You are on page 1of 3

‫ت ک یه وا ال گ ون دن ی‬

‫غالم عباس ‪rwtirw‬‬

‫مصنف ابھی بچه هی تھا که اس کے والد فوت هوگۓ۔ پندره برس کی عمر میں والده بھی انتقال‬
‫کرگئیں۔ مصنف کا کوئ اور بھائ اور بھن بھی نھیں تھی۔ دنیا میں وه بالکل یکه و تنھا هوجانے‬
‫کے احساس نے اسے سخت دل برداشته کردیا اور اس نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا۔ کچھ تو اسے‬
‫سیاحت کا شوق تھا اور پھر پیٹ پالنے کے لیے روٹی کمانا بھی ضروری تھا۔ چنانچه وه بھت سے‬
‫ملکوں کی خاک چھانتا پھرتا رها۔ آخرکار‪ ،‬اس نے سمندر پار ایک ملک میں رهائش اختیار کرلی۔‬
‫اور چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا۔ شادی بھی اس نے وهیں کی ایک عورت سے کر لی۔جس‬
‫سے اس کے بچے بھی هوگۓ۔ کاروباری مصروفیات میں وه اسقدر پھنسا که اس ملک سے اس کا‬
‫نکلنا مشکل هوگیا۔ کچھ عرصے بعد اسے چند اهم کاروباری امور کےلیے اپنے وطن جانے کی‬
‫ضرورت پیش آئ۔ پھر وهاں اسے اپنی آبائ جائیداد کا بھی مسئله حل کرنے تھا۔ چنانچه وه وطن‬
‫جانے کے لیے ریل کے طویل سفر کے بعد وه اپنے قصبے کے چھوٹے سے اسٹیشن پر اترا۔ اس‬
‫نے بڑی مدت کے بعد اپنے آبائ وطن سرزمین پر قدم رکھے تھے۔ شدید سردی‪ ،‬سفر کی تھکاوٹ‬
‫اور بے آرامی کے باعث اس کے دل میں مسرت و شادمانی کی وه کیفیت پیدا نه هوسکی‪ ،‬جو اتنی‬
‫مدت کے بعد وطن کی سرزمین پر قدم رکھتے هوۓ اسے محسوس هونی چاهۓ تھی۔ اس کے دل‬
‫میں وطن کی محبت کے وه جذبات بھی پیدا نه هوسکے‪ ،‬جو مدت بعد وطن واپس آنے والوں کے‬
‫دلوں میں یقینی طور پر پیدا هوجایا کرتے هیں۔ وه اپنے آپ کو وهاں اجنبی محسوس کررها تھا۔‬
‫اسٹیشن سے اس نے هوٹل میں جانے کے لیے تانگه کراۓ پر لیا۔ جس میں ٹھھرنے کے لیے‬
‫اسکے وکیل نے اسے کھه رکھا تھا۔ اسٹیشن سے باهر نکلتے هی مصنف نے محسوس کیا که‬
‫قصبه پھلے سے بھت زیاده پھیل گیا هے۔جو عالقے اسکے بچپن کے زمانے میں اجاڑ و بنجر‬
‫پڑے تھے‪ ،‬وهاں اب چھوٹے چھوٹے بازار بن گۓ تھے۔جن میں خاصی چھل پھل نظر آرهی تھی۔‬
‫تمام عمارتیں پخته اینٹوں کی بنی هوئیں تھیں۔ اگرچه کھیں کھیں اکا دکا کچے گھر بھی نظر آرهے‬
‫تھے۔ اپنے قصبے کی اس ترقی کو دیکھ کر مصنف کے دل میں خوشی کا احساس هونے کے‬
‫بجاۓ بیگانگی کا احساس بڑه رها تھا۔ اسے کسی چیز سے بھی اپنا تعلق نظر نھیں آرها تھا۔ اسے‬
‫اسٹیشن کے عالوه کوئ ایسی جانی پھچانی شے نظر نه آئ‪ ،‬جو اس کی پرانی یادوں کو تازه کرنے‬
‫میں معاون ثابت هوتی۔ تھوڑی دیر بعد هوٹل آگیا‪ ،‬هوٹل میں اسے خاصا کھال اور صاف ستھرا کمره‬
‫دیا گیا۔ مصنف نے هاتھ منه دهویا‪ ،‬کچھ کھا پی کر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گیا اور کچھ هی‬
‫دیر بعد وه نیند کی آغوش میں چال گیا۔ دو گھنٹے بعد سوکر اٹھا تو اسکی طبعیت کسی قدر بحال‬
‫هوچکی تھی۔ سفر کی تھکان بھی قدرے کم هوچکی تھی۔ وه لباس تبدیل کرکے قصبے میں‬
‫گھومنے کے لیے نکل کھڑا هوا۔ اسکے قدم خود بخود اس عالقے کی طرف اٹھ رهے تھے‪ ،‬جھاں‬
‫اس نے بچپن گزارا تھا۔ کچھ هی دیر بعد وه اس حویلی کے سامنے کھڑا تھا‪ ،‬جسے اس کے‬
‫بزرگوں نے تعمیر کیا تھا۔ حویلی کی عمارت مخدوش حالت میں تھی۔ یوں معلوم هوتا تھا‪ ،‬که اس‬
‫کی دیکھ بھال بالکل نھیں کی گئ تھی۔‬
‫حویلی کے سامنے چھوٹے چھوٹے چار پانچ بچے میلے کچیلے لباس پھنے گولیوں سے کھیل‬
‫رهے تھے۔ ان میں سے ایک بچے نے جس کی صورت سے معصومیت ٹپک رهی تھی‪ ،‬نه جانے‬
‫کس جذبه کے تحت مصنف کو دیکھ کر مسکرانا شروع کردیا۔ بچے کو معصوم سی هنسی هنستے‬
‫دیکھ کر اس کا اپنا بچپن اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ اسے اپنے وطن سے اب تک جس‬
‫حد تک بیگانگی کا احساس هورها تھا‪ ،‬وه یک لخت ختم هوگیا‪ ،‬چھوٹے سے بچے کی معصوم سی‬
‫هنسی نے مصنف کے دل میں اپنے وطن‪ ،‬قصبے اور محلے سے محبت و انس کے بےپناه جذبے‬
‫کو بیدار کردیا۔ اس کا دل چاها‪ ،‬که وه باربار اپنے محلے میں گھومے پھرے اور اپنے بچپن کی‬
‫معصوم یادوں کو تازه کرے‪ ،‬شدت جذبات سے اس کا دل بھر آیا‪ ،‬لیکن جلد هی اس نے اپنے اوپر‬
‫قابو پالیا۔ مصنف کے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پرانا سا تکیه هوا کرتا تھا‪ ،‬جس میں گوندنی‬
‫کے آٹھ دس پیڑ تھے‪ ،‬اسی لۓ اسے گوندنی واال تکیه کھا جاتا تھا۔ بچے ان درختوں کی چھاؤں‬
‫میں کھیال کرتے تھے اور گوندنیان توڑ توڑ کر کھاتے تھے‪ ،‬تکیے کا سائیں بھت نیک دل آدمی‬
‫تھا‪ ،‬وه بچوں کو گوندنیاں توڑنے سے منع نھیں کرتا تھا۔ لیکن اگر کوئ بچه درخت کی شاخ توڑ‬
‫دیتا‪ ،‬تو وه ناراض هوجاتا تھا۔ کئ دوکانداروں نے اسے ان پیڑوں کا ٹھیکه لینے کیلیے سائیں کو‬
‫معقول رقم کی پیشکش بھی کی‪ ،‬لیکن وه یه کھه کر که یه محلے کے بچوں کا مال هے‪ ،‬اس پیش‬
‫کش کو ٹھکرا دیتا تھا‪ ،‬بچپن کی اپنی یادوں میں گم مصنف نے اس تکیے کا رخ کیا۔ هر طرف پخته‬
‫اینٹوں کے گھر بنے تھے‪ ،‬لیکن تکیه کھیں بھی نظر نھیں آرها تھا‪ ،‬اچانک اس کا دل دهک سے‬
‫ره گیا۔ اس تکیے کی جگه اسے ایک چار دیواری نظر آئ‪ ،‬جس کے دروازے سے ایک نو دس‬
‫سال کا بچه باهر آرها تھا۔ اس نے اس بچے سے اس تکیے کے بارے میں پوچھا‪ ،‬تو اس نے‬
‫العلمی کا اظھار کیا۔ اتنے میں وهاں سے ایک بزرگ سے شخص کا گزر هوا۔ مصنف نے ان سے‬
‫گوندنی والے تکیے کے بارے میں دریافت کیا‪ ،‬تو انھوں نے بتایا که پندره سوله سال پھلے اس‬
‫تکے کے متولی کے انتقال کے بعد اس تکیے کو ختم کردیا گیا تھا۔ کیونکه بعد میں جو لوگ تکیے‬
‫پر قابض هوۓ وه کچھ اچھے کردار کے نھیں تھے۔ وهاں پر چرس و بھنگ پی جانے لگی تھی۔‬
‫تکیه بھی اچھی خاصی اوباشی کا اڈه بن گیا تھا۔ چنانچه قصبے کے لوگوں نے آپس میں مشوره‬
‫کرکے اس تکیے کو ختم کرکے وهاں ایک اسکول قائم کردیا۔ تکیے کے بارے میں یه حال سن‬
‫کرمصنف کے دل کو سخت رنج پھنچا۔ وه واپس اپنے هوٹل لوٹ آیا۔ تکیے کے ختم هوجانے کا‬
‫اسکو بےحد رنج تھا۔ وهاں اسکا نال گڑا هوا تھا۔ اس نےسوچا که قصبے والوں کو جن حاالت میں‬
‫تکیه ختم کرنے پڑا ممکن هے که اپنے اس فیصلے میں وه حق بجانب هوں۔ مگر حقیقیت سے بھی‬
‫انکار کرنا مشکل هے که وه تکیه غریب لوگوں کا غمگسار اور پورے قصبے کی تفریح گاه تھا۔‬
‫جس سے اب وه محروم کردیۓ گۓ تھے۔ اس نے سوچا که تکیے میں صبح هللا هللا کا ورد هوا‬
‫کرتا تھا۔ قوالی کی محفلیں جما کرتی تھیں‪ ،‬پنجابی کے مشاعرے برپا هوا کرتے تھے‪ ،‬گوندنی کی‬
‫شاخوں پر بیٹھے هوۓ تیتر سبحان تیری قدرت کھه کر چھکا کرتے تھے‪ ،‬کسی درخت کے نیچے‬
‫کوئ ستار لے کر سیکھنے کی مشق کررها هوتا‪ ،‬تو کھیں لوگ بیٹھے چوپڑ کھیل رهے هوتے‪،‬‬
‫کھیں کوئ هیر پڑه رها هوتا‪ ،‬چھوٹے چھوٹے بچے گولیوں سے کھیل رهے هوتے۔‬
‫یه ۔ ۔ ۔ ۔ یه سب رونقیں اس تکیے کے دم سے آباد تھیں‪ ،‬اور سب سے بڑه کر یه که اس تکیے کی‬
‫جان اونچے اور لمبے قد واال نگینه سائیں جو اپنے گلے میں رنگ برنگے منکوں کی ماال ڈالے‬
‫رکھتا‪ ،‬گرمی هو یا سردی‪ ،‬اس کے جسم پر ایک لباس هوتا کالے رنگ کا لباس‪ ،‬کبھی وه دیوانوں‬
‫جیسی باتیں کرتا تو کبھی هوش مندوں کی سی۔ لیکن دونوں حالتوں میں وه چھوٹے بڑے کی‬
‫خدمت کے لیے کمر بسته رهتا۔ مصنف هوٹل کے کمرے میں لیٹا اپنے ماضی کی گوندنی والے‬
‫تکیے کی انھی خوش گوار یادوں میں گم تھا۔ شام هوچکی تھی۔ اسنے اپنے کمرے کی بتی بھی‬
‫روشن نھیں کی تھی۔ کیونکه کمرے کی نیم تاریکی اس کو سکون بخش رهی تھی۔ گوندنی واال‬
‫تکیه اپنی بھر پور گھما گھمیوں کے ساتھ اس کی نظروں میں پھر رها تھا۔‬

You might also like