Professional Documents
Culture Documents
علیہ الرحمہ
کی نظرمیں ڈاکٹر فضل الرحمن االنصاری القادری
ابوعبدالقدوس محمد یحیی
آج ہم جس سائنسی دور ( )Scientific Eraمیں جی رہےہیں وہاں سائنس و ٹیکنالوجی کاغلبہ
عالمگیر ہے ۔ بے شمار سائنسی ایجادات انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کررہی ہیں۔ سائنس
اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم فطرت کی دیدہ ونادیدہ قوتوں کواپنے تابع وفرمان کرسکتے ہیں اور اس
سے ہونے والے نقصانات وتباہیوں کی نہ صرف روک تھام اورتدارک کرسکتے ہیں بلکہ ان قوتوں کومفید
انداز میں استعمال بھی کرسکتے ہیں ۔ آج اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جدید ایجادات سے کنارہ
کش ہوکررہنا ناممکن ساہوگیا ہے۔
انہی وجوہات کی بناء پر سائنس انسان پر بہت گہرااثرمرتب کرتی ہے۔اوراس کی ظاہری
چکاچوند انسان کو متاثر کرتی ہے۔ یہ انسان پر اثرانداز ہونے واال خارجی سرچشمہ ہےجو بظاہر بہت
زیادہ تاثیر کا حامل ہے لیکن درحقیقت یہ بالکل عارضی و وقتی تاثیر کاحامل ہے۔ جب اس کی قلعی
کھل جائے تو اندر سے وہی زنگ آلود لوہا(مث ِل خاک) برآمد ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس ہماری
مکمل رہنمائی نہیں کرسکتی ۔یہ صرف ان مسائل کو حل کرسکتی ہے جو ہمارے سامنے مادی شکل
میں موجود ہوں اور ان میں بھی بہرکیف غلطی کا امکان موجود رہتاہے۔ لیکن اس کے برعکس مذہب کا
سرچشمہ داخلی ہے،جو انسان کے اندر سے وہ قوت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ نفس کے سفلی تقاضوں
کوضبط کر تے سیدھے سچے راستے (صراط مستقیم )پرقائم رہے ۔ مذہب کا عمل دخل زیادہ قوی ہے
اوریہ وہ پارس ہے جو کسی سے چھوجائے تو اس کوخود چمکتا ہوا سونابنادیتا ہے۔اگرچہ وہ کتنا ہی
زنگ آلوداورمٹی کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو وہ اندر تک اسے تبدیل کردیتا ہے یہ محض قلعی نہیں کہ پول
کھل جائے گا بلکہ اس کو جتنا بھٹی میں ڈاال جائے گا اس کی چمک دمک میں اضافہ ہی ہوتاجائے
گا۔اصالحِ احوال اورفرد کو تبدیل کرنے کے لیے مذہب ،دین ،عقیدہ ،اعتقاد سے بڑھ کر کوئی شے نہیں
ہے ۔
مذکورہ باال تمہید صرف جذباتی بیان یا دل کی تسلی نہیں بلکہ اس کے عقب میں باقاعدہ وہ
دالئل اوربراہین کارفرما ہیں جو اپنے وقت کے مشہور ومعروف فلسفی اورسائنس کی روح ،طریقہ کار
اورمشاہدہ سے واقف شخصیت ڈاکٹرفضل الرحمٰ ن انصاری علیہ الرحمہ نے بیان فرمائے ہیں۔ آپ علیہ
الرحمہ اپنے کتابچہ ) (Through Science and Philosophy to Religionمیں سائنس اورفلسفہ کونجات
دہندہ ماننے والے قاری کو ان ہی علوم کے اصولوں اورضابطوں کے تحت اس مقام پر جاکھڑاکرتے
ہیں جہاں اسے مذہب کے عالوہ کوئی اور رہنما اورنجات دہندہ نظرنہیں آتا۔یہ آپ علیہ الرحمہ کی ہی
شخصیت تھی جس نے مغرب کی برتری کے طلسم کوخاک آلود کردیا ۔بقول سیدنظرزیدی
یہ تیری عظمت کہ تونے توڑا طلسم مغرب کی برتری کا
وہ فلسفی تیرے خوشہ چیں ہیں وہ فلسفہ ہے غالم تیرا
فتاوی (کفر)یا احکام کے نفاذسے نہیں کرتے کیونکہ آپ اس حقیقت کو جانتے ہیں ٰ یہ کام آپ
کہ اگرلوگوں کو پس پردہ اورپیش آمدہ حقائق،اسباب ،وجوہات وعلل سے بے خبر رکھ کر کسی چیز
سے روکا جائے تو اس پر صبر کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :قَا َل
موسی) آپٰ ع ٰلی َما لَ ْم ت ُ ِح ْ
ط ِب ِه ُخب ًْرا۔" اس بندے نے کہا(ا ے ْف ت َ ْ
ص ِب ُر َ صب ًْرا َو َکی َ
ی َک لَ ْن ت َ ْست َِط ْی َع َم ِع َاِنَّ َ
میرےساتھ صبرکرن ے کی طاقت نہیں رکھتے اورآپ صبرکربھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی
آپ کو پوری طرح خبرنہیں "۔ یہاں اسی اہم فطری اورنفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ نیز جب
ہم کسی شخص کو کسی خاص امر سے منع کریں تو اس شخص میں المحالہ اس کام کے کرنے کا خیال
پیدا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں Reactive Psychologyکے تحت اس شخص کے اندر اس کام کو کرنے
کی خواہش ضرور پیداہوگی۔لہذا کسی حکم اورنہی کے بجائے آپ اپنے قاری کے داخل سے ایسی مؤثر
پکار پیداکرتے ہیں جس پر لبیک کہنے سے وہ شخص خود کونہیں روک سکتا۔اور وہ فطرت پر پائے
جانے والے واحد مذہب کا پیروکاربن جاتاہے۔آپ اس کتاب کے شروع میں انسان کے ذہن میں ابھرنے
والے سواالت تحریر فرماتے ہیں کہ:
میں کیا ہوں؟انسان کہاں سے آیا؟ انسانی زندگی کی فطرت کیا ہے؟ انسانی زندگی کا
مقصداورانجام کیا ہے؟پھر ان سواالت کے بعد آپ جہاں انسان رہتا ہے اس دنیا کے متعلق سواالت
اٹھاتے ہیں۔اور اس کے بعد پیداہونے والے سواالت کا تذکرہ کرتے ہیں جو آخر کار اس کے رب کے
انصاری تحریرفرماتے ہیں:
ؒ متعلق سواالت پر منتج ہوتے ہیں۔ان سواالت کے بعد ڈاکٹرفضل الرحمٰ ن
"مذکورہ باال تمام سواالت انسان ،دنیا اورخدا کے متعلق الٹی میٹ سواالت (بنیادی مسائل)
ہیں۔یہ سوالت اتنے اہم ہیں کہ المحالہ کبھی نہ کبھی ہر غوروفکر کرنے واالشخص ان
کاضرور سامنا کرتاہے۔یہ بنیادی سواالت انسانی زندگی میں پیش آمد دیگر مسائل کے مقابلہ
میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا دیگر فی الفور مسائل پر گہرااثرمرتب ہوتاہے۔ہر
1
صاحب علم شخص اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ان سے بچانہیں جاسکتا۔"
مندرجہ باال تمام سواالت کے جوابات جاننا ایک بشر کی بساط واوقات سے ماورا ہیں ۔خواہ وہ
ان جوابات کے لئے کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی اورسائنس کا استعمال کر ے۔ لیکن ایک ایسا
طریق ہے جو اس بشرکوجہالت کے اندھیروں سے نکال کر اس کی ذات کا عرفان نفس دیتے ہوئے
اسے اس کے رب سے مالدیتاہے۔ وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف رجوع ہے :بقول شاعر ختم نبوت جناب
سید سلمان گیالنی صاحب:
جس بشر کو تیرا واسطہ مل گیا اس بشر کو باآلخر خدا مل گیا
اک زمانہ تھا جب خلق گمراہ تھی تو اسے کیا مال راستہ مل گیا
کیا وساطت سے تیری یہ قرآں مال ،اک خزانہ ہمیں بے بہا مل گیا
ہم تو تھے بے خبر اپنی ہی ذات سے تجھ سے پوچھا تو اپنا پتہ مل گیا
آپ اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہدایت کے لیے لوگ عموما ً تین ذرائع کی جانب متوجہ ہوتے ؒ
ہیں۔
3۔مذہب 2۔فلسفہ 1۔سائنس
یہ ارشاد گرامی کسی عامی کا نہیں بلکہ اس صاحب عرفان شخص کا ہے جو اسرار قدرت
سے مکمل آگہی رکھتا ہے۔ عام واقعات ،کیفیات،حاالت جو ایک عام شخص کے لئے کوئی خاص اہمیت
کے حامل نہیں ہوتے وہی آپ کے سامنے اس کائنات کے اسرار رموز سے آشنائی اورنقاب کشائی
کاباعث ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے سامنے نیوٹن کی مثال ہے کہ اس سے قبل بھی زمین پر سیب
گرتے ہوئے کروڑوں اربوں افراد نے دیکھا ہوگا لیکن جس انداز و طور سے نیوٹن نے سیب گرنے
سے کشش ثقل Law of Gravityکا راز پایا ۔ اسی طرح آپ جیسی ہستیاں اور اولیاء کرام عام واقعات،
کیفیات اورنشیب و فراز حتی کہ صرف پانی کے ایک قطرے سے اس زندگی کے تمام اسرار و رموز
سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ بقول شاعر
یہ کبھی گوہر ،کبھی شبنم ،کبھی آنسو زندگی قطرے کی سکھالتی ہے اسرار حیات
اپنی تحریر آگے بڑھانے سے قبل یہاں پہلے سائنس اور فلسفہ کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہئےکہ
سائنس اورفلسفہ کیا ہیں؟
سائنس اور سائنسی مشاہدہ:
2
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 18
3
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16
کے ایک منجم نکولس کوپرنیکس نے یہ اعالن کیا کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے ۔
اس نظریہ کوحقیقت سمجھ کر سائنسدانوں اورفلسفیوں نے عالم اسالم پر طعن تشنیع شروع کردی کہ قرآن میں
ی فَلَکٍ یَّ ْس بَ ُح ْو ن 4یعنی ہر چیز آسمان میں تیر رہی ہے:اور اب جب کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سورج ہے:کُ ٌّل فِ ْ
تو ساکن ہے۔ لیکن ان کی یہ حسرت ہی رہی کہ قرآن کوغلط ثابت کریں اوران ہی کے ایک سائنسدان
سرفریڈرک ہرشل ولیم نے اٹھارویں صدی میں یہ اعالن کیا کہ سورج خال میں سفر کررہا ہے۔ جس سے یہ
نظریہ غلط ثابت ہوااور قرآن مجید کی حقانیت ثابت ہوگئی۔اگرکوئی کہے کہ یہ تو ایک شخص کا قیاس
تھااورخود قصہ پارینہ بن چکاتھاتوان کے لیے عرض یہ ہے کہ آئزک نیوٹن ( )Isaac Newtonکاایک مسلمہ
''کشش ثقل'' کا قانون( ( )Law Of Gravityکشش ثقل ہر جگہ کام کرتی ہے) کوالبرٹ آئن سٹائن (Albert
)Einsteinکے ( )General Relativityنے غلط ثابت کیا۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ آئن سٹائن نے تھیوری( )Relativity of Timeبیسویں صدی میں پیش کی کہ
اضافیت زمان 5ایک اضافی تصور ہے اور یہ ماحول کے مطابق تبدیل ہوسکتا ہے ۔ وقت کا انحصار کمیت
()Massاوراسراع()Velocityپہ ہےاورروشنی کی رفتار سےزیادہ کوئی چیز نہیں جاسکتی۔حاالنکہ قرآن مجید اس
سنَ ٍة ِم َّما تَعُدُّونَ '' 6بے بات کو ١٤٠٠سال قبل ہی پیش کرچکا ہے۔ قرآن مجید میں ہےَ :وإِنَّ یَ ْو ًما ِع ْن َد َربِكَ َكأ َ ْل ِ
ف َ
شک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہارے ہزار سال کے برابر ہے جوتم شمار کرتے ہو''یعنی اس دنیا
کے ہزار سال وہاں کےصرف ایک دن کےبرابر ہیں ۔اسی طرح سورۃ المعارج کی آیت 4میں ہےکہ فِي یَ ْو ٍم كَانَ
سنَ ٍة '' 7وہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا'' یعنی روز محشریہاں کے پچاس ہزار سال ف َ سینَ أ َ ْل َ ِم ْقد ُ
َارہُ َخ ْم ِ
کے برابر ہوگا۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مختلف مقامات اورمختلف احوال میں زمانے کے گزرنے کا
احساس مختلف ہوگا۔
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سابقہ قوانین ونظریات غلط تھے اور اس وقت سائنسدانوں سے
غلطی ہوئی تھی اورجب یہ ثابت ہوگیا کہ ان کانظریہ غلط تھاتوبعد میں ان نظریات میں ترمیم کردی گئی
۔اب اس بات کی کیاضمانت ہے کہ آج کے سائنسدان جن نظریات کے حامل ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔ ممکن
ہے آنے والے دنوں میں بہت سی سائنسی تھیوریز تبدیل ہوجائیں۔ جیسا کہ کلفورڈ اے پک اوور اپنی
کتاب میں لکھتاہے:
Nevertheless, even the great scientific laws are not immuteable, and laws may have to
be revised centuries later in the light of new information. 8
"تاہم حتی کہ عظیم سائنسی قوانین بھی غیرمتنازعہ نہیں ہیں۔اورشاید صدیوں بعد ان
ٰ
سورۃیس40: 4۔
5۔ اضافیت زمان کے ساتھ ساتھ "زمان ومکان کی بعض بدیہی حقیقتیں ہیں جن کا سمجھنا زندگی کی صحیح صورت گری کے
لئے از بس ضروری ہے وہ حسب ذیل ہے )1(:زمان ومکان کی طبعی حقیقت۔سائنس دان کو اسی حقیقت سے سروکار ہے۔()2
زمان ومکان کی معاشرتی ،ثقافتی حقیقتیں۔( )3زمان ومکان کی نفسی حقیقتیں۔( )4زمان ومکان کی روحانی ،مابعد الطبیعاتی
اورالہوتی حقیقتیں۔جہاں تک زمان ومکان کی معاشرتی وثقافتی حقیقتوں کا تعلق ہے دورجدید کی عمرانیات کی توجہ ان کی طرف
اب مبذول ہوئی ہے چنانچہ "عمرانیات عام" کے ماہرین زمان ومکان کو "عمرانی حقیقت) (Socail Realityکے نام سے یاد
کرتے ہیں۔لیکن دور جدید کا یہ انکشاف مسلم مفکرین کے لئے نیا نہیں ۔ ہمارے متکلمین ،فقہاء اورحکماء اس سے واقف تھے۔
اوروہی نہیں بلکہ عامی مسلمان بھی اس کا تصور رکھتاہے۔ اس لئے کہ اسالم کی تمام عبادات وقت کے صحیح تعین سے ادا کی
جاتی ہیں۔۔۔۔اب رہیں زمان ومکان کی نفسی حقیقتیں ،تو یہ بھی مسلمانوں کے لئے ایک عام بات ہے۔ اس کا ثبوت نماز کے اوقات
میں نمازی کے افعال واعمال اورحرکات وسکنات سے ہوتاہے۔ ۔۔۔اس حدتک ان کی گفتگو کی صحت سے ہمیں انکار نہیں۔ لیکن
معاشرتی قوتوں کا تجزیہ کیاجائے تو ان میں جومعنوی اورروحانی قوتیں پوشیدہ ہیں ،ان کو سمجھے بغیر اگرمعاشرتی قوتوں پر
اکتفاء کیاجائے گا تو انسان کو قرار واقعی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی "(صقالۃ القلوب،ص)19-17
6۔ سورۃالحج٤٧:
7۔ سورۃ المعارج آیت 4
8
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16
پرنئی معلومات کی روشنی میں از سرنوغورکرنا پڑے گا۔"
ایک اور مقام پرکلفورڈ اے پک اوور اپنی کتاب میں لی سمولین) (Lee Smolinکی کتاب Never
"( say alwaysابدی" کبھی نہ کہو)سے ایک اقتباس نقل کرتاہے :
The idea of eternally true laws of nature is a beautiful vision but is it really an escape
from philosophy and theology? For as philosopher have argued we can test the
predictions of a law of nature and see if they are verified or contradicted, but we can
never a law must always be true. So if we believe a law of nature is eternally true, we
are believing in something that logic and evidence cannot establish. 9
"فطرت کے ابدی قوانین کا نظریہ ایک خوبصورت خیال ہے ۔ لیکن یہ حقیقتا ً فلسفہ
اورمذہب سے فرارہے۔جیسا کہ فالسفر نے دالئل دیئے ہیں۔ہم قانون قدرت کی پیشین گوئی
کی آزمائش کرسکتے ہیں کہ وہ مصدقہ ہیں یا متضاد لیکن ہم کبھی نہیں ثابت کرسکتے
ایک قانون ضرور ہمیشہ صحیح ہوگا۔ اگرہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک قانون ہمیشہ کے
لئےصحیح ہے ہم ایسی چیز مان رہے ہیں جس کی منطق(دالئل) اورثبوت کبھی قائم نہیں
ہوسکتے۔"
مجھے کامل اور پختہ یقین ہے بلکہ میرا ایمان ہے کہ وہ تمام تھیوریز اورنظریات جو قرآنی حقائق
سے متصادم ہیں ضرور غلط ثابت ہوں گی ۔ کیونکہ اب تک کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ قرآن
مجید اوراحادیث مبارکہ میں پیش کردہ یہ حقائق مثالً واقعہ معراج،دیگرمعجزات نبوی ﷺ ،جنت ،دوزخ وغیرہ
ماوراء العقل ( )Beyond Reasonاورسائنس کے دائرہ کار سے باہرتوضرور ہیں لیکن فطرت سے متصادم
( )Conflictاورمتضاد ()Contradictنہیں ہیں۔ بقول برطانوی پروفیسر ڈاکٹر آرتھر جے الیسن ()Arthur Alison
تعالی) جب خود
ٰ ''اسالم سائنس اور عقل سے متصادم نہیں ہے''۔ایک وقت ایسا ضرور آئے گا(ان شاء ہللا
سائنسدان ان متصادم ومتضادامور کو غلط تسلیم کرلیں گے اورقرآن مجیدفرقان حمید کی حقانیت ثابت ہوجائے
گی ۔
سائنسی مشاہدہ کی حدود اوراس میں پائے جانے والے نقائص کی ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ
نے مندرجہ ذیل کئی ایک وجوہات بیان فرمائی ہیں مثالً:
''مشاہدہ کرنے والے کے احوال مختلف ،کیفیات مختلف ،قوتیں مختلف،سوچ و فکر مختلف
ہیں۔اسی طرح مشاہدہ کی جانے والی چیز جتنی ٹھوس،انسان کی گرفت میں ہوگی اتنا ہی
مشاہدہ قوی اور صحیح ہونے کا امکان ہے لیکن جتنا چیز حرکت کرنے والی ہوگی ،یا مشاہدہ
کرنے والے سے فاصلہ پرہوگی اوراس کی گرفت سے باہر ہوگی ،یا جتنی غیر مادی ہوگی
اتنا ہی مشاہدہ کمزور اوراٹکل پر مبنی ہوگا۔نیز یہ کہ شرائط وحدود وقیودمیں بھی بہت تنوع
10
اوراختالف ہے ۔''
فلسفہ:ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فلسفہ کو چار نظریات میں تقسیم کرتے ہیں:
Formal Rationalism
دعوی ہے کہ حقائق کے حصول اورسچائی کو جاننے کے لیے انسان ٰ اس نظریہ کے حامیان کا
کو عقل کے سوا کسی اورچیز کی احتیاج نہیں۔وہ عقل ہی کو بنیادی ذریعہ تسلیم کرتے ہیں۔دوسرے
لفظوں میں حق وصداقت کا ذریعہ حواس خمسہ نہیں بلکہ محض عقل ہے۔
Empiricism
اس تھیوری کے ماننے والے پہلے نظریہ کے برعکس مشاہدات اور تجربات کی اہمیت پر
زوردیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک علم ان سائنسی تجربات اورمشاہدات سے حاصل ہوتاہے جو ایک خاص
9
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 296
10۔ خالصہ )(Through Science and Philosophy to Religion, pg 6-8
ترتیب اورتجربات سے گزرکرحاصل ہو۔
Criticism
حق وصداقت کو ناپنے کامعیار حواس خمسہ کے ساتھ عقل اور استخراج کو بھی مانتے
ہیں۔لیکن حواس اور عقل کی حدبندی کی وجہ سے (محدودہونے کے سبب) یہ اس امرکوقبول کرتے
ہیں ہمارے حواس اورعقل مکمل طور پر ابدی حقائق ()Ultimate Realityکی معرفت نہیں دے سکتی
ہاں جزوی طورپر اس میں کامیابی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔
Empirical Rationalism
دعوی ہے عقل اورحواس دونوں ذرائع کو یکجاکردینے سے یعنی ٰ اس نظریہ کا حامیان کا
مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر عقل وخرد کا استعمال ہوناچاہئے۔
یہ وضاحت کرنے کے بعد آپ ان چاروں نظریات کی تحلیل کرتے ہوئے ان کا رد فرماتے ہیں۔
ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان چار میں سے دوسرااورتیسرا تو قطعا ً اس قابل ہی نہیں کہ
( )Ultimate Realityکے لیے انہیں قابل غورسمجھاجائے۔ دوسراچونکہ وہ کسی حد تک سائنسی انداز
سے ہی کام کرتاہے اس لیے سائنس کی نفی کردینے سے اس کی بھی خود بخود نفی کردی گئی۔تیسرے
سے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ یہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم ()Ultimate Realityکی
معرفت نہیں حاصل کرسکتے۔اس لیے کہ انسانی حواس اور عقل دونوں ہی محدود ہیں جس کا انہیں
اعتراف بھی ہے۔
کادعوی کرتے ہیں کہ ان
ٰ ت طرفین یعنی پہال اورآخری نظریہ ۔ جو اس امر اب رہ گئے نظریا ِ
دعوی ہے کہ
ٰ کے پاس تمام مسائل کا حل موجود ہے۔جیسا کہ Formal Rationalismکے حامیان کا
انسانی عقل بغیر کسی معاونت کے زندگی کے ابدی مسائل کا حل تالش کرسکتی ہے۔اس کی بابت یہاں
یہ کہہ دینا ہی کافی ہے Formal Rationalismکا تمام تر دارومدار منطق پر ہے۔ ان کا نکتہ آغاز میں
ایک مفروضہ کا انتخاب کیاجاتاہے اور اس کے بعد تمام خیاالت کی دنیا اسی منطق کے استعمال سے
تعمیرکی جاتی ہے۔
اسی طرح Formal Rationalismبھی ہمیں ابدی مسائل کی معرفت اورحل کے بارے میں یقینی
معلومات فراہم کرنے سےقطعی طورپر ناکافی اورنااہل ہے ۔کیونکہ اس کا نکتہ آغاز تو صرف ایک
مفروضہ ہے ۔ غیر یقینی مفروضہ ہمیشہ غیر یقینی نتائج پر ہی منتج ہوگا۔
جہاں تک Empirical Rationalismکا تعلق ہے اسے سائنس کے فلسفہ کا نام دیاجانا چاہئے۔ جو
حواس خمسہ کے ذریعہ سے ہونے والے مشاہدات اورتجربات کوعقل کی بھٹی میں ڈال کرکندن بنانے کا
دعوی کرتے ہیں۔ان کا نکتہ آغاز چونکہ سائنسی حقائق اورمشاہدات پر مبنی ہے اس لیے جب سائنس کی ٰ
نفی کردی گئی تو دوبارہ اس بحث کو طوالت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کا بھی خودکارطورپر اس
11
کے ذریعہ رد ہوجاتاہے۔
ابدی وبنیادی حقائق ()Ultimate Reality
مندرجہ باال تمہید کی روشنی میں اگرہم سائنس سے ابدی وبنیادی حقائق ()Ultimate Realityکی
معرفت اور مسائل کا حل دریافت کرنے کی بابت غورکریں تو ہمیں یہ امرعبث اوربے سود نظرآتاہے۔
کیونکہ یہ عمومی ذہانت رکھنے واال آدمی بھی جانتاہے کہ ان مسائل کا حل سائنس کے پاس توقطعا ً
نہیں ہے ۔لہذا سائنس سے ہر چیز کی حقانیت وحقیقت کا ادراک نہیں کیاجاسکتا۔اگرکوئی نادان یہ سمجھتا
ہے تویہ اس کی خام خیالی اورطفالنہ خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت سے اس کا دور تک کوئی واسطہ
نہیں ہے۔
وکٹر جے اسٹینجر) (Victor J. Stenger 1935-2014بھی سائنس کی اس کمزوری کوتسلیم کرتے ہوئے
12
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 24
13
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6
14۔ اسٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان جومغرب کی آنکھ کا تارا (جوڈوب کرفناہوگیا)تھااورخداکے وجود سے ہی منکر تھا۔جس
نے اپنے تئیں بڑی تحقیق (سرپھوڑنے ،پاؤں توڑنے اورروح چھوڑنے )کے بعد یہ زعم لے کر"میں نے خداکے ڈھونگ
کاپول کھول دیا" اُس دوسری دنیا سدھارگیا جس دنیا کاوہ منکر تھا۔حاالنکہ اگر وہ اپنی تمام تردانائی اپنی روح ہی کی ماہیت
،کیفیت،تخلیق،رہائش ،پرصرف کرلیتا تو شاید اسے بھی کچھ ہدایت مل جاتی ۔ویسے بھی ایسا ملحداپنا کفریہ قول کہتے
ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ جب وہ کہتا ہے ""God is no whereتو اس جملے میں بھی یہ تحریر ہے کہ "God is now
"here۔یا جب کوئی ملحد انتہائی مسرت سے کہتاہے کہ ""Thanks God I am atheistاس جملے میں وہ خود خداہی کا
شکراداکرہاہے جو کہ self contradictہے۔اوراسی جملے کو یوں بھی پڑھاجاسکتاہے "Thanks God I am a
theist".بہرحال یہ اپنی زندگیوں میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم جوبھی کریں ہمیں کوئی پوچھنے واال نہ اس جہاں میں ہے اور
نہ ہی آخرت میں۔مرکرہم مٹی ہوجائیں گے اوراس دنیا سے جداہوجائیں گے۔
زمانہ سوچ رہا ہے خداتو ہے ہی نہیں جوچاہے کیجئے کوئی سزاتو ہے ہی نہیں
(منظربھوپالی)
جہاں تک غوروفکر کرنے والوں اورسلیم الفطرت عقل و شعورکے حامل افراد کا تعلق ہے وہ تو معمولی سی باتوں
سے بھی معرفت حاصل کرلیتے ہیں کہ اگر کہیں زلزلے میں کوئی مسجد تباہ ہونے سے بچ جائے،کہیں آگ جلی اوروہاں
طاق پر سجایا ہواقرآن مجیداس سے محفوظ رہے،تیز ہوا (مغربی یلغار)کے چلنے کے باوجود کوئی دیا (اسالم کی
شمع)بجھنے سے محفوظ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ روشن ہوجائے تو اہل بصیرت کے لئے یہ خداکے وجود کاکھال
ثبوت ہے ۔
ہوا خالف چلی تو چراغ خوب جال خدابھی ہونے کے کیاکیاثبوت دیتاہے
دونوں کا الگ الگ حکم ہے۔دوسرا شخص زندہ ہے اسے مردہ گمان بھی نہ کرو لیکن یہ ظاہری آنکھوں
اور سائنسی آالت سے مشاہدہ کرنے واال کیسے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ ایک کا وجود توسالم ہے
لیکن وہ پھر بھی مردہ ہے اوردوسرے کا تووجود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہے لیکن وہ پھربھی زندہ ہے
اوراپنے رب کے یہاں سے رزق پاتاہے۔یہ اس قسم کی ابحاث میں پیچ درپیچ الجھتے رہیں گے اور کبھی
حقیقت نہ جان پائیں گے۔
ایک الجھن ہے آگہی کیاہے بھید کھلتے رہے اورالجھتے رہے
اور اگرسائنسدانوں سے انسانی وجود کے متعلق سواالت کیے جائیں اور کہا جائے کہ انسانی
وجودتو ہمارے سامنے مادی صورت میں موجود ہےاورہم مانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں سائنس
اورٹیکنالوجی اس وجود کو سمندر کی گہرائی ،ماونٹ ایورسٹ کی بلندی(چوٹی)،خالکی وسعت
اورچاند پر تولے گئی لیکن خدا تک نہ پہنچ سکی اورپہنچے گی بھی کیسے کہ وہ توآج تک اس وجود
کی پراسراریت اور روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت کو نہ سمجھ سکی۔حاالنکہ اس کے برعکس
نتہی سے
ہمارے آقائے نامدار سید الکونین ،نورمجسم ﷺ آج سے پندرہ صدیاں قبل لمحوں میں سدرۃ الم ٰ
گزرتے ہوئے رب کی بارگاہ تک پہنچ گئے تھے۔
تھی وہ رفتار کہ لمحوں میں خال تک پہنچے تم گئے چاند تلک ہم تو خدا تک پہنچے(منظربھوپالی)
اس ہی موضوع پر ایک اورشعربھی انتہائی موزوں ہے جس میں شاعرختم نبوت جناب سیدسلما
ن گیالنی صاحب نے بہت ہی بلیغ انداز سے معراج کی شب کا تذکرہ کیا ہے:
ہاں بجا فرش سے عرش کا فاصلہ ،حد ادراک انساں سے ہے ماورا
پر یہ معراج کی شب کا ہے معجزہ ،فرش سے عرش کا سلسلہ مل گیا
روح کے بارے میں سواالت
محض سائنس سے رہنمائی کی بات چھوڑیئے اگر اس سلسلے میں سائنس فلسفہ سے بھی تعاون
حاصل کرلے تو بھی یہ صرف ایک انسانی وجود اوراس کی روح سے متعلق اٹھنے والے سواالت کے
ق روح کے متعلق بحث کریں ۔مثالً: جوابات نہیں دے سکتے کجاء یہ کہ خال ِ
۲۔ روح اگر حقیقت ہے تو اس کا وجود کس سے بنا ہے؟ ١۔ روح کیاہے؟
۳۔ کیا روح قابل مشاہدہ ہے؟ ۴۔انسان کے جسم میں روح کہاں ہے؟
۵۔ مرجانے کے بعد بھی کیا روح ہوگی؟اور کہاں رہے گی؟
۶۔ روح جسم کے کس حصہ سے زیادہ قریب ہے اور کس حصے سے دور ہے؟
۷۔ کیا جسم کی طرح روح بھی ناپاک اورگندی ہوتی ہے اگر ہے تو اس کی پاکی کیسے حاصل
ہوگی؟
۸۔ جسم کے کسی حصہ کے کٹ جانے یاتلف ہوجانے کی صورت میں کیا روح میں بھی کچھ کمی واقع ہوتی
ہے یانہیں ؟
۹۔ کیاانسان کے وجود کی تخلیق سے قبل روح تھی؟تھی تو کہاں ؟
١٠۔ اور کیا سائنس اورفلسفہ اس کے متعلق ہمیں حقیقت سے آشکار کرسکتے ہیں؟
یہ اوراس نوعیت کے دیگر سواالت جب سائنس اورفلسفہ کے سامنے پیش کیے جائیں تو یہ یہ دونوں
اس نوعیت کے جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اس وقت ہمارے اذہان میں یہ شعرگونجتاہوا محسوس
ہوگا:
(اثر) میں کیا ہوں کون ہوں کدھرہوں معلوم ہوئی نہ کچھ حقیقت
اگر انسان اپنی تخلیق اور اپنی ذات پر کماحقہ سائنس اورفلسفہ کی مدد سے واقفیت و آگاہی
حاصل نہیں کرسکتا ہے اور اپنے جسم سے نکلتی ہوئی روح کو روک نہیں سکتا ،15نہ ہی اسے واپس
لوٹاسکتا ہے یعنی کہ اپنی زندگی کی تاریک ہوتی ہوئی شب کو سحر میں تبدیل نہیں کرسکتا تو کس
طرح جنوں ،فرشتوں،عالم برزخ ،جنت دوزخ ،اورانبیاء و رسل اورسب سے بڑھ کر رب کائنات جو اس
کے بدن اورروح کا خالق ہے اس کے وجود کو سمجھ سکتا ہے۔اس پرہر عق ِل سلیم رکھنے واال صرف
اقبال
حیرت وافسوس سے یہی کہہ سکتاہے!بقول ؒ
ڈھونڈنے واالستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھاایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتار کیا
روح کی وضاحت قرآن سے:
روح کے متعلق جاننے کے لیے اگرہم مذہب (اسالم) کی طرف رجوع کریں تو وہ اس کی
ت نافذہ ہے "امر ربی" یعنی خدا کا حکم ہے۔ حکم ایک قو ِ ِ حقیقت سے کچھ یوں پردہ اٹھاتا ہے کہ یہ
جس کا نہ جسم ہے ،نہ لمبائی ،نہ چوڑائی ،نہ اونچائی ہے اورنہ ہی کوئی شکل وصورت ۔قرآن مجید
ح ِم ْن أ َ ْم ِر َربِي( 16آپ فرمادیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے۔)اس میں ہے :قُ ِل ُّ
الرو ُ
آیہ مبارکہ کی وضاحت میں امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"روح ہللا کے جملہ کاموں میں سے ایک کام ہے اور عالم امر سے ہے۔" نیز فرماتے ہیں:
17
"ہللا ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اورحاکم ہونا۔"
اس آیہ مبارکہ کے ضمن میں ڈاکٹرحامد حسن بلگرامی اس کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں :
حکم ٰالہی سے متعلق رکھو ،روح کی ماہیت،اسرار تم پر خود ِ ’’اپنی روح کواس
تمہاری استعداد اورعمل کے مطابق کھلتے جائیں گے۔یہ بتانے کی چیز نہیں پانے کی
چیز ہے امر سے آمر کی شان کا پتہ چلتاہے۔آمر کی شان یہ ہے کہ جہاں چاہتا ہے اپنا
امر ظاہر کرتاہے ،وحی سے جس قدرباقی رکھنا چاہتاہے اس کا خود محافظ بن جاتاہے
جو حکم وقتی ضرورت کے لیے خاص ہو اسے نسخ بھی کردیتاہے اورمحو بھی
18
کردیتاہے۔‘‘
ظاہری دنیامیں اس کی ایک مثال یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی کرنسی کے 1000
روپے کے نوٹ میں جو قوت خرید ہے وہ حکومت پاکستان کےحکم سے ہے۔حکومت کو یہ حق حاصل
ہے کہ جب چاہے وہ اسے منسوخ کردے۔ 19اوراگر آج یہ حکم واپس لے لیا جائے تو وہ نوٹ آپ کے
ہاتھ میں ہونے کے باوجود بے وقعت اورمحض ردی کا ایک ٹکڑاہوگا اور اس کی قطعا ً کوئی
قیمت ) (Market Valueنہ ہوگی۔
یہی حال انسان کی روح کے بارے میں جسم اگر صحیح سالم ہی کیوں نہ ہو لیکن حکمنامہ واپس
15۔ سائنس وٹیکنالوجی نے ہمارے جسم پر توکسی حد تک تصرف حاصل کرلیا ہے لیکن روح نہ کبھی اس کے تصرف میں
آئی ہے اورنہ آئے گی۔دراصل سائنس علمی ترکیب سے کسی حد تک ظاہری شکل وہیئت میں مادہ کا قالب تو بناسکتی ہے
لیکن زندگی قائم رکھنے والی چیز بنانے سے قاصر ہے۔اسی طرح اس روح کونکلنے سے روکنے میں بھی بے بس ہے۔ بس
وہ اتنا ہی کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ زندگی عناصرمیں ترتیب کا نام ہے جب یہ نظم ٹوٹ جائے یہ ترتیب بکھرجائے تو یہ
انسان کا اختتام ہے۔بقول چکبت برج نارائن
موت کیاہے انہی اجزا کاپریشاں ہونا زندگی کیا ہے عناصرمیں ظہورترتیب
16۔ االسراء85:
17۔ نسخۂ کیمیاء اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ،امام غزالی صفحہ 17
18۔ فیوض القرآن ،ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی
19۔ ماضی میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعدحکومت پاکستان نے اس وقت کی تمام کرنسی کو منسوخ
کردیاتھا۔ جس کے بعد وہ نوٹ ردی کے ٹکڑے کی حیثیت رکھتے تھے۔
20
لے لیاگیا تو پھر یہ بے جان الشہ میں تبدیل ہوجائے گا۔
نیز اس روح کا جسم سے نکلنے کے بعد اپنے تعلق والوں (اہل قرابت ،متعلقین) سے تعلق
رہتاہے۔وہ ان کے بارے میں فکرمند بھی ہوتی ہے۔
قِ ْی َل ا ْد ُخ ِل ا ْل َجنَّةَ ط َقا َل یلَیْتَ َق ْو ِم ْي یَ ْعلَ ُم ْونَ ۔ ِب َما َ
غفَ َر ِل ْي َر ِب ْي َو َج َعلَنِ ْي ِمنَ ا ْل ُمک َْر ِم ْینَ ۔
حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا،بوال کاش میری قوم کومعلوم ہوجاتا(کہ مجھے ایمان کا
کیاحسین صلہ مال) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیااورمجھے عزت دی والوں میں شامل
فرمایا(مومن زندگی میں بھی لوگوں کا خیرخواہ ہوتاہے اپنے رب پاس پہنچ کر اس کی
21
خیرخواہی اوربڑھ جاتی ہے۔)
جیسا کہ مذکورہ باال آیت مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ مرنے کے بعد بھی
انسان(نیکوکارمومن) اپنے متعلقین کی نجات اورہدایت کامتمنی ہوتاہے۔
(تم لوگوں کو اس تمام کے بعد بھی قرآن نے یہ وضاحت کی ہےَ :و َما أُوتِیت ُ ْم ِمنَ ا ْل ِع ْل ِم ِإال ق ِلیًل
َّ َ ً 22
توبہت تھوڑا سا علم دیاگیاہے) یعنی روح کے متعلق تمہیں انتہائی کم علم دیاگیا۔
سائنس کی علمی بے وقعتی
سائنس کی کم فہمی ،کم علمی اورکم مائیگی بلکہ درماندگی کی حالت تو یہ ہو اور اس کے
باوجود دعوے ایسے بلند وبانگ اورخالف حقیقت جیسا کہ بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ''سائنس نے
ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا سب سے زیادہ الم ناک اور بدترین ڈھونگ تھا''۔(یااسفا)
ان حقائق کا ادراک اور ان کے متعلق علم ہمیں صرف وحی ربانی ،کالم ٰالہی اورکالم نبوی ﷺ
سے حاصل ہوسکتا ہے ،وحی ہی معلم عقل ہے اورعقل کو وحی کے تابع ہی رہناچاہئے کیونکہ وحی
کے ذریعے جو علوم ہمیں حاصل ہوتے ہیں ان کا آغاز ہی ان علوم(فلسفہ وسائنس) کی انتہائی بےبسی
،بے کسی ،درماندگی اورعجز سے ہوتا ہے۔نیزیہ بھی ذہن سے محونہ ہونا چاہئے کہ ابوالحکم سے
ابوجہل کاسفر صرف اسی عقل کو وحی پر غالب کرنے کا نتیجہ ہے۔(ابوجہل کی کنیت پہلے ابوالحکم
تھی لیکن وحی کے انکار کی وجہ سے اس کی کنیت ابوجہل مشہور ہوگئی)۔عقل انسان کو نفس پرستی
کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ بذات خود انسان کی خودی (نفس) کی قید سے باہر نہیں نکل سکتی۔ ایسی
شاعر تصوف جناب خواجہ میر درد صاحب ِ بے شعور عقل انسان کو خدا تک کیسے لے جاسکتی ہے؟
عقل کی اس درماندگی کو کیا ہی بہترین پیرائے میں بیان فرماتے ہیں:
باہر نہ آسکی تو قید خودی سے اپنی اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا
اسًلم اورسائنسی علوم:
یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ اسالم دیگر مذاہب کی طرح نہ سائنس سے نفوررکھتا
ہے اورنہ ہی بیزاری بلکہ یہ صرف اسالم ہے جودعوت غور و فکر دیتا ہے۔اگرچہ قرآن سائنس کی
کتاب نہیں لیکن یہ انسان سے اندھے ایمان ()Blind Faithکا متقاضی نہیں بلکہ جن عقائد کوماننے کی
دعوت دیتاہے اس کے لیے وہ مظاہر فطرت ()Natural Phenomenonکی نشانیوں کوبطور دلیل پیش
کرتاہے۔قرآن درحقیقت رہنمائی،حکمت اور انقالب کی کتاب ہے تاہم یہ تفکر،تدبر،تعقل کی دعوت دیتا
ہے اوراس میں ۷٥٦آیات ایسی ہیں جن میں سائنسی تعبیرات موجودہیں اوروہ انسان کوبراہ راست
20۔ روح جب جسم سے کنارہ کش ہوتی ہے تو جسم کے ذرات گل سڑکر منتشر ہوجاتے ہیں لیکن جسم سے باہر نکلنے
کے عین مابعد روح میں کثافت باقی رہتی ہے اس لئے اس کا اول مقام اعراف کہالتا ہے ۔ جہاں قدرت کی طرف سے
اعلی
ٰ کثافتوں کودورکرنے کا موقعہ دیاجاتاہے اورجوارواح ان کثافتوں سے پاک صاف ہوکرجاتی ہیں وہ براہ راست مقام
پر پہنچ جاتی ہیں۔(اعجوبہ اسرار)87:
21۔ سورہ ٰیس،26،27:ترجمہ فیوض القرآن،ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی
22۔ االسراء85:
مشاہدہ ،غوروخوض،تعقل وتدبر اورتالش کی دعوت دیتی ہیں اور ادراک اورتجربات سے حاصل ہونے
والے علم کی تصدیق کرتی ہیں ۔
نصاری
ؒ اسالم میں علم کے حصول کے لیے جتنی تاکید پائی جاتی ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ ڈاکٹر ا
نہ صرف مسلمانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دیتے ہوئے نظرآتے ہیں بلکہ خود بھی سائنسی علوم میں
مہارت رکھتے تھے اور اکثر اپنی تقریر و تحریر میں سائنسی مثالیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ڈاکٹرانصاری
علیہ الرحمہ کے الفاظ مالحظہ ہوں:
"قرآن حکیم نے یہ تعلیم پیش کی کہ "ایمان"اور"عقل" اساسی اور اصولی طور پر
ہرگزہرگز متصادم نہیں ہیں بلکہ دونوں میں خوشگوار توافق قائم کرنا ہی انسانیت کی
کامیابی کا ضامن ہوسکتاہے۔اس طرح "ایمان" اور"علم" جن کی اساس وجدانی شعور
اورعقلی شعورہے،دونوں واجب االحترام ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے کے رفیق
بن کر انسانی عظمت اورسربلندی کی بنیاد ہے۔جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا :یَ ْرفَ ِع ه
ّٰللاُ الَّ ِذ ْینَ
ت (المجادلۃ )11:یعنی رفع درجات تم میں سے ان کے ک ْم ال َوالَّ ِذ ْینَ ا ُ ْوتُوا ا ْل ِع ْل َم د ََرج ٍ
ا َمنُ ْوا ِم ْن ُ
لئے ہے جو ایمان اور علم دونوں کے حامل اوردونوں کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔یہی
نہیں بلکہ قرآن حکیم نے ابتداء آفرینش ہی میں انسان کی فضیلت کو علم سے وابستہ کردیا۔
تعالی کی جانب سے علم کی عطا اور پھر اس بنیاد پر ٰ ابو البشر سیدنا آدم علیہ السالم کو ہللا
فرشتوں کو حکم کہ وہ آدم علیہ السالم کی فضیلت کا اعتراف کریں۔ اس پر دلیل قاطع
23
ہے۔"
ایک اور جگہ ڈاکٹر انصاری Marmaduke Picktallکا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"بالشک وشبہ قرآن ہمیں علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے بالخصوص طبعی
24
سائنس کے میدان میں ۔"
"قرآن کریم میں ہمیں تمام علوم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،صرف ایک مخصوص علم
نہیں۔ اسالم می ں ہر علم مقدس ہے اور اسے ہر مسلمان کو حاصل کرنا چاہئے۔ اسالم تمام علوم کی
اعلی ترین قسموں میں ٰ وتعالی کی عبادت کی
ٰ حمایت کرتا ہے اور طبیعاتی علوم کی تحصیل ہللا سبحانہ
سے ایک ہے"۔
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں یہ اسالم نہیں جس نے حقیقت کی جستجو کرنے اوراسے بیان
کرنے والوں کو زہرکاپیالہ دیا،قتل کیا،زندہ جالیایا انہیں صلیب پر لٹکایا ۔ بلکہ اس کا کریڈٹ (سہرا)
دیگرغیرمسلم قوموں بالخصوص عیسائی حکومتوں کو حاصل ہے۔جوسب سے زیادہ اسالم کو مورد
الزام ٹھہراتے ہیں اور تاریخی حقائق کو مسخ کررہے ہیں۔اسالم کی تاریخ اس حوالے سے بہت درخشاں
25
اورتابندہ ہیں۔
کا تصادم دراصل"حقائق غیرمعلومہ" کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔ اسی تصادم کے نتیجے میں
سقراط کو زہرکاپیالہ پیناپڑا۔اسی تصادم کے نتیجے میں مسیحی کلیسا نے علم اوراہل علم پر بے پناہ
ت حال کو یکسربدل دیا۔"صقالۃ مظالم ڈھائے لیکن جب اسالم کا انقالبی پیغام آیا تو اس نے صور ِ
القلوب،احترام علم وحکمت،ص60
26
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32
27
Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32
گاتو وہ خودہی مسلمان ہوجائے گا۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مثالًمشہور فرانسیسی سرجن ڈاکٹر
موریس بکائیل( )Dr. Maurice Bucaille 1920-98ماہرامراض معدہ وآنت ( )Gastroenterologyنے جب قرآن کریم
کے اصل متن کو عربی زبان میں پڑھا اور اس میں بہت سے ایسے سائنسی حقائق جسے سائنس اپنا کارنامہ
شمارکرتی ہے ١٤٠٠سال پہلے کی نازل کردہ کتاب میں دیکھے تو وہ اپنی کتاب The Bible The Quran and
Scienceمیں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ قرآن میں جو مظاہر فطرت کے بارے میں آیات نازل ہوئی ہیں ان
کی بہترین تفسیر آج کی جدید سائنس ہی کرسکتی ہے اور یہ کہ بائبل میں توتحریف کے باعث بہت سارے
تضادات اورجدید سائنس سے تصادم پایاجاتا ہے لیکن قرآن میں ایسانہیں ہے۔کیونکہ اس کے نازل کرنے
تعالی) نے ہر قسم کی تحریف سے حفاظت کی ذمہ داری اپنے دست قدرت میں رکھی ہے '' اِنَّا ٰ والے (ہللا
ظ ْونَ '' ہم نے اس ذکر(قرآن)کو نازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے 28 نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِذک َْر َواِنَّا لَه ،لَح ِف ُ
والے ہیں۔ لہذا وہ نہ صرف اس کی حقانیت کے خود قائل ہوگئے بلکہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینے
والے بن گئے ۔
اسی طرح برطانوی پروفیسر ڈاکٹرآرتھرجے الیسن ( )Arthur Alisonنے جب یہ دریافت کیا کہ
نیند میں انسان کی روح نکال لی جاتی ہے اورنیند بھی موت کی طرح ہے لیکن نیند کے بعد روح لوٹادی
ّللَاُ یَت ََوفَّی
جاتی ہے مگرموت کے بعد ایسانہیں ہوگا۔توجب ان پر قرآن مجید کی یہ آیت پیش کی گئی َ :ہ
س ًّمی علَ ْی َھا ْال َم ْوتَ َوی ُْر ِس ُل ْاالُ ْخ ٰری ا ِٰلی ا َ َج ٍل ُّم َ
ضی َ ک الَّتِ ْی قَ ٰ َام َہا فَی ُْم ِس ُ
ت فِ ْی َمن ِ س ِحیْنَ َم ْوتِ َھا َوالَّتِ ْی لَ ْم ت َ ُم ْ ْاالَ ْنفُ َ
تعالی قبض کرتا ہے جانوں (روحوں ) کوموت کے وقت اور جن کی موت کا وقت ابھی نہیں ٰ ۔'' 29ہللا
آیاحالت نیند میں پھر روک لیتا ہے ان روحوں کو جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے اورواپس بھیج دیتا ہے
دوسری روحوں کو(جن کی موت مقدرنہیں فرمائی)مقررہ میعاد تک۔''جب انہیں بتایاگیا کہ یہاں روح
نکالنے سے نیند اورموت دونوں مراد ہیں تو انہوں نے بھی اسالم قبول کرلیا۔اسالم النے کے بعد ان کا
نام عبدہللا رکھا گیا۔
تھائی لینڈ کے پروفیسر تجاتن اوران کے شاگردوں کے اسالم النے کاسبب بھی قرآن کریم کی ایک
آیت ہے:جب انہو ں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ محسوس کرناجلد کاکام ہے اگر جلد مکمل طور پر جل جائے
اوراس کی بافتیں مرجائیں توانسان درد محسوس نہیں کرے گا۔لیکن جب ان کے سامنے قرآن کریم کی آیت
اب ۔''30جب کبھی پک جائیں گی ان کی غی َْرھَا ِلیَذُ ْوقُوا ْال َعذَ َت ُجلُ ْودُ ُھ ْم َبد َّْل ٰن ُہ ْم ُجلُ ْودًا َ َض َج ْ پیش کی گئی ُکلَّ َما ن ِ
کھالیں توہم انہیں بدل کردوسری کھالیں دے دیں گے کہ وہ (مسلسل) چکھتے رہیں عذاب''تو انہوں نے اسالم
قبول کیا۔اسی طرح نامور فرانسیسی ماہر بحریات مسٹرجیکوئس وس کاؤ سے ( Jacques Yves
)Cousteau,1910-97جنہوں نے زیر سمندر بہت وقت گزارا ان کے مشاہدہ میں آیا کہ سمندر میں بعض مقامات
پر میٹھے پانی کے چشمے ہیں اوران چشموں کا پانی کھارے پانی میں حل نہیں ہوتاجب کہ ان کے درمیان
کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی اس کے باجود الگ رہتا ہے۔تو ان پر جب یہ قرآنی آیت پیش کی گئیَ :و ُھ َو الَّذ ْ
ِی
جْرا َّمحْ ُج ْو ًرا '' 31اور وہی ہے جس نے ع ْذب فُ َرات َّو ٰھذَا ِم ْلح ا ُ َجاج َو َج َع َل َب ْی َن ُھ َما َب ْرزَ ًخا َّو ِح ً حْری ِْن ٰھذَا ََم َر َج ْال َب َ
تعالی
ٰ مالدیاہے دوسمندروں کو کہ (ایک) بہت شیریں ہے جب کہ(دوسرا)سخت کھاری اورتلخ اوربنادی( ہللا
نے اپنی قدرت سے) ان کے درمیان آڑ اورمضبوط رکاوٹ۔'' توانہوں نے بھی اسالم قبول کرلیا۔یہ ہیں وہ حقیقی
اورتاریخی مثالیں جو ہماری آنکھوں دیکھی ہیں کہ جب ان غیر مسلم سائنسدانوں نے صدق دل سے قرآن اور
اسالم کا مطالعہ کیاتووہ خودبھی مسلمان ہوگئے اوردوسروں کو دعوت دینے والے بن گئے بقول اقبال''پاسباں