رہے دل مشغول ہوجائے،یا کہ محبت کوئی جذباتی یا کیفیاتی عمل ہے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ زہن اور قلب دونوں رسپانڈ کرتےتھے اور دونوں میں سے بعد میں امیتاز ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ زہن میں جتنی بھی چیزیں تھیں وہ دل کی سٹیمپڈ تھیں۔ الحمدہلل مہر تصدیق نہ لگی میرے زہن میں اج تک ایسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ٹکتی نہیں ہے جس پر دل کی ِ ہو۔ تو میرے جو اس عمرمیں مسلمات تھے میں ان کو اپنے ہم عمروں میں ایک دعوے کی طرح پیش کرتا تھا اب یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر تھوڑا بہت بولنا آتا ہوتو زبان کا کانٹینٹ زہن کے کانٹینٹ سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔یعنی اظہار کا جو کانٹینٹ ہے وہ ادراک سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے خاص کر ہم جیسے جو جعلی لوگ ہیں۔۔ نوجوانی چونکہ مائل بہ اظہار زیادہ ہوتی ہےادراک کے عمل سے اسے اتنا انس نہیں ہوتا کیوں کہ اسےادراک کا کچھ کرنا نہیں ہوتا نا۔ اظہار کے نتائج فوری نکلتے ہیں اور وہ انھی میں منہمک ہوتا ہے۔ تو خاموشی کی قدر نہیں تھی۔ تو اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر فلسفہ طرازی میں ڈھال دیتےتھے۔ اور وہ صرف ایک غیر متکبرانہ خودنمائی کے لیےہوتا تھا۔وہ خودنمائی تو تھی مگر بچگانہ سی تھی۔ میں اپنے لیے کوئی کلیم نہیں تھا۔ تو جہاں تصورات خود نمائی کا بھی زریعہ بن جائیں تو ان تصورات پر تیقن اور بھی بڑھ جاتا ہے کیوں کہ اس میں اپ خود شامل ہوجاتےہیں۔ تو میں جس چیز میں جتنا خود شامل ہوجاوں گا .اس پر میں اپنے یقین کی حفاظت کروں گا ماورائے دلیل حالت میں یا ہر لمحے دلیل بناتے رہنے کا عمل کرتارہوں گا۔ یہ بہت ضروری ہے کیوں کہ تشکیک کا عمل زہن کی ابتدا میں سراٹھا لے تو زہن غارت ہوجاتا ہے۔زہن کا مستقبل ختم ہوجاتا ہے۔تشکیک اور تیقن کی متوازیت زہن کے لیے مفید ہے لیکن تیقن کا تشکیک میں بدلنا پھر تشکیک کو تیقن مین ڈھالنے کی جو ایکسرسائز ہےیہ ہر طرح کے زہن کے لیےمضر ہے۔کیوں کہ اس طرح زہن خود اس سے ایک بےزاری والی مغائرت پیدا کرلیتا ہے۔تو اسے خود جتنا ُجڑارہنے کی ضرورت ہوتی ہےیعنی خود پر جو ایک اعتماد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں میں اس لیے کررہا ہوں کہ شاید کسی طالب علم کے کام اجائیں۔ اپ کو ان مسلمات میں سے کچھ گنواتا ہوں جو سلیم احمد نے ایک نگا ِہ غلط انداز سے زمین بوس اورزہن بدر اور دل کے لیے وحشت انگیز بنا دیے۔ وہ ادمی کیا ہوگا جو ایک منٹ کی گفتگو کر کے اپ کی جو وجودی حالت () Existential conditionsکو بدل دے۔ کیوں کہ زہن اس عمر میں ایگزیسٹنشئل کنڈیشن کا حصہ ہوتاہے۔ اور وہاں تو ہر خیال موجود ہونے کی ایک حالت ہوتی ہے نا۔ تو ہمارے زہن میں بھی خیاالت موجود ہونے کے تجربات تھے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان خیاالت کی تاریخ یہ ہے لفظ کی حقیقت یہ ہے۔ لیکن بس خیال کے ساتھ عینیت پیدا کر لی۔ پھر آپ کیا کہیں گے اگر ،اب اس طرح کا کوئی بھی آدمی مجھے میرے موجود ہونےکے ان احوال سے مجھے منحرف کردے جن احوال کو میں بہت زیادہ حقیقی ٰ تقریبا ناممکن کام ہے،تو میرے لئے تو وہ سلیم احمد ہی تھے۔ جاننے کا عادی ہوچکا ہوں۔ مطلب تو ان میں سے کچھ مسلمات اور دعوے آپکے سامنے عرض کرتا ہوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اپ کے دل میں بھی ہللا سلیم احمد کی محبت ڈال دے۔ میری جو تاز ِہ طبع یا زہنی میالن تھا وہ شاعری اور تصوف کی طرف تھا مطلب جو ڈاکرنل تصوف ہوتا ہے اور زوق بھی اسی پہ بنا ۔ اس کا مجھے زیادہ فائدہ تو نہیں ہوا مگر جو شخص سنجیدگی سے اس شاعری اور تصوف کے مرکب کو اپنا لےتواس میں حق اور جمال کی Identityکا شعور چاہے ڈویلپ نہ ہوزوق ضرور پیدا ہوجاتاہے اور جس کی ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے۔تو سولہ برس کی عمر میں مال جال رجحان اور اس تصوف وغیرہ اور ابن عربی کو پڑھنا یا تو دماغ کی خرابی ہے یا طلب کی سچائی ہے۔ تیسرا اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے،۔ تو مجھے یاد ہے عبدالکریم الجیجی کو اور ابن عربی کو میں ایک نشست میں ستر ستر صفحے پڑھ لیتا تھا اور اس گمان سے(گمان تو اب کہہ رہا ہوں)ایک سمجھ لینے سے بھی بلند تر تجربےکے ساتھ۔ ایک حضوری کے ساتھ۔ سمجھ تو ظاہر ہے اب بھی نہیں آتی تواس وقت خاک آنی تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے معنی زہن کو بائ پاس کر کےمنتقلی کے ایک عمل کو وجودی انداز میں کررہے ہیں یہ ابن عربی کا میرا ایک ابتدائی تجربہ ہے۔ تو اس طرح کا زہن تھا۔ تو اس میں میرایک بڑا جو مسلمہ دعوی ،جو اس سارے زوق سے ہی متصادم تھا یا کسی وجہ سے بن گیا تھا وہ یہ تھا کہ جوش بہت بڑے شاعر ہیں اور میں اس پر لوگوں سے گرما گرم بحثییں کرتا تھا اور سلیم بھائی کے جو حلقے والے تھے وہ کبھی مجھ سے دب بھی جاتے تھے جسے آپ چرب زبانی سی کہہ سکتےہیں یا یہ کہہ لیں کہ بھاڑ میں جاو۔ بحرحال جو بھی تھا لوگ دب جاتے اور میں سمجھتا کہ جوش واقعی بڑے شاعر ہیں اور لوگ اس بات پر قائل بھی ہورہے ہیں۔تو ایک دن کسی سینیر آدمی نے غالبا جمال پانی پتی صاحب نے (جمال پانی پتی اور جناب اطہر نفیس صاحب سلیم احمد کے قریب ترین دوست تھے) سلیم احمد سے شکائت کی کہ یہ جوش کو بڑا شاعر کہتا ہے اور اگر کوئی جوش کو اتنا بڑا نہ مانے جتنا یہ سمجھتا ہے تویہ لڑنے لگتا ہے تواب ر ِد دلیل ایک محبانہ لڑائی کے سوا ممکن نہیں ہے۔ فلفس ِہ تعلق میں دلیل کا رد دلیل سے محاالت میں سے ہے۔ تو جب انھوں نے شکائت کی تو سلیم احمد صاحب نے جب لوگ رخصت ہورہے تھے تو کہا کہ تم زرا رکو۔ میں ٹھہرا تو انھوں نے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ تم کیا یہ بکتے رہتے ہو۔ ’اب یہاں سے جملہ شروع ہوا ہے‘ کہ بیسویں صدی کے دوتین سب سے بڑے شاعروں میں جوش بھی ہیں (میں اب نام بس شرم کی وجہ سے نہیں لےرہا کہ کس کے مقابلے میں جوش کو بڑاشاعر کہتا تھا) تم اُس سے بھی بڑا شاعر مانتے ہو جوش کو؟ میں نے کہا جی مانتا ہوں۔ لیکن جب انھوں نے بکنے اور بکواس جیسےصیغے استعمال کیے تو دبی دبی آواز میں جیسے شرمندگی سےعرض کیا جیسے آج کوئی اپنا مرض تسلیم کرتا ہے توآپ دیکھیں کہ انھوں نےپہلے فقرے میں ہی مجھ سے کہ جس کو تم اپنی طاقت سمجھ رہے ہو وہ اصل میں تمہارا مرض ہے۔ تومیں نے مریض کی طرح شرمندگی سے کہا کہ جی یہی سمجھتا ہوں۔ تو انھوں نے دومنٹ کی صرف گفتگو کی(اندازہ کہہ رہا ہوں) اور جس بات پر مجھے غرہ تھا کہ اس پہلو سے جوش کے مقابلے پراردو روائت میں کوئی شاعر نہیں ہیں وہ تھا الفاظ پر قدرت۔ انھوں نے کہا کہ جوش جو چیزیں افسوسناک حد تک نہیں جانتے وہ زبان ہے۔ میں بالکل ہی سٹپٹا گیا تو انھوں نے اقبال کا ایک شعر عقل پر پڑھا اور ایک شعر جوش کا پڑھا جو کہ ہم مضمون شعر تھا۔ اور کہا کہ جوش کی عقل جو ہے وہ بےعقلی کی فضا میں پیدا ہونے واال ایک عارضی پودا ہے اور دیکھو اقبال نے عقل کو کیا کہا ہے۔ محض دومنٹز میں انھوں نے بتا دیا کہ شاعر کی لفظوں پر جو قدرت ہوتی ہے وہ لفظوں کی ریل گاڑی چالنے پر نہیں ہوتی ۔ لفظ پر قدرت لفظ کی گہرائی کو ایکپسپلور کرنےکا نام ہے۔ تو تم بتاو کہ کون سالفظ جوش نے گہرائی کے ساتھ استعمال کیا؟ اب یہ کہ تیسرے منٹ میں اُسی قطعیت سے ناپسندیدہ شاعر جوش سے بڑھ کرنہیں رہ گیا جس قطعیت سے وہ انتہائی پسندیدہ شاعر تھا۔ اور میں نے اس کا بھی عالج ان سے کروایا کہ جوش ناپسندیدہ شاعر نہیں ہیں وہ بہت اہم شاعر ہیں۔ کچھ باتیں بھی بتائیں جیسے ایک مصرعہ انھوں نے بتایا ،وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ کہا کہ دیکھو جوش کے تمام دیوان کے لیے یہ مصرعہ بیج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں جوش کی ساری انفرادیت اور شاعرانہ خواص یکجا ہوگئے ہیں۔ کہ"" اہ کو دے کے گرہ حرف بنا دیتا ہوں""۔ اب سلیم احمد نے صرف یہ مصرعہ سنایا کوئی آگے پیچھے نہیں۔ اب جو آدمی یہ مصرعہ کہہ سکتا ہے سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کا شاعر ہونا ثابت ہوگیا اور اس مصرعے میں ایسی ندرت اور انفرادیت ہے اور سبجیکٹ کو بہت ابجیکٹیفائی کرنے والی ایک لہر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شاعر کسی معمولی شاعر کی طرح اچھا شاعر نہیں ہے ،یہ اہم شاعروں کی طرح اچھا شاعر ہے۔ Part two جیسا کہ سولہ سترہ برس کی عمر تک اظہار ادراک پر غالب رہا تھا،ان ایام میں سلیم صاحب کیسے زہن پر غالب خیال مغلوب اور عدیم خیال کو وجود دے دیاکرتے تھے ،میرا ایک تصور یہ تھا کہ کہ غالب میرسےبڑے شاعر ہیں۔اچھا وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ میراور غالب پر ادیبوں میں بہت مناظرےہوا کرتے تھے۔ایک زمانے تک یہ خاص موضوع ہوا کرتا تھا۔تو یہ وہی زمانہ تھا۔تو اس پر سلیم احمد نے صرف پانچ منٹ کی گفتگو کی۔ یہ گفتگو مجمے میں ہوئی مگر بغیر جتائے ہوئے مخاطب میں تھا۔تو پانچ منٹ کی گفتگو میں گویا انھوں نے ایمان باالہشود کے درجے تک پہنچا دیا کہ میر غالب سے بہت بڑے شاعر ہیں،اس کی ایک مثال ہے۔تو شاعرانہ پہلو سے اس طرح کے اور کئی واقعات ہیں جو آگے چل کےپیش آئے۔ اب سلیم احمد کوئی عملی صوفی نہیں تھے۔ وہ تصوف کی علمی جہت پر بہت قدرت رکھتے تھے۔ مطلب وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ تصوف میرے احوال اور تجربات کا ماخذ ہے۔تو ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا(بےتکلفی سے کہوں تو کوئی بڑا عرفانی مشاہدہ ہوگیا بہت زیادہ کہ جیسے ہللا کو دیکھ ہی لیا)اب اس کا ایک نشہ ایک سرشاری ،نماز جمعے کی بھی نہیں پڑھتے تھے۔یہ کہ جیسے ہم عارف بن گئے وہ شاہد بن گئےاور اصول االہلل کا راستہ ختم ہوگیا اب منزلیں شروع ہوگئ ہیں۔ مطلب وہ تجربہ مسلط ہوگیا تھا نا۔ تو میں عجیب طرح کے خال میں رہنا شروع ہوگیا اور یوں لگتا تھاکہ جو بولتے ہوئے اساس تعلق بنا ِ مدارگفتگو اور سنتا۔خاموشی کو ِ لوگ ہیں انکی خاموشی میں سنتا ہوں ان کی آواز نہیں ُ لیتا ہوں یا یہ کہہ لیں کہ بن گئ۔ تو جب اس حالت کے کچھ آثار عمل میں رویوں میں ظاہر ہوئےتو سلیم احمد نے کہا کہ یار زرا نہاری کھا کے آتےہیں۔اب سلیم احمد کا مزاج ہی نہیں تھا کہ نہاری کھانے چلیں وہ زیادہ تر یہی کہتے کہ چائے پینے چلتےہیں۔مجھے بھی عجیب لگا کہ یہ نہاری کھانے کا کیا قصہ ہے۔ اور نہاری کے ہوٹل تک پہنچے پہنچتے وہ مجھے ایک پسندیدہ بےہوشی سےایک مرغوب ہوشیاری تک لے آئے۔ایک دم سے جیسے وہ گرد جسے میں جنت الفردوس کی زمین پر اگنے والے ت وصل بنائے ہوئے تھا۔اس کو انھوں نےجیسے چولستان کے پھولوں کی پنکھڑیوں کی طرح اپنی خلع ِ صحرا میں اڑنے والی ریت بنا دیا۔کہا کہ دماغ زیادہ خراب ہوگیا ہے؟خود موصوف نماز وغیرہ کی طرف زرا ڈھیلے تھے۔ مگر مجھ سے کہا کہ جمعہ پڑھتے نہیں ہو اور واصل باہلل ہوگئے ہو؟ اس خبط میں مبتال ہو۔ تو نہاری میں نے پھر ایک آدمی کی طرح کھائی۔کسی بزرگ کی طرح نہیں۔ نظام تعلق سلیم احمد کی اساس پہ بن گیا تھا۔ وہ جیسے ہمارے لیے ہمالہ سے نکلنے واال ِ تو ہمارا سارا چشمہ تھے جس سے ہمارے تعلق کی نہریں نکلتی تھیں۔ ایک عادت پڑگئی تھی کہ جس بات میں سلیم احمد کاحوالہ نہیں ہے وہ نہ علمی سطح پر قاب ِل قبول ہے نہ زوقی سطح پہ اور نہ وہ آدمی ہمیں مرغوب ہے۔ یہ تھی تو ایک جذباتی بات مگر یہ ایسے جذبات ہیں جن سے مجھے آج بھی محبت ہے۔ اب سلیم احمد کے قریب کے دو تین آدمیوں کا تذکرہ کردوں پھر سلیم احمد سے ملنے کا جو مقص ِد اعظم تھا،تکوینی دور پر ہوگا ،وہ کسیے حاصل ہوا وہ بھی عرض کرتا ہوں۔۔ مجھے لگتا ہے سلیم احمد سے ملنا ہی اس لیے ہوا تھا کہ موالنا ایوب صاحب سے نسبت ہوسکے۔ سلیم احمد بہت اختالف پسند تھے۔ اکساتے رہتے تھے کہ فالں بات سے اختالف کرو اب میں کہاں سے کروں۔ لیکن ان کو جیسے بُرا لگتا تھا کہ لوگ ہاں ہاں کرتے رہیں۔ ان کے دوستوں میں دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو ان سے محبت اور اتباع کا تعلق رکھتے تھے۔دوسرے ان سے محبت اور اختالف کا تعلق رکھتے تھے۔ تو جو لوگ پہلے تعلق میں تھےاطہر نفیس اور جمال پانی پتی تھے۔ یہ بہت ہی زبردست شخصیتیں تھیں۔ اطہر نیفس کو دیکھ کر امیرخسرو کو دیکھنے کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔اور جمال پانی پتی میں محبت بہت زمہ داری کے ساتھ تھی جذباتی رنگ میں نہیں تھی۔اور بہت علمیت ق مطلق۔ یہ سلیم احمد کو سلیم خاں شاعر محض تھے اور عاش ِ ِ رکھنے والے آدمی تھے۔اطہر نفیس کہتے تھے اور ہم عمر تھے۔ لیکن سلیم احمد ان سے جیسی محبت کرتے تھے وہ محبت ناقاب ِل یقین ہے۔ جمال پانی پتی فارسی شاعری کا بہت عمدہ زوق رکھتے تھے اور بہت اچھے ترنم کے ساتھ پرانے شاعروں کے شعرسناتے تھے بلکہ محمد حسن عسکری ان کو بالتے تھے کہ حافظ کی غزل سنا دو یا عرفی کی غزل سنا دو۔ اور سلیم بھائی کے حلقے میں جمال پانی پتی واحد آدمی تھے جن کو محمد حسن عسکری پسند کرتے تھے۔ محمد حسن عسکری کا سلیم احمد کے حقلے میں جمال پانی پتی کے عالوہ فرض عین تھا۔۔ سلیم بھائی کو بھی ِ ہر شخص سے نفرت کرنا اس کی تحقیر کرنا ان کی سرشت میں ڈانٹتے رہتے تھے کہ کیا لڑکوں کو بٹھائے رہتے ہو اور یہ وہ۔اگر سلیم احمد کا حوالہ آجائے تو ان کو ناراض کرنے کا شارٹ کٹ یہ تھا کہ میں سلیم بھائی کی مجسلوں میں بیٹھتا ہوں۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم سلیم بھائی کو خراب کررہے ہیں۔ ان کو کام نہیں کرنے دیتے۔مگر حسن عسکری کو پسند کرتے تھے۔ ہاکس بے پر استاد بندو خان اور جمال پانی پتی کو لے کے جایا کرتےتھے۔ جمال پانی پتی کا مجھ پر یہ احسان ہےکہ فارسی شعری روائت سےمیرے اندر مناسبت انھوں نے پیدا کی۔ اگر میں ان سے نہ ملتا تو یا تو فارسی شاعری کا زوق میرے اندر نہ پیدا ہوتا یا اس میں بہت تاخیر ہوجاتی۔ دوسرا حلقہ تھا جو دوستوں کی تعریف پر پورااترتےتھےلیکن اختالف بھی اعالنیہ کرتے تھے ان میں سب سے اہم آدمی تھے قمر جمیل صاحب۔ تو قمر جمیل سے میرا تعلق کم و بیش ویسا ہی ہوگیا جیسا سلیم احمد سے تھا۔ مطلب سارا ساراوقت ان کے ساتھ رہنا۔ اوران کو معلوم تھا کہ سلیم احمد سے میرا جیسا تعلق اور شدت تھی اور وہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ مطلب میں ان کی مجلس میں سلیم احمد پرہونے والے اعتراضات کا بہت شافی جواب دیا کرتا تھا۔ایک اور دوست تھے ضمیر علی بدایونی صاحب جدید فلسفے کا ایسا آدمی کہ جس کا زوق اور فہم کمال بلندی پر پہنچ کر ایک دوسرے میں جل کرگیا ہو ،ان کے ِسوا میں نے ایسا شخص کوئی نہیں دیکھا۔مطلب ۔۔۔۔۔۔۔کا تعارف مجھے ان سے ہی ہوا اور ان کے ساتھ۔۔۔۔ پر جو جو پڑھتے تھے ۔۔۔۔ہائینسکو وغیرہ کو ،تو مجھے اندازہ ہے کہ وہ کس گہرائی میں پہنچ کر ان تھیمز کو نہ صرف کہ اپنے اوپر کھولتے تھے بلکہ دوسرے میں بھی وہ انسائٹ پیدا کردیتے تھے تا کہ وہ ان سےمعنوی اور تخلیقی سطح پر لطف اندوز ہوسکے۔ تو یہ ان کا بہت بڑااحسان ہے۔ اب میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقع کامیابی ،سعادت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دن ہم بیٹھے تھے تو اطہر نفیس کار لے کر آئے اور کہا کہ سلیم بھائی جلدی سے شیروانی پہن لیں اور موالنا کہیں پہنچ نہ گئے ہوں اور ہمیں دیر نہ ہوجائے۔ میں سلیم بھائی کے ساتھ اکیال بیٹھا تھا۔تو انھوں نے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو۔ تو موالنہ کے گھر ایک نشست تھی۔ ایک نشست تو خواص کی ہوتی تھی۔ گھر کیا تھا دس سے زیادہ آدمیوں کے ان کے ہاں بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ ہوا یہ کہ ہم ان کے گھر داخل ہوئے اور وہ اپنے سونے والے کمرے سے داخل ہوئے۔ اور موالنا بُرا مانتے تھے کہ وہ بیٹھ جائیں توپھر(ان کے شاگردوں میں سے) کوئی آئے۔ ایک صاحب تھےوہاں ،ان کے کرتے پر کتھا لگا ہوا تھا معمولی سی ٹوپی پہنے ہوئے اور نسبتا چھوٹا قد وہ آئے تو ایسے لگا جیسے آپ کو زمانے کے زیرو ہونے کا تجربہ ہوگیا ہو۔ یہ میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں(اُس وقت یہی عنوان میرےزہن میں آیاتھا) کہ اگر حرکت زیروہوجائے توزمانہ غائب ہوجائگاتو ان کے آنے پر جو ایسا لگا جیسے پورا نظام حرکت انفسی اور آفاقی دونوں دائروں میں زیروہوگیا ہے۔وہ عجیب تجربہ تھا۔ اوریہ بات جو ابھی ِ عرض کی اس وقت بھی کہی تھی۔ آپ سمجھ لیں کہ ایک جاہل اور بےحس آدمی میں تجربے کا التباس بھی پیدا کردینا کس قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تب ہمیں تو نہیں معلوم تھا کہ حرکت زیرو ہوجائے تو زمانہ ختم ہوجاتا ہے نہ یہ معلوم تھا کہ زمانے کی ایک حرکت سبجیکٹو ہے یا دوسری حرکت ہے۔ تو یہ موالنا کا فیضان تھا کہ شعور کو بغیر تیاری کے اس کی اصل تھیم تک پہنچانے میں اوروجود کو بھی بغیر کسی تربیت کے اس کےلیے مرکزی حال فراہم کردیا ،اور یہ ایک لمحے کی بات ہے۔ تو انکار ابلیس پر بہت فلسفیانہ قسم کی گفتگو فرمائی۔اور وہ ختم اس بات پرہوئی کہ ِ موالنا نے اس دن ابلیس کہتا تھا کہ میں آگ سے ہوں اور یہ مٹی سے ہے۔آگ مٹی سے افضل ہے۔۔موالنا کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ جہالت کی بات علم کی منتہا تک رسائی رکھتے ہوئے ممکن ہی نہیں۔جتناعلم کامل ہوتا جاتا ہے اتنا absenseکا عنصر کم ہوتا جاتا ہے۔ مکمل علم مکمل حضوری کا نام ہے۔ اب وہ منتہائے علم ت جہل کا مرتکب ہوا اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔۔ اب مجھے ابلیس سے تھوڑی بہت محبت پر نہائ ِ بھی تھی۔ وہ الگ غآرت ہوئی۔ مطلب اس عمرمیں انکاراقرار سے لڑے بغیر زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔انکار کی بشرط کہ اقرار سے انحراف نہ ہو۔ تو ان معنوں میں ہمیں ابلیس میں ایک ِ کشش بہت ضروری ہے، کشش محسوس ہوتی تھی۔۔ تو پون گھنٹے کی نشست ہوئی سلیم احمد کو انھوں نے نشست کے بعد کہا کہ بھائی تم کچھ بات کرو، پوچھو۔اور لگ رہا تھا کہ وہ سلیم احمد کو حاضرین میں سب سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔اب حاضرین میں علماء فضالء بھی تھے۔ سلیم احمد بیچارے اپنی سگریٹ پینے کی خواہش کو ضبط کئے ہوئے وہ بیٹھے تھے۔ اور آپ چین سموکر تھے۔۔ تو سلیم احمد نے کہا کہ جناب میں تو سحر سے ہی نہیں نکل رہا۔۔ موالنا کہنے لگے کہ یہ سب تم رہنے دو آج کل تم کرکیا رہے ہو؟یہ موالنا کا بہت مشہور غالبا یہ سلیم احمد نے بھی کہیں لکھا ہے۔ اور یہ واقعہ اس دن کا ہے۔ سلیم احمد کہتے ٰ واقعہ ہے اور ہیں کہ کچھ چیزوں پر غور کررہا ہوں۔ تو موالنا نے کہا کہ تمہیں غور کا مطلب آتا ہے؟ کہا چالیس سال ہوگئےہیں اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ غور کیا ہوتاہے۔ موالنا نے بڑے جوش سے کہا۔ اس کے بعد جب ہم نکلنے لگے تو موالنا نے سلیم بھائی سے پوچھا کہ یہ لڑکا پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ اب وہ ڈر گئے کہ اس پر نہ ڈانٹ پڑجائے کہ ایک لڑکے کو کیوں لے آیا تو انھوں نےیہ کہہ کر جان چھڑائی کہ یہ بیٹھا ہوا تھا میں لے آیا۔ خیر وہ مصافحہ کیا تومصافحہ کرتے وقت ہاتھ چھوڑ کر جب میں آگے بڑھنے لگا تو ایسے بڑھا کہ میری پیٹھ ان کی طرف نہ ہوجیسےبندہ تھوڑا سا ترچھاہوجاتا ہے۔" چارقدم گیا ہوں گا آگے تو پیچھے سے کہنےلگے کہ آنا نہ چھوڑنا"۔اگر زندگی میں کوئی سب سے بڑا تمغہ مال ہے تو موالنا کا یہ فقرہ ہے یا ایک آدھ اور ہے۔سلیم بھائی جو مجھ سےآگے تھے انھوں نے بھی سن لیا۔ باہر نکل کر سلیم بھائی نے کہا یار موالنا ہربات پر نکتہ نکال دیتےہیں۔ مصیبت میں پڑگیا کہ کاہے کا غور کررہا ہوں۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہم چلے آئے۔ سلیم بھائی نے جب گھر پہنچ کر مجھ سے کہا کہ دیکھو بیس پندرہ برس سےموالنا کی صحبتوں میں رہاہوں تو انھوں نے جو فرمایا کہ آتے رہنا تو تم اس بات کا خیال رکھنا۔ کیوں کہ موالنا اس اجازت کو بھولیں گے نہیں۔ اس کے بعد موالنا کی خدمت میں اکثر سلیم بھائی کے ساتھ ہی جانا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اکیلے بھی جانا ہونے لگا۔ میں نے موالنا کو ایک برس گیارہ مہینے تک دیکھا جس میں جو آخری مہینہ ہے جس میں چوبیس گھنٹے ان کےخادم کی حیثیت سے ان کے ساتھ بھی رہا۔ موالنا چونکہ وضونہیں کرپاتےتھے اور بھی کچھ مسائل تھے۔ خیر موالنا ایوب دہلوی رحمتہ ہللا علیہ جن کو ان کی حیات میں ہی امام المتکلمین اور خاتم المحقیقین کا لقب دیا جاتا تھا۔ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا ،اب بھی جتنا تھوڑا بہت سمجھ میں آتا ہے ،تو میری رائے میں موالنا کے لیے ان خطابات اور القابات کا ادنی ۔۔۔۔۔۔۔بھی نہیں ہے۔ فلسفے میں ایک مسئلہ ہے اور اگر اصطالح بدل دیں تووہ تصوف کا بھی بہت بڑامسئلہ ہے۔یعنی مسئلہ بمعنی تھیم کہ آییڈیل ایکچوالئز کیسے ہو۔اور اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے ideal dialecticismبنا ۔ لیکن جیسے یہ انسان شعور اور وجود کی عینیت کا نام ہے۔اور جتنا اس میں غیریت پیدا ہوتی جائےاتنے ہی انسان ہونے کے حقائق دھندالتے جائیں گے۔۔ تو شعور کا جوہر آئیڈیا ہےاور وجود کا ت کمال نظام actualization of the same ideaہے۔ اس بنیادپر یہ identicalہیں۔ شعور کو حال ِ ت کمال میں شعور کہنا بھی درست ہے۔identity میں وجود کہنا یہ بھی درست ہے۔ اور وجود کو حال ِ جب بھی دو میں ہوگی تو ان کا امیتاز حقیقی ہوتے ہوئے بھی انھیں ایک دوسرے کا عین بنا دیتا ہے۔اور ابن عربی کو بھی سمجھنے کی ایک کنجی ہاتھ آجاتی ہے۔تصوف میں اس مسئلے کو اگر سمجھ لیں تو ِ جیسے رومی کی اصطالح میں اگر ہم کہیں تو شعور خیال سے transcendہوجانے کا نام ہےاوروجود نام ہےخیال سے اس حاصل شدہ transcendکو اپنا حال بنالینے کا۔ یہ فارسی کا شعر ہے درستی کر لیجیے گاسر۔ (می روم سوئے جات ا لو صال من ز تن از شو تو از خیال) کہ اس نے اپنے تعین سے شعور کو توڑ دیا میں نے اپنے تعین فی الوجود کو توڑدیا۔ تو موالنا اس کا مصداق تھے۔موالنا سرسے پاوں تک well actualised ideaتھے۔ اور ایک idealised actualityتھے۔(امید ہے کہ یہ اصطالحیں واضح ہونگی) تو میں جذبات میں صداقت کی بنیاد پر یہ قسم کھا سکتا ہوں(حقائق کی صحت کی بنیاد پر نہیں) کہ وہ کمال نقص ہے جو موالنا میں نہیں پایا جاتا۔ مطلب میں نے ان کی زندگی میں وہ تمام اہم اندر باہر کے گوشے جو ہیں وہ کہہ بلحاظ وجود اور اتنی کامل شخصیتِ سکتےہیں کہ میں نے دیکھے ہیں۔تو میں نے اتنا مکمل آدمی بااالعتبار شعور نہیں دیکھی کیوں کہ کمال مشترک تھا ان کے زہن اور زندگی میں۔ مطلب ان کا کھانا ِ کھانا۔ ہم لوگوں کی فلسفیانہ activitiesسے زیادہ بامعنی تھا۔ ان کا ہنسنا ہم ایسے لوگوں کے خان ِہ کعبہ میں رونا زیادہ رقیق القلبی کا مظہر تھا۔جیسے ہللا نے انکو کماالت کے بلڈنگ بالک سے بنایا تھا۔ نہ علم میں کوئی ان سا دیکھا نہ اخالق میں ویسا کوئی دیکھا۔ اور اخالق میں چاہے آپ جنرل ہیومن ورژن لیں ۔ اخالق کوان کی میٹا فیزیکل اس کی عرفانی اور روحانی اساس پر رکھ کر دیکھیں تو اس میں بھی معلوم حقیقی تک پہنچانے کا زریعہ بن سکتا ہے۔موالنا ِ ان سے کامل آدمی نہیں دیکھا۔ مطلب ہر وہ علم اس علم کے منتہی تھے ۔ چاہے ان میں سے بعد کی اصطالح نہ جانتے ہوں۔وہ سراپا حضور اور مستقل غیاب تھے۔ یعنی کے یہاں غیاب اورحضور کی یکجائی کا تجربہ کیا جا سکتا تھا۔ اگر ہماری آنکھیں کھلی ہوتیں اور ہمارے دل بیدار ہوتے تو۔اب دل ان کی یادوں سے بیدار ہوتا ہے۔ کہ ہم یہ سمجھیں کہ غیاب و حضور substantiallyایک ہیں۔ کہ ہللا کا غائب ہوتے ہوئے بھی قبل ِہ حضوری بن جانے کا ایک تجربہ جیسا ان کو دیکھنے سے ہوجاتا تھا ،ویسا دس بیس کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوتا تھا۔ ویسا اشکال و مراقبات کرنے سے بھی نہیں ہوتا تھا۔اس طرح کی وہ شخصیت تھے۔یوں سمجھیں کہ وہ رفعتیں بانٹتے تھے۔ گہرائیاں تقسیم کرتے تھے۔ انشاہللا میرا ارادہ ہے کہ موالنا کے جو علمی کماالت ہیں ان پر الہور جا کر ایک سیریز شروع کروں گا بطوراصولی ان کے کیا کماالت ہیں۔ تو ہللا نے چاہا تو اپنی ِ بطور متکلم ان کے کیا کماالت ہیں اور ِ کہ بساط بھر کوشش کروں گا کہ ہمارے موالنا کا علمی مرتبہ بھی تھوڑابہت سامنے آجائے۔ اور وہ تھوڑا بہت بھی اتنا ہوگا کہ علم کی طلب رکھنے والوں کے زہنوں کی مکمل کفالت کرسکتا ہے۔ ایک سوال۔ جاوید بھائی ایک چھوٹی سی بات یاد آرہی ہے آپ نے کہا کہ شیطان سے انکار کا ۔مسئلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو سلیم احمد کا ایک مضمون ہے شیطان روحِ انکار؟ ،اس میں کہا کہ شیطان روح انکار نہیں ہے مگراسے روحِ انکار سمجھا جاتا ہے۔تواس کی کیا معنویت ہے ؟ ت باری تعالی کو اپنے تجربے کی تصدیق کے ساتھ جواب۔ کیوں کہ جو انتہائے اقرار ہے ،یعنی زا ِ ماننا۔ یہ اس کو میسر تھا نا۔یعنی بال حجاب معرف اسے نصیب تھی۔ تو اس معرفت کی موجودگی کو اس ت سےصورتا انکار جو ہے وہ مجروح نہیں کرتا ۔یعنی کے شیطان کے انکار میں زا ِ ٰ کاکسی ایک پہلو باری تعالی کا جو اثبات پوشیدہ ہے ،وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔ Part three Part four احمد جاوید صاحب ۔میرا فکری سفر ۔حصہ چہارم۔ بالعموم بیک فلسفہ اور تصوف کا مطالعہ اور اس میں معقول توازن برقرار رکھنا ایک امر سہل نہیں ہو سکتا،ہماری اس علم و دانش کی نشست کے مہمان احمد جاوید صاحب کی فکری تشکیل کے نصاب میں جہاں ویل ڈیورنٹ کی کتاب story of philosophyشامل ہے تو وہیں بقول احمد جاوید صاحب ایک عجیب و غریب کتاب "تذکرہء غوثیہ "بھی شامل رہی ہے۔اگر فلسفہ میں "مکالمات افالطون اور کانٹ کی " "critics of pure reasonپر لکھی گئ کتب اور عزالی کی "تہافتہ الفالسفہ" اور "مقاصد الفالسفہ" نے انکے زہن کو متاثر کیا ہے تو وہیں ابو طالب مکی کی تصوف پر لکھی گئ انتہائ مفصل اور ضخیم کتاب "قوت القلوب " جسے امام غزالی کی قبولیت بھی حاصل ہے۔ احمد جاوید صاحب کے تصوف کے بارے میں تصورات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشتیاق اور انہماک سے پر اس نشست میں ایک اہم سوال "فی زمانہ تصوف کی تعریف اور اسکا وجود کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ پر احمد جاوید صاحب کے دو سطری جواب نے شائد ہی اس سوال کی کوئ تشنگی چھوڑی ہو "آج تصوف کا اصل "ثابت" اور "" manifestationفاسد ہے "اس اضافے کے ساتھ کہ پیری اور مریدی میں نفس میں پابندی کی قدر آزادی کے تجربے سے ہوتی ہے ،اگر آ پ نے آزادی ہی نہیں چکھی تو پابندی کیا کریں گے ،نے تصوف کی تطہیری رمز اور نرمول صوفی بازی میں خط فاصل کھینچ دیا ہے۔ فلسفہ اور تصوف میں توازن کی بات ہو رہی ہے تو ایک دوسری جگہ احمد جاوید صاحب کا یہ جملہ یقینا بر محل محسوس ہوتا ہے ،کہ ہمارا جو ایمانی وجود ہے اس میں جذبہ پہلے ہے خیال بعد میں۔اگر آپ اس ترتیب کو بدل دیں گے تو اپنے ایمانی وجود کو کمزور کر دیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو" جنکی شخصیت غالب نظریاتی رجحان ،سیاست اور طرز حکومت ایک ایسی بے عملی اور عمل اور اضداد کا مجموعہ ہے کہ بات کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے۔اسکے باوجو بھٹو صاحب پاکستان کی سیاست اور تاریخ کی ایک وہ کنٹراسٹ اور کرشماتی شخصیت ہیں جو ،انکا پھانسی پر چڑھنے سے چند لمحے پہلے اپنی لکھی گئ وصیت کو پھڑتے وقت کہا گیا وہ جملہ کہ میری ول اب کتابوں لکھی جائے گی ،خود کو سچ ثابت کرتے ہوئے آج بھی بھٹو صاحب کو کتابوں اور لوگوں کے دلوں میں انکو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اپنے مربین اور محسنین کی قدر اور یاد آوری ،یہ نہ صرف ایک خصلت حسنہ ہے بلکہ ایک طرح کی انکو خراج تحسین بھی پیش کرنا ہے۔ احمد جاوید صاحب اس روایت کو بخوبی نبھاتے ہیں۔سلیم احمد صاحب اور انکے استاد احمد عسکری صاحب جنہیں وہ اپنے فکری سفر کے بانی تصور کرتے ہیں کے ذکر کے بغیر انکی کوئ بھی نشست اور گفتگو مکمل نہیں ہوتی۔اس پر اسلوب اور علمی مجلس کا اختتامیہ بھی جاوید صاحب کے اساتذہ کے بیج بدقسمتی سے بھٹو صاحب کی ہی بنیاد پر ،فراق کا سبب مگر ایک نظری سیاست کے دلچسپ واقع سے ہوا۔ کہتے ہیں کہ عسکری صاحب سلیم احمد کے استاد تھے اور سلیم احمد انکے آگے ایسے ہی تھے جیسے کوئ مرید اپنے پیر کے سامنے ہوتا ہے۔میں نے ایسی استادی شاگردی نہیں دیکھی۔مگر بد قسمتی سے زندگی کے آخر ایام میں انکے سلیم احمد سے تعلقات میں تلخی اور ناہمواری آگئ۔احمد عسکری صاحب بھٹو صاحب کے اس قدر قائل اور دلدادہ تھے کہ جب وہ کراچی آتے تو ائیر پورٹ پر انکے استقبال کو چلے جاتے۔جبکہ دوسری طرف سلیم احمد جماعت اسالمی کے پرچے جسارت میں لکھتے تھے اور عسکری صاحب موالنا مودودی صاحب اور جماعت اسالمی کے سخت مخالفین میں سے تھے۔دونوں صاحبان میں یہ وجہ انقطاع بنی۔ حتی کہ علما کے اس فتوے میں کہ اسالمی سوشلزم حرام ہے پر مفتی شفیع محمد صاحب کے بھی دستخط تھے جنکے ساتھ عسکری صاحب کی بڑی عقیدت مندی تھی ،بھٹو کے نام پر ان سے بھی مقاطع ہو گیا۔ ہم نظریات اور مسالک کے افراط کے ایک انتہائ متصادم دور میں جی رہے ہیں۔جہاں ہمیں مذہب و نظریات کی راست تشکیل میں سخت اضطراب کا سامناہے۔ایسی ایک صورت غامدی صاحب کے معاملہ میں ہے۔غامدی صاحب بھی اب ایک شخصیت سے نکل کر ایک مکتبہء فکر بن چکے ہیں جو بلخصوص پڑھے لکھے طبقہ میں زیادہ رجحان پا رہا ہے۔ احمد جاوید صاحب غامدیت کے نقطہ کو اپنے ایک برخوردار سے منقول جملے سے بڑے احسن انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ، اگر حسرت موہانی کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حسرت پہلے مسلمان تھے پھر لبرل تھے ،اور غامدی صاحب کو پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلے لبرل ہیں اور پھر مسلمان ہیں۔ نشست ایک معقول دورانیہ رکھنے کے باوجود حسب سابق تشنہ ہی رہی۔ہم حاضرین کی عطش علم میں تشنہ لبی ،سبک عیاں ہے۔نشست بر خاست ہوتی ہے ۔اہل علم و قلم کی ایک نئ مجلس کی امید پر اور دانش قارئین کے لئے کسی اور موقع پر کہے گئے احمد جاوید صاحب کے اس خوبصورت ناصح پیغام کے ساتھ کہ ، مطالعے کا تسلسل آپکی فکر میں دو طرح کی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے ،ایک یہ کہ اسکی تکمیل کرتا ہے ۔تکمیل کا عمل بعض اجزا کو چھوڑنے اور بعض نئے اجزا کو اختیار کرنے سے ہوتا ہے،یہ بنیادی تبدیلی تو نہیں ہوتی یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے آپ کے الگ خیال کی پرانی دلیلیں رد ہو جائیں اور کئ نئ دلیلیں حاصل ہو جائیں ۔بعض اوقات تبدیلی یوں بھی آتی ہے کہ آپکے بنیادی تصورات بدل جاتے ہیں ۔یہ دوسری تبدیلی ہوتی ہے۔