You are on page 1of 66

‫سرورق‬

‫نام کتاب‪ :‬فَ ْر َحة ْالقل ْوب فِي َم ْو ِل ِد النَّ ِبي ِ ْال َم ْحب ْوب صلی هللا علیه وآله وسلم‬
‫ث مبارکہ کی روشنی میں)‬ ‫(میالد النبی ﷺ‪ :‬اَحادی ِ‬
‫تالیف ‪ :‬شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری‬
‫معاون ترجمہ و تخریج‪ :‬حافظ ظہیر اَحمد االسنادی‬
‫ِ‬
‫زیر اِہتمام ‪ :‬فرید ملت(رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ‬
‫‪www.research.com.pk‬‬
‫مطبع‪ :‬منہاج القرآن پرنٹرز‪ ،‬الہور‬

‫اشاعت نمبر ‪ :1‬جوالئی ‪2012‬ء‬


‫تعداد‪1,200 :‬‬
‫قیمت‪ -/50 :‬روپے‬

‫نوٹ‪ :‬شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تمام تصانیف اور خطبات و لیکچرز‬
‫کے ریکارڈ شدہ آڈیو‪ /‬ویڈیو کیسٹس اور ‪ CDs‬سے حاصل ہونے والی جملہ آمدنی‬
‫تحریک منہاج القرآن کے لئے وقف ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ان کی طرف سے ہمیشہ کے لئے‬
‫(ڈائریکٹر منہاج القرآن پبلیکیشنز)‬

‫منہاج القرآن پبلیکیشنز‬


‫‪365‬۔ ایم‪ ،‬ماڈل ٹاؤن الہور‪ ،‬فون‪140-140-111 42 92+ ،5168514 :‬‬
‫یوسف مارکیٹ‪ ،‬غزنی سٹریٹ‪ ،‬اردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬فون‪7237695 :‬‬
‫‪sales@minhaj.org - www.minhaj.org‬‬
‫س ِل ْم دَآ ِئ ًما اَبَدًا‬
‫ص ِل َو َ‬
‫ی َ‬ ‫َم ْو َال َ‬
‫ق ک ِل ِهم‬‫ک َخی ِْر ْالخ َْل ِ‬ ‫ع ٰلی َح ِب ْی ِب َ‬ ‫َ‬
‫سیِد ْالک َْونَی ِْن َوالثَّقَ َلی ِْن‬
‫م َح َّمد َ‬
‫َو ْالفَ ِر ْیقَی ِْن ِم ْن ع ْرب َّو ِم ْن َ‬
‫ع َجم‬
‫س ِل ْم)‬
‫ک َو َ‬
‫ار ْ‬ ‫ع ٰلی آ ِله َو ا َ ْ‬
‫ص َحابِه َو بَ ِ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلَّی هللا تَعَ ٰالی َ‬ ‫( َ‬

‫حرف آغاز‬

‫جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانا حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫ِ‬
‫وسلم کی والدت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور‬
‫صحیح بخاری کی روایت سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ایسا مبارک عمل ہے جس‬
‫سے ابو لہب جیسے کافر کو بهی فائدہ پہنچتا ہے حاالنکہ اس کی مذمت میں پوری‬
‫سورت نازل ہوئی ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اس مومن‬
‫مسلمان کی سعادت کا کیا ٹهکانا ہوگا جس کی زندگی میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔‬

‫یوم والدت کی خوشی‬


‫سرور کائنات صلی هللا علیہ وآلہ وسلم خود بهی اپنے ِ‬
‫ِ‬ ‫حضور‬
‫مناتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر باگا ِہ رب العزت میں سپاس گزار‬
‫ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکهتے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یوم‬
‫ث نعمت کا شکر بجا النا حکم خداوندی‬
‫والدت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدی ِ‬
‫تها کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجو ِد مسعود کے‬
‫تصدق اور وسیلہ سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔‬

‫جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم‬
‫ِ‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم پر درود و سالم جیسے اَہم فرائض کی طرف رغبت دالتا‬
‫صلوۃ و سالم بذات‬
‫ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ ٰ‬
‫خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور امت نے‬
‫میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجها۔‬

‫ت رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬


‫جذبہ محب ِ‬
‫ٔ‬ ‫ت طیبہ کی اَہمیت اجاگر کرنے اور‬
‫سیر ِ‬
‫جشن میالد‬
‫ِ‬ ‫کے فروغ کے لیے محف ِل میالد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے‬
‫ت سید‬
‫النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میں فضائل‪ ،‬شمائل‪ ،‬خصائل اور معجزا ِ‬
‫المرسلین صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اسو ٔہ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔‬

‫جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا ایک اَہم مقصد محبت و قر ِ‬
‫ب رسول هللا‬ ‫ِ‬
‫ت‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا حصول و فروغ اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی ذا ِ‬
‫منشاء شریعت ہے۔ چونکہ‬
‫ِ‬ ‫گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا اِحیاء ہے اور یہ اِحیاء‬
‫ت اَقدس ام ِ‬
‫ت مسلمہ کے ایمان کا‬ ‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی ذا ِ‬
‫مرکز و محور اور حقیقی اَساس ہے۔ ام ِ‬
‫ت مسلمہ کی بقا و سالمتی اور ترقی کا راز‬
‫ہی اِس اَمر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذا ِ‬
‫ت مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو اپنی‬
‫جملہ عقیدتوں‪ ،‬محبتوں اور تمناؤں کا مرکز و محور گردانے اور یہ بات قطعی طور‬
‫پر جان لے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے اِستحکام اور واسطہ کے‬
‫بغیر دنیا و آخرت میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔‬

‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کماالت کی معرفت ایمان‬
‫باہلل اور ایمان بالرسالت میں اِضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫کی تعظیم و توقیر ایمان کا پہال بنیادی تقاضا ہے اور میال ِد مصطفی صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم کے سلسلہ میں مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا‪ ،‬محاف ِل ذکر و نعت کا‬
‫تعالی کے حضور شکر گزاری کے سب‬
‫ٰ‬ ‫انعقاد کرنا اور کهانے کا اہتمام کرنا هللا‬
‫تعالی نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫ٰ‬ ‫سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ هللا‬
‫وسلم کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات و عنایات اور‬
‫احسان عظیم کو جتالیا‬
‫ِ‬ ‫تعالی نے اس‬
‫ٰ‬ ‫نوازشات کا مستحق ٹهہرایا ہے۔ اس لیے هللا‬
‫ہے۔‬

‫جس طرح ما ِہ رمضان المبارک کو هللا رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت و شان‬
‫کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اسی طرح ماہ ربیع االول کے‬
‫ب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ما ِہ‬
‫اِمتیاز اور اِنفرادیت کی وجہ بهی اس میں صاح ِ‬
‫مبارک حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت با سعادت کے صدقے‬
‫ب میال ِد رسول صلی هللا‬
‫جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ ش ِ‬
‫ب‬
‫علیہ وآلہ وسلم لیلۃ القدر سے بهی افضل ہے۔ لیلۃ القدر میں نزو ِل قرآن ہوا تو ش ِ‬
‫ب قرآن کی آمد ہوئی۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزو ِل‬
‫میالد میں صاح ِ‬
‫ب مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫قرآن اور نزو ِل مالئکہ کی رات ہے اور نزو ِل قرآن قل ِ‬
‫وسلم پر ہوا ہے۔ اگر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو نہ قرآن‬
‫ب قدر ہوتی‪ ،‬نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں اور عظمتیں میال ِد‬
‫ہوتا‪ ،‬نہ ش ِ‬
‫مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔‬

‫تعالی نے بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے اور‬


‫ٰ‬ ‫ت انسانی پر اهللا‬
‫اس کائنا ِ‬
‫اس نے ہمیں التعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسری سے بڑھ کر‬
‫ہے لیکن اس نے کبهی کسی نعمت پر احسان نہیں جتالیا۔‬

‫تعالی نے ہمیں لذت و توانائی سے بهرپور طرح طرح کے کهانے عطا کیے‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫اهللا‬
‫پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے‪ ،‬دن رات کا ایک ایسا نظام االوقات‬
‫ت زندگی کی کفالت‬
‫دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساته ساته ہماری ضروریا ِ‬
‫کرتا ہے‪ ،‬سمندروں‪ ،‬پہاڑوں اور خالئے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا‪ ،‬ہمیں‬
‫اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکها؛ والدین‪ ،‬بہن‪،‬‬
‫بهائی اور اوالد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی الغرض اپنی ایسی ایسی عطاؤں‬
‫اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بهی قاصر ہیں لیکن‬
‫ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بهی نعمت کا احسان نہیں جتالیا۔ لیکن‬
‫حریم کبریائی‬
‫ِ‬ ‫ایک نعمت ایسی تهی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے‬
‫ت نعمت میں صرف اس پر اپنا‬
‫سے نوعِ اِنسانی کی طرف بهیجا تو پوری کائنا ِ‬
‫اِحسان جتالیا اور اس کا اظہار بهی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہ ِل ایمان کو اس‬
‫کا احساس دالیا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ع َلی ْالم ْٔو ِم ِنیْنَ اِ ْذ َب َع َ‬
‫ث ِف ْی ِه ْم َرس ْو ًال ِم ْن ا َ ْنف ِس ِه ْم‪.‬‬ ‫َلقَ ْد َم َّن هللا َ‬
‫تعالی نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے‬
‫ٰ‬ ‫’’بے شک اهللا‬
‫عظمت واال رسول ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) بهیجا۔‘‘‬

‫(آل عمران‪)164 :3 ،‬‬

‫اِسالم میں اهللا کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا النا تقاضائے‬
‫عبودیت و بندگی ہے‪ ،‬لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی‬
‫ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫عذَا ِب ْی لَ َ‬
‫ش ِدیْد‪o‬‬ ‫شک َْرت ْم َالَ ِز ْیدَنَّک ْم َولَ ِئ ْن َکفَ ْرت ْم ا َِّن َ‬
‫لَئِ ْن َ‬

‫(إبراھیم‪)7 :14 ،‬‬

‫’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور‬
‫اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔‘‘‬

‫اِس آیہ کریمہ کی رو سے نعمتوں پر شکر بجا النا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش‬
‫ت محمدیہ پر ہی واجب نہیں بلکہ‬
‫خیمہ بن جاتا ہے۔ پهر نعمتوں پر شکرانہ صرف ام ِ‬
‫امم سابقہ کو بهی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ‪ 47‬میں بنی‬
‫اسرائیل کو وہ نعمت یاد دالئی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل‬
‫ہوگئی اور پهر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی‬
‫طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں‬
‫سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا‪:‬‬
‫َواِ ْذ َن َّجی ْٰنـک ْم ِم ْن ٰا ِل فِ ْر َع ْونَ یَس ْومونَک ْم س ْٓو َء ْالعَذَا ِ‬
‫ب‪.‬‬
‫(البقرۃ‪)49 :2 ،‬‬

‫’’اور (اے آ ِل یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بهی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں‬
‫قوم فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تهے۔‘‘‬
‫ِ‬
‫اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غالمی و محکومی کی زندگی سے آزادی بہت بڑی‬
‫نعمت ہے جس پر شکر بجا النا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدالل‬
‫تعالی کی‬
‫ٰ‬ ‫کرتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو اهللا‬
‫ت غیر مترقبہ سمجهیں اور اس پر شکرانہ ادا کریں۔‬
‫طرف سے عطا کی ہوئی نعم ِ‬
‫مذکورہ باال آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہدہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر‬
‫باقاعدگی کے ساته باالہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بهی ضروری ہے کہ‬
‫آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔‬

‫ت ا ِٰلہی پر خدا کی ذات کریمہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے‬


‫یوں تو اِنسان سارا سال نعم ِ‬
‫گردش اَیام سے وہ دن دوبارہ آتا ہے جس میں من حیث القوم اس پر اهللا‬
‫ِ‬ ‫لیکن جب‬
‫تعالی کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اس کے شریک حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات‬
‫ٰ‬
‫خود بخود جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ قرآن مجید میں جا بجا اس کا تذکرہ‬
‫ہے کہ جب بنی اسرائیل کو فرعونی ظلم و ستم اور اس کی چیرہ دستیوں سے آزادی‬
‫وادی سینا میں پہنچے تو‬
‫ٔ‬ ‫ملی اور وہ نیل کی طوفانی موجوں سے محفوظ ہو کر‬
‫وہاں ان کا سامنا شدید گرمی اور تیز چلچالتی دھوپ سے ہوا تو ان پر بادلوں کا‬
‫سائبان کهڑا کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی نعمت تهی جس کا ذکر اس آیہ کریمہ میں کیا‬
‫گیا ہے‪:‬‬
‫س ْل ٰوی‪.‬‬
‫علَیْکم ْال َم َّن َوال َّ‬
‫ام َوا َ ْنزَ ْلنَا َ‬
‫علَیْکم ْالغَ َم َ‬
‫ظلَّ ْلنَا َ‬
‫َو َ‬

‫(البقرۃ‪)57 :2 ،‬‬
‫’’اور (یاد کرو) جب (تم فرعون کے غرق ہونے کے بعد شام کو روانہ ہوئے اور‬
‫وادی ِتیہ میں سرگرداں پهر رہے تهے تو) ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیے رکها اور‬
‫ٔ‬
‫سلوی اتارا۔‘‘‬
‫ہم نے تم پر َمن و ٰ‬

‫قرآن مجید نے دیگر مقامات پر خاص خاص نعمتوں کا ذکر کرکے ان ایام کے‬
‫حوالے سے انہیں یاد رکهنے کا حکم دیا ہے۔ پهر نعمتوں پر خوشی و مسرت کا‬
‫عیسی ں نے جب اپنی قوم کے‬
‫ٰ‬ ‫اظہار کرنا سنت انبیاء علیهم السالم بهی ہے۔ حضرت‬
‫ت مائدہ طلب کی تو اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے‪:‬‬ ‫لیے نعم ِ‬
‫آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِلـا َ َّو ِلنَا َو ٰا ِخ ِرنَا َو ٰایَةً ِم ْن َ‬
‫ک‪.‬‬ ‫علَ ْینَا َمـآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ‬
‫س َم ِ‬ ‫َربَّنَ ـآ ا َ ْن ِز ْل َ‬
‫خوان (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے‬
‫ِ‬ ‫’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے‬
‫اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے‬
‫(بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری‬
‫ت کاملہ کی) نشانی ہو۔‘‘‬
‫قدر ِ‬

‫(المائدۃ‪)114 :5 ،‬‬

‫ت مسلمہ کو‬
‫قرآن مجید نے اس آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے ام ِ‬
‫شکرانہ نعمت‬
‫ٔ‬ ‫ت ا ِٰلہی کا نزول ہو اس دن جشن منانا‬
‫یہ تصور دیاہے کہ جس دن نعم ِ‬
‫کی مستحسن صورت ہے۔ اِس آیت سے یہ مفہوم بهی مترشح ہے کہ کسی نعمت کے‬
‫حصول پر خوشی وہی مناتے ہیں جن کے دل میں اپنے نبی کی محبت جاگزیں ہوتی‬
‫ہے اور وہ اِس کے اِظہار میں نبی کے ساته شریک ہوتے ہیں۔‬

‫تعالی کی کسی نعمت پر شکربجاالنے کا ایک معروف طریقہ یہ بهی ہے کہ‬


‫ٰ‬ ‫اهللا‬
‫انسان حصو ِل نعمت پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساته اس کا دوسروں کے سامنے‬
‫شکرانہ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا‬
‫ٔ‬ ‫ذکر بهی کرتا رہے کہ یہ بهی‬
‫قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہے‪:‬‬
‫ک فَ َح ِد ْ‬
‫ث‪o‬‬ ‫َوا َ َّما ِبنِ ْع َم ِة َربِ َ‬
‫’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔‘‘‬

‫(الضحی‪)11 :93 ،‬‬

‫تعالی کی عطا کردہ نعمت کو دل وجان‬


‫ٰ‬ ‫ذکر نعمت کا حکم ہے کہ اهللا‬
‫اِس میں پہلے ِ‬
‫سے یاد رکها جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ذکر کسی اور کے‬
‫ث نعمت کا حکم دیا کہ کهلے‬
‫تعالی کے لیے ہو۔ اس کے بعد تحدی ِ‬
‫ٰ‬ ‫لیے نہینفقط اهللا‬
‫ق خدا کے سامنے اس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں‬
‫بندوں مخلو ِ‬
‫ث‬
‫تعالی سے اور تحدی ِ‬
‫ٰ‬ ‫پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذکر کا تعلق اهللا‬
‫نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا‬
‫جائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا‪:‬‬
‫فَا ْذکر ْو ِن ْٓی ا َ ْذک ْرک ْم َوا ْشکر ْوا ِل ْی َو َال ت َ ْکفر ْو ِن‪o‬‬

‫(البقرۃ‪)152 :2 ،‬‬

‫’’ سو تم مجهے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکهوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور‬
‫(میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کرو۔‘‘‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫آیہ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ اهللا‬
‫اس ٔ‬
‫ق خدا میں اس کا‬ ‫کی نعمتوں کا ذکر شکرانے کے ساته اس انداز میں کرو کہ مخلو ِ‬
‫اظہار تشکر کا ایک طریقہ یہ بهی ہے کہ نعمت پر‬
‫ِ‬ ‫خوب چرچا ہو۔ اس پر مستزاد‬
‫مم سابقہ بهی جس دن‬
‫خوشی کا اظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ ا ِ‬
‫بطور عید مناتی تهیں۔ قرآن مجید میں‬ ‫ِ‬ ‫کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو‬
‫عیسی ں کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگا ِہ ا ِٰلہی میں یوں ملتجی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫ہوتے ہیں‪:‬‬
‫آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِلـا َ َّو ِلنَا َو ٰا ِخ ِرنَا‪.‬‬ ‫علَ ْینَا َمـآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ‬
‫س َم ِ‬ ‫َربَّنَ ـآ ا َ ْن ِز ْل َ‬
‫(المائدۃ‪)114 :5 ،‬‬
‫خوان (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے‬
‫ِ‬ ‫’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے‬
‫اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے‬
‫(بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی)۔‘‘‬

‫یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عیدمنانے کا ذکرہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار‬
‫لمحہ‬
‫ٔ‬ ‫کے دن اس نعمت کے حصول پر بطورشکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے‬
‫ت مصطفی صلی هللا علیہ‬ ‫فکریہ ہے کہ کیا نزو ِل مائدہ جیسی نعمت کی والدت و بعث ِ‬
‫عظمی پر تو مائدہ جیسی‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعم ِ‬
‫کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔‬

‫’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ میں حضرت عمر رضی هللا عنہ کی یہ متفق‬
‫علیہ روایت موجود ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچها کہ کیا آپ جس دن‬
‫وم ا َ ْک َم ْلت َلک ْم ِد ْینَک ْم ‪ -‬نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگرہماری‬
‫آیت ‪ -‬ا َ ْل َی َ‬
‫یوم عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں‬
‫تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور ِ‬
‫حضرت عمر ص نے فرمایا‪ :‬ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تهی خوب‬
‫میدان عرفات میں اتری تهی‬
‫ِ‬ ‫یوم جمعۃ المبارک کو‬
‫یوم حج اور ِ‬
‫پہچانتے ہیں۔ یہ آیت ِ‬
‫اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔‬

‫بطور عید‬
‫ِ‬ ‫اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمی ِل دین کی آیت کے نزول کا دن‬
‫محسن انسانیت صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اس‬
‫ِ‬ ‫منانے کا جواز ہے تو جس دن خود‬
‫دنیامیں تشریف الئے اسے بطور عید میالد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال‬
‫یوم جمعہ کے باب میں اَربا ِ‬
‫ب فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔‬ ‫ت ِ‬ ‫فضیل ِ‬

‫ِروایات میں یہ بهی مذکور ہے کہ حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اپنے‬
‫میالد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس ص‬
‫کی روایت کے مطابق حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا‬
‫عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (‪849-911‬ھ) کا اِستدالل ہے کہ حضورنبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد‬
‫المطلب آپ کی والدت کے سات دن بعد کرچکے تهے اور عقیقہ زندگی میں صرف‬
‫ایک بار کیاجاتاہے۔ اس لیے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضیافت اپنے میالد‬
‫کے لیے دی تهی‪ ،‬عقیقہ کے لیے نہیں۔‬

‫ت ا ِٰلہیہ کا تصور بهی‬


‫کائنات میں حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے بڑی نعم ِ‬
‫محال ہے۔ اس پر جو غیر معمولی خوشی اور سرور و اِنبساط کا اظہار کیا گیا اس‬
‫ب سیر و تاریخ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں فضائل و‬
‫کا کچه اندازہ کت ِ‬
‫شمائل اور خصائص کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں جن سے یہ واضح‬
‫تعالی نے اپنے حبیب محمد مصطفی صلی هللا علیہ‬
‫ٰ‬ ‫ہوتا ہے کہ خود اهللا تبارک و‬
‫وآلہ وسلم کی والدت مبارکہ پر خوشی منائی۔‬

‫ت مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا پورا سال نادر‬


‫روایات شاہد ہیں کہ والد ِ‬
‫تعالی کی خصوصی‬
‫ٰ‬ ‫الوقوع مظاہر اور محیر العقول واقعات کا سال تها۔ اس میں اهللا‬
‫رحمتوں کا نزول جاری رہا یہاں تک کہ وہ سعید ساعتیں جن کا صدیوں سے انتظار‬
‫لمحہ منتظر میں سمٹ آئیں جس‬
‫ٔ‬ ‫گردش ماہ و سال کی کروٹیں بدلتے بدلتے اس‬
‫ِ‬ ‫تها‬
‫میں خالق کائنات کے بہترین شاہکار کو منصہ شہود پر باآلخر اپنے سرمدی حسن و‬
‫تعالی نے اپنے حبیب صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫جمال کے ساته جلوہ گر ہونا تها۔ اهللا‬
‫کی دنیا میں آمد کے موقع پر اِس قدر چراغاں کیا کہ شرق تا غرب سارے آفاق‬
‫روشن ہو گئے۔ متعدد کتب احادیث میں حضرت عثمان بن ابی العاص رضی هللا عنہ‬
‫ت نبوی صلی هللا‬
‫روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے ان سے بیان کیا‪’’ :‬جب والد ِ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا کے پاس تهی۔ میں دیکه‬
‫رہی تهی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں‬
‫نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گرپڑیں گے۔ پهر جب آپ صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کی والدت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکال جس سے پورا گهر‬
‫جس میں ہم تهے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجهے ہر ایک شے میں نور‬
‫ہی نور نظر آیا۔‘‘‬
‫حضرت ابوامامہ رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بارگا ِہ ِرسالت مآب‬
‫ت مبارکہ کی‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا‪ :‬یا رسول اهللا! آپ کی نبو ِ‬
‫شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪’’ :‬میں‬
‫عیسی کی بشارت ہوں۔ اور (میری والدت کے وقت)‬
‫ٰ‬ ‫اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور‬
‫میری والدہ ماجدہ نے دیکها کہ ان کے جسم اَطہر سے ایک نور نکال جس سے شام‬
‫کے محالت روشن ہوگئے۔‘‘ (مسند احمد)‬

‫ت والدت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں‪:‬‬


‫حضرت آمنہ اپنے عظیم نونہال کے واقعا ِ‬
‫سرور کائنات صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوا تو ساته ہی ایسا نور نکال‬
‫ِ‬ ‫’’جب‬
‫جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔‘‘ (طبقات ابن سعد)‬

‫ت والدت ان سے‬
‫ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا سے مروی ہے کہ وق ِ‬
‫بصری کے‬
‫ٰ‬ ‫خارج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے ان کی نگاہوں پر شام میں‬
‫ایسا نور ِ‬
‫بصری میں چلنے والے اونٹوں‬
‫ٰ‬ ‫محالت اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک انہوں نے‬
‫کی گردنیں بهی دیکه لیں۔ (طبقات ابن سعد)‬

‫جشن میالد کو عید مسرت کے طور پر‬


‫ِ‬ ‫احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے‬
‫منانے پر محدثین نے استدالل کیا ہے۔ یوم عاشورہ کو یہودی مناتے ہیں اور یہ وہ‬
‫موسی ‪ e‬کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد‬
‫ٰ‬ ‫دن ہے جب حضرت‬
‫سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں‬
‫وہ بطور شکرانہ روزہ رکهتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ متفق علیہ روایات میں‬
‫ہے کہ ہجرت کے بعد جب حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہود مدینہ کا یہ‬
‫موسی پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫عمل دیکها تو فرمایا‪:‬‬
‫ِظہار تشکر کے طور پر‬
‫چنانچہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن ا ِ‬
‫خود بهی روزہ رکها اور اپنے صحابہ کرام ‪ l‬کو بهی روزہ رکهنے کا حکم فرمایا۔‬
‫اس پر بهی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدالل کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے‬
‫پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم‬
‫اولی اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت صلی هللا‬
‫مسلمانوں کو بدرجہ ٰ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کی والدت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو اهللا کا فضل‬
‫اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے‬
‫نجات دالنے کے لیے اس دنیا میں تشریف الئے۔‬
‫ع َل ْی ِه ْم‪.‬‬ ‫ص َرھ ْم َو ْاالَ ْغ ٰلـ َل الَّ ِت ْی کَان ْ‬
‫َت َ‬ ‫ضع َع ْنه ْم اِ ْ‬
‫َو َی َ‬
‫(االٔعراف‪)157 :7 ،‬‬

‫ق (قیود) ‪ -‬جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث‬


‫بار گراں اور طو ِ‬
‫’’اور ان سے ان کے ِ‬
‫ت آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘‬
‫مسلط) تهے ‪ -‬ساقط فرماتے (اور انہیں نعم ِ‬

‫ت اَرضی میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی‬


‫آخری بات یہ کہ ِاس کائنا ِ‬
‫اِس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫کا ما ِہ والدت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں‬
‫ہیچ ہیں اور اس کے لیے میال ِد مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی‬
‫حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح امم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت‬
‫عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تها جب کہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ‬
‫عظمی‬
‫ٰ‬ ‫عارضی اور وقتی تهی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور اَبدی نعم ِ‬
‫ت‬
‫ت‬
‫ظہور قدسی کی صورت میں ام ِ‬ ‫ِ‬ ‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اَتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے‬
‫اظہار خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹها رکهے۔‬
‫ِ‬ ‫اور‬

‫قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و‬
‫محسن انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی‬
‫ِ‬ ‫رحمت کو یاد رکهنے کا حکم دیا ہے جو‬
‫اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان‬
‫ب تاریک کی طرح ان پر مسلط تهے‬
‫اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے ش ِ‬
‫اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کیے ہوئے تهیں۔ ارشا ِد باری‬
‫صبَ ْحت ْم ِبنِ ْع َمتِه ا ِْخ َوانًا‪.‬‬ ‫علَیْک ْم اِ ْذ ک ْنت ْم ا َ ْعدَآ ًء فَاَلَ َّ‬
‫ف بَیْنَ قل ْو ِبک ْم فَا َ ْ‬ ‫َوا ْذکر ْوا نِ ْع َم َ‬
‫ت اهللاِ َ‬
‫’’اور اپنے اوپر (کی گئی) هللا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے‬
‫کے) دشمن تهے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت‬
‫کے باعث آپس میں بهائی بهائی ہو گئے۔‘‘‬

‫(آل عمران‪)103 :3 ،‬‬

‫ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پهر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ‬
‫اخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش‬
‫کرنے سے قاصر ہے۔ ٰلہذا میال ِد مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا‬
‫ت مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ‬ ‫شکر ا ِٰلہی بجا النا ام ِ‬
‫ِ‬ ‫اور‬
‫رکهتا ہے۔‬

‫اجدار کائنات‬
‫ِ‬ ‫شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اِس مجموعہ حدیث میں ت‬
‫ِظہار مسرت‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت باسعادت کے واقعات اور اس پر ا ِ‬
‫کے حوالے سے احادیث مبارکہ مع ترجمہ و تخریج اور ضروری شرح درج کی‬
‫گئی ہیں۔ دعا ہے کہ یہ مجموعہ احادیث اَہل اِیمان کے دلوں میں محبت و عشق‬
‫رسول کی ضیاء باریوں میں مزید اِضافہ کرے۔ (آمین بجا ِہ سید المرسلین صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم)‬

‫(حافظ ظہیر اَحمد ا ِالسنادی)‬


‫ِریسرچ اسکالر‪ ،‬فری ِد ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‬

‫اآلیات القرآنیۃ‬
‫ض ِل هللاِ َو ِب َر ْح َم ِته فَبِ ٰذ ِل َ‬
‫ک فَ ْلیَ ْف َرح ْواط ھ َو َخیْر ِم َّما َی ْج َمع ْونَ ‪o‬‬ ‫‪ .1‬ق ْل بِفَ ْ‬
‫(یونس‪)58 :10 ،‬‬
‫’’فرما دیجیے‪( :‬یہ سب کچه) هللا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو‬
‫ت محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں‬
‫بعث ِ‬
‫منائیں‪ ،‬یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘‬
‫ع َل ْی ِه ْم ٰا ٰیـتِه َویزَ ِک ْی ِه ْم‬ ‫ع َلی ْالمؤْ ِمنِیْنَ اِ ْذ َب َع َ‬
‫ث فِ ْی ِه ْم َرس ْوالً ِم ْن ا َ ْنف ِس ِه ْم َیتْل ْوا َ‬ ‫‪َ .2‬لقَ ْد َم َّن هللا َ‬
‫ض ٰلـل ُّمبِیْن‪o‬‬ ‫ب َو ْال ِح ْک َمةَ َوا ِْن کَان ْوا ِم ْن قَبْل لَ ِف ْی َ‬
‫ج‬
‫َویعَ ِلمهم ْال ِک ٰت َ‬
‫(آل عمران‪)164 :3 ،‬‬

‫’’بے شک هللا نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت‬
‫واال) رسول (صلی هللا علیہ وآلہ وسلم) بهیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں‬
‫پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے‬
‫پہلے کهلی گمراہی میں تهے۔‘‘‬
‫یـاَیُّ َها النَّاس قَ ْد َجآئَک ْم ب ْرھَان ِم ْن َّر ِبک ْم َوا َ ْنزَ ْلنَآ اِلَیْک ْم ن ْو ًرا ُّم ِب ْینًا‪o‬‬
‫‪ٓ ٰ .3‬‬

‫(النساء‪)174 :4 ،‬‬

‫ت محمدی صلی‬
‫’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذا ِ‬
‫مجدہ کی سب سے زیادہ مضبوط‪،‬‬
‫ٗ‬ ‫ت حق جل‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذا ِ‬
‫کامل اور واضح) دلی ِل قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساته قرآن‬
‫کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بهی) اتار دیا ہے۔‘‘‬
‫ب قَ ْد َجآئَک ْم َرس ْولنَا یبَ ِین َلک ْم َکثِی ًْرا ِم َّما ک ْنت ْم ت ْخف ْونَ ِمنَ ْال ِک ٰت ِ‬
‫ب َو َی ْعف ْوا َع ْن‬ ‫یـا َ ْھ َل ْال ِک ٰت ِ‬
‫‪ٓ ٰ .4‬‬
‫َک ِثیْر قَ ْد َجآئَک ْم ِمنَ اهللاِ ن ْور َّو ِک ٰتب ُّم ِبیْن‪o‬‬
‫ط‬

‫(المائدۃ‪)16-15 :5 ،‬‬

‫’’اے اہ ِل کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف الئے ہیں جو‬
‫تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب‬
‫میں سے چهپائے رکهتے تهے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بهی)‬
‫فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اهللا کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت‬
‫محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔‘‘‬
‫آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِالَ َّو ِلنَا‬ ‫علَ ْینَا َمآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ‬
‫س َم ِ‬ ‫سی ابْن َم ْریَ َم اللّٰه َّم َربَّنَآ ا َ ْن ِز ْل َ‬ ‫‪ .5‬قَا َل ِع ْی َ‬
‫الر ِزقِیْنَ ‪o‬‬‫ت َخیْر ّٰ‬ ‫ارز ْقنَا َوا َ ْن َ‬ ‫ک َو ْ‬ ‫ج‬
‫َو ٰا ِخ ِرنَا َو ٰایَةً ِم ْن َ‬
‫(المائدۃ‪)114 :5 ،‬‬

‫خوان‬
‫ِ‬ ‫’’عیسٰ ی ابن مریم نے عرض کیا‪ :‬اے اهللا! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے‬
‫(نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے‬
‫اگلوں کے لیے (بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی) اور(وہ خوان) تیری‬
‫طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق دینے واال‬
‫ہے۔‘‘‬
‫س ٰلم َ‬
‫علَ ْی ِه َی ْو َم و ِلدَ َو َی ْو َم َیم ْوت َو َی ْو َم ی ْب َعث َحیًّا‪o‬‬ ‫‪َ .6‬و َ‬
‫(مریم‪)15 :19 ،‬‬

‫یحیی پر سالم ہو ان کے میالد کے دن اور انکی وفات کے دن اور جس دن وہ‬


‫ٰ‬ ‫’’اور‬
‫زندہ اٹهائے جائیں گے۔‘‘‬
‫ْت َویَ ْو َم اَم ْوت َو َی ْو َم ا ْب َعث َحیًّا‪o‬‬
‫ی َی ْو َم و ِلد ُّ‬ ‫س ٰلم َ‬
‫علَ َّ‬ ‫‪َ .7‬وال َّ‬

‫(مریم‪)33 :19 ،‬‬

‫’’اور مجه پر سالم ہو میرے میالد کے دن‪ ،‬اور میری وفات کے دن‪ ،‬اور جس دن‬
‫میں زندہ اٹهایا جاؤں گا۔‘‘‬
‫ص ِدقًا ِل َما بَیْنَ یَدَ َّ‬
‫ی ِمنَ‬ ‫سی ابْن َم ْریَ َم ٰیـ َبنِ ْٓی اِس َْرآئِ ْی َل اِنِ ْی َرس ْول اهللاِ اِلَیْک ْم ُّم َ‬ ‫‪َ .8‬واِ ْذ قَا َل ِع ْی َ‬
‫ت قَال ْوا ٰھذَا ِس ْحر‬ ‫الت َّ ْو ٰرۃِ َومبَ ِش ًرام بِ َرس ْول یَّاْتِ ْی ِم ْنم َب ْعدِی اسْمهٗ ٓ ا َ ْح َمدط فَلَ َّما َجآئَه ْم بِ ْال َبیِ ٰن ِ‬
‫ُّم ِبیْن‪o‬‬
‫(الصف‪)6 :61 ،‬‬

‫عیسی بن مریم نے کہا‪ :‬اے بنی اسرائیل! بے‬


‫ٰ‬ ‫’’اور (وہ وقت بهی یاد کیجیے) جب‬
‫شک میں تمہاری طرف هللا کا بهیجا ہوا (رسول) ہوں‪ ،‬اپنے سے پہلی کتاب تورات‬
‫کی تصدیق کرنے واال ہوں اور اس رسو ِل (معظم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی آمد‬
‫آمد) کی بشارت سنانے واال ہوں جو میرے بعد تشریف ال رہے ہیں جن کا نام‬
‫(آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) ہے‪ ،‬پهر جب وہ (رسو ِل‬
‫آخر الزماں صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس تشریف‬
‫لے آئے تو وہ کہنے لگے‪ :‬یہ تو کهال جادو ہے۔‘‘‬
‫ت ِحلٌّم ِبهٰ ذَا ْالبَ َل ِد‪َ o‬و َوا ِلد َّو َما َولَدَ‪o‬‬
‫‪9‬۔ َآل ا ْقسِم ِبهٰ ذَا ْالبَ َل ِد‪َ o‬وا َ ْن َ‬

‫(البلد‪)3-1 :90 ،‬‬

‫’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کهاتا ہوں۔ (اے حبی ِ‬


‫ب مکرم!) اس لیے کہ آپ اس‬
‫ب مکرم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم) کی قَسم‬
‫شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبی ِ‬
‫اور (ان کی) قَسم جن کی والدت ہوئی۔‘‘‬

‫االحادیث النبویۃ‬
‫ال ِبي َل َهب‪ ،‬کَانَ أَب ْو لَ َهب أَ ْعتَقَ َها‪،‬‬
‫ع ْن ع ْر َوۃ َ في روایة طویلة َقا َل‪َ :‬وث َو ْی َبة َم ْو َالۃ ِ َٔ‬ ‫‪َ .1‬‬
‫ات أَب ْو لَ َهب ا ُِٔریَهٗ َب ْعض أَ ْھ ِله بِش َِر ِح ْیبَة‪،‬‬‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،‬فَلَ َّما َم َ‬ ‫ت النَّبِ َّ‬
‫ضعَ ِ‬‫فَا َْٔر َ‬
‫غی َْر أَنِي س ِقیْت فِي ٰھذِہ ِب َعتَاقَتِي ث َو ْی َبةَ‪.‬‬ ‫ْ‬
‫ْت؟ قَا َل أَب ْو لَ َهب‪ :‬لَ ْم أَلقَ َب ْعدَک ْم َ‬ ‫قَا َل لَهٗ ‪َ :‬ماذَا لَ ِقی َ‬
‫ي‪.‬‬‫ق َو ْال َم ْر َو ِز ُّ‬
‫الر َّزا ِ‬
‫عبْد َّ‬
‫ي َو َ‬ ‫َار ُّ‬‫َر َواہ ْالبخ ِ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب وأمهاتکم الالتي أرضعنکم‪،‬‬
‫ضا‪،‬‬
‫‪ ،1961/5‬الرقم‪ ،4813 :‬وعبد الرزاق في المصنف‪ ،478/7 ،‬الرقم‪ ،13955 :‬وأی ً‬
‫‪ ،26/9‬الرقم‪ ،16350 :‬والمروزي في السنة‪ ،82/‬الرقم‪ ،290 :‬وابن سعد في الطبقات‬
‫الکبری‪ ،108/1 ،‬وابن أبي الدنیا في المنامات‪ ،‬بإسناد حسن‪ ،154/‬الرقم‪،263 :‬‬
‫ضا في شعب اإلیمان‪،‬‬
‫والبیهقي في السنن الکبری‪ ،162/7 ،‬الرقم‪ ،13701 :‬وأی ً‬
‫ضا في دالئل النبوۃ‪ ،149/1 ،‬والبغوي في شرح السنة‪،‬‬
‫‪ ،261/1‬الرقم‪ ،281 :‬وأی ً‬
‫‪ ،76/9‬الرقم‪.2282 :‬‬

‫’’حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی‬
‫تهی اور ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تها‪ ،‬اس نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم کو دودھ پالیا تها۔ جب ابو لہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی‬
‫کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکهایا گیا۔ اس (دیکهنے والے) نے اس سے‬
‫پوچها‪ :‬کیسے ہو؟ ابو لہب نے کہا‪ :‬میں بہت سخت عذاب میں ہوں‪ ،‬اِس سے کبهی‬
‫چهٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجهے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے‬
‫قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫والدت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تها۔‘‘‬

‫اِسے امام بخاری‪ ،‬عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔‬
‫َّاس رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬لَ َّما َم َ‬
‫ات‬ ‫ي أَ َّن ْال َعب َ‬ ‫ي فِي ْالفَتْحِ‪َ :‬وذَک ََر ال ُّ‬
‫س َه ْی ِل ُّ‬ ‫قَا َل ْال َحافِظ ْال َعسْقَ ـ َالنِ ُّ‬
‫َامي بَ ْعدَ َح ْول فِي ش َِر َحال‪َ ،‬فقَا َل‪َ :‬ما لَ ِقیْت َب ْعدَک ْم َرا َحةً إِالَّ أ َ َّن‬ ‫أَب ْو لَ َهب َرأَیْتهٗ فِي َمن ِ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم و ِلدَ‬ ‫ک أ َ َّن النَّ ِب َّ‬ ‫ع ِني ک َّل َی ْو ِم اثْنَی ِْن‪ .‬قَا َل‪َ :‬وذَا ِل َ‬ ‫اب ی َخفَّف َ‬ ‫ْال َعذَ َ‬
‫ت أَبَا لَ َهب ِب َم ْو ِلدِہ فَا َٔ ْعتَقَ َها‪.‬‬ ‫ش َر ْ‬ ‫َت ث َو ْیبَة بَ َّ‬‫االثْنَی ِْن َوکَان ْ‬
‫یَ ْو َم ْ ِ‬

‫ذکرہ العسقالني في فتح الباري‪.145/9 ،‬‬

‫’’حافظ (ابن حجر) عسقالنی نے امام سہیلی کے حوالے سے فتح الباری میں یوں‬
‫بیان کیا ہے کہ حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما فرماتے ہیں‪ :‬ابو لہب مر‬
‫گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکها اور یہ کہتے‬
‫ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں‬
‫گرفتار ہوں‪ ،‬لیکن جب پیر کا دن آتا ہے۔ تو میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی‬
‫ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت‬
‫مبارکہ پیر کے دن ہوئی تهی اور جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ صلی هللا‬
‫ت مصطفی صلی هللا علیہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خبر دی تو اس نے (والد ِ‬
‫وآلہ وسلم کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کر دیا تها۔‘‘‬
‫ْف ِبا ْل َم ْو ِل ِد‬
‫صنِ ْی ِفه ’ع ْرف الت َّ ْع ِری ِ‬ ‫ي فِي ت َ ْ‬ ‫قَا َل ْال َحافِظ ش َْمس ال ِدی ِْن م َح َّمد بْن َع ْب ِد هللاِ ْال َج ْز ِر ُّ‬
‫ار بِفَ َر ِحه لَ ْیلَةَ‬ ‫ي فِي النَّ ِ‬ ‫ْف‘‪ :‬فَإِذَا کَانَ أَب ْو لَ َهب ْالکَافِر الَّذِي نَزَ َل ْالق ْرآن بِذَ ِمه ج ْو ِز َ‬ ‫ال َّ‬
‫ش ِری ِ‬
‫َم ْو ِل ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم ِبه‪َ ،‬ف َما َحال ْالم ْس ِل ِم ْالم َو ِح ِد ِم ْن أ َّم ِة النَّ ِبي ِ صلی هللا‬
‫صل إِلَ ْی ِه قد َْرتهٗ فِي َم َحبَّتِه صلی هللا علیه وآله‬ ‫علیه وآله وسلم یَس ُّر بِ َم ْو ِلدِہ‪َ ،‬وبَذَ َل َما ت َ ِ‬
‫ت النَّ ِعی ِْم‪.‬‬ ‫وسلم؟ لَ َع ْم ِري ِإنَّ َما َیک ْون َجزَ ُٔاو ٗہ ِمنَ هللاِ ْالک َِری ِْم ا َْٔن ید ِْخلَهٗ ِبفَ ْ‬
‫ض ِله َجنَّا ِ‬
‫ضا في حسن المقصد في عمل‬
‫ذکرہ السیوطي في الحاوي للفتاوی‪ ،206/‬وأی ً‬
‫المولد‪ ،6566/‬والقسطالني في المواھب اللدنیة‪ ،147/1 ،‬والزرقاني في شرح المواھب‬
‫اللدنیة‪ ،260261/1 ،‬والصالحي في سبل الهدی والرشاد‪366/1 ،‬ـ ‪ ،367‬والنبهاني في‬
‫حجة هللا علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله وسلم ‪.237238/‬‬

‫’’حافظ شمس الدین محمد بن عبد هللا جزری (م ‪660‬ھ) اپنی تصنیف عرف التعریف‬
‫ت‬
‫بالمولد الشریف میں لکهتے ہیں‪ :‬حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والد ِ‬
‫باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اس ابولہب کے عذاب مینبهی‬
‫تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل‬
‫ت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم‬
‫ہوئی ہے۔ تو ام ِ‬
‫ہوگا جو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے میالد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی هللا‬
‫ب اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم!‬
‫علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حس ِ‬
‫تعالی ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫میرے نزدیک هللا‬
‫کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بهری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘‬
‫صادِي فِي‬ ‫صنِ ْی ِفه ’ َم ْو ِرد ال َّ‬ ‫ي فِي ت َ ْ‬ ‫قَا َل ْال َحافِظ ش َْمس ال ِدی ِْن م َح َّمد بْن ن ِ‬
‫َاص ِر ال ِدی ِْن ال ِد َم ْش ِق ُّ‬
‫ار ِفي ِمثْ ِل َی ْو ِم ِاالثْنَی ِْن ِ ِإل ْعتَا ِقه‬‫عذَاب النَّ ِ‬ ‫ص َّح ا ََّٔن أَ َبا لَ َهب ی َخفَّف َع ْنه َ‬ ‫َم ْو ِل ِد ْال َهادِي‘‪ :‬قَ ْد َ‬
‫سر ْو ًرا ِب ِم ْیـ َال ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪.‬‬ ‫ث َو ْیبَةَ َ‬
‫ِإذَا کَانَ ٰھذَا کَا ِفر َجا َء ذَ ُّمهٗ‬
‫َّت یَدَاہ فِي ْال َج ِحی ِْم مخَلَّدَا‬
‫َوتَب ْ‬

‫االثْنَی ِْن دَائِ ًما‬


‫أَ ٰتی أَنَّهٗ ِفي َی ْو ِم ْ ِ‬
‫سر ْو ِر بِا َْٔح َمدَا‬ ‫ی َخفَّف َ‬
‫ع ْنه ِلل َّ‬

‫الظ ُّن ِب ْال َع ْب ِد الَّذِي ط ْو َل ع ْم ِرہ‬


‫فَ َما َّ‬
‫بِأ َ ْح َمدَ َمسْر ْو ًرا َو َم َ‬
‫ات م َو ِحدًا‬

‫ضا في حسن المقصد في عمل المولد‪،66/‬‬


‫ذکرہ السیوطي في الحاوي للفتاوی‪ ،206/‬وأی ً‬
‫والنبہاني في حجة هللا علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله‬
‫وسلم ‪.238/‬‬
‫’’حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (‪777‬۔‪842‬ھ) مورد الصادي في‬
‫مولد الہادي میں فرماتے ہیں‪ :‬یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ رسول هللا صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر‬
‫پیر کے روز ابو لہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔ ٰلہذا‪:‬‬

‫جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے ‪ -‬جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور‬
‫ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اس کے ہاته ٹوٹتے رہیں گے ‪ -‬حضور نبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے میالد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو‬
‫اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے‪ ،‬تو اس شخص کے بارے میں تیرا کیا‬
‫خیال ہے جس نے اپنی ساری عمر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫میالد کی خوشی منائی اور توحید پر فوت ہوا۔‘‘‬

‫شیخ عبد الحق محدث دہلوی (‪958-1052‬ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد‬
‫’مدارج النبوۃ (‪ ‘)19/2‬لکهتے ہیں‪:‬‬

‫ب میالد آنحضرت صلی هللا علیہ وآلہ‬


‫در اینجا سند است مر اہل موالید را کہ در ش ِ‬
‫وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود‪ ،‬و قرآن بمذمت وے‬
‫نازل شدہ‪ ،‬چوں بسرور میالد آنحضرت صلی هللا علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ‬
‫وے بجہت آنحضرت صلی هللا علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ‬
‫مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ‬
‫عوام احداث کردہ انداز تغنی وآالت محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز‬
‫طریقہ اِتباع نگردد۔‬

‫’’یہ روایت میالد کے موقع پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے‬
‫دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل قرآنی سورت نازل ہوئی‬
‫جب وہ حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر‬
‫کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم‬
‫ت رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے‬
‫ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محب ِ‬
‫ت مصطفی کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ لیکن ضرورت اس امر‬
‫والد ِ‬
‫ار مسرت اور عقیدت) ان بدعات سے پاک ہو جنہیں عوام الناس‬
‫کی ہے کہ (یہ اظہ ِ‬
‫نے گهڑ لیا ہے جیسے موسیقی اور حرام آالت اور اسی طرح کے دیگر ممنوعات‪،‬‬
‫تاکہ اتباعِ رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے راستے سے محرومی کا باعث نہ‬
‫بنے۔‘‘‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ‬ ‫عبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل‪ :‬لَ َّما قَد َِم النَّ ِب ُّ‬ ‫ع ِن اب ِْن َ‬
‫‪َ .2‬‬
‫ک‪ ،‬فَقَال ْوا‪ٰ :‬ھذَا ْال َی ْوم الَّذِي ا ْ‬
‫َٔظفَ َر هللا ِف ْی ِه‬ ‫ع ْن ذَا ِل َ‬ ‫عاش ْو َرا َء فَس ِئل ْوا َ‬‫َو َجدَ ْال َیه ْودَ َیص ْوم ْونَ َ‬
‫ع ْونَ َون َْحن نَص ْومهٗ ت َ ْع ِظ ْی ًما لَهٗ ‪ ،‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا‬ ‫ع ٰلی فِ ْر َ‬
‫م ْوسٰ ی َوبَ ِني ِإس َْرا ِئ ْی َل َ‬
‫علَ ْی ِه‪.‬‬
‫ص ْو ِمه۔ متَّفَق َ‬ ‫علیه وآله وسلم‪ :‬ن َْحن ا َْٔو ٰلی ِبم ْوسٰ ی ِم ْنک ْم‪ .‬ث َّم أَ َم َر بِ َ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب فضائل الصحابة‪ ،‬باب إتیان الیهود النبي صلی هللا‬
‫علیه وآله وسلم حین قدم المدینة‪ ،1434/3 ،‬الرقم‪ ،3727 :‬ومسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب‬
‫الصیام‪ ،‬باب صوم یوم عاشوراء‪ ،795/2 ،‬الرقم‪ ،1130 :‬وأبو داود في السنن‪ ،‬کتاب‬
‫الصوم‪ ،‬باب في صوم یوم عاشوراء‪ ،326/2 ،‬الرقم‪ ،2444 :‬وابن ماجہ في السنن‪،‬‬
‫کتاب الصیام‪ ،‬باب صیام یوم عاشوراء‪ ،552/1 ،‬الرقم‪.1734 :‬‬

‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫دیکها کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکهتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت‬
‫موسی علیہ السالم اور بنی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے حضرت‬
‫ٰ‬ ‫کیا گیا تو انہوں نے کہا‪ :‬اس دن هللا‬
‫اسرائیل کو فرعون پر غلبہ و نصرت عطا فرمائی تو ہم اِس عظیم کامیابی کی تعظیم‬
‫و تکریم بجا النے کے لیے اِس دن روزہ رکهتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی‬
‫موسی کے حق دار ہیں۔ پهر آپ صلی‬
‫ٰ‬ ‫هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬ہم تم سے زیادہ‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم نے (خود بهی روزہ رکها اور صحابہ کرام رضوان هللا علیہم‬
‫اجمعین کو بهی) روزہ رکهنے کا حکم دیا۔‘‘‬

‫یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‬


‫عبَّاس رضی هللا عنهما ا ََّٔن َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم قَد َِم ْال َم ِد ْینَةَ‬ ‫ع ِن اب ِْن َ‬ ‫‪َ .3‬‬
‫عاش ْو َرا َء‪ ،‬فَقَا َل لَه ْم َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ :‬ما ٰھذَا‬ ‫صیَا ًما یَ ْو َم َ‬ ‫فَ َو َجدَ ْال َیه ْودَ ِ‬
‫ْال َی ْوم الَّذِي تَص ْوم ْونَهٗ ؟ فَقَال ْوا‪ٰ :‬ھذَا َی ْوم َ‬
‫ع ِظیْم أَ ْن َجی هللا ِف ْی ِه م ْوسٰ ی َوقَ ْو َمهٗ َوغ ََّرقَ ِف ْر َع ْونَ‬
‫صا َمهٗ م ْوسٰ ی ش ْک ًرا‪ ،‬فَن َْحن نَص ْومهٗ ‪ .‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪:‬‬ ‫َوقَ ْو َمهٗ ‪ ،‬فَ َ‬
‫صا َمهٗ َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم َوأَ َم َر‬ ‫ٰ‬
‫فَن َْحن أَ َح ُّق َوا َْٔولی ِبم ْوسٰ ی ِم ْنک ْم‪ .‬فَ َ‬
‫امه‪.‬‬ ‫صیَ ِ‬
‫ِب ِ‬
‫علَ ْی ِه َواللَّ ْفظ ِلم ْس ِلم‪.‬‬
‫مت َّ َفق َ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب االٔنبیاء‪ ،‬باب قول هللا ٰ‬
‫تعالی‪ :‬وھل أتاک حدیث‬
‫موسی‪ ،1244/3 ،‬الرقم‪ ،3216 :‬ومسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب الصیام‪ ،‬باب صوم یوم‬
‫عاشوراء‪ ،796/2 ،‬الرقم‪ ،1130)2( :‬وابن ماجه في السنن‪ ،‬کتاب الصیام‪ ،‬باب صیام‬
‫یوم عاشوراء‪ ،552/1 ،‬الرقم‪ ،1734 :‬وأحمد بن حنبل في المسند‪ ،336/1 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪.3112‬‬

‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول هللا صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو‬
‫یوم عاشورہ کا روزہ رکهتے پایا۔ تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے‬
‫پوچها‪ :‬یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکهتے ہو؟ انہوں نے کہا‪ :‬یہ‬
‫موسی علیہ السالم اور ان کی قوم کو‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے اِس میں‬
‫ٰ‬ ‫بہت عظیم دن ہے کہ هللا‬
‫موسی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت‬
‫السالم نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکها‪ٰ ،‬لہذا ہم بهی روزہ رکهتے‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ اِس پر رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬تمہاری نسبت ہم‬
‫کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫خود بهی روزہ رکها اور (صحابہ کرام ‪l‬کو بهی) اس دن کا روزہ رکهنے کا حکم‬
‫فرمایا۔‘‘‬

‫یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔‬


‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َمدِینَةَ فَ َرأَی‬ ‫عبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل‪ :‬قَد َِم النَّ ِب ُّ‬ ‫ع ِن اب ِْن َ‬
‫‪َ .4‬‬
‫صا ِلح‪ٰ ،‬ھذَا َی ْوم َن َّجی هللا َبنِي‬ ‫عاش ْو َرا َء‪ ،‬فَقَا َل‪َ :‬ما ٰھذَا؟ قَال ْوا‪ٰ :‬ھذَا یَ ْوم َ‬ ‫ْالیَه ْودَ تَص ْوم َی ْو َم َ‬
‫امه‪.‬‬ ‫ص َی ِ‬ ‫صا َمهٗ م ْوسٰ ی‪ .‬قَا َل‪ :‬فَأَنَا أَ َح ُّق ِبم ْوسٰ ی ِم ْنک ْم۔ فَ َ‬
‫صا َمهٗ َوأَ َم َر ِب ِ‬ ‫عد ِو ِھ ْم فَ َ‬ ‫ِإس َْرائِی َل ِم ْن َ‬
‫ي َوا َْٔح َمد َوأَب ْو یَ ْع ٰلی‪.‬‬ ‫َر َواہ ْالبخ ِ‬
‫َار ُّ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب الصوم‪ ،‬باب صیام یوم عاشوراء‪ ،704/2 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،1900‬وأحمد بن حنبل في المسند‪ ،291/1 ،‬الرقم‪ ،2644 :‬وأبو یعلی في المسند‪،‬‬
‫‪ ،441/4‬الرقم‪.2567 :‬‬

‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم نے دیکها کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکهتے ہیں۔ آپ صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکهنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں‬
‫نے جواب دیا‪ :‬یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن هللا‬
‫یوم‬
‫تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دالئی (یہ ہمارا ِ‬
‫ٰ‬
‫موسی علیہ السالم نے اس دن روزہ رکها۔‬
‫ٰ‬ ‫یوم نجات ہے)۔ پس حضرت‬ ‫آزادی اور ِ‬
‫موسی کا حق دار میں ہوں۔‬
‫ٰ‬ ‫آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬تم سے زیادہ‬
‫چنانچہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکها اور (صحابہ کرام‬
‫رضوان هللا علیہم اجمعین کو بهی) اس دن روزہ رکهنے کا حکم فرمایا۔‘‘‬

‫اِسے امام بخاری‪ ،‬احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔‬
‫عاش ْو َرا َء تَعدُّہ ْال َیه ْود ِع ْیدًا‪ ،‬قَا َل النَّ ِب ُّ‬
‫ي‬ ‫ع ْن أَ ِبي م ْوسٰ ی رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬کَانَ َی ْوم َ‬ ‫‪َ .5‬‬
‫ي‪.‬‬ ‫صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬فَص ْوم ْوہ أَ ْنت ْم۔ َر َواہ ْالبخ ِ‬
‫َار ُّ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب الصوم‪ ،‬باب صیام یوم عاشوراء‪،704705/2 ،‬‬
‫الرقم‪.1901 :‬‬

‫یوم‬
‫موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں‪ :‬یوم عاشورہ کو یہود ِ‬
‫ٰ‬ ‫’’حضرت ابو‬
‫عید شمار کرتے تهے۔ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو‬
‫حکم دیتے ہوئے) فرمایا‪ :‬تم ضرور اس دن روزہ رکها کرو۔‘‘‬
‫اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‬
‫عاش ْو َرا َء َی ْو ًما ت َع ِظمه ْال َیه ْود َوتَت َّ ِخذ ٗہ‬ ‫ع ْن أَ ِبي م ْوسٰ ی رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬کَانَ َی ْوم َ‬ ‫‪َ .6‬‬
‫ِع ْیدًا‪ ،‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬ص ْوم ْوہ أَ ْنت ْم‪.‬‬
‫ي‪.‬‬ ‫ي َو َّ‬
‫الط َحا ِو ُّ‬ ‫َر َواہ م ْس ِلم َوالنَّ َ‬
‫سا ِئ ُّ‬
‫أخرجه مسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب الصیام‪ ،‬باب صیام یوم عاشوراء‪ ،796/2 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،1131‬والنسائي في السنن الکبری‪ ،159/2 ،‬الرقم‪ ،2848 :‬والطحاوي في شرح‬
‫معاني اآلثار‪ ،133/2 ،‬الرقم‪ ،3217 :‬والبیهقي في السنن الکبری‪ ،289/4 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪.8197‬‬

‫موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں‪ :‬یہود یوم عاشورہ کی تعظیم‬
‫ٰ‬ ‫’’حضرت ابو‬
‫کرتے تهے اور اسے عید کے طور پر مناتے تهے۔ پس حضور نبی اکرم صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بهی اِس دن روزہ رکهو۔‘‘‬

‫اِسے امام مسلم‪ ،‬نسائی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔‬


‫عاش ْو َرا َء َیت َّ ِخذ ْونَهٗ‬
‫ع ْن أَ ِبي م ْوسٰ ی رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬کَانَ أَ ْھل َخ ْیبَ َر یَص ْوم ْونَ َی ْو َم َ‬ ‫‪َ .7‬‬
‫َارتَه ْم‪ ،‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪:‬‬ ‫سائَه ْم فِ ْی ِه ح ِلیَّه ْم َوش َ‬ ‫ْ‬
‫ِع ْیدًا َویل ِبس ْونَ نِ َ‬
‫فَص ْوم ْوہ أَ ْنت ْم۔‪.‬‬
‫َر َواہ م ْس ِلم‪.‬‬

‫أخرجه مسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب الصیام‪ ،‬باب صیام یوم عاشوراء‪ ،796/2 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪.1131‬‬

‫موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں‪ :‬اہ ِل خیبر یوم عاشور کا‬
‫ٰ‬ ‫’’حضرت ابو‬
‫روزہ رکهتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تهے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو‬
‫خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگهار کرتے۔ تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا‪ :‬تم بهی اس دن روزہ رکها کرو۔‘‘‬

‫اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‬


‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم ِبأُنَاس ِمنَ‬ ‫ع ْن أَ ِبي ھ َری َْرۃ َ رضی هللا عنه قَا َل‪َ :‬م َّر النَّ ِب ُّ‬ ‫‪َ .8‬‬
‫ص ْو ِم؟ قَال ْوا‪ٰ :‬ھذَا ْالیَ ْوم الَّذِي نَ َّجی هللا‬ ‫ورا َء‪ ،‬فَقَا َل‪َ :‬ما ٰھذَا ِمنَ ال َّ‬ ‫عاش َ‬ ‫صام ْوا َی ْو َم َ‬ ‫ْالیَه ْو ِد قَ ْد َ‬
‫علَی‬ ‫س ِف ْینَة َ‬ ‫ق‪َ ،‬وغ ََّرقَ ِف ْی ِه ِف ْر َع ْونَ ‪َ ،‬و ٰھذَا َی ْوم ا ْست َ َو ْ‬
‫ت ِف ْی ِه ال َّ‬ ‫م ْوسٰ ی َو َب ِني ِإس َْرا ِئی َل ِمنَ ْالغ ََر ِ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬أَنَا‬ ‫صا َمهٗ ن ْوح َوم ْوسٰ ی ش ْک ًرا ِهللاِ تَ َع ٰالی‪ .‬فَ َقا َل النَّ ِب ُّ‬ ‫ْالج ْو ِدي ِ‪ ،‬فَ َ‬
‫ص َحا َبهٗ ِبال َّ‬
‫ص ْو ِم‪.‬‬ ‫ص ْو ِم ٰھذَا ْال َی ْو ِم۔ فَا َٔ َم َر أَ ْ‬‫أَ َح ُّق ِبم ْوسٰ ی َوأَ َح ُّق ِب َ‬
‫َر َواہ ا َْٔح َمد‪.‬‬

‫أخرجه أحمد بن حنبل في المسند‪ ،359360/2 ،‬الرقم‪ ،8702 :‬والعسقالني في فتح‬


‫الباري‪.247/4 ،‬‬

‫’’حضرت ابو ہریرہ رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم یہود کے چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو کہ عاشوراء کے دن‬
‫کا روزہ رکهتے تهے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچهاـ‪ :‬یہ کس چیز‬
‫تعالی نے حضرت‬
‫ٰ‬ ‫کا روزہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا‪ :‬یہ وہ دن ہے جس دن هللا‬
‫موسی علیہ السالم اور بنی اسرائیل کو دریا میں غرق ہونے سے بچایا اور فرعون‬
‫ٰ‬
‫کو غرق کر دیا اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹهہری تو حضرت‬
‫تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکها۔ اِس‬
‫ٰ‬ ‫موسی علیہما السالم نے هللا‬
‫ٰ‬ ‫نوح اور‬
‫موسی کا زیادہ‬
‫ٰ‬ ‫پر حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬میں حضرت‬
‫حق دار ہوں اور میں اِس دن روزہ رکهنے کا زیادہ حق رکهتا ہوں۔ پهر آپ صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان هللا علیہم اجمعین کو بهی اس دن روزہ‬
‫رکهنے کا حکم دیا۔‘‘‬

‫اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔‬


‫ض ِل ابْن َح َجر َع ْن َع َم ِل ْال َم ْو ِلدِ‪ ،‬فَا َٔ َج َ‬
‫اب ِب َما‬ ‫ص ِر أَبو ْالفَ ْ‬ ‫اإلس َْال ِم َحا ِفظ ْال َع ْ‬ ‫شیْخ ِ‬ ‫َوقَ ْد س ِئ َل َ‬
‫ص ِح ْی َحی ِْن ِم ْن‪ :‬أ َ َّن‬ ‫ت فِي ال َّ‬ ‫صل ثَا ِبت‪َ ،‬وھ َو َما ثَبَ َ‬ ‫ع ٰلی أَ ْ‬ ‫ظ َه َر ِلي ت َ ْخ ِریْج َها َ‬ ‫صهٗ ‪ :‬قَا َل‪َ :‬وقَ ْد َ‬ ‫نَ ُّ‬
‫عاش ْو َرا َء‪،‬‬ ‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم قَد َِم ْال َم ِد ْینَةَ‪ ،‬فَ َو َجدَ ْالیَه ْودَ یَص ْوم ْونَ َی ْو َم َ‬ ‫النَّبِ َّ‬
‫ع ْونَ ‪َ ،‬و َن َّجی م ْوسٰ ی‪ ،‬فَن َْحن نَص ْومهٗ ش ْک ًرا ِهللاِ‬ ‫سأَلَه ْم‪ ،‬فَقَال ْوا‪ :‬ھ َو َی ْوم أَ ْغ َرقَ هللا فِ ْی ِه فِ ْر َ‬ ‫فَ َ‬
‫تَعَ ٰالی‪.‬‬
‫اء ِن ْع َمة‪ ،‬ا َْٔو دَ ْفعِ‬ ‫ع ٰلی َما َم َّن ِبه فِي َی ْوم م َعیَّن ِم ْن ِإ ْسدَ ِ‬ ‫ش ْک ِر ِهللاِ ت َ َع ٰالی َ‬
‫فَی ْستَفَاد ِم ْنه فِ ْعل ال ُّ‬
‫ک ْالیَ ْو ِم ِم ْن ک ِل َ‬
‫سنَة‪.‬‬ ‫ک فِي ن َِظی ِْر ذَا ِل َ‬ ‫نِ ْق َمة‪َ ،‬ویعَاد ذَا ِل َ‬
‫تـ َال َوۃِ‪َ ،‬وأ َ ُّ‬
‫ي‬ ‫صدَقَ ِة َوال ِ‬
‫الصیَ ِام َوال َّ‬
‫سج ْو ِد َو ِ‬
‫ت کَال ُّ‬ ‫ش ْکرهللاِ ت َ َع ٰالی ی ْح َ‬
‫صل ِبا َٔ ْن َواعِ ْال ِعبَادَا ِ‬ ‫َوال ُّ‬
‫الر ْح َم ِة‬
‫ي َّ‬‫ظم ِمنَ النِ ْع َم ِة ِببر ْو ِز ٰھذَا النَّبِي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم الَّذِي ھ َو نَ ِب ُّ‬ ‫نِ ْع َمة أ َ ْع َ‬
‫ک ْال َی ْو ِم‪.‬‬‫فِي ذَا ِل َ‬
‫ضا في الحاوي‬
‫ذکرہ السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد‪ ،63 /‬وأی ً‬
‫للفتاوی‪ ،205206/‬والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد صلی هللا‬
‫علیه وآله وسلم‪ ،366/1 ،‬والزرقاني في شرح المواھب اللدنیة بالمنح المحمدیة‪،‬‬
‫‪ ،263/1‬وأحمد بن زیني دحالن في السیرۃ النبویة‪ ،54/1 ،‬والنبہاني في حجة هللا علی‬
‫العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله وسلم ‪.237/‬‬

‫’’شیخ االسالم حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میالد شریف کے عمل کے‬
‫یوم‬
‫حوالہ سے پوچها گیا تو انہوں نے اس کا جواب کچه یوں دیا‪’ :‬میرے نزدیک ِ‬
‫میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانے کی اَساسی دلیل وہ روایت ہے جسے‬
‫’’صحیحین‘‘ میں روایت کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫یوم عاشور کا روزہ‬
‫مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو ِ‬
‫رکهتے ہوئے پایا۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچها‪ :‬ایسا کیوں کرتے‬
‫تعالی نے فرعون کو غرق کیا اور‬
‫ٰ‬ ‫ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن هللا‬
‫تعالی کی بارگاہ میں شکر بجا النے کے‬
‫ٰ‬ ‫موسی علیہ السالم کو نجات دی‪ ،‬سو ہم هللا‬
‫ٰ‬
‫لیے اس دن کا روزہ رکهتے ہیں۔‬

‫تعالی کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام‬


‫ٰ‬ ‫’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ هللا‬
‫تعالی کا‬
‫ٰ‬ ‫کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں هللا‬
‫شکر بجا النا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔‬

‫ت قرآن و دیگر عبادات کے‬


‫تعالی کا شکر نماز و سجدہ‪ ،‬روزہ‪ ،‬صدقہ اور تالو ِ‬
‫ٰ‬ ‫’’هللا‬
‫ذریعہ بجا الیا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫والدت سے بڑھ کر هللا کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن‬
‫ضرور شکر بجا النا چاہیے۔‘‘‬
‫ضان‬‫ض َر َم َ‬ ‫عاش ْو َرا َء قَ ْب َل ا َْٔن ی ْف َر َ‬
‫ت‪ :‬کَان ْوا یَص ْوم ْونَ َ‬ ‫شةَ رضی هللا عنها َقا َل ْ‬ ‫عائِ َ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫‪َ .9‬‬
‫ضانَ ‪ ،‬قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫ض هللا َر َم َ‬ ‫َوکَانَ یَ ْو ًما ت ْستَر ِف ْی ِه ْال َک ْعبَة‪ ،‬فَلَ َّما فَ َر َ‬
‫ي‬ ‫وسلم‪َ :‬م ْن شَا َء ا َْٔن َیص ْو َمهٗ فَ ْل َیص ْمه‪َ ،‬و َم ْن شَا َء ا َْٔن َیتْرکَهٗ فَ ْل َیتْر ْکه۔ َر َواہ ْالبخ ِ‬
‫َار ُّ‬
‫ي‪.‬‬‫ي َو ْالبَ ْی َه ِق ُّ‬ ‫َو َّ‬
‫الطبَ َرا ِن ُّ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب الحج‪ ،‬باب قول هللا‪ :‬جعل هللا الکعبة البیت الحرام‪،‬‬
‫‪ ،578/2‬الرقم‪ ،1515 :‬والطبراني في المعجم االٔوسط‪ ،278/7 ،‬الرقم‪،7495 :‬‬
‫والبیهقي في السنن الکبری‪ ،159/5 ،‬الرقم ‪.9513‬‬

‫’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا روایت کرتی ہیں‪ :‬اہ ِل عرب رمضان کے‬
‫یوم عاشور کا روزہ رکهتے تهے کیوں کہ اس دن کعبہ‬
‫روزے فرض ہونے سے قبل ِ‬
‫تعالی نے رمضان کے روزے فرض کر دیے‬
‫ٰ‬ ‫پر غالف چڑھایا جاتا تها۔ پهر جب هللا‬
‫تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬تم میں سے جو اِس دن روزہ رکهنا‬
‫چاہے وہ روزہ رکه لے‪ ،‬اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘‬

‫اِسے امام بخاری‪ ،‬طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔‬


‫ي‪ :‬فَإِنَّهٗ ی ِفیْد أ َ َّن ْال َجا ِھ ِلیَّةَ کَان ْوا ی َع ِظم ْونَ ْال َک ْع َبةَ قَ ِد ْی ًما ِبال ُّ‬
‫ست ْو ِر َو َیق ْوم ْونَ ِب َها‪.‬‬ ‫قَا َل ْال َعسْقَ ـ َال ِن ُّ‬
‫ذکرہ العسقالني في فتح الباري‪455/3 ،‬‬

‫’’حافظ ابن حجر عسقالنی (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا‪ :‬اِس سے ثابت‬
‫زمانہ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غالف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے‬
‫ٔ‬ ‫ہوتا ہے کہ‬
‫تهے‪ ،‬اور اس کی دیکه بهال کرتے تهے۔‘‘‬
‫ف‪َ ،‬ولِهٰ ذَا کَان ْوا‬
‫سا ِل ِ‬ ‫ص َیام ق َریْش ِل َعاش ْو َرا َء فَ َل َعلَّه ْم تَلَقَّ ْوہ ِمنَ ال َّ‬
‫ش ْرعِ ال َّ‬ ‫ضا‪ :‬أ َ َّما ِ‬
‫َوقَا َل أَ ْی ً‬
‫ی َع ِظم ْونَهٗ ِب ِکس َْوۃِ ْال َک ْعبَ ِة فِ ْی ِه‪.‬‬

‫ذکرہ العسقالني في فتح الباري‪246 /4 ،‬‬

‫’’حافظ ابن حجر عسقالنی ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکهنے کی‬
‫یوم عاشور کو قریش کا روزہ رکهنے کا سبب یہ‬
‫وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں‪ِ :‬‬
‫تها کہ شاید انہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو‪ ،‬اور اِسی لیے وہ اس دن‬
‫کی تعظیم کعبہ پر غالف چڑھا کر کیا کرتے تهے۔‘‘‬
‫ب رضی هللا عنه ا ََّٔن َرجـ ًال ِمنَ ْال َیه ْو ِد قَا َل لَهٗ ‪ :‬یَا ا َِٔمی َْر ْالم ْٔو ِم ِنیْنَ ‪،‬‬ ‫َطا ِ‬ ‫ع ْن ع َم َر ب ِْن ْالخ َّ‬ ‫‪َ .10‬‬
‫ک ْال َی ْو َم ِع ْیدًا‪ ،‬قَا َل‪ :‬أَ ُّ‬
‫ي‬ ‫ت َالت َّ َخ ْذنَا ذَا ِل َ‬‫علَ ْینَا َم ْعش ََر ْال َیه ْو ِد نَزَ َل ْ‬
‫آ َیة ِفي ِکتَا ِبک ْم ت َ ْق َرئ ْونَ َها َل ْو َ‬
‫سـ َال َم ِد ْینًا}‬ ‫اال ْ‬ ‫ضیْت لَک ْم ْ ِ‬ ‫علَیْک ْم نِ ْع َمتِی َو َر ِ‬ ‫آیَة؟ قَا َل‪{ :‬ا َ ْل َی ْو َم ا َ ْک َم ْلت لَک ْم ِد ْینَک ْم َواَتْ َم ْمت َ‬
‫ع َلی النَّ ِبي ِ‬
‫ت ِف ْی ِه َ‬ ‫ک ْالیَ ْو َم َو ْال َمکَانَ الَّذِي نَزَ لَ ْ‬ ‫ع َر ْفنَا ذَا ِل َ‬
‫]المائدۃ‪ ،[5:3 ،‬قَا َل ع َمر‪ :‬قَ ْد َ‬
‫صلی هللا علیه وآله وسلم َوھ َو قَائِم ِب َع َرفَةَ َی ْو َم جم َعة‪.‬‬
‫علَ ْی ِه‪.‬‬
‫مت َّ َفق َ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب اإلیمان‪ ،‬باب زیادۃ اإلیمان ونقصانه‪ ،25/1 ،‬الرقم‪:‬‬
‫ضا في‬
‫ضا في کتاب المغازي باب حجة الوداع‪ ،1600/4 ،‬الرقم‪ ،4145 :‬وأی ً‬
‫‪ ،45‬وأی ً‬
‫ضا‬
‫کتاب تفسیر القرآن‪ ،‬باب قوله‪ :‬الیوم أکملت لکم دینکم‪ ،1683/4 ،‬الرقم‪ ،4330 :‬وأی ً‬
‫في کتاب االعتصام بالکتاب والسنة‪ ،2653/6 ،‬الرقم‪ ،6840 :‬ومسلم في الصحیح‪،‬‬
‫کتاب التفسیر‪ ،2313/4 ،‬الرقم‪ ،3017 :‬والترمذي في السنن‪ ،‬کتاب تفسیر القرآن‪ ،‬باب‬
‫من سورۃ المائدۃ‪ ،250/5 ،‬الرقم‪ ،3043 :‬والنسائي في السنن‪ ،‬کتاب اإلیمان‪ ،‬باب زیادۃ‬
‫اإلیمان‪ ،114/8 ،‬الرقم‪.5012 :‬‬

‫’’حضرت عمر بن خطاب رضی هللا عنہ سے روایت ہے‪ :‬ایک یہودی نے ان سے‬
‫کہا‪ :‬اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت‬
‫ہم گرو ِہ یہود پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ رضی هللا عنہ نے‬
‫پوچها‪ :‬کون سی آیت؟ اس نے کہا‪{ :‬آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر‬
‫طور) دین‬
‫ِ‬ ‫دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسالم کو (بہ‬
‫نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا}۔ حضرت عمر رضی هللا عنہ‬
‫ِ‬ ‫(یعنی مکمل‬
‫نے فرمایا‪ :‬جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اس وقت جمعہ‬
‫کے دن عرفات کے مقام پر کهڑے تهے۔‘‘‬

‫یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‬


‫ع ْن أ َ ْو ِس ب ِْن أ َ ْوس رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ِ :‬إ َّن‬ ‫‪َ .11‬‬
‫ص ْعقَة‪،‬‬‫ض‪َ ،‬وفِ ْی ِه النَّ ْفخَة‪َ ،‬وفِ ْی ِه ال َّ‬ ‫َّامک ْم یَ ْو َم ْالجمعَ ِة‪ ،‬فِ ْی ِه خ ِلقَ آدَم‪َ ،‬وفِ ْی ِه قبِ َ‬ ‫ض ِل أَی ِ‬ ‫ِم ْن أ َ ْف َ‬
‫ي‪ ،‬قَا َل‪ :‬قَال ْوا‪َ :‬یا َرس ْو َل هللاِ‪،‬‬ ‫علَ َّ‬ ‫ضة َ‬ ‫ص َال تَک ْم َم ْعر ْو َ‬ ‫ص َال ِۃ ِف ْی ِه‪ ،‬فَإ ِ َّن َ‬ ‫ي ِمنَ ال َّ‬ ‫فَأ َ ْک ِثر ْوا َ‬
‫علَ َّ‬
‫علَی‬‫ْت‪ .‬قَا َل‪ِ :‬إ َّن هللا َح َّر َم َ‬ ‫ت؟ قَا َل‪ :‬یَق ْول ْونَ ‪ :‬بَ ِلی َ‬ ‫ک َوقَ ْد أ َ ِر ْم َ‬‫صـ َالتنَا َعلَ ْی َ‬ ‫ْف ت ْع َرض َ‬ ‫َکی َ‬
‫سادَ ْ َٔ‬
‫اال ْن ِب َی ِ‬
‫اء‪.‬‬ ‫ض أ َ ْج َ‬ ‫ْاال َْٔر ِ‬
‫سا َمنَا‪.‬‬ ‫ض أ َ ْن تَأْک َل أ َ ْج َ‬ ‫ع َلی ْاال َْٔر ِ‬ ‫عـ َال َح َّر َم َ‬ ‫وفي روایة‪ :‬فَ َقا َل‪ِ :‬إ َّن هللا َج َّل َو َ‬
‫ي‪.‬‬‫ي َوابْن َما َجه َوابْن خزَ ْی َمةَ َوابْن ِحبَّانَ َوالد َِّار ِم ُّ‬ ‫سا ِئ ُّ‬ ‫َر َواہ أ َ ْح َمد َوأَب ْو دَاودَ َواللَّ ْفظ لَهٗ َوالنَّ َ‬
‫ص َّح َحه ابْن‬ ‫ي‪َ :‬‬ ‫َاري ِ‪َ .‬وقَا َل ْال َوا ِدیَا ِش ُّ‬ ‫ع ٰلی ش َْر ِط ْالبخ ِ‬ ‫ص ِحیْح َ‬ ‫َوقَا َل ْال َحا ِکم‪ٰ :‬ھذَا َح ِدیْث َ‬
‫ي بِإ ِ ْسنَاد َجیِد‪.‬‬ ‫ي‪َ :‬ر َواہ ْالبَ ْی َه ِق ُّ‬ ‫ص َّح َحه ابْن خزَ ْی َمةَ‪َ .‬و َقا َل ْالعَ ْجل ْونِ ُّ‬ ‫ي‪َ :‬و َ‬ ‫ِحبَّانَ ‪َ .‬وقَا َل ْالعَسْقَ ـ َال ِن ُّ‬
‫اال ْذک ِ‬
‫َار‪.‬‬ ‫ي فِي ْ َٔ‬ ‫ص َّح َحه النَّ َو ِو ُّ‬ ‫َوقَا َل ابْن َک ِثیْر‪ :‬تَفَ َّردَ ِبه أَب ْو دَاودَ َو َ‬
‫أخرجه أبو داود في السنن‪ ،‬کتاب الصالۃ‪ ،‬باب فضل یوم الجمعة ولیلة الجمعة‪،275/1 ،‬‬
‫ضا في کتاب الصالۃ‪ ،‬باب في االستغفار‪ ،88/2 ،‬الرقم‪،1531 :‬‬
‫الرقم‪ ،1047 :‬وأی ً‬
‫وأحمد بن حنبل في المسند‪ ،8/4 ،‬الرقم‪ ،16207 :‬والنسائي في السنن‪ ،‬کتاب الجمعة‪،‬‬
‫باب بإکثار الصالۃ علی النبي صلی هللا علیه وآله وسلم یوم الجمعة‪ ،91/3 ،‬الرقم‪:‬‬
‫ضا في السنن الکبری‪ ،519/1 ،‬الرقم‪ ،1666 :‬وابن ماجه في السنن‪ ،‬کتاب‬
‫‪ ،1374‬وأی ً‬
‫إقامة الصالۃ‪ ،‬باب في فضل الجمعة‪ ،345/1 ،‬الرقم‪ ،1085 :‬وابن خزیمة في الصحیح‪،‬‬
‫‪ ،118/3‬الرقم‪1733 :‬۔ ‪ ،1734‬وابن حبان في الصحیح‪ ،190/3 ،‬الرقم‪،910 :‬‬
‫والدارمي في السنن‪ ،445/1 ،‬الرقم‪ ،1572 :‬وابن أبي شیبة في المصنف‪،253/2 ،‬‬
‫الرقم‪ ،8697 :‬والحاکم في المستدرک‪ ،413/1 ،‬الرقم‪ ،1029 :‬والطبراني في المعجم‬
‫ضا في المعجم الکبیر‪ ،261/1 ،‬الرقم‪،589 :‬‬
‫األوسط‪ ،97/5 ،‬الرقم‪ ،4780 :‬وأی ً‬
‫والبزار في المسند‪ ،411/8 ،‬الرقم‪ ،3485 :‬والبیهقي في السنن الصغری‪،371/1 ،‬‬
‫ضا في شعب‬
‫ضا في السنن الکبری‪ ،248/3 ،‬الرقم‪ ،5789 :‬وأی ً‬
‫الرقم‪ ،634 :‬وأی ً‬
‫ضا في فضائل األوقات‪،275 ،497/1 ،‬‬
‫اإلیمان‪ ،109/3 ،‬الرقم‪ ،3029 :‬وأی ً‬
‫والجهضمي في فضل الصالۃ علی النبي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،37/1 ،‬الرقم‪،22 :‬‬
‫والوادیاشي في تحفة المحتاج‪ ،524/1 ،‬الرقم‪ ،661 :‬والعسقالني في فتح الباري‪،‬‬
‫‪ ،370/11‬والعجلوني في کشف الخفاء‪ ،190/1 ،‬الرقم‪.501 :‬‬
‫’’حضرت اَوس بن اَوس رضی هللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول هللا صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے‬
‫اس دن حضرت آدم علیہ السالم پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی‬
‫دن صور پهونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجه پر‬
‫کثرت سے درود بهیجا کرو کیوں کہ تمہارا درود مجهے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ‬
‫کرام نے عرض کیا‪ :‬یا رسول هللا! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے‬
‫پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جس ِد مبارک تو خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بیشک هللا نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو‬
‫(کسی بهی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘‬

‫ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بے شک هللا برزگ‬
‫و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کهائے۔‘‘‬

‫اِس حدیث کو امام اَحمد‪ ،‬ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساته‪ ،‬نسائی‪ ،‬ابن ماجہ‪ ،‬ابن‬
‫خزیمہ‪ ،‬ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا‪ :‬یہ حدیث امام‬
‫بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ امام وادیاشی نے فرمایا‪ :‬اِسے امام ابن‬
‫حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ عسقالنی نے فرمایا‪ :‬اِسے امام ابن خزیمہ نے‬
‫صحیح قرار دیا ہے۔ امام عجلونی نے فرمایا‪ :‬اِسے امام بیہقی نے عمدہ سند کے ساته‬
‫روایت کیا ہے۔‬
‫ي صلی هللا علیه وآله‬ ‫ع ْن أَ ِبي ل َبا َبةَ ب ِْن َع ْب ِد ْالم ْنذ ِِر رضی هللا عنه َقا َل‪ :‬قَا َل النَّ ِب ُّ‬ ‫‪َ .12‬‬
‫ضحٰ ی‪،‬‬ ‫اال ْ‬ ‫ظم ِع ْندَ هللاِ ِم ْن َی ْو ِم ْ َٔ‬ ‫ظم َها ِع ْندَ هللاِ َوھ َو أَ ْع َ‬ ‫س ِید ْ َٔ‬
‫االی َِّام‪َ ،‬وأَ ْع َ‬ ‫وسلم‪ :‬إِ َّن َی ْو َم ْالجمعَ ِة َ‬
‫ض‪َ ،‬و ِف ْی ِه تَ َوفَّی هللا آدَ َم‪َ ،‬و ِف ْی ِه‬ ‫ط ِر‪ِ ،‬ف ْی ِه خ َْمس خِـ َالل‪َ :‬خلَقَ هللا ِف ْی ِه آدَ َم ِإلَی ْاال َْٔر ِ‬ ‫َو َی ْو ِم ْال ِف ْ‬
‫عة َما ِم ْن‬ ‫سا َ‬ ‫طاہ َما لَ ْم یَ ْسا َْٔل َح َرا ًما‪َ ،‬وفِ ْی ِه تَقوم ال َّ‬ ‫عة َال یَ ْسا َٔل هللا فِ ْی َها ْال َعبْد َ‬
‫ش ْیئًا ِإ َّال أَ ْع َ‬ ‫سا َ‬ ‫َ‬
‫س َمائ َو َال ا َْٔرض َو َال ِریَاح َو َال ِجبَال َو َال َب ْحر إِ َّال َوھ َّن ی ْش ِف ْقنَ ِم ْن َی ِ‬
‫وم‬ ‫َملَک م َق َّرب َو َال َ‬
‫ْالجم َع ِة‪.‬‬
‫ي فِي ْال َک ِبی ِْر‪.‬‬‫َار ُّ‬ ‫َر َواہ أ َ ْح َمد َوابْن َما َجه َواللَّ ْفظ لَهٗ َو ْالبخ ِ‬
‫أخرجه ابن ماجه في السنن‪ ،‬کتاب إقامة الصالۃ والسنة فیها‪ ،‬باب في فضل الجمعة‪،‬‬
‫‪ ،344/1‬الرقم‪ ،1084 :‬وأحمد بن حنبل في المسند‪ ،284/5 ،430/3 ،‬الرقم‪،22510 :‬‬
‫وابن أبي شیبة في المصنف‪ ،477/1 ،‬الرقم‪ ،5516 :‬والشافعي في المسند‪،71/1 ،‬‬
‫والبزار عن سعد بن عبادۃ رضی هللا عنه في المسند‪ ،191/9 ،‬الرقم‪ ،3738 :‬وعبد بن‬
‫حمید في المسند‪ ،127/1 ،‬الرقم‪ ،309 :‬والطبراني في المعجم الکبیر‪ ،33/5 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،19/6 ،4511‬الرقم‪ ،5376 :‬والبخاري في التاریخ الکبیر‪ ،44/4 ،‬الرقم‪.1911 :‬‬

‫’’حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے‬
‫تعالی کے ہاں‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے ہاں عظمت واال ہے اور هللا‬
‫ٰ‬ ‫اور باقی دنوں سے بڑھ کر هللا‬
‫اس کی عظمت عید االضحی اور عید الفطر سے بهی بڑھ کر ہے (کیوں کہ) اس دن‬
‫تعالی نے حضرت آدم علیہ السالم کو‬
‫ٰ‬ ‫میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں‪ :‬اس دن هللا‬
‫پیدا فرمایا اور اسی دن انہیں وفات دی اور اس دن میں ایک ساعت ایسی ہوتی ہے‬
‫تعالی سے جو بهی سوال کرے وہ اسے عطا فرماتا ہے جب تک کہ‬
‫ٰ‬ ‫جس میں بندہ هللا‬
‫وہ کسی حرام چیز کا سوال نہیں کرتا‪ ،‬اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ کوئی مقرب‬
‫فرشتہ‪ ،‬آسمان‪ ،‬زمین‪ ،‬ہوا‪ ،‬پہاڑ اور سمندر ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا‬
‫ہو (کیوں کہ اس دن قیامت بپا ہوگی)۔‘‘‬

‫اسے امام احمد‪ ،‬ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساته اور بخاری نے التاریخ الکبیر‬
‫میں بیان کیا ہے۔‬
‫اري ِ رضی هللا عنه ا ََّٔن َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‬ ‫ص ِ‬ ‫ع ْن أَبِي قَتَادَۃ َ ْاالَٔ ْن َ‬‫‪َ .13‬‬
‫ي۔ َر َواہ م ْس ِلم‪.‬‬ ‫علَ َّ‬ ‫ْ‬
‫ص ْو ِم ا ِالثنَی ِْن فَ َقا َل‪ :‬فِ ْی ِه و ِلدْت َو ِف ْی ِه أُ ْن ِز َل َ‬ ‫ع ْن َ‬
‫سئِ َل َ‬
‫ي‪.‬‬
‫سائِ ُّ‬ ‫ي فِ ْی ِه النُّب َّوۃ۔ َر َواہ أ َ ْح َمد َوالنَّ َ‬ ‫علَ َّ‬
‫ت َ‬ ‫وفي روایة‪ :‬أُ ْن ِزلَ ْ‬

‫ب صیام ثالثة أیام من کل شهر‪،‬‬


‫أخرجه مسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب الصیام‪ ،‬باب استحبا ِ‬
‫‪ ،819/2‬الرقم‪ ،1162 :‬وأحمد بن حنبل في المسند‪ ،297 ،296/5 ،‬الرقم‪،22590 :‬‬
‫‪ ،22594‬والنسائي في السنن الکبری‪ ،146/2 ،‬الرقم‪.2777 :‬‬
‫’’حضرت ابو قتادہ انصاری رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکهنے کے بارے میں سوال کیا گیا‬
‫تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اِسی روز میری والدت ہوئی اور اِسی‬
‫روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘‬

‫اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‬

‫ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاـ‪’’ :‬اِسی روز مجهے‬
‫نبوت (یعنی بعثت) سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ اِسے امام احمد اور نسائی نے روایت کیا‬
‫ہے۔‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم یَ ْو َم‬ ‫ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل‪ :‬و ِلدَ النَّ ِب ُّ‬ ‫‪َ .14‬‬
‫اج ًرا ِم ْن َم َّکةَ ِإلَی ْال َم ِد ْینَ ِة َی ْو َم ِاالثْ َنی ِْن‪َ ،‬وقَد َِم‬ ‫ئ َی ْو َم ا ِالثْنَی ِْن‪َ ،‬وخ ََر َج م َه ِ‬ ‫ا ِالثْ َنی ِْن‪َ ،‬واسْت ْن ِب َ‬
‫ْال َم ِد ْینَةَ یَ ْو َم ِاالثْ َنی ِْن‪َ ،‬و َر َف َع ْال َح َج َر َی ْو َم ِاالثْ َنی ِْن‪.‬‬
‫ض ِعیْف‪َ ،‬و َب ِقیَّه‬ ‫ي َو ِف ْی ِه ابْن لَ ِه ْی َعةَ َوھ َو َ‬ ‫ي‪َ :‬ر َواہ أ َ ْح َمد َو َّ‬
‫الط َب َرا ِن ُّ‬ ‫َر َواہ أ َ ْح َمد‪َ .‬وقَا َل ْال َه ْیثَ ِم ُّ‬
‫ْح‪.‬‬
‫ص ِحی ِ‬ ‫ِر َجا ِله ثِقَات ِم ْن أ َ ْھ ِل ال َّ‬

‫ضا في المسائل‪،59/1 ،‬‬


‫أخرجه أحمد بن حنبل في المسند‪ ،277/1 ،‬الرقم‪ ،2506 :‬وأی ً‬
‫وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق‪ ،67/3 ،‬والهیثمي في مجمع الزوائد‪،196/1 ،‬‬
‫والطبري في جامع البیان‪ ،84/6 ،‬وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم‪ ،14/2 ،‬والطبري‬
‫في تاریخ األمم والملوک‪ ،241 ،5/2 ،‬وابن کثیر في البدایة والنهایة‪،177/3 ،260/2 ،‬‬
‫والکالعي في االکتفاء‪ ،453/2 ،‬والفاکهي في أخبار مکة‪ ،6/4 ،‬الرقم‪ ،2298 :‬وابن‬
‫عبد البر في االستیعاب‪ ،47/1 ،‬والسیوطي في الخصائص الکبری‪.473/2 ،‬‬

‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کی پیر کے روز والدت ہوئی‪ ،‬اور پیر کے روز ہی آپ صلی هللا‬
‫شرف نبوت سے سرفراز کیا گیا اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ِ‬ ‫علیہ وآلہ وسلم کو‬
‫نے پیر کے روز ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ پیر کے‬
‫روز ہی مدینہ منورہ میں آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور‬
‫حجر اسود اٹهانے کا واقعہ بهی پیر کے روز ہی ہوا۔‘‘‬
‫اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا‪ :‬اس حدیث کو امام‬
‫احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابن لهیعہ نامی راوی کے‬
‫عالوہ دیگر رجال ثقہ اور صحیح حدیث کے رجال میں سے ہیں۔‬
‫عبَّاس رضی هللا عنهما قَ َاال‪ :‬و ِلدَ‬ ‫ع ْب ِد هللاِ ب ِْن َ‬ ‫اري ِ َو َ‬ ‫ص ِ‬ ‫ع ِن َجا ِب ِر ب ِْن َع ْب ِد هللاِ األ َ ْن َ‬ ‫‪َ .15‬‬
‫عش ََر ِم ْن َ‬
‫ش ْه ِر َربِیْعِ‬ ‫َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم َی ْو َم ْال ِف ْی ِل یَ ْو َم ا ِالثْنَی ِْن الثَّانِي َ‬
‫ات صلی هللا علیه وآله‬ ‫اء‪َ ،‬و ِف ْی ِه ھَا َج َر‪َ ،‬و ِف ْی ِه َم َ‬ ‫ث‪َ ،‬و ِف ْی ِه ع ِر َج ِإلَی ال َّ‬
‫س َم ِ‬ ‫األ َ َّو ِل‪َ ،‬و ِف ْی ِه ب ِع َ‬
‫وسلم‪.‬‬
‫ي َو َل ْم َی ْج َر ْحهٗ ‪.‬‬ ‫سیْن ابْن ِإب َْرا ِھی َْم ْال َج ْو َرقَا ِن ُّ‬ ‫َر َواہ ْال َح َ‬
‫أخرجه الحافظ أبو عبد هللا الحسین ابن إبراھیم الجورقاني الهمذاني في األباطیل‬
‫والمناکیر والصحاح والمشاھیر‪ ،‬کتاب الفضائل‪ ،‬باب فضل النبي صلی هللا علیه وآله‬
‫وسلم ‪ ،27/‬الرقم‪.122 :‬‬

‫’’حضرت جابر بن عبد هللا انصاری اور حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما‬
‫ت مبارکہ عام‬
‫دونوں نے بیان فرمایا‪ :‬رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والد ِ‬
‫الفیل‪ ،‬پیر کے روز بارہ ربیع االول کو ہوئی‪ ،‬اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫شرف نبوت سے سرفراز کیا گیا اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ِ‬ ‫وسلم کو‬
‫کو آسمان کی طرف بلند کیا گیا (یعنی معراج کرائی گئی)‪ ،‬اور اسی دن آپ صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی‪ ،‬اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا‬
‫وصال مبارک ہوا۔‘‘‬

‫اسے امام حسین بن ابراہیم الجورقانی نے بغیر کسی جرح کے روایت کیا ہے۔‬
‫ع ْن م َح َّم ِد ب ِْن إِ ْس َحاقَ رضی هللا عنہ قَا َل‪ :‬و ِلدَ َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫وفي روایة‪َ :‬‬
‫ْ‬
‫ش ْه ِر َر ِبیْعِ ْاال ََّٔو ِل۔ َر َواہ ال َحا ِکم‬
‫ت ِم ْن َ‬ ‫ً‬
‫عش ََر لَ ْیلَة َم َ‬
‫ض ْ‬ ‫ام ْال ِف ْی ِل َی ْو َم ِاالث َنی ِْن ِالث َنتَي َ‬
‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ع َ‬‫وسلم َ‬
‫َوابْن ِحبَّانَ َوابْن إِ ْس َحاقَ َو ْالبَ ْی َه ِق ُّ‬
‫ي َواللَّ ْفظ لَهٗ ‪.‬‬

‫أخرجه الحاکم في المستدرک‪ ،659/2 ،‬الرقم‪ ،4182 :‬وابن حبان في الثقات‪،15/1 ،‬‬
‫ضا في دالئل النبوۃ‪،74/1 ،‬‬
‫والبیهقي في شعب اإلیمان‪ ،135/2 ،‬الرقم‪ ،1387 :‬وأی ً‬
‫وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق‪ ،73/3 ،‬وابن جریر في تاریخ األمم والملوک‪،‬‬
‫‪ ،453/1‬والکالعي في االکتفاء‪ ،131/1 ،‬وابن إسحاق في السیرۃ النبویة‪591/‬۔‪،594‬‬
‫وابن ھشام في السیرۃ النبویة‪.293/1 ،‬‬

‫’’حضرت محمد بن اسحاق رضی هللا عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیر کے روز بارہ ربیع االول کو اس دنیا میں‬
‫تشریف الئے۔‘‘‬

‫اسے امام حاکم‪ ،‬ابن حبان‪ ،‬ابن اسحاق اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساته روایت‬
‫کیا ہے۔‬
‫ان ِم ْن َج َو ِار َ‬
‫ي‬ ‫ار َیت َ ِ‬‫ت‪ :‬دَ َخ َل أَب ْو َب ْکر َو ِع ْندِي َج ِ‬‫شةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ‬ ‫عا ِئ َ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫‪َ .16‬‬
‫ستَا ِبم َغ ِنیَتَی ِْن‪ ،‬فَقَا َل أَب ْو َب ْکر‪ :‬أ َ‬
‫ت‪َ :‬ولَ ْی َ‬
‫اث‪َ ،‬قالَ ْ‬
‫صار َی ْو َم ب َع َ‬ ‫اال ْن َ‬‫ت ْ َٔ‬ ‫ان ِب َما تَقَ َاولَ ِ‬
‫ار‪ ،‬ت َغنِیَ ِ‬ ‫ص ِ‬ ‫ْ َٔ‬
‫اال ْن َ‬
‫ک فِي َی ْو ِم ِعیْد‪ .‬فَقَا َل‬ ‫ت َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ َوذَا ِل َ‬ ‫ان فِي َب ْی ِ‬ ‫ط ِ‬ ‫ش ْی َ‬
‫َمزَ ِامیْر ال َّ‬
‫َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ :‬یا أَ َبا َب ْکر‪ِ ،‬إ َّن ِلک ِل قَ ْوم ِع ْیدًا َو ٰھذَا ِعیْدنَا‪.‬‬
‫علَ ْی ِه‪.‬‬‫مت َّ َفق َ‬
‫ان ِبدف‪.‬‬ ‫ان ت َ ْل َعبَ ِ‬
‫ار َیت َ ِ‬
‫وفي روایة ِلم ْس ِلم‪َ :‬وفِ ْی ِه َج ِ‬
‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب العیدین‪ ،‬باب سنة العیدین الٔہل اإلسالم‪،324/1 ،‬‬
‫الرقم‪ ،909 :‬ومسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب صالۃ العیدین‪ ،‬باب الرفعة في اللعب الذي ال‬
‫معصیة فیه في أیام العید‪ ،607/2 ،‬الرقم‪ ،892 :‬وابن ماجه في السنن‪ ،‬کتاب النکاح‪،‬‬
‫باب الغناء والدف‪ ،612/1 ،‬الرقم‪ ،1898 :‬وابن حبان في الصحیح‪،187 ،180/13 ،‬‬
‫الرقم‪.5877 ،5871:‬‬

‫’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت‬
‫ابو بکر رضی هللا عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو (نابالغ) لڑکیاـں ‪ -‬انصار‬
‫نے جنگ بعاث میں جو بہادری دکهائی تهی ‪ -‬وہ بیان کر رہیں تهیں۔ وہ فرماتی ہیں‬
‫کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تهیں۔ حضرت ابو بکر رضی هللا عنہ نے فرمایا‪:‬‬
‫رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے گهر میں شیطانی باجہ! اور یہ عید کے دن‬
‫کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اے ابو بکر! ہر‬
‫قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘‬
‫یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‬

‫امام مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں دف بجا رہی تهیں۔‘‘‬

‫ي َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‬ ‫علَ َّ‬
‫ت‪ :‬دَ َخ َل َ‬‫شةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ‬ ‫ع ْن َ‬
‫عا ِئ َ‬ ‫‪َ .17‬‬
‫علَی ْال ِف َر ِ‬
‫اش َو َح َّو َل َو ْج َههٗ ‪َ ،‬ودَ َخ َل أَب ْو‬ ‫ض َ‬
‫ط َج َع َ‬ ‫اث‪ ،‬فَا ْ‬‫َاء بعَ َ‬ ‫َو ِع ْندِي َج ِ‬
‫اریَت َ ِ‬
‫ان ت َغ ِنیَ ِ‬
‫ان ِب ِغن ِ‬
‫ان ِع ْندَ النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ فَا َٔ ْق َب َل َ‬
‫ع َل ْی ِه‬ ‫ط ِ‬ ‫ش ْی َ‬ ‫َب ْکر‪ ،‬فَا ْنت َ َه َرنِي َوقَا َل‪ِ :‬م ْز َم َ‬
‫ارۃ ال َّ‬
‫غ َم ْزته َما‪ ،‬فَخ ََر َجتَا‪َ ،‬وکَانَ‬
‫غفَ َل‪َ ،‬‬‫َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم فَقَا َل‪ :‬دَعْه َما‪ ،‬فَلَ َّما َ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم َو ِإ َّما‬ ‫سا َْٔلت النَّ ِب َّ‬ ‫ق َو ْال ِح َرا ِ‬
‫ب‪ ،‬فَإ ِ َّما َ‬ ‫یَ ْو َم ِعیْد یَ ْل َعب ال ُّ‬
‫س ْودَان ِبالد ََّر ِ‬
‫ع ٰلی َخ ِدہ‪َ ،‬وھ َو َیق ْول‪ :‬د ْونَک ْم َیا‬ ‫قَا َل‪ :‬ت َ ْشتَ ِهیْنَ تَ ْنظ ِریْنَ ؟ فَق ْلت‪َ :‬ن َع ْم‪ ،‬فَأَقَا َمنِي َو َرا َء ٗہ‪َ ،‬خ ِدي َ‬
‫ک؟ ق ْلت‪ :‬نَعَ ْم۔ قَا َل‪ :‬فَا ْذ َھبِي‪.‬‬
‫بَ ِني ا َْٔرفِدَۃ َ‪َ ،‬حتّٰی إِذَا َم ِل ْلت۔ قَا َل‪َ :‬حسْب ِ‬

‫علَ ْی ِه‪.‬‬
‫مت َّ َفق َ‬
‫عا ِئشَة ‪ :-‬کَانَ َی ْو َم ِعیْد‘‘ َفت َ َبیَّنَ ِبهٰ ذَا أَنَّهٗ‬ ‫ت ‪ -‬أَي َ‬ ‫ح‪َ ’’ :‬وقَالَ ْ‬ ‫ي ِفي ْالفَتْ ِ‬ ‫قَا َل ْال َعسْقَ ـ َال ِن ُّ‬
‫الز ْھ ِري ِ ْال َم ْذک ْو َرۃِ‪َ ’’ :‬و ْال َحبَشَة‬ ‫س ْودَان‘‘ فِي ِر َوایَ ِة ُّ‬ ‫َم ْوص ْول ک َْاال ََّٔو ِل۔ َق ْولهٗ ‪’’ :‬یَ ْل َعب فِ ْی ِه ال ُّ‬
‫صلَ َها م ْس ِلم ’’بِ ِح َرابِ ِه ْم‘‘ َو ِلم ْس ِلم ِم ْن‬ ‫یَ ْلعَب ْونَ فِي ْال َمس ِْجدِ‪َ ‘‘.‬وزَ ادَ فِي ِر َوایَة معَلَّقَة َو َو َ‬
‫ي‪ٰ :‬ھذَا‬ ‫ع ْن أَ ِب ْی ِه‪َ ’’ :‬جا َء َح َبش َی ْل َعب ْونَ فِي ْال َمس ِْج ِد‘‘‪ ،‬قَا َل ْالم ِحبُّ َّ‬
‫الط َب ِر ُّ‬ ‫ِر َوا َی ِة ِھشَام َ‬
‫ک فِي ک ِل ِعیْد‪َ ،‬و َو َق َع فِي ِر َوایَ ِة اب ِْن ِحبَّانَ ‪’’ :‬لَ َّما قَد َِم َوفَد‬ ‫عادَتَه ْم ذَا ِل َ‬ ‫ال ِسیَاق ی ْش ِعر بِا ََّٔن َ‬
‫ک ِب َحا ِل‬ ‫ْص َله ْم ِفي ذَا ِل َ‬ ‫ش ِة‪ ،‬قَام ْوا َی ْل َعب ْونَ ِفي ْال َمس ِْجدِ۔‘‘ َو ٰھذَا ی ْش ِعر ِبأ َ َّن الت َّ ْر ِخی َ‬ ‫ْال َح َب َ‬
‫عادَ ِت ِهم‬ ‫صادِف یَ ْو َم ِعیْد َوکَانَ ِم ْن َ‬ ‫ْالقد ْو ِم‪َ ،‬و َال تنَافِي َب ْینَه َما ِال ْحتِ َما ِل ا َْٔن َیک ْونَ قد ْومه ْم َ‬
‫صار ْوا یَ ْلعَب ْونَ یَ ْو َم ک ِل ِعیْد‪َ ،‬و َی َؤیِد ٗہ َما َر َواہ‬ ‫ک َکعَادَ ِت ِه ْم ث َّم َ‬ ‫اللَّ ِعب فِي ْاالَٔ ْعیَادِ‪ ،‬فَفَعَل ْوا ذَا ِل َ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ‪،‬‬ ‫ع ْن أَنَس رضی هللا عنه قَا َل‪ ’’:‬لَ َّما قَد َِم النَّ ِب ُّ‬ ‫أَب ْو دَاودَ‪َ ،‬‬
‫ک ا َْٔن َی ْو َم قد ْو ِمه صلی هللا علیه وآله‬ ‫ش َّ‬ ‫ک لَ ِعب ْوا بِ ِح َرا ِب ِه ْم‪َ ‘‘.‬و َال َ‬ ‫ت ْال َحبَشَة فَ ِر ًحا بِذَا ِل َ‬ ‫لَ ِعبَ ِ‬
‫ظ َم ِم ْن َی ْو ِم ْال ِع ْیدِ‪.‬‬‫وسلم کَانَ ِع ْندَھ ْم أَ ْع َ‬

‫أخرجه البخاري في الصحیح‪ ،‬کتاب العیدین‪ ،‬باب الحراب والدرق یوم العید‪،323/1 ،‬‬
‫الرقم‪ ،907 :‬ومسلم في الصحیح‪ ،‬کتاب صالۃ العیدین‪ ،‬باب الرخصة في اللعب الذي ال‬
‫معصیة فیه في أیام العید‪ ،609/2 ،‬الرقم‪ ،892 :‬وأبو یعلی في المسند‪ ،247/8 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،4829‬والبیهقي في السنن الکبری‪ ،218/10 ،‬والعسقالني في فتح الباري‪.443/2 ،‬‬
‫’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور‬
‫نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف الئے اور میرے پاس دو‬
‫لڑکیاں جنگ بعاث کے ترانے گا رہی تهیں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم بستر پر‬
‫آرام فرما ہو گئے اور ان سے منہ پهیر لیا۔ پهر حضرت ابو بکر رضی هللا عنہ‬
‫تشریف لے آئے اور انہوں نے مجهے ڈانٹا اور فرمایا‪ :‬حضور نبی اکرم صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی ساز! حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫حضرت ابو بکر کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا‪( :‬ابو بکر) انہیں چهوڑ دو۔ (حضرت‬
‫عائشہ فرماتی ہیں کہ) جب حضرت ابو بکر کسی اور طرف متوجہ ہوئے تو میں‬
‫نے لڑکیوں کو نکل جانے کا اشارہ کیا۔ وہ حبشیوں کی عید کا دن تها جو ڈھالوں اور‬
‫برچهیوں سے کهیلتے۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے‬
‫عرض کیا یا آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا‪( :‬اے عائشہ! کیا) تم‬
‫دیکهنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کیا‪ :‬جی ہاں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫مجهے اپنے پیچهے کهڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫رخسار مبارک پر تها اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم فرماتے رہے‪ :‬اے بنو ارفدہ!‬
‫ِ‬
‫اور دکهاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو مجه سے فرمایا‪ :‬بس! تو میں نے‬
‫عرض کیا‪ :‬جی (یا رسول هللا!)۔ تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬جاؤ۔‘‘‬

‫یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‬

‫حافظ عسقالنی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی هللا عنہا‬
‫فرماتی ہیں‪’’ :‬وہ عید کا دن تها۔‘‘ پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث بهی‬
‫پہلی حدیث کی طرح موصول ہے جس میں ہے کہ ’’اس دن حبشہ والے مسجد‬
‫مینرقص کرتے‘‘ اور امام زہری کی مذکورہ روایت میں ہے‪’’ :‬اہل حبشہ مسجد میں‬
‫کهیلتے‘‘ اور انہوں (امام زہری) نے ایک روایت ‪ -‬جو امام مسلم سے متصل ہے ‪-‬‬
‫میں لفظ بحرابهم (اپنے جنگی ساز و سامان کے ساته) کا اضافہ کیا ہے اور امام‬
‫مسلم کی روایت جو کہ حضرت ہشام کی اپنے والد سے ہے ‪ -‬میں یہ الفاظ آتے‬
‫ہین َجا َء حبَش یَ ْل َعب ْونَ فِي ْال َمس ِْج ِد کہ حبشہ کے لوگ مسجد میں کهیلنے کے لیے آئے۔‬
‫امام محب الدین طبری نے بیان کیا کہ یہ سیاق بتالتا ہے کہ ہر عید میں ان کی یہ‬
‫عادت تهی کہ وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساته) کهیلتے تهے۔ امام ابن‬
‫حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا‪ ،‬تو وہ مسجد میں (اپنے سامان‬
‫حرب کے ساته) رقص کرنے لگے‪ ،‬اور یہ چیز بتالتی ہے کہ انہیں اس کام کی‬
‫اجازت وہاں آتے وقت ملی تهی۔ اور ان دونوں چیزوں میں مغایرت نہیں ہے کیوں‬
‫کہ ممکن ہے ان کا وہاں آنا عید کے روز ہو‪ ،‬اور عیدوں میں کهیلنا ان کی عادت ہو‪،‬‬
‫پس انہوں نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہو‪ ،‬پهر وہ ہر عید کو ایسا کرنے لگے‬
‫ہوں۔ اس چیز کی تائید وہ روایت بهی کرتی ہے‪ ،‬جسے امام ابو داود نے حضرت‬
‫انس رضی هللا عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا‪ :‬جب حضور نبی اکرم صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف الئے‪ ،‬تو اہ ِل حبشہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کی آمد کی خوشی میں اپنے سامان حرب کے ساته رقص کیا اور اس میں‬
‫کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ‬
‫تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر‬
‫تها۔‘‘‬
‫ع ْن أَنَس رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬لَ َّما قَد َِم َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ‬ ‫‪َ .18‬‬
‫ک‪.‬‬‫ت ْال َح َبشَة ِلقد ْو ِمه ِب ِح َرا ِب ِه ْم فَ َر ًحا ِبذَا ِل َ‬‫لَ ِع َب ِ‬
‫ص ِغی ِْر َوأَب ْو َی ْع ٰلی‪.‬‬
‫ي فِي ال َّ‬ ‫ص ِحیْح َو ْالبخ ِ‬
‫َار ُّ‬ ‫َر َواہ ا َْٔح َمد َوأَب ْو دَاودَ َو ِإ ْسنَاد ٗہ َ‬
‫أخرجه أحمد بن حنبل في المسند‪ ،161/3 ،‬الرقم‪ ،12670 :‬وأبو داود في السنن‪ ،‬کتاب‬
‫االٔدب‪ ،‬باب في النہي عن الغناء‪ ،281/4 ،‬الرقم‪ ،4923 :‬والبخاري في التاریخ‬
‫الصغیر‪ ،8/1 ،‬الرقم‪ ،15 :‬وعبد بن حمید في المسند‪ ،371/1 ،‬الرقم‪ ،1239 :‬وأبو‬
‫یعلی في المسند‪ ،177/6 ،‬الرقم‪.3459 :‬‬

‫’’حضرت اَنس رضی هللا عنہ نے بیان فرمایا‪ :‬جب حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف الئے تو اہ ِل حبشہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫ت حرب کے ساته خوب کهیل کود (اور رقص)‬
‫آمد کی خوشی مناتے ہوئے اپنے آال ِ‬
‫کیا۔‘‘‬

‫اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی اسناد صحیح‬
‫ہے‪ ،‬اس کے عالوہ امام احمد اور بخاری نے التاریخ الصغیر میں اور ابو یعلی نے‬
‫روایت کیا ہے۔‬
‫ت‪ :‬خ ََر َج َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‬ ‫شةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ‬ ‫عائِ َ‬ ‫ع ْن َ‬‫‪َ .19‬‬
‫َٔطلَع ِم ْن خ َْوخَة ِلي‪ ،‬فَدَنَا ِم ِني َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪،‬‬ ‫َو ْال َح َبشَة َی ْل َعب ْونَ ‪َ ،‬وأَنَا ا ْ‬
‫ع ٰلی َم ْن ِک ِبه‪َ ،‬و َج َع ْلت أَ ْنظر‪ ،‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪:‬‬ ‫ض ْعت یَدِي َ‬ ‫فَ َو َ‬
‫بَنَات ا َْٔرفِدَۃ َ‪ ،‬فَ َما ِز ْلت‪َ ،‬وھ ْم یَ ْل َعب ْونَ ‪َ ،‬و َی ْزفِن ْونَ (وفي روایة‪ :‬یَ ْرقص ْونَ ) َحتّٰی ک ْنت أَنَا الَّتِي‬
‫ي‪.‬‬ ‫ي َو َّ‬
‫الط َب َرا ِن ُّ‬ ‫سائِ ُّ‬ ‫ا ْنت َ َهیْت۔ َر َواہ النَّ َ‬
‫الر ْقص‪.‬‬ ‫ي‪َ :‬وھ ْم یَ ْلعَب ْونَ َو َی ْزفِن ْونَ ‪َ ،‬و ُّ‬
‫الز ْفن‪َّ :‬‬ ‫َوقَا َل ْالعَسْقَ ـ َالنِ ُّ‬
‫أخرجه النسائي في السنن الکبری‪ ،309/5 ،‬الرقم‪ ،8958 :‬والطبراني في المعجم‬
‫األوسط‪ ،121/9 ،‬الرقم‪ ،9303 :‬والعسقالني في تلخیص الحبیر‪ ،202/4 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،2125‬وابن الملقن في خالصة البدر المنیر‪ ،443/2 ،‬الرقم‪.2917 :‬‬

‫’’حضرت عائشہ رضی هللا عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫باہر تشریف الئے درآنحالیکہ حبشی کهیل رہے تهے‪ ،‬میں نے اپنے حجرہ کے‬
‫دروازہ سے باہر جهانکا تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے قریب ہوئے‪،‬‬
‫پس میں نے اپنا ہاته رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے پر رکها‬
‫اور (ان حبشیوں کو کهیلتے ہوئے) دیکهنے لگی‪ ،‬تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫ت اَرفدہ۔ پس میں انہیں دیکهتی رہی درآنحالیکہ وہ کهیل اور ناچ‬
‫وسلم نے فرمایا‪ :‬بنا ِ‬
‫رہے تهے (اور ایک روایت میں ہے‪ :‬وہ رقص کررہے تهے‪ )،‬یہاں تک کہ میں نے‬
‫خود ہی دیکهنا ختم کردیا (حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے مجهے منع‬
‫نہیں فرمایا)۔‘‘‬

‫اس حدیث کو امام نسائی اورطبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ عسقالنی نے فرمایا‪:‬‬
‫وہ کهیل رہے تهے اور رقص کر رہے تهے۔ زفن کا مطلب ’رقص کرنا‘ ہے۔‬
‫شةَ رضی هللا عنهما قَا َل‪ :‬لَ َّما دَ َخ َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه‬ ‫عائِ َ‬ ‫ع ْن عبَ ْی ِد هللاِ ب ِْن َ‬
‫‪َ .20‬‬
‫الص ْبیَان َو ْال َو َالئِد یَق ْول ْونَ ‪:‬‬ ‫اس َو ْالعَ َوا ِتقَ فَ ْوقَ ْال َج ِ‬
‫اجی ِْر‪َ ،‬و ِ‬ ‫وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ … َفتَلَقَّی النَّ َ‬
‫َ‬
‫طلَ َع ا ْلبَد ُْر َ‬
‫ع َل ْینَا‬
‫ت ا ْل َود ِ‬
‫َاع‬ ‫ِم ْن ث َ ِن َّیا ِ‬

‫علَ ْی َنا‬
‫شک ُْر َ‬
‫ب ال ُّ‬
‫َو َج َ‬
‫َاع‬
‫َما َدعَا ِﷲِ د ِ‬
‫ت ْال َحبَشَة یَ ْل َعب ْونَ ِب ِح َرا ِب ِه ْم ِلقد ْو ِم َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم فَ َر ًحا ِبذَا ِل َ‬
‫ک‪.‬‬ ‫َوأَ َخذَ ِ‬
‫ي‪.‬‬‫الط َب ِر ُّ‬ ‫ع ْب ِد ْال َب ِر َو ْال َعسْقَ ـ َال ِن ُّ‬
‫ي َوم ِحبُّ ال ِدی ِْن َّ‬ ‫َر َواہ ابْن ِحبَّانَ ِفي ال ِثقَا ِ‬
‫ت َوابْن َ‬
‫أخرجه ابن حبان في الثقات‪ ،131/1 ،‬وابن عبد البر في التمهید‪ ،82/14 ،‬والعسقالني‬
‫في فتح الباري‪ ،129/8 ،261/7 ،‬والعیني في عمدۃ القاري‪ ،60/17 ،‬ومحب الدین‬
‫الطبري في الریاض النضرۃ‪.480/1 ،‬‬

‫’’حضرت عبید هللا بن عائشہ رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی‬
‫اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے … تو آپ صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چهتوں پر‬
‫پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تهے‪:‬‬

‫والضحی صلی هللا علیہ‬


‫ٰ‬ ‫’’ہم پر وداع کی گهاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہر ٔہ‬
‫وآلہ وسلم ) طلوع ہو گیا‪ ،‬اور ہم پر اس وقت تک شکر ادا کرتے رہنا واجب ہو گیا‬
‫تعالی کی طرف دعوت دینے واال دعوت دے رہا ہے (یعنی جب‬
‫ٰ‬ ‫جب تک کوئی هللا‬
‫تک کوئی بهی خدا کا نام لینے واال باقی رہے گا)۔‘‘‬

‫رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ‬
‫کے لوگ اپنے آالت حرب کے ساته رقص کرتے رہے۔‘‘‬

‫اس حدیث کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں‪ ،‬ابن عبد البر‪ ،‬عسقالنی اور محب‬
‫طبری نے روایت کیا ہے۔‬
‫ت ْال َحبَشَة یَ ْزفِن ْونَ بَیْنَ یَدَي َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا‬
‫ع ْن أَنَس رضی هللا عنه َقا َل‪ :‬کَانَ ِ‬ ‫‪َ .21‬‬
‫صا ِلح۔ فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه‬ ‫علیه وآله وسلم‪َ ،‬ویَ ْرقص ْونَ ‪َ ،‬ویَق ْول ْونَ ‪ :‬م َح َّمد َعبْد َ‬
‫صا ِلح‪.‬‬‫وآله وسلم‪َ :‬ما َیق ْول ْونَ ؟ قَال ْوا‪َ :‬یق ْول ْونَ ‪ :‬م َح َّمد َعبْد َ‬
‫ص ِحیْح‪.‬‬ ‫َر َواہ أ َ ْح َمد َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ‬
‫ي َو ِإ ْسنَاد ٗہ َ‬
‫أخرجه أحمد بن حنبل في المسند‪ ،152/3 ،‬الرقم‪ ،12562 :‬والمقدسي في االٔحادیث‬
‫المختارۃ‪ ،60/5 ،‬الرقم‪.1680 :‬‬

‫’’حضرت انس رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل حبشہ رسول هللا صلی هللا علیہ‬
‫ت حرب کے ساته) ناچ رہے اور رقص کررہے‬
‫وآلہ وسلم کے سامنے (اپنے آال ِ‬
‫صا ِلح (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا‬
‫تهے اور یہ کہتے جاتے تهے‪:‬م َح َّمد َعبْد َ‬
‫تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔ پس رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے دریافت‬
‫ٰ‬
‫فرمایا‪ :‬یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ صحابہ کرام ث نے عرض کیا‪ :‬یہ کہہ رہے ہیں‪ :‬م َح َّمد‬
‫تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘‬
‫ٰ‬ ‫صا ِلح (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا‬
‫عبْد َ‬
‫َ‬
‫اس حدیث کو امام احمد اور مقدسی نے روایت کیا ہے‪ ،‬اور اس کی سند صحیح ہے۔‬
‫ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلک رضی هللا عنه ا ََّٔن ْال َح َب َ‬
‫شةَ کَان ْوا َی ْز ِفن ْونَ َبیْنَ َیدَي َرس ْو ِل هللاِ‬ ‫‪َ .22‬‬
‫کـ َالم َال یَ ْف َهمهٗ ‪ ،‬فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه‬ ‫صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ ،‬و َیتَکَلَّم ْونَ ِب َ‬
‫صا ِلح‪.‬‬ ‫وآله وسلم‪َ :‬ما َیق ْول ْونَ ؟ قَال ْوا‪ :‬م َح َّمد َعبْد َ‬
‫َر َواہ ابْن ِحبَّانَ َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ‬
‫ي‪.‬‬

‫أخرجه ابن حبان في الصحیح‪ ،179/13 ،‬الرقم‪ ،5870 :‬والمقدسي في االٔحادیث‬


‫المختارۃ‪ ،60/5 ،‬الرقم‪ ،1681 :‬والعسقالني في فتح الباري‪ ،444/2 ،‬والہیثمي في‬
‫موارد الظمآن‪ ،493/1 ،‬الرقم‪.2012 :‬‬

‫’’حضرت انس بن مالک رضی هللا عنہ سے روایت ہے کہ اہ ِل حبشہ رسول هللا صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کررہے تهے اور (اپنی زبان و لہجہ میں) کچه‬
‫کہہ رہے تهے جس کا معنی و مفہوم واضح نہیں تها‪ ،‬تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫صا ِلح‬
‫عبْد َ‬
‫نے دریافت فرمایا‪ :‬یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا‪ :‬م َح َّمد َ‬
‫تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘‬
‫ٰ‬ ‫(محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا‬
‫اس حدیث کو امام ابن حبان اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔‬
‫ع ْن نَ ْفسِه َب ْعدَ النُّب َّو ِۃ‪.‬‬ ‫ع ْن أَنَس رضی هللا عنه ا ََّٔن النَّ ِب َّ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم َع َّق َ‬ ‫‪َ .23‬‬
‫ي‪.‬‬‫ي َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ‬
‫َر َواہ ْالبَ ْی َه ِق ُّ‬
‫أخرجه البیهقي في السنن الکبری‪ ،300/9 ،‬الرقم‪ ،19056 :‬والمقدسي في االٔحادیث‬
‫المختارۃ‪ ،205/5 ،‬الرقم‪ ،1833 :‬والنووي في تہذیب االٔسماء واللغات‪ ،557/2 ،‬الرقم‪:‬‬
‫ضا في تهذیب التهذیب‪ ،340/5 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،962‬والعسقالني في فتح الباري‪ ،595/9 ،‬وأی ً‬
‫‪ ،661‬والمزي في تهذیب الکمال‪ ،32/16 ،‬الرقم‪.3523 :‬‬

‫’’حضرت انس رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫ِعالن نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘‬
‫ِ‬ ‫وسلم نے ا‬

‫اِسے امام بیہقی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔‬


‫ع ْن‬
‫ع َّق َ‬ ‫ع ْن أَنَس رضی هللا عنه ا ََّٔن النَّ ِب َّ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم َ‬ ‫‪ .24‬وفي روایة‪َ :‬‬
‫ي‪.‬‬ ‫ْ‬
‫ي َوال َم ْق ِد ِس ُّ‬ ‫َّ‬ ‫نَ ْفسِه َب ْعدَ َما ب ِع َ‬
‫ث نَ ِبیًّا‪َ .‬ر َواہ الط َب َرانِ ُّ‬
‫أخرجه الطبراني في المعجم االٔوسط‪ ،298/1 ،‬الرقم‪ ،994 :‬والمقدسي في االٔحادیث‬
‫المختارۃ‪ ،205/5 ،‬الرقم‪ ،1832 :‬والرویاني في المسند‪ ،386/2 ،‬الرقم‪1371 :‬‬

‫’’حضرت انس رضی هللا عنہ روایت کرتے ہیں‪ :‬حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘‬

‫اِسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔‬


‫عبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل‪ :‬لَ َّما و ِلدَ النَّ ِب ُّ‬
‫ي صلی هللا علیه وآله‬ ‫ع ِن اب ِْن َ‬ ‫‪ .25‬وفي روایة‪َ :‬‬
‫سا ِک َر‪.‬‬ ‫ع َ‬‫ب رضی هللا عنه ِب َکبْش۔ َر َواہ ابْن َ‬ ‫عبْد ْالم َّ‬
‫ط ِل ِ‬ ‫ع ْنه َ‬
‫ع َّق َ‬
‫وسلم َ‬
‫أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق‪ ،32/3 ،‬والحلبي في إنسان العیون في سیرۃ‬
‫االٔمین المامون‪ ،128/1 ،‬والسیوطي في کفایة الطالب اللبیب في خصائص الحبیب‪،‬‬
‫‪.134/1‬‬
‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں‪ :‬جب حضور صلی هللا‬
‫علیہ وآلہ وسلم کی والدت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی هللا عنہ نے آپ کی‬
‫طرف سے ایک مینڈھا ذبح کرکے عقیقہ کیا۔‘‘‬

‫اِسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔‬


‫ع ْن أَنَس‬ ‫ي‪َ ،‬‬ ‫صل آخ ََر‪َ ،‬وھ َو َما أ َ ْخ َر َجه ْال َب ْی َه ِق ُّ‬ ‫ع ٰلی أ َ ْ‬‫ظ َه َر ِلي تَ ْخ ِریْجهٗ َ‬ ‫ي‪َ :‬و َ‬ ‫سی ْو ِط ُّ‬‫قَا َل ال ُّ‬
‫ع َّق َع ْن َن ْفسِه َب ْعدَ النُّب َّوۃِ۔ َم َع أَنَّهٗ قَ ْد‬ ‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم َ‬ ‫رضی هللا عنه أ َ َّن النَّ ِب َّ‬
‫سابِعِ ِو َالدَ ِته‪َ ،‬و ْالعَ ِق ْیقَة َال تعَاد َم َّرۃ ً ثَانِیَةً‪ ،‬فَی ْح َمل‬ ‫ع َّق َع ْنه فِي َ‬ ‫ب َ‬ ‫ط ِل ِ‬‫ع ْبدَ ْالم َّ‬ ‫َو َردَ أ َ َّن َجد َّٗہ َ‬
‫ع ٰلی ِإ ْی َجا ِد هللاِ‬ ‫ش ْک ِر َ‬ ‫ارا ِلل ُّ‬
‫ظ َه ً‬‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم ِإ ْ‬ ‫ع ٰلی أ َ َّن الَّذِي فَ َعلَه النَّ ِب ُّ‬ ‫ک َ‬ ‫ذَا ِل َ‬
‫ک فَیَ ْستَ ِحبُّ َلنَا‬ ‫ع ٰلی نَ ْفسِه‪ِ ،‬لذَا ِل َ‬ ‫ص ِلي َ‬ ‫تَعَ ٰالی إِیَّاہ َر ْح َمةً ِل ْلعَالَ ِمیْنَ َوت َ ْش ِر ْیفًا ِأل َّمتِه‪َ ،‬ک َما کَانَ ی َ‬
‫ک ِم ْن وج ْو ِہ‬ ‫الط َع ِام‪َ ،‬ون َْح َو ذَا ِل َ‬ ‫ان‪َ ،‬و ِإ ْ‬
‫ط َع ِام َّ‬ ‫اإل ْخ َو ِ‬
‫اج ِت َماعِ ِ‬ ‫ش ْک ِر ِب َم ْو ِلدِہ ِب ْ‬ ‫ظ َهار ال ُّ‬ ‫ضا ِإ ْ‬ ‫أ َ ْی ً‬
‫س َّراتِ‪.‬‬ ‫ار ْال َم َ‬ ‫ظ َه ِ‬‫ْالقر ِباتِ‪َ ،‬و ِإ ْ‬

‫ضا في الحاوي‬
‫ذکرہ السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد‪ ،65 ،64/‬وأی ً‬
‫للفتاوی‪ ،206/‬والصالحي في سبل الهدی والرشاد‪ ،367/1 ،‬والزرقاني في شرح‬
‫المواھب اللدنیة‪ ،263264/1 ،‬والنبهاني في حجة هللا علی العالمین‪.237/‬‬

‫’’امام سیوطی نے فرمایا‪ :‬یوم میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ‬
‫سے ایک اور دلیل مجه پر ظاہر ہوئی ہے‪ ،‬جسے امام بیہقی نے حضرت انس رضی‬
‫ِعالن‬
‫ِ‬ ‫هللا عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ا‬
‫نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوجود اس کے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫دادا عبد المطلب آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تهے اورعقیقہ دو (‪ )2‬بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ‬
‫واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو‬
‫هللا کی طرف سے رحمۃ للعالمین بنائے جانے اور اپنی امت کے مشرف ہونے کی‬
‫وجہ سے اپنی والدت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح‬
‫ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بهی حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے‬
‫یوم والدت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کهانا کهالئیں اور دیگر عبادات بجا الئیں‬
‫ِ‬
‫اور خوشیوں کا اظہار کریں۔‘‘‬
‫ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلک رضی هللا عنه في روایة طویلة ا ََّٔن َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه‬ ‫‪َ .26‬‬
‫صلَّی َ‬
‫ْت‬ ‫ْت؟ َ‬‫صلَّی َ‬ ‫ص ِل‪ ،‬فَنَزَ ْلت فَ َ‬
‫صلَّیْت‪ ،‬فَقَا َل‪ :‬أَتَد ِْري أَیْنَ َ‬ ‫وآله وسلم قَا َل‪ :‬ث َّم قَا َل‪ :‬ا ْن ِز ْل فَ َ‬
‫ت لَ ْحم َحیْث و ِلدَ ِع ْیسٰ ی علیہ السالم‪.‬‬ ‫ِب َب ْی ِ‬
‫ي َو ْالبَ َّزار‪.‬‬ ‫ي َو َّ‬
‫الطبَ َرا ِن ُّ‬ ‫َر َواہ النَّ َ‬
‫سائِ ُّ‬
‫أخرجه النسائي في السنن‪ ،‬کتاب الصالۃ‪ ،‬باب فرض الصالۃ‪ ،222/1 ،‬الرقم‪،450 :‬‬
‫ضا في المعجم الکبیر‪،283/7 ،‬‬
‫والطبراني في مسند الشامیین‪ ،194/1 ،‬الرقم‪ ،341:‬وأی ً‬
‫الرقم‪ ،7142 :‬والبزار عن شداد بن أوس في المسند‪ ،410/8 ،‬الرقم‪ ،3484 :‬والهیثمي‬
‫في مجمع الزوائد‪ ،73/1 ،‬والعسقالني في فتح الباري‪.199/7 ،‬‬

‫’’حضرت انس بن مالک رضی هللا عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ‬
‫سفر معراج بیان کرتے ہوئے) فرمایا‪:‬‬
‫رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے (اپنا ِ‬
‫جبرائیل علیہ السالم نے (بیت اللحم کے مقام پر) مجه سے کہا‪ :‬آپ براق سے اتریے‬
‫اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ تو انہوں نے کہا‪ :‬کیا آپ جانتے ہیں‬
‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں‬
‫علیہ السالم کی پیدائش ہوئی تهی۔‘‘‬

‫اِسے امام نسائی‪ ،‬طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔‬


‫ارثَةَ ب ِْن َالم رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬کنَّا ِع ْندَ النَّ ِبي ِ صلی هللا‬ ‫ع ْن خ َری ِْم ب ِْن ا َْٔو ِس ب ِْن َح ِ‬
‫‪َ .27‬‬
‫ب رضي هللا عنہما‪ :‬یَا َرس ْو َل هللاِ‪ ،‬إِ ِني أ ِریْد‬ ‫ع ْب ِد ْالم َّ‬
‫ط ِل ِ‬ ‫علیه وآله وسلم فَقَا َل لَه ْالعَبَّاس بْن َ‬
‫شا َٔ ْال َعبَّاس‬
‫ک فَا َٔ ْن َ‬ ‫ت َال َی ْفض ِ‬
‫ض هللا فَا َ‬ ‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬ھَا ِ‬ ‫ک؟ فَقَا َل النَّ ِب ُّ‬‫ا َْٔن ا َْٔمدَ َح َ‬
‫رضی هللا عنه یَق ْول‪:‬‬

‫َوأَ ْنتَ َل َّما ُو ِلدْتَ أَش َْرقَ ِ‬


‫ت‬
‫ک ْاالُٔفُ ُ‬
‫ق‬ ‫ضائَتْ بِنُ ْو ِر َ‬ ‫ض َو َ‬ ‫ْاال َْٔر ُ‬

‫ائ َو ِفي‬ ‫فَنَحْ ُن ِفي ِ ِّ‬


‫الض َی ِ‬
‫ق‬‫الرشَا ِد نَ ْختَ ِر ُ‬‫سبُ ُل َّ‬ ‫النُّ ْو ِر َو ُ‬
‫ي َو ْال َحا ِکم َوأَب ْو ن َعیْم‪.‬‬ ‫َر َواہ َّ‬
‫الطبَ َرانِ ُّ‬
‫أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر‪ ،213/4 ،‬الرقم‪ ،4167 :‬والحاکم في المستدرک‪،‬‬
‫‪ ،369/3‬الرقم‪ ،5417 :‬وأبو نعیم في حلیة االٔولیائ‪ ،364/1 ،‬والذھبي في سیر أعالم‬
‫النبالئ‪ ،102/2 ،‬وابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ‪ ،53/1 ،‬وابن عبد البر في‬
‫االستیعاب‪ ،447/2 ،‬الرقم‪ ،664 :‬والعسقالني في اإلصابة‪ ،274/2 ،‬الرقم‪،2247 :‬‬
‫والہیثمي في مجمع الزوائد‪ ،217/8 ،‬والخطابي في إصالح غلط المحدثین‪،101/1 ،‬‬
‫الرقم‪ ،57 :‬وابن قدامة في المغني‪ ،176/10 ،‬والسیوطي في الخصائص الکبری‪،‬‬
‫‪ ،66/1‬وابن کثیر في البدایة والنہایة (السیرۃ)‪ ،258/2 ،‬والقرطبي في الجامع ألحکام‬
‫القرآن‪ ،146/13 ،‬والحلبي في إنسان العیون في سیرۃ االٔمین المامون‪.92/1 ،‬‬

‫’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن الم رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم‬
‫ت اقدس میں موجود تهے‪،‬‬
‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے خدم ِ‬
‫حضرت عباس بن عبد المطلب رضی هللا عنہما نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫خدمت میں عرض کیا‪ :‬یا رسول هللا! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬الؤ مجهے سناؤ‪ ،‬هللا‬
‫تمہارے دانت صحیح و سالم رکهے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کالم پڑھتے رہو)۔‬
‫سو حضرت عباس رضی هللا عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا‪:‬‬

‫’’آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی والدت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری‬
‫ق عالم روشن ہو گیا۔ پس ہم آپ کی عطا‬
‫زمین چمک اٹهی اور آپ کے نور سے اف ِ‬
‫کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان ہدایت کی راہوں پر گامزن ہیں۔‘‘‬

‫اس حدیث کو امام طبرانی‪ ،‬حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔‬
‫اریَةَ رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫س ِ‬
‫اض ب ِْن َ‬ ‫ع ْن ِع ْربَ ِ‬ ‫‪َ .28‬‬
‫وسلم‪ِ :‬إ ِني ِع ْندَ هللاِ َلخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ ‪َ ،‬و ِإ َّن آدَ َم علیہ السالم لَم ْن َجدِل ِفي ِط ْینَ ِته‪َ ،‬و َ‬
‫سأُنَ ِبئک ْم ِبا ََّٔو ِل‬
‫ک أ َّم َهات‬ ‫َارۃ ِع ْیسٰ ی ِبي‪َ ،‬ور ْٔویَا ا ُِٔمي الَّ ِتي َرا ْ‬
‫َٔت َو َکذَا ِل َ‬ ‫ک دَع َْوۃ أَ ِبي ِإب َْرا ِھی َْم‪َ ،‬و ِبش َ‬ ‫ذَا ِل َ‬
‫النَّبِیِیْنَ تَ َریْنَ ‪.‬‬
‫َر َواہ أ َ ْح َمد‪.‬‬
‫عبْد هللاِ َوخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ فذکر مثلہ وزاد فیه‪ِ :‬إ َّن أ َّم َرس ْو ِل‬ ‫‪ .29‬وفي روایة عنہ‪ :‬قَا َل‪ِ :‬إنِي َ‬
‫ش ِام‪َ .‬ر َواہ‬‫ت ِم ْنه قص ْور ال َّ‬ ‫ضعَتْه ن ْو ًرا أ َ َ‬
‫ضائ َ ْ‬ ‫ت ِح ْینَ َو َ‬ ‫هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم َرأ َ ْ‬
‫ي فِي ْال َک ِبی ِْر‪.‬‬ ‫أ َ ْح َمد َوابْن ِحبَّانَ َو ْال َحا ِکم َو ْالبخ ِ‬
‫َار ُّ‬
‫‪ :29-28‬أخرجه أحمد بن حنبل في المسند‪ ،127128/4 ،‬الرقم‪،16712 ،16700 :‬‬
‫وابن حبان في الصحیح‪ ،313/14 ،‬الرقم‪ ،6404 :‬وابن أبي عاصم في السنة‪،179/1 ،‬‬
‫الرقم‪ ،409:‬والبخاري في التاریخ الکبیر‪ ،68/6 ،‬الرقم‪ ،1736 :‬والطبراني في المعجم‬
‫الکبیر‪ ،253 ،252/18 ،‬الرقم‪ ،630 ،629 :‬والحاکم في المستدرک‪ ،656/2 ،‬الرقم‪:‬‬
‫‪ ،4175‬والبیهقي في شعب اإلیمان‪ ،134/2 ،‬الرقم‪.1385 :‬‬

‫’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول هللا صلی هللا‬
‫تعالی کی بارگاہ میں اس وقت سے آخری نبی لکها‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬میں هللا‬
‫جا چکا تها جبکہ حضرت آدم علیہ السالم ابهی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تهے اور‬
‫میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں‪ :‬میں حضرت ابراہیم علیہ السالم کی دعا (کا نتیجہ)‬
‫عیسی علیہ السالم کی بشارت ہوں‪ ،‬اور اس کے عالوہ اپنی والدہ‬
‫ٰ‬ ‫ہوں اور حضرت‬
‫کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری والدت سے پہلے دیکها تها اور انبیاء کرام کی‬
‫مائیں اسی طرح کے خواب دیکهتی ہیں۔‘‘‬

‫اِسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔‬

‫تعالی کا‬
‫ٰ‬ ‫ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪’’ :‬میں هللا‬
‫بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پهر راوی نے مذکورہ باب حدیث کی مثل حدیث بیان‬
‫فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا‪’’ :‬بے شک رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫والدہ ماجدہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت مبارکہ کے وقت نور دیکها‬
‫جس سے شام کے محالت تک روشن ہو گئے۔‘‘‬

‫اِسے امام اَحمد‪ ،‬ابن حبان‪ ،‬حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔‬
‫ار َیةَ رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫س ِ‬ ‫ع ِن ْال ِع ْر َب ِ‬
‫اض ب ِْن َ‬ ‫‪َ .30‬‬
‫وسلم‪ِ :‬إنِي ِع ْندَ هللاِ ِفي أ ِم ْال ِکتَا ِ‬
‫ب لَخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ ‪َ ،‬و ِإ َّن آدَ َم لَم ْن َجدِل فِي ِط ْینَتِه‪َ ،‬و َ‬
‫سأ َح ِدثک ْم‬
‫ث فِ ْی ِه ْم َرس ْو ًال ِم ْنه ْم} ]البقرۃ‪،[129 :2 ،‬‬ ‫{وا ْبعَ ْ‬ ‫عا‪َ :‬‬ ‫ک‪ :‬دَع َْوۃ أَبِي إِب َْرا ِھی َْم‪ ،‬دَ َ‬‫تَا ْٔ ِو ْی َل ذَا ِل َ‬
‫{ومبَ ِش ًرام ِب َرس ْول یَأْتِي ِم ْنم بَ ْعدِي اسْمهٗ أ َ ْح َمد}‪] ،‬الصف‪،‬‬ ‫سی ب ِْن َم ْریَ َم َق ْولهٗ ‪َ :‬‬ ‫َارۃ ِع ْی َ‬
‫َو ِبش َ‬
‫ش ِام‪.‬‬ ‫ت ِم ْنه قص ْور ال َّ‬ ‫ضا َء ْ‬ ‫ت ن ْو ًرا أ َ َ‬ ‫ض َع ْ‬‫َام َها أَنَّ َها َو َ‬
‫ت فِي َمن ِ‬ ‫‪[6 :61‬۔ َورؤْ یَا أ ِمي َرأ َ ْ‬
‫سانِ ْی ِد ا َْٔح َمدَ‬ ‫س ْعد۔ َوقَا َل ْال َه ْیثَ ِم ُّ‬
‫ي‪َ :‬وأَ َحد أَ َ‬ ‫ي َوأَب ْو ن َعیْم َو ْال َحا ِکم َوابْن َ‬ ‫َر َواہ ابْن ِحبَّانَ َو َّ‬
‫الط َب َرا ِن ُّ‬
‫س ِع ْی ِد ب ِْن س َویْد َوقَ ْد َوث َّ َقه ابْن ِحبَّانَ ‪.‬‬
‫ص ِحیْحِ َغی َْر َ‬ ‫ِر َجالهٗ ِر َجال ال َّ‬

‫أخرجه ابن حبان في الصحیح‪ ،‬باب ذکر کتبه هللا جل وعال عندہ محمدا صلی هللا علیه‬
‫وآله وسلم خاتم النبیین‪ ،312/14 ،‬الرقم‪ ،6404 :‬والطبراني في المعجم الکبیر‪،‬‬
‫ضا في دالئل النبوۃ‪،‬‬
‫‪ ،253/18‬الرقم‪ ،631 :‬وأبو نعیم في حلیة األولیائ‪ ،40/6 ،‬وأی ً‬
‫‪ ،17/1‬والحاکم في المستدرک‪ ،656/2 ،‬الرقم‪ ،4174 :‬وابن سعد في الطبقات الکبری‪،‬‬
‫‪ ،149/1‬والعسقالني في فتح الباري‪ ،583/6 ،‬والطبري في جامع البیان‪ ،583/6 ،‬وابن‬
‫ضا في البدایة والنهایة‪ ،321/2 ،‬والهیثمي‬
‫کثیر في تفسیر القرآن العظیم‪ ،185/1 ،‬وأی ً‬
‫ضا في مجمع الزوائد‪.223/8 ،‬‬
‫في موارد الظمآن‪ ،512/1 ،‬الرقم‪ ،2093 :‬وأی ً‬

‫’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی هللا عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ‬
‫تعالی کے ہاں لوحِ‬
‫ٰ‬ ‫رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بے شک میں هللا‬
‫محفوظ میں اس وقت بهی آخری نبی تها جبکہ آدم علیہ السالم ابهی اپنی مٹی میں‬
‫(مرحلہ خلقت میں) تهے۔ میں تمہیں اِس کی تفصیل بتاتا ہوں کہ میں‬
‫ٔ‬ ‫گندھے ہوئے‬
‫اپنے ج ِد امجد ابراہیم علیہ السالم کی دعا ہوں جو انہوں نے مانگی‪’’ :‬اے ہمارے‬
‫رب! ان میں‪ ،‬انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫عیسی بن مریم علیہما السالم کی بشارت ہوں‪ ،‬انہوں‬
‫ٰ‬ ‫وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور میں‬
‫نے کہا‪’’ :‬اور اس رسو ِل (معظم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کی (آمد کی) بشارت‬
‫سنانے واالہوں جو میرے بعد تشریف ال رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت)‬
‫احمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میں اپنی والدہ کا خواب ہوں جو انہوں‬
‫نے دیکها کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا ہے جس سے شام کے محالت‬
‫بهی روشن ہو گئے۔‘‘‬
‫اسے امام ابن حبان‪ ،‬طبرانی‪ ،‬ابو نعیم‪ ،‬حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام‬
‫ہیثمی نے فرمایا‪ :‬امام اَحمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں‬
‫سوائے سعید بن سوید کے‪ ،‬انہیں امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔‬
‫ي َحتّٰی أ َ ٰتی َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫سنَانَ )‪ ،‬قَا َل‪ :‬أ َ ْق َب َل أَع َْرا ِب ٌّ‬ ‫ع ْن أ َ ِبي َم ْریَ َم ( َ‬ ‫‪َ .31‬‬
‫ش ْیئًا أَتَعَلَّمهٗ َوأ َ ْح ِملهٗ َویَ ْن َفع ِني َو َال‬‫اس‪ ،‬فَقَا َل‪ :‬أَ َال ت ْع ِط ْی ِني َ‬ ‫وسلم َوھ َو قَا ِعد َو ِع ْندَ ٗہ خ َْلق ِمنَ النَّ ِ‬
‫ع ْوہ‪ ،‬فَإِنَّ َما َیسْأَل‬ ‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬دَ َ‬ ‫س‪ ،‬فَقَا َل النَّ ِب ُّ‬ ‫ک؟ فَقَا َل النَّاس‪َ :‬مهْ‪ ،‬ا ِْج ِل ْ‬ ‫َیض ُّر َ‬
‫ک؟ قَا َل‪ :‬أ َ َخذَ‬ ‫ي شَیئ کَانَ أ َ َّو َل أ َ ْم ِر نب َّوتِ َ‬ ‫س‪ ،‬قَا َل‪ :‬أ َ ُّ‬ ‫الرجل ِل َی ْعلَ َم‪ ،‬قَا َل‪ :‬فَا َٔ ْف َرج ْوا لَهٗ ‪َ ،‬حتّٰی َجلَ َ‬ ‫َّ‬
‫تـ َال‪َ { :‬واِ ْذ ا َ َخ ْذنَا ِمنَ النَّ ِبیِیْنَ ِم ْیثَاقَه ْم‬ ‫هللا ِم ِني ْال ِم ْیثَاقَ ‪َ ،‬ک َما أ َ َخذَ ِمنَ النَّبِ ِییْنَ ِم ْیثَاقَه ْم‪ .‬ث َّم َ‬
‫ظا}‬ ‫سی ب ِْن َم ْر َی َم َوا َ َخ ْذنَا ِم ْنه ْم ِم ْیثَاقًا َغ ِل ْی ً‬ ‫سی َو ِع ْی َ‬ ‫ک َو ِم ْن ن ْوح َو ِإب َْرا ِھی َْم َوم ْو َ‬ ‫َو ِم ْن َ‬
‫ت أ ُّم َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله‬ ‫ي ْال َم ِسیْح بْن َم ْریَ َم۔ َو َرأ َ ْ‬ ‫]األحزاب‪َ [7 :33 ،‬وبَ َّ‬
‫ش َر ِب َ‬
‫ت لَهٗ قص ْور ال َّ‬
‫ش ِام‪.‬‬ ‫ضا َء ْ‬ ‫َام َها أَنَّهٗ خ ََر َج ِم ْن َبی ِْن ِر ْجلَ ْی َها ِس َراج أَ َ‬ ‫وسلم فِي َمن ِ‬
‫اصم‪.‬‬ ‫ع ِ‬ ‫ي َوابْن أ َ ِبي َ‬ ‫َر َواہ َّ‬
‫الطبَ َرانِ ُّ‬
‫ضا في مسند الشامیین‪،‬‬
‫أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر‪ ،333/22 ،‬الرقم‪ ،835 :‬وأی ً‬
‫‪ ،98/2‬الرقم‪ ،984 :‬وابن أبي عاصم في األحاد والمثاني‪ ،397/4 ،‬الرقم‪،2446 :‬‬
‫والسیوطي في الخصائص الکبری‪ ،8/1 ،‬والهیثمي في مجمع الزوائد‪ ،224/8 ،‬وابن‬
‫کثیر في البدایة والنهایة‪.323/2 ،‬‬

‫’’حضرت ابو مریم (سنان) رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص‬
‫حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم اس وقت تشریف فرما تهے اور آپ کے پاس بہت سے لوگ‬
‫بیٹهے ہوئے تهے۔ اس اعرابی نے عرض کیا‪( :‬یا رسول هللا!) کیا آپ مجهے کوئی‬
‫ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکهوں اور اسے سنبهالے رکهوں اور‬
‫وہ مجهے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ لوگوں نے اسے کہا‪:‬‬
‫ٹهہرو‪ ،‬بیٹه جاؤ۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اِسے‬
‫چهوڑ دو‪ ،‬بے شک آدمی جاننے کے لیے ہی سوال کرتا ہے۔ پهر آپ صلی هللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اِس کے لیے (بیٹهنے کی) جگہ بناؤ۔ یہاں تک کہ وہ بیٹه گیا۔‬
‫اس نے عرض کیا‪ :‬یا رسول هللا! آپ کی نبوت کا سب سے پہال معاملہ کیا تها؟ آپ‬
‫تعالی نے مجه سے میثاق لیا جیسا کہ دیگر‬
‫ٰ‬ ‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬هللا‬
‫انبیاء کرام علیہم السالم سے ان کا میثاق لیا۔ پهر آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہ‬
‫آیت مبارکہ پڑھی‪{ :‬اور (اے حبیب! یاد کیجیے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ‬
‫رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی‬
‫بن مریم ( علیہما السالم ) سے اور ہم نے ان سے نہایت پختہ عہد لیا۔} آپ صلی هللا‬
‫عیسی بن مریم علیہما السالم نے میری بشارت دی۔‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اور‬
‫اور رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکها‬
‫بدن اَطہر سے‬
‫ت مبارکہ کے وقت) ان کے ِ‬
‫(کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم والد ِ‬
‫ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محالت تک روشن ہو گئے۔‘‘‬

‫اسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔‬
‫ش ِهدْت ِآمنَةَ‬ ‫ت‪َ :‬‬ ‫اص رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬أ َ ْخبَ َرتْنِي أ ِمي قَالَ ْ‬ ‫ع ْن عثْ َمانَ ب ِْن أ َ ِبي ْالعَ ِ‬ ‫‪َ .32‬‬
‫ْ‬
‫ض َر َب َها ال َمخَاض‬ ‫ت َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،‬فَلَ َّما َ‬ ‫رضی هللا عنها لَ َّما و ِلدَ ْ‬
‫ي۔ فَ َل َّما َولَدَتْه َخ َر َج‬ ‫ظ ْرت ِإلَی النُّج ْو ِم تَن ََّزل (وفي روایة‪ :‬تَدَلّٰی) َحتّٰی ِإنِي أَق ْول‪ :‬لَت َ َقعَ َّن َ‬
‫علَ َّ‬ ‫نَ َ‬
‫ضا َء لَه ْال َبیْت الَّذِي ن َْحن ِف ْی ِه َوالدَّار‪َ ،‬ف َما شَیئ أَ ْنظر ِإلَ ْی ِه ِإ َّال ن ْور‪.‬‬ ‫ِم ْن َها ن ْور أ َ َ‬
‫اصم َوأَب ْو ن َعیْم‪.‬‬ ‫ي َوابْن أ َ ِبي َ‬
‫ع ِ‬ ‫َر َواہ َّ‬
‫الطبَ َرانِ ُّ‬
‫أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر‪ ،147،186/25 ،‬الرقم‪ ،457 ،355 :‬وابن أبي‬
‫عاصم في اآلحاد والمثاني‪ ،29/6 ،‬الرقم‪ ،3210 :‬وأبو نعیم في دالئل النبوۃ‪،93/1 ،‬‬
‫والبیهقي في دالئل النبوۃ‪ ،111/1 ،‬والماوردي في أعالم النبوۃ‪ ،273/1 ،‬والعسقالني‬
‫ضا في اإلصابة‪ ،259/8 ،‬الرقم‪:‬‬
‫في تهذیب التهذیب‪ ،117/7 ،‬الرقم‪ ،270 :‬وأی ً‬
‫‪ ،12163‬والمزي في تهذیب الکمال‪ ،408/19 ،‬والهیثمي في مجمع الزوائد‪.220/8 ،‬‬

‫’’حضرت عثمان بن ابی العاص رضی هللا عنہ سے روایت ہے‪ ،‬وہ فرماتے ہیں کہ‬
‫ت نبوی کا وقت آیا تو میں سیدہ‬
‫ان کی والدہ محترمہ نے ان سے بیان کیا‪ :‬جب والد ِ‬
‫آمنہ رضی هللا عنہا کے ہاں حاضر تهی‪ ،‬میں دیکه رہی تهی کہ ستارے آسمان سے‬
‫نیچے کی طرف ڈھلک کے قریب ہو رہے ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ‬
‫میرے اوپر آگریں گے۔ اور سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا کے جسم اطہر سے ایسا نور‬
‫نکال جس سے پورا گهر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجهے ہر ایک شے‬
‫میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘‬

‫اسے امام طبرانی‪ ،‬ابن ابی عاصم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔‬
‫ع ِل ْقت ِبه‪ ،‬تَ ْعنِي َرس ْو َل‬ ‫ت‪َ :‬لقَ ْد َ‬ ‫ت َو ْھب قَا َل ْ‬ ‫ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما أ َ َّن ِآمنَةَ ِب ْن َ‬ ‫‪َ .33‬‬
‫ص َل ِمنِي خ ََر َج‬‫ض ْعتهٗ ‪ ،‬فَلَ َّما فَ َ‬‫شقَّةً َحتّٰی َو َ‬ ‫هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،‬فَ َما َو َجدْت لَهٗ َم َ‬
‫ق َو ْال َم ْغ ِر ِ‬
‫ب‪.‬‬ ‫ضا َء لَهٗ َما َبیْنَ ْال َم ْش ِر ِ‬
‫َم َعهٗ ن ْور أ َ َ‬
‫ش ِام َوأَس َْواق َها‪َ ،‬حتّٰی أ َ ْعنَاق ا ْ‬
‫إلبِ ِل‬ ‫ت لَهٗ قص ْور ال َّ‬ ‫وفي روایة‪َ :‬وخ ََر َج َمعَهٗ ن ْور أ َ َ‬
‫ضائ َ ْ‬
‫ص ٰری‪.‬‬‫ِبب ْ‬
‫سا ِک َر َوابْن َک ِثیْر‪.‬‬ ‫ع َ‬ ‫س ْعد َوابْن َ‬ ‫َر َواہ ابْن َ‬
‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،102 ،98/1 ،‬وابن عساکر في تاریخ مدینة‬
‫دمشق‪ ،79/3 ،‬وابن کثیر في البدایة والنهایة‪ ،264/2 ،‬وابن الجوزي في صفوۃ‬
‫الصفوۃ‪ ،52/1 ،‬والسیوطي في الخصائص الکبری‪ ،72،79/1 ،‬والحلبي في إنسان‬
‫العیون‪.80/1 ،‬‬

‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ آمنہ بنت وہب‬
‫رضی هللا عنہا بیان فرماتی ہیں‪ :‬جب میں رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے‬
‫گراں بار ہوئی‪ ،‬تو مجهے ایسی کوئی دِقت پیش نہ آئی (جو عام طور پر عورتوں کو‬
‫حمل کے دوران پیش آتی ہے) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو‬
‫جنم دیا۔ پس جب آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے جسم سے جدا ہوئے تو ان کے‬
‫ساته ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے مشرق و مغرب روشن ہو گئے۔‘‘‬

‫ایک دوسری روایت میں ہے‪ :‬آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کے ساته ہی‬
‫ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے شام کے محالت اور بازار روشن ہوگئے حتی کہ‬
‫بصری میں (چلنے والے) اونٹوں کی گردنینبهی (میرے سامنے) نمودار ہوگئیں۔‘‘‬
‫ٰ‬
‫اسے امام ابن سعد‪ ،‬ابن عساکر اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔‬
‫ع ِن اب ِْن ْالقَب ِْطیَّ ِة فِي َمو ِل ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ :‬قَا َل‪ :‬قَالَ ْ‬
‫ت أ ُّمهٗ‬ ‫‪ .34‬وفي روایة‪َ :‬‬
‫ت لَه ْاال َْٔرض‪.‬‬ ‫صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ :‬رأَیْت کَأ َ َّن ِش َهابًا خ ََر َج ِم ِني أ َ َ‬
‫ضا َء ْ‬
‫س ْعد‪.‬‬
‫َر َواہ ابْن َ‬
‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،102/1 ،‬والسیوطي في الخصائص الکبری‪،‬‬
‫‪.79/1‬‬

‫’’حضرت ابن قبطیہ سے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت پاک‬
‫کے حوالے سے روایت ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے‬
‫فرمایا‪( :‬آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کے وقت) میں نے مشاہدہ کیا‪ ،‬گویا‬
‫کہ ایک روشن ستارہ میرے جسم سے نکال ہے جس سے ساری زمین روشن ہو‬
‫گئی۔‘‘‬

‫اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔‬


‫ع ِن النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم قا َ َل‪َ :‬رأ َ ْ‬
‫ت أ ِمي‬ ‫ائ َ‬‫ع ْن أ َ ِبي ْال َع ْجفَ ِ‬
‫‪ .35‬وفي روایة‪َ :‬‬
‫ت لَهٗ قص ْور ب ْ‬
‫ص ٰری‪.‬‬ ‫ط َع ِم ْن َها ن ْور أ َ َ‬
‫ضا َء ْ‬ ‫س َ‬
‫ض َعتْنِي َ‬
‫ِحیْنَ َو َ‬
‫س ْعد‪.‬‬
‫َر َواہ ابْن َ‬
‫الکبری‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،102/1 ،‬والسیوطي في الخصائص‬
‫‪ ،79/1‬والحلبي في إنسان العیون‪.91/1 ،‬‬

‫’’حضرت ابو عجفاء بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫جسم اقدس‬
‫ِ‬ ‫نے فرمایا‪ :‬میری والدت کے وقت میری والدہ ماجدہ نے دیکها کہ ان کے‬
‫بصری کے محالت روشن ہو گئے۔‘‘‬
‫ٰ‬ ‫سے ایک نور نمودار ہوا ہے‪ ،‬جس سے‬

‫اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔‬


‫ع ِلي رضوان هللا علیهم اجمعین قَا َل‪ :‬ا ُِٔم َر ْ‬
‫ت‬ ‫ع ْن أَ ِبي َج ْعفَ ِر ب ِْن م َح َّم ِد ب ِْن َ‬
‫‪ .36‬وفي روایة‪َ :‬‬
‫امل ِب َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،‬ا َْٔن ت َ‬
‫س ِم َیهٗ ا َْٔح َمدَ‪.‬‬ ‫ي َح ِ‬‫ِآمنَة َو ِھ َ‬
‫س ْعد‪.‬‬
‫َر َواہ ابْن َ‬
‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،98،104/1 ،‬والسیوطي في الخصائص الکبری‪،‬‬
‫‪ ،72/1‬والحلبي في إنسان العیون‪.128/1 ،‬‬

‫’’حضرت ابو جعفر بن محمد بن علی رضوان هللا علیہم اجمعین سے روایت ہے‪ ،‬وہ‬
‫بیان کرتے ہیں سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا کو ‪ -‬جب وہ رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم سے گراں بار تهیں ‪ -‬حکم دیا گیا کہ اپنے ہونے والے بچے کا نام ’اَحمد‘‬
‫رکهیں۔‘‘‬

‫اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔‬


‫ت‪ :‬لَ َّما‬ ‫ع ْمرو قَالَ ْ‬ ‫ت َ‬ ‫اء ِب ْن ِ‬‫ع ْوف رضی هللا عنه َع ْن ا ُِٔم ِه ال ِشفَ ِ‬ ‫الر ْحمٰ ِن ب ِْن َ‬ ‫ع ْن َ‬
‫ع ْب ِد َّ‬ ‫‪َ .37‬‬
‫ائـ ًال‬‫س ِم ْعت قَ ِ‬ ‫ي‪ ،‬فَا ْست َ َه َّل‪ ،‬فَ َ‬ ‫ع ٰلی یَدَ َّ‬ ‫ت ِآمنَة م َح َّمدًا صلی هللا علیه وآله وسلم َوقَ َع َ‬ ‫َولَدَ ْ‬
‫ظ ْرت إِ ٰلی‬ ‫ب َحتّٰی نَ َ‬ ‫ق َو ْال َم ْغ ِر ِ‬ ‫ضا َء ِلي َما بَیْنَ ْال َم ْش ِر ِ‬ ‫ت ال ِشفَاء‪ :‬فَا َٔ َ‬ ‫ُّک‪ ،‬قَالَ ِ‬
‫ک َرب َ‬ ‫یَق ْول‪َ :‬ر ِح َم َ‬
‫ْ‬
‫غ ِش َیتْنِي ظل َمة َورعْب‬ ‫ض َج ْعتهٗ ‪ ،‬فَلَ ْم أَ ْنشَبْ ا َْٔن َ‬ ‫ْ‬
‫ت‪ :‬ث َّم أَل َب ْنتهٗ َوأَ ْ‬ ‫ش ِام‪ ،‬قَالَ ْ‬ ‫ض قص ْو ِر ال َّ‬ ‫َب ْع ِ‬
‫ْت بِه؟ قَا َل‪ :‬ذَ َھبْت بِه إِلَی‬ ‫ائـ ًال یَق ْول‪ :‬أَیْنَ ذَ َھب َ‬ ‫س ِم ْعت قَ ِ‬ ‫ع ْن یَ ِم ْی ِني‪ ،‬فَ َ‬ ‫ش ْع ِری َْرۃ‪ ،‬ث َّم أُ ْس ِف َر َ‬ ‫َوق َ‬
‫ق‪َ ،‬ولَ ْن َیع ْودَا‬ ‫الرعْب ِبه؟ قَا َل‪ِ :‬إلَی ْال َم ْش ِر ِ‬ ‫ع َاودَ ِني ُّ‬ ‫ع ِني‪َ ،‬‬ ‫ک َ‬ ‫ت‪َ :‬وأَ ْسفَ َر ذَا ِل َ‬ ‫ب‪ ،‬قَالَ ْ‬‫ْال َم ْغ ِر ِ‬
‫اس‬‫ث هللا َرس ْولَهٗ ‪ ،‬فَک ْنت ِفي ا ََّٔو ِل النَّ ِ‬ ‫ع ٰلی بَال َحتَّی ا ْبتَ َع َ‬ ‫أَبَدًا‪ ،‬فَلَ ْم یَزَ ِل ْال َح ِدیْث ِم ِني َ‬
‫سـ َال ًما۔‪.‬‬ ‫إِ ْ‬
‫َر َواہ أَب ْو ن َعیْم‪.‬‬

‫أخرجه أبو نعیم في دالئل النبوۃ‪ ،136/1 ،‬الرقم‪ ،77 :‬والسیوطي في الخصائص‬
‫الکبری‪.80/1 ،‬‬

‫’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی هللا عنہ اپنی والدہ محترمہ حضرت شفاء بنت‬
‫عمرو رضی هللا عنہا سے روایت کرتے ہیں‪ ،‬وہ بیان کرتی ہیں‪ :‬جب حضرت آمنہ‬
‫رضی هللا عنہا نے حضرت محمد مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو آپ‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے ہاتهوں پر رونق افروز ہوئے اور کچه گریہ کیا۔ میں‬
‫تعالی آپ پر رحمتوں کی برسات کرے۔ حضرت‬
‫ٰ‬ ‫نے سنا کہ کوئی کہہ رہا تها‪ :‬هللا‬
‫شفاء فرماتی ہیں‪ :‬اس وقت مجه پر مشرق سے مغرب تک ساری زمین روشن ہوگئی‬
‫حتی کہ میں نے شام کے بعض محالت دیکه لیے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ پهر میں‬
‫نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو لباس پہنایا اور بستر پر لٹا دیا‪ ،‬کچه ہی لمحوں‬
‫بعد مجه پر تاریکی‪ ،‬رعب اور لرزہ طاری ہو گیا۔ پهر میری دائیں طرف روشنی‬
‫ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی‪ :‬تم انہیں کہاں لے گئے تهے؟ اس نے جواب‬
‫دیا‪ :‬مغرب کی طرف۔ اب پهرمجه پر بائیں طرف سے رعب و خوف طاری ہوا‪ ،‬پهر‬
‫روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی‪ :‬تم انہیں کہاں لے گئے تهے؟ اس نے‬
‫جواب دیا کہ مشرق کی طرف‪ ،‬اب ان کا ذکر وہاں سے کبهی ختم نہ ہوگا۔ حضرت‬
‫تعالی نے اپنے‬
‫ٰ‬ ‫شفاء فرماتی ہیں‪ :‬یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل میں تازہ رہا تا آنکہ هللا‬
‫رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو بعثت سے سرفراز فرمایا اور میں سب سے پہلے‬
‫اسالم النے والوں میں سے تهی۔‘‘‬

‫اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔‬


‫ت‬‫طا ِلب ی َح ِدث ا ََّٔن ِآمنَةَ ِب ْن َ‬ ‫س ِم ْعت أَ َبا َ‬‫طا ِلب رضی هللا عنه قَا َل‪َ :‬‬ ‫ع ِلي ِ ب ِْن أَ ِبي َ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫‪َ .38‬‬
‫ب‪ ،‬فَا َٔ َخذَ ٗہ َوقَبَّلَهٗ ‪ ،‬ث َّم دَفَ َعهٗ‬ ‫ي صلی هللا علیه وآله وسلم َجائ َهٗ َعبْد ْالم َّ‬
‫ط ِل ِ‬ ‫َو ْھب لَ َّما َولَدَ ِ‬
‫ت النَّ ِب َّ‬
‫شا ْٔن۔ ث َّم أَ َم َر َفن ِح َر ِ‬
‫ت‬ ‫ک‪ ،‬لَ َیک ْون ََّن ِ ِال ْب ِني ٰھذَا َ‬
‫طا ِلب۔ فَقَا َل‪ :‬ھ َو َو ِد ْی َع ِتي ِع ْندَ َ‬ ‫ِإ ٰلی أَ ِبي َ‬
‫ب َم َّکةَ‬ ‫ثـ َالثًا‪ ،‬ث َّم ن ِح َر فِي ک ِل ِش َعب ِم ْن ِش َعا ِ‬ ‫شاء‪َ ،‬وا ْ‬
‫ُٔط ِع َم أَ ْھل َم َّکةَ َ‬ ‫ت ال َّ‬ ‫ْال َجزَ ائِر‪َ ،‬وذ ِب َح ِ‬
‫طائِر۔ َر َواہ أَب ْو نعَیْم‪.‬‬ ‫سبع َو َال َ‬ ‫سان َو َال َ‬ ‫َجز ْو ًرا‪َ ،‬ال ی ْمنَع ِم ْنه ِإ ْن َ‬
‫أخرجه أبو نعیم في دالئل النبوۃ‪ ،138/1 ،‬الرقم‪.81 :‬‬

‫’’حضرت علی بن ابی طالب رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو‬
‫طالب سے سنا۔ وہ بیان کرتے تهے‪ :‬جب حضرت آمنہ رضی هللا عنہا نے حضور‬
‫نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے ج ِد‬
‫امجد حضرت عبد المطلب تشریف الئے اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو اٹهایا‪،‬‬
‫ماتهے پر بوسہ دیا‪ ،‬پهر حضرت ابو طالب کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا‪ :‬یہ‬
‫تمہارے پاس میری امانت ہے‪ ،‬میرے اس بیٹے کی بہت بڑی شان ہوگی۔ پهر‬
‫حضرت عبد المطلب نے اونٹ اور بکریاں ذبح کروائیں اور تمام اہل مکہ کی تین دن‬
‫تک ضیافت کی۔ پهر مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے ہر راستہ پر اونٹ ذبح کروا‬
‫کے رکه دیے جن سے تمام انسانوں‪ ،‬جانوروں او رپرندوں کو گوشت لینے کی‬
‫اجازت تهی۔‘‘‬
‫اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔‬
‫ت َح ْم ِل النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه‬ ‫ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما َقا َل‪َ :‬فکَانَ ِم ْن دَ َال َال ِ‬ ‫‪َ .39‬‬
‫ت‪ :‬ح ِم َل ِب َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا‬ ‫ک اللَّ ْیلَةَ‪َ ،‬وقَالَ ْ‬ ‫ت تِ ْل َ‬ ‫طقَ ْ‬ ‫َت ِلق َریْش َن َ‬ ‫وآله وسلم ا ََّٔن ک َّل دَابَّة کَان ْ‬
‫ب ْال َک ْعبَ ِة‪َ ،‬وھ َو أَ َمان الدُّ ْنیَا َو ِس َراج أَ ْھ ِل َها‪َ ،‬ولَ ْم یَبْقَ کَا ِھنَة ِم ْن ق َریْش‬ ‫علیه وآله وسلم َو َر ِ‬
‫س ِریْر‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ع ِعلم ال َک َهنَ ِة‪َ ،‬ولَ ْم َیک ْن َ‬ ‫اح َب ِت َها‪َ ،‬وا ْنت ِز َ‬
‫ص ِ‬ ‫ع ْن َ‬ ‫ت َ‬ ‫ب ِإ َّال ح ِج َب ْ‬ ‫َو َال َق ِب ْیلَة ِم ْن قَ َبائِ ِل ْال َع َر ِ‬
‫ت‬‫ک‪َ ،‬و َم َّر ْ‬ ‫سا َال یَ ْن ِطق َی ْو َمهٗ ذَا ِل َ‬ ‫سا‪َ ،‬و ْال َم ِلک م ْخ َر ً‬ ‫صبَ َح َم ْنک ْو ً‬ ‫ک الدُّ ْنیَا إِ َّال أَ ْ‬‫َم ِلک ِم ْن مل ْو ِ‬
‫ضا‬‫ک ْال ِب َحار ی َب ِشر َب ْعضه ْم َب ْع ً‬ ‫َاراتِ‪َ ،‬و َکذَا ِل َ‬ ‫ب ِب ْال ِبش َ‬ ‫ق ِإلی وح ْو ِش ْال َم ْغ ِر ِ‬ ‫ٰ‬ ‫وح ْوش ْال َم ْش ِر ِ‬
‫اء‪ :‬ا َْٔن أَ ْبشِر ْوا فَقَ ْد آنَ ِ َٔ‬
‫ال ِبي‬ ‫س َم ِ‬
‫ض َو ِندَائ فِي ال َّ‬ ‫ش ْهر ِم ْن شه ْو ِرہ‪ ،‬نِدَائ فِي ْاال َْٔر ِ‬ ‫ِبه‪ِ ،‬في ک ِل َ‬
‫ار ًکا‪.‬‬‫ض َمیْم ْونًا مبَ َ‬ ‫ْالقَا ِس ِم ا َْٔن یَ ْخر َج إِلَی ْاال َْٔر ِ‬
‫ک‬‫ک‪َ ،‬وذَا ِل َ‬ ‫ش ِد ْیدَۃ ً َوا َْٔم ًرا َع ِظ ْی ًما‪ ،‬فَ َهالَ ِني ذَا ِل َ‬‫س ِم ْعت َو َجبَةً َ‬ ‫ت ِآمنَة رضی هللا عنها ‪ :‬فَ َ‬ ‫قَالَ ْ‬
‫ع ِني ک ُّل رعْب‪،‬‬ ‫َب َ‬ ‫ع ٰلی ف َؤادِي فَذَھ َ‬ ‫س َح َ‬ ‫ض قَ ْد َم َ‬ ‫طیْر أَ ْبیَ َ‬ ‫االثْنَی ِْن‪ ،‬فَ َرأَیْت َکا ََّٔن َجنَا َح َ‬ ‫یَ ْوم ْ ِ‬
‫ط ٰشی‬ ‫ع ْ‬‫ظنَ ْنت َها لَ َبنًا‪َ ،‬وک ْنت َ‬ ‫ضا َء َو َ‬ ‫ت‪ ،‬فَإذَا أَنَا ِبش ْر َبة َب ْی َ‬ ‫َوک ُّل فَزَ ع َو َو ْجع ک ْنت ا َِٔجد ٗہ‪ ،‬ث َّم ْالتَفَ ُّ‬
‫عال‪.‬‬ ‫ضا َء ِم ِني ن ْور َ‬ ‫فَتَن ََاو ْلت َها فَش َِربْت َها‪ ،‬فَا َٔ َ‬
‫الوجبة‪ :‬السقوط علی األرض‪ .‬والمراد به ھنا‪ :‬صوت السقوط‪.‬‬
‫ت ح ْج َرتِي‪َ ،‬منَاقِیْرھَا‬ ‫َط ْ‬ ‫ت ِم ْن َحیْث َال أَ ْشعر َحتّٰی غ َّ‬ ‫الطی ِْر قَ ْد أَ ْقبَلَ ْ‬ ‫طعَةً ِمنَ َّ‬ ‫ت‪ :‬فَ َرأَیْت قِ ْ‬ ‫قَالَ ْ‬
‫َارقَ‬ ‫عتِي َمش ِ‬ ‫سا َ‬ ‫ص ْرت َ‬ ‫ص ِري‪ ،‬فَا َٔ ْب َ‬ ‫ع ْن َب َ‬ ‫ِف ِلي َ‬ ‫الزم ُّردِ‪َ ،‬وا َْٔج ِن َحت َها ِمنَ ْال َی َواقِ ْیتِ‪ ،‬فَکش َ‬ ‫ِمنَ ُّ‬
‫علَم فِي‬ ‫ق‪َ ،‬و َ‬ ‫علَم فِي ْال َم ْش ِر ِ‬ ‫عـ َالم َمضْر ْوبَات‪َ ،‬‬ ‫ث أَ ْ‬ ‫ثـ َال َ‬ ‫غار َب َها‪َ ،‬و َرأَیْت َ‬ ‫ض َو َم ِ‬ ‫ْاال َْٔر ِ‬
‫ع ٰلی َ‬
‫ظ ْه ِر ْال َک ْع َب ِة‪.‬‬ ‫علَم َ‬ ‫ب‪َ ،‬و َ‬ ‫ْال َم ْغ ِر ِ‬
‫ظ ْرت ِإلَ ْی ِه‪،‬‬ ‫ط ِني د ْرت فَنَ َ‬ ‫ت‪ :‬فَ َولَدْت م َح َّمدًا صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،‬فَلَ َّما خ ََر َج ِم ْن َب ْ‬ ‫قَالَ ْ‬
‫ت ِمنَ‬ ‫ضا َء قَ ْد أَ ْق َبلَ ْ‬ ‫س َحا َبةً َب ْی َ‬ ‫ض ِرعِ ْالم ْبتَ ِه ِل‪ ،‬ث َّم َرأَیْت َ‬ ‫ص َب َع ْی ِه ک َْالمت َ َ‬ ‫اجد قَ ْد َرفَ َع ِإ ْ‬ ‫س ِ‬ ‫فَإِذَا أَنَا ِبه َ‬
‫س ِم ْعت منَا ِدیًا یَق ْول‪ :‬ط ْوف ْوا ِبم َح َّمد صلی‬ ‫ع ْن َو ْج ِهي۔ فَ َ‬ ‫ْب َ‬ ‫غ ِش َیتْه‪ ،‬فَ ِغی َ‬ ‫ائ ت َ ْن ِزل َحت ّٰی َ‬ ‫س َم ِ‬ ‫ال َّ‬
‫ار کلَّ َها ِل َی ْع ِرف ْوہ بِاس ِْمه َونَ ْعتِه‬ ‫ض َوغ َْربِ َها َوأَد ِْخل ْوہ ْالبِ َح َ‬ ‫هللا علیه وآله وسلم ش َْرقَ ْاال َْٔر ِ‬
‫ي ِبه فِي زَ َمنِه‪،‬‬ ‫ک ِإ َّال م ِح َ‬ ‫احي‪َ ،‬ال َیب ْٰقی شَیئ ِمنَ ال ِش ْر ِ‬ ‫ي فِ ْی َها ْال َم ِ‬ ‫َوص ْو َرتِه َو َی ْعلَم ْوا أَنَّهٗ س ِم َ‬
‫ضا ِمنَ اللَّبَ ِن‪،‬‬ ‫شدَّ بَ َیا ً‬ ‫ْض أَ َ‬ ‫ب ص ْوف أَ َبی َ‬ ‫ت َع ْنه فِي أَس َْرعِ َو ْقت‪ ،‬فَإِذَا بِه مد َْرج فِي ثَ ْو ِ‬ ‫ث َّم ت َ َجلَّ ْ‬
‫ض‪َ ،‬و ِإذَا‬ ‫ب ْ َٔ‬
‫اال ْب َی ِ‬ ‫ط ِ‬ ‫الر ْ‬
‫ث َمفَا ِت ْی َح ِمنَ اللُّؤْ ل ِؤ َّ‬ ‫ع ٰلی َ‬
‫ثـ َال ِ‬ ‫ض َ‬ ‫َوتَ ْحت َهٗ َح ِری َْرۃ َخض َْرائ‪ ،‬قَ ْد ق ِب َ‬
‫النـب َّوۃِ۔ َر َواہ أَب ْو‬ ‫الریْحِ‪َ ،‬و َمفَاتِیْحِ ُّ‬ ‫ْح ِ‬ ‫ص ِر‪َ ،‬و َمفَاتِی ِ‬‫ع ٰلی َمفَا ِتیْحِ النَّ ْ‬ ‫ض م َح َّمد َ‬ ‫قَائِل یَق ْول‪ :‬قَبَ َ‬
‫ن َعیْم‪.‬‬

‫أخرجه أبو نعیم في دالئل النبوۃ‪610/2 ،‬۔‪ ،612‬الرقم‪ ،555 :‬والسیوطي في الخصائص‬
‫الکبری‪81/1 ،‬۔‪ ،83‬والحلبي في إنسان العیون‪ ،109/1 ،‬وابن کثیر في البدایة والنهایة‪،‬‬
‫‪.298/6‬‬
‫’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم‬
‫رحم مادر میں تشریف الئے تو اس کی عالمات یہ تهیں کہ‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ِ‬
‫اس رات قریش کا ہر جانور بول اٹها اور یوں گویا ہوا‪ :‬رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫ب کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے‬
‫وسلم رحم مادر میں جلوہ گر ہو گئے ہیں اور ر ِ‬
‫امان اور اہ ِل دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں‪ ،‬اس رات قریش کا ہر نجومی اور عام ِل‬
‫جنات اور عرب کا ہر قبیلہ اپنے جنوں کی مالقات سے روک دیا گیا ان کے سینوں‬
‫علم کہانت چهین لیا گیا‪ ،‬دنیا کے ہر بادشاہ کا تخت اوندھا ہو گیا۔ تمام بادشاہوں‬
‫سے ِ‬
‫مہر سکوت لگ گئی اور وہ پورا دن کالم نہ کر سکے۔ مشرق و مغرب‬
‫کے لبوں پر ِ‬
‫کے جانور ایک دوسرے کے پاس جا کر اور سمندر کی مچهلیاں باہم مبارکبادیاں‬
‫دے رہی تهیں۔ پهر ہر مہینے آسمان اور زمین میں ندا کی جاتی رہی‪ :‬مبارک ہو!‬
‫جب ابو القاسم ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) برکت و رحمت کے جلو میں ارض کی‬
‫طرف مبعوث ہوں گے۔‬

‫حضرت آمنہ رضی هللا عنہا فرماتی ہیں‪ :‬میں نے (کوئی شے گرنے کی) ایک‬
‫زوردار آواز سنی جس سے میں ڈر گئی۔ یہ پیر کا دن تها پهر میں نے دیکها کہ‬
‫جیسے کچه پرندے ہیں جو میرے دل پر اپنے َپر مل رہے ہیں جس سے مجه پر‬
‫(چهایا) سارا رعب و خوف جاتا رہا اور درد جو پہلے محسوس ہو رہا تها جاتا رہا۔‬
‫پهر میں نے دیکها کہ میرے پاس ایک سفید سا شربت پڑا تها‪ ،‬میں اسے دودھ‬
‫سمجهی۔ میں چونکہ پیاس محسوس کر رہی تهی میں نے اسے اٹها کر پی لیا تو مجه‬
‫سے ایک بلند تر نور جلوہ گر ہوا۔‬

‫آپ فرماتی ہیں‪ :‬پهر میں نے دیکها کہ پرندوں کا ایک غول آیا‪ ،‬میں نہیں جانتی وہ‬
‫کدھر سے آیا۔ بہرحال انہوں نے میرے حجرے کو بهر دیا‪ ،‬ان کی چونچیں زمرد‬
‫کی اور پَر یاقوت کے تهے۔ پهر میری نگاہ سے حجابات اٹها دیے گئے اور میں نے‬
‫دیکها کہ تین جهنڈے دنیا پر لگے ہوئے ہیں‪ :‬ایک مشرق میں‪ ،‬ایک مغرب میں اور‬
‫ایک کعبہ کی چهت پر۔‬
‫آپ فرماتی ہیں‪ :‬جب محمد مصطفی ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) میرے بطن سے‬
‫جلوہ گر ہوئے تو میں نے پہلو بدل کر انہیں دیکها کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫سجدے میں پڑے ہیں اور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کرنے والے کی‬
‫طرح آسمان کی طرف انگلی اٹهائے ہوئے ہیں۔ پهر میرے دیکهتے ہی دیکهتے‬
‫آسمان سے ایک سفید بادل اترا اور اس نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو ڈھانپ‬
‫لیا۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میری نگاہ سے اوجهل ہو گئے تو میں نے سنا کوئی‬
‫پکارنے واال کہہ رہا تها‪ :‬محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کو زمین کے مشرق و‬
‫مغرب میں ٹهہراؤ‪ ،‬انہیں تمام سمندروں میں لے جاؤ تاکہ تمام اہ ِل جہاں ان کے نام‪،‬‬
‫صفات اور حلیہ مبارک سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ یہی وہ ہستی ہیں جن کا‬
‫نام دنیا میں ماحی رکها گیا ہے کیوں کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے دور میں‬
‫تمام دنیا سے شرک مٹا دیا جائے گا۔ پهر کچه ہی دیر بعد وہ بادل چهٹ گیا تو آپ‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اون کے ایک سفید کپڑے میں‪ ،‬جو دودھ سے بهی سفید تر‬
‫تها‪ ،‬لپٹے ہوئے پڑے تهے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے نیچے سبز ریشم تها اور‬
‫آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ہاته میں تروتازہ اور سفید موتی سے بنی ہوئی تین‬
‫چابیاں پکڑ رکهی تهیں اور کوئی کہنے واال کہہ رہا تها کہ محمد مصطفی ( صلی‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم ) نے فتح و نصرت‪ ،‬ہوا اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کر لیا۔‘‘‬
‫اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔‬
‫س َالم و ِلدَ لَ ْیـ ًال‪ ،‬فَأَیُّ َما‬ ‫الصـ َالۃ َوال َّ‬ ‫َّ‬ ‫ب‪ِ :‬إذَا ق ْلنَا ِبأَنَّهٗ َ‬
‫علَ ْی ِه‬ ‫ي ِفي ْال َم َوا ِھ ِ‬ ‫اإل َمام ْالق ْس َ‬
‫طـ َّال ِن ُّ‬ ‫َوقَا َل ِ‬
‫ضل‪ :‬لَ ْیلَة ْالقَد ِْر أ َ ْو لَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ أ ِجیْب‪ِ :‬بأ َ َّن لَ ْیلَةَ َم ْو ِلدِہ َ‬
‫علَ ْی ِه‬ ‫أ َ ْف َ‬
‫ثـ َالثَة‪:‬‬ ‫ضل ِم ْن لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر ِم ْن وج ْوہ َ‬ ‫السـ َالم أ َ ْف َ‬ ‫الصـ َالۃ َو َّ‬ ‫َّ‬
‫طاۃ لَهٗ ‪َ ،‬و َما‬ ‫أَ َحدھَا‪ :‬أ َ َّن َل ْی َلةَ ْال َم ْو ِل ِد َل ْی َلة ظه ْو ِرہ صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ ،‬ولَ ْیلَة ْالقَد ِْر م ْع َ‬
‫ع فِي‬ ‫ْطیَهٗ ‪َ ،‬و َال نِزَ ا َ‬ ‫ب َما أع ِ‬ ‫سبَ ِ‬ ‫ف بِ َ‬‫ف ِم ْن أ َ ْج ِله أ َ ْش َرف ِم َّما شَر َ‬ ‫ت ْالمش َِر ِ‬ ‫ف ِبظه ْو ِر ذَا ِ‬ ‫شَر َ‬
‫ضل‪.‬‬ ‫َ‬
‫ار ‪ -‬أ ْف َ‬ ‫اال ْعتِ َب ِ‬ ‫ْ‬
‫َت لَ ْیلَة ال َم ْو ِل ِد ‪ِ -‬بهٰ ذَا ْ ِ‬ ‫ک‪ ،‬فَکَان ْ‬ ‫ذَا ِل َ‬
‫ت ِبظه ْو ِرہ صلی هللا‬ ‫ت ِبنز ْو ِل ْال َمـ َال ِئ َک ِة فِ ْی َها‪َ ،‬ولَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد شَر َف ْ‬ ‫اَلثَّانِي‪ :‬أ َ َّن لَ ْیلَةَ ْالقَد ِْر شَر َف ْ‬
‫علَی‬ ‫ت ِبه لَ ْیلَة ْالقَد ِْر‪َ ،‬‬ ‫ضل ِم َّم ْن شَرفَ ْ‬ ‫ت ِبه َل ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أ َ ْف َ‬ ‫علیه وآله وسلم ِف ْی َها۔ َو ِم َّم ْن شَرفَ ْ‬
‫ضل‪.‬‬ ‫ضی (أَي ِع ْندَ ج ْمه ْو ِر أ َ ْھ ِل السنة) فَتَک ْون لَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أ َ ْف َ‬ ‫صحِ ْالم ْرت َ ٰ‬ ‫األ َ َ‬
‫ع ٰلی أ َّم ِة م َح َّمد صلی هللا علیه وآله وسلم‪َ ،‬ولَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد‬ ‫اَلثَّا ِلث‪ :‬لَ ْیلَة ْالقَد ِْر َوقَ َع التَّفَضُّل فِ ْی َها َ‬
‫سائِ ِر ْال َم ْوج ْودَاتِ‪ ،‬فَه َو الَّذِي بَ َعثَه هللا تَعَ ٰالی َر ْح َمةً‬ ‫ع ٰلی َ‬ ‫ْف َوقَ َع التَّفَضُّل ِف ْی َها َ‬ ‫ش ِری ِ‬‫ال َّ‬
‫َت لَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أَ َ‬
‫ع َّم نَ ْف ًعا‪ ،‬فَکَان ْ‬
‫َت‬ ‫ع ٰلی َج ِمیْعِ ْال َخـ َال ِئ ِ‬
‫ق‪َ ،‬فکَان ْ‬ ‫ت ِب ِه ال ِن ْع َمة َ‬ ‫ِل ْل َعالَ ِمیْنَ ‪ ،‬فَ َع َّم ْ‬
‫ار‪.‬‬ ‫ض َل ِم ْن لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر ِبهٰ ذَا ْ ِ‬
‫اال ْع ِتبَ ِ‬ ‫أ َ ْف َ‬
‫ذکرہ القسطالني في المواھب اللدنیة بالمنح المحمدیة‪ ،145/1 ،‬وعبد الحق الدہلوي في‬
‫ما ثبت ِمن السنة في أیام السنة‪ ،60-59/‬والزرقاني في شرح المواھب اللدنیة بالمنح‬
‫المحمدیة‪ ،256-255 /1 ،‬والنبهاني في جواھر البحار في فضائل النبي المختار صلی‬
‫هللا علیه وآله وسلم‪.424/3 ،‬‬

‫’’امام قسطالنی ’المواہب اللدنیہ‘ میں فرماتے ہیں‪ :‬جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی‬
‫ب‬
‫اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ش ِ‬
‫ب قدر؟ میں اس کے جواب میں‬ ‫میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اَفضل ہے یا ش ِ‬
‫ب‬
‫کہتا ہوں کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی میالد کی رات تین وجوہ کی بناء پر ش ِ‬
‫قدر سے اَفضل ہے‪:‬‬
‫ب قدر آپ صلی‬ ‫ب میالد میں ہوا جب کہ ش ِ‬ ‫‪ .1‬آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ش ِ‬
‫هللا علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی‪ٰ ،‬لہذا وہ رات جس کو آپ صلی هللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم کے ظہور کا شرف مال اس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات‬
‫میں تشریف النے والی ہستی کے سبب سے شرف مال‪ ،‬اور اِس میں کوئی نزاع‬
‫ب قدر سے افضل ہوئی۔‬ ‫ب میالد ش ِ‬
‫نہیں۔ ٰلہذا اِس اِعتبار سے ش ِ‬
‫‪ .2‬اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو‬
‫تعالی کے محبوب صلی هللا‬ ‫ٰ‬ ‫ب والدت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں هللا‬ ‫ش ِ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہ ِل سنت کے قول کے مطابق‬
‫ب میالد کو جس ہستی (یعنی حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) نے شرف بخشا‬ ‫ش ِ‬
‫ب قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں بلند و برتر‬ ‫وہ ش ِ‬
‫ب والدت ہی افضل ہے۔‬ ‫اور عظمت والی ہے۔ ٰلہذا ش ِ‬
‫ب میالد کے ذریعے‬ ‫ت محمدیہ کو فضیلت بخشی گئی اور ش ِ‬ ‫ب قدر کے باعث ام ِ‬ ‫‪ .3‬ش ِ‬
‫جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ہی‬
‫ت رحمت‬ ‫تعالی نے رحمۃ للعالمین بنا کر بهیجا‪ ،‬اور اِس طرح نعم ِ‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں جنہیں هللا‬
‫ب والدت نفع رسانی میں کہیں زیادہ‬ ‫جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ ٰلہذا ش ِ‬
‫ہے‪ ،‬اور اِس اعتبار سے بهی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹهہری۔‘‘‬
‫ض َل اللَّیَا ِلي لَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله‬ ‫ش َوافِعِ‪ِ :‬إ َّن أ َ ْف َ‬
‫ض ال َّ‬ ‫ع ْن بَ ْع ِ‬ ‫ي َ‬ ‫اإل َمام َّ‬
‫الط َحا ِو ُّ‬ ‫َونَقَ َل ِ‬
‫ع َرفَةَ‪ ،‬ث َّم لَ ْیلَة ْالجمعَ ِة‪ ،‬ث َّم َل ْیلَة‬
‫ائ َو ْال ِم ْع َراجِ‪ ،‬ث َّم لَ ْیلَة َ‬ ‫اإلس َْر ِ‬ ‫وسلم‪ ،‬ث َّم لَ ْیلَة ْالقَد ِْر‪ ،‬ث َّم لَ ْیلَة ِ‬
‫ش ْع َبانَ ‪ ،‬ث َّم َل ْیلَة ْال ِع ْیدِ‪.‬‬
‫ف ِم ْن َ‬ ‫ص ِ‬
‫النِ ْ‬

‫ذکرہ ابن عابدین في رد المحتار علی در المختار علی تنویر االٔبصار‪،511/2 ،‬‬
‫والشرواني في حاشیة علی تحفة المحتاج بشرح المنهاج‪ ،405/2 ،‬والنبہاني في جواھر‬
‫البحار في فضائل النبي المختار صلی هللا علیه وآله وسلم‪.426/3 ،‬‬

‫ب‬
‫’’امام طحاوی بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں‪ :‬راتوں میں سے افضل ترین ش ِ‬
‫ب اِسراء و معراج‪،‬‬
‫ب قدر‪ ،‬پهر ش ِ‬
‫میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ہے‪ ،‬پهر ش ِ‬
‫ب عید‬
‫ب جمعہ‪ ،‬پهر شعبان کی پندرہویں شب اور پهر ش ِ‬
‫ب عرفہ‪ ،‬پهر ش ِ‬
‫پهر ش ِ‬
‫ہے۔‘‘‬
‫ي فِي األ َ ْن َو ِار ْالم َح َّم ِدیَّ ِة (ص‪َ :)28/‬ولَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله‬ ‫اإل َمام النَّ ْب َها ِن ُّ‬
‫َوقَا َل ِ‬
‫ضل ِم ْن َل ْیلَ ِة ْالقَد ِْر‪.‬‬ ‫وسلم أ َ ْف َ‬
‫’’امام نبہانی اپنی مشہور تصنیف ’االٔنوار المحمدیة من المواھب اللدنیة (ص‪:‬‬
‫ب قدر سے‬
‫ب میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ش ِ‬
‫‪ ‘)28‬میں لکهتے ہیں‪ :‬اور ش ِ‬
‫افضل ہے۔‘‘‬
‫ب ْال َح ِد ْی ِ‬
‫ث َوال ِس َی ِر‬ ‫طلَحِ ’ ْال ِم ْیـ َال ِد‘ ِفي کت ِ‬
‫ص َ‬
‫اِ ْس ِت ْع َمال م ْ‬

‫ي فِي س َننِه بَابًا ع ْن َوانهٗ ‪َ :‬ما َجا َء فِي ِم ْیـ َال ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه‬ ‫اإل َمام التِ ْر ِم ِذ ُّ‬ ‫عقَدَ ِ‬ ‫َوقَ ْد َ‬
‫وآله وسلم‪:‬‬
‫ع ْن قَی ِْس ب ِْن َم ْخ َر َمةَ رضی هللا عنه قَا َل‪ :‬و ِلدْت أَنَا َو َرس ْول هللاِ‬ ‫ي َ‬ ‫‪َ .40‬و َر َوی التِ ْر ِم ِذ ُّ‬
‫اث بْنَ‬‫عفَّانَ رضی هللا عنه قبَ َ‬ ‫سأ َ َل عثْ َمان بْن َ‬ ‫ام ْال ِف ْی ِل قَا َل‪َ :‬و َ‬‫ع َ‬‫صلی هللا علیه وآله وسلم َ‬
‫ت أ ْک َبر أ ْم َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ فَقَا َل‪:‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫أ َ ْش َی َم أَخَا َبنِي َی ْع َم َر ب ِْن لَیْث أ أ ْن َ‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم أ َ ْکبَر ِم ِني َوأَنَا أ َ ْقدَم ِم ْنه ِفي ْال ِم ْیـ َال ِد‪.‬‬
‫سن غ َِریْب‪.‬‬ ‫ي‪ٰ :‬ھذَا َح ِدیْث َح َ‬ ‫ي‪َ .‬وقَا َل التِ ْر ِم ِذ ُّ‬ ‫ي َو ْال َحا ِکم َو َّ‬
‫الط َب َرانِ ُّ‬ ‫ي َو َّ‬
‫الط َحا ِو ُّ‬ ‫َر َواہ التِ ْر ِم ِذ ُّ‬
‫‪ :40‬أخرجه الترمذي في السنن‪ ،‬کتاب المناقب‪ ،‬باب ما جاء في میالد النبي صلی هللا‬
‫علیه وآله وسلم‪ ،589/5 ،‬الرقم‪ ،3619 :‬وأخرج المحدثون ھذا الحدیث بأسانیدھم منهم‪:‬‬
‫الطحاوي في شرح مشکل اآلثار‪ ،217/15 ،‬الرقم‪ ،5969 :‬والحاکم في المستدرک‪،‬‬
‫‪ ،724/3‬الرقم‪ ،6624 :‬والطبراني في المعجم الکبیر‪ ،37/19 ،‬الرقم‪ ،75 :‬وابن أبي‬
‫عاصم في اآلحاد والمثاني‪ ،407/1 ،‬الرقم‪ ،927 ،566 :‬والطبري في تاریخ األمم‬
‫والملوک‪ ،453/1 ،‬والبیهقي في دالئل النبوۃ‪ ،77/1 ،‬وابن کثیر في البدایة والنهایة‪/2 ،‬‬
‫‪.217-216‬‬
‫ب اَحادیث و سیر میں اِصطالحِ میالد کا اِستعمال‬
‫کت ِ‬

‫اِمام ترمذی نے اپنی السنن میں کتاب المناقب کا (دوسرا) باب ہی ما جاء في میالد‬
‫النبي صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں‪:‬‬

‫’’حضرت قیس بن مخرمہ رضی هللا عنہ سے مروی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں‬
‫اور رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان بن‬
‫عفان رضی هللا عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بهائی قباث بن اشیم سے پوچها‪ :‬آپ‬
‫بڑے ہیں یا رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں؟ انہوں نے کہا‪ :‬رسول هللا‬
‫صلی هللا علیہ وآلہ وسلم مجه سے بڑے ہیں اور میں میالد (یعنی پیدائش) میں ان‬
‫سے پہلے ہوں۔‘‘‬

‫اسے امام ترمذی‪ ،‬طحاوی‪ ،‬حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے‬
‫فرمایا‪ :‬یہ حدیث حسن غریب ہے۔‬
‫ت ق َریْش َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‬ ‫طلَبَ ْ‬
‫صهٗ ‪َ :‬و َ‬ ‫س ْعد فِي َّ‬
‫الطبَقَا ِ‬
‫ت َما نَ ُّ‬ ‫َوذَک ََر ابْن َ‬
‫علَ ْی ِه ْال َع ْنکَب ْو َ‬
‫ت قَ ْب َل ِم ْیـ َال ِد‬ ‫ب ْالغ ِ‬
‫َار‪ ،‬فَقَا َل َب ْعضه ْم‪ِ :‬إ َّن َ‬ ‫ب َحتَّی ا ْنتَ َه ْوا ِإ ٰلی َبا ِ‬ ‫شدَّ َّ‬
‫الطلَ ِ‬ ‫أَ َ‬
‫م َح َّمد (صلی هللا علیه وآله وسلم) فَا ْن َ‬
‫ص َرف ْوا‪.‬‬

‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،228 /1 ،‬والسیوطي في کفایة الطالب اللبیب في‬
‫خصائص الحبیب‪.305 /1 ،‬‬
‫امام ابن سعد نے ا َ َّ‬
‫لطبَقَات میں روایت بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں‪:‬‬

‫’’قریش نے رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو بہت شدت سے تالش کیا یہاں تک‬
‫غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ تو ان میں سے بعض نے‬
‫کہ تالش کرتے کرتے ِ‬
‫کہا‪ :‬اِس کے منہ پر تو محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کے میالد (پیدائش) سے‬
‫بهی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جاال ہے۔ سو (یہ دیکه کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘‬
‫َار‪ ،‬قَا َل قَا ِئل ِم ْنه ْم‪ :‬ادْخلو ْالغ َ‬
‫َار۔ فَقَا َل أ َمیَّة بْن َخلَف‪:‬‬ ‫وفي روایة‪ :‬فَلَ َّما ا ْنت َ َه ْوا إِ ٰلی فَ ِم ْالغ ِ‬
‫َو َما أ َ َر ِبک ْم أَي َحا َجتک ْم ِإلَی ْالغ ِ‬
‫َار؟ أ َ َّن َ‬
‫علَ ْی ِه َل َع ْنکَب ْوتًا کَانَ قَ ْب َل ِم ْیـ َال ِد م َح َّمد (صلی هللا‬
‫علیه وآله وسلم)‪.‬‬

‫ذکرہ الحلبي في إنسان العیون في سیرۃ االٔمین المامون‪ ،209/2 ،‬والکالعي في االکتفاء‬
‫بما تضمنہ من مغازي رسول هللا صلی هللا علیه وآله وسلم‪ ،339/1 ،‬والسیوطي فیکفایة‬
‫الطالب اللبیب في خصائص الحبیب‪.306/1 ،‬‬

‫درج ذیل اَلفاظ ہیں‪:‬‬


‫ِ‬ ‫اِسی موضوع کی ایک روایت میں‬

‫قریش مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو ان میں سے کسی نے کہا‪ :‬غار میں‬
‫ِ‬ ‫’’جب‬
‫داخل ہو جاؤ۔ اِس پر امیہ بن خلف نے کہا‪ :‬تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے‬
‫منہ پر تو محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کے میالد (پیدائش) سے بهی قبل کا‬
‫مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘‬
‫سی ب ِْن‬ ‫عبَّاس رضی هللا عنهما قال‪ :‬کَانَ بَیْنَ م ْو َ‬ ‫ع ِن اب ِْن َ‬
‫ت‘‪َ :‬‬ ‫س ْعد فِي ’ َّ‬
‫الطبَ َقا ِ‬ ‫َوذَک ََر ابْن َ‬
‫سنَة َولَ ْم تَک ْن َب ْینَه َما فَت َ َرۃ‪،‬‬ ‫سنَة َوتِسْع ِمائ َ ِة َ‬‫سی ب ِْن َم ْریَ َم علیهم السالم أ َ ْلف َ‬ ‫ِع ْم َرانَ َو ِع ْی َ‬
‫غی ِْر ِھ ْم‪َ ،‬وکَانَ َبیْنَ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫َو ِإنَّهٗ أ ْر ِس َل َب ْینَه َما ألف َن ِبي ِم ْن َبنِي ِإس َْرائِ ْی َل ِس ٰوی َم ْن أ ْر ِس َل ِم ْن َ‬
‫سنَةً‪.‬‬
‫سنَة َوتِسْع َّو ِست ُّ ْونَ َ‬ ‫ِم ْیـ َال ِد ِع ْیسٰ ی َوالنَّبِي ِ علیهما السالم‪ ،‬خ َْمس ِمائ َ ِة َ‬
‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،53/1،‬والطبري في تاریخ االٔمم والملوک‪،‬‬
‫‪ ،495/1‬والقرطبي في الجامع الٔحکام القرآن‪.122/6 ،‬‬
‫’’امام ابن سعد ا َ َّ‬
‫لط َبقَا ِ‬
‫ت میں روایت بیان کرتے ہیں‪ :‬حضرت عبد هللا بن عباس رضی‬
‫عیسی بن مریم علیہم‬
‫ٰ‬ ‫موسی بن عمران اور‬
‫ٰ‬ ‫هللا عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضرت‬
‫السالم کے درمیان ‪ 1900‬سال کا عرصہ ہے اور ان دونوں کے درمیان زمانہ فترت‬
‫(جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ ان دونوں کے اِس عرصہ‬
‫نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بهیجے گئے‪ ،‬ان کے عالوہ‬
‫عیسی اور حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫بهیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میال ِد‬
‫(کی بعثت) کا درمیانی عرصہ ‪ 569‬سال بنتا ہیں۔‘‘‬
‫سنَةً‪َ ،‬وکَانَ أ َ ْقدَ َم فِي‬
‫ع َّمار‪َ ،‬ر ِح َمه هللا‪َ ،‬وھ َو ابْن إِ ْح ٰدی َوتِ ْس ِعیْنَ َ‬
‫َوقَا َل ابْن َع ْون‪ :‬قتِ َل َ‬
‫ْال ِم ْیـ َال ِد ِم ْن َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم‪.‬‬

‫أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری‪ ،259/3 ،‬وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق‪،‬‬
‫‪ ،471/43‬والمزي في تهذیب الکمال في أسماء الرجال‪.224/21 ،‬‬

‫’’امام ابن عون بیان فرماتے ہیں‪ :‬حضرت عمار رضی هللا عنہ ‪ 91‬سال کی عمر میں‬
‫شہید کیے گئے اور وہ میالد میں حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے‬
‫پہلے تهے۔‘‘‬

‫لفظ میالد کی اَصل (‪ )origin‬کے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹهایا‬
‫ِ‬
‫جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میالد ایسا‬
‫لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند مینمستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔‬
‫دراصل اردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیر ٔہ اَلفاظ میں عربی‪ ،‬فارسی اور‬
‫دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اردو میں ولد‪ ،‬والد‪ ،‬والدہ‪ ،‬مولود‪ ،‬میالد‪،‬‬
‫مولد اور متولد تمام عربی االصل الفاظ ہیں۔ میالد عربی لفظ ہے جسے امام محمد بن‬
‫سعد (‪168-230‬ھ)‪ ،‬امام ترمذی (‪210-279‬ھ)‪ ،‬امام ابن جریر طبری (‪224-310‬ھ)‪،‬‬
‫حافظ ابن کثیر (‪701-774‬ھ)‪ ،‬امام سیوطی (‪849-911‬ھ) اور حافظ عسقالنی (‪-773‬‬
‫مورخین اور اَصحا ِ‬
‫ب سیر نے اِستعمال کیا‬ ‫‪852‬ھ) سمیت متعدد مفسرین‪ ،‬محدثین‪ٔ ،‬‬
‫ہے۔‬

‫اَئمہ لغت نے بهی لفظ میالد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔‬

‫‪1‬۔ ابن منظور افریقی (‪630-711‬ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (‪660‬ھ کے بعد فوت‬
‫ہوئے)‪ ،‬مرتضی زبیدی (‪1145-1205‬ھ) اور عالمہ جوہری فرماتے ہیں‪:‬‬
‫الرج ِل‪ :‬اِسْم ْال َو ْق ِ‬
‫ت الَّذِي و ِلدَ فِ ْی ِه‪.‬‬ ‫َو ِم ْیـ َالد َّ‬
‫ابن منظور‪ ،‬لسان العرب‪468 :3 ،‬‬ ‫‪.1‬‬
‫رازی‪ ،‬مختار الصحاح‪422 :‬‬ ‫‪.2‬‬
‫زبیدی‪ ،‬تاج العروس من جواھر القاموس‪327 :5 ،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫جوھری‪ ،‬الصحاح فی اللغة والعلوم‪713 :2 ،‬‬ ‫‪.4‬‬
‫’’اور اِنسان کا میالد اس وقت کا نام ہے جس میں اس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘‬

‫‪2‬۔ لغت کی معروف کتب ’المعجم الوسیط (‪ ‘)1056 :2‬اور ’تاج العروس من جواہر‬
‫القاموس (‪ ‘)327 :5‬میں ہے‪:‬‬
‫ا َ ْل ِم ْیـ َالد‪َ :‬و ْقت ْال ِو َالدَۃِ‪.‬‬

‫ت والدت ہے۔‘‘‬
‫’’میالد سے مراد وق ِ‬

‫مصادر التخریج‬
‫‪ .1‬القرآن الحکیم‪.‬‬
‫‪ .2‬ابراھیم مصطفی‪ ،‬المعجم الوسیط‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬داراحیاء التراث العربی ‪1956‬ء‪.‬‬
‫‪ .3‬ابن اثیر‪ ،‬ابو الحسن علی بن محمد بن عبد الکریم (‪555-630‬ہ)‪ .‬أسد الغابة في‬
‫معرفة الصحابة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪.‬‬
‫‪ .4‬احمد بن حنبل‪ ،‬ابو عبد هللا بن محمد (‪164-241‬ہ‪855-780/‬ء)‪ .‬المسند‪ .‬بیروت‪،‬‬
‫لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1398 ،‬ہ‪1978/‬ء‪.‬‬
‫‪ .5‬ابن اسحاق‪ ،‬محمد بن اسحاق بن یسار‪85-151( ،‬ہ)‪ .‬السیرۃ النبویة‪ .‬معهد الدراسات‬
‫واالبحاث للتعریب‪.‬‬
‫‪ .6‬ابن اسحاق‪ ،‬اسماعیل بن اسحاق المالکی (‪199-282‬ہ)‪ .‬فضل الصالۃ علی‬
‫النبي صلی هللا علیه وآله وسلم‪ .‬مدینه منورہ‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬دار المدینه المنورہ‪،‬‬
‫‪1421‬ہ‪2000/‬ء‪.‬‬
‫‪ .7‬بخاری‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیرہ (‪256-194‬ہ‪.810 /‬‬
‫‪870‬ء)‪ .‬التاریخ الصغیر‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار المعرفه‪1406 ،‬ہ‪1986/‬ء‪.‬‬
‫‪ .8‬بخاری‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن إسماعیل بن إبراھیم بن مغیرہ (‪256-194‬ہ‪-810 /‬‬
‫‪870‬ء)‪ .‬التاریخ الکبیر‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪.‬‬
‫‪ .9‬بخاری‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن اسماعیل بن إبراھیم بن مغیرہ (‪256-194‬ہ‪-810 /‬‬
‫‪870‬ء)‪ .‬الصحیح‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان ‪ +‬دمشق‪ ،‬شام‪ :‬دار القلم‪1401 ،‬ہ‪1981 /‬ء‪.‬‬
‫بزار‪ ،‬ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بصری (‪210-292‬ہ)‪ .‬المسند‬ ‫‪.10‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪1409 :‬ہ‪.‬‬
‫بغوی‪ ،‬ابو محمد بن فراء حسین بن مسعود بن محمد (‪516-436‬ہ‪-1044/‬‬ ‫‪.11‬‬
‫‪1122‬ء)‪ .‬شرح السنة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1403 ،‬ہ‪1983 /‬ء‪.‬‬
‫موسی (‪384-458‬ہ)‪.‬‬ ‫ٰ‬ ‫بیهقی‪ ،‬ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد هللا بن‬ ‫‪.12‬‬
‫دالئل النبوۃ‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1405 ،‬ہ‪1985/‬ء‪.‬‬
‫بیهقی‪ ،‬ابو بکر احمد بن حسین بن علی (‪384-458‬ہ)‪ .‬السنن الصغری‪.‬‬ ‫‪.13‬‬
‫مدینه منورہ‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبة الدار‪1410 ،‬ہ‪1989 /‬ء‪.‬‬
‫بیهقی‪ ،‬ابو بکر احمد بن حسین بن علی (‪384-458‬ہ)‪ .‬السنن الکبری‪ .‬مکه‬ ‫‪.14‬‬
‫مکرمه‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبه دار الباز‪1414 ،‬ہ‪1994/‬ء‪.‬‬
‫بیهقی‪ ،‬ابو بکر احمد بن حسین بن علی (‪384-458‬ہ)‪ .‬شعب اإلیمان‪.‬‬ ‫‪.15‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1410 ،‬ہ‪1990/‬ء‪.‬‬
‫بیهقی‪ ،‬ابو بکر احمد بن حسین بن علی (‪384-458‬ہ)‪ -‬فضائل االٔوقات‪ -‬مکه‬ ‫‪.16‬‬
‫مکرمه‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبة المنارہ‪1410 ،‬ہ‪1990/‬ء‪-‬‬
‫عیسی (‪210-279‬ہ)‪ .‬السنن‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار‬ ‫ٰ‬ ‫عیسی محمد بن‬
‫ٰ‬ ‫ترمذی‪ ،‬ابو‬ ‫‪.17‬‬
‫الغرب االسالمی‪1998 ،‬ء‪.‬‬
‫جورقانی‪ ،‬حافظ ابو عبد اهللا الحسین بن ابراھیم الهمذانی (م‪543‬ہ)‪ .‬االٔباطیل‬ ‫‪.18‬‬
‫والمناکیر والصحاح والمشاھیر‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار ابن حزم‪1424 ،‬ہ‪2004 /‬ء‪.‬‬
‫ابن جوزی‪ ،‬ابو الفرج عبد الرحمن بن علی (‪510-579‬ہ)‪ .‬صفوۃ الصفوۃ‪.‬‬ ‫‪.19‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دارالکتب العلمیه‪1409 ،‬ہ‪1989/‬ء‪.‬‬
‫جوھری‪ ،‬اسماعیل بن حماد (‪393‬ہ)‪ .‬تاج اللغة وصحاح العربیة (الصحاح)‪.‬‬ ‫‪.20‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دارالفکر‪1402 ،‬ہ‪1982/‬ء‪.‬‬
‫حاکم‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن عبد هللا (‪321-405‬ہ)‪ .‬المستدرک علی‬ ‫‪.21‬‬
‫الصحیحین‪ .‬مکه‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬دار الباز للنشر و التوزیع‪.‬‬
‫ابن حبان‪ ،‬ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان التمیمی البستی (‪-270‬‬ ‫‪.22‬‬
‫‪354‬ہ)‪ .‬الثقات‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالفکر‪1395 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن حبان‪ ،‬ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (‪270-354‬ہ)‪.‬‬ ‫‪.23‬‬
‫الصحیح‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬مؤسسة الرساله‪1414 ،‬ہ‪1993/‬ء‪.‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی بن محمد (‪773-852‬ہ‪1449-1372/‬ء)‪.‬‬ ‫‪.24‬‬
‫اإلصابة في تمییز الصحابة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الجیل‪1412 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی بن محمد (‪773-852‬ہ‪1449-1372/‬ء)‪.‬‬ ‫‪.25‬‬
‫تهذیب التهذیب‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالفکر‪1404 ،‬ہ‪1984/‬ء‪.‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی بن محمد (‪773-852‬ہ‪1449-1372/‬ء)‪.‬‬ ‫‪.26‬‬
‫تلخیص الحبیر في أحادیث الرافعي الکبیر‪ .‬مدینه منورہ‪ ،‬سعودی عرب‪1384 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی بن محمد (‪773-852‬ہ‪1449-1372/‬ء)‪.‬‬ ‫‪.27‬‬
‫فتح الباري‪ .‬الھور‪ ،‬پاکستان‪ :‬دار نشر الکتب االسالمیه‪1401 ،‬ہ‪.‬‬
‫حلبی‪ ،‬نور الدین علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر بن برھان الدین‬ ‫‪.28‬‬
‫حلبی قاھری شافعی (‪975-1044‬ہ)‪ .‬إنسان العیون فی سیرۃ االٔمین المامون (السیرۃ‬
‫الحلبیة)‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دارالمعرفه‪1400 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن خزیمه‪ ،‬ابو بکر محمد بن اسحاق (‪223-311‬ہ)‪ .‬الصحیح‪ .‬بیروت‪،‬‬ ‫‪.29‬‬
‫لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1390 ،‬ہ‪1970/‬ء‪.‬‬
‫خطابی‪ ،‬حمد بن محمد بن ابراھیم الخطابی البستی (‪319-388‬ہ)‪ .‬إصالح‬ ‫‪.30‬‬
‫غلط المحدثین‪ .‬دمشق‪ ،‬شام‪:‬ـ دار المأمون للتراث‪1407 ،‬ہ‪.‬‬
‫دارمی‪ ،‬ابو محمد عبد هللا بن عبد الرحمن (‪181-255‬ہ)‪ .‬السنن‪ .‬بیروت‪،‬‬ ‫‪.31‬‬
‫لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪1407 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابو داود‪ ،‬سلیمان بن أشعث سبحستانی (‪202-275‬ہ)‪ .‬السنن‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪:‬‬ ‫‪.32‬‬
‫دار الفکر‪1414 ،‬ہ‪1994/‬ء‪.‬‬
‫ذھبی‪ ،‬ابو عبد اهللا شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان (‪673-748‬ہ)‪ .‬سیر‬ ‫‪.33‬‬
‫موسسة الرساله‪1413 ،‬ہ‪.‬‬ ‫أعالم النبالء‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ٔ :‬‬
‫حنفی (‪660‬ہ)‪ .‬مختار الصحاح‪.‬‬ ‫ؒ‬ ‫رازی‪ ،‬محمد بن ابی بکر بن عبد القادر‬ ‫‪.34‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬داراحیاء التراث العربی‪1419 ،‬ہ‪1999/‬ء‪.‬‬
‫رویانی‪ ،‬ابو بکر محمد بن ھارون الرویانی (‪307‬ہ)‪ .‬المسند‪ .‬قاھرہ‪ ،‬مصر‪:‬‬ ‫‪.35‬‬
‫موسسه قرطبه‪1416 ،‬ہ‪.‬‬ ‫ٔ‬
‫زبیدی‪ ،‬ابو الفیض محمد بن محمد (‪1145-1205‬ہ‪1791-1732/‬ء)‪ .‬تاج‬ ‫‪.36‬‬
‫العروس من جواھر القاموس‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الفکر‪1414 ،‬ہ‪1994/‬ء‪.‬‬
‫زرقانی‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن عبد الباقی بن یوسف بن احمد بن علوان‬ ‫‪.37‬‬
‫مصری ازھری مالکی (‪1055-1122‬ہ‪1710-1645/‬ء)‪ .‬شرح المواھب اللدنیه‪.‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1417 ،‬ہ‪1996/‬ء‪.‬‬
‫زیلعی‪ ،‬ابو محمد جمال الدین عبد اهللا بن یوسف بن محمد حنفی (م‪762‬ہ)‪.‬‬ ‫‪.38‬‬
‫نصب الرایة الٔحادیث الهدایة‪ .‬مصر‪ :‬دارالحدیث‪1357 ،‬ہ‪.‬‬
‫زینی دحالن‪ ،‬سید احمد حسنی ھاشمی قرشی مکی (‪1233-1304‬ہ)‪ .‬السیرۃ‬ ‫‪.39‬‬
‫موسسة الکتب الثقافیة‪1421 ،‬ہ‪2001/‬ء‪.‬‬ ‫النبویة‪ .‬دار الفکر ‪ٔ +‬‬
‫ابن سعد‪ ،‬ابو عبد هللا محمد (‪168-230‬ہ)‪ .‬الطبقات الکبری‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪:‬‬ ‫‪.40‬‬
‫دار بیروت للطباعه و النشر‪1398 ،‬ہ‪.‬‬
‫سیوطی‪ ،‬جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی‬ ‫‪.41‬‬
‫بکر بن عثمان (‪849-911‬ہ‪1505-1445/‬ء)‪ .‬الحاوي للفتاوی‪ .‬مصر‪ :‬مطبعة‬
‫السعادۃ‪1378 ،‬ہ‪1959/‬ء‪.‬‬
‫سیوطی‪ ،‬جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی‬ ‫‪.42‬‬
‫بکر بن عثمان (‪849-911‬ہ‪1505-1445/‬ء)‪ .‬حسن المقصد فی عمل المولد‪ .‬بیروت‬
‫لبنان‪ :‬دارالکتب العلمیة (‪1405‬ہ‪1985/‬ء)‪.‬‬
‫سیوطی‪ ،‬جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی‬ ‫‪.43‬‬
‫الکبری‪ .‬فیصل آباد‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫بکر بن عثمان (‪849-911‬ہ‪1505-1445/‬ء)‪ .‬الخصائص‬
‫پاکستان‪ :‬مکتبه نوریه رضویه‪.‬‬
‫سیوطی‪ ،‬جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی‬ ‫‪.44‬‬
‫بکر بن عثمان (‪849-911‬ہ‪1505-1445/‬ء)‪ .‬کفایة الطالب اللبیب فی خصائص‬
‫الحبیب (الخصائص الکبری)‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1405 ،‬ہ‪1985/‬ء‪.‬‬
‫شافعی‪،‬ابو عبد هللا محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع قرشی‬ ‫‪.45‬‬
‫(‪204-150‬ہ‪819-767/‬ء)‪ .‬المسند‪ .‬بیروت لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‬
‫شوکانی‪ ،‬محمد بن علی بن محمد (م ‪1255‬ہ)‪ .‬نیل االٔوطار شرح منتقی‬ ‫‪.46‬‬
‫االٔخبار‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الجیل‪1973 ،‬ء‪.‬‬
‫ابن ابی شیبه‪ ،‬ابو بکر عبد هللا بن محمد بن إبراھیم (‪159-235‬ہ)‪ .‬المصنف‪.‬‬ ‫‪.47‬‬
‫ریاض‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبة الرشد‪1409 ،‬ہ‪.‬‬
‫صالحی‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن یوسف بن علی بن یوسف شامی‬ ‫‪.48‬‬
‫الهدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی هللا علیه وآله‬ ‫ٰ‬ ‫(م‪942‬ہ‪1536/‬ء)‪ .‬سبل‬
‫وسلم‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1414 ،‬ہ‪1993/‬ء‪.‬‬
‫طبرانی‪ ،‬ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (‪260-360‬ہ)‪ .‬مسند الشامیین‪.‬‬ ‫‪.49‬‬
‫موسسة الرساله‪1405 ،‬ہ‪.‬‬ ‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ٔ :‬‬
‫طبرانی‪ ،‬ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (‪260-360‬ہ)‪ .‬المعجم االٔوسط‪.‬‬ ‫‪.50‬‬
‫قاھرہ‪ ،‬مصر‪ :‬دار الحرمین‪1415 ،‬ہ‪.‬‬
‫طبرانی‪ ،‬ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (‪260-360‬ہ)‪ .‬المعجم الصغیر‪.‬‬ ‫‪.51‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1405 ،‬ہ‪1985/‬ء‬
‫طبرانی‪ ،‬ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (‪260-360‬ہ)‪ .‬المعجم الکبیر‪.‬‬ ‫‪.52‬‬
‫موصل‪ ،‬عراق‪ :‬مطبعة الزھراء الحدیثه‪.‬‬
‫طبرانی‪ ،‬ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (‪260-360‬ہ)‪ .‬المعجم الکبیر‪.‬‬ ‫‪.53‬‬
‫قاھرہ‪ ،‬مصر‪ :‬مکتبه ابن تیمیه‪.‬‬
‫طبری‪ ،‬ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (‪224-310‬ہ)‪ .‬تاریخ االٔمم‬ ‫‪.54‬‬
‫والملوک‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دارالکتب العلمیه‪1407 ،‬ہ‪.‬‬
‫طبری‪ ،‬ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (‪224-310‬ہ‪923-839/‬ء)‪ .‬جامع‬ ‫‪.55‬‬
‫البیان في تفسیر القرآن‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار المعرفه‪1400 ،‬ہ‪1980/‬ء‪.‬‬
‫طبری‪ ،‬ابو جعفر احمد بن عبد هللا بن محمد بن ابی بکر (‪694 -615‬ہ)‪.‬‬ ‫‪.56‬‬
‫الریاض النضرۃ في مناقب العشرۃ‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالغرب االسالمی‪1996 ،‬ء‪.‬‬
‫طحاوی‪ ،‬ابو جعفر احمد بن محمد بن سالمه بن سلمه بن عبد الملک بن سلمه‬ ‫‪.57‬‬
‫الثار‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪،‬‬ ‫(‪321-229‬ہ‪933-853/‬ء)‪ .‬شرح معاني ا ٓ‬
‫‪1399‬ہ‪.‬‬
‫طحاوی‪ ،‬ابو جعفر احمد بن محمد بن سالمه بن سلمه بن عبد الملک بن سلمه‬ ‫‪.58‬‬
‫(‪321-229‬ہ‪933-853/‬ء)‪ .‬مشکل ا ٓ‬
‫الثار‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار صادر‪.‬‬
‫ابن عابدین شامی‪ ،‬محمد بن محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین‬ ‫‪.59‬‬
‫دمشقی (‪1244-1306‬ہ)‪ .‬رد المحتار علی درالمختار‪ .‬کوئٹه ‪ ،‬پاکستان‪ :‬مکتبه‬
‫ماجدیه‪1399 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن ابی عاصم‪ ،‬ابو بکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (‪-206‬‬ ‫‪.60‬‬
‫الحاد والمثاني‪ .‬ریاض‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬دار الرایه‪1411 ،‬ہ‪1991/‬ء‪.‬‬ ‫‪287‬ہ)‪ .‬ا ٓ‬
‫ابن ابی عاصم‪ ،‬ابو بکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (‪-206‬‬ ‫‪.61‬‬
‫‪287‬ہ)‪ .‬السنة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1400 ،‬ہ‪.‬‬
‫عبد بن حمید‪ ،‬ابو محمد بن نصر الکسی (‪249‬ہ‪863/‬ء)‪ .‬المسند‪ .‬قاھرہ‪،‬‬ ‫‪.62‬‬
‫مصر‪ :‬مکتبة السنه‪1408 ،‬ہ‪1988/‬ء‪.‬‬
‫ابن عبد البر‪ ،‬ابو عمر یوسف بن عبد هللا (‪368-463‬ہ)‪ .‬االستیعاب في‬ ‫‪.63‬‬
‫معرفة األصحاب‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الجیل‪1412 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن عبد البر‪ ،‬ابو عمر یوسف بن عبد هللا (‪368-463‬ہ)‪ .‬التمهید لما في‬ ‫‪.64‬‬
‫الموطأ من المعاني واالٔسانید‪ .‬مراکش‪ :‬وزارت عموم االٔوقاف‪1387 ،‬ہ‪.‬‬
‫عبد الحق محدث دھلوی‪ ،‬شیخ (‪958-1052‬ہ‪1642-1551/‬ء)‪ .‬مدارج‬ ‫‪.65‬‬
‫النبوۃ‪ .‬کانپور‪ ،‬بهارت‪ :‬مطبع منشی نولکشور‪.‬‬
‫عبد الرزاق‪ ،‬ابو بکر بن ھمام بن نافع صنعانی (‪126-211‬ہ)‪ .‬المصنف‪.‬‬ ‫‪.66‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1403 ،‬ہ‪.‬‬
‫عجلونی‪ ،‬ابو الفداء اسماعیل بن محمد جراحی (‪1087-1162‬ہ)‪ .‬کشف‬ ‫‪.67‬‬
‫الخفاء ومزیل اإللباس عما اشتهر من االٔحادیث علی ألسنة الناس‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪:‬‬
‫موسسة الرساله‪1405 ،‬ہ‪.‬‬ ‫ٔ‬
‫ابن عساکر‪ ،‬ابو قاسم علی بن الحسن بن ھبة هللا بن عبد هللا بن حسین دمشقی‬ ‫‪.68‬‬
‫الشافعی (‪499-571‬ہ)‪ .‬تاریخ دمشق الکبیر المعروف بـ‪ :‬تاریخ ابن عساکر‪.‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الفکر‪1995 ،‬ء‪.‬‬
‫موسی بن احمد بن حسین بن‬ ‫ٰ‬ ‫عینی‪ ،‬بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد بن‬ ‫‪.69‬‬
‫یوسف بن محمود (‪762-855‬ہ‪1451-1361/‬ء)‪ .‬عمدۃ القاري شرح صحیح‬
‫البخاري‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الفکر‪1399 ،‬ہ‪1979/‬ء‪.‬‬
‫فاکهی‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن اسحاق بن عباس مکی (م ‪272‬ہ‪885/‬ء)‪ .‬أخبار‬ ‫‪.70‬‬
‫مکة في قدیم الدھر وحدیثه‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار خضر‪1414 ،‬ہ‪.‬‬
‫قاضی عیاض‪ ،‬ابو الفضل عیاض (‪476-544‬ہ)‪ .‬الشفا بتعریف حقوق‬ ‫‪.71‬‬
‫ٰ‬
‫المصطفی صلی هللا علیه وآله وسلم‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪.‬‬
‫قسطالنی‪ ،‬ابوالعباس احمد بن محمد (‪851-923‬ہ)‪ .‬المواھب اللدنیة بالمنح‬ ‫‪.72‬‬
‫المحمدیة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬المکتب االسالمی‪1412 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن قدامه‪ ،‬ابو محمد عبداهللا بن احمد مقدسی (م‪620‬ہ)‪ .‬المغني في فقه اإلمام‬ ‫‪.73‬‬
‫أحمد بن حنبل الشیباني‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالفکر‪1405 ،‬ہ‪.‬‬
‫یحیی بن مفرج اموی (‪-284‬‬ ‫ٰ‬ ‫قرطبی‪ ،‬ابو عبد هللا محمد بن احمد بن محمد بن‬ ‫‪.74‬‬
‫‪380‬ہ‪990-897/‬ء)‪ .‬الجامع الٔحکام القرآن‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار احیاء التراث‬
‫العربی‪.‬‬
‫کالعی‪ ،‬ابی ربیع سلیمان بن موسی الکالعی االندلسی‪-565( ،‬‬ ‫‪.75‬‬
‫‪634‬ہ)‪.‬اإلکتفاء بما تضمنه من مغازی رسول اهللا صلی هللا علیه وآله وسلم والثالثة‬
‫الخلفاء‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬عالم الکتاب‪1997 .‬ء‪.‬‬
‫ابن کثیر‪ ،‬ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (‪701-774‬ہ)‪ .‬البدایة‬ ‫‪.76‬‬
‫والنهایة‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬مکتبه المعارف‪.‬‬
‫ابن کثیر‪ ،‬ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (‪701-774‬ہ)‪ .‬تفسیر القرآن‬ ‫‪.77‬‬
‫العظیم‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الفکر‪1401 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن ماجه‪ ،‬ابو عبد اهللا محمد بن یزید قزوینی (‪209-273‬ہ)‪ .‬السنن‪ .‬بیروت‪،‬‬ ‫‪.78‬‬
‫لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1419 ،‬ہ‪.‬‬
‫مالک‪ ،‬ابن انس بن مالکص بن ابی عامر بن عمرو بن حارث أصبحی (‪-93‬‬ ‫‪.79‬‬
‫‪179‬ہ)‪ .‬الموطأ‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار احیاء التراث العربی‪1406 ،‬ہ‪.‬‬
‫ماوردی‪ ،‬ابوالحسین علی بن محمد بن حبیب (‪370-429‬ہ)‪ .‬أعالم النبوۃ‪.‬‬ ‫‪.80‬‬
‫بیروت ‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪1987 ،‬ء‪.‬‬
‫مروزی‪ ،‬محمد بن نصر بن الحجاج‪ ،‬ابو عبداهللا (‪202-294‬ہ)‪ .‬السنة‪.‬‬ ‫‪.81‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬مؤسسة الکتب الثقافیه‪1408 ،‬ہ‪.‬‬
‫مزی‪ ،‬ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن (‪654-742‬ہ)‪ .‬تهذیب‬ ‫‪.82‬‬
‫موسسة الرساله‪1400 ،‬ہ‪.‬‬ ‫الکمال‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ٔ :‬‬
‫مسلم‪ ،‬ابن الحجاج ابو الحسن القشیری النیسابوری (‪261-206‬ہ‪-821/‬‬ ‫‪.83‬‬
‫‪875‬ء)‪ .‬الصحیح‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار احیاء التراث العربی‪.‬‬
‫مقدسی‪ ،‬عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی (‪541-600‬ہ)‪ .‬األحادیث المختارۃ‪.‬‬ ‫‪.84‬‬
‫مکه المکرمه‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبة النهضة الحدیثیه‪1410 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن ملقن‪ ،‬عمر بن علی االنصاری (‪723-804‬ہ)‪ .‬خالصة البدر المنیر في‬ ‫‪.85‬‬
‫تخریج کتاب الشرح الکبیر للرافعي‪ .‬ریاض‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬مکتبة الرشید‪1410 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن منظور‪ ،‬محمد بن مکرم بن علی بن احمد بن ابی قاسم بن حبقه افریقی‬ ‫‪.86‬‬
‫(‪711-630‬ہ‪1311-1232/‬ء)‪ .‬لسان العرب‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار صادر‪.‬‬
‫نبهانی‪ ،‬یوسف بن اسماعیل بن یوسف (‪1265-1350‬ہ)‪ .‬جواھر البحار في‬ ‫‪.87‬‬
‫فضائل النبي المختار صلی هللا علیه وآله وسلم‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالکتب العلمیه‪،‬‬
‫‪1419‬ہ‪1998/‬ء‪.‬‬
‫نبهانی‪ ،‬یوسف بن اسماعیل بن یوسف (‪1265-1350‬ہ)‪ .‬حجة اهللا علی‬ ‫‪.88‬‬
‫العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله وسلم‪ .‬فیصل آباد‪ ،‬پاکستان‪:‬‬
‫مکتبه نوریه رضویه‪.‬‬
‫نسائی‪ ،‬ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب (‪215-303‬ہ)‪ .‬السنن‪ .‬حلب‪ ،‬شام‪:‬‬ ‫‪.89‬‬
‫مکتب المطبوعات‪1406 ،‬ہ‪.‬‬
‫نسائی‪ ،‬احمد بن شعیب‪ ،‬ابو عبدالرحمن (‪215-303‬ہ)‪ .‬السنن الکبری‪.‬‬ ‫‪.90‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪1411 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابو نعیم‪ ،‬احمد بن عبد اهللا بن احمد أصبهانی (‪336-430‬ہ)‪ .‬حلیة االٔولیاء‬ ‫‪.91‬‬
‫وطبقات االٔصفیاء‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪1405 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابو نعیم‪ ،‬احمد بن عبد اهللا بن احمد (‪336-430‬ہ)‪ .‬دالئل النبوۃ‪ .‬حیدر آباد‪،‬‬ ‫‪.92‬‬
‫بهارت‪ :‬مجلس دائرہ معارف عثمانیه‪1369 ،‬ہ‪.‬‬
‫یحیی بن شرف (‪631-677‬ہ‪1278-1233/‬ء)‪ .‬تهذیب‬ ‫ٰ‬ ‫نووی‪ ،‬ابو زکریا‬ ‫‪.93‬‬
‫االٔسماء واللغات‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪.‬‬
‫وادیاشی‪ ،‬محمد بن علی بن احمد اندلسی (‪723-804‬ہ)‪ .‬تحفة المحتاج إلی‬ ‫‪.94‬‬
‫أدلة المنهاج‪ .‬مکة المکرمه‪ ،‬سعودی عرب‪ :‬دار حراء‪1406 ،‬ہ‪.‬‬
‫ابن ھشام‪ ،‬ابو محمد عبد الملک حمیری (‪213‬ہ‪828/‬ء)‪ .‬السیرۃ النبویة‪.‬‬ ‫‪.95‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دارالحیل‪1411 ،‬ہ‪.‬‬
‫ھیثمی‪ ،‬نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (‪735-807‬ہ)‪.‬‬ ‫‪.96‬‬
‫مجمع الزوائد‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪1407 ،‬ہ‪.‬‬
‫ھیثمی‪ ،‬نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (‪735-807‬ہ)‪.‬‬ ‫‪.97‬‬
‫موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان‪ .‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتب العلمیه‪.‬‬
‫یحیی (‪210-307‬ہ)‪ .‬المسند‪ .‬دمشق‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫ابو یعلی‪ ،‬احمد بن علی بن مثنی بن‬ ‫‪.98‬‬
‫شام‪ :‬دار المأمون للتراث‪1404 ،‬ہ‪.‬‬

You might also like