You are on page 1of 17

‫سائنس‪،‬فلسفہ اورمذہب‬

‫علیہ الرحمہ‬
‫کی نظرمیں‬ ‫ڈاکٹر فضل الرحمن االنصاری القادری‬
‫ابوعبدالقدوس محمد یحیی‬

‫آج ہم جس سائنسی دور (‪ )Scientific Era‬میں جی رہےہیں وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کاغلبہ‬
‫عالمگیر ہے ۔ بے شمار سائنسی ایجادات انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کررہی ہیں۔ سائنس‬
‫اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم فطرت کی دیدہ ونادیدہ قوتوں کواپنے تابع وفرمان کرسکتے ہیں اور اس‬
‫سے ہونے والے نقصانات وتباہیوں کی نہ صرف روک تھام اورتدارک کرسکتے ہیں بلکہ ان قوتوں کومفید‬
‫انداز میں استعمال بھی کرسکتے ہیں ۔ آج اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جدید ایجادات سے کنارہ‬
‫کش ہوکررہنا ناممکن ساہوگیا ہے۔‬
‫انہی وجوہات کی بناء پر سائنس انسان پر بہت گہرااثرمرتب کرتی ہے۔اوراس کی ظاہری‬
‫چکاچوند انسان کو متاثر کرتی ہے۔ یہ انسان پر اثرانداز ہونے واال خارجی سرچشمہ ہےجو بظاہر بہت‬
‫زیادہ تاثیر کا حامل ہے لیکن درحقیقت یہ بالکل عارضی و وقتی تاثیر کاحامل ہے۔ جب اس کی قلعی‬
‫کھل جائے تو اندر سے وہی زنگ آلود لوہا(مث ِل خاک) برآمد ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس ہماری‬
‫مکمل رہنمائی نہیں کرسکتی ۔یہ صرف ان مسائل کو حل کرسکتی ہے جو ہمارے سامنے مادی شکل‬
‫میں موجود ہوں اور ان میں بھی بہرکیف غلطی کا امکان موجود رہتاہے۔ لیکن اس کے برعکس مذہب کا‬
‫سرچشمہ داخلی ہے‪،‬جو انسان کے اندر سے وہ قوت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ نفس کے سفلی تقاضوں‬
‫کوضبط کر تے سیدھے سچے راستے (صراط مستقیم )پرقائم رہے ۔ مذہب کا عمل دخل زیادہ قوی ہے‬
‫اوریہ وہ پارس ہے جو کسی سے چھوجائے تو اس کوخود چمکتا ہوا سونابنادیتا ہے۔اگرچہ وہ کتنا ہی‬
‫زنگ آلوداورمٹی کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو وہ اندر تک اسے تبدیل کردیتا ہے یہ محض قلعی نہیں کہ پول‬
‫کھل جائے گا بلکہ اس کو جتنا بھٹی میں ڈاال جائے گا اس کی چمک دمک میں اضافہ ہی ہوتاجائے‬
‫گا۔اصالحِ احوال اورفرد کو تبدیل کرنے کے لیے مذہب ‪ ،‬دین‪ ،‬عقیدہ ‪،‬اعتقاد سے بڑھ کر کوئی شے نہیں‬
‫ہے ۔‬
‫مذکورہ باال تمہید صرف جذباتی بیان یا دل کی تسلی نہیں بلکہ اس کے عقب میں باقاعدہ وہ‬
‫دالئل اوربراہین کارفرما ہیں جو اپنے وقت کے مشہور ومعروف فلسفی اورسائنس کی روح ‪،‬طریقہ کار‬
‫اورمشاہدہ سے واقف شخصیت ڈاکٹرفضل الرحمٰ ن انصاری علیہ الرحمہ نے بیان فرمائے ہیں۔ آپ علیہ‬
‫الرحمہ اپنے کتابچہ )‪ (Through Science and Philosophy to Religion‬میں سائنس اورفلسفہ کونجات‬
‫دہندہ ماننے والے قاری کو ان ہی علوم کے اصولوں اورضابطوں کے تحت اس مقام پر جاکھڑاکرتے‬
‫ہیں جہاں اسے مذہب کے عالوہ کوئی اور رہنما اورنجات دہندہ نظرنہیں آتا۔یہ آپ علیہ الرحمہ کی ہی‬
‫شخصیت تھی جس نے مغرب کی برتری کے طلسم کوخاک آلود کردیا ۔بقول سیدنظرزیدی‬
‫یہ تیری عظمت کہ تونے توڑا طلسم مغرب کی برتری کا‬
‫وہ فلسفی تیرے خوشہ چیں ہیں وہ فلسفہ ہے غالم تیرا‬
‫فتاوی (کفر)یا احکام کے نفاذسے نہیں کرتے کیونکہ آپ اس حقیقت کو جانتے ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫یہ کام آپ‬
‫کہ اگرلوگوں کو پس پردہ اورپیش آمدہ حقائق‪،‬اسباب ‪،‬وجوہات وعلل سے بے خبر رکھ کر کسی چیز‬
‫سے روکا جائے تو اس پر صبر کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے‪ :‬قَا َل‬
‫موسی) آپ‬‫ٰ‬ ‫ع ٰلی َما لَ ْم ت ُ ِح ْ‬
‫ط ِب ِه ُخب ًْرا۔" اس بندے نے کہا(ا ے‬ ‫ْف ت َ ْ‬
‫ص ِب ُر َ‬ ‫صب ًْرا َو َکی َ‬
‫ی َ‬‫ک لَ ْن ت َ ْست َِط ْی َع َم ِع َ‬‫اِنَّ َ‬
‫میرےساتھ صبرکرن ے کی طاقت نہیں رکھتے اورآپ صبرکربھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی‬
‫آپ کو پوری طرح خبرنہیں "۔ یہاں اسی اہم فطری اورنفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ نیز جب‬
‫ہم کسی شخص کو کسی خاص امر سے منع کریں تو اس شخص میں المحالہ اس کام کے کرنے کا خیال‬
‫پیدا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ‪ Reactive Psychology‬کے تحت اس شخص کے اندر اس کام کو کرنے‬
‫کی خواہش ضرور پیداہوگی۔لہذا کسی حکم اورنہی کے بجائے آپ اپنے قاری کے داخل سے ایسی مؤثر‬
‫پکار پیداکرتے ہیں جس پر لبیک کہنے سے وہ شخص خود کونہیں روک سکتا۔اور وہ فطرت پر پائے‬
‫جانے والے واحد مذہب کا پیروکاربن جاتاہے۔آپ اس کتاب کے شروع میں انسان کے ذہن میں ابھرنے‬
‫والے سواالت تحریر فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫میں کیا ہوں؟انسان کہاں سے آیا؟ انسانی زندگی کی فطرت کیا ہے؟ انسانی زندگی کا‬
‫مقصداورانجام کیا ہے؟پھر ان سواالت کے بعد آپ جہاں انسان رہتا ہے اس دنیا کے متعلق سواالت‬
‫اٹھاتے ہیں۔اور اس کے بعد پیداہونے والے سواالت کا تذکرہ کرتے ہیں جو آخر کار اس کے رب کے‬
‫انصاری تحریرفرماتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫متعلق سواالت پر منتج ہوتے ہیں۔ان سواالت کے بعد ڈاکٹرفضل الرحمٰ ن‬
‫"مذکورہ باال تمام سواالت انسان ‪،‬دنیا اورخدا کے متعلق الٹی میٹ سواالت (بنیادی مسائل)‬
‫ہیں۔یہ سوالت اتنے اہم ہیں کہ المحالہ کبھی نہ کبھی ہر غوروفکر کرنے واالشخص ان‬
‫کاضرور سامنا کرتاہے۔یہ بنیادی سواالت انسانی زندگی میں پیش آمد دیگر مسائل کے مقابلہ‬
‫میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا دیگر فی الفور مسائل پر گہرااثرمرتب ہوتاہے۔ہر‬
‫؂‪1‬‬
‫صاحب علم شخص اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ان سے بچانہیں جاسکتا۔"‬
‫مندرجہ باال تمام سواالت کے جوابات جاننا ایک بشر کی بساط واوقات سے ماورا ہیں ۔خواہ وہ‬
‫ان جوابات کے لئے کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی اورسائنس کا استعمال کر ے۔ لیکن ایک ایسا‬
‫طریق ہے جو اس بشرکوجہالت کے اندھیروں سے نکال کر اس کی ذات کا عرفان نفس دیتے ہوئے‬
‫اسے اس کے رب سے مالدیتاہے۔ وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف رجوع ہے ‪:‬بقول شاعر ختم نبوت جناب‬
‫سید سلمان گیالنی صاحب‪:‬‬
‫جس بشر کو تیرا واسطہ مل گیا اس بشر کو باآلخر خدا مل گیا‬
‫اک زمانہ تھا جب خلق گمراہ تھی تو اسے کیا مال راستہ مل گیا‬
‫کیا وساطت سے تیری یہ قرآں مال ‪ ،‬اک خزانہ ہمیں بے بہا مل گیا‬
‫ہم تو تھے بے خبر اپنی ہی ذات سے تجھ سے پوچھا تو اپنا پتہ مل گیا‬
‫آپ اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہدایت کے لیے لوگ عموما ً تین ذرائع کی جانب متوجہ ہوتے‬ ‫ؒ‬
‫ہیں۔‬
‫‪3‬۔مذہب‬ ‫‪2‬۔فلسفہ‬ ‫‪1‬۔سائنس‬
‫یہ ارشاد گرامی کسی عامی کا نہیں بلکہ اس صاحب عرفان شخص کا ہے جو اسرار قدرت‬
‫سے مکمل آگہی رکھتا ہے۔ عام واقعات‪ ،‬کیفیات‪،‬حاالت جو ایک عام شخص کے لئے کوئی خاص اہمیت‬
‫کے حامل نہیں ہوتے وہی آپ کے سامنے اس کائنات کے اسرار رموز سے آشنائی اورنقاب کشائی‬
‫کاباعث ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے سامنے نیوٹن کی مثال ہے کہ اس سے قبل بھی زمین پر سیب‬
‫گرتے ہوئے کروڑوں اربوں افراد نے دیکھا ہوگا لیکن جس انداز و طور سے نیوٹن نے سیب گرنے‬
‫سے کشش ثقل ‪ Law of Gravity‬کا راز پایا ۔ اسی طرح آپ جیسی ہستیاں اور اولیاء کرام عام واقعات‪،‬‬
‫کیفیات اورنشیب و فراز حتی کہ صرف پانی کے ایک قطرے سے اس زندگی کے تمام اسرار و رموز‬
‫سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ بقول شاعر‬
‫یہ کبھی گوہر ‪ ،‬کبھی شبنم ‪ ،‬کبھی آنسو‬ ‫زندگی قطرے کی سکھالتی ہے اسرار حیات‬
‫اپنی تحریر آگے بڑھانے سے قبل یہاں پہلے سائنس اور فلسفہ کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہئےکہ‬
‫سائنس اورفلسفہ کیا ہیں؟‬
‫سائنس اور سائنسی مشاہدہ‪:‬‬

‫؂‪ 1‬۔ مفہوما ً‪(Through Science and Philosophy to Religion, pg 3) :‬‬


‫سائنس کے لغوی معنی علم کے ہیں اور سائنٹسٹ کے معنی علم میں مہارت رکھنے واالفرد‬
‫یعنی "عالم" ہے۔ سائنس ارد گرد رونماہونے والے واقعات اورچیزوں کے حسیاتی مشاہدہ ‪،‬تجزیہ‬
‫اورتحلیل کانام ہے۔ سائنسی مشاہدہ میں تین عناصرکارفرماہوتے ہیں ۔ مشاہدہ کرنے واال (سائنسدان)‪،‬‬
‫مشاہدہ کی جانے والی چیز‪،‬وہ قوانین‪ ،‬شرائط اورحدود وقیود جن کاخیال رکھتے ہوئے مشاہدہ‬
‫کیاجاتاہے۔ سائنسدان نہ صرف چیزوں کا مشاہدہ کرتاہے بلکہ ان کے متعلق سواالت اٹھاتا ہے۔ ان کے‬
‫جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے اور معلومات جمع کرکے ان سے نتائج کواخذ کرتا ہے ۔ وہ نتائج‬
‫اخذ کرنے کے لیے سائنسی طریقہ (‪ )Scientific Method‬استعمال کرتاہے یعنی کہ صحیح سوال اٹھانا‪،‬‬
‫معلومات جمع کرنا‪،‬تجربہ کرنا ‪،‬نتائج جمع کرنا‪،‬نتائج کا تجزیہ وتحلیل کرنااورحتمی نتیجہ برآمد کرنا۔‬
‫الغرض سائنس مادی حقیقتوں کی تالش کاایک المتناہی سلسلہ ہے۔کیونکہ جب کسی مسئلے پر کافی‬
‫شواہد جمع ہوجاتے ہیں اوراس میں حقیقت کی کرن جھلکنے لگتی ہے تواسے قیاس(‪)Conjecture‬‬
‫اورمفروضہ (‪ )Hypothesis‬کانام دیاجا تا ہے ۔ پھر جب وہ مزید ثابت ہوجاتا ہے اوربہت سے سائنسدان‬
‫اس مفروضہ کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اس کو قانون (‪ )Law‬کا مقام دے دیاجاتا ہے ۔پھر جب طویل‬
‫عرصے تک یہ قانون مستقل اور پے درپے ثبوت ملنے کی وجہ سے مسلمہ حقیقت بن جائے اورسب‬
‫سائنسدان اس قانون پر متفق ہوجائیں تو اس قانون کو نظریہ (‪ )Theory‬کادرجہ مل جاتا ہے۔اس طرح‬
‫سائنس میں ایک مفروضہ لمبا اورکٹھن سفر طے کرکے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا نظریہ (‪)Theory‬‬
‫کے درجہ تک پہنچتا ہے۔جون کاستی )‪ (John Casti‬اس مفروضہ سے تھیوری بننے تک کے عمل کی‬
‫کچھ یوں وضاحت کرتاہے‪:‬‬
‫‪"Our observation give rise to hypotheses that are studied with experiments.‬‬
‫‪Hypotheses that are supported by experiments may become empirical‬‬
‫‪relationships, or laws. Laws may become part of an encompassing theory with‬‬
‫‪wide explanatory power." 2‬‬
‫"ہمارا مشاہدہ ایک مفروضہ کوجنم دیتاہے ۔ جس کا تجربات کی مدد سے مطالعہ‬
‫کیاجاتاہے۔ مفروضہ جوتجربات سے ثابت ہوجائے وہ قانون بن جاتاہے۔اورقانون جو تمام‬
‫ترسائنسی مشاہدات‪،‬تجربات اورقوانین سے گزرکر آخرکار نظریہ کے درجہ تک پہنچ‬
‫سکتا ہے۔"‬
‫سائنس اورسائنسی مشاہدہ سمجھ لینے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اصولی‬
‫طور پر قانون بننے کے بعد اس نظریئے میں تبدیلی یا ترمیم نہیں ہونی چاہئے لیکن!‬
‫کیاکریں یہ انسانی علم و عقل اورمشاہدہ ہے‪ ،‬جو ہے ہی ناقص کہ قانون بن جانے کے بعد بھی‬
‫اس میں ترمیم واضافہ ہوتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات وہ قانون اورنظریہ ایک غلط خیال وتصور‬
‫کی صورت میں تبدیل ہوکر ماضی کا قصہ پارینہ بن جاتا ہے اوراس سے ایک نیامفروضہ جنم لے لیتا‬
‫ہے۔ اس حقیقت کو سائنسدان خود تسلیم کرتے ہیں لیکن بالفاظ دیگر(یعنی خوبصورت لبادے میں اوڑھ کر‬
‫)‪:‬‬
‫‪“Science progresses mainly because both existing theories and laws are never‬‬
‫‪quite complete.” 3‬‬
‫"سائنس کی ترقی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دونوں قانون )‪ (Laws‬اورنظریات‬
‫)‪ (Theories‬کبھی بھی (ہمیشہ کے لئے) مکمل نہیں ہوتے۔"‬
‫یوں قرآن کے مقابل آنے والے‪ ،‬اسے غلط قراردینے والے خود اپنا سامنہ لے کر رہ جاتے ہیں ۔ خود‬
‫سائنس دانوں نے مختلف تھیوریز اورسائنسی قوانین پیش کرکے انہیں رد کیا ہے۔ مثالًسولہویں صدی میں پولینڈ‬

‫‪2‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 18‬‬
‫‪3‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16‬‬
‫کے ایک منجم نکولس کوپرنیکس نے یہ اعالن کیا کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے ۔‬
‫اس نظریہ کوحقیقت سمجھ کر سائنسدانوں اورفلسفیوں نے عالم اسالم پر طعن تشنیع شروع کردی کہ قرآن میں‬
‫ی فَلَکٍ یَّ ْس بَ ُح ْو ن‪ 4‬یعنی ہر چیز آسمان میں تیر رہی ہے‪:‬اور اب جب کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سورج‬ ‫ہے‪:‬کُ ٌّل فِ ْ‬
‫تو ساکن ہے۔ لیکن ان کی یہ حسرت ہی رہی کہ قرآن کوغلط ثابت کریں اوران ہی کے ایک سائنسدان‬
‫سرفریڈرک ہرشل ولیم نے اٹھارویں صدی میں یہ اعالن کیا کہ سورج خال میں سفر کررہا ہے۔ جس سے یہ‬
‫نظریہ غلط ثابت ہوااور قرآن مجید کی حقانیت ثابت ہوگئی۔اگرکوئی کہے کہ یہ تو ایک شخص کا قیاس‬
‫تھااورخود قصہ پارینہ بن چکاتھاتوان کے لیے عرض یہ ہے کہ آئزک نیوٹن (‪ )Isaac Newton‬کاایک مسلمہ‬
‫''کشش ثقل'' کا قانون(‪ ( )Law Of Gravity‬کشش ثقل ہر جگہ کام کرتی ہے) کوالبرٹ آئن سٹائن (‪Albert‬‬
‫‪ )Einstein‬کے (‪ )General Relativity‬نے غلط ثابت کیا۔‬
‫یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ آئن سٹائن نے تھیوری(‪ )Relativity of Time‬بیسویں صدی میں پیش کی کہ‬
‫اضافیت زمان؂‪ 5‬ایک اضافی تصور ہے اور یہ ماحول کے مطابق تبدیل ہوسکتا ہے ۔ وقت کا انحصار کمیت‬
‫(‪)Mass‬اوراسراع(‪)Velocity‬پہ ہےاورروشنی کی رفتار سےزیادہ کوئی چیز نہیں جاسکتی۔حاالنکہ قرآن مجید اس‬
‫سنَ ٍة ِم َّما تَعُدُّونَ ''؂‪ 6‬بے‬ ‫بات کو ‪ ١٤٠٠‬سال قبل ہی پیش کرچکا ہے۔ قرآن مجید میں ہے‪َ :‬وإِنَّ یَ ْو ًما ِع ْن َد َربِكَ َكأ َ ْل ِ‬
‫ف َ‬
‫شک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہے جوتم شمار کرتے ہو''یعنی اس دنیا‬
‫کے ہزار سال وہاں کےصرف ایک دن کےبرابر ہیں ۔اسی طرح سورۃ المعارج کی آیت ‪ 4‬میں ہےکہ فِي یَ ْو ٍم كَانَ‬
‫سنَ ٍة ''؂‪ 7‬وہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا'' یعنی روز محشریہاں کے پچاس ہزار سال‬ ‫ف َ‬ ‫سینَ أ َ ْل َ‬ ‫ِم ْقد ُ‬
‫َارہُ َخ ْم ِ‬
‫کے برابر ہوگا۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مختلف مقامات اورمختلف احوال میں زمانے کے گزرنے کا‬
‫احساس مختلف ہوگا۔‬
‫ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سابقہ قوانین ونظریات غلط تھے اور اس وقت سائنسدانوں سے‬
‫غلطی ہوئی تھی اورجب یہ ثابت ہوگیا کہ ان کانظریہ غلط تھاتوبعد میں ان نظریات میں ترمیم کردی گئی‬
‫۔اب اس بات کی کیاضمانت ہے کہ آج کے سائنسدان جن نظریات کے حامل ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔ ممکن‬
‫ہے آنے والے دنوں میں بہت سی سائنسی تھیوریز تبدیل ہوجائیں۔ جیسا کہ کلفورڈ اے پک اوور اپنی‬
‫کتاب میں لکھتاہے‪:‬‬
‫‪Nevertheless, even the great scientific laws are not immuteable, and laws may have to‬‬
‫‪be revised centuries later in the light of new information. 8‬‬
‫"تاہم حتی کہ عظیم سائنسی قوانین بھی غیرمتنازعہ نہیں ہیں۔اورشاید صدیوں بعد ان‬

‫ٰ‬
‫سورۃیس‪40:‬‬ ‫؂‪ 4‬۔‬
‫؂‪ 5‬۔ اضافیت زمان کے ساتھ ساتھ "زمان ومکان کی بعض بدیہی حقیقتیں ہیں جن کا سمجھنا زندگی کی صحیح صورت گری کے‬
‫لئے از بس ضروری ہے وہ حسب ذیل ہے‪ )1(:‬زمان ومکان کی طبعی حقیقت۔سائنس دان کو اسی حقیقت سے سروکار ہے۔(‪)2‬‬
‫زمان ومکان کی معاشرتی ‪،‬ثقافتی حقیقتیں۔(‪ )3‬زمان ومکان کی نفسی حقیقتیں۔(‪ )4‬زمان ومکان کی روحانی ‪،‬مابعد الطبیعاتی‬
‫اورالہوتی حقیقتیں۔جہاں تک زمان ومکان کی معاشرتی وثقافتی حقیقتوں کا تعلق ہے دورجدید کی عمرانیات کی توجہ ان کی طرف‬
‫اب مبذول ہوئی ہے چنانچہ "عمرانیات عام" کے ماہرین زمان ومکان کو "عمرانی حقیقت)‪ (Socail Reality‬کے نام سے یاد‬
‫کرتے ہیں۔لیکن دور جدید کا یہ انکشاف مسلم مفکرین کے لئے نیا نہیں ۔ ہمارے متکلمین ‪،‬فقہاء اورحکماء اس سے واقف تھے۔‬
‫اوروہی نہیں بلکہ عامی مسلمان بھی اس کا تصور رکھتاہے۔ اس لئے کہ اسالم کی تمام عبادات وقت کے صحیح تعین سے ادا کی‬
‫جاتی ہیں۔۔۔۔اب رہیں زمان ومکان کی نفسی حقیقتیں ‪ ،‬تو یہ بھی مسلمانوں کے لئے ایک عام بات ہے۔ اس کا ثبوت نماز کے اوقات‬
‫میں نمازی کے افعال واعمال اورحرکات وسکنات سے ہوتاہے۔ ۔۔۔اس حدتک ان کی گفتگو کی صحت سے ہمیں انکار نہیں۔ لیکن‬
‫معاشرتی قوتوں کا تجزیہ کیاجائے تو ان میں جومعنوی اورروحانی قوتیں پوشیدہ ہیں ‪ ،‬ان کو سمجھے بغیر اگرمعاشرتی قوتوں پر‬
‫اکتفاء کیاجائے گا تو انسان کو قرار واقعی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی "(صقالۃ القلوب‪،‬ص‪)19-17‬‬
‫؂‪ 6‬۔ سورۃالحج‪٤٧:‬‬
‫؂‪ 7‬۔ سورۃ المعارج آیت ‪4‬‬
‫‪8‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16‬‬
‫پرنئی معلومات کی روشنی میں از سرنوغورکرنا پڑے گا۔"‬
‫ایک اور مقام پرکلفورڈ اے پک اوور اپنی کتاب میں لی سمولین)‪ (Lee Smolin‬کی کتاب ‪Never‬‬
‫‪"( say always‬ابدی" کبھی نہ کہو)سے ایک اقتباس نقل کرتاہے ‪:‬‬
‫‪The idea of eternally true laws of nature is a beautiful vision but is it really an escape‬‬
‫‪from philosophy and theology? For as philosopher have argued we can test the‬‬
‫‪predictions of a law of nature and see if they are verified or contradicted, but we can‬‬
‫‪never a law must always be true. So if we believe a law of nature is eternally true, we‬‬
‫‪are believing in something that logic and evidence cannot establish. 9‬‬
‫"فطرت کے ابدی قوانین کا نظریہ ایک خوبصورت خیال ہے ۔ لیکن یہ حقیقتا ً فلسفہ‬
‫اورمذہب سے فرارہے۔جیسا کہ فالسفر نے دالئل دیئے ہیں۔ہم قانون قدرت کی پیشین گوئی‬
‫کی آزمائش کرسکتے ہیں کہ وہ مصدقہ ہیں یا متضاد لیکن ہم کبھی نہیں ثابت کرسکتے‬
‫ایک قانون ضرور ہمیشہ صحیح ہوگا۔ اگرہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک قانون ہمیشہ کے‬
‫لئےصحیح ہے ہم ایسی چیز مان رہے ہیں جس کی منطق(دالئل) اورثبوت کبھی قائم نہیں‬
‫ہوسکتے۔"‬
‫مجھے کامل اور پختہ یقین ہے بلکہ میرا ایمان ہے کہ وہ تمام تھیوریز اورنظریات جو قرآنی حقائق‬
‫سے متصادم ہیں ضرور غلط ثابت ہوں گی ۔ کیونکہ اب تک کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ قرآن‬
‫مجید اوراحادیث مبارکہ میں پیش کردہ یہ حقائق مثالً واقعہ معراج‪،‬دیگرمعجزات نبوی ﷺ ‪ ،‬جنت ‪،‬دوزخ وغیرہ‬
‫ماوراء العقل (‪ )Beyond Reason‬اورسائنس کے دائرہ کار سے باہرتوضرور ہیں لیکن فطرت سے متصادم‬
‫(‪ )Conflict‬اورمتضاد (‪)Contradict‬نہیں ہیں۔ بقول برطانوی پروفیسر ڈاکٹر آرتھر جے الیسن (‪)Arthur Alison‬‬
‫تعالی) جب خود‬
‫ٰ‬ ‫''اسالم سائنس اور عقل سے متصادم نہیں ہے''۔ایک وقت ایسا ضرور آئے گا(ان شاء ہللا‬
‫سائنسدان ان متصادم ومتضادامور کو غلط تسلیم کرلیں گے اورقرآن مجیدفرقان حمید کی حقانیت ثابت ہوجائے‬
‫گی ۔‬
‫سائنسی مشاہدہ کی حدود اوراس میں پائے جانے والے نقائص کی ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ‬
‫نے مندرجہ ذیل کئی ایک وجوہات بیان فرمائی ہیں مثالً‪:‬‬
‫''مشاہدہ کرنے والے کے احوال مختلف ‪،‬کیفیات مختلف ‪،‬قوتیں مختلف‪،‬سوچ و فکر مختلف‬
‫ہیں۔اسی طرح مشاہدہ کی جانے والی چیز جتنی ٹھوس‪،‬انسان کی گرفت میں ہوگی اتنا ہی‬
‫مشاہدہ قوی اور صحیح ہونے کا امکان ہے لیکن جتنا چیز حرکت کرنے والی ہوگی ‪،‬یا مشاہدہ‬
‫کرنے والے سے فاصلہ پرہوگی اوراس کی گرفت سے باہر ہوگی‪ ،‬یا جتنی غیر مادی ہوگی‬
‫اتنا ہی مشاہدہ کمزور اوراٹکل پر مبنی ہوگا۔نیز یہ کہ شرائط وحدود وقیودمیں بھی بہت تنوع‬
‫؂‪10‬‬
‫اوراختالف ہے ۔''‬
‫فلسفہ‪:‬ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فلسفہ کو چار نظریات میں تقسیم کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪Formal Rationalism‬‬
‫دعوی ہے کہ حقائق کے حصول اورسچائی کو جاننے کے لیے انسان‬ ‫ٰ‬ ‫اس نظریہ کے حامیان کا‬
‫کو عقل کے سوا کسی اورچیز کی احتیاج نہیں۔وہ عقل ہی کو بنیادی ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔دوسرے‬
‫لفظوں میں حق وصداقت کا ذریعہ حواس خمسہ نہیں بلکہ محض عقل ہے۔‬
‫‪Empiricism‬‬
‫اس تھیوری کے ماننے والے پہلے نظریہ کے برعکس مشاہدات اور تجربات کی اہمیت پر‬
‫زوردیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک علم ان سائنسی تجربات اورمشاہدات سے حاصل ہوتاہے جو ایک خاص‬
‫‪9‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 296‬‬
‫؂‪ 10‬۔ خالصہ )‪(Through Science and Philosophy to Religion, pg 6-8‬‬
‫ترتیب اورتجربات سے گزرکرحاصل ہو۔‬
‫‪Criticism‬‬
‫حق وصداقت کو ناپنے کامعیار حواس خمسہ کے ساتھ عقل اور استخراج کو بھی مانتے‬
‫ہیں۔لیکن حواس اور عقل کی حدبندی کی وجہ سے (محدودہونے کے سبب) یہ اس امرکوقبول کرتے‬
‫ہیں ہمارے حواس اورعقل مکمل طور پر ابدی حقائق (‪)Ultimate Reality‬کی معرفت نہیں دے سکتی‬
‫ہاں جزوی طورپر اس میں کامیابی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔‬
‫‪Empirical Rationalism‬‬
‫دعوی ہے عقل اورحواس دونوں ذرائع کو یکجاکردینے سے یعنی‬ ‫ٰ‬ ‫اس نظریہ کا حامیان کا‬
‫مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر عقل وخرد کا استعمال ہوناچاہئے۔‬
‫یہ وضاحت کرنے کے بعد آپ ان چاروں نظریات کی تحلیل کرتے ہوئے ان کا رد فرماتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان چار میں سے دوسرااورتیسرا تو قطعا ً اس قابل ہی نہیں کہ‬
‫(‪ )Ultimate Reality‬کے لیے انہیں قابل غورسمجھاجائے۔ دوسراچونکہ وہ کسی حد تک سائنسی انداز‬
‫سے ہی کام کرتاہے اس لیے سائنس کی نفی کردینے سے اس کی بھی خود بخود نفی کردی گئی۔تیسرے‬
‫سے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ یہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم (‪)Ultimate Reality‬کی‬
‫معرفت نہیں حاصل کرسکتے۔اس لیے کہ انسانی حواس اور عقل دونوں ہی محدود ہیں جس کا انہیں‬
‫اعتراف بھی ہے۔‬
‫کادعوی کرتے ہیں کہ ان‬
‫ٰ‬ ‫ت طرفین یعنی پہال اورآخری نظریہ ۔ جو اس امر‬ ‫اب رہ گئے نظریا ِ‬
‫دعوی ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے۔جیسا کہ ‪ Formal Rationalism‬کے حامیان کا‬
‫انسانی عقل بغیر کسی معاونت کے زندگی کے ابدی مسائل کا حل تالش کرسکتی ہے۔اس کی بابت یہاں‬
‫یہ کہہ دینا ہی کافی ہے‪ Formal Rationalism‬کا تمام تر دارومدار منطق پر ہے۔ ان کا نکتہ آغاز میں‬
‫ایک مفروضہ کا انتخاب کیاجاتاہے اور اس کے بعد تمام خیاالت کی دنیا اسی منطق کے استعمال سے‬
‫تعمیرکی جاتی ہے۔‬
‫اسی طرح ‪ Formal Rationalism‬بھی ہمیں ابدی مسائل کی معرفت اورحل کے بارے میں یقینی‬
‫معلومات فراہم کرنے سےقطعی طورپر ناکافی اورنااہل ہے ۔کیونکہ اس کا نکتہ آغاز تو صرف ایک‬
‫مفروضہ ہے ۔ غیر یقینی مفروضہ ہمیشہ غیر یقینی نتائج پر ہی منتج ہوگا۔‬
‫جہاں تک ‪ Empirical Rationalism‬کا تعلق ہے اسے سائنس کے فلسفہ کا نام دیاجانا چاہئے۔ جو‬
‫حواس خمسہ کے ذریعہ سے ہونے والے مشاہدات اورتجربات کوعقل کی بھٹی میں ڈال کرکندن بنانے کا‬
‫دعوی کرتے ہیں۔ان کا نکتہ آغاز چونکہ سائنسی حقائق اورمشاہدات پر مبنی ہے اس لیے جب سائنس کی‬ ‫ٰ‬
‫نفی کردی گئی تو دوبارہ اس بحث کو طوالت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کا بھی خودکارطورپر اس‬
‫؂‪11‬‬
‫کے ذریعہ رد ہوجاتاہے۔‬
‫ابدی وبنیادی حقائق (‪)Ultimate Reality‬‬
‫مندرجہ باال تمہید کی روشنی میں اگرہم سائنس سے ابدی وبنیادی حقائق (‪)Ultimate Reality‬کی‬
‫معرفت اور مسائل کا حل دریافت کرنے کی بابت غورکریں تو ہمیں یہ امرعبث اوربے سود نظرآتاہے۔‬
‫کیونکہ یہ عمومی ذہانت رکھنے واال آدمی بھی جانتاہے کہ ان مسائل کا حل سائنس کے پاس توقطعا ً‬
‫نہیں ہے ۔لہذا سائنس سے ہر چیز کی حقانیت وحقیقت کا ادراک نہیں کیاجاسکتا۔اگرکوئی نادان یہ سمجھتا‬
‫ہے تویہ اس کی خام خیالی اورطفالنہ خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت سے اس کا دور تک کوئی واسطہ‬
‫نہیں ہے۔‬
‫وکٹر جے اسٹینجر)‪ (Victor J. Stenger 1935-2014‬بھی سائنس کی اس کمزوری کوتسلیم کرتے ہوئے‬

‫؂‪ 11‬۔ مفہوما ً‪Through Science and Philosophy to Religion :‬‬


‫لکھتاہے‪:‬‬
‫”‪Further discussion on what the model implies about “Truth” or “Ultimate reality‬‬
‫‪falls into the area of metaphysic rather than physic, since there is nothing further the‬‬
‫‪scientist can say based on the data” 12‬‬
‫"۔۔۔جہاں تک حق‪،‬ابدی سچائی )‪ (Ultimate Reality‬کا تعلق ہے تو یہ طبیعات )‪(Physics‬‬
‫کے بجائے مابعد الطبیعات )‪ (Meta Physics‬کا میدان ہے۔ سائنسدان حقائق اورکوائف کی‬
‫بناء پر اس موضوع پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے"‬
‫ایک اورسائنس دان ولیم ہنری بریگ)‪ (William Henry Bragg 1862-1942‬سائنس کی اتنی‬
‫کمزوری ضرور تسلیم کرتاہے کہ انسانی زندگی کے مقاصد کا تعین کرناسائنس کا کام نہیں ہے بلکہ ان‬
‫کا تعین مذہب ہی کرسکتاہے‪:‬‬
‫‪“From Religion comes a man’s purpose; from science his power to achieve it” 13‬‬
‫" انسانی زندگی کے مقصد کا تعین مذہب کرتاہے اوراس مقصد کی تکمیل کے لئے قوت‬
‫سائنس بہم پہنچاتی ہے۔"‬
‫نور معرفت کا حصول عقل وخرد کی منازل عبورکرتے ہوئے ہی کیاجاسکتاہے‬ ‫حقیقت یا ِ‬
‫کیونکہ عقل وخردمانن ِد چراغ ہے نہ کہ حق و معرفت کی منزل ۔ بقول عالمہ اقبال ؒ‬
‫گزرجا عقل سے بھی آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے‬
‫کیونکہ جن(سائنسدانوں ) کی عقل میں یہ بات نہیں سمارہی کہ مادہ کبھی فنا بھی ہوسکتا ہے۔ جن‬
‫کا ایمان ہے کہ مادہ صرف حالت بدل لیتا ہے‪،‬ایک ماہیت سے دوسری ماہیت اختیار کرلیتا ہے لیکن مکمل‬
‫طور پرفنانہیں ہوتا اورنہ کبھی ہوسکتا ہے۔ حاالنکہ سادہ سی بات ہے خالق کائنات نے جب کچھ نہ تھا تو‬
‫مادے کو عدم سے وجود بخشا اسی طرح وہ دوبارہ اسے ختم کرنے پر بھی قادر ہے۔لیکن یہ ان کی عقل‬
‫اورشعور سے بعید از فہم حقیقت ہے۔؂‪14‬یا ان افراد کواگر سمجھانے کی خاطر یہ کہا جائے کہ راہ ِ‬
‫خدامیں ایک جان دینے واال شخص (شہید)زندہ ہے یعنی ایک شخص نے بستر پر جان دی اور‬
‫دوسراشخص اپنے ملک اوردین کی خاطر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوا ۔اب وحی کہتی ہے کہ‬

‫‪12‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 24‬‬
‫‪13‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6‬‬
‫؂‪ 14‬۔ اسٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان جومغرب کی آنکھ کا تارا (جوڈوب کرفناہوگیا)تھااورخداکے وجود سے ہی منکر تھا۔جس‬
‫نے اپنے تئیں بڑی تحقیق (سرپھوڑنے ‪،‬پاؤں توڑنے اورروح چھوڑنے )کے بعد یہ زعم لے کر"میں نے خداکے ڈھونگ‬
‫کاپول کھول دیا" اُس دوسری دنیا سدھارگیا جس دنیا کاوہ منکر تھا۔حاالنکہ اگر وہ اپنی تمام تردانائی اپنی روح ہی کی ماہیت‬
‫‪ ،‬کیفیت‪،‬تخلیق‪،‬رہائش‪ ،‬پرصرف کرلیتا تو شاید اسے بھی کچھ ہدایت مل جاتی ۔ویسے بھی ایسا ملحداپنا کفریہ قول کہتے‬
‫ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ جب وہ کہتا ہے "‪"God is no where‬تو اس جملے میں بھی یہ تحریر ہے کہ ‪"God is now‬‬
‫"‪here‬۔یا جب کوئی ملحد انتہائی مسرت سے کہتاہے کہ "‪"Thanks God I am atheist‬اس جملے میں وہ خود خداہی کا‬
‫شکراداکرہاہے جو کہ ‪ self contradict‬ہے۔اوراسی جملے کو یوں بھی پڑھاجاسکتاہے ‪"Thanks God I am a‬‬
‫‪theist".‬بہرحال یہ اپنی زندگیوں میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم جوبھی کریں ہمیں کوئی پوچھنے واال نہ اس جہاں میں ہے اور‬
‫نہ ہی آخرت میں۔مرکرہم مٹی ہوجائیں گے اوراس دنیا سے جداہوجائیں گے۔‬
‫زمانہ سوچ رہا ہے خداتو ہے ہی نہیں‬ ‫جوچاہے کیجئے کوئی سزاتو ہے ہی نہیں‬
‫(منظربھوپالی)‬
‫جہاں تک غوروفکر کرنے والوں اورسلیم الفطرت عقل و شعورکے حامل افراد کا تعلق ہے وہ تو معمولی سی باتوں‬
‫سے بھی معرفت حاصل کرلیتے ہیں کہ اگر کہیں زلزلے میں کوئی مسجد تباہ ہونے سے بچ جائے‪،‬کہیں آگ جلی اوروہاں‬
‫طاق پر سجایا ہواقرآن مجیداس سے محفوظ رہے‪،‬تیز ہوا (مغربی یلغار)کے چلنے کے باوجود کوئی دیا (اسالم کی‬
‫شمع)بجھنے سے محفوظ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ روشن ہوجائے تو اہل بصیرت کے لئے یہ خداکے وجود کاکھال‬
‫ثبوت ہے ۔‬
‫ہوا خالف چلی تو چراغ خوب جال خدابھی ہونے کے کیاکیاثبوت دیتاہے‬
‫دونوں کا الگ الگ حکم ہے۔دوسرا شخص زندہ ہے اسے مردہ گمان بھی نہ کرو لیکن یہ ظاہری آنکھوں‬
‫اور سائنسی آالت سے مشاہدہ کرنے واال کیسے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ ایک کا وجود توسالم ہے‬
‫لیکن وہ پھر بھی مردہ ہے اوردوسرے کا تووجود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہے لیکن وہ پھربھی زندہ ہے‬
‫اوراپنے رب کے یہاں سے رزق پاتاہے۔یہ اس قسم کی ابحاث میں پیچ درپیچ الجھتے رہیں گے اور کبھی‬
‫حقیقت نہ جان پائیں گے۔‬
‫ایک الجھن ہے آگہی کیاہے‬ ‫بھید کھلتے رہے اورالجھتے رہے‬
‫اور اگرسائنسدانوں سے انسانی وجود کے متعلق سواالت کیے جائیں اور کہا جائے کہ انسانی‬
‫وجودتو ہمارے سامنے مادی صورت میں موجود ہےاورہم مانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں سائنس‬
‫اورٹیکنالوجی اس وجود کو سمندر کی گہرائی ‪ ،‬ماونٹ ایورسٹ کی بلندی(چوٹی)‪،‬خالکی وسعت‬
‫اورچاند پر تولے گئی لیکن خدا تک نہ پہنچ سکی اورپہنچے گی بھی کیسے کہ وہ توآج تک اس وجود‬
‫کی پراسراریت اور روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت کو نہ سمجھ سکی۔حاالنکہ اس کے برعکس‬
‫نتہی سے‬
‫ہمارے آقائے نامدار سید الکونین ‪ ،‬نورمجسم ﷺ آج سے پندرہ صدیاں قبل لمحوں میں سدرۃ الم ٰ‬
‫گزرتے ہوئے رب کی بارگاہ تک پہنچ گئے تھے۔‬
‫تھی وہ رفتار کہ لمحوں میں خال تک پہنچے تم گئے چاند تلک ہم تو خدا تک پہنچے(منظربھوپالی)‬
‫اس ہی موضوع پر ایک اورشعربھی انتہائی موزوں ہے جس میں شاعرختم نبوت جناب سیدسلما‬
‫ن گیالنی صاحب نے بہت ہی بلیغ انداز سے معراج کی شب کا تذکرہ کیا ہے‪:‬‬
‫ہاں بجا فرش سے عرش کا فاصلہ ‪ ،‬حد ادراک انساں سے ہے ماورا‬
‫پر یہ معراج کی شب کا ہے معجزہ ‪ ،‬فرش سے عرش کا سلسلہ مل گیا‬
‫روح کے بارے میں سواالت‬
‫محض سائنس سے رہنمائی کی بات چھوڑیئے اگر اس سلسلے میں سائنس فلسفہ سے بھی تعاون‬
‫حاصل کرلے تو بھی یہ صرف ایک انسانی وجود اوراس کی روح سے متعلق اٹھنے والے سواالت کے‬
‫ق روح کے متعلق بحث کریں ۔مثالً‪:‬‬ ‫جوابات نہیں دے سکتے کجاء یہ کہ خال ِ‬
‫‪۲‬۔ روح اگر حقیقت ہے تو اس کا وجود کس سے بنا ہے؟‬ ‫‪١‬۔ روح کیاہے؟‬
‫‪۳‬۔ کیا روح قابل مشاہدہ ہے؟ ‪۴‬۔انسان کے جسم میں روح کہاں ہے؟‬
‫‪۵‬۔ مرجانے کے بعد بھی کیا روح ہوگی؟اور کہاں رہے گی؟‬
‫‪۶‬۔ روح جسم کے کس حصہ سے زیادہ قریب ہے اور کس حصے سے دور ہے؟‬
‫‪۷‬۔ کیا جسم کی طرح روح بھی ناپاک اورگندی ہوتی ہے اگر ہے تو اس کی پاکی کیسے حاصل‬
‫ہوگی؟‬
‫‪۸‬۔ جسم کے کسی حصہ کے کٹ جانے یاتلف ہوجانے کی صورت میں کیا روح میں بھی کچھ کمی واقع ہوتی‬
‫ہے یانہیں ؟‬
‫‪۹‬۔ کیاانسان کے وجود کی تخلیق سے قبل روح تھی؟تھی تو کہاں ؟‬
‫‪١٠‬۔ اور کیا سائنس اورفلسفہ اس کے متعلق ہمیں حقیقت سے آشکار کرسکتے ہیں؟‬
‫یہ اوراس نوعیت کے دیگر سواالت جب سائنس اورفلسفہ کے سامنے پیش کیے جائیں تو یہ یہ دونوں‬
‫اس نوعیت کے جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اس وقت ہمارے اذہان میں یہ شعرگونجتاہوا محسوس‬
‫ہوگا‪:‬‬
‫(اثر)‬ ‫میں کیا ہوں کون ہوں کدھرہوں‬ ‫معلوم ہوئی نہ کچھ حقیقت‬
‫اگر انسان اپنی تخلیق اور اپنی ذات پر کماحقہ سائنس اورفلسفہ کی مدد سے واقفیت و آگاہی‬
‫حاصل نہیں کرسکتا ہے اور اپنے جسم سے نکلتی ہوئی روح کو روک نہیں سکتا ؂‪،15‬نہ ہی اسے واپس‬
‫لوٹاسکتا ہے یعنی کہ اپنی زندگی کی تاریک ہوتی ہوئی شب کو سحر میں تبدیل نہیں کرسکتا تو کس‬
‫طرح جنوں‪ ،‬فرشتوں‪،‬عالم برزخ‪ ،‬جنت دوزخ‪ ،‬اورانبیاء و رسل اورسب سے بڑھ کر رب کائنات جو اس‬
‫کے بدن اورروح کا خالق ہے اس کے وجود کو سمجھ سکتا ہے۔اس پرہر عق ِل سلیم رکھنے واال صرف‬
‫اقبال‬
‫حیرت وافسوس سے یہی کہہ سکتاہے!بقول ؒ‬
‫ڈھونڈنے واالستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا‬
‫اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھاایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا‬
‫زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنہ سکا‬ ‫جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتار کیا‬
‫روح کی وضاحت قرآن سے‪:‬‬
‫روح کے متعلق جاننے کے لیے اگرہم مذہب (اسالم) کی طرف رجوع کریں تو وہ اس کی‬
‫ت نافذہ ہے‬ ‫"امر ربی" یعنی خدا کا حکم ہے۔ حکم ایک قو ِ‬ ‫ِ‬ ‫حقیقت سے کچھ یوں پردہ اٹھاتا ہے کہ یہ‬
‫جس کا نہ جسم ہے ‪،‬نہ لمبائی ‪ ،‬نہ چوڑائی‪ ،‬نہ اونچائی ہے اورنہ ہی کوئی شکل وصورت ۔قرآن مجید‬
‫ح ِم ْن أ َ ْم ِر َربِي؂‪( 16‬آپ فرمادیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے۔)اس‬ ‫میں ہے‪ :‬قُ ِل ُّ‬
‫الرو ُ‬
‫آیہ مبارکہ کی وضاحت میں امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"روح ہللا کے جملہ کاموں میں سے ایک کام ہے اور عالم امر سے ہے۔" نیز فرماتے ہیں‪:‬‬
‫؂‪17‬‬
‫"ہللا ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اورحاکم ہونا۔"‬
‫اس آیہ مبارکہ کے ضمن میں ڈاکٹرحامد حسن بلگرامی اس کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫حکم ٰالہی سے متعلق رکھو‪ ،‬روح کی ماہیت‪،‬اسرار تم پر خود‬ ‫ِ‬ ‫’’اپنی روح کواس‬
‫تمہاری استعداد اورعمل کے مطابق کھلتے جائیں گے۔یہ بتانے کی چیز نہیں پانے کی‬
‫چیز ہے امر سے آمر کی شان کا پتہ چلتاہے۔آمر کی شان یہ ہے کہ جہاں چاہتا ہے اپنا‬
‫امر ظاہر کرتاہے‪ ،‬وحی سے جس قدرباقی رکھنا چاہتاہے اس کا خود محافظ بن جاتاہے‬
‫جو حکم وقتی ضرورت کے لیے خاص ہو اسے نسخ بھی کردیتاہے اورمحو بھی‬
‫؂‪18‬‬
‫کردیتاہے۔‘‘‬
‫ظاہری دنیامیں اس کی ایک مثال یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی کرنسی کے ‪1000‬‬
‫روپے کے نوٹ میں جو قوت خرید ہے وہ حکومت پاکستان کےحکم سے ہے۔حکومت کو یہ حق حاصل‬
‫ہے کہ جب چاہے وہ اسے منسوخ کردے۔؂‪ 19‬اوراگر آج یہ حکم واپس لے لیا جائے تو وہ نوٹ آپ کے‬
‫ہاتھ میں ہونے کے باوجود بے وقعت اورمحض ردی کا ایک ٹکڑاہوگا اور اس کی قطعا ً کوئی‬
‫قیمت )‪ (Market Value‬نہ ہوگی۔‬
‫یہی حال انسان کی روح کے بارے میں جسم اگر صحیح سالم ہی کیوں نہ ہو لیکن حکمنامہ واپس‬

‫؂‪ 15‬۔ سائنس وٹیکنالوجی نے ہمارے جسم پر توکسی حد تک تصرف حاصل کرلیا ہے لیکن روح نہ کبھی اس کے تصرف میں‬
‫آئی ہے اورنہ آئے گی۔دراصل سائنس علمی ترکیب سے کسی حد تک ظاہری شکل وہیئت میں مادہ کا قالب تو بناسکتی ہے‬
‫لیکن زندگی قائم رکھنے والی چیز بنانے سے قاصر ہے۔اسی طرح اس روح کونکلنے سے روکنے میں بھی بے بس ہے۔ بس‬
‫وہ اتنا ہی کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ زندگی عناصرمیں ترتیب کا نام ہے جب یہ نظم ٹوٹ جائے یہ ترتیب بکھرجائے تو یہ‬
‫انسان کا اختتام ہے۔بقول چکبت برج نارائن‬
‫موت کیاہے انہی اجزا کاپریشاں ہونا‬ ‫زندگی کیا ہے عناصرمیں ظہورترتیب‬
‫؂‪ 16‬۔ االسراء‪85:‬‬
‫؂‪ 17‬۔ نسخۂ کیمیاء اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ‪،‬امام غزالی صفحہ ‪17‬‬
‫؂‪ 18‬۔ فیوض القرآن ‪،‬ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی‬
‫؂‪ 19‬۔ ماضی میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعدحکومت پاکستان نے اس وقت کی تمام کرنسی کو منسوخ‬
‫کردیاتھا۔ جس کے بعد وہ نوٹ ردی کے ٹکڑے کی حیثیت رکھتے تھے۔‬
‫؂‪20‬‬
‫لے لیاگیا تو پھر یہ بے جان الشہ میں تبدیل ہوجائے گا۔‬
‫نیز اس روح کا جسم سے نکلنے کے بعد اپنے تعلق والوں (اہل قرابت ‪،‬متعلقین) سے تعلق‬
‫رہتاہے۔وہ ان کے بارے میں فکرمند بھی ہوتی ہے۔‬
‫قِ ْی َل ا ْد ُخ ِل ا ْل َجنَّةَ ط َقا َل یلَیْتَ َق ْو ِم ْي یَ ْعلَ ُم ْونَ ۔ ِب َما َ‬
‫غفَ َر ِل ْي َر ِب ْي َو َج َعلَنِ ْي ِمنَ ا ْل ُمک َْر ِم ْینَ ۔‬
‫حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا‪،‬بوال کاش میری قوم کومعلوم ہوجاتا(کہ مجھے ایمان کا‬
‫کیاحسین صلہ مال) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیااورمجھے عزت دی والوں میں شامل‬
‫فرمایا(مومن زندگی میں بھی لوگوں کا خیرخواہ ہوتاہے اپنے رب پاس پہنچ کر اس کی‬
‫؂‪21‬‬
‫خیرخواہی اوربڑھ جاتی ہے۔)‬
‫جیسا کہ مذکورہ باال آیت مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ مرنے کے بعد بھی‬
‫انسان(نیکوکارمومن) اپنے متعلقین کی نجات اورہدایت کامتمنی ہوتاہے۔‬
‫(تم لوگوں کو‬ ‫اس تمام کے بعد بھی قرآن نے یہ وضاحت کی ہے‪َ :‬و َما أُوتِیت ُ ْم ِمنَ ا ْل ِع ْل ِم ِإال ق ِلیًل‬
‫َّ َ ً ؂‪22‬‬

‫توبہت تھوڑا سا علم دیاگیاہے) یعنی روح کے متعلق تمہیں انتہائی کم علم دیاگیا۔‬
‫سائنس کی علمی بے وقعتی‬
‫سائنس کی کم فہمی ‪،‬کم علمی اورکم مائیگی بلکہ درماندگی کی حالت تو یہ ہو اور اس کے‬
‫باوجود دعوے ایسے بلند وبانگ اورخالف حقیقت جیسا کہ بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ''سائنس نے‬
‫ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا سب سے زیادہ الم ناک اور بدترین ڈھونگ تھا''۔(یااسفا)‬
‫ان حقائق کا ادراک اور ان کے متعلق علم ہمیں صرف وحی ربانی ‪،‬کالم ٰالہی اورکالم نبوی ﷺ‬
‫سے حاصل ہوسکتا ہے ‪،‬وحی ہی معلم عقل ہے اورعقل کو وحی کے تابع ہی رہناچاہئے کیونکہ وحی‬
‫کے ذریعے جو علوم ہمیں حاصل ہوتے ہیں ان کا آغاز ہی ان علوم(فلسفہ وسائنس) کی انتہائی بےبسی‬
‫‪،‬بے کسی‪ ،‬درماندگی اورعجز سے ہوتا ہے۔نیزیہ بھی ذہن سے محونہ ہونا چاہئے کہ ابوالحکم سے‬
‫ابوجہل کاسفر صرف اسی عقل کو وحی پر غالب کرنے کا نتیجہ ہے۔(ابوجہل کی کنیت پہلے ابوالحکم‬
‫تھی لیکن وحی کے انکار کی وجہ سے اس کی کنیت ابوجہل مشہور ہوگئی)۔عقل انسان کو نفس پرستی‬
‫کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ بذات خود انسان کی خودی (نفس) کی قید سے باہر نہیں نکل سکتی۔ ایسی‬
‫شاعر تصوف جناب خواجہ میر درد صاحب‬ ‫ِ‬ ‫بے شعور عقل انسان کو خدا تک کیسے لے جاسکتی ہے؟‬
‫عقل کی اس درماندگی کو کیا ہی بہترین پیرائے میں بیان فرماتے ہیں‪:‬‬
‫باہر نہ آسکی تو قید خودی سے اپنی اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا‬
‫اسًلم اورسائنسی علوم‪:‬‬
‫یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ اسالم دیگر مذاہب کی طرح نہ سائنس سے نفوررکھتا‬
‫ہے اورنہ ہی بیزاری بلکہ یہ صرف اسالم ہے جودعوت غور و فکر دیتا ہے۔اگرچہ قرآن سائنس کی‬
‫کتاب نہیں لیکن یہ انسان سے اندھے ایمان (‪)Blind Faith‬کا متقاضی نہیں بلکہ جن عقائد کوماننے کی‬
‫دعوت دیتاہے اس کے لیے وہ مظاہر فطرت (‪)Natural Phenomenon‬کی نشانیوں کوبطور دلیل پیش‬
‫کرتاہے۔قرآن درحقیقت رہنمائی‪،‬حکمت اور انقالب کی کتاب ہے تاہم یہ تفکر‪،‬تدبر‪،‬تعقل کی دعوت دیتا‬
‫ہے اوراس میں ‪۷٥٦‬آیات ایسی ہیں جن میں سائنسی تعبیرات موجودہیں اوروہ انسان کوبراہ راست‬

‫؂‪ 20‬۔ روح جب جسم سے کنارہ کش ہوتی ہے تو جسم کے ذرات گل سڑکر منتشر ہوجاتے ہیں لیکن جسم سے باہر نکلنے‬
‫کے عین مابعد روح میں کثافت باقی رہتی ہے اس لئے اس کا اول مقام اعراف کہالتا ہے ۔ جہاں قدرت کی طرف سے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کثافتوں کودورکرنے کا موقعہ دیاجاتاہے اورجوارواح ان کثافتوں سے پاک صاف ہوکرجاتی ہیں وہ براہ راست مقام‬
‫پر پہنچ جاتی ہیں۔(اعجوبہ اسرار‪)87:‬‬
‫؂‪ 21‬۔ سورہ ٰیس‪،26،27:‬ترجمہ فیوض القرآن‪،‬ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی‬
‫؂‪ 22‬۔ االسراء‪85:‬‬
‫مشاہدہ ‪،‬غوروخوض‪،‬تعقل وتدبر اورتالش کی دعوت دیتی ہیں اور ادراک اورتجربات سے حاصل ہونے‬
‫والے علم کی تصدیق کرتی ہیں ۔‬
‫نصاری‬
‫ؒ‬ ‫اسالم میں علم کے حصول کے لیے جتنی تاکید پائی جاتی ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ ڈاکٹر ا‬
‫نہ صرف مسلمانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دیتے ہوئے نظرآتے ہیں بلکہ خود بھی سائنسی علوم میں‬
‫مہارت رکھتے تھے اور اکثر اپنی تقریر و تحریر میں سائنسی مثالیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ڈاکٹرانصاری‬
‫علیہ الرحمہ کے الفاظ مالحظہ ہوں‪:‬‬
‫"قرآن حکیم نے یہ تعلیم پیش کی کہ "ایمان"اور"عقل" اساسی اور اصولی طور پر‬
‫ہرگزہرگز متصادم نہیں ہیں بلکہ دونوں میں خوشگوار توافق قائم کرنا ہی انسانیت کی‬
‫کامیابی کا ضامن ہوسکتاہے۔اس طرح "ایمان" اور"علم" جن کی اساس وجدانی شعور‬
‫اورعقلی شعورہے‪،‬دونوں واجب االحترام ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے کے رفیق‬
‫بن کر انسانی عظمت اورسربلندی کی بنیاد ہے۔جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا‪ :‬یَ ْرفَ ِع ه‬
‫ّٰللاُ الَّ ِذ ْینَ‬
‫ت (المجادلۃ‪ )11:‬یعنی رفع درجات تم میں سے ان کے‬ ‫ک ْم ال َوالَّ ِذ ْینَ ا ُ ْوتُوا ا ْل ِع ْل َم د ََرج ٍ‬
‫ا َمنُ ْوا ِم ْن ُ‬
‫لئے ہے جو ایمان اور علم دونوں کے حامل اوردونوں کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔یہی‬
‫نہیں بلکہ قرآن حکیم نے ابتداء آفرینش ہی میں انسان کی فضیلت کو علم سے وابستہ کردیا۔‬
‫تعالی کی جانب سے علم کی عطا اور پھر اس بنیاد پر‬ ‫ٰ‬ ‫ابو البشر سیدنا آدم علیہ السالم کو ہللا‬
‫فرشتوں کو حکم کہ وہ آدم علیہ السالم کی فضیلت کا اعتراف کریں۔ اس پر دلیل قاطع‬
‫؂‪23‬‬
‫ہے۔"‬
‫ایک اور جگہ ڈاکٹر انصاری ‪ Marmaduke Picktall‬کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"بالشک وشبہ قرآن ہمیں علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے بالخصوص طبعی‬
‫؂‪24‬‬
‫سائنس کے میدان میں ۔"‬
‫"قرآن کریم میں ہمیں تمام علوم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے‪ ،‬صرف ایک مخصوص علم‬
‫نہیں۔ اسالم می ں ہر علم مقدس ہے اور اسے ہر مسلمان کو حاصل کرنا چاہئے۔ اسالم تمام علوم کی‬
‫اعلی ترین قسموں میں‬ ‫ٰ‬ ‫وتعالی کی عبادت کی‬
‫ٰ‬ ‫حمایت کرتا ہے اور طبیعاتی علوم کی تحصیل ہللا سبحانہ‬
‫سے ایک ہے"۔‬
‫آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں یہ اسالم نہیں جس نے حقیقت کی جستجو کرنے اوراسے بیان‬
‫کرنے والوں کو زہرکاپیالہ دیا‪،‬قتل کیا‪،‬زندہ جالیایا انہیں صلیب پر لٹکایا ۔ بلکہ اس کا کریڈٹ (سہرا)‬
‫دیگرغیرمسلم قوموں بالخصوص عیسائی حکومتوں کو حاصل ہے۔جوسب سے زیادہ اسالم کو مورد‬
‫الزام ٹھہراتے ہیں اور تاریخی حقائق کو مسخ کررہے ہیں۔اسالم کی تاریخ اس حوالے سے بہت درخشاں‬
‫؂‪25‬‬
‫اورتابندہ ہیں۔‬

‫؂‪ 23‬۔ صقالۃ القلوب‪،‬احترام علم وحکمت‪،‬ص‪60‬‬


‫؂‪ 24‬۔ ‪Through Science and Philosophy to Religion , Pg, 17‬‬
‫؂‪ 25‬۔ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"احترام علم وحکمت کے موضوع کے سلسلے میں ابتدائی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاعلم وحکمت کا‬
‫عدم احترام ممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں‪،‬ممکن ہے۔اوریہ کیفیت تاریخ انسانی میں قدیم‬
‫زمانے سے موجود رہی ہے۔ اس المیے کی داستان یہ ہے کہ ایک جانب انسانوں کے تمام گروہ ہمیشہ‬
‫سے کسی نہ کسی"نظام معتقدات" کے پابند رہے ہیں اوردوسری جانب انسانی فطرت کا یہ تقاضا‬
‫ہمیشہ موجود رہا ہے کہ علمی تحقیق وتفحص کے راستے سے حقائق کا صحیح ترادراک کیاجائے۔اس‬
‫طرح ایمان )‪ (Faith‬اورعقل)‪ (Reason‬کے تصادم کامسئلہ پیدا ہوا۔اس مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ‬
‫"اہل ایمان" نے مجردا ً علم کی نفی نہیں کی‪ ،‬مگر ان کے نزدیک علم کی جائز حدود صرف ان کے‬
‫"نظام معتقدات" کے علم کے حصول تک تھی۔یہ معتقدات کے لئے"حقائق معلومہ" تھے۔"اہل ایمان"‬
‫ہیں۔جیسا کہ سام حارس)‪(The (Sam Harris 1967‬‬ ‫اس عبارت کی صراحت خود سائنسدان بھی کرتے‬
‫)‪ Language of Ignorance‬میں لکھتاہے‪:‬‬
‫‪"Every‬‬ ‫‪European‬‬ ‫‪intellectual‬‬ ‫‪lived‬‬ ‫‪in‬‬ ‫‪the‬‬ ‫‪grip‬‬ ‫‪of‬‬ ‫‪a‬‬
‫‪Church that thought nothing of burning scholars alive for merely speculating‬‬
‫‪about the nature of stars…This is the same Church that did not absolve Galileo of‬‬
‫‪heresy for 350 years (in 1992)" 26‬‬
‫"ہریورپی ذہین (فرد)چرچ کے پنجہ میں گرفتار رہ چکا ہے جس کا کام محض‬
‫سائنسدانوں کو زندہ جالنا ہے۔وہ (چرچ) ستاروں کی فطرت پر صرف اٹکل پچو سے‬
‫کام لیتے ہیں ‪،‬یہ وہی چرچ ہے جس نےساڑھے تین سوبرس قبل گلیلیو)‪ (Galileo‬کی‬
‫نظریہ )‪ (Theory‬کوہضم نہیں کیا تھا۔"‬
‫مسلمانوں کو عظیم سائنسدان بننے کے لیے اسالم چھوڑنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ تاریخ‬
‫میں کتنے نامی گرامی عظیم سائنسدان گزرے ہیں جو کہ مسلمان تھے۔بالکسی لیت ولعل وتردد یہ کہنے‬
‫میں کوئی حرج نہیں کہ مسلم سائنسدان سائنسی علوم پر مکمل دسترس اور عبور رکھتے تھے۔ ان علوم‬
‫میں ان کے تبحر علمی ‪،‬مہارت‪ ،‬اور یکتا ویگانہ روزگارہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی تصنیف‬
‫شدہ کتب آج بھی مغرب میں ترجمہ کرکے پڑھائی جارہی ہیں اور آج کی تمام ترسائنسی ترقی اوران علوم‬
‫کی ترویج کا انحصار مکمل طور پر ان ہی (مسلمان سائنسدانوں)کی بنیادی معلومات پر ہے۔اسالم سے‬
‫پہلے توسورج‪،‬چاند ‪،‬ستارے‪ ،‬دریا اور پہاڑ وغیرہ صرف تصور عبادت کے تحت دیکھے جاتے تھے۔‬
‫لوگ مظاہر فطرت کی ان معمولی معمولی سی چیزوں مثالً چاند گرہن‪،‬سورج گرہن اورآندھیوں سے‬
‫لرزاں براندام ہوجاتے تھے لیکن یہ سب سے پہلے مسلم سائنسدان تھے جنہوں نے ان مظاہر فطرت کے‬
‫بارے میں غوروفکر کیا۔نیز یہ مسلم سائنسدان ہی تھے جنہوں اجرام فلکی کی ساخت‪ ،‬بناوٹ‪ ،‬ماہیت‪،‬‬
‫کیفیت ‪ ،‬مدار‪،‬حجم اوران کی تخلیق پر غوروفکر کیااوران سے متعلق صحیح اور مستند معلومات جمع‬
‫کیں۔اس کی صراحت خود مغربی سائنسدان بھی کرتے ہیں۔ماریزیواکارنیو )‪(Maurizio Iaccarino 1938‬‬
‫کے الفاظ مالحظہ کریں‪:‬‬
‫‪The Muslims were the leading scholars between the seventh and fifteenth‬‬
‫‪centuries, and were the heirs of the scientific traditions of Greece, India and‬‬
‫‪Persia,…….The transfer of the knowledge of Islamic science to the west ….paved‬‬
‫‪the way for the Renaissance, and for the scientific revolution in Europe." 27‬‬
‫"ساتویں سے پندرھویں صدی کے درمیان مسلمان سرکردہ علماء(سائنسدان) تھے اور وہ‬
‫یونان‪،‬ایران اورانڈیا کے سائنسی روایات کے وارث تھے۔۔۔اسالمی سائنس کی مغرب کی‬
‫طرف منتقلی نے سائنسی علوم کا دوبارہ احیاء کیا اور یورپ میں سائنسی انقالب کی بنیاد‬
‫رکھی۔"‬
‫علیہ الرحمہ‬
‫اس امرکی بھی نشاندہی فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے مذہب یا دین کا کوئی فرد جتنا‬ ‫آپ‬
‫زیادہ مذہب سے قریب اورراسخ العقیدہوگا وہ اتنا ہی سائنسی علوم سے دور ہوگا لیکن اسالم وہ واحد دین ہے‬
‫جس میں ایک اچھا راسخ العقیدہ مسلمان ایک اچھا اورعظیم سائنسدان بھی بن سکتا ہے۔اورواقعی یہ عین‬
‫حقیقت واقعہ ہے کہ آج بھی اگرکوئی غیر مسلم سائنسدان تعصب کی عینک کے بغیر قرآن کا مطالعہ کرے‬

‫کا تصادم دراصل"حقائق غیرمعلومہ" کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔ اسی تصادم کے نتیجے میں‬
‫سقراط کو زہرکاپیالہ پیناپڑا۔اسی تصادم کے نتیجے میں مسیحی کلیسا نے علم اوراہل علم پر بے پناہ‬
‫ت حال کو یکسربدل دیا۔"صقالۃ‬ ‫مظالم ڈھائے لیکن جب اسالم کا انقالبی پیغام آیا تو اس نے صور ِ‬
‫القلوب‪،‬احترام علم وحکمت‪،‬ص‪60‬‬
‫‪26‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32‬‬
‫‪27‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32‬‬
‫گاتو وہ خودہی مسلمان ہوجائے گا۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مثالًمشہور فرانسیسی سرجن ڈاکٹر‬
‫موریس بکائیل(‪ )Dr. Maurice Bucaille 1920-98‬ماہرامراض معدہ وآنت (‪ )Gastroenterology‬نے جب قرآن کریم‬
‫کے اصل متن کو عربی زبان میں پڑھا اور اس میں بہت سے ایسے سائنسی حقائق جسے سائنس اپنا کارنامہ‬
‫شمارکرتی ہے ‪ ١٤٠٠‬سال پہلے کی نازل کردہ کتاب میں دیکھے تو وہ اپنی کتاب ‪The Bible The Quran and‬‬
‫‪ Science‬میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ قرآن میں جو مظاہر فطرت کے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں ان‬
‫کی بہترین تفسیر آج کی جدید سائنس ہی کرسکتی ہے اور یہ کہ بائبل میں توتحریف کے باعث بہت سارے‬
‫تضادات اورجدید سائنس سے تصادم پایاجاتا ہے لیکن قرآن میں ایسانہیں ہے۔کیونکہ اس کے نازل کرنے‬
‫تعالی) نے ہر قسم کی تحریف سے حفاظت کی ذمہ داری اپنے دست قدرت میں رکھی ہے '' اِنَّا‬ ‫ٰ‬ ‫والے (ہللا‬
‫ظ ْونَ '' ہم نے اس ذکر(قرآن)کو نازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے‬ ‫؂‪28‬‬ ‫نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِذک َْر َواِنَّا لَه‪ ،‬لَح ِف ُ‬
‫والے ہیں۔ لہذا وہ نہ صرف اس کی حقانیت کے خود قائل ہوگئے بلکہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینے‬
‫والے بن گئے ۔‬
‫اسی طرح برطانوی پروفیسر ڈاکٹرآرتھرجے الیسن (‪ )Arthur Alison‬نے جب یہ دریافت کیا کہ‬
‫نیند میں انسان کی روح نکال لی جاتی ہے اورنیند بھی موت کی طرح ہے لیکن نیند کے بعد روح لوٹادی‬
‫ّللَاُ یَت ََوفَّی‬
‫جاتی ہے مگرموت کے بعد ایسانہیں ہوگا۔توجب ان پر قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی گئی ‪ َ :‬ہ‬
‫س ًّمی‬ ‫علَ ْی َھا ْال َم ْوتَ َوی ُْر ِس ُل ْاالُ ْخ ٰری ا ِٰلی ا َ َج ٍل ُّم َ‬
‫ضی َ‬ ‫ک الَّتِ ْی قَ ٰ‬ ‫َام َہا فَی ُْم ِس ُ‬
‫ت فِ ْی َمن ِ‬ ‫س ِحیْنَ َم ْوتِ َھا َوالَّتِ ْی لَ ْم ت َ ُم ْ‬ ‫ْاالَ ْنفُ َ‬
‫تعالی قبض کرتا ہے جانوں (روحوں ) کوموت کے وقت اور جن کی موت کا وقت ابھی نہیں‬ ‫ٰ‬ ‫۔''؂‪ 29‬ہللا‬
‫آیاحالت نیند میں پھر روک لیتا ہے ان روحوں کو جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے اورواپس بھیج دیتا ہے‬
‫دوسری روحوں کو(جن کی موت مقدرنہیں فرمائی)مقررہ میعاد تک۔''جب انہیں بتایاگیا کہ یہاں روح‬
‫نکالنے سے نیند اورموت دونوں مراد ہیں تو انہوں نے بھی اسالم قبول کرلیا۔اسالم النے کے بعد ان کا‬
‫نام عبدہللا رکھا گیا۔‬
‫تھائی لینڈ کے پروفیسر تجاتن اوران کے شاگردوں کے اسالم النے کاسبب بھی قرآن کریم کی ایک‬
‫آیت ہے‪:‬جب انہو ں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ محسوس کرناجلد کاکام ہے اگر جلد مکمل طور پر جل جائے‬
‫اوراس کی بافتیں مرجائیں توانسان درد محسوس نہیں کرے گا۔لیکن جب ان کے سامنے قرآن کریم کی آیت‬
‫اب ۔''؂‪30‬جب کبھی پک جائیں گی ان کی‬ ‫غی َْرھَا ِلیَذُ ْوقُوا ْال َعذَ َ‬‫ت ُجلُ ْودُ ُھ ْم َبد َّْل ٰن ُہ ْم ُجلُ ْودًا َ‬ ‫َض َج ْ‬ ‫پیش کی گئی ُکلَّ َما ن ِ‬
‫کھالیں توہم انہیں بدل کردوسری کھالیں دے دیں گے کہ وہ (مسلسل) چکھتے رہیں عذاب''تو انہوں نے اسالم‬
‫قبول کیا۔اسی طرح نامور فرانسیسی ماہر بحریات مسٹرجیکوئس وس کاؤ سے ( ‪Jacques Yves‬‬
‫‪)Cousteau,1910-97‬جنہوں نے زیر سمندر بہت وقت گزارا ان کے مشاہدہ میں آیا کہ سمندر میں بعض مقامات‬
‫پر میٹھے پانی کے چشمے ہیں اوران چشموں کا پانی کھارے پانی میں حل نہیں ہوتاجب کہ ان کے درمیان‬
‫کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی اس کے باجود الگ رہتا ہے۔تو ان پر جب یہ قرآنی آیت پیش کی گئی‪َ :‬و ُھ َو الَّذ ْ‬
‫ِی‬
‫جْرا َّمحْ ُج ْو ًرا ''؂‪ 31‬اور وہی ہے جس نے‬ ‫ع ْذب فُ َرات َّو ٰھذَا ِم ْلح ا ُ َجاج َو َج َع َل َب ْی َن ُھ َما َب ْرزَ ًخا َّو ِح ً‬ ‫حْری ِْن ٰھذَا َ‬‫َم َر َج ْال َب َ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫مالدیاہے دوسمندروں کو کہ (ایک) بہت شیریں ہے جب کہ(دوسرا)سخت کھاری اورتلخ اوربنادی( ہللا‬
‫نے اپنی قدرت سے) ان کے درمیان آڑ اورمضبوط رکاوٹ۔'' توانہوں نے بھی اسالم قبول کرلیا۔یہ ہیں وہ حقیقی‬
‫اورتاریخی مثالیں جو ہماری آنکھوں دیکھی ہیں کہ جب ان غیر مسلم سائنسدانوں نے صدق دل سے قرآن اور‬
‫اسالم کا مطالعہ کیاتووہ خودبھی مسلمان ہوگئے اوردوسروں کو دعوت دینے والے بن گئے بقول اقبال''پاسباں‬

‫الحجر‪۹:‬‬ ‫؂‪ 28‬۔‬


‫سورۃ زمر‪٤۲:‬‬ ‫؂‪ 29‬۔‬
‫النساء‪٥٦ :‬‬ ‫؂‪ 30‬۔‬
‫الفرقان‪٥۳:‬‬ ‫؂‪ 31‬۔‬
‫مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے؂‪'' 32‬۔ کا مصداق ہوگئے یا بالفاظ دیگر‪:‬‬
‫خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے‬
‫کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا‬
‫اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے دورمیں ہم بھی سائنسدانوں اورمغربی مفکرین سے‬
‫متاثراورمرعوب ہونے کے بجائے ان عظیم شخصیات کی سیرت وافکار کامطالعہ کریں جن میں‬
‫حضرت عالمہ اقبال علیہ الرحمہ‪،‬حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ ‪ ،‬ڈاکٹر حافظ محمدفضل الرحمن‬
‫انصاری علیہ الرحمہ وغیرہ شامل ہیں کہ جب ہم ان کی زندگیوں اورافکار میں غوروفکرکرتے ہیں تویہ‬
‫اعلی تعلیم یافتہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرات باوجود یہ کہ یورپ وامریکہ کے بیشتر ممالک کے دورے پر گئے‪،‬وہاں کی‬
‫مذہبی‪،‬سیاسی‪،‬فکری اورعسکری شخصیات سے مالقاتیں کیں لیکن نہ تو وہاں کی مادی ترقی سے‬
‫مرعوب ہوئے اورنہ ان کی فکری قوت سے مغلوب ہوئے۔اس مرعوب نہ ہونے کی حقیقت خود‬
‫ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے سنہری حروف میں مالحظہ کریں‪:‬‬
‫"آج اس میدان کے ٹھیکیدار عمالً مغربی مفکرین بن گئے ہیں۔ مگرچونکہ ان کے پاس‬
‫"فرقان" نہیں اس لئے ان کی فکر‪ ،‬باوجود ضوابطی علمی کے بے مہار ہے۔وہ روحانی‬
‫اعتبار سے مفلس ہیں۔ اس لئے ان کے صحیح افکار بھی دنیا کو تازگی نہیں بخش‬
‫سکتے ۔ مگر ان کی عملی وجاہت اورمادی شوکت وسطوت نے بہرحال ان کو دنیا کی‬
‫قیادت کا حامل بنادیا ہے ان کی اس قیادت نے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے بیشتر‬
‫‪33‬‬
‫افراد کواحساس کمتری میں مبتالکرکے ذہنی غالمی میں گرفتارکردیا ہے۔‬
‫ڈاکٹرانصاری اوران کی قبیل کے افراد تو وہ اہل نظر وفکروکردارکے حامل افرادہیں جوجانتے‬
‫ہیں کہ یہ اہل مغرب خودروحانی حوالے سے مفلس‪،‬قالش اورمحتاج ہیں۔ توان کی سائنس اور‬
‫جدیدسائنسی آالت و مشینیں ان کو کیسے مرعوب کرتیں یا ان کے مغربی افکار اورتہذیب کیسے اپنی‬
‫چکاچوندسے ان کی آنکھیں خیرہ کرتیں ۔‬
‫نیزان حضرات میں مومنانہ فراست اورمجاہدانہ جرأت کے ساتھ ساتھ حب الہی اورحب رسول ﷺ‬
‫کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی اوریہ حضرات اس حقیقت سے کماحقہ واقف تھے کہ جب کوئی شخص‬
‫مرعوب ہوجائے تو اس کی آنکھیں جھک جاتیں ہیں اور وہ مقابلہ سے پہلے ہی خود سپردگی کرتے ہوئے‬
‫شکست قبول کرلیتا ہے نتیج ًۃ وہ ہرحق وناحق وجائز و ناجائز امرکو قبول کرلے گا۔لیکن اگردل مرعوب‬
‫نہ ہو بلکہ حب الہی اورعشق مصطفوی ‪ ،‬قوت ایمانی اورمومنانہ فراست سے ماال مال ہو تو پھر سامنے‬
‫آنے واال کتنا ہی بااثر‪،‬طاقتور اورعیار شعبدہ باز کیوں نہ ہو وہ آخر کار خود ان سے متاثر ہوجائے گا‬
‫ب ظاہری نہ ہونے کے باوجود جب مسلمان افواج کے قاصد‬ ‫۔جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اسبا ِ‬
‫دوسرے سالطین کے دربارمیں جاتے توخود مرعوب ہونے کے بجائے ان پر اپنا اتناگہرا اثر چھوڑتے کہ‬
‫ان کے دل کانپ جاتے اور وہ ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور ان کی سلطنتوں کے ظاہری جاہ و حشمت‬
‫کے محل ان کے سامنے ریت کے محالت ثابت ہوتے ہوئے زمیں بوس ہوگئے ۔‬
‫کپڑوں پر پیوند لگے ہیں تلواریں بھی ٹوٹی ہیں‬
‫پھربھی دشمن کانپ رہے ہیں آخرلشکرکس کا ہے‬
‫دعوی تونہیں کیا لیکن‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح ان حضرات ذی وقار نے اگرچہ کبھی تقدیر امم کے جاننے کا‬
‫اپنی مومنانہ فراست سے ان باتوں ‪،‬اشاروں ‪،‬کنایوں کو ضرور سمجھ لیا کہ اہل ہللا کا بھروسہ رب‬
‫العزت کی ذات پر ہوتا ہے اور ان مادہ پرست ابلیسی فرنگی ادیبوں سائنسدانوں ‪،‬شاعروں اور فلسفیوں‬

‫یورش تاتار کے افسانے سے‬


‫ِ‬ ‫ہے عیاں‬ ‫؂‪ 32‬۔اس شعر کا پہال مصرعہ کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫؂‪ 33‬۔ صقالۃ القلوب‪،‬ص ‪20‬‬
‫کواپنی بے جان مشینوں سے حاصل کردہ عارضی‪،‬فانی اوردھوکہ دینے والی قوت پر وبھروسہ ہے جو‬
‫علی شفا جرف ھار فانھار بہ فی نار جہنم ؂‪(34‬کہ ان کی بنیاد گرجانے والی کھائی کے کنارے جوانہیں‬ ‫ٰ‬
‫لے کر جہنم میں گرجائے گی) کی مصداق انتہائی کمزور اورناتواں ہے اوریہ اپنا انجام عنقریب دیکھ‬
‫لیں گے۔ان سے ہمیں مرعوب ہونے کی قطعا ً ضرورت نہیں ۔ بقول عالمہ محمد اقبال ؒ‬
‫ہللا کو پامردئ مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کاسہارا‬
‫تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو توکافی ہے اشارا‬
‫ِ‬
‫یہی سبب ہے کہ سائنسی علوم کو ان نفوس قدسیہ نے کبھی بھی پیمانہ امتیاز خیر وشرنہیں بنایا‬
‫اورنہ ہی ان سے ابدی‪،‬حتمی‪،‬بنیادی حقائق (‪ )Ultimate Reality‬کو جاننے کی کوشش کی۔اس کے‬
‫لیے وحی ہی کافی ہے۔یہی صحیح انداز فکر ہے جوہمیں اپنانی چاہئے کہ ہم بھی آج ایمان پر دلوں کے‬
‫مطمئن ہونے کے بعد(یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہم سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں) جو ہمارے آقا ﷺ‬
‫نے فرمایا ہے وہی عین حق اورفطرت ہے اورپھر اس کی حکمت ومصلحت کی تالش کی کوشش کریں‬
‫تو وہ تالش بھی عین حصول ثواب قرارپائے گی۔ رہی بات حکمت ودانائی کے حصول کی تو اس کے‬
‫قبول کرنے میں کوئی قباحت یا حرج نہیں ہے کیونکہ "الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق‬
‫بھا"؂‪( 35‬حکمت ودانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں کہیں اس کو پائے وہ اس کا زیادہ حقدارہے)‬
‫کے تحت اس کوضرور بالضرور بالکسی لیت ولعل قبول کرلیناچاہیے اور یہی ان حضرات نے بھی‬
‫کیاکہ ایمان پر دل مطمئن ہوتے ہوئے مرعوب اورتشکیک زدہ اذہان کو سمجھانے کی خاطرعلوم سائنس‬
‫اورفلسفہ میں مہارت و بصیرت بھی حاصل کی اوران کی اچھائیاں قبول بھی کیں؂‪ 36‬لیکن ان کی‬
‫خامیوں کوتاہیوں سے آگاہی اورواقفیت رکھتے ہوئے ان خامیوں کے تدارک کی بھی کوشش کی۔‬
‫یہاں ان باتوں کے ذکر سے مقصود ومطلوب یہ ہے کہ اگرعلوم نقلیہ کوچھوڑ کر صرف سائنس‬
‫اورعقل پر اکتفاء وانحصار کیاجائے گا تو یہ صرف وہم یاتوہم پرستی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی‬
‫لوگ مادہ پرستی‪ ،‬حصول لذات اورنفس کی بندگی میں اس حد تک پستی میں گرجائیں گے کہ لوگوں کی‬
‫جان ومال کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رہے گی (جیسا کہ آج کل ہورہاہے ) ۔ کیونکہ یہ بات سب‬
‫تسلیم کرتے ہیں کہ سائنس میں خیر وشر دونوں کی صالحیتیں موجود ہیں۔ جیسا کہ کلفورڈ اے پک‬
‫اوور اپنی کتاب میں لکھتاہے‪:‬‬
‫‪“The laws enable humanity to create and destroy sometimes they change the very‬‬
‫‪way we look at reality itself.” 37‬‬
‫"قوانین انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کچھ تخلیق کریں یا تباہی الئیں اوربعض‬
‫اوقات وہ راستہ ہی بدل دیتے ہیں جس پر ہم خودحقیقت دیکھتے ہیں۔"‬

‫؂‪ 34‬۔ التوبۃ‪١٠۹:‬‬


‫؂‪ 35‬۔ ترمذی شریف‬
‫؂‪ 36‬۔ سائنس مطلقا ً شر نہیں ہے بلکہ سلیم الفطرت سائنس دان جب اس کائنات کے اسرار ورموز سے واقف ہوتے ہیں تووہ‬
‫ض"الحشر‪(1:‬ہللا ہی کی پاکی بیان کرتے ہیں جو بھی آسمانوں‬ ‫ت َو َما فِي ْ َ‬
‫اال ْر ِ‬ ‫خود قرآن کی اس آیت" َسبَّ َح ِ ہ ِ‬
‫لِل َما فِي الس َّٰم ٰو ِ‬
‫اورزمین میں ہیں)پر ایمان لے آتے ہیں کیونکہ اب واقعی وہ ایمان بالغیب اورچشم بصیرت کے بجائے چشم سرسے مشاہدہ‬
‫کرتے ہیں ۔انہیں کائنات کے ہر ذرے ‪ ،‬ہرقانون قدرت اورتھیوری سے ہللا رب العزت کے وجود اور وحدانیت کی گواہی ملتی‬
‫ہے۔اوروہ اس کا اقرارکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہر قانون قدرت رب کی تعریف وحمد وثناء میں مشغول ہے۔ جیسا کہ‬
‫ماریہ مشعل نے ‪ 1866‬سے میں تحریر کیاتھا‪:‬‬
‫‪Every formula which expresses a law of nature is a hymn of praise to God.‬‬
‫ہر وہ فارمولہ جو قانون قدرت کااظہار کرتاہے وہ ہللا کی حمد ہے جس میں اس کی تعریف ہے۔‬
‫)‪( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 489‬‬
‫‪37‬‬
‫‪Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16‬‬
‫دورحاضر کے علوم و فنون کی ترقی روحانیت کے زوال کا سبب ہے۔ایک وقت تھا جب سائنس‬
‫کا علم مسلم سائنسدانوں کے پاس تھا تو اس وقت سائنس بھی مسلمان تھی اورآج جب کہ سائنس مادہ‬
‫پرست اورسیکولر غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہے اب جن سائنسدانوں کو رب کے قہار وجبار ہونے کا‬
‫یقین نہ ہواوراس کا کوئی خوف نہ ہو یا ان کے اندر مذہبی اقدار نہ ہوں تو ان کی الئی ہوئی یہ ترقی‬
‫ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی رہی تھی ہے اورلے جاتی رہے گی ۔سائنس کی ترقی خلق خدا کی فالح‬
‫ت حرب کی ساخت اورشناخت ان‬ ‫وبہبود کے لیے نہیں بلکہ ان کی بربادی کے لیے ہے۔ تباہ کار آال ِ‬
‫آن واحد میں الکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ‬ ‫مہلک گیسوں اورہتھیاروں کے ایجاد کے لیے تھی جو ِ‬
‫اتار دے ۔اور ایک وقت آئے گا جب یہ اقوام اپنی تمام ترقی کے باوجود خود تباہ و برباد ہوجائیں‬
‫گی۔بقول شاعر مشرق حضرت عالمہ اقبال علیہ الرحمہ‪:‬‬
‫وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا فطرت کی طاقتوں کو‬
‫اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطرمیں ہے اس کا آشیانہ‬
‫خًلصہ کًلم ‪:‬‬
‫ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے مطابق سائنس اورٹیکنالوجی خیر اورانسان کی‬
‫بھالئی کا ایک ذریعہ ہے ‪،‬کوئی بھی ذریعہ ‪،‬طریقہ ‪،‬راستہ بذات خودنہ باعث گناہ ہے اورنہ ثواب ۔گناہ‬
‫وثواب ہماری نیت پر منحصر ہے۔یعنی فسق ہماراہوس کی بنیاد پر یاکسی اورسبب اس کی برکتوں‬
‫کوزحمتوں میں بدلنے اوراسالم سے دور ہونے میں ہے ۔ یہ ساری ایجادات ‪،‬جدید سائنس اورماڈرن‬
‫ک ْم َّما فِي‬ ‫ِي َخلَقَ لَ ُ‬
‫ٹیکنالوجی دراصل ہللا نے انسان کی خدمت اوربھالئی کے لیے پیدافرمائی ہے‪ُ ،‬ه َوالَّذ ْ‬
‫ض َج ِم ْیعًا؂‪ 38‬اس زمین میں اس نے جو کچھ پیدافرمایاہے یہ سب تمہاری خدمت اورفائدے کے لیے‬ ‫ْاالَ ْر ِ‬
‫ہے (نہ کہ ان کے آگے سربسجود ہوکرآدمیت کی تذلیل کی جائے کہ ایک وقت تھا ابوالبشرحضرت آدم‬
‫علیہ السالم کے سامنے یہ تمام سربسجود تھے اورآج حضرت آدم کی اوالد خود ان کے سامنے‬
‫سربسجود ہوگئی۔یااسفا!)‬
‫اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ جدید سائنس اورماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے اورکہاں‬
‫کرتاہے اوراس اختیار کے استعمال کا ہی کل بروز حشر ہللا کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا ہے اوراسی پر‬
‫جنت یا دوزخ کے ملنے کا انحصار ہے ۔ یہ ایجادات مانند ہتھیار ہیں چاہے اسے ملک میں امن و‬
‫سالمتی کے لیے استعمال کیاجائے خواہ اسے مزید فساد ‪،‬انتشار‪ ،‬وابتری کے لیے کام میں الیاجائے۔‬
‫اور اس ٹیکنالوجی کی مدد سے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا‬
‫ہے۔ ان آالت کے استعمال سے تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ سہل اور مؤثر بنایاجاسکتاہے۔لیکن اس کو‬
‫وحی کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔ لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسالم کے ہر ہر حکم کو ٹھوک بجاکر دیکھ‬
‫لو اسے سائنس پر پیش کرکے اس سے ثبوت اورسند حاصل کرو‪ ،‬ہر حکم کی حکمت و مصلحت سمجھ‬
‫کر چلو اگر نہ سمجھ آئے تو اسے چھوڑ دو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکرکرنی چاہئے۔" َآل‬
‫اِ ْک َراہَ فِي ال ِدِّی ِْن؂‪ " 39‬کہ اسالم میں داخل ہونے میں کوئی جبر نہیں لیکن ایک دفعہ ایمان لے آئے تو یَاَیُّ َھا‬
‫س ْل ِم کَآفَّةً ؂‪'' 40‬اے ایمان والو!پورے کے پورے اسالم میں داخل ہوجاؤ'' ‪ ،‬ویؤمنون‬ ‫الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُوا ا ْد ُخلُ ْوا فِي ال ِ ِّ‬
‫بالغیب (اوروہ ایمان التے ہیں غیب پر) اب پورے کے پورے اور وہ بھی غیب یعنی ان دیکھے‬
‫اوربناپوچھے ہر اس بات پر ایمان الناہوگا جس پر ایمان النے کا اسالم ہمیں حکم دیتاہے۔‬
‫ایمان النے سے پہلے اوربعد کے سواالت اورطریقہ واندازمیں فرق ہوناچاہئے۔قبولیت ایمان سے‬
‫پہلے پوچھنے کے انداز میں اگرچہ تشکیک پائی جاتی ہو لیکن قبولیت ایمان کے بعد اس کی حقانیت پر‬

‫؂‪ 38‬۔ البقرۃ‪29:‬‬


‫؂‪ 39‬۔ البقرۃ‪۲٥٦:‬‬
‫؂‪ 40‬۔ البقرۃ‪۲٠۸:‬‬
‫ایمان ہوناضروری ہے۔کیونکہ اگر ایک دفعہ قائل کی حقانیت‪،‬صداقت‪ ،‬امانت‪ ،‬دیانت‪ ،‬متانت فطانت‪،‬‬
‫ذہانت‪ ،‬صیانت پر یقین آجائے تو پھر ان کے احکام ‪،‬اقوال‪،‬اعمال‪،‬افعال‪،‬پر مکمل یقین وایمان النا چاہئے‬
‫اورپھر کسی قسم کی دلیل ‪،‬حکمت ومصلحت کا تقاضا نہیں کرنا چاہئے۔کیونکہ اگرانسان اپنی علمی بے‬
‫ِي ِع ْل ٍم َ‬
‫ع ِلیْم؂‪"41‬پر ایمان الئے کہ العلیم تورب کی ذات ہے‬ ‫بضاعتی وبے کسی سمجھ لے اور" َوفَ ْوقَ ُک ِِّل ذ ْ‬
‫اورحضوراکرم ﷺ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہیں ۔تو اس کے بعد وہ ہر ہر شے ‪،‬ہر ہرحکم ربی ‪،‬اور‬
‫حکم مصطفوی ﷺ کی فلسفیانہ اورسائنٹفک توجیہ نہیں مانگے گا۔ اب وہ اس بات کا ادراک حاصل‬
‫ٰ‬
‫اکبرالہ‬ ‫کرچکا ہوگا کہ یہ وہ ذات ہے جہاں میری ناقص عقل اورمیراعلم نہیں پہنچ سکتا ۔اس نکتہ کو‬
‫آبادی اس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے‬
‫تودل میں توآتا ہے سمجھ میں نہیں آتا‬
‫ہاں جس ذات نے رب کائنات کو سمجھا ہے وہ نبیﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ اب حضور ﷺ پر‬
‫ایمان النے کے بعد آنکھیں بند کرکے ا ُن(ﷺ) کی کامل لیکن غیرمشروط پیروی کی جائے۔ ان کے کسی‬
‫حکم کی حکمت و مصلحت بطورگرفتاری تشکیک دریافت نہ کی جائے ۔ ہاں حکمت و مصلحت‬
‫سمجھنے کی کوشش ضرورکی جائے تا کہ متالشیان حق کی صحیح رہنمائی اور اغیار‪ ،‬کفار‪،‬‬
‫غیرمسلمین ومعترضین کے فتنہ پرور سواالت کے جوابات کا رد کیا جاسکے۔لیکن اگرحکمت نہ بھی‬
‫سمجھ آئے توپھربھی یہ اقرار کرے کہ میں تو قطعی ایمان الچکاہوں اوریہی حق‪ ،‬فطرت اورخیرو‬
‫بھالئی ہے ۔ویسے بھی سچائی اورحق خود بخود اثرچھوڑتے ہیں اورصالح ونیک طینت قلوب خود بخود‬
‫انہیں قبول کرلیتے ہیں دالئل سے منوائے نہیں جاتے ۔‬
‫صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ!‬
‫حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی‬

‫؂‪ 41‬۔ سورۃ یوسف‪76:‬‬

You might also like