You are on page 1of 11

‫شیخ االسالم امام محمد انوار ہللا فاروقی‬

‫کے ننھیالی جد‪ ‬‬


‫حضرت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری‬
‫نام ونسب‪:‬۔‬
‫ٓاپ کا اسم گرامی غالم رفاعی عرف محمدرفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن محمد تاج الدین ہے۔ سلسلہ نسب چھتیسویں‬
‫واسطے سے امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی ہللا تعالی عنہ سے ملتاہے‪  ‬اس طرح ٓاپ فاروقی‬
‫‪ ‬النسب ہیں۔‬
‫تاریخ انوارالقندہار میں ٓاپ نے اپنے حسب ونسب سے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ‬
‫تعالی عنہ کی صاحبزادی حضرت سید نا عبدہللا ابن عمر رضی ہللا تعالی عنہما ’’‪ ‬‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت سید نا امام حسن رضی ہللا‬
‫عمر کی اوالد اور حضرت سیدنا امام حسن‬ ‫سے منسوب تھیں‪ ،‬جن کی اوالدمیں سے ہم ہیں‪ ،‬اس طرح ہم حضرت سیدنا ؓ‬
‫‘‘ رضی ہللا عنہ کی ٓال سے ہیں۔‬
‫شجرہ نسب‪:‬۔‬
‫غالم رفاعی عر ف محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن قاضی محمد تاج الدین ابن قاضی عبدالملک ابن قاضی‬
‫محمد تاج الدین کالں ابن محمد قاضی کبیر ابن قاضی محمود بن قاضی کبیر بن قاضی محمود بن قاضی احمدبن شیخ محمد‬
‫بن شیخ یوسف بن زین الدین بن نورالدین بن محمد شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن شیخ اسحاق بن شیخ‬
‫مسعودبن بدر الدین بن محمد سلیمان بن شیخ شعیب بن شیخ محمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کابلی بن‬
‫محمد اسحاق بن شیخ مسعود بن عبدہللا واعظ اصغر بن عبدہللا واعظ اکبر بن ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ‬
‫ناصربن عبدہللا رضی ہللا عنہ بن حضرت سیدنا عمربن الخطاب فاروق اعظم رضی ہللا تعالی عنہ ۔‬
‫والدت باسعادت‪:‬۔‬
‫قصبہ قندہار شریف میں بتاریخ ‪۱۹‬؍ جمادی الثانی ؁‪۱۱۶۴‬ھ پنجشنبہ کی صبح بعد نماز فجر ٓاپ کی والدہ ماجدہ‬
‫جوصالحہ اور عابدہ تھیں اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت حاصل فرمائی تھیں ‪ ،‬تالوت قرٓان میں مصروف تھیںکہ ٓاپ‬
‫کی والدت باسعادت بعد ختم تالوت عمل میں ٓائی۔‬
‫واقعات والدت‪:‬۔‬
‫ٓاپ کے والدین کو ایک عرصہ تک اوالد نہ ہوئی ٓاپ کے والدبزرگو ار حضرت محمد شمس الدین ابن حضرت محمدتاج‬
‫سرہ کے نہایت‬‫الدین جومرد صالح تھے اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ میں بیعت حاصل کرچکے تھے اور حضرت مخدوم قدس ٗ‬
‫معتقد تھے۔ دھانورہ کے جاگیر دار اور قاضی بنولہ تھے۔ بہ نیت فرزند حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم‪  ‬قدس‬
‫سرہ‘کے روضہ مبارکہ کی مسجد میں معتکف تھے کہ حضرت سیدناحاجی سیاح سرور مخدوم قندہاری قدس سرہ‘ نے‬
‫عالم رویا میں ٓاپ کو بشارت دی کہ تجھے ایک فرزند باکمال وصاحب باطن تولد ہوگا‪ ،‬اور اس کا ہمارا نام رکھنا ‪،‬‬
‫چنانچہ بموجب بشارت ٓاپ کی والدئہ ماجدہ کے ایام حمل کی تکمیل کے بعد تاریخ مذکورہ پر ٓاپ کے دادا حـضرت تاج‬
‫الدین ؒ کی حویلی میں ٓاپ کی والدت ہوئی ‪ ،‬اور بموجب حکم حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ‘ ٓاپ کا‬
‫‪ ‬اسم گرامی غالم رفاعی عرف محمد رفیع الدین رکھاگیا۔‬
‫عہدطفلی‪:‬۔‬
‫بچپن ہی سے بزرگی کے عالمات چہرہ مبارک سے ظاہر تھے اور ابتداء ہی سے ٓاپ کی نسبت بطریق اویسیہ حضرت‬
‫سرہ سے قائم تھی چنانچہ حضرت مخدوم ؒ کے مزار فیض بار سے بعہد طفلی ہی‬ ‫سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس ٗ‬
‫ٓاپ بہرہ ورتھے۔ علم رویاء میں حضرت سیدنا مخدوم سرور قدس سرہ‘ نے ٓاپ کو ایک کتاب عنایت فرمائی اور مشغول‬
‫بذکر یاد مسمی فرمایا ٓاپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ان ہی دنوں سے ٓاپ کی نسبت اویسیہ جاری ہے ۔ وقتاًفوقتا ً ضروری‬
‫‪ ‬اشارات اور احکام ٓاپ کو حضرت مخدوم سرورقدس سرہ‘ کی بارگاہ سے ملتے رہے۔‬
‫کم عمری میں ایک مرتبہ جب ٓاپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کی درگاہ شریف پہنچے‬
‫تومزار مبارک سے ٓاواز ٓائی کہ یہ تمہارے کھیلنے کی عمر نہیں ہے علم حاصل کرنے کیلئےـ اورنگ ٓاباد جأو چنانچہ‬
‫‪ ‬تحصیل علم کیلئے حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کے حکم پر ٓاپ اورنگ ٓاباد تشریف لے گئے۔‬
‫تحصیل علم‪:‬۔‬
‫جامی حاصل فرمائی‪ ،‬مزید تعلیم کے حصول‬ ‫ؒ‬ ‫ابتدائی تعلیم والدبزرگواراور دیگر مقامی علمائے قندہار سے تاشرح مالئےـ‬
‫کیلئے اورنگ ٓاباد تشریف لے گئے اور حضرت سید قمرالدین اورنگ ٓابادی علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے اورنگ ٓاباد‬
‫کی خدمت میں رہ کر استفادہ فرمایا اور تاحاشیہ بیضاوی وغیرہ کی تعلیم تمام فرمائی۔ اورنگ ٓاباد میں نو(‪ )۹‬سال کی‬
‫مدت تک ٓاپ کا زمانہ طالب علمی جاری رہا۔ ویسے ٓاپ بچپن ہی سے نہایت ذکی تھے۔لیکن تحصیل علم میں ٓاپ کی‬
‫دلچسپی ویکسوئی کا یہ عالم تھا کہ روایت مشہور ہے بزمانہ طالب علمی وطن سے جو بھی خطوط ٓاپ کو موصول ہوتے‬
‫ان کو مالحظہ نہ فرماتے بلکہ محفوظ فرمادیتے تھے‪،‬ـ اس کی وجہ یہ تھی کہ خطوط پڑھنے سے وطن اور خاندان کے‬
‫حاالت وواقعات معلوم ہونے پرتعلیم سے توجہ ہٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ بزمانہ طالب علمی اورنگ ٓاباد میں جس حجرہ میں‬
‫ٓاپ نے قیام فرمایا تھا وہ ’’حجرۃ الرفیع‘‘ کے نام سے موسوم اور کچھ عرصہ پہلے تک ٓاپ کی یادگار کے طور پر باقی‬
‫تھا۔ روایت ہے کہ بزمانہ طالب علمی اورنگ ٓاباد میں اکثر ٓاپ راتوں میں تن تنہا روضہ بیگم تشریف لیجاکر اس قدر‬
‫روتے کہ صبح میں عالمت اشک زمین پر دکھائی دیتے ۔ چنانچہ مقامی لوگوں میں اس بات کی شہرت تھی۔ بسلسلہ‬
‫تحصیل علم اورنگ ٓاباد کا یہ طویل قیام ٓاپ کی سوانح میں بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت موالنا سید قمرالدین‬
‫ٓابادی کی فیض صحبت میں ٓاپ کے طویل قیام کی وجہ حضرت موصوف سے ٓاپ کوانتہائی انس وعقیدت ہوگئی‬ ‫ؒ‬ ‫اورنگ‬
‫ٓابادی اور حضرت شاہ محمد عظیم الدین بلخی علیہ‬ ‫ؒ‬ ‫تھی۔ ٓاپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت موالنا قمرالدین اورنگ‬
‫الرحمہ سے ٓاپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں نعمت پائی اور ذکر واشغال کے طریقے سیکھے اور اجازتیںحاصل فرمائیں۔‬
‫ٓاپ کی تالیف ’’وظائف الصالحین‘‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ جس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت والدی ومرشدی قبلہ‬
‫گاہی ؒکے پاس محفوظ ہے۔‪  ‬وہی زمانہ تھا کہ ٓاپ مولوی میر غالم علی ٓازاد بلگرامی کی طرزنگارش سے متاثر ہوئے ا‬
‫سکی وجہ یہ ہوئی کہ میر موصوف کو حضرت موالنا سید قمرالدین اورنگ ٓابادی علیہ الرحمہ سے نہایت نیازمندانہ ربط‬
‫ضبط حاصل تھا۔ حضرت موالناسید قمرالدین علیہ الرحمہ اور میرموصوف بیس بیس روزتک اورنگ ٓاباد کے باغات کی‬
‫سیر کے لئے جاتے تھے‪ ،‬چنانچہ ٓاپ بھی استاد محترم کی اتباع میں ساتھ رہتے ۔ اس طرح میر غالم علی ٓازاد بلگرامی‬
‫کی صحبت میں رہنے کا زیادہ اتفاق ہوتا ان کے مسلک سے متاثر ہو کرٓاپ نے بھی نثر نگار ی میں وہ ادیبانہ شان پیدا‬
‫فرمائی کہ ٓاپ کی نثرمیں انتہائی شیرینی پائی جاتی ہے۔ ٓاپ نے حضرت قاضی شیخ االسالم خاں سے عربی ودیگر علوم‬
‫کی تحصیل وتکمیل فرمائی اور یہا ں ٓاپ کو موالنا کا لقب مال۔ پھر سورت میں حضرت خیرالدین مرحوم سے بخاری‬
‫شریف اور تحقیق مسائل حق وسلوک کی تکمیل فرمائی ۔ من بعد مکہ معظمہ اورمدینہ طیبہ میں رئیس المحققین حضرت‬
‫محمد بن عبدہللا مغربی اور دیگر علماء مشائخ ومحدثین وقت کہ جو ‪ ،‬حرمین شریفین میں موجود تھے ان سے صحاح ستہ‬
‫وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عمالً استفادہ فرمایااور تجوید وقراء ت قرٓان سیکھ کر‬
‫سندحاصل فرمائی اور اپنے وقت کے متبحر عالم اوریگانہ روزگارہوئے۔ ٓاپ نے اپنی کتاب ’’انوار القندہار‘‘ میں اپنے‬
‫اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر جس طرح بزبان فارسی فرمایا ہے اس کو من عن یہاں درج کیا جاتا ہے جس سے‬
‫‪ٓ ‬اپ کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے اور ٓاپ کے اساتذہ کے اسمائے گرامی کی تفصیل بھی ملتی ہے۔‬
‫در قندہار ازسید شاہ عبدالرسول اوائل ابجد وازحضرت قبلہ گاہی قرٓان شریف وکتب فارسیہ ونوشت وخواندازشاہ محمد’’‬
‫مرحوم واخوی محمد قطب الدین مرحوم وسید چاند مرحوم گلستان وازعموی قاضی محمدسراج الدین سکندر نامہ‬
‫ب صرف ونحو وبعضے‬ ‫وابوالفضل واصالح خط ہم واز اخوی محمدبرہان الدین مرحوم ومحمد امان ہللا سلمہ ہللا تعالی کت ِ‬
‫فقہ وازمولوی مراد قندہاری ومولوی شیخ احمد بسمت نگری قدرے نحو وکتب فارسی ودراورنگ ٓاباد ازحضرت سید‬
‫مجاہد وحضرت سید نورالعلی درشرح مال سبقے چند واز میرانوارلدین اکثرشرح مال وشرح تہذیب وغیرہ رسالہ ہائے‬
‫منطق وازمولوی معین الدین بعضے ازقطبی وازمولوی قادر علی شریفی فرائض وشرح مطالع واز مولوی محمد داور ناظم‬
‫طغری‪  ‬وازمولوی محمد مراد عرفی وغیرہ وازمحمد عثمان خوشنویس اصالح خط شکستہ وازمولوی قدرت ہللا بلیغ‬
‫تخلص ناصرعلی ودوا دین اشعار وازحضرت غالم نورقدس سرہ‘ مثنوی شریف وغیرہ رسالہ علم حقائق وتسویہ ‪ ،‬قاضی‬ ‫ؔ‬
‫محب ہللا وسلم زاہدین معہ حواشی واز سیدنورالہدی ازقطبی تااین جامراد تمام کتب تحصیلی واز زبدۃالعلماء قاضی شیخ‬
‫االسالم خاں ہدایہ فقہ وحاشیہ قدیم معہ حواشی وبیضاوی شریف و دربندر مبارک سورۃ بخاری شریف وتحقیق ِمسائل حق‬
‫وسلوک ازحضرت مولوی خیرالدین مرحوم ومغفور و در مجلس مولوی میر عبدہللا ومولوی ولی ہللا مرحومین جہت‬
‫سماعت حدیث وغیرہ تیمنا ً دوچار بار حاضر گشتیم ودرمدینہ منورہ مقدسہ ازحضرت محمد بن عبدہللا المغربی ثم المدنی‬
‫درمسجد شریف نبوی بخاری شریف قرٔاۃ سند نمودہ اجازت صحاح ستہ ومشکواۃ المصابیح ومسندامام احمدبن حنبل وموطاء‬
‫امام مالک ودالئل خیرات گرفتہ شدحق تعالی تمام استاد ہائے ماراکہ ٓاسامی مبارک ایشان قلمے است و‪۱‬زہرکسے کہ گرفتہ‬
‫‘‘باشم جزائے خیردہدـ وخاتمئہ ایشاں وجمیع امت مرحومہ بخیر گرداند۔‬
‫بحیثیت مح ّدث‪:‬۔‬
‫مدینہ طیبہ میںدوران قیام ٓاپ نے اپنا درس حدیث مسجد نبوی ﷺ میں جاری فرمایا اور وہاں لوگوں نے ٓاپ سے حدیث‪ ‬‬
‫پڑھکر سندیں حاصل کیں ۔ کتاب’’ وسائل الو صول شمائل ال ّرسول‘‘مطبوعہ بیروت میںمٔولف کتاب نے سندحدیث‬
‫تحریرکی ہے۔ جوٓاپ ہی کے سلسلہ کی ہے۔ مٔولف کتاب کے شیوخ نے مدینہ منورہ میں یہ سند ٓاپ سے پڑھ کر حاصل‬
‫کی تھی‪ ،‬اسی سلسلہ سے عالمہ نبہانی جو جامعہ ازہرمیں شیخ الحدیث کے عہد ہ پر فائز رہے۔ اسی سند حدیث کے حامل‬
‫تھے(‪  )۱‬اس طرح ٓاپ کے سلسلے کی سند حدیث جامعہ ازہر سے جاری ہوئی ۔ ہندوستان کے علمائے فرنگی محل سے‬
‫حضرت عبدالباقی مہاجر فرنگی محلی کے شیوخ نے اپنے تالمذہ کو ٓاپ ہی کے سلسلہ کی سندحدیث دی ہے‪ ،‬چنانچہ‬
‫اکابر علمائے عرب وعجم ٓاپ کے‪  ‬سلسلہ کی سند حدیث کے حامل رہے۔ اوریہی وہ ٓاپ کے عظیم الشان دینی خدمات بالد‬
‫عرب وعجم میں تھے کہ جس کی وجہ ٓاپ شیخ العرب والعجم کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ٓاپ کے سلسلے کی سندحدیث‬
‫اکابرعلماء کے نزدیک ثقہ اور مرجح سمجھی گئی ہے۔ سندحدیث ٓاگے کتاب کے اس حصہ میں مذکور ہوئی ہے۔ جو‬
‫شجرہائے طریقت اسناد اور اجازت نامہ جات کیلئے مخصوص ہے۔ اگرچہ وہب وعطا کی نعمت سے بہ نسبت اویسیہ و‬
‫بہ استفادئہ روحانیت حضرت سید نا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ ٓاپ عہد طفلی ہی سے ماالمال تھے۔ لیکن کسب‬
‫‪ ‬کے راستے کو بھی ٓاپ نے نہیں چھوڑا اور علم ظاہر وعلم باطن کے حصول میںکوئی کسراٹھانہ رکھی۔‬
‫فن شعروسخن‪:‬۔‬
‫بزمانہ شباب ٓاپ مشق سخن‪  ‬فرماتے تھے۔ ٓاپ کا تخلص نطقؔ تھا۔ اورعروض میں ٓاپ کو کمال حاصل تھا۔ ٓاپ کے طبع‬
‫‪، ‬موزوں سے چند شعر جو مختلف تواریخ میں پائے گئے ‪ ،‬بطور نمونہ کالم درج ذیل ہیں‬
‫بیا بیاکہ شہید توبے دفن باقیست‬
‫برنگ شمع بفانوس در کفن باقیست‬
‫زروئے لطف بکس بوسہ دادئہ شاید‬
‫‪ ‬کہ ہمچو شبنم گل نقش بردہن باقیست‬
‫‪ ‬سپندو ارز سوز تونالہ ہا کردیم‬
‫‪ ‬سخن تمام شدو ٓاخریں سخن باقیست‬
‫یار در بردارم و مشتاق دیدارم ہنوز‬
‫میدہی اے دل چرا ازوصل ٓازارم ہنوز‪ ‬‬
‫‪ ‬خواندہ ام برلوح دل حرف تجلی کسے‬
‫محتاج تکرارم ہنوز‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬محواز خودگشتہ ام‬
‫ٰالہی بازبنماروئے ٓاں ابر وہاللی را‬
‫منور کن چوروز عیدایں غمگیں لیالی را‬
‫‪ ‬زپا مال خالئق از گراں خوابی نمیخیزد‪ ‬‬
‫فتادہ سایہ بریختم مگر تصویر قالی را‬
‫روایت ہے کہ شاعرانہ مشغلہ ٓاگے جاری نہ رہ سکا اور حضرت شیخ المشائخ ‪ ،‬وحید العصر‪ ،‬قطب الدہر ‪،‬عارف باہلل‬
‫سیدنا خواجہ رحمت ہللا (نائب رسولﷺ) قدسرہ‘ کی فیض صحبت میں ٓاپ کا ذوق ہی بدل گیا چنانچہ اس کے بعد نہ‬
‫‪ ‬صرف ٓاپ نے شعر گوئی ترک فرمادی بلکہ اپنے سابقہ سرمایہ شاعری کو بھی تلف فرمادیا۔‬
‫اخالق وعادات اوقات وحاالت‪:‬۔‬
‫ٓاپ کی طبیعت میں غیر معمولی حلم سنجیدگی اور بردباری تھی۔ فضول گوئی سے تنفر تھا اور کبھی مبالغہ ٓامیز گفتگونہ‬
‫فرماتے مریدین معتقدین کی کثرت کے باعث جیسے بھی ٓاپ کے مصروفیات ہوں گے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے لیکن اس‬
‫کے باوجو د ٓاپ کا معمول تھا کہ نصف شب کو بیدار ہو کر مسجد تشریف التے ‪ ،‬تہجد کی نماز ادافرماکر فجر تک‪ ‬‬
‫مسجدمیں مراقب تشریف فرمارہتے۔ اور پھر نمازفجرسے فارغ ہو کر اشراق تک مسجد ہی میں مراقب رہتے اور ماسویٰ‬
‫ہللا سے ٓانکھ بند رکھتے‪،‬ـ نمازاشراق کے بعد دولت خانہ کو تشریف لے جاتے اور نصف النہار تک بزرگوں کی حکایات‬
‫و روایات سنا کر حاضرین کی ضروری تربیت فرماتے ۔ پھر انکے ساتھ کچھ تناول فرماتے اور قیلولہ فرماتے پھر اول‬
‫وقت ظہر اُٹھ کر مسجد تشریف التے نمازظہرادا فرماکر نمازعشاء تک مسجد سے قدم باہر نہ نکالتے۔ بعد نماز عشاء گھر‬
‫تشریف لے جاکر حاضرین کے ساتھ کچھ تناول فرماتے ۔ ہمیشہ باوضو رہتے وضو کے بعد دورکعت تحیتہ الوضو‬
‫ادافرماتے ۔ چوبیس گھنٹے غیر حق سے ٓانکھ بند رکھتے اور دوام مراقبہ کی کیفیت رہتی ۔ ٓاپ کے مناقب میں لکھا ہے‬
‫کہ اگر (‪۱۰۰‬سو)ٓادمی ٓاپ کی مجلس میں حاضر رہتے تو تمام کو اپنی توجہ سے رجوع بہ حق فرماتے اور ان کی ٓانکھ‬
‫ؒ‬
‫سعیدواال نے اپنی کتاب’’ بحررحمت‘‘ میں لکھاہے کہ دوام مراقبہ‬ ‫غیر کے معاینہ سے بند فرماتے۔‪  ‬حضرت موالنا ابو‬
‫کی کیفیت جو خانوادئہ خواجگا ن چشت رضوان ہللا تعالی علیھم اجمعین میں ہم نے سنی ہے‪ ،‬وہی کیفیت ٓاپ کی ذات‬
‫بابرکت میں دیکھی ہے‪ ،‬اور ان ہی سے روایت ہے کہ بہ سبب نورانیت باطن چہرئہ مبارک مثل ٓافتاب چمکتا دمکتاتھا ۔‬
‫چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا امتحان لیا کہ حضرت کا روئے شریف دیکھ سکتا ہوں یا کیا لیکن خود میں وہ تاب‬
‫وتواں نہ پایا وہ مزید فرماتے ہیں کہ دیگر اشخاص بھی ٓاپ کے روئے شریف کے تعلق سے اسی طرح کہتے تھے ۔‬
‫مٔولف تاریخ ’’گلزار ٓاصفیہ ‘‘نے بھی اسی طرح لکھاہے کہ جب وہ معہ حکیم عافیت طلب خان حضرت کی قدمبوسی کا‬
‫شرف حاصل کئے تو ٓاپکاایک ایسا جمال دیکھا کہ ٓاج تک ایسا جمال نظر سے نہ گذرا اور ٓاپ بمصداق ٓایت ماھذا بشراً ان‬
‫ھذا االّ ملک کریم‪ ،‬جلوہ فرماتھے۔ ٓاپ خدمت خلق کو افضل ترین عبادت خیال فرماتے تھے۔ انتہائی خوش اخالق بامروت‬
‫اور منکسر المزاج تھے۔ کمال عجز اور فروتنی کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے کی تعظیم کے لیے جگہ سے اٹھتے۔مٔولف بحر‬
‫رحمت‪  ‬نے لکھا ہے کہ گفتگومیں ہرایک کے ساتھ الفاظ میں ایسے ٓاداب ملحوظ فرماتے کہ جو مخاطب کے مرتبہ سے‬
‫ؒ‬
‫ابوسعیدواال‬ ‫کہیں زیادہ ہوتے ۔ ٓاپ کسر نفسی اور شکستہ دلوں کی پاسداری کو تمام عبادات پر مقدم سمجھتے تھے۔ موالنا‬
‫نے لکھا ہے کہ کسی ادنی واعلی کا دل ٓاپ نے نہیںـ توڑا۔ نام ونمود شہرت وعزت سے بالکلیہ بے نیازتھے۔ ٓاپ کا‬
‫معمول تھا کہ توجہ فرماتے اس کے بعد ضمارہستی کو اٹھانے کی تربیت فرماتے ۔ اور ٓاخر زمانہ میں مقام تمکین پر‬
‫رسم توجہ کو بالکل ٓاپ نے موقوف فرمادیا تھا۔ اور اگر کوئی التجا کرتا توٓاپ اس کو اپنے خلیفہ‬
‫فائزہونے کے سبب ِ‬
‫مدار کے سپرد فرماتے لیکن ٓاخرزمانہ میں ٓاپ کا فیض صحبت بہ نسبت سابق بہت زیادہ ہوگیاتھا۔‬ ‫حضرت شیخ ؒ‬
‫باوجودکثرت عبادت وشدت ریاضت سلسلہ درس وتدریس جاری تھا اور سلسلہ تصنیف تالیف بھی جاری رہا۔ ٓاپ کی‬
‫انگشتری مبارک پر الموت خیر الواعظ یارفیع کندہ تھا۔‬
‫مرشد کامل کی طلب‪:‬۔‬
‫اورنگ ٓاباد میں علم ظاہر کی تکمیل کے بعد دستار فضیلت حاصل فرماکرحسب الطلب والدبزرگوار ٓاپ نے اپنے وطن‬
‫مالوفہ قندہار شریف مراجعت فرمائی اور کچھ مدت قندہار میں قیام کے بعدبموجب استخارہ و اشارہ حضرت سیدنا حاجی‬
‫سیاح سرور مخدوم قدس سرہ‪ ،‬مرشد کامل کی طلب میں رحمت ٓاباد شریف تشریف لے گئے اور حضرت شیخ المشائخ‬
‫وحید العصر قطب الدہر سید نا خواجہ رحمت ہللا نائب (رسول ہللا ﷺ) قدس سرہ‪ ،‬کے ٓاستان عرش ٓاشیاں پر پہنچے‬
‫حضرت ممدوح سے نیاز حاصل ہونے کے دوسرے روز حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے‪ٓ  ‬اپ سے ارشادفرمایا کہ‬
‫تمہارے بارے میں محمد علی خاںبہادر واالجاہ کو لکھ دیتاہوں خط لیکر ان کے پاس جائیں وہ ہر طرح تمہارے ساتھ‬
‫معقول سلوک کرینگے ۔ یہ سنکر ٓاپ کو نہایت رنج ہوا اور ٓاپ نے عرض کی کہ غالم کے بزرگوں نے جو معاش پیدا‬
‫کررکھی ہے وہ بندہ کے احتیاج سے زیادہ ہے لیکن اس کو اپنے حق میں حرام سمجھتا ہے اور محض تربیت باطن کی‬
‫توقع پر حسب االشارہ ہادی اشباح وارواح محمدسیاح قدس سرہ‪ٓ ،‬انجناب کے ٓاستان عرش ٓاشیاں تک خود کو پہنچایاہے۔‬
‫جو نہی ٓاپ کا معروضہ سماعت فرمایا حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے بے اختیار رونا شروع فرمایا اور ارشاد فرمایا‬
‫بارک ہللا ‪ ،‬لوگ ان دنوں ٓاتے ہیں جن میں بعض سفارش کی غرض سے اور بعض برائے اجازت عمل تسخیر اور‬
‫بعضے نسخہ کیمیاء کی طلب میں بیعت کرتے ہیں‪ ،‬چنانچہ فقیراسی طرح خیال کیا پھر حضرت سیدنا خواجہ علیہ الرحمہ‬
‫نے ٓاپکو اجازت دوگانہ رویت رسول ہللا ﷺ مرحمت فرمائی‪ ،‬اور فرمایاکہ رات میں عمل کریں۔ حقیقت واقعہ فراموش نہ‬
‫کریں اور صبح میں تفصیالً بیان کریں چنانچہ اس عمل کے بعد ٓاپ کی تفصیل جیسا کہ خود ٓاپ نے تحریر فرمائی حسب‬
‫ذیل ہے۔‬
‫خواب اوررویت النبی‪   ‬ﷺ‪:‬۔‬
‫ٓاپنے اس عمل کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک صحرائے عظیم میں تنہاہیںـ اور ایک ہولناک شخص درازقامت سیاہ‬
‫رنگ ٓاپ کا قصد کیا ہے اور ٓاپ اس سے حیران ہیں۔ ناگاہ بزرگوں کی ایک فوج اسی وقت تیزتیز ٓائی اور اس شخص‬
‫ہولناک کو اس فوج نے شمشیروں اور لکڑیوں سے مارکر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ٓاپ نے دریافت کیا کہ یہ فوج کونسی ہے‪،‬‬
‫کہنے لگے کہ یہ ٓانحضرت‪  ‬ﷺ کا جلوخاص ہے اور ٓانحضرت‪  ‬ﷺ بھی تشریف الرہے ہیں۔ جب یہ بات سنی تو ٓاپ‬
‫ومعلّے فوج کے کنارہ کھڑے ہو گئے ۔ مختلف اقسام کے بزرگ فوج درفوج‬ ‫ٰ‬ ‫نہایت خوش حال ہوگئے اور اس مبارک‬
‫گذرتے گئے ‪ ،‬ناگاہ سواری مبارک ٓانحضرت ﷺ ظاہرہوئی اور ٓانحضرت ﷺ تخت پر تشریف فرماتھے۔ اور لوگ‬
‫اطراف اس تخت کو پکڑے ہوئے تھے۔جب تخت مبارک ٓاپ کے نزدیک پہنچا ٓاپ نے ٓاداب بجاالیا اور نہایت تضرع کیا۔‬
‫ٓانحضرتﷺ نے نگاہ شفقت وتبسم ٓاپ کے حال پر مرحمت فرمایا اور ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ ٓاپ کو حضرت‬
‫عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ کے پاس لیجائیں اور تخت مبارک گذر گیا۔ ٓاپ رخصت ہو کر اس شخص کے ہمر اہ‬
‫حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ‪ ،‬کی طرف راہی ہوئے ‪ ،‬راستہ کاایک حصہ قطع کئے ایک باغ میں پہنچےـ جس‬
‫کے اوصاف خارج از احاطئہ تحریر وتقریر تھے اور درمیان باغ چبوترہ تھا بہت ہی مطبوع اور اس پر حضرت‬
‫عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ‪ ،‬تشریف فرماتھے ان کے گرد اگرد چند بزرگ مراقب حلقہ کئے ہوئے تھے۔ اور حضرت‬
‫عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ‪ ،‬کی صورت ٓاپ کو خوب یاد تھی‪ ،‬سرخ رنگ ‪ ،‬سفید ڈاڑھی ‪ ،‬میانہ قد اور گرد چہرہ‬
‫رکھتے تھے اور وہ سفید لباس میں ملبوس تھے‪،‬ـ نورانیت باطن کے سبب ٓافتاب کے مانند روشن نظرٓارہے تھے۔ ٓاپ کے‬
‫ساتھی شخص نے ٓاپ کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قریب لے جاکر کہا کہ ان کو جناب سرور عالمیان علیہ الصلواۃ والسالم‬
‫نے تمہارے پاس بھیجاہے ۔ حضرت عبدالخالق غجدوانی ؒ متوجہ ہو کر ٓاپ کو اپنے سامنے طلب فرمائے ‪ ،‬جب ٓاپ‬
‫درمیان حلقہ بزرگان مراقبین متصل حضرت عبدالخالق ؒ پہنچے‪،‬ـ باشتیاق تمام اپنے سر کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قدم‬
‫مبارک پر رکھدیئے۔ـ حضرت عبدالخالق ؒنے ٓاپ کے سر کواپنے دست مبارک سے اٹھا کر ٓاپ کو سرفرازفرمایا اور ایک‬
‫چیزارشاد فرمائی کہ جس کے اظہارکی‪  ‬اجازت نہیں تھی‪ ،‬جب بیداری کے بعد ٓاپ اس واقعہ کو حضرت مرشد کی‬
‫خدمت میں عرض کئے تو حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ تم کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بہر ہ کلی حاصل‬
‫ہوگا۔ کہ بموجب حکم جناب رسالت پناہ ﷺ جناب عبدالخالق ؒ جو رئیس نقشبندیاںہیں‪ ،‬تمہاری طرف بہت متوجہ ہیں اس‬
‫کے بعدـ اس رویت نبوی ﷺ کے طفیل میں بہت بشارت میسر ہوئی چنانچہ ٓاپ نے لکھا ہے اس کا تحریر کرنا طوالنی‬
‫‪ ‬ہے اور برائے ادائی شکروتیمن اس محل میں اسی قدر کافی ہے۔‬
‫بیعت وخالفت‪:‬۔‬
‫اس کے بعد ٓاپ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے دست حق پر ست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سلسلہ قادریہ‪ ،‬سلسلہ عالیہ‬
‫چشتیہ اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ وغیرہ میںبیعت سے مشرف ہوئے اور ایک سال تک رحمت ٓاباد میں حضرت خواجہ علیہ‬
‫الرحمہ کی خدمت میں رہ کرتمام منازل سلوک طئے فرمائے اور پھر طریقہ عالیہ قادریہ ‪ ،‬نقشبندیہ ‪ ،‬چشتیہ ‪ ،‬رفاعیہ ‪،‬‬
‫سہروردیہ ‪ ،‬شطاریہ‪ ،‬مداریہ‪ ،‬وغیرہ معہ اصول وفروعہ میں خالفت واجازت عامہ ومصافحہ حاصل فرمایا اورتمام‬
‫اشغال واعمال طرق موصوفہ میں پوری تلقین اور توجہ پاکر بہ اجازت حضرت خواجہ علیہ الرحمہ مراجعت فرمائی ۔‬
‫جہاں علم ظاہرمیں زبردست کمال حاصل تھا وہیں علم باطن میں ٓاپ کو بہرئہ کلّی حاصل ہوا۔‬
‫سفرحجازمقدس‪:‬۔‬
‫اثنائے راہ میں بعض اس فن شریف کے طلباء کی تربیت کی خاطر پانچ سال حیدرٓاباد میں قیام فرمایا اور پھر مکہ‬
‫معظمہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ فریضئہ حج وزیارت سے فارغ ہو کر تین سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور رئیس‬
‫المحققین حضرت محمد بن عبدہللا مغربی وغیرہ مشائخ ومحدثین وقت کہ جو حرمین شریفین میں موجود تھے۔ ان سے‬
‫صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عمالً استفادہ فرمایا اور تجوید وقرٔات قرٓان سیکھ‬
‫کر سند حاصل فرمائی ٓاپ نے دو دفعہ حرمین شریفین کا سفر اختیار فرمایا او رمدینہ طیبہ میں درس حدیث کاسلسلہ‬
‫جاری فرمایا تھا۔ ٓاپ کا سلسلہ طریقت بھی مدینہ طیبہ میںجاری ہو ا چنانچہ ٓاپ کے ایک خلیفہ حضرت موالنا عبدہللا مکی‬
‫علیہ الرحمہ مدینہ طیبہ میں تھے ۔ حرمین شریفین کی حاضری ٓاپ کے لئے نہایت مبارک ثابت ہوئی۔ چنانچہ شب جمعہ‬
‫حطیم کعبہ میں ٓاپ حاضر تھے کہ ٓاپ کو بشارت ہوئی اور ٓاپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک‬
‫قلمدان برٓامدہوا‪ ،‬اور ٓاپ نے بشاد مانی تمام ان دونوں کو لے لیا۔ پھرایک بزرگ نے ٓاوازدی کہ یہ کتاب اور قلمدان جناب‬
‫رسالت مٓاب ﷺ کی طرف سے تجھ کوعنایت ہواہے‪ ،‬مبارک ہو‪ ،‬چنانچہ اس بشارت کی تفصیل ٓاپ نے ثمرات المکیہ کے‬
‫مقدمہ میں تحریر فرمائی ہے۔ اس بشارت کے بعد ٓاپنے مکہ معظمہ ہی میں کتاب ’’ثمرات الم ّکیہ ‘‘ کی تالیف ٓاغاز‬
‫فرمائی او روہیں‪  ‬؁‪۱۱۹۸‬ھ میں پایہ تکمیل کوپہنچایا جو ٓاپ کے سلسلہ کی نہایت اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کے قدیم‬
‫قلمی نسخے حضرت والدی مرشدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔‬
‫مدینہ طیبہ میں نہ صرف ٓاپ کے علم ظاہر کے سلسلے جاری ہوئے بلکہ علم باطن کے سلسلے بھی پھیلے‪ ،‬چنانچہ‬
‫واقعہ مشہور ہے کہ موالناانوار ہللا خان بہادر المخاطب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ حیدرٓاباد کن ‪ٓ ،‬اپ‬
‫کے حقیقی نواسہ حضرت حافظ شجاع الدین علیہ الرحمہ کے صاحبزادہ تھے۔ جب حج وزیارت کے لئے مکہ معظمہ‬
‫ومدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں دوران قیام کسی ضیافت کے موقع پر شجرہ طریقت سننے کا اتفاق ہوااور کچھ شیوخ‬
‫کے اسمائے گرامی‪  ‬کے بعد ٓاپ کا اسم گرامی عن شیخ رفیع الدین قندہاری الدکنی پڑھا گیا جس پرموالنا انوارہللا خان‬
‫بہادرکو تعجب ہوا اور تقریب کے اختتام پر موالنا انوارہللا خان بہادر نے میزبان شیخ سے دریافت فرمایا کہ یہ سلسلہ‬
‫حضرت موالنا رفیع الدین قندہاری الدکنی قدس سرہ‪ ،‬کا یہاں کیسے پہنچا ‪ ،‬میزبان شیخ نے فرمایا ’’ہوشیخ العرب‬
‫والعجم‘‘ (وہ عرب اور عجم کے شیخ ہیں) پھر تفصیل بتالئی کہ جب حج وزیارت کے لئے ٓاکر ٓاپنے یہاں قیام فرمایا اس‬
‫وقت ٓاپ کے سلسلے یہاں پھیلے ۔ موالنا انوار ہللا خاںبہادر نے بعد واپسی حج حیدرٓاباد میں لوگوں سے یہ واقعہ تعجب‬
‫کے ساتھ بیان کیا۔‬
‫تعمیر خانقاہ شریف‪:‬۔‬
‫حرمین شریفین سے واپسی پرٓاپ نے ایک خانقاہ بنام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السالم ‪ ،‬حضرت سیدنا غوث الثقلین‬
‫اور حضرت سیدنا شاہ نقشبندـ رضوان ہللا تعالی علیھم اجمعین تعمیر کروائی۔ جس میں فقراء مساکین ‪ ،‬ومریدینـ ‪ ،‬وطلباء‪،‬‬
‫کی تعلیم وتربیت ذکرو شغل‪ ،‬قیام وطعام کی سہولت مہیا تھی ۔ ٓاج بھی یہ خانقاہ اندرون احاطہ درگاہ شریف بہ قصبہ‬
‫‪ ‬قندہار موجودہے۔‬
‫سلسلہ درس وسلسلہ رشدوہدایت‪:‬۔‬
‫تاریخی روایات کے بموجب ٓاپکے مریدین و معتقدین کی تعدادـ الکھوں تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر بھی ٓاپ کے تدریسی‬
‫ؔ‬
‫کثرت علیہ‬ ‫مشاغل جاری رہے۔ اور ٓاپ کی خانقاہ شریف سے پڑھ کر اکابر علماء نکلے جیسے حضرت موالنا امین الدین‬
‫ؔ‬
‫’’فوائدکثرت‘‘کے دیباچہ میں اپنی شاگردی کی‬ ‫الرحمہ جو ٓاپ کے شاگرد اور خلیفہ بھی تھے۔انہوں نے اپنی تصنیف‬
‫نسبت ٓاپ سے اسطرح ظاہر کی ہے ’’کہ ازٓاغاز صبح یوم التمیز تاحال کہ سنہ ثانیہ است ازقرن ثانی ازوالدماجد خود‬
‫شیر بیشہ اتقاء وبب نیستان‬
‫عندلیب بوستان طریقت ؔ‬
‫ؔ‬ ‫بہار گلشن معرفت‬
‫خصوص ازبعضے اساتذہ مالیک تالمذہ مثل ؔ‬
‫ٓاسمان سرایر ربانی شہباِزاوج فیوضات‬‫ِ‬ ‫اھتداء ‪،‬مرجع نشین ارایک فضیلت ومتکادہ چار بالش افادیت وافاضت خورشیدؔ‬
‫سبحانی‪ ،‬شمع جمیع ارباب حق ویقین‪ ،‬حضرت مولوی رفیع الدین مدہللا ظالل جالل کمالہ علی مفارق الطالبین‘‘۔‬
‫الکھوں اشخاص نے ٓاپ کی ذات بابرکات سے فیض پایا جو بھی ٓاپ کی صحبت پایا‪ ،‬درجہ کمال کو پہنچا اور جوبھی ٓاپ‬
‫کے جمال باکمال کی زیارت سے مشرف ہوا‪ ،‬وہ ٓاپ کا سایہ دار مالزم ہوا اور ٓاپ کے دامان دولت سے وابستہ رہا ‪ ،‬ہم‬
‫‪ ‬عصر بزرگوں نے ٓاپ کوشیخ وقت اور افضل المتاخرین لکھا ہے۔‬
‫سفروقیام بلدہ حیدرٓاباد‪:‬۔‬
‫دومرتبہ ٓاپ بلدہ حیدرٓاباد رونق افروز ہوئے پہلی دفعہ جب تشریف ال کر مکہ مسجد میں قیام فرمایا شہر میں ٓاپ کی‬
‫باکمال شخصیت ٓاپ کی بزرگی اور تقدس کا شہرہ ہوا ۔ الکھوں ٓادمیوںنےـ ٓاپ سے بیعت کا شرف حاصل کیا لوگوں کا اس‬
‫قدر اژدھام تھاکہ فرداً فرداً بیعت لینا محال تھا۔ چنانچہ ٓاپ نے عمامہ کا ایک سرااپنے دست مبارک میں تھام رکھا تھا اور‬
‫لوگ جو ق درجوق اس عمامہ کو چھو کر داخل سلسلہ ہورہے تھے۔ ٓاپ کے اس سفر حیدرٓاباد کا حال تواریخ میں لکھا‬
‫ہے چنانچہ ٓاپ کی ذات بابرکات کی جب کافی شہرت ہوئی تو اسکی اطالع اعظم االمراء ارسطوجاہ تک پہنچی جو اس‬
‫وقت مدار المہام تھااس نے چاہا کہ ٓاپ سے نیازحاصل کیا جائے اور ٓاپ کو اپنے گھر تشریف النے کی دعوت دی لیکن‬
‫ٓاپ نے یہ جواب دیا کہ ’’میں جس علم کا خدمت گذارہوں اس کااقتضاء یہ نہیں ہے کہ سالطین وامراء کے دروازوں پر‬
‫جبیںسائی کروں‘‘ اس جواب سے ارسطوجاہ مکدرہوگیا اور بادشاہ وقت نواب‪  ‬سکندر جاہ کو یہ عرض کروایا کہ ٓاج کل‬
‫قندہار سے ایک شاہ صاحب ٓائے ہوئے ہیں‪ ،‬انہوں نے رعایاکو اپنا اس قدگرویدہ بنالیا ہے کہ اگر چند روز ان کا شہر میں‬
‫قیام رہے تو اس کا قوی احتمال ہے کہ سیاست ملکی میں خلل واقع ہوا اس معروضہ کی بناء پر فرمان شاہی صادر ہوا کہ‬
‫مولوی صاحب اپنے وطن مالوفہ قندہار تشریف لے جائیں۔ ٓاپ نماز ظہر ادافرماکر مکہ مسجد تشریف فرماتھے۔ اور‬
‫لوگوں کازبردست اژدھام تھا‪ ،‬بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ یہ فرمان ٓاپ کو سنایا گیا معا ً ٓاپ نے کمبل کندھےـ پر ڈالی‬
‫’’ملک خدا تنگ نیست پائے گدالنگ نیست‘‘ فرمایا اور تشریف لے چلے ہزارہا اشخاص ٓاپ کے ساتھ ہوگئے جو اس‬
‫واقعہ سے نہایت متاثراور رنجیدہ تھے اور چاہتے تھے کہ ہمیشہ ٓاپکاقیام حیدرٓاباد میںہوتاکہ یہاں کے لوگ ٓاپ کے فیو‬
‫ـض وبرکات سے بہرہ ور ہوتے رہیں ‪ ،‬چنانچہ جب ٓاپ پرا نے پل کے دروازہ سے باہر تشریف لے گئے پولیس نے‬
‫اژدھام کو روکنے کے لئے پل کادروازہ بندکردیا لیکن لوگ جوش عقیدت میں فصیل پر چڑھ کر پارہوئے اور ٓاپ کے‬
‫ساتھ ہوگئے ۔ ٓاپ نے لوگوںکوسمجھایااور واپس کرنے کی کوشش فرمائی‪ ،‬حضرت حسین شاہ ولی علیہ الرحمہ کی درگاہ‬
‫شریف تک اژدھام چھٹ چھٹ کر مخصوص لوگوںتک باقی رہ گیا۔ اس درگاہ شریف میں چند دن قیام فرماکر ٓاپ‬
‫قندہارشریف تشریف لے گئے اور ادھر اچانک اعظم االمراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا۔ اور عہد ئہ مدارالمہامی کا جائزہ‬
‫میرعالم نے حاصل کیا پہالفرمان شاہی منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ ٓاپ نواب شمس االمراء بہادر امیر کبیر‬
‫خاں )کی درخواست اور بہت اصرار پر حیدرٓاباد دکن رونق افروز ہوئے اس وقت ٓاپ بوجہ ضعیف‬ ‫(نواب فخرالدین ؒ‬
‫العمری نحیف ہوچکے تھے۔ اور بصارت ظاہری میں بھی کافی فرق ٓاچکا تھا۔ دوسری مرتبہ تشریف ٓاوری کے موقع پر‬
‫جبکہ ٓاپ مقبرئہ جان علی خاں مرحوم کے باغ میں قیام فرماتھے۔ مٔولف گلزارٓاصفیہ خان زمان خان صاحب معہ حکیم‬
‫عافیت طلب خان ٓاپ کی قدمبوسی سے مشرف ہوئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب گلزار ٓاصفیہ میں کئے ہیں۔اس دوسرے‬
‫سفرمیں ٓاپ چونکہ لوگوں کے اجتماع واژدھام کو پسندنہیںـ فرماتے تھے۔ ٓاپکی قیام گاہ پر عوام کی ویسی کثرت نہ تھی‬
‫بلکہ خاص خاص لوگ ہی حاضرخدمت رہتے پھر وہاں سے نواب شمس االمراء بہادر نے ٓاپ کو شمس ٓاباد لیجا کر‬
‫ٹھیرایا‪ ،‬تمام خاندان پائیگاہ ٓاپ کے دست حق پر ست پر بیعت سے مشرف ہوا دراصل ٓاپ کے اس دوسرے سفرکی غرض‬
‫وغایت بھی یہی تھی۔اس کے بعد شمس االمراء بہادر نے شمس ٓاباد جاگیر کی سند بطور نذر ٓاپ کی خدمت میں پیش کی‬
‫جس پر ٓاپ ناراض ہوئے‪،‬ـ اور فرمایا کہ نواب تم ‪ ،‬ہم کو اللچ دیتےـ ہو‪ ،‬نواب شمس االمراء بہادر خوف زدہ ہو کر عاجزی‬
‫کے ساتھ طالب معافی ہوئے۔ٓاپ نے معاف فرمادیا اورارشادفرمایا کہ ٓایندہ ایسانہ کرنا ‪ ،‬نواب محمدفخرالدین خان شمس‬
‫وصلوۃ کے‬ ‫ٰ‬ ‫االمراء بہادر پر ٓاپ کی بہت عنایت اور شفقت تھی۔ چونکہ نواب موصوف کے بہت اچھے اوقات تھے‪ ،‬صوم‬
‫سخت پابندـ اور تہجد گذار تھے‪ ،‬ضروری ا وراد وظائف کی بھی پابندی ملحوظ رکھتے تھے۔ اپنے پیر روشن ضمیر سے‬
‫کمال اعتقاد رکھتے تھے۔ اور ایسے پیر پرست تھے کہ جب ان کو فرزند تولد ہوئے تو ان کا نام اپنے پیر روشن ضمیر‬
‫کے نام پر محمد رفیع الدین خان رکھا۔ جو بعد میں بڑے بڑے خطابات سے سرفرازہوئے۔ نواب شمس االمراء بہادر کے‬
‫تمام فرزندان نواب بدرالدین خان تمیز المخاطب رفعت جنگ معظم الدولہ معظم الملک‪ ،‬دوسرے فرزندنواب رشیدالدین خان‬
‫المخاطب اقتدار الملک ‪ ،‬نواب رفیع الدین خان المخاطب عمدۃ الملک منجھلے میاں سب کو ٓاپ سے بیعت حاصل تھی۔‬
‫امیر‪  ‬کبیر نواب محمد فخرالدین خان شمس االمراء بہادر کو ٓاپ نے خالفت واجازت سے بھی سرفراز فرمایاتھا۔ اور ایک‬
‫تسبیح مرحمت فرمائی تھی‪ ،‬جس کو شمس االمراء بہادر نے کبھی خود سے جدا نہیں کیا ان کی ہر تصویر میں ان کے‬
‫سیدھے ہاتھ میں ایک تسبیح لپٹی ہوئی نظرٓاتی ہے‪ ،‬یہ وہی تسبیح تھی جو ٓاپ نے ان کو مرحمت فرمائی تھی ۔ حیدرٓاباد‬
‫کے دوسرے سفر کی دعوت پر ٓاپ نے‪  ‬فرمایا کہ اب ہماری عمر کے اعتبار سے سفر کی صوبیتں برداشت کرنا مناسب‬
‫نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے ٓانے میں مجبوری ہے لیکن شمس االمراء بہادر نے باصرار معروضہ کیا کہ غالم حضرت کا‬
‫قدم چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ غالم کا تمام خاندان حضرت کی قدمبوسی کا مشتاق ہے اورحضرت کے دست مبارک پر‬
‫بیعت حاصل کرنے کا متمنی ہے۔ چنانچہ مجبوراً ٓاپ راضی ہو کر تشریف الئے اور تقریباًایک ماہ حیدرٓاباد میں ٓاپ کا‬
‫‪ ‬قیام رہا۔‬
‫نواب بدرالدین خان تمیز فرزندنواب شمس االمراء بہادر کے مندرجہ ذیل اشعارسے خاندان پائیگاہ کی ٓاپ سے والہانہ‬
‫‪ ‬عقیدت کا اظہار ہو تاہے۔‬
‫تب سے اس کے اور بھی رتبہ ہوا ٓائین کا‬
‫جب سے بدر الدیں ہوا بندہ رفیع الدین کا‬
‫اک نگا ِہ لطف سے جس کے ہے عالم فیضیاب‬
‫ہے تصور دل کو اسکی چشم فیض اولین کا‬
‫دوجہاں کی بادشاہی ہم کو حاصل ہوگئی‬
‫منہ سے نکال اسکے ایسا حرف اک تسکین کا‬
‫‪ ‬دین ودنیا کے ہیں مالک پیر ومرشد اے ؔ‬
‫تمیز‬
‫روز جزا ہے کون اس مسکین کا‬ ‫ِ‬ ‫حامی‬
‫ٔ‬
‫ریاست حیدرٓاباد کے اکثر عمایدینـ سلطنت کو ٓاپ سے شرف ارادت وبیعت حاصل تھا‪ ،‬اور اکثر اکابرعلماء ٓاپ کے ‪ ‬‬
‫دامان ارادت سے وابستہ تھے۔ ٓاپ کا حلقہ ارادت اجنّاتک وسعت کرگیا تھا چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ ٓاپ کے ایک مرید‬
‫جوجن تھے ٓاپ نے ان کوان کی خواہش پر انسانی شکل میں اپنی خدمت میں رکھا اور ان کا نام مبارک علی رکھا تھا جو‬
‫ٓاپ کے وصال تک ٓاپ کی خدمت میں رہے اوراس کے بعدـ کافی عرصہ تک حضرت قادربی بی پیرانی ماں صاحبہ‬
‫رحمۃ ہللا علیہا کی خدمت میں رہے‪ ،‬اور ایک روز سرمیں کچھ چبھنے کی شکایت کی چنانچہ ان کے سر سے کیال نکاال‬
‫سرہ نے ان‬‫گیا جس پر یکا یک ان کا قدطویل ہوگیا دریافت پر انہوں نے بتایا کہ وہ اجنا سے ہیں اورحضرت قبلہ قدس ٗ‬
‫کوانسانی شکل میں رکھاتھا۔ انہوںنے خواہش ظاہرکی کہ وہ چاہتے ہیں کہ مابقی زندگی حضرت قبلہ قدس سرہ‪ ،‬کی درگاہ‬
‫شریف میں گذاردیں چنانچہ حضرت پیرانی ماں صاحبہ قبلہ کی اجازت‪  ‬حاصل کرکے رخصت ہوئے اور ٓاج تک بھی‬
‫قندھار شریف میں مبارک ماموں کے نام سے مشہور ہیں اور کبھی کبھی کسی کو نظر ٓاجاتے ہیں‪ ،‬ایسابھی ہواہے کہ‬
‫درگاہ شریف میں اگر کسی نے کوئی بے ادبی کی تو انہوںنے اس کو ڈرادیا اور مشہور ہے کہ ہمیشہ درگاہ شریف میں‬
‫حاضررہتے ہیں۔‬
‫اسمائے گرامی حضرت مرشدان طریقت‪:‬۔‬
‫کتاب’’انوارالقندہار‘‘ میںٓاپ نے اپنے مرشد ان طریقت کا ا سطرح تذکرہ فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے۔‬
‫اوالً ازشاہ محمد عظیم الدین بلخی ثم الکھنوی ثم اورنگ ٓابادی گرفتم ازیشان درطریقہ عالیہ نقشبندیہ ازلطیفہ قلبی تاذکر’’‬
‫سلطانی معہ رسوم مشائخ بایں طریق التعین جزاہ ہللا عناخیرالجزا ثانیا ازحضرت مولوی سید قمرالدین اورنگ ٓابادی قدس‬
‫سرہ‪ ،‬تکرار رسوم مشائخ نمودہ تقریر اشغال ماخوذہ درطریق نقشبندیہ نودہ تاذکرسلطانی رسایندہ شدو حزب‪  ‬البحرو غیرہ‬
‫اعمال بطریق اجازت گرفتم ونورالکریمتین تصنیف حضرت موصوف من اولہ وٓاخرہ اززبان مبارک سندکردہ ایم تحقیق‬
‫بلیغ در حال مسلمہ حقایق بایں فقیرا رشاد فرمود ند جزاہ ہللا عنی احسن الخیر ورحمۃ ہللا تعالی رحمۃً واسعۃً ومزار مقدس‬
‫ٰ‬
‫نورالہدی صاحب‬ ‫دراورنگ ٓاباد نزد بھڑکل کالں درحویلی حضرت موصوف معہ مزار مقدس فرزندارجمندایشان حضرت‬
‫سرہ گرفتم ازیشان تمام‬‫مرحوم ومغفور واقع است یزار ویتبرک‪،‬ـ ثالثا ً ازحضرت خواجہ رحمت ہللا نائب رسول ہللا ﷺقدس ٗ‬
‫سلوک طریقہ عالیہ نقشبندیہ قادریہ ورفاعیہ وچشتیہ وسہروردیہ وشطاریہ و مداریہ وغیرہ معہ اصول وفروع بیعت‬
‫مصافحہ نمودہ تمام اشغال واعمال طریقہ موصوفہ بہ تفصیل بہ طریق تلقین وتوجہ یافتم خرقہ خالفت واجازت عمامہ‬
‫ازجناب ایشان بہ فقیرعنایت گشتہ جزاہ ہللا وعن سائیر مستفیدین خیر الجزاء پس بہ فقیردرطریقہ نقشبندیہ ازسہ بزرگان‬
‫‘‘فائدہ رسیدہ لیکن اتمام سلوک درخدمت حضرت خواجہ رحمت ہللا گشتہ۔‬
‫اسمائے گرامی بزرگان صحبت‪:‬۔‬
‫‪، ‬کتاب ’’انوارالقندہار‘‘ میں بزرگان صحبت کے تعلق سے ٓاپ نے اس طرح تحریر فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے‬
‫شاہ محمد عظیم الدین مرید شاہ عبدالرحمن قدس سرہ‪ ،‬و نزدیک قلعہ ارکہ خجستہ بنیاد ٓاسودہ اندو شاہ ابراہیم نقشبندی’’‬
‫متصل کنکر در وازہ خجستہ بنیاد ٓاسودہ اندوشاہ رشید کہ درمسجد بیگم پورہ بودند ومحمد شاکر واعظ و نیز فخرالدین وشاہ‬
‫عبدالصمد وشاہ فہم رسول مریدشاہ پیر محمد سبزپوش گجراتی وشاہ غالم حسین فرزندشاہ شیخن احمد صاحب وازیشان‬
‫اجازت جواہر خمسہ ہم رسید جزا ہم ہللا خیراً وفراغ یافت ازتالیف وتسویدرسالہ انوارالقندہار روزسہ شنبہ بوقت چاشت‬
‫درخانقاہ نواحداث موصوف بتاریخ نہم رجب المرجب ؁‪۱۲۱۳‬ھ یکہزار ودو صد و سیزدہ ہجری مقدسہ درٓان وقت‬
‫عمرایںکاتب یک کم وپنجاہ سال بود حق تعالی ازطفیل حبیب خودصلی ہللا تعالی علیہ وٓالہ وسلم جمیع امت مرحومہ ازجمیع‬
‫غفلت ومناہی بازداشتہ این چند انفاس کہ باقی ماندہ باشنددریاد خود برٓاردو بہ فضل خود بمقام دوستان خود برساندصلی ہللا‬
‫‪ ‬تعالی علی خیرخلقہ سیدنا محمدٓالہ وازواجہ واصحابہ اوتباعہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔ ٓامین ٓامین ٓامین‬
‫تصنیف وتالیف‪:‬۔‬
‫باوجود غیرمعمولی عبادت وریاضت ٓاپ نے سلسلہ تصنیف وتالیف کوجاری رکھا ‪ ،‬چنانچہ تواریخ کے حوالہ سے ٓاپ‪ ‬‬
‫کے مندرجہ ذیل تصنیفات وتالیفات کا ہونا ثابت ہے۔‬
‫ثمرات المکیہ‪:‬۔)‪۱‬‬
‫یہ ٓاپ کی نہایت اہم تالیف ہے جس کی بتاریخ ‪۱۵‬؍محرم الحرام بروزپنجشنبہ‪۱۱۹۸‬ھ؁ مدرسہ شیخ عبدالکریم قطبے‬
‫(شباکی میں)جوبیت ہللا شریف کے مقابل تھا ٓاپ نے تکمیل فرمائی ‪ ،‬سبب تالیف ٓاپ نے کتاب کے مقدمہ میں تفصیلی طور‬
‫پر تحریر فرمایا ہے ‪ ،‬جس کااختصاریہ ہے کہ ٓاپ اندرون حرم شریف حطیم مکہ معظمہ میں بہ شب جمعہ حاضر تھے‬
‫کہ بعض مبشرات میں ٓاپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک قلمدان برٓامدہوئے جن کو پوری‬
‫مسرت وشادمانی سے ٓاپ نے لے لیا۔ اسی وقت ایک بزرگ نے ٓاوازدی کہ’’ یہ کتاب وقلمدان جناب سرورکائینات‬
‫وخالصہ موجودات صلوات ہللا وسالمہ علیہ سے تجھے عنایت ہوا ہے۔ مبارک ہو‘‘چنانچہ ٓاپ نے اس کتاب کی تالیف‬
‫متذکرہ باالبشارت کی روشنی میں ٓاغازفرمائی اور اس کتاب کانام ’’ثمرات المکیہ‘‘ رکھا ۔ یہ کتاب مقدمہ تین ابواب اور‬
‫خاتمہ پر مشتمل ہے ۔ مقدمہ بیعت او راس کے لوازم کے بیان واقع ہے۔ باب اول فروع طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل‬
‫ہے۔ باب دوم‪   ‬اصول طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل ہے جو سلوک طرق سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے دونسخے‬
‫ہیں‪،‬ایک نسخہ بڑی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ کالں) کہالتاہے۔ اوردوسرا چھوٹی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ خورد) کے نام‬
‫سے مشہور ہے۔ ثمرات المکیہ بہ نسخئہ کالں میں ٓاپ نے تصوف‪،‬معرفت و حقیقت کے نازک مسائل پر قرٓان وحدیث اور‬
‫اکابر دین کے اقوال کی روشنی میں سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور تمام سالسل طریقت کے مستند سلوک کو‬
‫قلمبندفرمایا ہے ۔ تاکہ سالکین راہ طریقت سلوک کی تکمیل میں تقدیم وتاخیر سے محفوظ رہیں ۔ ٓاپ کی اس کتاب کے‬
‫ضرورت مندٓاپ کے خلفاء اور متوسلین ہی نہیں بلکہ دیگر سلسلوںکے شیوخ بھی ثمرات شریف کے ضرورت مندرہے۔‬
‫چنانچہ اکثر شیوخ کے کتب خانوں میںثمرات المکیہ کے نسخے پائے گئے ہیں ۔ ونیزتصوف ومعرفت وحقیقت کے مسائل‬
‫پر دیگر سلسلوںکے شیوخ نے بطوراستداالل واستناداپنی تالیفات میں ثمرات المکیہ کے حوالے دیئےـ ہیں کتاب فصل‬
‫الخطاب بین الخطاء والصواب مٔولفہ موالنا سید شاہ عبداللطیف المشہور بہ سید شاہ محی الدین قادری ویلوری ؒمیں ص‬
‫‪۱۶۳‬پر مٔولف کتاب نے مسلہ وحدت الوجود کی بحث میںوجود کی حقیقت اور معانی سے متعلق ثمرات المکیہ کی عبارت‬
‫کا حوالہ سنداًپیش کرکے تحریر فرمایا ہے کہ کذا فی سلوک القادریہ لموالنا المولوی رفیع الدین نقشبندی القادری القند‬
‫ہاری۔ الغرض ٓاپ کی یہ معرکتہ آالراء کتاب دنیائےـ طریقت میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ مسائل تصوف کے‬
‫عالوہ سلوک طریقت میں ہر سلسلہ کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ ٓاپ مجمع السالسل ہیں۔ تمام سلسلوں کے‬
‫سلوک میں ٓاپ کو وہ تحقیق بلیغ حاصل تھی اور ایسا درک حاصل تھاکہ نہ صرف ٓاپ کے پیر بھائی بلکہ دوسرے‬
‫سلسلوں کے ہم عصرشیوخ بھی مختلف سالسل کے سلوک کی تحقیق وتدقیق میں ٓاپ کی ذات گرامی سے رجوع کرتے‬
‫تھے ۔ تمام سلسلوں کے سلوک میں کسبی اور وہبی راستوں سے کمال ٓاپ کی ذات بابرکات میں پایا جاتاتھا۔ جس کو ٓاپ‬
‫نے ثمرات المکیہ میں جمع فرمادیاہے۔ اور ہر سلسلہ کے شجرہائے طریقت قلمبندـ فرمادئیےـ ہیں۔ باوجود اس قدراہمیت‬
‫کے یہ کتاب طبع نہوسکی ‪ ،‬اگر چیکہ اس کی طباعت کیلئے اکابر نے بڑی بڑی کوشیش کیں۔ البتہ اس‪  ‬کے متعد د قلمی‬
‫نسخے ہوئے اس کتاب کے قدیم چھ(‪)۶‬قلمی نسخے حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔ جن‬
‫میں چار نسخے ثمرات المکیہ بہ نسخہ کالںاوردو(‪)۲‬بہ نسخہ خوردہیں۔ان کے منجملہ ایک نسخہ نہایت قدیم جو اصل‬
‫تالیف کے چھ ماہ بعد کا ہے ۔ مولوی محمد عظیم الدین عرف محمد علی متوطن قصبہ کوٹگیر کا قلمی ہے۔ جو بماہ جمادی‬
‫الثانی ؁‪۱۱۹۹‬ھ کو اختتام پذیر ہوا ۔ اس کے عالوہ ایک قدیم نسخہ حضرت موالنا امین الدین کثرت علیہ الرحمہ کاقلمی‬
‫ہے جو ٓاپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ اس کتاب کے اختتام پر ٓاپ نے خدمت خلق کے پیش نظر تعویذات اور طلسمات کو‬
‫بھی جمع‪  ‬فرمایا ہے۔ بالخصوص ٓاپ کے متوسلین کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس کی نقلیں کتب خانہ ٓاصفیہ‬
‫وغیرہ میں موجود ہیں۔ ٓاپ کے خلفاء نے اس کتاب کی بدست خود نقل کرکے ٓاپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیں تاکہ‬
‫اپنے دست مبارک سے کتاب پر انکانام ٓاپ تحریر فرماکر مرحمت فرمائیں جو ان کے لئے سنداً محفوظ رہے‪ ،‬چنانچہ اس‬
‫کتاب کا ایک قدیم نسخہ کتب خانہ ٓاصفیہ میں محفوظ ہے جو ٓاپ کے خلیفہ حضرت موالشاہ محمد اویس شہیدعلیہ الرحمہ‬
‫کو عطاء ہواتھا۔ جس پر ٓاپ نے اپنے قلم سے ’’بپاس خاطر میاںمحمد اویس دادہ شد‘‘ تحریر فرمایاہے(‪)۲‬۔ ایک دوسرا‬
‫قدیم قلمی نسخہ جس کی نقل ٓاپ کے خلیفہ حضرت موالنامیر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے کی ہے خالفت کے بعد‬
‫صالح حافظ میرشجاع الدین حسین ‘‘ تحریر فرمایاہے۔ اس نقل کی‬ ‫ان کو عطاء ہوا جس پر ٓاپ نے اپنے قلم سے ’’للسید ال ّ‬
‫‪ ‬تکمیل‪  ‬پر کتاب کے ٓاخرمیں حضرت موالنا میر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے بزبان عربی تحریر فرمایاہے کہ‬
‫قدحصل الفراغ بعون ہللا تعالی وتوفیقہ من کتابۃ النسخۃ المبارکۃ المیمونۃ المسمی بثمراۃ المکیۃ من تالیفات قدوتی’’ ‪:‬‬
‫ومرشدی حضرت المولوی محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین القندھاری الدکنی مدہللا تعالی ظالل ارشادہ علی رٔوس‬
‫والہ وصحبہ وسلم۔‬ ‫‘‘الطالبین‪  ‬وادخلنی ببرکۃ انفاسہ الشریفۃ فی زمرۃ الصالحین وصلی ہللا تعالی علی سید نا محمد ٰ‬
‫انوارالقندہار‪:‬۔)‪۲‬‬
‫یہ ٓاپ کی وہ اہم تالیف ہے کہ جس میں ٓاپ نے قندہار شریف کے بزرگوں کے حاالت تحریر فرمائے ہیں۔ وہ بزرگ جن‬
‫کے تذکرےـ تواریخ موجودنہ تھے اور نہ کسی کو معلوم تھے‪ٓ ،‬اپ نے ذریعہ کشف معلوم کرکے ان کے حاالت تحریر‬
‫فرمائے ہیں اور ٓاپ نے خود اپنا تذکرہ بھی قلمبندفرمایاہے۔ کتب خانہ ٓاصفیہ میں اس کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔یہ نقل‬
‫سید ناظم حسین رضوی موہانی نے بعہدـ میر محبوب علی خان بتاریخ ‪۲۹‬؍جمادی االول؁‪۱۳۱۰‬ھ روزشنبہ وقت یک‬
‫‪ ‬ونیم ساعت شب وحیدرٓاباد دکن کی ہے۔‬
‫تذکرئہ نوبہار‪:‬۔)‪۳‬‬
‫یہ تذکرئہ شعراء ہے۔ اس میں ٓاپ نے (‪)۵۷‬فارسی شعراء کا تذکرہ معہ نمونہ کالم قلمبندفرمایاہے۔ اس کتاب میں ٓاپ نے‬
‫خود اپنا تذکرہ بھی تحریرفرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ‬
‫‪ ‬ہے۔‬
‫‪ ‬راحت االنفاس‪:‬۔)‪۴‬‬
‫‪ ‬اس کی تالیف ؁‪۱۱۹۵‬ھ میں ٓاپ نے فرمائی ۔ تواریخ میں اس کانام غلطی سے انفاس العاشقین لکھا ہے۔‬
‫رسالئہ اجازت نامہ جات‪:‬۔)‪۵‬‬
‫اس رسالہ میں ٓاپ نے شجرہ ہائے طریقت جمع فرمائے ہیں طریقہ قادریہ ‪ ،‬طریقہ نقشبندیہ‪ ،‬طریقہ رفاعیہ‪ ،‬طریقہ‬
‫چشتیہ‪ ،‬طریقہ سہروردیہ‪ ،‬طریقہ شطاریہ‪ ،‬طریقہ مداریہ کے شجرے اوراجازت نامہ صحاح ستہ سندقراء ت‪،‬اجازت نامہ‬
‫حزب البحرشریف‪ ،‬اجازت نامہ برزنجی‪،‬اجازت نامہ مولد النبی ﷺ ‪ ،‬اجازت نامہ دالئل الخیرات جمع فرمائے ہیں۔ اس کا‬
‫ؒ‬
‫کثرت کی‬ ‫قدیم نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ یہ نقل بقلم حضرت موالناامین الدین‬
‫گئی ہے۔ جس پر انہوںنے تحریرفرمایاہے کہ’’ حسب الحکم حضرت قبلہ نقل کی گئی ہے‘‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٓاپ‬
‫کی موجود گی میں یہ نقل ہوئی تھی۔ یہ ٓاپ کی قدیم تالیف ہے جس میں ٓاپ نے مختلف اوراد واشغال اور اعمال ووظائف‬
‫‪ ‬کو جمع فرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔‬
‫رسالہ چشتیہ‪:‬۔)‪۷‬‬
‫‪ ‬اس رسالہ میں ٓاپ نے طریقہ عالیہ چشتیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔‬
‫رسالئہ نقشبندیہ‪:‬۔)‪۸‬‬
‫‪ ‬اس رسالہ میں ٓاپ نے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔‬
‫تحفۃ البدیع‪:‬۔ـ)‪۹‬‬
‫سلوک مداریہ میں یہ رسالہ ٓاپ نے ؁‪۱۲۲۹‬ھ بپاس خاطرمولوی محمد قائم شاہ صاحب خلیفہ حضرت سید میراں شاہ‬
‫سرہ (ناندیڑ)تالیف فرمایا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ‬ ‫مکہ اولیاء قدس ٗ‬
‫‪ ‬ہے۔‬
‫یہ قلمی کتابیں اکثر کتب خانہ ٓاصفیہ میں موجود ہیں۔ متذکرہ رسالہ جات کے نسخے بھی حضرت قدوتی مرشدی ووالدی‬
‫‪ ‬قبلہ گاہی کے پاس موجودہیں۔‬
‫}جدول بصراحت سنِّ وسال ٓاپ کے مناقب کے مختلف اہم موقعوںپر{‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۱۶۴‬ھ بتاریخ ‪۱۹‬؍ جمادی‪  ‬الثانی بروزپنجشنبہ بوقت صبح بعد نمازفجر والدت باسعادت‪  ‬بقصبہ قندہار۔‪۱‬‬
‫۔‪  ‬بموجب کتاب ’’انوار القندہار‘‘ ٓاپ کی پہلی شادی ٓاپ کے چچا حضرت غیاث الدین کی صاحبزادی سے ہوئی اس‪۲‬‬
‫وقت عمر شریف (‪۱۴‬؍سال)‬
‫۔ حسب الحکم حضرت سرور مخدوم اور نگ ٓاباد تشریف لیجاکر (‪)۹‬سال کی مدت تک علم ظاہری کی تکمیل فرمائی‪۳‬‬
‫دستار فضیلت حاصل فرمایا‪ ،‬عمرشریف(‪۲۳‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۱۹۵‬ھ ٓاپ نے دربیان پاس انفاس دارالسلطنت حیدرٓاباد میں رسالہ ’’راحت االنفاس‘‘ تالیف فرمایا‪ ،‬عمرشریف (‪۴‬‬
‫‪۳۱‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۱۹۷‬ھ روزدوشنبہ بوقت بتاریخ ‪۲۱‬؍ ربیع االول ٓاپ نے ’’رسالہ سلوک نقشبندیہ‘‘ بعض حضرات‪  ‬کی‪ ۵‬‬
‫درخواست پربوقت روانگی حج بندر مبارک سورت میں تالیف فرمایا‪،‬عمرشریف(‪۳۳‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪ ۱۱۹۸‬ھ مدینہ منورہ میں حضرات شیخ عبد القادر بن شیخ محمد سعید الطاہر الکردی سے اجازت مولد النبی‪  ‬ﷺ‪ ۶‬‬
‫معہ سندحاصل فرمائی‪ ،‬عمرشریف(‪۳۴‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪ ۱۱۹۸‬ھ ٓاپ نے حضرت حافظ محمد حیات بن طالب علیخان المحمدی القادری الحنبلی سے مدینہ منورہ میں سند‪ ۷‬‬
‫حفص حاصل فرمائی ‪،‬عمرشریف (‪۳۴‬سال)‬ ‫ؒ‬ ‫قرٔات قرٓان مجید بروایت سیدنا‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۱۹۸‬ھ ٓاپ نے مکہ معظمہ میں کتاب’’ ثمرات المکیہ ‘‘تالیف فرمائی ۔ عمرشریف(‪۳۴‬سال)‪۸‬‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۱۹۹‬ھ ٓاپ حرمین شریفین سے واپس قندہار تشریف الئے اس وقت عمرشریف (‪۳۵‬سال)‪۹‬‬
‫اویس جو ٓاپ کے خلیفہ تھے‪ ۱۰،‬‬ ‫ؒ‬ ‫۔‪  ‬؁‪۱۲۰۳‬ھ روزجمعہ ‪۲۰‬؍ ربیع االول کو ٓاپ نے بپاس خاطر حضرت سیدشاہ محمد‬
‫قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’رسالہ سلوک چشتیہ‘‘ تالیف فرمایا اس وقت ‪،‬عمرشریف (‪۳۹‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۲۱۳‬ھ ‪۹‬؍رجب المرجب بوقت چاشت قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’انوار القندہار‘‘ تالیف فرمائی‪۱۱،‬‬
‫عمرشریف (‪۴۹‬سال)‬
‫۔‪   ‬؁‪۱۲۱۵‬ھ ٓاپ نے قندہار شریف میں سندقرٔات قرٓان مجید طلباء کو مرحمت فرمائی اس وقت عمرشریف(‪۵۱‬سال)‪۱۲‬‬
‫۔ ؁‪۱۲۱۶‬ھ ٓاپ نے کتاب تذکرہ نوبہار تالیف فرمائی‪ ،‬عمرشریف(‪۵۲‬سال)‪۱۳‬‬
‫۔‪  ‬؁‪ ۱۲۱۹‬ھ بہ ماہ محرم اعظم االمراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا اس طرح حیدرٓاباد تشریف ٓاوری کے وقت ٓاپکی‪۱۴‬‬
‫عمرشریف(‪۵۴‬سال)‬
‫۔‪  ‬؁‪۱۲۲۹‬ھ ٓاپ نے قصبہ قندہار میں تحفۃ البدیع کی تالیف بپاس خاطر حضرت قائم شاہ فرمائی اس وقت ٓاپکی‪ ۱۵‬‬
‫عمرشریف(‪۶۵‬سال)‬
‫سرہ کا وصال ہوا اس وقت ٓاپکی‪۱۶‬‬ ‫ٗ‬ ‫قدس‬ ‫قبلہ‬ ‫الدین‬ ‫نجم‬ ‫محمد‬ ‫شاہ‬ ‫موالنا‬ ‫حضرت‬ ‫صاحبزادے‬ ‫بڑے‬ ‫کے‬ ‫۔ ؁‪۱۲۳۷‬ھ ٓاپ‬
‫عمرشریف (‪۷۳‬سال)‬
‫سرہ کے‪  ‬صندل مبارک کے روز ٓاپ کا وصال ہوا اس‪۱۷‬‬ ‫ٗ‬ ‫قدس‬ ‫مخدوم‬ ‫سرور‬ ‫حضرت‬ ‫المرجب‬ ‫رجب‬ ‫۔‪  ‬؁‪۱۲۴۱‬ھ ‪۱۶‬؍‬
‫وقت عمرشریف (‪۷۷‬سال)‬
‫رشتہ ازدواج‪:‬۔‬
‫ٓاپ کی تین بیویاں تھیں پہلی بیوی حضرت انور بی بی صاحبہ بنت حضرت غیاث الدین قاضی قصبہ نرسی ‪ ،‬دوسری‬
‫بیوی حضرت قادر بی بی صاحبہ جو قصبہ کوٹگیر کے خاندان قضاء ت سے تھیں ‪ ،‬تیسری بیوی حضرت پیرماں صاحبہ‬
‫جو مدنی تھیں ‪ ،‬بزمانہ قیام مدینہ منورہ ٓاپ کے عقدنکاح میں ٓائی تھیں‪ٓ ،‬اپ کی اوالداور ٓال کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ٓاپ‬
‫کے جملہ پانچ صاحبزادے تھے‪،‬ـ اور چار صاحبزادیاں تھیں۔ چنانچہ تواریخ کے حوالے سے بھی پانچ صاحبزادوں اور‬
‫‪ ‬چار صاحبزادیوں کا ہو نا ثابت ہے۔‬
‫)ماخوذ‪:‬۔انوار الرفیع ص‪۱‬تا‪ ،۲۹‬طبع اول‪ ،‬مطبوعہ دائرہ پریس حیدرٓاباد؁‪۱۴۰۵‬ھ ؁‪۱۹۸۵‬ء(‬
‫حواشی و حوالہ جات‬
‫قال جامعہ الفقیر یوسف بن اسماعیل بن یوسف بن اسماعیل بن محمد ناصر الدین النبہانی عفا ہللا عنہ لما کان ہذا الکتاب )‪(۱‬‬
‫الشریف الفائق المشتمل علی الکثیر الطیب من شمائل خیر الخالئق متفر عاعن کتاب الشمائل لالمام ابی عیسی الترمذی و‬
‫اصول کتب الحدیث المعتمدۃـ التی اجلہا واشہرھا الکتب الستۃ وہی دواوین االسالم صحیحا البخاری ومسلم و سنن ابی دأود و‬
‫جامع الترمذی و سنن النسٔای وابن ماجہ رٔایت من الصواب ان اذکر اسانیدی فیہا الی مٔولفیہا ٭ فاقول‪ :‬انی اروی ہذہ الکتب‬
‫وغیرہا باالجازۃ عن عالمۃ عصرہ االمام الکبیر سیدی الشیخ ابراہیم السقا المصری الشافعی شیخ مشائخ الجامع االزہر وقد‬
‫ذکرت اجازتہ لی فی ذیل کتابی ’’الشرف المٔوید ٓالل‪  ‬محمد‘‘ فی ضمن ترجمۃ لی اقتصرت فیہا علی بیان بعض ماتمس‬
‫الحاجۃ الیہ من التعریف بی وہو رحمہ ہللا یرویہا عن عدۃ اشیاخ اجالء منہم االستاذ العالمۃ ولی ہللا الشیخ ثعیلب عن شیخیہ‬
‫االمامین الشہاب احمد الملوی والشہاب احمد الجوہری عن شیخھما مسند عصرہ وفرد زمانہ الشیخ عبدہللا بن سالم صاحب‬
‫الثبت الشہیر ٭ ومنہم االستاذ محمد بن محمود الجزائری عن شیخہ علی بن عبدالقادر بن أالمین عن شیخہ احمد الجوہری عن‬
‫شیخہ عبدہللا بن سالم ٭ ومنہم العالمۃ المحقق الشیخ محمد صالح البخاری عن شیخہ رفیع الدین القندھاری عن الشریف‬
‫تعالی۔‬
‫ٰ‬ ‫االدریسی عن عبدہللا بن سالم رحمہم ہللا‬
‫حضرت سید شاہ محمد علیم الدین انور‪ ،‬راقم کے برادر بزرگ نے حضرت کی منقبت میں ایک نظم تحریر فرمائی تھی‬
‫جس کا ایک مصرعہ ہے۔ ’’سند سے ٓاپ ہی کی شام میں راوی ہیں نبہانی‘‘۔ ہندوستان میں حضرت موالنا عبدالباقی‬
‫فرنگی محلی بھی اس سند کے حامل تھے۔ اس طرح عرب اور عجم میں کئی اکابر اس سند کے حامل تھے اسی لیے ٓاپ‬
‫‪ ‬کو شیخ العرب والعجم تحریر کیا جاتا ہے۔‬
‫شاہ نے دکن میں جامعہ نظامیہ کا قیام و انصرام فرمایا۔ جس سے‬ ‫حضرت شاہ رفیع ؒ‬
‫الدین کے نواسہ موالنا انوار ہللا ؒ‬
‫ہزاروں تشنگا ِن علم سیراب ہورہے ہیں اور اسی جامعہ کو جنوبی ہند کی منفرد دینی درسگاہ کا مقام حاصل ہے۔ موالنا‬
‫ہللا کو حضرت ہی کے سلسلہ میں بیعت و خالفت بھی حاصل تھی۔ چنانچہ موالنا مفتی‪  ‬سید محمود صاحب سابقہ‬ ‫انوار ؒ‬
‫‪ ‬خطیب مکہ مسجد کو موالنا نے اسی سلسلہ میں بیعت لے کر خالفت عطا فرمائی تھی۔‬
‫بحوالہ‪ :‬کتاب‪ ،‬ثمرات المکیۃ‬
‫مٔولف ‪ :‬شیخ المشائخ حضرت موالنا شاہ محمد رفیع الدین فاروقی (قندھاری)‬
‫مترجم‪ :‬ڈاکٹر محمد عارف الدین شاہ فاروقی قادری ملتانی‬
‫‪ ‬سنہ اشاعت‪ ۱۱ :‬ربیع آالخر ‪۱۴۲۶‬ھ م ‪ ۲۰‬مئی ‪۲۰۰۵‬ء‬
‫کتب خانہ جامعہ نظامیہ کے شعبٔہ مخطوطات میں بھی ’’ثمرات المکیۃ‘‘ کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے جس پر ‪(۲) ‬‬
‫مٔولف کی مہر ’’الموت خیر الواعظ یا رفیع‘‘ کے عالوہ سنہ ‪۱۱۹۴‬ھ نیز دو مزید سنین ‪۱۲۳۲‬ھ اور ‪۱۲۹۰‬ھ ہیں جن پر‬
‫غالم رحمت ہللا نام کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ ’’ایں رسالہ رامصنف بدست بنشستہ است‘‘۔‬

You might also like