You are on page 1of 9

‫‪Part one‬‬

‫احمد جاوید صاحب۔ میرا فکری سفر۔‬


‫ممتاز دانشور ‪،‬احمد جاوید صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں‪،‬ایک سال قبل اسالم آباد میں وہ نشست‬
‫جو مجھے یاد پڑتا ہے‪،‬کم و بیش تین ساعتوں پر مشتمل رہی تھی۔جو اس نابغہء روزگارء جاوید کی"‬
‫داستان حیات" سننے کے لئے کافی بھی کیسے ہوسکتا تھا۔ تشنگی اتنی زیادہ تھی کہ حاضرین کی شدت‬
‫عطش ایسی ہی ایک اور نشست کی طالب تھی۔اس سلسلے کی اس دوسری خصوصی پر حکمت نشست‬
‫کا مطلوب اور یقینی اہتمام کیا گیا‪ ،‬چونکہ اس بار اس نشست کا اہتمام "دانشں پی کے " کے فورم سے‬
‫کیا گیا تھا ۔تو یہ یقینا نا انصافی ہو گی دانش کے قارئین کے ساتھ اگر اس نشت کو دانش کے قارئیں کے‬
‫لیئے قلمی شکل میں پیش نہ کیا جائے۔مالحظہ کیجئے جاوید احمد صاحب کی زبانی انکے فکری سفر‬
‫کی دانش و حکمت سے پر کہانی۔‬
‫بسم ہللا الرحمن الرحیم۔‬
‫جناب جس طرح مفلس کو جیب جھاڑنے سے شرم آتی ہےاسی طرح مجھے زندگی کواپنے حوالے سے‬
‫دیکھنے سے جھجھک محسوس ہوتی ہے۔ میری نظرمیں یہ سب سے مشکل اورناگواربات ہے کہ میں‬
‫اپنے بارے میں گفتگو کروں۔اور پھر یہ کوئی روحانی مرتبہ وغیرہ نہیں ہے۔یہ نفس کے اندر اپنی ایک‬
‫شدید اورمسلسل بےاطمینانی ہےجو اپنی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی۔تو یوں سمجھیں کہ اس خادم نے‬
‫زندگی اس آنکھ کی طرح گزاری ہے جس نے بہت کچھ دیکھا مگر کبھی خود کو نہیں دیکھا۔بڑے لوگ‬
‫کہتےہیں کہ انا کی توثیق غیاب کے اصول پر ہے حضورپر نہیں۔جتنا من اوجھل رہے گا اتنا وسعت‬
‫پکڑتا جائیگا۔ تو! "میں " کی دومنزلیں ہیں یا تو" تُو"میں ضم ہوجائے تو ایک متوسل توسیع حاصل‬
‫ہوتی ہے۔ اور اگر تُو میں خود کو فنا کرلے تو ایک آئیڈیل وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ تو زندگی اسی طرح‬
‫گزری ہے کہ "بےبضارتی" کے باوجودمن کو کم از کم تُو میں ڈھال لیں۔تا کہ اُن کے سانچےمیں‬
‫ڈھلنے کی کچھ قابلیت اور مزاج پیدا ہوجائے۔‬
‫میری زندگی اصل میں میرے محسنوں کا تذکرہ ہےجس میں کہیں کہیں صرف ان کے احسان کی شدت‬
‫کو بیان کرنےاور سمجھنے کے لیے میرا حوالہ آسکتا ہے‪،‬لیکن میں نے زندگی کبھی اپنے اندر نہیں‬
‫داستان حیات کا کوئی معروف پہلو نہیں ہے اس کےلیے‬‫ِ‬ ‫گزاری۔اپنے استادوں میں گزاری ہے اس میں‬
‫میں معذور ہوں۔لیکن ایک ایسی فضا میں بڑائی کو ایک مانوس شئے کی طرح متعارف کروانےکا میں‬
‫ایک ٹوٹا پھوٹا زریعہ بن سکتا ہوں۔ جہاں رینگنا"‪،‬فضیلت کی بات بن چکا ہے۔ہم نے زندگی کو بائیولیول‬
‫پر گزارنے کی جتنی جدوجہد کی ہے اسکی ہم اسکے عالہ شائد ہی کوئ اور تعریف کرنے کے مجاز‬
‫رہ گئے ہیں ‪ ،‬کہ اب جتنا ہم انسانیت سے تنزل کرتے جائیں گےاتنا ہی خود کو گویا ترقی کے عالم میں‬
‫دیکھنے کی ایک "خوش فہمی" پاتےجائیں گے۔ مطلب یہ وقت بھی آنا تھا کہ گرنے کو اٹھنا کہا جائے‬
‫اٹھنے کو حماقت گنا جائےتو اب ترقی کا جو سارا فلسفہ ہے تنزل کی مداحی اور طلب پر ہے۔ایسے‬
‫ماحول میں اگر کچھ لوگ اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے‪ ،‬اونچائیوں پر سکونت رکھتے تھےاور گرے‬
‫ہووں کو بھی بلندی کے تجربے کے احوال میں رکھتے تھے‪،‬اگر ان سے ہم قدرے مانوس بھی ہوجائیں‪،‬‬
‫توامید ہے کہ ہمارے اندر ایسا عنصر داخل ہوجائے جس کی بنیاد پر ہمیں اپنے آدمی ہونے کا ایک‬
‫تجربہ میسر آسکے یا آدمی بننے کی تمنا ہمارے سروں میں سراٹھا سکے۔‬
‫پچھلی مرتبہ میں نےجن سولہ برسوں کا زکر کیا تھا اس میں ہم سلیم احمد تک پہنچے تھے اور سلیم‬
‫احمد تو یوں لگتا ہے جیسےجب ان سے نہیں ملے تھےتو ان سے ملنے کے سفر میں تھےاور جب ان‬
‫سے مل گئے تو زندگی ایسا دائرہ بن گئی جس کا وہ مرکز تھے۔ میری زندگی میں جتنے تعلقات ہیں اور‬
‫جتنے علمی و فکری (ویسے تو ہمارے بےفکری کے تجربات ہیں)تجربات ہیں زندگی کے جتنے‬
‫زائقےہیں اور میرا اپنے بارے میں جو تصور ہے اس کی تشکیل میں سب سے بنیادی کردار سلیم احمد‬
‫ہیں۔میں اپنے زہن میں سلیم بھائی کے بغیر نہیں ا سکتا۔ اور میرے تمام تعلقات کی ایک شرط تھی کہ‬
‫وج ِہ تعلق سلیم احمد ہونا چاہیے۔تو ان کا محبوب ہمارا محبوب تھا ان کا ناپسندیدہ ہمارا ناپسندیدہ تھا۔‬
‫اور یہ عالم تھا کہ جتنا وہ ہمیں ناپسند کرتےتھے اتنا ہی ہم اپنے لیے بھی ناپسندیدہ ہوجاتے تھے۔‬
‫پہلے قدم پر میں یہ عرض کروں گا کہ سولہ برس کی عمر تک بننے والے کچھ مسلمات ہوتےہیں جس‬
‫میں تیقن کا پہلو مبالغے کی حد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔کیوں کہ ورجن پرسیپشن ہوتی ہے وہ کسی‬
‫‪ Dialectical process‬سے زہن میں خیال نہیں جمتا بلکہ وہ ایک ان گھڑ اور غیر تربیت یافتہ ہوتی‬
‫ہےاور زہن کو گویا احساس کے نظام پر چالتی ہے۔ اُس عمر میں شدت بربنائے لذت ہوتی ہے۔ ایسے‬
‫میں ہم بھی اسی درے پر تھےہمارا بھی ایک زوق بن جاتا تھا اور پسند نا پسند پیدا ہوجاتی تھی اور عام‬
‫طور پر وہ مدلل نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ پسند نا پسند کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوتی تھی بلکہ دلیل کی‬
‫بنیاد بن جاتی تھی۔ میں اسے بہت ہی ہیومن عمل سمجھتا ہوں کہ انسان کے کچھ بنیادی تصورات و‬
‫تخیالت ہر زہن میں ایسے ہونے چاہییں جو دلیل کی پروڈکٹ نہ ہوں بلکہ دلیل کا ‪ Origin‬ہوں۔ اس طرح‬
‫کے تصورات کے حاضر ہوئے بغیرزہن اپنی نشونما کے مراحل طے نہیں کرسکتا۔تو اس عمر میں‬
‫ایک ‪ Romantically idealistic‬زہن ہوتا ہے۔ وہ ہمارا بھی تھا اور شدت زرا زیادہ تھی۔۔ تو شدت‬
‫حس تعلق قوی ہو‪ ،‬اس کے‬ ‫حس تعلق قوی تھی۔ اور جس کے اندر یہ ِ‬ ‫کے اسباب زیادہ تھے۔ میرے اندر ِ‬
‫زہن میں جو تصورات چلتے ہیں وہ جیسے ایک دوام سا پاجاتےہیں۔ ان میں عارضی پن نہیں ہوتا۔‬
‫تومیرا زہن اس طرح کا تھا کہ چیزیں محبوب بن کر زہن پر قابض ہوتی تھیں۔ میرے محبت کے عمل‬
‫میں متوازی پن نہیں تھا کہ زہن اس عمل سے غیر حاضر رہے دل مشغول ہوجائے‪،‬یا کہ محبت کوئی‬
‫جذباتی یا کیفیاتی عمل ہے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ زہن اور قلب دونوں رسپانڈ کرتےتھے اور دونوں‬
‫میں سے بعد میں امیتاز ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ زہن میں جتنی بھی چیزیں تھیں وہ دل کی سٹیمپڈ تھیں۔ الحمدہلل‬
‫مہر تصدیق نہ لگی‬ ‫میرے زہن میں اج تک ایسی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ٹکتی نہیں ہے جس پر دل کی ِ‬
‫ہو۔ تو میرے جو اس عمرمیں مسلمات تھے میں ان کو اپنے ہم عمروں میں ایک دعوے کی طرح پیش‬
‫کرتا تھا‬
‫اب یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر تھوڑا بہت بولنا آتا ہوتو زبان کا کانٹینٹ زہن کے کانٹینٹ سے ہمیشہ زیادہ‬
‫ہوتا ہے۔یعنی اظہار کا جو کانٹینٹ ہے وہ ادراک سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے خاص کر ہم جیسے جو جعلی‬
‫لوگ ہیں۔۔ نوجوانی چونکہ مائل بہ اظہار زیادہ ہوتی ہےادراک کے عمل سے اسے اتنا انس نہیں ہوتا‬
‫کیوں کہ اسےادراک کا کچھ کرنا نہیں ہوتا نا۔ اظہار کے نتائج فوری نکلتے ہیں اور وہ انھی میں منہمک‬
‫ہوتا ہے۔ تو خاموشی کی قدر نہیں تھی۔ تو اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر فلسفہ طرازی میں ڈھال‬
‫دیتےتھے۔ اور وہ صرف ایک غیر متکبرانہ خودنمائی کے لیےہوتا تھا۔وہ خودنمائی تو تھی مگر بچگانہ‬
‫سی تھی۔ میں اپنے لیے کوئی کلیم نہیں تھا۔ تو جہاں تصورات خود نمائی کا بھی زریعہ بن جائیں تو ان‬
‫تصورات پر تیقن اور بھی بڑھ جاتا ہے کیوں کہ اس میں اپ خود شامل ہوجاتےہیں۔ تو میں جس چیز‬
‫میں جتنا خود شامل ہوجاوں گا‪ .‬اس پر میں اپنے یقین کی حفاظت کروں گا ماورائے دلیل حالت میں یا ہر‬
‫لمحے دلیل بناتے رہنے کا عمل کرتارہوں گا۔ یہ بہت ضروری ہے کیوں کہ تشکیک کا عمل زہن کی‬
‫ابتدا میں سراٹھا لے تو زہن غارت ہوجاتا ہے۔زہن کا مستقبل ختم ہوجاتا ہے۔تشکیک اور تیقن کی‬
‫متوازیت زہن کے لیے مفید ہے لیکن تیقن کا تشکیک میں بدلنا پھر تشکیک کو تیقن مین ڈھالنے کی جو‬
‫ایکسرسائز ہےیہ ہر طرح کے زہن کے لیےمضر ہے۔کیوں کہ اس طرح زہن خود اس سے ایک‬
‫بےزاری والی مغائرت پیدا کرلیتا ہے۔تو اسے خود جتنا ُجڑارہنے کی ضرورت ہوتی ہےیعنی خود پر‬
‫جو ایک اعتماد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔‬
‫یہ باتیں میں اس لیے کررہا ہوں کہ شاید کسی طالب علم کے کام اجائیں۔ اپ کو ان مسلمات میں سے‬
‫کچھ گنواتا ہوں جو سلیم احمد نے ایک نگا ِہ غلط انداز سے زمین بوس اورزہن بدر اور دل کے لیے‬
‫وحشت انگیز بنا دیے۔ وہ ادمی کیا ہوگا جو ایک منٹ کی گفتگو کر کے اپ کی جو وجودی حالت‬
‫(‪) Existential conditions‬کو بدل دے۔ کیوں کہ زہن اس عمر میں ایگزیسٹنشئل کنڈیشن کا حصہ‬
‫ہوتاہے۔ اور وہاں تو ہر خیال موجود ہونے کی ایک حالت ہوتی ہے نا۔ تو ہمارے زہن میں بھی خیاالت‬
‫موجود ہونے کے تجربات تھے۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان خیاالت کی تاریخ یہ ہے لفظ کی حقیقت یہ ہے۔‬
‫لیکن بس خیال کے ساتھ عینیت پیدا کر لی۔ پھر آپ کیا کہیں گے اگر ‪ ،‬اب اس طرح کا کوئی بھی آدمی‬
‫مجھے میرے موجود ہونےکے ان احوال سے مجھے منحرف کردے جن احوال کو میں بہت زیادہ حقیقی‬
‫ٰ‬
‫تقریبا ناممکن کام ہے‪،‬تو میرے لئے تو وہ سلیم احمد ہی تھے۔‬ ‫جاننے کا عادی ہوچکا ہوں۔ مطلب‬
‫تو ان میں سے کچھ مسلمات اور دعوے آپکے سامنے عرض کرتا ہوں۔‬
‫اس دعا کے ساتھ کہ اپ کے دل میں بھی ہللا سلیم احمد کی محبت ڈال دے۔‬
‫میری جو تاز ِہ طبع یا زہنی میالن تھا وہ شاعری اور تصوف کی طرف تھا مطلب جو ڈاکرنل تصوف‬
‫ہوتا ہے اور زوق بھی اسی پہ بنا ۔ اس کا مجھے زیادہ فائدہ تو نہیں ہوا مگر جو شخص سنجیدگی سے‬
‫اس شاعری اور تصوف کے مرکب کو اپنا لےتواس میں حق اور جمال کی ‪ Identity‬کا شعور چاہے‬
‫ڈویلپ نہ ہوزوق ضرور پیدا ہوجاتاہے اور جس کی ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے۔تو سولہ برس کی عمر‬
‫میں مال جال رجحان اور اس تصوف وغیرہ اور ابن عربی کو پڑھنا یا تو دماغ کی خرابی ہے یا طلب کی‬
‫سچائی ہے۔ تیسرا اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہے‪،‬۔ تو مجھے یاد ہے عبدالکریم الجیجی کو اور ابن عربی کو‬
‫میں ایک نشست میں ستر ستر صفحے پڑھ لیتا تھا اور اس گمان سے(گمان تو اب کہہ رہا ہوں)ایک‬
‫سمجھ لینے سے بھی بلند تر تجربےکے ساتھ۔ ایک حضوری کے ساتھ۔ سمجھ تو ظاہر ہے اب بھی نہیں‬
‫آتی تواس وقت خاک آنی تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے معنی زہن کو بائ پاس کر کےمنتقلی کے ایک‬
‫عمل کو وجودی انداز میں کررہے ہیں یہ ابن عربی کا میرا ایک ابتدائی تجربہ ہے۔ تو اس طرح کا زہن‬
‫تھا۔ تو اس میں میرایک بڑا جو مسلمہ دعوی‪ ،‬جو اس سارے زوق سے ہی متصادم تھا یا کسی وجہ سے‬
‫بن گیا تھا وہ یہ تھا کہ جوش بہت بڑے شاعر ہیں اور میں اس پر لوگوں سے گرما گرم بحثییں کرتا تھا‬
‫اور سلیم بھائی کے جو حلقے والے تھے وہ کبھی مجھ سے دب بھی جاتے تھے جسے آپ چرب زبانی‬
‫سی کہہ سکتےہیں یا یہ کہہ لیں کہ بھاڑ میں جاو۔ بحرحال جو بھی تھا لوگ دب جاتے اور میں سمجھتا‬
‫کہ جوش واقعی بڑے شاعر ہیں اور لوگ اس بات پر قائل بھی ہورہے ہیں۔تو ایک دن کسی سینیر آدمی‬
‫نے غالبا جمال پانی پتی صاحب نے (جمال پانی پتی اور جناب اطہر نفیس صاحب سلیم احمد کے قریب‬
‫ترین دوست تھے) سلیم احمد سے شکائت کی کہ یہ جوش کو بڑا شاعر کہتا ہے اور اگر کوئی جوش کو‬
‫اتنا بڑا نہ مانے جتنا یہ سمجھتا ہے تویہ لڑنے لگتا ہے‬
‫تواب ر ِد دلیل ایک محبانہ لڑائی کے سوا ممکن نہیں ہے۔ فلفس ِہ تعلق میں دلیل کا رد دلیل سے محاالت‬
‫میں سے ہے۔ تو جب انھوں نے شکائت کی تو سلیم احمد صاحب نے جب لوگ رخصت ہورہے تھے تو‬
‫کہا کہ تم زرا رکو۔ میں ٹھہرا تو انھوں نے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ تم کیا یہ بکتے رہتے ہو۔ ’اب‬
‫یہاں سے جملہ شروع ہوا ہے‘ کہ بیسویں صدی کے دوتین سب سے بڑے شاعروں میں جوش بھی ہیں‬
‫(میں اب نام بس شرم کی وجہ سے نہیں لےرہا کہ کس کے مقابلے میں جوش کو بڑاشاعر کہتا تھا) تم‬
‫اُس سے بھی بڑا شاعر مانتے ہو جوش کو؟ میں نے کہا جی مانتا ہوں۔ لیکن جب انھوں نے بکنے اور‬
‫بکواس جیسےصیغے استعمال کیے تو دبی دبی آواز میں جیسے شرمندگی سےعرض کیا جیسے آج‬
‫کوئی اپنا مرض تسلیم کرتا ہے توآپ دیکھیں کہ انھوں نےپہلے فقرے میں ہی مجھ سے کہ جس کو تم‬
‫اپنی طاقت سمجھ رہے ہو وہ اصل میں تمہارا مرض ہے۔ تومیں نے مریض کی طرح شرمندگی سے کہا‬
‫کہ جی یہی سمجھتا ہوں۔ تو انھوں نے دومنٹ کی صرف گفتگو کی(اندازہ کہہ رہا ہوں) اور جس بات پر‬
‫مجھے غرہ تھا کہ اس پہلو سے جوش کے مقابلے پراردو روائت میں کوئی شاعر نہیں ہیں وہ تھا الفاظ‬
‫پر قدرت۔ انھوں نے کہا کہ جوش جو چیزیں افسوسناک حد تک نہیں جانتے وہ زبان ہے۔ میں بالکل ہی‬
‫سٹپٹا گیا تو انھوں نے اقبال کا ایک شعر عقل پر پڑھا اور ایک شعر جوش کا پڑھا جو کہ ہم مضمون‬
‫شعر تھا۔ اور کہا کہ جوش کی عقل جو ہے وہ بےعقلی کی فضا میں پیدا ہونے واال ایک عارضی پودا‬
‫ہے اور دیکھو اقبال نے عقل کو کیا کہا ہے۔ محض دومنٹز میں انھوں نے بتا دیا کہ شاعر کی لفظوں پر‬
‫جو قدرت ہوتی ہے وہ لفظوں کی ریل گاڑی چالنے پر نہیں ہوتی ۔ لفظ پر قدرت لفظ کی گہرائی کو‬
‫ایکپسپلور کرنےکا نام ہے۔ تو تم بتاو کہ کون سالفظ جوش نے گہرائی کے ساتھ استعمال کیا؟ اب یہ کہ‬
‫تیسرے منٹ میں اُسی قطعیت سے ناپسندیدہ شاعر جوش سے بڑھ کرنہیں رہ گیا جس قطعیت سے وہ‬
‫انتہائی پسندیدہ شاعر تھا۔ اور میں نے اس کا بھی عالج ان سے کروایا کہ جوش ناپسندیدہ شاعر نہیں ہیں‬
‫وہ بہت اہم شاعر ہیں۔ کچھ باتیں بھی بتائیں جیسے ایک مصرعہ انھوں نے بتایا‪ ،‬وہ کبھی نہیں بھولے گا۔‬
‫کہا کہ دیکھو جوش کے تمام دیوان کے لیے یہ مصرعہ بیج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں جوش کی‬
‫ساری انفرادیت اور شاعرانہ خواص یکجا ہوگئے ہیں۔ کہ"" اہ کو دے کے گرہ حرف بنا دیتا ہوں""۔ اب‬
‫سلیم احمد نے صرف یہ مصرعہ سنایا کوئی آگے پیچھے نہیں۔ اب جو آدمی یہ مصرعہ کہہ سکتا ہے‬
‫سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کا شاعر ہونا ثابت ہوگیا اور اس مصرعے میں ایسی ندرت اور انفرادیت‬
‫ہے اور سبجیکٹ کو بہت ابجیکٹیفائی کرنے والی ایک لہر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شاعر کسی‬
‫معمولی شاعر کی طرح اچھا شاعر نہیں ہے ‪ ،‬یہ اہم شاعروں کی طرح اچھا شاعر ہے۔‬
‫‪Part two‬‬
‫جیسا کہ سولہ سترہ برس کی عمر تک اظہار ادراک‬
‫پر غالب رہا تھا‪،‬ان ایام میں سلیم صاحب کیسے زہن پر غالب خیال مغلوب اور عدیم خیال کو وجود دے‬
‫دیاکرتے تھے ‪ ،‬میرا ایک تصور یہ تھا کہ کہ غالب میرسےبڑے شاعر ہیں۔اچھا وہ زمانہ بھی ایسا تھا‬
‫کہ میراور غالب پر ادیبوں میں بہت مناظرےہوا کرتے تھے۔ایک زمانے تک یہ خاص موضوع ہوا کرتا‬
‫تھا۔تو یہ وہی زمانہ تھا۔تو اس پر سلیم احمد نے صرف پانچ منٹ کی گفتگو کی۔ یہ گفتگو مجمے میں‬
‫ہوئی مگر بغیر جتائے ہوئے مخاطب میں تھا۔تو پانچ منٹ کی گفتگو میں گویا انھوں نے ایمان باالہشود‬
‫کے درجے تک پہنچا دیا کہ میر غالب سے بہت بڑے شاعر ہیں‪،‬اس کی ایک مثال ہے۔تو شاعرانہ پہلو‬
‫سے اس طرح کے اور کئی واقعات ہیں جو آگے چل کےپیش آئے۔‬
‫اب سلیم احمد کوئی عملی صوفی نہیں تھے۔ وہ تصوف کی علمی جہت پر بہت قدرت رکھتے تھے۔‬
‫مطلب وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ تصوف میرے احوال اور تجربات کا ماخذ ہے۔تو ایک مرتبہ میرے ساتھ‬
‫ایک واقعہ ہوا(بےتکلفی سے کہوں تو کوئی بڑا عرفانی مشاہدہ ہوگیا بہت زیادہ کہ جیسے ہللا کو دیکھ‬
‫ہی لیا)اب اس کا ایک نشہ ایک سرشاری‪ ،‬نماز جمعے کی بھی نہیں پڑھتے تھے۔یہ کہ جیسے ہم عارف‬
‫بن گئے وہ شاہد بن گئےاور اصول االہلل کا راستہ ختم ہوگیا اب منزلیں شروع ہوگئ ہیں۔ مطلب وہ تجربہ‬
‫مسلط ہوگیا تھا نا۔ تو میں عجیب طرح کے خال میں رہنا شروع ہوگیا اور یوں لگتا تھاکہ جو بولتے ہوئے‬
‫اساس تعلق بنا‬
‫ِ‬ ‫مدارگفتگو اور‬
‫سنتا۔خاموشی کو ِ‬ ‫لوگ ہیں انکی خاموشی میں سنتا ہوں ان کی آواز نہیں ُ‬
‫لیتا ہوں یا یہ کہہ لیں کہ بن گئ۔ تو جب اس حالت کے کچھ آثار عمل میں رویوں میں ظاہر ہوئےتو سلیم‬
‫احمد نے کہا کہ یار زرا نہاری کھا کے آتےہیں۔اب سلیم احمد کا مزاج ہی نہیں تھا کہ نہاری کھانے چلیں‬
‫وہ زیادہ تر یہی کہتے کہ چائے پینے چلتےہیں۔مجھے بھی عجیب لگا کہ یہ نہاری کھانے کا کیا قصہ‬
‫ہے۔ اور نہاری کے ہوٹل تک پہنچے پہنچتے وہ مجھے ایک پسندیدہ بےہوشی سےایک مرغوب‬
‫ہوشیاری تک لے آئے۔ایک دم سے جیسے وہ گرد جسے میں جنت الفردوس کی زمین پر اگنے والے‬
‫ت وصل بنائے ہوئے تھا۔اس کو انھوں نےجیسے چولستان کے‬ ‫پھولوں کی پنکھڑیوں کی طرح اپنی خلع ِ‬
‫صحرا میں اڑنے والی ریت بنا دیا۔کہا کہ دماغ زیادہ خراب ہوگیا ہے؟خود موصوف نماز وغیرہ کی‬
‫طرف زرا ڈھیلے تھے۔ مگر مجھ سے کہا کہ جمعہ پڑھتے نہیں ہو اور واصل باہلل ہوگئے ہو؟ اس خبط‬
‫میں مبتال ہو۔ تو نہاری میں نے پھر ایک آدمی کی طرح کھائی۔کسی بزرگ کی طرح نہیں۔‬
‫نظام تعلق سلیم احمد کی اساس پہ بن گیا تھا۔ وہ جیسے ہمارے لیے ہمالہ سے نکلنے واال‬
‫ِ‬ ‫تو ہمارا سارا‬
‫چشمہ تھے جس سے ہمارے تعلق کی نہریں نکلتی تھیں۔ ایک عادت پڑگئی تھی کہ جس بات میں سلیم‬
‫احمد کاحوالہ نہیں ہے وہ نہ علمی سطح پر قاب ِل قبول ہے نہ زوقی سطح پہ اور نہ وہ آدمی ہمیں مرغوب‬
‫ہے۔ یہ تھی تو ایک جذباتی بات مگر یہ ایسے جذبات ہیں جن سے مجھے آج بھی محبت ہے۔‬
‫اب سلیم احمد کے قریب کے دو تین آدمیوں کا تذکرہ کردوں پھر سلیم احمد سے ملنے کا جو مقص ِد اعظم‬
‫تھا‪،‬تکوینی دور پر ہوگا‪ ،‬وہ کسیے حاصل ہوا وہ بھی عرض کرتا ہوں۔۔ مجھے لگتا ہے سلیم احمد سے‬
‫ملنا ہی اس لیے ہوا تھا کہ موالنا ایوب صاحب سے نسبت ہوسکے۔‬
‫سلیم احمد بہت اختالف پسند تھے۔ اکساتے رہتے تھے کہ فالں بات سے اختالف کرو اب میں کہاں سے‬
‫کروں۔ لیکن ان کو جیسے بُرا لگتا تھا کہ لوگ ہاں ہاں کرتے رہیں۔ ان کے دوستوں میں دو طرح کے‬
‫لوگ تھے۔ ایک وہ جو ان سے محبت اور اتباع کا تعلق رکھتے تھے۔دوسرے ان سے محبت اور اختالف‬
‫کا تعلق رکھتے تھے۔ تو جو لوگ پہلے تعلق میں تھےاطہر نفیس اور جمال پانی پتی تھے۔ یہ بہت ہی‬
‫زبردست شخصیتیں تھیں۔ اطہر نیفس کو دیکھ کر امیرخسرو کو دیکھنے کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔اور‬
‫جمال پانی پتی میں محبت بہت زمہ داری کے ساتھ تھی جذباتی رنگ میں نہیں تھی۔اور بہت علمیت‬
‫ق مطلق۔ یہ سلیم احمد کو سلیم خاں‬ ‫شاعر محض تھے اور عاش ِ‬ ‫ِ‬ ‫رکھنے والے آدمی تھے۔اطہر نفیس‬
‫کہتے تھے اور ہم عمر تھے۔ لیکن سلیم احمد ان سے جیسی محبت کرتے تھے وہ محبت ناقاب ِل یقین ہے۔‬
‫جمال پانی پتی فارسی شاعری کا بہت عمدہ زوق رکھتے تھے اور بہت اچھے ترنم کے ساتھ پرانے‬
‫شاعروں کے شعرسناتے تھے بلکہ محمد حسن عسکری ان کو بالتے تھے کہ حافظ کی غزل سنا دو یا‬
‫عرفی کی غزل سنا دو۔ اور سلیم بھائی کے حلقے میں جمال پانی پتی واحد آدمی تھے جن کو محمد حسن‬
‫عسکری پسند کرتے تھے۔ محمد حسن عسکری کا سلیم احمد کے حقلے میں جمال پانی پتی کے عالوہ‬
‫فرض عین تھا۔۔ سلیم بھائی کو بھی‬ ‫ِ‬ ‫ہر شخص سے نفرت کرنا اس کی تحقیر کرنا ان کی سرشت میں‬
‫ڈانٹتے رہتے تھے کہ کیا لڑکوں کو بٹھائے رہتے ہو اور یہ وہ۔اگر سلیم احمد کا حوالہ آجائے تو ان کو‬
‫ناراض کرنے کا شارٹ کٹ یہ تھا کہ میں سلیم بھائی کی مجسلوں میں بیٹھتا ہوں۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ‬
‫ہم سلیم بھائی کو خراب کررہے ہیں۔ ان کو کام نہیں کرنے دیتے۔مگر حسن عسکری کو پسند کرتے‬
‫تھے۔‬
‫ہاکس بے پر استاد بندو خان اور جمال پانی پتی کو لے کے جایا کرتےتھے۔ جمال پانی پتی کا مجھ پر یہ‬
‫احسان ہےکہ فارسی شعری روائت سےمیرے اندر مناسبت انھوں نے پیدا کی۔ اگر میں ان سے نہ ملتا‬
‫تو یا تو فارسی شاعری کا زوق میرے اندر نہ پیدا ہوتا یا اس میں بہت تاخیر ہوجاتی۔‬
‫دوسرا حلقہ تھا جو دوستوں کی تعریف پر پورااترتےتھےلیکن اختالف بھی اعالنیہ کرتے تھے ان میں‬
‫سب سے اہم آدمی تھے قمر جمیل صاحب۔ تو قمر جمیل سے میرا تعلق کم و بیش ویسا ہی ہوگیا جیسا‬
‫سلیم احمد سے تھا۔ مطلب سارا ساراوقت ان کے ساتھ رہنا۔ اوران کو معلوم تھا کہ سلیم احمد سے میرا‬
‫جیسا تعلق اور شدت تھی اور وہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ مطلب میں ان کی مجلس میں سلیم احمد‬
‫پرہونے والے اعتراضات کا بہت شافی جواب دیا کرتا تھا۔ایک اور دوست تھے ضمیر علی بدایونی‬
‫صاحب جدید فلسفے کا ایسا آدمی کہ جس کا زوق اور فہم کمال بلندی پر پہنچ کر ایک دوسرے میں جل‬
‫کرگیا ہو‪ ،‬ان کے ِسوا میں نے ایسا شخص کوئی نہیں دیکھا۔مطلب ۔۔۔۔۔۔۔کا تعارف مجھے ان سے ہی ہوا‬
‫اور ان کے ساتھ۔۔۔۔ پر جو جو پڑھتے تھے ۔۔۔۔ہائینسکو وغیرہ کو‪ ،‬تو مجھے اندازہ ہے کہ وہ کس‬
‫گہرائی میں پہنچ کر ان تھیمز کو نہ صرف کہ اپنے اوپر کھولتے تھے بلکہ دوسرے میں بھی وہ انسائٹ‬
‫پیدا کردیتے تھے تا کہ وہ ان سےمعنوی اور تخلیقی سطح پر لطف اندوز ہوسکے۔ تو یہ ان کا بہت‬
‫بڑااحسان ہے۔‬
‫اب میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقع کامیابی‪ ،‬سعادت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔‬
‫ایک دن ہم بیٹھے تھے تو اطہر نفیس کار لے کر آئے اور کہا کہ سلیم بھائی جلدی سے شیروانی پہن لیں‬
‫اور موالنا کہیں پہنچ نہ گئے ہوں اور ہمیں دیر نہ ہوجائے۔ میں سلیم بھائی کے ساتھ اکیال بیٹھا تھا۔تو‬
‫انھوں نے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو۔ تو موالنہ کے گھر ایک نشست تھی۔ ایک نشست تو خواص کی ہوتی‬
‫تھی۔ گھر کیا تھا دس سے زیادہ آدمیوں کے ان کے ہاں بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ ہوا یہ کہ ہم ان‬
‫کے گھر داخل ہوئے اور وہ اپنے سونے والے کمرے سے داخل ہوئے۔ اور موالنا بُرا مانتے تھے کہ وہ‬
‫بیٹھ جائیں توپھر(ان کے شاگردوں میں سے) کوئی آئے۔ ایک صاحب تھےوہاں‪ ،‬ان کے کرتے پر کتھا‬
‫لگا ہوا تھا معمولی سی ٹوپی پہنے ہوئے اور نسبتا چھوٹا قد وہ آئے تو ایسے لگا جیسے آپ کو زمانے‬
‫کے زیرو ہونے کا تجربہ ہوگیا ہو۔ یہ میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں(اُس وقت یہی عنوان میرےزہن میں‬
‫آیاتھا) کہ اگر حرکت زیروہوجائے توزمانہ غائب ہوجائگاتو ان کے آنے پر جو ایسا لگا جیسے پورا‬
‫نظام حرکت انفسی اور آفاقی دونوں دائروں میں زیروہوگیا ہے۔وہ عجیب تجربہ تھا۔ اوریہ بات جو ابھی‬ ‫ِ‬
‫عرض کی اس وقت بھی کہی تھی۔ آپ سمجھ لیں کہ ایک جاہل اور بےحس آدمی میں تجربے کا التباس‬
‫بھی پیدا کردینا کس قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تب ہمیں تو نہیں معلوم تھا کہ حرکت زیرو ہوجائے‬
‫تو زمانہ ختم ہوجاتا ہے نہ یہ معلوم تھا کہ زمانے کی ایک حرکت سبجیکٹو ہے یا دوسری حرکت ہے۔‬
‫تو یہ موالنا کا فیضان تھا کہ شعور کو بغیر تیاری کے اس کی اصل تھیم تک پہنچانے میں اوروجود کو‬
‫بھی بغیر کسی تربیت کے اس کےلیے مرکزی حال فراہم کردیا‪ ،‬اور یہ ایک لمحے کی بات ہے۔ تو‬
‫انکار ابلیس پر بہت فلسفیانہ قسم کی گفتگو فرمائی۔اور وہ ختم اس بات پرہوئی کہ‬
‫ِ‬ ‫موالنا نے اس دن‬
‫ابلیس کہتا تھا کہ میں آگ سے ہوں اور یہ مٹی سے ہے۔آگ مٹی سے افضل ہے۔۔موالنا کہتے ہیں کہ اس‬
‫سے زیادہ جہالت کی بات علم کی منتہا تک رسائی رکھتے ہوئے ممکن ہی نہیں۔جتناعلم کامل ہوتا جاتا‬
‫ہے اتنا ‪ absense‬کا عنصر کم ہوتا جاتا ہے۔ مکمل علم مکمل حضوری کا نام ہے۔ اب وہ منتہائے علم‬
‫ت جہل کا مرتکب ہوا اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔۔ اب مجھے ابلیس سے تھوڑی بہت محبت‬ ‫پر نہائ ِ‬
‫بھی تھی۔‬
‫وہ الگ غآرت ہوئی۔ مطلب اس عمرمیں انکاراقرار سے لڑے بغیر زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔انکار کی‬
‫بشرط کہ اقرار سے انحراف نہ ہو۔ تو ان معنوں میں ہمیں ابلیس میں ایک‬ ‫ِ‬ ‫کشش بہت ضروری ہے‪،‬‬
‫کشش محسوس ہوتی تھی۔۔‬
‫تو پون گھنٹے کی نشست ہوئی سلیم احمد کو انھوں نے نشست کے بعد کہا کہ بھائی تم کچھ بات کرو‪،‬‬
‫پوچھو۔اور لگ رہا تھا کہ وہ سلیم احمد کو حاضرین میں سب سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔اب‬
‫حاضرین میں علماء فضالء بھی تھے۔ سلیم احمد بیچارے اپنی سگریٹ پینے کی خواہش کو ضبط کئے‬
‫ہوئے وہ بیٹھے تھے۔ اور آپ چین سموکر تھے۔۔ تو سلیم احمد نے کہا کہ جناب میں تو سحر سے ہی‬
‫نہیں نکل رہا۔۔ موالنا کہنے لگے کہ یہ سب تم رہنے دو آج کل تم کرکیا رہے ہو؟یہ موالنا کا بہت مشہور‬
‫غالبا یہ سلیم احمد نے بھی کہیں لکھا ہے۔ اور یہ واقعہ اس دن کا ہے۔ سلیم احمد کہتے‬ ‫ٰ‬ ‫واقعہ ہے اور‬
‫ہیں کہ کچھ چیزوں پر غور کررہا ہوں۔ تو موالنا نے کہا کہ تمہیں غور کا مطلب آتا ہے؟ کہا چالیس سال‬
‫ہوگئےہیں اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ غور کیا ہوتاہے۔ موالنا نے بڑے جوش سے کہا۔ اس کے بعد‬
‫جب ہم نکلنے لگے تو موالنا نے سلیم بھائی سے پوچھا کہ یہ لڑکا پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ اب وہ ڈر گئے‬
‫کہ اس پر نہ ڈانٹ پڑجائے کہ ایک لڑکے کو کیوں لے آیا تو انھوں نےیہ کہہ کر جان چھڑائی کہ یہ‬
‫بیٹھا ہوا تھا میں لے آیا۔ خیر وہ مصافحہ کیا تومصافحہ کرتے وقت ہاتھ چھوڑ کر جب میں آگے بڑھنے‬
‫لگا تو ایسے بڑھا کہ میری پیٹھ ان کی طرف نہ ہوجیسےبندہ تھوڑا سا ترچھاہوجاتا ہے۔" چارقدم گیا ہوں‬
‫گا آگے تو پیچھے سے کہنےلگے کہ آنا نہ چھوڑنا"۔اگر زندگی میں کوئی سب سے بڑا تمغہ مال ہے تو‬
‫موالنا کا یہ فقرہ ہے یا ایک آدھ اور ہے۔سلیم بھائی جو مجھ سےآگے تھے انھوں نے بھی سن لیا۔‬
‫باہر نکل کر سلیم بھائی نے کہا یار موالنا ہربات پر نکتہ نکال دیتےہیں۔ مصیبت میں پڑگیا کہ کاہے کا‬
‫غور کررہا ہوں۔ اس طرح کی باتیں کرتے ہم چلے آئے۔ سلیم بھائی نے جب گھر پہنچ کر مجھ سے کہا‬
‫کہ دیکھو بیس پندرہ برس سےموالنا کی صحبتوں میں رہاہوں تو انھوں نے جو فرمایا کہ آتے رہنا تو تم‬
‫اس بات کا خیال رکھنا۔ کیوں کہ موالنا اس اجازت کو بھولیں گے نہیں۔‬
‫اس کے بعد موالنا کی خدمت میں اکثر سلیم بھائی کے ساتھ ہی جانا ہوتا تھا۔‬
‫رفتہ رفتہ اکیلے بھی جانا ہونے لگا۔ میں نے موالنا کو ایک برس گیارہ مہینے‬
‫تک دیکھا جس میں جو آخری مہینہ ہے جس میں چوبیس گھنٹے ان کےخادم کی حیثیت سے ان کے‬
‫ساتھ بھی رہا۔ موالنا چونکہ وضونہیں کرپاتےتھے اور بھی کچھ مسائل تھے۔ خیر موالنا ایوب دہلوی‬
‫رحمتہ ہللا علیہ جن کو ان کی‬
‫حیات میں ہی امام المتکلمین اور خاتم المحقیقین کا لقب دیا جاتا تھا۔ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا‬
‫تھا‪ ،‬اب بھی جتنا تھوڑا بہت سمجھ میں آتا ہے‪ ،‬تو میری رائے میں موالنا کے لیے ان خطابات اور‬
‫القابات کا ادنی ۔۔۔۔۔۔۔بھی نہیں ہے۔‬
‫فلسفے میں ایک مسئلہ ہے اور اگر اصطالح بدل دیں تووہ تصوف کا بھی بہت بڑامسئلہ ہے۔یعنی مسئلہ‬
‫بمعنی تھیم کہ آییڈیل ایکچوالئز کیسے ہو۔اور اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے‪ ideal dialecticism‬بنا‬
‫۔ لیکن جیسے یہ انسان شعور اور وجود کی عینیت کا نام ہے۔اور جتنا اس میں غیریت پیدا ہوتی‬
‫جائےاتنے ہی انسان ہونے کے حقائق دھندالتے جائیں گے۔۔ تو شعور کا جوہر آئیڈیا ہےاور وجود کا‬
‫ت کمال‬ ‫نظام ‪ actualization of the same idea‬ہے۔ اس بنیادپر یہ ‪ identical‬ہیں۔ شعور کو حال ِ‬
‫ت کمال میں شعور کہنا بھی درست ہے۔‪identity‬‬ ‫میں وجود کہنا یہ بھی درست ہے۔ اور وجود کو حال ِ‬
‫جب بھی دو میں ہوگی تو ان کا امیتاز حقیقی ہوتے ہوئے بھی انھیں ایک دوسرے کا عین بنا دیتا ہے۔اور‬
‫ابن عربی کو بھی سمجھنے کی ایک کنجی ہاتھ آجاتی ہے۔تصوف میں‬ ‫اس مسئلے کو اگر سمجھ لیں تو ِ‬
‫جیسے رومی کی اصطالح میں اگر ہم کہیں تو شعور خیال سے ‪ transcend‬ہوجانے کا نام ہےاوروجود‬
‫نام ہےخیال سے اس حاصل شدہ ‪ transcend‬کو اپنا حال بنالینے کا۔‬
‫یہ فارسی کا شعر ہے درستی کر لیجیے گاسر۔‬
‫(می روم سوئے جات ا لو صال‬
‫من ز تن از شو تو از خیال)‬
‫کہ اس نے اپنے تعین سے شعور کو توڑ دیا‬
‫میں نے اپنے تعین فی الوجود کو توڑدیا۔‬
‫تو موالنا اس کا مصداق تھے۔موالنا سرسے پاوں تک ‪ well actualised idea‬تھے۔ اور ایک‬
‫‪ idealised actuality‬تھے۔(امید ہے کہ یہ اصطالحیں واضح ہونگی) تو میں جذبات میں صداقت کی‬
‫بنیاد پر یہ قسم کھا سکتا ہوں(حقائق کی صحت کی بنیاد پر نہیں) کہ وہ کمال نقص ہے جو موالنا میں‬
‫نہیں پایا جاتا۔ مطلب میں نے ان کی زندگی میں وہ تمام اہم اندر باہر کے گوشے جو ہیں وہ کہہ‬
‫بلحاظ وجود اور اتنی کامل شخصیت‬‫ِ‬ ‫سکتےہیں کہ میں نے دیکھے ہیں۔تو میں نے اتنا مکمل آدمی‬
‫بااالعتبار شعور نہیں دیکھی کیوں کہ کمال مشترک تھا ان کے زہن اور زندگی میں۔ مطلب ان کا کھانا‬ ‫ِ‬
‫کھانا۔ ہم لوگوں کی فلسفیانہ ‪ activities‬سے زیادہ بامعنی تھا۔ ان کا ہنسنا ہم ایسے لوگوں کے خان ِہ کعبہ‬
‫میں رونا زیادہ رقیق القلبی کا مظہر تھا۔جیسے ہللا نے انکو کماالت کے بلڈنگ بالک سے بنایا تھا۔ نہ‬
‫علم میں کوئی ان سا دیکھا نہ اخالق میں ویسا کوئی دیکھا۔ اور اخالق میں چاہے آپ جنرل ہیومن ورژن‬
‫لیں ۔ اخالق کوان کی میٹا فیزیکل اس کی عرفانی اور روحانی اساس پر رکھ کر دیکھیں تو اس میں بھی‬
‫معلوم حقیقی تک پہنچانے کا زریعہ بن سکتا ہے۔موالنا‬ ‫ِ‬ ‫ان سے کامل آدمی نہیں دیکھا۔ مطلب ہر وہ علم‬
‫اس علم کے منتہی تھے ۔ چاہے ان میں سے بعد کی اصطالح نہ جانتے ہوں۔وہ سراپا حضور اور مستقل‬
‫غیاب تھے۔ یعنی کے یہاں غیاب اورحضور کی یکجائی کا تجربہ کیا جا سکتا تھا۔ اگر ہماری آنکھیں‬
‫کھلی ہوتیں اور ہمارے دل بیدار ہوتے تو۔اب دل ان کی یادوں سے بیدار ہوتا ہے۔ کہ ہم یہ سمجھیں کہ‬
‫غیاب و حضور ‪ substantially‬ایک ہیں۔ کہ ہللا کا غائب ہوتے ہوئے بھی قبل ِہ حضوری بن جانے کا‬
‫ایک تجربہ جیسا ان کو دیکھنے سے ہوجاتا تھا‪ ،‬ویسا دس بیس کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوتا تھا۔ ویسا‬
‫اشکال و مراقبات کرنے سے بھی نہیں ہوتا تھا۔اس طرح کی وہ شخصیت تھے۔یوں سمجھیں کہ وہ‬
‫رفعتیں بانٹتے تھے۔ گہرائیاں تقسیم کرتے تھے۔‬
‫انشاہللا میرا ارادہ ہے کہ موالنا کے جو علمی کماالت ہیں ان پر الہور جا کر ایک سیریز شروع کروں گا‬
‫بطوراصولی ان کے کیا کماالت ہیں۔ تو ہللا نے چاہا تو اپنی‬ ‫ِ‬ ‫بطور متکلم ان کے کیا کماالت ہیں اور‬
‫ِ‬ ‫کہ‬
‫بساط بھر کوشش کروں گا کہ ہمارے موالنا کا علمی مرتبہ بھی تھوڑابہت سامنے آجائے۔ اور وہ تھوڑا‬
‫بہت بھی اتنا ہوگا کہ علم کی طلب رکھنے والوں کے زہنوں کی مکمل کفالت کرسکتا ہے۔‬
‫ایک سوال۔‬
‫جاوید بھائی ایک چھوٹی سی بات یاد آرہی ہے آپ نے کہا کہ شیطان سے انکار کا ۔مسئلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو سلیم‬
‫احمد کا ایک مضمون ہے شیطان روحِ انکار؟‪ ،‬اس میں کہا کہ شیطان روح انکار نہیں ہے مگراسے‬
‫روحِ انکار سمجھا جاتا ہے۔تواس کی کیا معنویت ہے ؟‬
‫ت باری تعالی کو اپنے تجربے کی تصدیق کے ساتھ‬ ‫جواب۔ کیوں کہ جو انتہائے اقرار ہے‪ ،‬یعنی زا ِ‬
‫ماننا۔ یہ اس کو میسر تھا نا۔یعنی بال حجاب معرف اسے نصیب تھی۔ تو اس معرفت کی موجودگی کو اس‬
‫ت‬
‫سےصورتا انکار جو ہے وہ مجروح نہیں کرتا ۔یعنی کے شیطان کے انکار میں زا ِ‬ ‫ٰ‬ ‫کاکسی ایک پہلو‬
‫باری تعالی کا جو اثبات پوشیدہ ہے‪ ،‬وہ دریافت کرنے کی چیز ہے۔‬
‫‪Part three‬‬
‫‪Part four‬‬
‫احمد جاوید صاحب ۔میرا فکری سفر ۔حصہ چہارم۔‬
‫بالعموم بیک فلسفہ اور تصوف کا مطالعہ اور اس میں معقول توازن برقرار رکھنا ایک امر سہل نہیں ہو‬
‫سکتا‪،‬ہماری اس علم و دانش کی نشست کے مہمان احمد جاوید صاحب کی فکری تشکیل کے نصاب‬
‫میں جہاں ویل ڈیورنٹ کی کتاب ‪ story of philosophy‬شامل ہے تو وہیں بقول احمد جاوید صاحب‬
‫ایک عجیب و غریب کتاب "تذکرہء غوثیہ "بھی شامل رہی ہے۔اگر فلسفہ میں "مکالمات افالطون اور‬
‫کانٹ کی "‪ "critics of pure reason‬پر لکھی گئ کتب اور عزالی کی "تہافتہ الفالسفہ" اور "مقاصد‬
‫الفالسفہ" نے انکے زہن کو متاثر کیا ہے تو وہیں ابو طالب مکی کی تصوف پر لکھی گئ انتہائ مفصل‬
‫اور ضخیم کتاب "قوت القلوب " جسے امام غزالی کی قبولیت بھی حاصل ہے۔ احمد جاوید صاحب کے‬
‫تصوف کے بارے میں تصورات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‬
‫اشتیاق اور انہماک سے پر اس نشست میں ایک اہم سوال "فی زمانہ تصوف کی تعریف اور اسکا وجود‬
‫کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ پر احمد جاوید صاحب کے دو سطری جواب نے شائد ہی اس سوال‬
‫کی کوئ تشنگی چھوڑی ہو "آج تصوف کا اصل "ثابت" اور "‪" manifestation‬فاسد ہے "اس اضافے‬
‫کے ساتھ کہ پیری اور مریدی میں نفس میں پابندی کی قدر آزادی کے تجربے سے ہوتی ہے‪ ،‬اگر آ پ‬
‫نے آزادی ہی نہیں چکھی تو پابندی کیا کریں گے‪ ،‬نے تصوف کی تطہیری رمز اور نرمول صوفی‬
‫بازی میں خط فاصل کھینچ دیا ہے۔‬
‫فلسفہ اور تصوف میں توازن کی بات ہو رہی ہے تو ایک دوسری جگہ احمد جاوید صاحب کا یہ جملہ‬
‫یقینا بر محل محسوس ہوتا ہے ‪،‬کہ ہمارا جو ایمانی وجود ہے اس میں جذبہ پہلے ہے خیال بعد میں۔اگر‬
‫آپ اس ترتیب کو بدل دیں گے تو اپنے ایمانی وجود کو کمزور کر دیں گے۔‬
‫ذوالفقار علی بھٹو" جنکی شخصیت غالب نظریاتی رجحان ‪،‬سیاست اور طرز حکومت ایک ایسی بے‬
‫عملی اور عمل اور اضداد کا مجموعہ ہے کہ بات کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی صورت حال تبدیل‬
‫ہو جاتی ہے۔اسکے باوجو بھٹو صاحب پاکستان کی سیاست اور تاریخ کی ایک وہ کنٹراسٹ اور‬
‫کرشماتی شخصیت ہیں جو ‪،‬انکا پھانسی پر چڑھنے سے چند لمحے پہلے اپنی لکھی گئ وصیت کو‬
‫پھڑتے وقت کہا گیا وہ جملہ کہ میری ول اب کتابوں لکھی جائے گی‪ ،‬خود کو سچ ثابت کرتے ہوئے آج‬
‫بھی بھٹو صاحب کو کتابوں اور لوگوں کے دلوں میں انکو زندہ رکھے ہوئے ہے۔‬
‫اپنے مربین اور محسنین کی قدر اور یاد آوری ‪،‬یہ نہ صرف ایک خصلت حسنہ ہے بلکہ ایک طرح کی‬
‫انکو خراج تحسین بھی پیش کرنا ہے۔ احمد جاوید صاحب اس روایت کو بخوبی نبھاتے ہیں۔سلیم احمد‬
‫صاحب اور انکے استاد احمد عسکری صاحب جنہیں وہ اپنے فکری سفر کے بانی تصور کرتے ہیں‬
‫کے ذکر کے بغیر انکی کوئ بھی نشست اور گفتگو مکمل نہیں ہوتی۔اس پر اسلوب اور علمی مجلس کا‬
‫اختتامیہ بھی جاوید صاحب کے اساتذہ کے بیج بدقسمتی سے بھٹو صاحب کی ہی بنیاد پر ‪،‬فراق کا سبب‬
‫مگر ایک نظری سیاست کے دلچسپ واقع سے ہوا۔‬
‫کہتے ہیں کہ عسکری صاحب سلیم احمد کے استاد تھے اور سلیم احمد انکے آگے ایسے ہی تھے جیسے‬
‫کوئ مرید اپنے پیر کے سامنے ہوتا ہے۔میں نے ایسی استادی شاگردی نہیں دیکھی۔مگر بد قسمتی سے‬
‫زندگی کے آخر ایام میں انکے سلیم احمد سے تعلقات میں تلخی اور ناہمواری آگئ۔احمد عسکری صاحب‬
‫بھٹو صاحب کے اس قدر قائل اور دلدادہ تھے کہ جب وہ کراچی آتے تو ائیر پورٹ پر انکے استقبال کو‬
‫چلے جاتے۔جبکہ دوسری طرف سلیم احمد جماعت اسالمی کے پرچے جسارت میں لکھتے تھے اور‬
‫عسکری صاحب موالنا مودودی صاحب اور جماعت اسالمی کے سخت مخالفین میں سے تھے۔دونوں‬
‫صاحبان میں یہ وجہ انقطاع بنی۔ حتی کہ علما کے اس فتوے میں کہ اسالمی سوشلزم حرام ہے پر مفتی‬
‫شفیع محمد صاحب کے بھی دستخط تھے جنکے ساتھ عسکری صاحب کی بڑی عقیدت مندی تھی ‪،‬بھٹو‬
‫کے نام پر ان سے بھی مقاطع ہو گیا۔‬
‫ہم نظریات اور مسالک کے افراط کے ایک انتہائ متصادم دور میں جی رہے ہیں۔جہاں ہمیں مذہب و‬
‫نظریات کی راست تشکیل میں سخت اضطراب کا سامناہے۔ایسی ایک صورت غامدی صاحب کے‬
‫معاملہ میں ہے۔غامدی صاحب بھی اب ایک شخصیت سے نکل کر ایک مکتبہء فکر بن چکے ہیں جو‬
‫بلخصوص پڑھے لکھے طبقہ میں زیادہ رجحان پا رہا ہے۔ احمد جاوید صاحب غامدیت کے نقطہ کو‬
‫اپنے ایک برخوردار سے منقول جملے سے بڑے احسن انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ‪،‬‬
‫اگر حسرت موہانی کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حسرت پہلے مسلمان تھے پھر لبرل تھے ‪،‬اور غامدی‬
‫صاحب کو پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلے لبرل ہیں اور پھر مسلمان ہیں۔‬
‫نشست ایک معقول دورانیہ رکھنے کے باوجود حسب سابق تشنہ ہی رہی۔ہم حاضرین کی عطش علم میں‬
‫تشنہ لبی ‪،‬سبک عیاں ہے۔نشست بر خاست ہوتی ہے ۔اہل علم و قلم کی ایک نئ مجلس کی امید پر اور‬
‫دانش قارئین کے لئے کسی اور موقع پر کہے گئے احمد جاوید صاحب کے اس خوبصورت ناصح پیغام‬
‫کے ساتھ کہ ‪،‬‬
‫مطالعے کا تسلسل آپکی فکر میں دو طرح کی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے ‪،‬ایک یہ کہ اسکی تکمیل کرتا‬
‫ہے ۔تکمیل کا عمل بعض اجزا کو چھوڑنے اور بعض نئے اجزا کو اختیار کرنے سے ہوتا ہے‪،‬یہ بنیادی‬
‫تبدیلی تو نہیں ہوتی یہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے آپ کے الگ خیال کی پرانی دلیلیں رد ہو جائیں اور کئ‬
‫نئ دلیلیں حاصل ہو جائیں ۔بعض اوقات تبدیلی یوں بھی آتی ہے کہ آپکے بنیادی تصورات بدل جاتے ہیں‬
‫۔یہ دوسری تبدیلی ہوتی ہے۔‬

You might also like