Professional Documents
Culture Documents
تنقید ادب کی تقویم و تشریح کا نام ہے ۔لیکن کیا تنقید ادب کی’’
پراسرریت کو پوری طرح گرفت میں لینے میں کامیاب ہوتی ہے
یا ہو سکتی ہے ؟غالباًنہیں،وجہ یہ کہ پراسراریت ،خدو خال اور
حدود سے ماورا ہے۔اگر اس کو خدوخال عطا کر دیے جائیں یا
اس کی حدود کا تعین ہو جائے تو پراسراریت از خود ختم ہو
جائے گی چوں کہ یہ ختم نہیں ہوتی یا ختم نہیں ہو سکتی اس لیے
تنقید صرف ایک حد تک ہی ادب کااحاطہ کرنے میں کامیاب ہوتی
؎ہے۔‘‘ ۱
یہ(تنقید) تخلیق پر عرف عام میں عمل جراحی بھی کرتی ہے’’
مگر یہ عمل شاعرانہ طور پر ہوتا ہے اور اسی فضا(تخلیقی
؎عمل)کے اندر رونما ہوتاہے۔‘‘۴
اس عمل جراحی کے دوران بعض اوقات کچھ نقائص بھی ضرور
سامنے ٓاجاتے ہیں جن کی نشان دہی تنقید کے لیے الزمی ہو جاتی
ہے۔اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید خود دائرہ تنقیص میں ٓاجاتی
ہے اور مورد الزام ٹھہرتی ہے۔تا ہم اس عمومی رائے سے کہ
تنقید صرف عیب جوئی ہے ،کسی طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔
لیکن ادب کی پوری تاریخ میں ہمیں یہ مناظر بار بار دیکھنے کو
ملتے ہیں کہ تخلیق کار تنقیدی عمل سے کچھ زیادہ متفق نہیں
رہے ۔جس کا سبب بڑی حد تک معائب و نقائص کی نشان دہی ہی
ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر نقاد بھی صرف تنقیص ہی کو
تنقید تصور کر لیتے ہیں جب کہ فل الحقیقت تنقیداس تخلیقی عمل
کو گرفت میں لینے کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی ادب پارہ با
معنی اور مسرت کی ترسیل کا باعث بنتا ہے۔یہیں سے وہ سب
بنیادی سواالت ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔جن کے جوابات کی تالش
تنقید کے وجود کاجوازفراہم کرتی ہے۔یہ بنیادی سوال کئی ہو
سکتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں کہ ادب پارہ کیا ہوتا ہے اور
اسے کیسا ہونا چاہیے؟ادب پارہ ترسیل کے فرائض کیسے سر
انجام دیتا ہے؟ادب پارہ بامعنی کیسے بنتا ہے ؟ادب پارے سے
مسرت کا حصول کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟وہ کیا عمل ہے جو
ادب پارے کوایک غیر منقسم کل میں تبدیل کر دیتا ہے؟اور اس
غیر منقسم کل میں عیوب و نقائص کیوں کر در ٓاتے ہیں؟۔
تنقید بھی ادب کی طرح اپنے گہرے مفاہیم میں خیر کل کی تالش
ہے۔اور اس تالش کے لیے جو روشنی درکار ہے اس کے اکتساب
کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔یہ اکتسابی عمل ایک مسلسل عمل
ہے اس لیے یہ تصور کرلینا کہ تنقید اپنے اصول وضوابط طے
کر چکی ہے،سراسر غلط ہے۔کیوں کہ ہر نیا عہد بلکہ ہر نئی
انسانی بصیرت تغیرات کے ایک سلسلے کو راہ دیتی ہے اور اس
نئے سلسلے میں خیر کل کے معنی و مفاہیم میں بھی انقالبی
نوعیت کی تبدیلیاں سامنے ٓاتی ہیں۔جن تک رسائی سابقہ علوم سے
حاصل کی ہوئی روشنی میں ممکن نہیں رہتی۔نتیجتاًنئی بصیرتوں
تک پہنچنا الزم ٹھہرتا ہے۔لہذا تنقید کے لیے یہ الزم ہے کہ وہ ہر
لمحہ زندگی سے مکالمہ جاری رکھے اور اس کی ہر تبدیلی
پرغور و فکر کرتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھالتی رہے ۔
کیوں کہ تخلیقی عمل ہم عصر زندگی سے ال تعلق نہیں ہوتا اور
اپنے ارد گرد موجود صورت حال سے نہایت غیر محسوس انداز
میں اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔اور تنقید ٓاگے بڑھے نہ بڑھے
تخلیق ٓاگے بڑھتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر تنقید گزشتہ
تخلیقات کی گرہ کشائی میں تو کامیاب رہتی ہے۔ مگر معاصر
ادبیات اس کی گرفت میں نہیں ٓاتے۔اسی لیے تنقید کے لیے
ضروری ہے کہ وہ اپنی رفتار کو تخلیق کی رفتار کے مساوی
رکھے۔لیکن تنقید کے لیے یہ کام نسبتا ً دشوار اس لیے ہوتا ہے کہ
اس کی رفتار تخلیق کی طر ح کسی وجدانی لہر کے برعکس علم
کی پابند ہوتی ہے۔اس لیے عموما ً اس کی جست وجدان کی جست
کے مقابلے میں کچھ کم پڑتی ہے ۔مگر اسے تنقید کی کمی ہرگز
نہیں کہا جا سکتا۔کیوں کہ علم کی رفتار وجدان کے مقابلے میں
سست رو سہی مگر دیر پا ضرور ہوتی ہے ۔المختصر وجدانی
زبان کو یا علم کو علمی اور منطقی زبان میں پیش کر دینے کا
عمل تنقید کہالتا ہے۔
اردو کا قتل۔۔۔۔؟
اردو کا قتل۔۔۔۔؟
مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور
دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہالیا جانے لگا ،پہلے مہمانوں کی آمد پر
گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں
رکھے جانے لگے۔
"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ
دقیانوسی لگنے لگا ،اور ہر طرف ڈیڈی ،ڈیڈ ،پاپا ،پپّا ،پاپے
کی گردان لگ گئی حاالنکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف
کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی
جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان " ممی"
اور مام میں تبدیل ہو گیا۔
سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا ،چچی ،تایا ،تائی ،ماموں ممانی ،پھوپھا ،پھوپھی ،خالو
خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ
"انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار
تک سب انکل بن گئے۔
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔