Professional Documents
Culture Documents
ہمزہ اردو کی حروف تہجی کے پینتیسویں حرف ءکو کہتے ہیں۔ جسے بعض لوگ الگ
حرف نہیں سمجھتے مگر حقیقت میں وہ دو طریقے سے اردو میں استعمال ہوتا ہے۔
حرف کے طور پر اور وقف مزمار یعنی حلق سے ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ ادا کیے
جانے والے لہجے کے طور پر،حرف کے طور پر 'دائرہ' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔
لہجے کے طور پر 'واؤ' یا 'مؤخر' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ الگ حرف
حروفابجد کے حساب سے اس کے اعداد الف کے برابر 1 ِ کے طور پر استعمال ہو تو
شمار ہوتے ہیں۔ اسے عیسوی سال کے نشان کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمزہ اصل میں آرامی زبان کے ابجد کی صوتیات
سے عربی میں آیا جس میں کہ وقف مزمار کے لیے ایک حرف استعمال ہوتا تھا جو
عربی میں الف بنا اور چونکہ عربی میں الف سے وقف مزمار کے ساتھ ساتھ طویل مصوتہ
یعنی حرف علت کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا ،جس کی وجہ سے اسے الگ
شناخت دینے کے لیے یا یہ ظاہر کرنے کے لیے مذکورہ الف محض مصوتہ نہیں بلکہ وقف
مزمار ہے اس کے ساتھ ء کا اضافہ کیا گیا۔ عربی میں یہ ہمزہ ،الف کے اوپر بھی آ سکتا
ہے اور نیچے کی جانب بھی جس میں بالترتیب اس کے ساتھ زبر اور زیر کے مصوتات
بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
تعارف
عربی میں ہمزہ ایک مستقل آواز ہے۔ اردو میں اس کی وہ صوتی حیثیت نہیں تا ہم اردو
میں ہمزہ عربی سے ماخوذ لفظوں کے عالوہ بہت سے دیسی لفظوں کے امال میں بھی
استعمال ہوتا ہے (جیسے آؤں ،جاؤں ،کھائے ،پائے ،لکھنؤ ،کیکئی) ،چنانچہ اردو امال کا
رسم خط
ِ اصالح
ِ تصور ہمزہ کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انجمن ترقی اردو کی کمیٹی
ستار صدیقی کی تجویز پر سفارش کی تھی۔ ہمزہ جب کسی منفصل حرف نے ڈاکٹر عبد ال ّ
کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے آءو ،آءی ،جاءو ،آءیں ،آ ِءیں ،بھاءی،
سوءیں ،سناءیں ،ما ِءل ،گھا ِءل ،دا ِءر ،تاءید ،دا ِءرے ،جا ِءزہ ،رعناءی؛ لیکن یہ رائج نہیں
ہو سکا۔ ہمزہ حرف یا شوشے کے اوپر ہی لکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں،
چنانچہ اسی طریقے کو قبول کر لینا چاہیے۔ البتہ اردو میں ہمزہ کے استعمال میں جو بے
قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں ،اُن کو ذیل کے اصول اپنا لینے سے دور کیا جا سکتا ہے۔
ہمزہ کی اقسام
ہمزہ کی عربی میں دو اقسام ہوتی ہیں جن کا خیال قرآن کی قرائت کے دوران بھی ملحوظ
رکھا جاتا ہے۔
۔پہلی قسم تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر بھی آیا کہ جسے وقف مزمار کے لیے استعمال کیا
جاتا ہے ،اسے ہمزۃ القطع کہا جاتا ہے اور اسے الف کے اوپر یا نیچے ہمزہ کی عالمت
لگا کر لکھا جاتا ہے یعنی جیسے أ اور إ اس قسم کے ہمزہ الف کا استعمال عربی اور قرآن
میں ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے مثال کے طور پر لفظ ،قِرأت میں []4
یہی ہمزۃ القطع استعمال ہوتا ہے۔
۔دوسری ہمزہ کی قسم کو ہمزۃ الوصل کہا جاتا ہے اور اسے بال کسی ء کی عالمت کے
محض الف کی مانند لکھا جاتا ہے لیکن اس الف پر کوئی دیگر مصوتہ بھی نہیں ہوتا اور
نہ ہی اس کی خود کی آواز بطور حرف علت نکلتی ہے۔ عربی تلفظ کے دوران یہ کوئی
دانستہ وقف مزمار نہیں ہوتا بلکہ ایک بے ساختہ سی حلقی آواز ہوتی ہے۔ مثال کے طور
پر ؛ بالکل لکھا جائے اور پڑھنے میں بالکل آئے تو ایسی جگہ الف کی آواز مفقود ہو جاتی
ہے اور اسی الف کی صورت کو ہمزۃ الوصل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی سابقہ ،ال (الم
تعریف) میں بھی یہی ہمزۃ الوصل آتا ہے جیسے ہللا۔
ہمزہ کا استعمال
:اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے
(حرف علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی
ِ جس لفظ میں بھی دو ُمص ّوتے
:آوازیں (پوری یا جزوی) دیں ،وہاں ہمزہ لکھا جائے ،جیسے
کوئی ،جائے ،کھاؤ ،دکھائیں ،نائی ،لکھنؤ ،غائب ،فائدہ ،جاؤں ،جائز
ہمزہ اور الف
عربی کے متعدد مصادر ،جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصالً ہمزہ ہے ،جیسے:
ابتداء ،انتہاء ،امالء ،انشاء ،شعراء ،حکماء ،ادباء ،علماء ،فقراء ،وزراء
اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔
ابتدا ،انتہا ،امال ،انشا ،شعرا ،حکما ،ادبا ،علما ،فقرا ،وزرا
ہمزہ اور واؤ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ ،جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ)
رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو ،رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر
لکھنے کی سفارش کی ہے ،ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری
واؤ سے بولے جاتے ہیں ،لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ ،جاؤ ،پاؤ ،کھاؤ اور حاصل
مصدر بناؤ ،پاؤ (سیر) ،رکھاؤ ،بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں ،یعنی ان سب میں
دوہرے مص ّوتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی
:ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے
:اسما
االؤ ،اود بالؤ ،پالؤ ،تاؤ ،چاؤ ،راؤ ،گاؤ ،باؤ ،گوال گھماؤ
:حاصل مصدر
بچاؤ ،بہاؤ ،پتھراؤ ،دباؤ ،گھماؤ ،پھراؤ ،الجھاؤ ،چھڑکاؤ ،چناؤ ،جھکاؤ ،سمجھاؤ
ہمزہ یا ی
ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور
جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے ،یا کئی ،گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے ،لیکن
کیے ،لیے ،اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعالن
کی ی (نیم مص ّوتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چا ِہ+یےِ ،ل+یےِ ،د+یے میں
بالتّرتیب ہ ،ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مص ّوتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے
مخرج سے گزرتی ہے ،جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا الزمی ہے۔ اس کے بر عکس
ک+ئی ،گَ+ئے ،گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی َ
پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مص ّوتے ساتھ ساتھ آئے ہیں ،اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مص ّوتے
:ساتھ ساتھ آئیں ،وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا
حرف ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا ،ی لکھی جائے گی ،جیسے
ِ :اگر
چاہیے
ِکیےِ ،دیے ،لِیے ِ ،جیے ،سنیےِ ،
لیجیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی
دیجیے و ِ
:فعل کی تعظیمی صورتیں ِ
دیجیے ،لی ِجیے ،کی ِجیے ،اُٹھیے ،بولِیے ،بیٹ ِھیے
ِ
باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔
صالح تَلَفُّظ و اِمال"طالب الہاشمی اپنی کتاب
ِ میں لکھتے ہیں کہ ":اِ
سے" وہ تمام فعل جن کے ما ّدے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے ،اس اصول کے تحت ہمزہ
حرف علّت تو ما ّدے کا ،دوسرا تعظیمی الحقے اِیے کا،
ِ لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک
(فرما اِیے ،جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں ،اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز
:پیدا ہو جاتا ہے
فرمائیے ،جائیے ،آئیے ،کھوئیے ،سوئیے"()1
اسی طرح گئے ،گئی ،نئے میں یائے سے پہال حرف مفتوح ہے ،چنانچہ ان لفظوں کو بھی
ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔
ہمزہ اور ے
ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مص ّوتے کے طور پر بولے جاتے ہیں ،اس لیے
:ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے
گائے (اسم) ،گائے (گانا سے)
پائے (اسم) پائے (پانا سے)
رائے (بہادر) رائے (صاحب)
۔پہلی بات یہ ہے کہ جمل میں ھ کا عدد 5شمار ہوتا ہے یعنی ہائے ہوز ە کے1
برابر .چنانچہ بھ کی قدر 2جمع 5برابر 7ہے۔دھ کی قد 4جمع 5برابر 9ہے۔
وغیرہ .اس لیے بھ ،پھ ،تھ ،ٹھ ،وغیرہ حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ مخلوط
حروف ہیں جو ب ،پ ،ت ،ٹ ،وغیرہ کی بھاری آوازوں کی تحریری عالمت کے
طور پر مخصوص کر دیے گئے ہیں .ھ پر حرکت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے سے
حرف تہجی کی حرکت کے تابع ہوتی ہے .یاد رہے کہ یہ بھاری آوازیں ِ پچھلے
صرف اردو میں پائی جاتی ہیں اور اردو کا امتیاز ہیں۔
۔ھ کے بارے میں دوسری بات یہ ہے کہ یہ کسی لفظ کے شروع میں نہیں آ2
سکتی .چنانچہ ھوگا ،ھونا ،ھے ،ھم ،ھمارا ،ھمدرد ،ھندو ،ھمیشہ ،ھوا،
ھمسایہ ،ھجے ،ھدایات ،ھدایت ،ھادی ،ھبوط ،ھوس ،ھونٹ ،ھٹنا ،ھٹانا ،ھوش،
بے ھوشی ،ھاضمہ ،ھجر ،ھاجرہ ،ھلنا ،ھولناک ،ھیبت ،ھونق ،ھبڑ دبڑ ،ھچر
مچر ،ھوائی جہاز ،ھوائی چپل ،بادشاھی مسجد ،ھونڈا ،ھنڈائی ،وغیرہ سب
نادرست ہیں .اسی طرح اردو-فارسی مرکبات/لفظوں میں بھی ھ استعمال نہیں
ہوتی چنانچہ باھم ،تاھم ،فراھم ،وغیرہ ،نادرست ہیں۔ ان سب لفظوں میں ە آئے
گی۔
حرف اصلی3
ِ ۔ھ کے بارے میں تیسری بات یہ ہے کہ جن لفظوں میں یہ بطو ِر
آتی ہے وہاں اسے بہرحال لکھا جائے گا خواہ بولنے میں یہ بھاری آواز کے
طور پر بوال یا سنا نہ بھی جاتا ہو .چنانچہ چڑھنا (چڑھ) ،پڑھنا (پڑھ) ،لڑھکنا
(لڑھک) ،مڑھنا (مڑھ) ،بھارت ،بوڑھا /بوڑھی /بڑھاپا ،وغیرہ سب اسی طرح
لکھے جائیں گے۔
۔چھ لفظوں میں امال کے اصولیوں نے ھ کو اس لیے شامل کیا ہے کہ ان میں ہ4
حرف اصلی نہیں ہے .چنانچہ کمھار،ِ کی آواز آتی ہے لیکن ە ان کے اندر
کلھاڑا ،چولھا ،کولھو ،دولھا ،دولھن ،وغیرہ ،اسی طرح لکھے جائیں گے .اور
اسی طرح گیارھواں ،بارھواں ،تیرھواں ،چودھواں ،پندرھواں ،سولھواں،
حرف اصلی ہے ِ سترھواں ،اٹھارواں کی یہی صورتیں درست ہیں .لیکن جہاں ە
وہاں یہ برقرار رہے گی جیسے دوہرانا ،شوہر ،لوہار ،چاہنا ،چاہت ،چاہیے،
سراہنا ،رہنا ،رہن سہن ،واہیات ،جمہوریت ،سہولت ،وغیرہ .البتہ نباہنا/نبھانا
دونوں چلن دار ہیں لہذا دونوں بیک وقت درست ہیں۔
جن مرکب لفظوں میں “ہیں” یا “ہوں” یا “ہارے” یا “ہاری” وغیرہ کی واضح
آواز آتی ہے لیکن یہ الفاظ اصلی نہیں ہیں ان میں ھ لگتی ہے جیسے انھوں،
انھیں ،تمھیں ،جنھوں ،جنھیں ،تمھارا ،تمھارے ،تمھاری ،وغیرہ .اس اصول پر
کبھی (کب+ہی) ،سبھی (سب+ہی) ،ابھی (اب+ہی) ،جبھی (جب+ہی) وغیرہ کو
ە سے لکھنا چاہیے یعنی کبہی ،سبہی ،ابہی ،جبہی ،وغیرہ .لیکن انھیں آنکھوں
سے نامانوس ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں لکھا جاتا بلکہ کبھی ،سبھی ،ابھی،
جبھی ہی درست ہیں .سہولت کے لیے آپ انھیں مستثنیات کہہ لیجیے .تاہم انہی،
جونہی ،یونہی ،یہی اور وہی کو اسی طرح لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اصل میں
ان+ہی ،جوں+ہی ،یوں+ہی ،یہ+ہی اور وہ+ہی ہیں .اسی طرح یہاں/یہیں،
کہاں/کہیں اور وہاں/وہیں بھی ھ کے بجائے ە سے لکھے جائیں گے .ہم+ہی کو
“ہمہی” یا “ہمی” لکھنا رواج میں نہیں ہے البتہ اس کی ایک صورت “ہمیں”
کچھ استاد شعرا نے باندھی ہے ،چنانچہ اسے صرف شعری ضرورت کے لیے
برتا جانا درست ہے“ .ہمہ ہمی” ایک مستقل سرلفظ ہے۔
کے font۔عربی میں ە اور ھ میں کوئی فرق نہیں ہے اور ھ محض ایک مختلف5
طور پر استعمال ہوتی ہے ،اس لیے اللھم ،اشھد ان ال الہ اال ہللا ،علیھم ،وغیرہ
وغیرہ سب درست ہیں کیونکہ ان سے اردو والوں کی آنکھیں مانوس ہیں۔ تاہم
اردو میں عربی کے جو لفظ ہ کے ساتھ دیکھے لکھے جانے مانوس ہیں انھیں
اسی طرح لکھا جائے گا جیسے مشہور ،جمہور ،مہجور ،اہم ،اہمیت ،مبہوت،
نہایت ،جاہل ،وغیرہم ،کلہم ،وہم ،اوہام ،موہوم ،یہودی ،وغیرہ وغیرہ کا یہی امال
درست ہے۔
اردو میں ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کا استعمال
اردو میں ’’ہ‘‘ ہائے ہوز اور ’’ھ‘‘ ہائے دو چشمی کو لکھتے وقت اکثر گڈ مڈ کر دیا جاتا
ہے۔ اردو کی پرانی تحریروں میں ’’ھ‘‘ کا استعمال کم تھا اور ہندی االصل الفاظ ’’بھول،
پھول ،تھال ،کھانا ،دکھ ،سکھ ،سنگھ‘‘ وغیرہ کو عموما ً ’’ہ‘‘ سے لکھا جاتا تھا اور ان
کی صورت ’’بہول ،پہول ،تہال ،کہانا ،دکہہ ،سکہہ ،سنگہہ‘‘ ہوتی تھی۔ اب صورت حال
بہت بہتر ہو گئی ہے۔ غالبا ً انیسویں صدی کے ٓاخری چند عشروں میں اردو اخبارات کے
عام چلن کی وجہ سے ’’ہ‘‘ کی بجائے ’’ھ‘‘ کا استعمال عام ہو گیا۔ اب امال کا یہ ابہام
کافی حد تک ختم ہو گیا ہے اور الفاظ کو زیادہ تر درست لکھا جاتا ہے۔ اس لیے
’’بہاری‘‘ اور ’’بھاری‘‘’’ ،پہاڑ‘‘ ،اور ’’پھاڑ‘‘’’ ،دہرا‘‘ اور ’’دھرا‘‘ اور ’’دہن‘‘ اور
’’دھن‘‘ لکھتے اور پڑھتے وقت اِن میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک بہت سے
الفاظ مثالً ’’انھوں ،انھیں ،تمھارا ،تمھیں ،چولھا ،دولھا ،دلھن‘‘ وغیرہ کو ہائے ہوز سے
ہی یعنی ’’انہوں ،انہیں ،تمہارا ،تمہیں ،چولہا ،دولہا ،دلہن‘‘ لکھا جاتا ہے اور اسے عام
طور پر غلط سمجھا بھی نہیں جاتا۔
دراصل ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک ہی نام دینے کی وجہ سے ایک بہت بڑا مغالطہ در ٓایا ہے
کہ شاید یہ ایک ہی حرف ہے یا دونوں ایک دوسرے کے مترادف و متبادل ہیں۔ اس غلط
فہمی کی وجہ قدیم ماہری ِن لسانیات کا یہ تصور ہے کہ اردو میں بھاری یا سخت ٓاوازوں
والے حروف ’’بھ ،پھ ،تھ ،کھ‘‘ وغیرہ مرکب حروف ہیں۔ یعنی ب+ہ= بھ ،پ+ہ= پھ،
ت+ہ= تھ ،ک+ہ= کھ۔ اسی لیے ٓاج تک بچے کو جب اردو حروف تہجی کا ابتدائی تعارف
کرایا جاتا ہے تو مروجہ قاعدوں میں تمام دو چشمی حروف کو حروف تہجی کا حصہ ظاہر
نہیں کیا جاتا۔ فارسی حروف میں صرف ’’ٹ‘‘’’ ،ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی تین ٓاوازوں کا اضافہ
کر کے اردو حروف تہجی کو مکمل تصور کر لیا جاتا ہے۔ بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس
نے سب حروف کی شکلیں اور ٓاوازیں ذہن نشین کر لی ہیں۔ اگلے مرحلے میں بچے کو
حروف جوڑ کر مختلف ٓاوازوں کو مالنے اور لکھتے وقت انھیں جوڑنے اور توڑنے کے
قواعد سکھائے جاتے ہیں۔ اب بچہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ حروف کی سب مفرد اور مرکب
شکلوں سے ٓاگاہ ہو گیا ہے ،لہٰ ذا اس کے منہ سے نکلنے والی ہر ٓاواز اب حروف جوڑ کر
الفاظ کی شکل میں لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس مرحلے کے بعد وہ ایک نئی الجھن کا
شکار ہوتا ہے اور اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہماری زبان میں ایک اور ’’ہ‘‘ بھی
موجود ہے اور اس کی دو ٓانکھیں ہیں۔ جب اس کی ٓانکھیں ب ،پ ،ت ،ٹ ،ج ،چ ،د ،ڈ ،ر،
ڑ ،ک ،گ ،ل ،م اور ن سے ملتی ہیں یا لڑتی ہیں تو بھ ،پھ ،تھ ،ٹھ ،جھ ،چھ ،دھ ،ڈھ ،رھ،
ڑھ ،کھ ،گھ ،لھ ،مھ ،نھ وجود میں ٓاتے ہیں۔ اس طرح بچہ ان حروف کی شکلوں اور
ٓاوازوں سے تو شاید واقف اور مانوس ہو جاتا ہے لیکن اسے یہ علم عمر بھر نہیں ہوتا
کہ وہ ہائے دو چشمی والے حروف کو حروف تہجی کا حصہ تصور کرے یا نہیں۔ اگر
انھیں حروف تہجی کہا جائے تو پہلے تعارف میں انھیں شامل کیوں نہیں کیا جاتا اور اگر
وہ حروف تہجی کا حصہ نہیں تو انھیں کیا نام دیا جائے؟ جب کہ ان کے استعمال کے بغیر
اردو میں شاید ایک جملہ لکھنا بھی ممکن نہ ہو۔
باون حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا
اعلی
ٰ نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر
تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں
میں بھی ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و
مجہول کر دیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ ،امال یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید
الجھأو کا شکار ہو جاتا ہے۔ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ’’منہ‘‘،
’’منھ‘‘’’ ،مونہہ‘‘ اور ’’مونھ‘‘ ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ
عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور امال سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔
لطف کی بات یہ کہ ان امال کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک
طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ’’ٹ‘‘’’ ،ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی
وہ کسی دوسرے حرف کو ’’ط‘‘ سے مال کر نہیں بنائے گئے ،اُسی طرح اردو میں ہائے
دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔
ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان’’
مرتب کرتے وقت ’’ھ‘‘ کی ردیفوں مثالً ’’ٓانکھ ،ساتھ ،ہاتھ‘‘ وغیرہ کو ردیف ’’ہ‘‘ کی
ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ’’ہ‘‘ کی ردیف میں ’’یہ ،وہ ،نقشہ ،جگہ‘‘ کے
ساتھ ہی ’’ٓانکھ ،بیٹھ ،ساتھ ،ہاتھ‘‘ وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالبا ً یہ
تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ’’بھ ،ٹھ ،چھ ،کھ‘‘
وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
۔ا3
حروف تہجی کا پہال حرف الف ('ا') ہے۔ اس کی دو اشکال ہیں۔ الف مقصورہ یا سادہ ِ اردو
ب ابجد کی رو سے اس کا عدد ایک ہے۔ فارسی، الف ('ا') اور الف ممدودہ ('آ')۔ حسا ِ
عربی اور کئی دیگر زبانوں میں بھی پہال حرف ہے۔ عربی میں تو الف مقصورہ اس
چھوٹے الف کو بھی کہتے ہیں جو کچھ الفاظ کو کھینچ کر پڑھنے کے لیے لکھا جائے
موسی وغیرہ مگر اردو میں یہ ساکن یا متحرک بھی ہو سکتا ہے جیسے ٰ عیسی،
ِٰ جیسے
'اگر'' ،مگر'' ،نان' وغیرہ۔ ↔الف سے ايک نام ہللا بھی ہوتا ہے۔
الف کی اقسام
اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔
۔مجرد
۔مہموز ،ہمزہ
۔ممدودہ
الف مجرد
ِ
ہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع ،وسط اور
آخر تینوں میں آتا ہے۔ مثالً شروع میں
امید ،احساس ،اجر ،اثر ،امنگ ،اٹل وغیرہ
درمیان
راز ،سالم ،ناراض ،پاکستان وغیرہ
آخر میں
دعا ،روا ،پیدا ،جینا ،کھیلنا وغیرہ۔
شروع میں جب یہ الف آتا ہے تو اردو زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے
پہلے حرف پر ضرور بالضرور حرکت ہو گی ،متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے،
علی ٰہذا۔
احساس میں زیر ،اجر میں زبر۔ قس ٰ
درمیان اور آخر ہر دو صورتوں میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہال ساکن یعنی مجزوم۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے
پہلے بھی کوئی ساکن حرف موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور پر آئے گا تو پہال ساکن
خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی ساکن یعنی موقوف حروف آ جائیں۔ جیسے راست
میں الف رے کے بعد پہال ساکن یعنی مجزوم ہے اور اس کے بعد دو ساکن یعنی موقوف
آئے ہیں۔
الف مہموز
ِ
یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی
عربی االصل لفظ کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے عالوہ اردو میں
اس کی کوئی صورت نہیں۔
جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس
:بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں
جُر +اَت = جُرأت
اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔
مہموز کا مطلب ہے ہمزہ واال۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔
الف مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہمدعا یہ کہ ِ
الف مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو
اس پر زبر ہو گی۔ ِ
الف مجرد کی طرح لکھا جائے گاجسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو ِ
پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔
ہمزہ
ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان
ہو اور اس پر زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی
الف مہموز کی صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں تو اسے ہم ِ
ہمزہ لکھا جائے گا۔
مثالً
قائم = قا +اِم
دائر = دا +اِر
مسئول = مس +اُول
رؤف = َر +اُوف
گئی = گَ +اِی
رائے = را +اِے
ب اضافی میں اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے
مرک ِ
کی بجائے ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے
روئے سخن = رُو +اے
دعائے خیر = دعا +اے
اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو ہمزہ لکھ کر زیر دیتے
ہیں۔ جیسے
ہدی ِۂ نعت = ہد +یہ +اے
گرمئ بازار = گر +می +اے
ِ
البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ اضافت والی
یے پہلے ہی سے موجود ہے۔ جیسے
مئے ناب = َم +اے
عربی میں جب الف موقوف ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے ماء ،شاء،
انبیا وغیرہ میں۔ اردو کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں ،جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر
کیا ،الف موقوف یعنی دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہال ساکن ہی
ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں انبیا ،اولیا وغیرہ کو ہمزہ کے بغیرلکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض
عربی االصل تراکیب میں اس کی یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے ان شاء ہللا ،ماشاء ہللا
وغیرہ۔
الف ممدودہ
ِ
الف ممدودہ وہ ہے جس پر مد
ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ ِ
یعنی کھنچاو موجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔
سا ،کا ،گا ،ال ،جا وغیرہ میں الف سے پہلے س ،ک ،گ ،ل اور ج موجود ہیں جو متحرک
ہیں اور الف ساکن ہے۔ اگر پہال حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے
الف ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر
پہال متحرک اور دوسرا ساکن ہو گا۔ یہ ِ
کرتے ہیں۔
ا+ا=آ
الف ممدودہ ہمیشہ الفاظ کے شروع میں آتا ہے۔ درمیان یا آخر میں نہیں پایا
اردو میں ِ
جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے نہ ایک الف کے برابر۔
مثالً