Professional Documents
Culture Documents
نام کتاب :فَ ْر َحة ْالقل ْوب فِي َم ْو ِل ِد النَّ ِبي ِ ْال َم ْحب ْوب صلی هللا علیه وآله وسلم
ث مبارکہ کی روشنی میں) (میالد النبی ﷺ :اَحادی ِ
تالیف :شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
معاون ترجمہ و تخریج :حافظ ظہیر اَحمد االسنادی
ِ
زیر اِہتمام :فرید ملت(رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ
www.research.com.pk
مطبع :منہاج القرآن پرنٹرز ،الہور
نوٹ :شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تمام تصانیف اور خطبات و لیکچرز
کے ریکارڈ شدہ آڈیو /ویڈیو کیسٹس اور CDsسے حاصل ہونے والی جملہ آمدنی
تحریک منہاج القرآن کے لئے وقف ہے۔
ِ ان کی طرف سے ہمیشہ کے لئے
(ڈائریکٹر منہاج القرآن پبلیکیشنز)
حرف آغاز
جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانا حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ
ِ
وسلم کی والدت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور
صحیح بخاری کی روایت سے یہ بات واضح ہے کہ یہ ایسا مبارک عمل ہے جس
سے ابو لہب جیسے کافر کو بهی فائدہ پہنچتا ہے حاالنکہ اس کی مذمت میں پوری
سورت نازل ہوئی ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اس مومن
مسلمان کی سعادت کا کیا ٹهکانا ہوگا جس کی زندگی میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔
جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم
ِ
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم پر درود و سالم جیسے اَہم فرائض کی طرف رغبت دالتا
صلوۃ و سالم بذات
ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ ٰ
خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور امت نے
میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجها۔
جشن میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا ایک اَہم مقصد محبت و قر ِ
ب رسول هللا ِ
ت
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا حصول و فروغ اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی ذا ِ
منشاء شریعت ہے۔ چونکہ
ِ گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا اِحیاء ہے اور یہ اِحیاء
ت اَقدس ام ِ
ت مسلمہ کے ایمان کا حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی ذا ِ
مرکز و محور اور حقیقی اَساس ہے۔ ام ِ
ت مسلمہ کی بقا و سالمتی اور ترقی کا راز
ہی اِس اَمر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذا ِ
ت مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو اپنی
جملہ عقیدتوں ،محبتوں اور تمناؤں کا مرکز و محور گردانے اور یہ بات قطعی طور
پر جان لے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے اِستحکام اور واسطہ کے
بغیر دنیا و آخرت میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کماالت کی معرفت ایمان
باہلل اور ایمان بالرسالت میں اِضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
کی تعظیم و توقیر ایمان کا پہال بنیادی تقاضا ہے اور میال ِد مصطفی صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم کے سلسلہ میں مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا ،محاف ِل ذکر و نعت کا
تعالی کے حضور شکر گزاری کے سب
ٰ انعقاد کرنا اور کهانے کا اہتمام کرنا هللا
تعالی نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ
ٰ سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ هللا
وسلم کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات و عنایات اور
احسان عظیم کو جتالیا
ِ تعالی نے اس
ٰ نوازشات کا مستحق ٹهہرایا ہے۔ اس لیے هللا
ہے۔
جس طرح ما ِہ رمضان المبارک کو هللا رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت و شان
کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اسی طرح ماہ ربیع االول کے
ب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ما ِہ
اِمتیاز اور اِنفرادیت کی وجہ بهی اس میں صاح ِ
مبارک حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت با سعادت کے صدقے
ب میال ِد رسول صلی هللا
جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ ش ِ
ب
علیہ وآلہ وسلم لیلۃ القدر سے بهی افضل ہے۔ لیلۃ القدر میں نزو ِل قرآن ہوا تو ش ِ
ب قرآن کی آمد ہوئی۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزو ِل
میالد میں صاح ِ
ب مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ
قرآن اور نزو ِل مالئکہ کی رات ہے اور نزو ِل قرآن قل ِ
وسلم پر ہوا ہے۔ اگر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو نہ قرآن
ب قدر ہوتی ،نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں اور عظمتیں میال ِد
ہوتا ،نہ ش ِ
مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔
تعالی نے ہمیں لذت و توانائی سے بهرپور طرح طرح کے کهانے عطا کیے،
ٰ اهللا
پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے ،دن رات کا ایک ایسا نظام االوقات
ت زندگی کی کفالت
دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساته ساته ہماری ضروریا ِ
کرتا ہے ،سمندروں ،پہاڑوں اور خالئے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ،ہمیں
اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکها؛ والدین ،بہن،
بهائی اور اوالد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی الغرض اپنی ایسی ایسی عطاؤں
اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بهی قاصر ہیں لیکن
ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بهی نعمت کا احسان نہیں جتالیا۔ لیکن
حریم کبریائی
ِ ایک نعمت ایسی تهی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے
ت نعمت میں صرف اس پر اپنا
سے نوعِ اِنسانی کی طرف بهیجا تو پوری کائنا ِ
اِحسان جتالیا اور اس کا اظہار بهی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہ ِل ایمان کو اس
کا احساس دالیا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا:
ع َلی ْالم ْٔو ِم ِنیْنَ اِ ْذ َب َع َ
ث ِف ْی ِه ْم َرس ْو ًال ِم ْن ا َ ْنف ِس ِه ْم. َلقَ ْد َم َّن هللا َ
تعالی نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے
ٰ ’’بے شک اهللا
عظمت واال رسول ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) بهیجا۔‘‘
اِسالم میں اهللا کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا النا تقاضائے
عبودیت و بندگی ہے ،لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی
ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا:
عذَا ِب ْی لَ َ
ش ِدیْدo شک َْرت ْم َالَ ِز ْیدَنَّک ْم َولَ ِئ ْن َکفَ ْرت ْم ا َِّن َ
لَئِ ْن َ
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور
اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔‘‘
اِس آیہ کریمہ کی رو سے نعمتوں پر شکر بجا النا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش
ت محمدیہ پر ہی واجب نہیں بلکہ
خیمہ بن جاتا ہے۔ پهر نعمتوں پر شکرانہ صرف ام ِ
امم سابقہ کو بهی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 47میں بنی
اسرائیل کو وہ نعمت یاد دالئی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل
ہوگئی اور پهر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی
طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں
سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا:
َواِ ْذ َن َّجی ْٰنـک ْم ِم ْن ٰا ِل فِ ْر َع ْونَ یَس ْومونَک ْم س ْٓو َء ْالعَذَا ِ
ب.
(البقرۃ)49 :2 ،
’’اور (اے آ ِل یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بهی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں
قوم فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تهے۔‘‘
ِ
اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غالمی و محکومی کی زندگی سے آزادی بہت بڑی
نعمت ہے جس پر شکر بجا النا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدالل
تعالی کی
ٰ کرتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو اهللا
ت غیر مترقبہ سمجهیں اور اس پر شکرانہ ادا کریں۔
طرف سے عطا کی ہوئی نعم ِ
مذکورہ باال آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہدہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر
باقاعدگی کے ساته باالہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بهی ضروری ہے کہ
آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔
(البقرۃ)57 :2 ،
’’اور (یاد کرو) جب (تم فرعون کے غرق ہونے کے بعد شام کو روانہ ہوئے اور
وادی ِتیہ میں سرگرداں پهر رہے تهے تو) ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیے رکها اور
ٔ
سلوی اتارا۔‘‘
ہم نے تم پر َمن و ٰ
قرآن مجید نے دیگر مقامات پر خاص خاص نعمتوں کا ذکر کرکے ان ایام کے
حوالے سے انہیں یاد رکهنے کا حکم دیا ہے۔ پهر نعمتوں پر خوشی و مسرت کا
عیسی ں نے جب اپنی قوم کے
ٰ اظہار کرنا سنت انبیاء علیهم السالم بهی ہے۔ حضرت
ت مائدہ طلب کی تو اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے: لیے نعم ِ
آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِلـا َ َّو ِلنَا َو ٰا ِخ ِرنَا َو ٰایَةً ِم ْن َ
ک. علَ ْینَا َمـآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ
س َم ِ َربَّنَ ـآ ا َ ْن ِز ْل َ
خوان (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے
ِ ’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے
اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے
(بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری
ت کاملہ کی) نشانی ہو۔‘‘
قدر ِ
(المائدۃ)114 :5 ،
ت مسلمہ کو
قرآن مجید نے اس آیہ کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے ام ِ
شکرانہ نعمت
ٔ ت ا ِٰلہی کا نزول ہو اس دن جشن منانا
یہ تصور دیاہے کہ جس دن نعم ِ
کی مستحسن صورت ہے۔ اِس آیت سے یہ مفہوم بهی مترشح ہے کہ کسی نعمت کے
حصول پر خوشی وہی مناتے ہیں جن کے دل میں اپنے نبی کی محبت جاگزیں ہوتی
ہے اور وہ اِس کے اِظہار میں نبی کے ساته شریک ہوتے ہیں۔
(البقرۃ)152 :2 ،
’’ سو تم مجهے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکهوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور
(میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کرو۔‘‘
تعالی
ٰ آیہ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ اهللا
اس ٔ
ق خدا میں اس کا کی نعمتوں کا ذکر شکرانے کے ساته اس انداز میں کرو کہ مخلو ِ
اظہار تشکر کا ایک طریقہ یہ بهی ہے کہ نعمت پر
ِ خوب چرچا ہو۔ اس پر مستزاد
مم سابقہ بهی جس دن
خوشی کا اظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ ا ِ
بطور عید مناتی تهیں۔ قرآن مجید میں ِ کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو
عیسی ں کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگا ِہ ا ِٰلہی میں یوں ملتجی
ٰ حضرت
ہوتے ہیں:
آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِلـا َ َّو ِلنَا َو ٰا ِخ ِرنَا. علَ ْینَا َمـآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ
س َم ِ َربَّنَ ـآ ا َ ْن ِز ْل َ
(المائدۃ)114 :5 ،
خوان (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے
ِ ’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے
اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے
(بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی)۔‘‘
یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عیدمنانے کا ذکرہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار
لمحہ
ٔ کے دن اس نعمت کے حصول پر بطورشکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے
ت مصطفی صلی هللا علیہ فکریہ ہے کہ کیا نزو ِل مائدہ جیسی نعمت کی والدت و بعث ِ
عظمی پر تو مائدہ جیسی
ٰ ت
وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعم ِ
کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔
’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ میں حضرت عمر رضی هللا عنہ کی یہ متفق
علیہ روایت موجود ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچها کہ کیا آپ جس دن
وم ا َ ْک َم ْلت َلک ْم ِد ْینَک ْم -نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگرہماری
آیت -ا َ ْل َی َ
یوم عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں
تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور ِ
حضرت عمر ص نے فرمایا :ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تهی خوب
میدان عرفات میں اتری تهی
ِ یوم جمعۃ المبارک کو
یوم حج اور ِ
پہچانتے ہیں۔ یہ آیت ِ
اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔
بطور عید
ِ اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمی ِل دین کی آیت کے نزول کا دن
محسن انسانیت صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اس
ِ منانے کا جواز ہے تو جس دن خود
دنیامیں تشریف الئے اسے بطور عید میالد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال
یوم جمعہ کے باب میں اَربا ِ
ب فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ت ِ فضیل ِ
ِروایات میں یہ بهی مذکور ہے کہ حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
میالد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس ص
کی روایت کے مطابق حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا
عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (849-911ھ) کا اِستدالل ہے کہ حضورنبی اکرم
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد
المطلب آپ کی والدت کے سات دن بعد کرچکے تهے اور عقیقہ زندگی میں صرف
ایک بار کیاجاتاہے۔ اس لیے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضیافت اپنے میالد
کے لیے دی تهی ،عقیقہ کے لیے نہیں۔
ت والدت ان سے
ایک روایت میں سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا سے مروی ہے کہ وق ِ
بصری کے
ٰ خارج ہوا جس کی ضوء پاشیوں سے ان کی نگاہوں پر شام میں
ایسا نور ِ
بصری میں چلنے والے اونٹوں
ٰ محالت اور بازار روشن ہوگئے یہاں تک انہوں نے
کی گردنیں بهی دیکه لیں۔ (طبقات ابن سعد)
قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و
محسن انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی
ِ رحمت کو یاد رکهنے کا حکم دیا ہے جو
اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان
ب تاریک کی طرح ان پر مسلط تهے
اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے ش ِ
اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم
تعالی ہے:
ٰ کیے ہوئے تهیں۔ ارشا ِد باری
صبَ ْحت ْم ِبنِ ْع َمتِه ا ِْخ َوانًا. علَیْک ْم اِ ْذ ک ْنت ْم ا َ ْعدَآ ًء فَاَلَ َّ
ف بَیْنَ قل ْو ِبک ْم فَا َ ْ َوا ْذکر ْوا نِ ْع َم َ
ت اهللاِ َ
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) هللا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے
کے) دشمن تهے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت
کے باعث آپس میں بهائی بهائی ہو گئے۔‘‘
ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پهر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ
اخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش
کرنے سے قاصر ہے۔ ٰلہذا میال ِد مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا
ت مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ شکر ا ِٰلہی بجا النا ام ِ
ِ اور
رکهتا ہے۔
اجدار کائنات
ِ شیخ االسالم ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اِس مجموعہ حدیث میں ت
ِظہار مسرت
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت باسعادت کے واقعات اور اس پر ا ِ
کے حوالے سے احادیث مبارکہ مع ترجمہ و تخریج اور ضروری شرح درج کی
گئی ہیں۔ دعا ہے کہ یہ مجموعہ احادیث اَہل اِیمان کے دلوں میں محبت و عشق
رسول کی ضیاء باریوں میں مزید اِضافہ کرے۔ (آمین بجا ِہ سید المرسلین صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم)
اآلیات القرآنیۃ
ض ِل هللاِ َو ِب َر ْح َم ِته فَبِ ٰذ ِل َ
ک فَ ْلیَ ْف َرح ْواط ھ َو َخیْر ِم َّما َی ْج َمع ْونَ o .1ق ْل بِفَ ْ
(یونس)58 :10 ،
’’فرما دیجیے( :یہ سب کچه) هللا کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو
ت محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں
بعث ِ
منائیں ،یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
ع َل ْی ِه ْم ٰا ٰیـتِه َویزَ ِک ْی ِه ْم ع َلی ْالمؤْ ِمنِیْنَ اِ ْذ َب َع َ
ث فِ ْی ِه ْم َرس ْوالً ِم ْن ا َ ْنف ِس ِه ْم َیتْل ْوا َ َ .2لقَ ْد َم َّن هللا َ
ض ٰلـل ُّمبِیْنo ب َو ْال ِح ْک َمةَ َوا ِْن کَان ْوا ِم ْن قَبْل لَ ِف ْی َ
ج
َویعَ ِلمهم ْال ِک ٰت َ
(آل عمران)164 :3 ،
’’بے شک هللا نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت
واال) رسول (صلی هللا علیہ وآلہ وسلم) بهیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں
پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے
پہلے کهلی گمراہی میں تهے۔‘‘
یـاَیُّ َها النَّاس قَ ْد َجآئَک ْم ب ْرھَان ِم ْن َّر ِبک ْم َوا َ ْنزَ ْلنَآ اِلَیْک ْم ن ْو ًرا ُّم ِب ْینًاo
ٓ ٰ .3
(النساء)174 :4 ،
ت محمدی صلی
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذا ِ
مجدہ کی سب سے زیادہ مضبوط،
ٗ ت حق جل
هللا علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذا ِ
کامل اور واضح) دلی ِل قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساته قرآن
کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بهی) اتار دیا ہے۔‘‘
ب قَ ْد َجآئَک ْم َرس ْولنَا یبَ ِین َلک ْم َکثِی ًْرا ِم َّما ک ْنت ْم ت ْخف ْونَ ِمنَ ْال ِک ٰت ِ
ب َو َی ْعف ْوا َع ْن یـا َ ْھ َل ْال ِک ٰت ِ
ٓ ٰ .4
َک ِثیْر قَ ْد َجآئَک ْم ِمنَ اهللاِ ن ْور َّو ِک ٰتب ُّم ِبیْنo
ط
(المائدۃ)16-15 :5 ،
’’اے اہ ِل کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف الئے ہیں جو
تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب
میں سے چهپائے رکهتے تهے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بهی)
فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اهللا کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت
محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔‘‘
آء تَک ْون لَنَا ِع ْیدًا ِالَ َّو ِلنَا علَ ْینَا َمآئِدَۃ ً ِمنَ ال َّ
س َم ِ سی ابْن َم ْریَ َم اللّٰه َّم َربَّنَآ ا َ ْن ِز ْل َ .5قَا َل ِع ْی َ
الر ِزقِیْنَ oت َخیْر ّٰ ارز ْقنَا َوا َ ْن َ ک َو ْ ج
َو ٰا ِخ ِرنَا َو ٰایَةً ِم ْن َ
(المائدۃ)114 :5 ،
خوان
ِ ’’عیسٰ ی ابن مریم نے عرض کیا :اے اهللا! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے
(نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے
اگلوں کے لیے (بهی) اور ہمارے پچهلوں کے لیے (بهی) اور(وہ خوان) تیری
طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق دینے واال
ہے۔‘‘
س ٰلم َ
علَ ْی ِه َی ْو َم و ِلدَ َو َی ْو َم َیم ْوت َو َی ْو َم ی ْب َعث َحیًّاo َ .6و َ
(مریم)15 :19 ،
’’اور مجه پر سالم ہو میرے میالد کے دن ،اور میری وفات کے دن ،اور جس دن
میں زندہ اٹهایا جاؤں گا۔‘‘
ص ِدقًا ِل َما بَیْنَ یَدَ َّ
ی ِمنَ سی ابْن َم ْریَ َم ٰیـ َبنِ ْٓی اِس َْرآئِ ْی َل اِنِ ْی َرس ْول اهللاِ اِلَیْک ْم ُّم َ َ .8واِ ْذ قَا َل ِع ْی َ
ت قَال ْوا ٰھذَا ِس ْحر الت َّ ْو ٰرۃِ َومبَ ِش ًرام بِ َرس ْول یَّاْتِ ْی ِم ْنم َب ْعدِی اسْمهٗ ٓ ا َ ْح َمدط فَلَ َّما َجآئَه ْم بِ ْال َبیِ ٰن ِ
ُّم ِبیْنo
(الصف)6 :61 ،
االحادیث النبویۃ
ال ِبي َل َهب ،کَانَ أَب ْو لَ َهب أَ ْعتَقَ َها،
ع ْن ع ْر َوۃ َ في روایة طویلة َقا َلَ :وث َو ْی َبة َم ْو َالۃ ِ َٔ َ .1
ات أَب ْو لَ َهب ا ُِٔریَهٗ َب ْعض أَ ْھ ِله بِش َِر ِح ْیبَة،ي صلی هللا علیه وآله وسلم ،فَلَ َّما َم َ ت النَّبِ َّ
ضعَ ِفَا َْٔر َ
غی َْر أَنِي س ِقیْت فِي ٰھذِہ ِب َعتَاقَتِي ث َو ْی َبةَ. ْ
ْت؟ قَا َل أَب ْو لَ َهب :لَ ْم أَلقَ َب ْعدَک ْم َ قَا َل لَهٗ َ :ماذَا لَ ِقی َ
ي.ق َو ْال َم ْر َو ِز ُّ
الر َّزا ِ
عبْد َّ
ي َو َ َار َُّر َواہ ْالبخ ِ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب النکاح ،باب وأمهاتکم الالتي أرضعنکم،
ضا،
،1961/5الرقم ،4813 :وعبد الرزاق في المصنف ،478/7 ،الرقم ،13955 :وأی ً
،26/9الرقم ،16350 :والمروزي في السنة ،82/الرقم ،290 :وابن سعد في الطبقات
الکبری ،108/1 ،وابن أبي الدنیا في المنامات ،بإسناد حسن ،154/الرقم،263 :
ضا في شعب اإلیمان،
والبیهقي في السنن الکبری ،162/7 ،الرقم ،13701 :وأی ً
ضا في دالئل النبوۃ ،149/1 ،والبغوي في شرح السنة،
،261/1الرقم ،281 :وأی ً
،76/9الرقم.2282 :
’’حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی
تهی اور ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تها ،اس نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم کو دودھ پالیا تها۔ جب ابو لہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی
کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکهایا گیا۔ اس (دیکهنے والے) نے اس سے
پوچها :کیسے ہو؟ ابو لہب نے کہا :میں بہت سخت عذاب میں ہوں ،اِس سے کبهی
چهٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجهے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے
قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی
والدت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تها۔‘‘
اِسے امام بخاری ،عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔
َّاس رضی هللا عنه قَا َل :لَ َّما َم َ
ات ي أَ َّن ْال َعب َ ي فِي ْالفَتْحَِ :وذَک ََر ال ُّ
س َه ْی ِل ُّ قَا َل ْال َحافِظ ْال َعسْقَ ـ َالنِ ُّ
َامي بَ ْعدَ َح ْول فِي ش َِر َحالَ ،فقَا َلَ :ما لَ ِقیْت َب ْعدَک ْم َرا َحةً إِالَّ أ َ َّن أَب ْو لَ َهب َرأَیْتهٗ فِي َمن ِ
ي صلی هللا علیه وآله وسلم و ِلدَ ک أ َ َّن النَّ ِب َّ ع ِني ک َّل َی ْو ِم اثْنَی ِْن .قَا َلَ :وذَا ِل َ اب ی َخفَّف َ ْال َعذَ َ
ت أَبَا لَ َهب ِب َم ْو ِلدِہ فَا َٔ ْعتَقَ َها. ش َر ْ َت ث َو ْیبَة بَ َّاالثْنَی ِْن َوکَان ْ
یَ ْو َم ْ ِ
’’حافظ (ابن حجر) عسقالنی نے امام سہیلی کے حوالے سے فتح الباری میں یوں
بیان کیا ہے کہ حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما فرماتے ہیں :ابو لہب مر
گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکها اور یہ کہتے
ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں
گرفتار ہوں ،لیکن جب پیر کا دن آتا ہے۔ تو میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی
ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت
مبارکہ پیر کے دن ہوئی تهی اور جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ صلی هللا
ت مصطفی صلی هللا علیہ
علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خبر دی تو اس نے (والد ِ
وآلہ وسلم کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کر دیا تها۔‘‘
ْف ِبا ْل َم ْو ِل ِد
صنِ ْی ِفه ’ع ْرف الت َّ ْع ِری ِ ي فِي ت َ ْ قَا َل ْال َحافِظ ش َْمس ال ِدی ِْن م َح َّمد بْن َع ْب ِد هللاِ ْال َج ْز ِر ُّ
ار بِفَ َر ِحه لَ ْیلَةَ ي فِي النَّ ِ ْف‘ :فَإِذَا کَانَ أَب ْو لَ َهب ْالکَافِر الَّذِي نَزَ َل ْالق ْرآن بِذَ ِمه ج ْو ِز َ ال َّ
ش ِری ِ
َم ْو ِل ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم ِبهَ ،ف َما َحال ْالم ْس ِل ِم ْالم َو ِح ِد ِم ْن أ َّم ِة النَّ ِبي ِ صلی هللا
صل إِلَ ْی ِه قد َْرتهٗ فِي َم َحبَّتِه صلی هللا علیه وآله علیه وآله وسلم یَس ُّر بِ َم ْو ِلدِہَ ،وبَذَ َل َما ت َ ِ
ت النَّ ِعی ِْم. وسلم؟ لَ َع ْم ِري ِإنَّ َما َیک ْون َجزَ ُٔاو ٗہ ِمنَ هللاِ ْالک َِری ِْم ا َْٔن ید ِْخلَهٗ ِبفَ ْ
ض ِله َجنَّا ِ
ضا في حسن المقصد في عمل
ذکرہ السیوطي في الحاوي للفتاوی ،206/وأی ً
المولد ،6566/والقسطالني في المواھب اللدنیة ،147/1 ،والزرقاني في شرح المواھب
اللدنیة ،260261/1 ،والصالحي في سبل الهدی والرشاد366/1 ،ـ ،367والنبهاني في
حجة هللا علی العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله وسلم .237238/
’’حافظ شمس الدین محمد بن عبد هللا جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف عرف التعریف
ت
بالمولد الشریف میں لکهتے ہیں :حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والد ِ
باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اس ابولہب کے عذاب مینبهی
تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل
ت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم
ہوئی ہے۔ تو ام ِ
ہوگا جو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے میالد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی هللا
ب اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم!
علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حس ِ
تعالی ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
ٰ میرے نزدیک هللا
کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بهری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
صادِي فِي صنِ ْی ِفه ’ َم ْو ِرد ال َّ ي فِي ت َ ْ قَا َل ْال َحافِظ ش َْمس ال ِدی ِْن م َح َّمد بْن ن ِ
َاص ِر ال ِدی ِْن ال ِد َم ْش ِق ُّ
ار ِفي ِمثْ ِل َی ْو ِم ِاالثْنَی ِْن ِ ِإل ْعتَا ِقهعذَاب النَّ ِ ص َّح ا ََّٔن أَ َبا لَ َهب ی َخفَّف َع ْنه َ َم ْو ِل ِد ْال َهادِي‘ :قَ ْد َ
سر ْو ًرا ِب ِم ْیـ َال ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم. ث َو ْیبَةَ َ
ِإذَا کَانَ ٰھذَا کَا ِفر َجا َء ذَ ُّمهٗ
َّت یَدَاہ فِي ْال َج ِحی ِْم مخَلَّدَا
َوتَب ْ
جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے -جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اس کے ہاته ٹوٹتے رہیں گے -حضور نبی اکرم
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے میالد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو
اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے ،تو اس شخص کے بارے میں تیرا کیا
خیال ہے جس نے اپنی ساری عمر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے
میالد کی خوشی منائی اور توحید پر فوت ہوا۔‘‘
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958-1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد
’مدارج النبوۃ ( ‘)19/2لکهتے ہیں:
’’یہ روایت میالد کے موقع پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے
دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل قرآنی سورت نازل ہوئی
جب وہ حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر
کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم
ت رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے
ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محب ِ
ت مصطفی کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ لیکن ضرورت اس امر
والد ِ
ار مسرت اور عقیدت) ان بدعات سے پاک ہو جنہیں عوام الناس
کی ہے کہ (یہ اظہ ِ
نے گهڑ لیا ہے جیسے موسیقی اور حرام آالت اور اسی طرح کے دیگر ممنوعات،
تاکہ اتباعِ رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے راستے سے محرومی کا باعث نہ
بنے۔‘‘
ي صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ عبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل :لَ َّما قَد َِم النَّ ِب ُّ ع ِن اب ِْن َ
َ .2
ک ،فَقَال ْواٰ :ھذَا ْال َی ْوم الَّذِي ا ْ
َٔظفَ َر هللا ِف ْی ِه ع ْن ذَا ِل َ عاش ْو َرا َء فَس ِئل ْوا ََو َجدَ ْال َیه ْودَ َیص ْوم ْونَ َ
ع ْونَ َون َْحن نَص ْومهٗ ت َ ْع ِظ ْی ًما لَهٗ ،فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا ع ٰلی فِ ْر َ
م ْوسٰ ی َوبَ ِني ِإس َْرا ِئ ْی َل َ
علَ ْی ِه.
ص ْو ِمه۔ متَّفَق َ علیه وآله وسلم :ن َْحن ا َْٔو ٰلی ِبم ْوسٰ ی ِم ْنک ْم .ث َّم أَ َم َر بِ َ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب فضائل الصحابة ،باب إتیان الیهود النبي صلی هللا
علیه وآله وسلم حین قدم المدینة ،1434/3 ،الرقم ،3727 :ومسلم في الصحیح ،کتاب
الصیام ،باب صوم یوم عاشوراء ،795/2 ،الرقم ،1130 :وأبو داود في السنن ،کتاب
الصوم ،باب في صوم یوم عاشوراء ،326/2 ،الرقم ،2444 :وابن ماجہ في السنن،
کتاب الصیام ،باب صیام یوم عاشوراء ،552/1 ،الرقم.1734 :
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے
دیکها کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکهتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت
موسی علیہ السالم اور بنی
ٰ تعالی نے حضرت
ٰ کیا گیا تو انہوں نے کہا :اس دن هللا
اسرائیل کو فرعون پر غلبہ و نصرت عطا فرمائی تو ہم اِس عظیم کامیابی کی تعظیم
و تکریم بجا النے کے لیے اِس دن روزہ رکهتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی
موسی کے حق دار ہیں۔ پهر آپ صلی
ٰ هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہم تم سے زیادہ
هللا علیہ وآلہ وسلم نے (خود بهی روزہ رکها اور صحابہ کرام رضوان هللا علیہم
اجمعین کو بهی) روزہ رکهنے کا حکم دیا۔‘‘
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول هللا صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو
یوم عاشورہ کا روزہ رکهتے پایا۔ تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے
پوچها :یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکهتے ہو؟ انہوں نے کہا :یہ
موسی علیہ السالم اور ان کی قوم کو
ٰ تعالی نے اِس میں
ٰ بہت عظیم دن ہے کہ هللا
موسی علیہ
ٰ نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت
السالم نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکهاٰ ،لہذا ہم بهی روزہ رکهتے
موسی
ٰ ہیں۔ اِس پر رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تمہاری نسبت ہم
کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے
خود بهی روزہ رکها اور (صحابہ کرام lکو بهی) اس دن کا روزہ رکهنے کا حکم
فرمایا۔‘‘
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم نے دیکها کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکهتے ہیں۔ آپ صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس دن روزہ رکهنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں
نے جواب دیا :یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن هللا
یوم
تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دالئی (یہ ہمارا ِ
ٰ
موسی علیہ السالم نے اس دن روزہ رکها۔
ٰ یوم نجات ہے)۔ پس حضرت آزادی اور ِ
موسی کا حق دار میں ہوں۔
ٰ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تم سے زیادہ
چنانچہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکها اور (صحابہ کرام
رضوان هللا علیہم اجمعین کو بهی) اس دن روزہ رکهنے کا حکم فرمایا۔‘‘
اِسے امام بخاری ،احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
عاش ْو َرا َء تَعدُّہ ْال َیه ْود ِع ْیدًا ،قَا َل النَّ ِب ُّ
ي ع ْن أَ ِبي م ْوسٰ ی رضی هللا عنه قَا َل :کَانَ َی ْوم َ َ .5
ي. صلی هللا علیه وآله وسلم :فَص ْوم ْوہ أَ ْنت ْم۔ َر َواہ ْالبخ ِ
َار ُّ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب الصوم ،باب صیام یوم عاشوراء،704705/2 ،
الرقم.1901 :
یوم
موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں :یوم عاشورہ کو یہود ِ
ٰ ’’حضرت ابو
عید شمار کرتے تهے۔ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو
حکم دیتے ہوئے) فرمایا :تم ضرور اس دن روزہ رکها کرو۔‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عاش ْو َرا َء َی ْو ًما ت َع ِظمه ْال َیه ْود َوتَت َّ ِخذ ٗہ ع ْن أَ ِبي م ْوسٰ ی رضی هللا عنه قَا َل :کَانَ َی ْوم َ َ .6
ِع ْیدًا ،فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم :ص ْوم ْوہ أَ ْنت ْم.
ي. ي َو َّ
الط َحا ِو ُّ َر َواہ م ْس ِلم َوالنَّ َ
سا ِئ ُّ
أخرجه مسلم في الصحیح ،کتاب الصیام ،باب صیام یوم عاشوراء ،796/2 ،الرقم:
،1131والنسائي في السنن الکبری ،159/2 ،الرقم ،2848 :والطحاوي في شرح
معاني اآلثار ،133/2 ،الرقم ،3217 :والبیهقي في السنن الکبری ،289/4 ،الرقم:
.8197
موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں :یہود یوم عاشورہ کی تعظیم
ٰ ’’حضرت ابو
کرتے تهے اور اسے عید کے طور پر مناتے تهے۔ پس حضور نبی اکرم صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بهی اِس دن روزہ رکهو۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحیح ،کتاب الصیام ،باب صیام یوم عاشوراء ،796/2 ،الرقم:
.1131
موسی اشعری رضی هللا عنہ فرماتے ہیں :اہ ِل خیبر یوم عاشور کا
ٰ ’’حضرت ابو
روزہ رکهتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تهے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو
خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگهار کرتے۔ تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم نے (مسلمانوں سے) فرمایا :تم بهی اس دن روزہ رکها کرو۔‘‘
’’حضرت ابو ہریرہ رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم یہود کے چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو کہ عاشوراء کے دن
کا روزہ رکهتے تهے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچهاـ :یہ کس چیز
تعالی نے حضرت
ٰ کا روزہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا :یہ وہ دن ہے جس دن هللا
موسی علیہ السالم اور بنی اسرائیل کو دریا میں غرق ہونے سے بچایا اور فرعون
ٰ
کو غرق کر دیا اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹهہری تو حضرت
تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکها۔ اِس
ٰ موسی علیہما السالم نے هللا
ٰ نوح اور
موسی کا زیادہ
ٰ پر حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں حضرت
حق دار ہوں اور میں اِس دن روزہ رکهنے کا زیادہ حق رکهتا ہوں۔ پهر آپ صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان هللا علیہم اجمعین کو بهی اس دن روزہ
رکهنے کا حکم دیا۔‘‘
’’شیخ االسالم حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میالد شریف کے عمل کے
یوم
حوالہ سے پوچها گیا تو انہوں نے اس کا جواب کچه یوں دیا’ :میرے نزدیک ِ
میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانے کی اَساسی دلیل وہ روایت ہے جسے
’’صحیحین‘‘ میں روایت کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
یوم عاشور کا روزہ
مدینہ تشریف الئے تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو ِ
رکهتے ہوئے پایا۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچها :ایسا کیوں کرتے
تعالی نے فرعون کو غرق کیا اور
ٰ ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن هللا
تعالی کی بارگاہ میں شکر بجا النے کے
ٰ موسی علیہ السالم کو نجات دی ،سو ہم هللا
ٰ
لیے اس دن کا روزہ رکهتے ہیں۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا روایت کرتی ہیں :اہ ِل عرب رمضان کے
یوم عاشور کا روزہ رکهتے تهے کیوں کہ اس دن کعبہ
روزے فرض ہونے سے قبل ِ
تعالی نے رمضان کے روزے فرض کر دیے
ٰ پر غالف چڑھایا جاتا تها۔ پهر جب هللا
تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تم میں سے جو اِس دن روزہ رکهنا
چاہے وہ روزہ رکه لے ،اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔‘‘
’’حافظ ابن حجر عسقالنی (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا :اِس سے ثابت
زمانہ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غالف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے
ٔ ہوتا ہے کہ
تهے ،اور اس کی دیکه بهال کرتے تهے۔‘‘
فَ ،ولِهٰ ذَا کَان ْوا
سا ِل ِ ص َیام ق َریْش ِل َعاش ْو َرا َء فَ َل َعلَّه ْم تَلَقَّ ْوہ ِمنَ ال َّ
ش ْرعِ ال َّ ضا :أ َ َّما ِ
َوقَا َل أَ ْی ً
ی َع ِظم ْونَهٗ ِب ِکس َْوۃِ ْال َک ْعبَ ِة فِ ْی ِه.
’’حافظ ابن حجر عسقالنی ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکهنے کی
یوم عاشور کو قریش کا روزہ رکهنے کا سبب یہ
وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیںِ :
تها کہ شاید انہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو ،اور اِسی لیے وہ اس دن
کی تعظیم کعبہ پر غالف چڑھا کر کیا کرتے تهے۔‘‘
ب رضی هللا عنه ا ََّٔن َرجـ ًال ِمنَ ْال َیه ْو ِد قَا َل لَهٗ :یَا ا َِٔمی َْر ْالم ْٔو ِم ِنیْنَ ، َطا ِ ع ْن ع َم َر ب ِْن ْالخ َّ َ .10
ک ْال َی ْو َم ِع ْیدًا ،قَا َل :أَ ُّ
ي ت َالت َّ َخ ْذنَا ذَا ِل َعلَ ْینَا َم ْعش ََر ْال َیه ْو ِد نَزَ َل ْ
آ َیة ِفي ِکتَا ِبک ْم ت َ ْق َرئ ْونَ َها َل ْو َ
سـ َال َم ِد ْینًا} اال ْ ضیْت لَک ْم ْ ِ علَیْک ْم نِ ْع َمتِی َو َر ِ آیَة؟ قَا َل{ :ا َ ْل َی ْو َم ا َ ْک َم ْلت لَک ْم ِد ْینَک ْم َواَتْ َم ْمت َ
ع َلی النَّ ِبي ِ
ت ِف ْی ِه َ ک ْالیَ ْو َم َو ْال َمکَانَ الَّذِي نَزَ لَ ْ ع َر ْفنَا ذَا ِل َ
]المائدۃ ،[5:3 ،قَا َل ع َمر :قَ ْد َ
صلی هللا علیه وآله وسلم َوھ َو قَائِم ِب َع َرفَةَ َی ْو َم جم َعة.
علَ ْی ِه.
مت َّ َفق َ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب اإلیمان ،باب زیادۃ اإلیمان ونقصانه ،25/1 ،الرقم:
ضا في
ضا في کتاب المغازي باب حجة الوداع ،1600/4 ،الرقم ،4145 :وأی ً
،45وأی ً
ضا
کتاب تفسیر القرآن ،باب قوله :الیوم أکملت لکم دینکم ،1683/4 ،الرقم ،4330 :وأی ً
في کتاب االعتصام بالکتاب والسنة ،2653/6 ،الرقم ،6840 :ومسلم في الصحیح،
کتاب التفسیر ،2313/4 ،الرقم ،3017 :والترمذي في السنن ،کتاب تفسیر القرآن ،باب
من سورۃ المائدۃ ،250/5 ،الرقم ،3043 :والنسائي في السنن ،کتاب اإلیمان ،باب زیادۃ
اإلیمان ،114/8 ،الرقم.5012 :
’’حضرت عمر بن خطاب رضی هللا عنہ سے روایت ہے :ایک یہودی نے ان سے
کہا :اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت
ہم گرو ِہ یہود پر اترتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید بنا لیتے۔ آپ رضی هللا عنہ نے
پوچها :کون سی آیت؟ اس نے کہا{ :آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر
طور) دین
ِ دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسالم کو (بہ
نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا}۔ حضرت عمر رضی هللا عنہ
ِ (یعنی مکمل
نے فرمایا :جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اس وقت جمعہ
کے دن عرفات کے مقام پر کهڑے تهے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بے شک هللا برزگ
و برتر نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کو کهائے۔‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد ،ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساته ،نسائی ،ابن ماجہ ،ابن
خزیمہ ،ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا :یہ حدیث امام
بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ امام وادیاشی نے فرمایا :اِسے امام ابن
حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ عسقالنی نے فرمایا :اِسے امام ابن خزیمہ نے
صحیح قرار دیا ہے۔ امام عجلونی نے فرمایا :اِسے امام بیہقی نے عمدہ سند کے ساته
روایت کیا ہے۔
ي صلی هللا علیه وآله ع ْن أَ ِبي ل َبا َبةَ ب ِْن َع ْب ِد ْالم ْنذ ِِر رضی هللا عنه َقا َل :قَا َل النَّ ِب ُّ َ .12
ضحٰ ی، اال ْ ظم ِع ْندَ هللاِ ِم ْن َی ْو ِم ْ َٔ ظم َها ِع ْندَ هللاِ َوھ َو أَ ْع َ س ِید ْ َٔ
االی َِّامَ ،وأَ ْع َ وسلم :إِ َّن َی ْو َم ْالجمعَ ِة َ
ضَ ،و ِف ْی ِه تَ َوفَّی هللا آدَ َمَ ،و ِف ْی ِه ط ِرِ ،ف ْی ِه خ َْمس خِـ َاللَ :خلَقَ هللا ِف ْی ِه آدَ َم ِإلَی ْاال َْٔر ِ َو َی ْو ِم ْال ِف ْ
عة َما ِم ْن سا َ طاہ َما لَ ْم یَ ْسا َْٔل َح َرا ًماَ ،وفِ ْی ِه تَقوم ال َّ عة َال یَ ْسا َٔل هللا فِ ْی َها ْال َعبْد َ
ش ْیئًا ِإ َّال أَ ْع َ سا َ َ
س َمائ َو َال ا َْٔرض َو َال ِریَاح َو َال ِجبَال َو َال َب ْحر إِ َّال َوھ َّن ی ْش ِف ْقنَ ِم ْن َی ِ
وم َملَک م َق َّرب َو َال َ
ْالجم َع ِة.
ي فِي ْال َک ِبی ِْر.َار ُّ َر َواہ أ َ ْح َمد َوابْن َما َجه َواللَّ ْفظ لَهٗ َو ْالبخ ِ
أخرجه ابن ماجه في السنن ،کتاب إقامة الصالۃ والسنة فیها ،باب في فضل الجمعة،
،344/1الرقم ،1084 :وأحمد بن حنبل في المسند ،284/5 ،430/3 ،الرقم،22510 :
وابن أبي شیبة في المصنف ،477/1 ،الرقم ،5516 :والشافعي في المسند،71/1 ،
والبزار عن سعد بن عبادۃ رضی هللا عنه في المسند ،191/9 ،الرقم ،3738 :وعبد بن
حمید في المسند ،127/1 ،الرقم ،309 :والطبراني في المعجم الکبیر ،33/5 ،الرقم:
،19/6 ،4511الرقم ،5376 :والبخاري في التاریخ الکبیر ،44/4 ،الرقم.1911 :
’’حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے
تعالی کے ہاں
ٰ تعالی کے ہاں عظمت واال ہے اور هللا
ٰ اور باقی دنوں سے بڑھ کر هللا
اس کی عظمت عید االضحی اور عید الفطر سے بهی بڑھ کر ہے (کیوں کہ) اس دن
تعالی نے حضرت آدم علیہ السالم کو
ٰ میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں :اس دن هللا
پیدا فرمایا اور اسی دن انہیں وفات دی اور اس دن میں ایک ساعت ایسی ہوتی ہے
تعالی سے جو بهی سوال کرے وہ اسے عطا فرماتا ہے جب تک کہ
ٰ جس میں بندہ هللا
وہ کسی حرام چیز کا سوال نہیں کرتا ،اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ کوئی مقرب
فرشتہ ،آسمان ،زمین ،ہوا ،پہاڑ اور سمندر ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا
ہو (کیوں کہ اس دن قیامت بپا ہوگی)۔‘‘
اسے امام احمد ،ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساته اور بخاری نے التاریخ الکبیر
میں بیان کیا ہے۔
اري ِ رضی هللا عنه ا ََّٔن َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم ص ِ ع ْن أَبِي قَتَادَۃ َ ْاالَٔ ْن ََ .13
ي۔ َر َواہ م ْس ِلم. علَ َّ ْ
ص ْو ِم ا ِالثنَی ِْن فَ َقا َل :فِ ْی ِه و ِلدْت َو ِف ْی ِه أُ ْن ِز َل َ ع ْن َ
سئِ َل َ
ي.
سائِ ُّ ي فِ ْی ِه النُّب َّوۃ۔ َر َواہ أ َ ْح َمد َوالنَّ َ علَ َّ
ت َ وفي روایة :أُ ْن ِزلَ ْ
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاـ’’ :اِسی روز مجهے
نبوت (یعنی بعثت) سے سرفراز کیا گیا۔‘‘ اِسے امام احمد اور نسائی نے روایت کیا
ہے۔
ي صلی هللا علیه وآله وسلم یَ ْو َم ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما قَا َل :و ِلدَ النَّ ِب ُّ َ .14
اج ًرا ِم ْن َم َّکةَ ِإلَی ْال َم ِد ْینَ ِة َی ْو َم ِاالثْ َنی ِْنَ ،وقَد َِم ئ َی ْو َم ا ِالثْنَی ِْنَ ،وخ ََر َج م َه ِ ا ِالثْ َنی ِْنَ ،واسْت ْن ِب َ
ْال َم ِد ْینَةَ یَ ْو َم ِاالثْ َنی ِْنَ ،و َر َف َع ْال َح َج َر َی ْو َم ِاالثْ َنی ِْن.
ض ِعیْفَ ،و َب ِقیَّه ي َو ِف ْی ِه ابْن لَ ِه ْی َعةَ َوھ َو َ يَ :ر َواہ أ َ ْح َمد َو َّ
الط َب َرا ِن ُّ َر َواہ أ َ ْح َمدَ .وقَا َل ْال َه ْیثَ ِم ُّ
ْح.
ص ِحی ِ ِر َجا ِله ثِقَات ِم ْن أ َ ْھ ِل ال َّ
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم کی پیر کے روز والدت ہوئی ،اور پیر کے روز ہی آپ صلی هللا
شرف نبوت سے سرفراز کیا گیا اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
ِ علیہ وآلہ وسلم کو
نے پیر کے روز ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ پیر کے
روز ہی مدینہ منورہ میں آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور
حجر اسود اٹهانے کا واقعہ بهی پیر کے روز ہی ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا :اس حدیث کو امام
احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابن لهیعہ نامی راوی کے
عالوہ دیگر رجال ثقہ اور صحیح حدیث کے رجال میں سے ہیں۔
عبَّاس رضی هللا عنهما قَ َاال :و ِلدَ ع ْب ِد هللاِ ب ِْن َ اري ِ َو َ ص ِ ع ِن َجا ِب ِر ب ِْن َع ْب ِد هللاِ األ َ ْن َ َ .15
عش ََر ِم ْن َ
ش ْه ِر َربِیْعِ َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم َی ْو َم ْال ِف ْی ِل یَ ْو َم ا ِالثْنَی ِْن الثَّانِي َ
ات صلی هللا علیه وآله اءَ ،و ِف ْی ِه ھَا َج َرَ ،و ِف ْی ِه َم َ ثَ ،و ِف ْی ِه ع ِر َج ِإلَی ال َّ
س َم ِ األ َ َّو ِلَ ،و ِف ْی ِه ب ِع َ
وسلم.
ي َو َل ْم َی ْج َر ْحهٗ . سیْن ابْن ِإب َْرا ِھی َْم ْال َج ْو َرقَا ِن ُّ َر َواہ ْال َح َ
أخرجه الحافظ أبو عبد هللا الحسین ابن إبراھیم الجورقاني الهمذاني في األباطیل
والمناکیر والصحاح والمشاھیر ،کتاب الفضائل ،باب فضل النبي صلی هللا علیه وآله
وسلم ،27/الرقم.122 :
’’حضرت جابر بن عبد هللا انصاری اور حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما
ت مبارکہ عام
دونوں نے بیان فرمایا :رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والد ِ
الفیل ،پیر کے روز بارہ ربیع االول کو ہوئی ،اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ
شرف نبوت سے سرفراز کیا گیا اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
ِ وسلم کو
کو آسمان کی طرف بلند کیا گیا (یعنی معراج کرائی گئی) ،اور اسی دن آپ صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی ،اور اسی روز آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا
وصال مبارک ہوا۔‘‘
اسے امام حسین بن ابراہیم الجورقانی نے بغیر کسی جرح کے روایت کیا ہے۔
ع ْن م َح َّم ِد ب ِْن إِ ْس َحاقَ رضی هللا عنہ قَا َل :و ِلدَ َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وفي روایةَ :
ْ
ش ْه ِر َر ِبیْعِ ْاال ََّٔو ِل۔ َر َواہ ال َحا ِکم
ت ِم ْن َ ً
عش ََر لَ ْیلَة َم َ
ض ْ ام ْال ِف ْی ِل َی ْو َم ِاالث َنی ِْن ِالث َنتَي َ
ْ ْ ع َوسلم َ
َوابْن ِحبَّانَ َوابْن إِ ْس َحاقَ َو ْالبَ ْی َه ِق ُّ
ي َواللَّ ْفظ لَهٗ .
أخرجه الحاکم في المستدرک ،659/2 ،الرقم ،4182 :وابن حبان في الثقات،15/1 ،
ضا في دالئل النبوۃ،74/1 ،
والبیهقي في شعب اإلیمان ،135/2 ،الرقم ،1387 :وأی ً
وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق ،73/3 ،وابن جریر في تاریخ األمم والملوک،
،453/1والکالعي في االکتفاء ،131/1 ،وابن إسحاق في السیرۃ النبویة591/۔،594
وابن ھشام في السیرۃ النبویة.293/1 ،
’’حضرت محمد بن اسحاق رضی هللا عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیر کے روز بارہ ربیع االول کو اس دنیا میں
تشریف الئے۔‘‘
اسے امام حاکم ،ابن حبان ،ابن اسحاق اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساته روایت
کیا ہے۔
ان ِم ْن َج َو ِار َ
ي ار َیت َ ِت :دَ َخ َل أَب ْو َب ْکر َو ِع ْندِي َج ِشةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ عا ِئ َ ع ْن َ َ .16
ستَا ِبم َغ ِنیَتَی ِْن ،فَقَا َل أَب ْو َب ْکر :أ َ
تَ :ولَ ْی َ
اثَ ،قالَ ْ
صار َی ْو َم ب َع َ اال ْن َت ْ َٔ ان ِب َما تَقَ َاولَ ِ
ار ،ت َغنِیَ ِ ص ِ ْ َٔ
اال ْن َ
ک فِي َی ْو ِم ِعیْد .فَقَا َل ت َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ َوذَا ِل َ ان فِي َب ْی ِ ط ِ ش ْی َ
َمزَ ِامیْر ال َّ
َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلمَ :یا أَ َبا َب ْکرِ ،إ َّن ِلک ِل قَ ْوم ِع ْیدًا َو ٰھذَا ِعیْدنَا.
علَ ْی ِه.مت َّ َفق َ
ان ِبدف. ان ت َ ْل َعبَ ِ
ار َیت َ ِ
وفي روایة ِلم ْس ِلمَ :وفِ ْی ِه َج ِ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب العیدین ،باب سنة العیدین الٔہل اإلسالم،324/1 ،
الرقم ،909 :ومسلم في الصحیح ،کتاب صالۃ العیدین ،باب الرفعة في اللعب الذي ال
معصیة فیه في أیام العید ،607/2 ،الرقم ،892 :وابن ماجه في السنن ،کتاب النکاح،
باب الغناء والدف ،612/1 ،الرقم ،1898 :وابن حبان في الصحیح،187 ،180/13 ،
الرقم.5877 ،5871:
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت
ابو بکر رضی هللا عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو (نابالغ) لڑکیاـں -انصار
نے جنگ بعاث میں جو بہادری دکهائی تهی -وہ بیان کر رہیں تهیں۔ وہ فرماتی ہیں
کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تهیں۔ حضرت ابو بکر رضی هللا عنہ نے فرمایا:
رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے گهر میں شیطانی باجہ! اور یہ عید کے دن
کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے ابو بکر! ہر
قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
ي َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم علَ َّ
ت :دَ َخ َل َشةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ ع ْن َ
عا ِئ َ َ .17
علَی ْال ِف َر ِ
اش َو َح َّو َل َو ْج َههٗ َ ،ودَ َخ َل أَب ْو ض َ
ط َج َع َ اث ،فَا َْاء بعَ َ َو ِع ْندِي َج ِ
اریَت َ ِ
ان ت َغ ِنیَ ِ
ان ِب ِغن ِ
ان ِع ْندَ النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ فَا َٔ ْق َب َل َ
ع َل ْی ِه ط ِ ش ْی َ َب ْکر ،فَا ْنت َ َه َرنِي َوقَا َلِ :م ْز َم َ
ارۃ ال َّ
غ َم ْزته َما ،فَخ ََر َجتَاَ ،وکَانَ
غفَ َلَ ،َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم فَقَا َل :دَعْه َما ،فَلَ َّما َ
ي صلی هللا علیه وآله وسلم َو ِإ َّما سا َْٔلت النَّ ِب َّ ق َو ْال ِح َرا ِ
ب ،فَإ ِ َّما َ یَ ْو َم ِعیْد یَ ْل َعب ال ُّ
س ْودَان ِبالد ََّر ِ
ع ٰلی َخ ِدہَ ،وھ َو َیق ْول :د ْونَک ْم َیا قَا َل :ت َ ْشتَ ِهیْنَ تَ ْنظ ِریْنَ ؟ فَق ْلتَ :ن َع ْم ،فَأَقَا َمنِي َو َرا َء ٗہَ ،خ ِدي َ
ک؟ ق ْلت :نَعَ ْم۔ قَا َل :فَا ْذ َھبِي.
بَ ِني ا َْٔرفِدَۃ ََ ،حتّٰی إِذَا َم ِل ْلت۔ قَا َلَ :حسْب ِ
علَ ْی ِه.
مت َّ َفق َ
عا ِئشَة :-کَانَ َی ْو َم ِعیْد‘‘ َفت َ َبیَّنَ ِبهٰ ذَا أَنَّهٗ ت -أَي َ حَ ’’ :وقَالَ ْ ي ِفي ْالفَتْ ِ قَا َل ْال َعسْقَ ـ َال ِن ُّ
الز ْھ ِري ِ ْال َم ْذک ْو َرۃَِ ’’ :و ْال َحبَشَة س ْودَان‘‘ فِي ِر َوایَ ِة ُّ َم ْوص ْول ک َْاال ََّٔو ِل۔ َق ْولهٗ ’’ :یَ ْل َعب فِ ْی ِه ال ُّ
صلَ َها م ْس ِلم ’’بِ ِح َرابِ ِه ْم‘‘ َو ِلم ْس ِلم ِم ْن یَ ْلعَب ْونَ فِي ْال َمس ِْجدَِ ‘‘.وزَ ادَ فِي ِر َوایَة معَلَّقَة َو َو َ
يٰ :ھذَا ع ْن أَ ِب ْی ِهَ ’’ :جا َء َح َبش َی ْل َعب ْونَ فِي ْال َمس ِْج ِد‘‘ ،قَا َل ْالم ِحبُّ َّ
الط َب ِر ُّ ِر َوا َی ِة ِھشَام َ
ک فِي ک ِل ِعیْدَ ،و َو َق َع فِي ِر َوایَ ِة اب ِْن ِحبَّانَ ’’ :لَ َّما قَد َِم َوفَد عادَتَه ْم ذَا ِل َ ال ِسیَاق ی ْش ِعر بِا ََّٔن َ
ک ِب َحا ِل ْص َله ْم ِفي ذَا ِل َ ش ِة ،قَام ْوا َی ْل َعب ْونَ ِفي ْال َمس ِْجدِ۔‘‘ َو ٰھذَا ی ْش ِعر ِبأ َ َّن الت َّ ْر ِخی َ ْال َح َب َ
عادَ ِت ِهم صادِف یَ ْو َم ِعیْد َوکَانَ ِم ْن َ ْالقد ْو ِمَ ،و َال تنَافِي َب ْینَه َما ِال ْحتِ َما ِل ا َْٔن َیک ْونَ قد ْومه ْم َ
صار ْوا یَ ْلعَب ْونَ یَ ْو َم ک ِل ِعیْدَ ،و َی َؤیِد ٗہ َما َر َواہ ک َکعَادَ ِت ِه ْم ث َّم َ اللَّ ِعب فِي ْاالَٔ ْعیَادِ ،فَفَعَل ْوا ذَا ِل َ
ي صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ، ع ْن أَنَس رضی هللا عنه قَا َل ’’:لَ َّما قَد َِم النَّ ِب ُّ أَب ْو دَاودََ ،
ک ا َْٔن َی ْو َم قد ْو ِمه صلی هللا علیه وآله ش َّ ک لَ ِعب ْوا بِ ِح َرا ِب ِه ْمَ ‘‘.و َال َ ت ْال َحبَشَة فَ ِر ًحا بِذَا ِل َ لَ ِعبَ ِ
ظ َم ِم ْن َی ْو ِم ْال ِع ْیدِ.وسلم کَانَ ِع ْندَھ ْم أَ ْع َ
أخرجه البخاري في الصحیح ،کتاب العیدین ،باب الحراب والدرق یوم العید،323/1 ،
الرقم ،907 :ومسلم في الصحیح ،کتاب صالۃ العیدین ،باب الرخصة في اللعب الذي ال
معصیة فیه في أیام العید ،609/2 ،الرقم ،892 :وأبو یعلی في المسند ،247/8 ،الرقم:
،4829والبیهقي في السنن الکبری ،218/10 ،والعسقالني في فتح الباري.443/2 ،
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی هللا عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور
نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف الئے اور میرے پاس دو
لڑکیاں جنگ بعاث کے ترانے گا رہی تهیں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم بستر پر
آرام فرما ہو گئے اور ان سے منہ پهیر لیا۔ پهر حضرت ابو بکر رضی هللا عنہ
تشریف لے آئے اور انہوں نے مجهے ڈانٹا اور فرمایا :حضور نبی اکرم صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی ساز! حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے
حضرت ابو بکر کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا( :ابو بکر) انہیں چهوڑ دو۔ (حضرت
عائشہ فرماتی ہیں کہ) جب حضرت ابو بکر کسی اور طرف متوجہ ہوئے تو میں
نے لڑکیوں کو نکل جانے کا اشارہ کیا۔ وہ حبشیوں کی عید کا دن تها جو ڈھالوں اور
برچهیوں سے کهیلتے۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے
عرض کیا یا آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی فرمایا( :اے عائشہ! کیا) تم
دیکهنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کیا :جی ہاں۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے
مجهے اپنے پیچهے کهڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے
رخسار مبارک پر تها اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم فرماتے رہے :اے بنو ارفدہ!
ِ
اور دکهاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو مجه سے فرمایا :بس! تو میں نے
عرض کیا :جی (یا رسول هللا!)۔ تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جاؤ۔‘‘
حافظ عسقالنی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی هللا عنہا
فرماتی ہیں’’ :وہ عید کا دن تها۔‘‘ پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث بهی
پہلی حدیث کی طرح موصول ہے جس میں ہے کہ ’’اس دن حبشہ والے مسجد
مینرقص کرتے‘‘ اور امام زہری کی مذکورہ روایت میں ہے’’ :اہل حبشہ مسجد میں
کهیلتے‘‘ اور انہوں (امام زہری) نے ایک روایت -جو امام مسلم سے متصل ہے -
میں لفظ بحرابهم (اپنے جنگی ساز و سامان کے ساته) کا اضافہ کیا ہے اور امام
مسلم کی روایت جو کہ حضرت ہشام کی اپنے والد سے ہے -میں یہ الفاظ آتے
ہین َجا َء حبَش یَ ْل َعب ْونَ فِي ْال َمس ِْج ِد کہ حبشہ کے لوگ مسجد میں کهیلنے کے لیے آئے۔
امام محب الدین طبری نے بیان کیا کہ یہ سیاق بتالتا ہے کہ ہر عید میں ان کی یہ
عادت تهی کہ وہ مسجد میں (اپنے سامان حرب کے ساته) کهیلتے تهے۔ امام ابن
حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا ،تو وہ مسجد میں (اپنے سامان
حرب کے ساته) رقص کرنے لگے ،اور یہ چیز بتالتی ہے کہ انہیں اس کام کی
اجازت وہاں آتے وقت ملی تهی۔ اور ان دونوں چیزوں میں مغایرت نہیں ہے کیوں
کہ ممکن ہے ان کا وہاں آنا عید کے روز ہو ،اور عیدوں میں کهیلنا ان کی عادت ہو،
پس انہوں نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہو ،پهر وہ ہر عید کو ایسا کرنے لگے
ہوں۔ اس چیز کی تائید وہ روایت بهی کرتی ہے ،جسے امام ابو داود نے حضرت
انس رضی هللا عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا :جب حضور نبی اکرم صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف الئے ،تو اہ ِل حبشہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم کی آمد کی خوشی میں اپنے سامان حرب کے ساته رقص کیا اور اس میں
کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ
تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر
تها۔‘‘
ع ْن أَنَس رضی هللا عنه قَا َل :لَ َّما قَد َِم َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ َ .18
ک.ت ْال َح َبشَة ِلقد ْو ِمه ِب ِح َرا ِب ِه ْم فَ َر ًحا ِبذَا ِل َلَ ِع َب ِ
ص ِغی ِْر َوأَب ْو َی ْع ٰلی.
ي فِي ال َّ ص ِحیْح َو ْالبخ ِ
َار ُّ َر َواہ ا َْٔح َمد َوأَب ْو دَاودَ َو ِإ ْسنَاد ٗہ َ
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند ،161/3 ،الرقم ،12670 :وأبو داود في السنن ،کتاب
االٔدب ،باب في النہي عن الغناء ،281/4 ،الرقم ،4923 :والبخاري في التاریخ
الصغیر ،8/1 ،الرقم ،15 :وعبد بن حمید في المسند ،371/1 ،الرقم ،1239 :وأبو
یعلی في المسند ،177/6 ،الرقم.3459 :
’’حضرت اَنس رضی هللا عنہ نے بیان فرمایا :جب حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف الئے تو اہ ِل حبشہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی
ت حرب کے ساته خوب کهیل کود (اور رقص)
آمد کی خوشی مناتے ہوئے اپنے آال ِ
کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی اسناد صحیح
ہے ،اس کے عالوہ امام احمد اور بخاری نے التاریخ الصغیر میں اور ابو یعلی نے
روایت کیا ہے۔
ت :خ ََر َج َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم شةَ رضی هللا عنها قَالَ ْ عائِ َ ع ْن ََ .19
َٔطلَع ِم ْن خ َْوخَة ِلي ،فَدَنَا ِم ِني َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم، َو ْال َح َبشَة َی ْل َعب ْونَ َ ،وأَنَا ا ْ
ع ٰلی َم ْن ِک ِبهَ ،و َج َع ْلت أَ ْنظر ،فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم: ض ْعت یَدِي َ فَ َو َ
بَنَات ا َْٔرفِدَۃ َ ،فَ َما ِز ْلتَ ،وھ ْم یَ ْل َعب ْونَ َ ،و َی ْزفِن ْونَ (وفي روایة :یَ ْرقص ْونَ ) َحتّٰی ک ْنت أَنَا الَّتِي
ي. ي َو َّ
الط َب َرا ِن ُّ سائِ ُّ ا ْنت َ َهیْت۔ َر َواہ النَّ َ
الر ْقص. يَ :وھ ْم یَ ْلعَب ْونَ َو َی ْزفِن ْونَ َ ،و ُّ
الز ْفنَّ : َوقَا َل ْالعَسْقَ ـ َالنِ ُّ
أخرجه النسائي في السنن الکبری ،309/5 ،الرقم ،8958 :والطبراني في المعجم
األوسط ،121/9 ،الرقم ،9303 :والعسقالني في تلخیص الحبیر ،202/4 ،الرقم:
،2125وابن الملقن في خالصة البدر المنیر ،443/2 ،الرقم.2917 :
’’حضرت عائشہ رضی هللا عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
باہر تشریف الئے درآنحالیکہ حبشی کهیل رہے تهے ،میں نے اپنے حجرہ کے
دروازہ سے باہر جهانکا تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے قریب ہوئے،
پس میں نے اپنا ہاته رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے پر رکها
اور (ان حبشیوں کو کهیلتے ہوئے) دیکهنے لگی ،تو رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ
ت اَرفدہ۔ پس میں انہیں دیکهتی رہی درآنحالیکہ وہ کهیل اور ناچ
وسلم نے فرمایا :بنا ِ
رہے تهے (اور ایک روایت میں ہے :وہ رقص کررہے تهے )،یہاں تک کہ میں نے
خود ہی دیکهنا ختم کردیا (حضورنبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے مجهے منع
نہیں فرمایا)۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی اورطبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ عسقالنی نے فرمایا:
وہ کهیل رہے تهے اور رقص کر رہے تهے۔ زفن کا مطلب ’رقص کرنا‘ ہے۔
شةَ رضی هللا عنهما قَا َل :لَ َّما دَ َخ َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه عائِ َ ع ْن عبَ ْی ِد هللاِ ب ِْن َ
َ .20
الص ْبیَان َو ْال َو َالئِد یَق ْول ْونَ : اس َو ْالعَ َوا ِتقَ فَ ْوقَ ْال َج ِ
اجی ِْرَ ،و ِ وآله وسلم ْال َم ِد ْینَةَ … َفتَلَقَّی النَّ َ
َ
طلَ َع ا ْلبَد ُْر َ
ع َل ْینَا
ت ا ْل َود ِ
َاع ِم ْن ث َ ِن َّیا ِ
علَ ْی َنا
شک ُْر َ
ب ال ُّ
َو َج َ
َاع
َما َدعَا ِﷲِ د ِ
ت ْال َحبَشَة یَ ْل َعب ْونَ ِب ِح َرا ِب ِه ْم ِلقد ْو ِم َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم فَ َر ًحا ِبذَا ِل َ
ک. َوأَ َخذَ ِ
ي.الط َب ِر ُّ ع ْب ِد ْال َب ِر َو ْال َعسْقَ ـ َال ِن ُّ
ي َوم ِحبُّ ال ِدی ِْن َّ َر َواہ ابْن ِحبَّانَ ِفي ال ِثقَا ِ
ت َوابْن َ
أخرجه ابن حبان في الثقات ،131/1 ،وابن عبد البر في التمهید ،82/14 ،والعسقالني
في فتح الباري ،129/8 ،261/7 ،والعیني في عمدۃ القاري ،60/17 ،ومحب الدین
الطبري في الریاض النضرۃ.480/1 ،
’’حضرت عبید هللا بن عائشہ رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی
اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے … تو آپ صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چهتوں پر
پایا جبکہ (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تهے:
رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ
کے لوگ اپنے آالت حرب کے ساته رقص کرتے رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان نے ’الثقات‘ میں ،ابن عبد البر ،عسقالنی اور محب
طبری نے روایت کیا ہے۔
ت ْال َحبَشَة یَ ْزفِن ْونَ بَیْنَ یَدَي َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا
ع ْن أَنَس رضی هللا عنه َقا َل :کَانَ ِ َ .21
صا ِلح۔ فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه علیه وآله وسلمَ ،ویَ ْرقص ْونَ َ ،ویَق ْول ْونَ :م َح َّمد َعبْد َ
صا ِلح.وآله وسلمَ :ما َیق ْول ْونَ ؟ قَال ْواَ :یق ْول ْونَ :م َح َّمد َعبْد َ
ص ِحیْح. َر َواہ أ َ ْح َمد َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ
ي َو ِإ ْسنَاد ٗہ َ
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند ،152/3 ،الرقم ،12562 :والمقدسي في االٔحادیث
المختارۃ ،60/5 ،الرقم.1680 :
’’حضرت انس رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل حبشہ رسول هللا صلی هللا علیہ
ت حرب کے ساته) ناچ رہے اور رقص کررہے
وآلہ وسلم کے سامنے (اپنے آال ِ
صا ِلح (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا
تهے اور یہ کہتے جاتے تهے:م َح َّمد َعبْد َ
تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔ پس رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے دریافت
ٰ
فرمایا :یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ صحابہ کرام ث نے عرض کیا :یہ کہہ رہے ہیں :م َح َّمد
تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘
ٰ صا ِلح (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا
عبْد َ
َ
اس حدیث کو امام احمد اور مقدسی نے روایت کیا ہے ،اور اس کی سند صحیح ہے۔
ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلک رضی هللا عنه ا ََّٔن ْال َح َب َ
شةَ کَان ْوا َی ْز ِفن ْونَ َبیْنَ َیدَي َرس ْو ِل هللاِ َ .22
کـ َالم َال یَ ْف َهمهٗ ،فَقَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه صلی هللا علیه وآله وسلمَ ،و َیتَکَلَّم ْونَ ِب َ
صا ِلح. وآله وسلمَ :ما َیق ْول ْونَ ؟ قَال ْوا :م َح َّمد َعبْد َ
َر َواہ ابْن ِحبَّانَ َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ
ي.
’’حضرت انس بن مالک رضی هللا عنہ سے روایت ہے کہ اہ ِل حبشہ رسول هللا صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کررہے تهے اور (اپنی زبان و لہجہ میں) کچه
کہہ رہے تهے جس کا معنی و مفہوم واضح نہیں تها ،تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
صا ِلح
عبْد َ
نے دریافت فرمایا :یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا :م َح َّمد َ
تعالی کے) برگزیدہ بندے ہیں)۔‘‘
ٰ (محمد صلی هللا علیہ وآلہ وسلم (هللا
اس حدیث کو امام ابن حبان اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔
ع ْن نَ ْفسِه َب ْعدَ النُّب َّو ِۃ. ع ْن أَنَس رضی هللا عنه ا ََّٔن النَّ ِب َّ
ي صلی هللا علیه وآله وسلم َع َّق َ َ .23
ي.ي َو ْال َم ْق ِد ِس ُّ
َر َواہ ْالبَ ْی َه ِق ُّ
أخرجه البیهقي في السنن الکبری ،300/9 ،الرقم ،19056 :والمقدسي في االٔحادیث
المختارۃ ،205/5 ،الرقم ،1833 :والنووي في تہذیب االٔسماء واللغات ،557/2 ،الرقم:
ضا في تهذیب التهذیب ،340/5 ،الرقم:
،962والعسقالني في فتح الباري ،595/9 ،وأی ً
،661والمزي في تهذیب الکمال ،32/16 ،الرقم.3523 :
’’حضرت انس رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ
ِعالن نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
ِ وسلم نے ا
’’حضرت انس رضی هللا عنہ روایت کرتے ہیں :حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
ضا في الحاوي
ذکرہ السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد ،65 ،64/وأی ً
للفتاوی ،206/والصالحي في سبل الهدی والرشاد ،367/1 ،والزرقاني في شرح
المواھب اللدنیة ،263264/1 ،والنبهاني في حجة هللا علی العالمین.237/
’’امام سیوطی نے فرمایا :یوم میالد النبی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ
سے ایک اور دلیل مجه پر ظاہر ہوئی ہے ،جسے امام بیہقی نے حضرت انس رضی
ِعالن
ِ هللا عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ا
نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوجود اس کے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے
دادا عبد المطلب آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تهے اورعقیقہ دو ( )2بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ
واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو
هللا کی طرف سے رحمۃ للعالمین بنائے جانے اور اپنی امت کے مشرف ہونے کی
وجہ سے اپنی والدت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح
ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بهی حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے
یوم والدت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کهانا کهالئیں اور دیگر عبادات بجا الئیں
ِ
اور خوشیوں کا اظہار کریں۔‘‘
ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلک رضی هللا عنه في روایة طویلة ا ََّٔن َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه َ .26
صلَّی َ
ْت ْت؟ َصلَّی َ ص ِل ،فَنَزَ ْلت فَ َ
صلَّیْت ،فَقَا َل :أَتَد ِْري أَیْنَ َ وآله وسلم قَا َل :ث َّم قَا َل :ا ْن ِز ْل فَ َ
ت لَ ْحم َحیْث و ِلدَ ِع ْیسٰ ی علیہ السالم. ِب َب ْی ِ
ي َو ْالبَ َّزار. ي َو َّ
الطبَ َرا ِن ُّ َر َواہ النَّ َ
سائِ ُّ
أخرجه النسائي في السنن ،کتاب الصالۃ ،باب فرض الصالۃ ،222/1 ،الرقم،450 :
ضا في المعجم الکبیر،283/7 ،
والطبراني في مسند الشامیین ،194/1 ،الرقم ،341:وأی ً
الرقم ،7142 :والبزار عن شداد بن أوس في المسند ،410/8 ،الرقم ،3484 :والهیثمي
في مجمع الزوائد ،73/1 ،والعسقالني في فتح الباري.199/7 ،
’’حضرت انس بن مالک رضی هللا عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ
سفر معراج بیان کرتے ہوئے) فرمایا:
رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے (اپنا ِ
جبرائیل علیہ السالم نے (بیت اللحم کے مقام پر) مجه سے کہا :آپ براق سے اتریے
اور نماز پڑھیے۔ میں نے اتر کر نماز ادا کی۔ تو انہوں نے کہا :کیا آپ جانتے ہیں
عیسی
ٰ کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے جہاں
علیہ السالم کی پیدائش ہوئی تهی۔‘‘
’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن الم رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم
ت اقدس میں موجود تهے،
حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے خدم ِ
حضرت عباس بن عبد المطلب رضی هللا عنہما نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت میں عرض کیا :یا رسول هللا! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو
تعالی
ٰ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :الؤ مجهے سناؤ ،هللا
تمہارے دانت صحیح و سالم رکهے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کالم پڑھتے رہو)۔
سو حضرت عباس رضی هللا عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا:
’’آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی والدت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری
ق عالم روشن ہو گیا۔ پس ہم آپ کی عطا
زمین چمک اٹهی اور آپ کے نور سے اف ِ
کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان ہدایت کی راہوں پر گامزن ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی ،حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
اریَةَ رضی هللا عنه قَا َل :قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله س ِ
اض ب ِْن َ ع ْن ِع ْربَ ِ َ .28
وسلمِ :إ ِني ِع ْندَ هللاِ َلخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ َ ،و ِإ َّن آدَ َم علیہ السالم لَم ْن َجدِل ِفي ِط ْینَ ِتهَ ،و َ
سأُنَ ِبئک ْم ِبا ََّٔو ِل
ک أ َّم َهات َارۃ ِع ْیسٰ ی ِبيَ ،ور ْٔویَا ا ُِٔمي الَّ ِتي َرا ْ
َٔت َو َکذَا ِل َ ک دَع َْوۃ أَ ِبي ِإب َْرا ِھی َْمَ ،و ِبش َ ذَا ِل َ
النَّبِیِیْنَ تَ َریْنَ .
َر َواہ أ َ ْح َمد.
عبْد هللاِ َوخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ فذکر مثلہ وزاد فیهِ :إ َّن أ َّم َرس ْو ِل .29وفي روایة عنہ :قَا َلِ :إنِي َ
ش ِامَ .ر َواہت ِم ْنه قص ْور ال َّ ضعَتْه ن ْو ًرا أ َ َ
ضائ َ ْ ت ِح ْینَ َو َ هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم َرأ َ ْ
ي فِي ْال َک ِبی ِْر. أ َ ْح َمد َوابْن ِحبَّانَ َو ْال َحا ِکم َو ْالبخ ِ
َار ُّ
:29-28أخرجه أحمد بن حنبل في المسند ،127128/4 ،الرقم،16712 ،16700 :
وابن حبان في الصحیح ،313/14 ،الرقم ،6404 :وابن أبي عاصم في السنة،179/1 ،
الرقم ،409:والبخاري في التاریخ الکبیر ،68/6 ،الرقم ،1736 :والطبراني في المعجم
الکبیر ،253 ،252/18 ،الرقم ،630 ،629 :والحاکم في المستدرک ،656/2 ،الرقم:
،4175والبیهقي في شعب اإلیمان ،134/2 ،الرقم.1385 :
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول هللا صلی هللا
تعالی کی بارگاہ میں اس وقت سے آخری نبی لکها
ٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں هللا
جا چکا تها جبکہ حضرت آدم علیہ السالم ابهی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تهے اور
میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں :میں حضرت ابراہیم علیہ السالم کی دعا (کا نتیجہ)
عیسی علیہ السالم کی بشارت ہوں ،اور اس کے عالوہ اپنی والدہ
ٰ ہوں اور حضرت
کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری والدت سے پہلے دیکها تها اور انبیاء کرام کی
مائیں اسی طرح کے خواب دیکهتی ہیں۔‘‘
تعالی کا
ٰ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ :میں هللا
بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پهر راوی نے مذکورہ باب حدیث کی مثل حدیث بیان
فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا’’ :بے شک رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی
والدہ ماجدہ نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت مبارکہ کے وقت نور دیکها
جس سے شام کے محالت تک روشن ہو گئے۔‘‘
اِسے امام اَحمد ،ابن حبان ،حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔
ار َیةَ رضی هللا عنه قَا َل :قَا َل َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله س ِ ع ِن ْال ِع ْر َب ِ
اض ب ِْن َ َ .30
وسلمِ :إنِي ِع ْندَ هللاِ ِفي أ ِم ْال ِکتَا ِ
ب لَخَاتَم النَّ ِب ِییْنَ َ ،و ِإ َّن آدَ َم لَم ْن َجدِل فِي ِط ْینَتِهَ ،و َ
سأ َح ِدثک ْم
ث فِ ْی ِه ْم َرس ْو ًال ِم ْنه ْم} ]البقرۃ،[129 :2 ، {وا ْبعَ ْ عاَ : ک :دَع َْوۃ أَبِي إِب َْرا ِھی َْم ،دَ َتَا ْٔ ِو ْی َل ذَا ِل َ
{ومبَ ِش ًرام ِب َرس ْول یَأْتِي ِم ْنم بَ ْعدِي اسْمهٗ أ َ ْح َمد}] ،الصف، سی ب ِْن َم ْریَ َم َق ْولهٗ َ : َارۃ ِع ْی َ
َو ِبش َ
ش ِام. ت ِم ْنه قص ْور ال َّ ضا َء ْ ت ن ْو ًرا أ َ َ ض َع َْام َها أَنَّ َها َو َ
ت فِي َمن ِ [6 :61۔ َورؤْ یَا أ ِمي َرأ َ ْ
سانِ ْی ِد ا َْٔح َمدَ س ْعد۔ َوقَا َل ْال َه ْیثَ ِم ُّ
يَ :وأَ َحد أَ َ ي َوأَب ْو ن َعیْم َو ْال َحا ِکم َوابْن َ َر َواہ ابْن ِحبَّانَ َو َّ
الط َب َرا ِن ُّ
س ِع ْی ِد ب ِْن س َویْد َوقَ ْد َوث َّ َقه ابْن ِحبَّانَ .
ص ِحیْحِ َغی َْر َ ِر َجالهٗ ِر َجال ال َّ
أخرجه ابن حبان في الصحیح ،باب ذکر کتبه هللا جل وعال عندہ محمدا صلی هللا علیه
وآله وسلم خاتم النبیین ،312/14 ،الرقم ،6404 :والطبراني في المعجم الکبیر،
ضا في دالئل النبوۃ،
،253/18الرقم ،631 :وأبو نعیم في حلیة األولیائ ،40/6 ،وأی ً
،17/1والحاکم في المستدرک ،656/2 ،الرقم ،4174 :وابن سعد في الطبقات الکبری،
،149/1والعسقالني في فتح الباري ،583/6 ،والطبري في جامع البیان ،583/6 ،وابن
ضا في البدایة والنهایة ،321/2 ،والهیثمي
کثیر في تفسیر القرآن العظیم ،185/1 ،وأی ً
ضا في مجمع الزوائد.223/8 ،
في موارد الظمآن ،512/1 ،الرقم ،2093 :وأی ً
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی هللا عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ
تعالی کے ہاں لوحِ
ٰ رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بے شک میں هللا
محفوظ میں اس وقت بهی آخری نبی تها جبکہ آدم علیہ السالم ابهی اپنی مٹی میں
(مرحلہ خلقت میں) تهے۔ میں تمہیں اِس کی تفصیل بتاتا ہوں کہ میں
ٔ گندھے ہوئے
اپنے ج ِد امجد ابراہیم علیہ السالم کی دعا ہوں جو انہوں نے مانگی’’ :اے ہمارے
رب! ان میں ،انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( صلی هللا علیہ وآلہ
عیسی بن مریم علیہما السالم کی بشارت ہوں ،انہوں
ٰ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور میں
نے کہا’’ :اور اس رسو ِل (معظم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کی (آمد کی) بشارت
سنانے واالہوں جو میرے بعد تشریف ال رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت)
احمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میں اپنی والدہ کا خواب ہوں جو انہوں
نے دیکها کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا ہے جس سے شام کے محالت
بهی روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام ابن حبان ،طبرانی ،ابو نعیم ،حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام
ہیثمی نے فرمایا :امام اَحمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں
سوائے سعید بن سوید کے ،انہیں امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
ي َحتّٰی أ َ ٰتی َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله سنَانَ ) ،قَا َل :أ َ ْق َب َل أَع َْرا ِب ٌّ ع ْن أ َ ِبي َم ْریَ َم ( َ َ .31
ش ْیئًا أَتَعَلَّمهٗ َوأ َ ْح ِملهٗ َویَ ْن َفع ِني َو َالاس ،فَقَا َل :أَ َال ت ْع ِط ْی ِني َ وسلم َوھ َو قَا ِعد َو ِع ْندَ ٗہ خ َْلق ِمنَ النَّ ِ
ع ْوہ ،فَإِنَّ َما َیسْأَل ي صلی هللا علیه وآله وسلم :دَ َ س ،فَقَا َل النَّ ِب ُّ ک؟ فَقَا َل النَّاسَ :مهْ ،ا ِْج ِل ْ َیض ُّر َ
ک؟ قَا َل :أ َ َخذَ ي شَیئ کَانَ أ َ َّو َل أ َ ْم ِر نب َّوتِ َ س ،قَا َل :أ َ ُّ الرجل ِل َی ْعلَ َم ،قَا َل :فَا َٔ ْف َرج ْوا لَهٗ َ ،حتّٰی َجلَ َ َّ
تـ َالَ { :واِ ْذ ا َ َخ ْذنَا ِمنَ النَّ ِبیِیْنَ ِم ْیثَاقَه ْم هللا ِم ِني ْال ِم ْیثَاقَ َ ،ک َما أ َ َخذَ ِمنَ النَّبِ ِییْنَ ِم ْیثَاقَه ْم .ث َّم َ
ظا} سی ب ِْن َم ْر َی َم َوا َ َخ ْذنَا ِم ْنه ْم ِم ْیثَاقًا َغ ِل ْی ً سی َو ِع ْی َ ک َو ِم ْن ن ْوح َو ِإب َْرا ِھی َْم َوم ْو َ َو ِم ْن َ
ت أ ُّم َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله ي ْال َم ِسیْح بْن َم ْریَ َم۔ َو َرأ َ ْ ]األحزابَ [7 :33 ،وبَ َّ
ش َر ِب َ
ت لَهٗ قص ْور ال َّ
ش ِام. ضا َء ْ َام َها أَنَّهٗ خ ََر َج ِم ْن َبی ِْن ِر ْجلَ ْی َها ِس َراج أَ َ وسلم فِي َمن ِ
اصم. ع ِ ي َوابْن أ َ ِبي َ َر َواہ َّ
الطبَ َرانِ ُّ
ضا في مسند الشامیین،
أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر ،333/22 ،الرقم ،835 :وأی ً
،98/2الرقم ،984 :وابن أبي عاصم في األحاد والمثاني ،397/4 ،الرقم،2446 :
والسیوطي في الخصائص الکبری ،8/1 ،والهیثمي في مجمع الزوائد ،224/8 ،وابن
کثیر في البدایة والنهایة.323/2 ،
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص
حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم اس وقت تشریف فرما تهے اور آپ کے پاس بہت سے لوگ
بیٹهے ہوئے تهے۔ اس اعرابی نے عرض کیا( :یا رسول هللا!) کیا آپ مجهے کوئی
ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکهوں اور اسے سنبهالے رکهوں اور
وہ مجهے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ لوگوں نے اسے کہا:
ٹهہرو ،بیٹه جاؤ۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اِسے
چهوڑ دو ،بے شک آدمی جاننے کے لیے ہی سوال کرتا ہے۔ پهر آپ صلی هللا علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :اِس کے لیے (بیٹهنے کی) جگہ بناؤ۔ یہاں تک کہ وہ بیٹه گیا۔
اس نے عرض کیا :یا رسول هللا! آپ کی نبوت کا سب سے پہال معاملہ کیا تها؟ آپ
تعالی نے مجه سے میثاق لیا جیسا کہ دیگر
ٰ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :هللا
انبیاء کرام علیہم السالم سے ان کا میثاق لیا۔ پهر آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے یہ
آیت مبارکہ پڑھی{ :اور (اے حبیب! یاد کیجیے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ
رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی
بن مریم ( علیہما السالم ) سے اور ہم نے ان سے نہایت پختہ عہد لیا۔} آپ صلی هللا
عیسی بن مریم علیہما السالم نے میری بشارت دی۔
ٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اور
اور رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکها
بدن اَطہر سے
ت مبارکہ کے وقت) ان کے ِ
(کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم والد ِ
ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محالت تک روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
ش ِهدْت ِآمنَةَ تَ : اص رضی هللا عنه قَا َل :أ َ ْخبَ َرتْنِي أ ِمي قَالَ ْ ع ْن عثْ َمانَ ب ِْن أ َ ِبي ْالعَ ِ َ .32
ْ
ض َر َب َها ال َمخَاض ت َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم ،فَلَ َّما َ رضی هللا عنها لَ َّما و ِلدَ ْ
ي۔ فَ َل َّما َولَدَتْه َخ َر َج ظ ْرت ِإلَی النُّج ْو ِم تَن ََّزل (وفي روایة :تَدَلّٰی) َحتّٰی ِإنِي أَق ْول :لَت َ َقعَ َّن َ
علَ َّ نَ َ
ضا َء لَه ْال َبیْت الَّذِي ن َْحن ِف ْی ِه َوالدَّارَ ،ف َما شَیئ أَ ْنظر ِإلَ ْی ِه ِإ َّال ن ْور. ِم ْن َها ن ْور أ َ َ
اصم َوأَب ْو ن َعیْم. ي َوابْن أ َ ِبي َ
ع ِ َر َواہ َّ
الطبَ َرانِ ُّ
أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر ،147،186/25 ،الرقم ،457 ،355 :وابن أبي
عاصم في اآلحاد والمثاني ،29/6 ،الرقم ،3210 :وأبو نعیم في دالئل النبوۃ،93/1 ،
والبیهقي في دالئل النبوۃ ،111/1 ،والماوردي في أعالم النبوۃ ،273/1 ،والعسقالني
ضا في اإلصابة ،259/8 ،الرقم:
في تهذیب التهذیب ،117/7 ،الرقم ،270 :وأی ً
،12163والمزي في تهذیب الکمال ،408/19 ،والهیثمي في مجمع الزوائد.220/8 ،
’’حضرت عثمان بن ابی العاص رضی هللا عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ
ت نبوی کا وقت آیا تو میں سیدہ
ان کی والدہ محترمہ نے ان سے بیان کیا :جب والد ِ
آمنہ رضی هللا عنہا کے ہاں حاضر تهی ،میں دیکه رہی تهی کہ ستارے آسمان سے
نیچے کی طرف ڈھلک کے قریب ہو رہے ہیں ،یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ
میرے اوپر آگریں گے۔ اور سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا کے جسم اطہر سے ایسا نور
نکال جس سے پورا گهر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجهے ہر ایک شے
میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
اسے امام طبرانی ،ابن ابی عاصم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
ع ِل ْقت ِبه ،تَ ْعنِي َرس ْو َل تَ :لقَ ْد َ ت َو ْھب قَا َل ْ ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما أ َ َّن ِآمنَةَ ِب ْن َ َ .33
ص َل ِمنِي خ ََر َجض ْعتهٗ ،فَلَ َّما فَ َشقَّةً َحتّٰی َو َ هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم ،فَ َما َو َجدْت لَهٗ َم َ
ق َو ْال َم ْغ ِر ِ
ب. ضا َء لَهٗ َما َبیْنَ ْال َم ْش ِر ِ
َم َعهٗ ن ْور أ َ َ
ش ِام َوأَس َْواق َهاَ ،حتّٰی أ َ ْعنَاق ا ْ
إلبِ ِل ت لَهٗ قص ْور ال َّ وفي روایةَ :وخ ََر َج َمعَهٗ ن ْور أ َ َ
ضائ َ ْ
ص ٰری.ِبب ْ
سا ِک َر َوابْن َک ِثیْر. ع َ س ْعد َوابْن َ َر َواہ ابْن َ
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری ،102 ،98/1 ،وابن عساکر في تاریخ مدینة
دمشق ،79/3 ،وابن کثیر في البدایة والنهایة ،264/2 ،وابن الجوزي في صفوۃ
الصفوۃ ،52/1 ،والسیوطي في الخصائص الکبری ،72،79/1 ،والحلبي في إنسان
العیون.80/1 ،
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ آمنہ بنت وہب
رضی هللا عنہا بیان فرماتی ہیں :جب میں رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے
گراں بار ہوئی ،تو مجهے ایسی کوئی دِقت پیش نہ آئی (جو عام طور پر عورتوں کو
حمل کے دوران پیش آتی ہے) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو
جنم دیا۔ پس جب آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے جسم سے جدا ہوئے تو ان کے
ساته ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے مشرق و مغرب روشن ہو گئے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کے ساته ہی
ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے شام کے محالت اور بازار روشن ہوگئے حتی کہ
بصری میں (چلنے والے) اونٹوں کی گردنینبهی (میرے سامنے) نمودار ہوگئیں۔‘‘
ٰ
اسے امام ابن سعد ،ابن عساکر اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔
ع ِن اب ِْن ْالقَب ِْطیَّ ِة فِي َمو ِل ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه وآله وسلم :قَا َل :قَالَ ْ
ت أ ُّمهٗ .34وفي روایةَ :
ت لَه ْاال َْٔرض. صلی هللا علیه وآله وسلمَ :رأَیْت کَأ َ َّن ِش َهابًا خ ََر َج ِم ِني أ َ َ
ضا َء ْ
س ْعد.
َر َواہ ابْن َ
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری ،102/1 ،والسیوطي في الخصائص الکبری،
.79/1
’’حضرت ابن قبطیہ سے حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت پاک
کے حوالے سے روایت ہے کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے
فرمایا( :آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی والدت کے وقت) میں نے مشاہدہ کیا ،گویا
کہ ایک روشن ستارہ میرے جسم سے نکال ہے جس سے ساری زمین روشن ہو
گئی۔‘‘
’’حضرت ابو عجفاء بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
جسم اقدس
ِ نے فرمایا :میری والدت کے وقت میری والدہ ماجدہ نے دیکها کہ ان کے
بصری کے محالت روشن ہو گئے۔‘‘
ٰ سے ایک نور نمودار ہوا ہے ،جس سے
’’حضرت ابو جعفر بن محمد بن علی رضوان هللا علیہم اجمعین سے روایت ہے ،وہ
بیان کرتے ہیں سیدہ آمنہ رضی هللا عنہا کو -جب وہ رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم سے گراں بار تهیں -حکم دیا گیا کہ اپنے ہونے والے بچے کا نام ’اَحمد‘
رکهیں۔‘‘
أخرجه أبو نعیم في دالئل النبوۃ ،136/1 ،الرقم ،77 :والسیوطي في الخصائص
الکبری.80/1 ،
’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی هللا عنہ اپنی والدہ محترمہ حضرت شفاء بنت
عمرو رضی هللا عنہا سے روایت کرتے ہیں ،وہ بیان کرتی ہیں :جب حضرت آمنہ
رضی هللا عنہا نے حضرت محمد مصطفی صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو آپ
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میرے ہاتهوں پر رونق افروز ہوئے اور کچه گریہ کیا۔ میں
تعالی آپ پر رحمتوں کی برسات کرے۔ حضرت
ٰ نے سنا کہ کوئی کہہ رہا تها :هللا
شفاء فرماتی ہیں :اس وقت مجه پر مشرق سے مغرب تک ساری زمین روشن ہوگئی
حتی کہ میں نے شام کے بعض محالت دیکه لیے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ پهر میں
نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو لباس پہنایا اور بستر پر لٹا دیا ،کچه ہی لمحوں
بعد مجه پر تاریکی ،رعب اور لرزہ طاری ہو گیا۔ پهر میری دائیں طرف روشنی
ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی :تم انہیں کہاں لے گئے تهے؟ اس نے جواب
دیا :مغرب کی طرف۔ اب پهرمجه پر بائیں طرف سے رعب و خوف طاری ہوا ،پهر
روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی :تم انہیں کہاں لے گئے تهے؟ اس نے
جواب دیا کہ مشرق کی طرف ،اب ان کا ذکر وہاں سے کبهی ختم نہ ہوگا۔ حضرت
تعالی نے اپنے
ٰ شفاء فرماتی ہیں :یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل میں تازہ رہا تا آنکہ هللا
رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو بعثت سے سرفراز فرمایا اور میں سب سے پہلے
اسالم النے والوں میں سے تهی۔‘‘
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی هللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو
طالب سے سنا۔ وہ بیان کرتے تهے :جب حضرت آمنہ رضی هللا عنہا نے حضور
نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے ج ِد
امجد حضرت عبد المطلب تشریف الئے اور آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو اٹهایا،
ماتهے پر بوسہ دیا ،پهر حضرت ابو طالب کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا :یہ
تمہارے پاس میری امانت ہے ،میرے اس بیٹے کی بہت بڑی شان ہوگی۔ پهر
حضرت عبد المطلب نے اونٹ اور بکریاں ذبح کروائیں اور تمام اہل مکہ کی تین دن
تک ضیافت کی۔ پهر مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے ہر راستہ پر اونٹ ذبح کروا
کے رکه دیے جن سے تمام انسانوں ،جانوروں او رپرندوں کو گوشت لینے کی
اجازت تهی۔‘‘
اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
ت َح ْم ِل النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه ع ِن اب ِْن َعبَّاس رضی هللا عنهما َقا َلَ :فکَانَ ِم ْن دَ َال َال ِ َ .39
ت :ح ِم َل ِب َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا ک اللَّ ْیلَةََ ،وقَالَ ْ ت تِ ْل َ طقَ ْ َت ِلق َریْش َن َ وآله وسلم ا ََّٔن ک َّل دَابَّة کَان ْ
ب ْال َک ْعبَ ِةَ ،وھ َو أَ َمان الدُّ ْنیَا َو ِس َراج أَ ْھ ِل َهاَ ،ولَ ْم یَبْقَ کَا ِھنَة ِم ْن ق َریْش علیه وآله وسلم َو َر ِ
س ِریْر ْ ْ
ع ِعلم ال َک َهنَ ِةَ ،ولَ ْم َیک ْن َ اح َب ِت َهاَ ،وا ْنت ِز َ
ص ِ ع ْن َ ت َ ب ِإ َّال ح ِج َب ْ َو َال َق ِب ْیلَة ِم ْن قَ َبائِ ِل ْال َع َر ِ
تکَ ،و َم َّر ْ سا َال یَ ْن ِطق َی ْو َمهٗ ذَا ِل َ ساَ ،و ْال َم ِلک م ْخ َر ً صبَ َح َم ْنک ْو ً ک الدُّ ْنیَا إِ َّال أَ َْم ِلک ِم ْن مل ْو ِ
ضاک ْال ِب َحار ی َب ِشر َب ْعضه ْم َب ْع ً َاراتَِ ،و َکذَا ِل َ ب ِب ْال ِبش َ ق ِإلی وح ْو ِش ْال َم ْغ ِر ِ ٰ وح ْوش ْال َم ْش ِر ِ
اء :ا َْٔن أَ ْبشِر ْوا فَقَ ْد آنَ ِ َٔ
ال ِبي س َم ِ
ض َو ِندَائ فِي ال َّ ش ْهر ِم ْن شه ْو ِرہ ،نِدَائ فِي ْاال َْٔر ِ ِبهِ ،في ک ِل َ
ار ًکا.ض َمیْم ْونًا مبَ َ ْالقَا ِس ِم ا َْٔن یَ ْخر َج إِلَی ْاال َْٔر ِ
ککَ ،وذَا ِل َ ش ِد ْیدَۃ ً َوا َْٔم ًرا َع ِظ ْی ًما ،فَ َهالَ ِني ذَا ِل َس ِم ْعت َو َجبَةً َ ت ِآمنَة رضی هللا عنها :فَ َ قَالَ ْ
ع ِني ک ُّل رعْب، َب َ ع ٰلی ف َؤادِي فَذَھ َ س َح َ ض قَ ْد َم َ طیْر أَ ْبیَ َ االثْنَی ِْن ،فَ َرأَیْت َکا ََّٔن َجنَا َح َ یَ ْوم ْ ِ
ط ٰشی ع ْظنَ ْنت َها لَ َبنًاَ ،وک ْنت َ ضا َء َو َ ت ،فَإذَا أَنَا ِبش ْر َبة َب ْی َ َوک ُّل فَزَ ع َو َو ْجع ک ْنت ا َِٔجد ٗہ ،ث َّم ْالتَفَ ُّ
عال. ضا َء ِم ِني ن ْور َ فَتَن ََاو ْلت َها فَش َِربْت َها ،فَا َٔ َ
الوجبة :السقوط علی األرض .والمراد به ھنا :صوت السقوط.
ت ح ْج َرتِيَ ،منَاقِیْرھَا َط ْ ت ِم ْن َحیْث َال أَ ْشعر َحتّٰی غ َّ الطی ِْر قَ ْد أَ ْقبَلَ ْ طعَةً ِمنَ َّ ت :فَ َرأَیْت قِ ْ قَالَ ْ
َارقَ عتِي َمش ِ سا َ ص ْرت َ ص ِري ،فَا َٔ ْب َ ع ْن َب َ ِف ِلي َ الزم ُّردَِ ،وا َْٔج ِن َحت َها ِمنَ ْال َی َواقِ ْیتِ ،فَکش َ ِمنَ ُّ
علَم فِي قَ ،و َ علَم فِي ْال َم ْش ِر ِ عـ َالم َمضْر ْوبَاتَ ، ث أَ ْ ثـ َال َ غار َب َهاَ ،و َرأَیْت َ ض َو َم ِ ْاال َْٔر ِ
ع ٰلی َ
ظ ْه ِر ْال َک ْع َب ِة. علَم َ بَ ،و َ ْال َم ْغ ِر ِ
ظ ْرت ِإلَ ْی ِه، ط ِني د ْرت فَنَ َ ت :فَ َولَدْت م َح َّمدًا صلی هللا علیه وآله وسلم ،فَلَ َّما خ ََر َج ِم ْن َب ْ قَالَ ْ
ت ِمنَ ضا َء قَ ْد أَ ْق َبلَ ْ س َحا َبةً َب ْی َ ض ِرعِ ْالم ْبتَ ِه ِل ،ث َّم َرأَیْت َ ص َب َع ْی ِه ک َْالمت َ َ اجد قَ ْد َرفَ َع ِإ ْ س ِ فَإِذَا أَنَا ِبه َ
س ِم ْعت منَا ِدیًا یَق ْول :ط ْوف ْوا ِبم َح َّمد صلی ع ْن َو ْج ِهي۔ فَ َ ْب َ غ ِش َیتْه ،فَ ِغی َ ائ ت َ ْن ِزل َحت ّٰی َ س َم ِ ال َّ
ار کلَّ َها ِل َی ْع ِرف ْوہ بِاس ِْمه َونَ ْعتِه ض َوغ َْربِ َها َوأَد ِْخل ْوہ ْالبِ َح َ هللا علیه وآله وسلم ش َْرقَ ْاال َْٔر ِ
ي ِبه فِي زَ َمنِه، ک ِإ َّال م ِح َ احيَ ،ال َیب ْٰقی شَیئ ِمنَ ال ِش ْر ِ ي فِ ْی َها ْال َم ِ َوص ْو َرتِه َو َی ْعلَم ْوا أَنَّهٗ س ِم َ
ضا ِمنَ اللَّبَ ِن، شدَّ بَ َیا ً ْض أَ َ ب ص ْوف أَ َبی َ ت َع ْنه فِي أَس َْرعِ َو ْقت ،فَإِذَا بِه مد َْرج فِي ثَ ْو ِ ث َّم ت َ َجلَّ ْ
ضَ ،و ِإذَا ب ْ َٔ
اال ْب َی ِ ط ِ الر ْ
ث َمفَا ِت ْی َح ِمنَ اللُّؤْ ل ِؤ َّ ع ٰلی َ
ثـ َال ِ ض َ َوتَ ْحت َهٗ َح ِری َْرۃ َخض َْرائ ،قَ ْد ق ِب َ
النـب َّوۃِ۔ َر َواہ أَب ْو الریْحَِ ،و َمفَاتِیْحِ ُّ ْح ِ ص ِرَ ،و َمفَاتِی ِع ٰلی َمفَا ِتیْحِ النَّ ْ ض م َح َّمد َ قَائِل یَق ْول :قَبَ َ
ن َعیْم.
أخرجه أبو نعیم في دالئل النبوۃ610/2 ،۔ ،612الرقم ،555 :والسیوطي في الخصائص
الکبری81/1 ،۔ ،83والحلبي في إنسان العیون ،109/1 ،وابن کثیر في البدایة والنهایة،
.298/6
’’حضرت عبد هللا بن عباس رضی هللا عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم
رحم مادر میں تشریف الئے تو اس کی عالمات یہ تهیں کہ
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ِ
اس رات قریش کا ہر جانور بول اٹها اور یوں گویا ہوا :رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ
ب کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے
وسلم رحم مادر میں جلوہ گر ہو گئے ہیں اور ر ِ
امان اور اہ ِل دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں ،اس رات قریش کا ہر نجومی اور عام ِل
جنات اور عرب کا ہر قبیلہ اپنے جنوں کی مالقات سے روک دیا گیا ان کے سینوں
علم کہانت چهین لیا گیا ،دنیا کے ہر بادشاہ کا تخت اوندھا ہو گیا۔ تمام بادشاہوں
سے ِ
مہر سکوت لگ گئی اور وہ پورا دن کالم نہ کر سکے۔ مشرق و مغرب
کے لبوں پر ِ
کے جانور ایک دوسرے کے پاس جا کر اور سمندر کی مچهلیاں باہم مبارکبادیاں
دے رہی تهیں۔ پهر ہر مہینے آسمان اور زمین میں ندا کی جاتی رہی :مبارک ہو!
جب ابو القاسم ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) برکت و رحمت کے جلو میں ارض کی
طرف مبعوث ہوں گے۔
حضرت آمنہ رضی هللا عنہا فرماتی ہیں :میں نے (کوئی شے گرنے کی) ایک
زوردار آواز سنی جس سے میں ڈر گئی۔ یہ پیر کا دن تها پهر میں نے دیکها کہ
جیسے کچه پرندے ہیں جو میرے دل پر اپنے َپر مل رہے ہیں جس سے مجه پر
(چهایا) سارا رعب و خوف جاتا رہا اور درد جو پہلے محسوس ہو رہا تها جاتا رہا۔
پهر میں نے دیکها کہ میرے پاس ایک سفید سا شربت پڑا تها ،میں اسے دودھ
سمجهی۔ میں چونکہ پیاس محسوس کر رہی تهی میں نے اسے اٹها کر پی لیا تو مجه
سے ایک بلند تر نور جلوہ گر ہوا۔
آپ فرماتی ہیں :پهر میں نے دیکها کہ پرندوں کا ایک غول آیا ،میں نہیں جانتی وہ
کدھر سے آیا۔ بہرحال انہوں نے میرے حجرے کو بهر دیا ،ان کی چونچیں زمرد
کی اور پَر یاقوت کے تهے۔ پهر میری نگاہ سے حجابات اٹها دیے گئے اور میں نے
دیکها کہ تین جهنڈے دنیا پر لگے ہوئے ہیں :ایک مشرق میں ،ایک مغرب میں اور
ایک کعبہ کی چهت پر۔
آپ فرماتی ہیں :جب محمد مصطفی ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) میرے بطن سے
جلوہ گر ہوئے تو میں نے پہلو بدل کر انہیں دیکها کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
سجدے میں پڑے ہیں اور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کرنے والے کی
طرح آسمان کی طرف انگلی اٹهائے ہوئے ہیں۔ پهر میرے دیکهتے ہی دیکهتے
آسمان سے ایک سفید بادل اترا اور اس نے آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو ڈھانپ
لیا۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم میری نگاہ سے اوجهل ہو گئے تو میں نے سنا کوئی
پکارنے واال کہہ رہا تها :محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کو زمین کے مشرق و
مغرب میں ٹهہراؤ ،انہیں تمام سمندروں میں لے جاؤ تاکہ تمام اہ ِل جہاں ان کے نام،
صفات اور حلیہ مبارک سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ یہی وہ ہستی ہیں جن کا
نام دنیا میں ماحی رکها گیا ہے کیوں کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے دور میں
تمام دنیا سے شرک مٹا دیا جائے گا۔ پهر کچه ہی دیر بعد وہ بادل چهٹ گیا تو آپ
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اون کے ایک سفید کپڑے میں ،جو دودھ سے بهی سفید تر
تها ،لپٹے ہوئے پڑے تهے۔ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے نیچے سبز ریشم تها اور
آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم نے ہاته میں تروتازہ اور سفید موتی سے بنی ہوئی تین
چابیاں پکڑ رکهی تهیں اور کوئی کہنے واال کہہ رہا تها کہ محمد مصطفی ( صلی
هللا علیہ وآلہ وسلم ) نے فتح و نصرت ،ہوا اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کر لیا۔‘‘
اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
س َالم و ِلدَ لَ ْیـ ًال ،فَأَیُّ َما الصـ َالۃ َوال َّ َّ بِ :إذَا ق ْلنَا ِبأَنَّهٗ َ
علَ ْی ِه ي ِفي ْال َم َوا ِھ ِ اإل َمام ْالق ْس َ
طـ َّال ِن ُّ َوقَا َل ِ
ضل :لَ ْیلَة ْالقَد ِْر أ َ ْو لَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ أ ِجیْبِ :بأ َ َّن لَ ْیلَةَ َم ْو ِلدِہ َ
علَ ْی ِه أ َ ْف َ
ثـ َالثَة: ضل ِم ْن لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر ِم ْن وج ْوہ َ السـ َالم أ َ ْف َ الصـ َالۃ َو َّ َّ
طاۃ لَهٗ َ ،و َما أَ َحدھَا :أ َ َّن َل ْی َلةَ ْال َم ْو ِل ِد َل ْی َلة ظه ْو ِرہ صلی هللا علیه وآله وسلمَ ،ولَ ْیلَة ْالقَد ِْر م ْع َ
ع فِي ْطیَهٗ َ ،و َال نِزَ ا َ ب َما أع ِ سبَ ِ ف بِ َف ِم ْن أ َ ْج ِله أ َ ْش َرف ِم َّما شَر َ ت ْالمش َِر ِ ف ِبظه ْو ِر ذَا ِ شَر َ
ضل. َ
ار -أ ْف َ اال ْعتِ َب ِ ْ
َت لَ ْیلَة ال َم ْو ِل ِد ِ -بهٰ ذَا ْ ِ ک ،فَکَان ْ ذَا ِل َ
ت ِبظه ْو ِرہ صلی هللا ت ِبنز ْو ِل ْال َمـ َال ِئ َک ِة فِ ْی َهاَ ،ولَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد شَر َف ْ اَلثَّانِي :أ َ َّن لَ ْیلَةَ ْالقَد ِْر شَر َف ْ
علَی ت ِبه لَ ْیلَة ْالقَد ِْرَ ، ضل ِم َّم ْن شَرفَ ْ ت ِبه َل ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أ َ ْف َ علیه وآله وسلم ِف ْی َها۔ َو ِم َّم ْن شَرفَ ْ
ضل. ضی (أَي ِع ْندَ ج ْمه ْو ِر أ َ ْھ ِل السنة) فَتَک ْون لَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أ َ ْف َ صحِ ْالم ْرت َ ٰ األ َ َ
ع ٰلی أ َّم ِة م َح َّمد صلی هللا علیه وآله وسلمَ ،ولَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد اَلثَّا ِلث :لَ ْیلَة ْالقَد ِْر َوقَ َع التَّفَضُّل فِ ْی َها َ
سائِ ِر ْال َم ْوج ْودَاتِ ،فَه َو الَّذِي بَ َعثَه هللا تَعَ ٰالی َر ْح َمةً ع ٰلی َ ْف َوقَ َع التَّفَضُّل ِف ْی َها َ ش ِری ِال َّ
َت لَ ْیلَة ْال َم ْو ِل ِد أَ َ
ع َّم نَ ْف ًعا ،فَکَان ْ
َت ع ٰلی َج ِمیْعِ ْال َخـ َال ِئ ِ
قَ ،فکَان ْ ت ِب ِه ال ِن ْع َمة َ ِل ْل َعالَ ِمیْنَ ،فَ َع َّم ْ
ار. ض َل ِم ْن لَ ْیلَ ِة ْالقَد ِْر ِبهٰ ذَا ْ ِ
اال ْع ِتبَ ِ أ َ ْف َ
ذکرہ القسطالني في المواھب اللدنیة بالمنح المحمدیة ،145/1 ،وعبد الحق الدہلوي في
ما ثبت ِمن السنة في أیام السنة ،60-59/والزرقاني في شرح المواھب اللدنیة بالمنح
المحمدیة ،256-255 /1 ،والنبهاني في جواھر البحار في فضائل النبي المختار صلی
هللا علیه وآله وسلم.424/3 ،
’’امام قسطالنی ’المواہب اللدنیہ‘ میں فرماتے ہیں :جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی
ب
اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ش ِ
ب قدر؟ میں اس کے جواب میں میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم اَفضل ہے یا ش ِ
ب
کہتا ہوں کہ آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کی میالد کی رات تین وجوہ کی بناء پر ش ِ
قدر سے اَفضل ہے:
ب قدر آپ صلی ب میالد میں ہوا جب کہ ش ِ .1آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ش ِ
هللا علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئیٰ ،لہذا وہ رات جس کو آپ صلی هللا علیہ وآلہ
وسلم کے ظہور کا شرف مال اس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات
میں تشریف النے والی ہستی کے سبب سے شرف مال ،اور اِس میں کوئی نزاع
ب قدر سے افضل ہوئی۔ ب میالد ش ِ
نہیں۔ ٰلہذا اِس اِعتبار سے ش ِ
.2اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو
تعالی کے محبوب صلی هللا ٰ ب والدت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں هللا ش ِ
علیہ وآلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہ ِل سنت کے قول کے مطابق
ب میالد کو جس ہستی (یعنی حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) نے شرف بخشا ش ِ
ب قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں بلند و برتر وہ ش ِ
ب والدت ہی افضل ہے۔ اور عظمت والی ہے۔ ٰلہذا ش ِ
ب میالد کے ذریعے ت محمدیہ کو فضیلت بخشی گئی اور ش ِ ب قدر کے باعث ام ِ .3ش ِ
جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ پس حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ہی
ت رحمت تعالی نے رحمۃ للعالمین بنا کر بهیجا ،اور اِس طرح نعم ِ ٰ ہیں جنہیں هللا
ب والدت نفع رسانی میں کہیں زیادہ جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی۔ ٰلہذا ش ِ
ہے ،اور اِس اعتبار سے بهی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹهہری۔‘‘
ض َل اللَّیَا ِلي لَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله ش َوافِعِِ :إ َّن أ َ ْف َ
ض ال َّ ع ْن بَ ْع ِ ي َ اإل َمام َّ
الط َحا ِو ُّ َونَقَ َل ِ
ع َرفَةَ ،ث َّم لَ ْیلَة ْالجمعَ ِة ،ث َّم َل ْیلَة
ائ َو ْال ِم ْع َراجِ ،ث َّم لَ ْیلَة َ اإلس َْر ِ وسلم ،ث َّم لَ ْیلَة ْالقَد ِْر ،ث َّم لَ ْیلَة ِ
ش ْع َبانَ ،ث َّم َل ْیلَة ْال ِع ْیدِ.
ف ِم ْن َ ص ِ
النِ ْ
ذکرہ ابن عابدین في رد المحتار علی در المختار علی تنویر االٔبصار،511/2 ،
والشرواني في حاشیة علی تحفة المحتاج بشرح المنهاج ،405/2 ،والنبہاني في جواھر
البحار في فضائل النبي المختار صلی هللا علیه وآله وسلم.426/3 ،
ب
’’امام طحاوی بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں :راتوں میں سے افضل ترین ش ِ
ب اِسراء و معراج،
ب قدر ،پهر ش ِ
میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ہے ،پهر ش ِ
ب عید
ب جمعہ ،پهر شعبان کی پندرہویں شب اور پهر ش ِ
ب عرفہ ،پهر ش ِ
پهر ش ِ
ہے۔‘‘
ي فِي األ َ ْن َو ِار ْالم َح َّم ِدیَّ ِة (صَ :)28/ولَ ْیلَة َم ْو ِلدِہ صلی هللا علیه وآله اإل َمام النَّ ْب َها ِن ُّ
َوقَا َل ِ
ضل ِم ْن َل ْیلَ ِة ْالقَد ِْر. وسلم أ َ ْف َ
’’امام نبہانی اپنی مشہور تصنیف ’االٔنوار المحمدیة من المواھب اللدنیة (ص:
ب قدر سے
ب میال ِد رسول صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ش ِ
‘)28میں لکهتے ہیں :اور ش ِ
افضل ہے۔‘‘
ب ْال َح ِد ْی ِ
ث َوال ِس َی ِر طلَحِ ’ ْال ِم ْیـ َال ِد‘ ِفي کت ِ
ص َ
اِ ْس ِت ْع َمال م ْ
ي فِي س َننِه بَابًا ع ْن َوانهٗ َ :ما َجا َء فِي ِم ْیـ َال ِد النَّ ِبي ِ صلی هللا علیه اإل َمام التِ ْر ِم ِذ ُّ عقَدَ ِ َوقَ ْد َ
وآله وسلم:
ع ْن قَی ِْس ب ِْن َم ْخ َر َمةَ رضی هللا عنه قَا َل :و ِلدْت أَنَا َو َرس ْول هللاِ ي َ َ .40و َر َوی التِ ْر ِم ِذ ُّ
اث بْنَعفَّانَ رضی هللا عنه قبَ َ سأ َ َل عثْ َمان بْن َ ام ْال ِف ْی ِل قَا َلَ :و َع َصلی هللا علیه وآله وسلم َ
ت أ ْک َبر أ ْم َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم؟ فَقَا َل: َ َ أ َ ْش َی َم أَخَا َبنِي َی ْع َم َر ب ِْن لَیْث أ أ ْن َ
َ َ
َرس ْول هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم أ َ ْکبَر ِم ِني َوأَنَا أ َ ْقدَم ِم ْنه ِفي ْال ِم ْیـ َال ِد.
سن غ َِریْب. يٰ :ھذَا َح ِدیْث َح َ يَ .وقَا َل التِ ْر ِم ِذ ُّ ي َو ْال َحا ِکم َو َّ
الط َب َرانِ ُّ ي َو َّ
الط َحا ِو ُّ َر َواہ التِ ْر ِم ِذ ُّ
:40أخرجه الترمذي في السنن ،کتاب المناقب ،باب ما جاء في میالد النبي صلی هللا
علیه وآله وسلم ،589/5 ،الرقم ،3619 :وأخرج المحدثون ھذا الحدیث بأسانیدھم منهم:
الطحاوي في شرح مشکل اآلثار ،217/15 ،الرقم ،5969 :والحاکم في المستدرک،
،724/3الرقم ،6624 :والطبراني في المعجم الکبیر ،37/19 ،الرقم ،75 :وابن أبي
عاصم في اآلحاد والمثاني ،407/1 ،الرقم ،927 ،566 :والطبري في تاریخ األمم
والملوک ،453/1 ،والبیهقي في دالئل النبوۃ ،77/1 ،وابن کثیر في البدایة والنهایة/2 ،
.217-216
ب اَحادیث و سیر میں اِصطالحِ میالد کا اِستعمال
کت ِ
اِمام ترمذی نے اپنی السنن میں کتاب المناقب کا (دوسرا) باب ہی ما جاء في میالد
النبي صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں:
’’حضرت قیس بن مخرمہ رضی هللا عنہ سے مروی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں
اور رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان بن
عفان رضی هللا عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بهائی قباث بن اشیم سے پوچها :آپ
بڑے ہیں یا رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں؟ انہوں نے کہا :رسول هللا
صلی هللا علیہ وآلہ وسلم مجه سے بڑے ہیں اور میں میالد (یعنی پیدائش) میں ان
سے پہلے ہوں۔‘‘
اسے امام ترمذی ،طحاوی ،حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے
فرمایا :یہ حدیث حسن غریب ہے۔
ت ق َریْش َرس ْو َل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم طلَبَ ْ
صهٗ َ :و َ س ْعد فِي َّ
الطبَقَا ِ
ت َما نَ ُّ َوذَک ََر ابْن َ
علَ ْی ِه ْال َع ْنکَب ْو َ
ت قَ ْب َل ِم ْیـ َال ِد ب ْالغ ِ
َار ،فَقَا َل َب ْعضه ْمِ :إ َّن َ ب َحتَّی ا ْنتَ َه ْوا ِإ ٰلی َبا ِ شدَّ َّ
الطلَ ِ أَ َ
م َح َّمد (صلی هللا علیه وآله وسلم) فَا ْن َ
ص َرف ْوا.
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری ،228 /1 ،والسیوطي في کفایة الطالب اللبیب في
خصائص الحبیب.305 /1 ،
امام ابن سعد نے ا َ َّ
لطبَقَات میں روایت بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں:
’’قریش نے رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کو بہت شدت سے تالش کیا یہاں تک
غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ تو ان میں سے بعض نے
کہ تالش کرتے کرتے ِ
کہا :اِس کے منہ پر تو محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کے میالد (پیدائش) سے
بهی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جاال ہے۔ سو (یہ دیکه کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘
َار ،قَا َل قَا ِئل ِم ْنه ْم :ادْخلو ْالغ َ
َار۔ فَقَا َل أ َمیَّة بْن َخلَف: وفي روایة :فَلَ َّما ا ْنت َ َه ْوا إِ ٰلی فَ ِم ْالغ ِ
َو َما أ َ َر ِبک ْم أَي َحا َجتک ْم ِإلَی ْالغ ِ
َار؟ أ َ َّن َ
علَ ْی ِه َل َع ْنکَب ْوتًا کَانَ قَ ْب َل ِم ْیـ َال ِد م َح َّمد (صلی هللا
علیه وآله وسلم).
ذکرہ الحلبي في إنسان العیون في سیرۃ االٔمین المامون ،209/2 ،والکالعي في االکتفاء
بما تضمنہ من مغازي رسول هللا صلی هللا علیه وآله وسلم ،339/1 ،والسیوطي فیکفایة
الطالب اللبیب في خصائص الحبیب.306/1 ،
قریش مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو ان میں سے کسی نے کہا :غار میں
ِ ’’جب
داخل ہو جاؤ۔ اِس پر امیہ بن خلف نے کہا :تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے
منہ پر تو محمد ( صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ) کے میالد (پیدائش) سے بهی قبل کا
مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘
سی ب ِْن عبَّاس رضی هللا عنهما قال :کَانَ بَیْنَ م ْو َ ع ِن اب ِْن َ
ت‘َ : س ْعد فِي ’ َّ
الطبَ َقا ِ َوذَک ََر ابْن َ
سنَة َولَ ْم تَک ْن َب ْینَه َما فَت َ َرۃ، سنَة َوتِسْع ِمائ َ ِة َسی ب ِْن َم ْریَ َم علیهم السالم أ َ ْلف َ ِع ْم َرانَ َو ِع ْی َ
غی ِْر ِھ ْمَ ،وکَانَ َبیْنَ ْ َ
َو ِإنَّهٗ أ ْر ِس َل َب ْینَه َما ألف َن ِبي ِم ْن َبنِي ِإس َْرائِ ْی َل ِس ٰوی َم ْن أ ْر ِس َل ِم ْن َ
سنَةً.
سنَة َوتِسْع َّو ِست ُّ ْونَ َ ِم ْیـ َال ِد ِع ْیسٰ ی َوالنَّبِي ِ علیهما السالم ،خ َْمس ِمائ َ ِة َ
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری ،53/1،والطبري في تاریخ االٔمم والملوک،
،495/1والقرطبي في الجامع الٔحکام القرآن.122/6 ،
’’امام ابن سعد ا َ َّ
لط َبقَا ِ
ت میں روایت بیان کرتے ہیں :حضرت عبد هللا بن عباس رضی
عیسی بن مریم علیہم
ٰ موسی بن عمران اور
ٰ هللا عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضرت
السالم کے درمیان 1900سال کا عرصہ ہے اور ان دونوں کے درمیان زمانہ فترت
(جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ ان دونوں کے اِس عرصہ
نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بهیجے گئے ،ان کے عالوہ
عیسی اور حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم
ٰ بهیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میال ِد
(کی بعثت) کا درمیانی عرصہ 569سال بنتا ہیں۔‘‘
سنَةًَ ،وکَانَ أ َ ْقدَ َم فِي
ع َّمارَ ،ر ِح َمه هللاَ ،وھ َو ابْن إِ ْح ٰدی َوتِ ْس ِعیْنَ َ
َوقَا َل ابْن َع ْون :قتِ َل َ
ْال ِم ْیـ َال ِد ِم ْن َرس ْو ِل هللاِ صلی هللا علیه وآله وسلم.
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری ،259/3 ،وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق،
،471/43والمزي في تهذیب الکمال في أسماء الرجال.224/21 ،
’’امام ابن عون بیان فرماتے ہیں :حضرت عمار رضی هللا عنہ 91سال کی عمر میں
شہید کیے گئے اور وہ میالد میں حضور نبی اکرم صلی هللا علیہ وآلہ وسلم سے
پہلے تهے۔‘‘
لفظ میالد کی اَصل ( )originکے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹهایا
ِ
جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میالد ایسا
لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند مینمستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔
دراصل اردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیر ٔہ اَلفاظ میں عربی ،فارسی اور
دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اردو میں ولد ،والد ،والدہ ،مولود ،میالد،
مولد اور متولد تمام عربی االصل الفاظ ہیں۔ میالد عربی لفظ ہے جسے امام محمد بن
سعد (168-230ھ) ،امام ترمذی (210-279ھ) ،امام ابن جریر طبری (224-310ھ)،
حافظ ابن کثیر (701-774ھ) ،امام سیوطی (849-911ھ) اور حافظ عسقالنی (-773
مورخین اور اَصحا ِ
ب سیر نے اِستعمال کیا 852ھ) سمیت متعدد مفسرین ،محدثینٔ ،
ہے۔
اَئمہ لغت نے بهی لفظ میالد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔
1۔ ابن منظور افریقی (630-711ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (660ھ کے بعد فوت
ہوئے) ،مرتضی زبیدی (1145-1205ھ) اور عالمہ جوہری فرماتے ہیں:
الرج ِل :اِسْم ْال َو ْق ِ
ت الَّذِي و ِلدَ فِ ْی ِه. َو ِم ْیـ َالد َّ
ابن منظور ،لسان العرب468 :3 ، .1
رازی ،مختار الصحاح422 : .2
زبیدی ،تاج العروس من جواھر القاموس327 :5 ، .3
جوھری ،الصحاح فی اللغة والعلوم713 :2 ، .4
’’اور اِنسان کا میالد اس وقت کا نام ہے جس میں اس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘
2۔ لغت کی معروف کتب ’المعجم الوسیط ( ‘)1056 :2اور ’تاج العروس من جواہر
القاموس ( ‘)327 :5میں ہے:
ا َ ْل ِم ْیـ َالدَ :و ْقت ْال ِو َالدَۃِ.
ت والدت ہے۔‘‘
’’میالد سے مراد وق ِ
مصادر التخریج
.1القرآن الحکیم.
.2ابراھیم مصطفی ،المعجم الوسیط ،بیروت ،لبنان ،داراحیاء التراث العربی 1956ء.
.3ابن اثیر ،ابو الحسن علی بن محمد بن عبد الکریم (555-630ہ) .أسد الغابة في
معرفة الصحابة .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه.
.4احمد بن حنبل ،ابو عبد هللا بن محمد (164-241ہ855-780/ء) .المسند .بیروت،
لبنان :المکتب االسالمی1398 ،ہ1978/ء.
.5ابن اسحاق ،محمد بن اسحاق بن یسار85-151( ،ہ) .السیرۃ النبویة .معهد الدراسات
واالبحاث للتعریب.
.6ابن اسحاق ،اسماعیل بن اسحاق المالکی (199-282ہ) .فضل الصالۃ علی
النبي صلی هللا علیه وآله وسلم .مدینه منورہ ،سعودی عرب :دار المدینه المنورہ،
1421ہ2000/ء.
.7بخاری ،ابو عبد هللا محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیرہ (256-194ہ.810 /
870ء) .التاریخ الصغیر .بیروت ،لبنان :دار المعرفه1406 ،ہ1986/ء.
.8بخاری ،ابو عبد هللا محمد بن إسماعیل بن إبراھیم بن مغیرہ (256-194ہ-810 /
870ء) .التاریخ الکبیر .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه.
.9بخاری ،ابو عبد هللا محمد بن اسماعیل بن إبراھیم بن مغیرہ (256-194ہ-810 /
870ء) .الصحیح .بیروت ،لبنان +دمشق ،شام :دار القلم1401 ،ہ1981 /ء.
بزار ،ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بصری (210-292ہ) .المسند .10
بیروت ،لبنان1409 :ہ.
بغوی ،ابو محمد بن فراء حسین بن مسعود بن محمد (516-436ہ-1044/ .11
1122ء) .شرح السنة .بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1403 ،ہ1983 /ء.
موسی (384-458ہ). ٰ بیهقی ،ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبد هللا بن .12
دالئل النبوۃ .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1405 ،ہ1985/ء.
بیهقی ،ابو بکر احمد بن حسین بن علی (384-458ہ) .السنن الصغری. .13
مدینه منورہ ،سعودی عرب :مکتبة الدار1410 ،ہ1989 /ء.
بیهقی ،ابو بکر احمد بن حسین بن علی (384-458ہ) .السنن الکبری .مکه .14
مکرمه ،سعودی عرب :مکتبه دار الباز1414 ،ہ1994/ء.
بیهقی ،ابو بکر احمد بن حسین بن علی (384-458ہ) .شعب اإلیمان. .15
بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1410 ،ہ1990/ء.
بیهقی ،ابو بکر احمد بن حسین بن علی (384-458ہ) -فضائل االٔوقات -مکه .16
مکرمه ،سعودی عرب :مکتبة المنارہ1410 ،ہ1990/ء-
عیسی (210-279ہ) .السنن .بیروت ،لبنان :دار ٰ عیسی محمد بن
ٰ ترمذی ،ابو .17
الغرب االسالمی1998 ،ء.
جورقانی ،حافظ ابو عبد اهللا الحسین بن ابراھیم الهمذانی (م543ہ) .االٔباطیل .18
والمناکیر والصحاح والمشاھیر .بیروت ،لبنان :دار ابن حزم1424 ،ہ2004 /ء.
ابن جوزی ،ابو الفرج عبد الرحمن بن علی (510-579ہ) .صفوۃ الصفوۃ. .19
بیروت ،لبنان ،دارالکتب العلمیه1409 ،ہ1989/ء.
جوھری ،اسماعیل بن حماد (393ہ) .تاج اللغة وصحاح العربیة (الصحاح). .20
بیروت ،لبنان ،دارالفکر1402 ،ہ1982/ء.
حاکم ،ابو عبد هللا محمد بن عبد هللا (321-405ہ) .المستدرک علی .21
الصحیحین .مکه ،سعودی عرب :دار الباز للنشر و التوزیع.
ابن حبان ،ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان التمیمی البستی (-270 .22
354ہ) .الثقات .بیروت ،لبنان :دارالفکر1395 ،ہ.
ابن حبان ،ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270-354ہ). .23
الصحیح .بیروت ،لبنان :مؤسسة الرساله1414 ،ہ1993/ء.
ابن حجر عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد (773-852ہ1449-1372/ء). .24
اإلصابة في تمییز الصحابة .بیروت ،لبنان :دار الجیل1412 ،ہ.
ابن حجر عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد (773-852ہ1449-1372/ء). .25
تهذیب التهذیب .بیروت ،لبنان :دارالفکر1404 ،ہ1984/ء.
ابن حجر عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد (773-852ہ1449-1372/ء). .26
تلخیص الحبیر في أحادیث الرافعي الکبیر .مدینه منورہ ،سعودی عرب1384 ،ہ.
ابن حجر عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد (773-852ہ1449-1372/ء). .27
فتح الباري .الھور ،پاکستان :دار نشر الکتب االسالمیه1401 ،ہ.
حلبی ،نور الدین علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر بن برھان الدین .28
حلبی قاھری شافعی (975-1044ہ) .إنسان العیون فی سیرۃ االٔمین المامون (السیرۃ
الحلبیة) .بیروت ،لبنان ،دارالمعرفه1400 ،ہ.
ابن خزیمه ،ابو بکر محمد بن اسحاق (223-311ہ) .الصحیح .بیروت، .29
لبنان :المکتب االسالمی1390 ،ہ1970/ء.
خطابی ،حمد بن محمد بن ابراھیم الخطابی البستی (319-388ہ) .إصالح .30
غلط المحدثین .دمشق ،شام:ـ دار المأمون للتراث1407 ،ہ.
دارمی ،ابو محمد عبد هللا بن عبد الرحمن (181-255ہ) .السنن .بیروت، .31
لبنان :دار الکتاب العربی1407 ،ہ.
ابو داود ،سلیمان بن أشعث سبحستانی (202-275ہ) .السنن .بیروت ،لبنان: .32
دار الفکر1414 ،ہ1994/ء.
ذھبی ،ابو عبد اهللا شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان (673-748ہ) .سیر .33
موسسة الرساله1413 ،ہ. أعالم النبالء .بیروت ،لبنانٔ :
حنفی (660ہ) .مختار الصحاح. ؒ رازی ،محمد بن ابی بکر بن عبد القادر .34
بیروت ،لبنان ،داراحیاء التراث العربی1419 ،ہ1999/ء.
رویانی ،ابو بکر محمد بن ھارون الرویانی (307ہ) .المسند .قاھرہ ،مصر: .35
موسسه قرطبه1416 ،ہ. ٔ
زبیدی ،ابو الفیض محمد بن محمد (1145-1205ہ1791-1732/ء) .تاج .36
العروس من جواھر القاموس .بیروت ،لبنان :دار الفکر1414 ،ہ1994/ء.
زرقانی ،ابو عبد هللا محمد بن عبد الباقی بن یوسف بن احمد بن علوان .37
مصری ازھری مالکی (1055-1122ہ1710-1645/ء) .شرح المواھب اللدنیه.
بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1417 ،ہ1996/ء.
زیلعی ،ابو محمد جمال الدین عبد اهللا بن یوسف بن محمد حنفی (م762ہ). .38
نصب الرایة الٔحادیث الهدایة .مصر :دارالحدیث1357 ،ہ.
زینی دحالن ،سید احمد حسنی ھاشمی قرشی مکی (1233-1304ہ) .السیرۃ .39
موسسة الکتب الثقافیة1421 ،ہ2001/ء. النبویة .دار الفکر ٔ +
ابن سعد ،ابو عبد هللا محمد (168-230ہ) .الطبقات الکبری .بیروت ،لبنان: .40
دار بیروت للطباعه و النشر1398 ،ہ.
سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی .41
بکر بن عثمان (849-911ہ1505-1445/ء) .الحاوي للفتاوی .مصر :مطبعة
السعادۃ1378 ،ہ1959/ء.
سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی .42
بکر بن عثمان (849-911ہ1505-1445/ء) .حسن المقصد فی عمل المولد .بیروت
لبنان :دارالکتب العلمیة (1405ہ1985/ء).
سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی .43
الکبری .فیصل آباد،
ٰ بکر بن عثمان (849-911ہ1505-1445/ء) .الخصائص
پاکستان :مکتبه نوریه رضویه.
سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبد الرحمن بن ابی بکر بن محمد بن ابی .44
بکر بن عثمان (849-911ہ1505-1445/ء) .کفایة الطالب اللبیب فی خصائص
الحبیب (الخصائص الکبری) ،بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1405 ،ہ1985/ء.
شافعی،ابو عبد هللا محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع قرشی .45
(204-150ہ819-767/ء) .المسند .بیروت لبنان :دار الکتب العلمیه
شوکانی ،محمد بن علی بن محمد (م 1255ہ) .نیل االٔوطار شرح منتقی .46
االٔخبار .بیروت ،لبنان :دار الجیل1973 ،ء.
ابن ابی شیبه ،ابو بکر عبد هللا بن محمد بن إبراھیم (159-235ہ) .المصنف. .47
ریاض ،سعودی عرب :مکتبة الرشد1409 ،ہ.
صالحی ،ابو عبد هللا محمد بن یوسف بن علی بن یوسف شامی .48
الهدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی هللا علیه وآله ٰ (م942ہ1536/ء) .سبل
وسلم .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1414 ،ہ1993/ء.
طبرانی ،ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (260-360ہ) .مسند الشامیین. .49
موسسة الرساله1405 ،ہ. بیروت ،لبنانٔ :
طبرانی ،ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (260-360ہ) .المعجم االٔوسط. .50
قاھرہ ،مصر :دار الحرمین1415 ،ہ.
طبرانی ،ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (260-360ہ) .المعجم الصغیر. .51
بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1405 ،ہ1985/ء
طبرانی ،ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (260-360ہ) .المعجم الکبیر. .52
موصل ،عراق :مطبعة الزھراء الحدیثه.
طبرانی ،ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب (260-360ہ) .المعجم الکبیر. .53
قاھرہ ،مصر :مکتبه ابن تیمیه.
طبری ،ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224-310ہ) .تاریخ االٔمم .54
والملوک .بیروت ،لبنان ،دارالکتب العلمیه1407 ،ہ.
طبری ،ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224-310ہ923-839/ء) .جامع .55
البیان في تفسیر القرآن .بیروت ،لبنان :دار المعرفه1400 ،ہ1980/ء.
طبری ،ابو جعفر احمد بن عبد هللا بن محمد بن ابی بکر (694 -615ہ). .56
الریاض النضرۃ في مناقب العشرۃ .بیروت ،لبنان :دارالغرب االسالمی1996 ،ء.
طحاوی ،ابو جعفر احمد بن محمد بن سالمه بن سلمه بن عبد الملک بن سلمه .57
الثار .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه، (321-229ہ933-853/ء) .شرح معاني ا ٓ
1399ہ.
طحاوی ،ابو جعفر احمد بن محمد بن سالمه بن سلمه بن عبد الملک بن سلمه .58
(321-229ہ933-853/ء) .مشکل ا ٓ
الثار .بیروت ،لبنان :دار صادر.
ابن عابدین شامی ،محمد بن محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین .59
دمشقی (1244-1306ہ) .رد المحتار علی درالمختار .کوئٹه ،پاکستان :مکتبه
ماجدیه1399 ،ہ.
ابن ابی عاصم ،ابو بکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (-206 .60
الحاد والمثاني .ریاض ،سعودی عرب :دار الرایه1411 ،ہ1991/ء. 287ہ) .ا ٓ
ابن ابی عاصم ،ابو بکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (-206 .61
287ہ) .السنة .بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1400 ،ہ.
عبد بن حمید ،ابو محمد بن نصر الکسی (249ہ863/ء) .المسند .قاھرہ، .62
مصر :مکتبة السنه1408 ،ہ1988/ء.
ابن عبد البر ،ابو عمر یوسف بن عبد هللا (368-463ہ) .االستیعاب في .63
معرفة األصحاب .بیروت ،لبنان :دار الجیل1412 ،ہ.
ابن عبد البر ،ابو عمر یوسف بن عبد هللا (368-463ہ) .التمهید لما في .64
الموطأ من المعاني واالٔسانید .مراکش :وزارت عموم االٔوقاف1387 ،ہ.
عبد الحق محدث دھلوی ،شیخ (958-1052ہ1642-1551/ء) .مدارج .65
النبوۃ .کانپور ،بهارت :مطبع منشی نولکشور.
عبد الرزاق ،ابو بکر بن ھمام بن نافع صنعانی (126-211ہ) .المصنف. .66
بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1403 ،ہ.
عجلونی ،ابو الفداء اسماعیل بن محمد جراحی (1087-1162ہ) .کشف .67
الخفاء ومزیل اإللباس عما اشتهر من االٔحادیث علی ألسنة الناس .بیروت ،لبنان:
موسسة الرساله1405 ،ہ. ٔ
ابن عساکر ،ابو قاسم علی بن الحسن بن ھبة هللا بن عبد هللا بن حسین دمشقی .68
الشافعی (499-571ہ) .تاریخ دمشق الکبیر المعروف بـ :تاریخ ابن عساکر.
بیروت ،لبنان :دار الفکر1995 ،ء.
موسی بن احمد بن حسین بن ٰ عینی ،بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد بن .69
یوسف بن محمود (762-855ہ1451-1361/ء) .عمدۃ القاري شرح صحیح
البخاري .بیروت ،لبنان :دار الفکر1399 ،ہ1979/ء.
فاکهی ،ابو عبد هللا محمد بن اسحاق بن عباس مکی (م 272ہ885/ء) .أخبار .70
مکة في قدیم الدھر وحدیثه .بیروت ،لبنان :دار خضر1414 ،ہ.
قاضی عیاض ،ابو الفضل عیاض (476-544ہ) .الشفا بتعریف حقوق .71
ٰ
المصطفی صلی هللا علیه وآله وسلم .بیروت ،لبنان :دار الکتاب العربی.
قسطالنی ،ابوالعباس احمد بن محمد (851-923ہ) .المواھب اللدنیة بالمنح .72
المحمدیة .بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1412 ،ہ.
ابن قدامه ،ابو محمد عبداهللا بن احمد مقدسی (م620ہ) .المغني في فقه اإلمام .73
أحمد بن حنبل الشیباني .بیروت ،لبنان :دارالفکر1405 ،ہ.
یحیی بن مفرج اموی (-284 ٰ قرطبی ،ابو عبد هللا محمد بن احمد بن محمد بن .74
380ہ990-897/ء) .الجامع الٔحکام القرآن .بیروت ،لبنان :دار احیاء التراث
العربی.
کالعی ،ابی ربیع سلیمان بن موسی الکالعی االندلسی-565( ، .75
634ہ).اإلکتفاء بما تضمنه من مغازی رسول اهللا صلی هللا علیه وآله وسلم والثالثة
الخلفاء ،بیروت ،لبنان :عالم الکتاب1997 .ء.
ابن کثیر ،ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (701-774ہ) .البدایة .76
والنهایة .بیروت ،لبنان :مکتبه المعارف.
ابن کثیر ،ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (701-774ہ) .تفسیر القرآن .77
العظیم .بیروت ،لبنان :دار الفکر1401 ،ہ.
ابن ماجه ،ابو عبد اهللا محمد بن یزید قزوینی (209-273ہ) .السنن .بیروت، .78
لبنان :دار الکتب العلمیه1419 ،ہ.
مالک ،ابن انس بن مالکص بن ابی عامر بن عمرو بن حارث أصبحی (-93 .79
179ہ) .الموطأ .بیروت ،لبنان :دار احیاء التراث العربی1406 ،ہ.
ماوردی ،ابوالحسین علی بن محمد بن حبیب (370-429ہ) .أعالم النبوۃ. .80
بیروت ،لبنان :دار الکتاب العربی1987 ،ء.
مروزی ،محمد بن نصر بن الحجاج ،ابو عبداهللا (202-294ہ) .السنة. .81
بیروت ،لبنان :مؤسسة الکتب الثقافیه1408 ،ہ.
مزی ،ابو الحجاج یوسف بن زکی عبد الرحمن (654-742ہ) .تهذیب .82
موسسة الرساله1400 ،ہ. الکمال .بیروت ،لبنانٔ :
مسلم ،ابن الحجاج ابو الحسن القشیری النیسابوری (261-206ہ-821/ .83
875ء) .الصحیح .بیروت ،لبنان :دار احیاء التراث العربی.
مقدسی ،عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی (541-600ہ) .األحادیث المختارۃ. .84
مکه المکرمه ،سعودی عرب :مکتبة النهضة الحدیثیه1410 ،ہ.
ابن ملقن ،عمر بن علی االنصاری (723-804ہ) .خالصة البدر المنیر في .85
تخریج کتاب الشرح الکبیر للرافعي .ریاض ،سعودی عرب :مکتبة الرشید1410 ،ہ.
ابن منظور ،محمد بن مکرم بن علی بن احمد بن ابی قاسم بن حبقه افریقی .86
(711-630ہ1311-1232/ء) .لسان العرب .بیروت ،لبنان :دار صادر.
نبهانی ،یوسف بن اسماعیل بن یوسف (1265-1350ہ) .جواھر البحار في .87
فضائل النبي المختار صلی هللا علیه وآله وسلم .بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیه،
1419ہ1998/ء.
نبهانی ،یوسف بن اسماعیل بن یوسف (1265-1350ہ) .حجة اهللا علی .88
العالمین في معجزات سید المرسلین صلی هللا علیه وآله وسلم .فیصل آباد ،پاکستان:
مکتبه نوریه رضویه.
نسائی ،ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب (215-303ہ) .السنن .حلب ،شام: .89
مکتب المطبوعات1406 ،ہ.
نسائی ،احمد بن شعیب ،ابو عبدالرحمن (215-303ہ) .السنن الکبری. .90
بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه1411 ،ہ.
ابو نعیم ،احمد بن عبد اهللا بن احمد أصبهانی (336-430ہ) .حلیة االٔولیاء .91
وطبقات االٔصفیاء .بیروت ،لبنان :دار الکتاب العربی1405 ،ہ.
ابو نعیم ،احمد بن عبد اهللا بن احمد (336-430ہ) .دالئل النبوۃ .حیدر آباد، .92
بهارت :مجلس دائرہ معارف عثمانیه1369 ،ہ.
یحیی بن شرف (631-677ہ1278-1233/ء) .تهذیب ٰ نووی ،ابو زکریا .93
االٔسماء واللغات .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه.
وادیاشی ،محمد بن علی بن احمد اندلسی (723-804ہ) .تحفة المحتاج إلی .94
أدلة المنهاج .مکة المکرمه ،سعودی عرب :دار حراء1406 ،ہ.
ابن ھشام ،ابو محمد عبد الملک حمیری (213ہ828/ء) .السیرۃ النبویة. .95
بیروت ،لبنان :دارالحیل1411 ،ہ.
ھیثمی ،نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735-807ہ). .96
مجمع الزوائد .بیروت ،لبنان :دار الکتاب العربی1407 ،ہ.
ھیثمی ،نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735-807ہ). .97
موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان .بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیه.
یحیی (210-307ہ) .المسند .دمشق، ٰ ابو یعلی ،احمد بن علی بن مثنی بن .98
شام :دار المأمون للتراث1404 ،ہ.