حضرت شاہ محمد رفیع الدین قندہاری نام ونسب:۔ ٓاپ کا اسم گرامی غالم رفاعی عرف محمدرفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن محمد تاج الدین ہے۔ سلسلہ نسب چھتیسویں واسطے سے امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی ہللا تعالی عنہ سے ملتاہے اس طرح ٓاپ فاروقی النسب ہیں۔ تاریخ انوارالقندہار میں ٓاپ نے اپنے حسب ونسب سے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ تعالی عنہ کی صاحبزادی حضرت سید نا عبدہللا ابن عمر رضی ہللا تعالی عنہما ’’ ٰ حضرت سید نا امام حسن رضی ہللا عمر کی اوالد اور حضرت سیدنا امام حسن سے منسوب تھیں ،جن کی اوالدمیں سے ہم ہیں ،اس طرح ہم حضرت سیدنا ؓ ‘‘ رضی ہللا عنہ کی ٓال سے ہیں۔ شجرہ نسب:۔ غالم رفاعی عر ف محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین ابن قاضی محمد تاج الدین ابن قاضی عبدالملک ابن قاضی محمد تاج الدین کالں ابن محمد قاضی کبیر ابن قاضی محمود بن قاضی کبیر بن قاضی محمود بن قاضی احمدبن شیخ محمد بن شیخ یوسف بن زین الدین بن نورالدین بن محمد شمس الدین بن شریف جہاں بن صدر جہاں بن شیخ اسحاق بن شیخ مسعودبن بدر الدین بن محمد سلیمان بن شیخ شعیب بن شیخ محمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کابلی بن محمد اسحاق بن شیخ مسعود بن عبدہللا واعظ اصغر بن عبدہللا واعظ اکبر بن ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصربن عبدہللا رضی ہللا عنہ بن حضرت سیدنا عمربن الخطاب فاروق اعظم رضی ہللا تعالی عنہ ۔ والدت باسعادت:۔ قصبہ قندہار شریف میں بتاریخ ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۱۶۴ھ پنجشنبہ کی صبح بعد نماز فجر ٓاپ کی والدہ ماجدہ جوصالحہ اور عابدہ تھیں اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت حاصل فرمائی تھیں ،تالوت قرٓان میں مصروف تھیںکہ ٓاپ کی والدت باسعادت بعد ختم تالوت عمل میں ٓائی۔ واقعات والدت:۔ ٓاپ کے والدین کو ایک عرصہ تک اوالد نہ ہوئی ٓاپ کے والدبزرگو ار حضرت محمد شمس الدین ابن حضرت محمدتاج سرہ کے نہایتالدین جومرد صالح تھے اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ میں بیعت حاصل کرچکے تھے اور حضرت مخدوم قدس ٗ معتقد تھے۔ دھانورہ کے جاگیر دار اور قاضی بنولہ تھے۔ بہ نیت فرزند حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ‘کے روضہ مبارکہ کی مسجد میں معتکف تھے کہ حضرت سیدناحاجی سیاح سرور مخدوم قندہاری قدس سرہ‘ نے عالم رویا میں ٓاپ کو بشارت دی کہ تجھے ایک فرزند باکمال وصاحب باطن تولد ہوگا ،اور اس کا ہمارا نام رکھنا ، چنانچہ بموجب بشارت ٓاپ کی والدئہ ماجدہ کے ایام حمل کی تکمیل کے بعد تاریخ مذکورہ پر ٓاپ کے دادا حـضرت تاج الدین ؒ کی حویلی میں ٓاپ کی والدت ہوئی ،اور بموجب حکم حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ‘ ٓاپ کا اسم گرامی غالم رفاعی عرف محمد رفیع الدین رکھاگیا۔ عہدطفلی:۔ بچپن ہی سے بزرگی کے عالمات چہرہ مبارک سے ظاہر تھے اور ابتداء ہی سے ٓاپ کی نسبت بطریق اویسیہ حضرت سرہ سے قائم تھی چنانچہ حضرت مخدوم ؒ کے مزار فیض بار سے بعہد طفلی ہی سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس ٗ ٓاپ بہرہ ورتھے۔ علم رویاء میں حضرت سیدنا مخدوم سرور قدس سرہ‘ نے ٓاپ کو ایک کتاب عنایت فرمائی اور مشغول بذکر یاد مسمی فرمایا ٓاپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ان ہی دنوں سے ٓاپ کی نسبت اویسیہ جاری ہے ۔ وقتاًفوقتا ً ضروری اشارات اور احکام ٓاپ کو حضرت مخدوم سرورقدس سرہ‘ کی بارگاہ سے ملتے رہے۔ کم عمری میں ایک مرتبہ جب ٓاپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کی درگاہ شریف پہنچے تومزار مبارک سے ٓاواز ٓائی کہ یہ تمہارے کھیلنے کی عمر نہیں ہے علم حاصل کرنے کیلئےـ اورنگ ٓاباد جأو چنانچہ تحصیل علم کیلئے حضرت مخدوم قدس سرہ‘ کے حکم پر ٓاپ اورنگ ٓاباد تشریف لے گئے۔ تحصیل علم:۔ جامی حاصل فرمائی ،مزید تعلیم کے حصول ؒ ابتدائی تعلیم والدبزرگواراور دیگر مقامی علمائے قندہار سے تاشرح مالئےـ کیلئے اورنگ ٓاباد تشریف لے گئے اور حضرت سید قمرالدین اورنگ ٓابادی علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے اورنگ ٓاباد کی خدمت میں رہ کر استفادہ فرمایا اور تاحاشیہ بیضاوی وغیرہ کی تعلیم تمام فرمائی۔ اورنگ ٓاباد میں نو( )۹سال کی مدت تک ٓاپ کا زمانہ طالب علمی جاری رہا۔ ویسے ٓاپ بچپن ہی سے نہایت ذکی تھے۔لیکن تحصیل علم میں ٓاپ کی دلچسپی ویکسوئی کا یہ عالم تھا کہ روایت مشہور ہے بزمانہ طالب علمی وطن سے جو بھی خطوط ٓاپ کو موصول ہوتے ان کو مالحظہ نہ فرماتے بلکہ محفوظ فرمادیتے تھے،ـ اس کی وجہ یہ تھی کہ خطوط پڑھنے سے وطن اور خاندان کے حاالت وواقعات معلوم ہونے پرتعلیم سے توجہ ہٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ بزمانہ طالب علمی اورنگ ٓاباد میں جس حجرہ میں ٓاپ نے قیام فرمایا تھا وہ ’’حجرۃ الرفیع‘‘ کے نام سے موسوم اور کچھ عرصہ پہلے تک ٓاپ کی یادگار کے طور پر باقی تھا۔ روایت ہے کہ بزمانہ طالب علمی اورنگ ٓاباد میں اکثر ٓاپ راتوں میں تن تنہا روضہ بیگم تشریف لیجاکر اس قدر روتے کہ صبح میں عالمت اشک زمین پر دکھائی دیتے ۔ چنانچہ مقامی لوگوں میں اس بات کی شہرت تھی۔ بسلسلہ تحصیل علم اورنگ ٓاباد کا یہ طویل قیام ٓاپ کی سوانح میں بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت موالنا سید قمرالدین ٓابادی کی فیض صحبت میں ٓاپ کے طویل قیام کی وجہ حضرت موصوف سے ٓاپ کوانتہائی انس وعقیدت ہوگئی ؒ اورنگ ٓابادی اور حضرت شاہ محمد عظیم الدین بلخی علیہ ؒ تھی۔ ٓاپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت موالنا قمرالدین اورنگ الرحمہ سے ٓاپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں نعمت پائی اور ذکر واشغال کے طریقے سیکھے اور اجازتیںحاصل فرمائیں۔ ٓاپ کی تالیف ’’وظائف الصالحین‘‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ جس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت والدی ومرشدی قبلہ گاہی ؒکے پاس محفوظ ہے۔ وہی زمانہ تھا کہ ٓاپ مولوی میر غالم علی ٓازاد بلگرامی کی طرزنگارش سے متاثر ہوئے ا سکی وجہ یہ ہوئی کہ میر موصوف کو حضرت موالنا سید قمرالدین اورنگ ٓابادی علیہ الرحمہ سے نہایت نیازمندانہ ربط ضبط حاصل تھا۔ حضرت موالناسید قمرالدین علیہ الرحمہ اور میرموصوف بیس بیس روزتک اورنگ ٓاباد کے باغات کی سیر کے لئے جاتے تھے ،چنانچہ ٓاپ بھی استاد محترم کی اتباع میں ساتھ رہتے ۔ اس طرح میر غالم علی ٓازاد بلگرامی کی صحبت میں رہنے کا زیادہ اتفاق ہوتا ان کے مسلک سے متاثر ہو کرٓاپ نے بھی نثر نگار ی میں وہ ادیبانہ شان پیدا فرمائی کہ ٓاپ کی نثرمیں انتہائی شیرینی پائی جاتی ہے۔ ٓاپ نے حضرت قاضی شیخ االسالم خاں سے عربی ودیگر علوم کی تحصیل وتکمیل فرمائی اور یہا ں ٓاپ کو موالنا کا لقب مال۔ پھر سورت میں حضرت خیرالدین مرحوم سے بخاری شریف اور تحقیق مسائل حق وسلوک کی تکمیل فرمائی ۔ من بعد مکہ معظمہ اورمدینہ طیبہ میں رئیس المحققین حضرت محمد بن عبدہللا مغربی اور دیگر علماء مشائخ ومحدثین وقت کہ جو ،حرمین شریفین میں موجود تھے ان سے صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عمالً استفادہ فرمایااور تجوید وقراء ت قرٓان سیکھ کر سندحاصل فرمائی اور اپنے وقت کے متبحر عالم اوریگانہ روزگارہوئے۔ ٓاپ نے اپنی کتاب ’’انوار القندہار‘‘ میں اپنے اساتذہ اور تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر جس طرح بزبان فارسی فرمایا ہے اس کو من عن یہاں درج کیا جاتا ہے جس سے ٓ اپ کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے اور ٓاپ کے اساتذہ کے اسمائے گرامی کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ در قندہار ازسید شاہ عبدالرسول اوائل ابجد وازحضرت قبلہ گاہی قرٓان شریف وکتب فارسیہ ونوشت وخواندازشاہ محمد’’ مرحوم واخوی محمد قطب الدین مرحوم وسید چاند مرحوم گلستان وازعموی قاضی محمدسراج الدین سکندر نامہ ب صرف ونحو وبعضے وابوالفضل واصالح خط ہم واز اخوی محمدبرہان الدین مرحوم ومحمد امان ہللا سلمہ ہللا تعالی کت ِ فقہ وازمولوی مراد قندہاری ومولوی شیخ احمد بسمت نگری قدرے نحو وکتب فارسی ودراورنگ ٓاباد ازحضرت سید مجاہد وحضرت سید نورالعلی درشرح مال سبقے چند واز میرانوارلدین اکثرشرح مال وشرح تہذیب وغیرہ رسالہ ہائے منطق وازمولوی معین الدین بعضے ازقطبی وازمولوی قادر علی شریفی فرائض وشرح مطالع واز مولوی محمد داور ناظم طغری وازمولوی محمد مراد عرفی وغیرہ وازمحمد عثمان خوشنویس اصالح خط شکستہ وازمولوی قدرت ہللا بلیغ تخلص ناصرعلی ودوا دین اشعار وازحضرت غالم نورقدس سرہ‘ مثنوی شریف وغیرہ رسالہ علم حقائق وتسویہ ،قاضی ؔ محب ہللا وسلم زاہدین معہ حواشی واز سیدنورالہدی ازقطبی تااین جامراد تمام کتب تحصیلی واز زبدۃالعلماء قاضی شیخ االسالم خاں ہدایہ فقہ وحاشیہ قدیم معہ حواشی وبیضاوی شریف و دربندر مبارک سورۃ بخاری شریف وتحقیق ِمسائل حق وسلوک ازحضرت مولوی خیرالدین مرحوم ومغفور و در مجلس مولوی میر عبدہللا ومولوی ولی ہللا مرحومین جہت سماعت حدیث وغیرہ تیمنا ً دوچار بار حاضر گشتیم ودرمدینہ منورہ مقدسہ ازحضرت محمد بن عبدہللا المغربی ثم المدنی درمسجد شریف نبوی بخاری شریف قرٔاۃ سند نمودہ اجازت صحاح ستہ ومشکواۃ المصابیح ومسندامام احمدبن حنبل وموطاء امام مالک ودالئل خیرات گرفتہ شدحق تعالی تمام استاد ہائے ماراکہ ٓاسامی مبارک ایشان قلمے است و۱زہرکسے کہ گرفتہ ‘‘باشم جزائے خیردہدـ وخاتمئہ ایشاں وجمیع امت مرحومہ بخیر گرداند۔ بحیثیت مح ّدث:۔ مدینہ طیبہ میںدوران قیام ٓاپ نے اپنا درس حدیث مسجد نبوی ﷺ میں جاری فرمایا اور وہاں لوگوں نے ٓاپ سے حدیث پڑھکر سندیں حاصل کیں ۔ کتاب’’ وسائل الو صول شمائل ال ّرسول‘‘مطبوعہ بیروت میںمٔولف کتاب نے سندحدیث تحریرکی ہے۔ جوٓاپ ہی کے سلسلہ کی ہے۔ مٔولف کتاب کے شیوخ نے مدینہ منورہ میں یہ سند ٓاپ سے پڑھ کر حاصل کی تھی ،اسی سلسلہ سے عالمہ نبہانی جو جامعہ ازہرمیں شیخ الحدیث کے عہد ہ پر فائز رہے۔ اسی سند حدیث کے حامل تھے( )۱اس طرح ٓاپ کے سلسلے کی سند حدیث جامعہ ازہر سے جاری ہوئی ۔ ہندوستان کے علمائے فرنگی محل سے حضرت عبدالباقی مہاجر فرنگی محلی کے شیوخ نے اپنے تالمذہ کو ٓاپ ہی کے سلسلہ کی سندحدیث دی ہے ،چنانچہ اکابر علمائے عرب وعجم ٓاپ کے سلسلہ کی سند حدیث کے حامل رہے۔ اوریہی وہ ٓاپ کے عظیم الشان دینی خدمات بالد عرب وعجم میں تھے کہ جس کی وجہ ٓاپ شیخ العرب والعجم کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ٓاپ کے سلسلے کی سندحدیث اکابرعلماء کے نزدیک ثقہ اور مرجح سمجھی گئی ہے۔ سندحدیث ٓاگے کتاب کے اس حصہ میں مذکور ہوئی ہے۔ جو شجرہائے طریقت اسناد اور اجازت نامہ جات کیلئے مخصوص ہے۔ اگرچہ وہب وعطا کی نعمت سے بہ نسبت اویسیہ و بہ استفادئہ روحانیت حضرت سید نا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ ٓاپ عہد طفلی ہی سے ماالمال تھے۔ لیکن کسب کے راستے کو بھی ٓاپ نے نہیں چھوڑا اور علم ظاہر وعلم باطن کے حصول میںکوئی کسراٹھانہ رکھی۔ فن شعروسخن:۔ بزمانہ شباب ٓاپ مشق سخن فرماتے تھے۔ ٓاپ کا تخلص نطقؔ تھا۔ اورعروض میں ٓاپ کو کمال حاصل تھا۔ ٓاپ کے طبع ، موزوں سے چند شعر جو مختلف تواریخ میں پائے گئے ،بطور نمونہ کالم درج ذیل ہیں بیا بیاکہ شہید توبے دفن باقیست برنگ شمع بفانوس در کفن باقیست زروئے لطف بکس بوسہ دادئہ شاید کہ ہمچو شبنم گل نقش بردہن باقیست سپندو ارز سوز تونالہ ہا کردیم سخن تمام شدو ٓاخریں سخن باقیست یار در بردارم و مشتاق دیدارم ہنوز میدہی اے دل چرا ازوصل ٓازارم ہنوز خواندہ ام برلوح دل حرف تجلی کسے محتاج تکرارم ہنوز ِ محواز خودگشتہ ام ٰالہی بازبنماروئے ٓاں ابر وہاللی را منور کن چوروز عیدایں غمگیں لیالی را زپا مال خالئق از گراں خوابی نمیخیزد فتادہ سایہ بریختم مگر تصویر قالی را روایت ہے کہ شاعرانہ مشغلہ ٓاگے جاری نہ رہ سکا اور حضرت شیخ المشائخ ،وحید العصر ،قطب الدہر ،عارف باہلل سیدنا خواجہ رحمت ہللا (نائب رسولﷺ) قدسرہ‘ کی فیض صحبت میں ٓاپ کا ذوق ہی بدل گیا چنانچہ اس کے بعد نہ صرف ٓاپ نے شعر گوئی ترک فرمادی بلکہ اپنے سابقہ سرمایہ شاعری کو بھی تلف فرمادیا۔ اخالق وعادات اوقات وحاالت:۔ ٓاپ کی طبیعت میں غیر معمولی حلم سنجیدگی اور بردباری تھی۔ فضول گوئی سے تنفر تھا اور کبھی مبالغہ ٓامیز گفتگونہ فرماتے مریدین معتقدین کی کثرت کے باعث جیسے بھی ٓاپ کے مصروفیات ہوں گے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجو د ٓاپ کا معمول تھا کہ نصف شب کو بیدار ہو کر مسجد تشریف التے ،تہجد کی نماز ادافرماکر فجر تک مسجدمیں مراقب تشریف فرمارہتے۔ اور پھر نمازفجرسے فارغ ہو کر اشراق تک مسجد ہی میں مراقب رہتے اور ماسویٰ ہللا سے ٓانکھ بند رکھتے،ـ نمازاشراق کے بعد دولت خانہ کو تشریف لے جاتے اور نصف النہار تک بزرگوں کی حکایات و روایات سنا کر حاضرین کی ضروری تربیت فرماتے ۔ پھر انکے ساتھ کچھ تناول فرماتے اور قیلولہ فرماتے پھر اول وقت ظہر اُٹھ کر مسجد تشریف التے نمازظہرادا فرماکر نمازعشاء تک مسجد سے قدم باہر نہ نکالتے۔ بعد نماز عشاء گھر تشریف لے جاکر حاضرین کے ساتھ کچھ تناول فرماتے ۔ ہمیشہ باوضو رہتے وضو کے بعد دورکعت تحیتہ الوضو ادافرماتے ۔ چوبیس گھنٹے غیر حق سے ٓانکھ بند رکھتے اور دوام مراقبہ کی کیفیت رہتی ۔ ٓاپ کے مناقب میں لکھا ہے کہ اگر (۱۰۰سو)ٓادمی ٓاپ کی مجلس میں حاضر رہتے تو تمام کو اپنی توجہ سے رجوع بہ حق فرماتے اور ان کی ٓانکھ ؒ سعیدواال نے اپنی کتاب’’ بحررحمت‘‘ میں لکھاہے کہ دوام مراقبہ غیر کے معاینہ سے بند فرماتے۔ حضرت موالنا ابو کی کیفیت جو خانوادئہ خواجگا ن چشت رضوان ہللا تعالی علیھم اجمعین میں ہم نے سنی ہے ،وہی کیفیت ٓاپ کی ذات بابرکت میں دیکھی ہے ،اور ان ہی سے روایت ہے کہ بہ سبب نورانیت باطن چہرئہ مبارک مثل ٓافتاب چمکتا دمکتاتھا ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا امتحان لیا کہ حضرت کا روئے شریف دیکھ سکتا ہوں یا کیا لیکن خود میں وہ تاب وتواں نہ پایا وہ مزید فرماتے ہیں کہ دیگر اشخاص بھی ٓاپ کے روئے شریف کے تعلق سے اسی طرح کہتے تھے ۔ مٔولف تاریخ ’’گلزار ٓاصفیہ ‘‘نے بھی اسی طرح لکھاہے کہ جب وہ معہ حکیم عافیت طلب خان حضرت کی قدمبوسی کا شرف حاصل کئے تو ٓاپکاایک ایسا جمال دیکھا کہ ٓاج تک ایسا جمال نظر سے نہ گذرا اور ٓاپ بمصداق ٓایت ماھذا بشراً ان ھذا االّ ملک کریم ،جلوہ فرماتھے۔ ٓاپ خدمت خلق کو افضل ترین عبادت خیال فرماتے تھے۔ انتہائی خوش اخالق بامروت اور منکسر المزاج تھے۔ کمال عجز اور فروتنی کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے کی تعظیم کے لیے جگہ سے اٹھتے۔مٔولف بحر رحمت نے لکھا ہے کہ گفتگومیں ہرایک کے ساتھ الفاظ میں ایسے ٓاداب ملحوظ فرماتے کہ جو مخاطب کے مرتبہ سے ؒ ابوسعیدواال کہیں زیادہ ہوتے ۔ ٓاپ کسر نفسی اور شکستہ دلوں کی پاسداری کو تمام عبادات پر مقدم سمجھتے تھے۔ موالنا نے لکھا ہے کہ کسی ادنی واعلی کا دل ٓاپ نے نہیںـ توڑا۔ نام ونمود شہرت وعزت سے بالکلیہ بے نیازتھے۔ ٓاپ کا معمول تھا کہ توجہ فرماتے اس کے بعد ضمارہستی کو اٹھانے کی تربیت فرماتے ۔ اور ٓاخر زمانہ میں مقام تمکین پر رسم توجہ کو بالکل ٓاپ نے موقوف فرمادیا تھا۔ اور اگر کوئی التجا کرتا توٓاپ اس کو اپنے خلیفہ فائزہونے کے سبب ِ مدار کے سپرد فرماتے لیکن ٓاخرزمانہ میں ٓاپ کا فیض صحبت بہ نسبت سابق بہت زیادہ ہوگیاتھا۔ حضرت شیخ ؒ باوجودکثرت عبادت وشدت ریاضت سلسلہ درس وتدریس جاری تھا اور سلسلہ تصنیف تالیف بھی جاری رہا۔ ٓاپ کی انگشتری مبارک پر الموت خیر الواعظ یارفیع کندہ تھا۔ مرشد کامل کی طلب:۔ اورنگ ٓاباد میں علم ظاہر کی تکمیل کے بعد دستار فضیلت حاصل فرماکرحسب الطلب والدبزرگوار ٓاپ نے اپنے وطن مالوفہ قندہار شریف مراجعت فرمائی اور کچھ مدت قندہار میں قیام کے بعدبموجب استخارہ و اشارہ حضرت سیدنا حاجی سیاح سرور مخدوم قدس سرہ ،مرشد کامل کی طلب میں رحمت ٓاباد شریف تشریف لے گئے اور حضرت شیخ المشائخ وحید العصر قطب الدہر سید نا خواجہ رحمت ہللا نائب (رسول ہللا ﷺ) قدس سرہ ،کے ٓاستان عرش ٓاشیاں پر پہنچے حضرت ممدوح سے نیاز حاصل ہونے کے دوسرے روز حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نےٓ اپ سے ارشادفرمایا کہ تمہارے بارے میں محمد علی خاںبہادر واالجاہ کو لکھ دیتاہوں خط لیکر ان کے پاس جائیں وہ ہر طرح تمہارے ساتھ معقول سلوک کرینگے ۔ یہ سنکر ٓاپ کو نہایت رنج ہوا اور ٓاپ نے عرض کی کہ غالم کے بزرگوں نے جو معاش پیدا کررکھی ہے وہ بندہ کے احتیاج سے زیادہ ہے لیکن اس کو اپنے حق میں حرام سمجھتا ہے اور محض تربیت باطن کی توقع پر حسب االشارہ ہادی اشباح وارواح محمدسیاح قدس سرہٓ ،انجناب کے ٓاستان عرش ٓاشیاں تک خود کو پہنچایاہے۔ جو نہی ٓاپ کا معروضہ سماعت فرمایا حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے بے اختیار رونا شروع فرمایا اور ارشاد فرمایا بارک ہللا ،لوگ ان دنوں ٓاتے ہیں جن میں بعض سفارش کی غرض سے اور بعض برائے اجازت عمل تسخیر اور بعضے نسخہ کیمیاء کی طلب میں بیعت کرتے ہیں ،چنانچہ فقیراسی طرح خیال کیا پھر حضرت سیدنا خواجہ علیہ الرحمہ نے ٓاپکو اجازت دوگانہ رویت رسول ہللا ﷺ مرحمت فرمائی ،اور فرمایاکہ رات میں عمل کریں۔ حقیقت واقعہ فراموش نہ کریں اور صبح میں تفصیالً بیان کریں چنانچہ اس عمل کے بعد ٓاپ کی تفصیل جیسا کہ خود ٓاپ نے تحریر فرمائی حسب ذیل ہے۔ خواب اوررویت النبی ﷺ:۔ ٓاپنے اس عمل کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک صحرائے عظیم میں تنہاہیںـ اور ایک ہولناک شخص درازقامت سیاہ رنگ ٓاپ کا قصد کیا ہے اور ٓاپ اس سے حیران ہیں۔ ناگاہ بزرگوں کی ایک فوج اسی وقت تیزتیز ٓائی اور اس شخص ہولناک کو اس فوج نے شمشیروں اور لکڑیوں سے مارکر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ٓاپ نے دریافت کیا کہ یہ فوج کونسی ہے، کہنے لگے کہ یہ ٓانحضرت ﷺ کا جلوخاص ہے اور ٓانحضرت ﷺ بھی تشریف الرہے ہیں۔ جب یہ بات سنی تو ٓاپ ومعلّے فوج کے کنارہ کھڑے ہو گئے ۔ مختلف اقسام کے بزرگ فوج درفوج ٰ نہایت خوش حال ہوگئے اور اس مبارک گذرتے گئے ،ناگاہ سواری مبارک ٓانحضرت ﷺ ظاہرہوئی اور ٓانحضرت ﷺ تخت پر تشریف فرماتھے۔ اور لوگ اطراف اس تخت کو پکڑے ہوئے تھے۔جب تخت مبارک ٓاپ کے نزدیک پہنچا ٓاپ نے ٓاداب بجاالیا اور نہایت تضرع کیا۔ ٓانحضرتﷺ نے نگاہ شفقت وتبسم ٓاپ کے حال پر مرحمت فرمایا اور ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ ٓاپ کو حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ کے پاس لیجائیں اور تخت مبارک گذر گیا۔ ٓاپ رخصت ہو کر اس شخص کے ہمر اہ حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ ،کی طرف راہی ہوئے ،راستہ کاایک حصہ قطع کئے ایک باغ میں پہنچےـ جس کے اوصاف خارج از احاطئہ تحریر وتقریر تھے اور درمیان باغ چبوترہ تھا بہت ہی مطبوع اور اس پر حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ ،تشریف فرماتھے ان کے گرد اگرد چند بزرگ مراقب حلقہ کئے ہوئے تھے۔ اور حضرت عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ ،کی صورت ٓاپ کو خوب یاد تھی ،سرخ رنگ ،سفید ڈاڑھی ،میانہ قد اور گرد چہرہ رکھتے تھے اور وہ سفید لباس میں ملبوس تھے،ـ نورانیت باطن کے سبب ٓافتاب کے مانند روشن نظرٓارہے تھے۔ ٓاپ کے ساتھی شخص نے ٓاپ کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قریب لے جاکر کہا کہ ان کو جناب سرور عالمیان علیہ الصلواۃ والسالم نے تمہارے پاس بھیجاہے ۔ حضرت عبدالخالق غجدوانی ؒ متوجہ ہو کر ٓاپ کو اپنے سامنے طلب فرمائے ،جب ٓاپ درمیان حلقہ بزرگان مراقبین متصل حضرت عبدالخالق ؒ پہنچے،ـ باشتیاق تمام اپنے سر کو حضرت عبدالخالق ؒ کے قدم مبارک پر رکھدیئے۔ـ حضرت عبدالخالق ؒنے ٓاپ کے سر کواپنے دست مبارک سے اٹھا کر ٓاپ کو سرفرازفرمایا اور ایک چیزارشاد فرمائی کہ جس کے اظہارکی اجازت نہیں تھی ،جب بیداری کے بعد ٓاپ اس واقعہ کو حضرت مرشد کی خدمت میں عرض کئے تو حضرت خواجہ علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ تم کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بہر ہ کلی حاصل ہوگا۔ کہ بموجب حکم جناب رسالت پناہ ﷺ جناب عبدالخالق ؒ جو رئیس نقشبندیاںہیں ،تمہاری طرف بہت متوجہ ہیں اس کے بعدـ اس رویت نبوی ﷺ کے طفیل میں بہت بشارت میسر ہوئی چنانچہ ٓاپ نے لکھا ہے اس کا تحریر کرنا طوالنی ہے اور برائے ادائی شکروتیمن اس محل میں اسی قدر کافی ہے۔ بیعت وخالفت:۔ اس کے بعد ٓاپ حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کے دست حق پر ست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سلسلہ قادریہ ،سلسلہ عالیہ چشتیہ اور سلسلہ عالیہ رفاعیہ وغیرہ میںبیعت سے مشرف ہوئے اور ایک سال تک رحمت ٓاباد میں حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کرتمام منازل سلوک طئے فرمائے اور پھر طریقہ عالیہ قادریہ ،نقشبندیہ ،چشتیہ ،رفاعیہ ، سہروردیہ ،شطاریہ ،مداریہ ،وغیرہ معہ اصول وفروعہ میں خالفت واجازت عامہ ومصافحہ حاصل فرمایا اورتمام اشغال واعمال طرق موصوفہ میں پوری تلقین اور توجہ پاکر بہ اجازت حضرت خواجہ علیہ الرحمہ مراجعت فرمائی ۔ جہاں علم ظاہرمیں زبردست کمال حاصل تھا وہیں علم باطن میں ٓاپ کو بہرئہ کلّی حاصل ہوا۔ سفرحجازمقدس:۔ اثنائے راہ میں بعض اس فن شریف کے طلباء کی تربیت کی خاطر پانچ سال حیدرٓاباد میں قیام فرمایا اور پھر مکہ معظمہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ فریضئہ حج وزیارت سے فارغ ہو کر تین سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور رئیس المحققین حضرت محمد بن عبدہللا مغربی وغیرہ مشائخ ومحدثین وقت کہ جو حرمین شریفین میں موجود تھے۔ ان سے صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث شریف اور اعمال واشغال طرق شتی میں عمالً استفادہ فرمایا اور تجوید وقرٔات قرٓان سیکھ کر سند حاصل فرمائی ٓاپ نے دو دفعہ حرمین شریفین کا سفر اختیار فرمایا او رمدینہ طیبہ میں درس حدیث کاسلسلہ جاری فرمایا تھا۔ ٓاپ کا سلسلہ طریقت بھی مدینہ طیبہ میںجاری ہو ا چنانچہ ٓاپ کے ایک خلیفہ حضرت موالنا عبدہللا مکی علیہ الرحمہ مدینہ طیبہ میں تھے ۔ حرمین شریفین کی حاضری ٓاپ کے لئے نہایت مبارک ثابت ہوئی۔ چنانچہ شب جمعہ حطیم کعبہ میں ٓاپ حاضر تھے کہ ٓاپ کو بشارت ہوئی اور ٓاپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک قلمدان برٓامدہوا ،اور ٓاپ نے بشاد مانی تمام ان دونوں کو لے لیا۔ پھرایک بزرگ نے ٓاوازدی کہ یہ کتاب اور قلمدان جناب رسالت مٓاب ﷺ کی طرف سے تجھ کوعنایت ہواہے ،مبارک ہو ،چنانچہ اس بشارت کی تفصیل ٓاپ نے ثمرات المکیہ کے مقدمہ میں تحریر فرمائی ہے۔ اس بشارت کے بعد ٓاپنے مکہ معظمہ ہی میں کتاب ’’ثمرات الم ّکیہ ‘‘ کی تالیف ٓاغاز فرمائی او روہیں ۱۱۹۸ھ میں پایہ تکمیل کوپہنچایا جو ٓاپ کے سلسلہ کی نہایت اہم کتاب ہے ۔ اس کتاب کے قدیم قلمی نسخے حضرت والدی مرشدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔ مدینہ طیبہ میں نہ صرف ٓاپ کے علم ظاہر کے سلسلے جاری ہوئے بلکہ علم باطن کے سلسلے بھی پھیلے ،چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ موالناانوار ہللا خان بہادر المخاطب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ حیدرٓاباد کن ٓ ،اپ کے حقیقی نواسہ حضرت حافظ شجاع الدین علیہ الرحمہ کے صاحبزادہ تھے۔ جب حج وزیارت کے لئے مکہ معظمہ ومدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں دوران قیام کسی ضیافت کے موقع پر شجرہ طریقت سننے کا اتفاق ہوااور کچھ شیوخ کے اسمائے گرامی کے بعد ٓاپ کا اسم گرامی عن شیخ رفیع الدین قندہاری الدکنی پڑھا گیا جس پرموالنا انوارہللا خان بہادرکو تعجب ہوا اور تقریب کے اختتام پر موالنا انوارہللا خان بہادر نے میزبان شیخ سے دریافت فرمایا کہ یہ سلسلہ حضرت موالنا رفیع الدین قندہاری الدکنی قدس سرہ ،کا یہاں کیسے پہنچا ،میزبان شیخ نے فرمایا ’’ہوشیخ العرب والعجم‘‘ (وہ عرب اور عجم کے شیخ ہیں) پھر تفصیل بتالئی کہ جب حج وزیارت کے لئے ٓاکر ٓاپنے یہاں قیام فرمایا اس وقت ٓاپ کے سلسلے یہاں پھیلے ۔ موالنا انوار ہللا خاںبہادر نے بعد واپسی حج حیدرٓاباد میں لوگوں سے یہ واقعہ تعجب کے ساتھ بیان کیا۔ تعمیر خانقاہ شریف:۔ حرمین شریفین سے واپسی پرٓاپ نے ایک خانقاہ بنام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السالم ،حضرت سیدنا غوث الثقلین اور حضرت سیدنا شاہ نقشبندـ رضوان ہللا تعالی علیھم اجمعین تعمیر کروائی۔ جس میں فقراء مساکین ،ومریدینـ ،وطلباء، کی تعلیم وتربیت ذکرو شغل ،قیام وطعام کی سہولت مہیا تھی ۔ ٓاج بھی یہ خانقاہ اندرون احاطہ درگاہ شریف بہ قصبہ قندہار موجودہے۔ سلسلہ درس وسلسلہ رشدوہدایت:۔ تاریخی روایات کے بموجب ٓاپکے مریدین و معتقدین کی تعدادـ الکھوں تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر بھی ٓاپ کے تدریسی ؔ کثرت علیہ مشاغل جاری رہے۔ اور ٓاپ کی خانقاہ شریف سے پڑھ کر اکابر علماء نکلے جیسے حضرت موالنا امین الدین ؔ ’’فوائدکثرت‘‘کے دیباچہ میں اپنی شاگردی کی الرحمہ جو ٓاپ کے شاگرد اور خلیفہ بھی تھے۔انہوں نے اپنی تصنیف نسبت ٓاپ سے اسطرح ظاہر کی ہے ’’کہ ازٓاغاز صبح یوم التمیز تاحال کہ سنہ ثانیہ است ازقرن ثانی ازوالدماجد خود شیر بیشہ اتقاء وبب نیستان عندلیب بوستان طریقت ؔ ؔ بہار گلشن معرفت خصوص ازبعضے اساتذہ مالیک تالمذہ مثل ؔ ٓاسمان سرایر ربانی شہباِزاوج فیوضاتِ اھتداء ،مرجع نشین ارایک فضیلت ومتکادہ چار بالش افادیت وافاضت خورشیدؔ سبحانی ،شمع جمیع ارباب حق ویقین ،حضرت مولوی رفیع الدین مدہللا ظالل جالل کمالہ علی مفارق الطالبین‘‘۔ الکھوں اشخاص نے ٓاپ کی ذات بابرکات سے فیض پایا جو بھی ٓاپ کی صحبت پایا ،درجہ کمال کو پہنچا اور جوبھی ٓاپ کے جمال باکمال کی زیارت سے مشرف ہوا ،وہ ٓاپ کا سایہ دار مالزم ہوا اور ٓاپ کے دامان دولت سے وابستہ رہا ،ہم عصر بزرگوں نے ٓاپ کوشیخ وقت اور افضل المتاخرین لکھا ہے۔ سفروقیام بلدہ حیدرٓاباد:۔ دومرتبہ ٓاپ بلدہ حیدرٓاباد رونق افروز ہوئے پہلی دفعہ جب تشریف ال کر مکہ مسجد میں قیام فرمایا شہر میں ٓاپ کی باکمال شخصیت ٓاپ کی بزرگی اور تقدس کا شہرہ ہوا ۔ الکھوں ٓادمیوںنےـ ٓاپ سے بیعت کا شرف حاصل کیا لوگوں کا اس قدر اژدھام تھاکہ فرداً فرداً بیعت لینا محال تھا۔ چنانچہ ٓاپ نے عمامہ کا ایک سرااپنے دست مبارک میں تھام رکھا تھا اور لوگ جو ق درجوق اس عمامہ کو چھو کر داخل سلسلہ ہورہے تھے۔ ٓاپ کے اس سفر حیدرٓاباد کا حال تواریخ میں لکھا ہے چنانچہ ٓاپ کی ذات بابرکات کی جب کافی شہرت ہوئی تو اسکی اطالع اعظم االمراء ارسطوجاہ تک پہنچی جو اس وقت مدار المہام تھااس نے چاہا کہ ٓاپ سے نیازحاصل کیا جائے اور ٓاپ کو اپنے گھر تشریف النے کی دعوت دی لیکن ٓاپ نے یہ جواب دیا کہ ’’میں جس علم کا خدمت گذارہوں اس کااقتضاء یہ نہیں ہے کہ سالطین وامراء کے دروازوں پر جبیںسائی کروں‘‘ اس جواب سے ارسطوجاہ مکدرہوگیا اور بادشاہ وقت نواب سکندر جاہ کو یہ عرض کروایا کہ ٓاج کل قندہار سے ایک شاہ صاحب ٓائے ہوئے ہیں ،انہوں نے رعایاکو اپنا اس قدگرویدہ بنالیا ہے کہ اگر چند روز ان کا شہر میں قیام رہے تو اس کا قوی احتمال ہے کہ سیاست ملکی میں خلل واقع ہوا اس معروضہ کی بناء پر فرمان شاہی صادر ہوا کہ مولوی صاحب اپنے وطن مالوفہ قندہار تشریف لے جائیں۔ ٓاپ نماز ظہر ادافرماکر مکہ مسجد تشریف فرماتھے۔ اور لوگوں کازبردست اژدھام تھا ،بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ یہ فرمان ٓاپ کو سنایا گیا معا ً ٓاپ نے کمبل کندھےـ پر ڈالی ’’ملک خدا تنگ نیست پائے گدالنگ نیست‘‘ فرمایا اور تشریف لے چلے ہزارہا اشخاص ٓاپ کے ساتھ ہوگئے جو اس واقعہ سے نہایت متاثراور رنجیدہ تھے اور چاہتے تھے کہ ہمیشہ ٓاپکاقیام حیدرٓاباد میںہوتاکہ یہاں کے لوگ ٓاپ کے فیو ـض وبرکات سے بہرہ ور ہوتے رہیں ،چنانچہ جب ٓاپ پرا نے پل کے دروازہ سے باہر تشریف لے گئے پولیس نے اژدھام کو روکنے کے لئے پل کادروازہ بندکردیا لیکن لوگ جوش عقیدت میں فصیل پر چڑھ کر پارہوئے اور ٓاپ کے ساتھ ہوگئے ۔ ٓاپ نے لوگوںکوسمجھایااور واپس کرنے کی کوشش فرمائی ،حضرت حسین شاہ ولی علیہ الرحمہ کی درگاہ شریف تک اژدھام چھٹ چھٹ کر مخصوص لوگوںتک باقی رہ گیا۔ اس درگاہ شریف میں چند دن قیام فرماکر ٓاپ قندہارشریف تشریف لے گئے اور ادھر اچانک اعظم االمراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا۔ اور عہد ئہ مدارالمہامی کا جائزہ میرعالم نے حاصل کیا پہالفرمان شاہی منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ ٓاپ نواب شمس االمراء بہادر امیر کبیر خاں )کی درخواست اور بہت اصرار پر حیدرٓاباد دکن رونق افروز ہوئے اس وقت ٓاپ بوجہ ضعیف (نواب فخرالدین ؒ العمری نحیف ہوچکے تھے۔ اور بصارت ظاہری میں بھی کافی فرق ٓاچکا تھا۔ دوسری مرتبہ تشریف ٓاوری کے موقع پر جبکہ ٓاپ مقبرئہ جان علی خاں مرحوم کے باغ میں قیام فرماتھے۔ مٔولف گلزارٓاصفیہ خان زمان خان صاحب معہ حکیم عافیت طلب خان ٓاپ کی قدمبوسی سے مشرف ہوئے جس کا تذکرہ اپنی کتاب گلزار ٓاصفیہ میں کئے ہیں۔اس دوسرے سفرمیں ٓاپ چونکہ لوگوں کے اجتماع واژدھام کو پسندنہیںـ فرماتے تھے۔ ٓاپکی قیام گاہ پر عوام کی ویسی کثرت نہ تھی بلکہ خاص خاص لوگ ہی حاضرخدمت رہتے پھر وہاں سے نواب شمس االمراء بہادر نے ٓاپ کو شمس ٓاباد لیجا کر ٹھیرایا ،تمام خاندان پائیگاہ ٓاپ کے دست حق پر ست پر بیعت سے مشرف ہوا دراصل ٓاپ کے اس دوسرے سفرکی غرض وغایت بھی یہی تھی۔اس کے بعد شمس االمراء بہادر نے شمس ٓاباد جاگیر کی سند بطور نذر ٓاپ کی خدمت میں پیش کی جس پر ٓاپ ناراض ہوئے،ـ اور فرمایا کہ نواب تم ،ہم کو اللچ دیتےـ ہو ،نواب شمس االمراء بہادر خوف زدہ ہو کر عاجزی کے ساتھ طالب معافی ہوئے۔ٓاپ نے معاف فرمادیا اورارشادفرمایا کہ ٓایندہ ایسانہ کرنا ،نواب محمدفخرالدین خان شمس وصلوۃ کے ٰ االمراء بہادر پر ٓاپ کی بہت عنایت اور شفقت تھی۔ چونکہ نواب موصوف کے بہت اچھے اوقات تھے ،صوم سخت پابندـ اور تہجد گذار تھے ،ضروری ا وراد وظائف کی بھی پابندی ملحوظ رکھتے تھے۔ اپنے پیر روشن ضمیر سے کمال اعتقاد رکھتے تھے۔ اور ایسے پیر پرست تھے کہ جب ان کو فرزند تولد ہوئے تو ان کا نام اپنے پیر روشن ضمیر کے نام پر محمد رفیع الدین خان رکھا۔ جو بعد میں بڑے بڑے خطابات سے سرفرازہوئے۔ نواب شمس االمراء بہادر کے تمام فرزندان نواب بدرالدین خان تمیز المخاطب رفعت جنگ معظم الدولہ معظم الملک ،دوسرے فرزندنواب رشیدالدین خان المخاطب اقتدار الملک ،نواب رفیع الدین خان المخاطب عمدۃ الملک منجھلے میاں سب کو ٓاپ سے بیعت حاصل تھی۔ امیر کبیر نواب محمد فخرالدین خان شمس االمراء بہادر کو ٓاپ نے خالفت واجازت سے بھی سرفراز فرمایاتھا۔ اور ایک تسبیح مرحمت فرمائی تھی ،جس کو شمس االمراء بہادر نے کبھی خود سے جدا نہیں کیا ان کی ہر تصویر میں ان کے سیدھے ہاتھ میں ایک تسبیح لپٹی ہوئی نظرٓاتی ہے ،یہ وہی تسبیح تھی جو ٓاپ نے ان کو مرحمت فرمائی تھی ۔ حیدرٓاباد کے دوسرے سفر کی دعوت پر ٓاپ نے فرمایا کہ اب ہماری عمر کے اعتبار سے سفر کی صوبیتں برداشت کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے ٓانے میں مجبوری ہے لیکن شمس االمراء بہادر نے باصرار معروضہ کیا کہ غالم حضرت کا قدم چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ غالم کا تمام خاندان حضرت کی قدمبوسی کا مشتاق ہے اورحضرت کے دست مبارک پر بیعت حاصل کرنے کا متمنی ہے۔ چنانچہ مجبوراً ٓاپ راضی ہو کر تشریف الئے اور تقریباًایک ماہ حیدرٓاباد میں ٓاپ کا قیام رہا۔ نواب بدرالدین خان تمیز فرزندنواب شمس االمراء بہادر کے مندرجہ ذیل اشعارسے خاندان پائیگاہ کی ٓاپ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہو تاہے۔ تب سے اس کے اور بھی رتبہ ہوا ٓائین کا جب سے بدر الدیں ہوا بندہ رفیع الدین کا اک نگا ِہ لطف سے جس کے ہے عالم فیضیاب ہے تصور دل کو اسکی چشم فیض اولین کا دوجہاں کی بادشاہی ہم کو حاصل ہوگئی منہ سے نکال اسکے ایسا حرف اک تسکین کا دین ودنیا کے ہیں مالک پیر ومرشد اے ؔ تمیز روز جزا ہے کون اس مسکین کا ِ حامی ٔ ریاست حیدرٓاباد کے اکثر عمایدینـ سلطنت کو ٓاپ سے شرف ارادت وبیعت حاصل تھا ،اور اکثر اکابرعلماء ٓاپ کے دامان ارادت سے وابستہ تھے۔ ٓاپ کا حلقہ ارادت اجنّاتک وسعت کرگیا تھا چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ ٓاپ کے ایک مرید جوجن تھے ٓاپ نے ان کوان کی خواہش پر انسانی شکل میں اپنی خدمت میں رکھا اور ان کا نام مبارک علی رکھا تھا جو ٓاپ کے وصال تک ٓاپ کی خدمت میں رہے اوراس کے بعدـ کافی عرصہ تک حضرت قادربی بی پیرانی ماں صاحبہ رحمۃ ہللا علیہا کی خدمت میں رہے ،اور ایک روز سرمیں کچھ چبھنے کی شکایت کی چنانچہ ان کے سر سے کیال نکاال سرہ نے انگیا جس پر یکا یک ان کا قدطویل ہوگیا دریافت پر انہوں نے بتایا کہ وہ اجنا سے ہیں اورحضرت قبلہ قدس ٗ کوانسانی شکل میں رکھاتھا۔ انہوںنے خواہش ظاہرکی کہ وہ چاہتے ہیں کہ مابقی زندگی حضرت قبلہ قدس سرہ ،کی درگاہ شریف میں گذاردیں چنانچہ حضرت پیرانی ماں صاحبہ قبلہ کی اجازت حاصل کرکے رخصت ہوئے اور ٓاج تک بھی قندھار شریف میں مبارک ماموں کے نام سے مشہور ہیں اور کبھی کبھی کسی کو نظر ٓاجاتے ہیں ،ایسابھی ہواہے کہ درگاہ شریف میں اگر کسی نے کوئی بے ادبی کی تو انہوںنے اس کو ڈرادیا اور مشہور ہے کہ ہمیشہ درگاہ شریف میں حاضررہتے ہیں۔ اسمائے گرامی حضرت مرشدان طریقت:۔ کتاب’’انوارالقندہار‘‘ میںٓاپ نے اپنے مرشد ان طریقت کا ا سطرح تذکرہ فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے۔ اوالً ازشاہ محمد عظیم الدین بلخی ثم الکھنوی ثم اورنگ ٓابادی گرفتم ازیشان درطریقہ عالیہ نقشبندیہ ازلطیفہ قلبی تاذکر’’ سلطانی معہ رسوم مشائخ بایں طریق التعین جزاہ ہللا عناخیرالجزا ثانیا ازحضرت مولوی سید قمرالدین اورنگ ٓابادی قدس سرہ ،تکرار رسوم مشائخ نمودہ تقریر اشغال ماخوذہ درطریق نقشبندیہ نودہ تاذکرسلطانی رسایندہ شدو حزب البحرو غیرہ اعمال بطریق اجازت گرفتم ونورالکریمتین تصنیف حضرت موصوف من اولہ وٓاخرہ اززبان مبارک سندکردہ ایم تحقیق بلیغ در حال مسلمہ حقایق بایں فقیرا رشاد فرمود ند جزاہ ہللا عنی احسن الخیر ورحمۃ ہللا تعالی رحمۃً واسعۃً ومزار مقدس ٰ نورالہدی صاحب دراورنگ ٓاباد نزد بھڑکل کالں درحویلی حضرت موصوف معہ مزار مقدس فرزندارجمندایشان حضرت سرہ گرفتم ازیشان تماممرحوم ومغفور واقع است یزار ویتبرک،ـ ثالثا ً ازحضرت خواجہ رحمت ہللا نائب رسول ہللا ﷺقدس ٗ سلوک طریقہ عالیہ نقشبندیہ قادریہ ورفاعیہ وچشتیہ وسہروردیہ وشطاریہ و مداریہ وغیرہ معہ اصول وفروع بیعت مصافحہ نمودہ تمام اشغال واعمال طریقہ موصوفہ بہ تفصیل بہ طریق تلقین وتوجہ یافتم خرقہ خالفت واجازت عمامہ ازجناب ایشان بہ فقیرعنایت گشتہ جزاہ ہللا وعن سائیر مستفیدین خیر الجزاء پس بہ فقیردرطریقہ نقشبندیہ ازسہ بزرگان ‘‘فائدہ رسیدہ لیکن اتمام سلوک درخدمت حضرت خواجہ رحمت ہللا گشتہ۔ اسمائے گرامی بزرگان صحبت:۔ ، کتاب ’’انوارالقندہار‘‘ میں بزرگان صحبت کے تعلق سے ٓاپ نے اس طرح تحریر فرمایا ہے جو من وعن درج ذیل ہے شاہ محمد عظیم الدین مرید شاہ عبدالرحمن قدس سرہ ،و نزدیک قلعہ ارکہ خجستہ بنیاد ٓاسودہ اندو شاہ ابراہیم نقشبندی’’ متصل کنکر در وازہ خجستہ بنیاد ٓاسودہ اندوشاہ رشید کہ درمسجد بیگم پورہ بودند ومحمد شاکر واعظ و نیز فخرالدین وشاہ عبدالصمد وشاہ فہم رسول مریدشاہ پیر محمد سبزپوش گجراتی وشاہ غالم حسین فرزندشاہ شیخن احمد صاحب وازیشان اجازت جواہر خمسہ ہم رسید جزا ہم ہللا خیراً وفراغ یافت ازتالیف وتسویدرسالہ انوارالقندہار روزسہ شنبہ بوقت چاشت درخانقاہ نواحداث موصوف بتاریخ نہم رجب المرجب ۱۲۱۳ھ یکہزار ودو صد و سیزدہ ہجری مقدسہ درٓان وقت عمرایںکاتب یک کم وپنجاہ سال بود حق تعالی ازطفیل حبیب خودصلی ہللا تعالی علیہ وٓالہ وسلم جمیع امت مرحومہ ازجمیع غفلت ومناہی بازداشتہ این چند انفاس کہ باقی ماندہ باشنددریاد خود برٓاردو بہ فضل خود بمقام دوستان خود برساندصلی ہللا تعالی علی خیرخلقہ سیدنا محمدٓالہ وازواجہ واصحابہ اوتباعہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔ ٓامین ٓامین ٓامین تصنیف وتالیف:۔ باوجود غیرمعمولی عبادت وریاضت ٓاپ نے سلسلہ تصنیف وتالیف کوجاری رکھا ،چنانچہ تواریخ کے حوالہ سے ٓاپ کے مندرجہ ذیل تصنیفات وتالیفات کا ہونا ثابت ہے۔ ثمرات المکیہ:۔)۱ یہ ٓاپ کی نہایت اہم تالیف ہے جس کی بتاریخ ۱۵؍محرم الحرام بروزپنجشنبہ۱۱۹۸ھ مدرسہ شیخ عبدالکریم قطبے (شباکی میں)جوبیت ہللا شریف کے مقابل تھا ٓاپ نے تکمیل فرمائی ،سبب تالیف ٓاپ نے کتاب کے مقدمہ میں تفصیلی طور پر تحریر فرمایا ہے ،جس کااختصاریہ ہے کہ ٓاپ اندرون حرم شریف حطیم مکہ معظمہ میں بہ شب جمعہ حاضر تھے کہ بعض مبشرات میں ٓاپ نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شریف سے ایک کتاب اور ایک قلمدان برٓامدہوئے جن کو پوری مسرت وشادمانی سے ٓاپ نے لے لیا۔ اسی وقت ایک بزرگ نے ٓاوازدی کہ’’ یہ کتاب وقلمدان جناب سرورکائینات وخالصہ موجودات صلوات ہللا وسالمہ علیہ سے تجھے عنایت ہوا ہے۔ مبارک ہو‘‘چنانچہ ٓاپ نے اس کتاب کی تالیف متذکرہ باالبشارت کی روشنی میں ٓاغازفرمائی اور اس کتاب کانام ’’ثمرات المکیہ‘‘ رکھا ۔ یہ کتاب مقدمہ تین ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے ۔ مقدمہ بیعت او راس کے لوازم کے بیان واقع ہے۔ باب اول فروع طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل ہے۔ باب دوم اصول طرق عالیہ کے بیان پر مشتمل ہے جو سلوک طرق سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے دونسخے ہیں،ایک نسخہ بڑی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ کالں) کہالتاہے۔ اوردوسرا چھوٹی ثمرات المکیہ (بہ نسخہ خورد) کے نام سے مشہور ہے۔ ثمرات المکیہ بہ نسخئہ کالں میں ٓاپ نے تصوف،معرفت و حقیقت کے نازک مسائل پر قرٓان وحدیث اور اکابر دین کے اقوال کی روشنی میں سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور تمام سالسل طریقت کے مستند سلوک کو قلمبندفرمایا ہے ۔ تاکہ سالکین راہ طریقت سلوک کی تکمیل میں تقدیم وتاخیر سے محفوظ رہیں ۔ ٓاپ کی اس کتاب کے ضرورت مندٓاپ کے خلفاء اور متوسلین ہی نہیں بلکہ دیگر سلسلوںکے شیوخ بھی ثمرات شریف کے ضرورت مندرہے۔ چنانچہ اکثر شیوخ کے کتب خانوں میںثمرات المکیہ کے نسخے پائے گئے ہیں ۔ ونیزتصوف ومعرفت وحقیقت کے مسائل پر دیگر سلسلوںکے شیوخ نے بطوراستداالل واستناداپنی تالیفات میں ثمرات المکیہ کے حوالے دیئےـ ہیں کتاب فصل الخطاب بین الخطاء والصواب مٔولفہ موالنا سید شاہ عبداللطیف المشہور بہ سید شاہ محی الدین قادری ویلوری ؒمیں ص ۱۶۳پر مٔولف کتاب نے مسلہ وحدت الوجود کی بحث میںوجود کی حقیقت اور معانی سے متعلق ثمرات المکیہ کی عبارت کا حوالہ سنداًپیش کرکے تحریر فرمایا ہے کہ کذا فی سلوک القادریہ لموالنا المولوی رفیع الدین نقشبندی القادری القند ہاری۔ الغرض ٓاپ کی یہ معرکتہ آالراء کتاب دنیائےـ طریقت میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ مسائل تصوف کے عالوہ سلوک طریقت میں ہر سلسلہ کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ ٓاپ مجمع السالسل ہیں۔ تمام سلسلوں کے سلوک میں ٓاپ کو وہ تحقیق بلیغ حاصل تھی اور ایسا درک حاصل تھاکہ نہ صرف ٓاپ کے پیر بھائی بلکہ دوسرے سلسلوں کے ہم عصرشیوخ بھی مختلف سالسل کے سلوک کی تحقیق وتدقیق میں ٓاپ کی ذات گرامی سے رجوع کرتے تھے ۔ تمام سلسلوں کے سلوک میں کسبی اور وہبی راستوں سے کمال ٓاپ کی ذات بابرکات میں پایا جاتاتھا۔ جس کو ٓاپ نے ثمرات المکیہ میں جمع فرمادیاہے۔ اور ہر سلسلہ کے شجرہائے طریقت قلمبندـ فرمادئیےـ ہیں۔ باوجود اس قدراہمیت کے یہ کتاب طبع نہوسکی ،اگر چیکہ اس کی طباعت کیلئے اکابر نے بڑی بڑی کوشیش کیں۔ البتہ اس کے متعد د قلمی نسخے ہوئے اس کتاب کے قدیم چھ()۶قلمی نسخے حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہیں۔ جن میں چار نسخے ثمرات المکیہ بہ نسخہ کالںاوردو()۲بہ نسخہ خوردہیں۔ان کے منجملہ ایک نسخہ نہایت قدیم جو اصل تالیف کے چھ ماہ بعد کا ہے ۔ مولوی محمد عظیم الدین عرف محمد علی متوطن قصبہ کوٹگیر کا قلمی ہے۔ جو بماہ جمادی الثانی ۱۱۹۹ھ کو اختتام پذیر ہوا ۔ اس کے عالوہ ایک قدیم نسخہ حضرت موالنا امین الدین کثرت علیہ الرحمہ کاقلمی ہے جو ٓاپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ اس کتاب کے اختتام پر ٓاپ نے خدمت خلق کے پیش نظر تعویذات اور طلسمات کو بھی جمع فرمایا ہے۔ بالخصوص ٓاپ کے متوسلین کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس کی نقلیں کتب خانہ ٓاصفیہ وغیرہ میں موجود ہیں۔ ٓاپ کے خلفاء نے اس کتاب کی بدست خود نقل کرکے ٓاپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیں تاکہ اپنے دست مبارک سے کتاب پر انکانام ٓاپ تحریر فرماکر مرحمت فرمائیں جو ان کے لئے سنداً محفوظ رہے ،چنانچہ اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ کتب خانہ ٓاصفیہ میں محفوظ ہے جو ٓاپ کے خلیفہ حضرت موالشاہ محمد اویس شہیدعلیہ الرحمہ کو عطاء ہواتھا۔ جس پر ٓاپ نے اپنے قلم سے ’’بپاس خاطر میاںمحمد اویس دادہ شد‘‘ تحریر فرمایاہے()۲۔ ایک دوسرا قدیم قلمی نسخہ جس کی نقل ٓاپ کے خلیفہ حضرت موالنامیر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے کی ہے خالفت کے بعد صالح حافظ میرشجاع الدین حسین ‘‘ تحریر فرمایاہے۔ اس نقل کی ان کو عطاء ہوا جس پر ٓاپ نے اپنے قلم سے ’’للسید ال ّ تکمیل پر کتاب کے ٓاخرمیں حضرت موالنا میر شجاع الدین حسین علیہ الرحمہ نے بزبان عربی تحریر فرمایاہے کہ قدحصل الفراغ بعون ہللا تعالی وتوفیقہ من کتابۃ النسخۃ المبارکۃ المیمونۃ المسمی بثمراۃ المکیۃ من تالیفات قدوتی’’ : ومرشدی حضرت المولوی محمد رفیع الدین ابن محمد شمس الدین القندھاری الدکنی مدہللا تعالی ظالل ارشادہ علی رٔوس والہ وصحبہ وسلم۔ ‘‘الطالبین وادخلنی ببرکۃ انفاسہ الشریفۃ فی زمرۃ الصالحین وصلی ہللا تعالی علی سید نا محمد ٰ انوارالقندہار:۔)۲ یہ ٓاپ کی وہ اہم تالیف ہے کہ جس میں ٓاپ نے قندہار شریف کے بزرگوں کے حاالت تحریر فرمائے ہیں۔ وہ بزرگ جن کے تذکرےـ تواریخ موجودنہ تھے اور نہ کسی کو معلوم تھےٓ ،اپ نے ذریعہ کشف معلوم کرکے ان کے حاالت تحریر فرمائے ہیں اور ٓاپ نے خود اپنا تذکرہ بھی قلمبندفرمایاہے۔ کتب خانہ ٓاصفیہ میں اس کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے۔یہ نقل سید ناظم حسین رضوی موہانی نے بعہدـ میر محبوب علی خان بتاریخ ۲۹؍جمادی االول۱۳۱۰ھ روزشنبہ وقت یک ونیم ساعت شب وحیدرٓاباد دکن کی ہے۔ تذکرئہ نوبہار:۔)۳ یہ تذکرئہ شعراء ہے۔ اس میں ٓاپ نے ()۵۷فارسی شعراء کا تذکرہ معہ نمونہ کالم قلمبندفرمایاہے۔ اس کتاب میں ٓاپ نے خود اپنا تذکرہ بھی تحریرفرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ راحت االنفاس:۔)۴ اس کی تالیف ۱۱۹۵ھ میں ٓاپ نے فرمائی ۔ تواریخ میں اس کانام غلطی سے انفاس العاشقین لکھا ہے۔ رسالئہ اجازت نامہ جات:۔)۵ اس رسالہ میں ٓاپ نے شجرہ ہائے طریقت جمع فرمائے ہیں طریقہ قادریہ ،طریقہ نقشبندیہ ،طریقہ رفاعیہ ،طریقہ چشتیہ ،طریقہ سہروردیہ ،طریقہ شطاریہ ،طریقہ مداریہ کے شجرے اوراجازت نامہ صحاح ستہ سندقراء ت،اجازت نامہ حزب البحرشریف ،اجازت نامہ برزنجی،اجازت نامہ مولد النبی ﷺ ،اجازت نامہ دالئل الخیرات جمع فرمائے ہیں۔ اس کا ؒ کثرت کی قدیم نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ یہ نقل بقلم حضرت موالناامین الدین گئی ہے۔ جس پر انہوںنے تحریرفرمایاہے کہ’’ حسب الحکم حضرت قبلہ نقل کی گئی ہے‘‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٓاپ کی موجود گی میں یہ نقل ہوئی تھی۔ یہ ٓاپ کی قدیم تالیف ہے جس میں ٓاپ نے مختلف اوراد واشغال اور اعمال ووظائف کو جمع فرمایاہے۔ اس کا ایک قدیم قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ ہے۔ رسالہ چشتیہ:۔)۷ اس رسالہ میں ٓاپ نے طریقہ عالیہ چشتیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔ رسالئہ نقشبندیہ:۔)۸ اس رسالہ میں ٓاپ نے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے ذکروشغل کے طریقے اور سلوک قلمبندفرمایاہے۔ تحفۃ البدیع:۔ـ)۹ سلوک مداریہ میں یہ رسالہ ٓاپ نے ۱۲۲۹ھ بپاس خاطرمولوی محمد قائم شاہ صاحب خلیفہ حضرت سید میراں شاہ سرہ (ناندیڑ)تالیف فرمایا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس محفوظ مکہ اولیاء قدس ٗ ہے۔ یہ قلمی کتابیں اکثر کتب خانہ ٓاصفیہ میں موجود ہیں۔ متذکرہ رسالہ جات کے نسخے بھی حضرت قدوتی مرشدی ووالدی قبلہ گاہی کے پاس موجودہیں۔ }جدول بصراحت سنِّ وسال ٓاپ کے مناقب کے مختلف اہم موقعوںپر{ ۔ ۱۱۶۴ھ بتاریخ ۱۹؍ جمادی الثانی بروزپنجشنبہ بوقت صبح بعد نمازفجر والدت باسعادت بقصبہ قندہار۔۱ ۔ بموجب کتاب ’’انوار القندہار‘‘ ٓاپ کی پہلی شادی ٓاپ کے چچا حضرت غیاث الدین کی صاحبزادی سے ہوئی اس۲ وقت عمر شریف (۱۴؍سال) ۔ حسب الحکم حضرت سرور مخدوم اور نگ ٓاباد تشریف لیجاکر ()۹سال کی مدت تک علم ظاہری کی تکمیل فرمائی۳ دستار فضیلت حاصل فرمایا ،عمرشریف(۲۳سال) ۔ ۱۱۹۵ھ ٓاپ نے دربیان پاس انفاس دارالسلطنت حیدرٓاباد میں رسالہ ’’راحت االنفاس‘‘ تالیف فرمایا ،عمرشریف (۴ ۳۱سال) ۔ ۱۱۹۷ھ روزدوشنبہ بوقت بتاریخ ۲۱؍ ربیع االول ٓاپ نے ’’رسالہ سلوک نقشبندیہ‘‘ بعض حضرات کی ۵ درخواست پربوقت روانگی حج بندر مبارک سورت میں تالیف فرمایا،عمرشریف(۳۳سال) ۔ ۱۱۹۸ھ مدینہ منورہ میں حضرات شیخ عبد القادر بن شیخ محمد سعید الطاہر الکردی سے اجازت مولد النبی ﷺ ۶ معہ سندحاصل فرمائی ،عمرشریف(۳۴سال) ۔ ۱۱۹۸ھ ٓاپ نے حضرت حافظ محمد حیات بن طالب علیخان المحمدی القادری الحنبلی سے مدینہ منورہ میں سند ۷ حفص حاصل فرمائی ،عمرشریف (۳۴سال) ؒ قرٔات قرٓان مجید بروایت سیدنا ۔ ۱۱۹۸ھ ٓاپ نے مکہ معظمہ میں کتاب’’ ثمرات المکیہ ‘‘تالیف فرمائی ۔ عمرشریف(۳۴سال)۸ ۔ ۱۱۹۹ھ ٓاپ حرمین شریفین سے واپس قندہار تشریف الئے اس وقت عمرشریف (۳۵سال)۹ اویس جو ٓاپ کے خلیفہ تھے ۱۰، ؒ ۔ ۱۲۰۳ھ روزجمعہ ۲۰؍ ربیع االول کو ٓاپ نے بپاس خاطر حضرت سیدشاہ محمد قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’رسالہ سلوک چشتیہ‘‘ تالیف فرمایا اس وقت ،عمرشریف (۳۹سال) ۔ ۱۲۱۳ھ ۹؍رجب المرجب بوقت چاشت قصبہ قندہار خانقاہ شریف میں ’’انوار القندہار‘‘ تالیف فرمائی۱۱، عمرشریف (۴۹سال) ۔ ۱۲۱۵ھ ٓاپ نے قندہار شریف میں سندقرٔات قرٓان مجید طلباء کو مرحمت فرمائی اس وقت عمرشریف(۵۱سال)۱۲ ۔ ۱۲۱۶ھ ٓاپ نے کتاب تذکرہ نوبہار تالیف فرمائی ،عمرشریف(۵۲سال)۱۳ ۔ ۱۲۱۹ھ بہ ماہ محرم اعظم االمراء ارسطوجاہ راہی راہ فناہوا اس طرح حیدرٓاباد تشریف ٓاوری کے وقت ٓاپکی۱۴ عمرشریف(۵۴سال) ۔ ۱۲۲۹ھ ٓاپ نے قصبہ قندہار میں تحفۃ البدیع کی تالیف بپاس خاطر حضرت قائم شاہ فرمائی اس وقت ٓاپکی ۱۵ عمرشریف(۶۵سال) سرہ کا وصال ہوا اس وقت ٓاپکی۱۶ ٗ قدس قبلہ الدین نجم محمد شاہ موالنا حضرت صاحبزادے بڑے کے ۔ ۱۲۳۷ھ ٓاپ عمرشریف (۷۳سال) سرہ کے صندل مبارک کے روز ٓاپ کا وصال ہوا اس۱۷ ٗ قدس مخدوم سرور حضرت المرجب رجب ۔ ۱۲۴۱ھ ۱۶؍ وقت عمرشریف (۷۷سال) رشتہ ازدواج:۔ ٓاپ کی تین بیویاں تھیں پہلی بیوی حضرت انور بی بی صاحبہ بنت حضرت غیاث الدین قاضی قصبہ نرسی ،دوسری بیوی حضرت قادر بی بی صاحبہ جو قصبہ کوٹگیر کے خاندان قضاء ت سے تھیں ،تیسری بیوی حضرت پیرماں صاحبہ جو مدنی تھیں ،بزمانہ قیام مدینہ منورہ ٓاپ کے عقدنکاح میں ٓائی تھیںٓ ،اپ کی اوالداور ٓال کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ٓاپ کے جملہ پانچ صاحبزادے تھے،ـ اور چار صاحبزادیاں تھیں۔ چنانچہ تواریخ کے حوالے سے بھی پانچ صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کا ہو نا ثابت ہے۔ )ماخوذ:۔انوار الرفیع ص۱تا ،۲۹طبع اول ،مطبوعہ دائرہ پریس حیدرٓاباد۱۴۰۵ھ ۱۹۸۵ء( حواشی و حوالہ جات قال جامعہ الفقیر یوسف بن اسماعیل بن یوسف بن اسماعیل بن محمد ناصر الدین النبہانی عفا ہللا عنہ لما کان ہذا الکتاب )(۱ الشریف الفائق المشتمل علی الکثیر الطیب من شمائل خیر الخالئق متفر عاعن کتاب الشمائل لالمام ابی عیسی الترمذی و اصول کتب الحدیث المعتمدۃـ التی اجلہا واشہرھا الکتب الستۃ وہی دواوین االسالم صحیحا البخاری ومسلم و سنن ابی دأود و جامع الترمذی و سنن النسٔای وابن ماجہ رٔایت من الصواب ان اذکر اسانیدی فیہا الی مٔولفیہا ٭ فاقول :انی اروی ہذہ الکتب وغیرہا باالجازۃ عن عالمۃ عصرہ االمام الکبیر سیدی الشیخ ابراہیم السقا المصری الشافعی شیخ مشائخ الجامع االزہر وقد ذکرت اجازتہ لی فی ذیل کتابی ’’الشرف المٔوید ٓالل محمد‘‘ فی ضمن ترجمۃ لی اقتصرت فیہا علی بیان بعض ماتمس الحاجۃ الیہ من التعریف بی وہو رحمہ ہللا یرویہا عن عدۃ اشیاخ اجالء منہم االستاذ العالمۃ ولی ہللا الشیخ ثعیلب عن شیخیہ االمامین الشہاب احمد الملوی والشہاب احمد الجوہری عن شیخھما مسند عصرہ وفرد زمانہ الشیخ عبدہللا بن سالم صاحب الثبت الشہیر ٭ ومنہم االستاذ محمد بن محمود الجزائری عن شیخہ علی بن عبدالقادر بن أالمین عن شیخہ احمد الجوہری عن شیخہ عبدہللا بن سالم ٭ ومنہم العالمۃ المحقق الشیخ محمد صالح البخاری عن شیخہ رفیع الدین القندھاری عن الشریف تعالی۔ ٰ االدریسی عن عبدہللا بن سالم رحمہم ہللا حضرت سید شاہ محمد علیم الدین انور ،راقم کے برادر بزرگ نے حضرت کی منقبت میں ایک نظم تحریر فرمائی تھی جس کا ایک مصرعہ ہے۔ ’’سند سے ٓاپ ہی کی شام میں راوی ہیں نبہانی‘‘۔ ہندوستان میں حضرت موالنا عبدالباقی فرنگی محلی بھی اس سند کے حامل تھے۔ اس طرح عرب اور عجم میں کئی اکابر اس سند کے حامل تھے اسی لیے ٓاپ کو شیخ العرب والعجم تحریر کیا جاتا ہے۔ شاہ نے دکن میں جامعہ نظامیہ کا قیام و انصرام فرمایا۔ جس سے حضرت شاہ رفیع ؒ الدین کے نواسہ موالنا انوار ہللا ؒ ہزاروں تشنگا ِن علم سیراب ہورہے ہیں اور اسی جامعہ کو جنوبی ہند کی منفرد دینی درسگاہ کا مقام حاصل ہے۔ موالنا ہللا کو حضرت ہی کے سلسلہ میں بیعت و خالفت بھی حاصل تھی۔ چنانچہ موالنا مفتی سید محمود صاحب سابقہ انوار ؒ خطیب مکہ مسجد کو موالنا نے اسی سلسلہ میں بیعت لے کر خالفت عطا فرمائی تھی۔ بحوالہ :کتاب ،ثمرات المکیۃ مٔولف :شیخ المشائخ حضرت موالنا شاہ محمد رفیع الدین فاروقی (قندھاری) مترجم :ڈاکٹر محمد عارف الدین شاہ فاروقی قادری ملتانی سنہ اشاعت ۱۱ :ربیع آالخر ۱۴۲۶ھ م ۲۰مئی ۲۰۰۵ء کتب خانہ جامعہ نظامیہ کے شعبٔہ مخطوطات میں بھی ’’ثمرات المکیۃ‘‘ کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے جس پر (۲) مٔولف کی مہر ’’الموت خیر الواعظ یا رفیع‘‘ کے عالوہ سنہ ۱۱۹۴ھ نیز دو مزید سنین ۱۲۳۲ھ اور ۱۲۹۰ھ ہیں جن پر غالم رحمت ہللا نام کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ ’’ایں رسالہ رامصنف بدست بنشستہ است‘‘۔