You are on page 1of 12

‫۔ہمزہ‪1‬‬

‫ہمزہ اردو کی حروف تہجی کے پینتیسویں حرف ءکو کہتے ہیں۔ جسے بعض لوگ الگ‬
‫حرف نہیں سمجھتے مگر حقیقت میں وہ دو طریقے سے اردو میں استعمال ہوتا ہے۔‬
‫حرف کے طور پر اور وقف مزمار یعنی حلق سے ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ ادا کیے‬
‫جانے والے لہجے کے طور پر‪،‬حرف کے طور پر 'دائرہ' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔‬
‫لہجے کے طور پر 'واؤ' یا 'مؤخر' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ الگ حرف‬
‫حروفابجد کے حساب سے اس کے اعداد الف کے برابر ‪1‬‬ ‫ِ‬ ‫کے طور پر استعمال ہو تو‬
‫شمار ہوتے ہیں۔ اسے عیسوی سال کے نشان کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫تاریخی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمزہ اصل میں آرامی زبان کے ابجد کی صوتیات‬
‫سے عربی میں آیا جس میں کہ وقف مزمار کے لیے ایک حرف استعمال ہوتا تھا جو‬
‫عربی میں الف بنا اور چونکہ عربی میں الف سے وقف مزمار کے ساتھ ساتھ طویل مصوتہ‬
‫یعنی حرف علت کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا‪ ،‬جس کی وجہ سے اسے الگ‬
‫شناخت دینے کے لیے یا یہ ظاہر کرنے کے لیے مذکورہ الف محض مصوتہ نہیں بلکہ وقف‬
‫مزمار ہے اس کے ساتھ ء کا اضافہ کیا گیا۔ عربی میں یہ ہمزہ‪ ،‬الف کے اوپر بھی آ سکتا‬
‫ہے اور نیچے کی جانب بھی جس میں بالترتیب اس کے ساتھ زبر اور زیر کے مصوتات‬
‫بھی شامل ہوجاتے ہیں۔‬

‫تعارف‬
‫عربی میں ہمزہ ایک مستقل آواز ہے۔ اردو میں اس کی وہ صوتی حیثیت نہیں تا ہم اردو‬
‫میں ہمزہ عربی سے ماخوذ لفظوں کے عالوہ بہت سے دیسی لفظوں کے امال میں بھی‬
‫استعمال ہوتا ہے (جیسے آؤں‪ ،‬جاؤں‪ ،‬کھائے‪ ،‬پائے‪ ،‬لکھنؤ‪ ،‬کیکئی)‪ ،‬چنانچہ اردو امال کا‬
‫رسم خط‬
‫ِ‬ ‫اصالح‬
‫ِ‬ ‫تصور ہمزہ کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انجمن ترقی اردو کی کمیٹی‬
‫ستار صدیقی کی تجویز پر سفارش کی تھی۔ ہمزہ جب کسی منفصل حرف‬ ‫نے ڈاکٹر عبد ال ّ‬
‫کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے آءو‪ ،‬آءی‪ ،‬جاءو‪ ،‬آءیں‪ ،‬آ ِءیں‪ ،‬بھاءی‪،‬‬
‫سوءیں‪ ،‬سناءیں‪ ،‬ما ِءل‪ ،‬گھا ِءل‪ ،‬دا ِءر‪ ،‬تاءید‪ ،‬دا ِءرے‪ ،‬جا ِءزہ‪ ،‬رعناءی؛ لیکن یہ رائج نہیں‬
‫ہو سکا۔ ہمزہ حرف یا شوشے کے اوپر ہی لکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں‪،‬‬
‫چنانچہ اسی طریقے کو قبول کر لینا چاہیے۔ البتہ اردو میں ہمزہ کے استعمال میں جو بے‬
‫قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں‪ ،‬اُن کو ذیل کے اصول اپنا لینے سے دور کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ہمزہ کی اقسام‬
‫ہمزہ کی عربی میں دو اقسام ہوتی ہیں جن کا خیال قرآن کی قرائت کے دوران بھی ملحوظ‬
‫رکھا جاتا ہے۔‬
‫۔پہلی قسم تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر بھی آیا کہ جسے وقف مزمار کے لیے استعمال کیا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اسے ہمزۃ القطع کہا جاتا ہے اور اسے الف کے اوپر یا نیچے ہمزہ کی عالمت‬
‫لگا کر لکھا جاتا ہے یعنی جیسے أ اور إ اس قسم کے ہمزہ الف کا استعمال عربی اور قرآن‬
‫میں ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے مثال کے طور پر لفظ‪ ،‬قِرأت میں [‪]4‬‬
‫یہی ہمزۃ القطع استعمال ہوتا ہے۔‬
‫۔دوسری ہمزہ کی قسم کو ہمزۃ الوصل کہا جاتا ہے اور اسے بال کسی ء کی عالمت کے‬
‫محض الف کی مانند لکھا جاتا ہے لیکن اس الف پر کوئی دیگر مصوتہ بھی نہیں ہوتا اور‬
‫نہ ہی اس کی خود کی آواز بطور حرف علت نکلتی ہے۔ عربی تلفظ کے دوران یہ کوئی‬
‫دانستہ وقف مزمار نہیں ہوتا بلکہ ایک بے ساختہ سی حلقی آواز ہوتی ہے۔ مثال کے طور‬
‫پر ؛ بالکل لکھا جائے اور پڑھنے میں بالکل آئے تو ایسی جگہ الف کی آواز مفقود ہو جاتی‬
‫ہے اور اسی الف کی صورت کو ہمزۃ الوصل کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عربی سابقہ‪ ،‬ال (الم‬
‫تعریف) میں بھی یہی ہمزۃ الوصل آتا ہے جیسے ہللا۔‬

‫ہمزہ کا استعمال‬
‫‪:‬اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے‬
‫(حرف علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی‬
‫ِ‬ ‫جس لفظ میں بھی دو ُمص ّوتے‬
‫‪:‬آوازیں (پوری یا جزوی) دیں‪ ،‬وہاں ہمزہ لکھا جائے‪ ،‬جیسے‬
‫کوئی ‪ ،‬جائے‪ ،‬کھاؤ‪ ،‬دکھائیں‪ ،‬نائی‪ ،‬لکھنؤ ‪،‬غائب ‪،‬فائدہ ‪،‬جاؤں ‪،‬جائز‬
‫ہمزہ اور الف‬
‫عربی کے متعدد مصادر‪ ،‬جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصالً ہمزہ ہے‪ ،‬جیسے‪:‬‬
‫ابتداء‪ ،‬انتہاء‪ ،‬امالء‪ ،‬انشاء‪ ،‬شعراء‪ ،‬حکماء‪ ،‬ادباء‪ ،‬علماء‪ ،‬فقراء‪ ،‬وزراء‬
‫اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔‬
‫ابتدا ‪،‬انتہا ‪،‬امال ‪،‬انشا ‪،‬شعرا ‪،‬حکما ‪،‬ادبا ‪،‬علما ‪،‬فقرا ‪،‬وزرا‬
‫ہمزہ اور واؤ‬
‫ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ‪ ،‬جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ)‬
‫رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو‪ ،‬رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر‬
‫لکھنے کی سفارش کی ہے‪ ،‬ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری‬
‫واؤ سے بولے جاتے ہیں‪ ،‬لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ‪ ،‬جاؤ‪ ،‬پاؤ‪ ،‬کھاؤ اور حاصل‬
‫مصدر بناؤ‪ ،‬پاؤ (سیر)‪ ،‬رکھاؤ‪ ،‬بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں‪ ،‬یعنی ان سب میں‬
‫دوہرے مص ّوتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی‬
‫‪:‬ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے‬
‫‪:‬اسما‬
‫االؤ‪ ،‬اود بالؤ ‪،‬پالؤ ‪،‬تاؤ ‪،‬چاؤ ‪،‬راؤ ‪،‬گاؤ ‪،‬باؤ ‪،‬گوال گھماؤ‬
‫‪:‬حاصل مصدر‬
‫بچاؤ ‪،‬بہاؤ ‪،‬پتھراؤ ‪،‬دباؤ ‪،‬گھماؤ ‪،‬پھراؤ ‪،‬الجھاؤ‪ ،‬چھڑکاؤ‪ ،‬چناؤ ‪،‬جھکاؤ ‪،‬سمجھاؤ‬
‫ہمزہ یا ی‬
‫ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور‬
‫جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے‪ ،‬یا کئی‪ ،‬گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫کیے‪ ،‬لیے‪ ،‬اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعالن‬
‫کی ی (نیم مص ّوتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چا ِہ‪+‬یے‪ِ ،‬ل‪+‬یے‪ِ ،‬د‪+‬یے میں‬
‫بالتّرتیب ہ‪ ،‬ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مص ّوتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے‬
‫مخرج سے گزرتی ہے‪ ،‬جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا الزمی ہے۔ اس کے بر عکس‬
‫ک‪+‬ئی‪ ،‬گَ‪+‬ئے‪ ،‬گَ‪+‬ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی‬ ‫َ‬
‫پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مص ّوتے ساتھ ساتھ آئے ہیں‪ ،‬اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مص ّوتے‬
‫‪:‬ساتھ ساتھ آئیں‪ ،‬وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا‬
‫حرف ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا‪ ،‬ی لکھی جائے گی‪ ،‬جیسے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬اگر‬
‫چاہیے‬
‫ِکیے‪ِ ،‬دیے ‪،‬لِیے ‪ِ ،‬جیے‪ ،‬سنیے‪ِ ،‬‬
‫لیجیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی‬
‫دیجیے و ِ‬
‫‪:‬فعل کی تعظیمی صورتیں ِ‬
‫دیجیے ‪،‬لی ِجیے‪ ،‬کی ِجیے‪ ،‬اُٹھیے ‪،‬بولِیے ‪،‬بیٹ ِھیے‬
‫ِ‬
‫باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔‬
‫صالح تَلَفُّظ و اِمال"طالب الہاشمی اپنی کتاب‬
‫ِ‬ ‫میں لکھتے ہیں کہ‪ ":‬اِ‬
‫سے"‬ ‫وہ تمام فعل جن کے ما ّدے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے‪ ،‬اس اصول کے تحت ہمزہ‬
‫حرف علّت تو ما ّدے کا‪ ،‬دوسرا تعظیمی الحقے اِیے کا‪،‬‬
‫ِ‬ ‫لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک‬
‫(فرما اِیے‪ ،‬جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں‪ ،‬اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز‬
‫‪:‬پیدا ہو جاتا ہے‬
‫فرمائیے‪ ،‬جائیے‪ ،‬آئیے ‪،‬کھوئیے‪ ،‬سوئیے"(‪)1‬‬
‫اسی طرح گئے‪ ،‬گئی‪ ،‬نئے میں یائے سے پہال حرف مفتوح ہے‪ ،‬چنانچہ ان لفظوں کو بھی‬
‫ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔‬
‫ہمزہ اور ے‬
‫ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مص ّوتے کے طور پر بولے جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے‬
‫‪:‬ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے‬
‫گائے (اسم)‪ ،‬گائے (گانا سے)‬
‫پائے (اسم) پائے (پانا سے)‬
‫رائے (بہادر) رائے (صاحب)‬

‫ہوز(ہ)‪2‬‬ ‫۔ہائے دو چشمی (ھ)اور ہائے‬


‫اردو کے قدیم تحریری نظام میں عربی کا چلن زیادہ ہونے کی وجہ سے “ہ”‬
‫اور “ھ” میں فرق نہیں کیا جاتا تھا اس لیے بھاری‪/‬بہاری‪ ،‬بھائی‪/‬بہائی‪،‬‬
‫شھر‪/‬شہر‪ ،‬گھر‪/‬گہر‪ ،‬دھن‪/‬دہن‪ ،‬دھلی‪/‬دہلی‪ ،‬گھن‪/‬گہن‪ ،‬وغیرہ وغیرہ میں کوئی‬
‫فرق نہیں رکھا جاتا تھا‪ ،‬اور یہ پڑھنے والے کی صوابدید اور فہم پر چھوڑ دیا‬
‫جاتا تھا کہ مثاًل گھر اور گہر میں سے مقصو ِد مصنف کیا ہے۔‬
‫صالح تَلَفُّظ و اِمال"طالب الہاشمی اپنی کتاب‬
‫ِ‬ ‫میں لکھتے ہیں کہ‪ ":‬اِ‬
‫بیسویں صدی کے آغاز میں اس موضوع پر سنجیدہ اور مستقل تحریریں آنا"‬
‫شروع ہوئیں اور رفتہ رفتہ “ہ” اور “ھ” میں یوں فرق کیا گیا کہ مختلف‬
‫حروف تہجی کی بھاری آوازوں کے لیے “ھ” کو مخصوص کر دیا گیا‪ .‬ان‬ ‫ِ‬
‫آوازوں کو ہکار یا ہائیہ آوازیں کہتے ہیں۔ چنانچہ ب‪+‬ہ کو بھ‪ ،‬ت‪+‬ہ کو تھ‪،‬‬
‫قبول عام پانا شروع ہوگیا۔ چنانچہ‬
‫ِ‬ ‫ٹ‪+‬ہ کو ٹھ‪ ،‬وغیرہ لکھا جانا دھیرے دھیرے‬
‫اب ە اور ھ دو الگ الگ حروف کے طور پر لیے جاتے ہیں۔"(‪)2‬‬
‫ھ "اور" ہ "کے بارے میں پانچ اصولی باتیں ہیں۔"‬

‫۔پہلی بات یہ ہے کہ جمل میں ھ کا عدد ‪ 5‬شمار ہوتا ہے یعنی ہائے ہوز ە کے‪1‬‬
‫برابر‪ .‬چنانچہ بھ کی قدر ‪2‬جمع‪ 5‬برابر ‪7‬ہے۔دھ کی قد ‪4‬جمع‪ 5‬برابر ‪9‬ہے۔‬
‫وغیرہ‪ .‬اس لیے بھ‪ ،‬پھ‪ ،‬تھ‪ ،‬ٹھ‪ ،‬وغیرہ حروف تہجی نہیں ہیں بلکہ مخلوط‬
‫حروف ہیں جو ب‪ ،‬پ‪ ،‬ت‪ ،‬ٹ‪ ،‬وغیرہ کی بھاری آوازوں کی تحریری عالمت کے‬
‫طور پر مخصوص کر دیے گئے ہیں‪ .‬ھ پر حرکت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے سے‬
‫حرف تہجی کی حرکت کے تابع ہوتی ہے‪ .‬یاد رہے کہ یہ بھاری آوازیں‬ ‫ِ‬ ‫پچھلے‬
‫صرف اردو میں پائی جاتی ہیں اور اردو کا امتیاز ہیں۔‬
‫۔ھ کے بارے میں دوسری بات یہ ہے کہ یہ کسی لفظ کے شروع میں نہیں آ‪2‬‬
‫سکتی‪ .‬چنانچہ ھوگا‪ ،‬ھونا‪ ،‬ھے‪ ،‬ھم‪ ،‬ھمارا‪ ،‬ھمدرد‪ ،‬ھندو‪ ،‬ھمیشہ‪ ،‬ھوا‪،‬‬
‫ھمسایہ‪ ،‬ھجے‪ ،‬ھدایات‪ ،‬ھدایت‪ ،‬ھادی‪ ،‬ھبوط‪ ،‬ھوس‪ ،‬ھونٹ‪ ،‬ھٹنا‪ ،‬ھٹانا‪ ،‬ھوش‪،‬‬
‫بے ھوشی‪ ،‬ھاضمہ‪ ،‬ھجر‪ ،‬ھاجرہ‪ ،‬ھلنا‪ ،‬ھولناک‪ ،‬ھیبت‪ ،‬ھونق‪ ،‬ھبڑ دبڑ‪ ،‬ھچر‬
‫مچر‪ ،‬ھوائی جہاز‪ ،‬ھوائی چپل‪ ،‬بادشاھی مسجد‪ ،‬ھونڈا‪ ،‬ھنڈائی‪ ،‬وغیرہ سب‬
‫نادرست ہیں‪ .‬اسی طرح اردو‪-‬فارسی مرکبات‪/‬لفظوں میں بھی ھ استعمال نہیں‬
‫ہوتی چنانچہ باھم‪ ،‬تاھم‪ ،‬فراھم‪ ،‬وغیرہ‪ ،‬نادرست ہیں۔ ان سب لفظوں میں ە آئے‬
‫گی۔‬
‫حرف اصلی‪3‬‬
‫ِ‬ ‫۔ھ کے بارے میں تیسری بات یہ ہے کہ جن لفظوں میں یہ بطو ِر‬
‫آتی ہے وہاں اسے بہرحال لکھا جائے گا خواہ بولنے میں یہ بھاری آواز کے‬
‫طور پر بوال یا سنا نہ بھی جاتا ہو‪ .‬چنانچہ چڑھنا (چڑھ)‪ ،‬پڑھنا (پڑھ)‪ ،‬لڑھکنا‬
‫(لڑھک)‪ ،‬مڑھنا (مڑھ)‪ ،‬بھارت‪ ،‬بوڑھا‪ /‬بوڑھی‪ /‬بڑھاپا‪ ،‬وغیرہ سب اسی طرح‬
‫لکھے جائیں گے۔‬
‫۔چھ لفظوں میں امال کے اصولیوں نے ھ کو اس لیے شامل کیا ہے کہ ان میں ہ‪4‬‬
‫حرف اصلی نہیں ہے‪ .‬چنانچہ کمھار‪،‬‬‫ِ‬ ‫کی آواز آتی ہے لیکن ە ان کے اندر‬
‫کلھاڑا‪ ،‬چولھا‪ ،‬کولھو‪ ،‬دولھا‪ ،‬دولھن‪ ،‬وغیرہ‪ ،‬اسی طرح لکھے جائیں گے‪ .‬اور‬
‫اسی طرح گیارھواں‪ ،‬بارھواں‪ ،‬تیرھواں‪ ،‬چودھواں‪ ،‬پندرھواں‪ ،‬سولھواں‪،‬‬
‫حرف اصلی ہے‬ ‫ِ‬ ‫سترھواں‪ ،‬اٹھارواں کی یہی صورتیں درست ہیں‪ .‬لیکن جہاں ە‬
‫وہاں یہ برقرار رہے گی جیسے دوہرانا‪ ،‬شوہر‪ ،‬لوہار‪ ،‬چاہنا‪ ،‬چاہت‪ ،‬چاہیے‪،‬‬
‫سراہنا‪ ،‬رہنا‪ ،‬رہن سہن‪ ،‬واہیات‪ ،‬جمہوریت‪ ،‬سہولت‪ ،‬وغیرہ‪ .‬البتہ نباہنا‪/‬نبھانا‬
‫دونوں چلن دار ہیں لہذا دونوں بیک وقت درست ہیں۔‬
‫جن مرکب لفظوں میں “ہیں” یا “ہوں” یا “ہارے” یا “ہاری” وغیرہ کی واضح‬
‫آواز آتی ہے لیکن یہ الفاظ اصلی نہیں ہیں ان میں ھ لگتی ہے جیسے انھوں‪،‬‬
‫انھیں‪ ،‬تمھیں‪ ،‬جنھوں‪ ،‬جنھیں‪ ،‬تمھارا‪ ،‬تمھارے‪ ،‬تمھاری‪ ،‬وغیرہ‪ .‬اس اصول پر‬
‫کبھی (کب‪+‬ہی)‪ ،‬سبھی (سب‪+‬ہی)‪ ،‬ابھی (اب‪+‬ہی)‪ ،‬جبھی (جب‪+‬ہی) وغیرہ کو‬
‫ە سے لکھنا چاہیے یعنی کبہی‪ ،‬سبہی‪ ،‬ابہی‪ ،‬جبہی‪ ،‬وغیرہ‪ .‬لیکن انھیں آنکھوں‬
‫سے نامانوس ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں لکھا جاتا بلکہ کبھی‪ ،‬سبھی‪ ،‬ابھی‪،‬‬
‫جبھی ہی درست ہیں‪ .‬سہولت کے لیے آپ انھیں مستثنیات کہہ لیجیے‪ .‬تاہم انہی‪،‬‬
‫جونہی‪ ،‬یونہی‪ ،‬یہی اور وہی کو اسی طرح لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ اصل میں‬
‫ان‪+‬ہی‪ ،‬جوں‪+‬ہی‪ ،‬یوں‪+‬ہی‪ ،‬یہ‪+‬ہی اور وہ‪+‬ہی ہیں‪ .‬اسی طرح یہاں‪/‬یہیں‪،‬‬
‫کہاں‪/‬کہیں اور وہاں‪/‬وہیں بھی ھ کے بجائے ە سے لکھے جائیں گے‪ .‬ہم‪+‬ہی کو‬
‫“ہمہی” یا “ہمی” لکھنا رواج میں نہیں ہے البتہ اس کی ایک صورت “ہمیں”‬
‫کچھ استاد شعرا نے باندھی ہے‪ ،‬چنانچہ اسے صرف شعری ضرورت کے لیے‬
‫برتا جانا درست ہے‪“ .‬ہمہ ہمی” ایک مستقل سرلفظ ہے۔‬
‫کے ‪ font‬۔عربی میں ە اور ھ میں کوئی فرق نہیں ہے اور ھ محض ایک مختلف‪5‬‬
‫طور پر استعمال ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے اللھم‪ ،‬اشھد ان ال الہ اال ہللا‪ ،‬علیھم‪ ،‬وغیرہ‬
‫وغیرہ سب درست ہیں کیونکہ ان سے اردو والوں کی آنکھیں مانوس ہیں۔ تاہم‬
‫اردو میں عربی کے جو لفظ ہ کے ساتھ دیکھے لکھے جانے مانوس ہیں انھیں‬
‫اسی طرح لکھا جائے گا جیسے مشہور‪ ،‬جمہور‪ ،‬مہجور‪ ،‬اہم‪ ،‬اہمیت‪ ،‬مبہوت‪،‬‬
‫نہایت‪ ،‬جاہل‪ ،‬وغیرہم‪ ،‬کلہم‪ ،‬وہم‪ ،‬اوہام‪ ،‬موہوم‪ ،‬یہودی‪ ،‬وغیرہ وغیرہ کا یہی امال‬
‫درست ہے۔‬
‫اردو میں ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کا استعمال‬
‫اردو میں ’’ہ‘‘ ہائے ہوز اور ’’ھ‘‘ ہائے دو چشمی کو لکھتے وقت اکثر گڈ مڈ کر دیا جاتا‬
‫ہے۔ اردو کی پرانی تحریروں میں ’’ھ‘‘ کا استعمال کم تھا اور ہندی االصل الفاظ ’’بھول‪،‬‬
‫پھول‪ ،‬تھال‪ ،‬کھانا‪ ،‬دکھ‪ ،‬سکھ‪ ،‬سنگھ‘‘ وغیرہ کو عموما ً ’’ہ‘‘ سے لکھا جاتا تھا اور ان‬
‫کی صورت ’’بہول‪ ،‬پہول‪ ،‬تہال‪ ،‬کہانا‪ ،‬دکہہ‪ ،‬سکہہ‪ ،‬سنگہہ‘‘ ہوتی تھی۔ اب صورت حال‬
‫بہت بہتر ہو گئی ہے۔ غالبا ً انیسویں صدی کے ٓاخری چند عشروں میں اردو اخبارات کے‬
‫عام چلن کی وجہ سے ’’ہ‘‘ کی بجائے ’’ھ‘‘ کا استعمال عام ہو گیا۔ اب امال کا یہ ابہام‬
‫کافی حد تک ختم ہو گیا ہے اور الفاظ کو زیادہ تر درست لکھا جاتا ہے۔ اس لیے‬
‫’’بہاری‘‘ اور ’’بھاری‘‘‪’’ ،‬پہاڑ‘‘‪ ،‬اور ’’پھاڑ‘‘‪’’ ،‬دہرا‘‘ اور ’’دھرا‘‘ اور ’’دہن‘‘ اور‬
‫’’دھن‘‘ لکھتے اور پڑھتے وقت اِن میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک بہت سے‬
‫الفاظ مثالً ’’انھوں‪ ،‬انھیں‪ ،‬تمھارا‪ ،‬تمھیں‪ ،‬چولھا‪ ،‬دولھا‪ ،‬دلھن‘‘ وغیرہ کو ہائے ہوز سے‬
‫ہی یعنی ’’انہوں‪ ،‬انہیں‪ ،‬تمہارا‪ ،‬تمہیں‪ ،‬چولہا‪ ،‬دولہا‪ ،‬دلہن‘‘ لکھا جاتا ہے اور اسے عام‬
‫طور پر غلط سمجھا بھی نہیں جاتا۔‬
‫دراصل ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک ہی نام دینے کی وجہ سے ایک بہت بڑا مغالطہ در ٓایا ہے‬
‫کہ شاید یہ ایک ہی حرف ہے یا دونوں ایک دوسرے کے مترادف و متبادل ہیں۔ اس غلط‬
‫فہمی کی وجہ قدیم ماہری ِن لسانیات کا یہ تصور ہے کہ اردو میں بھاری یا سخت ٓاوازوں‬
‫والے حروف ’’بھ‪ ،‬پھ‪ ،‬تھ‪ ،‬کھ‘‘ وغیرہ مرکب حروف ہیں۔ یعنی ب‪+‬ہ= بھ‪ ،‬پ‪+‬ہ= پھ‪،‬‬
‫ت‪+‬ہ= تھ‪ ،‬ک‪+‬ہ= کھ۔ اسی لیے ٓاج تک بچے کو جب اردو حروف تہجی کا ابتدائی تعارف‬
‫کرایا جاتا ہے تو مروجہ قاعدوں میں تمام دو چشمی حروف کو حروف تہجی کا حصہ ظاہر‬
‫نہیں کیا جاتا۔ فارسی حروف میں صرف ’’ٹ‘‘‪’’ ،‬ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی تین ٓاوازوں کا اضافہ‬
‫کر کے اردو حروف تہجی کو مکمل تصور کر لیا جاتا ہے۔ بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس‬
‫نے سب حروف کی شکلیں اور ٓاوازیں ذہن نشین کر لی ہیں۔ اگلے مرحلے میں بچے کو‬
‫حروف جوڑ کر مختلف ٓاوازوں کو مالنے اور لکھتے وقت انھیں جوڑنے اور توڑنے کے‬
‫قواعد سکھائے جاتے ہیں۔ اب بچہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ حروف کی سب مفرد اور مرکب‬
‫شکلوں سے ٓاگاہ ہو گیا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس کے منہ سے نکلنے والی ہر ٓاواز اب حروف جوڑ کر‬
‫الفاظ کی شکل میں لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس مرحلے کے بعد وہ ایک نئی الجھن کا‬
‫شکار ہوتا ہے اور اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہماری زبان میں ایک اور ’’ہ‘‘ بھی‬
‫موجود ہے اور اس کی دو ٓانکھیں ہیں۔ جب اس کی ٓانکھیں ب‪ ،‬پ‪ ،‬ت‪ ،‬ٹ‪ ،‬ج‪ ،‬چ‪ ،‬د‪ ،‬ڈ‪ ،‬ر‪،‬‬
‫ڑ‪ ،‬ک‪ ،‬گ‪ ،‬ل‪ ،‬م اور ن سے ملتی ہیں یا لڑتی ہیں تو بھ‪ ،‬پھ‪ ،‬تھ‪ ،‬ٹھ‪ ،‬جھ‪ ،‬چھ‪ ،‬دھ‪ ،‬ڈھ‪ ،‬رھ‪،‬‬
‫ڑھ‪ ،‬کھ‪ ،‬گھ‪ ،‬لھ‪ ،‬مھ‪ ،‬نھ وجود میں ٓاتے ہیں۔ اس طرح بچہ ان حروف کی شکلوں اور‬
‫ٓاوازوں سے تو شاید واقف اور مانوس ہو جاتا ہے لیکن اسے یہ علم عمر بھر نہیں ہوتا‬
‫کہ وہ ہائے دو چشمی والے حروف کو حروف تہجی کا حصہ تصور کرے یا نہیں۔ اگر‬
‫انھیں حروف تہجی کہا جائے تو پہلے تعارف میں انھیں شامل کیوں نہیں کیا جاتا اور اگر‬
‫وہ حروف تہجی کا حصہ نہیں تو انھیں کیا نام دیا جائے؟ جب کہ ان کے استعمال کے بغیر‬
‫اردو میں شاید ایک جملہ لکھنا بھی ممکن نہ ہو۔‬
‫باون حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر‬
‫تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں‬
‫میں بھی ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و‬
‫مجہول کر دیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ‪ ،‬امال یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید‬
‫الجھأو کا شکار ہو جاتا ہے۔ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ’’منہ‘‘‪،‬‬
‫’’منھ‘‘‪’’ ،‬مونہہ‘‘ اور ’’مونھ‘‘ ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ‬
‫عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور امال سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔‬
‫لطف کی بات یہ کہ ان امال کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک‬
‫طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ’’ٹ‘‘‪’’ ،‬ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی‬
‫وہ کسی دوسرے حرف کو ’’ط‘‘ سے مال کر نہیں بنائے گئے‪ ،‬اُسی طرح اردو میں ہائے‬
‫دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔‬
‫ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان’’‬
‫مرتب کرتے وقت ’’ھ‘‘ کی ردیفوں مثالً ’’ٓانکھ‪ ،‬ساتھ‪ ،‬ہاتھ‘‘ وغیرہ کو ردیف ’’ہ‘‘ کی‬
‫ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ’’ہ‘‘ کی ردیف میں ’’یہ‪ ،‬وہ‪ ،‬نقشہ‪ ،‬جگہ‘‘ کے‬
‫ساتھ ہی ’’ٓانکھ‪ ،‬بیٹھ‪ ،‬ساتھ‪ ،‬ہاتھ‘‘ وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالبا ً یہ‬
‫تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ’’بھ‪ ،‬ٹھ‪ ،‬چھ‪ ،‬کھ‘‘‬
‫وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔‬

‫۔ا‪3‬‬
‫حروف تہجی کا پہال حرف الف ('ا') ہے۔ اس کی دو اشکال ہیں۔ الف مقصورہ یا سادہ‬ ‫ِ‬ ‫اردو‬
‫ب ابجد کی رو سے اس کا عدد ایک ہے۔ فارسی‪،‬‬ ‫الف ('ا') اور الف ممدودہ ('آ')۔ حسا ِ‬
‫عربی اور کئی دیگر زبانوں میں بھی پہال حرف ہے۔ عربی میں تو الف مقصورہ اس‬
‫چھوٹے الف کو بھی کہتے ہیں جو کچھ الفاظ کو کھینچ کر پڑھنے کے لیے لکھا جائے‬
‫موسی وغیرہ مگر اردو میں یہ ساکن یا متحرک بھی ہو سکتا ہے جیسے‬ ‫ٰ‬ ‫عیسی‪،‬‬
‫ِٰ‬ ‫جیسے‬
‫'اگر'‪' ،‬مگر'‪' ،‬نان' وغیرہ۔ ↔الف سے ايک نام ہللا بھی ہوتا ہے۔‬

‫الف کی اقسام‬
‫اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔‬
‫۔مجرد‬
‫۔مہموز‪ ،‬ہمزہ‬
‫۔ممدودہ‬
‫الف مجرد‬
‫ِ‬
‫ہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع‪ ،‬وسط اور‬
‫آخر تینوں میں آتا ہے۔ مثالً شروع میں‬
‫امید‪ ،‬احساس‪ ،‬اجر‪ ،‬اثر ‪ ،‬امنگ‪ ،‬اٹل وغیرہ‬
‫درمیان‬
‫راز‪ ،‬سالم‪ ،‬ناراض‪ ،‬پاکستان وغیرہ‬
‫آخر میں‬
‫دعا‪ ،‬روا‪ ،‬پیدا‪ ،‬جینا‪ ،‬کھیلنا وغیرہ۔‬
‫شروع میں جب یہ الف آتا ہے تو اردو زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے‬
‫پہلے حرف پر ضرور بالضرور حرکت ہو گی‪ ،‬متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے‪،‬‬
‫علی ٰہذا۔‬
‫احساس میں زیر‪ ،‬اجر میں زبر۔ قس ٰ‬
‫درمیان اور آخر ہر دو صورتوں میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہال ساکن یعنی مجزوم۔ اس کا‬
‫مطلب یہ ہوا کہ الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے‬
‫پہلے بھی کوئی ساکن حرف موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور پر آئے گا تو پہال ساکن‬
‫خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی ساکن یعنی موقوف حروف آ جائیں۔ جیسے راست‬
‫میں الف رے کے بعد پہال ساکن یعنی مجزوم ہے اور اس کے بعد دو ساکن یعنی موقوف‬
‫آئے ہیں۔‬

‫الف مہموز‬
‫ِ‬
‫یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی‬
‫عربی االصل لفظ کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے عالوہ اردو میں‬
‫اس کی کوئی صورت نہیں۔‬
‫جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس‬
‫‪:‬بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں‬
‫جُر ‪ +‬اَت = جُرأت‬
‫اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔‬
‫مہموز کا مطلب ہے ہمزہ واال۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔‬
‫الف مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہ‬‫مدعا یہ کہ ِ‬
‫الف مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو‬
‫اس پر زبر ہو گی۔ ِ‬
‫الف مجرد کی طرح لکھا جائے گاجسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا‬ ‫سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو ِ‬
‫پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔‬
‫ہمزہ‬
‫ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان‬
‫ہو اور اس پر زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی‬
‫الف مہموز کی صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں‬ ‫تو اسے ہم ِ‬
‫ہمزہ لکھا جائے گا۔‬
‫مثالً‬

‫قائم = قا ‪ +‬اِم‬
‫دائر = دا ‪ +‬اِر‬
‫مسئول = مس ‪ +‬اُول‬
‫رؤف = َر ‪ +‬اُوف‬
‫گئی = گَ ‪ +‬اِی‬
‫رائے = را ‪ +‬اِے‬
‫ب اضافی میں اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے‬
‫مرک ِ‬
‫کی بجائے ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے‬
‫روئے سخن = رُو ‪ +‬اے‬
‫دعائے خیر = دعا ‪ +‬اے‬
‫اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو ہمزہ لکھ کر زیر دیتے‬
‫ہیں۔ جیسے‬
‫ہدی ِۂ نعت = ہد ‪ +‬یہ ‪ +‬اے‬
‫گرمئ بازار = گر ‪ +‬می ‪ +‬اے‬
‫ِ‬
‫البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ اضافت والی‬
‫یے پہلے ہی سے موجود ہے۔ جیسے‬
‫مئے ناب = َم ‪ +‬اے‬
‫عربی میں جب الف موقوف ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے ماء‪ ،‬شاء‪،‬‬
‫انبیا وغیرہ میں۔ اردو کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں‪ ،‬جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر‬
‫کیا‪ ،‬الف موقوف یعنی دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہال ساکن ہی‬
‫ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں انبیا‪ ،‬اولیا وغیرہ کو ہمزہ کے بغیرلکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض‬
‫عربی االصل تراکیب میں اس کی یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے ان شاء ہللا‪ ،‬ماشاء ہللا‬
‫وغیرہ۔‬

‫الف ممدودہ‬
‫ِ‬
‫الف ممدودہ وہ ہے جس پر مد‬
‫ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ ِ‬
‫یعنی کھنچاو موجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔‬
‫سا‪ ،‬کا‪ ،‬گا‪ ،‬ال‪ ،‬جا وغیرہ میں الف سے پہلے س‪ ،‬ک‪ ،‬گ‪ ،‬ل اور ج موجود ہیں جو متحرک‬
‫ہیں اور الف ساکن ہے۔ اگر پہال حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے‬
‫الف ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر‬
‫پہال متحرک اور دوسرا ساکن ہو گا۔ یہ ِ‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫ا‪+‬ا=آ‬
‫الف ممدودہ ہمیشہ الفاظ کے شروع میں آتا ہے۔ درمیان یا آخر میں نہیں پایا‬
‫اردو میں ِ‬
‫جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے نہ ایک الف کے برابر۔‬
‫مثالً‬

‫آج = اَ ‪ +‬ا ‪ +‬ج‬


‫یہ سہ حرفی لفظ ہے۔ یعنی تین حروف واال۔ پہال الف متحرک‪ ،‬دوسرا مجزوم اور تیسرا‬
‫جیم موقوف۔ فاع کے وزن پر۔‬
‫آغاز = ا‪ +‬ا‪ +‬غا ‪ +‬ز‬
‫یہ پنج حرفی لفظ ہے۔ مفعول کے وزن پر۔‬

You might also like