Professional Documents
Culture Documents
منافع کی مقدار کو حکومت یا کسی ادارہ کے اختیار میں نہیں التا جاتا
قیمتیں طلب و رسد کے توازن سے متعین ہوتی ہیں چاہے طلب مصنوعی ہو یا چاہے رسد کو سرمایہ دار قیمت Kبڑھانے
کے لیے مصنوعی طور پر کم کریں
منڈی کی قوتیں خود کو درست کرنے کی طاقت رکھتی ہیں چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت یا کسی ادارہ کی
منڈی میں مداخلت کا تصور حقیقی سرمایہ دارانہ نظام کی روح کے خالف ہے
سرمایہ
آزاد دائرۃ المعارف ،ویکیپیڈیا سے
سرمایہ (انگریزی ،Capital :عربی :رأس املال ، فارسی :سرمایہ) معاشیات کی تعریف کے مطابق اشیاء و
خدمات ( )good&servicesکا وہ حصہ ہے جو نئی اشیاء و خدمات پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے
اور خود صرف ( )Consumptionمیں شامل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اس کا اہتالک ()Depriciation
ہو۔ یہ تعریف حساب داری ( )Accountingسے قدرے مختلف ہے جس میں عموما ً سرمایہ کو کوئی تجارت
یا کاروبار شروع کرنے کے لیے ابتدائی روپیہ یا اس سے خریدی جانے والی اشیاء کو سمجھا جاتا ہے۔
معاشیات میں سرمایہ کو عاملین پیدائش ( )factors of productionبشمول محنت ،تنظیم اور کرایہ میں سے
ایک سمجھا جاتا ہے۔ یعنی سرمایہ پیداوار میں ایک عامل کے طور پر کام کرتا ہے اور زیادہ سرمایہ کا مطلب
عموما ً زیادہ پیداوار ہوگا۔
سرمایہ زمین کے برعکس قدرتی طور پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ پیدا کیا جاتا ہے
عامل پیداوار کے طور پر مزید پیداوار کے کام آئے گا
ِ سرمایہ اشیاء کو وہ حصہ ہے جو ایک
سرمایہ کو پیداروار کے عمل خام مال کے برعکس یکدم صرف نہیں کیا جاتا بلکہ آہستہ آہستہ عموما ً
اہتالک کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔
سرمایہ کو ایک نقطۂ وقت میں ماپا جا سکتا ہے یعنی یہ ایک ذخیرہ ( )Stockہے
سرمایہ استعمال کرنے کا معاوضہ عموما ً سود ( )interestکہالتا ہے
باب Portal.svg
باب 35
کی اہم ایک شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و ) (Social Sciencesمعاشرتی علوم (Economics) معاشیات یا اقتصادیات
پیداوار کی تقسیم اور انکی طلب و رسدکا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطالح اقتصادیات اردو میں معاشیاتK
نے دی ) (Lionel Robbinsکے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات Kکی ایک جامع تعریف جو کہ روبنز
تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات Kایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے المحدود خواہشات اور ان
کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی
علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی
زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فالح
جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنہوں
نے اب اپنی علیحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات ،تجارت اور نظامت ۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی
میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ )(Macroeconomicsاور کلیاتی معاشیات ) (Microeconomicsطور پر انہیں جزیاتی معاشیات
فہرست
] غائب کریں[
اگرچہ معاشیات کی تحریریں کافی قدیم زمانے سے ملتی ہیں مگر وہ کتاب جو باقاعدہ معاشیات Kکی پہلی طبع شدہ کتاب سمجھی
ت اقوام ) (Adam Smithجاتی ہے ،آدم سمتھ ہے جو1876 ء میں چھپی تھی۔ اس )' (Wealth of Nationsکی مشہور کتاب 'دول ِ
وقت معاشیات کو بطور علیحدہ مضمون کے شناخت نہیں کیا جاتا تھا مگر 1876ء سے بھی پہلے مختلف جریدوں میں معاشیاتK
کے بین االقوامی تجارت سے متعلق مضامین کا تعلق سولہویں ) (Thomas Munnسے متعلق تحریریں موجود ہیں مثالً تھامس من
صدی سے ہے۔ معاشی نظریات اسالمی دور میں بھی موجود تھے اور یونانی دور میں بھی مگر علیحدہ مضمون کی حیثیت سے
۔ فرانسیسی میں Economicsانگریزی میں( ترقی اسے اٹھارویں صدی میں ہی آ کر ہوئی۔ معاشیات Kکو اس کا علیحدہ نام
(Alfredسن 1876ء کے کچھ بعد مال۔ پہلی کتاب جو باقاعدہ اس نام کے ساتھ چھپی وہ الفرڈ مارشل )Sciences économiques
اصول معاشیات )Marshallِ تھی جو1890 ء میں طبع ہوئی۔ مگر معاشی نظریات کو ہم ) (Principles of Economicsکی کتاب
تین بنیادی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلے دور میں عموما ً یونانی ،رومی اور عربی (اسالمی) نظریات شامل سمجھے جاتے
ہیں۔ دوسرے دور میں چودھویں صدی کے بعد سے اٹھارویں صدی کے نظریات کو داخل کیا جاتا ہے جیسے تاجرانہ نظریات
اور تیسرے دور میں آدم سمتھ اور اس کے بعد کے نظریات کو شامل کیا جاتا ہے۔ تیسرا دور ہی اصل )(mercantilist views
معنی میں ترقی کا دور ہے جس میں جدید معاشیات کی بنیاد پڑی اور معاشیات Kکو ایک الگ مضمون کی ٰ میں معاشیات کی صحیح
ب فکر ن جنم لیا مثالً کالسیکی ،نو کالسیکی وغیر oحیثیت دی گئی۔ اسی تیسرے دور میں مختلف مکات ِ
معاشیات کے علم کو بطور مجموعی دو بنیادی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس میں انفرادی درجہ پر معاشی تجزیہ کیا جاتا ہے جیسے کسی شخص (Microeconomics): ،جزیاتی معاشیات
کارخانہ ،شراکت ،صارف یا گھر وغیرہ کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کی بہت سی شاخیں ہیں مثالً رویہ صارف ،فالحی
ت خاندان وغیرہ۔
معاشیات،تجارتی معاشیات ،صنعتی تنظیم ،معاشیا ِ
اس میں معاشرہ کا اجتماعی درجہ پر تجزیہ کیا جاتا ہے جیسے کسی ملک کی (Macroeconomics):کلیاتی معاشیات
شرح نمو یا بین االقوامی تجزیات وغیرہ۔ اس کی بہت سی شاخیں ہیں مثالً معاشی ترقی ،بین االقوامی
ِ آمدنی اور
ت آبادی وغیرہ۔معاشیات K،معاشیا ِ
معاشی نظریات کا تعلق نظریات کے ساتھ ہے وقت کے ساتھ نہیں مثالً کالسیکی معاشی Kنظریات دو سو سال پہلے بھی تھے اور آج
ماہر معاشیات ہی کہا جائے گا۔ نظریات کے لحاظ سے جدید دور کی بھی کوئی ویسے نظریات رکھے گا تو اسے کالسیکی ِ
معاشیات کو عموما ً چند نظریاتی جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں۔
ت سیاسی اٹھارویں اور انیسویں صدی میں معاشیات کے بارے میں مخصوص نظریات رائج تھے۔ اس وقت معاشیات Kکو معیش ِ
کہا جاتا تھا۔ اس کے ابتدائی دور میں یہ وہ وقت تھا جب معاشیات کو ابھی علیحدہ مضمون کی حیثیت )(Political economy
علوم
ِ حاصل نہیں ہوئی تھی اور معاشیات Kکے نئے نظریات دینے والوں میں نہ صرف معاشیات کے ماہر بلکہ فلسفی ،ریاضی دان،
سیاسیہ کے ماہر اور دیگر مفکرین شامل تھے۔ معاشی نظریات یہ تھے کہ معیشت کو منڈیاں چالتی ہیں اور معیشت میں خود بخود
ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے یا متوازن کیفیت کی طرف معاشی متغیرات کا رحجان ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے Kتھے کہ ہر چیز کی
ت قیمت ہی ہے جس کی وجہ ایک قدر ہوتی ہے اور یہ قدر یا قیمت ہی ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور یہی میکانیا ِ
سے صرف ،پیداوار ،طلب و رسد جنم لیتی ہیں۔ معیشت Kمیں خود بخود مکمل روزگار جنم لے سکتا ہے اور رسد اپنی طلب خود
پیدا کر لیتی ہے۔ بعض مفکرین یہ بھی سمجھتے Kتھے کہ اشیاء کی قیمتیں اس بات سے متعین ہوتی ہیں کہ ان پر محنت کے کتنے
گھنٹے یا وقت صرف ہوا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے Kتھے کہ حکومت یا کسی بھی طاقت کی معیشت میں مداخلت نہیں ہونا چاہئے
سے اختیار میں الیا جا سکتا ہے۔ )(Monetary policyکی نسبت قدری تدابیر )(Fiscal policyاور معیشت Kکو مالیاتی تدابیر
ماہرین معاشیات Kمیں آدم سمتھ ،جون سٹوارٹ مِل ،تھامس مالتھس اور ڈیوڈ ریکارڈو جیسے نام شامل ہیں۔ اس سلسلے میں
ِ کالسیکی
ت اقوام' کو سمجھا Kجاتا ہے جو 1876ء میں چھپی تھی۔ سب سے مشہور کتاب آدم سمتھ کی 'دول ِ
کالسیکی معاشیات میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بنیادی طور پر معاشیات Kدولت کا علم ہے مگر نو کالسیکی معاشیات Kمیں یہ بات
سامنے آتی ہے کہ معاشیات دولت کا نہیں بلکہ انسانی رویہ سے تعلق رکھنے واال علم ہے۔ یہ انسان کے معاشی رویہ کا تجزیہ
کرتا ہے جس میں انسان کی خواہشات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے ذرائع کمیاب ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے
انسان کو ان محدود ذرائع کے استعمال کو چننا ہوتا ہے۔ زیادہ اہم خواہشات یقینا ً پہلے پوری ہوتی ہیں۔ یعنی دولت کو صرف اس
زیر بحث الیا جاتا ہے کہ وہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ جدید معاشیات کی بنیاد بھی انہی نوکالسیکی لیے ِ
استعمال پر بحث ہوتی ہے۔ یعنی انسانی فیصلے ) (efficientمعاشیاتی نظریات پر ہے جس میں وسائل و ذرائع کے مستعد ترین
الگت اور قیمت پر انحصار کریں گے۔ نوکالسیکی نظریات کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ قیمت ،پیداوار اور آمدنی کی تقسیم
جیسے فیصلے رسد و طلب کی مدد سے ہوں گے۔ صارف کی کوشش یہ ہوگی کہ افادہ کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور
مطمع نظر اپنے سرمایہ پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔ ) (Firmشرکتِ کا
مجموعی طور پر نوکالسیکی معاشیات Kکی بنیاد تین مفروضات پر ہے۔
انداز میں اپنے فیصلے کرتا ہے۔ اور اس کے ذہن میں ان فیصلوں کے ممکنہ نتائج کے ) (Rationallyانسان عاقالنہ
بارے میں کچھ قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔
مطمع نظر اپنے سرمایہ ) (Firmصارف کی کوشش یہ ہوگی کہ افادہ کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور شرکت
ِ کا
پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔
انسان اپنے فیصلے آزادانہ طور پر متعلقہ مواد اور مکمل معلومات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
لیوں (Carl Menger)، کارل مینجر (William Stanley Jevons)، نوکالسیکی معاشیات Kدانوں میں ابتدائی ناموں میں ولیم جیون
جیسے نام شامل ہیں۔ ) (Alfred Marshallاور الفریڈ مارشل ) (Jeremy Benthamجیریمی بینتھم (Leon Walras)، والرس
ماہر سیاسیات ہیں۔ ان کا تعلق مالئشیا سے ہے اور وہ برلن کے زینٹرم ماڈرنر اوریئنٹ میں رہتے ہیں۔
فارش اے نورتاریخ دان اور ِ
کے بانیوں میں بھی شامل ہیں۔ www.othermalaysia.org .وہ ایک تحقیقی ویب سائٹ
اسالم اوراس دور میں تجارت کی بات کرنا تو جیسے فیشن بن گیا ہے۔ تاہم اسالم اور 14
پر خصوصی طور پرمسلمانوں کیلئے بنائی گئیمصنوعات کی ) (Internetاقتصادیات ،کاروبار ،بنکاری ،مالیات اور جالبین
فروخت پر ایک نظر ڈالنےسے پتہ چلتا ہے کہ مسلم تجارت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے دو
عشروں سے ہورہا ہے اور شائد ہی کسی نےاس پر توجہ دی ہو۔
ء کے عشرے میں مسلم دنیا کئی طرح کے احیاء کے تجربے سے گزر رہی تھی۔ بال مبالغہ اس کرہ ارض پر موجود مسلم 60
اکثریت والے ہر ملک کو نو آبادیاتی نظام کے بعد حکمرانی کے بحران سے گزرنا پڑا جب مسلم معیشتوں کو یہ احساس ہوا کہ
انہیں ہر شئے باہر سے درآمد کرنے والی نو آبادیاتی دور کی روش کوچھوڑنا ہوگا۔ چنانچہ نو آبادیاتی دور کے ترقیاتی ماڈل کو
فی الفور ترک کردیا گیا۔ 60ء کی دہائی ہی میں بیشتر مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ انہیں بین االقوامی
کاروباری شعبے کی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے درمیان موجود نئے شہری حلقوں
کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا تھا۔ اس اقتصادی ،اداراتی اور ڈھانچہ جاتی تبدیلی کے ساتھ چلنے سے ایک نئی قوت ابھر کر
سامنےآئی جسے سیاسی اسالم کہا جاتا ہے۔ مراکش سے انڈونیشیا تک مسلمان اسالم کے جھنڈے تلے ایک نئے حلقے کے طور پر
زیر
اپنی سیاسی تنظیم کررہے تھے۔ کچھ ملک تو ان نئے سیاسی حقائق کےمطابق Kخود کو ڈھالنےکے قابل تھے لیکن شاہ کی ِ
قیادت ایران جیسے بعض ممالک ایسے بھی تھےجنہوں نے کوشش کی کہ تبدیلی کےنئے راستے تو کھولے جائیں لیکن سیاسی
نظام میں بنیادی اصالحات کرنےکی ضرورت کو نظر انداز کیا جائے ،جس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
ء کے عشرے کےاواخر اور 80ء کی دہائی میں سیاسی اسالم اپنے عروج پر تھا جب ایران میں اسالمی انقالب آیا 70
کی گئی۔ مصر ،مراکش اورتیونس جیسے ممالک کے زیادہ ترقی ) ﴿Islamizationاور پاکستان ،سوڈان اور نائجیریا میں اسلمہ
یافتہ شہری حلقوں میں مقبولیت کی بنا پر سیاسی اسالم کے حامیوں کو عرب دنیا میں بھی نظرانداز کرنا بہت مشکل تھا۔ ایشیا کے
کا ) ﴿Islamizationمسلمان ملکوں میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی جہاں پاکستان ،مالئشیا اور انڈونیشیا میں اسلمہ
عمل پوری تندہی اور تیزی سے ہورہا تھا۔ مثال کے طور پر 1980ء کے عشرے نے دیکھا کہ مالئشیا کی سیاسی معیشت کی
تیزی سے تنظیم ِ نو کی گئی جب ریاست نے سیاسی اسالم کے حامیوں کو پزیرائی بخشی اور انہیں حکومتی مشینری کا حصہ
بنایا۔
آجکل مالئشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک اسالمی بنکاری اور فنانس سمیت بہت سے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
عالوہ ازیں خصوصی طور پر مسلمانوں کے لئےتیار کی جانے والیمصنوعات کی کامیابی حیران کن ہے۔ اگر ہم مسلم ممالک
کا چکر لگائیں تو بڑی تعدادمیں ایسی اشیاء نظر آتی ہیں جن پر 'مسلم' کی چھاپ لگی ہے۔ ) ﴿Super Marketsمیں تجارتی مراکز
ان میں مسلم کوال مثالً زم زم یا مکّہ کوال سے لے کر مسلم جینز مثالً القدس جینز تک بہت سی مصنوعات شامل ہیں جو مسلمانوں
کے ذوق اور ترجیحات کو م ِد نظر رکھ کر بنائی گئی ہیں۔
مالئشیا میں ایک کار بھی تیار کی جارہی ہے جوشائد اپنی قسم کی پہلی 'مسلم کار' ہوگی۔ اس کار میں مکّہ کی طرف اشارہ کرنے
واال سمت نما اور قرآن رکھنےکیلئے خصوصی خانہ تیار کیا گیا ہے۔ عوامی تفریح اور پالسٹک آرٹ جیسے شعبوں میں
مقبول مسلم ثقافت اہم کاروبار بن گئی ہے اور ای ایم آئی جیسی بڑی کمپنیاں مسلمان پاپ گروپس کے ساتھ معاہدے Kکررہی ہیں۔ تاہم
ہمیں یہ یاد رکھنےکی ضرورت ہے کہ جو کچھ بھی ہم آج کی مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں اسے انقالبی یا بنیاد پرستانہ نہیں کہا
جا سکتا۔ اس ضمن میں بہت سےاہم نکات پرزوردینے کی ضرورت ہے۔
اوّ ل :ہمیں باربار دوسروں کو یہ باور کرانا چاہیئے کہ اسالم کوئی ایسا مذہب یا عقائد کا نظام نہیں ہے جو کاروبار کے خالف ہے۔
اسالم کے اخالقی اصول کسی کو تجارت کرنے سے نہیں روکتے۔ خودحضرت محمدﷺ کا تعلق ایک کاروباری گھرانےسے
تھا۔ اسالم آزادانہ کاروبار ،نجی ملکیت اور دولت کے حصول کا دفاع بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دوم :مسلم دنیا میں جو
کچھ ہورہا ہے یہ کوئی انہونی چیز یا نئی اختراع نہیں ہے۔ مسلمان تو صرف کاروباری روایات اور طریقہ کار کو اپنی کمیونٹی
کے لئے موزوں بنا رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کےکاروباری شعبےکی ترقی سب کیلئےایک اچھی خبر ہے۔ یہ سماج کو ترقی دینے ،دولت کی
پیداوار اور اس کی تقسیم کےذریعے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بلکہ جب مغرب اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات اتنے اچھے نہ
رہیں جتناکہ وہ ہو سکتے تھے تو ایسے میں دونوں کے درمیان پُل کا کام بھی دیتا ہے۔ مسلم کوال ،جینز یا کاروں کی تیاری اس
حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمان ان اشیاء سے لطف اندوز ہورہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مغرب کے صنعتی
سماج میں تیار ہورہی تھیں۔
چنانچہ مسلم کامرس کے ابھرنے کو کسی طرح کی رکاوٹ نہیں سمجھناچاہیئے بلکہ اس سے دنیا بھر کے کاروباری طبقوں
کوایک دوسرےکےقریب Kآنے اور ایک ایسی صارف منڈی دریافت Kکرنے ،اسے ترقی دینےاور اس میں کام کرنے کے کاروباری
امکانات اور مواقع میسر آئیں گے جو اپنے اقتصادی مقام اورموقع سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ایک ایسے دور میں جب ذرائع ابالغ
تواتر کے ساتھ مصیبت زدہ معاشروں کی تصاویراور بین الثقافتی جھگڑوں اور تشدد کی داستانوں کی بوچھاڑ کئے ہوئے ہے،
مغرب اور مسلم دنیا کے کاروباری منصوبے ثقافتوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے اور ثقافتی کاروباری منصوبے بنانے جیسا اہم
کردار ادا کرسکتے ہیں جو معاشروں کو ایک دوسرے سے دورہٹانے کی بجائے قریب النے کا باعث بنے گا۔
کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس نظریہ کے حامل ماہرین قلیل ) (John Maynard Keynesکینزی معاشیات جون مینارڈ کینز
کی کلیاتی معاشیات Kپر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں معاشی متغیرات بالکل لچکدار نہیں ہوتے ) (Short runعرصہ
اور ان کے تغیر میں کچھ رکاوٹیں بھی آسکتی ہیں۔ مثالً جب قیمتیں بڑھ جائیں تو ان کو کم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگرچہ قیمت کی
کمی کے حاالت پیدا ہو جائیں ،وہ اس آسانی سے کم نہیں ہوتیں جتنی آسانی سے بڑھتی ہیں۔ اس کے عالوہ یہ لوگ بالکل آزاد
پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے خیال میں بعض صورتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جس میں معاشی ) (Free Economyمعیشت
متغیرات میں مکمل طور پر توازن پیدا نہیں ہوتا اور وہ توازنی کیفیت کے عالوہ کہیں اور اٹکی رہ سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں
ت عملی کے ) (Fiscal Policyمعیشت میں کسی طاقت Kمثالً حکومت کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ یہ مداخلت مالیاتی حکم ِ
(Controledذریعے سب سے بہتر نتائج دیتی ہے۔ کینزی معاشیات Kایک آزاد معیشت Kیا ایک مکمل طور پر پابند معیشت
کا پرچار کرتی ہے جس میں حکومتی ادارے اور نجی ) (Mixed Economyدونوں کی جگہ ایک ملی جلی معیشت )economy
شعبہ دونوں ہی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کالسیکی معاشی نظریات کے برعکس یہ لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ معیشتK
)' (General theoryمیں خود بخود مکمل روزگار اور توازن پیدا ہوگا۔ ان نظریات کا منبع کینز کی مشہور کتاب 'نظریہ عمومی
ہے۔
( 'کے نظریات پر ہے جو بنیادی طور پر اس کی مشہور کتاب 'سرمایہ ) (Karl Marxمارکسی معاشیات کی بنیاد کارل مارکس
سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ مارکس اقتصادی مسائل کو ایک طبقاتی تفاوت کی ) The Capital۔انگریزی میںDas Kapitalجرمن میں
کے درمیان دولت اور ) (laborاور محنت ) (capitalنظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ
پیداوار کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی اور سرمایہ دار مزدور کا استحصال کرتا ہے اور یہی طبقاتی تفاوت کی بنیاد ہے۔ ان خیاالت
پر ہے جس کے مطابق اشیاء کی قدریں یا قیمتیں ان پر لگی ) (labor theory of valueکی بنیاد اس کی نظریہ قدر از محنت
سے متعین ہوتی ہیں۔ مزدور کی محنت اشیاء میں قدر پیدا کرتی ہے مگر اسے اس کا جائز حصہ نہیں ملتا ) (laborہوئی محنت
اور پیداوار و منافع کا بیشر حصہ سرمایہ دار اینٹھ لیتا ہے۔ اس کے مطابق اس کی وجہ سے طبقاتی تفاوت بڑھتا چال جائے گا اور
تصادم ناگزیر ہو جائے گا۔
]ترمیم[) (Monetarist economicsنقدی معاشیات
اس قسم کی معاشیات کا پرچار کرنے والے لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ قومی آمدنی بڑھانے جیسے عوامل میں اصل
حیثیت زر کی طلب و رسد کی قوتوں پر ہے۔ یہ زر کی رسد میں اتار چڑھاؤ سے معیشت Kکو اختیار میں النے کے قائل ہیں۔ ان
کے کچھ نظریات کالسیکی معاشیات سے ملتے ہیں مگر کچھ نظریات بالکل الگ ہیں۔ ان نظریات کے حامل افراد میں ملٹن
جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ تو امریکہ کی فیڈرل ریزرو سے بھی منسلک رہے ) (Milton Friedmanفریڈمین
ہیں۔ یورپی مرکزی بنک بھی اکثر ان کی تجاویز کردہ حکمت عملی پر عمل کرتا ہے جس میں زر کی رسد کو ھدف بنایا جاتا ہے۔
کی اصل قوت وہ لوگ ہیں جو خطرہ مول لے کر نئے ) (Marketاس قسم کے نظریات سے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بازار
ماہرین معاشیات میں جوزف شمپیٹر
ِ کاروبار شروع کرتے ہیں اور یہی لوگ معاشی ترقی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس سے متعلق
آگن وون بوہم (Friedrich von Wieser)،فریڈرک وون ویسر (Friedrich Hayek)،فریڈرک ہایک (Joseph Schumpeter)،
وغیرہ شامل ہیں۔ ) (Eugen von Böhm-Bawerkباورک
Social Darwinism
I. Introduction
Social Darwinism, term coined in the late 19th century to describe the idea that humans, like animals
and plants, compete in a struggle for existence in which natural selection results in "survival of the
fittest." Social Darwinists base their beliefs on theories of evolution developed by British
naturalist Charles Darwin. Some social Darwinists argue that governments should not interfere with
human competition by attempting to regulate the economy or cure social ills such as poverty. Instead,
they advocate a laissez-faire political and economic system that favors competition and self-interest in
social and business affairs. Social Darwinists typically deny that they advocate a "law of the jungle." But
most propose arguments that justify imbalances of power between individuals, races, and nations
because they consider some people more fit to survive than others.
The term social Darwinist is applied loosely to anyone who interprets human society primarily in terms
of biology, struggle, competition, or natural law (a philosophy based on what are considered the
permanent characteristics of human nature). Social Darwinism characterizes a variety of past and
present social policies and theories, from attempts to reduce the power of government to theories
exploring the biological causes of human behavior. Many people believe that the concept of social
Darwinism explains the philosophical rationalization behind racism, imperialism, and capitalism. The
term has negative implications for most people because they consider it a rejection of compassion and
social responsibility.
II. Origins
Social Darwinism originated in Britain during the second half of the 19th century. Darwin did not address
human evolution in his most famous study, On the Origin of Species (1859), which focused on the
evolution of plants and animals. He applied his theories of natural selection specifically to people in The
Descent of Man (1871), a work that critics interpreted as justifying cruel social policies at home and
imperialism abroad. The Englishman most associated with early social Darwinism, however, was
sociologist Herbert Spencer. Spencer coined the phrase "survival of the fittest" to describe the outcome
of competition between social groups. In Social Statics (1850) and other works, Spencer argued that
through competition social evolution would automatically produce prosperity and personal liberty
unparalleled in human history.
In the United States, Spencer gained considerable support among intellectuals and some businessmen,
including steel manufacturer Andrew Carnegie, who served as Spencer's host during his visit to the
United States in 1883. The most prominent American social Darwinist of the 1880s was William Graham
Sumner, who on several occasions told audiences that there was no alternative to the "survival of the
fittest" theory. Critics of social Darwinism seized on these comments to argue that Sumner advocated a
"dog-eat-dog" philosophy of human behavior that justified oppressive social policies. Some later
historians have argued that Sumner's critics took his statements out of context and misrepresented his
views.
III. Hereditarianism
Studies of heredity contributed another variety of social Darwinism in the late 19th century.
In Hereditary Genius (1869), Sir Francis Galton, a British scientist and Darwin's cousin, argued that
biological inheritance is far more important than environment in determining character and intelligence.
This theory, known as hereditarianism, met considerable resistance, especially in the United States.
Sociologists and biologists who criticized hereditarianism believed that changes in the environment
could produce physical changes in the individual that would be passed on to future generations, a
theory proposed by French biologist Jean-Baptiste Lamarck in the early 19th century. After 1890,
hereditarianism gained increasing support, due in part to the work of German biologist August
Weismann. Weismann reemphasized the role of natural selection by arguing that a person's
characteristics are determined genetically at conception.
Toward the end of the 19th century, another strain of social Darwinism was developed by supporters of
the struggle school of sociology. English journalist Walter Bagehot expressed the fundamental ideas of
the struggle school in Physics and Politics (1872), a book that describes the historical evolution of social
groups into nations. Bagehot argued that these nations evolved principally by succeeding in conflicts
with other groups. For many political scientists, sociologists, and military strategists, this strain of social
Darwinism justified overseas expansion by nations (imperialism) during the 1890s. In the United States,
historian John Fiske and naval strategist Alfred Thayer Mahan drew from the principles of social
Darwinism to advocate foreign expansion and the creation of a strong military.
V. Reform Darwinism
After 1890, social reformers used Darwinism to advocate a stronger role for government and the
introduction of various social policies. This movement became known as reform Darwinism. Reform
Darwinists argued that human beings need new ideas and institutions as they adapt to changing
conditions. For example, U.S. Supreme Court Justice Oliver Wendell Holmes, Jr. reasoned that
the Constitution of the United States should be reinterpreted in light of changing circumstances in
American society.
Some reformers used the principles of evolution to justify sexist and racist ideas that undercut their
professed belief in equality. For example, the most extreme type of reform Darwinism was eugenics, a
term coined by Sir Francis Galton in 1883 from the Greek word eügenáv, meaning well-born. Eugenists
claimed that particular racial or social groups–usually wealthy Anglo-Saxons–were "naturally" superior
to other groups. They proposed to control human heredity by passing laws that forbid marriage
between races or that restrict breeding for various social "misfits" such as criminals or the mentally ill.
VI. Social Darwinism in the 20th Century
Although social Darwinism was highly influential at the beginning of the 20th century, it rapidly lost
popularity and support after World War I (1914-1918). During the 1920s and 1930s many political
observers blamed it for contributing to German militarism and the rise of Nazism (see National
Socialism). During this same period, advances in anthropology also discredited social Darwinism.
German American anthropologist Franz Boas and American anthropologists Margaret Mead and Ruth
Benedict showed that human culture sets people apart from animals. By shifting the emphasis away
from biology and onto culture, these anthropologists undermined social Darwinism's biological
foundations. Eugenics was discredited by a better understanding of genetics and eventually disgraced by
Nazi dictator Adolf Hitler's use of eugenic arguments to create a "master race." During World War II
(1939-1945), the Nazis killed several million Jews, Roma (Gypsies), and members of other groups,
believing them inferior to an idealized Aryan race.
Social theories based on biology gained renewed support after 1953, when American biologist James
Watson and British biologist Francis Crick successfully described the structure of the DNA molecule, the
building block of all life. During the 1960s anthropologists interested in the influence of DNA on human
behavior produced studies of the biological basis of aggression, territoriality, mate selection, and other
behavior common to people and animals. Books on this theme, such as Desmond Morris's Naked
Ape (1967) and Lionel Tiger's Men in Groups (1969), became best-sellers. In the early 1970s American
psychologist Richard J. Herrnstein revived the social Darwinist argument that intelligence is mostly
determined by biology rather than by environmental influences.
During the 1960s, British biologist W. D. Hamilton and American biologist Robert L. Trivers produced
separate studies showing that the self-sacrificing behavior of some members of a group serves the
genetic well-being of the group as a whole. American biologist Edward O. Wilson drew on these theories
in Sociobiology: the New Synthesis (1975), where he argued that genetics exerts a greater influence on
human behavior than scientists had previously believed. Wilson claimed that human behavior cannot be
understood without taking both biology and culture into account. Wilson's views became the
foundations of a new science–sociobiology–and were later popularized in such studies as Richard
Dawkins'The Selfish Gene (1976). Wilson's critics have alleged that sociobiology is simply another version
of social Darwinism. They claim that it downplays the role of culture in human societies and justifies
poverty and warfare in the name of natural selection. Such criticism has led to a decline in the influence
of sociobiology and other forms of social Darwinism.
Contributed By: