You are on page 1of 6

‫ع ن‬ ‫ع ن‬

‫لم اال ساب اور اصول لم اال ساب‬ ‫ع‬ ‫ن‬


‫ع‬ ‫جن‬ ‫ق‬ ‫ن خ‬
‫ع‬ ‫ع‬ ‫ساب‬
‫دوسرے ع ن‬ ‫ہ لم ئ ن‬
‫اال‬ ‫لم‬
‫ع‬
‫تں ن نم ل ی ا اس لم کی اب تتداء عرب‬ ‫طرح ہ ر لم ےعم ت لف ع نال وں می‬ ‫ے ۔جس ت‬ ‫طرح ای ک لم ہن‬ ‫ن‬ ‫لوم کی‬
‫س‬ ‫س‬ ‫میی ف‬
‫ان کرے اور اس‬ ‫ے قسب کو ب ی ث‬ ‫ے اپ ث‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫مت‬‫ت‬ ‫کی ظن‬
‫ن‬ ‫ان‬ ‫اور‬
‫ش‬ ‫ے‬ ‫ے اب اواج داد نکے ام ی ناد کرن‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫ل‬‫ن‬ ‫در‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫تج‬‫ی‬ ‫و‬ ‫ںہ‬
‫خ‬
‫ے۔علم اال ساب جس کی ب ی ادی ں ا سا ی معا رت‪،‬ا سا ی اری خ ‪ ،‬سل‪ ،‬علم آ ار دی مہ ی اں آ اری ات‬ ‫پر ر کرے ھ‬
‫(آرکیولوجی)‪ ،‬علم بشریات یاں انسانیات (انتھروپالوجی)‪ ،‬انسانی ہجرت اورجینولوجی یاں جنیاتی‬
‫سائنس پر استوار ہیں۔ علم االنساب کی بنیادی تعریف انسان کے آباواجداد یاں ایک جد اعلی کا ایسا علم‬
‫ہے جس میں ایک جد کو مرکز مان کر اسکی پشت در پشت فہرست کا اندراج ہے۔ اس علم میں ایک‬
‫طرف اس خاندان کا خاص شعبہ اور ذرائع معاش کا علم حاصل کیا جاتا ہے دوسری جانب انکی‬
‫نسل ‪،‬زبان رہن سہن عالقہ کا علمی موازنہ لیا جاتا ہے جس کے ذریعے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ‬
‫نسل یاں قبیلہ کا پس منظر کیا ہے اور اس خاندان نے کہاں سے کہاں ہجرت کی اور کہاں سے اس نسل‬
‫کی ابتداء ہوئی۔ علم االآثار سے ہم انسان کے ہاتھ سے لکھے قلمی نسخوں ‪،‬دستاویزات‪ ،‬اور مسودوں‬
‫سے اس علم کی تصدیق کرتے ہیں تو دوسری جانب کسی خاص نسل کا آبائی عالقہ ‪،‬‬
‫مکانات‪،‬قبور‪،‬انسانی باقیات سے یہ اس انسان کے آباواجداد کا جائے ابتداء اور خاتمہ بھی علم االآثار‬
‫سے اخذ کر سکتے ہیں۔علم بشریات سے افراد کی نسل ‪،‬قبیلہ‪ ،‬قوم ‪،‬ذات‪ ،‬خاندان ‪،‬گوت کی معلومات‬
‫حاصل کی جا سکتی ہیں۔‬
‫علم االنساب کا مذہبی سیاسی و انسانی تاریخ سے بھی گہراتعلق ہےکیونکہ جب انسان اپنی نسب کا‬
‫اندراج کرتا ہے تو اس کی وجہ اپنے آباواجداد کی مذہبی سیاسی اور عظمت بھری تاریخ کو بیان کرنا‬
‫مقصود ہوتا ہے۔‬
‫سائنسی اور علمی تاریخ کے عالوہ علم االنساب دراصل یہ اپنےنسب کو جاننے کا علم ہے جس میں‬
‫اپنے باپ دادا اور خاندان کی پشتوں کا نام یاد کرنا انکی زندگیوں اور آپ بیتویوں سے آگہی حاصل‬
‫کرنے انکے اچھے کارنامے یاد کرنا ہے۔‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫غ‬ ‫ف‬ ‫ج ن‬ ‫ص س س خن‬
‫ن‬ ‫ننسب‬
‫ے جس سے‬ ‫ص‬ ‫ط‬
‫طرح ل ت می ں سب کا م لب ا ل‬ ‫ل‬
‫سب " ا ل ل " " لسلہ ا خدان" مع ا ساب ی روز ا ل ات جس‬
‫ہ‬
‫ے اور ج و وہ واراث ت م ں ن‬ ‫س‬ ‫دوسروں سے ف رقش ک ا ن‬
‫لے کر آی ا ہ و۔‬
‫س‬ ‫عی ی ن‬ ‫سے وہ ی ن ن ن ی ی ج س ش‬
‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے اس فکی نصونص ی ات جس خ‬ ‫مراد ک جسی کی پعہچ انث ہ‬ ‫جی‬
‫ت"لوگس" لم ع ی لعکے‬ ‫ے ع ی "ج ی را" ج ر تن ل ‪،‬پ‬ ‫سے ما وذ ہ‬ ‫ل‬
‫ث‬ ‫ہ‬ ‫ن ی ولو یج ی( جلم وراک تت ) ی ہ ظ یو ا ی زب ان خ ن‬
‫ے ہ ی ں۔ا س م طالعہ می ں ا دان اور ان کے اب اؤاج داد کی اری خ ‪ ،‬ج رت اور وار ت کے ب ارے لم‬ ‫م طاصلعہ کو ن ی تولو ی ہ‬
‫ے۔‬ ‫حا ل ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫اب)علم االنساب کا ماہر ماہر انساب کو عربی میں ناسب‪ ,‬نسّاب یا نسابہ کہا جاتا‬ ‫ُ‬
‫نسابہ (ن َ َّسابَة ایں ن َ َّس ُ‬
‫ہے‬
‫شجرہ (جَش ََر ُة‪ ‬الن َّ َسب‪، ‬جَش ََر ُة‪ ‬العاِئل َّية‪ ،‬جشرة‪ ‬طيبة)نسب کی تفصیل جو درخت کے نقشہ کی طرح‬
‫بیان کی جاتی ہے ۔ جدا علی سے مختلف شاخوں کو بیان کیا جاتا ہے‬
‫مشجر( َم ْش َجرُ)‪  ‬درخت کاری کرنے واال شجرہ نویس کو مشجّر کہا جاتا ہے‬

‫ج ن یت‬ ‫ٹ ن ئ نئ ٹ‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ظ‬ ‫نویسی‬


‫ن‬ ‫ششجرہ‬
‫ے اور ی ہ سلسلہ چ ئلت ا رہ ت ا‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫کو‬
‫ن‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫س‬
‫ہ ت نج ی خ ہ‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫سے‬ ‫ت‬ ‫در‬
‫ن‬ ‫ے‬‫ہ ہ ت‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ام‬ ‫کہ‬‫ش‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ج رہ ج ی‬
‫ت کی ن ظ ب وطی اور ہ وے کا ب اعث ہ‬ ‫م‬ ‫ے سے ہ و ی تہ‬ ‫کہ ی‬
‫اسی طرح کو شی‬ ‫ے ش‬ ‫اس در ک ت‬‫ے یہ ا ش‬ ‫ےخج نب کہ ج ر پ نکی ب پ ی اد ای ن‬ ‫بہ‬
‫ایسا سنلسلہ جس میعں پ نت در پ ت ت‬ ‫ش‬ ‫ک‬‫ت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫اموں‬ ‫ں‬
‫شہ ی ت‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رہ‬ ‫ج‬ ‫ے‬
‫س‬‫ی‬ ‫ے۔و‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کروا‬ ‫سے‬
‫ن‬ ‫داد‬ ‫ج‬ ‫اؤا‬ ‫ب‬‫ا‬‫ش‬‫ے‬ ‫پ‬ ‫ت ہچ ان ا‬ ‫دان ا ی‬ ‫ئ‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ن‬
‫اور ن لم االا سابئاری خ‬ ‫ے و ج ر ہ و تی سی ئ‬ ‫ے۔ویس‬ ‫ہ‬ ‫نمورث اعلی )سےع روع ک ی اشج ا ا‬ ‫ے ہ ی تں ی ہ جلرہ ج ڑ (ی ع ی‬ ‫ش‬ ‫ےج ا‬ ‫ک‬ ‫ام درج‬
‫ے اکہ کو ی کت ہ رہ ن ہ ج اے۔‬ ‫ے ی کن می ں ے اس کت اب می ں لم کی ہ ر اخ سے رج وع ک ی ا ہ‬ ‫کے علوم می ں مار ہ و اہ‬
‫ت‬ ‫نس ق ق‬ ‫ئ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ہ موض وع عاش رتی ‪ ،‬مذہ ب ی ‪،‬س اسی‪،‬ح ات‬
‫ے یک و کہ کو ی ب ھی ل وم ی ا ب ی لہ ان مام سے‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬
‫ی یج‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫حاظ‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ا‬
‫ی ی ہ ل‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی ث‬
‫ے ہ وے ہ ی ں۔‬ ‫مت ا ر ہ و رہ‬
‫قبیلہ‬
‫اعلی کا خاندان یا نسل جو ممیز ہو (مثال‪ :‬بنی‬
‫ٰ‬ ‫‪ ‬لوگوں یا‪ ‬قوم‪ ‬کا ایک طبقہ‪ ،‬جماعت‪ ‬یا‪ ‬گروہ‪ ‬ایک ہی مورث‬
‫اسرائیل‪  ‬کے بارہ قبائل حضرت یعقوب کی نسل ہے) اہل روم کا ایک سیاسی زمرہ جو روم کے تین پرانے قبیلوں‬
‫یعنی صابئین‪ ،‬الطینی اور اٹر سکنوں میں سے کسی ایک کا مظہر ہوــ ابتدائی لوگوں کی قوم یا خاندان جو نسلی شاخ‬
‫بن گئی کوئی خاص وصف یا پیشہ رکھنے والی ٹولی کے لوگ (عموما ً حقارت سے استعمال کرتے ہیں)۔ (حیاتیات)‬
‫مختلف اصناف کے جانوروں یا پودوں کی تقسیم جو اپنی جنس سے کم تر اور خاندانی شاخ سے فروتر ہوں‪ ،‬فرقہ‪،‬‬
‫جماعت‪ ،‬جرگہ‪ ،‬قسم‪ ،‬جنس‪ ،‬نوع‪ ،‬خاندان‪ ،‬جاتی‪ ،‬دَل‪ ،‬خیل‪ ،‬طائفہ‪ ،‬فریق۔‬
‫اثنیت‪ ‬یا‪ ‬نسلی گروہ‪ ‬‬
‫(عربی‪ :‬االثنیۃ‪ ‬انگریزی‪ )ethnicity /ethnic:‬یا عام الفاظ میں ہم اردو میں جسے‪ ‬نسلیت‪ ‬کہتے ہیں۔ لوگوں کا ایک‬
‫گروہ یا گروپ جس میں تمام لوگ ایک جیسے ہویعنی جو اباء و اجداد ‪،‬معاشرہ‪ ،‬شکل و صورت‪ ،‬رہائش گاہ‪،‬زبان‬
‫وغیرہ کے لحاظ سے یکساں ہو۔‬
‫اس وقت دنیا کے سب سے بڑے نسلی گروہ‪ ‬عرب لوگ‪،‬بنگالی لوگ‪ ‬اور‪ ‬چینی لوگ‪ ‬ہیں۔‬
‫صغری‪ ‬گروہ ہوتے ہیں جیسے‪ ‬قبیلہ‪ ،‬خاندان‪ ‬وغیرہ۔ لیکن جب‬ ‫ٰ‬ ‫اس کے عالوہ پھر ہر نسلی گروہ کے اندر مزید‪ ‬‬
‫خاندان بھی بہت زیادہ بڑھ جائے تو وہ ایک الگ نسلی گروہ یا اثنیت بناتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔‬
‫اور دنیا کے‪ ‬زبانوں کا خاندانی تقسیم‪ ‬بھی اسی بنیاد پر کی گئی ہے۔‬
‫مورث اعلی‬
‫حسب نسب‬
‫ذات‬
‫عربی طبقات النسب‬
‫نسل‬
‫نسل انسانی کو جغرافیائی‪ ،‬لسانی‪،‬ثقافتی‪ ،‬رنگ و صورت کی بنیاد پر تین درجات میں تقسیم کیا گیا ھے ۔‬
‫اول قفقازی نسل (‪ ) Caucasian race‬دوم منگولیائی نسل( ‪ )Mongoloid‬سوم حبشی یعنی سیاہ فام نسل ( ‪)Negroid‬‬
‫نسل انسانی کی ایک تقسیم زبانوں کی بنیاد پر بھی کی گئی ھیں ‪ 1‬انڈو یورپین ‪ 2‬سامی ‪ 3‬تورانی‬
‫نسل انسانی کی ایک دور درجہ بندی رنگت و صورت کی بنیاد پر بھی کی گئی ھیں‬
‫سفید رنگت‪ ،‬جس میں یورپی کے گورے اور ایشیاء کے آریائی شامل ھیں سیاہ رنگت‪ ،‬جس میں افریقہ اور دنیا کے‬
‫حبشی شامل ھیں زرد رنگت جس میں چین‪ ،‬جاپان‪،‬تبت‪ ،‬وغیرہ شامل ھیں‬
‫خالصہ یہ کہ نسل انسانی کو تین درجات میں تقسیم کیا گیا ھے‬
‫(‪ )1‬انڈو یورپین جس میں مغربی دنیا کے سفید فام اور ایشیاء کے تمام آریائی شامل ھیں جن میں ایران‪ ،‬افغانستان‪،‬‬
‫ہندوستان‪ ،‬اور ارد گرد کے خطوں کی اقوام شامل ھیں۔‬
‫ن‬
‫اصول علم اال ساب‬

‫علم االنساب وہ علم ہے جس میں کسی فرد یا افراد کے نسب کی معرفت حاصل کی جاتی ہے ‪ .‬اس علم کے بھی دیگر علوم کی طرح اپنے‬
‫‪ .‬قواعد و ضوابط ‪,‬اصول و شرائط ' اصطالحات اور رموز و اوقاف ہیں ‪.‬جن کے بغیر اس کی صحیح معرفت ممکن نہیں‬
‫یہ علم اہل عرب سے مخصوص ہے جس طرح فلسفہ و منطق اہل یونان طب اہل روم آداب نفس و اخالق اہل فارس علم الصنائع اہل چین‬
‫‪.‬اور نجوم و حساب اہل ہند سے مخصوص ہیں‬
‫علم االنساب اہل عرب کے مخصوص علوم میں سے ہے اور عرب میں اس پر باقاعدہ ہر دور میں کام ہوا ‪.‬غیر عرب اپنے نسب کو محفوظ‬
‫نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے نسب آپس میں ایک دوسرے سے مخلوط ہو گئے‪ .‬اور وہ دوسرے نسبوں سے ملحق ہو گئے‪.‬‬
‫حاالنکہ وہ اس نسب سے نہ تھے‪ .‬اس کے مقابلہ میں اہل عرب نے اپنے نسب کی حفاظت کی تاکہ نہ کوئی ان میں داخل ہو سکے اور نہ‬
‫‪.‬اپنا کوئی فرد خاندان سے خارج ہو سکے‪ .‬جس کی وجہ سے ان کا نسب محفوظ اور شک و شبہ سے پاک رہا‬
‫عرب میں قبل از اسالم اپنا نسب حضرت عدنان ‪ ,‬قحطان یا حضرت اسماعیل تک یاد رکھتے تھے ‪ .‬اور جب مناسک حج سے فارغ ہوتے‬
‫تو بازار عکاظ میں جمع ہوتے اور مجمع کے سامنے اپنا شجرہ نسب بیان کرتے اور اس پر فخرو مباحات کرتے اور وہ اس عمل کو حج و‬
‫عمرہ کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کرتے‬
‫جب اسالم آیا تو اس نے بھی معرفت نسب کی تاکید کی بلکہ بہت سے احکام شرعیہ مثل میراث ۔دیت ‪ ,‬صلہ رحمی وغیرہ کی بجا آوری‬
‫اس علم کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں اور حضرت محمد ص کے نسب کی معرفت تو واجب قرار دی گئی کیونکہ ان کے قرابت داروں‬
‫سے محبت ہی اجر رسالت قرار دی گئی‪ .‬اس طرح خمس کی ادائیگی کے لیے بھی ضروری ہے کہ سادات کے نسب کی معرفت ہو‬

‫ن‬ ‫ن‬
‫اصول‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫سب ب ی ان لکرے کا ق‬
‫نم ام‬ ‫می حریر کا‬‫سب می ں ن‬ ‫غ‬
‫برص غی ر می ں فکنق ساب ہ ےت کام ک ی ا‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫نن‬ ‫برص ی ر می ں ار ینوں کی آمد اری ت نخ‬
‫ے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ڈا‬ ‫ن‬ ‫یگ‬ ‫پ‬ ‫و‬‫ر‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫طر‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ازعہ‬ ‫موج وہ دور می ں س ی سادات کو م‬
‫ہ‬ ‫ی پ پ‬
‫ق ن‬ ‫ت ن‬
‫ت ن‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫سان کی ان‬ ‫ظ‬ ‫پ ف‬‫خ‬ ‫ا‬‫ن‬‫اء‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫و‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬
‫خ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ڑ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫گ‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫رت‬ ‫ج‬ ‫ان‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫اء‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫دگی‬ ‫نز‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ج‬
‫ے۔ وراک کا حصول‪،‬ا ی ا ت اور‬
‫س‬
‫ج‬
‫ارض پر مو قود ئہ‬ ‫ےج تن سے آج وہ کرہن ن‬ ‫ہ‬ ‫وں می ں ا نل‬ ‫ت‬ ‫نب سی ادی ل‬
‫ب‬
‫ے۔ج ن می ں سب سے اہ م ل‬ ‫بل‬
‫ل کی ب ڑھو ری ی ہ وہ ب ی ادی ی ں ہ ی ں ج ن پر تا سا ی ج دوج ہد ا م ہ‬
‫ے۔‬ ‫کی بڑھو ری ہ‬ ‫ن‬
‫مم‬ ‫ق‬ ‫س‬
‫ے‬ ‫طرح سے کن ہ‬ ‫اب ل کی ب اء دو‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫نف ت‬
‫س ی ا ی اور جسما ی ب اء‬
‫خ ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت ش‬ ‫تق‬ ‫ن ن ت‬
‫ے ا ال ی ات کو‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ہوں ت ف ق‬ ‫س سے ا ش‬ ‫ےج ن‬ ‫ڑے و ئ‬ ‫ھے گروہ بئ‬ ‫ت‬ ‫نعا رے ب ڑ ش‬ ‫کے سا ھ م‬ ‫ا سا ی ہذ ب خوںق کی ر ی‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ماں‬ ‫ق‬ ‫ط‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ر‬‫ن‬ ‫ں‬‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ات‬ ‫وا‬ ‫ی‬
‫ح‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ئ‬ ‫و‬ ‫مرت تب ک ی ا ا ال ی ا ت کو مر ب کرے سے ی رے پ ی دا ہ‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫حدود ھا جس م ں ب عد ازاں اپ ش ف امل ہ وا اس کے عالوہ ب ھا ی ب‬
‫ہن‪ ،‬ندادی‪،‬دادا‪ ،‬ات ا‪ ،‬ا ی اور ری ب یتر ت ہ‬ ‫ت‬ ‫عم ت‬ ‫نب‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫سے ممکن ھی‬ ‫ری‬ ‫ڑھو‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ے ج سم کی ن ق اء تو س‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫ھا‬ ‫ل‬ ‫ن‬‫طری‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫حب‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫دار‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ل ت بف‬ ‫ق‬ ‫ی ف‬ ‫ی‬
‫ی اں ای ک دوسرے کا د اع جسما ی ب اء کا ب اعث ھا مگر س ی ا ی ب اء کس طرح ممکن ھا۔‬
‫ت ت‬ ‫خف‬ ‫ش‬ ‫ن ن‬ ‫ن‬
‫ے اب اؤاج داد کو ی ناد رکھ ن ا روع کر ندی ا اب ت داءن می ں مردہ ج سموں کو م توظ کتی ا ج ا ا اکہ‬ ‫ے ا تسان ے پا‬ ‫اس عمل کے لی‬
‫ے اب اؤاج دادت کےن ام ی اد کر ا جس کو می راث سجم ھاتج ا ا ھا۔ان‬ ‫پ‬ ‫طرح ا‬ ‫اسی‬
‫ت‬ ‫ے‬
‫ف‬ ‫اب اؤاج نداد کو ہ می ش فہ سا ن ھ رکھا ج انس ن‬
‫ک‬
‫ےہ م‬ ‫ے اس لی‬ ‫مارے اب اؤاج داد ب ھی عظ ی م ھ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫کے کار اموں ر خ ر کر ا ب ھی اپ ی س ا ی ق اء م ں ش امل ھا ی‬
‫سر ان ا یم د ں گے تو ہ ی ہ ماری ق اء مم‬ ‫ن ی ب‬ ‫ع‬ ‫پ‬
‫ے۔‬ ‫کن‬ ‫ب‬ ‫ج ی‬ ‫مے‬ ‫ا‬ ‫کار‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ھی‬ ‫ب‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫نن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫خف‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫سان فے ھ ا ہیٹ ں سی کھا ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬
‫ی ت ی ن یج‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫لوں‬ ‫م‬ ‫عام‬ ‫سر‬ ‫ن‬ ‫کو‬ ‫اموں‬ ‫کار‬
‫ے اب قاؤ اج داد کے ن‬ ‫اپ‬
‫ئاس‬ ‫داد می ں سے م ہور رد کو ج ندف امج د ھہرا کر‬ ‫ے تاب اؤ اج ن ق‬ ‫عم‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫اس و ت سک زب ا ی نی اد کر شے کا شل عروج پئر ھا اپ‬
‫ت‬
‫دوسروں سے م رد رکھا ج اے ج و‬ ‫ت‬ ‫ے کو‬ ‫ے ب یل‬ ‫ے ج اے اکہ اپ‬ ‫ت ی ناد ک ن‬ ‫سے آگے ل کے ام پ ت درتپ ئ‬
‫اب ت داء می نں بڑھ ی ہ و ی ا سا ی آب ادی می ں پ ہچ ان کا ب اعث ھا۔‬
‫نئ ت ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے اب اء‬
‫ب ن‬
‫ے س اے ج اے و ان می ں ھی پا‬ ‫ے اب اؤ جاجت داد کےت ص‬
‫ن‬
‫ا‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫کو‬ ‫ل‬ ‫ے والی ن ئی س‬ ‫اس کے عالوہ آ‬
‫ن‬ ‫ج پ‬
‫ے کی س ج و پ ی دا ہ و ی ۔‬ ‫ےن‬‫ب‬ ‫یس‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫عم‬ ‫ن‬ ‫ےش‬
‫دوسرا اء‬ ‫ت‬ ‫ےو‬ ‫گروہ بن اءف پ ا ا ہ‬ ‫ال کو نی اچ تھاق ل ہی ں اس نسے ای ک ا سا ی ت‬ ‫دل اور ت ن‬ ‫کج گوج ن‬ ‫با ے ل‬ ‫ت‬
‫ے اس عمال‬ ‫پ‬ ‫ب‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫کے لی‬ ‫ے د اع ت‬ ‫دوران ج گ تو ج دل کو ی قاں و ن پا‬ ‫ئ ن‬ ‫کے‬ ‫اء‬ ‫ار‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫سان‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫کن‬
‫ن‬ ‫ہو ہ‬
‫ھی۔ کی و کہ‬ ‫ے لڑی گ ی دو وں تصور وں نمی ں ب ت اء ا ن ن ن ہ‬ ‫ک ی ا ی ئاں ی ہ ج گ سرمای ہ اکھ ٹ ا کرے کے لی‬
‫سان کیس ی ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫کی ب اء کی ج ا‬ ‫کیتوج ہ سے کسی ای نک گروہ کو نز دہ نرہ کر ان کو اس عئمال کر ان ھا تاکہ تا قسا ی غ لئ ق‬ ‫وسا ل کی کمی خ‬
‫ے و حط اور ذا ی لت کی‬ ‫ے ج ب کہ دوسرا م ہ و دوسری ج ا ب اگر دو وں ا ہی محدود وسا ل پر ز دہ رہ‬ ‫سک‬
‫ن ق ئ‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬
‫ے ج نگ و جتدل سے کسی ای ک گروہ ے ب اء پ ا ی جس سے‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ب دولت دو وں لی ں معدودم ہ و ج ا ی ن‬
‫اس لی ن‬‫س‬
‫ل ا سا ی بڑھ ی ع ہی۔‬
‫ن ن‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ے اس‬
‫ن‬
‫اس لی‬
‫ے ن‬ ‫طرف سے ع طاء ہ وا ہ‬ ‫ے ج نو اس زمیخن کو الق کا ات کی ن‬
‫ب‬ ‫دگی ظای ک پ ی ام کیف ما د ہ‬
‫ف‬ ‫خ‬ ‫ا سا ی ز‬
‫پ غ‬
‫اب ا ساننہ‬ ‫گا‬ ‫کرے‬ ‫ور‬
‫ئ‬ ‫ب‬‫سے چک ھ ھی کر گزرے پر جم‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫اصہ‬ ‫کا‬ ‫سان‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے طرت ج‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ام‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ےت ب لکہ ئ الء می ں کو ی ایسا تس ی ارہ الش کرے‬ ‫ہ‬
‫کے وظ م ام الش کر ا ر ا ہ‬ ‫نصرف پوری د ی ا می ں ج رت قکر‬
‫ی‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ے ج نب قزمی ن پر ماحول ی ا ی مسا ل پ ی دا وں گے و وہ زمی ن سی‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫مم‬
‫ے ج ہاں اس کی ب اء کن و ک‬ ‫کل پڑا‬
‫ہ‬
‫کسی اور ج گہ پر ج ا کر اپ ی ب اء کو ممکن ب ن ا سکی ں گے۔‬
‫علم االنساب وہ علم ہے جس میں کسی فرد یا افراد کے نسب کی معرفت حاصل کی جاتی ہے ‪ .‬اس علم کے بھی دیگر علوم کی طرح اپنے‬
‫‪ .‬قواعد و ضوابط ‪,‬اصول و شرائط ' اصطالحات اور رموز و اوقاف ہیں ‪.‬جن کے بغیر اس کی صحیح معرفت ممکن نہیں‬
‫یہ علم اہل عرب سے مخصوص ہے جس طرح فلسفہ و منطق اہل یونان طب اہل روم آداب نفس و اخالق اہل فارس علم الصنائع اہل چین‬
‫‪.‬اور نجوم و حساب اہل ہند سے مخصوص ہیں‬
‫علم االنساب اہل عرب کے مخصوص علوم میں سے ہے اور عرب میں اس پر باقاعدہ ہر دور میں کام ہوا ‪.‬غیر عرب اپنے نسب کو محفوظ‬
‫نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے نسب آپس میں ایک دوسرے سے مخلوط ہو گئے‪ .‬اور وہ دوسرے نسبوں سے ملحق ہو گئے‪.‬‬
‫حاالنکہ وہ اس نسب سے نہ تھے‪ .‬اس کے مقابلہ میں اہل عرب نے اپنے نسب کی حفاظت کی تاکہ نہ کوئی ان میں داخل ہو سکے اور نہ‬
‫‪.‬اپنا کوئی فرد خاندان سے خارج ہو سکے‪ .‬جس کی وجہ سے ان کا نسب محفوظ اور شک و شبہ سے پاک رہا‬
‫عرب میں قبل از اسالم اپنا نسب حضرت عدنان ‪ ,‬قحطان یا حضرت اسماعیل تک یاد رکھتے تھے ‪ .‬اور جب مناسک حج سے فارغ ہوتے‬
‫تو بازار عکاظ میں جمع ہوتے اور مجمع کے سامنے اپنا شجرہ نسب بیان کرتے اور اس پر فخرو مباحات کرتے اور وہ اس عمل کو حج و‬
‫عمرہ کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کرتے‬
‫جب اسالم آیا تو اس نے بھی معرفت نسب کی تاکید کی بلکہ بہت سے احکام شرعیہ مثل میراث ۔دیت ‪ ,‬صلہ رحمی وغیرہ کی بجا آوری‬
‫اس علم کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں اور حضرت محمد ص کے نسب کی معرفت تو واجب قرار دی گئی کیونکہ ان کے قرابت داروں‬
‫سے محبت ہی اجر رسالت قرار دی گئی‪ .‬اس طرح خمس کی ادائیگی کے لیے بھی ضروری ہے کہ سادات کے نسب کی معرفت ہو‬
‫نساب و نسابہ‬
‫ماہر انساب کو عربی میں ناسب‪ ,‬نسّاب یا نسابہ کہا جاتا ہے اور شجرہ نویس کو مش ّجر کہا جاتا ہے اور پاک و ہند میں نساب بہت کم اور‬
‫مشجر زیادہ ہیں لیکن بد قسمتی سے ادھر مشجر کو ہی ماہر انساب یا نساب کہ دیا جاتا ہے ‪ .‬جس کی وجہ سے پاک و ہند کے اکثر شجرات‬
‫‪ .‬کا بیڑہ غرق ہوا ہے اور بہت سے صحیح النسب خانوادے ان مشجر حضرات کی وجہ سے مشکوک النسب ہوئے ہیں‬
‫ماہر انساب میں کچھ اوصاف کا ہونا بہت ضروری ہے‬
‫مثالً وہ قوی النفس ہو تاکہ وہ کسی کی ظاہری شان و شوکت یا جاہ و حشم سے مرعوب ہو کر یا خوف کھا کر صحیح النسب کا انکار یا‬
‫‪.‬مردود النسب کو صحیح النسب نہ قرار دے دے‬
‫نسب کے تمام رموز و اوقاف سے واقف ہو‬
‫‪ .‬نسب سے متعلق جدید و قدیم کتب و جرائد اور دیگر وثائق نسبیہ سے آگاہ ہو‬
‫محتاط ہو کسی بھی روایت کے رد یا قبول کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرنے واال ہو ‪ .‬عادل قول کا سچا اور‬
‫متقی ہو‬
‫عوام میں اوصاف حمیدہ اور خصائل پسندیدہ کا حامل ہو تا کہ لوگ اس کے قول پر اعتماد کریں وغیرہ‬
‫اس کے عالوہ نساب کا سب سے اہم وصف‬
‫ماہر انساب کو مزہبی تعصب ‪ ,‬اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی سے پاک ہونا چاہیے‪ .‬ورنہ ایسا آدمی کبھی بھی مخالف مسلک اور اپنے‬
‫مزہبی رہنمائوں کے متعلق عدل سے کام لیتا ‪ .‬ایسے لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود کہ ان کا مزہبی پیشوا و مرشد سید نہیں ‪ .‬ان کے‬
‫دعوی سیادت کی نفی نہیں کرتے ‪.‬ہمارے معاشرا میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫‪.‬‬
‫ان اوصاف کے حامل پاک و ہند میں دو چار شخصیات کے عالوہ کوئی نہیں‬
‫وہللا و اعلم‬
‫سید محسن کاظمی الحمیدی‬
‫علم االنساب وہ علم ہے جس میں کسی فرد یا افراد کے نسب کی معرفت حاصل کی جاتی ہے۔ اس علم کے بھی دیگر‬
‫علوم کی طرح اپنے قواعد و ضوابط ‪,‬اصول و شرائط ' اصطالحات اور‪ ‬رموز اوقاف‪ ‬ہیں۔جن کے بغیر اس کی‬
‫صحیح معرفت ممکن نہیں‬
‫یہ علم اہل عرب سے مخصوص ہے جس طرح فلسفہ و منطق اہل یونان طب اہل روم آداب نفس و اخالق اہل فارس‬
‫‪.‬علم الصنائع اہل چین اور نجوم و حساب اہل ہند سے مخصوص ہیں‬
‫ت ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫شخ‬ ‫خ‬ ‫ک ب ا سابق‬
‫ے کہ م ت نلف ص یغات کے سب امے اورتکار امے ب ی ان‬ ‫ہ‬ ‫ان کتئ اب وں کا نم تصد ی ہ‬
‫کے تہ اں سب کو ی ر مععمولی انہ می ت حاصل ھی اور اسی کی‬ ‫ں ئ۔ چ و کہ شعربخوں ق ئ‬ ‫ےجا ی ق‬ ‫کی‬
‫دور ج اہ لی ت ہث ی غسے‬ ‫ص ا ن م ھا‪ ،‬اس وج ہ ہسےت لم اال ساب ‪   ‬کو ن‬
‫بغدولت ب ا ل کا ص ت‬
‫ہات می ں ب ھا نڈ اور می راتی و ی رہ‬ ‫مارے ت اں و ‪   ‬دی ف‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫‪  ‬‬ ‫ھی۔‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫حا‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ث‬ ‫ی ر معمولی ح ی‬
‫ے ہ ی ں اور مح ت لوں می ں ا ہیش ں گاے ہ ی غں‬ ‫ک‬ ‫ش‬
‫چل یوہ دریوں کے ج رہ ہ اے خسبعمح وظ نر ھ‬
‫سے معا رے می ںش ی ر‬ ‫ساب ‪   ‬کا ماہ ر ہ و ا‪ ،‬ا خ ن‬ ‫اال ن‬ ‫ع‬ ‫کے ہ اں ج و ص ت لم‬ ‫کن عرب توں ن‬
‫ت صرف ج رہ‬ ‫ن‬
‫سے خدی کھا ج ا ا۔ ‪    ‬لم اال ساب می ںن ہ ر ہ ر ا دان کا ہ‬ ‫نمعمولی ‪   ‬اح رام کی ظ رش ش‬
‫ے۔‬ ‫خ‬ ‫ےج ا‬ ‫حاالت ز دگی ب ن ی ان کی‬ ‫ت‬ ‫ات کے پورے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫سب ب لکہ اس کی م ہور ص‬
‫اور اگلی سلوںت کو ی ہ ذ ی رہ یح‬ ‫ت‬ ‫ہی قو ہ ے کہ عرب نوں کا ع‬
‫ص ح طور‬ ‫ساب مر ب ہ و ا رہ ا ن‬ ‫ن‬ ‫اال‬ ‫لم‬ ‫ی مت ج ہ ش‬
‫حاالت ز دگی ت فکے عالوہ ما تساب کی ک ب کیش ای ک اہ م‬ ‫ش‬ ‫خپر ن ل ہ وا۔ ‪   ‬ج رہ سب اور‬
‫ں نکہ نکس کی ادی کس‬ ‫خ‬ ‫الت ئ ل ی ہ ی‬‫ے کہف ئاس می ں ت ادیوں کی خ ص ی ق‬ ‫صوصی ئت ی ہ ہ‬
‫ے نکہ م ت لفت ب ا ل اور ا دا وں کے در خم ی ان‬ ‫ہ‬ ‫سے ہ و ی۔ اس کا ا ہدہ ی تہ ہ قو ا‬ ‫شت‬
‫ف‬
‫ے۔ ہ مارے ہ اں مور یعن‬ ‫کے ب ا می عل خاتفکا ا دازہ لگای ا ج ا صسکت ا ہ‬ ‫سے ان ب ن‬ ‫رن وںن ش‬
‫ے‪ ،‬اسے لم‬ ‫کے ا ت ال ات کی ج و ی ل ب ی ان کی ہ‬ ‫اور و امی ہ ن‬ ‫ن‬ ‫ے ب و ہا م ش‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫اب کی رو ی می ں ب آسا ی پرکشھا ج ا سکت ا ہ‬ ‫عاال س ن‬
‫اب احمد ب ن ی حی ی ال ب الذری ‪d.(   ‬‬ ‫لم اال ساب نپر سب شسے م ہور اور جن امعت کت ن‬
‫ل‬
‫ے ی ن‬
‫کن اس‬ ‫ساب کی کتش خاب ہ‬ ‫ے کو و ی ہ ا ن‬ ‫ے۔ نکہ‬ ‫‪ )279/893‬کی "ا ساب ثاال راف" ہ‬ ‫ت خ‬
‫می ں ا یر ت ی م لومات ب ک رت مو ود ہ ی ں ن یک و کہ مصن ف ے ہ ر ہ ر صی ت کے سب‬ ‫ج‬ ‫ع‬
‫ے ہ ی ں۔ ‪   ‬موج ودہچ دور می ں ی ہ‬ ‫ی‬ ‫ص ف دگی ب ی ان شکرت د‬ ‫حاالت ز‬ ‫ورے ن‬ ‫کے سا ھ اس ئکے پ ن‬
‫ے۔‬ ‫ئ ن‬ ‫لدوں میتں پھ ی‬ ‫م‬ ‫م‬
‫ص چ پ ا چ سو سحات پرخ ن ل‪ 13 ‬ج‬ ‫ڑے سا ز کے پ ا‬ ‫کت اب ب ن‬
‫س‬‫ہ‬ ‫غ‬
‫م نصن ف ے رسول ہللا لی ہللاش تعلی ہ و لم کے ا دان سے آ از کرے ہ وے ل‬
‫ے ہ ی ں۔ ‪   ‬پ ھر آپ کے چ چ ا‬ ‫کے حاالت ب ی ان کی‬ ‫دار‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ض‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫آپ‬ ‫ل‬ ‫در س‬
‫خن‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ے ہنی ں۔ اس کے‬ ‫کے حاالت ب ی انخک نی‬ ‫کے ا دان ق‬ ‫ہللا ع ہ ب ن‬ ‫اورن ع ب اس برن ت ی ب ن‬ ‫ب‬
‫طالب‬ ‫اب و ب ن‬
‫ب عد و امی ہ‪ ،‬و زہ رہ‪    ،‬و ی م‪ ،‬و مخ زوم‪ ،‬و ت تعدی ‪   ‬اورن ریشنکے دی گر ا دا کوں کے لوگوں‬
‫ے کہ ‪   ‬ج و‬ ‫ب ا ہوں ےساس طرح ت نر قھی ہ‬ ‫ے تہ ی ں۔ ‪   ‬کت اب کی ر ی‬ ‫حاالت ب ی ان کی‬ ‫کے ن‬ ‫خن‬
‫ص‬
‫ے‪،‬‬ ‫کے اع ب ارنسے رسول ہللا لی ہللا علی ہ و لم سے ‪   ‬ج ا ری ب ہ‬ ‫ا دان سب ن‬
‫ے ہ ی ں۔ ن‬ ‫ے ب ی ان کی‬ ‫اس کے حاالت ا ہوں ے پ تہل‬
‫یسری صدین کے ساب مصعب الزبیری‪( ‬ن‪-156‬‬
‫م فت‬ ‫ق‬ ‫ے دوسری ن و‬ ‫ب الذری سے پہل‬
‫ے۔ ا ہوں‬ ‫ہ‬ ‫کی تحا ل‬ ‫ش‬ ‫ش ن‘‘ ن ہای ت اہ می ت‬ ‫خ‬ ‫سب ری‬ ‫اب ’’ ق ئ‬ ‫‪-236/773‬ق‪ )851‬کی کت خ‬ ‫ن‬
‫ل سے‬ ‫ص‬ ‫ہ‬
‫کے م ت لف بضا ل اور ا دا وںسکے ب ا تمی ر وں کو س ین‬ ‫ن‬ ‫ے ھی ریش‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ض‬
‫ے اور امام م لم ے ان‬ ‫ے۔ ‪   ‬ی ہ ح رت زبیر ر ی ہللا ع ہ کی ل خسے ھ‬ ‫ب ی ان ک ی ا ہ ق‬
‫ے کہ ئاس‬ ‫ب‬ ‫سے روای ن‬
‫ھی ہ‬ ‫ات ب ول کی ہش ی تں۔ ‪    ‬ان کی کت اب کی ای تکخ صو قصی ت ی ہ ن‬
‫ے۔‬ ‫ےگ‬ ‫ے اور ا یر ی وا عات ب ی ان ہی ں کی‬ ‫می ں صرف سب اور ر وں کو ب ی ان ک ی ا گ ی ا ہ‬
‫ت‬ ‫غ‬
‫ے۔ ب عد می ں چ و ھی صدی می ں اب ن‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫اس وج ہ سے اس کت اب کی ی ر ج ا ب داری ج لم ہن‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫حزم‪)1064-456/994-384( ‬کی کت اب ’’ مہرۃ اال ساب العرب‘‘ ھی ای ک ا م‬
‫ے۔‬
‫ابن ہ‬ ‫فکت ق‬
‫خ‬ ‫ارو ی ا وادے‬
‫ش اہ ولی ہللا محدث دہلوی‬
‫ست‬‫سچ ل سر م ث ن‬
‫الف ا ی‬
‫ب‬ ‫مج دد‬
‫م ی اں دمحم حشف ق‬
‫برہ ان پور فکے ق ارو ی‬
‫ش‬
‫ملک راج ا ارو فی ق ت ن‬
‫تی خ ج الل الدی ن ارو ی ھا ی ری‬
‫ھان ہ ب ھون‬
‫میاں میر‬
‫شاہ ولی ہللا و‬
‫شاہ عبد القادر ۔‬
‫و شاہ عبدالرحیم و شاہ رفیع الدین و عبدالحق ی‬
‫ہ سب محدث دہلوی‬
‫پھر مجدد الف ثانی پھر‬
‫سچل سرمست پھر‬
‫محمدبخش پھر بابا غالم فرید‬
‫پھر بابا فرید اور بہت سی ایسی نایاب ہستیاں موجود ہیں‬

You might also like