You are on page 1of 17

‫ف‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬

‫ے‪ ،‬مع ی‪ ،‬م اہ ی م‪ ،‬اہ می ت اور ا ادی ت‬


‫ی دک ی اہ‬
‫‪ :‬معنی‪ ،‬مفاہیم‬

‫تخلیقی عمل مبہم‪،‬پیچیدہ اور پراسرار عمل ہے۔اس کے‪ ‬‬


‫ابہام‪،‬پیچیدگی اور پراسراریت کی دریافت و بازیافت ایک مشکل‬
‫امر ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر ‪ ‬تفکر کے در‬
‫بھی وا نہ کیے جائیں اور ان راستوں کی کھوج بھی نہ کی جائے‬
‫جن پر چل کر تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوںکو کسی حد‬
‫تک بے نقاب کیا جا سکے۔ چناں چہ تنقید یہ بیڑا اٹھاتی ہے اور‬
‫تفکر کی وہ راہ فراہم کرتی ہے جو تخلیقی عمل کو سمجھنے میں‬
‫‪:‬معاونت کرتی ہے۔ڈاکٹر وزیر ٓاغا اس ضمن میں لکھتے ہیں‬

‫تنقید ادب کی تقویم و تشریح کا نام ہے ۔لیکن کیا تنقید ادب کی’’‪ ‬‬
‫پراسرریت کو پوری طرح گرفت میں لینے میں کامیاب ہوتی ہے‬
‫یا ہو سکتی ہے ؟غالباًنہیں‪،‬وجہ یہ کہ پراسراریت ‪ ،‬خدو خال اور‬
‫حدود سے ماورا ہے۔اگر اس کو خدوخال عطا کر دیے جائیں یا‬
‫اس کی حدود کا تعین ہو جائے تو پراسراریت از خود ختم ہو‬
‫جائے گی چوں کہ یہ ختم نہیں ہوتی یا ختم نہیں ہو سکتی اس لیے‬
‫تنقید صرف ایک حد تک ہی ادب کااحاطہ کرنے میں کامیاب ہوتی‬
‫؎ہے۔‘‘ ‪۱  ‬‬

‫تنقید تخلیقی عمل کی باز ٓافرینی کس حد تک کر پاتی‪           ‬‬


‫ہے‪،‬یا نہیں کر پاتی یہ ایک طویل بحث ہے۔لیکن اتنا سب مانتے‬
‫ہیں کہ اس کے بغیر تخلیقی عمل کوسمجھا نہیں جا سکتا۔ لفظ‬
‫’’تنقید‘‘ کا مصدر عربی لفظ ’’نقد‘‘ہے۔عربی اور فارسی میں اس‬
‫عمل کے لیے انتقاد ‪،‬تنقاد اور تناقدہ جیسے الفاظ استعمال ہوتے‬
‫رہے ‪  ‬ہیں۔لیکن تنقید کا لفظ عربی اور فارسی کی ادبی تاریخ میں‬
‫کہیں دیکھنے کو نہیں ملتایہ لفظ خالصتا ً اردو والوں کی ایجاد ہے۔‬
‫اس کے اولین استعمال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی ر قم‬
‫‪:‬طراز ہیں‬

‫تنقید کا لفظ ہمارے یہاں سب سے پہلے مہدی افادی’’‪  ‬‬


‫نے‪ ۱۹۱۰ ‬میں استعمال کیا‪،‬بلکہ انھوں نے ایک قدم بڑھ کر‬
‫’’تنقیدعالیہ ‘‘کی اصطالح بنائی‪ ،‬جو ا ن کے خیال میں کسی‬
‫؎کا ترجمہ تھی۔‘‪ High Criticism ۲ ‬انگریزی اصطالح‬

‫لفظ ’’تنقید‘‘عربی صرف و نحو کے اعتبار سے غلط سہی مگر‬


‫اب اردو میں اس قدر رائج و مقبول ہے کہ اس کا نعم البدل ممکن‬
‫اور ناقد کے ‪ Criticism‬نہیں۔‪ ‬انگریزی میں تنقید کے لیے‬
‫کی اصل یونانی‪ Criticism ‬کے الفاظ ملتے ہیں۔لفظ‪ Critic ‬لیے‬
‫یعنی جانچنا ہے۔)‪(To Judge‬ہے۔جس کا مفہوم‪ ”Krinein”   ‬لفظ‬
‫کی مزید توضیح پیش کرتے پروفیسر ڈاکٹر ظہیر‪ Criticism‬لفظ‬
‫‪ :‬احمد صدیقی لکھتے ہیں‬

‫کا مٓاخذ عربی لفظ غربال‪Criticism ‬بعض محقیقن کی نظر میں’’‬


‫کا معرب ‪ ‬ہے‪،‬غربال کی اصل‪( Garble ‬چھلنی) ہے جو لفظ‬
‫سے ہے جس کے معنی‪Cret ‬الطینی ہے اور اس کا تعلق لفظ‬
‫؎پھٹکنا یا چھان پھٹک کرنا ہیں۔‘‘ ‪۳  ‬‬

‫تنقید کیا ہے؟‪ ‬‬


‫یہ سوال نہ صرف عمل تنقید کی گرہ کشا ئی کرتاہے بلکہ اسی‬
‫سوال میں تخلیقی عمل کے گہرے اور سر بستہ بھیدوں تک‬
‫رسائی کا راز بھی مضمر ہے۔تنقید ی عمل کو ‪ٓ ‬اسان عمل‬
‫ہرگزتصور نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک مکمل علم کی‬
‫حیثیت رکھتا ہے۔اور ہر علم کی طرح اس کے بھی بہت سے‬
‫قواعد و ضوابط ہیں جن سے ٓاگاہی کے بغیر اس ذمہ دارانہ عمل‬
‫سے پوری طرح انصاف ممکن نہیں ۔یعنی تنقید مختصراًوہ کالم‬
‫ہے جو تخلیق کے متعلق تجزیاتی رائے پر مبنی ہوتا ہے ۔اس میں‬
‫تعریف و تحسین ‪،‬تنقیص و تقریظ‪ ،‬تجزیہ و تحلیل ‪،‬محاسن و‬
‫معائب‪  ،‬فکری مواد و شعری بیان‪ ،‬فنی لوازم و شعری‬
‫محاسن‪،‬تشریح و توضیح‪،‬توارد و اختراع‪،‬جدت و روایت‪،‬فصاحت‬
‫و بالغت ‪،‬رموز و عالئم‪،‬ابالغ و ترسیل اور قدر و مقام جیسے‬
‫تمام اہم امور زیر‪  ‬بحث ٓاتے ہیں۔تنقید کو عمل جراحی سے بھی‬
‫تعبیر کیا جاتا رہاہے۔تاہم عمل جراحی اور تنقید میں یہ فرق‬
‫بہرحال موجود ہے کہ جراحت کا عمل صحت مند انسان پر نہیں‬
‫ٓازمایا جا سکتا اور جراحت‪  ‬کے عمل کے لیے مرض کا قبل از‬
‫جراحت معلوم ہونا از بس الزم ہے جب کہ تنقید تخلیق پر عمل‬
‫جراحی اس لیے بروئے کار التی ہے تاکہ اس کی صحت مندی کا‬
‫‪:‬تجزیاتی ادراک کر سکے۔ ‪ ‬بقول ٓال احمد سرور‬

‫یہ(تنقید) تخلیق پر عرف عام میں عمل جراحی بھی کرتی ہے’’‪ ‬‬
‫مگر یہ عمل شاعرانہ طور پر ہوتا ہے اور اسی فضا(تخلیقی‬
‫؎عمل)کے ‪ ‬اندر رونما ہوتاہے۔‘‘‪۴      ‬‬

‫اس عمل جراحی کے دوران بعض اوقات کچھ نقائص بھی ضرور‬
‫سامنے ٓاجاتے ہیں جن کی نشان دہی تنقید کے لیے الزمی ہو جاتی‬
‫ہے۔اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید خود ‪ ‬دائرہ تنقیص میں ٓاجاتی‬
‫ہے اور مورد الزام ٹھہرتی ہے۔تا ہم اس عمومی رائے سے کہ‬
‫تنقید صرف عیب جوئی ہے‪ ،‬کسی طرح اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔‬
‫لیکن ادب کی پوری تاریخ میں ہمیں یہ ‪ ‬مناظر بار بار دیکھنے کو‬
‫ملتے ہیں کہ تخلیق کار تنقیدی عمل سے کچھ زیادہ متفق نہیں‬
‫رہے ۔جس کا سبب بڑی حد تک معائب و نقائص کی نشان دہی ہی‬
‫ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر نقاد ‪ ‬بھی صرف تنقیص ہی کو‬
‫تنقید تصور کر لیتے ہیں جب کہ فل الحقیقت تنقیداس تخلیقی عمل‬
‫کو گرفت میں لینے کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی ادب پارہ با‬
‫معنی اور مسرت کی ترسیل کا باعث بنتا ‪ ‬ہے۔یہیں سے وہ سب‬
‫بنیادی سواالت ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔جن کے جوابات کی تالش‬
‫تنقید کے وجود کاجوازفراہم کرتی ہے۔یہ بنیادی سوال کئی ہو‬
‫سکتے ہیں جن میں سے چند یہ‪  ‬ہیں کہ ادب پارہ کیا ہوتا ہے اور‬
‫اسے کیسا ہونا چاہیے؟ادب پارہ ترسیل کے فرائض کیسے سر‬
‫انجام دیتا ہے؟ادب پارہ بامعنی کیسے بنتا ہے ؟ادب پارے سے‬
‫مسرت کا حصول کیوں کر ‪ ‬ممکن ہوتا ہے؟وہ کیا عمل ہے جو‬
‫ادب پارے کوایک غیر منقسم کل میں تبدیل کر دیتا ہے؟اور اس‬
‫غیر منقسم کل میں عیوب و نقائص کیوں کر در ٓاتے ہیں؟۔‬

‫یہی سب سواالت تنقید کے تجزیاتی عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں‬


‫انھی جوابات تک رسائی کے لیے تنقیدتخلیق کے کل کو اس کے‬
‫اجزاء میں تقسیم کرتی ہے۔یہیں تخلیق ‪،‬تخلیق ‪ ‬مکرر کے مراحل‬
‫طے کرتی ہے۔یہیں اجزاء کی تحلیل و ترکیب کا تعین ہوتا ہے۔‬
‫یہیں خیال اور لفظ کی ثنویت و وحدت کے راز عیاں ہوتے ہیں۔‬
‫یہیں حسن اپنے قیام کا انکشاف کرتا ‪ ‬ہے اور یہیں قبح تمام پردے‬
‫چاک کر کے اپنی برہنگی ظاہر کرتا ہے۔یہی عمل عرف عام میں‬
‫تنقید کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔‪    ‬تنقید کے دائرہ کار کو‬
‫کسی ایک ادب پارے تک محدود نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تنقید‬
‫ادب سازی کے عمل سے متعلق غور و فکر سے حاصل ہونے‬
‫والی بصیرت کا علم ہے۔اس ‪ ‬لیے اس کے دائرہ کار میں تمام تر‬
‫ادبیات کے ساتھ تاریخ‪،‬فلسفہ‪،‬عمرانیات‪،‬نفسیات‪،‬لسانیات‪،‬ہم عصر‬
‫زندگی اور ثقافت و تہذیب سب شامل ہیں۔‬

‫تنقید بھی ادب کی طرح اپنے گہرے مفاہیم میں خیر کل کی تالش‬
‫ہے۔اور اس تالش کے لیے جو روشنی درکار ہے اس کے اکتساب‬
‫کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔یہ اکتسابی ‪ ‬عمل ایک مسلسل عمل‬
‫ہے اس لیے یہ تصور کرلینا کہ تنقید اپنے اصول وضوابط طے‬
‫کر چکی ہے‪،‬سراسر غلط ہے۔کیوں کہ ہر نیا عہد بلکہ ہر نئی‬
‫انسانی بصیرت تغیرات کے ایک سلسلے کو راہ دیتی ‪ ‬ہے اور اس‬
‫نئے سلسلے میں خیر کل کے معنی و مفاہیم میں بھی انقالبی‬
‫نوعیت کی تبدیلیاں سامنے ٓاتی ہیں۔جن تک رسائی سابقہ علوم سے‬
‫حاصل کی ہوئی روشنی میں ممکن نہیں رہتی۔نتیجتاًنئی‪  ‬بصیرتوں‬
‫تک پہنچنا الزم ٹھہرتا ہے۔لہذا تنقید کے لیے یہ الزم ہے کہ وہ ہر‬
‫لمحہ زندگی سے مکالمہ جاری رکھے اور اس کی ہر تبدیلی‬
‫پرغور و فکر کرتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھالتی ‪ ‬رہے ۔‬
‫کیوں کہ تخلیقی عمل ہم عصر زندگی سے ال تعلق نہیں ہوتا اور‬
‫اپنے ارد گرد موجود صورت حال سے نہایت غیر محسوس انداز‬
‫میں اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔اور تنقید ٓاگے بڑھے نہ‪  ‬بڑھے‬
‫تخلیق ٓاگے بڑھتی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر تنقید گزشتہ‬
‫تخلیقات کی گرہ کشائی میں تو کامیاب رہتی ہے۔ مگر معاصر‬
‫ادبیات اس کی گرفت میں نہیں ٓاتے۔اسی لیے تنقید کے‪  ‬لیے‬
‫ضروری ہے کہ وہ اپنی رفتار کو تخلیق کی رفتار کے مساوی‬
‫رکھے۔لیکن تنقید کے لیے یہ کام نسبتا ً دشوار اس لیے ہوتا ہے کہ‬
‫اس کی رفتار تخلیق کی طر ح کسی وجدانی لہر کے برعکس علم‬
‫کی پابند ‪ ‬ہوتی ہے۔اس لیے عموما ً اس کی جست وجدان کی جست‬
‫کے مقابلے میں کچھ کم پڑتی ہے ۔مگر اسے تنقید کی کمی ہرگز‬
‫نہیں کہا جا سکتا۔کیوں کہ علم کی رفتار وجدان کے مقابلے میں‬
‫سست رو‪  ‬سہی مگر دیر پا ضرور ہوتی ہے ۔المختصر وجدانی‬
‫زبان کو یا علم کو علمی اور منطقی زبان میں پیش کر دینے کا‬
‫عمل تنقید کہالتا ہے۔‬

‫تنقید کی اہمیت یہی ہے کہ وہ بالواسطہ ابالغ کو بالواسطہ‪     ‬‬


‫ابالغ میں بدل کر قاری تک اس علم اور مسرت کی رسائی ممکن‬
‫بناتی ہے جو زندگی کی گہری تفہیم کے لیے الزم ہے ‪ ‬تخلیق‬
‫ہمیشہ ابہام کی دھند میں ملفوف ہوتی ہے جس تک پہنچنا ہر قاری‬
‫کے بس کی بات نہیں ہوتی تنقید ابہام کی اس دھند کو کم کرنے‬
‫میں قاری کی معاونت کرتی ہے۔تاہم تنقید کی ‪ ‬اہمیت صرف اس‬
‫عمل ہی میں نہیں ہے ۔بلکہ وہ قاری کے لیے یہ سوال بھی اٹھاتی‬
‫ہے کہ ٓاخر ابہام‪ œ‬کی دھند میں ملفوف تخلیق تک پہنچنا ضروری‬
‫کیوں ہے ؟تخلیق سے کس بصیرت اور‪  ‬مسرت کا حصول ممکن‬
‫ہے؟نیز جو مسرت تخلیق سے حاصل ہو رہی ہے کیا وہ کسی‬
‫دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں؟یقیناًادب کا نعم البدل ادب کے‬
‫عالوہ کچھ اورنہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی ‪ ‬ایسے علم کا تصور ممکن‬
‫نہیں جو ادبی بصیرت و مسرت کا قائم مقام کہال سکے اور یہ بات‬
‫پوری طرح صاف ہے کہ ادب سے حاصل ہونے والی بصیرت و‬
‫مسرت کا کردار بہ حوالہ زندگی دیگر‪  ‬تمام علوم سے مختلف ہے‬
‫یہی اختالف تنقید پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ پیش کرتی‬
‫ہے اس طرح زندگی سے ایک جمالیاتی فاصلے کے ذریعے تعلق‬
‫استوار کرنے والے ادب کو‪  ‬تنقید ایک علمی اور منطقی ارتباط‬
‫کے حصول میں کامیابی سے پہنچا دیتی ہے۔یعنی تنقید ادب کے‬
‫جمالیاتی حظ کو علمی معنوں کے ساتھ رائج کرنے میں اور‬
‫زندگی سے اس کی وابستگی و پیوستگی ‪ ‬ثابت کرنے میں وہ‬
‫کلیدی کردار ادا کرتی ہے جس کے بغیر ادب کو ایک بامعنی‬
‫‪ ‬سرگرمی قرار دینا کسی طور ممکن‬
‫نہیں۔‬
‫سید طاہر‪  ‬علی شاہ‬
‫لیکچرر ناردرن یونیورسٹی‬
‫نوشہرہ۔کے پی کے‬
‫‪- October 14, 2018 No comments: ‬‬
‫‪Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to FacebookShare to Pinterest‬‬
‫تنقید کیا ہے؟‪Labels: ‬‬

‫‪Sunday, 9 September 2018‬‬


‫‪Add caption‬‬

‫‪- September 09, 2018 No comments: ‬‬


‫‪Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to FacebookShare to Pinterest‬‬

‫اردو کا قتل۔۔۔۔؟‬

‫اردو کا قتل۔۔۔۔؟‬

‫اُر ُدو ُزبان کا خون کیسے ہوا ؟‬


‫اور ذمہ دار کون ہے؟‬

‫یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ‬


‫کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫دوران تعلیم‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطالحات‬
‫استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف ‪ ‬انگریزی کے چند الفاظ‬
‫ہی‪  ‬مستعمل تھے‪،‬‬
‫مثال"‪:‬‬
‫ہیڈ ماسٹر‪،‬‬
‫فِیس‪،‬‬
‫فیل‪،‬‬
‫پاس وغیرہ‬
‫"گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور‬
‫"پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہالئے تھے۔‬

‫‪ 60    ‬کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے‬


‫گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا"‪  ‬سکھایا جاتا اور‬
‫مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے‬
‫"ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔‬
‫‪  ‬زمانہ آگے بڑھا‪ ،‬مزاج تبدیل ہونے لگے۔‬
‫عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی‬
‫(پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع‬
‫کی۔‬
‫ساالنہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں‬
‫میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔‬
‫پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا‪ -‬اور پھر آہستہ‬
‫آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔‬
‫پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو‬
‫زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔‬
‫اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت‪ ،‬کالس میں تبدیل ہوگئی‪-‬‬
‫اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کالس فیلوز بن گئے۔‬

‫ہمیں بخوبی یاد ہے کہ ‪ 50‬اور ‪ 60‬کی دھائی میں؛ اول‪ ،‬دوم‪،‬‬


‫سوم‪ ،‬چہارم‪ ،‬پنجم‪ ،‬ششم‪ ،‬ہفتم‪ ،‬ہشتم‪ ،‬نہم اور دہم‪ ،‬جماعتیں‬
‫ہوا کرتی تھیں‪ ،‬اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی‬
‫طرح لکھا ہوتا تھا۔‬
‫پھر ان کمروں نے کالس روم کا لباس اوڑھ لیا‪-‬‬
‫اور فرسٹ سے ٹینتھ کالس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔‬
‫تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے‬
‫لگے۔‬

‫گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر‬


‫ویکیشن اور ِونٹر ویکیشن آگئیں۔‬
‫چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس‬
‫ورک ہو گیا ۔‬
‫پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی‬
‫ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔‬
‫امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے‪-‬‬
‫ششماہی اور ساالنہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل‬
‫ایگزامز کی اصطالحات آگئیں‪-‬‬
‫اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ‬
‫سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔‬
‫قلم‪،‬‬
‫دوات‪،‬‬
‫سیاہی‪،‬‬
‫تختی‪ ،‬اور‬
‫سلیٹ‬
‫جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ‬
‫پنسل‪ ،‬جیل پین اور بال پین آگئے‪ -‬کاپیوں پر نوٹ بکس کا‬
‫لیبل ہوگیا‪-‬‬

‫نصاب کو کورس کہا جانے لگا‬


‫اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں‬
‫رکھ دی گئیں۔‬
‫ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔‬
‫اسالمیات اسالمک سٹڈی بن گئی‪ -‬انگریزی کی کتاب انگلش‬
‫بک بن گئی‪ -‬اسی طرح طبیعیات‪ ،‬فزکس میں اور معاشیات‪،‬‬
‫اکنامکس میں‪ ،‬سماجی علوم‪ ،‬سوشل سائنس میں تبدیل‬
‫ہوگئے‪-‬‬

‫پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے‬


‫لگے۔‬
‫پہاڑے یاد کرنے والوں کی اوالدیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔‬
‫اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے‪ ،‬ٹیچرز کے لیے‬
‫ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔‬
‫‪ ‬‬
‫داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔‪ ....‬اول‪ ،‬دوم‪ ،‬اور‬
‫سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ‪ ،‬سیکنڈ‪ ،‬اور تھرڈ آنے والے‬
‫سٹوڈنٹ بن گئے۔‬
‫پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات مال کرتے تھے پھر پرائز‬
‫ملنے لگے۔‬
‫بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔‬
‫یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔‬

‫باقی رہے پرائیویٹ سکول‪ ،‬تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان‬


‫کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر‬
‫کہا گیا تھا‪،‬‬

‫مکتب نہیں‪  ،‬دکان ہے‪  ،‬بیوپار ہے‬


‫مقصد یہاں علم نہیں‪ ،‬روزگار ‪ ‬ہے۔‬

‫اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے‪ ،‬ہمارے‬


‫گھروں میں بھی اردو کو یتیم اوالد کی طرح ایک کونے میں‬
‫ڈال دیا گیا ہے۔‬

‫‪ ‬زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ‬


‫کی البتہ موجودگی الزمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام‬
‫دے دیا۔‬

‫باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری‬


‫کہالنے لگے۔‬
‫غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن‬
‫گیا۔‬
‫مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر‬
‫محسوس کیا جاتا ہے۔‬

‫مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور‬
‫دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔‬
‫دروازہ ڈور کہالیا جانے لگا‪ ،‬پہلے مہمانوں کی آمد پر‬
‫گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔‬
‫کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں‬
‫رکھے جانے لگے۔‬

‫"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ‬
‫دقیانوسی لگنے لگا‪ ،‬اور ہر طرف ڈیڈی‪ ،‬ڈیڈ‪ ،‬پاپا‪ ،‬پپّا‪ ،‬پاپے‬
‫کی گردان لگ گئی حاالنکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف‬
‫کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی‬
‫جاتے ہیں‪-‬‬
‫اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان ‪" ‬ممی"‬
‫اور مام میں تبدیل ہو گیا۔‬
‫سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔‬
‫چچا‪ ،‬چچی‪ ،‬تایا‪ ،‬تائی‪ ،‬ماموں ممانی‪ ،‬پھوپھا‪ ،‬پھوپھی‪ ،‬خالو‬
‫خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ‬
‫"انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔‬
‫بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار‬
‫تک سب انکل بن گئے۔‬
‫یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔‬

‫ساری عورتیں آنٹیاں‪ ،‬چچا زاد‪،‬‬


‫ماموں زاد‪ ،‬خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس‬
‫میں تبدیل ہوگئے‪ ،‬نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس‬
‫کی۔‬

‫نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔‬


‫گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہالتی‬
‫تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔‬

‫گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار‬


‫انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔‬
‫دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے‬
‫کسٹمرز آنے لگے‪ ،‬آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو‬
‫سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری‬
‫چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔‬
‫سڑکیں روڈز بن گئیں۔‬
‫کپڑے کا بازار کالتھ مارکیٹ بن گئی‪ ،‬یعنی کس ڈھب سے‬
‫مذکر کو مونث بنادیا گیا۔‬
‫کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا‪،‬‬
‫نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون‬
‫کھول لیا۔‬
‫ایسے ماحول میں دفاتر بھال کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا‬
‫تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ مال کرتی تھی‪ ،‬وہ اب‬
‫آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی‬
‫صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں‪،‬‬
‫بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔‬
‫پہلے دفتر کے نظام االوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس‬
‫ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا‪-‬‬

‫سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں‬


‫آرٹسٹ بن گئیں‬
‫اور محبت کو 'لَ ّو' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور‬
‫تقدس ہی چھین لیا گیا۔‬
‫صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے‬
‫لگے۔‬

‫کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔‬


‫اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں‪،‬‬
‫عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے‪-‬‬

‫اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک‬


‫نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب‬
‫سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔‬
‫وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور‬
‫مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ‬
‫کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں‬

‫ناکامی متاع کارواں ‪ ‬جاتا‪    ‬رہا‬


‫ِ‬ ‫وائے‬
‫کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‬

‫ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ‪ ‬ہیں؟‬


‫دوسروں کا کیا رونا روئیں‪ ،‬ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں‪.‬‬
‫دوسرا کوئی نہیں۔‬
‫بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل‬
‫دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں‪ .‬اور روز‬
‫بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔‬

‫روکیے‪ ،‬خدا را روکیے‪،‬‬


‫ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔‬

You might also like