Professional Documents
Culture Documents
مصنف ابھی بچه هی تھا که اس کے والد فوت هوگۓ۔ پندره برس کی عمر میں والده بھی انتقال
کرگئیں۔ مصنف کا کوئ اور بھائ اور بھن بھی نھیں تھی۔ دنیا میں وه بالکل یکه و تنھا هوجانے
کے احساس نے اسے سخت دل برداشته کردیا اور اس نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا۔ کچھ تو اسے
سیاحت کا شوق تھا اور پھر پیٹ پالنے کے لیے روٹی کمانا بھی ضروری تھا۔ چنانچه وه بھت سے
ملکوں کی خاک چھانتا پھرتا رها۔ آخرکار ،اس نے سمندر پار ایک ملک میں رهائش اختیار کرلی۔
اور چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا۔ شادی بھی اس نے وهیں کی ایک عورت سے کر لی۔جس
سے اس کے بچے بھی هوگۓ۔ کاروباری مصروفیات میں وه اسقدر پھنسا که اس ملک سے اس کا
نکلنا مشکل هوگیا۔ کچھ عرصے بعد اسے چند اهم کاروباری امور کےلیے اپنے وطن جانے کی
ضرورت پیش آئ۔ پھر وهاں اسے اپنی آبائ جائیداد کا بھی مسئله حل کرنے تھا۔ چنانچه وه وطن
جانے کے لیے ریل کے طویل سفر کے بعد وه اپنے قصبے کے چھوٹے سے اسٹیشن پر اترا۔ اس
نے بڑی مدت کے بعد اپنے آبائ وطن سرزمین پر قدم رکھے تھے۔ شدید سردی ،سفر کی تھکاوٹ
اور بے آرامی کے باعث اس کے دل میں مسرت و شادمانی کی وه کیفیت پیدا نه هوسکی ،جو اتنی
مدت کے بعد وطن کی سرزمین پر قدم رکھتے هوۓ اسے محسوس هونی چاهۓ تھی۔ اس کے دل
میں وطن کی محبت کے وه جذبات بھی پیدا نه هوسکے ،جو مدت بعد وطن واپس آنے والوں کے
دلوں میں یقینی طور پر پیدا هوجایا کرتے هیں۔ وه اپنے آپ کو وهاں اجنبی محسوس کررها تھا۔
اسٹیشن سے اس نے هوٹل میں جانے کے لیے تانگه کراۓ پر لیا۔ جس میں ٹھھرنے کے لیے
اسکے وکیل نے اسے کھه رکھا تھا۔ اسٹیشن سے باهر نکلتے هی مصنف نے محسوس کیا که
قصبه پھلے سے بھت زیاده پھیل گیا هے۔جو عالقے اسکے بچپن کے زمانے میں اجاڑ و بنجر
پڑے تھے ،وهاں اب چھوٹے چھوٹے بازار بن گۓ تھے۔جن میں خاصی چھل پھل نظر آرهی تھی۔
تمام عمارتیں پخته اینٹوں کی بنی هوئیں تھیں۔ اگرچه کھیں کھیں اکا دکا کچے گھر بھی نظر آرهے
تھے۔ اپنے قصبے کی اس ترقی کو دیکھ کر مصنف کے دل میں خوشی کا احساس هونے کے
بجاۓ بیگانگی کا احساس بڑه رها تھا۔ اسے کسی چیز سے بھی اپنا تعلق نظر نھیں آرها تھا۔ اسے
اسٹیشن کے عالوه کوئ ایسی جانی پھچانی شے نظر نه آئ ،جو اس کی پرانی یادوں کو تازه کرنے
میں معاون ثابت هوتی۔ تھوڑی دیر بعد هوٹل آگیا ،هوٹل میں اسے خاصا کھال اور صاف ستھرا کمره
دیا گیا۔ مصنف نے هاتھ منه دهویا ،کچھ کھا پی کر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گیا اور کچھ هی
دیر بعد وه نیند کی آغوش میں چال گیا۔ دو گھنٹے بعد سوکر اٹھا تو اسکی طبعیت کسی قدر بحال
هوچکی تھی۔ سفر کی تھکان بھی قدرے کم هوچکی تھی۔ وه لباس تبدیل کرکے قصبے میں
گھومنے کے لیے نکل کھڑا هوا۔ اسکے قدم خود بخود اس عالقے کی طرف اٹھ رهے تھے ،جھاں
اس نے بچپن گزارا تھا۔ کچھ هی دیر بعد وه اس حویلی کے سامنے کھڑا تھا ،جسے اس کے
بزرگوں نے تعمیر کیا تھا۔ حویلی کی عمارت مخدوش حالت میں تھی۔ یوں معلوم هوتا تھا ،که اس
کی دیکھ بھال بالکل نھیں کی گئ تھی۔
حویلی کے سامنے چھوٹے چھوٹے چار پانچ بچے میلے کچیلے لباس پھنے گولیوں سے کھیل
رهے تھے۔ ان میں سے ایک بچے نے جس کی صورت سے معصومیت ٹپک رهی تھی ،نه جانے
کس جذبه کے تحت مصنف کو دیکھ کر مسکرانا شروع کردیا۔ بچے کو معصوم سی هنسی هنستے
دیکھ کر اس کا اپنا بچپن اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ اسے اپنے وطن سے اب تک جس
حد تک بیگانگی کا احساس هورها تھا ،وه یک لخت ختم هوگیا ،چھوٹے سے بچے کی معصوم سی
هنسی نے مصنف کے دل میں اپنے وطن ،قصبے اور محلے سے محبت و انس کے بےپناه جذبے
کو بیدار کردیا۔ اس کا دل چاها ،که وه باربار اپنے محلے میں گھومے پھرے اور اپنے بچپن کی
معصوم یادوں کو تازه کرے ،شدت جذبات سے اس کا دل بھر آیا ،لیکن جلد هی اس نے اپنے اوپر
قابو پالیا۔ مصنف کے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک پرانا سا تکیه هوا کرتا تھا ،جس میں گوندنی
کے آٹھ دس پیڑ تھے ،اسی لۓ اسے گوندنی واال تکیه کھا جاتا تھا۔ بچے ان درختوں کی چھاؤں
میں کھیال کرتے تھے اور گوندنیان توڑ توڑ کر کھاتے تھے ،تکیے کا سائیں بھت نیک دل آدمی
تھا ،وه بچوں کو گوندنیاں توڑنے سے منع نھیں کرتا تھا۔ لیکن اگر کوئ بچه درخت کی شاخ توڑ
دیتا ،تو وه ناراض هوجاتا تھا۔ کئ دوکانداروں نے اسے ان پیڑوں کا ٹھیکه لینے کیلیے سائیں کو
معقول رقم کی پیشکش بھی کی ،لیکن وه یه کھه کر که یه محلے کے بچوں کا مال هے ،اس پیش
کش کو ٹھکرا دیتا تھا ،بچپن کی اپنی یادوں میں گم مصنف نے اس تکیے کا رخ کیا۔ هر طرف پخته
اینٹوں کے گھر بنے تھے ،لیکن تکیه کھیں بھی نظر نھیں آرها تھا ،اچانک اس کا دل دهک سے
ره گیا۔ اس تکیے کی جگه اسے ایک چار دیواری نظر آئ ،جس کے دروازے سے ایک نو دس
سال کا بچه باهر آرها تھا۔ اس نے اس بچے سے اس تکیے کے بارے میں پوچھا ،تو اس نے
العلمی کا اظھار کیا۔ اتنے میں وهاں سے ایک بزرگ سے شخص کا گزر هوا۔ مصنف نے ان سے
گوندنی والے تکیے کے بارے میں دریافت کیا ،تو انھوں نے بتایا که پندره سوله سال پھلے اس
تکے کے متولی کے انتقال کے بعد اس تکیے کو ختم کردیا گیا تھا۔ کیونکه بعد میں جو لوگ تکیے
پر قابض هوۓ وه کچھ اچھے کردار کے نھیں تھے۔ وهاں پر چرس و بھنگ پی جانے لگی تھی۔
تکیه بھی اچھی خاصی اوباشی کا اڈه بن گیا تھا۔ چنانچه قصبے کے لوگوں نے آپس میں مشوره
کرکے اس تکیے کو ختم کرکے وهاں ایک اسکول قائم کردیا۔ تکیے کے بارے میں یه حال سن
کرمصنف کے دل کو سخت رنج پھنچا۔ وه واپس اپنے هوٹل لوٹ آیا۔ تکیے کے ختم هوجانے کا
اسکو بےحد رنج تھا۔ وهاں اسکا نال گڑا هوا تھا۔ اس نےسوچا که قصبے والوں کو جن حاالت میں
تکیه ختم کرنے پڑا ممکن هے که اپنے اس فیصلے میں وه حق بجانب هوں۔ مگر حقیقیت سے بھی
انکار کرنا مشکل هے که وه تکیه غریب لوگوں کا غمگسار اور پورے قصبے کی تفریح گاه تھا۔
جس سے اب وه محروم کردیۓ گۓ تھے۔ اس نے سوچا که تکیے میں صبح هللا هللا کا ورد هوا
کرتا تھا۔ قوالی کی محفلیں جما کرتی تھیں ،پنجابی کے مشاعرے برپا هوا کرتے تھے ،گوندنی کی
شاخوں پر بیٹھے هوۓ تیتر سبحان تیری قدرت کھه کر چھکا کرتے تھے ،کسی درخت کے نیچے
کوئ ستار لے کر سیکھنے کی مشق کررها هوتا ،تو کھیں لوگ بیٹھے چوپڑ کھیل رهے هوتے،
کھیں کوئ هیر پڑه رها هوتا ،چھوٹے چھوٹے بچے گولیوں سے کھیل رهے هوتے۔
یه ۔ ۔ ۔ ۔ یه سب رونقیں اس تکیے کے دم سے آباد تھیں ،اور سب سے بڑه کر یه که اس تکیے کی
جان اونچے اور لمبے قد واال نگینه سائیں جو اپنے گلے میں رنگ برنگے منکوں کی ماال ڈالے
رکھتا ،گرمی هو یا سردی ،اس کے جسم پر ایک لباس هوتا کالے رنگ کا لباس ،کبھی وه دیوانوں
جیسی باتیں کرتا تو کبھی هوش مندوں کی سی۔ لیکن دونوں حالتوں میں وه چھوٹے بڑے کی
خدمت کے لیے کمر بسته رهتا۔ مصنف هوٹل کے کمرے میں لیٹا اپنے ماضی کی گوندنی والے
تکیے کی انھی خوش گوار یادوں میں گم تھا۔ شام هوچکی تھی۔ اسنے اپنے کمرے کی بتی بھی
روشن نھیں کی تھی۔ کیونکه کمرے کی نیم تاریکی اس کو سکون بخش رهی تھی۔ گوندنی واال
تکیه اپنی بھر پور گھما گھمیوں کے ساتھ اس کی نظروں میں پھر رها تھا۔